Ishq Laa By Manal Ali New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 28 July 2024

Ishq Laa By Manal Ali New Complete Romantic Novel

Ishq Laa By Manal Ali New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Laa By Manal Ali Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishq Laa

Writer Name: Minal Ali

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

کھانے کی گول میز صبح کے ناشتے سے بھری پڑی تھی ۔

ایسے میں  رابیہ اپنے شوہر کے کپ میں گرم گرم چائے انڈیل  رہی تھی ۔۔

رضا ڈاکٹر نے کہا تھا کہ چار دن کے بعد آ کر دوبارہ اپنا چیک اپ کروانا ۔۔

رابیہ  جو کہ حاملہ تھی اپنے شوھر رضا سے کہنے لگی  ۔۔

اپنی ماں کے ساتھ چلی جاؤں میرے پاس وقت نہیں ہے مجھے زمینوں پر جانا ہے کافی عرصہ ہوگیا ہے میں نے وہاں کا چکر نہیں لگایا رضا نے صاف انکار کردیا  ۔۔

رابیہ  نے افسوس سے اپنے شوہر رضا کو دیکھا ۔۔

جب سے رضا نے  یہ سنا تھا کہ ہونے والی اولاد بیٹی ہے تو رضا کا رویہ یوں ہی سرد اور خشک رہنے لگا تھا لہجے میں محبت اور نرماہٹ تو جیسے کہیں دور جا بیٹھی تھی ۔۔

رضا ہمیشہ سے ہی چاہتا تھا کہ اس کی اولاد ہمیشہ  صرف اور صرف بیٹے ہوں بیٹیاں اسے کبھی بھی پسند نہ تھی ۔۔

اس کے خاندانوں میں لڑکیوں کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔رضا  بھی اسی قسم کی گھٹیا سوچ رکھنے والا آدمی تھا ۔۔

جب سے اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ اس کی ہونے والی اولاد لڑکی ہے تو وہ بہت ناخوش تھا ۔۔

ڈرائیور سے کہہ کر اپنی ماں کے گھر چلی جانا اور پھر ان کے ساتھ ہاسپٹل چلی جانا رابیہ  خاموشی سے رضا کو ناشتہ دیتی رہی ۔۔

ایسے میں ایک چھوٹی سی پیاری سی بچی اسکول کا یونیفارم پہنے آ کر اپنے باپ کے برابر والی کرسی پر جا بیٹھی ۔۔۔

السلام علیکم بابا ۔۔

چھوٹی سی بچی نے نرم سی آواز میں اپنے باپ کو سلام کیا ۔

باپ کا رویہ بیٹی کے ساتھ  بالکل سرد اور خشک تھا ۔۔

وعلیکم اسلام ۔

رضا نے بچی کو بغیر دیکھے نیوزپیپر میں  خبریں پڑھتے ہوئے اسے جواب  دیا ۔وہ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ اپنے باپ کا یہ رویہ سمجھ نہ پائی تھی ۔۔

رابیہ  نے بے حد افسوس سے اپنے شوہر کو دیکھا اور پھر اپنی بڑی بیٹی "فردوس" کو وہ بچی پورا دن اپنے باپ کے آگے پیچھے  پھرتی رہتی تھی اس کی ایک محبت بھری نظر کی طلبگار تھی وہ بچی چاہتی تھی کہ اوروں کے بچوں کی طرح  اس کا باپ اس کے ساتھ کھیلے اسے گھماے پھر آئے اس سے باتیں کرے اس کے نخرے اٹھائے مگر شاید فردوس کے نصیب میں یہ سب کچھ نہیں تھا ۔۔اسے ساری زندگی اپنے باپ کا یہی سرد اور نا خوشگوار رویہ  دیکھنا تھا ۔۔۔

رابیہ  کی ایک بڑی بیٹی فردوس تھی اور دوسری بیٹی کچھ ماہ بعد آنے والی تھی جب سے رضا نے  یہ سنا تھا کہ پہلی بیٹی کے بعد دوسری بھی اولاد بیٹی ہے تو اس کا رویہ بے حد روکھا سوکھا سا ہو گیا تھا ۔۔

دو بیٹیوں کی پیدائش سے اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ معاشرے خاندان اور دوستوں کے آگے جھک سا  گیا ہے ۔۔

رضا کے باقی دو بھائیوں کے صرف اور صرف بیٹے ہی بیٹے تھے اکلوتی بہن کے دو بیٹے تھے ۔۔

صرف اور صرف ایک رضا ہی تھے جن کی دو بیٹیاں تھیں ۔اور یہ بات رضا کو بالکل بھی ہضم نہیں ہوتی تھی کے اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔۔

رابیہ نے اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش پر رضا کو بالکل بھی خوش نہ پایا اور رضا نے اسی حالت میں رابیہ کے منہ پر کہہ دیا کہ اسے بیٹی نہیں بیٹے چاہیے ۔۔

وہ ا  بھی اپنی ننھی سی بیٹی کو لیے بستر پر لیٹی ہوئی تھی کے رضا کے یہ جملے اس کا دل توڑ گئے تھے ۔۔

رابیہ  نے بہت کوشش کی  دعائیں اور وظیفے  بھی کیے کے  دوسری بار اسے بیٹا ہوں مگر خدا کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا دوسری بھی بیٹی تھی کہنے کو رضا اک امیر اور پڑھا لکھا آدمی تھا زمین اور بہت سی دوسری جائیداد بھی اسی کے نام تھی مگر وہ پھر بھی اپنی سوچ کے حساب سےایک بے حد کم عقل  اور چھوٹا آدمی تھا ۔۔

"نہ جانے کیوں یہ مرد چار شادیوں پر تو بڑے خوش ہوتے ہیں مگر چار بیٹیوں پر نہیں "

وقت یوں ہی تیزی سے گزرتا رہا دن رات اور رات دن میں تبدیل ہوتے رہے  رابیہ اب  اپنی دوسری بیٹی کو جنم دینے والی تھی مگر اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کا شوہر تھا اس کے پاس نہ تھا اس کی ماں اور باقی ایک بڑی بہن ہاسپٹل میں موجود تھی  جبکہ چھوٹی سی فردوس اپنی خالہ کے ساتھ ہاسپٹل میں ہی تھی   فردوس  اس بات پر بے حد خوش تھی کہ اس کے ساتھ کھیلنے کے لئے ایک چھوٹی بہن آ رہی ہے  اس کے ساتھ  گھر میں کھیلنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا  رابیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی اور وہ اکثر گھر کے کام میں مصروف ہوتی تھیں اور رضا کو تو بیٹی کی شکل دینے کی فرصت نہ تھی کھیلنا تو بہت دور کی بات ہے وہ تو اپنی بیٹی کو پوچھتا  تک نہیں تھا ۔۔

رضا کے بے حد سرد رویے اور سخت مجازی کی وجہ سے رابیہ  اپنی پریگننسی میں بہت ٹینشن میں رہی تھی اس حد تک وہ  ٹینشن میں تھی کہ آخری وقت میں اس کا آپریشن ہو گیا ۔۔

آپریشن سے ہونے والی رابیہ کی دوسری بیٹی بے حد کمزور تھی ۔۔۔

 رابیہ نے رضا کے اس رویے کے بارے میں کہ وہ بیٹیوں کی پیدائش سے خوش نہیں ہے کبھی اپنے ماں  باپ کو نہیں بتایا تھا وہ بے حد خاموشی سے رضا کا یہ  رویہ برداشت کر   رہی تھی ۔۔

اگر وہ اپنے ماں باپ کو رضا کے روئے  کے بارے میں بتا دیتی اور رضا غصے  میں آکر اسے اور اس کی دونوں بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تو اس کا کیا ہوتا ہے رابیہ کو   یہ فکر اندر تک  کھا گئی تھی ۔۔۔

وہ عورت تھی دو بیٹیوں کی ماں تھی گزارا ایسے ہی  کرنا تھا تو وہ خاموش ہو گئیں سب کچھ اکیلے سہتی رہی ۔۔۔

ہاسپٹل کا وقت مکمل کرنے کے بعد جب وہ گھر آئی تو ملازم اور اس کی ماں بہنوں نے اس کی دیکھ بھال کی رابیہ نے اپنی ماں کو یہ بہانہ بنا دیا کہ رضا اکیلے زمینوں کو دیکھنے والے ہیں جو زمینے ان کے نام ہیں  تو وہ کیا کر سکتے ہیں اچانک  کوئی بڑا مسئلہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہوسپیٹل نا آ  پائے ۔۔۔

رابیہ کی طبیعت سنبھلنے کے بعد اس کی ماں اور بہنیں واپس چلی گئی تھی ۔۔

رابیہ نے اپنی دوسری بیٹی کا بھی تک کوئی نام نہیں  رکھا تھا اس نے سوچا تھا کہ جب رضا  آئے گا تو وہ رضا  سے پوچھ کر اپنی بیٹی کا نام رکھے گی مگر رضا کو تو دوسری بیٹی میں  کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہ تھی اس نے تو اپنی دوسری بیٹی کو صحیح طرح  سے دیکھا تک نہ تھا نام رکھنا اور شفقت بھرا ہاتھ پھیرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔۔

رضا رات کے وقت بیڈ پر  بیٹھا تھا  رابیہ نے  بڑی نرمی سے رضا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔

آپ ہماری دوسری بیٹی کا نام کیا رکھیں گے پہلی بیٹی کا نام نے اپنی مرضی سے رکھا تھا میں چاہتی ہوں کہ ہماری دوسری بیٹی کا نام آپ رکھیں۔۔

وہ بیچاری لڑکی یہ  کوشش کر رہی تھی کہ کسی طریقے سے اس کی بیٹیوں کی محبت ان کے باپ کے دل میں پیدا کر دے مگر ہر کوشش  ناممکن تھی ۔۔۔

مجھے کوئی نام نہیں پتا تم اپنی مرضی سے ہی رکھ دو 

 کون سا تم بیٹا پیدا کیا ہے جس کا نام  میں رہوں ۔۔

 جس طرح سے تم نے  اپنی پہلی بیٹی کا نام رکھا ہے اس کا بھی رکھ دو مجھے کیا فرق پڑھتا ہے ۔۔

مگر  رضا یہ صرف میری بیٹیاں ہی نہیں ہیں یہ  دونو ں آپ کی بھی  بیٹیاں ہیں رابیہ  نے ناراضگی سے کہا۔ ۔

 تو رضا نے   سختی سے رابیہ کو دیکھا ۔۔

اپنی اوقات میں رہو سمجھی ۔

دو بیٹیوں کی ماں ہو تو زبان کو ذرا لگا م لگا کر بات کیا کرو اگر چھوڑ دوں گا نہ تمہیں تو تم اور تمہاری دونوں بیٹیاں رل جاؤں گی اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے ماں باپ تمہیں اپنے گھر میں بٹھا کے کتنے دن کھلاتے ہیں اور تمہاری بیٹیوں کا کتنا کرتے ہیں یاد رکھو کہ تمہاری بہنوں کی اور تمہارے بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور ان کے اپنے بچے ہیں اگر طلاق یافتہ ہوکر دو بیٹیوں کے ساتھ ان کے گھر چلی گئی نا تو  ایک لاوارث کتے والی تمہاری زندگی ہو جائے گی ۔۔

اور کونسا تم نے مجھے بیٹے پیدا کرکے دیے ہیں جو میں ان کا نام بڑی شان سے رکھوں  ۔۔

دو ہی کاموں میں بہت ماہر ہو تم ایک اچھا کھانا پکانے میں اور دوسرا بیٹیاں پیدا کرنے میں ۔۔

شکر کرو کہ میں نے تمہارے اوپر کوئی اور  عورت لا کر  نہیں   بٹھائ۔۔

رابیہ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو اپنے ہاتھ میں  لئے رضا کا یہ ظالم  روپ دیکھتی رہ گئی ۔

جبکہ رضا بیڈ سے  اٹھ کر کمرے سے باہر نکل چکا تھا ۔۔

رابیہ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے ۔۔

آج وہ ا  سے بہت ساری باتیں بہت اچھے طریقے سے بتا اور سمجھا  گیا تھا کہ اس کی اور اس کی بیٹیوں کی کیا عزت  اور کیا اوقات ہے اس کی نظر میں ۔۔۔

رابیہ  آنکھوں میں آنسو لیے اپنی ننھی پری کو دیکھتی رہی ۔۔۔

شاید اس کو اپنی بڑی بہن کی طرح باپ کی محبت نہیں ملنی تھی  اس کا دل تو فردوس کے لئے تڑپتا تھا اور اب ایک اور بیٹی اپنی باپ کی محبت کے لئے تڑپنے والی تھی ۔۔۔

کیا ہوتا اگر ایک بیٹا صرف اور صرف ایک بیٹا اللہ میری جھولی میں ڈال دیتا تو آج میرا شوہر مجھ  سے اس طریقے سے بات نہ کرتا اور میری بیٹیاں  اپنے باپ کی محبت کیلئے یو تڑپتی   نہ ۔۔

وہ نم آنکھوں سے اپنی چھوٹی بیٹی کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی ۔۔

ہر کسی کو صرف اور صرف بیٹے کی خواہش کیوں ہے ۔۔لڑکیاں بھی  تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں ۔پھر کیوں لوگ ان رحمتوں کو پسند نہیں کرتے ۔دنیا  اور لوگ کتنی  بھی ترقی کر لیں  لوگ کہاں سے کہاں پہنچ جاے مگر یہ بیٹا اور بیٹی میں فرق شاید یہی کا یہی  رہ گیا ہے یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔

رابیہ ابھی اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں لیے یہ سوچ کر پھوٹ پھوٹ کر رو ہی رہی تھی کہ دروازے سے فردوس اندر آتے ہوئے دکھائ دی  تو اس نے تیزی سے اپنی آنسو سے بھری آنکھیں صاف کیں ۔۔

امی آپ رو رہی ہیں ۔۔

نہیں فردوس میں نہیں رو رہی بس آپ کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس وجہ سے ۔۔

آپ کو کیا ہوا ہے امی ۔۔

کچھ نہیں میری جان رابیہ  نے ہاتھ بڑھا کر اپنی دوسری بیٹی کو اپنے قریب کیا ۔۔

امی آپ  اور  بابا  میری چھوٹی بہن کا نام کب رکھیں گے  ۔۔

آپ کے بابا نے کہا کہ اس کا نام آپ اور میں ہم دونوں مل کر رکھ سکتے ہیں رابیہ نے نرمی سے دیکھتے ہوئے فردوس کو کہا ۔۔

امی کیا ہم اس کا نام نور رکھ دیں  میری ایک دوست کا نام بھی نور ہے وہ بہت اچھی ہے ۔۔

اگر تم کو اپنی چھوٹی بہن کا نام نور   پسند ہے تو ہم اس کا نام نور ہی رکھیں گے رابیہ نے جھک کر فردوس کی دونوں آنکھوں کو چوما ۔

نور دو ماہ کی ہو گئی تھی ۔

جب کہ فردوس نرسری  کی چھوٹی سی اسٹوڈنٹ تھی۔۔ ۔

شام کے وقت رابیہ  نے رضا کے موبائل پر بے شمار کالز کیں  مگر  رضا نے  مصروفیت کی وجہ سے ایک بھی کال نہیں اٹھائی ۔۔

وہ گھر واپس آیا تو  رابیہ  نے رضا کو نور کی طبیعت خراب  ہے اس کے بارے میں بتایا کہ اسے بہت تیز بخار ہو رہا ہے  اس کی دوسری بیٹی نور  بے حد کمزور تھی اور زیادہ تر بیمار ہی رہتی تھی ۔۔

تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے میں  ابھی کام سے آیا ہوں اور اتے کے ساتھ  ہی تم اور تمہاری بیٹیوں کی خدمت میں لگ جاؤ ۔   

رضا نور  کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے اس کو بہت تیز بخار ہو رہا ہے میں نے دوائی بھی دی ہے مگر کوئی اثر نہیں ہو رہا پلیز  آپ مجھے کسی چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس لے کر چلے میں اپنی بیٹی کو دکھاؤں گی شام  سے اس کا بخار نہیں  اتر  رہا دوائیں بھی دی ہے    یہ پہلے ہی بہت کمزور ہے مجھے ڈر ہے کہ اس کو کہیں کچھ ہو نہ جائے  وہ  روتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی ۔۔

اپنا رونا بند کرو اور چلو ۔

آفس سے  آؤں نہیں کہ  خدمت میں لگ جاؤ اب تو ساری زندگی لگتا ہے یہی کام رہ گیا ہے میرا ۔۔

وہ دونوں اسے لے کر ہاسپٹل آئے جبکے فردوس گھر میں ملازمہ کے پاس تھی ۔۔

بخار اتنا تیز تھا کہ ڈاکٹر نے  نور کو   ایڈمٹ کرنے کو کہا تھا ۔۔رابیہ کی رہی سہی جان اپنی ننی سی بیٹی نور کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے نکل ہی جائے گی ۔۔

وہ کمرے کے باہر کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھتی رہی جو ڈاکٹر کے زیر علاج تھی اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے جبکہ رضا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔

کب تک کھڑی  رہو گی  تمہارے  وہاں  کھڑے رہنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا یہاں آ کر بیٹھ جاؤ رضا نے کہا ۔۔

وہ رضا کے برابر میں نہیں بیٹھی بلکہ دروازے کے پاس کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی ۔۔

ڈاکٹر انجکشن  میں کوئی دوائی  بھر کر  اس کی ننی سی بیٹی کو لگا رہے تھے ۔۔۔

رضا چلتا ہوا اس کے قریب آیا ۔۔

پریشان مت ہوں کچھ نہیں ہوگا تمہاری بیٹی کو ٹھیک ہوجائے گی یہاں آؤ بیٹھو ادھر رضا  نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کرسی   پر بیٹھا  دیا رابیہ  کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔۔

 مجھے تم سے کافی دنوں سے کچھ کہنا تھا لیکن میں کہہ نہیں پا رہا مگر آج مجھے موقع ملا ہے تو میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں ۔۔

رابیہ  نے اپنی سبز آنکھیں جو آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی اٹھا کر اپنے شوہر رضا کو دیکھا ۔۔

اسے سو فیصد یقین تھا کہ اب وہ کوئی نرم الفاظ کہے گا  جس سے اسے تھوڑا حوصلہ ہو ۔۔

رابیہ نے  امید سے بھرپور نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا ۔۔ 

دیکھو رابیہ ہماری   شادی کے وقت میں نے سوچا تھا کہ ہمارے تین بیٹے ہونگے مگر افسوس تین کیا ایک بھی بیٹا نہیں ہوا ۔ایک کے بعد ایک  ایک بیٹی ہوگی اور میں نہیں چاہتا کہ تیسری بار بھی بیٹی ہو ۔۔

رابیہ کو لگا کہ کوئی اس کے دل پر پوری قوت سے ایک زنگ آلودہ کیل ٹھوک رہا ہے ۔

رابیہ  کا پورا وجود آہستہ آہستہ کانپنے  لگا وہ بے حد حیرانی سے رضا کو  دیکھ رہی تھی جو بے حد بے حس نظر آ رہا تھا۔۔

 وہ تو یہ امید کر رہی تھی کہ وہ شاید کوئی نرم بات کہے گا کوئی ایسا جملہ جس سے اسے امید حاصل ہوگی ۔مگر رضا نے یہ تکلیف زدہ  بات کرکے ساری  امید ختم کر دی تھی ۔۔۔

میں نے سوچا تھا کہ ہمارے تین بچے ہوں گے۔

" مگر اب میں تم سے کوئی بچہ نہیں چاہتا" ۔۔

تمہاری دو بیٹیاں  ہیں  مجھے اب  تیسری  کی کوئی خواہش نہیں اگر تیسری بھی تم نے بیٹی پیدا کر دیں تو ۔۔۔

رابیہ   حیرانی سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے اچانک پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگی ۔اس کی ننھی سی بیٹی اندر   اس وقت بخار میں تپ  رہی تھی اور باہر بیٹھی ہوئی اس کی ماں کی جان نکل رہی تھی ۔۔

اور اس کا باپ اس کا شوہر کیا کر رہا تھا ۔۔۔

 رضا جیسے بے حس نے ایسا کوئی جملہ نہیں بولا  احساس اور محبت والی کوئی بات نہیں کی اور اپنی  بیوی کی آخری امید بھی اس نے اسی  وقت توڑ دی تھی ۔۔

"میں اب تم سے کوئی اور اولاد نہیں چاہتا "۔۔

رضا کہ یہ زہر آلودہ الفاظ اسے بری طرح سے تکلیف دے رہے تھے اور اس کی ذات کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے ۔۔

دیر رات کا وقت تھا ہاسپٹل میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔

اس وقت رضا اور رابیہ کے علاوہ ہاسپیٹل میں رابیہ کی ماں بہن اور رضا کی ماں  اور بھابھی موجود تھیں ۔۔

ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب اگر  بخار نہیں اترا تو  ہم نور کو نہیں بچا پائیں گے ۔۔

رابیہ  نے رو رو کر اپنے آپ کو بالکل ہلکا ن  کر لیا تھا اس کی بچی اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی تھی اور وہ بے بس ماں کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔

دوسری طرف فردوس کا بھی رو رو کر برا حال تھا وہ اپنی ننھی سی بہن کے لئے بے حد پریشان تھی رضا کا چہرہ بالکل ایسا تھا جیسے کوئی بڑی بات ہی نہ ہو جبکہ رابیہ غم سے نڈھال اپنے ماں کے گلے لگی ہوئ تھی  ۔۔

ڈاکٹر۔۔۔

ڈاکٹر ۔۔۔

 بچے کی سانس آنا  بلکل بند ہو گئی ہے نرس نے بے صبری سے ڈاکٹر کو بتایا ۔ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رہے تھے مگر نور کی سانسیں اب  بند ہوگی  بخار  بے حد تیز ہونے کی وجہ سے چھوٹی نور نے  دم توڑ دیا ۔۔

ڈاکٹر نے بے حد افسوس سے اس پیاری سے بچی کو دیکھا جس کا رنگ بالکل دودھ کی طرح سفید تھا اپنے باپ کی طرح گہرے کتھئی رنگ کی آنکھیں تھیں اور سرخ گال اتنی خوبصورت بچی کے ڈاکٹر نے اسے مردہ حالت میں ایک بار ضرور چوما تھا ۔ڈاکٹر بے حد افسوس کے ساتھ باہر گیا اسے اس بچی کو  نا بچانے کا بےحد افسوس تھا کہ وہ اس کی زندگی نہ بچا پایا ۔۔ 

ڈاکٹر نے اپنے منہ سے ماسک ہٹایا اور چلتا ہوا رضا کے پاس آیا اور رضا کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ۔۔

آئی ایم سوری ۔

ہم آپ کی بیٹی نور کو نہیں بچا پائے ۔۔

رابیہ  جو کہ اپنی ماں کے گلے سے لگی رو رہی تھی ڈاکٹر کے الفاظ سن کر اسے یوں لگا کہ وہ جیسے ایک گہرے کنویں میں جا گری ہو اور  وہ کنوا اتنا گہرا تھا کہ کنویں کے اندر نہ ہی تو روشنی آ رہی تھی اور نہ ہی سانس لینے کے لئے ہوا اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کا دم بری طرح سے گھٹ رہا ہوں  اچانک سینے میں تکلیف محسوس ہو رہی ہو۔

 آج اس نے بھی اپنی ننھی سی بیٹی کی موت کا ذائقہ چکھا تھا ۔۔۔

جب وہ حاملہ تھی تو اسے اپنے وجود میں لیے وہ اس کے لئے خوب تڑپتی تھی اور اب اس کے وجود سے اس کی زندگی سے وہ مکمل طور پر جا چکی تھی ۔۔

اولاد کے  جانے کی تکلیف کیا ہوتی ہے اولاد کی موت کی تکلیف کیا ہوتی ہے رابیہ  کو آج سمجھ آیا تھا ۔۔۔

دو بیٹیوں میں سے اس نے اپنی ایک بیٹی کو کھو  دیا تھا  ۔۔

دوسری طرف رضا کو یہ سکون تھا کہ اب وہ دو بیٹیوں کا باپ تو نہیں کہلائے گا دوستوں میں معاشرے میں خاندان کے مردوں میں بھائیوں میں بھابھیوں کی نظر میں کم از کم اب وہ صرف ایک بیٹی کا باپ کہلائے گا کوئی یہ نہیں کہے گا کہ رضا کی تو صرف بیٹیاں ہی ہیں ۔اب شاید لوگ اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو تبدیل کرکے یوں کہیں گے کہ رضا کی تو صرف اور صرف "ایک ہی بیٹی ہے "۔۔

لوگ چند ہفتوں یا 

چند  مہینوں یا  چند سالوں تک اس بچے کی موت کو یاد رکھیں گے پھر کون کہے گا کہ میری بیٹیاں تھیں   لوگ کہیں گے کہ رضا کی صرف ایک بیٹی ہے ۔۔

جو  الفاظ ا  سے کھائے جا رہا تھا جو الفاظ اسے تکلیف دے رہا تھا وہ تھا  بیٹیاں ۔۔

مگر اب جیسے دل کو راحت سی  مل گئی تھی اب صرف ایک ہی بیٹی رہ گئی تھی  ۔۔

رضا  جیسا بے حس اور کمزور مرد ایک بیٹی کو ہی  برداشت کر  لے تو بڑی بات ہوگی  ۔۔

بیٹیوں کو پالنا ان کو پیدا کرنا ان کی پرورش کرنا ان کی تربیت کرنا ناز نخرے اٹھانا  کھانا کھلانا پلانا ہر کوئی نہیں کر سکتا اللہ تعالی ہر کسی کو اتنی اہمیت نہیں دیتا اپنی نظر میں کے  اسے  اپنی رحمت عطا کر دے وہ تو بہت خاص لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالی بیٹیوں سے نواز تا ہے ۔

مگر نہ جانے کیوں اللہ کی کچھ  رحمتیں لوگوں کو پسند نہیں آتیں  لوگوں کو اللہ تعالی کی دو نعمتیں بالکل پسند نہیں ایک بارش اور دوسرا بیٹی ۔۔

وقت یونہی  تیزی سے گزرتا رہا گزرتا رہا رابیہ کے دل میں رضا کی محبت بالکل ختم ہوگئی تھی رابیہ کے پاس رہ گیا تھا تو صرف اور صرف ایک سہارا اور وہ تھا اس کی بیٹی کا وہ سبز آنکھوں والی گڑیا رابیہ  کی زندگی بن گئی تھی ۔۔

مگر رضا ایک بیٹی کو بھی برداشت نہیں کر پا رہا تھا وہ "ایک بیٹی"  ۔۔

بیٹی کا الفاظ اس سے کبھی ہضم  نہیں ہوا ۔۔

وقت گزرتا گیا اور رضاکا رویہ  فردوس کے ساتھ مزید سخت اور روکھا سوکھا سا ہوتا گیا ۔۔۔۔

فردوس اب بڑی ہو رہی تھی وہ اب دوسری جماعت کی طالبہ تھی ۔۔

اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹنگ   کے موقع پر فردوس کے ساتھ  ہمیشہ اس کی  ماں  جاتی تھی ۔۔

اس کے باپ نے کبھی بھی اس کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا تھا ۔۔وہ نہ ہی تو اسکول جاتا اور نہ ہی اس کا شاندار رزلٹ دیکھتا تھا ۔اس کی بچی پڑھنے میں کتنی اچھی  کتنی خوبصورت اور تمیز دار ہے اسے  اس کی کیا پرواہ تھی ۔۔ وہ بیٹی تھی اس لیے اس  کی ساری خوبیاں دب سی گئی تھی اپنے باپ کے آگے ۔۔۔

اسکول کے یونیفارم میں فردوس بریک میں اپنی چند سہیلیوں  کے ساتھ بیٹھی ہوئی اپنا لنچ کھا رہی تھی ۔۔

فردوس  میری مما اور تمہاری مما بھی تمہاری اور میری طرح ہی دوست ہیں ۔۔

نور جو  فردوس کی دوست تھی  اس سے کہنے  لگی ۔۔

تمہیں پتا ہے فردوس تمہاری آنکھیں بھی تمہاری مما کی طرح ہیں گرین ۔۔

میری مما تم سے اور تمہاری مما سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی انہوں نے مجھے کہا تھا کہ فردوس کے ساتھ ہی بیٹھنا  سکول میں نور اپنا سینڈوچ کھاتے ہوئے تیز تیز بول رہی تھی ۔۔

میری امی  بھی کہہ رہی تھی کہ نور کی مما  اور نور بہت پیاری ہیں اور ہم دونوں تو ساتھ ہی  بیٹھتے ہیں فردوس نے کہا  ۔۔ 

ہاں کیونکہ ہم اچھے  دوست جو ہیں نور نے کہا ۔۔۔

فردوس  نے مسکرا کر ماہ  نور کو دیکھا جسے وہ ہمیشہ" نور" کہہ کر پکارتی تھی ۔۔

تم اور میں ہم دونوں کبھی الگ نہیں ہونگے نور ۔۔

فردوس تمہارے بابا پرنٹس  ٹیچر میٹنگ  میں کیوں نہیں آتے ۔؟؟نور نے کہا ۔۔

جیسے میری مما  تمہاری مما تم اور میں دوست ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ میرے بابا اور تمہارے بابا  بھی دوست بن جائیں ۔نور نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

فردوس چپ ہو گئی ۔۔۔پھر کہنے لگی ۔

میرے بابا آفس میں بیزی ہوتے ہیں اور پھر وہ ۔۔

فردوس کو آگے کچھ یاد ہی 

نہیں آیا تو وہ خاموش ہو گئی ۔۔

پھر اسے کچھ اور یاد آیا ۔۔

 نور میرے بابا بزی  ہوتے ہیں نا اس وجہ سے نہیں آتے وہ میرے انکلز  کے ساتھ مل کر اپنی زمین دیکھنے جاتے ہیں اور  وہ زمین بہت بہت  دور  ہیں اور ویک اینڈ پر میٹنگ ہوتی ہیں تو وہ کیسے  آ پاتے ۔۔

فردوس نے آج  وہی جملہ دوہرایا  جو اکثر وہ اپنی ماں سے سنتی آئی تھی ۔وہ اکثر اپنی ماں کو دیکھتی تھی کہ جب بھی اس کی نانی اس کی ماں سے اس کے باپ کے بارے میں  نے پوچھا  کرتی تھی  تو وہ یہی جملہ دوہراتی  تھی ۔۔

جو آج اس نے نور سے کہا تھا ۔۔

شام کے وقت رابیہ فردوس کے ساتھ  بیٹھی اس کو اس کا ہوم ورک  کروا رہی تھی کے فردوس کو اچانک نور کی بات   یاد آئ تو اس نے فورا اپنی ماں سے پوچھا کے  میٹنگ میں بابا کبھی کیوں  نہیں آتے ۔

رابیہ جو اس  کی ڈائری دیکھ رہی تھی اچانک اس نے نظریں اٹھا کر فردوس کو دیکھا ۔۔۔

امی بابا نہ ہی  تو مجھے لینے آتے ہیں اور  نہ چھوڑنے جاتے ہیں میٹنگ میں بھی  نہیں آتے اسپورٹ ڈے  پر بھی نہیں آتے اینول فنکشن پر بھی نہیں آتے ۔ جب کہ میرے سارے دوستوں کے ممی پاپا دونوں آتے ہیں  ۔مگر میرے لئے صرف اور صرف آپ ہی آتیں  ہیں ۔۔

فردوس چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتی رہی جبکہ وہ خاموشی سے بیٹھی اس کی ڈائری پڑھ رہی تھی ۔۔

پھر رابیہ  قریب رکھی ہوئی فردوس کی میتھ  کی کاپی اٹھا کر دیکھنے لگی ۔۔۔

ارے واہ  !!

فردوس دیکھو تو سہی تمہاری ٹیچر نے تمہیں پورے مارکس دیے  ہیں تمہارے  کل کے ٹیسٹ میں  ۔۔

رابیہ نے بڑی خوشی سے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا رابیہ کی یہ  کوشش  تھی کہ وہ فردوس کا دھیان اس بات کی طرف سے ہٹا دے ۔۔

جی  امی  میرے   انگلش کے سپیلنگ ٹیسٹ میں بھی  پورے مارکس ہیں ۔۔

فردوس جلدی سے  اپنا دوسرا ٹیسٹ  اپنی ماں کو بڑی خوشی سے دکھانے لگی ۔۔

ڈیڑھ گھنٹے تک وہ اسے پڑھاتی   رہیں پھر جب وہ دونو ں فارغ ہوئے تو اس نے بڑی محبت سے  فردوس کو اپنی قریب کیا اور اس کی دونوں سبز آنکھوں کو پیار سے چوما ۔۔۔

آپ کے بابا میٹنگ میں اس وجہ سے نہیں آتی کیونکہ بابا بہت بزی ہوتے ہیں آپ کو تو معلوم ہے نہ آپ تو میری  اچھی  بیٹی ہو ۔۔

آج میں آپ کو ایک بات بہت اچھی طرح سے سمجھا  تی ہو ۔۔

آپ یوں سمجھ لو کہ آپ کی بیسٹ فرینڈ آپ کی امی  آپ کے بابا  صرف اور صرف میں ہوں ۔اسکول میں مدرسہ میں سپورٹس ڈے میں اور باقی جتنے بھی فنکشن ہوں گے وہاں پر ہمیشہ میں ہی  آؤں گی ۔آپ کی سپوٹر بن کر آپ کی بیسٹ فرینڈ   اور آپ کے پیرنٹس بن کر ۔۔۔

اور اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کے  آپ کے بابا کیوں نہیں آے تو کہنا بابا  بہت بزی ہوتے  ہیں اس وجہ سے وہ نہیں آ پا تے  ۔

مگر میری امی آتیں ہیں اور وہ میرے لئے   کافی ہے ۔۔

ٹھیک ہے امی میں اب  سے یہی کہوں گی آج بھی میں نے یہی کہا تھا ۔۔

وقت گزرتا گیا مگر فردوس کی محبت رضا کے دل میں نہیں بسی   جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھی اس  کے خاندان کے لڑکے اور اس کے دوستوں کے لڑکے بھی  بڑے ہو رہے تھے رضا کو  جیسے سب سے  احساس کمتری ہونے لگا تھا ۔۔

اس کے  دوست اس کے بھائی  اس کے ارد گرد کے لوگ اپنے اپنے  بیٹوں کو لے کر  جب زمینوں پر آتے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اس کے دوستوں کے اور خاندان کے لڑکے    جو ہنس ہنس کر اپنے باپ سے باتیں کر رہے ہوتے  اور جس طریقے سے اپنے باپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے تھے تو اسے  بڑی حسرت ہوتی تھی کہ کاش اس کے بھی بیٹے  ہوتے  اس کے خاندان کے دوسرے لڑکے معاشرے میں موجود اس کے دوست کتنے فخر سے بتاتے تھے کہ میرے تین بیٹے ہیں ۔اس سے ملو یہ میرا بڑا بیٹا ہے اس سے میلو یہ   میرا چھوٹا بیٹا ہے ۔۔

رضا چہرے  پر مسکان لیے ان سب سے ملتا رہتا جب کہ دل ہی دل میں اسے فردوس بری لگنے لگتی ۔۔۔

بعض اوقات تو وہ کم ظرف آدمی یہ سوچتا تھا کہ نور  کا مر جانا اس کیلئے اچھا تھا ورنہ ساری زندگی  میرے اوپر بیٹیوں کے نام کا دھبہ رہتا۔۔

رضا وقت کے ساتھ ساتھ بہت غصے والا اور چڑچڑا سا ہو گیا تھا ۔۔

گھریلو اس کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی بس اس نے بیٹی کو اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ ہی سوار کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنی اولاد سے چڑ سی ہو گئی تھی ۔۔

وہ  ابھی زمینوں سے آیا تو  فردوس نے  اسے ٹھنڈا پانی لا کر گلاس میں دیا ۔۔

وہ بڑی ہو رہی تھی اور پانچویں جماعت کی طالب علم تھی ۔۔

بابا پانی  اس نے  مسکراہٹ کے ساتھ  اپنے باپ کو پانی پیش کیا ۔۔

زمینوں پر سے آ کر  پہلے  ہی  رضا کا موڈ  خراب تھا اور پھر  فردوس اس کے سامنے آ گئی تھی جس کو دیکھ کر اسے اور بھی غصہ  آیا ۔۔۔

وہ سبز آنکھوں والی لڑکی اونچی پونی بنائی  کھڑی  اپنے باپ  کو پانی دے رہی تھی کہ اس کی سخت آواز سے ڈر کر ایک دم پیچھے ہڈی ۔۔۔

تمہاری ماں کے ہاتھ پیر  ٹوٹ گئے ہیں جو اس نے تم کو بھیج دیا پانی دینے کے لیے کہا ہے تمہاری ماں جا کر بلا کر   آؤ رضا نے گرجدار آواز میں فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ اس کا باپ  اس کے پانی دینے پر غصہ کیوں ہو گئے ۔۔

رابیہ جو کچن میں کام کر رہی تھی رضا کی آواز سن کر تیزی سے لیونگ روم میں آئی جہاں رضا ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا ۔۔

کیا  اب تم اتنی زیادہ مصروف ہو گئی ہو کہ تمہارے پاس اپنے شوہر کو ایک گلاس پانی دینے  کی بھی فرصت نہیں ۔آخرکار کتنی بچے پال رہی ہوں اور کتنے گھر کا کام کر رہی ہوں ذرا مجھے بھی بتانا ۔

ایک بیٹی ہی تو  تم پال رہی ہو  اور  تمہارے شوہر کو پانی دینے کا تمہارے پاس وقت نہیں رضا نے رابیہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔۔

ایسے کون سے کارنامے انجام دے رہی ہوں ذرا آج مجھے بھی بتاؤ اس کا رویہ بے حد سخت تھا فردوس  اپنے باپ   کا یہ روپ دیکھ کر کانپ گئی تھی  ۔۔

نہیں بابا پانی تو امی ہی لا رہی تھی   تو میں نے امی کو کہہ دیا کہ میں بابا کو پانی دے آتی ہو ورنہ امی  تو خود آ رہی تھی ۔۔

تم سے میں نے پوچھا اتنی بڑی ہو گئی تم اتنی زبان چلنے لگی  ہے تمہاری کے اپنے  باپ کے آگے اپنی زبان دکھاؤں گی  رضا نے اس  کے ہاتھ میں پکڑا ہوا پانی کا گلاس لے کر  زمین پر زور سے دے مارا ۔۔

فردوس  کی رہی سہی جان بھی باپ کے  اس سخت رویہ کے بعد نکل کر رہ گئی تھی  ۔۔

آپ بچی  پر غصہ کیوں ہو رہے ہیں میں نے ہی فردوس کو کہا تھا کہ اپنے بابا کو پانی دے او ۔۔۔

اچھا میں ہی  پاگل ہوں جو  بلاوجہ غصہ کر رہا ہوں اب تم مجھے بتاؤ گی تم جو صرف اور صرف بیٹیاں پیدا کرنا جانتی ہے کیا میرے اتنے برے دن   آگئے ہیں کہ میں اب  تم سے پوچھوں گا ۔۔

یہ سب تمہاری   ہی تربیت کا نتیجہ ہے کہ تمہاری طرح دکھنے والی تمہاری بیٹی میرے آگے زبان چلا رہی ہے ۔

رضا آپ کو کیا ہوگیا ہے فردوس نے کب آپ سے زبان چلائی ہے  ۔

یہ تمہاری ہی تربیت کا اثر ہے جو اس پر ہو رہا ہے ۔بیٹی ہے نا اس نے تمہارے اوپر چھوڑی ہوئی ہے  میں نے بیٹا ہوتا تو پھر بتاتا کہ تربیت  کیسی ہوتی ہے ۔۔

چلو نکلو یہاں سے دونو ں اب مجھے تم  دونوں میں سے  کسی کی شکل نظر نہ آئے رضا نے اپنا سارا غصہ اپنی ساری فرسٹریشن جو کافی دیر سے اس کے دل و دماغ میں جمع ہوئی تھی اور اسے پریشان کر رہی تھی فردوس اور رابیہ پر نکال دی تھی  ۔۔

ذرا سا موقع ملنے پر اس نے وہ تمام فرسٹریشن   وہ غصہ وہ احساس کمتری کا شکار مرد اپنا سارا غصہ ایک معصوم  پر نکال  چکا تھا ۔

فردوس  بے حد  حیرانی سے اپنی سبز آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے اپنے باپ کو دیکھتی رہی ۔۔

رابیہ نے  افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور فرش پر پڑا ہوا گلاس اٹھایا اور   فردوس کے  ساتھ وہاں سے چلی گئی ۔۔

وہ تو اس ذلت کی عادی تھی مگر فردوس اتنی کم عمر میں وہ اپنے باپ کا یہ سرد اور سخت رویہ دیکھ کر بہت پیچھے جا چکی تھی ۔۔

فردوس  اکثر کوشش کیا کرتی تھی کہ اپنے باپ کے چھوٹے موٹے کام خود  کردے مگر آج رضا کا یہ سخت رویہ دیکھ کر وہ  بہت اندر تک ٹوٹ گئی تھی  ۔۔۔۔

رابیہ آج  کچن میں صبح سے ہی  مصروف تھی کیونکہ آج رضا کے بے حد قریبی دوست ان کی بیوی اور بچے کھانے پر انے  والے تھے  رابیہ  کو بھی رضا کے دوست جن  کا نام یوسف تھا ان کی فیملی کو بہت پسند کرتی  تھی ان کے بچے بہت اچھے اور تمیز دار تھے اور رابیہ   کی  انکی بیوی سے بہت اچھی سلام دعا تھی ۔

یوسف  صاحب  کی فیملی میں ان کی بیوی دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی یوسف صاحب جب  بھی گھر آتے تھے تو وہ فردوس سے  بے حد محبت سے پیش آتے اور کوئی نہ کوئی تحفہ اس چھوٹی کے لیے ضرور لے کر آتے تھے وہ فردوس کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور رضا ان کے دونوں بیٹوں کو ۔۔

ان کی سب سے چھوٹی بیٹی فردوس کی ہم عمر تھی جب کہ ان کے دونوں بیٹے بڑے تھے ۔۔۔

رات میں کھانے کی میز مختلف کھا نوں سے سجی ہوئی تھی ۔۔ہمیشہ کی طرح یوسف صاحب نے  اس بار بھی فردوس کے لئے ایک بے حد قیمتی اور خوبصورت گفٹ  خریدا تھا جسے دیکھ کر وہ خوش ہو گئی تھی ۔۔

رضا  یوسف صاحب کے دونوں بیٹوں کو بہت پسند کرتا تھا خاص کر کے عامر  کو جو انکا چھوٹا بیٹا تھا ۔

 بہت اچھے ماحول میں دونوں فیملیز  کا وقت گزرا تھا اس کے بعد وہ لوگ رخصت ہو کر اپنے گھر واپس چلے گئے تھے ۔۔۔

وقت گزرتا گیا اور فردوس عمر کی سیڑھیاں چڑھتی گئی ۔۔

وہ ایک بہت خوبصورت نوجوان لڑکی تھی جو اب  دسویں کلاس کی طالبعلم تھی ۔۔

رابیہ  رضا کے کپڑوں کو تہہ کر کے الماری میں رکھ رہی تھی جب فردوس اس کے برابر میں آ کر  کھڑی ہوئی ۔۔

امی  میں بابا کو چار دن  سے کہہ رہی ہو مجھے آمنہ کے لیے اس کا برتھ ڈے گفٹ لینا ہے  مگر بابا مجھے لے کر نہیں جا  رہے روز کہتے ہیں کل ۔۔

  آپ میرے ساتھ چلیں اس کا گفٹ لینے  پلیز ۔۔

میں نہیں جا سکتی تمہیں پتا ہے ان کے  غصے کا  ۔۔

یار امی دو دن بعد اس کی برتھ ڈے ہے کیا اچھا  لگے گا اگر میں اپنی  دوست کی برتھ ڈے پر خالی ہاتھ جاؤنگی ۔

 پلیز پلیز پلیز امی ۔۔

لے کر چل لیں پلیز ۔۔۔۔پھر کل سر نے فزکس کا ٹیسٹ بھی دیا ہے اس کی بھی تیاری کرنی ہے پلیز جلدی ا جاینگے ہم پکا ۔۔۔

پلیز امی ۔۔۔۔

اچھا بھئی تھوڑا صبر کرو ڈرائیور کو انے دو سامان لینے کیلئے گیا ہے ۔۔۔

تھنکس امی  وہ  خوش ہو گئی  ۔۔

 یوسف صاحب کی بیٹی  آمنہ کی پرسوں سالگرہ تھی تو اس کیلئے فردوس آج گفٹ  لینے  گفٹ لینڈ  آئی ہوئی تھی ۔۔

وہ تحفہ لینے  کے لیے گفٹ شاپ میں موجود مختلف  چیزو کو  دیکھ رہی تھی ۔۔

جبکہ رابیہ کو کانچ کی چیزیں دیکھنے میں زیادہ دلچسپی تھی ۔وہ کانچ سے بنے ہوئے فلاور واز دیکھ رہی تھی ۔۔

جبکہ فردوس اپنی ہم عمر دوست کے لئے کوئی ایسا تحفہ ڈھونڈ رہی تھی جو اسے  فورا پسند آجائے ۔۔

وہ یوسف صاحب کی بیٹی آمنہ کے لیے ابھی گفٹ دیکھ ہی  رہی تھی کہ اسے پیچھے سے کسی کی آواز آئی ۔۔

ہیلو ۔۔ 

فردوس نے   تیزی سے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے عامر   یوسف کھڑا تھا ۔۔۔

لمبا اونچے سے قد والا  ایک پیارا لڑکا سمارٹ سا جس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور اس نے  ہلکی نیلی رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی  ۔۔ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے ہاتھ میں کوئی سیاہ رنگ کا بینڈ پہنا  ہوا تھا پاؤں میں جوتے تھے  دیکھنے میں  وہ بہت پرکشش معلوم ہوتا تھا ۔۔۔

کسی ہو فردوس ۔۔

عامر نے مسکرا کر کہا ۔۔

بلکل ٹھیک ۔۔

کیا گفٹ لینے  آئی ہوں آمنہ کے لیے ؟؟

عامر  نے اسے  دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جی ۔۔

مگر آپکو کیسے پتا وہ  ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگی۔

بس پتا ہے ۔۔

 امی کے ساتھ آئی تھی وہ برتن دیکھنے میں مصروف ہیں فردوس نے کہا۔۔۔

جانتا ہوں میں ان سے   پہلے ہی مل چکا ہوں ۔۔۔

اچھا ۔۔

اگر تم شوپیس خرید رہی ہو تو میں تمہیں بتا دوں کہ تمہاری دوست تو آج کل کتابیں پڑھنے کا شوق لگا ہوا ہے ۔۔

یہاں سیکنڈ فلور پر ایک بہت اچھی بک شاپ ہے میں نے بھی آمنہ  کے لئے کچھ بوکس خریدی ہیں اسے بوکس آج کل بڑی اچھی لگنے لگی ہیں تو میں نے سوچا تھا کہ میں اسے وہی چیز دیتا ہوں  جو اسے اچھی لگتی ہے اگر تم چاہو تو تم بھی اسے بکس  دے سکتی ہو ۔۔

میں نے اس کے لئے کچھ انگلش اور اردو  ناول لیے ہیں ۔۔

تم چاہو تو اس کے لیے میر تقی میر  فیض احمد فیض  اور باقی شاعروں کی شاعری کی کتابیں خرید سکتی ہو ۔

تم دیکھنا وہ  بہت  خوش ہو جائے گی ۔۔۔

واقعی میں؟

 اور میں اتنی دیر سے پریشان ہو رہی تھی کہ میں اس کے لیے کیا تحفہ لوں تھینک یو سو مچ آپ نے میری مشکل آسان کردی ۔۔۔

چلو چلتے ہیں سیکنڈ فلور پر وہاں ہے بک شاپ ۔

تھینک یو سو مچ مگر  میں امی کے ساتھ سیکنڈ فلور پر چلی جاؤں گی ۔۔

فردوس کی بات پر وہ آہستہ سے مسکرایا وہ جانتا تھا کہ وہ ہر کسی کے ساتھ جانے والی لڑکی نہیں ہے اور دوسری طرف اس کے گھر کے ماحول کو بھی جانتا تھا ۔۔

پریشان مت ہو فردوس میں تمہارے اور  تمہاری  امی کے ساتھ شاپ پہ چلتا ہوں شاپ  کا مینیجر میرا بہت اچھا جاننے والا ہے وہ ضرور تمہیں سب سے اچھی کتاب دیکھائے گا وہ مسکرا کر فردوس کو  کہنے لگا تو فردوس اور اس کی امی عامر  کے ساتھ   سیکنڈ فلور پر کچھ کتابیں خریدنے چلی گئی وہ اپنی مطلوبہ کتابیں  لے کر کاؤنٹر پر آئی تو فردوس نے عامر   کا شکریہ ادا کیا ۔۔

کتابیں  واقعی میں بہت اچھی تھیں اس نے  آمنہ کے ساتھ ساتھ کچھ  اپنے لئے بھی  خریدی تھی ۔۔

آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے میری مشکل آسان کردی اتنے اچھے تحفے دلوا دیں آپ نے آمنہ کے لیے ۔۔۔

شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں بس آمنہ کو مت بتانا کہ میں نے تمہاری ہیلپ کی ہے ۔۔

بالکل نہیں میں اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ دیکھنا  چاہتی ہوں جو ان کتابوں کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر آئیں گی ۔۔۔۔

فردوس کی بات پر  عامر مسکرایا اور اسے دیکھنے لگا ۔۔

تم لازمی آنا میں تمہارا انتظار کروں گا ۔۔

فردوس نے  اپنی سبز  آنکھیں  اٹھا کر عامر  کو  دیکھا  ۔۔

میرے  کہنے کا مطلب تھا کہ میں اور میری فیملی ۔۔۔

چلو میں چلتا ہوں خدا حافظ ۔۔

خدا حافظ ۔۔۔

وہ دونوں ماں بیٹی جب سارا سامان لے کر واپس  گھر آئیں تو رضا کی گاڑی لا ن میں کھڑی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر ان دونو ں  کا تو  حلق ہی خشک گیا تھا ۔۔

رضا آج آفس سے دوپہر میں ہی آ گئے تھے ۔۔

رابیہ  رضا کی بغیر اجازت کے فردوس کے کہنے پر  چلی گئی تھی مگر وہ یہ بات خوب  اچھی طرح سے جانتی تھی کہ رضا کو ایک اور موقع مل گیا ہے اسے اور اس کی بیٹی کو ذلیل کرنے کا اور وہ اپنے ہاتھ سے یہ موقع  بالکل جانے نہیں دے گا وہ تو تلاش میں تھا کہ وہ کب گھر آئیں ۔۔

دونوں ماں بیٹی نے پریشانی سے رضا کی کار کو دیکھا ۔

جبکہ وہ دونو ں تو  ایک گھنٹے سے پہلے پہلے گھر میں موجود تھیں  اور مطلوبہ سامان لے کر فورا گھر آ گئی تھی ۔۔

رابیہ  اچھی طرح سے جانتی تھی کہ رضا  فردوس کو اپنے ساتھ لے کر باہر نہیں جاتا بیٹی کو اپنے  ساتھ لے کر چلنا وہ اپنی توہین محسوس کرتا ہے ۔

مگر دوسری طرف فردوس  بھی صحیح کہہ رہی تھی کیونکہ یوسف صاحب فردوس کے لئے کوئی نہ کوئی تحائف لازمی لے کر آتے تھے اور آمنہ   کی سالگرہ پر  وہ  خالی ہاتھ جاتی  اچھی نہیں لگتی کیونکہ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کو جانتی تھیں  اور بہت اچھی دوست تھیں ۔۔۔

امی اب کیا ہوگا بابا  توجلدی گھر آ گئے ہیں ۔۔

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے نہ جانے بابا کیا کریں گے ۔ 

میری غلطی تھی مجھے آپ کو لے کر جانا ہی نہیں چاہیے تھا ۔ میں خالی ہاتھ ہی چلی جاتی اب تو ہم دونوں کی شامت پکی ہے ۔ مجھے  بہت ڈر لگ رہا ہے نہ جانے اب کیا ہوگا ۔۔

اب جو ہوگا دیکھا جائے گا اندر چلو تبھی معلوم ہوگا رابیہ نے کہا ۔۔

وہ دونوں گھر کے مین ڈور سے داخل ہوتے ہوئے اندر لیونگ روم  کی طرف آئیں  تو رضا ٹی وی کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھا ہوا تھا اس کے چہرے پر شدید غصہ اور سختی کے اثرات موجود تھے ۔۔

رضا کا چہرہ دیکھ کر ان دونوں کا حلق تک خشک ہو گیا تھا دونوں نے فورا ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔

فردوس نے  کتابیں اٹھا کر خاموشی سے ٹیبل پر رکھی اور پھر سلام اپنے باپ کو کیا  ۔۔۔

کہاں گئیں تھیں   میری جازت کے بغیر ؟؟؟

وہ فردوس کو دیکھ کر بہت سخت لہجے میں بولا سلام کا جواب دینا اس نے ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔

با ۔۔با با ۔۔وہ  بک شاپ تک  گئی تھی آمنہ کی برتھ ڈے  کے لیے کچھ تحائف لینے تھے اس لئے میں نے امی سے  ضد کی تھی کہ وہ مجھے لے جائیں ۔ 

فردوس نے دبے دبے لفظوں میں  اپنے باپ  کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

تم نے کہا اور تمہاری ماں تمہارے ساتھ چل دی اس نے مجھ سے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا رضا  کی آواز گرج دار تھی ۔۔

اتنے پر نکل گئے ہیں تم دونوں ماں بیٹی  کے جہاں چاہے اپنا  منہ اٹھا کر نکل جاؤ  ۔ 

 اپنے چہرےاور جسم کی نمائش کروانے  کا کچھ زیادہ ہی شوق نہیں ہو گیا ہے تمہیں فردوس ۔۔

وہ بڑے ہی سخت لہجے میں کہتا ہوں آب فردوس کے بالکل سر پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔

اپنے بلکل  سامنے کھڑے   باپ  کو  غصے میں دیکھ  کر فردوس کی تو جان ہی نکل گئی ۔۔

مجھ سے پوچھا تھا کہ میں چلی جاؤ ۔۔؟؟رضا دھڑا۔۔۔وہ اپنی آنکھوں میں غصہ اور سختی لیے فردوس کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

بابا ۔۔با۔۔با ۔۔ میں آپکو  اتنے دنوں سے کہہ رہی تھی مگر آپ اتنے مصروف تھے کہ آپ مجھے لے جا نہیں پا رہے تھے اور پرسوں اس کی برتھ ڈے تھی ۔وہ لوگ ہمیشہ میرے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتے ہیں کیا یہ  اچھا ہوتا کے   میں خالی ہاتھ چلی جاتی کیا سوچتے وہ لوگ میرے بارے میں ۔فردوس نے آہستہ آواز میں اپنے باپ کے آگے اپنی  صفائی پیش کی ۔۔

تو اسی لیے میں آج  امی کے ساتھ۔۔۔۔

 اس کے  الفاظ ابھی  منہ میں ہی تھے  کہ ایک زور دار تھپڑ رضا نے  فردوس کے منہ پر مارا تو فردوس  زمین پر جا گری  رضا کے بھاری ہاتھ سے اس کا گال  سرخ ہو گیا تھا ۔ سیدھے ہاتھ کے ہونٹ کے کنارے سے خون رسنے لگا تھا ۔ ۔

فردوس رابیہ فکر مندی سے اس کی طرف بڑھی کے  رضا نے فورا اس کا ہاتھ تیزی سے پکڑا ۔فردوس اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے خاموش آواز میں روتی رہی ۔۔۔

تم اس کا بڑا ساتھ دینے لگی ہو اپنی اوقات میں رہو ۔۔

اوقات جسے کہتے ہیں ۔۔

 جو تمہاری میری نظر میں بالکل نہیں ہے ۔۔

ایک تو بیٹیاں پیدا کرنے میں ماہر ہوں اوپر سے  ان کو خراب کرنے میں بھی ان کو  باغی  بنانے میں بھی ان کو آوارہ بنا نے میں بھی ۔۔۔

رضا  نے زور سے رابیہ کا ہاتھ دبایا تو رابیہ  کی چیخ نکل گئی ۔۔

ماں کو تکلیف میں دیکھ کر فردوس تیزی سے اٹھی اور اپنے ماں باپ کے درمیان آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔

بابا ۔۔بابا نہیں ۔۔پلیز  ۔۔۔

 امی کو کچھ مت کہیں ان کی کوئی  غلطی نہیں امی کو مت ماریں مجھے مار لیں  میری  غلطی  ہے میں نے امی  کو کہا تھا کہ وہ مجھے لے کر چل لیں ۔ امی تو مجھے کہہ رہی تھی کہ بابا خفا ہوں گے مگر میں نے ضد   کی تھی پلیز بابا مجھے مار لیں   امی کو کچھ نہ کہے امی کا کوئی قصور نہیں وہ تو مجھے منع کر رہی تھی میری غلطی ہے ۔۔

ہاں ساری غلطی تمہاری ہے تم تو ہو ہی منہوس جو میرے گھر میں  پیدا ہوگی ۔۔

اور ایک یہ منہوس تمہاری ماں جو مجھے ساری زندگی ایک بیٹا نہ دے پائی ساری زندگی کے لیے مجھے لوگوں کے آگے رسوا کردیا کمزور بنا دیا ۔کیا سوچتے ہوں گے لوگ کہ میں کتنا کمزور مرد ہوں جو ایک بیٹا   پیدا نہیں  کر سکا ۔۔

اور اولاد میں  ملی تو  وہ بھی کیا  بیٹی وہ تو کچھ شکر ہو گیا مجھ پر اس طرح سے کہ ایک بیٹی  مر گئی بچپن میں میری جان چھوٹ گئی اس سے ورنہ ا سے بھی بھگتنا پڑتا ساری  زندگی رابیہ  اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اپنے  شوہر کی کڑوی باتیں سنتی رہی جبکہ فردوس کی  آنکھوں سے آنسو تیزی سے ٹپک رہے تھے ۔۔۔

رضا ان کو برا بھلا کہتا ہوا   گالی دے کر جا چکا تھا ۔۔

فردوس تیزی سے بھاگ کر کچن میں گئی ٹھنڈے پانی کی بوتل لائی  اور گلاس میں ڈال کر پانی اپنی ماں کے آگے بڑھایا ۔۔

فردوس امی کے قریب بیٹھ کر  انہیں   پانی پلانے لگی ۔۔

رابیہ روتی رہی جبکہ فردوس کو اپنے اوپر غصہ آ رہا تھا کہ وہ بے شرموں کی طرح خالی ہاتھ چلی جاتی تو آج یہ نہ ہوتا ۔۔

وہ دونوں  اس چیز کے عادی سے ہوگئے تھے کہ رضاکا یہ رویہ تو  ساری زندگی  یوں ہی رہنا تھا وہ کبھی نہیں بدل سکتا ان دونوں نے یہ بات تسلیم کر لی تھی مگر رضا کے   یہ زہریلے  الفاظ  ہر بار رابیہ اور فردوس کی زندگی کو جہنم بنا رہے تھے ان کی زندگی میں ان کی خوشیوں میں ان کی مسکراہٹ میں زہر گھول رہے تھے ۔۔

امی پلیز ۔ پلیز مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے آج یہ  سب ہو گیا ۔۔وہ اپنی ماں کے گھٹنوں کے قریب بیٹھ کر انکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے کہنے لگی ہے ۔۔

قسم خدا کی امی  میرا واقعی  میں کوئی غلط مقصد نہیں تھا آپ تو جانتی  ہیں یوسف انکل  کی فیملی کو اور یوسف انکل  میرے لئے کتنے تحائف لے کر آتے ہیں  کیا اچھا لگتا ہے میں بے شرموں کی طرح کچھ بھی نہ لے کر اس کے گھر چلی جاتی میں تو  بس یہی سوچ کر گئی تھی  اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں تھا میں اللہ کی قسم کھاتی ہوں  وہ روتے ہوئے اپنی ماں سے کہنے لگی ۔

میں جانتی ہوں فردوس رو مت  میرے پاس اؤ ۔۔۔

رابیہ نے اسے اٹھا کر اپنے قریب کیا اور پھر اس کے سیدھے گال کو دیکھا جس کے اوپر رضا کی انگلیوں کے نشان بہت بے دردی سے واضح تھے ۔۔

خون جو ہونٹوں سے نکل رہا تھا اب خشک  ہو چکا تھا ۔۔۔

رابیہ  نے نرمی سے اس کے  گال پر ہاتھ پھیرا اور  چوما ۔میرے ساتھ او  فردوس میں اس نشان پر کچھ  لگا دیتی ہوں تھوڑے وقت کے بعد ٹھیک ہو جائے گا ۔وہ اسے اپنے ساتھ لے کر کچن میں آگئی ۔۔۔

پرسوں رات کو آمنہ  کی سالگرہ بہت خوشی سے منائی جا رہی تھی گھر کے گارڈن کو بڑی خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا بہت زیادہ لوگ نہیں تھے صرف اس کے فیملی ممبرز اور قریبی اسکول کے دوست  اور پڑوس کے لوگ موجود تھے ۔۔

آمنہ نے اپنی برتھ ڈے پر ہلکے آسمانی رنگ کی تھیم رکھی ہوئی تھی ۔۔

ڈیکوریشن میں بھی برتھ ڈے کے لئے جو کلر استعمال کیا تھا وہ ہلکے آسمانی رنگ سے ہی سجایا ہوا تھا ۔۔۔

آمنہ  نے بھی ہلقے آسمانی   رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔۔

فردوس لوگ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی  آئے تھے اور یوسف صاحب اور ان کی بیوی سے مل رہے تھے کہ ساتھ عامر اور اس کا بڑا بھائی عبّاس  برابر میں کھڑے ہو گئے ۔۔

ان دونوں بھائیوں نے بھی اسی رنگ  کا  لباس پہنا ہوا تھا جو آج کی برتھ ڈے تھیم میں تھا ۔۔

یوں ہی بات کرتے کرتے عمر کی نظر فردوس پر پڑی جو ہلکے آسمانی رنگ کے لباس میں ملبوس تھی اس نے چوڑی دار پاجامے کے اوپر لمبی قمیض پہن رکھی تھی اور بڑی  خوبصورتی سے دوپٹہ ایک طرح برابر کرکے ڈالا تھا  بالوں کو آدھا باندھا ہوا تھا اور آدھے بال اگے کی طرف سلیقے سے کیے ہوئے تھے ۔۔

باقی کے بال کمر کے پیچھے نیچے تک موجود تھے ۔۔۔

اس میں اپنے کانوں میں چھوٹے چھوٹے سے جھمکے پہن رکھے تھے ۔انگلی میں دو رنگ اور ایک بریسلٹ تھا ۔۔

عامر  یونہی بڑی فرصت سے اسے دیکھا کرتا تھا ۔۔

وہ فردوس کو  دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے بڑے بھائی نے اسے زور سے کونی ماری ۔۔

عامر  نے گردن گھما کر اپنے بڑے بھائی عباس  کو دیکھا ۔۔

پھر راز داری سے ان دونوں بھائی نے اپنے کان قریب   کیے ۔۔

عامر  اپنی اوقات میں رہو اس کے  ماں باپ اور تمہارے ماں باپ بالکل سامنے کھڑے ہیں ۔۔

عبّاس   نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لا کر عامر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

اوقات اوقات میں رہو بھائی عبّاس نے کہا  ۔۔

عامر کو  اپنے بڑے  بھائی کی بات سن کر  اس کے ہونٹوں پر  مسکراہٹ آ گئی ۔۔۔

میں کیا کر رہا ہوں بھائی ۔۔

عامر ذرا معصوم بن گیا ۔۔

نہیں میرے بھائی تم کچھ نہیں کر رہے بس اپنی آنکھوں کو ذرا قابو میں رکھو ورنہ میں تمہیں  اندر جا کر  بہت ماروں گا ۔۔

کچھ دیر کے بعد آمنہ نے اپنی برتھ ڈے کا کیک کاٹا ۔

فردوس نے وہ ساری بک بہت خوبصورتی سے پیک کرکے آمنہ کے آگے بڑھائیں ۔۔۔

ہیپی برتھ ڈے آمنہ فردوس اس کے  گلے  سے لگی بڑی محبت سے کہہ رہی تھی ۔۔

او مائی گاڈ ۔۔۔۔

یہ بکس۔۔۔۔۔

آمنہ  بہت خوش ہو گئی تھی ۔۔۔۔

ہاں یہ ساری کی ساری بہت اچھی کتابیں ہیں فردوس نے کہا  ۔۔

میں نے کچھ پڑھی  تھی  کچھ شاعری کی ہیں اور کچھ نوولس  یہ سب   مجھے بہت پسند آئیں تھی  تو میں نے سوچا کہ کچھ شاعری کی کتاب  جس میں میر تقی میر  فیض احمد فیض اور بہت سے دوسرے قابل  شاعر  موجود ہیں تو لے لوں  اور کیوں نہ  تمہیں پڑھنے کے لیے تحفے میں دیا جائے ۔اسی لئے میں نے سوچا کہ تمہارے لئے  یہ چیز بیسٹ رہے گی فردوس مسکراتے ہوئے منہ سے کہہ رہی تھی ۔۔

ارے یار تھینک یو سو مچ تمہیں پتا نہیں ہے فردوس مجھے آج کل اس کا کتنا زیادہ کریز ہوا ہے ۔

تھینک یو سو مچ یار ۔۔

آمنہ واقعی فردوس کے گفٹ  سے بہت خوش ہو گئی تھی ۔۔

فردوس آمنہ اور  سب دوستوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی جب کہ آمنہ  سب کے تحائف کا شکریہ ادا کر رہی تھی ۔۔

تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔

فردوس نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا تو عامر یوسف  کھڑا تھا ۔۔

فردوس کچھ نہیں بولی بس آہستہ سے مسکرائ۔ ۔

کیسا لگا  آمنہ کو تمہارا گفٹ ۔۔؟؟عامر نے کہا ۔

اسے بہت اچھا لگا وہ واقعی میں بہت خوش ہو گئی تھی آپ نے مجھے ایک اچھا مشورہ دیا اس کے لیے آپ کا  بہت شکریہ ۔۔

تمہیں کبھی بھی میری ہیلپ کی ضرورت ہو تو تم مجھے ہمیشہ بول  سکتی ہو میں تمہاری ہیلپ کے لیے ہمیشہ موجود ہو کبھی بھی کسی بھی وقت کسی بھی دن وہ مسکرا کر فردوس  کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

تھینک یو سو مچ فردوس نے   عامر سے کہا ۔۔۔

وقت تیزی سے گزرتا گیا اور فردوس اب کالج کی زندگی میں داخل ہو چکی تھی  فردوس آمنہ  اور نور  کالج  میں ایک  ساتھ تھیں۔۔

  فردوس جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی جوان ہو رہی تھی رضا کی سختی مزید بڑھتی جا رہی تھی ۔۔

وہ فردوس کو ہمیشہ  لینے اور چھوڑنے یا تو خود جاتا یا پھر آپنے ڈرائیور سے کہتا لڑکیوں کے ساتھ واپس آنے پر  رضا نے سختی سے منع کیا تھا اور پابندی عائد کی تھی ۔۔

دوسری طرف فردوس نے  بھی رضا کی کسی بات سے انکار نہیں کیا تھا ۔۔

آج فردوس کھڑی کالج کے دروازے سے باہر جھانک رہی تھی کیوں کہ ڈرائیور  ابھی تک  لینے  نہیں آیا تھا اور کالج کی چھٹی ہوئے آدھا گھنٹہ ہونے والا تھا کافی ساری لڑکیاں جا چکی تھی ۔۔

نور بھی چلی گئی تھی صرف اور صرف آمنہ تھی اور اس کی کلاس کی دو اور لڑکیاں جو ابھی تک آپنے آنے والوں کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔

جب فردوس انتظار کرتے کرتے تھک گئی تو پھر اس نے کالج کے آفس سے پرمیشن لے کر اپنی ماں کے نمبر پر فون کیا ۔۔۔

مگر گھر میں کسی نے فون نہیں اٹھایا اس نے دو تین مرتبہ ٹرائی کیا  تیسری باری  پر اس کی امی نے فون اٹھا لیا ۔۔

امی اتنا وقت ہوگیا ہے نہ ہی تو ڈرائیور  آیا ہے اور نہ ہی بابا میں کس کے ساتھ گھر آؤں ۔۔

فردوس ڈرائیور کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ہمارے پڑوس میں جو حسن صاحب رہتے ہیں انہوں نے مجھے بتایا وہ اس کو لے کر ابھی ہوسپیٹل گئے ہیں اس وجہ سے وہ تمہیں لینے نہیں آئے ۔۔اور بابا  کوئی بہت ضروری کام سے  دوستوں کے ساتھ مل کر  باہر گئے ہیں ۔۔

تم تھوڑا انتظار کرو میں لینے آتی ہوں ۔۔

آپ لینے کے لیے آئیں گے تو آدھا گھنٹہ اور زیا ہو جائے گا ۔۔

ایسا کرتی ہوں میں خود ہی آ .  جاتی ہوں رکشے میں ۔۔۔

نہیں اکیلے مت آنا  تمہارے بابا بہت غصہ کریں گے ایسا کرو نور یا آمنہ کے  ساتھ آجاؤ۔۔۔

نور چلی گئی   ہے اس کے بابا آ گئے تھے آمنہ ہے مگر وہ اپنے بھائی کے ساتھ جائے گی ۔۔۔

 تو آمنہ کے ساتھ آ جاؤ وہ تمہیں ڈراپ کر دیگی  ایک دن کے لیے ۔۔

امی وہ  مجھے ڈراپ   تو کر دیں گے لیکن اگر بابا  کو پتہ چلا تو وہ بہت خفا ہوں گے مجھ سے کے  میں کیوں کسی کی گاڑی میں بیٹھ کر آئ ہو  ۔۔

مزید وقت برباد مت کرو آمنہ کے ساتھ آ جاؤ آج  اگر تمہارے بابا   کچھ کہیں گے تو میں بات کر لوں گی عامر ہوگا آمنہ ہوگی تو بابا کچھ نہیں کہیں گے ۔

ان سے  بات کرکے  فردوس نے فون کاٹ دیا  اور آفس سے باہر آئی ۔

 آمنہ اس  کا انتظار کر رہی تھی ۔۔

امی بول رہی ہیں تمہارے ساتھ آ جاؤ ۔

  بابا کسی کام سے گئے ہیں آج ۔

دیکھا آنٹی بھی یہی کہہ رہی تھی میں تمہیں کب سے کہہ رہی ہوں کہ ہمارے ساتھ چلو عامر  بھائی ہمیں لیتے ہوئے چلے جائیں گے مگر تمہیں تو بات سمجھ نہیں آتی کسی کی ۔۔

دس منٹ  ویٹ کرتے ہیں دس منٹ تک بھائی  یونیورسٹی سے آتے ہونگے   پھر ان کے ساتھ چلیں گے  اب چلو میرے ساتھ باہر ۔۔۔

دس منٹ کے بعد عامر  گاڑی لے کر کالج کے باہر موجود تھا فردوس  اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر چلی گئی ۔۔

فردوس کے  کالج  کا رزلٹ بہت شاندار آیا تھا وہ بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھی ۔۔مگر رضا کو اس کی کارکردگی سے کوئی سروکار نہ تھا ۔تو وہ  نہ خوش ہو ا اور نہ ہی اس نے پرواہ کی ۔۔

ایگزام کے بعد جو وقت ملا وہ تیزی سے نکلتا چلا گیا جبکہ فردوس کی بہت ساری دوستوں نے اب یونیورسٹی میں ایڈمیشن  لے لیے تھے ۔۔

فردوس اور اس کی ماں  نے رضا کے آگے جب یونیورسٹی کی بات رکھی تو رضا  تو جیسے آگ بگولا ہو گیا تھا ۔اس نے صاف انکار کر دیا کہ نیورسٹی جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔

فردوس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور وہ ایک بہت قابل  لڑکی  تھی اور رابیہ اسے ہمیشہ اس کی پڑھائی میں سپورٹ کرتی آئی تھی ۔۔

رابیہ  نے ایک بار پھر رضا سے   بات کرنے کا فیصلہ کیا وہ تینوں رات کے کھانے پر ایک ساتھ بیٹھے تھے رابیہ  نے اس کی پلیٹ میں  چاول  ڈالتے ہوئے فردوس کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن کی بات کی ۔۔

رضا۔۔

 فردوس  کے نمبرز بہت اچھے ہیں  ۔۔۔

اور اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے تو وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے  ۔مگر اس میں  آپ کی اجازت لازمی ہے ۔۔

 وقت اور حالات دیکھیں تعلیم کس قدر اہم ہو گئی ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ بچی پڑھنے میں بھی  اچھی ہے ۔

 کیا یہ اچھا ہو گا کہ ہم  اس کو یوں گھر میں بٹھا کر اس کی قابلیت کو برباد کر دی ۔فردوس کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دے دیں رضا وہ بہت کابل ہے ۔۔

رابیہ نے  ڈرتے ڈرتے اپنی بیٹی کی حمایت کی ۔۔۔

رضا نے کچھ نہیں بولا بس وہ خاموشی سے کھانا کھاتا رہا ۔۔

 کچھ تو بولیں رضا آپ ۔۔

تمہیں ایک دفعہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی یہ کھانا اٹھا کر زمین پر پھنک دوں گا تب تمہاری عقل میں یہ بات آئی گئی کہ میں نے منع کر دیا ہے ۔۔

آوارہ بنانا چاہ رہی ہوں  اسے لڑکوں کے ساتھ پڑھا کر ۔تم کیا چاہتی ہو کہ لڑکے اس کی شکل دیکھ کر  اس کا پیچھا کرتے کرتے میرے گھر تک آ جائیں ۔۔

اللہ نہ کرے رضا آپ جانتے ہیں اپکی بیٹی   ایسی نہیں ہے ۔۔۔

بکواس  بند رکھو اپنی میں نے منع کر دیا  تو منع کر دیا ۔اتنا پڑھ لیا  ہے نا بس کافی ہے زیادہ پڑھنے کا کیا فائدہ  ۔۔

 تم بھی تو بہت پڑھی لکھی ہو  مگر کیا فائدہ ہوا تمہارے پڑھنے کا گھر میں ہی ہو کھانا ہی  بنا رہی ہوں نہ اور دوسرا بیٹیاں  پیدا کر رہی ہو ۔۔

یونیورسٹی کو بھول جاؤ ۔۔

 اپنی بیٹی کے دماغ  میں سے یہ  فضول چیز نکال دوں۔۔

 میں نے ایک بار منع کردیا تو منع کر دیا اور آئندہ اس ٹاپک پر بات نہ ہو زیادہ پڑھنے کا شوق  ہے تو پرائیویٹ ایڈمیشن لے کے گھر میں بیٹھ کر پڑھوں یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔

رضا غصے میں کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا ۔۔

فردوس گھر میں بیٹھی رہی جبکہ اس کی باقی کی تمام لڑکیاں یہاں تک کہ نور اور امنہ کو یونیورسٹی جاتے جاتے ایک مہینہ ہونے والا تھا ۔۔

مگر فردوس یونیورسٹی نہیں جا رہی تھی ۔۔

شام کے وقت وہ لان میں  کھڑی اپنے پودوں کو پانی دے رہی تھی کہ گھر کی گھنٹی بجی ۔۔

فردوس نے  دروازہ کھولا ، یہ رضا کے آنے کا وقت تھا ۔۔

مگر جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے یوسف صاحب کھڑے تھے ۔۔۔۔

ارے انکل آپ السلام علیکم کیسے ہیں آپ ؟

آئیے  پلیز اندر آئیں ۔۔۔

 وہ گھر کے اندر چلے آئے ۔۔

بہت شکریہ بیٹا انہوں نے اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھرا ۔۔۔

کیسی ہو بیٹا ۔۔؟

میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں ۔۔۔

اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔

رضا آ گئےکیا کہہ رہے تھے آدھے گھنٹے کے اندر اندر گھر ہوں گے ۔۔۔

بس ا نکل آنے ہی والے ہونگے ۔۔

آپ  اندر آے۔

  میں آپ کے لئے چائے بناتی ہوں جب تک بابا بھی  آ جائیں گے وہ انہیں ڈرائینگ روم تک لے آئی ۔۔

اندر جانے کے بعد ان کی  ملاقات رابیہ سے  ہوئی رابیہ نے  اچھے  طریقے سے ان کی مہمان نوازی کی کچھ دیر کے بعد فردوس ٹرے میں  لوازمات اور چائے لے کر ان کے قریب بیٹھی ا نہیں دے رہی تھی 

تھینک یو سو مچ بیٹا ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔

بیٹا فردوس ۔

 ایسا کرو کہ اپنے لیے بھی ایک کپ نکال لو اور یہاں بیٹھو مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے ۔۔

جی انکل ۔۔۔

وہ کپ  لے کر دوسرے صوبے پر ان کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔

آمنہ مجھے بتا رہی تھی کہ یونیورسٹی شروع ہوئے ایک مہینہ ہو گیا ہے مگر تم نے ابھی تک اپنی کوئی یونیورسٹی اسٹار نہیں کی ۔۔

میرا  خیال تھا کہ تم  تینو ں کی یونیورسٹی بھی سیم   ہوگی جس طریقے سے اسکول اور کالج سیم تھا مگر اس نے مجھے بتایا ہے کہ نور کوئی یونیورسٹی میں  لگی ہے  اور تم نے ابھی تک  یونیورسٹی میں ایڈمیشن نہیں لیا ۔۔۔

کیا ارادہ ہے تمہارا آگے نہیں پڑھو گی کیا؟؟

 کلاسس  ایک مہینہ ہو گیا ہے شروع ہو چکی ہیں ۔۔

فردوس کچھ نہیں بولی وہ  بس خا موشی سے بیٹھی رہی ۔۔

کیا ہوا بیٹا تم مجھ سے  کوئی بھی چیز شیئر کر سکتی ہو میں تمہارے بابا کی طرح ہی  ہوں اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ میں تمہارے بابا  سے بات کرتا ہوں ۔۔

نہیں انکل کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

فردوس اگر تم مجھے اپنے بابا کی طرح سمجھتی ہو تو مجھے سچ سچ بتاؤ ۔۔۔

انکل وہ بابا  یونیورسٹی کی اجازت نہیں دے رہے  ۔۔

میں نے پرائیویٹ ایڈمیشن لیا ہے تو اسی وجہ سے گھر میں ہوں ۔۔۔

اچھا تو یہ بات ہے ۔میں بات کرتا ہوں رضا سے تمہاری پڑھائی کی ۔۔

نہیں نہیں اَنکل آپ بابا سے کچھ نہیں کہیں پلیز ۔۔وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے ۔

کچھ نہیں ہو گا بیٹا پریشان مت ہو تم اچھی ہو پڑھائی میں تو کیوں وقت زیا کرنا پرائیویٹ میں نہیں  ریگولر میں  ایڈمیشن لوں وہ زیادہ بہتر ہے بیٹا  کلاسیس لوں گی تو چیزیں اچھی  طرح سے سمجھ آئیں گی ذہن کھلے گا اور کسی کی محتاج بھی نہیں ہوگی ۔۔

مگر  بابا نہیں مان رہے ۔۔

میں بات کر تا ہوں رضا سے ۔۔۔

فردوس  جیسے ہی کمرے سے باہر نکلنے لگی سامنے سے اسے رضا آتا ہوا دکھائی دیا تو وہ  تیزی سے ڈرائنگ روم سے ہوتی ہوئی اندر کمرے کی طرف دوڑی ۔۔

اسے یہ ڈر تھا کی اگر وہ اسے  ڈرائینگ روم سے نکلتا ہوا دیکھ لیں ۔اور پھر اگر یوسف صاحب رضا سے اسکی  یونیورسٹی کی بات کریں تو پھر وہ یہی سمجھے گا کہ فردوس نے  یوسف صاحب کو بولا ہے اور مجھ سے  بات چیت کرنے  پر زور دیا ہے کہ وہ فردوس کے لئے  اس سے بات کرے ۔۔

وہ تیزی سے اپنے کمرے میں آئ دروازہ لاک کیا اور کمرے میں ہر طرف چکر لگانے  لگی ۔نہ جانے کیوں اسے ٹینشن سی  ہو رہی تھی کے  نہ جانے یوسف صاحب بابا  سے کیا کہیں گے  ۔۔۔

اگر یوسف صاحب نے میرا بولا  تو  کیا ہوگا  بابا تو  مجھ پر شک کرے گے  کہ میں نے یوسف صاحب پر زور دیا ہے جبکہ ایسا  نہیں۔

یہ نا ھوں بابا غصے میں میرا پرائیویٹ بھی پڑھنا بند  کروا دیں وہ مستقل یہی سوچتے ہوئے کمروں کے چکر لگا رہی تھی ۔۔

جبکہ ڈرائنگ روم میں اب یوسف صاحب اور رضا دونوں موجود تھے ۔۔۔

اوربتائیں یوسف صاحب اپ کے  گھر میں سب ٹھیک ہے رضا نے خوش اخلاقی سے پوچھا ۔۔

اللہ کا شکر ہے میرے گھر سب ٹھیک ہے تم بتا ؤ سب کیسا ہے ۔۔۔۔

ارےے ہاں رضا۔۔۔

یہ بتاؤ کہ فردوس یونیورسٹی کیوں نہیں جا  رہی ۔۔؟؟

آج جب میں آیا تو وہ گارڈن میں پانی دے رہی تھی ۔۔

کیا طبیعت خراب ہے فردوس کی یونیورسٹی نہیں گئی آج ۔۔

 یوسف صاحب نے اپنی طرف سے بات بنا کر رضا کو کہا ۔۔

رضا کچھ دیر کے لئے تو خاموش رہے پھر کہنے لگے ۔۔

فردوس کی طبیعت ٹھیک ہے میں نے فردوس کو یونیورسٹی کی اجازت نہیں دی ہے ۔۔

مگر کیوں ؟؟؟

یونیورسٹی کی  اجازت  کیوں نہیں  دی تم نے لکھا  پڑھنا یہ تو ضروری ہے اس کے لیے اتنی قابل بچی ہے ۔اور تمہاری تو ایک ہی بیٹی ہے وہ بھی اچھا پڑھنے والی خوب  پڑھاو لکھا و  اسے کام تو  ہوتے ہی رہیں گے کام زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ مگر یہ وقت اس بچی کے پڑھنے کا ہے ۔ تمہیں اس کو یونیورسٹی کی اجازت دینی چاہیے تھی ۔۔

میں یونیورسٹی کے حق میں نہیں ہو یوسف صاحب ۔۔رضا نے کہا ۔۔

مگر مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تمہاری سوچ کو کیا ہو گیا ہے جب کہ تم خود اس قدر پڑھے لکھے ہو اور رابیہ بھابھی بھی ۔۔

میرا تو مشورہ یہی ہے کہ تم اپنی بیٹی کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلاو  میری  بھی ایک ہی بیٹی ہے  میں نے اس کے اوپر کبھی بھی پابندی نہیں لگائی ۔فردوس بھی میری بیٹی کی طرح ہے مجھے تو بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ وہ بچی ایک مہینے سے یونیورسٹی نہیں جا رہی  بلکے گھر میں ہے ۔

تم جانتے ہو کہ پڑھائی کا لیول کتنا مشکل ہو گیا ہے ایک مہینے کا اس کو کتنا زیادہ نقصان ہوا ہے ۔۔

میری بات مانو اسے  یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دے دو وہ تو بڑی اچھی بچی ہے ۔۔

میرے خیال میں فردوس نے  جتنا پڑھ لیا ہے اتنا ہی اس کے لیے کافی ہے ۔۔

اگر میں فردوس کی ذمہ داریاں لو تو تم  اسے  اجازت دے دوں گے  ۔۔یوسف صاحب نے کہا ۔۔۔

میں آپ کی بات کو سمجھا نہیں ۔۔یوسف صاحب  ۔۔

اور ویسے بھی فردوس کے لئے  مجھے بہت لوگوں نے بولا ہوا ہے کے  وہ  انہیں پسند آئی ہے دو تین رشتے ہیں اور وہ سب آسٹریلیا اور امریکہ کے لڑکے ہیں ۔اور انہیں شادی کی  جلدی بھی ہے پھر بیچ میں یونیورسٹی والا سلسلہ شروع ہو جائے گا تو شادی لمبی ہو جائے گی ۔۔۔

 کیوں رضا تم کو  ہو کیا گیا ہے اتنی کم عمر میں اپنی بیٹی کی شادی کیوں کر رہے ہو ۔ تمہیں اس کی شادی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے فردوس جیسی لڑکیوں کیلئے رشتے لائن سے لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔

اگر تمہیں اپنی بیٹی کے لیے اچھے لڑکے کی تلاش ہے تو تم میرا بیٹا عامر کیوں نہیں دیکھ لیتے ۔۔

یہ بات ابھی  صرف تمہارے اور میرے درمیان رہے گی تم چاہو تو اپنی بیوی سے ڈسکس کر سکتے ہو ۔میں نے اپنی بیوی سے بات کی ہے اسے بھی  فردوس بہت اچھی لگتی ہے اور عامر  ڈاکٹر بن رہا ہے   وہ بھی پڑھنے میں بہت اچھا ہے اس کا فیوچر بہت برائٹ ہے ۔ وہ تمھاری بیٹی فردوس کو بہت خوش رکھے گا اور دوسری طرف تم بھی عامر  کو کس قدر پسند کرتے ہو تم تو اسے بچپن سے کہتے ہو اپنا بیٹا تو پھر اسے مستقل اپنا بیٹا بنا لو اپنا داماد  بنا کر ۔۔

میری بہت خواہش ہے کہ فردوس جیسی لڑکی  میرے  گھر کی بہو بنے ۔۔

تمہاری آدھے سے زیادہ ذمہ داری اور پریشانی میں نے ختم کردیا ہے اب تم بغیر کوئی بہانہ کیے فردوس کو یونیورسٹی جانے کی اجازت دے دو ۔۔

یوسف صاحب نے بغیر کوئی بات لمبی کیے صاف اور واضح الفاظ میں باتیں  رکھیں جبکہ رضا  تو حیرانی سے یوسف صاحب کو دیکھتے رہ گے ۔۔

وہ تو عامر  کو واقعی بچپن سے بے حد پسند کرتا تھا ۔اور اب اتنی اچھی پیشکش ۔۔۔وہ  چند لمحے سوچتا رہا اس کے بعد کہنے لگا ٹھیک ہے میں اسے یونیورسٹی کی اجازت دے دوں گا ۔۔۔۔

کیا واقعی ؟؟

یوسف صاحب ایک دم خوش ہو گئے ۔۔

انہوں نے بات کچھ اس طرح سے کی کہ رضا کو اس بات کا شک ہی نہیں ہوا کہ فردوس اور ان کے درمیان میں یونیورسٹی کی کوئی بات ہوئی ہے ۔۔

تم چاہو تو  ابھی بھابھی کو بتا دو  جو ہماری بات ہوئی ہے ۔۔

رضا نے یوسف صاحب کی بات پر کچھ نہیں کہا  وہ رابیہ کو اتنی اہمیت دیتا ہی کب تھا  جو  یہ بات بتائے ۔۔

جی جی ضرور میں بتا دوں گا ۔رضا نے کہا ۔۔

یوسف صاحب چند منٹ اور بیٹھنے کے بعد وہاں سے جا چکے تھے ۔۔۔

رات کے کھانے کی ٹیبل کھانے سے بھری پڑی تھی فردوس اور رابیہ مل کر کھانا لگا رہی تھی ۔

رابیہ نے  رضا  کے  پانی کا گلاس بھر کے رکھا اور پھر خود بھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

کھانا خاموشی سے کھایا گیا فردوس کو یہ توقع نہیں تھی کہ رضامان جائے گا وہ یہی سوچ رہی تھی کہ یوسف صاحب بھی رضا کو راضی نہیں کر پائے ہوں گے ۔۔

رضا نے کھانا کھا کر اپنا منہ صاف کیا  ۔۔

فردوس صبح جلدی تیار ہو جانا تمہیں لے کر یونیورسٹی جانا ہے ۔۔

فردوس جو روٹی کا ٹکڑا توڑ رہی تھی رضا کی بات سن کر وہ پلیٹ میں ہی چھوڑ دیا ۔۔

اور بیحد حیرانی سے  آنکھیں پھاڑ کر رضا کو دیکھ رہی تھی جو پانی پی رہا تھا ۔۔۔

دوسری طرف رابیہ  بھی بے حد حیرانی سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی ۔۔

یونیورسٹی میں میری بہت سے لوگوں سے جان پہچان ہے جو تمہارا ایک مہینے کا پڑھائی کا نقصان ہوا ہے وہ پورا ہو جائے گا ۔۔۔

اور ہاں ایک بات میری کان کھول کر سن لو فردوس ۔یونیورسٹی تم صرف اور صرف پڑھنے جاؤں گی ۔۔

 تمھیں میری بات سمجھ آ رہی ہے نہ میں تمہیں کیا سمجھانا چاہ رہا ہوں صرف اور صرف پڑھنے ۔۔

تمہارا اسکول اور کالج ہمیشہ سے ہی گرلز  میں رہا ہے اور میں یہ بات بالکل برداشت نہیں کروں گا کہ میں تمہارے خلاف کوئ بھی فضول بات  سنو ۔۔

اگر میں نے کچھ بھی الٹا سیدھا سنا یا دیکھا یا محسوس کیا تو اسی وقت تم  گھر میں بیٹھ جاؤ گی اور  پھر بھاڑ میں گئی تمہاری باقی کی پڑھائی  مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔اب   یہ تمہارے اوپر ہے ۔

اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو اب تم بڑی ہو رہی ہو میرا جہاں دل چاہے گا جس سے دل چاہے گا جو مجھے تمہارے لیے پسند آئے گا میں تمہاری شادی اس سے کروں گا اور تمہاری شادی کے معاملے میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا یہ بات یاد رکھنا ۔ لڑکا میری پسند کا ہوگا اور تمہیں وہ ہر حال میں قبول کرنا ہوگا  ۔۔

یہی میری شرط ہے اور تمہیں ہر حال میں  اسے قبول کرنا ہوگا ۔۔ہر حال میں ۔۔

وہ کرسی گھسیٹتے ہوئے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا جبکہ فردوس بے حد حیرانی سے اپنے باپ کو دیکھتی رہی ۔۔۔

فردوس نے  تیزی سے گردن موڑ کر اپنی ماں کو دیکھا ۔۔

امی آپ نے سنا بابا نے کیا کہا ۔۔

اس کے دونوں گال خوشی سے گلابی ہو گئے تھے ۔۔

اس کے چہرے سے خوشی واضح تھی ۔۔

اس کا باپ جو ابھی شادی کا کہہ  کر  گیا تھا اسے  اس کی پرواہ نہ تھی وہ تو اسی بات سے انتہائی خوش ہوگئی تھی کہ اسے پڑھنے کی اجازت مل گئی ہے ۔۔

فردوس کا خوبصورت سا  چہرہ سرخ ہو کر چمکنے لگا ۔سبز رنگ کی آنکھوں میں خوشی کے مارے  ہلکے ہلکے آنسو آ گئے تھے ۔۔

خوشی کے مارے فردوس نے اپنا کھانا ہی چھوڑ دیا اور فٹافٹ  کچن میں چلی گئی ۔۔

فردوس اپنا کھانا تو مکمل کرتی جاؤ رابیہ نے آواز دی ۔۔

میرا پیٹ پورا کا پورا بھر گیا  ہے امی مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی ۔۔

یہ سب کچھ یوسف صاحب کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔

وہ کچن میں خوشی کے مارے چکر لگاتے لگاتے  سوچ رہی تھی ۔۔

رابیہ برتن اٹھا کر کچن میں آئی تو وہ کچن کے چاروں طرف گھوم رہی تھی۔۔

رابیہ کو آتا ہوا دیکھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف دوڑی ۔۔

امی امی امی ۔۔

یار امی ۔۔۔

میں۔۔۔

 میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کتنی زیادہ خوش ہوں ۔وہ زور سے رابیہ سے لپٹ گئی تھی ۔۔

دوسری طرف رابیہ بھی بے حد خوش تھی ۔۔

امی میں بہت  ہوں ۔۔ ۔۔۔

اچھا  لڑکی  تھوڑا سا دور تو ہو ۔ چھوڑو مجھے سالن  رکھنا ہے  ورنہ گر جائے گا سارا رابیہ نے مسکرا کر کہا ۔۔

او میرے ساتھ کمرے میں  مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے رابیہ  فردوس کو اسکے  کمرے میں لے گئی ۔

تم نے سنا نہیں فردوس تمھارے بابا نے تم سے کیا کہا ہے ۔۔۔

کیا کہا ہے امی ؟؟

وہ دوسری بات جو تمہارے بابا نے تمہیں سمجھ آئی ہے ۔۔

رابعہ نے اسے نرمی سے سمجھایا ۔۔

آپ بالکل فکر نہیں کرے امی مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ میری شادی کسی سے بھی کرے ۔میں کسی کو پسند نہیں کرتی شادی تو مجھے آپ کی اور ابو کی مرضی سے ہی کرنی ہے ۔پھر کیا فرق پڑتا ہے کسی نا کسی  سے ہو جائیں 

گی اور میں اس کا بلکل نہیں سوچ رہی اگر شادی بابا اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں تو بالکل کر دے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں راضی ہوں ۔۔

میں تو بس اس بات سے بے حد خوش ہوں کہ مجھے بابا نے پڑھنے کی اجازت دے دی ہے اور میری یونیورسٹی شروع ہو گئی ہے ۔۔

فردوس تمہیں پتا ہے نا تم کیا کہہ رہی ہو ۔۔

جی امی مجھے معلوم ہے ۔ویسے بھی میں کسی کو پسند کرتی نہیں ہو تو پھر کیا فرق پڑتا ہے ۔بابا کیسے بھی کر دیں ۔میں کر لوں گی ۔۔

تمہیں یونیورسٹی کے اندر اس چیز کا بے حد خیال رکھنا ہوگا فردوس ۔۔

 جتنا ہو سکے لوگوں سے دور رہنا تمہاری جن سے  دوستی ہیں بس ان سے ہی دوستی برقرار رکھنا ۔کوشش کرنا کہ لڑکوں کی دوستی سے بہت دور رہو ۔اچھے  دوست بنانا اچھی صحبت میں رہنا ۔۔

جی امی  آپ بالکل فکر نہیں کریں ۔۔

اور ویسے بھی میں تو بہت کم دوست بناتی ہوں ۔۔

یونیورسٹی میں بھی نور ہوں گی تو اس سے ساری چیزیں لے لوں گی ۔۔

اور باقی وہاں جو ٹیچرز ہو گئی ان سے تھوڑی ہیلپ  لے لونگی  تو کور ہوجاۓ گا  ۔۔

اب بالکل فکر نہ کریں ۔۔

فردوس نے نرمی سے اپنی ماں کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر انہیں مطمئن کردیا تو وہ  مسکرا دیں ۔۔۔

ہمیشہ یوں ہی مسکراتی رہو اور دل لگا کر پڑھو ۔۔

ویسے  فردوس مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی تمہارے بابا مان کیسے گئے ۔۔ 

امی وہ جو آج شام میں یوسف صاحب آئے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا یونیورسٹی کا تو میں نے انہیں نہیں بتایا پھر انہوں نے بعد میں بہت زیادہ اصرار کیا کہ میں انہیں سچ بتاؤ تو پھر میں نے انہیں سچ بتا دیا ۔۔

اور پھر وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ وہ با با  سے  میری  پڑھائی کے بارے میں بات کریں گے ۔۔

اور دیکھیں یوسف صاحب نے بابا  کو کتنی جلدی  راضی کر لیا اور وہ مان گئے ۔۔۔

یہ سب  صرف اور صرف انکی وجہ سے ہوا ہے اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں آگے نہ پڑھ  پاتی ۔۔

یہ تو یوسف بھائی نے بہت نیکی کا کام کیا ہے ۔تمہیں جب بھی موقع ملے تو بہت اچھے طریقے سے یوسف صاحب کا شکریہ ادا کرنا ۔۔۔

آج فردوس کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا وہ صبح صبح اٹھ کر یونیورسٹی کے لئے تیار ہو رہی تھی ۔۔۔

آج اس نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا ۔۔

اور بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا ۔۔

نیچے رضا گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا ۔۔

چھوڑنے اس کو صبح رضا جائے گا اور لینے کے لئے اس کا ڈرائیور اور اگر ڈرائیور نہ ہو تو اس کی ماں اس کے علاوہ فردوس اپنی کسی دوست کے ساتھ بھی نہیں آ سکتی یہ رضا نے  سختی سے سمجھا دیا تھا کے وہ نہ ہی کسی دوست کے بھائی کے ساتھ اور نہ ہی کسی لڑکے  کی گاڑی میں بیٹھ کر آے گی پھر چاہے  وہ اس کو بھائی ہی کیوں نا  بولتی ہو ۔۔

سارے راستے رضا خاموش رہا  جبکہ فردوس اپنے باپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر اپنے باپ کے سخت رویے کی وجہ سے وہ بھی  خاموش رہی ۔۔

یونیورسٹی کے دروازے کے باہر گاڑی رکی ۔۔

یونیورسٹی کے براؤن رنگ کا بڑا سا گیٹ اور دیوار کے  اوپر بڑا بڑا لکھا ہوا یونیورسٹی کا نام اسٹوڈنٹس کا رش  گاڑیاں اور لڑکوں کی بائیکس سارے سٹوڈنٹ اپنے ہاتھوں میں کتابیں اور بیگز لئے  ادھر ادھر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔۔

فردوس بھی  اپنا بیگ لے کر اتر نے لگی  ۔۔

یونیورسٹی  کی کلاسز جیسے ہی ختم ہو ویسے ہی ڈرائیور  کو فون کر دینا ۔۔

اور جب تک ڈرائیور باہر نہیں آ جاتا باہر نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے رضا نے ا  سے سختی سے سمجھایا ۔۔

جی بابا ۔۔۔

جاؤ اندر میں کھڑا ہوں دیکھ رہا ہوں تمہیں ۔۔

وہ گاڑی سے اتری اور تیزی سے  یونیورسٹی کے اندر چلی گئی ۔۔

رضا کی فردوس کی یونیورسٹی میں جان پہچان بہت سارے ٹیچرز پروفیسر  اور پرنسپل سے تھی ۔۔

لہذا اس نے شروع کے دو لیکچر اٹینڈ نہیں کیے تھے ۔۔

وہ مختلف ٹیچر ز  سے مل کر اپنی پڑھائی کا وہ نقصان پورا کر رہی تھی جو اس ایک مہینے کے دوران اس کا ہوا تھا ۔۔

اس کے علاوہ کچھ اور ایسے سٹوڈنٹ بھی تھے  جو کسی نہ کسی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہو گئے تھے ۔۔

مگر وہاں  کے ٹیچرز پرنسپل نے ان سب کا  بھرپور ساتھ دیا ۔۔

تیسرے لیکچر کا جب ٹائم ہوا تو وہ    سر عاطف  کے ساتھ ان کے آفس سے نکلتی ہوئی انہی کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی آ رہی تھی ۔۔۔

وہ پروفیسر عاطف کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے ڈیپارٹمنٹ تک جا  رہی تھی جو اسے اس کی کلاس تک لے جا رہے تھے ۔۔

قریب ہی لڑکو کا ایک گروپ بیٹھا تھا جس میں  لڑکے آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔۔

جب کہ سیاہ رنگ کی شرٹ میں ملبوس لڑکا اپنے برابر والے دوست کی بک پر کچھ لکھ رہا تھا ۔۔سیاہ رنگ کی شرٹ میں ملبوس لڑکے  کی آنکھیں بہت پر کشش تھی ۔۔گھنے گھنے سے بال اور چہرے پر خوبصورت سی  داڑھی ۔آنکھوں میں شرارت اور چہرے پر جوانی کا بھر پور  روپ  ۔۔۔

سامنے سے پروفیسر عاطف چلتے ہوئے آرہے تھے اور ان کے ساتھ کوئی لڑکی تھی جس نے ہرے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔۔

سیاہ رنگ کی   شرٹ پہنے ہوئے لڑکے نے پروفیسر عاطف کو دور سے آتا  دیکھا ۔۔

وہ کسی سٹوڈنٹ سے بات کرتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔لڑکی کا چہرہ واضح نہیں تھا ۔۔

کوئی نیا سا چہرہ تھا جسے وہ اتنی جلدی پہچان نہیں پایا اور اٹھ کر سر کے پاس جانے لگا مگر وہ ڈیپارٹمنٹ کی طرف مڑ گئے ۔۔

سیاہ رنگ کے لباس والے  لڑکے نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو تیسرے لیکچر کا  ٹائم ہو رہا تھا ۔۔

کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے تم لوگوں نے کلاس نہیں لینی کیا ۔۔ ؟؟

اس نے  اپنا بیگ اٹھا کر ایک کندھے پر ڈالا اور بڑی شان سے چلتا ہوا اندر ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا ۔۔

وہ کلاس کے  اندر چلا گیا جبکہ پروفیسر عاطف  ابھی تک اسی لڑکی سے بات کر رہے تھے اس لڑکی کے ساتھ اب کوئی اور لڑکی بھی تھی۔۔۔ ماہ نور ۔۔۔

یہ لیکچر سر  عاطف کا تھا اور اسے سرسے ضروری کام تھا اسے اپنے نوٹ چیک کروانے تھے ۔۔

وہ ایک بار پھر سے سر  کے پاس جانے لگا پھر سوچ کر دوبارہ اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔آہستہ آہستہ بہت سارے سٹوڈنٹ کلاس میں جمع ہوگئے اور کلاس ایک دم بھر گئی ۔۔

دس منٹ کے بعد سر عاطف فردوس  اور نور کے ساتھ کلاس میں داخل ہوئے ۔۔۔

گڈ مارننگ اسٹوڈنٹس کیسے ہیں آپ سب ۔۔۔

گڈ مارننگ سر ۔۔۔

ان سے  ملیں یہ نئی  سٹوڈنٹ ہیں ان کا نام ہے "فردوس رضا" آج سے  یہ  بھی آپ سب کو جوائن کریں گی ۔۔

سر عاطف نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ 

فردوس نور کے برابر میں جا بیٹھی ۔۔

"علی خاور " نے اس لڑکی پر  زیادہ دیہان نہیں  دیا ہر ایک ہفتے یہ دس دن میں کوئی نہ کوئی  نیا  سٹوڈنٹ ضرور آتا تھا ۔۔

علی خاور کا تمام  دھیان سر  عاطف کے لیکچر پر  تھا کلاس کے اختتام پر "علی خاور "نے اپنے نوٹس جاکر سر عاطف کو دکھانے چاہے وہ اس وقت اپنے آفس میں موجود تھے  ۔کچھ سٹوڈنٹس آفس میں  پہلے ہی موجود  اپنا اسائنمنٹس دیکھا رہے تھے  ساتھ  میں فردوس بھی تھی ۔۔

کمرے کا دروازہ کھلا اور سیاہ رنگ کی شرٹ میں ملبوس وہ  پرکشش لمبا لڑکا   اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔

تھینک یو سو مچ سر وہ دونوں لڑکے سر کا  شکریہ ادا کرتے  ہوئے کمرے سے باہر چلے  گئے  جبکہ علی خاور  دروازے کے کنارے پر کھڑا تھا ۔۔

ارے علی اؤ ۔۔۔اندر اؤ ۔۔میں ا بھی تمہیں بھلانے ہی  والا تھا ۔۔

اندر آؤ یہاں بیٹھو تمہاری کچھ مدد چاہیے ۔۔۔

وہ سبز رنگ کے کپڑوں والی لڑکی آج تیسری بار ا سے  ملی تھی ۔۔

مگر نہ ہی تو وہ  اسے صحیح طرح سے دیکھ پایا تھا اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی کوئی بات ہوئی تھی ۔۔

علی  یہاں بیٹھو فردوس سیدھے ہاتھ والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی جبکے علی دوسری   کرسی پر جا بیٹھا ۔۔

سر میرا  اسائنمنٹ  کمپلیٹ ہو گیا ہے آپ ایک بار اسے چیک کرلیں  اور پھر مجھے بتائیں اس میں کوئی کمی تو نہیں ہے ۔۔۔

وہ سر سے بات کر رہا تھا اسے  اپنے  برابر میں بیٹھی ہوئی لڑکی سے کوئی سروکار نہ تھا۔۔

دوسری طرف فردوس اپنے بیگ  میں سے چند کتابیں نکالے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

اچانک علی خاور کی نظر اپنے برابر میں بیٹھی ہوئی سبز رنگ کا  لباس پہنی ہوئ لڑکی کے ہاتھوں پر پڑی اس لڑکی کے ہاتھ   بہت   صاف ستھرے تھے اور تیسر انگلی میں اس نے ایک باریک انگوٹھی پہن رکھی تھی ۔وہ لڑکی اپنی کتاب کے اوپر لکھے ہوئے اپنے نام پر انگلی پھیر  رہی تھی ۔۔

علی خاور کی نظر ایک بار پھر سے اس کی انگلی پر پڑی وہ  اپنے نام پر یونہی  انگلی پھیر  رہی تھی ۔۔

کتاب پر نام لکھا تھا ۔۔۔

فردوس ۔۔

علی خاور نے بے آواز اس کا نام دہرایا ۔۔۔

فردوس ۔۔۔

فردوس ۔۔سر نے اسے پکارا ۔۔

جی سر ۔۔

ان سے ملو یہ ہماری کلاس کے بہت قابل لڑکے ہیں علی خاور ۔ان کی جو بھی کارکردگی ہم نے ابھی تک دیکھی ہے وہ قابل تعریف ہے ۔۔

آپ اپنے سارے نوٹس کے لیے جو آپ کے پاس انکمپلیٹ ہیں وہ آپ علی خاور سے لے کر مکمل کر سکتی ہیں  ان کا کام بہت اچھا ہوتا ہے  اور یہ  آپ کو بہت اچھا گائیڈ  کریں گے اور اگر اس کے بعد بھی آپ کو کوئی مسئلہ ہو تو آپ میرے پاس آ سکتی ہیں جب تک میں آپ کو کچھ اور امپورٹ ٹوپک اور پوائنٹ  بتا دیتا ہوں ۔۔۔

سر اپنی کرسی گھسیٹتے ہوئے اٹھے ۔اور سامنے والے شیلف میں سے اپنی کچھ کتابیں نکالنے لگے ۔۔

پھر کچھ کتابیں  ایک فولڈر نکال کے فردوس کے سامنے رکھا ۔۔

فردوس یہ  سارے امپورٹنٹ ہیں اس  سے آپ کی ہیلپ ہو سکتی ہے ۔

 اور باقی آپ کو علی خاور گائیڈ کر دے گے ۔۔

میری ایک کلاس ہے میں چلتا ہو ۔ 

اور   فردوس اپ کو دوبارہ بلاؤں گا آپ میرے آفس میں آئے گا میں آپ کو سر حسن  اور مام رضیہ سے بھی ملا دونگا ۔ ۔۔

جی سر ۔۔

 سر اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کمرے سے نکلنے لگے تھے جب کہ علی خاور اپنے  کچھ نوٹس  نکال کر ٹیبل پر رکھ رہا تھا ۔۔۔

یہ سر عاطف کے اور مام  رضیہ کے نوٹس  ہیں ۔۔ کہتے کہتے علی خاور کی نظر فردوس پر اچانک پڑی  ۔۔

فردوس  نے اچانک نظر اٹھا کر علی خاور  کو دیکھا ۔۔

وہ جو باقی کے نوٹس  نکال کر ٹیبل پر رکھ رہا تھا  فردوس کی سبز   آنکھوں میں دیکھ کر یوں لگا  جیسے اس کے  ہاتھ خود بخود رک سے گئے ہو وقت چند لمحوں کے لیے تھم سا گیا ہو   ۔۔

وہ بغیر کچھ کہے بس اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔۔

سبز رنگ کی آنکھوں میں ہلکا ہلکا کاجل تھا ۔۔

اوکے تھینک یو سو مچ ۔۔فردوس کا سارا دھیان اب نوٹس پر تھا جبکہ علی خاور کو اپنی حرکت پر شرمندگی سی محسوس ہوئی تھی ۔۔ 

وہ  بڑی دیر سے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش میں تھا بھی اور شاید  نہیں بھی  ۔۔۔

مگر وہ اب اس کے بالکل سامنے بیٹھی تھی اور اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔

تو ایسا لگتا تھا جیسے چند لمحوں کے لیے چیزیں رک سی گئی ہو ۔۔

میں یہ سا رے نوٹس کاپی کر کے آپ کو جلدی دے دونگی 

تھنکس ۔۔

وہ جانے لگی ۔۔

فردوس۔۔ ۔ ۔

علی خاور نے پہلی بار اس کا پکارا ۔۔

 آپ ،جناب، تم، سب کچھ کہے بغیر  اس کا سیدھا سیدھا اس نے نام لیا تھا ۔یوں جیسے اجنبیت کی دیوار گرا نہ چاہ رہا ہوں ۔۔

وہ پلٹی ۔۔جی ۔۔۔

تمہیں کچھ بھی مجھ سے پوچھنا ہو یہ کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے کہہ سکتی ہو ۔۔

میرا نام" علی خاور" ہے ۔۔

بہت شکریہ آپ کا ۔۔علی خاور ۔۔۔

وہ نوٹس لے کر اب جا چکی تھی ۔۔

نہ جانے اس لڑکی میں ایسا کیا تھا کہ وہ بار بار اس کی طرف متوجہ ہو رہا تھا ۔۔

ایک بار نہیں دو بار نہیں کہیں بار اسے دیکھنے کا دل چاہتا تھا ۔۔۔

وہ دروازہ کھول کے کمرے سے جا چکی تھی جب کہ وہ وہی کھڑا رہا ۔۔

ذہن میں ایک بار پھر اس کا نام دوہرایا ۔۔

"فردوس" ۔۔۔

یونیورسٹی کی  کینٹین اسٹوڈنٹ سے بھری پڑی تھی سارے سٹوڈنٹ ٹولو  کی صورت میں جگہ جگہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

ایسے میں فردوس نور اور نور کے کچھ باقی کے دوست اور اس کا کزن  یاسر  جو کہ اس کا منگیتر بننے والا تھا چوتھی ٹیبل  پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

یاسر نے اپنی دوست علی خاور  کی جگہ چھوڑی ہوئی تھی جبکہ فردوس کو  یہ یونیورسٹی کا اتنا کھلا ماحول کچھ عجیب سا لگ رہا تھا جبکے نور تو ایک مہینے میں اس  ماحول  کی عادی ہوگئی تھی مگر فردوس کا پہلا دن اسے یوں لگ رہا ہے جیسے وہ کسی الگ ہی  دنیا میں آ گئی ہو لڑکے اور لڑکیاں آپس میں باتیں کرتے ہوئے ساتھ کھا پیی رہے تھے پڑھ لکھ رہے تھے ۔ کچھ صرف ایک دوسرے کے  دوست بن  جاتے تو کچھ کے بہت خاص دوست  ۔۔

فردوس  نور کے ساتھ بیٹھی ہوئی جوس پی رہی تھی ۔۔

جبکہ نور کا   ہونے والا منگیتر یا سر اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ بات کر رہا تھا ۔۔

ایسے میں دو لڑکے سامنے سے چلتے آ رہے تھے جس میں ایک علی خاور تھا ۔

ٹیبل پر پڑنے والی پہلی نظر میں اسے جو چیز  سب سے دلچسپ دکھائی دی وہ  وہاں بیٹھی فردوس تھی وہ سبز آنکھوں والی اور سبز لباس والی ۔۔۔

اس ایک مہینے میں نور  کی علی خاور کے ساتھ بات چیت بہت اچھی ہو گئی تھی ۔۔

وہ ایک اچھی فیملی کا پڑھا لکھا اچھا تمیزدار لڑکا تھا اس کے بابا پاکستانی  آرمی میں تھے جو کے شہید ہو چکے تھے جب وہ صرف بارہ سال کا تھا ۔۔

 یاسر اور علی خاور بیسٹ فرینڈ بھی  تھے ۔۔

علی خاور اپنا بیگ کندھے  پر درست کرتا ہوا  اسے ٹیبل کی طرف آیا جہاں آج ایک نیا اور بے حد خوبصورت اضافہ ہوا تھا ۔۔

وہ سبز رنگ کے لباس والی لڑکی نور کے ساتھ  بیٹھی جوس  پی رہی تھی ۔۔۔

وہ سیدھا چلتا ہوا اپنی جگہ پر آیا اور یاسر  کے برابر میں بیٹھ گیا  جہاں وہ ہمیشہ بیٹھتا تھا ۔۔

علی خاور کے  سامنے والی کرسی کے بالکل سامنے فردوس  بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے برابر میں نور  جو  اس سے باتیں کر رہی تھی ۔۔۔

چند لمحے وہ  خاموش بیٹھا اس کی سبز  آنکھوں کو ہی دیکھتے رہا آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کی نظر اس کے  سبز  رنگ کے لباس پر  گئی ۔۔

نور تم نے ہمیں بتایا نہیں کے فردوس  تمہاری بہت اچھی  دوست ہے وہ بھی پہلے سے علی خاور نے کہا ۔۔ 

ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں   کہ فردوس میری بہت اچھی دوست ہے اور جہاں تک رہی بتانے کی بات  تو مجھے کبھی موقع ہی نہیں ملا فردوس کے بارے میں کسی کو  کچھ بتانے کا اور اس نے یونیورسٹی ایک مہینے بعد جوائن کی ہے تبھی  سب کو معلوم ہوا ہے  کے ہم پہلے سے دوست ہیں ۔۔

اچھا تو فردوس  نور اور تم کتنی  پرانی  دوست ہو ؟؟؟

وہ اب  براہ راست فردوس کو دیکھتے ہوئے اس سے خود سوال کر رہا تھا ۔۔۔

علی خاور نے جب اس سے براہ راست بات کی تو  لمحہ بھر میں  فردوس کے کانوں میں اس کے باپ کے الفاظ گونجنے لگے ۔۔۔

تم یونیورسٹی صرف اور صرف پڑھنے جاؤں گی تمہارے متعلق مجھے کسی قسم کی کوئی فضول خبر سننے کو نہ ملے ورنہ میں تمہاری پڑھائی چھوڑ وا  کر تمہیں گھر بٹھا دوں گا اور اپنی مرضی کے  کسی بھی لڑکے  سے تمہاری شادی کرنے میں ذرا دیر  نہیں لگاؤں گا ۔۔

یہی الفاظ  اس کے  کانوں میں گونج رہے تھے جبکہ  علی خاور  نے اسے غور سے دیکھا وہ کچھ سوچ رہی تھی ۔۔

فردوس ۔۔۔

علی خاور نے ایک بار دوبارہ سے اس کا نام پکارا ۔۔

تو وہ جیسے چونک اٹھی اور آنکھیں اٹھا کر ایک نظر علی  کو دیکھا ۔۔

 فردوس کی آنکھوں میں نہ جانے ایسا کون سا ڈر تھا جو وہ اتنی  جلدی  ایک دن میں سمجھ نہیں پایا تھا ۔۔۔

تم  نے مجھے بتایا نہیں ۔کیا  تمہارا  اور نور کا ا  سکول اور کالجز دونوں سیم تھا ۔۔؟؟

ہاں ہمارا اسکول اور کالج دونوں سیم تھا نور نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔اور ہم دونوں ساتھ ہی بیٹھے تھے پھر چاہے اسکول ہو یا کالج اور  یونیورسٹی میں بھی ۔۔

فردوس نے نور  کو دیکھا اور پھر آہستہ سے مسکرائی جبکہ علی خاور اس بات پر حیران تھا کہ وہ اتنی چپ چپ  سی کیوں ہے  وہ کیوں  بات کرنے میں کبھی پہل نہیں کرتی ۔۔

وہ سارے ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے جب کہ فردوس  خاموشی سے بیٹھی رہی تھی ۔اور اگر یاسر فردوس سے کچھ کہتا تو وہ، جی، ہاں، ٹھیک ہے میں بس جواب دے دیتی تھی ۔اور بات ختم کر دیتی تھی ۔۔

علی خاور نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھا اس کی  فٹبال کلاس کا ٹائم ہو رہا تھا ۔۔

چلو دوستو میں چلتا ہوں مجھے  پریکٹس  کے لئے جانا ہے ۔۔

علی خاور نے اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا ۔۔

پھر چند منٹ کے لئے اسے  شرارت کی سوجی ۔۔

ویسے نور مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا  ۔۔

جی ہاں بالکل پوچھ سکتے  ہیں ۔۔

وہ مجھے پوچھنا یہ تھا کہ کیا تم لڑکیوں میں آج کل کوئی نیا فیشن آیا ہے ۔۔؟؟

نیا فیشن سے کیا مراد ہے تمہاری  میں کچھ سمجھ  نہیں  پائی ۔

 میرا مطلب نیا فیشن  اس طرح سے کے میں  دیکھ رہا ہوں کہ آج کل لڑکیاں اپنے آنکھوں کے رنگ کے کپڑے پہننے لگی ہیں ۔۔وہ فردوس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

نور نے جلدی سے فردوس کی طرف دیکھا اور  پھر علی کو دیکھ کر مسکرائی جبکہ فردوس  یوں اچانک علی  کی بات سمجھ نہیں پائی  تھی ۔۔

اور جب وہ علی  کی بات سمجھ پائی   تھی تو وہ اپنا بیگ کندھے پر اٹھا کر جا چکا تھا ۔۔۔

جب کہ فردوس نے  گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا ۔۔

علی خان نے بھی گردن موڑ کر فردوس کو دیکھا  اسی لمحے  دونو ں کی نظریں ملیں  تو فردوس نے  تیزی سے اپنا چہرہ آگے کو کیا ۔۔۔

"بدتمیز "۔۔وہ بولے بنا نہ رہ پائی ۔۔۔

یونیورسٹی کا وقت ختم ہوا تو ڈرائیور اپنے وقت سے  پہلے ہی یونیورسٹی کے باہر کھڑا تھا ۔۔

اس کی  یونیورسٹی کا پہلا دن تھا اور کافی اچھا گزرا تھا اور مصروف بھی ۔۔

کیسا رہا میری بیٹی کا پہلا دن رابیہ نے  مسکراتے ہوئے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

بہت اچھا تھا امی اور بہت مصروف بھی ۔۔

نوٹس وغیرہ تو میں نے لیے ہیں بس جلدی سے کاپی کر کے مجھے واپس کرنے ہیں ۔۔

نور سے لئے ہیں  نوٹس رابیہ  نے کہا ۔۔

نہیں امی سر عاطف نے   کسی لڑکے  سے لے کر دیے تھے کہہ رہے تھے کہ وہ پڑھنے میں بہت اچھا ہے ۔۔

تو سر نے مجھے اسی کے نوٹس دیے ہیں اور میں اسے بہت جلد واپس کر دوں گی ۔۔۔

کوشش کرو کہ کسی لڑکی سے کام لے لو فردوس  رابیہ نے فکر مندی سے کہا ۔۔۔۔۔

امی نے خود تھوڑی نہ مانگے ہیں مجھے تو سر نے  ارینج کر کے دے ہیں اب  میں  سر کو کیا کہتی  ان کے آفس میں کہ آپ مجھے کسی لڑکے  کے  نہیں بلکہ کسی لڑکی کے نوٹس لے دیں کمپین کرنے کے لئے

مجھے تو مجبورا لینا پڑا تھا اور اس لڑکے  کے  نوٹس نور سے  کافی اچھے ہیں نور سے بھی زیادہ اچھا لکھا ہے اس نے  کمپلیٹ کر کے   دے دوں گی خود ہی۔۔۔۔

امی چلیں کھانا کھاتے ہیں بھوک لگ رہی ہے مجھے بہت  ۔۔

ہاں آ جاؤ لگا دیا ہے کھانا  ۔۔

رضا فردوس اور رابیہ آج شام  تیار ہو کر  یوسف صاحب کے گھر کے لئے نکل رہے تھے یوسف صاحب اور ان کی بیوی کی شادی کی سالگرہ تھی ۔۔۔

ہمیشہ کی طرح وہ دونوں فیملیز ایک دوسرے سے بے حد خوشی کے ساتھ ملی تھی ۔۔یوسف صاحب اور رضا کے درمیان ہوئی بات کو رضا  نے ابھی تک نا   رابیہ کو بتایا تھا اور نا فردوس کو اس کی خبر تھی ۔مگر یوسف صاحب نے اپنی بیگم سے وہ بات ضرور شیئر کی تھی اور دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے تھے کہ عامر  فردوس کو شروع سے پسند کرتا ہے ۔۔

فردوس تو یوسف صاحب کو پہلے ہی بہت پسند تھی اور اب تو اور زیادہ اچھی لگنے لگی تھی جب سے رضا  ان دونوں کے رشتے کیلئے راضی تھا  ۔۔۔۔

یوسف صاحب کے  بہت قریبی دوست اور ان کی فیملی ممبرز  ہی بس  شامل تھے ۔

فردوس آمنہ کے پاس کھڑی اس سے ڈھیر ساری باتیں کر رہی تھی ۔۔

ساتھ ہی ساتھ فردوس کو آمنہ  نے اپنی نیو آرٹ کلیکشن دکھائیں جو اس نے پینٹ  کی تھی آمنہ کو پینٹنگز کا بیحد شوق تھا ۔۔

وہ فردوس کو اپنے ساتھ اس کے کمرے میں لے گئے جہاں پر اس نے اپنی ماں باپ کی ایک بہت خوبصورت پینٹنگ بنائی تھی ۔۔

آمنہ پینٹنگ بنانے میں ماہر تھی ۔۔۔

واؤ یہ تو واقعی میں بہت خوبصورت پینٹنگ ہے یار تم نے بہت اچھی بنائی ہے آمنہ ۔

فردوس اس پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جو واقعے میں قابل تعریف تھی ۔۔

میں نے سوچا جب میں پینٹنگ میں بہت اچھی ہو تو کیوں نہ اسی سبجیکٹ  کو آگے لے جاؤ  آمنہ نے کہا  ۔۔

بہت اچھا فیصلہ کیا تم نے دیکھو تو ذرا کتنی ماہر ہو گئی ہو تم اس کام میں ۔۔

تھینک یو سو مچ تم بتاؤ یہ میرے پیرنٹس  پسند تو آئے گی نہ ۔۔؟

تم بے فکر رہو یہ  آنٹی  اونکل کو بہت زیادہ پسند آئے گی ۔۔۔

 جب تمہاری شادی ہو گی تو میں تمہاری بھی ایسی پینٹنگ بنا دونگی تمہارے شوہر کے ساتھ آمنہ نے شرارت سے کہا تو وہ دونوں ہنس پڑی ۔۔۔

ہاں ہاں بالکل بنانا ۔۔

دروازے کے پاس  کھڑا عامر  اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھ کر ان کی باتیں سن رہا تھا ۔۔

آپ اتنا خوش کیوں ہو رہے ہیں میں آپ کی شادی کی پینٹنگ  تھوڑی نہ بنا رہی میں تو اپنی دوست کی شادی کی پینٹنگ بناوگی جب اسکی شادی ہوگی  ۔۔۔

ایسے مت کرنا  یار ایک  میری بھی بنا دینا ۔یہ مت بھولو کہ تمہارا سارا  سامان میں ہی  لا کر دیتا ہوں ۔۔

اور ویسے بھی کل کس نے دیکھا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم مجھے اور فردوس دونوں کو پینٹ  کرو ۔۔۔۔

میرا مطلب ہے الگ الگ عامر نے فورا صفائی دیں جبکہ آمنہ   نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔

پھر اپنے بھائی کو دیکھ کر آہستہ سے مسکرائی ۔۔۔

انشاء اللہ تعالی میں  آپ دونوں کی شادی کی پینٹنگ ضرور بناؤ گی ۔۔

اور مجھے پکا پتا ہے کہ وہ پینٹنگز بہت اچھی ہوگی میرا مطلب الگ الگ  جب آپ دونوں کی شادی ہو گئی ۔۔

چلو آجاؤ باہر چلتے ہیں ۔۔عامر نے کہا ۔۔

آپ جائیں بھائی میں ا  بھی اپنی دوست کو کچھ اور پینٹنگ بھی د کھاؤں گی ۔۔

بابا لوگ  کیک  کاٹنے لگے ہیں آجاؤ پینٹنگ بعد  میں دکھا دینا فردوس کو  تم  ویسے بھی اسے بور  کر رہی ہوں اپنے ساتھ ۔

ہیں فردوس واقعی کیا تم بور ہو رہی ہوں میرے ساتھ  ۔۔۔

ہاں وہ بور ہو رہی ہے تمہارے ساتھ بس بول نہیں رہی ۔۔عامر نے شرا رت کی ۔۔

نہیں آمنہ  ایسی کوئی بات نہیں ہے تم جانتی ہو مجھے تمہاری پینٹنگز کتنی پسند ہیں ۔۔

دیکھا آپ نے ایسی ہوتی ہے  دوستی اپکی طرح نہیں ۔۔

ہاں ہاں ٹھیک ہے اب  چلو ۔۔

یوسف صاحب اور ان کی بیگم اپنی اینیورسری  کا کیک کاٹ  چکے تھے ۔۔

جبکہ فردوس موقع کی تلاش میں تھی کہ اسے موقع ملے اور وہ تیزی سے یوسف صاحب کے پاس جا کر ان کا شکریہ ادا کرے ۔۔

آخر کار اسے  موقع مل ہی گیا تھا ۔۔

انکل ۔۔۔فردوس نے یوسف صاحب کو نرمی سے پکارا ۔۔

وہ اس وقت موبائل پر کسی سے بات کر رہے تھے ۔۔

فردوس  جی بیٹا بولیں  ۔۔

انہوں نے اپنا فون کاٹ دیا تھا اور وہ پوری طرح سے فردوس کی طرف متوجہ تھے ۔۔۔

میں دراصل آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہی تھی ۔صرف اور صرف آپ ہی بابا  کو راضی کر پائیں اور آپ کی وجہ سے مجھے یونیورسٹی جانے کی پرمیشن مل گئی ہے ۔۔اگر آپ نہ ہوتے تو شاید میں یونیورسٹی نہیں  جا پاتی آپ کا بہت بہت شکریہ انکل مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں آپ سے کیسے کہوں ۔وہ آہستہ سے مسکراتے ہوئے یوسف صاحب کو کہہ رہی تھی ۔۔

ارے میرا بچہ اپنے  بابا  کو بھی کوئی تھینک یو کہتا ہے یوں سمجھو جیسے تمہارے ماں باپ ہے  بالکل میں بھی ویسے ہی ہو انہوں نے شفقت سے فردوس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔

میں جانتا  ہوں میری بیٹی پڑھنے میں بہت زبردست ہے اور بہت قابل لڑکی ہے ۔۔

جس طرح میرے لئے  آمنہ ہے اسی طرح سے تم بھی اور  شکریہ کہنے کی کوئی بات نہیں بیٹا بس خوب دل لگا کر پڑھیں اور بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو جایں   ۔۔۔

پھر بھی انکل آپ نے جو کیا ہے وہ میرے لئے بہت بڑا ہے اگر آپ نہ ہوتے تو میں آگے نہیں پڑھ  پاتی اور میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں  بہت بہت اچھا پرفارم  کرونگی   ۔۔

ارے واہ یہ ہوئی نا بات  یوسف صاحب نے مسکرا کر کہا ۔۔

تو فردوس میں مسکرا دیں ۔۔

یہ اتنا زیادہ شکریہ کس چیز کا ادا ہو رہا ہے ۔۔

عامر ایک بار پھر سے یوسف صاحب کے برابر آ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔

یہ میری اور میری بیٹی کی پرسنل بات ہے تم اس میں نہ آؤں ۔۔۔

اچھا عامر  تم فردوس  کو لے کر جاؤ اور اسے جوس پلاؤں جب تک میں اپنی بیگم کے پاس سے آتا ہوں ۔ چلو بیٹا  میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں  ۔

جی نکل ۔۔۔

ویٹر عامر نے ویٹر  کو اپنے قریب بولا کر ٹرے سے دو گلاس جوس کے اٹھائے اور ایک فردوس کی طرف بڑھایا ۔۔

بہت شکریہ  فردوس نے ان کے ہاتھ سے وہ گلاس  لے لیا ۔۔

تمہاری یونیورسٹی کیسی چل رہی ہے فردوس ؟؟

اگر تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو یا کچھ بھی پوچھنا ہو سمجھنا ہو تو تم  میری ہیلپ لے سکتی ہو ۔۔۔

بہت شکریہ آپ کا اور یونیورسٹی ٹھیک جا رہی ہے بالکل ۔۔۔

اور بتاؤ کیا مصروفیات ہیں تمہاری آج کل ۔۔

عامر نے ذرا سی بات لمبی کرنی چاہی کہ وہ اس کے ساتھ تھوڑا اور وقت گزارے ۔۔۔

فی الحال تو یونیورسٹی پڑھائی اور گھر ۔۔فردوس نے کہا ۔

اور بتاؤ کچھ ۔۔۔

اور کچھ نہیں ۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے خاموش ہوگئی تھی ۔۔

مجھ سے نہیں پوچھو  گی کہ میری کیا مصروفیات ہے ۔۔۔عامر نے پھر کوشش کی ۔۔

وہ ذرا سی شرمندہ ہو گئی آپ کی کیا مصروفیات ہیں ۔فردوس نے عامر  کے کہنے پر اس سے پوچھ لیا تو  وہ  مسکرایا ۔۔۔

فردوس۔۔۔۔

 ہم ایک  دوسرے کو بچپن سے جانتے ہیں بچپن سے ہمارا  ایک  دوسرے کے گھر میں آنا جانا ہے مگر پتہ نہیں کیوں تم ہمیشہ مجھ سے بات کرتے ہو ے ڈرتی ہو یا  کنفیوز ہو جاتی ہو  تم خود سے کوئی بات ہی نہیں کرتی میں کرتا ہوں تو محتصر جواب  دینے کے بعد چپ ہو جاتی ہو  ۔۔عامر نے کہا ۔۔

فردوس اس  کی بات پر اور زیادہ کنفیوز ہو گئی اور پھر کہنے لگی ۔۔

میرے پاس کوئی بات ہی نہیں ہوتی کرنے کے لئے ۔۔اور آپ کی بات کا جواب تو دے دیتی ہوں میں  ۔۔

فردوس کے جواب پر عامر  مسکرانے لگا۔۔ ۔۔

فردوس بات تب ہوتی ہے جب ہم ایک دوسرے سے  بات کرتے ہیں اور باتوں سے ہی تو بات نکلتی ہیں جب تم کچھ بولو گی نہیں بات نہیں کرو گے تو باتیں کیسے  ہونگی ۔۔۔

 چھوڑ و۔۔۔مزید پریشان مت ہو  عامر مسکرایا ۔۔

اور میرا یہ کہ میں تو بس آج کل بہت ہی بزی ہوں میڈیکل کی پڑھائی ہے جو کہ بہت ٹف  ہے ۔۔

کچھ سال بعد  میرا میڈیکل کمپیٹ ہو جائے گا تو پھر تم مجھے ڈاکٹر عامر  کے نام سے پکارو گی ۔۔

فردوس عامر کی بات پر آہستہ سے مسکرائ ۔۔۔

انشاءاللہ نہیں کہوں گی ۔۔عامر  اس کی آنکھوں میں دیکھتے  ہوئے نرمی سے کہنے لگا ۔۔

انشاءاللہ ۔۔وہ آہستہ سے بولی ۔۔۔

فردوس کو   یونیورسٹی آتے ہوئے تقریبا ایک  مہینے ہونے والا  تھا وہ اب یونیورسٹی کے ماحول میں آہستہ آہستہ ڈھلتی جا رہی تھی ۔۔ 

رضا کی لگائی گئی پابندیاں اور سختیاں وہی پہلے جتنی  سخت  تھی ۔۔

یونیورسٹی کی دوسری کلاس کا وقت ہو چکا تھا سٹوڈنٹس  آہستہ آہستہ ایک بار پھر سے کلاس کے اندر جمع ہوگئے تھے ۔۔۔

فردوس  دوسری کلاس میں ہمیشہ کی طرح نور کے ساتھ ہی بیٹھی تھی جبکہ علی خاور یاسر کے ساتھ ۔

یاسر ۔۔۔

تمہیں نہیں لگتا کہ تمہاری اور نور کی منگنی ہونے والی ہے تو  تم لوگوں کو یونیورسٹی میں تھوڑا ساتھ بیٹھنا چاہیے ۔۔

ہم تو ساتھ ہی ہوتے ہیں ۔یاسر نے حیرانی سے اپنے دوست کو دیکھا جو آج کچھ الگ ہی بات کر رہا تھا ۔۔۔

ہاں ہاں ساتھ تو بیٹھتے ہو میرے  کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جیسے کلاس میں بھی ساتھ بیٹھا کرو محبت بڑھتی ہے اس سے  اور ویسے بھی تم لوگ تو آپس میں کزن بھی ہو اور منگنی بھی کرنے والے ہو  کچھ ٹائم بعد۔۔

پرکشش آنکھیں  اس وقت یاسر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔

او بھائی تمہیں کیا ہو گیا ہے  آج یاسر نے کہا ۔۔

دیکھو دوست مجھے تو تمہیں دیکھ کر بالکل اچھا نہیں لگتا کیوں اپنی جوانی میرے ساتھ بیٹھ کر برباد  کر رہے ہو جاؤ جاکے اپنی  فیوچر وائف  کے ساتھ بیٹھو مجھ میں ایسا کیا ہے جو  تم  روز میرے برابر میں بیٹھ جاتے ہو ۔۔

وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شرارت  سے کہہ رہا تھا جب کے  اس کی نظریں دوسری لائن کی تیسری ڈیسک  پر بیٹھی ہوئی فردوس پر جمی ہوئی تھی وہ  رجسٹر پر تیز تیز  کچھ لکھ رہی تھی ۔۔

میں تو یاسر تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ تم نور کے ساتھ ہی بیٹھا کرو جیسے  فردوس کے انے  سے پہلے بیٹھا کرتے تھے جب سے فردوس آئی ہے نور نے  تو تمہیں منہ لگانا ہی چھوڑ دیا ہے ۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے اچھا ۔۔

بھائی مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے ۔۔

میرا تو مشورہ یہ ہے کہ تم فردوس کو کہہ کر اس کی جگہ پر بیٹھ جاؤ فردوس کہیں بھی بیٹھ جاۓ گی  ادھر میری سیٹ پر  میرے پاس   میرا مطلب کہیں پر بھی ۔۔

یہ جو میں آج کل دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں تو مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے آجکل تم کسی چکر میں ہو ۔۔یاسر نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

اور اگر تمہیں ایسا کچھ لگ رہا ہے تو تمہیں شرم آنی چاہیے چلو  اٹھ جاؤ یہاں سے کچھ میرے بارے میں بھی سوچو ۔۔

تم تو لڑکیوں کو کالج میں منہ نہیں لگاتے تھے اسکول میں تم نے کبھی پوچھا تک  نہیں کے کون لڑکیاں ۔یونیورسٹی کے  پہلے ہی مہینے میں تمہیں تین لڑکیوں نے پسند کیا مگر تم نے ایک کو  بھی بھاؤ نہیں دیا ۔اور اب تم  مجھے یعنی اپنے دوست کو  اٹھا کر  فردوس کو اپنے ساتھ بیٹھنا چاھتے ہو ۔۔

کتنے کمینے ہو یار تم ۔۔

تھنکس ۔۔علی مسکرایا ۔۔

میں امید کرتا ہوں یاسر  تمہیں  تھوڑی سی غیرت آئی ہو گی تو پھر تم اگلی کلاس میں  نور کے ساتھ ہی   بیٹھو گے ۔۔

یاسر نے افسوس  سے اپنے دوست کو دیکھا ۔۔مطلبی ۔۔یاسر بولے بینا نہ رہ پایا ۔۔

اب تم اگلی کلاس میں نور کے ساتھ بیٹھ جانا شرافت سے ۔۔

اگلی کلاس مس رضیہ سلیم کی تھی ۔۔

فردوس اور نور ایک بار پھر سے ساتھ بیٹھ گئی تھی ۔۔

ابھی تم بیٹھ جاؤ یاسر جب  ساری جگہیں بھر جاۓ تب تم جانا تکے وہ کہیں اور نا بیٹھ جاۓ ۔علی نے مسکرا کر رازداری سے یاسر کو کہا ۔۔

انٹی کو بتانا چاہتے کہ ان کا اکلوتا بیٹا کیا کر رہا ہے ۔۔

یاسر پورا تپ گیا تھا ۔۔۔

مجھے میری پسند کی شادی کی اجازت پہلے ہی سے ملی ہوئی ہے لہذا کوئی فائدہ نہیں آگ لگانے  کا ۔

کلاس بھر گئی ہے اب تم جاؤ ۔۔میرے پیارے دوست  

دیکھ بھائی  چپ کر کے بیٹھ جا   اگر میں ابھی   اس کے پاس جاؤں گا تو نور بھی مجھ پر غصہ کرے گی میں خود فردوس سے بات کر  لونگا  مگر اس  کلاس میں نہیں  تو  ابھی چپ کر کے بیٹھا رہ ۔۔

اگلی کلاس میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ابھی تنگ  نہ کرو مجھے ۔۔۔

یاسر نے علی کو صاف انکار کیا کہ وہ اس کلاس میں تو بالکل بھی نور  کے پاس جاکر نہیں بیٹھے گا ۔۔۔

جب تک تم جیسے کمینے دوست  زندہ ہیں دشمن کی کیا ضرورت ہے مجھے علی مکمل تب چکا تھا ۔۔

تھنکس ۔۔۔یاسر بھی اسی کا ہی دوست تھا ۔۔

اگلی  کلاس سر حسن کی تھی اس کلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہی علی کے بہت زیادہ کہنے پر یاسر نے فردوس سے بات کی کہ وہ نور  کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہے ۔۔

وہ کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی کہ یاسر  نے اس کا نام لے کر  اسے پکارا تو وہ روک گئی ۔۔۔

فردوس مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی پانچ منٹ لونگا بس تمہارے ۔۔

جی  بولیں ۔۔

وہ فردوس بات یہ ہے کہ نور مجھ  سے ناراض ہو گئی ہے اور مجھے اس کو منانا ہے وہ میری کال بھی نہیں اٹھا رہی  ہے  اور نہ ہی کوئی میسج کر رہی ہے یاسر نے  اس نے بڑی صفائی سے جھوٹ کہا ۔۔

تم تو جانتی ہو کہ کچھ وقت کے بعد ہماری منگنی ہونے والی ہے ۔۔

اچھا ابھی  تو وہ اپکے ساتھ ٹھیک تھی ۔۔فردوس نے کہا ۔۔

ہاں ہاں ۔۔۔

وہ کیا ہے نہ کہ وہ مجھ سے کسی بات پر اچانک  ناراض ہو گئی ہے ۔کال اٹھا نہیں رہی میسج پڑھ نہیں رہی اورپتا ہے جب وہ مجھ سے ناراض ہوتی ہے اور  میں اس کے گھر   جاتا ہوں تو کمرے سے باہر نکلتی ہی  نہیں ہے ۔۔

 صرف اور صرف یونیورسٹی ہے  جہاں اس  سے ملاقات ہوتی ہے تو سوچا کہ  اسے  فور ا منا لو۔۔۔وہ بڑی صفائی سے تمام  جملے  کہہ رہا تھا جو اسے علی خاور نے رٹو طوطے کی طرح یاد  کروا ے  تھے ۔۔۔

جبکہ وہ خوبصورت لمبا پرکشش آنکھوں والا لڑکا اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اپنے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے اپنے دوست کو جھوٹ بولتے ہوے  دور سے دیکھ رہا تھا جو تھوڑا بہت کنفیوز بھی لگ رہا تھا ۔۔۔

دوسری طرف علی خاور کی نظر کلاس پر  تھی جو کہ آہستہ آہستہ بھر رہی تھی ۔۔ وہ اپنے ارادے میں آدھے سے زیادہ تو کامیاب ہو چکا تھا اس کے چہرے پر بڑی دلکش مسکراہٹ تھی ۔۔۔

یاسر  مسکرا کر فردوس کو دیکھتے ہوئے شاید اس کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور وہ دونوں ہی کلاس کے اندر داخل ہو رہے تھے ۔۔۔

علی خاور  ان دونوں سے پہلے ہی کلاس کے اندر داخل ہو چکا تھا اور اپنی کرسی پر جا بیٹھا تھا ۔۔

جبکہ یاسر آج نور کے پاس بیٹھا تھا ۔۔

خیریت تو ہے آج آپ میری دوست کی جگہ پر کیوں بیٹھے ہیں اپنے بیسٹ فرینڈ علی خاور کو چھوڑ کر ۔۔۔نور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے یاسر سے پوچھنے لگی ۔۔

ہاں میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج  ایک خوبصورت لڑکی کے پاس بیٹھا جائے ۔۔۔

خیریت تو ہے نور نے ذرا حیرانی  سے یاسر کو دیکھا ۔۔

ہاں ہاں سب خیریت ہے تم بس ہمیشہ مجھ پر شک کرتی رہنا۔۔

فردوس کہاں ہے نور نے یاسر کو   دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

فردوس وہ شاید پتا نہیں   یاسر  انجان بنا ۔۔

نور نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ پیچھے کھڑی تھی ۔۔

جبکہ علی منتظر تھا کہ وہ اکر وہاں بیٹھ جائیں گی ۔۔

مگر وہ خود جا کر اس کے پاس نہیں بیٹھی ۔۔

اس کا ارادہ تھا کہ وہ پیچھے جا کر بیٹھ جائے گی مگر پیچھے سے لیکچر  کا سمجھ سے آنا دوبھر تھا ۔۔

اور وہ سارے  لڑکے جو پیچھے بیٹھتے تھے  بہت زیادہ شرارتی تھے ۔۔

فردوس ایسا کر و علی خاور کے پاس بیٹھ جاؤ اس کے پاس جگہ ہے ۔۔

نور چلتی ہوئی فردوس کے پاس آ گئی ۔۔

علی خاور نے دل ہی دل میں نور کو بےحد دعائیں دیں ۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس نے یہ بھی سوچا کہ یاسر سے زیادہ کام تو نو ر نے اس کا آسان کردیا ہے ۔۔۔

علی کے دل میں تو لڈو پھوٹنے لگے تھے ۔۔

فردوس نے  ایک نظر نور کو دیکھا ۔۔

وہ تمہیں تنگ نہیں کرے گا تم اس کے ساتھ بیٹھ جاؤ گی آرام سے  ۔۔

بلکے ایسا کرو تم میرے ساتھ آ کے بیٹھ جاؤ میں یاسر  کو ہٹا دیتی ہوں ۔۔۔

نہیں نہیں تم رہنے دو میں  وہاں  بیٹھ جاتی ہوں۔۔

 اسے اچانک  یاسر کی بات یاد آئی کہ وہ اس سے ناراض ہے ۔۔۔

وہ چلتی ہوئی علی  کی طرف ای تو  وہ ذرا سا پیچھے ہٹ کر اس کو بیٹھنے کی جگہ دے چکا تھا ۔۔

وہ اپنا بیگ بیچ میں رکھ کر اس کے برابر میں بیٹھ گئی ۔۔۔

علی خاور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے سارے دانت کھول کر ہنسے ۔۔۔

اتنے میں پیچھے بیٹھنے والے کچھ  شرارتی لڑکوں کا ایک اور گروپ کلاس کے اندر داخل ہوا اور وہ سب فردوس  کی طرف سے جانے لگے ۔۔

قریب سے گزرتے ہوئے لڑکے نے اسے دیکھ کر آہستہ سے سیٹی بجائی اور اس  کے برابر میں  کھڑا ہوگیا اور یوں دکھانے لگا جیسے وہ اپنے دوست سے کوئی بات کر رہا ہوں ۔۔

 فردوس اس لڑکے  کے برابر میں کھڑے ہونے سے کچھ  غیر آرام دہ سی ہو گئی تھی ۔۔

فردوس  ذرا سا آگے ہو کر بیٹھی وہ احتیاط کر رہی تھی کہ فاصلہ برقرار رہے ۔۔

علی خاور اس کو  غیر آرام دہ محسوس کر چکا تھا ۔۔

فردوس  اپنی نظریں کتاب پر جما ے  بڑی کنفیوز اور غیر آرام دہ سچویشن میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

علی خاور نے  بڑی احتیاط سے اپنا بازو اس کی طرف  رکھ کر اپنے ہاتھ کو پورا پھیلایا اور اپنی پانچوں انگلیوں کو کھول دیا یوں جیسے اس کی حفاظت کر رہا ہوں ۔۔

علی خاور کا ہاتھ اس کے جسم سے بہت دور تھا  ۔۔

وہ لڑکا تھوڑا سا اور پیچھے ہوا تو فردوس مزید غیر آرام دہ سی ہوگی اور بالکل اپنے بیگ  کے ساتھ  چپک  کر بیٹھ گئی ۔۔

علی خاور سے برداشت نہیں ہوا وہ کھڑا ہو چکا تھا ۔۔

سمیع فاصلہ رکھ کر کھڑے ہو  ۔۔

فردوس تم کھڑی ہونا  ۔۔

فردوس نے نظر اٹھا کر علی خاور کو دیکھا اور کھڑی ہو گئی ۔۔۔

سائٹ میں ہو جاؤ ۔۔

علی خاور کا لہجہ اس وقت  بالکل سیریس تھا ۔۔

علی خاور کے کہنے پر سمیع سائیڈ میں ہوگیا ۔۔

علی خاور نے فردوس کو اندر کی طرف دیوار والی سائیڈ پر بھیجا اور خود دوسری طرف آ کر بیٹھ گیا جہاں فردوس بیٹھی  تھی ۔۔

سمیع وہاں  فردوس کی وجہ سے کھڑا تھا فردوس کے وہاں سے ہٹنے کے بعد اب اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ چکا تھا ۔۔

سمیع کو علی خاور کی حرکت بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔

فردوس نے  گردن موڑ کر علی خاور کو دیکھا ۔۔

لمحے بھر کے لیے ان دونوں کی نظریں ملی تھی مگر فردوس  تیزی سے اپنے دوسرے کام میں لگ گئی ۔۔

اس نے جس طریقے سے سمیع کو وہاں سے ہٹا کر اسے غیر آرام دہ ہونے سے بچایا تھا اور اس کی حفاظت کی تھی فردوس کو اس کی یہ حرکت اچھی لگی تھی مگر اس نے کچھ نہیں بولا وہ بس خاموشی سے بیٹھی رہی ۔۔

علی نے فردوس کا چہرہ دیکھا اس کے چہرے پر اب تھوڑا سکون  تھا وہ غیر آرام دہ نہیں تھی ۔۔۔

تم کمفرٹیبل ہو یہاں  فردوس؟؟؟

 علی خاور نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جی ۔۔وہ مختصر بولی ۔۔

 آج اتوار کا دن تھا لہٰذا رضا  بھی گھر میں ہی تھا رابیہ نے گرم گرم چائے رضا کے کپ میں انڈیلتے ہوئے ایک نظر رضا کو دیکھا وہ فون پر اس وقت کسی سے بات کر رہا تھا جب کہ رابیہ اس  سے بات کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کر رہی تھی ۔۔

رضا نے بات کرکے فون کاٹا  اور کپ  ہونٹوں سے لگا کر چائے پینے لگا ۔۔

سامنے سے  فردوس چلتی ہوئی آ رہی تھی ۔۔

اس کے ہاتھ میں کباب کی پلیٹ  تھی جو وہ رضا کے سامنے رکھ رہی تھی ۔۔

وہ  کباب  ٹیبل رکھ کر خود بھی رضا کے برابر میں بیٹھ رہی تھی ۔۔۔۔

فردوس بیٹا ایسا کرو کچھ اور کباب کر لے آجاؤ  یہ کم ہیں ۔۔

اچھا امی۔۔

 وہ  دوبارہ  کچن میں چلی گئی ۔۔

رابیہ نے  رضا کی پلیٹ میں کباب رکھا ۔

رضا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی رابیہ  نے رضا کو دیکھتے  ہوئے کہا ۔۔

ہاں بولو کیا بات کرنی ہے ۔۔۔

ہمارے پڑوس میں جو حسن صاحب رہتے ہیں ان کا بیٹا رحیم  انجینئر بن چکا ہے ۔۔

جانتا ہوں یہ بات اس لیے بتا رہی ہوں کہ مزید احساس ہو کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ۔۔

نہیں نہیں رضا وہ بات نہیں ہے ۔۔۔

دراصل  ان کی بیوی  کل ہمارے  گھر آئی تھی ۔۔

کہہ رہی تھی کہ وہ رحیم  کی شادی کرنا چاہ رہی ہیں اور اس سلسلے میں انہیں ہماری  فردوس بہت پسند آئی ہے اور رحیم نے بھی خود بات کرنے کو کہا ہے  فردوس کے لئے اپنی ماں سے  ۔

حسن صاحب کے بیٹے رحیم  کو امریکا سے آفر آئی ہے کوئی بڑی اچھی کمپنی ہے جہاں وہ جاب  کرے گا ۔۔

تو  وہ چاہ رہی تھی کہ اس کے امریکہ جانے سے پہلے ہی وہ  اپنے بیٹے  رحیم کی منگنی کر دے یا پھر نکاح کر دیں  ۔۔۔

انہوں نے فردوس کا رشتہ مانگا تھا مجھ سے مگر میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا میں نے کہا تھا رضا سے پوچھ کر پھر آپ کو بتاؤں گی ۔اب آپ کو جو صحیح لگے آپ مجھے بتا دیں رابیہ نے ڈر ڈر کے  کہا ۔۔۔

تم سے کس نے کہا ہے کہ تم اس کے لڑکے ڈھونڈتی پھرو ۔۔

جب ایک بار میں نے کہہ دیا کہ میں فردوس کی شادی اپنی مرضی کی لڑکے سے کروں گا تو تمہیں ایک بات کی بات سمجھ نہیں آتی کیا ۔۔بار بار تم وہی چیز کرتی ہوں جو مجھے نہ پسند ہے فردوس  کی شادی تب  ہوگی جب میں چاہوں گا اور جس سے چاہوں گا تمہیں فضول میں وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں لوگوں کے سامنے ۔۔

انہیں منع کر دینا اگر وہ اگلی بار گھر آئیں گی  اور اگر وجہ پوچھیں تو کہہ دینا کے   ہم فردوس  کو اپنے سے دور  باہر ملک نہیں بھیجنا  چاہتے ۔۔

ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں رشتہ اچھا تھا  تو میں نے سوچا کیوں نہ آپ کو بھی بتا دوں  رحیم تو ہمارے سامنے ہی بڑا ہوا ہے کتنا پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا بھی ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نا آپ کو بتا دو باقی آپ کی مرضی میں انہیں منع کر دوں گی کل ۔۔۔۔

فردوس کے ہاتھوں میں کباب کی پلیٹ تھی اور وہ بے حد حیرانی سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔

رابیہ نے فردوس کو دوبارہ کچن میں اس لئے  بھیجا تھا ۔تاکہ اس کے سامنے رشتے کی کوئی بات نہ ہو سکے مگر وہ پہلے ہی کچھ اور  کباب تل  چکی تھی ۔اور لے کر فٹافٹ آ چکی تھی تبھی اس نے رضا اور رابیہ  کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لیں ۔۔

فردوس کا ارادہ کچھ دیر کے لئے اپنے ماں باپ کے پاس بیٹھنے کا تھا ورنہ پڑھ پڑھ کر وہ بہت زیادہ تھک چکی تھی ۔۔

مگر اب رابیہ اور رضا کی بات سننے کے بعد اب وہاں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی وہ دوبارہ اپنے کمرے میں آگئی جبکہ رابیہ فردوس کے لئے پریشان ہو گئی تھی ۔۔

رابیہ کچھ دیر  رضا کے ساتھ بیٹھنے کے بعد فردوس کے  کمرے میں آئی تو وہ منہ پھولا ے  اپنی کتاب میں سر دیئے بیٹھی تھی ۔۔

فردوس رابیہ نے  ا سے پکارا ۔۔

امی ۔

آپ مجھ سے بات نہ کریں آپ نے مجھے یونیورسٹی میں  ایڈمیشن اس لئے  دلایا ہے کہ شروعات کے  دنوں میں مجھے پکڑ کر میری شادی کروا دیں ۔۔وہ ناراض ناراض سی اپنی ماں  کو کہہ رہی تھی ۔۔

میرا بچہ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے کوئی تمہاری پکڑ کر زبردستی شادی نہیں کر رہا رابیہ   نے  بڑے لاڈ سے اس کے ماتھے کو چوما ۔۔

حسن صاحب کی بیوی نے اپنے  بیٹے  کے  لئے مجھ سے تمہارا کہا تھا  کہ میں رضا سے بات کروں تو بس   تمہارے بابا سے وہ  بات  شیئر کی تھی  ۔۔۔

شادی  تو دیکھو تمہیں کہیں نہ کہیں کرنی  ہے میں کون سا  کہہ رہی ہوں کہ ابھی کرلو ۔میں جانتی ہوں کہ تمہیں تمہار ی  پڑھائی سے کس قدر لگاؤ ہے  میں  تمہاری پڑھائی کے بیچ میں کیوں آؤں گی ۔۔۔۔

اور ویسے بھی تمھارے بابا نے منع کر دیا ہے ۔۔۔

امی پلیز اب آپ کچھ بھی نہ کریں میرے لیے شادی کی بات تو بلکل نہیں ۔ اگر بابا کی ذہن  میری شادی کا خیال آگیا تو پھر وہ میری یونیورسٹی چھڑوا دیں گے آپ جانتی ہیں کہ وہ کتنے سخت ہیں اور ان کے فیصلے ہمیں ہر حال میں ماننے  ہوتے ہیں ۔۔

آپ کو تو پتا ہے میں بہت اچھا پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑی  ہونا چاہتی  ہو بہت اچھے اداروں میں کام کرنا چاہتی ہوں مگر میں جانتی ہوں کہ مجھے اس چیز کی اجازت کبھی نہیں ملے گی ۔میری ساری ڈگریاں یوں ہی الماریوں میں بند رہیں گی ۔۔مگر میں ان ساری ڈگریوں  کو الماری میں بند کرنا زیادہ پسند کرونگی بنسبت اس کے مجھے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑے ۔۔۔

بھلے ہی میں اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکوں مگر کم از کم اپنی تعلیم تو  مکمل کر لوں گی نا۔۔

تم اتنا پریشان مت ہو ۔۔

اور ویسے بھی تمہارے بابا اپنی پسند کے لڑکے سے تمہاری شادی کریں گے ۔اور ہوسکتا ہے کے تمہارے بابا  نے تمہارے لئے  کسی کو پسند بھی  کیا ہو گا  تبھی انہوں نے  اتنی جلدی صاف انکار کر دیا  رحیم کے لئے ۔۔۔

بے شک وہ  میری شادی   اپنی مرضی کے کسی بھی لڑکے سے کر دیں مگر میری  صرف ایک ریکویسٹ ہے آپ سے اور بابا  سے جب تک میرے تعلیم مکمل نہ ہوجائے میری شادی مت کروائے گا ۔۔پلیز امی ۔۔۔

بے فکر رہو  تم ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔

یونیورسٹی کا ماحول آج بھی ویسے ہی تھا ہمیشہ کی طرح مصروف  لوگوں کا ہجوم اسٹوڈنٹ  ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔۔

فردوس تیز تیز  قدم اٹھاتی ہوئی کلاس  کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔

نور  دو دن سے نیورسٹی نہیں آئی تھی کیونکہ اسے کافی تیز  بخار تھا۔۔

 فردوس اپنے  نوٹس کمپلیٹ  کرنے اس وقت  لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اسے وقت کا احساس نہ ہوا ۔۔

 کچھ وقت کے بعد گھڑی دیکھی تو  جلد ہی سر حسن کی کلاس شروع ہونے  والی تھی  کلاس میں صرف اور صرف پانچ منٹ رہ  گئے تھے وہ  جلدی سے کلاس میں جا رہی تھی ۔۔سیڑھیاں  چڑھتے ہوئے فردوس کی ٹکر تیزی سے  علی  خاور سے ہوئی اور تمام کتابیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں  وہ نیچے جا گری ۔۔۔

علی خاور سے لگنے والا دھکا اتنا تیز تھا کہ وہ نیچے جا گری ۔۔۔

 آئی ایم سوری فردوس ۔۔

علی خاور  تیزی  سے چلتا ہوا اس کی طرف آیا ۔۔۔

تمہیں لگی تو نہیں ؟؟

وہ بے حد فکر مندی سے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

نہیں میں ٹھیک ہوں فردوس نے کہتے ہوئے تیزی سے اپنی کتابیں اٹھائیں  ۔۔

اس وقت ان  دونوں کی کتابیں آپس میں مکس ہو گئی تھی ۔۔

کچھ کتابیں علی خاور کے ہاتھ میں لگی تھی اور کچھ کتابیں  فردوس کے ۔وہ دونوں ہی بڑی جلدی میں تھے اور سر حسن کی کلاس میں داخل ہو رہے تھے ۔۔۔

میری کچھ بکس آپ کی بکس  میں شامل ہو گئی ہے مجھے واپس کر دیں وہ ۔۔

فردوس نے کہا ۔۔

ایسا کرتے ہیں ساتھ بیٹھ جاتے ہیں سر بھی آ  گے  ہیں اس کے  بعد  تم  مجھ سے لے لینا ۔۔

علی خاور نے اپنے ہونٹوں میں ہنسی  قید کر تے ہوئے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

فردوس نے چند لمحے کیلئے اسے دیکھا جو بغیر اسے دیکھے  سیدھا سیدھا اس کی کتابیں اپنے ہاتھوں میں لیے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ رہا تھا فردوس کو بھی مجبور ا  اس کے ساتھ بیٹھنا پڑا ۔۔۔

وہ  نورکے ساتھ بیٹھتی تھی مگر یاسر کی وجہ سے اسے کبھی کبھی علی  کے ساتھ بیٹھنا پڑھتا آج بھی وہ  اس کے ساتھ بیٹھی  تھی   اور دوسری طرف علی نے  اس کی کتابوں کی  وجہ سے بہانا بنایا تھا   اور وہ اس   مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا ۔۔

نہ جانے کیوں وہ علی خاور کو   بہت زیادہ اچھی لگی تھی ۔۔۔

میری کتابیں فردوس نے  علی خاور کی ساری کتابیں اس کی طرف کرتے ہوئے اپنی کتابیں  مانگی ۔۔۔

ہاں  علی خاور نے جلدی سے اس کی تمام کتابیں نکال کر اسے دیں ۔۔۔

مگر جس  رجسٹر میں وہ کام کر رہی تھی ۔وہ اس نے فردوس  کو نہیں دیا تھا ۔۔۔

میرا  رجسٹر فردوس  مانگ ہی  رہی تھی کہ سر حسسن کلاس میں  آ چکے تھے  وہ سب کھڑے ہوکر سر کو گڈ مارننگ کر رہے تھے ۔۔ سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو فردوس نے  ایک بار پھر اپنا رجسٹر مانگا ۔۔۔

علی خاور  کی آنکھوں میں شرارت ا بھری ۔۔۔

سبز رنگ کی خوبصورت آنکھوں والی لڑکی کا دوپٹہ اس کے سر سے سرک کر نیچے اتر گیا تھا ۔۔

فردوس نے تیزی سے اپنا دوپٹہ دوبارہ سر پر لٹکایا اور پین نکالنے لگی ۔۔۔

میرا رجسٹر دے دیں کب سے  کہہ رہی ہوں آپ سے ۔۔

ہاں یہ لو ۔۔

علی خاور نے  رجسٹر فردوس  کی طرف کیا ۔۔

مگر   جیسے ہی فردوس  نے  اپنا رجسٹر اٹھانا چاہا علی خاور نے تیزی سے وہ رجسٹر اپنے ہاتھ میں دوبارہ لے لیا ۔۔۔

فردوس نے   علی خاور  کو  بے حد حیرانی سے  دیکھا جو آج شرارت کے  فل موڈ میں تھا ۔۔

فردوس نے  ایک نظر اردگر دوڑائی سر حسن بورڈ  پر کچھ لکھ رہے تھے ۔۔

فردوس نے کھا  جانے والی نظروں سے علی خاور کو دیکھا اسے یوں علی خاور کا اپنے ساتھ شرارت کرنا بالکل پسند نہیں آرہا تھا ۔۔

اچھا لے لو  رجسٹر غصہ کیوں کر رہی ہو ۔۔۔

علی خاور نے  رجسٹر دوبارہ اس کی طرف بڑھایا ۔۔

غلطی سے ہو گیا تھا علی خاور نے اسے  شرارت سےدیکھتے  ہوۓ کہا ۔

فردوس نے تیزی سے علی کے ہاتھ سے رجسٹر اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے   گھورنے لگی جیسے کہہ رہی ہوں ۔۔

"اچھا یہ واقعی میں غلطی تھی "۔۔۔

علی خاور نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنڑول  کی تھی ۔۔۔

کچھ دیر کے بعد  فردوس  نوٹس بورڈ سے کاپی کرنے لگی  ۔۔

فردوس۔۔۔

علی خاور نے اسے پکارا ۔۔۔

 ایکسٹرا پین  ہے تو دینا ذرا ۔۔۔

فردوس نے گردن موڑ کر اسے ایک بار پھر  کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر نیچے علی خاور کے رجسٹر پر رکھے ہوئے اس کے دونوں پینس کو ۔۔

علی خاور نے  فردوس کی نظریں اپنے پینس  پر دیکھیں ۔۔تمہاری اطلاع کے لیے بتا دو کے  یہ دونوں کام نہیں کرتے ۔۔

پین دے دو پلیز علی نے  معصومیت سے کہا ۔۔

فردوس نے  پین  بیگ سے نکال کر علی خاور کود یا اور وہ ایک بار پھر سے نوٹس  لکھنے  لگی ۔۔۔

فردوس ۔۔

اس نے پھر پکارا ۔۔۔

 کوئی دوسرا پین ہے  تو دینا یہ اچھا نہیں لکھ رہا ۔ ۔۔۔

فردوس نے  ایک نظر علی خاور  کو دیکھا جو اسے آج  بار بار  تنگ کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ پین  اچھا نہیں چل رہا  جبکے وہ خود  بھی اسی پین سے  لکھ رہی تھی جو کافی اچھا لکھتا تھا ۔

فردوس نے اسے دوسرا پین نکال  کر دے دیا ۔۔۔

فردوس ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد اسے  علی خاور کی آواز آئی اب وہ کہہ رہا تھا کہ اسے بلیک پین چاہیے ۔۔

‏فردوس  نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں بند کیں آج تو یہ بہت ہی دماغ خراب کر رہا ہے میرا ۔۔۔

فردوس نے ایک گہری سانس لی۔۔اور پھر کہنے لگی ۔۔

یہ بلیک ہی ہے ۔۔۔۔

او ۔۔۔

 اچھا اچھا ۔۔۔۔

یہ بلیک ہے وہ ہنس پڑا ۔۔۔

مجھے لگ رہا ہے شاید میں کلر بلائنڈ ہو چکا ہوں ۔ جب سے میں نے کسی کی گرین کلر کی ایز دیکھی ہیں ۔۔۔

وہ فردوس کو دیکھتے ہوئے  شرارت سے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس حیرانی سے علی خاور  کو دیکھ رہی تھی جو آج کچھ زیادہ ہی فری ہو رہا تھا ۔۔۔

اچھا ناراض مت ہو یوں کرو کہ کوئی دوسرا بلیک پین دے  دو ۔۔

فردوس نے اب کی بار اپنا  پورا کا پورا پاؤچ نکال کر علی خاور کے سامنے رکھا ۔۔

جو چاہیے اس میں سے لے لیں  اور اب مجھے مزید ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں میرا لیکچر آپ کی وجہ سے مس ہو  رہا ہے ۔۔

وہ غصے سے علی خاور سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

اب  میں اس کے ساتھ بلکل نہیں بیٹھوں گی آج تو کچھ  زیادہ ہی فری ہو رہا ہے ۔۔

فردوس  نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔۔

تھینکیو سو مچ تم نے اپنے پینس  مجھے دیے ۔۔

اب آپ  مجھے سکون سے کام کرنے دیں پلیز ۔۔۔۔

وہ  ایک بار پھر سے سر کا  لیکچر نوٹ کرنے میں مصروف ہو گی ۔۔۔

اچھا فردوس ۔۔

علی خاور  نے ایک بار پھر سے  اسے پکارا۔۔۔

یا اللّه ۔۔۔۔

 فردوس نے  ایک لمبی سانس لی اور اپنی  آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں ۔۔علی اسے بار بار تنگ کر رہا تھا اور وہ اس کے تنگ کرنے سے  بیزار ہو رہی تھی ۔۔۔

سوری میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا  علی آج اسے پریشان کرنے کے پورے موڈ میں تھا ۔۔۔۔

چپ کر جائیں آپ وہ  بے حد غصہ سے کہنے لگی ۔۔۔

وہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ذرا تھوڑا سا دکھا نا کیا لکھا ہے تم نے ۔۔

بہت زیادہ کنٹرول کرنے کے باوجود بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی ۔۔۔

وہ کیا ہے نہ کہ پین کی وجہ سے میں سہی سے لکھ نہیں پایا ۔۔۔

آپ کے ساتھ آخرت کا رمسئلہ کیا ہے آپ  مجھے سکون سے کام کرنے کیوں  نہیں دے رہے ۔۔۔

میں نے کیا کیا ہے ۔۔۔؟؟ 

اس کے چہرے پر خوب معصومیت  تھی 

میں تو بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنے تھوڑے سے نوٹس دکھا دو ۔۔۔

یوں سمجھو کہ میں تم سے ریکویسٹ کر رہا ہوں ۔۔۔

اگر آپ نے مجھے اب ڈسٹرب کیاتو  اچھا نہیں ہوگا ۔۔

فردوس اور  علی خاور میں  کتنی دیر سے دیکھ رہا ہوں کے آپ دونوں کی باتیں ختم نہیں ہو رہی ۔۔۔

اگر آپ  دونو ں  کی باتیں اتنی ہی اہم ہیں  تو  اپ دونو کلاس سے باہر جاسکتے ہیں ۔میری کلاس کو ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔

سر کی بات سن کر فردوس کا چہرہ ایک دم بوجھ سا گیا ۔۔

یہ فردوس  کو پڑنے والی پہلی ڈانٹ تھی جو ا  سے علی خاور کی وجہ سے پڑی تھی ۔۔

دوسری طرف  یہ  علی خاور  کی پہلی ڈانٹ تھی جو اسے  فردوس  کی وجہ سے پڑی تھی ۔۔۔

سوری سر وہ  بس فردوس مجھ سے پین مانگ رہی تھی ۔۔

ہیں ۔۔۔میں ۔۔میں کب ۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا وہ بڑی حیرانی سے اچانک گردن موڑے  علی خاور کو دیکھتی رہ گئی  ۔۔

جو بڑی صفائی سے سر سے جھوٹ کہہ رہا تھا ۔۔

کتنا جھوٹا ہے یہ ۔۔۔

اس نے دل میں سوچا تھا ۔۔

خیال رکھیں کہ آپ کی وجہ سے دوبارہ کلاس ڈسٹرب نہ ہو  ۔۔

جی سر اب بالکل بے فکر رہے ۔۔

علی خاور نے بڑے اطمینان  کے ساتھ جھوٹ کہا ۔۔

وہ بے حد غصے سے علی خاور کو گھورنے لگی ۔۔

کیا ہوا ایسے کیا دیکھ  رہی ہو کیا آنکھوں سے کھا جاؤں گی  ۔۔

اچھا سوری ۔۔۔

علی نے اس کے دونوں پینس  اس کی طرف بڑھائے ۔۔۔

وہ کچھ  نہیں بولی بس خاموشی اور غصے سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔

کوئی بات نہیں فردوس  ہوتا رہتا ہے  سر نے اگر تمہیں ڈانٹ دیا تو اس میں اتنا برا ماننے والے کوئی بات نہیں ۔مگر تم اگلی بار سے خیال رکھنا کلاس کے دوران بات کرنا ٹھیک نہیں ۔۔۔

علی اب بڑے مزے سے فردوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کسی بوڑھے آدمی کی طرح نصیحتیں کر رہا تھا ۔۔۔

جب کہ وہ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتا تھا کہ فردوس پوری طرح سے تپ  چکی ہے ۔۔

مگر نہ جانے کیوں اسے تنگ کرنے میں علی خاور کو بہت لفٹ آ رہا تھا ۔۔۔۔ 

علی خاور نے اس کے  پنس  اٹھا کر اس کے قریب رکھے ۔۔۔

 پھر اپنے پین سے  نوٹس  لکھنے لگا ۔۔

فردوس نے  اس کی پین  کو دیکھا جو کہ بالکل پرفیکٹ چل رہا تھا۔۔

فردوس نے   کھا جانے والی نظروں سے اس کو دیکھا اور  اس کے پین کو ۔۔

ارے واہ ۔۔۔

دیکھو فردوس  یہ تو چلنا شروع ہو گیا ہے ۔۔

یہ تو میجک ہوگیا ۔۔۔

وہ بڑے مزے سے کہتے ہوئے اپنے نوٹس کمپلیٹ کرنے لگا ۔۔۔

سر حسن کی کلاس ختم ہوئی تو وہ تیزی سے اپنا بیگ لئے لائبریری کی طرف جانے لگی ۔۔

وہ تیزی سے سیڑھیاں  اترتے ہوئے لائبریری کی طرف جا رہی تھی کہ اسے پیچھے سے کسی لڑکی نے آواز دی ۔۔۔فردوس ۔۔۔

وہ لڑکی شہناز بختاور تھی ۔۔

شہناز بختاور علی خاور کو بے حد پسند کرتی تھی ۔۔

مگر علی نے کبھی بھی اس کی طرف کسی قسم کا کوئی انٹرسٹ نہیں دکھایا تھا ۔۔۔

وہ پہلی  ہی نظر میں اپنا دل علی  کو دے بیٹھی تھی ۔۔۔

مگر علی کبھی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا ۔۔

جتنا ٹائم فردوس کو یونیورسٹی میں ہوا تھا وہ شہنا ز بختاور سے کافی دور تھی ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی کبھی بھی کوئی بات نہیں ہوتی تھی مگر وہ لڑکی  کچھ دنوں سے ایک چیز  نوٹ کر رہی تھی مگر آج اس کی بس ہو گئی تھی ۔۔

ہیلو۔۔۔

 میرا نام شہناز بختاور ہے ۔۔

میں علی خاور کی بہت اچھی دوست ہو ۔۔۔

اس لڑکی نے صاف صاف جھوٹ کہا ۔۔

ہیلو میرا نام فردوس رضا  ہے ۔۔

فردوس نے  تعارفی جملہ کہا اور پھر جانے لگی ۔۔

بات سننا ۔۔۔

شہناز بختاور نے فردوس کو ایک بار دوبارہ سے بلایا وہ دونوں سیڑھیوں پر کھڑی تھی ۔۔۔

میں دیکھ رہی ہوں کہ کچھ لوگ تمہارے اندر بڑی دلچسپی لے رہے ہیں ۔اور تم یہ بات بہت  اچھی طرح جانتی ہے کہ میں کس  کے بارے میں بات کر رہی ہوں ۔۔۔

آجکل علی خاور سے  تمہاری اتنی بات ہورہی ہیں کہ کلاس کے دوران بھی سر  ٹوکنے لگے ہیں تم دونو ں کو ۔۔

وہ آج ہونے والی کلاس کے بارے میں  بات کر رہی تھی ۔۔۔

ایسا نہیں ہے ۔۔۔

میرے خیال سے آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے فردوس نے اپنا لہجہ ہموار رکھتے ہوئے کہا ۔۔

چلو یہ تو بہت  اچھی بات ہے  ہو سکتا ہے مجھے ہی غلط فہمی ہوئی ہو اور میں امید کرتی ہوں کہ تم اس سے بات چیت کم ہی رکھو گی وہ کیا ہے نہ کہ وہ میرا بہت خاص دوست ہے بہت خاص ۔۔ اور میں اپنے خاص دوستوں کو کسی اور کے ساتھ شیئر کرنا پسند نہیں کرتی ۔۔۔

آپ کی اطلاع کے لئے بتا دو کہ مجھے آپ کے خاص دوست میں کسی قسم کا کوئی انٹرسٹ  نہیں ہے  ۔۔۔

تمہیں اس میں کسی قسم کا کوئی انٹرسٹ ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ علی خاور کو میں بہت پسند کرتی ہوں ۔۔۔

نور کی دوست ہو نا تم  اس نے تمہیں  بتایا ہی ہوگا  ۔۔

نہیں نور نے مجھے نہیں بتایا مگر آپ بے فکر رہیں مجھے آپ کے خاص دوست میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔

میں چلتی ہوں مجھے کچھ کام ہے لائبریری میں میری طرف سے آپ بالکل بے فکر رہیں وہ خاص دوست آپ کے ہوں گے میرے نہیں ۔۔۔

اسے شہناز بختاور کا یوں اس طرح سے علی خاور کے بارے میں بات کرنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا نہ جانے وہ ان دونوں کے بارے میں کیا سوچ رہی تھی اس کی باتیں فردوس کو بلکل ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔

اس نے تو ہمیشہ علی خاور سے ایک فاصلہ قائم رکھا تھا ۔۔

مگر آج  کسی لڑکی کا  اس کو یہ سب کہنا ا  سے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔

وہ یہ پہلے ہی سوچ چکی  تھی کہ وہ اب علی کے ساتھ بالکل بھی نہیں بیٹھے گی پھر بھلے ہی اسے پیچھے جا کر کیوں نہ بیٹھنا پڑے ۔۔

وہ کچھ دیر لائبریری میں  بیٹھی ہوئی اپنا کام  مکمل کرتی رہی کہ اس کے برابر میں آ کر سمیع بیٹھ گیا ۔۔۔

یونہی بیٹھے  اپنا کام کرتے ہوے اسے محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ کسی کی نظروں میں ہے ۔۔۔

فردوس  نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے سمیع بیٹھا   اسے دیکھ رہا تھا ۔سمیع نے وہیں بیٹھے ہاتھ کے اشارے سے فردوس کو ہائے کیا ۔۔

فردوس دوبارہ سے اپنا  کام کرنے لگی ۔۔۔

بہت زیادہ مصروف لگ رہی ہو ۔۔اس کے برابر میں بیٹھا وہ  آہستہ  آواز میں کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی وہ اسے مکمل نظر انداز کر رہی تھی ۔۔

اگنور کر رہی ہو مجھے ۔۔۔

سمیع  نے اپنی کوشش جاری رکھیں ۔۔۔

 آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں ۔۔فردوس نے کہا ۔۔

نہیں بیوٹیفل ۔۔

وہ اپنے نوٹس اٹھا کر وہاں سے جانے لگی کہ سمیع  نے تیزی سے اس کے نوٹس پر ہاتھ رکھا ۔۔ 

بیٹھی رہوں جانے کی ضرورت نہیں ہے آج ایک دوسرے کو تھوڑا سا جانتے ہیں ۔۔

وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

ویسے کتنے لڑکے مرتے ہوں گے نہ تم پر آخر کار خوبصورت  جو اتنی ہوں ۔۔

وہ اسے سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا فر دوس کو اسکی نظروں سے گھن آنے لگی ۔۔

فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ایک  زور دار تھپڑ اس کے منہ پر کھینچ کر مارے ۔۔

مگر  یونیورسٹی میں وہ کوئی اس طرح کا قدم اٹھا لیتی   اور بات اگر رضا  تک جاتی تو پھر وہی پڑھائی کا مسئلہ فردوس اسے  اگنور کرتے ہوئے تیزی سے اپنی کتابیں  سمٹنے لگیں ۔۔

اس نے اپنے نوٹس بیگ میں ڈالے اور تیزی سے  لائبریری سے باہر نکلی ۔۔۔

علی اور اور یاسر سر عاطف کے ساتھ لائبریری میں کچھ ڈسکس کرنے کے لیے اندر داخل ہو رہے تھے ۔۔

فردوس بغیر انہیں  دیکھیں  تیزی سے  باہر کو  نکلی ۔۔۔

علی خاور نے اس کا  چہرا دیکھا وہ کچھ پریشان سی  لگ رہی تھی ۔۔۔۔

فردوس  باہر نکلی تو اس کے پیچھے سمیع بھی تیزی سے  باہر نکلا ۔۔

سمیع کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی اور اس کے ہاتھ میں فردوس کے نوٹس تھے  جو علی  دیکھ چکا تھا ۔۔

یاسر ۔۔

تم سر کے ساتھ جانا میں اپنے نوٹس کلاس میں بھول گیا ہوں لے کر آتا ہوں ۔۔۔اس نے جھوٹ کہا ۔۔

وہ یاسر سے کہتا ہوا تیزی سے سمیع کے پیچھے نکلا ۔۔

ابھی کوئی کلاس نہیں تھی تو فردوس  لائبریری میں سکون سے بیٹھ کر پڑھ رہی تھی کہ سمیع  نے اس کو سکون برباد کر دیا ۔۔

فردوس  تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دوسرے فلور پر جارہی تھیں جہاں ان کی اگلی کلاس ایک گھنٹے کے بعد ہونے والی تھی ۔۔

 وہ  ایک گھنٹے پہلے ہی آکر کلاس میں بیٹھنا چاہتی تھی سیڑھیاں  ختم ہونے کے بعد وہ  اب اپنی  کلاس کی طرف جا رہی تھی کہ سمیع نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر   فردوس کے ڈوپٹے کا کنارہ پکڑا ۔۔۔

فردوس نے  گھبرا کر  اپنے دوپٹے کو مضبوطی سے تھاما ۔۔۔

کون ہے وہ بہت ڈری ہوئی لگ رہی تھی فردوس جلدی سے  پیچھے کی طرف ہوئی  تو سمیع  کھڑا ہنس  رہا تھا ۔۔

 سٹوڈنٹ ا بھی کلاس میں موجود نہیں تھے تو لہٰذا وہاں سناٹا تھا ۔۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے اپنی حد میں رہیں آپ وہ غصے سے بولے بنا نہ رہ پائی۔۔۔

میں کیا کر رہا ہوں میں تو اپنی حد میں ہی ہوں۔تم حد پار کرنے  دیتی ہی نہیں ہوں ۔تھوڑی سی حد پار کرنے دو تو تمہیں پتہ چلے کہ میں کتنا اچھا ہو ۔۔وہ کہتا ہوا فردوس کے دو قدم قریب آیا ۔۔۔

اپنی حد میں رہے آپ ورنہ میں پرنسپل سے آپ کی شکایت کر دوں گی ۔۔۔

کیا شکایت کروں گی تم ؟؟

 میں نے کونسا ہاتھ لگا لیا ہے تمہیں ۔۔

اگر تم کہو تو تمہیں ہاتھ لگا لوں ۔۔ 

سمیع  نے اسکی طرف  ہاتھ بڑھا کر اس کے گال کو چھونا چاہا ۔۔۔

فردوس تیزی سے پیچھے ہٹی اس کی برداشت سے اب باہر ہورہا تھا فردوس  نے ایک زور دار تھپڑ سمیع کے منہ پر مارا ۔۔

تمہاری اتنی ہمت وہ تیزی سے فردوس کی طرف بڑھا ۔۔۔

کہ کسی نے پوری قوت سے اس کو  کو لر سے پکڑ کر   پیچھے زمین پر پھینکا ۔۔۔

تمہیں ایک دفعہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی  اگر کوئی لڑکی کہے کہ اس سے دور ہو جاؤ تو اس کا مطلب ہے اس سے دور ہو جاؤ تمہیں کیوں ایک ہی چیز  دس بار  سمجھانی پڑتی ہے علی خاور نے غصے سے کہتے ہوئے ایک زور دار مکا  کو اس کے منہ پر مارا ۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا نا کہ فاصلہ رکھو ۔وہ اب اس کا گریبان پکڑ کر بری طرح  کھینچ رہا تھا ۔۔۔

کہا تھا نہ میں نے ۔۔۔

فردوس  بے حد پریشانی سے  کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔

کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑے اسے  کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ کھڑا ہو جائے گا پلیز ۔۔چھوڑے اسے ۔۔پلیز ۔۔۔

علی خاور  بہت غصے میں تھا اور اس نے سمیع  کو نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔

پلیز چھوڑ دیں اسے ۔۔کوئی دیکھ لے گا تو  میرے لئے مسلہ ہو گا  آپ کو کیوں میری بات سمجھ میں نہیں آرہی پلیز اسے مارنابند کریں ورنہ کوئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی میرے لیے   فردوس بہت پریشان اور گھبرائی ہوئی دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

چھوڑ دو اسے   تم نے دیکھا نہیں اس نے  تمہارے ساتھ کیا کیا وہ ا بھی بھی  بہت  غصے میں لگ رہا تھا ۔۔۔

پلیز آپ اسے  چھوڑ دے  میں اس کی شکایت لگا دوں گی آپ اسے کچھ مت کریں ورنہ مسئلہ ہو جائے گا ۔۔۔

علی نے ایک  نظر فردوس کو دیکھا ۔اس کے چہرے پر بے حد پریشانی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی رو دے گی ۔۔

علی خاور نے ایک نظر سمیع  کو دیکھا اور پھر فردوس  کا چہرہ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا ۔۔

علی خاور نے زمین پر پڑے ہوئے فردوس کے نوٹس اٹھا کر اپنے ہاتھ میں لئے ۔۔

تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا علی خاور ۔۔

تم نے مجھے مار  کر اچھا نہیں کیا ۔۔سمیع  غصے سے کہا رہا تھا جس کے ہونٹ سے خون نکل رہا تھا 

میں انتظار کروں گا تمہارا ۔۔علی نے کہا ۔

اور اگر تم نے اپنی حرکتیں درست نہیں کی تو تمہاری   کمپلین کرنے والا میں ہونگا  وہ بھی ثبوت کے ساتھ اور یہ نہ ہو کہ تم یونیورسٹی سے سسپینڈ ہو جاؤ ۔۔۔

اگر میں نے تمہیں آئندہ فردوس کے قریب بھی دیکھا نہ تو میں تمہارے منہ کا وہ حشر کروں گا کہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہے گا ۔۔

وہ  بے حد غصہ کے عالم میں اپنا زمین پر گرا ہوا بیگ  اٹھا کر کندھے پر ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

میری بات یاد رکھنا فاصلہ رکھو فردوس سے ۔۔۔

چلو فردوس اور آئندہ اکیلے اوپر مت آنا جب تک کلاس کا ٹائم نہ ہو جائے ۔۔

وہ فردوس کو اپنے ساتھ لے کر نیچے اترنے لگا  جبکہ فردوس کے چہرے پر بے حد پریشانی تھی اسے اس بات کا ڈر تھا کہ سمیع  کچھ ہنگامہ  نا کر دے ۔ اور اگر کسی قسم کی کوئی بھی خبر بابا  تک پہنچ گئی تو پھر تو میری یونیورسٹی بند ۔وہ یہی سوچتے سوچتے سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اچانک اس کا پیر پھسلا اور وہ گرنے  لگیں تو علی  خاور نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھاما ۔۔

کیا کر رہی ہو تم فردوس  دیکھ  کر چلو ابھی گر جاتیں  نیچے ۔۔۔

اس کے لہجے میں اب وہ والی سختی میں نہیں تھی جو اوپر تھی جب وہ اسے اپنے ساتھ لے کر آیا تھا اور اس نے اسے  اکیلے کلاس میں بیٹھنے سے منع کیا تھا وہ اب  بے حد نرمی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔

کیا ہوا فردوس ؟؟

پریشان مت ہوں کچھ نہیں ہوتا ۔اور سمیع  کے بارے میں اتنا  سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اسے میں خود دیکھ لوں گا ۔۔

اس کا  ریکارڈ ویسے بھی اچھا نہیں ہے ۔۔

دو کمپلین الریڈی سمیع  کے خلاف ہو چکی ہیں ۔۔۔

اور اگر ایسے ہی چلتا رہا تو وہ یونیورسٹی سے باہر ہوگا ۔۔

اور اگر وہ تمہارے ساتھ یا پھر کوئی اور لڑکی کے ساتھ  اس طرح کی فضول حرکت کرے تو بغیر لحاظ کیے  اس کے منہ پر تھپڑ مارنا اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔

وہ بڑی نرمی سے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

میں ایسا نہیں کر سکتی میں نہیں چاہتی کہ کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ کھڑا ہو کوئی بھی چھوٹی یا بڑی پریشانی میرے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے وہ آہستہ آواز میں اپنی گردن نیچے  کیے  کہہ رہی تھی ۔۔۔

کیوں ایسی کیا بات ہے ۔۔علی نے کہا ۔۔

کوئی بات نہیں ہے بس میں نہیں کرسکتی ۔۔فردوس نے بے بسی سے کہا ۔

کوئی بات نہیں میں ہونا ۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے اچانک نظر اٹھا کر علی خاور کو دیکھا و ہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔

اگر تمہیں مار نا نہیں آتا ۔۔

تو کوئی بات نہیں ۔۔ان لڑائی جھگڑے والے کام میں میں بہت ماہر ہو تمہاری جگہ میں اسے مار دوں گا اور یہ بھی نہیں کہوں گا کہ مجھے تھینک یو  کہو  ۔۔

وہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا جبکہ فردوس خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔۔

آجاؤ لائبریری چلتے ہیں ۔وہ اب  تمہیں  پریشان نہیں کرے گا ۔۔

علی خاور تیزی سے  نیچے اترنے لگا کر  مگر فردوس وہیں کھڑی رہی ۔۔۔

 اس نے گردن موڑ کر فردوس کو دیکھا جو ابھی تک  کھڑی تھی ۔۔۔

کیا ہوا وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔

کچھ نہیں فردوس نے کہا ۔۔

 آجاؤ ۔۔

فردوس  نے ایک نظر اسے دیکھا  اور پھر نیچے اترنے لگی۔۔

وہ دونو ں ایک ایک  سیڑھی کے  فاصلے سے سیڑھیاں اتر رہے تھے ۔علی خاور نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کے نوٹس  اس کی طرف  بڑھائے ۔۔

وہ دونوں لائبریری کے دروازے کے پاس آگئے تھے ۔۔

اگلی کلاس میں  تو تم میرے ساتھ نہیں بیٹھوں گی  تو مینے  سوچا کہ کیوں نا تمہارے نوٹس  ابھی  تمہیں واپس کر دو ۔۔

فردوس نے تیزی سے گردن موڑ کر علی خاور کو دیکھا ۔۔

میں نے ایسا کب کہا ۔۔وہ  شرمندہ سی ہو گئی تھی ۔۔۔

 تم نے خود سے کچھ  کہا تو نہیں مگر تمہارے چہرے پر لکھا تھا کہ تم  اگلی کلاس میں میرے ساتھ نہیں بیٹھو گی علی  اپنی  ہنسی دباتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

جبکہ فردوس ا  سے دیکھ کر رہ گئی تھی ۔۔

علی خاور  کے گھر کے  ناشتے کی میز اس وقت صبح کے ناشتے سے بھری ہوئی تھی ۔۔

علی خاور کی ماں جن  کا نام مہرین تھا وہ گرم گرم پراٹھے علی خاور کے سامنے رکھ رہی تھی ۔۔

علی کی ماں   مہرین کسی اچھے پرائیوٹ کالج میں انگلش کی ٹیچر تھی ۔اور علی خاور کے بابا جو کہ آرمی میں تھے جب وہ بارہ سال کا تھا تب وہ  شہید ہوگئے تھے ۔تب سے لے کر اب تک مہرین صاحبہ  نے علی خاور کو  اپنے  ہاتھوں میں بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا ۔۔

وہ ان کا  اکلوتابیٹا تھا جس کا وہ بے حد خیال رکھتی تھی اور اس  سے بے تحاشہ محبت کرتی تھی ۔۔

علی خاور کے سامنے پراٹھے رکھنے کے بعد وہ خود بھی دوسری کرسی پر بیٹھ گئی اور پھر گرم گرم چائے علی خاور کے کب میں انڈیلنے لگیں ۔۔

یونیورسٹی تو نہیں جاؤں گے آج  اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں امی آج یونیورسٹی جانا  میرے لئے پوسیبل نہیں ہوگا دل تو کر رہا ہے جانے کا مگر صبح صبح پریکٹس کیلئے  جانا ہے اور پھر آج میرا فٹبال میچ بھی ہے تو آج یونیورسٹی سے آف لے لیتا ہوں ۔۔

آپ آ رہی ہیں نا میرے میچ میں ۔۔۔؟؟

ہاں ہاں تم بالکل بے فکر رہو میں کالج سے جیسے ہی فری ہوگی میں خود آ جاؤں گی ۔اور میں پورے دل سے دعا کرتی ہوں کہ ہر بار کی طرح فٹبال ٹرافی میری بیٹے  کی ٹیم کو ملے ۔۔۔

آمین تھینک یو سو مچ ۔۔امی ۔۔

مہرین صاحب نے بڑی نرمی سے علی  کے ماتھے کو چوم کر پیار کیا ۔۔

چلیں میرا تو ناشتہ ہو گیا میں جاکر چینج کرتا ہوں اس کے بعد آپ کو کالج چھوڑ دوں گا ۔۔

کہاں جارہے ہو تمہارا پراٹھا رہتا ہے ابھی  ۔۔

بس امی  میں نے کھا لیا مجھے اتنی ہی  بھوک  تھی آپ  صبح صبح روزانہ انڈا  پراٹھا بنا کر کھلا تی ہے ایک دن  آپ مجھے موٹا آلو کر دیں  گئی۔۔۔۔

 مہرین صاحبہ  اپنے بیٹے کی بات پر ہنس پڑی ۔۔

تم کوئی موٹے آلو نہیں ہو رہے تو بہانے بنانا بند کرو اور اپنا ناشتہ کھاؤ ۔

موٹا اس وجہ سے نہیں ہوں کیونکہ ڈیلی جم کرتا ہوں ورنہ اپ نے تو مجھے موٹا  الو کر دینا تھا۔۔۔

بہت زیادہ شرارتی ہو گئے ہو تم علی۔۔

 مہرین صاحبہ  نے  اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

اپنی ماں کی بات پر اسے ایک لمحے کے لیے فردوس یاد آئی تھی اس نے کل  کیسے فردوس کو بےحد تنگ کیا تھا ۔۔۔

بار بار اس کی سبز آنکھوں میں ابھرتا ہوا غصہ اور اس کے گالوں کا غصے سے وہ سرخ ہو جانا اسے بار بار یاد آ رہا تھا ۔۔۔

میں  کپڑے چینج کر کے  آتا ہوں پھر آپ کو چھوڑ دوں گا کالج وہ کہتا ہوں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔

وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مختلف موضوع پر اپنی ماں سے بات کر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک بار پھر سے فردوس   کا خیال آیا ۔۔

امی آپ کو ایک بات یاد ہے ۔۔

آپ نے بچپن میں ہمارے پڑوس میں جو ایک بچی رہتی تھی اسے گڑیا لے کر دی تھی اس کی سالگرہ پر اور آپ نے مجھے وہ گڑیا پیک کر کے دی تھی کہ میں اس کے گھر جاؤں تو دے دو کیونکہ اس کے پیرنٹس  نے اس کی سالگرہ پر  تمام بچوں کو بلایا تھا جو اس کے دوست تھے ۔۔

ہاں  مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے لیکن تم اچانک اس گڑیا کے بارے میں آج کیوں بات کر رہے ہو اور میں وہ دن کیسے بھول سکتی ہوں علی  تم کتنا روے تھے  اس گڑیا  کے لئے کہ میں اس بچی  کو وہ  سبز آنکھوں والی گڑیا نا دو تم نے تو رو رو کر اپنی طبیعت خراب کر لی تھی نہ جانے اس سبز آنکھوں والی گڑیا میں تمہیں ایسا کیا نظر آیا تھا کہ تم نے اس بچی کو وہ گڑیا اس کے تحفے میں دینے ہی نہیں دی تھی مجھے۔۔

  پھر میں نے ایمرجنسی میں اس بچی کو کچھ اور تحفہ دیا ۔۔مہرین صاحبہ اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے اس کی شرارتے  ا سے بتا رہی تھی۔۔۔ 

علی اپنی ماں کی بات پر آہستہ سے مسکرا اٹھا ۔۔۔

لمحے بھر کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے فردوس کی وہ سبز آنکھیں گھومنے لگی ۔۔جن میں کبھی غصہ ہوتا تو کبھی اجنبیت  تو کبھی ڈر مگر ایک چیز جو ہمیشہ اسے فردوس کی طرف متوجہ کرتی تھی۔۔

 وہ اس کی سبز آنکھیں تھیں وہ اس کی سبز  آنکھوں کو بے حد پسند کرتا تھا۔۔۔

سبز آنکھوں والی گڑیا مجھے ہمیشہ سے ہی پسند ہے امی ۔ ۔وہ ہنستے ہوئے اپنی ماں کو دیکھ کر کہہ رہا تھا جبکہ مہرین بھی بیٹھی ہوئی اس کی بچپن کی یاد پر مسکرا رہی تھی ۔۔

ویسے امی اگر میں ا  بھی بھی  آپ سے سبز آنکھوں والی گڑیا مانگوں گا تو آپ مجھے دے دیں گی ۔۔

کیا مطلب ہے اس بات کا مہرین صاحبہ  نے  علی خاور کو دیکھا ۔۔

میرا مطلب اسی گڑیا کی  طرح بہت خوبصورت سی سبز آنکھوں والی گڑیا اگر اب آپ کے بیٹے کو مل جائے تو کیا آپ اسے حاصل کرنے میں میری مدد کریں گی ۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا صحیح طرح سے مجھے بتاؤ  کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو ۔۔علی نے  اور کچھ نہیں بولا بس مسکراتے ہوئے ڈرائیونگ کرتا رہا ۔۔۔

علی تم  مسکرا کیوں رہے ہو چلو میرے سوال کا جلدی سے جواب دو کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو؟؟

 تم تو  لڑکیوں میں زیادہ   دلچسپی نہیں رکھتے تو پھر مجھے بتاؤ بات کیا ہے  تم مجھ سے اس طرح کی باتیں تو نہیں کرتے تو پھر آج اس بات کا کیا مطلب  کیا تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو ۔۔۔

آپ کا کالج آگیا امی ۔۔

 اور میں کوئی بات نہیں  چھپا رہا آپ سے  علی خاور نے گاڑی روکتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں کچھ تو ہے تم مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتے تو نہیں ہو جیسے آج کر رہے ہو ۔۔  کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے ہو آج تم ۔۔

کچھ نہیں امی  ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا اور میچ میں ضرور دیکھنے  آؤں گی اللہ حافظ وہ کہے کہ گاڑی سے اترنے لگی ۔۔

امی ۔۔

علی نے بڑے  مان سے اپنی ماں کو پکارا ۔۔۔

ہاں بیٹا وہ اتنی ہی محبت سے موڑی ۔۔۔۔

امی آپ مجھ سے وعدہ کریں جس طریقے سے بچپن میں آپ نے مجھے وہ سبز آنکھوں والی گڑیا دی تھی جسے میں نے بہت عرصے تک اپنے پاس سنبھال کر رکھا تھا ۔ اسی طرح سے ابھی بھی جب بھی میں وہ سبز آنکھوں والی گڑیا چاہوں گا تو آپ ا سے حاصل کرنے میں میری مدد کریں گی وعدہ کریں مجھ سے علی نے  اپنی ماں کے آگے ہاتھ بڑھایا ۔۔

مہرین صاحبہ نے ایک نظر اپنے بیٹے علی خاور کو دیکھا اور پھر نرمی سے اس کا ماتھا چوما میں وعدہ کرتی ہوں تم سے تمہیں  زندگی کے سفر میں وہ سبز آنکھوں والی گڑیا ملے گی میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہو چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہو میں تمہارا ساتھ ضرور دو گی اسے تمہاری زندگی کا حصہ بنانے میں۔۔

 تمہاری خوشی سے بڑھ کر میرے لئے کچھ  نہیں  تم میرا  واحد  سرمایہ ہو میری زندگی میری خوشی ہو تم علی میں تمہارے لئے  سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ۔۔

اور اگر اس سبز  آنکھوں والی گڑیا کو حاصل کرنا کبھی تمہارے لئے مشکل ہو تو بلا جھجھک تم اپنی ماں کو آواز دے دینا ۔ تمہاری ماں ہمیشہ تمہارے لئے کھڑی ہے ۔

   اس کے ماں باپ کے گھر سے وہ سبز آنکھوں والی گڑیا  جب بھی تم چاہو گے" اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئی تو تمہارے گھر ضرور آئے گی" ۔۔

"صرف میری بات اتنی سمجھ لو کہ اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئی تو" ۔۔۔

وہ اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے ایک" بہت گہری بات" کہہ کر گاڑی سے اتر گئی تھی ۔۔۔

جبکہ علی یہی سوچ کر خوش ہو گیا تھا کہ اس کی ماں اس کا ساتھ دے گی ۔۔۔۔

یونیورسٹی کا ماحول ویسے ہی تھا ۔۔

نور  دو دن کے بعد یونیورسٹی آ گئی تھی جبکہ علی خاور آج یو نیورسٹی نہیں آیا تھا اس کا فٹبال میچ تھا تو یاسر بھی وہ دیکھنے کے لیے یونیورسٹی سے جلدی جانے والا تھا ۔

کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا فردوس ان دنوں جب میں نہیں آرہی تھی کیا کام ہوا ۔۔

مجھے نوٹس  کاپی کرنے کے لیے دے دینا ۔۔

یاسر کہہ رہا تھا  کے نوٹس مجھ سے لے لو میں نے تیار رکھے ہیں ۔ مگر تم جانتی ہو اس کی رائٹنگ ڈاکٹر ہینڈرائٹنگ ہے  جو کے بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے مجھے ۔۔۔

تمہاری رائٹنگ   بہت کلیئر  ہے لاؤ اپنے نوٹس  مجھے دے دو ۔۔

وہ دونوں ابھی کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

یاسر بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ چلتا ہوا آیا اور انہیں  جوائن کر لیا ۔۔۔

تم اکیلے آ رہے ہو آج علی نہیں آیا ۔۔؟؟

نور نے یاسر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

کیونکہ نور نے علی  کو شروعات کی دو لیکچرز میں نہیں دیکھا تھا اسے لگا تھا کہ وہ شاید دیر سے آئے گا ۔

نہیں آج علی نہیں آئے گا اس کا میچ ہے ۔اور تم جانتی ہو کہ وہ کیپٹن ہے تو کیسے آ سکتا ہے آج یونیورسٹی ۔۔۔

ارے واہ علی کا میچ ہے اسے میری طرف سے بھی بیسٹ آف لک کہہ دینا ویسے تو میں جانتی ہوں کہ وہ جیت کر ہی آئے گا مگر پھر بھی ۔۔

تم تو دیکھنے جاؤ گے نا اس کا میچ ۔نور نے  یاسر  کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں میں اور میرے باقی دوست لازمی دیکھنے کے لیے جائیں گے اس کا میچ ۔

 تمہیں پتا ہے فردوس علی  فٹبال  میں ماسٹر ہے  ماسٹر اور پڑھائی میں وہ کتنا اچھا ہے تم تو جانتی ہی ہو تمہاری ٹکر کا ہے بلکل سارے ٹیچرز  آپس میں یہی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں  کہ فردوس اور علی  کے درمیان میں برابر کا کمپٹیشن چلے گا ۔۔

فردوس نور کی بات پر آہستہ سے مسکرائی۔۔۔

تم نے کبھی علی خاور کو کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کا گانا سنا ہے اس کی آواز اتنی زبردست ہے نا کہ میں کیا بتاؤں ۔۔

وہ گرین رنگ کی کرتی میں جو  سامنے لڑکی بیٹھی ہے نہ اس کا نام" شہناز بختاور" ہے ۔۔

وہ لڑکی  جس دن یونیورسٹی آئی تھی اس کے دو دن کے بعد اس کی برتھ ڈے تھی ۔۔

اور علی کو تم جانتی ہو کہ وہ خوش اخلاق ہے ۔۔۔

علی نے شہناز بختاور کو کافی اچھے طریقے سے گٹار  پر پوری کلاس کے ساتھ اس کا برتھ ڈے وش  کیا تھا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے  یہ لڑکی  علی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے یوں سمجھو کہ فدا ہے اس پر ۔۔۔انہوں نے آہستہ آواز میں کہا ۔

فردوس کو چند ہی لمحوں میں وہ والا واقعہ یاد آیا جب شہناز  نے اسے سیڑھیوں پر روک کر علی خاور کے بارے میں اسے  محتاط کیا تھا اور اس سے دور رہنے کو کہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جتایا تھا کہ وہ اس کا بہت خاص دوست ہے ۔فردوس  کو ایک ہی لمحے میں وہ ساری بات یاد آگئی ۔

وہ خاموش بیٹھی ہوئی یاسر اور نور کی باتیں سن رہی تھی ۔

یونیورسٹی میں ا سے اچانک  کچھ خالی خالی سا محسوس ہو رہا تھا ۔۔

وہ لڑکا جو بڑی  شرار ت  سے ہنستا کھیلتا اپنے  دوستوں کو لے کر کینٹین میں آتا تھا ۔اور جو لڑکا کلاس کی جان ہوتا تھا ۔۔

تمام پروفیسر کے سوالوں کا فورا جواب دینے والا اور اسے بے حد پریشان کرنے والا  علی آج  نہیں تھا یوں لگ رہا تھا جیسے ایک عجیب سا سناٹا ہو ہر طرف ۔۔۔

فردوس نور کے ساتھ کلاس میں آئی اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی اس کی نظر اس کرسی پر پڑی جہاں وہ علی خاور کے ساتھ اس دن بیٹھی تھی اور علی خاور نے اسے خوب تنگ کیا تھا ۔اتنا کہ سر نے بھی ان دونوں کو ڈانٹا تھا  اور علی نے  سر سے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ پین مانگ رہی ہے ۔۔

اسے علی خاور کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی جب وہ اس کے  ساتھ  بیٹھ کر  اسے تنگ  کر رہا تھا ۔۔

فردوس نے تیزی سے وہاں سے اپنی نظریں پھیر لیں اور جلدی سے اپنے نوٹس نکالنے لگی ۔۔

سر کلاس میں آ چکے تھے اور کلاس شروع ہو گئی تھی ۔۔۔

یونیورسٹی کا پورا دن گزارنے کے بعد وہ گھر  آگئی ۔۔

مغرب ہوے تھوڑی ہی  دیر ہوئی تھی  وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی پڑھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر  ان تینوں  پینس پر  پڑی جو علی ایک ایک کر کے  اس سے  باربار مانگ کر اسے پریشان کیا تھا ۔۔

لمحے بھر کے لئے اسے علی  اور اسکی تمام باتیں  یاد آئی تھی ۔۔

۔وہ اسے  کیسے بار بار تنگ کر رہا تھا ۔اور تنگ کرنے کے بعد کتنی معصومیت سے سوری کہہ  رہا تھا جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو اور کیسے اس نے سارا الزام صرف اور صرف میرے  سر پر ڈال دیا تھا ۔۔۔

اس کی ان تمام حرکتوں کو   سوچ کر فردوس کے لبوں پر ایک لمحے کے لیے مسکراہٹ آئی ۔۔۔

پتا نہیں کیوں شاید وہ  لڑکا پاگل ہے جو  اسی  بچوں  والی حرکتیں کرتا ہے ۔۔۔

وہ اپنا ذہن اس کے خیالوں سے جھٹکتی ہوئی کتاب کا  صفحہ آگے پلٹ کر پڑھنے لگی ۔۔۔لمحے بھر میں اس کی  آنکھوں کے سامنے سمع   کا چہرہ آیا وہ کس طرح سے اسے پریشان کر رہا تھا اور کتنا بد تمیز تھا ۔۔کیسے اس نے اس کا پیچھا کیا تھا اور پھر ۔۔۔

آگے  وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اسے سمیع  پر بے حد غصہ آتا تھا مگر وہ سیا ہ  آنکھوں والا لڑکا ایک بار پھر سے اس کی نظروں کے آگے لہرایا ۔۔۔

علی نے کیسے سمیع سے اس کی حفاظت کی تھی کیسے  اسے پکڑ کر زمین پر پھینکا تھا جب وہ اس کے قریب آ رہا تھا ۔۔

اور اس وقت وہ اس کو مارتے ہوئے کتنا غصے میں لگ رہا تھا جب وہ سمع کو کہہ رہا تھا کہ فاصلہ رکھو ۔۔

اور ساتھ ہی ساتھ اس نے مجھے کہا  کہ میں اکیلے کلاس میں نہ جاؤ جب تک کلاس شروع نہ ہو وہ بول پین  اپنے ہونٹوں میں دبائے علی خاور کی تمام باتیں سوچ رہی تھی ۔۔

وہ یہی سب سوچ رہی تھی کے رابیہ  دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی اور اس نے فردوس کو آواز دی۔۔۔۔۔

رابیہ نے ایک بار پھر سے فردوس کو آواز دی وہ کہیں اور ہی گھو م تھی ۔

اپنی ماں کے دوسری آواز پر  اس پر اس نے چونک کر اپنی ماں کو دیکھا جو دروازے پر کھڑی تھی ۔۔

کیا کر رہی ہو بچی؟؟

 دو آواز دے چکی ہوں تمہیں ۔۔۔

سوری امی  بس میں تھوڑا پڑھ رہی تھی آپ بولیں کیا کام ہے ۔۔

میں یہ کہہ رہی تھی کہ یوسف  صاحب آئے ہیں تم بھی آ جاؤ ۔ساتھ میں تمہاری دوست بھی آئی ہے اور عا مر بھی ۔۔

ارے واہ آمنہ ای ہے وہ جلدی سے اپنی کتابیں   سائیڈ پر رکھنے لگیں ۔۔

ہاں جلدی سے آ جاؤ وہ بھی تمہارا پوچھ رہی ہے ۔۔

ہاں بس دو منٹ میں آ رہی ہوں وہ جلدی سے اپنے بال پیٹنے لگی ۔۔۔۔

مجھے اس سے بہت ساری باتیں کرنی ہے وہ  جلدی جلدی اپنے بال لپیٹتے ہوئے اپنا دوپٹہ اٹھا رہی تھی ۔۔

ہاں میں جانتی ہوں کہ تمہارے پاس باتوں کی ایک لمبی لسٹ ہوگی جو  تمہیں آمنہ سے کرنی ہے اب جلدی سے آ جاؤ پھر کچھ دیر سب کے ساتھ بیٹھنے کے بعد تم اسے  اپنے کمرے میں لے آنا اور جتنا  دل چاہے بات کرتی رہنا جلدی سے آ جاؤ باہر ۔۔

وہ اپنی ماں کے ساتھ تیزی سے کمرے سے باہر نکلی اور ڈرائنگ روم میں آئی ۔۔

جہاں رضا کے ساتھ وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

فردوس نے یوسف صاحب کو ہمیشہ کی طرح بہت خوش اخلاقی سے سلام کیا ان کی خیر خیریت پوچھیں  ساتھ اس نے عامر  کو بھی سلام  کیا اور تیزی سے آمنہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوش تھی ۔۔۔

اور بتاؤ فردوس یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے تمہاری یوسف صاحب نے فردوس دیکھتے ہوئے کہا ۔

یونیورسٹی بہت اچھی جارہی ہے  انکل سب کچھ بالکل پرفیکٹ چل رہا ہے ۔۔۔

اچھا فردوس مجھے نور بتا رہی تھی کہ تم لوگوں کو یونیورسٹی والے مری ٹریپ پر جا رہی ہے ۔

 تم نے تو مجھے نہیں بتایا  ان سب کے بارے میں۔۔

 کیا  تم بھی جا رہی ہوں ۔۔۔؟؟؟آمنہ نے کہا ۔۔

ہاں یونیورسٹی میں اس بات کو لے کر کافی چرچا ہے لیکن مجھے کوئی شوق  نہیں اس لئے میں نہیں جاؤں گی ۔۔

فردوس نے صاف انکار کیا کیونکہ وہ  رضا کے مزاج کو اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے یونیورسٹی کے  ساتھ جانے کی اجازت تو بالکل بھی نہیں دے گا ۔۔

اس لیے اس نے پہلے ہی منع کر دیا تھا جب کہ نور اس کا کزن اور باقی کے سٹوڈنٹس جانے کے لیے بالکل تیار تھے ۔۔۔

کیوں تم کیوں نہیں جا رہی  تم نے کیوں منع کردیا ۔

 یونیورسٹی کے ساتھ اتنا مزا آئے گا مری کی ٹریپ ہے ۔ آمنہ نے فردوس کو  بڑی خوشدلی سے کہا جبکہ فردوس  رضا کو دیکھ کر رہ گئی جس کی سخت آنکھیں اور چہرہ  اس کے اوپر ہی جما ہوا  تھا۔۔اب وہ اگلا جملہ کیا کہے گی ۔۔

دوسری طرف رابیہ نے بھی بڑی بےچینی سے پہلو بدلا وہ بھی رضا کے چہرے پر سختی دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔

مگر ان سب کے ساتھ بیٹھے رہنے کی وجہ  سے وہ فردوس اور نور کو کچھ نہیں کہہ پائی ۔۔

آمنہ  کی بات پر رضا فردوس کو دیکھ کر رہا تھا جب کہ  دوسری طرف رابیہ  اس کے چہرے پر سختی دیکھ رہی تھی ۔۔

نہیں آمنہ  مجھے یونیورسٹی کے ساتھ مری ٹریپ پر  جانے کا کوئی شوق نہیں ہے . اور  و یسے بھی کتنا ٹائم ویسٹ ہو جائے گا اس چیز میں تو بہتر ہے کہ میں اپنا ٹائم بچا کر اپنی اسٹڈیز پر توجہ دیں دوں  کیونکہ پپیرس   قریب ہی ہیں ۔۔۔

یوسف صاحب اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے وہ کبھی رابیہ کو دیکھتی تو کبھی رضا کو تو کبھی آمنہ کو یوسف صاحب کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ رضا سے ڈر رہی ہو ۔۔

عامر نے بھی وہیں بیٹھے ہوئے یہ چیز محسوس کی تھی جبکہ رابیہ عامر اور یوسف صاحب  کو دیکھ رہی تھی ۔۔

رابیہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ان دونوں کو شک نا نہ ہوجائے کہ رضا اور فردوس کے درمیان تعلقات کیسے ہیں ۔لمحے بھر میں عامر  اور یوسف صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔

رابیہ  کی سمجھ میں اب بہت کچھ آنے لگا تھا وہ دونوں فردوس کو دیکھ رہے تھے جو کہ بڑی بے چینی  کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور رضا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

فردوس  ایسا کرو کہ آمنہ   کو لے کر اپنے کمرے میں چلی جاؤ وہاں جا کر بات کر لینا تم دونوں کی وجہ سے یوسف صاحب اور تمہارے بابا بات نہیں کر پا رہے ۔۔

چلو آجاؤ تم دونوں میرے ساتھ میں تم لوگوں کے لئے کچھ لے کر آتی ہوں اور  ان دونوں کو لے کر اٹھی اور فردوس کے کمرے میں جانے لگی تو دوسری طرف فردوس نے  بھی سکون کا سانس لیا 

۔۔

فردوس تم مجھے بتاؤ تم نے اتنا اچھا پلین کیوں ریجیکٹ  کر دیا اچھی  خاصی تمہاری   پوری یونیورسٹی جا رہی تھی تم سوچ بھی نہیں سکتی کتنا مزہ آتا ہے ۔۔

اگلے مہینے ہماری یونیورسٹی والے بھی  جا رہے ہیں اور میں تو لازمی جاؤ گے ان کے ساتھ میں نے تو ایک مہینہ پہلے ہی اپنے  پیرنٹس  سے پرمیشن  لے لی ہے اور وہ تو بڑے پرجوش ہیں ۔تمہیں پتا ہے امی نے تو میرے لیے دو  موٹی موٹی شال بھی لے لیں ہیں ۔ مگر ہم اسلام آباد جا رہے ہیں ۔۔وہ بڑی خوش دلی سے فردوس کو  بتا رہی تھی۔۔۔

چلو یہ تو اچھی بات ہے تم   خوب انجوائے کرنا فردوس نے خوش دلی سے کہا ۔۔۔۔

مگر فردوس  مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی تم تو ان پہاڑ برف  بارش کی دیوانی ہوں اور یہ تو تمہارے پاس بڑا اچھا موقع ہے تو پھر تم نے کیوں جانے سے انکار کر دیا کتنے سارے لوگ ہو گئے  کتنا مزہ آۓ گا اور کتنی ساری  پروڈکشن میں جاؤ گی تم اتنے سارے ٹیچرز ہونگے پروفیسر ہونگے پرنسپل سٹوڈنٹس  ڈرنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں ۔۔

نہیں نہیں آمنہ۔۔

 بس میرا دل نہیں ہے جانے کا اس لیے ۔۔۔

تمہیں یاد ہے  جب ہم   ایک دن کالج کی  کینٹین میں فری بیٹھے ہوے تھے تو  تم نے کہا تھا کہ تمہیں مری جانے کا بہت شوق ہے ۔اب تمہیں موقع مل رہا ہے تو تم جا ہی نہیں رہیں  ۔۔

تمہیں اتنی پرانی بات یاد ہے فردوس آمنہ کی بات  پر بے بسی سے مسکرائی ۔۔

ہاں یہ بات سچ ہے کہ مجھے یہ سب بہت پسند ہے بارش پہاڑ سردی جھیل پھر وہ ایک لمحے کے لیے روک گی ۔۔۔

لمحے بھر کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے رضا کا  سخت چہرہ آیا اور اس کی آنکھوں میں موجود بے تحاشہ غصہ۔۔۔

نہیں بس میرا دل نہیں ہے جانے کو فردوس نے منع کردیا ۔۔۔

چلو جیسے تمہاری مرضی جس طرح تمہیں ٹھیک لگے ۔۔

یوسف صاحب اور انکے دونوں بچے کچھ دیر  وہاں بیٹھنے کے بعد اب اپنی گاڑی میں واپس گھر جا رہا ہے جبکہ عامر  کسی گہری سوچ میں تھا ۔۔

یوسف صاحب بھی بار بار عامر  کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔

کیا ہوا فردوس جا رہی ہے اپنی یونیورسٹی کے ساتھ عامر نے اچانک آمنہ  کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

نہیں بھائی اس نے تو صاف

 انکار کردیا ہے جب کہ وہ تو ان تمام چیزوں کی دیوانی ہے مری جیسی جگہ  وہ کیسے چھوڑ سکتی ہے اسے تو یہ پہاڑ پودے برف سمندر برفباری بارش سب  بہت پسند ہیں وہ خود کہتی تھی کہ اگر ا سے کبھی موقع ملے گا تو وہ ضرور جائے گی اب موقع مل رہا ہے تو جا  نہیں رہی ۔۔

کہتی ہیں گھر میں رہ کر پپیرس  کی تیاری کریں گی جبکے وہ تو  پڑھنے میں کافی اچھی ہے اس کو کون سی مشکلات پیش آئیں گی ۔۔۔

عامر نے ایک لمحے کیلئے یوسف صاحب کو دیکھا وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے مگر انہوں نے آمنہ  کے سامنے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔

دروازے کے باہر گاڑی رکی تو آمنہ  اتری اور اندر چلی گئی ۔ جبکہ عامر اور یوسف صاحب  کچھ بات کرتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے ۔۔۔

میرے دماغ میں فردوس کو لے کر ایک بات ہے بابا ۔۔۔

عامر نے یوسف  صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں بولو ۔۔

فردوس کے  بابا مجھے بہت سخت لگتے ہیں ۔۔۔

میں نے یہ چیز بچپن سے محسوس کی ہے کہ وہ ان  سے بہت ڈرتی ہے ۔ بے شک وہ اسے ڈانٹ سکتے ہیں اس کے اوپر پورا اختیار رکھتے ہیں مگر وہ اس پر  غصہ تب  کریں جب اس کی کوئی غلطی ہو یا پھر اس نے کوئی ایسا کام کیا ہو جو اچھا نہ ہو ۔۔

مگر بابا  مجھے سمجھ میں نہیں آتا ان کی بیٹی اتنی پرفیکٹ ہے پھر کیوں اس پر ہر وقت  غصہ کرتے رہتے ہیں اور اس پر پابندیاں لگاتے ہیں ۔۔کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ فردوس سے بیزار ہو ۔۔۔

یوسف صاحب نے  عامر کی بات پر  بڑی بےچینی سے پہلو بدلا ۔۔۔

یوسف صاحب عامر  کو کیا بتاتے کہ رضا اور  اس کے چہرے کے تاثرات اس کا وہ ایک ادھورا پن اس کی اولاد میں  بیٹا نہ ہونا اسے کس حد تک یہ بات چھپتی تھی کے اس کی صرف  بیٹی ہے  ۔ ۔

لوگوں کے بیٹوں  کو دیکھ کر کیسے اس کا منہ بن  جاتا تھا ۔۔

مگر یوسف صاحب  عامر  کو یہ سب کچھ بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے ۔۔۔جب کہ رضا کے لاکھ چھپانے کے باوجود بھی یوسف  صاحب  سمجھ چکے تھے کہ رضا کا مزاج ایسا کیوں ہے ۔۔۔

ارے نہیں نہیں ۔۔

تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے فردوس تو بڑی اچھی بچی ہے ۔۔۔

اور دیکھو وہ اپنے  ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے تو ہو سکتا ہے وہ نہ جانا چاہ رہی ہو اتنی دور اکیلے ۔۔

بابا اکیلی نہیں ہے پوری  یونیورسٹی ہو گی ساتھ ۔۔

ہاں وہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو مگر ہو سکتا ہے کہ فردوس کی اپنی ہی کوئی مجبوری ہو جو وہ نہیں جانا چاہ رہی ہو تمہیں  اس بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ رضا اور اس کے گھر والوں کا معاملہ ہے بیٹا اور آجکل جسے حالات چل رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ رضا احتیاط کر رہا ہوں اپنی بیٹی کے  لئے  ۔۔۔

عامر نے یوسف صاحب کو ایک نظر دیکھا اور پھر ۔ٹھیک ہے کہتا ہوا اندر چلا گیا ۔۔

جبکہ یوسف صاحب عامر  کی بات کو اچھی طرح سے سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے مگر انہوں نے اپنی طرف سے بات بنا دیں ۔۔

اگلی صبح یونیورسٹی کا ماحول ویسے ہی تھا مصروف ہر طرف اسٹوڈنٹ کی چہل پہل تھی ۔۔

ایسے میں فردوس اور باقی کے  سٹوڈنٹ اپنی کلاس لینے کے بعد اب کلاس سے نکل رہے تھے اگلی کلاس ان کی تقریبا ایک گھنٹے کے بعد تھی ۔۔

فردوس اور نور کلاس کے  بعد  یونیورسٹی کی لائبریری میں چلے گئے تھے  جبکہ یاسر   اپنے دوستوں کے ساتھ فٹ بال گراؤنڈ میں  فٹ بال کھیل رہے تھے ۔۔

کچھ دیر فٹبال کھیلنے کے بعد  یاسر اور اس کے باقی کے کچھ دوست سب کینٹین میں آ کر جمع ہو چکے تھے جب کہ فردوس اور نور لائبریری سے سیدھا وہی آگئے تھے ۔۔

فردوس تم نے مجھے جو نوٹس دیے تھے وہ میں  مکمل ہی نہیں کر پائیں تھی اس دن  ابھی تک میرے سارے  نوٹس ان کمپلیٹ ہیں  میں یاسر کے ساتھ ذرا جا کر انہیں کمپلیٹ کر  لے لیتی ہوں  ۔۔۔

مگر میں نے تمہارے لئے نوٹس کر رکھے ہیں ۔۔۔۔فردوس نے نوٹس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تم مکمل کر لو ۔۔۔

ہاں یار میں جانتی ہوں مگر اب یاسر   مجھے اتنے پیار سے کہہ رہا ہے ۔تو سوچا کہ اس بیچارے سے لے لو کیا ہوا اگر  اس کی ڈاکٹر ہینڈرائٹنگ ہے تو  نور مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ فردوس  بھی اس کی بات پر ہنس پڑی ۔۔۔

ٹھیک ہے تم یاسر  سے نوٹس لے لو میں جب تک سر عاطف کے پاس سے آتی  ہوں مجھے ان سے کچھ کام ہے ۔۔۔

اچھا ہم لوگ  لائبریری میں ہیں اگر تم سر عاطف کے پاس سے آ جاؤ تو سیدھا لائبریری میں ہی آ جانا ۔۔۔نور نے کہا ۔۔

ہاں ٹھیک ہے۔۔۔

 میں  پھر سیدھا وہیں آ جاؤں گی ۔۔۔فردوس نے کہا ۔

فردوس کینٹین سے ہوتے ہوئے فرسٹ فلور سے دوسرے فلور پر آئیں ۔۔

دوسرے فلور پر سر عاطف کا آفس تھا ۔۔

وہ آفس سے بس کچھ ہی دیر دور تھی کہ سامنے سے شہناز اسے   آتے ہوئے نظر آئیں ۔۔

ہیلو فردوس کیسی  ہو تم اس نے بڑی خوش اخلاقی سے فردوس کو ہیلو ہائے کیا ۔۔۔۔

میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔۔

فردوس نے بھی جواب میں  خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا ۔۔

یار تمہاری دوست نور لائبریری میں بیٹھی ہوئی ہے  وہ کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا موبائل  کلاس میں چھوڑ آئی ہے ۔۔۔

نور مجھے کہہ رہی تھی کے اگر میں کلاس میں جاؤں تو لیتی او مگر سچ میں مجھے پتہ ہی نہیں کہ تم دونوں کہاں بیٹھے تھے اور اس کا موبائل کونسا ہے تم اس کی دوست ہونا اور تم لوگ تو ساتھ بھی بیٹھتے ہو تو تمہیں تو پتا ہوگا اس نے اپنا موبائل کہاں رکھا  ہے ۔

پلیز جا کر اسے دے دو وہ تمہارا انتظار کر رہی ہے ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں میں دے دیتی ہوں اسے  لاکر ۔۔۔

فردوس  شہناز سے بات کرنے کے بعد سر عاطف  کے پاس نہیں گئی تھی بلکہ تھرڈ فلور جہاں پر ان کی کلاس ہونی تھی   نور کا موبائل لینے چلی گئی ۔۔

اسی وقت سر  عاطف کے آفس سے علی خاور اور اس کا دوست رحمان نکل  ہی رہا تھا کے 

علی  نے دیکھا کہ شہناز بختاور فردوس سے کچھ بات کر رہی ہے اور اس کے چہرے پر بڑی ہی ایک الگ سے مسکراہٹ ہے ۔۔۔

پھر فردوس ا سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظر آئ جبکہ اوپر تو ابھی کوئی کلاس ہی نہیں تھی اور جو کلاس تھی وہ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد تھی ۔۔

شہناز بختاور وہی سیڑھیوں کے نیچے کھڑی فردوس کو  اوپر جاتا ہو ا دیکھتی رہی اور پھر تیزی سے نیچے اترنے لگی ۔۔

علی نے ایک سخت نظر شہناز بختاور کو دیکھا وہ جانتا تھا کہ وہ کتنی چلاک ہے ۔۔

پھر تیزی سے وہ بھی فردوس کے پیچھے اوپر تھرڈ فلور پر گیا ۔۔

کلاس نمبر 33 میں فردوس  نے قدم رکھا ۔۔

کلاس بالکل خالی تھی فردوس نے سوئچ بٹن   دبا کر تمام بٹن اون کیے ۔۔اور پھر وہ جس کرسی پر بیٹھی تھی وہاں پر نور کا موبائل تلاش کرنے لگی ۔۔۔

مگر موبائل تو یہاں پر نہیں تھا ۔۔۔

اتنے میں علی خاور بھی اوپر آ چکا تھا ۔۔

تم یہاں پر اکیلے کیا کر رہی ہو فردوس ۔۔

کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کے کلاس ایک گھنٹے کے بعد ہے میں نے تمہیں اس دن میں سمجھایا تھا کہ اکیلے اوپر مت آنا ۔۔

 علی خاور کی آواز پر وہ ایک دم چونک گئی تھی ۔۔

نہیں۔۔

 میں بس  اکیلے اوپر اس لئے آئی ہوں کیوں کہ  نور نے غلطی سے اپنا  موبائل یہاں چھوڑ دیا ہے ۔۔ میں اس کا موبائل۔۔۔۔

 وہ ا بھی یہ کہہ ہی  رہی تھی کہ کسی نے زور سے دروازہ بند کیا ۔۔اتنا زور سے کہ وہ بری طرح سے چونکی ۔۔

دروازے جس نے بھی بند کیا تھا اس نے علی خاور کو اندر آتا ہوا نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔

کسی نے دروازہ باہر سے بند کر کے دروازے کو کنڈی لگا دی تھی ۔۔۔۔

فردوس نے  تیزی سے علی خاور کو دیکھا اور پھر بند دروازے کو ۔۔۔

خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی ۔۔۔

او میرے خدا یہ دروازہ کیسے بند ہو گیا وہ تیزی سے  علی کو دیکھتی   ہوئی دروازے تک آئی اور زور زور سے دروازہ بجانے لگی ۔۔۔

دروازے کسی نے باہر سے بند  کر دیا تھا ۔۔

دروازے کے باہر شہناز بختاور اور  سمع  کھڑے تھے ۔۔وہ دونو ں  فردوس کی  چیخوں کو خوب انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔

چلو اب ایک گھنٹہ ا  سے یہاں اکیلے  بند رہنے دیتے ہیں ہم یہاں سے نکلتے ہیں اس سے پہلے کے  کوئی ہمیں دیکھ لے ۔۔۔۔

سمیع  نے کہا ۔

وہ دونوں تیزی سے کنڈی بن کر کے نیچے اترے تاکہ وہ دونوں کسی کی نظروں میں نہ آئیں ۔۔

سمیع اور شہناز بختاور  دونوں نے فردوس سے مل کر بدلہ لیا تھا کیونکہ فردوس کی وجہ سے ہی علی نے سمیع کو   بہت مارا تھا ۔۔

اور بختاور کو  فردوس سے جلن تھی۔۔ ۔

کیونکہ وہ علی کی  آنکھوں میں فردوس  کے لیے پسندیدگی دیکھ چکی تھی ۔۔۔

کوئی ہے باہر  دروازہ کھولو وہ زور زور  سے دروازہ بجا رہی تھی اتنے میں علی بھی چلتا ہوا دروازے کی طرف آیا اور دروازہ بجانے لگا ۔۔

کوئی ہے  دروازہ کھولو ۔علی خاور نے  ذرا زور سے کہا مگر فلور بالکل خالی تھا ۔۔۔۔۔

فردوس اچانک  بہت زیادہ ڈری ہوئی اور گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔

 ایک کے بعد ایک مشکل اسے یونیورسٹی میں پیش آ رہی تھی ۔۔

علی نے ایک نظر فردوس کو دیکھا اس کا چہرہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی چھانے لگی تھی ۔۔۔

تم پریشان کیوں ہو رہی ہو ۔۔کوئی نہ کوئی دروازہ کھول دے گا تم ریلیکس کرو ۔۔

علی نے ا سے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

علی کی بات پر  فردوس نے اسے  کھا جانے  والی  نظر سے  دیکھا ۔۔۔

فردوس  مستقل ہی اسے گھور رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں گلابی پانی تیزی سے بھر رہا تھا ۔۔۔

علی  نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں کو ۔۔۔ 

کیا ۔۔۔کیا۔۔۔۔ فردوس تم کیا سمجھ رہی ہو کہ میں نے کیا ہے۔۔؟؟

 یہ گھٹیا حرکت میں کرونگا تم مجھ پر شک کر رہی ہو کہ میں نے یہ دروازہ باہر سے بند کروایا ہے ۔۔

ہاں ۔۔۔۔

بالکل آپ کر سکتے ہیں ۔۔آپ کو ویسے بھی بہت مزا آتا ہے مجھے پریشان کرنے میں کبھی میرے نوٹس  مجھے پورے کرنے  نہیں دیتے تو کبھی مجھے سر سے ڈانٹ پڑا دیتے ہیں ۔۔

کیا ہوگیا ہے فردوس میں یہ حرکت کیوں کروں گا اور وہ تو بس میں تم سے مذاق کر رہا تھا اگر تمہیں برا لگا تو سوری ۔۔

ہر چیز سوری کہنے سے ٹھیک نہیں ہو جاتی سمجھیں آپ اور مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی آپ کی حرکت ہے ورنہ آپ ہی کیوں میرے پیچھے آے ۔۔۔

اومائی گاڈ فردوس۔۔۔۔۔

 میں قسم کھاتا ہوں اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں میں تو بس تمہاری فکر میں اوپر آیا تھا کیونکہ تم اکیلی آرہی تھی اور  اس فلور پر کوئی نہیں تھا ۔۔۔

آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے آپ میرے پیچھے کیوں آئے میں اگر کنویں میں کود جاؤں گی تو کیا آپ بھی میرے ساتھ کنویں میں کود جائیں گے ۔۔

 اگر میں  اوپر اکیلے آؤ گی تو کیا آپ بھی میرے پیچھے اوپر آجائیں گے ۔۔ ۔

وہ گھبراہٹ اور پریشانی کے مارے نہ جانے کیا کیا بولے جا رہی تھی ۔۔

یہ آپ ہی کی حرکت ہے دیکھیے گا آپ،  میں آپ کی شکایت کیسے نور سے لگاتی ہوں اور پھر پرنسپل اور پروفیسر سے بھی لگاؤ گی ۔۔

وہ اب باقاعدہ طور پر آنسوؤں سے رونے لگ گئی تھی ۔۔۔

اسے یوں  روتا ہوا دیکھ کر علی پریشان ہوگیا مگر ساتھ ہی ساتھ اسے فردوس کے اس بچپنے پر جو وہ  شاید پہلی بار دیکھ رہا تھا ۔اور وہ کیسے اسے رکھ رکھ  کر سنا رہی تھی ۔کیسے فردوس کے چہرے کا ایک ایکسپریشن وہ اپنی آنکھوں میں بسا رہا تھا ۔۔اور اس کی سبز آنکھوں میں وہ گلابی  پانی کتنا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔وہ بغیر کچھ بولے اسے سنتا رہا  وہ ا سے نجانے کیا  کیا کہتی رہی ۔۔

علی خاور کو  اس کی بولی ہوئی باتیں بری نہیں لگ رہی تھی بلکہ وہ اس کے چہرے کے ایک ایک نقوش کو دیکھ رہا تھا ۔۔

رونے کے دوران وہ کیسے بچوں کی طرح اپنی سرخ ناک بار بار رگڑ رہی تھی   ۔۔۔

بڑا کنٹرول کرنے کے بعد بھی نہ چاہتے ہوئے  علی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئ ۔۔

فردوس نے اسے یوں مسکراتے ہوئے  دیکھا تو وہ تو اور ہی زیادہ تپ  چکی تھی ۔۔

آپ یہاں کھڑے ہنس رہے ہیں آپ کو شرم نہیں آتی ۔ایک گھٹیا حرکت کرتے ہیں اوپر سے ہنستے بھی ہیں  دیکھیں میں آپ کی پرنسپل سے کیسے شکایت لگوا کر آپ کو سسپینڈ کرواتی  ہو یہ جو سارے پروفیسر آپ  کی تعریفوں کے گن گاتے ہیں نہ میں  سب کو بتاؤں گی آپ کی حرکت ۔۔

فردوس کی اس بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ہنسی زور سے نکل گئی ۔۔۔

جبکہ فردوس اسے ہنستا ہوا دیکھ کر بچوں کی طرح اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی ۔۔

چند لمحے وہ ہنستا رہا اس کے بعد جب اس کے رونے  میں اور تیزی آ گئی تو وہ تیزی سے چپ ہوا ۔۔۔۔

آپ ہنس رہے ہیں کتنے بدتمیز ہیں آپ ۔۔

 آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اس  سے میری تعلیم پر کتنا برا اثر پڑے گا ۔میرے بابا بہت سخت ہیں اگر انہیں یہ بات معلوم ہو گیا  کہ میں کسی لڑکے کے ساتھ کلاس میں بند ہوں تو وہ مجھے  گھر میں بٹھا دیں گے۔۔

 اور آپ  یوں بے شرموں کی طرح اپنے دانت نکال کر ہنس رہے ہیں ۔۔وہ غصے سے  دیکھتے ہوئے علی کو کہنے لگی ۔  

فردوس کی بات پر علی اسے دیکھنے لگا اسے فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔۔۔

اچھا سوری  فردوس  خاموش ہو جاؤ۔۔

مگر وہ   کھڑی آنسو بہا رہی تھی ۔۔

اچھا پلیز رونا تو  بند کرو۔۔

 پلیز ۔۔

علی نے بیگ میں پانی کی بوتل نکال کر فردوس کے آگے کی ۔۔۔

لو تھوڑا سا پانی پی لو ۔۔۔

مجھے پانی نہیں پینا کسی سے یہ دروازہ کھلواے  ورنہ مسئلہ ہو جائے گا میرے لیے ۔۔۔۔

وہ غصے اور بے بسی سے علی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

تم بالکل بے فکر رہو میں تمہیں یہاں سے نکلوا دوں گا تم بس مجھے تھوڑا سا وقت  دو۔۔

 اور  سب سے پہلے  اپنا رونا بند کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی خاور  نے بوتل کا کیپ  کھول کر اس کی طرف پانی کی بوتل بڑھائی۔۔۔

میں نے آپ سے کہا نہ مجھے پانی نہیں پینا بس کچھ بھی کر کے  یہ دروازہ کھلواے ۔۔

 وہ ایک بار پھر سے دروازے کی طرف جا کر دروازہ زور زور سے بجا نے  لگی۔۔۔

لمحے بھر میں اسے نور کا خیال آیا وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے اپنے بینک کے پاس گئی اور اپنے بیگ میں سے موبائل نکال کر نور کو کال کرنے لگی ۔۔

نور اپنا فون نہیں اٹھا رہی تھی اس کا فون سائلینٹ پر تھا ۔۔

فردوس نے بڑی بے بسی سے اپنے فون کو دیکھا وہ یہ بات کیسے بھول  سکتی تھی کہ وہ تو لائبریری میں ہے یاسر  کے ساتھ ہے اور لائبریری میں فون استعمال کرنا الاؤ نہیں اور سارے ا  سٹوڈنٹ کو یہ آرڈر تھا کہ وہ اپنا فون سائلینٹ پر ہی رکھیں گے لائبریری میں تاکہ باقی سٹوڈنٹ ڈسٹرب  نہ ہو ۔۔

لیکن فردوس نے  ہمت نہیں ہاری  اس نے یاسر کو فون کیا مگر یاسر کا بھی فون سائلینٹ پر تھا  ۔۔۔ اس نے بے بسی سے اپنے موبائل کو دیکھا اب کیا ہوگا ۔۔

اگر کسی نے ہمیں  یوں دیکھ لیا تو ۔۔

آپ کے پاس موبائل ہے ۔۔۔

ہاں  ۔

میں اپنے دوست کو فون کرتا ہوں علی خاور نے اپنا موبائل تلاش کرنے کے لئے پاکٹ میں ہاتھ  ڈالا ۔۔۔

اور پھر ایک نظر علی خاور نے فردوس کو دیکھا ۔۔۔

آپ کو خدا کا واسطہ یہ مت کہیں کہ آپ کے پاس موبائل نہیں ہے ۔۔۔فردوس  نے کہا ۔۔

سوری فردوس سر کو کچھ کاپی پیسٹ کرکے سینڈ کرنا تھا تو میں اپنا موبائل سر کے آفس  میں ہی چھوڑ آیا ہوں ۔۔۔۔

یا میرے اللہ فردوس نے  بے حد بے بسی علی خاور کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اس وقت علی اسے بہت ہی برا لگ رہا تھا۔۔فردوس کو  تھوڑا  بہت جو وہ  اچھا لگا تھا اب یوں لگتا تھا جیسے علی نے خود  سب کے اوپر پانی پھیر دیا  ہوں ۔۔۔۔

وہ بے حد پریشان سی دروازے کے پاس بیٹھ گئی جبکہ علی خاور دروازہ بجاتا رہا ۔۔۔

 یہ مصیبت کے دن بھی پتہ نہیں کب ختم ہوں گے یونیورسٹی میں بھی سکون نہیں فردوس  وہیں بیٹھے بیٹھے سوچ رہی تھی جبکہ علی خاور نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔۔

کیا آپ کو اپنے کسی اور دوست کا نمبر یاد  ہے تو آپ ا سے کال کرلیں فردوس  نے موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

ہاں مجھے نمبر تو یاد ہے علی خاور  اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر نمبر ٹائپ کرنے لگا ۔۔

ٹائپ  کرتے کرتے اس نے  ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔۔

مجھے لگ رہا ہے شاید غلط نمبر ڈائل کر رہا ہوں ۔۔۔

علی خاور نے  جان بوجھ کر جھوٹ بولا جب کہ اسے اپنے دوسرے دوست کا نمبر بہت اچھی طرح سے یاد تھا ۔۔

فردوس نے  ایک نظر علی خاور کو دیکھا وہ اسے اس وقت اتنا برا لگ رہا تھا کہ شاید ہی  علی خاور کی سوچ ہو ۔۔۔

علی خاور کو فردوس کے  ساتھ یہ وقت  بہت اچھا لگ رہا تھا جبکہ وہ  بہت زیادہ ڈری ہوئی اور پریشان تھی ۔۔۔

تم ریلیکس کرو جب تک میں نمبر یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں وہ اپنا بیگ رکھ کر خود بھی اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ   گیا ۔۔۔

اور اگر مجھے نمبر یاد نہیں آیا تو ویسے بھی ایک گھنٹے کے بعد اسٹوڈنٹس او پر  آنا شروع ہو جائیں گے ۔۔۔۔

کیا مطلب ہے آپ کا ؟؟

 مجھے اس کلاس  میں سے  ایک گھنٹے سے پہلے پہلے نکلنا ہے میں نہیں چاہتی کہ کوئی بھی کچھ بکواس کرے یا   سوچے  اور مجھے لوگوں کے سوالوں کا جواب دینا پڑے کہ میں کلاس میں کیسے بند ہوئی  آپ کے ساتھ ۔۔۔

تم مجھ پر کیوں اپنا غصہ اتار رہی ہو میں نے کلاس تھوڑی نہ بن کی ہے ۔۔۔

مجھے کیا پتا کہ کس نے بند  کی ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے کہتے کہنے لگی لگ تو آپ ہی کی حرکت رہی ہے ۔۔۔

علی خاو ر ا  سے دیکھ کر رہ گیا۔۔

وہ دونوں چند لمحے خاموش بیٹھے رہے ۔۔۔

ان دونوں نے ایک دوسرے سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی ۔۔۔۔

فردوس نے  بے بسی کے  مارے کرسی سے ٹیک لگا لیا تھا اس نے جتنی آواز دی تھی سب بالکل بے سود ثابت ہوئی تھی کسی قسم کی کوئی مدد حاصل نہیں تھی ۔۔وہ کرسی سے ٹیک لگائے خاموش بیٹھی تھی ۔۔جبکہ اس کی تھوڑے سے فاصلے پر علی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔

اگر تم بور ہو رہی ہو تو میں تمہیں گانا سنا سکتا ہوں ۔۔۔علی خاور  نے خوش دلی سے پیشکش کی ۔۔۔۔

وہ کچھ نہیں بولی بلکہ خاموشی سے بیٹھی رہی اس وقت وہ علی  سے بہت ناراض تھی نہ جانے کیوں ۔۔۔۔

تم نے بتایا نہیں ۔تم گانا سننا چاہتی ہو یا نہیں ۔۔۔۔۔

وہ بھی علی خاور تھا اپنے آپ میں ہی ایک نمونہ ۔مکمل طور پر اسے پریشان کرنے کے موڈ میں ۔۔۔

فردوس نے   کچھ نہیں کہا وہ خاموشی کے ساتھ بیٹھی رہی ۔۔۔

چلو اگر تم  اتنا شرما ہی رہی ہو تو میں تمہیں دو لائنیں سنا ہی دیتا ہوں اپنی  خوبصورت سی آواز میں ۔۔علی خاور نے شرارت سے  فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

وہ دیوار کی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

علی خاور نے اپنا گلا کھنکھار ا ۔۔۔

نور تو کہتی ہے کہ یہ بہت شاندار گانا گاتا ہے وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسے علی خاور کی آواز آئی ۔۔۔۔۔

"لڑکیوں نے زندگی بھر غم دیے  جتنے بھی نمبر دیے سب بند دیے" ۔۔

علی خاو ر نے صرف   دو لائنیں گای  اور فردوس اس کی یہ دو لائن  سن کر ہنس پڑی ۔۔۔

اس نے گایا ہی   اتنے مزے کا تھا کہ وہ ہنسے بنا نہ رہ پائ۔۔۔۔

علی خاور نے اسے ایک نظر دیکھا وہ نم آنکھوں کے ساتھ اب مسکرا رہی تھی ۔۔۔

چلو یہ تو اچھا ہوا کہ میں کچھ خوبصورت لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ لا پایا ۔۔۔۔۔

چند لمحے وہ دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے جبکہ فردوس تھوڑی سی پرسکون ہو گئی

 تھی۔۔۔۔

کلاس  میں دونوں طرف ایک بار پھر سے بھرپور خاموشی تھی ۔۔۔

علی بیٹھے بیٹھے خود بھی بور ہو رہا تھا وہ اب اس سے لڑنا بند ہو گئی تھی ۔۔۔تو پھر علی نے ایک حل نکالا ۔۔۔۔

ہم جو چلنے لگیں چلنے لگیں   ہیں  یہ راستے۔۔۔

 اہاہا منزل سے بہتر لگنے لگے ہیں  یہ  راستے ۔۔۔

او کھو جائیں ہم  کھو جائیں ہم یو لاپتہ ۔۔

او ملو چلیں جانا کہا نہ ہو پتا 

ہم جو چلنے لگیں چلنے لگیں ہے یہ راستے ۔۔۔۔

آہا ہا منزل سے بہتر لگنے لگے ہیں یہ راستے۔۔

بیٹھے بیٹھے ایسے کیسے  کوئی راستہ نیا سا ملے ۔۔

تو بھی چلے میں بھی چلو ہونگے کم یہ تبھی  فاصلے ۔۔

او تیرا میرا نہ ہو کسی سے واسطہ ۔۔

او ملو  چلیں  جانا کہا نہ ہو پتا 

ہم جو چلنے لگے  چلنے  لگے ہیں یہ راستے آ  ہا منزل  سے بہتر  لگنے  لگیں ہیں  یہ راستے ۔۔۔

فردوس بے حد حیرانی سے  اپنے لبوں پر مسکراہٹ لئے   علی  کو پہلی بار اتنا اچھا گاتا ہوا دیکھتی رہ گئی ۔۔

وہ گانا گاتے ہوے  کتنا خوبصورت لگ رہا تھا اس کی آواز بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔

وہ مسکرائے بنا نہ رہ پائیں ۔۔

آپ  تو بہت اچھا  گا لیتے ہیں فردوس نے  اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے  کہا۔

 یہ پہلا جملہ تھا جو وہ بہت خوش اخلاقی  سے علی خاور کو  دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

علی خاور فردوس  کی بات پر بے حد خوش ہوگیا ۔۔ 

میں تمہیں خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،میں نے سنا ہے کہ خوبصورت لڑکیاں بہت مشکل سے خوش اور  امپراسس  ہوتی ہیں  جیسے کہ تم اور تم نے واقعی یہ بات ثابت کر دی ۔کہ تم جیسی  خوبصورت لڑکیوں کو امپریس  کرنا بہت مشکل ہے ۔۔

وہ ہنستے ہوئے موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا ۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہے ۔۔

مگر آپ کی آواز واقعی میں بہت اچھی ہے بہت اچھا گایا آپ نے ۔وہ بولے بنانہ  رہ پائی  ۔۔۔

بہت شکریہ اب تم بچوں کی طرح رونا اور منہ بنانا بند کرو ۔۔اپنا بیگ لے لو میں نے اپنے دوست کو میسج کیا ہے وہ یاسر کو لے کر آرہا ہے ۔۔۔

اچھا وہ خوش ہوگی۔۔

ایک سیکنڈ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو نمبر یاد نہیں فردوس کو  علی  پر پھر  شک ہوا ۔۔۔

حد ہے ویسے تم ابھی  بھی شک کر رہی ہوں مجھ پر  ۔۔۔

ہاں کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ آپ کو  نمبر نہیں یاد ۔۔

آج میں نے  ایک  بہت خوبصورت لڑکی کو روتے ہوئے دیکھا ہے جو روتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔اور وہ روتے ہوئے جس طرح سے اپنی ناک رگڑ رہی تھی نہ وہ دیکھنا مجھے  بڑا اچھا لگ رہا تھا ۔اور بس پھر آخر میں میں نے اس خوبصورت لڑکی کو امپریس کردیا اور اسی  طرح مجھے  نمبر بھی  یاد آگیا ۔۔

وہ ایک بار پھر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس  دروازے کے پاس جانے لگی تو علی نے اسے پکارا ۔۔۔

وہ پلٹی تو وہ  اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔

تمہارا موبائل ۔۔علی نے  موبائل اس کی طرف بڑھایا تو فردوس نے  موبائل لے لیا اور اپنے بیگ میں ڈالا ۔۔

ویسے میں تمہیں ایک بات بتاؤں غصہ تو نہیں کرو گی ۔۔

نہیں ۔۔۔ 

کہیں آپ یہ  تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ ان سب میں آپ بھی شامل ہیں؟؟

 اسے ایک بار پھر سے اس پر شک ہوا ۔۔۔

اور میرے خدا تم کس قدر مجھ پر شک کرتی ہو "فیری"۔۔۔۔

وہ دراصل بات یہ ہے کہ جب تم  رو رہی تھی نہ تو میں نے تمہاری دو تین تصویریں کھینچی تھیں ۔ تم گھر جا کر اسے لازمی دیکھنا ۔۔

علی نے تیزی سے اس کے ہاتھ میں موبائل دیا اور پھر پیچھے جا کر کھڑا ہوا اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ موبائل کھینچ کے نا مار دے ۔۔

جبکہ فردوس  علی کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

انتہائی بدتمیز انسان ہے آپ ۔۔

نہیں فیری میں اتنا بھی بدتمیز نہیں ہوں ۔تم مجھے ہیلپ فل  پرسن کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں نے تمہاری تین بار  تین بار  اس نے انگلیوں پر گن وایا  مدد کی  ہے ۔۔۔

ابھی وہ ا سے کچھ بولتی کے کسی نے کلاس کا دروازہ کھولا تو وہ تو جیسے بہت  خوش ہوگی۔۔۔

 فردوس  تیزی سے کلاس سے باہر نکلی ۔۔۔

جبکہ علی  باہر کھڑا  اسے تیزی سے نیچے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ یہ  اتنا زیادہ کس سے ڈرتی ہے ۔۔۔

 فیری علی نے مسکرا کر کہا ۔۔۔

علی رات کے وقت اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔

وہ لیپ ٹاپ پر اپنا کوئی آسنگمنٹ   مکمل کر رہا تھا اسسنگمنٹ   مکمل کرنے کے بعد وہ آ کر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔

کام کرتے کرتے اسے رات کے نو بج چکے تھے ۔۔۔

وہ اپنا سر  تکیے کے اوپر رکھ کر کچھ دیر کے لیے اپنا موبائل استعمال کرنے  لگا اور اس نے کال لسٹ کھولیں ۔۔

کسی انجان نمبر سے ایک کال آئی ہوئی تھی ۔۔

یہ علی کا ہی کا رنامہ تھا اس نے خود فردوس  کے موبائل سے اپنے نمبر پر کال کی اور اس کا نمبر حاصل کیا ۔۔۔

فردوس کا نمبر دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک دلکش  سی مسکراہٹ آ گئ ۔۔۔

وہ یوں خوش ہو رہا تھا جیسے نہ جانے کیا چیز فتح کرلی ہو ۔۔

اس نے جلدی سے اپنے موبائل میں فردوس کا نمبر سیو کیا ۔۔

فردوس  کا نمبر اپنے موبائل پر سیو کرنے سے ا سے ایک الگ   خوشی مل رہی تھی ۔۔۔

وہ موبائل سائٹ پر رکھ کر  نہانے چلا گیا تھا ۔۔۔

فردوس الماری کھولے کل کے لئے کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ 

پھر اپنی تمام کتابیں  اس نے سائیڈ پر رکھیں ۔۔۔

اور آ کر بیڈ  پر بیٹھ گئی ۔۔۔

بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی اس نے اپنی کتاب اٹھائی اور دوبارہ سے  پڑھنے لگیں جو وہ پہلے سے پڑھ رہی تھی ۔۔

لمحے بھر کے لئے اس کی نظر موبائل پر پڑی  ۔۔۔۔۔

فردوس یہ  تمہارا موبائل جب تم رو رہی تھی تو میں نے تمہاری کچھ تصویریں لی تھی اس میں تم  گھر جاکر انہیں  لازمی دیکھنا ۔۔

اسی علی خاور کی بات یاد آئی ۔۔۔

آج کا دن وہ شاید کبھی نہیں بھول سکتی تھی ۔۔

جو آج اس کے ساتھ ہوا تھا ۔۔

اس نے اپنا موبائل آن کیا اور پھر اپنے موبائل کی گیلری کھولیں ۔۔۔

علی خاور نے اس کی تین تصویریں لیں  تھیں ۔۔

ایک تصویر میں وہ اپنی آنکھیں صاف کر رہی تھی ۔۔

دوسری تصویر میں وہ اپنی ناک رگڑ رہی تھی ۔۔

اور تیسری تصویر میں وہ دروازے کی طرف دیکھ کر رو رہی تھی ۔۔۔

فردوس  ان تصویروں کو دیکھتی رہ گئی علی  نے اتنی فرصت سے  تصویریں لی تھی کہ اس کا چہرہ بڑا واضح ۔۔۔

علی  بالکل صحیح کہہ رہا تھا وہ تو بالکل بچوں کی طرح رو رہی تھی ۔۔

اور جس تصویر میں وہ اپنی ناک رگڑ  رہی تھی وہ واقعی چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی جس نے رو رو کر اپنا منہ سرخ کر لیا تھا ۔۔۔

فردوس ان  تصویروں کو دیکھتی رہی جبکہ اس کے  ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔

پاگل ۔۔۔

فردوس نے آہستہ سے آواز میں علی خاور کو کہا ۔۔۔

لمحے بھر کے لئے اسے علی خاور کا گانا یاد آیا جو اس نے فردوس کو سنایا تھا ۔۔

اس کی آواز میں واقعی ایک جادو تھا چند لمحے کیلئے وہ بالکل بھول گئی تھی کہ وہ کس سچویشن  میں پھنس چکی ہے ۔۔۔۔

اور ہر مشکل میں پھنسنے کے بعد علی ہی کیوں اس کی  ہیلپ کرتا ہے پھر چاہے وہ کوئی بھی سچویشن ہو ۔۔

مگر ایک چیز جو ہمیشہ سے رہتی تھی وہ یہ کہ فردوس نے کبھی بھی ا سے تھینک یو نہیں کہا تھا ۔۔۔  

پھر چاہے اس کا کام مکمل کرنے میں اس نے اپنے نوٹس فردوس کو دیے ہو یا پھر اس کی سمیع  سے  حفاظت کی ہو یا پھر  بند کلاس میں سے باہر نکالا ہو ۔۔فردوس نے کبھی بھی اسے شکریہ نہیں کہا تھا ۔۔ 

اور علی خاور نے اسے  کبھی شکریہ کہنے کو بولا بھی نہیں تھا ۔۔۔

میں اسے کل تھینک یو کہہ دونگی فردوس نے اپنے دل میں سوچا ۔۔اور ایک بار پھر سے وہ اپنی رونے والی تصویریں دیکھنے لگی ۔۔

ان تصویروں کو دیکھ دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ اپنا موبائل سائیڈ  پر رکھ کر دوبارہ سے اپنی کتاب پڑھنے لگے کہ چند لمحے کے بعد اس کا موبائل بجنے لگا ۔۔۔

فردوس نے دو منٹ کے بعد موبائل اٹھا کر دیکھا تو کسی کا میسج آیا ہوا تھا اور پیغام میں لکھا ہوا تھا ۔۔۔

اسلام علیکم ۔۔۔

نمبر بالکل نیا اور غیر شناسا تھا ۔۔۔

فردوس نے  اس  نمبر کو  دیکھا اور پھر میسج ڈیلیٹ کر دیا ۔۔

اسے لگا کے شاید کسی نے غلطی سے کر دیا ہوگا ۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے اپنی کتاب اٹھا کر کتاب پڑھنے لگیں کے  ایک بار پھر موبائل بیچنے لگا ۔۔۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے تمہیں  مجھے وعلیکم السلام دوبارہ کہنا چاہیے تھا ۔۔۔۔

فردوس  نے اب کی بار بھی کچھ نہیں کہا ۔وہ مکمل اس نمبر سے آئے ہوئے میسج کو اگنور کر رہی تھی ۔۔۔

تم نے اپنی پکچر دیکھی جس میں تم رو رہی تھی ۔۔۔؟؟؟

فردوس نے جیسے ہی  وہ میسج پڑھا ۔۔وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کون ہو سکتا ہے ۔۔۔

 اسے اب دو منٹ لگے تھے سمجھے میں اور اسے اب اس شخص کی پہچان کی ضرورت نہیں تھی وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ علی خاور ہے ۔۔ 

لمحے بھر میں ایک اور پیغام آیا ۔۔

ابھی بھی  بتانے کی ضرورت ہے کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟؟

فردوس کو علی خاور  کی یہ  حرکت بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔ کہ وہ اس کا نمبر یو لے کر خود سے سیو کر لے گا ۔۔۔

فردوس  نے اپنی آنکھیں بند کر  کے کھولنے اور وہ ایک لمبی سانس لے کر رہ گئی وہ یہ کیسے بھول سکتی تھی کہ وہ ایک انتہائی انٹیلیجنٹ اور اسمارٹ لڑکا ہے  ۔۔نمبر لینا اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔۔

فردوس نے  اسے کچھ نہیں کہا  وہ بس اپنا موبائل سائڈ میں رکھ کر کتاب پڑھنے لگی ۔۔۔

اس نے علی نے سارے میسیجز  کا کوئی رپلائی نہیں دیا ۔۔

علی چند لمحے سوچتا رہا کہ وہ اور کیا میسج کریں کیوں کہ وہ  علی خاور کے میسج کا کوئی ریپلائی نہیں دے رہی تھی ۔۔

انسان کسی میسج کا رپلائی بھی کرتا ہے ۔۔ 

علی خاور نے ایک اور میسج بھیجا ۔۔

فردوس نے ایک بار پھر اسے اگنور کیا ۔

مسلمان وعلیکم السلام ہی کہہ دیتا ہے ۔۔۔ایک اور پیغام آیا ۔۔

وہ اب فردوس  کو تانا مار رہا تھا ۔۔

یہ لڑکا شاید کبھی نہیں سدھر سکتا فردوس نے اس کے میسیجز کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

علی کے سارے میسجز   کو پڑھتے ہوئے آخری کار اس  کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی ۔۔۔

فردوس۔۔؟؟؟

 اب کی بار علی خاور نے فردوس کے نام کے ساتھ دو تین کوشچن مارک بنا کر بھیجے ۔۔۔

علی خاور نے فردوس کو کتنے سارے میسج ایک وقت میں کیے تھے مگر اس نے کسی قسم کا کوئی رپلائی نہیں دیا ۔۔۔

یونیورسٹی تو یونیورسٹی کلاس تو کلاس اب یہ مجھے میرے گھر میں بھی پریشان کر رہا ہے ۔۔

وہ اس کے  ایک کے بعد ایک انے  والے میسجز کو دیکھ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔

وہ اس کی شکایت نور سے بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اس نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نمبر حاصل کیا ہے کیونکہ آج ہونے والے واقعے کے بارے میں صرف اور صرف علی  یاسر رحمان اور فردوس ہی جانتے تھے یاسر نے نور کو یہ بات بالکل نہیں بتائی تھی کیونکہ علی خاور نے نور کو  بتانے سے منع کر دیا تھا۔ علی یہ سمجھ چکا تھا کہ یہ کس کی حرکت ہے وہ اس چیز کو اپنے طور پر ہی ہینڈل کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے کسی کو نہیں بتایا سوائے اپنے دو دوستوں کے ۔۔۔۔

فردوس نے کسی قسم کا کوئی رپلائی نہیں دیا ۔

علی کے مسیجز ایک بار پھر سے آنا شروع ہو گئے تھے وہ اب کوئسچن مارک بھیج رہا تھا ۔۔۔

فردوس نے اس  کے میسجز  ایک بار دوبارہ سے ریٹ کئے اس کے بعد  بغیر اپنا وقت ضائع کئے اس کے نمبر کو بلاک کردیا ۔۔۔

دوسری طرف سے علی خاور  نے دیکھا کہ وہ بلاک ہو گیا ہے تو وہ زور سے ہنسا ۔ا سے فردوس سے یہی امید تھی کہ وہ اس کا  نمبر دیکھ کر اسے لازمی بلاک کر دی گئی ۔۔اور یہی ہوا تھا ۔۔۔۔

دوسرے دن جب فردوس  یونیورسٹی آئی تو پہلے لیکچر   کے بعد   علی خاور اور فردوس کی ملاقات ہوئی اور دوسرے لیکچر کے بعد ان دونوں کو سر عاطف نے  اپنے آفس میں بلوایا تھا ۔۔۔

فردوس  اکیلے ہی سر کے آفس  آ  گئی تو آفس میں پہلے ہی  یاسر  رحمان علی تینو ہی  موجود تھے اور سامنے سمیع اور شہناز بختاور دونوں لائن سے شرمندہ سے کھڑے تھے ۔۔۔۔

فردوس نے ایک نظر علی خاور کو دیکھا اور پھر ان دونوں کو ان دونوں کی کی  جانے والی حرکت سے وہ دونوں فردوس کو بے حد برے لگنے لگے تھے ۔۔۔

فردوس آپ یہاں بیٹھے ۔۔۔

سر عاطف نے فردوس کو اپنے سامنے والی کرسی پر بٹھایا جبکہ علی یاسر کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔

بیٹا آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کے سمیع  اور شہناز بختاور نے آپ کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ۔۔۔

سر عاطف کی بات پر فردوس نے بے حد حیرانی  سے سر اور علی خاور کو دیکھا ۔۔

دیکھو بیٹا ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں جس نے غلطی کی ہے تم بالکل بے فکر رہو اسے سزا لازمی ملے گی علی خاور نے مجھے سب کچھ سچ بتایا ہے مگر پھر بھی میں تم سے سننا چاہتا ہوں کیوں کہ تکلیف تم نے اٹھائی ہے  اور علی مجھے بتا رہا تھا کہ تم بے حد پریشان اور ڈری ہوئی لگ رہی تھی  ظاہر سی بات ہے یہ کوئی چھوٹی حرکت نہیں ہے  بیٹا ۔۔

علی خاور میرے پاس اس سے پہلے بھی سمیع کی کمپلین لے کر آ چکا ہے مگر ہم میں سمیع  کو ایک اور موقع دیا تھا ۔۔

اور اس بار ان دونو ں نے جو حرکت کی ہے  نے وہ بہت  بری حرکت ہے ۔۔

 اور میں انہیں  ہرگز  معاف نہیں کروں گا ۔۔

بتاؤ بیٹا کیا ہوا تھا ۔۔۔سر نے کہا ۔۔۔

سر ۔۔

میرے پاس شہناز بختاور آئی تھی اس نے مجھ سے کہا تھا کے نور  اپنا موبائل غلطی سے کلاس  میں چھوڑ کر آ گئی ہے ۔اور  اپنا موبائل مجھ سے لانے کے لیے  کہہ رہی ہے ۔تو پھر میں نے  کہا تھا ٹھیک ہے۔ میں اسے لا کر دیتی ہوں مگر میں جیسے ہی کلاس میں گی وہاں پر کوئی موبائل نہیں تھا اور میرے پیچھے علی خاور  او پر آئے تھے ۔۔

کیونکہ اس سے پہلے سمیع  میرے پیچھے اوپر آیا تھا اور اس نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی جس پر علی خاور  نے اسے مارا بھی تھا ۔۔

فردوس نے  ساری باتیں سر  عاطف کو بتائیں ۔۔

تھینک یو سو مچ بیٹا۔۔۔

 اب تم کو  پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں جب سمیع  نے تم سے پہلی بار بدتمیزی کی تھی اسی وقت ہم نے وہاں پر کیمرہ لگا دیا تھا ۔ ہماری یونیورسٹی میں تمام لڑکیوں اور لڑکوں کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے ۔۔اس فلور پر پہلے بھی کیمرہ لگا ہوا تھا مگر کسی وجہ سے وہ خراب ہو گیا تھا ۔۔

کیمرہ خراب ہونے کی وجہ سے سمیع  کی یہ حرکت ہماری نظروں سے دور ہو گئی ورنہ ہم سمیع کو اسی دن پکڑ لیتے ۔لیکن علی خاور کا بہت شکریہ  اس نے اس معاملے میں ہماری بہت مدد کی اس نے پہلے ہی آکے ہمیں بتا دیا اور ہم نے اسی  دن وہاں پر دوبارہ سے کیمرے سیٹ کروا دیے ۔۔۔

اور اگر یہ دونوں جھوٹ بھی بولیں گے تو ان دونوں کی ویڈیو کیمرے میں آچکی ہے ۔۔۔

میں نے شہناز بختاور اور سمع  کو چار مہینوں کے لیے یونیورسٹی سے سسپینڈ کردیا ہے اور اگر اس کے بعد ان کی کوئی اور غلطی میری نظر میں آئی یا یہ دونوں کم نمبروں کی وجہ سے فیل ہوۓ تو میں ا نہیں  نکال دوں گا ۔۔۔

بیٹا آپ بالکل مطمئن ہو جائیں اب یہ دونوں آپ کو کبھی پریشان نہیں کریں گے ۔۔۔

آپ ہماری یونیورسٹی کے بہترین اسٹوڈنٹ میں سے ایک اسٹوڈنٹ ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان دونوں کی وجہ سے آپ کسی قسم کا کوئی نقصان اٹھائیں  ۔ 

بیٹا کسی قسم کا کوئی بھی چھوٹا بڑا مسئلہ ہو یا کوئی بھی پریشانی ہو تو تم  میرے پاس آ سکتی ہو ۔۔

اور آپ کو فردوس کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔

تھینک یو سو مچ سر ۔۔۔

مگر میری آپ سے ایک ریکویسٹ ہے ۔۔۔

بس کل  یونیورسٹی میں جو بھی ہوا اور اس سے پہلے والی بات بھی  یہ سب  میرے  پیرنٹس کو پتہ چلے  ۔۔ پلیز سر ۔۔۔

نہیں بیٹا آپ بالکل بے فکر ہے ۔۔

اب آپ جا  سکتی ہیں تھینک یو سو مچ  ۔۔۔

فردوس بیگ   اٹھاتے ہوئے وہاں سے جانے لگی تو اس کی نظر علی خاور پر  پڑھی ۔۔

آج وہ سفید کلر کی شرٹ میں ملبوس تھا اس کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ ہوئی تھی اور اس کے بال سلیقے سے سیٹ ہوئے تھے ۔وہ ہمیشہ کی طرح دیکھنے میں بہت ہینڈسم اور اسمارٹ لگ رہا تھا ۔۔

فردوس  نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر وہ افس سے باہر چلی گئی ۔۔۔

جبکہ علی اب چلتا ہوا سر اس کے پاس آ رہا تھا ۔۔۔۔

تھینک یو سو مچ سر آپ نے ہماری ہیلپ کی ۔۔۔

شکریہ کی کوئی بات نہیں علی ۔۔

مجھے تم پر بہت فخر ہے ماے  اسمارٹ بوائے ۔۔

سر عاطف علی  کے دونوں  کندھوں کو پکڑ کر  بڑی محبت اور خلوص سے کہہ رہے تھے ۔۔

اگلی کلاس سر حسن کی تھی ۔

سر نے تمام کلاس کو اپنا اسائنمنٹ دیا تھا  جس سلسلے میں انہوں نے پوری کلاس میں موجود تمام سٹوڈنٹ کو ایک دوسرے کا پارٹنر بنایا تھا ۔۔ جس میں سب سے زیادہ اہم کردار دو لوگوں کا تھا علی خاور اور فردوس ۔۔سر  پوری کلاس میں لیکچر دے رہے تھے کہ دوسری  یونیورسٹیز اور باہر کے ممالک سے کچھ لوگ ہماری یونیورسٹی کو اور  آپ  ریکارڈز کو دیکھیں گے اور ہمارے سٹوڈنٹ کی قابلیت اور ان کا کیا ہوا کام بھی  ۔۔

ساتھ ہی ساتھ ہمہیں  بہت ہی قابل اسٹوڈنٹس کی بھی  بہت ضرورت ہے جو کہ ہماری یونیورسٹی اور سبجیکٹ سے ریلیٹڈ اسائنمنٹ بنا کر ان کے سامنے پیش کریں گے ۔۔۔

علی اور فردوس اس میں خاص  پارٹنرز ہونگے ۔۔

علی نے جب یہ سنا تو وہ  ایک دم جیسے بہت  خوش ہو گیا تھا ۔۔۔

سر حسسن نے کلاس کے بعد ان دونو ں کو اپنے آفس میں انے کو کہا ۔۔

وہ دونو ں کلاس کے بعد سر کے آفس میں بیٹھے ہوے تھے ۔۔

یہ کچھ ضروری پوائنٹس ہے اس سے اپ دونو ں کو بہت ہیلپ ملے گی ۔سر نے ایک فائل انکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔

تھنکس سر میں اس کی ایک کاپی فردوس کو بھی دیدونگا تا کہ  دونو ں کے پاس ہو علی نے کہا ۔۔۔

ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔سر نے کہا ۔ 

میں فردوس کو یہ سارے امپورٹنٹ پوائنٹس سینڈ کر دونگا پھر کل سے اس پر کام شروع کر دینگے ۔۔

بہترین علی۔۔

 سر خوش ہو گئے ۔۔۔

وہ دونو ں آفس سے باہر نکل آئے ۔۔

جبکے فردوس نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔۔اور تیز رفتاری سے باہر کی جانب جانے لگی ۔۔

فردوس ۔

علی نے آواز دی مگر وہ نہیں  رکی ۔۔وہ اب نور کے پاس باہر گارڈن میں آ گئی تھی جہاں وہ گھاس پر  بیٹھی ہوئی تھی وہ بھی وہیں آ گیا ۔۔۔۔

یاسر اور اس کے چند ایک  دوست بھی وہی نور کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

فردوس نور کے برابر میں بیٹھ گی  جبکہ علی خاور اس کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔ 

فردوس اپنے بیگ میں سے کچھ سامان نکالنے لگی کے اسے علی خاور کی آہستہ سی آواز آئی ۔۔۔

دیکھو اب تو ہم  ساتھ  پارٹنرز بھی ہیں۔۔

 کچھ کام  قسمت خود  کردیتی ہے۔۔

 اب دیکھو نہ  قسمت ہمیں بار بار ملانے کی کوشش کرتی ہے مگر کچھ  لوگوں کے نخرے ہی نہیں ملتے ۔۔۔

وہ آہستہ آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔ فردوس نے اسے گردن موڑ کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دوبارہ سے اپنے بیگ میں سے چیزیں نکالنے لگی ۔۔

وہ جو تم نے کل رات مجھے بلاک کیا تھا اب ان بلاک کر دینا ۔۔۔علی نے اسے مزید تپایا ۔۔

فردوس نے  ایک بار پھر تیزی سے گردن موڑ کر علی خاور کو دیکھا جو ایک کے بعد ایک ایسی بات کر رہا تھا کہ وہ مکمل طور پر تپتی  جا رہی تھی ۔۔۔

کیا ہوگیا  ایک تو تم دیکھتی اسے  غصے سے ہو ایسا لگتا ہے کہ آپنی آنکھوں سے ہی کھا جاؤں گی  اتنی  خوبصورت آنکھیں ہیں تمہاری زیادہ دیر اگر میں دیکھ لوں تو کچھ ہونے لگتا ہے ۔ ۔۔

میں آپ کو کوئی  انبلوک نہیں کروں گی اور جو اپ نے حرکت کی تھی نہ وہ بہت ہی گھٹیا تھی ۔۔

میں مانتا ہوں کہ میرا طریقہ کار غلط تھا مگر یقینا تم اپنی تصویروں کو دیکھا ضرور مسکرائی ہو گی۔۔۔۔

بتاؤ سچ ہے یہ بات ۔۔۔؟؟

نہیں جی۔۔۔

 میں کوئی نہیں  مسکرا رہی تھی اور میں نے وہ تصویر ڈیلیٹ کر دی فردوس نے جھوٹ کہا ۔۔۔

اچھا ان بلاک تو کر دو تمھیں نوٹس کی  کاپی بھیجنی ہے۔۔۔ فائل کی  بھی یاد ہے نہ سر نے کیا کہا تھا  بہت امپورٹنٹ اسائنمنٹ ملا ہے  ہم دونوں کو  

ہم دونوں ایک دوسرے کے پارٹنرز ہیں  پارٹنرز اس نے پارٹنرز پر زور دیا ۔۔

میں آپ کو  صرف ان بلاک   تب تک  کر رہی ہوں جب تک ہمارا اسائنمنٹ چلے گا اس کے بعد آپ مجھے کوئی میسج نہیں کریں گے سمجھ آئی ہے آپ کو ۔۔.

جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔

ویسے ہم کل سے اسائنمنٹ پر کام کرناشروع کر دیں گے ۔۔

آج رات میں تمہیں سارے امپورٹنٹ پوائنٹس  سینڈ کر دوں گا تمہارے "نمبر "پر  ۔۔

وہ ایک   ایک بات ایک ایک  جملہ ایسا کہہ رہا تھا کہ فردوس کو مزید غصہ آرہا تھا اور وہ اس کی باتوں سے تپتی جارہی تھی۔۔۔

اور ہمیشہ کی طرح علی خاور کو اسے تنگ کرنے میں بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔

اگلی صبح یونیورسٹی کا ماحول ویسے ہی تھا بے حد مصروف سا ۔۔۔

ایسے میں علی خاور اور فردوس اپنی کلاس لینے کے بعد اب لائبریری میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر تیز تیز انگلیاں چلاتے ہوئے کام کر رہے تھے ۔ ۔۔

علی نے اسائنمنٹ  ٹائپ کرنے کے بعد جلدی سے اسے  ہارڈ کاپی فارم میں نکالا ۔۔

یہ والی دونوں ڈائگرام اس کے نیچے لگیں گے ۔۔۔

فردوس نے ڈائگرام علی کے آگے بڑھائیں اور لیپ ٹاپ پر دوبارہ سے کچھ ٹائپ کرنے لگی   ۔۔۔

لمحے بھر کے لیے علی خاور کی نظر فردوس پر پڑی جو آج نیلے رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔۔۔

 فردوس  نے کانوں میں ایک بہت ہی خوبصورت ایررز پہن رکھے تھے ۔۔

وہ نا ہی تو بہت بڑے تھے  اور نہ ہی بہت چھوٹے اور درمیانے سائز کے تھے اور بے حد خوبصورت تھے ۔۔

اس نے  بالوں کا  جوڑا بنایا ہوا تھا جو اب ہلکا ہلکا سا ڈھیلا ہو چکا تھا ۔۔

علی و  ہی کھڑے اسے دیکھتا رہا دیکھتا رہا ۔۔

فردوس کو محسوس  ہوا کہ علی  اسے دیکھ رہا ہے ۔۔

لمحے بھر کے لیے وہ ذرا کنفیوز ہو گئی تھی ۔۔۔

یہ دونوں تصویریں یہاں  لگانی ہے ۔۔۔

فردوس  کی بات پر علی خاور نے چونک کر فردوس کو دیکھا ۔۔

لمحے بھر میں علی  کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت آئی ۔۔۔

کہاں لگانی ہے  یہ دونوں پکچر   ۔۔

فردوس نے  اسے بہت  طریقے سے ہاتھ رکھ کر بتایا تھا کہ یہاں لگانی ہے مگر پھر بھی وہ جان بوجھ کے انجان بن رہا تھا ۔۔۔

یہاں اس پراگراف کے نیچےفردوس  نے ایک بار پھر سے بتایا ۔۔۔

کہاں کہاں؟؟؟

 مجھے سمجھ میں نہیں آیا ۔۔وہ ایک بار پھر سے انجان بنا تو فردوس نے  اسے ایک نظر  دیکھا ۔۔ 

آپ مجھے بار بار پریشان کر رہے ہیں میں سر سے آپ کی شکایت لگا دوں گی میں بتا رہی ہوں  میں آپ کو جب کچھ پیسٹنگ کے لیے دیتی ہوں آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں  ۔۔۔ جب کہ میں آپ کو پراپر طریقے سے گائیڈ کرتی ہوں  کے یہاں لگانی ہے مگر پھر بھی آپ کی  یہی حرکتیں ہیں ۔۔۔

وہ اپنی سبز آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے  تم مجھے یوں نہ دیکھا کرو میرا دل دھڑکتا ہے ۔۔

وہ ایک بار پھر سے شرارت کر رہا تھا ۔۔۔

جب تم   مجھے یوں اپنی خوبصورت آنکھوں سے دیکھتی ہوں تو میری ہارٹ بیٹ  بڑھ جاتی ہے ۔۔۔

فردوس کو ہمیشہ کی طرح اس کی فضول سی بات پر غصہ آگیا بہتر ہو گا آپ کام پر توجہ دیں ۔۔ 

فردوس نے اسے دیکھتے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔۔

وہ دونوں لائبریری میں بیٹھ کر خاموشی سے اب اپنا اپنا کام کر رہے تھے کہ علی خاور کی نظر ایک بار دوبارہ سے اس کے کانوں پر پڑی ۔۔۔۔

وہ اپنا کام چھوڑ کر اسے ایک بار پھر اسے دیکھنے لگا ۔۔

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ  بہت خوبصورت اور ایک پر کشش لڑکی تھی ۔۔

فردوس کو ایک بار پھر سے محسوس ہوا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔۔

مگر نہ جانے کیوں فردوس کو اس کی نظر بری نہیں لگ رہی تھی جتنی سمع کی  لگتی  تھی۔۔

 اس کی نظرو میں حوس  اور بے احترامی نہیں تھی شاید پسندیدگی تھی یا پھر محبت ۔۔۔

فردوس ۔۔۔

علی خاور نے  اسے پکارا۔۔

 فردوس نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔۔

 تمہارے ایر رنگز بہت خوبصورت لگ رہے ہیں تم پر اور یہ کالر بھی۔۔۔

وہ بولے بنا نہ رہ سکا۔۔۔

تم بہت خوبصورت ہو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

  جبکے وہ اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

ترا غم ہے تو غمِ دہر کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہاروں کو ثبات

تری آنکھوں کے سوا دنیا میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھا کیا ہے

"فیض احمد فیض"

نور آج فردوس کے گھر آئی ہوئی تھی ۔۔

کیوں کہ اس کی منگنی کی رسم میں بس کچھ دن ہی رہ گئے تھے ۔۔

وہ فردوس کو اپنی منگنی کا کارڈ دینے آج اس کے  گھر ای ہوئی تھی ۔۔

یہ لو سب سے پہلا کارڈ تمہارا ہی لکھا ہے اور تم نے میری منگنی میں لازمی آنا ہے اور تم کل میرے ساتھ شاپنگ پر چلو گی اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوگی بس میں نے کہہ دیا ہے ۔۔۔

بلکل  بے فکر رہو تم میں لازمی آؤنگی ۔۔فردوس نے کہا ۔۔۔مگر شاپنگ پر تم آمنہ کے ساتھ چلی جانا ۔۔۔۔

فردوس نور نے غصے سے کہا ۔۔

پلیز نور مان جاؤ نہ بابا پسند نہیں کرتے یہ سب ۔۔۔وہ بے بسی سے بولی ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے ۔۔

ماہ نور کے گھر کا گارڈن آج بڑی خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا چاروں طرف لوگوں کی بھرپور رونق تھی  موسیقی کی آواز ہوا میں گونج رہی تھی پھولوں کی خوشبو تمام ماحول  میں رچی بسی  ہوئی تھیں لوگ تیار سے ٹولیو ں کی صورت میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔۔

ہلکے گلابی رنگ کے لباس میں ماہ نور ا سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی آج اس کی منگنی تھی ۔برابر والی جگہ پہ اس  کی ماں بیٹھی اس کا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے اس کے ماتھے  کو چوم رہی تھی ۔۔

ماہ نور یہ تم کیا بار بار گھر کے دروازے کی طرف دیکھ رہی ہوں کیا کسی کی منتظر ہوں انتظار کر رہی ہوں کسی کا ۔۔؟؟

جی امی!

 میری  ایک بہت اچھی دوست "فردوس" ا بھی تک نہیں آئی جبکہ اسے میں نے جلدی آنے کو کہا تھا ۔۔

میری یونیورسٹی کے سارے  کلاس فیلوز آگئے ہیں سوائے دو کے ۔۔۔

ماہ نورا بھی اپنی ماں سے بات ہی  کر رہی تھی کہ گھر کے دروازے کے اندر سے سیاہ رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک  خوبرو لمبا چوڑا سا نوجوان داخل ہواکھلا کھلا سا خوبصورت چہرے  والا لڑکا  اس خوبصورت نوجوان کے ماتھے کی الٹی طرف ایک  تل موجود تھا اور چہرے پر دلکش اور شرارتی سی مسکراہٹ نہ جانے کتنی لڑکیوں نے اس خوبرو جوان کو  گردن اٹھا کر دیکھا تھا جب وہ چلتا ہوا ماہ نور  کے پاس آ پہنچا اور اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا  سرخ رنگ کا ایک بے حد خوبصورت گلدستہ ماہ نور  کی طرف بڑھایا ۔۔

میری پیاری سی دوست کو  منگنی بہت بہت مبارک ہو ۔۔

ساتھ ہی ساتھ اس نے برابر میں کھڑی ہوئی ماہ نور کی ماں کو سلام پیش کیا ۔۔

بہت بہت شکریہ" علی خاور"۔۔

یہ بتاؤ کہ تم نے آنے میں اتنی دیر کیوں کر دی ۔۔

راستے میں ٹریفک بہت تھا اس  میں  پھنس گیا تھا تو دیر ہوگئی ۔۔

اچھا ماہ نور بیٹا   میں ذرا کچھ انتظاما ت دیکھ لو ماہ نور  کی ماں وہاں سے چلی گئی ۔۔

جب کہ وہ سیاہ رنگ کے لباس والا لڑکا لان میں ہر طرف کسی کو ڈھونڈ رہا تھا دائیں بائیں آگے پیچھے وہ چہرہ !!!!

وہ چہرہ کہاں غائب ہو گیا تھا جسے وہ تلاش کر رہا تھا  ۔۔۔

کیا کسی کو تلاش کر رہے ہو ماہ نور نے علی سے اچانک  پوچھا تو وہ ذرا سا کنفیوز ہو گیا ۔۔۔

ارے ۔۔

نہیں نہیں !!

میں کس کو  دیکھوں گا میں تو بس ایسی لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور کچھ نہیں ۔۔

لوگوں کو دیکھ رہے تھے یا لوگوں میں موجود کسی پری  کو اپنی نظروں سے  تلاش کر رہے تھے ۔۔۔؟ 

تمہیں ضرور کوئی نا کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔ علی نے کہا ۔۔

 تم لوگوں نے انتظامات کافی اچھے کیے  ہیں ۔۔

 علی خاور  نے بات بدلی ۔۔

علی  کی بات پر ماہ نور ہنس پڑی۔ ۔

مجھ سے جھوٹ مت بولو میں جانتی ہوں تمہاری نظر کس کو تلاش کر رہی ہے  ۔۔

 کیا مطلب ہے  تمہارا  ۔۔۔۔؟؟

"فردوس" کو ڈھونڈ رہے ہو نا تم ۔؟؟

ان تمام لوگوں میں تمہاری نظر صرف اس کے چہرے کو تلاش کر رہی ہے  میں جانتی ہوں ۔۔

مگر علی خاور  اپکی  تلاش  کا کوئی فائدہ نہیں وہ  ابھی تک آئ نہیں ۔۔۔

کیا مطلب ؟؟؟

وہ ا بھی تک نہیں آئی تم نے اسے انوائٹ  تو کیا تھا اب تک  تو اسے آ جانا چاہیے تھا علی خاور نے بے صبری سے ماہ نور  کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اچھا !!!!

اتنی بے چینی کیوں  ہو رہی ہے تمہیں اس کے  نہ آنے سے اور ابھی تو کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا  کے میں کسی کو تلاش نہیں کر رہا ۔۔

تھوڑا صبر سے بیٹھو ہو سکتا ہے وہ حسن کی دیوی آ  ہی رہی ہو ۔۔

اسے آنا   بھی چاہئے میں صرف اور صرف اسکی وجہ سے آیا ہوں ۔۔۔

علی خاور نے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جبکہ وہ اس کی بات پر تپ سی  گئی تھی  ۔ ۔۔

بڑے  ہی بد تمیز ہو میرے منہ پر ہی کھڑے ہوں کہ میری بےعزتی کر رہے ہو میری منگنی میں آئے ہو میرے دوست بن کر اور کہہ رہے ہو کہ صرف اور صرف  فردوس کے لئے آئے ہو ۔۔۔

اچھا تم فردوس کو  کال کر کے پوچھ لو کے وہ آئے گی بھی یا ۔۔۔

علی خان کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کے دروازے سے ایک سیاہ رنگ کی خوبصورت سی فراک   میں ایک لڑکی اندر داخل ہوئی ۔۔

ایک ہاتھ میں فردوس نے  خوبصورت گھڑی  پہنی ہوئی تھی جبکہ دوسرے ہاتھ میں سیا ہ چوڑیاں تھیں  بال کھلے ہوئے اور ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپ سٹک لگی ہوئی تھی ۔۔گرین خوبصورت سی آنکھوں میں کاجل طریقے سے بھرا پڑا تھا ۔۔۔

علی خان اچانک روک سا  گیا تھا سانس تھم سی گئی تھی ۔

وہ بس خاموشی سے اس سیا ہ  رنگ کے لباس والی لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا جواب آہستہ آہستہ باریک ہیل سے چلتی ہوئی اسٹیج کی طرف آ رہی تھی ۔۔

کیا ہوا علی تمہاری  بولتی بند  کیوں ہوگئی؟؟

 ایک منٹ !ذرا مجھے دیکھو۔۔

 ماہ نور کو اچانک ہی کچھ یاد آیا ۔۔

تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ وہ کیا رنگ پہن رہی ہے ۔۔ پھر نور نے  علی کو دیکھا ۔۔۔۔

کتنے تیز ہو تم ۔۔۔

علی  نے کچھ نہیں کہا بس اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ شرا رت موجود تھی ۔۔۔

فردوس اسٹیج کے بہت قریب آ گئی تھی اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا  گفٹ ایک طرف  رکھا اور نور  کے گلے سے لگی اسے  خوب مبارکباد دے رہی تھی ۔۔

اتنی دیر کردی تم نے آنے میں فردوس میں کب سے تمہاری  منتظر تھی ۔۔

ماہ نور اسے دیکھتی بہت محبت سے کہہ رہی  تھی ۔۔

بابا  کو انے میں آج تھوڑی دیر ہوگئی تھی اور پھر راستے میں ٹریفک  تھا اس وجہ سے ۔۔

سیاہ رنگ کا لباس  پہنے ہوئے وہ لڑکا سامنے کھڑی  لڑکی کو دیکھ رہا تھا  اس کی دلچسپی اب صرف اور صرف ایک شخص میں تھی۔۔۔۔

 میں یاسر کے پاس سے  آتا ہوں علی خاور نے  فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا لمحے بھر کے لیے ان دونوں کی آنکھیں ملیں ۔۔

وہ اسٹیج سے اترا اور نیچے چلا گیا ۔ ۔

تم نے اسے بھی بلایا ہے  فردوس نے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

وہ ہنس پڑی ۔۔۔

ظاہر سی بات ہے وہ یاسر کا بیسٹ فرینڈ ہے اور میرا بھی بہت اچھا دوست ہے تم جانتی ہوعلی  بہت اچھا اور عزت دینے والا لڑکا ہے ۔۔

فردوس  کچھ نہیں بولی بس ماہ نور  کے ساتھ بیٹھی  اسے اتنی خوبصورتی سے  بنی  بنوری  دیکھتی رہی ۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاء اللہ سے ماہ نور ۔

تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو کسی نے بہت انتظار کیا ہے تمہارے یہاں آنے  کا ۔۔

ماہ نور نے شرارت سے دیکھتے ہوئے فردوس کو کہا جبکہ اس کے گال  ہلکے  سے گلابی ہو گئے تھے ۔۔۔

علی خا و ر  نور کے پاس سے اب  سیدھا  یا سر کے پاس آ چکا تھا یاسر جو سفید رنگ کی قمیض شلوار میں بہت ہی ہینڈسم لگ رہا تھا وہ دونوں اور باقی تمام دوست ایک جگہ پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے ۔۔

جبکہ فردوس اور نور کی باقی سہیلیاں دوسری طرف کھڑی تھی کچھ وقت کے بعد اچانک ماحول میں چہل پہل شروع ہوگی منگنی کی رسم شروع ہونے ہی والی تھی ۔۔

یاسر اور نور کو اسٹیج پر بٹھا یا پھر  ان کے  بڑوں نے  باری باری ان کی رسم کی ۔۔۔

ان دونوں نے ایک دوسرے کو  منگنی کی انگوٹھیاں پہنائی تو ماحول میں ایک دم سے  تالیوں کا شور گونج اٹھا ۔۔۔

نور فردوس اور آمنہ اور ان کی باقی تمام سہیلیاں اب ایک الگ گروپ بنا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

کچھ دیر بعد نور کی سہیلیوں اور نور  کی کزنو  نے مل کر لڈی ڈالی اور ڈانڈیا کھیلیں ۔۔

ان تمام لڑکیوں کے ساتھ یاسر کے کچھ اور کزن بھی موجود تھے اور آمنہ بھی ۔۔۔

فردوس ایک جگہ بیٹھی انہیں  خوشی سے دیکھتی رہی اسے ڈانس کرنا نہیں آتا تھا مگر نور اسے زبردستی  پکڑ کر اپنے ساتھ لے آئی تھی ۔۔۔

نہیں نہیں نہیں ۔۔۔

مجھے نہیں آتا نور ۔۔

اؤ تو 

مجھے نہیں آتا یہ سب نور  ۔۔۔

ارے میں جانتی ہوں تمہیں ڈانس نہیں آتا ہم تو صرف ڈانڈیا  کھیل رہے ہیں ڈانڈیا کھیلنے سے  کیا ہوتا ہے آجاؤ تم ۔۔۔

نور کے ساتھ ساتھ اب آمنہ  بھی اسے پکڑ کر اپنے گروپ میں لے آئی تھی ۔۔۔

فردوس کے نہ چاہتے ہوئے  بھی یہ  دونوں فردوس کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے آئی تھی اور فردوس نے  شرماتے ہوئے ان دونوں کو دیکھا۔۔

 قسم سے یار  آمنہ مجھے یہ سب نہیں آتا تم لوگ جانتی ہو یار ۔۔

ہم جانتے ہیں تم ا یسے کرو جیسے ہم کر رہے ہیں ۔۔۔نور  نے کہا ۔۔

ان دونوں نے فردوس کی ایک نہ سنی اور اسے ایک  دو سٹیپس  ڈانڈ یوں کے سکھائے ۔۔۔

فردوس  بھی ان  کے ساتھ شرماتے ہوئے کچھ دیر کے لئے ان کے ساتھ ڈانڈیا  کھیلنے لگی ۔۔۔

چند لمحے اس نے ڈانڈیا کھیلیں  اس کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر آگئی ۔۔۔

اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں میں کچھ بہت زور سے چھپا ہو ۔۔

وہ اپنی جوتی اٹھا کر دوبارہ سے پہنے  لگی تو اس نے دیکھا کہ اس کے پاؤں میں کسی کی ٹوٹی ہوئی ایک لمبی سی چوڑی گھسی ہوئی ہے ۔۔

اسے اچانک ہی پاؤں میں درد ہونے لگا وہ اپنی جوتی وہاں سے لے کر جانے لگی ۔۔

فردوس کہاں جا رہی ہو آمنہ نے اسے   آواز دی تھی ۔۔

آ رہی ہوں دو منٹ میں ۔۔

وہ اپنی جوتی لے کر وہاں سے چلی گئی اور پھر ۔ایک کنارے پر بیٹھ کر جہاں پر لوگوں کا رش بہت کم تھا  وہاں بیٹھ کر  وہ  اپنے پاؤں میں سے وہ چوڑی  نکلنے لگیں جو کافی حد تک اس کے پاؤں کے اندر جا چکی تھی درد کا احساس اسے بہت بری طریقے سے ہو رہا تھا ۔۔

آدھی چوڑی اس کے پیر کے اندر گھسی ہوئی تھی اور چوڑی کا کچھ حصہ باہر سے نظر آ رہا تھا جسے وہ کھینچ کر نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔

وہ جیسے جیسے  چو ڑی نکا لتی جا رہی تھی خون تیزی سے نکلتا جا رہا تھا ۔۔

وہ ایک کنارے پر بیٹھی اپنی چوری نکال رہی تھی یہاں پر لوگ نہیں تھے ۔۔۔

وہ یوں ہی مصروف سے انداز میں بہت دھیان سے اپنے پیر میں سے چوڑی نکال رہی تھی ۔۔ کہ کوئی اس کے پیرو ں  میں آ کر اچانک سے بیٹھا ۔۔

فردوس کے  بال چوڑی نکالنے کی کوشش میں آدھے سے زیادہ آگے کی طرف آ چکے تھے ۔۔۔

فردوس کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے قریب  بیٹھا ہے اس  نے تیزی سے گردن اٹھا کر اپنے سامنے دیکھا۔۔

تو علی  بیٹھا اس کے پیر کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ 

لمحے بھر کے لیے ان دونوں کی نظر بڑی قریب سے ملی تھی ۔۔

یہ چوڑی کیسے لگی  فردوس ۔۔؟؟

علی  اپنی آواز کو بہت نرم رکھ کر اس سے بہت ہمدردی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

جوتی اتار ی  تھی تب لگی تھی ۔۔

فردوس نے جواب دیا اور دوبارہ سے چوڑی نکالنے میں مصروف ہو گی ۔۔

اگر تم برا نہ مانو تو میں تمہاری ہیلپ کر دوں  ۔۔۔؟؟

علی اس  کے پاؤں میں سے نکلنے والے خون کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

ساتھ ہی ساتھ اس نے جیب میں سے رومال  نکال کر فردوس  کی طرف بڑھایا ۔۔۔

اس کی کوئی ضرورت نہیں میں خود نکال لونگی  ۔۔۔

یہ تم سے نہیں نکل رہی میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں تم جس طرح سے نکال رہی ہوں اس سے تمہیں تکلیف ہوگی ۔۔۔

نہیں میں خود ہی نکالوں گی ۔۔۔

علی نے اسے ایک نظر دیکھا پھر اس کے بعد وہ خود ہی اس کے پیروں کی طرف اپنے گھٹنے کے بل بیٹھ چکا تھا ۔۔

فردوس نے گردن اٹھا کر دیکھا تو وہ اس کے پیروں کے پاس بیٹھا اس کے پیر کو دیکھ رہا تھا جہاں سے خون تیزی سے نکل رہا تھا ۔۔۔

اپنا پیر یہاں کرسی کے اوپر رکھو ۔۔

علی نے اپنی آواز کو نرم  رکھتے ہوئے کہا ۔۔

اس کی ضرورت نہیں  ہے پلیز میں خود ہی  نکا ل لونگی  ۔۔۔

اگر تم  خود نکال پاتی تو اب تک نکال چکی ہوتی  اب تم اپنا  پیر  اوپر کرو ۔۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس چند لمحے اسے دیکھنے لگی مگر اس نے اپنا پیر کرسی کے اوپر نہیں  رکھا تھا ۔۔

فردوس میں نے کہا پیر  ا وپر  رکھو ۔۔وہ اپنی آواز کو ہموار رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

فردوس  نے ایک نظر اسے دیکھا اس کے بعد بڑی مشکل سے اپنا پیر اس کرسی کے اوپر رکھا ۔۔

علی خاور نے نرمی سے اس کے پاوں کو پکڑا اور پھر نرمی سے اس کے پاؤں سے چوڑی نکالی۔۔۔

 اھہ ۔۔۔فردوس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی ۔۔ 

چوڑی نکل گئی ہے  آدھی تھوڑی دیر بعد درد کم ہو جاۓ گا ۔۔

وہ فردوس  کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے رومال کے ذریعے وہ خون صاف کر رہا تھا ۔۔

علی نے فردوس کا پیر  اپنے ہاتھ میں لیا اور دوسرے ہاتھ سے تیزی سے  پوری کی پوری چوڑی نکال دیں ۔۔۔

فردوس کے پیر  سے خون تیزی سے نکلنے لگا تو علی خاور نے زخم پر رومال  زور سے رکھ کر دبایا اور چند لمحے اس رومال کو پکڑ کر بیٹھا رہا ۔۔

پھر بڑی احتیاط سے رومال اس کے پیر میں باندھا ۔۔

تم یہاں سے اٹھنا نہیں میں اندر سے پٹی لے کر آتا ہوں ۔۔۔

وہ تیزی سے اٹھا جبکے فردوس اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

 وہ سیا ہ  قمیض شلوار والا لڑکا اب تیزی سے اندر کی طرف جا رہا تھا فردوس اسے دیکھتی رہی  جب تک وہ  اس کی نظروں سے دور نہ ہو گیا ۔۔۔

فردوس نے ایک نظر اپنے پیر کو دیکھا۔جہاں وہ ابھی ابھی رومال باندھ کر گیا تھا ۔۔۔وہ چند لمحے علی کے بندے ہوئے رومال کو دیکھتی رہی ۔۔

کچھ دیر بعد نظر سامنے پڑی جہاں سے وہ چلتا ہوا آ رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بوکس تھا ۔۔

فردوس نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک نرم سے مسکراہٹ تھی ۔۔۔

میں یہ زخم صاف کرکے اس پر  پٹی کر دوں گا تو پھر تکلیف کم ہو جائے گی ۔۔

وہ ایک بار پھر اس کے پیروں کے پاس بیٹھ چکا تھا اور اس کے زخم کو صاف کر رہا تھا دوائی لگنے کی وجہ سے ہلکی سی جلن اس کے زخم پہ ہوئی ۔۔

علی خاور نے  نرم نظروں سے اسے  دیکھا ۔فردوس کے چہرے پر تکلیف واضح تھی ۔۔

ابھی سہی ہو جائے گا تھوڑی دیر میں وہ ٹیوب انگلی میں  نکال کر اس کی زخم پر لگا رہا تھا ۔۔۔

فردوس اسے دیکھنے لگی وہ سیاہ قمیض شلوار والا لڑکا بہت ہلکے ہاتھوں سے بہت احتیاط سے اب  اس کے زخم پر پٹی لگا رہا تھا ۔۔۔

فردوس دیکھتی رہی اور علی  نے باکس بند کر کے ایک کنارے پر رکھا ۔۔

لمحے بھر کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھی ۔۔۔ 

علی خاور یوں ہی  بنا مقصد اسے نظر بھر کر دیکھ رہا تھا ۔۔وہ بھی چند لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی نہ جانے کون سا وہ پہر تھا جب ان دونو ں کا دل ایک دوسرے  دیکھ کر بہت زور سے دھڑکا ۔۔ 

ماحول میں موسیقی کی آواز تیز تیز گونج رہی تھی ۔۔

گلابوں کی خوشبو سارے ماحول میں پھیلی ہوئی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے فردوس کے لمبے  بال آ  ہستہ آ ہستہ اڑ رہے تھے ۔۔نہ جانے ایسا کیا تھا اس لمحے میں وہ لمحہ اتنا خوبصورت اور اتنا مکمل تھا کہ کسی تیسرے  کی ضرورت ہی باقی نہیں تھی ۔ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی ۔۔دونو ں  چند لمحے  ایک دوسرے  کو دیکھتے  رہے دیکھتے رہے ۔۔۔

فردوس نے  علی خاور کو شاید پہلی بار اتنی غور سے دیکھا تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایک بہت پرکشش اور بہت شاندار لڑکا تھا اس کے چہرے پر ایک رونق تھی اور اس کی مسکان میں شرارت جو اس کی آنکھوں سے بھی جھلکتی تھی ۔۔۔

‏کچھ باتیں ان کہی رہنے دو

کچھ باتیں ان سنی رہنے دو

سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر

پھر باقی کیا رہ جائے گا ؟

سب باتیں ان کی سن لیں اگر

پھر باقی کیا رہ جائے گا؟

اک اوجھل بے کلی رہنے دو

اک رنگیں ان بنی دنیا پر

اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو

‏منیر نیازی

تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔

فردوس نے علی خاور  کو کہتے سنا ۔۔۔

علی خاور کی بات سن کر لمحے بھر میں فردوس کے گال سرخ ہو گئے ۔۔

علی خاور نے   بہت  غور سے اس کے چہرے کو دیکھا ۔۔۔

تمہیں پتہ ہے فردوس ۔۔۔

جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا ۔۔

تم بالکل مجھے اس گڑیا کی طرح لگتی تھی جو بچپن میں میرے پاس تھی ۔۔

وہ گڑیا مجھے بہت اچھی لگتی تھی اس کی آنکھیں بالکل تمہاری ہی  طرح تھی یہی رنگ اتنی ہی خوبصورت اور چمکدار ۔۔ 

میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم مجھے کتنی زیادہ  ۔۔۔

فردوس ۔۔۔۔

نور نے فردوس کو آواز دی ۔۔

جب نور نے  فردوس کے  پاؤں پر پٹی بنی ہوئی دیکھی  تو وہ  تیزی سے فردوس کے پاس آ گئی ۔۔۔

کیا ہوا تمہارے پاؤں پر فردوس ،وہ فکرمندی سے کہتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھ گئی ۔جبکہ علی خاور نے باکس  اٹھا کر اوپر رکھا ۔۔۔

کچھ نہیں بس فردوس کے پیر میں چوڑی گھس گئی تھی ۔۔مگر پریشان مت ہوں اب اس کا پاؤں بالکل ٹھیک ہے چوڑی نکل گئی ہے ۔۔۔علی نے کہا ۔۔۔

بہت شکریہ تمہارا علی خاور ۔ ۔۔

تم ٹھیک ہو فردوس اب ؟ ۔۔۔

 ہاں اب بہتر ہے ۔۔۔۔

 ہم اندر چلتے ہیں    وہ فردوس کو اپنے ساتھ اندر کی طرف لے جارہی تھی جبکہ علی نے گردن موڑ کر فردوس کو دیکھا ۔۔۔

وہ نور  کے ساتھ اندر کی طرف جا رہی تھی جبکہ علی خاور نے اس کرسی کو دیکھا  جس پر وہ ا بھی تھوڑی دیر پہلے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

علی اور نے گردن موڑ کر دوبارہ دیکھا وہ نور کے ساتھ اندر چلی گئی تھی ۔۔

اس  نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کھولی تو اس میں فردوس کی پہنی ہوئی پایل تھی جو وہیں گر  گئی تھی علی چند لمحے اس پایل  کو دیکھتا رہا پھر مسکرا کر اس نے وہ  اپنی جیب میں ڈال لیں ۔۔اور اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔

یاسر  اب   چلتا ہوا لا ن کی دوسری طرف آیا جہاں پر علی خاور موجود تھا  ۔۔

علی خاور نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا بوکس ایک نوکر کے حوالے کیا۔۔

 یہ اندر رکھ دیں  علی خاور نے  نوکر سے کہا اور وہاں سے جانے لگا کہ یاسر سامنے سے چلتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا ۔۔

کہاں ہو  شہزادے میں تمہیں کب سے تلاش کر رہا ہوں اور تم یہاں اکیلے بیٹھے ہو جہاں کوئی نہیں ۔۔۔

بس  کچھ کام تھا وہ کر رہا تھا تھا ۔۔۔۔

چلو میرے ساتھ میں نے گانے کا انتظام کر دیا ہے تم آج کے دن ہمیں گانا سنا رہے ہو وہ بھی بہت اچھا ۔میں چاہتا ہوں کہ سب خوش ہو جائیں تمہاری زبردست آواز سن کر۔اور  یقینا تم  منع نہیں کروں گی ۔۔

بالکل بھائی میں ضرور گاؤ  گا تمہاری خوشی کے دن آج تو ویسے بھی سیلیبریشن کا دن ہے ۔۔۔۔

تو پھر آ جا ؤ ۔۔

یاسر نے بڑی محبت سے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا ۔۔۔۔

نور فردوس کو لے کر اپنے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی کے  اچانک  ماحول میں گٹار کی آواز گونجنے لگی یاسر اور اس کے تمام دوسرے دوستوں کا شور گونج اٹھا ۔۔۔

یاسر کے کچھ دوست مل کر علی  کے لئے  مائیک  سیٹ کر رہے تھے جبکہ علی خاور گٹار  سیٹ کر رہا تھا ۔۔۔

یہ اچانک کیا ہورہا ہے ماحول میں پھیلنے والی ہلچل سے نور  خوش ہوگی ۔۔۔

ارے واہ علی خاور گانا گانے والا ہے ہماری منگنی میں ۔۔۔نور ایک دم خوش ہو گئی ۔۔۔

تمام لوگ جو کھڑے ہوئے تھے اب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے تو علی خاور  اب بڑے  واضح طور پر نظر آرہا تھا جبکہ یاسراس  کے پاس آ کھڑا ہوا  تھا  ۔۔

ماحول میں ایک دم بالکل خاموشی چھا گئی گٹار سے نکلتی ہوئی خوبصورت دھنیں کانوں میں بہت اچھی  لگ رہی تھی  ماحول  ایک دم بے حد خوش گوار سا ہو گیا تھا ۔۔۔۔

وہ سیاہ قمیض شلوار  والا لڑکا بہت خوبصورت طریقے سے گٹار بجا رہا تھا کہ لمحے بھر میں اس کی نظر سامنے نور کے پاس  بیٹھی فردوس پر جا ٹکی ۔۔۔

لمحے بھر کے لیے فردوس جیسے اس کی آنکھوں میں گھو  گئی تھی اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔

جب جب تیرے پاس میں آیا ایک سکون ملا ۔۔۔۔

جسے میں تھا بھولتا آیا وہ وجود میرا ۔۔۔۔۔

جب آئے موسم غم کے تجھے یاد کیا ۔۔

ہو  ہو  ۔

جب سہمے   تنہا پن سے تجھے یاد کیا  ۔۔۔۔

همم ۔۔۔۔۔۔۔

دل  سنبھل جا ذرا پھر محبت کرنے چلا ہے تو ۔۔۔۔

دل  یہی  رک جا ذرا پھر محبت کرنے چلا ہے تو ۔۔۔

ایسا کیوں کر ہوا جانو نہ میں جانوں نہ ۔۔

ہو  ہو ۔۔

دل سنبھل جا ذرا پھر محبت کرنے چلا  ہے تو  ۔۔

دل یہیں رک جا ذرا پھر محبت کرنے چلا ہے تو ۔۔

جس راہ پہ ہے گھر   تیرا اکثر وہاں سے ہاں میں ہوں گزرا 

شاید یہی دل میں رہا تو مجھ کو مل جائے کیا پتا ۔۔۔

کیا ہے یہ سلسلہ جانو نہ میں جانوں نہ ۔۔۔

ہو ہو ۔۔

دل سنبھل جا ذرا پھر محبت کرنے چلا ہے تو دل  یہیں رک جا ذرا پھر محبت کرنے چلا ہے تو ۔۔۔

علی خاور کی آواز سارے ماحول میں رچ بس گئی تھی ۔۔ہر کوئی علی خاور  کی آواز میں کھو سا گیا تھا ۔۔

فردوس بس  وہاں بیٹھی اسے دیکھتی رہی ۔۔۔دیکھتی رہی ۔۔۔۔

علی نے جیسے ہی گانا بند کیا سارا ماحول تالیوں سے گونج اٹھا ۔۔

سب لوگ اب  باری باری اس کی تعریف کر رہے تھے ۔۔

علی خاور نے گانا ختم کرنے کے بعد ایک نظر اسے  دیکھا  وہ وہاں نہیں تھی ۔ پھر گردن موڑ کے علی نے  دوسری طرف دیکھا ۔۔

تو وہ  اب جانے لگی تھی اور نور کی امی سے مل رہی تھی ۔۔۔

علی خاور کے پاس اس کے دوستوں کا اتنا رش تھا کہ وہ اٹھ نہیں پایا ۔۔

وہ بس وہی بیٹھا ہوا اسے اس کی باقی دوستوں سے اور نور کے  گھر والوں سے ملتا ہوا دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اگلے ہی لمحے وہ باہر دروازے کی طرف جانے لگی تھی ۔۔۔

علی خاور نے  جب ا  سے باہر جاتا ہوا دیکھا تو وہ بھی  اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا اس نے بہت کوشش بھی کی مگر جب تک علی  وہاں پہنچا اس کی گاڑی جا چکی تھی ۔۔۔۔

علی خاورنے جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی پائل نکال کر  اسے  ایک نظر دیکھا ۔۔

اب یہ پائل میں تمہیں اس دن واپس کروں گا جب تم میری  زندگی میں شامل ہوگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صرف اور صرف میری بن کر علی نے پائل کو مسکرا کر دیکھا اور پھر واپس اپنی جیب میں ڈالتا ہوا  اندر چلا گیا ۔۔۔۔

فردوس جب سے  گھر آئی  تھی   وہ بہت خاموش خاموش  تھی  ۔۔۔۔

نور نے فردوس کو دو تین  بار کالز  کیں  یہ پوچھنے کے لئے کہ وہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں مگر فردوس نے نور کی کال نہیں اٹھائی وہ آج وہاں سے آنے کے بعد کچھ عجیب سا محسوس کر رہی  تھی ۔۔

فردوس اپنے کمرے میں آئی اور آ کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔

قریب رکھا ہوا اس نے پانی کا گلاس اٹھایا اور اس میں پانی ڈال کر پانی پینے لگی ۔۔۔

اتنے میں رابیہ اس کے کمرے  میں  آ گئی ۔۔۔

فردوس نور کا میرے پاس فون آیا تھا کہہ رہی ہے کہ تمہیں بہت  فون کیں  مگر تم نے اٹھایا نہیں سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟

رابیہ فکرمندی سے فردوس کے پاس آکر بیٹھ گئی ۔۔۔

نور  کہہ رہی تھی کہ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور جلدی وہاں سے آ گئی ۔۔

اس کی امی نے بھی تمہیں روکا مگر تم گھر چلی آئی ۔۔۔

جی امی بس میری کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی میرے سر میں بہت درد ہو رہا تھا اس وجہ سے اور مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔

چلو ٹھیک ہے خالی پیٹ  سر درد کی دوا  نہیں لینا  پہلے کچھ کھا لینا اس کے بعد دوائی لینا ۔۔۔

چلو تم  چینج کر لو رابیہ  اس کے دونوں گالو ں  کو پیار کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو تم رابیہ  مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی اور پھر اس کے کمرے سے نکل گئی ۔۔۔

فردوس نے  دوپٹہ  اتار کر ایک طرف  رکھا اور پھر باری باری اپنی ساری جیولری  اتار کر ٹیبل پر رکھنا  شروع کی ۔۔۔۔۔

فردوس نے اپنے پاؤں اٹھا کر بیڈ  کے اوپر رکھے تو اس کی نظر اپنے پاؤں پر بندھی  ہوئی پٹی پر گئی ۔۔ لمحے بھر کے لیے علی خاور کا چہرہ ہے اس کی آنکھوں کے آگے گھومنے لگا ، 

 تمہیں پتا ہے میرے پاس بچپن میں ایک سبز آنکھوں والی گڑیا تھی جسے میں بہت زیادہ پسند کرتا تھا علی خاور کے بولے ہوئے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے ۔۔۔

وہ علی خاور کی باتوں اور یادوں سے پیچھا چھوڑ آتی ہوئی کپڑے چینج کرنے کے لئے گئ اور واپس آ کر اپنے بیڈ پر بیٹھی ۔۔۔

تو ایک بار پھر اسے علی خاور کی باتیں یاد آنے لگیں ۔۔۔

تمہیں پتا ہے فردوس جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا ۔۔۔

علی خاور کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے تو اس نے کروٹ دوسری طرف بدلی ۔۔۔

ہاتھ بڑھا کر اس نے لیمپ  کی بھی روشنی بند کر دیں اور پورا کمرہ تاریخی میں ڈوب گیا ۔۔۔

وہ  علی خاور کی تمام باتوں اور یادوں سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی وہ اپنی آنکھیں زور سے بند کیے لیٹی رہی کے ا سے نیند آجائے مگر نہ ہی تو اسے نیند آ رہی تھی اور نہ ہی وہ علی کی باتوں کو بھول پا رہی تھی ۔۔یونیورسٹی کے پہلے دن سے لے کر اب تک اسے ایک ایک  چیز یاد آ رہی تھی ۔۔۔۔

یوں ہی کروٹیں بدلتے بدلتے فجر  ہوگی وہ فجر تک نہیں سوئی تھی ۔۔۔

فجر ہونے کی بھی ایک گھنٹے کے بعد اسے نیند آئی ۔صبح جب رابیہ کی کمرے میں آئیں تو وہ سو رہی تھی ۔۔

فردوس رابیہ نے اسے نرمی سے پکارتے ہوئے اس کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔

آج تو بڑا لمبا سو گئ تم ۔۔۔

رابیہ نرمی سے کہتے ہوئے فردوس کے پاس آ گئی جبکہ فردوس کی آنکھوں میں ابھی بھی نیند   بھری ہوئی تھی ۔

رات صحیح سے سو  نہیں پائی تھی سر میں درد ہو رہا تھا  اس وجہ سے کیا وقت ہوا ہے امی  ۔۔۔

گیارہ بج کے 15 منٹ ہورہے ہیں ۔۔۔

چلو اب جلدی سے آ جاؤ باہر ۔۔۔

ارے ہاں جو تمہیں بتانے آئی تھی وہ تو میں بھول ہی گئی شام میں یوسف صاحب اور ان کی فیملی آئے گی چائے پر عامر اپنی میڈیکل  کی پڑھائی کمپلیٹ کر چکا ہے اور  جاب کے لئے اسلام آباد  روانہ ہونے والا ہے اس سلسلے میں رضا نے ان سب کو آج چائے پر بلایا ہے  اور  ساتھ  عامر کو بھی سی آف کر دیں گے ۔۔۔

چلو  تم جلدی سے باہر آجاؤ ۔۔بابا زمینوں پر گئے ہیں دوپہر تک وہ بھی آ جائیں گے ۔۔

رضا  کے گھر  شام میں ایک بار پھر مہمانوں کا رش لگ چکا تھا یوسف صاحب اور ان کی پوری فیملی آج یہاں ان  کے گھر میں موجود تھی ۔۔۔

السلام علیکم کیسے ہیں آپ سب ۔۔۔۔

رابیہ نے خوش دلی سے سب سے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔

السلام علیکم انٹی کیسی  ہیں   آپ اور  بتائیں آپ کی  طبیعت کیسی ہے ۔۔

 وعلیکم السلام ہاں بیٹا اللہ کا شکر ہے بخار اتر گیا ہے اب بالکل ٹھیک ہوں ۔۔

فردوس  سب سے مل کر اب  آ منہ کے پاس ہمیشہ کی طرح بیٹھنے جا چکی تھی ۔۔

کچھ دیر باتیں کر نے کے  بعد  رابیہ اور فردوس نے مل کر سب کیلئے چائے اور ناشتہ لگوایا  جس میں آمنہ اور اس کی امی نے بھی ان  کی مدد کی ۔۔

شام کا ناشتہ باہر لان میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے درمیان لگا تھا ۔۔

وہ سب اج  گھر کے لان میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔

فردوس سب کے لئے چائے نکال رہی تھی جبکہ رابیہ سب کی پلیٹوں میں ناشتہ ڈال رہی تھی ۔۔۔

اور بتاؤ عامر اسلام آباد  جانے کی تیاری ہوگئی ہے ؟؟

 رضا نے عا مر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی انکل۔۔

 سب جانے کے سارے تیاری ہوگئی ہیں تین دن کے بعد میری  فلائٹ ہے ۔۔۔

کچھ مہینے اسلام آباد میں کام کروں گا وہاں میرے  بہت سارے  جاننے والے ہیں اور میرے انکل کا ہوسپیٹل بھی  ہے ۔۔

  رضا یوں ہی عا مر سے باتیں کرتا رہا جبکہ فردوس  آمنہ اور اس کی امی اپنی اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔ 

 کچھ وقت گزرا  تو سارے بڑے اندر چلے گئے  آمنہ اور فردوس باہر ہی لان میں بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے لان کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ا  نہیں بہت اچھی لگ رہی تھی   کچھ دیر کے بعد عامر اور اس کا بڑ ا بھائی ان کے پاس آے  اور اکے  برابر میں بیٹھ گیے  ۔۔۔

 فردوس میں ایک نئی پینٹنگ  بنائی ہے تم گھر آؤ گئی تو میں تمہیں دکھاؤں گی  آمنہ  بہت خوشی سے فردوس کو بتا رہی تھی کہ عا مر نے اس کی ٹانگ کھینچنا شروع کی ۔۔۔

بس  ذرا سی ،ذرا سی  اچھی پینٹنگ کیا بنا لیتی ہے پوری دنیا میں ہی اعلان کرتی پھرتی ہے اپنی تعریفوں کا ۔۔۔

 کیوں بھائی کیا کہتے ہیں آپ؟؟

 صحیح کہہ رہا ہوں نا میں ۔۔

عامر نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی کو بھی شامل کیا ۔۔

 ہاں عامر یہ تو تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو یہ کچھ  زیادہ ہی اوو ر اسمارٹ بنتی ہے  عامر کے ساتھ ساتھ اس کے بڑے بھائی نے بھی آمنہ کو تنگ کیا تو فردوس  ہنس پڑی۔۔

 مگر اس نے آمنہ کا ساتھ دیا تھا جب کہ آمنہ  منہ پھیلائیں اپنے دونوں بھائیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔

  کتنے بدتمیز ہے آپ دونوں اب میں آپ سے بات نہیں کروں گی آپ میری دوست کے سامنے مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔۔ 

 آمنہ نے برا سا منہ بنا کر اپنے دونوں بھائیوں کو دیکھا۔۔۔

 آپ دونو ں  کیوں میری پیاری دوست کو تنگ کر رہے ہیں میں جانتی ہوں اس نے  بہت اچھی پینٹنگ بنائی ہوگی ۔۔

 فردوس نے آمنہ   کو دیکھتے ہوئے کہا  اور ساتھ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔

 یہ دیکھیں یہ ہوتی ہے دوستی اور ایک آپ دونو ں میرے خونی رشتے دار کسی کام کے نہیں ہیں کسی تعریف کے نہیں ہیں بس جہاں دیکھو میری بےعزتی ہی کرتے ہیں اور عامر بھائی آپ تو بھول  ہی  جاۓ  کے میں آپ کی کوئی پینٹنگ  بناؤں گی آپ کی شادی والے دن جو آپ نے مجھ سے کہا تھا ۔۔۔اب  دیکھیں میں آپ سے کیسے بدلہ لیتی  ہوں۔۔۔۔

تم سے کس نے کہا کہ تم  بے کار پینٹنگ بناتی ہو تم تو بہت اچھی پینٹنگز  بناتیں ہو   آمنہ عامر نے فورا سے پلٹی کھائی۔۔۔۔

 دیکھو تم اپنا وعدہ پورا کرنا اور شادی کی پینٹنگ تو تم ہی  بناؤں گی ورنہ میں تمہیں کچھ بھی نہیں دوں گا تمہاری شادی پر  آمنہ کو عا مر  نے مزید تنگ کیا ۔۔

  اور سوچ لو تمہارے تو رشتے بھی بہت دور دور سے آ رہے ہیں وہ کیا کہتے ہیں ان لوگوں کو ہاں فوجیوں کے گھر سے۔۔۔

 کیوں بھائی یاد ہے نا آپ کو   ہاں بالکل بالکل لیکن بس بہت ہو گیا اب تم   میری پیاری سی بہن کو بالکل تنگ نہیں کرو گے   بس کچھ سالوں کی مہمان ہے یہ ہمارے گھر میں پھر تو یہ  فوجیوں کے گھر  جانے والی ہے  اور اگر اس نے  وہاں  تمہاری شکایت لگا دی تو پھر تم    خود ہی ڈاکٹر اور مریض بن کر اپنا علاج کرتے رہنا۔۔۔

 عامر کے بڑے بھائی کی بات پر وہ تینوں زور سے ہنس دیے۔۔۔

 جب کہ آمنہ کے گال سرخ ہو گئے تھے۔۔۔۔

 گھر کے  ڈرائنگ روم میں سارے بڑے موجود تھے تو یوسف صاف اور رضا نے  ایک دوسرے کو دیکھا وہ کافی دنو سے  دونوں گھروں کے درمیان رشتے کی بات  رکھنا چاہ رہے تھے فردوس اور عامر کے حوالے سے ۔۔

 یوسف صاحب نے اپنی بیگم کو تو بتا دیا تھا مگر رضا نے  ہمیشہ کی طرح رابیہ کو کسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی اس کے بارے میں بتایا تھا اور نہ ہی اسے معلوم تھا ۔۔۔

 یوسف صاحب نے گلا کھنکھارا۔۔

 رابیہ بھابھی بڑے دن سے میں آپ دونو ں  سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا ۔۔

اس سلسلے  میں نے اپنے عزیز دوست رضا  سے بھی بات کی ہے مگر  اس میں آپ دونوں کی رضامندی بے حد ضروری ہے   دیکھیں رابیہ  بھابھی  بات یہ ہے کہ میں فردوس کو بچپن سے دیکھ رہا ہوں اور میں نے آمنہ میں اور فردوس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں کیا ہے  آپ کی بیٹی فردوس مجھے بے حد پسند ہے  میں آپ کی فردوس بیٹی کو اپنے بیٹے عامر  کیلئے لینا چاہتا ہوں  میری یہ بہت دلی خواہش ہے کہ وہ میری چھوٹی بہو بنے   میرے  بڑے بیٹے کی شادی میں  تو کچھ  سال ہیں  مگر عامر کی شادی کے لئے ہمیں کچھ وقت لگے گا  کیونکہ وہ پرائیویٹ بھی اپنا کلینک کھولنا چاہتا ہے اور ہاسپیٹل  میں بھی اس کی ڈیوٹی ہوتی ہے  ان ساری چیزوں کو مینج کرنے کے لیے اسے وقت لگے گا  اور یہاں تک کہ فردوس کی پڑھائی بھی مکمل ہو جائے گی ایک سال تو پڑھائی کامکمل ہونے والا ہے   اس طرح سے دونوں بچوں کو وقت مل جائے گا اپنی اپنی چیزوں کو پورا کرنے کے لئے ۔۔

  رابیہ نے  بے حد حیرانی سے ان تینوں کو دیکھا جبکہ عامر کی  ماں کے چہرے پر ایک مطمئن سی مسکراہٹ تھی  یہ بات تو ثابت تھی کہ وہ بھی فردوس کو بے حد پسند کرتی ہیں  اور دوسری طرف عامر  کے ماں باپ کو یہ بات بھی پتہ چل چکی تھی کہ وہ فردوس کو پسند کرتا ہے اور اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔۔۔

 رابیہ  نے ایک نظر رضا کو دیکھا۔۔۔ اس بار بھی رضا نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ کیا ہے اسکی زندگی میں ۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔

رضا  کے چہرے پر صاف لکھا ہوا تھا کہ تم ہاں کرو۔۔۔

 مگر عامر  جیسے لڑکے  کے لیے انکار کرنا کسی بھی ماں کے لئے   آسان نہیں تھا   عامر بہت اچھا پڑھا لکھا اور تمیزدار لڑکا تھا  رابیہ کو رضا کا یہ فیصلہ اپنی بیٹی کیلئے بہت اچھا لگا تھا جبکہ  فردوس کو اس بارے میں بالکل بھی معلومات حاصل نہیں تھی۔۔۔۔

 وہ تو اس چیز سے بالکل بے خبر تھی کہ رضا اس کی زندگی عامر کو دے چکا ہے۔۔ 

  رابیہ کچھ دیر  رضا کو دیکھتی رہی پھر اس نے وہی کہا جو رضا ہمیشہ سے سننا چاہتا تھا جس طریقے سے وہ رضا کے تمام فیصلے شادی سے لے کر اب تک سنتی ہوئی آئی تھی اور جس طرح سے مان رہی تھی ۔۔

رابیہ  نے بھی  ہاں کر دی تھی ماحول ایکدم کمرے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کے لیے خوشگوار ہوگیا تھا  عامر کی ما ں نے  رابیہ کو گلے سے لگایا جبکہ یوسف صاحب اور رضا نے ایک دوسرے کو۔۔۔۔

 بھائی اب یہ بات تو طے ہوگئی کہ آپ کی بیٹی اب میری ہے  یوسف صاحب نے بڑی محبت سے کہا  لیکن میں چاہتا ہوں کہ ابھی آپ تھوڑا سا وقت فردوس کو دیں  اس سے اس بارے میں بات کریں مگر  ابھی نہیں کچھ وقت کے بعد کیوں کہ میں جانتا ہوں پپیرس میں  صرف اور صرف کچھ ہی وقت رہ گیا ہے  اور پھر یہ کہ اس کی  مری کی ٹریپ  بھی ہے یونیورسٹی کے ساتھ۔۔

 یوسف  صاحب میں    فردوس کو  مری نہیں بھیج رہا ہوں رضا نے کہا۔۔۔

 کیوں رضا ابھی تم نے مجھے کہا تھا کہ تمھاری بیٹی میری ہوئی  اور میں اپنی بیٹی کو  مری جانے کی اجازت دے رہا ہوں  کیوں کہ آمنہ کو بھی میں نے  اسلام آباد جانے کی اجازت دی ہے اسے بچو ں میں فرق آ جاۓ گا کے میری دوست جا رہی ہے اور میں نہیں ۔۔۔۔یوسف صاحب نے کہا ۔۔۔

 اور ویسے بھی  مجھے معلوم ہے عامر بھی اتنا مصروف ہو جائے گا کہ وہ فردوس کو بہت زیادہ وقت نہیں دے پائے گا شروعات کے دنوں میں تو بہتر ہے کہ تھوڑا بہت  گھوم پھر لیں ۔۔۔

اور ویسے بھی مجھے آمنہ بتا رہی تھی کہ اسے مر ی بہت پسند ہے   یہ چھوٹی چھوٹی سی بچوں کی خوشیاں ہے  انہیں جی لینے دو  شادی کے بعد ویسے بھی وہ دونوں مصروف ہو جائیں گے تو پھر ان تمام چیزوں کے لیے وقت کہاں ملے گا دونوں کو ۔ اور تم بالکل بے فکر رہو میں خود یونیورسٹی کے پرنسپل سے بات کروں گا سیفٹی کے لیے تم پریشان نہ ہوں ۔۔۔

 یوسف صاحب کی بات ختم ہونے کے بعد رضا نے ایک تیز نظر رابیہ کے اوپر ڈالیں  رضا کو  شک  ہو رہا تھا جیسے فردوس نے آمنہ کو کہا ہو کہ وہ یوسف صاحب سے بات کریں اور جیسے رابیہ کو یہ  چیز معلوم ہو  جب کہ ایسا کچھ نہیں تھا ان دونوں نے آمنہ سے یوسف  صاحب سے بات کرنے کو نہیں کہا تھا۔۔۔

  میں امید کرتا  ہوں کہ ہمارے سارے بچے ایک ساتھ بہت خوش رہیں گے یوسف صاحب نے رضا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

  ہمارے بچے اپنے اپنے کاموں سے فری ہو جائیں تو پھر ہم ان کی رسم کر دیں گے عامر کی ماں نے کہا۔۔۔۔

 رات کے کھانے کے بعد فردوس  اپنے کمرے میں بیٹھی  ہوئ اپنی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی کہ اس کی نظر اچانک  اس کے  پاؤں پر  گئی  علی خاور کا باندھا ہوا رومال اب اس نے کھول دیا تھا اور اس نے ایک باریک سی پٹی لگائی ہوئی تھی زخم کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا۔ ۔۔۔

 بیڈ کی سائیڈ ٹیبل والی دراز اس نے کھولی ۔۔

 علی خاور کا رومال وہاں اس نے  صاف کرکے رکھا ہوا تھا کہ وہ ا  سے لوٹا دے گی ۔۔

 چند لمحے وہ اس رومال کو دیکھتی رہی۔۔۔

 پھر اس نے رومال کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔

 لمحے بھر کے لیے علی خاور کا خوبصورت چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آیا  وہ کتنی احتیاط اور حفاظت سے اس کے پاؤں پر پٹی کر رہا تھا۔۔

 فردوس نہ جانے کتنی دیر اس کی باتوں کو سوچتے ہوئے رومال ہاتھوں میں پکڑے رہی  پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے اس رومال  کو ایک آخری نظر دیکھا اور پھر  الماری کی طرف بڑھنے لگی  اور وہ رو  مال اٹھا کر اس نے اپنے کپڑوں کے بیچ میں رکھ دیا ۔۔۔۔

 علی خاور کی ماں مہرین علی  کا سر اپنی گود میں رکھ کر بڑ ی  محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔

 کے  اس کی   جیب سے کچھ باہر کی طرف نکلتا  ہوا  اس کی ما ں کو نظر آیا۔۔۔

 علی یہ تمہاری جیب سے کیا گرا  ہے انہوں نے صوفے سے اٹھا کر وہ چیز علی کو دکھائی  یہ فردوس کی پایل  تھی جو علی خاور نے اپنے پاس رکھی تھی ۔۔۔۔

 علی یہ کس کی  ہے ؟؟؟

اور تمہارے پاس اور کیا کر رہی ہے۔۔۔ ؟؟؟

علی خاور کی ما ں  مہرین نے علی خاور سے پوچھا۔۔۔

 کچھ نہیں امی علی اسے  واپس  اپنی جیب میں رکھتا ہوا   اٹھ کھڑا ہو ا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا ۔۔۔

 علی میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے وہ جو اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا وہی روک گیا۔۔۔

 تم تو  اپنی ماں سے کچھ نہیں چھپاتے کیا تم بھول گئے ہو کہ ہم ماں بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے دوست بھی ہیں۔۔

 اپنی ماں کو نہیں بتاؤں گے کے  کس لڑکی  کی پائل  ہے تمہارے پاس میں نے تمہارے پاس کبھی کسی لڑکی کی ایسی  کوئی چیزیں نہیں دیکھی  بچپن میں اگر اسکول کے دوران تمہارے پاس غلطی سے کسی لڑکی کی پینسل بھی آ جاتی تھی تو تم دوسرے دن ا  سے فورا واپس کر دیتے تھے  اور وہ پینسل تم کبھی بھی اپنے بوکس میں نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ تمہاری نہیں تھی ۔۔

تو پھر  مجھے بتاؤ کہ تمہیں کسی لڑکی کی یہ پایل  اتنی اپنی اپنی سی کیسے لگی کہ تم نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا  اور مجھ سے بھی تم نے یہ چیز چھپا کر رکھیں ۔۔ 

 مجھے وجہ بتاو اس کی وجہ کیا ہے علی ۔۔۔

  یقینا کوئی بہت بڑی وجہ ہے ورنہ میرا بیٹا  کسی لڑکی کی پائل اپنی جیب میں نہیں رکھے گا۔۔۔

 مہرین صاحبہ کی آواز میں بے حدنرمی اطمینان تھا بہت اپنائیت تھی ۔۔ 

علی خاور چند لمحے اپنی ماں کو دیکھتا رہا پھر واپس آکر  دوبارہ سے ان کی گود میں سر رکھ کر  کسی چھوٹے سے بچے کی طرح لیٹ گیا ۔۔۔

 اور اس کی ماں  نے ایک بار پھر سے اتنی ہی محبت سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔۔۔

 اس کا نام" فردوس" ہے امی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ساتھ کلاس فیلو ہے میری  ایک سال ہونے والا ہے ہمیں ساتھ پڑھتے ہوئے  اس ایک سال میں نہ جانے کیسے اور   کب وہ میرے دل میں بس گئی  ہے میں نہیں جانتا ۔۔۔ 

 مجھے وہ  بہت بہت  اچھی لگتی ہے امی  اور میں اس سے بہت محبت کرنے لگا  ہوں ۔۔۔

 علی خاور کے ہاتھ میں فردوس کی پائل تھی  جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔۔۔

 مجھے وہ بس  بہت اچھی لگتی ہے اس کا خاموش رہنا ۔۔

اس کا مجھے  غصے سے دیکھنا۔۔

 اس کا مجھے اگنور کرنا۔۔

 اس کا مجھ سے بات نہ کرنا ۔۔ بات بات پر بالکل آپ کی طرح مجھے ڈاٹتے رہنا ۔۔۔

 مجھے بہت اپنا اپنا سا لگتا ہے امی بالکل آپ کی طرح ہے وہ ۔۔۔  

یاد ہے امی اس دن ہم نے بات کی تھی سبز آنکھوں والی گڑیا کے بارے میں آپ کو پتہ ہے  فردوس کی آنکھیں بھی   بالکل اسی خوبصورت گڑیا کی طرح ہے اور اس کا دل  اس کا چہرہ بہت خوبصورت ہے امی ۔۔

 میری بہت چا ہ  ہے کہ وہ میری زندگی میں شامل ہو جائے  اور امی آپ کو یاد ہے نا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کے   حالات کیسے بھی ہوں آپ میری مدد کریں گی  وہ بڑ ی  محبت سے اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔۔۔

 امی میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔۔۔

  مجھے زندگی شاید  کبھی بھی اتنی زیادہ خوبصورت نہیں لگی جتنی اس ایک  سال میں لگ رہی ہے۔۔۔

 میں روز اسے دیکھتا ہوں مجھے روز اس  سے محبت ہوتی ہے ۔۔۔ میں جتنی اس سے بات کرتا ہوں مجھے  اور  اس سے محبت ہوتی ہے۔۔

 وہ  جتنا مجھ سے  ڈ رتی ہے مجھے اور  اس سے  محبت ہوتی ہے ۔۔

وہ جتنا مجھ سے دور جاتی ہے ۔

مجھے اور اس سے محبت ہوتی ہے ۔۔

  میں اسے کھونے سے بہت زیادہ ڈرنے لگا ہوں  اتنا جتنا میں آپ کو کھونے سے ڈرتا  ہوں  آپ کو پتا ہے امی اپنی زندگی میں، میں  دو عورتوں کو کھونے سے بہت  ڈرتا ہوں ایک آپ کو اور  ایک فردوس کو۔۔۔۔

 مہرین  صاحبہ  نے  اپنے بیٹے کی آنکھوں میں فردوس کے لئے آج پہلی بار بے حد محبت  دیکھی تھی ۔۔۔۔

وہ ایک سال سے مجھ  سے یہ بات کتنی ماہر ا نہ طریقے سے چھپایا ہوا  تھا  کہ وہ اپنے دل میں کسی کی محبت بہت اندر تک بسائے بیٹھا ہے ۔۔

  اتنی اندر تک اس کی محبت اس کے دل میں  بس چکی ہے کہ اس لڑکی کو بھول جانا بے حد مشکل ہے۔۔۔

 علی۔۔۔

 مہرین صاحبہ  نے  علی کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے بٹھایا۔۔۔

 وہ نیچے اتر کر ان کے گھٹنوں کی طرف  بیٹھ گیا اور ان کے  گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھیں۔۔۔

 یہ پایل   فردوس کی ہے امی علی خاور نے مٹھی کھول کر وہ پایل  اپنی ماں کے آگے بڑھائی۔۔۔

 مہرین صاحب چند لمحے وہ پایل دیکھتی رہی پھر اس کے بعد علی کی مٹی میں اس پایل  کو  دوبارہ سے بند   کر  دیا ۔۔

تو علی نے اپنی ماں کو دیکھا ۔۔

 میں دعا کرتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں فردوس  ضرور شامل ہوں ۔۔۔

مگر علی  کیا یہ محبت دو طرفہ ہے یا صرف یکطرفہ  اگر یک طرفہ ہے تو پھر تم بہت تکلیف اٹھانے والے  ہو۔۔

  محبت کے دو پہیے ہوتے ہیں اگر وہ دونوں پہیے ایک ساتھ چلیں تو محبت کا سفر بہت خوبصورت ہے ۔۔۔۔

مگر ایک پہیے کے اوپر محبت کو لے کر چلتے رہنا اور گھسیٹے  رہنا  بے حد مشکل اور تکلیف کا سفر ہے ۔۔۔ 

جس کی نا ہی  تو کوئی منزل ہے اور سفر ، سفر انتہائی تکلیف دہ  ہے ۔۔۔

 ایک طرفہ محبت بہت زیادہ رلاتی ہے ستاتی ہے تکلیف دیتی ہے ۔۔

مگر میں امید کرتی  ہوں کہ یہ محبت ایک طرف نہیں ہوگی۔۔۔

 تمہارا محبوب جس سے تم بے حد محبت کرتے  ہو وہ یقیناً تمہارے ساتھ ہوگی۔۔ 

  بتاؤ ایسا ہی ہیں نا  وہ تمہارے جذبات کے بارے میں جانتی ہے  علی ۔۔۔۔

 مجھے نہیں معلوم اس نے کبھی  خود سے میری طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔ کچھ زبان سے  نہیں کہا جس سے مجھے کچھ ایسا لگے ۔۔۔۔ 

 مگر امی  میرا دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے ۔۔۔۔

 محبت اور پسند میں بہت فرق ہوتا ہے علی ۔۔

 نہیں امی میرا دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ بھی میرے لئے جذبات رکھتی ہے مگر۔۔۔ 

 مگر کیا علی۔۔۔۔

 مگر امی وہ اس طرح کی لڑکی ہے کہ میرے پاس کبھی خود چل کر نہیں آئے گی کبھی مجھ سے بات نہیں کریں گی  وہ  اتنی خاموش ہے کہ اگر میں خود  اس  سے سارا سال  بات نہ کروں تو وہ  خود سے کبھی کوئی بات نہیں کریں گی۔۔

  اگر میرے لیے کوئی جذبات رکھتی بھی ہوگی تو وہ اپنے گھر والوں سے بہت ڈرتی ہے  خاص طور پر  اپنے بابا سے  مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر اسے  کبھی مجھ سے محبت ہو بھی گئ اور اگر وہ اقرار بھی کرے تو وہ اپنے گھر والوں کے سامنے میرے لئے   کبھی بات نہیں کر سکتی۔۔۔

 وہ تم سے محبت کرتی ہے یا نہیں علی ؟

تم نے ابھی تک اسے واضح لفظوں میں نہیں بتایا کہ تم اسے چاہتے ہو ۔ اور تم   اس کی محبت میں بہت آگے تک نکل آئے  شاید اتنا آگے تک کہ تمہاری واپسی کا کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں ہے۔۔۔

 وہ مجھ سے محبت کرتی ہے یا نہیں  میں  نہیں جانتا مگر میں تو کرتا ہوں ۔۔اور مجھے پورا یقین ہے کہ ایک دن اسے مجھ سے محبت ضرور  ہو جائے گی ۔۔۔۔

 بیٹا یہ جو خوش فہمیاں ہوتی ہیں نہ  یہی غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں اور پھر ہم تکلیف اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔

 مجھے نہیں پتا  کے میں کتنی تکلیف اٹھاؤں گا اور کتنی نہیں مگر میں اسے  بالکل نہیں بھول سکتا نہ اج نہ ایک ہفتے بعد  نا بیس پچیس سال بعد  ۔۔۔۔

 مجھے اس سے محبت ھے  میں بس اتنا جانتا ہوں۔۔۔۔

رات  کا وقت  تھا کہ فردوس کے گھر کا دروازہ بجا تو  چوکیدار نے دروازہ کھولا ۔

فردوس کے  نام ایک پارسل آیا تھا ۔۔۔

رات کا وقت تھا اور کھانے کا بھی فردوس اور رابیہ  مل کر کھانا لگا رہی تھی  چوکیدار نے وہ پارسل لا  کر  رضا کو دیا اور کہا کہ یہ فردوس بی بی کے لیے آیا ہے ۔۔۔

فردوس نے  پریشانی سے اپنے باپ کو دیکھا یہ پہلی بار تھا کہ اس کے لیے کوئی پارسل آیا ہوں وہ بھی رات کو  ۔۔۔۔

خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی تھی ۔۔۔۔

پارسل آیا ہے کس نے بھیجا ہے یہ پارسل اور کس نے منگوایا  ہے ۔۔۔

رضا  نے ہمیشہ کی طرح سخت آواز میں کہا  تو رابیہ   اور فردوس   نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔

رابیہ کی آنکھوں میں سوال تھا ۔۔۔

جیسے وہ پوچھ رہی ہوں کہ کیا بات ہے  فردوس کس کا ہے ۔۔۔

فردوس  نے بھی اپنی ماں کو دیکھا اور پھر آہستہ آواز میں کہا کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔۔

آواز نہیں آتی تمہیں میں نے پوچھا یہ کس کا پارسل آیا ہے ہمارے گھر پر وہ بھی تمہارے   نام پر ۔۔

 رضا نے  دوبارہ سے سختی سے پوچھا ۔۔۔

رضا نے  پارسل پر فردوس کا  نام دیکھا ۔۔

یہ کس کا پارسل ہے یہاں او او ر  مجھے بتاؤ فورا رضا نے ایک تیز نظر سے فردوس کو دیکھا اور اونچی آواز میں اسے اپنے قریب بلایا ۔۔۔

باپ کے خوف سے اس کا چہرہ زرد ہو گیا تھا ۔۔نہ جانے کون سی مصیبت تھی جو ایک بار پھر اس کے گلے سے لپٹنے والی تھی ۔۔

مجھے مجھے نہیں معلوم بابا میں نے کچھ نہیں منگوایا ۔۔۔

تو اس پر تمہارا نام کہاں سے آگیا ؟؟؟

 ہوا سے  آ گیا خود بخود ۔۔

رضا  اس پارسل کو  دیکھنے کے لئے اس پارسل کو  کھول ہی رہا تھا کہ اسے یوسف صاحب کی کال آتی  ہوئی نظر آئی تو اس نے پارسل چھوڑ کر فورا کال اٹھائیں  ۔۔۔

السلام علیکم کیسے ہو رضا ۔۔

سلام دعا کے بعد یوسف  صاحب نے رضا سے پوچھا ۔۔

تمہارے گھر میں نے فردوس کے نام ایک پارسل بھیجوایا ہوگا وہ دراصل کیا ہے نا کہ میں اور اسماء عامر کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔اس وجہ سے میں خود لے کر نہیں آ پایا تب بھی میں نے عامر سے کہہ کر وہ پارسل تمہارے گھر میں  فردوس کے لیے بھجوا دیا  میں کچھ مصروف تھا ورنہ میں خود ہی آ جاتا ۔۔۔

کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا تم پریشان مت ہونا یہ میں نے بھجوایا ہے فردوس کے لیے ۔۔۔۔

یوسف صاحب نے فون کرکے رضا کو بتایا کیونکہ وہ رضا کا مزاج بہت اچھی طرح سے جانتا تھا ۔۔۔

رضا یوسف صاحب کی بات سن کر کچھ حد تک پرسکون ہو گیا تھا۔۔۔

فردوس ایک ہفتے کے بعد مری جا رہی ہے اور ہم عامر  کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف ہیں ۔۔

اور ساتھ ساتھ بڑے بیٹے کی بھی شادی کی تیاریاں چل رہی ہے تو میں خود نہیں آ پایا میں نے اسماء نے  فردوس کو کچھ تحفے بھیجے ہیں ۔۔۔

وہ کیا ہے نا کہ وہ اگلے ہفتے  مری جا رہی ہے تو  اس وجہ سے ہم نے فردوس کے لئے کچھ  شاپنگ کی تھی کچھ گرم کپڑے ہیں اور ڈرائی فروٹ وغیرہ ۔۔۔

 چلو پھر تم سے بعد میں ملاقات ہوتی ہے خیال رکھنا اپنا خدا حافظ ۔۔۔

رضا نے  یوسف صاحب سے بات کرنے کے بعد ایک تیز نظر سے  فردوس  دیکھا وہ اس پارسل کی وجہ سے پہلے ہی غصے میں تھا اور دوسری طرف وہ یوسف صاحب کو منع نہیں کر سکتا تھا  ۔۔

ادھر آؤ تم یہاں سامنے کھڑی ہو میرے ۔ ۔

رضا نے  فردوس کو اپنے سامنے بلایا تو اس کی رہی سہی جان بھی نکل گئی ۔۔۔

یوسف صاحب کو کس نے بتایا کہ تمہاری یونیورسٹی مری کی ٹریپ کے لیے جا رہی ہے ۔؟

بابا میں نے یوسف صاحب سے ایسا کچھ نہیں کہا آمنہ سے میری بات ہوئی تھی تو ہو  سکتا ہے کہ انکل کو آمنہ  نے بتایا ہو ۔۔۔۔

نہیں آمنہ  سے تمہاری صرف بات نہیں ہوئی تھی  آمنہ سے تم نے یہ کہا تھا کہ یوسف صاحب میرے باپ کو راضی کریں کے  میں تمہیں مری جانے دو ں یہی بات ہے نا ۔؟؟

 وہ غصے کے عالم میں کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔

جبکہ فردوس دو قدم پیچھے ہوئی تھی ۔۔

نہیں نہیں بابا قسم سے آپ مجھ سے کسی بھی قسم لے لیں ۔۔

میں نے آمنہ  سے صرف بات کی تھی میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ میرے لئے بات کریں یوسف صاحب سے کے وہ آپ کو راضی کریں  ۔۔۔۔

اور مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم بھی نہیں کہ یوسف صاحب نے یہ کیوں بھیجا ہے ۔۔۔

اگر آپ کہتے ہیں تو میں انہیں واپس بھجوا دیتی ہوں ۔۔۔

بکواس بند کرو اپنی کم عقل لڑکی بےعزتی کروانا چاہتی ہوں میری ۔۔۔۔

آپ  آپ  غصہ  نہیں کریں بابا میں میں نہیں جاؤں گی مجھے نہیں جانا میں نے تو پہلے بھی منع کیا تھا ۔۔

مگر مجھے نہیں پتہ یوسف انکل اور آمنہ کی کیا بات چیت ہوئی ہے ۔۔

آپ نے انکار کر دیا تھا  تو پھر میں کیوں جاؤں گی ۔۔

میں نہیں جا رہی بابا آپ بالکل بے فکر رہے غصہ مت کریں  پلیز ۔۔۔

منہ بند کرو اپنا۔۔

 تم بھی اپنی ماں کی طرح ہی  ہوں ۔۔۔

ایک اس نے ساری زندگی میری ناک کٹوائی ہے  اور اب تم میرے دوست کے آگے میری بےعزتی کرنا چاہ رہی ہو کیونکہ وہ تمہارے لیے مجھ سے بات کرکے گیا ہے ۔۔۔۔۔

اگر تم نہیں  جاؤگی  تو تمہیں کیا لگتا ہے یوسف صاحب مجھ سے اس معاملے میں کچھ نہیں پوچھیں گے کہ تم کیوں نہیں گئیں  ۔

تمہاری ماں ساری زندگی مجھے میرے دوستوں کے آگے خاندان والوں اور رشتہ داروں کے آگے گراتی  آئی ہے۔۔ اور اب بچی کچی قصر تم  نکال دو  رضا نے  پانی سے بھرا ہوا  گلاس اٹھا کر زور سے زمین پر مارا ۔۔۔

جب میں نے تمہیں ایک بار منع کردیا تھا تو تمہیں سمجھ نہیں آئی تھی تمیں آمنہ سے اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔۔۔۔

اللہ کی قسم بابا میں نے اس  سے کوئی بات نہیں کی  آمنہ کی کچھ دوستیں  ہماری یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور نور سے بھی آمنہ کی بات ہے ۔مگر میری  خود آمنہ   سے ٹریپ کے بارے میں کوئی بات  نہیں ہوئی ۔۔۔۔

مجھ سے جھوٹ مت بولو رضا  دوبارہ سے دھاڑا ۔۔۔

میں آپ سے جھوٹ کیوں کہوں گی بابا میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔

میں نے کہا مجھ سے جھوٹ نہیں بولوں رضا اس پر ہاتھ اٹھانے کے لئے آگے بڑھا ۔۔کے  رابیہ  تیزی سے بیچ میں آگئی ۔۔

کیا ہو گیا ہے رضا آپ کو جب بیٹی کہہ رہی ہے کہ اس نے بات نہیں کی تو آپ مان کیوں نہیں لیتے ۔۔وہ آپ کی کون سی بات سے انکار کرتی ہے ۔۔میں جانتی ہوں فردوس نے کسی سے بات نہیں کی ۔۔یہ آمنہ اور نور کے درمیان کی بات تھی تو انہوں نے فردوس سے پوچھا تھا  کہ وہ جانا چاہتی ہے تو فردوس نے  انکار کر دیا تھا میں تھی اس وقت کمرے میں میرے سامنے ہی بات ہوئی تھی آمنہ سے ۔۔۔۔

ہاں بالکل تم تو اس کی طرفداری لازمی کرو کیونکہ تمہاری ہی تو پر چھائی ہے یہ ۔۔

رضا انہیں  یوں ہی برا بھلا کہتے رہا  اس نے کھانا نہیں کھایا تھا بلکہ وہ غصے سے کھانا چھوڑ کر سیدھا اپنے کمرے میں جا چکا تھا ۔۔۔

جبکہ فردوس  نے اپنے باپ کو جاتا ہوا دیکھا اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھرے پڑے تھے ۔۔۔۔

رضا کو اس بات کا بھی احساس نہیں تھا کہ وہ اب  چھوٹی  سی  فردوس نہیں ہے وہ بڑی جوان لڑکی ہے جو اب  یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ۔۔

 بابا نے  ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں بڑی ہو گئی ہو  وہ ابھی بھی مجھے ناپسند کرتے ہیں ۔۔۔

جب کہ میں نے کبھی بھی ان کے کسی فیصلے سے انکار نہیں کیا ہے ۔۔۔مگر پھر بھی میں اپنے باپ کی دل میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی ۔۔کتنی بد قسمت ہوں میں ۔باپ کے ہوتے ہوئے بھی باپ کا پیار مجھے میسر نہیں ۔۔۔۔

وہ نم  آنکھوں سے یہ سب کچھ  سوچتے ہوئے اپنے باپ کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

رضا کمرے میں جا چکا تھا اور اس نے دروازہ زور سے بند کیا ۔۔

فردوس نے اپنی آنکھیں آہستہ سے بند کی تو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر گر چکے تھے ۔۔۔

وہ  کچھ نہیں بولی  کھانا جس طرح سے لگا ہوا تھا ویسے ہی لگا رہا ۔۔۔

کسی نے  کھانا کھایا تھا اور فردوس  اپنے آنسو پوچھتی ہوئی کمرے میں آ گئی تھی جبکہ رابیہ فردوس کو اپنے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ٹیبل پر  یوسف صاحب کا پارسل یونہی پڑا ہوا تھا ۔۔

وہ اپنے کمرے میں آئی اور  بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ روتی رہی ۔۔ ۔۔۔۔

کچھ دیر کے بعد رابیہ اس کے کمرے میں آئی ۔۔

اور  اس کا چہرہ غور سے دیکھا یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی رونا بند کی ہو ،اس کا چہرہ گیلا  تھا یوں جیسے ابھی دھو کر آئی ہو ۔۔۔۔

رابیہ خاموشی سے آئ اور پارسل  اٹھا کر ایک طرف رکھا اور پھر فردوس کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔۔

فردوس  کچھ نہیں بولی ۔۔۔

تم جانتی ہو اپنے بابا کو وہ غصے کے بہت  تیز ہیں ۔۔۔

مگر وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں فردوس ۔۔۔۔

رابیہ نے کہتے ہوئے  فردوس سے نظریں چرایں  رابیہ نے  یہ الفاظ کہے تو فردوس نے  اپنی ماں سے نظر ملائی ۔۔

مگر رابیہ  نے تیزی سے نظریں چرا لیں ۔۔۔

فردوس کے ہونٹوں پر ایک بہت بے بس اور غمزدہ سی  مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔

کیوں جھوٹ بولتی ہے امی اور مجھے سکھاتی ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔۔۔۔۔

اگر یہ بات سچ ہے تو آپ ہمیشہ یہ باتیں کرتے ہوئے مجھ سے نظریں کیوں چرا لیتی  ہیں ۔۔۔

تمہارے بابا بس تھوڑے سے سخت ہیں ۔۔۔

نہیں امی میرے بابا صرف میرے معاملے میں سخت ہیں ۔۔۔

اگر میری جگہ ان کا کوئی بیٹا ہوتا تو شاید ہو اتنے سخت نہیں ہوتے ۔۔

مگر اس میں میرا کیا قصور ہے اگر میں بیٹانہیں ہو تو میں نے اپنے باپ کا سر اونچا رکھنے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں مجھے دوسرے نے ان کوششوں کے لئے بہت سر آیا ہے اور بہت محبت دی ہے مگر جس کی تھوڑی سی محبت پانے کے لیے میں اتنی محنت کرتی ہوں   وہ تو مجھے دیکھتے تک نہیں ہے  ۔۔۔

بچپن سے لے کر آج تک  میں ہر وہ چیز کرتی آئی ہوں جو بابا  چاھتے  تھے  ۔۔۔

صرف اور صرف اس وجہ سے کے  ا  نہیں کبھی یہ احساس ہو جائے کہ میں ان سے بہت محبت کرتی ہیں ۔۔

اور شاید میری اسی محبت کو دیکھ کر وہ تھوڑی سی محبت مجھ سے بھی کرنے لگے مگر میں کتنی بے وقوف ہونا  ۔۔شاید دنیا کی سب سے بیوقوف لڑکی ہی میں ہوں ۔۔۔

ایک میرا باپ ہے جس نے مجھے پیدا کیا وہ مجھے دیکھنا تک نہیں چاہتا  ۔۔۔  

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میری باقی تمام دوستیں  کس قدر خوش نصیب ہیں ان سب کے باپ ان کے اوپر کس طرح سے محبت نچھاور کرتے ہیں۔۔

 اور ایک میں ہوں جو بچپن سے لے کر جوانی تک اپنے باپ کی ایک محبت بھری نظر کے لیے ترستی آئی ہوں ۔۔۔

 وہ لوگ اپنے اپنے بابا  کی تعریف بیان کر رہی ہوتی ہیں اور میں،  میں خاموشی سے بیٹھی ہوئی انہیں سن رہی ہوتی ہو

 امی میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔

 رابیہ  چند لمحے فردوس کو دیکھتی رہی پھر رابیہ  نے نرمی سے فردوس کو اپنے گلے سے لگایا۔۔۔

" کچھ باپ  کو اپنی عزت اپنے بچوں کی خوشیوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہے" ۔۔۔

  تم اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لوں تو زیادہ بہتر ہے فردوس ۔۔

 میں اپنی قسمت کو قبول کر چکی ہوں کہ میرے نصیب میں  باپ کی محبت نہیں مگر  پتہ نہیں کیوں ہر بار مجھے ایک امید  سی  رہتی ہے ہر بار  کے  کبھی تو  بابا کو  مجھ سے محبت ہو جائے گی  مگر وہ تو صرف مجھ  سے نفرت کرتے  ہے۔۔۔

 رابیہ نے اسے ایک نظر دیکھا ۔۔ فردوس کی یہ باتیں  اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی اسے تکلیف دے رہی تھی۔۔۔

 چند لمحے وہ فردوس کو یوں ہی مایوس بیٹھا دیکھتی رہی پھر جب اس سے برداشت نہ ہوا تو اس کے کمرے سے اٹھ کر باہر چلی گئی وہ  فردوس کو یوں  روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔

فردوس  اپنے کمرے میں اداس  بیٹھی رہی ۔۔

اس کی نظر یوسف صاحب کے پارسل پر پڑی  ۔۔

فردوس نے ہاتھ بڑھا کر پارسل اپنی  طرف کیا ۔

ا ور اسے کھولا تو سامنے ہی ایک بہت خوبصورت سا کارڈ رکھا ہوا تھا ۔۔

 اندر پارسل  میں ایک موٹی  شال تھی ۔۔۔

ایک فروزی کلر کا بہت ہی پیارا سا سویٹر بھی تھا ۔۔

اور سب سے نیچے فردوس کے لیے بہت سارے ڈرائی فروٹ اور اس کی پسندیدہ چاکلیٹ تھی ۔۔۔۔

اور آخری  شاپر میں نمکین کاجو  تھے جو کہ فردوس کو بہت پسند تھے ۔۔۔

فردوس نے  سب  سامان کو دیکھ کر یوسف صاحب کا دل ہے دل میں شکریہ ادا کیا ۔۔۔

سامنے ہی ایک چھوٹا سا کارڈ پڑا ہوا تھا  فردوس نے اس کارڈ کو کھولا تو کارڈ پر لکھا ہوا تھا "میری بیٹی فردوس کے لیے" ۔۔۔۔

اسے پڑھ کر فردوس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھیں دوبارہ سے نم  ہو گئی تھی ۔۔۔

تم بہت لکی ہوں آمنہ کے  تمہارے پاس یوسف صاحب جیسا ہے فادر ہیں ۔۔۔

وہ کارڈ پر نرمی سے یوسف صاحب کا نام  پڑھتی ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔

یونیورسٹی کا ماحول ہمیشہ کی طرح مصروف تھا مگر یونیورسٹی میں آج پکنک کی وجہ سے زیادہ  چہل پہل تھی سٹوڈنٹس  الگ الگ ڈیپارٹمنٹس سے آ رہے تھے تھے اور بہت خوش تھے ۔۔

 ان کیلئے یہ تفریح بہت اچھی تھی ۔۔جگہ  جگہ  لڑکیوں اور لڑکوں کے ٹولے بنے ہوئے تھے ۔۔

صبح صبح یونیورسٹی کے سارے اسٹوڈنٹس  مری جیسے  شہر جانے کے لیے بے حد آکسائیڈ تھے ۔۔۔

یونیورسٹی کے باہر  اسٹوڈنٹس کے لیے کافی ساری بسیں  لائن سے لگی ہوئی تھی اور اسٹوڈنٹ کافی پر جوش اور خوش نظر آ رہے تھے ہر کسی کے کندھوں پر دو بیگز  لازمی تھے ۔۔پھر بھی کچھ کچھ سامان ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا ۔۔۔

یونیورسٹی میں ایک عجیب سی ہلچل ایک عجیب سا اچھا سا ماحول لگ رہا تھا ۔۔

ہر کوئی بڑے اچھے سے تیار ہوکر ٹریپ پر  جانے کے لئے آیا تھا ۔۔۔۔

ایسے میں علی  خاور  نے سفید رنگ کی ٹی شرٹ کے نیچے بلیو رنگ کی جینز پہنی ہوئی تھی ۔۔

اور اس کے کندھے پر ایک بڑا سا بیگ تھا ۔۔۔۔۔

کچھ لوگ پہلے کہہ رہے تھے کہ مری ٹریپ پر  جانے کے لیے بالکل بھی آکسائیڈ نہیں ہے مگر آج تو لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور رونقیں  ہی الگ ہیں ، یاسر اسے دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا جبکہ علی نے ا سے ایک نظر دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔

کبھی کبھار کچھ نئے لوگوں کے آنے سے کچھ چیزو ں  میں دلچسپی آ جاتی ہوں ۔۔۔۔

او و ۔۔۔۔ اچھا تو نئے اور پرانے لوگ کون ہے ذرا تم ہمیں بتاؤں گے  ۔۔۔یاسر نے کہا ۔۔

نہیں نہیں بتانے کا کیا فائدہ ہے میں یہ چیز اپنے تک ہی  رکھنا چاہتا ہوں کچھ چیزیں پرائیویٹ  بھی ہوتیں ہیں ۔۔

 علی نے شرارت سے کہا تو یاسر نے اس کی کمر پر زور سے مکا  مارا ۔۔۔

کیا بات ہے یاسر نے  اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

کیا بات ہے اگر تمہیں کوئی بات پتا چلے تو مجھے بھی بتانا وہ بھی علی تھا ۔۔۔

میں تم سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ یہ  سب کیا چل رہا ہے ۔۔۔

اور میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ یہ سب  کچھ نہیں چل رہا ۔۔

تم سیدھے طریقے سے مجھے بتا رہے ہو یا میں ایک اور مکا  تمہارے  پیٹ میں مارو ۔۔

زیادہ میرے باپ بننے کی ضرورت نہیں ۔۔

تمہاری منگنی ہوگئی نہ بس اب تو اپنا منہ بند رکھو ۔۔اور مجھے میرا کام کر نے دو تکے میری بھی جلدی کوئی منگنی ہو جاۓ ۔۔۔

انتہائی کمینے انسان ہو تم یاسر  نے  علی دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

بہت بہت شکریہ میری تعریف کیلئے ۔۔۔

دیکھو یاسر  میں تمہیں پہلے ہی بتا رہا ہوں کہ آج تم  میرے ساتھ نہیں بیٹھنا  تم جا کر اپنی منگیتر کے ساتھ بیٹھنا اور میں کسی اور کو اپنے ساتھ بٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ خوبصورت سفر ایک لڑکے کے ساتھ کٹے وہ بھی منگنی شدہ ۔۔۔

علی خاور کی بات پر وہ دونوں ہی زور سے ہنس پڑے تھے ۔۔۔

تو  بس دیکھتا  جا بیٹا میں کیا کرتا ہوں تیرے ساتھ یاسر نے بھی علی کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

ویسے علی خاور تم جس کی وجہ سے جانے کے لیے راضی ہو وہ تو مجھے نظر نہیں آرہی ۔۔۔

اور نور بھی غائب ہے وہ بھی نظر نہیں آئی مجھے صبح سے ۔۔۔

ہوگئیں  دونوں دوستیں  کہیں ایک  ساتھ۔۔

 چلو ہم  باہر چلتے ہیں ۔۔۔

علی اور یاسر  باہر آ کے کھڑے ہوگئے یہاں پہ سارے اسٹوڈنٹ پہلے ہی موجود تھے ۔۔۔

یاسر کی نظر نور  پر پڑی تو اس نے دور سے   ہاتھ ہلایا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

کیسی ہو نور تمہاری دوست فردوس   کہاں ہیں وہ نہیں چل رہی کیا اس نے کہا تھا کہ وہ آئے گی ایک دن  پہلے  ۔۔

ہاں وہ آئے گی مگر ابھی تک آئ نہیں ہوسکتا ہے تھوڑی دیر میں آتی ہوں ۔۔

میں نے اسے کال کی تھی مگر اس نے کال اٹھائی ہی نہیں ۔۔۔

وہ دونوں کچھ دیر یونہی کھڑے رہے کہ فردوس کی گاڑی   یونیورسٹی کے باہر رو کی ۔۔۔

فردوس نے آج نیلے   رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی۔ جس پر  گلے  کی طرف چند بٹن لگے  ہوئے تھے اور باقی کی پوری فروک سادہ تھی دوپٹے کے  چاروں طرف خوبصورت  باریک سی بیل بھی لگی ہوئی تھی ۔۔

ڈرائیور نے فردوس کا سامان  باری باری  اٹھا کر باہر نکال کر دیا ۔۔۔

تھینک یو ۔۔۔

 اس نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا تو ڈرائیور وہاں سے چلا ۔۔۔

وہ دیکھو اب آئی ہے یہ اتنی دیر سے ۔۔۔

نور کہتے ہوئے فردوس کی طرف چل پڑی جبکہ وہ بھی نور  کی طرف آ رہی تھی ۔۔۔

کہاں تھی تم پورے ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ ہو ۔۔۔

یار میں تو ٹائم پر نکل رہی تھی مگر بس کچھ کام آگیا تھا بیچ میں ۔ اس وجہ سے تھوڑی دیر ہوگئی ۔۔۔

چلو ہمارے ساتھ وہاں چلتے ہیں سب وہیں  موجود ہیں اور ٹیچرز بھی کچھ دیر میں شاید  کچھ اناؤنسمنٹ  کریں گے ۔

ہاں چلو فردوس نور کے ساتھ آ گئی سب اسٹوڈنٹ ایک بار پھر سے یونیورسٹی کے دروازے کی طرف موجود تھے اور گاڑیا ں لائن  سے لگی ہوئی تھی اتنے میں یونیورسٹی کے پرنسپل  باہر تشریف لے کر آئے تو سارے اسٹوڈنٹس ادب سے کھڑے ہو چکے تھے ۔۔۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے یونیورسٹی دو ہفتوں کیلئے مری ٹریپ   پر جارہی ہے ۔۔۔اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ سب بہت انجوائے کریں گے ۔۔۔ اور ایک دوسرے کو بہت سپورٹ کریں گے اور خیال رکھیں گے  ۔۔

پورا سال بہت ٹفف  پڑھائی کی وجہ سے مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگوں پر بہت پڑھائی کا پریشر رہا ہے اور  امتحانات میں بھی بس  کچھ وقت ہی رہ گیا ہے ۔

 تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ لوگوں کی ریفریشمنٹ کیلئے  ایک اچھی سی ٹرپ پلین  کی جائے اسی وجہ سے ہم نے یونیورسٹی کو دو ہفتوں کے لیے مری ٹریپ پر  بھیجنے کا اعلان کیا ۔۔

کیا آپ سب اس ٹریپ کے لئے  ایکسائٹڈ  ہیں پرنسپل صا حب نے بلند  آواز میں  کہا ۔۔

یس سر ۔۔۔

سارے اسٹوڈنٹس کی ایک آواز تھی ۔۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے چلیں اب آپ سب اپنی اپنی بسوں میں بیٹھنا شروع کریں ۔۔۔

سارے سٹوڈنٹ بسوں میں بیٹھنا شروع ہوئے  تو ہر ایک نے   خود ہی بس میں جگہ بنا کر اپنا سامان اوپر کی طرف رکھ دیا ۔۔۔

‏فردوس بھی نور اور یاسر کے ساتھ بس  کی طرف جانے لگی کہ علی  اسے  سامنے سے سے آتا ہوا نظر آیا ۔۔

یہ والی بس  بھر چکی ہے دوسری بس میں چلتے ہیں ۔۔۔

علی خاور تیزی سے  یاسر کے پاس  آیا اور یاسر کے برابر میں آ کے کھڑا ہوں اور اس کے کان میں آہستہ آواز میں کہنے لگا ۔۔

نور کے ساتھ ہی بیٹھنا اگر کہیں اور بیٹھے یا میرے پاس آئے تو  تمہارا منہ توڑ دوں گا ۔۔

یاسر نے علی کو  ایک نظر دیکھا ۔۔سمجھ گے علی نے کہا ۔۔

بلکل ۔۔۔یاسر نے کہا ۔۔۔

تم بالکل فکر مت کر و  میں نور کے ساتھ ہی بیٹھ جاؤنگا یا سر نے اسے تسلی دی مگر جیسے ہی بس کے اندر داخل ہوا تو اس نے جان بوجھ کر نور اور فردوس کو  ایک ساتھ بٹھایا ۔۔۔

 علی خاور اسے غصے سے دیکھتا رہا ۔۔۔کمینہ ۔۔۔بےوفا ۔۔۔علی نے یاسر کو  کہا ۔۔۔

یاسر  خود نور کی پیچھے والی سیٹ  پر رحمان کے ساتھ بیٹھ چکا تھا جب کہ علی کو یا سر کے اوپر مزید غصہ آیا ۔۔

جو اپنے سارے دانت نکال کر اس کو تپا رہا تھا جبکہ علی خاور نے صبر کا گھونٹ پیا ۔۔۔

سارا راستہ یوں ہی ہنستے کھیلتے خوشی خوشی  گزرتا گیا ۔۔۔

مغرب کے بعد یونیورسٹی کی تمام بسیں رکی  تو سٹوڈنٹس ادھر  ادھر  کھانے پینے کے لئے  جا چکے تھے ۔۔

ایسے میں فردوس بس  کے اندر بیٹھی رابیہ سے فون پر بات کر رہی تھی اور اسے اپنے سفر کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔

فردوس نے بات کرنے کے بعد   فون کاٹا  تو اسے علی بس کے اندر آتا ہوا نظر آیا ۔۔۔

تمہیں  بھوک نہیں لگ رہی کیا ۔۔۔

علی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

نہیں ابھی مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔

تھوڑا سا کچھ کھا لو  آگے چل کے وہاں کوئی ریسٹورنٹ  نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور چھوٹی موٹی شاپ یا پھر ڈھابا تو بہتر ہے کہ یہیں سے کچھ لے لو یا پھر کھا لو ۔۔

ویسے  میں دیکھ کر آیا ہوں کے  یہاں سے بیس منٹ کی فاصلے  پر ایک بہت اچھی بریانی ملتی ہے ۔۔۔

اگر تم چاہو تو چل  سکتی ہو ۔۔۔

پارسل بھی ہو جاتا ہے کھانا  ۔۔

میں نور سے پوچھتی ہوں پھر اس کے بعد دیکھتے ہیں ۔۔

نور اور یاسر جانے کے لئے تیار کھڑے ہیں تم بتاؤ ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے ۔۔

فردوس   نے کہا اور اپنا بیگ لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ 

وہ چاروں   بیٹھ کر کھانا کھانے لگے جبکہ فردوس کو زیادہ بھوک نہیں تھی تو اس نے تھوڑا سا کھانا کھا کر باقی کھانا پیک  کروا لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

باقی سب نے اپنا اپنا کھانا ختم کیا تو پھر ان سب نے مل کر چائے پی ۔

جبکہ فردوس خاموش خاموش  سی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں ۔۔۔

۔علی خاور  نے ایک نظر ا سے دیکھا ۔۔

فردوس تم  کونسی جگہ مری میں  سب سے زیادہ پسند کرتی ہوں علی نے  فردوس کو دیکھتے  ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

علی کی آواز پر فردوس نے چونک کر ایک نظر علی کو دیکھا۔۔

کیا ۔۔وہ  کچھ اور سوچ رہی تھی ۔۔۔

فردوس نے اس کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔۔۔

علی نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ۔۔

میں مری کبھی نہیں گئی بس وہاں کی جگہوں کے بارے میں سنا ہے اور تصویریں دیکھی ہیں سب کہتے ہیں کہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے وہ  علی  خاور کو دیکھتے ہوئے اب کہہ رہی تھی ۔۔۔

اور  نور تم  علی  نے مزید بات بڑھانے کے لئے نور کو بھی شامل کیا ۔۔

میں مری گئی  ہوئی ہوں مگر بچپن میں جب میں بارہ سال کی تھی پھر اس کے بعد مری کسی کام سے جانا ہی نہیں ہوا ۔۔۔

اور دوسری بار اب جا رہی ہوں ٹرپ پر  یونیورسٹی کے ساتھ ۔۔۔

چلو نکلنے کی تیاری کرتے ہیں رحمان کا بھی میسج آیا ہوا ہے کہہ رہا ہے کہ سب لوگ جانے کے لئے تیار ہیں ہم لوگ آجائیں وہ موبائل پر اس کا  میسج دیکھتے ہوئے ان سب کو بتا رہا تھا ۔۔وہ چاروں جانے کے لیے اکٹھے کھڑے ہو گئے اور ریسٹورنٹ سے باہر جانے لگے ۔۔۔۔.  

یاسر اور نور واک کرتے کرتے ان دونوں سے کچھ آگے نکل گئے تھے ۔۔

جبکہ فردوس اور علی  ایک دوسرے سے ایک   یا دو قدموں کی دوری پر تھے ۔۔۔

علی خاور نے اپنی رفتار فردوس کی طرح کر دیں ۔۔۔

وہ مستقل کچھ سوچتے ہوئے۔۔ بار بار اپنے فون  کی طرف دیکھ  رہی  تھی جیسے کسی کی کال یا میسج کا انتظار ہو ۔۔۔

علی خاور  نے اسے دوبارہ سے دیکھا نیلے رنگ کے لباس والی  لڑکی بے حد اداس  سی لگ رہی تھی ۔۔۔

اس کے کانوں میں وہی  خوبصورت سے ایئر رنگس  تھے جو  علی خاور کو بہت پسند تھے ۔۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔

علی خاور نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا تو فردوس نے  اسے ایک نظر دیکھا اور پھر خاموشی سے دوبارہ چلنے لگی ۔۔۔

وہ علی  خاور کی بات کا جواب دیئے بغیر ہی اس سے آگے  جانے لگی کے علی نے  اسے پکارا ۔۔۔

"فیری "۔۔

 میرا مطلب فردوس ۔۔ 

فردوس نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ وہیں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

یاسر اور نو ر ان سے تھوڑا سا آگے جا چکے تھے ۔۔۔

کیا  ہوا ہے  میں کافی دیر سے نوٹ کر رہا ہوں تم پریشان  ہوں اگر  کوئی چیز تمہیں  پریشان کر رہی ہے تو تم مجھ سے  شیئر کر سکتی ہو ۔۔

علی خاور  بہت  نرم سی آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس  نے گردن موڑ کر علی خاور تو دیکھا۔۔۔

 کیا اس کی ماں کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی اور انسان تھا جو اس  کا چہرہ پڑھنے کی طاقت رکھتا تھا جو اس کی آنکھوں میں موجود  اس کی اداسی دیکھ سکتا تھا ۔۔

کچھ دیر کے لئے وہ علی خاور کو دیکھتی رہ گی۔۔۔

 سوائے فردوس کی ماں کے کوئی اسے نہیں سمجھ سکتا تھا کوئی اسے نہیں جان سکتا تھا مگر علی  اس کے چہرے کو دیکھ کر اس کے اندر کا حال ا سے بتا رہا تھا ۔۔۔

وہ واقعی پریشان تھی رضا کی وجہ سے اور وہ بار بار فون بھی رضا کی وجہ سے ہی دیکھ رہی تھی کہ شاید میرے باپ کو ایک بار میرا خیال آ جائے کوئی  ایک مختصر پیغام میرے نام بھیج دیں کہ میں خیال سے جاؤ کوئی دعا یا صرف یہی کہہ دیں   کہ جب خیریت سے پہنچ جاؤں تو مجھے بتا دینا ۔۔۔۔۔

مگر افسوس  رضا  کی طرف سے ایسا کوئی پیغام موصول نہیں ہوا تھا ۔۔جبکہ رابیہ نے اسے بے حد پیار اور محبت کے ساتھ  بھیجا تھا  ۔۔۔

وہ اس بات سے بے حد اداس  تھی کہ رضا اس سے بالکل بھی بات نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔  

وہ آج یونیورسٹی بھی نہیں آنا چاہتی  تھی۔۔

 مگر رابیہ نے اسے صبح  خوب ڈانٹا  کے بابا اس بات پر بہت  ناراضگی  ہونگے ۔۔ 

کہ جب یوسف صاحب کو پتہ چلے کہ وہ سارے انتظامات ہونے کے باوجود بھی نہیں گئی۔۔۔

اور پھر اگر یوسف صاحب اور رضا کی آپس میں بات ہوئی اور اگر انہیں یہ معلوم ہوا کہ تم نہیں گئی تو ان دونوں کی بات بھی خراب ہو سکتی ہے اور اس نتیجے میں رضا تم سے اور ناراض ہو جائیں گے  رابیہ نے فردوس کو صبح صبح اس کے کمرے میں  آ کر خوب ڈانٹا  جس  کی وجہ سے وہ یونیورسٹی کیلئے بھی لیٹ ہو گئی تھی اور اسی بات سے بے حد پریشان اور اداس تھی ۔۔۔

فردوس کو اب بالکل اس بات پر یقین ہو چکا تھا کہ وہ رضا کی نظر میں  کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔۔ اور نہ ہی اس کا باپ اسے پسند کرتا ہے  اور نہ ہی اسے دیکھنا چاہتا ہے  نہ ہی اس سے بات کرنا چاہتا ہے ۔۔۔

  کیا بات ہے۔۔؟؟

 تم کیوں آج بہت اداس ہوں  ۔اپنی باقی دوستوں کو دیکھو وہ کتنا خوش ہے کتنا  انجوائے کر رہی ہیں ۔۔ اور تم ایک جگہ بالکل خاموشی کے ساتھ بیٹھی ہوں جیسے تمہارا کوئی تعلق ہی نہ ہو اس سے۔۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے آہستہ کی آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں بالکل ٹھیک ہوں وہ جانے لگی تو علی خاور  نے اسے دوبارہ سے پکارا۔۔

فردوس ۔۔

فردوس نے اپنی آنکھیں آہستہ سے بند کیں  نہ جانے کیوں جب بھی وہ  فردوس  کا نام لیتا تھا ۔۔فردوس کا دل زور زور سے دھڑکتا تھا ۔۔۔

کچھ علی  خاور کی نرم سی آواز میں عزت  اور احترام بھی شامل تھا ۔۔۔

اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو خیر ہے ۔۔۔

مگر تم یوں اس طرح سے اداس مت رہا کرو کچھ نہ کچھ بولتی رہا کرو ۔۔۔

تمہاری خاموشی مجھے بہت زیادہ خوفناک لگتی ہے ۔۔

ویسے یہ ایئر  رنگز مجھے تمھارے بے حد پسند ہیں جب بھی تم انہیں پہنتی ہو میں انہیں ہی  دیکھتا رہتا ہوں تمہارے کانوں میں یہ بہت خوبصورت لگتے ہیں ۔۔۔

ایک بار پھر اس کے آئیر  رنگز کو دیکھتے ہوئے اس کی تعریف کر رہا تھا ۔۔

کبھی کبھی تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں تم سے یہ مانگ لو پھر خیال آتا ہے   کہ میں انہیں پہنوں گا کہا  وہ ہسنا تھا اپنی بات پر ۔۔۔ 

ویسے یہ تم پر بہت زیادہ اچھے لگتے ہیں  ۔۔

وہ شرارت کے موڈ میں تھا تاکہ وہ ہنس پڑے ۔۔۔

ویسے میں نے سنا ہے کہ سمپل اور  خوبصورت لڑکیوں کو یہ روکسٹار ٹائپ لڑکے  جن کے کانوں میں بندے ہوتے ہیں اور ہاتھوں میں بہت سارے بینڈ اور جسم پر ٹیٹو بنے ہوتے ہیں وہ   کیا کہتے ہیں ان  لڑکوں کو ہاں ہاں۔۔  پلے بوائے ٹائپ  یہ پلے بوائے ٹائپ  لڑکے سیدھی سادی لڑکیوں کو بڑے اچھے لگتے ہیں شاید ۔۔ 

یہ ساری اچھی لڑکیاں کچھ  پلے بوائے لڑکوں کی چکر میں پھنس جاتی ہے ان سے سچی محبت کرنے لگتی ہیں اور اس کے بعد جب  انہیں  دھوکا ملتا ہے تو پھر وہ  کچھ لویال  لڑکوں سے بدلا  لیتی ہیں جو کہ بہت لوونگ  کیئرنگ  ہوتے ہیں ۔۔۔

میری نظر میں ایسی دو تین لڑکیاں ہیں یو نیورسٹی کی  مگر خیر جانے دو ۔۔۔۔

اس نے جان کر  یہ کہا کے وہ  لڑکیوں کے بارے میں یہ سن کر کچھ لازمی بولے گی ۔۔

  وہ جانتا تھا کہ وہ اب خاموش نہیں بیٹھیں گی ۔۔۔اور یہی ہوا ۔۔

جی نہیں ۔۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہے لڑکیوں کو اس طرح کے  لڑکے  بالکل نہیں پسند ہوتے لڑکیاں ہمیشہ  بہت ڈیسنٹ تمیزدار پڑھے لکھے اچھی فیملی کے عزت دینے والے اور عزت کرنے والے لڑکے  پسند کر تی ہیں اس ٹائپ کے نہیں جو آپ بول رہے ہیں ۔۔

وہ علی  خاور کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

یعنی کہ تم کہہ رہی ہوں کہ تمہیں  اسے لڑکے نہیں  پسند ۔۔۔

ہاں بالکل مجھے ایسے لڑکے  بالکل نہیں پسند ۔۔

کوئی خاص وجہ ان لڑکوں کو ناپسند کرنے کی ۔۔۔

بہت ساری وجوہات ہیں انہیں ناپسند کرنے کی ایک تو بہت بگڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔

 سیدھی سادی لڑکیوں کے دلوں سے کھیلتے ہیں ۔۔اور پھر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔۔اور سب سے بڑی بات کہ شراب اور سگریٹ پیتے ہیں اور مجھے ان دونوں چیزوں سے شدید نفرت ھے ۔۔۔

وہ یہ کہہ کر آگے کی طرف جانے لگی ۔۔۔۔

علی خاور کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑائیں ۔۔۔

یعنی کہ تمہیں سیمپل اور ڈی سنٹ لڑکے اچھے لگتے ہیں ۔۔تمیز دار عزت دینے اور عزت کرنے والے رائٹ ۔۔۔؟؟؟

مجھے ہی نہیں ساری لڑکیوں کو ایسے ہی لڑکے  ا چھے لگتے ہوں گے ۔۔۔

دونوں اب  ساتھ چلتے ہوئے اس چیز کے بارے میں بحث کر رہے تھے ۔۔۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے تمہاری بات ما ن لیتے ہیں ۔۔۔

مگر میں نے تو سنا ہے کہ لڑکیوں کو امیر  اور گڈ لوکیگ لڑکے  بھی بہت پسند ہوتے ہیں ۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے  ایک  تیز نظر سے علی خاور کو دیکھا ۔۔۔۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتا یہ کون بیوقوف لوگ ہیں جو یہ بات لڑکیوں کے بارے میں پھیلا رہے ہیں ۔۔۔۔

جب کہ ہمارے ملک میں 70 پرسنٹ لوگ کھیتی باڑی پر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔۔70 پرسنٹ کا مطلب بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ یعنی کہ وہ لوگ نہ ہی تو بہت زیادہ امیر ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی ان کے آنگنوں میں چھ چھ  کھڑے گاڑیاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ان کی عورتیں اسی میں ہی گزارا کرتی ہیں  بچے پیدا کرتی ہیں بچے پالتی ہیں ان کی تعلیم و تربیت کرتی ہیں ۔۔۔

پھر کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ عورت پیسے کے پیچھے بھاگتی ہے ۔۔۔۔حد ہے ۔۔

اگر ہم اپنے ہی گھر و ں میں دیکھیں یا اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ہمارے برابر میں رہنے والے جو پڑوسی ہیں ان کے گھر میں کتنا پیسہ ہے اور ان کی  کتنی طلاقیں ہو گئی ہیں اس امیری اور غریبی کو لے کر اسی طرح سے ہر خاندان میں اگر کوئی بھائی زیادہ کماتا ہے یا کوئی بھائی کم  کماتا   ہے تو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ وہ   عورت طلاق لے کر چلی گئی ہے یا اس آدمی کو   پیسے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے ۔۔۔

پتہ نہیں کیوں لوگ یہ فضول باتیں پھیلا رہے ہیں کے  عورتیں  کم میں گزارہ نہیں کر تی جبکے یہ بہت غلط ہے۔۔

عورت کبھی بھی پیسےکو اہمیت نہیں دیتی  وہ ہمیشہ ایسے مرد کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے جو اس کی عزت کرتا ہوں محبت کرتا ہوں احترام کرتا ہوں اس کی باتوں کو انڈرسٹینڈ کرتا ہوں سمجھتا ہوں سنتا ہوں ۔۔۔۔

عورت ہر حال میں مرد کے ساتھ گزارا کر لیتی ہے ۔۔پھر چاہے وہ بہت امیر ہوں یا پھر نارمل فیملی سے بلاونگ کرتا ہوں یا پھر غریب ہو۔۔۔

عورت ہمیشہ مرد کے ساتھ گزارا کر لیتی ہے ۔۔۔

پتا نہیں کیوں لوگ یہ بات پھیلاتے ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آتا جب کہ اگر ہمارے اردگرد کے ماحول میں دیکھا جائے تو انہیں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کتنی غلط بات کرتے ہیں اپنے گھروں کی عورتوں کو دیکھ لیں  کہ کیا ان کے باپ کی کمپنی نا ہونے کی وجہ سے انہیں چھوڑ کر چلی گئی ہے یا  ان کے ساتھ  رہ کر ان کے  بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرتی ہیں ۔۔

آپ بھی اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھیے گا اور پھر اس بات کو سمجھے گا جو میں کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔۔

یعنی اگر تم فیچر میں شادی کرو گی تو بلکل میرے جیسے لڑکے سے شادی کروگی ، وہ فردوس  کو دیکھ کر  شرارت سے کہہ رہا تھا ۔۔۔

کیونکہ میں بہت ہینڈسم بھی ہو اور  تمیز دار بھی ہو اور عزت کرتا ہوں ساتھ  محبت بھی ۔ 

علی خاور کی بات پر فردوس نے  گردن موڑ کر اسے ایک نظر دیکھا اور پھر خاموشی کے ساتھ چلنے لگی علی خاور  نے اس بات کا شکر ادا کیا کہ اس کے چہرے پر اب وہ خاموشی اور وہ اداسی شاید تھوڑی  کم ہوگئی تھی جو اس سے پہلے اس کی چہرے پر بھری  پڑی تھی ۔۔۔

وہ  یوں ہی اس سے کسی نہ کسی ٹوپک پر بات کر رہا تھا اور وہ یوں ہی اپنی  را ے ا  سے دی جا رہی تھی ۔۔۔

یاسر اور نور کافی آگے تک نکلا آے تھے جبکہ فردوس اور علی  آہستہ آہستہ چلتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔۔

 انہوں نے ان دونوں کو ایک نظر دیکھا ، وہ لوگ ان سے دور تھے اور ساتھ چلتے ہوئے آرہے تھے ۔۔۔

نور اور یاسر ان دونوں کو سامنے سے آتا ہوا دیکھ رہے تھے تو نور  نے یاسر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ دونوں ساتھ میں کتنے اچھے لگتے ہیں نا ۔۔۔

ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں ساتھ میں  بہت  پرفیکٹ لگتے  ہیں ۔۔۔۔۔

تمہیں پتا ہے یا سر  فردوس ایک بہت اچھی لڑکی ہے اور علی خاور جیسا لڑکا اگر میری  دوست کو مل گیا نا تو یہ دونوں ایک دوسرے کو بہت خوش رکھ سکتے ہیں ۔۔ 

علی خاور بھی بالکل فردوس  کے جتنا ہی بہترین ہے اور جب دو  بہترین لوگ زندگی ساتھ گزارتے ہیں  تو زندگی بہت خوبصورت ہو جاتی ہے ۔۔۔

وہ دونوں اب بس پر  چڑھ گئے تھے جبکہ علی اور فردوس سامنے  کی طرف آ رہے تھے ۔۔۔

وہ دونوں بس میں بیٹھنے  والے آخری تھے ۔۔

 کچھ دیر کے بعد گاڑی دوبارہ سے چل پڑی ۔۔۔

یوں ہی گاڑی چلتے چلتے رات ہوگئی تھی اور رات کی ساڑھے بارہ بج رہے تھے بسمیں  موجود اسٹوڈنٹ تھکاوٹ کی وجہ سے سو چکے تھے ۔۔۔

ایسے میں فردوس اور علی خاور  بس کی چوتھی سیٹس  پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

اور ان کے بالکل پیچھے یاسر اور نور بھی مگر وہ دونوں سو چکے  تھے ۔۔۔

کیا تمہیں نیند نہیں آرہی ؟؟؟

علی  خاور نے  فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

وہ کھڑکی والی طرف بیٹھی ہوئی تھی اور رات کی تاریخی میں ڈوبے ہوئے درختوں کو اور سڑکوں کو دیکھ رہی تھی جو اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔۔

نہیں مجھے نیند نہیں آ رہی ۔۔۔

اچھی بات ہے مجھے بھی نہیں آرہی ۔۔۔

میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں ۔۔۔

علی نے اپنا موبائل نکالا اور اس میں سے گیلری نکالیں ۔۔

یہ دیکھو اس نے کچھ تصویریں فردوس کی طرف کی ۔۔۔

ایک چھوٹا سا بچہ آرمی کے یونیفارم میں کھڑا ہوا تھا اور اس کے برابر میں آرمی کے ہی  یونیفارم  کوئی لڑکا  کھڑا  تھا  ۔۔

الٹے ہاتھ کی طرف علی خاور کی امی مہرین  کھڑی ہوئی تھی جو جوانی میں بہت خوبصورت اور پرکشش لگ رہی تھی ۔۔۔۔

یہ آپ کے پیرنٹس اور آپ ہیں  فردوس نے فورا پہچانا ۔۔

ہاں ۔۔۔

یہ میرے پیرنٹس ہیں اور یہ میرے بابا میرے بابا آرمی میں میجر  تھے مگر  جب میں بارہ سال کا تھا تو وہ شہید ہوگئے تھے ۔۔

امی اور بابا کی لو  میریج  ہوئی تھی مگر جب بابا کا انتقال ہوا تو امی بہت زیادہ ڈپریشن میں چلی گئی ۔۔۔

امی کو بابا کی موت کے صدمے سے ریکور ہونے کے لیے تقریبا چار سال لگے تھے ۔۔

اسوقت میں بہت چھوٹا تھا ۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ڈپریشن کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے ڈپریشن میں سے لوگوں کو نکالا جاتا ہے ۔۔امی کہتی ہے بہت زیادہ تکلیف  دہ ہوتا ہے ۔۔۔انسان اندر سے مر جاتا ہے ۔۔۔

مگر آہستہ آہستہ جیسے وقت گزرتا گیا میں امی کے اور زیادہ قریب ہو گیا اتنا کہ اب امی کے   بغیر میں  جینے   کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔

ہم دونوں ایک دوسرے کی بیسٹ فرینڈ ہیں ۔۔۔۔

میں امی سے کچھ نہیں چھپاتا ہر چیز  بتاتا ہوں اور ہر چیز میں میں ان سے  مشورہ بھی  لیتا ہوں ۔۔۔

وہ اب  اپنی اور مہرین  صاحبہ کی کچھ اور تصویریں دکھا رہا تھا جس میں وہ ان کے ساتھ تھا ۔ کبھی وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا ہوتا ہے یوں جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ہو کبھی ان کے ہاتھ کو چوم رہا ہوتا  ۔۔۔

علی نے  ایک اور تصویر کھولی جس میں اس کی بابا مہرین اور علی خاور  موجود تھے مگر   خاور صاحب اس میں بغیر یونیفارم کے  تھے ۔۔۔۔

یہ میں  پانچ  سال کا تھا یہ تب کی  پکچر ہے ۔۔۔

آپ اپنے بابا سے بہت زیادہ ملتے ہیں یوں لگ رہا ہے جیسے بالکل آپ ہو ۔۔۔۔

ہاں میں پورا کا پورا اپنے بابا کی طرح ہو امی بھی یہی کہتی  ہیں ۔۔۔

وہ مجھے دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں یوں لگ رہا ہے جیسے میں خاور کو دوبارہ دیکھ رہی ہو ۔۔وہ مسکرا کر فردوس کو دیکھ رہا تھا جبکہ فردوس  مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجا ے ہوے  اس کی تصویریں دیکھ رہی تھی ۔۔ ۔۔

رات کی تاریخی میں مکمل خاموشی تھی ۔۔۔ 

وہ فردوس کے ساتھ بیٹھا اپنی بہت خوبصورت یادیں اس سے  شیئر کر رہا تھا ۔۔

آپ اپنی امی کے بہت کلوز ہیں ۔۔

ہاں بالکل اسی طرح جس طرح سے تم اپنی امی سے بہت کلوز  ہو ۔۔۔

علی  کی بات پر فردوس نے چونک کر اسے   دیکھا  ۔

آپ کو کیسے پتہ یہ بات فردوس نے کہا ۔۔۔

کیونکہ تم نے اپنی امی کی اور اپنی تصویر اپنے موبائل کے وال پیپر پر لگائی ہوئی ہے ۔۔۔ 

تم بالکل اپنی امی کی طرح ہو ۔۔تمہاری آنکھیں بھی بالکل تمہاری امی پر گئی ہیں ۔۔۔

علی خاور  مسکرایا ۔ ۔۔

ہاں بالکل میں اپنی امی کے  بہت کلوز ہوں اور میں امی پر ہوں ۔۔۔

ہم دو  بہنیں تھی اور میری  چھوٹی بہن کی آنکھیں بالکل ہماری طرح تھی مگر وہ بہت کمزور پیدا ہوئی تھی اور اکثر بہت زیادہ بیمار رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گئیں تھیں بچپن میں ۔۔۔

اپنی چھوٹی بہن کا نام میں نے خود رکھا تھا ۔۔۔ 

اگر وہ آج ہوتی تو شاید میں گھر میں اتنا تنہا محسوس نہیں کرتی کوئی ہوتا جس سے کچھ کہہ سکتی تھی  اس سے باتیں  شیئر کرتی اس سے  چیزیں شیئر کر تی ۔وہ کہتی  جا رہی تھی کہ اسے اچانک  خیال آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے اور کس کے سامنے کہہ رہی ہے اور کیوں کہہ رہی ہے کیوں وہ  اسے اتنا اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا کہ وہ اپنے دل کی باتیں اس  سے کرنے لگی تھی ۔۔۔

لمحے بھر میں وہ خاموش ہوئی تو اسے علی خاور نے  ایک نظر دیکھا ۔۔۔

علی فردوس کی بات پر آہستہ سے مسکرایا ۔۔۔

تم اپنی امی کے  بہت زیادہ کلوز ہوں ۔

اور اپنے بابا کے ۔۔۔؟؟؟؟

علی  کے سوال پر فردوس کے چہرے پر مایوسی چھا گئ اب وہ ا سے کیا بتاتی ۔۔۔

میں بابا سے   بھی زیادہ  کلوز ہو مگر بابا اکثر کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔۔

فردوس نے ہمیشہ کی طرح  وہی بہانہ بنایا جو وہ بچپن سے جوانی تک بناتی ہوئی آ رہی تھی ۔۔۔

علی   اسے بنا مقصد چند لمحے کے لئے دیکھنے لگا ۔۔۔

وہ اسے  بتانا چاہتا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتی ۔۔۔

مگر علی فردوس  کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی مایوس  اسی لئے وہ بہت  کچھ سمجھتے ہوئے بھی خاموش رہا ۔وہ  اس لڑکی کو کیسے شرمندہ اور مایوس کر سکتا تھا جو اس کے  دل میں بستی تھی ۔۔۔۔

تم اپنی امی کے لئے کیا کر سکتی ہو ۔۔؟علی نے سوال کیا ۔۔۔

میں اپنی امی کے لئے اپنی سب سے بڑ ی خوشی چھوڑ سکتی ہوں ۔۔

علی نے اسے دیکھا ۔۔۔

سچ کہہ رہی ہو وہ حیران رہ گیا  ۔۔

جی ۔۔

اور اپ ؟؟؟

میں بھی امی کے لئے سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں ۔ ۔۔اپنی خوشی بھی 

وہ مسکرائی ۔۔۔۔

یونیورسٹی کی بسیں  اپنے سفر کی طرف رواں تھی راستے کچے پکے اوپر نیچے تھے ۔۔۔

ایسے میں مری کے خوبصورت نظارے ہر سٹوڈنٹ اپنی  کھڑکی سے دیکھتے ہوئے انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔

سامنے اونچے اونچے پہاڑ تھے جن کے اوپر برف جمی ہوئی تھی ۔۔

خوبصورت پہاڑ ہرے بھرے درخت اونچے اونچے سے جن کے اوپر پرندے چہچہا رہے تھے ۔۔

پہاڑوں پر جمی ہوئی برف انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔

وہ سارے پہاڑ اور درخت اتنے اونچے تھے کہ یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان سے باتیں کر رہے ہو ۔۔۔

ہر کوئی اس سفر کو بے حد انجوائے کر رہا تھا ۔۔

ایسے بھی ان کی گاڑی کچھ کچے پکے راستوں   کے درمیان روکی ۔۔۔

کچھ سٹوڈنٹس اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے  بس میں ہی لیٹ گئے اور جب کہ کچھ اسٹوڈنٹ اس خوبصورت مناظر کو دیکھنے کیلئے بسوں  سے اتر آئے تھے ۔۔۔

قریب ہی تین چار ڈھابے تھے ۔۔۔جن میں سے کہیں چائے ملتی تو کہیں پراٹھا ۔۔ کہیں سبزی تو کہیں چاول ۔۔۔

ہر کوئی اپنے اپنے  پسندیدہ کھانے لے کر بیٹھ کر مزے سے کھا رہا تھا ۔۔۔

سامنے والے پہاڑ کی طرف سے جو کچا پکا سا راستہ تھا ۔۔اس کی بیچ میں سے ایک پانی کا بے حد خوبصورت اور شفا ف جھرنا  بہہ رہا تھا ۔۔

کچھ اسٹوڈنٹس وہاں بیٹھ کر اپنی تصویریں بنانے لگیں جب کے  کچھ بیٹھ کر وہاں منہ ہاتھ دھونے لگے ۔۔۔۔

کچھ قریبی بڑے بڑے پتھروں پر لوگ بیٹھ کر چائے پی رہے تھے ۔۔۔

موسم ایسا ہو رہا تھا کہ یوں لگے  جیسے ابھی بارش ہونے والی ہے ۔۔۔

ہر کوئی اس خوبصورت سے موسم میں شال ا ور سویٹرز اڑا ہوا تھا ۔۔۔

ایسے میں پانی کے دوسری طرف چند لو گ  اپنا روزگار کمانے  کے لیے کچھ کھیل تماشے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں کھلے ہوئے تھے ۔۔۔

کچھ منچلے اور زندہ دل لڑکے لڑکیاں  تیزی سے اس آدمی کی طرف لپکے ۔۔۔

ایک آدمی نے پتھریلے راستے پر چادر بچھا کر  اس کے اوپر الگ الگ سامان رکھا ہوا تھا ۔۔۔

چادر کے اوپر کہیں چوکلیٹ تھی تو کہیں چھوٹے چھوٹے ٹیڈی بیئرز اور بڑے  چھوٹے خوبصورت سے بھالو نما روی کے  کھلونے تھے ۔۔

علی خا ور نے  دکان والے سے رنگ لے کر دو تین بار کھیلا  ۔۔

پہلی باری میں اس نے رنگ چوکلیٹ کے اوپر ڈالیں ۔۔

تو دوکان والے وہ ساری چاکلیٹس  جو اس نے جیتی تھی  اٹھا کر علی دے دیں ۔۔

علی نے  دوسری بار  ایک چھوٹے سے ٹیڈی بیئر  کے اوپر  رنگ ڈالنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب رہا ۔۔۔

وہ ایک سرخ رنگ کا چھوٹا سا ٹیڈی بیر تھا  جو اس نے کسی خاص کیلئے جیتا تھا ۔۔

علی خاور  یہ دونوں چیزیں لے کر فردوس کو ڈھونڈنے لگا ۔۔۔

وہ اس وقت بہتے ہوئے پانی کے پاس نور کے ساتھ بیٹھی ہوئی چائے  پی رہی تھی۔۔

علی اور کا دل چاہا کے وہ جا کر اسے  دیں دے ۔

مگر وہ اس وقت نور کے ساتھ تھی  تو اس نے مناسب نہیں سمجھااور  واپس آ گیا۔۔

 کیونکہ وہ نور  کے سامنے فردوس کو   دینا چاہتا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فردوس نور کے آگے  شرمندہ ہو جائے گی اور وہ اسے کبھی کسی کے آگے  شرمندہ کرنا  نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔

یاسر اور اس کے باقی سارے  دوست مل کر اب دوسری طرف جہاں ایک آدمی موٹی سی  لکڑی کے بورڈ کے اوپر الگ الگ رنگوں کے مختلف ڈیزائن کے غبارے  لگایا ہوا تھا۔۔یہ سارے غبارے ایک لائن میں لگے ہوئے تھے اور بالکل سامنے کھڑے ہوئے یاسر کے ہاتھ میں بندوق تھی ۔۔

یاسر نے نشانہ لگایا تو  غبارے پر لگا اور وہ  پھٹ گیا ۔۔

یہی عمل  باقی کے  دوستوں نے بھی سرانجام دیا ۔۔

یوں ہی ہنستے کھیلتے ۔۔دوپہر سے شام ہو گئی تھی ۔۔۔

یونیورسٹی کی تمام بسیں  ایک بار پھر سے بھر چکی تھی اور سٹوڈنٹ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے تھے ۔۔۔

دیر  رات کا وقت تھا ۔۔۔

وہ لوگ مری کے ہوٹل میں رک گئے تھے ۔۔۔

ایک ایک کمرے میں تین تین چار چار لوگ تھے ۔۔۔

تھکاوٹ اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہ سب پورا دن ہی سوتے رہے ۔۔۔

اگلی رات کو ہر کوئی ۔۔ 

ہوٹل کی دوسری سائیڈ پر آ چکا تھا ۔۔۔

بیچ میں سارے سٹوڈنٹ نے آگ لگائی ہوئی تھی اور خود گول دائرے کی صورت میں اس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔

مری کی سردی اور رات کا وقت اور انتہائی خوبصورت موسم ایسے میں سب کے ہاتھوں میں گرما گرم چائے تھی ۔۔۔۔

ان لوگوں نے ڈیسائیڈ کیا کہ وہ یہاں پر بیٹھ کے کوئی نہ کوئی گیم کھیلیں گے جس کو جو  چیلنج دیا جائے گا اسے وہ لازمی کرنا پڑے گا ۔۔۔

ہر کوئی بڑے پرجوش طریقے سے اس بات کے لئے مان چکا تھا ۔۔۔۔

لڑکیوں کا دائرہ لڑکوں کے بالکل سامنے تھا ۔آدھےدائرے کی طرف لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھی اور آدھے دائرے کی طرف لڑکے اور بیچ میں آگ جل رہی تھی ۔۔۔

یاسر نے بوتل لے کر بوتل کو گھمایا ۔۔۔۔

تو سب سے پہلی باری ۔۔

خود یاسر کی آئی  تو سب اس پر زور سے  ہنس پڑے ۔۔

یاسر میرا شکار بنے گا علی خاور  نے تیزی سے ہاتھ کھڑا کیا ۔۔۔

جبکہ یاسر جانتا تھا کہ وہ اس کو کوئی ایسی چیز کرنے کو بولے گا جو اسے نہیں آتی ہوگی ۔۔۔

نہیں نہیں علی کے علاوہ کوئی اور دے دے  مجھے ٹاسک  ۔میں جانتا ہوں یہ مجھے کوئی بہت مشکل چیز دے گا یا سر نے تیزی سے کہا ۔۔

جی نہیں میں ہی تمہیں ٹاسک دونگا  اور تمہیں وہ ہر حال میں پورا کرنا پڑے گا علی بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔۔

یاسر جانتا تھا کہ وہ نہیں مانے والا تو یاسر کو مجبوراً ماننا ہی پڑا ۔۔

تو میرے پیارے  دوست یاسر   جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب  جب تم نے ڈانس کیا ہے لوگوں کی ہنسی نکل گئی ہے ۔۔

اور آج ہم پھر سے تم پر  ہنسنا چاہتے ہیں تو تم آج ہمیں ہنسانے کے لیے  تھوڑا سا ڈانس کرو گے ۔۔

علی خاور کی بات پر اس کے باقی کے دوستوں نے شور ڈالا ۔۔

یاسر یاسر ۔۔۔وہ اس کا نام پکار کر چلانے لگے ۔۔۔۔

نہیں نہیں میں ڈانس نہیں کروں گا میں یہاں  اپنا مذاق بنوانے  نہیں آیا ۔۔۔یاسر نے صاف انکار کیا ۔۔۔

نہیں نہیں جو بولا ہے وہ ماننا پڑے گا ۔۔علی کے ساتھ ساتھ باقی دوستوں نے بھی کہا ۔۔۔

یاسر نے ایک غصے بھری  نظر سے  علی کو دیکھا ۔۔۔اگر تم جیسے دوست ہو تو دشمن کی ضرورت نہیں ۔۔۔یاسر کی بات پر سب ہنس پڑے ۔۔

اور پھر جب اس نے ڈانس کرنا شروع کیا تو وہاں پر بیٹھے ہر ایک بندے  کی ہنسی نکل گئی سب کے ہسنی کی آواز ہوا میں گونجنے لگی۔۔ ۔یاسر نے ایسا ڈانس کیا تھا کہ بچے بھی دیکھ کر ہنس پڑے ۔۔۔۔۔

بیٹھ جاؤ میرے بھائی بیٹھ جاؤ یہ نہ ہو کے تمہاری منگیتر نور تمہارے اس  ڈانس کو  دیکھ کر تم سے منگنی ہی توڑ دے۔۔

 علی کی بات پر سارے زور سے ہنس پڑے جب کہ وہ خود بھی ہنس رہا تھا ۔۔۔۔

بوتل گهمانے کی باری اب رحمان کے اوپر آئی ۔۔۔رحمان نے بوتل گھوما ی تو بوتل سیدھا فردوس کی طرف تھی ۔۔۔

فردوس کو میں   ٹاسک دوگی نور تیزی سے بول اٹھیں ۔۔

نہیں فردوس کو میں چیلنج دوں گا علی خاور اور نور کے درمیان بحث چھڑ گئی ۔۔۔۔

جی نہیں آپ نے اپنے بیسٹ فرینڈ کو ٹاسک دیا ہے میں اپنی بیسٹ فرینڈ کو ٹاسک دوں گی ۔۔۔نور بھی اپنی بات پر اڑی  رہی تو علی مان گیا ۔۔۔۔

تو دوستوں فردوس کو پوئٹری بہت پسند ہے ۔۔۔

تو فردوس کا ٹاسک یہ ہے کہ وہ ہمیں فیض احمد فیض کی کوئی پوئٹری سنائی گئی جو بہت ہی مشہور ہے ۔۔۔

نور کی بات پر فردوس نے نور کو ایک نظر دیکھا ۔۔

بڑا وقت ہو گیا ہے فردوس  تمہاری وہ پوئٹری سنے  چلو سناؤ نہ اتنا اچھا بولتی ہو تم ۔۔

نو ر نے  فردوس پر زور ڈالا ۔۔۔

فیض احمد فیض

مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں  محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے

جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ 

——

فردوس خاموش ہوئی تو سب اسے   دیکھتے رہ گئے ۔۔۔

ارے واہ فردوس اس کے قریب سارے بیٹھے لوگوں نے اسے خوب سراہا ۔تو اس کے گال بلش کرنے لگے جبکہ علی خاور اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔ 

جب  فردوس کی نظر اچانک اس پر   پڑی تو وہ ا  سے دیکھ کر مسکرانے لگا اور پھر آہستہ سی آواز میں بغیر کچھ کہے  اس نے اپنے لب ہلائے ۔۔۔

یوں جیسے وہ واہ واہ کہہ رہا ہوں ۔۔۔

کھیل ایک  بار  دوبارہ سے  شروع ہو چکا تھا ۔۔۔

اب کی بار ی نور کی تھی نور  نے بوتل کمائیں ۔۔

تو بوتل  بالکل سیدھا علی خاور کی طرف ہوئی۔۔

علی کی باری آئی تو ایک بار پھر سے لڑکوں کا شور گونج تھا ۔۔

اوو و ۔ ۔۔۔

علی تو ہمیں گانا سنائے گا سارے لڑکوں نے ایک آواز میں کہا ۔۔

ہاں بالکل بڑا وقت ہو گیا ہے اس کا گانا سنے  آج ہو جاۓ پھر  یاسر نے کہا  ۔۔۔۔

مگر میں اپنے ساتھ گٹار  نہیں لے کر آیا ہوں ۔۔علی نے کہا ۔۔

گٹار کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ہمارے روم کے دو روم آگے ایک لڑکا رہتا ہے ۔۔اس کے پاس گٹار ہے میں ابھی لے کر آیا ۔۔۔۔

علی کا ایک دوست صدیق تیزی سے اٹھا اور ہوٹل کے اندر گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ میں  سیاہ رنگ کا ایک خوبصورت سا گٹار تھا ۔۔۔

واہ بھائی واہ آپ تو قسم سے مزہ ہی آ جائے گا ۔۔یاسر نے کہتے ہوئے علی خاور کے کندھے پر ہاتھ رکھا چلو شروع ہو جاؤ  اور سناؤ  ہمیں کوئی  زبردست سا  گانا اور ماحول  کو اچھا بنا دو ۔۔

علی خاور نے اپنی خوبصورت آواز میں  گانا   شروع کیا ۔۔

رات کی تاریخی میں آگ  سے نکلتی ہوئی روشنی اور سرد موسم بہت ہی خوبصورت سا ماحول بنائے ہوئے تھا ۔۔۔

سامنے ہی فردوس بیٹھی ہوئی

 تھی آ گ کی تیز روشنی میں اس کا خوبصورت چہرہ دمک رہا تھا ۔ ۔۔

وہ اس  وقت سیاہ رنگ کی شال اوڑھی ہوئی تھی اور بالوں کی  چوٹی بنائی ہوئی تھی۔۔۔

لمحے بھر کے لیے ان دونوں کی نظریں آپس میں  خاموشی سے ملیں  تھی ۔۔

خدا کو دیکھ رہا ہوگا نہ دل تجھ سے جدا ہوگا ۔۔

تیری تقدیر میں اب تو وہ مجھ کو لکھ رہا ہوگا ۔۔۔

خدا کو دیکھ رہا ہوگا نہ دل تجھ سے جدا ہوگا ۔۔۔

تیری تقدیر میں اب تو وہ مجھ کو لکھ رہا ہوگا ۔۔۔

تیرا ہی بس ہونا چاہوں 

تیرے درد میں رونا چاہوں ۔۔۔

تیرے دل کے ان  زخمو ں   پر مرہم میں ہونا چاہتا ہوں ۔۔

تیرا ہی بس ہونا چاہوں تیرے درد میں رونا چاہوں ۔۔

تیرے دل کے ان زخموں پہ مرہم نہ ہونا چاہوں ۔۔۔

کر لے قبول خدایا میرے سجدے 

اب تو نصیب میں میرے اسے لکھ دے ۔۔

تو پھر نہ سویا ہوگا شاید پھر رویا ہوگا ۔۔۔۔

آنسو میری پلکوں پہ بھی  نہ آیا ہوگا ۔۔

دے نہ مجھ کو آوازیں یا سن میری  فریادیں۔

گہرے ہیں مجھ کو یادیں بن تیرے ۔۔۔۔

تجھے ہی سب پانا  چاہو خود کو میں کھونا چاہتا ہوں ۔۔

تیرے دل کے  ان زخموں پر مرہم میں ہونا چاہو ۔۔۔

تیرا ہی بس ہونا چاہوں تیرے درد میں رونا چاہوں ۔۔

تیرے دل کے زخموں پر مرہم میں ہوں ہونا چاہوں ۔۔۔

خدا کو دیکھ رہا ہوگا نہ دل تجھ سے جدا ہوگا ۔۔۔

تیری تقدیر میں مجھ کو وہ اب تو لکھ رہا ہوگا ۔۔۔۔

علی  نے گانا بند کیا تو پورے ماحول میں زور زور سے تالیاں بجنے لگیں ۔۔۔۔

جب تک وہ گاتا رہا فردوس اسے دیکھتی رہی نہ جانے کیوں اس کی آواز میں ایک جادو سا تھا وہ اتنے دل سے گاتا  تھا کے سامنے بیٹھا بندہ صرف اسے دیکھتا ر ہے اور سنتا رہے ۔۔۔

علی نے اس وقت سیاہ رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔ 

یہ کتنا زندہ دل لڑکا ہے ۔۔۔یا خدا اس کے چہرے پر مسکراہٹ ساری زندگی یوں  یہی ناچتی رہے ۔۔۔۔آمین ۔۔۔

وہ رات کی  تاریخی میں بیٹھے ہوئے علی خاور کو دیکھتے ہوئے یہی سوچنے لگی ۔۔۔

 اسے خود پتا نہیں چلا کہ کیوں کب وہ   اسے خوش رہنے کی دعا دے رہی تھی  ۔۔۔۔ 

"شاید محبوب کی دعاؤں میں بڑی طاقت ہوتی ہے" ۔۔

کہیں پڑھا ہوا کوئی پرانا جملہ فردوس کے ذہن میں آیا ۔۔۔

میں بھی کیا فضول چیزیں سوچ رہی ہو ۔۔وہ  اپنی ساری سوچوں سے پیچھا چھوڑ آتے ہوئے ۔ اب بالکل نارمل ہو کے بیٹھ گئی تھی ۔۔

مگر نہ جانے کیوں وہ بار بار اسے دیکھ رہی تھی ۔ اور وہ سامنے بیٹھا سیاہ رنگ کی جیکٹ والا لڑکا بھی ۔۔

مگر کچھ وقت کے بعد فردوس  نے نظریں چرا لیں ۔۔۔۔۔

کھیل دوبارہ شروع ہوا ۔۔۔

بوتل گھوما ی تو بار ی اب  رحمان کی آئی تھی ۔۔۔

ہاں تو میرے پیارے دوست رحمان  جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کے تم   نقل بڑی اچھی اتا ر تے  ہو ہماری  یونیورسٹی کے  تمام ٹیچرز اور پروفیسر کی ۔۔۔

نور  نے اسے چیلنج دیا کہ وہ سر حسن کی نقل اتار کر ہم سب کو دکھائے  ۔۔۔۔

رحما ن تیار ہوگیا کیونکہ دوسرے کی نقل اتارنے میں اسے  بڑا مزا آتا تھا ۔

رحمان نے اپنا پیٹ ذرا باہر کو نکالا ۔۔

سر حسن ذرا موٹے سے تھے ۔۔۔

رحمان نے اپنی آواز کو اور بھاری کر دیا جیسے سر حسن کی آواز بھاری تھی ۔۔

اور تم رحمان تم  یہاں آئے  ہو اپنے ماں باپ کا پیسہ برباد کرنے کے لیے تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ ماں باپ کتنی محنت سے کماتے  ہیں  اور تم نے اپنے اسائنمنٹ میں نمبر دیکھے ہیں کتنے کم ہیں  ۔۔

رحمان  سر حسن کی نقل اتارتے ہوئے موٹی سی آواز میں کہہ رہا تھا ۔۔۔

میں تمہیں بتا رہا ہوں اگلے اسائنمنٹ میں تمہارے نمبر مکمل نہیں آے  تو میں تمہارے ابو کو بلا لوں گا ۔۔

وہ مکمل طور پر حسن کی نقل اتارتے ہوئے اپنا پیٹ پوری طرح سے باہر  کو نکالتے ہوئے بھاری سی آواز میں بڑے مزے سے ان کی نقل اتار تے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔

پیچھے سے سر حسن  کی آواز آئی جو پیچھے کھڑے کمر پہ ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

ادھر آؤ یہاں تمہیں میں بتاتا ہوں کے اپنے  پروفیسر کی نقل  کیسے اتارتے ہیں  ۔۔۔

سارے سٹوڈنٹ سر   حسن کی بات پر زور سے ہنس پڑے ۔۔۔۔

جب کہ رحمان  کے چہرے پر خوف تھا ۔۔۔سوری سر ۔۔۔

اب تم دیکھنا اگلے اسائنمنٹ میں  تمہیں کم نمبر ہی دوں گا ۔۔

اللہ کی قسم سر  ان لوگوں نے کہا تھا کے آپ کی نقل اتارنا ورنہ  میں اور  آپ کی نقل کیسے اتار  سکتا ہوں مجھے تو پتہ بھی نہیں ہے آپ بولتے کیسے ہیں  ۔۔۔

ہاں ہاں  مجھے تو جیسے  نظر نہیں آتا کیسے تم میرے موٹاپے کا مذاق اڑاتے ہوئے میری نقل اتار رہے تھے ۔۔

یہاں آؤ ذرا تمہیں تو میں  سیدھا کرتا ہوں سر حسن اس کی طرف بڑھنے لگے کہ رحما ن تیزی سے اپنا سویٹر  لے کر وہاں سے بھاگ گیا ۔۔۔

بس فضا میں رہ گی تو اس کی آواز وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔

سوری سر ۔۔۔۔

اگلی صبح بھی بے  حد حسین تھی ۔۔۔

صبح ہی صبح فجر کے بعد بارش ہونا شروع ہوگئی تھی ۔۔۔مری کی خوبصورت وادیوں  برف، بارش، اور اونچے اونچے پہاڑوں نے بڑے خوبصورت طریقے سے ان کا سواگت کیا تھا ۔۔۔

صبح ناشتہ کرنے کے بعد اب سارے اسٹوڈنٹ مری کی مختلف اور مشہور جگہوں کو دیکھنے کے لیے بھرپور اکسیڈنٹ اور پرجوش تھے ۔۔۔۔

سب سے پہلے انہوں نے ایوبیہ نیشنل پارک کا وزٹ کیا ۔۔۔

ایوبیہ نیشنل پارک ایک انتہائی خوبصورت پارک ہے  جہاں پہ پرندوں کی بے شمار اور الگ الگ    بے حد خوبصورت نسلیں موجود ہیں  ۔۔۔

ایوبیہ نیشنل پارک کا نظارہ ۔یونیورسٹی کے تمام اسٹوڈنٹ نے چیئر لفٹ کے ذریعے کیا تھا ۔۔۔۔

ایوبیہ نیشنل پارک میں چیئر لفٹ میں بیٹھنے کے بعد پورا ایوبیہ نیشنل پارک نظر آتا ہے۔۔ وہاں پر تفریح کے لیے آنے والے سیاح اس چیئر لفٹ کے ذریعے ایوبیہ کا  ضرور نظارہ کرتے تھے  ۔۔

چیئر لفٹ کے ذریعے ایوبیہ نیشنل پارک کا نظارہ انتہائی حسین اور دلکش تھا پہاڑوں پر بادل چھائے ہوئے تھے  یوں لگ رہا تھا جیسے بادل اور پہاڑ آپس میں باتیں کر رہے ہو  اونچے پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے ۔۔

اور اونچے اونچے درختوں پر موٹی موٹی سفید برف بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی ۔۔

علی خاور کے ہاتھ میں کیمرہ تھا وہ مری کی ہر خوبصورت جگہ کی خوبصورت تصویر بنا رہا تھا ۔۔ 

اس نے بہت سے لوگوں کی تصویریں بنائی تھی ۔۔۔۔

وہ کافی دیر سے فردوس کو تلاش کر رہا تھا مگر  اس نے سوچا کے وہ اپنی دوسری دوستوں کے ساتھ مصروف ہوگی ۔۔

 کے  اچانک اس کی نظر فردوس پر پڑی ۔۔۔

وہ فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے اداس اداس سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

جیسے کسی کو کہہ رہی ہوں کہ میری ایک بار بات کروا دیں ۔۔

وہ اس وقت رابیہ سے بات کر رہی تھی۔۔ اور وہ رضا سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر رضا اس سے بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس کو وہ دونوں بے حد یاد آرہے تھے ۔رابیہ  سے تو اس کی روز ہی بات ہوتی تھی مگر رضا کی تو وہ آواز تک سننے کو ترس گئی تھیں اور دوسری طرف رضا اس کی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی اس سے اتنی بری طرح سے خفا تھا ۔۔۔۔۔

بابو کو کہیں بس ایک بار مجھ سے بات کر لیں ۔۔

میری تو کوئی غلطی نہیں تو پھر مجھے سزا کیوں مل رہی ہے  امی ۔

میں کب سے رضا کو بول رہی ہوں مگر وہ میری کوئی بات سن ہی نہیں رہے  اگر  میں اب اور زیادہ  بولو گی تو وہ مجھ پر ہی غصہ کریں گے اور تم جانتی ہو ان کا غصہ کیسا ہے پھر ۔۔

تمہارے سارے پیغامات میں نے تمہارے باپ تک پہنچا دیے ہیں فردوس مگر تم جانتی ہو اپنے  بابا کو وہ اپنی ضد اور غصے کے کتنے پکے ہیں ۔۔

 چیزیں اگر ان کے متعلق نہ ہو تو پھر وہ کس طرح سے پیش آتے ہیں یہ تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں تم اور میں یہ چیز بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں ۔۔۔

آپ بابا  کو کہیے گا کہ میں ان سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں انہیں بہت مس کر رہی ہو ۔۔

رابیہ کو فردوس کی آواز یوں لگی جیسے وہ رونا چاہ رہی ہوں مگر وہ  رو نہیں پا رہی ہو ۔۔۔

رابیہ بے حد افسوس سے اپنے کمرے کے  دروازے میں دیکھ رہی تھی جو رضا بند  کر کے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

میری بچی  کتنی تڑپ ر ہی ہے مگر رضا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رابیہ بند دروازے کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔۔۔

چند  باتیں اور کرنے کے بعد رابیہ نے فون بند کر دیا ۔۔۔

فردوس کے خوبصورت سے چہرے پر مایوسی دوبارہ سے چھا چکی تھی ۔۔

علی خاور  نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔

وہ سفید رنگ کی قمیض شلوار کے اوپر موٹے فیروزی رنگ کا سویٹر پہنی ہوئی تھی ۔۔۔

ساتھ ہی ساتھ سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے جسم کے اوپر سیاہ رنگ کی خوبصورت شا ل بھی  ڈالی ہوئی تھی ۔۔۔۔

سردی سے اس کی گال کی ہونٹ  سرخ ہو گئے تھے اور اس کے کان بھی اور ناک  بھی ۔۔۔

وہ ایک طرف کھڑی بڑی مایوسی سے ایوبیہ نیشنل پارک کے اونچے اونچے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں  کو دیکھ رہی تھی ایوبیہ نیشنل پارک اتنی  خوبصورت جگہ تھی کہ اگر وہ رضا کی وجہ سے مایوس نہ ہوتی تو وہ اس پارک کی ایک ایک چیز کو خوب انجوائے کرتی ۔۔۔

"مگر جب انسان اندر سے خوش نہیں ہوتا تو پھر دنیا کی کوئی بھی خوبصورت چیز اسے خوش نہیں کر سکتی "۔۔۔

فردوس نے ایک ہاتھ سے اپنے چہرے پر آے ہوئے بالوں کو ایک طرف کیا ۔۔۔

علی خاور نے   اس کی نہ  جانے  کتنی تصویریں لی تھی ۔سفید رنگ کے لباس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ اور کچھ اکیلے کھڑے ہو کر جس طریقے سے کچھ سوچتے ہوئے جگہوں کو دیکھ رہی تھی علی خاور نے وہ منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا ۔۔۔۔

علی  اسے وہیں کھڑا دیکھتا رہا تو فردوس  نے اپنی انگلی سے آنکھ کا ایک کنارہ صاف کیا ۔۔

علی خاور اب جلتا ہوا سیدھا اس کی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ آیا اور اس کے برابر میں آ کے کھڑا ہوا ۔۔۔

سامنے کا نظارہ بے حد دلکش ہے نہ علی خاور اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔ 

فردوس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا وہ  اس وقت نیلی جینز کے اوپر ڈاک نیلے رنگ کا سویٹر پہنا ہوا تھا  ساتھ ہی اس نے کندھوں کے اوپر سیاہ جیکٹ بھی ڈالی ہوئی تھی جس میں  وہ بہت پرکشش دکھائی دے رہا تھا ۔۔

فردوس نے اسے ایک نظر دیکھا اس کے ماتھے کے اوپر موجود الٹی طرف  جو تل تھا وہ کتنا اچھا لگتا تھا اس کے چہرے پر ۔۔۔

میں  دیکھ رہا ہوں تم یہاں کب سے اکیلی کھڑی ہو  اور کسی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی ہو ۔۔ کیا پریشان ہوں ۔۔۔وہ آہستہ سی آواز میں اپنے لہجے کو نرم رکھتے  ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔

وہ مختصر بولی ۔۔۔

کچھ تو ہے کیوں اداس ہو ۔۔۔

نہیں تو ۔۔

میں تو نہیں ہوں  ۔۔۔۔

جھوٹ مت بولو تمہیں پتہ ہے تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا ۔۔

اب کی بار وہ چپ  نہیں رہا ۔۔فردوس  نے گردن موڑ کر اسے دیکھا مگر وہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔

اپنے  پیرنٹس کو یاد کر رہی ہو ۔۔۔

جی ۔۔

وہ مختصر کہنے لگی ۔۔۔

میں بھی یاد کر رہا ہوں امی کو ۔۔

تمہیں پتا ہے تمہارے اور میرے درمیان ایک اور چیز ایک جیسی ہے ۔اور وہ یہ کہ ہم دونوں اپنی اپنی ماؤں سے بے حد محبت کرتے ہیں اور اس کی خاص وجہ  پتہ ہے کیا ہے فردوس ۔۔۔ علی اس  کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

کیا ہے۔۔۔؟؟وہ پوچھیں بنا  نہ رہ پائیں ۔۔۔

 بتایں وہ اس  کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں اپنے اپنے  باپ سے بہت دور رہے ہیں ۔۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر  علی خاور کو دیکھا وہ حیران رہ گئی تھی بہت زیادہ  ۔۔۔۔۔

ایسا نہیں ہے میرے بابا مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں بھی۔ بس وہ ذرا مصروف رہتے ہیں ان کو زمین پر جانا ہوتا ہے کام ہوتا ہے اس وجہ سے میں اپنے والد سے بالکل دور نہیں ہوں اور نہ وہ مجھ سے فردوس نے بہت  صفائی سے جھوٹ کہا مگر علی  اسے دیکھتا رہا  ۔۔

ٹھیک ہے چلو چھوڑو سب باتوں کو وہاں چلتے ہیں ۔۔۔

یہاں اکیلی مت  کھڑی ہوں نئی جگہ ہے اس لیے احتیاط کرو ۔۔۔۔

وہ بڑی نرمی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

جی اچھا ۔۔

وہ بس اتنا ہی بولی اور علی خاور اسے اپنے ساتھ آگے تک لے آیا تھا ۔۔۔۔

دونوں ہی اب ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوے آگے بڑھ رہے تھے ۔ جبکہ فردوس کے چہرے پر وہی مایوسی تھی ۔۔۔۔

فردوس علی خاور نے اسے پکارا ۔

علی  نے اپنا بیگ  کندھے کے اوپر سے ا تارا کر  ایک موٹے  پتھر کے اوپر رکھا ۔۔۔

یہاں بیٹھو علی خاور نے  اسے دوسرے پتھر پر بیٹھنے کو کہا ۔۔وہ دونوں جہاں بیٹھے تھے وہ جگہ کافی اونچی تھی ۔۔۔۔ 

بڑے بڑے پہاڑ برف  سے ڈھکے ہوئے سامنے سے نظر آتے تھے ۔ماحول کی خوبصورت ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں پرندوں کے چہچہانے کی آواز بڑی اچھی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

علی خاور نے اپنے بیگ میں سے وہ دونوں چیزیں نکال کر فردوس کی طرف کی جو اس نے فردوس کے لئے لیں تھیں ۔۔۔علی خاور  نے وہ ساری چوکلیٹس  فردوس کی طرف بڑھائیں اور پھر آخری میں وہ پیارا سا چھوٹا سا ٹیڈی بیئر ۔۔۔

  یہ کتنا کیوٹ ہے ۔۔۔

وہ بولے بنا نہ رہ پائیں تھی ۔۔۔

ہاں میں نے سنا ہے کے  لڑکیوں کو  چاکلیٹس اور چھوٹے چھوٹے ٹیڈی بیئر بہت اچھے لگتے ہیں ۔۔۔

یہ تمہارے لئے کل میں تمہیں دے نہیں پایا تھا ۔۔۔

علی  نے وہ دونوں چیزیں فردوس کی طرف بڑھائیں ۔۔۔

نہیں نہیں مجھے نہیں چاہیے میں نہیں لے سکتی ہے ۔۔۔فردوس نے صاف انکار کر دیا ۔۔

کیوں اس میں کونسا بم ہے جو تم اگر چھو لوں گی تو پھٹ جائے گا ۔۔

علی خاور فردوس کی بات پر ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

یہ تو تمہیں لینا ہی پڑے گا کیونکہ میں یہ تمہیں دینے کے لئے لایا ہوں ۔۔۔

اگر تم میں نہیں لینا تو وہاں کھائی کے نیچے پھینک دو ۔۔۔

علی خاور  نے اس کو دو چوائس دیں یا  تو رکھ لو یا تو پھر پھینک  دو ۔۔

مگر میں  کیونکہ پھینک دوں  اتنا اچھا ہے یہ چھوٹا سا ٹیڈی بیئر  ۔۔۔

اچھا ہے تو رکھ لو ۔۔۔

وہ بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا ۔۔۔

فردوس چند لمحے اسے اور ٹیڈی بیئر کو دیکھتی رہی  یوں جیسے وہ  کچھ سوچ رہی ہو ۔۔

تھینک یو ۔۔

علی خاور کے چہرے پر مسکراہٹ آئی  ۔۔

اس چھوٹے سے ٹیڈی بیئر  کو دیکھ کے  وہ شاید تھوڑی سی خوش ہو گئی تھی ۔۔۔

علی خاور نے چوکلیٹ کھول کر اس کی طرف بڑھائیں ۔۔

دونوں نے اس چاکلیٹ میں سے آدھی آدھی شیئر کی تھی ۔۔۔

وہ دونوں ہی سرد ہوا کے جھونکوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایوبیہ نیشنل پارک کے نظارے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔

ایوبیہ نیشنل پارک کے بعد تمام اسٹوڈنٹس نے  بندر گلی کا رخ کیا ۔۔۔۔

بندر گلی   اس  وجہ  سے مشہور تھی کیونکہ وہاں بندروں کی تعداد انسانوں  سے زیادہ تھی ۔۔۔

سیاحوں کے لیے یہ تفریح کا مقام تھا بندر گلی بندروں کی وجہ سے تو مشہور ہی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے خوبصورت نظاروں کی وجہ سے بھی ۔۔۔

ہرا بھرا سا خوبصورت سا ماحول برف سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے درخت اور پہاڑ اس بندر گلی  کو مزید خوبصورت بناتے تھے ۔۔۔۔

بہت سارے سٹوڈنٹس نے اپنے کھانے کا کچھ حصہ نکال کے اندر کو ڈالا تھا ۔۔۔۔

فردوس نے بھی اس جگہ کی خوبصورتی کو خوب سراہا ۔۔

  اس نے اپنے بیگ میں سے کچھ کھانا نکال کر ایک بندرو ں  کو ڈالا تو کافی سارے بندر اچانک اس  کھانے کے اوپر لپک چکے تھے ۔۔۔فردوس ڈر  کر پیچھے ہٹی 

اتنے میں ایک چھوٹا سا بندر فردوس کے کندھے پر آ کے بیٹھا ۔۔۔

فردوس نے اسے دیکھ کر زور سے چیخ ماری ۔۔۔۔

علی اس  کی چیخ کی آواز پر زور زور  ہسنے لگا وہ منظر کافی فننی تھا ۔۔۔

وہ بندر اب تک  فردوس  کے کندھے پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

علی اسے ہٹائے میرے کندھے کے اوپر سے مجھے ڈر لگتا ہے اس سے ۔۔

کچھ نہیں کرے گا تمہیں وہ ۔۔۔

پہلے میں ایک تصویر لوں گا اس کے بعد ہٹاؤں گا ۔۔۔

علی۔۔۔۔۔ وہ غصے سے چیخی۔۔۔۔۔

اللہ کا واسطہ ہے اس کو ہٹا دیں  یہ میرے بال کھا رہا ہے ۔۔۔

وہ تمہارے بالوں سے کھیل رہا ہے  فردوس ۔۔

علی خاور نے  اس کی تصویر بندر کے ساتھ  لی اور پھر بڑے احتیاط سے اس بندر کو اس کے کندھوں پر سے ہٹایا ۔۔

انتہائی بدتمیز انسان ہیں آپ ۔۔فردوس نے اسے دیکھ کر غصے سے کہا  میں آپ کو کہہ رہی ہوں کہ کندھے پر سے بندر ہٹائیں اور آپ ہیں کہ بندے کے ساتھ تصویریں بنانے میں لگے ہیں حد ہے ویسے اس کے دونوں گال  غصے سے سرخ ہو رہے تھے ۔۔۔

ویسے تم اور یہ بندر دونوں ساتھ میں کتنے اچھے لگ رہے تھے ۔۔۔علی خاور نے شرارت سے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا اور وہ ہنس پڑا جبکہ فردوس اسے گھور کے رہ گئی تھی ۔۔۔

پر مجھے لگتا ہے کہ اس بندے کی شکل بالکل ایک علی خاور نامی  لڑکے سے ملتی ہے ۔۔۔

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگی جب کہ علی  اس کے پیچھے کھڑا ہنستا رہا ۔۔۔۔

اب بندر  اتنا بھی خوش قسمت نہیں کہ اس کی شکل مجھ جیسے ہینڈسم لڑکے سے ملتی ہوں ۔۔۔

اوووو ۔۔۔

بلی کے خواب میں چھیچھڑے ۔۔

فردوس نے بھی فورا جواب دیا ۔۔۔

یعنی تم بہت خوش قسمت ہوں کہ میری شکل والا بندر تمہارے کندھے پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا تیزی سے فردوس کے پیچھے آ کر کہنے لگا ۔۔

نہ جانے کیوں کچھ لوگوں کو بہت ہی خوش فہمیاں ہے اپنے بارے میں ۔۔۔۔

وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔

ان دونوں جگہوں سے گھومنے کے بعد یونیورسٹی کے تمام اسٹوڈنٹ کافی تھک گئے تھے اور سو چکے تھے ۔۔۔

اگلی صبح انہیں مری کے کسی اور مقام کے لئے نکلنا تھا ۔۔۔۔

اگلی صبح ہوئی تو وہ سارے مال روڈ پر نکل چکے تھے ۔۔۔۔

مال روڈ مری کا ایک انتہائی خوبصورت مقام تھا جہاں پر سیاحوں کا رش ہمیشہ ہی ہوتا  تھا  اس جگہ پر چاہے سردی ہو یا پھر گرمی  لوگوں کا رش ہمیشہ ہی رہتا تھا ۔ ۔۔

مال روڈ پر بہت سی چھوٹی بڑی دکانیں چھوٹے بڑے ریسٹورنٹ اور ہوٹل موجود تھے وہ جگہ اپنی رونق کی وجہ سے بھی بڑی جانی جاتی تھی وہاں پر لوگوں کی چہل پہل اور ہمیشہ گہماگہمی رہتی تھی ۔۔۔

دوسری طرف مری کی رہنے والی عورتوں کے ہاتھ سے بنے ہوئے کام تھے ۔۔جو بڑی مہارت سے انہوں نے کیے تھے اور فروخت کے لئے دکانوں پر لگائے ہوئے تھے ۔۔

ہر ایک کو مری کا مال روڈ بے حد پسند آیا تھا اور ہر کوئی خریداری میں مصروف ہوگیا تھا ۔۔۔ 

نور اور یاسر نے وہاں سے کافی ساری چیزیں لے لی تھی اسی طرح سے الگ الگ  سٹوڈنٹ مری میں  مال روڈ کی دکانوں سے خوبصورت اور مختلف مختلف سامان خرید رہے تھے ۔۔۔

فردوس یونہی چلتے چلتے ایک دوکان پر رکی اس دکان پر لٹکی ہوئی مردانہ شال بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔

اس نے ایک ڈاگ براؤن رنگ کی شا ل پسند کی ۔وہ شال اس نے رضا کے لئے لی تھی ۔۔

ساتھ ہی ساتھ اس نے براؤن رنگ کہ جوتے بھی خریدے تھے جو کہ مری میں ہی خاص طور پر بناۓ جاتے تھے ۔۔۔

رابیہ کے لیے اس نے ہاتھ سے بنی ہوئی کڑھائی والی ایک بہت خوبصورت سی سبز رنگ کی شا  ل خریدی تھی ۔۔اور ہاتھ کی دستکاری سے بنا ہوا ایک  بے حد خوبصورت قریشیاں کا بیگ ۔۔۔

فردوس نے ان دونو ں  کے لیے اور بھی بہت ساری چیزیں خریدی  تھی ۔۔

وہ اپنے ماں باپ کے لئے یہ ساری  چیزیں خرید کر بہت خوش تھی ۔۔۔

 یہ جاتے ساتھ ہی میں  بابا کو اچھا سا بینک کر کے دو گی وہ   دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ان کے لیے مزید چیزیں لینے لگی ۔۔۔۔

دوسری طرف علی خاور بھی خریداری میں مصروف تھا کہ اس کی نظر ۔۔

عورتوں کی جیولری پر گئی تو اسے سامنے ہی شیشے میں قید ایک باکس میں بہت ساری رنگس  نظر آئی ۔۔۔

علی خاور کی نظر ایک سیاہ رنگ کی  بے حد خوبصورت سی  پتھر والی رنگ پرجا ٹکی ۔۔دوکاندار سے کہہ کر اس نے وہ نکلوائیں ۔۔

اور پھر اندازہ لگا کر اس نے فردوس کے لیے وہ رنگ خرید لی ۔۔۔

اس رنگ میں موجود سیاہ پتھر کی چمک بالکل فردوس کی آنکھوں کی طرح تھی ۔۔۔ 

علی خاور نے فردوس کے لیے وہ رنگ بڑے دل سے لی تھی اور اسے لے کر وہ  جیسے بہت زیادہ خوش سا تھا  ۔۔۔

وہ چلتا ہوا فردوس کے پاس آیا وہ کسی اور دکان پر کچھ ڈرائے فروٹ خرید رہی تھی ۔۔۔

ڈرای فروٹ لینے کے بعد وہ اور علی خاور اب مختلف  دکانیں  دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ علی کی نظر ایک دوکان پر گئی جہاں پر پختون عورتوں  کے لباس اور زیورات جو پختون ثقافت کو پریزنٹ کرتے ہیں وہ تمام لباس اور زیورات جوتے بڑے سلیقے سے لٹکے ہوئے تھے ۔۔۔

علی خاور کی نظر ایک بے حد خوبصورت سے جھومر پر گی جو پختون عورتیں ڈوپٹے کے ساتھ اپنے سروں پر لگاتی تھی ۔۔۔

وہیں کھڑے  ہو کر  اس نے فردوس کو بھی وہیں  اپنے ساتھ روک لیا ۔۔۔

یہ دیکھو یہ کتنے خوبصورت ہیں فردوس  ۔۔

ہاں واقعی یہ بہت خوبصورت ہے ۔۔۔

تمہیں کونسا پسند ہے اس میں سے ۔۔۔؟؟

ساری ہی اچھے ہیں ۔۔

مگر یہ گول والا بہت خوبصورت لگ رہا ہے ۔۔۔

ہاں مجھے بھی گول والا اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔

آپ ایسا کریں کہ اسے پیک کر دیں ۔۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے چونک کر علی خاور کو دیکھا ۔۔۔

یہ آپ کس کیلئے لے  رہے ہیں ۔۔۔؟؟

ظاہر سی بات ہے میں تو نہیں پہننوں گا یہ تمہارے لئے لیا ہے ۔۔۔

بالکل نہیں مجھے نہیں چاہیے آپ نے مجھ سے پوچھا تھا  تو میں نے صرف آپ کی بات کا جواب دیا ہے۔۔۔

آپ دکان والے کو منع کر دیں مجھے نہیں چاہیے ۔میں یہ نہیں  لے سکتی یہ ٹھیک نہیں ۔۔۔

لیکن مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے اور میں یہ لے رہا ہوں تمہارے لۓ۔۔

میں نے کہا مجھے نہیں چاہیے آپ اسے چھوڑ دیں ۔۔۔فردوس نے آہستہ آواز میں علی کو دیکھ کر کہا ۔۔۔وہ دونوں کھڑے ہو کر آہستہ سی آوازمیں بحث کرنے لگے جبکہ دوکان والا کبھی فردوس کو تو کبھی  علی خاور کو دیکھتا رہا ۔۔۔

ارے بھائی۔

 یہ پیک کرنا ہے یا نہیں دکان دار نے تنگ آکر علی  خاور سے پوچھ لیا ۔۔۔۔

ارے بھائی آپ اسے پیک  کر دے پاکستانی بیویوں کی تو  عادت ہوتی ہے بحث کرنے کی بازاروں میں ۔۔۔

فردوس نے چونک کر علی خاور کو دیکھا  اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔۔۔

وہ دونوں اس شا پ  سے باہر نکل کر اب  روڈ  پر چل رہے تھے ۔۔۔

ایک بار پہنو تو سہی کیسا لگ رہا ہے علی خاور  نے فردوس پر  زور دیا ۔۔

سوری میں یہ نہیں لوں گی میں نے آپ کو پہلے ہی منع کر دیا تھا ۔۔۔

فردوس میں تو اسے پہنتا ہوا  اچھا بھی نہیں لگؤں گا اس لیے تم ہی پہن کر دیکھا  دو  ایک بار کیسا لگتا ہے تم پر ۔

وہ فردوس تو کہتے ہوئے  اسے  دیکھ رہا تھا ۔۔

جی نہیں ۔۔۔

اچھا بے شک تم نہ پہنو مگر اسے اپنے پاس رکھ لو ۔۔۔

نہیں میں اسے اپنے پاس بھی نہیں رکھ رہی ۔۔

فردوس نے صاف انکار کیا اور پھر جانے  لگی ۔۔

ٹھیک ہے مت لو علی خاور  نے وہ جھومر واپس اپنی جیب میں رکھ دیا ۔۔۔

وہ فردوس کے ساتھ آگے چل رہا تھا کہ علی خاور نے بڑی تیزی سے وہ جھومر  نکال کر اس کے کسی شاپنگ  بیگ میں ڈالا اور پھر خود  غائب ہو گیا ۔۔۔

فردوس نور  کے ساتھ بیٹھی ہوئی کسی جگہ پر کھانا کھا رہی تھی ۔۔

انہوں نے کھانے میں مری کے بے حد مشہور چپلی کباب اور ساتھ ہی موٹی گرما  گرم تل والی نان آرڈر کی تھی  ۔۔۔۔

تم نے کیا لیا ۔۔؟؟

نور  نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں نے امی اور بابا کے لئے بہت ساری چیزیں خریدی ہے ۔۔وہ بے حد خوشی سے نور کو بتا رہی تھی ۔۔۔

میں تمہیں دکھاؤں کہ میں نے کیا کیا لیا ہے ان دونوں کے لئے ۔۔

ہاں  بالکل نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔

فردوس  اپنے ہاتھ صاف کرتی ہوئی اب سیدھی بیٹھ چکی تھی ۔۔۔

اس نے  ایک ایک کر  کے نور کو  تمام سامان دکھایا  ۔۔۔

یہ کیا ہے فردوس ؟نور نے کہا ۔۔

فردوس نے وہ شاپر   دیکھا تو وہ  پہچان گئی تھی کے یہ  علی خاور کی حرکت ہے ۔۔

علی خاور کے اوپر ایسے لمحے کے لیے غصہ تو ضرور آیا تھا ۔۔تم نے اپنی پیرنٹس کے لیے بہت اچھی چیز خریدی ہے  فردوس ۔۔۔

مگر یار یہ دکھاؤ یہ کیا ہے بڑا پیارا لگ رہا ہے ۔۔۔

نور نے وہ  شاپر کھولتے ہوئے اس میں سے وہ جھومر نکال کر اپنے قریب رکھا۔۔

ارے واہ یہ تو  کتنا خوبصورت ہے تم نے پہنا کیوں  نہیں ہے اسے ۔۔۔

چلو آؤ میں تمہیں پہناتی ہو ۔

یہ پہن کر تم  بہت خوبصور ت لگو گی فردوس مری والے بھی کہیں سے ایک دفعہ کا ذکر تھا کہ فردوس نامی ایک  بہت خوبصورت لڑکی یہاں آئی تھی ۔۔۔

نور جھومر لے کر   اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے اپنی بالوں میں سے چند بال پینے  نکال کر اس کے جھومر کو بڑے ہی خوبصورت طریقے سے سیٹ کر کے اس کے بالوں میں لگایا ۔۔

نور تم کیا کر رہی ہو رہنے دو ۔۔

فردوس  نے نور کو کہا ۔۔۔

خاموشی کے ساتھ بیٹھی رہو  جب لیا ہے تو  لگاؤ بھی  ۔۔۔

اب وہ نور کو  کیا بتا تی۔۔

نور نے فردوس  کی بات نہیں مانی تھی۔۔۔

ارے واہ فردوس تم کتنی پیاری لگ رہی ہو اگر تم نے یہ  اپنے بالو ں میں سے  نکالا نا تو میں تمہیں  چھوڑوں گی نہیں ۔ کتنا خوبصورت لگ رہا ہے یہ تم پر  ۔۔۔۔

میں تمہاری  پکچر کھیچ کر تمہیں دکھاتی ہوں تم کتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔نور نے اس  کی پکچر لیکر اسے دکھائیں ۔۔وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی  ۔۔۔

اچھا لگ رہا ہے فردوس نے کہا  ۔۔

دیکھا کہا تھا میں نے نور نے کہا ۔۔

اب تم  اسے  مت اتارنا بہت سوٹ کر رہا  ہے  تم پر ۔۔

وہ دونوں ہی آپس میں اپنی باتیں کرتے ہوئے کھانا کھا رہیں تھیں  کہ فردوس کی نظر اچانک  اس  سیاہ رنگ کی جیکٹ والے  لڑکے پر پڑی ۔۔

سردی کی وجہ سے علی خاور   کی ناک اور کان سرخ ہو رہے تھے  وہ سیاہ جیکٹ والا لڑکا اپنے  دونوں ہاتھ  سینے پر باندھے ان دونوں سے کچھ فاصلے پر کھڑا فردوس کو دیکھ رہا تھا ۔۔

فردوس کی نظر اس پر  پڑی تو وہ  فردوس کو دیکھ کر آہستہ سے مسکرا رہا تھا ۔۔فردوس کے گال اس کے یوں دیکھنے سے  گلابی سے ہو گئے تھے ۔۔

اس نے  اپنے چہرے پر آئے ہوئے بالوں کو ایک طرف کیا تو فردوس  کا ہاتھ  اس کے جھومر پر لگا ۔۔فردوس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔وہ مسکرا رہا تھا  . 

فردوس اب اپنا چہرہ موڑ کر نور کی طرف مخاطب تھی ۔۔وہ یو دکھا رہی تھی جیسے وہ اسے اب دیکھ ہی نہ رہی ہو ۔۔۔

جبکہ فردوس کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔

مگر جب کچھ دیر کے بعد فردوس  نے اس جگہ پر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھا ۔۔۔

فردوس نے  ذرا گردن موڑ کر دوسری  طرف دیکھا وہ وہاں  بھی نہیں تھا ۔۔۔

آہستہ سے اس نے جھومر پر  ہاتھ پھیرا ۔۔

شاید اس کے گال اور ناک ایک بار دوبارہ سے گلابی ہو گئے تھے ۔۔۔۔

اگلی صبح ویسے ہی شاندار تھی تیز بارش صبح سے ہی ہو رہی تھی مگر بارش کے ساتھ ساتھ آج تو برف باری نے  بھی مری کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لئے اپنا حصہ ڈالا تھا ۔۔۔

تمام اسٹوڈنٹس نے سردی سے بچنے کے لئے ہاتھوں میں موٹے موٹے دستانے موزے سویٹر جیکٹس شالس  پہنے ہوئے تھے ۔لمبے لمبے کوڈ اور بڑی بڑی موٹی موٹی سی شا لز ہر ایک نے اوڑھی ہوئی تھی ۔۔۔

یونیورسٹی کی بسیں اپنے سفر کے لئے  ایک بار پھر سے رواں تھی ۔۔۔

بسوں میں سٹوڈنٹس کے گانے کی آوازیں زور زور سے آ رہی تھی ۔۔وہ سارے ہی اسٹوڈنٹس ہی خوب انجوائے کرتے ہوئے گانا گاتے ہوئے جا رہے تھے ۔۔۔۔

"زندگی ایک سفر ہے سہانا یہاں کل کیا ہو کس نے جانا "۔۔

مری میں کام کرنے والے اور رہنے والے لوگ ان کی بسوں کا شور سن کر گردن موڑ کر ضرور دیکھتے تھے ۔۔۔

ایک الگ ہی رونق ہوتی تھی جب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے بھری ہوئی  بسیں  جب  مری کے راستوں پر سے سفر کرتی ۔اسٹوڈنٹس کا شور اور ہلا گلہ ایسا ہوتا کہ سامنے والا دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہ پائے ۔۔۔

سفر ختم ہوا تو ان سب نے سوزو ایڈونچر پارک کا رخ کیا ۔۔سوزو ایڈونچر پارک ایک انتہائی خوبصورت پارک ہے جہاں پر نئی نئی جھولوں کی تیس قسمیں موجود ہیں ۔۔پارک میں موجود کھانے پینے کی اشیاء جھولے اور اس کے خوبصورت مناظر اس پارک کو مزید دلکش بناتے تھے ۔۔۔

ہر ایک نے  اپنی مرضی کے جھولے جھولے تھے ۔۔۔

اس پارک میں انہوں نے کافی انجوے کیا  اپنی پہلی رائیڈ انہوں نے  ایک بڑی سی رولر کوسٹر  لی تھی جس میں ایک وقت میں 24 لوگ بیٹھ سکتے تھے ۔۔۔

رولر کوسٹر کی اسپیٹ ایسی تھی کے  تیز ہوا میں آنکھ کھولنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔

نور زبردستی فردوس کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئی تھی جب کے وہ ڈر کے مارے نور کا ہاتھ  زور  سے تھام کر بیٹھی رہی ۔۔۔

جھولا بند ہوا تو فردوس نے  جیسے شکر کا سانس لیا ۔۔۔

جب کہ اس کی کلاس کے بہت سارے لوگوں نے ایک سے دو بار وہ رائیڈ  ضرور انجوائے کی تھی ۔۔۔۔۔

دوسری بار نور بھی بیٹھی اور اس نے فردوس کو بلایا تو فردوس نے  اس کے آگے اپنے ہاتھ جوڑے میں نہیں آرہی میری جان چھوڑو تم میرا ویسے ہی سر گھوم رہا ہے ۔۔

وہ تیزی سے جھولے سے اتری اور دوسری طرف چلی گئی ۔۔۔

جبکہ اس کے  باقی کے کلاس فیلوز اس رولر کوسٹر کو دوسری  بار خوب انجوائے کرتے رہے ۔۔۔

سوزو ایڈونچر پارک گھومنے کے بعد انہوں نے پنڈی پوائنٹ کا رخ کیا تھا ۔۔

پنڈی پوائنٹ پر اتنے حسین اور دلکش مناظر تھے کہ ہر کسی کا دل باغ باغ ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

ان لوگوں نے پورا پنڈی پوائنٹ چیئر لفٹ کے ذریعے  گھوما تھا پنڈی پوائنٹ وہ خوبصورت  جگہ تھی جہاں سے اسلام آباد اور پنڈی کا حصہ نظر آتا تھا ۔۔اسلام آباد اور پنڈی کے خوبصورت پہاڑ اور بے حد دلکش اور  خوبصورت مناظر نظر آتے تھے جسے دیکھ کر  انسان پنڈی پوائنٹ کی خوبصورتی میں کھو سا جاتا تھا ۔۔۔

چیئر لفٹ کی سیر سے دیکھنے والے  مناظر  انتہائی خوبصورت تھے  اونچے اونچے پہاڑوں پر برف جمی ہوئی تھی لمبے لمبے سے درختوں پر پرندے بیٹھے  ہوئے چہچا رہے تھے یوں جیسے کوئی گیت گا رہے  ہو۔۔۔

زمین پر موٹی موٹی برف  تھی صبح برفباری ہونے کی وجہ سے ماحول میں کافی سردی تھی ۔۔۔۔

وہ لوگ چیرلفٹ سے اتر کر جب نیچے آئے تو ان لوگوں نے آپس میں نیچے گری ہوئی برف کے گولی بنا بنا کر ایک دوسرے کو خوب مارے۔۔

ہر کوئی اسنوں فائٹ میں مصروف تھا ۔۔۔

فردوس اور اس کی  باقی کی دوستیں ا یک دوسرے کو وہ برف کے گولے بنا بنا کر مار رہی تھی ۔۔

دوسری طرف لڑکے بھی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔

فردوس نے آج فیروزی رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی ۔۔۔

فروزی رنگ کے  سویٹر میں وہ قریشیا سے بنی ہوئی موٹی شال اپنے جسم کے اوپر اوڑھی ہوئی تھی فردوس نے جھک کر ہاتھ میں کچھ برف اٹھائی اور اس کا گولا بنا کر نور کو مارا ۔۔۔

نور بھی جوابا برف کا گولا بنا کر اسے مارنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑی اس نے فردوس کو دو مارنے کی کوشش کی تھی مگر دونوں بار ہی اس کا نشانہ جو ک گیا تھا ۔۔۔

مگر پھر نور کی بڑی محنت کے بعد فردوس کو وہ برف کا گولا مار ہی دیا تھا ۔۔۔

فردوس نے بھی ایک بار پھر سے جوابا برف اپنے  ہاتھوں میں لی ۔۔

اس نے وہ برف اٹھا کر نور کو کھینچ کے ماری مگر وہ اچانک ہی نیچے ہوئی اور سامنے سے اتے ہوے علی خاور کے منہ کے اوپر وہ برف کا گولا ڈائریکٹ اس کی  بالکل ناک پر  بڑی زور  سے لگا تھا ۔۔۔

اس اچانک حملے کے لئے وہ بالکل تیار نہیں تھا ۔۔۔

گھبرا کر علی نے  اپنی پلکوں پر لگی ہوئ برف صاف کی۔۔۔۔

برف  صاف کرنے کے بعد اس نے سامنے کھڑی فردوس کو دیکھا وہ  اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی اسے حیرانی سے دیکھ رہی  تھی جب کہ اس کے چہرے پر پریشانی کی ۔۔

آئی ایم سوری۔۔۔۔۔

 غلطی سے لگ گیا ۔۔

میں نور  کو مار رہی تھی ۔۔۔

اچھا۔۔۔۔۔

 تم سے غلطی سے لگا ہے اب تم دیکھو میں کیا کرتا ہوں ۔۔۔۔

علی خاور  نے ہاتھ میں برف کا گولا بنا کر فردوس کی طرف مارا مگر علی خاور کے مارنے سے پہلے ہی نور نے برف کا گولا اٹھا کر زور سے علی خاور  کے سر پر مارا اور فردوس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے تیزی سے فردوس  کو کہا بھاگو  بھاگو  فردوس ۔۔۔۔۔

وہ فردوس کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگی ۔۔۔۔

جبکہ علی خاور کے ہاتھ میں اب  ایک نہیں بلکہ دو برف کے گولے تھے ۔۔۔

وہ دونو ں بھاگتے ہوے  ذرا آگے کو آگئی تو ان دونوں نے ہی اپنے ہاتھ میں برف کے گولے بنائے ۔۔

اگر علی تمہیں ایک مارے تو تم اس کو دو مارنا نور برف کا موٹا گولا بناتے ہوئے فردوس کو کہہ رہی تھی جب کہ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ علی کو مار بھی سکے گی یا نہیں ۔۔۔۔

اتنے میں علی  بھاگتا ہوں ان کے قریب آیا  علی نے وہ دونوں برف کے گولے جو اس کے ہاتھ میں تھے ایک اس نور کو مارا اور ایک فردوس کو ۔۔۔

تم گئے علی خاور ۔۔نور اپنے بالوں سے  برف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی ۔۔

اتنے میں نور  نے وہ دونوں برف کے  گولے  جو اس کے ہاتھ میں تھے کھینچ کر علی خاور کو مارے ایک اس کی ناک کے اوپر لگا تھا  اور دوسرا اس کے بالوں کے اوپر وہ اس پہلے حملے سے ہی نہیں سمبھل پایا تھا  ۔۔۔۔۔

فردوس  تم کیا سوچ رہی ہو اسے مارو نور نے کہا تو فردوس نے وہ برف کے گولے اس کے کان اور منہ پر کھینچ کے مارے  ۔۔۔

اور پھر تیزی سے وہ دونو ں کسی چور کی طرح وہاں سے نو  دو گیارہ ہو گئی جب کہ وہ بیچارا  اپنے کپڑوں اور منہ سے برف ہی صاف کرتا رہ گیا ۔۔۔

پنڈی پوائنٹ کے مناظر انتہائی خوبصورت  تھے۔۔۔

پنڈی پوائنٹ پر انہوں نے خوب انجوائے کیا تھا ۔۔سوزو پارک اور پنڈی پوائنٹ کے لمبے سفر  سے سارے سٹوڈنٹس بےحد تھک چکے تھے ۔۔

اور ہوٹل میں آکر وہ سب لمبے ہو کر سو گئے ۔۔۔

دیر رات سے  ہی   برف باری ہو رہی تھی جو   صبح تک جاری رہی  تھی ۔۔۔

اگلی صبح یونیورسٹی کے  تمام اسٹوڈنٹ تفریح کیلئے دوبارہ سے نکل چکے تھے آج ان سب  کا ارادہ کشمیر پوائنٹ کا تھا ۔۔کشمیر پوائنٹ ایک انتہائی خوبصورت جگہ تھی یہ جگہ سمندر سے کافی بلندی پر تھی جس کی وجہ سے یہاں پر سردی ضرورت سے زیادہ ہی رہتی تھی ۔۔یوں لگتا تھا جیسے ہر شے نے  سفید لباس اوڑھ رکھا ہو پہاڑ سفیدی سے ڈھکے ہوئے تھے یہاں تک کہ اونچے اونچے درختوں پر موٹی موٹی برف کی پر تے جمی ہوئی تھی ۔۔راستے  پر  چلنے ہوے   پاؤں کچھ حد تک برف میں دھس ضرور جاتا تھا ۔۔کشمیر پوائنٹ کے تمام  خوبصورت مناظر کی سب نے  بے حد دل  دلکش تصویریں کھینچی تھی ۔۔

کشمیر پوانٹ  دیکھنے پر یوں لگتا جیسے وہ کوئی جنت کا ٹکڑا ہو۔۔

 ایسے میں لوگوں نے روزگار کے لئے ارد گرد کافی سارے گھوڑے اور کچھ تفریح کی چیزیں رکھی ہوئی تھی قریب ہی کچھ ڈھابے  تھے جہاں پر گرما گرم چائے بن رہی تھی۔  دوسری طرف لوگوں نے ہاکنگ کے لیے انتظامات کر رکھے تھے اور سارے سٹوڈنٹ بڑے ہی جوش وخروش سے  ہائیکنگ کرنے میں مصروف تھے اور ہائیکنگ کو خوب انجوائے کر رہے تھے کچھ اسٹوڈنٹس گھوڑوں پر بیٹھ کر وہاں کی سیر کر رہے تھے جبکہ کچھ نے  چیئر لفٹ کے ذریعے کشمیر پوائنٹ کی سیر کی  تھی۔۔۔۔

 واپسی کے راستے پر  انہوں نے بے حد خوبصورت اور ہرے بھرے  جنگلا ت  دیکھے تھے ۔۔۔ 

 جنگلات اتنے  خوبصورت تھے  کہ وہ لوگ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے اونچے اونچے پہاڑ اور بے حد خوبصورت   منا ظر پیش کرتے وہ  جنگلات و   وادیوں کی چمک  میں سارے اسٹوڈنٹس یوں جیسے کھو سے گئے تھے۔۔۔۔

 ایسے میں اسٹوڈنٹس  اپنے اپنے بیگ میں کچھ سامان بھرے جو وہ لوگ ضرورت کا اپنے ساتھ ہمیشہ رکھتے تھے جنگل کی طرف رخ کیا  کچھ لوگ جو جنگلات سے ڈرتے تھے وہ باہر کی طرف رک کر باہر کی سیر و تفریح کو انجوائے کرنے لگے جب کہ کچھ سٹوڈنٹس  جنگل کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ایک ٹیم بنا کر جنگل کے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔

 اس ٹیم میں علی خاور یاسر اور ان دونوں کے کچھ دوست فردوس نور ریحانہ اور اس کی باقی کی  کچھ اور دوستیں اور کچھ ٹیچرز  سر وغیرہ شامل تھے ۔۔

 یہ لوگ جنگل کی خوبصورتی میں جیسے کھو سے  گئے تھے اتنے خوبصورت جنگلات ہرے بھرے برف سے ڈھکے ہوئے  انتہائی خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔

 ایسے میں علی خاور کے ہاتھ میں اس کا اپنا مخصوص کیمرہ تھا جس میں وہ مری کی ہر ایک خوبصورت جگہ کو اپنے کیمرے میں قید  کر رہا تھا۔۔۔

 اسے میں علی خاور اپنے دوستوں سے علیحدہ ہو کر تصویریں بنانے لگا۔۔۔

  رابیہ کی کال پر فردوس  نے تیزی سے  موبائل اٹھا کر موبائل اپنے کانوں سے لگایا اور کچھ وقت کے لئے ذرا کنارے ہو کر کھڑی ہو گئی۔۔۔وہ رابیہ  کو بڑی خوش دلی سے بتا رہی تھی کہ جنگل انتہائی حسین ہے اور اس نے وہاں پر کیا کیا دیکھا پنڈی پوائنٹ کی  تمام تر تفصیلات اس نے رابیہ کو فون کر بتائیں تھی ۔ اس نے تیزی سے رابیہ کو ویڈیو کال کی اور ویڈیو کال کر کے اسے  جنگل کی تمام تر خوبصورتی اسے دکھانے لگی۔۔

  رابیہ دیکھ کر بے حد خوش تھی کہ اس کی بیٹی کے چہرے پر کچھ مسکراہٹ  تو آئی رابیہ  یہ خوب اچھی طرح جانتی تھی کہ فردوس  کو یہ ساری قدرتی حسن  کس قدر پسند  آتا ہے اور وہ ان سب کی کس قدر شوقین اور دیوانی لڑکی ہے یو  نیہی بات کرتے کرتے اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ رابیہ سے پورے  35 منٹ بات کر چکی ہے۔۔ وہ جو کسی کو بغیر بتائے ایک طرف ہو کر  رابیہ سے بات کرنے لگی تھی جب اس نے اچانک پیچھے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ تو جیسے حیران ہی رہ گئی   یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔۔ جب اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو سوائے ان اونچے اونچے  ہرے بھرے جنگلات کے  جن کے اوپر  برف کی موٹی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی،  کون سا راستہ جنگل کا  کس طرف جاتا اسے بالکل خبر نہ تھی اس نے بے حد خوف کے عالم میں اپنے اردگرد دیکھا سوا  سنناٹے کے  کچھ نہ تھا  سرد ہوا کی وجہ سے درختوں کے پتے ہلتے ہوئے فضا میں ایک خوفناک تاثر پیش کر رہے تھے وہ جنگل جو ا سے کچھ لمحے کے لیے انتہائی خوبصورت دلکش لگ رہا تھا  اب یوں لگ رہا تھا جیسے اس جنگل سے زیادہ خوفناک کوئی جگہ  نہ ہو اسے کسی قسم کا کوئی راستہ سمجھ نہیں آ رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے ہر راستہ ایک جیسا ہو   خوف کی لہر  آ چانک اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی  یوں لگنے لگا جیسے اس کا دل    بند ہو رہا ہوں خوف کے عالم میں  اس نے حیرانی سے اردگرد دیکھا  یا میرے اللہ یہ کیا ہو گیا کیا کیا میں کھو گئی ہو فردوس نے اپنے چہرے پر تیزی سے ہاتھ پھیرا  وہ کھڑے کھڑے کاںپنے لگی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ سردی کی وجہ سے کانپ ر ہی ہے یا پھر خوف کی وجہ سے۔۔۔

 گھبراہٹ کے مارے وہ ارد گرد دیکھنے لگی اور پھر جو راستہ اسے سمجھ آ یا   اسے لگا کہ نور لوگ وہاں گئے ہونگے وہ تیزی سے اس راستے کی طرف بھاگنے لگیں  وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی یوں جیسے اس کے پیچھے کوئی سفید بھیڑیاں لگا ہوں جو آپنے کھانے کی تلاش میں اسے  چیر پھاڑ نے کے لئے اس کے پیچھے لگا ہوں اسے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کب سے بھاگ رہی ہے اور کتنا بھاگ چکی ہے  میں یہ بیوقوفی کیسے کر سکتی ہوں میں کیسے اتنی  مصروف ہو گئی تھی  اب میں کہاں ڈھونڈو  سب کو خوف کے عالم میں اس کے پسینے چھوٹنے لگے تھے۔۔۔۔

وہ کھڑی کانپ  رہی تھی  اس نے زور سے نور  کو آواز لگائی ہے جتنے لوگ بھی اس جنگل کو دیکھنے کے لیے آے تھے ۔۔

فردوس نے ایک ایک  کرکے  سب کو آواز لگائی ۔۔۔۔

وہ  نور کو تیزی سے فون ملانے لگی مگر نور  نے فون نہیں اٹھایا وہ یاسر کے ساتھ اس خوبصورت جنگل  کو باقی ٹیم کے ساتھ مل کر دیکھ رہی تھی اور اس کا موبائل اس کے بیگ میں تھا وہ بھی سایلینٹ

 وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے اب جنگل کی الٹی طرف بھاگنے لگی تھی کے بھاگتے بھاگتے اسے اچانک اذان کی آواز آئی۔۔۔

 او میرے خدا آزان ہو گی اندھیرا ہونے والا ہے۔۔۔ 

 یا خدا یہ کیا ہو گیا میں کس مصیبت میں پھنس گئی ہو اب کیا ہوگا کچھ وقت کے بعد اندھیرا ہو جائے گا اور کوئی اپنا فون نہیں اٹھا رہا وہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی تھی۔

 اسے شاید اسی جنگل میں اردگرد بھاگتے ہوئے نہیں معلوم تھا کہ وہ کن کن راستوں پر بھاگ رہی ہے  ا سے بھاگتے بھاگتے جنگل میں تقریبا آدھے گھنٹے سے زیادہ ہونے والا تھا ٹیم اب جنگل سے باہر آ چکی تھی ۔۔۔ 

تمام پروفیسرز اور ٹیچرز نے سارے اسٹوڈنٹس کو ایک جگہ پر جمع کیا جو ایک ٹیم کی طرح ساتھ ساتھ تھے مگر جب ان کی اٹینڈنس ہوئی تو اس میں دو  اسٹوڈنٹس غائب تھے علی خاور ،اور فردوس۔۔۔۔

 جب نور اور یاسر  نے یہ سنا کہ فردوس اور علی خاور  کا نام لسٹ میں نہیں ہے تو وہ اچانک ہی گھبرا گئے  تھے ۔۔

 نور  نے اچانک گردن موڑ کر یاسر کو دیکھا  مجھے لگا شاید وہ علی خاور کے ساتھ ہوگی یا پھر اپنی باقی کی دوستوں کے ساتھ یاسر نے کہا ۔۔۔۔

 ہاں یاسر جب میں نے دیکھا تھا تو وہ  صباء لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے آ رہی تھی جب کہ تم اور میں آگے نکل چکے تھے۔۔۔ 

یا اللہ ہمارے دوستوں کی  مدد فرما   فردوس کہیں  راستہ تو نہیں بھٹک گئی وہ تو ویسے ہی اتنے چھوٹے دل کی ہے

 نور اس کے لئے الگ پریشان ہونے لگی جبکہ یونیورسٹی کے باقی پروفیسر بھی پریشان ہوگئے اذان ہو چکی تھی اور ماحول میں تاریخی پھیلنے لگی تھی۔۔

 یونیورسٹی کا سٹاف ان دو سٹوڈنٹس کے لئے الگ پریشان تھا یونیورسٹی کے  باقی سارے سٹوڈنٹس کو رات ہونے کی وجہ سے   واپس بھیج  دیا تھا ۔جبکے نور یاسر  اور اسکے  دوسرے   دوست ان کی فکر میں وہیں کھڑے رہے اور ان لوگوں نے  کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر یہاں  سے بالکل نہیں جائیں گے جب تک ان کے دوست  نہیں مل  جاتے یونیورسٹی کے تمام پروفیسرز نے جنگل میں سرچ ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا مگر ان لوگوں نے کہا کہ کچھ وقت کے بعد اندھیرا ہو جائے گا اور اس سردی میں رات کی تاریخی میں جنگل میں ڈھونڈنا ان  لوگوں کو انتہائی مشکل کام ہے روشنی میں ہی کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔ سرچ ٹیم  کا یہ جواب سن کر وہاں کھڑے سبھی لوگ بے حد افسردہ ہو گئے وہ رات کی اس تاریخی اور سردی میں فردوس اور علی  خاور کو یوں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے مگر وہ لوگ حالات اور موسم کے آگے بے حد مجبور اور بے بس تھے۔۔۔رات کے اندھیرے میں دونوں کو ڈھونڈنا انتہائی مشکل کام تھا اوپر سے موسم بھی اتنا ٹھنڈا تھا ۔۔مگر یونیورسٹی کا اسٹا ف اپنے دونوں اسٹوڈنٹس کو یہاں نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لئے انہوں نے سرچ ٹیم کو رات کے اندھیرے میں ہی بھیجا ۔۔۔

فردوس یونہی بھاگتے ہوے  اچانک ایک دم سے پتھر پر گری ۔۔۔

گرنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ پر زخم آیا وہ اپنا بیگ اٹھا کر ایک بار دوبارہ سے بھاگنے لگی اندھیرا ہونے ہی والا تھا ہلکی ہلکی روشنی ابھی بھی آسمان پر پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔

فردوس بھاگتے ہوئے اچانک ایک دم کسی سے زور سے ٹکرائی 

ٹکر اتنی زور سے ہوئی تھی کہ وہ ایک بار دوبارہ سے زمین پر جا گری  اس  کے سامنے کھڑا شخص بے حد حیرانی سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔فردوس کی نظر اس شخص کے  پیروں پر گئی اس نے سیاہ رنگ کے جوتے پہنے ہوئے تھے ۔۔۔

ان جوتوں کو پہچاننے میں اسے صرف ایک سیکنڈ لگا تھا ۔۔۔

اس نے تیزی سے اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر   جن  میں گلابی پانی بھرا ہوا تھا اپنے  بالکل سامنے کھڑے علی خاور  کو  دیکھا اسے دیکھ کر اسے یہ محسوس ہونے لگا جیسے اسے دوبارہ سے  نئی زندگی مل گئی ہو ۔۔۔۔

علی۔۔۔

 فردوس نے اسے بہت امید سے پکارا تھا یوں جیسے سخت حالات میں وہ کوئی اچھی امید بن کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوں ۔۔۔ یوں جیسے کوئی فرشتہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔

وہ چند لمحے اپنی آنکھوں میں گلابی پانی لئے  علی خاور کو کھڑا دیکھتی رہی جبکہ وہ بھی حیرانی سے  اسے دیکھ رہا تھا پھر اس کے بعد فردوس  بچوں کی طرح اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔

علی خاور اس کے یوں رونے سے ایک دم پریشان ہوگیا اور گھٹنے کے بل نیچے  بیٹھ گیا ۔۔۔

کیا ہوا فردوس تم ٹھیک ہو اس طرح سے کیوں  رو  رہی ہو وہ بے حد پریشانی سے سبز رنگ کی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔۔

جو اپنے ہاتھوں کو چہرے  پر رکھ کر  بچوں کی طرح  رو رہی تھی ۔۔۔۔۔

فردوس کیا ہوگیا ہے کچھ تو بتاؤ کیوں پریشان کر رہی ہو یار  مجھے ۔۔۔ 

وہ بغیر کچھ کہے اور زیادہ زور زور سے رونے لگی ۔۔۔

یار فردوس کیا ہو گیا کیوں مجھے پریشان کر رہی ہو رونا بند کرو علی نے  اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا کہ وہ اسے خاموش کرالے مگر وہ حق نہیں رکھتا تھا اس وجہ سے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے ۔۔۔

رونا بند کرو فردوس پلیز ۔۔۔۔

فردوس روتی رہی اور وہ روتی ہوئی یہی سوچ رہی تھی کہ ہر مشکل وقت میں ہر مشکل وقت میں صرف علی خاور ہی کیوں اس کے پاس ہوتا ہے ہر مشکل وقت میں صرف ایک اسی کا سہارا کیوں ہوتا ہے کیوں اس شخص سے اسے ڈر نہیں لگتا کیوں اس شخص سے اسے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اس کی عزت خراب کر دے گا کیوں وہ شخص اسے اپنا اپنا سا لگتا ہے کہ وہ اس کے آگے رو بھی لیتی ہے اور بول بھی لیتی ہے اپنا غصہ بھی اتار لیتی ہے ۔۔۔جب کہ وہ  نہ ہی تو کسی کے ساتھ اتنا بولنا پسند کرتی تھی اور رونا کسی کے  آگے تو بہت دور کی بات۔۔ اس کی ماں کے بعد یہ دوسرا شخص تھا جو اس کے اس حد تک قریب آ چکا تھا کہ اس کے چہرے پر موجود پریشانی کو پڑھ سکے اور اس کی خاموشی میں موجود بے شمار ان باتوں کو جو فردوس  کسی سے نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔

علی خاور نے اپنے بیگ میں سے پانی کی بوتل نکال کر فردوس کے آگے کی ۔۔۔۔۔

یہ لو  پانی پیو اور رونا بند کرو وہ بے حد نرمی سے گھٹنے کے بل اس  کے قریب بیٹھا اسے پانی کی بوتل کھول کے دے رہا تھا ۔۔۔۔

میں کھو گئی ہو علی ۔۔ 

وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے علی خاور کو دیکھ کر کہہ رہی تھی جبکہ علی اور اس کے سرخ چہرے اور ہونٹو ں  کو ہی دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔

چند لمحے وہ اسے  دیکھتا رہا اس کے بعد آہستہ آواز میں کہنے لگا ۔۔

میں بھی اپنی بیوقوفی کی وجہ سے راستہ بھٹک گیا ہوں اور اپنے دوستوں سے علیحدہ ہو گیا ۔وہ بہت پرسکون طریقے سے کہہ رہا تھا کیونکہ اسے اس جنگل  سے شاید اتنا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا جتنا فردوس کو  ہو رہا تھا ۔۔۔۔

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یہاں  پر کچھ وقت کی بعد اندھیرا ہو جائے گا اور میں نے سنا ہے کہ یہاں پر جنگلی جانور بھی ہوتے  ہیں ۔۔فردوس  کی آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے تھے ۔۔۔۔

چند لمحے وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور اس کی باتیں سنتا رہا وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے  فردوس ۔۔

ڈرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے ہمیں جنگل کا راستہ نہیں پتا ہم بھٹک چکے ہیں علی ۔۔۔

میں اتنی لاپروا کیسے ہو سکتی ہوں فردوس کو ایک بار پھر اپنی بیوقوفی پر غصہ آیا اور وہ رونے لگیں ۔۔۔

اچھا تم رونا تو بند کرو رونے سے کبھی بھی مسئلے  حل نہیں ہوتے فردوس ۔۔۔

میں بھی بھٹک گیا ہوں اور مجھے لگتا تھا کہ شاید میں ھی  یہاں پر اکیلا ہوں مگر۔۔۔۔۔

 خیر ۔۔۔۔اس نے فردوس کی شکل دیکھی وہ ڈری ہوئی تھی ۔۔۔

مجھے اس جنگل سے بہت ڈر لگ رہا ہے علی ۔۔

ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں ہونا تمہارے ساتھ ۔۔۔

علی خاور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا ۔۔اس کے لہجے میں اتنی مضبوطی تھی کہ فردوس چند لمحے  اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔

اب ہم اس جنگل  سے کیسے نکلیں گے ہمیں تو راستہ بھی نہیں معلوم سارے راستے بالکل ایک جیسے لگتے ہیں ۔۔۔۔فردوس نے کہا ۔۔۔۔

راستہ تو مجھے بھی نہیں معلوم اور کچھ دیر کے بعد رات ہو جائیں گی اگر ہم یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں تو بھی راستہ ملنا ممکن نہیں  کیونکہ ہمیں راستہ ہی نہیں پتا   ۔۔

تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔؟؟

موبائل ہے تمہارے پاس علی خاور نے اسے دیکھتے  ہوئے کہا ۔۔۔

ہاں موبائل تو ہے مگر میں ابھی بیچ میں  گر گئی تھی تو میرا موبائل  زمین پر جا گرا میں نے اسے آن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ان نہیں ہو رہا تھا ۔۔میں نے نور کو بھی کال کی یاسر کو بھی مگر کسی نے نہیں اٹھائی ۔۔فردوس کی شکل ایک بار پھر سے رونے والی ہونے لگی ۔۔۔

دیکھو فردوس رونے سے کچھ کام نہیں ہوگا ہمیں سب سے پہلے آگ جلانے  کے لئے کچھ سوکھی لکڑیا ں تلاش کرنی پڑے گی۔ کیونکہ کچھ وقت کے بعد اندھیرا ہو جائے گا ۔اور ہمارے پاس موبائیل  نہیں کہ ٹو ر چ  سے گزارا ہو جائے ۔۔۔

ہمت سے کام لو رونا بند کرو میں تمہارے ساتھ ہوں کچھ نہیں ہوگا صبح ہوتے ہی ہم  راستے کی تلاش میں نکل جائیں گے  ۔۔۔۔

سرچ ٹیم بھی  یونیورسٹی کی طرف سے  شاید جنگل میں داخل ہو گئی  ہوگی  ۔وہ بہت ہی ٹھہر  ٹھہر کر فردوس کو ایک ایک  چیز سمجھا رہا تھا ۔۔۔

فردوس چند لمحے ا سے دیکھتی رہی پھر اس کے بعد اس نے اپنا سر ہلایا یوں جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ کرتا ہوں ۔۔۔

علی  اس کی  اس معصوم سی ادا پر مسکرا کر رہ گیا ۔۔۔۔

فردوس بیٹھی بیٹھی دوپٹہ سر پر لئے  کچھ پڑھنے لگیں ۔۔ 

کیا پڑھ رہی ہو تم ؟؟؟

علی خاور نے اسے آنکھیں سکھیڑ کر   دیکھا ۔۔۔

چند لمحے جب تک وہ کچھ پڑھتی رہی علی خاور اس کے انتظار میں بیٹھا رہا ۔۔۔۔

بتاؤ نا کیا پڑھ رہی تھی ۔۔۔؟؟؟

آیت الکرسی پڑھ رہی تھی اور کچھ دعائیں اور کچھ صورت بھی ۔۔۔

ہاں پڑھو پڑھو اور مجھ پر بھی پھو کو  علی خاور نے تیزی سے اپنا سر اور چہرہ آگے کیا ۔۔۔

فردوس نے اس پر بھی پڑھ کر پھونکا تو وہ دونوں اٹھے ۔۔۔

اور راستے میں انہیں جو بھی چھوٹی چھوٹی سی باریک کچھ  لکڑیاں  ملیں تھیں انہوں نے جمع کر لیں  ٹھنڈک کی وجہ سے  لکڑی میں سیلن سی آگئی تھی اور خشک لکڑیاں ملنا بے حد مشکل تھا ۔۔۔

لکڑی کی تلاش میں وہ  اور آگے تک نکل چکے تھے مگر کچھ وقت کے بعد تھوڑی سی محنت کے بعد انہیں کچھ اور خشک لکڑیاں مل گئی تھی ۔۔۔

اب ہم کسی بڑے  اور گھنے درخت کی تلاش میں نکلتے ہیں کیونکہ بادل کو دیکھ کے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید رات میں بارش ہو جائے ۔۔

اللہ نہ کرے بارش ہو ایک تو لکڑی نہیں ہے جو ہے وہ  سردی میں بہت  مشکل سے ملی ہیں اگر بارش ہو گی تو ٹھنڈ کی وجہ سے آگ بجھ   جائے گی ۔۔۔۔

یہی دعا ہے کہ بارش نہ ہو مگر۔۔

 پھر بھی احتیاط لازمی ہے فردوس ۔۔۔

ایک  لمبے  گھنے درخت کے نیچے وہ دونوں بیٹھے تھے اور انھوں نے خشک لکڑیوں کو جو انہوں نے لمبے لمبے اور اونچے اونچے درخت کے سائے سے اٹھائی تھی اس کو طریقے سے رکھ کر ترتیب دیا اور پھر علی خاور میں اپنے بیگ میں سے لائٹر نکالا ۔۔

فردوس نے  ایک نظر علی خاور کو اور پھر لائٹر کو دیکھا ۔۔۔

فردوس کی آنکھوں میں موجود سوال کو علی  پڑھ چکا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے ۔۔۔

بے فکر رہو میں سگریٹ نہیں پیتا ۔۔ یہ میرے بابا کا لائٹر ہے ۔۔آتے وقت میں اسے اپنے ساتھ لے کر آیا تھا اور امی کی پکچرز بھی ۔۔۔

شکر ہے مجھے لگا شاید آپ گریٹ پینے لگے ہیں ۔۔۔۔

نہیں میں یہ سب چیزیں نہیں  پیتا میری امی کو بالکل پسند نہیں ۔۔

اچھا ہے نہیں پیتے ویسے بھی یہ صحت کے لئے صحیح نہیں ۔۔۔۔

دعا کرو کہ آگ  جل جائے علی خاور  بار بار لکڑیوں کو جلا رہا تھا مگر سیلن کی وجہ سے لکڑی اچھی طرح سے نہیں جل رہی تھی ۔ ۔۔

فردوس کو ایک بار پھر سے مایوسی ہونے لگی جبکہ علی خاور مستقل کوشش کر رہا تھا اس کی کوشش کچھ وقت کے بعد رنگ لے آئیں اور لکڑیوں نے آہستہ آہستہ  آگ پکڑ نی شروع کی ۔۔۔

فردوس نے مسکرا کے علی خاور دیکھا ۔۔۔

سردی اس حد تک تھی کہ فردوس کو لگ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ  اور پیر برف کے ہو گئے ہو ۔۔۔

آگ لگنے کی وجہ سے جسم کو کچھ حد تک حرارت مل گئی تھی فردوس کے چہرے پر پریشانی تو تھی مگر اب وہ اس حد تک ڈری ہوئی اور خوفزدہ نہیں تھی جس طرح وہ پہلے تھی ۔۔

اب علی خاور اس  کے ساتھ تھی اور اسے اس بات پر یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل ہی آئے گا ۔۔

شدید سردی ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو   بیٹھے بیٹھے چھیکے آنے لگی تھی ۔۔ 

مجھے لگ رہا ہے کہ صبح تک ہم دونوں کو بخار ہونے والا ہے علی خاور ایک بار دوبارہ سے اپنے ہاتھ پر چھکتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔

دعا کرے کہ بارش نہ ہو ور نہ سردی کے مارے مرے پڑے ہوں گے دونوں یہاں ۔۔۔

کچھ دیر وہ دونوں ہی آگ  کے قریب بیٹھے اپنے جسم کو حرارت دیتے رہے وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

رات جیسے جیسے بڑھ رہی تھی ٹھنڈ اور زیادہ بڑھ رہی تھی فردوس نے اپنے بیگ میں سے شا ل  نکالی جبکہ علی خاور نے اپنے بیگ میں رکھی ہوئی جیکٹ اپنے جسم پر اوڑھ لی تھی ۔۔

رات پوری طرح سے پھیل چکی تھی نہ جانے کیا وقت ہو رہا تھا ۔۔۔

علی خاور نے اپنا بیگ کھولا  بیگ میں ایک بڑا سینڈوچ پڑا ہوا تھا جس میں سے اس نے آدھا فردوس کی طرف بڑھایا ۔۔۔

فردوس نے اپنا بیگ کھولا تو اس کے بیگ میں  وہی چاکلیٹس  تھیں  جو علی خاور کی دی ہوئی  تھی ۔فردوس نے وہ بھی نکال کر سامنے رکھیں ۔۔

چلوں کچھ تو ہے تھوڑا بہت رات گزارنے کے لئے ۔۔

علی خاور نے مسکرا کر اس کے ہاتھ سے ایک چاکلیٹ لی ۔۔

وہ دونوں رات کی تاریخی میں بیٹھ کر اس تھوڑے سے کھانے کو کھانے لگے ۔۔

جب میں یہاں پر اکیلا تھا تو یہ جگہ مجھے بہت ہی بری لگ رہی تھی پھر اچانک مجھے  جنگل میں  کوئ  روتی ہوئی خوبصورت  پری نظر آئی ۔۔۔

وہ فردوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔اور اب تمہارے ساتھ  مجھے یہ  جنگل  اتنا اچھا لگ رہا ہے کہ کیا بتاؤں  ۔۔۔

وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جو کہ سردی کی شدت کی وجہ سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔۔

فردوس نے علی خاور سے نظریں چرا کر دوسری طرف دیکھا ۔۔۔۔

علی خاور کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ وہ بہت زیادہ دیر تک  اس سے نظر نہیں ملا سکتی تھی ۔اور نہ ہی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر زیادہ دیر با ت  کر سکتی تھی ۔اور جب وہ اس کا نام لیتا تھا تو نہ جانے کیوں اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا تھا جب وہ بہت نرم سی آواز میں اس کا نام پکارتا تھا "فردوس "۔۔۔۔

فردوس نے اپنے آپ کو کچھ حد تک کنٹرول رکھنے کی کوشش کی اس کے بعد اس نے اپنے   لبوں پر زبان پھیری ۔۔۔۔

تمہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے فردوس ۔۔۔ ؟؟؟

علی خاور کی بات پر نہ جانے کیوں فردوس کا دل ایک بار دوبارہ سےدھڑکا تھا وہ اس بات کی توقع نہیں کر رہی تھی کہ وہ رات کی اس تاریخی میں اس سے یہ سوال کرے گا ۔۔۔

فردوس  کچھ نہیں بولی وہ اس  سے نظریں نہیں ملا رہی تھی ۔۔۔

فردوس۔۔

 علی نے دوبارہ سے اتنی ہی  نرمی سے اسے  پکارا ۔۔

نہیں۔۔۔۔

 وہ بہت آہستہ سی آواز میں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔

کبھی بھی نہیں زندگی کے کسی بھی موڑ پر تمہیں کوئی شخص اپنے قریب اپنا اپنا سا نہیں لگا جس سے تمہارا دل ملنے کو چاہتا ہوں بات کرنے کو چاہتا ہوں اسے چاہنے کو چاہتا ہوں ۔۔علی   اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

نہیں۔۔۔

 مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی اس نے دوسری بار بھی یہی جواب دیا ۔۔۔

علی خاور چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا ۔۔۔

وہ چپ ہو گیا تھا مگر نہ جانے کیوں فردوس کو اس کی  خاموشی اچھی نہیں لگ رہی تھی یوں جیسے کچھ ادھورا سا رہ گیا ہوں ۔

کیا آپ کو کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے؟؟؟

 فردوس نے اسی کا سوال اسی کو دہرایا مگر چند لمحے کے بعد اسے احساس ہوا کہ ا سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا ۔۔

اس نے اپنا نیچلا لب  اپنے دانتوں تلے دبایا ۔۔

علی خاور چند لمحے اسے دیکھتا رہا ۔۔یوں جیسے  بے یقین بات ہو ۔۔۔

ہاں۔۔۔۔

 مجھے ہوئی ہے محبت زندگی میں پہلی بار اور شاید آخری بار بھی ۔۔میں نے چاہا ہے کسی کو بہت زیادہ حد سے زیادہ کوئی ہے جسے  میں روز دیکھنا چاہتا ہوں کوئی ہے جس سے میں روز ملنا چاہتا ہوں کوئی ہے جس سے میں روز بات کرنا چاہتا ہوں اور بے شمار بات کرنا چاہتا ہوں کوئی ہے جو مجھے بے ہر حسین لگتا ہے کوئی ہے جس میں میں اپنی دنیا تلاش کرتا ہوں کوئی ہے جسے میں اپنے ہمسفر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔

وہ فردوس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ایک ایک الفاظ  بڑے جتاتے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا جیسے وہ ا  سے  کچھ بتا رہا ہو کچھ جتا رہا ہوں ۔۔۔۔

کوئی ہے جسے  میں اپنے دل کی بات کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔

اور تم جانتی ہو کہ وہ کون ہے فردوس ۔۔

فردوس نے علی خاور کا یہ جملہ سن کر اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری اس کا دل اتنی  زور زور سے دھڑک رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی باہر کو آجائے گا رات کی تاریخی میں وہ اس سے کیا کہہ رہا تھا۔۔

فردوس  کا دل چاہا کہ وہ وہاں  سے اٹھ کر چلی جائے مگر اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے ہاتھوں پیر بند  گئے ہو ۔۔۔

تمہیں پتا ہے فردوس وہ پورے  طریقے سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

پھر اس نے زمین سے  لگا ہوا فردوس کا  فیروزی رنگ کا دوپٹہ اٹھایا  جس کی کنارے پر فیروزی رنگ کی خوبصورت سی بیل  لگی ہوئی تھی اس نے نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے  ڈیزائن پر ہاتھ پھیر رہا ہوں ۔۔۔

فردوس نے اپنی آنکھیں آہستہ سے بند کرکے کھولیں ۔۔۔۔

کیا یہ شخص اسے واقعی میں بہت اچھا لگنے لگا ہے ۔۔۔

کیا یہ  وہ شخص ہے فردوس جس سے تم ۔۔۔

 اس کے  آگے کی سوچ کو اس نے  وہیں روک دیا ۔  

علی خاور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

تمہیں پتا ہے فردوس جب میں چھوٹا تھا تو میری امی ایک گڑیا  لے کر آئی تھی اس کی بھی  آنکھیں سبز رنگ کی تھی بالکل ایسی جیسی تمہاری آنکھیں ہیں اس کی آنکھیں بھی مجھے بے حد خوبصورت لگتی تھی  جیسے تمہاری لگتی ہیں ۔۔۔اس کے بال بھی تمہاری طرح تھے بہت لمبے سے براؤن کلر کے ۔وہ گڑیا میری امی کسی اور کو دینے کے لئے لے کر آئی تھی مگر پتہ نہیں کیوں وہ مجھے اتنی خوبصورت لگنے لگی تھی کہ میں نے اس لڑکی کو جس کے لیے میری امی وہ لائی تھی میں  نے اسے وہ گڑیا دینے ہی  نہیں دی۔اور رو رو کر میں نے اس گڑیا کو اپنے پاس   رکھ لیا  تھا کافی بڑے ہونے کے بعد بھی میں نے اس گڑیا کو اپنے سے الگ نہیں کیا تھا مجھے نہیں پتا کیوں ۔۔۔

پھر میں اور بڑا ہوتا چلا گیا ہم لوگوں نے اپنا گھر تبدیل کر لیا میں پڑھائی اور زندگی میں اس قدر مصروف ہوگیا مگر   اس گڑیا کے کھو جانے کا غم مجھے بہت بہت عرصے تک ستائے رکھتا تھا ۔۔۔

پھر اس کے بعد جب میں یونیورسٹی میں آیا تو مجھے وہی گڑیا سبز رنگ کے لباس میں پہلی بار چلتی ہوئی نظر آئیں مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میری کھوئی ہوئی  گڑیا جو بچپن میں مجھے بہت عزیز تھی وہ دوبارہ سے مل گئی ہو ۔۔۔

" وہ تم تھیں  فردوس"۔۔

 تمہاری آنکھیں بھی بالکل اسی کی طرح تھی تمہارے بال بھی اور ان میں موجود چمک ہر چیز جسے میں بہت یاد کرتا تھا ۔۔

میں تمہیں  چاہتا روز  تم سے بات کرنا چاہتا ۔۔روز تم سے ملنا چاہتا ۔ مجھے تمہیں دیکھ کر یوں لگنے لگا جیسے تم  میری ہی ہو ۔۔بلکل اس گڑیا جیسی جو مجھ سے الگ ہو گئی تھی اور کچھ سال کے بعد وہ مجھے دوبارہ سے مل گئی  ہو ۔۔

 مگر فردوس وہ تھوڑا سا آگے کو ہوا یوں جیسے کسی بات کا اقرار کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔

فردوس  بے حد حیرانی  سے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔

جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے تمہیں خدا نے میرے لئے بنایا ہوں میری وہ کھوئی ہوئی چیز میری وہ سبز آنکھوں والی گڑیا جو مجھے بچپن میں اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی وہ مجھے دوبارہ سے مل گئی ہو ۔۔

تمہیں دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے   تم پر میرا ہی حق  ہو ۔۔جیسے تم صرف اور صرف میرے ہی لیے ہو صرف اور صرف علی خاور کے لیے ۔۔۔

میں نے بہت چاہا ہے تمہیں  فردوس مجھے نہیں پتا کب کس طرح کیسے میں تمہارے  اس حد تک قریب آ گیا ہوں کے اب تم سے دور جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔

تم مجھے اس حد تک اچھی لگتی ہو کہ میں تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔۔علی نے  بہت احتیاط سے نرمی سے اس کی ایک انگلی پکڑی تھی ۔۔پھر اتنی ہی محبت اور چاہت سے اس نے اظہار محبت کیا تھا ۔۔

"آئی لو یو فردوس" ۔۔وہ اسکی  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت نرم سے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس علی خاور کا چہرہ دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ گئی ۔۔اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس سے کیا  کہہ رہا ہے ۔۔

"کیا تم مجھ سے شادی کروگی" ۔۔۔وہ رات کی تاریخی میں اس کے قریب بیٹھا اس کے ہاتھ کی انگلی کو نرمی سے   پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

علی خاور نے اسی لمحے اپنے بیگ میں سے وہ سیاہ رنگ کی انگوٹھی  نکالی تھی ۔۔

اور پھر بڑی محبت سے اس نے فردوس کا کوئی جواب سنے بغیر ہی اسے پہنا دی تھی ۔۔۔۔

جبکہ فردوس بے حد حیرانی   سے علی خاور کو دیکھتی رہی ۔۔۔

فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر پتہ نہیں کیوں  وہ وہاں سے بھاگ نہیں سکیں ۔۔۔۔

فردوس  سن سی بیٹھی علی خاور کو دیکھتی رہی  اور اس کے الفاظ جو وہ کہ رہا تھا سنتی رہی ۔۔۔

نہ جانے کیوں اسے علی خاور  کے بولے ہوئے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔

وہ نرمی سے   اس کے ہاتھ کی وہ انگلی پکڑا ہوا تھا جس میں اس نے وہ سیاہ رنگ کی خوبصورت سیاہ پتھر والی انگوٹھی ابھی تھوڑی دیر پہلے پہنائی تھی ۔۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کے  جواب . کا  بے حد  بے قراری سے منتظر تھا کہ وہ  اس سے کیا کہیں گی  ۔۔۔

فردوس خاموشی کے ساتھ حیرانی سے اسے دیکھتی رہی۔۔۔

اچانک ایک تیز رفتار سے آندھی چلی وقت اور حالات تبدیل ہو گئے ۔ لمحے بھر میں اس کی آنکھوں کے آگے رضا کا غصے سے بھرا ہوا چہرہ آیا تھا ۔۔۔

اسی لمحے ا  سے رابیہ کے الفاظ یاد آئے ۔۔۔

فردوس تمہیں پتا ہے نہ تم نے اپنے بابا سے کس چیز کا کہا ہے تم جانتی ہو نا کہ وہ اپنی بات  کے کتنے پکے ہیں اگر انہوں نے سوچ لیا یا  مان لیں تو سمجھو  ان کے لئے اور ہمارے لیے وہ بات پتھر کی لکیر ہے۔۔۔

جس چیز کیلئے تم نے اپنے باپ کو ہاں کی ہے اگر اس کو پورا کرنے میں  غلطی کوئی ہوگی تو بیٹا تم بے حد تکلیف اٹھاؤ گی اور تمہارے ساتھ ساتھ تمہاری ماں بھی ۔۔۔

امی آپ بے فکر رہیں مجھے کسی سے محبت نہیں ہے  اور بابا جس سے کہیں گے میں شادی کر لوں گی ۔۔۔

فردوس  کو اپنے ہی بولے ہوئے الفاظ دوبارہ سے یاد آئے ۔۔۔

میں یونیورسٹی صرف تمہیں  پڑھنے کے لئے بھیج رہا ہوں مگر اگر مجھے تمہارے متعلق یا پھر کسی اور کے متعلق تم سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی چیز نظر آئیں یا پھر سننے میں آئیں تو یاد رکھنا اچھا نہیں ہوگا ۔۔تمہاری نظر میں، میں ایک بے حد ظالم انسان ہوں اور اس وقت میں ایک انتہائی ظالم انسان بن کر ضرور تمہیں  دیکھاونگا  اگر تم نے میری بات پر عمل نہیں کیا تو  رضا کے بولے ہوئے الفاظ تیزی سے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے اسے یوں لگنے لگا کہ اس کا دماغ سن سا ہو گیا ہے ۔۔رضا کا غصے سے بھرپور چہرہ اس کے بولے ہوئے تمام الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے ۔۔۔

اب  وہ کیا کرے گی ۔۔ 

کیا چیزیں اس کی پہنچ اور سوچ  سے اتنی زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں ۔۔۔

اور کیا اب وہ رضا کی بات پر عمل کر پائیں گی کیا وہ اپنے دل کی چھوڑ کر اپنے باپ کی مرضی پر راضی ہو پائے گی ۔۔۔

کیا جب  اس کے بارے میں بابا  کو یہ حقیقت معلوم ہو گی  تو وہ کس طرح سے اس چیز کے اوپر اپنا ردعمل ظاہر کریں گے ۔۔

اور  میری ،میری امی  تو وہ تو نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔

فردوس نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے خشک  پڑھتے ہوئے لبوں پر زبان پھیری ۔۔۔۔

اسے نہ جانے کیوں ایک دم علی خاور کی باتوں سے خوف محسوس ہونےلگا محبت اور اس کے اظہار کے نام سے وہ یوں جیسے کسی سوکھے پتے کی طرح کاںپنے لگی تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے گناہ کبیرہ کردیا ہو ۔ ۔۔۔

کیا وہ بھی علی خاور کی دل میں وہی جذبات رکھتی ہے جو علی خاور اس  کے لۓ اپنے دل میں رکھتا ہے  مگر فردوس کے اندر اس چیز کو کہنے کی ہمت شاید مرتے دم کبھی نہ ہو ۔۔

مگر وہ لڑکا ۔۔۔۔

وہ  ایک بہادر لڑکا تھا اس نے اپنے دل کی بات کو بڑی آسانی سے اس کے  آگے رکھ دیا تھا ۔۔۔اور وہ جس طریقے سے   کہہ رہا تھا وہ انداز بہت مضبوط تھا فردوس  خوب اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اس کے ارادے ایک برف کی چٹان جتنے مضبوط ہیں اتنے عرصے میں  اس  چیز کا اندازہ تو فردوس کو  ہو گیا تھا کہ وہ آسانی سے پیچھے ہٹنے والا بالکل نہیں ہے ۔۔۔ 

کیا اب ایک اور جنگ شروع ہو جائے گی محبت اور نفرت کی جنگ اور اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی ۔محبت کی یا نفرت کی ۔۔۔۔۔

علی اس کےچہرے کو دیکھتا رہ گیا اس کی آنکھوں میں تیزی سے نمی پھیلنے لگی تھی ۔۔

فردوس نے اپنے گال پر گرے ہوئے آنسو صاف کیے تو علی خاور  حیرانی سے اسے دیکھتا رہا ۔فردوس جانتی تھی کہ اس محبت کی کہانی کو کبھی پورا نہیں ہونا وہ جانتی تھی کہ وہ اپنے باپ سے کبھی نہیں لڑ پائے گی وہ جانتی تھی کہ اگر یہ محبت کی کہانی اس کے باپ کے آگے آ گئی تو وہ اور اس کی ما ں جو  بیچاری پہلے ہی گھٹ گھٹ  کر مر رہی تھی ۔یہ پتا لگنے پر تو مر ہی جاۓ گی ۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا مجھے محبت کیسے ہو سکتی ہے علی خاور سے نہیں نہیں ایسا نہیں ہے  ۔۔۔

مجھے علی سے کسی قسم کی کوئی محبت نہیں یہ  صرف اور صرف میرے دل و دماغ کا فتور ہے ہاں بالکل مجھے علی  خاور  سے محبت نہیں ہے ۔۔۔۔

میرے دل میں علی  خاور  کے لئے کچھ نہیں ہے ۔۔میں اس سے بالکل محبت نہیں کرتی وہ میرے لئے کچھ نہیں ہے ۔۔

بابا ایسا کبھی نہیں ہونے دیں۔۔ گے اور میری امی ۔۔۔۔

نہیں بالکل نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہو سکتی میں اسی سے شادی کرو گی جس سے میرے بابا کہیں گے   میں اپنی ساری خوشیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دوں گی مگر اپنی ماں کے لیے کسی قسم کی کوئی اور کھائی نہیں کھو دے دوں گی اپنے باپ کو ۔۔

فردوس  نے یہ سب کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے علی خاور کے ہاتھ سے اپنی انگلی چھوڑ و آئی تھی یوں جیسے وہ کوئی بھوت ہو ۔۔

علی خاور بے حد  حیرانی سے فردوس کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔

فردوس علی نے ا سے  پکارا ۔۔۔

میں  میں ۔۔۔

 بولتے ہوئے اس کی آواز کسی سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگی ۔۔۔

میں آپ سے بالکل بالکل بھی محبت محبت نہیں کرتی ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے اور اس کے ہونٹوں سے الفاظ موتیوں کی طرح ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے   فردوس کو بولنا اس قدر مشکل لگ رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے دل کے اوپر بہت وزنی پتھر رکھ دیا ہو ۔وہ جیسے جیسے علی  خاور کو دیکھتی رہی اسے یوں لگ رہا تھا کہ دل پر وزن اور زیادہ بڑھتا جا رہا ہے ۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہے مجھے کسی سے محبت نہیں ہے مجھے کسی سے بھی محبت نہیں ہے ۔۔۔وہ حواس باختہ علی خاور کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

فردوس ۔۔۔

نہیں ۔۔۔مجھے نہیں ہے اپ سے محبت نہیں ۔۔

فردوس تم  ٹھیک ہوں؟؟؟

 علی خاور بیقراری سے ایک قدم اس کے قریب ہوا تو وہ دو قدم پیچھے ہو گئی ۔۔۔

پلیز خدا خدا  کا واسطہ ہے اس بات کو یہیں ختم کر دیں اسی تاریخی میں اسی جنگل میں اسی لمحے اگر یہ بات یہاں سے باہر آگئی تو قیامت آ جائے علی  خاور ہر چیز جل کے اس قیامت میں راکھ ہو جائے گی ۔

اگر یہ محبت کی کہانی یہاں سے باہر نکلی تو ہر ایک کی زندگی میں طوفان آ جائیں گے ہر ایک کی  خوشیاں تباہ ہو جائیں گے  میں محبت جیسی خوبصورت چیز اپنے زندگی میں شامل نہیں کر سکتی مجھے اس  کی اجازت نہیں میں آپ سے بالکل محبت نہیں کرتی نا آپ سے اور نہ ہی کسی اور سے وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

تم کس چیز سے ڈر رہی ہوں فردوس ؟؟؟

بس تم ایک بار ہا کہو بس ایک بار  پھر میں تمہارے لئے  سب کچھ ایک کردوں گا تم جس سے کہوں گی اس سے تمہارے لئے بات کروں گا جو کرنا پڑے گا میں کروں گا بس تم مجھ پر بھروسہ رکھو میرے جذبات تمہارے لیے بے حد سچے اور محبت سے بھرپور ہے میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے کسی سے محبت کی ہے تم میری زندگی میں شامل ہونے والی پہلی لڑکی ہو ۔میں نے تمہیں اپنے خوابوں میں اپنے گھر میں بے شمار بار  دیکھا ہے فردوس میں تمہارے لئے  ہر کسی سے لڑ سکتا ہوں ہر کسی کے آگے کھڑا ہو سکتا ہوں بس تم ایک بار ہا کہو کہو کے تم بھی  محبت کرتی ہو مجھ سے  اور میرا ہاتھ تھام لو پھر تم دیکھنا  میں سب کچھ ٹھیک کر دونگا  سب کچھ ۔۔۔

نہیں نہیں نہیں ۔۔۔۔

مجھے کچھ نہیں دیکھنا اور مجھے کچھ نہیں سننا ۔۔۔۔

وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے چیخ پڑی ۔۔۔

مجھے آپ سے کوئی محبت نہیں ہے مجھے آپ سے کوئی محبت نہیں ہے علی خاور ۔۔۔

آپ کو آپ کو بھی مجھ سے کوئی محبت نہیں یہ بس وقتی جذبہ ہے اور میں جانتی ہوں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا میں آپ سے گزارش کرتی ہوں اس چیز کو یہیں ختم کر دیں اس بات کو اسی تاریخی جنگل میں دفنا دیں  ۔۔

فردوس۔۔

 علی خاور  بےحد حیرانی سے اسے دیکھتا رہا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔

خدا کا واسطہ ہے علی  میں آپ جتنی بہادر نہیں ہوں میں بہت ڈرپوک بہت کمزور ہو اس سے بھی  زیادہ کمزور  جتنا میں خود کو سمجھتی ہوں ۔محبت بزدلوں پر نہیں جچتی علی خاور  اور میں بے حد بزدل اور حد کمزور ہو ۔ میرے لیے محبت جیسی کوئی شے نہیں ہے ۔۔

تم یہ بات  کیسے کہہ سکتی ہوں کہ یہ وقتی جذبہ ہے فردوس ۔۔تم میری محبت کی بےعزتی نہیں کر سکتی یہ کوئی وقتی جذبہ نہیں ہے فردوس ا ور آئندہ میری محبت کو وقتی جذبے کا نام مت دینا میں نے تم سے محبت کی ہے فردوس محبت  سمجھیں تم دل لگی نہیں کی کہ کچھ وقت کی بعد  تمہیں بھول جاؤں تمہارے لیے تو میں نے اپنی امی سے بہت پہلے بات کر لی ہے فردوس  اگر میں تمہیں اس حد تک نہیں چاہتا تو اپنی ماں کے آگے تمہارے لئے ریکویسٹ نہیں کرتا ان سے یہ نہیں کہتا کہ فردوس  کو میری زندگی میں ہر حال میں میرے ساتھ مل کر شامل کریں ۔۔تمہارے لئے میں نے اپنی ماں کے آگے ایک بچے کی طرح ریکویسٹ کی ہے ۔۔اور تمہیں پتا ہے فردوس انہوں نے کہا ہے کہ چاہے کتنے بھی مشکل حالات ہو وہ ہمیشہ ہمارا ساتھ دیں گی ہمیشہ تم بس  مجھ پر  بھروسہ کرو ۔۔وہ بے حد نرم سی آواز میں فردوس کو کہہ رہا تھا ۔۔۔

آپ کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی مجھے آپ سے محبت نہیں ہے علی خاور ۔مجھے کسی سے کسی قسم کی کوئی محبت نہیں  وہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے کہہ رہی تھی ۔۔۔

مجھ سے جھوٹ مت بولو فردوس تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا ۔۔اب کی بار علی خاور کو غصہ آگیا تھا اس نے قریب رکھی ہوئی پانی کی بوتل زور سے زمین پر ماری ۔۔۔

یہی بات یہی بات تم ایک بار میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو یہی باتیں جو تم مجھ سے نظر چراتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ کر کہہ رہی ہو مجھ سے جھوٹ بول سکتی ہو ساری دنیا سے جھوٹ بول سکتی ہو مگر خود اپنے آپ سے کیسے جھوٹ بولوں گی فردوس ۔ تمہاری آنکھوں میں میں نے اپنے لئے محبت دیکھی  ہے فردوس وہی بے چینی  دیکھی ہے جو مجھے محسوس ہوتی ہے جب میں تم سے دور ہوتا ہوں  ۔۔۔۔۔

اپنے آپ سے جھوٹ مت کہو فردوس کیوں اپنی خوشیوں کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگا رہی ہوں تھوڑی سی بہادر بنو یا صرف میرا ہاتھ تھام لو میں خود تمہارے آگے کھڑا ہونگا ہر کسی سے لڑ جاؤں گا بس۔۔

 بس تم ایک بار ایک بار  میرا ساتھ تو دو کم ازکم میں تمہارا ہاتھ تھام کر اور مضبوط تو ہو جاؤں گا کہ میری محبت میرے ساتھ ہے تو مجھے کسی قسم کی کوئی اور طاقت روک نہیں سکتی مجھے کوئی نہیں ہرا سکے گا  ۔۔۔۔

کون سی محبت علی کون سی محبت جب میں آپ سے کہہ رہی ہو کہ نہیں کرتی پھر کیوں اس چیز کے پیچھے پڑے ہیں کہ میں آپ کو ہاں کہو جب کہ ایسا کوئی جذبہ میرے دل میں ہے ہی نہیں ۔۔۔۔

اب کی بار وہ زیادہ زور سے بولی تھی جبکہ علی خاور خاموشی کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتا رہا  فردوس بیٹھی  اب بچے کی طرح رو رہی تھی ۔۔۔۔۔

میں نے کہیں پڑھا تھا فردوس کے محبت انسان کو بہت خوار کرتی ہے اور پسندیدہ شخص کی بے رخی اور اس کی سخت باتیں انسان کو اندر تک توڑ دیتی ہیں آج اس بات کا احساس ہورہا ہے مجھے کے محبت میں تکلیف کا ملنا کیا ہوتا ہے ۔۔۔

علی فردوس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ علی خاور کو اس قدر اذیت میں دیکھ کر فردوس کو ایک الگ سی بے چینی ہونے لگی ۔ ۔۔

میرے ساتھ  یہ مت کرو فردوس میں جانتا ہوں تم اتنی  پتھر دل نہیں ہو کے میرے محبت بھرے جذبات کو میرے سچے جذبات کو  میرے منہ پر یوں کھینچ کر  مار دو ۔۔۔

اپنے باپ کے ڈر سے میری محبت سے انکار مت کرو فردوس میں نے بہت چاہا ہے تمہیں بےحد چاہا ہے ۔۔

اپنی زندگی کے بہت سے خواب میں نے تمہارے ساتھ دیکھے ہیں تمہیں  تو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ تم روزانہ میرے خواب میں آتی ہوں تمہیں  اس چیز کا اندازہ ہی نہیں کہ رات کو تمہارے خیالات میرے دل و دماغ میں گھومتے رہتے ہیں تمہاری یہ سبز آنکھیں تمہارے  خوبصورت سے ہونٹ تمہاری غصے بھری باتیں تمہاری نرم سی باتیں مجھے ساری ساری رات جگائی رکھتی ہیں ۔۔

میں جانتا ہوں تم اتنی سخت دل نہیں ہو ۔۔۔

اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو ۔۔۔

فردوس  خاموشی سے اسے دیکھتی رہی اس کے بعد اس نے وہی الفاظ کہے  جو وہ کافی دیر سے کہہ رہی تھی۔۔۔

علی خاور آپ کو غلطی ہوگئی ہے مجھے سمجھنے میں  اور آپ کو محبت کی  بھی غلط فہمی ہوگئی ہے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں یا پھر کرنے لگی ہوں ۔جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے حقیقت یہ ہے کہ میں آپ کو بالکل پسند نہیں کرتی اور نہ ہی آپ سے محبت کرتی ہو یہی سچ ہے  ۔۔۔

فردوس نے اپنی دونوں ہاتھ کی مٹھیاں بے حد زور سے بند کر رکھی تھی اتنی زور سے کہ اس کے ناخن اس کی ہتھیلیوں پر چوبنے لگے تھے ۔وہ بہت ٹہر ٹہر کر ایک ہی  بات کہہ رہی تھی مگر اس نے علی خاور سے نظریں نہیں ملائی تھی ۔۔۔۔

میرے بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ انہوں نے میرے لیے کسی کو دیکھ رکھا ہے ۔۔

موٹے موٹے آنسو فردوس کی آنکھوں سے گر رہے تھے ۔۔

 وہ بہت آہستہ آواز  میں سوچ سوچ کر کہہ رہی تھی ۔۔

انہوں نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ   وہ اپنی مرضی کے لڑکے سے میری شادی کریں گے ۔اور میں اس چیز پر بہت پہلے حامی بھر چکی ہوں اب میرے لیے کسی اور کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ۔۔

نہ ہی تو میری زندگی میں اور نہ ہی میرے دل میں کسی کے لئے  کسی قسم کی کوئی جگہ باقی ہے۔۔

 اس کے حلق میں آنسوؤں کا ایک گولہ سا بن گیا تھا روتے روتے  جیسے اس کی آنکھیں سوج گئی ہو ۔۔ ۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے کتنی بار کہا ہے فردوس کی تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا تو پھر  یہ  کوشش تم کیوں کر رہی ہو ۔۔

فردوس میرے ساتھ یہ زیادتی مت کرو پلیز ۔۔میرے جذبات تمہارے لئے بے حد سچے ہیں یار تم کیوں مجھے  یوں اتنا  تڑپانا رہی ہو اتنے سخت الفاظ بار بار کہہ کر ۔۔

شاید تمھیں اس  چیز کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارے  یہ الفاظ میرے دل میں کتنی بری طرح سے چپ رہے ہیں جو تم اتنی آسانی سے کہہ رہی ہو ۔۔۔

میں آپ کو اور کس طرح سے کہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔

فردوس پلیز ۔۔۔

پلیزیار ۔۔۔۔

تمہیں خدا کا واسطہ ہے میرے ساتھ یہ مت کرو ۔۔۔

میں اتنا بے بس زندگی میں کبھی نہیں ہوا جتنا بے  بس اور  کمزور میں آج اپنے آپ کو محسوس کر رہا ہوں وہ بھی تمہارے آگے ۔۔۔۔

میں تمہیں کس طرح سے سمجھاؤں کس  طرح سے تمہیں راضی کروں تم کیوں مجھے رسوا کرنا چاہ رہی ہو  مت کرو یار یہ پلیز پلیز فردوس یہ مت کرو  میں بہت بہت پیار کرتا ہوں  یار تم سے ۔۔۔۔۔

میں آپ کو رسوا کرنےنہیں جارہی علی خاور اور  نہ ہی آپ کو تڑپانا چا ہ رہی ہوں میں تو میں تو ۔۔۔۔

 اس   تکلیف سے آپ کو دور کرنا چاہ رہی ہو بس ۔۔

تم مجھے اس تکلیف سے دور نہیں کر رہیں   بلکہ مجھے مزید تکلیف دے رہی ہوں اب کی بار علی نے بے حد نرمی  سے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔۔

 تم جس کی قسم کہو گی میں وہ قسم کھانے کو تیار ہوں ۔۔میں وعدہ کرتا ہوں کے آخری سانس تک تمہارے ساتھ رہوں گا تم سے وفادار رہوں گا صرف تم سے ہی محبت کروں گا تم کیوں مجھے بار بار ذلیل کر رہی ہو فردوس مت کرو یہ پلیز ۔۔۔۔

فردوس اپنا سر جھکا ے  بالکل بے بسی کے عالم میں بیٹھی روتی رہی جبکہ علی خاور اس کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھا۔۔ فردوس کو  سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس دیوانے لڑکے کو انکار کیسے کرے ۔وہ تو کسی قسم کی کوئی بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھا کوئی ایسا  جملہ جس سے فردوس اسے یہ کہہ دے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی اور وہ اس کی بات سمجھ جائے ۔۔

مگر اس نے فردوس کی ایک نہیں سنی وہ اپنی محبت کا اظہار اتنے مضبوط لہجے سے کر رہا تھا کہ فردوس کو اب خوف آنے لگا تھا ۔وہ جانتی تھی کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہے ۔۔مگر وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جانتی تھی کہ اس محبت کا کوئی فائدہ نہیں اس محبت کا کوئی انجام نہیں کوئی منزل نہیں ۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اس محبت میں صرف اور صرف تکلیف ہے اور وہ دونوں ہی تکلیف اٹھانے والے ہیں ۔۔

ایسا ممکن نہیں ہے علی فردوس اپنا چہرہ نیچے کیے روتی رہی جبکہ علی  اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا بیٹھا رہا یوں  جیسے اگر اس نے اس کے ہاتھ کو چھوڑ دیا تو وہ کہیں غائب ہو جائے گی ۔۔۔۔

رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا ۔۔وہ روتی رہی اور آسمان سے پانی آہستہ آہستہ برسنے لگا ۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں آپ کو کس طرح  سے یہ بات سمجھاوں کے میں آپ کے لئے اپنے دل میں کسی قسم کا کوئی جذبہ نہیں رکھتی ۔۔۔۔

وہ اپنے ہاتھ تیزی سے علی خاور کے ہاتھ سے چھڑا کر وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔اور تیزی سے  جانے لگی کے علی  خاور  نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور  اسے جانے سے روکا ۔۔

اور پھر بہت مضبوطی سے اسے   دونوں کندھوں سے پکڑ کر اسے درخت سے لگایا ۔۔۔۔

میں نے تم سے کہا ہے نہ مجھ سے جھوٹ مت بولو ۔۔وہ غصے میں آ گیا تھا ۔۔

میں جھوٹ نہیں بول رہی میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں بارش تیز ہونے کی وجہ سے وہ دونوں تیز تیز بول رہے تھے ۔۔۔

کھاؤ قسم میری کہ تم محبت نہیں کرتی مجھ سے بولو میری آنکھوں میں دیکھ کر کیوں نظر نہیں ملا  رہی ہوں۔۔۔

 کب سے کیوں مجھے بیوقوف بنا رہی ہو کیوں مجھے تڑپا رہی ہو ۔۔

میں کسی کو کوئی بے وقوف نہیں بنا رہی میرا ہاتھ  چھوڑیں  مجھے درد ہو رہا ہے علی  ۔

تمہیں درد ہو رہا ہے صرف ایک ہاتھ پکڑنے سے اور اتنی دیر سے جو تم  مجھے تکلیف دے رہی ہو اس کا کیا  تمہیں  اس چیز کا اندازہ ہے تمہارے الفاظ  کتنے زیادہ تکلیف دہ ہے تمھیں اس چیز کا کوئی علم ہے میں نے اپنے  بے حد قیمتی جذبات تمہارے آگے رکھے اور تم انہیں یوں مٹی میں رونگتے ہوئے آگے نکل رہی ہو ۔مجھ سے جھوٹ مت بولو فردوس میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ تم بھی میرے لیے وہی جذبات رکھتی ہوں جو میں تمہارے لئے رکھتا  ہوں ۔۔۔۔۔

تم اب  مجھ سے جھوٹ بولنا بند کرو تم اپنے بابا کے ڈر کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو اگ کیوں لگا رہی ہوں جب کہ میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔۔

مجھے کسی کا ساتھ نہیں چاہیے سمجھے  آپ اور  چھوڑیں ہاتھ میرے درد ہو رہا ہے مجھے  ۔۔

 میں نہیں چھوڑ رہا تمہارے ہاتھ پہلے تم  مجھے سچ سچ بتاؤ کہ اس کی وجہ کیا ہے  کیوں جھوٹ بول رہی ہو کیوں انکار کر رہی ہو  کیوں مجھ سے دور جانا چاہتی ہوں جب کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو فردوس  ۔۔۔

میں آپ سے کتنی بار کہوں کے آپ  سے محبت نہیں کرتی کتنی بار علی  ۔۔

بار بار جھوٹ مت کہو ۔۔

میں جھوٹ نہیں کہہ رہی  میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔

اچھا تو پھر  میری جان کی قسم کھاؤ  اگر جھوٹ بولو تو اللہ کرے کہ ابھی مر جاؤں میں ۔۔۔

اس نے فردوس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر  رکھا ۔۔۔۔

کھاؤ میری قسم اور اگر تم جھوٹی قسم کھاؤ تو اللہ کرے کے  یہیں  میرا دم نکل جائے ۔۔۔

وہ بہت مضبوط لہجے میں کہہ رہا تھا جبکہ فردوس خوف کے عالم میں اسے دیکھتی رہی اس کی آنکھوں میں ایک جنون تھا ایک پاگل پن تھا ۔۔

روک کیوں گئی  کھاؤں میری    قسم ۔۔۔

اور کھا کر یہ سب کچھ کہو  جو  مجھ سے کہہ رہی ہو ۔۔۔

چھوڑیں آپ مجھے مجھے کسی قسم کی کوئی قسم نہیں کھانی چھوڑ یں   مجھے درد ہو رہا ہے علی خاور ۔۔۔

 پہلے میری بات کا جواب دو ورنہ کھاؤ میرے سر کی قسم اور بولو وہ سب کچھ جو تم کہہ رہی ہو ۔۔

وہ بھی الگ ضد پر  آ گیا تھا اس کے لہجے میں انتہا کی مضبوطی تھی اور اس کی آنکھوں میں جنون  ۔۔

میں کسی قسم کی کوئی قسم نہیں کھانا چاہتی ہاتھ چھوڑ یں  میرے مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا اور اپنے ہاتھ اس سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔

نہیں پہلے تم مجھے جواب دو وہ بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ فردوس اگر آج نہیں بولی تو پھر کبھی نہیں بول پائے گی ۔۔وہ خود اپنی خوشیوں کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دے  گئی ۔۔۔

آپ میرا ہاتھ ۔

ہاتھ چھوڑیں مجھے  درد ہو رہا ہے علی خاور  ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ورنہ کیا کیا فردوس ؟؟؟

 کیا کروں گی تم ۔۔؟؟؟

تم میری محبت کی یوں تو ہیں نہیں کر سکتی ۔۔

تھوڑی سی بہادر بنو  فردوس اپنے لئے میرے لئے  ہماری خوشیوں کے لۓ ۔۔۔

مجھے کسی کے لۓ بہادر بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

سمجھے آپ  نفرت کرتی ہوں میں آپ سے ۔۔۔

وہ چیخ اٹھی تھی بہت زیادہ زور سے ۔۔۔

اس نے علی خاور کے ہاتھوں سے تیزی سے اپنے ہاتھ چھوڑ آئے تھے اور ایک زور دار تھپڑ علی خاور کے منہ پر مارا تھا ۔۔۔۔

علی خاور بے حد حیرانی سےاسے  دیکھ رہا یوں جیسے وہ کوئی اور ہی فردوس ہو جو اتنا سخت دل رکھنے والی لڑکی ہو ۔۔۔

اسے شاید فردوس کے تھپڑ مارنے سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی تکلیف اسے فردوس کے ان الفاظ سے ہوئی تھی جو  وہ کہہ گئی تھی۔۔

" نفرت کرتی ہوں میں آپ سے" ۔۔علی خاور بےحد حیرانی کے عالم میں اس کے یہ الفاظ سنتا رہا ۔۔۔

علی خاور کی آنکھیں غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی ۔۔کچھ اس کی محبت کے ذلیل ہو جانے کا غم تھا اور کچھ اس کی محبت کو ٹھکرائے جانے کا کچھ اپنی بے عزتی کا  ۔۔۔فردوس  بے حد خوف کے عالم میں علی خاور کو دیکھتی رہی ۔۔

اسے اپنی غلطی کا فور احساس ہوا ۔۔

مگر وہ مجبور تھی ۔۔۔

وہ یہ نہیں کرنا چاہتی تھی  مگر اس نے تھپڑ علی خاور کو اسی وجہ سے مارا تھا کہ وہ اس سے دور ہو جائے اور اس بات کو سمجھ لیں کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی ۔۔۔

علی۔۔۔۔

معاف۔۔۔

 معاف کردیں۔۔۔

 فردوس نے اسے نرمی سے پکارا ۔۔

غصے کے عالم میں علی خاور نے زور زور سے درخت کے اوپر دو تین   مکے  مارے اتنے زور زور  سے کے   اس کے ہاتھوں  میں سے خون نکلنے لگا تھا ۔۔۔

علی روک جایں ۔۔۔پلیز 

علی یہ آپ کیا کر رہے ہیں فردوس تیزی سے اس کی طرف دوڑی ۔۔۔۔۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ پاگل ہو گئے ہیں ۔۔۔پلیز مت کریں ہاتھوں  سے خون نکل رہا ہے ۔۔پلیز علی ۔۔۔مت کریں ۔

تمہیں تو فرق نہیں پڑتا نہ تم تو نفرت کرتی ہو مجھ سے ابھی یہی کہا ہے نا تم نے ۔۔۔۔وہ غصے سے بولا۔

یہ کس قسم کی بیوقوفی ہے علی کیوں مجھے پریشان کر رہے ہیں۔۔۔ تکلیف ہو رہی ہو گی اپ کو روک جایں پلیز۔۔۔۔

 اس  بیوقوفی سے صرف آپ کو تکلیف ہوگی اور کچھ نہیں ۔۔۔

تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ تکلیف ہو یا نہ ہو علی نے  زور سے  اس کا ایک بازو پکڑ کر کہا ۔

نفرت کرتی ہوں یہی کہا ہے نا تم نے ابھی۔۔۔

  علی نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا ۔۔۔۔۔

اور وہ اس درخت کے سائے سے نکل کر جہاں پہ بارش سے وہ دونوں محفوظ تھے اور جہاں پر آگ چل رہی تھی وہاں سے نکلتے ہوے علی باہر جانے لگا ۔۔

وہ تیز بارش  اور سردی میں یہاں سے نکل رہا تھا  ۔۔۔

علی۔۔۔۔نہیں پلیز مت جایں ۔۔۔علی ۔۔۔

علی۔۔۔

 آپ کہاں جا رہے ہیں فردوس تیزی سے اس کے پیچھے نکلی ۔۔۔۔۔

میرے پیچھے مت آؤ وہ پیچھے مڑ کر زور سے کہنے لگا ۔۔۔۔

غصے سے اس کی انکھیں لال ہو رہی تھی۔۔۔

پلیز علی سور ی ۔۔سوری علی ۔۔۔۔

کہاں جا رہے ہیں بارش میں  اتنی سردی ہے بیمار ہوجائیں گے علی پلیز مت کریں یہ بیوقوفی کیوں اتنی بیوقوفی والی حرکتیں کر رہے ہیں ۔کیا مل رہا ہے اپ کو یہ سب کچھ کر کے کیوں مجھے تکلیف دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔

کون سی تکلیف ؟؟؟؟

تمہیں تو تکلیف نہیں ہونی چاہیے نفرت کرتی ہو نا تم سے مجھ سے ۔۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا نہ جانے کہاں کہاں جا رہا تھا اور فردوس اس کی پیچھے تھی بارش کی وجہ سے اسے بے حد سردی لگ رہی تھی ۔۔۔۔

مگر وہ  اس حالت میں علی خاور کو اکیلا  نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔۔۔

علی پلیز روک  جانے کہاں جا رہے ہیں ۔۔

میرے پیچھے مت آؤ ۔۔۔

جاؤ یہاں سے ۔۔

وہ پیچھے مڑ کر زور سے کہنے لگا اس نے دوبارہ غصے کے عالم میں  درخت کی لکڑی پر ہاتھ مارنا چاہا کہ فردوس نے  تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔

کیوں کر رہے ہیں یہ سب کچھ۔۔۔ کیوں علی کیوں ۔۔۔

 وہ بچے کی طرح اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھ چکی تھی ۔۔یوں جیسے بہت تھک گئی ہوں ۔۔۔

کیوں پریشان کر رہے ہیں مجھے کیوں ستا رہے ہیں کیوں امتحان   لے رہے ہیں میرا ۔۔۔ 

میری زندگی میں ویسے ہی اتنی مشکلات ہیں میرے لئے مزید مشکلات پیدا نہ کرے علی  پلیز ۔۔۔پلیز علی  ۔۔۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ بچوں کی طرح مضبوطی سے پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھی ہوئی روتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔زور زور سے بچو ں کی طرح ۔۔۔

مت کریں علی پلیز ۔۔۔

علی چند  لمحے  اسے دیکھتا رہا تیز بارش میں وہ دونوں ہی بھیگ  چکے تھے اور فردوس کا چہرہ سردی کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا اور اس کے ہاتھ بہت ٹھنڈے ہو رہے تھے  ۔۔۔۔

علی خاور وہیں زمین پر اس کے پاس بیٹھ گیا ۔۔اور اس نے اپنی گیلی جیکٹ اتار کر اس کے جسم پر ڈالی ۔۔۔۔

فردوس اور زیادہ رونے لگی ۔۔۔کیا وہ اس دیوانے لڑکے کو نہ بول پاۓ گی  وہ روتے روتے یہی سوچتی رہی ۔۔ 

علی خاور کا اپنا سر جھکا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں شاید آنسو بھی تھے ۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو ۔۔فیری ۔۔

میں تمہارے لئے مشکل پیدا نہیں کر رہا میں تو تمہیں کبھی مشکل میں دیکھ   ہی نہیں سکتا ۔۔پھر میں کیسے تمہیں تقلیف دے سکتا ہوں  ۔۔۔۔

علی  اپنا چہرہ نیچے کیے بہت آہستہ آواز میں کہہ رہا تھا جبکہ فردوس اس کا ہاتھ پکڑے نیچے زمین  پر بیٹھی روتی رہی ۔۔ 

مجھ سے دور مت جاؤ فردوس میں یہ نہیں برداشت کر سکتا میں قسم کھاتا ہوں میں پاگل ہو جاؤں گا ۔۔ 

علی خاور کی آواز آہستہ آہستہ اور زیادہ بھاری ہونے لگی جیسے وہ اپنے آپ کو فردوس کے آگے رونے  اور کمزور پڑنے سے روک رہا ہوں  ۔۔۔۔۔

فردوس اب کی بار کچھ نہیں بولی ۔۔وہ بس روتی رہی ۔۔

علی نے نرمی سے اسے اس  کے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔۔

اور پھر دوبارہ سے  اسے لے کر وہاں اسے درخت کے نیچے گیا  جہاں پر انہوں نے آگ  جلائی تھی ۔۔۔۔۔۔

فردوس نے  نظر اٹھا کر علی خاور کا چہرہ دیکھا اس کی آنکھوں کے کنارے گلابی ہو رہے تھے ۔۔۔۔

فردوس کو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کی آنکھیں دیکھ کر اور زیادہ رونا آیا  ۔۔۔

علی نے  نرمی سے اپنا  ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے تو وہ ہچکیوں سے بچوں کی طرح رونے لگی ۔۔۔۔

اس محبت کا  کوئی فائدہ نہیں علی۔۔۔

 میں جانتی ہوں کہ اس محبت کی کوئی منزل نہیں ۔۔

تم ایک بار میرا ساتھ دو فردوس پھر تم دیکھنا میں  ہر چیز بالکل ٹھیک کر دوں گا بس تم میرے ساتھ ہو ۔۔۔

میں بہت بزدل ہوں علی خاور میں آپ کی طرح اتنے مضبوط دل کی مالک  نہیں ہوں ۔۔۔۔

فردوس مجھے نہیں معلوم یہ کب کس طرح کس وقت اور کیسے ہوگیا مگر میں تم سے دور نہیں رہ سکتا  ۔۔۔۔

کیا تم نے کبھی دن میں چمکادڑ دیکھا ہے بلکل ایسا ہو جاتا ہوں اگر تمہارا چہرہ نہ دیکھوں ۔۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے    تیزی سے   آنکھیں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے  دیوانے  کو دیکھا ۔۔۔

میرا بھی کچھ یہی حال ہوجاتا ہے علی خاور ۔۔

فردوس نے بہت آہستہ سی آواز میں کہا جیسے خود سے ہی بات کر رہی ہوں ۔۔۔

اس کے یہ الفاظ علی خاور کے لیے اس قدر راحت بھرے تھے یوں جیسے صحرا میں اسے پانی مل گیا ہوں ۔۔۔۔۔

میں آپ کی قسم کھا کے جھوٹ  نہیں کہہ سکتی ہے۔۔میرے اندر اتنی ہمّت نہیں ہے کے میں آپ سے جھوٹ کہہ سکوں ۔۔

تم مجھ پر بھروسہ رکھو میں مرتے دم تک تمہارے ساتھ ہوں ۔۔

 علی  مجھے نہیں معلوم کب کس وقت کس طرح کس لمحے میں آپ کو چاہنے لگی ہو ۔۔۔

وہ بچوں کی طرح ہچکیوں  سے  روتی ہوئی یہ الفاظ بڑی مشکل سے ادا کر رہی تھی ۔۔۔

جبکہ علی خاور اسے دیکھتا رہا ۔۔۔

یوں جیسے اپنے کانوں پر یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جو اس نے سنا ہے وہ سب سچ ہے  یا اس کا وہم ۔۔۔۔

میں نہیں جانتی کہ اس محبت کا انجام کیا ہے میں نہیں جانتی کہ یہ محبت کی کہانی جب دنیا کے سامنے آئے گی میرے بابا کے سامنے آئے گی تو وہ کیا کریں گے ۔۔

مگر میں اتنا جانتی ہوں کہ میں شاید پوری دنیا سے جھوٹ بول سکتی  ہوں مگر اپنے آپ سے  نہیں اپنے دل سے نہیں آپ کی آنکھوں میں دیکھ کر میں یہ جھوٹ نہیں کہہ سکتی تھی علی خاور یہ میرے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے کہ میں اس شخص کی آنکھوں میں دیکھ کر یہ جھوٹ کہو جو مجھے بے حد محبت کرتا ہے ۔۔۔

وہ اپنی سبز سوجی ہوئی آنکھوں سے علی خاور کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی علی خاور کی آنکھیں دیکھنے سے یوں لگ رہی تھی جیسے کچھ دیر پہلے وہ بھی رویا ہوں ۔۔۔

میں بہت بہت محبت کرتا ہوں تم سے  اتنی  محبت کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔

میں تم سے اتنی محبت کرنے لگا ہوں کہ تمہیں کھونے سے اس حد تک ڈرنے لگا ہوں جیسے میں اپنی  امی کو کھونے سے ڈرتا ہوں ۔۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں فردوس زندگی میں چاہے حالات کیسے بھی ہوں چاہے کتنی بھی مشکلات آئیں مجھے تمہارے لئے کسی سے بھی لڑنا پڑے کسی کے بھی آگے جھکنا پڑے تو میں جھک  جاؤں گا میں لڑ جاؤں گا ۔۔۔

ایک ہاتھ سے تم میرا ہاتھ تھام  لینا اور دوسرے ہاتھ سے میں تمہارے لئے سب سے لڑ جاؤں گا ۔۔

بس میرے دوسرے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ ہونا چاہیے وہ بھی بہت مضبوطی سے ۔۔۔

وہ دونوں ہی رو رہے تھے تیز بارش رات کی تاریخی میں یوں ہی برستی رہی ۔۔۔۔

نہ  جانے کیوں اظہارے محبت بعض اوقات انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔۔۔۔

رات کی تاریخی کی جگہ اب صبح کی روشنی نے لے لی تھی ۔۔۔

رات بھر  وہی تیز سردی  تھی کیونکہ رات میں تیز بارش ہونے کی وجہ سے موسم مزید ٹھنڈا ہو گیا تھا ۔۔

ان دونوں کے گیلے کپڑے بھی اب سوکھ  چکے تھے لیکن ان دونوں کی طبیعت اب بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی وہ دونوں ہی بخار سے تپ رہے تھے نزلہ کھانسی سے وہ دونو ں نڈ هالا تھے ۔۔

وہ  دونوں  اب بے حد تھکے ہوئے لگ رہے تھے ۔

 اور راستہ تلاش کرنے کے لئے نہ جانے کن کن راستے پر گھوم رہے تھے۔۔

 کہ فردوس کی  نظر اچانک سے سامنے سے آتے ہوئے ایک آدمی پر پڑی جس نے نیلے رنگ کے موٹے موٹے جوتے پہنے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو پوری طرح سے ڈھکا ہوا تھا اسی  کے پیچھے بلکل اسی حلیے میں  تین چار آدمی اور چلتے ہوئے نظر آئے ان کے ہاتھوں میں موٹی موٹی لکڑیاں تھی جس کی مدد سے وہ لوگ جنگل میں موجود برف کے ٹکڑوں اور باقی چھوٹی موٹی  چیزوں کو ہٹا کر اپنے لئے راستہ بنا کر آگے  آ  رہے تھے ۔۔۔

ایک لمحے کیلئے فردوس  ان  آدمیوں کو دیکھ کر ڈر گئی تھی لیکن جب اس نے ان تین آدمیوں کے پیچھے سے آتے ہوئے آپنے پروفیسر کو دیکھا تو  وہ جیسے خوشی سے جھوم اٹھیں ۔۔۔

فردوس تم   کیا کر رہی ہو ۔۔۔؟؟؟

علی ۔۔۔

دیکھو سر الطاف  اور ان کے پیچھے مس شیلا اور سر حسسن وہ  بھی ہیں انہوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا علی وہ بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے علی خاور کو کہہ رہی تھی علی خاور نے  گردن گھما کر دیکھا تو وہی لوگ تھے ۔۔۔

علی نے تیزی سے فردوس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔

خدا کا شکر ہے ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ آج پھر جنگل میں گزارنی پڑے گی رات ۔۔۔

چلو وہ دونوں اب تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔

سر حسن۔۔۔۔مس شیلا ۔۔۔۔

فردوس  انہیں زور سے آواز لگانے لگئی   ۔۔ 

سر حسن ۔۔۔۔پروفیسر۔۔۔سر الطاف ۔۔۔

 علی خاور  نے بھی زور سے آواز لگائی اور وہ دونوں تیزی سے بھاگتے ہوئے ان سب کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔

سر حسن لوگ ان لوگوں سے  فاصلے پر تھے اور وہ جگہ ذرا بلندی پر تھی ۔۔۔

سر حسن۔۔۔

 علی خاور  نے ایک بار پھر سے زور دار  آواز لگائی تو سر نے تیزی سے  نیچے کی طرف دیکھا تو وہ دونوں بھاگتے ہوئے انہیں کی طرف آرہے تھے ۔۔۔

ان دونوں کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر یونیورسٹی کے تمام ٹیچرز  خوش ہوگئے تھے ۔۔۔

وہ دونوں تیزی سے بھاگتے ہوئے ان  کی طرف بڑھ رہے تھے ان دونوں کی حالت بہت ہی خراب تھی دونوں کو تیز بخار ہو رہا تھا اور نزلہ کھانسی کی وجہ سے ان کا منہ بے حد اترا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔

مس  نے فردوس کے اوپر اپنے بیگ میں سے  ایک موٹی چادر نکال کر  ڈالی  اور سر حسن نے اپنے بیگ میں سے نکال کر علی خاور کو جیکٹ پہنائی ۔۔۔

پروفیسر کا دل ان دونوں کو ڈانٹنے کو بہت چا ہ رہا تھا لیکن ان دونوں کی حالت دیکھ کر سر کو ان دونوں پر ترس آ گیا اور وہ ان دونوں کو وہاں سے لے کر سیدھا ہاسپٹل گئے ۔۔۔

ہاسپٹل میں ان دونوں کا پورا چیک اپ ہونے کے بعد ڈاکٹرز نے ان کو ایک لمبی لسٹ دی تھی دوائیوں کی ۔۔۔

اگلے تین دن تک وہ لوگ بخار میں تپتے رہے تھے جبکہ یونیورسٹی کے باقی تمام سٹوڈنٹس اس بات پر بہت خوش ہے تھے کہ وہ دونوں بالکل صحیح سلامت ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا ان تینوں دن ان دونوں نے خوب ریسٹ  کیا تھا وہ لوگ کہیں گھومنے پھرنے بھی نہیں گئے تھے ۔۔۔

تین سے چار دن کے بعد جب ان دونوں کی تربیت نارمل ہونا شروع ہوگئی تو انہوں نے اپنی واپسی کا سامان پیک کرنا شروع کیا کچھ لوگوں کو مری کی کچھ اور بھی خوبصورت جگہیں گھومنے تھی تو ایک دو  اور جگہ ان دونوں نے بھی ان کے ساتھ مل کر گھوم لیں  تھی اس کے بعد یونیورسٹی کے تمام اسٹوڈنٹ واپس اپنی اپنی منزل پر جانے کو تیار تھے ۔۔۔۔۔

مری کی ٹریپ بہت زیادہ خوبصورت اور یادگار تھی سب کو بہت زیادہ مزہ آیا تھا ۔۔۔

وہ سارے سٹوڈنٹ یونیورسٹی کے اندر موجود تھے اور اپنے اپنے گھر جانے کو تیار تھے فردوس کو لینے کے لئے اس کا ڈرائیور بس کچھ ہی دیر میں آنے والا تھا جبکہ علی خاور اسے کھڑا آنکھیں بھر بھر کر دیکھ رہا تھا ۔۔۔

کچھ دنوں کے لیے ان کو سٹڈیلیو ملنے والی تھی اور پھر اس کی تھوڑے دن کے بعد امتحانات شروع تھے  ۔۔۔

وہ دونوں ہی ایک بار پھر سے بری طرح سے مصروف ہونے والے تھے ۔۔۔

اور اسٹڈیز  کے دوران ملنے والی چھٹیوں میں ایک دوسرے سے نا ملنا ایک دوسرے کو نہ دیکھنا ان لوگوں کے لئے بے حد مشکل تھا وہ دونوں ہی یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے ۔۔۔۔

علی خاور کوئی مناسب جگہ دیکھ رہا تھا جہاں پر وہ بیٹھ کر فردوس سے بات کریں کیونکہ اسے فردوس کو سب کے سامنے یونیورسٹی کے لان میں بٹھانا یا پھر اکیلے کلاس میں بیٹھا کر باتیں کرنا  بالکل پسند نہیں تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اسٹوڈنٹ ان دونوں کو دیکھ کر  بکواس کرے اور فردوس کی عزت پر کسی قسم کی کوئی آنچ آئے ۔۔۔۔

اسی وجہ سے علی خا ور نے  یاسر کو کہہ کر فردوس اور نور کو بھی کینٹین میں بلایا ۔۔۔

وہ چاروں ایک ساتھ بیٹھے تھے جبکہ علی خاور فردوس کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

یاسر کچھ آرڈر کرنے کے لئے کینٹین کی طرف جانے لگا تو نور بھی اس کے پیچھے ہولی علی خا ور تیزی  سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا یوں جیسے بڑی دیر سے کوئی بات کرنے کے انتظار میں  ہوں اور اب اسے کچھ  وقت  مل رہا ہو  ۔۔۔

فیری ۔۔۔۔

ایک ہفتے کے لیے سٹڈی لیو ملنے والی ہیں میں تو پاگل ہو جاؤں گا  تمہارے بینا یار ۔۔۔

اوپر سے تمہارا موبائل بھی خراب ہوگیا ہے ۔سارا وقت اگر تمہیں سوچتا رہوں گا تو اپنے پپیرس  کی تیاری کیسے کروں گا وہ بڑی ہی بے بسی سے مسکراتے ہوئے فردوس کو آہستہ آواز میں کہہ رہا تھا ۔میرا تو سوچو میرا ہو گا کیا میں تو ابھی سے سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں اور تم مزے سے بیٹھی ہو یار ۔۔ ۔

وہ فردوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے  ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔۔

اپ اپنے پپیرس  پر زیادہ توجہ دیں مجھ پر نہیں ۔۔۔۔

ایگزامز کے ساتھ ساتھ میری توجہ تم پر بھی رہے گی میں اپنی چیزوں کو بیلنس کرنا جانتا ہوں اور تم میری ہو  ۔۔۔

فردوس اس کی بات پر آہستہ سے مسکرائیں ۔۔۔

اچھا بات سنو۔۔

 فردوس نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا وہ ہمیشہ کی طرح بہت نرم سے لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا ۔۔۔تم پلیز یہ رینگ مت  اتارنا مجھے تمہارے ہاتھ میں یہ بہت خوبصورت لگتی ہے  تمہیں پتا ہے فردوس میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ میں تمہارا یہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لو ۔۔۔

 مگر میں انتظار کر رہا ہوں صحیح وقت آنے کا جب تمہارے اور میرے درمیان کسی قسم کی کوئی دیوار باقی نہیں رہے گی کسی قسم  کی کوئی بھی رکاوٹ ۔۔۔ اور اگر ہمارے راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی رکاوٹ آئے تو میں اسے جڑ سے نکال کر پھینک دوں گا یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔۔۔

 اور باقی یہ کہ میں تمہیں بہت بہت بہت بہت زیادہ مس کرنے والا ہوں فردوس اتنا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔

تم مجھے مس کروں گی یا نہیں یا صرف  میں ہی بے وقوف ہوں ۔۔۔

میں آپ کو بالکل بھی مس نہیں کرنے والی ۔۔فردوس نے شرارت سے آہستہ آواز میں کہا ۔۔۔۔

اور ہاں آپ  واقعی میں پاگل ہے بالکل ایک ضدی بچے جیسے ۔۔۔

صرف تمہارے لیے ۔۔۔۔علی خاور نے بھی نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔۔

فردوس رضا۔۔۔

 آپ کو لینے کے لیے آگئے ہیں آپ آ جائیں باہر آپ کا انتظار ہو رہا ہے ۔۔

فردوس نے گردن موڑ کر دیکھا کوئی اسے کہہ رہا تھا وہ  اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔

مت  جاؤں نا  علی خاور نے بے حد بے قراری سے کہا ۔۔۔

فردوس علی خاور کی بات پر آہستہ مسکرائی۔۔ ۔۔۔

مجھے یاد کرو گی یا نہیں ۔۔۔؟؟؟

علی خاور بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو چکا تھا ۔۔ 

میں آپ کو بالکل بھی یاد ۔۔۔وہ بولتے بولتے رکی اور اس نے علی  خاور کا چہرہ دیکھا وہ اتنی محبت اور معصوم سی شکل بنا کر فردوس کو دیکھ رہا تھا کہ اس کی ہنسی نکل گئی ۔۔۔

کرونگی ۔۔۔۔۔

فردوس اس کی آنکھوں میں دیکھ کر نرم سی آواز میں کہنے لگی ۔۔۔

خدا حافظ اپنا خیال رکھیے گا ۔۔۔

تم بھی اپنا بہت خیال رکھنا فیری  ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد وہ  وہاں سے نکل گئی۔۔

 چوکیدار نے اسے کینٹین میں آ کر اطلاع دی تھی کہ اسے لینے کے لیےآ  گئے ہیں وہ بے حد خوش تھی کہ وہ رابیہ سے ملے گی مگر صرف  ڈرائیور ہی آیا تھا رابیہ خود نہیں تھی ۔۔

جلدی جلدی ڈرائیور نے سارا سامان گاڑی میں رکھا اور فردوس وہاں سے جانے کے لیے نکلیں ۔۔۔۔

وہ پورے راستے  بے حد خوش تھی ایک تو اسے علی خاور کا ساتھ ملنے کی حد سے زیادہ خوشی تھی اور دوسری طرف وہ آج اتنے دن بعد اپنے ما ں باپ سے  ملنے والی تھی اتنے دنوں کے بعد اپنی ماں کا خوبصورت چہرہ دیکھنے والی تھی رضا سے ملنے والی تھی۔۔

 ان دونوں کو اس نے بہت یاد کیا تھا جیسے ہی گاڑی گھر کے دروازے پر رکی ۔۔۔

وہ تیزی سے گھر کا بڑا دروازہ کھول کر گھر کے مین گیٹ کے اندر داخل ہوئی تو رابیہ گھر کے اندر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔

امی ۔۔۔۔۔۔۔

وہ تیزی سے آ کر رابیہ  کے زور سے گلے لگی یوں جیسے کوئی چھوٹی سی بچی ہوں اور اس نے بہت زور زور سے رابیہ کے دونوں گالوں  کو چوما  تھا ۔۔۔

امی یار ۔۔۔۔

میری پیاری امی۔۔۔۔۔۔۔

 آپ سوچ بھی نہیں سکتی میں نے آپ کو کس قدر مس کیا ۔۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے  رابیہ  کے دونوں گالوں کو چوم رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

میری بچی کیسی ہے ۔۔۔؟؟

رابیہ نے بھی بے حد نرمی سے اس کے دونوں گال پر پیار کیا ۔۔۔۔۔

تمہیں ہو کیا گیا ہے کتنی بیمار اور کمزور کمزور سی لگ رہی ہو تم ۔طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری رابیا نے فکر مندی سے اس کے چہرے کو دیکھا ۔۔۔

ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہوگا بلکہ مجھے تو آپ کمزور لگ رہی ہیں اس نے تیزی سے  بات بدل دی ۔۔

جھوٹ مت بولو فردوس تم  بیمار پڑھی تھی ہے  نہ ۔۔۔

ارے امی نہیں بس میں نے  آپ دونو ں  کو  بہت زیادہ یاد کیا بہت زیادہ ۔۔۔فردوس نے ایک بار پھر سے ان کی باہوں میں اپنے ہاتھ ڈالے ۔۔اور پھر بڑے لاڈ سے اپنا سر ان کے کندھے پر رکھا ۔۔۔

آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ جب میں آؤں گی تو آپ مجھے لینے کے لئے آئے گی کیوں نہیں لینے کے لئے آپ مجھے ۔۔۔

وہ میں تمہیں اندر چل کے بتاتی  ہوں  چلو آؤ میرے ساتھ ۔۔۔

وہ ان کے  کندھے پر ہاتھ  ڈالتے ہوئے رابیہ سے  خوب ساری باتیں کرتے ہوئے اندر جانے لگیں تو  سامنے ہی اسے یوسف صاحب کھڑے ہوئے نظر آئے اور ان  کے پیچھے آمنہ ۔۔۔۔

ویلکم ہوم آمنہ  اور یوسف صاحب  نے بڑی خوش دلی سے کہا ۔۔۔۔۔

اسلام علیکم۔۔۔۔ارے واہ ۔۔

وہ ان دونوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہو گئی تھی ۔۔۔۔

 واو یار آمنہ  یہ تو بہت اچھا سرپرائز ہے یوسف ا  نکل آپ نے بھی مجھے نہیں بتایا ۔۔۔

اگر میں اپنی بیٹی کو بتا دیتا تو پھر سر پرائز کیسا اور میں تو شکر کرتا ہوں کہ اس نے میرا سر پرائز خراب نہیں کیا انہوں نے آمنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں بہت بہت بہت خوش ہوں آپ دونوں کو یہاں پر دیکھ کر بتائیں آپ دونوں کیسے ہیں اور آنٹی آنٹی نہیں آئی وہ کیسی ہیں ۔۔۔

اللہ کا شکر ہے بچہ ہم سب تو بالکل ٹھیک ہیں تم بتاؤ  مگر پہلے چلؤ اندر اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔۔

تھک گئی ہوں گی تم کافی چلو اندر ۔۔۔۔

جی جی ۔۔

یوسف صاحب اور آمنہ اندر کی طرف جانے لگے تو فردوس نے آہستہ سی آواز میں رابیہ سے  رضا کے بارے میں پوچھا کہ بابا کہاں ہے ۔۔۔؟؟

بابا ذرا کچھ کام سے زمینوں پر گئے ہیں آتے ہوں گے کچھ دیر میں ۔۔

رابیہ نے آہستہ آواز میں فردوس کو کہا تو وہ دونوں جا کر ان دونوں کے پاس بیٹھ گئ ۔۔۔

ان دونوں اور  سب نے آپس میں خوب ساری باتیں کی تھیں فردوس نے انہیں ایک ایک   جگہ کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔

یوسف صاحب بے حد خوش تھے  کہ وہ مری سے آنے کے بعد بہت اچھا محسوس کر رہی ہے ۔۔۔

رابیہ کو اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور اس کے بولنے کا انداز اتنا الگ اور اتنا خوبصورت لگ رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دیکھتی رہی نہ جانے وہاں ایسا کیا تھا کہ فردوس اس قدر خوش ہو کر آئی ہے ۔۔وہ دل ہی دل میں اپنی بیٹی کو ہمیشہ خوش رہنے کی دعائیں دیتے ہوئے سوچ رہی تھی ۔۔۔

فردوس ماشاء اللہ سے کتنی خوش خوش لگ رہی ہے ۔۔

رابیہ  نے ایک بار پھر اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔۔

یوسف صاحب اور آمنہ تقریبا ایک گھنٹہ وہاں بیٹھنے کے بعد اب وہاں سے جانے لگے تھے ۔۔

اب تم ہمارے گھر آنا ۔۔یوسف صاحب نے کہا ۔

ابھی تم بہت لمبے سفر سے آئی ہو بیٹا تھوڑی دیر آرام کرو کھانا وغیرہ کھا کر  ریسٹ کرو ۔۔۔

اور کل کا ڈنر تم ہمارے ساتھ کرنا عا مر بھی آجائے گا اسلام آباد سے رضا سے میں نے پہلے ہی بات کر لی ہے ۔۔

عامر  بھی بس ایک یا دو دن کے لیے آ رہا ہے اس کے بعد اس کی بھی ایک سرجری ہے ۔اور پھر تمہارے بھی امتحانات ہیں اگلے ہفتے سے تو میں نے سوچا کہ کل ہی رکھ لو ۔۔۔۔

بالکل انکل ہم ضرور آئیں گے ۔۔۔۔

فردوس اور رابیہ  نے بیحد خوش دلی کے ساتھ ان دونوں کو وہاں سے الوداع کیا ۔۔ 

فردوس نے  دوپہر کا کھانا کھایا جو رابیا نے فردوس کی پسند کا  ہی بنایا تھا ان دونوں نے ساتھ مل کر کھانا کھایا جب کہ فردوس دوپہر سے لے کر شام تک اپنے بابا کا انتظار کرتی رہی مگر وہ  نہیں آیا ۔۔

اور فردوس جو اب  بے  حد تھک چکی تھی اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ   سو گئی ۔ ۔

رات کے وقت فردوس کی آنکھ کھلی تو ا سے پہلی ہی فرصت میں رضا کا خیال آیا ۔

وہ  تیزی سے باہر کی طرف آئیں ۔۔اور اس نے رابیہ سے رضا کے بارے میں پوچھا مگر وہ  ابھی تک گھر نہیں آیا تھا ۔۔

میری تمہارے بابا سے بات ہوئی ہے کہہ رہے ہیں کہ تین چار گھنٹے تک آئیں گے زمینوں پر تھوڑا کام ہے وہ کروا رہے ہیں ۔۔

کیا آپ نے بابا  کو بتانا ہے کہ میں آج آ گئی ہو ۔۔؟؟

ہاں ہا ں فردوس میں نے  بتایا ہوا ہے وہ تو تمہارا انتظار کر رہے  تھے صبح سے   مگر تم تو جانتی ہو کہ زمینوں  پر کچھ کام ہوتا ہے تو ان کو کتنا وقت لگ جاتا ہے جب کہ فردوس بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اس کی ما ں جھوٹ  کہہ رہی ہے وہ کوئی اس کا انتظار  نہیں کر رہے ہونگے  ۔۔۔۔

فردوس  اپنی ماں کو دیکھتی رہی پھر اس کے بعد اندر جانے لگی تو رابیہ  نے اسے روکا ۔۔

کہاں جا رہی ہو بیٹا میں بس تھوڑی دیر میں کھانا لگانے ہی والی ہوں کھانا کھاؤ ۔۔

نہیں امی بابا کے ساتھ کھاو گی میں بابا کا انتظار کر لو گی  ویسے بھی مجھے ا  بھی بھوک نہیں ہے ۔۔

میں نے تمہیں ا بھی بتایا ہے کے وہ دیر تک  آئیں گے اور وہ کھانا کھا کر آئیں گے تو پھر تم  کیوں بیٹھی ہو  کھانا کھا لو ویسے ہی تمہارا چہرہ اتنا اترا اترا  سا  لگ رہا ہے مجھے ۔۔۔

نہیں امی یار میں بالکل ٹھیک ہوں میں بابا کا  انتظار کروں گی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔

رابیہ  اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کے کمرے میں گئی تو وہ سوٹ کیس میں سے سارا سامان  نکال کر الماری میں سیٹ کر رہی تھی ۔۔۔

رابیا بھی باری باری اس  سامان نکال کر  الماری میں اس کے ساتھ سیٹ  کرنے لگی فردوس نے  کپڑے  اٹھا کر  الماری کے خانے میں رکھنے شروع کیے تو اچانک اس  کی نظر اس  کپڑے پر گی جس کے نیچے علی خاور  کا رومال رکھا  ہوا تھااس نے  بڑی احتیاط سے وہ کپڑا اوپر کیا  وہ احتیاط سے کام کر رہی تھی کہ رابیہ کی نظر اس رومال پر نہ پڑے ۔۔

اس رومال کو دیکھ کر اسے علی کا چہرہ یاد آیا تو اس کے لبو ں پر  مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔۔

فردوس یہ دوائیاں  کس چیز کی ہیں ؟؟

فردوس جو  کپڑے رکھ رہی تھی اس کو پیچھے سے رابیہ کی آواز آئی تو اس نے اپنے دانتوں تلے زبان دبائیں وہ یہ دوائیاں نکالنا کیسے بھول گئی تھی جبکہ اب رابیہ یہ  اتنی ساری دوائیاں  دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔۔

ارے امی  یہ ۔۔۔۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے لائیے  آپ مجھے یہ دیدیں  میں رکھ دیتی ہوں ۔۔۔

نہیں پہلے تم  مجھے یہ بتاؤ کے یہ  اتنی ساری دوائیاں  تمہارے بیگ میں کیا کر رہے ہیں یہ کس چیز کے لیے ہیں تم بیمار ہونا ۔۔

نہیں امی ۔۔۔۔

 میں  مری میں بیمار ہو گئی تھی   بس تھوڑا سا بخار اور نزلہ کھانسی تھا ۔اس کی وجہ سے باڈی  میں درد ہو رہا تھا تو وہاں کے ڈاکٹروں نے مجھے یہ  میڈیسن  دی تھی ۔۔۔۔

تم نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائ جب تم نے  مجھے نور کے موبائل سے کال کی تھی تو مستقل تم کھانس   رہی تھی تب میں نے تم سے پوچھا تھا تم نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا ۔۔۔

وہ اس لئے  کیوں کہ آپ بہت زیادہ  پریشان ہو جاتی ہیں جیسے ابھی آپ پریشان ہوگئی ہیں ۔۔۔

پریشان ہونے والی بات ہے فردوس ۔۔

اچھا نہ پریشان مت ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں اور ویسے بھی مجھے نہیں ضرورت ان کی اب  میں انہیں  نکال کے ایک  طرف رکھ رہی ہوں اب میں بالکل ٹھیک ہوں آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔

نہیں میں تمہیں کل ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی ۔۔۔

ارے یار امی کیوں پریشان ہوتی ہیں مجھے کچھ نہیں ہوا ہے  میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔

وہ دونوں اب بیڈ پر  بیٹھی ہوئی باقی  کے سوٹ کیس میں سے سامان نکال رہی تھی کہ رابیہ  کی نظر اس  کے ہاتھ پر  گئی ۔۔

وہ اس وقت  سیاہ رنگ کی خوبصورت سی  انگوٹھی پہنی ہوئی تھی جو اس کو علی نے دی تھی ۔۔

 یہ تم نے لی ہے ؟؟

کب ؟؟؟

رابیہ نے   فردوس کی انگلی اپنے ہاتھوں میں لی اور پھر اس انگوٹھی کو دیکھنے لگی ۔۔۔

جبکہ فردوس کی رنگت زرد ہو گئی تھی ۔۔

یہ کس کی  ہے فردوس تمہیں کس نے دی ہے ۔۔؟؟

یہ تمہاری تو نہیں ہے ۔۔۔

مری سے لے کر آئی ہوں تم ۔۔؟؟

ارے نہیں نہیں امی یہ وہ ۔۔۔

 میں یہ۔۔۔  وہ۔۔۔ یہ وہ مجھے نور  نے دی ہے گفٹ میں ۔۔

نور نے دی ہے یہ تمہیں ۔۔۔۔ 

 جی اس نے دی تھی مجھے مری میں ۔۔۔۔۔۔۔

اچھا بہت خوبصورت لگتی  ہے تمہارے ہاتھ میں  لیکن نور نے تمہیں  بہت مہنگا تحفہ نہیں  دی دیا بیٹا  ۔۔۔

یہ مہنگا ہے فردوس کو یہ سن کر حیرانی ہوئی  ۔۔

ہاں بیٹا یہ بہت مہنگا ہے ۔۔

یہ قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے اور تم  اس کی بناوٹ دیکھو اس کی مضبوطی اور  خوبصورتی ۔۔اتنی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے ۔یہ پتھروں والی رنگ بہت مہنگی ہیں وہ بھی سیا ہ پتھر  ۔۔۔۔

اچھا مجھے نہیں پتا تھا اس کے بارے میں ۔۔

ویسے نور کی پسند بہت اچھی ہو گئی ہے بہت پیاری لگ رہی ہیں رینگ  تمہارے ہاتھ میں ۔۔۔

اب تم  ایسا کرنا کے نور کو بہت اچھا کوئی تحفہ دینا اچھا نہیں لگتا کہ وہ تمہیں اتنا مہنگا تحفہ دے اور تم اسے کچھ بھی نہ دو ٹھیک ہے بیٹا ۔۔

جی امی ۔۔۔

رابیہ  فردوس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد  اپنے کمرے میں جا چکی تھی وہ صبح سے فردوس اور یوسف صاحب لوگو  اور گھر کے کاموں میں وہ کافی تھک گئی تھی اس وجہ سے وہ سونے کے لئے جا چکی تھی جبکہ فردوس اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی رضا  کا انتظار کر رہی تھی اس نے ابھی تک کھانے کو  ہاتھ نہیں لگایا تھا ۔پورا دن کی تھکن کی وجہ سے اسے  پڑھنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ  رہا تھا وہ اپنے کمرے میں بیٹھی رضا کا انتظار کرتی رہی ۔۔۔

دو بجے کا وقت تھا جب فردوس کو رضا کی گاڑی کی آواز آئی اور اس نے گاڑی دروازے کے باہر روکی ۔۔۔

 وہ تیزی سے اپنے کمرے سے نکلی اور گھر کے میںن  ڈ ور تک پہنچی اس نے رضا کے دروازہ  بجانے سے پہلے ہی دروازہ کھول دیا تھا۔۔۔

بابا ۔۔۔

  وہ بے حد  خوشی سے مسکرا کر اپنے بابا  کو دیکھ رہی تھی ۔۔فردوس کو رضا کو دیکھ کر اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کسی معصوم نادان سے بچے کی طرح اس سے لپٹنے کے لیے آگے بڑھیں بابا  فردوس  محبت سے کہتی ہوئی بابا کہہ  کر اپنی باہیں اپنے باپ کی طرف پھلا نے  لگی کہ رضا نے اسے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر روکا ۔۔

کیا پاگل ہو گئی ہو دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا ،رضا نے سختی سے کہہ کر اسے فورا اپنے سے دور کیا ۔۔

وہ جو اپنے باپ سے گلے ملنے کے لئے ان کی محبت میں آگے بڑھ رہی تھی وہیں رک  گئی ۔مسکراہٹ ایک لمحے میں اس کے لبوں سے غائب ہوگئی جب کہ رضا اب چلتا ہوا اندر آ چکا تھا اؤر صوفے پر بیٹھ کر اپنی گھڑی اتار  رہا تھا ۔۔

فردوس بھی تیزی سے چلتے ہوئے  رضا کے پاس آئیں ۔اور پھر نیچے فرش پر بیٹھ گئی ۔۔۔

وہ بڑی محبت سے اپنے باپ کا چہرہ اتنے دنوں کے بعد دیکھ کر بے حد خوش تھی ۔۔۔

کیسے ہیں آپ بابا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟

 وہ رضا کے   گھٹنوں کے پاس بیٹھی بڑی محبت اور نرم سے لہجے میں اپنے باپ سے پوچھ رہی تھی جب کہ رضا اسے مکمل نظرانداز کیے  اپنی گھڑی اتار کے ٹیبل پر رکھ رہا تھا ۔۔۔

اس نے فردوس کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔

آپ کو بھوک لگ رہی ہو گی بابا میں کھانا گرم کرتی ہوں ہم ساتھ کھانا کھائیں گے ۔۔

 میں آپ کا انتظار کر رہی تھی میں نے بھی نہیں کھایا ابھی تک  ۔۔۔

تمہیں کس نے کہا تھا میرا انتظار کرنے کے لیے بے وقوف لڑکی میں باہر کھانا کھا کر آیا ہوں مجھے کچھ نہیں  چایۓ جاؤ جا کر سو جاؤں۔۔

میرا دماغ مت کھاؤ ۔۔

فردوس چند لمحے خاموش بیٹھی رہی ۔

 پھر اس کے بعد  کہنے لگی اگر آپ کے سر میں درد ہو رہا ہے تو میں آپ کے لئے چائے بنا دو ۔۔

نہیں مجھے چائے نہیں پینی رضا نے صاف انکار کردیا ۔۔

چائے نہیں تو پھر میں آپکے لئے  کافی بنا دوں  ۔۔۔یا پھر ۔۔۔  ۔۔۔۔

رضا نے ایک تیز  نظر سے  اسے بولتے ہوئے دیکھا تو وہ جو اپنے باپ کی خدمت کے لیے پرجوش  تھی رضا کے اتنے سخت طریقے سے دیکھنے پر لمحے بھر میں خاموش ہو کر رہ گی ۔۔۔

آواز نہیں آتی تمہیں میں نے کہا جاؤ یہاں سے  مجھے تم سے  کچھ نہیں چاہئے چلو جاؤ یہاں سے ، رضا نے  ایک بار پھر سے سخت سے لہجے میں کہا ۔۔۔

فردوس  خاموشی سے بیٹھی رہ گئی ۔۔۔

میں نے آپ کو بہت یاد کیا بابا میں امی سے روز آپ کے بارے میں پوچھتی   تھی ۔۔۔

مجھے آپ اور امی  بہت زیادہ یاد آئے تھے ۔۔

 آپ کو پتہ ہے بابا آپ کے لیے میں نے وہاں سے  آپ کے پسندیدہ رنگ کی چیزیں خریددیں  ہیں ۔۔

میں نے آپ کو بہت زیادہ مس کیا ۔۔

کیا  آپ نے بھی مجھے اتنا یاد کیا بابا جتنا میں نے آپ کو وہ بڑے  مان سے بڑی چاہت سے بہت نرم سے لہجے میں اپنے باپ کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔۔

نہیں۔۔۔۔

 میں تمہیں  کیوں یاد کروں گا میرا دماغ خراب  ہے کیا ۔۔جو میں مصیبت کو یاد کرو ۔۔

وہ جو اپنے باپ کے  کسی نرم سے جملے کی محتاج تھی کوئی ایک ایسا نرم جملہ کہے کے  ۔۔۔

 ہاں میں نے تمہیں بہت یاد کیا وہ اپنے باپ کے منہ سے اتنے دنوں کے بعد کچھ اچھا سننا چاہتی تھی مگر  رضا نے ہمیشہ کی طرح اس کا دل چکنا چور کر دیا تھا ۔۔۔

میرا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ میں اس کو یاد کروں جس نے خاندان میں  میری ناک کٹوائیں ہوئی ہے ۔تم اور تمہاری ماں نہ جانے کہاں سے میری زندگی میں لکھ دیے گئے ہو ۔۔ وہ تو شکر ہے کہ ایک مر گئی ورنہ دو کا عذاب  میرے سر پر  ہوتا ۔اور تمہاری ماں جو بیٹیاں پیدا کرنے میں ماہر ہے اس کو تو بس پتہ نہیں کیا ہی بولو ہر وقت تمہیں میرے پیچھے لگائے رکھتی ہے ۔۔۔۔

ایک تم ،تم نے بڑی میرے  دوستوں کے آگے میری ناک نیچی  کی ہے تمہیں پتہ باہر  لوگ  کیا کہتے ہیں کہتے ہیں کہ رضا کے دونوں کندھے جھکے ہوئے ہیں ۔۔

اور کہتی ہو کہ میں تمہیں یاد کروں گا چلو ہٹو یہاں سے ۔وہ تیزی سے کہتا ہوا  فورا اٹھ کھڑا ہوا جب کہ فردوس اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے اپنے باپ کو یوں کہتا ہوا دیکھتی رہی ۔۔۔

وہ اٹھ کر وہاں سے سیدھا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تھا جبکہ فردوس اس کی پشت کو دیکھتی رہی اسے نہیں پتہ چلا کہ کب موٹے موٹے آنسو اس کے گال پر گر کر اس نے پورے چہرے کو بھی  گیلا کر گئے ہیں رضا  ہمیشہ کی طرح اس کے دل کے بے شمار ٹکڑے اپنے تیز اور تکلیف دہ  باتوں سے کر دیے تھے ۔۔۔

اس میں میری کوئی غلطی نہیں بابا کے میں لڑکا نہیں ہوں ۔ میرا کیا قصور ہے اس  چیز میں کوئی تو مجھے یہ بتائیں اس دنیا میں کوئی انسان تو ایسا ہو گا جو مجھے اس سوال کا جواب دے دے کہ اس میں میرا کیا قصور ہے کیوں مجھے اس چیز کی سزا بچپن سے لے کر آج تک ملتی آرہی ہے جب کہ میرا  کوئی قصور ہی نہیں ۔۔ 

علی خاور اپنے کمرے میں بے خبر سو رہا تھا نہ جانے رات کا کون سا وقت تھا  کہ اس کی آنکھ کھلی وہ یونیورسٹی سے جب سے آیا تھا تب سے کپڑے بدلنے کے بعد سو ہی رہا تھا ۔۔۔

رات کے وقت اسے پیاس محسوس ہونے لگی اور اس کی نیند بھی  مکمل ہوگئی وہ اٹھا اور کمرے سے  نکلتا ہوا کچن کی طرف جانے لگا اس نے فریج کا دروازہ کھول کر اس میں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی اور  پینے لگا ۔۔پانی پینے کے بعد اس نے فروٹ چاٹ اٹھائی جو کہ مہرین صاحبہ نے اس کے لیے بنائی تھی علی خاور کو مکس فروٹ چاٹ بے حد پسند تھی ۔۔۔

علی نے  گھڑی میں وقت دیکھا تین بج کے 15 منٹ ہو رہے تھے اور اس کے ماں کے کمرے کی لائٹ آن تھی ۔ ۔

وہ فروٹ چاٹ کا با ول لیتے  ہوئے سیدھے ان کے کمرے میں داخل ہوا وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہوگی اس نے کمرہ کھولا تو مہرین  صاحبہ  فرش پر بیٹھی ہوئی نماز پڑھ رہی تھی  ۔۔

وہ وہیں  ان کے قریب آ کر  بیٹھ گیا اور وہاں بیٹھ کر فروٹ چاٹ  کھاتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا ۔اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد جب مہرین صاحب نے سلام پھیرا تو وہ انہیں مسکرا کر دیکھتا ہوا کسی چھوٹے سے بچے کی طرح ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ چکا تھا ۔۔۔

محرین صاحبہ نے نرم نظروں سے اسے دیکھا اور پھر نرمی سے اس کے ہاتھ کو چومہ اور پھر کچھ پڑھنے لگیں پڑھ کر اس کے چہرے پر آہستہ سے پنھوکا ۔۔۔اسے ایک لمحے کے لئے   فردوس یاد آئی ۔وہی جنگل والی رات جب وہ بے حد ڈری ہوئی تھی ۔۔

لمحے بھر میں اس کی آنکھوں کے آگے فردوس کا چہرہ گھومنے لگا ۔ 

وہ ان کی گود میں سر رکھ کر وہی لیٹا فروٹ چاٹ کھانے لگا ۔۔

لیٹ کے مت کھاؤ علی بیٹھ کر کھاؤ ۔۔محرین صاحب نے اس کی دونوں گالوں  کو چومتے ہوئے کہا  ۔۔۔

آپ سے بات کرنی ہے مجھے 

وہ ا  بھی بھی   ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا ۔

۔

وقت دیکھا ہے تم نے کیا ہو رہا ہے ۔۔

جی بالکل رات کے ساڑھے تین بجنے والے ہیں ۔۔۔۔

اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کل نا ہی  تو مجھے یونیورسٹی جانا ہے اور نہ ہی آپ نے کالج اور کل ہم دونوں ہی صبح دیر تک سونے والے ہیں بارہ یا گیارہ بجے تک تو لازمی ۔اور پھر ہم دونوں ما ں  بیٹے دیر سے اٹھنے کے بعد کسی بہت اچھے سے ریسٹورینٹ میں جا کر ناشتہ کریں گے ۔۔

وہ مہرین صاحبہ کو   صبح کی روٹین بتانے لگا جب کہ وہ ہنس پڑ ی  ۔۔

علی   ان کی گود میں لیٹے لیٹے ہوے انہیں مری کی  داستان سننا نے لگا   اس کی ہر بات میں اس کے ہر خیال میں جو بھی وہ بات  شروع کرتا ختم کرتا  ہر  بات  کے بیچ میں ہر جگہ کہیں نہ کہیں فردوس کا ذکر لازمی ہوتا ہے یہ بات بڑی تیزی سے مہرین صاحبہ نے  نوٹ کی تھی کہ اس کی ہر بات فردوس  کے متعلق ہے وہ مسکراتے ہوئے علی خاور کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے سنتی رہی سنتی رہی نہ جانے کیوں فردوس کے نام پر  علی  کے چہرے پر  ایک الگ ہی مسکراہٹ ایک الگ ہی چمک  ہوتی جسے مہرین صاحبہ نے بڑی تیزی سے محسوس کیا تھا ۔۔۔

مہرین صاحبہ  نے علی خاور کے دونوں ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔میں بے حد خوش ہوں کہ میرے بچے نے وہاں پر بہت زیادہ انجوائے کیا مگر میں یہ جان کر زیادہ خوش ہوں گی جو میرا بیٹا مجھ سے کہنا چاہتا ہے۔  مگر کہہ نہیں رہا  ہے۔۔۔۔

علی خاور نے  ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا ۔۔۔

اور پھرآہستہ سی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرانے لگا ۔۔اس نے ان کے دونوں ہاتھ کو نرمی سے چو ما تھا ۔۔

میں نے فردوس کو پروپوز کردیا امی  ۔۔۔

میں نے اسے اپنے دل کی بات بتائی وہ تمام جذبات جو جو میں اس  کے لئے محسوس کرتا ہوں جو میں اس کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہوں سارے جذبات سب کچھ  ۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ایک بہادر لڑکے  کی طرح اپنے دل کے تمام جذبات فردوس کے آگے رکھے  مگر بیٹا کیا تمہیں تمہاری محبت کا جواب بھی اتنی ہی شدت سے ملا ہے جتنی شدت سے تم نے اسے چاہا ہے ۔۔

محرین صاحبہ نے فکر مندی سے علی خاور کا چہرہ دیکھا ۔۔

 امی بالکل بھی آسان نہیں تھا آپ کو پتہ ہے جب میں نے فردوس کے آگے اپنے دل کی بات رکھی  جب میں نے فردوس کو اپنے   جذبات کے بارے میں بتایا تو اس نے جس طرح سے مجھے  ٹریٹ کیا میں آپ کو بتا نہیں   سکتا وہ وقت وہ لمحے میرے لیے کتنے  تکلیف دہ تھے  آپ  سوچ بھی نہیں سکتی جب میں نے فردوس کو اپنے جذبات بتائے   اور اس نے اپنے بابا  کے  ڈر کی وجہ سے میرے منہ کے اوپر میرے تمام جذبات کھینچ کر  مار دیے تھے میں  کہتا رہا کہ مجھے اس سے محبت ہے اور وہ مجھے کہتی رہی کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی   وہ کہہ رہی تھی کے وہ  میرے اندر کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتی وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے اس کے یہ الفاظ   میرے لیے کتنے زیادہ تکلیف دہ   تھے آپ نہیں جانتی  ۔۔

مگر امی جیسے آپ ہمیشہ کہتی ہیں نہ کہ اپنی دعا میں ایک خاص حصہ رکھا کرو کسی خاص مقصد کے لئے میں نے آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ اپنی دعاؤں کا ایک آخری حصہ فردوس کے نام رکھا تھا اور دیکھیں یوں لگ رہا ہے جیسے میری دعا قبول ہو گئی ہو ۔۔جتنی شدت سے میں  اس کے لئے  جذبات اپنے دل میں رکھتا ہوں اتنی ہی شدت سے وہ بھی اپنے  دل میں میرے لئے  جذبات رکھتی ہے مگر امی وہ بہت زیادہ ڈرتی ہے جب کہ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے اسے یقین دلایا ہے کہ میں ہمیشہ اس کے ساتھ  ہوں ۔ مگر پتہ نہیں کیوں وہ محبت سے بےحد ڈرتی ہے اسے ایسا لگتا ہے کہ اس محبت کا کوئی انجام نہیں وہ سوچتی ہے کہ یہ محبت صرف اور صرف تکلیفیں  لے کر آئیں گی اور پریشانیاں میں نے اسے بہت مشکل سے راضی کیا ہے امی ۔۔۔

آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا علی خاور نے اپنی ماں کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بڑے مان اور چاہ  سے کہا ۔۔

ہاں علی بالکل مجھے اپنا وعدہ یاد ہے میں نے بچپن سے لے کر اب تک تم سے جو بھی وعدہ کیا ہے اس  میں میں نے  کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کی اور آگے بھی نہیں کروں گی اگر تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو اور ایک دوسرے کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ ہر قدم پر ۔۔  تمہاری محبت اگر  واقعی سچی ہے تو تمہیں ضرور مل جائے گی ۔۔

میں فردوس سے بہت پیار کرتا ہوں  بہت زیادہ اب وہ اکیلی نہیں ہے اس کے لیے چاہے مجھے کسی سے بھی لڑنا پڑے کسی سے بھی بات کرنی پڑے یا پھر کسی کے آگے جھکنا ہی کیوں نہ پڑے میں جھک  جاؤں گا  اپنی محبت کو پانے کے لئے اور  اس میں کوئی بھی شرم محسوس نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔

وہ بہت مضبوط لہجے میں اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں علی تم دونوں کے امتحانات کے بعد تم مجھے اس کی ماں سے لازمی ملوا  گے اور فردوس سے بھی ۔۔

علی خاور  نے مسکرا کر مہرین صاحبہ کو دیکھا ۔۔

پہلے میں آپ کو فردوس سے ملوانگا ۔۔۔

علی خاور نے شرارت سے کہتے ہوئے مہرین صاحب کو دیکھا ۔۔۔

میں  تو بس اس  دن کے انتظار میں ہوں جب میں دو خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ٹیبل پر  کھانا کھاؤں گا ۔۔

علی خاور کی بات پر  وہ  زور سے ہنس پڑی ۔۔

فردوس تو لڑ کی ہے لیکن یہ جو تم مجھے لڑکی بول کر میری بےعزتی کر رہے ہو نہ بتاؤں تمہیں ۔۔۔

مہرین صاحبہ نے   اس کے کان کھنیچے ۔۔۔

میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں آپ ابھی بھی بہت ینگ اور خوبصورت  لگتی ہیں امی  ۔۔۔۔

صبح ناشتے کے دوران رضا فردوس اور رابیہ تینو  ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے  ناشتہ کے بعد فردوس نے وہ تمام گفٹس جو وہ ان دونوں کو لے کر آئی تھی اپنے کمرے سے نکالنے کے بعد اب وہ سب لے کر ان کے کمرے میں جا رہی تھی۔۔۔  فردوس نے ان تمام گفٹس  کو بہت اچھے  طریقے سے پیک کر دیا تھا  اس نے سب سے پہلے رضا کی طرف  جو اس کے لیے وہ سامان لے کر آئی تھی ایک ایک کرکے بڑھانے لگی اور پھر اس نے را بیہ کو اس کے تمام تحفے دیے تمام گفٹس رابیہ نے بہت خوشی سے  اپنے پاس رکھ لیے۔۔۔۔

  بابا آپ کو  گفٹس کیسے لگے میں نے آپ کا پسندیدہ رنگ لیا تھا مجھے پتا تھا آپ کو یہ  رنگ بہت پسند ہے  میں نے آپ کے لئے اسی رنگ کے جوتے ۔ شال شرٹس اور   گھڑی لی ہے  ۔۔۔۔

  وہ بہت نرم سی  آواز میں اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی مگر سامنے بیٹھا  شخص اسے  نظر انداز کیے  خبریں دیکھنے میں مصروف تھا   ۔۔۔۔

رضا فردوس آپ کو کافی دیر سے آواز دے رہی ہے ۔۔

 رابیہ نے  رضا کو کہا ۔۔

  رضا نے رابیہ  کی بات پر  بھی کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔

مگر رابیہ  رضا کی نظروں سے بہت کچھ سمجھ گئی تھی ۔۔

اب مجھے آواز مت لگانا یہاں سے جاؤ ۔۔ اب کی بار رضا نے سختی سے کہا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کے رضا کو مزید غصہ آتا اور وہ مزید ان دونوں کا دل توڑتا رابیہ  فردوس کو  تیزی سے لے کر وہاں سے  جانے لگی  تھی ۔۔۔

چلو  فردوس میں یہ  تمہیں پہن کر دکھاتی ہوں ۔۔۔

فردوس نے  ایک نظر مسکرا کر اپنی ما ں  کو دیکھا اور اس کے بعد وہ رابیہ  کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی آئی ۔۔ مگر اس نے موڑ کر  ایک نظر اپنے بابا کو  کو دیکھا تھا  بہت حسرت سے ۔

۔اور پھر سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

اگلے دن وہ تینوں کے تینوں یوسف صاحب کے  گھر  ڈنر پر جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے ۔۔۔

جاتے وقت اس نے اپنے ڈرائیور  کے جوتے دیکھے  یہ ڈرائیور اسے  یونیورسٹی چھوڑنے اور لینے کے لئے آتا تھا اس وقت  اس کے پیروں میں وہی جوتے تھے جو اس نے اپنے بابا کو   گفٹ میں دیے تھے۔۔۔

ان جوتو  کو دیکھ کر اسے ایسا لگا کہ جیسے بالکل وہی جوتے  ہو ۔مگر فردوس  نے زیادہ دھیان نہیں دیا یہ وہ جوتے نہیں ہیں ۔وہ تو میں نے خود بابا کو گفٹ  میں دیے ہیں ۔ ۔۔

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کے وہ میرا گفٹ ڈرائیور کو دے دیں  مجھے غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔یہ سوچتے ہوئے فردوس  جا کر گاڑی میں بیٹھ گی   ۔۔۔۔

سارے راستے فردوس اس ڈرائیور کو اور اس کے پہنے ہوے    جوتوں کے بارے میں سوچتی ہوئی آئی تھی جو بالکل ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے اس نے اپنے باپ کو گفٹ میں دیے تھے ۔۔

مگر دوسری طرف اس کا ذہن اس چیز کو بالکل بھی ماننے کو تیار نہیں تھا ۔۔

کہ اس کا باپ یہ حرکت کرسکتا ہے کہ اس کے دیئے ہوئے تحفے  وہ اپنے گھر کے ڈرائیور اور باقی نوکروں کو تقسیم کر دیں ۔ ۔۔

 سارے راستے وہ بالکل خاموشی کے ساتھ بیٹھی رہی تھی اور بیٹھی بیٹھی  یہی سوچ رہی  تھی ۔۔۔

گاڑی اچانک رک گئی تو وہ اپنی سوچوں کے سلسلے سے باہر نکلیں گاڑی یوسف صاحب کے گھر کے باہر رکی  تھی ۔۔۔

وہ تینوں گاڑی سے اترنے کے بعد اب گھر کے اندر داخل ہو رہے تھے تو ہمیشہ کی طرح یوسف صاحب کی پوری فیملی دروازے پر ان کا  ویلکم کرنے کے لیے کھڑی ہوئی تھی ۔۔

ڈرائیور نے گاڑی میں سے سامان نکال کر گھر کے اندر رکھا جو فردوس ان سب کے لئے لے کر آئی تھی ۔۔۔

ایک بار پھر سے دونوں گھروں کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو گیا تھا گھروں میں ہنسی  اور قہقے گونج رہے تھے ۔۔۔

بہت ہی اچھے ماحول میں ان سب نے بیٹھ کر چائے پی ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد جب چائے کا دور ختم ہوا تو ان سب نے کھانا لگانا شروع کیا ۔۔

کھانے کی میز مزے مزے کھانوں سے بھری ہوئی تھی اور آج تو عامر بھی آیا ہوا تھا ۔۔ 

یہ خصوصی ڈنر صرف اور صرف فردوس اور عامر کے  ویلکم کے لیے کیا گیا تھا ۔۔۔

کیونکہ عامر  بھی کافی دنوں کے بعد آج دوبارہ اپنے گھر اسلام آباد سے آیا تھا اور فردوس مری  سے ۔۔

بہت ہی خوشگوار ماحول میں لذیذ کھانا کھایا گیا ۔۔۔

آمنہ کے برابر میں فردوس بیٹھی ہوئی تھی جبکہ عامر اور اس کا بڑا بھائی سامنے والی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔

جبکہ عامر  کی نظر اپنے سامنے بیٹھی ہوئی براؤن رنگ کے خوبصورت سے قمیض شلوار میں بیٹھی ہوئی فردوس پر بار بار جا رہی تھی ۔اس نے کانوں میں خوبصورت سے براؤن رنگ  کے  ایر رنگس  پہنے ہوئے تھے اور گردن میں باریک سا نیکلس ۔۔اس کے ایک ہاتھ میں خوبصورت سی سلور رنگ کی گھڑی تھی جبکہ دوسرے ہاتھ میں ڈاگ براؤن   رنگ کی بے حد پیاری سی کچھ  چوڑیاں ۔۔

وہ اس  ڈارک براؤن رنگ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس نے آج اپنی  آنکھوں میں گہرا کاجل ڈالا ہوا تھا اور بالوں کو آدھا بنایا ہوا تھا ۔۔

وہ اس رنگ میں بے حد خوبصورت اور پرکشش لگ رہی تھی ۔۔

اور کچھ علی کی محبت  کے رنگ میں جو وہ کھلتی جا رہی تھی اس کا تو رنگ ہی الگ تھا ۔۔۔

عامر کی نظر بار بار اس کے اوپر جا رہی تھی عا مر کا دل بار بار اس کے خوبصورت چہرے کے گرد اپنی آنکھوں کی گردش چا ہ  رہا تھا وہ بار بار اسے  دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔

اپنے کھانے پر دھیان دو عامر  کے بڑے بھائی نے اسے زور سے کونی  ماری ۔۔۔

تو عا مر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑائیں ۔۔

میں کھانا ہی تو کھا رہا ہوں بھائ  وہ ذرا اس کے قریب ہو کر آہستہ آواز میں کہنے لگا ۔۔۔

تمہیں میں نے کتنی بار سمجھایا ہے بھائی کے اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو اس کے اور ہمارے ماں باپ ساتھ ہی بیٹھے ہیں ۔۔۔شرم کرو تھوڑی سی ڈاکٹر جی ۔۔

وہ دونوں بھائی آہستہ آہستہ سی آواز میں باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے سے شرارت کر رہے تھے جبکہ عامر اسے چوری چوری دیکھ رہا تھا ۔ ۔۔۔

جبکے سامنے ہی بیٹھی ہوئی امنہ  اپنے  دونوں بھائیوں کی گفتگو آدھے سے زیادہ تو سمجھ چکی تھی۔ ۔۔

فردوس ذرا مجھے یہ چاول پاس کر دوں گی ۔۔۔

عامر نے آہستہ سی  آواز میں فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

جی ۔۔

فردوس وہ چاول کی ٹرے اٹھا کر علی کو دینے ہی  لگی تھی۔۔ کہ آمنہ  نے تیزی سے وہ ٹر ے اٹھا کر عامر کے آگے بڑھائیں ۔۔

بھائی آپ کیوں خامخواہ میری دوست کو تنگ کر رہے ہیں لائے  مجھے دیں میں آپ کو ڈال دیتی ہوں پلیٹ میں چاول  آمنہ کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی وہ اپنے بھائی کو تنگ کرنے میں پورا پورا کامیاب ہوچکی تھی جبکہ عا مر اپنے دانت پیس کر رہ گیا تھا ۔۔۔

اس نے ایک نظر آمنہ کو دیکھا اور دوسری  نظر اپنے بھائی کو وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب بہن بھائی ایسے ہیں تو پھر دشمن کی کیا ضرورت ۔۔۔

تھینک یو سو مچ ۔۔آمنہ ۔۔۔

عامر اپنے دانت پیس کر رہ گیا  اور بس یہی جملہ کہا ۔۔۔

بے حد اچھے ماحول میں اچھی محفل کے دوران خوب ساری باتوں کے درمیان ڈینر  مکمل ہوا ۔۔۔ 

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ لوگ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔

گھر کے ملازم نے لا کے تین الگ الگ قسم کی میٹھے  ان کے سامنے رکھے تھے ۔۔۔

فردوس نے اپنے باؤل میں آئس کریم نکالیں ۔۔

اسے چاکلیٹ آئسکریم بہت پسند تھی ۔۔

 آمنہ نے بھی اسے جوائن کیا کیونکہ ا سے بھی آئسکریم بہت زیادہ اچھی لگتی تھی ۔۔ 

باقی سب لوگوں نے کسٹرڈ اور کھیر نکالی تھی ۔۔۔

ایسا کرتے ہیں امی  سارے بڑے بڑے لوگ یہاں پر بیٹھ گئے ہیں  میں اپنی  دوست کو لے کر جا رہی ہو باہر لان میں اچھی  ہوا چل رہی ہے۔

 فردوس تم آ جاؤ میرے ساتھ ۔۔۔

آمنہ نے اپنی  دوست کو ایک  ہاتھ سے کھڑا کیا اور پھر دوسرے ہاتھ سے  ٹرے میں فردوس کا آئسکریم باول اور اپنا  آئسکریم باول پورا کا پورا بھرا  آئس کریم کا پیک ٹرے  میں ڈال کر باہر کی طرف جانے لگی ۔

چلو فردوس ہم دونوں باہر بیٹھ کر آئسکریم انجوائے کرتے ہیں ۔۔۔اور جس کسی کو بھی آئسکریم چاہیے وہ باہر آ کر ہم سے لے سکتا ہے۔۔

اس نے ایک نظر عامر  کو دیکھ کر شرارت سے کہا جیسے وہ کوئی سیگنل دے  رہی ہو ۔ 

عامر نے ایک نظر آمنہ کو دیکھا اور پھر مسکرا اٹھا ۔۔۔

اپنی کھیر   اور تیزی سے ختم کرنے کے بعد وہ بھی ان سے اجازت لیتا  ہوا باہر گارڈن کی طرف جانے لگا ۔۔۔

وہ دونوں دوستںں   بیٹھی ہوئی آپس میں ٹھنڈی ٹھنڈی آئسکریم انجوائے کر رہی تھی ۔کے کچھ دیر بعد عامر  نے بھی انہیں جوائن کیا ۔۔۔

کیا ہو رہا ہے ۔۔۔؟؟

عامر بھی تیسری کرسی پر ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس نے وہاں پر مزید وقت گزارنے کے لیے اپنے با و ل میں آئس کریم نکالیں ۔۔۔

میں اور میری دوست یہاں پر بیٹھ کر چاکلیٹ آئسکریم انجوائے کر رہے ہیں اور آپ ہماری دوستی کے بیچ میں ایک ہڈی ہیں ۔۔۔

کیا کہا تم نے ہڈی۔۔

 ہڈی تو تم ہو ۔۔عامر  نے بھی تیزی سے کہا تو آمنہ زور سے ہنس پڑی ۔۔۔

ابھی آپ یہ جملا  نہیں بولیں تو زیادہ بہتر ہے ڈاکٹر جی ۔۔

 جبکہ فردوس ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔

یہ دونوں بھائی بہن آپس میں کوئی نہ کوئی بات  کر رہے تھے جبکہ فردوس اپنی آئسکریم کھا رہی تھی ۔۔۔ 

اچھا میں ایسا کرتی ہوں کہ اپنے لیے اندر سے کسٹرڈ ڈال کر لے کر آتی ہوں ۔۔۔

ہاں جلدی جاؤ کسٹرڈ ویسے بھی بہت مزے کا بنا ہے ۔۔عامر  نے تیزی سے کہا ۔۔

آمنہ نے اسے ایک نظر دیکھا وہ مسکرا رہی تھی ۔۔

ہاں  ہا ں  جلدی جاؤ کسٹرڈ ویسے بھی بہت اچھا بنا ہے  آمنہ نے عامر کی نقل اتارتے ہوئے ایک الگ سی آواز میں کہا تو پھر دونوں زور سے ہنس پڑی ۔۔۔

لا ن میں اب وہ دونوں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ۔ ۔۔

عامر چند لمحے خاموش بیٹھا رہا جب کہ وہ بھی چند لمحے خاموش بیٹھی رہی دونوں کے درمیان ایک نرم سے مسکراہٹ نے تبادلہ کیا جو کہ ایک رسمی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔

تمہاری مری کی ٹریپ  کیسی رہی فردوس ۔۔۔؟؟

بہت اچھی ۔۔۔

تم نے وہاں پر انجوائے کیا ۔۔؟؟؟

جی میں نے وہاں پر بہت انجوائے کیا ۔۔

اچھا۔ کیا کیا دیکھا تم نے وہاں کون کون سی جگہں  تم نے دیکھیں  اپنی  دوستوں کے ساتھ ۔۔۔؟؟

میں نے وہاں پر بہت بہت زیادہ انجوائے کیا اور جو جگہ  دیکھیں تھی میں نے وہ  کشمیر پوائنٹ  سوزو ایڈونچر پارک  پنڈی پوائنٹ  مال روڈ  نتھیا گلی  بندر گلی  اور بھی ایسی بہت سی جگہیں ہیں جو میں نے وہاں گھومیں مری بہت خوبصورت ہے ۔۔۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تمہیں وہاں پر بہت زیادہ مزہ آیا ان میں سے تمہاری سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ کونسی ہے ۔۔؟؟؟

وہاں کی جنگلات وہاں  جنگلات بہت خوبصورت ہیں وہاں کے  خوبصورت جنگلات میں میری بہت سی  خوبصورت یادیں ہیں ۔۔۔۔

 لمحے بھر میں اس کی آنکھیں آنکھوں کے آگے علی خاور  کا چہرہ آیا اور وہی رات وہی دن جو انہوں نے جنگل میں ساتھ گزارے تھے ۔وہ دن جتنے مشکل تھے مگر شاید اتنے ہی زیادہ خوبصورت اور حسین بھی اس نے فورا یہ الفاظ کہے  ان جنگلات میں میری  بہت خوبصورت یادیں ہیں ۔ بہت ہی خوبصورت لوگوں کے ساتھ علی خاور کے  ذکر پر نہ جانے کیوں اس کی گا ل گلابی گلابی سے ہو جاتے تھے اور اس کے ہونٹوں پر ایک دلکش مسکراہٹ آجاتی تھی جیسے ابھی آ چکی تھی ۔۔۔

عامر  اس کے  خوبصورت سے چہرے کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا ۔۔۔

تمہارے ایگزامز کب سے ہیں ۔۔؟؟

ایگزامز بس اسی ہفتے سے ہیں میرے ۔۔۔

یعنی اس ہفتے میں اور اس کے  آنے والے ہفتوں میں تم بہت زیادہ مصروف رہنے والی ہوں ۔۔۔

جی یہ تو ہے ۔۔۔

پھر تمہاری یونیورسٹی مکمل ہو جائے گی ۔۔۔۔

جی پھر میری یونیورسٹی مکمل ہو جائے گی ۔۔

اب تم کچھ مجھ سے بھی پوچھ سکتی ہو فردوس عامر نے کہا ۔۔کب سے میں ہی تم سے سارے سوال رہا ہوں ۔۔

 آپ کی جاب کیسی جا رہی ہے ۔۔۔؟؟

میری جاب بھی بہت اچھی جا  رہی ہے بس سارا دن مریضوں کے ساتھ رہتا ہوں ان کی تکلیف سنتا رہتا ہوں انھیں ٹھیک کرتا رہتا ہوں ۔۔

عامر کی بات پر فردوس آہستہ سے مسکرائیں ۔۔۔

ڈاکٹرز کے اندر واقعی میں بہت بڑا دل ہوتا ہے ۔ پتا نہیں کیسے وہ  اتنا مشکل کام کر لیتے ہیں میری تو سمجھ سے باہر ہے  فردوس نے کہا ۔۔۔

جتنی تم اچھی ہو  پڑھنے میں تم  تو  بہت آسانی سے میڈیکل کر لیتی ۔۔۔

نہیں نہیں مجھے میڈیکل میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ۔۔۔

عامر اس کی بات پر ہنس پڑا ۔۔۔

 بھلے ہی تم میڈیکل میں انٹرسٹ نہ رکھو مگر تمہیں ڈاکٹرز میں انٹرسٹ ہیں نہ ۔۔عامر آہستہ سے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا۔

 میرا مطلب تمہیں ڈاکٹر برے تو نہیں لگتے یقینا اچھے ہی  لگتے ہوں گے ۔۔۔

نہیں نہیں مجھے ڈاکٹر کیوں برے  لگیں گے وہ تو ہماری ہیلپ کرتے ہیں جان بچا تے ہیں  ۔جب ہم مشکل میں ہوتے ہے  بیمار ہوتے ہیں تو انہیں کے پاس جاتے ہیں وہ تو اس وقت ہماری بیسٹ ہوپ  ہوتے ہیں ۔بھلا ڈاکٹر  مجھے کیوں برے لگیں گے وہ تو اچھے ہوتے ہیں ۔۔۔

چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔

میں نے سنا ہے تمہیں فلاورز بہت زیادہ پسند ہے اور مجھے پتا ہے تمہارا پسندیدہ فلاور روز ہے ۔۔۔۔

جی مجھے فلاورز بہت اچھے  لگتے ہیں اور روز میرے فیورٹ فلاور ہیں  ۔۔۔

آؤ  میرے ساتھ تمہیں کچھ  دکھاتا ہوں ۔۔۔

وہ فردوس کو لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اسے لے کر گارڈن ایریا کے چاروں طرف گھومنے لگا ۔۔۔

پورا گارڈن ایریا گھومنے کے بعد جس طرف وہ ا  سے لے کر گیا تھا وہ گارڈن کا آخری کونا تھا جو کہ اندر کی طرف تھا ۔۔

وہ جگہ پہلے ایسے ہی عام مٹی سے بھری پڑی تھی مگر  اب اس جگہ کو گارڈن ایریا کے ساتھ شامل کر دیا گیا تھا ۔۔۔

یہ دیکھو تمہارے فیوریٹ فلاورز ۔۔۔۔روز ۔

عامر اسے لے کر گارڈن کے اس ایریا  پر آیا جہاں پر اس نے کسی خاص انسان کے لیے ایک جگہ پر موٹے موٹے روز لگوائے تھے ۔۔۔

واو ۔۔۔

 یہ تو کتنے خوبصورت ہیں  ۔فردوس  نے گردن موڑ کر عا مر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

ہاں مگر تم سے کم ہیں ۔۔۔

عامر کی بات پر وہ ایک دم خاموش ہوئی ۔۔۔

یہ میں نے ابھی پورشن بنوایا ہے پورا۔۔صرف روزس کے لئے ۔۔۔

 پچھلی بار جب آیا تھا تو صرف ان میں سے چھوٹے چھوٹے پتے ہی نکلے تھے مگر اب دیکھو کتنے خوبصورت موٹے موٹے سرخ سرخ گلاب ان میں  نکل چکے ہیں ۔ان کی حفاظت کے لیے ایک الگ سے مالی آتا ہے ۔۔۔

کیا آپ کو بھی روز بہت زیادہ پسند ہیں ۔۔۔فردوس نے حیرانی سے کہا ۔۔

نہیں مجھے للی  اور میری گولڈ بہت پسند ہیں ۔۔۔

تو پھر کیا وجہ ہے ان کو اتنا خوبصورت طریقے سے بنانے کی اور ان  کی  اتنی حفاظت کی آنٹی کو بہت پسند ہیں یا آمنہ کو ۔۔؟؟؟؟

ہاں ۔۔۔انہیں بھی روز بہت زیادہ اچھے لگتے ہیں فردوس عا مر نے اسے  دیکھتے ہوئے کہا ۔  

 مگر یہ کسی اور کے لئے بھی ہیں کچھ خاص لوگوں کے لئے  ۔۔۔۔

اچھا ۔

فردوس خاموش ہوگئی ۔۔بہت خوبصورت ہیں یہ ۔۔۔۔

عامر نے اپنے ہاتھوں میں ایک موٹا سا گلاب لیا اور پھر اس کی ڈنڈی کو توڑا ۔۔۔

آپ کیوں توڑ  رہے ہیں  رہنے دیں اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔

یہ تمہارے لیے ۔۔۔

فردوس چند لمحے اس خوبصورت سے فلاور کو دیکھتی رہی اور پھر اس نے ایک نظر عامر  کو دیکھا ۔۔

سوچ  کیا ر ہی ہو؟؟؟

 لے لو تمہارے لئے  ہی توڑا ہے ۔۔اگر تم یہ ایکسپٹ نہیں کروں گی تو پھر یوں سمجھو کہ اس کا توڑنا بیکار ہے ۔پلیز اسے رکھ لوں ۔عامر بہت نرم سی آواز میں فردوس کی چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس نے  ایک نظر اس گلاب کو دیکھا اور پھر اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔۔

تھینک یو ۔۔

وہ دونوں اب چلتے ہوئے واپس  آ کے بیٹھ گئے تھے جب کہ تھوڑی دیر کے بعد آمنہ بھی آ گئی تھی ۔ساتھ ہی آ  منہ کا بڑا بھائی بھی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔

گھر کے سارے بڑے اندر تھے اور ان کے درمیان بہت گہری گفتگو چل رہی تھی جس سے فردوس بلکل انجان تھی ۔۔۔

گھر کے بڑے سے ڈرائنگ روم میں سارے بڑے بیٹھے ہوئے تھے اور ان سب کے درمیان عامر اور فردوس کے رشتے کی بات چل رہی تھی ۔۔۔

دیکھو رضا جیسے کہ ہماری پہلے ہی بات ہو چکی تھی اب ماشاء اللہ سے فردوس کے امتحانات بھی مکمل ہو جائیں گے تو وہ بالکل فری ہو جائے گی لیکن ہم کوئی بھی رسم یا کوئی بھی فنکشن فردوس کے امتحانات کے بعد ہی رکھیں گے لیکن آج ہم تمہارے سامنے اور بھابھی کے سامنے ایک بات  رکھنا چاہتے ہیں  ۔۔

تم تو جانتے ہو کہ میں فردوس کو ہمیشہ سے اپنی بہو بنانا چاہتا ہوں اور میں اس کے لئے بالکل بھی  دیر نہیں کروں گا میں اور میری بیوی تمہاری بیٹی فردوس کو  اپنے چھوٹے بیٹے عا مر کے لئے مانگ رہے ہیں ۔۔تم تو جانتے ہو کہ فردوس ہمیں کتنی زیادہ پسند ہے  اور عامر  کو تو تم خود بچپن سے دیکھتے آئے ہو ۔۔۔

ایک دو دن  کے بعد وہ بھی واپس چلا جائے گا پھر نہ جانے کب اس کا واپس آنا ہو اور ویسے بھی ہم تو صرف ایک چھوٹی سے رسم کر رہے ہیں یہ سمجھوں کہ بس منہ میٹھا کر رہے ہیں دونوں بچوں کا اور دونوں گھروں کا ۔۔پھر اس کے بعد ایک اچھا فنکشن ہم تب رکھ لیں گے جب ہمارے دونوں بچے فری ہو جائیں گے ۔۔۔

کیا تم اپنی بیٹی فردوس  کا ہاتھ میرے چھوٹے بیٹے عامر  کو دے نہ چاہو گے ہم پوری کوشش کریں گے کہ فردوس کو یہاں پر کسی بھی چیز کی کمی نہ ہو اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ عا مر فردوس  کو بہت خوش رکھے گا اور ہماری طرف سے یا پھر عا مر کی طرف سے کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ 

بھابی  جی ۔۔۔

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی بیٹی یہاں بہت خوش رہے گی یوسف صاحب نے بڑی محبت اور چاہت سے کہا ۔۔۔

مجھے بہت خوشی ہوگی کہ اگر میری بیٹی فردوس  کو عا مر جیسے لڑکا ملے ۔۔

 یوسف صاحب میں فردوس کا رشتہ آپکے بیٹے عا مر کے ساتھ پکا کرتا ہوں ۔۔۔۔رضا نے کہا ۔۔۔

آپ بھی کچھ کہیں بھابھی جی کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے کسی قسم کی کوئی بھی بات اگر آپ کی دل میں ہے تو آپ بلا جھجک ہمیں کہہ سکتی ہیں۔۔ 

بھابھی جی آپ فردوس کی ماں ہیں آپ کو پورا پورا حق ہے یوسف صاحب کی بیگم نے رابیہ   کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے  نرم سے لہجے میں کہا ۔۔۔

یوسف صاحب نے بھی رابیہ سے بڑی نرمی سے بات کی  جبکہ رضا کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی کہ وہ دونوں رابیہ کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور پھر دوسرا  اس  رشتے کے معاملے میں وہ کسی قسم کی کوئی رائے دے رہے ہیں جبکہ رضا نے فردوس کی حوالے سے رابیہ سے کسی قسم کی کوئی رائے نہیں لی تھی اس نے صرف بتایا تھا  وہ بھی اس طرح  کہ منع کرنے کا کوئی جواز ہی پیدا نہ ہو اور وہ رضا کی کسی بات کو منع کر سکتی تھی یہ تو رضا بھی اچھی طریقے سے جانتا تھا کہ وہ اس کی کسی بات کو منع نہیں کرے گی اگر بغاوت کرے گی تو اس کا اور اس کی بیٹی کا ہی نقصان ہوگا ۔۔۔

دوسری طرف وہ بھی عا مر کو بہت پسند کرتی تھی فردوس کیلئے عا مر جسے لڑکے کا انتخاب ا سے اچھا لگا تھا ۔۔۔

جی جی بھائی   بھابھی ۔۔

 مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن۔۔۔۔۔

 لیکن میں پھر بھی چا ہ  رہی تھی کہ ایک بار ۔۔۔

کیا ایک بار ۔۔۔؟؟؟

رضا نے اپنے لہجے میں نرمی رکھی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں موجود سختی اور اس کا یہ کہنا "کہ لیکن ایک بار" رضا کو بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا وہ یہ بات بہت جلدی سمجھ گئی تھی ۔۔۔

جی جی بھابی جی۔۔۔۔۔

 آپ بولیں آپ کیا کہہ رہی تھی یوسف صاحب فور بیچ میں آئے ۔۔۔

نہیں نہیں بھائی کچھ بھی نہیں ۔۔۔

نہیں بھابھی آپ کچھ کہہ رہی تھی پلیز بتائیں ہمیں کیا بات ہے ہمارے درمیان کوئی ایسی بات نہیں جو آپ بولنا پائیں۔۔

 یوسف صاحب کی بیوی نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر رکھے رابیہ بالکل اب تم بتاؤ کہ تم کیا چاہتی ہو ۔تم   فردوس کی ماں ہو تمہیں  پورا پورا حق ہے کچھ بھی پوچھنے کا کچھ بھی بتانے کا کچھ بھی بولنے کا ۔۔۔

آسان نہیں ہوتا اپنی بیٹی کسی کو دے دینا جیسے ہم پیدا کرتے ہیں پرورش کرتے ہیں پالتے ہیں پوسے  ہیں کھلاتے ہیں پلاتے ہیں اس کے ساتھ کھیلتے ہیں اسے چھوٹے سے بڑا ہوتا ہوا جوان ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ۔آسان نہیں ہوتا اپنی پلی ہوئی بیٹی پڑھی لکھی بیٹی کسی کو دے دینا میری بھی  بیٹی ہے میں بھی سوال کروں گی لڑکے  والوں سے اسی طریقے سے تمہیں بھی پورا پورا اختیار اور حق ہے ۔۔۔

یوسف صاحب کی بیگم نے نرم سی آواز میں کہا تو  رابیہ کو جیسے تھوڑی سی ہمت مل گئی ۔۔۔

بھابھی میں کہہ رہی تھی کہ ایک بار اگر ہم ۔۔۔

اگر ہم سب فردوس سے بھی اس کی مرضی کے بارے میں پوچھ لیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔۔۔۔

رابیہ  یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے تم ایک بار نہیں سو بار فردوس کی رضامندی لینا میں بہت بہت بہت زیادہ خوش ہوں گی اگر فردوس ہاں میں جواب دے گی ۔۔۔

فردوس سے میں پہلے ہی رضامندی لے چکا ہوں ۔۔۔

وہ جو یوسف صاحب کی بیوی کو خوشی کے مارے شکریہ ادا کر نے ہی والی تھی کے  رضا تیزی سے بولا ۔۔۔

رابیہ نے ایک نظر رضا کو دیکھا جس کی آنکھوں میں ابھی بھی سختی موجود تھی ۔۔۔

یوسف صاحب میں اپنی بیٹی سے بہت پہلے ہی بات کر چکا ہوں اور اسے میرے کسی فیصلے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔۔

تم بتاؤ رابیہ کیا کوئی مسئلہ ہو گا فردوس کو  وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا  ۔۔۔

نہیں نہیں مسئلہ تو کوئی بھی نہیں ہے مگر میں بس اپنی بیٹی کی رضامندی چا ہ رہی تھی ۔۔۔۔

ہاں تم بالکل  فکر مت کرو اور اب  تمہاری بیٹی کی رضامندی ہم ابھی تمہارے سامنے لیتے ہیں تم بالکل بھی پریشان مت ہو آمنہ کی ما ں نے کہا ۔ ۔انھوں نے باہر سے لان میں موجود ان چاروں کو کمرے کے اندر بلایا ۔۔۔۔۔۔

فردوس یہاں آؤ میرے پاس ۔۔رضا نے کہا ۔

وہ جو آمنہ کہ  ساتھ اندر آ رہی تھی رضا کی اس قدر نرم آواز پر اس  نے چونک کر ایک نظر  رضا کو دیکھا اور پھر تیزی سے رابیہ کو ۔۔

فردوس کو جیسے رضا کی الفاظ پر اور اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا یہ وہی رضا تھا جو اسے ہمیشہ  بے عزت کرتا  رہتا تھا اسے اپنے سے دور کرتا رہتا تھا اور آج اس کی آواز میں اتنی عزت اور اتنی نرمی تھی کہ اسے جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں ہوا وہ بے حد بے یقینی سے اپنے باپ کا چہرہ دیکھتی رہی جبکہ رضا  نے اسے دوبارہ پکارا تھا ۔۔

فردوس یہاں آ کر میرے پاس   بیٹھو بیٹا ۔۔

فردوس  چلتی ہوئی اپنے باپ کے برابر میں آ کے بیٹھ گئی جبکہ رابیہ فردوس کو دیکھ رہی   تھی ۔۔

اس نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کے چہرے پر کچھ پریشانی کے اثرات ہوں ۔۔۔

  یوسف صاحب تم سے کچھ بات کرنا چاہ رہے ہیں بیٹا ۔۔رضا  نے بے حدنرمی سے فردوس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا جب کی فردوس بے حد حیرانی سے بے حد حیران سے اپنے باپ کا یہ بدلہ بدلہ روپ  دیکھ رہی تھی  فردوس کو دل چاہ رہا تھا کہ وہ خوشی کے مارے اپنے باپ سے لپٹ جائے اس کا دل ایک چھوٹے سے بچے کی طرح خوشی سے ناچنے کو جا رہا تھا  ۔۔۔🌦🌦🌦🌦

فردوس ہم سب ایک معاملے میں تمہاری رضامندی لینا چاہ رہے تھے ۔۔

جیسے کہ میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ بچپن سے لے کر آج تک تم نے میرے ہر فیصلے کو بہت عزت دی ہے اور اسے پورے دل سے تسلیم کیا ہے اسی طرح سے میں  تم سے آج بھی  یہی امید کرتا ہوں کہ تم میرے فیصلے کو عزت دو گی اور میری امیدوں پر پورا اتروں گی ایسا  ہی بات ہے بیٹا ۔۔۔رضا نے اس قدر نرم لہجے میں کہا تھا کہ وہ کسی موم کی طرح پگھل کر رہ گئی تھی ۔۔۔

جی بابا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے بھلا میں نے آپ کے  کبھی کسی بھی فیصلے سے انکار  نہیں کیا اسی طرح سے میں ہمیشہ آپ کے کیے گئے فیصلے پر پورا پورا اترنے کی کوشش کروں گی آپ بتائیں کیا   بات  ہے ۔۔۔۔

پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کیا تمہیں اپنے باپ کے  کبھی کسی فیصلے سے کوئی مسئلہ ہوا ہے کوئی اعتراض کوئی تکلیف کھل کر بتاؤ بیٹا ۔۔

رضا نے بڑی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔

نہیں بابا میں آپ کے سارے فیصلے تسلیم کرلوں گی آپ بتائیں کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔

مجھے تم سے ایسی بات کی امید  تھی انہوں نے فردوس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر نرمی سے اس کا ماتھا چومہ تو فردوس جیسے ایک دم حیران رہ گئی ۔۔۔۔

ماشاءالله ماشاءالله بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔آواز بلند ہوئی ۔ وہ یہ سوچے بنا نہیں رہ  پائی تھی . کے کیا ہو رہا ہے ۔ مگر وہ بے حد خوش تھی رضا کے اس رویے  سے مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔

چلیں یوسف صاحب بھابھی  اب تو کسی  کو کسی قسم کا کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ۔۔۔رضا نے کہا ۔

 . 

نہیں رضا ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے اب بچے بڑے ہوگئے ہیں تو ان کی رضامندی بھی لازمی ہیں ہم بھی آمنہ سے  کئی دفعہ میں اس کی رضامندی لازمی پوچھیں گے اور اس کی رضامندی کی ہی بینا پر  ہم کوئی بھی فیصلہ لیں گے یوسف صاحب نے ہمیشہ کی طرح نرم سے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے تو پھر فیصلہ ہوگیا چلیں  سب اپنا اپنا منہ میٹھا کرتے ہیں ۔۔۔۔رضا نے کہا ۔۔۔

آمنہ جو انتظار میں کھڑی تھیں تیزی سے  بھاگتے ہوئے کچن کی طرف گئی ۔۔۔

اور پھر ٹرے میں  بھر کر خوب ساری مٹھائی لے کر آئیں ۔۔

مٹھا ی لا  آمنہ نے  اپنی ماں کے ہاتھ میں رکھی  تھی اور خود جاکر فردوس کے برابر میں بیٹھ کر اس نے فردوس کو  زور سے اپنے گلے سے لگایا ،فردوس میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں ۔۔۔۔۔

لیکن خوشی کس  بات کی ہے یہ تو بتاؤ آمنہ ؟؟؟

جب تک وہ سمجھی تھیں تب تک وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اتنا بڑا فیصلہ اتنی اچانک ہوگا اور رضا اسے اس طریقے سےراضی کرے گا اس بات سے تو وہ  بالکل انجان تھی ۔۔۔

عامر یہاں آکے بیٹھو فردوس کے پاس یوسف صاحب نے عا مر کو کہا وہ تو جو بہت  بے صبری سے اس لمحے کے انتظار میں تھا فورا آ کے فردوس کے برابر میں بیٹھا ۔۔۔۔

ماشاءاللہ بہت بہت مبارک ہو تم دونوں کو اللہ تم دونوں کو ہمیشہ سلامت رکھے میں بہت خوش ہوں تم دونوں کے لیے اللہ پاک تم دونوں کے رشتے میں بہت برکت دے ۔۔

یوسف صاحب کی بیگم کے یہ الفاظ سن کر فردوس نے تیزی سے گردن موڑ کر چونک کر اپنی ماں کو دیکھا ۔۔

رابیہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب کہ وہ اپنی بیٹی کے دل کے حال سے بالکل بے خبر تھی ۔۔۔

ماشاءاللہ رضا بہت بہت مبارک ہو تمہیں یوسف صاحب اور رضا دونوں ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے ۔۔۔

وقت اس کے ہاتھوں سے اتنی جلدی نکل جائے گا حالات اتنی جلدی تبدیل ہو جائیں گے ۔یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہ چپ  سناٹا سی بیٹھی ہوئی ان سب کو خوشی کے مارے جھومتا ہوا ایک دوسرے سے گلے ملتا ہوا مٹھائی کھلا تا ہوا دیکھ رہی  تھی ۔۔

مبارک ہو آپ کو بہت بہت رابیہ یوسف صاحب کی بیوی نے رابیہ کو اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔

جبکہ فردوس بحد حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ان لوگوں کو دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔

بعض اوقات خوشیاں اور لمحات بدلنے میں کبھی کبھی صرف اور صرف چند لمحے  ہی لگتے ہیں چند لمحے  کی کہانی ہوتی ہے اور حالات تبدیل ہوجاتے ہیں خوشیاں غم میں بدل جاتی ہیں اور غم خوشیوں میں فردوس کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا تھا جب کہ وہ بالکل خاموشی سے بیٹھی رہ گئی تھی کسی نے اس کے رونے کی آواز نہیں سنی  کسی نے اس کے دل کے ٹوٹ جانے کی آواز نہیں سنی تھی ۔۔

فردوس نے ایک نظر رضا کو دیکھا ۔۔۔

تو یہ  وجہ تھی اس  محبت اور شفقت کی  میرے لئے یہ محبت  نہیں تھی۔ اس لئے تھی کہ میں ہاں کر دوں  اور میرا رشتہ عا مر کے ساتھ  کر دیں ۔۔

جب کہ میں نے تو عا مر  کو ہمیشہ آمنہ کے بھائی کی حیثیت دی ہے اور  اس رشتے سے میں نے بھی انہیں قبول کیا ہے ہمیشہ  ۔۔

بابا میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔

کیا میرے حصے میں کبھی کوئی خوشی نہیں آئے گی ۔۔۔

فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جاۓ اور یہاں  سے بھاگ کر علی خاور  کے پاس جائے اور اس کی باہوں میں چھپ جائے تکے کوئی اسے علی  سے دور نہ کر دے ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ علی خاور کے  گلے سے لگ کر خوب روئے ۔۔

وہ علی خاور اور اپنے درمیان کا یہ خوبصورت رشتہ کبھی بھی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس نئے اور اچانک بننے والے تکلیف دہ رشتے نے اس کے اور علی خاور کے درمیان موجود اس خوبصورت سے رشتے سے جس میں سے محبت کے  پھولوں کی خوشبو آتی تھی اس کے  ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔۔۔

نہ جانے کیوں ان  محبت سے بھرپور کہانیوں کا انجام تکلیف دہ ہوتا ہے کیوں ان محبت سے بھری  کہانیوں کی کوئی خوبصورت منزل نہیں ہوتی کیوں ایک دوسرے کے نصیبوں میں جدائی لکھ دی جاتی ہے ساتھ کی جگہ ۔۔۔

کیوں  محبت ہمیشہ رولاتی ہے ہمیشہ تکلیف دیتی ہے ۔۔کیوں محبت میں گلاب کی جگہ ہمیشہ کانٹے ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسے  کانٹے جو ہمارے ہاتھوں کو کیا دل کو بھی  زخمی کر دیتے ہیں۔۔۔

 فردوس  خاموشی سے بیٹھی  اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشیوں کو نکلتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔وہ اتنی زیادہ بے بس اور مجبور تھی کے آپنے  لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔اپنی محبت کے لیے لڑ نہیں سکتی تھی کسی قسم کا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی تھی کسی سے بات نہیں کر سکتی تھی  ۔۔

مگر اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے یہ ضرور سوچ لیا تھا کہ وہ گھر جا کے اس سلسلے میں رابیہ سے  ضرور بات کریں گی اور اسے سمجھانے کی کوششیں بھی کرے گی اس کے  دماغ میں نہ جانے  کیا کچھ  چل رہا ہے ۔۔

شاید اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ اٹھے ۔۔۔

 یوسف صاحب کے گھر میں بچپن سے لے کر آج تک اسے کبھی بھی   گھٹن کا احساس نہیں ہوا تھا مگر آج یوں لگ رہا تھا جیسے اگر وہ کچھ اور دیر یہاں پر بیٹھی تو اس کی سانس رک جائے گی ۔۔

اپنی ما ں  سے کہہ کر اس نے وہاں سے جلدی نکلنے کو کہا ۔۔

سب  ایک بار پھر سے دوسرے کے گلے ملتے ہوئے اپنی اپنی خوشی ظاہر کر رہے تھے ۔۔۔

عامر آج بہت خوش تھا کیوں اسے اس کا من چاہا جیون ساتھی مل رہا تھا جسے وہ شاید بچپن سے چاہتا تھا ۔۔فردوس ا  سے بچپن سے ہی بہت  زیادہ اچھی لگتی تھی  ۔اور اس کی یہ  پسندیدگی اس کے گھر والوں نے بہت قریبی سی جان لی تھی  ۔۔۔

عامر اپنی انے والی زندگی کو لے کر بہت خوش تھا ۔ اسے فردوس کا  ساتھ ملنے والا تھا جبکہ فردوس اپنی آنے والی زندگی کے لیے بے حد اداس تھی ۔اسے ڈر تھا کہ کہیں زندگی کی اس دوڑ میں علی کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے اور وہ لوگ علیحدہ علیحدہ نہ ہو جائیں  ۔۔۔

گھر کے تمام لوگ ان لوگوں کو چھوڑنے کیلئے گھر کے دروازے  کی طرف تھے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے تیار تھے اور آخری بار ایک دوسرے سے مل رہے تھے ۔۔۔۔

فردوس بھی باری باری یوسف صاحب کی بیوی اور آمنہ وغیرہ سے ملی۔۔

اسی لمحے عامر فردوس کے پیچھے آکر کھڑا ہوا ۔۔

خدا حافظ۔۔

عامر کی آواز ا سے اپنے پیچھے آتی ہوئی سنائی دی تو اس نے تیزی سے موڑ  کر عامر  کو دیکھا وہ ا س کا  خوش چہرہ  دیکھ سکتی تھی  جبکہ دوسری طرف فردوس کا چہرہ بے حد بجھا بجھا سا اور روکھا سوکھا سا  تھا ۔۔

اپنا خیال رکھنا ۔ ۔۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے اس رشتے کے لئے  ہاں کہہ دی  ۔۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہم دونوں بہت خوش رہیں گی ۔۔عامر فردوس کی آنکھوں میں دیکھ کر بہت ہی محبت اور چاہت سے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس اسے دیکھتی رہی تھی ۔۔

وہ یہ جملے کم از کم اس شخص کے منہ سے تو نہیں سننا چاہتی تھی ۔۔

اور جس سے  سننا چاہتی تھی وہ شخص تو پہلے ہی اس کا تھا ۔۔۔اگر علی خاور کو اس رشتے کے بارے میں کچھ بھی  پتہ چل گیا تو ۔۔۔

میں علی کو کس طرح سے ان ساری چیزوں کے بارے میں بتاؤں گی ۔۔اگر علی  کو اس رشتے کے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ  بالکل ٹوٹ ہی جائے گا کیونکہ وہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ وہ اس سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے ۔بالکل دیوانوں کے جیسی ۔۔

اور اتنی ہی محبت وہ بھی  اس سے کرنے لگی تھی ۔۔"وہ دونوں ایک دوسرے کو کسی تیسرے کے لیے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے" ۔۔۔

سارے راستے وہ اسی فکر اور اسی ٹینشن میں بیٹھی رہی ۔۔۔۔

گاڑی گھر کے دروازے پر روکی تو چوکیدار نے دروازہ کھولا ۔۔۔

فردوس تیزی سےگاڑی سے  نکل کر رابیہ کے پاس جانے لگیں کہ فردوس کی نظر اپنے چوکیدار کے اوپر پڑی ۔۔

جو اپنے کپڑوں کے اوپر ایک براؤن رنگ کی شال اوڑھے ہوئے تھا ۔۔

یہ بلکل وہی تھی ہاں یہ تو میں نے بابا کو دی تھی ۔۔۔

اسے ایک لمحہ لگا تھا اس شا ل  کو پہچاننے میں یہ بالکل وہی سال تھی جو اس نے اپنے باپ کو گفٹ میں دی تھی اور پھر اس نے ایک نظر ڈرائیور کے جوتے کو دیکھا جو کہ بالکل ویسے ہی نظر آتے تھے جیسے فردوس نے رضا دے  تھے ۔۔۔

فردوس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو اچانک سے بھر آئے تھے ۔۔

اس نے جاتے ہوئے رضا کو دیکھا ۔۔۔

اس قدر نفرت کرتے ہیں مجھ سے کہ میرے اتنے دل سے دے  ہوئے تحفے    انہوں نے گھر کے نوکروں کو تقسیم کردے مگر اپنے پاس رکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔

تو پھر میرا باپ کیسے میرے دل کی اس بات کو اس خواہش کو سمجھ سکتا ہے اور مان سکتا ہے کہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہو اور وہ میری اس محبت میں میرا ساتھ دیں یہ تو ممکن ہی نہیں وہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے یہی سوچتی کی سوچتی رہ گئی ۔۔۔

وہ اچھی طریقے سے جانتی تھی کہ رضا کو اپنی عزت کتنی زیادہ عزیز ہے ۔۔وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اگر بات اس کی عزت پر آگئی یا اس کے اوپر تو پھر وہ فردوس  کا گلا کاٹتے وقت بھی ایک بار  نہیں سوچے گا ۔۔۔

شاید میرے نصیب میں باپ کی محبت ہے ہی نہیں ۔۔۔

ہمیشہ کی طرح بے حد بے بسی سے اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے وہ  سوچتی رہی ۔اسے پتا نہیں چلا کہ وہ کتنی دیر وہاں اکیلے اندھیرے میں کھڑی ہوئی ہے جب کہ وہ دونوں تو اندر جا چکے ہیں ۔۔۔

فردوس نے اپنا چہرہ صاف کیا اسے ہر حال میں رابیہ  سے بات کرنی تھی ہر حال میں اسے علی اور اپنی  حقیقت بتانی تھی اور جو کچھ بھی  اگے ہو گا وہ  اس نے سوچا تک نہیں تھا ۔۔۔۔

میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی بس  چند منٹوں میں ہو جائے گا۔ یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔۔

  وہ تیزی سے چلتی ہوئی اب گھر کے اندر آئیں تو رابیہ اسے کمرے کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی کہ اس نے فورا سے رابیہ کا ہاتھ پکڑا ۔۔

امی امی آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔

صبح کر لیتے ہیں فردوس ویسے بھی  وہاں سے آتے آتے آج بڑی دیر ہوگئی ہے بیٹا اور میں بھی بڑی تھک گئی ہو ۔۔۔

نہیں امی بات بہت ضروری ہے پلیز ابھی چلے میرے کمرے میں بہت ضروری بات ہی چلے آئیں پلیز میں مزید  نہیں روک  سکتی ۔۔۔

ایسی بھی کیا بات ہے بیٹا ؟؟

 اور تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا کیا تم روئی  ہو ۔۔؟؟

ہاں امی میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے آپ پلیز میرے کمرے میں چلے مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے وہ آہستہ آواز میں کسی چھوٹے سے بچے کی طرح اپنی ماں کے دونوں ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑے ہوئے رونے لگی جب کے  رابیہ  اسے یوں روتا ہوا دیکھ کر بے حد پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔

فردوس کیا کر رہی ہو اس طرح سے رونا بند کرو اگر تمہیں  رضا نے اس طرح سے روتے ہوئے دیکھ لیا نا تو مشکل ہوجائے گی دونوں کے لیے  ۔۔

میں پہلے ہی بہت مشکل میں ہوں امی اور بہت تکلیف میں بھی مجھے آپ کی مدد چاہیے آپ کا سہارا چاہیے  چلے میرے ساتھ پلیز امی  ۔ ۔۔

میری بچی تھوڑا سا مجھے وقت دے دو اتنا کے  رضا سو جائیں پھر اس کے بعد میں تم سے تفصیل سے بات کرتی ہوں اگر رضا نے    تمہیں اور مجھے اتنی رات کو تمہارے کمرے میں  بیٹھے ہوئے لمبی لمبی باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو وہ فورا سمجھ جائیں گے کہ کچھ نہ کچھ بات ہے ۔۔

امی پلیز ۔۔۔۔

میری جان تم جاؤ اپنے کمرے میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں جاؤ  شاباش رابیہ  نے اس کے گال  پر پیار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

فردوس اپنے کمرے میں جانے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی بیٹھی  نہیں تھی وہ اپنے کمرے میں چکر لگاتے ہوئے رابیہ کا انتظار کر رہی تھی ۔۔تقریبا ایک گھنٹے کے بعد وہ اس کے کمرے میں آئیں تو فردوس تیزی سے رابیہ کی طرف بڑھی اور اس نے دروازے کو جلدی سے بند کیا ۔۔۔۔

فردوس نے  رابیہ کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ ے۔اور  بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی ۔۔۔

فردوس کیا ہوگیا ہے بیٹا کیوں رو رہی ہو کیوں پریشان کر رہی ہو بات کیا ہے بات تو بتاؤ میرا دل گھبرا رہا ہے  ۔۔۔

فردوس چند لمحے اپنی ماں کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے روتی رہی مگر اس کے اندر شاید اتنی ہمت باقی نہیں تھی کہ وہ اپنی محبت کا اقرار اپنی ماں کے سامنے کر پائے ۔۔۔

کیا بات ہے فردوس کیوں کب سے روئے جا رہی ہو کیوں نہیں کچھ کہتی۔ ابھی میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی کے ضروری بات  کرنی ہے اب جب آئی ہوں تو صرف روۓ جا رہی ہوں کیوں اپنی ماں کو پریشان کر رہی ہو بیٹا بتاؤ میرا دل گھبرا رہا ہے ۔۔۔

امی ۔۔۔۔۔

اس نے بس ایک لفظ کہا تھا اور وہ ایک بار پھر سے زور سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی تھی ۔۔

فردوس کیا بات ہے بیٹا کیوں مجھے پریشان کر رہی ہو ۔۔۔

امی امی۔۔۔میں عامر  سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔

کافی دیر کے بعد فردوس  کا یہ بولا ہوا جملہ رابیہ کے لیے بے حد حیران کن تھا اتنا کہ رابیہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کسی نے اسے ٹرین کے پاس دھکا دے دیا  ہو ۔۔۔

وہ ایک لمحے میں اس سے دور ہوئی اور اس نے فردوس کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا ۔۔۔۔

رابیہ نے  ا یک نظر اپنی بیٹی کی سبز آنکھوں میں دیکھا جو کہ گلابی پانی سے بھری ہوئی تھی اور رونے کی وجہ سے کافی حد تک سو جھ بھی چکی تھیں   ۔۔

کیا کہا تم نے رابیہ کو جیسے فردوس کا بولا ہوا یہ جملہ سمجھ میں نہیں آیا تھا اسے لگا کہ اس نے کچھ غلط سنا ہے ۔۔۔

امی آپ تو میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں میں عامر  سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔

فردوس ۔ ۔رابیہ بے حد حیرانی سے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھتی کی دیکھتی ہی رہ گئی ۔۔۔فردوس اس بات سے شاید  انجان تھی کہ اگر رضا تک یہ بات  پہنچ گئے تو وہ اس کا حشر نشر کر دے گا ۔۔

پاگل ہو گئی فردوس کس طرح کی باتیں کر رہی ہو ایسے الفاظ اپنے منہ سے مت نکالو کے تمہارے اور میرے لئے ساری زندگی کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے ۔۔۔

میں یہ  شادی نہیں کرنا چاہتی امی پلیز ۔۔

فردوس پاگل ہو گئی ہو اس سوچ کو اپنے دماغ سے نکال دو تمہاری رضامندی کے ساتھ ہی یہ سب کچھ ہوا ہے  دونوں گھروں کے درمیان بات ہوگئی ہے تمہارے باپ نے انہیں زبان دے دی ہے ۔

تم کیا چاہتی ہو اب ۔۔۔۔

امی بابا نے جس طریقے سے میری رضامندی لی میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ ایسا ہو جائے گا  ۔ بابا نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا  انہوں نے مجھے استعمال کیا ہے اپنے مقصد کے لیے ۔ ۔

فردوس اس طرح کی بیوقوفی والی باتیں مت کرو ۔عامر بہت اچھا لڑکا ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا بیٹا ۔۔ 

نہیں امی آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی فردوس نے رابیہ کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑا 

آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کرے  میں عامر سے شادی نہیں کرنا چاہتی کسی بھی صورت میں ۔۔۔

کیا وجہ ہے فردوس جو تم عامر  سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔

کیا تم یہ بات بھول گئی ہوں کہ تمہارے باپ کی بولی ہوئی بات پتھر کی لکیر ہے تمہارے اور میرے لئے ہم دونوں نے کبھی بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جو رضا نے ہمیں کرنے کو کہا ہے اور اب تم چاہتی ہو کہ میں اتنی بڑی بات جو کہ رضا نے  کی ہے اس بات پر تمہارے منہ سے انکار سنو ہرگز نہیں ۔اگر تم عامر سے شادی نہیں کرنا چاہتی  تو یہ بات میں سمجھ جاؤں گی کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی مگر تم اپنے بابا کو کیا کہو گی  کیا تم اپنے باپ کو نہیں جانتی ۔۔۔

میں بابا کو بہت اچھی طریقے سے جانتی ہوا  اسی لئے تو کہہ رہی ہوں ۔۔

میں بہت پریشان ہوں بہت بے بس   ۔۔ آپ  میری یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔ میں  عامر سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔۔۔

چپ ہو جاؤ فردوس بار بار اپنے منہ سے یہ الفاظ مت نکالو اگر تمہارے باپ  نے یہ  الفاظ تمہارے منہ سے سن لئے تو تمہاری زبان کھینچ لیں گے۔۔۔

  تمہیں نہیں پتا ا  نہیں اپنی گردن اپنے لوگوں کے سامنے  اونچی رکھنے کا جننوں  سے بھی زیادہ شوق ہے ۔۔

وہ اپنی گردن اور نا ک  کبھی بھی نیچے ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے  بیٹیاں پیدا کرنے پر تمہارا اور میرا کیا حشر ہوا ہے کیا تم نہیں جانتی لوگوں کی باتوں نے جو رضا کے دل میں تمہارے اور میرے لئے گندگی بھر دی ہے کیا تم اس سے واقف نہیں ہوں  ۔۔ 

امی۔۔

 میں نے عا مر کو ہمیشہ  آمنہ کے بھائی کی حیثیت سے ہی اہمیت دی ہے اس کے علاوہ میں نے کبھی کچھ اس طرح  عامر کے لئے سوچا بھی نہیں ہے ۔۔۔

سوچا  نہیں ہے تو اب سوچ لو فردوس اب کچھ نہیں ہو سکتا تم اپنے بابا کو جانتی ہو میں تمہاری بات سمجھ گئی مگر تمہارے باپ کو کوئی نہیں سمجھا سکتا ۔۔ 

صرف ایک یوسف صاحب تھے جو تمہارے باپ کو راضی کر سکتے ہیں ہر چیز کے لئے مگر یوسف صاحب کو تم جانتی ہو وہ تمہیں کس قدر پسند کرتے ہیں اپنی بیٹی کی طرح رکھتے ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ان کی تو خواہش   بچپن سے تھی کہ تم ان کے گھر کی بہو بنوں تمہیں کیا لگتا ہے کہ یوسف صاحب کو منع کرنا ٹھیک رہے گا ۔جن  کی وجہ سے تمہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی اجازت ملی ۔۔۔۔

عامر بہت اچھا لڑکا ہے فردوس وہ  تمہیں خوش رکھے گا  تم اس بات سے انکار مت کرو کہ وہ آمنہ کا بھائی ہے اور تم نے اسے صرف آمنہ کے بھائی کی حیثیت سے قبول کیا ہے جب کہ تم یہ بات بھول رہی ہوں کہ تم نے اپنے بابا سے کہا تھا کہ وہ جب چاہیں جس سے چاہیں تمہاری شادی کر دیں  تہمیں کوئی اعتراض نہیں  ۔۔

کیا تم اپنی دی ہوئی زبان سے منع کر رہی ہو یہ تمہارے ہی الفاظ تھے نہ کہ تمہیں کوئی مسئلہ نہیں اپنے  بابا کی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے میں  اور تمھارے بابا نے عامر کا انتخاب بہت اچھا کیا ہے تمہارے لیے تم بہت خوش رہو گی فردوس ۔۔۔

نہیں امی میں عا مر کے ساتھ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتی ایک بہت بڑی وجہ ہے اس چیز کی ۔۔۔

کیا وجہ ہے فردوس کیا چھپا رہی ہو مجھ سے اب کی بار رابیہ نے بے حد حیرانی سے فردوس  کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا وہ کچھ چھپا رہی تھی اس کے چہرے سے پتہ لگ چکا تھا۔کیا بات ہے فردوس آج تو تمہارا رنگ کچھ الگ ہی لگ رہا ہے ۔  مجھ سے تم نے اس طرح سے کبھی رو رو کر بات نہیں کی جیسے آج کر رہی ہو کیا بات ہے ضرور کوئی بڑا مسئلہ ہے کیا ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو  ۔۔۔

فردوس نے ایک نظر اپنی ما ں  کو دیکھا اس کے بعد اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھے اور پھر بچوں کی طرح رونے لگی ۔۔۔

چند لمحے رونے کے بعد وہ اٹھی اور اس نے الماری سے وہ رومال لا کر رابیہ کی طرف رکھا ۔۔

رابیہ نے  بے حد حیرانی سے اس رومال کو دیکھا ۔۔۔

رابیہ نے  رومال لے کر اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس رومال کے کونے کے اوپر لکھا ہوا تھا

" علی خاور" ۔۔۔

فردوس یہ کیا ہے ۔۔؟؟؟

رابیہ نے وہ رومال تیزی سے بیڈ  کے اوپر پھینک دیا  یوں جیسے کوئی خوفناک چیز ہو ۔  

یہی وہ وجہ ہے امی جس کی وجہ سے میں عا مر سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں یوں رو  رہی ہو یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں بے بس اور مجبور ہو اور بالکل لاچار محسوس کر رہی ہو اپنے آپ کو اپنی ذات میں کیا  کروں امی اب ۔۔۔

فردوس تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کہہ دو کہ جو  کچھ میں  سوچنے لگی ہو وہ سب کچھ جھوٹ ہے ۔۔۔۔۔

نہیں امی آپ جو سوچ رہی ہیں وہی حقیقت ہے ۔۔۔

علی خاور اور میں یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے ہیں ۔۔

وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے امی اتنی محبت کرتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔

اپنا منہ بند رکھو فردوس اس قسم کی فضول باتیں کرنے کی میرے سامنے تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اور اگر تمہارے باپ نے یہ سب کچھ سن لیا نا تو تمہیں زمین میں گاڑ دے گا ۔ 

خدا کا واسطہ ہے تمہیں اس طرح کی باتیں مت کرو جس سے مجھے خوف محسوس ہوئے  ۔۔

میں نہیں جانتی کب کس طرح کیسے اور کس وقت مجھے علی خاور سے محبت ہوگی ۔۔۔۔۔

میرا دل اس بات کو زور زور سے چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ مجھے علی خاور سے محبت ہے لیکن میرا دماغ اس چیز کو قبول کرنے کے لیے راضی ہی نہیں تھا جب کہ میرا دل بار بار علی خاور کی طرف کھچا چلا جاتا تھا ۔اپنے باپ کے ڈر سے میں نے علی خاور کو بہت دھتکارا ہے اپنے آپ سے بہت دور رکھا ہے امی اسے بہت نیچا  دکھایا ہے یہاں تک کہ میں نے اس کے اوپر ہاتھ بھی اٹھا دیا ہے مگر وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا ۔ وہ بہت ضدی ہے محبت کے معاملے میں بہت حساس ہے میرے لیے ۔میں نہیں جانتی کہ جب اسے اس  رشتے  کے بارے میں  پتہ چلے گا تو وہ کیا کرے گا اور میں یہ بھی نہیں جانتی کہ جب میرے بابا کو علی کے  بارے  میں پتہ چلے گا تو وہ کیا کریں گے  مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے میں کسی اندھیرے کنویں میں پھنس کر رہ گئی ہو  جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں  ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی روشنی ۔ ۔

میں نے ساری زندگی یہی سوچا ہے کہ مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہو سکتی اور میں نے پوری کوشش کی کہ میں علی  سے دور رہو مگر نہ جانے کیوں  شاید ہماری قسمت کو یہی منظور تھا کہ ہمارے دل ایک دوسرے کے ہو جائیں اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت بھر جائے ۔میں نے اس  سے بہت دور رہنے کی کوشش کی مگر نہ جانے ایسی کونسی کشش تھی جو ہم دونوں کو بار بار ایک دوسرے کے قریب لے آتی تھی میں اس   جتنا دور جاتی تھی وہ میرے اتنا ہی پاس آ جاتا تھا  میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا اس کی محبت اتنی مضبوط تھی کہ میں ہار گی ۔میں ہار گیا میں اس کی محبت کے آگے ۔۔۔

فردوس اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے رابیہ کو کہہ رہی تھی جبکہ رابیہ بے حد حیرانی سے فردوس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔۔۔۔

فردوس  تم اپنے  ہوش میں تو ہونا ؟؟؟

تمہیں معلوم ہے یہ سب کچھ کیا کہہ رہی ہو ۔۔

مجھے معلوم ہے امی اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ علی خاور کی محبت میرے دل سے نہیں نکل سکتی ۔ ۔۔

میرا  بیٹا میری جان فردوس سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا اس لڑکے  کو بھول جاؤ بھول جاؤں اسے یوں سمجھو جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں ۔ تم تو جانتی ہو ہمارے لئے کس قدر مشکلات پیدا ہو جائیگی ۔۔

امی میں ا سے نہیں بھول سکتی ہر وقت وہ مجھے  یاد رہتا ہے میں ا سے کہاں کہاں کس وقت اور کس جگہ بھول جاؤ   امی ۔ میری تو ہر بات میں ہر سوچ میں وہی شامل ہے ۔۔

اٹھتے بیٹھتے خیال رہتا ہے اس کا مجھے کیسے بھول جاؤں اسے ۔میں نہیں بھول سکتی  میں بھی بہت محبت کرتی ہوں علی  خاور سے میں نہیں بھول سکتی علی کو میرے لیے یہ ممکن نہیں میں مر جاؤں گی مگر علی خاور کو نہیں بھول سکتی ۔۔

 پاگل مت بنو ۔۔۔

بھول جاؤں اسے اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔۔

اگر تمہارے باپ کو یہ سب کچھ پتہ چل گیا تو تمہارا باپ تمہیں چھوڑے گا نہیں اور تم تو جانتی ہو چاہے تم کسی سے بھی محبت کرو وہ تمہاری شادی عامر سے ہی کریں گے  پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے کچھ بھی رضا اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔اور اگر یہ سب انہیں معلوم ہو گیا  کہ تم نے ان سے بغاوت کی ہے تو پھر انجام بہت برا ہوگا تمہارا بھی اور میرا بھی ۔

مجھے نہیں پتہ میں علی کی  محبت سے کب اور کس طرح سے آزاد ہوگئی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس محبت سے کبھی آزاد ہونا ہی نہیں چاہتی میری دعا ہے کہ مجھے علی خاور نصیب میں مل جائے ۔۔علی خاور کے علاوہ میں کسی اور لڑکے کو اپنی زندگی  میں شامل نہیں کرنا چاہتی ۔۔

تم بالکل غلط ہو فردوس تم جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔۔۔بہتر یہی ہے میری بچی کے تم اسے بھول جاؤں اسے بھول جانے میں ہی تمہاری بھلائی ہے کیونکہ تمہارا باپ اگر تم اس کے آگے اپنے دونوں ہاتھ پیر کاٹ کر بھی رکھ  دوں گی نہ فردوس تب بھی  تمہاری بات کبھی نہیں مانیں گے تمہاری یہ فضول  کوشش بالکل بیکار ہے میں تمہارے دل کی بات سمجھ جاؤ گی میں راضی ہو جاؤ گی لیکن رضا رضا کبھی راضی نہیں ہوں گے اور تم جانتی ہو اگر رضا کو اس بارے میں پتہ چل گیا تو کیا ہوگا قیامت آجائے گی فردوس ہمارے گھر میں ۔تم اور میں جو آج اس چھت کے نیچے رہ  رہے ہیں یہ بھی نہیں رہے گی ہمارے پاس ۔میری پیاری سی بیٹی سمجھدار سے بیٹی میری بات سمجھنے کی کوشش کرو بھول جاؤ اس لڑکے کو وہ تمہارے لیے نہیں بنا اور نہ ہی تم اس کے لیے تمہارے بابا ایسا بالکل بھی نہیں ہونے دیں گے فردوس کیوں تم ہر چیز کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگانا چاہ رہی ہو ۔۔۔

امی میں اسے نہیں بھول سکتی آپ کے لئے یہ بات کہنا بہت آسان ہے کہ میں اسے بھول جاؤ مگر میں اسے بالکل نہیں بھول سکتی وہ میرے دل کے ہر ایک خانے میں بستا ہے ۔۔۔

فردوس ۔۔"محبت کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن اس محبت سے دور چلے جانا وہ ہمارے بس میں ہے "۔۔

رابیہ کی اس قدر گہری بات پر فردوس نے چونک کر ایک نظر رابیہ کو دیکھا اور پھر اپنی ماں کے گلے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔

آپ کیوں نہیں سمجھ رہی امی یہ کام میرے لئے اتنا مشکل ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی شاید دنیا کا مشکل ترین کام آپ سمجھ نہیں رہی کہ اس وقت میں کس آگ میں جل رہی ہو ۔

میں اپنی زندگی  میں علی کو شامل کرنا چاہتی ہوں  عامر کو  نہیں ۔۔امی میں ایسا بالکل نہیں کر سکتی ۔۔ اگر اس چیز کا علم علی کو ہوگیا تو نہ جانے وہ کس طرح کا قدم اٹھائے گا مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں وہ اپنے آپ کو کچھ کر نہ لے میں  جانتی ہوں  امی وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔

میں  کہوں تو یوں سمجھے جتنی میرا باپ مجھ سے نفرت کرتا ہے اتنی ہی محبت علی خاور مجھ سے کرتا ہے ۔۔۔

فردوس کی بات پر رابیہ نے فردوس کو ایک نظر دیکھا اور پھر چند لمحے ایسے بیٹھی دیکھتی ہی رہ گئی ۔۔۔

تم اس  کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوں اور تم نے مجھے اس بات کی خبر تک نہ ہونے دی فردوس۔۔۔

اور میں میں  کیسی ماں ہوں  کہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی شاید میں دنیا کی سب سے بر ی ماں ہوں اتنی بری ماں کے میری بیٹی اپنی خوشیوں کے لئے  میرے آگے  ہاتھ جوڑ رہی ہے رو رہی ہے اور میں ہوں کہ اس کا ساتھ نہیں دے پا رہی رابیہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

 امی آپ کو پتہ ہے علی خاور نے اپنی امی سے بات کی ہے میرے لیے وہ تو راضی ہیں اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ مجھ سے ملنا بھی چاہ  رہی ہیں بلکہ وہ تو آپ سے بھی ملنا چاہ رہی ہیں اور آپ کو پتا ہے امی علی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ چاہے حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہو کتنی بھی مشکلا ت  ہو وہ میرے لیے ہر کسی سے بات کرسکتا ہے ہر کسی سے لڑ سکتا ہے مگر مجھے کسی اور کے لئے چھوڑ نہیں سکتا ۔۔۔

آپ  علی سے ایک بار مل لیں اور بات کرلیں اس کی امی سے مل لیں وہ لوگ بہت اچھے ہیں امی پلیز ۔۔۔

فردوس میں نا علی سے  بات کر رہی ہوں اور نا مل رہی ہوں۔۔اب کچھ نہیں ہو  سکتا۔۔۔

میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو بھول جاؤں اسے بھول جاؤ فردوس  یہی بہتر ہے تمہارے لئے بھی اس لڑکے  کے لئے بھی اور ہم سب کے لئے بھی ۔۔۔

فردوس اپنی ماں کو بے حد حیرانی سے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

امی آپ کیوں میرا دل توڑ رہی ہیں کیا آپ میرے لئے کچھ نہیں کر سکتی ساری زندگی میں نے آپ لوگوں سے کچھ نہیں مانگا جو مجھے ملا میں نے اسی پر شکر کر لیا یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے آپ  اس میں تو میرا ساتھ دے دیں باپ کی محبت نہ سہی علی خاور کی محبت میرے نصیب میں لکھ دیں ۔۔۔۔۔

مجھے معاف کر دینا میں شاید دنیا کی حد سے زیادہ بری ما ں ہو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔

رابعہ اٹھ کر اس کی کمرے سے چلی گئی جب کہ فردوس اپنے کمرے میں پوری رات بچوں کی طرح روتی رہی ۔۔

دوسری طرف رابیہ بھی اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لئے ساری رات خاموشی سے روتی رہی روتی رہی وہ اپنی بیٹی کی مدد نہیں کر سکتی تھی اس کی محبت میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی اس کی محبت کو قبول نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔

رات بے حد تکلیف میں گزری تھی دونوں ماں بیٹی نے پوری رات روتے ہوئے گزاری تھی ۔۔

رابیہ جب صبح فردوس کے کمرے میں آئیں تو وہ اسی  کپڑوں میں تھی اور بیٹھے بیٹھے سو چکی تھی اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں بہت زیادہ سوجھ   گئی تھی ۔۔

رابعہ نے نرمی سے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے بعد واپس چلی گئی ۔ ۔۔

علی خاور نے ناجانے فردوس کو کتنے زیادہ میسجز اور کتنی کالز  کی مگر فردوس نے کسی کا بھی جواب نہیں دیا وہ پاگلوں کی طرح سے بات کرنے کے لئے تڑپتا  رہا تھا مگر وہ اپنے حال سے اس قدر بے بس ہو چکی تھی اس قدر تھک چکی تھی کے  ان  حالات میں علی خاور کا سامنا تو بالکل نہیں کر سکتی تھی وہ اس کی آواز سے ہی ہر چیز سمجھ جاتا  ۔

دوسری طرف وہ بے حد پریشان تھا مگر فردوس نے اس سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ۔۔۔۔ دوسری طرف وہ بے حد پریشان تھا ۔۔۔وہ اس قدر پریشان تھا کہ اس نے اپنی امی کے نمبر سے بھی  فردوس کو کہیں سارے میسیج اور کال کیے مگر اس نے کسی ایک کا بھی ریپلائی نہیں کیا  ہو سکتا ہے دو دن کے بعد پیپر ہے تو وہ پڑھنے میں مصروف ہوں اس نے خود اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں جب کہ یہ چیز اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھی کہ وہ اس کے کسی بھی میسج کا کوئی رپلائی نہیں کر رہی  ۔۔۔

اس کی کوئی بھی بات نہ کرنے کے باوجود بھی علی    اسے کوئی نہ کوئی میسج لازمی کرتا رہتا ۔۔۔

اگلی صبح پیپر تھا ۔۔فردوس  دیر رات تک پڑھتی رہی پڑھتی رہی ۔ 

نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا کہ وہ اپنا تمام کام سمیٹ کر اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھ چکی تھی اور اس نے اپنا موبائل کھولا اور علی خاور کے ڈھیر سارے میسج جن کو وہ شاید گن  بھی نہیں  سکتی تھی ایک لمبی لائن تھی اس کے میسجز کی جس میں وہ کچھ نہ کچھ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔

 خیریت  کبھی محبت کا اظہار کبھی اس کی طبیعت کبھی اس کی پڑھائی کے بارے میں کبھی فکرمندی کی بات اور نہ جانے کیا کیا جسے پڑھ کر وہ ساری رات روتی رہی تھی ۔اب وہ اس لڑکے کو کیسے سمجھ آئے اس نے اس رات اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی کہ اس محبت کی منزل نہیں ہے اس محبت میں صرف اور صرف کاٹے ہیں گلاب نہیں ۔۔مگر وہ دیوانہ لڑکا اس کی باتوں کو کہاں سمجھنے والا تھا ۔۔ساری رات وہ اسے یاد  کرتے ہوئے روتی رہی تھی اسے علی خاور اس قدر یاد آرہا تھا کہ اس کا دل جا رہا تھا کہ وہ یہاں سے کہیں غائب ہوجائے اور علی کی باہوں میں چھپ جائے تاکہ کوئی ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہ کر پائے ۔۔وہ اس کے ساتھ دنیا کے کسی ایسے کونے میں چھپ جائے جہاں پر اس کا باپ رضا نہ ہو ۔جہاں پر کوئی بھی اس کی شادی عا مر سے نہ کر پائے ۔ ایک ایسی جگہ جہاں پر صرف وہ اور علی خاور ہوں اور ڈھیر ساری خوشیاں ۔۔مگر حقیقت ان تمام خوبصورت باتوں سے بالکل برعکس اور بد صورت تھی ۔علی خاور کی جگہ  عامر کھڑا تھا ۔۔ اور عا مر کے پیچھے اس کا باپ رضا اور بہت دور بہت دور علی خاور کھڑا تھا اتنی دور کے  اس تک پہنچنا فردوس کو بے  حد مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔

"محبت کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے  مگر اس محبت سے دور چلے جاناوہ  ہمارے بس میں ہے ۔۔

اپنی ماں کے کہے ہوئے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے ۔۔۔

میں علی خاور کو نہیں بھول سکتی مگر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔۔میں علی خاور کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کر سکتی ۔۔

مگر میں یہ بھی جانتے ہو کہ ہم دونوں شاید کبھی ساتھ نہیں ہو سکتے ۔۔۔

اس لئے بہتر یہی ہے کہ مجھے علی  سے ۔۔۔۔۔

اس  کے آگے بولنے والے الفاظ اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے کہ وہ اپنے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ کر ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔ 

نہ جانے کیوں قسمت   دو لوگوں کو  ملواتی ہے جب ان کا نصیب ھی نہیں ملتا ان کے نصیب میں جب ملنا ہی نہیں ہوتا تو کیوں قسمت دو دلوں کے ساتھ کھیلتی ہے ۔کیوں ایک دوسرے سے ملواتی ہے ایک دوسرے کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے  اور پھر اچانک اچانک کسی تیسرے کے  آنے کی وجہ سے وہ محبت  جن میں سے محبت کے پھولو ں کی  خوشبو آتی ہے وہ اچانک  بدبودار پانی میں  تبدیل ہو جاتی ہے ۔۔۔

کیوں قسمت  ایسا کرتی ہے ۔۔کیوں غموں کی مالا لا کر ہمارے گلے میں ڈال دیتی ہے جب کہ ہمیں تو قدرت سے خوشیوں کی مالا چاہیے ہوتی ہے ۔۔ 

ساری رات بچو ں  کی طرح روتے ہوئے وہ  یہی سوچتی رہی  ۔۔

کبھی وہ علی خاور کے سارے میسج کو پڑھتی رہتی ایک نہیں دو نہیں دس  نہیں نہ جانے کتنی بار اس نے علی خاور کے پیغاموں کو پڑھا ہو گا نہ جانے کتنی بار اس نے علی خاور کی دی ہوئی انگوٹھی کو چوما  ہو گا نہ جانے کتنی بار اس نے علی خاور کے رومال  کو اپنے گلے سے لگایا ہو گا نہ جانے کتنی بار اس کے دے ہوے  جھومر کو اس نے چھوا ہوگا ۔۔ ساری رات اس نے  علی  خاور کی یاد میں گزار دی۔۔

اگلی صبح یونیورسٹی میں پیپر تھا ۔۔۔۔

کچھ دن  ہوگئے تھے اس بات کو مگر فردوس  کا چہرہ اس قدر اترا ہوا تھا کہ را بیہ اندر ہی اندر تڑپتی جا رہی تھی ۔ ۔

فردوس اچانک سے بالکل خاموش ہوگئی تھی بالکل خاموش نہ ہی تو وہ اب  رضا سے کسی قسم کی کوئی بات کر رہی تھی  اور نہ ہی تو رابیہ سے ۔کھانا تو اس نے کھانا جیسے چھوڑ ہی دیا تھا ۔۔رابیہ  اس کی فکر میں گھلتی جارہی تھی جبکہ رضا کو  ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں تھی وہ کھاتی ہے تو کھائیں نہیں کھاتی تو بھاڑ میں جائے اسے کیا پرواہ  ہے اپنی بیٹی کی خوشیوں کی  اور صحت کی ۔

وہ اپنے بیگ میں کتابیں رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے لیے جانے لگی تو رابیہ نے اسے آواز دے کر روکا ۔

فردوس یہاں آؤ میرے پاس ۔۔۔۔

رابیہ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے دودھ کا گلاس ہاتھ میں دیا ۔۔صبح ناشتے میں بھی تم نے صرف چائے پی تھی یہ پی کر جاؤ پیپر ہے تمہارا ۔  وہ اپنی بیٹی سے نظریں نہیں  ملا پا رہی تھی اور اپنی بیٹی کا یہ حال دیکھ کر تو جیسے وہ تڑپ اٹھی تھی مگر وہ اس قدر بے بس تھی کے اس کے لئے  کچھ نہیں کرسکتی تھی  ۔۔۔

میرا دل نہیں چاہ رہا  دودھ پینے کا میں جارہی ہوں خدا حافظ ۔۔

فردوس  تھوڑا سا تو پیتی جاؤ رابیہ دور تک ا س کے پیچھے جانے لگی ۔۔۔

مجھے نہیں پینا امی  ۔۔۔

رابیہ  نے  اس کی آنکھیں دیکھی جو کہ ابھی بھی لال ہو رہی تھی شاید وہ دوبارہ سے روئی تھی ۔۔۔

میری بیٹی تھوڑا سا تو  پی لو پلیز ۔۔

 میں پورا پی  لونگی   لیکن آپ اس میں زہر ڈال دیں  یوں تل تل مرنے سے اچھا ہے کہ میں ایک ساتھ ہی مر جاؤں ۔۔

فردوس کے  یہ الفاظ رابیہ کو اندر تک تڑپا گئے تھے اس نے بے حد بے حد فکر مندی اور خوف کے ساتھ فردوس کا چہرہ دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جمع تھے اور وہ تیزی سے دروازے سے باہر نکلتی جا رہی تھی ۔۔

رابیہ  چندلمحے وہیں کھڑی روتی رہی روتی رہی ۔۔وہ اس قدر بے بس  ہو چکی تھی اپنی بیٹی کی یہ  حالت دیکھ کر کہ اس نے دودھ کا گلاس زور سے اٹھا کر زمین پر مارا اور پھر وہیں بیٹھ کر روتی رہی اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر اسے بے حد افسوس تھا اور ا  سے اس سے  بھی زیادہ افسوس اس بات کا تھا  کہ وہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔

فردوس یونیورسٹی بھی آج دیر سے گئی تھی تقریبا ایک گھنٹہ دیر سے دیر سےجانے کی وجہ یہ تھی کہ جیسے ہی پیپر شروع ہو وہ اس وقت یونیورسٹی پہنچے اور جیسے ہی پیپر ختم ہو وہ فورا یونیورسٹی سے بھاگ جائے وہ  علی  خاور کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔

یونیورسٹی میں  پیپر شروع ہونے والا تھا ۔ علی خاور کی نظر  ے بے صبری سے اسے تلاش کر رہی تھی وہ کافی دیر سے اسے دیکھنا چا ہ  رہا تھا اس کی ایک جھلک ۔۔

 اور وہ اتنی زیادہ بے رحم بنی ہوئی تھی کہ اس نے ایک جھلک بھی اپنی  نہیں دکھائی تھی نہ جانے کتنی دیر ہو گی وہ  یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب 

کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا تھا ۔۔۔

چلو علی  کلاس میں چلتے ہیں یاسر نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا ۔۔

ہاں  بس تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں تم لوگ چلو ۔۔۔

پیپر شروع ہونے والا ہے دس منٹ میں تم کیا کر رہے ہو چلو اندر ۔۔۔

فردوس  کا انتظار کر رہا ہوں یار تم چلو میں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں ۔۔

اندر چل کے انتظار کر لو میرے بھائی وہ بھی پیپر دینے کلاس میں ہی آئے گی تو مل لینا  اس سے۔ چلا آ جا اب  ۔۔

وہ جیسے ہی اندر گیا  فردوس کی گاڑی اسی وقت یونیورسٹی کے دروازے کے باہر روکی  اس نے اردگرد دیکھا علی  نہیں  کھڑا تھا اس نے شکر کا سانس لیا بیک اپنے کندھے پر ڈالا اور پھر بینا آگے  پیچھے دیکھے تیز قدم اٹھاتے ہوئے کلاس کے اندر داخل ہوئی وہ کلاس کے اندر داخل ہونے والی آخری اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔

انسور شیٹ سب کو پہلے ہی مل چکی تھی لہٰذا سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے کھڑے ہونے کی اجازت کسی کو بھی نہیں تھی ۔۔۔

وہ جاکر پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گئی جو علی  خاور کی کرسی سے کافی دور تھی ۔اتنی کے شاید  فردوس کا چہرہ بھی لوگوں کی بھیڑ  میں  اسے نظر نہ آئے ۔۔۔

مگر علی ا س بات سے بے حد خوش تھا کہ آج اتنے دنو کے بعد   وہ اس پری کو دیکھ تو پائے گا ۔۔

فردوس کو دیکھ کر  اس کے چہرے پر بے حد خوبصورت  مسکراہٹ تھی ۔۔۔

وہ مستقل دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس نے فردوس کو اندر آتے ہوئے دیکھ لیا تھا تبھی اس کا دل خوشی سے مچل رہا تھا ۔اس کا بہت دل چاہ رہا تھا کہ وہ جاکر فردوس کے پاس بیٹھ جائے اور اسے دیکھتا رہے دیکھتا رہے ۔مگر ایگزامینیشن ہال  ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے اٹھ نہیں پایا ۔۔

پیپر اپنے وقت پر ختم ہوا تو علی خاور بےصبری سے باہر کھڑا ہوں اس کا انتظار کر رہا تھا نہ جانے وہ پیپر مکمل کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا رہی تھی علی خود اس بات پر بے حد پریشان تھا وہ تو ہمیشہ اپنا پیپر وقت سے پہلے ہی ختم کر لیتی تھی مگر خیر ۔۔۔

میں یہاں فیری کا انتظار کرتا ہوں ۔۔

مگر فردوس  اپنا پیپر بہت پہلے ہی مکمل کر چکی تھی مگر وہ علی خاور کی وجہ سے ایگزامینیشن ہال میں ہی بیٹھی رہیں اسے علی  خاور کا سامنا اس وقت نہیں  کرنا تھا   کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کا چہرہ پڑھ لے گا اور سب  سمجھ جائے گا  ۔۔۔۔

اس نے چوری چھپے نظر اٹھا کر دیکھا تو علی خاور اب وہاں پر نہیں کھڑا تھا فردوس نے تیزی سے پیپر ٹیچر کو دیا اور پھر اپنا بیگ لیتے ہوئے تیزی سے کلاس روم سے نکلی یوں جیسے وہ اس یونیورسٹی میں  کسی کو جانتی  ہی نہ ہو ۔۔ ۔ 

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی فلور سے نیچے جا رہی تھی  وہ اتنی تیز چل رہی تھی  اس نے نور کو بھی نظر انداز کر دیا تھا ۔۔۔

وہ جلدی جلدی چل  رہی تھی کہ کسی نے زور سے اس کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے اسے  کلاس کے اندر  لے لیا ۔۔۔۔

وہ چیخ اٹھی تھی کہ سامنے والے نے تیزی سے اس کے ہونٹوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھا ۔۔۔

خالی کلاس اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی مگر سامنے والے کی شرٹ سے نکلتی ہوئی بےحد دلکش  خوشبو سے فردوس کو دو منٹ لگے تھے اس شخص کو پہچانے میں ۔۔۔۔ یا خدا ۔۔علی ۔۔۔۔

فردوس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا جبکہ سامنے والے کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔۔

فردوس ۔۔۔ 

اپنا نام سن کر فردوس نے تیزی سے اپنی آنکھیں زور سے بند کی نہ جانے کتنے آنسو اس نے اس وقت اپنی آنکھوں میں چھپا رکھے تھے ۔جنہیں وہ علی  کے سامنے نکالنا  نہیں چاہ رہی تھی  کتنے دن بعد اس نے علی خاور کے منہ سے اس کا نام سنا تھا کتنے سکون ملا تھا علی کے منہ سے اپنا نام سن کر  اور وہ نام سنتے ہی فردوس کو جیسے

 سکون سا مل گیا  اندر تک ہر چیز پر سکون ہو گئی ہو جیسے کسی نے جلتے ہوئے زخم پر مرہم رکھ دیا ہو ۔۔۔۔۔

ہششش ۔۔۔۔شور مت کرنا علی خاور نے آہستہ سے اپنا چہرہ پیچھے کیا اور پھر آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر سے ہٹایا ۔۔۔

کلاس میں زیادہ روشنی نہیں تھی ۔تھوڑی بہت روشنی جو بند کھڑکیوں کے شیشوں سے آرہی تھی فردوس  نے نظر اٹھا کر علی خاور کا چہرہ دیکھا ۔۔۔

نہ جانے کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو ہی دیکھتے رہے تھے وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل ایسے دیکھ رہے تھے جیسے صدیوں سے نہ دیکھی ہو ۔۔دونوں کو ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر بے حد سکون مل رہا تھا نہ جانے کیوں پسندیدہ  شخص کی ایک جھلک میں اتنا سکون ہوتا ہے کہ اندر تک ھنڈک پہنچ جاتی ہے کچھ وقت کے لئے ہی سہی مگر  اپنی ہر تکلیف بھول جاتی ہے ہر غم بھو ل جاتا ہے ۔۔

فردوس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا وہ ایک لمحے کیلئے ہر چیز بھول چکی تھی اور وہ علی خاور کی آنکھوں میں بہت محبت سے دیکھ رہی تھی جس طرح سے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔

کافی دیر تک ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔

علی خاور نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما ۔۔۔۔

مگر فردوس نے اچانک اپنا  ہاتھ تیزی سے چھڑوا لیا ۔۔

علی خاور نے ایک نظر فردوس کو دیکھا اور پھر آہستہ سے مسکرایا۔۔۔ سوری ۔۔۔۔

وہ بہت ہی دلکش مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر لئے آہستہ آواز میں کہہ رہا تھا جبکہ فردوس کا دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے باہر کو آ جائے گا ۔۔۔

کیسی ہو تم؟؟ کہاں ہو 

اتنے دنوں سے نہ کوئی کال نہ کوئی میسج کسی کا بھی تم نے مجھے ریپلائے نہیں کیا میں پاگلوں کی طرح تمہیں میسج کر رہا  تھا فردوس  تین دن سے تمہارا موبائل بند ہے ۔کل رات تم نے میسج دیکھیں مگر تم نے رات میں بھی مجھے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ تم جانتی ہو نا کہ میری کیا حالت ہوتی ہے پھر بھی تم اس طرح کی غلطیاں کرتی ہوں کیوں تم مجھے تڑپاتی ہو ہر بار  نہ جانے   میں نے تمہیں کتنے میسج کیے شاید سو دو سو سے اوپر میں نے تمہیں میسج کیے ہیں ان تین دنوں میں مگر تم نے کسی کا بھی ر پلائی نہیں دیا میں کتنا پریشان تھا تمہارے لیے امی کے نمبر سے بھی میں نے ٹرائی کیا مگر تم نے کوئی آنسر نہیں دیا ۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا فردوس ۔؟؟

وہ بہت نرم سی آواز میں اپنے لہجے میں بہت ہی محبت اور  نرماہٹ رکھے بڑے ہی محبت سے پوچھ رہا تھا جبکہ فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو جائے ۔۔

وہ خاموش کھڑی رہی اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے جب کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے تیزی سے بھاگ جائے ۔۔۔

فر دوس میں تم سے پوچھ رہا ہوں یار ۔بندہ جواب تو  دیتا ہے ۔ میں کتنے دن سے تمہیں دیکھنے کے لئے بے قرار تھا تمہیں اندازہ ہے کچھ نہ بات نہ کچھ ایسے جیسے میں کوئی غیر ہوں جیسے تم مجھے جانتی ہی نہیں ہو  تمہارے سرد رویّے نے مجھے بہت ڈرا دیا ہے یہاں دیکھو میری طرف ۔۔۔

فردوس مستقل نیچے دیکھ رہی تھی اس نے علی خاور کی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا جب کہ وہ بار بار اسے اس کی آنکھوں میں د   کھنے کے لئے کہہ رہا تھا اور وہ اس سے نظر ے نہیں ملا  رہی تھی ۔۔۔

فردوس کیا ہوا یہاں دیکھو  کیوں مجھے تنگ کر رہی ہو میں پریشان ہو رہا ہوں تمہارے لیے مت کرو یہ۔ کیا بات ہے مجھے بتاؤ ۔۔

علی نے آہستہ سے اس کی تھوڑی کو پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کیا ۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔ فردوس نے چہرہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔

فردوس علی خاور کی اتنی لمبی چوڑی بات کا صرف اتنا سا  جواب دے رہی تھی کے علی  اس کی شکل دیکھ کر رہ  گیا ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے فردوس کچھ ہوا ہے ناراض ہو مجھ سے کوئی غلطی کر دی میں نے تو مجھے بتاؤ تو سہی کر دیتا ہوں ۔۔

کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ہر وقت کے آپ کے سوالات سے میں تھک گئی ہوں علی  مجھے جانا ہے  ۔۔۔

پوری رات پڑھ پڑھ  کے ویسے ہی میرے سر میں درد ہو رہا ہے اور اوپر سے آپ اپنے سوالوں سے مزید میرے سر میں درد کر رہے ہیں فردوس نے بے حد بے بسی سے اپنے دل پر پتھر رکھ کر تے ہوئے ا س سے  اتنے سخت لہجے میں بات کی کہ وہ خاموش ہو کر رہ گیا ۔۔

چند لمحے وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا ۔فر دوس کے اس رویے سے اسے تکلیف پہنچی تھی مگر وہ خاموش رہا ۔۔

آئی ایم سوری 

 فیری میں بس تمہارے لئے بہت زیادہ پریشان تھا اس وجہ سے اگر تم تھک گئی ہو تو ساتھ  کافی پیتے ہیں تھوڑا وقت ساتھ  گزار لیں گے کتنے دن سے ہمارے درمیان کوئی بات ہی نہیں ہو پائی ہے ۔نہ جانے کتنی ساری باتیں ہیں جو مجھے تم سے کرنی ہے ۔وہ بہت معصومیت سے فردوس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے اور اسے بتائیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔۔

نہیں مجھے کافی نہیں پینی ڈرائیور باہر کھڑا ہے مجھے جانا ہے علی ۔۔

فر دوس مت جاؤ ابھی ۔۔

تھوڑی سی دیر تو میرے پاس رک جاؤ تھوڑی سی دیر تو دیکھ لینے دو پھر چلی جانا میں کہاں منع کر رہا ہوں تمہیں ۔۔

 تمہاری بہت یاد آتی ہے مجھے ۔کچھ وقت میرے پاس رک جاؤ میں تمہیں اچھی طرح سے دیکھ لو پھر چلی جانا ۔۔۔

نہیں میرے پاس رکنے کا وقت نہیں ہے اور ویسے بھی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو مجھے جلدی گھر جانا ہے خدا حافظ ۔۔

فردوس  نے بے حد بے رخی سے کہا اور تیزی سے کلاس روم سے باہر کی طرف نکل گئی جبکہ علی خاور پیچھے کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا ۔۔ وہ خاموش تھا اسے فردوس کے اس رویے سے شدید تکلیف پہنچی تھی وہ کتنے دن سے دیوانوں کی طرح اس کے لیے خوار ہو رہا تھا اور آج جو  ملاقات ہوئی تو یوں جیسے وہ ا  سے جانتی تک نہیں اس کا رویہ اسے بہت زیادہ تکلیف دے رہا تھا ۔۔۔

فردوس تیزی سے کلاس روم سے   باہر نکلیں اور لمبے لمبے قدم اٹھاتی ہوئی تقریبا بھاگتے  ہوئے یونیورسٹی سے باہر نکلی ۔۔

فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کہیں چھپ کر بہت زور زور سے چیخ چیخ کر روئے اس نے جو  آج علی کے ساتھ  رویہ اختیار کیا تھا وہ بے حد برا اور تکلیف دہ تھا وہ جانتی تھی کہ علی  کا دل ضرور ٹوٹ گیا ہو گا مگر وہ بہت زیادہ مجبور اور بے بس تھی اور کیا کرتی  ۔۔

نہ جانے کتنی اس نے تکلیف اٹھائی تھی علی خاور سے اس طرح سے بات کرنے پر وہ گاڑی میں خاموشی سے آنسو بہاتی رہی تھی ۔۔

گھر آ کر بھی وہ باتھ روم  میں چھپ کر روتی رہی تھی ۔۔۔

اب شاید ہمیشہ کی طرح رونا ہی اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا  ۔۔

مجھے معاف کردو علی میں محبت جیسی خوبصورت چیز اپنی زندگی میں شاید کبھی شامل نہیں کر سکتی تم جیسا محبت کرنے والا شخص شاید میرے نصیب میں اللہ نے نہیں لکھا ۔۔

"نہ جانے کیوں ہمیشہ کسی تیسرے شخص کو بنا مانگے سب کچھ مل جاتا ہے "۔۔۔

السلام علیکم کیسا ہے میرا پیارا بیٹا کیسا ہوا پیپر ۔؟؟

محرین صاحبہ جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کالج سے  سیدھا گھر آئی تھی انہوں نے علی خاور کو دیکھتے ہوئے پوچھا جس کا چہرہ آج تھوڑا سا بجھا بجھا سا لگ رہا تھا ۔۔

کیا ہوا علی پریشان ہوں ۔۔؟؟؟

نہیں امی اور اچھا ہوا پیپر علی خاور اپنے کندھوں سے بیگ اتار کر  اب صوفے پر رکھ رہا تھا ۔۔۔

تھک گئے ہو ؟؟؟

مجھے شکل سے بہت پریشان لگ رہے ہو کیا ہوا یونیورسٹی میں سب ٹھیک تھا ۔۔یا پیپر مشکل تھا ۔۔۔؟؟

نہیں امی سب کچھ ٹھیک تھا اور پیپر بھی میں بس تھک  گیا ہوں اندر  سونے جا رہا ہوں ۔۔۔

محرین صاحب نے ایک نظر اپنے بیٹے کو غور سے دیکھا ۔۔۔

علی ۔۔۔

وہ جو سیدھا اپنے کمرے میں جا رہا تھا اپنی ماں کی آواز پر پلٹ کر دیکھا ۔۔۔

کیا بات ہے کیوں پریشان نظر آ رہے ہو مجھے سچ سچ بتاؤ کیا کسی سے لڑ کر آئے ہو یا لڑائی ہوگئی ہے فردوس  سے ۔۔۔

نہیں امی کچھ نہیں ہوا بس تھک گیا ہوں جا کر سو جاؤں گا ۔۔۔

میں کھانا لگا رہی ہو کھانا کھا لوں پھر سو جانا ۔۔۔

نہیں امی مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔

وہ کہہ کر  اپنے کمرے میں جا چکا تھا ۔۔

اور اس نے کمرے کا دروازہ لاک کر لیا تھا ۔۔۔

اپنی شرٹ اتار کر اس نے بیڈ کے اوپر پھینکی  اور پھر سیدھا واش روم جاکر شاور لینے لگا ۔۔۔۔

وہ فردوس کے لہجے سے اور فردوس کی رویے  سے بہت زیادہ افسردہ تھا فردوس کا  یہ رویہ اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا اس سے پہلے فردوس  نے کبھی علی سے  اس لہجے میں اور اس رویہ سے  بات نہیں کی تھی۔۔۔ ایک تو علی  اتنے دن سے فردوس  کے لیے بے تاب تھا اس سے ملنے کے لیے بے قرار تھا اور جب وہ اس سے ملی تو اس طریقے سے جیسے وہ ا  سے جانتی تک نہ ہو اور اس کی آواز میں جو انجا نا پن  تھا وہ انتہائی تکلیف دے رہا تھا وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ ان کچھ  دنوں میں ایسا کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس قدر بدل گئی ہے ۔۔ 

وہ بار بار فردوس کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس کے  بولے گئے الفاظ علی  کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔۔

تھک گئی ہوں میں آپ کے روز کے سوالوں سے ہر چیز کا آپ کو جواب چاہیے ۔۔۔۔

فردوس کی الفاظ ایک بار پھر سے اس کے کانوں میں گونجنے لگے تو اس نے اپنا مضبوط اور زور سے دیوار پر مارا یہ جیسے اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش  کر  رہا ہوں ۔۔۔

اگر تم تھک گئی ہو تو چلو آؤ کافی پیتے ہیں کتنے دن ہو گئے ہم لوگوں نے بات نہیں کی وقت ساتھ نہیں گزار تھوڑا  سا  وقت بھی ساتھ گزار لیں گے  بہت زیادہ یاد آتی ہو تم مجھے فیری ۔۔

نہیں مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔

فردوس کا بےحد روکھا سوکھا سا لہجہ اسے بار بار یاد آرہا تھا اس نے شمپو  کی بوتل اٹھا کے پوری قوت سے دیوار پر ماری ۔۔

نہیں ۔۔۔

 فردوس میرے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کر سکتی یقینا  ان دنوں میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے ۔۔

وہ اپنے پاس سے  ہی کچھ نہ کچھ بار بار سوچے جا رہا تھا اور فردوس کا یہ رویہ اس کے لئے بالکل ہی ناقابل برداشت تھا۔۔

" پسندیدہ شخص کی بے رخی اور اس کا تکلیف دو روکھا سوکھا  سا لہجہ شاید محبت کرنے والے کو اندر تک مار  دیتا ہے اندر تک تڑپا  دیتا ہے" ۔۔

علی خاور کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا وہ اپنے محبوب کی بے رخی اپنے محبوب کا بدلہ بدلہ سا رویہ ہضم نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔

اگلی صبح یوسف صاحب کے  گھر کی طرف سے دو گاڑیاں آئی تھی جس کے اندر بہت سارا سامان تھا ۔۔رضا  دروازے پر کھڑا ان گاڑیوں میں سے سامان اترتا  ہوا دیکھ رہا تھا اور یوسف صاحب سے بات بھی کر رہا تھا ۔۔

ساتھ ہی ساتھ عا مر کا بڑا بھائی ہے احتشام بھی تھا ۔۔۔

اور دوسری طرف آمنہ بھی ۔۔۔

احتشام اور آمنہ یوسف صاحب کے دونوں بچے رضا  سے بہت اچھے طریقے سے ملے وہ دونوں اب سامان نکال نکال کر اندر لے جانے کیلئے  دے رہے تھے ۔۔رضا آج آفس نہیں گیا تھا جبکہ فردوس رات دیر تک پڑھنے کی وجہ سے اپنے کمرے میں سو رہی تھی  ۔ ۔ 

رابیہ اپنے  کمرے میں بیٹھی ہوئی کپڑے طے کرکے الماری میں رکھوا رہی تھی کے اچانک گھر میں ہونے والی حل چل سے ہونے والے شور سے وہ ذرا سا اٹھی اور اس نے نظریں گھما کر دیکھا تو گھر کے ملازموں کے ہاتھ میں بہت سارا سامان اور سجے سجائے ٹوکرے اور مٹھائی کے ڈبے تھے  ۔۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے رابیہ تیزی سے کپڑے وہیں چھوڑ کے  جلدی سے کھڑی ہوئی اور جلدی سے جا کر باہر دیکھا تو سامنے احتشام اور آمنہ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔السلام علیکم انٹی ۔۔کسی ہیں آپ اآمنہ نے کہا ۔۔۔

وعلیکم السلام بیٹا ۔۔۔

آمنہ کے ہاتھ میں ایک بہت خوبصورت سی ڈریس تھی ۔۔۔۔

اور اس کے اوپر ر کھا ہوا ایک گلابی کلر کا بوکس جس میں شاید جیولری  رکھی  تھی ۔۔۔۔

احتشام کے ہاتھ میں ایک بہت ہی خوبصورت بڑا سا مٹھائیوں سے بھرا ہوا ٹوکرا تھا ۔۔۔

یہ سب کیا ہے؟؟

 رابیہ ان کے ہاتھوں میں یہ سامان دیکھ  کر اچانک ہی گھبرا گئی اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔۔۔ 

 اسلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ احتشام نے بھی سلام کیا ۔۔۔وعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو تم دونو ں رابیہ نے کہا ۔۔۔

ہم بلکل ٹھیک ہیں ۔۔آمنہ نے کہا ۔

اور یہ لیں یہ میری پیاری سی بھابھی کے کپڑے ہیں جو  کل رات کو اپنی منگنی میں پہننے والی ہے  اور یہ اس کی میچنگ کی جیولری اور چوڑیاں بھی ۔۔۔

رضا بڑی شان سے کھڑا پیچھے ان دونوں کو کہتے ہوئے دیکھ رہا تھا جبکہ رابیہ کے چہرے سے یہ لگ رہا تھا کہ اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئی ہو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑی آمنہ اور احتشام کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

وہ اس قدر حیران تھی کہ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کے منہ کے اندر زبان ہی نہ ہو یہ سب کیا ھو رہا ہے اتنی اچانک اچانک چیزیں ایک کے بعد ایک فردوس اور رابیہ  کو تو اس بات کی خبر بھی نہیں تھی کہ وہ لوگ کوئی سامان لے کر آرہے ہیں جب کہ رضا اپنے سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے بڑی شان سے پیچھے کھڑا تھا اور رابیہ کو گھور رہا تھا  اس کی آنکھوں میں سختی تھی اور چہرے پر وہی مغروریت ۔۔۔

بیٹا یہ سب بڑی مشکل کے بعد رابیہ نے یہ الفاظ کہے تو رضا نے اسے ایک نظر غصے سے دیکھا جیسے وہ اسے آنکھوں سے ہی نگل جائے گا ۔۔

عامر بھائی کی کل رات ڈھائی بجے کی فلائیٹ ہے تو وہ واپس چلے جائیں گے ۔۔کل  بھائی اور رضا انکل کی بات ہوئی تھی ۔۔

تبھی رضا انکل  کی کال آئی تھی کل رات بابا کے پاس وہ بس دونو ں  گھر والوں کے درمیان چھوٹی موٹی رسم کرنا چاہتے ہیں انگوٹھیاں پہنائی  جاۓ گئ بس ایک  دوسرے کو ۔امی کو اچھا نہیں لگ رہا تھا تو انہوں نے فردوس کیلئے یہ تھوڑا سا سامان  لیا ہے ۔۔ 

آمنہ نے پوری کہانی رابیہ کو بتائی جب کہ اب  رابیہ بے حد حیرانی اور افسوس سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات سے کانپ   بھی رہی تھی کہ نہ جانے فردوس اور اس کے  درمیان ہونے والی کسی قسم کی کوئی بات  رضا نے سن تو نہیں لی  ۔۔۔۔

رابیہ بڑی مشکل سے مسکرائی تھی ۔آمنہ کی یہ باتیں رابیہ کو ہضم نہیں ہو رہی تھی نہ جانے فردوس کیا کریں گی وہ تو صرف رشتے کی بات ہونے پر ہی اتنی زیادہ پریشان ہوگئی تھی  اور جب وہ عامر یوسف کے نام کی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن کر مکمل طریقے سے اس کی منگیتر بن جائے گی تو پھر کیا ہوگا میری بیٹی کا ۔۔۔۔

وہ  وہاں کھڑی  یہ سب کچھ سوچ رہی تھی کہ رضا  نے ایک نظر رابیہ کو دیکھا ۔۔۔ 

کیا ہوا آنٹی آپ پریشان کیوں ہیں ۔۔۔آمنہ نے کہا ۔۔۔

ارے نہیں نہیں بیٹا وہ بس کچھ نہیں اؤ نہ  تم لوگ بیٹھو  نا ۔۔

تم دونو ں اپنے انکل کے ساتھ بیٹھو میں تم لوگوں کے لئے  کچھ لاتی ہو ۔۔۔

ہاں آنٹی میں تو گرم گرم چائے پیوگا احتیشام نے کہا   ۔۔۔

اور میں بھی ۔۔

آنٹی آپ کو پتا ہے اتنا شوٹ ٹائم ہے اور  ایک طرف مجھے امی  پاگل کر رہی ہیں  اور دوسری طرف عا مر  بھائی  کو بھی لے کر جانا ہے شاپنگ کے لیے ۔۔۔۔

امی الگ اپنی  تیاریوں میں لگی پڑی ہیں  ۔۔۔۔

ظاہر ی سی بات ہے بھائی ان کے بیٹے کی منگنی ہے تو کچھ نہ کچھ تو وہ بھی کریں گے نہ احتشام  نے مسکرا کر اپنی  بہن  کو دیکھا ۔۔۔

کیوں آنٹی میں بالکل ٹھیک کہہ رہا  ہوں نہ ۔۔

اور آنٹی آپ  کے گھر میں بھی کتنا زیادہ کام ہوگا ۔ رضا  انکل بتارہے تھے کہ آپ لوگوں نے بھی اتنے  کم وقت میں  کوئی تیاری نہیں کی ہے آپ لوگ بھی مصروف ہیں ۔۔۔احتشام نے کہا ۔ 

  رابیہ  نے بے حد حیرانی سے آمنہ کو اور احتشام کو  دیکھا اور پھر ایک نظر رضا کو جواب سامنے والے صوفے پر رابیہ  کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔۔ 

وہ جان بوجھ کر رابیہ  کے پاس آکر بیٹھ گیا  کہ  رابیہ اس  کے خوف سے کچھ نہیں بول پائی گی ۔ ایسا ہی ہوا تھا  رابیہ کے حلق  سے کسی قسم کی کوئی آواز  نہ نکلی  ۔۔اور وہ بس ان سب کی   باتوں پر مسکراتی رہے اور ہاں میں ہاں ملاتی  رہی  ۔۔

منگنی کا تمام سامان دے کر وہ لوگ اب جانے کے لیے نکلنے لگے ۔۔۔۔

ارے بیٹا تم رک  جاتیں تو میں  فردوس کو اٹھا دیتی ہوں وہ  رات بھر پڑتھی رہی ہے  نہ تو اس وجہ سے آج دیر تک سو رہی ہے ۔۔

نہیں نہیں آنٹی آپ اسے آرام کرنے دیں وہ بیچاری تو ویسے ہی اتنی مصروف ہوگی اس کے پیپر ہے اور اس کے بعد یہ چیز مگر کیا کر سکتے ہیں رضا انکل نے بابا کو کہا تھا کے ان کو جلدی ہے پھر دو مہینے کے لئے ان کو کسی کام سے ملک سے باہر جانا ہے تو بابا نے بھی جلدی ہاں کر دی  ۔۔۔

 بابا تو کچھ وقت چاہتے تھے  لیکن انکل  نے اصرار کیا کہ کل ہی رکھ لیتے ہیں کچھ گھنٹوں کی تو بات ہے تو بابا مان گئے ۔۔

آمنہ نے جاتے جاتے رابیہ کو کہا جب کہ رابیہ آمنہ کی ایک ایک بات سے بے حد حیران ہو رہی تھی کہ رضا نے  یوسف صاحب سے  کس طریقے سے جھوٹ کہا ہے رابیہ  کو رضا کے اوپر بہت زیادہ افسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس قسم کی حرکتیں کر کے اسے اور  اپنی بیٹی  دونوں کو اپنے سے دور کر دے گا ۔۔۔۔

چلو بیٹا اپنے امی ابو کو میرا سلام کہنا خدا حافظ ۔۔۔

وہ دونوں وہاں سے نکلے تو فردوس جو اپنے کمرے میں بے خبر سو رہی تھی اس کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے سے باہر آئیں ۔۔۔

باہر  آتے ہی اس نے ڈرائنگ روم کے اندر جھانکا ڈرائنگ روم کے  اندر سے پھولوں کی خوشبو آ رہی تھی اور کافی سارا سامان پڑا ہوا تھا ۔۔۔

فردوس نے ڈرائنگ روم کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔

وہ سمجھ نہیں پائی تھی ۔۔۔

ڈرائنگ روم کے اندر داخل ہوئی تو ایک پیک کے اوپر جس کے اوپر خوبصورت گفٹ پیپر  پر چڑھا ہوا تھا ۔اس کے اوپر ایک کارڈ لگا ہوا تھا چھوٹا سا فردوس نے اس کارڈ کو کھول کر دیکھا ۔تو اس کارڈ  کے اوپر لکھا ہوا تھا فردوس کے لئے ۔۔۔

فردوس نے  کچھ اور سامان اٹھا کر دیکھا تو نیچے ایک بہت خوبصورت سا لباس تھا ۔۔ساتھ ہی ساتھ اس کی جیولری اور چوڑیاں بھی پڑی ہوئی تھی ۔فردوس کو اس سامان کو دیکھ کر یوں لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو ۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔۔

وہ تیزی سے وہاں سے بھاگتی ہوئی سیدھا رابیہ کے کمرے میں گئیں ۔۔

رابیہ کے کچھ کپڑے بیڈ پر بکھر ے  ہوئے پڑے تھے اور کچھ طے  ہوے تھے  ۔امی ۔۔۔۔امی ۔ ۔۔۔۔

فردوس وہاں سے بھاگتے ہوئے اب  کچن میں گئی تھی ۔۔۔

رابیہ وہاں بھی نہیں تھی اس کے حلق میں آنسوؤں کا گولا بنتا جا رہا تھا ۔۔

امی ۔۔۔امی ۔۔۔۔

اب کی بار وہ رونے لگی تھی اور سیدھا بھاگتے ہوئے گھر کے مین ڈور کے پاس گئی ۔۔۔۔

تو سامنے ہی رابیہ اور رضا کھڑے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے رضا اس کے اوپر چیخ رہا ہوں ۔۔۔

فردوس اپنے باپ کے ڈر سے وہی دروازے کے پاس کھڑی ہوگی اور اس نے تیزی سے اپنے آنسو پونچھے ۔۔۔

رضا  آپ نے اتنی بڑی بات کے بارے  مجھے کچھ کیوں نہیں بتایا کل آپ نے فردوس کی منگنی رکھ دی ہے اور اس بارے میں نہ ہی  تو مجھے کچھ معلوم ہے اور نہ فردوس کو ۔۔۔

بکواس بند رکھو اپنی اتنی اہم نہیں ہو تم دونوں میرے لیے کہ تم دونوں سے پوچھ کے  کوئی کام کروں گا ۔۔۔

یہ آپ نے بہت غلط کیا ہے رضا فردوس ابھی اس  چیز کے لیے تیار نہیں ہے ۔۔۔

کیا مطلب ہے  کہنا کیا چاہتی ہو تم رضا کی آواز میں اب کی بار بے حد سختی تھی ۔۔۔۔

وہ وہ  میرا کہنے  کا یہ مطلب ہے کہ فردوس کے ا  بھی امتحان چل  رہے ہیں ۔۔

تو میں  کیا کرو اگر امتحان چل رہے ہیں تو ۔۔۔۔

تھوڑی سی دیر رک جائیں رضا کچھ دن انتظار کرلیں بچی بری  طرح مصروف ہے ۔۔۔

مجھے کوئی پرواہ نہیں کسی کی مصروفیت کی دو تین گھنٹے کے لیے وہ لوگ آئیں گے انگوٹھی پہنائے  گے اور چلے جائیں گے اب اپنی بکواس بند کرو اس  کے علاوہ میں  کچھ نہیں سننا چاہتا ۔۔

میری بات سمجھنے کی کوشش کرے رضا وقت بہت کم ہے اور ۔۔۔

اور اور کیا ہمارے گھر میں کون سے لاکھوں مہمان آ رہے ہیں صرف دو گھر کے لوگ آئیں گے ہمارا گھر اور ان کا گھر اور کرنا کیا ہے تم نے تمہاری بیٹی نے کپڑے پہن کے بیٹھ جانا  ہے بس ۔وہ لوگ آئیں گے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا ے گے کھانا کھائیں گے اور بس ختم تمہاری بیٹی کے امتحانات روک  نہیں جائیں گے ۔ اور تمہاری بیٹی نے کونسا پڑھ لکھ کر  کے فیکٹریاں کھلینی   ہیں شادی  ہی کرنی ہے نا ۔ اب میں کسی قسم کی کوئی بکواس  نہ سنو ۔۔۔

مگر رضا آپ  سمجھنے کی کوشش کریں وہ ا بھی تیار نہیں ہے ۔۔۔

کیا تیار نہیں ہے وہ اتنی زور سے بولا تھا کہ فردوس کو وہاں تک آواز آئی ۔۔اور رضا  نے رابیہ کا بازو زور سے پکڑ کر کھینچا تھا ۔۔۔

رضا  نے را بیہ کا بازو اتنی زور سے پکڑ کر کھینچا تھا کہ فردوس کو رضا سے یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ رابیہ  کے اوپر ہاتھ ہی نا اٹھا دے۔۔۔۔

اگر تم نے مزید میرا دماغ خراب کرنے کی کوشش کی نہ تو میں تمہارے منہ پر تھپڑ لگادؤں گا چلو جاؤ یہاں سے ۔ جاکے اپنی بیٹی کو سامان دکھا دو اور میں جا رہا ہوں انگوٹھی لینے کے لئے اب میں کسی قسم کی کوئی بکواس  نہ سنو تم دونوں کے منہ سے اور اپنی بیٹی کو بھی سمجھا دینا بہت ہوگیا اس کے امتحانات کا ڈرامہ کل دونوں کی رسم ہو گئی بات ختم اور مٹھائی بٹھ  جائیں گی  سب میں ۔۔۔۔

رشتے داروں کے گھر مٹھائی دینے جائیں گے تو بتا دیں گے کہ لڑکے والو  کو جلدی تھی کیونکہ وہ دوسرے شہر  میں ہوتا ہے ۔۔۔۔

رضا اپنی بات  مکمل کرنے کے بعد سیدھا سیدھا آگے چل پڑا جب کہ  گھر کے مین دروازے پر اسے  فردوس نظر آئی وہ فردوس کو مکمل طریقے سے نذر  انداز کرتے ہوئے سیدھا چلا گیا ہو جیسے وہ اس کو جانتا ہی نہ ہوں ۔۔

فردوس نے  ایک نظر رضا کو دیکھا مگر وہ اب ہر صورت میں رضا سے بات کرنا چاہتی تھی پھر بھلے ہی وہ اس کے اوپر ہاتھ ہی  کیوں نہ اٹھا دے ۔کچھ نہ کچھ تو وہ کر کے تھوڑا سا وقت  رضا  سے مانگیں گی  کہ وہ اس کی منگنی ابھی نہ کریں  ۔۔

فردوس تیزی سے رضا کے پیچھے گئیں ۔۔۔

بابا بابا۔۔۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔

میرے پاس تم سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں مجھے کام ہے ۔۔۔۔

وہ  فردوس  کو بغیر دیکھے ہوئے سیدھا اندر چلا گیا ۔۔

فردوس رضا کو  اچھی طرح جانتی تھی کے وہ ابھی اس سے بلکل بھی بات نہیں کرے گا   اور پھر تیزی سے لون کی طرح بھاگتے  ہوئے رابیہ کے پاس گئی ۔۔۔۔

امی امی ۔۔۔

 یہ سب کیا ھو رہا ہے آپ لوگ کیوں میرے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔۔۔

میں نے آپ کو ساری حقیقت بتائی بھی ہے  پھر بھی  اس کے باوجود بھی یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے میں بابا  سے جا کے بات کر لو  کیا ۔۔

کیا ہوگیا ہے فردوس پاگل ہو گئی ہو رابیہ نے اسے  بازو سے پکڑ کر ایک کنارے پر کیا ۔۔۔

میں نے  ذرا منگنی آگے بڑھانے کی بات کی تو تمہارے باپ کا رویہ ایسا تھا کہ وہ میرے منہ پر تھپڑ لگا دیں گے اور تم یہ بات کرو گی تو تمہیں  نہیں لگتا کہ وہ تمہیں آگ لگا دیں گے ۔۔میں نے تمہیں کہا تھا نا اس لڑکے کو تم بھول جاؤ اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے اپنی قسمت  سمجھ کے قبول کر لو ۔۔۔

منگنی کل رات کو تمہارے باپ نے  عامر کے ساتھ  طے  کر دی ہے۔۔۔

 اس کے بارے میں مجھے خود آمنہ نے بتایا ہے اور مجھے اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے ۔۔۔

تمہارے باپ نے کبھی اہمیت دی ہے جو وہ اب مجھے اہمیت دیں گے میں نے  تمہارے بابا سے تمہارے  لئے بات کرنے کی کوشش کی تو تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے بابا نے میرے ساتھ کیا کیا اگر تم نے اس لڑکے  کا نام بھی اپنے باپ کے آگے لے لیا  نہ  فردوس تو وہ  تمہاری زبان کھینچ لیں گے اپنے ساتھ ساتھ تم اس لڑکے کو بھی نقصان پہنچا دوں گی ۔۔۔۔

امی پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں کس مشکل سے  گزر رہی ہو میں تو ابھی اس رشتے کی بات پر سمبھلی  نہیں  ہوں کہ آپ لوگ عامر کے نام کی انگھوٹی  پہناکرمجھے مکمل طور پر اس کی منگیتر بنانا چاہتے ہیں ۔۔میرے ساتھ یہ  زیادتی نہ کریں  پلیز  اس میں بالکل بھی مرضی نہیں ہے  میری ۔۔۔

مجھے یہ سب کچھ مت کہو فردوس تمہارے باپ نے تمہاری رضامندی لی تھی اور تم نے ہر ایک کے سامنے قبول کیا کہ تمہیں  کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں اب میں کچھ نہیں کرسکتی ہر چیز میرے ہاتھ سے نکل چکی ہے رضا ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رہے ہیں اور تم جانتی ہو کہ کس قدر ضدی  ہیں اپنے آگے وہ کسی کی بھی نہیں چلنے دیں گے  تو پھر تمہاری اور میری کیا اوقات ۔ بہتر یہی ہے کہ تم اپنے باپ سے کسی قسم کی کوئی بات مت کرنا ورنہ تمہارے بابا  کو شک ہو جائے گا اور پھر یہ نہ ہو کہ وہ تمہاری منگنی کے ساتھ ہی تمہارا نکاح بھی پڑھا دے ۔۔۔

رابیہ فردوس  سے کہتی ہوئی تیزی سے اندر چلی گئی جبکہ فردوس  لون میں کھڑی آنسو بہا تی رہی ۔۔۔۔

فردوس شام سے کمرے میں بند تھی مگر اس نے اس بات کو طے کرلیا تھا کہ وہ رضا سے ضرور بات کریں گی ۔۔

اسے ایک طرف باپ کا خوف بھی تھا مگر دوسری طرف اسے کسی بھی صورت میں اس منگنی کو روکنا تھا ۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے  کس طریقے سے بات کریں اس نے رابیہ سے بات کر کے دیکھ لی تھی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اب صرف ایک رضا ہی تھا اور یوسف صاحب  سے وہ بات نہیں کر سکتی تھی اور نا ہی  عا مر سے  اگر وہ ان دونوں میں سے کسی سے بات کرتی تو رضا اور زیادہ ناراض ہوجاتا کہ اس کی بےعزتی  ہوئی ہے  فردوسی یہ  بیوقوفی ہرگز نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔

رابیہ مجبور ہو کر منگنی کی تیاریوں میں مصروف ہو چکی تھی جبکہ فردوس بہت ہی ڈر کے رضا کے کمرے میں گئی وہ کوئی کام کر رہا تھا اس کے ہاتھ میں چند فائلز تھیں ۔۔

فردوس خاموشی سے اکے  دروازے کے پاس کھڑی ہوگئیں جبکہ رضا نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ سے کام کرنے میں مصروف ہوگیا ۔۔۔

بابا وہ اہستہ آواز میں کہتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔ ۔۔

بعد میں آنا میں ابھی بہت مصروف ہوں جاؤ  یہاں سے ۔۔۔

وہ فردوس کو بغیر دیکھے کہنے لگے جبکہ اس کی نظریں فائیل پر تھی مگر فردوس یہ سمجھ چکی تھی کہ اگر آج وہ یہاں سے چلی گئی تو اس کے بعد وہ کبھی بھی بات نہیں کر پائے گی ۔۔۔

اسنے اپنے اندر پوری ہمت جمع کی ہوئی تھی مگر اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ علی خاور کے بارے میں اپنے باپ سے بات کر سکے وہ صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اس کی منگنی کچھ وقت کے لۓ روک دیں مگر اس کے لیے یہ کہنا  یوں تھا جیسے وہ کھائ کے  بالکل کونے پر کھڑی ہو  اور تیز ہوا چلنے پر وہ جیسے کھائی میں گر جائے گی ۔۔۔

بابا لیکن ۔۔۔۔۔

تمیں آواز نہیں آتی میں نے کہا میں ا بھی مصروف ہو جاؤ یہاں سے میرا دماغ مت کھاؤ جاکے اپنی ماں سے بات کرو جو بھی کرنی ہے ۔۔

بابا پلیز  بات بہت ضروری ہے اور آپ سے ہی کرنی ہے اس نے آہستہ آواز میں ذرا ڈر کر کہا تو رضا  نے ایک نظر  اسے دیکھا ۔۔

فردوس خاموشی سے آکر اس کے  پیروں کے پاس بیٹھ گئی ۔۔

وہ صوفے کے اوپر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں کچھ فائلیں تھیں  ۔۔۔

بابا وہ وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ ابھی اپ۔ آپ۔ وہ ۔۔میں ۔۔۔۔ ۔۔۔

وہ تھوڑا سا بول کے خاموش ہوئی تو رضا  اسے ایک نظر دیکھا ۔۔

آگے بھی کچھ بولو گی یا یوں یہی گونگی  بن کے بیٹھی رہوں گی میرے سامنے ۔اور  میرا وقت برباد کرتی رہوں گی ۔۔۔

بابا میں یہ کہہ رہی تھی کہ ابہی میرے امتحانات سر پر ہیں اور میں پڑھنے میں اس قدر مصروف ہوں کہ میرا دھیان کسی اور چیز میں نہیں لگ رہا ۔میرا مطلب ہے کہ اگزام کا پریشر   بہت زیادہ ہے ۔۔۔ 

یہ میرا مسئلہ نہیں ہے آگے بولو ۔۔رضا کا لہجہ اس قدر خشک اور سرد  تھا کہ وہ چپ ہو کر رہ گئی ۔۔۔

بابا وہ وہ میں یہ کہہ رہی تھی کی اگر آپ آپ یوسف یوسف انکل   سے بات کرکے منگنی کی تھوڑی سی تاریخ  آگے بڑھا دے  تو میں اپنے ایگزامز  کی تیاری اور اچھے طریقے سے کر پاؤں گی ۔کیونکہ پھر ایگزامز کے دوران  یہ رشتہ اور پھر یوں فورا منگنی سے میں بہت ڈسٹرب ہو رہی ہوں اپنے ایگزامز  پر فوکس نہیں کر پا رہی ۔تو اگر آپ منگنی کی تاریخ کچھ آگے بڑھا دیں تو ۔۔۔۔۔۔

فردوس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے  کہ رضا نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر کھینچ کے مارا ۔۔۔۔

فردوس کے ہونٹوں سے تیزی سے خون نکلنے لگا ۔۔

اٹھو  یہاں سے  فورا  اٹھو یہاں سے ۔۔۔۔

اور نکلے ادھر سے ۔۔۔

یہ پٹی تم نے اپنی ماں کو بھی پڑھائی ہے نہ تمہاری ماں بھی صبح سے میرا یہی دماغ خراب کر رہی ہے۔۔۔۔

  جبکہ نہ ہی تم کو اور تمہاری ماں کو میری بات سمجھ آتی ہے جب میں نے کہہ دیا نہیں تو نہیں منگنی کل ہی ہوگی اور اس کے علاوہ میں کچھ نہیں سننا چاہتا  مجھے کوئی فکر  نہیں کہ تم امتحان  دیتی ہو یا نہیں دیتی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تم ڈسٹرب ہو رہی ہو یا نہیں میرے لئے میری عزت زیادہ ضروری ہے اور میری بولی ہوئی ایک زبان بھی  اب میں تمہارے   منہ  سے کچھ نہ سنو اور یہ ہاتھ اٹھانا  تم پر بہت  ضروری تھا اپنا منہ بند کرو اور یہاں سے نکلو ہر جگہ میری بےعزتی مت کرو آیا کرو بچپن سے لے کر آج تک میری بےعزتی کرواتی  ائ ہو تم اپنی شکل گم کرو اور اب میں تمہارے منہ سے کچھ نہ سنو   جاؤ بہت ہوگیا تمہارے امتحانات کا یہ ڈرامہ یہ امتحانات کے ڈرامے تم  اپنی ماں کو کرکے دکھانا مجھے نہیں ۔۔

رضا نے  گلاس اٹھا کر زور سے زمین پر مارا تو رابیہ جو کچن میں کام کر رہی تھی ۔تیزی سے تقریبا دوڑتے ہوئے   کمرے تک آئیں ۔۔

وہ کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی جبکہ فردوس اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی ۔۔۔

ہاں آ گئی تمہاری ماں تمہاری ہی کمی تھی  تم دروازے پر کھڑے ہو کے تماشا کیا دیکھ رہی ہو اس کو لے کے جاؤ میرے پاس سے اور اب میں تم دونوں کے منہ سے کسی قسم کی کوئی بکواس  نہ سنو ۔۔۔

منگنی ہو گئی اور کل ہی  ہوگی اور اگر اب میرا دماغ خراب کیا تم دونوں نے تو یاد رکھنا کہ میں فردوس کو ایک بھی پیپر دینے نہیں دوں گا یہ میرا آخری فیصلہ ہے اور امتحانات کی تھوڑے ہی وقت کے بعد جیسے ہی عامر  یہاں آئے گا میں تمہارا نکاح پڑھا دوں گا ۔۔

جتنی جلدی ہو سکے نکلو یہاں سے تمہیں دیکھ دیکھ کر خون کھولتا ہے میرا وہ بے حد غصے  سے کہتا ہوا کمرے کی چیزیں پھینکتا ہوا کمرے سے نکل چکا تھا    اور پھر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

 رابیہ  چند لمحے یوں ہی پریشان کھڑی رہی کہ یہ کون سا طوفان تھا جو ابھی آیا تھا جبکہ فردوس  اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی یہ آخری امید تھی کہ وہ اپنے باپ سے بات کرلے اور ر ضانے  ہمیشہ کی طرح اپنی اصلیت دکھا دی تھی ۔۔اس نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اس کے لئے کسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا تھا کہ وہ فردوس کی محبت کو ساری زندگی کبھی قبول نہیں کرے گا ۔۔ ذرا سی منگنی کی تاریخ آگے بڑھانے میں اس قدر سخت رویہ کہ اس نے ان ماں بیٹی دونوں کے اوپر ہاتھ اٹھا دیا تو اگر اسے علی خاور کے بارے میں پتہ چلے گا تو وہ نہ جانے کیا کرے گا ۔۔یہ سوچ کر وہ دونوں ہی بے حد حیران اور پریشان ہو چکی تھی ۔۔۔

رابیہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی اس کے بعد وہ فردوس  کے   قریب بیٹھی ۔۔۔۔

اس نے فردوس کا چہرہ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لیا تو فردوس کی چہرے پر رضا کی انگلیوں کے برے سے نشان تھے ساتھ ہی ساتھ اس کے سیدھے ہونٹ سے خون بھی نکل رہا تھا ۔ ۔۔

رابیہ اس  کا خوبصورت چہرہ دیکھتی رہی  جس کے اوپر رضا کی انگلیاں چھپی ہوئی تھی ۔۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا نہ فردوس تمہاری اور میری اہمیت اتنی ہے کہ جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے ۔اس سے زیادہ تمہاری اور میری اہمیت نہیں ہے نہ ہی تو اس گھر میں اور نہ رضا کی    زندگی میں  ۔۔۔

رضا کی نظروں میں اور  تم   بالکل چیٹی کے بچے جیسے ہیں ۔ایک بڑی چیٹی  جتنی بھی ہماری اوقات نہیں ہے  ۔۔۔۔

اب تم خود بتاؤ کیا تم اس لڑکے کی بات اپنے باپ سے کر سکتی ہوں فردوس  ۔کیا تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے بابا  کبھی بھی تمہارا رشتہ عا مر سے توڑ کر اس لڑکے سے کر دیں گے ۔کیا تمہیں اب بھی یہ لگتا ہے کہ رضا اپنی  ناک نیچے ہوتے ہوئے اور اپنی گردن کو نیچا ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔۔میں نے تمہیں بہت سمجھایا تھا فردوس اس رات بھی اور اس کے بعد والی ہر رات اور ہر دن کہ تم اسے بھول جاؤ ۔"کچھ لوگ ہماری زندگی میں تو ہوتے ہیں مگر ہمارے نصیب میں نہیں "۔۔

یہی بہتر ہے کہ تم علی کو  بھول جاؤ اور آگے بڑھو ۔۔تمہارا باپ تمہاری اس محبت کی کہانی کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دے گا ۔۔

بہتر یہی ہے کہ تم دونوں  ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاؤ زیادہ تکلیف اٹھانے سے بہتر ہے کم تکلیف اٹھاؤ اور دور ہو جاؤ ایک دوسرے سے ۔ورنہ یہ نہ ہو کہ محبت کا انجام موت ہو ۔۔۔۔

بھول جاؤ  اس لڑکے کو اور جو ہورہا ہے خاموشی سے اپنی قسمت اپنا نصیب سمجھ کے ا سے قبول کرلوں ۔۔۔

میں اسے نہیں بھول سکتی امی ۔۔

تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے فردوس ۔۔

جب تک تم فردوس اس   لڑکے سے دور نہیں ہوگی وہ لڑکا بھی تم سے دور نہیں ہو گا تم اس سے فاصلہ رکھ لوں گی وہ بھی کچھ دن تڑپے گا کچھ مہینے تڑپے گا یا پھر کچھ سال اور اس کے بعد وہ  تمہیں بھول جائے گا فردوس ۔۔

مگر تم میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارے باپ کو تمہاری خوشیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اپنے باپ سے یہ امید مت رکھنا کہ وہ علی خاور  کیلئے مان جائیں گے ۔۔باقی آگے تم خود سمجھ دار ہو ۔اور میں اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی میری بچی ۔۔ 

کل تمہاری منگنی عا مر کے ساتھ ہو جائے گی تم  اس کے ساتھ ایک رشتے میں جڑ جاؤں گی ایک ایسے رشتے میں  جس کا ایک مضبوط نام ہوگا فردوس ۔۔

 اور اس رشتے کی بنا پر تم خود اس لڑکے سے دور ہو جاؤ گی ۔۔۔یہی تمہاری قسمت ہے اور یہی تمہارا نصیب ہے میں جانتی ہوں کہ تم تکلیف میں ہوں مگر تکلیف تو ہر کسی کو ہوتی ہے اور محبت میں تکلیف نہ ہو ایسا تو ممکن نہیں ۔۔۔جو ہو رہا ہے ا سے ہونے دو اس پر نہ ہی تو تمہارا  اختیار ہے اور نہ ہی میرا ۔۔۔

"عشق ہو اور سکون ہو جناب ہوش میں تو ہو "

اگلی رات گھر کا لون بالکل ہلکا پھلکا سجایا ہوا تھا رضا کو فردوس کی منگنی کی خوشی تو  نہیں تھی لیکن یوسف صاحب کے گھر والوں کو بھی تو کچھ نہ کچھ  دکھانا تھا ۔۔

فردوس اپنے کمرے میں بےحد خاموش بالکل گم سم  سی اکیلی  بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

اس کے چہرے پر اس قدر اداسی تھی یوں جیسے کوئی   بنجر  زمین ہو جس کے اوپر سالوں سے ایک پھول پودا  نہ او گا ہو ۔۔۔

وہ بار بار علی  کی دی ہوئی رنگ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

اسے پلیز  اپنے ہاتھ سے مت اتارنا یہ تمہارے ہاتھ میں مجھے بہت اچھی لگتی ہے فیری  ۔۔

علی خاور کے بولے ہوئے الفاظ اس کے کانوں میں بار بار گونج رہے تھے ۔۔۔

فردوس بار بار اس رنگ کو اور اپنی  انگلی کو دیکھ رہی تھی کچھ وقت کے بعد اسے معلوم تھا کہ اس انگوٹھی کو نکال کر کوئی اور اور  کسی دوسرے کے نام کی انگوٹھی  اس کے ہاتھ میں آجائے گی اور وہ علی خاور کی دی ہوئی  انگوٹھی  اتارنا ہرگز نہیں چاہتی تھی کبھی بھی نہیں ۔۔

یہی انگوٹھی پہننا تے وقت ہی تو  علی خاور نے  فردوس سے محبت کا اظہار کیا تھا اور اپنے  دل کی بات کہی تھی وہ اس نشانی کو کیسے اتار سکتی تھی کیسے چھوڑ سکتی تھی ۔۔۔۔

قریب رکھی ہوئی چھوری  فردوس نے اٹھائی تھی ۔۔۔

اور پھر جس انگلی میں اس نے وہ انگوٹھی پہنی تھی اس گلی کو اس نے چھری کی مدد سے ہلکا سا کاٹا تھا ۔۔ خون تیزی سے اس کے ہاتھ سے رسنے لگا ۔۔۔

قریب رکھی ہوئی سائیڈ ٹیبل  کی  دراز میں سے  اس نے باریک پٹی نکالیں اور زخم پر لگائی ۔ ۔۔

کچھ وقت کے بعد جب خون  نکلنا بند ہوا تو فردوس نے اس باریک پٹی    کے اوپر وہ انگوٹھی دوبارہ سے پہن لیں ۔۔

اور پھر اس انگوٹھی کو چھپانے کے لئے اس نے اسی پٹی کے اوپر  ایک اور  موٹی پٹی اچھی طرح سے  باندھی تاکہ اس کے ہاتھ سے کوئی علی کی دی ہوئی رنگ   اتارنا پائے ۔۔۔

سنا ہے  الٹے ہاتھ کی تیسری انگلی کا راستہ سیدھا دل کی طرف جاتا ہے اسی لئے محبت میں لوگ ہمیشہ تیسری انگلی میں ہی انگھوٹھی پہناتے ہیں اور تیسری  انگلی لوو فنگر بھی کہلاتی ہے ۔کہیں پڑھی ہوئی کوئی  پرانی سی بات اسے اچانک یاد آئی تھی ۔۔۔

وہ لڑکی عا مر یوسف  کے نام کی انگوٹھی کبھی بھی اپنے ہاتھ میں نہیں پہنا چاہتی تھی ۔جب وہ عامر یوسف کی دی ہوئی انگوٹھی کو ہی جگہ نہیں دے پا رہی اپنے ہاتھ میں تو پھر اپنے دل میں عامر کو جگہ کیسے دے گی ۔۔۔

وہ تو علی خاور کے نام کی دی ہوئی انگوٹھی اتار نا ہی  نہیں  چاہتی تھی تو پھر اس شخص کی محبت کو اپنے دل سے کیسے اتار سکتی تھی ۔۔۔۔کیسے ۔۔۔۔

گھر کے اندر صرف اور صرف دو فیملیز  کے لوگ تھے ایک فردوس کی فیملی اور دوسری یوسف صاحب کی بہت چھوٹا سا فنکشن تھا جس میں یہ دونوں فیملیز تھیں اور ان کے بچے ۔۔

عامر کے گھر سے فردوس کیلئے پرپل کلر کی لمبی سی بہت خوبصورت سی فراک  آئی تھی ساتھ ہی ساتھ فروک کے اوپر خوبصورت  باریک باریک سلور کا کام ہوا تھا اور اسی کی میچنگ جیولری اور چوڑیوں میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی ۔ اور عامر نے آج سفید قمیض شلوار کے اوپر سیاہ رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

بہت ہی سادگی سے ان دونوں کا منہ میٹھا ہوا ان دونوں کو ہار پہنائے گئے ۔۔۔کچھ وقت کے بعد منگنی کی رسم بھی ہونے والی تھی ۔۔۔

دونوں گھر والوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں انگوٹھی  رکھیں تو فردوس نے پٹی والا ہاتھ نیچے کر دیا ۔۔۔

عامر کو مجبورن  اس کے  دوسرے ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی پہنا نی   پڑی ۔۔۔۔

فردوس نے بھی بے حد بے دلی سے عامر کو انگوٹھی پہنائی تھی ۔فردوس نے  ایک نظر رضا کو دیکھا جو بہت خوش ہو کر یوسف صاحب کے گلے سے لگ رہا تھا ۔۔۔فردوس کے چہرے پر ایک دم سے اداسی  کا جہان آباد ہو چکا تھا اس کی آنکھوں میں موٹے  موٹے  آنسو بھر آئے تھے ۔۔ 

جبکہ عامر انتہائی خوش تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے گھر والے بھی ۔۔۔۔

جب کہ رابیہ  اپنی بیٹی کا حال جانتی تھی مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی وہ دعا کر سکتی تھی کہ وہ اپنی آنے والی زندگی میں بہت خوش رہے ۔۔۔۔

فردوس دیر رات تک کے  اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی پڑھتی رہی تھی لیکن اس کے دل و دماغ میں مسلسل علی خاور ہی تھا ۔۔

اس نے اپنا موبائل بند رکھا ہوا تھا اور لوگو ں کو یہ کہا تھا کہ موبائل فون خراب ہو گیا ہے ۔۔۔

کیونکہ وہ جانتی تھی کہ علی  اسے روز نا نہ جانے کتنے میسجز  اور کالز کرے گا اور ان سارے میسج کو پڑھ کے اسے صرف اور صرف تکلیف ھی ہوگی اور علی خاور کی  مزید یاد آئے گی اس کی یاد سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے علی سے نہ جانے کتنے دنوں تک کوئی بات نہیں کی تھی ۔۔

وہ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اب بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

ہمیشہ کی طرح علی خاور آج بھی اس کے دل و دماغ میں بسا ہوا تھا اسے علی خاور کی اس قدر یاد  سستا رہی تھی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس سے بات کرے مگر وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اس سے بات کرے گی تو وہ موم کی طرح پگھل جائے گی اور سارا سچ علی  کے سامنے آجائے گا ۔اور یہ کڑوی حقیقت سامنے آنے کے بعد نہ جانے علی خاور کے  دل میں کونسا نیا طوفان برپا ہو جائے ۔کیونکہ وہ علی خاور کو اچھی طرح سے جانتی تھی کے وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے بالکل نہیں تھا ۔۔

اس کی یہی دیوانگی فردوس کو اکثر خوف زدہ کر دیتی تھی ۔۔۔

چند لمحے وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی اسے یاد کرتی رہی ۔۔۔

اس نے اپنا موبائل کھولا مگر اس نے نیٹ بند رکھا ہوا تھا ۔۔

علی خاور کی چیٹ اور اپنی باتیں جو ان کے پرانے وقتوں کی تھی اسے وہ پڑھ کر روتی رہی روتی رہی ہر ایک میسج میں ہر ایک بات میں علی  اسےبہت زیادہ یاد آتا ۔۔۔۔۔

 اس کی  بے حد خوبصورت آواز میں گائے گئے کچھ گانے بھی تھے ۔وہ اس کو محسوس کرنے کے لئے نہ جانے کتنی بار ان  گانوں کو سن چکی تھی کتنی بار اس کے میسجز  کو پڑھ کے اس کی خوبصورت سی آواز کو سن کر نہ جانے کتنی بار وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی کتنی بار اس نے اپنے گال سے  آنسو صاف کیے تھے ۔۔

اس نے  کچھ دنو نے اپنے موبائل میں سے سم وغیرہ سب نکال دی تھی ۔علی خاور سے وہ موبائل پر بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔وہ جانتی تھی کہ اس کے لیے یہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے مگر یہی ضروری تھا اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا اس سے دور ہونے کا ۔ کیونکہ وہ یہ بات جان چکی تھی کہ ان کی محبت میں گلاب کبھی نہیں کھیل سکتے ۔۔

وہ یہ بات سمجھ چکی تھی کہ ان کی محبت  ایک بنجر زمین سے شروع ہوئی ہے اور بنجر زمین پر کسی قسم کا کوئی پھول  پودا نہیں اگ  سکتا ۔۔۔

فردوس اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے کھڑی ہوئی اور اس نے الماری میں سے علی خاور کا دیا ہوا وہ پیارا سا جھومر نکالا اور شیشے کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔

اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھرے ہوئے تھے ۔۔

 اس نے جھومر   کو نرمی سے ہاتھ لگایا تھا اور اسے  نہ جانے کتنی بار اپنے ہونٹو ں سے چوما  تھا ۔۔۔

ایک بار پھر سے علی خاور اسے بے حد یاد آیا تھا ۔۔۔

 جانے کیوں کسی کو  یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میں اسے نہیں بھول سکتی ۔۔اور امی وہ کتنی آسانی سے کہتی ہیں کہ بھول جاؤں اسے مگر میں تمہیں کیسے بھول جاؤں علی تم تو مجھے ہر چیز میں یاد آتے ہو ہنستے ہوئے روتے ہوئے ۔۔اگر میں تمہیں یاد نہ بھی کرو تب بھی میرا دل و دماغ تم ہی میں  لگے رہتا ہے ۔۔۔ 

کیسے بھول جاؤ میں تمہیں میرے لئے تو یہ ممکن نہیں ۔۔

وہ اپنی آنکھوں میں موٹے  موٹے  آنسو لیے یہی سوچتی رہی اس نے وہ جھومر اٹھا کر آہستہ سے اپنے سر پر لگایا ۔۔۔

اگلے ہی لمحے ا سے یوں محسوس ہونے لگا جیسے علی خاور اس کی پیچھے کھڑا ہوں ۔۔

فردوس تیزی سے موڑ کر پیچھے ہوئی ۔۔

 علی وہ خوشی سے کہتی ہوئی پیچھے مڑی تو کوئی نہیں تھا ۔۔۔

علی ۔۔۔۔

آ بکی بار اس کی آواز اتنی آہستہ تھی  کہ شاید اس نے خود بھی نہ سنی ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔۔

فردوس وہی فرش پر بیٹھی بیٹھی رونے لگی ۔۔

اس کے ہاتھوں میں علی کا  دیا ہوا وہ جھو مر تھا جسے اس نے مضبوطی سے تھامے رکھا تھا ۔۔۔

ہاتھ میں پٹی ابھی بھی بندھی ہوئی تھی ۔۔

جب کہ اس کے دوسرے ہاتھ میں عامر کے نام کی دی ہوئی انگوٹھی تھی   اب وہ  اس کی منگیتر تھی ۔۔۔۔

میں اپنے دل میں تمہارے علاوہ کبھی کسی اور کو جگہ نہیں دے سکتی علی خاور  کاش اللہ کر یں  کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ تم اور میں ساری زندگی کیلئے ساتھ ہو جائیں اور ہمیں کوئی بھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہ کر پائے ۔۔۔

مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کے اب معجزے نہیں ہوتے ۔۔کہتے ہوئے اس نے بے حد غصے اور  بے بسی سے عامر کے نام کی دی ہوئی انگوٹھی اپنے ہاتھ سے نکال کر زمین پر پھینک دی تھی نہ جانے عامر کے نام کی دی ہوئی انگوٹھی فرش پر کہاں گر  چکی تھی اسے پرواہ نہیں تھی ۔۔

بس وہ علی خاور کے نام کی انگوٹھی اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں اتا رنا چاہتی تھی ۔اس نے اپنے ہاتھ کی انگلی کو یوں چھپا لیا جیسے اس کے ہاتھوں سے کوئی وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دے گا ۔۔۔اسے معلوم نہیں تھا نہ جانے کتنی دیر وہ اکیلے کمرے میں بیٹھی ہوئی روتی رہی روتی رہی ۔ ۔۔۔

دوسری طرف علی خاور کا بھی یہی حال تھا  ۔۔

سامنے ٹیبل پر اس کی کتابیں کھلی پڑی ہوئی تھی ۔۔

اس کے دماغ میں فردوس کے خیالات بار بار آ رہے تھے ۔ 

وہ اپنا سارا سامان سمیٹ کر اپنے بیڈ پر جا چکا تھا ۔۔

اس نے اپنا موبائل ایک بار پھر سے کھولا تھا لیکن بھجے  گے کہیں  دنوں کے  میسجز  آج بھی نہیں پڑھے تھے وہ جب بھی موبائل کھولتا تھا اسے یہ امید ہوتی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کا کوئی نہ کوئی پیغام آئے گا کوئی نہ کوئی اس کے نام کا میسج تو وہ ضرور کرے گی مگر اتنے دنوں سے جو اسے مایوسی ہو رہی تھی آج بھی اسی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔۔فردوس کے نام کا کوئی میسجز  نہیں آئے تھے ۔اور نہ ہی اس نے علی خاور  کے  بھیجے ہوئے پرانے میسجز کو پڑھا تھا ۔۔۔۔

علی خاور کا دل فردوس کی حرکت سے ایک بار پھر سے ٹوٹ چکا تھا نہ جانے وہ میرے ساتھ یہ کیوں کر رہی ہے ۔۔۔

نہ کسی قسم کی کوئی بات ہوئی ہے نہ لڑائی ہوئی ہے پھر نہ جانے کیا وجہ ہے اس کے اس رویہ کی کچھ پوچھتا ہوں تو بتاتی نہیں ہے   قریب جاتا ہوں تو  بھاگ جاتی ہے سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں میں ۔۔۔

وہ بھی وہی بے بسی کے عالم میں نہ جانے کتنی دیر کمرے میں بیٹھا رہا اسے نیند نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کے دل و دماغ میں صرف اور صرف فردوس کا خیال تھا جو اس کو سونے نہیں دیتا تھا وہ آنکھیں بند کرتا تھا تو وہ اس کے خوابوں میں آ جاتی تھی اسے ستانے کے لیے حقیقت میں وہ اس سے بات نہیں کر رہی تھی ۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔۔

علی خاور اپنے موبائل میں موجود اس کی وہ روتی ہوئی تصویریں دیکھ رہا تھا ۔۔اس دن کی جس دن وہ لوگ کلاس روم میں بند ہوگئے تھے ۔۔

نہ جانے کتنی دیر تک وہ  اس کا چہرہ دیکھتا رہا جو کے رونے کی وجہ سے گلابی ہو گیا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ نہ جانے کتنی دیر وہ  انہیں دیکھتا رہا ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن بہت ہی اداس والی ۔۔

اگلی صبح پیپر تھا فردوس یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی اور آج بھی وہ لیٹ ہی جا رہی تھی کہ پیپر شروع ہو اور وہ فورا سے ہال میں جاۓ اور جیسے ہی ختم ہو  تو وہ وہا ں سے نکل جائے ۔۔۔

آج بھی وہ یونیورسٹی جانے کے لیے جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی ۔۔

ناشتے کی ٹیبل پر فردوس  بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی اور رضا سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور رابیہ  اس کے برابر میں ۔۔۔

اچانک رابیہ  کی نظر فردوس کے ہاتھ پر  گئی ۔۔۔

رابیا نے تیزی سے فردوس کو دیکھا مگر وہ رضا کے سامنے کچھ نہیں بھول پائیں دوسری طرف فردوس کو بھی خبر نہیں تھی کہ اس نے کل رات اپنی  منگنی کی انگوٹھی نکال کر  کہاں  پھینکی تھی اور وہ  کہاں گئی انگوٹھی تو کمرے کے اندر ہی تھی   جبکہ ر ابیہ اس بات سے بے حد پریشان تھی کہ کہیں رضا کی نظر فردوس کے ہاتھ پر نہ پڑ جائیں ۔۔۔۔

فردوس رضا کو پانی دینے لگی تو رضا کی نظر اچانک فردوس کے ہاتھ پر پڑی ۔۔۔

فردوس تمہاری انگوٹھی کہاں ہیں منگنی کی ۔۔؟؟

رضا کی بات پر فردوس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹ گیا  اس نے تیزی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا اور پھر رضا  کو دیکھا جو کہ اسے بے حد سختی سے گھور رہا تھا ۔۔۔

بیوقوف لڑکی کیا کیا تم نے اور کیا کچھ ہو رہا ہے اس گھر میں  انگوٹھی کہاں ہے  تمہاری منگنی کی ۔۔۔۔

کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے گونگی بہری  تم  کیوں بن جاتی ہو ہمیشہ  ۔۔۔

تم کو ضرورت کیا تھی اپنی  انگوٹھی  اتارتنے کی وہ بھی منگنی کی ہاں ۔۔۔

کہاں ہے  انگھوٹھی تمہاری جلدی سے بتاؤ مجھے رضا کی آواز میں اس قدر سختی تھی کہ وہ کانپ کر رہ گئی  ۔۔

وہ تیزی سے کھڑی ہوئی تھی ۔۔

وہ بابا  وہ  نہ وہ ۔۔۔

اسے واقعی نہیں معلوم تھا کہ وہ انگوٹھی کہاں جا کے گری ہے لیکن اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ اس نے وہ انگوٹھی رات میں نکال کر فرش پر ضرور پھیکی تھی۔۔

وہ میں منہ دھو رہی تھی نہ بابا تو میں نے شاید وہ  واش روم میں رکھ دیں اور میں پہننا بھول گئی فردوس نے فورا سے بہانہ بنایا ۔۔۔۔

بیوقوف لڑکی ناشتہ چھوڑو فٹافٹ اور جا کر پہن کر اؤ  جلدی میں انتظار کر رہا ہوں  اور میں تمیں آج یونیورسٹی چھوڑ نے جاؤنگا ۔۔۔

فردوس کے چہرے پر اچانک ہی پسینہ  آ گیا نہ جانے وہ انگوٹھی اتنے کم وقت میں کہاں ڈھونڈیں گی لیکن وہ تیزی سے اپنے کمرے کے اندر گئی اور پھر اس نے ہر جگہ اس کی  تلاش شروع کی جب کہ رابیہ وہاں پر بیٹھی ہوئی تھی لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ رضا سے نظریں ملا پائے ۔۔

جا و  جا کے دیکھو تم  اسے اتنا وقت کیوں   لگ رہا ہے ابھی تک آئ کیوں نہیں ۔۔رضا نے  ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو رابیہ فورا سے کھڑی ہوئی اور سیدھا فردوس کے کمرے میں گئیں ۔۔۔۔

اسے یہی ڈر تھا کہ کہیں رضا کی نظر نہ پڑ جائے اور یہی ہوا جس کا ڈر تھا رابیہ تیزی سے کمرے میں آئی اور اس نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور فردوس کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔۔۔

تم بار بار ایسی بیوقوفی  والی حرکتیں کیوں کرتی ہو فردوس کیوں اپنے  اور میرے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہ رہی ہو کیا پاگل ہو گئی ہو تم تمہیں میں نے کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں سمجھ نہیں آتی ایک  بات ۔۔ ۔۔

امی انگوٹھی نہیں مل رہی مجھے ۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا نہیں مل رہی تم نے کہا تھا کہ تم نے منہ دھوتے وقت باتھ روم میں رکھ دی تھی  رابیہ اس کا بازو پکڑ کر کہنے لگی ۔۔۔۔

نہیں امی واش روم میں نہیں ہے میں نے جھوٹ کہا تھا ۔۔۔۔

کل رات میں نے وہ انگوٹھی نکال کر غصے میں پھینک دی تھیں اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں چلی گئیں ۔۔۔

فردوس فردوس ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم آخرکار اتنی بیوقوف کیسے ہو سکتی ہو ۔۔۔کیسے ۔۔۔۔۔

تم سے کم ازکم میں نے اس چیز کی امید نہیں کی تھی ۔۔۔

بابا باہر انتظار کر رہے ہیں میں کیا کروں ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہا میں نے ہر جگہ دیکھ لیا مگر مجھے نہیں مل رہی  امی  ۔۔۔۔

مجھے کچھ نہیں پتا  فردوس فٹافٹ ڈھونڈو اسے میرے ساتھ مل کر اگر بابا تمہارے یہاں آگے  تو تمہاری کھال اتار دیں گے  جو تھپڑ  تمہیں اس  دن پڑا تھا کیا تم بھول گئی ہو رابیہ  بے حد پریشانی سے فردوس کے ساتھ مل کر وہ انگوٹھی دیکھ رہی تھی وہ دونوں ہی مل کر پورے کمرے میں اس انگوٹھی کو ڈھونڈ رہے تھے جو کہ ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دوسری طرف رابیہ  اور فردوس کو   ٹینشن تھی کہ کہیں رضا  کمرے میں نہ  آ جائے ۔۔۔۔

امی نہیں مل رہی مجھے انگوٹھی ۔۔۔

فردوس منہ بند کرکے خاموشی کے ساتھ دیکھو ۔۔۔

را بیہ  الماری کی طرف دیکھنے پھر اس نے الماری کے نیچے دیکھا   کہ اچانک اس کی نظر ایک چمکتی ہوئی چیز پر گی ۔۔

فردوس یہاں آؤ جلدی لائٹ  لے کر ۔۔۔

فردوس بھاگتے ہوئے لائٹ  لیکر رابیہ کے پاس گئی تو الماری کے نیچے بالکل آخری کی جگہ پر وہ انگوٹھی پڑی ہوئی تھی جسے رابیہ نے  ڈنڈے کی مدد سے نکالا تھا  ۔۔۔ ۔۔

یہ لو پہنو ا  سے فٹافٹ ۔۔۔رابیہ نے  اس کے ہاتھ میں انگوٹھی دی ۔۔۔

فردوس نے رابیہ کو ایک نظر دیکھا اور ایک نظر اس انگوٹھی کو ۔۔۔۔

فردوس میں نے کہا پہنو ں ا سے ابھی اور اسی وقت ۔۔ ۔۔

میں اسے نہیں پہننا چاہتی  امی مجھے تکلیف ہوتی ہے اسے پہن کر اس کی آواز یوں ہوگئی تھی جیسے وہ ا بھی رونے لگی ہوں ۔۔

فردوس اپنا رونا دھونا بند کرو اور فورن انگوٹھی پہنو اگر رضا یہاں پر آگئے نا تو تمہیں پتہ ہے کیا ہوگا پھر  را بیہ  بے حد گھبرائی ہوئی تھی اسے رضا کا ڈر تھا کہ کہیں وہ اس کی بیٹی کو نقصان نہ پہنچا دے ۔۔

فردوس نے بے حد بے دلی کے ساتھ وہ انگوٹھی  اپنے ہاتھ میں ڈالی تھی  ۔۔۔

وہ انگوٹھی  پہنی ہوئی باہر  آئی ۔۔۔

جب کہ رضا سامنے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔

اتنی دیر کیوں لگ گئی انگوٹھی کو پہننے میں ۔۔

وہ وہ یہ واش روم  چلی گئی تھی رضا اس وجہ سے رابیا نے تیزی سے فردوس کا سائیڈ لیا ۔۔۔

جبکہ رضا نے ایک تیز نظر رابیہ اور  فردوس دونوں کو دیکھا تھا ۔۔۔

اپنی بیٹی کو اپنے الفاظ میں سمجھا دینا کہ اب مجھے اس کے ہاتھ سے  انگوٹھی اگر اتری ہوئی نظر آئیں تو پھر میں اسے خود  سمجھاؤں گا ۔۔

یہ یونیورسٹی سے آ جائے تو تم اسے مزید اچھے طریقے سے سمجھا دینا ورنہ پھر شام میں میں اسے سمجھ جاؤں گا ۔۔

رضا کا لہجہ اتنا سرد اور اتنا خشک  تھا کہ فردوس کو رضا سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔

اور آج پورے راستے بلکل چپ اور ڈری سہمی  رہی  تھی  ۔۔

کیونکہ آج اسے چھوڑنے کے لیے رضا آیا تھا ۔۔۔۔

اس بار بھی وہ کلاس کے اندر داخل ہونے والی آخری اسٹوڈنٹ تھی  لیکن اس نے اردگرد جب اپنی نظر دوڑائیں چوری چھپے تو اسے علی خاور کہیں بھی نظر نہیں آیا ۔۔

اس کا دل اور زیادہ  داس ہو گیا مزید بے چینی بڑھ گئی ۔۔۔۔

پیپر کرتے کرتے وہ بار بار نظریں اٹھا کر  ادھر ادھر  دیکھ رہی تھی مگر اتنے سارے اسٹوڈنٹس کی بھیڑ کے اندر وہ اسے نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔ عجیب حال تھا دل کا جس کو دیکھنے کے لئے دل نہ جانے کتنے دنوں سے  بے قرار تھا وہ آج نظر ہی نہیں آ رہا تھا ۔۔ 

فردوس آخری وقت تک بیٹھی ہوئی اپنا پیپر مکمل کر رہی تھی  جبکہ ایگزامینیشن ہال کے اندر سے اب کافی سارے سٹوڈنٹ جا چکے تھے ۔۔۔

انگوٹھی بار بار نکل رہی تھی اور فردوس  کو لکھنے میں مسئلہ ہو رہا تھا  اس نے وہ انگوٹھی اتار کر ایک طرف رکھیں اور پھر سکون سے پیپر کرنے لگی وہ پیپر کرنے میں مصروف ہو گئی تھی ۔۔جن جن لوگوں کا پیپر ہوتا جارہا تھا وہ پیپر دے کر جاتے جا رہے تھے ۔۔فردوس نے ایک آخری نظر ہول کو دیکھا صرف وہ اور چند اور اسٹوڈنٹ تھے جو پیپر مکمل کر رہے تھے ۔۔

مگر علی آج  باہر بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے باہر کی طرف بھی جھانکا تھا نہ جانے وہ آج کہاں غائب تھا ۔۔

مگر وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی شکر کر رہی تھی کہ وہ فوراً چلی جائے گی یہاں سے بغیر علی خاور  کا سامنا کیے ۔۔

فردوس نے وہ پیپر دیا  پیپر دینے والی وہ آخری لڑکی تھی ہال میں  ۔۔۔

اس نے دوبارہ سے انگوٹھی اٹھانے کے لیے دوسری طرف دیکھا تو وہ انگوٹھی  نیچے جا گری  تھی ۔ٹیچر اپنے تمام پیپر سمیٹ کر اب کلاس سے باہر نکل چکی تھی جبکہ فردوس  ایک بار پھر سے وہ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئی تھی ۔۔۔

 نہ جانے اس  انگوٹھی کو کیا مسئلہ ہے بار بار نکل جاتی ہے ہاتھ سے دل تو چاہتا ہے اٹھا کر پھینک دو اسے  وہ دوبارہ  غصہ میں انگوٹھی دیکھنے لگی ۔۔۔

وہ بڑی پریشانی کے عالم میں اپنی انگوٹھی ادھر سے ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔۔اگر اب کی بار بابا نے میرے ہاتھ میں وہ انگوٹھی نہیں دیکھی تو بابا تو میرا گلا ہی دبا دیں گے۔۔ 

فردوس انگوٹھی ڈھونڈنے میں اس قدر مصروف ہوگئی تھی کے اسے کچھ اور ہوش ہی نہیں تھا  کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر رضا کو ایک بار پھر سے پتہ چل گیا کہ اس نے انگوٹھی گھما دی ہے تو پھر اس کا برا حشر ہوگا  ۔۔۔

وہ اپنی تلاش  میں مصروف تھی اسے اس چیز کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کسی نے کلاس روم کا  دروازہ بند کیا ہے ۔۔۔

وہ نیچے بیٹھی ہوئی انگوٹھی تلاش کر رہی تھی کہ اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے علی خاور کی خوشبو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہو ۔۔

فردوس نے ایک لمحے کیلئے اپنا سر اٹھایا تھا مگر پھر بے حد افسوس کے ساتھ ایک بار پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھی ۔ علی خاور تو اسے ہمیشہ یاد رہتا تھا اور اس کی خوشبو اسے سوتے ہوے بھی محسوس ہوتی تھی وہ اس کی خوشبو کو   دور سے ہی پہچان لیتی تھی  ۔۔۔۔۔

 اسے آج بھی وہی محسوس ہوا جیسے وہ اپنے خیال میں علی کو محسوس کر رہی ہو ۔۔۔۔

کیا ڈھونڈ رہی ہوں اتنی دیر سے تم ۔۔۔؟؟؟

سامنے والے کے الفاظ  اور اس کا لہجہ اس قدر خشک اور سرد تھا   کہ وہ تیزی سے موڑ  کر پیچھے ہوئی ۔۔۔۔

اس کی بالکل سامنے لمبا سفید رنگ کی شرٹ میں علی خاور کھڑا ہوا تھا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر اداسی تھی  ۔چہرے پر موجود داڑھی بھی تھوڑی بڑی بڑی سی لگ رہی تھی ۔۔۔آنکھوں میں ویرانی تھی اور ہونٹوں سے مسکراہٹ بہت دور تھی ۔۔

یوں جیسے سالوں سے مسکرایا نہ ہو ۔۔

فردوس نے ایک نظر میں ہی اسے دیکھ کر یہ سب کچھ نوٹ کر لیا تھا جب کہ وہ بغیر کچھ کہے اسے دیکھتی رہی یوں جیسے اپنی آنکھوں کو سکون دے رہی ہو وہ بس اس کے خوبصورت سے چہرے کو دیکھتی رہی دیکھتی رہی لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے افسوس بھی ہو رہا تھا ۔۔وہ اس کی گنہگار تھی وہ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتی تھی اس کی اس حالت کی ذمہ دار بھی وہی تھی ۔۔

وہ  چلتا ہوں اب اس کے  بالکل پاس آکر کھڑا ہو چکا تھا  ۔۔

وہ اس کے  کافی پاس کھڑا تھا اتنا کس بس کچھ ہی قدموں کا فاصلہ ہوگا ان دونوں کے درمیان ۔۔۔

میں نے پوچھا کیا ڈھونڈ رہی ہوں فردوس ۔۔۔؟؟؟

 کچھ نہیں کچھ نہیں ۔۔

اسی لمحے فردوس کی نظر اچانک دروازے پر گئی جو کہ بند تھا ۔۔اسے ساتھ ہی ساتھ حیران بھی ہوئی کیسے  اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب علی اندر آیا اور کب اس نے دروازہ بند کیا ۔۔

علی خاور نے اس کی نظروں کو دیکھا وہ دروازے کو دیکھ رہی تھی ۔۔

تم اپنی کسی کھو ئی ہوئی چیز کو ڈھونڈنے میں اس قدر مصروف تھی کہ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں نے دروازہ بند کیا ہے اور میں اندر آیا ہوں لگتا ہے کوئی بہت ہی خاص چیز ڈھونڈ رہی ہو تم ۔۔۔۔۔اس کا لہجہ اور آنکھیں آج کافی بدلی بدلی سی لگ رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ غصے میں ہو ۔۔

علی   فردوس  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بڑے ہی آج کوئی خشک اور سرد  سے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔ علی خاور کا لہجہ یو تھا جیسے وہ اس سے بہت زیادہ ناراض ہو اور اس کا ناراض ہونا بنتا بھی تھا ۔۔۔

 وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے بہت ناراض ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ  فردوس کو  اس کا یہ لہجہ تکلیف دے رہا تھا مگر وہ یہ بات سمجھتی تھی کہ اس کی خود کی غلطی ہے مگر وہ کیا کرتی اس رویہ کے لیے بہت زیادہ مجبور تھی ۔ ۔۔۔۔

دوسری طرف فردوس اس بات سے  پریشان تھی کہ وہ اب علی خاور کے سامنے وہ انگوٹھی کیسے ڈھونڈے گی ۔۔۔ 

ایک طرف اسی علی خاور کا ڈر تھا اور دوسری طرف اسے رضا  کا خوف تھا ۔۔۔اب میں کیا کروں وہ بری طرح سے پھس  چکی تھی ۔۔۔

وہ ہاں ہاں وہ میری چین چین  گر گئی تھی ۔میں وہی ڈھونڈ رہی ہوں ہاں وہی ڈھونڈ رہی ہو  ۔۔اس نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہاں ۔۔

اور  ایک بار پھر سے دیکھنے کے لئے موڑ نے  لگیں تو علی  خاور نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا ۔۔۔۔

کیا وجہ ہے ان سب کی ۔۔۔۔؟؟

علی خاور اپنے مضبوط ہاتھوں میں اس کا بازو پکڑے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس  دوسری طرف سمجھ چکی تھی کہ وہ کس چیز کے بارے میں بات کر رہا ہے مگر وہ کچھ نہیں بولی خاموش رہیں یوں جیسے پتہ ہی نہ ہو کچھ ۔۔۔

فردوس میں نے تم سے پوچھا ہے کیا وجہ ہے کیوں کر رہی ہو تم  یہ سب کچھ میرے ساتھ کیا وجہ ہے مجھے سیدھی طریقے سے وجہ بتاؤ بہت دن ہو گئے ہیں میں تمہارا یہ رویہ برداشت کر رہا ہوں مگر اب میری برداشت سے ہر چیز باہر ہوتی جا رہی ہے  تم تو مجھے سیدھے طریقے سے بتاؤ کیا بات ہے ۔۔۔

کوئی بات نہیں ہے میں مصروف ہوں اس لئے  بات نہیں کر پا رہی اور آپ میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے اپنی چین ڈھونڈنی ہیں ۔۔

وہ علی خاور سے اپنا بازو چھوڑ وانے  لگی ۔۔۔۔

کیا کر رہے ہیں آپ میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا بازو چھڑا نے کی پوری پوری کوشش کر رہی تھی ۔فردوس  کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ ایک تو علی  اس کے اتنا قریب کھڑا تھا اور دوسرا اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔ اس کے وجود سے نکلتی ہوئی خوشبو اور اس کا بے حد خوبصورت چہرہ فردوس کا دل بری طرح سے دھڑکا رہا تھا ۔۔۔

سامنے والے کا بھی یہی حال تھا آج وہ اتنے دنوں کے بعد اپنی محبت اتنے  قریب سے دیکھ رہا تھا ۔ اتنے دنوں کے بعد وہ اسکی آواز سن رہا تھا  اس کا خوبصورت چہرہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔

میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑ دیں  مجھے درد ہو رہا ہے ۔آپ کو کیوں میری ایک بار  کی بولی ہوئی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔۔

مجھے جواب چاہیے سامنے والا بھی آج مکمل طور پر کسی چھوٹے ضدی بچے کی طرح اپنی ہر بات کے اوپر اڑا ہوا تھا  ۔۔۔

بتایا تھا نہ میں نے آپ کو کہ میرا موبائل خراب ہے اور میں مصروف ہوں ایگزامز  چل رہے ہیں آپ کو نہیں پتا کیا ۔ ۔

میرے بھی امتحان چل رہے ہیں تمہارے ساتھ میں بھی تمہارے  ہی ساتھ پڑھتا ہوں ۔ لیکن میرے پاس ہر چیز کے باوجود بھی تمہارے لئے وقت ہوتا ہے ۔۔ ہر چیز کے باوجود بھی میں تمہیں کبھی نہیں بھولتا فردوس نہ صبح شام  نہ دن نہ  رات  تم تو مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہو ۔ کیونکہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔اور تم جو مجھ سے محبت کرتی ہو کیا تمہیں میری یاد نہیں آتی کیا تم اتنی زیادہ مصروف ہو کہ مجھ سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتی اسی کونسی مصروفیات ہوگئیں ہیں تمہاری اچانک کہ تم نے میری شکل دیکھنی   چھوڑ دی ہے  مجھ سے بھاگنے لگی ہوں دیکھتی رہتی ہوں کہا میں تمہیں نظر نہ آؤں اور تم نظریں بچا کر بھاگ جاؤ تمہیں کیا لگتا ہے میں بیوقوف ہوں میں تمہیں نہیں دیکھ رہا میں نہیں سمجھ رہا ہے مجھے بیوقوف بنانا بند کرو فردوس تم جانتا  ہو تم  یہ نہیں کر سکتی  اور تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا لیکن میں پھر بھی تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں کہ کیا بات ہے ۔۔

کوئی بھی بات نہیں ہے میں بس آج کل بہت مصروف ہو میرا موبائل خراب ہے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہے میرا ہاتھ چھوڑ دیں  مجھے گھر جانا ہے ڈرائیور آگیا ہوگا ۔۔۔

فردوس  پوری قوت سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھڑوانے لگی ۔ ۔۔۔

ابھی تو تم کوئی چین  ڈونڈ رہی تھی   جو کہ تمہارے لئے بہت ضروری تھی اتنی ضروری کہ تمہیں میں بھی نظر نہیں آیا ۔۔۔۔

ہاں وہ ابھی بھی ضروری ہے لیکن اگر آپ ہاتھ چھوڑیں گے تب ہی میں ڈھونڈ پاؤ گی ۔۔

وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اس نے اپنے آپ کو رونے سے کیسے بچایا ہوا تھا ۔۔۔ علی خاود نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا ۔۔۔۔

فیری ۔۔۔

یہاں دیکھو میری طرف ۔۔ وہ اپنے اسی سرد لہجے میں فردوس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

فردوس نے اسے نہیں دیکھا تھا  وہ ادھر ادھر دیکھتی رہی اور نہ ہی اس نے  خاور  کی کسی قسم کی کوئی بات کا جواب دیا تھا جب کہ علی خاور اس کے خوبصورت سے چہرے کو دیکھتا رہا تھا جو کہ لال ہو رہا تھا اور پھر اچانک اس کے دونوں ہاتھ چھوڑ   دیے ۔۔

مل کر  ڈھونڈتے ہیں تمہاری چین تم وہاں دیکھو میں یہاں دیکھتا ہوں ۔۔

نہیں نہیں آپ رہنے دیں میں خود دیکھ لو گی ۔۔

کیوں تم نہیں چاہتی  کہ میں 

تمھاری مدد کروں ۔۔۔؟

نہیں وہ میرا مطلب آپ کیوں  اپنے آپ کو پریشان کر رہے ہیں میں خود ڈھونڈ لوں گی آپ رہنے دیں ۔۔۔۔

مجھے تمہاری ہیلپ کرنے میں کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا میں تمہاری ہیلپ کرتا ہوں وہ بھی اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

فردوس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ انگوٹھی چھوڑ کر وہاں سے بھاگ جائے ۔مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی کیونکہ گھر پر اسے رضا کا خوف تھا  دونوں طرف سے وہ  بے بس ہو چکی تھی۔۔۔

اور  ایک الگ ہی مصیبت میں پھنس چکی تھی ۔۔۔

موبائل کب ٹھیک کرواؤ گی  تم اپنا ؟

مجھے لا  دو میں کرا دوں گا ۔وہ فردوس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس مستقل اپنی نظر ے نہیں ملا رہی تھی ۔۔۔

نہیں اس کی ضرورت نہیں میں نے بابا کو دے دیا ہے وہ لے گئے تھے ۔۔۔۔۔

اچھا لے گئے تھے واپس آ گیا  موبائل تمہارا ۔۔۔

علی   خاور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا جبکہ فردوس کے چہرے پر پریشانی ہی پریشانی تھی ۔۔

نہ جانے کیوں علی خاور ایک کے بعد ایک ایسا سوال پوچھ رہا تھا کہ اس کا جواب دینا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا تھا  ۔۔

بس کچھ دنوں میں ٹھیک ہو کر آ جائے گا ۔۔۔۔۔

اچھا تمہیں یاد نہیں آتی میری رہ لیتی  ہو تم  میرے بغیر ۔۔؟؟

علی اس کے بالکل سامنے بیٹھا پوچھ رہا تھا ۔۔

فردوس چند لمحے اسے دیکھتی رہی اور اس کے بعد بالکل خاموش ہوگئی ۔۔۔۔

علی خاور نے ایک نظر اس کا چہرہ دیکھا ۔۔ 

نور نے مجھے بتایا کہ کل تمہاری اور نور کی بات ہوئی ہے فون پر وہ بھی تمہارے تمہارے نمبر پر ۔۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نے تیزی سے اپنے لبوں پر زبان پھیری ۔۔۔۔

نہیں وہ وہ تو امی کا موبائل تھا  میرا نہیں ۔۔۔۔

اچھا امی کا موبائل تھا ۔۔۔؟؟

علی خا ور نے   اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جب کہ وہ بالکل چپ تھی ۔۔۔

ہاں وہ امی کا موبائل تھا نور کبھی کبھی امی کے موبائل سے بات کر لیتی ہے مجھ سے ۔۔

اچھا ایسا ہے جب کہ وہ تو مجھے کہہ رہی تھی کہ پہلے اس نے تم سے بات کی ہے تمہارے نمبر پر اور پھر تمہاری امی سے بات کی ہے ان کے نمبر پر ۔علی خاور نے ایک ایک لفظ جمعا  جمعا کر کہا جبکہ فردوس کا چہرہ اب بالکل زرد ہو چکا تھا ۔۔ فردوس کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔۔۔

فردوس تیزی سے وہاں سے اٹھیں اور ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی اپنا بیگ اٹھانے لگی ۔علی خاور  بھی تیزی سے  کھڑا ہوا اور اسے بغیر کسی قسم کا کوئی وقت  دے   اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اسے دیوار سے لگایا ۔۔۔۔

اس کے دونوں ہاتھ علی  خاور کے مضبوط ہاتھ میں تھے ۔۔۔۔

کہاں جا رہی ہو چین نہیں ڈھونڈنی  تم نے  جو کہ بہت ضروری تھی تمہارے لیے ۔۔۔

نہیں مجھے مجھے گھر جانا ہے دیر ہو رہی ہے ۔۔۔

یہاں دیکھو میری طرف ۔۔۔

 اب کی بار علی خا ور کا  لہجہ اتنا سرد اور خشک تھا کہ اسے علی خاور سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔ 

میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے نا کہ مجھ سے جھوٹ مت بولا کرو تمہیں مجھ سے جھوٹ بولنا نہیں آتا ۔۔۔

میں نے میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے  آپ سے۔۔

 ہاتھ چھوڑے میرا علی کوئی آجائے گا ۔۔

تو آنے دو ۔۔۔

دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا پاگل ہوگئے ہیں کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔ چھوڑ یں  مجھے پلیز پلیز علی کوئی آجائے گا ۔۔۔

وہ اپنے ہاتھ  علی خاور کے  ہاتھوں سے چھڑوانے لگی تو علی نے پکڑ  اور زیادہ مضبوط کر دیں ۔۔۔۔

مجھے ہر چیز بالکل سچ بتاؤ فردوس میں تمہارے منہ سے ہر چیز سچ سننا چاہتا ہوں اب میں مزید کسی قسم کی تمہاری کوئی بھی بیوقوفی برداشت نہیں کروں گا بس بہت ہوگیا ہے ۔۔۔۔

کیسا جھوٹ میں نے آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا میرے ہاتھ چھوڑ دیں  مجھے درد ہو رہا ہے علی۔۔ کوئی آ  جاۓ گا اگر کسی نے دیکھ لیا تو مسئلہ ہو جائے گا ڈرائیور  باہر  کھڑا ہے وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا ۔۔۔

بھاڑ میں گیا ڈرائیور ۔۔۔علی خاور نے اپنا لہجہ شاید اس کے ساتھ پہلی بار اتنا سخت رکھا تھا کہ وہ اس کی آواز سے ڈر کر ایک دم خاموش ہوگئی ۔۔۔

اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیزی   سے جمع ہونے لگے ۔۔

یہاں دیکھو میری طرف مجھے دیکھ کر بات کرو کیا بات ہے مجھ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے فردوس  ۔۔

میں آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بول رہی ہاتھ چھوڑیں میرا پلیز ۔۔۔۔

فردوس ۔۔۔

میں سچ بول رہی ہوں علی ۔۔۔

فردوس ۔۔۔۔

پلیز علی ۔۔۔۔

عامر کون ہے ۔۔۔۔؟؟

علی خاور کے یوں اچانک پوچھے گے جملے سے فردوس کی ریڑھ کی ہڈی تک کانپ گی تھی ۔۔ 

اس نے تیزی سے اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر علی خاور کو دیکھا ۔۔۔۔

علی کے چہرے پر فردوس نے پہلی بار اس قدر سختی دیکھی تھی ۔۔۔

عامر کو ن ہے  فردوس میں تم سے پوچھ رہا ہوں جواب دو مجھے ۔۔۔

فردوس خاموش کھڑی رہی جبکہ اب اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے تھے  ۔۔۔

مجھے مجھے نہیں پتا کون ہے اور چھوڑیں  مجھے  مجھے جانا ہے ۔وہ اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑوانے کے لیے مچلنے لگی ۔۔۔۔

میں نے کہا میری بات کا جواب دو فردوس اور میں تمہارے ہاتھ نہیں چھوڑ رہا ۔آج تو علی خاور  ایک ضدی بچے کی طرح ہر چیز ہر بات پر اڑا ہوا تھا ۔۔ 

کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ  ایسا مجھے پتا تھا کوئی نہ کوئی بڑی وجہ ضرور ہے اور تم اتنے وقت میں مجھ سے یہ بات چھپا تی رہیں کیوں کیوں کیا تم یہ سب علی نے اس کے  بازو زور سے پکڑ کر بائے ۔۔۔۔

اھہ ۔۔۔۔۔

علی مجھے درد ہو رہا ہے ہاتھ چھوڑیں میرا ۔۔۔۔

مجھے سچ سچ بتاؤ سچ کیا ہے میں ہر چیز تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔

کوئی بات ہے ہی نہیں تو میں کیا بتاؤں آپ کو ۔۔۔

وہ بات جو  تم مجھ سے چھپا رہی ہوں سچ سچ بتاؤ یہ عا مر کون ہے ۔۔

مجھے نہیں پتا علی  ۔

اچھا تمہیں نہیں پتا تم اسے تو پہچانتی  ہی ہوگی  ۔۔۔۔۔

علی نے وہ  انگوٹھی فردوس کو دکھائی  تو فردوس پھٹی پھٹی آنکھوں سے علی خاور کو دیکھنے لگی ۔۔ ۔

یہ یہ وجہ ہے نا ان سب کی اسی وجہ سے تم مجھ سے دور جا رہی ہوں اسی وجہ سے تم میری محبت کو ٹھکرا رہے ہو  تمہیں کیا لگا تم کسی کے ساتھ ایک رشتے میں بن جاؤں گی اور مجھے پتہ نہیں چلے گا ۔ مجھے اب  ہر ایک چیز پتا چل گئی ہے  کیسے کیسے  کر سکتی ہو تم میرے ساتھ یہ سب کچھ میں تم سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ تمہارے لیے پاگل ہو رہا ہوں اور تم میرے پیچھے یہ سب کچھ کر رہی ہو ۔بار بار میں تم سے پوچھتا  رہا پیار سے محبت سے مگر تم نے مجھے نہیں بتایا کچھ تم نے مجھے کچھ سمجھا ہی نہیں فردوس تمہیں اندازہ بھی ہے مجھے کس قدر تکلیف ہو رہی ہے اس نے فردوس کے دونوں بازو ایک بار پھر سے پکڑ کر زور سے دبا رہے تھے ۔۔

اھھھ۔۔۔۔علی پلیز ۔۔۔

تمہارے ہاتھ کانپے نہیں  اس کے نام کی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں ڈالتے ہوئے ۔۔میرا خیال نہیں آیا تمہیں فردوس ۔

وہ غصے کے عالم میں اس کے دونوں بازو کو زور سے پکڑے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

جبکہ فردوس خاموشی سے کھڑی روتی رہی ۔۔۔

اب وہ مزید ا س سے جھوٹ نہیں بول سکتی تھی  وہ ہر ایک چیز جان چکا تھا ۔ اسے جس بات  کا ڈر تھا وہی ہو چکا تھا ۔ ۔۔۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا علی  آپ وہ  انگوٹھی مجھے واپس کریں فردوس  نے اسے دیکھتے ہوئے کہا  ۔۔۔

یہ انگوٹھی تو میں تمہیں کبھی نہیں دوں گا آگ لگا دوں گا مگر تمہارے ہاتھ میں دوبارہ  آنے نہیں دوں گا۔۔

   اسی نے پہنائی ہے نا تمہیں یہ انگوٹھی اپنے ہاتھوں سے آگ لگا دوں گا میں اس انگوٹھی کو مگر تمھارے ہاتھ میں دوبارہ سے پہننے نہیں  دوں گا تمھیں کسی کے  بھی نام کی انگوٹھی سمجھیں تم ۔۔ 

تم صرف اور صرف میری ہو صرف اور صرف میری میں یہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتا کہ میری محبت کو کوئی اور دیکھے کوئی اور اس  سے محبت کریں کوئی اور اسے ہاتھ لگائے تم صرف اور صرف میری محبت ہو صرف اور صرف میری اور تمہیں مجھ سے  الگ کرنے کا  اختیار میں نے کسی کو بھی نہیں دیا یہاں تک کہ تم  کو بھی نہیں ۔۔

 تم بھی اپنے آپ کو مجھ سے دور نہیں رکھ سکتی میری آنکھوں میں دیکھو اور سچ بتاؤ مجھے ہر چیز شروع سے علی نے فردوس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے اونچا کیا اور پھر بڑی نرمی سے اس کی دونوں آنکھوں کو صاف کیا ۔۔۔۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا علی بہت دیر ہو گی ہے  ۔۔عامر سے  میری منگنی ہو چکی ہے ۔۔میرے بابا ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے بابا نے  میری منگنی اپنے بہت اچھے دوست یوسف انکل  کے بیٹے عا مر سے کر دی ہے ۔ ۔۔۔

اور تم نے کر لی فردوس تم نے ہاں  کیسے کر دی تمہیں میرا خیال نہیں آیا ۔۔۔

آیا تھا علی بہت بار آیا تھا مگر میں کچھ نہیں کر پائی میرے ہاتھ سے وقت اتنی تیزی سے نکل جائے گا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ ہر چیز اپنے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی میں نے بہت قریب سے دیکھی ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا  اور بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ۔۔۔۔

خبردار جو تم نے آگے کچھ بھی کہا تو ۔۔۔

میری ایک بات اپنے ذہن میں بیٹھا لو تمہیں اور مجھے کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا نہ ہی تمہارے بابا اور نہ ہی یہ  عا مر اور نہ ہی کوئی اور ۔۔

نہیں اب کچھ نہیں ہو سکتا آپ مجھے چھوڑ دیں  ہر چیز کو بھلا دیں میں اپنے بابا سے کچھ نہیں کہہ سکتی میرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے اور نہ ہی میں اتنی بہادر ہوں ۔۔

تمہارے پرنٹس  سے میں بات کرتا ہوں میں لے کر آتا ہوں اپنی امی کو تمہارے گھر جب تم کہو آج ہی لے کر آ جاؤں گا  میں تو کب سے تیار ہوں ۔۔۔۔

کیا ہو گیا ہے علی پاگل ہو گئےآپ  ۔آپ کو ایک بات سمجھ میں نہیں آتی میری منگنی ہو چکی ہے میری منگنی ہو چکی ہے عا مر سے ۔اور میرے بابا  میری منگنی عا مر سے توڑ کر کسی اور سے کبھی نہیں کریں گے وہ مجھے مار دیں گے مگر میری منگنی میری شادی کسی اور سے ہونے نہیں دیں گے ۔۔۔

کوئی تمہیں کچھ نہیں کر سکتا فردوس میں ہوں تمہارے سات تم کیوں یہ بات ہمیشہ بھول جاتی ہوں ۔۔۔

مجھے اب آپ کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے علی میری منگنی ہو چکی ہے اور اب میں آپ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھ سکتی ۔آپ اس  چیز کو سمجھنے کی کوشش کریں ہمارے نصیب میں یہی لکھا تھا  ۔۔

 مجھے یہ فضول کی  باتیں  سمجھانے کی ضرورت نہیں میں بہت اچھے  طرح سے جانتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی تم سے کرتا ہوں  تو تم  مجھے یہ بیوقوفی والی بات مت کر کے دکھاؤ فردوس اور اس انگوٹھی  کو تو میں آگ لگادوں گا مگر تمہیں دوبارہ سے پہننے نہیں دوں گا ۔۔۔

اور اگر تم مجھ سے دور ہی رہنا چاہتی ہو تو پھر کیوں تم نے  اپنے ہاتھ سے میری رنگ  نہیں اتاری  کیوں دوسرے ہاتھ کی انگلی میں تم نے وہ انگوٹھی  پہنی  ۔۔

 کیوں  تم بار بار دیکھتی  ہوں اس رنگ کو اتنی محبت سے  ۔۔

میری آنکھوں میں دیکھو اور کہو مجھ سے یہی سب کچھ  جو تم ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہہ دیتی ہوں ۔۔

 ہے تمہارے اندر اتنی ہمت کہ تم میری محبت سے انکار کر پاؤ میں تمہیں کسی اور کے لئے کبھی نہیں چھوڑ سکتا بھول جاؤ ۔تم صرف اور صرف میری محبت ہو صرف اور صرف میری ۔۔

چلو میرے ساتھ۔۔

کہاں لے کر جا رہے ہیں ۔۔۔

یونیورسٹی کے دروازے تک بالکل خاموشی کے ساتھ میرے ساتھ چلو باہر جا کے بات  کرتے ہیں ۔۔

علی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے تک لایا اور اس نے دروازے کا لاک کھول کر پہلے  فردوس کو باہر کیا اور اس کے بعد خود باہر آیا ۔۔

میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جا رہی باہر  ڈرائیور کھڑا ہے ۔۔

اس نے مجھے اگر باہر جاتا ہوا دیکھا تو وہ بابا کو شکایت لگا دے گا ۔۔۔

تم اس کی فکر مت کرو جاکر میری گاڑی میں بیٹھو میں دو منٹ میں آرہا ہوں ۔۔۔  

نہیں میں آپ کے ساتھ  نہیں جا رہی ۔۔۔

فردوس تم خود سے یونیورسٹی کے دروازے تک چل رہی ہو یا نہیں۔۔؟؟ یا  پوری یونیورسٹی کے  سامنے میں  تمہیں   اٹھا لے جاؤں تم جانتی ہو کہ میں یہ کر سکتا ہوں ۔علی خاور فردوس کی آنکھوں میں دیکھ کر بہت ہی مضبوط لہجے میں کہہ رہا تھا اور وہ علی خاور کو بہت اچھی طرح سے جانتی تھی۔۔

جاؤ جا کر  سیدھا  گاڑی میں بیٹھو میں آ رہا ہوں تھوڑی دیر میں ۔۔۔

میں نہیں جا رہی آپ کے ساتھ ۔۔۔

ٹھیک ہے تو میں آپنا طریقہ اپناتا  ہوں علی فردوس کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھانے لگا ۔۔۔

نہیں کیا کر رہے ہیں آپ علی نہیں پلیز ۔۔۔

پھر تم خود آ رہی ہو ؟؟ہے نہ ؟؟

ہاں آتی ہوں ۔ 

فردوس بڑی مشکل سے یونیورسٹی سے باہر آئی تھی جبکہ علی اب سیدھا اس کے ڈرائیور کے پاس جا رہا تھا اور فردوس کو اس چیز کا ڈر تھا کہ کہیں ڈرائیور اسے نہ دیکھ لیں ۔۔۔

علی فردوس کی گاڑی کے پاس پہنچا اور اس نے ڈرائیور کی کھڑکی کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔ڈرائیور نے شیشہ نیچے کیا ۔۔

کیا آپ فردوس رضا کو لینے کے لیے آئے ہیں علی خا ور نے  ڈرائیور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی ہاں میں فردوس بی بی کا ڈرائیور ہوں انہیں لینے کے لئے آیا ہوں ۔۔۔

آپ کو کچھ دیر کے لئے انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ وہ کسی کام کی وجہ سے میٹنگ میں مصروف ہیں ۔ سر حسن اور سر الطاف دونوں بھی ہیں باقی سٹوڈنٹ کے ساتھ تو آپ کو کچھ وقت کیلئے انتظار کرنا پڑے گا تقریبا ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے ۔جب تک آپ ایسا کریں کہ اس کی امی کو کال کرکے بتا دیں  کہ وہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹے لیٹ ہوجائے گی تکے  اس کی امی پریشان نہ ہو یہ فردوس  کا میسج تھا تو میں نے آپ کو دے دیا ۔۔۔۔اور میں اس کا کلاس فیلو ہو علی خاور فردوس کی امی کو بتا دے گا میرا نام    ۔۔۔

ٹھیک ہے میں انہیں بتا دوں گا کہ فردوس بی بی کو آج دیر  لگ جائے گی ۔جب تک میں ان کا یہاں انتظار کر لیتا ہوں ۔۔۔

علی خاور ڈرائیور کو یہ سب کچھ کہہ کر سیدھا اپنی  گاڑی کی طرف آیا جب کہ فردوس کے چہرے پر بے حد پریشانی تھی ۔۔۔۔

وہ تیزی سے دروازہ کھول کر گاڑی کے اندر بیٹھا تو فردوس نے  سوالات کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیا ۔۔۔۔

کہاں جا رہے ہیں؟؟

  آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں علی  ؟؟

میں کہیں نہیں جانا چاہتی آپ کے ساتھ آپ کو کیوں میری بات سمجھ نہیں آتی ۔۔۔

اور امی امی کتنی زیادہ پریشان ہوں گی اگر میں دیر سے گھر جاؤں گی تو آپ کو ہمیشہ صرف اپنی ہی کرنی ہوتی ہے ۔۔۔

ڈرائیور بابا سے شکایت لگا دے گا اگر اس نے دیکھ لیا تو آپ کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن میرے لئے تو  مصیبت ہو جائے گی  نہ ۔۔۔

وہ بولے ہی جارہی تھی جبکہ علی خاور خاموشی سے بیٹھا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جو کہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔

آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی میری بات ملتا کیا آپ کو مجھے پریشان کر کے بہت ہی بد تمیز انسان ہیں آپ وہ غصے میں کہتی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی وہ گاڑی کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر گاڑی کا دروازہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اس نے ایک تیز نظر علی خاور کو مڑ کر دیکھا ۔۔

گاڑی  کیوں لوک  کی  ہے آپ نے ۔۔۔؟؟

تاکہ تم یہاں سے جانا پاؤں اس لیے ۔۔۔

میں نے آپ سے کہا میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جا رہی آپ گاڑی کا دروازہ کھولیں ۔۔۔

اگر کھول   سکتی ہو تو کھو ل لو اور فاٹا فٹ اپنی سیڈ بلڈ باندھو ۔۔

 تمہارے ڈرائیور کو میں نے ایک گھنٹے کا  بولا ہے اور تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں نے کہہ دیا ہے کہ تمہاری امی کو بتا دیں ۔۔۔۔۔

کیا؟؟

 فردوس کو جیسے ایک دم حیرانی ہوئی وہ اپنی طرف سے کیا کیا بول کر آیا تھا اسے معلوم ہی نہیں تھا ۔۔۔یا اللّه آپ کیا کرتے پھر رہے ہیں مجھے بغیر کچھ بتائے ۔۔

یہ تم ہر بات میں اتنی زیادہ پریشان کیوں ہو جاتی ہو میں نے کہا ہے ڈرائیور کو کہ اسٹوڈنٹس کی میٹنگ چل رہی ہے پروفیسر  کے ساتھ تو وقت لگے گا اب  خاموشی کے ساتھ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لو  کیونکہ میں تیز رفتار سے ڈرائیو  کرتا ہوں  تم  ابھی میرے ساتھ پہلی بار بیٹھی ہوں اس لئے  تمہیں اندازہ نہیں ہے اس چیز کا  اور ویسے بھی آنے والے وقتوں میں تمہیں میرے ساتھ ہی بیٹھنا ہے میرے ساتھ ہی سفر کرنا ہے میرے ساتھ ہی رہنا ہے تو بہتر ہے کہ عادت  ڈال لو  وہ ایک ایک لفظ بہت جمع جمع کر کہہ رہا تھا یوں جیسے اسے جتا رہا ہوں ۔۔۔۔

علی آپ کو کیوں میری بات سمجھ نہیں آتی آپ کو سمجھ نہیں آرہا کیا کے اب میری منگنی ہو چکی ہے عامر سے ۔۔۔

منگی تمہاری ہوئی ہے لیکن میں اس چیز کو قبول نہیں کرتا اور اس عا مر نامی لڑکے کو تو میں  وہ غصے سے بول کر خاموش ہوا ۔۔۔۔

خیر جو بھی ہے میں اس منگنی کو نہیں مانتا اور میں اپنی امی کو لے کر بہت جلد تمہارے گھر آ رہا ہوں اور اس کے اگے میں تمہاری کوئی بات نہیں سننے والا  ۔۔۔

آپ کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی علی اور اب  کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے ۔۔۔۔

آپ کو یہ بیوقوفی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو کیوں سمجھ نہیں آتی میری بات میں آپ کو کس لہجے میں اور کس زبان میں سمجھاؤں کہ میری منگنی ہو چکی ہے علی اب  کچھ بھی نہیں ہو سکتا آپ کیوں میرے لئے اور مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔۔

میں تمہارے لئے کوئی مشکلات پیدا نہیں کر رہا اور نہ ہی میں تمہیں کسی مشکل میں دیکھنا چاہتا ہوں یہ بات تم یاد رکھنا ہمیشہ اور یہ بھی کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں  اسی لیے یہ سب کچھ کر رہا ہوں  ۔۔۔

اور میں نے آپ کو یہ بات کتنی بار سمجھ آئی ہے کہ ہماری محبت کی کوئی منزل نہیں ہے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ 

ہماری محبت کی شروعات ھی ایک بنجر زمین سے ہوئی ہے اور بنجر زمین کے اوپر محبت کے پھول نہیں کھلا کرتے ہیں علی  خاور آپ کو میری اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھ آتی آپ کیوں مجھے بار بار تکلیف دیتے ہیں  ان تکلیف دہ  باتوں سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے اور میں جانتی ہوں کہ آپ کو بھی تکلیف ہوتی ہو گی میں آپ کو اور اپنے آپ دونوں کو اس تکلیف سے بچا نا جا رہی ہوں علی آپ کیوں نہیں سمجھ رہے  قسمت نے ہمارے ساتھ بہت برا اور تکلیف  کھیل کھیلا  ہے ایک دوسرے کی محبت ہمارے دل میں بسا رکھی ہے لیکن ہماری نصیب ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہمارے نصیبو ں کے راستے الگ الگ ہیں ۔۔۔۔ 

میں اس چیز کو نہیں مانتا تم  میرے ہی نصیب میں لکھی گئی ہو اس بات کا مجھے معلوم ہے ۔۔

یہ آپ کی ضد ہے اور کچھ بھی نہیں علی ۔۔۔

یہ ضد  نہیں ہے فردوس میری محبت ہے ۔۔اور مجھے اپنی محبت پر پورا یقین ہے کہ میری محبت اتنی طاقتور ہے کہ تمہارے بابا اور وہ عا مر کچھ بھی نہیں کر پائیں گے ۔۔۔

یا میرے خدا میں کس طریقے سے سمجھاؤں آپ کو میری تو زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ خودکشی کر ۔۔۔

فردوس ۔۔وہ زور سے چلایا ۔۔۔

 اور اس نے زور سے اسٹیئرنگ ویل پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔

خاموش ہو جاؤ فیری  ایک دم خاموش  ۔۔۔۔

آئندہ اس طرح کی فضول بات اپنے منہ سے مت نکالنا ۔۔۔

کہتے ہوئے علی خاور نے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔۔

وہ گاڑی بہت احتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔

تم سوچ رہی ہو گی کہ میں گاڑی اتنی آہستہ سے کیوں چلا رہا ہوں ۔۔۔

فردوس نے کچھ نہیں کہا وہ بس خاموشی سے بیٹھی رہی ۔اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں کوئی اسے دیکھ نہ لے ۔۔۔

میں گاڑی آہستہ اس لئے  چلا رہا ہوں تاکہ تھوڑی دیر تمہارے ساتھ وقت گزار سکو ۔۔

وہ ڈرائیو کرتے ہوئے مسلسل اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

جبکہ فردوس بالکل خاموشی کے ساتھ کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی اس کے دل میں ایک خوف بیٹھا ہوا تھا ۔۔بابا کا خوف امی   کا خوف اور نجانے کیا کیا کون کون سے وسوسے اس کو ڈرا رہے تھے ۔۔۔

مجھے میری منگنی کی انگوٹھی واپس کریں ابھی اسی وقت  ۔۔۔

کونسی انگوٹھی؟؟

 علی خا ور  نے  اتنی لا پرواہی سے کہا کہ فردوس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

کیا مطلب ؟؟

میری منگنی کی انگوٹھی جو آپ کے ہاتھ میں تھی وہ مجھے واپس چاہیے ابھی اور اسی وقت  ۔۔ 

وہ تم بھول جاؤ وہ تمہیں کبھی نہیں ملے گی ۔۔۔

علی ۔ ۔۔۔

میں نے کہا مجھے میری انگوٹھی  واپس کریں ۔۔۔اگر بابا نے میرے ہاتھ میں انگوٹھی نہیں دیکھی تو میرا حشر نشر کر دیں گے ۔۔۔

وہ انگوٹھی میرے پاس نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بہت ہی خراب حالت میں کیونکہ میں   وہ انگوٹھی لائٹر سے پوری طرح  جلانے   کے بعد توڑ چکا ہوں ۔۔۔۔

اور میں وہ ٹوٹی ہوئی انگوٹھی بھی تمہیں نہیں دوں گا اسے تو میں خود  کچرے میں پھینک کر آؤں گا مگر تمھارے ہاتھ میں دوبارہ سے آنے نہیں دوں گا ۔۔

کیا مطلب ہے مجھے میری انگوٹھی واپس چاہیے بابا مجھے چھوڑیں گے نہیں ۔۔۔

میں نے وہ انگوٹھی توڑدی ہے اور  میں نہیں چاہتا کہ تم کسی کے نام کی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں ڈالو ۔۔

 یا اللہ میں کیا کروں آپ کا علی ۔۔۔

وہ اس قدر  بے بس ہو چکی تھی کہ اسے رونا  آنے لگا تھا ۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہوگا اس نے ایسے ہی کیا تھا وہ جانتی تھی کہ وہ یہ کر سکتا ہے اس نے لازمی انگوٹھی کو جلا کر انگوٹھی توڑ دی  ہوگی اور اپنا سارا غصہ انگوٹھی پر نکالا  ہوگا ۔۔

وہ خاموشی سے بیٹھی ہوئی گاڑی  میں آنسو بہاتی رہی  بہاتی رہی ۔۔۔

۔

گاڑی اچانک سے ایک بہت ہی اچھی سی جیولری شاپ کے باہر روکی تھی ۔۔۔

علی خاور نے فردوس کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔

رونا بند کرو پلیز تم مجھے روتی ہوئی پسند ہو مگر اس طرح سے نہیں ۔۔۔۔

آنکھیں صاف کرو اپنی ۔۔۔پلیز فیری  ۔ ۔۔۔

علی خاور گاڑی سے اترا اور اس نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا ۔۔۔علی  نے ہاتھ بڑھایا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو جائے ۔۔۔

فردوس نے ایک نظر علی خاور کو دیکھا تھا اور دوسری نظر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو مگر فردوس نے  اسے نظر انداز کیا وہ خود ہی کھڑی ہوگئی اور اس نے علی خاور کو ایک غصے  بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔

اور ساتھ ہی ساتھ اس نے اس شوپ  کا نام پڑھا جہاں وہاں ا سے لے کر آیا تھا ۔۔۔وہ کوئی بہت اچھی اور بڑی سی جیولری شاپ تھی۔۔۔۔۔ 

فردوس اسے یونہی بے مقصد چند لمحے دیکھتی رہی دیکھتی رہی ۔۔اس کی آنکھیں دوبارہ سے نم ہونے لگی تھی ۔۔۔آپ کو پتہ ہے علی خاور کبھی کبھی مجھے آپ کی محبت اور جننوں سے  بہت زیادہ خوف محسوس ہونے لگتا ہے ۔۔۔

علی خاور فردوس  کی بات پر بے حد ما  یوسی سے مسکرایا ۔۔مجھے بھی ہوتا ہے فردوس کبھی کبھار اپنے عشق اور دیوانے پن سے  خوف محسوس مگر میں کیا کروں تمہاری محبت میرے  اندر تک  بس گئی ہے اور اسے  کوئی ختم نہیں کر سکتا کوئی نہیں نکال سکتا کوئی بھی نہیں  تم بھی نہیں ۔۔۔

وہ دونو ں اس جیو لری   شوپ  کے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔

علی خاور نے اپنے موبائل میں اس انگوٹھی کی تصویر پہلے ہی محفوظ کر لی تھی ۔۔۔۔اس کے بعد اسے توڑ دیا تھا ۔۔۔

ہمیں بالکل اسی طرح  کی انگوٹھی چاہیے ۔۔

بالکل اسی طریقے کی بناوٹ بھی ہو  ۔۔۔

جی جی بالکل یہ ہمارے پاس بالکل نیا ڈیزائن ہے ابھی آپ کو لا کر دکھاتا ہوں دوکان والے نے اس جیسی انگوٹھی اور اس کے علاوہ تین چار انگوٹھیا ں اور  علی خاور کو دکھائیں ۔۔۔

مگر مجبور ن  علی خاور کو وہی  انگوٹھی جو کہ اس نے توڑ دی تھی وہ لینی پڑی  بس اب کی بار فرق اتنا تھا کہ   وہ اب  عا مر کے نام کی انگوٹھی نہیں تھی ۔۔بلکے علی خاور  کی لی ہوئی تھی ۔۔۔

اس اسے پیک کر دیں ۔۔

فردوس نے  ایک نظر علی خاور کو دیکھا اور پھر اس انگوٹھی کو  وہ خاموش رہی تھی یوں لگ  رہا تھا جیسے سارے الفاظ ختم ہو گئے ہو وہ اس بات کو سمجھ چکی تھی کہ وہ شاید اس سے نہیں جیت پائے گی ۔۔۔وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی جبکہ وہ اب  میںن کاؤنٹر پر جا کر پیمنٹ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

فردوس چند لمحے اسے  اسی  طرح دیکھتی رہی جبکے علی  اب تیزی سے  فردوس کی جانب بڑھ کر اس کی طرف آ رہا تھا فردوس اب تیزی سے شاپ سے  باہر نکل چکی تھی ۔۔۔۔

فردوس نے خاموشی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور پھر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔

علی خاور  بھی تیزی سے گاڑی میں آ کر بیٹھا چند لمحے ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نہ کہ وہ پرانی والی انگوٹھی کہاں گئی جو عا مر نے تمہیں پہنائی تھی تو وہ میں نے جلا کر  توڑ کر گٹر میں ڈال دیں ۔۔۔

فردوس نے گردن موڑ کر علی   خاور کو دیکھا ۔۔۔

وہ اب شاپر میں سے وہ بوکس نکال رہا تھا ۔۔۔

اس میں سے علی نے انگوٹھی نکالیں پھر   اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا یوں جیسے کہہ رہا ہوں کہ اپنا ہاتھ آگے کرے اور تھام لے  ۔۔۔

فردوس نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے رکھے تھے جبکہ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کے اس کے گالوں کو گیلا کر رہے تھے ۔ 

علی خاو ر  نے نرمی سے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ باہر کی طرف نکالا اور پھر بہت ہی محبت کے ساتھ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی جو وہ اس کے لئے لے کر آیا تھا ۔۔وہ انگوٹھی جیسے ہی اس کے ہاتھ میں گئی تو اس کی دل کو اندر تک سکون مل گیا تھا اس چیز کا سکون کے اب علی خاور کی دی ہوئی  انگوٹھی اس کے ہاتھ میں ہے نہ ہی کے عامر یوسف کے نام کی ۔۔۔۔

وہ بہت محبت سے اس کے ہاتھ میں وہ چمکتی ہوئی انگوٹھی دیکھ رہا تھا جو کہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔

جاتے کے پورے  راستے فردوس بالکل خاموش بیٹھی رہی جب کہ علی اس سے کچھ نہ کچھ بات کر رہا تھا اور وہ بالکل خاموشی کے ساتھ گزرتے ہوئے راستے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

نہ جانے اس کے دماغ میں کیا کچھ چل رہا تھا رضا کی باتیں اس کی امی کے مشکلات ۔۔جو  بچپن سے لے کر آج تک جو کچھ بھی وہ دیکھتی آئی تھی رضا کا رویہ اس کے ساتھ کیسا رہا تھا کیسے وہ اس کے دیئے ہوئے گفٹس اپنے نوکرو  کو باٹھ دیتا تھا کیسے اسے وہ  بچپن سے دھتکار تا آیا تھا جب  وہ چھوٹی تھی جب وہ اس کے پاس اگر پانی کا گلاس بھی لے جاتی تھی تو وہ غصے سے کیسے اس کا پانی اس کے منہ پر مار کر گلاس توڑ دیتا تھا اس کی ہر ایک کڑوی بات ہر ایک کڑوی چیز اسے یاد آ رہی تھی

وہ یہ بات بہت اچھے طریقے سے جانتی تھی کہ رضا عامر  اور فردوس کی شادی کے لئے کبھی بھی کسی تیسرے کو بیچ میں آنے نہیں دیگا اور کبھی بھی کسی تیسرے کی وجہ سے یہ رشتہ خراب نہیں کرے گا کیونکہ وہ یہ بات بہت اچھے طریقے سے جانتی تھی کہ رضا کو اپنی اٹھی ہوئی ناک اور اٹھی ہوئی  گردن کتنی  زیادہ پسند ہے اس کا مغرور لہجہ اور اس کا  یہ مغرور رویہ جو  وہ بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی ۔۔اسے افسوس بھی تھا اس بات کا کہ اگر وہ لڑکا ہوتی تو شاید اس کا باپ کی محبت کو قبول کر لیتا مگر وہ ٹھہری ایک لڑکی ایک کمزور سی لڑکی شاید وہ اتنی زیادہ کمزور نہیں تھی لیکن رضا کے رویے نے اسے اس قدر کمزور بنا دیا تھا کے جیسے کانچ کی گڑیا ہو کوئی زور سے پھینکے تو ٹوٹ کرنا چور چور  ہو جائے ۔۔اس کے اندر مقابلہ 

کرنے کی ہمت نہیں تھی بغاوت کرنے کی ہمت نہیں تھی اپنے حق کے لۓ آواز   اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی بیٹی ہونے کا حق ادا کر پایا اپنی بیٹی ہونے کا حق ہی لے لے شاید قسمت میں دو چیزوں کے معاملے میں بہت ہی زیادہ بدنصیب رہی ہے ایک اس کے باپ کی محبت اور دوسرا اس کی من چاہی محبت ۔۔۔۔

سارے راستے وہ خاموشی کے ساتھ آنسو بہاتی رہی بہاتی رہی اور علی  خاور سارے راستے ا  سے یو  نیہی روتا ہوا دیکھتا رہا وہ اس سے بہت ساری باتیں کر رہا تھا تا کہ اس کا دل بہل جائے اور وہ چپ ہو جائے مگر وہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔

وہ اج ہار چکی تھی ہر ایک امید کھو چکی تھی ہر ایک امید ٹوٹ چکی تھی اور جب انسان کا دل اور امید ٹوٹتی ہے تو زبان بالکل خاموش ہو جاتی ہے اور اس کی  امید کو توڑنے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ تھا اس کی تمام خوشیوں کا گلا کاٹنے والا اس کی تمام خوشیوں کا دم نکالنے  والا اس کا اپنا باپ تھا ۔۔

علی خاور نے  یونیورسٹی کے دروازے سے تھوڑی سی دور اپنی گاڑی روکی ۔۔

گاڑی روکنے کے پندرہ سے بیس منٹ وہ دونوں خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے بیٹھے رہے دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہورہی تھی جبکہ علی خاور فردوس کے  یوں رونے سے پریشان ہو رہا تھاوہ خاموشی کے ساتھ بیٹھی ہوئی روئے جارہی تھی اور کچھ نہیں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

اچانک فردوس نے اپنے آنسو صاف کیے ۔۔۔۔

اور پھر گاڑی کا دروازہ کھولا ۔وہ گاڑی سے اتری نہیں تھی ۔۔اس نے ایک نظر علی خاور کو دیکھا یوں جیسے آخری بار دیکھ رہی ہو وہ بار بار علی خاور کا چہرہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں اس کے ہونٹ اس کی ناک اس کے بال اس کے ہاتھ اس کی گردن اس کا جسم ہر چیز یوں جیسے سب آخری بار دیکھ رہی ہو  اخری بار ۔۔۔۔

اسے دیکھنے کے بعد اس نے اچانک اپنی سبز آنکھیں نیچے کیں۔بہت سے  موٹے ٹوٹے انسوں اسکی انکھوں سے توڑ کر  گرے تھے ۔۔۔۔

فردوس نے  اپنے الٹے ہاتھ کی انگلی  دیکھی جہاں پر علی خاور کی پہنائی ہوئی وہ سیاہ رنگ والی موٹے پتھر کی بہت ہی پیاری سی انگوٹھی چمک رہی تھی ۔۔

فردوس نے ایک نظر علی خاور کو دیکھا اور پھر اس بہت ہی خوبصورت انگوٹھی کو  اتار کر ایک اخری نظر دیکھا ۔ اس انگوٹھی کو جس انگوٹھی کو پہناتے وقت علی خاور نے اس سے محبت  کا اقرار کیا تھا ۔۔

علی  نے فردوس کو جب  یہ انگوٹھی اتارتے ہوئے دیکھا تو علی خاور کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے لیا ہو اور کوئی پوری قوت سے اسے دبا رہا ہوں ۔۔۔۔اسے تکلیف ہو رہی تھی بہت زیادہ  تکلیف   علی خاور کو شاید پہلی بار ہاں  شاید پہلی بار اس قدر خوف محسوس ہوا ہوگا یوں جیسے کوئی چیز اس سے بہت دور جانے والی ہوں ۔بہت دور ۔۔۔۔وہ اس قدر خوف میں مبتلا ہوگیا تھا کے وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا ۔۔دونوں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی ۔۔

فردوس انگوٹھی اتار رہی تھی اور نہ جانے کون سے خوف ہاں شاید علی خاور کو اپنی محبت  کھو دینے کا خوف اس کے چاروں طرف گھوم رہا تھا وہ بے حد خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا  اتنا کہ وہ خوف کے مارے کچھ بول نہیں پایابس  پھٹی پھٹی آنکھوں سے فردوس کو وہ انگوٹھی اتارتے ہوئے دیکھ رہا تھا جو کہ اب اتری ہوئی اس کے ہاتھ میں رکھی تھی ۔۔۔ 

فردوس نے نرمی  سے اپنا  ہاتھ بڑھا کر بہت نرمی سے علی خاور کا ہاتھ تھاما ۔۔اور پھر اس کی مٹھی کو کھولا اور بہت ہی خاموشی کے ساتھ وہ انگوٹھی اس نے علی خاور کے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی تو علی خاور کو یوں لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو ۔۔۔۔۔ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا ہوں ۔۔۔

میں اس محبت کے سفر میں آپ کا ساتھ نہیں دے پاؤں گی علی خاور میں جس   جگہ کھڑی ہو اس جگہ کو صرف میں ہی جانتی ہوں میں جس طوفان سے گزر رہی ہو اس کی شدت کا اندازہ صرف اور صرف مجھے ہے  یوں سمجھ لیں کہ ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف ایک گہرا سمندر اور مجھے تیرنا نہیں آتا میں آپ کا ساتھ نہیں دے پاؤں گی علی  نہ  آج نہ کل نہ دس مہینے بعد نا دس سالوں کے بعد  نہ انے والی  زندگی میں اور نہ ہی کبھی۔۔۔۔

 شاید میں بیوفا ہوں ہاں میں بے وفا ہی تو ہو بے وفائی جو کر رہی ہو اپنے اس جملے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔

مگر مگر میں میں علی میں  بے وفا میں بے وفا نہیں ہوں علی خاور میں میں بے وفا نہیں ہوں ۔۔۔۔

وہ تیزی سے اس کی گاڑی سے اتری تھی جبکہ علی خاور سن سا  بیٹھا رہ گیا وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ کون سا طوفان آیا ہے اور اس طوفان میں اس کی کتنی خوشیاں ادھر سے ادھر بکھر گئے ہیں کتنی خوشیاں  بگھر کے اس کے دامن سے گر چکی ہیں ۔۔۔

وہ بلکل چپ  سناٹا سا نہ جانے کتنی دیر تک اپنی گاڑی میں بیٹھا رہا بیٹھا رہا ۔۔۔

اسے خیال ہی نہیں آیا کے  اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے نکلنا شروع ہوے وہ فردوس کی طرح نہیں رو رہا تھا وہ بس خاموش تھا اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کے ایک ہاتھ کی ہتھیلی میں وہ خوبصورت سیاہ رنگ کی انگوٹھی تھی جو کہ انکی پیاری سی  محبت کی کبھی نشانی ہوا کرتی تھی اور آج ان کے محبت کے ختم ہونے کی داستان بھی وہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

نہ جانے وہ کتنی دیر گاڑی میں بیٹھا رہا تھا نہ جانے کتنا وقت یوں ہی بیٹھے بیٹھے گزر چکا تھا وہ نہیں جانتا تھا ۔ اس کے موبائل پر کالز  آئے جا رہی تھی کبھی یاسر کی کال تو کبھی اس کی امی کی وقت نہ جانے کیا سے کیا ہو گیا تھا معلوم نہیں تھا  اور وہ یوں بیٹھا تھا جیسے سب کچھ ہار چکا ہوں سب کچھ کھو چکا ہوں ۔۔

علی وہی بیٹھا بیٹھا کافی دیر سے خاموشی کے ساتھ رو رہا تھا ۔۔اسے ہر چیز یاد آنے لگی شروع ہونے سے لے کر آج جو کچھ بھی ہوا وہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا کیسے فردوس  اس سے ملی تھی اور کیسے وہ اس سے جدا ہو گئی تھی۔۔۔ 

اچانک وہ یوں رونے لگتا ہے جیسے کوئی چھوٹا سا معصوم بچہ روتا ہے ۔۔۔اسے وہ سبز آنکھوں والی گڑیا  یاد آئیں جو بچپن میں غلطی سے اس سے  کھو گئی تھی اور جس کے پیچھے نہ جانے وہ کتنے دنو  تک روتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔

اسے پھر بھی ایک وقت میں صبر آ گیا تھا کیونکہ وہ گڑیا اس نے خودنہیں کھوئی تھی  وہ گڑیا کہیں گم ہو گئی تھی اور آج۔۔۔۔۔ آج  اتنے سالوں کے بعد جب وہ گڑیا اسے واپس ملیں اور اس گڑیا کو اس نے بہت قریب سے دیکھا اپنی محبت کے حصار میں دیکھا تو وہ پرانی گڑیا کا غم بالکل بھول چکا تھا اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس کے  پاس واپس آ  گئی ہو۔۔۔

کیونکہ اس کی محبت سچی تھی ۔اور وہ گڑیا اسے حاصل بھی ہو گئی تھی ۔۔  مگر ۔۔۔مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا قسمت نے ایک بار پھر سے وہ گڑیا اس سے الگ کر دی تھی ۔۔۔۔۔

وہ کسی معصوم سے بچے کی طرح بیٹھا ہوا روتا رہا تھا ۔۔ اسے خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ رو رہا ہے دل کی تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ آنسو تیزی سے اس کی آنکھوں سے نکل رہے تھے دل ٹوٹنے کا غم کیا ہوتا ہے اسے آج پتہ چلا تھا ۔۔۔

 دل ٹوٹنے کی آواز شاید نہ آتی ہو لیکن انسان اندر ہی اندر  چیخ چیخ کر روتا ہے چیخ چیخ کر۔۔۔۔ دل ٹوٹنے کی تکلیف شاید باہر سے نظر نہ آتی ہوں مگر وہ انسان کو اندر تک مار دیتی ہے ۔۔۔دونوں کے ساتھ آج یہی ہوا تھا ۔۔۔ان دونوں کی خوشیاں ان دونوں کی جذبات ان دونوں کی محبت آج بہت بری طرح سے ہار گئی تھی اور جیت گئی تو اس کے باپ کی انا اس کے باپ کی مغروریت  اس کے باپ کی ضد اور ہار گئی تھی علی اور  فردوس کی محبت ۔۔۔۔۔

"نہ جانے کیوں کسی تیسرے کو بن مانگے سب کچھ مل جاتا ہے"

اور جو  اپنی محبت کو حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں ان کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں اور آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی  اور ان کے دل میں اپنی محبت کو کھو دینے  کی تکلیف ہوتی ہے ساری  زندگی ۔ ۔۔۔ساری زندگی ۔۔۔۔۔۔

اُسے کہنا۔۔۔۔۔!

محبت میں کسی کو

اپنی عادت ڈال کر،

یوں چھوڑ دینے پر،

اچانک سے تعلق توڑ دینے پر،

یہاں قانون قاضی اور عدالت،

کچھ نہیں کہتے،

مگر یہ قتل ہوتا ہے،

اُسے کہنا میرے قاتل۔۔۔۔!

جُدائی کی کدالوں سے،

جو تم نے قبر کھودی تھی،

وہاں میں خاک کے نیچے،

ابھی تک سو نہیں پایا ،

یہ ایسا داغ ہے جس کو،

ابھی تک دھو نہیں پایا ،

اُسے کہنا!

اگر وہ لوٹ کر واپس کبھی آئے،

تو میری خاک کے ذروں پہ،

اک احسان تم کرنا،

دوبارہ پھر کسی انسان کی،

ہنستی ہوئی دُنیا کو،

نہ ویران تم کرنا،

اُسے کہنا!

وفا کے سر کو پتھر سے،

کبھی پھوڑا نہیں کرتے،

محبت ڈال کر دل میں،

اُسے توڑا نہیں کرتے،

کسی کا ہاتھ تھامو تو،

اُسے چھوڑا نہیں کرتے۔۔۔

نجانے کتنا وقت علی کو  یوں ہی بالکل ہاری ہوئی حالت میں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہو گیا تھا اس کے  موبائل پر ایک کے بعد ایک کال آ رہی تھی عصر  کے بعد مغرب بھی ہو چکی تھی اور مغرب کا بھی کافی وقت گزر چکا تھا لیکن وہ جو صبح سے نکلا ہوا تھا ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو لیے گاڑی میں بیٹھا روئے جا رہا تھا تھا یوں جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ہو نہ جانے اس کی ماں نے اس کے دوستوں نے پریشانی میں کتنی کالز  کی تھی ۔مگر اس نے کسی کا بھی کوئی جواب نہیں دیا وہ اس  حالت میں ہی نہیں تھا کہ کسی سے بات کر سکے ۔۔۔

عشاء کا وقت بھی  ہو چکا تھا اور اذانوں کی آواز ہوا میں گونج رہی تھی علی خاور کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کا موبائل ایک بار پھر سے بجنے  لگا اس کی ماں نے نہ جانے کتنی کالز کی تھی ۔۔

علی خاور نے ایک نظر موبائل اسکرین پر دیکھا تو امی کی بہت ساری  مس کالز آئی ہوئی تھی ۔

ان کے بے شمار میسج تھے جس میں وہ بار بار اس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کہاں ہیں ابھی تک گھر کیوں نہیں آیا سب ٹھیک تو ہے مگر اس نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا ایک بار پھر سے کال آنے لگی تو علی کی آنکھوں میں آنسو دوبارہ سے جمع ہونا شروع ہوئے اس نے اسی ٹوٹی ہوئی حالت میں اپنی ماں کا فون اٹھایا ۔۔۔

علی خاور نے فون اٹھاکر کان کے پاس لگایا ۔۔۔

ہیلو ۔۔۔علی کہاں ہو تم بیٹا کہاں ہو تم ؟؟

میں تمہیں صبح سے فون کرے جارہی ہوں تمہاری کوئی خبر ہی نہیں ہے تمہیں پتا ہے تمہاری ماں کس قدر پریشان ہو رہی ہے میرا دل گھبرا رہا تھا تمہاری  پریشانی میں۔۔۔

  تم اس طرح  کبھی بھی کوئی حرکت نہیں کرتے پھر آج کیا ہوگیا تمہیں تم اتنے  غیر ذمہ دار کیسے ہوگے  علی تم جانتے ہو تم میرا واحد  سہارا ہو  اس دنیا میں میرے جگر کا ٹکڑا ہو میرے ساتھ یوں مت کیا کرو بیٹا میں بہت پریشان ہو جاتی ہوں کہاں ہوں تم  گھر آؤں ۔۔۔

مہرین  صاحبہ کی آواز یوں تھی جیسے وہ ابھی رو رہی ہو وہ ان  کا اکلوتا بیٹا تھا جسے وہ ہمیشہ اپنے پاس سنبھال کر رکھتی  یوں جیسے کوئی بہت ہی  قیمتی شے ہو وہ اپنی واحد اولاد سے بہت  زیادہ محبت کرتی تھی حد سے زیادہ اور علی کی اس غیر ذمہ داری سے اور یوں غائب ہو جانے سے وہ ایک دم بے حد پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔۔

علی کچھ تو بولو میں کب سے تم سے بات کر رہی ہو بیٹا کہاں ہو تم اپنی ماں سے بات کروں میں پریشان ہو رہی ہوں میرے دل گھبرا رہا ہے علی ۔۔۔۔

وہ خاموشی سے اپنی ماں کو روتا ہوا ان کی پریشانی سے بھری ہوئی آواز کو سنتا رہا سنتا رہا نہ جانے کتنی دیر تک وہ اسے   فون پر پکارتی رہی پکارتی رہی جب کہ وہ کچھ نہیں بولا صرف ان کی روتی ہوئی آواز سنتا رہا ۔۔۔

امی۔۔۔۔

 بڑی دیر کے بعد علی خاور نے صرف اور صرف ایک لفظ کہا تھا اور وہ تھا۔۔۔ امی۔۔۔۔

 اس نے بہت ہی ٹوٹی ہوئی حالت میں اپنی ماں کو آواز دی  تو اس کی ماں جو اس کی آواز سننے کے لیے بے تاب تھی یوں اس کی اتنی بھاری اور روتی ہوئی آواز کو سن کر  جیسے تڑپ گئی تھی ایسے جیسے کوئی مچھلی کو پانی سے  باہر نکا ل دے ۔۔۔۔

علی کیا ہوا ہے بیٹا مجھے بتاؤ مجھے بتاؤ علی میرا دل بہت گھبرا رہا ہے میرے ساتھ مت کرو یہ۔۔۔کیا بات ہے مجھے بتاؤ ۔۔۔۔

امی ۔۔۔۔

اب کی بار وہ بولا تو یوں جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ہو ۔۔۔

امی میں امی ۔۔۔۔۔

 علی بولو  جلدی سے کیا بات ہے اپنی ماں کو بتاؤں  مجھے پریشان ہو  رہی ہو ۔اگر کسی مشکل میں ہو تو مجھے بتاؤ میں ابھی آ رہی ہو کہاں ہو تو مجھے جگہ بتاؤ جلدی کرو علی ۔۔

امی ۔۔۔۔. 

وہ کچھ نہیں بولا وہ خاموشی کے ساتھ امی امی کہتے ہوئے کسی چھوٹے سے معصوم سے بچے کی طرح روتا رہا جبکہ مہرین صاحبہ اس کی آواز سن کر ہی تڑپ گئی تھی نہ جانے اس کی کیا حالت ہو رہی ہوگی ۔۔۔۔

علی مجھے بتاؤ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے کہاں ہو تم  میں آ جاتی ہوں تمہارے پاس ۔۔۔

میں فردوس کو بہت چاہتا ہوں امی میں اسے بالکل نہیں بھول سکتا میں اسے نہیں بھول سکتا  وہ مجھے یوں نہیں چھوڑ سکتی ۔میں نے بہت محبت کی ہے اس سے وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی میں وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی وہ  بچے کی طرح  روتا رہا جبکہ ماہرین صاحبہ دوسری طرف اب  بالکل خاموش ہو چکی تھی ۔۔۔

آپ پوچھتی رہتی تھی نہ میں مجھ سے  کے علی  تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیوں نہیں سو رہے تم کیوں نہیں کھانا کھا رہے تم کیوں اتنے چپ چپ سے رہنے لگے ہو تمہارے ہونٹوں سے ہنسی کہاں غائب ہوگئی ہے تو اس کی یہی وجہ تھی امی فردوس  نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ محبت کے سفر میں میرا ساتھ نہیں دے پائے گی فردوس  کے بابا  نے اس کی زبردستی منگنی اپنے دوست کے بیٹے عا مر سے کروا دی ہے اور وہ میرے لئے اپنے باپ سے نہیں لڑ سکتی اس نے صاف کہا ہے مجھے ۔۔۔۔

یہ بات وہ مجھ سے شروع سے کہتی ہوئی آئی ہے مگر میں اسے نہیں بھول سکتا ۔۔آپ کو پتہ ہے اس نے آج  میری دی ہوئی  وہ انگوٹھی بھی میرے ہاتھ میں رکھ دی ہے ۔۔

 وہ اپنے ہاتھ کی مٹھی کو کھول کر وہ انگوٹھی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

 یہ۔۔۔ یہ انگوٹھی میں نے   اس کے پیارے سے ہاتھ میں پہنا کر  اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اور میری محبت اتنی طاقتور تھی کہ وہ ان تمام چیزوں کے باوجود بھی ہار گئی تھی امی ۔۔۔۔۔

مگر اب کی بار اس کے باپ نے ایسا وار کیا ہے کہ میرے پاس انہیں جواب دینے کے لیے کوئی اور ہتھیار بچا ہی نہیں ۔۔۔

میں جانتا ہوں امی وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے لیکن وہ اپنے باپ کے ڈر سے اپنی ماں کے ڈر  سے میرا ساتھ نہیں دے پا رہی ۔۔میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا میں ۔۔میں مر جاؤں گا ۔۔۔امی ۔۔۔۔

اللہ نہ کرے علی کیسی فضول سی باتیں کر رہے ہو ۔۔ تم بس جہاں بھی ہو صحیح سلامت گھر آجاؤ میرا دل تمہارے لیے تڑپ رہا ہے میرا دل گھبرا رہا ہے  میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں تمہارے لئے کتنی پریشان ہو  ۔۔۔

امی میں آج سب کچھ ہار گیا ہوں سب کچھ ہار گیا ہوں وہ مجھے کہہ رہی ہے کہ میں وفائی کر رہی ہو مگر میں بیوفا نہیں ہوں ۔۔مجھے پتا ہے  وہ بے وفائی کر رہی ہے مگر وہ بے وفا نہیں ہے ۔وہ بے وفا نہیں  بے وفا نہیں ہے وہ۔۔ میری محبت ہے علی خاور کی محبت کیوں کسی کو میری محبت نظر نہیں آرہی کیوں اس کے باپ نے اس کی منگنی کسی اور سے کر دی ہے جبکہ میں اسے بہت چاہتا ہوں ۔۔کیوں قسمت  نے میرے ساتھ یہ  گھٹیا کھیل کھیلا ہے ۔۔

میں فردوس کو نہیں بھول سکتا میں نہ آج نہ کل نہ دس سالوں بعد ۔۔۔

 وہ میرے اندر سے نہیں نکل سکتی  ۔۔۔

علی خاور کسی معصوم سے بچے کی طرح  روتے ہوئے اپنے دل کا حال اپنی ماں کو بتا رہا تھا ۔۔۔

علی دیکھو میری بات سنو میرے پیارے بیٹے میری جان میری بات سنو اپنی ماں کا کہنا مانو اور جہاں کہیں بھی ہو بیٹا سیدھے گھر آؤ ۔۔۔

 تمہاری حالت اس وقت ٹھیک   نہیں ہے اگر تم ڈرائیو کر رہے ہو تو فورا گاڑی سے اتر جاؤ میری جان میں یاسر کو فون کرتی ہوں وہ لے آئے گا تمہیں گھر یا مجھے بتاؤ میں وہاں پہنچ جاتی ہو اس حالت میں تم  ڈرائیو مت کرنا میری جان پلیز ۔اور تم بالکل بھی پریشان نہیں ہوں رونا بند کرو تم تو میرے بہت مضبوط بیٹے  ہو نا میرے بہت بہادر لڑکے ہو۔۔۔۔

تم تم بالکل پریشان مت ہو اگر اس کی منگنی ہو گئی ہے تو میں بات کروں گی اس کے باپ سے میں بات کروں گی اس کی ماں اگر  وہ کہیں گے تو  میں ہاتھ جوڑ لوں گی  پیر پکڑ لوں گی مگر میری جان تم گھر واپس آؤ پلیز میرا دل بہت زیادہ گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔

اس کے باپ نے اس کی منگنی کر دی ہے امی ۔۔۔

منگنی ہوتی ہے تو  ٹوٹ  بھی جاتی ہے  منگنی اتنی  بڑی چیز نہیں ہوتی میرا بچہ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ہم بہت محبت سے ان کی بیٹی مانگیں گے اور ان کی بیٹی کو بہت خوش رکھیں گے ۔۔وہ جو جو کہیں گے جو بولیں گے ہم وہ سب کریں گے تم بالکل بھی پریشان مت ہوں اپنی ماں کے اوپر تمہیں بھروسہ ہے نہ  جلدی سے میرے پاس آ جاؤ میری جان میری آنکھیں ترس رہی ہیں تمہارا چہرہ دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔

آپ سچ کہہ رہی ہیں نہ اس نے اپنی ماں سے یوں ہی باتیں کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔

ہاں بالکل سچ کہہ رہی ہوں اب تم سیدھا سیدھا میرے پاس آؤ علی ۔۔۔

آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ ہر حال میں فردوس کو میری زندگی میں شامل کر دیں  گئی ہر حال میں اس کے  ماں باپ سے بات کریں گی ۔۔۔

ہاں میری جان اپنی ماں کے اوپر بھروسہ رکھو تمہاری ماں تمہاری محبت کو تمہاری زندگی میں ضرور شامل کر دے گئی بس تم گھر آ جاؤ اپنی ماں پر بھروسہ رکھو ۔۔۔

ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں گھر ۔۔

شاباش میرا بیٹا جلدی سے آ جاؤ میں انتظار کر رہی ہے ۔۔۔

آتا ہوں علی نے  ان سے بات کرنے کے بعد اپنا موبائل کان سے ہٹایا اور  بند کیا ۔۔گاڑی اسٹارٹ کی  یونیورسٹی روڈ بہت زیادہ گاڑیوں سے نہیں بھرا ہوا تھا رات کا وقت اب  زیادہ ہو چکا تھا عشاء کی اذان ہوئے بھی  نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا ۔ ۔رات کا  وقت تھا  اور بڑی بڑی گاڑیاں اکثر اسی وقت پر سڑکوں پر چلا کرتی تھی بڑے بڑے کنٹینر جن کے اندر سامان بھرا  ہوتا تھا بڑے بڑے ٹینکر جن کے اندر پانی بھرا ہوتا تھا ۔اسی وقت گزرتے تھے ۔۔۔

علی خاور نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی  وہ اپنی گاڑی موڑ  رہا تھا ۔۔

سامنے والا روڈ بالکل خالی تھا بس کچھ بڑی بڑی سی گاڑیاں تھیں جو اس وقت اپنی راہ پر تھی علی خاور نے اپنا چہرہ صاف کیا اور اسٹیئرنگ وہیل  سنبھالا وہ اپنی گاڑی جیسے ہی روڈ کے اوپر لے کر آیا تھوڑے سے ہی فاصلے پر پہنچا ہوگا کے  دوسرے روڈ کی طرف سے  جو  اس کے گھر سے الٹے ہاتھ کی طرف مڑ تا تھا ۔۔وہ اپنی گاڑی لے کر وہاں سے نکل ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی اس کی گاڑی کے بلکل سامنے سے آتی ہوئی اسے  نظر آئیں ۔۔۔

اس گاڑی کی رفتار بے حد تیز تھی علی خاور کا دماغ اپنی  ہی پریشانیوں سے بے حد بھاری  ہو چکا تھا اس کے سر میں اور آنکھوں میں شدید درد ہو رہا تھا سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کی پیلی بتی  علی خاور کو مزید تکلیف دے رہی تھی اور اس گاڑی کی رفتار بھی بہت تیز تھی علی خاور  نے اپنی گاڑی سنبھالنے کیلئے دوسری طرف موڑنا چاہا تو دوسرے روڈ سے آتی ہوئی کار سے علی خاور کی گاڑی بہت بری طرح سے ٹکرائی اچانک علی  خاور کی آنکھوں کے سامنے سیاہ اندھیرا پھیل گیا ۔۔

اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ کیا ہوا ہے بس تکلیف کا احساس تھا جو اسے اس قدر محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں بہت زور سے بند کی تھی  ۔۔۔۔

اس کی گاڑی شاید الٹی پڑی تھی ۔۔اور سامنے سے آتی ہوئی گاڑی  کا  ایکسیڈنٹ بہت ھی خطرناک ہوا تھا ۔۔۔۔۔

یوں لگ رہا تھا جیسے ماحول میں ہر طرف اچانک  خاموشی ہی خاموشی چھا گئی ہو ۔۔۔۔

یوں جیسے ہر طرف سیاہی پھیل گئی ہو ۔۔۔۔علی خاور نے درد کی شدت سے اپنی آنکھیں بند کیں تو اندھیرا ایک بار پھر سے چھا گیا ۔۔۔ 

دیر رات کا وقت تھا  فردوس جب سے  یونیورسٹی سے آئی تھی تب سے ہی اپنے کمرے میں بند تھی  وہ کسی بھی چیز کے لیے باہر نہیں آئی تھی نہ کھانے کے لئے نہ پینے کے لئے وہ کب سے کمرے میں بند تھی اور روئے جارہی تھیں ۔۔

جبکہ آج رابیہ نے  اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا اس نے اپنا کمرہ لاک کر لیا تھا کہ کوئی اندرا ہی نہ پائے ۔۔

آج ان دونوں کے لیے ہی  ایک بہت ہی مشکل ترین دن تھا ۔دونوں ہی اپنے اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور اب شاید  انہیں ساری زندگی رونا تھا ۔۔۔۔۔۔

فردوس پانی پینے کے لئے اٹھی  وہ اس قدر تھک گئی تھی کہ اس کا حلق خشک ھونے لگا تھا وہ پانی پینے کے لئے کمرے سے باہر آئیں تو کمرے کے باہر ہی کھڑی رابیہ  اس کا انتظار کر  رہی تھی  ۔۔۔

فردوس نے ایک نظر رابیہ کو دیکھا ۔۔

اور رابیہ نے ایک نظر اسکو اور  اس کے ہاتھ میں خالی پانی کی بوتل کو اس کا چہرہ رونے کی وجہ سے بالکل سرخ ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں سوجھ گئی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔

یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی ۔۔۔

رابعہ نے اسے اوپر سے نیچے تک ایک نظر دیکھا ۔۔۔فردوس نے کوئی جواب نہیں دیا اسے یوں   محسوس ہونےلگا جسے پیاس کی شدت ایکدم کم ہو گئی ہے ۔۔۔۔

مجھے نیند آرہی ہے وہ ایک بار دوبارہ سے کمرہ بند کرنے لگیں تو رابیہ  نے تیزی سے  اس کے دروازے پر ہاتھ رکھ کے  اسے روکا ۔اور پھر خود اندر آئیں ۔۔۔

یہ سب کیا چل رہا ہے فردوس  کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی جب سے یونیورسٹی سے آئی ہوئی کمرے میں  بند ہو ۔۔۔

اور میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے نا اس لڑکے سے دور رہو تمہیں  کیوں  سمجھ نہیں آتی میری بات۔۔

 آج ڈرائیور نے بھی مجھے بتایا کہ تمہاری کوئی میٹنگ تھی اور اس ڈرائیور کو آکے یہ سب کچھ بتانے والا علی خاور   تھا آخر میں تمہیں کون سی زبان میں سمجھاؤں کیوں تم اپنی امی کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہو رابیہ کو فردوس کے اوپر غصہ آ گیا تھا ۔۔۔

کون سی  مشکلات امی کون سی مشکلات فردوس کے ہاتھ میں جو بوتل تھی اس نے زور سے بے بسی کے عالم میں زمین پر ماریں ۔۔۔

کون سی مشکلات کی بات کر رہی ہیں آپ؟؟؟

 صرف ہم  پر ہی  مشکلات نہیں ہوتی  امی اور بھی  دنیا میں لوگوں کی مشکلات  ہوتی  ہیں۔ اور آپ نے منع کردیا نہ کے  دور رہنا اس لڑکے  سے سو رہ تو رہی ہوں  دور اس سے اور کیا کرومیں  آپ نے کہا نا بھول  جاؤں تو بھلانے کی کوشش کر رہی ہوں اسے بھی اور اپنے آپ کو بھی  اور اس کی محبت کو بھی ۔۔

آپ نے کہا نہ خاموشی کے ساتھ منگنی کر لو تو کر لی میں نے آپ  نے کہا نہ کہ بھولا دوں اسے تو بھولا رہی ہو۔۔۔

 مار کر آ گی ہوں آج  اس کی محبت اس کے منہ پر یہ دیکھیں ہاتھ میرا نظر آ رہی ہے آپ کو اس کے نام کی انگوٹھی وہ انگوٹھی جو مجھے بے حد قیمتی لگتی تھی وہ انگوٹھی جو مجھے بے حد پیاری لگتی تھی وہ جسے میں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھی وہ انگوٹھی جسے میں نہ جانے کتنی بار چومتی  تھی کتنی بار وہ انگوٹھی جس کو پہن کر مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ علی خاور میرے اردگرد ہے آج وہ اتار کر میں نے مار دی اس کے منہ کے اوپر بے وفائی کر لی ہے میں نے امی اس سے اس کی محبت اس کے منہ پر دے ماری ہے میں نے وہ مجھے کہتا رہا کہتا رہا کہ نہیں نہیں  فردوس مت جاؤ مگر  میں میں تو اسے پتھر دل کی بن گئی تھی کے  کیا بتاؤں آج زندگی میں پہلی بار  مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں  رضا نامی شخص کی بیٹی ہوں جو کہ ایک پتھر دل انسان ہیں اور اس وقت جب میں یہ سب کچھ کر رہی تھی نہ تو واقعی لگ رہا تھا کہ ان کی ہی  بیٹی ہوں ۔۔۔۔ 

غلط کہہ رہی تھی اپ  امی کے  میرے اندر ہر چیز آپ کی ہے مگر سچ تو یہ ہے کے  میرے اندر جو پتھر والا دل ہے  یہ شاید میرے باپ کا آ گیا ہے ۔۔۔

دور کر دیا  ہے میں نے اسے اپنے آپ سے اس کی محبت کو دور کر دیا ہے اپنے وجود سے اور کیا چاہ رہی ہیں آپ   مجھسے  بتا دیں کیا میں  اپنی گردن کاٹ کے رکھ دو آپ لوگو ں  کے سامنے۔۔

 کیا فائدہ ایسے زندگی کا کیا فائدہ ہے امی۔ نہ اپنی مرضی سے رہ  سکتی ہوں نہ جی سکتی ہوں  نہ بول سکتی ہوں میں اپنے من پسند لوگوں سے مل نہیں سکتی ہو 

نہ اپنی پسند کا کھانا کھا سکتی ہوں نہ اپنی پسند سے کہیں جا سکتی ہوں نہ ہی اپنی پسند سے محبت کر سکتی ہو زندگی اس کا نام تو نہیں ہے ۔۔اور بھی دنیا میں کتنے لڑکے لڑکیاں  ہیں جو کہ اپنی پسندیدہ شخص سے  شادی کرنا چاہتے ہیں اپنے پسند کے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ان  میں میرا میرا شمار کیوں نہیں ہوتا ہے میں کیوں سب سے الگ ہوں ۔کیا مجھے اتنا بھی اختیار نہیں ہے کہ میں اپنے پسندیدہ لوگوں سے محبت کر سکوں انہیں اپنی زندگی میں شامل کر سکوں میری زندگی کے اوپر میرا کوئی اختیار نہیں امی ۔۔۔

بچپن سے لے کر آج تک آج تک جو آپ لوگو نے  بولا جو آپ نے بولا میں نے وہ  کیا کبھی بھی کسی چیز کے اوپر آپ کو منع نہیں کیا میں نے اور آج آج جب میں نے صرف ایک چیز کا کہا کہ میں اپنے من پسند شخص کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی ہو تو میرے ساتھ کیا ہوا   چند ایک میٹھی باتیں کر کے  مجھ سے میرے باپ نے  اس رشتے کے لئے  حامی بھر وائی اور پھر اس کے دو دن کے بعد  مجھے کسی اور کے نام کردیا کسی کو میرا خیال نہیں آیا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ فردوس تم کیا چاہتی ہو کیا  تم کسی کو پسند کرتی ہو۔۔۔

 نہیں میرے باپ نے ہمیشہ کی طرح اپنی کی ہمیشہ کی طرح اور افسوس  کہ آپ نے میرا ساتھ نہیں دیا ۔۔آپ کہتی تھی نہ کہ دور ہو جاؤ اس سے ہو گی میں اس   سے دور ۔۔ وہ کہتے ہوئے کسی معصوم سے بچے کی طرح روتے   ہوئے زمین پر بیٹھ گئی ۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ لیے جبکہ رابیہ نے تیزی سے کمرے کا دروازہ بند کیا ۔ ۔۔

وہ  اپنی  ٹوٹی ہوئی بیٹی کو دیکھ کر انتہائی افسوس میں گہر چکی تھی۔۔

  اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ رہے تھے مگر وہ اپنی بیٹی کی اس حالت کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔یہی ایک چیز تھی جو اس کو اندر ہی اندر کھائے جاتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے حق کے لئے کبھی بھی نہیں بول پائیں ۔۔ایک بار اس نے کوشش کی تھی ایک بار  اس نے رضا کے ساتھ بہت زیادہ بحث کی تھی تو بات اس حد تک بڑھ گئی تھی کے رضا نے رابیہ کو پورے کے پورے تین مہینے کے لیے اس کی ماں کے گھر بھیج دیا تھا ۔۔

اور ان تین ماہ میں وہ ایک بار بھی نہ اپنی بیوی کو کچھ پوچھنے کے لیے آیا اور نہ ہی اپنی بچیوں کو ۔۔۔

وہ خوف رابیہ کے دل میں اس قدر بیٹھ گیا کہ وہ بالکل چپ ہو گئی اس نے ہر چیز کو اپنی قسمت پہ اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیا ۔۔

جس طریقے سے وہ روتی رہی تھی وہ تڑپتی رہی تھی آج اسی طریقے سے اپنی بیٹی کو بھی روتا ہوا تڑپتا  ہوا دیکھ رہی تھی جیسے وہ اپنے لئے اس وقت کچھ نہیں  کر پائی تھی  بلکل اسی طرح اس وقت وہ  اپنی بیٹی کے لئے کچھ  نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔

فردوس۔۔۔۔۔

 رابیہ کچھ دیر کے بعد اس کے قریب آئیں ۔۔۔۔

یہ دیکھیں امی  آپ کے آگے ہاتھ جوڑ دیے ہیں آپ کہتی ہیں تو میں آپ کے پاؤں بھی پکڑ لیتی ہوں مگر اس وقت آپ پلیز پلیز   یہاں سے چلی جائیں ۔۔پلیز امی  مجھے اس وقت کسی سے کوئی بات نہیں کرنی پلیز  دیکھے میں نے آپ کے آگے ہاتھ جوڑے ہیں پلیز مجھے اس وقت اکیلا چھوڑ دیں ۔  اسی حال میں رہنے دیں پلیز ۔۔۔۔مجھے کوئی دلاسا  کوئی تسلی کچھ نہیں چاہیے مجھے صرف تنہائی چاہیے امی ۔۔۔سب کہتے ہیں اچھی بیٹی ہے فردوس اپکی تو بن گی اچھی بیٹی چھوڑ دی اپنی محبت میں نے ۔۔۔

فردوس نے اپنے ہاتھ جوڑ کر کہا تو رابیہ کچھ دیر  وہیں کھڑی کھڑی رونے لگی  مگر پھر تھوڑے  وقت کے بعد اس کے ماتھے پر پیار کرکے  وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔۔  

اگلے دو دن تک کے فردوس نے  اپنا موبائل بند ہی رکھا تھا اس نے نہ ہی تو کسی سے رابطہ کیا تھا  نہ ہی  کسی سے بات کی تھی ۔۔

اسے اس چیز کی بھی خبر نہیں تھی کہ علی خاور کا اتنا برا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہے۔۔۔

 دو دن تک وہ اپنی آپ کو ہر لحاظ سے مصروف رکھ رہی تھی ۔ تاکہ اس کے دماغ میں علی کا  کسی قسم کا کوئی خیال نہ آئے مگر ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اسے بھول جائے وہ تو اسے ہر حال میں یاد رہتا تھا ۔۔۔۔

نور کی نہ جانے کتنی ساری کالز  تھی جو کہ فردوس کے  موبائل پر آ رہی تھی لیکن اس نے موبائل بند رکھا تھا۔۔

 نور نے مجبورن رابیہ کے  نمبر پر فون کیا جس پر رابیا نے فردوس کو کہا کہ نور اس سے بات کرنا چاہتی ہے مگر اس نے  فون پر بھی نور سے کوئی بات نہیں کی وہ ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی کبھی وہ واش روم چلی جاتی تو کبھی سونے کا بہانہ کر دیتی  کبھی یہ کہہ دیتی کہ وہ خود ہی بات کر لے گی ۔۔۔۔

 جب کے  نور فردوس کو  علی کا بتانا چاہتی تھی اور فردوس  سمجھ رہی تھی کہ وہ علی کے بارے میں بات کرے گی ۔۔

کہ وہ علی خاور  کے ساتھ یہ سب نا کرے فردوس اس وقت ان  حالات میں نہیں تھی کے  نورسے کسی بھی قسم کی کوئی  بات کرے ۔۔۔۔۔

نور  کو اسکے پر شدید غصہ آ رہا تھا ۔۔۔۔

دوسری طرف نور  سمجھ چکی تھی کہ ان دونوں کے درمیان ضرور کوئی بڑی لڑائی ہوئی ہے ۔جب کے نور نے علی کو اس کی منگنی  کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کی منگنی اس کی دوست  کے بھائی سی ہو گئی ہے بس یہی وہ دن تھا جب سے علی  بالکل خاموش ہو گیا تھا ۔  نور کو اس کی یہ حالت  دیکھ کر بہت افسوس ہوتا تھا دوسری طرف یاسر  بھی بے حد پریشان تھا وہ دو دن سے علی اور مہرین صاحبہ  کے ساتھ ہسپتال میں ہی تھا ۔۔۔۔

تیسرے روز پیپر تھا فردوس آج  بھی یونیورسٹی لیٹ ہی پہنچی تھی مگر اب کی بار اس کے دل میں یہ چاہ نہیں تھی کہ وہ علی خاور کو ملے گی بس وہ اسے ایک نظر  چپکے سے ہی سہی لیکن دیکھیں ضرور لے گی ۔۔ وہ  بس پیپر دینے آئی تھی ۔۔۔آج آخری پیپر  ہونے والا تھا پھر یونیورسٹی آنا جانا بند ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔

نور فردوس سے  صبح سے ہی بات کرنا چاہ رہی تھی مگر اسے موقع  نہیں مل رہا تھا اور پھر پیپر کے دوران تو وہ اس سے بات کر ہی نہیں سکتی تھی مگر جیسے ہی پیپر  ختم ہوا تھا ۔۔

نور تیزی سے فردوس کی طرف بھاگتی ہوئی گی جب کہ فردوس تیز تیز  قدم اٹھاتی ہوں یونیورسٹی کے دروازے سے نکل رہی تھی ۔۔۔

فردوس۔۔۔۔ فردوس۔

میری بات  سنو روک جاؤ ۔۔۔۔

فردوس ۔۔۔نور نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔۔۔۔۔ 

 تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔۔

کر کیا رہی ہو تم؟؟؟

 نظر انداز کر رہی ہو تم مجھے  ۔۔۔۔۔

کبھی مجھے کبھی علی  کو ۔۔۔۔کر کیا رہی ہو تم سب کے ساتھ ؟؟

دو دن سے تمہیں علی کی کوئی  خبر ہے  کہ وہ کیسا ہے ؟؟؟

 تم کر کیا رہی ہو مجھے بتاؤ گی ۔۔؟؟

ہم سب یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ تم دونو ں  ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہو اور  ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہو ۔۔۔

تم مجھے بتاؤ یہ سب کچھ کیا ہے ۔۔چند دنو ں پہلے  تمہاری منگنی آمنہ کے  بھائی عا مر سے ہوگی ۔ اور تم نے مجھے اس بات کے بارے میں بتایا بھی نہیں مجھے آمنہ نے بتایا ہے اور تمہیں پتا ہے علی خاور کی حالت  کیا  ہے ۔۔۔؟؟؟

مجھے نہیں سنا کہ وہ کس حال میں ہے ۔۔

کیوں فردوس ؟؟؟؟کیا ہو گیا ہے تم کو ؟؟؟

 اتنی بدل کیسی گئی ہو ؟؟کیوں تمہیں اس کا  حال معلوم نہیں کرنا ۔میں صبح سے بیوقوفوں کی طرح تمہارے  آگے پیچھے گھوم رہی ہوں کہ تم سے بات ہو جائے بے وقوف کی طرح میں تمہارے نمبر پر کبھی تمہاری امی کے نمبر پر فون کر رہی ہو کہ تمہیں علی کی حالت بتاؤ اور تم ہو کے اتنی بے حس  بنی ہوئی ہو جس کی کوئی حد نہیں  اتنی پتھر دل نہیں ہو تم کیا ہو گیا ہے تمہیں نور نے فردوس کے دونوں بازو کو زور سے پکڑ کر کہا ۔۔۔۔۔

نور تم جاننا چاہتی ہوں نہ کہ مجھے کیا ہوا ہے  آج تم سن لو آج میں تمہیں  ساری حقیقت بتاتی ہوں۔۔

نور اسے خاموشی کے ساتھ دیکھتی رہی دیکھتی رہی فردوس کی آنکھیں آہستہ آہستہ سے بھگنے لگی   تم پوچھ رہی ہوں نہ مجھ سے کے  مجھے ہوا کیا ہے ۔۔

تو آج تم بھی جان  لو ۔۔

 بچپن سے لے کر آج تک   میں تم سے اپنی بابا کو لے کر جھوٹ بولتی آ رہی ہو۔۔

بچپن  میں ہر کوئی مجھ سے یہ پوچھا تھا نہ کہ تمہارے بابا کیوں نہیں آتے   تمہیں اسکول سے  لینے اور  چھوڑنے کالج میں بھی یہی  سوال ہوتا تھا۔۔۔

 تم نے بھی مجھ سے ایک بار پوچھا تھا تو میں نے تمہیں جھوٹ کہا تھا کہ وہ مصروف ہوتے ہیں ۔۔

جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنی بابا کو ایک نظر پسند نہیں ہوں  کیونکہ وہ لڑکا چاہیے تھا   اور میں لڑکی پیدا ہو گی   یہی وجہ ہے کہ وہ مجھ سے بچپن سے لے کر آج تک بہت دور ہیں اور میرے لڑکی ہونے کی وجہ سے وہ  آج تک نفرت کرتے آے  ہیں اور اسی نفرت کو انہوں  نے مزید برقرار رکھا ہے اور اپنے دوست کے بیٹے  سے منگنی کر دی میری  جس میں میری  رضامندی نہیں تھی ۔۔ 

اور تم جانتی ہو کہ میں کس طرح کی لڑکی ہو تم تو مجھے بچپن سے دیکھتی ای ہو تمہیں  پتا کہ میں کتنی زیادہ ڈرپوک ہو اور مجھے ڈرپوک اور بزدل بنانے والے کوئی اور نہیں میرے اپنے بابا ہیں  ۔۔۔۔

میرے اندر نہیں ہے اتنی ہمت   علی کے بارے میں بات کرنے کی   بابا کے خلاف کھڑے ہونے کی ۔۔۔۔۔میں بھی تکلیف میں ہوں نور مجھ پر بھی تھوڑا افسوس کرو ۔۔۔ میں اور علی دونوں ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں مگر افسوس کہ ہم ۔کچھ نہیں کر سکتے اپنی محبت کو بچانے کیلئے ۔۔

علی بہت بہادر ھے میں جانتی ہوں کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کریگا لیکن میں اپنے باپ سے غداری نہیں کر سکتی اور نہ ہی میری اتنی  ہمت ہے کہ میں ان کے خلاف کھڑی ہوجائے ۔۔۔

میں خود روزانہ مر رہی ہوں نور اور تقلیف اتنی ہے کہ  تمہیں کیا بتاؤں ۔۔ مگر میں نے اسے اپنا نصیب اپنی قسمت سمجھ کر قبول کرلیا ہے ۔۔

فردوس اب کی بار رونے لگی تھی ۔۔۔

نور بس خاموشی کے ساتھ اس اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔۔۔اس کے چہرے پر بھی وہی تکلیف تھی جو علی  کے چہرے پر نظر آتی تھی ۔۔۔فردوس  تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کے پاس جا چکی تھی جب کہ نور وہی کھڑی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ فردوس کو علی کی  خبر کیسے دے  ۔۔۔

چند لمحوں تک نور  کھڑی رہی جبکہ فردوس گاڑی میں بیٹھ گئی تھی اور اس کی گاڑی سٹارٹ ہوی تو  نور کو جیسے ہوش آیا مگر بہت دیر ھو چکی تھی اس کی گاڑی نکل چکی تھی ۔۔۔۔۔۔

نور نے بھی  طے کرلیا تھا کہ وہ ہر حال میں فردوس کو علی  کا حال بتا کر ہی رہے گی اور اس کی حالت معلوم ہونے کے بعد فردوس علی  سے ملنے کے لیے ضرور جائے گی ۔۔

نور بھی فردوس کی گاڑی کے  پیچھے  گئی فردوس کی گاڑی اس کے گھر کے دروازے پر رکی تو نور بھی  کچھ دیر کے بعد اس کے پاس گھر تک پہنچ گئی   فردوس ا  بھی گھر کے مین ڈور  سے اندر  جا رہی تھی کہ نور  پیچھے  سے دوڑتی ہوئی آئی ۔۔۔

فردوس نے اسے ایک نظر پلٹ کر    دیکھا تھا  ۔۔۔۔۔۔

دونوں کی نظریں لمحے بھر کے لئے ملی تھی اور پھروہ دونو ں ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگیں  ۔۔ ۔۔۔۔

اندر چلو فردوس تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں نور نے کہا ۔۔۔

نور اسے پیار کرتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ ۔ 

وہ کمرے میں آئی تو رابیہ کی نظر ان دونوں پر پڑی ان دونوں کی شکلوں کو دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ دونوں ہی روی ہوں  ۔۔۔

ارے نور بیٹا کسی ہو اتنے  دنوں بعد  تمہارا یہاں پہ آنا ہوا سب ٹھیک تو ہے اسے دیکھتے ہوئے بڑی محبت سے رابیہ نے کہا جبکے رابیہ کے چہرے پر فردوس   کی شکل دیکھ کر پریشانی تھی ۔۔

اللہ کا شکر ہے انٹی   میں بالکل ٹھیک ہوں آپ بتائیں آپ کیسی ہیں ۔ ؟؟

میں بھی بالکل ٹھیک ہوں او نہ تم اندر آ و  آرام سے بیٹھو ۔۔۔ فردوس کے پاس فردوس ۔۔۔

رابیہ نے کہا تو فردوس اسے تیزی سے اپنے کمرے میں لے  گئی ۔۔۔۔

وہ دونوں بیڈ پر ایک دوسرے کے آمنے  سامنے بیٹھی تھی جبکہ رابیہ  دونوں کے لیے کچھ لینے کے لیے کچن میں گئی تھی   ۔۔۔۔

یہ تم نے اپنا کیا حال بنایا ہوا ہے فردوس اپنی  شکل دیکھی ہے تم نے کتنا اترا ہوا اور بے رونق چہرہ لگ  رہا ہے تمہارا یوں لگ رہا ہے جیسے بیمار بیمار سی  ہو  کیا کر لیا ہے تم دونوں نے اپنا حال تم لوگوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

فردوس نور کی بات پر بہت ہی بے بسی سے مسکرائ ۔۔۔

مجھے پتا ہے فردوس تم بھی علی خاور سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔

فردوس نے  ایک نظر نور کو دیکھا ۔ ۔۔

ہاں کرتی ہوں بہت بہت   محبت کرتی ہوں ۔۔

اور علی  کی جگہ میں اپنی زندگی میں میرے دل میں کوئی بھی نہیں لے سکتا مگر شاید میرا نصیب  یہی ہے میرے نصیب میں علی خاور کی صرف محبت ہے علی خاور کا ساتھ نہیں ۔۔۔۔

کیا۔۔ کیا تمہاری بات ہوئی علی سے کیسا ہے وہ ۔۔۔؟؟فردوس نے اپنے دل میں موجود وہ سوال  پوچھا  یوں جیسے دل میں گہری  حسرت رکھتی ہوں اس کی خیریت معلوم کرنے کی ۔۔۔

نور اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی اس کے لہجے میں بھری ہوئی محبت  کی  شدت اتنی  تھی کے نور کی آنکھوں میں تیزی سے آنسو آگئے ۔۔۔نور نے 

وہیں بیٹھے بیٹھے فردوس کے دونوں ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑے  یوں جیسے اپنی اندر اس کو سچ بتانے کی ہمت جمع کر رہی ہو ۔۔۔۔

تم نے مجھے بتایا نہیں نور تمہاری اس  سے بات ہوئی۔۔

 کیسا ہے وہ ؟؟؟ٹھیک تو ہے نا ۔۔۔۔؟؟؟؟

نور کی آنکھوں میں مزید تیزی سے آنسو آنا شروع ہوگئے اور وہ وہی بچوں کی طرح بیٹھی ہوئی اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اپنا چہرہ جھکا کر  پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔

کیا ہوا نور تم  اس طرح سے کیوں رو رہی ہو تم نے مجھے بتایا نہیں کہ۔ وہ  کیسا ہے؟؟؟ تمہاری بات ہوئی اس سے؟؟؟ فردوسں اس کا  چہرہ دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ نور صرف اور صرف روئے جارہی تھیں ۔۔۔۔۔

 نور ۔۔۔ایک نظر فردوس نے اس کا  چہرا دیکھا  وہ بہت  پریشان تھی ۔۔۔

کیا ہوا ہے نور کوئی مسئلہ ہے کیا کوئی بات ہو گئی ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے تمہارے اس طرح رونے سے علی کیسا ہے مجھے جلدی سے بتاو ٹھیک ہے نا اب کی بار وہ بھی رونے لگی تھی ۔۔نور میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں تم کیوں خاموش بیٹھی  ہو میرا  علی کیسا ہے ٹھیک تو ہے نا وہ ۔۔۔

فردوس جس دن تم دونوں کی ملاقات ہوئی تھی اس کی رات کو علی خاور  کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا  وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے فردوس اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے میں تمہیں کافی دنو ں سے  کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی کبھی تمہاری امی کے نمبر پر کبھی تمہارے نمبر پر  یونیورسٹی میں بھی تم سے بات کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر تم نے نہیں سنا فردوس  تم نے نہیں سنا ۔۔۔

وہ  بہت بری حالت میں ہے بہت زخمی ہے اسے بہت چوٹیں آئی ہیں اور سب سے بڑی چوٹ ا  سے تم نے دی ہے ۔۔۔۔

فردوس کا چہرہ اچانک   زرد ہو گیا  تھا اس کے چہرے کو دیکھ کر یوں لگتا کہ جیسے کوئی  بنجر سی زمین ہو۔ اسے  دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ  سالوں سے مسکرائ نہ ہو ۔۔۔۔

فردوس کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو جیسے کسی نے اس کا دل  ٹرین کی پٹری کے نیچے دے دیا ہو ۔۔۔

وہ حیرانی سے  بہت  حیرانی سے  نور کا  روتا ہوا چہرہ دیکھتی رہی جبکہ اس کی آنکھوں سے خود بھی آنسو ٹپک رہے تھے ۔۔۔۔۔

کیا ہوا فردوس کچھ تو کہو پلیز ۔۔۔۔

نور نے اس کے دونوں بازو کو پکڑ کر زور سے ہلایا ۔۔۔

فردوس۔۔۔فردوس۔۔۔۔۔ کچھ تو بولو ۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔فردوس نے بہت آہستہ سی آواز میں کہا جیسے صدمے میں ہو نہیں نہیں علی کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔فردوس تیزی سے کھڑی ہوئی ۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔

فردوس ہوش میں اؤ ۔۔نور بھی کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔

مجھے مجھے میرے میرے علی علی کے پاس پاس جانا ہے ابھی ابھی اسی وقت ۔۔۔۔وہ تیزی سے بھاگنے لگی تو دروازے سے آتی ہوئی رابیہ سے ٹکرائی جس کے ہاتھ میں سامان سے بھری ٹرے تھی جو اب نیچے جا گری تھی ۔۔۔

فردوس رابیہ نے اسے دیکھا وہ رو رہی تھی زور زور سے ۔۔فردوس کیا ہوا ہے بیٹا ۔۔۔۔

مجھے مجھے جانا ہے ابھی ۔۔۔۔فردوس نے کہا ۔۔اور وہ پاگلو کی  طرح بھاگنے لگی ۔۔۔۔۔

فردوس رابیہ اس کے پیچھے جانے لگی ۔ ۔۔۔۔۔

روک جاؤ  فردوس ۔۔۔۔

نہیں نہیں ۔۔۔۔۔

فردوس کہاں جا رہی ہو ۔۔۔

رابیہ  بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔۔۔

نہیں انٹی پلیز پلیز مت روکیں اسے جانے دیں ۔۔پلیز انٹی علی کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ۔۔جانے دیں اسے پلیز پلیز ۔۔۔۔نور بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔۔۔

جبکے رابیہ اپنی اکلوتی بیٹی کو یوں پاگلوں  کی طرح روتا ہوا بھاگتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔وہ خود بھی اس دیوانے لڑکے کی طرح اس کی محبت میں دیوانی ہو گئی تھی ۔۔۔۔

کا مجھے اظہار تو کر لینے دو

پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو

تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات

آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو

اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو

اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو

عمر بھر میں نے تراشے ہیں جو پتھر کے صنم

ان سے تم پیار کا اظہار تو کر

 لینے دو

اپنی ہستی کو لٹایا ہے غزلؔ جس کے لئے

آج اس شخص کا دیدار تو کر لینے دو

فردوس کو اس وقت کسی چیز کا ہوش نہیں تھا اسے بس جلد از جلد علی خاور کے پاس پہنچنا تھا  وہ دیوانوں کی طرح گیٹ کے باہر بھاگ رہی تھی اور اس کے پیچھے نور جب کہ رابیہ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اسے کسی دیوانی  کی طرح  دیکھ رہی تھی جو کہ اپنی محبت کو  دیکھنے کے لئے یوں اس قدر بے قرار تھی نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا فردوس یہ سوچتے ہوئے دیوانہ وار بھاگ  رہی تھی ۔۔۔

نور کو فردوس کیلئے حد سے زیادہ پریشانی تھی کیونکہ فردوس سارے راستے روتے ہوئے آئی تھی  اس نے گاڑی میں ہی نور سے کمرہ نمبر اور علی خاور  کی حالت پوچھ لی  تھی جسے جان کر وہ اور زیادہ بے چین اور بے قرار ہو گئی تھی اور اس کی  پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا  ہاسپٹل کے دروازے کے پاس وہ جیسے ہی پہنچی  تو ایک بار پھر سے فردوس دیوانوں کی طرح بھاگ رہی تھی اس بار نور نے  اسے  بالکل نہیں روکا ۔۔۔

 کمرہ نمبر اسے پہلے ہی معلوم تھا وہ بس کمرے کا دروازہ تیزی سے کھولتی  ہوئی اندر آئی تو کمرہ ایک دم خالی تھا کمرے میں کوئی نہیں تھا۔  ۔۔

  صرف ایک سفید بیڈ کے اوپر سفید پٹیوں میں لپٹا ہوا علی خاور تھا  اس کے ہاتھ پر پیروں پر چہرے پر ماتھے پر ہر جگہ سفید  پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جن میں سے خون کی بوندیں  جذب ہونے کی وجہ سے پٹی کا کچھ حصہ سرخ ہو رہا تھا۔ ۔ فردوس کو علی خاور کو  اس حال میں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پیر کسی بھاری وزن کی وجہ سے اٹھ نہ پا رہے ہوں  اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کبھی چل نہیں پائے گی اسے دیکھ کر فردوس  کی آنکھوں میں مزید آنسو  جمع ہوگئے  وہ وہیں کھڑے کھڑے اپنے آپ کو ملامت کر رہی تھی کہ یہ سب کچھ اس کی وجہ سے ہی ہوا ہے وہی ذمہ دار ہے علی خاور کی اس حالت کی وہ جانتی تھی کہ وہ گنہگار ہے علی کی اس کی محبت کی ۔   

وہ چند لمحے وہی کمرے کے اندر  کھڑی رہی مگر وہ  اس کے بیڈ سے دور تھی۔ نہ جانے کتنی دیر تک فردوس  وہیں کھڑی آنسو بہاتی رہی آنسو بہاتی رہی جبکہ نور اسے  دروازے سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

 کچھ دیر پہلے ہی ڈاکٹر علی خاور کا چیک کر کے گیے  تھے ا ور اس کی ماں اور یاسر ڈاکٹر سے کچھ پوچھنے کے لیے گئے تھے اور علی خاور اپنے کمرے میں بے ہوشی کی حالت میں تھا۔   ۔۔ 

 فردوس نے اپنا گیلا چہرہ اٹھا کر علی خاور کے چہرے کو دیکھا جہاں پر جگہ جگہ چوٹوں کے نشان تھے  زندگی سے بھرپور لڑکا آج کس حال میں تھا اسے دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا تھا۔۔۔علی کی اس حالت کی ذمے دار آج فردوس تھی ۔۔

 فردوس نہ   جانے کتنی دیر اپنے چہرے پر بچوں کی طرح ہاتھ رکھ کے روتی رہی روتی رہی نہ جانے کیوں اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ علی خاور کے پاس جا کر کھڑی  ہو جائے اور محبت سے اس کا ہاتھ تھام لے  ۔۔۔۔

   کچھ وقت  پہلے تک تو وہ بہت زیادہ بے چین تھی وہ بس  تیزی سے علی خاور کے پاس پہنچنا چاہتی تھی اور جب وہ اس کے سامنے تھا تو اس کے پاؤں اس کی طرف بڑھ نہیں رہے تھے  اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پاؤں میں زنجیر ہو۔۔ 

 مگر فردوس ہمت کر کے اٹھی  وہ اپنی محبت کو اس حال میں کیسے چھوڑ سکتی تھی جسے وہ بے حد چاہتی تھی  فردوس ہمت کر کے اٹھی اور آہستہ آہستہ قدموں کو اس نے   علی خاور کی جانب بڑھایا ۔ 

وہ اب اس کے بلکل پاس تھی ۔اس کے بہت قریب وہ بیڈ پر بیٹھ  گی اس نے علی کو دیکھا بہت غور سے   اس کے دونوں ہاتھوں پر   پٹیاں بندھی ہوئی تھی اور ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔

 فردوس اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھی جبکہ آنسو کی وجہ سے علی خاور کا چہرہ اسے بہت زیادہ دھند لا نظر  آرہا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنا چہرہ صاف کیا  تاکہ وہ اسے مزید صحیح طریقے سے دیکھ پائے ۔۔ ۔۔

 آنسو پوچھنے کے بعد اب اس کا پیارا سا چہرہ نظر آ رہا تھا لیکن اس کے  چہرے پر بہت ساری خراش اور چوٹوں کے نشان تھے  علی کا چہرہ دیکھنے میں بالکل زرد سا لگ رہا تھا یوں جیسے زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔۔۔   

 فردوس آہستہ سے اس کے قریب بیٹھی اور اس نے نرمی سے اس  کے پٹی  بندھے والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اس کی انگلیوں تک پٹیاں بندھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

 مجھے ۔۔۔مجھے ۔۔معاف کردو۔۔۔علی ۔۔۔

 میری وجہ سے تمہاری یہ  حالت ہے ۔۔تم کہاں تھے اسے جیسے اب ہو گئے ہو  ۔۔

 کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنا وہ بھی میری وجہ سے میں تمہاری گنہگار ہوں میں اس بات کو مانتی ہوں مجھے معاف کردو علی  پلیز مجھے معاف کر دو  ایک آخری موقع دے دو اپنی فیری  کو اور جلدی سے ٹھیک ہو کر میرے پاس آ جاؤ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں  کہ آئندہ تمہارے ساتھ اس طرح سے کبھی رویہ اختیار نہیں کروں گی میں وعدہ کرتی ہوں  کہ میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی میں وعدہ کرتی ہوں علی  کہ میں تمہارے لئے خود اپنے با با سے بات کروں گی  میں وعدہ کرتی ہوں۔  ۔۔۔

 وہ اپنے ہاتھوں میں نرمی سے اس کے ہاتھ  تھامے انہیں  پکڑے ہوئے کسی معصوم سے بچے کی طرح بولے جا رہی تھی اور روئے جارہی تھیں۔   ۔۔

مجھے معاف کردو علی میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہوگئی مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔

 میں تو بس  بس ایک بہت عام سی لڑکی ہوں جو کہ اپنے حق کے لئے اپنی محبت کیلئے کسی سے نہیں لڑ سکتی کسی سے بات نہیں کر سکتی  میرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے  تم نے غلط لڑکی سے محبت کر لی تمیں تو  اپنی طرح کی  بہادر لڑکی  سے محبت کرنی چاہیے تھی جو تمہارا ساتھ دے سکے تمہاری طرح لوگوں کے آگے کھڑی ہو سکیں تمہیں مجھ جیسی کمزور لڑکی سے محبت نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔

 دیکھا نہ تم نے کیا ہوا  میں نے تمہیں پہلے بھی بہت بار سمجھایا تھا کہ ہماری محبت  میں صرف اور صرف تکلیف ہے ہماری محبت کی شروعات ایک بنجر زمین سے ہوئی  ہے تو پھر ہم اپنی بنجر زمین پر  گلاب کے پھول اگنے  کی تمنا کیسے لگا سکتے ہیں۔  ۔۔

میری وجہ سے آج تمہاری یہ حالت ہے ۔

 اور تمہای امی وہ مجھ سے کتنی زیادہ  ناراض ہو گئی کہ میں نے ان کی اولاد کو اتنی  تکلیف پہنچائی ہے ان کی اکلوتی اولاد کو جس سے وہ بہت محبت کرتی ہیں اسے میں آج کس حال میں لے ای ہوں میں   میں۔ آپ دونوں کی گنہگار ہوں  مجھے معاف کردو علی۔۔ مجھے معاف کر دو میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ کبھی تمیں شکایت  کا کوئی موقع نہیں دوں گی۔ ۔

 علی تم  کچھ کیوں نہیں بول رہے  کچھ بولو نا صرف میرا نام لے لو ایک بار  صرف ایک بات کہوں فردوس  صرف ایک بار  کہوں میری فیری   پلیز علی  صرف ایک بار کہو میرے لئے پلیز۔ ۔۔۔۔

 وہ علی خاور کا چہرہ  اپنے ہاتھوں میں لیے نرمی کے ساتھ اس کے چہرے  کو پکڑے   ہوے  بچوں کی طرح روتی   رہی روتی رہی  ۔۔۔ اسے جب ہوش آیا جب کسی نے اس  کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔

 آنسو ایک دم سے اس کی  آنکھوں میں تھم  سے گئے تھے وہ جانتی تھی کہ پیچھے کون کھڑا ہوگا۔ ۔وہ آج   اس عورت کی بھی گنہگار تھی۔۔ ۔۔۔

 مگر فردوس  کے اندر  علی خاور کی امی سے اس وقت نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ اسی کی وجہ سے ان کی اولاد آج اس حال میں تھی اس تکلیف میں تھی ۔۔۔ 

 فردوس۔۔۔

 پیچھے سے کسی کی ایک  بہت نرم سی بہت محبت بھری آواز سنائی دی یوں جیسے اس آواز میں بہت شفقت ہوں یوں جیسے اس کی ماں اسے پکارا کرتی ہو ۔۔

فردوس ۔۔۔

آواز ایک بار پھر ای ۔ 

فردوس  رونے لگی ۔۔

 علی ابھی بے ہوش فردوس وہ تمہاری کسی  بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔۔۔۔

 پیچھے سے مہرین  صاحبہ کی مہربان سی آواز اسے سنائی دی تو اس نے گردن موڑ کر مہرین صاحب کو پہلی بار دیکھا تھا  آج  پہلی بار وہ دونوں بالکل آمنے سامنے تھیں۔۔۔۔  

 وہ دونوں آج پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی اور ان دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھی جبکہ مہرین صاحب کے بالکل برابر میں کھڑی تھی  رابیہ جو کہ اپنا چہرہ دوسری طرف کیے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔

 فردوس نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا اس کے بعد اس نے روتے ہوئے مہرین صاحبہ کو دیکھا اور  اپنے دونوں ہاتھ ان کے آگے  جوڑے ۔۔۔

 آپ آپ مجھے معاف کر دیں معاف کر دیں پلیز فردوس اپنے   

ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔۔  میں آپ کی اور آپ کے بیٹے دونوں کی گنہگار ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں۔   

 وہ اپنے ہاتھ ان کے سامنے جوڑے اپنی سبز آنکھوں میں موٹے  موٹے آنسوں لئے بے حد معصومیت سے مہرین  صاحب کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔

نہیں میری  جان روتے نہیں ہے اسے ۔ مہرین صاحبہ نے کہا ۔۔۔  تمہیں  معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں مجھے ساری حقیقت علی نے پہلے ہی بتا دی ہے ۔میں تمہاری جگہ ہوتی تو شاید یہی کرتی اکثر بیٹیا ں  اپنے ماں باپ کی محبت کے لئے اپنے ماں باپ کی عزت کے لئے اپنی محبت کو چھوڑ دیتی ہیں اپنی محبت سے بے وفائی  کرتی ہیں۔  وہ بہت اچھی بیٹیاں ہوتی ہیں جو اپنے ماں باپ کے لئے اپنی محبت کو چھوڑ دیتی ہیں۔۔

 تم نے بھی یہی کیا تھا فردوس ایک لڑکے کے اوپر تم نے اپنے ماں باپ کی عزت کو اپنے ماں باپ کی خوشی کو اپنے  ماں باپ کی بات  کو ترجیح دی  ان کی بات کا وزن رکھا۔۔  

تم نے ایک لڑکے  کے  پیچھے اپنے  ماں باپ کو رسوا نہیں کیا ۔ جب اچھی لڑکیوں کو   اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ محبت ان کے لیے نہیں بنی تو وہ زبردستی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کر لیتی ہے ۔۔تم نے بھی یہی کیا تم خود  تڑپتی رہی روتی رہی تل تل مرتی رہی  ۔۔۔مگر تم علی خاور کے پاس واپس لوٹ کر نہیں گئی ۔۔تم ہر دن اس تکلیف میں مرتی رہی علی خاور کی طرح لیکن تم پلٹ کر اس کے پاس واپس نہیں گئی کیونکہ تمہیں اپنے ماں باپ کی عزت اپنے ماں باپ کا مان زیادہ عزیز تھا  ۔۔ 

 اور اگر  آج تم یہاں پر ہوں تو اس کی بھی وجہ میں جانتی ہوں کہ  تم علی خاور سے سچی محبت کرتی ہو بالکل سچی تم علی خاور کو نہیں بھول سکتی کیونکہ وہ تمہاری پہلی اور آخری محبت ہے ۔ اور اپنی پہلی اور آخری محبت کو کوئی نہیں بھول  سکتا ۔۔

آج علی اس بستر پر پڑا ہے یوں بے ہوشی کی حالت میں تو میں تمہاری  تکلیف  سمجھ سکتی ہوں جب علی خاور کے بابا کا انتقال ہوا تھا تو میری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی میں بھی کچھ اتنی ہی پاگل اور اتنی  ہی بے چین تھی  تمہاری طرح رو رو کر میں نے اپنے آپ کو پاگل کر لیا تھا فردوس کیونکہ مجھے میری محبت کے بچھڑ جانے کا غم تھا اور وہی غم آج تمہیں محسوس ہو رہا ہے مگر تم بہت خوش نصیب ہو کہ تمہاری محبت بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔

 تمہاری اور علی کی محبت بہت مشکل ہے  یہ بھی  میں جانتی ہو کہ تمہاری منگنی تمہارے باپ نے زبردستی کر دی ہے وہ بھی آپنے کسی  بہت خاص دوست کے  بیٹے سے جو کہ وہ کبھی بھی ختم نہیں کریں گے۔۔۔

 فردوس نے ایک نظر علی خاور کی ماں کو دیکھا۔ ۔۔

 علی پہلے ہی دن سے سمجھ چکا تھا کہ تمہارا باپ تمہیں پسند نہیں کرتا کیونکہ اسے لڑکے کی خواہش تھی اور تم دو بہنیں پیدا ہوگئی جس میں سے ایک کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا۔ مگر تمہارے اکلوتے ہونے کے باوجود بھی تمہارے باپ نے تمہیں اور تمہاری ماں کو کبھی  بھی قبول نہیں کیا ۔۔۔آج تک تم ان کی ایک محبت بھری نظر کے لیے تڑپتی ہوں ۔میں جانتی ہوں تمہارے دل میں یہ ارمان ہے کہ تمہارا باپ تمہیں بہت پیار کرے مگر افسوس کے ساتھ کے تمہارا یہ ارمان کبھی پورا نہیں ہو سکتا فردوس کیونکہ وہ اپنی ہی بیٹی سے اپنے ہی خون سے نفرت کرتا ہے ۔۔اور اس کی ایک بڑی وجہ تمہارا لڑکی ہونا ہے ۔۔تم لڑکی پیدا ہوگئی تو تمہارا باپ یہ سمجھنے لگا کہ تم نے معاشرے میں اس کی ناک کٹوا دی اس کے کندھوں کو جھکا دیا ۔۔جبکہ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور غلط سوچ ہے ۔۔اور علی خاور آج اسی بیٹی کی محبت میں بہت بری طریقے سے گرفتار ہے اتنا کہ اس کی رہائی کا کوئی اور راستہ ہی نہیں ۔۔علی خاور کی رہائی کے تمام راستے تم تک ہی جاتے ہیں ۔۔ اگر کوئی اسے اس تکلیف سے رہائی دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف تم ہو فردوس صرف اور صرف تم ۔۔

 مجھے معاف کر دیں آپ میں  گنہگار ہوں  آپ کی  ۔۔

آپکے  بیٹے کو میں نے اس قدر تکلیف پہنچائی جس سے آپ بہت محبت کرتی ہیں ۔۔۔

 وہ ایک بار پھر سے اپنے ہاتھ ان کے سامنے جوڑے معافی مانگ رہی تھی جبکہ اب کی بار رابیہ بھی اس کے قریب آ گئی تھی اور اس نے فردوس کو اپنے  گلے سے لگایا۔ ۔۔۔

 تمہیں  معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے میری بچی علی بہت تکلیف میں ہے  اگر وہ تمہیں اس طرح روتا  ہوا دیکھے گا تو اسے بہت تکلیف ہوگی۔۔ 

علی کی یہ  حالت میری وجہ سے ہے۔  فردوس کو آج  علی کو دیکھ دیکھ کر  افسوس ہو رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو تھم نہیں پا رہے تھے۔۔۔

بے شک وہ بہت تکلیف میں ہے  فردوس لیکن میرے رب کا بے حد شکر ہے کے اس نے   میرے بیٹے کو زندگی دی ہے میرا بیٹا دو دنوں سے بہت مشکل حالات میں تھا لیکن آج آج وہ خطرے سے باہر ہے ۔ ۔۔  

 اللہ تعالی نے اسے نئی زندگی دی ہے بس تم جلدی سے اس کی صحت یابی کے لئے دعا کرو  تاکہ میں فور تم دونوں کا نکاح کر دو۔۔۔۔۔۔

 علی خاور کی ماں کی بات پر فردوس نے چونک کر علی خاور کی ماں کو دیکھا۔۔۔۔جبکہ رابیہ بھی  مہرین صاحبہ کو بہت حیرانی سے دیکھ رہی تھی ۔۔

فردوس میں نےاپنے بیٹے سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کی محبت کو ہر حال میں ہر حال میں اس کی زندگی میں شامل کروں گی ۔۔

اور  فردوس تم بھی تو علی خاور کے لئے  اتنی ہی پاگل ہو تم بھی اس کو  پاگلوں والی محبت کرتی ہوں جتنا میرا بیٹا تم سے کرتا ہے ۔۔  

اور تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی تمہاری اور علی خاور کی محبت میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے  اور میں امید کرتی ہوں کہ یہ محبت تمہاری ماں کو بھی نظر آ گئی ہو گی کہ تم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔تم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہو تم دونوں کی محبت ایک دوسرے کے لئے بالکل سچی ہے ۔۔تم دونوں ایک دوسرے کے دیوانے ہو ۔۔

پھر کوئی فائدہ نہیں اس بات کا اس جھوٹ کا کہ تم علی  سے محبت نہیں کرتی ۔۔ اور میں امید کرتی ہوں کہ تمہاری ماں کو بھی میری بات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔۔کیوں کہ تمہاری اور علی خاور کی محبت  تماری ما ں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہیں ۔۔۔

تمہاری ماں کی آنکھوں میں موجود آنسو اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں ۔۔

  وہ بھی اس بات کو مان چکی ہیں کہ تم علی خاور کے بغیر اور علی خاور تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا فردوس۔۔۔۔

 میں نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کی محبت کو اس کی زندگی میں ہر حال میں شامل کر کے رہوں گی۔ 

 تم مجھ سے معافی مانگنا چاہ رہی تھی نا فردوس تو یوں سمجھو کہ میں تمہیں  معاف کر دو گی لیکن تم  میرے  بیٹے  کی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے واپس آ جاؤ اس کی محرم بن کر اس کی ساتھی بن کر اس کی زندگی  بن کر اس کی محبت بن کر اس کی بیوی بن کر ۔۔   

 فردوس نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا اور ایک نظر مہرین صاحب کو۔۔۔۔

 رضا اس چیز کے لیے کبھی نہیں مانیں گے انہوں نے فردوس کی منگنی اپنے  بہت اچھے دوست یوسف صاحب کے بیٹے سے کی ہے اور وہ لڑکا بہت اچھا ہے اور ڈاکٹر ہے ۔۔۔  میں اور فردوس ساری زندگی رضا سے دبے ہی رہے ہیں ۔ہم دونوں کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ ہم دونوں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کبھی بھی کوئی بھی بات کر سکیں۔ ۔۔ایک بار میں نے کوشش کی تھی اپنی بیٹیوں کے حق کے لیے  تو بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ رضا نے مجھے کہا تھا کہ اگر اب تم نے میرے آگے اپنی زبان کھولی یا پھر اپنی بیٹیوں کا کبھی حق مانگا تو ۔۔۔۔۔

 تو میں تمہیں اپنی زندگی میں  سے فارغ کر دوں گا اور تم  اس  معاشرے میں اپنی دونوں بیٹیوں کو  لے کر  کتنی رسوا ہو گی یہ تم خود جانتی ہو لوگ تمہیں اور تمہاری بیٹیوں کو کس نظر سے دیکھیں گے  اتنا حقیر اور فقیر سمجھیں گے تمہیں اور تمہاری دونوں بیٹیوں کو  کہاں لے کے پھر و ں  گی اس بھرے معاشرے میں اپنی دو بیٹیوں کو  بہتر ہے اس بات کو یاد رکھو کہ تمہاری بیٹیاں ہیں بیٹیاں بیٹا نہیں کے کوئی بھی مرد تمہیں  قبول کر لے گا ۔۔۔۔ 

 وہ دن تھا اور آج کا دن ہے  میری نظر میں رضا  کی اہمیت صرف اور صرف یہ  رہ گئی ہے  کہ میں بس ان کی صرف اور صرف بیوی ہو وہ بھی نام کی اور حق مانگنا حق لینا کیا ہوتا ہے یہ بات تو میں کب کی بھلا چکی ہو کب کی۔۔۔

 شادی کے بعد لڑکیوں کو ہی جھکنا پڑتا ہے مرد نہیں جھکتے وہ نہیں بدلتے عورت کو ہی   بدلنا پڑتا ہے   ۔۔   

مہرین  صاحبہ نے ایک افسوس بھری نظر سے رابیہ کو دیکھا جو کہ اتنی مشکل زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ نہ جانے کتنے سالوں سے خاموشی کے ساتھ گزار رہی تھی۔۔۔

  رابیہ میں تمہاری بات تمہاری تکلیف تمہارے حالات سب کچھ سمجھتی ہوں مگر  یہ وقت ۔۔یہ وقت کمزور بننے کا نہیں بلکہ  مضبوط بننے کا ہے  میری بھی ایک اولاد ہے اور تمہاری بھی آج میرا بیٹا اس بستر پر ہے تو اللہ نہ کرے کل کو اگر تمہاری بیٹی بھی اس بستر پر آ کے  لیٹ جاۓ اس وجہ سے کہ وہ اپنی محبت کو پانا پائ  اسے یہ افسوس ہو۔ اور وہ اس افسوس میں اندر ہی اندر مرتی رہے  تو تم  کیا کرو گی کیا کرو گی اس وقت۔۔۔

 جس شخص کو تم دونوں کی آج پرواہ نہیں کیا کل پرواہ ہوگی۔۔۔ ۔

تم   اپنے شوہر  کے ہاتھوں اپنی بیٹی کی اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی کو برباد کر دوں گی جب کہ تم اپنی بیٹی کا حال بھی اپنی  آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہو  تم کیا چاہتی ہو کہ تم بھی میری طرح تڑپو جس طریقے سے آج میں تڑپ رہی ہوں اپنی بیٹے کی صحت کے لیے اپنے  بیٹے  کی زندگی کے لئے ۔۔۔ تمہارا شوہر ایک انتہائی ضدی  خود غرض اور مطلب پرست  انسان ہے۔  اس نے تم دونوں کو  کبھی بھی خوش نہیں رکھا۔۔

 کیا تمہیں یاد ہے کہ تم اور تمہاری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر آخری بار کب مسکرائی تھی ہے۔۔۔

 تمہارے پاس  کوئی جواب نہیں ہے ۔۔ تم خاموش ہو تم خاموش ہو رابیہ ۔۔۔۔ تمہارے پاس کوئی جواب نہیں تم لاجواب ہو ۔۔

وہ تمہیں  تمہاری بیٹی کو کبھی خوش نہیں رکھ سکتا اور اسے تم دونوں کی خوشیوں سے کسی قسم کا کوئی غرض نہیں ہے۔۔۔

  میں تمہارے شوہر کی برائی نہیں کر رہی ہو تمیں حقیقت کا آئینہ دکھا رہی ہوں اور میں جانتی ہوں یہ  تم دونوں کے لئے  بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔۔ مگر سچ تو یہی  ہے۔۔

 تمہیں اپنی بیٹی کے لیے تھوڑا سا بہادر بننا پڑے گا رابیہ  تمہیں اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لئے اپنے شوہر کے آگے بولنا پڑے گا اور اگر ہو سکے تو اس سے لڑنا بھی  پڑے گا ۔۔ تم کیا چاہتی ہو کہ تمھاری بیٹی بھی وہی زندگی گزارے  جو کہ  تم نے گزاری ہے ساری زندگی۔۔۔

  تم مجھے خود بتاؤ کیا تم ساری زندگی خوش رہی  ہوں ۔۔

 کیا تم بھی چاہتی ہوں  کہ تمھاری بیٹی بھی وہی زندگی گزارے اتنی ہی نہ خوشی کے ساتھ جتنی تم نے گزاری ہے ۔۔

 تم خود بتاؤ رابیہ کیا یہ فردوس کے ساتھ ناانصافی نہیں   فردوس کے ساتھ زیادتی نہیں ۔۔۔

فردوس کو بھی حق ہے اپنی زندگی گزارنے کا اپنی زندگی میں خوش رہنے کا ۔۔کیا تم اس میں اس کا ساتھ نہیں دوں گی ۔۔۔

 رابیہ  نے ایک نظر سامنے کھڑی مہرین  صاحب کو دیکھا۔۔ 

 جب کہ رابیہ کی آنکھوں کے آگے اچانک اپنی گزری ہوئی زندگی کی ایک  ایسی تصویر بنی ہوئی تھی  جو کہ انتہائی بدصورت اور تکلیف دہ تھی جس میں کسی قسم کا  کوئی رنگ کوئی خوبصورتی کوئی چمک نہیں تھی  ۔۔۔

بتاؤ رابیہ کیا تم یہی چاہتی ہوں کہ تمہاری ا  کلوتی بیٹی کی زندگی بھی تمہاری طرح بے رونق ہو خوشیوں سے بہت دور ہوں تمہاری بیٹی جس سے تم بہت  محبت کرتی ہو ۔۔

کیا  اس کے ساتھ یہ سب ہو جو تمہارے ساتھ ہوا ہے۔۔  

کیا تمہاری بیٹی خوش رہ پائے گی کیا  وہ اپنے دل میں کسی اور  شخص کو جگہ دے پائے ؟؟؟

 نہیں نہ۔۔

 تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ تم میری ہر بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ میں بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔  تم نے اپنی شوہر کی ضد  میں اپنے شوہر کی آنا پرستی میں اپنی  زندگی تباہ کردی ہے ۔۔ جب کہ تم یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتی ہو کہ تمہاری اور تماری بیٹی  فردوس کی کیا اہمیت ہے تمہارے شوہر  کی نظر میں۔۔

 مہرین  صاحبہ کی باتوں پر فردوس اب ان  دونوں  کی شکل دیکھ رہی تھی ۔۔

وہ ایک ایک  لفظ بالکل حقیقت کہہ رہی تھی بالکل سچ۔  ان کی ہر ایک بات بالکل سچ تھی ان کی ہر ایک بات کے اندر سے بدصورت اور تکلیف دہ حقیقت جھلکتی تھی  ۔۔

 اگر تم واقعی اپنی بیٹی سے محبت کرتی ہو تو تم اپنی بیٹی کی محبت میں رکاوٹ نہیں بنوں گی رابیا  تم اپنی بیٹی کی محبت میں اس کا ساتھ دوں گی  علی تمہاری بیٹی کو بہت خوش رکھے گا یہ دونوں ہی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمیں کبھی بھی کسی قسم کی کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔۔  ۔۔

ہم  دونوں کے  صرف اور صرف اکلوتے بچے ہیں  میں اپنے بیٹے کو روز تڑپتا  ہوا  روز روز مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی اور یقینا تم بھی اپنی بیٹی کو یو روز  تڑپتا ہوا نہیں دیکھ پاؤں گی ۔۔

 میں پوری امید کرتی ہوں کہ تمہارا جواب بھی ہاں ہوگا اور تم ان دونوں کے نکاح میں میری مدد ضرور کروں گی رابیہ۔۔

 کیونکہ اگر میں کہوں کہ ہم تمہارے شوہر سے بات کرتے ہیں تو تم مجھے خود اپنے ایمان سے بتاؤ کیا وہ ساری چیزوں کیلئے راضی ہو جائیں گے۔ ۔۔؟؟

 محرین صاحب رابیہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے چند لمحے ان کے جواب کا انتظار کرتی رہی لیکن رابیہ یہ  جانتی تھی کہ رضا کا جواب ہمیشہ نہیں ہوگا ۔۔

 تمہارا شوہر اس بات کو کبھی قبول نہیں کرے گا تمہارے شوہر کا جواب صرف اور صرف انکار میں ہوگا  یہ بات   میں تم دونوں ہی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔۔۔

 اب تم مجھے بتاؤ تمام حقیقت کو جاننے کے بعد تم میرا ساتھ دو گی یا پھر نہیں۔۔  

میں اور میرا بیٹا دونوں تمہاری بیٹی کو بہت خوش رکھیں رابیہ یہ دیکھو میں نے تمہارے آگے دونوں ہاتھ جوڑے ہیں۔۔ میرا بیٹا اور تمہاری بیٹی دونوں ایک دوسرے کو سچے دل سے محبت کرتے ہیں  اور ہم صرف ایک شخص کی آنا کی وجہ سے ایک شخص کی ضد کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی برباد کر دیں گے اپنے بچوں کی خوشیاں برباد کر دیں گے اپنے بچوں کے چہرے سے ہنسی چھین لیں گے۔۔  ہم دونوں ہی ایک جگہ پر کھڑے ہیں ہم دونوں ہی ما ہیں ہیں  اور اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔

 میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں رابیہ اپنی بیٹی کو میری بیٹی بنا دو  اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے علی خاور سے کر دو ۔ ۔۔

 اس بات کا علم صرف تمہیں  مجھے اور ہمارے بچوں کو ہوگا تمہارے شوہر کو نہیں کیونکہ اگر تمہارے شوہر کو پتہ چل جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو تمہارا شوہر چاہتا ہے ۔۔

پھر  صرف اور صرف لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجائیں گی ۔ ۔   میں تمہارا ساتھ چاہتی ہوں رابیہ کیا تم میرے بیٹے سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنے میں میری مدد کرو گی یا تم ہمارے بچوں کی خوشیوں کو بچانے میں میری مدد کرو گی کہ تم ہمارے  بچو ں کی مسکراہٹ کو برقرار رکھنے میں  میری مدد کرو گی۔۔۔۔ 

مہرین صاحبہ رابیہ  کے اگۓ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ فردوس ان دونوں کو بےحد حیرانی سے دیکھ رہی تھی نہ جانے رابیہ کا کیا جواب ہوگا   ۔۔ ۔۔ 

آسمان سے بارش آج زوروشور سے برس رہی تھی دیر رات کا وقت تھا مٹی سے اٹھتی ہوئی دلکش خوشبو پورے گھر کے لان میں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔

ٹھنڈی ٹھنڈی تیز ہوا بارش کا  ساتھ دے رہی  تھی ۔۔

سیدھی لائن سے  لگے ہوئے اونچے اونچے درخت نہ جانے کس گیت کے اوپر آج  ناچ گا رہے تھے ۔۔۔

دیکھنے میں تو موسم انتہائی حسین اور دلکش پرسکون تھا ۔۔۔

مگر لون کے ایک  طرف کھڑی ہوئ فردوس جو کہ بارش میں   مکمل بھیگ چکی تھی نہ جانے کن کن سوچوں کو اپنے دماغ میں لیے یوں ہی کھڑی  رہی اسے بارش حد سے زیادہ پسند تھی مگر آج وہ اس بارش میں  خوش نہیں بلکہ حد سے زیادہ اداس تھی اس کی آنکھوں سے پانی ٹپک رہا تھا ۔اس کے چہرے پر اداسی تھی ۔۔ 

وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کو سوچتی رہی کہ زندگی نے اسے کیا کیا چیزیں دکھائی ہیں کس کس موڑ پر لا کر ا سے رولایاہے تڑپایا ہے ۔ ۔۔۔

وہ جو سوچتی تھی کہ اسے محبت جیسی بیماری کبھی نہیں ہوگی مگر نہ جانے کب کس وقت اور کس طرح وہ بیماری اسے اس طرح سے لاحق ہو گئی کہ وہ اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھی اور شاید وہ بیماری اب ا سے ساری زندگی رہنی تھی ۔۔۔۔

اور محبت  یہ ایک ایسی حسین بیماری تھی جس سے وہ چاہ کر بھی نہیں نکلنا چاہتی تھی ۔۔۔۔

کہیں پڑی ہوئی اسے اچانک ایک بات یاد آئی ۔۔۔۔

"عشق ہو اور سکون ہو جناب ہوش میں تو ہو "۔۔۔

وہ اس لائن کو سوچتے ہوئے بے حد بے بسی سے مسکرائی اور اس نے اپنی جیسے ہی آنکھیں بند کی تھی بے شمار آنسو ٹوٹ کر اس کے  گالوں پر گرے تھے ۔ ۔۔

وہ ہسپتال میں ہونے والی تمام باتوں کو لے کر حد سے زیادہ پریشان تھی اور دوسری طرف علی خاور کی حالت تھی  جو اسے مزید تڑپا رہی تھی تکلیف دے رہی تھی ۔۔ ۔

رابیہ نے اب تک مہرین صاحبہ کو کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔

وہ کل ہاسپیٹل سے آگئی تھی اور آج علی  خاور کو دیکھنے کے لئے ہسپتال نہیں گئی تھی وہ ایک الگ کشمکش کا شکار تھیں جبکہ فردوس آج بے حد بے چین تھی کہ نہ جانے علی خاور کیسا ہوگا رابیہ نہیں گئی تھی تو اس نے فردوس کو بھی نہیں بھیجا تھا بس رابطہ  کیا تھا مہرین صاحبہ سے اس کی خیریت معلوم کر لی تھی تو یہ معلوم ہوا تھا کہ اسے ہوش آ گیا ہے اور وہ اب ہر قسم کے خطرے سے بالکل باہر ہے ۔۔۔

دل میں یہ سکون تھا کہ اس کی محبت سلامت ہے لیکن اپنی محبت کو دوبارہ کھو دینے کا ڈر بھی کہیں دل میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

وہ وہیں  بارش میں بیٹھی بیٹھی علی خاور کی بارے میں سوچتی رہی  ۔۔۔مہرین صاحبہ کی تمام باتوں کو لے کر سوچتی رہی۔۔

اس کی  ماں کیا جواب دے گی مہرین  صاحبہ  کو پھر آگے  نہ جانے کیا ہوگا۔۔۔

وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔

پتا نہیں ہم  دونوں ایک دوسرے کے نصیب میں لکھیے  ہوئیے بھی  ہیں یا نہیں ۔۔۔۔

وہ   یوں ہی برستی ہوئی بارش میں بیٹھی رہی اور تیز ہوا کے جھونکے اس کے جسم کو چھوتے ہوئے گزرتے رہے ۔ ۔۔۔

رابیہ کے کمرے کی تمام لائٹس  بند تھیں  ۔۔وہ اس وقت کھڑکی کے پاس کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی جو کہ برستی ہوئ  بارش میں بیٹھی ہوئی تھی اور رابیہ  یہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہی ہے اس کے دماغ میں کس قسم کے سوالات اور وہم اٹھ رہے ہیں آخر کار وہ ماں تھی اور وہ بھی وہ ماں جس نے اکیلے ہی اپنی بیٹی کی پرورش کی تھی باپ ہونے کے باوجود بھی اسے باپ کا کسی قسم کا کوئی سہارا نہ تھا کسی  قسم کی کوئی امید نہ تھی بچپن سے لے کر آج تک وہ ہی  اسے ہر جگہ دیکھتی آئی تھی ہر جگہ اس کا ساتھ دیتی آئی تھی اس کی  پرورش اکیلی کرتی آئی تھی ۔۔اور یہ وہی بیٹی تھی جس سے وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتی تھی ۔۔۔

وہ اپنی دیوانی سی بیٹی کو یوں برستی ہوئی بارش میں بھیگتا ہوا اپنی کھڑکی سے دیکھتی رہی جبکہ اس کی خود کی بھی آنکھیں نم تھیں مہرین صاحبہ  کی بولی ہوئی باتیں اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھیں ۔۔رابیہ  نے اپنی آنکھیں زور سے بند کیں تو اچانک اس کی آنکھوں کے آگے رضا کا وہی سخت رویہ والا چہرہ آیا جس کے اوپر ہمیشہ سے بیزاری خود غرضی ضدی پرانا کے برے  سے بادل ہمیشہ ہی چھائے رہتے تھے ۔۔۔۔

رابیہ  نے اپنے دماغ پر زور دیا  تو تکلیف دہ  یادوں کا دھواں ایک بار پھر سے اٹھنے لگا ۔۔وہ ان یادوں کو سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر افسوس کے یہ تمام تکلیف دہ یادیں اسے کبھی بھولی  ہی نہیں تھی ۔۔۔۔ رابیہ نے اپنے دماغ پر مزید  زور ڈالا جیسے کچھ یاد کر رہی ہو کچھ ایسا جن پلو ں  میں رضا نے اس سے  اچھے سے بات کی  ہو مگر افسوس اس کی یاداشت میں اس کی نظروں میں دور دور تک ایسا کوئی خوبصورت حصہ نہ تھا  جس میں رضا کی دی ہوئی محبت ہو عزت ہو اپنائیت ہو  ۔۔۔

رابعہ نے اپنی آنکھیں کھولیں بستر پر سوتا ہوا رضا بے خبر تھا ۔ ۔۔۔۔

رابعہ نے رضا کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔۔۔

اور پھر اچانک اس نے اپنے ہاتھ کی آستین کو ذرا سا اونچا کیا تو اس کے ہاتھ کے اوپر بازو کی طرف ایک  بڑا سا نشان تھا یوں جیسے اس کا ہاتھ کسی وقت میں  بری طرح سے کٹ گیا ہوں اور اس کے اوپر ٹانکے لگے ہو ۔۔۔۔

اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ فردوس کی حق کے لیے فردوس کے ا سکول میں ہونے والی میٹنگ کے لیے اسپورٹس ڈے کے لیے اور دوسرے ایونٹس کے لیے رضا کو اس کے ساتھ جانے کو کہتی ۔۔

وہ اپنے آپ کو بہت شرمندہ اور کمزور محسوس کرنے لگی تھی چھوٹی سی فردوس جب اس سے اس قسم کے سوال پوچھتی تھی ۔۔۔۔

 کے بابا کیوں نہیں اتے میرے ؟؟ تورابیہ  تڑپ سی جاتی تھی اور اسے خود بھی نہیں اچھا لگتا تھا ۔۔۔

دوسری طرف فردوس کے ا سکول کے بے شمار بچے اپنے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر بات کر کے کس قدر خوش ہوتے تھے ۔۔

اور وہ ۔۔۔۔۔۔

وہ ایک کونے میں رابیہ کے ساتھ  اکیلی بیٹھی رہتی تھی اور اس کی بیٹی اپنے باپ کے انتظار میں اپنی اکیلی ماں کو بیٹھی ہوئی دیکھتی رہتی تھی کہ ابھی بابا آ جائیں گے ابھی بابا آ جائیں گے مگر افسوس وہ کبھی نہیں آتا تھا ۔۔

اسے یاد آیا وہ دن جس دن اینول کا رزلٹ تھا ۔وہ اس دن رزلٹ لینے  کے بعد رابیہ  نے یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لیں تھیں کہ وہ رضا سے لازمی بات کریں گی اور اپنی بیٹی کے حق کیلئے ضرور آواز اٹھائیں گی ۔مگر وہ یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اس کا رویہ اس کے ساتھ کیا ہوگا یہ جاننے کے باوجود بھی وہ اپنی بیٹی کے لیے بولنا چاہتی تھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ رضا نے اسے اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ ٹیبل پر جا گری اور شیشے  کی ٹیبل کے بہت سارے باریک باریک کانچ اس کے ہاتھ میں چھپ گئے یہاں تک کہ ایک بڑا سا کانچ کا ٹکڑا  اس  کے ہاتھ کو  چیر  گیا  تھا ۔۔۔۔ 

اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی چھوٹی سی فردوس جو اپنے باپ کو اپنی ما ں پر چللاتا ہوا سن  رہی تھی  یوں اچانک  کانچ کی آواز ٹوٹنے سے اور اپنی ماں کی چیخ سننے پر  امی امی کرتی ہوئی تیزی سے باہر نکلی ۔۔تو اس کی ماں سامنے پڑی ہوئی تھیں اور اس کے ہاتھ میں بے شمار کانچ چوبے  ہوئے تھے اور خون زمین پر پھیلا ہوا تھا ۔۔۔فردوس اپنی ماں کے قریب بیٹھی اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس حصوں کو دبانے لگی جہاں پر سے خون نکل رہا تھا ۔۔

میں امید کرتا ہوں کہ تمہیں جواب مل گیا ہو گا اب  مجھ سے اس قسم کی فضول بات کی نہ تم نے تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گا ۔۔

رضا انہیں برا بھلا کہتا ہوں وہاں سے اپنے کمرے میں جا چکا تھا جبکہ فردوس  اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی ماں کے زخم پر زور سے ہاتھ رکھی ہوئی تھی تاکہ مزید خون نہ بہے امی چلیں   ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں آپ کے ہاتھ میں سے  بہت خون بہہ رہا ہے ۔۔ رابیہ  وہیں بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ فردوس نے اپنے  خون سے بھرے ہوئے ہاتھ اپنے کپڑوں سے صاف کیے اور پھر اپنی ماں کی دونوں آنکھیں صاف کیں ۔ امی امی ۔۔ میں میں  ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں فردوس نے روتے ہوئے کہا اور وہ بھی اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔ 

تکلیف دہ  ماضی ایک بار پھر سے  رابیہ کو یاد آ چکا تھا ۔۔۔

ماضی کی یاد اس قدر تکلیف دہ تھی کہ وہ روئے بنا نہ رہ پاتی تھی جب جب وہ ان باتوں کو یاد کرتی تو دل خون کے آنسو روتا تھا ۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔مگر اب ۔۔۔۔۔ اب بس بہت ہوگیا میں نے اور میری بیٹی نےحد سے زیادہ تکلیف برداشت کرلی اب چاہے جو بھی ہو جو بھی ہو میں اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر جاؤں گی ۔۔۔

رابیہ  اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے سوچ رہی تھی اور اس نے ایک نظر فردوس کو دیکھا جو کہ اب تک باہر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

اگلے دن بھی  اس کے آنے والے دو دن تک وہ دونوں ہاسپٹل نہیں گئے تھے ۔۔۔۔

محرین صاحبہ الگ پریشان تھی کہ نہ جانے رابیہ کا کیا جواب ہوگا ۔۔۔۔

چوتھے  دن جب رابیہ فردوس  کو لے کر اپنے ساتھ ہسپتال آئی تو مہرین  صاحبہ  حد سے زیادہ خوش ہو گی ۔۔فردوس روزانہ فون کرکے علی خاور کی مہرین صاحبہ سے خیریت معلوم کرتی تھی ۔۔مگر رابیہ نے اسے اتنی اجازت نہیں دی تھی کہ وہ اکیلی اس سے ملنے کے لئے ہوسپیٹل آجائے ۔۔۔فردوس اور رابیہ  دونوں ہی ساتھ آتے تھے اور ساتھ ہی جاتے تھے ۔۔۔

اس وقت وہ دونوں چلتے ہوئے کمرے تک پہنچ رہی تھی اور علی خاور بستر پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔  ۔

محرین صاحبہ کے ہاتھ میں دوائیاں تھی ۔۔۔۔

دروازہ اچانک کھلا ۔۔

تو سبز رنگ کی  خوبصورت فراک میں فردوس سامنے کھڑی تھی سادی سی بالوں کا  جوڑا بنا ہوا تھا ۔۔اور اس کے برابر میں اس کی ماں ۔۔

وہ جو دوائی کھانے میں مصروف تھا اچانک اس کودیکھ کر ایک دم بچوں کے جیسے خوش ہو گیا ۔۔۔۔۔

فردوس۔۔۔۔

 اس نے اتنی بے قراری سے بولا کہ مہرین صاحبہ بھی تیزی سے پیچھے کی طرف مڑی ۔۔۔۔

السلام علیکم۔۔۔۔

 رابیہ اور  فردوس دونوں سلام کرتے ہوئے اب اندر آ رہی تھی جبکہ مہرین صاحبہ ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش تھی وہ باری باری ان دونوں کو گلے لگا رہی تھی ۔۔۔

کیسی طبیعت تمہاری بیٹا ۔۔۔

رابعہ نے محبت بھری آواز میں علی خاور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

اب ٹھیک ہوں آنٹی ۔۔۔علی خاور  نے جواب دیا ۔۔۔

فردوس خاموشی سے کھڑی تھی ۔۔اور علی خاور کو دیکھ رہی تھی جب کہ وہ بھی خاموشی سے بیٹھا فردوس کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔

مجھے آپ سے بات کرنی ہے رابعہ نے کچھ دیر بعد مہرین  صاحبہ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

جی جی ضرور چلیں باہر چل کر بات کرتے ہیں آرام سے۔۔مہرین صاحبہ نے کہا ۔۔

 فردوس کیا تم علی کو  دوائی دے دو گی ؟؟؟

مہرین صاحبہ  نے اس کے ہاتھ میں ساری دوائیاں دیتے ہوئے کہا ۔۔۔

مہرین صاحبہ اور رابیہ  دونوں باہر کی طرف جا چکی تھی ۔۔۔

فردوس نے نرم سی  مسکراہٹ کے ساتھ  علی خاور کو دیکھا ۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر انتہائی خوش تھے ۔۔۔

فردوس  اب  چلتی  ہو ی  اس کے قریب آ چکی تھی ۔۔اور سامنے رکھی کرسی پر اس نے اپنا بیگ اتار کر رکھا ۔ اور وہ وہیں علی خاور  کے قریب آکر بیٹھ گی  اب وہ اسے باری باری دوائیاں دینے لگی ۔۔۔

کیا آج دوائیاں  تبدیل کی ہیں ڈاکٹر نے علی خاور نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔؟؟؟

نہیں آپ کی دوائیاں تو پرانی ہے یہ دیکھیں استعمال بھی ہوئی ہے کافی زیادہ تو ۔۔ 

اچھا تو پھر آج ان کا ذائقہ میٹھا کیوں ہے ۔۔؟؟

وہ بڑی معصومیت سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔

فردوس نے ایک نظر علی خاور کو دیکھا ۔۔

فردوس کے  دونوں گال سرخ ہو رہے تھے علی خاور بڑی دلچسپی سے اس کے خوبصورت سے چہرے کو دیکھتا  رہا تھا ۔۔۔

فردوس نے دوسری دوائی کھول کر علی خاور کے ہاتھ میں رکھیں ۔۔۔

علی خاور نے پانی کے گھونٹ کے ساتھ وہ دوائی لی ۔۔۔۔

یہ والی دوائی تو انتہائی کڑوی ہے مگر آج نہ جانے کیوں یہ مجھے مٹھائی کی طرح میٹھی لگ رہی ہے ۔ ۔۔۔

اب کی بار فردوس  کی ہنسی نکل گئی ۔۔

اپنی  دیکھی ہے ۔کتنی زیادہ پٹیا ں بندهی ہوئی ہیں  ممی  لگ رہے ہیں بالکل مگر پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے ۔۔۔ ۔۔

اچھا اور میری اس حالت کی ذمہ دار کون ہے ۔۔۔؟

آپ کی انتہائی تیز اور خراب ڈرائیونگ ۔۔۔۔

اچھا ۔۔علی خاور کو جیسے فردوس کی بات کر حیرانی ہوئی ۔۔۔

فردوس اب کوئی اور  دوائی  کھول کر اس کے ہاتھ میں رکھ رہی  تھی ۔۔

علی خاور  نے پانی کے ساتھ وہ دوائی بھی لے لیں ۔۔

اتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے اندازہ ہے تمہیں ۔ ۔۔

علی فردوس کی خوبصورت سی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس   خاموشی سے اسے دیکھتی رہی ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔

مجھے بھی ہو رہی ہے علی بہت تکلیف ہو رہی ہے تمہیں اس حال میں دیکھ کر جلدی سے ٹھیک ہو کر پہلے جیسے ہو جاؤ پلیز بالکل پہلے جیسے زندہ دل علی جو ہمیشہ خوش رہتا تھا جو دوسروں کو خوش کرتا تھا جو ایک بہت زندہ دل انسان تھا ۔

جو انتہائی شرارتی ۔۔بدتمیز ۔۔بے مروت ۔۔جھگڑالو ۔۔۔

بس بس تمہیں اتنی زیادہ تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میری۔۔۔تم میری  عیادت کرنے کے لئے آئی ہو یا پھر میری برائی اور بے عزتی ۔۔؟؟؟

فردوس نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی قابو میں کی تھی ۔۔۔

علی خاور پانی کا گلاس مکمل پی چکا تھا تو فردوس  نے وہ گلاس لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔۔

اب درد کیسا ہے فردوس کر سی کیٹ کھنچ کر اس کے قریب بیٹھ چکی تھی ۔۔۔

ابھی تکلیف ہے بہت ہر زخم میں ۔۔

اور سب سے زیادہ یہاں تکلیف ہے فیری ۔۔

علی خاور اپنے دل کے قریب ہاتھ رکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔

فردوس  اچانک خاموش ہوگئی ۔۔۔

مجھے چھوڑ کے مت جاؤ فردوس ۔۔میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے تم بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔

 ہماری محبت کو اس تکلیف سے بچا لو ۔تم ہی  یہ کر سکتی ہو صرف اور صرف تم ہی ۔۔

ایک بار کہو کہ بہت پیار کرتی ہو مجھ سے ۔علی خاور بہت ہی معصومیت سے اور بڑی ہی محبت سے فردوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا ۔۔

ہاں ۔۔۔

کرتی ہوں بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔فردوس  نے بھی اتنی ہی محبت سے جواب دیا ۔۔۔۔۔

اچھا بس اب آپ زیادہ باتیں مت کریں آپ کو ابھی  بھی بہت ویکنیس ہے ۔۔۔

نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔مگر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میرا بی پی اب  ڈسٹرب ہو گیا ہے ۔۔۔۔

کیوں کیا ہوا ڈاکٹر نے صبح چیک اپ نہیں کیا آپ کا ۔۔؟؟

کیا تھا ۔۔صبح تک تو  بالکل نارمل تھا ۔۔۔

تو اب کیا ہوا وہ اچانک  فکرمند ہو گی ۔۔۔

جب انہوں نے صبح چیک    کیا تھا تو بالکل نارمل تھا مگر  مجھے لگ رہا ہے جب سے تم آئی ہو بیپی ڈسٹرب  ہوگیا ہے یاتو  تمہیں دیکھنے کے بعد  بڑھ گیا ہے یا پھر لو ہو گیا ہے ۔۔۔

علی خاور اپنے چہرے پر بہت ہی سنجیدہ تاثرات رکھے کہہ رہا تھا جبکہ فردوس  اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔

ان  گولیوں کے علاوہ ڈاکٹر کو آپ کو دو  تین مزید گولیاں اور دو تین  مزید انجکشن اور دینے چاہیے تھے تاکہ اس کا دماغ درست ہو جائے ۔۔

فردوس کی بات  پر علی خاور زور سے ہنسا ۔۔۔۔

ہنساؤ مت فردوس درد ہو رہا ہے مجھے۔۔ ۔  

میں کہاں ہنسا رہی ہوں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔ آپ کا دماغ تو پہلے ہی  خراب تھا اور اب  مزید خراب ہو گیا ہے تب ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں ۔۔

وہ اٹھ کر باہر کی طرف جانے لگی ۔۔

کہاں جا رہی ہو واپس آؤ ۔۔

میں باہر جارہی ہوں یہاں بیٹھی رہوں گی تو آپ یوں ہی مجھ سے باتیں کرتے رہیں گے اور ریسٹ نہیں کریں گے ۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں تم واپس آؤ ۔ابھی اور اسی وقت ۔۔۔

مہرین صاحبہ اور رابیہ  دونوں اس وقت ایک خاموش جگہ پر بیٹھی ہوئی تھی جہاں پر بالکل سناٹا تھا لوگوں کی بھیڑ نہ تھی ۔۔۔ رابیہ ا لفاظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کن لفظوں میں مہرین صاحبہ کو اپنا فیصلہ سنائے گی جب کہ مہرین  صاحبہ بہت پریشان تھی کہ نہ جانے رابیہ کا جواب کیا ہوگا ۔۔۔۔

میں امید کرتی ہوں رابیہ  کہ آپ کا فیصلہ درست ہوگا آپ نے ضرور ہمارے بچوں کی خوشیوں کے بارے میں سوچا ہوگا اور پھر ہی کوئی فیصلہ لیا ہوگا ۔۔۔

جی بالکل ایسا ہی ہے مہرین صاحبہ  میں نے بہت سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ لیا ہے ۔۔۔۔

اتنے دنوں تک جو میں نے آپ کا وقت لیا  میں یہی سب کچھ سوچ رہی تھی اور آخر کار میں اس  انجام پر پہنچی ہوں کہ ہمیں ۔۔ایک لمحے کیلئے رابیہ خاموش ہوئی تو مہرین  صاحبہ بے چین  ہوگئی اور انہونے  رابیہ کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھاما ۔۔۔۔

ہمیں۔۔۔ کیا رابیہ آگے کہوں ۔۔۔۔

میں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ اب ہمیں فردوس اور علی خاور کا نکاح کر دینا چاہیے ۔۔۔

لیکن میں نہیں چا ہ رہی کے  ہاسپیٹل میں نکاح ہو  میں چاہتی ہوں کہ گھر پر ہوں لیکن یو اتنی جلدی نہیں کچھ وقت کے بعد جب رضا کچھ دنوں کے لیے اپنی زمینوں پر چلا ے جائے ۔انہیں وہاں پر دو تین دن کا کام ہے تو وہ  وہیں رھیں گے تقریبا ایک یا ڈیڑھ ہفتے کے اندر اندر وہ جائیں گے تب تک ہمیں انتظار کرنا ہے ۔۔۔

رابیہ  کہہ  رہی تھی جبکہ مہرین صاحب رابیہ  کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو کہ اب بالکل رونے والا ہوں چکا تھا محرین صاحبہ  نے نرمی سے رابیہ  کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

میں بہت خوش ہو  رابیہ کے آپ نے ہمت سے کام لیا اور بہادری کا مظاہرہ کیا آپ نے اپنی بیٹی کی خوشی دیکھیں آپ واقعی ایک بہت اچھی ماں ہیں ۔۔۔یقینا جب ہمارے بچوں کو اس فیصلے کے بارے میں پتہ چلے گا تو وہ دونوں بہت خوش ہو جائیں گے ۔۔۔

میں نے اپنی زندگی میں بہت ساری  تکلیفیں  اٹھائی ہیں مہرین  صاحبہ مگر میں نہیں چاہتی کہ میری زندگی جو میں نے گزار دی جو کہ بہت بد صورت تھی جس میں نہ ہی تو کوئی رنگ تھے اور نہ ہی کوئی خوشیاں اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی دلچسپی اور محبت میں نے تو اپنی زندگی اپنی جوانی برباد کر دی مگر میں اپنی بیٹی کی زندگی بالکل برباد نہیں کرنا چاہتی میں چاہتی ہوں کہ وہ بہت خوش رہے بہت بہت بہت زیادہ زندگی میں کوئی تکلیف چھوٹی ہو یا بڑی اسے چھو کر بھی نہ گزرے اس کے دامن میں اتنی خوشیاں ہوں کہ وہ سنبھال نہیں پائے غم کیا ہوتا ہے دکھ تکلیف کیا ہوتی ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے مہرین اس نے بچپن سے لے کر ابھی تک یہی سب کچھ دیکھا ہے اور سہا  ہے لیکن میں چاہتی ہوں جس کے گھر وہ  شادی کرکے جائے وہ ا سے بہت خوش رکھے بہت زیادہ میری یہی دعا ہے کہ میری بیٹی پھولوں کی طرح  رہیں  پھولوں کی طرح مہکتی رہے پروان چڑھتی رہے اللہ تعالی نے مجھے دو بیٹیاں دی تھی لیکن میرے ہاتھ میں صرف ایک ہی بیٹی رہ گئی ہے جسے میں تمہیں سونپ رہی ہوں میں امید کرتی ہوں کہ علی خاور اور آپ  میری پیاری  بیٹی کا بہت  بہت خیال رکھے  گے بہت محبت کرے  گے مجھ سے بھی زیادہ اور چاہے وقت اور حالات کیسے بھی ہوں آپ لوگ  میری بیٹی کو تنہا نہیں چھوڑوں گی وعدہ کرے  مجھ سے مہرین  ۔۔۔۔۔

میں وعدہ کرتی ہوں فردوس  کو اپنی بیٹی کی طرح رکھو گی  بہت زیادہ پیار کروں گی  یہ وعدہ ہے میرا ۔۔۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب روئی تھی رابعہ نے آج پہلی بار بہادری کا مظاہرہ کیا تھا اس نے آج پہلی بار زندگی میں پہلی بار اپنی اولاد کی خاطر اپنی بیٹی کی خاطر اپنے شوہر سے جھوٹ بولا اس کی خلاف ورزی کی اس کا کہنہ نہیں مانا ۔۔لیکن وہ ساتھ ساتھ یہ بھی جانتی تھیں کہ اگر باپ رضا جیسا ہو تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے اس نے انجام کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔۔

اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنی  زندگی گزار چکی ہے جو  کتنی زیادہ بدصورت اور بے رنگ تھی اور وہ وہی بدصورت اور وہی بے رنگ زندگی اپنی بیٹی کو نہیں دینا چاہتی تھی جو اس نے رضا کے ساتھ  گزار دی تھی ۔۔۔۔۔

رضا زمینوں کے لئے آج صبح سے ہی نکل چکا تھا جبکہ رابیہ  اور مہرین صاحبہ کے درمیان بات ہوچکی تھی ان کا نکاح آج ہونے والا ہے اس بات کی خبر صرف اور صرف علی خاور  کو تھی ان تینوں نے یہ بات فردوس سے چھپا کر رکھی تھی ۔۔رابیہ اپنی بیٹی کے چہرے پر اچانک انے  والی خوشی دیکھ کر اس کے پیارے سے چہرے کو ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھوں میں بسانا چاہتی تھی اس وجہ سے آپ نے فردوس سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ۔۔۔

فردوس تم  تیار ہو جاؤ مجھے مارکیٹ جانا ہے گھر کا کچھ سامان لینا ہے جو مجھے آج لازمی چاہیے تم کپڑے بدل لوں بیگ لے لو اور آجاؤ ۔۔۔

ٹھیک ہےامی  میں آدھے گھنٹے میں آ رہی ہوں ۔۔۔

رابیہ  کے چہرے پر ایک بڑی دلکش سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔

فردوس آدھے گھنٹے میں تیار ہو کر واپس آئی تو را بیا بھی تیار کھڑی تھی ۔۔

رابیہ  نے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا تھا جس کے اوپر بہت ہی خوبصورت اور نفس سی کڑھائی ہوئی تھی ۔۔اور کانوں میں اس نے بریک  سے جھمکے پہن رکھے تھے رابیہ آج  بڑی پیاری سی لگ رہی تھی ۔۔۔

ارے واہ امی آپ نے  اپنا  پسندیدہ رنگ پہنا ہے بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔۔کیا بات ہے؟؟ فردوس نے شرارت سے کہا تو وہ ہنس پڑی ۔۔ 

چلو چلتے ہیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔

وہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ گاڑی لے کر مارکیٹ کے پاس آئ اور انہوں نے گاڑی مارکیٹ کے پاس رو کی ۔۔

تین ساڑھے تین گھنٹے لگیں گے ہمیں  مارکیٹ میں فردوس کے لئے خریداری کرنی ہے ٹھیک ہے تو تم  ساڑھے تین گھنٹے کے بعد آکر ہمیں یہاں سے لے لینا رابیا نے ڈرائیور کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ڈرائیور اپنا سر ہلاتا ہوا گاڑی موڑ کر واپس لے گیا جبکہ وہ اور فردوس  مارکیٹ کے اندر داخل ہو رہی تھی ۔۔

وہ مارکیٹ کے اندر تھوڑا سا ہی آگے گئ ہوں گے کہ رابیہ  نے دوبارہ  ڈرائیور کی گاڑی دیکھی جو کے  نہیں تھی وہ دوسری طرف آئی ۔

تو مہرین صاحب وہیں کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔

فردوس مہرین  صاحبہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے جب کہ مہرین  صاحبہ اور رابیہ کے چہرے پر آج بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ تھی دونوں کے چہرے پر آج بڑے کھلے کھلے سے لگ رہے تھے اور دونوں ہی بہت اچھے اور خوبصورت لباس پہنی  ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

سلام دعا کے بعد اب رابیہ محرین صاحبہ سے کچھ بات کر رہی تھی جب کہ فردوس کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی نہ جانے اتنی  دیر سے کیا باتیں کر رہی تھی وہ دونو ں  ۔۔

رابیہ اور مہرین صاحبہ اب  چلتی  ہوئ فردوس کے پاس آئی تو مہرین صاحبہ نے  فردوس کے چہرے پر پیار کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے مارکیٹ سے باہر لے جانے لگی ۔۔

وہ بھی رابیہ اور مہرین  صاحبہ کے ساتھ سیدھی سیدھی چلتی تھی  آگے بڑھ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ھو رہا ھے جبکہ اس کو جیسے ہی موقع ملا اس نے رابعہ کے قریب جا کر پوچھا تھا کے امی آپکو جو لینا تھا سامان اس کا کیا ؟؟؟۔۔۔

جو سامان لینا تھا تمہارے لئے   وہ تو میں پہلے ہی لے چکی تھی اب تھوڑی دیر بعد تمہیں دکھاتی ہوں چلو ۔۔۔۔۔

رابیہ کی بات پر مہرین صاحبہ اور رابیہ  دونوں ہی ہنس پڑیں جب کہ فردوس انہیں  دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

وہ دونوں مارکیٹ  سے باہر آی تو سامنے ہی علی خاور کی سفید رنگ کی گاڑی کھڑی تھی وہ گاڑی کو دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ  علی کی  گاڑی ہے اور وہ اس کے اندر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔

علی خاور نے سفید رنگ کا قمیض شلوار پہنا ہوا تھا ۔۔۔فردوس ا  سے دیکھتی رہ گئی وہ واقعی میں بڑا ہینڈسم اور شاندار لگ رہا تھا ۔۔قمیض شلوار وہ ا سے کم ہی پہنا ہوا دیکھتی تھی   اونچا لمبا سا باڈی بلڈر ٹائپ علی خاور بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔

وہ تینوں گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ رہی تھی جبکہ فردوس کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا ان تینوں کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جبکہ فردوس کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بیوقوف ہو ۔۔۔

امی مارکیٹ سے سامان لینا تھا آپ نے فردوس کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی تھی جبکہ  رابیہ اور مہرین صاحبہ علی خاور فردوس کی بات پر زور سے ہنس رہے  تھے ۔۔۔

جو سامان لینا تھا ہم پہلے ہی لے چکے ہیں اب تو تمہیں دکھانے کی باری ہے رابیہ نے کہا  ۔۔۔۔

علی خاور نے ڈرائیور کی اور وہ گاڑی سیدھا اپنے گھر کی طرف لے گیا ۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مہرین صاحبہ  نے اپنا خوبصورت گھر بے حد طریقے سے رکھا ہوا تھا ہر چیز بے حد حسین تھی ۔۔

وہ چاروں کے چاروں جب گھر پہنچے تو گھر کے اندر یاسر اور نور پہلے ہی موجود تھے ۔۔۔۔

فردوس دونوں کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے جبکہ ساتھ ہی ساتھ خوش بھی تھی کیونکہ وہ کافی دنوں سے دونوں سے مل نہیں پائی تھی ۔۔۔ 

گھر میں ہر طرف گلاب کے بڑے بڑے پھول تھے ۔۔۔ ڈیکوریشن ان دونوں نے مل کر  کی تھی ۔۔۔۔فردوس ڈیکوریشن کو دیکھ کر بے حد حیران تھی جبکہ مہرین  صاحبہ  اور رابیہ اب فردوس کو  سیدھا ایک کمرے میں لے گئی تھی ۔۔۔

مہرین صاحب نے دروازہ کھولا تو سامنے بیڈ  کے اوپر ایک بہت ہی خوبصورت سفید رنگ کا غرارہ تھا ۔۔اسی کے ساتھ کی میچنگ کی جیولری چوڑیاں گجرے سینڈل خوبصورت  کلچ ہر چیز بہت خوبصورت طریقے سے رکھی ہوئی تھی اور بے حد حسین لگ رہی تھی یہ شاپنگ ان دونوں ماؤں  نے مل کر کی تھی ۔فردوس نے ایک نظر ان ساری چیزوں کو دیکھا اور پھر تیزی سے گردن موڑ کر ان دونوں کو رابیہ  کی آنکھوں میں بے شمار آنسو تھے جبکہ مہرین  صاحبہ فردوس کے پاس چلی آئی ۔۔

آج ہم تمہیں دلہن بنائیں گے آج تمہارا اور علی خاور کا نکاح ہے  فردوس مہرین صاحب نے فردوس کے چہرے پر پیار کرتے ہوئے کہا جبکہ فردوس بھی حیرانی سے ان سب کو کھڑا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔فردوس نے  ایک نظر رابیہ کو دیکھا جو کہ آنسو صاف کرتی ہوئی اب اس کے پاس چلی آ رہی تھی ۔۔۔

آج تم دونوں ایک دوسرے کے ہونے جا رہے ہو تم دونوں نے بہت تکلیفیں سہیں  ہیں لیکن آج خوشی کا دن ہے ۔۔

ہمیشہ خوش رہو فردوس ہمیشہ تمہارے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہے ۔۔۔رابیہ  کہتے ہوئے تیزی سے فردوس کے  گلے لگی جب کہ وہ دونوں ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے گلے لگ کر  رونے لگی تھی  ۔۔۔

امی بابا بابا کیا کریں گے ۔۔مجھے بابا سے بہت ڈر لگتا ہے ۔۔اگر انہیں کچھ پتہ چل گیا تو ۔۔۔؟؟

تو کیا ہوگا امی ؟؟؟

میں نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے مضبوط کیا ہے فردوس یہ سب باتیں کرکے مجھے مزید مت توڑو زندگی میں پہلی بار تمہاری ماں نے تمہارے لئے کچھ کیا ہے تم ہی کہتی  تھی نہ مجھ سے ہمیشہ امی کچھ کریں کچھ  بولیں تو  دیکھو آج میں نے تمہاری وہ شکایت دور کر دیں ۔۔چاہے کچھ بھی ہو جائے میں کسی بھی بری چیز کا سایہ تمہاری خوشیوں پر نہیں پڑھنے دوں گی ۔۔۔۔

اب تم جلدی سے بہت اچھے طریقے سے تیار ہو جاؤ ۔۔نور  تمہاری مدد کریں گی اور ہم بھی ہیں چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ  ۔۔۔۔

کچھ وقت کی بعد فردوس نے   وہ حسین ترین غرارہ پہنا اور اس کے ساتھ کی چیزیں پہنی سفید رنگ کے غرارے میں وہ آسمان سے اتری ہوئی کوئی پری لگ رہی تھی ۔۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت حسین تھی ۔۔دلہن کے روپ میں آج وہ اس  قدر حسین لگ رہی تھی کہ وہ خود دیکھ کر اپنے آپ کو حیران تھی سفید رنگ اتنا جج سکتا ہے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔۔

سفید پھول اس کے بالوں میں بڑی خوبصورتی سے لگائے ہوئے تھے اور گجروں   کی خوشبو  سے پورا کمرہ مہک رہا تھا ۔۔۔

ان تینوں نے مل کر فردوس کا  دوپٹہ سیٹ کیا ۔۔۔۔

کچھ وقت کے بعد وہ تینوں فردوس کو لے کر باہر آئی تو سارے انتظامات ہو چکے تھے مولوی صاحب بھی آ چکے تھے اور بہت قریب کے چند اور لوگ بھی جو کہ بھروسے کے تھے اور قابل اعتبار بھی اور بہت قریبی بھی ۔۔

مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔

ماحول میں ایک دم خاموشی تھی دونوں ماؤں کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی نور کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جبکہ فردوس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اور علی خاور کے چہرے پر آج بہت سکون تھا آج کے دن اس کی محبت اس کے نام ہونے والی تھی اسے ملنے والی تھی ۔۔

مولوی صاحب نے نکاح کی رسم پوری کرتے ہوئے تین تین بار ان دونوں سے رضامندی لیں ۔۔دونوں نے دستخط کیے ۔

وہ دونوں اب مکمل طور پر  ایک دوسرے کے تھے ۔۔۔

جتنی مشکل جتنی پریشانی جتنے آنسو اور جتنے غم ان دونوں کی حصے میں آنے تھے وہ  ا چکے  تھے اب خوشیوں کے آنے کی بازی تھی ۔۔۔

نکاح کے بعد علی نے فردوس کا گھونگھٹ اٹھایا  تو علی خاور  یوں ہو گیا جیسے وہ سانس لینا بھول گیا ہوں وہ بس یونہی  اسے دیکھتا رہا دیکھتا رہا ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت حسین لڑکی تھی مگر آج  دلہن کے روپ  میں اس کی بیوی کے روپ میں آج وہ اسے دنیا کی حسین ترین لڑکی لگ رہی تھی ۔۔۔

دونوں کی محبت آج مکمل ہو گئی تھی دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں آ چکے تھے ایک بہت مضبوط رشتے میں ۔۔۔

شام کا وقت تھا ایسے میں فردوس اور رابیہ دونوں گھر کے لان میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

رابیہ کے چہرے پر پریشانی کے اثرات تھے جبکہ فردوس اپنی ماں کو دیکھ کر پریشان تھی فردوس اور  علی  خاور کے نکاح کو تقریبا ایک مہینہ ہونے والا تھا ۔۔جبکہ رابیہ  اندر ہی اندر حد سے زیادہ پریشان تھی کہ وہ اب کیا کرنے والی ہے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ کس طریقے سے فردوس کا نکاح رضا  کو بتائے گی اور کس طریقے سے عامر کے ساتھ فردوس کی منگنی ختم کروائے گی وہ اسی کشمکش کا شکار تھی اور بہت گہری سوچ میں تھی کے فردوس نے  اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔۔

 امی میں کب سے دیکھ رہی ہوں آپ کسی گہری سوچ میں ہیں اور آپ کی چائے بھی ٹھنڈی ہو رہی ہے کیا بات ہے مجھے بتائیں ۔۔۔

میں بہت پریشان ہوں فردوس تمہارے اور علی کے نکاح کو تقریبا ایک ماہ ہوچکا ہے لیکن یہ رشتہ ابھی تک ہم نے خوفیہ رکھا ہے تمہارے باپ کو بتانے کے لیے مجھے بہت ساری ہمت چاہیے لیکن میں یہ بھی جاتی ہوں  کہ تمہارا باپ میری کسی بات کو نہیں سمجھے گا وہ اسے اپنی ۔۔۔ اپنی انا اپنی ہٹ دھرمی اور اپنا ضد مزاج اور اپنی بیزاتی  ہی  سمجھے گا وہ کبھی بھی تمہاری خوشیوں کو اہمیت نہیں دے گا اور نہ ہی میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ۔۔رضا نے  آج تک میری کسی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے اور آج جب تمہارے نکاح کو ایک مہینہ ہو چکا ہے تو میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اب یہ راز اور کتنے دنوں تک راز رہے گا حقیقت تو ایک نہ ایک دن سب کو پتہ چل ہی جائے گی ۔۔ 

پھر آپ کیا کریں گی امی ؟؟

  میں اس بات کو لے کر ہی تو   بہت پریشان ہوں ۔۔۔

مگر میں سوچ رہی ہوں کہ یوسف صاحب اور ان کی بیوی سے بات کرو وہ لوگ ضرور میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔پہلے میں عامر کی ماں سے بات کر لیتی ہو یقیناً وہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گی ۔۔میں جانتی ہوں اس بات کو سن کر ان کا دل  ضرور ٹوٹے گا لیکن میں نے تم سب کی زندگی بچا لی ہیں شادی ہو جاتی تو سب کچھ برباد ہو جاتا  ۔۔

 میں نے تم تینوں کی خوشیوں کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے فردوس ۔۔۔

میں  جانتی ہو امی آپ نے ہم تینوں کی بھلائی کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے مگر کیا یہ بات آپ سب کو  سمجھا پائیں گی کیا یہ بات بابا سمجھ پائیں گے ہرگز نہیں  امی ہرگز نہیں آج یا کل بابا  کو یہ بات پتہ چل گئی تو اس دن ہمارے گھر میں   قیامت آ جاۓ گی   ۔۔

تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں فردوس اس دن شاید تمہارے  اور میرے  دونوں کے لیے ہی قیامت کا دن ہوگا کیونکہ تم نے اور میں نے زندگی میں پہلی بار تمہارے باپ کی رضامندی کے بغیر کوئی کام کیا ہے ان سے چھپ کر کوئی کام کیا ہے مگر تم جانتی ہو فردوس میرا رب گواہ ہے میرا رب گواہ ہے کہ میں نے اور تم نے کتنی مشکلات کتنی پریشانی سہی ہے  میرا رب گواہ ہے کہ میں ایک ایسی ماں ہوں جو کہ انتہائی بے بس ہے میں ایک ایسی ماں ہوں جس نے اپنی بیٹی کی خوشی کے لیے پہلی بار اس کا ساتھ دیا ہے مگر میں اتنی زیادہ بدنصیب ہوں کہ آگے کچھ نہیں کر پا رہی ۔اس لیے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے کہ پہلے میں بیٹھ کر یوسف صاحب کی بیوی سے بات کرو گی وہ پھر یوسف صاحب سے بات کرکے انہیں  سمجھا ؤ گی ۔اور  وہ  یقینا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کھڑا کریں گے جب انھیں معلوم ہوگا کہ تمہارا نکاح ہوچکا ہے تو یقینا وہ لوگ اپنے قدم پیچھے ضرور کر لیں گے یہی ایک آخری کوشش ہے کیونکہ تم جانتی ہو کہ رضا سے بات کرنا موت کے کنویں میں اپنے آپ کو خود  پھیکنے کے برابر ہے ۔اس لیے بہتری اور سمجھداری یہی ہے کہ پہلے میں عامر کے والدین سے بات کرکے پرسکون ہو جاؤ وہ لوگ انکار کر دیں گے تو پھر رضا بھی آسانی سے نہ سہی ہو سکتا ہے کہ مان جائیں اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے ۔میں بھی اچھی امید کے ساتھ ان سے بات کر کے دیکھتی ہوں ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا فردوس ۔۔۔۔۔

فردوس کل رات میرے پاس مہرین  صاحبہ کی کال آئی تھی وہ بیچاری دو ہفتوں سے کہہ رہی ہیں ساتھ کھانا کھانے کے لئے مگر رضا کے ڈر کی وجہ سے میرے اندر ہمت نہیں ہے اور   رضا کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں میں ان کو  اگلے ہفتے کا وقت دیتی ہوں اگلے ہفتے رضا  ایک جگہ کسی کام سے جانے والے ہیں صبح نکلیں گے تو شام تک آجائیں گے یا ہوسکتا ہے کہ ایک اور دن لگ جائیں اور دوپہر تک آئیں ۔۔

یوں بار بار انہیں انکار کرنا اچھا نہیں ہے اب تمہاری ساس ہیں اور علی خاور تمہارا شوہر بار بار انکار کرنے سے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں فردوس میں ان سے بات کر کے ان سے معذرت کر لوں گی اور پھر اگلے ہفتے کا کہہ دیتی ہوں ایک گھنٹے میں آجائیں گے  وہ یقینا میری بات سمجھ  جاۓ گئی کہ ہم جلدی میں ہے اور ان کو  برا بھی نہیں لگے گا ۔۔۔

ٹھیک ہے امی جیسا آپ کو بہتر لگے ۔۔۔

 فردوس رات کو اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

اس کے ہاتھ میں کوئی کتاب تھی جو وہ بیٹھی ہوئی پڑھ رہی تھی ۔۔۔

کہ اچانک اس کا موبائل بجنے  شروع ہوا اس نے اسکرین پر دیکھا علی خاور کا نمبر تھا ۔۔

فردوس نے اس کا نمبر دیکھا اور پھر نمبر کاٹ دیا ۔ ۔۔

دوسری طرف علی خاور کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔

اس نے دوبارہ نمبر ملایا اور فردوس نے  دوبارہ سے فون کاٹ دیا ۔۔

وہ بھی ڈھیٹ تھا بار بار نمبر ملاتا رہا اور وہ نمبر کاٹتی  کرتی رہی لیکن علی خاور کی طرح وہ اتنی زیادہ ڈھیٹ ہڈی نہیں تھی ۔۔آخرکار تنگ آکر اس نے فون اٹھا ہی لیا ۔۔۔۔

کیا مسئلہ ہے کیوں فون کر رہے ہیں بار بار ۔۔؟؟

افففف ۔۔۔اتنا ناراض ہو مجھ سے ۔۔۔

کیوں میں کیوں ناراض ہو گی بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے ناراض ہونے کی کیا کام ہے جلدی سے بولیں  میں مصروف ہوں ۔۔۔۔

اف توبہ توبہ کیا مسئلہ ہے فیری مرچیں کیوں چبا  رہی ہو ۔۔دوسری طرف علی خاور کا قہقہہ  گونجا ۔۔۔

فردوس کو مزید تپ  چڑھنے لگیں کیونکہ وہ صبح سے ہی حد سے زیادہ مصروف تھا اور صبح سے دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

اس وقت بھی فون کرنے کی کیا ضرورت تھی اپکو ۔۔؟؟؟

نہ کرتے فون لگے رہتے کام میں اپنے ورکرز کے ساتھ میں کون ہوں بھلا ۔۔۔

وہ بھی  غصہ تھی۔۔

میں نے تمہیں صبح کال کی تھی لیکن تم نے نہیں اٹھائی تم  بھی تو  مصروف تھی مگر میں  ناراض نہیں ہوا تم سے ۔۔

پھر میں نے تمہیں شام میں کال کی تم نے تب  نہیں اٹھائی تب بھی تم  مصروف تھی ۔۔۔

پھر دوبارہ اس لئے نہیں کہ مجھے لگا تم مصروف ہو گی اور   میں بھی مصروف تھا  اس لئے ۔۔نئی لوکیشن ہے نئے لوگ ہیں ان کے ساتھ ان کو پراپر طریقے سے کام بتانا سمجھانا تھوڑا سا وقت لگ جاتا ہے فیری ۔۔۔۔

خیابان راحت کے  ایریاز میں کچھ کام ہے وہاں کی کچھ بلڈنگ وغیرہ ہیں جن کو بنانا ہے تو بس آج کل سب اسی میں مصروف ہیں اور تم تو جانتی ہو میرا کام کیا ہے اس لئے میں تھوڑا سا مصروف تھا لیکن  سوری نیکسٹ ٹائم میں اور خیال رکھوں گا ۔۔۔ٹھیک ہے ہنی ۔۔۔۔

دوسری طرف فردوس کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ آئی ۔۔

تم ہنس رہی ہو نا ۔۔۔؟؟

علی خاور کو فورا سے   محسوس ہوا ۔۔۔

نہیں تو ۔۔

جی ہاں تم ہنس رہی ہو بہت مزہ آتا ہے نہ تمہیں مجھے تنگ کر کے  ایک  بار آ جاؤ میرے پاس پھر میں تمہیں بتاتا ہوں کے تنگ کر نا کیا ہوتا ہے ۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔آے بڑے تنگ کرنے والے وہ بھی فورا بولی۔۔۔

اچھا اپکا کام کیسا چل رہا ہے سب ٹھیک تھا ۔۔۔

ہاں سب ٹھیک ہے ۔۔۔ویسے 

میں سوچ رہا تھا کہ جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے میں نے تمہیں کوئی گانا نہیں سنایا ۔۔۔

گانا سنو گی ۔۔۔؟؟

بالکل۔۔۔۔

 وہ ایک دم خوش ہو گئی ۔۔۔۔

کون سا ۔۔۔؟؟؟

کوئی بھی ۔گٹار کے ساتھ ۔۔گٹار بھی پلے کریئے گا ۔

جو حکم ۔۔۔

تیار ہو جاو یہ صرف تمہارے لۓ فیری۔۔۔

نہ وہ اکھیاں روحانی کہیں ۔۔۔

نہ وہ چہرہ نورانی کہیں ۔۔۔

کہیں دل والی باتیں بھی نہ ۔۔

نا وہ سجری جوانی کہیں ۔۔۔

جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔۔

جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔۔۔

نہ تو ہنسنا  رومانی کہیں ۔۔

نا تو خوشبو سہانی کہیں ۔۔۔

نہ وہ رنگلیں ادائیں دیکھیں ۔۔

نہ تو وہ پیاری سی نادانی کہیں ۔۔

جیسی تو ہے ویسی رہنا۔۔۔۔۔۔

جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔۔جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔۔۔

بارشوں کے موسموں کی بھیگی ہریالی تو ۔۔۔

سردیوں میں آتی ہے 

 گالوں پہ جو لالی تو ۔۔

راتوں کا سکون ۔۔۔۔۔۔

راتوں کا سکون بھی ہے صبح کی اذان بھی ۔۔۔

چاہتوں کی چادروں میں میں  نے  ہے  سنبھالیں تو۔کہیں آگے جیسی جلتی ہے بنے برکھا کا پانی کہیں ۔۔

کبھی مان جانا چپکے سے ۔۔

یو ہی اپنی چلانی کہیں ۔۔ 

جیسی تو ہے ویسے  رہنا جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔جگ گھومیاں تھارے جیسا نہ کوئی ۔۔۔

علی خاور نے اپنی خوبصورت سی آواز میں گانا بند کیا تو فردوس کا چہرہ علی خاور کی محبت کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ جب جب اس کے لئے علی گانا گاتا تھا فردوس اس کی خوبصورت سی آواز میں جھگڑ سی جاتی تھی کچھ تھا اس کی آواز میں جو اسے باندھ دیتا تھا ۔۔اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا جب کہ اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی سی نمی تھی ۔۔

آپ کیوں مجھ سے اس قدر پاگلوں والی محبت کرتے ہیں علی آپ کو ڈر نہیں لگتا اس  محبت سے ۔۔۔

علی خاور فردوس کی بات پر آہستہ سے مسکرایا ۔۔

مجھے اپنی محبت پر فخر ہے فیری ۔اور میں بہت خوش نصیب  ہوں جو تم میری  بیوی کے طور پر میری زندگی میں شامل ہو چکی ہوں ۔وہ دن دور نہیں جب میں تمہیں پوری دنیا کے سامنے اپنا بناؤں گا انشاء اللہ تعالی وہ دن بھی  بہت بہت قریب ہوگا فردوس میں پوری دنیا کے آگے تمہارا ہاتھ اتنی مضبوطی سے تھامو گا کہ کوئی طاقت صرف موت کے علاوہ ہمیں جدا نہیں کر پائے گی ۔۔۔۔تمہاری اور میری محبت کی داستان ضرور مکمل ہوگی اور پوری دنیا دیکھے گی کے فردوس علی خاور کی محبت میں کتنی طاقت ہے ۔۔۔کیونکہ میں جانتا ہوں تم بھی مجھ سے اتنی شدت سے محبت کرتی ہوں جتنی میں  تم سے کرتا ہوں ۔۔

ہمارا عشق یقینا عشق لاء  نہیں ہوگا فردوس ۔۔۔

انشاءاللہ علی میں روز یہی دعا کرتی ہوں کہ ہمارے عشق کے آگے کبھی بھی لا نہیں لگے ۔۔لا کا مطلب ہوتا ہے نہیں ۔۔ اور میں نہیں چاہتی کہ میرا عشق مجھے لاحاصل رہے ۔۔۔۔

میں چاہتی ہوں کہ ہمارا عشق مکمل ہو ۔۔۔

مجھے عشق لاء کے  نام سے بہت ڈر لگتا ہے علی  ۔۔۔۔۔

آج فردوس  نے سرخ و سیا ہ  رنگ کی بےحد پیاری فروک پہنی ہوئی تھی جو کہ  نیچے تک آتی تھی اور کناروں پر چوڑی چوڑی سیاہ رنگ کی بیل  لگی ہوئی تھی ۔۔وہی بیل گلے اور آستینوں پر بھی بہت خوبصورتی سے لگی تھی ۔۔

اس نے کانوں میں سیاہ رنگ کے ایر رنگ پہنے ہوئے تھے اور گلے میں ایک ہلکا سا نیکلس وہ سرخ  اور سیاہ رنگ کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی آج اسے علی خاور اور  اس کی امی کے ساتھ لنچ پر جانا تھا جس میں رابیہ بھی  اس کے  شامل تھی ۔۔فردوس نے ایک چھوٹا سا باکس کھولا جس کے اندر ایک بہت پیاری سی نوز پن رکھی ہوئی تھی یہ اسے مہرین صاحبہ نے گفٹ کی تھی جو کہ بہت خوبصورت تھی اور قیمتی بھی ۔۔۔فردوس نے وہ نوز پن اپنی ناک میں پہنی جو اس کے چہرے پر خوب پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔

رابیہ  اور فردوس دونوں جانے کے لیے تیار تھیں  ۔۔

وہ دونوں مہرین صاحبہ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچی جو کہ ایک بہت اچھا ریسٹورانٹ تھا ۔۔علی خاور ان دونوں کو خود لینے آنے والا تھا لیکن رابعہ نے اسے منع کر دیا کہ وہ دونوں خود ہی آ جائیں گی ۔۔۔

علی خاور نے اپنے نام کی ٹیبل پہلے ہی ایک جگہ پر بک کر لی تھی ۔۔۔۔

علی خاور نے ان دونوں کی طرف گلدستہ بڑھایا تو وہ دونوں مسکرا اٹھی مہرین صاحبہ باری باری ان دونوں سے مل رہی تھی ۔۔

بہت اچھا اور پرسکون ماحول تھا ریسٹورنٹ بھی کافی خوبصورت تھا ۔۔

علی  کے برابر میں آج فردوس بیٹھی تھی جب کہ رابیہ اور مہرین صاحبہ ایک طرف تھی ۔۔

علی  نے اپنی فردوس کی  مہرین  صاحبہ اور رابیہ کی بہت خوبصورت یادیں اپنی موبائل کے کیمرے میں محفوظ کر لی تھی ۔۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس کے برابر میں بیٹھی سرخ اور سیاہ رنگ کی لمبی سی فراک والی لڑکی بے حد حسین لگ رہی تھی جو کہ اب اس کی بیوی تھی ۔۔ دوسری طرف علی خاور نے سفید رنگ کی شرٹ کے نیچے بلیک رنگ کی جینز پہنی ہوئی تھی ۔۔جس میں وہ بہت گڈ لوکنگ ، ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔

بہت اچھے اور پرسکون ماحول میں کھانا کھایا گیا ۔۔۔

وقت یوں ہی گزر گیا  تو  مہرین صاحب نے اصرار کیا کہ وہ ان کے گھر چل کر چائے پیے اور فردوس کیلئے انہوں نے اور علی خاور نے مل کر کچھ شاپنگ کی ہے وہ بھی دینی ہے کیونکہ وہ چیزیں مہرین صاحبہ ان کے گھر میں آ کر  نہیں دے سکتی تھی ۔رابیہ کے  بہت منع کرنے کے باوجود بھی مہرین صاحب فردوس اور رابیہ کو اپنے ساتھ گھر پر لے  گئی اور ان چاروں نے شام کی چائے ایک ساتھ پی ۔۔۔

چائے پینے کے بعد وہ لوگ جیسے ہی فارغ ہوئے تو علی خاور اپنے ہاتھ میں بہت سارے شاپنگ بیگ لے کر آیا وہ خریداری جو اس نے فردوس کیلئے اپنی مرضی سے کی تھی ۔دوسری طرف مہرین صاحب نے رابیہ کو بہت اچھے اور قیمتی تحفے دیے تھے ۔۔۔

اتنی ساری شاپنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی آپ کو علی؟؟ فردوس علی  خاور کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ مہرین صاحبہ مسکرائیں  ۔۔۔

کیوں ضرورت نہیں تھی بیوی ہو تم  اس کی زمیداری ہو علی کی یہ تو تمہارا حق ہے بیٹا ۔۔تم پر خرچ نہیں  کرے گا تو پھر کس پر کرے گا ۔۔۔تمہیں ایک بات بتاؤ یہ  سب علی  نے خاص تمہارے لئے اپنی مرضی سے لیا ہے تم اسے ضرور پہنا ۔۔۔۔۔

مجھے بہت خوشی ہوئی بہت بہت شکریہ آپ دونوں کا فردوس نے کہا ۔۔۔

چلیں اب ہم نکلتے ہیں مہرین صاحبہ رابیہ  اور علی خاور ایک آخری ملاقات کے بعد اب نکلنے لگے تھے ۔۔۔فردوس ان سب سے آخری بار مل رہی تھی ۔۔۔

فردوس علی  نے اسے  پکارا  ۔۔۔

مہرین صاحبہ اور رابیہ دوسری طرف کھڑی باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔

علی خاور نے اپنی وہی بے حد حسین سیاہ رنگ کی انگوٹھی نکالی اور نرمی سے فردوس کا ہاتھ تھاما ۔۔پھر بہت محبت اور اپنائیت سے وہ انگوٹھی دوبارہ اس کے ہاتھ کی انگلی میں پہنا دی ۔۔وہ چند لمحے بے مقصد اس کا ہاتھ پکڑے اسے دیکھتا رہا تھا ۔۔پھر اس نے ایک نظر فردوس کو دیکھا اور پھر آہستہ سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔۔

ابھی تو تم بہت مزے سے اپنی امی کے ساتھ جا رہی ہوں لیکن میری ایک بات یاد رکھنا جب تم میرے پاس آ جاؤ گی تو پھر میں تمہیں کہیں جانے کی اجازت نہیں دوں گا صرف میرے پاس رہو گی تم صرف اور صرف میرے پاس ۔دن بدن میری بے چینی بڑھتی جا رہی ہے تم سے محبت دن بدن اور زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے تمہارے بغیر بہت مشکل ہو گیا ہے اب  سب کچھ ۔۔۔تم میری ہو مگر ایسا لگتا ہے کہ بہت دور ہو مجھ سے وہ دن دور نہیں جب میں  یہ ساری دوریاں  یہ ساری دیوارے  خود اپنے ہاتھوں سے گرا دوں گا اور پھر تمہارے اور میرے درمیان کسی قسم کی کوئی دیوار کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی علی  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک ایک لفظ بہت جمعا کر کہہ رہا تھا یوں جیسے اپنا حق جما رہا ہوں اپنا حق جتا  رہا ہوں ۔۔علی خاور کے لہجے میں آج ایسی کشش تھی کہ فردوس  کے دونوں گال سرخ ہو گئے تھے ۔۔ ۔۔

علی خاور نے دونوں کو ان کے گھر سے تھوڑا سا دور چھوڑا تھا ۔۔

وہ اپنی گاڑی مو ڑ نے لگا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی نیلے رنگ کی گاڑی اس کا پیچھا کر رہی ہو جو کہ  اب دوبارہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی علی کو یوں لگا جیسے شاید اس کا وہم ہوگا وہ گاڑی واپس  سے اپنے گھر کی طرف  لے لیا    ۔۔۔۔

فردوس اور ر  ابیہ دونوں فردوس کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔فردوس میں  سوچ رہی ہوں کہ یوسف صاحب کے گھر جاکر میں ان کی بیوی سے بات کر لوں اس سلسلے میں ان کی بیوی یوسف صاحب سے بات کرلیں گے تو پھر میں دونوں سے بیٹھ کر ساتھ بات کر لو گی اور انہیں اچانک رضا کو بتانے کا بھی منع کروں گی میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ وہ میری بات سمجھ جائیں ۔۔۔ میں ان کو سارا سچ بتا دونگی اور ان سے انکار کا کہوں گی کے وہ خود انکار کر دیں ۔۔

تمہارے نکاح کو ایک مہینے سے زیادہ وقت ہو چکا ہے   کب تک یہ بات چھپی رہے گی ہم نہیں جانتے کب تک یہ طوفان تھاما ہوا ہے ہمیں کوئی خبر نہیں ۔۔یوسف صاحب اور ان کی بیوی بہت اچھے اور نرم مزاج کے لوگ ہیں ۔اور دوسرا یہ کہ وہ بچپن سے لے کر آج تک تمہاری خوشی میں ہمیشہ خوش ہوتے آئے ہیں تو یقینا اس بات کو بھی ضرور سمجھیں گے ۔۔۔

انشاء اللہ تعالی ایسے ہی ہوگا میں تو اللہ پاک سے روزانہ یہی دعا کرتی ہوں کہ سب ٹھیک ہو جائے امی ۔۔۔۔

ہاں بیٹا میں اسی ہفتے بات کرتی ہوں دونو ں سے ۔۔۔

آج اتوار کا دن تھا ۔ فردوس اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے سرخ گلابوں کو پانی دے رہی تھی ۔۔جبکہ مالی دوسرے پودوں کی صاف صفائی اور کٹائی کر رہا تھا ۔۔

ایسے میں رضا کی گاڑی گھر کے مین ڈور سے داخل ہوتی ہوئی اسے نظر آئی وہ صبح سے ہی ناشتے کے بعد کسی کام کے لئے نکل چکا تھا اور اب آ رہا تھا ۔ 

رضا کی گاڑی جیسے ہی اندر آئی ۔۔۔ 

اور  وہ اپنی گاڑی سے اترا وہ کچھ قدم ہی چلتا ہوگا اندر  کی جانب  آیا کہ دروازہ ایک بار پھر سے بچا ۔رضا نے گردن موڑ کر دیکھا تو کوئی آدمی کھڑا تھا ۔۔اس کے ہاتھ میں ایک خاکی رنگ کا بڑا سا لفافہ تھا ۔۔۔

جس کے اوپر بڑا بڑا فردوس رضا لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔

گھر کے چوکیدار نے وہ لفافہ لے لیا ۔اور اس آدمی نے چوکیدار کو کہا کہ اس لڑکی سے کہیں کہ یہاں پر سائن کر دے جس کے نام یہ پارسل آیا ہے ۔ رضا چند لمحے وہیں کھڑا رہا اور آدمی اور چوکیدار کے درمیان ہونے والی باتوں کو سنتا رہا پھر خود چلتا ہوا دروازے کے پاس گیا ۔۔اور اس سے وہ لفافہ لے کر سائن کر دیا ۔۔

وہ آدمی لوٹا تو رضا تیز قدم اٹھاتا ہوا اب اندر جا رہا تھا جبکہ فردوس اس بات پر بے حد حیران تھی کہ کوئی پارسل اس کے نام آیا ہے جبکے اس نے کچھ منگوایا بھی نہیں   تھا اور نہ ہی کبھی اس کے نام کوئی پارسل آیا تھا وہ اچانک  سے بہت  زیادہ پریشان ہو گئی  اور تیزی سے مالی کے ہاتھ میں پانی کا پائپ پکڑا کر اندر کی طرف بھاگی ۔ ۔۔۔۔یا اللّه کیا ہے پار سل میں ۔۔۔۔۔۔

فردوس۔۔۔۔فردوس ۔۔۔۔

 رضا نے زور سے آواز لگائی تو وہ دوڑتی ہوئی رضا کے پاس آئی ۔فردوس۔۔۔

 رضا نے ایک بار اور آواز لگائی تو وہ اس کے بالکل سامنے کھڑی تھی ۔۔۔

جی بابا ۔۔۔۔

یہ کیا ہے ۔۔۔؟؟؟

کس کا پارسل  ہے تمہارے نام پر ۔۔؟؟؟ہاں ۔۔؟؟؟

پتا  پتا ۔۔نہیں بابا میں نے تو کچھ بھی نہیں منگوایا ۔۔۔

آن لائن منگوایا  ہے کیا کچھ تم نے؟؟؟

 میں نے منع کیا ہے نا آن لائن مت لیا کرو سامان یہ  لوگ نمبر لے کر پیچھے لگ جاتے ہیں سمجھ نہیں آتی بات ۔۔۔

نہیں  نہیں بابا میں نے میں نے کچھ تو کچھ بھی نہیں منگوایا میں سچ کہہ رہی ہوں بالکل ۔۔ 

رابیہ بھی رضا کی آواز سنتے ہوئے تیزی سے آئی ۔ ۔۔۔

تو" فردوس رضا" میرا نام تو ہے نہیں ۔۔۔گھر میں تمہارا ہی نام فردوس ہے کسی اور کا تو نہیں ہے نا رضا ا  سے دیکھتے ہوئے غصے سے کہہ رہا تھا وہ یوں سمجھ رہا تھا جیسے فردوس اس سے جھوٹ بول رہی ہے جبکہ دوسری طرف وہ بے حد پریشان تھی نہ جانے اس میں کیا ہوگا اور اس کے نام پارسل تو کبھی آیا ہی نہیں ہے آج پتا نہیں کہاں سے آ گیا علی خاور کبھی اس طرح سے کچھ بھیج  نہیں سکتا تھا اس بات کا تو اسے یقین تھا ۔۔کہ وہ اس سے پوچھے بغیر اس کی مرضی کے بغیر کبھی بھی کچھ اس کے گھر نہیں  بھیجے گا اور نہ ہی گھر آئے گا پھر یہ میرے نام کا پارسل نہ جانے کہاں سے آ گیا ۔۔۔

ادھر آؤ ادھر آ و فورا ۔۔۔۔پڑھو جلدی پڑھو جلدی  کے  اوپر کیا لکھا ہوا ہے ۔۔۔

جلدی جلدی چل کر او یہاں یو مردار بن کر کھڑی مت رہو ایک جگہ پر فورن یہاں پر او۔۔۔

پارسل کے اوپر جس کا نام لکھا ہے وہ پڑھو ۔۔۔۔۔

فردوس تیزی سے رضا کے پاس ڈرتے ڈرتے آئی اور اس نے پارسل پر نام پڑھا تو فردوس رضا لکھا ہوا تھا  ۔۔۔۔

رابیہ کا حلق تک سوگھ گیا  تھا نہ جانے یہ اچانک کیا ہو رہا تھا جب کہ رضا کے برابر میں کھڑی فردوس کانپ رہی تھی ۔۔

تمہارا ہی نام لکھا ہے نہ؟

 کھولو اس کو ابھی  ۔۔۔

رضا نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔فردوس میں ایک نظر رضا  کو دیکھا فردوس کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے اور گلا یوں ہو رہا تھا جیسے پتا نہیں کتنے دنوں سے اس نے پانی نہ پیا ہو ۔۔۔

اس کے حلق میں آنسوؤں کا گولا بنتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تکلیف بڑھتی جا رہی تھی لیکن وہ رضا کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی ورنہ اس کی شامت اور آجاتی ۔۔

کھولو اس کو آواز نہیں آ رہی کیا ۔۔۔

رابیہ اب  فردوس کے برابر میں تیزی سے آ کر کھڑی ہوئی اور اس نے نرمی سے فردوس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

کیا ہے بیٹا اس میں ۔۔؟؟

پتا نہیں امی میں نے تو کچھ بھی نہیں منگوایا ۔۔۔

لاؤ مجھے دو میں کھو لتی ہو ۔۔

رابعہ نے وہ لفافہ اوپر سے پھاڑا تو اندر ایک اور ایسا ہی لفافہ تھا  ۔۔ فردوس  نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا جب کہ رضا کی تیز نظریں ان دونوں کو گھور رہی تھی ۔۔۔

گھر  ایک دم خاموش تھا اتنا کی لفافے کے پھٹنے کی آواز ہر ایک نے بڑے اچھے طریقے سے سنی تھی رضا کا خوف ایسا تھا کہ وہ دونوں کھڑی کھڑی کانپ رہی تھی جبکہ فردوس کا حلق خشک ہو گیا تھا ۔ رابعہ نے جب وہ دوسرا لفافہ کھولا تو اندر تصویریں تھیں  ۔۔۔

رابیہ کو لگا کے وہ سانس نہیں لے پائے گی برابر میں کھڑی فردوس سانس روکے اس لفافے کے اندر سے چار تصویریں دیکھ رہی تھی ۔۔

کیا ہے اندر جلدی سے نکالو باہر ۔۔۔۔

رضا نے زور دار آواز میں کہا تو وہ دونوں کانپ اٹھی ۔۔۔

وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔۔رضا رضا ۔۔۔

 فردوس فردوس  کی یونیورسٹی کی تصویریں ہیں ۔۔وہ جو مری گئی تھی نا وہاں سے آئ ہیں شاید یونیورسٹی والوں نے بھیجی ہیں ۔۔رابیہ وہ  ایک تصویر دیکھ چکی تھی جس میں علی خاور کی سفید رنگ کی شرٹ نظر آ رہی تھی  ۔۔

رابیہ  سمجھ چکی تھی کہ وہ کون سی تصویریں ہیں ۔۔۔

یونیورسٹی کی ہیں تو تمہاری زبان اتنی لڑکھڑا کیوں رہی ہے دکھاؤ مجھے ۔۔۔

فردوس کی سانس مزید تیز تیز چلنے لگی خوف سے اس کے ہاتھ پیر  کانپ   کررہے تھے جبکہ رابیہ کا بھی یہی حال تھا رضا نے  قدم آگے بڑھا یا  اور اس نے تیزی سے رابیہ کے ہاتھوں سے  وہ تمام تصویر کھںینچی  ۔۔

تو  وہ ساری تصویریں جا کر فرش پر گری ۔۔۔

یہ کچھ   تصویریں تھیں جس میں تین تصویروں میں فردوس اور علی خاور ایک ساتھ تھے ۔۔دو تصویریں ان کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔جبکہ ایک تصویر میں وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور چوتھی تصویر میں مہرین صاحبہ  بھی تھی ایک تصویر  رابیہ کی تھی مگر اس  کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔چوتھی تصویر کسی نے علی خاور کے گھر کے باہر لی تھی جب وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

ان تصویروں کو دیکھ کر رضا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔

جبکہ فردوس کو یوں لگ رہا تھا جیسے آج اس کی سانس رک جائے گی ۔۔رابیہ کا یہ حال تھا جیسے کسی نے اسے ٹرین کے نیچے دے دیا ہو ۔۔خوف اور ڈر کا احساس دونوں کو مکمل طریقے  سے جھگڑ چکا تھا ۔۔

رضا کے چہرے پر ان تمام تصویروں کو دیکھ کر بے حد  حیرانی تھی بے حد حیرانی  اس کا خون کھول رہا تھا ۔۔رضا کا دل چاہ  رہا تھا کہ وہ ہر چیز کو آگ لگا دے اور   سب سے پہلے ان  دونوں کو ۔۔۔۔

یہ  سب یہ سب کیا ھو رہا ہے  کیا ھو رہا ہے؟؟؟؟

 فردوس اور رابعہ رضا کے خوف کی وجہ سے  کھڑی کانپ رہی تھی جبکہ رضا ان دونوں پر چلا رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان دونوں کو گلا دبا کر  ہی مار دے ۔۔۔

تم دونوں مل کے مجھے دھوکا دے رہی ہوں؟؟؟

 مجھے۔۔۔۔ رضا کو 

 اپنی اوقات یاد ہے یا نہیں ۔۔۔

رضا  نے تیزی سے گلدان اٹھا کر زمین پر مارا اور وہ دو قدم فردوس کے تیزی سے قریب بڑھا اور اس نے فردوس کو بالوں سے پکڑا ۔۔۔

اور اسے بالو ں سے کھنیچتے ہوے  اپنے کمرے میں لے آیا جبکہ رابیہ فردوس کو چھڑانے کے لیے تیزی سے رضا کے پیچھے بھاگی وہ رضا رضا  کرتی ہوئی اس سے بھیک مانگ رہی تھی مگر وہ سننے کو تیار ہی نہیں تھا وہ تیزی سے گھوما اور اس نے پوری قوت سے ایک زوردار چماٹا رابعہ کے منہ پر مارا رابیہ تیزی سے زمین پر جاگیریں اور اس کے ہونٹ کے کنارے سے خون نکلنا شروع ہو گیا چماٹ اتنی زور کا تھا کہ رابیہ کا گال تک سن ہوگیا تھا جبکہ وہ فردوس کے بال مضبوطی سے پکڑے اسے گھسیٹتا ہوا کمرے کے اندر لے جا رہا تھا ۔۔۔

وہ دونوں ہی کمرے میں آ چکی تھی جب کہ رضا نے ان دونوں کو کمرے میں پھینک کر کمرے کا دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔۔

باہر کھڑے ایک ملازم سے سب کو پیغام بھیجا کہ وہ سب جلدی چھٹی کرے اور ابھی کے ابھی چلے جائیں رضا کے حکم کی تعبیر منٹوں میں ہوئی تھی اور تمام ملازمین جو تقریبا سارا کام مکمل کر کے بیٹھے ہوئے تھے تیزی سے اپنا سامان سمیٹ کے  اب یہاں سے نکل چکے تھے ۔۔۔

تقریبا بیس منٹ کے بعد وہ اپنے کمرے میں واپس آیا تھا اس نے کمرے کا لاک کھولا رضا کی آنکھوں میں اس قدر غصہ تھا کہ وہ دونوں ہی کا نپ ر  ہی تھی نہ جانے آگے کیا ہونے والا تھا ۔۔۔۔

بتاؤ مجھے تم دونوں سارا سچ ۔تم دونو ں  انتہائی گھٹیا قسم کی عورتیں ہو میری ناک کے نیچے تم لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہو اور مجھے اس کی خبر بھی  نہیں اتنی زیادہ شاطر ہو چکی ہو تم دونوں اتنے زیادہ پر نکل چکے ہیں تم دونوں کے رضا نے قریب رکھا ہوا  واز زور سے اٹھا کر فردوس کے پاؤں کے پاس مارا ۔واز جاکر  تیزی سے  فردوس کے  پاؤں کی انگلی پر لگا تو فردوس نے  تیزی سے درد کے مارے اپنا پاؤں پیچے کیا تمہاری تو میں یہ ٹانگیں توڑ دوں گا سچ سچ بتاؤ مجھے  کیا ہو رہا ہے کون ہے یہ لڑکا کون ہے یہ عورت اور تم دونوں اس کے ساتھ کیا کر رہی ہو تمہیں پتا نہیں ہے کیا تمہاری منگنی ہو چکی ہے اور تم کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھ کے مزے سے  کھانا کھا رہی ہو اور اس میں تمہاری ماں بھی شامل ہے اتنی بے غیرت ہو گئی ہو تم دونوں  رضا تیزی سے  فردوس کے قریب بڑھا اور اس نے فردوس کا گلا پکڑ کے اسے کھڑا کیا ۔۔۔۔فردوس کی سانس بند ہونے لگی ۔۔۔

رضا پلیز معاف کر دیں پلیز معاف کر دیں  میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں فردوس کو چھوڑ دیں  رضا میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں میں سب کچھ بتاتی ہوں آپ پلیز میری بیٹی کو  چھوڑ دیں  یہ دیکھیں ایک ماں  آپ کے آگے بھیک مانگ رہی ہے ۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے رسول کا واسطہ ہے چھوڑدے میری بیٹی کو یہ دیکھیں میں نے آپ کے ہاتھ جوڑ ے  میں آپ کو ہر چیز بتاتی ہوں یہ لڑکا کون ہے یہ بھی بتاتی ہوں ۔۔۔۔

ہاں اب تو بتاؤ گی نہ تم  تمہاری بیٹی کی موت جو آگئی ہے میرے ہاتھوں سے تمہیں کیا لگتا ہے  میں تمہیں چھوڑ دوں گا تم اس چیز کی قیمت ضرور جھکاؤں گی رابیا میری ناک کاٹ آئی ہے تم دونوں نے میری  ناک  کے نیچے یہ  حر کت کر رہے ہو یوسف صاحب کو عامر کو میں کیا جواب دوں گا  کبھی سوچا ہے تم نے میری کتنی بےعزتی کروائیں ہے تم دونوں کو  اندازہ نہیں ہے تم  دونوں کو میں چھوڑوں گا نہیں مجھے سب سے پیاری میری عزت ہے میری اونچی ناک ہے   میری اونچی  گردن ہے ۔۔جس کو تم دونوں نے مل کر نیچے کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔

یہ تو مجھے شروعات ہی ایک نظر پسند نہیں تھی یہ کام تو مجھے بچپن میں ہی  کر دینا چاہیے تھا جب ایک مر گئی تھی تو میں بڑا خوش تھا اس کے ساتھ اگر یہ دوسری بھی مر جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔۔۔

میرے ساتھ یہ سب کچھ کرنے کی تم دونوں کی ہمت کیسے  ہوئی ہر چیز ہر چیز مجھے شروعات سے بتاؤ کہ یہ لڑکا کون ہے کیا نام ہے اس کا کیوں تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہی ہوں وہ عورت ۔۔وہ عورت کون ہے   جس کے ساتھ تم دونوں  خوشی خوشی مل رہی ہو ۔۔۔۔

یونیورسٹی تمہیں  پڑھنے کے لئے بھیجا تھا یا دوستیاں بنانے کے لیے رضا نے فردوس کے بال  دوبارہ سے مضبوطی سے پکڑ کر انہیں زور سے کھینچا ۔ ۔۔

بابا۔۔ مجھے معاف کر دیں میں آپ کو ساری حقیقت ساری حقیقت بتاتی ۔۔۔

ہم بہت مجبور ہو گئے تھے با با ۔۔۔

بقواس بند کرو لڑکی ۔۔۔رضا نے ایک دور دار تھپڑ فردوس کے منہ پر مارا تو فردوس کے گال پر رضا کی پانچوں کی پانچوں انگلیاں چھپ گئی ۔۔۔۔

رضا نہی ماریں اسے میں  آپ کو ہر چیز بتا رہی ہوں سہی سے جوان بیٹی کو اتنا مت ماریں   کچھ ہو جائے گا اسے خدا کا واسطہ ہے آپ یو اسے جانوروں کی طرح نہ مارے لڑکی ذات ہے ۔۔۔

میں آپ کو ساری حقیقت ساری حقیقت بتاتی ہوں میں وعدہ کرتی ہوں آپ کو ایک ایک چیز بتاؤں گی آپ فردوس  کو چھوڑ دیں فردوس کی کوئی غلطی نہیں میں بتاتی ہوں یہ میرا فیصلہ تھا ۔۔فردوس  نے تو آپ کا فیصلہ قبول کر لیا تھا  ۔۔۔

لیکن آپ اپنی بیٹی کی خوشیوں سے بالکل نا واقف ہیں میں  نے بہت مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے فردوس اس لڑکے  سے بہت محبت کرتی ہے اور وہ بھی فردوس سے بہت محبت کرتا ہے مگر آپ یہ بات کبھی نہیں سمجھتے فردوس نے تو آپ کی رضامندی قبول کر لی تھی اور اس لڑکے کو اپنے سے بہت دور کر دیا تھا ۔۔مگر میں ہی تھی جو ان دونوں کو قریب لے آئی ۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں رضا ۔۔میں نے ان  دونوں کی محبت اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔۔۔۔

بقواس بند کرو اپنی  بیوقوف عو ر ت مجھے   اس قسم کی فضول باتیں کر کے مت دکھاؤ ورنہ تمہاری زبان کاٹ کے رکھ دوں گا ۔۔۔۔

کون ہے یہ لڑکا تمہارا کون ہے یہ لڑکا عاشق ہے تمہارا۔۔۔؟؟؟ یونیورسٹی پڑھنے کے لیے بھیجا تھا یا یہ عشق  لڑانے کے لیے ؟؟؟

 رضا نے اس کے دونوں گالوں کو پکڑ کر زور سے دبایا تو درد کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی فردوس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے رضاایک کے بعد ایک اس پر وار کئے جا رہا تھا ۔۔۔

دل تو چاہتا ہے کہ تمہارا گلا دبا کر تمہیں مار دوں انتہائی منہوس قسم کی لڑکی ہو تم پتا نہیں کہاں سے میرے گلے پڑ گئی ہو مرتی بھی نہیں ہو  کہ تم سے جان چھوٹ جاۓمیری ۔۔۔

رضا نے فردوس کا گلا زور سے پکڑ کر دبایا تو فردوس کی سانس رکنے لگی رابیہ تیزی سے ان دونوں کے بیچ میں آ ئ  ۔۔ وہ اپنی پوری طاقت لگا رہی تھی  کہ رضا کو اس سے دور کر دے ۔۔۔

بتاؤ مجھے کون ہے وہ لڑکا کون ہے وہ لڑکا ورنہ  گلا دبا کے مار دوں گا تمھیں ۔۔

میں بتا رہی ہوں رضا وہ لڑکا ۔۔۔۔وہ  لڑکا اس کا "شوہر "ہے ۔۔فردوس کو چھوڑ دیں پلیز  فردوس کو چھوڑ دیں وہ مر جائیں گی ۔۔۔

 رضا رابیہ کی بات پر پھٹی پھٹی آنکھوں سے رابیہ کو دیکھ رہا تھا اس کے یہ الفاظ اسے کسی صورت ہضم نہیں ہو رہے تھے ۔۔اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ فردوس کا گلا چھوڑا یوں جیسے صدمے میں ہو ۔کیا کہا  تم نے رضا نے  تیزی سے پلٹ کر رابیہ کو دیکھا ۔۔ 

اپنے ہوش میں تو ہو کیا کہا تم نے کیا کہا  وہ چللا یا ۔۔۔ 

 دوبارہ کہنا دوبارہ کہنا کیا کہا ہے تم نے۔۔ ضرور مجھے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے اور تمہیں کہنے میں ۔۔۔

میں میں بالکل بالکل سچ کہہ رہی ہو رضا اس لڑکے کا نام علی خاور ہے فردوس  کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان دونوں کے نکاح کو تقریبا ایک ماہ اور دو ہفتے  ہو چکے ہیں ۔۔۔ان دونوں کا نکاح ہم دونوں ماؤں کی مرضی سے ہوا تھا ۔۔آپ اس بات کے لئے کبھی راضی نہیں ہوتے اور نہ ہی کبھی فردوس کی اور میری  بات کو سمجھتے اس وجہ سے ہم نے یہ قدم اٹھایا اگر ہم آپ کو فردوس اور علی کا بتاتے تو آپ  زبردستی عامر کے ساتھ  فردوس کی شادی  کر دیتے  جبکہ اسکی ہرگز رضامندی نہیں تھی اس لئے میں نے یہ کیا  ۔۔

میں جانتی ہوں رضا کے مجھ سے غلطی ہوگئی ہے لیکن میں نے آپ کے ہاتھ جوڑے میری بیٹی کو چھوڑ دیں میری بیٹی  کی کوئی غلطی نہیں ۔۔۔

 وہ لڑکا بہت اچھا ہے بہت اچھا ہے رضا ۔ہر لحاظ سے فردوس کے لیے بہت اچھا ہے اور سب سے بڑی بات علی   بہت محبت کرتا ہے فردوس سے  اس کی بہت عزت کرتا ہے اس کا  بہت خیال رکھتا ہے ۔۔

میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں یہ دیکھیں میں نے اپنی جھولی آپ کے آگے  پھیلائی ہے میری بیٹی کی خوشیوں کو آگ  مت لگائیں میری بیٹی کی زندگی تباہ مت کریں رضا اپنی انا اپنی یہ ضد  کو خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دیں ہماری ایک ہی اولاد ہے اس کی خوشی میں خوش ہو جائیں راضی ہو جائیں ۔۔۔

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے پاگل عورت اندازہ بھی ہے  کیا کہہ رہی ہو تم  رضا کسی جانور کی طرح تیزی سے رابیہ کے پاس آیا اور اس نے رابیہ کے دونوں بازو پکڑ کر اسے زور سے زمین پر پھیکا اور  ایک کے بعد ایک تھپڑوں کی بارش رابیہ پر  کر تا  رہا جبکہ فردوس اپنے باپ سے اپنی ماں کو چھڑوا  رہی تھی مگر اس کا باپ  کسی جانور کی طرح ان دونوں کو پیٹ رہا تھا ۔۔

بلاؤ اس لڑکے کو یہاں  ورنہ میں مار دوں گا تم دونوں کو ابھی اور اسی وقت فون ملا لڑکی جلدی سے جتنی جلدی ہو سکے اسے یہاں بلا اگر آدھے گھنٹے کے اندر وہ لڑکا اور اس کی ماں یہاں نہیں پہنچے تو تیری ماں کا جنازہ اٹھے گا کل۔۔۔۔

 بلا اس لڑکے کو فون کر  اور بو لا اس حرام زادے کو یہاں پر اس کی ماں کے ساتھ ۔۔۔

میں بلا لا رہی ہوں میں بلا رہی ہوں بابا امی کو چھوڑ دیں امی کو چھوڑ دیں پلیز بہت خون بہہ رہا ہے امی کے ہاتھ سے امی کو چھوڑ دے بابا میں بلا رہی ہو ۔ پلیز با با ۔۔

بھاڑ میں گئی تمہاری ماں جلدی سے فون کر کے اس لڑکے  کو اور اس کی ماں دونوں کو یہاں پر بلاو ورنہ آج  تمہاری ماں زندہ نہیں بچے گی ۔۔

یہ سن کر فردوس کے پورے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی جبکہ دوسری طرف اسے رابیہ کا خوف تھا کہ کہیں رضا اسے کچھ نہ کر دے وہ یوں گرتے پڑتے جیسے تسے  اپنے کمرے میں گئی رضا نے ان دونوں کا حال برا کر دیا تھا مار مار کر ۔۔وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گئی اور اس نے علی خاور کا فون لگایا ۔۔۔ایک بیل ہوگی دو بیل ہوگی وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔۔فردوس کو اپنی بے بسی پر اور رونا آیا ۔۔اس نے مہرین صاحبہ  کو کال لگائیں ۔۔۔۔

شام ہو چکی تھی علی خاور مہرین صاحبہ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے علی خاور کا موبائل چارجنگ پر لگا ہوا تھا۔۔۔

علی ایک پارسل آیا تھا صبح تمہارے نام کمرے میں رکھا ہے تم دیکھ لینا ۔۔۔

اچھا ۔۔۔میرے لئے علی حیران ہوا ٹھیک ہے ۔۔۔۔وہ دوبارہ چاۓ پینے لگا ۔۔

یہ سمیع کی حرکت تھی اس نے ان دونوں سے اپنا بدلہ لیا تھا۔۔۔

 مہرین صاحبہ کے  موبائل پر جیسے ہی فردوس کی کال آئی تو انہوں نے خوشی سے تیزی سے اس کی کال پک کی ۔۔

 انہوں نےہیلو کرتے ہوئے فون  کان سے لگایا ۔۔

ہیلو فردوس کیسی ۔۔۔۔؟؟

آنٹی آنٹی پلیز آپ اور علی ابھی  ہمارے گھر آئے  جلدی سے بغیر وقت  ضائع کئے جلدی آ جایں آپکو  خدا کا واسطہ ہے جلدی آئیں ۔۔۔۔ اس سے پہلے کے وقت گزر جائے بابا  ساری حقیقت جان گئے ہیں پلیز آنٹی جلدی سے علی خاور کو لے کر یہاں آے  ۔

فردوس بیٹا رونا بند کرو ہم آ رہے ہیں وہ اتنی فکر مندی سے بولی تھی  کہ علی خاور تیزی سے ڈر کے مارے کھڑا ہوا نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ اتنی پریشان لگ رہی تھی انہوں نے فون علی خاور کے ہاتھ میں دیا فردوس روے جا رہی تھی ۔۔

فردوس کیا ہوا ہے کیا ہوا ہے فردوس مجھے بتاؤ ۔۔۔؟؟

علی۔۔۔۔

 علی جلدی گھر ۔۔۔گھر  آؤ جلدی سے  میرے بابا کو سب کچھ پتہ چل گیا ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آدھے گھنٹے میں وہ لڑکا اور اس کی ماں نہیں آئی تو کل تمہاری ماں کا جنازہ اٹھے گا جلدی آؤ علی ۔۔۔

میں آ رہا ہوں ابھی آ رہا ہوں امی کو لے کر تم پریشان مت ہو ۔۔۔

وہ فون بند کرتا ہوا تیزی سے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکلا ۔سارے راستے وہ دونوں حد سے زیادہ پریشان تھے ۔۔۔ علی خاور تیز رفتار سے ڈرائیو کرتا ہوا فردوس کے گھر تک پہنچا بیس  منٹ کے اندر اندر ۔۔فردوس  رضا کے کمرے کے  دروازے کے باہر کھڑی تھی ۔۔

 وہ تیزی سے باہر گئی علی آ چکا تھا  باہر چوکیدار تھا  اس نے باہر کا دروازہ کھولا تو وہ اپنی گاڑی لے کر اندر آ گیا ۔۔ 

فردوس  گاڑی کی آواز سنتے ہی تیزی سے گھر کے مین ڈور تک بھا گئی تھی اور اس نے دروازہ تیزی سے کھولا تھا ۔۔۔دروازہ کھولا تو سامنے ہی علی  خاور اور اسکی ماں کھڑی   تھی  جب کہ وہ دونوں فردوس کی ایسی ٹوٹی بکھری ہوئی اور زخمی حالت دیکھ کر پریشان تھے ۔۔۔فردوس  علی خاور نے نرمی سے اس کے دونوں گال تھا مے ۔کیا ہو رہا ہے یہ سب؟

 کس نے کیا ہے تمہارے ساتھ ؟؟؟

اندر چلیں  بابا امی کو مار رہے ہیں انہیں ساری حقیقت معلوم ہو گئی ہے وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف آئی ۔۔۔

فردوس کے جانے کے بعد رضا نے دروازہ بند کر دیا تھا اور وہ دروازہ بند کر کے رابیہ  کو پیٹ رہا تھا جبکہ فردوس کی جان اپنی ماں  کے اندر اٹکی ہوئی تھی ۔۔۔

بابا  دروازہ کھولیں  علی خاور آگیا ہے بابا دروازہ کھولیں پلیز ۔۔۔

اندر سے رابیہ کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔

 علی خاور نے زور سے دھکا مارا وہ کوشش کر رہا تھا کہ دروازہ ٹوٹ جائے لیکن اگلے کچھ منٹ کے بعد دروازہ کھل چکا تھا ۔۔۔

رابیہ کنارے میں بیٹھی رو رہی تھی فردوس تیزی سے بھاگتے ہوئے رابیہ کے پاس گئی ۔۔۔

علی خاور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ رضا کو جان سے مار دے ۔۔۔جو ایک جانور کے جیسا انسان تھا ۔۔۔

رضا نے  علی خاور کو دیکھتے  ھی  اس کا  گریبان پکڑا  ۔۔

اور اسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔

تو یہ  ہے وہ کمینہ جس نے یہ سب کچھ کیا ہے ۔۔اور یہ تیری ماں یہ ان دونوں کے ساتھ شامل تھی تم چاروں کو مل کر بھگتنا پڑے گا تم چاروں کو ہی میں چھوڑوں گا نہیں  ۔۔۔

محرین صاحب تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔ 

بھائی صاحب خدا کا واسطہ ہے آپ کو ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ۔۔۔

 دونوں بچے ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں ۔۔۔میں آپ کے آگے  ہاتھ جوڑتی ہوں ان دونوں بچوں کی خوشیوں میں رکاوٹ نہ بنے  ۔۔۔

بقواس بند کرو اپنی یہ میرا گھر ہے میری عورتیں ہیں اس چھت کے نیچے ان کی زندگیوں پر صرف اور صرف میرے حکم کا سکہ چلتا ہے  ۔۔ان دونوں کو ضرور تم نے ہی اس جال میں پھنسایا ہے کہ یہ دونوں ہاں کر دیں ورنہ ان دونوں کی اتنی ہمت نہیں ہے کہ میرے آگے آواز اٹھائیں میرے خلاف جائیں ۔۔۔۔

اور میں اس نکاح کو نہیں مانتا اس نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ہے میرے آگے ۔۔۔

آپ کے آگے اس  نکاح کی اہمیت ہو یا نہ ہو لیکن میرے آگے  اس کی بہت اہمیت ہے اور آپ میری بیوی کو اب  ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔۔۔۔

علی خاور کی لہجے میں اور اس کی  آنکھوں   میں سختی اتر آئی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس آدمی کو کھود کر زمین میں گاڑ دے جو بظاہر تو اس کی بیوی کا باپ تھا لیکن اندر سے کوئی شیطان تھا کوئی جانور تھا جو کہ اپنی بیٹی اور بیوی کو یوں اس طریقے سے مار پیٹ  رہا تھا ۔۔۔

آپ کے خلاف تو میں ایف آئی آر کٹوانے والا ہوں  اور پھر دیکھیں آپ کو کیسے جیل  کے پیچھے کرواتا ہوں ۔۔آپ کے خلاف تو دو ایف آئی آر کاٹیں گئی ۔۔ اپنی بیوی اور بیٹی دونوں پر تشدد کی۔۔ دو  ایف آئی آر آپ کے اوپر میں لازمی کٹواوں گا ۔۔۔۔

علی خاور کی بات  پر رضا مسکرایا ۔۔

جو دل میں آئے وہ کرو ۔۔

لیکن ابھی اور اسی وقت کھڑے کھڑے کھڑے فردوس  کو چھوڑ دو ۔۔۔۔۔

مزاق اچھا کر لیتے ہیں آپ ۔۔۔میرا نام علی خاور ہے رضا نہیں  ۔۔۔

 میں  اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔

رضا نہیں جو کہ اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا ۔۔۔

اور آپ تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے فردوس سے دور نہیں کر سکتی میں آج اور اسی وقت ہی  فردوس اور رابعہ انٹی دونوں کو یہاں سے لے جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔

اچھا ۔۔۔ان دونوں کے باپ لگے  ہو جو لے جاؤ گے تمہارے باپ کا راج  چل رہا ہے یہاں پر ۔۔

میں نے آپ سے کہا نا کہ مجھے اور فردوس ہو کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا نہ آپ نہ ہی کوئی اور ۔۔۔ 

الگ تو میں تم دونوں کو کرکے ہی رہوں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے ۔۔۔۔

آپ کچھ نہیں کر سکتے بیوی ہے وہ میری شادی کی ہے میں نے اس سے نکاح میں  ہے میرے ۔۔۔ اور میں آج اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا  ۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے تم یہاں کھڑے کھڑے میرے آگے بکواس  کرو گے اور میں تمہاری سنوں گا ہرگز نہیں تم ابھی مجھے جانتے نہیں ہو ۔۔۔

جانتا ہوں میں آپ کو آپ ایک انتہائی ضدی انا پرست مطلب پرست جھگڑالو بدتمیز بے تہذیب اور ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہے ۔۔۔

جو کہ اپنی بیٹی کی خوشیوں میں خوش نہیں ہو سکتا جو کہ اپنی بیٹی کے پیدا ہونے پر آج تک اسے قبول نہیں کر پایا ۔۔آپ  کیسے انسان ہیں کیسے شوھر ہیں  جو کہ اپنی بیوی کو ساری زندگی کوئی   خوشی نہیں دے پایا اور آپ کی بیوی اس رشتے کو بچانے کے لئے اپنی بیٹی کی زندگی  بچانے کے لئے آپ جیسے انسان کے ساتھ اپنی زندگی برباد کرتی ای ہے  مگر آپ نے اس کا کیا صلہ دیا آج انہیں  ۔۔حالت دیکھی ہے آپ نے اپنی بیوی کی مجھے شرم آتی ہے آپ کو مرد کہتے ہوئے بھی مرد عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ۔۔ فردوس اور انٹی اس معاملے میں حد سے زیادہ بدنصیب ہیں کے ان کے  نصیب میں آپ جیسا  شخص  لکھا ہے ایک شوہر اور ایک باپ کے طور پر ۔۔۔۔

علی  نے غصے سے اپنے دونوں گریبان چھڑوایئے اور رضا کو اپنے سے دور کیا یوں جیسے غصے میں اسے پھیکا ہو ۔۔۔

علی ۔۔۔۔۔۔

فردوس رضا کے تیزی سے پیچھے کی طرف ہونے پر زور سے چلائی یوں جیسے علی خاور کا یہ کرنا اسے  بالکل پسند نہ آیا ہوں ۔۔۔۔۔

 یہ دیکھ کر علی  خاور  آہستہ سے مسکرایا اور اس نے ایک نظر رضا کو دیکھا ۔۔بہت ہی خوش نصیب ہیں آپ جو آپ کو فردوس جیسی  بیٹی ملی اس سب کے باوجود بھی اسے  باپ کا خیال ہے لیکن آپ آپ کو کسی چیز کا خیال نہیں نہ ہی اپنی بیٹی کی خوشیوں کا اور نہ ہی اپنی بیوی کا آپ کو خیال ہے تو صرف اور صرف اپنا اپنی عزت کا اپنی اونچی گردن کا ۔۔

تم ابھی اور اسی وقت فردوس کو طلاق دو ۔۔۔۔۔رضا نے کہا ۔۔۔۔

رضا کی بات پر فردوس کی روح تک کانپ گئی اس نے تیزی سے علی خاور کو دیکھا ۔۔۔۔

میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ۔۔۔

 میں فردوس کو اور رابیہ  آنٹی کو آج اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور جس میں ہمت ہو   روک لے مجھے  ۔۔۔

وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے فردوس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور مہرین صاحبہ نے رابیہ  کو کھڑا کیا ۔۔۔

میں نے کہا ابھی اور اسی وقت فردوس کو طلاق دو ۔۔۔

اور میں آپ کو یہ بات بہت صاف الفاظ میں سمجھا چکا  ہوں کہ آپ مجھے فردوس سے علیحدہ نہیں کرسکتے اور میں یہ گھٹیا کام نہیں کروں گا ۔۔۔کیونکہ مجھ میں اور آپ جیسے گھٹیا انسان میں  زمین آسمان کا فرق ہے ۔۔۔

تو تمہیں ایک دفعہ  کی میری بات سمجھ نہیں آتی ہاں فردوس نے ایک نظر اپنے بابا کو دیکھا اور ایک نظر علی وہ  دونوں ہی اپنی اپنی باتوں پر اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے جبکہ رضا نے تیزی سے الماری کھولی فردوس کے اندر خوف کی ایک لہر ڈور گئی وہ جانتی تھی کہ وہ کیا نکالنے والے ہیں ۔۔۔

بابا۔۔۔۔

 وہ تیزی سے  رابیہ کے پاس سے اپنے باپ کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔نہیں بابا ۔۔۔پلیز 

رضا نے  گن نکال کر علی خاور کے اوپر تانی ۔۔۔۔

میں نے کہا  ابھی اور اسی وقت فردوس کو طلاق دو رضا کے ہاتھ میں گن دیکھ کر وہ تینوں ہی خوف سے کانپنے لگی تھی جب کہ علی خاور بڑے  پرسکون انداز میں کھڑا تھا اس کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا اور اس کا وجود اتنا مضبوط تھا جیسے کوئی چٹان ہو وہ آج اپنی کسی بھی بات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا ۔۔۔۔

میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں میں فردوس کو ہرگز طلاق نہیں دوں گا بھول جائیں آپ ۔۔چاہے اس میں موجود ساری گولیاں بھی میرے سینے میں اتار دیں گے نہ تب بھی میں اپنی بیوی  کو طلاق نہیں دوں گا  وہ میری ہی رہے گی ۔۔

گن  نیچے کریں مہرین صاحبہ تیزی سے بیچ میں آئی ۔۔

اپنے بیٹے کو بولو  فردوس کو طلاق دے ابھی اور اسی وقت ۔۔

میں فردوس  کو طلاق نہیں دوں گا بلکہ آج اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور ساری زندگی اسے یہاں آنے نہیں دوں گا دوبارہ ۔۔۔

علی خاور نے فردوس کا ہاتھ  تھاما اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کیا ۔۔۔۔

تو تم ایسے نہیں مانو گے ۔۔۔

فردوس  اس لڑکے سے کہو کہ تمہیں ابھی اور اسی وقت طلاق دے ورنہ ۔۔۔

بابا ۔۔۔

میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز بابا مان جایں یہ سب کچھ نہ کریں میں واقعی علی خاور سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔

اس لڑکے  سے کہو کہ ابھی اور اسی وقت تمہیں طلاق دے ورنہ ۔۔۔۔اگر یہ لڑکا تمہیں طلاق نہیں دے گا تو اس عمر میں میں   تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا اور وہ پورے زمانے میں رسوا ہو جائے گی  یا  تو تم اپنی شادی بچا لو یا تو اپنی ماں کی یہ تمہارا فیصلہ ہے  ۔۔۔۔۔

اور پھر تم جانتی ہو کہ اس عمر میں طلاق کے بعد تمہاری ماں کا کیا انجام ہوگا ۔فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے یا تو تم اپنا نکاح بچا لو یا پھر اپنی ماں کی زندگی اس کی عزت ۔اگر یہ لڑکا تمہیں اس وقت  طلاق نہیں دے گا تو میں آج ابھی اور اسی وقت تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا ۔۔۔

رضا کی بات پر فردوس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جبکہ مہرین اور علی خاور بھی رضا کی شکل دیکھ کر رہ گئے اور زمین پر بیٹھی ہوئی رابیہ اپنے شوہر کو یوں اتنے بڑے بڑے بول بولتا ہوا دیکھ رہی تھی جو کہ اتنے بڑے بڑے بول بہت آسانی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔

بابا۔۔۔

 فردوس کو اس قدر صدمہ تھا کہ وہ کافی دیر کے بعد صرف اور صرف بابا  ہی بول پائی تھی جبکہ رابیہ  رضا کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔

ساری زندگی وہ اس بدصورت سے رشتے کو بچاتی آئی تھی ۔۔

کیونکہ اس کو نبھانا تھا ۔۔وہ ہر حال میں  اس بدصورت تقلیف ده  رشتے  کو نبھاتی آئی تھی اپنی بیٹی کے لیے اور آج آج وہ شخص اس کی بیٹی کے جوان ہونے کے بعد اس کی بیٹی کے نکاح ہونے کے بعد اس کے منہ پر کہہ رہا تھا کہ وہ اسے طلاق دے دے گا اگر اس کی بیٹی کے شوہر نے اس کی بیٹی کو طلاق نہ دی تو ۔۔

رابیہ  بالکل خاموش ہو گئی تھی اس کا دل ٹوٹ گیا تھا  اسے یوں محسوس ہو رہا تھا  جیسے وہ اندر سے ٹوٹ گئی ہو مر گئی ہو اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے ۔۔۔

رضا اس کے ساتھ یہ بھی کر سکتا ہے ۔۔وہ بہت ٹوٹ چکی تھی ۔۔کمرے میں کھڑا ہر شخص رضا کی اس بات سے سہم گیا تھا۔۔۔خاص طور پر رابیہ اور فردوس ۔۔ 

یہ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے فردوس  اگر اس لڑکے  نے تمہیں ابھی اور اسی وقت طلاق نہیں دی تو میں تمہاری ماں کو ابھی اور اسی وقت طلاق دے دوں گا ۔

خدا کا خوف کریں آپ کو شرم نہیں آتی اس طرح کی گھٹیا باتیں کرتے ہوئے آپ کو خدا کا خوف نہیں ہے جو اتنے بڑے بڑے بول بولے جاتے ہیں اتنے کم ظرف انسان  آپ کیسے ہو سکتے ہیں میں نے زندگی میں اپ کے جیسا گھٹیا  انسان نہیں دیکھا ۔مہرین صاحب فورا سے بولی تھیں ۔۔۔

فردوس فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے  یا تو یہ لڑکا تمہیں اس طلاق دے گا یا تو پھر میں تمہاری ماں کو ابھی اور اسی وقت طلاق دے دوں گا ۔۔۔۔

اور یقینا تم یہ  نہیں چاہتی  ہوگی کہ  عمر کے اس حصے میں تمہاری ماں خودکشی کرلے اور مر جائے ۔۔ کیا چاہتی ہو تم کہ تمہاری ماں تمہاری وجہ سے مر جائے کیا چاہتی ہو تم کہ تمہاری ماں کو تمہاری وجہ سے طلاق ہو جائے یہ چاہتی ہو تم کے میں تمہاری ماں کو طلاق دے دو ۔۔

بابا بابا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میں آپ کے پیر پڑھتی ہوں فردوس تیزی سے رضا کے قدموں میں گری اور اسنے رضا کی دونوں ٹانگوں پر اپنے ہاتھ رکھے ۔۔۔یہ سب نہ کریں با با  نا کریں ۔۔آپ امی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں امی نے ساری زندگی ساری زندگی آپ کے اوپر لگا دی ہے اپنی ساری زندگی وہ ناخوش تھی مگر انہوں نے آپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی ہے اپ کی ہر ضرورت کو آپ کے بولنے سے پہلے پورا کیا ہے آپ میری امی کے ساتھ یہ نہیں کرسکتے بابا  یہ ظلم ہے یہ زیادتی ہے ۔۔

اگر تم چاہتی ہو کہ تمہاری ماں کے ساتھ یہ  سب کچھ نہ ہو تو تم ابھی اور اسی وقت اس لڑکے کو کہو کہ تمہیں چھوڑ دے  طلاق دے دے تمہیں  ۔۔

میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ۔۔

علی خاور نے صاف صاف کہا وہ بہت زیادہ غصے  میں تھا ۔۔۔۔

تو پھر ٹھیک ہے ۔۔اپنی ماں کی بربادی کے لئے تیار ہو جاؤ ہر چیز کی  ذمہ دار  تم خود ہوں گی  فردوس تھوڑے عرصے کے بعد تم اپنی ماں کو اپنی آنکھوں کے آگے مرتا ہوا  دیکھوں گی ۔۔اور اس کی وجہ کون ہوگا صرف اور صرف تم صرف اور صرف تم اور تمہارا یہ نکاح ۔۔۔

میں آخری بار کہہ رہا ہوں اگر اس لڑکے  نے تمہیں طلاق نہیں دی تو میں ابھی کے ابھی تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا  ۔۔۔

بابا نا کریں پلیز بابا یہ نہ کریں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ کو خدا سے ڈر نہیں لگ رہا کیا ۔۔

اللہ سے ڈرے بابا ایسے کام اللہ کو  پسند نہیں ہے ۔۔اللہ تعالی دیکھ رہے ہیں آپ کو یہ ساری نہ انصافیاں کرتے ہوئے ۔۔آپ کو اللّه سے خوف محسوس نہیں ہو رہا ۔۔۔

میں رضا آج پورے ہوش و حواس میں اپنی بیوی رابیہ ۔۔۔

بابا۔۔۔نہیں ۔۔ پلیز ۔۔

 خدا کا واسطہ ہے آپ کو خدا کا واسطہ ہے یہ ظلم نہ کریں بابا ۔ ۔

امی کی  آپ نے  پوری زندگی برباد کر دی اب آپ عمر کے اس حصے میں انہیں طلاق نہیں دے سکتے ۔۔۔۔

یہ تمہارے ہاتھ میں ہے  فردوس کہہ دو اس لڑکے کو کہ تمہیں طلاق دے دے ۔۔۔

علی ایسا نہیں کر ے گا بابا ۔۔مت کریں یہ ۔۔

تو پھر ٹھیک ہے۔۔میں  رضا آفتاب اپنی بیوی رابیہ رضا آفتاب کو اپنے پورے ہوش  و حواس میں طا۔۔۔

بابا ۔۔۔۔۔۔۔

فردوس زور سے چلائی ۔۔اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ اس نے رضا کی دونوں ٹانگیں مضبوطی سے تھامے ہوئے تھی ۔وہ اپنے باپ کے پیروں میں گری ہوئی تھی کہ وہ اس کی ماں کو طلاق نہ دے ۔۔۔۔

بابا ۔۔۔۔

میں راضی ہوں ۔۔۔۔

امی کو طلاق نہ دے ۔۔۔۔۔

فردوس ۔۔۔۔علی خاور تیزی  سے فردوس کے پاس آیا اور اس نے فردوس کو  دونوں کندھوں سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کیا ۔۔ 

نہیں فردوس میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا ۔۔۔کبھی نہیں دونگا میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے میں یہ نہیں کروں گا ۔۔

میں تمہیں طلاق ہرگز نہیں دوں گا میں آگ لگا دوں گا سب کچھ سب کچھ ختم کر دوں گا مگر تمہیں طلاق نہیں دوں گا ۔۔۔

تم بابا کو نہیں جانتے علی ۔۔

 لیکن آج ان سب کے بعد امید کرتی ہوں کہ تم جان گئے ہوں گے کہ وہ کیسے ہیں  ۔۔۔آج تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کے ہم کس حال میں ہیں ۔۔

میں اپنی ماں کے لیے اپنی ہر خو شی چھوڑ سکتی ہوں ۔لیکن اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتی کہ میری وجہ سے میری ماں کی طلاق ہو جائے  ۔۔۔۔میں نے تمہارے  آگے ہاتھ جوڑے ہیں علی   میں نے تمہارے آگے ہاتھ  جوڑے ہیں ۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔

یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔

چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔۔علی 

ورنہ بابا  میری امی کو طلاق دے دیں گے ۔۔۔۔۔

نہیں فردوس تم  یہ نہیں کر سکتی میرے ساتھ  ۔۔۔۔

دعا کرو علی خاور کے میں مر جاؤں یا میں بیمار ہو جاؤں کوئی ایسی بیماری مجھے ہو جائیں جو مجھے اندر تک کھا جائے ۔۔اور میں ہفتوں ۔ چند دنوں میں ہی  مر جاؤں تمہاری جدائی مجھ سے اب  برداشت نہیں ہو پاے  گی  ۔۔۔۔

میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا فردوس ۔۔۔

میں بھی مر جاؤں گی علی لیکن شاید تم اور میں ایک دوسرے کے لئے  نہیں بنے  ایک دوسرے کے ہو کر بھی ہم ایک دوسرے کی نہیں ہو پائے ۔۔

تم مجھے طلاق دے دو علی ۔۔۔اگر نہیں دوگے تو میں ۔۔۔۔

 میں اپنے آپ کو آج اور اسی وقت جان سے مار دوں گی اور یہ کہانی یہیں ختم کر دوں گی ۔۔۔۔

فردوس  کی بات پر علی خاور نے ایک نظر بھر کر فردوس کو دیکھا علی کو اس وقت فردوس سے خوف محسوس ہو رہا تھا وہ اپنی جان لینے کی بات کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

پاگل ہو گئی ہو ۔۔۔میں سب کچھ ٹھیک کردوں گا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔

تم کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔

یہ سب کچھ ہماری تقدیر میں ہمارے نصیب میں ایسے ہی لکھا تھا ۔۔تم مجھے طلاق دےدو ۔۔ورنہ میں اپنے آپ کو مار دونگی ۔۔۔

علی خاور یوں ہی بے مقصد نہ جانے کتنی دیر تک فردوس کے چہرے کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا ۔ یہاں تک کہ علی خاور کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے ۔۔۔

شاید اب  علی خاور کے پاس صرف آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہی رہ گئے تھے ۔اس کی زبان بالکل خاموش ہو گئی  تھی ۔۔۔۔

وہ خاموشی سے فردوس کے دونوں ہاتھ تھا میں  آنسو بہا رہا تھا وہ دونوں ہی آنسو بہا رہے تھے ۔۔۔

نہ جانے کتنی دیر وہ دونوں ہی خاموشی سے بیٹھے ایک ساتھ آخری بار  آنسو بہاتے رہے پھر علی خاور نے فردوس  کا ہاتھ چھوڑ  دیا اور  تیزی سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔

علی کو  گے ہوئے تقریبا دو گھنٹے ہونے والے تھے ۔۔

فردوس بالکل خاموش تھی اور رابیہ  بھی گھر میں اسی خاموشی تھی جیسے کوئی مر گیا ہو ۔۔۔۔ہاں مار تو دیا تھا رضا نے اپنی بیٹی کو اپنی بیوی کو خود اپنے ہاتھ سے ۔۔

رضا اب  صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔اس کے ہونٹوں کے درمیان سگریٹ جل  رہی تھی ۔۔۔

فردوس   ہمت کر کے اٹھی اور اس نے رابعہ کو سہارا دے کر اٹھایا ۔۔۔۔

اور پھر رابیہ  کو بیڈ پر بٹھایا ۔۔۔

اس نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا اس کا چہرا یوں تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اتنا پرسکون اور اس کے چہرے پر ہاں جیت  کی خوشی تھی ۔اس کی گردن اکڑی ہوئی تھی اور ناک اونچی تھی  ۔۔سفید رنگ کا قمیض  شلوار وہ شخص پہنا ہوا تھا اور پاؤں میں اس کے سیا ہ  جوتے تھے  بلکل اس کے دل کی طرح ۔ہاتھوں کے درمیان اس کی سگریٹ تھی ۔فردوس  چند لمحے اپنے باپ کو  یوں بیٹھا  ہوا  دیکھتی رہی دیکھتی رہی ۔ ۔۔۔

پھر آہستہ آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی اپنے باپ کے پاس آئی ۔۔۔۔

رضا نے ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔۔۔

آج کے بعد میں آپ کو بابا کبھی نہیں کہوں گی ۔۔۔۔آپ میرے بابا نہیں ہے۔۔۔

آج کے بعد میں یہ دعا کرو گی کہ اللہ تعالی آپ کو ہدایت دے ۔ آج کے بعد میں یہ دعا کرو گی کہ جو رسی  اللہ تعالی نے آپ کے لئے ڈھیلی چھوڑی ہے  جب اللہ تعالی اس کو کھینچیں گے اور آپ جب منہ کے بل سیدھا   زمین پر گرے گے  تو نہ جانے آپ کا کیا انجام ہوگا ۔۔زمینی خدا جو آپ  بنے  ہوئے ہیں  لوگوں کی خوشیوں  زندگیوں کے جو فیصلے رہے ہیں  ان لوگوں کو جو تکلیف دے رہے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کو اس کا حساب نہیں دینا پڑے گا ۔۔اللہ کے ہاں ہر چیز کا حساب ہے اور آپ کو بھی دینا پڑے گا ضرور دینا پڑے گا ۔۔۔اور اس دن کیا ہو گا آپ کے ساتھ ۔۔ 

آج آسمان سے  بارش  زور شور سے برس رہی تھی  ۔۔۔

علی خاور کو گے ہوئے چار دن ہونے والے تھے اور یہ چار دن اس کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے ان چار دنوں میں فردوس اور رضا کے درمیان کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی یوں جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تک نہ ہو  پانچویں دن فردوس کے نام چند پیپرز آئے تھے ۔۔۔

جو فردوس کے نام علی خاور نے بھیجے تھے ۔۔۔

رضا ان  پیپرز کو خوشی خوشی لیتا ہوا فردوس کے پاس آیا اور اس نے بے حد خوشی کے عالم میں وہ پیپر والا لفافہ کھولا ۔۔

یہ وہ پپیر س تھے جنہیں وہ دیکھنا چاہتا تھا یہ اس کی جیت کی خوشی تھی جو اس کے چہرے پر جھلک  رہی تھی فردوس اپنے کمرے میں گم سم بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

کے رضا نے تیزی سے اس کے کمرے کا  دروازہ کھولا اور اندر چلتا ہوا آیا فردوس نے  کچھ نہیں کہا وہ بس خاموشی سے بیٹھی رہی یوں جیسے اپنے باپ کو بھی نہیں جانتی ہو ۔۔۔رضا  نے وہ  سارے پپیرس نکالے اور زور سے فردوس کے منہ پر مارے ۔۔۔

اب تم بھی اس کہانی کو ختم کرو جلدی ۔۔سائن کرو ان پر 

میں نے کہا تھا نہ تم سے تم  مجھ سے جیت نہیں پاؤ گی دیکھو دیکھو آج  میری ہی جیت  ہوئی ہے جو میں چاہتا ہوں وہ میں کرتا ہوں تم اور تمہاری ماں دونوں کی زندگی کی ڈور دونوں کے نصیبوں کی ڈور صرف اور صرف میرے ہاتھ میں ہے ۔۔

اتنے بڑے بول کے اوپر فردوس  نے ایک نظر اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا جو کہ اپنی انا اپنی جیت کے نشے میں چور تھا ۔۔

وہ بس بے حد خاموشی کے ساتھ یونہی اپنے باپ کو دیکھتی رہی دیکھتی رہی ۔۔۔

جو لوگ زمین کے اوپر رہنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھ لیتے ہیں نا ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔۔اب آپ کے لئے میں صرف اور صرف ایک ہی دعا کرو گی کہ اللہ آپ کو ہدایت دے ۔۔اور ہاں  میری زندگی کی میرے نصیب کی ڈور صرف اور صرف میرے رب کے ہاتھ میں ہے میرے رب نے جو چیزیں جس طریقے سے جس وقت میرے نصیب میں لکھی  ہو گی وہ مجھے اس وقت مل جائیں گی مگر آپ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ میرے نصیبوں کی میری خوشیوں کی ڈور آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ ۔۔

فردوس سائن کرنے کے بعد  کمرے میں رکی نہیں تھی بلکہ جا چکی تھی جبکہ رضا کے دماغ میں فردوس کی باتیں گردش کرنے لگیں اور اس کا خون کھولنے لگا ۔۔۔

رضا فورن فردوس کے پیچھے گیا اور اس نے فردوس کو بال  سے پکڑ کر روکا ۔۔۔

وہ بغیر چلائے خاموش رہی رضا نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا ۔ ۔۔۔۔تمہارا اور تمہاری ماں کا خدا صرف اور صرف میں ہوں صرف اور صرف میں  سمجھی تم  ۔ ۔۔

رضا کا تھپڑ اتنی  زور سے تھا کہ فردوس کا ہونٹ پھٹ گیا اور اس میں سے خون رسنے لگا ۔۔وہ روئی نہیں تھی ۔ان پانچ دنوں میں وہ اتنا زیادہ رو  چکی تھی کے اب اسے کسی اور تقلیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔۔

ہاں یہ اس کا اپنا باپ تھا اور یہ اس کی اپنی واحد اکلوتی بیٹی جس کی ساری خوشیوں کو برباد کرنے میں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں صرف اور صرف اس کا باپ شامل تھا صرف اور صرف اس کا باپ  ۔۔

فردوس نے  آہستہ سے اپنے ہونٹوں سے خون صاف کیا ۔۔۔تکلیف بہت زیادہ تھی مگر دل کے ٹوٹ جانے سے بہت کم ۔۔۔

آپ میرے اور میری امی کے خدا نہیں ہیں میرا  اور میری امی کا خدا وہ ہیں جو ان شاء اللہ تعالی بہت جلد انصاف کرے گا ۔۔اور بے شک اس سے بڑا مہربان اور انصاف کرنے والا کوئی نہیں ہے جب وہ انصاف کرے گا تو اس کا انصاف آپ بھی دیکھیں گے کہ وہ زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کا ،زمینی خدا بننے والوں کا کیا انجام کرتا ہے ۔۔۔

گھر میں ہر طرف آج گلابوں کی خوشبو بکھری ہوئی تھی ۔۔

ایسے میں آنے والوں اور رشتہ داروں کے چہرے پر  آج بڑی  کھلی کھلی سی مسکراہٹ تھی لیکن فردوس کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آج اس کی ڈولی نہی بلکے اس گھر سے اس کا  جنازہ اٹھ  رہا ہو ۔ وہ دلہن کے کپڑوں میں بیٹھی تیار تھی اس کے چہرے پر اداسی ہی اداسی تھی اور اس کی آنکھوں میں ویرانی ہی ویرانی یوں جیسے وہ کسی گھنے سیاہ جنگل میں کھڑی ہوں اور اس گھنے سے خوفناک جنگل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ  ہو ۔۔ہوتا بھی کیسے  سارے راستے رضا نے بند کر دیے تھے ۔۔۔

نو  مہینے ہو چکے تھے اس بات کو اب جانے علی خاور کہا تھا ۔۔ کس حال میں تھا اسے علی کی  بالکل خبر نہ تھی ۔زندہ بھی تھا یا نہیں اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا ۔۔وہ کہا تھا کس حال میں تھا نہ فردوس کو پتا تھا اور نہ ہی اس کے بے حد قریبی دوستوں کو ۔وہ اچانک ہی غائب ہوگیا تھا جیسے کہیں کھو سا گیا ہوں ۔۔۔اور فردوس چاہ کر بھی اس کی تلاش نہیں کر سکتی تھی ۔اور کس حق سے وہ  ڈھونڈتی علی کو کوئی حق تھا اس کے پاس اب  ۔۔۔

زندگی نے اتنا خوفناک کھیل  کھیلا تھا دونوں کے ساتھ کہ دونوں ہی اندر سے بالکل ٹوٹ گئے  تھے مر کر رہ گئے تھے ۔۔دونوں کی خوشیاں اس کے باپ نے مٹی میں ملا دی تھی صرف اور صرف اپنی انا کی وجہ سے اپنی ضد کی وجہ سے  ۔۔

گھر بہت  خوبصورت طریقے سے سجا ہوا تھا لوگوں کی چہل پہل پورے گھر میں تھی ۔۔

ایسے  میں فردوس آج دلہن کے روپ میں  دکھائی دے رہی تھی مگر ایک بہت زیادہ اداس دلہن ۔  جیسے آج  ڈولی نہیں بلکہ جنازہ اٹھ رہا ہوں ۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو وہ جنازہ ہی تو  تھا اس کی تمام خوشیوں کا اس کے تمام خوابوں کا اس کی تمام امیدوں کا اس کی محبت کا ۔۔۔

رابیہ کا حال بھی دوسری طرف بالکل فردوس کی طرح تھا وہ بھی ایک دم ناخوش تھی اس نے بھی فردوس کی طرح خاموشی اختیار کرلی تھی ۔۔

اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔۔جو طوفان ان دونوں کی زندگیوں میں آنا تھا وہ آج چکا تھا اور ان کی تمام خوشیاں اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔۔۔۔

اچانک شور ہوا کہ با رات آگئی گھر میں اچانک سے لوگوں کا رش  اور زیادہ بڑھ گیا ڈھول  کی آواز زور زور سے آنے لگی ۔۔اتنی زور سے کہ فردوس کے رونے کی آواز کسی نے نہیں سنی ۔۔

فردوس کی آنکھوں میں آنسو  تیزی سے بھرنے  لگیں لیکن وہ کسی سے کچھ نہیں کہہ رہی تھی جبکہ صرف رابیہ اس کا یہ حال جانتی  تھا ۔۔

وہ اپنی بیٹی کو سرخ رنگ کے لباس میں دنیا کی حسین ترین دلہنوں میں سے ایک دلہن بنی ہوئی دیکھ رہی تھی ۔۔  مگر اس  کی آنکھوں میں خوشی نہیں تھی صرف   موٹے موٹے  آنسو تھے ۔۔۔۔

وہ لڑکی اب کسی سے کیا کہتی کیا  سنتی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔فردوس  کے دل کا حال آج  کیا تھا رابیہ  جانتی تھی ۔۔

مگر پھر بھی اب کیا کر سکتی تھی اپنے وجود کے اندر بہت ساری ہمت جمع کرکے رابیہ  آگے بڑھیں اور اس نے نرمی سے فردوس کو اپنے گلے سے لگایا نہ جانے کتنی دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لگے  رہے جبکہ فردوس خاموشی سے آنسو بہا رہی ہے ۔اب وہ کسی سے کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی کسی سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں رکھنا چاہتی تھی ۔۔۔

آج وہ اپنے باپ کی ضد  کے مطابق عامر یوسف کی زندگی میں شادی کرکے شامل ہو چکی تھی ۔۔

اس کے چہرے پر اداسی ہی اداسی تھی ویرانی ہی ویرانی تھی ۔۔۔

وہ عا مر یوسف کے نئے کمرے میں دلہن بنی ہوئی بیٹھی رہی ۔

کچھ وقت کے بعد  عامر یوسف اسے دوسرے شہر لے جانے والا تھا جو اس کا پسندیدہ تھا مگر اس چیز سے فردوس بالکل ہی ناواقف تھی ۔۔۔

آمنہ آ کر فردوس کے برابر میں بیٹھ گئی یو سف صاحب کی بیگم بھی یہاں پر موجود تھی وہ دونوں فردوس سے  شرارت کرتے ہوئے اس سے ہنسی مذاق کر رہی تھی جب کہ وہ اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لئے  آپنے بہت بڑے  دکھ کو اپنے دل کے اور آنکھوں کے  پیچھے چھپائے  ان کی باتوں کا تھوڑا بہت جواب دے رہی تھی ۔۔۔

عامر یوسف کچھ وقت کے بعد  آکر اپنے  کمرے میں بیٹھا اور اس نے فردوس کو منہ دکھائی میں ایک بہت قیمتی اور خوبصورت سونے کا سیٹ دیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ سیٹ  بہت حسین تھا لیکن علی خاور  کے دیئے ہوئے تحفے آج بھی  فردوس کیلئے حد سے زیادہ قیمتی تھے  شاید علی خاور کی محبت سے دیئے ہوئے تحفوں کے آگے اسے دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز بھی اچھی نہیں لگتی ۔۔۔ 

اس کے ہاتھ میں آج بھی ،آج بھی  علی خاور کی دی ہوئی وہ دونوں انگوٹھیاں تھی اور وہ تمام چیزیں جو علی اور نے ا سے دی تھی اس نے بڑی سنبھال کر رکھی تھی کوئی چیز بھی اس نے  خراب ہونے نہیں دی تھی ۔۔۔

اس کے دیئے ہوئے کپڑے اور اس کی دی ہوئی تمام چیزیں وہ اتنی محبت اور اتنی خوشی سے پہنتہی تھی کے  جب بھی اس کی دی ہوئی کوئی چیز استعمال کرتی  اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان چیزوں میں سے علی خاور کی خوشبو محسوس ہوتی ہو ۔۔۔۔انہیں پہن کر یوں لگتا ہے جیسے  علی اس کے  بہت بہت  پاس ہو اور اسے دیکھ رہا ہو بہت قریب سے ۔۔

عامر آہستہ سے آ کر اس کے برابر 

میں بیٹھا اور اس نے نرمی سے فردوس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا تو فردوس نے  تیزی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا ۔ 

عامر آہستہ سے مسکرایا ۔۔۔

اب بیوی ہو تم میری ہاتھ لگا سکتا ہوں میں تمہیں ۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ اپنے  چہرے پر سجائے نرمی سے کہہ رہا تھا ۔ کچھ وقت کے بعد عامر یوسف نے ایک بار پھر سے اس کا ہاتھ تھاما  فردوس  نے اپنی آنکھیں زور سے بند کی اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے اس کے بدن پر موٹی موٹی چیٹیا چل رہی ہو ۔۔۔۔

علی خاور کا لمس ابھی تک اسے یاد تھا جب جب  وہ  محبت سے اس کا ہاتھ پکڑتا تھا ۔۔جس محبت سے وہ ا  سے دیکھتا تھا ۔۔ 

وہ احساس ا سے کسی اور کے چھونے سے کبھی محسوس ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔۔ 

فردوس کو آج یوں لگ رہا تھا جیسے وہ موٹی موٹی چیٹیا اسے کاٹ رہی ہو ۔۔ ۔

وہ جانتی تھی کہ یہ عامر کے ساتھ نا انصافی ہے مگر کیا کرتی محبت کے ہاتھوں مجبور تھی ۔۔۔۔

پلیز مجھے تھوڑا وقت چاہیے ۔۔۔یہ الفاظ کہتے ہوئے وہ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی وہ تمام آنسو جو وہ اپنے گھر سے اپنی آنکھوں میں خاموشی سے سمٹتی ہوئی آئی تھی علی خاور  کی یاد میں اب  بہنا شروع ہو چکے تھے ۔۔ 

شاید وہ کہیں پر بھی اپنے دل میں کسی اور  مرد کو علی کی   جگہ نہیں دے سکتی تھی ۔۔ نہ دل میں نہ زندگی میں ۔۔ 

  پھر چاہے وہ عامر  یوسف ہو یا پھر کوئی اور مرد کوئی بھی علی خاور کی جگہ نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔

تم پریشان مت ہو تو جتنا وقت چاہیے تم لے لو فردوس ۔۔۔

مگر تم جانتی ہو کہ مجھے دو ہفتے کے بعد یہاں سے چلے  جانا ہے ۔۔ 

وہاں سے آنے کے بعد تم اور میں یہ شہر چھوڑ کر کسی اور شہر چلے جائیں گی لیکن وہ تمہارے لئے پرائز ہے ۔۔کوئی  ایسی جگہ پر جو تمہیں بہت زیادہ پسند ہے ۔۔۔

یہ ان دونوں کی شادی کی پہلی رات تھی جو دو  اجنبیوں کی طرح گزری تھی ۔۔۔

رات کے ساڑھے تین بجے کا وقت تھا ۔ایسے میں گھر کی اندر کی تمام لائٹ بند تھی جب کہ لان پورے طریقے سے روشن ہوا تھا ۔۔ڈیکوریشن کے دوران لگنے والی تمام تر فینسی لائٹ اسی طرح سے جل رہی تھی مگر گھر اب مہمانوں سے بالکل خالی تھا ۔۔رضا نے اپنی مرضی کر کے اپنی جیت تو حاصل کر لی تھی لیکن اس نے اپنی بیوی اور اپنی بیٹی دونوں کو کھو دیا تھا لیکن اسے اس چیز کا ذرہ برابر بھی نہ ہی تو احساس ہوا تھا اور نہ ہی اس چیز سے فرق پڑتا تھا ۔۔

آج وہ لڑکی جس سے وہ حد سے زیادہ نفرت کرتا تھا جو اس  کی اپنی اولاد اپنی بیٹی تھی  آج وہ گھر میں نہیں تھی ۔۔۔۔

رضا کو یاد آیا وہ دن جس دن فردوس  اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اپنے اور علی خاور کے رشتے کو بچانے کے لیے بھیک مانگ رہی تھی مگر اس ظالم شخص نے اس کی ایک نہ سنی اور وہی کیا جو اس کو کرنا تھا ۔ ایک لمحے کیلئے یہ سوچ اس کے دماغ میں آئی لیکن اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر ایک طنزیہ اور ایک فتح والی   مسکراہٹ تھی یوں جیسے بہت بڑی چیز حاصل  کر کے آیا ہوں ۔۔

یوں جیسے اس کی ناک اور گردن دونوں ہی اونچی ہو ۔ ۔۔

رابیہ  آپنے کمرے  کی کھڑکی میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ آج رات اور اس کی آنے والی کئی راتوں تک نہ ہی تو فردوس کو اور نہ ہی رابیہ کو نیند آنے والی ہے ۔۔۔رابیہ  خاموشی سے رات کی تاریخی میں اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی رضا کو دیکھ رہی تھی جو کہ لون کی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھوں کے درمیان سگریٹ جل رہی تھی ۔۔۔

رضا نے اپنی وہ جلتی ہوئی سگریٹ مکمل کی تو وہ کھڑا ہوا ۔۔اس کا سر اچانک ہی گھوما ۔اور وہ تیزی سے گرنے لگا مگر اگلے ہی لمحے اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا ۔۔۔آج رات اسے نیند نہیں آ رہی تھی جب کہ وہ سونے کی بہت کوشش کر رہا تھا لیکن پھر نیند  سے پریشان ہونے کے بعد وہ یہاں آ کر لان میں بیٹھ گیا کہ کچھ وقت یہاں گزارنےکےبعد شاید اسے نیند آجائے گی مگر نیند اس کی آنکھوں سے آج بہت دور تھی ۔۔رضا نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر دوبارہ سے چلنا شروع ہوا تو یونہی چلتے چلتے وہ کچھ قدم ہی آگے بڑھنا ہوگا کے اسے یوں  لگنے لگا کہ اس کے پیروں کے نیچے سے جوتے نکل رہے ہو ۔۔۔

وہ اپنے آپ کو ایک بار پھر سے سنبھالتا ہوا اپنے پیروں میں جوتے صحیح طریقے سے دوبارہ سے پہننے لگا وہ اب اندر آ رہا تھا ۔۔۔

رضا چلتا ہوا گھر کے دروازے تک آیا وہ دروازہ پار کرنے کے بعد تھوڑا سا ہی آگے چلا ہوگا کہ وہ گھر کے بیچوں بیچ بری طرح گر  پڑا ۔۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے کھڑا ہوا اور اس نے اپنے آپ کو ایک بار پھر سے سنبھالنے کی کوشش کی ۔۔

اسے آہستہ آہستہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاؤں میں جان نہ ہو ۔وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو یوں سنبھالتا ہوا لون سے کمرے تک لایا تھا وہ پریشان ہو گیا تھا کہ نہ جانے یہ اچانک اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ ۔۔۔

وہ ایک بار پھر سے کھڑا ہوا اور اس نے اپنے آپ کو سنبھالا مگر اب کی بار اسے یوں لگنے لگا جیسے اس کے پیروں میں جان نہ ہو وہ بڑی تیزی سے زمین پر گرا اور قریب رکھی ہوئی ششیے  کی ٹیبل پر اس کا ہاتھ جیسے ہی پڑھا کانچ کی ٹیبل  اس کے وزن سے نیچے گریں اور چکنا چور ہو گئی ۔کانچ کے بےشمار پیس رضا کے ہاتھ میں بھی چب  گئے تھے ۔۔رابیہ  تیزی سے بھاگتی ہوئی باہر کی طرف آئیں تو رضا زمین پر پڑا تھا  ۔۔۔۔۔

رضا ۔۔۔۔

رابیہ پریشانی سے چیخیں مارتی ہوئی اس کی طرف جیسے ہی بڑھی  تو رضا کو دیکھ  کر اسے یوں لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو جیسے اس کی روح فنا ہو گئی ہو ۔۔۔

رضا کا منہ ٹیڑا ہو چکا تھا اور اس کی باڈی  بے جان انسان کی طرح پڑی ہوئی تھی ۔۔۔

رضا ۔۔۔۔رضا آپ ٹھیک تو ہے نا رابیہ تیزی  سے رضا  کی جانب بڑھی وہ رضا کو اس  حال میں دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی وہ بالکل بے ہوشی والی حالت میں تھا اور نہ ہی تو بول پا رہا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو حرکت دے پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

رابیہ بہت پریشانی کے عالم میں اس کے قریب آئی اور اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر رضا کا سر  اپنی ٹانگوں پر  رکھا ۔۔اور پھر زور زور سے آواز دے کر  گھر کے تمام ملازمین کو جمع کرکے اسے ہوسپیٹل لے کر گئی ۔۔اس نے اسی وقت تیزی سے فردوس کو فون کیا۔۔

 فردوس اب  اپنے کپڑے بدلی ہوئی بیٹھی ہوئی تھی جبکہ عامر سو چکا تھا اور وہ جاگ رہی تھی ۔۔

چار بجے کا وقت تھا جب رابیہ کی بے شمار کالز  اس کے موبائل پر آنی  شروع ہوئی ۔۔

فردوس نے موبائل پر جیسے ہی امی کی کال  دیکھیں تو تیزی سے موبائل اٹھا کر اپنے کانوں سے لگایا۔۔۔

 رابیہ  کی بےحد پریشانی سے بھری ہوئی آواز اسے سنائی دی وہ پریشانی سے روئے جارہی تھیں روئے جارہی تھیں ۔۔۔

کیا ہوا ہے امی سب ٹھیک تو ہے نا  آپ ٹھیک ہے  کیوں رو رہی ہیں ۔۔۔وہ بھی پریشان ہو گی ۔۔

فردوس فردوس تمہارے بابا ۔۔بابا کی   طبیعت ٹھیک نہیں ہے انہیں اچانک فالج کا اٹیک پڑا ہے اور وہ بھی بہت خرناک ۔۔۔تم۔۔۔تم بس  جلدی سے یہاں پر آجاؤ جلدی سے ۔۔

میں میں ابھی آ رہی ہوں امی آپ بالکل بھی پریشان مت ہوں میں بس ابھی   آتی ہوں ۔۔

فردوس  اس نے تیزی سے برابر میں سوئے ہوئے عامر کو اٹھایا ۔۔

اور وہ تیزی سے اس کے ساتھ مل کر ہاسپیٹل کیلئے آئ ساتھ ہی ساتھ یوسف صاحب اور عامر کا بڑا بھائی احتشام بھی آ گے تھے  ۔۔۔

فردوس تیزی سے ہاسپٹل پہنچی تو رابیہ روم کے باہر  کھڑی رو رہی تھی ۔۔۔

امی ۔۔۔فردوس روتے ہوئے تیزی سے اپنی ما ں کی طرف بڑھی ۔۔وہ دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگی ۔۔

جبکہ عامر ڈاکٹر سے بات کر رہا تھا اور یوسف صاحب اور احتشام بھی اس کے ساتھ ہی کھڑے تھے ۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟؟

 ڈاکٹر نے کیا بتایا ہے؟؟؟

  ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد اب رابیہ  نے بے حد پریشانی سے عامر کو دیکھتے پوچھا ۔۔۔۔

رضا انکل کا بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اس کی وجہ سے ان کو اچانک فالج کا اٹیک پڑا ہے اچانک  انکا بی پی حد سے زیادہ بڑ ھ گیا تھا اس کی وجہ سے فالج نے ان کی پوری باڈ ی پر حد سے زیادہ اثر  کیا ہے آپ دعا کریں کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہوجائیں۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔

عامر بولنے کے بعد خاموش ہوا تو فردوس نے تیزی سے ایک نظر عامر  کو دیکھا ۔۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ آگے کیا کہنا چاہتا ہے رضا  کی حالت کے بارے میں ۔۔۔۔

بس اب دونوں دعا کریں ۔۔۔۔

عامر کہتا ہوا  اب  ڈاکٹر کے ساتھ جا رہا تھا ۔۔جب کہ رضا اپنے ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ لاغر جسم کے ساتھ بستر پر پڑا ہوا تھا ۔اس کا چہرہ بالکل   ٹیڑ ا  ہو چکا تھا اس کے ہاتھ پیروں میں جان  نہیں تھی ۔۔۔

فردوس نے ایک نظر دروازے سے جھانک کر اپنے باپ کو دیکھا ۔۔

چند لمحے وہ خاموشی کے ساتھ اپنے باپ کو نہ جانے کتنی دیر یونہی کھڑی  دیکھتی رہی دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔

رابیا ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی جبکہ ان کے گھر کے کچھ اور دور دراز کے رشتے دار بھی ہوسپیٹل آچکے تھے ۔۔۔

رابیہ  تنہائی میں بیٹھی ہوئی آنسو بہا رہی تھی کہ فردوس نے   رابیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ حوصلہ  رکھیں  امی ۔۔

انشاء اللہ تعالی بابا بالکل ٹھیک ہوجائیں گے ۔۔

کیسے حوصلہ کروں بیٹا ڈاکٹر نے کہا ہے کہ فالج کا اٹیک بہت سیریس آیا ہے رضا کو ۔۔

 مجھے سمجھ میں نہیں آرہا رضا کا بیپی اتنا  بڑھ کیسے گیا رضا کا بی پی تو ہمیشہ نارمل ہی ہوتا تھا ۔پھر یوں اچانک اس قدر بیبی بڑھ گیا کہ انہیں اتنا برا فالج کا اٹیک   پڑ گیا کہ وہ بالکل ہی بے جان ہو گئے ہیں فردوس ۔۔

اور وہ بھی آج کے دن جب تم عامر یوسف کی دلہن بن کر اپنے باپ  کے گھر سے جا چکی تھی ۔۔۔

فردوس  خاموشی سے بیٹھی رہی اور اپنی ماں کو روتا ہوا دیتی رہی ۔۔

آپ حوصلہ رکھیں امی  انشاء اللہ تعالی سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔

تم بھی اپنے بابا کے لئے دعا کرو فردوس ۔۔۔

یہ بھی بھلا کوئی بولنے والی بات ہے امی ۔۔۔

میں جانتی ہوں فردوس کے تمہارے بابا نے تمہارے  ساتھ بہت برا کیا ہے ۔۔  لیکن فر دوس تم اپنے بابا کو  معاف کر دو ۔۔

رابیہ کی بات پر فردوس کی آنکھوں میں آنسو آ گے   ۔۔اس کے علاوہ میں اور کر بھی کیا سکتی ہو امی ۔۔۔ چاہے وہ جیسے بھی ہوں انہوں نے میرے ساتھ اور آپ کے ساتھ جو بھی کیا ہو جو کچھ بھی ہمارے ساتھ  ناانصافی کی  ظلم کیے  ہو مگر ہیں تو وہ ہمارے اپنے ہی ۔۔ہم انہیں اس حال میں تنہا تو نہیں چھوڑ سکتے نہ آخر کا جو بھی ہو ۔ وہ میرے بابا ہیں ۔۔اور میں اپنے رب سے  دل سے یہی دعا کرتی ہوں کہ میرے بابا  جلد از جلد ٹھیک ہوجائیں اور جو بھی انھوں نے گناہ کیے ہیں وہ سب اللہ تعالی معاف کر دیں ۔۔

نو مہینے ہوچکے ہیں اس بات کو امی نو مہینے نو مہینوں میں وہ کہاں گیا ہے کس حال میں ہے زندہ بھی ہے یا نہیں  مجھے کچھ نہیں پتا ۔۔

اور آج جب عامر یوسف کی دلہن بن کر میں یہاں سے نکلی تھی جیسے ہی  میں نے  اپنے قدم گھر  سے باہر نکالے تھے میں نے ان تمام چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کچھ بھی بابا نے میرے ساتھ کیا میں نے معاف کیا ان کو ۔۔

مگر میں علی خاور کو اپنے  دل  سے نہیں نکال پاتی اور نکالنا بھی نہیں چاہتی ۔۔۔کچھ بھی ہو جائے امی وہ میرے دل سے نہیں نکل سکتا ۔لیکن خیر اب بہت دیر ہو چکی ہے امی بہت دیر ۔۔ نہ جانے وہ کہاں ہے کس حال میں ہے مجھے کچھ نہیں پتا ۔۔۔

اس کا دل توڑ دیا ہے میں نے ۔۔اس کا دل توڑ دیا ہے بابا نے ۔۔نہ جانے وہ اپنا ٹوٹا ہوا دل لے کر اس وقت کہاں ہو گا ۔۔۔۔

رضا کی اس حالت کو تقریبا تین دن ہو گئے تھے اور وہ تین دن ڈاکٹرز کی انڈر آبزرویشن میں تھا ۔۔

رضا کو ہوش آ چکا تھا مگر اس کی پوری کی پوری باڈی ایک دم نے جان  ہو گئی تھیں اور وہ بول بھی نہیں پا رہا تھا ۔۔فردوس نے اپنے باپ کو غور سے دیکھا بہت غور سے ۔۔وہ پہچان نہیں سکتی تھی کہ یہ وہی مغرور آدمی ہے جو اپنی انا کو اپنی ہر چیز سمجھتا ہے ۔یہ وہی آدمی ہے جو ہمیشہ اپنی ناک اور گردن اونچی رکھنا چاہتا تھا ۔۔وہ بغیر پلکیں جھپکائیں اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھتی رہی جبکے رضا  کی آنکھیں بند تھیں  اور بے جان جسم کے اوپر سفید چادر تھی ۔۔۔فردوس کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کی شادی کو صرف اور صرف چند دن ہی ہوئے ہیں ۔۔۔۔ وہ بنا پلکے جھپکا ے   اپنے باپ کو دیکھتی رہی اور اس کی اس حالت پر آنسو بہاتی رہی  ۔۔۔

چاہے وہ جیسا بھی تھا ۔۔۔ جیسا بھی تھا  سیاہ تھا اپنے دل سے اپنے وجود سے مگر تھا تو اس کا باپ ہی اگر وہ اپنی بیٹی   سے محبت نہیں کرتا تھا تو کیا ہوا وہ تو بہت زیادہ محبت کرتی تھی ۔۔

نہ جانے رب نے اس کے دل میں ایسا کیا رکھا تھا کہ وہ اپنے باپ کے اس طرح کرنے کے باوجود بھی اپنے باپ کے لئے رو رو کر دعائیں کرتی تھی ۔کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہوجائیں ۔۔۔

فردوس چلتی ہوئی اپنے بابا کے پاس آی ا  سے یوں گمان ہو رہا تھا جیسے وہ سو رہے ہو ۔۔۔

فردوس نے  اپنے بابا کے پیروں پر ہاتھ رکھا ۔۔

رضا سوتا رہا اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ اس کا جسم بھی بے  جان ہو گیا تھا ۔۔۔

بابا ۔۔۔۔۔

فردوس نے اپنے بابا کو پکارا ۔۔۔

مگر رضا کا منہ صرف اور صرف ایک طرف ہی پڑا رہا ۔۔وہ کچھ نہیں بولا ۔۔فردوس نہ جانے کتنی دیر تک اس   کے پاس بیٹھی رہی اسے دیکھتی رہی ۔اور پھر نرمی سے اس نے اپنے بابا کے دونوں ہاتھ چومے اور پھر کمرے سے نکل گئی ۔۔۔

عامر یوسف اور فردوس کی شادی کو تقریبا تین ہفتے ہونے والے تھے مگر ان دونوں کے درمیان شادی جیسی والی کوئی  بات نہیں تھی فردوس  نے عامر سے وقت مانگا تھا اور عامر  یوسف نے بھی اپنی کوئی من مانی نہیں کی تھی اس نے فردوس کو وقت دیا تھا ۔۔ شادی کے فورا بعد ہی اس کے باپ کو فالج کا اٹیک ہو گیا تھا ۔۔تو وہ فر دوس کو مزید پریشر نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ اس رشتے کے بارے میں  کچھ اور سوچیں ۔

دوسری طرف عامر یوسف بھی اب اپنے کسی کام کی وجہ سے اسلامآباد  اور مری جا چکا تھا ۔۔

شادی کے ایک  دو مہینے کے بعد فردوس کو بھی وہاں جانا تھا لیکن رضا کی اس حالت کی وجہ سے وہ وہاں جا  نہیں پائی ۔۔

عامر یوسف کے جانے کے بعد وہ رابیہ  کے پاس ہی رہ رہی تھی ۔۔اور تقریبا اسے وہاں رهتے ہوے  تین  ہفتے ہونے والے تھے ۔۔

  اس کے بعد وہ  مسلسل طور پر یہاں سے شفٹ  ہونے والی تھی جہاں پر عامر یوسف نے اس کے لئے ایک بے حد حسین گھر بنایا ہوا تھا ۔جو اس کی شادی کا تحفہ تھا ۔۔وہ جانتا تھا کہ اسے یہ جگہ  بہت زیادہ پسند ہے ۔۔اور واقعی میں فردوس  کو مری  سے حد سے  زیادہ لگاؤ تھا کیونکہ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر اس کی  اور علی خاور کی محبت کی داستان شروع ہوئی تھی اور دونوں نے اپنے اپنے دل کا حال ایک دوسرے کو بتایا تھا ۔۔

وہ جگہ اس  کیلئے کبھی بھی اہمیت کھو نہیں سکتی تھی ۔ اگر کوئی اور جگہ ہوتی تو شاید فردوس منع کر دیتی مگر وہاں پر اس شخص کی اتنی حسین یادیں تھیں کہ وہ چاہ کر بھی عامر یوسف کو منع نہیں کر پائیں وہ ان تمام جگہوں کو دوبارہ سے دیکھنا چاہتی تھی جن جگہوں پر وہ کبھی ایک  ساتھ تھے  اور وہ اس  جنگل کی تاریخی میں ایک بار پھر سے کھونا چاہتی تھی کہ کہیں سے علی خاور دوبارہ سےا  سے ڈھونڈ لے ۔۔

وہ اس  ماحول میں بسی ہوئی علی خاور کی دلکش خوشبو کو   محسوس کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

رابیہ نماز پڑھ رہی تھی جب کہ فردوس رضا کیلئے کھانا نکال رہی تھی جو کہ اس کا پرہیزی کھانا تھا ۔۔۔۔

 گھر میں رضا بھی تھا   لیکن  یہ وہ رضا نہیں تھا جو پہلے والا  تھا ۔۔۔

 پہلے کی نسبت اور آج والے رضا کی نسبت میں  زمین آسمان کا فرق تھا وہ اکڑ کر چلنے والا شخص آج زمین پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا جو اپنی گردن ہمیشہ اونچی رکھتا تھا آج اپنا ہاتھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا ۔۔۔۔

رضا کو گھر آئے ہوئے کافی دن ہو چکے تھے ۔۔۔

مگر اس کی حالت میں کسی قسم کی کوئی بھی بہتری نہیں تھی وہ یوں تھا جیسے کوئی بے جان اور لاغر جسم ہوتا ہے ۔۔بس ایک سانس تھی جو باقی رہ گئی تھی جسم سے جان تو بالکل ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔

رضا ہمیشہ جب بھی اب  فردوس کو دیکھتا تھا تو یوں ہوجاتا تھا جیسے سو رہا ہوں ۔۔۔

اگر وہ اس کی آنکھوں کے سامنے بھی آ کر بیٹھ جاتی تھی ۔تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا تھا ۔۔کھانا ہمیشہ رابیہ  ہی رضا کو کھلاتی تھی اور کپڑے بھی وہیں بدلتی  تھی ۔۔۔

نہ جانے کیا تھا اس   عورت میں کس  مٹی سے بنی تھی جو اپنے شوہر کے ان تمام رویوں کے باوجود بھی اس کیلئے ہمیشہ کھڑی رہتی تھی ۔۔۔۔

فردوس رضا کا کھانا نکال کر رابیہ  کے پاس گئی تو وہ دعا مانگ رہی تھی ۔۔

امی بابا  کو آج  میں کھلا دو کھانا  ہمیشہ آپ ہی کھلاتی ہیں ۔۔۔۔

رابیہ نے ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔۔

رابیہ ایک  بات بہت پہلے محسوس کر چکی تھی کہ رضا فردوس کو دیکھ کر اپنی ہی نظروں میں اب  شرمندہ ہوتا ہے ۔اسے اپنے تمام کیے گئے کاموں اور ناانصافیوں پر پچھتاوا ہوتا ہے ۔۔وہ اس کی بیوی تھی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کے ساتھ گزارا تھا وہ سمجھتی تھی رضا کو  ۔۔۔

فردوس  بھی اس بات کو سمجھ چکی تھی مگر وہ یہ بات اپنے ہونٹوں تک کبھی نہیں لانا چاہتی تھی اور نہ ہی رابیہ  وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان دونوں کی نظروں میں رضا کی عزت اب مزید کم ہو ۔۔جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا اب جو تھا اس کے ساتھ ہی زندہ رہنا تھا ۔۔۔

رابیہ چند لمحے فردوس کو دیکھتی رہی دیکھتی رہی وہ اتنی محبت سے کہہ رہی تھی کہ وہ فردوس کو منع نہیں کر پائی ۔۔۔ 

بس رابیہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یہ کہتے ہوئے کہ بابا  تمہارے ہاتھوں سے کھانا نہیں کھا پائیں گے فردوس ۔۔۔

کیوں امی ۔۔۔؟؟

اس کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے تھے ۔۔۔ 

آج میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤ گی زندگی میں پہلی بار ۔۔وہ موٹے موٹے آنسو سے رونے لگی تھی ۔۔۔  

فردوس جیسے ہی کھانے کی ٹرے   رضا کے کمرے میں لے کر گی ۔تو رضا نے فردوس کو دیکھنے  کے ساتھ ہی اپنی آنکھیں اچانک تیزی سے بند کی ۔۔۔

فردوس بھی  یہ چیز محسوس کر رہی تھی کہ وہ سو نہیں رہے ۔۔۔

آج وہ بھی وہیں بیٹھی رہی بیٹھی رہی وہ جانتی تھی کہ اس کے باپ کو اپنے کیے پر  شرمندگی ہے ۔۔

مگر افسوس کے رضا کو اپنی تمام غلطیوں کا احساس بڑی دیر سے ہوا تھا ۔۔۔

فردوس بھی کھانے کی ٹرے اپنے قریب رکھیں اپنے باپ کو یوں آنکھیں بند کیا ہوا دیکھتی رہی جبکہ اس کی آنکھیں نم تھیں ۔۔۔

بابا ۔۔۔فردوس نے بہت نرمی سے رضا کو پکارا ۔۔۔

رضا نے  اپنی آنکھیں نہیں کھولیں ۔۔۔

یونہی  کرتے کرتے کھانا ٹھنڈا ہوگیا تو فردوس کھانا  لے  گئی اور چند لمحوں کے بعد کھانا گرم کر کے دوبارہ سے واپس لائیں ۔۔رضا اس امید میں تھا کہ اب کی بار رابیہ  آئے گی ۔۔

کمرے کا دروازہ کھول کر فردوس ایک بار پھر سے اندر آ رہی تھی ۔۔۔۔

اور رضا کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔ بابا۔۔۔

 آپ کا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے کھانا کھا لیں  پھر آپ کی دوائی کا وقت ہے ۔۔۔

فردوس اس کے قریب بیٹھی بڑی نرمی سے کہہ رہی تھی اور اس نے بے حد ہلکے ہاتھوں سے اپنے باپ کے بالوں پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔وہ بڑے پیار سے اپنے باپ کے بالو پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔

رضا اپنا منہ ایک طرف کیے لیٹا رہا لیٹا  رہا ۔۔فردوس نے ذرا گردن آگے کرکے دیکھا تو رضا کا سفید تکیا گیلا ہو رہا تھا ۔۔۔ فردوس  نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو قابو میں رکھا تھا۔۔جبکے  رضا کی آنکھیں بند تھی اور بند آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور تکیہ کو بیگو رہے تھے ۔۔۔

بابا ۔۔۔

فردوس نے بہت محبت سے  رضا کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

مگر افسوس کہ رضا کچھ نہیں بول سکتا تھا ۔۔۔

فردوس  نے  بے حد آہستہ سے اپنے باپ کی دونوں گیلی آنکھیں صاف کیں ۔۔

رونے کی وجہ سے اس کے  منہ سے رال ٹپک رہی تھی ۔۔۔

فردوس نے اپنے دوپٹے کے کنارے سے آہستہ سے اس کا چہرہ صاف کیا تو وہ اور زیادہ رونے لگا ۔۔۔

اب کی بار فردوس سے  برداشت نہیں ہوا ۔وہ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح اپنے باپ کے سینے سے لگ کر رونے لگی ۔یوں جیسے کوئی چھوٹا بچہ چیخیں مار مار کر روتا ہے ۔۔۔

رضا کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا مگر اب اس کی زبان کسی کام کی نہیں رہی تھی وہ اس قدر بدنصیب تھا کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میری بیٹی مجھے معاف کردو ۔۔۔

فردوس  کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ تھا مگر اپنے باپ کے سینے سے لگنے کے بعد وہ ہر چیز ہر چیز بھول گئی تھی ۔۔۔۔۔

بس وہ دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے سے لپٹ  کر روتے روتے رہے جب کہ فردوس  رضا کے بے جان جسم کو اپنے دونوں ہاتھوں میں  سمٹ  کر  کسی معصوم سے بچے کی طرح اپنے باپ کے سینے سے لگی روتی رہی روتی رہی ۔۔۔۔

رابیہ کمرے کے باہر کھڑی ان دونوں کو روتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

رضا کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فردوس کا ماتھا چوم لے اس  کے سر پر ہاتھ رکھیں مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ساری زندگی اس کی واحد اولاد اس کی اکلوتی بیٹی اس کی محبت کے لیے ترستی رہی تھی ۔۔اور جب آج وہ اپنی بیٹی کو  چھونا چاہتا تھا اس سے محبت کرنا چاہتا تھا ۔۔تو آج وہ  اپنی اولاد کے لئے  کچھ  نہیں کر سکتا تھا اپنی اولاد کو کچھ بول نہیں سکتا تھا اپنی اولاد کے سر  پر ہاتھ نہیں پھیر  سکتا تھا ۔۔۔۔

اللہ تعالی نے رضا کے لئے شاید یہی سزا منتخب کی تھی جو آج اسے مل رہی تھی ۔۔۔

اللہ تعالی نے رضا کی رسی ڈھیلی چھوڑی تھیں اور جب وقت آنے پر اس کی رسی کو کھینچنا تھا تو وہ منہ کے بل زمین پر جا گرا تھا اس کی ساری آنا اس کی  ساری زندگی اس کی اونچی لمبی ناک اس کی اونچی لمبی گردن ہر چیز خاک میں جا ملی تھی ۔بے شک غرور  کرنے والوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔۔ان لوگوں کا انجام اسے طریقے سے ہوتا ہے جو دوسروں کی زندگیوں کے اوپر دوسروں کی خوشیوں کے اوپر صرف اور صرف اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں ۔رضا کے اندر حد سے زیادہ "میں "تھی اور جن چیزوں کے درمیان "میں"  آ جاتی ہے تو پھر میں کے  آنے کے بعد وہ اپنے ساتھ کسی اور کو رہنے کے لئے اجازت نہیں دیتی ۔۔۔۔

دو مہینے بعد ۔۔۔

نیلے  شیشے سے بنے ریسٹورنٹ  کا ماحول بے حد  حسین اور دلکش تھا ۔۔۔

ایسے میں ڈاکٹر عامر یوسف سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔

جبکہ اس کے بالکل سامنے سیاہ رنگ کی شرٹ پہنے ہوئے ایک لمبا سا لڑکا تھا ۔۔۔چہرہ خوبصورت اور آنکھیں پر کشش تھی ۔۔مگر آنکھوں میں گہری اداسی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے ۔۔۔

دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی ۔مگر اس لمبے لڑکے  کے چہرے پر اداسی بھی تھی ۔۔۔

تم بالکل بھی دل سے نہیں ہنستے" اے کے" ۔۔۔

دل سے کیسے ہنستے ہیں؟؟

 سامنے بیٹھے لمبے اور پر کشش لڑکے  نے ڈاکٹر عامر  کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تمہاری آنکھیں نہیں ہستی تمہاری ساتھ بہت اداسی ہے ان میں ۔

تمہیں تو ہر چیز معلوم ہے پھر یہ کیوں کہہ رہے ہو ڈاکٹر ؟؟؟

میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تم خوش رہو اور آگے بڑھ جاؤ ۔۔ 

تمہیں میری رپورٹس  دیکھ کر اندازہ نہیں ہو رہا کہ میں آگے ہی تو بڑھ  رہا ہوں اپنی بات پر وہ لمبا اور پرکشش لڑکا زور سے ہنسا تھا ۔۔۔۔ 

تمہاری پورٹس  اتنی بری نہیں ہیں یار ۔۔۔ڈاکٹر عامر نے کہا ۔

کوئی بات نہیں اگر بری نہیں ہے تو بری ہو جائیں گے انشاءاللہ۔۔ لڑکے نے جواب دیا ۔۔۔

کیا بیوقوفی کی باتیں کرتے ہو تم  "اے کے" تمہیں میں نے کتنی بار بولا ہے کہ اس طرح کی باتیں مت کیا کرو یار ۔۔اچھا سوچو گے تو اچھا ہی ہوگا  ۔۔

کچھ وقت پہلے میں نے بہت اچھا سوچا تھا ڈاکٹر مگر کچھ بھی اچھے نہیں ہوا تب سے اس چیز کے اوپر سے میرا بھروسا اٹھ  گیا ہے ۔ ۔۔

تم اپنے ایک  خراب ایکسپریس کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے اپنے آپ کو دیکھو کتنے زیادہ کامیاب  ہو تم ۔اتنے  ہارڈ ورکنگ اور اتنے زیادہ ٹیلنٹڈ ہو ۔ لیکن بس تم میں  ایک ہی برائی ہے تم اپنے پاسٹ  کو نہیں بھلا پاتے ۔جب کہ وہ  تمہارے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے  ۔۔

میرا وہ گزرا ہوا کل انتہائی حسین ہے  ڈاکٹر ۔۔۔ میں آج بھی اس میں جی رہا ہوں ۔۔۔

ٹھیک ہے میں نے تمہاری بات مان لی کہ وہ گزرا ہوا کل تمہارے لئے بہت حسین تھا لیکن اس گزرے ہوئے کل میں تمہاری بے حد تکلیف ده  یاد یں موجود ہیں جن میں تم آج تک جی رہے ہو۔۔۔

کیا تم اس لڑکی کو بھول نہیں سکتے آج تک تم نے مجھے اس کا نام نہیں بتایا ۔۔جبکے   میں اور تم  بہت  کم وقت میں   بہت اچھے دوست بن گئے ہیں ۔۔

اتنے کے  ایک دوسرے سے ہر چیز شیر کر تے ہیں سواۓ اس لڑکی کے "نام "کے ۔۔

مجھے چھوڑو یہ بتاؤ کہ تمہاری بیوی کو گھر کیسا لگا ۔۔

 یار کیا بتاؤں اب  تمہارا دماغ اتنا شاندار ہے اس قدر حسین طریقے سے تم گھر ڈیزائن کرتے ہو کہ داد دینی پڑے گی تمہاری یوں ہی تو تم نوٹوں میں نہیں کھیل  رہے ہیں نا ۔

ڈاکٹر عامر کی بات پر سامنے بیٹھا لڑکا ہنس پڑا ۔۔

تمہاری محبت کی کہانی سن کے مجھے ہمیشہ  بڑا افسوس ہوتا ہے اے کے  ۔۔ ڈاکٹر عامر نے کہا ۔۔۔

مگر تمہاری محبت تمہارے   کتنے پاس ہے تمہارے گھر میں بہت خوش نصیب ہو تم عامر  ۔ ۔

عامر اس کی بات پر آہستہ سے ہنسا ۔۔اداسی سے ۔۔ 

تم نے  آج تک مجھے اس لڑکی کا 

نام نہیں بتایا اور نہ  ہی   اس  کے ظالم باپ کا جس نے تمہارے ساتھ یہ  سب کچھ کیا ۔۔۔

کیا کبھی میں نے تم سے تمہاری بیوی کا نام پوچھا ہے ۔۔

وہ تو تم اس ڈر سے نہیں پوچھتے کہ کہیں وہ نام تم دوبارہ سے نہ سن لو کسی اور کے منہ سے   جو تمہارے دل میں بستا ہے ۔۔

 اور نہ تم نے مجھے کبھی بتایا اس لڑکی کا نام  ۔۔

اچھا یہ بتاؤ میرے گھر کب آ رہے ہو تم تمہاری اور میری دوستی کو نجانے کتنا وقت ہو چکا ہے لیکن تم اسے کوئی بے شرم انسان ہوں کہ میرے گھر آنے کا نام ہی نہیں لیتے پتا نہیں تمہیں میرے گھر آنے سے کیا مسئلہ ہے ۔۔۔

مجھے تمہارے گھرانے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں بس مصروف ہوتا ہوں اس وجہ سے ۔۔

اور تم اپنی مصروفیات میں اپنے آپ کو حد سے زیادہ نظرانداز کر رہے ہو ۔۔تم میری بات کا یقین کرو تمہاری رپورٹ اتنی زیادہ  بری  نہیں ہے ۔۔اگر تم وقت پر داوی  لو گے  وقت پر اپنا علاج کرو گے تو تم مہینوں میں درست ہو جاؤ گے ۔یہ والی بات میں تمہیں نہ جانے کتنے دنوں سے سمجھا رہا ہوں یہاں تک کہ تم سے میرے بابا نے  بھی بات کی ہے لیکن تم سنتے ہی 

نہیں ہوں ۔۔۔

آج میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہوں کہ وہ لڑکی واپس آجا ے  تمہاری زندگی میں اور تمہیں سمجھآئے یہ دوائیاں یہ علاج  تمہارے لئے کس قدر ضروری ہے جس کو تم نہیں کر وا  رہے ۔۔

وہ واپس کبھی نہیں آ سکتی ۔۔

کیوں نہیں آ سکتی ۔۔

ڈاکٹر عامر کی بات پر وہ لڑکا  بڑی بے بسی سے مسکرایا تھا ۔۔۔

مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔سادہ سا جواب دیا ۔۔

اگر تم  یوں ہی اس لڑکی کو اپنے دل میں بساے  رکھو گے تو پھر تم اپنی زندگی میں کسی اور لڑکی کو کیسے جگہ دو گے  ۔۔۔۔

میرے دل میں کسی اور  کیلئے کوئی  جگہ  نہیں ہے  ۔بس وہ محفوظ ہے یہاں  ۔اس کے علاوہ کوئی اور وہ  جگہ نہیں لے سکتا کوئی بھی نہیں ۔۔چاہے کوئی لڑکی اپنے ماتھے پر چاند بھی سجا کر آ جائے نہ تو وہ  اس کی جگہ نہیں لے سکتی ۔وہ میرے یہاں بستی ہے یہاں سامنے بیٹھے لڑکے نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔

اور اسی جگہ سے تم بیمار ہو ۔۔۔

اسی نے کیا ہے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ۔۔۔۔

نہیں۔۔۔ اس نے نہیں کیا ۔۔۔اور اگر اس نے کیا بھی ہے تو اسے ہر چیز معاف ہے ہر چیز ۔۔

یہاں تک کہ میری موت کی اگر ذمہ دار اس کی خوبصورت یادیں باتیں اس کا وہ خوبصورت چہرہ   وہ خوبصورت آنکھیں ہیں تو مجھے یہ موت بھی قبول ہے ۔۔ ۔۔

تم کیوں ہمیشہ مرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہو یار ۔۔

اگلے مہینے بابا آ رہے ہیں میرے گھر ملواتا ہوں تمہیں وہیں تم کو  ٹھیک کریں گے ۔اور اگلے مہینے اگر تم نہیں آے  تو  بھول جانا پھر میری دوستی کو ۔۔

اور ہاں ساتھ ہی ساتھ تمہیں یہ بات بتانی تھی کہ میرا بہت اچھا دوست ہے امریکہ میں ۔ اور جس مرض میں تم گرفتار ہو وہ اس مرض کا علاج بڑی مہارت سے کر سکتا ہے تم ضرورت جاؤ گے اس کے پاس  بلکہ میں تمہیں خود لے کے جاؤں گا امریکہ اپنے ساتھ تم پر اگر چھوڑ دیا تو کروا لیا تم نے اپنا علاج اور ٹھیک ہو گئے تم ۔۔

مجھے ٹھیک نہیں ہونا ۔۔۔

بقواس بند کرو اپنی اور اگلے مہینے میرے گھر پہنچوں ۔تمہیں بابا سے بھی ملو آنا ہے اور اپنی بیوی  سے بھی ۔۔۔

عشق لا علاج مرض ہے ۔۔سامنے بیٹھے اداس آنکھوں والے لڑکے نے بڑی بے بسی سے کہا ۔۔۔۔

میری دعا ہے کہ وہ تمہیں واپس مل جائے ۔اچھا یہ بتاؤ اگر  وہ زندگی کے کسی موڑ پر تمہیں  مل جاتی ہے تو پھر کیا کرو گے تم کیا وہ  تمہیں اس  حال میں دیکھ کر خوش ہوں گی بتاؤ مجھے ۔۔

اگر اسے پتہ چل جائے کہ میں اس حال میں ہوں ۔۔تو پھر وہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو کسی بھی کونے میں دوڑ کر میرے پاس چلی آئیں گی ۔۔

تم دونو ں  کی محبت واقعی میں بڑی مشکل رہی ہے یار ۔۔۔تمہارا عشق  حاصل ہو کر بھی لا حاصل رہا ہے ۔۔

لیکن تمہاری محبت تو بڑی آسان ہے جسے بچپن سے چاہا اس سے شادی بھی ہوگئی ۔۔۔سامنے بیٹھے لڑکے کی بات پر ڈاکٹر عامر بے بسی سے اور اداسی سے مسکرایا ۔۔۔صرف شادی ہوئی ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔ 

اور   ویسے بھی وہ  میری محبت ہے میں نے اس کو کبھی فورس  نہیں کیا ۔ کے وہ مجھ سے محبت کرے ۔۔ اس نے مجھ سے وقت مانگا ہے اور میں وہ آج تک دے رہا ہوں بغیر کوئی شکایت کیے بغیر کوئی حد پار کیے ۔۔۔

بہت بڑی بات ہے ڈاکٹر ۔۔۔

گڈ مارننگ اے کے  کیسے ہو تم کیا حال ہے تمہارا ۔۔۔

وہ لمبا پرکشش لڑکا اپنے کام میں مگن تھا کہ صبح صبح کے وقت ڈاکٹر عامر اور اس  کے ساتھ ہی ایک اور شخص  اس کے   آفس کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔

ارے واہ صبح صبح ۔۔۔

اے کے نے  خوش دلی سے ان کا ویلکم کیا ۔۔

جیسا کہ اے کے  میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تمہیں ایک بہت ہی زبردست ڈاکٹر سے ملانے والا ہوں تو یہ دیکھو تمہارے سامنے ہیں ان سے ملو یہ میرے دوست ہیں اور جس بیماری میں تم مبتلا ہو اسے ٹھیک کرنے میں ماہر ہیں ۔۔۔

ان کا نام ڈاکٹر صدیق ہے ۔۔اور میں نے انہیں تمہارے بارے میں ہر چیز شروع سے لے کر اب تک جو بھی تمہاری پوزیشن ہے   بتا دی ہے  ۔۔۔

کچھ ٹیسٹ  تمہارے مزید اور ہونے ہیں اس پورے مہینے اس کے بعد جو بھی رپورٹ آ ییں  گی پھر ڈاکٹر صدیق تمہیں دیکھیں گے اور انشاء اللہ تعالی تمہیں ان سے کوئی بھی مایوسی نہیں ہوگی تم  بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے بالکل ٹھیک ۔۔

ڈاکٹر عامر نے بے حد خوشی اور پرجوش طریقے سے اے کے دونوں کندھوں کو پکڑ کر مضبوطی سے کہا یوں جیسے اپنی دوست کی صحت یابی کے لئے دل سے کوشش کر رہا ہوں ۔۔

اے کے نے ایک  نظر اس ڈاکٹر کو دیکھا اور پھر اپنے دوست کو ۔۔۔۔

اے کے  کی آنکھوں میں یہ تھا کہ تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس کو یہاں لے کر آؤں ۔۔

مجھے ٹھیک نہیں ہونا۔۔

 یہ تمام چیزیں جو اس کی آنکھوں پر اور اس کے چہرے پر واضح تھی ڈاکٹر عامر باآسانی پڑھ سکتا تھا ۔۔۔

مجھے اس طرح سے گھورنا بند کرو میری ایک عدد بیوی ہے  اگر اسے پتہ چلے گا کہ تم مجھے یوں اس طرح سے گھور تے ہو تو یقیناً وہ کچھ غلط سوچے گی  تمہارے اور میرے بارے میں ۔ڈاکٹر عامر کرسی کھنچ  کر کہتا ہوا بیٹھ گیا جبکہ اے کے  کے  چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔

وہ تینوں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے رپورٹس اور اے کے  کی پوزیشن کو ڈسکس کرتے رہے ۔۔

کہ اے کے کو امریکا کب اور کس وقت لے کے جانا ہے  بہتر علاج کے لیے ۔۔۔

ڈاکٹر صدیق اے کے سے ملنے کے بعد اب وہاں سے جا چکا تھا ۔۔۔

تمہیں میں نے کہا تھا کہ تم ڈاکٹر صدیق کو یہاں پر لے کر آؤ تمہیں کیوں میری ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی ڈاکٹر ۔۔

تم اپنی بقواس بند رکھو بالکل تمہارے ٹھیک ہونے کی ذمہ داری میں نے اپنے کندھوں پر لی ہے اور جب تک جب تک تم بالکل صحت یاب نہیں ہو جاتے نہ میں کسی جن کی طرح تمہارے ساتھ چپکا  رہونگا سمجھے تم ۔۔ 

اے کے نے  اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جبکہ ڈاکٹر عامر بڑی غور سے اپنے پیارے دوست کو دیکھ رہا تھا جو آج نیلے رنگ کی شرٹ کے اوپر سفید  رنگ کی ٹائی لگایا ہوا تھا اس لمبے لڑکے کا چہرہ بڑا پیارا تھا اور آنکھیں بہت پرکشش چہرے پر سختی تھی اور آنکھوں میں اداسی ہاں بال اس کے  ہمیشہ بکھرے ہوئے ہوتے تھے آج کل تو داڑھی بھی قدرے بڑی ہوئی تھی ۔۔

وہ ہمیشہ اپنے اوپر کے دو سے تین بٹن کھولے رہتا تھا ۔۔ یہ اس کی عادت تھی بند رہنا اسے زیادہ پسند نہیں تھا ۔۔۔ڈاکٹر عامر بہت غور سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔

ابھی وہ تمہارے ساتھ نہیں ہے  تو تم اتنا ہینڈسم لگ رہے ہو میں تو یہ سوچ رہا ہوں جب وہ تمہارے ساتھ چلتی  ہو گئی تمہارے ساتھ بیٹھتی ہو گئی تمہارے ساتھ باتیں کرتی ہو گئی تو تم کتنے اچھے لگتے ہو گیے ۔اے کے ۔۔۔۔

ڈاکٹر عامر اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

ڈاکٹر عامر کی بات پر اے  نے  ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بہت ہی بے بسی سے مسکرایا ۔۔۔۔

وہ بہت خوبصورت ہے ڈاکٹر بہت خوبصورت اس کی آنکھیں اس کی مسکراہٹ اتنی حسین ہے کہ میں تمہیں کیا بتاؤں ۔۔ 

ہاں یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب وہ میرے ساتھ تھی تو ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے لگتے تھے مجھے میرے بہت سے دوستوں نے یہ بات کہی تھی ۔۔میری اپنی امی بھی مجھے یہی کہتی ہیں ۔۔کہ تم دونوں ساتھ میں بہت اچھے  لگتے  ہو ۔۔مگر اب ہم ساتھ نہیں ہیں ۔بس اس کی یادیں ہیں میرے پاس جو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا کوئی بھی نہیں ۔۔۔۔

 مری کا موسم ہمیشہ کی طرح انتہائی حسین دلکش اور ٹھنڈا تھا۔۔۔

ڈاکٹر عامر آج کسی کام سے صبح سے ہی نکلے ہوئے تھے ۔۔جبکہ  فردوس رابیہ سے موبائل پر بات کر رہی تھی  ۔۔رضا کی طبیعت وہی تھی جس حال میں وہ اسے چھوڑ کر آئی تھی ۔۔ کسی قسم کی کوئی بہتری نہیں تھی ۔۔

رابیہ سے بات کرنے کے بعد فردوس  نے موبائل بند کیا ۔ ۔۔

فردوس نے آج علی خاور کا دیا ہوا لباس پہنا ہوا تھا اور اس کے اوپر سویٹر اور موٹی سی شال ۔۔

مری کا موسم کافی ٹھنڈا تھا ۔۔اسے یہاں آ کے ساتھ شفٹ ہوئے پورے تین ہفتے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا ۔۔۔۔

اس عرصے  میں وہ حد سے زیادہ بے چین تھی کہ نہ جانے کب وہ ان  جگہوں پر جائیں گی جن جگہوں پر علی خاور اس کے ساتھ تھا ۔۔

عامر آج  گھر میں نہیں تھا اور رابیہ سے بات کرنے کے بعد اب اس کے دل میں مزید بے چینی ہو رہی تھی ۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس ہر ایک جگہ پر جائے جہاں پر وہ اور علی خاور کبھی ایک ساتھ تھے جن جگہوں پر اس کی اور علی خاور کی حسین ترین یادیں تھیں ۔۔

 مگر اب فردوس سے مزید برداشت نہیں ہوا وہ اپنے محبوب کی خوشبو کو محسوس کرنے کے لئے آج مال روڈ پر نکل آئی تھی ۔۔ مال روڈ کی  ہر دکان جہاں وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے نہ جانے کتنی کتنی دیر وہ دکان پر یوں ہی خالی کھڑی رہی جس جگہ پر علی خاور کھڑا تھا بالکل اسی جگہ کے اوپر وہ بھی کھڑی رہی وہ اس دوکان پر لازمی گئی تھی جس دکان سے علی خاور نے اس کے لئے وہ سیاہ پتھر والی انگوٹھی خریدی تھی ۔۔جو آج تک اس کے ہاتھوں میں تھی ۔ فردوس  نے ایک نظر اس انگوٹھی کو دیکھا اس کی آنکھوں کے اندر موٹے موٹے آنسو آ گئے آئے ۔۔ اس شہر میں وہ ا سے حد سے  زیادہ یاد آنے والا تھا یہ بات وہ جانتی تھی کہ اس شہر میں رہ کر وہ  اپنے آپ کو حد سے زیادہ تکلیف دے رہی ہے مگر وہ کیا کرتی ہیں یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ان دونوں کی محبت کی حسین ترین داستان شروع ہوئی تھی ۔۔ وہ اس دوکان پر بھی گئی تھی جہاں  سے علی نے اس کے لئے  وہ خوبصورت جھومر لیا تھا ۔۔

ان تمام جگہوں سے جب وہ اپنی بے حد حسین ترین یادیں سمٹتی ہوئی گھر آئی تھی تو اس کی آنکھیں رو رو کر سوجھ  گئی تھی ۔ ۔۔۔

وہاں سے آتے آتے مغرب کی اذان ہوگئی تھی وہ مغرب کے وقت گھر کے اندر داخل ہوئی تو عامر تھوڑی دیر پہلے ہی گھر میں آیا تھا ۔۔

وہ ا سے یوں اچانک دیکھ کر ایک دم پریشان ہوگئی تھی جب کہ وہ تو کہہ کر  گیا تھا کے ا  سے آتے ہوئے رات ہو جائے گی ۔ 

آگئی تم  میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا عامر اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے کہہ رہا تھا ۔۔

وہ وہ میں بہت زیادہ بور ہو رہی تھی تو اس لیے تھوڑا باہر چلی گئی ۔۔۔

کل میں نے تمہیں بہت کہا تھا کہ میرے ساتھ تھوڑا سا گھومنے چلو لیکن تم  میرے ساتھ گئی نہیں ۔۔

عامر کی بات پر وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئی ۔۔۔۔

کل میری کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے ۔۔۔

کوئی بات نہیں اگلی بار ساتھ چلیں گے ۔۔

اب کی بار وہ کچھ نہیں بولی خاموش رہی ۔۔۔۔

آپ کے لیے کافی لے کر آؤ ۔۔۔

فردو س  نے ڈاکٹر عامر کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ آہستہ سے مسکرایا ۔۔۔

ہاں جاؤ  لے اؤ اور اپنے لیے بھی لے کر آنا ا وپر بیٹھ کر پیتے ہیں ۔۔

فردوس اپنے  اور عامر   دونوں کے لیے کافی لے کر آئیں تو وہ اب چھت پر  جا چکا تھا فردوس کافی لے کر وہیں آ گئی ۔۔۔۔

ان کی چھت اچھی خاصی بڑی کھلی اور ہوا دار تھی ۔۔۔

دونوں کے ہاتھ میں گرما گرم کافی کے کپ تھے ۔۔۔

اونچی لمبی  چوڑی چھت سے مری انتہائی خوبصورت نظر آتا تھا اونچے اونچے پہاڑ جو برف سے ڈھکے ہوئے تھے اونچے 

اونچے درخت جن کے اوپر برف   تھی انتہائی حسین منظر پیش کر رہے تھے  ۔۔

وہ دونوں چھت کے قریب رکھے ہوئے صوفہ پر جا بیٹھے ۔۔

عامر نے  ایک نظر اس کے لباس کو دیکھا وہ پرپل کلر کے لباس میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔ ڈاکٹر عامر نے بیچ میں سے تکیہ اٹھایا اس سے فردوس نے دونوں کے درمیان فاصلہ بنایا تھا عامر نے  اسے ہٹایا اب وہ اس کے بالکل برابر میں بیٹھا ہوا تھا ۔فردوس نے گرم کپ  پر اپنا زور سے ہاتھ دبایا ۔۔۔۔ 

ڈاکٹر عامر نے  نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔

وہ ۔۔۔امی ۔۔۔امی۔۔۔۔ کی کال آئی تھی وہ وہ بابا کی طبعیت  کے بارے میں بتا رہی تھی کہ کوئی بہتری نہیں ہے ۔۔۔۔۔

یونہی کرتے ہوئے وہ تھوڑا دور ہو گی  ایک نظر عامر نے اس کا  چہرہ دیکھا فردوس  پیچھے ہو کر تھوڑا سا دور بیٹھ گئی ۔۔۔جبکہ عامر اس چیز کو محسوس کر چکا تھا کہ وہ اس کے ہاتھ رکھنے پر فورا سے اس سے  دور ہو گئی ہے ۔۔۔

ہاں پتا ہے۔۔۔ میں بھی انٹی کو روز فون کرتا ہوں ۔۔بابا سے بھی میری بات ہوئی تھی وہ بھی مجھے بتا رہے تھے لیکن کیا کر سکتے ہیں آپ اللہ تعالی نے جب تک ان کو زندگی دی ہے اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ہیں عامر نے فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

آمین ۔۔فردوس بس  اتنا ہی بولی ۔۔۔

میں اب  نیچے جاتی ہو مجھے تھوڑا کام ہے  فردوس اٹھ کر جانے لگی تو ڈاکٹر عامر نے اس   کا ہاتھ تیزی سے پکڑ کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔۔

کبھی میرے پاس بھی  بیٹھ جایا کرو فردوس تمہارا شوہر ہوں میں میرا بھی دل چاہتا ہے کہ تم مجھ سے بات کرو مجھے اپنا تھوڑا وقت دو تمہاری بات میں آج تک مان رہا ہوں تم نے وقت مانگا تھا اور میں تمہیں آج تک دے رہا ہوں میں نے کبھی تم سے شکایت نہیں کی کیا کبھی کی ہے میں نے بتاؤ مجھے ۔؟؟

فردوس نے ایک نظر عامر کو دیکھا وہ جانتی تھی کہ وہ ٹھیک نہیں کر رہی ۔۔

وہ دوبارہ سے عامر  کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔

اچھی لگ رہی ہو ان کپڑوں میں بہت ۔۔۔۔

میں نے بھی تمہارے لئے بہت ساری شاپینگ کی ہے مگر شاید تمہیں یہ کپڑے زیادہ اچھے لگتے ہیں ہمیشہ تم یہ والے اور جو دوسرے کپڑے ہیں جب سے تم آئی ہو میں نے تمہیں انہیں  کپڑوں میں دیکھا ہے ۔۔۔۔

تمہارے لئے میں سلک کی گرین  ساڑی  لے کر آیا ہوں وہ کدھر ہے تم وہ  پہننا کل۔ میں تمہیں رات میں ڈنر پر  لے جاؤں گا ۔۔پھر ہم  ڈنر کے بعد واک پر چلیں گے زیادہ دور نہیں بس یہی قریب  ھی ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔وہ مختصر بولی ۔۔ جو کپڑے وہ پہنا کرتی تھی زیادہ تر علی  خاور کے دے  ہوئے کپڑے تھے اب وہ ا  سے کیا کہتی ۔۔کہ اس کی دی ہوئی چیزیں اسے دنیا کی ہر قیمتی چیز سے حد سے زیادہ عزیز ہیں انہیں وہ جتنی بار بھی پہنتی ہے اسے خوشی ہوتی ہے انہیں پہن کر یوں لگتا ہے جیسے  علی  اسے دیکھ رہا ہوں ۔۔۔

آج  گھر  کے ماحول میں کافی رونق تھی کیونکہ آج یوسف صاحب ان کے گھر آ چکے تھے یوسف  صاحب کے تمام من پسند کھانے فردوس میں بڑی محبت  سے بنائے تھے  ۔۔

وہ تینوں رات کا کھانا سات بیٹھ کر کھا رہے تھے جو کہ بہت اچھے اور پرسکون ماحول میں کھایا گیا تھا ۔۔۔۔

آپ کو پتہ ہے بابا آج میرے بہت اچھے دوست اے کے  کو بھی آنا تھا کھانے پر لیکن اس بد تمیز نے میری ایک نہیں سنی اس نے مجھ سے کہا کہ میں آؤں گا اور دیکھیں اس نے کیا کیا وہ نہیں آیا ۔۔

مصروف ہو گا کہیں وہ  ۔۔۔یوسف صاحب نے جواب دیا ۔

ہاں کچھ زیادہ  ہی مصروف  ہوتا ہے اگر نہ بھی ہو  تب بھی اپنے آپ کو مصروف کرنے کا  کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتا رہتا ہے ۔۔۔۔

ایک  تو آپ جانتے ہیں کہ وہ کتنا زیادہ ڈھیٹ  ہے صرف اپنی ہی من مانی کرتا ہے اب کل بتاتا ہوں میں اسے  ۔۔۔

خبردار جو تم نے اسے کچھ بھی کہا تو ۔میں بہت پسند کرتا ہوں اے کے کو  اس کی برائی نہیں سن سکتا ۔۔۔

عامر ان  کی بات کے اوپر مسکرا اٹھا ۔۔

آپ کی اطلاع کے لئے بتا دو کے بیٹا میں ہوں آپ کا ۔۔۔

وہ بھی ہے ۔۔۔اپنے باپ کی بات پر عا مر زور سے ہنس پڑا جبکہ فردوس  کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ دونوں کیا باتیں کر رہے ہیں وہ بس خاموشی سے بیٹھی ان کے ساتھ کھانا کھاتی رہی  ۔۔۔

رات کا وقت ہوا تو فردوس نے یوسف صاحب کے لیے گرما گرم بادام والا دودھ بنایا اور ان کے کمرے میں لے جانے لگی ۔۔

عامر بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا فردوس نے وہ گلاس  ان کے قریب رکھا ۔۔۔۔

وہ اندر آئیں تو وہ دونوں کسی لڑکے  کی طبیعت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔

فردوس نے مسکرا کر یوسف صاحب کی طرف دودھ کا گلاس  کا بڑھایا ۔۔۔

یوسف صاحب نے اسے ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے وہ دودھ کا گلاس لے کر اپنے پاس رکھا ۔۔۔

میں نے اے کے کی  ڈاکٹر صدیق کی ملاقات کروا دی ہے ۔۔ابھی کچھ  ٹائم پہلے  ہی اے کے نے  اپنے ٹیسٹ کروائے ہیں جس کی رپورٹ بہت زیادہ بری تو نہیں تھی ہر چیز ٹھیک  ہو سکتی ہے اس کی رپورٹس کے مطابق لیکن وہ شخص اپنے آپ کا نہ  خیال رکھنا نہیں چاہتا نہ دوا لینا چاہتا ہے ۔۔۔

 بابا  میں چاہتا ہوں کے آپ ایک بار  اے کے سے پھر سے ملے اور پھر سے سمجھا ے اسے  کہ یہ علاج اس کے لیے کتنا ضروری ہے ۔۔ 

میں آپنے بہت قیمتی دوست کو کھونا نہیں چاہتا بابا وہ بہت کم وقت میں میرا بہت  اچھا دوست بن گیا ہے ۔ہماری دوستی کو اگر دیکھا جائے تو سال سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے میں اسے نہ جانے کتنے سالوں سے جانتا ہوں اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا ۔میں نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ اب مزید کچھ بھی برا ہوں میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی صحت یابی کی  ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے اور میں ہر حال میں اپنا وعدہ نبھا ؤں گا ۔۔ ۔۔۔

فردوس خاموشی سے بیٹھی ہوئی ان دونوں کی باتیں سنتی رہی ۔۔۔

کوئی بات نہیں اگر  آج وہ  نہیں آ سکتا تو کل تم اور میں  صبح اے کے کی طرف چلے جائیں گے ۔۔

جی بالکل یہی بہترین طریقہ ہے کیونکہ اسے میں نے بتا دیا ہے کہ آپ آ چکے ہیں۔ ۔اور وہ آپ کا کہنا لازمی مانتا ہے اسی لیے نہیں آ رہا کہ نہ  آپ سے بات ہوگی نہ آپ کا کوئی کہنا ماننا پڑے گا بڑا چلاک ہے وہ  عامر کی  بات پر یوسف صا هب   مسکرا دیئے میں ویسے بھی یہاں صرف  دو دن کے لئے آیا ہوں ایک دن تم لوگوں کے ساتھ گزار و ں گا دوسرا دن اے کے ساتھ مل کر بیٹھ کر سمجھاؤں گا ۔سمجھ جائے گا وہ تم پریشان مت ہو بس تم ہر چیز ریڈی رکھنا کے جیسے ہی رپورٹ آ جاے تم اسے  لے کر فورا امریکہ چلے جانا بغیر وقت ضائع کیے ۔۔

بالکل بابا میں ایسا ہی کروں گا علاج  کیلے میں اسے  لے جاؤں گا ۔۔

ڈاکٹر صدیق نے بھی یہی کہا ہے کہ ابھی مرض بالکل شروعات پر ہے تو اگر علاج وقت پر ہوگا تو بیماری  ختم ہو سکتی  ہے ورنہ ایسے مرض کو بڑھنے میں وقت نہیں لگتا ۔۔۔

کل چلتے ہیں اے  کے گھر بات کرتے ہیں اس سے تم ا سے مت بتانا کہ میں آ رہا ہوں ۔ورنہ پتہ چلا کہ وہ بدمعاش  وہاں سے بھی بھاگ جائے ۔۔۔

یوسف صاحب نے کہتے ہوئے دودھ کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگایا ۔۔

اب تم جاؤ میں اپنی بیٹی سے باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔

یوسف صاحب نے عا مر کو دیکھتے ہوئے کہا تو فردوس کی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی ۔۔۔

ٹھیک ہے آپ اپنی بہو  سے باتیں کر لیں  جب تک میں ڈاکٹر صدیق سے بات  کرتا ہوں کل اسے بھی اے کے  کے گھر جانا ہے ۔۔

ٹھیک ہے جیسے تمہیں بہتر لگے ۔۔۔

عامر کمرے سے باہر نکل چکا تھا جبکہ فردوس اور یوسف صاحب بیٹھے تھے ۔۔

یہاں آؤ میری بیٹی یہاں بیٹھو میرے پاس ۔۔

یوسف صاحب نے فردوس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔عامر تمہیں خوش تو رکھ  رہا ہے نہ بیٹا کسی قسم کی کوئی شکایت ہے تو تم مجھے بتاؤ پھر  دیکھو میں اس کی طبیعت کیسے درست کرتا ہوں ۔۔۔

نہیں نہیں بابا کوئی شکایت نہیں وہ بہت اچھے ہیں ۔۔

پکی بات ہے نا اپنے شوہر کی سائیڈ تو نہیں لے  رہی تم پریشان تو نہیں کرتا تمہیں یہ ۔۔

نہیں بابا کوئی پریشانی نہیں ہے وہ مجھے بالکل پریشان نہیں کرتے بہت خوش رکھتے ہیں ۔ فردوس میں اپنے چہرے  پر مسکراہٹ سجا کر کہا ۔۔تم خوش  ہو نا بیٹا عامر کے ساتھ ۔۔۔؟

یوسف صاحب کی باتوں پر   فردوس کی آنکھیں نم ہونے لگی ۔۔اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس کے دل میں صرف اور صرف علی خاور بستا ہے علی خاور کے علاوہ وہ جگہ وہ رتبہ و درجہ کسی اور مرد کو اپنی زندگی میں نہیں دے سکتی ۔۔

 ساڑھے  بارہ بجے کا وقت تھا ۔جب اے کے  اپنی گاڑی لے کر آفس کے لیے نکل رہا تھا وہ جیسے ہی اپنی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا تو اس کے گھر کا مین ڈور کھلا اور عامر یوسف کی نیلے رنگ کی کار اسے اندر آتی ہوئی دکھائی دیں ۔۔اے  کے نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور سیدھا کھڑا ہوا ۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس گاڑی سے یوسف صاحب اور عامر دونوں نکل رہے تھے ۔۔جبکہ اے کے کا منہ  کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔آج وہ  اسی وجہ سے جلدی جلدی نکل رہا تھا کہ کہیں یوسف صاحب سے اس کی ملاقات نہ ہو جائے اور اس کا دوست عامر۔ یوسف صاحب کو ہی اس کے گھر لے آیا تھا ۔۔۔

اے کے تیزی سے  یوسف صاحب کے قریب بڑھا اور اس نے یوسف صاحب کو اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔

ساتھ ہی ساتھ عامر کو بھی اس نے ایک نظر دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں تم سے زیادہ کمینہ دوست میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔۔۔

اسلام علیکم یوسف انکل کیسے ہیں آپ ۔۔طبیعت ٹھیک ہے آپ کی اے کے نے  خوش دلی سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

بیٹا  میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے لیکن تمہاری  رپورٹس کے بارے میں کل عامر نے مجھے بتایا اور جو تم لاپرواہی کر رہے ہو وہ بھی  ۔اور مجھ سے  بھی بھاگنے کی کوشش کر رہے ہو نا کہ کہیں میری اگر تم سے ملاقات ہوگی تو میں تمہاری لمبی  کلاس لے لوں گا ۔اسی لیے بھاگتے پھر رہے ہو مجھ سے ۔۔نہ میری کال کا جواب دے رہے ہو نہ میسیج کا اس لئے میں خود گھر آیا ۔۔۔

ارے نہیں نہیں انکل ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بس  میں تھوڑا مصروف تھا ۔اس وجہ سے میں معافی چاہتا ہوں ۔۔۔

خیر کوئی بات نہیں میں تمہارا پیچھا کرتے کرتے عامرکے ساتھ یہاں آگیا ہوں اور مزے کی بات ڈاکٹر صدیق بھی   میرے پیچھے ہی آرہے ہیں  لو آگئے  وہ بھی ۔۔

چلو آجاؤ اندراج تم کام پر تھوڑا سا دیر سے جانا ہے جب تک کہ میں تمہاری کلاس اچھے  طریقے سے نہ لو ۔۔یوسف صاحب نے اے کے  کے کندھوں پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور پھر اسے اندر لے گئے جب کہ عامر کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔

ویسے میرے بیٹے تمہاری ایک بات تو ماننی پڑے گی تم نے اپنا گھر بہت حسین بنوایا ہے ۔۔ لیکن اس گھر میں بس ایک چیز کی کمی ہے اور وہ ایک عدد تمہاری بیوی کی  ۔۔۔

فی الحال میرا   شادی کرنے کا کسی قسم کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔۔

 اگر نہیں ہے تو ارادہ کر لو کب  تک  یوں ہی رہو گے تم اور کب تک  اس کی یادوں میں اپنے آپ کو برباد کرتے رہو گے بیٹا ۔۔۔

نہیں انکل میں جیسا ہوں ویسا ہی بہت خوش ہوں اور میں کچھ بھی برباد نہیں کر رہا  ۔۔

یوسف صاحب تقریباً تین سے چار  گھنٹے اے کے سے  باتیں کرنے کے بعد وہاں سے جا چکے تھے ۔۔آج شام  میں ان کو جانا تھا  ۔وہ یہاں صرف دو دن کے لیے آئے تھے جس میں سے ایک دن انہوں نے فردوس اور عامر  کے ساتھ گزارا تھا اور دوسرا اے  کے ساتھ ۔۔۔

یوسف صاحب کو اے کے  کا  ڈرائیور گھر چھوڑ آیا تھا ۔۔جبکہ عامر   اس کے پاس تھا ۔۔۔

  شام  ہو گئی تھی  شام کے بعد اب دونوں کا ڈنر کا پلین  تھا ۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تم نے اپنا گھر بہت ہی حسین بنوایا ہے ۔بہت ہی خوبصورت طریقے سے ڈیزائن کیا ہے تم نے اپنا گھر ۔۔

یہ میرا بنایا ہوا نہیں ہے اس گھر کی  کوئی ایک دیوار میں نے نہیں سوچی تھی یہ سب کچھ اس کا سوچا ہوا تھا ۔۔وہ چاہتی تھی ایسا ہو گھر جب  ہم  ساتھ رہیں گے تو اس طرح کے گھر  میں رہیں گے ۔۔ اسے یہ جگہ  بہت  زیادہ اچھی لگتی ہے ۔مجھے کہتی تھی کہ  ہم اپنی  آنے والی زندگی یہاں گزاریں گے اس طرح سے گھر ہوگا اور یہی ان پہاڑ و ں کے  درمیان ہم دونوں کی محبت  پروان چڑھے گی ۔وہ کہتی تھی کہ ہمارا گھر اس جگہ پر بنانا جہاں پر اونچے اونچے پہاڑوں کے اوپر سفید برف جمی  ہوئی ہو بڑے بڑے پتھر ہوں جن کے اوپر پانی گرتا ہو تو دلکش آواز پیدا ہوتی ہو یہ ساری چیزیں صرف اور صرف اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بنائی ہیں ڈاکٹر ۔کہنے کو تو میں یہاں پر اکیلا رہتا ہوں لیکن میں تمہیں بتا نہیں سکتا میں نے  اسے اس  گھر میں نہ جانے کتنی بار دیکھا ہے  ۔ کھاتے پیتے چلتے پھرتے سوتے ہر جگہ مجھے صرف اور صرف وہی نظر آتی ہے صرف اور صرف اسی کا احساس ہوتا ہے ۔

تم نے مجھے ہمیشہ اپنا پورا گھر دکھا رہا ہے سوائے بیڈ روم کے  ۔۔

اگر وہ تم دیکھنے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر تم اس خواہش کو چھوڑ دو کیوں کہ  میں تمہیں وہ  نہیں دیکھا سکتا ۔ ۔۔

وہ کیوں ۔۔

کیوں کہ میں نے ہر جگہ اس کی تصویر لگائی ہے ۔وہ ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے ۔اور میں نہیں چاہتا کہ اسے میرے علاوہ کوئی اور دیکھے اور دیکھ کر اس کی خوبصورتی کی تعریف کریں ۔۔اسے دیکھنا اس کی تعریف کرنا صرف اور صرف میں اپنا حق سمجھتا ہوں ۔۔

بہت خوش نصیب ہے وہ لڑکی جسے  تم جیسا پیار کرنے والا ملا تھا ۔۔لیکن تم دونوں کی قسمت نے تم دونوں کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے ۔ملا کر بھی جدا کر دیا ۔۔۔

وہ دونوں باہر  کھلے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ کیک کے دو پیس اور گرما گرم کافی ان دونوں کے درمیان رکھی ہوئی تھی ۔۔

میرے گھر کب آ رہے ہو تم کب سے میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں لیکن تم ہو کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ ۔

آ جاؤں گا تمہارے گھر پر بھی ابھی تھوڑا مصروف ہوں اس وجہ سے ۔۔

میری بیوی  کو بھی یہاں آئے ہوئے کافی ٹائم ہوگیا ہے مجھے تمہیں ملوانا ہے  اپنی بیوی سے ۔

انشاء اللہ تعالی جلدی چکر لگے گا اے کے نے بات ٹا لی ۔۔۔

میں تو کہہ رہا ہوں ویکینڈ  پر او  دو دن بہت مزہ آئے گا دونوں دن ہم خوب انجوائے   کریں گے ساتھ ہی ساتھ جنگل کی سیر پر چلیں گے ۔۔

وعدہ کرو مجھ سے تم  اس ویک اینڈ پر  میرے گھر آ رہے ہو اور دو دن کے لیے رکھنے والے ہو ۔۔۔

تم جانتے ہو کہ میں بہت مصروف ہوتا ہوں میں ویک اینڈ پر نہیں آ  سکتا ۔۔

یار  اے کے  تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے میں جب بھی تمیں آنے کا کہتا ہوں تم کوئی نہ کوئی بہانہ  بنا دیتے ہو اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ وعدہ کرو مجھ سے پھر تمہاری رپورٹس انے کے بعد  ہم ڈاکٹر صدیق کے ساتھ نکل جائیں گے امریکا تمہارے علاج کے لیے پھر کہاں وقت  ہوگا ہمارے پاس گھومنے پھرنے کا ہاسپٹل کی شکل دیکھنی پڑے گی صرف اور ڈاکٹرز کی ۔کبھی تو میرے کوئی بات مان لیا کرو میں تمہاری سو بات مانتا ہوں لیکن تم میری کوئی بات  نہیں مانتے ہو ۔۔۔

چلو جلدی ہاتھ  آگے بڑھا و اور  مجھ سے وعدہ کرو کہ تم  میرے گھر  آ رہے ہو ۔۔۔

تمہارے گھر ایک عدد بیوی ہے ۔تم اس کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے جا سکتے ہو نہ ۔۔

اے کے  کی بات پر  عا مر بے بسی سے ہنسا ۔۔۔۔

کاش جو تم کہہ رہے ہو یہ سچ ہو پاتا ۔وعدہ  کرو  آ ر ہے  ہو تم ۔۔۔

نہیں نہیں  اگلے ہفتے رکھ لو ۔۔۔

اس ہفتے مجھے کچھ کام ہے اور مجھے  امی سے بھی ملنا ہے ۔۔یہ ہفتہ  بڑا مصروف جانے والا ہے اور دو دن کے بعد میں یہاں سے نکل جاؤں گا امی  سے ملاقات کے لیے ۔۔۔ 

ٹھیک ہے تو پھر تم اپنی امی کو میرا سلام کہنا اور اگلے ہفتے تم  میری طرف آ رہے ہو وہ بھی روکنے کے لیے پورے دو دن ۔۔۔

اور اگر تم اپنی دوائی نہیں لے کر آے  تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گا ۔۔ویسے احتیاطا  تمہاری دوائیاں  میں نے اپنے پاس بھی  رکھ لیتا ہوں  کیونکہ مجھے پتا ہے تم ایک انتہائی نالائق انسان ہوں اس معاملے میں ۔۔۔

تمہارا جو دل چاہے تم کرو ڈاکٹر ۔۔۔

فردوس اپنے کمرے کی الماری کھول کے کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اس الماری میں سے ایک بیگ نکالا ۔ اس نے زیب  کھولیں اور سامان ایک ایک کر کے نکال کر بیڈ  کے اوپر رکھا ۔۔

زیادہ بڑی نہیں ایک درمیانے سائز کی بہت پیاری سی ایل بم تھی ۔جس میں علی خاور اور فردوس  کی چند خوبصورت یادیں تھیں ان کے نکا ح کی  ۔۔فردوس نہ جانے کتنی  کتنی دیر تک ایک ایک تصویر کو بیٹھی ہوئی دیکھتی رہی وہ  علی اور کے مسکراتے ہوئے چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔ساتھ ہی ساتھ اس کی آنکھیں بھی نم تھیں ۔۔البم دیکھ کر چوم کر بند کرکے واپس رکھیں تو اس کی نظر  جھومر پر پڑی فردوس نے  نرمی سے وہ جھومر اٹھایا اور آہستہ سے ایسے چومہ ۔۔ اس چھوٹے سے بیگ  کے اندر اس نے علی خاور کی چند یادیں قید کر کے رکھی ہوئی تھی جسے وہ ہمیشہ لوکر میں رکھا کرتی تھی ۔۔۔

اس نے تمام تر سامان سمیٹ کر الماری کھول کے  لوکر میں رکھا  کہ عا مر کمرے میں داخل ہوا ۔۔فردوس نے تیزی سے سامان لا کر میں ڈال کر بند کر دیا ۔۔عامر یوسف اکثر اسے الماری کے اس درواز ے کے پاس کھڑا پاتا تھا مگر آج تک اس نے پوچھا نہیں تھا کچھ ۔۔

کیا ہوا فردوس سب ٹھیک ہے ۔تم رو کیوں رہی ہو  ۔۔۔۔

ہاں نہیں  نہیں ۔۔۔  وہ سب ٹھیک ہے بس بس مجھے امی اور بابا کی یاد آ رہی تھی  شاید اس لیے ۔۔

پریشان مت ہوں وہ ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔

یہاں آؤ بیٹھو میرے پاس تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔اگلے ہفتے میرا ایک دوست روکنے آنے والا ہے یہاں پر بابا نے بات بھی کی ہو گی تم سے  وہ  تھوڑا بیمار ہے ۔۔اور ساتھ ہی ساتھ  ہی  ڈاکٹر صدیق بھی آئیں گے ملاقات کے لئے ۔ اے کے کو میں نے روکنے کا بولا ہے ۔۔تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا ۔

نہیں نہیں مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے آپ مجھے بتا دیجئے گا جو بھی بنانا ہے میں بنا دوں گی ۔۔۔

تھینک یو سو مچ میں تمہیں بتا دوں گا کہ اسے کیا کیا اچھا لگتا ہے ۔۔ 

ہفتے کا دن تھا مغرب ہوچکی تھی اور گھر پر آنے والے مہمان کے لیے تمام انتظامات بھی ہو چکے تھے ۔۔عامر نے جو کھانے  بنانے کو کہا تھا وہ تمام کھانے بن چکے تھے ۔۔۔

فردوس نے آج سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا ۔۔۔

بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا اور چہرہ بالکل سادہ تھا ۔۔وہ اب اپنی آنکھوں میں کاجل تک نہیں ڈالتی تھی ۔۔علی خاور کو اس کی سبز آنکھوں میں گہرا گہرا کا جل بہت اچھا لگتا تھا ۔۔مگر جب سے وہ اس سے جدا ہوئی تھی وہ کاجل لگانا ہی بھول گئی تھی ۔۔۔

وہ کچن میں  کوفی بنا رہی تھی کھانا وہ لوگ  ساڑھے آٹھ ،نو  بجے تک کھانے والے  تھے ۔۔۔

اچانک گھر میں کچھ نئے لوگوں کی آوازیں آنے لگیں ۔۔

یہ تین لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز تھی جو آپس میں مکس ہو رہی تھی ۔ ۔۔

فردوس کافی بنانے کے بعد اپنے کمرے میں واپس آئیں ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد عامر یوسف چلتا ہوا فردوس کے پاس آیا ۔۔۔

ڈاکٹر صدیق سے تم پہلے بھی مل چکی ہوں فردوس لیکن آج میں تمہیں اپنے بہت قریبی دوست سے ملواؤ گا  وہ بہت زیادہ اچھا تمہیں بھی اس سے مل کر  اچھا لگے گا ۔۔۔

میں نے سب کے لئے کافی بنا دی ہے ملازم بس لے کر ہی آ رہا ہے ۔ 

بہترین کام کیا تم نے کھانا ہم تھوڑی دیر بعد ہی کھائیں گے ابھی کافی پیتے ہیں آجاؤں تم  ۔

جی۔ فردوس اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے اب  اپنے کمرے کا دروازہ کھول رہی تھی ۔۔۔

گھر کے ڈرائنگ روم سے ابھی بھی دو لوگوں کے باتیں کرنے کی آہستہ آہستہ آواز آ رہی تھی آواز بہت زیادہ تیز نہیں تھی کہ وہ پہچان پاتی کے کس کی آواز ہے ۔۔۔

ڈرائنگ روم کے دروازے پر پہنچ کر اس نے ایک نظر عا مر کو دیکھا ۔۔فردوس کے سامنے جو صوفہ رکھا ہوا تھا وہ صوفے کی  پچھلی سائیڈ تھی جو  فردوس کی طرف ۔۔

وہ دیکھ نہیں پائی تھی کہ کون بیٹھا ہے۔۔

عامر  فردوس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا ۔۔۔

بس اب ایک ہی قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا جب عا مر نے ایک نظر اے کے کو دیکھا ۔۔

اے کے ان سے ملو یہ ہے میری وائف ۔۔

اے  کے نے اپنی گردن موڑ کر دیکھا تو اسے صرف اور صرف عا مر کا ہی چہرہ نظر آ رہا تھا ۔۔

یہ ہے میری وائف" فردوس عامر یوسف "۔۔۔

ایک لمحے کیلئے لمبے لڑکے کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ وہ تیزی سے غائب ہوئ اسے یوں لگا جیسے کوئی پہاڑ اچانک ٹوٹ کر اس پر آ  گرا ہو ۔ یوں جیسے  اچانک  سمندر کی لہریں کافی اونچی اٹھی ہوں اور پھر تیزی سے تھم گئی ہو ۔۔ 

ایک نے تیزی سے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا اسے یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان اس کے سر پر آ گیا ہوں ۔۔

وہ اپنی سانس روکے بغیر پلکیں جھپکائے اس  چہرے کو ہی دیکھتا رہا دیکھتا رہا ۔۔یہاں تک کہ وہ حیرانی سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔

سامنے کھڑی سرخ رنگ کے لباس میں فردوس کا چہرہ آنسوؤں کے ضبط سے بلکل سرخ ہو گیا تھا ۔۔اس کی سانسیں تیز تیز  چل رہی تھی ۔۔۔ فردوس کو یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا ہو جو کہ پانی سے پورا کا پورا بھرا ہو اور اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو ۔۔۔

زندگی نے ان دونوں کو کس موڑ پر ملایا تھا کس موڑ پر ۔۔

زندگی ان دونوں کے ساتھ کون کون سے کھیل رہی تھی کون کون سی تکلیف دے رہی تھی ۔۔۔کیا یہ تکلیف بھی ان دونوں کے نصیب میں لکھی تھی  ۔۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو سانس روک کر دیکھ رہے تھے بغیر پلکیں جھپکائے بغیر کچھ کہے ماحول میں ایک دم خاموشی تھی ایک دم ۔ علی خاور کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے ۔۔فردوس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس دنیا سے کہیں بہت دور چلی جائے بہت دور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنا چہرہ چھپا لے ۔۔

آج ان دونوں کا آمنا سامنا  قدرت نے ان کے نصیبوں نے اس طرح سے کروانا تھا ۔اتنی تکلیف سے ۔۔۔

وہ دونوں بغیر ایک دوسرے کو کچھ کہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک  دوسرے کو دیکھتے رہے دیکھتے رہے ۔۔۔

کیا جانتے ہیں آپ دونوں ایک دوسرے کو ڈاکٹر عامر نے خوشی سے کہا ۔۔تو جیسے دونوں کو ہوش آیا ۔۔وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔۔

کیا جانتے ہو تم دونوں ایک دوسرے کو؟؟ عامر نے پھر سے اپنا سوال دہرایا ۔۔ 

نہیں ۔۔۔۔۔

میں تمہاری وائف سے آج پہلی بار مل رہا ہوں ۔۔۔ 

علی خاور نے اپنے آپ کو پرسکون اور نارمل کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ وہی اے کے ہے جس کے بارے میں  میں نے تمہیں بتایا تھا میرا خاص دوست  ۔۔۔

آپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں میں کافی بھجواتی ہوں ۔۔۔

فردوس  کی آنکھوں کے اندر آنسو ں کا ایک سیلاب جمع ہو چکا تھا ۔۔ ۔ ۔

وہ تیزی سے وہاں سے نکلی اور دوڑتے ہوئے اپنے کمرے میں آی  اس نے اپنے کمرے کو لاک لگایا ۔۔

کمرے میں آ کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔۔۔۔

یہ وہی ہے فردوس جن کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا میرا دوست اے  کے ۔۔۔

تمہیں پتا ہے فردوس وہ  تھوڑا سا بیمار ہے ۔ علاج کے لیے میں اور صدیق اسے امریکہ لے جا رہے   ہیں ۔۔۔۔

وہ بہت ہی اچھا ہے فردوس لیکن اپنا خیال نہیں رکھتا ۔۔نہ ہی تو وقت پر  دوائی  لیتا ہے اور نہ ہی وقت کے اوپر ٹیسٹ کرواتا ہے ۔۔۔

عامر کی بتائی گئی  باتیں ایک ایک کرکے فردوس کی دماغ میں گھومنے لگی  ۔۔۔

ایسی کون سی بیماری ہو گئی ہے میرے علی کو کون سے    علاج کے لیے اسے  امریکہ جانا پڑ رہا ہے ایسی کونسی بیماری لگ گئی ہے کیوں اس کے بار بار بلڈ ٹیسٹ کروانا پڑ رہے  ہیں ۔

اور اتنی ساری دوائیوں کے بارے میں ڈاکٹر صدیق اور عا مر علی خاور کے لئے کہہ رہے تھے ۔ 

کیا ہوگیا ہے میرے علی کو ۔۔فردوس دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے یہی سوچتی رہی ۔ ۔۔

یا اللہ پاک تو نے کیوں میرے نصیب میں اتنی ساری آزمائشے  لکھ دی  ہیں ۔دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو کہ پسند کی شادی کرنا چاہتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔۔

میں بھی تو انہیں عام لوگوں کی طرح ہی ایک ہوں وہ لوگ تو مل جاتے ہیں اور میں اور علی تو  مل کر بھی نہیں مل پائے ۔ نہ جانے اسے ایسی کون سی بیماری لگ رہی ہے ۔۔جس نے علی خاور کا یہ حال کر دیا ہے ۔ یا  میرے اللہ پاک تجھے  تیرے تمام نیک بندوں کا واسطہ ہے تو میری محبت کو ٹھیک کر دے جو بیماری ہے ا سے  شفا عطا فرما ۔ میں ساری زندگی تیرے آگے اپنا سر جھکا ے  رہوں گی احسان مند رہوں گی شکر گزار رہوں گی ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد ملازمین کے ساتھ مل کر فردوس نے کھانا لگایا ۔۔۔۔

وہ تینوں ایک ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے جبکہ فردوس وہاں نہیں تھی ۔۔وہ کھانا لگانے کے بعد وہاں سے جا چکی تھی  ۔

عامر یوسف کمرے میں آیا تو وہ بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

آجاؤ فردوس ۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔وہ علی خاور کاسامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔علی خاور کو اس حال میں دیکھ کر اس کا دل پھٹ جاتا  تھا ۔۔۔

فردوس میرے دوست کیا سوچیں گے تمہیں بھوک نہیں ہے تو تم صرف بیٹھ جانا ۔۔اور میں اے کے کو خاص تم سے ملانے کے لئے لے کر آیا ہوں ۔۔ڈاکٹر صدیق بھی ہیں وہ بھی کیا سوچیں گے ۔۔تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جانا پھر واپس آ جانا ٹھیک ہے بس تھوڑی سی دیر کے لئے تاکہ ان کو محسوس نہ ہو کچھ برا نہ لگے ان کو ۔ ۔۔۔

عامر کی بات پر فردوس ایک دم خاموش ہوگئی اب وہ ا  سے کیا کہتی کہ اپنی محبت کو جسے   وہ بہت زیادہ چاہتی ہے اسے اس حال میں دیکھ کر اس کا دل روتا  ہے ۔۔ ۔

عامر کے بہت بولنے پر فردوس آ کر  خاموشی کے ساتھ عا مر کے برابر والی کرسی پر بیٹھی۔۔

کھانا سب کی پلیٹوں میں بھرا ہوا تھا ہر کوئی کھانے میں مگن تھا سوائے دو لوگوں کے فردوس علی خاور کے  ۔۔۔

تمہاری پلیٹ  میں کچھ ہے کیوں نہیں یار دو مجھے اے کے کیا  سوچ  رہے ہو تم  ۔اتنے تھوڑے سے تم نے چاول ڈالے  ہیں ۔فردوس کباب دینا ۔۔عامر یوسف نے کباب  اٹھا کر علی خاور کی پیٹ میں ڈالا اور ساتھ ہی ساتھ چاول بھی ۔۔

فردوس میں تمہارے پیٹ میں چاول ڈال دو ۔۔عامر نے کہا ۔۔نہیں مجھے بھوک تھوڑی ہی ہے ۔اور لینا ہوگا تو میں لے لیتی ہوں آپ کھائیں ۔۔۔

فردوس ان سب کے ساتھ بیٹھ کر بڑی بے دلی سے کھانا کھانے لگی ۔۔۔

کھانا   بہت اچھا ہے بھابی  ۔۔ڈاکٹر صدیق نے کھانے کی تعریف کی  ۔۔۔فردوس آہستہ سے مسکرائی ۔۔

فردوس نے ایک نظر علی خا ور کو دیکھا ۔۔وہ سر جھکائے کھانا کھا رہا تھا ۔ ۔۔

فردوس نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا جس کے اوپر گہری اداسی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے ۔۔

اس کی آنکھوں کی چمک اب بالکل ختم ہو کے رہ گئی تھی آنکھوں کے اندر جو شرارت تھی وہ نہ جانے کہاں چلی گئی تھی چہرے کے اوپر جو مسکراہٹ تھی وہ کہیں دور جا بیٹھی تھی ۔۔ 

کتنا زیادہ بدل گیا ہے علی ۔۔۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھی  خاموشی سے اسے دیکھے جا رہی تھی دیکھے جا رہی تھی  ۔۔

اگلے ہی لمحے علی خاور نے  نظر اٹھا کر دیکھا تو دونوں کی نظریں بڑے لمبے عرصے کے بعد یوں ملی تھی ۔ان دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لئے بے تحاشا محبت تھی بےقراری تھی  ۔۔۔۔

علی خاور اچانک بری طرح سے کھانسنے لگا ۔۔فردوس نے تیزی سے پانی کا گلاس اٹھا کر   علی خاور کی طرف برهايا ۔پانی پی لیں  ۔۔۔۔

فردوس کی یہ تیزی اور فکر مندی  کو سامنے بیٹھے عا مر یوسف نے بھی محسوس کیا تھا ۔۔عامر نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا ۔۔علی خا ور نے فردوس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر اسے ختم کیا  ۔۔۔

اکسکیوزمی ۔۔۔

فردوس کچھ وقت کے بعد وہاں سے کھڑی ہو گئی ۔۔اب اس سے زیادہ مزید وہ وہاں نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔۔

کھانے  کے بعد ان سب نے بیٹھ کر چائے پی چائے پینے کے بعد ۔ڈاکٹر صدیق یہاں سے جا چکے تھے ۔۔ان تینوں کے درمیان طے ہوا تھا کہ وہ لوگ دو ہفتے کے بعد یہاں سے امریکہ کے لئے نکل پڑیں گے ۔۔۔

اور امریکا جانے سے پہلے علی خاور کے تمام ٹیسٹ دوبارہ سے کیے جائیں گے ۔۔

عامر  علی خاور کو اس کے کمرے میں چھوڑتا ہوا اپنے کمرے میں آیا ۔۔۔

فردوس اس کے انتظار میں بیٹھی رہی ۔۔وہ جیسے ہی کمرے میں آیا فردوس تیزی سے اٹھ گئی اور اس کے پاس چلتی ہوئی آئی ۔۔آپ نے بتایا تھا کہ آپ کے دوست علی  خاور کو کوئی بیماری ہے ۔ آپ نے بتایا تھا کہ وہ بہت لا  پرواہی کر رہے ہیں  اپنے معاملے میں علاج نہیں کرواتے اپنا دوائی نہیں لیتے وقت پر آپ  نے  انہیں کچھ سمجھآیا  کہ یہ سب بہت ضروری ہے  ۔۔۔

عامر نے ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔۔

مجھے اچھا لگا کہ تم اس کے لئے فکرمند ہوں ۔میں اور باپ بھی اس کے لئے بہت فکرمند ہے اس لئے ہم یہاں سے جلد از جلد نکلنا چاہتے ہیں علی  خاور کے کچھ ٹیسٹ کیے  گئے ہیں جبکہ اور کچھ باقی ہیں وہ بھی  ہوجائیں گے اگلے ہفتے تک رپورٹس آ جائیں گے تو پھر ہم اس کے  اگلے ہفتے ہی نکل جائیں گے امریکا کے لیے  ۔۔۔

آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ کیا بیماری ہے آپ کے دوست کو ۔۔۔فردوس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔

علی خاور کو کینسر ہے ۔۔۔

عامر یوسف کی بات پر فردوس نے اپنے دونوں ہاتھ مضبوطی سے بند کیے یوں جیسے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہو یہ سن کر فردوس کو یوں لگا جیسے پہاڑ اس کے سر پر آ گرا  ہوں اور وہ ان پتھروں کے نیچے دب کر مر گئی ہو۔۔۔

آپ کے دوست کو ۔۔آپکے دوست  کینسر ہے۔ ۔۔۔

اس مرض میں ہونے کے باوجود بھی وہ اپنا علاج نہیں کروا رہے اپنی دوائی نہیں لے  رہے ۔۔ان کے گھر والے۔۔ ان کے گھر والے کچھ نہیں کہتے ہیں انہیں  ۔۔

علی خاور کی صرف اور صرف ایک والدہ ہیں ۔۔۔اور علی نے ان کو  کچھ بھی نہیں بتایا ۔۔۔۔

علی خاور کی جو پچھلی رپورٹ تھی وہ رپورٹس کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ وہ بچ سکتا ہے ۔اگر وہ وقت پر دوائیاں لے   اور اپنا علاج کروائیں ۔۔۔مگر وہ کوئی اتنا لاپرواہ انسان ہے کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے ۔۔

آپ اس سے بات کریں آپ اس کو کہیں کہ وہ وقت پر دوائی لے   وقت پر علاج کروائے جلد از جلد ٹیسٹ کروائیں اگر انہیں کچھ ہوگیا تو ۔۔۔۔؟؟

فردوس کی آنکھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو آ گئے ۔۔۔

تم پریشان مت ہو ۔۔۔

 عامر یوسف کو بہت عجیب لگا کہ اس کی بیوی اس کے دوست کے لئے اس قدر پریشان ہو رہی ہے کہ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔۔۔

میں پریشان نہیں ہورہی بس اتنا  کہہ رہی ہو کہ ان کی صرف اور صرف ایک امی  ہی ہیں اور ان کو بھی نہیں پتا کہ ان کا بیٹا بیمار ہے ۔۔اور بابا کی بیماری کے بعد اب میں جس کا بھی سنتی ہوں مجھے خوف محسوس ہونے لگتا ہے اس لئے میں زیادہ ہی پریشان ہو جاتی ہوں  ۔۔فردوس نے جیسے اپنے حق میں گواہی دی ۔۔۔

تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔اور ناشتے پر تم  ا  سے خوب ڈانٹنا اسے سمجھانا ۔دیکھو تم خود کتنی پریشان ہو گئی ہو اس کی حالت کو لے کر لیکن وہ اس چیز کو سمجھ نہیں رہا تبھی تو میں نے اس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہے ۔۔اگر اس کے اوپر چھوڑ دیں گے تو یہ اگلے سال تک زندہ بھی نہیں بچے گا ۔۔

اللہ نہ کرے ۔۔اللہ پاک انہیں صحت تندرستی والی لمبی زندگی دے اور جلد انہیں ٹھیک کردے آمین ۔۔فردوس نے تیزی سے دعا کی۔۔۔۔عامر یوسف خاموشی سے فردوس کی شکل دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔

آمین ۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بولا تھا ۔۔۔۔

فردوس آج  کچھ عجیب سا برتاؤ کر رہی ہے ۔۔۔شاید وہ اپنے بابا کی  وجہ سے  زیادہ ہی پریشان ہوگئی ہے اس لئے علی کے لئے بھی پریشان ہے ۔۔۔

ڈاکٹر عا مر رات کو سونے سے پہلے آج گھر میں ہونے والی ایک ایک چیز کو سوچ رہا تھا ۔ ۔

فردوس بہت حساس ہے ۔۔وہ ہر کسی کے لئے پریشان ہو جاتی ہے ۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہے وہ بہت اچھی اور صاف دل کی ہے ۔

عامر  نے  سونے کے لئے اپنی آنکھیں بند کیں تو فردوس اس کے سونے کے بعد اٹھ بیٹھی ۔۔

دیر رات کا وقت تھا وہ جاے نماز پر  بیٹھی ہوئی نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔

اور خدا سے رو رو کر علی خاور کی زندگی کے لئے اس کی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی ۔۔

عامر کی بیچ رات میں آنکھ کھولی تو وہ جائے نماز پر بیٹھی ہوئی سورہ یٰسین پڑھ رہی تھی ۔۔ 

وہ روز رات میں اٹھ کر یہ عمل کرتی تھی ۔۔۔

مگر آج تو حد ہو گئی تھی  ۔۔۔فردوس ابھی تک وہیں بیٹھی بیٹھی رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھی  فجر کی اذان ہونے پر ڈاکٹر عامر کی آنکھ ایک بار دوبارہ سے کھلی تو وہ جاۓ نماز 

  پر ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔

فردوس کیا تم ساری رات سوئ نہیں ہو ۔۔عامر یوسف چلتا ہوا فردوس کے پاس آیا ۔ ۔۔۔

وہ وہ ۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اس لیے ۔۔۔۔

تم ساری رات رو رو کر کیا  دعائیں مانگتی رہی ہو فردوس  تم نے اپنا چہرہ دیکھا ہے کتنا لال ہو رہا ہے رو رو کر کیا حال کیا ہے تم بے اپنا  ۔۔ ۔۔

نہیں یہ تو سردی کی وجہ سے ہو رہا ہے لال ۔۔ ۔۔ 

فردوس نے اپنا چہرہ نیچے کرتے ہوئے کہا ۔۔

سو جاؤ فردوس  بیمار ہو جاؤ گی چلو آؤ۔۔۔۔

عامر اس کو لیتا ہوا  اپنے ساتھ واپس بیڈ پر آیا ۔۔

سو جاؤ تھک گئی ہو گی تم ۔۔

فردوس کروٹ کیے  دوسری طرف لیٹی رہی جب کہ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔

اس سے تھوڑی ہی دور علی خاور اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا جاگتا رہا  ۔۔ایک رات گزارنا کتنا مشکل ہو رہا تھا نہ جانے وہ یہاں دو دن کیسے گزرے گا ۔۔۔کیسے فردوس کا سامنا کرے گا جب کہ اب وہ عامر  یوسف کی بیوی ہے ۔۔عامر یوسف کے ساتھ دیکھ کر اس کا خون کھولتا تھا ۔۔۔

علی خاور  نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اس کو اس طرح سے بھی مل سکتی ہے ۔۔۔

صبح ناشتے کی ٹیبل پر وہ  تینوں ایک بار پھر سے ایک ساتھ تھے ۔۔۔۔

فردوس تمہارے لئے کل رات بہت پریشان ہو گئی تھی ۔۔عامر مسکراتے ہوئے اے کے  کو کہہ رہا تھا ۔۔ 

علی خاور نے  نظر اٹھا کر سامنے بیٹھی فردوس کو دیکھا ۔۔

کہہ رہی تھی کہ آپ کے دوست اپنا علاج کیوں نہیں کرواتے دوائیاں وقت پر کیوں نہیں لیتے میں نے تمہارے بارے میں ساری چیزیں بتائیں ہے فردوس کو کے  تم کس قسم کی ڈیٹھ  انسان ہوں ۔۔میری وائف بھی یہی کہہ رہی تھی کہ تم  وقت پر دوائیاں لو اپنا وقت پر علاج کرواؤں کیوں کہ یہی تمہارے لئے ضروری ہے۔۔۔

۔ ہر چیز ہر کسی کو سمجھ آ رہی ہے لیکن بس ایک تم ہی ہو جسے اپنی حال کے اوپر اپنے اوپر رحم نہیں آتا ۔ ۔

اب زندہ رہ کر بھی کیا فائدہ ہے ۔۔۔۔۔

علی خاور نے اپنے چہرے پر اداسی والی مسکراہٹ  رکھتے ہوے  کہا تو فردوس اسے دیکھنے لگی۔ ۔۔ 

ھاے ۔۔۔۔یہ عشق ۔۔۔عامر نے کہا ۔۔۔

آپ کو وقت پر اپنی دوائیاں لینی چاہیے اپنے ٹیسٹ کروانے چاہیے اپنا علاج کروانا چاہیے تاکہ آپ کسی بڑی مصیبت سے بچ سکیں ۔عامر مجھے بتا رہے تھے کہ آپ کی امی کو آپ کی حالت کے بارے میں نہیں معلوم ۔۔اور یقینا آپ اپنی امی سے بہت محبت کرتے ہیں اسی وجہ سے آپ نے اپنی امی کو یہ  بات نہیں بتائی ۔۔لیکن آپ مجھے خود بتائیں کیا  آپ کی امی یہ جاننے کے بعد سکون سے رہ پائیں گی کہ ان کے بیٹے کو کینسر ہے ۔۔۔

علی خاور سانس روکے فردوس کو دیکھ رہا تھا جبکہ فردوس   بھی بنا پلکیں جھکائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے کہہ رہی تھی علی خاور کے لیے اس کے دل میں خوف تھا کھو دینے کا  خوف  اس کی آواز  میں کپکپاہٹ تھی علی خاور محسوس کر سکتا تھا ۔اس کا دل اس کی یہ حالت جان کر تڑپنے لگا تھا ۔۔۔

وہ جانتا تھا کہ وہ بے چین ہو گئی ہے اسے اس حال میں دیکھ کر اس کی بیماری کا سن کر ۔۔۔

ڈاکٹر عامر کے موبائل پر ایک کال آنے لگی تو انہوں نے موبائل اپنے کانوں سے لگایا ۔۔

ہسپٹل سے کال آئی تھی ایمرجنسی میں انہیں  بلایا گیا تھا ۔۔۔۔

ہاسپٹل سے کال ہے ادھے  گھنٹے میں  نکلنا ہوگا ۔۔۔

ایمرجنسی کیس ہے ۔۔

اے کے تم اچھی طرح سے ناشتہ کرو اور اس کے بعد خدا کا واسطہ ہے لازمی اپنی دوائی لے لینا  مجھے نہیں پتا مجھے ہاسپٹل میں کتنا وقت لگ جائے گا ۔۔۔

پریشان مت ہوں ڈاکٹر لے لوں گا میں وقت پر دوائی ۔۔

ناشتہ کرنے کے بعد علی خاور اپنے  کمرے میں جا چکا تھا جبکہ فردوس اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ناشتے کی ٹیبل سمیٹ کر فردوس اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی ۔مسلسل اس کے دماغ میں علی خاور کی باتیں گھوم رہی تھیں کہ آپ ٹھیک ہو کر بھی مجھے کیا کرنا ہے ۔۔

نہ جانے علی نے دوائی لی بھی ہے یا نہیں  ۔۔

میں جا کر دیکھ آتی ہوں ۔۔۔یا رہنے دوں۔۔۔ کیا کرو جاؤ یا نہیں ۔۔۔۔

 فردوس نے اپنے آپ کو کافی دیر سے علی خاور کے کمرے میں جانے سے روکا ہوا تھا  . مگر اب وہ اس کی حالت اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کے کمرے میں جانے لگی تھی ۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔

علی اپنے بیڈ پر بیٹھا ہوا  کوئی کام کر رہا تھا ۔ 

جب فردوس اس کے دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہوئی ۔ 

وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف تھا لیکن پھر بھی اسے فردوس کی موجودگی کا احساس ہو گیا تھا  ۔۔۔۔

فردوس خاموشی سے چند لمحے وہاں کھڑی رہی جبکہ علی خاور اپنے کام میں مصروف تھا ۔۔

تمہیں یہاں  کھڑا نہیں ہونا چاہیے فردوس ۔۔اپنے کمرے میں جاؤ ۔ تمہارے شوہر نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو طوفان آجائے گا ۔۔۔اور وہ طوفان تمہیں نقصان بھی پہنچا سکتا ہے  میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچائے ۔۔ 

علی خاور کی بات پر فردوس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔اس کی خود کی کیا حالت تھی وہ خود مر رہا تھا اور اس حالت میں ہونے کے باوجود بھی اسے فردوس کا خیال تھا ۔۔

افردوس سے رہا نہیں گیا وہ جلدی ہوئی علی خاور  کے پاس آئیں ۔۔۔۔

علی نے  نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔

علی  ۔۔۔ اٹھا اور اس نے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔۔تاکہ کوئی ملازم نہ دیکھ لے ۔۔۔

کیوں ای ہو یہاں فیری ۔۔ ؟؟

کیسے ہو علی ۔۔ ۔۔

وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بڑی حسرت سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔

دیکھ لو تمہارے سامنے ہی ہو  ۔۔۔

اپنے آپ کو دیکھوں کیا حال کر لیا ہے  تم نے اپنا علی ایسے  تو نہیں تھے تم جیسا میں آج اپنی آنکھوں کے آگے کھڑا دیکھ رہی ہو ۔۔یہ تو کوئی اور ہی ہے جس کے چہرے پر نہ ہی تو رونق ہے اور نہ ہی مسکراہٹ اور آنکھیں بالکل ویران ہے جیسے جینے کی کوئی خواہش ہی نہ ہو ۔۔ 

میں بھی جس فردوس  کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھ رہا ہوں یہ وہ نہیں ہے ۔۔جسے   میں جانتا تھا اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو اب نہیں ہے ۔۔

 آج میں جس فردوس  کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھ رہا ہوں اسے دیکھ کر  یوں لگ رہا ہے جیسے وہ اندر سے مر گی ہو  ۔ 

مر ہی تو  رہی ہوں  علی  ۔۔

 تمہیں اس حال میں دیکھ کر۔

مر تو  میں  بھی رہا ہوں فردوس ۔۔تم سے جدا ہو کر ۔۔۔

کیا ہو گیا ہے علی یہ کیا کر دیا ہے تم نے اپنے ساتھ ۔۔ 

فر دوس کی بات پر وہ آہستہ سے مسکرایا ۔۔

مجھے نہیں پتہ فردوس یہ  کیسے ہو گیا ۔لیکن اب مجھے فرق نہیں پڑتا جب میرے پاس تم نہیں ہو تو مجھے زندہ رہ کر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا زندہ رہ کر بھی میں نا خوش ہو اچھا ہے مر جاؤں گا تو اس تکلیف سے میری جان چھوٹ جائے گی ۔۔ 

اللہ نہ کرے کس طرح کی باتیں کر رہے ہو علی تم کو  خوف محسوس نہیں ہوتا ۔۔ میرے بارے میں ہی سوچ لو امی کے با رے میں سوچوں ۔۔۔

اب جی کر بھی میں کیا کروں گا فیری  ۔۔ تمہارے پاس کوئی راستہ ہے میرے پاس واپس آنے کا ۔۔بتاؤ مجھے ہے کوئی راستہ ہے  دو جواب  ۔۔۔۔نہیں ہے نہ ۔۔۔

ہم دونوں ایک دوسرے کے نصیب میں نہیں ہیں علی خاور ۔۔۔

لیکن تمہیں قسم ہے  ہماری محبت کی ۔تم اپنا علاج مکمل کرواؤ گے  اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو تمہیں بالکل ٹھیک ہونا پڑے گا  ۔۔ وعدہ کرو مجھ سے ۔ ۔۔

مجھے اب زندہ نہیں رہنا فردوس ۔۔اور اچھا ہی ہوا کہ یہ بیماری آکر مجھے لگ گئی ۔۔اور ویسے بھی تمہاری جدائی سے زیادہ تکلیف ده نہیں   ہے میرے لیے ۔۔ 

علی خاور  کمرے سے  جانے لگا تو فردوس میں تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔

میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گی ۔۔۔

بیٹھوں یہاں پر ۔۔۔

بیٹھوں یہاں  ۔۔فردوس نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی بیڈ پر  کر بیٹھا یا ۔۔۔

دوائیاں کہاں ہے تمہاری ۔۔۔ 

نہیں ہے میرے پاس ۔۔ ۔۔

جھوٹ مت بولو مجھ سے ۔۔۔

فردوس نے  خود درازکھول کر چیک کیں تیسری دراز میں اس کی ساری دوائیاں  پڑی ہوئی  تھی ۔۔۔

فردوس  نے وہ ساری کی ساری گولیاں نکال لیں ۔۔وہ پانی کا گلاس لے کر اس کے برابر میں بیٹھی  ۔۔۔

کھاو انہیں ۔۔۔ ابھی اور اسی وقت ۔۔

میں نہیں کھاتا یہ دوائیاں ۔۔۔

نہیں  کھاتے تو اب  سے کھانی پڑے گی وہ بھی روزانہ اور  وقت پر ۔فردوس  نے ایک ایک دوائی  کھول کر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی اور اسے آگے بڑھای  کھاو ا  سے ۔۔۔۔

فردوس ۔۔ 

میرے لیے علی  ۔۔۔پلیز ۔۔۔

علی خاور  نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر ایک ایک  کر کے اس کے ہاتھوں سے تمام دوائیاں  کھا لیں ۔۔۔

آج یہ  دوائیاں  بہت میٹھی ہیں ۔۔علی خاور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔فردوس کو وہ  ہوسپیٹل والا دن یاد آیا جب اس نے  ہسپتال میں اسے خود  دوائی کھلا ی   تھی ۔۔

فردوس علی  خاور کا چہرہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔

علی خاور کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے ۔۔۔

یہ کیا کیا ہے تم نے اپنے ساتھ علی یہ  کیا کیا ہے تم نے

 میرے ساتھ  کیوں تم اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں سے مارنے پر تلے ہو ۔۔میں تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی  خدا کا واسطہ ہے تمہیں یہ نہ کرو ۔۔ہر دن ہر دن میں تم سے ملنے کی دعائیں کرتی تھی اور آج جب تم مجھے ملے ہو تو یوں اس طرح موت کے منہ میں مت کرو  یہ  میرے ساتھ ۔میں بہت چاہتی ہوں تمہیں ۔۔۔۔

میں بھی بہت چاہتا ہوں تمہیں  میں تمہیں بتا نہیں سکتا تمہیں دیکھ کر میرے دل میں محبت کی آگ جل رہی ہے ۔۔میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تمہیں بہت مضبوطی کے ساتھ اپنے گلے سے لگا لو ۔مگر افسوس کے  یہ حق نہیں رکھتا اب ۔۔۔

تم تم مجھ سے وعدہ کرو علی اگر تم مجھ سے واقعی میں بہت محبت کرتے  ہوں  تو تم عامر  یوسف کے ساتھ امریکہ جاؤ گے  اگلے ہفتے اور اپنا مکمل طریقے سے علاج  کرواؤ گے ۔۔۔وعدہ کرو اپنی فیری سے ۔۔۔

تمہیں ہماری محبت کا واسطہ ہے علی ۔۔تم کسی قسم کی کوئی بھی بد احتیاطی نہیں کرو گے ۔۔وعدہ کرو مجھ سے ۔ ۔۔

میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔

علی خاور کی بات پر فردوس نم انکھو ں سے  آہستہ سے مسکرائیں  ۔۔۔

وہ دونوں بیڈ پر بیٹھے یوں ہی روتے رہے ۔  اچانک فردوس کو آواز آئی کے کمرے کے باہر  سے کچھ ٹوٹا ہوں ۔ 

فردوس تیزی سے کھڑی ہوئی ۔۔۔

تم رکو  میں دیکھتا ہوں ۔۔علی خاور نے دروازہ کھولا تو کوئی نہیں تھا ۔ ۔

فردوس باہر آئی تو نیچے ایک گلدان ٹوٹا ہوا پڑا تھا ۔۔

یہ کیسے ٹوٹ گیا یہاں تو کوئی نہیں ہے  علی نے کہا ۔۔ 

کھڑکی کھلی ہے شاید ہوا  سے گر گیا ہو گا ۔۔

تم اپنے کمرے میں جاؤ فردوس اور اب یہاں مت آنا ۔۔

عامر جو صبح سے نکلا تھا ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا ۔۔فردوس نے اسے کافی ساری کالز  بھی کی جو وہ نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔۔۔ 

آج پورے دن سے عامر یوسف گھر نہیں آیا تھا وہ گھر واپس آیا تو مغرب کی اذان ہو چکی تھی ۔۔

آپ تو کہہ رہے تھے کہ جلدی آ جائیں گے ۔ ۔۔فردوس نے کہا ۔۔

ہاں وہ بس ہاسپیٹل میں کچھ کام زیادہ تھا اس وجہ سے کچھ ڈاکٹرز نہیں آئے تھے اور مریض زیادہ تھے تو اس میں وقت لگ گیا تھوڑا ۔۔۔

میں کھانا لگا دیتی ہوں آپ فریش ہو جائیں ۔۔ہاں پہلے میں  سے جا کر اے کے سسے  ملتا ہوں  . پتا نہیں اس نے صبح کی دوائی کھائی بھی ہے یا نہیں  .۔۔۔

وہ اپنی دوائی کھا چکے ہیں ۔ فردوس کی بات پر ڈاکٹر عامر نے حیرانی سے فردوس کو دیکھا ۔۔۔

وہ میں نے ملازم کو بھیجا تھا ان کے کمرے میں تو وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے کھا لی ہے ۔۔۔

کیا واقعی یہ تو بڑی حیرانی کی بات ہے چلو اچھا ہوا ۔یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ اسے عقل آ رہی ہے ۔۔تم کھانا لگوا دوں میں اے کے کو لے کر آتا ہوں۔۔۔

کیا بات ہے جناب میں نے سنا ہے کہ آج اپ  نے وقت پر دوائیلی  ہے اپنی ۔۔

عامر بیڈ پر بیٹھے ہوئے علی خاور کو دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔

ہاں آج میں نے تمہیں پریشان بھی نہیں کیا اور  دوائیاں کھالی ہیں ۔۔

کیا بات ہے یار میرے گھر آنے سے تم پہ کافی اچھا خاصا اثر پڑا ہے ۔ اور شاید کچھ اثر  فردوس  کی ڈانٹ کا بھی ہے تم پر جو تم نے صبح کھائی تھی اس سے ۔۔۔

ڈاکٹر صدیق کی کال آئی تھی وہ کہہ رہے ہیں کہ کل ٹیسٹ کے لیے جائیں گے ۔۔اور میں امریکا جانے کے لیے بھی تیار ہوں ۔اب تمہیں مزید پریشان نہیں کروں گا ۔۔۔

خیریت تو ہے آج تم اتنی سمجھداری کی باتیں کر رہے ہو  وقت پر دوائیاں بھی لے رہے ہو ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ لڑکی تمہاری زندگی میں کہیں سے دوبارہ آگئی ہے ۔۔۔

ڈاکٹر عامر نے مسکراتے ہوئے علی خاور کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے ایک نظر عا مر کو دیکھا ۔۔ وہ اب میرے پاس واپس نہیں آ سکتی ۔۔اور ویسے بھی تم خود ہی میرے پیچھے لگے ہوئے تھے اب جب میں نے خود کہہ دیا ہے تو تم یوں کہہ رہے ہو ۔۔

تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے وہ واپس آ گئی ہو تمہارے پاس ۔۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ڈاکٹر صدیق تم سے بات کرنا چاہتے  تھے مگر تمہارا نمبر بند تھا تو انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تم جب فری ہو تم ان  سے بات کر لینا  ۔۔۔

 ٹھیک ہے چلو اب کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد علی خاور اپنے کمرے میں تھا ۔۔

جبکہ فردوس اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی نماز پڑھ رہی تھی  عامر  بیڈ پر بیٹھا ہوا کسی گہری سوچ میں تھا ۔ 

عامر کی نظر الماری پر پڑی ۔۔

ایک حصہ الماری کا  فردوس ہمیشہ لوک  کرکے رکھتی تھی  ۔۔۔

اور اس کی چابیاں فردوس اپنے پاس رکھتی تھی ۔۔

عامر کا کبھی دل نہیں چاہا کہ وہ لاکر میں جا کے دیکھیے کہ کیا رکھا ہے لیکن آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس لوکر کو کھول کر دیکھے اس میں کیا ہے 

فردوس  نے سلام پھیرنے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے ۔۔۔وہ کافی دیر سے بیٹھی ہوئی رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھیں جبکہ عامر یوسف آج بڑی گہری آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ ۔۔

فردوس نماز ادا کر کے  کھڑی ہو گئی ۔۔۔

تم پہلے بھی بہت لمبی لمبی دعائیں مانگی تھی لیکن میں آجکل دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے  سجدے تمہاری دعائیں تمہارے آنسو بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔۔

ساری ساری رات تم سوتی نہیں ہوں روتی رہتی ہوں دعائیں مانگتی رہتی ہو  کیا میں پوچھ سکتا ہوں تم سے کے  ایسا کیا مانگ رہی ہوں فردوس ۔۔۔

مجھے اچھا لگتا ہے لمبی دعائیں کرنا اس وجہ سے ۔۔فردوس نے مختصر جواب دیا ۔۔۔

نماز میں تم پہلے بھی روتی تھی مگر اس طرح سے نہیں اب تو تمہاری رو رو کر ہچکیاں بن جاتی ہیں ۔۔میں پریشان ہوتا ہوں کہ تم ایسا کیا مانگ رہی ہوں فر دوس ۔۔۔

کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی سب کے لئے دعائیں ۔۔۔

ایک بات پوچھوں تم سے ۔۔

جی پوچھیں ۔ ۔۔۔

اس چھوٹے لاکر میں تم نے کیا رکھا ہے ۔۔۔؟

عامر کی بات پر فردوس ایک دم خاموش ہوگئی۔۔

چلو چھوڑو اس بات کو ۔۔میں کافی بنا رہا ہوں ۔ 

اوپر چھت پر بیٹھ  کر کافی پیتے ہیں ۔۔۔

عامر کہتے ہوئے اٹھا اور کمرے سے  باہر نکل گیا ۔۔پتا نہیں کیوں آج وہ اس لاکر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ۔۔اور پھر خود ہی بات ادھوری چھوڑ دی  ۔۔فردوس نے سوچا ۔۔۔

کچھ وقت کے بعد وہ اور عامر یوسف دونوں چھت پر موجود تھے اور اسی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔

رات کے بارہ بجے والے تھے ۔ ۔۔۔

سامنے  مری کے اونچے اونچے پہاڑ تھے جن کے اوپر موٹی موٹی برف جمی ہوئی تھی ۔۔

عامر یوسف نے گرماگرم کافی کا کپ فردوس کی طرف بڑھایا اس نے شکریہ کہتے ہوئے وہ کپ تھام لیا ۔۔۔

محبت ہوئی ہے  کبھی تمہیں کسی سے  فردوس ؟؟؟

 عامر کے یوں اچانک پوچھنے پر فردوس نے گردن موڑ کر عامر کو دیکھا ۔۔۔

آپ آج یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔۔

بس ویسے ہی ۔دل میں خیال آیا تھا تو پوچھ لیا ۔۔تمہیں پتہ ہے میں تمہیں بچپن سے بہت چاہتا ہوں ۔۔

تم مجھے بچپن سے ہی بہت اچھی لگتی ہو ۔۔

عامر یوسف نے کہتے ہوئے فردوس کے بالوں کا کیچر  نکالا  تو لمبے بال اس کی کمر پر بکھر گئے ۔۔۔

عامر  یوسف نے فردوس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے تھامے ۔۔

میں بچپن سے ہی تم سے بہت محبت کرتا رہا ہوں فردوس ۔اور دیکھو میری محبت کتنی سچی  تھی کہ ہم دونوں کی شادی بھی  ہوگی  ۔۔۔مگر آج میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے میرے شوہر ہونے کا حق دو ۔۔

عامر یوسف نے کہتے ہوے  فردوس کے ہونٹوں پر انگوٹھا پھیرا  ۔۔

 فردوس تیزی سے کھڑی ہوئی ۔۔۔عامر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس اپنے قریب کیا فردوس  کی سانس تیز تیز چلنے لگی تھی ۔۔۔

عامر یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر  اپنے اور  قریب کیا ۔۔عامر نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا  اور   اپنا چہرہ اس کے چہرے کے بہت  قریب کیا ۔۔۔۔

 پلیز ۔۔۔۔۔عامر  ۔۔۔۔۔

میں نے آپ سے وقت مانگا  ہے   پلیز  پلیز مجھے تھوڑا ٹائم دے دیں ۔۔۔

کتنا وقت چاہیے تمہیں فردوس ۔۔ہماری شادی کو کتنے مہینے ہو چکے ہیں تمہیں اندازہ ہے ۔۔ابھی تک کچھ کہا تم سے  ؟؟

فردوس تم نے کہا کہ تمہیں وقت چاہیے تو میں تمہیں آج تک وقت ھی  دے رہا ہوں  لیکن اب بس بہت ہوگیا ہے کیا ہوجائے گا اگر میں تمہیں اپنے  لبو ں سسے  چھو لوں ۔۔اس سب کا کیا مطلب ہے ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم  چاہتی کیا ہو ۔اپنے آپ کو کیا کسی خاص کیلئے  بچا کے رکھ رہی ہو اپنے وجود کو اپنے آپ کو ۔کسی کے انتظار میں ہو تم کوئی آئے گا اور تمہیں لے جاۓ گا مجھ سے ۔۔۔۔۔ ہاں بولو جواب دو عامر یوسف نے زور سے فردوس کے دونوں بازو کو پکڑ کر کہا ۔۔

فردوس  پھوٹ پھوٹ  کر رونے لگی ۔۔۔میں آپکو آپ کا حق لینے سے  انکار نہیں کر رہی عامر بس وقت مانگا ہے ۔۔۔

عامر یوسف نے ا سے ایک  جھٹکے سے چھوڑا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا نیچے چلا گیا ۔۔

جبکہ فردوس وہیں بیٹھی روتی رہی روتی رہی ۔۔۔

اگلی صبح ڈاکٹر صدیق علی خاور اور عامر  یوسف تینوں کے تینوں ہی ہوسپیٹل پہنچے تھے آج علی خاور کے ٹیسٹ ہونے تھے ۔۔۔

فردوس کل پوری رات اس کی اچھی رپورٹس کے لئے دعا کرتی رہی تھی جبکے عامر اسے ساری رات روتا ہوا دیکھتا رہا تھا ۔۔۔

اگلا پورا دن عامر اور صدیق کا علی خاور کے ٹیسٹ کر وانے میں نکل گیا تھا ۔۔۔

وہ تینو ں رات گھر آے اور سب نے مل کر کھانا کھایا ۔۔۔آج عامر بہت اداس تھا اس نے فردوس سے کوئی بات نہی کی تھی ۔۔۔

فردوس نے عامر سے بات کرنے کی بھی کوشش کی مگر عامر نے اس سے کوئی بات نہی کی ۔۔

علی خاور اپنے کمرے میں بیٹھا کوئی کام کر رہا تھا ۔۔۔۔

عامر اب سو چکا تھا ۔۔جبکے فردوس عامر کے سونے کے بعد آج بھی خدا سے دعائیں کر رہی تھی  کے علی  کی رپورٹ صحیح آے وہ روتی رہی روتی رہی ۔۔۔

رونے کے بعد اس نے اپنے آنسو صاف کیے ۔۔فردوس اب واشروم  میں تھی ۔۔

عامر کی آنکھیں تیزی سے کھلی تھی ۔۔فردوس کے جانے کے بعد عامر  نے  چابی تلاش کی ۔۔

پہلی دراز  میں ا سے چابی  نہیں ملی پھر اس نے دوسری طرف  چابی تلاش کی تیسری دراز کے آخر میں  وہ چابی  پڑی تھی۔۔ عا مر نے وہ چابی نکالی اور سیدھا لاکر  کے پاس گیا اس نے وہ لوکر کھولا تو اندر ایک بیک تھا  عامر نے بیگ کھولا تو اندر ایک البم تھی عامر نے وہ کھولی تو اندر فردوس اور علی خاور کی تصویر ے تھی ۔۔عامر نے ایک ایک کر کے ساری تصویرے دیکھیں ۔۔۔ وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے کسی نے کوئی بہت بھاری پھتر اس کے دل پر رکھ دیا ہو ۔۔۔۔فردوس باہر ای تو عامر الماری کے پاس کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں  وہ تصویرے تھی فردوس کو لگا وہ سانس نہیں لے پاۓ گی ۔۔۔عامر ایک ایک کر کے ساری تصویرے دیکھ رہا تھا ۔فردوس کا دل کیا کے زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔وہ سانس روکے عامر کو دیکھ رہی تھی عامر نے ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔دونو ں کی نظرے ملیں ۔۔۔۔

تو یہ ہے وہ وجہ علی خاور ۔۔علی خاور کے وہ محبوبہ اور کوئی نہیں بلکے تم ہو جس کے کے بارے میں وہ بتایا کرتا تھا ۔۔ وہ تم ہو فردوس وہ  تم ہو ۔۔۔۔

جب ایک دوسرے کے بینا رہ نہیں سکتے تو تم میری زندگی میں کیوں ای کیوں فردوس ؟؟

آج تک میں سجھ نہیں پایا کے کیا وجہ ہو سکتی ہے تم وقت مانگتی رہی اور میں دیتا رہا ۔۔ایک بار بھی تم نے مجھے سچ نہیں بتایا کیوں فردوس کیوں آئی  تم میری زندگی میں جواب دو کیوں آئی  تم  جب تمہارا دل کسی اور کے پاس رہ گیا ہے ۔۔۔

عامر اپ ۔۔حقیقت نہیں جانتے  وہ بہت دیر بعد بس یہی بولی ۔۔

تو میں آج جاننا چاہتا ہوں حقیقت کیا ہے وہ ذور سے چلایا ۔۔۔۔

چلو میرے ساتھ عامر نے اس کا ہاتھ تھاما۔۔

میری بات سنے عامر ۔۔

اب بہت دیر ہو چکی ہے فردوس ۔۔۔

عامر اسے اپنے ساتھ لیتا ہوا سیدھا علی خاور کے کمرے میں آیا عامر نے دروازہ زور سے کھولا   ۔۔علی خاور بیٹھا کوئی کام کر رہا تھا ۔۔۔۔

عامر سب ٹھیک ہے؟؟؟

 علی نے عامر اور  فردوس کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

تمہارے یہاں انے سے پہلے سب ٹھیک تھا ۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا ۔ ؟؟؟

یہ دیکھو ۔۔اصلیت۔۔ حقیقت۔۔تمہاری اور فردوس کی تم جس کے بارے میں مجھے اتنے مہینوں سے  بتاتے آرہے تھے کہ تم فلاں لڑکی سے اس قدر محبت کرتے ہو۔  اس کے لئے  اتنے زیادہ پاگل ہو کہ تم نے تو مجھے اس کا نام تک نہیں بتایا علی خاور ۔۔کتنے مہینوں تک تم  مجھے ہر چیز بتاتے رہے اپنی محبت کے بارے میں لیکن تم نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ تم نے اس کو چھوڑا کیوں ۔تم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا آج میں تم سے سچ سننا چاہتا ہوں کہ کیا وجہ تھی اس کو چھوڑنے کی اگر تم دونوں ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے تھے تو پھر فردوس کو  مجھ سے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی  میرے جذبات کو تکلیف پہنچانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔

 تمہیں  کیا لگا مجھے سچ پتہ نہیں چلے  جائے گا اس دن  میں نے تم دونوں کی باتیں سنی تھی دروازے کے پیچھے سے اسی وقت میں سمجھ گیا تھا ۔۔۔

آج تم مجھے کھلے الفاظ میں تمام حقیقت بتاؤں گے  کہ کیا وجہ ہے ۔کیوں تم دونوں نے میرے ساتھ یہ  سب کچھ کیا ۔۔۔

تمہارے ساتھ تمہارے ساتھ کیا کیا ہے فردوس نے ۔۔۔کیا کیا ہے میں نے ۔۔

 بلکہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ جس سے تم محبت کرتے ہو وہ لڑکی تمہارے ساتھ ہے ۔اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں فردوس سے اپنی آخری سانس تک محبت کروں گا آخری سانس تک ۔اور تم جاننا چاہتے ہو نہ کہ کس وجہ سے ہم جدا ہوے تو  آج سن لو فردوس کے بابا کی وجہ سے ہوا ہے یہ سب کچھ میں اور فردوس  ایک دوسرے کو یونیورسٹی سے پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ہم نے اپنی اس محبت کو مزید قائم رکھنے کے لیے نکاح  جیسا پاک رشتہ بھی قائم کر لیا تھا لیکن فردوس کے بابا کو یہ بات برداشت نہیں ہوئی انہوں نے اس نکاح کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ۔ انہوں نے شرط رکھی کہ اگر فردوس کو طلاق نہیں دوں گا تو وہ رابیہ آنٹی کو طلاق دے دیں گے ۔۔میں نے صاف انکار کر دیا کہ میں فردوس کو طلاق کس صورت نہیں دوں گا وہ رابیہ انٹی کو طلاق دینے ہی والے تھے کے فردوس  نے مجھ سے کہا کہ اگر وہ مجھے طلاق نہیں دے گا تو میں اپنے آپ کو جان سے مار دونگی   ۔۔۔۔پھر کیا کر لیتا میں اپنی محبت کو اپنے سامنے مرنے دیتا ۔۔۔اگر تمہاری محبت تمہارے سامنے اپنی ما ں کیلئے روتے ہوئے   یہ کہیں تو  تم کیا کرو گے عامر اپنی محبت کو مرنے دو گے اپنے لئے۔۔۔ تم چاہو گے کہ اس کی ماں کی طلاق ہو جائے وہ بھی عمر کے اس حصے میں ۔۔

 تم نہیں جانتے اس وقت مجھ پر اور فردوس پر کیا قیامت گزری تھی  تم ابھی اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہو تم اس وقت ہوتے تو تمہیں احساس ہوتا  کہ ہم دونوں کتنی تکلیف سے گزر رہے تھے ۔۔اور عامر  تم کہتے ہو کہ تمہارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے نا انصافی میرے ساتھ ہوئی ہے نا انصافی فردوس کے ساتھ ہوئی ہے نا انصافی رابیہ انٹی کے ساتھ ہوئی ہے ۔ ۔۔ہماری خوشیوں کے ساتھ ہوئی ہے ۔۔

وہ دن تھا اور آج کا دن ہے ۔۔ہر چیز تمہارے آگے ہر چیز تم  میرا حا ل بھی دیکھ رہے ہو اور فردوس کا بھی۔۔

  ہم دونوں کو جدا کرنے کے لیے فردوس کے بابا نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ۔ اور شاید ہم دونوں کو جدا بھی ہونا تھا تو ہم جدا ہو گئے عا مر ہم جدا ہو گئے ۔۔ 

حقیقت اب تمہارے بالکل سامنے ہے  یہی حقیقت ہے اور یہی سچائی ہے ۔۔۔

 اور تمہیں کسی نے کوئی دھوکہ نہیں دیا فردوس  میری محبت ہے صرف اور صرف میری ۔۔

 مگر اب  یہ تمہاری بیوی ہے ۔۔ میں نے فردوس کو  یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ تمہیں چھوڑ کر میرے پاس آ جائے اور نہ  فردوس نے آج تک مجھ سے یہ کہا کہ میں تمہارے لئے عامر  کو چھوڑ دوں گی ۔۔وہ محبت کی ماری مجبور ہو کر میری خیریت معلوم کر نے ای تھی ۔۔اور کچھ نہیں ۔۔۔

اور تم کہتے ہو کہ نا انصافی ہوئی ہے تمہارے ساتھ ۔۔تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی نا انصافی  نہیں ہوئی ہے ۔۔۔نا انصافیاں تو میرے اور فردوس کے ساتھ ہوئی ہیں ۔۔اور آج تک ہو رہی ہیں ۔

میں فردوس سے بہت   محبت کرتا ہوں اور فردوس کی محبت میرے دل سے کوئی نہیں نکال سکتا جب تک میں زندہ ہوں یہ میرے دل میں ہی رہے گی  ۔۔۔مگر تم خوش ہو جاؤ کچھ وقت کے بعد یہ بیماری میری جان لے لے گی پھر تم خوش ہو جانا ۔۔۔کے اب علی خاور زندہ نہیں ہے ۔۔

علی خاور  وہاں روکا  نہیں تھا وہ  اب وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ فردوس خاموشی سے کھڑی علی خاور کو یہاں سے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔وہ ایک بار پھر سے چلا گیا تھا ۔۔اس سے بہت دور ۔۔۔

بات مقدر پر آ کر رک گئی ورنہ...!

کوئی کسر تو نہ چھوڑی تھی اسے چاہنے میں۔۔

وہ چلا گیا تھا ماحول میں اب بلکل  خاموشی تھی جیسے کوئی مر  گیا ہوں ۔۔عامر اپنی جگہ پر اکیلا کھڑا رہ گیا جبکہ فردوس اس کے پیچھے تھی اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے ٹپک رہے تھے وہ تینوں ہی آج رو رہے تھے وہ تینو ں ہی   آج اپنے اپنے دل کے حال پر آنسو بہا رہے تھے ۔۔۔۔ 

فردوس  زمین پر جاگیری ۔۔۔

 زمین پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔

تم بھی علی خاور  سے بہت محبت کرتی ہوں ہے نہ ۔۔اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تم اس کے علاوہ  کسی کو اپنے دل میں برداشت نہیں کر سکتی۔۔ کوئی اور آدمی تمہیں  چھوے  نہ ۔۔۔ 

میں نے بہت کوشش کی فردوس تمہارے دل میں محبت پیدا کرنے کی مگر میں یہ کر نہیں پایا ۔۔۔ میں تمہارے قریب بھی  تھا ۔مگر تم سے بہت دور تھا علی تم سے بہت دور تھا مگر پھر بھی بہت قریب تھا ۔۔۔۔

فردوس کچھ نہیں بولی بس خاموشی سے روتی رہی روتی رہی آج سارے راز  ساری باتیں سامنے آ چکی تھی محبت کی وہ کہانی جو اتنی مہینوں سے چھپی ہوئی تھی آج منظرعام پر آ گئی تھی ایک تکلیف  ده محبت بھری کہانی جو کہ شاید انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھی وہ آج سب کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ ۔علی خاور اور فردوس مل کر بھی نہیں مل پائے تھے اور شاید قسمت ایک بار پھر سے یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

 فردوس پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح روتی رہی ۔۔وہ بچپن سے لے کر  آج تک صرف اور صرف محبت کے لئے ترستی ای تھی  ۔ اپنے  ہر اس رشتے سے جس سے  وہ دل سے  پیار کرتی تھی ۔۔

علی  اس بیماری میں مبتلا تھا اور وہ اس کی صحت یابی کے لئے رات کو جاگ کر سجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتی تھی ۔۔۔

اب صرف اور صرف فردوس  اس کی زندگی کے لیے دعا ہی کر سکتی تھی اور کچھ نہی ۔۔۔

دو  مہینے بعد ۔۔

فردوس عامر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی نہ جانے وہ اسے کہاں لے جا رہا تھا ۔۔۔دو مہینے ہو چکے تھے علی کو  وہاں سے گئے ہوئے اور دو مہینوں میں نہ ہی تو کبھی عا مر نے علی خاور  کے بارے میں بات کی اور نہ ہی فردوس نے ۔۔عامر  نے اپنے نیلے رنگ کی گاڑی ایک بنگلے کے باہر روکی ۔۔علی خاور اور عامر دو مہینوں تک ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے یوں جیسے کوئی اجنبی ہوں علی خاور نے ایک بھی بار کسی سے  بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی فردوس سے ملا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی زندگی میں اور  پریشانیاں ایں  ۔علی  کی اگلی رپورٹس کیا آئی تھی کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ ۔۔

فردوس  نے نظر اٹھا کر اس گھر کو دیکھا جو کہ انتہائی خوبصورت تھا ۔۔

وہ دونوں گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر آئے ۔۔فردوس کے چہرے پر  اب ہمیشہ گہری  اداسی اور ویرانی رہتی  تھی ۔۔  وہ یوں ہوگئی تھی جیسے وہ  اندر سے مر گئی ہو ۔شاید اب اس کے دل میں صرف ایک آخری خواہش یہی بچ گئی تھی کہ اس کی محبت علی خاور ٹھیک  ہو جائے اور زندہ رہے پھر چاہے وہ ا سے ساری زندگی نہ ملے جہاں کہیں بھی ہو صحت مند ہو خوش رہےبس اب وہ  اپنے رب سے یہی دعا کرتی تھی علی خاور کیلئے  ۔۔۔

گھر ایک دم خالی تھا ۔۔کوئی ایک ملازم گھر میں نہیں تھا سواۓ چوکیدار کے 

ایسے میں سامنے والے  ایک بڑے سے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔یہ وہ دروازہ تھا جو علی خاور ہمیشہ بند رکھتا تھا یعنی اس کا اپنا بیڈ روم عامر  کے دل میں ہمیشہ سے  وہ کمرہ دیکھنے کی خواہش تھی وہ چلتا ہوا اس کمرے کے نزدیک بڑھتا جارہا تھا جبکہ اس کے ہاتھ میں فردوس کا ہاتھ تھا ۔۔

وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو کوئی شخص جس سے فردوس بالکل انجان تھی وہ  اپنے وجود کے اوپر چادر لئے لیٹا ہوا تھا ۔۔اس کی شکل دوسری طرف تھی اور وہ پوری طرح سے  چادر میں ڈھالکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔فردوس  نے چاروں طرف کمرے کو دیکھا ہر طرف فردوس اور علی خاور کی تصویریں تھیں جو کسی حسین وقت میں ان دونوں کی یادیں ہوا کرتیں تھیں ۔۔۔

وہ لیٹا ہوا شخص بہت بیمار لگ رہا تھا اور بری طرح سے کھانس  کھا رہا تھا ۔۔۔

علی ۔۔۔۔

فردوس کو ایک لمحہ لگا تھا اسے پہچانے میں اس نے بڑی بے چینی اور بے قراری سے علی خاور کو پکارا تھا ۔۔۔

عامر نے ایک نظر فردوس کو دیکھا ۔۔۔۔

علی ہے یہ ؟؟؟فردوس رو پڑی ۔۔۔۔

جاؤ جا کر اٹھاؤ اسے ۔۔۔عامر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

فردوس نے  بے حد حیرانی سے عامر  کا چہرہ دیکھا ۔۔۔

کیا ہوا جاؤ جاکے اٹھا و  علی خاور  کو اور اسے گلاس میں پانی بھی دو ۔۔عامر نے فردوس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا جبکہ فردوس حیرانی اور پریشانی سے اسے دیکھتی رہی دیکھتی رہی اس کے پیر علی خاور کی طرف بڑھ نہیں پارہے تھے عا مر کی بات سن کر اسے لگا وہ اس سے مذاق کر رہا ہے اس کے جذبات کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہیلی  بلکہ اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے عا مر کو دیکھتی رہی ۔۔۔

فردوس میں تم سے کہہ رہا ہوں  جاکر اٹھاؤ علی خاور کو اور اسے اپنے ہاتھوں سے پانی پلاؤ عامر نے فردوس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔

لیکن وہ عامر کو  دیکھتی رہ گی عامر نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام اور اسے اپنے ساتھ علی خاور کی بستر کی طرف لے آیا ۔۔

فردوس  نے ایک نظر سوئے ہوئے علی خاور کو دیکھا اس کے چہرے پر پیلاہٹ آ گئی تھی اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑنے لگے تھے ۔چہرے پر داڑھی بھی بڑی ہوئی تھی آنکھوں میں اور چہرے پے ویرانی ہی ویرانی تھی اداسی ہی اداسی تھی ۔۔

عامر نے گلاس میں پانی نکال کر فردوس کے قریب بڑھایا ۔۔پکارو علی خاور کو اور اسے اپنے ہاتھ سے پانی پلاؤ ۔۔۔۔

فردوس  حیران تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کیا کر رہا ہے ۔۔۔

علی خاور ۔۔۔۔

عامر نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جگایا ۔۔علی خاور کی آنکھ کھلی تو سبز رنگ کے لباس میں اس کے  قریب پانی کا گلاس لیے فردوس بیٹھی تھی ۔۔ 

اسے لگا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے وہ خواب سے اٹھنا نہیں چاہتا تھا ۔ ۔

خواب اس  قدر حسین تھا سبز آنکھوں والی لڑکی آج سبز رنگ کا لباس پہنے ہوئے اس کی بہت قریب بیٹھی تھی ۔ ۔

اسے خوف محسوس ہونے لگا کہ کہیں اگر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تو یہ خواب ٹوٹ جائے گا ۔۔۔

علی ۔۔۔۔

فردوس نے نرمی  سے اسے  پکارا ۔۔۔

علی خاور نے اپنی پوری آنکھیں کھولیں جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے ۔۔۔۔

آنکھیں کھولو علی خاور اور اس حقیقت کو جیو ۔اپنی پوری آنکھیں کھولو اور اپنے برابر میں بیٹھی ہوئی اپنی محبت کو دیکھو ۔۔۔

 عامر چلتا ہوا علی خاور کے قریب آیا اور اس نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔

علی خاور نے   بے حد حیرانی سے عامر  کا چہرہ دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔۔

تم نہیں مر  سکتے علی  خاور کیوں کہ  تمہارے لئے پوری پوری رات تمہاری زندگی اور صحت یابی کے لیے دعا کرنے والی فردوس ابھی زندہ ہے  ۔ تمہاری محبت تمہیں مرنے نہیں دے گی فردوس بہت محبت کرتی ہے تم سے اور تم بھی بہت محبت کرتے ہو فردوس سے تو میں کون ہوتا ہوں تم دونوں کو جدا کرنے والا میں تمہاری محبت کو تمہیں  واپس دیتا ہوں ۔۔۔اور یہ میں پورے دل سے کر رہا ہو ۔

میں نے بھی فردوس سے محبت کی ہے لیکن شاید اتنی نہیں جتنی تم کرتے ہو ۔تم دونوں ایک دوسرے کے لئے پاگل ہوں ایک دوسرے کے عا شق ہوں ۔۔

تو میں کون ہوتا ہوں تم دونوں کے  عشق میں رکاوٹ بننے والا میری یہی دعا ہے کہ تم دونوں کا عشق مکمل ہو ۔۔۔۔

فردوس  اپنی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے علی خاور اور عامر کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ شکرگزاری سے اس کی آنکھوں میں آنسو جما ہو گئے تھے  ۔۔۔علی خاور کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔۔

فردوس نے  عامر  کے   اگے اپنے  دونوں ہاتھ جوڑے ۔۔عامر نے  نرمی سے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھاما ۔میری دعا ہے کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو آباد رہو ۔اور مجھے  ضرورت نہیں ہے علی خاور کی صحت یابی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کے لئے اس کیلئے ایک تم ہی کافی ہو ۔۔ تم سنبھالو اسے ۔ ۔تم دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی الگ نہیں کر پائے گا ۔۔خوش رہو ہمیشہ ۔۔۔۔

تین  سال بعد ۔۔۔

 ٹھنڈی بارش ٹھنڈی تیز ہوا مری کے حسین اور دلکش موسم کو اور زیادہ حسین بنا رہی تھی ۔۔

ایسے میں دنیا کی ایک  حسین ترین لڑکی سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور اپنے وجود کے اوپر سیاہ رنگ کی شال ڈالی ہوئی تھی ۔۔۔

 ٹھنڈی ہوا  سے لڑکی کی  ساڑی کا پلو لہرانے لگا  یوں جیسے ہوا سے باتیں کر رہا ہوں ۔ اس کی لمبی بھوری زلفے اس کی کمر پر بکھری ہوئی تھی   ۔۔سبز رنگ کی آنکھوں میں آج خوبصورت طریقے سے گہرا  کاجل لگا ہوا تھا ۔۔

ایسے میں علی خاور نے  پیچھے سے آ کر بے حد محبت سے اسے اپنی محبت بھرے حصار میں قید کیا  تو فردوس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آئی ۔۔۔

علی خاور نے  نرمی سے اپنا چہرہ اس کے کندھے کے پاس رکھا ۔۔۔

فردوس کے جسم کے  ڈ ھکے ہوئے حصے میں ایک نئی زندگی پل رہی تھی ۔۔۔۔

علی خاور نے فردوس کے بالوں کو ایک طرف کیا ۔۔اور پھر بہت محبت سے نرمی سے اس کی گردن کو چوما ۔ ۔۔۔

تمہیں مجھ سے زیادہ کوئی اور پیار نہیں کر سکتا فیری  ۔۔

فردوس نے پلٹ کر  اپنی باہیں  علی خاور کی طرف پھیلائیں ۔

 دونوں نے ایک دوسرے کو بے حد محبت اور اپنائیت سے ایک دوسرے کے گلے سے لگایا ۔۔

نہ جانے کتنی دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کے وجود سے لپٹے رہے ۔۔ ٹھنڈی تیز ہوا ان دونوں کے وجود کو چھو کر گزر رہی تھی ۔۔۔ برف سے ڈھکے ہوئے  اونچے لمبے پہاڑ  اونچے درخت اور یہ برستی ہوئی بارش ہر کوئی ان کے ملن پر انتہائی خوش تھا ۔۔۔

وہ دونوں ایک ساتھ تھے ۔اور ان دو کے ساتھ ایک تیسری نئی  زندگی بھی  ۔جو کہ ان کی محبت کی نشانی تھی ۔اب کوئی ایسا  نہیں تھا جو ان دونوں کو جدا کر دے ۔۔دونوں کی محبت کی داستان اب   مکمل ہو گئی تھی ۔۔

ختم ۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Laa Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Laa written by Manal Ali.Ishq Laa by Manal Ali is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages