Pages

Thursday 25 July 2024

Inteha E Ishq By Ayn Khan New Complete Romantic Novel

Inteha E Ishq  By Ayn Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Inteha E Ishq By Ayn Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Inteha E Ishq 

Writer Name: Ayn Khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

 گاڑی کا فرنٹ ڈوڑکھولتےہی شہزادوں سی پرسنیلٹی لئے وہ اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے،،،، ،اور انٹرکام ہے کال کر کے التماش کو،،،، اندر بجھو ابھی چہرے  پر چٹانوں سی سختی التماش کے اندر داخل ہوتے ہی اُس ہےغصے سے۔

How is this possible

Tell me

  یہ کونٹرکٹ ہمارے ہاتھ سے کیسے جاسکتا ہے۔۔۔۔؟؟

التماش سوری سر ہم نے اپنی پوری کوشش کی پر ۔۔۔۔۔۔

پرکیا کوشش نہیں مجھے رزلٹ چاہئے تھا۔۔۔۔

 سر وہ۔۔۔۔

 کیا وہ سر مجھے لگتا ہے ہماری انفارمیشن کسی نے لیک کر دی تھی۔۔۔۔۔

 واٹ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟؟ دو دن صرف دو دن ہے تمہارے پاس مجھے اُس کا نام چاہے دو دن مطلب دو دن ایک دن بھی اُوپر ہو تو تم مجھے اس آفس میں نظر نہ آؤ۔۔۔۔۔ازلان نے کہتے ہی اسے باہر جانے کا اشارہ کیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ایک خوبصورت محل نما گھر جس کے چارو طرف رنگ رنگ کے پھول اور پھولوں کے درمیان ایک تالاب جس میں طرح  طرح کی مچھلیاں اورپھولوں سے سجا ایک جھولا اور اُس پر جھولتی وہ۔۔۔۔۔۔

 ہوا سے باتیں کرتے اُس کے بال سفید رنگ کا پاؤں تک آتا فراک اور اُس پر لال رنگ کا ڈوپٹہ اور سبز آنکھوں پے چمکتی شررات اُس کی خوبصورتی کو اور بھی بڑھا رہی تھی۔۔۔۔۔

 وہ اُس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا کے اُسے دیکھتے ہی وہ اُس سے دور بھاگنے لگی ۔۔۔ اور وہ کہیں گم ہو گئی ۔

اور اُس کی آنکھیں اپنے موبائل کی بجھتی بیل سے کھول جاتی ہیں۔۔۔

 اُف یار یہ خواب اور سبز آنکھیں میرا پیچھا کب  چھوڑیں گی۔۔۔۔۔ اور وہ کال اُٹھتا ہے۔۔

  میں تجھے کب سے فون کر رہا ہو اور تم جناب ہو کے  اُسے تو سبز آنکھوں والی کے خوابوں سے فرست ملے تو فر نہ دس منٹ ہے جلدی  سے ڑیڈی ہو کے باہر نکل آج یونیورسٹی ٹائم سے پہچانا ہے میرے یار کل فٹ-بال میچ ہے اگر آپ کو یاد ہو تو ۔۔۔۔۔۔

Shat up zyin.. 

I'll be there in ten minutes.

اور وہ روز کی طرح اپنے حیالات کو جھٹک کے فریش ہونے چلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

وہ اُسے آوازے دے رہا تھا پر وہ اُسے نظر انداز کرتی بھاگ رہی تھی کیونکہ اُس نے سنا تھا کہ پیچھے دیکھنے سے انسان پتھر کا ہو جاتا ہے ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے اُٹھ بھی جاؤ یار بابا کب سے ناشتے پر ہمارا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ اُسے کب سے اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی پر پریشے ہی کیا جو اُٹھا جائے ۔۔

ٹھیک ہے میں تو جانے لگی ہوں تم سوئی رہو اور جو آج ہماری یونیورسٹی ٹرپ ہے مس کر  دو ۔۔۔۔۔ہریشے کہہ کر جانے لگی ۔

وہ آج تھی کیا۔۔۔؟ ؟

جی میری جان آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہے کیونکہ بابا ہمارا ویٹ کر رہے ہیں میں تو چلی آپ بھی تشریف لے آئے ۔۔۔۔۔۔جلد کیوں کہ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے ہمیں نو بجے تک کالج پہچانا ہے اُور ہماری کلاس نو تیس کو یونیورسٹی کے لئے نکل جائے گی۔۔۔

So please don't be late... 

اُف یار یہ خوب مجھے ہمیشہ لیٹ کروا دیتے ہیں کب پیچھا چھوڑے گئے یہ میرا ۔۔۔۔۔۔

باربار یہ آواز مجھے کیوں تنگ کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور وہ جلد سے اپنے بستر نکلتے ہی واشروم میں بند ہو جاتی ہے تاکہ جلدی جلدی فریش ہو کےکالج کے لیے نکل سکے۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ہرطرف شور اور شور میں گونجتی شیری شیری کی آوازیں ۔۔۔۔شیری عرف شہرام شاہ اپنی یونیورسٹی کی فٹ-بال ٹیم کا کیپٹن اور ایک بہترین کھلاڑی جس کا جنون ہے فٹبال۔۔۔۔۔

 اور آج کا میچ اُس کی ٹیم کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس میچ کو دیکھنے کے لیے بہت سے کالج اور سکول کے سٹوڈنٹ آئے ہیں۔۔۔۔ اور یہ اُس کی یونیورسٹی کی روپوٹیشن کا سوال ہے پر شہرام شاہ کو یہ نہیں معلوم کہ آج وہ دو آنکھیں بھی اُسے دیکھا رہی ہیں جو اُسے ہر خواب میں نظر آتی ہے وہ اُسے  دیکھے گی تو ضرور پر وہ اُن آنکھوں کو نہیں دیکھا سکے گا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

اشرف صاحب اپنی بیوی زارا کے ساتھ ایک دو منزلہ گھر میں اپنے تین بچوں پریشے اور انوشے جو کے دونوں بہت خوب صورت ہیں کالج میں زیر تعلیم ہیں اور حارث جو کے  سٹوڈنٹ ہے

 کے ساتھ اپنی چھوٹی سی دنیا  میں خوش ہیں۔۔۔۔

 اشرف صاحب ایک پروفیسر ہیں اور زارا ھاؤس وائف ہیں۔۔۔ اور انہوں نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی ہے پر انہیں نہیں پتہ کے بہت جلد ان پر امتحان آنے والا ہےجو  اُن کی خوشیوں  کو تباہ کر دئے گا۔۔۔

پر ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ امتحان اللہ سبحان تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے ہی لیتے ہیں۔۔

❤️❤️❤️❤️

کالج کی لڑکیوں اور یونیورسٹی کی لڑکیوں کا ہجوم تھا  پر ہر ایک کی نظر شہرام کی طرف تھی۔۔۔۔ اور شہرام کو اس وقت کھیل کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔

 انوشے اور پرشے جو کے  اس وقت اس گراؤنڈ میں موجود تھی۔۔۔۔۔

 فٹبال کم اور یونیورسٹی کی لڑکیوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جو بےباک کپڑوں میں تھی چھوٹی چھوٹی شڑٹ اور گُٹنوں تک آتی جینز پہنیں ہوئے تھی۔

 انوشے چلو مجھے بھوک لگی ہے چلو کچھ کھا تے ہے اور انوشے کا ہاتھ کہنچتے ہوئے لے جاتی ہے ۔

❤️❤️❤️❤️

میچ کے اختتام پر جیت شہرام کی ٹیم کے حصے آئی۔۔۔

 شہری آج تو تم نے کمال کر دیا یار کیا خوب کھیلا حازم کی تو شکل دیکھنے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھا ھاھا زیان ہنستے ہوئے ۔

شہری شہری۔۔۔۔

 لو وہ آ گی تمھاری جانو مانو۔۔۔. 

 ہائے شہری۔۔

I miss you so much 

ہائے آنیہ۔۔۔

تم زیان کو کمپنی دو میں چینج کر لوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہی شہرام وہاں سے چلا گیا۔

اورآنیہ پیچھے اُسے آوازیں ہی دیتی رہ گی۔

 دیکھتی ہوں کب تک بجتے ہو تم مجھ سے ۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی غصے سے واک آؤٹ کر گی۔

، ❤️❤️❤️❤️

جگہ جگہ کٹ لگنے اوربھوکھے پیاسے ہونے کی وجہ سے وہ بیہوشی کی حالت میں تھا۔

آنکھوں میں غصہ اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لیے وہ اُسے دیکھا رہا تھا۔

 تمھیں کیا لگا تم مجھ سے دھوکا کرو گے اور مجھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ التماش اس کی ایسی حالت کرو کے اگلی دفعہ کسی کو دھوکہ دینے سے پہلے اسے یہ منظر ہمیشہ یاد رہے۔

گھر میں داخل ہو تے  ہی اسکا سامنا ریاست شاہ سے ہوا۔

 بابا آپ کب آئے۔۔۔؟ ؟

میں تو دو دن ہوئے یہیں ہوں پر میرے دونوں بیٹے پتہ نہیں کہاں مصروف ہیں۔۔۔۔۔۔طنزیہ مسکراہٹ لیے ریاست شاہ نے جواب دیا۔

 سوری بابا کچھ کام ایسے تھے جن میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔۔ازلان شاہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔

 میں اس دفعہ تم سے کوئی اہم بات کرنے کے سلسلے میں آیا ہوں۔۔۔۔۔

 بابا 

Not Again... 

اگر بات وہی ہے تو میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔اُس نے غصے سے جواب دیا۔

کیوں نہیں کرنا چاہتے تم بات یہ بات اپنے ذہین میں بیٹھا لو وہ  ہی اس گھر کی بہو ہیں کیونکہ کے یہ میرا نہیں تمہاری ماں کا حکم تھا۔۔۔۔اور یہ اسکی پہلی اور آخری خواہش تھی تمہارے  لئے ۔۔۔۔۔۔وہ اپنی بات کہے کے رُکے نہیں بلکہ اپنے روم داخل ہو گئے۔ 

 پیچھے وہ غصے سے اُسے سوچنے لگا جس کی زندگی اب بہت جلد عذاب بنانے والا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ اپنی بیوی فاطمہ کے اور دو بیٹوں کے ساتھ رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔

بڑا ازلان شاہ اور اُس سے دو سال چھوٹا شہرام شاہ کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں تھے۔

 ریاست شاہ کا شمار دنیا کے ٹاپ بزنس مین میں ہوتا ہے پر ایسا کیا ہو کہ ان کی دنیا نہ مکمل ہو گئی ہے ۔

وقت ہر ایک کا امتحان لیتا ہے اور دیکھتے ہیں کےوہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا رسوائی اُن کا مقدر بنتی ہے۔

پریشے جو انوشے کو تلاش کر رہی تھی جاتے ہوئے شہرام سے ٹکرا جاتی ہے ابھی اُسے سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتا ۔

غصے سے آندھی ہو کیا دیکھا کے نہیں چل سکتی ہنڈسم لڑکا دیکھا نہیں کے ۔۔۔۔۔۔۔اُس کی بات ہے پریشے کا منہ کھلا گیا ۔

 ہیلو میڈم منہ تو بند کرؤ نظر لگاؤ گی کیا پتہ ہیں ہنڈسم ہوں ہر لڑکی کا خواب ہوں۔۔۔۔

 اے ہیلو شکل دیکھی ہے اپنی بڑا آیا ہنڈسم تم پر مرتی ہے میری جوتی۔۔۔۔۔۔۔ پریشے کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُس کا منہ توڑ دے ایک تو غلطی اوپر سے اتنی باتیں بھی سنا دی۔

 یہ الگ بات تھی کے غلطی دونوں طرف سے تھی اور وہ دونوں ہی کیا جوغلطی مان لیں۔

 چلو سوری بولو میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔۔

 سوری اور میں گو ٹو ہیل۔۔۔۔۔ یہ بول کے پریشے اُدھر سے واک آؤٹ کر گی۔

اور شہرام بس پیچھے سے اُسے دیکھتا رہا گے اُس کے جانے کے بعد ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے  پر آگی تھی۔۔۔ اور وہ اپنی کیفیت سے انجان تھا۔

پر دونوں کے ساتھ قسمت کیا کھیل کھلے گئی جس سے دونوں کی زندگی بدلنے والی تھی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

پریشے غصے سے آندھی طوفان بنی آئی۔

کیا ہوا یار میں تمہارا کب سے ویٹ کر رہی تھی جلد چالو ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔۔۔۔. اور دونوں اپنی کالج وین پر بیٹھ کے چلی گی۔

 گھر آتے ہی پریشے شروع ہو گئی ۔

سمجھتا کیا ہے وہ خود کو ۔۔۔۔۔۔

اشرف صاحب کیا ہوا میرے بیٹے کو کسی نے تنگ کر دیا ۔۔۔؟ ؟

غصے سے ساری باتیں بتاتی ہے اشرف صاحب اور زارا کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر۔

بابا ماما آپ میرا مزاق بنا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ پریشے اُداس ہوتے ہوئے۔

 اشرف صاحب نہیں میرا بیٹا غلطی آپ کی بھی تھی آپ کو سوری بولنا چاہیے تھا۔۔۔۔

 بابا  آپ بھی ۔۔مجھے نہیں کرنی کس سے بھی بات۔۔۔۔پریشے نے غصے سے منہ بنایا ۔

بس بہت ہوں تم دونوں جاؤ اور فریش ہو جاؤ جب تک میں کھانا لگتی ہوں۔۔۔۔۔

 اوکے ماما اور وہ دونوں ماما بابا کو پیار کر کے  فریش ہونے چلیں گی۔

❤️❤️❤️❤️

وہ اپنے آفس میں داخل ہوتے ہی انٹرکام پر التماش کو اندر بجو۔۔۔۔۔ التماش روم میں داخل ہوتے ہے ۔

 یس سر۔۔۔۔۔۔

یہ رہی آپ کی فائل اس میں ساری  انفارمیشن ہے ۔۔

ہمم اوکے تم جا سکتےہو۔۔۔۔

 فائل دیکھتے ہی ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ لیے۔۔

 ہمم انتقام لینے کا وقت آ گیا ہے بہت جلد جس آگ میں میں جل رہا ہوں اُس میں اب تم کو جلنا ہو گا۔۔۔۔۔۔

وہ اس چیز سےبے حبر کے کہی اُسکے وجود کوانتقام کی آگ میں جالاتے اپنے ہاتھ ہی نہ جل لے۔

❤️❤️❤️❤️

بہت جلد ان چاروں کی زندگی میں ایک نیا موڑ آنے والا ہے۔۔۔۔ جو بہت سے امتحان مشکلیں ہوں گی کبھی ان کے رشتے میں پیار کی جھلک دیکھے گی۔

تو کبھی نفرت اس پیار کو مٹانے کی کوشش کرئے گا

 پر اگر اللہ سبحان تعالیٰ پر یقین ہو تو وہ اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔۔ اور کچھ امتحانو کے بعد ایک روشن سویرے ضرور ہوتا ہے۔

اگر اُس پر یقین میں پختگی ہو۔

❤️❤️❤️❤️

ازلان گھر آتے ہی بڑی بی سے۔۔۔۔

 بابا کدھر ۔۔؟؟ 

بڑی بی  ان کی خاص تھی جس نے شہرام اور ازلان کو ان کی ماں کے بعد ماں بن کے پالا تھا اور اب وہ سب ملزموں کی دیکھ بھال اور پورے گھر کی دیکھ بھال ان کے ہاتھ تھی۔

شاہ صاحب اپنے روم میں ہے بیٹا۔۔۔۔

 شاہ صاحب جو اپنی سوچوں میں گم تھے ازلان کے دروازے کھولنے سے ہوش میں آئے۔

 آؤ بیٹا۔۔۔

 کسے ہیں آپ بابا ۔۔۔؟؟

میں تو ٹھیک ہوں بیٹا آپ اپنی سناؤ ۔۔۔؟کیا سوچا پھر اُس بارے میں تم نے۔۔۔؟ ؟

جی بابا اُسی سلسلہ میں آیا تھا مجھے آپ کی ہر بات منظور ہے۔

 پر۔۔۔

کیا پر۔۔۔؟؟

پر یہ کے شادی اسی مہینے ہو گی ۔۔۔۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔ اپنی بات بول کر وہ رُکا نہیں اور روم سے ہی نہیں گھر سے بھی چلا گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

اشرف مجھے اپنی بیٹیوں کے لیے بہت ڈار لگتا ہے خاص طور پر انوشے کے لیے میں نہیں چاہتی اُسے اُس گناہ کی سزا ملے جو اسنے کیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ وہ تو صرف ایک حادثہ تھا ہمیں وہ نکاح بچپن میں کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔

 اُس حادثے کے بعد تو ریاست بھائی نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا ہمیں کچھ توکرنا ہے آخر میری بیٹی کے مستقبل کا سوال ہے۔۔۔

 فکر تو مجھے بھی ہوتی ہے پر وہ زات پے یقین ہے مجھ وہ ہماری اولاد کے حق میں سب بہتر کرے گا۔۔۔۔۔

 بابا ماما ۔۔۔۔۔۔پریشے کی آواز سنتے ہی زارا نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔

 پریشے روم میں داخل ہوتے ہی۔

 بابا ماما آپ سے آپ کا کوئی دوست ملنے آیا ہے ۔۔۔۔۔

اشرف صاحب کون سا دوست۔۔۔؟ ؟

پتہ نہیں بابا پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا وہ بولا رہے ہے وہ آپ کے بچپن کے دوست ہیں اور اپنی امانت لینے آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اشرف صاحب اپنی شریکِ حیات کی طرف دیکھنے لگے جو خود  کشمکش کا شکار تھی۔

❤️❤️❤️❤️

ڈرائنگ روم میں ریاست شاہ کو دیکھ کر اشرف اور زارا اپنی کیفیت نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ وہ خوش بھی تھے اور خیران بھی۔۔۔۔۔

 اشرف صاحب اور ریاست شاہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کے ریاست شاہ ہی آگے بڑھ کرر اشرف صاحب کے گلے لگ گیا اور اتنے سالوں کے گیلے اور فاصلے مٹانے لگے ۔۔۔گلے ملنے کے بعد دونوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس خاموشی کو زارا کی آواز نے توڑا۔

بھائی صاحب آپ۔۔۔۔۔؟؟

 اپنے بابا اور ماما کو  ایسے خیران اور رُوے ہوئے دیکھا کر وہ تینوں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔ جب انہیں اشرف صاحب کی آواز آئی۔

 بچوں کو محاطب کیا۔

 ان سے ملو یہ تمہارے انکل شاہ ہیں میرے بچپن کے دوست وہ تینوں اُن سے مل کر بہت حوش ہوئے

 اور ان سے باتیں کرنے لگے زارا اُن دونوں سے۔

 تم دونوں جاؤ اور کھانے کی تیاری کرو۔۔۔۔

 نہیں نہیں اس دفعہ نہیں کھانا ہم اگلی دفعہ ضرور کھا کے جائے گے اس دفعہ ہمارے آنے کا ایک خاص مقصد ہے۔۔۔

ہم اپنی امانت مانگنے آئے ہیں ۔۔۔۔یہ بات سنتے ہی

 زارا نے بچوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا انوشے اور حارث چپ چاپ باہر چلے گئے جبکہ پریشے کو زارا باقاعدہ گُھوری سے نوازنا پڑھا تب جا کے وہ روم سے گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ کے جانے کے بعد دونوں پریشان بھی تھے کیونکہ کے اُنہوں نے اپنی امانت انتنی جلد مانگی تھی اور وہ امانت کوئی اور نہیں انوشے تھی۔

 جس کا نکاح اُس کے بچپن میں ہی ازلان شاہ سے ہو چکا تھا پر ایک حادثے نے ان سب کے درمیان سب بدل کے رکھا دیا تھا۔

اور اب دوبارہ اتنے سالوں بعد سب ٹھیک ہونے جا رہا تھا۔

پر جسے سب ٹھیک سمجھ رہے تھے کیا وہ سچ میں ٹھیک ہونے جا رہا ہے یا کسی کی زندگی اور معصومیت انتقام کی آگ میں جلنے والی تھی ۔

زارا کے لیے اب سب سے مشکل مرحلہ انوشے کو سب بتانا تھا کیونکہ شادی اسی مہینے تھی۔

انوشے اپنے بستر پر لیٹی اپنی ماما کی باتوں کو سوچ رہی تھی ۔

زارا نے اُسے ریاست شاہ کے آنے کی وجہ بتا دی تھی اور اُسے  اسکے نکاح کے بارے میں بھی بتا دیا تھا۔۔۔

انوشے اتنی جلدی رخصتی کے حق میں نہیں تھی پر اپنی ماں اور باپ کی خوشی کی خاطر ہاں کر دی تھی اور اپنے آنے والی زندگی کو سوچ کر پریشان بھی تھی۔

کیونکہ آنے والی زندگی کیا موڑ لے کر آئے گی کوئی نہیں جانتا تھا۔

 اسی سوچ میں گم وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گئ۔

❤️❤️❤️❤️

شادی کی  تیاریوں میں دن پر لگا کے گزرے گئے تھے۔۔۔۔۔ پریشے اور خارث بہت خوش تھے کیونکہ اُنکے گھر کی پہلی شادی تھی ۔

آج مہندی کا دن تھا سب بہت خوش تھے  مہندی دونوں گھروں میں علیحدہ علیحدہ رکھی گئی تھی 

انوشے سبز کام والی والٹ شرٹ اور پیلے لہنگے اور کانوں میں پھولوں کا زیور ڈالے چہرے پر بلا کی معصومیت لیے نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ۔

اور پریشے نارنجی رنگ کے شرارے میں کو اپسرا لگ رہی تھی ۔

زارا بیگم کمرے میں داخل ہوئے تو دونوں کو دیکھ کر دونوں کی بلائے لے ڈالی اور دل میں اُن کے اچھے مستقبل کی دُعائیں کرنے لگی۔

بیٹا تم دونوں تیار ہوگی ہو تو جلدی سے نیچے آیا جاؤ تک رسمیں شروع کی جائے۔۔۔۔

 ماما بس ٹو منٹ ۔۔۔۔۔۔۔پریشے نے انوشے کو گجرے پہناتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا اور پھر زارا بیگم انہوں جلدی آنے کا بول کے خود نیچے تیاریاں دیکھنے چلی گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

شاہ ہاؤس کو دلہن کی طرح سجیا گیا تھا آخر اس گھر کے سب سے بڑے بیٹے کی شادی ہے ہر طرف لائٹنگ اور رنگ برنگے پھولوں سے گھر کے کونے کونے کو سجیا گیا تھا۔

 شہرام تو پھولے نہیں سما رہا تھا آخر اُس کے سب سے پیارے بھائی کی شادی ہے۔۔۔۔ اور بلیک شلوار قمیض پہنیں سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور چہرے پر مسکراہٹ لیے ہر کام میں پیش پیش تھا۔

اور ازلان شاہ سفید رنگ کی شلوار قمیض اور کندھوں پر بلیک شال اور چہرے پر چٹانوں سی سختی آنکھوں میں ماضی کی کرچیاں

لیے ہال میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔شہرام نے آگے بڑھ کر اپنے بھائی کے گلے لگا۔

شکر ہے بھائی آپ کے بعد میری باری آئےگی ۔۔۔۔۔۔۔چہرے پر شرارت لیے ازلان کے کان میں بولتا ہے اور دونوں کا قہقہہ  ایک ساتھ پورے ہال میں گونجتا ہے اور ریاست شاہ انہوں کو دیکھتے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کی دائمی  خوشیوں کی دعا کرتے ہیں

پر قسمت کے کھیل سے انجان ہیں کے ان کے خود کے بیٹے اپنی خوشیوں کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے روند دے گئے۔

❤️❤️❤️❤️❤️

دونوں گھروں میں مہندی کی رسم بہت اچھے سے انجام پا گی تھی۔۔۔۔ پریشے تو کب کی تھک کے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی پر انوشے کی سوچ کا مرکز اب بھی ازلان شاہ تھا۔

ماضی۔۔۔۔

میں تمہیں کبھی معاف نہیں کراؤں گا۔۔۔ انوشے تم نے مجھ سے میری ماں چھن لی اس کا بدلہ میں تم سے ضرور لو گا ۔۔۔۔۔آنکھوں میں غصہ ایسے جسے ساری دنیا کو تباہ کر دے گا ۔

پلیز ازلان اس س  س میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ رونے کی وجہ سے انوشے کی آواز نہیں تھی نکل رہی تھی ۔

انوشے میں تو ازلان کی جان بستی تھی 

پر ایک غلطی جو شاید حادثہ تھی دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا کر گی۔

حال۔۔۔۔۔

سب کو لگتا ہے میں یہ بھول گئ ہوں پر ایک بھی ایسی بات نہیں جو میرے دل نے بلائی ہو۔۔۔۔۔۔

 ازلان شاہ تمہاری بے رُہی نفرت میں کسے بھول سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ انوشے خیالوں میں ازلان سے محاطب تھی ۔

میں خود کو ہر چیز کے لیے تیار رکھوں گی۔۔۔۔۔۔ اور ایک آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا تمہیں میری نفرت برداشت کرنی ہوگی۔۔۔۔۔ جس کی تم جان تھی وہ ازلان شاہ اُسی دن مر گئے تھا جس دن اسکی ماں مری تھی۔۔۔

اب صرف ایک بیٹا زندہ ہے جس کی ماں تمھاری وجہ سے اُسے چھوڑ کے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔.

چہرے پر زہریلی ہنسی اور آنکھوں میں نفرت لیے خیالوں میں انوشے سے محاطب تھا۔

آنے والی صبح دونوں کے لئے نئی مشکلات لے کے آنے والی تھی۔

ازلان نہیں جانتا تھا کہ ایک اپنی آنا کے آگے وہ کسی کی زندگی اور محبت کو روندنے والا ہے ۔

❤️❤️❤️❤️

انوشے اُٹھا بھی جاؤ ماما کب سے ہمارا ویٹ کر رہی ہیں پالر بھی جانا ہے ۔

پریشے اک دم سے آنکھیں کھول لیتی آج اسکا اس گھر میں آخری دن تھا یہ سوچ کر اُداس ہو جاتی ہے اور پریشے کے گلے لگ کر رونے لگتی ہے دونوں بہنیں ایک دوسرے سے مل کر رونے لگتی ہے 

۔۔۔۔۔

زارا جو کب سے ان کا انتظار کر کے اب خود ہی انہیں لینے آتی ہے انہیں روتا دیکھ کر دونوں کو خود میں بیچھ لیتی ہے ۔

بس بس بہت ہو گیا چلو شاباش دونوں نیچے تم دونوں کو روتا دیکھ کر تمھارے بابا بھی پریشان ہو جائے گے ۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں الگ کرتے ہوں بولتی ہیں ۔

ماما آپ دونوں چلے میں بس فریش ہو کے آئی انوشے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے کپڑے لیے واشروم میں چلی جاتی ہے۔ 

❤️❤️❤️❤️

پنجرے میں قید وہ سبز آنکھوں والی پری ۔۔۔۔۔۔

تم مجھے قید نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔

تم میری ہو صرف میری اور میری ہی قید میں رہو گی ۔۔۔۔۔۔کوئی بھی تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا تم صرف میری پری ہو صرف میری شہرام شاہ کی پری ۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کی آنکھوں میں جنونیت تھی اپنے جنون میں وہ یہ بھول چکا تھا کے محبت کو قید نہیں کیا جاتا محبت تو وہ پھول ہیں جسے آزاد ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔

قید میں محبت مر جاتی جسے پھول مُرجا جاتے ہیں ہوا پانی کے بغیر ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شہرام کی آنکھ اس خواب کے ٹوٹنے سے کھول گئی وہ عجیب قسم کے خوابوں سے پریشان ہو گیا تھا۔

 پہلے وہ سبز آنکھوں والی لڑکی اور اب وہ اسکی قید میں تھی وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

کچھ نہ سمجھ آنے پر اُکتا کر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔ کیونکہ آج شادی کا دن تھا اور ابھی اُسے تیاریاں بھی کروانی تھی۔

❤️❤️❤️

سب لوگ ہال میں موجود تھے بس بارات آنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔

انوشے ڈیپ ریڈ رنگ لہنگے میں دلہن بنی کو اپسرا لگا رہی تھی کسی کے بھی ہوش اَڑانے کی سکت رکھتی تھی۔

آپی آج تو ازلان بھائی کی خیر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریشے آنکھوں میں شرارت لیے انوشے کو تنگ کر رہی تھی

پریشے کی بات کا مطلب سمجھ کر انوشے انار کی طرح سرخ ہو گئی تھی۔

آپی آپ بالش کر رہی ہیں وہ ہو سو کیوٹ۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی بارات کے آنے کا شور اُٹھا تو پریشے انوشے کو بتاتی بارات کا استقبال کرنے چلی گئی۔

مجھ گھبراہٹ کیوں ہو رہی ہے جسے کچھ بُرا ہونے والا ہے۔

❤️❤️❤️❤️

پریشےاور اُس کی کزنز بارات کا استقبال پھولوں سے کر رہی تھی انوشے نے آج بلیک میکسی اور ہلکے میکپ کئے اپنے نام کی طرح ایک پری لگ رہی تھی۔

 آج اُس نے اپنی آنکھوں کو آزاد چھوڑا تھا اُن پر لنز نہیں لگائے تھے وہ ہمیشہ اپنی سبز آنکھوں کو چپھا کر رکھتی تھی کیونکہ اس طرح وہ کسی کی نظر میں نہیں آتی تھی۔

پر آج سے یہ ہی آنکھیں اس کی زندگی بدلنے والی تھی۔۔ کس کو اُس کی پری ملنے والی تھی اور

کسی کو عمر بھر کی قید جس میں دونوں جلنے والے تھے۔۔۔۔

 قیدی بھی اور قید کرنے والا بھی ۔۔۔

بیٹا یہ جوس اپنی بہن کو دۓ کر آؤ وہ صبح سے بھوکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ماں کی بات سنتے ہی پریشے بارات کو چھوڑ کر جوس دینے چلی گئی کیونکہ وہ دونوں ہمیشہ چیزوں سے آگے رشتوں کو رکھتی تھیں۔

❤️❤️❤️❤️

وہ بلیک شیروانی میں شہزادہ لگ رہا تھا ہر کوئی اُسے حسرت اور رشک کی نگاہ سے دیکھا رہا تھا

بلیک ہی تھری پیس میں شہرام بھی ہنڈسم لگ رہا تھا۔

 اور کئی لڑکیوں کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔

نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا اسی لیے کھانے کے بعد دلہن کو لے کر آیا گیا۔

انوشے کے ایک طرف خارث اور دوسری طرف پریشے وہ دونوں کے ساتھ چلتی کوئی شہزادی لگ رہی تھی ۔

ازلان کی جب نظر اُٹھی تو جھکنا بھول گئی۔

 انوشے کو اتنے سالوں بعد دیکھنے کے بعد سوئی محبت بعدار ہو رہی تھی۔۔۔۔ پر اس وقت محبت سے زیادہ نفرت کا جذبہ غالب آیا گیا تھا اور وہ محبت پھر کئی سو گئ تھی ۔

شہرام اپنی بھابھی کا استقبال  کرنے کے لیے اُٹھا تو اسکی نظر انوشے سے ہوتی جب پریشے پر گئی تو وہ اپنی جگہ جم گیا ۔

وہ ہی آنکھیں جو اُسے اتنے سالوں سے تنگ کر رہی تھی ۔

انوشے میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ آنکھیں اُٹھا کے ازلان کی طرف دیکھتی۔

پھر باری باری سب رسمیں کی گئی اور قرآن کے سایہ میں رخصت کیا گیا۔

شہرام کی نظر صرف پریشے پر تھی پریشے اس کی نظروں کو بہت مشکل سے برداشت کر رہی تھی ۔

کمینہ ٹھرکی کہی کا اسے گھور رہا ہے جسے ابھی کھا جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوشے سے ملنے کے بعد جس ہی اس کی نظر شہرام کی طرف گئی اس نے اُسے آنکھ ماری اور مسکرا کر اپنی گاڑی میں سوار ہو گئے ۔

پریشے بس منہ کھولے بس اُسے جاتے ہوئے دیکھا رہی تھی ۔

شاہ ھاؤس میں داخل ہوتے ہی انوشے کا استقبال پھولوں کی بارش سے کیا گیا ہر طرف پھول ہی پھول تھے ۔

یہ اب تمہارا گھر ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی اب تمہیں کرنی ہے تم میری بہو نہیں بیٹی ہو اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو تم بس مجھے بتانا اسے ہم خود سیدھا کر لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ انوشے کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے ۔

میری بیٹی کو اس کے کمرے میں چھوڑ آؤ

اور تم مجھ سٹیڈی روم میں ملو ۔۔۔۔۔۔وہ ازلان سے بول کے چلے گئے۔

التماش کی بیوی جس کو وہ اپنی بہن مانتا تھا انوشے کو اُس کے روم میں چھوڑ آئی۔

❤️❤️❤️❤️

سٹیڈی میں داخل ہوتے ہی۔۔۔۔

ازلان میں چاہتا ہوں کہ تم سب باتوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنے آنے والے کل کو دیکھو اُس بچی کو اُس چیز کی سزا مت دینا جو اس نے نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔

وہ صرف ایک حادثہ تھا اور اُسے بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کرؤ۔۔۔

تمہیں میری باتیں سمجھ آیا گی ہوں گی ۔۔۔۔

جی بابا  ۔۔۔۔۔

بے تاثر لہجے کے ساتھ دو لفظی جواب دے کر وہ رُکا نہیں اور کمرے سے چلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

کمرے کی سجاوٹ سرخ گلابوں اور کینڈلز سے کی گئی تھی ہر طرف گلاب کے پھول کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔

وہ اب جہازی سائز بیڈ کے درمیان بیٹھی ازلان کا انتظار کر رہی تھی اور روم کا فرست سے جائزہ لے رہی تھی اور اُس کی پسند کو دات دئیے بنا نہیں رہ پائی تھی۔

جیسے ہی کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ جلدی سے سیدھے ہو کے بیٹھ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

وہ کب سے سگریٹ پھونک رہا تھا ۔

اب سزا کا ٹائم شروع ہوا مس انوشے بہت ہوا سکون ۔۔۔۔۔۔۔

 آخر تھک کر وہ اپنے روم میں داخل ہوا کمرے میں فسوں خیز خاموشی تھی ۔

وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا بیڈ کے قریب آیا۔۔۔ اور غصے سے ہاتھ پکڑ کر کر بیڈ سے کھڑا کیا اور زور سے اُسے ایک تھپڑ رسید کیا۔۔۔۔

 وہ جا کر بیڈ پر گری ۔۔۔۔

 آنکھوں میں آنسو لیے مجھے کس چیز کی سزا دے رہے ہیں آپ اُس حادثے کی۔۔۔۔۔۔۔

چپ بالکل چپ ۔۔۔۔۔۔۔ازلان اُس پر دھاڑا اُس کی دھاڑ سے وہ سہم گئی۔

 تمہیں اُس کی سزا ملے گی اور تم تڑپو گی ۔۔۔۔۔۔جسے میں تڑپا ہوں ہر پل ۔۔۔۔۔۔۔۔انوشے کو اس کی لال ہوتی آنکھوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا ۔

پلیز ایک دفعہ میری بات تو سنے ۔۔۔۔۔۔ 

شٹ آپ جسٹ شٹ آپ اب ایک اور لفظ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

ازلان اُسے سیدھا کرتا ہے اور اس پر جھکتا چلا جاتا ہے ۔

نہیں پلیز نہیں کریں ایسا ۔۔۔۔۔۔

انوشے کی  چیخوں اور سسکیوں کی آواز پورے کمرے  میں گونج رہی تھی ۔

ازلان نے سفاکی کی حد کر دی تھی آہستہ آہستہ اُس نے شرم کا ہر پردہ گرا دیا تھا انوشے   سسکنے کے علاوہ کچھ نہ کر پائی ۔

اور آخر  اُس کی مزاہمت دم توڑ گئی اور ازلان نے اپنا سارا زہر انوشے میں منتقل کر دیا اور اُسے اُس کی اوقات بتائی۔

 اور وہ روتی ہوئی کب ہوش ہوس سے بیگانہ ہوئی پتا ہی نہ چالا اور دوسری طرف ازلان  سکون سے سو گیا یہ جانے بغیر کے وہ انوشے کے وجود کے ساتھ روح کو بھی زخمی کر گیا ہے ۔

کبھی کبھی زندہ ہونے کے باوجود "

"ہمارے اندر زندگی ختم ہو جاتی ہے 

❤️❤️❤️❤️

شہرام بستر پر لیٹا کب سے پریشے کی یادؤں میں گم تھا۔

آخر تم مجھے مل ہی گئی اب تمہیں میرا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا بہت جلد تم میرے پاس میری باہوں میں ہو گی ۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں محبت اور جنون لیے ایک عزم سے بولا تھا اور پیاری سی مسکراہٹ نے اسکا احاطہ کر لیا تھا اور اسی سوچ میں وہ نیند کی وادی میں اُتر چکا تھا ۔

میری ہر خوشی ہے تو "

"میری زندگی ہے تو 

❤️❤️❤️❤️

پریشے جو سکون سے خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ 

اور دور کہیں قسمت اسکے لئے کیا فصیلہ لے رہی ہے ۔۔۔۔جو اس کی زندگی میں 

سب کچھ بدل کے رکھنے والی تھی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

اگلی صبح۔۔۔

جب ازلان کی آنکھ کھولی تو اپنے ساتھ سوۓ وجود پر نظر پڑی جس کے چہرے پر آنسو کے مرے مٹے نشان تھے ساتھ ہی اسکی نظر ا سکی گردن پر پڑی جس پر پڑہے نشان اس کی سفاکیت اور حوانیت کی گواہی دے رہے تھے۔

اک پل کو اُسے شرمندگی محسوس ہوئی پر شرمندگی پر نفرت غالب  آ گی۔

وہ پھر سے اس پر جھک اپنی جنونیت کا اظہار کرنے لگا اتنے جنونی اندز پر انوشے ہربڑا کر اُٹھا گئی۔

اسنے اپنے اوپر سے دھکا دینے کی کوشش کی پر ازلان نے اُسکی کوشش ناکام کر دی اور اپنے عمل میں اور بھی شدت لے آیا ۔

جب اُسے لگا کے اُس کی سانسیں بند ہو جائے گی تب وہ پیچھے ہوا۔

آئندہ اگر مجھے روکنے کی کوشش کی تو نقصان تمہارا ہی ہو گا۔

وہ اسکا منہ پکڑ کر زور سے غرایا۔

اور ہاں اگر ہمارے کمرے کی ایک بھی بات باہر نکلی تو اس گھر میں وہ تمہارا آخری دن ہو گا۔۔ ۔۔۔۔۔

جاؤ جلدی فریش ہو کر آؤنیچے سب ہمارا انتظار کر رہے ہو گئے۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں آنسو لئے بھاگ کر جلدی واش روم میں بند ہو گئی اور تنہائی ملتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

پریشے اور حارث انوشے کا ناشتہ لے کر آئے تھے۔

لو وہ آگے دونوں۔۔۔۔۔۔ ریاست شاہ نے جب دیکھا ازلان انوشے کا ہاتھ پکڑے نیچے آ رہا ہے تو  وہ بولے ۔

اُن دونوں کو دیکھ کر سب نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا ۔

وہ اپنے دونوں بہن اور بھائی کے گلے لگ گئی اور  مسکرا کر دونوں کو پیار کیا ۔

پھر مل کر سب نے ناشتہ کیا۔۔۔۔ شہرام کی نظر پریشے پر ہٹنے سے انکاری تھی ۔

پریشے کو اپنے اوپر جب کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو اُس نے اپنے سر اوپر اُٹھا کر دیکھا تو شہرام کو اپنی طرف دیکھتے پایا دونوں کی نظریں آپس میں ملی۔

تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اٌسے مسکراتے دیکھ کر پریشے نے اُسے غصے سے گھوری دی 

اس کے اس طرح کرنے سے شہرام کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہوئی ۔

مجبورن وہ ہی اپنی نظریں نیچے  کر گئی ۔

ٹھرکی کہی کا کیسے گھور رہا ہے جسے کھا ہی جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔پریشے منہ میں بڑبڑائی اور ناشتہ کرنے لگی اور پھر دوبارہ اُس نے بھول کر بھی نظر نہیں اُٹھائی ۔

ناشتہ کرنے کے بعد وہ سب کو اللہ حافظ بول کر چلے گئے ۔

❤️❤️❤️❤️

مجھے اس کی نظروں سے خوف کیوں آرہا ہے ۔

جسے وہ سب چھین لے گئ مجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر وہ کب سے بیٹھی شہرام کے بارے میں سوچ رہی تھی اُس کی نظریں اُسے کب سے ڈسٹڑب کر رہی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

کیا سوچ کر اتنا مسکرایا جا رہا ہے 

ازلان نے شہرام کو اکیلے اکیلے مسکراتے دیکھا کر کہا ۔

نہ.... نہ... نہیں بھائی وہ تو بس ویسے ہی دوست کی بات یاد آگئی۔۔۔۔. 

ہمیں بھی تو پتہ چلے کونسی ایسی بات ہے جس پر میرا بھائی اتنا مسکرا رہا ہے۔۔۔۔۔

ھاھاھا بھائی مجھے چھوڑئے آپ اپنی سُنائے کسی لگیں بھابھی آپ کو۔۔۔۔. 

دونوں مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔

❤️❤️❤️❤️

وہ خود کو آئینہ میں دیکھ رہی تھی گولڈن کلرکی میکسی پر ہلکے میکاپ کے ساتھ کسی پری سے کم نہیں لگا رہی تھی کوئی اُسے ایک دفعہ دیکھے تو نظر جھکانا بھول جائے ۔

ازلان جب روم میں انٹر ہو انوشے کو دیکھ کر ساری دنیا کو بھول گیا یہ بھی کے وہ یہاں اُسے لینے آیا تھا ۔۔۔۔وہ  ٹرانس میں چلتا ہوا انوشے کے پاس آئے اور جھک کر اُسے اپنی طرف کھینچا ۔

وہ جو اپنے خیالوں میں گم تھی ازلان کے کھینچنے سے کٹی ہوئی ڈال کی طرح اسکے سینے سے آکر لگی۔

کس کی سوچوں میں گم تھی جو میرے آنے کی خبر بھی نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ازلان نے اپنے دانتوں سے اسکی کان کی لو کو کاٹتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کی  اس کے اس عمل سے اسکی جان لبوں پر آ گئی اور اسے کچھ بولنے کا موقع دیئے بغیر وہ اسکے لبوں  پر جھکا اور اپنی سانسوں کو اسکی سانسوں میں منتقل کرنے لگا 

انوشے اسے پرے دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔

 پر اسکے عمل میں اور بھی زیادہ شدت آرہی تھی جب اسے لگا اب وہ سانس نہیں لے پائے گئی اسنے اسے چھوڑا۔۔۔۔

وہ اس کے اس عمل سے اندر تک کانپ گئ تھی اور اسے اپنے ہونٹوں پہ جلن محسوس ہو رہی تھی ۔

مجھ اگنور کرنے کی سزا ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے انوشے کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ باہر لے گیا ۔

انوشے اور ازلان جب ہال میں انٹڑ ہوئے تو ہر طرف سے شور اور ہوٹنگ کی آوازیں آنے لگیں 

ہلکے موزیک کے ساتھ دونوں کی ہال میں انٹڑی ہوئی۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے سفید کلر کے فراک اور ڑیڈ کلر کے ڈوپٹہ میں  اپنے نام کی طرح پری لگا رہی تھی ۔

شہرام کی نظر جب اسے پر پڑی تو وہ ہر چیز کو بھول گیا وہ پوری طرح اسکے خواب کا حصہ لگا رہی تھی۔ جیسے اس کے خواب سے ابھی باہر نکلی ہو۔

میری پری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے ساختہ اسکے منہ سے یہ الفاظ نکلے اور وہ   سر جھٹک کر مسکرا دیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انوشے کو سٹیج پر بیٹھا کر سب سے مل کر وہ نیچے اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا پر نظر اسکی انوشے پر ہی تھی جو سب سے مسکرا مسکرا کر مل رہی تھی پر مسکراہٹ اسکی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔

پریشے کا  فون  رنگ ہوا تو وہ اپنی کال سننے کسی خاموش سائیڈ پر گئی۔

شہرام جو کب سے موقعے کی تلاش میں تھا اس کے پیچھے ہولیا۔

وہ جو اپنی دھن میں واپسی آرہی تھی سنبھالنے کا موقع دیئے بغیر اس نے اسے اپنی طرف کھینچ کر دیوار سے لگا دیا ۔

اس سے پہلے کے وہ چخیتی اس نے  ہاتھ رکھ کر اسکا منہ بند کر دیا ۔

شششش ششش آواز نہیں ۔۔۔۔۔

مائی گرین بیوٹی ۔۔۔۔۔۔۔

پریشے آنکھوں میں خوف لیے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

چھوڑئے مجھے کیا بیہودگی ہے یہ آپ چاہیتے کیا ہے مجھ کیوں ٹیز کر رہے ہیں ۔۔۔؟ ؟غصے سے بول رہی تھی ۔

پر شہرام کا دھیان اسکے لفظوں پر نہیں اس کے ہونٹوں پر تھا ۔

وہ بے خودی میں اس پر جھکنے لگا ۔۔۔۔۔۔

وہ بے خودی میں یہ تک بھول گئے تھا کے اسکا یہ عمل پریشے پر کیا اثر کرئے گا۔

اس سے پہلے کے وہ کچھ غلط کرتا پریشے کا ہاتھ اُٹھا اور شہرام کے رخصار پر نشان چھوڑ گیا اور عمل کے بعد وہ روکی نہیں روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے شہرام اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر دھنگ رہ گیا غصے سے اسکی آنکھے لال ہو گئی۔۔۔۔۔

 اب تمہیں میرا ہونا ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔غصے سے مکا دیوار پر مارا اور ہال میں واپس چلا گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️ 

پریشے طبیعت خرابی کا بول کر ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی گئی ۔۔۔

وہ سارے راستے آنسو بہاتے ہوئے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔

آتےہی بیڈ پر گر کر روتی رہی روتے روتے۔

 شہرام تم میری سوچ سے بھی گرئے ہوئے نکلے میں تمہاری شکل نہ دیکھوں ساری زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور روتے ہوئے کب سو گئی اسے معلوم نہ ہوا

پر ضروری نہیں جو ہم چاہے وہ ہی ہو ۔

انوشے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ آ گئی تھی جب چینج کر کے باہر آئی تو زارا اسکا انتظار کر رہی تھی۔

ماما ابھی تک سوئی نہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انوشے  مسکراتے ہوئے بولی ۔

نہیں آج میں اپنی بیٹی سے باتیں کرنے آئی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے اسے اپنے گلے لگا لیا۔

میری بیٹی خوش ہو نہ آپ۔۔۔۔۔۔۔

جی ماما میں خوش ہوں آپ پلیز ٹینشن نہ لیں وہاں سب بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔ اور از ازلان بھی بہت اچھے ہیں بہت ٹائم ہو گیا ہے آپ آرام کریں جا کر صبح باتیں کریں گے۔۔۔۔۔

اوکے میری جان  آپ بھی آرام کرؤ اب۔۔۔۔۔ اور وہ اسے پیار کر کے چلی گئی۔

ایک آنسو انوشے کی آنکھوں سے نکل آیا۔

نہیں ہوں میں کمزور کسی کو محسوس نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔ روتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام نے ساری رات سگریٹ پیتے گزر دی بار با پریشے کا روتا ہوا چہرہ سامنے آ جاتا۔

تم بہت جلد آو گئی میرے پاس اور پھر کبھی نہیں جانے دوں گا کئی کچھ تو کرنا پڑے گا اور وہ بھی بہت جلد۔۔۔۔۔۔۔ زخمی سی مسکراہٹ لیے خود سے بولا ۔

اور آخر وہ بلکنی میں ہی بیٹھے بیٹھے سو گیا۔

❤️❤️❤️

رسم کے مطابق ازلان کو بھی انوشے کے گھر جانا تھا پر ازلان نے ضروری کام کا بول کر انکار کر دیا 

اور صبح آنے کا بولا ۔

مجھے اسے تکلیف پہنچانے کے بعد بھی مجھے سکون کیوں نہیں آ رہا جب جب میں اسے تکلیف پہنچاتا ہوں مجھے اپنا سکون جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔

مجھے کیوں تکلیف ہوتی ہے اس کے آنسوؤں سے کیوں ۔۔۔۔۔۔

ساری رات سوچتے ہوئے گزر دیا ۔

جب بھی اس کی روتی ہوئی آنکھیں سامنے آتی وہ بے چین ہو جاتا ۔

پر پھر  نفرت کا خول خود پر چڑھا لیا۔

❤️❤️❤️❤️ 

انوشے پریشے کو اُٹھانے آئی تو اسے کل والے کپڑوں میں دیکھا کر۔

اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ وہ خود سے ہی باتیں کرتے ہوئے پریشے کے سر پر پیار کرتے ہوئے اسے اُٹھانے لگی۔

 اُٹھ جاؤ میری جان پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں سب ۔۔۔۔۔پریشے اک دم اُٹھ کر بیٹھ گئی۔

 آپ کب آئیں۔۔۔؟ ؟وہ اسے پیار کرتے ہوئے بولی ۔

میں تب آئی جب آپ مزئے سے سو رہی تھی تم سو رہی تھی اسی لئے ماما کو منا کر دیا تھا تمہیں اُٹھانے سے چلو فریش ہو جاؤ پھر سب مل کر ناشتہ کریں ۔۔۔۔

اور دونوں فریش ہو کر نیچے چلی گئی جہاں سب بیٹھے تھے پھر سب نے مل کر ناشتہ کیا ۔

❤️❤️❤️❤️

بیل کی آواز پر اشرف صاحب حارث سے بیٹا دیکھو کون ہے باہر ۔۔۔؟؟

ازلان آکر اشرف صاحب سے مل کر بیٹھو بیٹا حارث جاو انوشے کو بلا کر لے آو۔۔۔

انوشے کے آنے کے بعد ازلان کے نہ نہ کرنے کے باوجود زارا نے اسے کھانا کھائے بنا جانے نہ دیا 

کھانا کھانے کے بعد ازلان انوشے کو ساتھ لے کر گھر کے لیے نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

کسے ہو سکتا ہے یہ کسے کر سکتے ہیں بھائی صاحب ہماری بیٹی کو چھوڑ کر اس سے نکاح کیسے کروایا ۔

پر میرا نام بھی شاہین ہے ۔۔

کبھی بھی نہیں بن سکتی وہ اس گھر کی بہو میری بیٹی ہی ہو گی اس گھر کی بہو دیکھتی ہوں میں 

اب مرنا ہو گا تمہیں ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

گاڑی میں خاموشی کا راج تھا دونوں نے ایک دوسرے کو محاطب نہیں کیا ۔

انوشے گاڑی کے باہر دیکھ رہی تھی جسے اس سے ضروری کوئی کام نہیں ہو ازلان کی نظر بار بار انوشے کا طواف کر رہی تھی انوشے خود پر اس کی نظر محسوس کر رہی تھی پر اس کی نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اسکی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔

اچانک ازلان نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنے ساتھ لگائے ہوئے ۔

تم مجھ ازلان شاہ کو نظر انداز کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہاتھ گاڑی کی سٹرینگ پر اور دوسرے سے انوشے کی کمر سے پکڑے خود سے قریب کئے ہوئے سوال پوچھا ۔

انوشے اسے حیران ہوئے دیکھنے لگی ۔

اس سے پہلے کے انوشے کوئی جواب دیتی ازلان نے گاڑی ایک جھٹکے سے روکی اور اس پر جھک کر اس کی  سانسوں کو بند کر گیا ۔

 جب اسے لگا انوشے سانس نہیں لے رہی  

انوشے اس کی اس شدت کو برداشت نہ کرپائی تھی اور ہوش کھو دئے تھے۔ 

❤️❤️❤️❤️

گاڑی گھر آ کر روکی تو ازلان اسے بانہوں میں اُٹھائے روم میں لے گیا اور آرام سے بیڈ پر لیٹا اور اس پر کمفرٹ دے کر خود سگریٹ لے کر بلکنی میں آگیا۔

 سگریٹ جَلا کر ڈاکٹر کی باتوں کو سوچنے لگا ۔

مسٹر ازلان شاہ یہ شاید سٹریس کی وجہ سے بہوش ہو گئی تھی آپ کو ان کی کیر کرنی ہو گئی ورنہ ان کی صحت کے مطابق آپ کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

آہستہ آہستہ روم میں داخل ہو کر انوشے کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا ۔

کاش تمہاری وجہ سے وہ سب نہ ہوتا تو آج تم میری محبت دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھا دئے تھے اور پھر اپنی سائیڈ پر آکر سو گیا۔

بہت کھٹن ہے" 

"راستے حیات کے 

❤️❤️❤️❤️❤️

شہرام نے کسی طرح بھی کر کے پریشے کا نمبر حاصل کر لیا اور اسے کال کرنے لگا۔

پریشے جو نیند کے مزے لے رہی تھی آواز کو سنا آن سنا کرتی سوئی رہی پر دوسری طرف بھی شہرام شاہ تھا ۔

آخر تنگ آکر پریشے نے بےزاری سے کال اُٹھ کر بولی۔

 ہیلو کسے اتنی رات کو تکلیف پڑ گئی میری ساری نیند ہی خراب کر دی۔۔۔۔۔. وہ ابھی بھی نیند کی حالت میں بول رہی تھی ۔

اس کی باتوں سے شہرام کو تھوڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ رات کافی ہو چکی تھی پر پھر شہرام حوصلہ کر کے بولا ۔

میں شہرام بول رہا ہوں کیا میں آپ سے بات کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔؟؟

شہرام کا نام سن کر اسکی نیند اک دم اُڑ گئی اور وہ غصے سے بولی۔

 تم تمہاری ہمت بھی کسے ہوئی مجھے فون کرنے کی تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ کمینے نکلے خبر دار جو۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ بول رہی تھی کے شہرام غصے سے اس کی بات کاٹ کر بولا ۔

اپنی زبان سنبھال کر بولے مس پریشے یہ نہ ہو آپ کو بعد میں پچھتانا پڑھے۔۔۔۔۔۔

وَہ ہو ہو پچھتاتا کون ہے۔۔۔۔ وہ تو دیکھ لے گئے  ہن بڑے آئے۔۔۔۔ یہ بول کر ساتھ ہی کہٹ کر کال بند کر دی ۔

مجھے دھمکی دے رہا تھا پریشے کو ڈرتی ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اس سے غصے سے بول کر پھر سے سو گئی ۔

پر دوسری طرف وہ خود کے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا پر پھر بھی نہ کر سکھا۔۔۔۔

اور غصے سے فون اُٹھا کر دیوار پر مارا ۔۔۔۔

پریشے پریشے کیوں چاہتی ہو میں وہ کرؤں جو تم برداشت نہ کر سکو۔۔۔۔۔۔

غصے اور ضبط سے اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

زارا اور فاطمہ دونوں دوستیں تھی وہ ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی زارا تھوڑی سنجیدہ طبیعت اور اپنے آپ میں میں رہنے والی لڑکی تھی۔۔۔

 جب کہ اس کے بر عکس فاطمہ شرارتی اور ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرنے والی 

پر پھر بھی دونوں میں دوستی ایسے تھی جسے ایک دوسرے کے بنا رہنا مشکل ۔۔۔

فاطمہ تو یہ تک بولا دیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے رشتے بھی آپس میں کریں گی ۔

اس کی باتوں سے زارا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتی۔

ساری رات غصے اور پریشانی کی وجہ وہ ازترب میں رہا تھا پر اس نے آج سوچا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کر کے پریشے سے روبرو بات کرئے گا۔

جب اس نے اپنی خالت آئینہ میں دیکھی تو زخمی سا مسکرا دیا بکھیرے بال اور آنکھیں لال انگارا لگ رہی تھی۔

محبت انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔وہ اپنی حالت دیکھ کر رہا گیا اور فریش ہونے کے لیے چلا گیا۔

........تیرے بغیر سب ہوتا ہے

....بس گزارہ نہیں ہوتا

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔

شاہین جلے پیر کی بلی کی طرح تھی اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ کچھ کر جائے ۔

پہلے ماں نے میرا حق کھایا۔۔۔ اور اب بیٹی میری بیٹی کا حق کھا گئی پر میں اسے ہونے نہیں دؤں گئی ۔

وہ اسے خود سے بولتی کوئی جنونی عورت ہی لگ رہی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️

اذان کی آواز سے انوشے کی آنکھ کھولی تو وہ اُٹھ وضو کر کے آکر نماز پڑھنے لگئی نماز پڑھ کر جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے آنسو خود بخود اس کی آنکھوں سے نکل آئے اور وہ روتے ہوئے اپنے رب سے دعا مانگنے لگی ۔

دعا مانگ کر اُٹھی اور ازلان کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے محسوس کرنے لگی ۔

دعائیں پڑھ کر اس پر پھونکی اور ماتھے پر پیار کیا 

یہ عمل کرتے اسکا ایک آنسو ازلان کی رخسار پہ گر گیا ۔

کچھ دیر ایسے ہی اسے دیکھتی رہی اور پھر اُٹھ کر روم سے باہر نکل گئی تاکہ سب کے لیے ناشتےکا انتظام کر سکھے۔

ازلان جو کب سے اُٹھ گیا تھا انوشے کے ہر عمل کو محسوس کر رہا تھا اب اس کے باہر جانے سے آنکھیں کھولے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اس کے آنسو کو چھو کر دیکھ رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

آج سب کے لیے انوشے نے ناشتا تیار کیا تھا اب سب بیٹھے ناشتہ کرنے میں مگن تھے ۔

بھابھی آج تو ناشتہ کرنے میں مزا آگیا ۔۔۔۔۔شہرام خوش ہوتے ہوئے انوشے سے بولا۔

آج میری بیٹی نے جو بنایا ہے مزا تو آنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ریاست شاہ نے بھی شہرام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔

انوشے مسکراتے ہوئے سب کی تعریف معصول کر رہی تھی پر جس کی تعریف کا انتظار تھا وہ منہ نیچے کئے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا ۔

اچھا بابا میں آفس کے لیے نکلتا ہوں، ۔۔۔۔۔۔۔اور ہاتھ صاف کیا باہر کے لیے نکل گیا۔

بیٹا جاؤ آپ ازلان کو باہر تک چھوڑ کر آو ۔۔۔۔۔ریاست شاہ انوشے سے محاطب ہوئے ۔

انوشے سر ہلاتی دھمی چل چلتی ازلان کے پیچھے گی۔

وہ سر نیچے کیا چل رہی تھی کہ ازلان کے پیچھے مڑنے سےاسے دیکھا نہ سکھی اور اس س ٹکرا گئی اس سے پہلے کے وہ پیچھے ہوتی وہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنے قریب کر چکا تھا ۔

جی میرے پیچھے کیوں آئی کوئی کام تھا ازلان چہرے پر سنجیدگی لیے ایک آئی برُو اُٹھے بولا

و و وہ بابا نے بولا آپ پ کو سی آف کر دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازلان کو اتنے قریب دیکھا کر اس کی بولتی بند ہو گئی تھی ہکلاتے ہوئے بولی۔

ہاں تو کرو سی آف وہ اس کے سامنے کھڑا اپنی ہنسی کو کنٹرول کر رہا تھا ۔

وہ بہت کنفیوز ہو رہی تھی سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو اسکی نظروں میں دیکھا نہ سکی اور منہ نیچے کر لیا اور اپنے لب کاٹنے لگئی۔

ازلان نے اسے اور اپنے نزدیک کر لیا کے ایک انچ کے بھی فاصلہ کو مٹا دیا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھا دئیے اور اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا ۔

پیچھے انوشے حیرت اور خوشی کے احساس سے اس کے لمس کو چھو کر محسوس کرنے لگائی ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی۔۔۔۔۔

ریاست اور اشرف بھی اسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کا لاسٹ سمسٹر تھا اور اسی یونیورسٹی میں ریاست کے چچا کی بیٹی شاہین بھی پڑھتی تھی جو اشرف کو پسند کرتی تھی شاہین ایک جنونی اور خود سر لڑکی تھی ۔

اشرف ایک درمیانے طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور ایک شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے تھا اور ریاست شاہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے دونوں میں خوب دوستی تھی۔

اشرف صاحب کی منگنی زارا سے ہو چکی تھی وہ اسکی خالہ کی بیٹی تھی اور اشرف اسے پسند کرتے تھے اور زارا بھی مگر زارا نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔

زارا اور فاطمہ کا فری لیکچر تھا وہ گراونڈ میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ریاست زبردستی اشرف کو کھینچ کر انکی طرف لے آیا ۔

اسلام وعلیکم بھابھی ۔۔۔۔۔۔۔زور سے بولا سلام زارا کو کر رہا تھا پر دیکھا فاطمہ کی طرف تھا اشرف تو صرف بہانا تھا وہ دیکھنے فاطمہ کو ہی جاتا تھا ۔

چارو ایک دوسرے کی فیلنگز سے واقف تھے ۔

فاطمہ کو اسکی آنکھوں سے الجھن ہو رہی تھی وہ واقف تھی ریاست شاہ کی فیلنگز سے پر اسے کوئی بھی ہنٹ نہیں دینا چاہتی تھی ۔

ریاست شاہ جانتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے آگے اسی لئے زارا کا حال چال پوچھ کر فاطمہ کی طرف دیکھتا اشرف کو لیے وہاں سے چلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

ریاست شاہ نے اپنا رشتہ فاطمہ کے گھر بھیج کر اپنی محبت کا ثبوت دیا تھا اور جلد ہی ان دونوں کا نکاح ہو گیا اور رخصتی پڑھائی کے بعد تہہ کی گئی ۔

فاطمہ اور زارا دونوں اپنے ہمسفر کو پا کر بہت خوشی تھی اور دوسری طرف جب شاہین کو پتہ چلا اشرف کی منگنی کا تو وہ جنونی ہو گئی وہ ہر طرح سے اسے حاصل کرنا چاہتی تھی پر قسمت اسکا ساتھ نہیں دینے والی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️

حال۔۔۔

 شہرام آج صبح صبحِ پریشے کے کالج کے باہر موجود اس کا انتظار کر رہا تھا آج وہ ہر حال میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اسے اپنے خوابوں کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اس کی آنکھوں میں عشق کا ایک جہاں آباد تھا وہ انتظار میں تھا کہ اسے پریشے وین سے اترتی ملی جو اب شاید بک سٹور کی طرف بڑھ رہی تھی ۔

پریشے جو اپنی بک لینے جا رہی تھی شہرام کے اپنی طرف کھینچے جانے سے اس کے ساتھ جا کر لگئ ابھی وہ سنبھلی بھی نہیں تھی کہ شہرام کی آواز اسکے کانوں میں پڑھی۔

پریشے پلیز لسن ٹو می چلو پلیز میرے ساتھ مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

 فون پر وہ جتنی مرضی بہادر بنتی پر یہاں پریشے شہرام کو دیکھ کر ڈر گئی تھی وہ اس کی پہلی ملاقات نہیں بھولی تھی ۔

اس کی سبز آنکھوں میں اپنے لیے خوف شہرام محسوس کر سکتا تھا اسی لیے وہ اسے اپنے ساتھ لے جا کر اپنی زات کا مان دینا چاہتا تھا پر اس سے پہلے کے وہ اسے لے کر جاتا پریشے جلدی سے اپنا ہاتھ چھوڑ کر بھاگ گئی۔

اس کے اس عمل سے شہرام غصے سے آندھی طوفان بنا گاڑی لے کر وہاں سے نکال گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے جب بھاگتے ہوئے کالج داخل ہوئی تو اس کی سانس پھول گئی آنکھوں میں خوف تھا وہ پوری طرح سے ڈرئی ہوئی تھی کے اسے پیچھے سے کچھ لڑکیوں کی آواز سنائی دی جو پریشے کی ہی بات کر رہی تھی ۔

یار تم نے دیکھا کسی معصوم اور پارسا بنی 

پھرتی ہے یہ آج دیکھا میں نے اسے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی تھی یہ ۔

وہ اور بھی باتیں کر رہی تھی پر یہ باتیں سن کر پریشے کو لگا جیسے وہ ابھی گر جائے گی لاتعداد آنسو اس کی آنکھوں سے گرنے لگے اس نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا اور آج سارا دن سن سی وہی بیٹھی رہی ۔

وہ خود کو بہت مشکل سے  سنبھال کر واپس گھر آئی تھی اور کسے سے ملے بنا ہی جا کر کمرے میں بند ہو گئی اور بیڈ پر گرتے ہی لڑکیوں کی باتیں یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

آئی ہیٹ یو شہرام آئی ریئلی ہیٹ یو روتے ہوئے شہرام سے دل ہی دل میں نفرت کا اظہار کرنے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام آج یونیورسٹی بھی نہیں گیا اور بے مقصد گاڑی روڈ پر دوڑاتا رہا وہ ابھی بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا 

آنکھیں لال انگارا بن گئی تھی اور خیالوں میں پریشے سے محاطب ہوا۔

بہت ہو گیا میری جان اب بات نہیں عمل کا وقت آگیا ہے بہت ڈیل دے دی تم کو میں نے 

اب تم کو عمل سے اپنی محبت کا ثبوت دوگا  مائے گرین بیوٹی۔۔۔۔۔۔۔ اور پراسرا سی مسکراہٹ لیے پریشے سے محاطب تھا۔

شاہ ہاؤس میں رات کو بیٹھے سب ڈنر کر رہے تھے کے ریاست شاہ بولے۔۔۔۔۔

میری کل کی فلائٹ ہے مجھے کام کے سلسلے میں پندرہ دن کے لئے جانا ہے ۔۔۔۔۔ریاست شاہ کھانا کھاتے ہوئے بولے۔

اور تم دونوں۔۔۔۔۔۔ وہ انوشے اور ازلان سے محاطب ہوئے ۔

میں نے ٹکٹ بک کروا دی ہے تمھاری اٹلی کی اور تم دونوں جاؤ گے وہاں پرسوں کی فلائٹ ہے ۔۔۔

ازلان کی کوئی بھی بات سنے بغیر بولے۔

پر بابا آفس۔۔۔۔۔ ازلان ابھی وہ کچھ کہتا وہ اس کی بات کاٹ کر بولے۔

اسکی ٹینشن لینے کے لیے ابھی ہوں میں تم میری بیٹی کو لے کر جا رہے ہو اور اسے کچھ ٹائم دو ہر وقت مصروف رہتے ہو ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں یہ ہی تو دن ہیں گمنے کے۔۔۔۔

دوسری طرف انوشےخاموشی سے اپنے لب کاٹتی دونوں کی باتیں سن رہی تھی اور اندر سے گھبرا بھی رہی تھی سب سے اتنی دور وہ بھی ازلان کے ساتھ ۔

ازلان۔۔۔ اوکے بابا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

انوشے ازلان کی کافی لے کر روم میں آئی تو ازلان بیڈ پر لیٹا سگریٹ پیتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا۔

 انوشے کافی رکھا کر جانے لگی تو ازلان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔۔اور وہ اس پر گر گئی۔

 اس نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے اور بھی قریب کر لیا ۔۔ اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔

انوشے نے جو خیران ہوئے اسے دیکھ رہی تھی اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر آنکھیں نیچے کر لی اور اپنے لب کاٹنے لگی۔

پلیز ززز ازازازلان چھوڑئے مجھے۔۔۔۔کپکپاتے ہوئے بولی۔

ازلان نے بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا ۔

بابا کو تم نے بولا میں تمہیں ٹائم نہیں دیتا ۔۔۔۔۔ایسے ہی قریب کئے بولا ۔

انوشے آنکھوں میں آنسو لیے اسے دیکھ رہی تھی ۔

ایک بھی آنسو نہیں آنا چاہیے ورنہ تم جانتی ہو سزا ملے گی ۔۔۔۔۔

انوشے خود کو رونے سے روک رہی تھی پر پھر بھی ایک آنسو اسکی گال پر آ گیا ۔

ازلان اسے دلچسپی سے دیکھا رہا تھا اور پھر اسے سائڈ پر کرتے اس کے اوپر آ گیا اور اس کی خوشبو میں گم اپنے لب اس کی گردن پر رکھ دئے ۔

انوشے کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی جان نکل جائے گی۔

ازلان۔۔۔۔۔۔۔ وہ کپکپاتے ہوئے بولی۔

شششششش ۔۔۔۔۔۔اسے نے انوشے کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر سے اس پر جھک گیا ۔

اس دفع اس کواس دن سے وہ بالکل مختلف ازلان لگا تھا۔۔۔۔۔ اسی لیے انوشے نے اسے خودسپردگی دے دی ۔

یہ رات دونوں کے لیے نئی صبح لے کر آنے والی تھی 

دونوں کی زندگی بہت جلد بدلنے والی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی۔۔۔۔

شاہین ہر طریقہ سے کوشش کر چکی تھی پر ناکامیاب رہی۔۔۔۔۔ آخری خربہ آزماتے ہوئے اس نے خودکشی کی کوشش کی پر پھر بھی وہ اشراف کو حاصل نہیں کر پائی۔

اور اسکے ماں باپ نے تنگ آکر اس کی شادی سب سے چھوٹے بھائی کے بیٹے سے کروا دی۔۔ جو کے کینیڈا میں رہتے تھے۔۔۔شاہین کے لاکھ کوششوں اور مخالفت کے باوجود بھی  اسے جلد ہی وہاں بھیج دیا۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔

اشرف صاحب اور ریاست شاہ کی شادی ہو گئی۔

 ریاست شاہ کو اللہ نے جلد ہی بیٹے سے نوازا  جس کا نام ازلان رکھا ۔۔

جو خوبصورت اور  بلاکا ذہین تھا اور اس کے کچھ عرصے بعد دوسرے بیٹا شہرام دیا شہرام دیکھنے میں بالکل اپنے بھائی کی طرح خوبصورت پر عادتوں میں اپنی ماں کی طرح شرارتی وہ دونوں اپنی دنیا میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش تھے۔۔۔۔

اور دوسری طرف زارا ابھی بے اولاد تھی شادی کے کافی عرصہ بعد بھی پر وہ دونوں اللہ سبحان تعالیٰ سے نا امید نہیں تھے ہر قدم پر فاطمہ اور ریاست نے ان کا ساتھ دیا تھا ۔۔۔. اور زارا نے ہمیشہ اس کے بچوں کو ماں کا پیار دیا۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

آج زارا کی طبیعت خراب تھی وہ جو بھی کھا رہی تھی الٹی ہو جاتی۔

اسی لیے اشرف اسے زبردستی ہسپتال میں لے گئے۔۔۔

 پھر جب ڈاکٹر نے جو خوشحبری دی اسے سن کر دونوں نے اللہ سبحان تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور نفل ادا کئے ۔۔

زارا کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو وہ دونوں  بھی بچوں کے ساتھ آگے۔۔۔

فاطمہ زارا کے گلے لگ گئی اور مسکراتے ہوئے۔

 فائنلی میری بہو آنے والی ہے۔۔۔

زارا اسکی بات سن اسے آنکھیں دیکھانے لگی پر وہ کوئی اثر نہ لیتے ہوئے پھر بولی۔

آنکھیں مت دیکھوں میں نے پہلے ہی بول دیا ہے۔۔۔۔

 تمہیں اور اس کا نام بھی میں رکھوں گی اور وہ میرے ازلان کی پری ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔ پاس بیٹھا ازلان اپنی ماں کی بات سمجھاتے ہوئے بولا۔

ماما وہ میری پری ہو گی میں اسے اپنے پاس ہی رکھوں گا۔۔۔۔۔۔

اف ماما تو ماما بیٹا اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔۔۔۔۔۔۔ زارا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

وہ دن بھی آگے اللہ نے زارا کو بیٹی جیسی نعمت سے نوازا وہ دونوں اسے پاکر بہت خوش تھے ۔

فاطمہ نے اسے اُٹھایا تو ازلان بولا۔

ماما شی ایز مای فیری۔۔۔۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے فاطمہ سے بچی کو لے لیا جب شہرام اس پیار کرنے لگا تو اسنے اسے پیچھے کر لیا ۔

نو ڈونٹ ٹیچ ہر شی ایز مائن غصے سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔

شہرام منہ بسورتے ہوئے زارا سے بولا ۔

زارا ماما مجھے بھی چاہے فیری پلیز مجھے بھی لا دیں ۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا شہرام کی بات سن کر فاطمہ کا قہقہہ بلند ہوا اور باقی سب بھی اسکی باتوں سے مسکرا دئے ۔

بیٹا اگلی فیری آپ کی ہو گی ۔۔۔۔۔۔. فاطمہ ہنستے ہوئے بول شہرام کو رہی تھی پر دیکھ زارا کو رہی تھی ۔

فاطمہ کی بات پر زارا نے اسے گھوری سے نوازا ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی۔۔۔

اور کچھ عرصے بعد شہرام کی فیری بھی آ گئی جس کی آنکھیں گرین تھی شہرام تو اسے اک پل خود سے دور نہ کرتا تھا۔

وہ اسے ہمیشہ گرین فیری بولتا تھا ۔

وہ سب خوش تھے اپنی زندگیوں میں فاطمہ کے بہت اثرار پر انوشے اور ازلان کا نکاح کر دیا گیا تھا۔

ازلان کی جان بستی تھی انوشے میں 

سب کو لگ رہا تھا کہ زندگی اب پر سکون ہے۔۔۔

پر جلد ہی ان کی زندگیوں میں شاہین نام کا طوفان آنے والا تھا جو خوشیوں کو تباہ کرنے والا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام کے ڈار سے پریشے نے کالج جانا بھی چھوڑ دیا تھا وہ گھر رہ کر ہی امتحان کی تیاری کر رہی تھی ۔

اسے کچھ ضروری نوٹس چاہیے تھے۔

حارث پلیز مجھے میری دوست کے گھر سے نوٹس لا دو مجھے میرے اگزامز کی تیاری کرنی ہے ۔۔۔۔۔

پریشے نے جب نوٹس مانگے تو اس کی دوست نے اسے گھر سےآ کے لے جانے کا بولا اسی لیے وہ اب حارث کو بول رہی تھی پر حارث نے صاف انکار کر دیا تھا ۔

اسی لیے منہ بسورے پیر پٹکتی واپس اپنے روم میں آگئی ۔

اب خود جانا پڑے گا اگر وہ کمینہ مل گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔پریشے کا سوچ سوچ کر بُرا حال ہو رہا تھا ۔

اب جانا تو پڑھے گا ورنہ اگزامز میں فیل ہو جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور ماما سے پوچھ کر اسکے گھر کے لیے نکل گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شہرام ازتراب کی خالت میں تھا وہ کب سے پریشے سے ملنا چاہتا تھا پر اسے کوئی موقع ہاتھ نہیں لگ رہا تھا ۔

شہرام کا فون رنگ ہوا تو دوسری طرف جو خبر اسے ملی اسے سے اس کے چہرے پر ایک پراسرا سی مسکراہٹ آگی ۔

شہرام جو اتنے دنوں سے موقعے کی تلاش میں تھا اسے پریشے کے باہر جانے کی خبر ملی۔

 اب موقع تھا اپنے منصوبے کو انجام دینے کا۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

ازلان جاتے ہوئے انوشے کو اس کے گھر لے گیا تھا۔

  ان سے ملنے کے بعد وہ دونوں ایرپورٹ کے لئے نکل گے تھے۔

انوشے خوفزدہ تھی یہ اسکا پہلا سفر تھا اپنے گھر والوں کے بغیر  اس نے خوف میں ازلان کا بازو پکڑ لیا ۔

ازلان اس کا خوف محسوس کرتے ہوئے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کر چکا تھا سارے سفر میں اسے اپنے ساتھ لگایا رکھا ۔

انوشے کو ازلان کے ساتھ تحفظ کا احساس ہوتا 

دونوں کے درمیان سے دوریاں آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔

پر شاہد ایک آخری طوفان آنا ابھی باقی تھا یا تو وہ سب بدل دے گا یا تباہ کر دے گا ۔

ماضی۔۔۔۔۔

شاہین اپنی دو بیٹوں رانیہ اور عشاء کے ساتھ واپس پاکستان آ گئی تھی۔

اسکا ہزبنڈ ایک نیک اور اچھا انسان تھا بڑی بیٹی رانیہ ماں کی فطرت والی جب کہ چھوٹی اپنے باپ کی طرح نیک اور سادہ طبیعت کی ملک تھی۔

شاہین کو پاکستان آکے جب ازلان اور انوشے کے بارے میں پتہ چلا تو اس کے سینےمیں تو جیسے آگ ہی لگ گئی تھی وہ ہر حال میں زارا کی بیٹی کی بربادی چاہتی تھی ۔

اس نے سوچ سمجھ کر ایک منصوبہ بنایا تک انوشے کو راستے سے ہٹا سکھے ۔

وہ ایک تیز عورت تھی دوسروں کو خوش نہیں دیکھا سکتی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام چلتا ہوا بیڈ کے پاس آیا اور اس کے چہرے پر آئی بالوں کی لیٹو کو پیچھے کیا۔

تم اگر میری بات پہلے مان لیتی تو مجھے یہ سب نہ کرنا پڑھتا اب دیکھتا ہوں کون روکتا ہے تمہیں میرا ہونے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر باہر چلا گیا کیونکہ وہ خود کو روک رہا تھا کچھ بھی غلط کرنے سے۔

جب پریشے اپنی دوست کے گھر جانے کے لئے نکلی تو راستے میں شہرام کے آدمی اسے کیڈنیپ کر کے اسکے فارم ہاؤس میں لے آئے تھے اور اب پریشے کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے کو جب ہوش آیا تو وہ غائب دماغی سے چاروں طرف دیکھنے لگی ۔

اور پھر یاد آنے پر اک دم اُٹھی تھی وہ تو اپنی دوست کے گھر جا رہی تھی اور راستے میں کیڈنیپ ہو گئی۔

کوئی بہت دلچسپی سے اس کی ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

تا ت۔۔۔تم مجھے یہاں لے کر آئے ہو۔۔۔۔۔ شہرام کو دیکھتے ہوئےہکلاتے ہوئے بولی اسے دیکھ کر پریشے کی ہوائیں اُڑ چیکی تھی۔

شہرام اسکی طرف قدم بڑھانے لگا وہ اسے دیکھ کر اپنے قدم پیچھے لینے لگی اور پیچھے ہوتے ہوئے وہ بیڈ سے جالگی اس سے پہلے کے سمبلتی وہ بیڈ پر گر گئی ۔

اس سے پہلے کے وہ اُٹھتی شہرام نے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اسکے فرار کے سارے راستے بند کر دئے ۔

پریشے کو لگا جیسے اسکی سانسیں سینے میں اٹکنے لگی ہیں اس نے روتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں 

اسکے رونے سے شہرام کو تکلیف ہوئی پر اس وقت وہ خود کو کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس کے قریب جاتے ہوئے بولا۔

تھوڑی دیر میں ہمارا نکاح ہے اسی لیے خود کو اس چیز کے لیے تیار کر لو ۔۔۔۔۔۔وہ اس کے کان کے قریب بول کر پیچھے ہٹ گیا ۔

پریشے نے شہرام کی بات سے فورن آنکھیں کھولی اس کی طرف دیکھتے ہوئے نہ میں سر ہلانے لگی ۔

تمہارے پاس دو آپشن ہیں ایک ابھی نکاح کر کے گھر چھوڑ دوں گا اور دوسرا نہ کرو نکاح تمہاری مرضی، ۔۔۔۔۔۔۔

پریشے اسکی بات سن کر خوش ہو گئی پر آگے بولا وہ اس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھی ۔

ایسے ہی رہ لو میرے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھول جانا۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے پاس صرف دس منٹ کا ٹائم ہے کیونکہ

 تھوڑی دیر میں مولوی صاحب آنے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔

باقی تمہاری مرضی مجھے تو تمہیں  اپنے پاس ہی رکھنا ہے چاہے نکاح کر کے یا نکاح کے بغیر ۔۔۔۔۔

 پریشے کی جان لیتا  مسکراتے ہوئے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️

وہاں پہنچ کر دونوں کے لیے ایک ہوٹل میں روم بک تھا وہ دونوں ازلان باہر کھڑا کسی سے کال پر بات کر رہا تھا ۔

انوشے نے اپنے کپڑے لیے اور باتھ لینے کے بعد آرام سے آ کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔

ازلان جب روم میں انٹر ہوا تو اسے آنکھیں بند کئے لیٹے دیکھا کر مسکرا دیا۔ 

وہ بھی فریش ہونے کے بعد جب روم میں آیا تو دیکھا کے انوشے سوچکی تھی وہ بھی دوسری سائیڈ پر جا کر لیٹ گیا ۔

اور بہت ہی آرام سے اسکے لب کو چھو کر پیچھے ہوا کے اس کی نیند خراب نہ ہو ۔

اور پھر اسکے ہر نقوشِ کو اپنے ہاتھوں سے چھونے لگا۔

میں تم کو چاہ کر بھی نقصان نہیں پہنچا پارہا جب سے تم آئی ہو میری زندگی میں مجھے اسے کیوں لگ رہا ہے جیسے کچھ تو غلط ہے ۔۔۔۔۔

اور میں اسکا پتہ لگا کر رہو گا۔۔۔۔۔۔۔وہ خود سے بولتا ہوا انوشے کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کر کے سو گیا ۔

ماضی ۔۔۔

چلی جاؤ انوشے یہاں سےاس سے پہلے کے میں جان لیے لو تمہاری ازلان اسے تھپڑ مارا کر بولا۔

انوشے بے یقینی سے آنکھوں میں آنسو اور کرب سے ازلان کی طرف دیکھا رہی تھی کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں یقین اور مان ٹوٹا تھا کے ازلان یقین کرئے گا اس کا ۔

ہم نے سوچا تھا کہ بتا دیں گے "

سب درد تم کو

پر تم نے اتنا بھی نہ پوچھا

" کہ خاموش کیوں ہو

اور وہ روتے ہوئے چلی گئی وہاں  سے ۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام روم میں آیا تو اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔

ہاں تو کیا فیصلہ کیا پھر تم نے۔۔۔۔؟؟

پریشے ایسا کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی پر اس وقت اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کی خاطر سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی ۔

پلیز میں تم سے  اپنی ہر غلطی کی معافی مانگتی ہو میں نے غلطی کی تمہیں تھپڑ مار کر پلیز جانے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے جانے وہ روتے ہوئے بولی۔

اسے دیکھ کر شہرام کو تکلیف ہوئی پر اس وقت اسے پانے کے جنون میں اس نے اس کی کسی بات پر توجہ نہیں دی ۔

ٹھیک ہے میں مولوی صاحب کو بھیج دیتا ہوں تم راہو اسے ہی پر گھر نہیں جا سکتی تم ۔۔۔۔۔۔۔۔. غصے سے بولتے ہوئے جانے لگا ۔

پریشے کی اس کی بات سے ہوائیں اُڑ گئی۔

 مو مجھے منظور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی۔

اور پھر کسے ان دونوں کا نکاح ہوا پریشے کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ وہ بلکل چپ ہو گئی ۔

میں کبھی معاف نہیں کراؤں گئی تمہیں شہرام کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔روتے ہوئے کمرے کی ہر چیز کو اُٹھا اُٹھا کر پھینکنے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام جب روم میں داخل ہوا تو روم کی خالت دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا اب اسے پتہ تھا پریشے کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔

 پریشے نے غصے سے شہرام کی طرف دیکھا۔۔۔

 دفع ہو جائے یہاں سے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی۔

اوکے میں جا رہا ہوں تمہاری مرضی تم گھر نہیں جانا چاہتی تو۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

میں تمہاری جان لے لو گی ۔۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے اسکی طرف بڑھی۔

راستے میں پڑھے واس سے گرنے لگی اس سے پہلے کے وہ گرتی اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔

اور ایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا اس کی  گردن پر رکھ کر اپنی طرف کھینچ کر اسکے لبوں پر جھک گیا ۔

پریشے اس عمل کے لیے تیار نہیں تھی وہ غصے سے اسے پرے دھیکلنے کی کوشش کر رہی تھی پر آج وہ اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

شہرام کو جب اپنے چہرے پر اس کے آنسو محسوس ہوئے تو اس نے اسے نرمی سے چھوڑ دیا ۔

اب کمرے میں صرف پریشے کی سسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھی۔

شہرام نے اس کے پاس جانے کی کوشش کی پر پریشے نے ہاتھ سے دور رہنے  کا اشارہ کیا ۔

تم فریش ہو جاو پھر میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔۔.شہرام شرمندگی کے احساس سے بولتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ 

❤️❤️❤️❤️

ماضی۔۔۔

شاہین آج کل طبیعت خرابی کا بول کر فاطمہ کے گھر رہرہی تھی وہ صرف موقعے کی تلاش میں تھی۔

 جس سے وہ انوشے کو راستے سے ہٹا دئے ۔۔۔اور آج اسے وہ موقع ملا گیا تھا ۔

آج انوشے شاہ ہاؤس میں آئی تھی آج ازلان بھی گھر نہیں تھا ۔۔۔۔وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے نکلا تھا۔

انوشے فاطمہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ اسے پیاس لگی وہ پانی پینے کیچن میں گئی تو اسے وہاں شاہین ملی۔

او تم انوشے یہ لو یہ کیک لو کھا لو میں نے تمہارے لئے لے کر آئی ہوں۔۔۔۔۔ اور خود پراسر سی مسکراتی وہاں سے چلی گئی ۔

انوشے ابھی کیک کھاتی اسکا فون رنگ ہوا وہ اپنی کال سن رہی تھی کہ وہاں فاطمہ آگئی۔۔۔

کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا اُٹھا کر کھانے لگی اور پھر وہی ہوا جو شاہین چاہتی تھیں پر انوشے کے ساتھ نہیں فاطمہ کے ساتھ ۔۔۔

شاہین کی جلیسی فاطمہ کی جان لے گئی۔۔۔۔

جب ازلان گھر آیا اپنی ماں کو اس خالت میں دیکھا کر بالکل ٹوٹ گیا تھا۔

اور اوپر سے شاہین کی باتوں نے اسکا ذہین خراب کر دیا ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔

شاہین کو جب پتہ چلا اس نے اپنا آپ بچاتے ہوئے سارا الزام انوشے پر لگا دیا۔۔۔

 ریاست شاہ کی تو ساری دنیا تباہ ہو کر رہ گئی تھی وہ بالکل چپ ہو گئے تھے ۔

سب سمجھ رہے تھے کہ انوشے نے غلطی سے وہ کیک فاطمہ کو دیا ہے پر کوئی یہ نہیں جان پایا تھا کہ اس سب کے پیچھے شاہین ہے۔

اور یہ حادثہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی پر اس کی شکار غلطی سے فاطمہ ہو گئی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔

انوشے نے سب کی باتیں چپ کر کے برداشت کر لی تھیں پر اسے ازلان پر بھروسہ تھا کہ وہ اس پر یقین ضرور کرئے گا۔۔۔

ماضی 

ہم لوگوں سے صرف تب تک لڑتے ہیں جب تک ہمیں

ان سےمحبت کی امید ہوتی ہے جب وہ امید

ختم ہو جاتی ہے تو ہم لڑنا بھی بند کر دیتے ہیں۔

انوشے  ازلان کے کمرے سے بھی نہ امید ہو کے لوٹی تھی اسکا مان ٹوٹا تھا کہ جو مان تھا کہ وہ اس پر یقین کرئے گا۔

روتے ہوئے وہ اپنے گھر چلی گئی تھی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لئے۔

آج وہ ازلان اسے کہیں سے نہیں لگا تھا جو اس پر جان دیتا اسکی ہر چھوٹی چھوٹی بات کا دھیان رکھتا اسے انچ بھی نہیں آنے دیتا تھا ۔

وہ ساری رات روتی رہی ایک دن میں سب کی زندگی بدل گئی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔۔

ریاست شاہ ازلان اور شہرام کو لے کر لندن چلے گئے تھے۔ وہ سب یادوں کو پیچھے چھوڑ کر وہاں بس گئے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ ایک راز بھی لے گئے تھے۔

جانے کا نام سن کر شہرام نے خوب شور مچایا کے وہ نہیں جائے گا ۔۔۔۔اپنی گرین فیری کو چھوڑ کر

دوسری طرف ازلان بالکل چُپ ہو گیا تھا وہ خود بھی یہاں سے جانا چاہتا تھا وہ جسے اک پل نہیں چھوڑتا تھا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی۔۔۔

شہرام اسے ہمیشہ یاد کرتا پھر وقت آگے بڑھتا گیا تو یادے بھی دھندلانے لگی۔۔

وہ جیسے بھول گیا تھا اسے خوابوں میں میں ملنے لگی وہ ہر روز اس کے خوابوں میں آکر اپنی یاد دلاتی ۔

اور جیسے وقت نے بھولا دیا اسے کبھی خوابوں نے دور نہ جانے دیا۔

❤️❤️❤️❤️

گاڑی کی خاموش فضا میں صرف پریشے کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔

سٹاپ ایٹ یار  اب رونا تو بند کر دو میں نے بولا بھی تھا ایک دفعہ میری بات سن لو پر تم۔۔۔۔۔۔۔۔ شہرام نے گاڑی چلاتے ہوئے اُسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔

چھوڑے میرا ہاتھ ہمت بھی کسے ہوئی آپ کی ۔۔۔۔۔وہ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

ہاہاہا یار ہمت کی بات تم اب بھی کر رہی ہو یہ سب ہمت سے ہی تو کیا ہے اور یہ ہاتھ چھوڑنے کے لئے نہیں پکڑا میں نے ۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھ کو چومتے ہوا بولا۔

پریشے اس کی اس حرکت پر کانپ کے رہ گئی اب بھی پوری کوشش کر رہی تھی ہاتھ کھنچنے کی پر 

شہرام اپنا دھیان سامنے کیا خود کو مصروف ظاہر کر رہا تھا ۔

اس نے غصے سے منہ موڑ لیا اور باہر دیکھنے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔

جس طرف دیکھوں تیرا ہی عکس میسر ہے"

آنکھوں میں

" باہر کوئی تم جیسا ہے یا سارا جہاں تم ہو

ازلان نے خود کو سب سے دور کر لیا تھا وہ خود کو انوشے کی محبت کی سزا دے رہا تھا ۔۔۔وہ نفرت میں بہت آگے چلا گیا تھا اس کے اندر نفرت اور بے حسی جڑ پکڑتی جا رہی تھی۔

وہ ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتا اس نے سگریٹ نوشی بھی شروع کر دی تھی۔

وہ دسمبر کی ٹھنڈی سرد ہوا میں بھی ساری ساری رات باہر گزار آتا۔

وہ اندر سے ٹوٹ گیا تھا پر کوئی نہ تھا اسے سمیٹنے والا ریاست شاہ خود اک غم میں تھے پر پھر بھی انہوں نے اپنے بچوں کو سنبھالے رکھا۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔

پتہ ہے تکلیف کیا ہے"

کسی کو چاہنا 

پھر اسے کھو دینا

" اور خاموش ہو جانا

انوشے بھی خاموش ہو گئی تھی اسے امید تھی وہ آئے گا پر اس کی آخری امید بھی ازلان نے لندن جا کر توڑ دی تھی اس نے خود کو اپنوں تک محدود کر لیا تھا ۔

سب کو لگا وقت کے ساتھ انوشے کی یادوں سے ازلان میٹ چکا ہے ۔ ۔۔۔۔۔پر وہ ہی جانتی تھی ۔

جو دالوں پر راج کرتے ہیں" 

" وہ ذہنوں سے اسے ہی نہیں میٹ جاتے 

اس نے اپنے آپ کو پری کے ساتھ مصروف کر لیا تھاسب اس کے لیے فکر مند ہوتے تھے اسی لیے سب کو ظاہر کرتی کے وہ کسی ازلان کو جانتی تک نہ ہو 

پر اسکا دل جانتا تھا وہ کتنے درد میں ہے۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔۔

زارا نے ایک دوست نہیں بلکے ایک بہن کو کھو دیا تھا اس کی ہم راز اسکے ہر دارد غم میں شریک رہنے والی ایک محلس دوست۔۔۔

زارا خود ٹوٹ چکی تھی فاطمہ کی اچانک موت نے سب کچھ برباد کر دیا تھا زارا خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھی پر پھر ان کی زندگی میں  حارث آ گیا۔۔۔

 جس سے زارا دوبارہ زندگی کی طرف لوٹی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

ماضی ۔۔۔

زندگی کا کام ہے چلتے رہنا اور وہ سب کی چل رہی تھی پر ان کی خوشیوں کو برباد کرنے والی اب بھی سکون میں نہیں تھی ۔۔

کیوں کے فاطمہ کے جانے پر بھی اسکا مقصد پورا نہ ہو پایا وہ ازلان کو اپنی بیٹی کے لئے حاصل نہ کر پائی کیونکہ شاہین کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ریاست شاہ اپنے بچوں کو لے چلے گئے تھے ۔۔۔

 وہ اس گناہ کےباوجود بھی خالی ہاتھ تھی۔

❤️❤️❤️❤️

گاڑی ایک جھٹکے سے روکی تو پریشے نے اس کی طرف ایک آئی برو اُٹھا کر دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو اب کیا ہوا ۔۔۔

گھر آگیا ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اُسے دیکھ کر بولا ۔

ہاں ہاں میں جا رہی تھی ہاتھ چھوڑئے میرا۔۔۔۔۔ 

پریشے نے جب باہر دیکھا تو جلدی سے سنبھال کر بولی۔

دھیان رکھنا اپنا اب تم امانت ہو میری وہ اسے اپنی طرف کھینچ کر بولا اور اسکے ماتھے پر پیار کر کے چھوڑ دیا ۔

شہرام کے اس عمل سے پریشے کے گال دھکنے لگےاور وہ جلدی سے پیچھے دیکھے بنا اندر بھاگ گئی۔

شہرام اسے تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ چلی نہیں گئی۔۔۔۔۔اور پھر مسکراتے ہوئے گاڑی آگے لے گیا 

❤️❤️❤️❤️

پیسا۔۔۔

 کے ٹسکنی قصبے میں اکثر سیاح آتے ہیں جو اٹلی کے سب سے مشہور پرکشش مقامات میں سے ایک لیننگ ٹاور کو دیکھنا یا چڑھنا چاہتے ہیں۔ آرائشی رومنسک ٹاور یورپ کے مشہور ترین ٹاورز میں سے ایک ہے۔ چوٹی پر جانے کے لیے، آپ کو تقریباً 

300 

سیڑھیاں چڑھنی ہوں گی۔

آج وہ دونوں پیسا ٹاور میں سیر کرنے کے لیے گئے تھے ۔

وہاں کا ماحول انوشے کے لیے بالکل نیا تھا اسی لیے وہ۔۔۔۔۔ان کمفرٹیبل محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

ازلان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا ۔

انوشے اور وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں میں دیکھا رہے تھے ۔

Wow belle coppie

کی آواز پر دونوں نے چونک کر دیکھا ایک لڑکیوں کا گروپ انہے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور اس میں سے ایک لڑکی بولی ۔

Grazie 

ازلان اُس لڑکی سے مسکراتے ہوئے بولا

انوشے اُن کی باتیں سمجھنے نہ سمجھی سے سن رہی تھی ۔

وہ ہم دونوں کی تعریف کر رہی ہے اور میں نے اسے شکریہ بولا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ انوشے کو حیران ہوتے دیکھ کر بولا۔

آپ کو آتی ہے اٹالین ۔۔۔۔۔؟؟

ہاں تھوڑی بہت سمجھ لیتا ہوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں اکثر آتا تھا ،۔۔۔۔۔۔

پر آج تو اسکی خوبصورتی ہی الگ ہے ۔۔۔۔۔۔وہ انوشے کو پیار سے دیکھتے ہوئے بولا ۔

 اُس کی بات سمجھ کر انوشے کے گال دھکنے لگے.۔

اس سے پیارا تو پاکستان ہے اس سے اچھا تھا ہم مری ہی چلے جاتے اور مجھے تو شوق بھی تھا وہاں جانے کا۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی شرم مٹانے کے لیے بچوں سی معصومیت لیے بولی۔

ہاہاہاہاہاہا اس کی بات پر ازلان کا قہقہہ بلند ہوا۔

 لوگ یہاں آنے کے لیے ترستے ہیں اور تمہیں مری مری جانا تھا انٹرسٹنگ ۔۔۔۔،۔۔۔وہ انوشے کو کمر سے پکڑے ایک ہاتھ سے اسکے بالوں کی لیٹو کو کان کے پیچھے کرتا بولا۔

چلو تمہیں اس ٹاور پر لے کر جاؤں اوپر۔۔۔۔۔

ن ن نہ میں نہیں جا رہی 300 سیڑھیاں اوپر تو چلی جاؤں گی نیچے کون آئے گا ۔۔۔۔انوشے منہ بسورتے ہوئے بولی۔

کوئی بات نہیں میں ہوں نہ اوپر سے اُڑتے ہوئے نیچے آ جانا۔۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولا

انوشے اسکی ہنسی میں کہی کھو گئی آج بہت عرصے بعد وہ ایسے ہنس رہا تھا ۔

وہ آج بالکل مختلف ازلان لگ رہا تھا وہی ازلان جو انوشے کے لیے جان دیتا تھا وہ پہلے والا انوشے کا ازلان۔

وہ بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی اور اسکی دائمی خوشی کی دعا مانگی۔ 

اور دور کہی قسمت مسکرا دی کیونکہ ابھی قسمت میں امتحان باقی تھے۔

انوشے اور ازلان واپس آگے تھے دونوں میں سب بدل گیا تھا ازلان کے ساتھ گزارا ہر پل انوشے کو کسی خواب سا گمان دیتا تھا۔۔۔۔

اُسے اس کا پہلے والا ازلان مل گیا تھا۔

ریاست شاہ اور شہرام سے ملنے کے بعد وہ اپنے روم میں آگئی آکر باتھ لے کر باہر نکلی وہ اپنے دھیان سے آئینے کے سامنے جا کر کھڑے ہو کر اپنے بالوں کو پیچھے کرتی کنگھی کرنے لگی۔

جب اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کا احساس ہوا تو اس نے  آئینہ میں ازلان کے عکس کو دیکھا

جو اب اسکے بال پیچھے کرتا اپنے لب اسکی گردن پر رکھ گیا۔

انوشے کی جان لبوں پر آگئی وہ جی جان سے کانپ  گئی تھی اسے اس بات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

اب وہ اسکی گردن میں ایک چین ڈالنے لگا جس پر دل  میں بنا ہوا تھا اور اس میں اے لکھا ہوا تھا۔۔۔

 انوشے اسے دیکھ کر مسکرائیں اور اس پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

ازلان یہ ابھی وہ کچھ بولتی ازلان نے اسے سیدھا کر کے ڈریسنگ پر بیٹھا کر اس کے لبوں پر جھک گیا۔

لمحہ بہ لمحہ اسکی جسارتے بڑھتی جا رہی تھیں

ازلان کے ہر عمل میں انوشے کو صرف پیار اور تخفظ کا احساس ہو رہا تھا۔۔

انوشے پوری طرح سے اپنا دل اور مان ازلان کو دے چکی تھی۔

وہ ازلان کے عشق میں ڈوبنے لگی تھی

پر یہ ہی عشق اسے پھر سے توڑنے اور رولانے والا تھا۔

پیاسےکی موت تو تب ہوتی ہے "

جب پیاسے کو

" پانی دے کر چھین لیا جائے

❤️❤️❤️❤️❤️

پریشے سو رہی تھی اسکی دوست لریب آئی۔

اُٹھ جا موٹی صبح کے دو بجے رہے ہیں اور تمہاری نیند ہی پوری نہیں ہو رہی اور آنٹی بول رہی 

ہے کل تم گھر آئی تھی ہمارے۔۔۔۔، وہ جب اُسے نہ جگا پائی تو تنگ آکر اسکا کمبل اتارنے لگی۔

کس کے ساتھ ڈیٹ مار کے آئی ہو میرا بہانہ بنا کر۔۔۔۔۔۔. وہ شررت سے بولی اس کی بات سن کر پریشے اک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکے گلے لگ کر رونے لگی ۔

پریشے کیا ہوا ہے بولو ۔۔۔؟ ؟غصے مت ہو یار میں تو مزاق کر رہی تھی یار رو تو مت۔۔۔۔۔ لریب گھبرا گئی۔

می میں آنٹی کو بُلا کر لاتی ہوں۔۔۔۔ وہ جانے لگی تو پریشے نے جلدی سے اسکا بازو پکڑا۔

 چلو پھر بتاو کیا ہوا ہے ۔۔۔؟ ؟

وہ نہ میں کل کیڈنپ ہو گئی تھی۔۔۔۔

ک ک کیا تم کیا بول رہی ہو تم تو ایسے بول رہی ہو جیسے کیڈنپ نہیں ہوئی   کسی ایڈونچر کے بارے میں بتا رہی ہو۔۔۔۔۔

ششششش وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی

منہ تو آہستہ کھول سارے گھر کو بتاؤ گی کیا ۔۔۔

تم بکواس نہ کرو اور ٹھیک سے بتاو ہوا کیا کیوں رونا ڈلا ہے۔۔۔

یار میں سچی بول رہی ہوں اور جو میں دوسری بات تمہیں بتاوں گئی اس پر تو تم بے ہوش ہو جاو گی۔۔۔۔۔۔۔وہ آنکھیں پٹ پٹا کر کسی معصوم بچے کی طرح بولی۔

اسکے اس انداز پر لریب کو ہنسی آئی پر وہ منہ نیچے کر کے چھُپا گئی۔

ہاں بولو مس ڈرامہ قوئن۔۔۔

جاؤ دفع ہو جا میں نہیں بتا رہی۔۔۔۔وہ نارض ہوتے ہوئے بولی۔

ہاہاہاہاہا اچھا یار سوری سوری اب نہیں بولتی۔۔۔

وہ میں سچ میں کیڈنپ ہوئی تھی ۔۔۔. وہ بے چارگئی لیے بولی۔

پھر پریشے نے سب بتا دیا اسے ۔۔۔کیڈنپ سے لے کر نکاح تک ۔۔۔

اور اس نے میرے ساتھ نکاح کیا زبردستی۔۔۔۔ وہ دانت پستے ہوئے بولی جیسے اپنے دانتوں میں شہرام کو پیس رہی ہو۔۔

کیا۔۔۔۔۔ لریب چلا کر بولی۔

آہستہ یار ۔۔۔۔۔وہ اسے ہوموش کرواتے ہوئے بولی۔

کون ہے وہ اور تم نے آنٹی انکل کو بتایا ۔۔۔؟؟

تمہارا دماغ پاگل ہے کیا میں ماں بابا کو بتا کر پریشان کر دوں اور ویسے بھی پتہ ہے وہ کون ہے اگر میں نے بتایا ماں بابا کو تو وہ اُٹھا کر لے جائے گا مجھے۔۔۔۔۔۔۔  وہ منہ بسور کر بولی۔

آف پریشے پاگل کر رہی ہو تم مجھے۔۔۔۔ وہ جھنجلاتے ہوئے بولی۔

اوکے لیسن وہ کوئی اور نہیں بلکہ انوشے کا دیور شہرام شاہ ہے۔۔۔ اور پھر اسے سب بتاتی گئی لفظ بہ لفظ ۔

اوپس وہ ہو یار وہ تو کتنا ہنڈسم ہے یار تیری تو لٹری لگ گئی ۔۔

کتنا فلمیں ہے نہ سب ہماری زندگی میں کیوں نہیں آتا کوئی شہرام شاہ۔۔۔۔۔ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی ۔

جاو دفعہ ہو جاو۔۔۔میں ادھر پریشان ہوں اور تم ہو کے کیسے بتاؤں گی میں ماں بابا کو۔۔۔۔۔۔۔ وہ پریشان ہوتی بولی۔

یار ٹینشن نہ لو مجھے لگتا ہے جو بندہ نکاح کر سکتا ہے وہ سب گھر والوں کو بھی سنبھال سکتا ہے۔۔۔۔۔ وہ اُسے سمجھتے ہوئے بولی

❤️❤️❤️❤️

ازلان جب صبح اٹھا تو اپنے ساتھ سوئی انوشے پر نظر  پڑی جو دوپٹا نماز کی سٹائل میں لیے ازلان کے سینے پر سر رکھ کر سو رہی تھی ۔

اسنے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کر لیا اور اسکے ہر  نقش کو چھو کر محسوس کرنے لگا اور پھر اسکے ماتھے پر پیار کر کےاس کا سر آرام سے تکیے پر رکھ کر خود فریش ہونے چلا گیا ۔

اسکے جاتے ہی انوشے نے مسکرا کر اپنی آنکھوں کو کھولا اور اُٹھا کر بیٹھ گئی۔

ازلان باہر آیا تو انوشے کو دیکھ کر مسکرا دیا

آپ کو میں نے اتنا اٹھایا تھا نماز کے وقت پر آپ ہل بھی نہیں تھے رہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بچوں کی طرح منہ بنا ازلان کی کمر پر سر رکھ کر بولی ۔

تمہیں یاد ہے تم بچپن میں بھی ایسے ہی آتیں تھی اٹھانے اور۔۔۔۔۔۔۔ وہ پہلی باتیں یاد کرتے ہوئے بولا ۔

اور آپ نہیں اٹھتے تھے ۔۔۔۔۔وہ اسکی بات اچکا کر بولی ۔

اور دونوں ایک ساتھ ہنس دئے ۔

ازلان نے ہاتھ پیچھے کر کے انوشے کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا ۔

ا آ آپ نیچے چلے میں بس منہ دھو کر آئی پھر ناشتہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کنفیوز ہوتی اٹک اٹک کر بولی۔

پر مجھے تو ابھی چاہیے ۔۔۔. وہ اپنا انگوٹھا اسکے لبوں پر پھرتے ہوئے بولا ۔

وہ وہ آپ چلیں بلکہ میں آپ کے ساتھ ہی جاتیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے پیچھے کرتی باہر کی طرف بھاگتی۔

ازلان نے اسے اور بھی اپنے قریب کر چکا تھا۔

پ پ پلیز ازلان۔۔۔۔  اس کی قربت سے اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اس کی آنکھوں میں التجا تھی۔

پر ازلان نہ میں سر ہلا کر اسے اپنے قابو میں کر چکا تھا ۔

اسکے لمس میں شدت تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ گر جائے گی اسی لئے اس نے ازلان کے کلر کو زور سے مٹھیوں میں پکڑ لیا تھا۔

پھر ازلان نے آہستہ سے اسے چھوڑا وہ منہ نیچے کیے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔

ازلان اسے دیکھ کر مسکرا دیا اب تم آرام سے آجانا اور بولتا باہر نکل گیا ۔

ازلان کے چہرے پر ایک پراسرا سی مسکراہٹ تھی 

ازلان کے جاتے ہی وہ بھی بھاگ کر واشروم میں بند ہو گئی ۔

، ❤️❤️❤️❤️

ماما کیوں نہ ہم حارث کی شادی کر دیں ۔۔۔۔۔پریشے حارث کی طرف دیکھتی شرارتی مسکراہٹ لیے بولی۔

اتنی بڑی ہو گئی ہے آپ پر کام آپ کے کوئی دیکھے کبھی زندگی میں سنجیدہ بھی ہو لیا کریں۔۔۔۔ حارث نے غصے سے اسکی طرف دیکھا ۔

او ہیلو ساری زندگی پڑی ہے سنجیدگی کے لیے تھوڑا سا انسان کو جی بھی لینا چاہیے نہ کہ تمہاری طرح سیڑی ہوئی شکل لے کر گھومتے رہو ۔۔۔۔۔

اشرف اور زارا دونوں اپنے بچوں کی نوک جوک سے مسکرا رہے تھے ۔

میرا بھی دل ہے لے آؤ بہو کوئی تو ہو جو میرا ساتھ دینے کے لیے تم تو ٹھہری نکمی اولاد میری ۔۔۔۔۔۔۔زارا بھی آنکھوں میں شرارت لیے دونوں کو مزاق کا نشانہ بنا کر بولی۔

ماما۔۔۔۔۔ دونوں ایک ساتھ بولے ۔

ماما اب آپ بھی اس کی طرح شروع ہو گئی میں نہیں کرنے والا کوئی شادی وادی ایسے ہی خوش ہوں میں اس چڑیل کی کر دیئے شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور غصے سے چلا گیا ۔

ہاں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔

زارا کے اس طرح بولنے سے پریشے کی جان پر بن آئی اور یہ وہ کرتی اپنے روم میں بھاگ گئی۔

دونوں کے بھاگنے سے 

اشرف صاحب اور زارا بیگم کا قہقہہ بے ساختہ نکلا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شہرام کب سے پریشے کو کال کر رہا تھا پریشے اپنی سٹیڈی میں اتنی مصروف تھی موبائل کی آواز کو اس نے بند کر دیا تھا۔

ہر حال میں اس نے اپنا کام مکمل کرنا تھا کل آخری تاریخ تھی آسائنمنٹ سیمنٹ کرنے کی ۔

دوسری طرف شہرام غصے سے پاگل ہو رہا تھا وہ غصے سے موبائل اٹھا کر پھینکنے لگا تھا کہ اس کے دوست کی کال آ گئی ۔

اس کی کال دیکھ کر شہرام کے چہرے پر ایک انجانی سی مسکراہٹ آئی اب اسے پتہ تھا کہ کسے کرنی ہے بات  پریشے سے۔۔۔

اس نے فون اٹھایا اور جلدی سے ۔۔۔

دس منٹ میں میرے گھر کے باہر آؤ ۔۔۔۔اور اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بنا فون کھٹ سے بند کر دیا

زیان کے آتے ہی شہرام اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف نکل گیا ۔

یار ابھی بھی سوچ لے ٹائم ہے ابھی بھی نہ کر ایسے مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ زیان اسے ڈراتے ہوئے کہا ۔

اوپلیز یار ہر وقت ڈرتا ہی رہا کرسامنے دیکھ کر جلد گاڑی چلا ورنہ میرے ہاتھوں برباد ہو جائے گا تو۔۔۔۔۔. شہرام دانت پیستے ہوئے بولا ۔

لو آ گئی تمہاری منزل چل اب نکل دفعہ ہو جا میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔وہ اسے دھکا دیتے ہوئے بولا۔

شہرام دوسری طرف سے جا کرکھنچا کر اسے باہر نکل کر لے کر آیا۔

 مجھے اوپر جانا ہے تُو ادھر کھڑا ہو  میں تمہارے کندھوں پر پاوں رکھا کر اوپر دیوار پر جاوں گا اور پھر اس دیوار پر سے اوپر بالکنی میں اور وہ ساتھ رہا پریشے کا کمرا۔۔۔۔۔ شہرام تفصیل سے اسے سمجھتے ہوئے بولا۔

اور زیان کا تو کندھے پر پاوں کا سن کر ہی منہ کھل

 گیا ۔

اس سے پہلے کے زیان کچھ بولتا شہرام اسے کھینچ کر دیوار کے پاس کھڑا کر چکا تھا اور پاوں اس کے کندھے پر رکھا ہی تھا کہ زیان کے منہ سے چیخ نکلی ۔

منہ بند کر نازک پری ۔۔۔۔۔۔۔شہرام غصے سے اس کے کندھے پر پاوں مار کر بولا۔

پیچھے وہ کراہ کر رہا گیا ۔

شہرام کی کوششوں سے آخر اسے پریشے کا کمرا مل گیا اور اندر داخل ہو کر دیکھ تو نیچے زمین پر اسکی کتابیں پڑھی ہوئی تھیں اور وہ خود بیڈ پر مزے سے سو رہی تھی ۔

میری نیند خراب کر کے خود میڈم مزئے سے سو رہی ہیں ابھی بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔وہ پریشے کے پاس گیا اور اس کے لبوں کو پراسر سا دیکھتے ہوئے اس پر جھک گیا ۔

وہ جو گہری نیند میں تھی خود پر کسی کی اتنی شدت محسوس کرتی پٹ سے آنکھیں کھول دی اور اپنے اوپر جھکے شہرام کو دیکھ کر اس کی آنکھیں کھل گئی وہ اسے اپنا پورا زور ڈال کر پیچھے کرنے لگی۔

پر شہرام کسی بھی صورت میں پیچھے ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

وہ اس کے سینے پر ہاتھوں کے مکے بنا کر مرنے لگی پر شہرام نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بیڈ کے ساتھ لگا دئے ۔

پھر شہرام اسکے ہونٹوں سے ہوتا گردان تک آیا ۔

پلیز شہرام ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی اس کے رونے سے شہرام کو ہوش آیا اور جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔

 اس کے پیچھے ہٹاتے ہی وہ جلدی سے بیڈ سے آٹھ کر دیوار کے ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی ۔

ک ک کیا کرنے آئے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ڈرتے ہوئے  آنکھوں میں آنسو لیے بولی۔

 پلیز جائے یہاں سے آگے آپ میرے ساتھ کم کر چکے ہیں جو اب یہ گھٹیا پن رہ گیا تھا۔۔۔۔۔شہرام شیشے پر بیٹھا اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے دلچسپی سے دیکھا رہا تھا ۔

اور پھر سے اس کی طرف بڑھنے لگا وہ ڈر کر اور پیچھے ہوتی پر پیچھے تو دیوار تھی ۔

شہرام نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں پر پیار کیا اور اسکے آنسو صاف کر کے اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے جوڑا ۔

شششش پلیز چپ کر جاو جب تم ان آنکھوں کو تکلیف دیتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آنکھوں نے مجھے بہت تنگ کیا ہے مجھے محبت ہے تم سے ۔۔۔اور ان آنکھوں سے ہے ۔

یو آر مائے گرین فیری یہ مجھے خوابوں میں روز تنگ کرتیں ہیں ۔۔۔

تمہیں کب سے بتانا چاہتا تھا پر تم نے مجھے ہمیشہ اگنور کیا اسی لیے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا  آئی لو یو ۔۔۔۔۔

اور جلد ہی بابا کو بجھنے والا ہوں تمہیں ہمیشہ کے لیے لے جانے کے لئے پلیز میرا ساتھ دینا۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کی خوشبو میں گم اپنے دل کی باتیں بول رہا تھا۔

 اور پھر اسے زور سے اسے خود میں بیچ لیااور اسے کے گال پر ہاتھ پھر کر پیچھے ہٹ گیا ۔

پریشے کو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب سی کیفیت میں ہو۔

ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھنا یو آر مائی گرین بیوٹی ۔۔۔۔اور جو میرا ہوتا ہے وہ بس میرا ہی ہے 

اگر وہ میرا نہ ہو سکے تو وہ کسی اور کا بھی نہیں ہو سکتا میں ہونے نہیں دیتا کسی اور کا۔۔۔۔۔۔۔۔. 

اور مسکراتے ہوئے جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ کو کسی ضروری کام کے سلسلے میں میں کینیڈا جانا پڑ گیا تھا۔

جس کی وجہ سے ازلان پر اب کام کا زیادہ بھوج آگیا تھا وہ  اپنا زیادہ وقت آفس میں گزارتا۔۔۔۔

انوشے پورے گھر میں اکیلی بور ہوتی رہتی اسی لیے آج ازلان نے ڈینر کا پلان بنایا تھا۔

شام کا وقت ہوا تو وہ تیار ہونے لگی ریڈ فراک اوپر  میکاپ کے نام پر کاجل اور لیپ گالوز لگ لیا۔۔۔۔

اور  ازلان کا ویٹ کرنے لگی ازلان کی کال آئی تو کال آٹھ کر اس کی بات سنتی باہر گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔

ازلان نے جب انوشے کو دیکھا تو نظریں ہٹانا بھول گیا وہ سادگی میں بھی سب کو پیجھے چھوڑ رہی تھی۔

چلے ازلان۔۔۔۔. وہ اس کی آواز سن کر چونکا اور مسکرا کر دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔

❤️❤️❤️❤️

ازلان نے جب انوشے کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے باہر نکالا تو وہ باہر کے اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر اسے کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آگئی۔

وہاں ایک بڑے سے ہال میں ہر طرف گلاب کے پھول زمین پر موجود تھے اور ایک طرف ٹیبل کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا دوسری طرف ہلکے سے پرسکون سے ماحول میں ایک لڑکی کے ہاتھ میں وویلین تھا۔

وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل تک لے کر گیا انوشے خوشی اور حیرت سے سب منظر کو دیکھ رہی تھی۔

پھر اُن کے پاس ایک لڑکی نے آکے کھانا سرف کیا۔

 ازلان نے اسے جانے کا اشارہ کیا انوشے ہر چیز کو بہت محبت سے مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔

ازلان نے اس کا ہاتھ پکڑا کر اپنے لبوں سے لگایا۔

 میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری بیوی کو دیکھے۔۔۔۔یہاں ہر طرف صرف لڑکیاں ہی تھی۔

اس نے شرما کر اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور پھر دونوں نے کھانا کھایا ۔

کھانا کھانے کے بعد ازلان اپنی چئیر سے اٹھا کر انوشے کے پاس گیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر ڈانس ٹریک پر لے کر گیا اور ایک ہاتھ پکڑئے دوسرا اس کی کمر پر رکھا اسکے ساتھ ڈانس کرنے لگا اور انوشے بھی اسکے قدم کے ساتھ قدم ملانے لگی ۔

وہ کہی اس کی آنکھوں میں کھونے لگی تھی وہ اپنی پوری دنیا بھول بیٹھی تھی ازلان کی محبت میں وہ اب اس کے سینے پر سر رکھے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔

I love you so much Azlan my life is nothing without you. 

(میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں اب میری زندگی آپ کے بغیر کچھ نہیں ہے)

If you are, then I am, my world is only with you

(آپ ہو تو میں ہوں، میری دنیا صرف آپ سے ہے۔)

وہ اس سے آج اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے رو رہی تھی ازلان سب محسوس کر رہا تھا اس کا پیار اس کا رونا وہ اس کی باتیں سن کر مسکرا دیا۔۔ اور اس کے بالوں پر لب رکھا دئے ۔

کچھ دن اور تمہارے لیے ایک اور سپرائز ہے۔۔۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لگائے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️

صبح سب بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہے تھے ریاست شاہ بھی رات سے گھر واپس آگے تھے ۔

راضیہ جاو جا کرگیسٹ روم سے عشاء کو لے کر آو۔۔۔۔۔ بولو آکر ناشتہ کر لے ۔۔۔۔۔۔سب نے حیرت سے منہ اُٹھا کر ریاست شاہ کو دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کون عشاء ۔۔۔پر بولا کوئی بھی نہیں بس سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا رہے تھے ۔

اسلام وعلیکم۔۔۔۔ سلام کی آواز سن کر سب نے پیچھے دیکھا تو وہاں ایک لڑکی نظر نیچے کر کے کھڑی تھی ۔

آو بیٹا بیٹھوں اُدھر ناشتہ کرو۔۔۔۔۔ ریاست شاہ اسے انوشے کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

انوشے نے مسکراتے ہوئے ناشتہ آگے کیا اور پھر سب کا تعارف عشاء سے کروایا ۔

یہ ہے عشاء میرے دوست کی بیٹی اسکے والدین کی کار حادثے میں وفات ہو گئی ہے اور اس لیے یہ اب ہمارے ساتھ رہے گی ۔۔۔۔۔۔اور پھر عشاء سے بولے۔

 یہ ہے میری بیٹی اور بہو انوشے اور یہ میرے بیٹے ازلان اور شہرام ۔۔۔۔۔۔۔اور سب سے تعارف کروانے کے بعد ۔

انوشے بیٹا وہ اوپر والا لیفٹ والا کمرا عشاء کے لیے سیٹ کروا دو ۔۔

جی بابا ۔۔۔وہ مسکرا کر بولی ۔

اس دوران عشاء اپنا چہرا نیچے کئے ہوئے ریاست شاہ کی باتیں سن رہی تھی ۔

انوشے کو عشاء سے مل کر اچھا لگا اور اسے کے ماں بابا کے بارے میں جان کر افسوس بھی ہوا عشاء نے روم ٹھیک کروا کر عشاء کا سامان وہاں شفٹ کروا دیا۔

عشاء بھی اس سے مل کر خوش ہوئی۔

جب وہ اسے روم میں چھوڑ کر جانے لگی تو اس نے انوشے کو گلے لگا لیا ۔

آپ بہت اچھی اور پیاری ہے میری سوچ سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔. وہ اس کی گال پر پیار کر کے بولی۔۔

او شکریہ تم بھی بہت پیاری ہو۔۔۔ انوشے بھی مسکرا کر بول کر چلی گئی۔

میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں آپ کے ساتھ کچھ بُرا نہ ہو۔۔ وہ دل سے اس کے لیے دعا کرتے ہوئے خود سے ہی بولی۔

اور آنکھوں میں آنسو لیے مسکرا دی۔

❤️❤️❤️❤️

ماما حارث کے بچے کو بولیں مجھے لے جائے پلیز شاپنگ کرنے مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پریشے اپنی ماں کی طرف چہرا کئے بے چارگی سے بولی۔

ماں پلیز آپ کچھ بولیں اس سے پہلے ہی میں بول رہا ہوں میں کہی نہیں لے کر جا رہا یہ خود لے جائے گاڑی اور دوسری چڑیل دوست کو لے جانا ساتھ۔۔۔۔۔ وہ منہ بسورتے ہوئے صاف ہری جھنڈی دیکھا گیا. 

 وہ صرف پیر پٹکتی رہا گئی۔

تم دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا مجھے لگ رہا ہے دونوں کی شادی کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔تاکہ  تم دونوں کو کوئی ٹھیک کرنے والا آئے۔۔۔۔۔۔ وہ جھنجلاتی ہوئی بولی۔

ماما آپ ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔ پریشے ان کی بات پر پریشان ہوتی بولی۔

یہ تمہاری سوچ ہے تمہارے لیے رشتے آئے ہیں اور میں اور تمہارے بابا سوچ رہیں ہیں اُن میں سے کسی ایک کے لیے اسی لیے خود کو تیار رکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے جتاتے ہوئے بولتی کیچن میں چلی گئی۔

پیچھے پریشے کو لگا اس کے پاؤں میں جان نہیں رہی اس سے ایک بھی قدم نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

یار مجھے بتاؤں اب میں کیا کروں ماما کی باتوں سے میرا دل باہر آنے کو ہے ۔۔۔۔۔وہ کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر لگاتے ہوئے فون پر لریب سے بات کر رہی تھی۔

مجھے پورا یقین ہے کہ ماما نے اگر یہ بولا ہے تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور ایسا کر بھی دئے گئی

مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے بولنے دئے بغیر صرف اپنی ہی بولی جا رہی تھی۔

اف پریشے سٹپ یار مجھے بھی کچھ بولنے دو گئی تو ہی بتاؤں گی میری بات غور سے سنو گی ۔۔۔۔۔

ہاں بولو یار میں نے کیا کہا ۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولی۔

تم اب سب سے پہلے شہرام کو کال کرو گی اور ہم اسے کل ملنے جائے گے اور وہی کچھ کرئے گا اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لریب اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔

ہم اوکے پر میں اب اسے کال کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی۔

 میرا دل نہیں کر رہا اسے منہ بھی لگانے کو۔۔۔

منہ لگنے کو کون بول رہا ہے اسے کال کر کے ملنے کے لیے بُلا لو پھر میں تمہیں پک کر لو گی اور کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا جس سے سب عزت رہ جائے۔۔۔۔۔ وہ سمجھ داری سے بولیاور فون بند کر دیا۔

پریشے کو اب سب سے مشکل مرحلہ شہرام کو فون کرنا لگ رہا تھا۔

 کمینا کہا پھنس گی میں ۔۔۔۔۔وہ بے چارگی لیے خود سے بولی۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام اپنے دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھا باتوں میں مصروف تھا ساتھ ساتھ موبائل پر کچھ پڑھ بھی رہا تھا پیچھے اپنے ایک کلاس فیلو کے بولنے پر اپنا موبائل چھوڑ کر اس کی بات سننے گیا ۔

وہاں بیٹھی آنیہ جس کی توجہ پوری کی پوری شہرام کی طرف تھی اس کے جانے کے بعد ابھی اسکا موبائل اٹھاتی وہاں پریشے کی کال آنے لگی ۔

گرین بیوٹی کا نام دیکھ کر آنیہ کا منہ بن گیا۔

شہرام بھی واپس آیا اس سے پہلے کے وہ فون اُٹھاتا آنیہ پہلے ہی فون اپنے ہاتھ میں پکڑ چکی تھی ۔

  کون ہے یہ شہرام کی طرف موبائل کر کے غصے سے بولی۔

میں تمہیں جواب دے نہیں ہوں مس آنیہ واپس کرو میرا فون۔۔۔۔۔۔ وہ لفظ چبا چبا کر بولا۔

اس سے پہلے کے وہ اس سے فون لیتا آنیہ فون اٹھا کر ۔۔۔ سپیکر پر کر کے۔

 ہیلو ۔۔۔غصے سے بولی ۔

اس کی اس خرکت پر شہرام نے غصے سے اپنے لب بیچ لیے اور خود کو کچھ سخت کرنے سے روکا۔

دوسری طرف جب پریشے کو کوئی نسوانی آواز سنائی دی تو اسنے ایک دفعہ موبائل کو دیکھا کہی غلط نمبر تو نہیں ڈائل کر دیا ۔

نہیں نمبر تو اسی کا ہے پھر یہ لڑکی کہی کوئی گرل فرینڈ تو نہیں۔۔۔۔۔ وہ ایک آئی برو اُٹھا کر خود سے بولی۔

ابھی بتاتی ہوں اسے تو میں میرے شوہر پر آنکھ رکھتی ہے۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی۔

ہیلو آپ کون ہیں شہرام کدھر ہے ۔۔۔؟ ؟وہ غصے سے چلا کر بولی۔۔۔۔۔

تم کون ہو اور ہمت بھی کسے ہوئی اس کو فون کرنے کی۔۔۔؟ ؟آنیہ بھی غصے سے بولی۔

آہ ہیلو تم کون ہو ہمت دیکھنی ہے تو سامنے آنا پھر بتاؤں گی چڑیل کہی کی 

For your kind information sharma shaa is my husband 

وہ یہ سب چبا چبا کر غصے سے بولی ۔

آنیہ کے سر پر تو جیسے دھماکے شروع ہو گئے تھے وہ منہ کھولے کبھی فون تو کبھی شہرام کو دیکھتی ۔

جو اب مزے سے پریشے کی باتوں سے لطف لے رہا تھا ۔

اور پریشے کی باتوں سے شہرام کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آ گئی تھی ۔

اس سے پہلے کے آنیہ کچھ بولتی پریشے اور ایک اور بات۔۔۔۔

He is mine

اور آنکھیں نکال لو گئی اگر آنکھ بھی اُٹھ کر دیکھی تو اور سننا ہے کچھ یا فون دے رہی ہو اسے۔۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا شہرام اور زیان کا قہقہہ بے ساختہ پر طرف گھنجا تھا۔

شہرام کا قہقہہ سن کر پریشے کو غلط ہونے کا احساس ہوا ۔

کہی سن تو نہیں لی ساری باتیں اس نے ۔۔۔۔وہ خود سے ہی بڑبڑاتے ہوئے بولی ۔

اور پھر شہرام نے آنیہ سے فون چھین کر کان سے لگاتے ہوئے وہاں سے نکل گیا اور پیچھے آنیہ غصے سے پیجوتاب کھاتی رہا گی ۔

ہیلو میری جنگلی بلی مجھے لگتا ہے تمہارا نام گرین بیوٹی سے جنگلی بلی کر دینا چاہیے ہاہاہاہاہاہا ویسے منہ دیکھنے والا تھا اسکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہرام انجوائے کرتے ہوئے بولا۔

اور دوسری طرف پریشے زمین میں گھڑی جا رہی تھی ۔

وووہ میں تو بس۔۔۔۔ اس سے اب لفظ ہی اد نہیں تھے ہو رہے  ۔

اور پھر غصے سے تمہاری گرل فرینڈ ہے اور پھر مجھ سے زبردستی نکاح کیوں کیا ۔۔۔۔؟؟

ہاہاہا تمہیں میری گرل فرینڈ ہونے سے مسئلہ ہے یا نکاح کرنے سے۔۔۔۔؟؟ وہ مزے سے بولا۔

دونوں سے مسئلہ ہے مجھے. ۔۔۔۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔

اور اگر گرل فرینڈ رکھنی ہے تو طلاق دے اور رہیں اس کے پاس ۔۔۔ ۔۔۔وہ غصے سے بولی۔

پریشے منہ سنبھل کر بات کرو ورنہ جان لے لو گا تمہاری۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر شہرام چلا کر بولا ۔

اور وہ نہیں ہے میری گرل فرینڈ سمجھی دوست تھی۔۔۔۔۔ تھی کا مطلب سمجھتی ہو نہ۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولا ۔

ج ج جی۔۔۔۔ وہ اٹکتے ہوئے بولی۔

کچھ کہنا تھا تم نے بولو۔۔۔۔ وہ اب آرام سے بولا۔

مجھے آپ سے ملنا ہے ہے ضروری کام تھا میں آپ کو اڈریس سینڈ کر دوں گی پلیز مجھے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔

What happened..... Every thing is fine 

پریشے میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔ اسے جواب نہ دیتے دیکھ کر وہ اونچی آواز سے بولا۔

پلیز ایسے بات نہ کریں مجھ سے مل کر بتا دوں گی سب ۔۔۔۔۔۔وہ بے چارگی سے بولی اور فون رکھ دیا۔

شہرام فون بند ہونے کے بعد سوچ میں پڑ گیا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ازلان صبح مجھے ماما کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ انوشے ازلان کی کافی ٹیبل پر رکھ کر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔

جانا ضروری ہے کیا۔۔۔؟؟ وہ گود میں فائل رکھے دیکھتے ہوئے انوشے کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوئے بولا۔

جی مجھے سب کی یاد آرہی ہے کب سے نہیں گئی صبح جاوں گی رات کو واپس آجاؤں گی۔۔۔۔۔۔ وہ اپنا سر ازلان کے کندھوں پر رکھ کر بولی۔

ازلان پلیز بند کریں نہ اسے آفس کا کام آفس میں رکھ کر آیا کریں۔۔۔۔۔ وہ اس کی فائل بند کرتی ہوئی بولی ۔

میں نے فائل بند کر دی تو تم پیچتاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے آئی برو اُٹھا کر بولا ۔

ازلان ٹھیک ہے آپ کام کریں۔۔۔۔۔۔ وہ اُٹھتے ہوئے بولی اس سے پہلے کے وہ جاتی ازلان نے کھنچ کر اپنی گود میں بیٹھا لیا۔

 ایک بات بولوں اگر میں چلا جاؤں یہاں سے تمہیں چھوڑ کر تو۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے کان کی لو کو چومتے ہوئے بولا ۔

آپ ایسا نہیں کریں گے مجھے پتہ ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسکا چہرا اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے بولی۔

اور اگر پھر بھی ایسا کروں تو ۔۔۔۔. وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو تھماتے ہوئے چوم کر بولا۔

ششش پلیز ازلان ایسا تو نہ کہیں مجھے کچھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔

مسکرا کر اس کی گردان پر اپنے لب رکھ دیئے اس کی قربت میں انوشے نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ کر خود کو اس کے حوالے کر دیا ۔

قسمت ان کے ملن پر دور کھڑی مسکرا رہی تھی اور جدائی بھی ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے شہرام سے کال کرنے کے بعد ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہی تھی ۔

میں کیوں پریشان ہوں میں  کون سا پیار کرتی ہوں اُن سے۔۔۔ آف کیا ہو رہا ہے مجھے۔۔۔ وہ خود ہی خود بڑ بڑتے ہوئے بول رہی تھی۔

لریب کی کال آنے پر اس نے فون اُٹھا کر کان سے لگایا۔

 جی یار بولو میں تو آگے ہی پریشان ہوں تم اب بار بار کیوں فون کر رہی ہو۔۔۔۔

کسی بے مروت عورت ہو تم تمہاری مدد کر رہی ہوں اور تم ہو کے۔۔۔

آہ ہیلو عورت کسے بولا عورت ہو گی تم میں تو خوبصورت لڑکی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ اترتے ہوئے بولی ۔

دفع ہو میں نہیں کر رہی تم سے بات۔۔۔۔ لریب ناراض ہوتی فون بند کر گی۔

جاو دفع ہو۔۔۔۔ وہ بھی موبائل بیڈ پر پھنک کر پریشانی میں اپنے ناخن چبانے لگی۔

اللہ جی پلیز ٹھیک کر دیں سب۔۔۔۔۔وہ دعا کی طرح ہاتھ اُٹھاتی بولی ۔

ازلان اُٹھ جائے پلیز ابھی مجھے گھر بھی جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کب سے جگا رہی تھی پر وہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں تھا لے رہا۔

ٹھیک ہے آپ نہ اُٹھے میں جا رہی ہوں شہرام کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ وہ بناتی جانے لگی کے اچانک ازلان نے اسے کھینچ کر اپنے اوپر گرا لیا۔

 ازلان ۔۔۔۔۔وہ چلا کر بولی ۔

ازلان چھوڑیں ۔۔۔۔. ابھی لفظ اسکے منہ میں ہی تھے کے ازلان اسکے کے لبوں کو قید کر چکا تھا۔

ایک ہاتھ کمر پر رکھے  پوری طرح سے اسے قابو میں کیے اسے ہلنے بھی نہیں دے رہا تھا اور اپنی محبت وارنے کے بعد اسے آہستہ سے چھوڑا۔

انوشے گہرے سانس لیتی شرم سے اپنا چہرا ازلان کے سینے پر رکھ دیا۔

اور ازلان اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

ازلان میرا دل کرتا ہے یہ وقت کبھی نہ جائے میں ساری زندگی ایسے ہی آپ کے سینے پہ سر رکھا کر گزار دوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ ازلان کے سینے پر اپنے لب رکھتے ہوئے بولی۔

انوشے کے اس عمل سے ازلان کو لگ وہ اندر سے ہل گیا ہو اور پھر خود بھی آرام سے اُٹھتے انوشے کو اپنی گود میں کر چکا تھا۔

انوشے تم چلو میں فریش ہو لو وہ اس کے گال پر کس کرتے ہوا بولا۔

شششش نہیں ازلان مت جائیے گا مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسکے لب پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

وہ ازلان کو آج کسی اور ہی دنیا میں لگ رہی تھی۔

ازلان مجھے کیوں لگ رہا ہے آپ مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔۔۔۔

میں کہیں نہیں جاوں گی آج آ آ آپ بھی مت جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جنوں میں عجیب عجیب باتیں کرتے ہوئے ازلان کے چہرے پر ہر جگہ اپنے لب رکھتے ہو بول رہی تھی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی ۔

شششش انوشے کہی نہیں جا رہا میں۔۔۔۔ وہ اپنے ہونٹوں سے اس کے آنسو کو چومتے ہوئے بولا اور خود میں زور سے بیچ لیا ۔

 وہ دونوں ایک دوسرے میں کہی گم ہو گئے تھے ازلان کے اس طرح کرنے سے انوشے روتے ہوئے مسکر دی۔

سوری ازلان آپ فریش ہو جائے مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے ایسا لگا جیسے آپ چلے جائیں گے چھوڑ کر مجھے۔۔۔۔۔. وہ اسکا چہرا اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بولی اور پھر آہستہ سے اپنے لبوں کو ازلان کے لبوں پر رکھ کر  چھوٹی سی کس کرنے کے بعد ساتھ ہی اُٹھا کر باہر بھاگ گی۔

پیچھے ازلان  مسکرا بھی نہ سکا۔

ازلان اتنی سردی میں بھی ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑا خود کے اندر جلتی آگ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

کیا کر رہا ہوں میں نہیں کرنا مجھے رحم انوشے پر قاتل ہے وہ میری ماں کی۔۔۔۔۔ وہ خود سے ہی باتیں کرتا زور سے مکے دیوار پر مارنے لگا۔

نہیں ازلان تم نہیں آ سکتے اسکی باتوں میں کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ خود سے ہی باتیں کرتا کوئی جنونی لگ رہا تھا۔

تمہیں پیار دے کر مارو گا اس دفع کسی کے قابل نہیں رہو گی تم ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ازلان نیچے آئے تو سب ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے ۔

نیچے جو ازلان آیا تھا وہ ایک محتلف ازلان تھا انوشے کا ازلان یا شاید وہ انوشے کا بن رہا تھا یا وہ ہے ہی ایسا تھا وہ خود بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔

وہ بھی اپنی چئیر کھنچ کر بیٹھ گیا اور سب کے ساتھ مل کر ناشتہ کرتے ہوئے باتیں کرنے لگا۔

بابا آج ماما کے گھر جا رہی ہوں اور عشاء بھی میرے ساتھ جائے گی آپ اجازت دے دیں ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ریاست شاہ سے بولی۔

یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔. عشاء کا ذہن بھی تھوڑا فریش ہو جائے گا۔۔۔۔

پر بھابھی میں کسے آپ کے گھر۔۔۔۔ وہ لب چباتی ہوئی بولی ۔

کیوں تم کیوں نہیں اچھا لگے گا وہاں جا کر تمہیں 

سب ہے وہاں ماما بابا پریشے حارث ۔۔۔۔ وہ اسکا گال کھنچتے ہوئے بولی۔

مائی کیوٹ سا بےبی ہو تم تو. ۔۔

ہاہاہاہاہا بھابھی آپ تو خود بےبی ہیں۔۔۔۔ شہرام ہنستے ہوئے بولا ۔

اور ہاں اب آپ ماما بابا کا نہیں بلکہ بھائی کا بےبی ہیں ۔۔۔۔. 

وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ازلان کی طرف دیکھا کر بولا

ازلان نے اسے آنکھیں دکھائی اور انوشے شرم سے چہرا نیچے جھکا گی ۔

ریاست شاہ بھی ان کی باتوں سے مسکرا دئے ۔

❤️❤️❤️❤️

ماما بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ انوشے نے گھر داخل ہوتے ہی آوازیں لگائی۔۔ انوشے کی آوازیں سن کا زارا اور اشرف بھی آگئے اور پریشے بھی دوڑتی ہویی نیچے آئی

اور اس کے گلے لگ کر پیار کیا ۔

پیچھے عشاء یہ منظر دیکھ کر مسکرا دی اور اس کی آنکھوں میں نمی آ گی ۔

انوشے بیٹا۔۔ یہ کون ہے ۔۔۔؟ ؟زارا نے عشاء کو دیکھا تو بولی اور جا کر اسے اپنے گلے لگا لیا ۔

ماما یہ بابا کے فرینڈ کی بیٹی عشاء ہے۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

زارا سے ملنے کے بعد پریشے بھی اس سے گرم جوشی سے ملی اور اسے بھی پیار کیا اور اشرف صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔

انوشے جب گھر آئی تو سب  اس سے مل کر خوش ہو رہے تھے  اس کے چہرے پر سکون اور مسکراہٹ دیکھا کر زارا بار بار ماشاءاللہ بول رہی تھی۔

 کہی میری ہی نظر نہ لگ جائے میری بیٹی کو ۔۔۔

ماما حارث کدھر ہے۔۔؟؟ انوشے حارث کا پوچھتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھتے بولی۔

بیٹا وہ گیا اپنی سٹیڈ کے لئے میں سوچ رہی ہوں اسکی شادی کا اور پریشے کی بھی۔۔۔۔۔ وہ پریشے کی طرف منہ کر کے انوشے کو بتانے لگی۔

یہ تو اچھا ہے ماما۔۔۔۔ ویسے وہ بھی پریشے کو تنگ کرتے ہوئے بولی۔

ماما میں جا رہی ہوں اگر یہی باتیں کرنی ہیں تو ۔۔۔۔وہ منہ بسورتے ہوے بولی۔

عشاء سب کی نوک جھوک دیکھا کر مسکرا رہی تھی 

تب ہی حارث آگیا ۔

ماما وہ دیکھیں شیطان آ گیا اسکا نام لیا اور وہ خاظر ہو گیا ۔۔۔۔۔

آپی آپ۔۔۔۔۔۔۔ وہ پریشے کی بات اگنور کرتا انوشے کو اپنے ساتھ لگ کر پیار کرتے ہوئے بولا ۔

آج کیسے ہم قریبوں کی یاد آ گئی جب سے شادی ہوئی ہے آپ نے تو ملنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔

بدتمیز ۔۔۔۔وہ اس کے کندھے پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی۔

اور ان سے ملو یہ ہے عشاء بابا کے فرینڈ کی بیٹی ۔۔

اسلام وعلیکم۔۔۔۔ خارث نے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

ماما حارث تو سچ میں بڑا ہو گیا ہے یہ تو مجھ سے بھی بڑا لگ رہا ہے سچ میں کر ہی دیں شادی کیوں حارث۔۔۔۔۔

ہاں اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کرلینی چاہیے شادی۔۔۔۔۔ وہ عشاء کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

عشاء اس کی نظروں سے پریشان ہو رہی تھی ۔

سب آپس میں باتیں کرنے لگے پر حارث کی نظریں بار بار عشاء کا طواف کر رہی تھیں ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے نے لریب کو اسی ٹائم میسج کر کے آج کا پروگرام کینسل کر دیا تھا جب اس نے انوشے کو دیکھا تھا۔۔ پر وہ شہرام کو بتانا بھول گئی تھی۔

اور شہرام اور زیان پورے چھ گھنٹے ان کا انتظار کرتے  ہوئے تھک ہار کر گھر واپس آ گے۔

 پریشے کو اتنی دفعہ فون کیا پر وہ میڈم شاہد اپنا فون کہی رکھا کر بھول چکی تھی۔

شہرام گھر آ کر غصے سے کب سے پریشے کو کال کر رہا تھا پر وہ اُٹھا نہیں رہی تھی اس نے غصے سے فون بیڈ پر پھینکا اور خود بھی بیڈ پر گرگیا ۔۔

کیا مصیبت ہے یار۔۔۔۔ وہ اپنے ہاتھ سر پر پھرتے ہوئے بولا. 

مجھے لگتا ہے خود ہی جانا پڑھے گا ۔۔۔اب وہ پر اسرا سا مسکراتے ہوئے پریشے کے بارے میں سوچنے لگا ۔

یار بابا سے بات کرنی ہی پڑے گی ۔۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے کیچن میں کھڑی1 چائے بنا رہی تھی کہ عشاء بھی اس کے پاس وہیں آکر کھڑی ہو گئی تھی دونوں آپس میں باتیں کرنے لگی ۔

میں ایک منٹ میں آئی تم یار بس چائے کو ایک منٹ دیکھنا پریشے جلد سے بول کر باہر گی ۔

عشاء اس کی جلد بازی پر مسکرا کر رہ گئی ۔

پر کسی نے پیچھے اسکی مسکراہٹ کو بہت غور سے دیکھا تھا۔

ہم۔۔۔۔ کی آواز سے جب عشاء نے پیچھے دیکھا تو اپنے پیچھے حارث کو کھڑا دیکھا کر گھبرا گئی۔

 وہ اسی کی نظروں سے ہی تو بچنے کے لئے یہاں پریشے کے پاس آئی تھی اسے گھبرتے دیکھا کر حارث کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔

پلیز گھبرائے نہیں میں پانی پینے آیا تھا آپ تو ایسے گھبرا رہی ہیں جیسے آپ کو کھا جاؤں گا ۔۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے فریج سے پانی نکالتے ہوئے بولا۔

حارث کی بات سن کر عشاء کا دل کیا ایک تھپڑ لگ ہی دے اسے ۔

آپ کو تمیز نہیں ہے کے بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے بڑی ہوں میں آپ سے۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف چہرا کئے جان بوجھ کر بولی۔

ہاہاہاہا رئیلی لگ تو کہی سے نہیں رہا کے بڑی ہے آپ مجھے۔۔۔۔۔۔ سے وہ فریج کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا رہا تھا ۔

جس نے بلیوکلر کی قمیض کے ساتھ وائٹ ٹراوزر اور ڈوپٹا حجاب کے سٹائل میں لیا ہواتھا اور چہرے پر معصومیت سے وہ کوئی چھوٹی سی ناراض بچی ہی لگ رہی تھی ۔

تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟ ؟پریشے نے اندر آتے ہوئے حارث کو پوچھا ۔

حارث جو عشاء کو نظروں کے حصار میں لئے کھڑا تھا ایک دم چوکا پر خود کو کموز کر کے۔

 آپ کو اللہ سبحان تعالیٰ نے دو آنکھیں دی ہے نہ تو نظر لگا کر دیکھیں میں کیا کر رہا ہوں ظاہر سی بات ہے ہاتھ میں پانی ہے تو پانی ہی پی رہا ہوں۔۔۔۔ 

اتنے بڑے ہو گئے ہوپر عقل نہیں ہے تم میں ابھی بھی ۔۔۔۔۔۔  کھڑے ہوتے پانی پینے پر چوٹ کرتی بولی۔

سچ میں تمہاری شادی کر دینی چاہیے کوئی عقل تو دینے والی آئے ۔۔۔۔ماما کو بولنا ہی پڑے گا کوئی ڈھونڈئے اس کے لیے ۔۔۔۔۔

ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے ڈھونڈ لی ہے سمجھو میں نے ۔۔۔۔۔۔وہ عشاء کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

عشاء جو دونوں کی نوک جھونک سے لطف اٹھا رہی تھی حارث کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس کی بات کا مطلب سمجھتی سٹپ گی اور آنکھیں کھولے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔

حارث اسے ایسے دیکھتے ہنستے ہوئے آنکھ مار کر وہاں سے چلا گیا ۔

پریشے کا دھیان نہیں تھا حارث پر وہ اپنی ہی سوچ میں تھی ورنہ ضرور اس کی بات کا مطلب سمجھ جاتی اسی لئے عشاء نے شکر ادا کیا۔

اللہ اب اور کون سے امتحان باقی ہیں عشاء خود سے سوچتی حارث کی بات کا مطلب سمجھتی سوچنے لگی۔

انوشے کے جانے کے بعد پریشے اپنے کمرے میں آئی تو فون کی بیل پر اپنا موبائل ڈھونڈنے لگی آخر اسے موبائل بیڈ کے نیچے مل گیا۔

 اف یہ یہاں تھا۔۔۔۔  موبائل کو بیڈ کے نیچے سے نکالتے ہوئے بولی۔

جب موبائل نکالا تب تک فون بند ہو گیا تھا۔

 اُپسس۔۔ اتنی مسڈ کال واللہ وہ تو میری جان لے لے گا۔۔آئی بھی تھی نہیں ملا اس وقت موبائل۔۔۔۔۔. وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے بولی۔

تب ہی موبائل دوبارہ سے رِنگ ہونے لگا اللہ اسی سکون کیوں نہیں ہے میں نہیں اُٹھا رہی فون خود ہی صبح کر دوں گی میسج آجائے گا۔۔۔۔۔۔اور لائٹ بند کر کے لیٹ گئی ۔

شہرام اس کی کھڑی کے پاس کھڑا ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

 تمھیں تو میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ وہ آرام سے اندر آیا 

پریشے جو مزے سے کمبل میں گھسی لیٹی تھی اسے شہرام کے آنے کی خبر نہ ہوئی۔

شہرام آرام سے اس کے کمبل میں گھس گیا ۔

ہیلو مائی گرین ہیوٹی۔۔۔۔ وہ پریشے کے کان کے قریب جا آہستہ آواز میں بولا اور اپنے ہونٹوں سے اُس کے کان کی لو کو چھو۔

پریشے جو ابھی نیند کی وادی میں قدم رکھنے والی تھی شہرام کے اس عمل سے ہڑبڑا کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔

میں نیند میں ہوں یا سچی آگیا یہ ۔۔۔۔۔۔وہ شہرام کے چہرے پر اپنا ہاتھ لگاتی بول رہی تھی۔

 مجھے لگ رہا ہے میں سو گی ہوں یہ خواب میں ہی ہے ۔۔۔۔۔وہ خود سے ہی بولے جا رہی تھی ۔

یار خواب میں تو مت آیا کرو آگے کیا کم دماغ پر سوار ہو۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سے آنکھیں بند کر لی۔

پریشے مائی لو۔۔۔۔ وہ پھر سے اپنے الٹے ہاتھ سے اسکے گال سہلاتے ہوئے بولا۔

پلیز یار جاو سونے دو خوابوں میں تو مت تنگ کیا کرو آگے جینا حرام ہو گیا ہے تمھاری وجہ سے۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی۔

پریشے کی بات پر شہرام کو غصے آگیا۔

 اب میں تمہیں بتاتا ہوں جینا حرام کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ شیطانی ہنسی لیے بولا اور پھر پریشے کے لبوں پر جھک کر اپنی ساری  شدتیں اُس پر لٹانے لگا۔

پریشے ایک دم ہوش کی دنیا میں آئی اپنے اوپر شہرام کی گرفت کو مضبوط ہوتا دیکھ کر اسے اپنے اوپر سے پرئے دکھلنے لگی ۔

پر آج شہرام کوئی بھی رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھا اُس پر پریشے کے آنسو بھی کوئی اثر نہیں کر رہے تھے۔

جب شہرام کو  پریشے کا وجود ہے جان ہوتامحسوس ہوا تو آہستہ سے اس نے اسے چھوڑ دیا۔

اور پھر مسکراتے ہوئے اپنے انگھوٹے سے اس کے ہونٹوں سے خون کی بوندوں کو صاف کرنے لگا۔

پریشے نے شرم کے مارے آنکھیں بند کر لی اور پھر اسے شہرام کا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس ہوا وہ آہستہ آہستہ سے اس کی آنکھوں کو چوم رہا تھا۔

شہرام پلیز جائے یہاں سے کوئی آجائے گا. ۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہی بولی۔

شہرام اپنا نام اس کے منہ سے سن کر مسکرا دیا وہ اور پھر سے پریشے کی طرف بڑھا ۔

اور اس کے ماتھے پر پیار کر کے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

تمہارے ہونٹوں سے میرا نام نکل کر اور بھی پیارا لگنے لگا ہے،،،، ،،،،،،،،وہ اسے اپنے ساتھ لگ کر بولتا اپنے لب اس کے بالوں پر رکھا گیا ۔

پریشے کو لگ رہا تھا آج اس کی  جان چلی جائے گی۔

پلیز شہرام جائے یہاں سے،،،، ،،،،،وہ اسے خود سے دور کرتی بولی ۔

ششششش آواز نہ آئے تمہاری ورنہ پھر میں وہی عمل دہراؤں گا اور تمہیں اچھا نہیں لگے گا بس چپ کر کے سو جاو اور مجھے بھی سونے دوں بہت نیند آ رہی ہی ہے مجھے،،،،، ،،،،،،شہرام کی بات سن کر پریشے پریشان ہو گئی۔

 ی ی یہ  کیا بول رہے ہیں آپ نیند آئی ہے تو گھر جا کر سوئے،،،،، ،،،،،،وہ اٹکتے ہوئے بولی۔

نو میری جان آج تو شہرام تمہارے پاس ہی سوئے گا تم چاہو یا نہ،،،،، ،،،،،،،،،وہ پریشے کو اپنے سینے کے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔

پر،،،،،،،،ابھی وہ کچھ بولتی ۔

پر ور کچھ نہیں اب ایک بھی لفظ پر تمہارے منہ سے نکلا تو منہ میں تمہارا بند کرو گا اپنے طریقے سے اور جو کچھ شادی کے بعد کرنے والا ہوں وہ ابھی کر کے دیکھوں گا ویسے بھی میں نے خود کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا ہوا ہے اب پلیز ایک اور لفظ نہیں  سو جاؤ،،،،، ،،،،،،،،،پریشے اس کی بات سنتی چپ چاپ اس کے سینے پر سر رکھ کر سو گی۔

 کہیں وہ سچ میں ہی اپنی بات پر عمل نہ کر دے

شہرام کو تھوڑی دیر بعد محسوس ہوا کے وہ سو چکی ہے تو اس کی دونوں گال پر کس کی اور اپنے ساتھ لگ کر سو گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عشاء گھر آ کر کمرے میں چلی گئی اور دوبارہ کمرے  سے سونے کا بہانہ کر کے نہ نکلی  انوشے کے آنے پر سوتی بن گئی ۔

پر پھر بھی انوشے اسکے پاس دودھ کا گلاس رکھ گی تاکہ جب وہ اُٹھے تو اگر بھوک ہو تو وہ پی لے گئی۔

عشاء سب کی محبتوں پا کر خوش تھی اور اندر ہی اندر ڈر بھی رہی تھی کے کہی اگر اس کی سچائی اگر کسی کو پتہ لگ گئی تو سب اس سے نفرت نہ کرنے لگے کیونکہ وہ شاہین کی بیٹی تھی اس گھر کی خوشیوں کی قتل کی بیٹی جس نے انوشے اور ازلان کی خوشیاں کھا لی تھی ۔

اور آج حارث کی آنکھوں میں جو محسوس کر کے آئی تھی اس سے وہ اور بھی ڈر گئی تھی ۔

عشاء اپنی ماں کی ساری سچائی جانتی تھی اس نے ہمیشہ اپنی ماں کی محلفت کی تھی ۔

عشاء کی تربیت اس کی دادی نے کی تھی اسی لئے وہ نیک سمجھ دار اور سب کے ساتھ محلص رہنے والوں میں سے تھی ۔

اسے لگتا تھا اگر سب کو پتہ لگ گئے کے وہ شاہین کی بیٹی ہے اور شاہین ہی اس گھر کی خوشیوں کی قاتل ہے تو تب سب اس سے نفرت کرائیے گئے ۔

 اے میرے رب مجھے کسی بھی مقام پر میرے نہ کردا گناہ کی سزا نہ دینا مجھ اس گناہ کی سزا نہ دینا جو میری ماں سے ہوا،،،، ،،،،،،،،وہ سجدہ میں اپنے رب کے آگے رو رہی تھی ۔

اس گھر میں ریاست شاہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ شاہین کی بیٹی ہے۔

❤️❤️❤️❤️

فجر کی اذان ہوئی تو شہرام نیند سے بیدار ہوا اور پھر آرام سے پریشے کو خود سے دور کرتا ہوا اُس کا سر آرام سے تکیے پر رکھا کر اُٹھا کر کھڑکی کی طرف بڑھ گیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے واپس آیا ۔

بہت جلدی آؤں گا تمہیں لینے،،،،، ،،،،،،،پریشے کے چہرے پر سے بالوں کو ہٹا کر اسکے ماتھے پر پیار کیا اور وہاں سے نکل گیا ۔

اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا جہاں زیان اس کا انتظار کر رہا تھا ۔

گاڑی کا ڈور اوپن کر کے زیان کو ہلائے جو ساری رات کا گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔

 یار چلو،،،،، ،،شہرام اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔

تمہیں اللہ پوچھے شہرام ساری رات کا اس گاڑی میں سٹر رہا ہوں میں تمہاری وجہ سے اور اب آرام سے بولا رہا ہے چلو،،،،، ،،،،،زیان جلتے ہوئے بولا۔

ہاہاہاہاہا پیچھلی دفعہ کی بھول گئے ہو جو دوبارہ کوئی حاطر تواز کروانی ہے،،،، ۔

نہیں بھولا اسی لئے رات سے ادھر پڑھا ہوا ہو ورنہ کب کا جا چکا ہوتا،،،،، ،،،،،،،،پچھلی دفعہ اس کے جانے سے شہرام نے اسکی حوب درگت بنائی تھی اور اس دفعہ ڈر سے وہ ہلا بھی نہیں ۔

چلو پھر تمہیں اچھا سا ناشتہ کرواتا ہوں،،،،، ،،،،،،شہرام اسے گاڑی چلانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ازلان بھائی ۔۔۔۔۔۔

عشاء نے ازلان کو آواز دی جو اپنے کمرے سے نکال رہا تھا  عشاء کے بولنے پر مڑ  کر اسے سوالیہ نگا سے دیکھا ۔

وووہ مجھ آپ سے بات کرنی ہے،،،، ،،،،،وہ اٹکتے ہوئے بولی ۔

جی بولو  بچے کیا بات کرنی ہے آپ کو،،،،، ،،،وہ اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا۔

وہ یہ کے،،،،، ،،،،،،۔

ازلان بیٹا آج ضرروی میٹنگ کی فائل کہاں ہیں مجھے اس کی ضرورت ہے،،،، ،،،،،،،،،ابھی ابھی وہ کچھ بولتی ریاست شاہ کی آواز پر اسے بعد میں بات کرنے کا بولا کر وہاں سے چلا گیا ۔

اور وہ وہی بس اسے جاتا دیکھ کر رہے گی ۔

اگر ازلان اس کی بات سن لیتا تو آج وہ فصیلہ نہ کرتا جو اس کی خوشیوں کو برباد کرنے والا تھا۔

شاہد قسمت ازلان کو کسی کی محلص  محبت کے ساتھ کھیلنے کی سزا دینے والی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ جانتے تھے وہ کیا بات کرنے والی ہے اسی لئے انہوں نے جان بوجھ کر ازلان کو اپنے پاس کام کے بہانے سے بھولیا تھا ۔

وہ نہیں چاہتے تھے کے ازلان اسکے منہ سے سچ سنے وہ چاہتے تھے کہ وہ خود جاننے کی کوشش کرئے سچپر وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ان کی سب سے بڑی غلطی ہونے والی تھی ۔

ازلان جو کرنے والا تھا اس کے بعد ۔

❤️❤️❤️❤️

ازلان جب روم میں آیا تو انوشے جو الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی اسے دیکھ کر اس کے پاس گیا ۔

انوشے کا چہرا  دوسری طرف تھا پر وہ ازلان کی خوشبو سے اسے محسوس کر سکتی تھی وہ اسے اپنے قریب محسوس کر کے مسکر دی اور الماری کا ڈور بند کر کے ازلان کی طرف مڑی تھی ۔

اور اپنے دونوں ہاتھ ازلان کے گرد کر کے اس کے سینے پر سر رکھ کر کھڑی ہو گئی اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتا انوشے بولی ۔

ازلان،،،،، ؟

جی جان ازلان،،،،، ،،،،،،،وہ بھی اپنے ہاتھ اس کے گرد ہاتھ باندھ کر اپنے لب اس کے بالوں پر رکھ کر بولا۔

ازلان مجھے آئسکریم کھانی ہے،،،، ،،،وہ بچوں کی طرح بولی ۔

ہاہاہا بس یہ بات تھی مجھے لگا کوئی رومانٹک بات ہو گی،،،،، ،،،، ۔

ازلان آپ کے لیے جلدی ایک سرپرائز ہو گا،،،، ،،،،،. وہ اپنا چہرا اوپر کر کے اس کی طرف دیکھتی بولی ۔

تمہارے لیے بھی،،،،، ،،وہ اپنے لبوں کو اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے بولا اور انوشے کے باقی کے لفظ منہ میں ہی رہے گے ۔

پریشے لریب کے ساتھ شہرام سے ملنے ایک ریسٹورنٹ میں آئی تھیں وہ ایک گھنٹے سے اس کا انتظار کر رہی تھیں پر وہ آنے کا نام نہ لے رہا تھا اور نہ ہی  فون اُٹھا رہا تھا۔

اللہ جی نہیں آئے ابھی تک بھی وہ اب اگر نہ آئے وہ تو  میں جا رہی ہوں گھر،،،،، ،،،،، پریشے بے زار ہوتی اُٹھنے لگی تھی۔

یار تھوڑی دیر تو بیٹھ جاؤ،،،،، ،،،،،،،،،لریب اسے کھینچتے ہوئے بولی۔

دس منٹ کے بعد پریشے اپنا بیگ اُٹھاتی باہر آگی لریب بھی اسکے پیچھے بھاگی۔

ابھی وہ گاڑی کا دروازہ کھولتی کسی نے اسکا ہاتھ پکڑ اپنی طرف کھینچا اور وہ جا کر سیدھا اس کے سینے سے لگی۔

شہرام نے اسے کمر سے پکڑ اپنے اور بھی قریب کر لیا۔

صرف اتنا ہی صبر تھا کے ایک گھنٹے سے زیادہ ویٹ نہیں کر سکی میرا کل پورے چھ گھنٹے ویٹ کیا میں نے اگر زیان نہ لے کر جاتا تو شاید سارا دن گزار دیتا اور تم،،،،، ،،،،،،،،،،. وہ جتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا کر بولا جس کی آنکھیں خیرت سے کھولی ہوئی تھی۔

وہ میں کب سے آئی ہوئی ہوں،،،،، ،،،وہ بات بناتے ہوئے بولی۔

ایک گھنٹہ دو منٹ اور پورے دس سیکنڈ بس تم نے انتظار کیا ہے میں تم سے پہلے کا ادھر موجود ہوں،،،،، ،،،،،،،،وہ اس کے جھوٹ کو پکڑتے ہوئے بولا

اس کی بات سے پریشے کا منہ کھل گیا۔

یعنی جان بوجھ کر آپ نے ہمیں ویٹ کروایا۔

How romantic

لریب چہرے پر ہاتھ رکھ کر اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔

لریب کے اس طرح بولنے سے اُن دونوں نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا جو بہت غور سے انہوں دیکھ رہی تھی۔

Please continuous....

مجھ مزا آرہا ہے آپ کو دیکھ کر،،،،،،، وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

پیچھے کھڑے زیان کا قہقہہ سن کر اب تینوں اسکی طرف دیکھنے لگے۔

زیان کو دیکھا کر پریشے کو اپنی خالت کا احساس ہوا وہ اس وقت شہرام کی باہوں میں اس کے بالکل پاس تھی  اس نے پیچھے ہونا چاہا پر شہرام کی پکڑ بہت مضبوط تھی۔

تمہاری بھول ہے میں تمہیں کبھی چھوڑوں گا وہ اس کے کان کے بالکل نزدیک آ کر بول کر اس کے کان کی لو کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر آرام سے پیچھے ہو گیا۔

اور پریشے شرم کے مارے چہرا بھی نہیں اُٹھا پائی 

لریب نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور  با مشکل اپنی ہنسی کو روکا۔

ویسے میں نے کچھ نہیں دیکھا وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بولی۔

ویسے شہرام بھائی آپ کا کوئی دوست نہیں ہے جو آپ کی طرح کا ہنڈسم اور رومنٹک ہو پلیز،،،،، ،، وہ آنکھوں کو پٹ پٹا کر بولی ۔

ہاہاہاہا سوری میں تو ایک ہی پیس ہوں اور وہ بھی بوکڈ،،،،، ،،،،،،شہرام لریب کو جواب دیتا پریشے کی طرف دیکھ کر بولا۔

اور پیچھے کھڑے زیان نے گلے کو کہنکارا ۔

ویسے میں فری ہوں،،،،، ،،،،۔

مجھے فری چیزیں بالکل نہیں پسند،،،،، ،،،،،،،وہ منہ بناتے ہوئے زیان کی طرف آنکھیں چھوٹی کر کے بولی۔

مجھے لگتا ہے وہ بات کر لینی چاہیے جس کے لیے آئے تھے ہم،،،،، ،،،،،،، پریشے انہوں کو لڑتا دیکھ کر بولی ۔

چلو پھر اندر چل کر بیٹھتے ہیں،،،، ،،،،،،اور وہ چارو اندر کی طرف بڑھ گئے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شہرام غصے سے گھر آیا تھا اور ریاست شاہ کا انتظار کر رہا تھا اسے رہا رہا کر پریشے پر غصہ آرہا تھا۔

 اس کے بولے لفظوں سے شہرام کا لگ رہا تھا پریشے کی جان لے لے یا وہ خود کو کچھ کر لے گا ۔

شہرام آپ اپنے بابا کو ہمارے گھر بھیج دیں یا طلاق دے دیں،،،،، ،،،،طلاق کا لفظ سن کر شہرام کا دل کیا تھا پریشے کو رکھ کر ایک لگائے۔

 اسی لیے وہ خود کو کنٹرول کرتا غصے سے وہاں سے اُٹھ آیا تھا اور زیان کو انہوں کو چھوڑ کر آنے کا میسج کرنا نہیں بھولا تھا۔

اب وہ غصے سے ادھر سے اُدھر  چکر لگا رہا تھا۔

 کیونکہ اسے آج ہی ریاست شاہ کو سب بتانا تھا اور پریشے کو گھر لے کر آنا تھا۔

اب تم سے تب ہی ملاقات ہو گی جب سب کے سامنے تمہیں اس گھر میں لے کر آؤں گا وہ خود سے بولتا پریشے کو تصور میں سوچ رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️

کچھ زیادہ بول دیا کیا،،،،، ،،،،،،،وہ دونوں گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی جب پریشے  لریب سے بولی جو اگلی سیٹ پر منہ پھلا کر بیٹھی تھی۔

کچھ زیادہ پریشے بہت زیادہ بول دیا اور وہ بھی بے وجہ بکواس،،،،، ،،،،،،،،،،وہ غصے سے اسے اس کی غلطی بتاتے ہوئے بولی۔

یار غصہ آگیا تھا مجھے اس کی باتوں پر،،،، ،،،،،۔

تو غصے میں طلاق مانگ لو گی مزاق سمجھ رکھا ہے رشتوں کا ہاں مانا زبردستی کا رشتہ ہے پر ہے تو حلال نہ اگر نہ حلال رشتہ بناتے تو پھر سوچا ہے کبھی اور اوپر سے اتنے رومانٹک تمہیں تو ہوا میں اُڑانا چاہیے،،،، ،،،،،،،،،،وہ سیرس بات کرتی آخر میں شرارتی انداز سے بولی۔

پریشے جو ایسے شرمندگی سے سن رہی تھی اس کے مزاق کو سمجھ کر اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر اسکی کمر پر دے مارا ۔

آوچ کیا مسئلہ ہے یار اور تمہاری ہنسی کیوں نکل رہی ہے،،،، ،،،،،اب اسکی توپوں کا رُخ زیان کی طرف تھا ۔

کاش تم بھی تھوڑے خوبصورت ہوتے تو میں کچھ سوچتی پر ہائے رے قسمت تمہاری بھی اور میری بھی،،،،، ،،،،،،،اور دوسری طرف زیان ان کی باتوں کو سن کر مسکرا رہا تھا اس مزا آرہا تھا ان دونوں کی باتیں سن کر خود کو لریب کے نشانے پر دیکھ اور جب اسکی اگلی بات سنی تو اسکا منہ ہی کھلا گیا۔

 کیونکہ کے وہ اچھا خاصہ ہنڈسم بندا تھا کوئی بھی اسے دیکھ کر دل دے سکتا تھا پر یہ لڑکی اسے کب کی بےعزتی ہی کر رہی تھی۔

او ہیلو اپنی شکل بھی دیکھ لو جا کر تم کون سا کوئی خور پری ہو رحم آگئے تم پر کے کوئی پیار کرنے والا ہی مل جائے پر تم تو کسی بوڑھے امیر کی قسمت میں ہو شاید،،،،، ،،،،،،،وہ بھی اپنی بےعزتی کا پورا بدلہ لیتا ہوا بولا۔

اور دوسری طرف لریب تو صدمے سے کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔

زیان کو لریب کا منہ دیکھ کرقہقہ لگانے کا دل کیا پر وہ اپنا چہرا سامنے کیے گاڑی پر فوکس رکھے رہا

پریشے کا گھر آنے پر وہ انہیں اللہ خافظ بولتی چلی گئی۔

اب پیچھے لریب تھی اس نے آرام سے بنا کوئی چوچا کیا اسے اڈریس بتا دیا۔

اس کے گھر کے باہر گاڑی روکی تو لریب باہر جانے لگی اس سے پہلے کے وہ باہر نکلتی ۔

سنیں  آپ کی انگجمنٹ تو نہیں ہوئی،،،،، ،،؟؟

نہیں کیوں آپ کو رشتہ بھیجنا ہے جو ایسے پوچھ رہیں ہیں،،،، ،،،،،،،؟؟

نہیں میرے ایک انکل ہیں امیر انہوں آپ جیسی لڑکی کی تلاش ہے کہیں تو بات چلاؤں،،،،، ،،،،،،،،وہ مزاق اُڑتے ہوئے بولا۔

یو میں جان لے لو گی تمہاری،،،،، ،،،،،،،،،وہ اپنے ہاتھ اس کی گردن کی طرف کرتی بولی۔

ہاہاہاہا سوری سوری مس چڑیل وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔

لریب گاڑی کا دوڑ غصے سے بند کر کے چلی گئی 

اور پیچھے زیان نے مسکرا کر گاڑی آگے بڑھ لی۔

❤️❤️❤️❤️

حارث اور پریشے دونوں اپنے ماں بابا کے ساتھ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہیے تھے کے ۔

پریشے یار تم ایک بات تو بتاؤں،،،،، ،،،،وہ اس کے کان کے پاس جا کر رازداری سے بولا ۔

پریشے جو اپنے دھیان سے ٹی وی دیکھ رہی تھی اسکی بات پر اتنا غور نہ کرتے ہوئے ہوں ہاں میں جواب دیا اور ٹی وی دیکھنے لگی۔

یار تمہارا موبائل کدھر ہے،،،، ،،،،؟؟

کیوں،،،، ،،،،حارث کا اتناکہنا تھا پریشے نے آنکھیں نکال کر اسے دیکھا۔

وہ مجھے چاہیے تھا ۔

وجہ جاؤ جاؤ کام کرو اپنا جاکر،،،،، ،پریشے بولتی پھر سے دوسری طرف چہرا کر گی ۔

اف یار اب کہا سے لو نمبر اگر ایک دفعہ بات ہو جاتی تو بات کلیر کر کے ماں بابا سے بات کر لیتا،،،،، ،،،،،،،وہ سر پر ہاتھ مارتا ہوا بولا ۔

❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ سٹیڈی میں بیٹھے اپنی فائل دیکھ رہے تھے کے شہرام روم میں داخل ہوا ۔

ریاست شاہ نے اپنا چہرا اوپر اُٹھا کر خیرانگی سے شہرام کو دیکھا۔

آج چاند کہا سے نکل آئے ہے جو ہمارا بیٹا خود چل کر میرے پاس آیا ہے،،،، ،،،،،،وہ شہرام پر طنز کرتے ہوئے بولے ۔

بابا پلیز،،،،، ،،وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولا۔

مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے،،،، ،،۔

تب ہی میں بولوں بن بلائے خاضری ویسے مجھے بھی تم سے بات کرنی تھی پہلے تم کرو گے یا میں،،،،، ،،،،،،،؟

بابا آپ کریں پہلے،،، ،،،،،،وہ شرمندہ ہو رہا تھا باپ کی باتوں سے ۔

شکر ہے ہاں بات یہ تھی کے تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں تم عشاء سے شادی کر لو اور اسی مہینے کے آخر میں ہم شادی کر دئے،،،،، ،،،،،،،۔

ریاست شاہ کی بات سن کر شہرام کو لگا زمین اسے کے پاوں کے نیچے سے ہل گی ہو اور وہ منہ کھولے بس اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔

شہرام نے خود کو سنبھال کر ریاست شاہ کی طرف دیکھا اور پھر زبان ہونٹوں پر پھیر کر بولا۔

بابا مجھے عشاء سے شادی نہیں کرنی میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں ،،،،،،،،،،،،،،،وہ آنکھیں نیچے کیے ہوئے بولا۔

کون ہے وہ ریاست شاہ بہت تحمل سے بولے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اب وہ بڑا ہو چکا ہے کوئی بچہ نہیں ہے جو غصے سے اپنی بات منوالی جائے۔

پریشے ہے وہ لڑکی بابا،،،،،،،،،۔

پریشے کا نام سن کر ریاست شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگی تھی۔

اور پھر شہرام انہوں کو اپنے خواب سے لے کر نکاخ تک کی ہر بات بتاتا گیا۔

تو اب کیا چاہتے ہو تم،،،،،،،،،ریاست شاہ کو شہرام کی بات پر غصہ تو آیا پر وہ خود کو کنٹرول کر کے پھر سے بولے۔

بابا میں چاہتا ہوں آپ صبح ہی جائے اور

سب کچھ ٹھیک کر دے پریشے پر کوئی بھی آنچ لے کر آئے بغیر ،،،،،،،،،،،وہ اپنا موقف اپنے بابا کے سامنے پیش کرتا ہوا بولا۔

ہم ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں،،،،،،،،۔

پلیز بابا دیکھنا نہیں ہے بلکہ صبح جانا ہے اور سب کچھ پکا کر کے آنا ہے،،،،،.،،،وہ اپنے بابا کا ہاتھ پکڑ کر ان کی منت کرتے ہوئے بولا۔

ہہہم ٹھیک ہے تم جاؤ میں کچھ کرتا ہوں ۔

اور شہرام کے جانے کے بعد انہوں نے فون ملایا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

التماش جس کام کا میں نے بولا تھا وہ ہو گیا ہے کیا،،،،، ،،،،،،،؟؟ازلان فون پر بات کرتے ہوئے بولا۔

اور اپنے ساتھ سوۓ وجود پر بھی نظر ڈال رہا تھا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے دوسری طرف ہوتی گفتگو سن کر مسکرا دیا۔

ہم اور جو پیپرز کا بولا تھا وہ تیار ہوئے،،،،، ،،،،،،،؟یہ سب باتیں کرتے ہوئے ازلان کے چہرے پر تو مسکراہٹ تھی پر آنکھوں میں ایک کرب تھا کچھ کھو دینے کا کرب۔

اور پھر فون سن کر آنکھوں کو بند کیا تو اس میں بھی ایسے انوشے کا مسکراتا ہوا چہرا نظر آئے 

تو اس نے اپنی آنکھیں کھولی ۔

کیا میں ٹھیک کر رہا ہوں انوشے کے ساتھ،،،،، ،،،،،؟وہ خود سے ہی بولا وہ خود کو خود ہی نہیں سمجھ پا رہا تھا کے وہ کون سا ازلان ہے انوشے کا ازلان یا وہ ازلان جو بدلے کی آگ میں اندھا ہو چکا ہے ۔

پر ہمشہ محبت پر نفرت غالب آجاتی ہے۔

وہ سوئی انوشے کے پاس ہوا میں تمہیں اتنا اپنی محبت دوں گا کہ میرے جانے کے بعد تم تڑپو  گی میرے لیے اور کبھی مجھے نہ پا سکو گی،،،،، ،،،وہ اس کے چہرے پر سے بال پیچھے کرتے ہوئے سوئی انوشے سے محاطب تھا ۔

پر وہ نہیں جانتا تھا کے قسمت اسے بھی اتنا ہی تڑپانے والی ہے وہ کھو دے گا اسے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

پریشے اپنے روم میں بیٹھی ہوئی تھی تو اسے ریاست شاہ کے آنے کی اطلاع ملی ۔

ماما آپ کو نیچے بلا رہی ہیں جاؤ جا کر سب کے لیے چائے بناو انکل آئے ہیں،،،، ،،،،،،،،وہ اسے بولتا ہوا چلا گیا ۔

 پریشے نیچے گی تو نیچے عشاء اور انوشے بھی آئی ہوئی تھیں ۔

وہ ان سے مل کر بہت خوش ہوئی اور پھر عشاء اور وہ دونوں کیچن کی طرف چلیں گئیں ۔

وہ دونوں چائے بنا اور ٹی ٹرالی سیٹ کر رہی تھیں سب سٹ کرنے کے بعد ۔

عشاء تم لے جاو پلیز یہ،،،،، ،،،،،،،پریشے بولی میں مہمان ہوں تم جاو شاباش تم تو ایسے شرما رہی ہو جیسے تمہارا رشتہ ہو رہا ہے عشاء جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہی تھی ۔

پریشے اسے آنکھیں دکھاتی منہ پر ہاتھ مارتی آکر پوچھنے کا اشارہ کرتی وہاں سے ٹرالی لے کر چلی گئی ۔

عشاء اپنے ہی دھیان سے برتن سمٹتی باہر جانے لگی تو اسکے سامنے حارث آ گیا۔

مجھ لگتا ہے آپ کو ہمارا کیچن کافی پسند ہے کیوں نہ ایسا کیا جائے کے ہمیشہ کے لیے آپ کو یہاں لے آیا جائے،،،،، ،،،،،،،،،،،حارث کی بات کو عشاء سمجھ گئی تھی پر بولی کچھ نہیں اور باہر جانے لگی تو حارث نے اس کے جانے کا راستہ بند کر دیا ۔

میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے،،،، ،،،،،،،،،،وہ اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔

ج جی مجھے کوئی شوق نہیں آپ کی خانساماں بننے کا ہٹے پیچھے مجھے جانے دیں،،،،، ،،،،،،،وہ حارث کو اپنے طرف بڑھتے دیکھا کر گھبرا کر بولی۔

وہ پیچھے قدم لینے لگی اور دیوار کے ساتھ جا کر لگ گئی تو حارث نے اسکے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اسکے فرار کے سارے راستے بند کر دیئے اور تھوڑا جھک کر ۔

میں آپ سے سیدھی بات بولنا چاہتا ہوں مجھے آپ اچھی لگی ہے اور شادی کرنا چاہتا ہوں میں سیدھے نکاح جیسے پاک رشتے پر بھروسہ کرتا ہوں دوسرے رشتے میرے لیے اہمیت نہیں رکھتے اسی لئے میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا،،،، ،،،،،،،،،،وہ اسے بولتا ہوا پیچھے ہٹ گیا اور کیچن سے باہر چلا گیا۔

 اس کے جانے سے عشاء کو ہوش آیا اتنی سردی میں بھی اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے تھے وہ اپنا سانس بحال کرتی ہوئی باہر سب کے پاس چلی گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

رشتے کے لئے ہاں کر دی گئی تھی اور شہرام اور پریشے کے ساتھ ساتھ حارث اور عشاء کے نکاح کی ڈیٹ بھی تہہ کر دی گئی تھی۔

 سب بہت حوش تھے جب حارث سے اسکی رزمندی پوچھی گئی تو اس نے ہاں میں جواب دیا حارث کو تو لگ رہا تھا کے اسے تو جیسے ہفتے اقیل کی روشنی مل گئی ہو اسکا دل کیا کے وہ لڈیا ڈالے پر وہ خود کو کنٹرول کرتے ہوئے شریف بن گیا ۔

دو دن بعد نکاخ تھا سب بہت حوش تھے اتنے سالوں بعد پھر اس سے گھر میں خوشی  آنے لگی تھیں ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انوشے نے آج یہی رہنے کا پروگرام بنا لیا اس نے بہت دفعہ ازلان کو کال کرنے کی کوشش کی پر اسکا فون نہیں ملا اسی لیے میسج کر دیا اور پھر سب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی ۔

کافی رات ہو گئی ہے چلو اب سو تم دونوں بھی،،،،، ،،،،،،۔

عشاء تم میرے ساتھ سونا میرے کمرے میں،،،،، ،،،،،پریشے اسے بولی اور اسے اپنے ساتھ لے کر اپنے روم میں چلی گئی ۔

انوشے بھی اپنے روم میں آگئی، حارث کی لاکھ کوششوں پر بھی عشاء نے اسے کوئی موقع نہیں دیا بات کرنے کا اور اسی لیے وہ بے چارا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

وہ صوفے پر بیٹھا ابھی سوچ ہی رہا تھا کے بیل کی آواز پر باہر دیکھنے گیا تو ازلان کو دیکھ کر خیران رہ گیا۔

 آپ اس وقت یہاں،،،،،،،؟

کیوں میں نہیں آسکتا کیا ،،،،،،،،؟

نہیں نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا آئے آپ،،،،،،،، وہ اس اندر لیے آگیا۔

 آپ کچھ کھائے گے ،،،،،،؟

نہیں میں صرف انوشے کو لینے آیا تھا کہا ہے وہ ،،،،،؟

پر آپو تو آج یہی رہینے والی ہیں وہ،،،،، ،اس کی بات پر خیران ہوتا ہوا بولا ۔

ہم کہاں ہے روم میں خود اس سے بات کر لو گا،،،، ،،،،وہ پوچھتا ہوا وہاں سے چلا گیا،، ۔

اور پیچھے حارث بھی اپنے کندھوں کو اچکا کر چل دیا۔

:❤️❤️❤️❤️

دوسری طرف شہرام تو خوشی سے پھولے نہیں تھا سما رہا وہ تو کہی دفعہ ڈانس بھی کر چکا تھا زیان جو آج رات اسی کے پاس تھا اا اسکے آگے کہی دفع ہاتھ بھی جوڑ چکا تھا پر شہرام کے قدم تو زمین پر نہیں تھے ٹک رہے۔

یار بس کر دے وستا ہے تجھے آدھی رات ہو چکی ہے اب سونے دے مجھ بھی،،،،، ،،،،،،زیان شہرام کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولا جو ناگن ڈانس کر رہا تھا ۔

آف یار میں کیا کرو مجھ سے کنٹرول نہیں ہو پا رہا کے ساری دنیا کے سامنے وہ پرسو میرے نام ہو جائے گی اور وہ ہو گی میرے پاس،،،،، ،،،،،،۔

میں جا رہا ہوں واہیات انسان تیرا کوئی اعتبار نہیں رات کو تُو مجھے پریشے ہی نہ سمجھ لے،،،،، ،،،،،وہ اُٹھاتا ہوا بولا۔

ٹھیک ہے جا تُو پھر میں یہ لریب کا نمبر کسی اور کو دے دوں گا،،،، ،،،،وہ اسے تنگ کرتے ہوئے بولا۔

یار دے بھی دے کیوں کر رہا ہے ذلیل اتنا تُو مجھے اگر نمبر کی بات نہ ہوتی تو میں یہاں نہ ہوتا،،،،،،،،،۔

ہاہاہاہاہا چلا سو جا صبح دے دوں گا پکا،،،،، ،،۔

اور وہ خود باہر آکر پریشے کو کال کرنے لگا پر پریشے بھی اپنے نام کی ایک تھی فون اور وہ اُٹھا لے ہو ہی نہیں سکتا ۔

اسی لئے شہرام اپنی کوشش ترک کرتا ہواواپس اپنے روم میں آگیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ازلان جب انوشے کے روم میں داخل ہوا تو دیکھا کے انوشے سو رہی تھی ۔

وہ آہستہ سے چلتے ہوئے بیڈ کے پاس آئے اور آرام سے انوشے کو اپنی گود میں اُٹھائے اور روم سے لے کر باہر چلا گیا ۔

حارث اسے نیچے ہی ملا وہ حارث کو بتا کر انوشے کو اُٹھائے گاڑی میں سوار ہوا اور گھر آکر اسے اپنے کمرے میں لیٹا کر خود دوسری طرف آ گیا 

اور خود بھی آرام سے اسے اپنی طرف کھینچ کر لیٹ گیا۔

ایک پل بھی رہنا مشکل لگتا ہے تیرے بن'' 

'' تُو صدیوں کی باتیں کرتا ہے 

انوشے صبح جب اُٹھی تو اپنے ساتھ سوۓ ازلان کو دیکھ کر خیران رہ گئی اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو چھو کر محسوس کرنے لگی کے یہ سچ ہے یا خواب۔

 پھر آنکھیں بند کیا ہوئے ازلان مسکرا دیا۔

آ ا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور آپ اُٹھے ہوئے تھے،،،،، ،،،،،؟؟وہ خیران ہوتے ہوئے بولی۔

 کیوں میں اپنے کمرے میں نہیں آسکتا کیا اور میں محسوس کر رہا تھا میری پیاری وائف نیند میں میرا کتنا فائدہ اُٹھتی ہے،،،، ،،،،،،،،،،،وہ اسی کے انداز میں خیران ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔

اب باری تھی انوشے کے خیران ہونے کی۔

 آپ کا کمرا یہ میرا کمرا ہے،،،، ،،،،،،،،وہ بولتی ہوئی چارو طرف نظریں گما کر دیکھتی بول رہی تھی کے کمرے کو دیکھا کر اسے جھٹکا لگا۔

میں یہاں کیسے میں تو گھر سوئی تھی،،،،، ،،،،،،،وہ خیران ہوتے ہوئے ازلان سے بولی۔

میں آپ کا خادم کس لیے ہوں ویسے تم بہت وزنی ہو یار میں نے بہت مشکل سے اُٹھایا تمہیں،، ،،،،،وہ انوشے کی شکل دیکھ کر بمشکل اپنی ہنسی روکے ہوئے تھا۔

وہ اسے آنکھیں دکھاتی ہوئی اُٹھ کر جانے لگی

ازلان اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔

کہاں جا رہی ہے رات کو بہت خوبصورت نیند میں تھی اسی لیے معاف کر دیا ورنہ اسی وقت سزا دیتا مجھ سے پوچھے بنا رہنے کی،،،،، ،،،،،۔

میں نے آپ کو کال کی تھی،،،،، ،،،،وہ ابھی بول رہی تھی کہ ازلان نے اپنے لب اس کی گردان پر رکھ دئے۔

ازلان پلیز،،،،، ،،،،انوشے کپکپائی۔

شششش آواز نہیں،،،، ،،،،،،،،،ازلان اپنا چہرا اوپر اُٹھاتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر بول کر دوبارا اس کی گردن پر جھک کر اپنی جنونیت کے نشان چھوڑنے لگا۔

انوشے نے اُسے اپنے ہاتھوں سے پیچھے کرنا چاہا

پر ازلان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے کابو میں کر کے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک التجا تھی پر وہ اس وقت رحم کھانے کے موڈ میں بلکل نہیں تھا اور پھر اسکے لبوں کو نشانہ بنایا۔

انوشے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ ازلان کی گرفت سے نہیں نکل پائی۔

آج ازلان کے ہر لمس میں جنون تھا اور انوشے کو اپنا آپ پگھلتا ہوا محسوس ہوا۔

❤️❤️❤️❤️

میں نے بولا تھا نہ تمہیں سب ٹھیک ہو جائے گا دیکھا میرا آئیڈیا کتنا کام آئے اور تم پھر جلدی ہی پیا صدار جاو گی،،،،، ،،،،،،،،،پریشے کب سے لریب کے منہ لریب کی تعریفیں سن رہی تھی اب بالکل بے زار ہو چکی تھی پر زبردستی مسکر رہی تھی ۔

یار للہ اب بس کر دو میں پک گئیں ہوں تمہاری تعریف سن سن کر مجھ پر تھوڑا رحم کرو،،،،، ،،۔

یار نیچے چلو آنٹی سے بول کر ڈھولکی رکھتے ہیں کل شہرام بھائی لوگوں کو  بھی بولاکر سب مل کر ہلاگلہ کریں گے مزا ہی آجائے گا،،،، ،،،،،،،وہ پریشے کی بات کا اگنور کرتی نئے شوشا چھوڑتی  نیچے کی طرف بھاگ گئی۔

❤️❤️❤️❤️

لریب حارث کے ساتھ بیٹھی رازہ ناز کی باتیں کر رہی تھی کیونکہ اب وہ دونوں زارا اور اشرف کو ڈھولکی کے لیے منانے والے تھے ۔

لریب آنکھوں کے اشارے سے حارث کو کچھ سمجھا کر زارا کے پاس کیچن میں چلیں گی ۔

اب وہ کیچن میں کھڑی کبھی کوئی چیز کو پکڑتی ادھر کرتی تو کبھی کچھ اُٹھ لیتی۔

زارا اس کی ہر بات نوٹ کر رہی تھی پر بولی کچھ نہیں وہ بس اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہیں تھیں زارا جانتی تھی اب کوئی نیا شوشا چھوٹنے والا ہے ۔

تب ہی حارث بھی کیچن میں آگیا اور لریب کو کوئی اشارا کرنے لگا اس نے نہ میں سر ہلائے اب حارث کو ہی کچھ کرنا تھا ۔

ماما وہ لریب بول رہی تھی ڈھولکی رکھنے کی کل پلیز ماما نہ نہ کیجئے گا ورنہ لریب کا دل ٹوٹ جائے گا،،،، ،،،،،،،حارث صاف طریقے سے لریب کو پھنسا چکا تھا وہ منہ کھولے حارث کو دیکھا رہی تھی۔

 زارا کے پیچھے مڑ کر دیکھنے سے جلدی منہ بند کرتی شرمندہ سی ہنسی ہنستے ہوئے چہرا نیچے کر گئی۔

میری طرف سے نہ ہے،، ،،،،،،،زارا صاف جواب دیتی ہوئی بولی ۔

پلیز آنٹی پلیز پلیز مان جائے  بہت دن بعد کوئی ایسا پروگرام بنا ہے،،،، ،،،،،،،،وہ زارا  کی منت کرتی ہوئی بولی ۔

ٹھیک ہے میں اشرف سے اور ریاست بھائی سے پوچھ کر بتاتی ہوں،،،،، ،،،۔

ماما آپ بابا کو بولے اور بابا نہ کر دیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور بابا ریاست انکل کو منا ہی لے گئے پلیز اب نہ مت کریں کل کے فنکشن کی تیاری کریں ہم 

پلیز،،،،، ،،،،،،،،،،وہ دونوں ایک ساتھ بولے اور زارا کے ہاں کرنے سے بھاگتے ہوئے پورے ہال میں ناچنے لگے۔

بس کرو تم دونوں تم دونوں تو ناچنے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہو توبہ ہے،،،، ،،،،،،،۔

بات ہی ایسی ہے سنو گی تو تم بھی ناچو گی،،،،، وہ اسے بھی کھینچتی ہوئی  بولی۔

جاو پیچھے ہو تم دونوں،،،،، ،،۔

جاؤ منحوسوں والی شکل کیوں بنائی ہے نہیں کرنا چاہتی شادی تو سیدھے طریقے سے بتا دو ہم آج ہی نہ کر دیتے ہیں ہمیں تم سے بڑھ کر کچھ نہیں،،،، ،،،،،،،،،،وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لیے ہمدردی لیے بولی ۔

لریب وہ چیحتے ہوئے بولی اور اب وہ آگے آگے اور پریشے ہاتھ میں گلدان پکڑے اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی اور حارث انہوں کو دیکھ کر اپنی ہنسی کو کنٹرول کر رہا تھا زارا اور اشرف اپنے بچوں کو دیکھ کر ان کی دائمی خوشی کی دعا کرنے لگے ۔

❤️❤️❤️❤️

آج ڈھولکی تھی اور عشاء اور انوشے تو پہلے ہی یہاں آگئی تھیں اب انوشے دونوں کو ہلکا ہلکا تیار کیا  

تھوڑی دیر میں سارے لڑکے بھی آنے والے تھے

انوشے مجھے سے شرمایا نہیں جائے گا یار،،،،، ،،،،،، پریشے کنفیوز ہوتی بولی ۔

تم جیسے چڑیل شرما کر کرئے گی بھی کیا،،،،، لریب اند آتے ہوئے بولی  ۔

جسٹ شیٹ آپ تمہاری باری آنے دو دیکھنا پھر،،،،، پریشے اسے دھمکاتے ہوئے بولی ۔

تو ابھی کیا نہیں دیکھا رہی،،،،، ،وہ آنکھوں کو پٹ پٹا کر بولی جب بھی پریشے کو تنگ کرنا ہوتا تھا وہ ایسے ہی کرتی تھی ۔

بس کر دو تم دونوں،،،،، ،،،،. انوشے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی۔

 اوکے جی،،،،، ،وہ دونوں ایک ساتھ بولیں ۔

ویسے یہ زیان کا کیا چکر ہے،،،، ،،،،،پریشے لریب کے کان میں بولی۔

ک کیا کون سا چکر،،،،، ،،؟وہ چیختے ہوئے بولی ۔

انوشے نے اور عشاء نے اُن دونوں کوحیران ہوتے ہوئے دیکھا۔

 کس چکر کی بات ہو رہی ہے،،،، ،؟انوشے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں چھوٹی کر کے بولی۔

کچھ نہیں بس یہ ہی پوچھ رہی تھی کے آج کا کیا چکر ہے گانوں وغیرہ کا،،،،، وہ بات بناتے ہوئے بولی ۔

ابھی انوشے کچھ بولتی انہوں کی کزنز کمرے میں آ گئی ۔

عیزا اور عائشہ آ گئی اور ان سب سے ملنے لگی۔

  آپی چلے بھی سب آ گئے ہیں اور وہ سب بھی نیچے چلئے گے۔

❤️❤️❤️❤️

ایک طرف لڑکوں کی ٹیم تھی اور دوسری طرف لڑکیوں کی ۔

لڑکوں میں ازلان شہرام حارث زیان اور ارعب اور باقی دوسرے ان کے تھوڑے سے کزنز تھے ۔

اور لڑکیوں میں انوشے پریشے عشاء لریب عائشہ عیزا تھیں ۔

اور ڈھولکی کے ساتھ دونوں طرف سے خوب گانوں اور ٹپے بولتے ہوئے ایک دوسرے کو ساتھ  تنگ بھی کیا جا رہا تھا ۔

اور ان میں سب سے زیادہ آگے لریب اور پریشے تھی لریب زیان کو کب سے اپنی طرف دیکھتا پا رہی تھی اسے کتنی دفع گھوری سے نوازا  بھی پر وہ ایسے ڈیوٹیوں کی طرح آگے سے مسکرا دیتا۔

کوئی کالی قمیض ہوندی'' 

"دل نہی رج سکدا ٹھرک انج دی چیز ہوندی

لریب اس کی طرف دیکھتی منہ بسورتی ہوئی بولی اس کے اس طرخ بولنے سے سب کے قہقہے ہر طرف گھونجا ۔

زیان تو اپنے کان کھجانے لگا اور سر نیچے کر کے مسکرا دیا۔

بڑے بھی دور بیٹھے انہوں کو دیکھا کر مسکرا رہے تھے ۔

چھلا میرا جی ڈھولا

کوئی اڈدے باز ہوندے ہرچیز بری لگدی جدوں سجن" "ناراض ہوندے

حارث عشاء کو دیکھ کر بولا تو ہر طرف سے تالیوں کی آواز آئی اور عشاء اپنا چہرا نیچے کیے شرما گی۔

ہٹیاں تےروں ماہیا" 

"عشق وچ وِک جائیے جے بولی لاوے توں ماہیا

انوشے شرماتے ہوئے ازلان کی آنکھوں میں دیکھا کر بولی اور پھر اسکی مسکراہٹ پر اپنا چہرا نیچے جھک گئی سب نے ایک دفع پھر سے ہونٹگ کی اور ازلان کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آگیں ۔

چھلا میرا جی ڈھولا"

کالی پَگ کبوتر دی 

ساڈے کدی گھر آوی

" منجی دیاں گے سوتَر دی

مجھے لگا تھا دال میں کچھ کالا ہے پر یہاں تو ساری کی ساری دال ہی کالی ہے،،،، ،،،،،،،،،زیان کے لریب کی طرف دیکھا کر بولنے سے پریشے اسکے کان میں بولی ۔

لریب نے جو زیان کو گھور کر دیکھ رہی تھی اب پریشے کی طرف دیکھ کر ایسے گھوری سے نوازا

پریشے اس کے اس طرح دیکھنے سے آنکھیں دوسری طرف کر لی اُس کی نظر اچانک سے شہرام سے ملی  تو شہرام نے غصے سے اپنا چہرا دوسری طرف کر لیا۔

اب اس کو کیا ہو گیا اس کا کیوں منہ بن گیا ہے،،، وہ خود سے بولی۔

چھلا میرا جی ڈھولا"

اسیی بُھل کے لا بیٹھے 

"پیار دے پنجرے وچ ایویںج جان پھسا بیٹھے 

شہرام منہ بنا کر بولا تو پریشے کا منہ کھلا گیا اس کے منہ کھلولنے سے شہرام نے اُسے آنکھیں ماری۔  

سڑکاں تے کولے نیں "

جیہڑ ے تساں ٹپے گائے 

"آساں پیراں وچ رولے نیں

پریشے  بھی اپنا حساب برابر کرتے ہوئے بولا اور منہ بسور کر چہرا دوسری طرف کر لیا۔

 پلیز ازلان بھائی اب آپ عائشہ بولی۔

سوری بچے مجھے نہیں آتے یہ ٹپے وپے،،،،، ،،اسنے صاف اپنے ہاتھ چھڑ لیے ۔

پر میں شعر بول سکتا ہوں اپنی وائف کے لیے،،،،، ،وہ مسکرا کر انوشے کی طرف دیکھا کر بولا۔

اور سب کی ہونٹگ پر انوشے مسکرا دی ۔

میں مسافر تھا تنہا سرد راہوں کا"

جاناں

تیرے ملنے سے میری سرد راتوں کو سویرا ملا

جاناں

تُو ہے تو میں ہوں 

جاناں

اور آخر میں ایک بات

تُو حاصل ہے میری بےانتہا چاہتوں کا 

وہ انوشے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا انوشے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھا رہی تھی اور مسکراتے ہوئے اسکی آنکھوں میں نمی  تھی۔

ہم ہم انہیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے لریب  گلا ٹھیک کرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر سب کے  قہقہے ہر طرف گونجے تھے۔

 انوشے شرماتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی اور پھر آہستہ آہستہ سب بھی اُٹھ گئے ۔

اوپر ملو مجھے پندرہ منٹ بعد اگر نہ آئی تو آگے جو میں کرو گا اسکی زمیدارتم تم خود ہو گی،،،،، ،،،،، سب سے نظریں بچا کر شہرام نے پریشے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا کر بول کر چلا گیا۔

مجھے دھمکی پریشے کو تم سے ڈرتی ہے میری جوتی نہیں جاؤ گی دیکھتی ہوں کیا کر سکتے ہو۔

بہت شوق ہے نہ تمہیں مس پریشے شہرام شاہ سے پنگے کا اب میں تم کو بتاؤں گا میں کرتا کیا ہوں تمہارے ساتھ صبح اب تم دیکھتی جاؤ میری جان،،، شہرام چہرے پر شیطانی ہنسی ہنس کر خود سے بولا۔

اب تم آو گی میری قید میں دیکھتا ہوں کیسے رہائی ملتی ہے تمہیں ،،،،،،،،،شہرام کو غصہ تھا پریشے پر کیوں کہ وہ اوپر اس کا انتظار کرتا رہا پر پریشے نہیں آئی۔

یہ سرد راتیں اور تم جانا"

" کر لیتے ہیں ان میں خود کو گم جانا

وہ بالکنی میں کھڑا سرد ہواں سے لطف لے رہا تھا جب انسان کو محبت ہوتی ہے تو یہ سرد ہوائیں بھی مزا دیتی ہیں  جب محبوب آپ سے دور بھاگتا ہے تو یہ ہی سرد ہوائیں اسکے احساس کو آپ تک لاتی ہے۔

 ان سردی کی ہوائیوں میں شہرام گم تھا کبھی کبھی محبوب کو پانا آسان ہوتا ہے پر اسکی محبت اسے پانے کے بعد مل جائے یہ لازم نہیں ہوتا 

شہرام نے محبوب کو تو پا لیا تھا وہ جلدی اسکی قید میں آنے والی تھی پر کیا محبت آنے والی تھی۔

 قید میں محبت آزاد ہوتی ہے زبردستی حاصل نہیں کی جاتی ۔

اور یہ ہی بات شہرام کو بہت جلد سمجھ آنے والی تھی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

آج نکاح تھا سب گھر والے بہت خوش تھے دونوں طرف  خوشی کا ماحول تھا سب اپنی دوڑوں میں تھے دونوں دلہنوں نے ایک ساتھ آنا تھا اور لڑکوں نے ایک ساتھ نکاح ایک ہی ھال میں تھا ۔

 انوشے پریشے اور عشاء کو پالر لے کر آئی ہوئی تھی اور اب خود بھی ادھر تیار ہونے آئی تھی ان دونوں کو تیار کر کے اس نے فون کیا تو لریب اور وہ تینوں ڈرائیور کے ساتھ ھال کے لیے نکل گئی۔

 آدھے گھنٹے بعد جب اس نے ڈرائیور کے لئے کال کی تو وہ کسی کام سے گیا ہوا تھا ور اب آ نہیں سکتا تھا۔

 اسی لیے مجبورن انوشے کو ازلان کو کال کرنی پڑھی اور جب وہ آیا تو اس کے ساتھ جا کر بیٹھی تو ازلان جو اپنے دھیان سامنے کیے ہوئے تھا ۔

انوشے کی چلتی زبان سن کر اس کی طرف دیکھنے لگا تو گاڑی ایک جھٹکے سے روکی۔

ازلان جلدی کریں سب پہنچ گئے ہو گے گاڑی کیوں روک دی ہے، ابھی وہ کچھ اور بھولتی وہ اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اسکی بولتی بند کر گیا تھا۔

 اس کے لمس ہر پل شدت بڑھتی جا رہی تھی 

انوشے کی برداشت ختم ہوئی تو وہ اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی پر ازلان کی پکڑ بہت مضبوط تھی ۔

آنسو سے انوشے کا چہرا بھگ چکا تھا ۔

تم مجھ سے دور نہیں جا سکتی مس انوشے ازلان شاہ  جب تک میں تمہیں خود سے دور نہ کرنا چاہیں،  وہ اس کو بالوں سے پکڑ ۔

ازلان کے اس طرح کرنے سے انوشے کی سسکی نکلی تھی پر ازلان کو کوئی پرواہ نہیں تھی وہ اسے چھوڑتے ہوئے گاڑی کو بھگا لے گئے اور ھال میں جا کر گاڑی روکی ۔

چہرا ٹھیک کرو اپنا اور پھر باہر آنا تماشا نہ لگانا، اندر آکر وہ غصے سے بولتا گاڑی سے نکل گیا ۔

اور پیچھے انوشے کافی دیر اکیلی بیٹھی روتی رہی اور پھر اپنا خولیا درست کرتی اندر آئی 

ازلان باہر اکیلا کھڑا سگریٹ پی رہا تھا وہ خود کو خود ہی سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے انوشے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تکلیف کیوں ہو رہی تھی تب ہی اس کا فون رنگ ہوا۔

ہاں بولو ہو گیا کام سب پیپر بھی تیار ہے نہ ٹھیک ہے آج رات نکلنا ہے تم تیاری رکھو،، اور پھر فون کاٹتا باقی کا سگریٹ نیچے پھینکتے ہوئے مسل دیا اور آگے بڑھ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ہال کے ایک طرف پریشے اور عشاء کو اور پھولوں کی چادر درمیان میں اور دوسری طرف شہرام اور حارث کو بیٹھا دیا گیا تھا۔

پریشے اور عشاء نے دونوں نے ایک جیسا ڈریس پہن رکھا تھا ڈیپ ڑیڈ کلر کی میکسی جس پر سلور کلر کا کام اور خوبصورتی سے ہوا میکآپ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پریوں سے کم نہیں لگ رہی تھیں ۔

انوشے نے بھی بلیک کلر کی میکسی  آنکھیں سرخ اور سوجھی ہوئیں سرح ناک کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس نے دوبارہ ازلان کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔

اور پھر نکاح شروع ہوا پہلے شہرام اور پریشے کا 

پریشے سب کی داست پرستی میں پریشے شہرام شاہ بن چکی تھی اور اب شہرام نے پھولوں کی چادر کو پیچھے کیا اور آگے بڑھ کر پریشے کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سٹیج کی طرف لے گیا ہر طرف سے ان پر پھولوں کی بارش ہو رہی تھی ۔

اور اب باری تھی حارث اور عشاء کی 

اور پھر عشاء بھی عشاء حارث بن گئی تو پھولوں کی چادر کو بیچ میں سے ہٹا کر حارث نے بھی وہی عمل دہرئے تو عشاء نے اپنی آنکھوں میں نمی لیے اس کی طرف دیکھا تو وہ عشاء کو دیکھتا مسکرا کر اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور پھر دونوں بھی سٹیج کی طرف بڑھ گے۔

❤️❤️❤️❤️

لریب پنک کلر کی فرک پہن کر بہت پیاری لگ رہی تھی زیان کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی وہ کوئی بہانا ڈھونڈ رہا تھا اس سے بات کرنے کا۔

وہ پریشے کے کہنے پر برائڈل روم سے اسکا موبائل لینے گئی وہ جب واپسی کے لیے مڑی تو سامنے زیان کو کھڑے دیکھ کر ڈر گئی اور دوسری سیڈ سے نکلنے لگی تو اس نے وہاں سے بھی راستہ بند کر دیا اور اسکی طرف بڑھنے لگا وہ اپنے قدم کو پیچھے لینے لگی کے پیچھے جگہ ختم ہو گئی اور وہ صوفے پر جا گری۔

اپنا نمبر دو مجھے،، وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا  زیان نے اس کے دونوں طرف ہاتھ رکھا ۔

وہ  تو اس کی اس خرکت سے جیسے گونگی ہو گئی تھی اور نہ میں سر ہلانے لگی۔

موبائل دو اپنا،، وہ اس کے نہ کرنے سے غصے سے بولا۔

 جلدی،، اور اس نے مجبور ہو کر اپنا موبائل اسے دے دیا اور وہ  اسکا نمبر لے کر اسے اس کا موبائل واپس کرتے ہوئے بولا۔

 گوڈ گرل،، اور ہاں ماں بابا کو بجھ رہا ہوں جواب مجھے ہاں میں ہی چاہیے نہ کی صورت میں میں اپنے دوست سے کم کا کام نہیں کرو گا،،،، زبردستی نکاح نہیں کرو گا بلکہ اُٹھا کر لے جاو گا سب سے دور ترستی رہ جاوگی سب سے ملنے کے لیے،،،، وہ اسکے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا اور ہاہر نکل گیا

اور پیچھےوہ ڈر کر  گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️

ہم تیار ہیں نہ مس آپ آج سز کے لئے پھر،، وہ پریشے کے کان کے قریب جا کر بولا  ۔

منہ بند رکھو اپنا سزا لیتی ہے وہ بھی تم سے میری جوتی وہ غصے سے بولی،،، ۔

ہاہاہاہاہا جوتی کو بھی دے دوں گا سزا پہلے تم کو تو دے دوں،، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے دبتے ہوئے بولا۔

 چھوڑو میرا ہاتھ ٹھرکی انسان شرم نہیں آتی تمہیں ۔

نہیں نہ آتی میری گرین بیوٹی اور ٹھرک پن تو تم رات کو دیکھنا میرا،، وہ اسے آنکھ مار کر بولا اور پریشے اس کی بات کو نہ سمجھتے ہوئے دوسری طرف منہ کر گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

عشاء کا ہاتھ اب بھی حارث کے ہاتھ میں تھا وہ کب سے کوشش کر رہی تھی اپنے ہاتھ کو چھڑوانے کی پر حارث نے ہر کوشش ترک کر دی ۔

پلیز ہاتھ چھوڑے میرا خارث پلیز سب دیکھ رہیں ہیں۔

  میں نہیں ڈرتا کسی سے،، وہ اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈال کر بولا اور اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا 

تو عشاء کو کرنٹ لگا ۔

حارث کی ہنسی چھوٹ گئی اتنی سی میری جسارت تم سے برداشت نہیں ہو رہی  تو آگے آج رات کیا بنے گا تمہارا ،،وہ اسے تنگ کرتا ہوا بولا ۔

کیا مطلب ہماری رخصتی تو نہیں ہے آج،،،،، وہ رخصتی والے چکر میں پڑ گئی تھی ورنہ حارث کی بات سے شرم سے ہی ڈوب جاتی۔

خود کو تیار کر لو ہیں کچھ گھنٹے تمہارے پاس کیوں کے رخصتی آج ہی ہے،، اور وہ اسے بولتا ہوا اُٹھ کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور پیچھے عشاء کو لگا اسکے پاوں میں جان نہ رہی ہو۔

❤️❤️❤️❤️

انوشے جو اپنی ماں کے پاس کھڑی تھی وہ دور کھڑے ازلان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی 

ازلان ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ وہ خود سے سوچتی اپنے آنسو پر قابو کرتی اُن سب اکیسکوز کر تی برئڈل روم کی طرف گئی آج اس کی کچھ طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی اسی لئے وہ صوفے پر اپنا سر ہاتھوں میں گرائیں بیٹھی تھی ۔

یہاں اکیلے بیٹھ کر تم سب کو کیا ثابت کرنا چاہتی ہو کے بہت ظالم کر رہا ہوں تمہارے،، ساتھ وہ اس کا ہاتھ ایک جھٹکے سے پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے بولا۔

انوشے جس کی طبیعت آج پہلے ہی کچھ خراب تھی چکرانے کی وجہ سے ازلان کو کالر سے تھامے خود کو کھڑا رکھنے کی کوشش کی۔

ازلان مت کریں میرے ساتھ ایسا،،،وہ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے تھماتے ہوئے بولی۔

ابھی تو بہت کچھ ایسا ہونا باقی ہے میری جان جو تمہارے ہوش اُڑ دے گا،، وہ اس کے کان  کے پاس جا کر بولتے ہوئے اس کی کان کی لو کو کاٹتے ہوئے اسے صوفے پر دھکیلتا ہوا باہر نکل گیا ۔

اور پیچھے انوشے کو لگا جیسے وہ تپتے سہرا میں اکیلی رہے گئی ہو ۔

وہ وہی بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور بھی پتا نہیں کتنی دیر ایسے ہی بیٹھ رہی تب کوئی بچی اسے اسکی ماں کا پیغام دے کر گئی تو خود میں ہمت کرتی آٹھ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے کو جب گاڑی میں بیٹھایا گیا تو شہرام بھی اسکے ساتھ آکر بیٹھا تو۔

تم تم یہاں کیا کر رہے ہو جاو یہاں سے اپنی گاڑی میں جاو یا ہمارے ساتھ رخصت ہونے کا ارادہ ہے،، اسکی بات سن کر  شہرام نے قہقہہ لگایا ۔

دیکھتی تو جاو میری جان رخصتی کسی کی ہو رہی ہے۔

زارا بیگم اور اشرف صاحب گاڑی کی طرف آئے اور پریشے کو پیار کرتے اور دعائیں دی تو خیران ہو گئی۔

ماما بابا گھر جا کے دعائیں دے لیے گا ہم گھر ہی تو جا رہیں ہیں اپنے ہیں نہ،، وہ بتا کم پوچھ زیادہ رہی تھی اُن دونوں کے اس طرح ملنے سے پریشے کو  خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔

اور وہ دونوں ڈور کو بند کرتے واپس مڑ گئے پر بولے کچھ نہیں وہ جانتے تھے وہ سب سن کر زرور شور ڈالے گی اسی لئے اسے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

اندر بیٹھی پریشے کی تو مانوں جان نکلی جا رہی تھی۔

 ہاہاہاہا میں نے بولا تھا نہ شہرام سے پنگا از ناٹ چنگا یہ ہی سزا ہے تمھاری باقی گھر جا کر،،،، وہ معنی حیزی سے اسکے کان کے پاس بولتا ہوا ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا بولا۔

❤️❤️❤️❤️

عشاء کو بھی گھر لے کر آیا گیا اور اس حارث کے کمرے میں بیٹھا دیا گیا  اس کے پاس حارث کی کزنز بیٹھی ہوئی تھیں اور اس سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مصروف تھیں وہ انہوں کو مسکرا کر جواب دے رہی تھی پھر انوشے اسکے پاس آئی اسے پیار کرتی سمجھ کر اپنا خیال رکھنے کا بول کر چلی گئی۔

پلیز آپ آج مت جائیں،، وہ اس کی منت کرتے ہوئے بولی۔

عشاء جان میرا جانا ضروری ہے گھر میں تمہیں پتا ہے کوئی نہیں ہوتا اور ابھی تو پریشے کے ڈرمے بھی میں نے ہنڈل کرنے ہیں جاکر،،،،، ،وہ اسے مسکراتے ہوئے بولی اور پیار کرتی صبح آنے کا بول کر باہر نکل گئی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ازلان باہر اسکا انتظار کر رہا تھا وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر گھر کے لیے نکل گئی ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہو رہی تھی۔

انوشے اس سب سلوک سے بہت پریشان تھی اسی لئے چپ کر کے بنا ازلان کو دیکھے باہر کی طرف دیکھتی رہی۔

مجھے اتنا مت آزماؤں جانا

کے تیری آزمائش میری زندگی کو لے ڈوبے

وہ سب سوچتے ہوئے بے آواز آنسو سے رو رہی تھی

ازلان سب جانتے ہوئے بھی انجان بن رہا تھا وہ کسی بھی طرح سے آج اس پر کوئی رحم نہیں کرنا چاہتا تھا آج اسکی سزا کا دن تھا آج سے انوشے کے رونے کے دن تھے۔

وہ اپنی آخری کوشش کرتے ہوئے ازلان سے محاطب ہوئی۔

ازلان پلیز مت کریں ایسا میرے ساتھ،، وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی لبوں سے لگاتے ہوئے بولی تھی۔

ازلان نے غصے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا پر بولا کچھ نہیں۔

اُتر جاو تم مجھے کچھ کام ہے،، وہ اسے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر روتی ہوئی نکال گئی۔

❤️❤️❤️❤️

خود کو سنبھل کر وہ اندر داخل ہوئی جہاں شہرام اور پریشے سب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے پریشے کا پورا انتظام تھا رونے کو انوشے کو دیکھ کر اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

 آپ سب نے دھوکا کیا ہے میرے ساتھ مجھے بتانا تک لازمی نہیں سمجھ کسی نے،، وہ روتے ہوئے بولی۔

اس میں ہمارا نہیں تمہارے انہوں کا قصور ہے انہوں نے ہی مانا کیا تھا بتانے کا اور ویسے بھی یہ سب شہرام کی ضد سے آج ہی سب تہ ہوا تھا ورنہ پہلے تو کوئی بھی ایسا چانس نہیں تھا اسی لیے کمرے میں جا کر تم ایسی اس پوچھ لینا،،،، وہ اسے چپ کرتے ہوئے بولی اور پھر کافی دیر سب وہی بیٹھے رہیں ۔

اور پھر پریشے کو اس کے روم میں چھوڑ آئی۔

پلیز تم مت جاؤ،، پریشے کے پیسنے چھوٹ رہے تھے۔

ہاہاہاہا یہ ایک دن کی تو بات نہیں ہے سب میری جان آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا ریلکس کرو خود کو ابھی پاس ہی ہوں تمہارے،،،، ۔

انوشے مجھے ڈر لگ رہا ہے،،،، وہ شہرام کو سوچتے ہوئے بولی۔

ہاہاہاہا ڈر وہ بھی تم کو ڈر تو تم سے ڈر جاتا ہو گا  پریشے،،، وہ ہنستے ہوئے بولی۔

یار ایسے تو مت بولے میں نہیں بات کر رہی آپ سے،، وہ ناراض ہوتے بولی۔

ہہاہاہاہاہا اوکے اوکے سوری یار ناراض مت ہو،،، ۔

اہم اہم شہرام نے اندرداحل ہوتے ہوئے۔

او ہیلو مسٹر اندر کدھر  نکلو باہر پہلے پیسے پھر ادھر اندر داخل ہونا وہ شہرام کو باہر نکالتی ہوئی بولی۔

بھابھی اپنے قریب سے بھائی پر رحم کریں دیکھے آگے ہی میں نے آپ کے گھر کی چڑیل کی زمیداری اُٹھا کے کتنا زیادہ احسان کیا ہے آپ پر،،،، ،،،،،،وہ پریشے کو تنگ کرنے کے لیے بولا کیوں کہ وہ جانتا تھا وہ اندر بیٹھی سب سن رہی ہے۔

ہاہاہاہاہاہاہا زیادہ مت بنو یہ زمیدارتم نے اپنی مرضی سے لی ہے تم نیگ دوں ورنہ نکلو یہاں سے،،، ۔

یہ لے بھابھی کیا یاد کریں گی،، وہ اسے ایک سونے کا بریسلٹ دیتا بولا۔

شہرام پلیز اس کا دھیان رکھنا تھوڑی سر پھری ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی سنبھال لینا اسے ڈر رہی ہے تم سے،، وہ اس سے لیتی شہرام کو بولتی ہوئی اپنے روم میں چلی گئی۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انوشے کافی دیر اکیلے بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی وہ ازلان کے روئیے سے پریشان تھی۔

کیوں کر رہے ہیں ازلان آپ میرے ساتھ ایسا،،،، وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے اپنا چہرا اپنے ہاتھوں میں لے کر رو دی۔

روتے روتے اسے کچھ پتا نہیں چلا اور وہ ادھر ہی بیٹھی صوفے پر  سو گئی۔

چار بجے کے قریب کھٹ پٹ کی آوازوں سے اس کی آنکھیں کھل گئی اس نے دیکھا کہ ازلان کبرڈ کے پاس کھڑا ہوا کچھ کر رہا تھا وہ اُٹھا کر اس کے پاس گئی۔

کیا کر رہے ہیں ازلان آپ یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں،،،، وہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھتی مسکر کر بولی۔

ازلان نے مڑ کر اس کا ہاتھ پیچھے جھٹکا۔

 کیا ہو گیا ہے ازلان آپ کو کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ ایسے،، وہ غصے سے اس کا کلر پکڑتے ہوئے بولی ۔

ازلان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کی بولتی بند کر دی۔

ازلان کے لمس میں اتنی شدت تھی کہ وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنے لگی۔

اس سے بھی بدتر کروں گا تمہارے ساتھ اگر میرے قریب آئی تو،، وہ اسے دھکا دیتے ہوئے بولا انوشے روتے ہوئے جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

اور پھر ازلان بیگ لے کر باہر آیا اور اسکے ہاتھ میں پاسپورٹ بھی تھا ۔

اس سے پہلے کے وہ باہر کی طرف جاتا اس نے انوشے کی طرف دیکھا جو اپنی پوری آنکھیں کھولے روتے ہوئے ازلان کو دیکھ رہی تھی اسکے منہ سے بس یہ ہی لفظ نکلے ۔

ازلان،،، اور اپنا چہرا نہ میں ہلانے لگی اور ازلان ایک پراسرا سی مسکراہٹ لیے اس کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ سے کھڑا کیا اور اپنی طرف کھینچ کر اسکی کمر کے گرد خصار بنا کر اس کے کان میں بولنے لگا۔

آج سے تمہاری سزا شروع ہوتی ہے مسیز ازلان شاہ تمہیں محبت دے کر اب تم کو پل پل تڑپنے کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں تم تڑپو گی میرے لئے جیسے میں تڑپا ہوں اپنی ماں کے لیے نفرت ہے مجھے تم سے اتنی نفرت کے میرا بس چلے تو تم کو زندہ آگ میں جل دوں تم ازلان شاہ کی نفرت کے قابل ہو،،،، ازلان کی باتوں سے انوشے کو لگا وہ آج زندہ کیسے ہے ۔

ازلان نے بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرا اوپر کیا جو آنسو سے بھرا ہوا تھا۔

ت ت تو ووہ سب جو تھا ہمارے بیچ وہ کیا تھا ازلان،،،،، ،وہ روتے ہوئے ازلان سے سوال کرنے لگی ۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا اور پھر ایک جان دار قہقہہ ازلان نے چھوڑا اور اس کی کمر پر اپنی گرفت اور بھی مضبوط کی کے انوشے کو لگا آج اسکی ہڈیاں ٹوٹ جائے گی پر اس تکلیف سے بھی زیادہ ازلان کے لفظ اسے تکلیف پہنچا رہے تھے ۔

نفرت تھی وہ میری تم کو محبت میں پاگل کرنا چاہتا تھا اور دیکھوں آج تم ہو اور پھر جا رہا ہوں میں تمہیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے تاکہ تم کو تکلیف ہو جتنا تم تکلیف میں ہو گی اتنا میں سکون محسوس کرو گا،،،، ،،،وہ اس کے گال پر اپنا ہاتھ رگڑتے ہوئے بولا۔

آج تمہارے آنسو مجھ مزا دے رہیں ہیں،،،، ،،،اور پھر اس کی کمر کو چھوڑ دیا اور الٹے قدم اس سے دور ہونے لگا۔

وہ ڈورتی ہوئی اس کے پاس گی اور اس کے گلے لگ گئی۔

 پلیز ازلان مت جائے مجھے چھوڑ کر مر جاو گی میں مت دیں مجھے محبت نفرت کرلیں بے شک مر لے پر چھوڑ کر مت جائے میں آپ کے بنا نہیں رہ پاوں گی مر جاوں گی میں،،،،، ،،،،وہ اپنی آخری کوشش کرتی ہوئی بولی ۔

تو مر جاؤ مجھے فرق نہیں پڑتا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

انوشے اس کے پاوں میں بیٹھ گئی اس کی ٹانگ پکڑ لی۔

 پلیز مت جائے ازلان،،، وہ روئی جا رہی تھی مجھے خود سے جدا نہ کریں ازلان ۔

ازلان اسے اپنی ٹانگ سے جھٹکتے ہوئے پیچھے دیکھے بنا وہاں سے نکلتا چلا گیا اگر وہ پیچھے دیکھا لیتا تو شاید وہ نہ جاتا ۔

پیچھے انوشے ازلان کے جھٹکنے سے اس کا سر ٹیبل سے جا کر لگا اور وہ وہی ہوش کھو گئی ہر طرف خون ہی خون تھا۔

میرا پیارا بھی انتہا کا تھا اور

تیرے دھوکا بھی انتہا کا تھا

آج اس دھوکے کی انتہا میں 

میرے پیار کی انتہا کی ہار ہوئی

بےانتہا پیار کیا تھا ازلان میں نے آپ سے پر شاہد آپ کی نفرت کی انتہا میرے پیار سے بھی زیادہ تھی دعا کریں یہ میرے پیار اور آپ کی نفرت کی نشانی مجھ سے جدا نہ ہو،،،، ،،،،وہ اپنے ہوش کھوتے ہوئے خود سے بول رہی تھی۔ اور پھر ہر طرف خاموشی اور زمین پر خون تھا اور اسے وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔

آج محبت ہار گئی تھی اور نفرت کی جیت ہوئی تھی۔ 

شہرام انوشے کو گفٹ دے کر روم میں جانے لگا تو اسنے ڈور کو اوپن کرنے کی کوشش کی تو ڈور نہ کھولا پھر سے کوشش کی تو پھر وہی ڈور لوک تھا شہرم کا غصے سے پارہ ہائی ہو گیا ۔

پریشے پریشے اب تم بچ جاو مجھے سے،،، آس نے ڈور کو آہستہ سے ناک کیا پر پریشے نے کوئی جواب نہ دیا۔

 پریشے میں جان لے لیو گا تمہاری دروازہ کھولو،،، پر پریشے بہت آرام سے اپنے کام میں مگھن اپنی جیولری اور میکاپ صاف کر رہی تھی۔

شہرام بے زار ہوتا ہوا باہر لون میں آگیا اور غصے سے ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگا اور پھر اچانک اس کے دماغ میں ایک منصوبہ آیا اور اب تھا۔

 عمل کرنے کا وقت اب دیکھتا ہوں کون بچتا ہے مس پریشے تمہیں  مجھ سے اب تو تم پوری طرح سے میرے غصے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاو،،، ۔

پریشے جو اب بہت اتمنان سے اپنا کام کر رہی تھی ڈوپٹہ اتر کر سائیڈ پر رکھے اب اپنے بالوں کو پینو سے آزادی دے رہی تھی  وہ اپنے کام میں اتنی مگن تھی کے اسے شہرام کے اندر آنے کی خبر تک نہ ہوئی جو کھڑی کے راستے سے اندر آیا تھا اور اب اسے بہت اتمنان سے بیڈ پر لیٹ کر دیکھا رہا تھا ۔

جو ڈوپٹے سے بے نیاز اپنے بالوں کو آگے کیے کھول رہی تھی پیچھے  لیٹے شہرام کو نہ دیکھا پائی وہ جو اپنے بالوں سے الج رہی تھی شہرام اس  کے پیچھے جا کر اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ کر اپنے ہاتھ اسکے گرد باندھ لئے ۔

 شہرام کو آئینے میں دیکھا کر پریشے کی کو اپنی جان ہوا ہوتی محسوس ہوئی شہرام دلچسپی سے پریشے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہا تھا اور پھر آہستہ آہستہ وہ اسکا نکلیس اتارنے لگا اور پھر اس کا رُخ اپنی طرف۔

  کیا مسئلہ ہے پریشے،،،، وہ اس کی آنکھوں میں دیکھا کر بولا۔

وق وقت چاہیے مجھے،،، ۔

کتنا وقت چاہیے تمہیں پریشے،،، ،، وہ اسے کندھوں سے پکڑے بولا ۔

چلو ایک ماہ ہے تمھاری پاس اس سے زیادہ نہیں دے سکتا وقت میں،،،، وہ اسے چھوڑتے ہوئے پیچھے ہو گیا  اور پھر کچھ یاد آنے پر واپس مڑا اور اپنی جیب سے ایک ڈبہ نکالا اور اسکی طرف بڑھ کر اس کے گلے میں چین ڈالنے لگا۔

پریشے کو اسکے لمس سے کرنٹ لگا چین ڈالنے کے بعد اس نے اس کی گردن پر اپنے لب رکھ دئے۔

شہ شہرام پلیز آپ نے وعدہ کیا ہے۔

تو میں کون سا وعدہ توڑ رہا ہوں،،، وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولا اور  چنچنگ روم میں چلا گیا۔

اور واپس آکر بالکنی میں کھڑا ہو کر سگریٹ پینے لگا۔

پریشے بھی جب چینج کر کے واپس آئی تو شہرام کو باہر سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا تو وہ اس کے پاس 'گئی

 اور اسکے ہاتھ سے سگریٹ لے کر پھینک دیا۔

اُس نے غصے سے پریشے کو دیکھا پر پریشے اگنور کرتی واپس جانے لگی تو۔

شہرام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور وہ کٹی ڈال کی طرح اسکے سینے سے جا لگی

وہ اپنا چہرا اوپر کر کے شہرام کی طرف دیکھنے لگی اور پھر اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکے نقوش کو چھو کر محسوس کرنے لگی۔

پریشے کے اس طرح کرنے سے شہرام نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔

آپ کو پتہ ہے میں آپ سے ناراض کیوں نہیں ہوئی بےشک آپ نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا تھا۔

کیوں،، ،؟وہ آنکھیں بند پریشے کو اپنے حصار میں لیے بولا۔

کیوں کہ آپ مجھے خوابوں میں ملتے تھے بچپن سے،، وہ اس کی بات سے وہ مسکرا دیا ۔

تو پریشے نے بھی اپنا ہاتھ اس کے ڈمپل پر رکھا۔

 کتنا پیارا ہے یہ بالکل آپ کی طرح،،،، اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھا دئے ۔

چھوڑیں اب مجھے سونا ہے،، وہ شہرام کو جھٹکے پے جھٹکا دے رہی تھی پھر وہ اسے اپنی باہوں میں اُٹھا کر روم میں لا کر بیڈ پر لیٹا دیا۔

 اور خود بھی اسکے ساتھ لیٹ کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھ  دیا اور اس نے بھی کوئی مزہمت نہیں کی اور اپنی آنکھوں کو بند کر لیا۔

شہرام نے اس کے بالوں پر اپنے لب رکھے اور آنکھیں بند کر لی۔

یہ سر پھری لڑکی دلچسپ بھی ہے زندگی آسان ہو جائے گی پاگل کے ساتھ میری جھیلی خود سے سوچے نیند کی وادی میں چلا گیا۔

پر زندگی کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھی  انہوں کے لیے۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عشاء حارث کے انتظار میں کب سے بیٹھی ہوئی تھی پر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا رات کا 1 بج گیا تھا باہر ہر طرف خاموشی تھی پر پھر بھی حارث کا نام نشان نہ تھا۔

آخر وہ اس کا انتظار کرتے کرتے سو گئی اور جب حارث اندر آیا تو اسکی نیند کھول گئی اور وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئی  پر حارث نے اسے ایک نظر نہ دیکھا اور چینج کر کے آ کر دوسری طرف لیٹ گیا۔

اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا  اور پھر کھنچ کر اس کا ڈوپٹا دور پھینکا  اس کے اس طرح کرنے سے عشاء درد سے بلبلا اُٹھی  اور اس کے منہ سے سسکی نکلی اور پھر اسے بالوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا،، اور نوچ نوچ کر اس کا زیوار اتارنے لگا ۔

حارث کے ایسا کرنے سے پورے کمرے میں اس کے رونے کی آوارین گونج رہی تھی پر حارث کو کوئی پروا نہیں تھی  زیوار اتار کے پھکنے کے بعد اسے بیڈ پر گرا دیا اور حود اُٹھا کر سگریٹ سلگا لیا اور پینے لگا۔

دوسری طرف عشاء اپنی سسکیوں کا گلا دوباتے ہوئے اپنا ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے تھی۔

وہ جان گئی تھی یہ کس چیز کی سزا ہے اسی سزا سے بچنے کے لیے وہ حارث کے قریب نہیں جاتی تھی پر قسمت میں جو لکھا ہو وہ مل کر رہتا ہے۔

حارث نے اپنا بچا ہوا سگریٹ عشاء کے گلے پر بجا دیا اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھا کر اس کی آواز کو بند کر دیا اور دونوں طرف سے اس کو سزا دے رہا تھا اور چیخنے بھی نہیں دے رہا تھا۔

اپنے جنون میں اندھا ہو چکا تھا۔

عشاء کے آنسو بھی اس کے جنون کو کم نہ کر پارہے تھے وہ اسکےکو پرے دھکیل رہی تھی پر حارث پیچھے نہ ہوا اور جب اسے لگا اب وہ برداشت نہیں کر پائے گی تو پھر اسے چھوڑا۔

 اور جہاں سگریٹ سے اسکی گردن کو جلائے تھا وہاں اپنے دانت گڑرے ہوئے اسکی گردان کو خون سے بر دیا اور اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ آواز نہ آ سکھے وہ اپنا سر ادھر اُدھر مارتے ہوئے رو رہی تھی۔

کیسی لگی میری محبت،،،، وہ اس کا منہ چھوڑتے ہوئے بولا۔

تو عشاءبیڈ سے اُٹھ کر وہاں سے بھاگ کر نیچے کھڑی ہو کر اپنے آنسو کو صاف کرتی واش روم میں بھاگنے والی تھی کے حارث نے آگے بڑھ کر اسے پھر سے اپنی قید میں لے لیا۔

اور پھر رات کے اندھیرے کے ساتھ عشاء کی زندگی میں بھی اندھیرا چھا رہا تھا اسکے لاکھ کوشش پر بھی حارث اسے بے بس کر چکا تھا۔

خارث واستا ہے آپ کو بحش دے مجھے  اتنی سی بات کہنے سے وہ اب چھوڑ چکا تھا عشاء کو

میرے سامنے مت آنا اگر اپنا حال دوبارہ اس طرح کا نہیں چاہتی اور اسے دھکا دیتے ہوئے لائٹ بند کر کے سونے کے لیے لیٹ گیا۔

عشاء بھی بھاگتی ہوئی واشروم میں بند ہو گئی اور شاور کھول کر اسکے نیچے بیٹھ گئی اور کافی دیر روتی رہی اور پھر تنگ آ کر کپڑے بدلے اور ڈریسنگ روم میں ہی سو گئی۔

آج شاہین کے کیا کی سزا عشاء نے بھوگتی تھی  پیار کھو دیا تھا حارث کا اور حارث نے بھی باقی کمزور مردوں کی طرح عشاء کو نشانا بنایا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انوشے کو آئی سی یو میں شفٹ کیا گیا تھا وہ تو شکر تھا بڑی بی نے اسے دیکھا لیا تھا ۔

کیوں کے انوشے روز بڑی بی کو اُٹھانے آتی تھی آج جب نہ آئی تو خود وہ گی اور ان کی آواز سے ریاست شاہ بھی وہی پہنچے تو اس طرخ وہ انوشے کو جلدی میں کسی کو بھی بتائیں بنا ہسپتال لے آئے تھے ۔

خون بہت زیادہ بہ چکا تھا کسی بھی طرح انہوں نے مینج کر لیا تھا ۔

اب وہاں اشرف صاحب زارا حارث شہرام سب موجود تھے سوائے پریشے اور عشاء کے باقی سب وہی آ گئے تھے زارا اور بڑی بی تو کب سے مصیلہ پر بیٹھے اس کے لیے دعا مانگ رہے تھے  ۔

حارث کو لگ رہا تھا شاید یہ اسکی سزا ہے جو وہ عشاء کے ساتھ کر کے آیا ہے تو یہ سب اس کی بہن کے ساتھ ہو رہا یے وہ اپنے کئے پر نادام ہو ریا تھا وہ ایسا تو نہیں تھا پر جب اسنے اشرف اور زارا کی باتیں سنیں تو اس کی آج کی خوشی چلی گئی تھی اور عشاء کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کر کے آیا تھا۔

اور آخر ڈاکٹر نے باہر آکر انہوں کو زندگی کی نوید سنائی ۔

شکر ہے اللہ سبحان تعالیٰ کا سب ٹھیک ہے ماں بھی اور ان کا بےبی بھی پر آپ ان کا بہت دھیان رکھنا پرھے گا وہ کافی کمزور ہے اسی لئے حوش رکھے میں نے پہلے بھی انوشے کو بولا تھا کہ وہ کمزور ہے اس بےبی کے لئے پر پھر بھی وہ اپنی کیر نہیں کرتی رہی اسی لیے اور اب تو ان کا خون بھی بہت زیادہ بہہ گیا ہے اس لیے ان کی ڈبل کیر کریں،، وہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔

تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا اور خوشخبری پر تو سب کے پاوں ہی زمین پر نہیں ٹیک رہے تھے سب بہت خوش تھے ایک نہیں تھا تو وہ نہیں تھا جیسے یہاں ہونا چاہیے تھا ریاست شاہ  ازلان کو کال کر کر کے تھک چکے تھے پر اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انوشے کو ابھی ہوش نہیں آیا تھا اسی لیے زارا نے حارث اور شہرام کو گھر بھیجا تک وہ تھوڑا آرام کر کے اُن دونوں کو بھی گھر سے لے آئے۔

حارث جب روم میں آیا تو سیدھا جا کر بیڈ پر گر گیا اور آنکھیں بند کر لی تو اس کے سامنے عشاء کا روتا ہوا چہرا سامنے آیا ایک دم آنکھوں کو کھول کر اُٹھا کر اُسے دیکھ جو کمرے میں کہی نہیں تھی۔

 اس وقت بھی جلدی جلدی میں اسے دیکھے بنا ہی چلا گیا تھا اسی لیے اب پہلے اٌٹھا تو ڈریسنگ روم میں گیا اور دیکھ کر شرمندگی ہوئی کیونکہ وہ زمین پر بیٹھے ہوئے الماری کے ساتھ اپنا سر لگ کر سو رہی تھی شاید ساری رات سے وہ اس کے پاس گیا اور اسے اپنی گود میں اُٹھا کر لا کر بیڈ پر رکھا ۔

اگر رات کو میں ماما اور بابا کی باتیں نہ سنتا تو شاید آج کا دن ہمارا زندگی کا حسین دن ہوتا وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا اور پھر آگے۔

 بڑھ کر اسکی گردن کے زہم پر لب رکھ دیئے جہاں اب خون جم چکا تھا۔

عشاء کی جان پر بن آئی تھی حارث کے ایسا کرنے سے وہ تو تب ہی اُٹھ گی تھی جب حارث اسے اُٹھا کر لا رہا تھا پر پھر بھی حارث کے ڈر سے آنکھیں بند ہی رکھی تھی ۔

اور جو وہ اب اس کے لبوں پر جھکتا عشاء کے دھکا دینے سے ہوش میں آیا وہ اسے خود سے دور کرتی بیڈ سے آٹھ کر دور کھڑی ہو گئی۔

 نہیں حارث پلیز،،، وہ عشاء کو دور کھڑا دیکھا کر اس کی طرف بڑھا وہ پیچھے ہو رہی تھی اور وہ اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا کے وہ جا کر ڈریسنگ کے ساتھ جا کر لگی۔

حارث اسکے بہت نزدیک  تھا، اس نے حارث کے ڈر سے آنکھیں بند کر لی۔

حارث نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکے بال کانوں کے پیچھے کیے ۔

عشاء آئی لو یو،،،،، اور اپنے ساتھ لگا لیا۔

 پلیز مجھے غلط مت سمجھو میں برداشت نہیں کر پا رہا بہت مشکل سے روک پا رہا ہوں خود کو تمہیں نقصان پہنچانے سے اسی لیے تمہیں خود سے دور کر رہا تھا۔

مجھے سے نہیں برداشت ہو پا رہا جو تمہاری ماں نے کیا، وہ اسے خود میں بیچھے بول رہا تھا۔

مجھے سمجھو پلیز،، وہ اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتا اس کی آنکھوں پر پیار کرتے ہوئے بولا۔

پلیز مجھے ان کے کیے کی سزا مت دیں سب کو معلوم تھا میں انہوں کی بیٹی ہوں پلیز پلیز مت کریں ایسا ،. وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

حارث نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا لیا۔

جاو پلیز فریش ہو جاؤ، وہ اس کا گال تھپتھپا کر بولا اور وہ حارث کو بے یقینی سے دیکھتی ہوئی واشروم میں بند ہو گئی۔

اور حارث خود کو بامشکل سنبھال پا رہا تھا اور پھر آنکھیں بند کر کے بیڈ پر لیٹ گیا۔

❤️❤️❤️❤️

شہرام جب تھکا ہوا گھر آیا تو پریشے کو سکون سے بیڈ پر سوئے ہوئے پایا اور پھر مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ جا کر لیٹ گیا ۔

ہیلو گرین بیوٹی اب اُٹھا جاؤ،، وہ اس کے چہرے کے نقوش کو چھو کر بول رہا تھا ۔

اگر تم پانچ منٹ میں نہ اُٹھی تو پھر زمیدار تم ہو گی ہر چیز کی وہ اس کے کان میں بولا تو پریشے کو اُٹھنے میں ایک منٹ نہ لگا ۔

شہرام اسے لیٹے ہوئے ہی دیکھ رہا تھا وہ جو اپنے چہرے سے بال پیچھے کیے باندھ رہی تھی ۔

اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہنچا اور اپنے اوپر جھکا کر اس کی آنکھوں پر پیار کیا ۔

فریش ہو جاو پھر ہمیں کہیں  جانا ہے،، وہ جب اُٹھا کر آئینہ میں دیکھ رہی تھی تو وہ بولا ۔

کہا جانا ہے،،،، ؟

ادھر  آؤ بتاتا ہوں،،، وہ اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

ن ن نہیں رہنے دیں میں تیار ہو لو،،،، وہ بولتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی۔

تو وہ بھی نیچے آ گیا  اور بڑی بی کو ناشتہ لگانے کا بول کر خود بھی فریش ہونے کے ارادے سے اپنے روم میں چلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

ریاست شاہ نے ازلان سے رابطے کی بہت کوشش کی پر اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا اس کا فون بند جا رہا تھا۔

کاش میں جو سوچ رہا ہوں وہ سچ نہ ہو،،، انوشے کی یہ خالت تمہاری وجہ سے نہ ہو ازلان تم نے کوئی بے وقوفی نہ کی ہو وہ اپنے آفس میں چئیر پر بیٹھے سوچوں میں گم تھے۔

 التماش کو اندر بجھو جلدی،،، انہوں نے انٹرکام پر کال کر کے بولا اور خود اپنا سر چئیر سے لگا لیا۔

ازلان کہاں ہے،،،، وہ ایسے ہی اپنا سر ٹکاتے ہوئے بولے وہ اس سے سیدھی دو ٹوک بات بولے۔

وہ چپ رہا۔

 التماش،،، انہوں نے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا۔

 بتاو مجھے،،، ۔

سوری سر مجھے اجازت نہیں ہے بتانے کی،،،، وہ اپنا سر نیچے کئے ہی بولا۔

پر وہ جہاں بھی ہیں بالکل ٹھیک ہے اور اپنی مرضی سے گیا ہے،،، ریاست شاہ جانتے تھے جو کچھ بھی التماش نے بتایا ہے وہ بھی اس نے ازلان کے کہنے پر ہی بولا ہے۔

ہم کینیڈا گیا ہے وہ ریاست شاہ اپنا سر پھر سے اٹھاتے ہوئے بولے اور اسی بات پر التماش کے رنگ بدلے تھے۔

ٹھیک ہے جاو تم،،،،، وہ سمجھ گئے تھے ازلان کہاں ہے اسی لئے اب وہ سیدھا ہسپتال گئے تھے کیونکہ سچ اب صرف انوشے ہی بتا سکتی تھی ۔

 گہر سانس لے کر باہر نکل گئے ۔

❤️❤️❤️❤️

پریشے اور عشاء بھی  اب انوشے کے پاس موجود تھیں وہ دونوں اس کا ایک ایک ہاتھ پکڑ کر کھڑی تھی۔

انوشے کو ہوش آیا گیا تھا پر وہ بول کچھ نہیں رہی تھی۔

ماما اب آپ جائے گھر اور بابا کو بھی لے جائے پلیز، پریشے ان کو بولی تو وہ بھی انوشے کو پیار کرتی سب سے مل کر آرام کی گرز سے اشرف کے ساتھ گھر چلی گئی۔

پھر ریاست شاہ آیا انوشے کے پاس اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کے کتنے ہی بے آواز آنسو آنکھوں سے نکل آئے۔

بابا وہ وہ چلے گئے،،،، ،،،،،،،وہ روتے ہوئے ہچکیوں سے بولی۔

 بابا پلیز انہوں کو لے آئے وہ نفرت کرتے ہیں مجھے سے آپ نے بولا تھا سب ٹھیک کر دیں گے پھر کیوں نہیں کیا آپ نے اب ٹھیک بابا وہ چلے گئے بابا مجھے چھوڑ کر  وہ رو رہی تھی،،،،، ،،ریاست شاہ کے سامنے۔

 دور کھڑے حارث نے زور سے اپنی مٹھیوں کو بند کیا شہرام بھی چپ کر کے اپنے بھیا کا کارنامہ سن رہا تھا۔

اور عشاء انوشے کو دیکھ کر شرمندہ تھی اور ان میں سے ایک پریشے ہی تھی جو سب سے انجان یہ سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

بابا میں نے نہیں مارا فاطمہ ماما کو سب جھوٹ ہے میں نے نہیں مارا۔

مجھے معاف کر دو مجھے سچ پتا تھا پھر بھی میں نے اشرف اور زارا نے تم دونوں کو کچھ نہیں کہا پر مجھے کیا علم تھا کے ازلان یہ سب کرئے گا وہ نفرت میں اتنا گر جائے گا ۔

انوشے اُن کو  سب بتاتی گئی تو ریاست شاہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے ۔

بابا کیا کر رہے ہیں آپ پلیز مت کریں آپ کی کیا غلطی میرا پیار تھا ہی نہیں اس قابل  کے ان کی نفرت کو ختم کر پاتا ۔

نہیں میرا بچے ایسا نہیں بولتے وہ نہیں تھا اس قابل کے تمہارا پیار اسے ملتا ۔

اب تم کو ہمت رکھنی ہے تو صرف اپنے اور اس آنے والی نئی جان کے لیے اب وقت ہے ازلان کی سزا کا اب اسے کبھی پتہ نہیں چلنے دوں گا میں اس بچے کے بارے میں تڑپے گا وہ تم نہیں وہ اس قابل ہی نہیں کے وہ اس خوشی کو محسوس کر سکھے ۔

بابا،،، وہ بس اتنا بول کر چپ کر گی ۔

اسے خود بہت جلد پتہ چلا جائے گا کے سچ کیا ہے اور پھر وہ آئے گا تمہارے پاس معافی مانگنے،،،، اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہاں سے چلے گئے 

اس سب میں ایک پریشے تھی جو سب سے انجان تھی  وہ ڈورتے ہوئے آئی اور انوشے کے گلے لگ کر رو دی ۔

❤️❤️❤️❤️

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Inteha E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Inteha E Ishq  written by Ayn Khan.Inteha E Ishq  by Ayn Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment