Pages

Thursday 25 July 2024

Safar E Mohabbat By Shanzy Shah New Complete Romantic Novel

Safar E Mohabbat By Shanzy Shah New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Safar E Mohabbat By Shanzy Shah Complete Romantic Novel 



Novel Name: Safar E Mohabbat

Writer Name: Shanzy Shah

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"واؤ امی کتنی اچھی خوشبو آرہی ہے" ہانیہ ڈھکن ہٹاتے ہوے کہہ رہی تھی 

اس کی بات سن کر راشدہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی انھوں مڑ کر اپنی چھوٹی بیٹی کو دیکھا جو کالج یونیفارم میں کھڑی تھی 

"چلو آجاو ناشتہ کرلو یہ میں دوپہر کے لیے بنا رہی ہوں" 

راشدہ بیگم نے پلیٹ میں آملیٹ ڈالتے ہوے کہا 

"نہیں امی مجھے آملیٹ نہیں کھانا میں رات کا سالن ہی کھاونگی" ہانیہ نے منہ بناتے ہوے کہا 

"اچھا ٹھیک ہے پہلے آپی کو جا کر اٹھا دو اس کی یونیورسٹی کا ٹائم ہورہا ہے" 

"اچھا ٹھیک ہے " ہانیہ کہتے ہوے اوپر کی طرف چلی گئی 

"آپی اٹھ جایے" ہانیہ نے کمرے کے پردے ہٹاتے ہوے کہا 

"یار ہانی سونے دو"انابیہ نے کمبل منہ تک لیتے ہوے کہا 

"آپی اٹھ جایے ورنہ آپ لیٹ ہوجاینگی" 

انابیہ نے کمبل ہٹا کر اپنی آنکھوں کو زبردستی کھولا اور اپنے سامنے کھڑی ہانیہ کو دیکھا پھر گھڑی کی طرف دیکھا جب ٹائم دیکھ کر وہ ہڑبڑاتے ہوے بستر سے اٹھی 

"اللہ اتنی دیر سے کیوں اٹھایا مجھے میں لیٹ ہوجاونگی"

انابیہ کہتے ہوے جلدی سے واشروم میں بند ہوگی 

جبکہ ہانیہ نفی میں سر ہلا کر واپس نیچے چلی گی

❤❤❤❤

انابیہ بھاگتی ہوی اپنی کلاس میں پہنچی 

"شکر وقت پر پہنچ گیا" خود سے بڑبڑاتی ہوی وہ کلاس میں داخل ہوئی اور جاکر حوریہ کے برابر میں بیٹھ گی 

"کیا ہوا تمارا سانس کیوں پھول رہا ہے"

حوریہ نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا اور اسے پانی کی بوٹل دے دی 

"بھاگ کر آئی ہوں آنکھ بھی آج اتنی دیر سے کھلی ہے عائشہ کہاں ہے" 

انابیہ نے حیرانی سے پوچھا اور پوری کلاس میں نظریں گھمائیں کیونکہ عائشہ ہمیشہ جلدی ہی آتی تھی 

"وہ بہزاد بھائی سے ملنے گی تھی کچھ کام تھا" 

حوریہ کے کہنے پر انابیہ نے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

عائشہ اور انابیہ پچپن کی دوست تھیں جبکہ حوریہ سے انکی دوستی یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی وہ تین دوستیں تھی اور وہ تینوں ایک دوسرے کے لیے کافی تھیں 

اتنے میں سر بھی کلاس میں آ چکے تھے 

❤❤❤❤

"بہزاد بھائی" بہزاد جو لائبریری کی طرف جا رہا تھا آواز پر مڑ کر دیکھا

جہاں انابیہ اور حوریہ ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے عائشہ بتیسی نکال کر کھڑی تھی بہزاد کا فائنل ایر چل رہا تھا 

بہزاد اور عائشہ بہن بھائی تھے لیکن بہزاد نے حوریہ اور انابیہ کو بھی اپنی بہن بنایا ہوا تھا 

"جی گڑیا" 

"عاشی نے بتایا کے آپکی انگیجمنٹ ہونے والی ہے پہلی بات آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا اور دوسری بات ہمیں ٹریٹ کب مل رہی ہے"انابیہ نے مسکراتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے کیا کھانا ہے گول گبے" بہزاد نے مسکراتے ہوے کہا 

"نہیں بلکل نہیں اس بار کچھ اور "حوریہ نے کہا 

انابیہ نے اپنا ہاتھ تھوڑی پر رکھا اور پھر سوچ کر مسکراتے ہوے کہا 

"آئسکریم اس بار آئسکریم چاہیے اور میں ہانی کے لیے بھی لونگی" انابیہ کے کہنے پر بہزاد نے اپنا اثبات میں ہلایا 

❤❤❤❤

"آبدہ یہاں سے بھی صاف کرو"

نرمین بیگم اس وقت کمرے کے کونے کونے تک کی صفائی کروارہی تھیں 

آخر ان کا لاڈلا جو واپس آرہا تھا وہ چاہتی تھیں کہ ہر چیز پرفیکٹ ہو 

"بیگم صاحبہ ہوگیا" آبدہ اچھے سے سارے کمرے کی صفائی کرکے انہیں بتانے لگی 

"اچھا ٹھیک ہے تم جاو" نرمین بیگم کے کہتے ہی وہ کمرے سے باہر چلی گی تو وہ بھی کمرے پر ایک نگاہ ڈال کر باہر کی طرف بڑھ گیں 

"ماما" نرمین بیگم جو کچن کی طرف جا رہی تھیں آواز پر گھبرا کر دیکھا جہاں ہادی کو دیکھ کر سکھ کا سانس لیا 

"کیا مسلہ ہے ہاد کبھی تو ڈھنگ سے آجاے کرو ہر وقت کا مذاق" 

نرمین بیگم ہاد کو ڈانڈتے ہوے کچن کی طرف چلی گیں 

"ڈیر ماما ویسے جتنا اہتمام آپ کررہی ہیں میرے لیے تو آپ نے کبھی اتنا نہیں کیا"مام

"تم بھی جاؤ اور دو تین سال کے بعد آنہ تمہارے لیے بھی یہی اہتمام کرونگی"

نرمین بیگم نے سبزی کاٹتے ہوے کہا 

"اف ماما یعنی آپ مجھے گھر سے نکالنا چاہ رہی ہیں" ہادی نے اپنا ہاتھ دل پر  رکھتے ہوے کہا جسے دیکھ کر نرمین بیگم اپنا سر نفی میں ہلانے لگی جیسے کہنا چاہ رہی ہوں اس لڑکے کا کچھ نہیں ہوسکتا 

"ہادی ادھر آ کیوں ماں کو تنگ کر رہا ہے" باہر سے اماں بی کی آواز پر ہادی منہ بناتا باہر چلا گیا 

"جی اماں بی کہیے"

"بتا مجھے میرے میرا بچہ کب آے گا آنکھیں ترس رہی ہیں" 

"کل آرہیں ہیں اماں بی"

"ہاے اللہ تجھے نہیں پتا ہادی میں یہ وقت گن گن کر گزار رہی ہوں"

"ویسے اماں بی میں بھی اگر باہر چلا جاوں تو کیا آپ اور امی میرے لیے بھی ایسے ہی انتظار کرینگی" ہادی نے اپنی تھوڈی پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"بیٹا میرے لیے تو تم تینوں ہی برابر ہو بس زرا اسے کافی دنوں بعد دیکھونگی نہ اسلیے بس خوشی ہورہی ہے" اماں بی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا 

"واؤ آپکے وہ آگے" ہادی نے مسکراتے ہوے سامنے دیکھا تو دادی نے بھی اپنی نظریں سامنے کی طرف اٹھالیں 

جہاں سے دادا جان آرہے تھے 

"آپ کہاں گے تھے" اماں بی نے ان کے بیٹھتے ہی دریافت کیا اتنے میں نرمین بیگم پانی لے کر آگیں اور پانی کا گلاس دادا جان کو دے دیا 

"خوش رہو بیٹا" دادا جان نے نرمین بیگم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"ارے بیگم بس واک کرنے گیا تھا تمہیں تو پتا ہے ڈاکٹر نے کہا تھا" 

دادا جان کے کہتے کہتے اماں بی نے اپنا سر اثبا میں ہلایا  

"ہمم دادا جان" 

ہادی کی آواز پر دادا جان نے اس کی طرف دیکھا جہاں وہ آنکھوں میں شرارت لیے انہیں دیکھ رہا تھا وہ سمجھ چکے تھے کہ انکے پوتے کہ دماغ میں کوئی کیڑا چل رہاہے ہے اسلیے جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے مگر ان کے جانے سے پہلے ہی ہادی نے اپنی بات کہہ دی

"ارے رقیہ آنٹی اوہ سوری دادی کیسی ہیں" 

ہادی کی بات پر انھوں گھبرا کر اپنی بیگم کو دیکھا جو اب انہیں ہی دیکھ رہی تھی 

"کون رقیہ دادی"

"ارے بیگم ایسے ہی کہہ رہا ہے تمہیں پتا تو ہے اسکا"

انھوں غصے سے ہادی کو گھورتے ہوے کہا  

"نہیں تو میں کیوں جھوٹ بولونگا" ہادی نے معصومیت سے کہا 

دادا جان نے پہلے اپنی بیگم کی طرف دیکھا جو انھوں غصے سے گھور رہیں تھی 

اور پھر ہادی کو جو اپنی دو انگلیاں کنپٹی پر رکھ کر بیٹھا تھا مطلب صاف تھا اسے کوئی نئی فرمائش کرنی تھی 

جو کسی نے پوری نہیں کی ہوگی مگر اب دادا جان کو پوری کرنی پڑے گی ورنہ اپنی بیوی کے غصے سے تو وہ خود بھی واقف تھے انھوں ہادی کی طرح دیکھ کر بےبسی سے اپنی سر اثبات میں ہلادیا 

جسے دیکھتے ہی ہادی نے مسکراکر اپنے دادا کو دیکھا 

"دادی" ہادی نے گلہ کھنکارتے ہوے کہا 

دادی نے اس کی طرف دیکھا 

"میں مذاق کررہا تھا" اتنا بولتے ہی ہادی وہاں سے بھاگ چکا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا اگر وہیں رکتا تو دادی نے اسکے ساتھ کیا کرنا تھا 

❤❤❤❤ 

"آبدہ دیکھو کون آیا ہے"

ڈور بیل کی آواز پر نرمین بیگم نے ملازمہ کو آواز دی مگر اس سے پہلے ہی حوریہ بھاگتی ہوئی نیچے آئی سب اس وقت لاونج میں بیٹھے چاے پی رہے تھے 

"ماما میں نے پیزا آرڈر کیا تھا وہی ہوگا" حوریہ کہتے کہ دروازے کی طرف بڑھ گی 

ہادی نے منہ بنا کر اپنی ماں کو دیکھا 

"ماما یہ کیا بات ہوئی میں نے کہا تو آپ نے منع کردیا تھا" 

"ہاں تو وہ کبھی کبھی کھاتی ہے تمہاری طرح روز نہیں کھاتی اور اب سے تم" نرمین بیگم کے الفاظ منہ میں رہ گے جب باہر سے حوریہ کی چیخ پر سب پریشانی سے بھاگے 

❤❤❤❤

حوریہ کی چیخ پر سب پریشانی سے باہر کی طرف بھاگے جہاں باہر کا منظر سب کے لیے حیران کن تھا 

جہاں حوریہ اپنے بھائی کے گلے لگی ہوئی تھی اور خوشی سے اسکی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے 

"ہاے اللہ میرا بچہ آگیا" اماں بی ہادی کو دھکا دیتی ہوئی اپنے پوتے کی طرف بھاگی ہادی نے عجیب نظروں سے گھور کر اپنی دادی کو دیکھا 

حوریہ اور دادی دادا سے ملنے کے بعد وہ نرمین بیگم اور اسد صاحب سے ملا پھر اسکی نظر پیچھے کھڑے ہادی پر گئی جو منہ لٹکاے کھڑا تھا 

اس نے آگے بڑھ ہادی کو گلے لگایا بھائی کے گلے لگ کر ہادی کی بھی آنکھیں نم ہوگیں  

وہ سید شہرام درانی تھا نیلی آنکھوں والا خوبصورت شہزادہ 

"آپ تو کل آنے والے تھے " ہادی نے آنسوں صاف کرتے ہوے کہا 

"جو خوشی مجھے اس وقت سب کے چہرو پر دکھ رہی ہے نہ اسے ہی دیکھنے کے لیے میں بنا بتاے آگیا "

"اچھا چلو اب بچے کی جان چھوڑو جاو میرا بچہ تم اب آرام کرو تھکے ہوے آے ہو" نرمین بیگم کے کہنے پر وہ مسکراتے ہوے اپنے کمرے میں چلا گیا 

اس نے کمرے میں قدم رکھتے ہی نگاہ چاروں طرف دوڑائی ہر چیز ویسے ہی رکھی ہوئی تھی جیسی وہ ہمیشہ سے چھوڑ کر جاتا ہے لیکن صاف کمرہ بتا رہا تھا کہ اسکی باقیدگی سے صفائی ہوتی ہے 

وہ اپنے کپڑے نکال کر واشروم کی طرف بڑھ گیا 

❤❤❤❤

"بھائی کہاں ہیں" حوریہ نے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوے کہا

"وہ سورہا تھا میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا سفر ست تھکا ہوا آیا تھا"نرمین بیگم نے ڈش اسد صاحب کی طرف بڑھاتے ہوے کہا 

"اسلام وعلیکم"--- شہرام نے ڈائنگ ہال میں داخل ہوتے ہوے کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا 

"ارے بچہ اتنی کیا جلدی تھی آرام کرتے" اماں بی نے محبت سے اپنے پوتے کو دیکھتے ہوے پوچھا 

"نہیں اماں بی بہت آرام کرلیا اور ویسے بھی اب میں کل سے آفس بھی جوائن کرلونگا"

شہرام کے کہتے ہی نرمین بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا 

"کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی تو آے ہو ایک ہفتے تک تو بلکل بھی کوئی کام نہیں کروگے"

نرمین بیگم کے کہنے پر شہرام چپ چاپ کھانا کھانے لگا کیونکہ پتا تھا اگر انھوں نے ایک بار کہہ دیا تو مطلب اس معاملے میں تو اسکی نہیں چلے گی 

"اور باقی کی پلٹن کو بھی بلا لینا انھیں بھی بہت انتظار تھا تمہارا" دادا جان کے کہتے شہرام سے پہلے ہادی بول اٹھا 

"ناٹ فکر دادا جی میں پہلے ہی سب کو اطلاع دے چکا ہوں سب رات تک یہاں ہونگے"

ہادی نے کہتے ہوے بڑا سا نوالہ اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسکے کہنے کے مطابق رات تک ساری پلٹن لان میں بیٹھ کر چاے اور ڈھیر ساری چیزوں سے انصاف کررہے تھی 

ہادی ان میں سب سے چھوٹا تھا لیکن پھر بھی ان کی ٹیم میں شامل تھا اور اگر کوئی اسے نہ بھی لے تو بھی وہ خود ہی ان کی ٹیم میں زبردستی آجاتا تھا 

ویسے بھی اسے رکھنے کا فائدہ ہی تھا وہ زیادہ تر ہر کسی کے راز جانتا تھا 

لیکن وہ ایک اچھا رازدار تھا اسلیے ہر بات ہر کسی کو نہیں بتاتا تھا لیکن بلیک میل کرکے اپنے کام ضرور نکل والیتا تھا 

❤❤❤❤ 

"چلو یار میں تو اب بس گھر جا رہا ہوں" رات کا وقت ہورہا تھا اور وہ سب نجانے کب سے وہاں بیٹھے باتیں کررہے تھے جب حدید نے انگڑائی لیتے ہوے کہا 

"گھر جانے کی کیا ضرورت ہے حدید بھائی آپ کو پتا تو ہے جب بھی آپ لوگ یہاں آتے ہیں مما آپ لوگوں کا روم سیٹ کرواتی ہیں" ہادی نے پوپ کارن کھاتے ہوے کہا 

"ہاں ہاد لیکن میں اب بس گھر جاؤنگا" 

"ہاں مجھے پتا ہے تیرے گھر کا  راستہ اب حور کے کمرے کی طرف ہوگا"

شہرام نے حدید کو دیکھتے ہوے کہا 

"تو آپ کو منع کون کررہا ہے حدید بھائی" 

ہادی نے اسکی طرف شرارت سے دیکھتے ہوے کہا 

"تبریز کیوں نہیں آیا" حاشر نے ان دونوں کو دیکھتے ہوے کہا 

"بڑی جلدی خیال آگیا"  حدید کے کہنے ہر ہادی نے مسکرا کر حاشر کی طرف دیکھا 

"خیال کیسے آتا وہ تو اپنی محبوبہ کو یاد کررہے تھے" ہادی کی بات پر حدید اور شہرام نے حیرت سے حاشر کو دیکھا جو ہادی کو غصے سے گھور رہا تھا 

"کیا سچ میں"حدید نے مزے سے ہادی کے ہاتھ سے پاپ کارن لے کر کہا اسکی تو خود یہی خواہش تھی کہ اسکے بھی کسی دوست کو محبت ہو جاے خاص کر حاشر کو کیونکہ جتنا حاشر اسے اس معاملے میں تنگ کرتا ہے تو اتنا حق تو اسکا بھی تھا

"تو اور کیا اتنے اچھے بزنس کے باوجود بھی یہ اس کالج میں جوب کررہے ہیں تو اسکی یہی وجہ ہے"ہادی نے کہتے ہوے حاشر کی طرف دیکھ جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کھا جاے گا 

"میں نے تو پہلے ہی کہا تھا مجھے وہ لیپ ٹاپ دلا دیجیے کسی کو نہیں بتاؤنگا لیکن لگتا ہے آپ نے ہادی درانی کو سیریس نہیں لیا" ہادی نے اسکے قریب جھک کر کہا 

"اتنے امیر باپ کی اولاد ہے پھر بھی تیری ہر وقت یہی مانگنے کی عادت ہے" حاشر نے دانت پیستے ہوے کہا

"اگر واقعی میں اتنا پسند کرتے ہو تو انکل کو اسکے گھر بھیج دو" شہرام نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں یار ابھی بہت چھوٹی ہے ابھی تو کالج میں پڑھ رہی ہے پہلے وہ بڑی تو ہوجاے" حاشر نے مسکراتے ہوے کہا اس دیکھ کر ایسا لگ رہے تھا جیسے اسکا خیال آنہ ہی اسکے لیے کتنا خوبصورت احساس ہے 

"سوری یار دیر ہوگی ضروری میٹنگ تھی کیا کر رہے ہو" تبریز نے آتے ہوے اپنے کوٹ اتارا اور سب سے مل کر چئیر پر بیٹھ گیا 

"اگر ہم نے تمہیں بتا دیا کہ ہم کیا بات کررہے ہیں تو تمہارا موڈ خراب ہوجاے گا" حدید کی بات سن کر ہی تبریز کا منہ بن چکا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ محبت یا شادی کی بات ہی ہورہی ہوگی  

"محبت کی ہی بات ہورہی ہوگی" 

"ویسے تبریز بھائی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جو لوگ محبت سے دور بھاگتے ہیں انہیں دھواں دھار عشق ہوتا ہے"---

 ہادی کی بات پر تبریز نے اسے گھور کر دیکھا جبکہ اسکے دیکھنے پر ہادی گھبرا کر پیچھے ہوگیا 

حدید تو اسکا دوست اور بھائی تھا اور حاشر سے بھی وہ ہر بات کرلیتا تھا لیکن تبریز سے کبھی بھی کھل کر بات نہیں کرپاتا تھا اسے ایسا لگتا تھا جیسے اسکے سامنے تبریز نہیں بلکہ سب سے خطرناک ٹیچر ہے 

فون پر آتی کال دیکھ کر تبریز ایک کونے میں چلا گیا جبکہ اسکے جاتے ہی ہادی نے شرگوشیانہ انداز میں کہا 

"دیکھ لینا لکھ کر رکھ لو آپ سب ایک نہ ایک دن انہیں محبت ہوگی اور وہ بھی بے حد"---- اسکے کہنے کے انداز پر سب کے چہرو پر مسکراہٹ بکھر گئی

"جاؤ حدید مل لو حور سے" شہرام کے کہتے ہی حدید خوشی سے اپنا سر ہلا کر حوریہ کے کمرے کی طرف چلا گیا 

❤❤❤❤

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں اور آپ کب آے"---- ، حوریہ جو ابھی واشروم سے آئی تھی اپنے بیڈ پر بیٹھے حدید کو حیرت سے دیکھا 

"مطلب جان حد ہوگی ہم کب سے آے ہو ہیں اور آپ کو خبر ہی نہیں" حدید کہتے ہوے اپنی جگہ سے اٹھا اور اسے کمر سے تھام کر اپنے ساتھ لگالیا 

"حدید" حوریہ نے گھبرا کر اسے دیکھا 

"فون کیوں نہیں پک کیا میرا" حدید نے کہتے ہوے اسکے بالوں میں اپنے چہرہ چھپالیا اور اسکی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا 

"سوری وہ کل ٹیسٹ ہے میرا اور اگر آپ سے بات کرنے لگ جاتی تو ٹیسٹ کی تیاری نہیں کرپاتی" حوریہ کے معصومیت سے کہنے پر حدید کو اپنی معصوم بیوی پر بےانتہا پیار آیا حدید نے آگے بڑھ کر اسکی چھوٹی سے ناک پر اپنے لب رکھ دیے 

"اب تم سوجاؤ" حدید نے کہتے ہوے اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھایا اور جاکر اسے بیڈ پر لٹا دیا 

"مجھے نہیں سونا مجھے پتا ہے جب میں اٹھونگی تو آپ یہاں سے چلے جاؤ گے"  

"اچھا ٹھیک ہے تم سوجاؤ اور کل صبح جب تم اٹھو گی تو سب سے پہلے مجھے ہی اپنے قریب پاؤ گی"

حدید نے کہتے ہوے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر اسکے گرد اپنا حصار تنگ کر لیا

❤❤❤❤ 

"بیہ کہاں جا رہی ہو" انابیہ جو یونیورسٹی سے باہر جا رہی تھی حوریہ کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا جو اسکی طرف آرہی تھی اور عائشہ بھی حوریہ کے پیچھے بھاگتی ہوئی آرہی تھی 

"تمہیں پتا ہے نہ میرا انٹرویو ہے تو بس وہیں جارہی ہوں" 

"کیا ضرورت ہے تمہیں جوب کی اگر پیسوں کی ضرورت ہے تو مجھ سے لے لو اور اگر پھر بھی تمہیں اعتراض ہے تو ادھار لے لو جب ہوں تو دے دینا" 

حوریہ کے کہنے پر عائشہ نے بھی سر ہلا کر انابیہ کی طرف دیکھا اور بڑا سا رول کا نوالہ اپنے منہ میں ڈال لیا 

"ہاں یار حور ٹھیک کہہ رہی ہے ہم کس دن کام آئینگے"

انکی فکر پر انابیہ نے مسکراکر انہیں دیکھا 

"ٹھینک یو میری اتنی فکر کرنے کے لیے لیکن میں تم لوگوں سے کوئی پیسے نہیں لینے والی" 

"اچھا تو پھر تم ایسا کرو ڈیڈ کے آفس میں جوب کرلو میں ان سے بات کرلونگی" حوریہ نے دوسرا آپشن اسکے سامنے رکھا 

"دیکھنا حور ہماری بیہ بہت ٹیلنٹڈ ہے اسے تو کوئی بھی جوب دے دےگا" عائشہ نے کہتے ہوے رول کا لاسٹ بائیٹ بھی اپنی منہ میں رکھ لیا 

"وہ تو ہے لیکن" حوریہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انابیہ نے اسکے ہاتھ تھام لیے 

"حور فکر مت کرو میری جان مجھے جوب مل جاے گی اور نہ ملی تو پکا میں تمہارے ڈیڈ کے آفس میں ہی جوب کرونگی اوکے" انابیہ کہتے ہوے ان دونوں سے گلے مل کر چلی گی 

❤❤❤❤

انابیہ گھر کی بڑی بیٹی تھی  بھائی اس سے چھوٹا تھا جس کی چند دنوں پہلے ہی جوب لگی تھی والد چند ہفتوں پہلے ایک کار ایکسیڈنٹ کی وجہ سے معذور ہو چکے تھے جس وجہ سے اب اسے ہی گھر والوں کا سہارا بننا تھا 

"انابیہ احمد"اسد صاحب نے انابیہ کی فائل دیھکتے ہوے حیرت سے کہا 

"کیا آپ احمد اور راشدہ کی بیٹی ہو" 

اسد صاحب کے کہنے پر انابیہ نے حیرت سے انہیں دیکھا 

"جی سر میری والدہ کا نام راشدہ ہے لیکن آپ کیسے جانتے ہیں" 

اسکی بات پر احمد صاحب کے لبوں پر گہری مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"کیونکہ آپکی والدہ اور والد دونوں میرے یونیورسٹی کے دوست ہیں خیر چھوڑو یہ باتیں تو ہوتی ہی رہینگی آپ بتاؤ بچہ آپ کو جوب کی کیا ضرورت پڑ گی گھر میں سب کیسے ہیں اور گھر میں ہے کون کون کیونکہ جب تک میرا ان سے تعلق تھا تو جب تک تو میں نے آپ کو ہی دیکھا تھا اور مجھے حیرت ہورہی ہے کہ وہ چھوٹی سی انابیہ اتنی بڑی ہوکر میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہے اور راشدہ اور احمد کیسے ہیں" 

اسد صاحب کی بات پر انابیہ نے مسکراکر انہی دیکھا اور پھر ان کے سوالوں کے جواب دینے لگی 

"امی ابو بلکل ٹھیک ہیں اور گھر میں ساتھ میری دو چھوٹی بہنیں رہتی ہیں اور ایک بھائی اور اس جوب کی مجھے ضرورت تھی کچھ ٹائم پہلے ابو کا کار ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اس کی وجہ سے وہ ، وہ معذور ہوچکے ہیں اور ڈاکٹر نے انہیں مکمل ریسٹ کرنے کے لیے کہا ہے"

انابیہ کی بات سن کر انہیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا 

"اب کیسا ہے وہ" 

"اب وہ کافی بہتر ہیں" 

"میں بہت جلد اس سے ملنے آونگا اور اگر آپ کا بھائی ہے تو آپ یہ جوب کیوں کررہی ہو"

"سر وہ ابھی چھوٹا میں اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی اور اس سے جتنا ہوسکتا ہے وہ ہمارے لیے کرتا ہے لیکن اس میں گھر تو نہیں چل سکتا نہ " 

ٹھیک ہے اور یہ جوب اب سے آپکی ہوئی" 

"لیکن سر اگر میں اس جوب کے قابل نہیں ہوئی تو آپ نے میرا انٹرویو بھی نہیں لیا کیا پتہ کوئی اور مجھ سے زیادہ اس جوب کے لیے اچھا ہو"

"ٹھیک ہے تو میں آپکو یہ جوب ایک مہینے کے لیے دیتا ہوں اگر آپ نے اپنا کام اچھے سے کیا تو پھر یہ جو مستقل آپکی ہوئی ٹھیک ہے"--- 

احمد صاحب کے مسکراکر کہنے پر انابیہ نے بھی مسکراکر اپنا سر ہلا دیا احمد صاحب نے اٹھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا 

"اور یہاں پر کوئی سر نہیں ہے مجھے انکل کہنا " 

اور پھر تھوڑی دیر ان سے بات کرکے وہ واپسی کے لیے کھڑی ہوگی آج وہ بہت خوش تھی 

عائشہ اور حوریہ کو یہ خوش خبری وہ فون پر دے چکی تھی اور اب بس اسے گھر جانے کی جلدی تھی تاکہ سب کو یہ گوڈ نیو سنا سکے 

❤❤❤❤

حاشر جو مابائل یو کرتے ہوے جارہا تھا کسی سے زور دار ٹکر لگنے کی وجہ سے اسکی موبائل نیچے گر گیا 

اسکا صرف موبائل نیچے گرا تھا لیکن دوسرا وجود زمین بوس ہو چکا تھا 

حاشر نے اپنا موبائل اٹھایا جہاں اسکی اسکرین پر کریک پڑ چکا تھا اور موبائل بھی اوف ہوچکا تھا اسنے غصے سے سامنے کھڑے وجود کو دیکھا لیکن سامنے دیکھتے ہی اسکا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا جہاں ہانیہ کھڑی ہو کر اپنی کپڑے جھاڑ رہی تھی جب اسکی نظر سامنے کھڑے حاشر پر پڑی اور وہ جو غصے میں اسے کچھ کہنا کا ارادہ رکھتی تھی سامنے حاشر کو دیکھ کر اسکا منہ کھل گیا 

"سوری سر سوری سوری"ہانیہ نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

اور حاشر جو اسے دیکھنے میں مصروف تھا اسکی آواز پر فورا ہوش میں آیا 

"ہاں ، نہیں کوئی بات نہیں"

"ارے کیسے کوئی بات نہیں دیکھے آپکی شرٹ پر سارا کیچب لگ گیا" ہانیہ نے اسکی سفید شرٹ کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اسکی پلیٹ میں موجود سارے کیچب حاشر کی شرٹ پر لگ چکا تھا 

"ہیے ہانی کوئی بات نہیں میرے پاس دوسری شرٹ ہے میں چینج کرلیتا ہوں"

حاشر کہتے ہوے وہاں سے چلا گیا جبکہ اسکے جاتے ہی دوسری کلاس کی کرن اسکے پاس آئی اور ہزار کا نوٹ ہانیہ کو دے دیا جسے ہانیہ نے مسکراتے ہوے تھام لیا 

آج کرن کا ٹیسٹ تھا جو حاشر نے کرن اور پوری کلاس کو دیا تھا جس کی کوئی بھی تیاری کرکے نہیں آیا تھا حاشر کے اپنے کچھ رولز تھے اور جو بھی اس کے ٹیسٹ میں فیل ہوجاتا تو حاشر اسکو اپنے طریقے سے سزا دیتا پورے کولج میں ایک ہانیہ تھی جس پر حاشر نے آج تک غصہ نہیں کیا تھا اور اسی وجہ سے کرن نے اس سے یہ سب کرنے کو کہا تاکہ اس سب میں ٹائم برباد ہوجاے اور حاشر آج انہیں بخش دے 

جبکہ دور کھڑا حاشر اس کی حرکت سمجھتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلانے لگا لیکن افسوس اسے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا آخر معاملہ دل کا تھا 

حاشر ایک کام سے اس کالج میں آیا تھا جہاں اسنے ہانیہ کو دیکھا اور پھر اسی کی وجہ آج وہ اس کالج میں موجود تھا 

❤❤❤❤

"امی امی" انابیہ خوشی سے چیختے ہوے گھر میں داخل ہوئی اسکی چیخ سن کر راشدہ بیگم گھبرا کر کچن سے نکلی

"کیا ہوا"

"امی مجھے جوب مل گی" 

"کیا سچ میں" راشدہ بیگم نے حیرت اور خوشی سے کہا جس کے جواب میں انابیہ نے خوشی سے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

اس کی آواز سن کر احمد صاحب بھی ویل چئیر پر بیٹھے کمرے سے نکل آے 

انہیں دیکھ کر انابیہ فورا ان کی طرف بھاگی 

"ابو مجھے جوب مل گی ہے اور آپ کو پتہ ہے وہ کہہ رہے تھے کہ وہ آپ دونوں کے دوست ہیں" انابیہ نے مڑ کر راشدہ بیگم کی طرف دیکھ اور پھر احمد صاحب کو دیکھ کر کہا 

"اچھا کیا نام تھا" احمد صاحب نے حیرت سے کہا 

"سید اسد درانی"انابیہ کے کہنے پر دونوں نے خوش گوار حیرت سے انابیہ کو دیکھا 

"کیا واقعی تمہیں اسد کے آفس میں جوب ملی ہے اور وہ یہاں ہے"

"جی ابو اور انہیں جب پتا چلا کہ میں آپ دونوں کی بیٹی ہوں تو انہوں نے مجھے بنا انٹرویو کے ہی رکھ لیا اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ آپ سے ملنے بھی آئینگے" 

انابیہ کے کہنے پر دونوں کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا جوب کرنا انابیہ کی مجبوری تھی لیکن وہ دونوں اسکے لیے پریشان تھے کہ جہاں اسے جوب ملے گی وہ لوگ کیسے ہونگے لیکن اب وہ مطمئن تھے

❤❤❤❤ 

"سر یہ فائل ہے جو آپ نے منگوائی تھی" مہوش نے ایک ادا سے فائل تبریز کی طرف بڑھائی جسے لینے کے بجاے تبریر نے غصے سے اسکی طرف دیکھا جو اس وقت شارٹ شرٹ اور ٹائٹ چینز میں اسکے سامنے کھڑی تھی 

فیاض اسکے آفس کا ہر کام سمبھلتا تھا لیکن طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے اسنے آفس سے چند دن کی چھٹی لی تھی اور تبریز کو کوئی پریشانی نہ ہو اسلیے اسنے اپنی چھوٹی بہن کو چند دن کے لیے اسکے آفس میں کام سمبھالنے کے لیے بھیجا تھا فیاض ایک اچھا اور شریف انسان تھا لیکن اسکی بہن ایک بے ہودہ اور واہیات عورت تھی تبریز کو تو ایسا ہی لگتا تھا 

ویسے تو اسے عورت زات پسند نہیں تھیں لیکن مہوش جیسی عورتوں سے اسے سخت نفرت تھی جو خود کو مردوں کے سامنے پیش کرتی تھیں وہ کب سے اسکی یہ حرکتیں برداشت کررہا تھا 

"میں نے تم سے نہیں کہا تھا" تبریز نے دانت پیستے ہوے کہا 

"لیکن یہ کام تو میرا ہی ہے نہ" مہوش کہتے ہوے اپنے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی میں گھمانے لگی 

"گیٹ لاسٹ ،،"

"جی سر" مہوش نے حیرت سے پوچھا جیسے اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہو 

"دفعہ ہو جاؤ" تبریز کے دھاڑنے پر وہ فورا ڈر کر باہر کی طرف بھاگی اسکے جانے کے بعد تبریز نے اپنی ٹائی ٹھیلی کی اور مزمل کو اپنے پاس بلایا 

"جی سر آپ نے بلایا؟" اجازت ملتے ہی ملازم نے اندر داخل ہوکر ادب سے پوچھا 

"کل سے مجھے وہ لڑکی اس آفس میں نظر نہ آے"

اس کہ بنا کہے ہی مزمل سمجھ چکا تھا کہ وہ کس لڑکی کی بات کررہا ہے 

"اور فیاض سے کہو کہ اگر وہ کل مجھے اس آفس میں نہ ملا تو پھر اپنے لیے دوسری جوب ڈھونڈ لے"

"اوکے سر" 

مزمل کے کہنے پر تبریز نے اسے ہاتھ سے باہر جانے کا اشارہ کیا اور پھر تھوڑی دیر بعد اس نے اپنا کوٹ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا اور باہر کی جانب بڑھ گیا 

❤❤❤❤

"تبریز خانزادہ کیا آپ سے بات ہو سکتی ہے" تبریز جو اوپر کی طرف جارہا تھا پیچھے سے آتی آواز پر ضبط سے اپنی آنکھیں موند لیں اور پھر مڑ کر سامنے کھڑے باقر صاحب کو دیکھا 

کل انہوں نے صبح تبریز سے کہا تھا کہ انہیں ضروری بات کرنی ہے آفس سے آکر ان سے بات کرے اور وہ جانتا تھا کہ وہ ضروری بات اس کی شادی کے بارے میں ہی ہوگی اسلیے جان بوجھ کر رات کو دیر سے گھر لوٹا جب تک باقر صاحب سو چکے تھے اور آج بھی دیر سے لوٹا تھا لیکن آج وہ بھی اسکے انتظار میں اب تک جا رہے ہیں 

"کہیے ڈیڈ کیا بات کرنی ہے" تبریز نے بے زاری سے کہا اور آکر صوفے پر بیٹھ گیا 

"کیوں مجھے اذیت دے رہے ہو تبریز"باقر صاحب نے بےبسی سے بیٹے کو دیکھتے ہوے کہا 

"میری بات سنیں آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے" تبریز نے انکا ہاتھ تھام کر انہیں اپنے سامنے بنے صوفے پر بیٹھا دیا اور اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر ہونٹوں پر رکھ لی 

"میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا گھر بسا لو" 

"میں نے کوشش کی تھی آپ کیا چاہتے ہیں دوبارہ کروں "تبریز نے انکی بات کاٹتے ہوے اہنی رعب دار آواز میں کہا 

"ہاں میں یہی چاہتا ہوں" باقر صاحب نے بے بسی سے کہا انکے لیے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہوگی 

"ٹھیک ہے اگر مجھے کوئی لڑکی پسند آئی تو میں اس بارے میں سوچ کر آپکو بتادونگا " 

"ٹھیک ہے میں دعا کرونگا کہ خدا جلد ہی تمہاری زندگی میں ایک ایسی لڑکی بھیج دے جس سے تمہیں محبت ہوجاے اور وہ تمہاری زندگی سنوار دے" باقر صاحب کی باتوں پر اسنے تنظزیہ ہنسی سے انہیں دیکھا 

"میں نے کہا اگر پسند آئی تو سوچ کر آپ کو بتادونگا کیونکہ میرا نہیں خیال مجھے کسی سے محبت ہوگی اور دعا کیجیے گا ایسا نہ ہو کیونکہ اگر مجھے محبت ہوئی اور اسکی مرضی شامل نہ بھی ہوئی تو بھی میں زبردستی اسے اپنی زندگی میں شامل کرلونگا چاہے پھر کچھ بھی ہوجاے" تبریز کہتا ہوا اوپر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا اور باقر صاحب اسکی چوڑی پشت کو دیکھنے لگے 

❤❤❤❤

"مجھے یہ کپ کیک دے دیجیے" ہادی نے سامنے رکھے دو چاکلیٹ کپ کیک جانب اشارہ کیا 

"سوری سر میم پہلے آکر اس کی پیمنٹ کرچکی ہیں وہ کسی بھی وقت واپس آجائینگی اور یہ لاسٹ ہی تھے" سامنے کھڑے بیکر نے معذرت کرتے ہوے کہا 

جب ہادی نے دوبارہ سے اس کپ کیک کو دیکھا اب تو اسکے منہ میں پانی آرہا تھا 

"میں تمہیں اسکی ڈبل قیمت دونگا" ہادی کی بات پر سامنے کھڑا آدمی بھی سوچ میں پڑ گیا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کہتا عائشہ بھاگتی ہوئی بیکری میں داخل ہوئی 

"لاے دیجیے میرے کب کیک"عائشہ نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا 

"دیکھیے میڈم اب وہ میرے ہیں اب کچھ اور لے لیجیے" ہادی کی کہنے پر عائشہ گھور کر اسے دیکھنے لگی 

"دیکھیے مسٹر میں اسکی پیمنٹ کرکے گی تھی آپ کچھ اور لے لیجیے" عائشہ نے کہتے ہوے شوپر اپنے ہاتھ میں لے لیا 

"وہ کیا ہے"ہادی کے کہنے پر عائشہ نے اس طرف دیکھا جس طرف ہادی کی انگی جارہی تھی اور اسکے وہاں دیکھتے ہی ہادی اسکے ہاتھ سے وہ شوپر لے کر اس بیکری سے بھاگ گیا اور بات سمجھ آتے ہی عائشہ بھی اسکے پیچھے بھاگی 

ہادی جو باہر جا کر خوشی سے اپنے ہاتھ میں موجود کپ کیک دیکھ رہا تھا عائشہ نے پیچھے سے آکر اسے دھکا دیا جس کی وجہ سے ہادی کے ساتھ ساتھ اسکے ہاتھ میں موجود کپ کیک بھی زمین پر گر گے 

"یہ کیا کیا، تمہاری وجہ سے میرے کپ کیک ضایع ہوگے" عائشہ نے صدمے سے چیختے ہوے کہا 

"میری وجہ سے نہیں تمہاری وجہ سے تم نے مجھے دھکا دیا" 

"تم ندیدے ہو"

"تم ندیدی ہو میں نے آج تک تم جیسی عورت نہیں دیکھی"

ہادی کی بات پر عائشہ نے اپنا منہ کھول کر اسے دیکھا 

"تم نے مجھے عورت کہا ---"

"ہاں کہا" 

"کہاں سے میں تمہیں عورت نظر آرہی ہوں"

"تم عورت ہو عورت ہو عورت ہو"

ہادی تیزی سے چلاتے ہوے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر وہاں سے بھاگ گیا 

اور عائشہ وہاں کھڑی کتنی ہی دیر تک زمین پر بکھرے ہوے اپنے کپ کیک کو اداسی سے دیکھتی رہی 

 انابیہ کو چار دن ہو چکے تھے آفس میں کام کرتے ہوے جو بڑی سکون سے گزرے تھے اسکی جوب کے اگلے دن ہی اسد صاحب اور نرمین بیگم ان  کے گھر آے تھے احمد صاحب سے ملنے اور خیریت دریافت کرنے سالوں بعد وہ دوست ملے تھے اسلیے باتیں تھیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں اسد صاحب بہت خوش اخلاق تھے تو ان کے ساتھ انکی بیگم بھی بہت ہی نفیس خاتون تھیں جو ان سے بہت اچھے سے ملی ان کے ساتھ مل کر کہیں سے بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ سب ان سے پہلی بار مل رہے ہیں

اور اسکے بعد بھی اسد صاحب روز آکر اس سے پوچھتے تھے کہ کہیں اسے کوئی تکلیف تو نہیں اور وہ مسکراکر اپنا سر نفی میں ہلا دیتی اب تک سب کچھ بلکل ٹھیک تھا 

❤❤❤❤

"یہ آج آفس میں کیا ہورہا ہے" انابیہ نے پورے آفس میں نظر دوڑاتے ہوے عمارہ سے کہا جہاں جو لڑکیاں روز میک اپ کرکے آتی تھیں آج ایسا لگ رہی تھا شادی میں آئی ہوئی ہیں اور جو سادہ سی آتی تھی آج وہ بھی میک اپ کرکے آئیں ہوئی تھیں 

"تو تمہیں نہیں پتا"

"نہیں"

"آج سے اسد سر کے بیٹے آفس آئینگے اسلیے سب اسطرح تتلی بن کر آئی ہوئی ہیں کہ کیا پتا کسی کا چانس لگ جاے" عمارہ نے کہتے ہوے ایک نظر ان سب لڑکیوں پر ڈالی جو یہاں موجود تھیں 

"اچھا کیا نام تھا ان کا ہاں ہادی تھا شاید میں نے سنا ہے وہ تو بہت چھچھورے ہیں" انابیہ نے نام یاد کرنے کی کوشش کی اور پھر یاد آنے پر اس سے کہا اور اپنے ہاتھ میں موجود پانی پینے لگی 

"تم سے کس نے کہہ دیا کہ سر ہادی چھچھورے ہیں ہاں وہ فرینڈلی ہیں لیکن وہ بھی ہر کسی کے ساتھ نہیں اور وہ نہیں آرہے سر اسد کے بڑے بیٹے آئینگے جو کچھ دن پہلے باہر سے آئیں ہیں"

"اچھا" 

"ہاں اب تم جاؤ سر بھی آنے والے ہونگے" 

انابیہ انا سر ہلا کر جانے لگی جب پیچھے سے آتے شہرام سے زوردار ٹکر ہوئی اور اس کے ہاتھ میں موجود سارا پانی شہرام کے کپڑوں پر گر گیا 

شہرام نے غصے سے سامنے کھڑی انابیہ کو دیکھا جو منہ کھولے اسکے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی 

"سوری میں تو"

"دیکھ کر نہیں چل سکتی ہو یہ کیا کردیا تم نے" 

انابیہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شہرام نے اس پر چلاتے ہوے کہا اور اسکا چلانے پر سب انکی طرف متوجہ ہوے 

"ہیلو مسٹر میری غلطی تھی جو میں ایکسیپٹ کرچکی ہوں اب زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے" انابیہ نے اس سے یاد تیز آواز میں کہا 

"لگتا ہے تم مجھے جانتی نہیں ہو" شہرام نے کہتے ہوے اپنے ہاتھ اپنی پینٹ کی پوکیٹ میں ڈال لیے 

"مجھے تمہیں جاننا بھی نہیں ہے" 

شہرام نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر اپنا غصہ ضبط کیا 

"لڑکی تم اب مجھے یہاں نظر نہ آؤ اور ، اقبال تم میرے کمرے میں آؤ"

شہرام نے پہلی بات انابیہ سے اور دوسری بات اپنے پیچھے کھڑے اقبال سے کہی اور خود اندر چلا گیا 

اسکے جانے کے بعد انابیہ بھی سر جھٹک کر اپنے کام کی طرف جانے لگی جب عمارہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا   

"یہ تم نے کیا کردیا بیہ"عمارہ نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوے کہا 

"کیا ہوا" انابیہ نے حیرت سے پوچھا 

"یہی تو سر شہرام تھے"

"کیا" انابیہ نے چیختے ہوے کہا

"تمہیں کسے پتا"

"پکچر دیکھی تھی میں نے" عمارہ کے کہنے پر انابیہ اپنے ہاتھ مسلنے لگی 

"اب کیا ہوگا"

"تم سوری بول دینا اوکے" عمارہ کہتے ہوے دوسری طرف چلی گی جہاں اقبال اسے بلا رہی تھا 

"نہیں، نہیں وہ مجھے نوکری سے نہیں نکال سکتے مجھے تو انکل نے رکھا ہے ہاں میں سوری بول دونگی لیکن اگر پھر بھی انھوں نے مجھے نکل جانے کو کہا تو میں انکل سے شکایت لگادونگی ہاں یہ ٹھیک ہے" 

انابیہ خود سے بڑبڑاتے ہوے کہہ رہی تھی پھر خود کو مطمئن کرکے شہرام کے آفس کی طرف بڑھ گی 

❤❤❤❤

"اسد ایک بات کہوں" نرمین بیگم نے بیڈ شٹ درست کرتے ہوے اسد صاحب سے کہا جو لیپ ٹاپ سامنے آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگاے کام کررہے تھے

"ہاں کہو"

"مجھے نہ انابیہ بہت اچھی لگی کتنی پیاری ہے نہ وہ پڑھی لکھی سلجھی ہوئی لڑکی لگی" 

"میری جان کہنا کیا چاہتی ہو" اکبر صاحب نے اپنا چشمہ اتارتے ہوے اپنی جان سے غزیز بیوی کو دیکھا

"میں چاہتی ہوں شہرام سے اس بارے میں بات کروں آپکا کیا خیال ہے" 

"خیال تو بہت اچھا ہے لیکن میرا نہیں خیال شہرام مانے گا وہ ابھی اس سب کے بارے میں کچھ نہیں سوچنا چاہتا پھر بھی آپ ایک بار بات کرلو" 

"ٹھیک ہے میں اس سے بات کرونگی" اور پھر تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد وہ دونوں اپنے کام میں مصروف ہوگے

❤❤❤❤

شہرام اپنے کمرے میں بیٹھا انابیہ کی فائل دیکھ رہا تھا جو اسنے تھوڑی دیر پہلے اقبال سے منگوائی تھی لیکن حیرت اسے اسکی فائل دیکھ کر ہوئی جس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ اسکا باپ اس لڑکی کو یہ جوب دیتا 

جب دروازہ ناک کرکے انابیہ اجازت ملنے پر روم میں داخل ہوئی 

"تم ابھی تک یہیں ہو" 

"سر وہ مجھے کچھ کہنا تھا----"

"کہو "

"سوری سر"

"اوہ اچھا سوری کہنے آئی ہو--" شہرام نے تنظزیہ مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہو کہا 

جب اسی وقت دروازہ ناک کرکے اقبال روم میں داخل ہوا 

"اقبال یہ لڑکی ابھی تک یہاں کیا کررہی ہے ، اور مس اب تمہاری جوب جا چکی ہے" شہرام نے پہلے اقبال سے اور پھر انابیہ سے کہا 

"سر وہ آپ انہیں نہیں نکال سکتے انہیں اسد سر نے رکھا ہے وہ یہ بھی کہا تھا کہ ان کا خیال رکھا جاے کیونکہ مس انابیہ انکے عزیز کی بیٹی ہیں سر پلیز ایک چانس دے دیجیے"

اقبال نے مودبانہ انداز میں شہرام سے کہا جسے سن کر شہرام گہرا سانس لے کر رہ گیا 

"ٹھیک ہے دیکھو لڑکی" 

"انابیہ" اسکے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی انابیہ نے کہا 

"کیا---؟" شہرام نے حیرت سے کہا 

"میرا نام سر انابیہ ہے آپ کو پتہ ہو گا یقینا آپ میری فائل ہی تو پڑھ رہے تھے" انابیہ نے ٹیبل پر موجود فائل کو دیکھتے ہوے کہا 

"تم کوئی بھی ہو بس یاد رکھنا یہ تمہاری پہلی اور آخری غلطی ہے آگی بات سمجھ"شہرام کے کہنے پر انابیہ نے اچھے بچوں کی طرح سر ہلایا اور دل میں اسے بددماغ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گی 

❤❤❤❤

"حدید آپ یہاں کیا کررہے ہیں"حوریہ جو ابھی ڈرائیور کو دیکھنے آئی تھی سامنے حدید کو دیکھ کر حیرت سے حدید سے پوچھا جو بلیک سن گلاسیس لگاے ماتھے پر گرے بالوں کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا 

"میں اپنی جان کو لینے آیا ہوں چلو اب جلدی"حدید نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کار میں بیٹھایا اور خود بھی اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا 

"آپ نے ماما اور ڈیڈ سے پوچھا تھا" حوریہ نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا 

"ڈونٹ وری میری جان ممانی مجھے کچھ نہیں کہینگی" 

حدید نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا لیا 

حوریہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کرنا چاہا لیکن حدید نے اسکے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کردی 

اور گاڑی آئسکریم پارلر کے آگے روک دی 

اور گاڑی سے اترنے لگا جب حوریہ کے کہنے پر اسکی طرف دیکھنے لگا 

"میں یہیں ہوں آپ بس جلدی سے آجائیں" 

"ٹھیک ہے میں ابھی آیا"حدید کہتے ہوے اندر چلا گیا اور حوریہ اپنا موبائل یوز کرنے لگی

"یار دیکھ کیا لڑکی ہے اور وہ بھی اکیلی" حدید جو آئسکریم لے کر واپس آرہا تھا لڑکوں کی باتیں سن کر غصے سے ان کی طرف دیکھا اور پھر اس طرف جہاں کا وہ نظارہ کرکے لڑکی پر گندے گندے کمنٹس کررہے تھے اور وہاں دیکھ کر اسکی غصے سے رگیں تن گئیں کیونکہ وہ اسکی بیوی کو ہی دیکھ رہے تھے جو دنیا جہاں سے بےگانہ ہوکر پتا نہیں اپنے موبائل میں کیا دیکھ رہی تھی

باہر شور کی آواز پر حوریہ نے موبایل سے نگاہ ہٹا کر اس طرف دیکھا جہاں ایک دعا لڑکو کی دھولائی ہو رہی تھی یہ منظر دیکھ کر حوریہ فورا گاڑی سے نکل کر اس طرف بھاگی کیونکہ انہیں مارنے والا اور کوئی نہیں اسکا اپنا شوہر تھا 

"حدید کیا کررہے ہیں پلیز انہی چھوڑیں" حوریہ نے حدید کو بازو سے کھینچتے ہوے کہا لیکن وہ پھر بھی انہیں مارنے میں لگا ہوا تھا جو اب اس سے معافی مانگ رہے تھے آس پاس لوگ جمع ہو چکے تھے

"ہمت کیسے ہوئی تیری اسے دیکھنے کی" حدید نے کہتے ہوے ایک زور دار مکا اسکے منہ پر مکا مارا اور اسے ادھ مرا چھوڑ کر غصے سے دوسرے لڑکے کی طرح بڑھ جو خود زخمی حالت میں زمین پر پڑا اس سے معافی مانگ رہی تھا 

مع-معاف کردو اس آدمی کے کہنے پر حدید نے اسے اسکی شرٹ سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اسے بھی مارنے لگا 

"حدید ، حدید پلیز چھوڑ دیں" حوریہ کے رونے کی آواز پر حدید اس آدمی کو چھوڑ کر حوریہ کی طرف بڑھا  

اور اسکے چھوڑتے ہی وہ آدمی زخمی ہونے کے باوجود تیزی سے وہاں سے بھاگ گیا 

حدید نے آگے بڑھ کر بنا لوگوں کی پرواہ کیے اسے اپنے سینے سے لگا لیا حوریہ بھی خاموشی سے کھڑی رہی کیونکہ جانتی تھی اگر ابھی اس سے دور ہوئی تو یقینا اس کا غصہ اور بڑھ جاے گا اپنے آپ کو پرسکون کرنے کے بعد حدید نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کر گاڑی کی طرف چلا گیا

❤❤❤❤

"شہرام تم فری ہو بیٹا" نرمین بیگم نے روم میں داخل ہوکر شہرام سے پوچھا 

وہ اس وقت بلیک ٹراؤزر اور بلو شرٹ میں ملبوس تھا گیلے بال ماتھے پر بکھرے ہوے تھے یقینا وہ ابھی شاور لے کر نکلا تھا 

"جی مام بیٹھیے"

"مجھے بس تم سے کچھ بات کرنی تھی" نرمین بیگم نے صوفے ہر بیٹھتے ہوے کہا 

"جی کہیے" 

"میں چاہتی ہوں کہ اب تم شادی کرلو اگر تمہیں کوی لڑکی پسند ہے تو مجھے بتادو ورنہ ایک لڑکی ہے میری نظر میں"

"مام میرا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے" 

"لیکن کیوں بیٹا اب تو حوریہ کی پڑھائی بھی مکمل ہونے والی ہے میں چاہتی ہوں تم دونوں کی شادی ساتھ کردوں"

"میری بات سنیں" شہرام نے نرمین بیگم کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوے کہا 

"حور کی پڑھائی بھلے کمپلیٹ ہوجاے لیکن اسکی رخصتی جب ہی ہوگی جب وہ چاہے گی ابھی تو اسکی پڑھائی مکمل ہوئی ہے ابھی اسے تھوڑا لائف کو انجواے کرنے دیجیے" 

"نہیں شہرام آپا بہت بار مجھ سے رخصتی کا کہہ چکی ہیں اور حدید کی بھی یہی خواہش ہے تم جانتے ہو وہ تو اسکی پڑھائی مکمل ہونے کے انتظار میں تھا جو چند مہینوں میں   ہوجاے گی " نرمین بیگم نے اسکی بات کی نفی کرتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ حور سے پوچھ لیجیے" 

"اس سے میں پوچھ لونگی لیکن میں ابھی تمہاری بات کرنے آئی ہوں"

"مام جب میرا شادی کرنے کا ارادہ ہوا یا اس سے پہلے کوئی لڑکی پسند آگی تو میں آپ کو بتادونگا"

اسکی بات پر نرمین بیگم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ باہر چکی گئیں 

❤❤❤❤

"اقبال بھائی بات سنیں" اقبال جو ہاہر کی طرف جارہا تھا اپنے نام کی پکار پر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں ہادی سڑھیوں سے بھاگتا ہوا اسکے پاس آرہا تھا

"جی ہادی سر کہیں" اقبال نے مودبانہ انداز میں اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"یار کتنی بار کہا ہے مجھے سر مت کہا کریں میرا نام ہادی ہے اور جو لوگ مجھے اچھے لگتے ہیں وہ مجھے ہاد کہتے ہیں" 

"اسطرح تو آپ کو پوری دنیا ہی ہاد کہتی ہوگی" 

"ہاہاہا یہ تو ٹھیک کہا لیکن پہلے میری بیڈ لسٹ میں کوئی نہیں تھا لیکن اب ایک لڑکی بلکہ لڑکی نہیں عورت وہ میری بیڈ لسٹ میں آچکی ہے تم نے اسے دیکھا نہیں ہے اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کتنا بھی کھانا کھلادو بھوکی ہی رہے گی" 

ہادی کے کہنے پر اقبال نے حیرت سے اسے دیکھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی بات کررہا یا خود اپنے کیونکہ یہ عادت تو خود اس میں بھی موجود تھی کہ اسے جتنا بھی کھانا کھلادو آرام سے کھالے گا

"سر وہ مجھے دیر ہورہی ہے شہرام سر نے فائیل لانے کے لیے کہا تھا اور اگر مجھے دیر ہوگی تو بہت غصہ کرینگے" 

"ارے تم جاؤ بس مجھے اپنی کار کی چابی دے دو"

"لیکن کیوں سر" اقبال نے حیرت سے پوچھا

"ارے یار بھائی کی کار ان کے پاس ہے میری خراب ہوچکی ہے بابا سے مانگی تو پہلے سو سوال پوچھینگے اور پھر بھی سوچینگے کے دینی ہے یا نہیں اور گھر والی کار میں مام ڈرائیور کے ساتھ مارکیٹ گی ہوئی ہیں اوکے لاؤ اب دے دو"

ہادی نے کہتے ہوے اپنا ہاتھ اسکے آگے کیا 

"سر سوری میں آپ کو نہیں دے سکتا مجھے آج شہرام سر نے بہت کام دیا ہوا ہے جس کے لیے مجھے گاڑی کی ضرورت ہے" 

اقبال نے معذرت کرتے ہوے کہا

"اوہ اچھا" ہادی نے اپنے ہونٹوں کو گول شیپ میں کرتے ہوے کہا 

"تو میرے بھائی کیا تم نہیں جانتے کے شہرام بھائی کو بلکل نہیں پسند کوئی ان کے آفس میں پیار محبت کے رسم و رواج کو قائم کرے"

"تو سر آپ مجھے کیوں بتارہے ہیں" اقبال نے گڑبڑا کر اسے دیکھا اور پھر خود کو کمپوز کرکے ہادی سے کہا  

"کل کا منظر بھول گے کیا ، میرے بھائی اگر بات کرنی ہی تھی تو کسی ایسی جگہ پر کرتے جہاں کم سے کم سی-سی-ٹی-ویسے تو نہ ہوتا" 

ہادی کی بات پر اقبال کے زہہن کے پردے پر کل کا منظر لہرایا

("اقبال میرا ہاتھ چھوڑیں" عمارہ نے شرماتے ہوے اقبال کے ہاتھ سے اپنی ہاتھ نکالنا چاہا لیکن اقبال نے اسکا ہاتھ اور مظبوطی سے پکڑ لیا اور اسے کھینچ کر اپنے قریب کرلیا 

"صبح سے مجھ سے بات کیوں نہیں کی" اقبال نے ناراضگی سے اسکی طرف دیکھ کر کہا

"سوری نہ اقبال ابھی تو جانے دو پکا رات کو فون کرونگی" 

"ٹھیک ہے لیکن اگر تم نے رات کو فون نہیں کیا نہ تو میں تم سے کبھی بھی بات نہیں کرونگا "

"پلیز ایسا مت کہو"عمارہ نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا 

"اچھا ٹھیک بس تم رو مت" اقبال کے کہتے ہی اسنے اپنے آنسو صاف کیے اقبال نے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اس سے پہلے اقبال اسکے ہاتھ پر اپنے لب رکھتا عمارہ اپنا ہاتھ چھڑا کر شرماتے ہوے بھاگ گی

 یہ آفس کا ایک ایسا حصہ تھا جہاں لوگ صرف کسی ضروری کام کے تحت ہی آتے تھے اور دور کھڑا ہادی مزے سے ببل چپاتے ہوے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا وہ جو باتوں کی آواز سن کر تجسس کی وجہ سے یہاں آیا تھا مووی ادھوری چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کررہا تھا اسلیے جب تک وہ دونوں وہاں سے چکے نہیں گے وہ خود بھی وہیں کھڑا رہا )

"کہاں کھو گے" ہادی نے اسکے سامنے چٹکی بجاتے ہوے کہا جس سے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا 

"سر پلیز شہرام سر کو مت بتایے گا میں بہت جلد اسکے گھر پر رشتہ بھجوادونگا" 

"جب رشتہ بھجواؤ گے تو جب دیکھی جاے گی ابھی تم مجھے چابی دو ورنہ میں نے اگر بتا دیا نہ تو پھر بھائی تمہیں یا عمارہ میں سے کسی ایک کو جوب سے نکال دینگے" ہادی کے کہنے پر اقبال نے گہرا سانس کے کر اپنی گاڑی کی چابی اسکے ہاتھ پر رکھ دی جسے تھامتے ہی وہ تیزی سے باہر چلا گیا 

"اللہ کرے آپ کو آپ جیسی ہی بیوی ملے" اقبال خود سے بڑبڑاتا ہوا خود بھی باہر چلا گیا ہادی کی وجہ سے وہ ویسے ہی لیٹ ہوچکا تھا

❤❤❤❤

"تبریز بیٹا کہاں جارہے ہو ناشتہ تو کرلو" تبریز جو ڈائینگ ٹیبل کی طرف آرہا تھا وہاں ماجدہ بیگم کو کھڑا دیکھ کر وہاں سے جانے لگا جب ماجدہ بیگم کی آواز اسکے کانوں میں پڑی جسے وہ ان سنا کرکے وہاں سے جانے لگا 

"تبریز بیٹا" ماجدہ بیگم نے دوبارہ اسے آواز دی جب وہ ضبط سے مڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگا 

"میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے میرے سامنے مت آیا کیجیے اور صبح کے وقت تو بلکل بھی نہیں میرا سارا دن خراب گزرتا ہے" 

"تبریز یہ کیا بدتمیزی ہے"  پیچھے بیٹھے باقر صاحب نے اسکی بدتمیزی پر چیختے ہوے کہا 

"اوہ پلیز ڈیڈ مجھے کوئی بحث نہیں کرنی" تبریز کہتے ہوے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"سر یہ آپ نے مجھے کم مارکس کیوں دیے ہیں" ہانیہ نے اپنا ٹیسٹ پیپر حاشر کے سامنے رکھتے ہوے پوچھا 

"کیونکہ آپ نے سارے سوال نہیں کیے تھے ہانیہ" 

"لیکن سر میں تو ہمیشہ ہی ایسے ٹیسٹ کرتی ہوں اور آپ ہمیشہ مجھے فل مارکس دیتے ہیں "

"یہی تو میری غلطی تھی مجھے لگا کہ آپ وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاینگی لیکن آپ اب بھی اپنی پڑھائی کو سیریس نہیں لے رہیں ہیں تو اسلیے آیندہ اپنی تیاری مکمل رکھیے گا" حاشر غصے سے کہتے ہوے اپنا سامان اٹھا کر کلاس روم سے چلا گیا جب کہ سب حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ حاشر نے ہانیہ کو ڈانٹا تھا ورنہ وہ ہمیشہ اس سے نرمی سے ہی بات کرتا تھا 

حاشر ہمیشہ یہی کرتا تھا

پہلئ بار جب اسنے ہانیہ کو ٹیسٹ دیا تھا تو اسنے مکمل نہیں کیا لیکن حاشر نے پھر بھی اسے فل نمبر دے دیے اور پھر جب بھی وہ کوئی ٹیسٹ دیتا تو ہانیہ آدھا ٹیسٹ ہی کرتی تھی اور حاشر پھر بھی اسے فل مارکس دے دیتا تاکہ وہ اداس نہ ہوجاے لیکن اب اسکا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بھلے محبت ہے وہ بھی بے حد لیکن اب وہ اسکے ساتھ بھی ویسے ہی رہے گا جیسے باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ رہتا تھا 

❤❤❤❤

"بیہ تمہاری جوب کیسی جارہی ہے" حوریہ نے اپنے سامنے بیٹھی انابیہ سے پوچھا جو اپنے سامنے رکھی چپس کو کھا کم اور گھور زیادہ رہی تھی وہ تینوں اس وقت کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھیں جبکہ اس بات پر انابیہ کے منہ کے زاویے بگڑ گے 

"پہلے شروع کے دن تو بہت اچھے گزرے لیکن جب سے انکل کا بیٹا آیا ہے نہ جب سے ہر دن اتنا برا گزر رہا ہے"

"کیوں اس بچارے نے کیا کردیا تمہارے ساتھ" عائشہ نے سموسہ کھانے کے بعد اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوے کہا 

"یار عاشی اسے بے چارہ مت کہو پہلے دن غلطی سے پانی گرگیا تھا تو وہ جلاد نے مجھے نوکری سے نکالنے والا تھا وہ تو انکل کی وجہ سے بچت ہوگی اور مجھے کہتا ہے کہ میں اس کے سامنے نہیں آوں ہنہہ بے کار نہ ہو تو یہ بات تو مجھے اس سے کہنی چاہیے کہ وہ میرے سامنے نہیں آے اور" 

"بس بس بیہ تم نے تو اس بےچارے کی تعریف پر پورا مضمون لکھ لیا ہے" عائشہ نے اسکی بات بیچ میں کاٹتے ہوے کہا

"جی نہیں عاشی وہ کوئی بےچارہ نہیں ہے اس نے میری پیاری دوست کو کتنا ستایا ہوا ہے بلکل ٹھیک کہا بیہ نے وہ جلاد ہی لگ رہا ہے مجھے تو"حوریہ کے کہنے پر انابیہ نے اسے مسکراکر دیکھا اور اسکے گلے لگ گی 

"تم یہ کھاؤ گی تو نہیں نہ یہ میں لے لیتی ہوں" عائشہ نے اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ انابیہ کی چپس کی طرف بڑھاتے ہوے کہا اور پھر اسے اٹھا کر کھانے لگی 

"تمہاری نظر لگ رہی تھی جبھی تو میں نہیں کھا پائی" انابیہ کے کہنے پر حوریہ نے قہقہ لگا کر عائشہ کو دیکھا اور عائشہ نے منہ بنا کر انابیہ کو دیکھا جو خود بھی ہنس رہی تھی ان دونوں کو دیکھ کر وہ خود بھی ہسنے لگی لیکن چپس اسنے پھر بھی نہیں چھوڑی 

❤❤❤❤

وہ اس وقت کیفے میں بیٹھا کوفی پی رہا تھا نظریں گلاس وال سے نظر آتے سامنے بنے گارڈن پر تھیں جب اسکے سامنے بنی چئیر پر کوئی آکر بیٹھ گیا تبریز نے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھا تو اسکی چمکدار پیشانی پر ڈھیر سارے بل نمودار ہوے 

"کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں" نینا نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا 

"میرا جواب ہے نہیں لیکن تم یہاں بیٹھ چکی ہو" تبریز نے دانت پیستے ہوے کہا نینا اسکے والد کے دوست کی بیٹی تھی 

"ہاہاہا تم منع بھی کرو تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تبریز خیر میں تم سے پوچھنے آئی تھی ڈیڈی نے باقر انکل سے ہمارے رشتے کی بات کی تھی لیکن تم نے منع کردیا وجہ جان سکتی ہوں"

"میں تمہیں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں"

"میں محبت کرتی ہوں تم سے مجھے اپنا لو" نینا نے التجائی انداز میں کہا 

"محبت" ، وہ کہتے ہوے طنزیہ انداز میں ہنسا "مس نینا محبت وحبت کچھ نہیں ہوتی میں تمہیں یہی مشہورہ دونگا کہ اس سب کہ پیچھے بھاگنا چھوڑ دو تمہیں کچھ نہیں ملے گا" 

"اور اگر تمہیں کسی سے محبت ہوگی تو" نینا نے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا

"میری زندگی میں ان سب فضول کاموں کے لیے وقت نہیں ہے" تبریز نے کہتے ہوے کافی کا آخری گھونٹ اپنے اندر اتارا 

"لیکن تمہیں ایک نہ ایک دن تو شادی کرنی ہے تو مجھ سے کرلو"

 "اول تو مجھے شادی نہیں کرنی اور دوسرا اگر کرنی بھی ہوئی تو تم سے تو ہرگز نہیں کرونگا" تبریز کہتے ہوے اپنے جگہ سے اٹھ کھڑا ہو جب نینا نے اسکی مظبوط کلائی تھام لی 

"زرا بتاؤ مجھ میں کیا کمی ہے" 

"تمہارے اندر یہ کمی ہے کہ تم میں کوئی خوبی نہیں ہے" تبریز نے کہتے ہوے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالا اور اپنا کوٹ درست کرتا ہوا باہر چلا گیا 

❤❤❤❤

تبریز کے کیفے سے باہر نکتے ہی مزمل نے تیزی سے آگے بڑھ کر گاڑی کی پچھلی طرف کا دروازے کھولا لیکن تبریز اس میں بیٹھنے کے بجاے اپنے ہاتھ میں موجود گھڑی کو دیکھنے لگا اسکے زہہن کے پردے پر وہ منظر لہرایا جب نینا نے اسکی کلائی تھامی تھی اور اسکا ہاتھ تبریز کی گھڑی کو چھو گیا تھا 

تبریز نے وہ گھڑی اتار کر مزمل کی طرف بڑھادی 

"یہ تم رکھ لو" 

"لیکن سر" تبریز کے کہنے پر مزمل نے ہچکچاتے ہوے اسے دیکھا  

"تمہاری مرضی"تبریز نے کندھے اچکا کر کہا اور گھڑی سڑک پر پھینک کر کار میں بیٹھ گیا 

اسکے بیٹھتے ہی مزمل نے کار کا دروازہ بند کیا اور وہ سڑک پر گری ہوئی گھڑی اٹھالی

مزمل حیرت سے اس گھڑی کو دیکھ رہا تھا جو بلکل ٹھیک تھی اور دیکھنے میں ہی کافی مہنگی لگ رہی تھی 

مزمل نے اس گھڑی اپنی جیب میں رکھ لی اور آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا 

اسنے ڈرتے ہوے مال میں قدم رکھا وہ پہلی بار کسی جگہ پر اکیلی آئی تھی ورنہ ہر بار گھر کا کوئی ایک نہ ایک فرد لازمی اس کے ساتھ آتا اسے اکیلے باہر نکلنے سے ڈر لگتا تھا اور سب گھر والے یہ بات جانتے تھے اسلیے گھر میں سے کوئی نہ کوئی فرد ہمیشہ اسکے ساتھ وہاں جاتا جہاں اسے جانا ہوتا لیکن آج سب بےحد مصروف تھے اور اسے اپنا پروجیکٹ آج ہی مکمل کرنا تھا اور اسکا سامان چاہیے تھا جس وجہ سے وہ ہمت کرکے آج یہاں آگی 

اسنے ڈرتے ڈرتے اپنا بڑا سا چشمہ درست کیا 

اور تیزی سے چلنے لگی اسے بس جلد از جلد اپنا سامان لے کر یہاں سے جانا تھا 

وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی نظریں جھکا کر چل رہی تھی 

جب سامنے سے آتے شہرام سے اسکا زوردار ٹکراؤ ہوا اسنے بمشکل اپنے آپ کو گرنے سے بچایا 

اور سامنے کھڑا شہرام اب غصے سے اسے گھور رہا تھا کیونکہ اسکے ہاتھ میں موجود بیگ میں پرفیوم گرنے کی وجہ ٹوٹ چکا تھا

"دیکھ کر نہیں چل سکتی ہو یا اپنی آنکھیں ادھار دی ہوئی ہیں" شہرام نے غصے سے اسکی طرف دیکھ کر کہ جبکہ اسکی بات پر سامنے کھڑے وجود نے بس ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا 

"س-س-سوری" اس وجود نے اٹکتے ہوے کہا 

"اوہ واؤ یہ ٹھیک ہے پہلے غلطی کرو پھر سوری کہو" شہرام نے اس کی طرف دیکھتے ہوے تنظزیہ لہجے میں کہا جبکہ وہ بدلے میں یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ غلطی صرف میری نہیں ہے آپ کو بھی دیکھ کر چلنا چاہیے تھا 

"بھائی چلے یہاں سے" ہادی جو دوسری شوپ میں تھا یہ سب دیکھتے ہوے بھاگ کر انکی طرح آیا 

"نہیں ہاد مجھے بتانے دو نہ سب اسی طرح کرتی ہیں پہلے ٹکراؤ پھر سوری اور پھر وغیرہ وغیرہ اسی طرح کی حرکتیں" 

ہادی نے سامنے کھڑے وجود کو دیکھا جو اب روتے ہوے تیزی سے وہاں بھاگ گیا ہاد نے دکھ سے اسکی طرف دیکھا اسے اس پر غصہ آرہا تھا جو اپنے لیے کچھ کہہ نہیں رہی تھی 

"بھائی آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا" 

"بس کردو ہاد ، چلو" شہرام کہتے ہوے دوسری طرف چلا گیا ہادی بھی اپنا سر نفی میں ہلا کر شہرام کے پیچھے چلا گیا 

❤❤❤❤

"یہ گھڑی کتنے کی ہے" تبریز نے سامنے موجود گھڑی کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے کہا 

"سر یہ دو لاکھ کی ہے" شوپ کیپر نے اسکے ہاتھ میں موجود گھڑی کو دیکھتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے" تبریز نے اپنا سر ہلایا اور گھڑی کی پیمینٹ کرکے وہاں سے چلا گیا  

"اف موبائل تو وہیں رہ گیا" تبزیز کہتے ہوے واپس اس شوپ کی طرف جانے لگا 

وہ جو بھاگتے ہوے تیزی سے باہر کی طرف بھاگ رہی تھی سامنے کھڑے شخص کو دیکھ نہیں پائی اور اس سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گی اور اس کا بڑا سا چشمہ بھی ٹوٹ چکا تھا اسے ایسا لگ رہے تھا وہ کسی چٹان سے ٹکرائی تھی 

"کیا مصیبت ہے" تبریز نے جھنجھلائے ہوے اس وجود کو دیکھا جو اس وقت زمین کو سلامی پیش کررہی تھی اس نے زمین سے اٹھ کر اپنے ٹوٹا ہوا چشمہ اٹھایا

"دیکھ کر نہی" تبریز کے الفاظ ادھورے رہ گے جب نظر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کی سبز نم آنکھوں پر پڑی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کو دیکھ رہا ہے نم سبز آنکھیں اور لمبی گھنی پلکیں اس کی تو نظریں جیسے اسکی آنکھوں پر ہی جم چکی تھیں 

جب سامنے کھڑا وجود روتا ہوا تیزی سے وہاں سے بھاگ گیا 

اور تبریز کتنی ہی دیر تک اس جگہ کو دیکھتا رہا جب مزمل کی آواز سے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا 

"سر سر ،"

"ہاں ،ہاں کیا ہوا" وہ ہوش کی دنیا میں آتے ہوے بولا 

"وہ آپ کا کام ہوگیا تو آجائیں" 

"ٹھیک ہے" تبریز اپنا سر ہلا کر باہر کی طرف چلا گیا جس موبائل کے لیے وہ واپس جارہا تھا اس موبائل کو تو وہ بھول ہی چکا تھا زہہن کے پردے پر صرف ایک ہی منظر گھوم رہا تھا

'نم سبز آنکھیں'

❤❤❤❤ 

"راشدہ ادھر بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" راشدہ بیگم جو انہیں کھانے دینے آئی تھی احمد صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کہا 

"جی کہیے" راشدہ بیگم نے بیڈ پر بیٹھتے ہوے کہا 

"میں انابیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا میں چاہتا ہوں کہ اب اسکی شادی کردی جاے" 

"لیکن اتنی جلدی کیوں احمد اور آپ بھی جانتے ہیں وہ اتنی جلدی شادی کے لیے نہیں مانے گی"

"لیکن میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوجانا چاہتا ہوں تم بھی جانتی ہو میری طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی میں اپنی بچیوں کو اپنی زندگی میں خوش و آباد دیکھنا چاہتا ہوں"

"احمد ایسی بات مت کریں خدا آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے" راشدہ بیگم نے گھبراتے ہوے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا 

ان کی فکر پر احمد صاحب نے مسکراکر انہیں دیکھا 

"زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اچھا چھوڑو یہ سب باتیں تم انابیہ سے اس بارے میں بات کرنا پھر دیکھینگے آگے کیا کرنا ہے" احمد صاحب کے کہنے پر راشدہ بیگم نے مسکراکر اپنا سرہلا دیا  

❤❤❤❤

وہی سبز آنکھیں تبریز کے زہہن میں بار بار وہی سبز آنکھیں بار بار آرہی تھی 

اسنے شیشے کی طرف اپنا رخ کیا اسکی نظر اپنی سبز آنکھوں پر پڑی اور پھر اس معصوم پری کی سبز آنکھیں یاد آئیں اسنے جھنجلا کر اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا 

❤❤❤❤

"نور میرا بچہ" انابیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوے نور سے کہا جو بیڈ پر بیٹھی اپنا چشمہ ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی مال والی بات اسنے کسی کو نہیں بتائی تھی وہاں سے آتے ہی وہ اپنے کمرے میں گھس گی اور تب سے وہیں تھی جب انابیہ کمرے میں داخل ہوئی 

"جی آپی" 

"یہ کیا تم رو رہی ہو"انابیہ نے پریشانی سے اسکا چہرہ دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں تو" نور نے ضبط کرتے ہوے کہا لیکن ضبط کے باوجود بھی اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر اسکے گال پر بہہ چکا تھا 

"بتاؤ مجھے کیوں رو رہی ہو" انابیہ نے اسکے ہاتھ تھامتے ہوے کہا 

اور اسکے پوچھنے پر نور نے اسے ساری بات بتادی وہ گھر میں کسی سے کچھ نہیں چھپاتی تھی خاص کر انابیہ سے 

"کیا میں ایسی ہوں آپی" نور نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا انابیہ نے اپنے ہاتھ سے اسکے ناک گالوں پر موجود آنسو صاف کیے

"میرا بچہ تم ایسی نہیں ہو ٹھیک ہے تم تو بہت پیاری ہو بلکل پری کی طرح کسی کی بات پر دیھان دینے کی ضرورت نہیں ہے اور تمہیں اکیلے نہیں جانا چاہیے تھا لیکن اب جب بھی جاؤ تو کسی نہ کسی کو ساتھ لے کر جانا اور وہ آدمی اگر تمہیں دوبارہ نظر آے نہ تو مجھے بتانا ٹھیک ہے" انابیہ کے کہنے پر نور نے معصومیت سے اپنی سر اثبات میں ہلایا انابیہ نے جھک کر اسکی بےداغ پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے جب اسی وقت ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی 

"امی کو پتا تھا کہ آپ دونوں اوپر باتیں کررہی ہونگی اسلیے مجھے بھیجا ہے چلے اب کھانا لگ گیا ہے" ہانیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوے کہا جب اسکی نظر نور پر پڑی تو وہ پریشانی سے اسکی جانب بڑھی 

"کیا ہوا نور تم رو رہی ہو" ہانیہ نے تھوڑی سے پکڑ کر اسکا چہرہ اونچا کرتے ہوے کہا 

 "یار ہانی تمہیں پتا ہے نہ اسکا بس چشمہ ٹوٹ گیا اسلیے رو رہی ہے" انابیہ نے اسکے سامنے نور کا ٹوٹا ہوا چمشہ کرتے ہوے کہا 

"یار نور اس میں رونے والی کیا بات ہے نیا بنوا لینا اور ویسے بھی مجھے یہ چشمہ بلکل نہیں پسند تھا اس سے تمہاری حسین آنکھیں چھپ جاتی تھیں"ہانیہ کے کہنے پر نور مسکراکر اپنا سر جھکا گی

"یہ ہوئی نہ بات چلو اب جلدی سے منہ دھو اور پھر کھانا کھاتے ہیں آپی آپ بھی جلدی آؤ" ہانیہ نے کہتے ہوے اسکا گال تھپتھپا کر انابیہ سے کہتے ہوے باہر چلی گی   

❤❤❤❤

"اتنی دیر لگا دی بیٹا" راشدہ بیگم نے انابیہ کو دیکھتے ہوے کہا جو ابھی نیچے آئی تھی اسکے پیچھے ہی نور بھی آگی 

"جی امی بس باتیں کرنے لگ گئے تھے" انابیہ کہتے ہوے اپنی جگہ پر بیٹھ گی 

"نور تم کل کالج مت جانا" عبیر نے بریانی پلیٹ میں ڈالتے ہوے نور سے کہا  

"لیکن کیوں کل تو میرا ٹیسٹ ہے" 

"لیکن میں کل تمہیں لینے نہیں آسکتا میری نئی جوب ہے اور کل کام کافی زیادہ ہوگا " 

"تو کوئی بات نہیں میں ہوں نہ میں کے آونگی تمہیں" انابیہ نے بریانی کی پلیٹ نور کی طرف بڑھاتے ہوے کہا 

"لیکن آپی آپ بھی تو جوب پر جائینگی"

"کوئی بات نہیں چندا تمہیں گھر چھوڑ کر میں واپس آفس چلی جاؤنگی اور اگر جلاد نہیں مانا تو انکل سے کہہ دونگی" ابانیہ کہتے ہوے اپنا کھانا کھانے لگی 

"بری بات انابیہ ایسے نہیں کہتے" راشدہ بیگم نے اسے ٹوکتے ہوے کہا لیکن انابیہ بنا کچھ بولے اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی 

❤❤❤❤

"نور" نور جو بائک سے اتر کر اندر کالج کی طرف جارہی تھی عبیر کے بلانے پر اسکی طرف دیکھا 

"جی" 

عبیر کافی دیر تک اسکا معصوم چہرہ دیکھتا رہا

"اپنا خیال رکھنا اب جاؤ" عبیر کے کہتے ہی نور اپنا سر ہلا کر اندر اندر چلی گی 

❤❤❤❤

"مس ہانیہ" ہانیہ جو کلاس میں بیٹھ کر مسلسل اپنی دوست سے بات کرنے میں مصروف تھی حاشر کی آواز پر اسکی طرف دیکھنے لگی 

"جی سر" ہانیہ نے اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے ہوے کہا 

"زرا بتائیں میں نے کیا سمجھایا ہے" 

"سر وہ ، وہ آپ نے" ہانیہ نے اٹکتے ہوے کہا کیونکہ اس نے تو کچھ سنا یا سمجھا ہی نہیں تھا وہ مسلسل باتیں کرنے میں ہی مصروف تھی 

"یعنی آپ نے کچھ نہیں سمجھا پلیز کلاس سے باہر چلی جائیں" حاشر کے کہنے پر ہانیہ کے ساتھ ساتھ سب نے اسے حیرت سے دیکھا وہ پہلے ہی ایک دو لڑکیوں اور لڑکے کو بھی کلاس سے باتیں کرنے کی وجہ سے نکال چکا تھا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ہانیہ کو ڈانٹ رہا تھا اور اسے کلاس سے باہر بھی نکال رہا تھا وہ سب پر غصہ کرتا تھا لیکن ایک ہانیہ واحد تھی جس سے وہ ہمیشہ نرمی سے بات کرتا تھا لیکن کچھ دنوں سے اس پر بھی غصہ بھی کررہا تھا اور ڈانٹ بھی رہا تھا

"سر سوری" 

"پلیز ٹائم ویسٹ مت کیجیے" حاشر نے اپنے ہاتھ باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا 

ہانیہ نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور باہر چلی گی اور اسکی نم آنکھیں دیکھ کر حاشر کے دل کو کچھ ہوا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا جس طریقے سے وہ ہانیہ سے بات کرتا تھا اس کی وجہ سے سب اس کے اور ہانیہ کے بارے میں ہی بات کررہے تھے اور اسے بکل برداشت نہیں تھا کہ ہانیہ کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے اس وجہ سے اسے اپنا رویہ ہانیہ کے ساتھ بھی ویسے ہی رکھنا ہے جیسے وہ باقی سب کے ساتھ رکھتا ہے لیکن اس سے اسکی معصوم جان کا دل ٹوٹ رہا تھا 

جو کہ حاشر کو بلکل برداشت نہیں تھا لیکن اب وہ بس اسے جلد از جلد اپنے ساتھ پاک رشتے میں باندھنے والا تھا تاکہ کوئی بھی ہانیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہے اور اگر کہے تو وہ اس شخص کا منہ توڑ سکے 

 ❤❤❤❤

"سر" شہرام جو اپنی آنکھیں آنکھیں مسلنے میں مصروف تھا آواز پر دروازے کی طرف دیکھا جہاں انابیہ اپنا چھوٹا سا منہ دروازے سے نکال کر اسے دیکھ رہی تھی

"اندر آؤ" شہرام نے غصے سے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا 

انابیہ معصومیت سے سر جھکا کر اندر داخل ہوگی اسنے ایک نظر شہرام کو دیکھا جو اپنے کپڑے بدل چکا تھا اور دوبارہ نظریں جھکا گئی

"تم نے مجھ پر کافی گرائی"

"کافی نہیں سر آپ کونسی کافی کی بات کررہے ہیں" انابیہ نے حیران ہونے کا ناٹک کرکے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"دیکھو انابیہ مجھے پہلے ہی بہت غصہ آرہا ہے مزید مت دلاؤ" 

"سوری سر غلطی سے مسٹیک ہوگئی" انابیہ نے معصومیت سے سر جھکا کر کہا 

'اگر غلطی تھی تو پھر بھاگی کیوں" 

"سر وہ مجھے لگا آپ مجھے ڈاٹینگے" 

"تو ابھی کیا میں تمہیں مٹھائی کھلاونگا" شہرام کے کہنے پر انابیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا

"سر مٹھائی اتنی پسند نہیں ہے آپ آئسکریم کھلا دیں" 

"شٹ اپ مجھے تمہاری کوئی فضول بات نہیں سننی تم آج دو گھنٹے زیادہ کام کرو گی"شہرام کی بات پر انابیہ نے اپنی پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"نہیں سر پلیز"

"تین گھنٹے" اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شہرام نے بیچ میں کاٹ دی انابیہ نے بےبسی سے اسے دیکھا اسے نور کو بھی لینے جانا تھا 

"اچھا ٹھیک ہے سر بس ابھی مجھے پندرہ منٹ کے لیے چھٹی دے دیں" 

"نہیں" جواب ایک لفظی تھا 

"اگر آپ منع کرینگے تو میں انکل سے بات کرونگی" انابیہ نے کہتے ہوے اپنا فون نکال لیا جب شہرام نے اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانے کھینچا 

اور اسکے ہاتھ سے موبائل چھین لیا انابیہ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگی 

"جب تک تم یہاں ہو یہ میرے پاس رہے گا اور اگر تم نے کسی اور کے فون سے کال کی تو تمہارے ساتھ ساتھ اسکا بھی فون شہید ہوجاے گا اب جاؤ" 

"سر" انابیہ نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"اگر چاہتی ہو کہ میں چار گھنٹے نہ کردوں تو اب جاؤ اور اپنا کام کرو" شہرام نے کہتے ہوے اسکا موبائل اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا انابیہ منہ بناتی ہوئی وہاں سے چلی گی

❤❤❤❤

نور اس وقت انابیہ کا انتظار کررہی تھی چند لڑکیاں ہی کالج  میں باقی تھیں اسے صرف اپنی امی کا نمبر یاد تھا جو اسنے آفس میں جاکر ملوایا بھی تھا لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا باقی کسی کو وہ بلا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ سب اپنے کاموں میں مصروف تھے اور اتنی دیر انتظار کے بعد انابیہ بھی نہیں آئی تھی ویسے بھی گھر یہاں سے چند منٹ کی دوری پر ہی تھا نور نے ہمت کرکے اپنا بیگ اٹھایا اور آہستہ آہستہ اپنے قدم گھر کی جانب بڑھا دیے 

اس وقت گلی مکمل سنسان تھی اور یہاں گھر بھی کم ہی بنے ہوے تھے نور اپنے قدموں میں تیزی لاتے ہوے وہاں سے جانے لگی اسے اس سنسان جگہ سے ڈر لگ رہاہے تھا جب تین لڑکے اس کے سامنے آکر کھڑے ہوگے 

❤❤❤❤

"اسلام و علیکم ممانی کسی ہیں آپ" حدید نے کچن میں داخل ہوکر سلام کیا جہاں نرمین بیگم ملازمہ کے ساتھ کھانے کی تیاری کرنے میں مصروف تھیں

"وعلیکم اسلام تم کب آے" نرمین بیگم نے گوشگوار حیرت سے اسے دیکھتے ہوے کہا

"بس ابھی آیا تھا آج آفس اے جلدی واپس آگیا تھا پھر سوچا آپ لوگوں سے مل لوں ویسے کہاں ہیں سب" حدید نے ادھر ادھر نظریں گھماتے ہوے کہا جبکہ دیکھنا صرف ایک شضص کو ہی تھا 

نرمین بیگم نے اسکی بےچینی پر اپنی مسکراہٹ چھپائی

"ہاد باہر گیا ہے شہرام آفس اور تمہارے ماموں باہر تھوڑی چہل قدمی کے لیے گے ہیں"نرمین بیگم نے جان بوجھ کر حوریہ کا نام نہیں لیا تھا

"ااچھااا" حیدید نے اپنے اچھا کو تھوڑا لمبا کرتے ہوے کہا 

"اور آپ کی کام چور بیٹی سارا کام آپ خود کرتی ہیں ارے تھوڑا کام اس سے بھی کروایا کریں" 

"جب تمہارے پاس آے گی تو تم جتنے چاہے کام کروالینا بھلے سختی بھی کرلینا" نرمین بیگم نے مسکراتے ہوے اسے دیکھ کر کہا وہ خود جانتی تھیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجاے وہ سختی تو دور کبھی اسے ڈانٹے گا بھی نہیں جبکہ ان کی بات پر خود وہ بھی مسکرانے لگا  لیکن نظریں پھر بھی ادھر ادھر دیکھ رہیں تھیں کہ کہیں سے وہ نکل آے اور اسکی بےچین دل کو راحت مل جاے 

"جاؤ جاکر مل لو اپنے کمرے میں ہے" حدید جو اپنی نظریں دوڑا رہا تھا نرمین بیگم کی بات پر انہیں دیکھنے لگا 

"نہیں نہیں ممانی ایسی بات نہیں ہے "

"اچھا چلو جیسے تمہاری مرضی" نرمین بیگم مڑ مر فریج سے سلاد کا سامان نکالنے لگی

"اچھا ممانی میں چلتا ہوں" ان کے مڑنے پر حدید کہتا ہوا تیزی سے حوریہ کے کمرے کی طرف چلا گیا 

''ارے رکو" نرمین بیگم حیرت سے مڑتے ہوے کہا لیکن حدید اب وہاں موجود نہیں تھا انہوں نے مسکراکر اپنا سر نفی میں ہلایا اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی 

حدید نے حوریہ کے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں وہ کمبل اوڑھے سو رہی تھی سفید سوٹ میں سفید رنگت کے ساتھ حدید کو واقعی میں وہ حور لگ رہی تھی 

حدید آگے بڑھ کر اسکے بیڈ کے قریب چلا آیا اور بیڈ پر بیٹھ کر اسکے دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھ لیے اور آہستہ سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے نیند میں بھی اسکا لمس پاکر حوریہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی اسکی مسکراہٹ دیکھ کر حدید نے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے 

اور حوریہ جو یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے سکون سے آنکھیں بند کیے لیٹی رہی لیکن جان تو اسکی تب اٹکی جب اسے اپنی سانسے رکتی ہوئی محسوس ہوئیں حوریہ نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے اوپر جھکے ہوے حدید کو دیکھا اور اسے دھکا دے کر سرخ چہرے کے ساتھ گہرے گہرے سانس لینے لگی 

"یہ سب کیا تھا آپ کب آے" 

"جب آپ اپنی نیند کے مزے لوٹ رہی تھیں اور میری جان یہ سب پیار تھا جو میں اپنی پیاری سی بیوی سے کررہا تھا" 

"حدید آپ نے میری نیند خراب کردی" حوریہ نے رونی صورت بنا کر اسے دیکھا 

''اوہ تو میرے بچے کی نیند خراب ہوگی ادھر آؤ میں دوبارہ سو لادیتا ہوں" حدید کے کہنے پر حوریہ آہستہ آہستہ اسکے پاس آئی 

حدید نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا لیکن اس سے پہلے وہ کوئی گستاخ کرتا اسکا ارادہ جان کر حوریہ اپنے آپ کو چھڑاتی تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی جہاں اپنے پیچھے اسے حدید کا قہقہہ سنائی دیا حوریہ نے شرما کر اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا 

❤❤❤❤

ہادی نے اپنے سامان کی پیمنٹ کی اور شوپر اور ساتھ ہی بےدیھانی میں پاس پڑا والٹ بھی اٹھالیا اور چاکلیٹ کھاتے ہوے مارٹ سے نکل گیا ابھی اسنے چند قدم ہی اٹھاے تھا جب اسے اپنے پیچھے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی جو مسٹر مسٹر پکار رہی تھی اور ہادی کو لگا وہ کسی اور کو بلارہی ہے لیکن جب اسنے کہا بلیک ہوڈی والے تو ہادی نے حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا جو اب زمین پر جھکی اپنا کچھ سامان اٹھا رہی تھی اسکے کھلے بال اسکے جھکنے کی وجہ سے اسکے چہرے پر گر کر  اسکے چہرے کو چھپا رہے تھے 

ہادی اپنے کندھے اچکا کر واپس چلنے لگا جب واپس اسے اس لڑکی کی آواز سنائی دی اور اس بار وہ بنا دیری کیے اپنا بلیک ہوڈی پہن کر تیزی سے وہاں سے بھاگنے لگا اس کے زہہن میں وہ خبریں آئیں جو اسنے سنی تھیں کہ لڑکی نے ایک لڑکے کو بیوقوف بنا کر اسے لوٹ لیا اور ہادی کو بھی اس وقت یہی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اسے پکارنے والی وہ چورنی تو نہیں اسلیے وہ بنا آگے پیچھے دیکھے بھاگنے میں مصروف تھا 

جب اسکی کمر پر زوردار چیز پڑی ہادی نے مڑ کر اس چیز کو دیکھا جس نے اسکی پیاری سی کمر کو اتنی تکلیف دی وہاں پر سینڈل پڑی ہوئی تھی جب اس سینڈل کی مالکن بھاگتے ہوے اس کے پاس آئی

"تم" دونوں نے ایک دوسرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی ایک ساتھ کہا 

"چھچھورے تو تھے ہی اب چور بھی بن گے" 

"اوے عورت کونسی چوری کرلی میں نے" ہادی نے لڑاکا عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ اپنی کمر پر رکھتے ہوے کہا

"مسٹر اگر میں عورت ہوں نہ تو ،تو تم بھی مرد ہو" عائشہ نے اپنی عقل لگاتے ہوے جواب دیا 

"ہاہاہا بولتی رہو مس عورت میں تو ہوں ہی مرد" ہادی نے قہقہہ لگاتے ہو اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں ،نہیں تم لڑکے ہو وہ بھی چھچھورے گندے بدبودار قسم کے" 

"اوے کہاں سے بدبودار ہوں اتنا خوشبو دار ہوں یقین نہیں آرہا تو چیک کرلو" ہادی نے کہتے ہوے اپنا بازو اسکی ناک کے قریب کیا جس میں سے مہک آرہی تھی

"تو کونسا تمہاری اپنی قدرتی خوشبو ہے پرفیوم کی ہے" 

"کیا کام ہے جلدی بولو ہینڈسم بندہ دیکھا نہیں لائن مارنی شروع کردی" 

"تمہیں لائن مارتی ہے میری جوتی" عائشہ نے اپنا پاؤں پٹھکتے ہوے کہا 

"ہی-ہی-ہی وہ تو دکھ رہا ہے" ہادی نے ہنستے ہوے تھوڑی دور سڑک پر پڑی اسکی سینڈل کو دیکھتے ہوے کہا اسکا اشارہ سمجھتے ہی عائشہ بھاگتے ہوے اس جگہ پر گی اور اپنی سینڈل پہن کر واپس اسکے سامنے آکر کھڑی ہوگی  

"میرا والٹ واپس دو" عائشہ نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کرتے ہوے کہا ہادی نے حیرت سے اسے دیکھا

"عائشہ" بہزاد کی آواز پر عائشہ نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا جو چل کر اس کی طرف آرہا تھا

"تم یہاں کیا کررہی ہو میں تمہیں اتنی دیر سے اندر ڈھونڈ رہا تھا"

"بھائی اس آدمی نے آپکا والٹ چرالیا" عائشہ نے اپنی انگلی ہادی کی طرف کرتے ہوے کہا

ہادی نے حیرت سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کر اپنی جیب سے والٹ نکالا اور اسکے نکالتے ہی عائشہ نے وہ والٹ اسکے ہاتھ سے چھین لیا ہادی نے اپنا ہاتھ اپنی دوسری پاکیٹ میں ڈالا جہاں سے ایک اور والٹ برآمد ہوا اسنے دیکھا دونوں والٹ بلکل ایک جیسے تھے شاید اسی لیے اسنے اپنا سمجھ کر اٹھا لیا 

"آی-ایم-سوری مجھے لگا یہ میرا والٹ ہے دراصل دونوں ایک جیسے ہیں نہ اس وجہ سے" ہادی نے بہزاد سے معذرت کرتے ہوے کہا  

"نہیں نہیں کوئی بات نہیں" بہزاد کے کہنے پر عائشہ منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی 

"بھائی آپ اسے ایسے کیسے معاف کرسکتے ہیں" 

"بس عاشی چلو" بہزاد کہتے ہوے زبردستی اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لے گیا اسکے جانے کے بعد ہادی نے گہرا سانس لیا 

"شکر بلا ٹلی"ہادی بڑبڑاتے ہوے واپس اپنی راہ کی طرف چل دیا

❤❤❤❤

اسنے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر پھینک دیا اپنی آستین کونیوں تک   کی ناٹ ڈھیلی کردی بے چینی تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تنگ آکر گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر کی طرف چلا گیا اسے اس وقت صرف تنہا چاہیے تھی جب اسکے آفس روم سے باہر نکلتے ہی مزمل اسکی پیچھے بھاگتا ہوا آیا 

"سر آپ کہاں جارہے ہیں" 

"کیا کام ہے" تبریز نے بنا اسکی جانب دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں سر میں تو بس پوچھ رہے تھا آپ کہاں جارہے ہیں" 

"تم سے مطلب میں جہاں بھی جاؤں" تبریز سخت لہجے میں کہتا ہوا باہر نکل گیا 

مزمل بھاگتا ہوا سکے پیچھے گیا 

"سر باقر سر نے منع کیا تھا کہ آپ کو اکیلے کہیں نہ جانے دوں آپ نے گارڈ کو ساتھ آنے سے بھی منع کیا ہو ہے"

مزمل کے کہنے پر تبریز نے گہرا سانس خارج کیا 

"دوسری گاڑی میں آنا میں اس وقت صرف اکیلا رہنا چاہتا ہوں" 

تبریز کہتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ اسے زن سے بھگا گیا 

مزمل بھی تیزی سے دوسری گاڑی میں بیٹھ کر اسکے پیچھے بھاگا 

تبریز نے ایک سنسان جگہ پر گاڑی روک دی اور سیٹ سے اپنا سر ٹکا کر اپنی آنکھیں موند لیں جب دور سے کسی کے چلانے کی آواز آنے لگی تبریز اپنی گاڑی سے اتر کر اس طرف گیا جہاں سے آواز آ رہی تھی

جہاں ایک لڑکے نے لڑکی کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوے تھے اور دوسرا اسکے سر سے ڈوپٹہ اتار رہا تھا اور تیسرا اسے خباثت سے دیکھتے ہوے مسکرارہا تھا

تبریز نے اس نازک سی لڑکی کو دیکھا جس کی پشت تبریز کے سامنے تھی 

تبریز غصے سے تیزی سے اس جانب بڑھا اور ان تینوں لڑکو کو مارنے لگا جب مزمل بھی بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا اور تبریز کو لڑکوں کو مارتا دیکھ اسے ان لڑکوں کو اس سے چھڑوانے لگا جو اب زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہوے تھے 

تبریز نے مڑ کر اس لڑکی کی جانب دیکھا جو زمین پر بیہوش پڑی ہوئی تھی 

تبریز تیزی سے اس لڑکی کی جانب بڑھا 

اس نے غور سے اس لڑکی کا چہرہ دیکھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے اس لڑکی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے اس کی نظر سامنے پڑے نور کے بیگ پر پڑی اسنے بیگ میں سے پانی کی بوٹل نکال کر اس کے چہرے پر چھینٹے مارنے لگا 

نور نے آہستہ سے اپنی سبز آنکھیں کھولیں تبریز حیرت سے اسکی آنکھوں کو دیکھنے لگا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وقت رک چکا ہے اب اسے یاد آیا اسنے یہ چہرہ کہاں دیکھا تھا وہ تو اس لڑکی کی آنکھوں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ اسکے چہرے پر دیھان ہی نہیں دیا پہلی ماقات میں ہی وہ آنکھیں اسے اتنا بےچین کرچکی تھیں اور اب دوسری ملاقات، تبریز بس اسکی حسین آنکھوں میں کھویا ہوا تھا جب نور ہوش میں آنے ہر ڈر کر اس سے دور ہوئی 

"ہیے بےبی گرل مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"تبریز نے نرمی سے کہتے ہوے اسکا ڈر ختم کرنا چاہا لیکن وہ بس ڈر سے کانپتے ہوے رو رہی تھی نور نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر روتے ہوے فورا وہاں سے بھاگ گی 

تبریز کو اس وقت اس پر بےتحاشہ غصہ آیا جو اس سے ڈر رہی تھی پھر اسنے مڑ کر خوفناک نظروں سے پیچھے پڑے زخمی حالت میں موجود لڑکوں کو دیکھا 

وہ اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ ان لڑکوں کی جانب بڑھا یہ تو طے تھا کہ اب ان لڑکوں کو تبریز سے کوئی نہیں بچا سکتا 

❤❤❤❤

ہانیہ غصے سے اپنے قدم تیز تیز اٹھانے لگی اسکا موڈ صبح سے ہی خراب تھا جب سے حاشر نے اسے کلاس سے نکالا تھا 

ابھی وہ اپنی سوچو میں مصروف تھی جب ایک لڑکا اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور خباثت سے ہنستے ہوے اسے دیکھنے لگا اسکی آدھی شرٹ کے بٹن کھلے ہوے تھے اور گلے میں اسنے سونے کی چین ڈالی ہوئی تھی جسے وہ اس وقت اپنے انگھوٹھے میں لے کر گھما رہا تھا ہانیہ نے غصے سے اس لڑکے کو دیکھا 

"کدھر جارہی ہے" لڑکے نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"تجھے کیا ہے" ہانیہ نے اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھ کر کہا وہ لوگوں سے اسی طرح بات کرتی تھی جس طرح سے وہ اس سے بات کرتے تھے 

"چلے گی کیا" لڑکے نے اپنی آنکھوں کو گھماتے ہوے کہا 

"اچھاااا رک تو ابھی" ہانیہ نے کہتے ہوے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ایک طرف کونے میں پڑے ڈھیر سارے پتھرو کو دیکھا اور پھر ایک ایک کرکے اٹھا کر اسے مارنے لگی

لڑکا جب بھی اسکی طرف بڑھتا ہانیہ دوبارہ اسکے طرف پتھر پھینک دیتی جب ایک پتھر سیدھا آکر اسکی آنکھ پر لگا وہ درد سے تڑپتا ہوا تیزی سے وہاں سے بھاگ گیا ہانیہ اپنے ہاتھ جھاڑتی ہوئی گھر کی جانب چلی گی 

❤❤❤❤

نور بھاگتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی جب گھر میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر اپنے سامنے کھڑی راشدہ بیگم پر پڑی وہ بھاگتے ہوے انکے پاس گی اور ان کے گلے لگ کر بلک بلک کر رونے لگی 

راشدہ بیگم نے پریشانی سے اسکی طرف دیکھا 

"نور بیٹا کیا ہوا ہے" راشدہ بیگم نے اسکی کمر کو تھپتھپاتے ہوے کہا لیکن وہ ویسے ہی روے جارہی تھی رونے کی آواز سن کر احمد صاحب بھی پریشانی سے ان کے پاس آے 

"راشدہ کیا ہوا ہے اسے ، نور میرا بیٹا بتاؤ کیا ہوا ہے" انھوں نے پہلے راشدہ بیگم اور پھر نور سے پوچھا 

"پتا نہیں احمد کچھ نہیں بتارہی"راشدہ بیگم نے پریشانی   سے کہتے ہوے اسے صوفے پر بیٹھا دیا یہ تو طے تھا جب تک انابیہ نہیں آے گی وہ اسی طرح روتی رہے گی 

اور انابیہ کے آتے ہی وہ روتے ہوے اسکے گلے لگ گی انابیہ نے پریشانی سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کر اسے کمرے میں لے آئی اور اسے پانی پلا کر اپنے ساتھ لگا لیا اور پھر جب اسکا رونا کم ہوا  تو انابیہ نے اسکی کمر تھپتھپاتے ہوے اس سے وجہ پوچھی جو اسنے سوں سوں کرتے ہوے اسے بتا دی انابیہ اسکی بات سن کر پریشان ہوئی تھی جو اسنے نور کے سامنے ظاہر نہیں کیا تھا

اور پھر تھوڑی ہی دیر میں نور اسکے سینے سےلگے نیند کی وادیوں میں اتر گی انابیہ نے اسکا سر نرمی سے تکیے پر رکھ دیا اور خود فریش ہونے چکی گی اسے اس وقت شہرام پر بہت غصہ آرہا تھا اگر وہ اسے تھوڑی دیر کی چھٹی دے دیتا تو اسکا کیا بگڑ جاتا 

❤❤❤❤

پورا کمرہ اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور کمرے میں ایک شخص کو رسیوں سے ہوا میں الٹا لٹکایا ہوا تھا اسکے منہ پر ٹیپ لگا ہوا تھا اور دونوں ہاتھ رسی سے بندھے تھے جب کمرے میں کوئی وجود داخل ہوا اور کمرے میں کوئی وجود داخل ہوا اور پورا کمرا روشنی میں نہا گیا 

تبریز نے آگے بڑھ کھینچنے کے انداز میں اسکے منہ سے ٹیپ ہٹایا 

جو لڑکا دور کھڑا نور کو دیکھ رہا تھا اسے مارنے کے بعد وہ جیل میں ڈلوا چکا تھا اور تبریز کا ارادہ اسے ساری زندگی جیل میں ہی رکھنے کا تھا 

ایک لڑکے کو غصے میں وہ وہیں جان سے مار چکا تھا جبکہ تیسرا جس نے نور کے ہاتھ پکڑے تھے وہ اس وقت اسی کے کہنے پر اسکے سامنے ہوا میں لٹکا ہوا تھا اسکے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوے تھے 

تبریز کے اشارہ کرنے پر مزمل نے اسکے ہاتھ کھول دیے 

"چھ-چھوڑ دو مجھے" 

لڑکے کے کہنے پر تبریز نے بنا اسکی بات کا کوئی جواب دیے اسکا ہاتھ تھام لیا 

اور اپنے ہاتھ میں تیز گرم کیا ہوا چاقو اٹھا کر جھٹکے سے اسکا ہاتھ کاٹ دیا اس لڑکے کی چیخے اس ویران جگہ پر گونجی تبریز کے زہہن کے پردے پر منظر لہرایا جو اس لڑکے نے نور کا ہاتھ تھاما ہوا تھا 

"چ-چ-چھوڑ دو م-م-مجھے" اس لڑکے نے درد سے تڑپتے ہوے کہا 

"ضرور چھوڑتا لیکن تم نے غلطی بہت بڑی کی ہے تم نے تبریز خانزادہ کی جان کو نہ صرف گندی نظر سے دیکھا بلکہ اسے ہاتھ بھی لگایا وہ مجھ سے ڈر رہی تھی تمہاری وجہ سے کیونکہ اسے لگا میں بھی تم جیسا ہوں" وہ اس وقت کہتا ہوا کوئی پاگل ہی لگ رہا تھا 

تبریز نے کہتے ہوے اس چاقو سے اسکا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا کمرے کی دیواریں اسکی خوفناک چیخو سے گونج رہی تھی 

"مزمل جب تک اسکی سانسیں بند نہیں ہوجاتیں تب تک مجھے اسکی چیخے سننی ہیں" 

تبریز کہتے ہوے باہر جاکر آنکھیں موند کر کرسی پر بیٹھ گیا اور اندر سے اس لڑکے کی مسلسل چیخو کی آواز گونج رہی تھی جو کہ تبریز کو سکون بخش رہی تھی اور پھر ان چیخو کے بند ہونے پر تبریز اپنی آنکھیں کھول کر وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"کیا ہوا موڈ کیوں آف ہے" عمارہ نے اپنے برابر بیٹھی انابیہ سے پوچھا 

"مت پوچھو دل چاہ رہا ہے اس جلاد کا سر پھوڑ دوں" 

"کیوں اب شہرام سر نے کیا کردیا" عمارہ نے اپنے دونوں ہاتھ ڈیسک پر رکھتے پوچھا 

"ایسا لگتا ہے جیسے میری تو ان سے کوئی زاتی دشمنی ہے ہر وقت میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں" 

"ایسی بات نہیں ہے بیہ وہ تو سب سے ہی ایسے بات کرتے ہیں" انابیہ نے اسکی بات پر منہ بنا کر اسے دیکھا جب اسکی نظر عمارہ کے ہاتھ کی انگلی میں موجود گولڈ رنگ پر پڑی 

"واؤ پیاری لگ رہی ہے یہ کب لی" انابیہ نے اسکی رنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا جسے سن کر عمارہ نے شرما کر اپنا رخ دوسری طرف کرلیا انابیہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

''تمہیں کیا ہوا" انابیہ نے اسکا رخ اپنی طرف کرتے ہوے کہا 

"وہ ،وہ نہ دراصل میری انگیجمنٹ ہوگی "عمارہ کے کہنے ہر انابیہ حیران سے منہ کھول کر اسے دیکھنے 

''کب ہوئی ؟تم نے بتایا کیوں نہیں،،،لڑکا کیا کام کرتا ہے ؟ہے کون" 

"اف بیہ آرام سے بتاتی ہوں میں اور وہ نہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے تو انہوں نے اپنی امی اور بہن کو میرے گھر رشتے کے لیے بھیجا تھا اور پھر جب ان کی امی دوبارہ آئیں تو انہوں نے یہ انگوٹھی مجھے پہنادی اور اب ان کی امی کہہ رہی ہیں کہ کچھ ہی وقت میں نکاح کی تاریخ طے کرلینگے اور یہ سب اتنا جلدی ہوا مجھے تمہیں بتانے کا موقع ہی نہیں ملا" 

"اوہو ان کی امی ، مطلب ان کی امی" انابیہ نے اسے چھڑتے ہوے کہا 

"یار بیہ تنگ نہیں کرو" عمارہ نے مسکراکر شرماتے ہوے اس سے کہا 

"میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں" انابیہ نے خوشی سے چہکتے ہوے اسے اپنے گلے لگا لیا 

"اچھا یار اپنے ان کا نام تو بتاؤ" انابیہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے کہا جب عمار نے تھوڑی دور کھڑے اقبال کو ایک نظر دیکھا اور پھر مسکراکر اپنے رخ موڑ لیا انابیہ نے حیرت سے اسکی اس حرکت کو دیکھا 

"کیا اقبال بھائی" انابیہ نے اسکی طرف جھک کر سرگوشی کرتے ہوے کہا جسے سن کر عمارہ نے شرماتے ہوے اپنا سر ہلادیا 

انابیہ تیزی سے بھاگتے ہوے اقبال کے پاس گئی اور اسکے پیچھے کھڑے ہو کر چلاتے ہوے کہا 

"اقبال بھائی کیا بات ہے" اقبال نے گھبرا کر پیچھے دیکھا جہاں انابیہ کو کھڑے دیکھ کر اسنے سکھ کا سانس لیا 

"یار انابیہ چلا کیوں رہی ہو کیا ہوا؛؛" 

"اکیلے اکیلے منگنی بھی کرلی" انابیہ کے کہنے ہر اقبال نے ایک نظر انابیہ کے پیچھے بیٹھی عمارہ کو دیکھا جو پہلے سے اسے ہی دیکھ رہی تھی لیکن اسکے دیکھتے ہی گڑبڑا کر اپنا کام کرنے لگی اقبال نے مسکراتے ہوے اپنا سرجھٹکا 

"کیا چاہیے بہنا"

"ٹریٹ تو دینی پڑے گی" 

انابیہ کے کہنے پر اقبال نے مسکراکر اپنا سرہلایا اور کہا

"ٹھیک ہے" 

"مس انابیہ" انابیہ ہڑبڑا کر اپنے پیچھے کھڑے شہرام کو دیکھا

"جی سر" 

"آپ یہاں باتوں کے لیے آتی ہیں یا کام کے لیے" شہرام نے ایک نظر انابیہ کے پیچھے کھڑے اقبال پر ڈالی اسے انابیہ کا اقبال کے اتنا پاس کھڑے ہونا بلکل اچھا نہیں لگا تھا 

"فورا میرے آفس میں آؤ" شہرام کہتا ہوا اپنے روم کی طرف چلا گیا انابیہ بھی دل میں اسے برا بھلا بولتی اسکے پیچھے چلی گی

❤❤❤❤

انابیہ منہ بناتی ہوئی اسکے پیچھے پیچھے آفس میں داخل ہوئی 

"یاد ہے نہ آج میٹینگ ہے" شہرام نے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا 

"انابیہ یہ پروجیکٹ میرے لیے بہت اہم ہے اگر تم نے آج کوئی غلطی کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا" 

"پتا ہے" بےساختہ انابیہ کے منہ سے نکلا 

"کیا کہا تم نے؟؟"

"کچھ بھی تو نہیں"

 "یہ یو ایس بی پکڑو اور جب میٹینگ کے وقت میں مانگو گا تو مجھے دے دے نہ اور اسے سمبھال کر رکھنا" شہرام نے اپنی شہادت کی انگلی دکھاتے ہوے اسے وارن کیا جس پر اسنے اچھے بچوں کی طرح اپنا سر ہلایا اور روم سے چلی گی 

❤❤❤❤

انابیہ جو بڑبڑاتے ہوے جارہی تھی ادکی نظر تھوڑی دور کھڑے بہزاد پر گیا اسنے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوے دوبارہ دیکھا کہیں اسکی وہم تو نہیں لیکن اسے حقیقت میں سامنے پاکر وہ خوشی سے اسکی طرف بھاگی

"بھائی آپ یہاں کیا کررہے ہو" انابیہ نے اسکے سامنے کھڑے ہوکر حیرت سے پوچھا جبکہ بہزاد خود اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا 

"گڑیا تم یہاں کیا کررہی ہو" 

پہلے سوال میں نے پوچھا تھا انابیہ نے منہ بناتے ہوے کہا 

"ہاہا میں آج یہاں میٹینگ کے لیے آیا ہوں" 

"اوہ تو آج آپ میٹینگ کے لیے آپ لوگ آرہے تھے" انابیہ نے اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر پوچھا 

"ہاں گڑیا اب تم بتاؤ" 

"میں یہاں جوب کرتی ہوں" 

"کیا واقعی تم یہاں جوب کرتی ہو "بہزاد نے خوشگوار حیرت سے کہا کیونکہ اس کمپنی کا کتنا نام تھا یہ تو سب ہی جانتے تھے 

اور پھر اسی طرح وہ دونوں وہاں کھڑے کھلکھلاتے ہوے باتیں کرتے رہے جبکہ تھوڑی دور کھڑا شہرام اسے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوے دیکھ رہا تھا اسے اس وقت انابیہ پر بےحد غصہ آرہا تھا جو پہلی ہی بار میں کسی لڑکے سے اس طرح فری ہورہی تھی شہرام اسے دیکھ کر افسوس سے اپنا سر نفی میں ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"اف کہاں گئی"انابیہ ہر جگہ یو ایس بی دیکھ چکی تھی جو شہرام نے اسے دی لیکن وہ پتا نہیں کہاں غائب ہوچکی تھی 

"شہرام سر تو جان سے مارینگے" وہ پریشانی سے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہہ رہی تھی 

"انابیہ" انابیہ کے پیچھے آکر شاہدہ نے اسے پکارا انابیہ نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا 

"ہاں کیا ہوا" 

"یہ یو ایس بی شاید تمہاری ہے"شاہدہ نے اسکی طرف یو ایس بی بڑھاتے ہوے کہا انابیہ نے فورا اسے تھام لیا 

"ٹھینک یو سو مچ میں تو پریشان ہوگئی تھی"

"کوئی بات نہیں" شاہدہ مسکراتے ہوے کہہ کر وہاں سے چلی گئی

❤❤❤❤

"انابیہ یو ایس بی "

شہرام نے دور کھڑی انابیہ سے یو ایس بی مانگی 

لیکن اسکے لگتے ہی وہاں جو منظر ابھرا اسکی وجہ سے سب نے اپنا سر شرم سے جھکا لیا شہرام نے غصے سے بھری لال آنکھوں سے انابیہ کو دیکھا 

"یہ سب کیا ہے انابیہ" شہرام نے  آہستہ سے اس سے غراتے ہوے کہا 

"سر مجھے نہیں پتا" انابیہ نے گھبراتے ہوے کہا 

"مسٹر شہرام یہ سب کیا ہے آپ نے ہمیں یہ سب دکھانے کے لیے بلایا ہے" رحمن گردیزی نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر غصے میں کہا 

"مسٹر گردیزی آئی-ایم-سوری بس دو منٹ یہ غلطی سے" شہرام نے اپنے خشک لبوں کو زبان سے تر کرتے ہوے اپنی بات ادھوری چھوڑی 

"مس انابیہ یو ایس بی دیجیے" شہرام نے اپنے دانت پیستے ہوے اپنے قریب کھڑی انابیہ سے کہا 

"سر میرے پاس یہی تھی میں نے کچھ نہیں کیا" 

"دیکھو میرا ضبط مت آزماؤ" 

"سر واقعی میں میرے پاس ایک یہی یو ایس بی تھی " 

"بس، ہمیں اب کوئی کام نہیں کرنا آپ کے ساتھ" رحمن گردیزی اپنی جگہ نے غصے سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوے کہا 

"آپ میری بات سنیں" شہرام نے آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بنا اسکی کچھ سنے وہاں سے چلے گئے 

"گڑیا کوئی بات نہیں میں سر سے بات کرونگا" بہزاد انابیہ کے قریب آیا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا انابیہ نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

بہزاد اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا انابیہ نے ڈر کر شہرام کی طرف دیکھا جس کی پشت انابیہ کی طرف تھی 

"سر" انابیہ نے ڈرتے ہوے اسے پکارا شہرام نے غصے سے مڑ کر اسکی طرف دیکھا 

"کیا تھا یہ سب ، کیا گھٹا حرکت تھی" شہرام نے چلاتے ہوے کہا انابیہ اسکے چلانے پر سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی

"مجھ-مجھے نہیں پ-پتا سر یہ کیسے ہوا" اس نے روتے ہوے وضاحت دی 

"تم کہو گی تم نے کچھ نہیں کیا اور میں مان لونگا میں نے تم سے کی کہا تھا کہ یہ ڈیل میرے لیے کتنی ضروری ہے میں جب سے یہاں آیا ہوں یہ پہلا ایسا موقع ملا تھا مجھے کہ میں خود کو ثابت کرسکوں لیکن تمہاری وجہ سے وہ موقع بھی ہاتھ سے گیا" 

وہ مسلسل چلاتے ہوے کہہ رہا تھا اور انابیہ کے آنسو میں مزید روانی آرہی تھی 

"پتا نہیں کیا سوچ کر میرے باپ نے تمہیں اس آفس میں جوب دی یہاں تم صرف ایک کام کرنے آتی ہو اور وہ ہے یہاں کے مردوں پر ڈورے ڈالنا لیکن مس انابیہ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو تمہاری خوبصورتی دیکھ کر تُم پر فدا ہوجاونگا یہی تربیت کی ہے تمہارے ماں باپ نے'' 

"بس ،" انابیہ نے غصے سے چلاتے ہوے کہا 

"جو کہنا ہے کہیے میری غلطی نہیں ہے پھر بھی میں آپ کی ہر بات برداشت کررہی ہوں لیکن یہ بات میں بلکل برداشت نہیں کرونگی کہ کوئی میرے کردار یا تربیت پر انگلی اُٹھاے" 

"اوہ تو برا لگا لیکن سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے تم جو ہو جیسی ہو وہی میں نے کہا"شہرام کی باتوں پر بےاختیار انابیہ کا ہاتھ اٹھا جسے شہرام بیچ میں ہی تھام چکا تھا شہرام نے غصے سے اسکی طرف دیکھا اور اسکا ہاتھ اسے اپنے سامنے  کھینچا لیکن اسکے قریب آنے سے پہلے ہی خود اس جگہ سے ہٹ کر میٹینگ روم سے باہر چلا گیا پیچھے سے اسے کچھ ٹوٹنے کی آواز ضرور آئی تھی لیکن وہ اسے اگنور کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

شہرام کے دھکا دینے پر انابیہ پیچھے پڑے کانچ کی ٹیبل پر گری ٹیبل کا شیشہ کافی نازک تھا جس کی وجہ سے انابیہ کے گرتے ہی وہ نازک شیشہ ٹوٹ چکا تھا اور اسکا کانچ انابیہ کے پورے ہاتھ اور بازوں میں جگہ جگہ لگ چکا تھا 

❤❤❤❤

"اقبال شہرام کہاں ہے" حاشر نے اقبال سے پوچھا 

"سر وہ میٹینگ روم میں ہیں" اقبال کے کہنے پر حاشر اپنا سرہلاتا ہوا وہاں سے میٹینگ روم کی طرف چلا گیا اقبال کسی ضروری کام سے باہر گیا تھا اسلیے اسے کچھ علم نہیں تھا کہ آفس میں کیا ہوا ہے

اور حاشر بھی میٹینگ روم کی طرف بڑھ گیا ویسے تو وہ شہرام سے ملنے کے لیے اسکے گھر پر ہی جاتا تھا لیکن ملے ہوے کافی دن ہونے کی وجہ سے وہ آج اسکے آفس آچکا تھا  وہ شہرام کو سرپرائز دینے کے لیے بنا بتاے آفس میں آیا تھا 

اسنے جسیے ہی روم میں قدم رکھا نظر سامنے زمین پر پڑے وجود پر پڑی وہ بھاگتا ہوا انابیہ کے پاس گیا 

انابیہ کے ہاتھوں سے جگہ جگہ سے خون بہہ رہا تھا  

"دیکھیے آپ کا خون بہت بہہ رہا ہے میں آپ کو ہاسپٹل لے کر چلتا ہوں اٹھیے "

انابیہ نے تکلیف کی شدت کو برداشت کرتے ہوے حاشر کو دیکھا جب عمارہ اندر داخل ہوئی اور گھبرا کر اسکے پاس آئی 

"انابیہ یہ کیا ہوا" عمارہ نے گھبراتے ہوے کہا 

"پلیز ابھی آپ میری مدد کیجیے انہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہوگا" حاشر نے غصے سے عمار کو دیکھتے ہوے کہا جو اس وقت اسکی مدد کرنے کے بجاے اپنے رونے کا کام سر انجام دے رہی تھی اور پھر وہ دونوں اسے ہاسپٹل لے کر گئے 

جہاں اسکے دونوں بازوؤں پر اسٹیچز آے تھے 

حاشر بہت مشکل سے اسکے ماننے کے بعد اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسکے گھر چھوڑنے جارہا تھا ورنہ انابیہ اسے صاف انکار کرچکی تھی 

"بہت بہت شکریہ میری اتنی مدد کرنے کے لیے" انابیہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا حاشر نے مسکراکر اسے دیکھا 

"کوئی بات نہیں سسٹر میں نے کوئی احسان نہیں کیا ویسے آپ کو چوٹ لگی کیسے" 

"گرادیا تھا؛" 

"کس نے؟"

"شہرام نے" انابیہ کے کہنے ہر حاشر نے حیرت سے اسے دیکھا 

"کیا ،شہرام نے" 

انابیہ نے مسکراکر اسے دیکھا 

"آپ میری بات پر کیوں یقین کرینگے میں نے ایک دو بار آپ کو آفس میں ان کے ساتھ دیکھا ہے میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ دونوں دوست ہیں"اسکی بات پر حاشر نے ایک گہرا سانس لیا

" بھلے وہ دوست ہے میرا لیکن اگر غلطی اسنے کی ہے تو  میں اسے جھٹلاؤنگا نہیں میں اس سے بات کرونگا "انہی باتوں کے درمیان حاشر نے گاڑی اسکے گھر کے سامنے روک دی 

"پلیز ان سے کچھ مت کہیے گا اس بات کو یہیں ختم کردیں اور اسد انکل سے تو یہ بات بلکل مت کیجیے گا اور آپ پلیز اندر آیے " انابیہ نے کہتے ہوے اسے اندر آنے کی دعوت دی 

"نہیں پھر کبھی آپ بس اپنا خیال رکھیے گا اللہ حافظ"  

اس سے چند ایک بار اور پوچھنے پر بھی انکار ملنے پر انابیہ اسے "اللہ حافظ" کہتی ہوئی گھر کے اندر چلی گی 

❤❤❤❤

"انابیہ یہ کیا ہو گیا" احمد صاحب اور ہانیہ جو لاؤنج میں بیٹھے ہوے تھے انابیہ کو اس حالت میں دیکھ کر پریشانی سے احمد صاحب نے دریافت کیا ہانیہ بھی پریشانی سے اٹھ کر اسکے قریب آگی

"آپی یہ کیا ہو ہے آپ کو" 

"ہانی کچھ نہیں ہوا میں ٹھیک ہوں" ان سب کی آواز سن کر راشدہ بیگم کے ساتھ ساتھ نور بھی وہاں آگی

"آپی یہ کیا ہوگیا" نور کی پریشانی سی آواز اسکے کانوں میں گونجی انابیہ نے مڑ کر نور کی طرف دیکھا 

"نور بچہ کچھ نہیں ہوا"

"ہانیہ جاؤ بہن کے لے پانی لاؤ" انابیہ یہاں بیٹھو راشدہ بیگم نے اسے صوفی پر بیٹھاتے ہوے ہانیہ سے کہا 

"انابیہ کیسے ہوا یہ سب "

"امی آپ پریشان نہیں ہوں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا میں بس اب آرام کرونگی" انابیہ کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ گئی اور اپنے کمرے کی طرف چلی گی 

"نور جاؤ دیکھو بہن کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں" راشدہ بیگم کے کہنے پر نور انابیہ کے کمرے میں چلی گی اور پیچھے سے وہ دونوں میاں بیوی اپنے سارے بچوں کے لیے دل میں دعا کرنے لگے 

❤❤❤❤

"انکل شہرام کہاں ہے" حاشر نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنا رخ شہرام کے کمرے کی طرف کیا جو کہ اسے خالی ملا وہ واپس نیچے کی طرف چلا گیا جب صوفے پر بیٹھے اسد صاحب پر نظر پڑی سلام دعا کے بعد حاشر نے اسد صاحب سے پوچھا 

"بیٹا وہ اسٹڈی میں ہے کوئی بات ہوئی ہے" اسد صاحب نے حاشر کو دیکھتے ہوے پوچھا اگر یہ کہا جاے کہ اسکی دوستی شہرام سے زیادہ اسد صاحب سے ہے تو غلط نہیں ہوگا لیکن آج اسکا رویہ تھوڑا عجیب دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی تھی 

"اسکی وجہ سے آج آفس میں ایک لڑکی کو چوٹ لگی ہے وہ بھی گہری چوٹ" 

"کیا، کون لڑکی اور شہرام کی وجہ سے کیسے چوٹ لگی میں بات کرتا ہوں شہرام سے" اسد صاحب نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوے کہا 

"انکل آپ اس بارے میں اس سے ابھی کوئی بات مت کیجیے گا اور ویسے بھی جس لڑکی کو چوٹ لگی تھی اسنے مجھے منع کیا تھا آپ کو یہ بتانے سے میں خود اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں-----" 

اور اس سے پہلے اسد صاحب اس سے اس لڑکی کا نام پوچھتے حاشر فورا اٹھ کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا 

❤❤❤❤

"کیا میں جان سکتا ہوں آج جو حرکت تو نے کی اس کی کیا وجہ ہے" حاشر اندر داخل ہوتے ہی سامنے بیٹھے شہرام سے کہا شہرام نے حیرت سے اسے دیکھا

"کیا ہوا ہے یار؟؟" 

"میں آج ہوے واقعے کی بات کررہا ہوں تمہیں اندازہ بھی ہے تم نے جس لڑکی کو دھکا دیا تھا اسے کتنی چوٹیں لگی ہیں اسٹیچیز آے ہیں اسکے دونوں بازوؤں پر "

شہرام نے حیرت سے حاشر کو دیکھا اسنے صرف اسکا ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچا تھا اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا اسے تو پتا ہی نہیں تھا کہ اسکی وجہ سے انابیہ کو چوٹ لگی ہوگی لیکن پھر خود ہی اپنے زہہن سے سارے سوالوں کو جھٹک دیا 

"حاشر یہ تیرا مسلہ نہیں ہے وہ لڑکی اسی لائق تھی اور تو اس لڑکی کی وجہ سے مجھ سے لڑ رہا ہے" 

"بات صرف اس لڑکی کی نہیں ہے شہرام بات غلطی کی ہے جو تو نے کی ہے" 

"پلیز یار اگر اس بارے میں بات کرنی ہے تو چلا جا یہاں سے" شہرام نے کہتے ہوے اپنے رخ دوسری جانب موڑ لیا حاشر نے اسے دیکھ کر افسوس سے اپنے سر نفی میں ہلایا اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"سر میڈم کا نام نور احمد ہے" مزمل نے اپنے سامنے کرسی پر سر رکھے آنکھیں موندیں تبریز سے کہا اسکی بات پر تبریز نے حیرت سے اپنا سر اٹھاکر اسکی جانب دیکھا 

"کیا نام بتایا" تبریز نے مزمل کی جانب دیکھتے ہوے کہا مزمل نے حیرت سے اسکے تاثرات دیکھے 

"سر نور نام ہے میڈم کا"تبریز نے گہرا سانس لے کر اپنے آپ کو پرسکون کیا اور سر جھٹک کر واپس اسکی جانب دیکھنے لگا اسے دیکھ کر مزمل نے بھی اپنی بات دوبارہ شروع کی 

"اور سر میڈم" مزمل جو نور کی باقی معلومات بھی بتانے والا تھا تبریز کے ہاتھ اٹھانے پر رک کر اسکی طرف دیکھنے لگا 

"ابھی کے لیے صرف اسکا ایڈریس دو" تبریز کے کہنے پر مزمل نے نور کا ایڈریس اسکی طرف بڑھا دیا اور اسکے اشارے کرنے پر روم سے باہر چلا گیا تبریز کتنی ہی دیر اپنے ہاتھ میں موجود ایڈریس کو دیکھتا رہا جب زہہن کے پردے پر نور کی سبز آنکھیں لہرائیں 

"بس کچھ وقت کی بات ہے بےبی گرل پھر تم صرف اور صرف میری ہوجاؤگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے" وہ خود سے بڑبڑاتے ہوے واپس اپنی آنکھیں موند کر اپنی بےبی گرل کے بارے میں سوچنے لگا 

❤❤❤❤

"حور مجھے تم پر بہت غصہ آرہا ہے اگر تم مجھے بتا کر آتیں تو میں تمہارے لیے کچھ اچھا سا بنا لیتی" عائشہ نے مختلف قسم کی چیزیں اسکے سامنے رکھتے ہوے کہا  

"عاشی میں تمہارے گھر کھانا کھانے کے لیے تھوڑی نہ آئی ہوں میں تو بس انوائیٹ کرنے آئی تھی دو دن بعد میری برتھڈے ہے نہ تو گھر میں چھوٹی سی پارٹی رکھی ہے پہلے تو سوچا کہ فون ہر کردوں پر بعد میں سوچا اسی بہانے ملاقات بھی ہوجاے گی اسلیے آگی "

"بہت اچھا کیا اسی بہانے تم میرے گھر تو آئیں میں بھی تمہارے گھر آنے کا سوچ رہی تھی بھائی کی شادی کے فنکشن سٹارٹ ہونے والے ہیں نہ تو مجھے بھی تم لوگوں کو انوئیٹ کرنا تھا" عائشہ نے حوریہ کی پسند کی چیزیں پلیٹ می رکھ کر اسکی جانب بڑھائی اور خود اپنی پلیٹ اٹھا کر وہاں موجود ہر چیز کو اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھانے لگی 

"لیکن تم پھر بھی میرے گھر آکر ہی مجھے انوئیٹ کرنا یار تم آج تک میرے گھر نہیں آئی ہو اور نہ کی بیہ آئی ہے "حوریہ نے منہ بنا کر اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا

"یار شادی کا گھر ہے بہت کام ہے تمہیں پتا ہے نہ لیکن تم فکر مت کرو میں تمہاری برتھڈے والے دن لازمی آونگی "

"وہ تو تمہیں آنا ہی ہے ورنہ میں تم سے بات نہیں کرونگی" حوریہ نے اپنی انگلی اسے دیکھاتے ہوے کہا 

"ہاہا ہاں بابا پکا" عائشہ نے ہنستے ہوے کہا 

"اچھا یار میں نہ اسکے بعد بیہ کے گھر بھی جاؤنگی تو تم چلو گی اس بہزاد بھائی کی شادی کا کارڈ بھی دے دینا" حوریہ نے پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوے کہا 

"ہاں تم رکو میں بس ابھی آتی" ہوں عائشہ نے اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اندر چلی گی

❤❤❤❤ 

"ڈیڈ مجھے آپ سے بات کرنی ہے" تبریز نے باقر صاحب کے سامنے بیٹھتے ہوے کہا باقر صاحب کے قریب بیٹھی ماجدہ بیگم نے اسے حیرت سے دیکھا لیکن تبریز نے ایک نظر اٹھا کر بھی انہیں نہیں دیکھا تبریز کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ وہ انکے سامنے نہ آے اور اگر آ بھی جاتا تو اس طرح ظاہر کرتا جیسے ماجدہ وہاں پر موجود ہی نہیں 

"ہاں بیٹا کہو" باقر صاحب نے اخبار کو طے کرتے ہوے کہا 

"آپ چاہتے ہیں نہ کہ میں شادی کرلوں" تبریز کے کہنے پر باقر صاحب نے حیرت سے اسے دیکھا

"ہاں تم کہو تو سہی تم جس سے کہو گے میں تمہاری شادی کرونگا" باقر صاحب نے خوشی سے اسکے طرف دیکھتے ہوے کہا 

"یہ ایڈریس ہے آپ کو یہاں جاکر میرے اور نور کے رشتے کی بات کرنی ہے" تبریز نے کہتے ہوے ایڈریس انکی طرف بڑھادیا 

"ٹھیک ہے میں اور ماجدہ آج ہی اس لڑکی کے گھر جاکر بات کرینگے" باقر صاحب نے خوشی سے اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"آپکی مرضی آپ جس کو بھی ساتھ لے کر جائیں لیکن مجھے جواب ہاں میں ہی چاہیے ورنہ آپ مجھے اچھے سے جانتے ہیں" تبریز کہتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"بیہ یہ تمہیں کیا ہوگیا" حوریہ اور عائشہ نے اپنے سامنے بیٹھی انابیہ کو دیکھتے ہوے پوچھا جہاں اسکے پورے ہاتھوں بازوؤں پر پٹی بندھی ہوئی تھی

"کچھ نہیں ہوا یار بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا تم دونوں بتاؤ آج مجھ غریب کی یاد کیسے آگئی"

"بس حور کو اپنی برتھ ڈے کے لیے انوئیٹ کرنا تھا اور مجھے بھی بھائی کی شادی کا کارڈ دینا تھا اسلیے ہم دونوں آگئے" عائشہ نے چہکتے ہوے اسکے جانب دیکھ کر کہا

"لیکن بیہ یہ غلط بات ہے تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا" حور نے پریشان سے اسکی جانب دیکھتے ہوے کہا 

"اوفو حور جانی تم ٹینشن مت لو میں بلکل ٹھیک ہوں اور تمہاری برتھ ڈے میں بھی ضرور آونگی" انابیہ نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوے کہا 

اور پھر ناجانے کتنی دیر تک وہ تینوں اسی طرح باتوں میں مصروف رہیں

❤❤❤❤

وہ دونوں کچھ دیر تک انتظار کرتے رہے لیکن کسی کے دروازہ نہ کھولنے پر دوبارہ دستک دی جب ایک لڑکی نے دروازہ کھول کر انہیں حیرت سے دیکھا 

اور یہ چہرہ دیکھ کر باقر صاحب کو لگا کہ وہ سالوں پیچھے جاچکے ہیں اور انہی کی طرح انکے برابر میں کھڑی ماجدہ بیگم بھی حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھیں جو بلکل ان کی بہن کی طرح تھی ایسا لگ رہا تھا آج انکے سامنے انکی بہن کھڑی ہے 

"جی کس سے ملنا ہے آپ کو" ہانیہ کی آواز پر دونوں چونک اٹھے اور اپنے خیالات کو جھٹک کر ہانیہ کی طرف متوجہ ہوے 

"کیا مسٹر احمد گھر پر ہیں" باقر صاحب نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"جی ہیں لیکن آپ کون" 

"مجھے ان سے ملنا ہے کچھ ضروری بات کرنی ہے بیٹا کیا ہم اندر آسکتے ہیں" باقر صاحب کے کہنے پر ہانیہ شرمندہ سی ہوتی ہوئی دروازے سے دور ہٹی جب وہ دونوں اندر داخل ہوے اور ہانیہ انہیں لاؤنج میں لے کر آگئی جہاں احمد صاحب پہلے سے بیٹھے ہوے کتاب پڑھ رہے تھے 

"ابو آپ سے ملنے کے لیے آئیں ہیں" ہانیہ کی آواز پر احمد صاحب نے اپنا چہرہ اٹھا کر سامنے کھڑے باقر اور ماجدہ کو دیکھا اور سکتے کی کیفیت میں چلے گئے اور یہی حال دوسری طرف بھی تھا 

"بھ-بھائی" ماجدہ بیگم نے کپکپاتی ہوئی آواز میں سامنے بیٹھے احمد صاحب کو دیکھتے ہوے کہا لیکن احمد صاحب تو جیسے ابھی تک انکی موجودگی کا یقین ہی نہیں کرپارہے تھے 

انکی حالت دیکھ کر ماجدہ بیگم اپنی نم آنکھوں کے ساتھ انکی طرف بڑھنے لگی جب باقر صاحب نے انکی کلائی تھام لی 

ہانیہ حیرت سے یہ سارا ماجرہ دیکھ رہی تھی 

باقر صاحب اپنی بیگم کی کلائی تھام کر فورا وہاں سے غائب ہوچکے تھے جب کہ احمد صاحب ابھی تک اسی کیفیت میں بیٹھے ہوے تھے 

"ابو کیا ہوا ہے وہ کون تھے" ہانیہ نے انکا کندھا ہلاتے ہوے کہا جب اسکے ہلانے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آے اور پھر اپنی نم آنکھیں صاف کرکے ہانیہ کی طرف دیکھا  

"وہ کون تھے؟" 

"بس بیٹا ایک پرانہ دوست تھا" انہوں نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی 

"تو پھر ایسے کیوں چلے گئے" 

"وہ مجھ سے ناراض ہے اب چھوڑو اس بات کو بس گھر میں اس بات کا زکر کسی سے مت کرنا کہ میرا کوئی دوست آج یہاں آیا تھا سمجھ گئی بچہ" ہانیہ جو کچھ کہنے والی تھی ان کے بولنے پر رک گئی اور اپنے سر اثبات میں ہلادیا لیکن مطمئن وہ ابھی بھی نہیں ہوئی تھی

❤❤❤❤

باقر صاحب اور ماجدہ بیگم کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر تبریز بےچینی سے ان کے پاس گیا 

"کیا ہوا بات کی آپ نے!" 

"انھوں نے کیا جواب دیا خیر جو بھی جواب دیا ہو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے جواب صرف ہاں میں ہی چاہیے" تبریز نے اپنی بات مکمل کرکے انکے تاثرات دیکھے باقر صاحب صوفے پر بیٹھ کر اسکی جانب دیکھنے لگے 

"میں نے وہاں کسی سے کوئی بات نہیں کی شاید تمہیں پتا نہیں جس گھر میں تم نے ہمیں بھیجا تھا وہ گھر تمہارے ماموں کا ہے اور یقینا وہ لڑکی بھی تمہارے ماموں کی ہی بیٹی ہوگی" باقر صاحب نے اسکی جانب دیکھتے ہوے کہا جو سپاٹ چہرے کے ساتھ انکی بات سن رہا تھا

"شاید نہیں یقینا وہ انہی کی بیٹی ہے "

"تمہیں پتا تھا پھر بھی تم نے ہمیں وہاں بھیجا تم جانتے ہو اس لڑکی کا اس عورت سے رشتہ ہے" باقر صاحب نے چلاتے ہوے کہا انکا سانس پھول چکا تھا 

ماجدہ بیگم نے آگے بڑھ کر انہیں سمبھالنا چاہا لیکن وہ اُن کا ہاتھ جھٹک چکے تھے جبکہ تیری اب اطمینان سے انکی طرف دیکھ رہا تھا 

"ڈیڈ ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اسکا اس عورت سے کیا رشتہ ہے میرے لیے بس نور اہم ہے اور آپ میری بات غور سے سنیں آپ وہاں واپس جائینگے اور رشتے کی بات کرینگے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو نہ ہی تو میں میٹینگ کے لیے ترکی جاؤنگا بلکہ زبردستی یا اٹھا کر کیسے بھی نور کو اپنا بناؤنگا بہتر ہے یہ معاملہ عزت سے طے کیجیے کیونکہ اگر میں اپنی پر آیا نہ تو میں کس کا لحاظ نہیں کرونگا "تبریز اطمینان سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ دوسری طرف باقر صاحب کا اطمینان غارت ہوچکا تھا 

❤❤❤❤

انابیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی حیرت سے اسے دیکھا باہر سے تو وہ خوبصورت دکھتا ہے لیکن اندر سے وہ گھر مزید بڑا اور خوبصورت تھا انابیہ پہلی دفعہ یہاں آئی تھی اور حیرت سے اردگرد دیکھ رہی تھی 

جب حوریہ بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی 

"ٹھینک یو بیہ تمہیں اندازہ نہیں میں تمہارے یہاں آنے سے کتنی خوش ہوں" حوریہ نے اسکے گلے لگتے ہوے کہا 

"اس میں شکریہ کی کیا بات ہے" 

"ویسے بہت پیاری لگ رہی ہو" حوریہ نے انابیہ کی طرف دیکھتے ہوے کہا جو لائٹ ییلو کرتی کے ساتھ وائٹ کیپری وائٹ دوپٹہ اور اونچی پونی میں سادہ سی بہت پیاری لگ رہی تھی 

"تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو برتھ ڈے گرل" انابیہ نے اسکے گال پر پیار کرتے ہوے کہا اور گفٹ بیگ اسکی جانب بڑھادیا 

"اسکی کیا ضرورت تھی اچھا چلو میں تمہیں موم اور ڈیڈ سے ملواتی ہوں" حوریہ اسکی ہاتھ تھام کر اسے اسد صاحب اور نرمین بیگم کے پاس لے گئی جہاں انابیہ کو ان دونوں کی پشت نظر آئی 

"موم ڈیڈ دیکھیے یہ ہے میری دوست بیہ" حوریہ کے بلانے پر دونوں نے مڑ کر انابیہ کو دیکھا 

"بیٹا تو تم ہو ہماری حور کی دوست" اسد صاحب نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

انابیہ نے دونوں کو سلام کیا

"جی انکل میں ہی ہوں "

"کیسی ہو بچہ اور گھر میں سب کیسے ہیں" نرمین بیگم نے اسے دیکھتے ہوے پیار سے کہا

"میں بلکل ٹھیک آنٹی اور گھر میں بھی سب بلکل ٹھیک ہیں بلکہ امی اور میں تو آپ کو بہت یاد کررہے تھیں لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ آپ سے آج ہی ملاقات ہوجاے گی "

"آپ لوگ بیہ کو جانتے ہیں" حوریہ نے حیرت سے اپنے ماں باپ جو دیکھتے ہوے پوچھا 

"ہاں بیٹا انابیہ جوب کا انٹرویو دینے کے لیے تمہارے ڈیڈ نے آفس میں آئی تھی جب انہیں پتا چلا انابیہ انکے بچپن کے دوست کی بیٹی ہے" 

"کیا واقعی ،مطلب تم ڈیڈ کے آفس میں جوب کرتی ہو" حوریہ چہکتے ہوے انابیہ کے گلے لگ گئی 

"اتفاق سے--" انابیہ نے مسکراتے ہوے کہا جب حوریہ کو انابیہ کے الفاظ یاد آے مطلب انابیہ جسے جلاد کہتی تھی

 اور حوریہ بھی اسکے ساتھ مل کر اسکی برائی کرتی تھی وہ اور کوئی نہیں اسکا اپنا بھائی تھا یہ باتیں سوچ کر اسے ہنسی آرہی تھی 

❤❤❤❤

عائشہ سامنے ٹیبل پر رکھی ہر چیز کو دیکھ رہی تھی کہ ایسا کیا بچا ہے جو اسنے ابھی تک نہیں کھایا جب اس کی نظر چکن برگر پر گئی جو کہ آخری تھا عائشہ مسکراتی ہوئی اسے اٹھانے لگی جب دوسرا ہاتھ بھی اسی چکن برگر پر گیا 

عائشہ نے غصے سے گھور کر اس شخص دیکھا جب اسے دیکھ کر حیرت سے اسکی منہ کھل گیا 

"تم" دونوں نے بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوے کہا 

"اوے تم یہاں کیا کررہی ہو" ہادی نے اپنی آئبر اچکا کر اسے دیکھا 

"یہی اگر میں تم سے پوچھوں تو "

"مس عورت یہ میرا گھر ہے" ہادی نے فرضی کالر جھاڑتے ہوے کہا 

"ہیں تو تم ہو حور کے بھائی وہ تو اپنے بھای کی اتنی تعریف کرتی تھی لیکن مجھے نہیں پتہ تھا اسکا بھائی ایک لوفر نکلے گا "

"ہی-ہی-ہی وہ شہرام بھائی کی تعریف کرتی ہوگی کیونکہ مجھے پتا ہے میں تعریف کے لایق ہی نہیں ہوں "ہادی نے کہتے ہوے اپنی بتیسی دکھائی جیسے اسنے بہت فخر کا کام کیا ہو 

"خیر تم حوصلہ کوئی بھی ہو یہ برگر میرا ہے چھووڑو اسے" عائشہ نے برگر کی طرح دیکھتے ہوے کہا جو آدھا عائشہ کے ہاتھ میں اور آدھا حصہ ہادی کے ہاتھ میں تھا 

"ایسے کیسے تمہارا ہے پہلے ہاتھ میں نے لگایا تھا" ہادی نے اسے گھورتے ہوے کہا

"لیکن دیکھا پہلے میں نے تھا نظر پہلے میری پڑی تھی" 

"دیکھو مس عورت چھوڑدو" 

"تو مسٹر تم ایسے نہیں بات مانو گے" عائشہ نے کہتے ہوے دور کھڑی حوریہ کو دیکھا اور اسے آواز دے کر اپنے پاس بلایا 

"کیا ہوا ہے" حوریہ نے دونوں کو دیکھتے ہوے کہا 

"یار حور یہ آدمی میرا برگر نہیں چھوڑ رہا" عائشہ نے معصومیت سے اپنی برگر دیکھتے ہوے کہا جو ابھی بھی آدھا آدھا دونوں کے ہاتھ میں تھا 

"ارے حور یہ برگر پہلے میں نے لیا تھا" ہادی نے بھی اسے دیکھ کر معصومیت سے کہا 

"بھائی وہ پہلی بار گھر آئی ہے پلیز اسے دے دیجیے" 

حوریہ کے کہنے ہر ہادی نے منہ بنا کر اس برگر سے اپنا ہاتھ ہٹالیا 

کسی کے بلانے پر حوریہ وہاں سے چلی گئی اور عائشہ مزے سے وہ برگر کھانے لگی اور ہادی اسے دیکھنے لگا لیکن پہلے نوالے پر ہی وہ ٹیڑھی میڑھی شکلیں بنانے لگی کیونکہ اس برگر میں چیز  موجود تھا عائشہ دنیا کی ہر چیز آرام سے کھاسکتی تھی لیکن چیز نہیں ! 

"کیا ہوا" ہادی نے حیرت سے اسکے تاثرات دیکھے

"نظر لگ گئی تمہاری نہیں کھا رہی میں" عائشہ غصے سے کہتی ہوئی وہ برگر واپس رکھ وہاں سے چلی گئی ہادی نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر مسکراتے ہوے وہ برگر اٹھا کر اس سائڈ سے کھالیا جہاں سے عائشہ نے کھایا تھا اور وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤ 

انابیہ جو کولڈرنگ لے کر جارہی تھی سامنے آتے وجود سے زوردار ٹکر ہوئی اور ساری کولڈرنگ اسکے شخص کے نئے کپڑوں پر گر کر انہیں داغدار کرچکی تھی 

انابیہ نے اپنی غلطی پر شرمندہ ہوتے ہوے سامنے کھڑے شخص کی طرف دیکھا 

جہاں شہرام اسے غصے سے دیکھ رہا تھا اور انابیہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی یہ بات اسنے پہلے کیوں نہیں سوچی کہ اگر حوریہ کے ڈیڈ اسد انکل تھے تو مطلب شہرام بھی تو حوریہ کا بھائی ہی ہوا 

"تم یہاں کیا کررہی ہو" شہرام نے گراتے ہوے کہا 

"سوری" انابیہ نے آہستہ سے کہا وہ اس بھری محفل میں اپنا تماشہ نہیں لگانا چاہتی تھی 

شہرام نے اسکے دونوں بازوؤں ور سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور بنا لوگوں کی پروا کیے چیختے ہوے کہنے لگا 

"میں نے تم جیسی لڑکی آج تک نہیں دیکھی اتنا کچھ سننے کے بعد بھی تم یہاں میرے گھر میں کھڑی ہو غیرت نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں" شہرام کے اتنی زور سے پکڑنے پر اسکے بازوؤں سے خون نکلنا شروع ہوچکا تھا اور وہ درد کی وجہ سے کچھ بول بھی نہیں پارہی تھی 

شہرام نے حیرت سے دیکھا جہاں انابیہ کے کپڑوں پر اب خون لگ رہا تھا 

"بھائی کیا کررہے ہیں آپ چھوڑیں اسے" حوریہ نے آگے بڑھ کر اسے شہرام سے دور کیا 

"کیا کہے جارہے ہیں وہ میری دوست ہے میرے بلانے پر یہاں آئی ہے" حوریہ نے غصے سے اسے دیکھتے ہوے کہا جب پیچھے دھم کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں انابیہ زمین پر گری بےہوش ہوچکی تھی 

"ہادی اسے فورا ہاسپتال لے کر چلو"  اماں بی کے کہنے پر ہادی نے فورا اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چل دیا عائشہ اور حوریہ بھی بھاگتے ہوے اسکے پیچھے گئی جب شہرام نے حوریہ کا ہاتھ تھام لیا 

"حور تم کہیں نہیں جاؤ گی اور اب تم اس لڑکی سے دوستی بھی نہیں رکھو گی" شہرام نے اسے دیکھتے ہوے غصے سے کہا 

"بھائی کل تک تو یہ لڑکی آپ کو بہت اچھی لگتی تھی جس سے ملے بغیر ہی آپ اسکی اتنی تعریف کرتے تھے" حوریہ کی بات پر شہرام نے حیرت سے اسے دیکھا 

"ہاں انابیہ ہی وہ لڑکی تھی جس نے میری جان بچائی آج اگر میں سہی سلامت آپ کے سامنے کھڑی ہوں تو وہ بیہ ہی کی وجہ سے اور آپ نے اسکے ساتھ کیا می-میں مجھے بس کچھ نہیں کہنا" حوریہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر کی طرف بھاگ گئی

جبکہ اب سب کی نظریں شہرام پر تھیں سب اسے افسوس سے دیکھ رہے تھے کسی کو بھی اُس سے اس طرح کی امید نہیں تھی وہ سب سے نظریں چراتے تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا 

❤❤❤❤

"کیا مسلہ ہے" دروازہ باربار نوک ہونے پر اسنے چلاتے ہوے کہا

جب اسد صاحب کمرے میں داخل ہوے انہیں دیکھ کر اسے اپنے لہجے پر شرمندگی ہوئی لیکن وہ بنا کچھ بولے اس کے سامنے آکر بیٹھ گئے 

"کیا بات ہوسکتی ہے شہرام"

"ڈیڈ کیسی بات کررہے ہیں آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لیے اجازت کی کیا ضرورت" 

"مجھے تم سے انابیہ کے بارے میں بات کرنی ہے "

"ڈیڈ" شہرام کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا 

"پہلے میری پوری بات سنو پھر جو چاہے وہ کہنا" اسد صاحب نے اسے دیکھ کر اپنی بات شروع کی  

"انابیہ کے والد کا نام احمد ہے میرے بہت سے دوست ہیں لیکن احمد جیسا کوئی نہیں اسنے میرے ہر برے اچھے وقت میں میرا ساتھ دیا ہے ہم بچپن کے دوست ہیں لیکن پھر میرا اس سے رابطہ ختم ہوگیا جب میں باہر چلا گیا تھا اور جب واپس آیا تو وہ اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور جاچکا تھا اور پھر ایک دن ایک لڑکی میرے آفس آکر کہتی ہے کہ اس کے والد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ معذور ہوچکے ہیں اسے جوب کی ضرورت ہے اور پھر مجھے پتا چلتا ہے کہ وہ تو میرے اس دوست کی بیٹی ہے اور میں نے اس جوب پر رکھ لیا لیکن ضرورت کے باوجود وہ یہ جوب نہیں لے رہی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ کوئی اور اس سے بہتر یہ کام کرسکتا ہے تو اس وجہ سے میں نے اسے صرف ایک مہینہ اس جوب کے لیے رکھا اور اگر وہ اپنے کام میں اچھی رہی تو ہم اسے مستقل طور پر رکھ لینگے اور تم بھی یہ جانتے کہ وہ اپنا اتنے اچھے طریقے سے کررہی ہے کہ اگر کوئی اس جوب کہ لائق بھی ہوتا تو وہ بھی شاید اتنی محنت سے کبھی کام نہیں کرتا" وہ کہہ رہے تھے اور شہرام بس انہیں سن رہے تھا" مجھے حاشر نے بتایا کہ تمہاری وجہ سے آفس میں کسی لڑکی کو چوٹ لگی ہے لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ وہ لڑکی انابیہ ہی ہے حور نے بتایا کہ اسکا ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے اسے یہ چوٹ لگی لیکن حاشر نے بتایا کہ اسے یہ چوٹ تمہاری وجہ سے لگی ہے اور اسنے اپنے باپ اور گھر میں کسی کو یہ بات نہیں بتائی اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری دوستی میں کوی خرابی نہ آجاے میں نے اسے بیٹی کہا تھا  اور آج مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے وہ رشتوں کو نبھانا جانتی ہے لیکن تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے بہت مایوس" اسد صاحب نے اپنی بات کہہ کر اسے چند لمحے تک دیکھا شاید وہ کچھ کہہ دے لیکن وہ نظریں جھکائیں بیٹھا تھا اسکے کچھ نہ کہنے پر وہ اٹھ کر اسکے کمرے سے چلے گے

❤❤❤❤ 

شہرام کمرے میں داخل ہوکر حوریہ کے پاس بیٹھ گیا جو اسکے بیٹھتے ہی اپنے چہرے کا رخ پھیر چکی تھی 

"ناراض ہو" 

"بھائی آپ نے ٹھیک نہیں کیا آپ کو نہیں پتا مجھے بیہ کے سامنے کتنی شرمندگی ہورہی تھی" 

"تم نے کہا تھا کہ انابیہ وہ لڑکی ہے جس نے تمہیں اس دن بچایا تھا" 

"جی بھائی بیہ ہی وہ لڑکی ہے" 

➖➖➖➖➖➖➖➖

"کوئی ہے پلیز کوئی ایمبولینس بلاؤ" انابیہ نے چلاتے ہوے کہا جب لوگ ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے ان میں سے کسی نے ایمبولینس کو فون کیا تھا انابیہ نے اپنے دوپٹہ حوریہ کے سر پر رکھ کر اسکا خون روکنے کی کوشش کی اتنے میں ایمبولینس وہاں پر آچکی تھی حوریہ کو ایمبولینس میں ڈال کر انابیہ بھی اسکے ساتھ وہیں بیٹھ گئی 

ہاسپٹل میں داخل ہوکر اسے فورا آئی-سی-یو میں لے گئے اور انابیہ پریشانی سے باہر کھڑی رہی وہ تو اس لڑکی کو جانتی بھی نہیں تھی اس کے گھر والوں سے رابطہ کیسے کرے گی 

جب نرس اسکے پاس آئی 

"پیشنٹ کے ساتھ آپ ہیں" 

"جی میں ہی ہوں اب وہ لڑکی کیسی ہے" 

"ان کا بلڈ کافی ضایع ہوچکا ہے انہیں بلڈ کی ضرورت ہے"

"ٹھیک ہے تو آپ میرا بلڈ لے لیجیے" نرس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انابیہ نے اپنی بات کہہ دی اور پھر نرس کے ساتھ اسکے پیچھے چلی گئی

➖➖➖➖➖➖➖➖

"اب آپ کی طبیعت کیسی ہے" انابیہ نے بیڈ پر لیٹی حوریہ سے پوچھا 

"اب میں بلکل ٹھیک ہوں اور آپ کا بہت بہت شکریہ میری اتنی مدد کرنے لیے "

"میں نے کوئی احسان نہیں کیا" انابیہ نے مسکراتے ہوے کہا 

"لیکن پھر بھی آج کل کون کسی کی اتنی مدد کرتا ہے اور آپ نے مجھے اپنا بلڈ بھی دیا"

"یہ بات آپ کو کیسے پتا "انابیہ کے حیرت سے کہنے پر حوریہ نے مسکرا کر اسے دیکھا 

"نرس نے بتایا خیر آپ کا نام کیا ہے" 

"انابیہ اور آپ کا "

"حوریہ" 

"نائس نیم، اچھا آپ مجھے کسی فیملی میمبر کا نمبر دے دیجیے تاکہ میں کسی کو یہاں بلا لوں" 

"میرا موبائل"

"میں نے آپکا موبائل نہیں دیکھا ہوسکتا ہے وہ اس جگہ پر گر گیا ہو" انابیہ کے کہنے پر اسنے اپنے سر اثبات میں ہلایا اور اسے ہادی کا نمبر بتادیا جو کہ وہ اٹھ ہی نہیں رہا تھا کافی دیر نہ اٹھانے ہر اس نے انابیہ کو حدید کا نمبر بتادیا اسے گھر کے افراد میں صرف انہی کے نمبر یاد تھے 

انابیہ نے اسے فون کرکے حوریہ کی حالت آگاہ کیا جب کچھ دیر حدید پریشانی کے عالم میں ہاسپٹل میں داخل ہوا انابیہ اسے روم نمبر پہلے ہی پتا تھی 

"کیا ہوا ہے تمہیں کیسے ہوا یہ" حدید اسکا نازک سا چہرہ تھام کر پریشان سے پوچھنے لگا 

"حدید میں ٹھیک ہوں" حوریہ نے اسکے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوے کہا جب حدید نے اسکے ماتھے پر اپنےلب رکھ دیے اور اس سے پہلے وہ کچھ اور کرتے انابیہ نے پیچھے سے اپنی گلا کھنکھار کر دونوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا حدید نے چونک کر پیچھے کی طرح مڑا جہاں انابیہ نظریں جھکاے کھڑی تھی 

"حدید یہ انابیہ ہیں یہی مجھے ہاسپٹل لے کر آئیں تھیں "

"آپ کا بہت بہت شکریہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں آپ "

"پلیز" حدید کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انابیہ نے اسکی بات کاٹ دی "میں نے کوئی احسان نہیں کیا اگر شکر ادا کرنا ہے تو اس رب کا کیجیے جس نے مجھے وہاں پر بھیجا اور اب میں چلتی ہوں آپ ان کا خیال رکھیے گا" انابیہ نے ایک مسکراتی نظر حوریہ پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئی اسکے جانے کے تھوڑی دیر بعد حدید گھر والوں کو اطلاع دے چکا تھا لیکن سب کو آنے سے منع کردیا تھا کیونکہ کچھ گھنٹے بعد حوریہ ڈسچارج ہونے والی تھی لیکن پھر بھی سب گھر والے وہاں آچکے تھے اور اپنے رب کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے جس نے انکی بیٹی کی جان بچائی اور شہرام بھی ان کے ساتھ ساتھ انابیہ کی تعریف کرنے میں مصروف تھا کیونکہ اس لڑکی نے اسکی لاڈلی بہن کی جان جو بچاہی تھی 

اور پھر دن اسی طرح گر گئے جب چند ماہ بعد حوریہ کی ملاقات اپنی یونیورسٹی میں انابیہ سے ہوئی اور وہیں سے انکی دوستی کی شروعات ہوئی 

➖➖➖➖➖➖➖➖

"آپ نے بہت غلط کیا بھائی" 

"میں ،میں اس سے معذرت کرلونگا بس تم مجھ سے ناراض مت ہونا" شہرام اٹھ کر اسکا سر اپنے سینے سے لگالیا 

"نہیں ہوتی میں اپنے بھائی سے ناراض" حوریہ نے مسکراکر اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

شہرام اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر اسکے کمرے سے چلاگیا لیکن سوچوں کا مرکز صرف انابیہ تھی 

❤❤❤❤

 باقر صاحب اپنے کہنے کے لیے الفاظ تلاش کررہے تھے اور ماجدہ بیگم اپنے بھائی کے برابر بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں آخر اتنے سالوں بعد اپنے بھائی سے مل رہی تھی جب باقر صاحب نے اپنی بات کہنا شروع کی 

"میں اپنے بیٹے کے لیے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگنے آیا ہوں" باقر صاحب کے کہنے پر احمد صاحب نے حیرت سے انہیں دیکھا 

"انابیہ کے لیے؛" 

"نہیں تمہاری چھوٹی بیٹی نور" باقر صاحب کے کہنے پر احمد صاحب اور راشدہ بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا

"دراصل نور کی منگنی ہوچکی ہے" احمد صاحب کے کہنے پر باقر صاحب نے پریشانی سے انہیں دیکھا 

❤❤❤❤

 "دراصل نور کی منگنی ہوچکی ہے" احمد صاحب کے کہنے پر باقر صاحب نے پریشانی سے انہیں دیکھا 

"منگنی ہوئی ہے نکاح تھوڑی ہوا ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا" باقر صاحب نے سنجیدگی سے انہیں دیکھتے ہوے کہا 

"لیکن میرے لیے یہ رشتہ بہت اہمیت رکھتا ہے" 

"احمد تمہاری بیٹی میرے گھر میں بہت خوش رہے گی اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی تبریز اسکے کہنے سے پہلے ہی ہر چیز اسکے قدموں میں رکھ دے گا" 

"جانتا ہوں باقر لیکن میں پھر بھی اس رشتے پر اعتراض ہی کرونگا "

"ایسے کون سے خاندان سے رشتہ جوڑ چکے ہو تم اپنی بیٹی کا جو رشتہ ختم ہی نہیں کرسکتے" باقر صاحب کے غصے سے کہنے پر احمد صاحب نے گہرا سانس لیا 

"عبیر ،میں نے اپنی نور اور عبیر کا رشتہ طے کیا ہے جو میری بہن کا بیٹا ہے، عبیر نور کا بیٹا ہے" احمد صاحب کے کہنے پر ماجدہ اور باقر دونوں ہی سکتے میں جاچکے تھے 

باقر صاحب بنا کچھ کہے اپنی بیگم کو باہر آنے کا بول کر باہر چلے گئے

"بھائی پلیز ایک بار اس بارے میں ضرور سوچیے گا تبریز تو شادی سے دور بھاگتا تھا لیکن اسنے خود نور کے لیے یہ رشتہ بھجوایا تھا پلیز" ماجدہ بیگم اپنی بات کہہ کر تیزی سے باہر کی طرف نکل گئیں 

❤❤❤❤

اسکا آج آفس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا دل ہر چیز سے اُچاٹ ہورہا تھا کافی دیر سوچنے کے بعد اٹھ کر تیار ہونے لگا اور پھر اپنی کار کیز اٹھا کر باہر کی طرف چلا گیا

سب کو یہی لگا تھا کہ آج وہ آفس نہیں آے گا اسلیے سب اپنی مستی میں مگن ہنسی مذاق کررہے تھے لیکن وہ جس جس راہ سے گزر رہا تھا ہر کوئی اسے دیکھ کر فورا اپنی جگہ پر سیدھا ہوکر بیٹھ جاتا 

وہ اپنے آفس روم کی طرف بڑھ رہا تھا جب باتوں کی آواز پر اپنا رخ اس طرح کیا 

اسے کسی کی باتیں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن آفس ٹائم میں باتیں کرنا اسے پسند نہیں تھا اور دوسرا باتیں اسی کے بارے میں کی جارہی تھی

"یہ تو شہرام سر کی یو-ایس-بی ہے اس دن انابیہ نے بتایا تھا تمہارے پاس کیا کررہی ہے" مرینہ نے حیرت سے شاہدہ کے ہاتھ میں موجود یو-ایس-بی کو دیکھتے ہوے کہا  

"ہاں یہ سر شہرام نے ہی انابیہ کو دی تھی لیکن وہ بیچاری اپنی باتوں کے چکر میں گرا چکی تھی اور پھر میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور یو-ایس-بی بدل دی مگر اس یو-ایس-بی میں جو تھا نہ تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی ہو ہاہاہا مجھے تو بس اس وقت انابیہ کا چہرہ دیکھنا تھا اور مجھے تو یہ بھی پتا چلا کہ سر شہرام نے اسکی اتنی انسلٹ کی تھی بیچاری" شاہدہ ہنستے ہوے اپنی بات کہہ رہی تھی اس بات سے انجان کے پیچھے کھڑا شہرام اسکی ساری بات سن رہا ہے مرینہ بھی اسکی حرکت پر مزے سے ہنسنے لگی

"وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم نے ایسا کیا کیوں "مرینہ نے حیرت سے پوچھا 

"تمہیں نہیں پتا سر اسد نے اسے سر پر چھڑایا ہوا تھا مجھ سے کہتی کہ تم اپنے کام ٹھیک سے نہیں کرتی ہو بھئی میرا کام ہے میری مرضی میں جیسے بھی کروں اور اسکی وجہ سے دو بار سر اسد مجھے نوکری سے نکالنے کی دھمکی بھی دے چکے تھے میں بھی موقع تلاش کررہی تھی اور اس دن مجھے وہ موقع مل گیا میں خود حیران تھی اپنی ایکٹنگ دیکھ کر میں نے کہا یہ لو انابیہ یہ تمہاری ہے کیا ہاہا تمہیں بس دیکھنا چاہیے تھا کہ میری کیا ایکٹینگ تھی" 

"بہت زبردست تھی" شہرام جو اتنی دیر سے اسکی بکواس سن رہا تھا اب برداشت ختم ہوتے ہی اسکے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا اسکی آواز سن کر شاہدہ کرنٹ کھا کر اپنی سیٹ سے اٹھی 

"سر و-وہ "

"بہت ہی کمال کی ایکٹنگ تھی تمہیں اسکا انعام تو ملنا چاہیے" شہرام نے کہتے ہوے عمارہ کو آواز دی جو اسکے آواز دیتے ہی وہاں پر حاضر ہوگئی 

"جی سر "

"پولیس کو فون کرو اور کہو یہ دونو آفس میں چوری کرتے ہوے پکڑی گئی ہیں "

"جی سر" عمارہ نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ اسکی بات سن کر مرینہ اور شاہدہ کا رنگ سفید ہوچکا تھا 

"سر میں تو کچھ بھی نہیں کیا یہ سب تو شاہدہ نے کیا تھا" مرینہ تیزی سے آگے بڑھی کہ شاید اسکی بات سن کر شہرام اسے چھوڑ دے 

"یہ دونوں کہیں نہیں جانی چاہییں عمارہ پولیس کو فون کرو" شہرام کہتے ہوے بنا ان دونوں کی کوئی بات سنے بنا وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

اسے اپنے آپ پر شدید غصہ آرہا تھا انابیہ کے ساتھ کیے رویے کو یاد کرکے 

جب اقبال نے آکر اسے بتایا اس سے ملنے رحمن گردیزی آے ہیں پہلے تو شہرام حیران ہوا لیکن پھر انہیں اندر بلانے کے لیے کہا

"ہیلو مسٹر گردیزی" شہرام نے اپنی جگہ کھڑے ہوکر ان سے مصافحہ کیا اور انہیں بیٹھنے کے لیے کہا 

"اس دن کے لیے معذرت چاہتا ہوں آپ سے دراصل،،" 

"شہرام مجھے بہزاد نے بتایا کہ اس دن جو بھی ہوا وہ سب صرف ایک غلطی کی وجہ سے ہوا اور میں اپنے رویے پر شرمندہ ہوں لیکن میں آج پھر سے تم سے ہاتھ ملانے آیا ہوں" رحمن گردیزی نے اسکی بات کاٹ کر اپنی بات کہی شہرام نے حیران نظروں سے ان کی طرف دیکھا 

"سوری بہزاد کون" 

"میں ہوں بہزاد" شہرام کے کہتے ہوے گرے پینٹ کوٹ میں ملبوس خوبرو سا بہزاد اندر داخل ہوا شہرام اسے دیکھ کر ہی پہچان چکا تھا وہ وہی لڑکا تھا جو اس دن انابیہ کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررہا تھا 

"میں انابیہ کا بھائی ہوں"

"لیکن میرے خیال سے مس انابیہ کا تو کوئی بھائی نہیں ہے" 

"سگا نہیں، لیکن کوئی مانے یا نہ مانے مجھے فرق نہیں پڑتا انابیہ میری بہن ہے اور میں اسکا بھائی ہمارے لیے یہی کافی ہے" 

 بہزاد کے کہنے پر شہرام کا دل کیا خود کو جان سے ماردے وہ دونوں بہن بھائی تھے اور وہ انہیں کس نظر سے دیکھ رہا تھا 

"انابیہ تم تو مجھے ہر گزرتے پل کے ساتھ مزید شرمندہ کرتی جارہی ہو" شہرام خود سے بڑبڑاتے ہوے کہنے لگا 

❤❤❤❤

"ہاں انہوں نے ہاں کردی ہے" باقر صاحب نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو شاید ہی زندگی میں کبھی اتنا خوش ہوا ہوگا 

"آپ سچ کہہ رہے ہیں"

"ہاں"

"ٹھیک ہے میں چاہتا ہوں بس اب جلد سے جلد وہ میری ہوجاے "

"تبریز تم پہلے ترکی جاؤ گے اسکے بعد جب تم واپس آؤ گے تو ہم فورا ہی تمہاری شادی کی تیاری شروع کرینگے لیکن میں چاہتا ہوں پہلے تم اس کام پر توجہ دو چند ہفتوں کی تو بات ہے" باقر صاحب کے کہنے پر اسنے گہرا سانس لیا اور پھر مسکراتے ہوے انکے گلے لگ کر وہاں سے چلا گیا 

"باقر آپ نے اس سے جھوٹ کیوں کہا؟---"ا ماجدہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر سے پوچھا

"تو کیا کرتا ماجدہ اسے بتادیتا کہ اس لڑکی کی منگنی ہو چکی ہے اور، اور وہ بھی اس عورت کے بیٹے سے پتہ نہیں تبریز کیا کرتا اور وہ بچی تو اتنی معصوم ہے"

"لیکن آپ بھی جانتے ہیں اگر اسے سچ پتا چل گیا تو وہ کیا کرے گا" 

"ماجدہ احمد ویسے بھی جلد ہی اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے والا ہے اسنے کہا ہے میں تبریز کو ترکی بھیجونگا اور اسے جان بوجھ کر وہاں کے کاموں میں الجھا دونگا ویسے بھی وہ انابیہ کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں اگر کچھ وقت تک دیکھنے کے بعد بھی اس کے لیے رشتہ نہ آیا تو وہ بس نور کی شادی اس لڑکے سے کردینگے اور اگر ایک بار نور اس لڑکے کے نکاح میں آگئی تو تبریز کچھ نہیں کرسکتا" 

"لیکن باقر--------" 

"لیکن کچھ نہیں ماجدہ احمد یہ رشتہ ختم نہیں کرے گا اور تبریز یہ رشتہ ہونے نہیں دے گا چاہے زبردستی کرکے لیکن تبریز اس لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرے گا اور تم بھی جانتی ہو وہ غصے کا کتنا تیز ہے اور وہ لڑکی بہت معصوم سی ہے بس اس بات کو یہیں چھوڑ دو میں کمرے میں جارہا ہوں" باقر صاحب کہتے ہوے اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے اور ماجدہ بیگم اس راستے کو دیکھتی رہیں جہاں سے وہ گئے تھے 

❤❤❤❤

"انابیہ بیٹا فون بج رہا ہے تم اٹھا کیوں نہیں رہی ہو "کافی دیر فون بجنے پر بھی انابیہ نے نہ اٹھایا تو راشدہ بیگم نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"امی عاشی کا فون ہے "

"تو اٹھا کیوں نہیں رہی ہو" 

"وہ پھر کہے گی کے شادی میں آؤ ورنہ میں بات نہیں کرونگی" انابیہ نے بےزار سے لہجے می کہا 

"بری بات ہے انابیہ جب کوئی ہمیں عزت دے تو نخرے نہیں دکھانے چاہیے بہزاد کو بھی برا لگے گا ویسے تو ہر وقت تم بھائی بھائی کرتی رہتی ہو اب جب بھائی کی شادی ہے تو تم جا نہیں رہی ہو چلو مایوں اور برات میں تو عائشہ نے اسلیے اسرار نہیں کی کیونکہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن اب تو اللہ کا شکر ہے کافی بہتر ہو تو چلی جاؤ شاباش میں بھی چلتی لیکن تمہارے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور ہانیہ اور نور کے پیپر چل رہے ہیں " راشدہ بیگم کے کہنے پر وہ بھی سوچتے ہوے اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے میں تیار ہونے کے لیے چلی گئی

❤❤❤❤

 

پانچ دن ہوچکے تھے اس واقعے کو اور شہرام اپنا دیھان بٹانے کی پوری کوشش کررہا تھا لیکن دل تھا جو صرف انابیہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا 

آج بہزاد کا ریسیپشن تھا جس میں اسے جانا تھا ویسے تو انوائٹ پوری فیملی تھی لیکن جا صرف وہ تینوں ہی رہے تھے شہرام کو پزنس پارٹنر کی وجہ سے خاص طور پر انوائٹ کیا تھا اور حوریہ کو بھی جانا تھا کیونکہ عائشہ اسکا دماغ کھا چکی تھی اور ہادی صرف اپنے مزے کے لیے جارہا تھا

شہرام تیار ہوکر ایک نظر اپنی پوری تیاری پر ڈال کر اپنی کیز اٹھاتا باہر نکل گیا اسے انابیہ کے گھر جانا تھا تاکہ بےچین دل کو تھوڑا قرار مل سکے ہادی اور حوریہ دوسری گاڑی میں گئے تھے 

شہرام نے راستے سے ایک بڑا سا پھولوں کا بوکے خریدا اور مسکراتے ہوے گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھادی

❤❤❤❤ 

ڈور بیل بجانے پر خاتون نے دروازہ کھولا شہرام نے انہیں دیکھ کر سلام کیا اور اپنا تعارف کرایا اسکے تعارف کرنے پر وہ خوشی سے اسے اندر کی طرف لے کر چلی گئیں 

"آؤ بیٹا مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ماشاءاللہ کتنے بڑے ہوگئے ہو "راشدہ بیگم خوشی سے کہتی ہوئے اسے ایک کمرے میں لا کر بیٹھا دیا اور اسے بیٹها کر خود باہر کی طرف چلی گئیں اسکی خاطر مدارت کرنے کے لیے کچھ دیر انتظار کے بعد شہرام بھی اس کمرے سے نکل کر باہر کی طرف آیا جہاں اسکی نظر پانی پیتی لڑکی پر پڑی وہ وہی لڑکی تھی جس پر اسنے مال میں غصہ کیا تھا اسے ایک بار پھر اپنے رویے پر شرمندگی ہوئی 

نور کی نظر اس پر پڑی اس نے حیرت سے شہرام کو دیکھا جب راشدہ بیگم وہاں پر آئیں 

"ارے بیٹا تم یہاں کیوں کھڑے ہو بیٹھ جاؤ "

"نہیں آنٹی میں تو بس انابیہ کی طبیعت پوچھنے آیا تھا" شہرام نے کہتے ہوے ایک نظر نور کو دیکھا 

"یہ میری چھوٹی بیٹی ہے نور احمد صاحب ڈاکٹر کے گئے ہوے ہیں بس آنے والے ہونگے "

"نہیں دراصل میں زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا مجھے شادی میں جانا ہے آپ بس مس انابیہ کو بلا دیجیے میں تو ان سے ہی ملنے آیا تھا---" شہرام نے کہتے ہوے نظریں جھکائیں کھڑی نور کو دیکھا یقینا اسنے اُسے نہیں پہچانا تھا کیونکہ جب اسکی مال میں اس لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی تو مسلسل اسکی نظریں نیچے کی طرف جھکی ہوئی تھیں شہرام نے آگے بڑھ کر وہ پھولوں کا بوکے نور کی طرح بڑھایا 

"یہ تمہارے لیے لٹل سسٹر" شہرام کے کہنے پر نور حیرت سے اسے اور پھر اسکے پیچھے کھڑی اپنی ماں کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکراتے ہوے اپنا سر ہاں میں ہلارہی تھی نور نے جھجکھتے ہوے وہ بوکے تھام لیا اور مسکراکر اسے دیکھنے لگی اسکی مسکراہٹ بھی معصوم سی بچوں کی طرح تھی شہرام نے مسکراتے ہوے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا 

اور پیچھے مڑ کر راشدہ بیگم کی طرف دیکھا لیکن نظریں سڑھیوں سے اترتی انابیہ پر جم گئیں 

جس نے وائٹ کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی بالوں کو کھلا چھوڑے نیچے سے ہلکے سے کرلز کیے ہوے تھے اور لاٹ سا میک اپ کیا ہوا تھا وہ نظریں جھکائیں آہستہ آہستہ اپنی میکسی سمبھالتی ہوئی سیڑھیاں اتررہی تھی اور شہرام تو جیسے پلکے چھپکانا تک بھول چکا تھا جب نیچے اترتے ہی اسکی نگاہ سامنے کھڑے شہرام پر پڑی جو اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا

انابیہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

"انابیہ شہرام تمہاری خیریت پوچھنے آیا تھا بیٹا"راشدہ بیگم نے انابیہ کو دیکھتے ہوے کہا اسنے گھر میں کسی کو بھی شہرام کا رویہ اور حرکت نہیں بتائی تھی وہ نہیں چاہتی تھی اتنے سالوں بعد ملے دوستو میں کوئی بدمزگی ہو اسلیے اپنے گھر والوں کے سامنے اسے ناچاہتے ہوے بھی شہرام سے بات کرنی پڑی لیکن اسے حیرت اس بات پر تھی کہ وہ یہاں آیا کیوں تھا 

"اب کیسی طبیعت ہے تمہاری؟؟" شہرام نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوے کہا 

"اب ٹھیک ہوں" انابیہ نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا 

"کیا کہیں جارہی ہو" شہرام نے حیرت سے اسکی تیاری دیکھتے ہوے کہا 

"ہاں وہ انابیہ کے دوست کے بھائی کی شادی ہے وہیں جارہی ہے" جواب راشدہ بیگم نے دیا 

"اچھا تو بہزاد کے ریسیپشن پر جارہی ہو اگر آنٹی آپ کو برا نہ لگے تو یہ میرے ساتھ بھی چل سکتی ہیں میں بھی وہیں جارہا ہوں" 

"نہیں میں ،میں خود چلی جاؤنگی "راشدہ بیگم کے کہنے سے پہلے ہی انابیہ نے اسے دیکھتے ہوے کہا لیکن اسکے کافی اسرار پر راشدہ بیگم نے ہامی بھر لی

"بیٹا چلی جاؤ اس طرح میں بھی بےفکر ہوجاؤنگی" راشدہ بیگم کے کہنے پر انابیہ نے غصہ ضبط کرکے اپنا سر ہلایا اور پھر شہرام کے پیچھے چلی گئی

❤❤❤❤

گاڑی میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی

شہرام ایک نظر اسے دیکھتا اور پھر واپس اپنی نظریں راستے کی جانب موڑ لیتا اور دوسری طرف انابیہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس وقت اکیلی موجود ہے اسے اس دوسرے شخص کے ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا 

وہ اس سے بات کرنے کے لیے الفاظ تلاش کررہا تھا اسے بس کسی بھی طرح انابیہ سے بات کرنی تھی 

"سونگ سنوگی" شہرام نے اپنا گلا کھنکھارتے ہوے کہا لیکن دوسری جانب مکمل خاموشی تھی شہرام نے گہرا سانس بھرا اور گاڑی میں لگے پلئیر کو آن کردیا 

"Baby i can see the sunrise in your eyes "

"Baby every time a thing of you ,you make me smile "

"Baby i'll be your dream and you should know "

"Baby i never ever wanna let you go "

"Baby "

"زندگی کی نیندوں کی صبح عشق ہے "

"بڑی خوبصورت سی سزا عشق ہے "

"ہم کو پیار ہوا ، پوری ہوئی دعا "

"ہم کو پیار ہوا ، پوری ہوئی دعا "

شہرام کو ایسا لگ رہا تھا کہ گانے کے بول اسکے دل کی بات کہہ رہے ہیں وہ مسکراتے ہوے سن رہا تھا جب انابیہ نے پلئیر بند کردیا شہرام نے حیرت سے اسے دیکھا 

"میرے سر میں درد ہے" انابیہ نے اسکے دیکھنے پر وضاحت دی 

" سوری" شہرام نے اسے دیکھتے ہوے کہا جب گاڑی انکی منزل پر رک گئی اور انابیہ بنا اسکی طرح دیکھے گاڑی سے اتر کر اندر چلی گئی 

 "سوری انابیہ ہر چیز کے لیے" اسکے جانے کے بعد شہرام نے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا 

❤❤❤❤

"ربا نے تجھ کو بنانے میں کردی ہے حسن کی خالی تجوریاں" ہادی دور کھڑی عائشہ کو دیکھ کر گنگنانے لگا جو بلیک کلر کا گراگرا پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے بہت پیاری لگ رہی تھی 

ہادی چلتا ہوا اسکے قریب آگیا اور اسکی پشت پر پھیلے اسکے بالوں کو دیکھنے لگا 

"ہیلو مس عورت" اپنے کان کے پاس کسی کے چلانے پر عائشہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا جہاں ہادی اپنی بتیسی نکالے کھڑا تھا 

"تم یہاں کیا کررہے ہو ؟"

"تمہی نے تو بلایا تھا یاد کرو کارڈ پر کیا لکھا تھا ود فیملی" 

"ہاں لکھا تھا بھلے سے پورا گھر آجاتا پڑوسی کو بھی لے کر آجاتے لیکن تم نہیں آتے" عائشہ نے منہ بنا کر اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"تمہاری مجھ سے کیا دشمنی ہے اچھا خیر چھوڑو کچھ بتانا تھا" ہادی کے کہنے ہر عائشہ نے سنجیدہ ہوکر اسے دیکھا جیسے وہ واقع میں کوئی اچھی بات کرے گا 

"بہت پیاری لگ رہی ہو اور تمہیں دیکھ کر ایک گانا بھی یاد آرہا ہے "

"تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم" 

"پیار ہوتا ہے دیوانہ صنم"

"پلیز مجھے کچھ نہیں سننا اور یہ گانا تم جاکر کسی صنم کو ہی سناؤ" عائشہ کہہ کر جانے لگی جب ہادی نے اسکی کلائی پکڑ کر اس اپنی طرف کھینچا 

"بس ایک شکایت ہے "

"پہلے میرا ہاتھ چھوڑو" عائشہ کے غصے سے کہنے پر ہادی نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا 

"اب بتاؤ ---"

"آئیٹم کافی کم ہیں" ہادی کے کہنے ہر عائشہ نے حیرت سے منہ کھول کر اسے دیکھا 

"جی نہیں اتنے تو آئیٹم ہیں بریانی،رول،کباب،کولڈرنگ،فش" 

"بس بس" اس سے پہلے عائشہ مزید آئیٹمز گنواتی ہادی نے اسے روک دیا 

"میں ان آئیٹمز کی بات نہیں کررہا "ہادی کے کہنے پر عائشہ نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر بات سمجھتے ہی غصے سے اسے دیکھنے لگی 

"چھچھورے لوفر کہیں کے شرم نہیں آتی لڑکیاں تاڑتے ہوے" عائشہ کے کہنے پر ہادی بےشرمی سے ہنستے ہوے اس دیکھنے لگا لیکن پھر عائشہ کی حرکت دیکھ کر فورا وہاں سے بھاگ گیا جو بنا محفل اور اپنی تیاری کا لحاظ کیے اسے مارنے کے لیے اپنی سینڈل اتارہی تھی 

❤❤❤❤

"میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے" ہادی نے بہزاد کا جائزہ لیتے ہوے کہا 

"جی ضرور دیکھا ہوگا میں دو تین بار آپ کے آفس آچکا ہوں" 

"نہیں ،یاد آگیا میں نے آپ کو ایک لڑکی کے ساتھ شوپنگ مال میں دیکھا تھا" ہادی نے دور سٹیج پر بیٹھی حمنہ کو دیکھتے ہوے کہا جس سے بہزاد کی مسکراہٹ غائب ہوگئی 

"لیکن وہ آپ کی مسز تو نہیں تھیں "

"نہیں وہ میری مسز ہی تھیں" بہزاد نے اپنا تھوک نگلتے ہوے کہا 

"نہیں،نہیں مجھے اچھے سے یاد ہے وہ مسز حمنہ تو نہیں تھیں"

"دیکھ میرے بھائی ہم صرف گیم کھیل رہے تھے جس میں مجھے ڈئیر ملا تھا کہ اپنی کلاس کی کسی بھی لڑکی کو شوپنگ کروانی تھی تو بس میں اسے ہی لے کر گیا تھا اور وہ پرانی بات ہے بھول جا" 

"آہاں ایسے تو نہیں چھوڑونگا ابھی بتا کر آتا ہوں" ہادی کہہ کر جانے کے لیے مڑا جب بہزاد نے اسکا بازو پکڑ لیا 

"پلیز یار مت کر حمنہ کو پتا چل گیا نہ تو آج رات مجھے کمرے میں بھی نہیں آنے دے گی" 

"اچھا ٹھیک ہے آپ دولہے ہو اسلیے تھوڑی رعایت دے دیتا ہوں بس مجھے پندرہ ہزار دے دیجیے "

"کیا-----" بہزاد نے منہ کھول کر اسے دیکھا جس پر ہادی نے معصومیت سے اپنا سر ہلایا 

پھر بےبسی سے اسے دیکھتے ہوے اپنے والٹ سے پیسے نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھ دیے 

❤❤❤❤

"انابیہ آؤ میں تمہیں چھوڑ دوں" 

"نہیں میں چلی جاؤنگی" انابیہ کہتے ہوے اپنے قدم آگے کی طرف بڑھانے لگی جب شہرام نے دوبارہ اسکا راستہ روک لیا 

"دیکھو رات کا وقت ہورہا ہے میں تمہیں اکیلے نہیں جانے دے سکتا "

"دیکھیے مجھے پریشان کرنا بند کردیجیے اور میں خود جاسکتی ہوں"شہرام کے کئی بار کہنے پر بھی اسکا ایک ہی جواب تھا اسکے دوبارہ کہنے پر انابیہ نے بنا کوئی جواب دیے اپنے قدم آگے کی طرف بڑھادیے 

"بھائی اب دیکھو میرا جلوہ" ہادی نے شہرام کے قریب آکر کہا اور بھاگتا ہوا انابیہ کی طرف چلا گیا

"انابیہ" انابیہ نے اپنے نام کی پکار سن کر پیچھے کی طرف دیکھا جہاں سے ہادی آرہا تھا 

"ہاں ہاد" 

"چلو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں" 

"نہیں میں چلی جاؤنگی تم پریشان مت ہو" 

"پلیز پلیز میری بہنا اپنے اس ہینڈسم بھائی کے ہوتے ہوے اکیلے نہیں جاسکتی ہو تم" ہادی نے منت بھرے لحجے میں کہا انابیہ نے مسکراکر اسے دیکھا اور اسکے کہنے پر اسکی گاڑی کی طرف بڑھ گئی وہ پہلے بھی کئی بار ہادی سے مل چکی تھی اور ہادی اور اسکی نیچر. اسے بہت اچھی لگی تھی

جبکہ پیچھے شہرام حیرت سے منہ کھول کر اسے دیکھنے لگا مطلب اسکے اتنی بار کہنے پر بھی نہیں مانی اور ہادی کے دو بار کہنے پر ہی راضی ہوگئی 

❤❤❤❤

"ڈیڈ آپ سے بات کرنی تھی" شہرام نے سٹڈی میں داخل ہوکر اسد صاحب سے کہا 

"ہاں بیٹھو-----" 

"میں چاہتا ہوں کہ انابیہ واپس جوب کرنے لگ جاے اور وہ بھی ہمارے آفس میں "

"بات اچھی ہے لیکن میں اسے پہلے ہی دوسری کمپنی میں جوب دلواچکا ہوں "

"کس کمپنی میں" شہرام نے حیرت سے پوچھا 

"یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے"اسد صاحب کہہ کر دوبارہ اپنی کتاب میں مصروف ہوگئے مطلب صاف تھا انہیں اب اس ٹاپک پر کوئی بات نہیں کرنی

❤❤❤❤ 

"حور" حدید نے حوریہ کے کمرے میں داخل ہوکر کہا لیکن پورا کمرہ خالی تھا واشروم سے آتی آواز سن کر حدید صوفے پر جاکر بیٹھ گیا جب دو منٹ بعد حوریہ واشروم سے نکلی اور حیرت سے اس دیکھنے لگی 

اسے دیکھ کر حدید پریشانی سے اٹھ کر اسکے پاس آیا جس کا چہرہ ہی بتارہا تھا کہ وہ رورہی تھی 

"حور میری جان کیا ہوا ہے" حدید نے پریشانی سے اسکے چہرے ہر ہاتھ رکھتے ہوے کہا جب حوریہ نے حیرت سے اسکے ہاتھ پر بندھی ہوئی پٹی کو دیکھا  

"یہ کیا ہوا ہے" حوریہ نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوے کہا 

"کچھ نہیں ہوا ہے تم بتاؤ رو کیوں رہی تھیں "

"کچھ نہیں بس، پلیز آپ ابھی جایے مجھے آرام کرنا ہے" حوریہ نے اس سے فاصلہ بنایا اور بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی حدید نے اسکے سامنے بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھ تھام لیے 

"حور بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے"

حدید کچھ نہیں ہوا آپ پلیز جایے یہاں سے" حوریہ کے غصے سے کہنے پر حدید نے حیرت سے اسے دیکھا حوریہ نے پہلی بار اس سے اس لہجے میں بات کی تھی حدید کو اس وقت اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اسلیے بنا کچھ کہے اسکے روم سے باہر چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد حوریہ کے رکے ہوے آنسو پھر سے بہنا شروع ہوگئے 

❤❤❤❤

اسنے اپنے چلتے قدم روک کر حیرانی سے سامنے چلتے منظر کو دیکھا وہ میٹینگ کے سلسلے میں یہاں آیا تھا اسے یہ تو پتہ تھا کہ انابیہ دوسری جگہ جوب کررہی ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ کہاں جوب کررہی ہے لیکن آج وہ بھی پتا چل چکا تھا 

اسنے غصیلے تاثرات سے انابیہ کو دیکھا جو مسکراتے ہوے مزے سے اس لڑکے سے باتیں کررہی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا یا تو انابیہ کو کہیں دور لے جاے یا پھر اس لڑکے کو اس دنیا سے مٹا دے 

شہرام غصے سے اس لڑکے کو گھور رہا تھا جس کی صرف ہلکی ہلکی موچیں تھیں اور قد میں وہ انابیہ سے بھی چھوٹا تھا

 اس لڑکے کے وہاں سے جاتے ہی اسنے فورا انابیہ کا ہاتھ کھینچا اور دوسری طرف لے گیا جہاں اس وقت کوئی نہیں تھا وہ پہلے بھی کئی بار اس آفس میں آچکا تھا اسلیے اسے آفس کی ہر جگہ کا علم تھا

اس سے پہلے انابیہ چیختی اسنے اپنا مضبوط ہاتھ اسکے منہ پر رکھ دیا اور اسکے دونوں ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں تھام لیے 

"میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں لیکن اگر تم چیخیں تو اس کی ذمیدار تم خود ہوگی" روشنی نا ہونے کے باعث اسے صرف شہرام کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی جو کہ انابیہ پہچان چکی تھی

انابیہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

"یہ کیا حرکت ہے چھوڑو مجھے" انابیہ نے اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوے کہا 

"بس تمہیں وارن کرنا تھا آج کے بعد میں نے تمہیں کسی بھی لڑکے کے ساتھ دیکھا تو اس لڑکے کے ساتھ ساتھ تمہاری بھی خیر نہیں" شہرام نے کہتے ہوے اسکے دونوں ہاتھ چھوڑ دیے اور بنا اسکی کچھ سنے وہاں سے چلا گیا 

انابیہ خود سے اسے دل میں برا بھلا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی 

❤❤❤❤

تبریز ہر طرف بنے خوبصورت نظارے دیکھ رہا تھا اسے بس یہاں سے جانے کی جلدی تھی لیکن وہ جتنا جلدی چاہ رہا تھا اسے اتنی ہی دیر لگ رہی تھی 

باقر صاحب اسے کوئی نہ کوئی کام دیتے جارہے تھے جس کی وجہ سے اب ایک ماہ تک تو اسے یہیں رہنا تھا وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی پوری کوشش کررہا تھا 

آج ٹائم ملنے پر وہ یہاں تھوڑی دیر کے لیے گھومنے آیا تھا لیکن یہاں آنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اسکے زہہن پر ابھی بھی صرف نور کا قبضہ تھا خاص کر اسکی خوبصورت سبز آنکھیں تبریز نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنی جان کو سوچ کر مسکرانے لگا 

❤❤❤❤

"ڈیڈ مجھے آپ سے بات کرنی ہے" 

"ہاں کہو" اسد صاحب نے اپنا نظر کا چشمہ اتار کر اسے دیکھا 

"میں شادی کرنا چاہتا ہوں" شہرام کے کہنے پر اسد صاحب نے حیرت اور خوشی سے اس دیکھا 

"کیا واقعی-------" 

"جی اور میں نے لڑکی بھی پسند کرلی ہے" 

"اچھا تو پهر کون ہے وہ جسے "سید شہرام درانی" نے پسند کیا" 

"وہ لڑکی ،وہ انابیہ ہے" شہرام کے کہتے کہتے اسد صاحب کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غاہب ہوچکی تھی

"کس لیے جہاں تک مجھے یاد ہے تم تو انابیہ کو پسند بھی نہیں کرتے" 

"ڈیڈ پہلے میں نے اسکے ساتھ جو بھی کیا وہ میری غلطی تھی لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے میں انابیہ سے بہت محبت کرتا ہوں پلیز آپ ایک بار انکل آنٹی سے بات کرلیجیے" 

"شہرام میں بات کرلونگا لیکن اگر اعتراض ہوا تو پھر تم بھی اس کے جواب کا احترام کروگے'' اسد صاحب کے کہنے پر اسنے بنا کچھ کہے اپنا سر جھکا لیا

❤❤❤❤

ہاد پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں" "عائشہ نے شرماتے ہوے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا بدلے میں ہادی نے اپنی گرفت مضبوط کرکے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچ لیا 

"اتنی آسانی سے کیسے اتنی مشکل سے تو تم نے اپنا ہاتھ پکڑنے کی اجازت دی ہے "

"آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اگر میں منع کرتی تو آپ میرا ہاتھ نہیں پکڑتے "عائشہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"میں تمہیں بہت چاہتا ہوں عائشہ آئی لو یو" ہادی نے کہتے ہوے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے عائشہ نے شرما کر اپنی چہرہ اسکے سینے میں چھپالیا 

"اب تم بھی کہو" ہادی نے اسکا چہرہ اپنی سینے سے نکالتے ہوے کہا

"ہاد اٹھ جاؤ" عائشہ کے کہنے ہر ہادی نے حیرت سے اسے دیکھا 

"یہ کیا کہہ رہی ہو" 

"اٹھ جاؤ" نرمین بیگم کی آواز پر اور خود پر گرنے والے پانی سے وہ ہڑبڑاکر اٹھا اور منہ بنا کر انہیں دیکھنے لگا

"کیا موم اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا کم سے کم اسے آئی لو یو ٹو تو بولنے دیتیں "

"بس اب یہی رہ گیا خواب میں بھی یہی دیکھو جاکر کچھ کا کاج کرلو کب تک ایسے خوارو کی طرح بیٹھے رہو گے اور اٹھو اب جلدی سے اتنا وقت ہوگیا ہے"

"موم جب میرا موڈ ہوگا نہ تو میں خود ہی آفس چلا جاؤنگا ابھی تو میرے گھومنے کے دن ہیں "ہادی کہتے ہوے دوبارہ اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور نرمین بیگم اسے دیکھ کر اپنا سر نفی میں ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

"تو مس عورت اب تم میرے خوابوں میں بھی آؤگی" وہ خود سے بڑبڑاتا ہوا دوبارہ اپنےحسین خواب کے بارے میں سوچنے لگا 

❤❤❤❤ 

"نرمین آدھر آؤ" اسد صاحب نے اماں بی کے کمرے سے نکلتی نرمین سے کہا 

"جی" نرمین بیگم نے انکے قریب جاکر کہا جب اسد صاحب نے انکا ہاتھ تھام کر اپنے بیٹهالیا اور انکی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر اپنے قریب کرلیا 

"اسد کیا کررہے ہیں چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا "

"کوئی نہیں دیکھتے گا شہرام اور ہاد باہر ہیں حوریہ اپنے کمرے میں ہے اور بابا اور اماں بی سو رہے ہیں "

"اسد پلیز" نرمین بیگم کے معصومانہ انداز پر اسد صاحب کو ٹوٹ کر ان پر پیار آیا 

"اچھا مجھے بات کرنی تھی ہم کل اپنی بہو دیکھنے چلے گیں"

"کیا واقعی" نرمین بیگم نے حیرت اور خوشی سے کہا 

"ہاں اور پتہ ہے آپ کے بیٹے نے کونسی لڑکی پسند کی ہے "اسد صاحب کے پوچھنے پر سوالیہ نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا 

"انابیہ "

"کیا واقعی لیکن شہرام تو اسے پسند نہیں کرتا تھا اور اسنے انابیہ کے ساتھ کتنا برا کیا تھا"

"ہاں لیکن اب وہ اپنی غلطی مان رہا ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے ہے نہ میری جان" اسد صاحب نے کہتے ہوے انہیں دیکھا جس پر انہوں نے بچوں کی طرح اپنا سر ہلایا اسد صاحب نے مسکراتے ہوے انکے گال پر شدت سے اپنے لب رکھ دیے 

"واؤ یار کیا سین ہے"  ہادی جو کبھی سے صوفے کے پیچھے مزے سے انکی باتیں سن رہا تھا اٹھ کر چیختے ہوے کہا جس پر نرمین بیگم بڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھ گیں 

"یہ کیا بدتمیزی ہے ہاد" اسد صاحب نے اسے غصے سے دیکھتے ہوے کہا 

"یار ڈیڈ کمال کرتے ہیں آپ مطلب معصوم سے بچے ہیں یہاں ان پر کیا اثر پڑے گا" ہادی کے کہنے پر نرمین بیگم شرمندہ سی ہوتی ہوئی وہاں سے اپنے کمرے میں بھاگ گئیں

"اللہ کرے میرے بچے تیرے بچے تیرے جیسے ہی ہوں" اسد صاحب نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"توبا ڈیڈ بددعا تو مت دیجیے" اسد صاحب بھی اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوے وہاں سے سٹڈی میں چلے گئے 

❤❤❤❤

فون کال کی آواز پر حدید نے فائل سے نظریں ہٹا کر فون کی طرف دیکھا پھر مسکراتے ہوے کال پک کرلی 

"آج ہم غریب کی یاد کیسے آگئی "

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے" فون پر حوریہ کا بھیگا لہجہ محسوس کرکے حدید کی مسکراہٹ سمٹ گئی 

"حور میری جان کیا ہوا ہے "

"مجھے آپ سے بات کرنی ہے "

"ہاں کہو میں سن رہا ہوں" حدید نے کہتے ہوے فائل بند کرکے رکھ دی 

حوریہ نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری ویسے بھی جو بات وہ کہنے والی تھی وہ بات حوریہ کبھی بھی اسکے سامنے کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی

"میں ،م-میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مجھے آپ سے علیدگی چاہیے" حدید کی غصے سے رگیں تنگ چکی تھیں اسے مذاق میں بھی یہ بات پسند نہیں تھی کہ اسکی بیوی اسطرح کی بات کرے حدید نے بنا کچھ کہے کال کاٹ دی حوریہ نے حیرانی سے فون کو دیکھا اسے تو حدید کے کسی سخت ری ایکشن کی امید تھی 

❤❤❤❤

اسکا غصہ جیسے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ہر چیز کو وہ دھڑام دھڑام کرکے رکھ رہی تھی کل سے اسکا یہی حال تھا

کل اسد اور نرمین کے آنے پر وہ جہاں خوش تھی انکے آنے کا مقصد جان کر وہیں غصے سے وہ لال ہورہی تھی 

ابھی وہ غصے سے آفس میں داخل ہوئی تھی جب ایک پیغام ملا کہ اسے آتے ہی پہلے باس کے آفس میں جانا ہے وہ اپنے پیر پٹھخ کر ناک کرکے آفس روم میں داخل ہوئی 

جب خالی روم کو دیکھ کر واپس جانے کے لیے مڑی لیکن پیچھے صوفے پر بیٹھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے شہرام کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ رکھ گئی 

جب وہ دلکشی سے مسکراتا ہوا اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا اسکے اتنے قریب کھڑے ہونے پر انابیہ دو قدم پیچھے ہٹی 

"مجھے سر نے بلایا تھا وہ کہاں ہیں"

" تمہیں سر نے نہیں میں نے بلایا تھا لیکن یہ الگ بات ہے کہ کچھ وقت پہلے میں ہی تمارا سر تھا" اسکا جواب سن کر انابیہ نے غصے سے اسے دیکھا لیکن بنا کچھ کہے وہاں سے جانے لگی جب شہرام اسکے راستے میں آگیا

"کل موم ڈیڈ تمہارے گھر آے تھے یقینا وجہ پتا چل ہی گئی ہوگی "

"ہاں پتہ چل گئی لیکن انہیں ایسی بات کرنے سے پہلے اپنے بیٹے سے تو پوچھنا چاہیے تھا "

"وہ میری مرضی بلکہ میرے کہنے پر ہی تمہارے گھر گئے تھے "شہرام نے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوے کہا 

"مجھے نہیں پتا آپ نے ایسا کیوں کیا لیکن میرا جواب انکار میں ہی ہوگا" انابیہ کہتی ہوئی وہاں سے جانے لگی جب شہرام نے سختی سے اسکا بازو تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کہتا انابیہ کا فون بجنا شروع ہوچکا تھا 

انابیہ نے کال پک کرکے فون کان سے لگایا لیکن جو خبر اسے سننے کو ملی اُس سے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا دل بند ہوجاے گا 

❤❤❤❤

حدید غصے سے اسکے کمرے میں داخل ہوا اسے دیکھ کر حوریہ کرنٹ کھاکر اپنی جگہ سے اٹھی

 اسے لگ رہا تھا کہ اسطرح کی بات سن کر حدید فون ہر ڈانٹیگا غصہ کرے گا ناراض ہوجاے گا لیکن وہ گھر آجاے گا یہ تو اسنے سوچا ہی نہیں تھا 

"کیا بکواس کی تم نے فون پر دوبارہ کہو" حدید نے غصے سے اسکی طرف بڑھتے ہوے کہا 

"کہو کیا کہا تھا تم نے" اس بار اسکے چیخنے پر حوریہ.گھبرا کر دو قدم پیچھے ہوئی اسنے کہاں حدید کا یہ روپ دیکھا تھا 

"می-م-میں آپ کے سا-ساتھ نہ-نہیں رہنا چا"

"خبردار جو یہ بات تم نے آیندہ میرے سامنے کی جان سے ماردونگا تمہیں" حدید نے غراتے ہوے کہا لیکن پھر اسے روتے دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگا 

"دیکھو حور میری جان کوئی پریشانی ہے کوئی مسلہ ہے تو تم مجھ سے کہہ سکتی ہو ،تم جانتی ہو نہ تم کوئی بھی بات مجھ سے کہہ سکتی ہو تم مجھ پر اعتبار کرسکتی ہو" اسنے اپنے دونوں ہاتھ اسکے چہرے پر رکھتے ہوے کہا اس بار لہجہ قدرے نرم تھا 

"مجھے کچھ نہیں کہنا جو کہنا تھا وہ میں کہہ چکی ہوں اب آپ جا سکتے ہیں" حوریہ نے کہتے ہوے جھٹکے سے اپنے چہرے پر موجود اسکے ہاتھ ہٹا دیے اور اپنا رخ پھیر لیا 

"بہتری اسی میں ہے حوریہ کے جو بات ہے مجھے بتادو ورنہ بعد میں مجھ سے کوئی شکایت مت کرنا" حدید نے اسکی پشت دیکھتے ہوے کہا اور دھڑام سے دروازہ بند کرکے وہاں سے چلا گیا

❤❤❤❤

شہرام اور انابیہ بھاگتے ہوے آئی-سی-یو کی طرف بڑھے احمد صاحب کو ہارٹ اٹیک آیا تھا انہیں ایمرجینسی میں لایا گیا تھا 

"امی"انابیہ روتے ہوے راشدہ بیگم کے پاس گئی جو خود پریشان سی بیٹھی ہوئی اپنے آنسو پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھیں

"بیٹا بس دعا کرو کچھ نہیں ہوگا تمہارے ابو کو اللہ سے دعا کرو" راشدہ بیگم نے اسکے گال پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

اور پھر انتظار کی سولی پر لٹکنے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں مطمئن کردیا 

ہاسپٹل کا سارا خرچہ اور ہر ضروریات شہرام نے پوری کی تھی اور راشدہ بیگم اس کا شکریہ ادا کرتے ہوے نہیں تھک رہی تھیں انہیں شہرام انابیہ کے لیے بہت اچھا لگا تھا 

انابیہ کے لیے اسکے جذبات اسکے چہرے سے ہی ظاہر ہورہے تھے وہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا کہ بیٹھے بیٹھے انکی بیٹی کو اتنا اچھا رشتہ مل گیا 

❤❤❤❤

"بس نور میں بلکل ٹھیک ہوں میری بچہ" احمد صاحب نے اپنے قریب بیٹھی روتی ہوئی نور سے کہا جو کب سے رو رہی تھی

"یار نور بس کردو ابو بلکل ٹھیک ہیں" ہانیہ جو کب سے اسے پیار سے سمجھا رہی تھی اسکے مسلسل رونے پر ہانیہ نے تب کر کہا 

"ہانیہ خبردار جو میری بیٹی کو کچھ بھی کہا" احمد صاحب نے ہانیہ کو دیکھتے ہوے مصنوعی غصے سے کہا 

"ہاں بس یہی آپ کی بیٹی ہے میں تو کچھ ہوں ہی نہیں نہ" ہانیہ نے ناراضگی سے کہتے ہوے اپنے رخ پھیر لیا 

"ارے میرا بچہ تم تو میرا بیٹا ہو میرا غرور "احمد صاحب کے پیار سے کہنے پر ہانیہ نے مسکراتے ہوے اپنا رخ دوبارہ انکی طرف کرلیا جب انابیہ کمرے میں داخل ہوئی

"اچھا اب سب باہر جاؤ مجھے انابیہ سے کچھ بات کرنی ہے "احمد صاحب کے کہنے پر کمرے میں موجود ہر شخص باہر چلا گیا جب انہوں ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا 

جی ابو 

"میرا بچہ تو بہت سمجھدار ہے میری ایک بات مانوگی" احمد صاحب نے انابیہ کا ہاتھ تھامے ہوے کہا

"جی ابو آپ جو کہینگے میں مانونگی" 

"بیٹا زندگی کا کوی بھروسہ نہیں آج بچ گیا ضروری تو نہیں کل بھی بچ جاؤنگا" احمد صاحب کے کہنے پر انابیہ نے اپنا ہاتھ انکے منہ پر رکھ دیا 

"ابو پلیز ایسی باتیں مت کریں آپ جانتے ہیں نہ آپ ہم سب کے لیے کتنے اہم ہیں"

"میرا چندا موت تو آنی ہے میں مرنے سے پہلے اپنی بچیوں کو انکے گھر کا کردینا چاہتا ہوں" 

"ابو" انابیہ نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوے کہا

"اچھا ٹھیک ہے ہم یہ باتیں نہیں کرتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا بچہ شہرام کے لیے ہاں کہہ دے" احمد صاحب کے کہنے پر انابیہ نے حیرت سے انہیں دیکھا

"بتاؤ جو فیصلہ میری بیٹی کرے گی میں بھی اسی پر راضی ہوجاؤنگا" احمد صاحب کے کہنے پر انابیہ کافی دیر تک سوچ میں گم رہی ایک آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھ سے بہہ نکلا وہ بھلا کیسے اس شخص کے لیے ہاں کہہ سکتی ہے جو اسکے کردار اسکی تربیت پر انگلی اٹھا چکا ہے 

اسے اگر کچھ دکھ رہا تھا تو وہ تھا اپنے باپ کے چہرے پر مان جیسے انہیں یقین ہو انکی بیٹی انکی بات ضرور مانے گی اگر وہ منع بھی کردے تو کوی زبردستی اسے شہرام کے ساتھ نہیں باندھے گا لیکن اس وقت اسے اپنے باپ کے چہرے پر فکر اور پریشانی دکھ رہی تھی انہی یہ فکر تھی کہ ان کے بعد انکی بیٹیوں کا خیال کون رکھے گا  وہ بس اپنی زندگی میں انہی ہستا بستا دیکھنا چاہتے ہیں انہیں مظبوط سہارا دینا چاہتے تھے 

انابیہ نے اپنے آنسو صاف کرکے احمد صاحب کی طرف دیکھا

"ابو جو آپ کا فیصلہ ہوگا مجھے قبول ہے "انابیہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی 

نرمین بیگم اور اسد صاحب جو احمد صاحب کی طبیعت پوچھنے ہاسپٹل آے تھے انابیہ کا جواب سن کر اسے شہرام کے نام کی انگھوٹھی پہناچکے تھے غمگین ماحول اب خوشگوار بن چکا تھا سب کہ چہرے خوشی سے کھل چکے تھے بس ایک انابیہ تھی جو چاہتے ہوے بھی اپنے چہرے پر مسکان نہیں لا پارہی تھی

❤❤❤❤

نہ جانے کتنے دنوں سے وہ حوریہ کی بےرخی برداشت کررہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ایسا کیا ہو گیا کہ اسکی حور اب اس سے بات بھی نہیں کررہی تھی 

کتنی ہی بار وہ اس سے پوچھ چکا تھا لیکن اسکی زبان پر صرف ایک وہی بات تھی جو حدید سننا نہیں چاہتا تھا وہ جانتا تھا کوئی بات ضرور ہے جو حوریہ اسے نہیں بتارہی لیکن اب وہ بھی اسے سے پوچھنا چھوڑ چکا تھا وہ بس اسکی ہر حرکت ہر کال پر نظر رکھ رہا تھا جس سے حوریہ لاعلم تھی 

اسے حوریہ پر بے انتہا غصہ تھا جو اس پر اتنا بھی اعتبار نہیں کررہی تھی کہ اسے اپنی بات بتا دے 

اس وقت بھی وہ اپنی کار میں بیٹھا ہوا تھا اسنے اپنی کار کافی دور کونے میں کھڑی کی ہوئی تھی جو کسی کی بھی نظروں میں نہیں آرہی تھی وہ حیرت سے حوریہ کو دیکھ رہا تھا جو اس سنسان علاقے میں اکیلی بنا کسی کو بتاے یہاں آئی تھی 

اور اب اندر کی طرف جارہی تھی حدید حیرت سے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جو دکھنے میں کھنڈر لگ رہا تھا 

وہ اپنے قدم آہستہ آہستہ اٹھاتا بنا اسکی نظروں میں آے اسکے پیچھے چلنے لگا اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہوے حوریہ نے مڑ کر دیکھا لیکن ویران سڑک کو دیکھ کر واپس اندر کی طرف جانے لگی 

"تو، تو آگئی کیا چاہیے" اس آدمی نے حوریہ کو دیکھتے ہوے پوچھا جسکا بڑھا ہوا پیٹ باہر نکلا ہوا تھا موٹا سا چہرہ اور موٹی سی ناک اور اس سب کے ساتھ گنجاپن اس آدمی کو مزید حسین بنارہا تھا

"تم نے کہا تھا اگر میں حدید سے طلاق مانگو تو تم اسے چھوڑ دو گے اور میری تصاویر بھی دے دو گے" حوریہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوے کہا

"ہاہا تو کیا تیرے میاں نے تجھے چھوڑ دیا میری بات سن آہہہہ---" وہ آدمی حوریہ کی طرف بڑھتے ہوے کہنے لگا جب ایک زوردار گولی اسکے بازو کو چیرتی ہوئی نکلی تکلیف سے اسکی چیخ نکل گئی حوریہ نے گھبرا کر پیچھے دیکھا جہاں پر حدید پولیس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اس جگہ پر تقریبا سات آٹھ بندے موجود تھے اور یہاں پر چوری چھپے غیر قانونی کام ہورہے تھے 

پولیس سارے افراد کو پکڑ چکی تھی بس انکا باس وہیں زمین پر اپنی تکلیف برداشت کرتے ہوے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا حدید چلتا ہوا اسکے پاس پہنچا 

"کیوں میری بیوی کے پیچھے پڑا ہوا ہے"

حدید نے اپنی گن کو اسکی شہہ رگ پر رکھتے ہوے کہا اس آدمی نے گھبرا کر حدید کو دیکھا  

"بول" حدید نے چیختے ہوے گن مزید اسکی شہہ رگ پر دبائی 

"میں ب-بس تم س-سے بدلہ لینا چاہتا ت-تھا "

"کس چیز کا بدلہ "

"تم نے میرے بھائی کو مارا تھا" اس آدمی کے کہنے پر حدید نے حیران نظروں سے اسے دیکھا 

"کیا کہا تم نے" 

"ہاں تم نے اپنی بی--بیوی کی وجہ سے ا-اسے مارا تھا "اس آدمی کے کہنے پر حدید کے زہہن کے پردے پر وہ منظر لہرایا جب وہ لوگ اسکی بیوی کو تاڑ رہے تھے اور غصہ میں حدید ان میں سے ایک کو مار چکا تھا 

"تو ہے اس گھٹیا انسان کا گھٹیا بھائی" حدید نے کہتے ہوے اسکی شہہ رگ پر گولی چلادی 

حدید پیچھے سے چلانے پر حدید نے اپنی سرخ آنکھوں سے اس شخص کو دیکھا

"حدید تم نے اسے کیوں مارا اس سے اتنے راز معلوم ہوسکتے تھے" حیدر نے اسے گھورتے ہوے کہا 

"اس کے ساتھیو کو یہاں سے باہر نکالو اور جو پوچھنا ہے ان سے پوچھو لیکن یہ شخص یہیں رہے گا سب کو باہر نکالو اور اس جگہ کو آگ لگادو" حدید کے کہنے پر حیدر نے منہ کھول کر حیرت سے اسے دیکھا 

"کیا؟؟"

"حیدر" حدید کے گھورنے پر حیدر نے ٹھنڈی سانس بھری اور اس جگہ کی چھان بین کرکے سارے افراد کو باہر نکال دیا

حدید نے بنا کچھ کہے حوریہ کو گاڑی میں بٹھایا اور واپس حیدر کی طرف آیا 

"تھینک یو حیدر" حدید نے حیدر کو دیکھتے ہوے کہا 

"کوئی بات نہیں یار آیندہ بھی کوئی پرابلم ہو تو مجھ غریب کو یاد رکھنا "

حدید مسکراتے ہوے اس سے بلگیر ہوکر اپنی کار میں جاکر بیٹھ گیا 

❤❤❤❤

"حدید" حوریہ نے سنجیدہ سے کار ڈرائیو کرتے ہوے حدید سے کہا

"حدید میری بات سنیں" حوریہ نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوے کہا جسے حدید نے جھٹکے سے ہٹا دیا 

"حدید آئی-ایم-سوری میں ڈر گئی تھی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں "

"غلطی تمہاری نہیں ہے حوریہ شاید میں ہی اس لائق نہیں کہ تم مجھ پر اعتبار کرسکو "

"ایسا نہیں ہے آپ میری بات سنیں "

"شٹ اپ" جھٹکے سے گاڑی روکتے ہوے چلاتے ہوے کہا حوریہ نے سہم کر اسے دیکھا 

"تم جو کچھ بھی کہہ لو مجھے فرق نہیں پڑتا اگر ایک بار تم مجھے بتا دیتیں تو کیا ہوجاتا" 

"حدید" 

"بس ایک لفظ اور نہیں" حدید نے کہتے ہوے کار سٹارٹ کردی اور پھر گھر کے سامنے گاڑی روک کر اسکے اترنے کا انتظار کرنے لگا لیکن اسکے نہ اترنے پر اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اسکی طرف آیا اور اسے کار سے باہر نکال کر بنا اسکی طرف دیکھے وہاں سے چلا گیا 

حوریہ کتنی دیر تک نم آنکھوں سے اس راستے کو دیکھتی رہی جہاں سے حدید گیا تھا 

❤❤❤❤

انابیہ اپنی انگلی میں موجود اس رنگ کو دیکھ رہی تھی گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں ایک ماہ بعد کی تاریخ رکھی گئی تھی 

سب اس رشتے سے خوش تھے اور حوریہ کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے کہ اسکی دوست اسکی بھابھی بننے والی تھی 

لیکن ایک وہی تھی جو خوش نہیں ہو پارہی تھی حوریہ اور حدید ،عبیر اور نور کی شادی بھی ساتھ ہی ہونی تھی شہرام کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کرچکا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہی اسکی کال نظرانداز کر دیتی اور شہرام کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے اور وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اب تو انابیہ ہمیشہ کے لیے اسکی ہی ہوجاے گی تو وہ بھی اسے منالے گا 

اور دوسری طرف حوریہ تھی شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی لیکن حدید نے اب تک اس سے کوئی بات نہیں کی تھی وہ کال کرتی تو وہ اٹھاتا نہیں تھا اور حوریہ سے اسکی یہ بےرخی برداشت نہیں ہورہی تھی وہ ناراض تھا لیکن حوریہ کو یقین تھا وہ اسے منالے گی اپنی محبت سے منالے گی 

❤❤❤❤

"ڈیڈ مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ مجھے واپس کیوں نہیں آنے دے رہے" تبریز نے فون کال پر موجود باقر صاحب سے کہا 

"بیٹا ایسی بات نہیں ہے بس یہ چند ہفتوں کا کام باقی ہے تم اسے مکمل کرلو پھر بھلے سے واپس آجاؤ" باقر صاحب نے اسے سمجھاتے ہوے کہا بس چند ہفتوں کی بات تھی نور کے نکاح کے بعد وہ خود اسے بلانے والے تھے لیکن اس سے پہلے ہی اس کا فون آچکا تھا 

"ٹھیک ہے لیکن میں نور سے بات کرنا چاہتا ہوں" 

"تبریز بیٹا تم بس جب یہاں آؤگے میں فورا تمہاری شادی کی تیاری کرونگا لیکن ابھی بس تم جلد سے جلد سارے کام نمٹا دو" تبریز نے گہرا سانس لے کر چند ایک باتیں کرکے فون بند کردیا جب دوبارہ فون بجنے پر اسنے فون کی طرف دیکھا اور شہرام کا نمبر دیکھ کر کال پک کرلی 

"ایک خوشخبری سنانی ہے" سلام دعا اور خیر خیریت کے بعد شہرام نے کہا اسکی خوشی تبریز بخوبی محسوس کررہا تھا 

"اچھا بتاؤ "

"میری شادی ہونے والی ہے-----" 

"کیا کہا تم نے" تبریز نے حیرت سے کہا 

"ہاں یار میری شادی ہونے والی ہے بس بتاؤ تم کب واپس آرہے ہو" 

"یار ابھی واپسی کے کوئی چانس نہیں ہیں" 

"اوے میں کچھ نہیں سننا تو بس آرہا ہے تو مطلب آرہا ہے" شہرام نے حکمیہ انداز میں کہا 

"ٹھیک ہے میری پوری کوشش ہوگی کہ جلدازجلد آجاؤنگا" 

تبریز کے کہنے پر شہرام اسے شادی کی تفصیلات بتانے لگا

"نور یہاں کیا کررہی ہو" نور جو اپنے لیے پانی لینے آئی تھی پیچھے سے آتی آواز پر ڈر کر پیچھے دیکھا جہاں عبیر کھڑا تھا 

"جی وہ میں پانی پینے آئی تھی" نور نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوے کہا 

"اچھا اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا آپ مجھے چاے بنا کر دے سکتی ہیں" عبیر نے مسکراتے ہوے اسے بھرپور نظروں سے دیکھتے ہوے کہا 

"جی" نور کہتے ہوے برتن نکال کر اس میں چاے کا سامان ڈالنے لگی لیکن اپنے اوپر عبیر کی نظریں وہ بخوبی محسوس کررہی تھی

"ویسے تم ابھی تک جاگ رہی ہو"

"جی وہ پڑھائی کررہی تھی" 

"کیوں بلاوجہ سارا دن کتابوں میں گھسی رہتی ہو جبکہ مجھے تو تم سے کوئی جوب بھی نہیں کروانی اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ میری بیوی کوئی بہت زیادہ پڑھی لکھی ہو میرے لیے تو بس تم اہم ہو میری جان" عبیر کی باتیں سن کر نور نے جلدی سے چاے کپ میں نکالی اور اسے دے کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگنے لگی جب عبیر نے اسکی کلائی تھام لی 

"عبیر بھائی میرا ہاتھ چھوڑیں" نور نے گھبراتے ہوے کہا 

"پلیز اب تو بھائی مت کہو چند دنوں بعد شادی ہے ہماری " عبیر نے کہتے ہوے اسکا کلائی چھوڑ دی اور نور تیزی اپنے کمرے میں بھاگ گئی

❤❤❤❤

بڑے سے ہال میں آج ایک ساتھ ہی ان تینوں کا مایوں رکھا گیا تھا حدید اور شہرام نے ہلکے پیلے کلر کی شلوار قمیض کے ساتھ گرین کلر کی چنری گلے میں ڈالی ہوئی تھی جبکہ عبیر نے کریم کلر کی شلوار قمیض کے ساتھ براؤن کلر کی چنری گلے میں ڈالی ہوئی تھی اور تینوں ہی اپنی جگہ بےحد خوبرو لگ رہے تھے 

تینوں کے لیے الگ الگ سٹیج بناے گئے تھے جہاں ان تینوں کی دلہنوں کو لا کر ان کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر بٹھا دیا عبیر نے خود اپنی سیلری اور پسند سے نور کا سوٹ لیا تھا اور اپنی پسند کے سوٹ میں دیکھ کر اسے بہت خوشی ہورہی تھی 

عبیر نے نگاہیں ٹیڑھی کرکے اپنے برابر بیٹھی نور کو دیکھا جو پیلے کلر کی پیروں کو چھوتی کامدار فراک میں کھلے بالوں کے ساتھ پھولوں کا سیٹ پہنے گھبرائی گھبرائی سی سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی 

جبکہ حوریہ اور انابیہ کا سوٹ بھی انکے سسرال سے آیا تھا لیکن دونوں کا سوٹ ایک جیسا تھا پیلے کلر کے ہلکے کام والے گرارے 

جہاں انابیہ خوبصورت سا جوُڑا بناے پھولوں کے زیور کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی وہی حوریہ بھی کھلے بالوں کے ساتھ سچ مچ کی حور ہی لگ رہی تھی 

شہرام انابیہ سے بات کرنے کی ہر کوشش کررہا تھا لیکن وہ بس اپنی نگاہیں جھکائیں بیٹھی ہوئی تھی 

اور دوسری طرف حوریہ حدید سے بات کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ مسکراتے ہوے ہر جگہ دیکھ رہا تھا سواے حوریہ کے 

اور تیسری طرف عبیر نور سے بات کرنے کی کوشش کررہا تھا جس میں وہ اس کی کسی بات پر سر ہلا دیتی یا کسی بات پر چپ رہتی وہ تو اکیلے میں بھی اس سے کوئی اتنی خاص بات نہیں کرتی تھی اور یہاں تو لوگ بھی اتنے تھے جس سے وہ نروس ہورہی تھی اور عبیر اسے رلیکس کرنے کی کوشش کررہا تھا

 جب ایک دم سے ہال کی لائٹ چلی گئی اور پورے ہال میں خاموشی چھاگئی اور پھر روشنی پڑنے اور گانے کی آواز پر سب نے سامنے دیکھا جہاں عائشہ گرین اور ییلو کلر کے لہنگے میں اور ہانیہ پنک اور گرین کلر کے لہنگے میں کھڑی تھی پہلے تو حاشر وہاں ہانیہ کی موجودگی سے حیران ہوا تھا لیکن بعد میں اسے پتا چلا کہ وہ شہرام کی سالی ہے

"پیروں میں بندھن ہے" 

"پائل نے مچایا شور" 

"پیروں میں بندھن ہے" 

"پائل نے مچایا شور" 

"سب دروازے کر لو بند"

"سب دروازے کر لو بند" 

"دیکھو آے آے چور" 

"پیروں میں بندھن ہے"

سب ان دونوں کے ڈانس پر تالیہ بجانے لگے جب حاشر اور ہادی کے وہاں پر آجا نے سے عائشہ اور ہانیہ نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا ہادی اور حاشر کی اینڑی تو ان کے ڈانس میں شامل نہیں تھی لیکن وہ بنا ان کی پرواہ کیے بغیر اب انکے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھے 

"توڑ دے سارے بندھن تو" 

"بجنے دے پائل کا شور "

"توڑ دے سارے بندھن تو" 

"بجنے دے پائل کا شور "

"دل کے سب دروازے کھول"

" دل کے سب دروازے کھول"

"دیکھو آے آے چور"

"پیروں میں بندھن ہے" 

عائشہ نے ہادی کے سر پر ہاتھ مار کر اسے وہاں سے جانے کا کہا لیکن وہ بھی ڈھیٹ بنا مسکرانے لگا ہادی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا جب عائشہ نے اسے دھکا دے کر کہا 

"کہوں میں کیا کروں میں کیا شرم آجاتی ہے "

"نہ یوں تڑپا کہ میری جاں نکلتی جاتی ہے" ہادی نے اپنا پیلا دوپٹہ مفلر اسٹائل میں ڈالتے ہوے کہا 

"تو عاشق ہے میرا سچا یقین تو آنے دے" ہانیہ نے حاشر کا دوپٹہ غصے سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے کہا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں

"تیرے دل میں اگر شک ہے تو بس پھر جانے دے" حاشر نے اسکے ہاتھ سے اپنا دوپٹہ لیتے ہوے کہا اور ہانیہ کو گھمانے لگا جس سے وہ گھومتی ہوئی تھوڑا فاصلے پر چلی گی اور پھر اسی طرح ہنسی خوشی میں یہ تقریب اپنے اختتام پر پہنچی 

❤❤❤❤

"ماشاءاللہ نور تمہاری مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے" انابیہ نے نور کے مہندی سے سجے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا جنہیں وہ ابھی دھو کر آئی تھی  

"عبیر بھائی اتنا پیار جو کرتے ہیں ہماری نور سے" ہانیہ نے اسے چھیڑتے ہوے کہا نور نے اپنے گلابی ہوتے گالوں کے ساتھ اسے گھور کر دیکھا 

"آپی آپ کا رنگ بھی اتنا گہرا آیا  ہے شہرام بھائی کو پک سینڈ کروں آپ کے ہاتھ کی" ہانیہ نے مسکراتے ہوے انابیہ کے ہاتھ تھام لیے جب انابیہ نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے 

"نہیں وہ، میں خود کرونگی-----" ہانیہ کے حیرت سے دیکھنے پر انابیہ نے بات بنائی جب اسکے کہتے ہی نور اور ہانیہ اسے چھیڑنے لگی 

❤❤❤❤

اپنے گیلے بال تولیے سے رگڑتے ہوے اسنے اپنے فون کو دیکھا جو مسلسل چلارہا تھا مزمل کی کال دیکھ کر اسنے کال پک کرلی 

"سر وہ آپ کو ایک بات بتانی ہے" مزمل نے جھجکتے ہوے کہا 

"بولو" 

"سر وہ نور میڈم ان کی شادی ہونے والی ہے" مزمل نے ہمت کرکے اسے ہر بات بتادی جسے سن کر فون پر دوسری جانب سے خاموشی چھاگئی اور کچھ دیر بعد اسے آواز سنائی دی "ٹوں ٹوں ٹوں" 

مزمل نے پریشانی سے موبائل کو دیکھا اسے پتا تھا اب تبریز کا غصہ ساتوے آسمان کو چھو رہا ہوگا پتا نہیں اب وہ کیا کرے گا مزمل نے پریشانی سے سوچتے ہوے دوبارہ کال ملائی لیکن نمبر اب بند جارہا تھا

❤❤❤❤

آج ان کی شادی کا دن تھا 

تقریبا سب مہمان آچکے تھے اور آج تو باقر صاحب بھی اس شادی میں شرکت کرنے آے تھے ان کا آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ماجدہ بیگم کے کافی اسرار پر انہوں نے ہامی بھرلی 

فون کال آنے پر وہ شور کی وجہ سے باہر چلے گئے جب کال سن کر اپنے قدم واپس اندر کی جانب بڑھانے لگے جب پیچھے سے آتی آواز پر انکے قدم پتھر کے ہوگئے 

"ہیلو ڈیڈ" تبریز کی بھاری اور سخت آواز سن کر وہ حیرت سے پیچھے مڑے 

"تبریز بیٹا تم یہاں" باقر صاحب نے گھبراتے ہوے کہا جب تبریز چلتا ہوا انکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا 

"بلکل میں یہاں، جب دولہا ہی نہیں ہوگا تو نکاح کیسے ہوگا اب جلدی چلتے ہیں میری نور جان ویٹ کررہی ہوگی ------"

"تبریز بیٹا تم جانتے ہو نہ کہ آج اسکا نکاح ہے "

"نہیں لیکن آپ جانتے تھے کہ آج اسکا نکاح ہے "تبریز نے اپنے دانت پیستے ہوے کہا 

"دیکھو تبریز می" ان کے الفاظ ادھورے رہ گئے جب تبریز نے اپنی جیب سے ایک ریوالور نکالا 

"پانچ منٹ ہیں آپ کے پاس پانچ منٹ کے اندر میرا نکاح میری نور جان سے ہوجانا چاہیے آپ ان سب سے کیا کہتے ہیں مجھے نہیں پتا کیونکہ میں پہلے ہی کہہ چکا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں نور صرف میری ہے وہ صرف اپنے تبریز کی ہے "تبریز نے غصے سے کہا اسکی آنکھوں میں جنون دیکھ کر ایک پل کے لیے باقر صاحب بھی سہم گئے تھے

"تبریز اسکی منگنی ہوچکی تھی اور آج شادی ہے اس بچی کی دو یہ مجھے اور چھوڑو اپنی ضد" باقر صاحب نے کہتے ہوے اہنا ہاتھ اسکے ہاتھ کی طرف بڑھایا جس میں ریوالور تھی 

"پانج منٹ مطلب پانج منٹ ورنہ آج وہ لڑکا جان سے جاے گا اور مجھے پرواہ نہیں ہے میں اپنی نور کو اس بھری محفل سے بھی اسے اٹھا کر لے جاؤنگا آپ مجھے اچھے سے جانتے ہیں ڈیڈ جو کہتا ہوں کر کے بھی دکھاتا ہوں "تبریز کے کہنے ہر باقر صاحب نے بےبسی سے اسے دیکھا 

❤❤❤❤

"باقر آؤ کب سے تمہارا انتظار ہورہا تھا" احمد صاحب باقر صاحب کو دیکھتے ہوے کہا جو ابھی یہاں آے تھے 

"احمد تم سے بات کرنی ہے" باقر صاحب کے پریشانی سے کہنے ہر احمد صاحب بھی پریشان ہوگئے اس وقت اُس جگہ صرف گھر کے افراد ہی موجود تھے احمد صاحب کے کہنے پر سب لوگ وہاں سے چلے گئے جب باقر صاحب نے انہیں دیکھتے ہوے اپنی بات شروع کی 

"احمد تمہیں خدا کا واسطہ ہے اپنی بیٹی مجھے دے دو" باقر صاحب کے ہاتھ جوڑنے ہر احمد صاحب نے پریشانی سے انہیں دیکھا 

"کیا کہہ رہے ہو باقر" 

"احمد میرا بیٹا نور کو بہت چاہتا ہے بہت خوش رکھے گا اسے تم اپنی بیٹی مجھے دے دو "

"کیسی بچوں جسی باتیں کررہے ہو تم آج میری بیٹی کی شادی ہے اور تم ایسی باتیں کررہے ہو "

"احمد تم نہیں جانتے تبریز کو وہ عبیر کو بھی مار سکتا ہے تم میری بات مان لو دیکھو، تم چاہتے تھے نہ کہ میں تمہاری بہن کو معاف کردوں تو میں اسے معاف کردونگا لیکن تم اپنی بیٹی مجھے دے دو" باقر صاحب کے کہنے پر احمد صاحب نے سکتے کی کیفیت میں انہیں دیکھا 

❤❤❤❤

احمد صاحب نے اپنے سامنے بیٹھی اپنی لاڈلی معصوم بیٹی کو دیکھا کیا وہ ٹھیک کررہے تھے عبیر کی جگہ تبریز کو دے کر انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا نور نے سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا 

"ابو آپ کو کچھ کہنا تھا نہ" 

"میرا بیٹا تم تو میری جان ہو نہ میں نے تمہارے لیے ایک فیصلہ لیا ہے کیا تم مانوگی" 

احمد صاحب کے کہنے پر نور نے اپنے سر کو جنبش دی جبکہ دل زوروں سے دھڑک رہا تھا 

"تمہارا نکاح عبیر سے نہیں ہورہا تمہارا نکاح تمہاری پھوپھو کے بیٹے سے ہو رہا ہے تو کیا میرا بچہ میرے فیصلے پر راضی ہے" احمد صاحب کے کہنے پر نور نے اپنی سبز بڑی آنکھوں کو مزید بڑا کرکے انہیں دیکھا وہ حیران پریشان سی انہیں دیکھ رہی تھی 

"میں تمہیں بعد میں سب بتاؤنگا نور ابھی تم مجھے جواب دو" احمد صاحب کے کہنے پر نور نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

جب کچھ دیر بعد مولوی صاحب کمرے میں داخل ہوے راشدہ بیگم نے لال دوپٹہ اسکی تھوڑی تک ڈال دیا 

"نور احمد ولد احمد حسین آپکا نکاح تبریز خانزادہ ولد باقر خانزادہ کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے" 

مولوی کے الفاظ سن کر نور کا ننھا سا دل زوروں سے دھڑکا بچپن کی منگنی کے باوجود وہ آج تک عبیر سے ہی اتنی گھبراتی تھی اور اسکا باپ اسے ایسے شخص کے حوالے کررہا تھا جسے اسنے آج تک دیکھا بھی نہیں 

"نور بیٹا جواب دو" راشدہ بیگم کے کہنے پر نور نے آہستہ سے کہا 

"قب-قبول ہے" اور پھر اسی طرح تین بار قبول ہے بولنے کے بعد اسنے کپکپاتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر سائن کردیے احمد صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے انکے ایسا کرتے ہی اسکے رکے ہوے آنسو بہہ نکلے 

کل تک وہ نور احمد تھی آج اسے نور عبیر بننا تھا لیکن آج وہ نور تبریز بن گئی تھی 

❤❤❤❤

"تبریز نور ہمارے ساتھ جاے گی" 

"کس لیے" تبریز نے بھنویں اچکاتے ہوے کہا 

"دیکھو تبریز وہ اکیلی تمہارے ساتھ نہیں جاے گی وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوئی ہے" باقر صاحب کے کہنے پر تبریز نے گہرا سانس لے کر اپنا سر ہلادیا 

کیونکہ اسے پتا تھا اسکی معصوم سی بیوی پہلے ہی اس اچانک نکاح کی وجہ سے بہت گھبرائی ہوئی ہوگی

❤❤❤❤

"اوکے تو سب ہٹ جاؤ مجھے میری پیاری اور اکلوتی بھابھی کو دیکھنے دو" ہادی نے حوریہ کو انابیہ کے سامنے سے ہٹاتے ہوے کہا 

"ہاد مت تنگ کرو بہو کو پہلے ہی تھک گئی ہے "دادا جان نے ہاد کو گھورتے ہوے کہا 

"ہاں نرمین بیٹا جلدی ساری رسمیں مکمل کرو بہو تھک گئی ہوگی" اماں بی نے نرمین بیگم کی طرف دیکھتے ہوے کہا جب نرمین بیگم نے ایک مخمل کا بوکس اماں بی کی طرف بڑھادیا 

"بیٹا تم ہی پہنا دو "اماں بی نے اس بوکس میں موجود کنگن کو دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں اماں بی آپ گھر کی بڑی ہیں آپ پہنایے" نرمین بیگم کے کہنے پر اماں بی نے پیار بھری نظروں سے انہیں دیکھا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا پھر انابیہ کے برابر بیٹھ کر اسے وہ کنگن پہنانے لگی جبکہ تھوڑے فاصلے پر کھڑے اسد صاحب اپنی بیوی کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگے 

"پتا ہے انابیہ یہ کنگن مجھے میری ساس نے دیے تھے پھر میں نے اپنی بہو کو دیے اور اب سے یہ کنگ تمہارے ہوے" اماں بی انابیہ کو کنگن پہناتے ہوے کہا اور اسکے ہاتھوں پر اپنے لب رکھ دیے 

"میرا بچہ مجھے کبھی بھی اپنا سسر مت سمجھنا میں تمہارا باپ ہوں تمہارا دوست ہوں مجھ سے جو چاہے وہ کہہ سکتی ہو" اسد صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا جب انابیہ نے مسکراتے ہوے نم آنکھوں سے اپنا سر ہلا دیا 

"انابیہ اگر کبھی شہرام تنگ کرے یا اسکی کوئی بھی شکایت لگانی ہو تو فورا مجھ سے کہنا ہم مل کر اسکے کان کھینچینگے" نرمین بیگم کے کہنے ہر شہرام نے منہ بنا کر سب کو دیکھا 

"مطلب حد ہوگئی یار بہو کے آتے ہی آپ لوگ مجھے بھول گے" 

"بھای بہو کے آتے ہی لوگ بیٹوں کو بھول جاتے ہیں جیسے آپ کو بھول گئے لیکن مجھے تو فکر ہی نہیں کیونکہ مجھے تو ویسے بھی کوئی یاد نہیں رکھتا ہاہاہا "ہادی کہتے ہوے خود ہی اپنی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا جب باقی سب بھی اسکی بات پر مسکرانے لگے 

❤❤❤❤

"راشدہ عبیر کہاں ہے "

"وہ اپنے کمرے میں ہے "راشدہ بیگم کی بات پر احمد صاحب نے اپنا رخ عبیر کے کمرے کی طرف کرلیا وہ اب اسٹیک کے سہارے چلنے لگ گئے تھے 

کئیں بار دروازہ ناک کرنے پر بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو وہ کمرے کے اندر داخل ہوگئے جہاں عبیر سیدھا لیٹا چھت کو گھور رہا تھا 

"عبیر بیٹا تم ٹھیک ہو " انکے کہنے پر عبیر بنا کوئی جواب دیے انہیں دیکھنے لگا 

"عبیر دیکھو میں جانتا ہوں" 

"مجھے کوئی بات نہیں کرنی ماموں نور آپ کی بیٹی ہے آپ کی مرضی آپ اسکی زندگی کا جو بھی فیصلہ کریں اور ویسے بھی اب بات کرنے سے نور میری نہیں ہوجاے گی" 

"عبیر بیٹا میں جانتا ہوں تمہارے ساتھ جو ہوا وہ غلط ہوا لیکن" 

"ماموں-----" عبیر نے انکی بات کاٹتے ہوے کہا اسکی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی رو دے گا

" مجھے کوئی بھی بات نہیں کرنی ہے "عبیر کے کہنے پر احمد صاحب بےبسی سے اسے دیکھنے لگے 

عبیر تو ہمیشہ سے ان کا بیٹا رہا تھا لیکن آج انہیں ایسا لگ رہا تھا وہ اپنا بیٹا کھو چکے ہیں احمد صاحب کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہے شاید وہ کچھ کہہ دے غصہ کرے کوئی گلہ کرے کہ اسکے ساتھ ایسا کیوں کیا لیکن وہ خاموش تھا 

اسکے کچھ نہ کہنے پر وہ اسکے کمرے سے باہر چلے گئے انکے جاتے ہی کئ آنسو عبیر کی آنکھوں سے بہہ نکلے زہہن کے پردے پر ایک ہی چہرہ لہرا رہا تھا جو تھا "نور" کا 

❤❤❤❤

"نور بیٹا کچھ کھاؤ گی" ماجدہ بیگم نے اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوے کہا 

اسنے بنا نظریں اٹھاے اپنا سر نفی میں ہلادیا وہ اسکے پاس بیٹھنا چاہتی تھیں باتیں کرنا چاہتی تھیں لیکن ڈر تھا تبریز نہ آجاے کیونکہ اسے ماجدہ بیگم کا اپنے کمرے میں آنا بلکل نہیں پسند تھا اسلیے اپنی خواہش کو دبا کر وہاں سے چلی گئیں اور انکے جاتے ہی نور اپنے رکے ہوے آنسو بہانے لگی 

اسے تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اسکے ساتھ کیا ہوا ہے اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا اسکا شوہر کیسا ہے اسکا مزاج کیسا ہے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنوں سے بہت دور جاچکی ہے 

دروازہ کھول کر تبریز کمرے میں داخل ہوا اور وہ رونے میں اتنی مصروف تھی کہ اسکے آنے کی خبر ہی نہ ہوئی تبریز کو اسکے رونے پر بہت غصہ آرہا تھا جبھی تیزی سے آگے بڑھا اور اسکے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا

"کس بات کا سوگ منارہی ہو" تبریز نے دانت پیستے ہوے کہا جبکہ اسکے بازوؤں پر گرفت جو مزید سخت ہوچکی تھی اسکے گھبرانے پر اسکے بازوؤں پر اپنی گرفت ہلکی کردی 

"کس بات پر اتنا رویا جارہا ہے میری جان" تبریز نے اپنا بھاری مظبوط ہاتھ اسکے نازک گال پر رکھتے ہوے کہا نور نے اپنا کپکپاتا ہاتھ تبریز کے ہاتھ پر رکھ کر اسکا ہاتھ ہٹانا چاہا جو اسلیے تقریبا ناممکن تھا 

"تمہارے ساتھ کوئی انوکھی بات نہیں ہوئی ہے تمہاری شادی ہوئی ہے جو ہر لڑکی کی ہوتی ہے بس ایک بات کہوں گا نور جان کبھی مجھے دھوکہ مت دینا" تبریز نے اسکے دونوں ہاتھ تھامتے ہوے کہا جب نظر اسکی ہتھیلی کی مہندی پر گئی جہاں کونے پر چھوٹا سا عبیر لکھا ہوا تھا تبریز کی نظریں اس لفظ پر تھیں لیکن نور کے ہاتھ پر گرفت سخت اتنی ہورہی تھی کہ اسکا ہاتھ سفید ہوچکا تھا 

تبریز نے اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر نور کو دیکھا جو خود خوفزدہ ہوکر اپنی سبز نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی 

"کل تک یہ نام تمہارے ہاتھ سے مٹ جانا چاہیے اور اگر نہ مٹا تو میں جس طریقے سے مٹاؤنگا تمہیں یقینا پسند نہیں آے گا---" تبریز نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا اور بنا اسے دیکھے غصے سے کمرے سے باہر چلا گیا 

اسکے جھٹکا دینے پر نور کا سر پیچھے بیڈ سے جا لگا اسنے تکلیف سے کراہتے ہوے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا جہاں سے خون نکل رہا تھا 

اسنے اپنا ڈوپٹہ اس جگہ پر رکھ دیا جہاں سے خون نکل رہا تھا اور پھر سسک سسک کر رونے لگی

❤❤❤❤ 

شہرام جیسے ہی اپنے کمرے کی طرف جانے لگا اپنے کمرے کے دروازے پر دو پہرےدارو کو دیکھ کر گہرا سانس لے کر رہ گیا 

"بھائی کہاں رہ گئے تھے اتنی نیند آرہی تھی" حوریہ نے منہ بناتے ہوے کہا 

"تو گڑیا سوجانا تھا نہ" 

"بھائی اگر سو جاتی تو میرے حصے کا کیا ہوتا چلیے اب جلدی سے ہمیں پیسے دے دیجیے "حوریہ نے اپنا ہاتھ شہرام کے آگے کرتے ہوے کہا 

جب شہرام نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھ دی حوریہ نے اس ڈبیہ کو کھول کر دیکھا جس میں ڈائمنڈ رنگ تھی اور اس پر چھوٹا سا ایچ لکھا ہوا تھا حوریہ نے خوشی سے شہرام کو دیکھا اور اسکے گلے لگ کر تیزی سے وہاں سے بھاگ گئی 

"بھائی مجھے بھی تو کچھ چاہیے "ہادی نے منہ بناتے ہوے کہا 

"کچھ نہیں ملنے والا تمہیں-----" شہرام کہتے ہوے اندر کی طرف جانے لگا جب ہادی پورے دروازے کو گھیر کر کھڑا ہوگیا 

"آہاں ،بھائی اتنی آسانی سے تھوڑی جانے دونگا پلیز کچھ تو دے دیجیے اس غریب بندے کو "

"اچھا ٹھیک ہے یار کل لے آنا اپنا لیپ ٹاپ" شہرام نے تنگ آکر کہا کیونکہ پتا تھا بنا لیے وہ مانے گا ویسے بھی نہیں 

اسکے کہنے پر ہادی خوشی سے اسکے گلے لگ کر وہاں سے چلا گیا شہرام نے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا پھر اپنے کمرے میں داخل ہوگیا 

لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے حیرت سے اپنی نیلی نگاہوں سے خالی کمرے کو دیکھا جب انابیہ واشروم سے باہر نکلی اس وقت وہ عام سے حلیے میں اسکے سامنے کھڑی تھی اور اپنی ساری جیولری وہ اتار چکی تھی شہرام نے حیرت سے اسے دیکھا 

" یہ کیا بات ہوئی میں نے تو تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا اور تم نے چینج کر لیا"شہرام شرارت سے کہتے ہوے چلتا اسکے قریب آ گیا انابیہ بنا کچھ کہے وہاں سے جانے لگی جب شہرام نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کر لیا 

"کیا بات ہے مسسز "

"چھوڑیں مجھے" انابیہ نے اپنا آپ چھڑاتے ہوے کہا 

"کیوں اب تو مجھے حق ہے" 

"میں نے آپ کو ایسا کوئی حق نہیں دیا "انابیہ نے جھٹکے سے کہتے ہوے اپنا آپ چھڑالیا 

"انابیہ میری جان کیا ہوا ہے میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو آئی ایم سوری تم دیکھنا میں تمہیں اتنی محبت دونگا" شہرام نے اسکے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوے کہا جب انابیہ نے اسکی بات کاٹ دی

"مجھے آپ کا سوری نہیں چاہیے میں نے یہ رشتہ صرف اپنے گھر والوں کی وجہ سے کیا ہے اس سے زیادہ میرے نزدیک اس رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے" انابیہ اسکا ہاتھ اپنے گال سے ہٹا کر وہاں سے چلے گئی شہرام گردن موڑ کر کتنی دیر تک اسے دیکھتا رہا جو اب اپنے سونے کی تیاری کررہی تھی 

"میں تمہیں منالونگا میری جان-----" شہرام نے آہستہ سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

❤❤❤❤

"نور" ماجدہ بیگم پریشانی سے نور کی طرف بڑھی جس نے اپنے ہاتھوں کے درمیان اپنا سر بیڈ پر رکھا ہوا تھا 

وہ تبریز کو کمرے سے غصے میں نکلتا ہوا دیکھ چکی تھیں 

تھوڑی دیر انتظار کے بعد بھی جب وہ دوبارہ اپنے کمرے میں نہیں آیا تو وہ خود نور کو دیکھنے کے لیے چلی آئیں  

نور نے اپنی آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا کسی کو اپنے پاس پاکر انکے گلے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی 

ماجدہ بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا 

"یہ چوٹ کیسے لگی" انہوں اسکی چوٹ کو دیکھتے ہوے کہا جہاں اب خون جم چکا تھا نور نے بنا کچھ کہے ان سے دور ہوکر اپنے آنسو صاف کیے 

ماجدہ بیگم اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر فرسٹ ایڈ باکس لے کر واپس اس کے پاس آگئیں 

"آپ یہاں کیا کررہی ہیں" پیچھے سے تبریز کی بھاری آواز پر انہوں نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا وہاں تبریز کو کھڑا دیکھ کر نور ماجدہ بیگم کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہوگئی تھی

"م-میں تو بس ن-نور کو دیکهنے آئی تھی" 

"کوئی ضرورت نہیں ہے میری بیوی ہے میں خیال رکھ سکتا ہوں آپ جاسکتی ہیں" تبریز نے سختی سے کہتے ہوے باہر کی طرف اشارہ کیا ماجدہ بیگم نے ایک نظر اپنے پیچھے کھڑی نور پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئیں تبریز نے وہ فرسٹ ایڈ بوکس اپنے مظبوط ہاتھ میں لیا اور صوفے پر جاکر بیٹھ گیا 

"ادھر آؤ "تبریز کے سختی سے کہنے پر نور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی تبریز نے اسکا ہاتھ تھام کر جھٹکے سے کھینچ کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا جبکہ اس کی اس حرکت پرنور جو اٹھنے والی تھی اسکی گھورنے پر بیٹھی رہی 

تبریز نرمی سے اسکا زخم صاف کرنے لگا اور نور بس اس کام کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی

 بینڈیج ہوتے ہی وہ فورا اسکی گود سے اٹھ کر جانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی تبریز نے اسے کھینچ کر پورے استحقاق سے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا

"م-مجھے نیچے ا-اتاریں" 

"تم نیچے اتارنے کی بات کررہی ہو میرا بس چلے تو تمہارے پیر ہی کاٹ دوں تاکہ تم ہمیشہ میرے اتنے قریب رہو "تبریز کے کہنے پر نور نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ جیسے وہ واقعی میں اسکے پیر کاٹ دے گا 

"رلیکس نور جان مذاق کررہا تھا "تبریز نے کہتے ہوے اسے نیچے اتارا 

"جاؤ چینج کرلو "

"میرے پاس کپڑے نہیں ہیں" نور کے کہنے پر کچھ سوچ کر تبریز نے اپنی وارڈرب سے اپنا بلیک کلر کا نائٹ ڈریس نکال کر اسے دے دیا وہ اس کے سائز کا تو نہیں تھا لیکن ابھی کے لیے بلکل ٹھیک تھا چپ چاپ وہ سوٹ لے کر نور چینج کرنے چلی گئی

اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ سوٹ پہن کر آچکی تھی اور اسے دیکھتے ہی تبریز کی نظریں تو اسکے سراپے سے ہٹ ہی نہیں رہیں تھیں شرٹ اسکے لحاظ سے کافی زیادہ ڈھیلی تھی جبکہ ٹراؤزر تین چار فولڈ کے بعد بھی زمین کو چھورہا تھا 

تبریز مسکراتے ہوے اسکے قریب گیا اور اس ٹراؤزر کو اسکے حساب سے کرنے لگا ٹھیک تو ابھی بھی نہیں ہوا تھا لیکن پہلے سے بہتر تھا 

تبریز نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ کی طرف لے گیا نور کا دل دوسو کی سپیڈ پر دھڑکنے لگا 

تبریز نے اسکا سر اپنے مظبوط سینے پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا نور جو اس سے تھوڑا فاصلہ بنا رہی تھی لیکن کافی دیر محنت کے بعد بھی جب تبریز کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی تو وہ خود بھی تھک کر اسی پوزیشن میں لیٹے لیٹے سو گئی تبریز نے اپنے آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوے اپنی نور جان کو دیکھا پھر اسکی چوٹ پر اپنے لب رکھ دیے 

"اس کے لیے آئی -ایم -سوری" تبریز نے کہتے ہوے اسے مزید خود میں قید کیا اور پرسکون ہو کر سوگیا 

نور نے آنکھیں کھول کر حیرت سے اس جگہ کو دیکھا وہ کہاں ہے لیکن بعد میں کل کا سارا منظر اسے یاد آچکا تھا جب ہاتھ بے اختیار اپنی چوٹ پر گیا دو آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے گرے 

ناک کرکے ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں چند بیگز تھے جو اسنے صوفے پر رکھ دیے 

"چھوٹے صاحب نے کہا ہے آپ یہ کپڑے پہن کر تیار ہوجایے" ملازمہ ادب سے کہتی ہوئی کمرے سے چلی گئی 

نور اپنی جگہ سے اٹھ کر ان بیگز کے اندر موجود کپڑوں کو دیکھنے لگی جو سارے ہی برینڈیڈ تھے ہر بیگ میں دو سے تین سوٹ موجود تھے لیکن ایک ہی بیگ ایسا تھا جس میں صرف ایک ڈریس موجود تھا نور نے وہ ڈریس نکال کر دیکھا اور پھر اسی ڈریس کو لے واشروم میں چلی گئی 

❤❤❤❤

اپنے اوپر وزن محسوس ہونے کی وجہ سے انابیہ کی آنکھ کھلی انابیہ نے حیرت سے شہرام کو دیکھا جو اپنا آدھے سے زیادہ وجود اسکے اوپر ڈال کر مزے سے سو رہا تھا 

انابیہ نے اسے دھکا دے کر خود پر سے اٹھایا دوسری طرف اپنے آپ کو دھکا لگنے پر شہرام گہری نیند سے اٹھا 

"کیا ہوا بیوی صبح صبح کیوں مرچیں چبارہی ہو" شہرام نے نیند میں ڈوبی آواز سے کہا 

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟؟" 

"تو مجھے اور کہاں ہونا چاہیے تھا -----"شہرام نے جواب دینے کے بجاے اسکے سوال پر سوال کیا 

"آپ کو صوفے پر سونا چاہیے تھا" انابیہ نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا جبکہ اسکی بات پر شہرام نے حیرت سے منہ کھول کر اس دیکھا 

"تمہیں اس صوفے کا سائز نظر نہیں آرہا ارے تم خود بھی اس پر پوری طرح فٹ نہیں آؤگی تو میں کہاں سے آسکتا ہوں" 

"ٹھیک ہے پھر میں ہی جارہی ہوں" انابیہ کہتے ہوے اپنا تکیہ اٹھا کر بیڈ سے اٹھنے لگی جب شہر نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کھینچ لیا 

"خبردار، جو اس بیڈ سے اتری ،" شہرام کے سختی سے کہنے پر انابیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا لیکن پھر نظر کمرے میں موجود چھوٹے چھوٹے کشن پر گئی انابیہ نے بیڈ کے بیچ میں وہ کشن لگا کر دیوار بنادی شہرام نے مسکراتے ہوے اسکی حرکت کو دیکھا 

"میری جان اگر میں تمہارے قریب آنا چاہوں تو تمہاری یہ دیوار بھی مجھے نہیں روک سکتی" شہرام نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوے کہا اور کمبل اوڑھ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا 

❤❤❤❤

ماجدہ بیگم نے ناشتے کی تیاری کرواتے ہوے مڑ کر دیکھا جہاں دروازے پر نور کھڑی تھی انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا 

"آجاؤ بیٹا وہاں کیوں کھڑی ہو" ان کے پیار سے بلانے پر نور انہیں سلام کرتی آہستہ سے چلتی ہوئی کچن میں داخل ہوگئی  

ماجدہ بیگم نے آہستہ سے اسکی پٹی پر ہاتھ رکھا یہ چوٹ تبریز نے اسے دی تھی اس بات کا انہیں شک تھا لیکن وہ شک بھی یقین میں بدل گیا جب صبح خود اسکے بھی اسی جگہ چوٹ لگی ہوئی دیکھی اور انہی اس بات کا بھی یقین تھا کہ وہ چوٹ اسنے جان بوجھ کر خود سے اپنے آپ کو لگائی ہے بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسنے اپنی جان کو تکلیف دی اور اسے کوئی فرق بھی نہیں پڑا 

"--آنٹی وہ----- "

"بیٹا میں تمہاری پھوپھو ہوں تو تم مجھے وہی بلانا "ماجدہ بیگم نے اسکا چہرہ تھوڑی سے اوپر کرکے کہا جس پر نور نے اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

❤❤❤❤

"ارے بیٹا اتنی جلدی اٹھ گئیں" اماں بی نے سلام کرتی انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا اور باقی سب کے ساتھ ڈائینگ ٹیبل ہر بیٹھ گئی 

"جی اماں بی میں جلدی ہی اٹھتی ہوں "

"بیٹا شہرام اٹھ گیا" نرمین بیگم نے چاے کا کپ اسکی طرف بڑھاتے ہوے کہا

"نہیں آنٹی وہ سورہے ہیں" 

"انابیہ میں تمہاری بھی ماں ہی ہوں تو تم بھی مجھے باقی سب کی طرح موم بلایا کرو مجھے اچھا لگے گا" نرمین بیگم کے کہنے پر انابیہ نے مسکراتے ہوے اہنا سر ہلا دیا 

"اوے بیہ" حوریہ نے آہستہ آواز میں کہا 

"کیا ہے-------" 

"کچھ بتاؤ تو سہی" حوریہ نے اپنے دونوں ہاتھ مسلتے ہوے مسکراکر اسے دیکھا اسکی بات پر انابیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

"کس بارے میں ؟؟؟"

"ارے یار رات کے بارے کیا ہوا" پہلے تو انابیہ کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی لیکن بات سمجھ آنے ہر سرخ چہرے کے ساتھ اسی گھورنے لگی 

"تم نہ چپ چاپ ناشتہ کرو" انابیہ کے کہنے پر حوریہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"اچھا تو پھر گفٹ ہی بتادو"

"بعد میں دکھاؤنگی ابھی تو ناشتہ کرو "انابیہ کے کہنے پر حوریہ دوبارہ اپنے ناشتے میں مصروف ہوگئی جبکہ انابیہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ حوریہ کو دکھاے گی کیا ؟ کیونکہ اسکے کنجوس شوہر نے اسے کوئی گفٹ دیا ہی کب تھا یا شاید اسکے رویے کی وجہ سے نہیں دیا 

❤❤❤❤ 

روم میں داخل ہوتے ہی تبریز کی نظر سامنے تیار بیٹھی نور پر گئی جو اس وقت ریڈ ہیوی فراک پہنے کھلے بالوں کے ساتھ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی اس کلر کو دیکھ کر تبریز کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کلر بنا ہی اس کے لیے ہے جبکہ میک اپ کے نام پر اسنے صرف لال سرخ لپسٹک اور مسکارا لگایا تھا

"کہاں کی تیاری ہے" تبریز نے سوچوں میں گم بیٹھی نور سے کہا جو اسکے کہنے پر چونک کر سیدھی کھڑی ہوکر اپنی نگاہیں جھکا گئی  

"میں نے پوچھا کہاں جانے کی تیاری ہے یا پھر اس خوش فہمی میں پڑ جاؤں کہ میرے لیے تم تیار ہوئی ہو" تبریز کہتے ہوے اسکی طرف بڑھنے لگا جب اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ نور اپنے قدم پیچھے کی طرف اُٹھانے لگی جب پیچھے دیوار اسکا راستہ ختم کر چکی تھی تبریز نے اسکے دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھ دیے 

"و-وہ آ-آج حوریہ آپ-آپی کی بارات ہے "

"تو تم نے مجھ سے اجازت لی---" نور نے اپنی سبز آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا جب نظر تبریز کی سبز آنکھوں پر پڑی وہ فورا اپنی نگاہیں جھکا گئی

"وہ م-میں نے پھوپھو س-سے پوچھا تھا "

"کہیں بھی جانا ہو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہو گی آئی سمجھ "تبریز کے کہنے پر اسنے جلدی سے اپنے سر کو جنبش دی تبریز نے مسکراتے ہوے اس دیکھا جب نظر اسکے لپسٹک سے سجے سرخ ہونٹوں پر پڑی 

تبریز نے سیکنڈ میں اسکے اور اپنے درمیان وہ فاصلہ ختم کیا

اسکے شدت بھرے انداز پر نور نے اسکے مظبوط سینے پر ہاتھ رکھ کر خود سے دور کرنا چاہا اور شاید تبریز کو اسکی یہ مداخلت پسند نہیں آئی تھی جب ہی اسکے دونوں ہاتھ دیوار سے لگا دیے 

تبریز نے دور ہوکر اسکا چہرہ دیکھا جو سفید سے سرخ ہوچکا تھا تبریز نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا جو اب گہرے گہرے سانس لے رہی تھی

"اپنا یہ ڈریس چینج کرو اور کوئی وائٹ یا بلیک کلر کا ڈریس پہننا "

"ل-لیکن کیوں" 

"کیوں کہ میں کہہ رہا ہوں مجھے نہیں پسند تم اس طرح تیار ہوکر باہر جاؤ ،بلکہ رکو------" تبریز کہتے ہوے اسکی وارڈروب کی طرف بڑھ گیا اور اس میں سے ایک وائٹ کلر کا سمپل سا ڈریس نکال کر اسے دیا 

نور نے حیرت سے اس ڈریس کو دیکھا وہ کہیں سے بھی ایسا ڈریس نہیں تھا جسے کوئی بندہ کسی تقریب میں پہن سکے اسکی نظروں کا مطلب سمجھتے ہی تبریز نے وہ ڈریس رکھ کر ایک بلیک کلر کی میکسی نکال کر اسے دے دی

نور نے اسکے ہاتھ سے وہ میکسی تھام لی اور چینج کرنے چلی گئی

"یہ والی لپسٹک لگاؤ" تبریز نے لائٹ پنک کلر کی لپسٹیک اسے دے دی جو کہ نور نے بنا کچھ کہے لگا لی

"اپنے بال باندھو "

کیا نور نے حیرت سے کہا 

"میں نے کہا اپنے بال باندھو باہر جاتے وقت تم انہیں باندھا کرو گی گھر میں چاہے جیسے بھی رہو "

نور نے منہ بناتے ہوے اپنے کھلے ہوے بالوں کی پونی ٹیل بنالی 

"تمہارے گلاسز کہاں ہیں "تبریز نے ارد گرد نظریں دوڑاتے ہوے کہا 

"وہ مل نہیں رہے میں نے سوچا بعد میں ڈھونڈلونگی-------" نور نے نظریں جھکا کر جھوٹ کہا کہ کہیں تبریز وہ بھی نہ پہنادے 

تبریز اپنا سر ہلا کر خود بھی تیار ہونے چلا گیا 

❤❤❤❤

"نور بیٹا اتنی پیاری تو لگ رہی تھیں چینج کیوں کیا اور تم نے بال کیوں باندھ لیے "ماجدہ بیگم نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوے کہا لگ تو ابھی بھی وہ بہت کیوٹ اور پیاری رہی تھی 

کیونکہ میں نے کہا تھا" تبریز  نے سڑھیوں سے اترتے ہوے کہا 

"اور یقینا وہ ہیوی ڈریس کھلے بال اور باقی سب چیزوں کا مشہورہ بھی آپ نے ہی دیا ہوگا " 

"میں تو بس،،" ماجدہ بیگم نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اسے سے پہلے ہی تبریز انکی بات کاٹ چکا تھا

"آیندہ اپنے قیمتی مشہورے اپنے پاس ہی رکھینگی تو بہتر ہوگا "تبریز بدلحاظی سے کہتے ہوے نور کا ہاتھ تھام کر باہر کی طرح بڑھ گیا 

"میری بات سنو اس لڑکے سے دور رہنا ورنہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا "تبریز نے اسکے کان میں اپنی بھاری آواز میں سے سرگوشی کی اور اسے کار میں بیٹھا دیا  

جبکہ اس لڑکے کا نام لیے بنا بھی نور سمجھ چکی تھی کہ وہ عبیر کی بات کررہا ہے

❤❤❤❤

حوریہ نے گھبرا کر اس خوبصورت کمرے کو دیکھا جو پورا پھولوں سے سجا ہوا تھا ویسے تو وہ اس کمرے میں پہلے بھی بہت بار آچکی تھی لیکن آج تو بات ہی کچھ اور تھی اسے یہی لگ رہا تھا کہ کم سے کم آج تو حدید اپنی ناراضگی ختم کرلے گا لیکن اسکی یہ خوش فہمی بھی جلد ہی دور ہوگئی 

جب حدید نے کمرے میں داخل ہوکر بنا اسکی طرف دیکھے اپنی وارڈروب سے کپڑے نکال کر واشروم کی طرف چلا گیا 

حوریہ نے اپنی آنکھ سے نکلے آنسو صاف کیے اور اسکے واپس آنے کا انتظار کرنے لگی 

جب حدید واشروم سے نکل کر بیڈ کی طرف آیا اور اسکا پورے بیڈ پر پھیلا ہوا شرارہ سائیڈ کرکے اپنی جگہ بناکر آنکھوں پر بازو رکھ کر لیٹ گیا 

"حدید ،پلیز مجھ سے بات کریں" حوریہ نے اپنی نم آواز میں اسے دیکھتے ہوے کہا 

"پلیز لائٹ آف کردو "حدید نے ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹے ہوے کہا 

"میری غلطی اتنی بڑی تو نہیں تھی "حوریہ کافی دیر اسکے بولنے کا انتظار کرتی رہی لیکن اسکے کچھ نہ کہنے پر خود بھی چینج کرنے چلی گئی 

اور پھر اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی واشروم سے باہر نکل کر بیڈ پر بیٹھ کر کافی دیر حدید کا چہرہ دیکھتی رہی جو شاید نیند میں جاچکا تھا حوریہ نے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ لیا اور کچھ ہی دیر میں وہ خود بھی نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی جب اسے حدید کا حصار اپنے گرد محسوس ہوا 

❤❤❤❤

حدید تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا آج اسکا اور شہرام کا ولیمہ تھا  جس میں اسنے حوریہ کے حسین سراپے سے بامشکل نظریں چرائی تھیں لیکن اب وہ اپنی حور سے مزید ناراض نہیں رہنے والا تھا 

کمرے میں قدم رکھتے ہی اسکے کانوں میں گانے کی آواز پڑی اسنے حیرت سے پورے کمرے کو دیکھا 

جہاں بیڈ پر پھولوں سے دل بنایا ہوا تھا اور بیڈ کے اوپر غباروں سے سوری لکھا ہوا تھا کمرے میں جگہ جگہ پھول بکھرے ہوے تھے مگر اس سے بھی زیادہ حیرت اسے جب ہوئی جب اسنے اپنے پیچھے کھڑی حوریہ پر پڑی ایک پرانہ منظر اسکے زہہن کے پردے پر لہرایا 

"یہ کیا ہے حدید" حوریہ نے حیرت سے اپنے ہاتھ میں موجود پیک شدہ گفٹ کو دیکھتے ہوے کہا 

"میری جان یہ تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہے جلدی سے اسے کھولو اور پھر جلدی سے پہن کر آؤ" حدید کے کہنے ہر حوریہ نے خوشی خوشی جلدی سے اسے کھولا لیکن اندر سے برآمد ہوے گفٹ کو دیکھ کر اسنے اپنے سرخ چہرے کے ساتھ غصے سے حدید کو دیکھا 

"یہ کیا ہے؟؟" حوریہ نے اپنے ہاتھ میں موجود گفٹ کو دیکھتے ہوے کہا 

"میری جان یہ تمہارا گفٹ ہے----" حدید نے معصومیت سے جواب دیا 

"ایک یہی گفٹ ملا تھا آپکو "

"ہاں یہی ملا تھا اب یہ تم پر ہے تم اب ہی پہننا چاہتی ہو یا پھر بعد میں" حدید کہتے ہوے اسکے مزید قریب آگیا 

"میں یہ کبھی بھی نہیں پہنو گی حدید سن لیں آپ "

"ہاہا میری جان پہنو گی تو تم ضرور ورنہ میں خود تمہیں"

"اف حدید----" حدید کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حوریہ نے اسکا تحفہ اسکے اوپر پھیکا اور خود وہاں سے بھاگ گئی 

حدید حیرت سے سامنے کھڑی حوریہ کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت اُسکے دیے ہوے اسی گفٹ میں موجود تھی جو حدید نے اسے دیا تھا وہ سلیولیس لباس حوریہ کے گھٹنوں تک آرہا تھا اور اسے دیکھنے کے بعد تو حدید جیسے کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا

"تمہیں دیکھو نہ یہ کیا ہو گیا"  

"تمہارا ہوں میں اور تم میری" 

"میں حیران ہوں تمہیں کیا کہوں"

" یہ دن میں ہوئی کیسے چاندنی"

"یہ سب کیا ہے" حدید نے اسکے دلکش سراپے کو دیکھتے ہوے کہا جبکہ حوریہ بنا اسے کوئی جواب دیے اسکے سینے سے لگ گئی اور حدید کو تو جیسے یہ سب خواب لگ رہا تھا 

"جاگی جاگی سی ہے پھر بھی خوابوں میں ہے"

" کھوئی کھوئی زندگی "

"تمہیں دیکھو نہ یہ کیا ہو گیا"  

"تمہارا ہوں میں اور تم میری" 

"آئی-ایم سوری حدید میں جانتی ہوں مجھے آپ کو سب بتا دینا چاہیے تھا لیکن میں ڈر گئی تھی اسنے کہا اگر میں نے آپ سے خلع نہیں لیا تو وہ آپ کو ماردیا گا پہلے مجھے لگا کہ وہ صرف مجھے ڈرانے کے لیے کہہ رہا ہے اسلیے میں نے اتنا دیھان نہیں دیا لیکن جب دو بار آپ کو چوٹ لگی تو میں ڈر گئی مجھے لگا وہ آپ کو کچھ نہ کردے اور اسکے پاس میری تصویر بھی تھیں آپ پلیز اپنی ناراضگی ختم کر لیجیے مجھ سے اور برادشت نہیں ہوگی "حوریہ روتے ہوے اسے ہر بات بتارہی تھی جبکہ حدید اسے اپنے حصار میں لے کر کھڑا اسکی باتیں سن رہا تھا 

"میں تو اپنی ناراضگی کب کی ختم کرچکا ہوں بس تمہیں تھوڑا تنگ کررہا تھا "حوریہ نے اسکے سینے سے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا 

"تو آپ ناراض نہیں ہیں نہ "

"نہیں" حدید نے اسکے آنسو انگلیوں کے پوروں سے صاف کرتے ہوے کہا 

"حور میری جان بس آیندہ کوئی بھی بات ہو تم مجھے بتاؤ گی "

"میں نے آپ کو اسلیے نہیں بتایا تھا آپ پریشان ہوجاتے "

"اور خود جو تم اتنے دنوں پریشان تھیں آیندہ کوئی بھی بات ہو تم مجھے بتاؤ گی کیا میں اس لائق نہیں ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پریشانی شئیر کر سکو "

"سوری حدید میں پکا اب ہر بات آپکو بتاؤنگی" حوریہ نے معصومیت سے کہتے ہوے اپنے آنسو صاف کیے اور اسکے ماتھے پر ہلکے سے اپنے لب رکھ دیے

"بہکے بہکے سے من" 

"مہکے مہکے سے تن "

"اُوجلی اُوجلی فضاؤں میں ہے"

حدید نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید اپنے قریب کرلیا  

"آج ہم ہیں جہاں کتنی رنگینیاں "

"جھلکی جھلکی نگاہوں میں ہے "

حدید نے اسکا ہاتھ تھام کر اس ہر اپنے لب رکھ دیے 

"مجھے لگا یہ ڈریس مجھے تمہیں زبردستی پہنانی ہوگی "

حدید کے کہنے پر حوریہ نے شرماتے ہوے اسے دیکھا اور اسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا اور دونوں ہلکے ہلکے موو کرنے لگے 

"نیلی نیلی گھٹاؤں سے ہے چن رہی "

"ہلکی ہلکی روشنی "

"تمہیں دیکھو نہ یہ کیا ہو گیا"  

"تمہارا ہوں میں اور تم میری" 

"میں حیران ہوں تمہیں کیا کہوں"

" یہ دن میں ہوئی کیسے چاندنی"

حدید اسکے بالوں میں نرمی سے اہنے ہاتھ ڈالا اور اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ کر اسکے گالوں پر اپنے لب رکھ دیے 

"میں تو انجان تھی یوں بھی ہوگا کبھی"

" پیار برسے گا یوں ٹوٹ کے"

"آئی لو یو مائی لائف" حدید نے کہتے ہوے اسکی گردن پر اپنے لب رکھے دیے 

"سچ یہ اقرار ہے سچ یہی پیار ہے" 

"باقی بندھن ہیں سب جھوٹ کے "

حدید نے نرمی سے اسکی سانسوں کو اپنی قید میں لے لیا 

"میری سانسوں میں ہے گھل رہی پیار کی "

"دھیمی دھیمی راگنی"

حدید نے اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹادیا حوریہ نے سختی سے اسکی شرٹ اپنے ہاتهوں میں تھامی ہوئی تھی

"-ح-حدی-د" 

"شش"- حدید نے اسکے نرم لبوں پر اپنی انگلی رکھ دی اور اس پر جھک گیا حوریہ نے بھی گھبراتے ہوے اپنا آپ اسے سونپ دیا 

"تمہیں دیکھو نہ یہ کیا ہو گیا"  

"تمہارا ہوں میں اور تم میری" 

"میں حیران ہوں تمہیں کیا کہوں"

" یہ دن میں ہوئی کیسے چاندنی"

❤❤❤❤

 کمرے میں داخل ہوتے ہی شہرام سرد آہ بھر کر رہ گیا کیونکہ اسکی بیوی آج پھر اپنا سارا سنگھار اتار چکی تھی 

"دل کے ارمان دل میں ہی رہ جائینگے" شہرام بڑبڑاتے ہوے اپنی وارڈروب کی طرف بڑھ گیا لیکن اسکی یہ بڑبڑاہٹ انابیہ بھی سن چکی تھی لیکن پھر بھی بنا کچھ بولے اپنے اوپر کمبل درست کرکے لیٹ گئی 

"انابیہ ایسا کب تک چلے گا" شہرام نے اسکے پاس آکر پوچھا جو بنا اسکی بات کا جواب دیے اسی طرح لیٹی رہی 

"میں تم سے بات کررہا ہوں" اب کی بار اسنے تھوڑا سختی سے کہتے ہوے اسکے اوپر سے کمبل کھینچ لیا 

"کیا بدتمیزی ہے" 

"اور جو تم کررہی ہو وہ ٹھیک ہے "

"میں نے کچھ نہیں کیا آپ ہی کی خواہش تھی مجھ سے شادی کرنے کی میں نے نہیں کہا تھا "

"انابیہ میں محبت کرتا ہوں تم سے بے حد "

"سید شہرام درانی میں نے نہیں کہا کہ آپ مجھ سے محبت کیجیے اور شاید آپ بھول سکتے ہیں لیکن میں نہیں بھول سکتی آپ نے میرے ساتھ کیا کیا "وہ انتہائی بدتمیزی سے اسے دیکھتے ہوے کہنے لگی 

"میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا تھا پر تم تمہارے ساتھ پلیز ایک بار معاف کردو "شہرام نے اسکے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوے کہا جسے انابیہ نے جھٹکے سے ہٹا دیا اور بنا کچھ کہے جاکر بیڈ پر لیٹ گئی

"دیکھنا انابیہ بہت جلد تمہیں میری محبت پر یقین ہوجاے گا" شہرام کہہ کر وہاں سے چلا گیا 

❤❤❤❤

"چلو آجاؤ مس عورت" ہادی نے آسکریم پارلر کے سنے گاڑی روک کر اپنے برابر بیٹھی عائشہ سے کہا 

"میں نہیں آرہی تم لے کر آؤ اور سنو دو لا کر دینا ایک کون میں ایک کپ میں" عائشہ نے اسے اپنی دو انگلیاں دکھاتے ہوے کہا 

"لیکن بات تو ایک ہی کی ہوئی تھی "

"بات ایک ہی کی نہیں ہوئی تھی بات صرف آئسکریم کی ہوئی تھی کہ میں تمہاری دوستی کی آفر تبھی قبول کرونگی جب تم مجھے آسکریم کھلاؤ گے" ہادی نے بےچارگی سے اسے دیکھا اور گاڑی سے نکل کر اندر چلا گیا 

اسکے جانے کے بعد عائشہ نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے باہر دیکھا جہاں ہلکی ہلکی بوندیں گررہی تھیں 

ایسے موسم میں ہمیشہ وہ گانے سنتی تھی یہی سوچتے ہوے اسکی نظر پلئیر پر گئی عائشہ نے مسکراتے ہوے اسے آن کردیا اور مسکراتے ہوے اس موسم اور گانے کا انجواے کرنے لگی جب نظر ہادی پر پڑی جو بھاگتے ہوے اپنی کار کی طرف آرہا تھا بارش اب بہت تیز ہوچکی تھی 

"میں نے جانی عشق کی گلی" 

"بس تیری آہٹیں ملیں"

"میں نے چاہا ،چاہوں نہ تجھے" 

"پر میری ایک نہ چلی" 

ہادی نے گاڑی میں بیٹھ آئسکریم عائشہ کو دے دی عائشہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"یہ تو ایک ہی ہے "

"مس عورت پہلے یہ کھالو پھر دوسری لادونگا "

"عشق میں نگاہوں کو ملتی ہیں بارشیں"

" پھر بھی کیوں کررہا دل تیری خواہشیں "

"دل میری نہ سنے دل کی میں نہ سنوں"

"دل میری نہ سنے دل کا میں کیا کروں"

عائشہ نے ایک نظر اپنے برابر بیٹھے شخص کو دیکھا جو اس وقت بلیک پینٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ میں ملبوس تھا بارش کی وجہ سے چند گیلی لٹیں ماتھے پر گری ہوئی تھیں

 اپنے آپ کو نظروں کے حصار میں محسوس کرکے ہادی نے مڑ کر اسے دیکھا جو اس کے دیکھنے پر سٹپٹا کر اپنی آئسکیریم کی طرف متوجہ ہوگئی اس کی حرکت پر ہادی نے اپنی مسکراہٹ دبائی 

❤❤❤❤ 

دروازہ نوک ہونے کی آواز پر اسنے اپنا آنسو سے تر چہرہ اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا اور اندر آنے کی اجازت دی وہ صبح سے ہی کمرے میں بند آنسو بہارہی تھی کیونکہ تبریز نے صبح صبح ہی اسے اچھا خاصا ڈانٹ دیا تھا اتنے وقت میں اسے اتنا اندازہ تو ہو گیا تھا کہ تبریز بہت غصے والا ہے اور آج صبح ہی وہ اسے اچھا خاصا ڈانٹ چکا تھا کیونکہ اسکے منع کرنے کے باوجود بھی بور ہونے کی وجہ سے وہ ماجدہ بیگم کے پاس چلی گئی تھی لیکن اسکے بعد سے ہی تبریز کی وجہ سے وہ اس کمرے میں بیٹهی رو رہی تھی 

"میم یہ ڈریس پہن کر تیار ہوجایے بیوٹیشن آنے والی ہوگی "اس لڑکی نے ایک بھاری کامدار میکسی اسکے سامنے رکھتے ہوے کہا نور نے حیرت سے اس ڈریس کو دیکھا

"کس لیے ، بلکہ مجھے نہیں پہننا یہ سوٹ اور نہیں ہونا تیار" نور کہتے ہوے اپنے چہرے کا رخ پھیر گئی

"لیکن میم آج تو آپ کا ولیمہ ہے "اس لڑکی کے انکشاف پر اسنے حیرت سے لڑکی کو دیکھا اس تو پتہ ہی نہیں تھا کہ آج اسکا ولیمہ ہے 

"پلیز آپ جایے یہاں سے" نور نے کہتے ہوے اپنا چہرہ دوسری جانب کر لیا جب کمرے میں داخل ہوتے تبریز نے اسکی بات سن کر ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا جو اسکا اشارہ ملتے ہی وہاں سے چلی گئی تبریز چلتا ہوا اسکے قریب آیا جو اسکی موجودگی سے بے خبر بیٹھی ہوئی تھی 

"کیا مسلہ ہے" تبریز کی بھاری آواز سن کر نور گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی 

"تیار کیوں نہیں ہونا تمہیں" تبریز چلتا ہوا اسکے بلکل قریب آکر کھڑا ہوگیا جو نظریں جھکاے کھڑی تھی چہرے پر آنسو کے نشان موجود تھے 

"مج-مجھے کہیں نہیں جانا "

"جانا تو پڑے گا نہ میری جان آج خاص دن ہے" تبریز نے محبت سے کہتے ہوے اسکا گال تھپکا وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ اسکے صبح غصہ کرنے کی وجہ سے رو رہی تھی 

"ٹھیک ہے میں آیندہ تم پر غصہ نہیں کرونگا اب جلدی سے فریش ہوجاؤ کھانا کھاؤ اور پھر تمہیں تیار ہونا ہے" تبریز کے کہنے پر نور نے ایک نظر اسے دیکھا اور واشروم میں چلی گئی اسے پتا تھا اگر وہ منع بھی کرتی تو ہونا وہی تھا جو تبریز نے کہا ہے 

❤❤❤❤

آج نور اور تبریز کے ولیمے کی رسم تھی

سب کی نظریں دلہن بنی نور پر تھیں جو دلہن بنی غضب کی لگ رہی تھی ٹی پنک کلر کی کامدار میکسی میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی 

"حاشر بھائی" حاشر نے مڑ کر اپنے پیچھے کھڑے ہادی کو دیکھا جو اپنی بتیسی دکھاے اسے دیکھ رہا تھا 

"تمہارا تو ہر جگہ آنا لازمی ہے ،ہے نہ ورنہ فنکشن شروع کیسے ہوگا "حاشر نے اسے دیکھتے ہوے کہا جو جوابا اور زیادہ مسکرانے لگا 

"جانتا ہوں لیکن ابھی میں تو آپ کے والٹ کا پوچھنے آیا تھا" ہادی کے کہنے پر حاشر جلدی سے اپنی پوکیٹس میں والٹ چیک کرنے لگا 

"وہ میرے پاس ہے" ہادی نے اپنے ہاتھ میں موجود اسکا والٹ دیکھاتے ہوے کہا جبکہ اسکے دکھانے پر حاشر نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے والٹ چھین لیا 

"میں نے دو ہزار لیے ہیں آپ کے والٹ سے" 

"اچھا ،لیکن کس لیے "

"وہ نہ میں نے ہانیہ کو بیک سائیڈ پر بھیجا ہے بس اس کام کا معاوضہ لیا ہے آپ اس سے جا کر مل لیجیے "

"بےوقوف تم نے اسے وہاں کیوں بھیجا" حاشر دبا دبا سا چیخا 

"مطلب بھائی بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے جا کر کچھ بات کیجیے "

"لیکن میں کیا بات کرونگا "

"ارے آپ ٹیچر ہیں، اسکے کہہ دیجیے گا کہ کل کے ٹیسٹ کی تیاری اچھی کرنا -------"ہادی نے اپنے مطابق مشہورہ دیا 

"ہاد میں نے کوئی ٹیسٹ نہیں دیا "حاشر نے اپنے دانت پیستے ہوے کہا

"تو کہہ دیجیے کہ اگر کچھ سمجھ نہ آے کوئی پرابلم ہو تو مجھ سے پوچھ لینا وغیرہ وغیرہ اتنی تو باتیں ہوتی ہیں اب سب کچھ میں ہی بتاؤں" ہادی کے کہنے پر حاشر گہرا سانس لے کر اس طرف چلا گیا 

❤❤❤❤

"بھائی یہی وہ لڑکی ہے جس نے میری آنکھ میں مارا تھا "اس آدمی نے تھوڑی دور کھڑی ہانیہ کو دیکھتے ہوے کہا جو ارد گرد دیکھ رہی تھی 

"اس چھوٹی سی لڑکی سے تو پیٹ کے آیا تھا "اس آدمی نے حیرت سے کہا 

"بھائی ڈرتی نہیں ہے وہ "

"ابے چھوڑ چل آ دیکھتے ہیں کتنا دم ہے اس میں" وہ آدمی اپنے ساتھ موجود دو لڑکوں کو اشارہ کرکے ہانیہ کی طرف بڑھنے لگا 

ہانیہ نے حیرت سے ارد گرد دیکھا جہاں کوئی بھی نہیں تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ہادی نے اسے یہاں کیوں بھیجا ہے یہی سب سوچتے ہوے وہ اندر جانے لگی جب پیچھے سے کسی نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنی گاڑی میں ڈالنے لگا ہانیہ زور زور سے اپنے ہاتھ پیر چلانے لگی 

حاشر نے دور سے جب ہانیہ کو گاڑی میں ڈالتے ہوے دیکھا تو بھاگتے ہوے اس گاڑی کی طرف بڑھنے لگا لیکن اس کے قریب پہننے سے پہلے ہی وہ لوگ گاڑی کو وہاں سے دور لے جا چکے تھے 

حاشر بنا وقت ضایع کیے اپنی کار کی طرف بڑھا اور کار کی سپیڈ تیز کرتا ہوا اس گاڑی کے پیچھے جانے لگا 

"کون ہو تم لوگ چھ-چھوڑو مجھے" ہانیہ نے روتے ہوے اس آدمی کو دیکھتے ہوے کہا جو اسکا ڈوپٹہ اسکے وجود سے الگ کر چکا تھا جبکہ اسکے اتنا کہنے پر اس آدمی نے اپنا بھاری ہاتھ اسکے نازک چہرے پر ماردیا جس سے اس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا 

اس آدمی نے ایک سنسان جگہ پر گاڑی روک کر ہانیہ کو گاڑی سے باہر نکالا اور اسکے نکلتے ہوے باقی کے افراد بھی گاڑی سے نکل چکے تھے اسکے زور سے کھینچنے پر اسکی قمیض بازو سے پھٹ چکی تھی اور وہ روتے ہوے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کررہی تھی

 اس آدمی نے ہانیہ کے وجود کو زمین پر پھیکا جب ایک بھاری ہاتھ کا مُکا پڑتے ہی وہ پیچھے کی طرف جا گرا تھا 

حاشر کے ایسا کرتے ہی ہانیہ تیزی سے اسکے پیچھے چھپ گئی جب باقی کے افراد حاشر کو مارنے کے لیے آگے بڑھے جب حاشر پکڑ کر ان پر اپنا غصہ برسانے لگا اسکے سر پر جیسے جنون سوار تھا حاشر انہیں مارنے میں مصروف تھا جب پیچھے سے وہ آدمی اٹھ کر اپنی جیب سے گن نکال کر اس پر چلانے لگا 

یہ منظر دیکھتے ہی ہانیہ نے تیزی سے اسکے قریب جاکر اسے دھکا دیا اور دونوں ہی زمین پر گرگئے جبکہ گرنے کی وجہ سے حاشر کا بازو زخمی ہوچکا تھا اسکے ہاتھ میں موجود گن دیکھ کر حاشر ہانیہ کا ہاتھ تھام کر تیزی سے اس جگہ سے بھاگ گیا جب اپنے پیچھے اسے گولی چلنے کی آواز آئی یقینا وہ گولی اسکے لیے ہی تھی جس سے وہ بچ چکا تھا 

وہ دونوں بھاگتے ہوے کافی دور آچکے تھے پوری جگہ پر اندھیرا تھا ایسا لگ رہا تھا وہ اس وقت جنگل میں موجود ہیں 

"سر اب ہم کیا کرینگے"ہانیہ نے ڈرتے ہوے حاشر سے پوچھا 

"تمہارے پاس موبائل ہے-----" 

"نہیں وہ تو شاید اسی جگہ پر گر گیا ،سر پلیز مجھے گھر جانا ہے سب پریشان ہورہے ہونگے مجھے گھر لے کر چلیں" 

"میں بھی تمہیں سہی سلامت گھر پہچانا چاہتا ہوں لیکن اس جگہ پر مکمل اندھیرا ہے کچھ نظر نہیں آرہا اور ہمارے پاس موبائل بھی نہیں ہے" 

"تو اب ہم کیا کرینگے" ہانیہ کی رندھی ہوئی آواز سن کر حاشر نے اسے دیکھا لیکن اندھیرے کے باعث اسے کچھ بھی ٹھیک سے نہیں دکھ رہا تھا

"تم فکر مت کرو میں ہوں نہ وعدہ کرتا ہوں تمہیں خیریت سے گھر چھوڑ کر آؤنگا ابھی کے لیے یہیں پر بیٹھ جاؤ "

"میں نہیں بیٹھونگی اگر کوئی کیڑا ہوا تو یا پھر سانپ بھی ہوسکتا ہے" ہانیہ نے خوفزدہ ہوکر اسے دیکھا 

"ہانیہ کچھ نہیں ہے"

"مجھے نہیں بیٹھنا"

"ٹھیک ہے پھر تم یہیں کھڑی رہو میں بیٹھ جاتا ہوں "حاشر کہتے ہوے اس جگہ موجود درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد ہانیہ بھی منہ بناتی ہوئی حاشر سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئی جبکہ ڈر اسے ابھی بھی لگ رہا تھا

❤❤❤❤

حاشر نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا جہاں صبح ہوچکی تھی وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا اسنے اپنے برابر دیکھا جہاں ہانیہ ہر چیز سے بے خبر ہوکر سورہی تھی

"ہانیہ" حاشر نے اسے پکارا لیکن اسکے نہ اٹھنے پر ہلکے سے اسکا کندھا ہلایا 

"کیا ہے "ہانیہ نے نیند سے بھری آواز میں منہ بناتے ہوے کہا 

"ہانیہ اٹھو ہمیں چلنا ہے "حاشر کی آواز سن کر اسنے اپنی پوری آنکھیں کھول کر حیرت سے اسے دیکھا لیکن پھر سب یاد آنے پر فوری اپنی جگہ سے اٹھی 

حاشر نے اسے دیکھ کر اپنی نگاہیں چرائیں ایک تو اسکے پاس ڈوپٹہ بھی نہیں تھا دوسرا اسکے بازو کا کپڑا مکمل پھٹ چکا تھا

حاشر نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دیا ہانیہ نے فورا اسکے کوٹ کو تھام کر پہن لیا 

"چلو" حاشر نے کہتے ہوے اسے اپنے پیچھے چلنا کا اشارہ کیا

تھوڑی دیر چلنے کے بعد اسنے مڑ کر ہانیہ کو دیکھا جو اس سے کافی پیچھے تھی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھارہی تھی حاشر اپنا سر نفی میں ہلاتا ہوا اس کی طرف بڑھا

"کچوے کی رفتار سے کیوں چل رہی ہو یا پھر میری ساتھ تمہیں بہت پسند آگیا ہے" حاشر کے کہنے پر ہانیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جب حاشر کی نظر اسکے چہرے پر پڑی جہاں تکلیف دہ تاثرات موجود تھے 

"کیا ہوا" 

"وہ میرے پیر میں چوٹ لگ گئی ہے" ہانیہ نے رندھی ہوئی آواز میں معصومیت سے کہا حاشر بیٹھ کر اسکا پیر دیکھ کر اسکے زخم کا معائنہ کرنے لگا

"کیسے لگی یہ چوٹ" 

"شاید بھاگتے ہوے لگ گئی تھی جب کچھ محسوس نہیں ہوا لیکن اب چلنے میں درد ہورہا ہے "

حاشر نے کھڑے ہوکر دو پل اسے دیکھا اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا 

"سر آپ کیا کررہے ہیں مجھے نیچے اتاریں "ہانیہ نے گھبرا کر اسے دیکھتے ہوے کہا

"دیکھو ہانیہ تمہارے پیر پر چوٹ لگی ہے اور چلا تم سے جا نہیں رہا اور جس طریقے سے تم چل رہی ہو ہم کل صبح تک تو وہاں پہنچ ہی جائینگے تو ابھی کے لیے یہی بہتر ہے اب خاموش ہوجاؤ" 

"سر پلیز م-----"

"ہانیہ" حاشر کی سخت آواز سن کر ہانیہ چپ ہوکر اپنا ننھا سا دل سمبھالنے لگی جو اسکے اتنے قریب آنے پر تیز تیز دھڑک رہا تھا

❤❤❤❤

گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا ہانیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اندر کی طرف جانے لگی جہاں سامنے ہی راشدہ بیگم رو رہی تھیں اور عورتیں ان کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں 

"امی" ہانیہ نے کپکپاتی آواز میں کہا اسکی آواز سن کر راشدہ بیگم نے اسے دیکھا اور بھاگتے ہوے اسکے قریب آکر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اپنے کا سہارا ملتے ہی وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی 

راشدہ بیگم اسے اپنے ساتھ اندر لے کر آگئیں جب باہر موجود باقی افراد بھی اندر آگئے 

حاشر انہیں ساری بات بتا چکا تھا جسے سن کر احمد صاحب نے روتے ہوے حاشر کا شکریہ ادا کیا جو ان کی بیٹی کو سہی سلامت گھر لے آیا تھا

"دیکھو تو سہی ساری رات اس لڑکے کے ساتھ باہر رہ کر آئی ہے" ایک عورت نے آہستہ سے کہا لیکن وہ آواز ہانیہ سن چکی تھی جسے سن کر وہ مزید راشدہ بیگم سے چپک گئی 

"ساری رات ہانیہ اس لڑکے کے ساتھ تھی پتا نہیں کیا ،کیا ہوا ہوگا "حمیدہ (راشدہ کی بڑی بہن) نے ہانیہ کو دیکھتے ہوے کہا

"آپا کیسی باتیں کررہی ہیں آپ" راشدہ بیگم نے اپنی بہن کو خفگی سے دیکھتے ہوے کہا 

"جو سہی ہے میں تو وہی کہہ رہی ہوں ساری رات ہانیہ باہر گزار کر آئی ہے وہ بھی اس لڑکے کے ساتھ حالت نہیں دکھ رہی تمہیں اس لڑکی کی "

"چپ ہوجایے" جب بات برداشت سے باہر ہوگئی تو حاشر نے دھاڑتے ہوے کہا 

"چپ ہوجایے ورنہ میں آپکا بلکل لحاظ نہیں کرونگا" اسکے کہنے پر پہلے تو وہ سہم گئیں لیکن پھر واپس اسی بات پر آگئیں

"ارے میاں اگر اتنا ہی برا لگ رہا ہے تو تم خود ہی اس سے شادی کرلو کیونکہ اب کوئی شریف لڑکا تو اسے اپناے گا نہیں" حمیدہ کے کہنے پر حاشر نے خاموش ہوکر ہانیہ کی طرف دیکھا جس کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ قصور وار تھی 

"کہوں نہ اب کیوں خاموش ہوگئے ہو "

"بس کردو حمیدہ اب اگر تم نے میری بیٹی کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو میں بھول جاؤنگا کے تم کون ہو" احمد صاحب نے غصے سے حمیدہ دیکھتے ہوے کہا 

"مجھے قبول ہے" حاشر کی آواز پر ہانیہ کے ساتھ ساتھ سب نے حیرت سے اسے دیکھا 

"مجھے ہانیہ سے نکاح قبول ہے آپ ابھی اور اسی وقت مولوی بلاوایے" 

"حاشر یہ فیصلے جذباتی یا غصہ ہوکر نہیں لیے جاتے" شہرام نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا 

"میں نے کہہ دیا شہرام ہانیہ کا نکاح آج ہی ہوگا وہ بھی مجھ سے اور میں یہ فیصلہ اپنے پورے ہوش و حواس میں کررہا ہوں" 

حاشر کہہ کر اس جگہ سے باہر نکل گیا جبکہ انابیہ روتی ہوئی ہانیہ کو اپنے ساتھ لگا کر کمرے میں لے گئی 

❤❤❤❤

"امی آپی مجھے کوئی نکاح نہیں کرنا میں نے کچھ نہیں کیا "ہانیہ نے روتے ہوے اپنی ماں اور بہن کو دیکھ کر کہا 

"میں جانتی ہوں ہانیہ کے تم نے کچھ نہیں کیا لیکن ابھی کے لیے یہ فیصلہ ہی اچھا ہے تم دیکھنا حاشر تمہیں بہت خوش رکھے گا" راشدہ بیگم نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ہانیہ نے بےبس سے اپنی ماں کو دیکھا 

"امی-----" 

"ہانیہ میں اور تمہارے بابا کبھی بھی تم لوگوں کے لیے غلط فیصلہ نہیں لینگے میں نے حاشر کی آنکھوں میں تمہارے لیے پسندیدگی دیکھی ہے" راشدہ بیگم نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوے کہا لیکن وہ مسلسل اپنا سر نفی میں ہلا رہی تھی

"لیکن امی" 

"انابیہ اسکا حولیہ درست کرو"  اب کی بار راشدہ بیگم نے بنا اسکی طرف دیکھے انابیہ سے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئیں 

تھوڑی ہی دیر بعد مولوی اور حاشر کے وہاں آچکے تھے اسکی ماں بچپن میں ہی اسے چھوڑ کر جا چکی تھیں  اسکی زندگی میں رشتے ایک نام پر صرف اسکی باپ ہی تھا لیکن اب اسکی زنگی میں ہانیہ آچکی تھی 

اور آج وہ "ہانیہ میکائیل" سے "ہانیہ حاشر" بن چکی تھی 

"جاؤ بیٹا بہو کو اپنے کمرے میں لے جاؤ" جاوید صاحب نے حاشر کو دیکھتے ہوے کہا جس پر وہ اپنا سر ہلا کر اسے اپنے کمرے میں لے گیا گھر کافی زیادہ بڑا تھا اور بہترین سجاوٹ اس گھر کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی

حاشر اسے لے کر اپنے بڑے سے کمرے میں لے آیا اور وہ بت بنی اسکیے ساتھ چلتی رہی 

"جاؤ ہانیہ یہ ڈریس چینج کرلو میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا آتا ہوں "حاشر نے ایک آرام دہ سوٹ اسے پکڑاتے ہوئے کہا ہانیہ خاموشی سے وہ سوٹ تھام کر واشروم میں چلی گئی انابیہ اسکا سارا ضروری سامان پیک کرکے حاشر کو دے چکی تھی 

اسکے واشروم میں جاتے ہی حاشر اسکے لیے کھانا لینے چلا گیا کیونکہ گھر پر سب کے لاکھ کہنے پر بھی اسنے کچھ نہیں کھایا تھا 

کھانے کی ٹرے حاشر نے ٹیبل پر رکھ دی اور ہانیہ کا انتظار کرنے لگا لیکن کافی دیر کے بعد بھی ہانیہ کہ باہر نہ نکلنے پر حاشر نے واشروم کا دروازہ ناک کیا 

"ہانیہ "حاشر نے دروازہ ناک کرتے ہوے پریشانی سے کہا لیکن کوئی جواب نہ ملنے پر  اسکی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا 

آج جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے وہ زہنی طور پر بہت ڈسٹرب ہوگئی تھی اس سب کی وجہ سے ،کہیں خود کو کچھ نہ کر لے، یہ خیال آتے ہی اسنے واشروم کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا واشروم اندر سے لاک نہیں تھا 

حاشر بنا دیر کیے دروازہ کھول کر اندر جانے لگا جب باہر آتی ہانیہ سے زور دور ٹکراؤ ہوا اور دونوں ہی اس زوردار ٹکراؤ اور وہاں موجود پانی کی وجہ سے پھسل کر زمین بوس ہوچکے تھے 

گرتے ہوے حاشر کا ہاتھ لگنے کی وجہ سے اب دونوں اس شاور کے پانی میں بھیگ رہے تھے حاشر نے اپنے اوپر جھکی ہانی کو دیکھا جو گرنے کے ڈر کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کرکے مزے سے اسکے اوپر لیٹی ہوئی تھی جبکہ اسکے بھیگے ہوے سفید فراک کو دیکھ کر حاشر نے اپنی نگاہیں چرائیں 

"ہیے ہانی سب ٹھیک ہے چلو اٹھو" حاشر نے پیار سے اسکے چہرے سے گیلے بال ہٹاتے ہوے کہا جبکہ اسکی آواز سن کر ہانیہ نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی پوزیشن دیکھتے ہی فورا اٹھ گئی اسکے اٹھتے ہی حاشر بھی اس جگہ سے اٹھ گیا 

❤❤❤❤

"آپ نے بلایا تھا" نور نے معصومیت اپنی نظریں جهکائیں سامنے بیٹھے تبریز سے کہا 

"ہاں، یہ رہی تمہاری ساری کتابیں "تبریز نے ٹیبل پر رکھی اس کی کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا 

"تم خود پڑھتی تهیں "

"نہیں آپی پڑھاتی تھیں اور کبھی عبیر بھا" بات کا اندازہ ہونے پر اسنے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی اسنے ڈرتے ڈرتے اپنی جھکی نظریں اٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر شاید اپنا غصہ کنٹرول کررہا تھا 

"آج سے تمہیں میں پڑھاؤنگا "

"نہیں میں خود ہی" 

"تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا" اب کی بار اسنے سخت لحجے میں اسکی بات کاٹتے ہوے کہا 

"بیٹھو "اسکے کہنے پر نور اہنا چشمہ درست کرتی ہوئی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیل کر سامنے بنے صوفے پر بیٹھ گئی 

❤❤❤❤

 "ماما جی کیا آپ میری بات سننا پسند کرینگی" ہادی نے کمرہ سمیٹتی ہوئی نرمین بیگم کو دیکھتے ہوے کہا اور انکے ہاتھ تهام کر اپنے برابر صوفے پر بٹھالیا 

"اب کہہ بھی دو ہاد مجھے کام ہے-----" 

"میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ شہرام بھائی حدید بھائی تبریز بھائی اور فائنلی حاشر بھائی کی بھی شادی ہوچکی ہے تو میرا نمبر کب آے گا "

"پہلے اس لائق تو ہوجاؤ کماتے تو کچھ ہو نہیں" نرمین بیگم نے اسکے سر پر ہلا سا تھپڑ مارتے ہوے کہا 

"مجھے کمانے کی کیا ضرورت ہے ڈیڈ اور بھائی ہے نہ" 

"تو کیا ساری زندگی یہی کرنا ہے ہاد میری بات کان کھول کر سن لو یا تو نوکری کرو یا اپنے ڈیڈ کا بزنس سمبھالو ورنہ میں تو کبھی بھی عائشہ کے گھر نہیں جاؤنگی بهئی وہ بھی تو فخر سے کہے کہ اس کا شوہر کیا کرتا ہے "نرمین بیگم کے کہنے ہر ہادی نے حیرت سے انہیں دیکھا 

"م-میں عائشہ کا نام تو نہیں لیا" 

"میرا بچہ مجھے سب نظر آتا ہے" 

"تو جب آپ سب جانتی ہیں تو میرا رشتہ کیوں نہیں لے کر جارہی ہیں "

"کیونکہ میں چاہتی ہوں تم کچھ کماؤ اور اپنی یہ حرکتیں چھوڑدو جو تم لوگوں کو بلیک میل کرکے پیسے نکل واتے ہو "

"اب ایسی بات بھی نہیں ہے موم میں ہر کسی سے بھی پیسے نہیں لیتا "ہادی نے اپنا سر کھجاتے ہوے کہا 

"مثلا کسے چھوڑا ہے تم نے "

"آپ کو" اس نے اپنی بتیسی دکھاتے ہوے کہا 

"اچھا اور مجھے کس بات پر بلیک میل کرو گے" 

"میں ہر کسی سے پیسے نہیں لیتا موم اور نہ ہی میں ہر بات کسی کو بتاتا ہوں ورنہ کل رات میں نے دیکھا تھا کیسے آپ اور ڈیڈ ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہے تھے اور پھر ڈیڈ نے آپ کو -----"

"دفعہ ہوجاؤ یہاں سے" ہادی جو اپنی دھن میں کہہ رہا تھا نرمین بیگم کے چلانے پر ہڑبڑا کر کمرے سے تیزی سے بھاگ گیا 

"یا خدا یہ کیا چیز پیدا کی ہے میں نے "نرمین بیگم نے اپنی ہتھیلی کو ماتھے پر رکھتے ہوے کہا 

❤❤❤❤

آج حاشر نے اپنے ولیمے کی چھوٹی سی تقریب رکھی تھی جس میں اس نے صرف خاص لوگوں کو ہی بلایا تھا تاکہ ان سب کو اس کے نکاح کی خبر ہوجاے 

اس پوری تقریب میں ہانیہ بنا کچھ کہے صرف وہی کیا جو اسے کرنے کو کہا جاتا اسنے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی اور اس کی حالت دیکھ کر حاشر کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ صرف وہی جانتا تھا

ابھی بھی وہ سارے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں داخل ہوا جہاں ہانیہ اپنا سر گھٹنوں میں رکھے رو رہی تھی دلہن بن کر ہانیہ پر کمال کا روپ آیا تھا لیکن ہانیہ کو اس سب سے کوئی فرق ہی نہیں پڑرہا تھا 

حاشر پریشانی سے اسکی جانب بڑھا 

"ہانی میری جان کیا ہوا ہے" ہانیہ نے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا 

"آپ تو مجھے و-وہاں سے ب-بچا کر لاے تھے اور ان سب نے آپ کے س-ساتھ بھی یہ سب کردیا لیکن آپ فکر مت کیجیے میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی "ہانیہ روتے ہوے اس سے کہہ رہی تھی جبکہ حاشر غصے سے اسے دیکھ رہا تھا 

"میں نے تم سے کب کہا کہ تم مجھ پر بوجھ ہو کیا تم اتنی بیوقوف ہو کہ تمہیں میری محبت کبھی نظر ہی نہیں آئی تمہیں کبھی بھی میرے لحجے میری باتوں سے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ مجھے تم سے محبت ہے "اس کی باتیں سن کر ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

"میں تم سے محبت کرتا ہوں ہانیہ آج سے نہیں بلکہ جب سے ،جب سے میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا ڈیڈ جگہ جگہ پر ڈونیشن دیتے ہیں اس دن بھی کالج میں اسی وجہ سے آیا تھا جب نظر تم پر گئی اور یہ دل تمہارا ہوگیا سوچا تمہیں بھول جاؤں لیکن یہ میرے بس میں نہیں تھا اسلیے اس کالج میں ٹیچر کی جوب کرنے کے لیے آنا پڑا تاکہ دن میں ایک بار ہی سہی تمہارا دیدار تو ہو میں ڈیڈ کو تمہارے گھر رشتے کے لیے بھیجنے والا تھا لیکن اس پہلے یہ سب ہوگیا اور مجھے بلکل نہیں برداشت کے کوئی تمہارے کردار پر انگلی اٹھاے" ہانیہ حیرت سے اسکی باتیں سن رہی تھی وہ ایسا کچھ سوچتا تھا اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا 

"بس دکھ ہے تو اس بات کا کہ تمہیں کبھی میری محبت کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہوا "

"لیکن میں تو آپ کو اپنا استاد مانتی تھی اور استاد تو ماں باپ کی جگہ ہوتے ہیں" 

"ہاں ہوتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہوں میں تو تمہارا شوہر ہوں اور اب یہ رونا دھونا ختم کرو اب میں تمہاری آنکھوں یہ آنسو نہیں دیکھنا چاہتا چلو اب ہنس کر دکھاؤ" حاشر کے کہنے پر ہانیہ اپنے آنسو صاف کرکے مسکراکے اسے دیکھنے لگی 

"اور اب سے تم مجھے سر نہیں بلاؤ گی بلکہ میرا نام لوگی" حاشر کے کہنے پر ہانیہ نے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

"تو پھر میرا بچہ میرا نام لو" 

"حا-حاش-حاشر "

"پھر سے کہو" 

"حاشر" 

"پھر سے کہو "

"حاش" اس بار اسکا لفظ مکمل ہونے سے پہلے ہی حاشر اسکے لفظوں کو قید کرچکا تھا ہانیہ نے سختی سے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں تھام لیا 

اسکے لبوں کو آزاد کرکے حاشر اسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑنے لگا جب ہانیہ کی کپکپاتی آواز اسکے کانوں میں پڑی 

"ح-حاشر کی-کیا کرر-رہے ہیں" اسکی بات پر حاشر نے ہلکی مسکراہٹ سے اسے دیکھا 

"میں تمہیں پیار کررہا ہوں میری جان میں تمہیں بتارہا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے "حاشر نرم لہجے میں کہتے ہوے دوبارہ اس پر جھک گیا اور ہانیہ پوری رات اسکی پیار کی بارش کی بھیگتی رہی

❤❤❤❤ 

"ہانیہ کیسی ہے" اپنی ٹائی باندھتے ہوے شہرام نے شیشے میں نظر آتی انابیہ سے پوچھا جو بیڈ شیٹ درست کررہی تھی

"ٹھیک ہے" انابیہ کہتی ہوئی کمرے سے جانے لگی جب شہرام نے اسکی کلائی تھام لی انابیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

"انابیہ ایسا کب تک چلے گا میں تھک چکا ہوں تمہاری بےرخی سہتے سہتے "شہرام نے بےبسی سے اسے دیکھتے ہوے کہا

"یہ آپ ہی کی مرضی تھی" 

"ہاں میں جانتا ہوں کہ میری مرضی تھی اور ہے لیکن میں اور تمہاری یہ بےرخی برادشت نہیں کرسکتا پلیز اس دوری کی دیوار کو ختم کردو" 

"نہیں کرسکتی میں اس دوری کی دیوار کو ختم اور اس سب کو ختم کرنے کے لیے یا تو اس رشتے کو ختم ہونا ہوگا یا پھر مجھے "

"اتنی نفرت کرتی ہو مجھ سے" شہرام نے اداس نظروں سے اسے دیکھتے ہوے کہا جو اس کی بات کا جواب دیے بنا چہرے کا رخ پھیر گئی 

"دعا کرنا انابیہ کے آج تمہیں میری موت کی خبر مل جاے کیونکہ میں اب یہ سب اور برداشت نہیں کرسکتا" شہرام کہتے ہوے اس کمرے سے چلا گیا جبکہ انابیہ کتنی دیر تک اسکی کہی ہوئی باتوں کو سوچتی رہی 

❤❤❤❤

نہ جانے کتنی دیر سے وہ ٹہل رہی تھی آج ٹائم اتنا زیادہ ہونے کے باوجود بھی شہرام نہیں آیا تھا وہ پریشانی سے ٹہل رہی تھی بےچینی الگ ہورہی تھی اوپر سے اسکی صبح کی گئی باتیں ابھی تک زہہن میں گونج رہی تھیں 

"کیا ہوا میرا بچہ یہاں کیا کررہا ہے" اسد صاحب نے اسے ٹہلتے دیکھ کر پیار سے پوچھا 

"ڈیڈ وہ شہرام نہیں آے تو بس فکر ہورہی تھی" 

"تو بچہ فون کرلیتیں" 

"جی کیا تھا لیکن بند جارہا تھا" 

"کوئی بات نہیں میں آفس فون کرکے پوچھتا ہوں" اسد صاحب نے کہتے ہوے اپنا موبائل نکالا جب نرمین بیگم بھی انکے قریب آگئیں

"کیا ہوا بیٹا سب ٹھیک ہے" نرمین بیگم سوالیہ نظروں سے انابیہ کو دیکھتے ہوے کہا اور اس سے پہلے اسد صاحب کوئی جواب دیتے ہادی تیزی سے سڑھیاں اترتا بھاگتے ہوے باہر کی طرف جانے لگا 

"ہاد کہاں جارہے ہو" نرمین بیگم نے اسے دیکھتے ہوے کہا جس کی آنکھیں اس وقت سرخ ہورہی تھیں 

"بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے" ہادی کے الفاظ وہاں موجود ان تینوں کے نیچے سے زمین کھینچ چکے تھے 

❤❤❤❤

"دیوانہ ہوا مستانہ ہوا" 

"تیری چاہت میں کتنا فصانہ ہوا"

"تیرے آنے کی خوشبو" 

"تیرے جانے کا منظر" 

"تجھے ملنا پڑے گا اب زمانہ ہوا" 

"صدائیں سنو ، جفائیں سنو" 

"مجھے پیار ہوا تھا"

"اقرار ہوا تھا" 

❤❤❤❤

 سب پریشانی سے بیٹھے روتے ہوے اسکے لیے دعا کررہے تھے 

جبکہ انابیہ کے زہہن میں تو وہی لفظ گردش کررہے تھے

"دعا کرنا انابیہ کے آج تمہیں میری موت کی خبر مل جاے کیونکہ میں اب یہ سب اور برداشت نہیں کرسکتا" شہرام کے کہے الفاظ بار بار اسکے کانوں میں گونج رہے تھے 

اسنے اپنے آنسو صاف کیے اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی 

"انابیہ کہاں جارہی ہو" حدید نے اسے جاتے دیکھ کر پوچھا

"مجھے نماز پڑھنی ہے" انابیہ کہتے ہوے وہاں سے چلی گئی

❤❤❤❤

"اے اللہ جانتی ہوں کہ میں بہت گنہگار ہوں آپ نے مجھے بن مانگے ہی سب دے دیا پر میں نے قدر نہیں کی آپ نے مجھے ایسا شوہر دیا جو میرے ہر برے عمل کے باوجود مجھے بےانتہا چاہتا رہا پر میں نے اسکی قدر نہیں کی مجھے معاف کردیجیے میرے اللہ شہرام کو لوٹا دیجیے" وہ روتے ہوے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر ناجانے کتنی ہی دعاے مانگ رہی تھی اور ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پاک ذات ہمارے ہاتھوں کو خالی لوٹادے 

اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس کرکے انابیہ نے اس طرف دیکھا جہاں حوریہ کھڑی تھی 

حوریہ نے بیٹھ کر اسکے آنسو صاف کیے 

"بھائی اب بلکل ٹھیک ہیں بیہ" اسے بتاتے ہوے اسکی اپنی آواز بھی بھیگ چکی تھی 

"تم سچ کہہ رہی ہو حور" انابیہ کے کہنے پر حوریہ نے زور زور سے اپنا سر ہلایا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا 

❤❤❤❤

"کیسا ہے میرا بچہ" اماں بی نے روتے ہوے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا 

"میں ٹھیک ہوں اماں بی آپ پریشان مت ہوں اور موم کو بتایے کے میں بلکل ٹھیک ہوں پلیر رونا بند کیجیے "

"بچہ سہی تو کہہ رہا ہے بیگم بند کرو یہ رونا وہ ٹھیک خدا کا شکر ادا کرو" دادا جان نے اماں بی کو دیکھتے ہوے کہا

"مائی سن ڈرا تو بہت دیا تھا تم نے ہمیں" اسد صاحب نے کہتے ہوے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے 

جب ہادی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا دروازہ کھلنے پر بار بار اسکی نظریں اسی دروازے کی جانب جاتی اور مایوس ہوکر لوٹ آتیں سب اسکی بےقراری دیکھ رہے تھے لیکن کہا کسی نے کچھ نہیں کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب وہ کمرے میں نہ آئی تو شہرام نے خود ہی پوچھ لیا 

"موم وہ انابیہ کہاں ہے "

"وہ نماز پڑھ رہی ہے سب سے زیادہ تو اسے ہی تمہاری فکر تھی بچاری نے رو رو کر برا حال کرلیا تھا" نرمین بیگم کی بات سن کر اسے خوش گوار حیرت ہوئی لیکن زہہن میں یہی خیال آیا کہ اگر اتنی فکر تھی تو اب تم ملنے کیوں نہیں آئی 

❤❤❤❤

انابیہ آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ہوئی اس وقت کمرے میں کوئی نہیں تھا 

انابیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکے بیڈ کے قریب آکر غور سے اسے دیکھنے لگی 

سفید رنگت رد ہورہی تھی انابیہ نے جھک کر اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے لیکن وہ بھی بہت نرم سے کہیں اسکی نیند نہ خراب ہوجاے اور کافی دیر اسے دیکھنے کے بعد وہ کمرے سے باہر چلی گئی اسکے جانے کے بعد شہرام نے اپنی نیلی آنکھیں کھول دیں 

اپنی پیشانی پر اسکا لمس محسوس کرکے جاندار مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا تھا

❤❤❤❤

اسے گھر آے ہوے ایک ہفتہ ہوچکا تھا ہر کوئی اسکا بےحد خیال رکھ رہا تھا اور اس میں سب سے زیادہ خیال رکھنے والی انابیہ تھی لیکن اس نے ابھی تک اس سے کوئی بات نہیں کی تھی بس چپ چاپ اسکے سارے کام کررہے تھی  

اس وقت بھی وہ روم میں بیٹھا انابیہ کا انتظار کررہا تھا جب دروازہ کھول کر ہادی اندر آیا شہرام نے گھور کر اسے دیکھا 

"کیا ہوا بهائی بھابھی کا انتظار کررہے تھے "ہادی نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"ہاں لیکن دیکھنے کو پھر بھی تمہاری شکل ہی ملی" شہرام کے کہنے پر ہادی کھلکھلا کر ہنسا 

"فکر ناٹ میرے بھائی ابھی بھابھی کو کمرے میں بھیج دیتا ہوں" ہادی کے کہنے پر شہرام نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا والٹ اٹھا کر اسے دے دیا معلوم تھا ہادی صاحب فری میں تھوڑی نہ کچھ کرینگے لیکج آج تو جیسے کایا پلٹ گئی تھی 

"نہیں بھائی آج کے لیے معاف کیا آپ بیمار ہیں نہ" ہادی کہتا ہوا اسکے کمرے سے نکل کر سیدھا کچن میں گیا جہاں انابیہ ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانا بنا رہی تھی 

"بیہ وہ بھائی کو کوی کام ہے آپ کو بلا رہے ہیں" ہادی شرافت سے اس سے کہہ کر سلاد میں سے کهیرا کھانے لگا 

"کیا کام ہے" اسکے کہنے پر ہادی نے اپنے کندھے اچکا دیے انابیہ اپنے ہاتھ صاف کرکے کمرے کی طرف چلی گئی  

جہاں کمرے میں داخل ہوتے ہی شہرام اپنی ڈریسنگ کرتا ہوا نظر آیا 

"میں کردیتی ہوں" انابیہ کہتے ہوے اسکے قریب جاکر اسکے زخم کی ڈریسنگ کرنے لگی اور اسکے کام مکمل کرنے تک شہرام اسے دیکھتا رہا اسکے مسلسل دیکھنے پر انابیہ اپنا کام جلدی سے ختم کرکے وہاں سے جانے لگی جب شہرام نے اسکی کلاس تھام کر نرمی سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا 

"ابھی بھی بات نہیں کروگی" شہرام کے کہنے پر اسکے کب سے رکے ہوے آنسو بہہ نکلے 

"آئی-ایم-سوری یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے" 

"نہیں میرا چندہ اس سب میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے "

"لیکن پھر بھی سوری ہر چیز کے لیے" 

"اچھا ، تو مطلب اب تم ناراض نہیں ہو" شہرام نے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہوے کہا 

"نہیں ہوں ناراض اور اب کبھی ناراض نہیں ہونگی "

"واؤ ، اگر مجھے پتا ہوتا کہ میرے ایکسیڈنٹ سے تمہاری ناراضگی ختم ہوجاے گی تو میں پہلے ہی یہ سب کرلیتا "

"پلیز شہرام ایسی باتیں مت کریں ورنہ میں پھر ناراض ہوجاؤگی" انابیہ نے اسے گھورتے ہوے کہا

"اوہ سوری" شہرام نے اپنے ہونٹوں پر زپ لگانے کا اشارہ کیا اس کی حرکت پر انابیہ مسکراکر اپنی نظریں جھکا گئی 

اسے بیڈ پر لٹا کر شہرام اس پر جهک گیا انابیہ نے گھبراتے ہوے اسے دیکھا 

"شہرام پلیز پیچھے ہٹیں آپ کے زخم میں درد ہوگا" 

"اب تم میرے ساتھ ہو تو مجھے کوئی درد نہیں ہوگا پہلے ہی اتنی مشکل سے مجھے میری انابیہ ملی ہے اب تو دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا" 

 شہرام نے ہولے سے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے 

"شہرام" 

"بولو جاناں" 

"آ-پ کے کھا-انے کا وقت ہورہا ہے "اسکی بات پر شہرام نے مسکرا کر اسے دیکھا 

"میں جانتا ہوں" اپنی بات کہہ کر شہرام اسکے عنابی لبوں پر جھک گیا اور کافی دیر بعد اسکے لبوں کو آزادی بخشی 

"شہرام پ-پلیز مت تنگ ک-ریں چھوڑیں مجھے آپ کو میڈیسن بھی لینی ہے"انابیہ نے اپنی پھولی سانسوں کو درست کرتے ہوے کہا 

"میری جان میری میڈیسن تم ہی ہو تم پاس ہو تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے تمہارا میرے پاس ہونا ہی میرے زخم پر مرہم کا کام کرے گا "شہرام کہتے ہوے دوبارہ اس پر جھک گیا انابیہ نے بھی تھک ہار کر اپنا آپ اسکے سپرد کردیا 

"ہانی چلو اٹھو دیر ہورہی ہے" حاشر نے ہانیہ کے اوپر سے کمبل ہٹاتے ہوے کہا 

ہانیہ کو دیکھ کر تو اسے یہی لگ رہا تھا کہ اتنا مشکل تو کسی بچے کو اسکول کے لیے اٹھانا بھی نہیں ہوتا ہوگا جتنا اس لڑکی کو کالج کے لیے اٹھانا ہے 

"کیا پرابلم ہے حاشر نہیں جانا مجھے کالج" ہانیہ منہ بنا کر کہتی ہوئی دوبارہ اپنے اوپر کمبل ڈال چکی تھی

"اور کیوں نہیں جانا "

"کیونکہ میری شادی ہوچکی ہے اور شادی کے بعد کوئی بھی نہیں پڑھتا "

"اچھا ،،،تو شادی کے بعد کیا کرتے ہیں "حاشر نے شرارت سے اسے دیکھ کر کہا 

"مجھے نہیں پتا بس مجھے کالج نہیں جانا" 

"سوری میری جان جانا تو پڑے گا اور بےفکر رہو جب تک تمہارا یہ سال کمپلیٹ نہیں ہوجاتا میں اسی کالج میں جوب کرتا رہونگا چلو اب اٹھو شاباش اور جلدی سے تیار ہوجاؤ" حاشر نے نرمی سے اسکے بالوں پر اپنے لب رکھ دیے ہانیہ منہ بناتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر واشروم میں چلی گئی

❤❤❤❤

مسلسل بجتے فون کی آواز پر اسنے نیند میں اپنا ہاتھ سائیڈ ٹیبل پر مار کر اپنا فون ڈھونڈنے لگی

"ہیلو ،کون"  اسنے بنا نمبر دیکھے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا 

"مطلب میں یہاں تمہارے لیے صبح صبح اٹھ کر اپنی نیند خراب کررہا ہوں اور تم سو رہی ہو" ہادی کی ناراضگی سے پھرپور آواز سن کر اسنے فون اپنے کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا جہاں ہادی کا نام جگمگا رہا تھا اسنے بےزار ہوکر دوبارہ فون کان سے لگا لیا 

"فرمایے کیا مسلہ ہے کیوں اتنی صبح صبح فون کیا ہے "

"آج میرا آفس میں پہلا دن ہے" 

"اوہ بہت بہت مبارک ہو آپ کو خدا کامیاب کرے اب میں سوجاؤں" 

"مطلب میں تمہارے لیے اپنی نیند خراب کرکے کام پر جارہا ہوں اور تمہیں سونے کی پڑی ہے ابھی سے عادت ڈال لو مس عورت "

"میں نے تھوڑی نہ کہا ہے جوب کرو" عائشہ نے جمائی لیتے ہوے کہا 

"لیکن جوب تو پھر بھی کرنے پڑے گی ورنہ موم کہہ رہی ہیں وہ تمہارے گھر رشتہ لے کر نہیں آئینگی "ہادی نے اپنے شوز پہنتے ہوے کہا

"تو مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے الحمداللہ میرے تو ویسے بھی بہت اچھے رشتے آرہے ہیں"

"مس عورت مجھ جیسا بندہ تمہیں کہیں نہیں ملنے والا" 

"اچھا اور وہ کیسے "

"تم رات کے دو بجے بھی کوئی کھانے کی فرمائش کروگی نہ تو لے کر آؤنگا "

"تو وہ تو اس لیے لاؤ گے نہ کیونکہ اس چیز کو سوچ کر تمہاری خود کی نیت بھی خراب ہو جاے گی "

"دیکھو عائشہ اب تم میری محبت کی توہین کررہی ہو" اس بار یہ بات وہ مذاق میں نہیں کہہ رہا تھا اور یہ بات عائشہ بھی سمجھ چکی تھی

"اچھا سوری ہاد پلیز ناراض مت ہو میں مذاق کررہی تھی تم جاؤ اور تمہارا دن اچھا گزرے" عائشہ نے مسکراتے ہوے اسے دعا دی اور جب تک مکمل تیار ہوکر ہادی آفس نہیں پہنچ گیا جب تک اسنے فون آف نہیں کیا تھا

❤❤❤❤ 

ہانیہ اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اس لڑکی کو گھور رہی تھی جو اتنی دیر سے اس کے شوہر کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی اور وہ دور کھڑی غصے سے ان دونوں کو گھور رہی تھی

ہانیہ غصے سے حاشر کے سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگی وہ لڑکی جاچکی تھی

"کیا ہوا "حاشر نے حیرت سے اسکے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوے کہا 

"کون تھی وہ لڑکی" 

"وہ یہاں کی سٹوڈنٹ تھی تمہیں شاید یاد نہیں خیر ایک سال پہلے ہی اسکا کالج کمپلیٹ ہوا تھا تو اب وہ اسپیشلی اپنے فیورٹ ٹیچرز سے ملنے آئی تھی-------"

"لیکن آپ سے کیوں مل رہی تھی"

"کیونکہ میں بھی ایک ٹیچر ہوں بلکہ وہ تو یہ بھی کہہ رہی تھی کہ مجھ جیسا ہینڈسم ٹیچر اسنے آج تک نہیں دیکھا "حاشر نے اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا اسے ہانیہ کا سرخ چہرہ دیکھ کر بہت مزہ آرہا تھا 

"آپ نے اس سے بات ہی کیوں کی "

"ہانی یار وہ خود آئی تھی اب اچھا تھوڑی نہ لگتا اگر میں کہتا جاؤ مجھے تم سے بات نہیں کرنی "

"ٹھیک ہے تو اب اس سے ہی بات کیجیے گا مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے" ہانیہ غصے سے کہتی ہوئی پیر پٹھخ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ حاشر کتنی دیر تک اسکی جیلیسی یاد کرکے مسکراتا رہا 

❤❤❤❤

"تم سچ کہہ رہی ہو کیا واقعی میں ،میں خالا بننے والی ہوں" انابیہ نے حیران سے فون کی دوسری جانب عمارہ سے کہا 

"ہاں یار سچ میں تم خالا بننے والی ہو" 

"بہت بہت مبارک ہو تمہیں اور اقبال بھائی کو" 

"تھینک یو لیکن اب تم بتاؤ تم مجھے کب خالا بنا رہی ہو" عمارہ کے کہنے پر اسکے گال لال ہوچکے تھے

"عمارہ میں بعد میں بات کرتی ہوں" انابیہ نے کہتے ہوے فون کاٹ دیا جب پیچھے سے شہرام نے اسے اپنے حصار میں لے لیا 

"آپ بھی نہ شہرام ڈرا دیا مجھے "انابیہ نے اسے گھورتے ہوے کہا جب شہرام نے مسکراتے ہوے اسکے کندھے پر اپنی تھوڑی رکھ دی 

"کیا ہو رہا تھا "

"ایک گڈ نیوز ہے" 

"ہاں جانتا ہوں کہ اقبال کے گھر بےبی بواے یا بےبی گرل آنے والی ہے" شہرام کے کہنے پر انابیہ نے حیرت سے اسے دیکھا

"آپ کو کیسے پتا"

"کیونکہ اقبال میرا سب سے خاص بندہ اور ایک اچھا دوست ہے اسی نے بتایا لیکن مجھے ایک بات جاننی ہے" شہرام کے کہنے ہر انابیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

"یہی کہ میں کب لوگوں کو یہ بات بتاؤنگا کہ میں ڈیڈی بننے والا ہوں" اسکے کہنے پر انابیہ شرماتے ہوے اپنا آپ اس سے چھڑوانے لگی جسے ناکام بنا کر شہرام نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھالیا

❤❤❤❤

"کیا ہوا میرا چندہ اداس کیوں ہے "ماجدہ بیگم نے اداس بیٹھی نور کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا 

تبریز نے اسے ماجدہ بیگم سے ملنے سے منع کیا ہوا تھا لیکن پھر بھی وہ تبریز کی غیرموجودگی میں اکثر اُن سے ملنے آجاتی تھی 

"بس گھر والوں کی یاد آرہی ھے" نور نے اداسی سے کہا

"تو بیٹا چلی جاؤ سب سے مل آؤ"

"تبریز نے منع کیا ہے وہاں جانے سے" 

"لیکن کیوں" ماجدہ بیگم نے حیرت سے پوچھا یہ سچ تھا جس پر نور نے اپنے شانے اچکا دیے جب سے اسکی شادی ہوئی تھی وہ گھر نہیں گئی تھی لیکن انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ تبریز نے اس سے منع کیا ہے 

"تو تم ایسا کرو کہ ان سے مل کر آجاؤ تبریز کے واپس آنے میں تو ابھی بہت وقت باقی ہے اتنی دیر میں تو تم مل بھی آؤ گی "ماجدہ بیگم نے اسے دیکھتے ہوے کہا وہ سمجھ چکی تھیں کہ تبریز اسے عبیر کی وجہ سے وہاں نہیں جانے دے رہا لیکن وہ اس طرح نور کو اس کے گھر والوں سے دور نہیں کرسکتی تھیں

"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے شکریہ پھوپھو" نور تیزی سے انہیں پیار کرکے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی 

❤❤❤❤

"ڈیڈ ہانی کہاں ہے میں پورے گھر میں دیکھ چکا ہوں" حاشر نے سٹڈی روم میں داخل ہوکر پریشانی سے کہا

"سب جگہ دیکھ لیا لیکن میرا کمرہ نہیں دیکھا ہوگا" جاوید صاحب نے اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوے کہا حاشر سمجھتے ہوے اپنے سر کو ہلاتا ہوا واپس جانے لگا جب جاوید صاحب کی آواز پر مڑ کر انہیں دیکھنے لگا 

"پوچھو گے نہیں برخوردار وہ آج میرے کمرے میں کیوں ہے" 

"تو وہ تو ویسے بھی آپ کہ کمرے میں جاتی رہتی ہے" 

"لیکن وہ جب جاتی ہے جب میں کمرے میں موجود ہوتا ہوں لیکن آج میں یہاں ہوں تو وہ وہاں کیا کررہی ہے" 

ا"چھا چلیے بتادیجیے کیوں ہے وہ آپ کہ کمرے میں "

"کیونکہ تم نے میری بیٹی کو ڈانٹا ہے-----" جاوید صاحب کی بات پر حاشر نے حیرت سے انہیں دیکھا لیکن صبح والی بات یاد آنے پر سمجھ چکا تھا کہ ہانیہ نے اسی کی شکایت لگائی ہوگی

"ڈیڈ میں نے کب ڈانٹا تھا آپکی بیٹی جھوٹ بول رہی ہے "

"خبردار لڑکے جو تم نے میری بیٹی کو جھوٹا کہا تو، تم جو کچھ بھی کہہ لو میرے لیے میری ہانی ہی ٹھیک ہوگی" جاوید صاحب کی بات پر حاشر اپنا سر نفی میں ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا جانتا جو تھا کہ کہ جاوید صاحب اپنی بیٹی کو کبھی بھی کچھ نہیں کہینگے 

انہیں ہمیشہ سے ایک بیٹی کی خواہش تھی جو کہ ہانیہ کے آنے سے پوری ہوگئی تھی اگر یہ کہا جاے کہ ہانیہ اس گھر کی رونق ہے تو غلط نہیں ہوگا اس کے آنے سے یہ سونا سونا گھر بھی رونق زدہ ہوچکا تھا

❤❤❤❤

"پوچھوں یا نہیں" نور اپنے ہاتھ میں موجود فون کو کشمکش سے دیکھ رہی تھی 

اسے تبریز کے منع کرنے کے باوجود جانا بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا اور وہ بس یہی سوچ رہی تھی کہ تبریز کو بتانا چاہیے یا نہیں یہی سب سوچتے ہوے اسنے تبریز کے نمبر پر کال ملادی جو دوسری بیل پر اٹھائی جاچکی تھی

"کیا بات ہے نور جان آج ہماری یاد کیسے آگئی "تبریز نے فون اٹھاتے ہی خوشگوار لہجے میں کہا 

"وہ امی کے گھر چلی جاؤں" نور نے دھیمی آواز میں کہا 

"نہیں" ایک لفظی جواب ملا 

"پلیز اتنا ٹائم ہوگیا ہے میں-----" 

"جب میں نے منع کردیا تو کردیا اس ٹوپک پر اب کوئی بات نہیں ہوگی" تبریز نے غصے سے بھرے سخت لہجے میں کہتے ہوے فون کاٹ دیا 

جبکہ دوسری طرف نور اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی اسے تبریز کی اجازت کے بنا جانا بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اس طرح تبریز اسے کبھی بھی جانے نہیں دے گا 

"انکی واپسی سے پہلے آجاؤنگی" نور خود سے کہتے ہوے گاڑی میں آکر بیٹھ گئی 

❤❤❤❤

اسنے اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اپنے چہرے پر رکھ لیا اسے نور سے اس طرح بات کرنے کی وجہ سے خود پر غصہ آرہا تھا وہ اسے نور پر غصہ کرنا بلکل اچھا نہیں لگتا تھا بلکہ نور پر غصہ کرنے کے بعد اسے خود پر بےانتہا غصہ آتا تھا 

اسے پتا تھا اس وقت بھی اب وہ یا تو اداس ہورہی ہوگی یا رورہی ہوگی اور یہی سب سوچتے ہوے اسے بےچینی ہورہی تھی اسلیے اپنی کارکیز اور کوٹ اٹھا کر وہ آفس سے نکل گیا اپنی "نور جان" سے ملنے کے لیے

❤❤❤❤

"سمیرا ،سمیرا" تبریز نے دھاڑتے ہوے ملازمہ کا نام لیا وہ پورے گھر میں نور کو دیکھ چکا تھا لیکن اسکے کہیں نہ ملنے پر اب اسکا غصے سے برا حال تھا 

اسکے چلانے پر ملازمہ بھاگتے ہوے اسکے سامنے آئی 

"ج-جی صاحب" 

"نور کہاں ہے" 

"جی وہ مجھے نہیں پتا" 

"گھر میں رہتے ہوے یہ نہیں پتا کہ وہ کہاں گئی ہے" اسکے چلانے پر ملازمہ سہم کر اپنی نظریں جھکا گئی جبکہ اسکی چلانے کی آواز پر ماجدہ بیگم اور باقر صاحب بھی کمرے سے باہر آچکے تھے 

"کیا ہوا ہے تبریز کیوں اتنا چلا رہے ہو "باقر صاحب نے اسے دیکھتے ہوے کہا لیکن انکی بات کا جواب دیے بغیر اپنے قدم آہستہ آہستہ ماجدہ بیگم کی طرف بڑھانے لگا اب اسکی غصیلی نظریں ماجدہ بیگم پر تھیں 

"نور کہاں ہے "

"وہ ، وہ اپنے گھر والوں سے ملنے گئی ہے "

"کس کی اجازت سے" اسکی دھاڑ پر سب ماجدہ بیگم دو قدم پیچھے ہٹیں 

"کس طرح سے بات کررہے ہو تبریز "باقر صاحب نے سہمی ماجدہ بیگم کو اپنے ساتھ لگاتے ہوے کہا 

"یہ بات آپ کو ان سے کہنی چاہیے میں نے کتنی بار کہا ہے کہ نور سے دور رہا کریں لیکن نہیں انہیں میری بات سمجھ میں کہاں آتی ہے آیندہ میرے سامنے مت آیے گا میں کچھ ایسا نہیں کرنا چاہتا جس کا مجھے بعد میں افسوس ہو" تبریز نے ماجدہ بیگم کو دیکھتے ہوے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا جبکہ ماجدہ بیگم تو اس بات سے خوفزدہ ہورہی تھیں کہ وہ نور کے ساتھ کیا کرے گا 

❤❤❤❤

گھر میں قدم رکھتے ہی اسنے ہر طرف نظریں دوڑائیں کتنی یادیں تھیں اسکی جو اس گھر سے جڑی ہوئی تھیں 

اندر داخل ہوتے ہی اسکی نظر راشدہ بیگم پر پڑی 

"امی" 

نور آواز پر راشدہ بیگم نے حیرت سے اس طرف دیکھا جہاں نور کھڑی نم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی

"نور میرا بچہ" راشدہ بیگم فورا اپنا کام چھوڑ کر اسکی جانب لپک کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے چہرے پر جگہ جگہ اپنا ممتا بھرا لمس چھوڑنے لگیں

"کیسی ہے میری بیٹی" 

"میں بلکل ٹھیک ہوں امی آپ بتائیں آپ کیسی ہیں اور ابو کیسے ہیں" نور نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے انہیں دیکھا 

"میں تو ٹھیک ہوں میرا چندا اور تمہیں دیکھ کر تو اور ٹھیک ہوگئی تم یہاں بیٹھو نہ میں تمہارے ابو کو بلا کر لاتی ہوں دیکھنا وہ بہت خوش ہونگے تمہیں بہت یاد کر رہے تھے" راشدہ بیگم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جلی گئیں 

جب اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرکے نور نے مڑ کر دیکھا اور اس شخص کو دیکھتے ہی اسکی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی

بلیک اور وائٹ پینٹ شرٹ میں ملبوس عبیر نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور چلتا ہوا اسکے قریب آگیا 

"کیسی ہو نور "

"ٹھیک ہوں "نور نے اپنی نظریں جھکا کر کہا 

"میرا حال نہیں پوچھو گی" نور نے اپنی سبز نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اسے تو لگا تھا یہ سب ہونے پر عبیر اسکا چہرہ بھی نہیں دیکھے گا لیکن اسکی رویہ بلکل پہلے جیسا ہی تھا 

"جانتا ہوں تم یہی سوچ رہی ہوگی کہ میں اتنا نارمل بیہو کیوں کررہا ہوں شاید مجھے تم سے ناراض ہونا چاہیے یا شاید کچھ اور کرنا چاہیے لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں تمہاری غلطی نہیں تھی بلکہ کسی کی بھی نہیں تھی نور تم میری قسمت میں تھیں ہی نہیں تم صرف تبریز کی قسمت میں تھیں اور میں یہی دعا کرونگا کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو" 

"سوری عبیر بھائی" نور نے بھیگی آواز میں کہا 

"نور تمہیں سوری بولنے کی ضرورت نہیں ہے پلیز جو ہوچکا ہے اسے بھول جاتے ہیں اور پھر سے پہلے جیسے ہوجاتے ہیں" عبیر کی بات پر نور نے مسکراتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

"اپنا ہاتھ آگے کرو" عبیر کے کہنے پر نور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا لیکن پھر اسکے دوبارہ کہنے پر اپنا ہاتھ اسکے سامنے کردیا عبیر نے اسکا ہاتھ الٹا کرکے اسکی ہتھیلی اپنے سامنے کی اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا نور کو اپنے ہاتھ پر کوئی چیز محسوس ہورہی تھی 

"امید کرتا ہوں یہ گفٹ تمہیں پسند آے گا  "

"آپ میرا ہاتھ چھوڑینگے تو میں دیکھونگی نہ" نور کے کہنے پر عبیر نے اسکا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کردیا لیکن نور کے اس تحفے کو دیکھنے سے پہلے ہی تبریز کی غصیلی آواز اس جگہ پر گونجی 

"نور "

اسکی آواز سن کر عبیر اور نور نے حیرت سے اسے دیکھا اسے دیکھ کر نور کا چہرہ خوف سے سفید ہوچکا تھا 

اسے دیکھ کر عبیر کو خوشی تو ہوئی تھی لیکن نور کا خوفزدہ ہونا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اس سے پہلے عبیر آگے بڑھ کر تبریز کا استقبال کرتا 

تبریز غصے سے نور کا ہاتھ تھام کر اس گھر سے نکل چکا تھا جبکہ عبیر حیرت سے اسکا رویہ سوچ رہا تھا جب راشدہ بیگم اور احمد صاحب اس کمرے میں داخل ہوے 

"عبیر بیٹا نور کہاں گئی "راشدہ بیگم نے خالی کمرے کو دیکھتے ہوے کہا 

"وہ اسے کوئی ضروری کام یاد آگیا تھا ممانی اسلیے چلی گئی" عبیر نے نظریں چراتے ہوے کہا اگر وہ یہ کہتا کے تبریز اسے غصے میں لے کر گیا ہے تو یقینا وہ پریشانی ہوجاتے اسلیے اسے یہی سب کہنا بہتر لگا لیکن تبریز کا رویہ اسے ابھی بھی سمجھ نہیں آیا تھا

❤❤❤❤

تبریز اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر گھر کے اندر داخل ہوا اسکے داخل ہوتے ماجدہ بیگم جو ان کے انتظار میں تهیں انکے قریب جانے لگیں لیکن تبریز سب کو نظر انداز کرکے اسے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے کی طرف لے گیا نور نے اپنا ہاتھ اسکی سخت گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کی جو کہ ناممکن تھا 

"میرے منع کرنے کے باوجود تم وہاں کیوں گئی تھیں" تبریز نے دھاڑتے ہوے روتی ہوئی نور سے کہا 

"م-میں امی ا-بو س"

"بکواس بند کرو اپنی" تبریز نے سختی سے اسکے دونوں بازو اپنی گرفت میں لے لیے 

"جانتا ہوں میں اپنے سابقہ منگیتر سے ملنے گئی تھیں نہ "

"آ-آپ کیا کہہ رہے ہ-ہیں -ای-ایسا کچھ ن-نہیں ہے "

"میں سب جانتا ہوں کہ تم بھی دوسروں کی طرح ہو اس سے ہی ملنے گئی تھی نہ تم" تبریز نے اسکا جبڑا دبوچتے ہوے کہا غصے سے اسکا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہورہی تھیں 

"پ-لیز چھ-چھوڑیں م--مجھے درد ہ-ہو-رہا ہے" 

"اور جو مجھے درد ہوا تمہیں اسکا اندازہ نہیں ہے تم نے غلطی کی ہے اور تمہیں اسکی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ تم ایسی غلطی نہ کرو"تبریز نے کہتے ہوے ٹیبل پر فروٹ کے ساتھ رکھی چھری اٹھالی

اور جگہ جگہ اسکے ہاتھ کی ہتھیلی پر چھوٹے چھوٹے کٹ لگانے لگا

 نور نے درد سے سے تڑپتے ہوے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کروانا چاہا جسے تبریز اور مظبوطی سے تھام چکا تھا اسے اس وقت اپنی نور جان کی تکلیف نہیں دکھ رہی تھی اسے اس وقت اسکے ہاتھ پر صرف عبیر کا لمس محسوس ہورہا تھا جسے وہ اس چھری سے تکلیف دے کر مٹانا چاہ رہا تھا تکلیف سے تڑپتی نور حوش و حواس سے بےگانہ ہوچکی تھی اور اسکے بےہوش ہوتے ہی تبریز بھی جیسے ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا 

"نور، نور" تبریز نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوے کہا اسے اب خود پر بےانتہا غصہ آرہا تھا 

وہ جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر نور کے زخمی ہاتھ کی بینڈیج کرنے لگا جب نظر اسکے آنسو سے تر معصوم چہرے پر پڑی 

"یہ میں نے کیا کردیا وہ تو پہلے ہی مجھ سے اتنا ڈرتی تھی اب پتا نہیں کیا ہوگا" تبریز نے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا اور اپنے گھنے بالوں کو اپنی مٹھیوں میں پھینچ لیا

اس وقت اسے خود بھی اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی تبریز فورا اپنے روم سے نکل کر گھر سے باہر چلا گیا 

لیکن بار بار زہہن میں نور کا زخمی ہاتھ گھوم رہا تھا غصے میں آکر وہ اپنا ہاتھ بھی زخمی کرچکا تھا 

کافی دیر بعد وہ گھر لوٹ کر آیا تھا 

اسے یہی لگ رہا تھا کہ اب نور اس سے خوفزدہ ہوگی اور اسے یہ بات اب بلکل برداشت نہیں تھی کہ نور اس سے خوفزدہ ہو وہ سوچ چکا تھا کہ اسے پیار سے سمجھاے گا اور اسے امید تھی کہ نور اسکی بات سمجھ جاے گی 

یہی سب سوچتے ہوے اسنے کمرے میں قدم رکھا جو کہ خالی تھا اور اسی طرح تبریز پورا گھر دیکھ چکا تھا 

لیکن نور کہیں نہیں تھی وہ جو اپنا غصہ ٹھنڈا کرکے آیا تھا نور کی اس حرکت پر پھر سے آگ بگولہ ہوچکا تھا اسے پتا تھا نور کہاں ہوگی اسلیے بنا وقت ضایع کیے اپنی کار کیز اٹھا کر وہ گھر سے نکل گیا 

❤❤❤❤

''نور ، "تبریز نے اس گھر میں داخل ہوتے ہی بنا کسی کا لحاظ کیے چلانا شروع کردیا 

"نور کہاں ہے" اس نے صوفے پر بیٹھی راشدہ بیگم کو دیکھتے ہوے کہا 

"اپنے کمرے میں ہے لیکن ،"تبریز انکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور کے کمرے کی طرف جانے لگا جب اسے اپنے پیچھے سے شہرام کی آواز سنائی دی 

"نور تمہارے ساتھ نہیں جاے گی تبریز" تبریز نے حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا

"وہ میری بیوی ہے شہرام اور مجھے اسے اپنے ساتھ لے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا"

"وہ تمہارے بیوی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں تم جو چاہو اس کے ساتھ کرتے پھرو --------"

"میں جانتا ہوں کہ میری غلطی ہے میں نے غصے میں وہ سب کردیا تھا اور میں اس غلطی کی معافی مانگ لونگا"

"معافی مانگنے سے کیا ہوگا" 

"شہرام تمہیں اس سب میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے وہ میری بیوی ہے اور وہ میرے ساتھ ہی جاے گی" تبریز نے سخت لہجے میں کہتے ہوے اپنے قدم نور کے کمرے کی طرف بڑھالیے جب شہرام نے اس کا مظبوط ہاتھ تھام لیا 

"ٹھیک ہے وہ تمہاری بیوی ہے تم اسے لے جاؤ لیکن پہلے میری بات سن لو" شہرام کی بات پر تبریز نے چند پل سوچ کر اپنے سر کو جنبش دی

❤❤❤❤

"کیا تمہیں اندازہ بھی ہے تم نے کیا ، کیا ہے نور تم سے کتنی خوفزدہ ہے "کمرے میں داخل ہوکر شہرام نے اسے دیکھتے ہوے کہا اس وقت کمرے میں صرف تبریز اور شہرام موجود تھے 

"ہاں، جانتا ہوں میں نے کیا کردیا ہے نہیں برداشت مجھے کوئی اسے ہاتھ بھی لگاے وہ صرف میری ملکیت ہے "تبریز نے اسے دیکھتے ہوے سخت لہجے میں کہا 

"تبریز عبیر نے صرف اسکا ہاتھ پکڑا تھا وہ بھائی کہتی ہے اسے" شہرام نے اس سمجھانے کی کوشش کی عبیر اسے تبریز کا یہاں آکر جو رویہ تھا بتا چکا تھا اور اسکے بعد گھبرائی اور روتی ہوئی نور یہاں آئی اور شہرام جانتا تھا کہ تبریز نے یہ سب صرف اسی وجہ سے کیا ہوگا 

"کہنے سے کوئی بھائی نہیں بن جاتا شہرام" 

"تبریز میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا نور تمہاری بیوی ہے تم اسے لے کر جانا چاہو تو لے جاسکتے ہو لیکن یہ بات سوچو کہ جس طرح آج غصے میں تم اسکا ہاتھ اس قدر زخمی کرچکے ہو تو کل کیا نہیں کرسکتے اور اسے تکلیف دینے کے بعد تم خود بھی ازیت میں رہتے ہو "

"تم نور کو لے جاؤگے وہ تم سے ڈرے گی لیکن جس دن اسکا یہ ڈر ختم ہوجاے گا وہ باغی ہوجاے گی تم اسے اپنا بنانا چاہتے ہو تو پیار سے اپناؤ تم اس پر اعتبار نہیں کرپارہے ہو تمہیں اس پر اعتبار کرنا ہوگا تم چاہتے ہو کہ وہ صرف تمہاری رہے تو تمہیں اپنا رشتہ ایسا بنانا ہوگا کہ وہ ہمیشہ تمہاری رہے آج تم اسے غصے میں لے کر جارہے ہو لیکن کل دوبارہ تم اس طرح کی حرکت کرسکتے ہو تمہیں اسے سمجھنا ہوگا تبریز ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا "

"شہرام میں ڈرتا ہوں وہ مجھے چھوڑ نہ دے اگر اسے زرا سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو اس سے کئی زیادہ تکلیف مجھے ہوتی ہے اور میں اسے اور اس طرح کی تکلیف میں نہیں رکھ سکتا میں کیا کروں "تبریز نے اپنی بھیگی سبز آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنے قدم تیزی سے باہر کی طرف بڑھا دیے شہرام کے پکارنے پر بھی وہ نہیں رکا تھا

❤❤❤❤

دروازہ نوک ہونے کی آواز پر انابیہ نے باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جہاں کمرے میں ماجدہ بیگم داخل ہوئیں 

انہیں دیکھتے ہی کمرے میں موجود نور اور انابیہ نے انہیں سلام کیا جس کے جواب میں انہوں نے اپنا سر ہلادیا 

"بیٹا تم سے بات کرنی تھی" ماجدہ بیگم نے نور کو دیکھتے ہوے کہا انابیہ کو اس وقت یہی لگا کہ ان دونوں کا اکیلے بات کرنا بہتر رہے گا اسلیے وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب ماجدہ بیگم نے اسکی کلائی تھام لی 

"بیٹا تم بھی بیٹھ جاؤ "ماحدہ بیگم کے کہنے پر گہرا سانس لے کر انابیہ وہاں موجود صوفے ہر بیٹھ گئی 

ماجدہ بیگم بیڈ پر بیٹھی نور کے قریب جاکر بیٹھ گئی انہوں ایک نظر اسکے ہاتھ پر ڈالی جہاں پر پٹی بندھی ہوی تھی اور دوسری نظر اسکے نظریں جھکاے ہوے چہرے پر 

"گھر کب چلنا ہے نور" ماجدہ بیگم کی بات پر نور نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا 

"میں کہہ رہی ہوں بیٹا تم واپس کب آؤگی تبریز کے پاس اپنے گھر میں دیکھو میں جانتی ہوں اسنے جو کیا وہ اچھا نہیں تھا لیکن اس کی پوری زندگی میں ایک تم ہی وہ واحد شخص ہو جو اسکی خوشیاں لاسکتا ہے اس کی زندگی میں واپس آجاؤ میرا بچہ اسکی خوشیاں تم سے جڑی ہوئی ہیں" ماجد بیگم روتے ہوے انہیں ہر بات بتانے لگیں

➖➖➖➖➖➖➖➖

نور سبز آنکھوں والی انتہائی حسین لڑکی تھی جسے ہر کوئی پسند کرتا تھا 

سب سے بڑا "احمد"

اس سے چھوٹی "نور" اور نور کے کچھ سال بعد پیدا ہونے والی اسکی بہن جس کے پیدا ہوتے ہی اسکی والدہ "ماجدہ" کا انتقال ہوچکا تھا اسلیے اسکا نام بھی اسکی والدہ کے نام پر رکھ دیا "ماجدہ"

نور بچپن سے ہی ایک گھر کی ہر ذمیداری اٹھا چکی تھی جبکہ اپنے سے چھوٹی ماجدہ اسکے لیے کبھی بھی بہن نہیں تھی بلکہ بیٹی تھی 

نور ہر کام ذمیداری سے کرتی تھی خاص کر ماجدہ کے 

جبکہ ماجدہ کو کبھی بھی نور پسند نہیں تھی وجہ تھی اسکی عام سی شکل و صورت اسے کبھی کبھی نور کی خوبصورتی سے جلن ہونے لگتی تھی ہر کوئی نور کی تعریف کرتا اسکی عادت کی اسکی خوبصورتی کی اسکے سگھڑ پن کی اور اسی بات سے ماجدہ کو وہ ہمیشہ پہلے سے زیادہ بری لگنے لگتی 

ماجدہ کبھی بھی لوگوں سے گھل مل نہیں پاتی تھی اور اگر وہ کہیں بیٹھ جاتی تو نور کی باتیں ہی سننے کو ملتی ہر کوئی اسے یہی سمجھاتا کہ تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں نور جیسی بہن ملی ،نور کی قدر کرو اور یہی باتیں اسے اور غصہ دلاتی وہ ہمیشہ الٹی سیدھی حرکتیں کرتی یا نور سے بدتمیزی کرتی لیکن بدلے میں ہمیشہ نور اسے نرمی سے سمجھاتی

اور پھر اسی طرح زندگی کے ایک دن میں ایسا دن آیا جب نور کے لیے باقر کا رشتہ آیا 

باقر دکھنے میں بےحد خوبرو انسان تھا جس کا چھوٹا سا بزنس تھا اس رشتے میں ایسی کوئی برائی نہیں تھی جس کی وجہ سے انکار کیا جاتا لہذا نور اور باقر کا رشتہ طے کردیا اور ایک سال بعد نور مسز باقر بن کر اسکے گھر میں موجود تھی 

نور کے جانے کے بعد ماجدہ پر کافی زمیداری آچکی تھی نور اسے یاد تو کاموں سے دور ہی رکھتی تھی اسلیے اسکے لیے تھوڑی مشکل ہوگئی تھی لیکن وہ خوش تھی کہ اسکی زندگی سے نور نامی کانٹا نکل چکا ہے 

نور کی یہی خواہش تھی کہ پہلے ماجدہ کی شادی ہو لیکن جو کوئی بھی اس دیکھنے آتا اسے نور ہی پسند آتی اسلیے سب نے پہلے نور کی شادی کرنا ہی بہتر سمجھا 

اور پھر اسی طرح سال گزرنے کے بعد انکے یہاں سبز آنکھوں والا ایک ننھا مہمان تشریف لایا جس کا نام "تبریز" رکھا گیا 

جس کے آتے ہی نور اور باقر کی زندگی مکمل ہوچکی تھی 

لیکن ایک دن نور گھر سے بھاگ چکی تھی اپنے معصوم سے پانچ سالہ بیٹے کو چھوڑ کر کیونکہ سب کے مطابق اسے باقر سے زیادہ امیر شخص مل چکا تھا 

احمد صاحب یہ سب سن کر بہت پریشان تھے باقر ناجانے ان سے کیا کیا کہہ رہا تھا لیکن انکے زہہن میں تو ایک ہی بات آرہی تھی کہ انکی بہن اپنے شوہر سے طلاق لے کر اپنے بچے کو چھوڑ کر بھاگ چکی تھی 

انکے زہہن میں تبریز کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا جو اس وقت تو سو رہا تھا لیکن جب بھی اٹھتا روتے ہوے اپنی ماں کو پکارتا رہتا 

اس وقت وہ ماجدہ کے پاس سورہا تھا ویسے تو تبریز کبھی ماجدہ سے اتنا اٹیج نہیں تھا لیکن اس حالات میں وہی اسے سمبھال رہی تھی اور یہ اب دیکھ کر ایک ہی بات احمد صاب کے زہہن میں آئی کہ بچے کا سوتیلی ماں اتنا خیال کبھی نہیں رکھ سکتی جتنا خالا رکھ سکتی ہے 

اور اسی لیے انہوں نے ماجدہ کو باقر کی دلہن بنانے کا فیصلہ کیا جس سے سن کر ماجدہ کے پیرو کے نیچے سے زمین کھسک چکی تھی اعتراض تو باقر کو بھی بہت تھا لیکن احمد صاحب کے اصرار پر انہیں بات ماننا پڑی

 کیونکہ صاحب جانتے تھے کہ نور کی وجہ سے اب ہر کوئی ماجدہ پر بھی انگلی اٹھاے گا اتنے وقت میں اسکی شادی نہیں ہوئی وجہ اسکی عام سی شکل صورت تھی یا غریبی اور اب تو وہ ایک بھاگی ہوئی لڑکی کی بہن تھی کوئی کیوں اسکے لیے رشتہ لاتا دوسرا تبریز کو اس وقت ایک ماں کی ضرورت تھی ان حالات میں انہیں یہ فیصلہ ہی بہتر لگا 

اور پھر ماجدہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ اب باقر کی امانت ہوچکی تھی

لیکن باقر کی یہی شرط تھی کہ اس نکاح کے بعد اب باقر اور ماجدہ کا احمد صاحب اور اس گھر سے کوئی تعلق نہیں ہوگا 

وہ ماجدہ کو اس گھر میں تو لے آے تھے لیکن وہ عزت اسے کبھی بھی نہیں ملی تھی جو نور کو ملتی تھی باقر اس سے بات تک نہیں کرتا تھا اور تبریز ہمیشہ اسکے پیچھے پیچھے گھومتا رہتا اسے ماں چاہیے تھی جو اسے مل چکی تھی لیکن اسکی انہی حرکتوں پر ماجدہ کو ہمیشہ غصہ آتا تھا وہ ایک ہی گھر بند رہتی تھی دو تین ملازم تھے جو اپنا کام کرتے اور چلے جاتے باقر اسکی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اسے تو ہمیشہ صرف اپنے بیٹے کا ہی خیال رہتا ایسے حالات میں اسکا دل چاہ رہا تھا کہ نور اسکے سامنے ہوتی اور وہ اسکی قتل کردیتی لیکن نور اسکی سامنے نہیں تھی اسکے سامنے صرف تبریز تھا جس پر اب وہ اپنا غصہ نکالنے لگی تھی جب بھی تبریز اسکے پاس آتا ماجدہ غصے سے بری طرح اسے پیٹنا شروع کردیتی اب تو خوف سے تبریز اسکے پاس آنا بھی چھوڑ چکا تھا 

باقر زیادہ تر اپنے کام میں مصروف رہتا اسے بس پیسہ کمانا تھا ڈھیر سارا پیسہ اسے اُس شخص سے بھی زیادہ پیسہ کمانا تھا جس کی وجہ سے نور اسے چھوڑ کر گئی تھی 

اور اس سب میں ایک دن اسے ماجدہ کا خیال آیا جو نور کے کیے کی سزا بھگت رہی تھی باقر نے یہی سوچا تھا کہ اسکا اور ماجدہ کا صرف غاغزی رشتہ ہے لیکن اب اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ غلط کررہا ہے نور نے جو کچھ بھی کیا اس میں بھلا ماجد کا کیا قصور اکیلے تہنائی میں رہتے رہتے ماجدہ کی زہنی حالات خراب ہورہی تھی لیکن اپنے غصہ نکالنے کے لیے اسکے پاس تبریز تھا جس سے وہ ہر وقت مارتی رہتی تھی 

ایسے میں باقر نے اپنے آپ کو سمبھال کر اپنے بیٹے اور بیوی کو ٹائم دینے شروع کیا جس سے ماجدہ کے رویے میں کافی سدھار آگیا تھا اور تبریز کو بھی وہ اتنا ہی وقت دینے لگا تھا جو کہ اب ایک سنجیدہ سا بچہ بن چکا تھا 

اور اسی طرح ایک دن انکے یہاں ایک خوش خبری جس سے سب سے زیادہ خوش ماجدہ تھی اسے یہی لگا تھا کہ جیسے ہی یہ وجود دنیا میں آے گا باقر کا دیھان تبریز پر سے کم ہوجاے گا 

وہ اب بہت خوش رہنے لگی تھی لیکن تبریز اسکے لیے آج بھی نور کا ہی بیٹا تھا جسے وہ کبھی بھی پسند نہیں کرتی تھی لیکن اسے اب تبریز کی آنکھوں سے خوف آتا تھا جس میں اسکے لیے اب صرف نفرت نظر آتی تھی 

باقر ان دنوں اسکا بےحد خیال رکھنے لگا تھا اور ماجدہ کی خواہش بھی پوری ہورہی تھی باقر کا دیھان تبریز پر سے کم ہوتا جارہا تھا 

لیکن اسکی یہ خوشی بھی چند دنوں کی ہی تھی پاؤں پھسلنے کی وجہ سے وہ سڑھیوں سے گرچکی تھی اور ڈاکٹر کا یہی کہنا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی 

یہ سب سن کر وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی اسے اب تبریز کا خیال آنے لگا تھا وہ اسے اپنانا چاہتی تھی پیار کرنا چاہتی تھی لیکن اب تبریز اس سے بہت دور ہوچکا تھا ماجدہ کے قریب آنے پر وہ پورا گھر سر پر اٹھا لیتا وہ صرف اس گھر میں اپنے باپ سے بات کرتا تھا ماجدہ کی ذات کو اسنے ہمیشہ اگنور کیا تھا اور اسکی کچھ بھی کہنے پر وہ ہمیشہ بدتمیزی سے ہی جواب دیتا تھا ماجدہ جانتی تھی کہ اپنے بلاوجہ کے غصے اور ضد میں وہ اس معصوم کو خود سے دور کرچکی تھی تبریز اس سے دور تھا لیکن ماجدہ اب واقعی میں اس سے محبت کرنے لگی تھی جس سے اب تبریز کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا 

➖➖➖➖➖➖➖➖

وہ لڑکیوں سے دور ہی رہتا تھا اسکے دل میں یہ ڈر تھا کہ اگر کوئی لڑکی اس کی زندگی میں آگئی تو کہیں وہ بھی اسکی ماں کی طرح اسے چھوڑ کر نہ چلی جاے اسلیے وہ ہمیشہ لڑکیوں سے دور ہی رہتا تھا 

لیکن باقر صاحب اب اسکی زندگی میں خوشیاں چاہتے تھے 

اسلیے اپنے دوست کی بیٹی سے اسکی بات پکی کردی اور کچھ وقت بعد ہی شادی کی تاریخ رکھ دی 

اور تبریز اس سب سے بےنیاز اپنے کام میں مصروف رہتا نہ ہی تو اسنے کبھی اپنی منگیتر نمرہ سے بات کی اور نہ ہی کبھی نمرہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی 

گھر میں اسکی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں جس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا تھا اسے پتا تھا نمرہ اسکی ہونے والی ہے لیکن دل میں ایک ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ بھی اسے چھوڑ کر نہ چلی جاے 

لیکن اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ نمرہ کو اتنی محبت دے گا کہ وہ کبھی بھی اسے چھوڑ کر نہیں جاے گی 

اور اسی طرح کرتے کرتے اسکی شادی کا دن آ پہنجا 

وہاں پر سب موجود تھے سواے دلہن کے کسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں گئی ہے ایسے میں اسکو دل زوروں سے دھڑک رہا تھا 

جب نمرہ کی بہن نے ایک خط لا کر اسے دیا جو نمرہ نے اسے دینے کے لیے کہا تھا

جس میں لکھا تھا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے لیکن اسکے گھر والے زبردستی اسکی شادی کرارہے تھے انہوں نے نمرہ کو تبریز سے بات کرنے سے بھی منع کیا ہوا تھا کہ کہیں وہ اسے حقیقت نہ بتادیں اور آج موقع ملتے ہی وہ پارلر سے بھاگنے والی تھی لیکن وہ تبریز کو ان سب چیزوں کے بارے میں بتادینا چاہتی تھی تاکہ وہ اسکے لیے اپنے دل میں کوئی بدگمانی نہ رکھیں 

لیکن اس دن کے بعد سے وہ ایک غصے والا سنجیدہ انسان بن چکا تھا اسے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اسکی نظر میں دھوکے کا دوسرا نام لڑکیاں تھیں اسے دنیا کی سب لڑکیوں سے نفرت تھی لیکن پھر ایک دن اسکی زندگی میں نور آئی جسے دیکھ کر پہلی بار اسکے دل میں کوئی احساس جاگا تھا اور اب چاہے کچھ بھی ہوجاے وہ نور کو کسی اور کا نہیں ہونے دیگا 

اس لیے وہ ہمیشہ نور سے اپنا رویہ سخت رکھتا تھا تاکہ وہ اس سے ڈرے اسکی مرضی کے بنا کوئی کام نہ کرے 

اس لیے وہ نور کو اپنے گھر نہیں جانے دیتا تھا کیونکہ وہاں عبیر موجود تھا اور اسے یہ ڈر تھا کہ عبیر نور کو اس سے چھین نہ لے 

➖➖➖➖➖➖➖➖

ماجدہ بیگم روتے ہوے اسے ہر بات بتارہی تھیں جسے وہ اور انابیہ دم سادھے سن رہی تھیں 

تبریز ایک سخت انسان تھا لیکن وہ سخت کس لیے بنا ہے یہ اسے آج پتا چلا تھا 

تمہارے آنے پر میں نے اسے مسکراتے ہوے دیکھا ہے وہ مجھے اپنی ماں مانے یا نہیں لیکن میرے لیے وہ میرا بیٹا ہے تم اسکی زندگی ہو نور اسے اسکی زندگی لوٹ دو ماجدہ نے بیگم نے روتے ہوے اس دیکھا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر کمر سے چلی گئیں

❤❤❤❤

دھڑام کی آواز سے کوئی چیز گرنے پر اسنے زمین کی طرف دیکھا جہاں ایک سفید رنگ کے ادھ کھلے لفافے سے بھوری رنگ کی آدھی ڈائری نظر آرہی تھی 

اسنے حیرت سے اس ڈائری کو اپنے ہاتھ میں لیا جب احمد صاحب کمرے میں داخل ہوگیے اور حیرت سے اس کے ہاتھ میں موجود اس ڈائری کو دیکھنے لگے 

"یہ تمہیں کہاں سے ملی نور" 

"وہ آپ کی الماری صاف کررہی تھی تو یہ گرگئی لیکن یہ ہے کس کی" نور نے کہتے ہوے اس ڈائری کو کھولا جس کے پہلے ہی صفحے پر بڑا بڑا "مسز نور باقر" لکھا ہوا تھا نور نے حیرت سے احمد صاحب کی طرف دیکھا 

"یہ پھپھو کی ڈائری ہے "نور کے ہوچھنے پر احمد صاحب نے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

"یہ آپ کے پاس کیسے آئی "

"جس دن عبیر اور ہانیہ مجھے ملے تھے تو اس دن ہی یہ ڈائیری بھی ملی تھی وہ اس میں اپنی باتیں لکھا کرتی تھی" احمد صاحب نے افسردہ لہجے میں کہا 

"ابو مجھے نہیں لگتا نور پھپھو نے کبھی بھی کچھ بھی غلط کام کیا ہوگا" نور کی بات پر احمد صاحب نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا 

"مجھے بھی نہیں لگتا بیٹا ،تم اسے رکھ لو اسے پڑھ لینا مجھ میں کبھی اسے پڑھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی "نور نے سختی سے اس ڈائیری کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا 

❤❤❤❤

"کیا ہورہا ہے گڑیا" شہرام نے نور کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوے کہا

"کچھ نہیں" نور نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوے کہا

"مجھے تم سے بات کرنی تھی" شہرام نے تہمید باندھتے ہوے کہا 

"جی کہیے شہرام بھائی" 

"تم نے کیا سوچا ہے" 

"کس بارے میں" نور نے حیرت سے پوچھا 

"اپنے رشتے کے بارے میں میرا بچہ ،کب تک ایسے چلے گا تم مجھے بتاؤ تم جو چاہو گی وہی ہوگا اگر تم یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی ہو تو ایسا ہی ہوگا" شہرام کی بات پر نور بنا کچھ کہے اپنے سر جھکا گئی جب شہرام نے دوبارہ اپنی بات شروع کی 

"نور تبریز نے آج تک اگر دل سے کوئی خوشی مانگی ہے تو وہ تم ہو وہ بس اسلیے تمہارے ساتھ اتنا سخت رہتا ہے تاکہ تمہارے دل میں اسکا خوف رہے اور اس خوف کی وجہ سے تم کبھی بھی اس سے دور نہ جاؤ وہ برا نہیں ہے نور بس حالات نے تھوڑا سخت بنادیا ہے" 

"شہرام بھائی، اگر میں یہ رشتہ ختم کرنا بھی چاہوں تو کیا وہ مجھے ختم کرنے دینگے"

"وہ تمہارا فیصلہ چاہتا ہے تم جو کہو گی وہ وہی کرے گا وہ اسلیے تمہیں دوبارہ لینے نہیں آیا کیونکہ اسے ڈر ہے کہیں وہ دوبارہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچادے میں بس یہ جانتا ہوں کہ اگر یہ رشتہ ختم ہوگیا تو وہ خود کو کوئی نقصان ضرور پہنچاے گا "شہرام کی بات پر اس کے دل کو جیسے کچھ ہوا تھا

"فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے نور تم کیا چاہتی ہو بس اتنا یاد رکھنا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں" شہرام کے کہنے پر نور نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر مسکراتے ہوے اسے دیکھا

"میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے"نور کی بات پر شہرام کے چہرے ہر دھیمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اسنے مسکراتے ہوے نور کے سر پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھ دیا 

❤❤❤❤

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"

گھر میں داخل ہوتے ہی اندھیرے نے اسکا استقبال کیا بلکل ویسا اندھیرا جیسا اسکے اندر تھا اس نے جیسے ہی گھر کی لائٹ آن کری سب کے تیز گانے کی آواز اسکے کانوں میں پڑی 

وہ حیرت سے وہاں موجود کھڑے ہر شخص کو دیکھ رہا تھا جہاں حدید حوریہ شہرام انابیہ ہادی عائشہ ہانیہ حاشر سب موجود تھے بس کوئی نہیں تھا تو اسکی دشمن جان 

پہلے حاشر اور حدید اسے باری باری سالگرہ کی مبارک باد دینے لگے 

"بہت بہت مبارک میرے یار" شہرام نے اس سے گلے ملتے ہوے کہا 

"یہ سب کیا ہے" شہرام تبریز نے بیزاری سے کہا

" ہم سب بےچارے شوہر یہاں آے ہیں تاکہ مل کر اپنا اپنا غم باٹ سکے لیکن ہماری بیویوں کو یہاں بھی چین نہیں تھا اٹھ کر ساتھ آگئیں "

"اچھا تو پھر ہاد یہاں کیا کررہا ہے" تبریز نے سرسری سی نظر اٹھا کر ہادی کو دیکھا جو عائشہ کے ہاتھ میں موجود غبارے کو پھاڑنے کی کوشش کررہا تھا جسے بچانے میں وہ ہلکان ہورہی تھی 

"وہ بھی اس لائن میں آنے والا ہے-------" 

"شہرام تم جانتے ہو مجھے نہیں پسند یہ سب کچھ" تبریز نے آہستہ آواز میں تھوڑی سختی سے کہا

"یار لیکن سب تمہاری خوشی میں یہاں آے ہیں بس کیک کٹ کرلو اس کے بعد بھلے اپنے کمرے میں چلے جانا "شہرام کے کہنے پر وہ گہرا سانس لے کر اس ٹیبل کی طرح بڑھ گیا جس پر پھولوں کے درمیان میں کیک رکھا ہوا تھا تبریز جلدی سے اس کیک کو کاٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا 

جہاں کمرے کا ماحول باہر سے زیادہ حیران کن تھا

❤❤❤❤

اس نے حیرت سے اپنے کمرے کو دیکھا جہاں پورا کمرہ گلاب کی اور موم بتی کی خوشبو سے مہک رہا تھا مگر اس سے بھی زیادہ حیرت اسے پیچھے کھڑی اپنی نور جان کو دیکھ کر ہوئی جو اس وقت نیٹ کی لال ساڑی میں کھلے بالوں کے ساتھ قیامت لگ رہی تھی گلابی لب اس وقت سرخ لپسٹک سے سجے ہوے تھے

تبریز ٹرانس سی کیفیت میں چلتا ہوا اسکے قریب جانے لگا اور نرمی سے اپنا مظبوط بھاری ہاتھ اسکے گال پر رکھنے لگا اسے لگ رہا تھا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے 

"تم سچ میں ہو" تبریز نے خوشی سے کپکپاتی آواز میں کہا 

"ہاں میں سچ میں ہوں" نور نے مسکراتے ہوے اسکے ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھتے ہوے کہا تبریز نے بنا کچھ کہے سختی سے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا 

"مجھے یقین نہیں آرہا تم سچ میں میرے سامنے ہو "تبریز سختی سے اسے اپنے ساتھ لگا کر بھیگی ہوئی آواز میں کہا 

"تم نے مجھے معاف کردیا" تبریز نے اسکا چہرہ اپنے سامنے کرتے ہوے کہا 

"ہاں میں نے آپ کو معاف کیا، اور میں اب بس اپنی اس زندگی میں خوشیاں چاپتی ہوں "

"ایسا ہی ہوگا میری جان" 

"اور میں آج آپ کے دل میں موجود ساری بدگمانی کو ختم کردینا چاہتی ہوں"

"نور میرے دل میں تمہارے لیے کوئی بدگمانی نہیں ہے" 

"میرے لیے نہیں ہے لیکن اپنی ماں کے لیے تو ہے "نور کی بات پر اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی 

"میں صرف ہمارے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں "

"تبریز کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ ایسا کرسکتی ہیں" 

"نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا لیکن وہ ایسا کرچکی ہیں انہیں صرف اپنی خوشی سے مطلب تھا انہیں کسی سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا اُس وقت، نہ انہیں اپنے شوہر کی محبت نظر آئی اور نہ ہی بیٹے کی سسکیاں" اس وقت اسکے چہرے پر موجود کرب نور کو بہت تکلیف دے رہا تھا

"ایسا نہیں ہے تبریز انہوں نے آپ سے اور باقر انکل سے بہت محبت کی ہے"

"تم کچھ نہیں جانتی ہو نور -----"

"میں جانتی ہوں تبریز -----"

"اچھا تو بتاؤ اگر اتنی ہی محبت تھی تو وہ ہمیں چھوڑ کر کیوں گئی تھیں" تبریز کے کہنے پر ایک گہرا سانس لے کر نور نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی وہ ڈائیری اٹھا لی جس پر ابھی تک تبریز کی نظر نہیں پڑی تھی نور نے اپنے ہاتھ میں موجود اس بھورے رنگ کی ڈائیری کو تبریز کی طرف بڑھا دیا تبریز اس ڈائیری کو تھام کر سوالیہ نظروں سے نور کو دیکھنے لگا

"یہ ابو کی الماری سے ملی تھی اسے پڑھ کو آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل جاینگے" نور نے کہتے ہوے تبریز کے ہاتھ میں موجود اس ڈائیری کو کھول دیا جس کے پہلے ہی صفحے پر بڑا بڑا "مسز نور باقر" لکھا ہوا تھا 

➖➖➖➖➖➖➖➖

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نگاہ نور کے حسین سراپے پڑ پڑی جو اس وقت بلیک گولڈن کامدار ساڑی میں آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی وہ اس وقت اپنی تیاری میں اتنی مگن تھی کہ اسے باقر کے آنے کی خبر ہی نہ ہوئی 

باقر کے دوست کی اینیورسری تھی جس پر اس وقت وہ جانے کے لیے تیار ہورہے تھے

آہستہ سے اس کے قریب جاکر باقر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا جس پر نور چونکی ضرور تھی لیکن ڈری نہیں 

"کیا بات ہے مسز باقر آج تو قتل کرنے کا ارادہ ہے" باقر نے اسکی کان کی لو پر اپنے لب رکھتے ہوے کہا

"چھوڑیں باقر تبریز اٹھ جاے گا" نور نے بیڈ پر سوے ہوے تبریز کو دیکھ کر کہا 

جو اس وقت گھٹوں تک آتا شاٹ پہن کر اپنے دونوں لبوں کے درمیان ہلکا سا فاصلہ دے کر ہر چیز سے بےنیاز مزے سے اپنی نیند پوری کررہا تھا

"جایے جا کر تیار ہوجایے" نور نے اسکے کپڑے اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوے کہا

"تم سے تو واپس آکر حساب لیتا ہوں" باقر نے مسکراتی ہوئی نور سے کہا اور خود واشروم کی جانب چلا گیا  

➖➖➖➖➖➖➖➖

"آپ کو پتا ہے نور آپ کی آنکھیں بہت پیاری ہیں "اس لڑکی نے نور کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی جو اسے اور دلکش بنارہی تھی اس کے آس پاس کھڑی اس کی ہم عمر لڑکیاں اسکے مسکرانے پر چند سیکنڈ تک اس سے نظریں ہی نہیں ہٹا پائیں جبکہ دور کھڑا ایک وجود مسلسل اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے کھڑا تھا اسے اس وقت دنیا کا مشکل ترین کام نور سے نظریں ہٹانا لگ رہا تھا 

جب نور کو ریسٹ روم کی طرف جاتا دیکھ کر خود بھی جلدی سے اس طرف چلا گیا 

نور کے  باہر نکلتے ہی وہ اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا نور حیرت سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھنے لگی 

"ہیلو مس بیوٹیفل" اس کے کہنے پر نور کے چہرے پر ناگوار تاثرات آچکے تھے یقینا اسے کسی مرد کا اس طرح خود کو مخاطب کرنا پسند نہیں آیا تھا نور بنا اسکی بات کا جواب دیے وہاں سے جانے لگی جب وہ پھر اسکے سامنے آگیا 

"کم از کم اپنا نام تو بتا دیجیے اس بندہ ناچیز کو میکائیل ہمدانی کہتے ہیں" میکائیل نے مسکراتے ہوے اسے دیکھ کر کہا 

"نور مسسز نور باقر" نور نے اسے جتاتے ہوے کہا تاکہ اسے پتا چل جاے کہ وہ ایک شادی شدہ ہے نور اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلی گئی بنا دوسرے شخص کے تاثرات دیکھے جسکا چہرہ اسکی بات سن کر غصے سے سرخ ہوچکا تھا

➖➖➖➖➖➖➖➖

اپنے بجتے فون پر اس نے اپنے فون کی طرف دیکھا جس پر انجان نمبر آرہا تھا 

نور نے چند سیکینڈ سوچ کر کال پک کرکے سلام کیا جس کا جواب اسے بڑے خوبصورت انداز میں ملا 

"ہیلو کون" 

"مطلب بھول بھی گئیں ہمیں" دوسری طرف میکائیل کی آواز سنائی دی جسے نور پہچان نہیں پائی 

"سوری رانگ نمبر" نور نے کہتے ہوے فون کاٹنا چاہا جب دوسری طرف پھر کچھ کہا گیا

"میں بات کررہا ہوں میکائیل پارٹی میں ملا تھا ،مطلب بہت افسوس کی بات ہے تم مجھے بھول بھی گئیں" میکائیل نے انتہائی افسوس سے کہا 

"آپ کے پاس میرا نمبر کیسے آیا --------"

"آپ نمبر کی بات کررہی ہیں میں تو آپ کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہوں" 

"اگر سب کچھ جان چکے ہیں تو یہ بھی جان چکے ہونگے کہ میں ایک شادی شدہ عورت ہوں" نور نے غصے میں دانت پیسے ہوے کہا

"ہاں میں جانتا ہوں کہ تم شادی شدہ ہو تمہارا ایک بیٹا بھی ہے اور "میکائیل کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور اسکی بات کاٹ چکی تھی

  "مجھے آپ کی کسی بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے آیندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کیجیے گا "

''پہلے میری بات مکمل تو ہونے دو ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ تمہارا ایک چھوٹا سا پیارا سا بچہ ہے جو کہ اس وقت پارک میں کھیل رہا ہے اور کھیلتے کھیلتے بچوں کو چوٹ تو لگ ہی جاتی ہے کبھی چھوٹی تو کبھی کبھی بڑی" جتنی آرام سے میکائیل نے اپنی بات مکمل کی تھی اس سے کئیں زیادہ بےچینی دوسری طرف نور کو ہو چکی تھی 

"ک--کیا مط-مطلب" 

"تم تو ابھی سے گھبرا گئی ہو جان ابھی تو میں نے ایسا کچھ کیا بھی نہیں ہے "

"آخر تم چاہتے کیا ہو" نور نے رندھی ہوئی آواز میں کہا جو کہ دوسری طرف بیٹھے میکائیل کو بلکل پسند نہیں آئی

"خبردار نور جو تم نے رونا شروع کیا مجھے تمہارا رونا بلکل نہیں پسند اور کیا کہا تم نے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو میں تمہیں چاہتا ہوں تمہیں بےانتہا چاہنے لگا ہوں میری جان"

"کیا بکواس ہے" اسکی بات سن کر نور نے چلاتے ہوے کہا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ یہ شخص اس کے سامنے ہوتا اور وہ اس کا قتل کردیتی اتنی آرام سے اس کے ساتھ اتنی گھٹیا باتیں کررہا تھا 

"آرام سے ،،غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور تم اب میری ہو یہ بات زہہن نشین کرلو کیونکہ جو میں نے تمہارے بیٹے کے بارے میں کہا ہے وہ میں سچ بھی کرسکتا ہوں ،تو جان اب بعد میں بات کرتے ہیں" میکائیل نے کمینگی کے ساتھ کہتے ہوے فون رکھ دیا 

نور اپنے آنسو صاف کرتی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنا ڈوپٹہ اچھے سے ڈال کر نیچے کی طرف جانے لگی اسے اس وقت صرف تبریز کو دیکھنا تھا 

پتا نہیں کیا نئی مصیبت اسکے پیچھے لگ چکی تھی

وہ تیزی سے سڑھیاں اترتی ہوئی نیچی کی طرف بھاگی جہاں تبریز اچھلتا ہوا ہاتھ میں چاکلیٹ لے کر اندر آ رہا تھا اسے دیکھ کر نور بھاگتے ہوے اسکے پاس گئی اور اسے سختی سے خود میں بھینچ لیا بےسکون دل کو اب تھوڑا سکون مل رہا تھا

➖➖➖➖➖➖➖➖

نور کو اب تک یہ سب صرف مذاق لگ رہا تھا دو دن ہوچکے تھے اور سب سہی چل رہا تھا اسلیے وہ بھی اب اس معاملے میں پرسکون ہو کر اس بات کو بھلا چکی تھی 

لیکن آج پھر انجان نمبر سے فون آرہا تھا جسے دیکھ کر وہ تھوڑا ڈر گئی تھی پہلے والا نمبر وہ بلاک کرچکی تھی 

فون بجتے بجتے بند ہوچکا تھا لیکن چند سیکنڈ بعد دوبارہ فون بجنے لگا 

نور نے کپکپاتے ہاتھ سے فون اٹھا لیا 

"ہ-ہیلو "

"بہت دیر کردی فون اٹھانے میں "دوسری طرف میکائیل کی آواز اس کے اوسان خطا کر چکی تھی 

"تو کیا سوچا تم نے" 

"آپ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہیں میں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا" 

"تم نے میرے دل کا حال بگاڑا ہے میری جان میری پینتیس سالہ زندگی میں اگر کوئی اس دل کو چهو کر گیا تو وہ بھی ایک شادی شدہ قسمت تو دیکھو" 

"پلیز میری جان چھوڑدیں" 

"نہیں چھوڑ سکتا ایک ہفتے کا وقت دے رہا ہوں اپنے شوہر سے طلاق لے لو ورنہ ایک ہفتے کے بعد جو میں کرونگا وہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ہو" 

"میں باقر کو سب کچھ بتادونگی" نور نے روتے ہوے کہا 

"بتادو پھر کیا ہوگا وہ مجھے کہے گا میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں یا وہ مجھے چھوڑے گا نہیں وغیرہ وغیرہ" میکائیل نے اسکی بات کو جیسے ہوا میں اڑایا تھا 

"بہتر یہی ہے کہ اس سے طلاق لے لو وہ بیوہ بننے سے تو بہتر ہے" میکائیل کی بات سن کر اسے اپنی دل بند ہوتا محسوس ہورہا تھا

نیچے سے آتی آواز پر وہ تیزی سے نیچے کی طرف بھاگی باقر اور تبریز آچکے تھے 

"اسے کیا ہوا ہے" باقر نور نے بےہوش تبریز کو دیکھتے ہوے کہا جسے باقر اس وقت صوفے پر لٹا رہا تھا اور اسکے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی 

"کچھ نہیں ہوا نور میں اسکے لیے آئسکریم لینے گیا تھا واپس آیا تو یہ گرا ہوا تھا زیادہ چوٹ نہیں لگی" باقر نے روتی ہوئی نور سے کہا جو بار بار تبریز کے چہرے پر جگہ جگہ اپنی ممتا کا لمس چھوڑ رہی تھی 

➖➖➖➖➖➖➖➖

اسے پتا تھا میکائیل جو کہہ رہا ہے وہ کر بھی سکتا ہے اور وہ یہ بات بار بار دکھا بھی رہا تھا 

آفس سے واپسی پر کچھ گنڈے  باقر پر حملہ کرکے اسکے پاس موجود سب کچھ لے جا چکے تھے اور ساتھ میں اسے زخمی بھی کرگئے تھے آفس کا ایک ورکر اسے ہاسپٹل لے کر گیا نور جانتی تھی کہ یہ سب کس نے کروایا اسکی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی کہ کہیں تبریز یا باقر کو کچھ نہ ہوجاے 

یہی سب سوچ کر وہ اپنے آپ کو قربان کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی 

اسکا رویہ اب ہر کسی سے روکھا ہوچکا تھا تبریز اسکے پاس آتا لیکن نور اسے ڈانٹ کر بھیج دیتی وہ صرف تبریز کو پیار تب ہی کرتی جب وہ سورہا ہوتا 

باقر اسکا یہ رویہ دیکھ کر حیران تھا اسے حیرت ہورہی تھی نور اس طرح سے کیوں بیہیو کررہی ہے لیکن اسے یہی لگا شاید دو تین بار اسکے اور تبریز کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ہے نور اسکی وجہ سے پریشان ہے 

وہ ہمیشہ اس سے پیار سے بات کرتا جس کا جواب وہ انتہائی بدتمیزی سے دیتی اس کی بدتمیزی برداشت سے باہر ہونے پر باقر کا اس پر ہاتھ اٹھ چکا تھا جس کا باقر کو بہت دکھ تھا لیکن نور اس بات کو وجہ بنا کر اب اس سے علیحدگی چاہتی تھی 

اسکی رویہ باقر کو تکلیف میں مبتلا کررہا تھا وہ اس سے معافی مانگ چکا تھا لیکن نور فیصلہ کرچکی تھی 

تبریز روتا ہوا اسکے پاس آتا اسے اپنی ماں چاہیے تھی لیکن نور کو اپنے بیٹے کی زندگی چاہیے تھی باقر کی منت سماجت پر اسنے یہ کہہ دیا کہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے جو باقر سے زیادہ امیر ہے باقر ایک معمولی بزنس مین ہے اسکے ساتھ رہتے ہوے اسکی خواہشات کبھی بھی پوری نہیں ہوسکتی 

اور یہ سب سن کر وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا وہ تو خود سے بڑھ کر اسکی خیال رکھتا تھا اسکی ساری خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا لیکن آج وہ اسے صرف اس وجہ سے چھوڑ کر جارہی تھی کہ اسے باقر سے زیادہ امیر شخص مل چکا تھا تھک ہار کر باقر اسے اپنی زندگی سے آزاد کرچکا تھا جسے سن کر نور اندر سے مرچکی تھی وہ اسی وقت اپنا آپ گھسیٹتی ہوئی اس گھر سے نکل گئی

 ایسا لگ رہا تھا زندگی رک گئی ہے اسے اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور پل بھر میں وہ زمین بوس ہوچکی تھی

❤❤❤❤

اسنے اپنی آنکھیں کھول کر ارد گرد کے ماحول کو دیکھا وہ اس وقت ایک کمرے میں موجود تھی وہ حیرت سے ہر چیز دیکھنے لگی کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن کمرے کی ہر چیز انہتائی خوبصورت تھی کمرے کی سجاوٹ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ کمرے لڑکیوں کے لیے ہی ہے 

اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ وہ سڑک پر چل رہی تھی اسکے بعد کیا ہوا اسے کچھ نہیں یاد وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ کھول کر وجود اندر داخل ہوا

"کیسی ہو "میکائیل نے اسے دیکھتے ہوے کہا جو بنا پلک جھپکاے سرد تاثرات لیے اسے دیکھ رہی تھی 

"تمہاری عدت پوری ہوتے ہی ہم نکاح کرلینگے" اس کی بات سن کر نور کو حیرت ضرور ہوئی تھی بھلا اسے کیسے پتا کہ اسکی طلاق ہوچکی ہے لیکن پھر خود ہی یاد آچکا تھا کہ وہ آدمی اسکی پل پل کی خبر رکھ رہا تھا 

نور بنا اسکی بات کا کوئی جواب دیے چہرے کا رخ پھیر گی 

میکائیل کو اس وقت اسے اکیلا چهوڑنا ہی بہتر لگا وہ اس کی کنڈیشن سمجھ رہا تھا 

اسکی عدت پوری ہوتے ہی میکائیل اسکے ساتھ نکاح کرچکا تھا 

میکائیل اس سے بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا نور سے نکاح کے بعد اسے ایسا لگ رہا تھا اسے نیا جہان مل گیا 

لیکن دوسری طرف نور صرف اسی باتوں کا جواب دیتی جو وہ اس سے پوچھتا 

میکائیل کو اس کی خاموشی بہت بری لگتی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا لیکن وہ اس سے کوئی بات نہیں کرتی تھی یا تو وہ سارا دن ملازموں کے باوجود کسی نہ کسی کام میں گھسی رہتی یا بس انہی باتوں کا جواب دیتی جو میکائیل اس سے پوچھتا 

لیکن ایک دن نور نے خود اس سے بات کی وہ بھی تبریز کی ،، وہ اس سے ملنا چاہتی تھی

"نور میں ایسا نہیں کرسکتا"

"پلیز پلیز مجھے ایک بار مل وادیجیے "نور نے منت بھرے لہجے میں کہا 

جس پر میکائیل ہاں کرچکا تھا شاید اسی وجہ سے نور ٹھیک ہوجاے اس کے ساتھ خوش رہنے لگ جاے 

وہ اسے تبریز کے اسکول لے کر گیا تھا جہاں وہ اپنے بیگ پہنے اور تھرماس گلے میں لٹکاے اپنی گاڑی کا انتظار کررہا تھا جب نظر تھوڑی دور کھڑی نور پر پڑی اور اسے دیکھتے ہی تبریز کی آنکھوں میں نفرت اترچکی تھی

 اور اسکی یہی نفرت نور کو اندر سے توڑ رہی تھی اسے تو یہی لگا کہ تبریز ہمیشہ کی طرح بھاگ کر اسکے گلے لگ جاے گا لیکن وہ تو ایک نظر اسے دیکھ کر اپنی نظریں ہی پھیر چکا تھا وہ تبریز سے ملنا چاہتی تھی اسے اپنے سینے سے لگانا چاہتی تھی لیکن میکائیل اسے لے کر واپس آچکا تھا اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی تھی اسے اس وقت یہی لگ رہا تھا کہ جب اسکی اولاد ہوگی تو نور کا دیھان بٹ جاے گا 

اور پھر ایک سال بعد انکی زندگی میں عبیر کی آمد ہوئی میکائیل کو یہی لگ رہاتھا کہ اب نور عبیر کی وجہ سے زندگی میں آگے بڑھے گی  

لیکن یہ اسکی غلط فہمی تھی نور عبیر کی ہر بات کا خیال رکھتی لیکن کبھی اسے وہ محبت نہیں ملی جو وہ تبریز سے کرتی تھی 

عبیر کے تین سال بعد انکی زندگی میں ایک نئے وجود کی آمد ہوئی جس کا نام نور نے خود ہانیہ رکھا تھا نور ہانیہ کے آنے سے خوش تھی اور یہ بات میکائیل بھی سمجھ رہا تھا اور خوش بھی تھا لیکن کچھ دنوں بعد اسے یہ بات بھی پتا چل گئی کہ نور ہانیہ کے آنے سے خوش کیوں ہے 

کیوں کہ یہ تبریز کی خواہش تھی کہ اسکی ایک بہن ہو جسکا نام وہ ہانیہ رکھے گا 

زندگی اسی طرح گزر رہی تھی نور کی حالت دیکھ کر میکائیل کو تھوڑا پچھتاوا ہونے لگا تھا لیکن پھر خود کو یہ بات سمجھالیتا کہ وقت کہ ساتھ خود سہی ہوجاے گی اور پھر سوال آتا اور کتنا وقت جس کے جواب میں اسکے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا

➖➖➖➖➖➖➖➖

میکائیل بزنس میٹینگ کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہوا تھا جانا تو اسے پندرہ دن کے لیے تھا لیکن بیس دن ہوچکے تھے اور واپسی کی کوئی امید نہیں تھی 

اسے پتا چلا تھا کہ نور کی طبیعت کافی دنوں سے خراب ہے جس پر اسنے سختی سے نور کو ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا تھا اور وہ گئی بھی تھی لیکن واپسی پر جو خبر ڈاکٹر نے اسکی رپورٹ میں بتائی تھی اسے سن کر دل میں جیسے سکون اتر گیا تھا اسے برین ٹیومر تھا اور ڈاکٹر کے مطابق اسکے پاس زیادہ وقت نہیں ہے 

ایک ہفتے بعد میکائیل واپس آچکا تھا اور نور کی طبیعت پوچھنے پر اسنے یہی کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن میکائیل جانتا تھا وہ ٹھیک نہیں ہے لیکن ایک بات جو اسنے نوٹ کی تھی وہ یہ تھی کہ نور اب بہت خوش رہ رہی تھی اپنے ساتھ رہتے ان سالوں میں اسنے پہلی بار اسے اتنا خوش دیکھا تھا لیکن اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی 

اسلیے میکائیل خود اسکے ڈاکٹر سے اسکے بارے میں پوچھنے گیا تھا جس پر ڈاکٹر نے اسی وہی بات بتائی جو نور کو بتائی تھی اور یہ سب سن کر اسے اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی

سب سے زیادہ جو تکلیف دہ بات اسے لگی تھی وہ یہ تھی کہ نور کو ڈاکٹر نے کم ٹائم دیا تھا اور اسے میکائیل کے ساتھ رہنے سے اچھا موت کو گلے لگانا لگا 

یہ سب سن کر وہ نور کا اور زیادہ خیال رکھ رہا تھا اسکا علاج کروا رہا تھا لیکن نور ہر طرح سے لاپرواہی کررہی تھی 

اور پھر چند ماہ بعد نور ان سب کو چھوڑ کر جا چکی تھی جس کا سب سے زیادہ برا اثر میکائیل پر ہوا تھا وہ اس کی ہر ایک ایک چیز کو اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھ رہا تھا جو نور کی اسے ملی تھیں

اسنے زندگی کے ہر لمحات کو اپنی ڈائیری میں لکھا ہوا تھااس ڈائیری کو پڑھنے کے بعد میکائیل کو خود سے نفرت ہورہی تھی اسنے کہا تھا کہ اسے نور سے محبت ہے اور اسے محبت ہے لیکن بھلا یہ کیسی محبت تھی جس میں اسکی ساری خوشیاں ہی وہ چھین چکا تھا

وہ اپنی باتیں صرف اللہ سے کہتی تھی

اور لکھتی صرف اس ڈائیری میں تھی 

اسکے آگے کی زندگی کے لمحات جو نور نہیں لکھ پائی تھی وہ میکائیل لکھ چکا تھا وہ سوچ چکا تھا اسے آگے کیا کرنا ہے

وہ اپنا سب کچھ ساری جائیداد ہانیہ اور عبیر کے نام کرچکا تھا اور انکا سارا ضروری سامان بھی وہ رکھ چکا تھا وصیت میں اسنے یہ بات لکھی تھی 

کہ جب تک ہانیہ کی شادی نہیں ہوجاتی اور عبیر خود کمانے کے لائق نہیں ہوجاتا تب تک ان کو وہ جائیداد نہیں مل سکتی جو میکائیل نے انہیں دی ہے 

عبیر اور ہانیہ کو وہ احمد ہاؤس چھوڑ چکا تھا اور ان کا سارا ضروری سامان کاغزات وغیرہ 

وہ سب کچھ ان کے پاس چھوڑ چکا تھا اور ایک خط بھی جس میں اسنے لکھا تھا کہ وہ کبھی ان سب کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا بس اسے معاف کردیا جاے اور اس کے بچوں کو اپنے پاس رکھ لیا جاے نور اب اس دنیا میں نہیں ہے اسکے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ میکائیل کی اپنی غلطی تھی نور کی نہیں تو اسے معاف کردیا جاے 

احمد صاحب عبیر کے ہاتھ میں موجود اس خط کو پڑھ رہے تھے اپنی بہن کا اس دنیا سے جانا انہی دکھ میں مبتلا کر چکا تھا انہوں نے عبیر کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کمبل میں لپٹے ہانیہ کے وجود کو اپنی گود میں اٹھایا اور ان دونوں کو اندر لے گئے اور انکے اندر جاتے ہی میکائیل بھی وہاں سے جاچکا تھا وہ اپنے بچوں کو محفوظ ہاتھوں میں سونپ چکا تھا اور اسکی زندگی کا اب کوئی مقصد نہیں تھا 

اپنے کمرے میں داخل ہوکر اسنے اپنی وارڈروب کے کونے سے ریوالور نکالا اور اپنی آنکهیں بند کرکے اسے اپنی کنپٹی پر رکھ لیا 

ٹھاہ کی آواز کے بعد پورے کمرے میں سناٹا چھا چکا تھا آج میکائیل ہمدانی کا وجود بھی ختم ہوچکا تھا 

➖➖➖➖➖➖➖➖

وہ کسی بچے کی طرح ڈائیری کو اپنے سینے سے لگاے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا 

"نور و-وہ میری--میری وجہ سے اتنی ازیت میں رہیں اور---اور میں ہمیشہ انہیں غلط سمجھتا رہا میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤنگا" اسکی یہ حالت دیکھ کر نور کو خود بھی تکلیف ہورہی تھی اسنے آگے بڑھ کر تبریز کو اپنے سینے سے لگا لیا 

"تبریز آپ نے کچھ نہیں کیا" 

"نہیں میں نے کیا ہے، میری وجہ سے انہیں یہ سب کچھ اپنی خوشیاں اپنی فیملی کو چھوڑنا پڑا اور میں ہمشہ ان سے نفرت کرتا رہا" 

"تو اپنی اس نفرت کو ختم کردیجیے انہیں اس بات کا اتنا غم نہیں تھا کہ انہیں انکی فیملی سے دور کردیا انہیں تو سب سے زیادہ غم اس بات کا تھا کہ آپ ان سے نفرت کرتے ہیں" 

"نور میں ،میں چاہ کر بھی کبھی ان سے نفرت نہیں کرپایا جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو تمہارا چہرہ بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پایا تھا کیونکہ میری نظریں تو بس تمہاری آنکھوں پر تھیں جو بلکل میری ماں جیسی تهیں تمہاری آنکھیں دیکھ کر مجھے ان کی یاد آتی تھی وہ تو مجھ سے ہمیشہ اتنی محبت کرتی تھیں اور میں نے کیا کیا"

"تبریز" نور نے اسکا چہرہ اپنے سامنے کیا 

"جو ہو چکا ہم اسے واپس نہیں لاسکتے تبریز وہ تو بس ہمیشہ آپ کو خوش دیکهنا چاہتی تھیں نہ کے اس طرح روتے ہوے تبریز ہم قسمت کا لکھا بدل نہیں سکتے میں بس یہی کہونگی کہ آپ ان کے لیے دعا کیجیے "نور نے اسکے آنسو صرف کرتے ہوے کہا تبریز نے ایک نظر اسے دیکھ کر سختی سے خود میں بھینچ لیا

"تم بہت اچھی ہو نور تم میری زندگی میں واقعی نور بن کر آئی ہو" اسکی بات پر مسکراتے ہوے نور نے اسکی بھیگی آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے اس کے ایسا کرنے پر تبریز کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہورہا تھا

"یہ سب کیسا لگا" نور نے اسکا دیھان بٹانے کے لیے اس کا دیھان کمرے کی سجاوٹ پر لگایا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئی تھی 

"یہ سب تم تو نہیں کرسکتی ہو" 

"ویسے کیا تو میں نے ہی ہے لیکن پلیننگ ساری حوریہ آپی کی تھی" اپنی بات مکمل کرکے نور اسکا ہاتھ تھام کر اسے کمرے میں موجود ٹیبل کی طرف لے گئی جہاں پھولوں کے بیچ میں کیک رکھا ہوا تھا اور اس پر کینڈلز لگی ہوئی تھیں 

تبریز نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دونوں نے مل کر کیک کٹ کردیا 

تبریز نے کیک کا پیس اسکے منہ میں ڈال دیا نور بھی ایک پیس اٹھا کر اسکے چہرے کے قریب لے جانے لگی تبریز کو یہی لگا کہ یہ پیس اسکے کھانے کے لیے ہے لیکن نور وہ پیس اسکے پورے چہرے پر لگا کر کھلکھلاتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی اسکی حرکت پر تبریز بھی تیزی سے اسکے پیچھے بھاگا اور اسکی ڈوری کو اپنے ہاتھ میں مظبوطی سے تھام لیا اسکے ایسا کرتے ہی نور کے بھاگتے قدم رک چکے تھے اسے پتا تھا اگر وہ آگے بڑھی تو اسکی ڈوری کھل جاتی 

تبریز آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکے قریب جانے لگا اور اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے کر اپنے گال کو اسکے گال سے ملانے لگا جس سے تبریز کے چہرے پر لگا کیک اب نور کے گال پر بھی لگ چکا تھا تبریز نے اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے 

"بہت میٹھا کیک ہے یار "تبریز نے کہتے ہوے اسکے دوسرے گال پر بھی کیک لگا کر اپنے لب رکھ دیے 

"تھینک یو نور "تبریز کے کہنے پر نور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

"کس لیے" 

"میرے اس خاص دن کو مزید خاص بنانے کے لیے ،میری زندگی میں آنے کے لیے ،ہر ایک چیز کے لیے"اپنی بات کہہ کر تبریز نرمی سے اسکے لپسٹک سے سجے لبوں کو قید کرلیا اور تھوڑی دیر بعد اسکی سانسوں کو آزادی بخشی 

"مجھے کچھ نہیں چاہیے نور کیونکہ تم میرے پاس ہو اور تم ہی تو میرا سرمایہ ہو" تبریز نے کہتے ہوے اسکے نازک وجود کو اپنے مظبوط بازؤوں میں اٹھا لیا گزرتی رات کا ہر پل انہیں مزید قریب کررہا تھا

❤❤❤❤

"حاشر میری بات سنیں "ہانیہ نے جھنجھلاتے ہوے کہا وہ کتنی دیر سے حاشر سے بات کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ اپنے کام میں مگن بس ہوں ہاں میں جواب دے رہا تھا 

تنگ آکر ہانیہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب حاشر نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنی گود میں موجود لیپ ٹاپ کو ہٹا کر اسے بٹھا لیا 

"اچھا بتاؤ میں سن رہا ہوں" 

"بتایے میں نے اتنی دیر میں کیا کیا باتیں کی ہیں" 

"وہ تم نے ،، اچھا چھوڑو بتاؤ کیا کہہ رہی ہو" 

"میں کچھ سوچ رہی تھی" ہانیہ نے خوشی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"بتاؤ کیا سوچ ہورہی تھیں" 

"وہ نہ مجھے بےبی چاہیے" 

"کیا" اسکی فرمائش پر حاشر نے حیرت سے اسے دیکھا 

"بےبی حاشر" 

"ہانیہ جس دن تم بڑی ہوجاؤ گی نہ تو ہمارا بےبی بھی آجاے گا" 

"لیکن میں تو بڑی ہوگئی ہوں" 

"اچھا لیکن جب تم حقیقت والی بڑی ہوجاؤ گی نہ اس دن ہم اس بارے میں ضرور بات کرینگے ابھی میرا ایک ہی بچہ کافی ہے" 

"لیکن-------" ہانیہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حاشر نے اسکے لبوں پر انگلی رکھ دی 

"بس ، اب سونے چلتے ہیں باقی باتیں کل کرینگے" حاشر نے کہتے ہوے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور کمرے کی طرف چلا گیا 

❤❤❤❤

نیند سے جاگ کر اسکی نظر سب سے پہلے اپنے قریب سوے ہوے تبریز پر پڑی جو اس وقت سوتے ہوے بہت معصوم لگ رہا تھا 

نور نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکی پیشانی پر موجود بالوں کو پیچھے ہٹا کر وہاں اپنے نرم لب رکھ دیے 

دور ہو کر نور وہاں سے جانے لگی جب تبریز نے اسے سختی سے اپنے حصار میں لے لیا 

"آپ جاگ رہے ہیں" نور نے نگاہیں جھکا کر گھبراتے ہوے کہا 

"اگر میں سورہا ہوتا تو اپنی پیاری بیوی کا یہ پیار بھرا اندر کیسے دیکھتا" تبریز نے گھمبیر آواز میں کہتے ہوے اسکے گالوں کو چھوتی لٹ کو کان کے پیچھے کردیا 

"تبریز پلیز چھوڑیں مجھے"

"پہلے مجھے پیار کرو بلکل ویسے ہی جیسے ابھی کیا تھا" 

"میں کر چکی ہوں اب آپ مجھے چھوڑیں-------" نور نے کہتے ہوے اپنا آپ اسکی گرفت سے آزاد کروانا چاہا

"تم جانتی ہو کوشش بیکار ہے جب تک تم میری بات نہیں مانو گی میں نہیں چھوڑونگا" تبریز کی بات پر نور نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"آنکھیں بند کریں" نور کے کہنے پر وہ اچھے بچوں کی طرح فورا آنکھیں بند کرچکا تھا اور ٹھیک چند سیکینڈ بعد اسے اپنی پیشانی پر نور کا نرم لمس محسوس ہوا 

"اور" تبریز نے بند آنکھوں سے کہا اور نور جانتی تھی اس طرح تو تبریز کبھی اسے نہیں چھوڑے گا 

اسنے ہلکی سی چیخ ماری جس پر تبریز نے پریشانی سے آنکھیں کھولیں گرفت ڈھیلی ہوئی اور نور تیزی سے واشروم میں بھاگ گئی

"نور یہ غلط ہے بعد میں مجھ سے کوئی شکایت مت کرنا" تبریز تیز آواز میں کہتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ گیا 

❤❤❤❤

حدید تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے گھر میں داخل ہوا اور فورا اپنے کمرے میں پہنچا 

"حور کیا ہوا ہے" حدید نے پریشانی سے اسکے قریب جا کر کہا 

"حدید کچھ نہیں ہوا" 

"تو مجھے اتنی ایمرجنسی میں گھر کیوں بلایا"  

"وہ کچھ بتانا تھا "حوریہ نے اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوے کہا 

"تو میری جان جب واپس آتا جب بتادیتیں" 

"میں جب تک کا انتظار نہیں کرسکتی نہ" 

"اچھا چلو بتاؤ" 

"وہ ، وہ نہ کچھ کہنا تھا" حوریہ نے اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوے کہا

"حور کیا ہوا ہے کوئی پریشانی ہے" حدید نے اسکے گال پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا اسکا لہجہ دیکھ کر حدید کو پریشانی ہورہی تھی حوریہ بنا اسکی بات کا کوئی جواب دیے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی 

"آپ بابا بننے والے ہیں" 

"کیا کہا تم نے" حدید نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکالتے ہوے کہا اسے لگ رہا تھا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے 

"آپ بابا بننے والے ہیں حدید" حوریہ کے دوبارہ کہنے پر حدید نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا

"تھینک یو سو مچ حور" خوشی سے اسکی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے حدید نے مسکراتے ہوے حوریہ کے بالوں پر اپنے لب رکھ دیے اسکی آنکھ سے گرا آنسو حوریہ کے بالوں میں جذب ہوچکا تھا

وہ حوریہ کو اسی وقت سب سے ملوانے کے لیے لا چکا تھا سب کو یہ خوشی کی خبر سنانے کے لیے 

جہاں سب ہی یہ خبر سن کر بہت خوش تھے وہیں سب سے زیادہ خوشی ہادی کو تھی کہ آخر کار کوئی تو اپنا ہوگا جو اسکی بھی عزت کرے گا 

خوشی کے ان دنوں میں عائشہ اور ہادی کا رشتہ طے ہوچکا تھا منگنی کے بجاے انکی شادی کی تاریخ رکھی جاچکی تھی اور دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں خوب زوروشور سے چل رہی تھیں 

❤❤❤❤

پورے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی سب تیاری میں مصروف تھے سواے ہادی کے اسکا کہنا تھا کہ وہ دولہا ہے اور اس سے کوئی کام نہ کروایا جاے 

شہرام ابھی باہر سے آیا تھا تھکن ہونے کے باعث وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا جب نظر اپنے سامنے صوفے پر بیٹھے ہادی پر پڑی جو اپنی گود میں اسٹرابری کا ڈبہ رکھ کر مزے سے اسے کھا رہا تھا 

شہرام غصے سے اسے دیکھنے لگا 

"کیا ہوا بھائی کھانی ہے تو کھا لیجیے" ہادی نے اسٹرابری کا ڈبہ اسکی طرف بڑھاتے ہوے کہا 

"مطلب شادی تیری ہے اور خود آرام سے کھا رہا ہے اور ہم سب گدھے کی طرح کام کررہے ہیں جا باہر جا کر ڈیکوریشن چیک کر"

"بھائی آئی-ایم-دولہا تو مجھے کوئی بھی کام کرنے کا نہ کہے" ہادی نے اسٹرابری منہ میں بھرتے ہوے کہا 

"عزت سے نہیں مانے گا نہ تو" شہرام نے آہستہ سے اسے دیکھ کر کہا اور ایک نظر انکا طرف آتی ہوئی اماں بی کو دیکھا

"چل کوئی بات نہیں میری کمر میں بہت درد ہے لیکن تو بھی تو دولہا ہے نہ تجھ سے تھوڑی نہ کوئی کام کروائنگا" شہرام نے تیز آواز میں کہتے ہوے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا ہادی حیرت سے اس دیکھ رہا تھا کہ اس ٹھیک ٹھاک بندے کو اچانک کیا ہوگیا ہے لیکن یہ جواب بھی اسے مل گیا جب اپنی کمر پر اسے اماں بی کی زوردار جھڑی لگی 

"آہ اماں بی" ہادی نے کہراتے ہوے اپنی کمر سہلائی 

"اٹھ جا کر کام کر بچہ صبح سے لگا ہوا ہے" 

"اماں بی میں دولہا ہوں" 

"تو جب شہرام کی شادی ہوئی تھی تو اسنے سارے کام خود ہی کیے تھے چل اٹھ" اماں بی نے اس جھڑکتے ہوے کہا جس پر ہادی نے منہ بنا کر شہرام کو دیکھا شاید وہ کچھ حمایت میں کہہ دے لیکن وہ تو اپنی ہنسی روکنے کے چکر میں لال ہورہا تھا 

"آرہی ہوں میں ابھی تو مجھے یہاں نظر نہ آے" اماں بی کہہ کر کچن میں چلی گئی اور انکے جاتے ہی شہرام کا قہقہہ اس جگہ گونجا 

"کم از کم شادی تک تو میری عزت کرلیجیے" 

"بیٹا عزت تو تیری دلہن بھی نہیں کرے گی ہم کیا امید لگانا جاؤ جا کر ڈیکوریشن چیک کرو اماں بی آتی ہونگی" شہرام نے اس باہر جانے کا اشارہ کیا جس پر ہادی منہ بناتا ہوا باہر چلا گیا 

❤❤❤❤

"یہ خوشی یہ خوشی کا سماں"

"دل میں گونجی ہیں شہنایاں" 

"یہ خوشی یہ خوشی کا سماں"

"دل میں گونجی ہیں شہنایاں" 

"یہ حسین یہ دل نشین" 

"ایک محبت کی ہے جو داستان" 

"رب راکھا رب راکھا" 

"رب راکھا رب راکھا" 

بارات آچکی تھی ہر طرف شور مچ رہا تھا 

ہادی نے گاڑی بھی اپنی طرح سجائی تھی بونٹ پر وائٹ کلر کی نیٹ کی ربن لگائی ہوئی تھی جس کے بیچ میں بڑا سا بوکے رکھا ہوا تھا لیکن اس میں پھول کے بجاے چاکلیٹ تھیں 

اپنی شیروانی درست کرتا ہادی سب کے ساتھ مل کر اندر جانے لگا خوشی اسکے چہرے سے ہی نظر آرہی تھی 

اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اسکی زندگی میں یہ حسین دن آچکا ہے سب سے زیادہ بےقراری تو اسے عائشہ کو دیکھنے کی تھی 

جو آج اسکی "مس عورت" سے "مسز عورت" بننے والی تھی 

"کوئی پوچھے آنکھوں نے آنکھوں سے" 

"کیا کہہ دیا" 

"ہے سن لیا" 

"کہہ دے نہ چھپکے سے دونوں نے"

"ہے چن لیا" 

"ایک ساتھیاں"

نکاح کی رسم ادا ہوچکی تھی اور وہ دونوں اس پاک بندھن میں بندھ چکے تھے

"یہ ریشمی سے پل"

 "یہ نرم سی ہلچل"

 "یہ سپنوں کے بادل" 

"رب راکھا" 

"اوے سامنے دیکھ" حدید کی آواز پر ادھر ادھر دیکھتے ہاد نے سامنے دیکھا اور نظریں جیسے اس منظر سے ہٹنے سے انکاری تھیں جہاں سامنے عائشہ بہزاد اور حمنہ کے ساتھ نظریں جھکاے چلتی ہوئی اسٹیج تک آرہی تھی 

وہ اس وقت سرخ رنگ کے گرارے میں تھی جو کہ ہادی خود اپنی پسند سے اسکے لیے لایا تھا اس پتا تھا عائشہ اس اس گرارے میں بہت پیاری لگے گی مگر اتنی خوبصورت لگے گی یہ اس نے نہیں سوچا تھا 

"یار ہاد اب تمہاری ہی ہے جی بھر کر دیکھنا مگر ابھی ہاتھ تو تھام لو" بہزاد کے کہنے پر ہادی ہوش کی دنیا میں واپس آیا اور اپنا ہاتھ عائشہ کے سامنے کیا 

عائشہ نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور بےحد ہینڈسم لگ رہا تھا عائشہ نے اگلے پل اپنی نظریں جھکالیں اسکے ایسا کرتے ہی ہادی کے چہرے پر موجود مسکراہٹ مزید گہری ہوئی 

"تم کو یوں جو دیکھوں" 

"جانے کیوں" 

"میرا جیا ، دھڑکے پیا" 

"مہکی سی لہکی سی بہکی سی"

"میں ہوں پیا، یہ کیا کیا" 

عائشہ نے اپنا چوڑیوں سے بھرا حنائی ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا جسے ہادی نے مظبوطی سے تھام لیا 

"یہ حسن یہ تو"

 یہ آنچ یہ خوشبو" 

"یہ روپ یہ جادو" 

"رب راکھا"

❤❤❤❤

"چلو بھئی ہاد جلدی سے پیسے دے دو" انابیہ نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوے کہا جس میں دودھ کا گلاس اور فیڈر تھی فیڈر پر پانچ ہزار لکھے تھے جبکہ گلاس پر پچاس ہزار لکھے تھے 

"بھابھی آپ اور حور میری طرف ہیں" ہادی نے ان دونوں کو دیکھتے ہوے کہا 

"بھائی ہم آپ کی طرف بھی ہیں لیکن ابھی ہم عاشی کی طرف ہیں تو جلدی سے ڈیسائیڈ کیجیے کے کتنے پیسے دینے ہیں" حوریہ نے ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوے مسکرا کر کہا جب ہاد نے ٹرے میں موجود فیڈر اٹهالی سب نے منہ کھول کر حیرت سے اسے دیکھا  

"ہاد یہ کیا بدتمیزی ہے" انابیہ نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوے کہا

"بھابھی یہ میری چوائش ہے"

"لیکن عاشی تو اس میں سے نہیں پیے گی نہ "حوریہ نے احتجاج کیا

"تو وہ گلاس والا دودھ پی لے لیکن میں یہی پیونگا تو میں پیسے بھی صرف اسکے ہی دونگا "ہادی نے اپنی بات کہہ کر عائشہ کو دیکھا جو اسے ہی گھور رہی تھی

عائشہ نے اسکے ہاتھ سے فیڈر چھین لی اور دودھ کا گلاس اٹھا کر گلاس میں موجود سارا دودھ  پی گئی جبکہ ہادی حیرت سے منہ کھول کر اسے دیکھ رہا تھا 

"چلو ہاد اب تو پیسے دے دو"  انابیہ نے اپنی ہتھیلی اسکے آگے کرتے ہوے کہا 

"میں کس لیے دوں سارا دودھ تو اس نے پیا ہے" ہادی نے معصوم سی شکل بنا کر کہا جب پیچھے کھڑے حاشر نے جلدی سے اسکی شیروانی کی جیب سے والٹ نکال کر انابیہ کی طرح اچھال دیا 

ھادی نے گھر کر حاشر کو دیکھا جو پورے دانتوں کی نمائش کررہا تھااسی طرح ہنسی خوشی ساری رسموں کے بعد رخصتی کا وقت آیا اور یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی

❤❤❤❤

گھر آکر بھی رسموں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا 

رسم ختم ہوتے ہی نرمین بیگم عائشہ کو کمرے میں بھجوا چکی تھیں اور دوسری طرف سب ہادی کو گھیرے میں ڈال کر بیٹھے ہوے تھے کوئی اسے اٹھنے نہیں دے رہا تھا بہت مشکل سے وہ اس جگہ سے اٹھ کر آیا تھا وہ بھی واشروم جے بہانے سے 

وہ سب کی نظروں سے بچ کر بیک سائیڈ کی طرف چلا گیا جہاں اسکے کمرے کی کھڑکی تھی 

کھڑکی سے کمرے میں پہنچ کر اسنے سکون کا سانس لیا اور بیڈ پر اپنے پورے وجود پر لال ڈوپٹہ پھیلا کر بیٹھی ہوئی عائشہ کو دیکھا 

ہادی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس وجود کے قریب جانے لگا جب پیر پھسلنے پر بیڈ پر موجود اس وجود پر وہ گرگیا اور اسکے گرنے سے اس وجود کا ڈوپٹہ چہرے سے سرک چکا تھا

"تو یہاں کیا کررہا ہے" ہادی نے غصے سے اسے گھورتے ہوے کہا جوابا اسنے اپنے بڑے بڑے خرگوش جیسے دانتوں کے نمائش کروائی

❤❤❤❤

دروازہ کھول کر ہادی نے اسے اپنے کمرے سے باہر نکال دیا وہ ان کا کزن تھا جس کی عمر سترہ سال تھی دبلا پتلا سا وہ لڑکا جس کا قد عائشہ سے چند انچ ہی لمبا تھا

"یہ میرے کمرے میں کیا کررہا ہے" ہادی کے غصے سے کہنے پر وہاں موجود کھڑی ہوری ٹیم قہقہہ لگا کر ہنسی 

"کیونکہ ہمیں پتا تھا تم جیسا کنجوس اور بےصبرا انسان یہی کرسکتا ہے اسلیے پہلے ہی اسے کمرے میں بٹھا دیا تھا" حاشر نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوے کہا ہادی پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر یہ یہاں ہے تو عائشہ کہاں ہے لیکن بنا کچھ پوچھے اسے جواب مل چکا تھا اسنے مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں عائشہ واشروم کے دروازے پر کھڑی کھلکھلا کر ہنس رہی تھی یقینا وہ واشروم میں ہی چھپی ہوئی تھی اسے دیکھ کر ہادی نے افسوس سے اپنا سر ہلایا 

"جب بیوی ہی بےوفا ہو تو دوسرے سے کیا گلے---" 

"اوے اوور ایکٹنگ کی دکان یہ سب بعد میں کرنا بچاری اتنی دیر سے باہر کھڑی ہوئی ہیں اب جلدی سے انکا حق دے دے" حدید نے اسکے سر پر تھپڑ مارتے ہوے کہا 

"کونسا حق بھائی بھول گئے پہلے ہی یہ سب مجھے بہت لوٹ چکی ہیں" 

"ہاد بھائی جلدی سے دے دیں نیند آرہی ہے" نور نے اپنی آنکھیں مسلتے ہوے معصومیت سے کہا 

"ہاے یار اس معصومیت پر کون فدا نہ ہو" ہادی نے اسے دیکھتے ہوے کہا جب اپنی گردن پر کسی کی سخت گرفت محسوس ہوئی جہاں تبریز کھڑا اسے مسکراتے ہوے گھور رہا تھا بقول ہادی کے گھور نہیں ڈرا رہا تھا 

"تبریز بھائی میرا مطلب کچھ غلط تھوڑی نہ تھا میں تو بس ایک بات کہہ رہا تھا" 

"ہاد کمرے میں جانا ہے نہ" تبریز کے کہنے پر اسنے بےچارگی سے اہنا سر اثبات میں ہلایا

"تو جلدی سے انہیں وہ دے دو جو انہیں چاہیے" ہادی نے گہرا سانس لے کر اپنا کریڈٹ کارڈ انابیہ کو دے دیا کیونکہ وہی انکی لیڈر تھی 

اسکے کارڈ دیتے ہی سب وہاں خوشی خوشی وہاں سے جاچکے تھے انکے جاتے ہی ہادی بھی پرسکون ہوکر اپنے کمرے میں چلا گیا 

❤❤❤❤

اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر عائشہ دوبارہ واشروم میں بھاگنے لگی جب ہادی نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کرلیا

"بہت مزے آرہے ہیں نہ تمہیں" ہادی نے اسے گھورتے ہوے کہا جس پر عائشہ نے معصومیت سے اپنا سر ہلایا اسکی حرکت پر ہادی کو اس پر بےانتہا پیار آیا وہ مسکراتے ہوے اسکے لبوں پر جھکنے لگا جب عائشہ نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا 

"پہلے میری منہ دکھائی" 

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ اس سڑے ہوے چہرے کو ہزار بار دیکھنے کے بعد میں کوئی منہ دکھائی دونگا" 

"تو ٹھیک ہے میں جارہی ہوں اس کمرے سے اور کبھی بھی اپنا چہرہ نہیں دکھاؤنگی" عائشہ ناراضگی سے کہتی ہوئی باہر کی طرف جانے لگی 

"اچھا سوری سوری دے رہا ہوں" ہادی نے کہتے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا ایک پلاسٹک کا بوکس اٹھایا جس پر چھوٹی سی لال رنگ کی ربن لگی ہوئی تھی ہادی نے وہ بوکس عائشہ کی جانب بڑھایا جسے تھام کر وہ خوشی خوشی دیکھنے لگی

اس نے حیرت سے اس گفٹ کو دیکھا 

"میرے لیے" عائشہ نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوے پوچھا 

"ہاں میری جان تمہارے لیے کوئی بھی کام ہو خود جانا مجھے ڈسٹرب مت کرنا" ہادی کے کہنے پر عائشہ نے گھور کر اسے دیکھا مطلب یہ گفٹ بھی اپنے فائدے کے لیے دیا تھا

"لیکن مجھے تو گاڑی چلانی نہیں آتی "

"میں ہوں نہ میں سکھاؤنگا تمہیں" 

"تھینک یو سو مچ ہاد" عائشہ خوشی خوشی اسکے گلے لگ گئی جس پر اسنے مسکراتے ہوے اسکی گرد گھیرا مظبوط کرلیا 

"تو اب تمہیں جو بھی کام ہو اپنی کار لے کر جانا اور خود ہی کرنا میں تو کھاؤنگا سوؤنگا اور مزے کرونگا" 

"کیوں تم آفس نہیں جاؤ گے" عائشہ نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"مسسز عورت اب شادی ہوچکی ہے کونسا آفس کہاں کا آفس"

"میں بتا رہی ہوں تم جس دن آفس نہیں جاؤ گے تو میں اس دن اپنے گھر سب سے ملنے جاؤنگی" 

"اوہ اچھا لیکن میری اجازت کے بغیر تم کہیں نہیں جاسکتی ہو" 

"مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے ڈارلنگ موم ڈیڈ کی اجازت بھی کافی ہے" "مطلب حد ہے پھر مجھے بھی تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے "

"ہے،، تمہیں ہر کام کے لیے مجھ سے اجازت لینی ہوگی" عائشہ کی بات پر ہادی نے اپنے کندھے اچکا دیے 

"ٹھیک ہے آپ کا حکم سر آنکھوں پر ہر چیز میں اجازت لونگا سواے ایک چیز کے" عائشہ نے حیرت سے اسے دیکھا 

"اور وہ کونسی چیز ہے" ہادی نے بنا اسکے بات کا کوئی جواب دیے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اسکی بات سمجھ کر عائشہ شرماتے ہوے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپانے لگی  

❤❤❤❤

وہ سب لوگ گھومنے آے ہوے تھے جس کا سارا انتظام باقر صاحب نے کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ سب کو ساتھ ہی جانا چاہیے اسلیے وہ سب یہاں ایک ساتھ موجود تھے

لڑکیوں کی مرضی پوچھنے پر انہوں نے یہی کہا کہ انہیں تو جہاں لے جایا جاے وہ خوشی خوشی چلی جائینگی لیکن ہر لڑکے کی اپنی الگ الگ جگہ تھی جو ڈیسائیڈ ہی نہیں ہورہی تھی اسلیے باقر صاحب تنگ آکر وہ ان سب کے اسکاٹ لینڈ جانے کا انتظام کروا چکے تھے 

وہ سب ایک ساتھ گھومنے کے لیے نکلے تھے اور سب واپس آچکے تھے سواے نور اور تبریز کے جو پتا نہیں کہاں تھے 

وہ سب اپنے کمروں میں جارہے تھے جب حوریہ کے چھوٹے سے دماغ میں یہ آئیڈیا آیا کہ آج وہ سب لڑکیاں ایک ہی کمرے میں رہینگے اور ساری رات باتیں کرینگی

 وہ چاروں کمرے میں جاچکی تھیں اور بچارے ان کے شوہر منہ لٹکاے کھڑے تھے ابھی ان سب لڑکیوں کو کمرے میں گئے چند سیکنڈ ہی ہوے تھے جب نور تبریز کا ہاتھ تھام کر چلتی ہوئی نظر آئی ان سب نے ایک نظر نور اور تبریز کو دیکھ کر ایک دوسرے کو دیکھا جب انکی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں تو تبریز کو بھی ان کی ٹیم میں ہی آنا چاہیے تھا 

"نور بچہ سب اس کمرے میں ہیں جاؤ تم بھی انجوائے کرو" شہرام نے مسکراتے ہوے اسے کمرے کی جانب اشارہ کیا اسکی بات سن کر نور اس کمرے میں جانے لگی جب تبریز نے سختی سے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسکے کان میں سرگوشی کی

"جانا تو تم نے ہمارے ہی روم میں ہے اور نہیں گئیں تو میں سب کے سامنے اٹھا کر لے جاؤنگا تو بہتر ہے نور جان کے سیدھے اپنے کمرے میں چلو"نور نے منہ بنا کر اسے دیکھا شاید جانے کی اجازت دے دے لیکن تبریز کے کوئی فرق نہ پڑنے پر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اسکے جاتے ہی تبریز دلکشی سے مسکراتے ہوے ان سب کو دیکھنے لگا جو گھور کر اسے ہی دیکھ رہے تھے پتا نہیں اسنے نور کے کان میں کیا کہا تھا جو وہ بنا ضد بحث کیے اپنے کمرے میں چلی گئی 

"ایسے تو مت دیکھو یار تم سے بیوی نہیں سمبھلتی تو میں کیا کروں" دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ تبریز وہاں سے چلا گیا

"بھائی بیوی کا طعنہ دے دیا" ہادی نے شہرام کو دیکھتے ہوے کہا 

"ہاں دے گیا وہ طعنہ اب جا جلدی اور عائشہ کو اپنے روم میں لے کر جا اور بتا تبریز کو کے تجھ سے تیری بیوی کتنی اچھی طرح سمبھلتی ہے "حاشر نے اسکا بھرپور ساتھ دیتے ہوے کہا 

"کونسا کمرہ وہ سب لڑکیاں میرے ہی کمرے میں ہیں، لیکن آپ نے سہی کہا میں ابھی عائشہ سے بات کرتا ہوں" ہادی نے اپنا کالر درست کرتے ہوے گہری سانس لی اور کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا جبکہ وہ تینوں اب پیچھے کھڑے آگے ہونے والی کاروائی کا انتظار کررہے تھے 

دروازہ عائشہ نے کھولا تھا اور اب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی

"کیا ہے" 

"یار وہ مجھے نیند آرہی ہے" 

"تو جا کر سوجاؤ کسی کے ساتھ "عائشہ نے اپنا قیمتی مشہورہ دیا 

"مجھے اپنے کمرے میں ہی سونا ہے تم ان سب کو باہر نکالو میں تمہارے لیے چاکلیٹ لایا تھا اگر تم نے انہیں باہر نکالا نہ تو پھر میں تمہیں وہ چاکلیٹ دے دونگا"ہادی نے اسے لالچ دینے کی کوشش کی لیکن اسے حیرت ہوئی جب اسکی بات پر عائشہ نے کوئی ایکسپریشن نہیں دیے

"ہاد جانو میں وہ چاکلیٹ کھا چکی ہوں" عائشہ نے اپنی بات مکمل کرکے دروازہ اسکے منہ پر مار دیا اسکے ایسا کرتے ہی پیچھے کھڑے ان تینوں کا قہقہہ گونجا

"بہت ہنسی آرہی ہے جب خود ٹراے کرو تو پتا چلے گا "ہادی منہ بنا کر کہتا ہوا واپس ان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا 

اب حاشر اپنا گلہ کھنکھار کر دروازے کی طرف بڑھا اس بار بھی دروازہ عائشہ نے ہی کھولا

"جی کہیے حاشر بھائی"

"وہ عاشی ہانی سے کہو مجھے بات کرنی ہے کمرے میں آے" حاشر نے تھوڑا سنجیدہ ہوکر کہا

"مجھے نہیں آنا کمرے میں صبح بات کرینگے حاشر" دروازے پر ہی کھڑے کھڑے وہ ہانیہ کی چلاتی آواز سن چکا تھا 

"سن لیا آپ نے" عائشہ نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور دروازہ بند کردیا اور اس بار قہقہ لگانے کی باری ہادی کی تھی

"چل حدید جا تیری باری" حاشر نے حدید کو دیکھتے ہوے کہا 

"میں کیوں جاؤں شہرام جاے گا وہ بڑا ہے مجھ سے----" 

"اوے صرف دو مہینے بڑا ہوں"

"بڑا بڑا ہوتا ہے" 

"اچھا آج سے پہلے تو کبھی یہ بڑا ، بڑا نہیں لگا تھا"شہرام نے بھنویں اچکا کر کہا

"ہاں تو آج تو لگ رہا ہے نہ"شہرام نے سر نفی میں ہلاتے ہوے اسے دیکھا

شہرام کے دروازہ نوک کرنے پر اس بار دروازہ انابیہ نے کھولا جس کے برابر میں حوریہ بھی کھڑی تھی وہ دونوں گھور کر انہیں دیکھ رہی تھیں یقینا یہ بار بار کی جانے والی حرکت انہیں پسند نہیں آرہی تھی لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کہتی شہرام اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر کمرے کی طرف جانے لگا اور سب کے سامنے اس طرح کی حرکت پر انابیہ شرمندگی کی وجہ سے کچھ کہہ بھی نہیں پائی تھی 

"واہ یار سالے صاحب آئیڈیا تو اچھا دے دیا "حدید نے بھی کہتے ہوے حوریہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا 

"حدید نیچے اتاریں مجھے" حوریہ نے جھٹبٹاتے ہوے کہا لیکن حدید بنا اسکی سنے اپنے روم میں چلا گیا 

ہادی اور حاشر نے مسکراتے ہوے عائشہ اور ہانیہ کو دیکھا اور انکی طرف بڑھنے لگے انکے ایسا کرتے ہی ہانیہ نے فورا دروازہ بند کرکے لاک لگادیا 

اور پھر انکی پندرہ منٹ کی کوشش کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو دونوں نے منہ بناکر ایک دوسرے کو دیکھا 

"چل تو میرے کمرے میں سوجا" حاشر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"میں تو نہیں سورہا کیا پتا رات کو مجھے ہانیہ سمجھ لیں" ہادی نے اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوے کہا 

"تو اسی لائق ہے کھڑا رہے یہیں پر "حاشر غصے میں کہتے ہوے وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا اسے جاتے دیکھ کر ہادی بھی اسکے پیچھے بھاگ کر اسکے کمرے میں چلاگیا 

❤❤❤❤

ایک سال بعد 

"شہرام بیٹا بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہی ہوگا انشاءاللہ" نرمین بیگم نے پریشانی سے ٹہلتے شہرام کو دیکھتے ہوے کہا جو ناجانے کتنی دیر سے مسلسل ٹہل رہا تھا اور بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا ہے جہاں اسکی جان سے عزیز بیوی تکلیف میں تھی 

ڈاکٹر کے باہر آتے ہی شہرام پریشانی سے ڈاکٹر کی جانب بڑھا 

"مبارک ہو مسٹر شہرام بیٹا ہوا ہے" ڈاکٹر کے کہنے پر اسے اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا ہوا تھا 

"اور میری وائف" شہرام نے بےچینی سے پوچھا

"وہ بھی بلکل ٹھیک ہیں تھوڑی دیر میں انہیں ہم روم میں شفٹ کردینگے تب آپ ان سے مل سکتے ہیں"ڈاکٹر پیش وار رانہ انداز میں کہتے ہوے وہاں سے چلی گئیں جب ایک نرس نیلے کمبل میں موجود چھوٹا سا وجود لے کر وہاں آگئی نرمین بیگم نے بسم اللہ پڑھ کر اس نازک وجود کو اپنی گود میں لے لیا 

"ماشاءاللہ دیکھو شہرام کتنا پیارا ہے یہ "نرمین بیگم نے اسکے چھوٹے سے ماتھے پر اپنی لب رکھ دیے اور اسکا وجود شہرام کی طرف بڑھانے لگیں شہرام نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ وجود اپنے مظبوط بازؤوں میں لے لیا خوشی سے اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھیں 

"موم کتنا پیارا ہے یہ" شہرام نے بھرائی آواز میں کہا اور اسکے گلابی نرم گالوں پر اپنے لب رکھ دیے 

وہ آج باپ کے عہدے پر فائز ہوچکا تھا اور یہ احساس اسے دنیا کا سب سے حسین احساس لگ رہا تھا

❤❤❤❤

پورا کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا ہر کوئی اس نئے وجود کو خوش آمدید کہہ رہا تھا 

اس وقت بھی وہ ننھا وجود حوریہ کی گود میں موجود تھا اور اسکے برابر میں حدید کی گود میں موجود چند ماہ کا دایان اس وجود کو دیکھنے کی کوشش کررہا تھا 

سب سے پیار وصول کرکے اب وہ عائشہ کی گود میں تھا جسے وہ پیار کررہی تھی 

"عائشہ میڈم یار بہت رورہے ہیں پلیز سمبھال لو" ہادی نے بیچارگی سے اپنی گود میں موجود اپنے ایک مہینے کی بیٹی حبہ اور ایک مہینے کے بیٹے اظہر کو دیکھتے ہوے کہا جو اس وقت رو رو کر اسکے کان کے پردے پھاڑ رہے تھے لیکن انکی ماں اپنے بچوں کو چھوڑ کر دوسروں کے بچوں کو پیار کررہی تھی

"کل سارا دن میں نے سمبھالا تھا میں نے تو کچھ نہیں کہا" عائشہ نے غصے سے اسے گھورتے ہوے دیکھا اور حبہ کو اپنی گود میں اٹھا کر اسے چپ کروانے لگی حبہ کو ماں کے پاس دیکھ کر اظہر بھی روتے ہوے اسکے پاس جانے لگا لیکن اس سے پہلے عائشہ اسے اپنی گود میں لیتی اسد صاحب نے اپنے لاڈلے کو گود میں اٹھا لیا 

"عائشہ بیٹا تم حبہ کو سمبھال لو یہ جب تک اپنے دادا کے پاس رہے گا" اسد صاحب کے پاس آتے ہی وہ چپ ہوچکا تھا اور اسے چپ دیکھ کر عائشہ بھی بےفکر ہوچکی تھی 

"بیہ اس کا نام کیا رکھو گی" حوریہ نے اس وجود کو بیڈ پر  انابیہ کے ساتھ  لیٹا دیا اور خود دایان کو اپنی گود میں اٹھا لیا 

"میں چاہتی ہوں اسکا نام اماں بی یا دادا جان رکھیں "انابیہ نے اپنی بیٹے کو پیار کرتے ہوے کہا 

"بیٹا اس کا نام تمہاری اماں بی ہی رکھینگی کیونکہ اگر میں نے رکھا تو بعد میں مجھ سے لڑینگی کے میں نے نام کیوں رکھا ہے "دادا جان کے معصومیت سے کہنے پر وہاں موجود ہر شخص کا قہقہہ لگا جبکہ اماں بی بس انہیں گھور کر رہ گئیں

شہرام نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر اماں بی کی گود میں دے دیا جسے پیار کرکے انہوں نے اس نئے وجود کا نام "شہروز" رکھا 

❤❤❤❤

تین سال بعد

"یار عائشہ بس بھی کرو" کافی دیر چپ کروانے کے بعد بھی جب وہ چپ نہ ہوئی تو ہادی نے جھنجلا کر کہا 

"کیوں یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے دو مہینے پہلے ہی تو برہان ایک سال کا ہوا تھا اب پھر سے یہ سب حور اور بیہ بہت مذاق بنائینگی" عائشہ نے روتے ہوے پلیٹ میں رکھی بریانی کھاتے ہوے کہا 

"پہلی بات کہ کوئی مذاق نہیں اڑاے گا اور دوسری بات کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جتنا تم رو رہی ہو ہمیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے" ہادی نے اسے دیکھتے ہوے سختی سے کہا 

"لیکن یہ ٹھیک تو نہیں ہے ساڑھے چار سال میں یہ ہمارا چوتھا بےبی ہوگا" 

"بس اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی رونا چھوڑو اور جلدی سے تیار ہوجاؤ" ہادی نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوے کہا 

آج شہروز کی سالگرہ تھی جس کی وجہ سے گھر میں چھوٹی سی دعوت رکھی ہوئی تھی 

عائشہ نے مڑ کر سوے ہوے برہان کو دیکھا اور واپس ہادی کی طرف اسے اب واقعی اپنا رویہ برا لگ رہا تھا اسے تو خوش ہونا چاہیے تو خدا نے اسے یہ نعمت دی ہے 

"میں تمہارے کپڑے نکالتی ہوں" عائشہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی جب ہادی نے اسکی کلائی تھام لی اور اسکے آنسو صاف کرنے لگا 

"ویسے غلطی میری بھی ہے تم اتنی کیوٹ جو ہو "ہادی نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اسکے لبوں پر اپنا آنگھوٹھا پھیرنے لگا لیکن اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرتا تیز بول سیدھی آکر اسکی کمر پر لگی 

"آہ" ہادی نے کہراتے ہوے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر مڑ کر دیکھا جہاں اظہر کھڑا تھا

"چولی پاپا (سوری پاپا)"

"پاپا کے بچے ادھر آ" اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اظہر وہاں سے بھاگنے لگا لیکن اس سے پہلے ہادی نے اسے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کردیا

"بتا مجھے کون پیسے دیتا ہے تجھے مجھے مارنے کے لیے"

"چھوڑو ہاد غلطی سے ہی لگی تھی" عائشہ نے اسے چھڑواتے ہوے کہا 

"غلطی یہ غلطی نہیں ہے یہ اسکا فیورٹ گیم ہے مجھے مارنا" 

"نو ماما تیں (میں)نے تجھ (کچھ)تہیں تیا(نہیں کیا)"اظہر معصومانہ انداز میں اپنی سپورٹر کو دیکھتے ہوے کہا 

"چھوڑو اسے ہر وقت میرے بیٹے کے پیچھے پڑے رہتے ہو" عائشہ نے اسے ڈانٹتے ہوے کہا جس پر اظہر نے ہنستے ہوے زبان باہر نکال کر اسے دیکھا یہی تو اسکی فیورٹ کام تھا اپنی ماں سے باپ کو ڈانٹ پڑوانا

❤❤❤❤

"حوریہ جلدی چلو یار "حدید نے باہر سے چلاتے ہوے کہا 

"بس پانچ منٹ "حوریہ نے ایررنگز پہنتے ہوے کہا 

"ہاں یہ پانچ میں دس باہر سن چکا ہوں" حدید نے کمرے میں داخل ہوتے ہوے کہا لیکن حوریہ کا خوبصورت وجود دیکھ کر وہ وہیں رک چکا تھا 

"میں کیا کرسکتی ہوں تمہاری بیٹی مجھے سکون سے تیار بھی نہیں ہونے دیتی "حوریہ نے اپنی ایک سال کی بیٹی زویا کو گود میں اٹھاتے ہوے کہا جو بےبی پنک کلر کی فراک میں ڈول لگ رہی تھی حدید نے زویا کو اپنی گود میں اٹھا لیااور حوریہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے 

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو" 

"اب دیر نہیں ہورہی "حدید حوریہ نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا 

"ہورہی ہے اسلیے واپس آکر تمہیں فرصت سے بتاؤنگا کہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہو" 

"دایان کہاں ہے" حوریہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوے کہا

"گاڑی میں بیٹھا ہمارا انتظار کررہا ہے" چلو اسکا ہاتھ تھام کر حدید اپنی دونوں جانوں کو لے کر باہر چلا گیا 

❤❤❤❤

فون رنگ ہونے پر اسنے جیب سے موبائل نکال کر فون دیکھا اور نام دیکھ کر ہونٹوں کو گہری مسکراہٹ نے چھوا اس نے گاڑی گھر کے سامنے روک کر کال پک کرلی

"آپ کب تک آئینگے تبریز" 

"کیوں نور جان میری یاد آرہی ہے" تبریز نے سیٹ بیلٹ کھولتے ہوے کہا اور گاڑی سے اتر گیا 

"بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی" 

"مجھے واپس آنے میں آدھا گھنٹہ لگے گا" بات کرتے کرتے وہ گھر کے اندر داخل ہوچکا تھا اسکا ارادہ نور کو سرپرائز دینے کا تھا آج شہرام کے بیٹے کی برتھ ڈے تھی اور اسے یہی لگا کہ اسکے جلدی نہ آنے پر نور غصہ کرے گی لیکن دوسری طرف اسکا جواب سن کر "اللہ حافظ" کہہ کر فون بند کردیا گیا 

اسکے ایسا کرتے ہی تبریز کے زہہن میں کچھ کلک ہوا اور وہ فورا اپنے کمرے کی طرف بھاگا 

نور پانچ ماہ کی پریگنینٹ تھی اور ہر وقت کہیں نہ کہیں اچھل کود کرتی رہتی دو بار تبریز اسے پکڑ کر اس بات پر خوب ڈانٹ چکا تھا اور تبریز کی غیر موجودگی میں ماجدہ بیگم اسکا خیال رکھتیں تھیں 

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نگاہ نور پر پڑی جو چاکلیٹ کھا رہی تھی 

"نور" تبریز کی غصیلی آواز سنتے ہی وہ ہڑبڑا کر چاکلیٹ چھپانے لگی جو کہ تبریز دیکھ چکا تھا 

تبریز نے اسکے پیچھے بندھے ہاتھوں کو پکڑ کر آگے کیا جس میں اس نے مظبوطی سے چاکلیٹ دبائی ہوئی تھی تبریز نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈال کر اسکے ہاتھ سے چاکلیٹ چھین لی 

"تو میرے پیٹ پیچھے یہ کھائی جاتی ہے" 

"قسم لیں لیجیے تبریز آج ہی کھا رہی تھی ویسے تو پھوپھو کھانے نہیں دیتی ہیں آج وہ مارکیٹ گئی ہوئی تھیں تو بس میں نے کھا لی" نور نے نظریں جھکاے معصومیت سے جواب دیا 

"میری جان یہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے اتنی سی بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی" اس بار لہجے میں نرمی تھی 

"اوکے اب نہیں کھاؤنگی" نور نے سمجھتے ہوے اپنا سر ہلایا 

"چلو اب جاکر تیار ہوجاؤ اور ریڈ کلر مت پہنا "اسکی بات سن نور جلد سے واشروم میں چلی گئی ان گزرے سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا تبریز کا رویہ ماجدہ بیگم کے ساتھ پہلے سے بہتر ہوچکا تھا اب وہ نور پر سختی نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ سختی کرنے سے ڈرانے سے وہ ڈرے گی لیکن ڈر ختم ہوتے ہی وہ باغی ہوجاےگی تبریز نے اسے اپنے پیار سے اپنے ساتھ  باندھا ہوا تھا جس میں نور اس کے ساتھ بندھ چکی تھی اور اب تبریز کے بنا رہنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی لیکن اسے ريڈ کلر پہنے کی اجازت صرف گھر میں ہی تھی 

اسے ایک بہن کی خواہش تھی اور اسے ہانیہ مل چکی تھی ویسے تو انابیہ حوریہ اور عائشہ کو بھی وہ بہن کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا لیکن ہانیہ اسکے لیے خاص تھی 

❤❤❤❤

اندر داخل ہوتے ہی اسکی نظر تیار ہوتی انابیہ پر پڑی قدم بےساختہ اسکی طرف بڑھے 

"کیا بات ہے جاناں کیوں قتل کرنے پر تلی ہوئی ہو" شہرام نے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوے کہا 

"چھوڑیں شہرام اور جاکر تیار ہوجایں" 

"ایسے کیسے پہلے بتا تو دوں کہ کتنی پیاری لگ رہی ہو" شہرام نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوے کہا جب دروازہ کھول کر شہروز بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تیار سا وہ چھوٹا شہرام سر پر برتھ ڈے کیپ پہن کر بہت پیارا لگ رہا تھا 

"آگیا میرے رومینس کا دشمن" شہرام نے بڑبڑاتے ہوے کہا اور اسکی بڑبڑاہٹ سن انابیہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی شہروز بھاگتا انابیہ کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا 

"واہ ماما یو لک شو پرلیٹی (سو پریٹی)"شہروز نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کردیے تاکہ انابیہ اسے اپنی گود میں اٹھالے لیکن اس سے پہلے انابیہ جھک کر اسے اٹھاتی شہرام اسے گھور کر خود شہروز کو اٹھا چکا تھا 

"اب میں اپنی بیٹے کو اٹھا بھی نہیں سکتی" انابیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"اٹھا لینا لیکن ابھی نہیں ابھی تم بس اسکی بہن کو ہی سمبھالو" شہرام نے اپنے ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھتے ہوے کہا 

"تمہیں کیسے پتا ہوسکتا ہے شہروز کا بھائی ہو" 

"شہروز تم بتاؤ تمہارا بھائی آنے والا ہے یا بہن "شہرام نے اپنی گود میں موجود شہروز کو دیکھتے ہوے پوچھا 

"سسٹر" شہروز نے جوش سے کہا جس پر شہرام نے مسکراتے ہوے اسکے گال پر پیار کیا اور انابیہ کو اپنے ساتھ لگا لیا 

"ڈیڈ وانی آگئی تیار(کیا)"شہروز نے سوالیہ نظروں سے شہرام کو دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں میرا بچہ بہو رانی ابھی نہیں آئیں" شہرام کے بہو رانی کہنے پر انابیہ نے گھور کر اسے دیکھا 

"کیا یار غلط تھوڑی نہ کہہ رہا ہوں اسکی حرکتیں نظر نہیں آرہی تمہیں شرط لگا لو وانیہ ہی میری بہو بنے گی" شہرام کی بات پر انابیہ اپنی سر نفی میں ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

❤❤❤❤

"یار ہانی تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو "حاشر نے عام سے حلیے میں بیٹھ ہانیہ کو دیکھتے ہوے کہا اور وہ تو جیسے پہلے ہی کسی کے انتظار میں تھی تاکہ اس پر اپنا غصہ نکال سکے

"مجھے نہیں جانا کہیں پر خود تو باہر چلے گئے جب بھی تیار ہونے جاتی ہوں آپ کا یہ روندو بچہ رونا شروع کردیتا ہے اور اسکی حرکتیں دیکھ کر میرا کہیں جانے کا دل نہیں چاہ رہا" 

"تو اسے ڈیڈ کے پاس چھوڑ دیتیں" 

"ڈیڈ کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ آرام کررہے تھے اسلیے انہیں ڈسٹرب نہیں کیا"

حاشر نے اپنی بیڈ پر لیٹی ہاتھ پاؤں چلاتی ایک سال کی بیٹی کو اپنی گود میں اٹھا لیا 

"تمہیں ہی تو خواہش تھی بچوں کی" 

"ہاں تو بچے اتنے پیارے ہوتے ہیں لیکن آپکی بیٹی ہمیشہ بس روتی ہی رہتی ہے مجھے تو لگتا ہے اپنی نور خالا پر چلی گئی ہے" ہانیہ نے منہ بگاڑ کر کہا اور ایسا کرتے ہوے وہ حاشر کو بہت کیوٹ لگ رہی تھی

"میری جان بچے تو ایسے ہی ہوتے ہیں اب جلدی سے تیار ہوجاؤ ورنہ رونے والی بات میں نور بتادونگا "حاشر نے اسے دیکھ کر شرارت سے کہا 

"تو بتادیجیے میں ڈرتی نہیں ہوں" 

"لیکن تبریز سے تو ڈرتی ہو" 

"تبریز بھائی کچھ نہیں کہینگے" ہانیہ نے فخریہ انداز میں کہا

"لیکن تم بھی جانتی ہو جب بات نور کی آے تو وہ برداشت نہیں کرتا کہ سامنے کون ہے" 

"اف حاشر کیا پرابلم ہے" 

"جلدی سے ریڈی ہوجاؤ" حاشر کے کہنے پر ہانیہ پیر پٹھخ کر وہاں سے چلی گئی 

❤❤❤❤

"عائشہ میرا والٹ کہاں ہے" ہادی نے کمرے سے باہر آکر عائشہ سے کہا لیکن وہاں نرمین بیگم اور اماں بی تھیں 

"کیا ہوا ہاد" نرمین بیگم نے سوالیہ نظروں سے ہادی کی طرف دیکھا 

"میرا والٹ نہیں مل رہا "اس سے پہلے نرمین بیگم کوئی جواب دیتیں پیچھے سے آتی آواز پر ہادی مڑ کر دیکھا 

"پاپا" اسکا والٹ اظہر کے ہاتھ میں تھا ہادی کو اپنی طرف دیکھتے پا کر اسنے والٹ ہادی کی طرف پھینک دیا 

ہادی نے والٹ تھام کر اسے کھولا جس میں سے دو ہزار غائب تھے 

"پیسے کہاں ہیں" ہادی کے کہنے پر اسنے اپنے ہاتھ میں موجود دو نیلے نوٹ اسے دکھاے 

"میرا بچہ چل واپس کر" ہادی نے اسے پچکارتے ہوے کہا 

"بیٹا رہنے دو شہروز کی برتھ کی خوشی میں سب بچوں کو آئس کریم پارٹی دے گا" نرمین بیگم نے مسکراتے ہوے اپنے لاڈلے کی حرکت بتائی 

"میرا بیٹا وہ ایک نوٹ میں بھی  ہوجاے گی تو دوسرا مجھے دے دو "ہادی نے پیار سے اسے دیکھ کر اپنا ہاتھ آگے کیا 

"نو، حاشل(حاشر) انکل نے تہا تے(کہا کے) دو نیلے نوٹ لینے ہیں" اظہر نے اپنے ہاتھ پیچھے کرتے ہوے کہا

"موم سب اسے بگاڑ رہے ہیں کبھی شہرام بھائی کبھی حدید یا حاشر بھائی ہر کوئی اسے اس چیز کی پریکٹس کروارہا ہے کہ پاپا کی جیب سے پیسے کیسے لوٹنے ہیں" ہادی نے غصے سے اسے گھورتے ہوے کہا 

"تو بیٹا جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ تو کچھ بھی نہیں ہے بچارا اپنے باپ کی جیب سے ہی لوٹ رہا ہے نہ دوسروں کو بلیک میل تھوڑی نہ کررہا ہے" نرمین بیگم نے مطمئن انداز میں اسے دیکھتے ہوے کہا جس پر ہادی اپنی سر کھجا کر رہے گیا لوگوں کو بلیک میل کرنے کی عادت تو اسکی اب بھی تھی لیکن وہ پیسے اب اسکے بیٹے کے پاس جاتے تھے اور شہرام حدید اور حاشر اسے مزید اس بات کی ٹریننگ دیتے تھے چلانے کی آواز پر اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا

"یہ دیکھو کیا کیا ہے تمہاری لاڈلی نے" عائشہ نے غصے سے حبہ کا ہاتھ پکڑ کر ہادی کے سامنے کرتے ہوے کہا جو میک اپ کے نشان اپنی واٹ فراک پر لگا چکی تھی ہونٹوں پر اسنے لال رنگ کی لپسٹک لگائی تھی جو ہونٹوں کے علاوہ گالوں پر بھی لگ چکی تھی  

ہادی جھک کر حبہ کے سامنے بیٹھا 

"میرا چندہ اتنی تیاری کس لیے"

"پاپا دایان آرہے ہیں" حبہ نے معصومیت سے جواب دیا 

"اچھا تو یہ تیاری اس کے لیے ہے" ہادی نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا جس پر اسنے معصومیت سے اپنا سر ہلادیا

"میرا بچہ آپ ویسے ہی بہت پیارے ہو آپ کو اس سب کی ضرورت نہیں ہے آپ اسے ویسے ہی بہت پسند ہو تو اس سب کی ضرورت نہیں ہے" ہادی نے اسکے گال پر پیار کرتے ہوے کہا جب بال اڑتی ہوئی اسکی کمر پر لگی 

"آہ" ہادی نے کراہتے ہوے مڑ کر دیکھا جہاں اظہر اپنی غلطی پر زبان دانتوں میں دباے کھڑا تھا 

"سوری پاپا" 

"سوری کے بچے" ہادی غصے سے اسکی طرف بڑھنے لگا جب اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اظہر وہیں اپنا بیٹ پھینک کر وہاں سے بھاگ گیا ہادی نے مڑ کر بچارگی سے لاؤنج میں دیکھا جہاں سب قہقہے لگا رہے تھے

❤❤❤❤

شورشرابے اور تالیوں کی گونج میں شہرام کی گود میں موجود وانیہ کے ساتھ شہروز نے کیک کاٹا کیک کاٹا 

ان گزرے سالوں میں احمد صاحب اور دادا جان انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے

اس شورشرابے سے ڈر کر وانیہ رونا شروع ہوچکی تھی اسے روتے دیکھ کر شہروز بھی گھبرا چکا تھا

"کوئی بات نہیں شہروز بس وہ تھوڑا گھبرا گئی ہے" حاشر نے وانیہ اور شہروز کو اپنی گود میں لیتے ہوے گھبراے ہوے شہروز سے کہا اور وانیہ کو چپ کروانے لگا 

❤❤❤❤

"چلو سب آجاؤ "ہادی نے کیمرہ سیٹ کرتے ہوے کہا

اماں بی کے ایک طرف اسد صاحب اور دوسری طرف نرمین بیگم تھیں نرمین بیگم کی گود میں حبہ اور اسد صاحب کی گود میں اظہر تھا اسد صاحب کے برابر میں شہرام اپنی گود میں شہروز کو لے کر کھڑا ہوا تھا اور شہرام کے برابر تبریز اپنی گود میں برہان کو لے کر کھڑا تھا تبریز کے برابر میں حدید اپنی گود میں زویا کو لے کر کھڑا تھا اور حدید کے برابر میں حاشر اپنی گود وانیہ کو لے کھڑا تھا 

اور دوسری طرف نرمین بیگم کے برابر راشدہ بیگم اپنی گود میں دایان کو لے کھڑی ہوئی تھیں اور راشدہ بیگم کے برابر میں انابیہ عائشہ نور اور حوریہ اپنے ڈوپٹے سیٹ کرکے کھڑی ہوئی تھیں ہادی جلدی سے کیمرہ سیٹ کرکے اپنی جگہ پر بھاگنے لگا جب پیر پھسلنے کی وجہ سے وہ سیدھا کرسی پر بیٹھی اماں بی کی گود میں میں گرگیا اماں بی نےاسے فورا اپنی گود سے دھکا دیا جس کی وجہ سے اب وہ زمین پر اماں بی کے قدموں میں بیٹھ چکا تھا اماں بی کے دھکا دینے پر وہاں موجود ہر کسی کا قہقہہ گونجا سب کو ہنستا دیکھ وہ خود بھی ہسنے لگا اور یہ حسین منظر اور یادگار پل اس کیمرے میں قید ہوگیا 

سب اپنی زندگی میں اپنی محبت کے ساتھ خوش تھے 

زندگی کے سفر میں ان سب کو اپنی محبت مل چکی تھی    

"ختم شد"

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Safar E Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Safar E Mohabbat written by     Shanzy Shah. Safar E Mohabbat by Shanzy  Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment