Hal e Dil By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 16 July 2024

Hal e Dil By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story

Hal e Dil By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Hal E Dil By Rimsha Hussain Complete Romantic Novel 

Novel Name: Hal E Dil 

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 

تمہیں پتا ہے میں اپنے سب دوستوں سے زیادہ تم پہ اعتبار کرتا ہوں اور اِسی اعتبار کی وجہ سے میں نے تمہیں یہاں آنے کا کہا اُمید ہے تم میری لاج رکھو گے۔ہسپتال کے کوریڈور میں تیس سالہ مرد جس کی بانہوں میں نو مولوں بچہ تھا اُس نے اپنے سامنے کھڑے آدمی سے کہا جو اُس کا ہم عمر معلوم ہورہا تھا

بلکل میرے یار تم حکم کرو۔سامنے والے نے حوصلہ بڑھایا

تمہیں پتا ہے میری چار بیٹیاں ہیں ہمارے یہاں بچیوں کو ناپسند کیا جاتا ہے میری اماں حضور ان کو جانے کیسے برداشت کررہی ہیں پر اِس بار ان کی سخت تاکید تھی بیٹے کی ورنہ بیٹی اگر ہوئی تو جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔انہوں نے بے بسی سے بتایا

بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہے تمہیں اپنی اولاد کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔سامنے والے نے افسوس کا اظہارہ کیا

سب میرے خلاف ہے میرے کام کی وجہ سے اُس کے بعد پسند کی شادی پھر اب بیٹیاں۔اتنا کہتے وہ خاموش ہوگیا

اب مجھ سے کیا چاہتے ہو تم۔گہری سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے پوچھا

میں چاہتا ہوں میری بچی کی پرورش تم کرو اُس کو اپنا نام دوں پر یہ میری امانت ہوگی جو وقت آنے پہ میں واپس لوں گا۔اپنے دوست کی بات پہ اُن کی نظر گود میں خوبصورت بچی پہ پڑی جس کی آنکھیں بند تھی انہوں نے بے اختیار اُس کو اپنی بانہوں میں بھر کر ماتھا چوما جس سے بچی کسمساکر اپنی آنکھیں کھول کر کبھی اُن کو دیکھتی تو کبھی اپنے اصل باپ کو۔

تمہاری بچی تو بہت پیاری ہے ماشااللہ۔سامنے والے نے کہا تو اُن کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آئی

تم لیکر جاؤ گے پیار دو گے اُس کو باپ کا۔آس بھرے لہجے میں پوچھا

ہاں اور میرا واعدہ ہے تمہاری بیٹی کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار دوں گا۔بچی کا چھوٹا سا ہاتھ چوم کر کہا

 میری بچی کا بہت خیال رکھنا اُس کی ہر فرمائش پوری کرنا۔اب کی انہوں نے پرسکون لہجے میں کہا

کہا نہ پریشان مت ہو آج سے یہ میری بیٹی تمہیں نہیں پتا مجھے بیٹی کی کتنی چاہ تھی جو آج پوری ہوگئ۔وہ پرجوش آواز میں بولے

امانت ہے میری بیٹی۔ان کا دل کسی خدشے کے تحت دھڑکا تبھی بولے

اور میں امانت میں خیانت نہیں کروں گا تم میرے جگری یار ہو تو کیسے میں تمہارے خون کو تکلیف دوں گا۔سامنے والے نے دل موہ لینے والا جواب دیا 

💕💕💕💕💕💕

تیرے سامنے  آجانے سے یہ دل

میرا دھڑکا ہے یہ غلطی نہیں ہے تیری

یہ قصور نظر کا ہے جس بات کا تجھ کو

۔۔۔۔۔ڈر۔۔۔۔۔۔

آے امی۔

حریم جو ہاتھ میں بڑا سا برتنوں کا سیٹ پکڑتی گانا گاتی آرہی تھی تبھی اُس کا پیر صوفے پہ اٹکا اور چھن کی آواز سے سارے برتنے نیچے ماربل کے فرش پہ گِر کر اپنی حالت پہ افسوس کناں تھے کجھ ٹوٹے ہوئے برتنوں کو دیکھ کر حریم نے اپنے لب دانتوں تلے دبائے

بیڑا غرق ہو تیرا حریم میرے جہیز کے خوبصورت برتنوں کا ستیاناس کردیا تم نے۔اپنی پھوپھو جان کی آواز پہ اُس نے سراُٹھایا کیونکہ جتنا شور مچا تھا حویلی کے سب ملازمائیں اور اُس کی پھوپھو جان آچُکی تھی جن کا چہرہ برتنوں کو دیکھ کر دیکھنے لائق تھا

اتنے سالوں سے آپ نے قید کیا ہوا ہے بے چاروں نے ایسے ہی اپنی جان چُھڑوانی چاہی۔حریم منہ بسور کر بولی تو اُس کی پھوپھو نے تیکھے چتون سے اُس کو گھورا

اماں جان جو سہی سلامت ہیں اُن کو تو الگ کروائے۔شبانا نے کہا تو ان کی نظر نیچے گئ سب کا دھیان اپنی طرف ناپاکر حریم دبے قدموں سے وہاں سے کھسکی۔

تبھی سامنے والے کمرے کو دیکھ کر اُس نے اپنے قدم وہاں بڑھائے جیسے ہی اُس کا ہاتھ ہینڈل پہ پڑا اُس نے جھٹ سے واپس کھینچا پھر ہاتھ میں کانچ کی چوڑیوں کے بیچ پونی نکال کر اپنے کُھلے بالوں کو باندھا کندھے پہ جھولتے ڈوپٹے کو اچھے سے سر پہ اوڑ کر کمرے کے اندر گُھسی۔

کمرے کے دروازے کو کُھلتا دیکھ کر وہ جو اپنے کام میں مصروف تھا چونک کر سامنے دیکھا جہاں حریم خاموشی سے صوفے پہ بیٹھ گئ اُس کو اتنا خاموش اور سلیقے سے بیٹھا دیکھ کر تعجب ہوا پھر یکدم دماغ میں کجھ کلک ہوا

آج کے بعد میں نے اگر تمہیں کھلے بالوں سمیت یہاں وہاں منڈلاتے دیکھا تو بال جڑوں سے اُکھیردوں گا دوسری بات آئیندہ کے بعد بنا سر پہ ڈوپٹہ لیے دیکھا تو اپنا حشر سوچ لینا ٹانگیں توڑ کر گھر میں بیٹھادوں گا

مسکراکر اپنا سر جھٹک کر اُس نے اپنی توجہ حریم پہ کی

کیا کارنامہ انجام دیا ہے میری بچے نے۔درید شاہ کی بات پہ اُس کے گال پُھول گئے

دُر لا پلیز ڈونٹ کال می بچہ۔حریم نے بُرا مان کر کہا تو خاموش کمرے میں درید شاہ کا قہقہقہ گونجا

اچھا تو بتاؤ کیا بات ہوئی ہے۔دُرید شاہ نے اپنی گود میں رکھا لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کیے حریم سے پوچھا جانتا تھا حریم کی موجودگی میں وہ کام کرنے سے تو رہا

درید شاہ کے پوچھنے پہ حریم نے ایک چور نظر کمرے کے دروازے پہ ڈالی پھر صوفے سے اُٹھ کر بیڈ کے پاس بیٹھ گئ۔

دُر لا پھوپھو جان کا سیٹ ہمارے ہاتھوں سے گِر کر ٹوٹ گیا جو اُنہیں جہیز میں ملا تھا۔حریم نے مسکین شکل بنائے بتایا

کونسا سیٹ؟درید شاہ نے نرمی سے پوچھا

برتنوں کا۔حریم نے منہ بگاڑ کر جواب دیا

آپ نے کیوں اُٹھایا؟دوسرا سوال

دینو کاکا لارہے تھے بے چارے بُزرگ تھے ہم نے سوچا اُن کے ضعیف ہاتھوں کو کیا تکلیف دینی تبھی ہم خود اُس کو حویلی لانے والے تھے تو یہ ہوگیا۔حریم نے ساری بات بتائی

آپ کے اِس ہم میں کون کون تھا؟دُرید شاہ نے جان بوجھ کر نیا سوال داغا

ہم خود اکیلے۔حریم نے جواب دیا

تم تائی جان کی چیزوں کو مت چھوا کرو پتا تو ہے وہ کتنا پوزیسو ہوتی ہیں اپنے جہیز کے سامان کے مطلق۔درید شاہ اُس کا گال پہ ہاتھ رکھتا بولا۔

ہم نے تو مدد کرنا چاہی۔حریم نے وضاحت کی

جو بھی پر آج تم بس یہاں رہنا ورنہ سارا دن وہ تمہیں ڈانٹے گی۔درید شاہ اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا اُس کو اُٹھتا دیکھ کر حریم بھی کھڑی ہوئی

آپ کہاں جارہے ہیں؟حریم نے بے چینی سے پوچھا

شہر کجھ کام ہے۔دُرید شاہ کے بتانے پہ حریم کا چہرہ کِھل اُٹھا

پہلے بتاتے ہم نے لسٹ بنانی تھی۔حریم ناراض لہجے میں بولی

لسٹ تمہاری منہ زبانی یاد ہے پریشان مت ہو مل جائے گی تمہیں وقت پہ۔دُرید شاہ اُس کے سر پہ چپت لگاتا بولا

یاد سے۔حریم نے انگلی اُٹھا کر کہا تو درید شاہ نے سرہلانے پہ اکتفا کیا پھر واشروم کی جانب بڑھ گیا حریم جب کی مسکراکر بیڈ پہ بیٹھ گئ

💕💕💕💕

ماہی

ماہی 

کہاں ہو؟

آمنہ پوری حویلی میں ماہی کو آوازیں دیتی پِھررہی تھی جو ناجانے کس کونے میں چُھپی بیٹھی تھی۔

ماہی چھت پہ ہے۔علی نے بتایا تو وہ سر پہ ہاتھ مارتی چھت پہ گئ جہاں ماہی چارپائی پہ  سنجیدہ تاثرات لیے بیٹھی تھی ہاتھ میں ماہنامہ ڈائجسٹ تھا حویلی کے اندر اجازت نہیں تھی ناولز پڑھنے کی جس وجہ سے ماہی چھت پہ چھپ کر پڑھتی تھی کیونکہ اُس کو بہت شوق تھا ناولز پڑھنے کا۔

ایسا کیا سین پڑھ لیا اپنے ناول میں جو حواس باختہ بیٹھی ہو۔آمنہ اُس کے ہاتھ سے ڈائجسٹ چھین کر بولی تو ماہی جیسے خواب سے جاگی

آمنہ یار واپس کرو میرا ڈائجسٹ۔ماہی نے گھورتے کہا

پہلے بتاؤ۔آمنہ نے شرارت سے پوچھا

کجھ نہیں تھا بس معصومہ ہیروئن دیو ہیروں کی قید میں آگئ۔ماہی افسردگی سے بولی

کیوں تمہارے ناولز کے ہیروں ظلم کرتے اپنی ہیروئن پہ۔آمنہ نے تنگ کرنے کی خاطر سوال داغا

ہیروئن ونی میں گئ تبھی روز اُس کو مارتا پیٹتا گھروالے الگ سے ظلم کرتے۔ماہی کے بتانے پہ آمنہ خاموش ہوئی

یہ تو حقیقت ہے ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔آمنہ سے گہری سانس بھر کر کہا

کیا یہ قانون ختم نہیں ہوسکتا کب تک معصومہ لڑکیاں ونی کے نام پہ برباد ہوگی۔ماہی نے سنجیدگی سے کہا

گاؤں کا سرپنج شھباز شاہ ہے وہ چاہے تو اِس کو ختم کرسکتا ہے پر وہ بہت ظالم ہے۔آمنہ نے افسوس سے بتایا

اُن کا تعلق شاہ خاندان سے ان کو چاہیے ایسی رواج ایسے قانون ختم کریں اگر خدانخواستہ کل کلاں اُن کی بیٹی قصاص کے نام پہ جائے وہ بھی غیر سید کے پاس تو وہ کیا کریں گے۔ماہی کی بات پہ آمنہ نے گھبراکر آس پاس نظر ڈورائی

ہشش ماہی خاموش سوچ سمجھ کر بولا کرو خدانخواستہ اُن پہ ایسا وقت آئے تمہیں پتا نہیں شھباز شاہ اپنی بیٹی پہ جان نچھاور کرتا ہے دُرید شاہ شازل شاہ اپنی بہن سے انتہا کی محبت ہے ایسا وقت آیا بھی تو وہ کبھی آروش شاہ کو آگے نہیں کریں گے۔آمنہ نے سخت لہجے میں کہا

کیوں کیا یہ اصول اُن پہ لاگو نہیں ہوتے یا اُن کی سبز قدموں والی بیٹی کو کوئی ونی میں بھی نہیں لے گا۔ماہی طنزیہ بولی تو آمنہ نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھا

کیا اول فول بک رہی ہو آروش شاہ کا احترام کیا کرو جانتی نہیں ہو اُسے تم۔آمنہ نے سنجیدگی سے ٹوکا

جانتی ہوں پورے حویلی کے مکین کو آروش شاہ کو بھی جو کالج میں مردوں کے درمیان پڑھی تھی وہ بھی شہر جاکر۔ماہی نے بُرا منہ بناکر بتایا

قابلِ احترام ہے وہ کیسے اپنے خاندان کی عزت قائم کی کبھی سُنا ہے کے اُس نے کجھ غلط کیا پورے چار سال بعد کیسے عزت واحترام سے آئی اگر کالج جاکر پڑھا بھی تو اپنے باپ بھائی کا نام اونچا کیا اور اُس کی بدولت شھباز شاہ نے گورنمنٹ اسکول گاؤں میں بنوایا باہر شہر جاکر پڑھنے کی اجازت بھی دی ہے سب کو۔آمنہ نے کہا

سیدزادی ہے اُس کو ایسا ہی ہونا چاہیے کوئی بڑی بات تو نہیں شھباز شاہ سرپنج ہیں اُن کو ہی اپنے گاؤں کا سوچنا ہے اور کیا تمہیں یہ نہیں پتا کے آرو

ماہی۔

ماہی کے مزید کجھ بولنے سے پہلے آمنہ نے ٹوکا تو وہ چپ رہی۔

یہ ایسا واحیات ناولز نہ پڑھا کرو دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔اپنی کزن پلس بہن پلس دوست کی بات پہ ماہی کا منہ صدمے کی حالت میں کُھل گیا

آج تو میرے پیارے ناولز کے بارے میں ایسا بول دیا آئیندہ نا بولنا۔ ماہی نے گھور کر وارن کیا جس پہ آمنہ نے آنکھیں گُھمائی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

پلیز سائیڈ

گارڈز نے آس پاس کھڑے ہجوم سے کہا ساتھ میں یمان مستقیم کو دیکھنے لگا جو سپاٹ تاثرات چہرے پہ سجائے چل رہا تھا پورا دھیان اُس کا اپنے سیل فون پہ تھا آج اُس کے نئے گانے کی رکارڈنگ تھی جس سے فارغ ہوتا وہ باہر آیا تو فینز کی ایک لمبی قطار اُس کی منتظر تھی۔

سر

سر

کیا آپ کجھ اشعار سنا سکتے ہیں؟

سر آپ کا محبت کے بارے میں کیا خیال ہے؟

کسی لڑکی کے سوال پہ اُس نے اپنا سراُٹھا کر اُس کو دیکھا جس سے وہ لڑکی خوامخواہ شرم سے لال گُلنار ہوگئ تھی جب کی باقی لڑکیاں اُس کو پیچھے دھکیلتی خود آگے آگے کھڑی ہوئی

محبت تو محبت ہے

یہ کرنی تو نہیں پڑتی

یہ اکثر ہوہی جاتی ہے

مگر ہوتی تو اندھی ہے

کہاں کجھ دیکھ پاتی ہے

کبھی بے درد لوگوں سے

کبھی بے قدر لوگوں سے

کبھی بے حس لوگوں سے

کبھی بے قول لوگوں سے

یہ اکثر ہو بھی جاتی ہے

بہت بے مول لوگوں سے۔۔۔۔۔۔۔

یمان مسقیم کی خوبصورت آواز پہ اتنے سارے ہجوم میں بھی سناٹا چھاگیا تھا میڈیا تھر تھر اُس کی تصویریں بنارہا تھا جب کی وہ اب آنکھوں پہ گاگلز چڑھاتا سائیڈ سے گُزرتا جارہا تھا۔

لیپ ٹاپ اسکرین پہ نظریں جمائے وہ ساکت سی بیٹھی تھی جب کی آنکھوں سے گرم سیال بہتے جارہے تھے جس سے وہ بے نیاز تھی دروازہ بجنے کی آواز پہ اُس نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کی۔

تمہیں نیچے بلارہے ہیں۔شبانا نے ایک ناگوار نظر اُس کی گود میں موجود لیپ ٹاپ کو دیکھ کر بتایا

ہممم۔آروش نے بنا دیکھے کہا تو وہ دروازہ ٹھاہ کی آواز سے بند کرتی واپس چلی گئ آروش نے کینہ توز نظروں سے وہاں دیکھا جہاں وہ گُزری تھی پھر لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھتی اپنا ڈوپٹہ سہی پہنا اور کندھوں کے گرد شال اوڑ کر کمرے سے باہر آئی۔

یہ اتنا شوخ رنگ تم نے کیوں پہنا ہے آروش تم نے۔تائی فردوس نے سپاٹ لہجے میں اُس کو دیکھ کر کہا اُن کی بات پہ آروش نے اپنے پہنے ڈریس کو دیکھا جو آسمانی کلر کا پرنٹڈ سوٹ تھا زیادہ شوخ بھی نہیں تھا جس سے کوئی اعتراض اُٹھاتا

کوئی مرگیا ہے کیا تائی جان آپ بتادیتی پہلے تو میں کالے رنگ کے پہن لیتی کپڑے۔آروش صوفے پہ بیٹھتی انہیں کی طرح سپاٹ لہجے میں بولی تو سب کو اُس کی بات ناگریز گُزری

ایک دن تم اِس زبان کی وجہ سے قتل کی جاؤں گی دیکھ لینا۔نازلین نے حقارت سے کہا تو وہ مسکرائی جیسے کوئی فرق نہیں پڑا ہو

کلثوم بھابھی اپنی بیٹی کے لچھن دیکھے ہیں دو دفع بارات آتے آتے نہیں آئی اِس کی تیسری دفع دولہا عین نکاح کے وقت مرگیا پھر کس چیز کی اکڑ ہے اِس کو۔فردوس بیگم نے کلثوم بیگم سے کہا جو خود ملامت کرتی نظروں سے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔

میرا شوہر تو نہیں مرا نہ جو میں شوخ رنگ خود پہ حرام کرلوں۔آروش شاہ ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ کر بولی

شوہر ہونے دیتی کہاں ہو تمہارے سبز قدم نگل جاتے ہیں۔نور نے مذاق اُڑانے لہجے میں کہا

نور۔

دُرید شاہ کی چنگاڑتی آواز پہ نور اور نازلین فورن کھڑی ہوتی چہرے کے گرد اپنا ڈوپٹہ لیا اور سرجھکاگئ تھی۔

اسلام علیکم لالہ۔آروش نے دُرید شاہ کو نیچے آتا دیکھا تو احترامً کھڑی ہوتی سلام کرنے لگی۔

وعلیکم اسلام۔درید شاہ نے نرم مسکراہٹ سے سلام کا جواب دیا اور اُس کے سر پہ ہاتھ پھیرا نور اور نازلین وہاں سے چلی گئ تھی

تائی جان آپ کی بیٹیاں گستاخ ہوتی جارہی ہیں تھوڑی اُن پہ نظر ڈالیں۔دُرید شاہ سپاٹ لہجے میں فردوس بیگم سے کہا

ضرور پر تم یہاں کیا کررہے ہو تمہیں تو مردانہ خانے ہونا چاہیے تھا اِس وقت؟فردوس بیگم نے چاشنی لہجے میں کہا آروش نے نفرت سے اُن کا دوغلہ پن دیکھا جو اُس کے بھائیوں کے سامنے شریں کی طرح میٹھی ہوجاتی تھی۔

میری آج شہر جانے کی روانگی ہے۔درید شاہ اپنی شال ٹھیک کرتا جواب دیتے بولا

اپنے شازل کو لینے؟فردوس بیگم نے متجسس ہوکر پوچھا

میرا اپنا کام ہے۔درید شاہ نے بتایا تو وہ خاموش ہوگئ

تمہیں کجھ چاہیے شہر سے؟دُرید شاہ آروش کی طرف متوجہ ہوتا پوچھنے لگا

جی یم

اپنی بے ساختگی پہ آروش کا دل کیا ڈوب کے مرجائے کہیں

نہیں لالہ۔آروش سرجھکاکر اپنی آنکھوں کی نمی اندر دھکیلتی بولی۔

اِس کو کیا چاہیے ہوگا پہلے ہی موا لیپ ٹاپ دے رکھا ہے تم بھائیوں نے ہمارے خاندان کی لڑکیوں کے پاس دیکھا ہے ایسا کجھ۔فردوس بیگم جلن زدہ لہجے میں بولی

آپ کہیں تو اُن کو لاکر بھی دوں۔ آروش کو جاتا دیکھ کر درید شاہ نے کہا جس سے وہ سٹپٹا کر نہ میں سرہلانے لگی۔

ٹھیک ہے اماں جان خدا حافظ۔ دُرید شاہ کلثوم بیگم کے سامنے سرجھکاکر کھڑا ہوگیا تو انہوں نے محبت سے اُس کے سر پہ ہاتھ پھیرا

اللہ کی امان۔

چلتا ہوں۔دُرید شاہ نے مسکراکر کہا

جاکر آتا ہوں۔کلثوم بیگم نے گھورتے کہا تو ہنس پڑا

جی وہی۔درید شاہ کھسیانا سا ہوگیا

تمہارے لیے لڑکی تلاش کرنے کا سوچا ہے۔فاریہ بیگم کی بات سن کر دُرید شاہ کے مسکراتے لب یکدم سیکڑ گئے۔

شازل کے لیے تلاش کریں۔دُرید شاہ سپاٹ لہجے میں کہتا باہر جانے کے راستے چل دیا

ہائے تیس سال کا ہونے والا ہے پر شادی کی کوئی فکر نہیں کوئی۔فاریہ بیگم افسوس سے بولی

چھوڑے پتا تو ہے آپ کو۔کلثوم بیگم نے کہا تو انہوں نے ٹھنڈی سانس خارج کی

بڑی عاشق مزاج اولاد ہے تمہاری جن کا دل غلط جگہ لگتا ہے۔فاریہ بیگم کی انجانے میں کہی بات اُن کے سینے پہ کسی خنجر کی طرح لگی تھی کیا کجھ یاد نہیں آیا تھا اُن کے ایک جملے پہ۔

اماں جان پلیز مجھے ایک مرتبہ ملنے کی اجازت دے میں مرجاؤں گی خدارا مجھ پہ رحم کریں۔

ماضی کی یادوں کو جھٹکتی انہوں نے اپنا رخ اندرونی ہال کی جانب کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آنے کے بعد اُس کی نظر ٹوٹی ہوئی اسکرین پہ پڑی جو اُس کے لیپ ٹاپ کی تھی لیپ ٹاپ جب کی خود بُرے حال میں تھا آروش کے وجود میں شرارے پھوٹنے لگے تھے اپنے کمرے سے باہر نکلتی وہ نور اور نازلین کے کمرے میں آئی جنہوں نے کمرے میں موجود ٹی وی پہ کوئی انڈین ڈرامہ لگایا ہوا تھا آروش کو دیکھ کر گھبراکر ٹی وی کو بند کیا۔

آروش کی نظر فروٹ باسکٹ پہ پڑی جو شیشے کی میز پہ پڑا تھا وہاں نائیف کو پکڑتی نور کے سر پہ کھڑی ہوئی۔

ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں جانے کی اور میری چیزوں کو چھونے کی۔آروش چھڑی نور کے گردن پہ رکھتی دھاڑی اُس کی حرکت پہ نور کی آنکھیں ابل کر باہر کو نکلنے تک کھل چکی تھی۔

پاگل ہوگئ ہو چھوڑو نور کو۔نازلین نے اپنا ڈر قابو کرتے کہا تو آروش ایک تھپڑ نور کو مار کر دور کھڑی ہوئی۔

آئیندہ کے بعد میرے کمرے کے آس پاس نظر بھی نہ آنا۔آروش چھڑی نازلین کی طرف پھینکتی وارن کرنے والے لہجے میں بولی

ہاں ہاں نہیں آئے گے۔نازلین نے کہا نور میں ہمت نہیں تھی مزید کجھ بولنے کی آروش ایک اچٹنی نظر دونوں پہ ڈال کر اپنے کمرے میں آکر دروازے سے ٹیک لگاکر نیچے بیٹھتی چلی گئ۔

سنو!

بہت نزدیک ہو مجھ سے

ذرہ سا فاصلہ کرلو

میرے دل کو دھڑکنے دو

مجھے پلکیں جھپکنے دو

زبان سے کجھ تو کہنے دو

سماعت میں ہے سناٹا

لہو کی آنچ مدھم ہے

تخلیل جیسے برھم ہے

نفس کی لو بھی مبہم ہے

سنو!اب بس ٹھیر جاؤ

مجھے خود سے بھی ملنے دو

مجھے اپنا تو رہنے دو

💕💕💕💕💕💕

شازل اب بس کردے۔رضا نے وائن کا گلاس شازل شاہ کے ہاتھ سے لیکر کہا جس پہ شازل شاہ نے خونخوار نظروں سے اُس کو گھورا وہ اِس وقت گرے شرٹ میں ملبوس تھا بال ماتھے پہ بے ترتیب سے پڑے تھے شراب پینے کی وجہ سے آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں تھے اپنی اِس بگڑی ہوئی حالت میں بھی وہ بہت جاذب نظر آرہا تھا آخرکار اسلام آباد میں وہ پلے بوائے کے نام سے مشہور تھا 

ایسے گھورو مت آج تم نے بہت ڈرنک کردی ہے۔رضا نے کہا تو اُس نے اپنا سرجھٹکا

گائیز بریکنگ نیوز۔ارحم اُن دونوں کے پاس آتا پرجوش آواز میں بولا

پھوٹو بریکنگ نیوز۔شازل شاہ اپنا سر دائیں بائیں گُھماتا بولا

ساگر نے شادی کردی جس سے وہ محبت کرتا تھا۔ارحم کی بات سن کر شازل شاہ کے چہرے پہ بے زاری والے تاثرات نمایاں ہوئے

مجھے ان لوگوں پہ تعجب ہوتا ہے جو محبت کے نام پہ اپنی ساری زندگی ایک لڑکی کے ساتھ گُزار لیتے ہیں میں تو دو دن ایک ہی لڑکی کی شکل دیکھوں تو بوریت ہوتی ہے زندگی ایک بار ملتی ہے تو کیا گُزارا بھی ایک سے ہو نو نیور ہونہہ۔۔شازل شاہ حقارت سے بولا وہ شادی کے سخت خلاف تھا۔

تمہارے لیے بوریت کا سامان ہے پر جن کو من چاہی عورت ملتی ہے وہ شخص خود کو خوشقسمت تصور کرتا ہے۔ارحم کی بات سن کر اُس نے آنکھیں گُھمائی

واٹ ایور میں جارہا ہوں سونے تو ڈونٹ ڈسٹرب می۔شازل شاہ وہاں سے اُٹھتا بولا

خیال سے۔رضا نے اُس کو لڑکھڑاتا دیکھا تو کہا

یہ سید شازل شاہ کا کیا ہوگا؟مطلب اتنا عجیب ہے شاہ خاندان سے ہے مگر مجال ہے جو کسی لڑکی کی عزت کریں لڑکی کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے۔شازل شاہ کے جاتے ہی ارحم افسوس سے بولا

بگڑ گیا ہے امیر لوگوں کی اولادیں ایسی ہوتی ہیں پر ذات چاہے کونسی بھی ہو عزت کرنا اور عزت کروانا بس سفید پوش لوگ والے جانتے ہیں کیونکہ اُن کا کل سُرمایہ عزت ہوتا ہے۔رضا کندھے اُچکاکر بولا

ہاں پر یہ لوگ اُن کو کجھ سمجھتے نہیں۔ارحم سرجھٹک کر بولا

💕💕

یمان بے تاثروں نظروں سے ستاروں سے چمکتے آسمان کو دیکھ رہا تھا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہ اِس وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا تھا جب اُس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا

یس۔اُس نے اپنی بھاری گھمبیر آواز سے اجازت دی

سر ڈنر تیار ہے۔کُک نے بتایا تو اُس نے گہری سانس خارج کرکے اُس کو جانے کا اِشارہ کیا خود کھڑکیوں کے آگے کرٹنز کرتا کمرے سے باہر آتا سیڑھیوں سے اُترنے لگا ڈائینگ ہال میں آتے ہی لوازمات کے مختلف قسم کی خوشبو نے اُس کا استقبال کیا وہ جیسے ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا ملازم الرٹ ہوتا اس کو کھانا سرو کرنے لگا

جب کی ٹیبل پہ کھانے کے لوازمات دیکھ کر یمان مستقیم دور کہی ماضی میں کھوگیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے نہیں کھانی یہ روکھی سوکھی روٹی اور دال۔سترہ سالہ یمان کھانے کے دسترخوان پہ بیٹھے منہ بناکر بولا جس پہ اُس کی والدہ نے گھورا

بُری بات یمان جو بھی وقت پہ ملے صبر شکر کرکے کھالیا کرو۔فائزہ بیگم نے نرم لہجے میں کہا

پر مجھ سے نہیں کھایا جاتا۔یمان ناراضگی سے کہتا بنا کجھ کھائے وہاں سے اُٹھ گیا ابھی وہ گھر سے باہر جاتا جب اُس کی بڑی بہن فجر نے آواز دی۔

یمان یہاں آؤ۔فجر نے کہا

جی۔یمان اُس کے پاس آتا بولا جب کی اُس کی دوسری بہن عیشا نے اُس کی لٹکی شکل دیکھی تو ٹھنڈی سانس خارج کی۔

یہ لو باہر سے بریانی لیں آنا۔فجر نے پانچ سو کا نوٹ بڑھا کر کہا تو یمان نے مشکوک نظروں سے اپنی بہن کو دیکھا

آپ کے پاس کہاں سے آئے۔یمان کے سوال پہ عیشا کی ہنسی نکل گئ جب کی فجر نے اُس کو گھورا

زیادہ میرے ابا نہ بنو ٹیوشن کے بچوں کی فیس بڑھالی ہے میں نے اور آج پہلی تاریخ ہے مہینے کی تو کجھ بچوں نے دی تم نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اِس لیے کھالینا اپنے شایاں شان کے مطابق۔فجر نے گھورتے کہا تو مستقیم نے دانتوں کی نمائش کی جس سے اُس کے دونوں گالوں پہ گہرے گڑھے نمایاں ہونے لگے

آپ نے فیس کیوں بڑھائی؟یمان نے پوچھا

تمہارا کالج میں ایڈمیشن جو کروانا ہے پئسے تو جمع کرنے ہیں نہ تو ایک تو کالج بھی بہت بڑا ہے۔فجر کجھ پریشانی سے بولی

آپ بھی بچوں کی فیس بڑھالیں۔فجر کی بات سن کر یمان نے شریر نظروں سے عیشا کو دیکھا

کیوں بھئ چند بچے تو آتے ہیں میرے پاس اور محلے کی آنٹیاں اتنی کنجوس ہیں کہاں دینگی فیس۔عیشا نے منہ بناکر کہا

مجھے گٹار لینا ہے جو آپ لیکر دے گی۔یمان کی دوسری فرمائش پہ فجر افسوس بھری سانس خارج کی اُس کا بس چلتا تو اپنے چھوٹے بھائی کی ہر فرمائش پوری کرتی پر اُس کے بھائی کی فرمائشیں معیار کے اُپر ہوا کرتی تھی جو وہ سفید پوش لوگ پوری نہیں کرسکتے تھے۔

ہے تو سہی۔عیشا ایک نظر فجر پہ ڈالتی یمان سے بولی

کہاں پُرانہ سا ہے مجھے نیا برینڈد گٹار لینا ہے۔یمان نے بتایا

فرمائش کرنے وقت گھر کے حالات بھی دیکھ لیا کرو۔عیشا نے اُس کو شرم دلانی چاہی

عیشا۔

فجر نے اُس کو ٹوکا

یمان میری جان فلحال تم کھانے کے لیے لاؤ گٹار کے بارے میں پھر بات ہوگی۔فجر اُس کے سیاح بالوں میں ہاتھ پھیرتی بولی تو وہ سرہلاتا صحن سے باہر نکل گیا

آپی کیوں آپ اُس کو جھوٹی اُمیدیں دلاتی ہیں۔عیشا نے تاسف سے کہا

جھوٹی کہاں ان شاءاللہ میرے بھائی کی ہر خواہش پوری ہوگی۔فجر کھوئے ہوئے لہجے میں بولی۔

آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے یمان خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے خود کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتا۔عیشا نے کہا

توں میرا بھائی کسی شہزادے کم بھی نہیں۔فجر بُرا مان کر بولی

آپی خوبصورت شکل سے کوئی شہزادہ نہیں بن جاتا جو ہمارا بھائی چاہتا ہے وہ ناممکن ہے ابا کبھی اُس کو سنگنگ کرنے کی اجازت نہیں دے گے۔عیشا حقیقت پسند ہوتی بولی

اللہ نے چاہا تو ہر چیز ممکن ہے۔فجر نے جیسے بات ختم کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر آپ کے لیے کال۔ملازم کی اچانک آتی آواز پہ یمان حال میں واپس لوٹا

یہ سارا کھانا غریبوں میں تقسیم کردو۔یمان چیئر سے اُٹھتا سپاٹ لہجے میں بولا تو وہاں کھڑے ملازمین نے حیرت سے یمان مستقیم کو دیکھا

سر آپ نے تو کجھ بھی نہیں کھایا۔کُک نے ہمت کرکے کہا

مجھے بھوک نہیں۔یمان حواب دیتا ملازم کے ہاتھ سے اپنا سیل فون لیا۔

بیس منٹ بات کرنے کے بعد یمان کمرے میں آتا اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹا اُس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔


میرا کوئی بیٹا نہیں میں بس دو بیٹیوں کا باپ ہوں اُس کے علاوہ میں کسی یمان کو نہیں جاتا۔


جانے کب میرا ماضی میری جان چھوڑے گا۔تلخ لہجے میں خود سے کہہ کر یمان نے جیسے خود کو یاد آتی باتوں سے نجات چاہی جو کی ناممکن سی بات تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

اسلام علیکم!آروش شھباز شاہ کے کمرے میں داخل ہوتی سلام کرنے لگی پھر سیدھا سائیڈ ٹیبل سے میڈیکل باکس نکال کر اُن کی دوائیاں چیک کرنے لگی شھباز شاہ غور سے آروش کو دیکھنے لگے جو سنجیدہ تاثرات چہرے پہ سجائے اُن کی طرف کجھ میڈیسن بڑھاگئ تھی

کب تک ناراض رہے گا میرا بچہ۔شھباز شاہ نے اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ بیٹھاکر استفسا کرنے لگے۔

میں ناراض نہیں آپ دوائیں کھائے۔آروش نے جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلتی بولی

میں باپ ہوں تمہارا آروش۔وہ کجھ ناراضگی سے بولے

میں جانتی بابا سائیں۔آروش نے بنا دیکھے جواب دیا

پھر یہ خاموشی کا روزا کیوں رکھا ہے۔شھباز شاہ نے پوچھا

بولنے کے لیے میرے پاس کجھ نہیں۔آروش نے وجہ بتائی

ایک باپ کبھی اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتا

اور ایک بیٹی کبھی اپنے باپ کا سر نہیں جھکانے دیتی پر میں نے ایسا کیا۔آروش اُن کی بات کاٹ کر بولی

آروش

شھباز شاہ بے بس ہوئے

بابا سائیں دوائیں کھائے پھر آپ کو آرام کرنا ہے۔شھباز شاہ کو دیکھ کر آروش نے کہا

غصے میں انسان کجھ بھی بول دیتا ہے۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

وہ اِس لیے کیونکہ غصے اور شراب میں انسان اپنے حواسوں میں نہیں ہوتا اور جو حواسوں میں نہیں ہوتا وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔آروش کی بات پہ وہ اُس کو دیکھتے رہ گئے

ایسا نہیں ہوتا۔شھباز شاہ نے کہا

ایسا ہی ہوتا ہے بابا سائیں نیند میں بچہ جب خواب دیکھ کر ڈر جاتا ہے تو وہی بڑبڑاتا ہے جو وہ دیکھتا ہے تو آپ خود سوچے نیند میں بڑبڑانے والا بچہ کیا اپنے ہوش وحواسو میں ہوتا ہے؟آروش نے اپنی طرف سے دلیل پیش کی۔

میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں شبٙ خیر۔آروش اُن کو خاموش دیکھ کر باہر جانے لگی جب وہ دروازے کے پاس آئی تو تبھی دلدار شاہ اندر کی طرف آنے والے تھے جس کو دیکھ کر آروش کی آنکھوں میں نفرت بھرے تاثرات اُبھرے

کتنی دفع بولا ہے میرے سامنے مت آیا کرو اور آنکھیں کس کو دیکھا رہی ہو نیچے کرو نظریں۔دلدار شاہ حقارت بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا جس سے آروش نے اپنی آنکھوں کا رخ دوسری طرف کیا

میرا بس چلے تو جہاں آپ ہو وہاں تھوکنا بھی پسند نہ کروں۔آروش کی بات سن کر دلدار شاہ کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچا

ہمارے خاندان کے مرد عورتوں پہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے ورنہ میں تمہارا حشر نشر کرلیتا افسوس ہوتا ہے مجھے اُس دن پہ جب تمہیں کاری نہیں کیا گیا اگر کیا جاتا تو آج تمہاری شکل نہ دیکھنی پڑتی۔دلدار شاہ ہتک آمیز لہجے میں بولا آروش کا سفید چہرہ پل بھر میں سرخ ہوا تھا آنکھوں میں تزلیل سہنے کی وجہ سے نمی اُتری آئی تھی پر وہ بے حس بن کر سائیڈ سے گُزرگئ

تایا جان اِس کو رخصت کریں۔دلدار شاہ شھباز شاہ کے کمرے میں داخل ہوتا مٹھیاں بھینچ کر بولا شھباز شاہ جو آروش کے رویے کے بارے میں سوچ رہے تھے دلدار شاہ کے یوں کمرے میں آتا دیکھ کر ناگواری سے اُس کو دیکھنے لگے

آداب بھول گئے ہو اور بات کرتے وقت اپنے لہجے کو دیکھا کرو۔شھباز شاہ نے بُری طرح سے اُس کو جھڑکا

گستاخی معاف تایا جان پر آروش کو دیکھ کر میں سات سال پیچھے چلا جاتا ہوں آپ اِس کو جلدی سے چلتا کریں ایسا نہ ہو میری زبان سب کے سامنے کُھل جائے۔دلدار شاہ نے کہا تو شھباز شاہ نے سخت نظریں اُس پہ ٹکائی

آروش ہماری بیٹی ہے تمہاری سگی بہن نہ سہی دودھ شریک بہن ہے۔

اگر میری سگی بہن ہوتی تو آج قبر میں ہوتی۔دلدار شاہ فورن بولا

یہاں آنے کی وجہ۔شھباز شاہ نے بات کو تویل نہ دی وہ نہیں چاہتے تھے ماضی میں ہوئی آروش سے غلطی کوئی بار بار دُھرائے یا اُس کے بارے میں کجھ بولے۔

زمینوں کے بارے میں بات کرنی تھی پاس والی حویلی کے پاس جو زمینے ہیں اگر اُن میں سے ہمیں کجھ مل جائے تو ہم وہاں اچھے سے ڈسپینسری بنوا سکتے ہیں۔ دلدار شاہ نے گہری سانس بھر کر کہا

بات کرو اُن سے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہیں ہم۔ شھباز شاہ نے کہا

بات کیا کرنی تایا جان آپ سرپنج ہیں آپ کو ان سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ دلدار شاہ غرور سے بولا

جاتے وقت لائیٹ بند کرکے جانا۔ شھباز شاہ نے کہا تو دلدار شاہ نے بمشکل اپنا غصہ قابو کیا ورنہ اپنی بات کو ایسے نظرانداز ہونا دیکھنا اُس کی برداشت سے باہر تھا پر سامنے والی شخصیت کوئی عام نہیں تھی جس وجہ سے وہ بیچ وتاب کھاتا وہاں سے چلاگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش کمرے میں آئی تو حریم کو دیکھا جو اُس کے ٹوٹے لیپ ٹاپ کو جوڑنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ساتھ میں اُس کی آنکھوں میں ٹپ ٹپ آنسو بھی برس رہے تھے

چھوڑدو اِس کو۔ آروش اپنے گرد لپیٹی شال کو اُتار کر بولی

آروش آپی آج ہمارے فیورٹ سنگر کا شو آنا تھا جس میں ان شاءاللہ اُن کو آوارڈ ملنا تھا ہم نے سوچا تھا آپ کے لیپ ٹاپ پہ دیکھے گے پر۔ ۔۔حریم مایوس لہجے میں کہتی خاموش ہوگئ جب کی اُس کی بات سن کر آروش نے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے۔

حریم مت سُنا کرو گانے۔ آروش نے ٹوکتے کہا

بس ایک کے ہی تو سُنتے ہیں اب ہم کیا کریں گے۔ حریم نے کہا

کل دوبارہ آئے تو ٹی وی پہ دیکھ لینا۔ آروش نے جان چُھڑوانے والے لہجے میں کہا

ٹی وی کہاں ہیں ہمارے کمرے لاونج والی ٹی وی پہ تو صبح کے بارہ بجے تک تلاوت سنتے ہیں تب تک تو وقت نکل جائے گا۔حریم کو مزید اُداسی ہوئی

اتنا ضروری نہیں دیکھنا۔آروش نے بیزاریت سے کہا

آپ کو کیا پتا شو کے پرومو میں یمان مستقیم کی ایک جھلک دیکھی تو بہت سے زیادہ بہت ہینڈ

ٹھاہ

حریم جو نان سٹاپ بولتی جارہی تھی واشروم کے دروازے کو اتنا زور سے بند ہوتا دیکھا تو دھل کے دل پہ ہاتھ رکھا کیونکہ آروش واشروم میں بند ہوگئ تھی

آپی کو کیا ہوگیا۔حریم انگلی دانتوں تلے دبا کر خود سے پوچھنے لگی۔

آپی۔ حریم واشروم کے دروازے کے پاس کھڑی ہوتی اُس کو آواز دینے لگی۔

پر کوئی جواب ناپاکر مایوسی سے لوٹ گئ

💕💕💕💕💕💕💕💕

شھباز شاہ آپس میں تین بھائی تھے اور ایک بہن سب سے بڑے وہ خود تھے اُن کی تین اولاد تھیں دو بیٹے اور ایک بیٹی ایک بڑا بیٹا درید شاہ جس کی عمر اُنتیس سال تھی دوسرا بیٹا شازل شاہ جو چھبیس سال کا تھا شازل شاہ جو زیادہ تر شہر رہنا پسند کرتا تھا کیونکہ اُس کو اپنے گاؤں اور حویلی کے رسم ورواج سے سخت چڑ تھی اِس لیے کبھی کبھار سب کے اصرار کرنے پہ آجاتا تیسرے نمبر اُن کی بیٹی آروش شاہ جو چوبیس سال کی تھی جس طرح بادشاہ کی جان اُس کے طوطے میں ہوتی ہیں اُسی طرح شھباز شاہ کی جان آروش شاہ میں تھی وہ جتنے سخت اور جابر قسم کے تھے اُس سے زیادہ نرم مزاج اپنی بیٹی آروش شاہ کے سامنے ہوتے شھباز شاہ کا دوسرا بھائی ارباز شاہ جن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھی بڑا بیٹا دلدار شاہ جس کی شادی اپنی چچا زاد کزن شبانا سے ہوئی تھی اُس کے بعد دیدار شاہ جو ابھی تک کنوارا تھا بیٹیوں میں ایک نازلین دوسری نور تھی تیسرا بھائی شھنواز شاہ جس کی بس ایک اولاد تھی بیٹی شبانا۔اُن تینوں بھائیوں کی شادیاں خاندان میں ہی طے پائی تھی

شھباز شاہ کی بیگم کلثوم شاہ

ارباز شاہ کی بیگم فردوس شاہ

شھنواز شاہ کی بیگم فاریہ شاہ

جب کی ان تینوں بھائیوں کی بہن اُمِ مریم کی شادی اپنے ماما زاد سے ہوئی تھی شادی کے ایک سال بعد اُن کے شوہر فردین علی شاہ وفات پاگئے تھے تب اُمِ مریم اُمید سے تھی جن کو شھباز شاہ حویلی لائے تھے حریم کی پیدائش کے چند دن بعد وہ اپنی بیٹی کی زمیداری بارہ سالہ درید شاہ کو سونپتی اِس فانی دُنیا سے کوچ کرگئ تھی تب سے حریم حویلی میں رہتی آرہی تھی جس کی ساری زمیدار درید شاہ بخوشی پوری کرتا تھا جس وجہ سے حریم اگر حویلی میں کسی سے زیادہ قریب تھی تو وہ تھا دُرید شاہ

💕💕💕

ڈیرے پہ آج دلدار شاہ آیا تھا۔ نور حق ویلا میں اِس وقت سب دسترخواہ پہ بیٹھے تھے جب ذین سالک نے سنجیدگی سے کہا

خیریت سے؟اُس کا باپ حشمت صاحب بولے

جی پاس والی جو ہماری کجھ زمین ہے وہ اپنے نام کروانا چاہتا ہے۔ ذین سالک نے بتایا تو ماہی نے آمنہ کو دیکھا جس کا سارا دھیان کھانے کی طرف تھا

تم نے کیا کہا پھر؟ بختاور بیگم نے پوچھا

فلحال کوئی جواب نہیں دیا کافی کھسکا ہوا تھا۔ ذین سرجھٹک کر بولا

ہممم ہم بات کریں گے تم دور رہنا اِس معاملے سے۔ نور حق جو اب تم خاموش تھے وہ بولے

جیسا آپ کہے۔ ذین اتنا کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ خاندان کو کونسا زمینوں کی کمی ہے جو ہماری زمینوں پہ نظریں ٹکائے بیٹھے ہیں۔ کمرے میں آکر ماہی بے زاری سے بولی

تم کیوں اُن کے خلاف ہو۔ آمنہ نے گھورتے کہا

کیوں نہ ہو ان کے کام ہی ایسے ہیں۔ ماہی نے بھی گھور کر کہا

کوئی وجہ ہوگی۔ آمنہ نے کجھ سوچ کر کہا

وجہ نہیں بس اُن کو عادت ہے دوسروں کا حق مارنے کی۔ ماہی تلخ لہجے میں بولی تو آمنہ نے کوئی جواب دیا

💕💕

امی

امی

یہ دیکھے

ماموں ٹی وی میں۔ پانچ سالہ یامین خوشی سے اُچھلتا کودتا اپنی ماں کو آواز دینے لگا فجر جو کچن میں تھی اپنے بیٹے کی آواز سن کر جلدی سے باہر آئی اور ٹی وی پہ نظریں ٹکائی جہاں اُس کا خوبرو بھائی فل بلیک ڈریس میں ملبوس ایک ہاتھ میں آوارڈ دوسرے ہاتھ میں مائیک پکڑتا سنجیدگی سے کجھ بول رہا تھا فجر کی آنکھوں میں خوشی سے آنسوؤ آگئے

تھے سامنے زندگی کے گُزرے ہوئے مناظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے۔

آپی آپ دیکھنا جب میں بہت بڑا سنگر بنوں گا نہ تو مجھے بھی ایسے آوارڈز ملے گے آپ کو پتا ہے پھر میں کیا کروں گا۔بات کرتے سترا سالہ یمان مستقیم چپ ہوا

کیا کرے گا میرا بھائی۔سبزی کاٹتی فجر نے پوچھا

میں ایک الگ کمرہ بنواؤں گا جہاں بس میرے آوارڈز ہوگے۔یمان کی بات سن کر فجر کو ہنسی آئی کیونکہ اُس کا اکلوتا بھائی کہنے کو سترہ سال کا تھا پر باتیں ہمیشہ بچوں جیسی کرتا تھا پر اُس کی آنکھوں میں ایک الگ چمک ہوتی تھی کجھ کرنے کی کسی کو پانے کا ایک عزم ہوتا تھا۔

تمہاری آنکھوں کی چمک کہاں گئ میرے بھائی۔ ٹی وی اسکرین پہ سنجیدہ کھڑے یمان مستقیم کو دیکھ کر فجر نے دُکھ سے سوچا

تبھی اُس کا فون بجنے لگا تو خیالوں سے آزاد ہوتی اُس کی طرف متوجہ ہوئی اسکرین پہ نمبر دیکھ کر اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی

ہیلو

فجر تم نے دیکھا اِس بار بھی ہمارے بھائی کو بیسٹ سنگر کا آوارڈ ملا ہے۔عیشا کی نم آواز سن کر فجر نے گہری سانس لی

ہمم دیکھا۔ فجر نے بتایا

کتنا بدل گیا ہے یمان اور کتنا بڑا۔ عیشا روتے روتے ہنسی

ماشااللہ سے بڑا تو ہوگیا ہے سترہ اٹھارہ سال کا کمزور یمان مستقیم نہیں وہ اب چوبیس سال کا مشہور سنگر یمان مستقیم ہے۔ فجر نے بس یہ کہا

یمان کی مسکراہٹ کہاں ہیں جو ہر وقت اُس کے چہرے پہ ہوتی تھی۔ عیشا نے کہا۔

تمہیں اُس کے ڈمپلز سے چڑ ہوتی تھی نہ تو بس اِس لیے۔فجر یامین کو اپنی گود میں بیٹھاتی بولی

چڑ نہیں ہوتی تھی ڈرتی تھی ہنستے ہوئے پیار جو اتنا لگتا تھا ڈر لگتا تھا کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے اور اب تم بتاؤ وہ کب آے گا۔ عیشا نے پوچھا

نظر تو واقع لگ گئ جس سے وہ اب کبھی نہیں آے گا۔ فجر نے اپنے آنسو پیتے ہوئے کہا

💕💕💕💕💕💕💕

آپ کو سنگنگ کی فیلڈ میں آئے پانچ سال کا عرصہ ہوا ہے اور ماشااللہ سے آپ کو ہر سال بیسٹ سنگر کا آوارڈ ملتا ہے اُس کے بارے میں کیا کہے گے آپ؟ مورننگ شو کی ہوسٹ مونا یمان مستقیم سے سوال کرنے لگی۔

اللہ کا شکر ہے جنہوں نے مجھے اتنا اونچا مقام دیا ہے۔ یمان مستقیم نے جواب دیا

آپ اپنی کامیابی کا کریڈٹ کس کو دے گے۔

خود کو۔ یمان مستقیم پراعتماد لہجے میں بولا تو ہوسٹ کی آنکھوں میں ستائش اُبھری

آپ کا پہلا گانا حالِ دل جو بہت فیمس ہوا تھا اُس گانے کے بعد میں آپ نے کجھ لائنز کہی تھی کیا وہ دوبارہ لائیو کہے گے۔مونا کی بات پہ یمان کی آنکھوں میں پرسوچ تاثرات نمایاں ہوئے


میرا معیار نہیں ملتا

میں آوارہ نہیں پِھرتا

یہ سوچ کر کھونا

میں دوبارہ نہیں ملتا


یمان مستقیم نے دوبارہ وہ لائنز پڑھی تو وہاں بیٹھے سب لوگوں نے پرجوشی سے تالیاں بجائیں۔

یہ سچ میں اتنے گورے ہوگے یا میک اپ کا کمال ہے۔

آروش جو بنا پلکیں جھپکائیں لیپ ٹاپ پہ چلتے شو کو دیکھ رہی تھی حریم کے اچانک آنے پہ اُس نے لیپ ٹاپ بند کیا

یہاں کیا کررہی ہو۔ آروش نے پوچھا

لیپ ٹاپ بند کیوں کیا ہمیں پورا مورننگ شو دیکھنا تھا۔ حریم نے منہ بناکر کہا

لالہ ناراض ہوگے۔ آروش نے آنکھیں دیکھائی

وہ ہم سے ناراض نہیں ہوتے اور ان کی اجازت ہے میں اُن کی چیزیں استعمال کرسکتی ہوں۔ حریم فخریہ لہجے میں کہتی لیپ ٹاپ اپنی گود میں رکھا آروش ایک سنجیدہ نظر اُس پہ ڈال کر جانے لگی تھی جب حریم نے کہا

آپی رکے نہ میں آپ کو اپنے سنگر کی ہر بات بتاتی ہوں۔ حریم جھٹ سے اُس کا ہاتھ پکڑتی بیٹھا کر بولی

آپ کو پتا ہے ان کا فیورٹ کلر بلیک ہے

کھانے میں وہ شوق سے شامی کباب اور رائیس کھاتے ہیں۔

پسندیدہ تہوار اپنا کلچر ڈے

مزاج کے وہ کافی گرم ہوتے ہیں

اور

اگر تمہارا ہوگیا تو میں جاؤ۔آروش حریم کی بات بیچ میں ٹوکتی بولی

جی۔حریم منہ بسور کر بولی تو آروش بنا اُس کی طرح دیکھ کر درید شاہ کے کمرے سے نکلتی اپنے کمرے میں آکر بیڈ پہ بیٹھ گئ۔


ریڈ کلر میرا پسندیدہ کلر ہے کھانے میں تو سب شکر صبر کرکے کھالیتا ہوں پر بریانی موسٹ فیورٹ ہے اگر تہوار کی بات کی جائے تو وہ عید ہے اور ایک حیرت انگیز بات بتاؤں مجھے کبھی غصہ نہیں آتا آپ کو مجھ سے مل کر اندازہ ہوگیا ہوگا میں کتنا خوش مزاج ہوں۔


آروش سرجھٹک کر گہری سانس لیتی اپنا سر بیڈ کراؤن سے ٹکا دیا

💕💕💕💕💕💕

سر انکل دلاور خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں مسز خان بھی آپ کو یاد کررہی تھی۔یمان شو سے فارغ ہوتا ابھی بیٹھا ہی تھا جب اُس کا سیکٹری ارمان اُس سے بولا

اُن سے کہنا کل میں گھر آجاؤں گا۔یمان نے کہا تو اُس نے سر کو جنبش دی

سنو!

ارمان جانے والا تھا جب یمان نے آواز دی

جی سر۔ارمان اُس کی طرف متوجہ ہوا

آج پہلی تاریخ تھی نہ؟یمان نے کنفرم کرنا چاہا

جی سر پر میں آج کراچی نہیں گیا کیونکہ آج آپ کا شیڈول ٹف تھا۔ارمان یمان کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا تبھی اُس نے ہچکاہٹ سے بتایا اُس کا جواب سن کر یمان نے سخت نظروں سے اُس کو گھورا جس سے ارمان نے اپنا سرجھکالیا

کتنی دفع کہا ہے اِس کام میں کوتاہی نہ کیا کرو۔یمان نے سخت لہجے میں کہا

سوری سر کل ان شاءاللہ پہلا کام یہی کروں گا میں۔ارمان نے فورن سے کہا تو یمان نے کوئی جواب نہیں دیا

یمان مستقیم کے سیل فون پہ کال آنے لگی تو ارمان کمرے کا دروازہ بند کرتا باہر چلاگیا جب کی یمان نے سیل ہاتھ میں لیا

ہیلو ڈیڈ۔یمان نے اپنے لہجے کو ہشاش بشاش کیے کہا

ہیلو ٹو یمان کہاں ہو ایک ماہ سے گھر نہیں آئے۔دوسری طرف دلاور خان خفگی سے بولے

میرے نیو سونگ کی رکارڈنگ تھی اُس میں مصروف تھا اب فری ہوں کل آؤں گا۔یمان نے بتایا

ہمیں انتظار رہے گا تمہارا وقت پہ آنا۔دلاور خان مسکراتے لہجے میں بولے

جی ضرور۔یمان نے فرمانبرداری سے کہا

حُسن ہے سہانا روب کا خزانہ

آج ہے لٹانا

آکے دیوانے مجھے سینے سے لگا۔


دُرید شاہ کلب میں داخل ہوا تو ایک ناگوار لہر پورے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہوئی جہاں ہر لڑکا لڑکی اپنا دین ایمان بھلائے ایک دوسرے کی بانہوں میں کھڑے تھے ساتھ میں اُس کا بھائی شازل شاہ بھی تھا جس کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ کر دُرید شاہ نے تیکھی نظروں سے اُس کی جانب دیکھ کر اپنے قدم اُس کی طرف بڑھائے


نا نا نا

گوریا چُرانہ میرا جیا

گوریا چُرانہ میرا جیا

گوریا چُرانہ میرا جیا

گوریا چُرانہ میرا جیا


شازل شاہ جو اپنی نئ گرل فرینڈ کے ساتھ ڈانس کرنے میں مگن تھا کندھے پہ کسی کا بھاری ہاتھ محسوس کرکے بےزاری سے پلٹا نظر جیسے ہی دُرید شاہ پہ پڑی تو مسکرا پڑا

لالہ آپ۔شازل پرجوش سا اُس کے گلے لگنے والا تھا پر اُس کے منہ سے آتی شراب کی بو محسوس کرکے دُرید شاہ نے اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے اُس کو خود سے دور کیا شازل شاہ کے ساتھ جو لڑکی کھڑی تھی وہ پرشوق نظروں سے دُرید شاہ کو دیکھنے لگی جو براؤن کلر کے شلوار قمیض پہنے کندھوں پہ گرم شال ٹکائے سخت نظروں سے شازل کو دیکھ رہا تھا

باہر چلو۔دُرید شاہ نے کرخت لہجے میں کہا کلب میں تیز میوزک ہونے کی وجہ سے اُس کی آواز شازل شاہ کے کانوں میں نہیں پڑی

کیا کہا آپ نے۔شازل اپنا کان اُس کی طرف کرکے تیز آواز میں بولا تو دُرید شاہ اُس کو گھور کر بازوں سے پکڑتا اپنے ساتھ لے جانے لگا جس پہ شازل شاہ بنا احتجاج کیے اُس کے ساتھ چلتا جارہا تھا


گوریا چُرانہ میرا جیا

گوریا ہے پاگل میرا جیا

گوریا ہے پاگل میرا جیا


وہ دونوں جیسے ہی پارکنگ ایریا آے شازل نشے میں جھولتا گانا گانے لگا

سٹاپ شازل شاہ۔دُرید شاہ نے غصے سے کہا تو شازل نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت دیا اُس کی بچوں جیسی حرکات دیکھ کر درید اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود کو پرسکون کرنے لگا۔

تمہاری وجہ سے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے میں اُس جگہ آیا جہاں آنے کا میں مرکر بھی نہیں سوچتا۔دُرید شاہ اُس کا گریبان پکڑ کر سخت لہجے میں گویا ہوا

پھر تو آپ کو میرا شکر گُزار ہوجانا چاہیے میری بدولت آپ نے ایک ساتھ اتنی حسیناؤں کا درشن کیا۔شازل شاہ نے آنکھ ونک کیے بے باک لہجے میں کہا تو دُرید شاہ کا دل کیا اپنے بھائی کا گلا دبادے۔

اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات کیا کرو۔دُرید شاہ اُس کو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھاتا کڑے لہجے میں بولا

کتنا لڑکیاں آپ کو دیکھ کر آہیں بھر رہی تھی۔شازل شاہ باز نہ آیا دُرید شاہ اُس کو نظرانداز کرتا گاڑی ڈرائیو کرنے لگا

عرض کیا ہے۔

شازل شاہ اُس کی طرف چہرہ کیے بولا

عرض کیا ہے۔

دُرید شاہ کی طرف سے نو رسپانس جان کر اب کی اُس نے بلند آواز میں کہا پر دُرید شاہ نے اب بھی توجہ نہ دی۔

دُرید لالہ عرض کیا ہے۔شازل شاہ اُس کا بازوں ہلاتا بولا

پھوٹو۔دُرید شاہ نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا جانتا تھا جب تک اُس کی ساری بکواس نہیں سُنے گا شازل عرض کیا ہے کا راگ گاتا رہے گا۔

اہم اہم۔

جی تو عرض کیا ہے۔

ہم کہاں جارہے ہیں؟شازل شاہ ٹھوڑی پہ ہاتھ ٹکائے بولا تو دُرید نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھا کیونکہ اُس کو ایک پل کے لیے لگا تھا شاید واقع وہ کوئی عرض کرنے والا ہے۔

حویلی۔دُرید شاہ نے یک لفظی جواب دیا

توبہ۔شازل کوفت سے بولا

کلب میں کیوں جاتے ہو؟دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

میرا بریک اپ ہوگیا تھا تو بس سوگ منانے گیا تھا۔شازل شاہ نے بڑی معصومیت سے جواب دیا

بڑا گرم جوشی سے سوگ منایا جارہا تھا۔دُرید شاہ نے میٹھا طنزیہ کیا

اور نہیں تو کیا۔شازل شاہ مزے سے بولا

سید گھرانے سے تعلق ہے تمہارا کیوں گھر کی عزت خراب کرنے پہ تُلے ہو۔دُرید شاہ نے اُس کو شرم دلانی چاہی۔

جانتا ہوں لالہ اُن سے دوستی میری ایک حدتک ہوتی ہے۔شازل شاہ نے اپنی طرف سے صفائی پیش کی

ایک حدتک کا نظارہ دیکھ چُکا ہوں میں آج شراب حرام ہے یہ بات کیوں بھول جاتے ہو تم۔دُرید شاہ کا غصہ کم ہونے کو نہیں آرہا تھا

تو آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے سید گھرانے کا مرد ہر گُناہ کرسکتا ہے گھٹیاں ہوسکتا ہے پر ایک زانی نہیں ہوسکتا۔شازل پہلی بار سنجیدہ ہوا

واقع۔جہاں اُس کی بات سن کر دُرید شاہ پرسکون ہوا تھا وہی کنفرم کرنے کی خاطر پوچھا

جی کیونکہ میں ایک بہن کا بھائی ہوں ایسی گھٹیا حرکت کا خیال آنے سے پہلے میرے سامنے آروش کا عکس آتا ہے اور آپ جانتے ہیں آروش کہتی ہے زنا ایک قرض ہے اور کوئی بھائی یہ نہیں چاہے گا اُس کا قرض اُس کی بہن یا بیٹی اُتارے۔شازل شاہ اپنی بات کہتا چہرہ کھڑکی کے سامنے کرگیا ڈرائیونگ کرتے دُرید شاہ نے محبت سے شازل شاہ کو دیکھا۔

اگر ایسی بات ہے تو روز نئ لڑکی سے دوستی کرنے سے اچھا ہے اپنے لیے ایک پسند کرلوں شادی کے لیے۔دُرید شاہ کے منہ سے بے خیالی سے نکل گیا شازل شاہ کی آنکھیں جو اب بار بار بند ہورہی تھی اپنے بھائی کی بات سن کر چہرے پہ طنزیہ بھرے تاثرات آئے۔

تاکہ اُس لڑکی کا انجام بھی وہی ہو جو آپ کی پسند کی گئ لڑکی کا انجام ہوا تھا ہمارا خاندان کے باہر کسی کو پسند کرنا مطلب اُس کی جان سے دشمنی کرنے کے مترادف ہے۔شازل شاہ کی بات پہ دُرید شاہ کی گرفت اسٹئرنگ پہ سخت ہوگئ تھی اگر کوئی اور یہ بات کرتا تو دُرید شاہ یقیناً اُس کا منہ توڑ دیتا پر یہ بات کہنے والا کوئی اور نہیں اُس کا بھائی تھا جس سے وہ غصہ تو ہوسکتا تھا پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

ایک بار نہیں یہ دل سوؤ بار ہے ٹوٹا

پر شوق محبت کا اب تک نہ چھوٹا

مسکراتے ہوئے چہرے

چُھپائے ہیں راز گہرے

یہاں تو ہر چہرہ ہے جھوٹا

اللہ دُہائی ہے پھر جان پہ آئی ہے

اب تو تبہائی ہے ہاں تیرے پیار میں


حریم کُھلے منہ کے ساتھ ٹی وی اسکرین پہ یمان مستقیم کا نیا سونگ سُن اور دیکھ رہی تھی جس میں وہ خود ماڈلنگ کررہا تھا کسی مشہور ایکٹرس کے ساتھ اور ایسا اُس نے پہلی بار کیا تھا جس سے حریم کو یقین نہیں آرہا تھا جو وہ دیکھ رہی ہے سچ ہے بھی کے نہیں۔

ٹی وی بند کرو یا چینل تبدیل کرو۔آروش اپنے کمرے میں آتی بنا ایک نظر چلتی ٹی وی پہ ڈالے حریم سے بولی

آپی یہ دیکھے یہ کتنا پیارا کپل لگ رہا ہے اِن کا ایکٹرس کی تو موجے ہیں جو یمان مستقیم کے ساتھ ہے۔حریم اپنی دُھن میں بولتی آروش کو چونکا گئ تھی اُس کی نظر بے ساختہ ٹی وی پہ گئ جہاں پاکستان کی مشہور ایکٹریس سونیا سہیل یمان مستقیم کی بانہوں میں تھی آروش نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

بند کرو یہ واحیات مناظر۔آروش غصے میں آتی حریم سے ریموٹ چھین کر بولی حریم حیرانگی سے آروش کو دیکھنے لگی جس کی گوری رنگت پل بھر میں خون چھلکانے کی حدتک سرخ ہوگئ تھی۔

واحیات تو نہیں تھا اتنی ڈیسینٹ پرفارمنس تھی یمان مستقیم خود ماڈلنگ کررہا تھا ہمیں تو وہ بہت پیارا لگا اُس لڑکی کے ساتھ ساری سونگ میں سیم کلرز کے ڈریسز پہنے ہوئے تھے اور

میرے کمرے سے باہر نکلو اور خبردار جو میرے سامنے اِس سنگر کا ذکر کیا تو ہمارے چچا کا بیٹا نہیں جو ہر بار تمہاری زبان پہ اُس کا ذکر ہوتا ہے۔ آروش حریم کو بازوں سے پکڑتی کمرے سے باہر کھڑا کیے غصے سے بولی حریم کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے آروش کے اتنے شدت بھرے عمل پہ دوسرا یہ ہمیشہ کی طرح آروش نے اُس کی پوری بات نہیں سُنی تھی حریم کی خواہش ہوتی تھی کے کوئی ہو جو اُس کی ساری باتیں خاموشی سے سن کر اُس پہ تبصرہ کریں وہ چاہتی تھی وہ سارا دن اپنی پسند کے لوگوں کا ذکر کرے اپنے دل کی باتیں کرے دُرید شاہ سے کرنے کی کوشش کرتی تو وہ بس ہوں ہاں کرتا جس سے حریم کا دل خراب ہوتا پھر اُس نے آروش سے کرنے کا سوچا کیونکہ اُس کو بچپن سے آروش کی شخصیت اٹریکٹ کرتی تھی وہ خود آروش کی طرح بننا چاہتی تھی ڈریسز سینس سے لیکر ہیئر سٹائل بھی وہ آروش کا کاپی کرتی تھی بس ہر وقت حویلی میں جو نفاست سے آروش سر پہ ڈوپٹہ اور شال لیتی تھی یہ عادت حریم میں نہ تھی باقی لوگوں کی حریم سے اتنی نہیں بنتی تھی جس وجہ سے وہ یا دُرید شاہ کے پاس ہوتی یا آروش شاہ کے پاس اپنے کمرے میں وہ کم ہوتی تھی کیونکہ اُس کو تنہا رہنا پسند نہیں ہوتا تھا

سوری ہم نے آپ کا وقت برباد کیا اپنی فضول باتوں سے۔ حریم بھراے لہجے میں کہتی وہاں سے چلی گئ اُس کے جانے کے بعد آروش نے تیزی سے دروازہ بند کیا۔


کوئی کتنا خوبصورت کیوں نہ ہو مجھے اُس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ میرا دل آپ کو چاہتا ہے آپ کے علاوہ میں کسی کا سوچ بھی نہیں سکتا آپ کجھ کرلیں میں آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑوں گا آپ کو میرا ہونا ہے اور مجھے آپ کا۔


خاموش ہوجاؤ پلیز خدا کا واسطہ ہے۔آروش اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھتی چیختی بولی

💕💕💕💕💕

فجر اپنے پانچ سالہ بیٹے یامین کا ہاتھ پکڑتی تپتی دھوپ میں بس سٹاپ پہ کھڑی کسی بس یا رکشے کا انتظار کررہی تھی جب ایک گاڑی اُس کے سامنے رُکی۔

میم آئے میں آپ کو چھوڑدیتا ہوں جہاں آپ نے جانے ہو سر کا حکم ہے۔گاڑی سے ایک چالیس سال کا مرد ڈرائیور کے یونیفارم میں ملبوس سرجھکائے فجر سے بولا

اپنے سر سے کہو ہمیں ایسی آسائشوں کی عادت نہیں اِس لیے آپ جائے میں خود چلی جاؤں گی۔ڈرائیور کو دیکھ کر فجر سخت لہجے میں بولی

میم پلیز بیٹھ جائے میری نوکری کا سوال ہے آپ کو اِس وقت کہی ٹیکسی ملے گی بھی نہیں۔ڈرائیور منت بھرے لہجے میں بولا

نہیں آپ جائے۔فجر سنجیدگی سے کہا

امی پلیز چلیں نہ گرمی ہے۔یامین اُس کی چادر کا کونہ کھینچتا معصومیت سے بولا تو فجر نیچے جُھک کر اُس کو دیکھا جس کے روئی جیسے گال گرمی کی شدت سے سرخ ہوگئے تھے فجر کو بے ساختہ خود پہ غصہ آیا وہ کیوں اُس کو اپنے ساتھ لائی اتنی گرمی میں پر وہ کسی دوسرے کے آسرے اپنے بیٹے کو چھوڑ بھی نہیں سکتی تھی جو اُس کی متاعِ جاںِ تھا گہری سانس بھرتی وہ ایک فیصلے پہ پہنچی۔

سُپر مارکیٹ چلو۔فجر یامین کو گود میں اُٹھاتی گاڑی کی طرف بڑھی ڈرائیور نے جلدی سے آگے بھر کر دروازہ کُھولا پر خود ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آیا یامین اشتیاق بھری نظروں سے گاڑی کو چاروں اطراف دیکھ رہا تھا اُس کو مسکراتا دیکھ کر فجر کے دل میں بھی سکون اُترا پھر اُس نے اپنی نظریں کھڑکی سے باہر جمادی جب بُھولا بھٹکا واقعہ ذہین میں تازہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان سامان زیادہ ہے کجھ شاپرز مجھے دو۔فجر نے یمان سے کے ہاتھوں سے شاپرز لینے چاہے جو دینے پہ راضی نہیں ہورہا تھا

آپی کجھ نہیں ہوتا بس تھوڑا دور چلنا ہے پر رکشہ ٹیکسی مل جائے گی۔یمان اپنے سر کو ہلاتا پیشانی سے بالوں کو ہٹانے کی کوشش کیے بولا تو فجر نے ہاتھ آگے بڑھاکر اُس کے بال پیچھے کیے۔

اتنے ضدی کیوں ہو تم؟فجر نے پوچھا

ضدی کہاں بس کجھ عرصہ پھر آپ کو یوں گرمی میں خوار ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی ہر کام کے لیے الگ الگ گاڑی ہوگی آپ کے پاس بس ایک دفع میں سنگر بن جاؤں۔یمان کی بات پہ فجر نفی میں سرہلانے لگی۔

کہنے کی باتیں ہیں جب ایسا وقت آے گا تو تمہیں اپنی بہنیں یا واعدے یاد نہیں ہوگے پھر تمہاری شادی ہوجائے گی بیوی کے آگے پیچھے رہو گے ہم کہاں ہوگے پھر بس اُس کو خوش کرنے میں مگن ہوگے۔فجر ٹیڑھی نظروں سے اُس کو دیکھتی بولی

آپ ایسی بات نہ کریں کیونکہ میرے لیے پہلے آپ سب ہیں پھر کوئی تیسرا آپ دیکھنا میں اپنے سارے واعدے پورے کروں گا اور آپ سب کو تنگی کی زندگی سے نکالوں گا پھر ابا کو دکان پہ بیٹھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔یمان کی سوچ بہت آگے کی تھی۔

پھر تو ہمارا بھائی مصروف ہوجائے گا پھر کہاں ہمیں وقت دے گا۔فجر مصنوعی افسوس سے بولی

ایک دن میں کاموں سے چھٹی کروں گا پھر ہم سب انجوائے کرے گے۔یمان نے جلدی سے کہا تو فجر ہنس پڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میم مارکیٹ آگیا۔ڈرائیور کی آواز پہ وہ حال میں لوٹی۔

تم نے کسی تیسرے کو ہم پہ فوقیت دی یمان


آپی وہ میری رگوں میں خون کی مانند ڈورتی ہیں میں کیسے اُن سے دستبردار ہوجاؤں جو مجھے اب میرے جینے کی وجہ لگتی ہیں مجھے لگتا ہے اگر وہ مجھ سے یا میں اُن سے الگ ہوگیا تو میں اگلی سانس نہیں لے پاؤں گا آپ مجھے جان سے ماردے پر اُن کو بُھول جانے کے لیے نہ کہے۔


ایک انجان لڑکی تمہیں ہم سے زیادہ عزیز ہوگئ۔فجر تلخ سے یمان کی باتوں کو سوچتی یامین کو لیکر گاڑی سے اُتری۔

اپنی ضرورت کی چیزیں لینے کے بعد وہ مارکیٹ سے باہر آئی تو ڈرائیور کو کھڑا پایا پر اب وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئ

گھر واپس آئی تو اپنے گھر کے سامنے تین بڑی گاڑیوں کو کھڑا پایا اور کجھ لوگ جو اُس میں سے سامان نکال کر گھر کے اندر لیں جارہے تھے

یامین کی نظر فل بلیک کلر کے ڈریس میں ملبوس لڑکے کی طرف گئ تھی وہ بھاگ کر اُس کی طرف گیا۔

ارمان انکل

ارمان انکل

اِس دفع لیٹ کیوں آئے آپ؟یامین ارمان کی طرف بڑھ کر لاڈ سے بولا جس پہ ارمان نے مسکراکر بانہوں میں بھر کر اُس کے سر پہ بوسہ دیا

بس میرے یار کام تھا اِس وجہ سے۔ارمان اُس کے پُھولے ہوئے گال کھینچ کر بولا تو وہ کِھلکِھلا اُٹھا۔

اسلام علیکم۔فجر کو آتا دیکھا تو اُس نے احترامً سلام کیا

وعلیکم اسلام۔فجر نے سنجیدگی سے جواب دے کر اُس کی گود سے یامین کو لیا

امی مجھے انکل کے ساتھ پارک جانا ہے۔یامین کی فرمائش پہ فجر نے اُس کو گھورا

سر کہہ رہے تھے اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتادے۔ارمان یامین کی طرف دیکھ کر فجر سے بولا

اپنے باس سے کہو ہمیں اُس کی ضرورت ہے تو آجائے پر یہ سامان بھیج کر ہم پہ احسان نہ کریں۔فجر سپاٹ لہجے میں بولی

احسان کہاں وہ تو اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔ارمان جلدی سے یمان کی حمایت میں بولا

اُس کی وکالت کرنے آئے ہیں؟فجر کے سوال پہ وہ گڑبڑا سا گیا پھر نفی میں سرہلانے لگا

اگلے مہینے آپ مت آنا اور نہ یہ سامان بھیجنا اپنے سر سے کہنا مجھے جاب مل گئ ہیں ہمارا گزارا ہوجائے گا وہ اپنی عنایتیں ہم پہ نہ لوٹائیں۔فجر سرد لہجے میں بولی تو ارمان نے پہلی بار اُس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ ناراضگی اور غصے کے ملے جُلے تاثرات تھے۔

آپ جاب نہیں کرے گی سر نہ منع کیا تھا۔ارمان سرجھکاکر بولا

میں اُس کی بڑی بہن ہوں وہ میرا بڑا نہیں اِس لیے اُس سے کہنا اپنا روعب اپنے پاس رکھے۔فجر کے سخت لہجے میں اچھے سے باور کروایا تو ارمان بے چارہ خاموش رہا پھر بات بدل کر بولا

سارا سامان سیٹ ہوگیا ہے اب ہم چلتے ہیں۔ارمان یامین کے سر پہ پیار دیتا فجر سے بولا

سنو

فجر نے اُس کو جاتا دیکھا تو کہا

جی سنائیں۔ارمان اُس کی طرف رخ کرکے بولا

کہاں ہیں وہ اب؟فجر کے لہجے میں بے چینی فکرمندی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔

دو ہفتوں سے لاہور میں ہیں پہلے دبئ گئے ہوئے تھے اب لاہور میں ہیں۔ارمان نے بتایا تو اُس نے سرہلایا ارمان بھی ایک نظر اُس پہ ڈالتا واپسی کے راستے چل دیا۔

💕💕💕💕💕

یمان مستقیم گہری نیند میں تھا جب سیل فون پہ آتی مسلسل کال نے اُس کے حواس بیدار کیے اور نیند میں خلل ڈالا یمان نے ہاتھ بڑھا کر اپنا سیل فون ٹٹولہ ہاتھ میں آتے ہی اُس نے کال ریسیو کیے کان سے لگایا۔

ہیلو۔یمان مستقیم نے نیند سے بھری آواز میں کہا

تم نے سنگنگ کے ساتھ ماڈلنگ کب سے سٹارٹ کردی۔دوسری طرف آتی آواز سن کر یمان نے یکدم اپنی بند آنکھوں کو کُھلا اور سیدھا ہوکر بیٹھا

ڈیڈ آپ؟یمان آنکھیں زور سے بھینچ کر بولا

جی میں دلاور خان دیکھا میں نے تمہارا نیو سونگ خیر تو ہے پہلے میں نے سُنا تھا تمہارا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چل رہا ہے زیادہ پاے جاتے ہو ایک لڑکی کے ساتھ پر میں نے دھیان نہیں دیا کیونکہ ہم جس فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہاں ایسے اسکینڈل عام سی بات ہے پر جب پہلی بار تمہیں ماڈلنگ کرتے دیکھا وہ بھی ایک لڑکی کے ساتھ تو میں حیران رہ گیا۔دوسری طرف دلاور خان کی بات پہ یمان مستقیم کی ماتھے پہ بل پڑے

میرا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر نہیں اگر میں کہی گیا تھا تو وہ بس میرے پراجیکٹ کا حصہ تھا۔یمان سنجیدگی سے بولا

جانتا ہوں پر میڈیا میں اب تم ٹرینڈ پہ ہو فین فالورز بڑھ رہی ہے مزید اور تمہیں اپنے اپنے مشورے سے نواز رہے ہیں کے سونیا سہیل سے شادی کرلوں بیسٹ کپل رہے گا تم دونوں کا تمہاری اور سونیا سہیل کی تصویروں کو ایڈیٹ کرکے بیسٹ کپل کیوٹ کپل رومانٹک کپل لور کجھ ایسے کیپشنز کا استعمال کیا جارہا ہے پھر کیا خیال ہے کیا کہتے ہو تم۔آخر میں دلاور خان معنی خیز لہجے میں بولے

آپ نے کوئی اور بات کرنی ہے۔دوسری طرف سے یمان مستقیم کا سپاٹ لہجہ سن کر دلاور خان بدمزہ سے ہوگئے

کتنے بورنگ ہو یار کسی بوڑھے کا گمان ہوتا ہے کبھی کبھی مجھے۔دلاور خان خفگی بھرے لہجے میں بولے

اگر آپ کو پتا ہے ہم جس فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہاں یہ اسکینڈلز عام ہیں تو اُس ٹاپک پہ بحث کیوں کرنا کیا فین فالونگ بڑھانے کی وجہ سے اُن کے مشوروں پہ عمل کرکے جتنے بھی اسکینڈلز بنے میں اُن ایکٹرس اور ماڈل سے شادی کروں کیونکہ چند پل کے لیے بنا ہمارا کپل فینز کو پسند آرہا ہے۔ یمان مستقیم کی بات سے وہ لاجواب ہوئے

بات تو پتے کی کرتے ہو خیر چھوڑو مجھے سونیا سہیل جیسی بہو نہیں چاہیے تمہاری ماں تمہیں یاد کرتی ہیں گھر چکر لگاؤ۔دلاور خان پنترا بدل کر بولے

جی آج رات کا کھانا ہم ساتھ میں کھائیں گے۔یمان نے کہا تو وہ خوش ہوگئے

ٹھیک ہے پھر میں بتاتا ہوں تمہاری ماں کو تاکہ کھانے کا اچھا سے انتظام کروائے۔دلاور خان نے کہا جس پہ یمان نے گہری سانس لی کال بند ہونے کے بعد وہ بیڈ سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں موجود گیلری کی طرف بڑھا


میں نے اگر دوبارہ تمہیں کسی لڑکی سے بات کرتا دیکھا تو گلا دبادوں گی۔


کانوں میں کسی کی خوبصورت آواز گونجی تو سپاٹ تاثرات سجائے چہرے پہ مسکراہٹ آئی جس سے اُس کے گہرے گڑے نمایاں ہوئے تھے پھر اچانک مسکراتے لب سیکڑ سے گئے

میں تو اب ہزاروں لڑکیوں سے بات کرتا ہوں پر آپ نہیں آتی۔یمان تصور میں کسی سے بے بسی مخاطب ہوا تو ایک باغی آنسو اُس کی آنکھ سے نکل ڈارھی میں جذب ہوا۔

💕💕

ماضی!

وہ سب اِس وقت مل کر کھانا کھارہے تھے جب مستقیم صاحب نے روغبت سے کھانا کھاتے یمان کو مخاطب کیا

یمان۔

جی ابا۔یمان کھانا چھوڑ کر اُن کی طرف متوجہ ہوا۔

کل تم میرے ساتھ دُکان پہ چلنا۔مستقیم صاحب کی بات پہ عیشا نے ایک چور نظر فجر پہ ڈالی جو پریشانی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔

میں کیوں ابا۔یمان کے گلے میں گلٹی اُبھر کر معدوم ہوئی

کیا مطلب کیوں میں دُکان پہ کیوں جاتا ہوں۔مستقیم صاحب نے اُس کو گھورا

ابا یمان تو کالج جائے گا نہ۔فجر نے ہمت کرکے کہا

کالج کس کالج جس کالج پڑھنے کی فرمائش تمہارے بھائی نے کی ہے وہ ہماری اوقات سے باہر ہے اچھا تھا کسی سرکاری ادارے میں پڑھ لیتا تو اِس کا سال برباد نہ ہوتا اب جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا میرے ساتھ دکان دیکھے اب۔مستقیم صاحب اٹل لہجے میں گویا ہوئے

پر ابا دکان تو میں نے بچپن سے دیکھی ہوئی ہے۔یمان کی بات پہ پانی پیتی عیشا کو زبردست قسم کا غوطہ لگا تھا فجر نے جلدی سے اُس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

دوسری طرح سے دیکھنا اب کل آؤ گے تو سمجھ آجائے گا۔مستقیم صاحب پانی پی کر دسترخواہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے یمان رونی صورت بنا کر اپنی ماں کو دیکھنے لگا

اللہ سے بہتر کی اُمید رکھو میں بات کرتی ہوں تمہارے ابا سے وہ نہیں روکے گے تمہیں آگے پڑھنے سے۔فائزہ بیگم نے تسلی آمیز لہجے میں کہا تو یمان نے سر ہلایا۔

آپی مجھے کرانے کا دُکان نہیں دیکھنا۔یمان فجر اور عیشا کے مشترکہ کمرے میں آتا فجر سے بولا جو ٹیوشن کے بچوں کی کاپیاں چیک کررہی تھی جن کو ہٹا کر یمان نے اپنا سر فجر کی گود میں رکھا

جی جی آپ تو راج کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔نیچے بیٹھ کر سلائی کرتی عیشا نے میٹھا سا طنزیہ کیا اُن دونوں کی عمر میں تین سال کا فرق تھا پر لڑتے ایسے تھے جیسے ایک عمر کے ہو جب کی فجر دونوں سے بڑی تھی فجر تین سال کی تھی جب عیشا پیدا ہوئی تھی اُس کے تین سال بعد پھر یمان کی پیدائش ہوئی تھی فجر نے گھر کے حالات دیکھ کر گریجویشن کے بعد پڑھائی چھوڑ کر مُحلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا تھا اُس کو دیکھ کر عیشا نے بھی گریجویشن کے بعد پڑھائی کو خیرآباد کردیا تھا پھر ٹیوشن کے ساتھ ساتھ سلائی وغیرہ کا کام بھی کرتی پر یمان کی خواہش آگے پڑھنے کی تھی ساتھ میں اُس کو سنگنگ کرنے کا بھی شوق تھا جو مستقیم صاحب کو پسند نہیں تھا وہ اِس بات کے سخت خلاف تھے اُن کا کہنا تھا گانا اور ڈھول بجانا مراثیوں کے کام ہوتے ہیں عزت گھرانے کے لوگ ایسے کام نہیں کرتے پر یمان بضد تھا اپنے میٹرک کے ایکزامز کے بعد اُس نے کراچی کے اچھے کالج میں ایڈمیشن لینے کی خواہش کی جس کی داخلہ زیادہ تھی پر فجر نے اُس کو یقین دلایا تھا وہ اُس کالج میں ضرور پڑھے گا پر اُس کا ایک سال ضائع ہوگیا تھا اِس لیے مستقیم صاحب اُس کو اپنے ساتھ دُکان پہ لگانا چاہتے تھے۔

آپی آپ پلیز ابا کو راضی کریں سچی میں جب امیر ہوجاؤں گا نہ تو آپ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہناؤں گا۔عیشا کی بات اٙن سنی کرتا یمان نے جیسے فجر کو لالچ دی 

اور مجھے کیا دوگے لیکر۔عیشا کے کان کھڑے ہوئے تھے

آپ کو سونے کا سیٹ۔یمان نے بنا تاخیر کیے کہا جب کی فجر مسکراکر اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔

مطلب تم ایویں ہمیں سبزے باغ دیکھا رہے ہو۔عیشا منہ بناکر بولی

میری یہ بات لکھ لیں میں یمان مستقیم مستقبل کا مشہور سنگر آپ سے یہ بات کررہا ہے جو وہ پوری بھی کرے گا۔یمان کالر جہاڑ کر بولا

اچھا اگر پھر تمہاری بیوی ہمیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دے تو پھر تمہیں تو بہنوں سے زیادہ وہ عزیز ہوجائے گی۔عیشا نے شریر نظروں سے اُس کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر کہا

اول تو میری عمر شادی کی ہے نہیں دوسری بات بہنوں کی الگ جگہ ہوتی ہے بھائی کے دل میں جب کی بیوی کی الگ ہوتی ہے۔یمان نے آرام سے کہا

اچھا جی دیکھتے ہیں پھر۔عیشا کہہ کر سلائی کی مشین کی جانب متوجہ ہوئی

آپی۔یمان فجر کو دیکھا

اِس ماہ بعد کالج کے ایڈمیشن بند ہوجائے گی تم فکر نہیں کرو ان شاءاللہ اِس ہفتے تمہارا ایڈمیشن ہوجائے گا۔فجر پُریقین لہجے بولی جس کو سن کر یمان کا چہرہ کِھل اُٹھا پر عیشا کا ماتھا ٹھٹکا اُس نے شاکی نظروں سے اپنی بہن کو دیکھا جس کا پورا دھیان یمان کی طرف تھا۔

سچ آپی۔یمان پرجوش لہجے میں بولا

مچ اب تم جاکر سوجاؤ رات بہت ہوگئ تھی۔فجر نے کہا تو وہ منہ بناکر اُٹھ کھڑا ہوا یمان کے جانے کے بعد فجر کاپیاں سمیٹ کر دوسری جگہ رکھنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی

ایک ہفتے تمہارے ہاتھ کونسا قارون کا خزانہ ہاتھ آجائے گا جو یمان کو دلاسہ دیا ہے۔عیشا نے سنجیدگی سے پوچھا

تم کیا چاہتی ہوں عیشا جیسے ہم نے زندگی گُزاری ہے ہمارا بھائی بھی ویسی زندگی گُزارے مانا کے ابا نے ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھا پر ہم لڑکیاں تھی ہم نے آگے پڑھنے کی خواہش کو اپنے اندر دبادیا کجھ ایسی چیزیں ہیں جن کے لیے ہم ترس گئے ہیں اپنے گھر کے حالات دیکھ کر تو کیا یمان بھی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترسے یمان لڑکا ہے عیشا اُس کو آگے بڑھنے کے لیے اچھی تعلیم کی ضرورت ہے آجکل جاب بھی اُس کو ملتی ہے جس کے پاس اچھی مہنگی یونیورسٹی کی ڈگری ہو کیا ابا کی طرح ہمارا بھائی بس کرانے کا دکان سنبھال جہاں پانچ پانچ دس دس روپے کا بھی حساب لکھنا ہوتا ہے اُس سے کیا ہوگا یمان کی اولاد بھی ہماری طرح بنے گی یا تو گریجویشن کرے گی یا جس طرح مہنگائی کا دور چل رہا ہے پانچویں جماعت بھی بامشکل پڑھ پائے یہ جدید دور صرف امیر لوگوں کے لیے غریب لوگوں کے لیے نہیں وہ تو اپنی خواہشات کا گلا دباکر زندگی گُزارتے ہیں ہمارا ایک معصوم بھائی ہے میں چاہتی ہو اُس کو وہ ہر چیز ملے جس کی وہ خواہش کرے یمان اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کرے گا میں اُس کو سپورٹ کروں گی ان شاءاللہ اگر یمان سنگر بننا چاہتا ہے تو وہ بھی بنے گا سنگر ہونے کے لیے کیا ہونا ضروری ہے اچھی آواز نہ تو ہم بھی جانتے ہیں یمان کی آواز ابھی سے بہت خوبصورت ہے تو وہ بن جائے گا پر اُس سے پہلے یمان اپنی پڑھائی مکمل کرے تاکہ اُس کی نسل سے کوئی فجر عیشا یا دوسرا یمان پیدا نہ ہو ہم آگے پڑھ بھی لیتے تو جاب کرنے کی اجازت نہیں ملتی پر یمان تو لڑکا ہے وہ تو کرسکتا ہے نہ تو بس میں اپنے ارمان یمان سے پورے کروں گی۔فجر سنجیدگی سے بولتی چلی گئ عیشا کو اُس کی بات سے اتفاق تھا پر اُس کو یہ سب اتنا آسان نہیں لگتا تھا

تم کروں گی کیا جو کجھ تم نے کہا اُس کے لیے پئسو کا ہونا بھی ضروری ہے آجکل صرف پئسا بولتا ہے۔عیشا نے اُلجھن زدہ لہجے میں پوچھا

تمہیں ارسم یاد ہے؟فجر کی بات پہ عیشا کو ایک پل کے لیے کجھ یاد نہ آیا پر جیسے ہی یاد آیا اُس نے بُری طرح سے فجر کو دیکھا جس کے چہرے پہ اطمینان قابلِ دید تھا

ارسم کا کیا ذکر ہم بہنوں میں۔عیشا نے ناگواری سے کہا

تمہیں پتا تو ہے اُس نے اپنا پرپوزل میرے سامنے رکھا تھا اور کہا تھا اگر میں اُس سے شادی کروں گی تو وہ یمان کی زمیداری اُٹھائے گا آگے چل کر سنگنگ کرنے وقت بھی یمان کو فنانشلی سپورٹ بھی کرے گا۔فجر نے بتایا

فجر بے وقوفو والی بات مت کرو پہلی بات تو یہ ارسم کا پرپوزل ایک سال پہلے آیا تھا دوسری بات ارسم دس سال تم سے بڑا ہے اور دو دفع اُس نے شادی کر رکھی ہوئی ہیں جو ناکام ٹھیری ہیں پھر کیوں تم اپنے پیروں پہ کلہاڑی مار رہی ہو۔عیشا نے اُس کو عقل دلانی چاہی۔

میں نے تب انکار کیا کیونکہ مجھے لگتا تھا میں یمان کی خواہشات خود پوری کرسکتی ہوں پر عیشا میں ناکام ہورہی ہو اِس لیے اب میں نے سوچ لیا ہے ورنہ یمان کا یہ سال بھی ضائع ہوجائے گا۔فجر اپنی بات پہ قائم رہی۔

فجر

عیشا نے کجھ کہنا چاہا پر فجر نے اِشارے سے روک لیا

عیشا اب بس ارسم کا ساتھ میرے لیے ضروری ہے اگر میری اُس سے شادی ہوجائے گی وہ یمان کی زمیداری اُٹھائے گا تو اُس سے بڑی بات میرے لیے کیا ہوگی میری خوشی یمان کی مسکراہٹ میں ہے اور یمان کی خوشی کالج میں ایڈمیشن لینا اور ایک سنگر بننے میں ہے۔فجر کی بات پہ عیشا نے ٹھنڈی سانس خارج کی

ابا مان جائے گے۔عیشا نے دوسرا تجزیہ پیش کیا

گریجویشن جب میں نے کردیا تھا تب ابا میری شادی کروانا چاہتے تھے خیر سے اب میں تئیس سال کی ہوں تو وہ ارسم جیسے لڑکے کا پرپوزل قبول ضرور کرے گے۔فجر کہہ کر بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹنے لگی

ایک دفع پھر سوچو یمان سے بات کرو ہم کسی اور کالج میں ایڈمیشن کروالیں گے وہ سمجھ جائے گا یمان کبھی نہیں چاہے گا تم اُس کے لیے قربانی دو۔عیشا نے ایک اور کوشش کی۔

اولاد میں جو پہلا بچہ ہوتا ہے اُس کو قربانی دینی ہوتی ہیں بیٹا ہو یا بیٹی میں اما ابا کی پہلی اولاد ہوں مجھے تم لوگوں کا بھی سوچنا ہے میری ارسم سے شادی ہوجائے گی تو بہت سے مسائل حل ہوجائے گے تو اِس میں کوئی سوچنے والی بات نہیں۔فجر نے جوابً کہا

یمان کے ایک کالج ایڈمیشن کے لیے تم اپنی خوشیاں داؤ پہ لگا رہی ہو۔عیشا ابھی بھی بے یقین تھی۔

تمہارے لیے بس ایڈمیشن کی بات ہے پر میں یمان کا مستقبل سیکیور کرنا چاہتی ہوں شادی تو میری ہونی ہے پھر ارسم سے کیوں نہ ہو جو سپورٹ بھی کرے گا۔فجر نے کہا

کیا گارنٹی ہے وہ اپنی بات پہ قائم رہے گا۔

قائم رہے گا تم پریشان مت ہو اور لائیٹ آف کرکے سوجاؤ۔فجر مزید بحث سے بچنے کے لیے کروٹ بدل گئ عیشا بس اُس کی پشت کو دیکھتی رہی۔

💕💕💕💕💕💕

دو دن بعد!

فجر نے فائزہ بیگم سے بات کردی تھی جس سے وہ سوچ بیچار کے بعد راضی ہوگئ تھی اور مستقیم صاحب کو بھی راضی کرلیا تھا جس سے دوسرے دن ارسم اپنی سوتیلی ماں کے ہمراہ رشتہ لینے آگیا تھا ارسم کی فیملی میں بس اُس کی سوتیلی ماں اور اُس کے بچے تھے باپ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔

فجر صحن میں مشین میں کپڑے ڈال رہی تھی جب دروازے پہ دستک ہوئی وہ ڈوپٹہ سر پہ لیتی دروازے کے پاس آئی اُس نے دروازہ کھولا تو گرے کلر کی شرٹ کے سے ساتھ جینز پینٹ پہنےارسم کھڑا تھا اُس کے پیچھے دو لڑکے اور بھی کھڑے تھے۔

اسلام علیکم۔فجر اپنا ڈوپٹہ سہی کرتی سلام کرنے لگی۔

وعلیکم اسلام یہ لو۔ارسم نے سلام کے بعد ایک انویلپ اُس کی طرف بڑھایا

کیا ہے یہ؟فجر نے ایک نظر انویلپ پہ ڈال کر پوچھا۔

کالج فارم ہے نیکسٹ منتھ یمان کے کلاسس سٹارٹ ہے۔ارسم نے بتایا تو فجر کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔

شکریہ۔فجر نے انویلپ دے تھام کر کہا

شکریہ کی کوئی بات نہیں یہ کجھ بیگز ہیں جس میں یونیفارم وغیرہ کا سامان اور یمان کی ضرورت کی چیزیں ہیں اور اِس شاپرز میں تین سیل فونز ہیں ایک تمہارا میں بات کیا کروں گا تم سے دوسرا یمان کے لیے اُس کو ضرورت پڑے گی پڑھائی کے لیے تیسرا عیشا کے لیے اگر تم دونوں کو دیتا تو سالی صاحب ناراض ہوجاتی۔ارسم نے مسکراکر بتایا 

اِن سب کی ضرورت نہیں تھی یمان کا ایڈمیشن ہوجائے یہی بہت تھا۔فجر نے سنجیدگی سے کہا

اب جب زمیداری لی ہے تو اُس کو پوری طریقے سے کروں گا میں کام کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری جارہا ہوں واپس آکر شادی کے معاملات طے ہوگے تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟بات کرتے کرتے ارسم نے اُس سے پوچھا جس پہ فجر نے بس نفی میں سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

ٹھیک ہے میں چلتا ہوں یہی دینے آیا تھا تاکہ تمہیں یہ شک نہ ہو مکر نہ جاؤں۔ارسم نے کہا

میں آپ کو چائے کا ضرور کہتی پر عیشا اور اماں پڑوس میں گئ ہے یمان بھی باہر ہے۔فجر نے کجھ شرمندگی سے کہا کیونکہ اُس کو اب احساس ہوا تھا ارسم بہت دیر سے دروازے کے پار کھڑا ہے۔

نو مینشن اگلی بار چائے پی لیں گے۔ارسم نے مسکراکر کہا فجر کے اندر ساری خلش نکل گئ تھی اُس کو اپنے فیصلے پہ کوئی افسوس نہیں تھا۔

💕💕💕💕💕

حال!

دُرید شاہ شازل شاہ کو لیکر حویلی جب پہنچا تو رات کا وقت تھا اُس نے فون پہ اطلاع دے ڈالی تھی سب کو شازل کو ساتھ لانے کی اِس لیے وہ شازل کو اُس کے کمرے میں چھوڑتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا پر ایک خیال کے تحت اُس نے حریم سے ملنے کا سوچا تھا پر جب گھڑی میں وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے ابھی ملنے کا ارادہ ملتوی کرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا یہ سوچ کرکے اُس کی چیزیں صبح کے وقت دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیا دن شروع ہوا تو سب مرد ڈائیننگ ہال میں موجود تھے شاہ حویلی میں پہلے مرد ایک ساتھ کھانا کھاتے اُس کے بعد عورتیں اب بھی سب ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے دُرید اور شازل ایک ساتھ وہاں آکر سلام کرنے لگے۔

اسلام علیکم!دُرید اور شازل نے ایک آواز میں کہا

وعلیکم اسلام اِس بار بہت دیر چکر لگایا ہے شازل تم نے۔ارباز شاہ سلام کے بعد بولے

جی بس ایسے ہی۔شازل نے گول مٹول جواب دیا

سربراہی کرسی پہ بیٹھے شھباز شاہ کی نظریں اپنے سائیڈ پہ موجود خالی کرسی پہ تھی

بابا سائیں آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟شازل نے شھباز شاہ کو خاموش دیکھا تو کہا

الحمداللہ میں ٹھیک ہوں۔شھباز شاہ نے جواب دیا تو شازل نے سب پہ ایک نظر ڈالی جہاں اُس کی ماں اور تائیاں اپنا چہرہ ڈہانپ کر ناشتہ سرو کررہی تھی۔

آرو کہاں ہیں؟شازل کے سوال پہ سب چونک کر اُس کو دیکھنے لگے۔

ایسا کیوں دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے ساتھ ناشتہ کرتی ہے نہ تو پھر۔شازل شاہ نے سب کی نظریں خود پہ محسوس کی تو کہا

بھول گئے ہو شاید اب آروش بڑی ہوگئ ہے اِس لیے وہ ہمارے ساتھ ناشتہ نہیں کرتی۔دلدار شاہ نے بامشکل اپنے لہجہ نارمل کیے بتایا

مجھے یاد ہے پر وہ بابا سائیں کو کھانا سرو کرتی ہے اِس لیے پوچھا۔شازل نے سنجیدگی سے کہا

اب نہیں کرتی تم اپنا ناشتہ کرو۔اب کی دیدار شاہ نے چڑ کر کہا تو شازل نے اپنے باپ پہ نظر ڈالی جنہوں نے اپنا ناشتہ شروع کردیا تھا۔

شازل جلدی سے اپنا ناشتہ ختم کرتا وہاں سے اُٹھتا آروش کے کمرے کی طرف بڑھا

لالہ آپ کب آئے۔آروش نے شازل کو اپنے کمرے میں دیکھا تو ڈوپٹہ ٹھیک کرتی اُس سے مل کر بولی

رات کو آگیا تھا تم کیوں ابھی تک کمرے میں ہو باہر چلو میں تو یہاں سالوں بعد آتا ہوں تو زرہ خیال کرو اپنے لالہ کا۔شازل اُس کے سر پہ چپت لگاکر بولا تو وہ مسکرائی پر آنکھوں نے اُس کی مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دیا

میں آتی ہوں۔آروش نے بس یہ کہا

ساتھ چلو اپنے لالہ کے۔شازل اُس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف بڑھا تو آروش اُس کے ساتھ ہمقدم ہوئی۔

اماں سائیں حریم کہاں ہیں؟دُرید نے کافی دیر تک حریم کو نہیں دیکھا تو کلثوم بیگم سے پوچھا

کل رات سے بخار ہے اُسے آرام کررہی ہے۔کلثوم بیگم کی بات پہ وہ بے چین ہوا 

آپ نے دوائی دی اُس کو۔دُرید نے پوچھا

بلکل بیٹا رات میں اُسی کے کمرے میں تھی۔کلثوم بیگم نے کہا تو اُس نے سرہلایا

میں دیکھ آتا ہوں ایک مرتبہ۔دُرید کھڑا ہوا

دُرید حریم اب چھوٹی بچی نہیں تمہارا اُس کے کمرے میں جانا مناسب نہیں تھوڑی دیر تک بخار اُتر جائے گا تو آجائے گی نیچے۔کلثوم بیگم کی بات پہ دُرید شاہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے

اماں سائیں آپ جانتی ہیں میں نے حریم کو کسی بچے کی طرح پالا ہے پھر آپ 

دُرید اتنا کہتا خاموش ہوگیا اُس کو اپنی ماں کی بات سن کر افسوس ہوا تھا

جانتی ہوں حریم تمہارے کلوز رہی ہے تم نے بڑا بن کر اُس کو سنبھالہ پر ہے تو وہ تمہاری پھوپھو زاد حویلی میں کسی کو پتا چلا تو اعتراض کرے گے۔کلثوم بیگم نے رسانیت سے کہا تو دُرید اب کی کجھ نہیں بولا

شازل اور آروش نیچے آے تو خاموشی کا راج تھا۔

یہ سب کو ہو کیا گیا ہے اتنی خاموشی کیوں ہے حویلی میں۔شازل تعجب سے آروش سے بولا جس نے کندھے اُچکا دیئے۔

بی بی سائیں 

بی بی سائیں

غضب ہوگیا ذین سالک نے دلدار شاہ کا قتل کردیا۔

وہ آپس میں بات کررہے تھے جب اُن کی خاص ملازمہ بین کرتی حویلی میں داخل ہوئی کلثوم بیگم کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سینے پہ پڑا تھا

واٹ ربش ابھی لالا یہاں تھے ہمارے ساتھ۔شازل پہلے تو اُس کی بات پہ سکتے میں آگیا پھر سنبھل کر سخت ترین لہجے میں گویا ہوا

دُرید خاموش یہ کیوں کررہے ہو دیکھ آؤ خبر جھوٹی ہو شاید۔کلثوم بیگم ساکت سی  دُرید سے بولی جو ملازمہ کی بات سنتے ہی اپنی پستول میں گولیاں بھر رہا تھا آنکھیں آگ اُگلنے کو تیار تھی۔

وہ تو ہم دیکھ آتے ہیں ورنہ اُس حویلی کا ہر فرد میرے ہاتھوں قتل ہوگا آپ بس تائی جان اور بھابھی ماں کو سنبھالیں۔دُرید سپاٹ لہجے میں کہتا شازل کو اِشارہ سے اپنے ساتھ آنے کا کہا جس پہ وہ سر کو جنبش دیتا اُس کے پیچھے چلنے لگا

آروش دعا کرو دلدال شاہ ٹھیک ہو۔کلثوم بیگم بنا آروش کے تاثرات نوٹ کرتی پریشان لہجے میں اُس سے بولی

اماں سائیں پریشان نہ ہو موت تو برحق ہے یہ تو آنی ہے۔آروش کی سرسراتی آواز پہ کلثوم بیگم نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھا جس کے تاثرات نارمل تھے کلثوم بیگم کو افسوس نے آ گھیرا آروش اپنی بات کہہ کر سیڑھیون کی جانب بڑھنے لگی تو کلثوم بیگم نے اُس سے کہا

چھ سال ہوگئے ہیں آروش اپنا دل صاف کیوں نہیں کرلیتی بھول کیوں نہیں جاتی سب کجھ خدانخواستہ اگر بات سچ ہوئی تو۔

میں آروش شاہ ہوں اماں سائیں دل میں بغض رکھ کر چہرے پہ جھوٹی مسکراہٹ جھوٹی ہمدردی نہیں سجا سکتی جو دل میں ہوگا اُس کا اظہار بھی میں ڈنکے کی چوٹ پہ کروں گی۔آروش مضبوط لہجے میں کہہ کر رُکی نہیں تھی 

💕💕💕💕💕💕

کیسا ہے میرا بیٹا۔یمان مستقیم دلاور خان کے گھر آیا تو مسز دلاور خان جن کا نام زوبیہ تھا وہ گرم جوشی سے یمان سے مل کر بولی

میں ٹھیک آپ کیسی ہیں۔یمان اُن کا ماتھا عقیدت سے چومتا بولا

میں ٹھیک اور تم آے ہو تو اور بھی زیادہ ٹھیک۔زوبیہ بیگم مسرت بھرے لہجے میں گویا ہوئی

میں تو ابھی فری ہوں تو یہی رہوں گا۔یمان اُن کو اپنے ساتھ لگائے لاوٴنج کی طرف لایا

سچی میرا تو دل خوش ہوگیا جان کر۔زوبیہ بیگم مسکراکر بولی 

کیسے ہو برخودار۔دلاور خان بھی لاوٴنج میں آتے یمان سے بولے جن کو دیکھ کر یمان احتراماً کھڑا ہوگیا تھا۔

الحمداللہ آپ بتائے۔یمان نے پوچھا تو انہوں نے اپنی طرف انگلی کرکے فٹ اور فائیٹ ہونے کا اشارہ دیا۔

میں نے تمہارا نیوں سانگ سُنا کیا ضرورت تھی اتنا تیار ہونے کی خوامخواہ نظر لگ جائے گی پہلے ہی اتنے ماشااللہ سے پیارے ہو۔زوبیہ بیگم خفگی بھرے لہجے میں گویا ہوئی تو یمان نے دلاور خان کو دیکھا

تیار کہاں ہوا تھا نارمل تھا میں تو۔یمان نے جوابً کہا

میں بھی یہی کہہ رہا تھا بس کیمرہ کا کمال ہے پر میری سنتی کہاں ہیں بیگم۔دلاور خان مزاحیہ لہجے میں بولے تو زوبیہ بیگم نے اُن کو گھورا

آپ تو پھر کیمرے میں اتنے پیارے نہیں لگے۔زوبیہ بیگم کی بات پہ وہ گڑبڑا سے گئے

آپ کو قدر نہیں ورنہ ایک زمانے میں لڑکیوں کی لائنیں لگی ہوئی تھی لائنیں۔دلاور خان  شوخ ہوئے یمان ہونٹوں پہ ٹھوڑی ٹکائے خاموش نظروں سے اُن کی نوک جھونک دیکھ رہا تھا 

اچھا

میں فریش ہوکر آتا ہوں۔یمان اُٹھ کر اُن دونوں سے بولا جس سے زوبیہ بیگم کی بات بیچ میں رہ گئ دلاور خان نے اُس کو جاتا دیکھا تو ٹھنڈی سانس خارج کی زوبیہ بیگم نے بھی افسردہ نظروں سے اُس کی پشت کو دیکھا

یمان میں تبدیلی نہیں آئی ہم نے کوشش کی پر اُس کے چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ کا شبہ بھی نہیں تھا۔زوبیہ بیگم مایوسی سے گویا ہوئی

ٹھیک ہوجائے گا پریشان کیوں ہوتی ہیں۔دلاور خان نے اُن سے زیادہ خود کو تسلی دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بھی دے دُنیا ہمیں

الزام نہ لگا۔۔۔۔۔۔

ایک بار تو کرتے ہیں سب

کوئی۔۔۔۔۔حسین خطا۔۔۔

ورنہ کوئی کیسے بھلا

چاہے کسی کو بے پناہ

اے زندگی۔۔۔۔۔۔۔

 توں ہی بتا کیوں عشق ہے

گمان۔۔۔۔۔۔۔

جینے بھی دے دُنیا ہمیں

الزام نہ لگا۔۔۔۔۔۔

ایک بار تو کرتے ہیں سب

کوئی۔۔۔۔۔حسین خطا۔۔۔

ورنہ کوئی کیسے بھلا

چاہے کسی کو بے پناہ

اے زندگی۔۔۔۔۔۔۔

 توں ہی بتا کیوں عشق ہے

گمان۔۔۔۔۔۔۔

یمان آنکھیں بند کیے اپنا گٹار ہاتھ میں پکڑے گانا گانے میں مصروف تھا دلاور خان نے اُس کے کمرے سے آواز سُنی تو آہستہ سے کمرے میں داخل ہوکر یمان کو دیکھنے لگے جس کا چہرہ ہمیشہ بے تاثر ہوا کرتا تھا پر اب چہرے پہ ہلکی خوبصورت مسکراہٹ تھی وہ سمجھ گئے تھے اُس کے چہرے پہ سجی مسکراہٹ کی وجہ

خود سے ہی کرکے گفتگو 

کوئی کیسے جیے

عشق تو لازمی سا ہے 

زندگی کے لیے

خود سے ہی کرکے گفتگو 

کوئی کیسے جیے

عشق تو لازمی سا ہے 

زندگی کے لیے

دل کیا کریں دل کو اگر

اچھا لگے کوئی جھوٹا سہی

دل کو مگر سچا لگے کوئی

جینے بھی دے دُنیا ہمیں

الزام نہ لگا۔۔۔۔۔۔

ایک بار تو کرتے ہیں سب

کوئی۔۔۔۔۔حسین خطا۔۔۔

ورنہ کوئی کیسے بھلا

چاہے کسی کو بے پناہ

اے زندگی۔۔۔۔۔۔۔

 توں ہی بتا کیوں عشق ہے

گمان۔۔۔۔۔۔۔

یمان کو اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی محسوس ہوچکی تھی پر وہ بے نیاز بیٹھتا اپنے کام میں لگا رہا۔

دل کو بھی اُڑنے کے لیے۔۔۔۔

آسماں چاہیے۔۔۔۔۔

کُھلتی ہو جن میں کھڑکیاں۔۔

وہ مقاں چاہیے۔۔۔

دل کو بھی اُڑنے کے لیے۔۔۔۔

آسماں چاہیے۔۔۔۔۔

کُھلتی ہو جن میں کھڑکیاں۔۔

وہ مقاں چاہیے۔۔۔

دروازے سے نکلے ذرہ

باہر کو رہ گُزر

ہر موڑ پہ جو ساتھ ہو

ایسا ہو ۔۔۔۔ہمسفر۔۔

جینے بھی دے دُنیا ہمیں

الزام نہ لگا۔۔۔۔۔۔

ایک بار تو کرتے ہیں سب

کوئی۔۔۔۔۔حسین خطا۔۔۔

ورنہ کوئی کیسے بھلا

چاہے کسی کو بے پناہ

اے زندگی۔۔۔۔۔۔۔

 توں ہی بتا کیوں عشق ہے

گمان۔۔۔۔۔۔۔

گانا ختم ہونے کے بعد بھی یمان آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا تو دلاور خان نے اُٹھ کر اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا جس پہ یمان نے اپنی آنکھیں کھول کر اُن کی جانب دیکھا یمان کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر دلاور خان اپنے ہونٹ بھینچ کر رہ گئے۔

آج کی تاریخ میں مینے اُن کو پہلی بار دیکھا تھا۔یمان اُن کی جانب دیکھتا سنجیدگی سے بولا تو دلاور خان اُس کے سامنے بیٹھ کر اُس کا چہرہ تکنے لگا جس کے چہرے پہ اُس کے ذکر پہ عجیب سا سکون تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی!۔

آج یمان کا کالج میں پہلا دن تھا وہ کالج گیٹ کے پاس کھڑا اپنے بیگ سے کجھ تلاش کررہا تھا جب اُس کی نظر کالج گیٹ پہ رُکتی گاڑی پہ پڑی پہلے تو سرسری نظر ڈالنی چاہی پر گاڑی سے عبائے میں ملبوس لڑکی کو دیکھا تو اپنی نظریں نہیں ہٹائی چہرہ بھی حجاب میں چھپا ہوا تھا ساتھ میں ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوئے تھے ہاتھ میں چند کتابیں پکڑے وہ نظریں جُھکائے اندر کی طرف بڑھ رہی تھی جیسے ہی وہ یمان کے قریب سے گُزرنے لگی تو یمان نے بے اختیار اپنی نظریں نیچے کرلی اُس سب سے بے نیاز وہ جو کوئی بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئ 

تجھے کیا ہوگیا تھا یمان۔اُس کے جانے کے بعد یمان نے اپنے سر پہ چپت لگاکر بڑبڑایا اُس کو اپنی بے اختیاری پہ جی بھر کر شرمندگی محسوس ہورہی تھی اُنہیں سوچوں میں گم ہوتا جیسے ہی اپنی کلاس میں داخل ہوا نظریں سامنے بیٹھے اسٹوڈنٹس کے بجائے لاسٹ سیٹ پہ بیٹھی لڑکی پہ پڑی جو ابھی ویسے ہی بیٹھی تھی اُس کو دیکھ کر اب کی یمان نے جھٹ سے چہرہ دوسری طرف کرکے آنکھوں کو میچا

یااللہ یہ تو یہاں بھی ہیں۔یمان اُپر کی طرف دیکھ کر بولا پھر گہری سانس بھرتا پوری کلاس میں نظریں ڈوراتا پہلی سیٹ کو چھوڑ کر اُس کو بھی جانے کیا سوجھی جو لاسٹ پہ بیٹھ گیا اور ایک چور نظر دوسری طرف ڈالی جہاں وہ سب سے لاتعلق رجسٹر پہ جانے کیا لکھ رہی تھی۔

کیا اِن کو گرمی نہیں ہورہی۔اُس کو دیکھ کر یمان کے دماغ میں پہلا یہی خیال آیا۔

شاید نہیں ہورہی تبھی تو عبائے کے ساتھ ساتھ دستانے پھر حجاب افف اللہ کیا لڑکی ہے ۔یمان اپنی بات پہ جھرجھری لیتا سامنے بورڈ پہ نظریں جمادی کجھ منٹس بعد ٹیچر داخل ہوئی تو سب نے اُن کو سلام کیا۔

 وعلیکم اسلام جیسے کے آج سب کا پہلا دن ہے تو سب باری باری اپنا انٹرڈیوس کروائے میں بھی کرواتی ہوں میرا نام فضا ہے اور آپ سب کی کلاس ٹیچر ہوں۔اُن کی ٹیچر فضا نے مسکراکر کہا تو سب باری باری اپنا تعارف کروانے لگے

میرا نام فروا ہے اور میں پنڈی میں رہتی ہوں

میرا نام دلنشین ہے اور میں کراچی کی ہی ہوں

میرا نام کاشف

سب نے باری باری اپنا تعارف کروایا تو اُن کی ٹیچر نے یمان کی طرف دیکھا جو جانے کن سوچو میں گم ہوگیا تھا ٹیچر کی آواز پہ ہوش میں آتا اُٹھ کھڑا ہوا

میرا نام یمان مستقیم ہے۔یمان پوری کلاس میں نظر ڈوراتا بس یہ بول کر واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا۔

نائیس۔ٹیچر اتنا کہتی اُس سے پہلے عبائے والی لڑکی کو مخاطب کرتی وہ خود اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی

میرا نام سیدہ آروش شاہ ہے میں گاؤں میں رہتی ہوں جب کی یہاں پڑھائی کے سلسلے میں آئی ہوں اور میں اپنے خاندان اور گاؤں کی پہلی سیدزادی ہوں جو کالج میں پڑھنے کے لیے آئی ہے شہر۔اُس کی آواز میں بہت کشش اور لہجے میں فخر تھا جس پہ آروش کی آواز پہ سب کی توجہ اُس کی جانب ہوگئ تھی جو سب کی نظروں کو نظرانداز کیے پُراعتماد کھڑی تھی جب کی اُس کی آواز سن کر یمان کو اپنے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی محسوس ہوئی پر اِس بار اُس نے اُس کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی۔

ماشااللہ گوڈ بلیس یو آپ بیٹھ جائے۔ٹیچر فیضا نے ستائش نظروں سے اُس کو دیکھ کہا تو وہ واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گئ

یمان کلاس میں سارا وقت کھویا ہی رہا تھا ساری کلاسس ختم ہوئی تو سب اسٹوڈنٹس کلاس سے نکلتے چلے گئے یمان نے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالی تو نظر پھر آروش پہ پڑی جو کلاس خالی ہونے کے بعد بھی اکیلی بیٹھی تھی یمان ایک نظر اُس کو دیکھتا کلاس سے باہر چلاگیا.

۔....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان گھر واپس آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا اُس کے آنے کا جان کر فائزہ بیگم نے کھانے کا پوچھا تو اُس نے بھوک نہیں ہے کا کہہ کر ٹال دیا پھر بنا کالج یونیفار چینج کیے سوگیا تھا فجر جب اُس سے ملنے آئی تو سوتا دیکھا تو گہری سانس لی اُس کے پاؤں سے شوز نکال کر کمرے کی لائیٹ آف کرکے وہ دوبارہ باہر چلی گئ۔

کیا ہوا۔عیشا نے فجر کو اکیلا باہر آتا دیکھا تو پوچھا

یمان سوگیا ہے شاید تھک گیا ہو۔فجر نے بتایا

پہلا دن تھا نہ تبھی۔عیشا نے کہا

ہممم کھانا بھی نہیں کھایا کالج میں بھی کجھ کھایا ہوگا یا نہیں۔فجر کے لہجے میں فکرمندی تھی۔

کھایا ہوگا فکر نہیں کرو۔

ہمم میں کچن میں رکھے برتن دھولوں۔فجر جواب دیتی اُٹھ کر چلی گئ۔

شام کے وقت یمان کی آنکھ کُھلی تو اپنے حُلیے پہ نظر ڈالتا فریش ہونے کے لیے چلاگیا فریش ہوکر باہر آیا تو اپنی ماں اور بہنوں کو صحن میں رکھی چارپائی پہ بیٹھا پایا جو چائے سے لطف اندروز ہورہی تھی۔

اسلام علیکم۔یمان نے سلام کیا

وعلیکم اسلام میرے بھائی آج کیا زیادہ پڑھ لیا۔عیشا نے سلام کے بعد شریر لہجے میں استفسار کیا تو یمان بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا

ایسا ہی سمجھ لیں۔یمان فائزہ بیگم کے پاس آکر بیٹھا

کھانا لاؤں۔فجر نے پوچھا

نہیں۔یمان نے یکلفظی جواب دیا۔فجر کو یمان ٹھیک نہیں لگا

سر میں درد ہے کوئی ٹیبلیٹ دیں دے۔یمان کجھ دیر بعد بولا تو فجر سرہلاتی اُٹھ کھڑی ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال!

بھول جاؤ۔دلاور خان کی آواز پہ یمان سوچو کے بھنور سے باہر نکلا

آپ یہاں آے کوئی کام تھا۔یمان نے اُن کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔

تمہاری آواز سنی تو آگیا سوچا لائیو تمہارا سونگ سن لیا جائے۔اُس کو بات بدلتا دیکھا تو دلاور خان نے بھی بات کو طویل نہ دی۔

موم کہاں ہیں۔یمان نے پوچھا

کچن میں ہوگی تمہارے لیے کھانا بنوا رہی ہے اپنی نگرانی میں۔دلاور خان نے مسکراکر بتایا

💕💕💕💕💕💕💕

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

ماہی ہر بات سے لاعلم اپنے کمرے میں گانا سننے میں مگن تھی جب آمنہ ہڑبڑائی سے اُس کے کمرے میں آئی جس سے ماہی نے چونک کر اُس کی حالت کو دیکھا

کیا ہوگیا ہے گھوڑے پہ کیوں سوار ہو؟ماہی نے تعجب سے پوچھا

ماہی۔

آمنہ اتنا کہتی اپنی سانس ہموار کرنے لگی۔

پریشان کررہی ہو اب تم مجھے۔ماہی نے کوفت سے کہا

ماہی ذہن نے قتل کردیا۔آمنہ کی بات سن کر ماہی پھٹی پھٹی نظروں سے آمنہ کو دیکھنے لگی جس کی رنگت اُڑی ہوئی تھی۔

یہ۔۔کیا۔۔بے ہودہ مذاق ہے۔ماہی کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی

تم باہر چلو۔آمنہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لائی جہاں ماتم کا سماں تھا سب عورتیں پریشانی سے یہاں وہاں چکر لگارہی تھی۔

ذین شاہ خاندان سے بیٹے کا قتل کیسے کرسکتا ہے وہ کب سے اتنا جذباتی ہوگیا ہم نے کہا تھا دور رہے اِس معاملے سے۔حشمت صاحب پریشانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے بولے

اللہ سوہینا خیر بس۔ستارہ بیگم آمنہ اور ماہی پہ نظر ڈال کر پریشانی سے بولی اُن کی نظروں کا مطلب جان کر وہ دونوں لرز اُٹھی

اِن دونوں کو گاؤں سے باہر بھیجو۔بختاور بیگم نے کہا

کیوں۔حشمت صاحب نے گھورتے پوچھا

کیونکہ آپ جانتے ہیں خون کے بدلے خون یا خون بہا میں ونی میں ہماری بیٹیاں جائے گی ماہی ذین کی بہن ہے تو آمنہ منگ۔بختاور بیگم کی بات پہ ماہی گِرتے گِرتے بچی اُس کو اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آرہا تھا یہ اچانک کیا ہوگیا تھا وہ جو پہلے شوق سے ونی بیس ناولز پڑھا کرتی تھی پر اب جب ایسے ہی اپنی ماں سے بات سنی تو اُس کا دل کیا کہیں جاکر چُھپ جائے جہاں کوئی اُس کو تلاش نہیں کرپائے۔

ایسا ہرگز نہیں ہوگا اچھا اچھا بولوں۔حشمت صاحب افسردگی سے بولے

لالا ہیں کہاں۔ماہی نے گھٹی گھٹی آواز میں پوچھا تو آمنہ کی نظر داخلی دروازے پہ آتے ذین پہ پڑی جس کی بوسکی کلر کی قمیض خون میں نہائی ہوئی تھی 

یہ کیا کردیا بدبخت۔حشمت صاحب اُس پہ گرجے

میں نے کجھ نہیں کیا بابا جان۔ذین عجیب لہجے میں کہتا اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا ماہی سے مزید سب کجھ دیکھا نہیں گیا تو اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئ۔

💕💕💕💕💕

پورا گاؤں حویلی میں موجود تھا اُن کے دُکھ میں شریک ہونے کے لیے دلدار شاہ کی لاش جیسے ہی حویلی میں داخل ہوئی تو شبانا بے ہوش ہوگئ تھی اُس کی ماں فردوس بیگم نے اپنا سینا پیٹ ڈالا تھا ساری عورتیں اُن کو حوصلہ دینے میں لگی ہوئی تھی دوسری طرف لڑکیاں قرآن پاک پڑھنے میں مصروف تھی جن میں سفید شلوار قمیض کے ساتھ کالے رنگ کی شال پہنے آروش بھی شامل تھی جس کی آنکھ سے ایک آنسو تک نہیں بہا تھا حریم کجھ دوری پہ بیٹھی سیپارہ پڑھ رہی تھی رو رو کر اُس کی آنکھیں سوجھ چُکی تھی نور اور نازلین کا حال بھی کجھ سہی نہیں تھا۔

تائی جان یوں ماتم نہ کریں اللہ کی امانت تھی اللہ نے واپس لیں لی یوں ماتم کرنے سے آپ بس اللہ کو ناراض اور اپنے بیٹے کی روح کو تکلیف دے رہی ہیں۔آروش نے فردوس بیگم کو اپنا سینا پیٹتے دیکھا تو سیپارہ پورا کر اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن کو دیکھ کر بولی

آروش تم شبانا کو جاکر دیکھو۔کلثوم بیگم نے کہا تو وہ سرہلاتی وہاں سے اُٹھ گئ۔

کیوں آئی ہو تم یہاں۔آروش جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی شبانا اُس پہ چیخی

پورا گاؤں یہاں جمع اِس لیے اپنے لہجے پہ قابوں پائے۔آروش سپاٹ لہجے میں بول کر الماری سے اُس کے لیے اجرک نکالنے لگی

تمہارے چہرے پہ کوئی غم کیوں نہیں آروش دودھ شریک ہی سہی بھائی تھا تمہارا ظالموں نے اُس کے سینے پہ گولیاں چلائی منہ میں بھی دماغ پہ بھی جس سے میرا دلدار مجھے چھوڑ کر چلاگیا۔شبانا اتنا کہتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جب کی حرکت کرتے آروش کے ہاتھ تھم سے گئے تھے۔

وہ کمینہ میرے ہاتھ آجائے اپنی پستول کی ساری گولیاں اُس پہ ختم کروں گا پہلے اُس کے دماغ پہ گولی برساؤں گا جس سے اُس نے ہمارے خاندان کی عزت کو سوچا اُس کے بعد منہ میں گولیاں برساؤں گا جس سے بڑا عشق معشوقی کا اظہار کررہا تھا پھر سینے میں جہاں اُس نے ایک سیدزادی کے لیے جذبات رکھے۔

غرور سے بھرا لہجہ یاد آیا تو آروش کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آئی۔

بیشک انسان بھول جاتا ہے پر اللہ نہیں بھولتا۔آروش بڑبڑاتی شبانا کے پاس آئی

باہر چلیں آخری دیدار کرلیں نمازِے جنازہ کا وقت ہونے والا ہے۔آروش اجرک سے اُس کا وجود ڈھانپتی بولی پھر جانے لگی جب شبانا نے اُس کی کلائی کو دبوچا

تم نے بددعا دی تھی نہ۔شبانا کا لہجہ کٹیلا تھا آروش استہزایہ انداز میں مسکرائی

ایک بوڑھی ماں کے دل سے آہ نکلی ہوگی جب اُس کا کم عمر بیٹا اغوہ ہوگیا ہوگا یہ بات جان کر اُن کے دلوں میں بھی قیامت برپا ہوگئ ہوگی اور آپ تو جانتی ہیں ماں کی دعا اور بددعا عرش کو ہلانے تک کی طاقت رکھتی ہے ۔آروش پتھراے لہجے میں گویا ہوئی تو شبانا کی آنکھوں سے بہتے آنسو ایک پل کو رکے تھے۔

💕💕💕💕💕💕

رات کا وقت تھا آمنہ ماہی کے کمرے میں آئی جو سر گھٹنوں پہ رکھے سوچو میں گم تھی۔

دو دن بعد جرگہ بیٹھایا جائے گا دعا کرنا سب ٹھیک ہو۔آمنہ اُس کے پاس بیٹھتی بولی

ابا جان کبھی لالا کی جان داؤ پہ نہیں لگائے گے۔ماہی کھوئے ہوئے لہجے میں بولی

جانتی ہوں زمینے ابا جان اُن کے نام کروانے کے لیے تیار ہیں کیا پتا وہ ونی کا خون بہا کی شرط نہ رکھے۔آمنہ اُمید بھرے لہجے میں بولی

تمہیں لگتا ہے شاہ خاندان کو زمینوں کی پرواہ ہے یا ضرورت اُن کے خاندان کا فرد قتل کیا گیا ہے وہ شانت نہیں بیٹھے گے۔ماہی نے اُس کو حقیقت سے روشناس کروایا

ہم کیا کرسکتے ہیں ہوگا تو وہی جو شھباہ شاہ کا فیصلہ ہوگا۔آمنہ نے گہری سانس لیکر کہا

اُس کی اپنی بیٹی ہے پھر بھی کسی اور کی بیٹی کا اندازہ نہیں اُس کو۔ماہی حقارت سے بولی

ماہی یہ وقت ایسی باتوں کا تو نہیں پر ایک بات بتاؤ تم آروش شاہ سے اتنا چڑتی کیوں ہو ہم تو اُس سے ملی بھی نہیں بس اُس کا ذکر سنا ہے جس میں لوگوں کے لہجے میں۔رشک ہوتا تھا حسد نہیں گاؤں میں سب کہتے ہیں پوری حویلی میں ایک آروش شاہ ہے جو سب سے الگ سب سے مختلف منفرد اور نیک دل کی ہے پھر تم کیوں۔آمنہ نے اپنے اندر پلتا سوال اُس کے سامنے کیا

مجھے اُس سے کوئی سروکار نہیں یار بس حویلی والوں سے چڑ ہے جو غلطی کسی کی بھی ہو سزا ہم لڑکیوں کو ملتی ہے ونی کی صورت میں ویسے تو اصولوں کے بڑے پکے ہیں وہ خاندان کے باہر شادی نہیں کرتے تو کیا اب غیر سید لڑکی کو اپنا بنائے گے؟ماہی کے سوال پہ آمنہ دُکھ سے مسکرائی

ونی میں آنے والی لڑکی کو کب  اُس کا رتبہ ملا ہے کب اُس کو بیوی مانا گیا کب اُس کو انسان سمجھا گیا ہے اگر وہ ایسی کوئی خواہش کرے گے بھی تو باندھی بنائے گے جس کی حیثیت ملازماؤں جتنی بھی نہیں ہوگی۔آمنہ کی سفاک بات پہ ماہی کا دل سہم سا گیا تھا

تم پریشان نہیں ہو ایسی بات ہوئی بھی تو میں قربانی دوں گی۔آمنہ۔نے اُس کے چہرے پہ خوف دیکھا تو تسلی کروائی دروازے کے پار کھڑے ذین کے بخوبی یہ الفاظ سنے تھے پھر مرے مرے قدموں سے واپس لوٹ گیا

💕💕💕💕💕

ماضی!

یمان کالج آیا تو نظریں لاشعوری طور پہ آروش کو تلاش کرنے لگی جو آج اُس کو نظر نہیں آئی وہ جانتا تھا اِس وقت وہ کہاں ہوگی تبھی اپنا بیگ کلاس میں چھوڑتا لائبریری کی جانب آیا جہاں اُس کی سوچ کے مطابق آروش کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی وہ آج براؤن کُھلے عبائے میں تھی نقاب اور حجاب دستانے یہ تینوں چیزیں یمان کو بُری طرح اٹریکٹ کررہی تھی یمان چلتا ہوں عین اُس کے سامنے والی جگہ پہ بیٹھ گیا جس سے وہ آسانی سے اُس کو دیکھ سکتا تھا آروش کی ایک عادت وہ جان گیا تھا وہ جہاں بھی بیٹھتی تھی آس پاس نظریں نہیں ڈوراتی چاہے پھر کلاس ہو یا لائبریری اِن دونوں جگہوں کے علاوہ یمان نے اُس کو کیفے یا گراؤنڈ وغیرہ میں نہیں دیکھا تھا وہ کافی محتاط رہتی تھی پر اُس کا دل شدت سے چاہ رہا تھا وہ اُس کی طرف دیکھے جو ناممکن سا تھا۔

یمان کلاس کا وقت ہوگیا ہے تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ابھی تک۔یمان کا کلاس فیلو عرفان جس سے اُس کی اچھی بات چیت ہوتی رہتی تھی وہ آکر اُس سے بولا عرفان کی بات پہ یمان کی نظریں اُس جگہ پہ پڑی جہاں آروش تھی پر اب وہ نہیں تھی۔

کیا وہ چلی گئ۔یمان نے بے اختیار سوچا

یمان۔عرفان نے اُس کے آگے ہاتھ لہرایا

سوری چلو۔یمان اپنا سر جھٹک کر عرفان کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا جہاں آروش پہلے ہی موجود تھی۔

عجیب جادوگرنی ہے۔یمان اُس کو دیکھتا بڑبڑایا

تمہیں پتا ہے آج ٹیسٹ کی رزلٹ اناؤس ہوگی۔عرفان نے یمان سے کہا

ہمم پتا ہے میں نے تو اپنی طرف سے بیسٹ دیا تھا۔یمان اُس کی بات کے جواب میں بولا

سیدہ آروش شاہ کون ہے؟اُن کی کلاس میں ایک لڑکی داخل ہوتی بولی تو یمان کی نظر ایک سیٹ چھوڑ کر دوسری سیٹ پہ بیٹھی آروش پہ پڑی جو اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

جی میں ہوں۔آروش نے بتایا

آپ سے کوئی ملنے آیا شاید آپ کے فادر ہیں وہ۔لڑکی نے بتایا تو آروش سرہلاتی کلاس سے باہر جانے لگی اُس کے جانے کے بعد یمان کو اپنے اندر خالی پن کا احساس ہوا

ویسے اِن محترمہ کو داد دینی پڑے گی پورا ٹائیم ایک سیکنڈ کے لیے بھی نقاب نہیں اُتارتی حیرت کی بات تو یہ ہے اِن کا حجاب اور نقاب خراب بھی نہیں ہوتا عجیب مغرور قسم کی لڑکی ہے کسی سے بات بھی نہیں کرتی چلو ہم لڑکے ہیں ہم سے پردہ پر لڑکیوں سے تو کرسکتی ہے تمہیں پتا ہے یمان کل ہماری کلاس فیلو نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو جواب میں کہنے لگی آپ کو اگر ہیلپ چاہیے تو آجانا پر میں دوست نہیں بناتی۔عرفان اپنی دھن میں یمان کو بتانے لگا جو غیردماغی حالت میں سنتا رہا 

میں آتا ہوں۔یمان اتنا کہہ کر کلاس سے چلاگیا

ارے کہاں پروفیسر کے آنے کا وقت ہے۔عرفان اُس کو آواز دیتا رہ گیا۔

یمان کلاس سے باہر آتا آروش کو تلاش کرنے لگا جو گراؤنڈ میں کسی شخص کے ساتھ کھڑی تھی جو کاٹن کے شلوار قمیض کے ساتھ کندھوں پہ شال ٹکائی ہوئی تھی اُن کی روعبدار شخصیت کو دیکھ کر یمان کو اندازہ ہوگیا آروش کا باپ ہوگا اور یہ بھی کے وہ کسی بڑے خاندان سے ہوگی یہ خیال آتے ہی یمان نے اپنے ہونٹ بے دردی سے کچل ڈالے 

میں کیوں سوچ رہا ہوں اُن کے بارے میں اتنا۔یمان خود ملامت کرتا کلاس کی طرف گیا جہاں پروفیسر نے کلاس لینا شروع کردی تھی۔

سر مے آے کمنگ۔یمان جانتا تھا جواب کیا ہوگا پر پھر بھی مروتً پوچھا

نو جن کو وقت کی قدر نہیں وہ میری کلاس اٹینڈ نہیں کرسکتا۔پروفیسر کے صاف چٹ انکار پہ یمان اپنا سا منہ لیکر جیسے ہی پلٹا نظریں آروش کی شہد آنکھوں سے ٹکرائی یمان کا دل زور سے دھڑکا تھا آج پہلی بار اُس نے آروش کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور یمان کا دل اُس کے ہاتھوں سے پِھسلا تھا دوسری طرف آروش یمان کو پلٹتا دیکھ کر اپنی آنکھوں کو نیچے کرلیا تھا پر یمان کا کام تمام ہوگیا تھا آروش نے پروفیسر کا جواب سن لیا تھا اِس لیے ایک ہی جواب اپنے لیے الگ سننا نہیں چاہا اور کلاس کے بجائے دوسرے راستے چل دی جب کی یمان کے قدم زمین میں جکڑ گئے تھے

💕💕💕💕

جرگے میں کیا فیصلہ ہوگا۔شازل پرسوچ لہجے میں دیدار سے بولا

ہونا کیا ہے ذین سالک کا خون یا پھر اُن کے خاندان کی لڑکی ونی میں آے گی۔دیدار حقارت لہجے میں بولا

اُس سے کیا ہوگا جانے والا تو جاچُکا ہے بہتر ہے اُن کو معاف کردیا جائے ہمیں کیا پتا غلطی کس کی تھی اور کیسے قتل تک بات پہنچی۔شازل نارمل لہجے میں بولا دیدار نے آنکھیں سکڑ کر اُس کو دیکھا

ہوش میں ہو شازل شاہ؟کیا تمہاری نظر میں دلدار شاہ کے خون کی یہ ایک اہمیت ہے جو اُن کو معاف کردیا جائے دلدار شاہ کو انصاف ملے گا ذین سالک کا قتل تو میرے ہاتھوں پکا۔دیدار اُس  پہ بڑس پڑا

انصاف کرنے والی ذات اللہ ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کی جان لینے والے اور بیشک جان لینے سے زیادہ بچانے والا بڑا ہوتا ہے قتل کرنے سے کیا ہوگا کیا دلدار لالا واپس زندہ ہوجائے گے؟ونی میں آنے والی معصومہ لڑکی کا کیا قصور جو بے قصور ہوکر ساری زندگی اپنی قسمت پہ ماتم کرے گی۔شازل نے اپنی طرف سے راے دی

شاہ خاندان سے ہوکر تم اتنے بزدل ہوگے ہمیں اندازہ نہیں تھا بہت مایوس کیا ہے ساری زندگی شہر رہے ہو تبھی یہ حال ہے شہری لڑکے تو ہوتے ہیں بزدل ہیں جن کو اپنا دفع کرنا نہیں آتا۔دیدار شاہ کی آنکھوں میں کسی کا خون میں لت پت وجود لہرایا تو شازل کو باتیں سنا ڈالی

مجھے ایسی بہادری کی ضرورت بھی نہیں جہاں ناحق فیصلے کیے جائے میں بابا سائیں سے بات کروں گا اگر ہم مرد اپنی مرضی سے باہر خاندان کی لڑکی کو حویلی نہیں لاسکتے اُن کو اپنا نام نہیں دے سکتے تو ونی کے نام پہ بھی کوئی دوسری لڑکی نہیں آے گی۔شازل شاہ پرعزم لہجے میں بولا دیدار کی بات پہ اُس کو اکتاہٹ ہونے لگی تھی تبھی اُس نے سوچ لیا اُس کو کیا کرنا ہے۔

تم تایا جان سے بات کروگے اور بات مان لیں گے مطلب بھولوں وہ گاؤں کے سرپنج ہیں اُن کی بات سب کو ماننی پڑے گی وہ جو فیصلہ کرے گے سب کو سرخم کرنا پڑے گا ورنہ اور طریقہ بھی ہے ہمارے پاس تم عقل کے ناخن لو اُن کے غصے کو ہوا نہ دو۔دیدار نے کجھ ناگوار لہجے میں کہا

بابا سائیں سے بات تو میں کرکے رہوں گا مجھے سمجھ نہیں آتا ہمارے گھر میں بھی بہن بیٹیاں ہیں پھر ہم کسی اور کے ساتھ ناانصافی کیسے کرسکتے ہیں۔شازل بھی اپنی بات کا ایک تھا

ابھی فیصلہ نہیں ہوا تم کیوں ضد کررہے ہو کیا پتا ونی نا مانگے خون مانگیں۔دیدار نے سنجیدگی سے کہا

اگر ونی میں آے لڑکی تو آپ کیا اُس سے نکاح کرے گے؟شازل نے بے تاثر لہجے میں بولا دیدار کی آنکھوں میں طنزیہ تاثرات اُبھرے۔

نہیں۔دیدار نے صاف چٹا جواب دیا

بابا سائیں کا فیصلہ آخری ہوگا یہی باتیں کی تھی آپ نے تو پھر آپ کیسے اب انحراف کرسکتے ہیں بقول آپ کے آپ تو انصاف دلانا چاہتے ہیں لالا کو۔شازل نے وجہ جاننا چاہی

تم اور دُرید بھی ہو تو۔

میرا تو کوئی نام ہی نہ لیں اور لالا سے کس منہ سے کہے گے کیا وہ

بس شازل سالوں پُرانی باتوں کا وقت نہیں۔شازل جو دیدار کی بات پہ ہتھے سے اُکھڑ گیا تھا تبھی بولتا جارہا تھا پر دیدار نے ہاتھ اُٹھاکر مزید بولنے سے باز رکھا۔شازل سنجیدگی سے دیدار شاہ کو دیکھتا وہاں سے چلاگیا۔

پلر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی آروش نے اُن کی ساری باتوں کو سُن لیا تھا شازل کے جاتے ہی وہ دیدار کے پاس آئی۔ 

شہری لڑکے کمزور ہوتے ہیں تو کیا اُن پہ ظلم کرنا اپنی طاقت کو آزمانہ مردانگی ہے یا بہادری۔ آروش نے مصنوعی ناسمجھی تاثرات سجائے پوچھا

تم میں کب عقل آے گی آروش بار بار تمہیں یاد کیوں کروانا پڑتا ہے تمہارا رتبہ کیا ہے تم کس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں تمہاری حدود کیا ہے۔ دیدار نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا جو کالے کپڑوں میں ملبوس اچھے سے سر پہ ڈوپٹہ پہنے اور کالی شال کندھوں کے اطراف اوڑھے رات کا حصہ لگ رہی تھی

میں نے ایک سوال پوچھا ہے۔آروش نے کندھے اُچکائے۔

جواب سُننے کی ہمت ہے ایسا نہ ہوا ایک بار پھر مہینوں تم ہسپتال کے بیڈ پہ پڑی رہو۔دیدار کی بات پہ آروش نے زور سے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بند کیا تھا اِس پل اُس کو کیا کجھ یاد نہیں آیا تھا۔

آروش شاہ گِرکر اُٹھنا جانتی ہے اور جو اپنی حدیں پھلانگتے ہیں اُن کو حد میں رکھنا بھی جانتی ہے پر وہ اپنے فیصلے اپنے رب پہ چھوڑتی ہے جس کا جواب اللہ تعالیٰ اچھے سے لیتا ہے۔آروش کے چہرے پہ عجیب چمک در آئی تھی جس کو دیکھ کر دیدار کا خون کُھول اُٹھا تھا اُس نے زور سے آروش کا جبڑا دبوچا۔

لڑکی ہو لڑکی بن کر رہو تایا جان کی لاڈلی نہ ہوتی تو لاش بھی نہ ملتی تمہاری۔دیدار چُھبتے لہجے میں بولا 

ہاتھ ہٹائے لالا ورنہ میری ایک چیخ آپ کی زندگی کا آخری دن ثابت کرے گی۔آروش دیدار کا ہاتھ ہٹاکر تنبیہہ لہجے میں بولی

لڑکی

لڑکی یا لڑکے کی بات مت کریں اگر آپ بھول رہے ہیں تو بتادوں میں لڑکی ہوں پر حویلی میں میری حیثیت آپ سے زیادہ ہے میں شھباز شاہ کی اکلوتی بیٹی ہوں۔آروش دیدار شاہ کی بات روک کر طنزیہ نظروں سے بول رہی تھی پر آخری بات پہ اُس کے لہجے میں فخریہ انداز آگیا تھا

اچھا اِس اکلوتی بیٹی کی خواہش کیا انہوں نے پوری تھی تمہاری آہ پُکار انہوں نے سُنی تھی تمہاری تڑپ نے اُن کا دل پِگھلایا تھا نہیں آروش بی بی نہیں جانتی ہو کیوں؟دیدار اُس کے دل پہ کاری ضرب مارتا آخر میں اُس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جب کی چہرے کے تاثرات طنزیہ سے بھرپور تھے آروش کی رنگت فق ہوگئ تھی آنکھوں میں نمی سی اُترنے لگی تھی جس کو اندر دھکیلنے کے لیے وہ بار بار آنکھوں کو جھپک رہی تھی۔

میں بتاتا ہوں کیونکہ اُن کو اپنی بیٹی چاہے جتنی منت اور مُرادوں سے ملی تھی پر ان کے لیے سب سے زیادہ ضروری اپنے اصول ہے جن کے سامنے اُن کی اپنی بیٹی بھی نہیں۔دیدار تمسخرانہ لہجے میں کہہ کر اپنے کندھے پہ شال ڈالتا چلاگیا آروش کی پتھرائی نظروں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا جب تک وہ حویلی کے بڑے ہال کا دروازہ عبور نہیں کرگیا۔

غیر کے لیے اپنوں سے نفرت کررہی ہو۔اپنی والدہ کی آواز سے آروش نے گردن موڑ کر شکوہ کرتی نظروں سے اُن کو دیکھا جو جانے کب سے یہاں کھڑی تھی اور افسوس کرتی نظروں سے اُس کو تک رہی تھی۔

رات ہوگئ ہے اپنے کمرے میں جارہی ہوں۔آروش اُن کی بات کا جواب دیئے بنا کہا

نامحرم کی محبت برباد کرتی ہے تب تک اُس کے لیے خود کی ذات فراموش کروں گی اُس کے ناملنے کا سوگ مناؤں گی۔کلثوم بیگم اُس کا بازوں پکڑتی بولی

غلط اماں سائیں سراسر غلط میں اُس کے ناملنے کا سوگ نہیں مناتی نہ اپنی ذات فراموش کررہی ہوں مجھے خود پہ افسوس ہوتا ہے ایک سید گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود کیسے میری نظریں بھٹکی کیسے میرے دل نے میرے ساتھ دغابازی کیسے میں نے اپنے رب کو ناراض کرلیا یہ بات مجھے اندر ہی اندر کاٹتی ہے کے میرا رب مجھ سے ناراض ہے میں ہر وقت نامحرم کے خیالات میں کھوئی رہتی ہوں میرا دل چاہتا ہے اماں سائیں اس اذیت سے بار بار گُزرنے سے اچھا ہے ایک دفع خود کو ماردوں پر خودکشی کی جو سزا ہے اُس کو سوچتے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے تبھی یہ زہر بھری زندگی گُزار رہی ہوں اُس انتظار میں ہوں کب عزرائیل کو حکم ہوگا کب میرے جسم سے روح نکلے گی کیونکہ میرے اندر جینے کی کوئی خواہش کوئی تمنا نہیں تنگ آگئ ہوں اپنی سوچو سے جس میں نامحرم کا بسیرا ہے آپ یا تو میرا گلا دباکر میری جان نکال دے یا میرے لیے دعا کریں پر میں بدکردار نہیں بن سکتی یہ لفظ مجھے پل پل مارتا ہے ایک باکردار لڑکی نامحرم کو نہیں سوچتی۔آروش کی آنکھوں میں آنسو لڑیوں کی صورت میں گال بھگارہے تھے کلثوم بیگم اپنی جگہ ساکت آروش کا چہرہ دیکھ رہی تھی جہاں سوائے تکلیف کے کجھ نہیں تھا ہر وقت خود کو مضبوط ظاہر کرنے والی آروش اِس وقت بُری طرح سے ٹوٹ چُکی تھی۔

اللہ سے دعا کرو میرے بچے۔کلثوم بیگم اُس کو اپنے سینے سے لگاتی بولی

کرتی ہوں بہت کرتی ہوں ہر وقت کرتی ہوں پر تکلیف ختم نہیں ہوتی میں نامحرم کے خیالوں سے نکلنا چاہتی ہوں اماں سائیں پر نکل نہیں پاتی اُس کا دھیان بھٹکانے کے لیے کجھ اور سوچنے لگ جاتی ہوں پر پھر دوبارہ اُس کے گرد سوچے آجاتی ہے۔آروش ان سے الگ ہوتی بولی کلثوم بیگم دکھ افسوس سے اپنی جوان بیٹی کی حالت دیکھتی رہ گئ جو سب سے خفا رہنے لگی تھی 

💕💕💕💕💕💕

کتنے ستارے ہیں آسمان میں؟عیشا نے بہت وقت تک یمان کی نظریں آسمان پہ جمی دیکھی تھی تو شرارت سے پوچھا

لاتعداد۔یمان چاند پہ نظر جمائے بولا

کالج کیسا جارہا ہے تمہارا؟عیشا نے دوسرا سوال پوچھا اُس کے سوال پہ یمان کی آنکھوں کے سامنے شہد آنکھوں کا عکس لہرایا تو آنکھوں کو بند کرکے کھولا۔

اچھا جارہا ہے۔یمان نے مختصر بتایا۔

عیشا اماں بولا رہی ہیں نیچے۔فجر چھت پہ آتی عیشا سے بولی ساتھ میں اپنا ڈوپٹہ کندھوں پہ ڈالنے لگی جو نماز پڑھنے کی وجہ سے اُس نے حجاب کی صورت میں پہنا تھا۔

آپی کیا آپ سارا دن عبائے میں رہ سکتی ہیں ساتھ میں حجاب نقاب بھی ہوں اور ہاتھوں کو کور کرنے کے لیے دستانے بھی ہو۔یمان نے کھوئے ہوئے لہجے میں فجر سے کہا جو اُس کی بات پہ چونک کر اُس کا خوبصورت چہرہ دیکھنے لگی جہاں ہلکی مسکراہٹ تھی یمان جوانی کی دہلیز پہ جیسے قدم بڑھا رہا تھا اُس کی شخصیت میں کشش ہوتی جارہی تھی چہرے پہ ہلکی ڈارھی بھی تھی جو اُس پہ خوب جچتی تھی 

ٹھنڈ ہو تو ورنہ نہیں۔فجر کو جانے کیوں یمان آج بدلا سا لگا اُس کو یمان کے چہرے پہ کسی اور عکس نظر آرہا تھا اُس وہم کو ہٹاکر وہ بات کو مذاق کا رخ دے گئ تھی۔

وہ تو گرمیوں میں بھی کرتی ہیں اُن کا نقاب اتنا اچھے سے کیا ہوتا ہے کے خراب بھی نہیں ہوتا۔یمان بے دھیانی بولتا چلاگیا فجر ٹھٹک کر یمان کو دیکھنے لگی

وہ کون؟فجر کا لہجہ سنجیدہ تھا

میری کلاس فیلو ہے سید گھرانے سے تعلق ہے اُن کا۔یمان نے بتایا

کیا وہ عمر میں تم سے بڑی ہے؟جس ترز خطاب اور احترام سے یمان نے زکر کیا فجر کو پہلا خیال یہی آیا

نہیں کیوں؟یمان نے سوالیہ نظروں سے فجر کو دیکھا

ایسے ہی پوچھا خیر تم اُس کو چھوڑو نیچے آجاؤ کل کالج بھی جانا ہے تم نے۔فجر نے اُس کا دھیان دوسری طرف کرنے کے خاطر کہا وہ نہیں چاہتی تھی یمان کسی لڑکی کو سوچے یا اُس کے بارے میں بات کریں

جی آتا ہوں۔یمان جواب دیتا اُس کے ساتھ نیچے کی جانب آکر سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا جب کی فجر اپنے اور عیشا کی مشترکہ کمرے میں آئی تو دیکھا عیشا یمان کا رجسٹر تھامے بیٹھی تھی۔

یمان کا رجسٹر تمہارے پاس؟فجر بیڈ پہ بیٹھ کر بولی

ہممم یہ دیکھو یمان نے کسی کا اسکیچ بنایا ہے شاید پر اُس کا چہرہ نہیں پشت ہے پر معلوم پھر بھی ہوجاتا ہے کسی لڑکی کا ہے۔عیشا متجسس لہجے میں فجر کو یمان کا رجسٹر دیکھانے لگی پر فجر کی نظریں اسکیچ کے نیچے کیپشن پہ جمی تھی جو کجھ یوں تھا۔

دل کیوں کھینچا جاتا ہے اُس کی طرف*"

پہلے یمان کی باتیں پھر اسکیچ اُس کا کیپشن پڑھ کر فجر کو اپنے اندر خدشات پلتے محسوس ہوئے جس کو جھٹک کر اُس نے خود کو پرسکون کیا

کیا پتا کالج کا اسائمنٹ ہو۔فجر رجسٹر اُس کے ہاتھ سے لیکر بولی۔

لڑکی کے حجاب کا اسائمنٹ یمان کو کیوں ملے گا۔عیشا کو جیسے تعجب ہوا

مجھے کیا پتا لائیٹ آف کرکے سوجاؤ۔فجر اتنا کہتی کروٹ لیکر سوگئ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان کالج آیا تو اُس کی نظریں اپنے کالج کے بگڑے گروپ پہ پڑی جو اپنی نظروں میں عجیب سا تاثر لیے کسی کو دیکھ رہے تھے یمان نے اُن کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو آنکھوں میں مرچیں چُھبنے لگی کیونکہ اُن کی نظریں دنیا جہاں سے غافل ہمیشہ کی طرح عبایا پہنے آروش پہ تھی جو کسی کتاب کو پڑھنے میں اِس قدر مصروف تھی کے آس پاس کا ہوش بھی نہیں تھا یمان ایک غصے بھری نظر اُن گروپ پہ ڈال کر چلتا ہوں آروش کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا جس وجہ سے آروش کا وجود اُن کی نظروں سے چھپ گیا تھا پر یمان خود کو لاتعلق ظاہر یہاں وہاں چہرہ گُھمانے لگا 

آروش نے اچانک اپنے اُپر کسی کی پرچھائی محسوس کی تو چہرہ اُٹھا کر دیکھا تو کسی لڑکے کی پشت تھی آروش اپنا بیگ اُٹھاتی وہاں سے سیدھا لائبریری کی طرف بڑھ گئ یمان نے اُس کو جاتا دیکھ لیا تھا تبھی اپنے قدم اُس کے پیچھے کی طرف بڑھائے اتنے دنوں بعد یمان کا دل کیا تھا اُس سے مخاطب ہونے کو اپنی غیر ہوتی حالت پہ وہ قابو پاتا لائبریری میں داخل ہوا جہاں وہ کتابوں میں اپنا سر دیئے بیٹھی نظر آئی یمان چلتا ہوا اُس کے پاس والی چیئر پہ بیٹھ گئ آروش اُس کا بیٹھنا محسوس کرچکی تھی پر کوئی ری ایکٹ نہیں کیا۔

میرا نام یمان ہے۔یمان کو کجھ اور سمجھ نہیں آیا تو اپنا نام بتا ڈالا آروش نے کوئی جواب نہیں دیا یمان کی نظر اُس کے ہاتھوں پہ پڑی جو جو آج براؤں دستانوں سے کور تھے۔

یمان بس اُس کو دیکھتا رہا دوبارہ مخاطب نہیں کیا کجھ منٹ بعد آروش اُٹھ کر وہاں سے چلی گئ۔

بریک ٹائم ہوا تو یمان اپنے  دوستوں کے ساتھ کیفے آگیا تھا جہاں فلحال آروش نہیں آئی تھی آروش کا بنا جواب دیئے اُٹھ کر چلے جانا اُس کو اُداس کررہا تھا شاید پچھتاوا وہ کیوں مخاطب ہوا۔

یار یمان آج تو کوئی گانا سُنادے۔عرفان نے اچانک شوشہ چھوڑا

نہیں۔

کیوں نہیں؟عرفان نے حیرت کا اظہارہ کیا کیونکہ پہلی بار یمان نے گانے سے صاف انکار کیا تھا

میرے پاس گِٹار نہیں۔یمان نے کندھے اُچکاکر کہا

لیں وہ تو کوئی مسئلہ میں ابھی لایا میرا کزن ہے اُس کے پاس ہوگا وہ کالج لاتا ہے میں ابھی لایا۔اب کی ان کا دوست فیروز بول کر کیفے سے چلاگیا تبھی  یمان کی نظر کیفے میں داخل ہوتی آروش پہ پڑی جس ہمراہ ایک آدمی تھا یمان کی آنکھوں میں تعجب اُبھرا وہ غور سے آدمی کی جانب دیکھنے لگا جو کلف زدہ شلوار قمیض پہنے کندھوں میں شال اوڑھے ہوئے تھا۔

گاؤں کے لوگ ایسے ہوتے ہیں بھائی ہے اِن کا اکیلے نہیں ہوتی یہ کوئی نہ کوئی ساتھ ہوتا ہے۔عرفان نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو تفصیل سے بتایا جس پہ یمان نے اپنی نظروں کا رخ بدلا۔

یہ لو۔فیروز نے گٹار اُس کی طرف بڑھایا جس کو تھام کر وہ ٹیبل پہ بیٹھ گیا آروش پہ نظر ڈال کر اُس نے گٹار کی تاروں کو چھیڑا جس سے سب کی توجہ اُس پہ ٹھیرگئ جس کی وہ چاہتا تھا اُس کی بھی یمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی جس کو چھپانے کے لیے چہرہ نیچے کرلیا تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اپنی آنکھوں میں آروش کا خود کا تراشا بت خیالوں میں لاکر گانا شروع کیا

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya 

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Aavan javan te mai

Yaara nu manawaan

Aavan javan te main

Yaara nu manabanaya

یمان نے اپنی بند آنکھوں کو کھولا تو چہرے پہ گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا سامنے آروش ٹھوڑی پہ ہاتھ کی مٹھی بنائے اُس کی طرف ہی متوجہ تھی اُس کی محویت خود پہ پاکر یمان کو انجانی خوشی محسوس ہونے لگی۔

Enna Suna

Enna suna 

Enna suna

O..

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna suna..

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

O...

Ho...

یمان کی نظریں آروش پہ ہی تھی جو اب اپنے ساتھ بیٹھے آدمی کی کوئی بات سن رہی تھی آدمی کے چہرے پہ جھنجھلاہٹ اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے جو دور سے ہی یمان محسوس کرسکتا تھا آروش بھی کوئی بات کررہی تھی پھر وہ دونوں باہر کی طرف بڑھنے لگے یمان کا دل اُداس ہونے لگا تھا اُس سے پہلے وہ گٹار دور کرتا دونوں واپس آکر دوبارہ بیٹھ گئے یمان کے باہر جانے والے راستے کی جانب دیکھا جہاں بہت سارے اسٹوڈنٹ کھڑے اُس کا گانا سُن رہے تھے یمان کو اُن سب پہ بے حد پیار آیا جن کی وجہ سے آروش دوبارہ کیفے میں موجود تھی۔

Kol Hove te 

Saik lagda Ae

Dour jave te

 dil jalda Ae

Kehdi Aag naal 

Rabb nay banaya 

Rabb nay banaya

Rab nay banaya

یمان نے پھر سے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی اُس کو خود پہ کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو آنکھوں کو کُھولا پر اُس کو اندازہ نہیں ہو پایا آروش کی طرف دیکھا تو وہ کجھ لکھنے میں مصروف تھی جس کو دیکھ کر یمان کا منہ بن گیا۔

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Aavan javan te main

Yaara nu manaawan

Aavan javan te main

Yaara nu manaawan

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

ایک مصرعہ چھوڑ کر یمان نے اپنے دوستوں کو گٹار واپس کیا تو سارا کیفے تالیوں کی آواز سے گونج اُٹھا جس پہ یمان محض مسکرادیا۔

گھر جانے کا وقت ہوا تو کلاس میں رکھا اپنا بیگ لیکر جانے والا تھا جب اُس کی نظر ریڈ کلر کی چٹ پہ پڑی جو اُس کی سیٹ پہ تھی یمان اُس کو ہاتھ میں لیتا اُلٹ پلٹ کرکے دیکھنے لگا پھر متجسس ہوکر کُھل کر پڑھنے لگا جہاں خوبصورت ہینڈ رائٹنگ سے لکھا ہوا تھا

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے سُننے والا سحر میں جکڑ جاتا ہے۔

سیدہ آروش شاہ!

یمان کی آنکھیں حیرت اور  بے یقینی سے پھیل گئ اُس نے بار بار نیچے سطح پہ لکھا نام پڑھا 

ایک بار 

دو بار

تین بار

بار بار

پر وہ جیسے یقین کرنے سے قاصر تھا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا کے یہ چٹ لکھنے والی اُس کی آواز کو پسند کرنے والی واقع آروش شاہ تھی جس کو پہلی دفع دیکھنے کے بعد اُس کو عجیب سی کشش محسوس ہونے لگی تھی جس کو دیکھنے کے لیے جس کے احساس کے لیے وہ بے قرار ہوجاتا تھا جس کے لیے دل میں بات کرنے کی خواہش اُبھری تھی آہستہ آہستہ حیرت اور بے یقینی کا اثر زائل ہوتا بے انتہا خوشی کی کیفیت نے اُس کے چہرے کو روشن کردیا تھا۔ یمان نے پوری کلاس میں نظر ڈورائی جو پورا خالی ہوچکا تھا۔

میں پاگل ہوجاؤں گا۔چٹ کو زور سے مٹھی میں قید کیے یمان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بڑبڑایا پہلی دفع کسی انوکھے خوبصورت احساس سے وہ روشناس ہوا تھا جس سے اُس کو سب کجھ اچھا لگ رہا تھا سب خوبصورت نظر آرہا تھا

یہ یمان مستقیم کا عشق کی سیڑھی پہ پہلا قدم تھا جس پہ پہنچ کر یمان اپنی زات فراموش کرتا جارہا تھا کئ راتیں اُس کی ایک چٹ کو دیکھتے گُزر جاتی لیکن دل تھا جو بھرتا نہیں تھا ایک بار اور ایک بار اور کہتے ساری رات گُزر جاتی۔

💕💕💕

بابا سائیں مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔شازل شاہ کمرے کے باہر کھڑا شھباز شاہ سے اجازت طلب کرنے لگا۔

آؤ۔شھباز شاہ نے اجازت دی تو وہ اندر داخل ہوا۔

جرگے میں کیا ہوگا آپ نے کیا سوچا ہے۔شازل شاہ ڈائریکٹ مدعے کی بات پہ آیا۔

ہماری حویلی کا بیٹا قتل ہوا جس کا حساب اُن کو دینا ہوگا خون کے بدلے خون۔شھباز شاہ یکدم جلال میں آئے۔

اُس سے کیا ہوگا جانے والا تو چلاگیا نہ۔شازل گہری سانس خارج کرتا بولا وہ جتنا ان چیزوں سے دور بھاگنا چاہتا تھا آج اُس میں بُری طرح پھس چُکا تھا وہ جانتا تھا کرنی سب نے اپنی ہے پر وہ ایک کوشش کرنا چاہتا تھا۔جس کا نتیجہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

تو کیا اُس کو ہم انصاف نہ دلوائے دلدار شاہ کا خون اتنا سستا نہیں تھا۔شھباز شاہ کڑک آواز میں بولے۔

آپ ساری بات جاننے کی کوشش کرے کے بات اِس مرنے مارنے پہ کیسے اُتر آئی پھر دیکھا جائے گا کیا فیصلہ کرنا ہے یوں کسی کی جان داؤ پہ لگانا کہاں کا انصاف ہوگا کیا پتا غلطی لالہ کی ہو۔شازل شاہ نے اُن کو دوسرا رخ دکھانا چاہا

میں گاؤں کا سرپنج ہوں شازل اِس لیے تم مجھے مت سبق پڑھاؤ قتل کے بدلے قتل یا پھر ونی میں اُن کی بیٹی آے گی یہاں۔شھباز شاہ سخت لہجے میں بولے۔

یہ کیا بات ہوئی بابا سائیں کرے کوئی بُھگتے کوئی کیا لڑکیوں کے جذبات نہیں ہوتے کیا جو یہاں رسم و رواج کے نام پہ اُن کو سولی پہ لٹکایا جاتا ہے اُن کے ارمانوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے اُن کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہے کب تک چلے گا یہ سب کیا ہم ساری زندگی اِس جاہلت میں گُزارے گے۔شازل کی آواز بلند ہوگئ تھی۔

شازل شاہ ہوش میں رہ کر بات کرو۔شھباز شاہ نے غصے سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

میں ہوش میں ہوں بابا سائیں آپ سب کو بھی ہوش میں آجانا چاہیے خدانخواستہ کل کلاں میرے سے قتل ہوجاے تو کیا آپ آروش

شازل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شازل نے جیسے ہی آروش کا نام لیا شھباز شاہ کا ہاتھ اُٹھٹے اُٹھتے رہ گیا غصے سے اُن کی رنگت سرخ ہوگئ تھی۔شازل کے چہرے پہ عجیب مسکراہٹ آئی۔

بابا سائیں بات اپنی اولاد پہ آئی تو تکلیف ہوئی نہ تو اُن ماں باپ کا سوچے جن کی بیٹیاں قربانی کا سامان بنی جن کے مرنے کے بعد چہرہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا اندازہ لگاسکتے ہیں آپ اُن کی تکلیفوں کا جس بیٹی کو وہ نازو سے پالتے ہیں کیا گُزرتی ہوگی ان کے دلوں پہ جب وہ خود اپنی بیٹی کو ظالموں کے حوالے کرتے ہوگے۔شازل بولنے پہ آیا تو بولتا چلاگیا۔ 

تم زیادہ بول رہے ہو اِس سے پہلے ہم تمہارا خون اپنے ہاتھوں سے کریں یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ آروش کا نام مت لینا اگر تمہارے ہاتھ سے کسی کا قتل ہوا بھی تو ہم تمہیں پیش کرے گے ناکہ اپنی پُھول جیسی بیٹی کو۔شھباز شاہ کی آخری بات پہ شازل اپنے باپ کو دیکھتا رہ گیا 

کیا میری جان اتنی سستی ہے؟شازل بدمزہ ہوتا خود سے بڑبڑایا۔

ابھی تو میں جارہا ہوں پر آپ میری باتوں کو سوچیے گا ضرور اور کوشش کریں ایسی رسموں کو گاؤں سے آزاد کرے اب گاؤں بھی ایسی رسموں سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ لڑکیاں بھی سکون بھری زندگی گُزارے۔شازل سنجیدگی سے کہتا کمرے سے باہر چلاگیا۔پیچھت شھباز شاہ نے اُس کی پشت کو گھورا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش کیا تم فری ہو؟شازل شھباز شاہ کے کمرے سے نکلتا آروش کے کمرے کے پاس کھڑا اُس کو آواز دیتا بولا

جی لالا اندر آئے۔آروش نے آنے کی اجازت دی تو وہ کمرے میں داخل ہوا۔

اسلام علیکم لالا۔آروش نے سلام کیا جو شازل ہمیشہ کی طرح بھول گیا تھا 

وعلیکم اسلام ایک درخواست لیکر آیا ہوں۔شازل نے تھمید باندھی

آپ حکم کریں لالا۔آروش محبت بھرے لہجے میں بولی

بیٹھو۔شازل نے اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور خود بھی سائیڈ پہ بیٹھ کر بات کا آغاز کرنے لگا

آج جرگہ ہے تمہیں پتا ہوگا۔شازل نے اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا تو آروش نے سرہلانے پہ اکتفا کیا

وہاں کیا فیصلہ ہوگا وہ بابا سائیں جانتے ہیں پر میں چاہتا ہوں جرگہ ہونے سے پہلے تم بابا سائیں سے بات کرو انہیں کہو وہ معاف کردے انہیں خون بہا یا کسی معصوم لڑکی کو ونی میں نہ لائے یہ ظلم ہوگا اُس بے قصور پہ یہ میں سب تم سے کہہ رہا ہوں کیونکہ بابا سائیں ہم سب سے زیادہ تم سے محبت کرتے ہیں سالوں پہلے بھی تمہاری خواہش پہ دادی جان کی خفگی موڑ کر تمہاری خواہش کا احترام کیا تھا تبھی تم اگر ان سے یہ بات کروں گی تو تمہاری بات کا پاس ضرور رکھے گے کیونکہ وہ تمہیں مایوس بلکل نہیں دیکھ سکتے نہ تمہاری بات پہ انکار یا نظرانداز کرنے کی ہمت پائے گے۔شازل اُس کے گال پہ ہاتھ رکھتا نرم لہجہ میں بولا آروش چہرے پہ اپنے لالا کی بات سن کر سایہ لہرایا۔

بابا سائیں آپ مجھے زندہ دفنا دیجئے گا میرا قتل کیجیے میری لاش کتوں کے سامنے کر دیجئے گا پر خدا کے واسطے میری یہ التجا پوری کرے ساری عمر پھر کجھ نہیں مانگوں گی پلیز مجھے ایک بار اُس سے ملنے دے۔

کہاں کھوگئ آروش۔آروش جو ماضی میں کھوگئ تھی شازل کے چٹکی بجانے پہ ہوش میں آئی۔

کہیں نہیں لالا آپ کی ہر بات درست پر بابا سائیں کتنی محبت کیوں نہ کریں پر اُن کو اپنے خودساختہ اصولوں سے سب سے زیادہ لگاؤ ہے وہ میری بات بس سُنے گے مانے گی نہیں۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

ایک بار کوشش کرو شاید تمہاری ایک کوشش کسی معصوم کی زندگی برباد ہونے سے بچ جائے۔شازل کی بات پہ اُس کے چہرے پہ اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کیا شازل کی باتوں سے اُس کا گُزرا ماضی بار بار سامنے آرہا تھا۔

جاؤ پھر۔شازل نے کہا تو وہ بیڈ سے اپنی شال اُٹھا کر کھڑی ہوئی شازل نے محبت سے اپنی بہن کو دیکھ کر گہری سانس خارج۔

وہ معصوم ہے کسی مظلم پہ ظلم نہیں کیا جاتا اُس کی عمر کا لحاظ کریں وہ برداشت نہیں کرپائے گا وہ بہت معصوم ہے بہت۔

شھباز شاہ کے کمرے کے دروازے پہ ہاتھ رکھا تو کئ سال پہلے اپنے کہے جُملے کانوں میں سُنائی دیئے جیسے اُس کی آنکھوں میں آنسو گال پہ پھسلا ایک بار پھر وہ اپنے جان نچھاور کرنے والے باپ کے پاس التجا کرنے آئی تھی فرق یہ تھا پہلے دل کی حالت سے مجبور ہوکر اور آج اپنے لالا کے اصرار کرنے پہ پہلے وہ خالی ہاتھ واپس لوٹادی گئ تھی آج جانے کیا ہونا تھا

آپ سے بات کرنی ہے۔آروش کمرے کے بیچ کھڑی شھباز شاہ سے بولی جو اپنے بندوق کا معائنہ کرنے میں مصروف تھے۔

آجاؤ بیٹھو کرتے ہیں باتیں۔شھباز شاہ نے آروش کو دیکھا تو بندوق کو بیڈ سے ہٹاکر مسکراکر بولے۔

آج جرگے پہ کیا فیصلہ ہوگا؟آروش بنا بیٹھے مدعے کی بات پہ آئی شھباز شاہ کا چہرہ جو آروش کو دیکھ کر کِھل اُٹھا تھا اُس کی بات پہ چہرے کے تاثرات سرد سپاٹ ہوئے جن کو دیکھ کر آروش کو افسوس ہوا اپنے آنے پہ۔

شازل نے بھیجا ہے تمہیں؟شھباز شاہ نے پوچھا

جی۔آروش نے سچ بتایا

اُس کو میں نے جواب دے دیا تھا۔شھباز شاہ چہرہ دوسری طرف کیے بولے

آپ ایک بار پھر سے ظلم کرنے والے ہیں۔آروش کے لہجے میں افسوس تھا۔

یہ ہم مردوں کا معاملہ تم دور رہو۔شھبازشاہ کا انداز دیکھ کر آروش کا دل لہولہان ہوا تھا جس باپ نے ہمیشہ شفقت دیکھائی تھی ان کا یہ رویہ اُس کی برداشت سے باہر ہوتا تھا

ٹھیک ہے پر ایک بات کہنا چاہوں گی معاف کرنا خدائی صفت ہے اللہ سب دیکھتا ہے بچیوں سے اپنے والدین بہت پیار کرتے ہیں اُن کو ہر سرد ہوا سے بچاتے ہیں اگر آپ کا فیصلہ کسی بچی کے لیے ٹھیک نہیں ہوا تو ایسا نہ ہو آپ میری شکل دیکھنے سے ترس جائے  آپ کہتے ہیں نہ میں آپ کے دل کا ٹکڑا ہوں تو کہی یہ ٹکڑا گم نہ ہوجائے اور آپ ڈھونڈ نہ پائے۔

آروشششش

آروش اُس سے پہلے مزید کجھ بولتی شھباز شاہ کے کھردرے لہجے پہ خاموش ہوئی۔

آج یہ بات کہہ دی دوبارہ مت کہنا کیوں اپنے باپ کو نئ آزمائش میں ڈالتی ہوں۔شھباز شاہ کا دل تڑپا تھا آروش کی بات پہ ایک اکلوتی بیٹی تھی جس کے لیے انہوں نے بہت لوگوں سے منہ موڑا تھا 

آزمائش

آروش اتنا کہتی بے بسی سے ہنس پڑی جس سے اُس کی آنکھوں میں نمی اُتری

آزمائش تو میری زندگی ہے بابا سائیں ایک پچھتاوا ان دیکھی بے چینی تڑپ جو مجھے چین نہیں لینے دیتا۔آروش کی بات پہ انہوں نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا

زندگی میں کجھ چیزیں لاحاصل اور حسرتیں ہوتی ہے جن لو لیکر ہمیں جینا پڑتا ہے پہلے تم بچی تھی اب بڑی ہو اِس لیے ایک قصے کو بار بار مت دوہرایا کرو۔شھباز شاہ کی بات پہ وہ کجھ قدم دور ہوتی کمرے سے باہر نکلی گئ اُس کو مایوس جاتا دیکھ کر شھباز شاہ کو خود سے زیادہ شازل پہ غصہ آیا جس نے اُس کی کمزوری کو آزمایا تھا۔

کیا کہاں بابا سائیں نے۔شازل جو بے صبری سے آروش کا اُس کمرے میں انتظار کررہا تھا اُس کو آتا دیکھا تو بے صبری سے پوچھا

وہی جو آپ کو جواب دیا۔آروش نے بے تاثر لہجے میں بولا تو شازل نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔

تم میں آخری اُمید تھی سوچا تھا تمہاری بات وہ مان لیں گے اب بس اللہ سے دعا کرنی ہے۔شازل جوابً بولا

لالہ سے کہے وہ بات کریں۔آروش کجھ سوچ کر بولی۔

تمہیں تو پتا ہے وہ کہاں ٹھیک سے بابا سائیں سے بات کرتا ہوں اور میرا کہنا اُن کا کہنا ایک برابر ہے۔شازل نے کہا۔

آپ جائے گے جہاں جرگہ بیٹھایا جارہا ہے؟آروش نے پوچھا

ظاہر ہے سب مرد جائے گے۔شازل نے بتایا۔

بابا سائیں کے بعد آپ تایا جان یا دیدار لالہ کو موقع نہ دیجئے گا کے سرپنج کی پگڑی وہ پہنے بلکہ اُس جگہ پہ آپ بیٹھیے گا تاکہ ہماری گاؤں کے یہ اصول ختم ہوجائے۔آروش اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی جس کا جواب فلحال شازل شاہ کے پاس نہیں تھا وہ یہاں نہیں رہنا چاہتا تھا تو پھر گاؤں کا سرپنج بننے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

 💕💕💕💕💕💕

نور آرہی ہے لنڈن سے۔مسز خان نے صبح ناشتے وقت دلاور خان اور یمان کو بتایا۔

ماشاءاللہ بہت سالوں بعد آرہی ہے اب تو۔دلاور خان محبت سے اپنی بیٹی کا ذکر کرتے بولے۔

ہاں کہہ رہی تھی اب بھی بس چند دنوں کے لیے آئے گی۔مسز خان نے بتایا یمان عدم دلچسپی سے سنتا رہا اُس نے بس نام سُنا تھا اُن کی بیٹیوں کا پر کبھی ملنے کا اتفاق نہیں تھا کیونکہ شادی کے بعد وہ دوسرے ملک میں رہائش پذیر تھیں۔

آج مجھے ایک کانٹریکٹ سائن کرنے جانا تھا میٹنگ ہے میری تو شاید آنے میں وقت لگ جائے۔نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے یمان نے اُن کی گفتگو میں مداخلت کی۔

کس کے ساتھ ہے؟دلاور خان نے پوچھا۔

ہمایوں قُریشی ہے انہوں نے آفر کی ہے۔یمان نے بتایا۔

ہممم اُس کی رکارڈنگ کب سے سٹارٹ ہے کیونکہ اِس بار میں جو فلم پرڈیوس کررہا ہوں چاہتا ہوں اُس کے سارے گانے تمہارے ہو۔دلاور خان نے بتاکر پوچھا۔

ابھی ٹھیک سے میری بات نہیں ہوئی اُن سے کانٹریکٹ سائن کرنے وقت معلوم ہوگا آپ بتائے آپ کب فلم کی شوٹنگ سٹارٹ کررہے ہیں۔یمان نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔

اِس سال تو بس ٹیلر رلیز ہوگا جس کے گانے میں تمہاری آواز ہوگی تو ٹیلر مشہور ہوگا میں تو چاہتا ہوں ہیرو میں تمہیں کاسٹ کروں پر تم مانو گے نہیں۔دلاور خان مزاحیہ لہجے میں بولے 

مجھے سنگر ہی رہنے دے۔یمان سرجھٹک کر بولا اُس کو فلموں میں کام کرنے کا بلکل شوق نہیں تھا۔

ہمارا بیٹا شائے ہے تمہاری فلم میں رومانٹک سین ہوتے ہیں ہمارا یمان کہاں کرپائے گا۔مسز خان کی بات پہ یمان کو کھانسی کا دورہ پڑا اُس کو مسز دلاور خان سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی جب کی اُس کی سرخ رنگت دیکھ کر دلاور خان کا قہقہقہ گونج اُٹھا 

میرے خیال سے مجھے جانا چاہیے۔یمان مستقیم نے جانے میں عافیت جانی۔

میری بات پہ غور ضرور کرنا۔دلاور خان نے شوخ لہجے میں کہا مقصد یمان کو تنگ کرنا تھا جو وہ بھی ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان کا اپنا ایک اسٹوڈیو تھا وہ وہاں آیا تو ارمان پہلے سے وہاں موجود تھا کجھ پل تو وہ اُس کو دیکھتا رہا پھر ارمان نے اُس کو مخاطب کیا۔

سر وہ جب میں آپ کے گھر گیا تھا تو آپ کی بڑی بہن بہت خفا ہوئی انہوں نے دوبارہ آنے سے منع کیا کہا کے اُن کو اِن چیزوں کی نہیں بلکہ اپنے بھائی ضرورت ہے۔

اور۔یمان سپاٹ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

اور یہ کے دوبارہ سامان وہ نہیں لیں گی۔ارمان نے بتایا تو یمان نے گہری سانس خارج کی۔

ٹھیک ہے تم جاؤ۔یمان کو اچانک اپنے سر میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی محسوس ہوئی تو اُس کو جانے کا کہا۔

سر ڈاکٹر کے پاس چلے۔ارمان سمجھ گیا اُس کی حالت تبھی فکرمندی سے بولا۔

میں ٹھیک ہوں تم بس میری میڈیسن دو۔یمان نے ٹالا

جی۔ارمان جی کہتا جلدی سے اُس کے لیے میڈیسن اُس کو دی۔

آپ سے ایک اور بات کرنی تھی۔یمان نے دوائی لی تو ارمان جھجھک کر کہا

بولوں۔یمان نے کہا

آپ ایک مرتبہ کراچی چلے جائے آپ بھی تو اپنے گھروالوں کو یاد کرتے ہوگے۔

ہمایوں قُریشی کو کال پہ بتادو میں آرہا ہوں۔یمان اُس کی بات کاٹ کر بولا تو ارمان سرجھکاتا وہاں سے چلاگیا۔اُس کے جانے کے بعد یمان خاموشی سے صوفے سے ٹیک لگاتا آنکھیں موند گیا۔

💕💕💕💕💕

میرا دل بہت گھبرا رہا ہے جانے کیا ہورہا ہوگا جرگے میں؟ماہی کی پریشانی سے ڈوبی آواز سن کر آمنہ نے گہری سانس لی۔

اِن شاءاللہ اللہ ہمارے حق میں فیصلہ کرے گا۔آمنہ نے اُمید بھرے لہجے میں کہا۔

اللہ تو کرے گا پر یہ تم بھی جانتی ہوں شھباز شاہ اپنے اصولوں کے کتنے پکے ہیں۔ماہی نے کہا

بابا صاحب چچا صاحب ذین یہ سب گئے ہیں نہ اللہ بہتر کرے گا۔آمنہ اُس کو اپنے ساتھ لگاتی پرسکون کرنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕

ہمیں خون کے بدلے خون چاہیے۔ارباز شاہ مضبوط لہجے میں بولیں۔جرگے میں سب معزز بزرگ مرد موجود تھے۔ 

جس وجہ سے بات قتل تک پہنچی ہم وہ زمین اگر آپ کے نام کردے تو؟حشمت صاحب سنجیدگی سے بولے۔

تو بھی ہم یہی کہے گے ہمیں خون کے بدلے خون چاہیے ذین سالک کا۔دیدار اپنی جگہ اُٹھتا تیز آواز میں بولا۔دُرید شاہ خاموشی سے سب کو دیکھ رہا تھا جب کی شازل شاہ اپنے گلے میں پہنی چین کو ہاتھ سے گُھمارہا تھا اُس کو بس جرگہ کے ختم ہونے کا انتظار تھا۔

شھباز شاہ جب کی اپنی سوچو میں گم تھے۔

ذین سالک تو روپوش ہوگیا ہے بہتر ہے پھر ونی لی جائے کیونکہ زمینے تو آپ سب نہیں چاہتے۔وہاں بیٹھے ایک آدمی نے کہا تو شھباز شاہ چونک پڑے۔اُن کے برعکس حشمت صاحب کو لگا جیسے اُن کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو انہوں نے یہاں آنے سے پہلے خاموشی سے ذین کو باہر بھیج دیا تھا ذین جانا تو نہیں چاہتا تھا پر اپنے باپ کی دی ہوئی قسم نے اُس کو مجبور کردیا تھا۔

شازل شاہ نے دُرید شاہ کو دیکھا جو خود کو ہر بات سے لاتعلق ظاہر کررہا تھا شاید وہ ان سب کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا۔

آپ کا فیصلہ آخری ہوگا تو آپ کیا کہتے ہیں؟اب کی انہوں نے شھباز شاہ کو مخاطب کیا۔

بابا سائیں بات اپنی اولاد پہ آئی تو تکلیف ہوئی نہ تو اُن ماں باپ کا سوچے جن کی بیٹیاں قربانی کا سامان بنی جن کے مرنے کے بعد چہرہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا اندازہ لگاسکتے ہیں آپ اُن کی تکلیفوں کا جس بیٹی کو وہ نازو سے پالتے ہیں کیا گُزرتی ہوگی ان کے دلوں پہ جب وہ خود اپنی بیٹی کو ظالموں کے حوالے کرتے ہوگے۔

ٹھیک ہے پر ایک بات کہنا چاہوں گی معاف کرنا خدائی صفت ہے اللہ سب دیکھتا ہے بچیوں سے اپنے والدین بہت پیار کرتے ہیں اُن کو ہر سرد ہوا سے بچاتے ہیں اگر آپ کا فیصلہ کسی بچی کے لیے ٹھیک نہیں ہوا تو ایسا نہ ہو آپ میری شکل دیکھنے سے ترس جائے  آپ کہتے ہیں نہ میں آپ کے دل کا ٹکڑا ہوں تو کہی یہ ٹکڑا گم نہ ہوجائے اور آپ ڈھونڈ نہ پائے۔

شھباز شاہ کے کانوں میں بار بار کبھی شازل تو کبھی آروش کی آوازوں کی بازگشت ہورہی تھی جس سے اُن کو کوئی بھی فیصلہ کرنے میں مشکل ہورہی تھی۔وہ کسی بھی صورت میں اپنی بچی کو کھونا نہیں چاہتے تھے نہ ہی یہ کے اُن کا کیا اُن کی بیٹی بھگتے۔انہوں نے پہلے دیدار شاہ کو دیکھا جس کی آنکھیں آگ برسانے کے در پہ تھی پھر دُرید شاہ کی جانب دیکھا جو اُن کو ہی دیکھ رہا تھا اور ایسے دیکھ رہا تھا جیسے بول رہا ہو میرا نام نہ لیں کوئی۔پھر ایک نظر شازل کو دیکھا جس کے اندر فلحال انسانیت جاگی ہوئی تھی شازل کو دیکھ کر اُن کو فیصلہ کرنا آسان لگا۔

اگر خون کے بدلے خون نہیں تو ذین سالک کی بہن ونی میں آئے گی جس کا نکاح شازل شاہ سے ہوگا۔شھباز شاہ کی بے لچک آواز پہ سکوت چھاگیا تھا شازل بے یقین نظروں سے شھباز شاہ کو دیکھنے لگا جو جس چیز سے بچنا چاہ رہا تھا اب وہ خود بُری طرح اُس میں پھس چُکا تھا جہاں سے رہائی ناممکن تھی۔

💕💕💕💕💕💕

مامی جان ونی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟حریم اُلجھن زدہ لہجے میں کلثوم بیگم سے پوچھنے لگی۔

آپ کو کیوں جاننا ہے؟کلثوم بیگم نے نرمی سے پوچھا

کیونکہ آج کل حویلی میں بس یہی بات گھوم رہی ہیں کے ہماری حویلی میں ونی آے گی کون لائے گا ونی؟حریم نے معصومیت سے بتایا

معصوم دلوں کی صدائیں اللہ فورن سے سن لیتا ہے آپ دعا کرنا ونی میں کوئی بھی بچی نہ آئے۔کلثوم بیگم نے افسردہ لہجے میں کہا

کیوں؟حریم کو حیرت ہوئی۔

کیونکہ ونی میں آئی لڑکی کی زندگی ایک قیدی سے زیادہ بدتر ہوتی ہے۔کلثوم بیگم نے بتایا

پر ہم پھر کیوں لارہے ہیں لالہ کا قتل ہوا اُس وجہ سے۔حریم نے پوچھا

جی بیٹا اُس وجہ سے اب پتا نہیں کیا فیصلہ دعا کرنا دُرید نکاح کرلے کیا پتا پھر اُس بے چاری کی مشکلیں آسان ہو۔کلثوم بیگم کی بات پہ جانے کیوں حریم کا دل تڑپ اُٹھا

دُر لا کیوں کرنے لگے نکاح۔حریم بُرا مان کر بولی

کیوں دُرید شادی نہیں کرسکتا کیا ماشاءاللہ سے اب اُس کی عمر ہوگئ ہے شادی تو ہوجانی چاہیے پر وہ مانتا نہیں۔کلثوم بیگم کا دھیان اب دوسری طرف لگ چُکا تھا۔

اچھا ہوا نہیں کرتے شادی کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں۔حریم کا انداز دیکھ کر کلثوم بیگم نے ٹھٹک کر اُس کو دیکھا

آپ کیوں چاہتی ہیں آپ کے دُر لا کی شادی نہ ہو؟کلثوم بیگم نے پیار سے پوچھا

اِس حویلی میں ایک وہ ہیں جو ہماری ہر بات مانتے ہیں اگر اُن کی شادی ہوجائے گی تو ہم تو نظر بھی نہیں آے گے پھر ہمارا کیا ہوگا۔حریم نے اپنے اندر کا خدشا بیان کیا جس کو سن کر کلثوم بیگم نے اُس کو اپنے ساتھ لگایا 

ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں یہاں سب آپ سے پیار کرتے ہیں۔

پر دُر لا جیسا تو کوئی نہیں کرتا نہ۔حریم کی سوئی وہی اٹکی ہوئی تھی۔

💕💕💕💕💕

ماہی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو اپنے کمرے میں حشمت صاحب کو دیکھ کر اُس کا دل تیزی سے دھڑک اُٹھا۔

ہمیں معاف کرنا بیٹا۔حشمت صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا تو ماہی کا وجود پتھر کا بن گیا آخر وہ ہوگیا تھا جس کے نا ہونے کی اُس نے دعائیں کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شازل شاہ غصے سے کُھولتا نکاح نامے پہ دستخط کرچُکا تھا اُس نے لڑکی کا نام یا لڑکی کو دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا نکاح کے بعد وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا۔

کہاں جارہے ہو؟دُرید شاہ نے اُس کو جاتا دیکھا تو سنجیدگی سے پوچھا۔

اسلام آباد مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا پر آپ یہاں لیں آے اب کوئی میری واپسی کی اُمید نہ رکھے۔شازل شاہ سخت لہجے میں بول کر رُکا نہیں تھا اِس بار دُرید شاہ نے اُس کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی وہ شازل کو جانتا تھا غصے میں وہ کسی کی بھی نہیں سنتا تھا تبھی اُس کو کجھ وقت دینے کا سوچا۔

شازل شاہ جو کجھ دن پہلے انصاف انصاف بول رہا تھا آج خود کسی کے ساتھ ناانصافی کرکے شہر جاچُکا تھا ایک معصوم جان کو چھوڑ کر جس کو اُس کی اشد ضرورت تھی۔

عیشا کب سے یمان کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی یمان کو دیکھ رہی تھی جو آج کالج جانے کے لیے ایسے تیار ہورہا تھا جیسے کسی کی شادی میں جارہا ہوں۔

میرے بھائی خیر تو ہے کیا ہوا ہے تمہارے انداز آج کجھ نرالے لگ رہے ہیں۔عیشا سے رہا نہیں گیا تو بول پڑی۔

خیر ہے کیوں آپ کو نظر نہیں آرہا۔یمان اپنی شرٹ کا کالر ٹھیک کرتا سرسری لہجے میں بولا اُس کو بس کالج جانے کی جلدی تھی 

آج سے پہلے تو اتنا تیار شیار ہوکر کالج نہیں گئے تو آج کس کو ایمپریس کرنے کا اِرادہ ہے۔عیشا کی سوئی ایک ہی بات پہ اٹک گئ۔

ایسی کوئی بات نہیں یہ میرا روزانہ معمول ہے۔یمان مزید سوالوں سے بچتا بول کر اپنا کالج بیگ اُٹھا کر کمرے سے باہر چلاگیا۔

کجھ سوچ کر عیشا بھی اُس کے پیچھے صحن تک آئی۔یمان نے تاڑ پہ کپڑے ڈالتی فجر کو دیکھا تو اُس کی جانب آیا۔

آپی میں کیسا لگ رہا ہوں؟یمان فجر کے پاس آکر بولا فجر نے پلٹ کر حیرت سے اُس کو دیکھا کیونکہ آج سے پہلے یمان نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں پوچھی تھی کے میں کیسا لگ رہا ہوں؟

بتاؤ بتاؤ آج تمہارا ڈمپل بوائے فرصت سے تیار ہوا اور تو اور میل فیئر لولی کریم بھی لگائی ہوئی ہے چہرے پہ۔عیشا اپنی ہنسی دبائے شرارت سے اُس کو دیکھ کر بتانے لگی تو یمان سٹپٹاگیا۔

تو اِس میں کونسی بڑی بات ہے آپ بھی تو اپنے چہرے پہ اتنی ملتی ہیں۔یمان نے حساب برابر کیا۔جب کی فجر کبھی یمان کو دیکھتی تو کبھی عیشا کو۔

ایک منٹ ایک منٹ کیا واقع یمان تم نے آج کریم لگائی ہوئی ہے۔فجر نے مداخلت کرتے یمان سے پوچھا تو وہ کان کی لو کُھجانے لگا۔

جی اِس میں اتنا حیران ہونے والی تو کوئی بات نہیں کونسا مجھ پہ پابندی ہے۔یمان کجھ بدمزہ ہوا۔

نہ میرے بھائی کو پابندی تو نہیں مگر تمہیں ضرورت کیا تھی اپنے گورے چٹے چہرے پہ کریم لگانے کی سفید بھالوں بننے کا شوق چڑھا ہے کیا؟عیشا کی بات پہ یمان کا ہاتھ بے ساختہ اپنے چہرے پہ پڑا۔

آپی کیا واقع میں بھالوں لگ رہا ہوں۔یمان پریشان ہوتا فجر سے بولا۔

پاگل بنارہی ہے تمہیں اِس کو چھوڑو اور کالج کے لیے نکلو لیٹ ہورہا ہے۔فجر اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولی۔

یمان نے عیشا کو دیکھا جو ابھی بھی شوخ نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

اللہ پوچھے آپ سے۔یمان نروٹھے پن سے بولا تو عیشا ہنسی۔

پہلی پہلی بار محبت کی ہے۔

کجھ نہ سمجھ میں آئے میں

کیا کروں عشق نے میری

ایسی حالت کی ہے 

کجھ نہ سمجھ میں آئے میں

کیا کروں۔۔

عیشا فجر کے ساتھ کھڑی ہوکر اُس کو چڑانے کے لیے گاناگانے لگی تو یمان نے باہر نکلنے میں عافیت سمجھی۔

تمہیں نہیں لگتا یمان میں بدلاؤ آرہا ہے۔یمان باہر نکل گیا تو عیشا سنجیدگی سے فجر سے بولی۔

بڑا ہورہا ہے شاید اِس لیے۔فجر نے کہا.

شاید پر وہ تھوڑا عجیب ہوگیا ہے اکیلے اکیلے مسکراتا ہے کھویا ہوا رہتا ہے اب خود کو مینٹین کرنے لگا ہے کہاں پہلے اُس کے ماتھے پہ بال بکھرے ہوتے تھے اور اب نفاست سے بالوں کو کنگھی کرتا ہے جہاں پہلے پانچ منٹ میں تیار ہوتا تھا اب آدھا گھنٹہ لگادیتا ہے۔عیشا نے جو کجھ محسوس کیا وہ سب بتانے لگی۔

تمہاری باتوں کا مطلب؟فجر غور سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

مطلب صاف ہے مجھے لگتا ہے ہمارے بھائی کو محبت ہوگئ ہے۔عیشا بنا دیر کیے کہا تو فجر نے اُس کے بازوں پہ زور سے چٹکی کاٹی جس وہ بُلبُلا اُٹھی۔

شرم کرو یمان کی عمر کیا ہے بس سترہ سال اُس کو تو ٹھیک سے محبت لفظ کا مطلب نہیں پتا کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔فجر نے گھور کر کہا۔

جو بھی مجھے تو پیار کی علامت لگ رہی ہے اور سترہ سال عمر اتنی کم بھی نہیں ویسے بھی محبت میں عمروں کا کیا کام۔عیشا سرجھٹک کر بولی۔تو فجر کو پریشانی نے آ گھیرا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالج آکر یمان سیدھا لائبریری آیا تھا جہاں اُس کی سوچ کے مطابق آروش پہلے سے موجود تھی۔یمان نے ایک بھرپور نظر پوری لائبریری میں ڈالی جہاں موجود سب شاگرد پڑھنے میں مصروف تھے۔یمان چلتا ہوا آروش کے سامنے والی چیئر پہ بیٹھ گیا۔

اسلام علیکم!یمان پہلے تو بس اُس کو دیکھتا رہا پھر ہمت کرکے سلام جہاڑا۔یہ سوچ کرکے سلام کا جواب دینا ہر مسلمان پہ فرض ہے۔

وعلیکم اسلام!آروش اپنی نظریں کتاب پہ جمائے سلام کا جواب دینے لگی تو یمان نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر اُس کو ڈپٹا

کیسی ہیں آپ؟یمان نے دوسرا سوال کیا۔

ٹھیک۔آروش نے مختصر جواب دیا یمان کے لیے یہی بہت تھا۔

اُس سے پہلے یمان مزید کجھ پوچھتا آروش اپنی جگہ سے اُٹھ کر لائبریری سے باہر چلی گئ ہمیشہ کی طرح یمان دل مسوس کرکے رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕

ماہی کو شاہ حویلی لایا گیا تھا وہ جیسے ہی حویلی داخل ہوئی شبانا اُس کی طرف بڑھتی

زوردار تھپڑ اُس کے گال پہ مارا۔ماہی کو اپنا گال جلتا محسوس ہوا تکلیف سے اُس نے اپنی آنکھوں کو بند کردیا۔

توں(گالی)تیرے خبیث بھائی کی وجہ سے میرا سہاگ اُجڑ گیا۔شبانا ایک کے بعد ایک تھپڑ اُس کے چہرے پہ مار کر اپنے اندر کی بھڑاس نکالنے لگی۔باقی سب خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے لگے۔

اِس میں میرا کیا قصور

چٹاخ

چٹاخ۔

ماہی نے ہمت کرکے کجھ کہنا چاہا پر فاریہ بیگم ایک بعد ایک تھپڑ اُس کے چہرے پہ مارا جس پہ ماہی نڈھال ہوتی نیچے بیٹھتی چلی گئ۔شبانا خونخوار نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

آج زبان کھولی دوبارہ مت کھولنا۔شبانا اُس کے بالوں سے پکڑتی وارن کرنے لگی۔

آآ۔

اتنی سخت گرفت پہ ماہی کراہ اُٹھی۔

حریم نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوکر ہال کا منظر دیکھا تو اُس کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا وہ جلدی سے بھاگ کر نیچے آئی۔

بھابھی کیا ہوگیا چھوڑے انہیں۔حریم شبانا ہاتھ پکڑ کر روک کر بولی جو کبھی ماہی کے چہرے پہ تھپڑ ماررہی تھی تو کبھی اُس کے پیٹ پہ لاتیں برسارہی تھی۔ملازمائیں رحم کرتی نظروں سے ماہی کمزور سِراپا دیکھ رہی تھی جب کی فاریہ بیگم بے تاثر نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

تم بیچ میں مت آؤ۔شبانا جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتی کھینچ کر ماہی کو تھپڑ مارا۔ماہی کو لگا آج اُس کی زندگی کا آخری دن ہے۔

بھابھی چھوڑے اِنہیں کیوں بے چاری پہ ظلم کررہی ہیں۔وہ مسلسل ماہی کو چھڑوانے کے چکر میں تھی پر اُس کی سننے کو کوئی تیار کب تھا۔

پہلے بھی کہا اب بھی بول رہی ہوں تم بیچ میں مت آؤ ورنہ تمہارا بھی میرے ہاتھوں نقصان ہوجائے گا۔وہ نفرت آمیز لہجے میں کہتی در پہ در ماہی کے نازک گالوں پہ تھپڑ مارنا شروع ہوگئ ماہی کے منہ سے درد ناک چیخ نکلی  حریم کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل چُکی تھی اُس نے التجا کرتی نظروں سے اپنی پھپھو کو دیکھا جو سکون سے ملازماؤ کے ساتھ کھڑی تھی۔

پھپھو آپ روکے نہ اللہ ناراض ہوجائے گا یوں کسی پہ ظلم نہیں کرتے اُس بے چاری کا کیا قصور ہے۔حریم نے منت کرنے والے انداز میں کہا

ونی میں آئی ہوئی ہے یہ ہے اِس کا قصور اِس کے بے غیرت بھائی نے میرا سہاگ اُجاڑا ہے اِس کو تو میں جینے نہیں دوں گی۔جواب اُس کی بھابھی نے دھاڑنے والے انداز میں دیا 

پلیز بھابھی چھوڑدے وہ مرجائے گی۔حریم نے ایک بار پھر بے حس بنی بھابھی سے منت کی جواب میں اُس کو خون آشام نظروں سے اُس کو دیکھتی دھکادیا جس سے اُس کا سر ٹیبل پہ لگا اُس نے کراہ کر ماتھے پہ ہاتھ لگا تو خون کی بوندیں نظریں آئی اپنی تکلیف کو نظرانداز کرتی اُس نے رحم بھری نظر نیم بے ہوش وجود  پہ ڈال کر کھڑی ہوگئ اُس کا رخ اب اُپر کی جانب تھا۔

آپی

آپی 

خدا کا واسطہ کا جلدی سے دروازہ کھولے۔اُپر آکر اُس نے دروازے کو پیٹ ڈالا

کیا ہوگیا ہے۔آروش نے دروازہ کھول کر ایک نظر اُس کے ماتھے پہ لگی چوٹ پہ ڈال کر استفسار کیا

وہ پلیز اُن کو بچالیں ورنہ وہ مرجائے گی۔حریم نے پُھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا اُس کا تنفس بُری طرح بگڑگیا تھا سیڑھیوں سے تیز بھاگ کر آنے کی وجہ سے۔

کون کس کو ماردے گا؟آروش نے آئبرو سیکڑ کر پوچھا

جو لڑکی آج آئی ہیں اُن کو بے چاری کی حالت بہت بُری ہوگئ ہے۔حریم نے افسردہ لہجے میں بتایا

تو؟اُس نے نارمل لہجے میں پوچھا

تو آپ نیچے چلیں آپ بھابھی کو روک سکتی ہیں تاکہ وہ اُس پہ ظلم نہ ڈھائے ہم تو کب سے روکنے کی کوششوں میں ہیں پر ہماری کسی نے نہیں سُنی آپ آجائے آپ روک سکتی ہیں۔حریم کی بات پہ اُس کے چہرے پہ سایہ آکر لہرایا

پلیز اللہ کا واسطہ ہے آپ کو اِس کو چھوڑدے میں ہر بات مانوں گی آپ کو پر اُس کو مت مارے اللہ سے ڈرے۔

اپنی سوچو کو جھٹکتی بے تاثروں نظروں سے حریم کے پریشان چہرے کو دیکھا

اُس کو یہاں چھوڑ کر جانے والے اُس کے اپنے ہیں تمہیں اُس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنے انجام سے واقف وہ خود بھی ہوگی۔آروش نے سپاٹ لہجے میں کہا

مطلب آپ نہیں چلے گی۔حریم کی جیسے آخری اُمید بھی ختم ہوگئ

نہیں کیونکہ نہ تم روک سکتی ہو نہ میں تم اندر آؤ میں تمہارے ماتھے کی ڈریسنگ کرلوں۔آروش نے اُس کے ماتھے سے گالوں تک آتی خون کی لکیر کو بہتے دیکھا تو ہاتھ پکڑ کر کہا حریم نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا

ہمیں آپ سے اتنی بے حسی کی اُمید نہیں تھی حیرت ہورہی ہے آپ اتنی بے حسی کا مظاہرہ کیسے کرسکتی ہیں۔حریم نے افسوس بھرے لہجے میں کہا

یہاں رہنے والا ہر فرد بے حس بن جاتا ہے ایک دن تمہارا شمار بھی ہوگا۔آروش سرد لہجے میں بولی تو اُس نے سرجھٹکا

ہم اتنے ظالم کبھی نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمارا ضمیر ابھی زندہ ہے مر نہیں گیا جو کسی پہ ظلم ہوتا دیکھے اور کجھ محسوس بھی نہ ہو۔حریم نے اختلاف کیا

ضمیر کو مرنے میں وقت نہیں لگتا۔آروش سنجیدگی سے کہتی ٹھاہ کی آواز سے دروازہ بند کیا۔

حریم نے بے بس نظروں سے بند دروازے کو دیکھا ماہی کی دلخراش چیخے وہ یہاں بخوبی سن سکتی تھی اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے خود پہ بھی اُس کو بے اختیار غصہ آیا وہ کیوں اُس کے لیے کجھ کر نہیں پائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھینک آؤ اِس کو کہی کسی کونے میں۔شبانا ماہی کو مار مار تھک گئ تو پاس کھڑی ملازمہ سے بولی جو اُس کی بات پہ سرہلاتی نیم بیہوشی کی حالت میں ماہی کو لیتی سٹوروم کی طرف جانے لگی۔

شازل لالہ سے نکاح ہوا ہے اِس منہوس کا شکر ہے شازل لالہ نہیں ہے گاؤں میں۔نازلین جو ابھی آئی تھی نیچے ملازماؤں کے سہارے چلتی ماہی کو دیکھا تو بتایا۔

ہوتا تو کیا کرتا۔شبانا کاٹ کھانے والی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی۔

وہ بچپن میں اپنی بلی کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے تھے تو سوچے اگر وہ اپنی بیوی کا حال ایسا دیکھے گے تو کیا ری ایکشن دے گے۔نازلین نے کہا

بیوی نہیں ونی میں آئی ہے بس اِس کی کوئی اوقات نہیں۔شبانا آپے سے باہر ہوئی۔

جو بھی

جو بھی کیا تیرے بھائی کے قاتل کی بہن ہے وہ منہوس۔شبانا جھلا کر کہتی وہاں سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕

واٹ توں نے نکاح کردیا۔رضا شاکی نظروں سے شازل کو دیکھتا بولا جو ابھی پہنچا تھا وہاں۔

بدقسمتی سے ہاں۔شازل اپنے ہاتھ بالوں میں پھنساتا ناگواری سے بولا

یہ تو اچھا نہیں ہوا۔ارحم نے باتوں میں حصہ لیا۔

اچھا یا بُرا میں کسی کی باتوں یا پریشر میں نہیں آنے والا میں کبھی گاؤں نہیں جانے والا اب۔شازل غصے سے اپنے منصوبوں سے آگاہ کرنے لگا۔

وہ تمہارا ابائی گاؤں ہیں اور اب تو تیری بیوی بھی وہاں ہیں۔ارحم نے اُس کو سمجھانا چاہا۔

واٹ ربش۔شازل ناگواری سے کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

جانے اُس بے چاری کے ساتھ کیا ہورہا ہوگا اور یہ یہاں غصے سے بھنا بیٹھا ہے۔رضا نے شازل کو جاتا دیکھا تو افسوس سے کہا

💕💕💕💕💕💕

رات کا وقت تھا آروش کچن میں آتی وہاں سے پہلے فرسٹ ایڈ بوکس لیا ایک ٹرے نکال کر اُس نے پہلے  دودھ گرم کیا دو روٹیاں پکاکر اُس نے فریج سے سالن نکال کر اُس کو بھی گرم کیا۔ 

فرسٹ ایڈ بوکس دودہ کا گلاس کھانا یہ سب ٹرے میں سیٹ کرتی وہ سٹوروم میں آئی جہاں ماہی کو رکھا گیا تھا۔ 

دروازہ کُھلنے کی آواز پہ ماہی ڈر کر خود میں سمٹ کر بیٹھی گئ اُس کے چہرے پہ خوف کی پرچھایا چھانے لگی۔

ڈرو نہیں میں ہوں آروش شھباز۔آروش نیچے اُس کے ساتھ بیٹھ کر درمیان میں ٹرے رکھ کر بولی۔

ماہی نظریں اُٹھا کر اُس کو دیکھنے لگی جو براؤن کلر کے شلوار قمیض کے ساتھ ہم رنگ ڈوپٹہ پہنے کندھوں پہ کالی شال ڈالے ہوئی تھی۔ماہی نے پہلی بار اُس کو دیکھا تھا اُس کو یاد تھا اکثر آمنہ آروش کی تعریف کیا کرتی تھی جس پہ اُس کس یقین نہیں آتا تھا یا بے زار ہوجاتی تھی مگر آج اپنے اس کو دیکھ کر ماہی کو لگا جو کجھ سُنا تھا وہ تو کجھ بھی نہیں سامنے کھڑی لڑکی اُس سے زیادہ تھی۔

پہلے ڈریسنگ کرلوں تمہاری اُس کے بعد تم کھانا کھالینا۔آروش نے اُس کی نظروں میں اپنے لیے ستائش دیکھ لی تھی جس کو نظرانداز کیے  نارمل لہجے میں اُس سے بولی

زخم دینے والے مرہم لگاتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ماہی نے طنزیہ کہا۔

میرے سامنے زبان چلانے سے اچھا ہے اُن کے ہاتھ روکتی کو مارنے کے لیے تمہاری طرف بڑھ رہے تھے۔آروش نے مسکراکر میٹھا سا طنزیہ کیا ساتھ میں اُس کے سوجھے ہوئے گالوں پہ مرہم لگانے لگی۔

ونی کی کیا اوقات ہوتی ہے وہ میں باخوبی جانتی ہوں ہاتھ روکتی تو تمہارے گھروالے میرے ہاتھ کاٹ ڈالتے۔ماہی کو خود پہ رونا آیا۔

ہاتھ نہیں کاٹتے ظاہر ہے تم سے اب کام بھی تو کروانے ہیں۔آروش بے حسی سے بولی۔

میں لگالوں گی۔آروش نے اُس کے ماتھے پہ لگی چوٹ پہ ڈریسنگ کرنی چاہی تو ماہی نے کہا

تم اپنی انرجی ضائع مت کرو کل کام آئے گی۔آروش کی بات پہ ماہی کو سمجھ نہیں آیا وہ ہمدردی کرنے آئی ہے یا اُس کے زخموں پہ نمک چھڑکنے۔

کھانے میں کیا پسند ہے تمہیں۔آروش روٹی کا نوالہ اُس کے منہ کے پاس کرتی پوچھنے لگی

سب کھالیتی ہوں۔ماہی ایک نظر اُس کو دیکھ کر بولی۔

گُڈ۔آروش سرہلاکر بولی۔

اُٹھو۔کھانا کھانے کے بعد آروش کھڑی ہوتی اُس سے بولی۔

پر کہاں؟ماہی ایک بار پھر خوفزدہ ہوئی۔

کیا ساری رات یہی رہ کر گُزارنی ہے۔آروش نے پوچھا تو ماہی نے چاروں اطراف دیکھا جہاں دھول مٹی کے علاوہ کجھ نہیں تھا۔یقیناً چوہے بھی ہوگے۔

میری قسمت میں تو اب یہی ہے۔ماہی مایوس ہوئی۔

آؤ لالہ کے کمرے میں چھوڑ آؤں تمہیں تمہارے شوہر کے کمرے میں ہونا چاہیے۔آروش کی بات پہ ماہی کو اچانک یاد آیا اُس کا شوہر بھی ہے جس کے ہوتے ہوئے بھی اُس کا ساتھ اتنا ظلم ہوا۔

اگر وہ بھی مارے توں۔یہ سوچ آتے ہی اُس کے وجود میں سنسنی پھیل گئ۔

میں یہی ٹھیک ہوں۔ماہی نے کہا

ایز یو وِش۔آروش کندھے اُچکاکر سٹوروم سے چلی گئ۔

اتنی بُری تو نہیں میں خوامخواہ چڑ کھاتی تھی۔آروش کے جانے کے بعد ماہی نے راے قائم کی آروش کے مطلق۔

💕💕💕💕💕💕

حریم یہ کیا ہوا ہے تمہارے ماتھے پہ۔دُرید شاہ نے حریم کے ماتھے پہ چوٹ دیکھی تو فکرمندی سے پوچھنے لگا۔

ہمارا پاؤں سے پھسل گیا تھا واشروم میں تبھی چوٹ لگ گئ۔حریم نے پہلی مرتبہ دُرید سے جھوٹ بولا

خیال کیا کرو نہ کیا درد ہورہا ہے زیادہ؟دُرید نے نرمی سے سمجھانے کے بعد پوچھا

معمولی سا زخم ہے بس۔حریم نے مسکراکر بتایا

اچھا میرے ساتھ چلو  تمہاری چیزیں تمہیں دوں جو ابھی تک نہ دے پایا۔دُرید شاہ نے کہا تو اُس نے سر کو جنبش دی۔

دُر لا ہمیں آپ کو کجھ بتانا تھا۔دُرید شاہ نے اُس کو سامان دیا تو ان کو سائیڈ پہ رکھ کر آہستہ آواز میں کہا

کیا بتانا تھا۔دُرید شاہ سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

وہ جو لڑکی آئی تھی نہ ان کو بھابھی شبانا نے بہت مارا پیٹا تھا وہ بہت زخمی بھی ہوگئ تھی آپ ان سے کہیں نہ اُن کو نہ مارے بے چاری کو تکلیف ہورہی ہوگی۔حریم نے افسردہ لہجے میں بتایا تو دُرید نے گہری سانس خارج کی۔

تمہارے کالج کی چھٹیاں کب ختم ہورہی ہیں؟دُرید شاہ اُس کی بات نظرانداز کیے پوچھنے لگا

دو دن بعد۔حریم نے بتایا

ٹھیک ہے اُس کی تیاری رکھو ہاسٹل میں چھوڑ آؤں گا۔درید شاہ جوابً بولا

آپ نے ہماری بات کا جواب نہیں دیا۔حریم نے ایک بار پھر کہا

دیکھو حریم تمہاری بات کا جواب فلحال میرے پاس نہیں تم اِس معاملے سے دور رہو اِسی میں بہتری ہے۔دُرید سنجیدگی سے بولا

مطلب آپ بھابھی شبانا کو کجھ نہیں کہے گے؟حریم کو دُکھ ہوا

میں کیا کہوں گا یہ عورتوں کا معاملہ ہے میں نہیں بول سکتا اگر کوئی بول سکتا ہے تو وہ شازل ہے جو ابھی یہاں نہیں۔دُرید نے بتایا

تو آپ شازل لالہ سے کو آگاہ کرے نہ۔حریم نے مشورہ دیا

تم اپنی پڑھائی پہ دھیان دو حریم۔درید نے اِس بار سختی سے ٹوکا تو وہ اپنا سرجھکاگئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کہاں ہو لالہ؟آروش نے کال پہ شازل شاہ سے پوچھا

اسلام آباد۔شازل نے سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔

کیوں؟آروش نے دوسرا سوال کیا

کیونکہ میں یہی ہوتا ہوں گاؤں آکر سوائے ڈپریشن کے کجھ اور نہیں ملتا پتا نہیں تم سب کیسے رہ رہو ایسے اصولوں پہ میرا تو کجھ ہی پل میں دم گُھٹنے لگتا ہے کیسی زندگی ہے جہاں دوسرے لوگ ہماری زندگی کے فیصلے کرکے ہم پہ مسلط کررہے ہیں۔شازل شاہ سخت بیزار معلوم ہورہا تھا۔

آپ اپنی امانت تو لیکر جائے پھر آپ کی مرضی اسلام آباد رہے ہیں یا کہی اور۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

کونسی امانت؟شازل شاہ اُس کی بات سمجھ نہیں پایا۔

آپ کی بیوی۔آروش کی بات پہ اُس کی آنکھوں کے سامنے سارا واقع ایک بار پھر تازہ ہوا۔

بکواس ہے میری کوئی بیوی نہیں میں تو شادی کے سخت خلاف تھا سوچ لیا تھا کبھی شادی نہیں کروں گا پر اُس دن جو میرا تماشا ہوا وہ میں کبھی نہیں بھولوں گا اور نہ کبھی گاؤں آنے کی حماقت کروں گا۔شازل سخت لہجے میں بولا تو آروش بنا کوئی اور بات کہے کال کٹ کرگئ۔

میرے بھائی بھی بے حس ہیں آخر کیوں نہ ہو رگوں میں شاہ خاندان کا خون جو ہے۔اپنے فون کے وال پیپر پہ دُرید شاہ اور شازل شاہ کی تصویر دیکھ کر آروش طنزیہ لہجے میں بڑبڑا کر اُٹھ کھڑی ہوئی 

وہ باہر آئی تو ماہی کو کراہتے پایا جو تکلیف میں ہونے کے باوجود حویلی کے بڑے سے ہال کو پونچا لگارہی تھی آروش نے تعجب سے اُس کو پھر ملازماؤ کو دیکھا جو سر جھکاکر خاموشی کھڑی تھی جہاں پہلے حویلی کے ہال کی صفائی پانچ سے چھ عورتیں کیا کرتی تھیں آج اکیلی کمزور سی ماہی کو یہ کام سونپا گیا تھا بنا اُس کی طبیعت کا لحاظ کیے۔

صوفے پہ بیٹھ جاؤ۔آروش سیڑھیاں اُترتی ماہی کے ہاتھ سے کپڑا لیکر بولی تو ماہی نے آنسوؤ سے بھری آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھا جو سپاٹ تاثرات لیے کھڑی تھی۔

چھوٹی بی بی نے کہا تھا آج سے سارے کام یہی کرے گی اور کوئی بیچ میں نہیں آئے گا۔وہاں کھڑی ایک ملامہ نے کہا تو آروش تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھا جس سے وہ خاموش ہوگئ

تمہیں کانوں کا مسئلہ ہے کیا؟ماہی کو ایک جگہ ٹِکا دیکھ کر میٹھا طنزیہ کیا۔

ماہی سرعت سے اپنا سر نفی میں ہلانے لگی مگر قدم کہی اور نہیں بڑھا پائی اُس میں اتنی سکت نہیں تھی پہلے کل کی مار ساری رات کی بے آرامی اُس کے بعد خالی پیٹ کام کرنا اُس کے اعصابوں کو شل کرگیا تھا۔

آروش۔شبانا کالی چادر میں ملبوس دھاڑنے والے انداز میں اُس کا نام لیا آروش کو تو کوئی فرق نہیں پڑا وہ پرسکون سی اُس کی جانب پلٹی البتہ ماہی کی ٹانگیں ضرور کپکپاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔

آپ کی عدت کے مہینے ہیں اپنے کمرے سے باہر کیوں آجاتی ہیں بار بار۔آروش نے سرسری لہجہ اپنا کر کہا

تم میرے معاملات سے دور رہو ورنہ اچھا نہیں ہوگا یہ میری مجرم ہے اِس کے ساتھ جیسا رویہ چاہوں میں اختیار کرسکتی ہوں۔شبانا اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بولی۔

اِس لڑکی کو مجرم کہنے سے پہلے اِس کا جرم بتائے۔آروش نے پوچھا

میرے شوہر کے قاتل کی بیوی ہے۔شبانا نفرت سے غرائی۔

قاتل کی بہن ہے قاتل نہیں جو قاتل ہے اُس کو سزا دو کسی معصوم بے گُناہ کو نہیں۔آروش نے ناگواری سے کہا

تم اپنے کمرے میں جاؤ تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتی میں۔شبانا نے دانت پیس کر کہا

لالا والوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے اِس لیے آپ اپنے ہجرے میں جائے۔آروش کی بات پہ پاس کھڑی ملازمین کی ہنسی چھوٹ گئ تھی۔

شبانا کو غصہ تو اُس کی بات پہ بہت آیا تھا پر کسی اور وقت کا سوچتی اپنے کمرے کی جانب چلی گئ۔

آپ سب صفائی مکمل کریں اور تم میرے ساتھ چلو۔آروش ملازماؤ سے کہتی ماہی سے کہنے لگی تو اُس نے مشکور نظروں سے آروش کو دیکھا جو اب ہر چیز سے لاتعلق تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ پریشان مت ہو اللہ ماہی کی حفاظت کرے گا۔آمنہ چارپائی پہ خاموش بیٹھے زین کے پاس آکر تسلی آمیز لہجے میں بولی

اللہ تو بیشک اُس کی حفاظت کرے گا پر مجھے شاہ خاندان سے کسی رحم کی اُمید نہیں ان کے لیے کسی معصوم کی جان لینا عام بات ہے۔ذین افسردگی سے بولا وہ بہت فکرمند تھا ماہی کے لیے۔

وہ ایسا کجھ نہیں کرے گے ہمیں تو شکر کرنا چاہیے ماہی کا نکاح دیدار شاہ سے نہیں بلکہ شھباز شاہ کے سپوت شازل شاہ سے ہوا ہے جو زیادہ تر شہر رہنا پسند کرتا ہے کیا پتا وہ ماہی کو بھی سب سے دور اپنے ساتھ شہر لیکر جائے اتنا تو آپ کو بھی پتا ہوگا شہر میں رہنے والے واسیوں کی سوچ الگ ہوتی ہے۔آمنہ کی بات ذین کو کسی حدتک ٹھیک لگی پر پھر بھی اُس کو قرار نہیں آیا۔

شازل ماہی کو اپنی بیوی تسلیم کرے گا تب اُس کو لیکر جائے گا نہ کہی اور وہ شھباز شاہ کا بیٹا ہے یقیناً اُسی کی طرح ہوگا پتھر دل۔ذین سرجھٹک کر بولا

شھباز پتھر دل نہیں

شھباز شاہ وہی ہے جس نے سالوں پہلے ایک معصوم کی جان لی تھی اور تم اب بھی کہہ رہی ہو وہ پتھر دل نہیں۔ذین نے تاسف بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولا تو آمنہ لاجواب ہوگئ۔

وہ بہت پُرانی بات ہے ذین اور اللہ اُن کو سزا بھی دے رہے ہیں اپنی لاڈلی بیٹی آروش شاہ کی صورت میں جس کی شادی کسی نہ کسی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہے کیا آپ بھول گئے ہیں اُس کے عین نکاح کے دن اُس کے ہونے والے شوہر کا انتقال ہوگیا پھر جب کجھ وقت بعد دوسرا رشتہ ہوا تو وہ لڑکا کار ایکسیڈنٹ میں معزور ہوگیا اور تیسری بار تیسری بار تو اُس کی بارات ہی نہیں آئی آپ سوچ سکتے ہیں جس بیٹی کے ساتھ یہ سب ہو اُس کے ماں باپ پہ کیا گُزرتی ہوگی سب آروش شاہ کو سبز قدموں والی بولتے ہیں۔آمنہ ایک سانس میں سب کجھ بتانے لگی۔

میں جانتا ہوں اِن سب میں اُن کی بیٹی کا کیا قصور تم اُن کا ذکر میرے سامنے مت کرو ہمیں تو گُناہ ہوگا بلاوجہ انہیں بھی ملے گا۔ذین سنجیدگی سے بولا تو آمنہ شرمندگی سے اپنا سرجھکاگئ جذبات اور بے اختیاری میں آکر وہ نامحرم کے سامنے آروش شاہ کا نام لے چُکی تھی جو پہلی بار ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

میں نوٹ کررہا ہوں تیرا زیادہ تر دھیان پڑھائی کے بجائے اُس آروش پہ ہوتا ہے۔آج آروش نہیں آئی تھی جس کا پتا یمان کو کالج آنے کے بعد ہوا تب سے وہ غم سم سا کلاس اٹینڈ کررہا تھا ابھی وہ فری ہوا تو عرفان نے بغور اُس کا جائزہ لیکر کہا۔

ایسی کوئی بات نہیں۔یمان نظریں چُراکر بولا

ایسی نہیں تو کسی بات ہے دیکھ بھئ میں تیرا دوست ہوں تو مشورہ بھی دوستوں والا دوں گا اگر تیرے دل میں اُس کے لیے کجھ ہے بھی تو ایک بات میں کلیئر کردوں وہ تمہارے لیے کسی سیراب کے علاوہ کجھ نہیں تم دونوں میں بہت فرق ہے سب سے زیادہ فرق توں اِسی بات سے لگالیں کے وہ شاہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے جہاں اپنے قبیلے اپنی ذات پات کے علاوہ بیٹیاں کہی اور نہیں دی جاتی۔عرفان سنجیدگی سے اُس کو سمجھانے لگا جس کو سنے کے بعد یمان کو اپنے اندر مایوسی پھیلتی محسوس ہوئی پر وہ کجھ بول نہیں پایا کہی نہ کہی اُس کو عرفان کی باتیں سچ لگ رہی تھی یہ باتیں تو اُس کے دماغ میں بھی آتی تھی پر وہ اپنے دل کے ہاتھوں بے بس تھا جو بس اُس کی آواز اور آنکھوں کا اسیر ہوگیا جو نہ ذات کا فرق دیکھ رہا تھا اور نہ دونوں کے درمیان موجود اسٹیٹس کا۔

مجھے بس اپنا نام کمانا ہے بہت بڑا سنگر بننا میرا خواب ہے اُس سے زیادہ میری کوئی اور خواہش نہیں۔یمان اپنے دل کو مارکر بولا اُس کو لگتا تھا شاید پئسا آجانے کے بعد محبت بھی مل جائے جو اُس کی بس خام خیالی تھی۔

گُڈ لگ میرے یار۔عرفان خوش ہوکر بولا اور یمان مسکرا بھی نہیں پایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یمان ٹھیک سے کھانا کھاؤ۔فجر نے یمان کو بس کھانے کی پلیٹ کو گھورتا پایا تو کہا

مجھے بھوک نہیں آپی نیند آرہی ہے سونا ہے۔یمان دسترخواں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

کیا ہوگیا ہے یمان تم کھانے میں آجکل نخرا نہیں کرتے اور نہ ٹھیک سے کھاتے ہو طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔عیشا اُس کی بات سن کر فکرمندی سے گویا ہوئی۔

جی سب ٹھیک ہے میں بس سونا چاہتا ہوں۔یمان یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلاگیا 

فجر نے ایک نظر اُس کی پلیٹ کو دیکھا جہاں کھانا جوں کا توں تھا یمان نے ایک نوالہ تک نہیں لیا تھا۔

یمان کمرے میں آکر اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹ گیا۔

آپ پلیز میری ہوجائے۔یمان تصور میں آروش کو مخاطب کرتا نیند کی وادیوں میں اُتر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یمان کی ٹیشن ہورہی ہے۔فجر نے عیشا سے کہا

وہ تو مجھے بھی اب ہونے لگی ہے بس ایک بات پہ تسلی ہوتی ہے دو سال سے ایک سال گُزرگیا تو دوسرا سال بھی سکون سے گُزر جائے اُس کے بعد تو یمان کا سارا دھیان اپنے فیوچر کی جانب ہوگا اُس کا خواب پورا ہوگا سنگر بننے کا آخر کو اُس کا جنون ہے۔عیشا اُس کی بات کے جواب میں بولی

وہ تو تمہاری بات اپنی جگہ ٹھیک پر عیشا یمان بدل رہا ہے جہاں ہر وقت اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ ہوتی تھی وہ اب غائب ہے ہر وقت اُس کے ہاتھ میں گِٹار موجود ہوتا تھا پر اب تو شاید وہ گِٹار کی شکل بھی نہیں دِیکھتا ہوگا۔فجر کے لہجے میں یمان کے لیے فکرمندی تھی۔

میں نے نوٹ کیا ہے پر تم پریشان مت ہو سوجاؤ اور سکون کرو کیونکہ جلدی ارسم پاکستان آنے والا ہے اُس کے بعد تمہاری شادی کی تیاریاں شروع ہوگی۔عیشا نے کہا تو اُس نے گہری سانس بھری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا میں آپ کا چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟شہد آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھ کر یمان نے اپنے اندر دبی خواہش کا اظہار کیا ساتھ میں دل ڈر بھی رہا تھا کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے اور اُس کی ناراضگی اُس کو کہاں برداشت ہونی تھی۔

میرے گھروالے مجھے جان سے ماردے گے تمہیں پتا ہے ایک سیدزادی سے ایسی فرمائش کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔جواب میں آروش نے جیسے ڈھکے چھُپے لفظوں میں ڈرانا چاہا

ایک سیدزادی سے یہ عام بندہ بشر عشق کرتا ہے اُس کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے یہ بھی بتادے۔ڈرے بنا یمان اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو آروش مسکرائی آنکھوں میں بڑھتی چمک دیکھ کر یمان نظریں چُراگیا جس سے آروش کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔

ایک سیدزادی سے عشق کرنے کا نتیجہ ہیجر کی صورت میں سامنے تمہارے آے گا ہر پل تمہیں یہ احساس کروائے گا کیسے تم نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں برباد کی۔ڈوبتے دل کے ساتھ آروش نے جواب دیا کیونکہ اپنی زندگی ہاتھوں سے برباد تو اُس نے بھی کی تھی۔

عشق میں جُدائی موت کے مترادف ہوتی ہے کیا کوئی اور سزا نہیں کیونکہ میں اتنی جلدی بے موت مرنا نہیں چاہتا مجھے آپ کے ساتھ بہت سارا جینا ہے اور اپنی زندگی میں اپنا نام بنانا ہے ۔یمان کا دل کانپا تھا ہجر کے نام پہ۔

موت سے ڈرتے ہو؟ یہ تو برحق ہے۔آروش تھوڑا جھک کر دلچسپی سے پوچھنے لگی۔

بیشک موت برحق ہے پر ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔یمان نے جواز پیش کیا

یہ تو ہے تم کالج بوائے ہو اور میں کالج گرل تو یہ بتاؤ کیا اِس عمر میں تمہیں پیار کرنا زیب دیتا ہے۔آروش نے جیسے مذاق اُڑایا

پیار نہیں عشق کرتا ہوں میں آپ سے اور میرے دل نے عشق کرتے وقت میری عمر نہیں دیکھی۔یمان کی حاضری جوابی سن کر آروش کِھلکھلائی

اب مجھے جانا ہوگا اگر کسی نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو مسئلہ ہوجائے گا۔آروش اُٹھ کھڑی ہوئی تو یمان نے بے اختیار اُس کے دستانے پہنے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا

تھوڑی دیر اور باتیں کرتے ہیں کالج میں تو آپ یکسر اجنبی بن جاتی ہیں بس چھٹی کے وقت یہ کجھ گھڑی نصیب ہوتی ہے۔اپنا ہاتھ دور کرتا یمان جیسے التجا کرنے لگا

تمہاری تھوڑی دیر ڈھلتے دن تک ختم نہیں ہوگی کالج میں اجنبی بننے کا سبب یہ ہے کے تمہیں اپنی جان پیاری نہیں پر مجھے تمہاری جان عزیز ہے اِس لیے ایک بار پھر کہوں گی اپنا راستہ بدل دو کیونکہ میری طرف آنے کا راستہ سوائے کاٹوں کے کجھ نہیں تمہارے پیر بس مجھ تک پہنچنے تک لہولہان ہوجائے گے پر منزل تمہیں ملے گی بھی یا نہیں۔آروش جیسے تھک چُکی تھی۔

آپ مایوسی والی بات کیوں کرتی ہیں کیا میری چاہت یک طرفہ ہے؟ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا گیا

میرے بس میں ہوتا تو تمہاری چاہت یک طرفہ ہوتی کیونکہ سیدزادیاں نامحرم سے پیار یا باتیں نہیں کرتی پر میں اِس گناہ کا مرتکب بن چُکی ہوں۔آروش کا جواب سن کر یمان سرشار ہوا تھا تو کہی پریشان بھی

آپ کو ہمارا ملن ناممکن کیوں لگتا ہے۔ہمیشہ سے کیا جانے والا سوال یمان نے ایک بار پھر کیا

کیونکہ شاہ خاندان میں شادیاں شاہ خاندان کے اندر ہی ہوتی ہیں۔آروش کا لہجہ اُداس ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. .  

آروش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان نیند میں خواب دیکھتا یکدم اُٹھ بیٹھا

یااللہ یہ کیسا خواب تھا؟یمان اپنے ماتھے سے پسینا صاف کرتا بڑبڑایا اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا اُس نے خواب میں آروش کو دیکھا اپنی خواہش کو یاد کرکے یمان کے پریشان چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔

میرے دل میں تو کبھی یہ خیال نہیں آیا کے اُن کا چہرہ دیکھ لوں۔یمان اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود سے بولا

وہ تو خواب میں بھی مجھ سے پردہ کررہی تھیں۔یمان اچانک ہنس پڑا۔

مجھے تمہاری جان عزیز ہے۔

خواب میں آروش کا کہا جُملا اُس کو یاد آیا تو ایسی خوشی محسوس ہونے لگی جیسے آروش نے سچ میں اُس سے کہا ہو۔

کیا کبھی اصل میں وہ مجھ سے ایسی بات کرے گی یا ان کو میں عزیز ہوگا یا مجھے وہ حق حاصل ہوگا جو میں ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ سکوں؟یمان کے دل میں ایک کے بعد ایک خیال آرہا تھا جس کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ہاسٹل جارہی ہو؟آروش حریم کے کمرے میں آئی تو اُس کو بیگ میں کپڑے ڈالتا دیکھا تو پوچھا

جی۔حریم مختصر جواب دے کر اپنے کام میں لگ گئ۔

ناراض ہو؟آروش نے اُس کے سنجیدہ تاثرات دیکھے تو اندازہ لگایا ورنہ وہ بھی جانتی تھی حریم سچ میں اُس سے ناراض ہوگی بہت دنوں سے اُس کے ساتھ بات چیت بھی کم کرلی تھی۔

ہم کیوں آپ سے ناراض ہونے لگے۔حریم عام انداز میں بولی۔

اِدھر میری طرف دیکھو۔آروش اُس کے ہاتھ سے کپڑے لیکر بیڈ پہ رکھے اور اُس کا دھیان اپنی طرف کیا۔

ہمیں لیٹ ہورہا ہے دُر لا نے جلدی تیار ہونے کا کہا تھا۔حریم نے سنجیدگی سے کہا

دیکھو حریم ناراض یا اُداس مت ہو تم ابھی چھوٹی ہو تمہیں ابھی کجھ ٹھیک سے نہیں پتا اِس لیے تم بھابھی شبانا یا کسی کے بھی معاملے میں مت بولو ورنہ وہ تم پہ بھی غصہ کرے گے تبھی دُرید لالہ بھی تمہیں ہاسٹل بھیج رہے ہیں۔آروش نے پیار سے سمجھایا

ہم پہ غصہ اُس لیے ہوگے کیونکہ ہم اِس حویلی کے مکین نہیں۔حریم تلخ لہجے میں بولی۔

حریم یہ کی بول رہی ہو اور ایسا کس نے کہا تم اِس گھر کی فرد نہیں۔آروش نے سخت لہجہ اپنایا۔

یہ ہماری ماں کا گھر تھا ہمارے باپ کا نہیں اور بیٹیاں تو باپ کے پاس ہوتی ہیں ایک ہم ہیں جو دودھیال ہونے کے بجائے اپنے ننہال میں ہیں۔حریم کس مجرم کی طرح بولی۔

تمہاری ماں کا گھر ہے تو وہ ماں کس کی ہے؟آروش نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

ہماری۔حریم بنا تاخیر کیے بولی

وہ اگر تمہاری ماں تھی تو یہ بات بھی جان لو ان کی ہر چیز پہ صرف تمہارا حق ہے یہ حویلی اِس میں تمہارا حصہ بھی اُتنا ہی نکلتا ہے جتنا کے بابا سائیں چچا جان والوں کا نکلتا ہے کیونکہ پھوپھو جان کا جو حصہ تھا وہ تمہیں ہی ملے گا نہ آخر کو تم اُن کی اکلوتی اولاد ہو اِس لیے دوبارہ یہ مت کہنا تم اِس گھر کی مکین نہیں یا تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں کیونکہ جتنی جائیداد تمہاری ہے نہ اُتنی تو درید لالہ یا شازل لالہ کی بھی نہیں وجہ یہ کے تمہارے باپ کی جو جائیداد تھی اُس میں بھی اُن کے مرنے کے بعد تمہارے ہی حصے میں آئی تھی وہ تمہیں تب ملے گی جب تم اٹھارہ سال کی ہوجاؤ گی۔۔آروش نے کہا تو آخری بات پہ حریم ہنس پڑی اُس کو ہنستا دیکھ کر آروش نے سکون بھری سانس خارج کی۔

ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا ہماری اتنی جائیداد بھی ہے۔حریم پُرانی ٹون میں آکر بولی۔

اب تو پتا چل گیا نہ اب بتاؤ یہ تم سے کس نے کہا تھا کے تمہارا یہاں رہنا کوئی حق نہیں۔آروش نے جاننا چاہا تو وہ پھر سے مایوس ہوئی۔

نازلین آپی بولتی ہیں کے ہم اُن کے ٹکڑوں پہ پلتی ہیں ہمارا کوئی حق نہیں اور وہ چاہتی ہیں ہم دُر لا سے بھی دور رہا کریں۔حریم نے سرجھکائے کہا

حویلی میں تمہیں کوئی کجھ بھی کہے اُن کی بات پہ توجہ نہ دیا کرو آخر تمہیں پھر بھی انسکیورٹی فیل ہوتی ہے تو میں بابا سائیں سے بات کروں گی وہ پھوپھو مریم کا حصہ تمہارے نام کروادے ویسے بھی سات ماہ بعد تم نے اٹھارہ سال کا ہوجانا ہے۔آروش نے بغور اُس کی جانب دیکھ کر کہا

ایسی بات نہیں آپی ہم نے کیا کرنا ہے اُن کا آپ بس ایسی ہی ہم سے پیار سے بات کیا کریں ہمیں اچھا لگتا ہے اور ہم ہمیشہ سے آپ جیسا بننا چاہتے ہیں جیسی آپ ہیں میں قسمت

اللہ نہ کریں تم میری جیسی زندگی گُزارو یا میری طرح قسمت پاؤ۔حریم کی بات بیچ میں کاٹتی آروش دُھل کر بولی تو حریم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی پر اُس کے سوال کرنے سے پہلے کمرے کا دروازہ نوک ہونے لگا

حریم بی بی نیچے آپ کو دُرید شاہ بُلا رہے ہیں۔ملازمہ کی بات پہ حریم نے سر پہ ہاتھ مارا۔

انہیں کہیں میں پردہ کرکے آتی ہوں۔حریم اتنا کہتی الماری سے اپنا عبایا نکالنے لگی۔

دوسری طرف اُس کی چھوٹی سی بات نے آروش کو زخمی کردیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

اماں جان آپ بات کرے نہ بابا سائیں سے مجھے آگے پڑھنا ہے۔سترہ سالہ آروش کلثوم بیگم کے پیچھے پیچھے چلتی منت کرتی بولی۔

آرو یہ بات تم خود اُن سے کرو اور میں اُن کا جواب بھی بتادوں انکار ہوگا تمہاری دادی جان کبھی راضی نہیں ہوگی کے تم شہر جاکر نامحرم مردوں کے درمیان بیٹھو۔کلثوم بیگم نے صاف انکار کیا۔

آپ بابا سائیں سے بات کریں دادی جان کو منانا پھر بابا سائیں کا کام ہے۔آروش نے مزے سے کہا

بہت بگڑتی جارہی ہو آرو معلوم ہے نہ تمہیں ہمارے یہاں لڑکیاں باہر جاکر نہیں پڑھتی۔کلثوم بیگم نے گھور کر کہا

تو آپ میٹرک کے بعد کا بھی یہاں کالج اور یونیورسٹی بنوادے تاکہ لڑکیوں کو باہر نہ جانا پڑے پر تب تک کی تو اجازت دے لالہ دُرید اور شازل لالہ بھی تو آکسفورڈ یونیورسٹی گئے ہیں نہ مجھے آپ کراچی تک جانے نہیں دے رہے کیونکہ میں لڑکی ہوں آج بتا ہی دیا مجھ سے کوئی پیار ویار نہیں کرتا۔آروش اپنے نادیدہ آنسو صاف کرتی منہ بسور کر بولی۔

آجائے شاہ صاحب کرتی ہوں بات۔کلثوم بیگم کی بات پہ وہ خوشی سے اُچھل پڑی۔

او اماں جان آے لو یو۔آروش اُن کے گال پہ بوسہ دے کر بولی تو وہ مسکرا پڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔

اے لڑکی کہاں جارہی ہو؟آروش جو بھاگم بھاگ اپنے کمرے میں جارہی تھی اپنی دادی محتاب کی آواز پہ اُس قدموں پہ بریک لگی جو ہال میں بیٹھی روعبدار نظروں سے اُس کو گھور ری تھیں پاس اُن کے دس سالہ حریم بیٹھی ہوئی تھی جو چاکلیٹ کھانے میں بُری طرح مصروف تھی۔

اسلام علیکم دادی جان وہ میں اپنے کمرے میں جارہی تھی۔آروش اُن کے پاس بیٹھ کر بولی۔

یہ کیا تمہارے دماغ میں اب خناس بھرا ہے شہر جانے کا۔مہتاب بیگم تیکھے چتونوں سے اُس کو گھور کر بولی تو آروش کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹیاں بجتی سُنائی دی اُس نے ٹیڑھی نظروں سے پاس بیٹھی حریم کو دیکھا اُس کے پاس اتنی چاکلیٹس اور چپس دیکھ کر وہ سمجھ گئ حریم نے چغلی دی ہے اکثر محتاب بیگم حریم کو چاکلیٹ کی لالچ دے کر آروش کی جاسوسی کرنے کا کہتی تھی جس پہ معصوم سی حریم چاکلیٹ کی وجہ سے بڑے اچھے طریقے سے آروش کی پل پل کی خبر مہتاب بیگم کے گوش گُزار کرتی تھی۔

دادی جان مجھ آگے پڑھنا ہے اور یہ بات میں سب کو واضع طور پہ بتاچُکی ہوں۔آروش اداب کے دائرے میں بولی۔

دیکھو آروش مانا کے تمہاری ہر بات مانی جاتی ہے اِس حویلی میں اور تمہارا باپ تمہاری ہر خواہش کا احترام کرتا ہے ایک طرح سے یہ ٹھیک بھی ہے اکلوتی بیٹی ہو اُس کی پر یہ تمہاری کوئی نہیں مانے اِس لیے دماغ سے نکال دو۔مہتاب بیگم نے سخت لہجے میں کہا

کیوں نہیں مانی جائے گی آگے پڑھنے کوئی گُناہ نہیں اور نہ میری ناجائز خواہش۔آروش سنجیدگی سے بولی

مردوں کا مقابلہ مت کرو۔مہتاب بیگم نے اُس کو لتاڑا

مجھے مردوں کا مقابلہ کرنے کا شوق بھی نہیں دادی جان میں بس آگے پڑھنا چاہتی ہوں اور اِس خواہش سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کے میں مردوں سے مقابلہ کررہی ہوں۔آروش اتنا کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

شھباز نے تمہیں بہت چھوٹ دے رکھی ہے جبھی اپنے باپ کی ماں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہی ہوں آنے دو اُس کو کہتی ہوں تمہاری شادی کروادے کے عقل ٹھکانے پہ آئے۔مہتاب بیگم کی سیریس بات پہ آروش کو ہنسی آئی۔

ٹھیک ہے پھر میں اُس کے ساتھ شہر جاؤں گی ہم مل کر پڑھائی کرے گے۔آروش آنکھ ونک کر بولی تو اُس کی بے باکی پہ مہتاب بیگم کا مُنہ پورا کا پورا کُھل گیا اُس سے پہلے وہ اپنے سامنے پڑی چپل سے اُس کی چھترول کرتی آروش حریم کے پاس پڑے چاکلیٹ کے ڈبے سے تین چاکلیٹس نکال کر اُپر کو بھاگی جس سے حریم نے رونا ڈال دیا۔

ہائے کمبخت میری بچی کو رُلا دیا۔مہتاب بیگم حریم کو چُپ کروانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی تیز آواز میں آروش سے بولی جو اُن کی بات سے بے نیاز کمرے میں آکر آرام سے چاکلیٹ کھانے لگی۔

ارے میری بچی اتنے بڑے ڈبے میں سے اگر تین چاکلیٹس چلے گئے تو کونسی قیامت بڑپا ہوگئ جو رو رو کر میری جان نڈھال کررہی ہو۔حریم جو رونے سے باز نہیں آرہی تھی مہتاب بیگم اُس کو چپ کرواتی تنگ ہوکر بولی جس سے حریم اور زوروں سے رونے لگی۔

کیا ہوا اماں سائیں کیوں رو رہی ہے حریم؟کلثوم بیگم ان کے پاس آتی پریشان ہوئی۔

تمہاری بیٹی کی مہربانی ہے اُنٹھ جتنا قد ہوگیا ہے مگر مجال ہے جو عقل نام کی کوئی چیز اُس میں موجود ہو۔مہتاب بیگم غصے سے بولی

کیا کردیا اب اُس نے؟کلثوم بیگم نے جاننا چاہا

حریم کے چاکلیٹ اُٹھاکر گئ ہے بھلا اُس کو کیا ضرورت اتنی چیزیں تو پڑی ہے اُس کے کمرے میں پھر اِس بچی کی چیزوں میں کیوں نظر ڈالنا۔انہوں نے بتایا

تو کیا ہوا آرو بھی تو اپنی چیزیں اِس کو دیتی ہیں۔کلثوم بیگم کجھ شرمندہ ہوئی۔

نا بی بی نا تمہاری بیٹی اپنی چیزیں کسی کو دینا تو دور کی بات دیکھاتی بھی نہیں۔مہتاب بیگم ان کو گھور کر بولی تو کلثوم بیگم نے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیا حرکت کی تم نے نیچے؟کلثوم بیگم سیدھا آروش کے کمرے میں آئی جو مزے سے چاکلیٹ کھاتی ساتھ میں اپنے کمرے میں موجود ٹی وی پہ  کارٹون دیکھنے میں مصروف تھی۔

دل کیا چاکلیٹ کھانے کا تو حریم سے لیے اُس میں کونسی بڑی بات ہے شیئرنگ از کیئرنگ۔آروش نے بتایا۔

تمہارے پاس بھی تو ہوگی وہ بچی ہے آرو۔کلثوم بیگم نے سمجھایا

کوئی بچی وچی نہیں آفت ہے پوری میری باتیں دادی کو بتاکر اُن کو فیورٹ بن گئ ہے۔آروش منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

تو کیوں نہ اُن کی فیورٹ ہو آخر کو اماں سائیں کی اکلوتی بیٹی کی نشانی ہے۔کلثوم بیگم نے گھور کر کہا

تو میں کب اعتراض کررہی ہو میں بس یہ چاہتی ہوں دادی میری خواہش کے درمیان رُکاوٹ نہ بنے۔آروش نے سنجیدہ سے کہا

تمہاری شادی کی عمر ہے

توبہ کرے اماں جان سترہ کی ہوں بس ابھی میرے پڑھنے کی عمر ہے ناکہ شادی وغیرہ کی آپ اپنے بیٹوں کی فکر کریں جن کا شادی کرنے کا دور دور تک کوئی اِرادہ نہیں۔آروش اُن کی بات درمیان میں کاٹتی کانوں کو ہاتھ لگاکر بولی۔تو کلثوم بیگم خاموش ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

گاڑی رُکی تو حریم نے دُرید شاہ کی جانب دیکھا جو اُس کو ہی دیکھ رہا تھا۔

چلتی ہوں دُر لا پر آپ سے ایک درخواست ہے اُس لڑکی کو ظلم سہنے سے بچائے آپ خود ہی تو بتاتے ہیں ظلم کرنا؛ظلم سہنا اور کسی پہ ظلم ہوتا دیکھنا اُس ظلم کے خلاف آواز نہ اُٹھانا گناہ کے زمر میں آتا ہے تو پلیز آپ کجھ کریں کیونکہ آپ کسی پہ ظلم نہ بھی کریں تو آپ سے اللہ تعالیٰ پوچھے گے جب آپ نے کسی معصوم پہ ظلم ہوتا دیکھا تو خاموش کیوں رہے اُس کو بچایا کیوں نہیں۔حریم سنجیدگی سے کہتی گاڑی سے اُترگئ۔پیچھے کتنی ہی دیر دُرید شاہ ساکت سا اُس کی باتوں پہ غور کرتا رہا اُس کو حریم سے اتنی گہری باتوں کی اُمید نہیں تھی۔کجھ سوچ کر اُس نے اپنا سیل فون اُٹھا کر شازل شاہ کا نمبر ڈائل کیا جو پہلی ہی بیل پہ ریسیو ہوگیا تھا شازل کجھ کہتا جب دُرید شاہ سخت لہجہ اپناتا اُس سے بولا

کہاں منہ کالا کررہے ہو؟ شازل جو ایک ہاتھ سے کان میں لگے ایئر فون کو ٹھیک کررہا تھا دوسرے ہاتھ سے چہرے پہ صابن لگارہا تھا خود سےبڑے بھائی کی دھاڑ پہ اُس نے سامنے مرر میں اپنا خوبصورت وجیہہ چہرہ دیکھا پھر کہا

صابن سے چہرہ چمکا رہا ہوں

بکواس بند کرو کل تم مجھے حویلی میں نظر آؤ اگر نہیں تو کل میرے آدمی گھیسٹ کر لائے گے۔دوسری طرف دُرید شاہ سخت لہجے میں حکم دینے کے بعد کال کاٹ دی تھی۔

حویلی۔شازل بڑبڑایا

میں نے فیصلہ کرلیا ہے میں کبھی وہاں نہیں جاؤں گا۔شازل اٹل لہجے میں خود سے کہتا دوبارہ سے دُرید شاہ کو کال کرنے لگا۔

لالہ میں کبھی وہاں نہیں آؤں گا۔شازل نے سنجیدگی سے کہا

ٹھیک ہے مت آؤ میں آدمی بھیج دوں گا۔دُرید کو جیسے کوئی فرق نہیں پڑا

آپ سب کی نظروں میں کیا میری بات کی کوئی اہمیت نہیں؟شازل کو افسوس ہوا۔

ہے بلکل ہے تبھی تمہارا حویلی آنا ضروری ہے اگر اپنے بڑے بھائی کا ذرہ بھی احترام کرتے ہو تو میری بات کا مان رکھو گے۔دُرید نے مسکراکر کہا

یہ اچھا طریقہ ہے ایموشنل بلیک میلنگ کا۔شازل بدمزہ ہوا۔

💕💕💕💕💕

کیا تم روئی ہو؟آروش شھباز شاہ کے کمرے میں آئی تو انہوں نے اُس کا ستایا ہوا چہرہ دیکھا تو فکرمندی سے گویا ہوئے 

میں کیوں روؤں گی۔آروش بنا اُن کی جانب دیکھ کر بولی۔

اب تم خفگی چھوڑدو تمہاری بات مان تو لی۔شھباز شاہ ہنکارہ بھر کر بولے۔

کیا بات مانی آپ نے میری وہ بے چاری ایک ہفتے سے تائی جان اور شبانا بھابھی کا ٹارچر برداشت کررہی ہیں کبھی آپ جاکر سٹوروم میں جائے اور دیکھے اُس کو کیا حال کیا گیا ہے اُس کا چہرے پہ جگہ جگہ نیل کے نشان ہے اُس میں اتنی ہمت نہیں کے پانی کا خالی گلاس تک اُٹھا سکے باسی روٹی تک کا نوالہ اُس کو نہیں دیتے اور آپ کہہ رہے ہیں آپ نے میری بات کا مان رکھ لیا وہ لڑکی ہر وقت حراساں رہتی ہے کوئی نظر آئے تو تھر تھر کانپنے لگتی ہے کوئی آہستہ آواز میں اُس کا نام لے تو اُس کی جان نکل جاتی ہے۔شھباز شاہ کی بات پہ آروش پھٹ پڑی

مجھے نہیں تھا پتا شازل ایسا کرے گا مجھے لگا وہ اُس کی حفاظت کرے گا تبھی میں نے دُرید کے بجائے شازل سے اُس کا نکاح پڑھوایاں۔شھباز شاہ شرمندہ ہوئے۔

وہ بھی شاہ خاندان کا خون ہے بے حسی تو اُس کی رگوں میں بھی ہے۔آروش طنزیہ لہجے میں کہتی جیسے ہی پلٹی کلثوم بیگم کا ہاتھ اُس کے چہرے پہ نشان چھوڑگیا۔

چٹاخ کی آواز پہ شھباز شاہ جلدی سے کھڑے ہوتے خونخوار نظروں سے کلثوم بیگم کو دیکھ کر آروش کو اپنے ساتھ لگایا جو اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھے ساکت نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔

یہ تربیت کی ہے ہم نے تمہاری جو باپ کے سامنے زبان درازی کررہی ہو۔کلثوم بیگم اُس کو جھنجھور کر پوچھنے لگی تو آروش نے اپنا سر جُھکادیا ۔

کلثوم۔شھباز شاہ نے ان کو ٹوکا

نہیں شاہ صاحب آج آپ مجھے بولنے دے بہت برداشت کرلی ہے اِس کی بدتمیزیاں اِس کی ہر نادانی ہر گُناہ معاف کردیا تاکہ یہ سبق حاصل کرے پر نتیجہ کیا نکلا یہ آپ کی بیٹی ہر ایک سے تلخ کلامی کرتی رہتی ہے۔کلثوم بیگم آج اؐن سے ڈرے بنا بولی۔

آروش میری جان آپ اپنے کمرے میں جاؤ۔شھباز شاہ اُس کا ماتھا چوم کر بولے تو آروش کی آنکھوں سے گرم سیال بہہ نکلے۔

معاف کردیجیے گا اب کبھی کوئی بات نہیں کروں گی۔آروش سپاٹ لہجے میں کہتی کمرے سے باہر چلی گئ 

آروش کو تھپڑ مارنے کا حق تمہیں کس نے دیا؟شھباز شاہ سخت ترین لہجے میں کلثوم بیگم سے بولے۔

ماں ہوں اُس کی میں۔کلثوم بیگم کو دُکھ ہوا 

وہ بس میری بیٹی ہے آئیندہ ایسی غلطی کی تو اُس کی معافی نہیں ہوگی۔شھباز شاہ وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولے تو کلثوم بیگم کے اندر کجھ چھن کر ٹوٹا

💕💕💕💕💕💕

حریم آج تم کجھ خاموش ہو؟حریم اپنے کمرے میں تھی جب اُس کی روم میٹ طاہرہ نے اُس کو خاموش دیکھ کر پوچھا

ہاں وہ سر میں درد ہے۔حریم نے مسکراکر جھوٹ بولا

پکا یہی بات ہے؟طاہرہ نے کنفرم کرنا چاہا

ہاں بلکل یہی بات ہے سفر کرنے سے ہمارے سر میں درد پڑجاتا ہے۔حریم نے کہا تو اُس نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی۔

💕💕💕💕💕

ماہی سٹوروم میں کراہتی اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جو کیا تھی اور کیا ہوگئ تھی وہ ہمیشہ کانفڈنٹ رہی تھی کسی سے نہ ڈرنے والی پر اب وہ ہر ایک سے خوفزدہ ہونے لگی تھی وہ ابھی انہی سوچوں میں گم تھی جب دھڑام کی آواز سے دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا آنے والے کو دیکھ کر ماہی کو اپنی جان فنا ہوتی محسوس ہوئی کیونکہ کوئی اور نہیں شبانا کھڑی کھاجانے والی نظروں سے اُس کو گھور رہی تھی۔

مہارانی صاحبہ اگر آرام کرلیا ہو تو کچن میں کھانے کی تیاری کرو تمہاری ماں آکر نہیں کرے گی۔شبانا اُس کے سر پہ کھڑی ہوتی بولی۔

می۔۔۔۔۔۔۔۔۔ری۔۔۔۔۔۔۔۔۔طبیعت۔۔۔۔۔۔۔ٹھ۔۔۔۔۔۔۔۔یک۔۔۔۔۔۔نہی۔۔۔۔۔۔ں۔ماہی اٹک اٹک کر بمشکل یہی بول پائی۔

تیرا ڈرامہ دیکھنے نہیں آئی میں اُٹھ جلدی آئی بڑی طبیعت خرابی کرنے کا بہانا کرنے والی۔شبانا اُس کو بازوں سے پکڑتی کھڑا کیے بولی جس سے ماہی کے قدم لڑکھڑانے لگی اُس کے قدموں میں اتنی ہمت نہیں تھی وہ چل پاتی یا احتجاج کرتی تبھی شبانا گھسیٹتی اُس کو باہر لے جانے لگی۔

می۔۔۔۔۔۔را۔۔۔۔۔۔۔اع۔۔۔۔۔۔تبار۔۔۔۔۔۔۔کرے۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔بیم۔۔۔۔ار۔۔۔ہ۔۔۔۔وں۔ماہی اپنے گھومتے سر کو سنبھالتی نم لہجے میں بولی پر اُس کی فریادیں سننے والے شاید کوئی نہیں تھا۔

کھانا تو سب کا آج توں نے ہی بنانا ہے ورنہ تجھے میں کتوں کے آگے ڈال دوں گی۔شبانا نفرت سے کہتی زور سے اُس کو دھکا دیا اُس سے پہلے وہ منہ کے بل گِرتی کسی کے مضبوط حصار نے اُس کو خود میں قید کرلیا۔

💕💕💕💕

شازل شاہ جو دُرید کے کہنے پہ گاؤں چلا آیا تھا حویلی میں داخل ہوتے ہیں شبانا کو کسی لڑکی کے ساتھ بے رحمی والا سلوک دیکھ کر اُس کے ماتھے پہ بل آئے تھے مگر جب اُس نے لڑکی کو گِرتے دیکھا تو جلدی سے اُس کو گِرنے سے بچایا۔

آر یو اوکے؟شازل اُس کا زخموں سے بھرا چہرہ دیکھ کر فکرمندی سے پوچھنے لگا ماہی جو کمزوری کے باعث پہلے سے ہی نڈھال تھی ایک نظر شازل کو دیکھنے کے بعد بے ہوش ہوگئ تھی جس کو دیکھ کر شازل کے ہاتھ پیر پُھول گئے اُس نے اُٹھا کر صوفے پہ لیٹانا چاہا پر اُس کو ہاتھ لگانے سے ایک جھجھک آرے آگے آرہی تھی تبھی زور زور سے ملازماؤں کو آوازیں دینے لگا جو اُس کی ایک ہی پُکار پہ حاضر ہوگئے تھے۔

شبانا شازل کی اچانک آمد پہ ہڑبڑا کر جلدی سے اپنے چہرے پہ چادر ڈالی تھی

کون ہے یہ اور بھابھی آپ کیسے کسی لڑکی کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتی ہیں۔شازل کاٹ دار لہجے میں بولا تو شبانا کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

میرے سہاگ کو اُجاڑنے والی کی بہن ہے اور تم اِس کمبخت کو چھونے سے کتراؤ نہیں کاغذی ہی صحیح تمہاری بیوی ہے۔شبانا کی بات سن کر شازل کتنی ہی دیر اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا اُس نے بے یقینی نظروں سے ماہی کے چہرے پہ نگاہ ڈالی جو نیلوں نیل تھا شازل کو خود پہ انتہا کا غصہ آیا تھا تبھی وہ بنا کسی کی پرواہ کرتا ایک جھٹکے میں اُس کو گود میں اُٹھاتا باہر کی طرف بڑھا۔شبانا کا منہ حیرت سے کُھلا کا کھلا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کیا لگتے ہیں پیشنٹ کے؟شازل فلحال ماہی کو گاؤں میں موجود چھوٹے سے ہسپتال لایا تھا جہاں لیڈی ڈاکٹر نے شازل سے پوچھا

بیوی ہے۔۔شازل کو یہ بتاتے ہوئے دل چاہا ڈوب کے مرے۔

میں سمجھ گئ یہ وہی ہے نہ جو ونی میں آئی ہے؟انہوں نے افسردہ نظر بیڈ پہ لیٹی ماہی پہ ڈال کر پوچھا جس پہ شازل نے محض سر کو جنبش دی۔

دوائی میں کجھ لکھ کر دے رہی ہو ہوسکے تو ان کو بیڈ ریسٹ کرنے دے ساتھ میں اِن کی غذا کا بہت خیال کریں۔

ٹھیک ہے۔شازل اُن کی بات کے جواب میں بولا

آپ اِن کو لیکر جاسکتے ہیں پر چیک اپ ضرور کروائیے گا ہفتے میں دو بار تاکہ ان کے زخموں کا معائنہ کرسکوں۔ڈاکٹر نے کہا تو شازل ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگا۔

مطلب؟شازل نے جاننا چاہا

شاید آپ کو پتا نہیں ان کے چہرے سے زیادہ جسم پہ بھی زخم ہے کافی تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔انہوں نے تفصیل سے بتایا تو شازل نے غصے سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ کا بیٹا اُس کو باہر لے گیا ہے آپ اُس کو بتادینا وہ اُس کو اپنی بیوی تسلیم نہ کرے ورنہ میں اؐن دونوں کو چھوڑوں گی نہیں۔جب سے شازل باہر گیا تھا ماہی کو لیکر تب سے شبانا کے جسم میں آگ لگی ہوئی تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گزرتی تبھی وہ کلثوم بیگم کے کمرے میں آتی اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی۔

وہ اُن دونوں کا معاملہ ہے تم دور رہو۔کلثوم بیگم سنجیدگی سے بولی

تائی جان یہ اُن دونوں کا معاملہ نہیں میرا اور اُس بدذات لڑکی کا معاملہ ہے شازل سے کہے وہ دور رہے۔شبانا آپے سے باہر آئی

میں شازل سے کہوں وہ اپنی بیوی سے دور رہے اچھا مذاق ہے۔کلثوم بیگم سرجھٹک کر بولی

بیوی نہیں ہے وہ اُس کی ونی میں آئی ہوئی جس کی حیثیت دو ٹکے کی بھی نہیں۔شبانا پاگل ہونے کے در پہ تھی۔

ایک لڑکی کی حیثیت کیا ہوتی ہے وہ اُس کا شوہر طے کرتا ہے تم اتنا مت سوچو ونی میں آئی ہوئی کا رتبہ جو بھی ہم سمجھے پر ہے وہ شازل کی بیوی اور شازل اتنا بے غیرت نہیں جو اپنی عزت کو یوں دوسروں کے رحم وکرم پہ چھوڑے۔کلثوم بیگم کی بات پہ اُس کے تن بدن میں آگ لگانے کے لیے کافی تھی۔

تائی جا

عدت کے مہینے سکون سے اپنے کمرے میں گُزارو اور کوشش کرنا دوبارہ حویلی کا مرد تمہاری پرچھائی بھی نہ دیکھے آدھا چہرہ یا آواز سننا تو دور کی بات ہے۔شبانا کجھ بولنے والی تھی جب کلثوم بیگم نے ہاتھ کے اِشارے سے بولنے سے باز رکھا۔وہ جو کلثوم بیگم کی خاموش اور صلح مذاج دیکھ کر اُن پہ رعب جمانے آئی تھی اُن کا آج کا روپ دیکھ کر بیچ وتاب کھاتی رہ گئ اور یہ بات سمجھ گئ کے وہ جس سے بات کرنے آئی تھی اپنا روعب جمانے آئی تھی وہ گاؤں کے سرپنج کی بیگم تھی جو پل بھر میں اُس کو خاموش کرواگئ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شازل ماہی کو واپس حویلی لاتا سیدھا اپنے کمرے میں آیا تھا وہاں بیڈ پہ اُس کو آرام سے لیٹاتا غور سے اُس کی جانب دیکھنے لگا اُس کو اپنے عمل پہ شرمندگی ہورہی تھی ایک پچھتاوا سا ہورہا تھا اگر وہ اُس دن غصے میں چلا نہ جاتا تو شاید حالات آج سے کجھ مختلف ہوتے۔

سوری یار پر ٹینشن نہ لو اب کوئی تمہیں ہاتھ لگانے کی جرئت نہیں کرے گا کیونکہ حالات جیسے بھی تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو اِس لیے جب تک تمہارا نام میرے نام سے جُڑا ہے میں تمہاری حفاظت کروں گا۔شازل غور سے اُس کی جانب دیکھتا خود سے عہد کرنے پھر اچانک اُس کی نظر ماہی کے کپڑوں پہ پڑی جو میلے اور شکن زدہ تھے شازل اُس کے وجود پہ نظر ڈالتا اُٹھ کر کمرے سے باہر چلاگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شازل آروش کے کمرے میں آیا تو اُس کو کھڑکی کے پاس کھڑا پایا۔

آرو۔شازل نے آواز دی۔

لالہ آپ؟آروش نے شازل کو دیکھا تو حیرت سے اُس کے منہ سے بس یہی نکل پایا۔

ہاں میں تم سے ایک کام تھا۔شازل نے کہا

جی کہیں۔آروش اُس کی جانب متوجہ ہوئی

وہ جو لڑکی ہے اُس کی حالت ٹھیک نہیں تم کوئی اپنا ڈریس اُس کو پہنادو تو۔شازل اتنا کہتے کہتے خاموش ہوگیا۔

لڑکی کون آپ کی بیوی؟آروش اُس کی بات سن کر بولی

ہاں وہی۔شازل اتنا کہتا پھر سے خاموش ہوگیا

اتنے وقت بعد آپ کو احساس ہوگیا کے کوئی بیوی بھی ہے آپ کی۔آروش نے بنا کسی تاثر کے کہا

آرو پلیز یار میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں تم مزید شرمندہ مت کرو۔شازل نے التجا کی۔

میرا اِرادہ آپ کو شرمندہ کرنے کا نہیں میں بس یہ چاہتی ہوں آپ کو احساس ہو اُس لڑکی کے آپ پر کجھ حقوق اور فرائض لاگو ہوتے ہیں جس پہ آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ بھی ہونا ہے میں چاہتی ہوں آپ اچھے طریقے سے اپنے حقوق پورے کریں اور اُس لڑکی کی حیثیت بیان کریں جو کہنے کو تو آپ کی بیوی ہے پر آپ کو اُس کا نام تک نہیں معلوم۔آروش کی باتوں سے وہ شرم سے پانی پانی ہوگیا۔

باقی کے طنز کل کے لیے پینڈنگ پہ رکھ لو۔شازل گہری سانس لیکر بولا

میں اپنے ڈریسز جو میں نے ایک بار بھی استعمال نہیں کیے وہ آپ کے وارڈروب پہ سیٹ کردیتی ہوں جب وہ ٹھیک ہوجائے تو آپ اُس کو شاپنگ کروا دیجئے گا۔آروش سنجیدگی سے بولی

اُس کا نام کیا ہے؟شازل جھجھک کر پوچھنے لگا

جب اُس کی حالت ٹھیک ہوجائے تو آپ پوچھ لینا کے بیگم میں آپ کا مجازی خدا ہوں کیا آپ کے نام جاننے کا شرف حاصل کرسکتا ہوں۔کوئی اور وقت ہوتا تو شازل اُس کی بات پہ ہنس پڑتا پر اِس وقت وہ شرمندگی کی گہیرائی میں دُھنستا جارہا تھا۔

میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے پر اُس کا مطلب یہ تو نہیں تم ایک ہی وقت میں مجھے شرم سے پانی پانی کردو۔شازل نے اپنا دفع کرنا چاہا۔

میں کون ہوتی ہوں کسی کو شرم سے پانی پانی کرنے والی آپ میرے بھائی ہے مجھے آپ کا احترام ہے میرے دل میں آپ کے لیے محبت ہے بس میں چاہتی ہوں آپ اُس لڑکی کو سپورٹ کرے جو بے قصور ہوکر سب کا ظلم برداشت کررہی ہے۔آروش شازل کے سامنے کھڑی ہوتی بولی۔

فکر مت کرو میں آگیا ہوں نہ سب کو دیکھ لوں گا۔شازل اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولا

مجھے آپ سے یہی اُمید تھی۔آروش ہلکہ سا مسکراکر بولی۔

اور مجھے اپنی بہن کی اُمیدوں پہ پورا اُترنا آتا ہے۔شازل جوابً مسکراکر بولا

💕💕💕💕💕💕

ماضی!

آپ نے بُلایا بابا سائیں؟آروش شھباز شاہ کے کمرے میں داخل ہوتی بولی

جی میرا بچہ آجکل آپ کے خلاف بہت شکایات موصول ہورہی ہیں۔شھباز شاہ اُس کو اپنے پاس بیٹھا کر شرارت سے بولے۔

ان کی باتوں میں مت آئے یہ ہمارے درمیان اختلافات کرنے کی سازشیں ہیں۔آروش مزے سے بولی تو وہ ہنس پڑے۔

پھر تم بتاؤ اپنی ماں سے کیا بول رہی تھی۔شھباز شاہ نے محبت سے پوچھا

بابا سائیں وہ ہم شہر جاکر پڑھنا چاہتے ہیں۔آروش نے کجھ ہچکچاہٹ سے بتایا

تمہیں پتا ہے نہ ہمارے خاندان کی عورتیں شہر جاکر پڑھا نہیں کرتی مردوں کے درمیان۔شھباز شاہ سنجیدگی سے بولے

کیا آپ کو مجھ پہ یقین نہیں؟آروش کو دُکھ ہوا

بات یقین کی نہیں۔شھباز شاہ جلدی سے بولے

تو پھر اجازت دے یقین کرے میں آپ کا سر کبھی جُھکنے نہیں دوں گی اور نہ آپ کی عزت پہ آنچ آنے دوں گی۔آروش پُریقین لہجے میں بولی

اماں سائیں کبھی راضی نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا

آپ بات کرے نہ اُن سے پلیز لالہ والے بھی تو آگے پڑھ رہے ہیں نہ تو لڑکیوں پہ ایسی پابندی کیوں۔آروش ایک اور کوشش کرکے بولی تو اپنی لاڈلی بیٹی کے سامنے وہ جیسے ہار مان گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دماغ ٹھیک ہے تمہارا شھباز شاہ اب کیا ہمارے خاندان کی لڑکیاں شہر جائے گی اور ہاسٹلز میں رہا کریں گی۔مہتاب بیگم سے شھباز شاہ نے جیسے ہی بات کی اُن کا غصہ ساتویں آسمان پہ آ پہنچا۔

اماں سائیں مجھے اپنی بچی پہ پورا بھروسہ ہے اگر وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے تو میں رکاوٹ نہیں ڈالوں گا بلکہ اُس کو سپورٹ کروں گا۔شھباز شاہ عاجزی سے گویا ہوئے۔

میں اِس بات کی اجازت قطعیً نہیں دوں گی اگر وہ حویلی کی دہلیز پار کرے گی تو باقیوں کو بھی راستہ مل جائے گا۔مہتاب بیگم صاف انکار کرکے بولی۔

آروش کا دل ٹوٹ جائے گا۔شھباز شاہ آہستہ آواز میں بولے کیونکہ سامنے اُن کی ماں تھی۔

دل شیشے کا نہیں بنا ہوتا اور شاہ خاندان کی لڑکیوں کا دل اور کردار پہاڑوں کی طرح مضبوط ہونا چاہیے ناکہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا روگ لگالیں۔مہتاب بیگم ناگواری سے بولی۔

گُستاخی معاف اماں سائیں آروش میری اکلوتی بیٹی ہے مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے میں اُس کی کوئی بھی بات ٹال نہیں سکتا اور نہ اُس کی آنکھوں میں آنسو برداشت کرسکتا ہوں۔شھباز شاہ اٹل لہجے میں بولے

بیٹی کے لیے ماں سے بغاوت کررہے ہو۔مہتاب بیگم نے کیناں توز نظروں سے اُس کو دیکھا

بغاوت کیسی اماں سائیں آگے پڑھنا اُس کا حق ہے اور میں آروش کو اُس کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔شھباز شاہ یہ بول کر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

تو میری بات بھی لکھ لو تمہاری یہ بیٹی تمہارا بھروسہ ایک پل میں چکنا چور کرکے تمہیں منہ کے بل گِرائے گی اگر تمہاری اجازت پہ وہ شہر گئ اور وہاں مجھے کوئی اُس کے خلاف ایسی کوئی خبر موصول ہوئی تو اُس کو زہر دے کر میں جان سے مارا تو میرا نام بدل ڈالنا۔مہتاب بیگم تیز آواز میں بولی

میری بیٹی ہے وہ اماں سائیں خدا کے واسطے سوچ سمجھ کر بولے۔شھباز شاہ اُن کی بات پہ تڑپ اُٹھے۔

ابھی تو کہا ہے دل تھام کے رکھو کرنے سے گریز نہیں کروں گی۔مہتاب بیگم ایک طنزیہ نظر اُس پہ ڈال کر بولی

💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

ماہی کی آنکھ کُھلی تو اُس نے خود کو انجان جگہ پہ پایا وہ حیرت سے آس پاس نظر گُھماکر پہنچان نے کی کوشش کرنے لگی۔

شکر ہے تمہیں ہوش آگیا۔اپنے پاس مردانہ آواز سن کر اُس کا دل اچھل پڑا

آپ کون؟ماہی خوفزدہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی


جب اُس کی حالت ٹھیک ہوجائے تو آپ پوچھ لینا کے بیگم میں آپ کا مجازی خدا ہوں کیا آپ کے نام جاننے کا شرف حاصل کرسکتا ہوں۔


ماہی کے سوال پہ شازل کو اپنے کانوں میں آروش کی باتیں گونجنے لگی۔


میں آپ کا مجازی خدا ہوں کیا آپ کے نام جاننے کا شرف حاصل کرسکتا ہوں۔شازل کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا تو ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ وہ غور سے شازل کو دیکھنے لگی جو وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پینٹ میں ملبوس تھا بال نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھا چہرے پہ ہلکی سی شیو اور گلے میں بڑا سا لاکیٹ لٹک رہا تھا۔

کیا ونی میں آئی ہوئی لڑکی کا شوہر اتنا شاندار بھی ہوسکتا ہے۔غور سے شازل کو دیکھنے کے بعد ماہی بس یہ سوچ سکی۔

ہیلو؟شازل نے اُس کے سامنے اپنا ہاتھ لہراکر ہوش میں لانا چاہا

آپ سچ میں میرے شوہر ہیں۔ماہی جھجھک کر پوچھنے لگی۔

جھوٹ میں بھی شوہر ہوتا ہے کیا؟شازل نے مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کیا تو ماہی کا سر جلدی سے نا میں ہلا۔

جی پھر میں آپ کا سچ والا شوہر ہوں یہ ہمارا کمرہ ہے اگر تم چل پھر سکتی ہو تو واشروم میں جاکر فریش ہوجاؤ تب تک میں کھانے کا کہتا ہوں۔شازل اُس سے ایسے بات کرنے لگا جیسے جانے کتنے عرصے کی شُناسائی ہو

میں بعد میں ہوجاؤں گی فریش۔ماہی اُس کا اتنا نرم لہجہ دیکھ کر بس یہی بول پائی

اگر کوئی مسئلہ ہے تو کوئی بات نہیں میں لیکر چلتا ہوں۔شازل نے پیش کش کی۔

آپ کیسے لے جاسکتے ہیں؟ماہی نے بے تُکہ سوال کیا

جیسے حویلی سے ہسپتال پھر ہسپتال سے حویلی اور حویلی سے کمرے تک لایا بلکل ویسے ہی۔شازل مسکراہٹ ضبط کیے بتانے لگا

کیسے لائے؟ماہی ابھی تک اُس کی بات سمجھ نہیں پائی۔

گود میں اُٹھاکر۔شازل سرسری لہجے میں بولا پر اُس کے جواب پہ وہ کانوں کی لو تک سرخ پڑگئ

نہیں میں چلی جاؤں گی خود ہی۔ماہی خود پہ قابوں پاتی اُٹھنے کی کوشش کرتی بولی

ایز یو وِش۔شازل نے کندھے اُچکائے۔

ماہی ہمت کرتی واشروم تک پہنچی شازل اُس کو جاتا دیکھنے لگا پھر کسی خیال کے تحت اُس کو آواز دی

سنو!

جی۔ماہی جلدی سے پلٹی۔

تمہارا نام؟شازل یہاں وہاں دیکھ کر بولا

ماہی بخت اور آپ کا۔یہ سوال پوچھتے وقت ماہی کی اپنی حالت بھی شازل سے مختلف نہ تھی۔

شازل شاہ ویسے ہم دُنیا کے انوکھے میاں بیوی ہیں جن کو ایک دوسرے کا نام تک نہیں معلوم۔شازل اپنی بات کے احتتام پہ خود ہی مسکرا پڑا

جب کی واشروم میں جاتی ماہی کے کانوں میں بار بار(میاں بیوی)والے الفاظ گونجنے لگے۔

💕💕💕💕

آپ ٹھیک سے میڈیسن کیوں نہیں لیتے؟ڈاکٹر حمید نے سنجیدگی سے یمان کی جانب دیکھا جو اُن کے کیبن میں موجود تھا۔

بھول جاتا ہوں۔یمان بے تاثر لہجے میں بتانے لگا۔

خیر ایسی بات تو نہ کریں دلاور خان اور تمہارا اپنا ساتھی ارمان وہ تو ہیں نہ تمہیں یاد کروانے والے تم خود لاپروائی کا مظاہرہ کررہے ہو۔ڈاکٹر اُس کی بات پہ بولا

آئندہ کوشش کروں گا لاپرواہی نہ ہو۔یمان نے کہا

تمہیں ٹھیک سے میڈیسن لینی ہوگی یمان ورنہ آپ کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے یہ بات میں کتنی دفع آپ کو بتاچُکا ہوں۔ڈاکٹر نے دو ٹوک لہجے میں کہا

جان کے جانے سے ڈر نہیں لگتا۔یمان نے بتایا

پھر کس چیز سے ڈر لگتا ہے؟ڈاکٹر نے جاننا چاہا

زندگی جینے سے۔یمان نے فورن سے جواب دیا جس کو سن کر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئے۔

میں آپ کے پاسٹ سے واقف ہوں مسٹر یمان اور میں یہ بات بھی جانتا ہوں سمجھتا ہوں آپ کے ساتھ کم عمری میں بہت بُرا ہوا لیکن پاسٹ تھا گُزر گیا اُس کو بھول کر آپ زندگی کی نئ شروعات کریں آپ ایک مشہور ہستی ہیں جانے کتنے لوگ ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں اگر اپنے لیے نہیں تو اُن کے لیے اپنا خیال رکھا کریں ایک واقع کو لیکر آپ زندگی جینا تو نہیں چھوڑ سکتے ہیں نہ یہ تو سراسر آپ اپنے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں۔ڈاکٹر نے اُس کو سمجھانا چاہا

میرے ساتھ محبت کی باتیں مت کیا کریں ایسا لگتا ہے جیسے یہ لفظ کھڑا مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے میری حالت کا مذاق اُڑا رہا ہے۔یمان کجھ ناگوار لہجے میں گویا ہوا۔

یاد آتی ہے وہ؟انہوں نے پوچھا

یاد کرنے کے لیے بھولنا ضروری ہوتا ہے۔یمان نے گول مٹول سا جواب دیا۔

آپ کی بہنیں ہیں کبھی سوچا ہے اُن کو آپ کی ضرورت ہوسکتی ہیں اُن کے ساتھ رہو کیا پتا زندگی کا مطلب سمجھ آجائے۔ڈاکٹر نے ایک اور کوشش کی۔

اٹھارہ سال کا تھا جب زندگی کا مطلب اچھے سے سمجھ گیا تھا مزید جاننا نہیں چاہتا۔یمان کا لہجہ طنزیہ تھا۔

لگتا ہے آپ یہ سوچ کر آئے ہیں کے میری نہیں سننی تو اِس ٹاپک کو بند کرتے ہیں اور آپ یہ بتاؤ اگلا گانا کب ریلیز ہوگا آپ کا اُس سے پہلے رکارڈنگ کب شروع ہے دلاور نے بتایا تھا وہ اپنی فلم کے ہیرو میں آپ کو کاسٹ کرنا چاہتا ہے اُس کا کیا بنا؟ڈاکٹر حمید نے بات بدل کر پوچھا

ایک ہفتے بعد رکارڈنگ ہے میری پر فلم میں کام نہیں کروں گا میں۔یمان نے جواب دیا۔

بہت بڑی آفر ہے قبول کرلوں فائدہ ہوگا تمہیں۔ڈاکٹر حمید مسکراکر آپ سے تم تک کا سفر کیا

فلم کا ہیرو بن کر کسی لڑکی سے پیار کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ اُس کو دیکھ کر مسکراکر آہیں بھرسکتا ہوں۔یمان نے جواب پہ وہ لاجواب ہوئے۔

ایکٹنگ کرنے میں کونسی بڑی بات ہے کونسا تمہارا اظہار اصلی ہوگا۔ڈاکٹر کو اُس کا ریزن نامعقول لگا۔

اصلی والا اظہار کیا تھا گال پہ پڑتے تھپڑ کی گونج آج تک کانوں میں سُنائی دیتی ہے۔یمان کا لہجہ ٹوٹ سا گیا تھا۔

یمان تم اپنے پاسٹ سے باہر کیوں نہیں آتے۔وہ جیسے تھک سے گئے۔

پہلے آپ مجھے بتائے میرے جسم سے روح کیوں نہیں نکلتی۔یمان اُن کے پاس تھوڑا جھک کر پوچھنے لگا۔

شادی کرلوں۔ڈاکٹر حمید نے مشورہ دیا تو یمان کے چہرے پہ عجیب قسم کی مسکراہٹ آئی ڈاکٹر حمید نے بہت غور سے اُس کے دونوں گالوں پہ پڑتے ڈمپلز کو دیکھا تھا۔

پانچ سال تک زندہ رہا تو شادی کرلوں گا۔یمان کا لہجہ عجیب سا ہوگیا۔

مطلب؟ڈاکٹر حمید نے اُس کو گھور کر دیکھا

پانچ سال ہونے دو مطلب بھی پتا چل جائے گا۔یہ کہہ کر یمان اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

اپنی زندگی کے ساتھ کجھ غلط کرنے سے پہلے ایک بات یاد کرنا اگر تمہیں تمہاری محبت نہیں ملی تو اس کا یہ مطلب نہیں کے تم باقیوں کو اپنی محبت سے محروم رکھو۔ڈاکٹر حمید کی بات پہ اُس کے قدم ایک پل کو تھمے تھے پھر وہ اپنا سرجھٹکتا کیبن سے باہر نکل گیا۔

یمان کے جانے کے بعد انہوں نے دلاور خان کو فون کیا۔

یمان آیا تھا؟دلاور خان نے کال ریسیو کرکے پہلا سوال یہی کیا

ہاں پندرہ تاریخ کو آنے والا چھبیس تاریخ کو آیا تھا۔ ڈاکٹر حمید طنزیہ لہجے میں بتانے لگے 

کیا بات ہوئی؟دلاور خان نے پوچھا

وہی جو ہمیشہ سے ہوتی آرہی ہیں۔ڈاکٹر حمید نے گہری سانس خارج کی۔

 کوئی ایمپرومنٹ کیوں نہیں آرہا؟دلاور خان پریشانی سے بولے۔

ہوا ہے ایمپرومینٹ اور یہ ہوا کے پہلے یمان مرنے کی بات نہیں کرتا تھا آج کرکے گیا ہے مجھے لگ رہا ہے اب کجھ وقت کے بعد تم مجھے کال کروگے اور کہو گے حمید یمان مستقیم مرگیا

حمید کیا بکواس کررہے ہو یہ۔دلاور خان لرز اُٹھے۔

ٹھیک کہہ رہا ہوں اُس کے اندر جینے کی کوئی تمنا نہیں۔ڈاکٹر حمید سرجھٹک کر بولے

کوئی تو حل ہوگا آخر تم نے کہا تھا اگر اگر اُس کی سنگر بننے کی خواہش پوری ہوجائے گی تو وہ اپنی زندگی میں مصروف رہنے لگے لگا مختلف لوگوں سے ملے گا تو اُس کو اپنا پاسٹ یاد نہیں آئے گا۔دلاور خان فکرمند سے ہوئے۔

مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا پر ساتھ میں یہ بھی کہا تھا اُس کے سر پہ لگی چوٹ بہت گہری ہے آپریشن کے بعد بھی اگر اُس کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ میڈیسن ٹائم سے لے پر نتیجہ کیا یمان جان بوجھ کر اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ڈاکٹر حمید ایک سانس میں بولے۔

میں بات کروں گا آج اُس سے۔دلاور خان کجھ سوچ کر بولے۔

کرلینا بات پہلے یہ بتاؤ کیا اُس لڑکی کا کجھ پتا ہے کہاں ہوتی ہے کیا پتا اب اُس کا ملنا یمان کی زندگی بدل ڈالے۔ڈاکٹر حمید نے کہا

وہ کہاں ہوتی ہے یہ بات شاید یمان خود بھی نہیں جانتا اُس نے کبھی مجھے نام تک نہیں بتایا اُس لڑکی کا بس اتنا بتایا کے ذات اور اسٹیٹس کا فرق کا ایشو اتنا کیا گیا جیسے مذہب الگ الگ ہو۔دلاور خان افسردگی سے بولے

ایسی بات ہے تو اُس کو لڑکی کا آپشن چھوڑدو وہ یمان کی قسمت میں نہیں تم کوئی اچھی سی لڑکی اُس کے لیے تلاش کرو شادی اور بچے ہوجائے گے تو ٹین ایجر والی محبت بہت دور چلی جائے گی۔ڈاکٹر حمید نے مشورہ دیا۔

ہوپ سو کے ایسا ہو۔دلاور خان اُداس مسکراہٹ سے بولے۔

💕💕💕💕

یمان اپنے گھر آیا تو ارمان جلدی سے اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

کیا؟یمان کو اُس کا یوں سامنے کھڑا ہونا سمجھ نہیں آیا۔

وہ آئی ہے آپ سے ملنے؟ارمان ڈر ڈر کر بولا

وہ کون۔یمان ایک آئبرو اُپر کیے بولا

مس روزی۔ارمان نے بتایا تو یمان کے چہرے پہ اکتاہٹ بھرے تاثرات نمایاں ہوئے۔

کہاں ہے؟یمان نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر پوچھا

ڈرائینگ روم میں آپ کا انتظار کررہی ہے۔ارمان اُس کو نارمل دیکھتا پرسکون ہوکر بتانے لگا۔

میں دیکھتا ہوں۔یمان اتنا کہتا ڈرائینگ روم میں جانب آیا جہاں ریڈ کلر کا ٹاپ پہنے ایک لڑکی بڑے شانِ سے بیٹھی تھی یمان ایک نظر اُس کو دیکھتا نظروں کے زاویئے بدلے۔

یمان تم آگئے شکر ہے خدا کا تمہیں میں کب سے کال کیے جارہی تھی پر تم میرا فون ریسیو ہی نہیں کررہے تھے۔روزی نے یمان کو آتا دیکھا تو اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پاس آکر شکوہ کناں لہجے میں بولی۔

پاکستان کب آئی؟یمان اُس کے سوال نظرانداز کرتا سنجیدگی سے پوچھ کر صوفے پہ بیٹھ گیا 

تمہیں یقین نہیں آئے گا میں ایئرپورٹ سے ڈاریکٹ یہاں آئی ہوں تم سے ملنے۔روزی پرجوش آواز میں بول کر اُس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی۔

مجھے آگیا یقین۔یمان کہتا اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا کیونکہ روزی بلکل اُس کے پاس چپک کر بیٹھنے کی کوشش میں تھی۔

اچھا پر تم کھڑے کیوں ہوئے۔روزی نے حیرت سے اُس کو دیکھا

میں تھک گیا ہوں آرام کرنا چاہتا تھا پر تم آئی تو میں یہاں آگیا۔یمان نے بتایا

اوو سو سیڈ پر میں تمہیں یا منانے آئی ہوں۔روزی نے مسکراکر کہا

میں تم سے ناراض تو نہیں۔یمان ناسمجھی سے بولا

ارے بابا یہاں بیٹھو تو۔روزی اُس کا بازوں پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھایا

انکل دلاور نے بتایا تم فلم کرنے سے انکار کررہے ہو پلیز انکار نہیں کرو اُن کی فلم میں ہیروئن کا رول میں پلے کرنی والی ہوں۔روزی اچانک منت بھرے لہجے میں بولی

تو سارے ایکٹر مرگئے ہیں کیا جو سب میرے پیچھے پڑگئے ہو اگر میں نے ایک بار انکار کردیا ہے تو انکار ہے میرا بار بار مجھے تنگ کرنے کی ضروری نہیں کسی کو۔یمان تیز آواز میں بولا

یمان

اسٹاپ روزی میں پہلے ہی بہت پریشان ہو مزید پریشان مت کرو۔یمان اُس کی بات کاٹ کر بولا تو روزی اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕

آج حویلی کے بڑے ہال میں شازل کے خلاف عدالت لگی ہوئی تھی۔شھباز شاہ ارباز شاہ اور شھنواز شاہ کے ساتھ اُن کی بیگمات سب اپنا چہرہ چھپائے ایک سائیڈ پہ کھڑی تھی۔دُرید پرسکون شازل کے ساتھ بیٹھا تھا دوسری طرح بیٹھا دیدار شاہ آگ برساتی نظروں شازل کا چہرہ دیکھ رہا تھا جب کی آروش نازلین اور نور وہ تینوں سیڑھیوں کی ریلنگ کے پاس کھڑی تھی۔

کہاں ہے وہ بدذات۔ارباز شاہ کے جملے پہ شازل نے زور سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

بولنے سے پہلے یہ بات یاد رکھے وہ میری بیوی ہے میں اُس کے خلاف یا اُس پہ گالی برداشت نہیں کروں گا۔شازل چُھبتے لہجے میں بولا

بھائی صاحب دیکھ رہے ہیں آپ اپنے بیٹے کے لچھن اُس پرائی لڑکی کے لیے ہماری نافرمانی کررہا ہے۔شھنواز شاہ خاموش بیٹھے شھباز شاہ سے بولے۔

تایا جان آپ کو نہیں لگتا یہ بات کہنے میں آپ نے کجھ جلدی کی ہے کیونکہ ابھی تو میں نے آپ کو جواب ہی نہیں دیا۔شازل عام لہجے میں شھنواز شاہ سے بولا

شازل حد میں رہو۔دیدار نے غصے سے کہا

میں اپنی حد میں ہوں مگر کوئی میری بیوی کے بارے میں غلط بات کرے گا میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا حد سے نکلنے میں۔شازل طنزیہ لہجے میں بولا

شازل وہ ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے مطلب جانتے ہو ونی کا؟فردوس بیگم نے کاٹ دار نظروں سے اُس کو دیکھا

میں نہیں جانتا ونی کا مطلب اور نا جاننے میں دلچسپی ہے میں بس اتنا جانتا ہوں وہ میرے نکاح میں ہے اور شازل شاہ کو اپنی بیوی کی حفاظت کرنا آتی ہے۔شازل نے کہا

بیوی نہیں وہ ایک خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی ہے قاتل کی بہن تمہاری بیوی نہیں وہ میرے بھائی کا قتل ہوا کے تمہیں اندازہ ہے اِس وقت تم کس کی طرفداری کررہے ہو۔دیدار شاہ دھاڑے

اگر ایسی بات ہے تو جائے اور قاتل کا گریبان پکڑے مگر خبردار جو کسی نے ماہی کی طرف انگلی بھی اُٹھائی تو آپ سب کو جو کرنا تھا وہ کرچُکے ہیں میری غیرموجودگی پر اب میں ایسا بلکل ہونے نہیں دوں گا اُس کو کس چیز کی سزا ملے کیا اُس نے قتل کیا ہے یا وہ اُس جگہ پہ تھی جہاں قتل ہوا تھا۔شازل دیدار سے زیادہ اونچی آواز میں دھاڑا

شازل۔دُرید نے اُس کو تنبیہہ کرتی نظروں سے دیکھا۔

آپ خاموش کیوں ہیں؟ارباز شاہ کو شھباز شاہ کا اتنا خاموش ہونا سمجھ نہیں آرہا تھا۔

اگر شازل اُس کو اپنی بیوی تسلیم کررہا ہے تو ہم کجھ نہیں کرسکتے۔شھباز شاہ کی بات پہ وہاں موجود سب لوگ حیرت کی انتہا کو پہنچے شازل بھی اپنی جگہ حیران ہوا تھا پر اُس نے ظاہر ہونے نہیں دیا 

وہ ہماری ذات کی یا ہمارے خاندان کی نہیں بابا سائیں۔دُرید شاہ کے لہجے میں کانچ جیسی چُھبن تھی اُپر کھڑی آروش کے چہرے پہ سرد تاثرات نمایاں ہوئے تھے۔

لالہ۔شازل نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کجھ بھی بولنے سے باز رکھا

دُرید اُس کا ہاتھ جھٹکتا اُٹھ کر حویلی سے باہر چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

میں بھی چلوں۔شہر جانے کی تیار کرتی آروش کے پاس کھڑی حریم نے کہا

کہاں میں چلوں؟آروش نے گھور کر پوچھا

آپ کے ساتھ تھر(شہر)حریم نے کہا

پہلے شہر بولنا سیکھ لو گیارہ کی ہونے والی ہوں پر مجال ہے جو تمہارے منہ سے صاف الفاظ نکلے۔آروش ہنس کر بولی

میں مس کروں گی۔حریم منہ بسور کر بولی

جھوٹی تم بس اپنے دُر لا کو یاد کرتی رہتی ہو۔آروش عبایا پہننے کے بعد نقاب کرتی بولی

آپ کو بھی کرتی۔حریم نے جلدی سے کہا

او تیری۔اچانک کجھ یاد آنے پہ آروش نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا

تیا ہوا؟حریم اپنی چھوٹی پیشانی پہ بل لائے بولی

تیا نہیں کیا ہوتا ہے جب سیکھ جاؤں گی بولنا تو بتادوں گی ابھی میں آئی۔آروش جلدی سے کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئ پیچھے اُس کی بات پہ حریم کا منہ بن گیا۔

آروش سیدھا دُرید شاہ کے کمرے میں آئی تھی پورا کمرا خالی تھا کیونکہ پڑھائی کے سلسلے میں دُرید شاہ مُلک سے باہر تھا۔

لالا کا پُرانہ سیل فون کہاں ہوگا۔کمرے میں آتی آروش پورے کمرے میں نظر گُھماتی وارڈروب کی طرف آئی چابیاں پہلے سے وہاں موجود تھی اُس نے جیسے وارڈروب کُھولا وہاں سیل فون تو نہیں پر کجھ تصاویرات دیکھ کر اُس کے چہرے پہ مایوسی چھاگئ مختلف طریقے سے کی گئ تصویریں ایک ہی لڑکی کی تھی جس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ کا بسیرا تھا۔

کومل۔آروش اُس تصویر پہ ہاتھ پھیرتی بولی اُس کے دماغ میں آج سے کجھ سال پہلے کا واقعہ تازہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا سائیں 

چودہ پندرہ سالہ آروش شھبازہ شاہ کے ساتھ حویلی سے باہر جارہی تھی جب اُس اکیس سالہ دُرید کی بانہوں میں کسی مُردہ لڑکی کا وجود دیکھ کر سہم کر شھبازشاہ کے پیچھے ہوئی

یہ کیا حماقت ہے دُرید شاہ۔شھباز شاہ برہم ہوئے 

کیوں

 کیوں

بابا سائیں کیوں آپ اِس معصوم کی جان لی اِس کا کیا قصور تھا وہ میری محبت تھی۔دُرید شاہ اپنی لالہ انگارہ آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھ کر بولا

میں نے کہا تھا تمہاری شادی غیرخاندان کی لڑکی سے یا ذات سے نہیں ہوگی پھر تمہیں کیا ضرورت تھی بغاوت کرنے کی۔شھباز شاہ آروش کا وجود فراموش کیے اُس پہ گرجے۔

آروش سہمی نظروں سے دُرید کو دیکھ رہی تھی اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا ابھی تک درید نے اُس کو اپنی بانہوں میں اُٹھا کر کیوں رکھا تھا۔

بغاوت نہیں تھی بابا سائیں آپ سے درخواست تھی آپ کو اعتراض تھا تو بتادے یوں قتل کروانے کی کیا ضرورت تھی۔دُرید چیخا

تذفین کا بندوبست کرو اور بھول جاؤ۔شھباز شاہ کٹھور پن کی حدیں توڑ کر بولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش

اپنے نام کی پُکار پہ آروش حقیقت کی دُنیا میں واپس آئی تصوریریں اپنی جگہ پہ رکھ کر وہ بنا سیل فون اُٹھائے کمرے سے نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕

کہاں تھی اتنی دیر لگادی۔آروش جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی دیدار شاہ نے کہا۔

سوری لالہ دراصل دُرید لالہ کے کمرے میں گئ تھی تو وہاں دیر ہوگئ۔آروش معذرت خواہ لہجے میں بولی۔

اچھا ویسے تمہیں شہر جانے کی ضد نہیں کرنی چاہیے تھی تم نے کونسا پڑھ کر ڈاکٹر انجنیئر یا وکیل بننا ہے۔دیدار شاہ نے کہا

کیوں نہیں بن سکتی لالہ اور شہر جاکر پڑھنا میری ضد نہیں بلکہ میرا شوق ہے میری خواہش ہے اگر پڑھ لکھ کر میں کجھ بن نا بھی پاؤں تو کیا ہوا شعور تو حاصل ہوگا نہ۔آروش مسکراکر نرم لہجے میں بولی تو دیدار نے اپنا سرجھٹکا

کالج میں لڑکے بھی ہوگے تو زرہ احتیاط کرنا کسی سے بھی بلاوجہ بات مت کرنا لڑکوں کی طرف تو دیکھنا بھی مت صرف اور صرف اپنی پڑھائی پہ دھیان دینا اور آخری بات پردے کا خاص خیال کرنا کسی لڑکی کو بھی اپنا چہرہ مت دیکھنے دینا تمہیں نہیں پتا یہ شہر کی لڑکیاں پھر ہر ایک کو تمہاری نین نقش بتاتی پِھرے گی۔دیدار شاہ گاڑی ڈرائیو کرتا سنجیدگی سے بولا

لالہ آپ مجھ سے نہ بھی بولے تو میں اپنی حدود جانتی ہوں اور مجھے یہ بھی پتا ہے وہاں میری ہر ایکٹویٹی پہ نظر ہوگی۔آروش دو ٹوک لہجے میں بولی تو دیدار خاموش ہوگیا۔

💕💕💕💕💕💕

حال!

ماہی اب قدرے بہتر تھی اِس لیے آج اُس نے اپنے کمرے پہ غور کرنے کا سوچا پورے کمرے کا جائزہ لینے کے بعد وہ بیڈ پہ جیسے ہی بیٹھی تو ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑا شازل کا فون بج اُٹھا ماہی اُٹھ کر فون کی طرف دیکھا تو کسی عائشہ نامی لڑکی کی کال تھی لڑکی کا نام دیکھ کر وہ جو شازل کی طرف سے کجھ پرسکون تھی اچانک سے بددل ہوگئ۔

میرا فون ہے؟شازل کمرے میں آیا تو اُس کے ہاتھ سے سیل فون لیکر بولا

کسی عائشہ کی کال آرہی تھی۔ماہی نے جلے کٹے لہجے میں بتایا اُس کا انداز دیکھ کر شازل آنکھیں سیکڑ کر اُس کو دیکھنے لگا۔

اچھا عائشہ میری گرل فرینڈ کا نام ہے۔شازل موبائیل کی اسکرین پہ نظر جمائے بتانے لگا تو ماہی بے یقین نظروں سے شازل کو منہ تکنے لگی اُس کو یقین نہیں آیا اُس کا شوہر خود اپنے منہ سے اپنی گرلفرینڈ کا بتارہا تھا 

ان شاہ خاندان کے فرد کے بھی کیا کہنے ہیں ہر بات منہ پہ ماردیتے ہیں۔شازل کی جانب دیکھ کر ماہی بس سوچ سکی اُس کو اِس وقت آمنہ کی ساری باتیں یاد آنے لگی جو ہمیشہ سے وہ اُس کو بتاتی آرہی تھی۔

اور کتنی گرلفرینڈز ہیں آپ کی؟ماہی اپنا لہجہ نارمل کیے پوچھنے لگی۔شازل جو عائشہ کو کال ملانے والا تھا ماہی کے سوال پہ رک کر ہاتھوں کی مدد سے گنتی کرنے لگا یہ دیکھ کر ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب تھی۔

ثانیہ تانیہ ستارہ تارا یاسمین امبر فرح سارہ رباب دلنشین اور کجھ کا نام یاد نہیں آرہا اِس وقت۔شازل پرسوچ لہجے میں بولا

اور بھی ہیں؟ماہی غش کھانے کے در پہ تھی۔

ہاں یہ تو کجھ بھی نہیں۔شازل مسکراکر بولا تو ماہی کو لگا جیسے اُس کو کسی نے آسمان پہ پہنچا کر بے دردی سے زمین پہ پٹخ دیا ہو۔

میں کام سلسلے میں باہر جارہا ہوں تم کسی سے ڈرنا مت اگر کہی جانا ہو تو آروش کو ساتھ چلنے کا کہنا۔شازل اُس کا گال تھپتھپاکر کہتے کمرے سے باہر چلاگیا۔

کمینا۔شازل کے جانے کے بعد بے اختیار اُس کے منہ سے گالی نکلی جس پہ اُس نے جلدی سے منہ پہ ہاتھ رکھا۔

میری بلا سے جتنی چاہے گرلفرینڈز بنائے میرا کیا ویسے بھی میں نے کونسا ساری زندگی اِس قید میں رہنا ہے بابا ضرور مجھے لینے آئے گے۔ماہی خود سے باتیں کرتی بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریم نظر نہیں آرہی۔حویلی میں آج کلثوم بیگم کی بہن صدرہ آئی تھی تبھی باتوں باتوں میں انہوں نے حریم کا پوچھا

ایک ہفتہ پہلے دُرید اُس کو ہاسٹل چھوڑنے گیا تھا وہی ہے اب۔کلثوم بیگم نے بتایا

ٹھیک ٹھیک مجھے دراصل ایک بات کرنی ہے تم سے۔صدرہ بیگم نے کہا

کرو۔کلثوم بیگم نے اِجازت تھی۔

ویسے تو یہ ٹھیک وقت نہیں پر میں نے سوچا ابھی تمہارے کان میں یہ بات ڈال دوں۔صدف بیگم کجھ ہچکچاہٹ سے بولی

جو بات ہے بے جھجھک کہو۔کلثوم بیگم نے مسکراکر کہا

تابش کے لیے میں حریم کا رشتہ مانگنا چاہتی ہوں شروع سے مجھے وہ پسند ہے۔صدف بیگم کی بات پہ کلثوم بیگم کے چہرے کے تاثرات یکدم سنجیدہ ہوئے۔

ابھی ایک مہینہ پہلے حویلی سے ایک میت اُٹھی تھی خاندان کا بیٹا قتل ہوگیا ہے اور تم اِس وقت ایسی باتیں کررہی ہو شبانا کے عدت کے دن تو پورے ہونے دو۔کلثوم بیگم سخت لہجے میں بولی۔

آپا میں کونسا چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات کررہی ہوں جب عدت پوری ہوجائے اُس کے بعد کرنے کا بول رہی ہو اِس وقت بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کے آپ کہی اور اُس کی بات نہ طے کردے۔صدف بیگم نے جلدی سے کہا

آروش کی پہلے کہیں شادی ہوجائے اُس کے بعد ویسے بھی حریم کا نمبر بعد میں ہے نور اور نازلین اُس سے بڑی ہیں۔کلثوم بیگم نے دوسرا نقطہ نکالا

آروش کو تو تم رہنے دو رہی بات نور اور نازلین کی تو نازلین کا نکاح ہوگیا ہے بس رخصتی رہتی ہے اللہ کے حکم سے ہو بھی ہوجائے گی نور کا بھی تو رشتہ طے ہے نہ تو پریشانی کس بات کی۔صدف بیگم کی بات پہ کلثوم بیگم کو پسند نہیں آئی۔

آروش کے بارے میں ایسا کیوں کہا اُس کو رہنے دو۔کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا

تین بار بار اُس کی شادی ہوتے ہوتے نہیں ہوئی پورے گاؤں میں اب یہ بات پھیل گئ ہے کے شاہ خاندان کی لاڈلی بیٹی آروش شاہ کے قدم سبز ہیں اُس کی کبھی شادی نہیں ہوگی۔صدف بیگم بنا یہ سوچے وہ بات کس کی اور کس کے سامنے کررہی ہیں بس بولتی چلی گئ۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے لوگوں کا تو کام ہیں باتیں بنانا وہ تو بہت کجھ کہہ جاتے ہیں پر خیر کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر اُس کی شادی کروادے گے۔کلثوم بیگم بولی

خاندان میں کوئی دے گا نہیں خاندان سے باہر رشتیداری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے تو آپا بس آپ اپنے ارمانوں پہ فاتح پڑھ لیں کیا ہوتا اگر آپ دیدار شاہ کو اُس کا ددودھ شریک بھائی نا بناتی حویلی کی بات حویلی میں رہ جاتی۔صدف بیگم تاسف سے اُن کو دیکھ کر بولی۔

اب تم بہت بول رہی ہو یہ بات شاید بھول رہی ہو جس کے بارے میں بات کررہی ہو وہ تمہاری بھانجی ہے۔کلثوم بیگم ناگواری سے بولی۔

میرا کوئی غلط مطلب نہیں آپا میں معذرت چاہتی ہوں آج تو میں بس آپ سے حریم کی بات کرنے آئی تھی آپ بھائی صاحب سے بات کیجیے گا۔صدف بیگم کجھ شرمندہ ہوئی۔

حریم کی شادی کا فیصلہ دُرید کرے گا کیونکہ مریم نے حریم کی ذمیداری دُرید کو دی تھی۔کلثوم بیگم نے بتایا

وہ تو سب کو پتا ہے پر بڑے تو بھائی صاحب ہیں نہ۔صدف بیگم اُن کی بات پہ مسکرائی۔

بیشک وہ بڑے ہیں پر جو پیار اور خیال حریم کو دُرید سے ملا ہے اُس حساب سے اُس کی زندگی کے فیصلہ کرنے کا حق صرف دُرید کو ہے جس پہ نا شاہ صاحب کو اعتراض ہوگا اور نہ خود حریم کو۔کلثوم بیگم کا لہجہ دو ٹوک تھا

ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں تابش کو تو سب جانتے ہیں مجھے یقین ہے دُرید کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔صدف بیگم پرسکون سی بولی

💕💕💕💕💕

عشق بھی توں ہے پیار بھی توں ہے

توں ہی میری محبت ہے

سانسوں میں تیری سانسوں میں لے لوں

تیری اگر اِجازت ہو

آروش اپنے کمرے میں موجود ٹی وی پہ چینل سرچ کررہی تھی جب ایک چینل پہ چلتے سونگ پہ اُس کا ریموٹ پہ کام کرتا ہاتھ تھم گیا۔

ٹی وی پہ کوئی لائیو شو چل رہا تھا جس میں یمان مستقیم فل بلیک سوٹ میں کھڑا مائیک ہاتھ میں لیے گانا گارہا تھا جس کو سن کر وہ چاہ کر بھی چینل تبدل نہ کرپائی۔

عشق بھی توں ہے پیار بھی توں ہے

توں ہی میری محبت ہے

سانسوں میں تیری سانسوں میں لے لوں

تیری اگر اِجازت ہو

اِس سے زیادہ گھٹیاں کوئی سنگر گانا گا بھی نہیں سکتا۔یمان مستقیم کو ایک مصرعہ دوبارہ گاتے سن کر آروش جل کر بڑبڑائی۔

تیرے بن میں اِس دنیا کا یار کروں گا کیا؟؟

مجھ کو تو بس شام سویرے اِک تیری

چاہت ہے

سانسوں میں تیری سانسوں میں لے لوں

تیری اگر اِجازت ہو

میں اندر آسکتی ہوں؟آروش جو سرد نظروں سے ٹی وی اسکرین پہ نظر جمائے بیٹھی تھی اچانک ماہی کی آواز پہ چونک کر ٹی وی بند کرنا چاہا جب ماہی بول پائی۔

چلنے دو پلیز۔ ماہی کے الفاظ پہ آروش نے ریموٹ اُس کی جانب بڑھایا جس کو ماہی نے خوشدلی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔

ہے جتنے بھی موسم تیرے سِنگ گُزرے گے

دل پہ چڑھے ہیں جو تیرے اب نہ اُترے گے

Music 🎶

جتنے بھی سپنے ہیں

 نام تیرے کردے گے۔

آنسو تیرے ہم تو خود کی 

آنکھوں میں ہے بھر لینگے 

ساتھ تیرا نہ میں چھوڑوں گا 

یہ کرتا ہوں واعدہ

کیسے چھولوں اب تجھ کو میں

توں ہی میری عادت ہے

سانسوں میں تیری سانسوں میں لے لوں

تیری اگر اِجازت ہو

عشق بھی توں ہے پیار بھی توں ہے

توں ہی میری محبت ہے

سانسوں میں تیری سانسوں میں لے لوں

تیری اگر اِجازت ہو

اِس کے گانے کمال کے ہوتے ہیں اور یہ خود بھی بہت ہینڈسم ہیں اِن سیلیبرٹی کے بھی کیا ٹھاٹ ہیں۔گانا ختم ہونے کے بعد ماہی نے کسی ٹرانس کی کیفیت میں کہا تو آروش اُس کو گھورنے لگی۔

یہ بات لالہ شازل کو بھی بتانا۔آروش ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ کر بولی تو ماہی سٹپٹائی۔

ان کو کیوں؟ماہی نے ہڑبڑاکر کہا

ایسے ہی جنرل نالج مل جائے گی ان کو۔آروش نے کندھے اُچکاکر کہا۔

اچھا ایک بات پوچھو؟ماہی نے کہا

پوچھو۔آروش نے اِجازت دی

اب کوئی مجھے کام کرنے کا کیوں نہیں کہتا ایک ہفتے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے میری حالت بھی قدرے بہتر ہے اور کسی نے اِس بیچ مجھ پہ غصہ بھی نہیں کیا۔ماہی کے لہجے میں حیرت عیاں تھی۔

کام کرنے کا شوق چڑھا ہے یا بھابھی شبانا کی مار یاد آرہی ہے؟اُس کی بات پہ آروش نے طنزیہ کیا تو ماہی بول کر پچھتائی۔

دونوں کا نہیں دل کررہا وہ تو میں بس جنرل نالج کے لیے پوچھ رہی ہوں۔ماہی نے جلدی سے کہا۔

لالہ نے سب کو وارننگ دی ہے تم پریشان نہیں ہو جب تک لالہ یہاں ہیں کوئی تمہیں کجھ نہیں کہے گا۔آروش نے کہا

اور جب وہ نہ ہو تو؟ماہی نے ڈر کر پوچھا

تو تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں تم اچھے سے سب جانتی ہو حویلی میں سب تمہیں ونی کی نظر سے دیکھتے ہیں جب کی لالہ تمہیں اپنی زمیداری سمجھتے ہیں۔آروش نے بتایا پر اُس کی آخری بات سن کر ماہی کو جانے کیوں دُکھ ہوا

تم کیا سمجھتی ہو مجھے اور کس نظر سے دیکھتی ہو؟ماہی نے  اُس کا نظریہ جاننا چاہا 

میں تمہیں اپنے لالہ کی بیوی کی حیثیت سے دیکھتی ہوں۔آروش نے کہا۔

پر اُن کے لیے تو محض ایک زمیداری ہوں۔ماہی افسوس سے کہا

میں کیا کہہ سکتی ہوں۔آروش نے کندھے اُچکائے

ایک اور بات پوچھو؟ماہی نے سرجھٹکتے کہا

پوچھو۔آروش نے اِجازت دی 

میں جب سے یہاں ہوں تمہیں صرف اور صرف اپنے کمرے میں دیکھا ہے جب کی تمہارے علاوہ جو تین اور لڑکیاں ہوتی ہیں وہ تو پوری حویلی میں نظر آتی ہیں پھر تم کیوں نہیں۔ماہی متجسس لہجے میں بولی۔

تمہیں میرے کمرے میں رہنے سے مسئلہ ہے یا اُن تینوں کے حویلی میں ہر جگہ نظر آنے سے مسئلہ ہے؟آروش بے تاثر لہجے میں اُس سے بولی۔

مجھے دونوں سے کوئی مسئلہ نہیں وہ تو بس ایسے ہی سوال کیا۔ماہی نے فورن سے کہا۔

مجھے نہیں پسند کوئی مجھ سے ایسے سوال کرے۔آروش نے صاف لہجے میں کہا

تم بہت روڈ ہوں۔ماہی نے بتانا ضروری سمجھا پر اُس کی بات پہ آروش کے دماغ میں کجھ اور گونجنے لگا

آپ بہت روڈ ہیں۔

مجھے پتا ہے۔آروش اپنا سرجھٹک کر بولی۔

میں چلتی ہوں پھر۔ماہی اُس کے چہرے کے ایکسپریشن دیکھتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

لالہ کہی گئے ہیں کیا؟اب کی آروش نے پوچھا

ہاں ہر شام کے وقت چلے جاتے ہیں پھر دوسرے دن صبح کو آتے ہیں۔ماہی نے بتایا۔

ٹھیک۔آروش نے سرہلا۔

ویسے تمہارا فیورٹ سنگر کون ہے؟ماہی کو جانے کیا سوجھی جو سوال کر بیٹھی۔

کوئی بھی نہیں۔آروش نے گہری سانس لیکر کہا

💕💕💕💕💕💕

آج یمان کو شو میں انوائٹ کیا گیا تھا شو ختم ہونے کے بعد یمان باہر نکلا تو لوگوں کی ایک قطار اُس کی منتظر تھی۔

یمان کے باہر آتے ہی سب زور شور سے اُس کا نام لینے لگے۔

میں نے کہا بھی تھا مجھے دوسرے ایکزٹ دروازے سے جانا ہے یہاں کے آنے کا نتیجہ یہ ہے۔ہجوم کے درمیان اپنا راستہ نکالتا یمان تیکھے لہجے میں ساتھ چلتے ارمان سے بولا 

سر وہاں اِس سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔ارمان نے صفائی پیش کی۔

اور جو اب میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے اُس کا کیا تمہیں اتنا سینس نہیں ارمان کے گاڑی کو پاس میں ہی کھڑا کردیتے تمہیں پتا ہے میں آج نہ کسی کے سوال کے جواب دے سکتا ہوں نہ اور نہ کجھ اور کام کرسکتا ہوں۔یمان سخت لہجے میں بولا

سر آٹوگراف پلیز

سر ون سیلفی پلیز۔ارمان کے کجھ کہنے سے پہلے سب لوگوں نے یمان کو گھیرلیا جس سے سیکیورٹی گارڈز نے اُن کو ہٹانا چاہا پر یمان نے ہاتھ کی مدد سے رک لیا اُس کے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھ کر ارمان نے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا وہ جانتا تھا یمان کی طبیعت اب اکثر خراب رہنے لگی تھی یہ بات وہ دلاور خان کو بھی بتاچُکا تھا انہوں نے یمان کو سنگنگ کرنے اب کجھ گیپ لینا کا بھی کہا تھا پر یمان اُن کی بات ٹال گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان سے بات کراؤں میری۔ارمان اور یمان ابھی گاڑی میں بیٹھے تھے جب ارمان کے سیل فون پہ مسز دلاور کی کال آئی تھی اُن کی بات پہ ارمان نے یمان کو دیکھا جو سیٹ پہ ٹیک لگاکر آنکھیں موند کر بیٹھا تھا۔

مسز دلاور آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ارمان نے یمان سے کہا تو یمان نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو کُھولا۔

اسلام علیکم!یمان ارمان سے فون لیتا بولا۔

وعلیکم اسلام یمان کیسے ہو۔مسز دلاور فکرمندی سے حال احوال دریافت کرنے لگی۔

میں ٹھیک ہوں آپ بتائے۔یمان نے بتانے کے بعد پوچھا

میں ٹھیک ہوں تم آج رات گھر آنا بات کرنی ہے تم سے۔مسز دلاور نے کہا

آج؟یمان نے کنفرم کرنا چاہا

ہاں کیوں کیا مصروف ہو؟مسز دلاور نے پوچھا

ایسی بات نہیں میں آجاؤں گا۔یمان گہری سانس بھر کر بولا اُس کا اِرادہ نیند کی گولیا لیکر لمبی تان سونے کا تھا پر مسز دلاور خان کو انکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔

ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی۔مسز دلاور خوش ہوتی بولی تو یمان کال بند ہونے کے بعد سیل فون ارمان کی طرف بڑھایا

💕💕💕

آپ یہاں۔ ماہی نے رات کے وقت شازل کو کمرے میں دیکھا تو حیران ہوئی کیونکہ شازل اکثر رات کے وقت باہر ہوتا تھا۔ 

ہاں میں یہاں کیوں مجھے کہی اور ہونا چاہیے تھا کیا؟ شازل کو اُس کا حیران ہونا سمجھ نہیں آیا۔ 

ہاں۔ ماہی کے منہ سے بے ساختہ پِھسلا تو شازل نے آئبرو اُچکائے

میرا مطلب تھا آپ تو باہر ہوتے ہیں نہ اِس وقت۔ ماہی سنبھل کر بولی۔ 

ہوتا تھا کیونکہ کام ہوتے تھے آج نہیں ہیں تو اپنے کمرے میں ہوں۔ شازل یہ کہہ کر بیڈ پہ لیٹ گیا اُس کو بیڈ پہ سوتا دیکھ کر ماہی کشمکش میں مبتلا ہوئی۔ 

میں کہاں سوؤ گی؟ماہی نے بلآخر پوچھ لیا۔

کیا مطلب کہاں سوؤ گی یہی بیڈ پہ اور کہاں۔شازل نے تعجب سے کہا

بیڈ پہ تو آپ ہیں نہ۔ماہی نے بتایا۔

تو کیا ہوا پریشان مت ہو میرا کردار مضبوط ہے اِس لیے تم بے فکر ہوکر سوجاؤ۔شازل پرسکون لہجے میں بولا

جن کے کردار مضبوط ہوتے ہیں اُن کے سیل فون پہ ہر روز نئ لڑکی کی کال نہیں آتی۔ماہی یہ بات کرنا تو دل میں چاہتی تھی پر بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا جس کو سن کر شازل جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا۔

کیا مطلب تمہارا اِس بات سے کیا کہنا چاہتی ہو تم؟شازل گھور کر پوچھنے لگا۔

میں تو کجھ نہیں وہ تو بس منہ سے پھسل گیا۔ماہی ہڑبڑا کر بولی۔

یہ آجکل تمہاری زبان زیادہ پھسلنے نہیں لگی۔شازل نے دانت پہ دانت جمائے۔

پتا نہیں آپ سوجائے میں بھی سوجاؤ گی۔ماہی نے جان چھڑانے کیلئے کہا۔

میں تو سو ہی جاؤں گا۔شازل اتنا کہہ کر دوبارہ لیٹ گیا اُس کو سوتا دیکھ کر ماہی بھی بیڈ کی دوسری طرف آکر کمرے کی لائیٹ بند کرکے لیٹ گئ۔

سنے۔تھوڑی دیر بعد ماہی نے شازل کی طرف کروٹ لیکر اُس کو پُکارا۔

سُنائیں۔شازل نے فرمانبردار سے کہا

آپ کی ٹوٹل گرلفرینڈز کتنی ہیں؟ماہی کے سوال پہ شازل نے پٹ سے آنکھیں کُھولی۔

یہ رات کے وقت تمہیں میری گرلفرینڈز کہاں سے یاد آئی؟شازل حیران ہوا۔

بھولی کب تھی۔ماہی کے جل کے بولی

کیا مطلب۔شازل کو سمجھ نہیں آیا میرا مطلب تھا کے بس یوں ہی خیال آیا تو سوچا آپ سے پوچھ لوں۔ماہی نے جلدی سے کہا

اچھا نمرہ فائزہ اور رابیعہ یہ تینوں اسکولز لائیف سے فرینڈز ہیں اور ثانیہ تانیہ ستارہ تارا یاسمین امبر فرح سارہ رباب دلنشین یہ کالج لائیف سے ہیں کالج کے بعد میں ہائی اسٹڈی کے لیے لنڈن گیا تھا وہاں بھی چھ سے سات تک بن گئ تھی۔ شازل ٹھر ٹھر کر بتانے لگا اُس کی باتوں سے ماہی کو جھٹکے پہ جھٹکے لگ رہے تھے۔ 

مطلب بچپن سے ہی دل پھینک ہیں۔ ماہی کی زبان ایک بار پھسلی تو شازل لائیٹ آن کرتا بیٹھ گیا اُس کو بیٹھتا دیکھ کر ماہی بھی منہ بناکر بیٹھ گئ۔ 

فرینڈز بنانے والے کیا دل پھینک ہوتے ہیں؟ شازل نے اُس کی طرف دیکھ کر کہا

گرلفرینڈز بنانے والے دل پھینک ہوتے ہیں۔ ماہی نے بناتاخیر کیے جواب دیا۔

اور ایسا تمہیں کیوں لگتا ہے۔ شازل اتنا کہتا چپ ہوگیا اُس کا دماغ اچانک کجھ کلک ہوا پھر اُس کے بے یقین نظروں سے ماہی کو دیکھا جس کا منہ غبارے کی طرح پُھولا ہوا تھا

اَسْتَغْفِرُاللّٰه تم مجھے ایسا سمجھتی ہو۔ ساری بات سمجھ آنے کے بعد شازل جھرجھری لیکر بولا

میں ایسا ویسا کیوں سمجھوں گی آپ نے خود بتایا آپ کی دس میں سے بیس سے زیادہ گرلفرینڈز ہیں اللہ جانے شادیاں کتنی کرنے کا اِرادہ ہے آپ کا۔ ماہی ہاتھ کھڑے کیے بولی۔ 

اوو کل عقل گرلفرینڈز کا مطلب یہ نہیں کے میرا اُن کے ساتھ ٹانکہ فٹ ہیں یہ تو میں نے اِس لیے کہا کیونکہ وہ لڑکیاں ہیں تو گرلفرینڈز ہوئی اب بوائے گرینڈ کہنے سے تو میں رہا۔شازل کی اِس بات پہ ماہی کے چونک کر اُس کی طرف دیکھا

اگر ایسی بات ہے تو آپ فرینڈ بھی بول سکتے تھے گرل لگانا ضروری تھا کیا۔ماہی اپنی خجلت مٹانے کے غرض سے بولی

مجھے کیا پتا تھا تم اتنی عقلمند ہو اور پتا ہوتا تو بلکل نہ کہتا خوامخواہ میرا کردار مشکوک کردیا۔شازل کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا تو ماہی کی ہنسی چھوٹ گئ شازل نے اتنے دنوں کے بعد پہلی بار اُس کو ہنستا دیکھا تھا۔

 أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّك‎‎۔شازل کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

کیا پڑھا آپ نے؟ماہی متجسس ہوئی

أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّك‎‎ یہ ایک دعا ہے جب کسی کو ہنستا دیکھو تو پڑھا کرو۔ شازل نے مسکراکر بتایا

اچھا مجھے آج سے پہلے معلوم نہیں تھا۔ ماہی کو افسوس ہوا۔

مجھے یہ دعا یاد نہیں رہتی تھی پر آروش کو ہمیشہ یاد ہوتی تھی مجھے بھی وہ بار بار یاد کرواتی تھی تبھی مجھے اب یاد ہوتی ہے۔ شازل نے محبت سے آروش کا نام لیا تو ماہی کو آروش پہ رشک آیا۔ 

ایک بات پوچھو؟ ماہی نے کجھ سوچ کر پوچھا

ہاں پوچھ لو کیونکہ تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے تمہارا سونے کا کوئی موڈ نہیں۔ شازل کی بات پہ وہ کھسیانی ہوئی

کیا آروش آپ کی اپنی بہن ہے؟ماہی نے کجھ جھجھک کر پوچھا اُس کو ڈر تھا کہی شازل بُرا نا مان جائے۔ 

یہ کیسا سوال ہے افکورس وہ میری بہن ہے۔ شازل سنجیدہ ہوا۔ 

سوری اگر آپ کو بُرا لگا ہو تو میں نے اِس لیے پوچھا کیونکہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے میں یہاں ہوں حویلی کے ہر فرد سے میں واقف ہوں سب کی شکلیں بھی مجھے یاد ہیں پر اُن سے چہروں سے آروش کا چہرہ سب سے الگ ہوتا ہے۔ ماہی نے تھوڑا ڈر کر کہا

تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ شازل اُس کی بات سمجھ نہیں پارہا تھا۔ 

میں بس یہ کہہ رہی تھی کے آپ کا چہرہ آپ کے بابا سے ملتا جُلتا ہوا ہے اور آپ کے بڑے بھائی درید شاہ کا اپنی ماں سے وہ جو حریم ہوتی ہے اُن کی شکل بھی آپ لوگوں سے کجھ ملی جُلی ہوتی ہے نور نازلین دیدار شاہ بھابھی شبانا پر اِن سب کے برعکس آروش کے نین نقش آنکھوں کو رنگ سب مختلف ہوتا ہے اُس کا رنگ گورا چٹا ہے پر وہ جیسے پٹھان خاندان کی لگتی ہے آپ نے کبھی اُس کے گال دیکھے ہیں کیسے سرخ وسپید

سٹاپ ماہی۔ شازل غصے سے اُس کی جانب دیکھ کر جھڑکا اُٹھا

سوری۔ ماہی اُس کی چیخ پہ کانپ اُٹھی

آروش بہن ہے میری شاہ خاندان کی ہے آج تو تم نے اُس کا شمار کسی اور ذات سے کردیا دوبارہ یہ غلطی مت کرنا کیونکہ میں تو یہ بات برداشت کرگیا حویلی میں اگر یہ بات بابا سائیں تک پہنچی تو تمہیں اندازہ نہیں وہ تمہارا کیا حشر کرے گے جان بستی ہے اُن کی آروش میں بیٹوں سے زیادہ بیٹی عزیز ہے انہیں۔ شازل ایک لفظ لفظ پہ زور دے کر بولا تو ماہی خاموش ہوگئ شازل ایک نظر اُس پہ ڈال کر کمرے سے باہر چلاگیا اُس کے جانے کے بعد ماہی نے ساری رات روکر گُزاری۔ 

💕💕💕💕💕

یامین نہیں آیا ابھی اسکول سے؟ عیشا فجر کے گھر میں داخل ہوتی پوچھنے لگی۔ 

کہاں ابھی ایک گھنٹہ رہتا ہے۔فجر نے بتایا۔ 

بات ہوئی تمہاری اُس سے؟ عیشا صوفے پہ بیٹھ کر پوچھنے لگی۔ 

وہ جو لڑکا آتا ہے ارمان اُس کو میں صاف صاف انکار کردیا تھا کے دوبارہ مہینے کی پہلی تاریخ کو راشن دینے نہ آئے ہمیں چیزوں کی نہیں چیزیں بھیجنے والے کی ضرورت ہے۔ فجر اُس کی بات کا مطلب سمجھ کر بتانے لگی۔

پھر کیا کہا اُس سے؟ عیشا نے جاننا چاہا

وہ کیا کہتا وہ تو یمان کے اِشارے پہ چلتا اور بولتا ہے اُس بات کو تین ماہ ہوگئے ہیں پھر اُس کے آدمی پلٹ کر نہیں آئے۔ فجر طنزیہ لہجے میں بولی۔ 

تین ماہ یمان ایسا تو نہیں تھا وہ ہم سے اتنا وقت غافل کیسے ہوسکتا ہے۔ عیشا کو دُکھ ہوا۔ 

وہ غافل نہیں ہے عیشا بس وہ یہاں آنا نہیں چاہتا پتا نہیں کیوں ہمیں کس بات کی سزا دے رہا ہے ہمارا کیا قصور۔ فجر کی آنکھیں نم ہوئی

چھوڑو یہ باتیں میں اِس بار تین دنوں کے لیے آئی ہو سوچا تم اکیلی ہوگی تمہارے ساتھ کجھ وقت گُزار لیا جائے۔ عیشا بات بدل کر مسکراہٹ سے بولی

میں سالوں سے اکیلی رہ رہی ہو اب تو عادت ہے وہ تو اللہ کا شکر ہے جو یامین میری زندگی میں آیا ورنہ پتا نہیں میرا کیا ہوتا۔ فجر سرجھٹک کر بولی۔ 

شادی کرلوں۔ عیشا نے اچانک سے اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر کہا

پاگل ہوگئ ہو۔ فجر اپنا ہاتھ اُس ہاتھ سے الگ کرتی بولی۔ 

اِس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے یامین کا سوچو اپنا سوچو تم کب تک اکیلی تنہا زندگی گؐزارو گی آگے چل کر تمہیں کسی کے سہارے کی ضرورت پڑنی ہے تو بہتر یہی ہے کے جلدی سے تم اپنے لیے کوئی فیصلہ کرلوں۔ عیشا سمجھانے والے انداز میں بولی۔ 

تمہارا لگتا ہے دماغ خراب ہوگیا ہے میں پہلے سے شادی شدہ ہوں پانچ سال کا بیٹا ہے میرا اور تم مجھے دوسری شادی کا مشورہ دے رہی ہو۔ فجر نے غصے سے کہا

شادی شدہ ہو نہیں شادی شدہ تھی اور تمہیں نہیں لگتا یامین کو باپ کے پیار کی ضرورت ہے۔ عیشا نے سنجیدگی سے کہا

اُس کو نہیں ضرورت اپنے بیٹے کے لیے میں کافی ہوں۔ فجر کا انداز اٹل تھا۔ 

تم خودغرض بن کر سوچ رہی ہو فجر۔ عیشا کو افسوس ہوا۔ 

تمہیں یہ اچانک سے میری شادی کا خیال کیوں آیا اتنے وقت بعد آئی ہو اور یہ باتیں لیکر بیٹھ گئ ہو خیر تو ہے۔ فجر مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو عیشا اپنا سرجھکاگئ۔ 

سر مت جھکاؤ عیشا ساری بات بتاؤ۔فجر کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا 

ماہین جو میری نند ہے اُس کی ساس اپنے بیٹے فراز کے لیے تمہارا رشتہ مانگنا چاہتی ہے تبھی آنٹی نے مجھے کہا میں تم سے اِس سلسلے میں بات کروں۔عیشا نے کسی مجرم کی طرح بتایا تو فجر جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

اوو تو یہ بات ہے تمہاری ساس نے یہ بھی کہا ہوگا تین دن اُس کے پاس رہنا اور راضی کرلینا۔فجر کو حقیقتاً دکھ ہوا۔

ہاں ایسی بات ہے پر اِس میں کجھ غلط بات بھی تو نہیں تمہیں جیون ساتھی ملے گا اور یامین کو باپ کا پیار۔عیشا نے ایک اور کوشش کی۔

وہ فراز ایک نمبر کا موالی جو ہر آتی جاتی لڑکی کو حوس بھری نظروں سے دیکھتا ہے وہ میرے بیٹے کو باپ کا پیار دے گا وہ کمینا میرا جیون ساتھی بنے گا کیا ہوگیا ہے تمہیں عیشا۔فجر کو اُس کی باتوں سے حیرانگی ہوئی۔

پلیز فجر میری بہن ہو مان جاؤ اگر تم نا مانی تو ماہین کو گھر آنے نہیں دے گے اگر اُس کا گھر خراب ہوا تو میرا گھر بسے گا اِس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔عیشا آہستہ آواز میں بولی۔

تمہاری نند کے سسرال والوں سے میرا کوئی کنسرن نہیں عیشا اِس لیے خدا کے واسطے دوبارہ یہ بات مت کرنا ورنہ میں یہ سوچ لوں گی بھائی کے ساتھ ایک جو بہن تھی اب وہ بھی نہیں۔فجر سپاٹ لہجے میں بولی

تم نے یمان کے لیے بھی تو قُربانیاں دی تھی نہ آج جب میں پہلی بار تم سے کجھ مانگ رہی ہوں تو یوں خالی ہاتھ لوٹا رہی ہو۔عیشا کو رونا آیا۔

تم نے مجھے کیا سمجھا ہے عیشا صرف قربانی دینے والا۔ بکرے کو بھی ایک دفع قربان کیا جاتا ہے تو میں کیوں بار بار قربانیاں دیتی پِھروں بہن کی محبت میں آکر میں اپنے بیٹے کا متسقبل خراب کردوں مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے عیشا میرے لیے میرا بیٹا کافی ہے بڑا ہوکر وہ میرا سہارا بنے گا اور رہی بات اب کی تو یمان ہے نہ چاہے ملنے نہیں آتا پر وہ دور رہ کر بھی ہمارا سوچتا ہے تم فکر نہیں کرو اسفند کبھی تمہیں نہیں چھوڑے گا اُس کے دو بچوں کی ماں ہو تم چار سال کا تعلق بنا کسی وجہ کے وہ ختم نہیں کرے گا تم سے کیونکہ وہ یہ بات بھی اچھے سے جانتا ہے اُس کا گھر کس کے پئسو پہ چلتا ہے۔فجر بے لہچک لہجے میں بولی

طعنہ دے رہی ہو؟عیشا کو فجر کی آخری بات پسند نہیں آئی۔

نہیں میری بہن طعنہ نہیں دے رہی بس یہ بول رہی ہو تمہیں اُن سے دبنے کی ضرورت نہیں تم یمان مستقیم کی بہن ہو جو کوئی عام شخصیت کا مالک نہیں مشہور سنگر ہے۔آخری بات پہ ناچاہتے ہوئے بھی فجر کی آنکھوں میں آنسو آئے تو عیشا بنا کجھ کہے اُس کو اپنے گلے سے لگایا۔

پیچھے ہٹو یامین کو پِک کرنے جانا ہے۔فجر اُس کو پیچھے دھیکل کر بولی

تم نا بھی جاؤ یامین اُس نے باحفاظت گھر پہنچ ہی جانا ہے بڑا ذمیدار ہے اُس کا ماما۔عیشا جلے کٹے انداز میں بولی تو فجر ایک اُس کے بازوں پہ ایک تھپڑ رسید کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

چاچی جان کجھ کھالیتی۔آمنہ نے کمرے میں خاموش  بیٹھی بختاور بیگم سے کہا جو ماہی کے جانے کے بعد زیادہ تر اپنے کمرے میں رہنا پسند کرتی تھی۔

جانے میری معصوم بچی نے کھانا کھایا بھی ہوگا یا نہیں پتا نہیں کیسا کیسا ظلم کرتے ہوگے اُس پہ۔بختاور بیگم اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ کر بولی۔

اللہ ہے نہ وہ اُس کی حفاظت کرے گا آپ پریشان مت ہو کھانا کھالیں ورنہ طبیعت بگڑ جائے گی۔۔آمنہ نے اُن کو تسلی کروانے کے ساتھ ساتھ اُن کو سمجھانا چاہا

کیسے پریشان نہ ہو وہاں میری بچی ظالموں کے درمیان ہے تو کیسے میرے حلق سے نوالہ اُترے گا۔بختاور بیگم نے کہا

آپ دعا کرے وہ ٹھیک ہو ان شاءاللہ ماہی جلد ہمارے پاس ہوگی۔ذین سالک کی آواز پہ دونوں نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا جو بغیر کسی تاثر کے کھڑا تھا۔

توں نے اُس کے یہاں آنے کے سارے راستے ختم کردیئے ہیں یہاں تو وہ اُس کی لاش بھی نہیں بھیجے گے۔بختاور بیگم کے لہجے میں بے بسی تھی۔

اُس دن جو ہوا وہ ایک حادثہ تھا میں نے دلدار شاہ کا قتل نہیں کیا بلکہ وہ تو میرا کرنے والا تھا بس اپنے بچاؤ کرنے پہ کیسے گولی چل گئ پتا ہی نہیں چلا۔ذین نے وضاحت دیتے کہا۔

توں نے قتل کیا یا وہ ایک حادثہ تھا جو بھی تھا بے رحمانہ قتل کی سزا ہماری بچی کو مل رہی ہے اب کوئی فرق نہیں پڑتا قتل کیوں اور کیسے ہوا۔بختاور بیگم چیخ پڑی۔

امی جان فرق پڑتا ہے مجھے پھسایا جارہا ہے جو جرم میں نے کیا ہی نہیں اُس کی سزا مجھے یا میری بہن کو کیوں ملی اگر گولی ایک چلی تھی تو گولیوں سے چھلینی اُس کا سینہ کس نے کیا میں نے تو نہیں کیا میں تو وہاں سے بھاگ گیا تھا پھر خراب ملی اللہ کی قسم میں خود نہیں جانتا یہ سب کیسے ہوا۔ذین اُن کے قدموں کے پاس بیٹھ کر بولا

جب تجھ سے کہا گیا تھا دلدار شاہ سے دور رہ تو توں کیوں نہیں مانا؟بختاور بیگم نے پوچھا جب کی آمنہ خاموشی سے ذین کی طرف دیکھ رہی تھی۔

میں اُس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا وہ زبردستی مجھ سے کجھ پیپرز کے سائن لینا چاہتا تھا آپ بتائے پھر میں کیا کرتا۔ذین نے اپنا دفاع کیا۔

ذین توں بس اُن قاتلوں کو حویلی والوں کے سامنے کر پھر دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا ہماری ماہی یہاں واپس چلی آئے گی۔بختاور بیگم امید بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔

آپ پریشان مت ہو میں اُسی کام میں ہوں جلد کجھ نہ کجھ معلوم ہوجائے گا۔ذین عقیدت سے اُن کا ہاتھ چوم کر بولا تو بختاور بیگم کے چہرے پہ اطمینان اُبھرا

💕💕💕💕💕

شبانا کی عدت پوری ہونے کے دو دن بعد اُس کا نکاح ہے۔رات کے وقت کلثوم بیگم اپنے کمرے میں آئی تو شھباز شاہ نے اُن سے کہا جس کو سن کر وہ حیران ہوئی۔

یہ کیسی باتیں کررہے ہیں آپ نکاح وہ بھی شبانا کا اُس کا دُکھ اتنا چھوٹا نہیں جو دوسرا نکاح کرے گی دلدار شاہ سے اُس کو محبت تھی وہ کبھی نہیں مانے گی۔کلثوم بیگم فکرمندی سے بولی۔

تم سے یا اُس سے پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں سب طے ہوچکا ہے۔شھباز شاہ کا انداز دو ٹوک تھا۔

بھائی صاحب مان گئے ہیں۔کلثوم بیگم افسردہ سانس لیکر پوچھنے لگی۔

ہاں دونوں مان گئے ہیں شبانا کا نکاح دیدار شاہ سے ہوگا۔شھباز شاہ یہ بول کر بیڈ پہ لیٹنے لگے۔

دیدار شاہ پر شبانا تو اُس کو اپنا بھائی سمجھتی ہے۔کلثوم بیگم کو دوسری فکر لاحق ہوئی۔

شادی کے بعد شوہر سمجھ لے گی۔شھباز شاہ آرام سے بولے

آپ کو نہیں لگتا آپ کو شبانا کے بجائے آروش کا سوچنا چاہیے۔کلثوم بیگم کی بات پہ وہ یکدم اُٹھ بیٹھے۔

کیا مطلب آروش کے بارے میں کیا سوچنا چاہیے مجھے؟شھباز شاہ نے تیکھی نظروں سے اُن کو دیکھا۔

صدف آئی تھی کل۔کلثوم بیگم نے بتایا

تو۔شھباز شاہ نے خاص نوٹس نہیں لیا

حریم کا رشتہ مانگنے آئی تھی شبانا کی عدت کے بعد رسم کرنا چاہتی ہے۔کلثوم بیگم نے تفصیل سے بتایا

آروش کے ذکر میں حریم کہاں سے آگئ۔شھباز شاہ کجھ برہم ہوئے۔

حریم کا رشتہ بھی ہوجائے گا نور نازلین کا بھی ہوچکا ہے آروش کا بھی سوچے کجھ وہ کب تک یوں خود سے لڑتی رہے گی اُس کی شادی نہیں کروانی آپ نے؟کلثوم بیگم نے سوال کیا

مناسب رشتہ ہے تمہاری نظر میں اگر ہے تو بتادو ورنہ میری بیٹی مجھ پہ بوجھ نہیں۔شھباز شاہ کا سنجیدگی سے بولے

وحیدہ سے بات کروں ساجد کے لیے۔کلثوم بیگم نے ڈر کر پوچھا

ساجد سے شادی کروانے سے بہتر ہے وہ کنواری رہے۔شھباز شاہ ناگواری سے بولے تو کلثوم بیگم اُس کا منہ تکتی رہ گئ

یمان تم اب دوبارہ سے یہاں شفٹ ہوجاؤ۔مسز دلاور نے صبح ناشتے کے وقت یمان سے کہا

آپ کو تو پتا ہے میری روٹین کا خوامخواہ آپ لوگ ڈسٹرب ہوجائے گے ویسے بھی ملنے تو آجاتا ہوں جب بھی آپ کہتی ہیں۔یمان نے جوابً کہا

یمان تم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے یہاں ہوگے تو کم سے کم میں خیال تو کروں گی نہ۔مسز دلاور نے فکرمند لہجے میں کہا

ارمان ہے نہ پھر آپ کیوں ٹیشن لیتی ہے۔یمان ہلکہ سا مسکراکر بولا۔

تم بس یہاں شفٹ ہوجاؤ بحث کو اب ختم کرو ویسے بھی میں نے اب تمہارے لیے لڑکیاں دیکھنی شروع کرلی ہے۔مسز دلاور دو ٹوک لہجے میں بولی جس کو سن کر جوس کا گلاس پیتے یمان کو اچھو لگا۔

لڑکیاں میرے لیے کیوں؟یمان سنجیدہ ہوا۔

دو ماہ بعد ماشااللہ سے پچیس سال ہوجاؤ گے کیا ابھی تمہیں میری بات کا مطلب سمجھ نہیں آرہا۔مسز دلاور نے افسوس کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

اگر آپ میری شادی کا سوچ رہی ہیں تو میں بتادو میرا ایسا کوئی اِرادہ نہیں۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

دیکھو یمان تمہیں شادی کرلینی چاہیے اب آخر کب تک یوں تنہا زندگی گُزارو گے میری بات مانو ہاں کہہ دو۔مسز دلاور نے اُمید بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

مجھے آپ کی ہر بات منظور ہے پر میں شادی نہیں کروں گا کبھی۔یمان نظریں چُراتا بولا

میری باقی باتوں کو رہنے دو بس جو اب کہہ رہی ہو اُس کو مان لو مجھے لگے گا تم نے واقع مجھے ماں کا درجہ دیا ہے۔مسز دلاور نے اب کی ایموشنل بلیک میل کیا۔

موم پلیز پانچ سال تک تو میں شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا اُس کے بعد آپ جو کہے گی میں کروں گا دوسری بات میں نے بہت سالوں پہلے آپ کو اپنی ماں کا درجہ دیا ہے۔یمان نے گہری سانس لیکر کہا۔

پانچ سال یمان آر یو اِن یوئر سینس کیا بڑھاپے میں شادی کرنا چاہتے ہو میں دو ماہ بعد تمہاری سالگرہ کے دن تمہاری منگنی کا سوچے ہوئے ہوں اور تم پانچ سال کا اتنا طویل عرصہ مانگ رہو نہیں بلکل نہیں اگر میں سچ میں تمہاری ماں ہو تو میری بات پہ سرخم کرو۔مسز دلاور آج اپنی منوانے کے در پہ تھی اِس وقت یمان کو اپنا آپ بے بس سا معلوم ہورہا تھا۔

ٹھیک ہے آپ کی مرضی۔یمان اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا اُس کے جواب پہ مسز دلاور بے یقین نظروں سے یمان کو دیکھنے لگی اُن کو اپنی سماعت پہ شک گُزرا۔

یمان تم مان گئے۔مسز دلاور جلدی سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر خوشی سے چور لہجے میں پوچھنے لگی۔

جی آپ کے کہنے پہ میں مان تو گیا ہوں پر اگر کبھی مجھ سے اُس لڑکی کے حقوق پورے کرنے میں کوتاہی ہوئی تو اُس کا ذمیدار میں نہیں ہوگا۔یمان کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔

اُس کی تم فکر نہیں کرو روزی بہت اچھی ہے تمہارا بہت خیال رکھے گی تم دونوں ہمیشہ خوش رہوگے۔مسز دلاور پرسکون لہجے میں بولی

 یمان روزی نام پہ ٹھٹکا ضروری تھا پر کوئی ری ایکٹ کیے بنا وہاں سے چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

آروش کا آج کالج میں پہلا دن تھا جس کے لیے وہ کافی پرجوش تھی کالج چھوڑنے دیدار شاہ آیا تھا اور ساتھ میں اُس کے کجھ آدمی جو الگ گاڑی میں تھے آروش جانتی تھی وہ سب اُس پہ نظر رکھنے کے لیے تھے جن کو مہتاب بیگم کا حُکم تھا پر اُس نے کسی سے کجھ کہا نہیں تھا کیونکہ اُس کو خود پہ اعتماد تھا۔

کالج کے پہلے ہی دن اُس کو خود پہ کسی کی نظروں کی تپش کا احساس شدت سے ہوا تھا پہلے پہل تو اُس نے اپنا وہم جانا پھر یہ روزانہ کا معمول بن گیا جس سے کبھی اُس کو گھبراہٹ ہوتی تو کبھی نظرانداز کرتی کسی کی نظروں سے بچنے کے لیے اُس نے بس کلاس سے لائبریری اور لائبریری سے کلاس تک کا ہی سفر کیا تھا پر اُس کو کبھی پتا نہیں چلا کون ہوتا ہے جو بس اُس کو دیکھتا رہتا ہے کیونکہ اُس نے کبھی نظریں اُٹھاکر اُس کو تلاش کرنا نہیں چاہا تھا کالج کے شروع دنوں میں بہت لڑکیوں نے اُس کی طرف دوستی ہاتھ بڑھایا تھا پر اُس نے مسکراکر سہولت سے انکار کردیا تھا اِسی دنوں میں موسم کافی خوبصورت تھا جب اُس نے لائبریری جانے کے بجائے گراؤنڈ میں پانچ منٹ بیٹھنے کا سوچا ساتھ میں اُس نے کورس بُکس کے بجائے اشفاق احمد کی کتاب پڑھنے کے لیے نکال دی تھی وہ پڑھنے میں وہ اِس طرح مگن ہوگئ جو اُس کو وقت گُزرنے کا احساس تک نہیں وہ تب ہوا جب خود کے اُپر کسی کی پرچھائی محسوس ہوئی اُس نے چونک کر سراُٹھایا تو کسی لڑکے کی پیٹھ تھی جس کو دیکھ کر وہ بنا ایک منٹ لگائے اُٹھ کر لائبریری چلی گئ ابھی اُس کو بیٹھے کجھ ہی دیر ہوئی تھی جب اُس کو لگا کوئی اُس کے سامنے بیٹھ گیا پر اُس نے ہمیشہ کی طرح نظرانداز کیا

میرا نام یمان ہے۔کسی لڑکے کی آواز سن کر آروش حیران ہوئی اُس نے جب سے کالج آنا شروع کیا تھا اُس بیچ کسی بھی لڑکے میں ہمت نہیں ہوئی تھی کے وہ اُس سے مخاطب ہوتا۔

یمان ہو نام یا عاطف اسلم یا پھر فرحان سعید میں کیا کروں۔آروش کتاب میں نظر جماتی کرہ کر سوچنے لگی پر اُس کو جواب نہیں دیا۔

یہ اُٹھ کیوں نہیں رہا اگر کسی اور نے دیکھ لیا تو اففف اللہ مجھے ہی اٹھنا پڑے گا یہ خود تو مرے گا ساتھ میں مجھے بھی مروائے گا۔آروش کجھ پل تو اُس کے اُٹھنے کا انتظار کرنے لگی مگر اُس کو اُٹھتا نظر نہیں آیا تو خود ہی باہر جانے کا سوچا پر اُٹھتے ہوئے اُس نے تیز نظر اُس پہ ڈالی جس کی نظریں اپنے ہاتھوں پہ تھی آروش کو وہ عجیب لگا مگر پھر لاحول پڑھ کر اپنا سرجھٹکا۔

لالہ آپ یہاں؟آروش بریک ٹائم کلاس سے باہر آئی تو حیرت سے دیدار شاہ کو دیکھا

تایا سائیں تمہیں یاد کررہے تھے لینے آیا ہوں چلو۔دیدار شاہ نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔

تو آپ گارڈ سے کہتے وہ یہاں کسی ٹیچر تک پیغام پہنچاتا آپ اندر کیوں چلے آئے۔آروش کو جانے کیوں دیدار شاہ کا یوں چلے آنا عجیب لگا

میرے آنے پہ کیا پابندی ہے میں خود چلا آیا اب تم چلو۔دیدار نے مسکراکر کہا

وہ تو چلتے ہیں پر اگر آپ آگئے ہیں تو میرا ایک کام کردے۔آروش نے جلدی سے کہا

کام کونسا کام؟دیدار شاہ نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا۔

وہ یہاں جو کیفے ہیں وہاں سے مجھے کجھ خریدنا ہے آپ ساتھ چلے۔آروش نے کہا

کیا لینا ہے؟مجھے بتادو تمہیں گاڑی تک چھوڑنے کے بعد وہ لیتا آؤں گا۔دیدار شاہ نرمی سے بولا

آپ کیفے چلے پھر پتا چل جائے گا۔آروش بضد ہوئی۔

تم نے اگر وہاں کھانے کا کجھ لینا ہے تو کیا فائدہ تمہارے چلنے کا کھانا تو پھر بھی تم نے گاڑی میں ہے۔دیدار شاہ کا اُس کا یوں ضد کرنا سمجھ نہیں آیا۔

آپ نہیں چلیں گے تو میں بابا سائیں سے آپ کی شکایت کروں گی۔آروش نے اب کی دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو دیدار شاہ نے ہتھیار ڈال دیئے۔

یہاں تو بس لڑکے ہیں۔کیفے داخل ہوتے ہیں دیدار شاہ نے ناگواری سے ہر ایک کو دیکھا

ظاہر ہے گرلز اور بوائز کا کالج ہے سب ہوگے۔آروش پرسکون لہجے میں کہہ کر ایک ٹیبل کے پاس آکر بیٹھ گئ اُس کو بیٹھتا دیکھ کر دیدار بھی ناچار بیٹھ گیا۔

آروش مسکراتی نظروں سے آس پاس دیکھ رہی تھی جب اچانک سے گِٹار کی آواز سن کر اُس کی نظر سامنے پڑی جہاں ایک لڑکا گِٹار ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا اُس کو دیکھ کر آروش پہچان گئ کے یہ لائبریری والا ہے۔

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya 

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Aavan javan te mai

Yaara nu manawaan

Aavan javan te main

Yaara nu manawana

آروش کسی ٹرانس کی کیفیت میں اُس کو گاتا سنتی رہی وہ دیدار شاہ کی موجودگی سِرے سے فراموش کر بیٹھی تھی۔

Enna Suna

Enna suna 

Enna suna

O..

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna suna..

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

O...

Ho

تم نے کبھی بتایا نہیں تھا یہاں کالج میں مراثی بھی ہوتے ہیں۔دیدار شاہ کی غصے سے بھری آواز سن کر آروش سٹپٹا کر اُس کو دیکھنے لگی نقاب ہونے کی وجہ سے دیدار شاہ اُس کے چہرے کے تاثرات جان نہیں پایا۔

ایسی بات نہیں لالہ میں خود یہاں کسی کو پہلی بار گاتا دیکھ رہی ہوں۔آروش نے جلدی سے کہا

تمہیں دیکھنے کی ضرورت نہیں اور اُٹھو چلو یہاں سے لیا تو کھانے کا تم نے کجھ نہیں اگر بھوک ہے تو راستے میں خرید کر دے دوں گا۔دیدار شاہ کی آواز میں جھنجھلاہٹ صاف ظاہر تھی۔

لالہ میرا فیورٹ سونگ ہے یہ۔آروش نے منت بھرے لہجے میں کہا جانے کیوں اُس کا دل کررہا تھا وہ یہ گانا اُس لڑکے کے منہ سے پورا سُنے۔

گاڑی میں سن لینا۔دیدار جیسے آج کجھ سننے کو تیار نہیں تھا۔

چلیں۔آروش بے دلی سے کہہ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

باہر جانے کے لیے وہ جیسے ہی دروازہ کے قریب آنے لگے تو وہاں بہت اسٹوڈنٹ جمع تھے کجھ لڑکوں کو دیکھ کر دیدار شاہ نے دانت پیسے

واپس چلو۔دیدار نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہا

ہم نے تو باہر نہیں جانا تھا؟آروش نے حیرت سے کہا

اب کیا ان لڑکوں کے درمیان گُزار کر باہر لے چلوں گا۔دیدار جل کے بولا تو آروش مسکراہٹ دباتی اُس کے ساتھ واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گئ۔

Kol Hove te 

Saik lagda Ae

Dour jave te

 dil jalda Ae

Kehdi Aag naal 

Rabb nay banaya 

Rabb nay banaya

Rab nay banaya

یمان کو گانا گاتا دیکھ کر جانے اُس کے دل میں کیا آیا جو بیگ سے ایک چِٹ نکالی پھر ایک چور نظر دیدار شاہ کو دیکھ کر اُس نے چٹ پہ لکھنا شروع کیا۔

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے سُننے والا سحر میں جکڑ جاتا ہے۔

سیدہ آروش شاہ!

اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی جس کا احساس اُس کو خود بھی نہیں ہوا۔

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Enna Suna kyun

Rabb nay banaya

Aavan javan te main

Yaara nu manaawan

Aavan javan te main

Yaara nu manaawan

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

Enna suna

O..

گانا ختم ہوا تو دیدار شاہ نے اُس کو اُٹھنے کا اِشارہ کیا آروش کجھ ضروری کام کا کہتی کلاس میں واپس آئی آج لائبریری میں ہوئے واقع کے بعد تھوڑا بہت اُس نے یمان کا نوٹس لیا تھا جس سے اُس کو یہ پتا چل گیا تھا وہ بیٹھتا کہاں ہیں کجھ سوچ کر اُس نے وہ چِٹ اُس کی سیٹ پہ چپکادی وہ نہیں جانتی تھی وہ جو حرکت کررہی تھی ٹھیک تھی یا نہیں پر اُس کے اندر ایک تمنا اُبھری تھی جس وجہ سے اُس نے کیا۔چٹ لگانے کے بعد وہ بنا تاخیر کیے کلاس سے باہر چلی گئ اُس کے جانے کے عین وقت بعد یمان کلاس میں داخل ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

اب ایک ہفتہ حویلی میں رہنا۔شھباز شاہ محبت سے آروش کا ماتھا چوم کر بولے۔

نو بابا سائیں آج کا دن کل ہفتے کا دن ہے وہ دن رہوں گی پھر اُتوار کو واپس شہر جانا پڑے گا کیونکہ اب ایکزیمز بھی قریب ہے تو بہت ٹف روٹین ہے۔آروش نے جلدی جلدی سے بتایا۔

یہ تو اب غلط بات ہم تو تمہاری صورت دیکھنے کو بھی ترس گئے ہیں۔کلثوم بیگم جوس کا گلاس اُس کی طرف بڑھا کر بولی۔

تو آپ بھی آجایا کریں نہ بابا سائیں کے ساتھ اُور حریم کو بھی لایا کریں۔آروش اُن کی بات پہ مسکراکر گود میں بیٹھی حریم کو دیکھ کر کہا جو اُس کو اتنے مہینوں بعد  سامنے دیکھ کر بچی بن گئ تھی۔

آ تو جاؤں پر اپنی دادی کا تو تمہیں پتا ہے۔کلثوم بیگم کی بات پہ آروش نے لب دانتو تلے دبایا

جی جی پتا ہے ویسے وہ ہیں کہاں؟آروش نے شھباز شاہ کی جانب دیکھ کر پوچھا

اُن کی عبادت کا وقت ہے اپنے کمرے میں ہیں۔کلثوم بیگم نے بتایا۔

اگر تم تھک گئ ہو تو آرام کرلوں۔شھباز شاہ نے کہا

جی جاتی ہوں اور اِس کو بھی ساتھ لیکر جاتی ہوں۔آروش حریم کو گود سے اُتار کر بولی۔

حریم نے بھی بہت یاد کیا ہے تمہیں۔شھباز شاہ حریم کے گال کھینچ کر بولے تو حریم نے منہ بسورا 

ڈرامے باز ہے۔آروش اُس کی شکل دیکھتی ہنس پڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔. . .  ۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش کمرے میں آئی تو اُس کو کالج میں گُزرا سارا وقت یاد آنے لگا۔

مجھے چٹ نہیں لکھنی چاہیے تھی جانے وہ اب میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا اگر کسی کو پتا چل گیا حویلی میں تو بہت بُرا ہوگا خوامخواہ اُس لڑکے کو بھی خطرہ نہ ہو۔آروش کمرے میں یہاں وہاں ٹہلتی فکرمندی سے بڑبڑائی۔

کجھ نہیں ہوگا تھنک پوزیٹیو آروش۔آروش گہری سانس کھینچتی خود کو پرسکون کرتی بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹ گئ

💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

میں آپ کا انتظار ساری زندگی کرنے کو تیار ہوں پر آپ پلیز ایک بار کہہ دے آپ کو مجھ پہ اعتبار ہے آپ کہے گی مرجاؤ تو میں سچ میں مرجاؤں گا۔

یمان اسٹوڈیو آیا تو ماضی میں کہے جملے کی بازگشت اُس کو بار بار سُنائی دے رہی تھی جو اُس کو نئے سِرے سے تکلیف سے دوچار کررہی تھی۔

میں کیسے کرسکتا ہوں کسی اور سے شادی میں شادی کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں۔یمان اپنے کیبن سے یہاں وہاں ٹہلتا اپنی کنپٹی سہلاتے بڑبڑایا اچانک اُس کو گُھٹن کا احساس ہونے لگا تو اپنی شرٹ کے اُپری بٹن کُھولتا کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا

اُس کی تم فکر نہیں کرو روزی بہت اچھی ہے تمہارا بہت خیال رکھے گی تم دونوں ہمیشہ خوش رہوگے۔

مسزا دلاور کی بات یاد آنے پہ اُس نے زور سے اپنی آنکھوں کو بند کرکے کھولا۔

یااللہ میں کیا کروں۔یمان پریشانی سے اپنا سینہ مسلنے لگا اُس کو اپنی حالت غیر ہوتی محسوس ہورہی تھی۔تبھی ارمان کیبن میں داخل ہوا۔

سر شیرازی انڈسٹری کے مالک آپ سے ملنے آئے ہیں۔ارمان نے یمان کو دیکھ کر کہا

تم بات کرلوں میری طبیعت ٹھیک نہیں۔یمان اتنا کہتا صوفے پہ بیٹھ گیا۔

سر آپ ٹھیک ہیں آپ کو پسینہ کیوں آرہا ہے۔ارمان فکرمندی سے اُس تک پہنچا

میں ٹھیک ہوں بس سینے میں درد ہورہا ہے۔یمان اُٹھنے کی کوشش کرتا بولا پر اُس سے اُٹھا نہیں گیا۔

آپ بیٹھے میں پانی لاتا ہوں پھر ہم ہاسپٹل چلتے ہیں۔ارمان جلدی سے ٹیبل سے پانی کا جگ اُٹھاتا پانی گلاس میں انڈیلنے لگا۔

یہ ل

ارمان کی بات منہ ہی رہ گئ جب اُس نے یمان کو ہوش وحواس سے بیگانہ پایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

نور میری جان تم کب آئی۔مسز دلاور جیسے ہی گھر پہنچی تو وہاں اپنی بیٹی نور کو دیکھ کر اُن کو خوشگوار حیرت نے آ گھیرا۔

بس ابھی سوچا اچانک آکر آپ کو سرپرائز دے دوں۔نور مسکراکر گرمجوشی سے اُن سے مل کر بولی۔

جھوٹی مجھے کیا کہا تھا فلائٹ کینسل ہوگئ ہے بتادیتی ہم ایئرپورٹ آجاتے۔مسز دلاور ہلکا سا تھپڑ اُس کے بازوں پہ مار کر بولی تو ہنس پڑی

ضرور بتادیتی اُس سے کیا ہوتا آپ کے یہ حیرانکن ایکسپریشن دیکھنے سے محروم ہوجاتی۔نور نے مزے سے بتایا 

اچھا بچے کہاں ہیں وہ ساتھ نہیں لائی؟مسز دلاور کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

اُن کے بنا کیسے آسکتی تھی تھک گئے ہیں آتے ہی سوگئے اور ڈیڈ کہاں ہیں؟نور نے بتانے کے بعد پوچھا۔

کہاں ہونا ہے اُن کو اپنے آفس میں ہیں تمہارے آنے کا پتا ہوتا تو یہی ہوتے۔مسز دلاور نے ہنس کر بتایا۔

او اچھا اچھا یمان کیسا ہے اب؟نور کی بات پہ انہوں نے افسردہ سانس کھینچی۔

ٹھیک ہے بس۔مسز دلاور نے بتایا

اُس کی شادی کا کجھ سوچا آپ نے ماشااللہ سے اتنا نام بنالیا ہے اُس نے اب شادی کروادے کسی اچھی لڑکی کے ساتھ۔نور صوفے پہ رلیکس انداز میں بیٹھ کر بولا

وہ تو ان شاءاللہ اب ہوگی تم ابھی آئی ہو ریسٹ کرو کیا ساری باتوں کو ابھی لیکر بیٹھ گئ ہو۔مسز دلاور نے پیار سے اُس کو ڈپٹا۔

میم یہ کال آپ کے لیے۔وہ دونوں باتوں میں مگن تھی جب ملازم اصغر نے مسز دلاور کو موبائل دے کر چلاگیا۔

ہیلو۔مسز دلاور نے ابھی اتنا ہی کہا تھا جب دوسری طرف ملنے والی خبر نے اُن کے چودہ طبق روشن کردیئے۔

💕💕💕💕💕💕

یہ میڈیسن بوکس کس کو دینے جارہی ہو؟کلثوم بیگم نے ملازمہ جس کا نام زرینہ تھا اس کو میڈیسن کا بوکس ہاتھ میں لیے سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو پوچھا

وہ جی آروش بی بی نے منگوایا ہے۔زرینہ نے بتایا

خیریت؟کلثوم بیگم پریشان ہوئی۔

جی پتا نہیں بس انہوں نے کہا تو میں بس دینے جارہی تھی۔زرینہ نے لاعملی کا مظاہرہ کیا۔

اچھا تم کوئی اور کام دیکھو میں آروش کے پاس جاتی ہوں۔کلثوم بیگم اُس کے ہاتھ سے بوکس لیکر بولی تو وہ سرہلاکر چلی گئ۔

آروش کیا ہوا ہے۔کلثوم بیگم آروش کے کمرے میں آئی تو اُس کو بیڈ پہ لیٹا دیکھ کر فکرمندی سے گویا ہوئی۔

سر میں درد ہے بس۔آروش نے آہستہ آواز میں کہا۔

تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔کلثوم بیگم نے اُس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا تو پریشانی سے بولی۔

بُخار ہوگا پھر۔آروش لاپرواہی سے بولی تو کلثوم بیگم نے اُس کو گھورا۔

اُٹھو اور دوائی کھاؤ۔کلثوم بیگم پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھاکر بولی تو آروش ایک نظر اُن کو دیکھ کر بیٹھ گئ۔

آرام کرو اب اگر بخار کم نہ ہو تو بتانا ڈاکٹرنی کو بلا لینگے۔آروش نے دوائی کھالی تو کلثوم بیگم نے آرام کرنے کی تلقید کی جس پہ اُس نے محض سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

آپ ناراض ہیں مجھ سے سوری میری بات کا کوئی غلط مطلب نہیں تھا وہ جو میرے اندر خیال آیا تو میں نے پوچھ لیا مجھے اندازہ نہیں تھا آپ اتنا غصہ ہوجائے گے۔دوسرے دن شازل کمرے میں آیا تو ماہی جلدی سے اُس کے پاس پہنچ کر بولی

میں کل رات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تم بھی نہ کرو۔شازل سنجیدگی سے کہتا وارڈوب کی جانب بڑھا

میں سوری کر تو رہی ہوں۔ماہی کی آنکھیں نم ہوئی اُس کی بے رخی دیکھ کر۔

تو نہ کرو مجھے نہیں چاہیے تمہارا سوری۔شازل سپاٹ انداز میں بولا

مجھے پتا ہے آروش میں آپ سب بھائیوں اور سرپنج شھباز شاہ کی جان بستی ہے میں نے بس ایسے ہی بول دیا نہیں کہنا چاہیے تھا پلیز معاف کردے آئیندہ نہیں کہوں گی۔ماہی اتنا کہتی پھوٹ پھوٹ رو پڑی اُس کو روتا دیکھ کر شازل سٹپٹا کر اُس کی طرف آیا

ہے یار ماہی کیا ہوگیا ہے رونا بند کرو۔شازل اُس کے آنسو صاف کرتا نرمی سے بولا

پہلے آپ کہے آپ نے مجھے معاف کیا۔ماہی سوں سوں کرتی بولی۔

میں نہیں ناراض اِس لیے معافی کا تو کوئی سوال نہیں بنتا۔شازل مسکراکر اُس کا چہرہ صاف کرتے ہوئے بولا

پھر ایسے بات کیوں کررہے تھے۔ماہی نے نیا سوال داغا۔

وہ تو بس میں جلدی میں تھا اماں سائیں نے بتایا آروش کو بخار ہوا ہے شہر لے جارہا ہوں۔شازل نے بتایا

بخار ہوا تو شہر کیوں یہاں بھی تو ڈسپینسری ہے۔ماہی اپنا رونا بھول کر بولی۔

گاؤں کے ڈاکٹر اور شہر کے ڈاکٹر میں فرق ہے خدانخواستہ اگر بخار سر پہ چڑھ جائے تو اِس حالت میں آروش ویسے بھی خود سے لاپرواہ ہوجاتی ہے ہم ابھی نکلے گے تو ان شاءاللہ کل تک آجائے گے۔شازل نے کہا تو ماہی کو گھبراہٹ ہونے لگی۔

میں بھی چلوں ساتھ.ماہی نے کہا

تم کیوں؟شازل کو جانے کیوں ہنسی آئی۔

وہ بس ایسے ہی۔ماہی نے کہا تو شازل نے گہری سانس ہوا میں خارج کی۔

دیکھو ماہی میں جانتا ہوں تم ساتھ چلنے کا کیوں بول رہی ہو پر میں ایک بات واضع کردوں اب کوئی تمہیں کجھ نہیں کہے گا ٹرسٹ می تمہیں میں ضرور ساتھ لے جاتا پر مسئلہ ہوجائے گا کیونکہ میں چاہے جو بھی کروں سب کو پتا ہے تم ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہو تمہارا حویلی سے باہر جانا بند ہے میری اِس بات کا یہ مطلب ہرگز مت سمجھنا کے تم اب ساری زندگی یہاں رہو گی میں جلد تمہیں تمہارے گھروالوں کے پاس چھوڑ آؤں گا پھر تم جیسے پہلے زندگی گُزارا کرتی تھی ویسے ہی گُزارنا۔شازل اُس کے گال پہ ہاتھ رکھتا نرمی سے بولا پر جانے کیوں اپنے گھر جانے کا سن کر ماہی کو کوئی احساس اپنے اندر جاگتا محسوس نہیں ہوا۔

کیا آپ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں؟ ماہی کے منہ سے بےساختہ پھسلا جب کی شازل اپنی بات کے جواب میں اِس سوال کی توقع نہیں کررہا تھا۔ 

مجھے شادی کرنے کا کوئی شوق نہیں میں خود کو کسی کا پابند نہیں بناسکتا شادی ایک بہت بڑی زمیداری ہے جو میں پوری نہیں کرسکتا۔ شازل اُس کو جواب دیتا واشروم کی طرف بڑھ گیا دوسری طرف ماہی کو اُس کا جواب اُداس کرگیا تھا۔ 

یہ تو ہونا تھا۔ ماہی نے خود کو تسلی دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دُرید کہاں جارہے ہو؟ کلثوم بیگم نے دُرید کو باہت جاتا دیکھا تو پوچھ بیٹھی۔ 

ڈیڑے پہ جارہا تھا آپ کو کوئی کام تھا۔ دُرید نے بتانے کا بعد پوچھا

ہاں وہ حریم کو کب لارہے ہو شہر سے۔ کلثوم بیگم نے پوچھا

حریم کے تو اگلے ہفتے پیپرز ہیں اِس لیے ابھی وقت ہے جب پیپرز ہوجائے گے تو لینے چلا جاؤں گا آپ بتائے آپ کو کیسے خیال آگیا اُس کا؟دُرید صوفے پہ بیٹھ کر مسکراکر پوچھنے لگا ہاں وہ بس ایک بات بتانی تھی۔کلثوم بیگم کی بات پہ دُرید شاہ نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا

میں سن رہا ہوں۔دُرید نے کہا

تمہاری خالہ حریم کا رشتہ چاہ رہی تھی پیپرز کے بعد نکاح پھر رخصتی اُس کی پڑھائی کے بعد چاہتی ہیں۔کلثوم بیگم اُس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرتی بتانے لگی

کس خالہ جان نے؟دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

صدف نے۔کلثوم بیگم نے بتایا

انہیں کہے حریم ابھی چھوٹی ہے ناسمجھ ہے شادی کی عمر نہیں اُس کی جب اُس کی شادی کروانی ہوگی ہم سوچ لینگے تب۔ دُرید سپاٹ انداز میں کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

دُرید یہ تو کوئی وجہ نہ ہوئی انکار کی ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہوگا۔کلثوم بیگم نے اُس کو راضی کرنا چاہا

جو بھی امی پر جب تک حریم بیس سال کی نہیں ہوجاتی میں اُس کی شادی کا یا نکاح کا نہیں سوچ سکتا وہ معصوم ہے میں نہیں چاہتا اُس کے ذہین میں ایسی کوئی بھی بات آئے اُس کی پڑھائی کی عمر ہے تو پلیز آپ بس اُس کو پڑھنے دے۔دُرید اپنی بات پہ قائم رہا

آروش کی شادی بھی ہم اِسی عمر میں کروا رہے تھے تو اب حریم کی کیوں نہیں صدف نے بہت چاہ سے اُس کا رشتہ مانگا ہے انکار کرے گے تو ناشکری ہوگی حریم کی پڑھائی کا حرج بھی نہیں ہوگا تم بس ایک دفع ہامی تو بھرو۔کلثوم بیگم اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولی

انکار کا نہیں انتظار کا کہے دوسری بات آپ مجھے آروش کی مثال دے رہی ہیں آپ کے اور بابا سائیں کے ان جذباتی فیصلے پہ میں نے کبھی آروش کو مسکراتے نہیں دیکھا کیسے تھی وہ اور کیا بنا دیا ہے آپ لوگوں نے اُس کو ایک کے بعد ایک رشتہ اُس کے سامنے کیا شادی کروانے کے چکر میں اُس کے جذبات مرگئے ہیں پر نتیجہ کیا ہوگا تینوں بار اُس کی شادی ہوتے ہوتے رہ گئ آخر آپ سب کو سوجھی کیا تھی میرے اور شازل کا انتظار تو کرتے ہمارے بنا ہی سب کجھ طے کردیا۔دُرید اُن کی بات پہ پھٹ پڑا

لالہ ہم شہر جارہے ہیں۔کلثوم بیگم جواب میں کجھ کہتی اُس سے پہلے شازل آروش سمیت اُن تک آیا۔

میں بھی چلتا ساتھ پر زمینوں کا ضروری کام ہے دُرید ایک نظر عبائے میں ملبوس سرجھکائے کھڑی آروش پہ ڈال کر بولا

کوئی بات نہیں ہم کل تک آجائے گے۔شازل نے جوابً کہا پھر آروش کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

میں صدف کو ہاں کہہ دوں گی۔کلثوم بیگم دُرید کو جاتا دیکھنے لگی تو بول پڑی

حریم میری زمیداری ہے اُس کے بچپن سے لیکر سارے فیصلے میں نے کیے ہیں تو شادی کا اتنا بڑا فیصلہ بھی میں کروں گا آپ کی جلدبازی کے چکر میں اُس کی زندگی داؤ پہ نہیں لگاؤں گا۔دُرید سرد لہجے میں بولا۔

میں ماں ہوں تمہاری تم باپ مت بنو میرے۔کلثوم بیگم نے اِس بار سخت لہجہ اپنایا

میں اِس گھر میں دوسری آروش نہیں چاہوں گا بابا سائیں اِس بار یہ کہہ کر مجھے خاموش نہیں کرواسکتے کے حریم کا فیصلہ وہ کرے گے کیونکہ آروش کا کیا میں اور شازل خاموش رہے پر اِس بار ایسے نہیں ہوگا۔دُرید کا اٹل انداز میں بولا۔

💕💕💕💕💕💕

دلاور خان مسز دلار نور ارمان یہ سب اِس وقت ہسپتال میں موجود تھے مسز دلاور نے رو رو کر اپنا حال بے حال کیا تھا دلاور خان بھی پریشانی کے عالم میں کبھی یہاں تو کبھی وہاں ٹہل کر اپنی پریشانی کم کرنے کی ناکام کوشش کرنے میں مصروف تھے دوسری طرف ہسپتال کے باہر لوگوں کا جم و غفیر لگا ہوا تھا جانے کیسے یمان کی خرابی طبیعت کا سب کو پتا چل گیا تھا۔

ارمان میں نے تم سے کہا تھا یمان کی حالت کا کسی کو پتا نہ چلے تو باہر میڈیا کیا کررہی ہے۔دلاور خان نے کڑک لہجے میں ارمان نے کہا

سر ڈونٹ نو شاید اسٹوڈیو میں کسی نے یہ بات پھیلادی ہے۔ارمان نے کسی مجرم کی طرح بتایا

ڈیڈ رلیکس ابھی یہ وقت میڈیا کے بارے میں ڈسکس کرنے کا نہیں آپ یمان کا سوچے جانے کیا ہوا ہے اُس کو کیس حالت ہوگی اُس کی۔نور اُن کے پاس آتی آہستہ آواز میں بولی۔

اُسی کی تو پرواہ ہے پتا نہیں نیوز چینلز میں اب تک جانے کیا افواہیں پھیلادی گئ ہوگی ارمان تم ایک کام کرو باہر جاؤ اور اِن سب کو ہینڈل کرو اگر کسی بھی چینل پہ یمان کی خبر چل رہی ہو تو اُس کو رکوادو۔دلار خان بات کرتے اچانک ارمان سے مخاطب ہوئے تو ارمان نے سر کو جنبش دی اور ہسپتال سے باہر جانے لگا۔

۔.....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسی طبیعت ہے یمان کی وہ ٹھیک تو ہے نہ؟دلاور خان نے ڈاکٹر کو اے سی یو کے باہر نکلتا دیکھا تو پریشانی سے پوچھا۔

یمان مستقیم کو ہارٹ اٹیک آیا۔ڈاکٹر کی بات کسی بم کی طرح اُن کے سب کے سروں پہ گِری مسز دلاور گِرنے کو تھی جب پاس کھڑی نور نے جلدی سے اُن کو سہارا دیا۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے یمان تو بلکل ٹھیک تھا اور ابھی اُس کی عمر ہی کیا ہے؟دلاور خان بہت دیر بعد بولنے کے قابل ہوئے۔

دیکھے میں آپ کی حالت کا اندازہ لگاسکتا ہوں پر یہی سچ ہے خون یمان مستقیم کے رگوں میں جم گیا ہے ہم نے صفائی تو کردی ہے پر کوشش کیجیے گا دوبارہ ایسا کجھ نہ ہو ورنہ ہمیں اُن کا بائے پاس کرنا ہوگا۔ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتا چلاگیا۔

خان۔مسز دلاور نے ٹوٹے لہجے میں دلاور خان کو مخاطب کیا جو کسی مجسمے کی طرح کھڑے تھے۔

حوصلہ کرو زوبیہ۔دلاور خان اپنی حالت پہ قابو پائے بولے۔

میری وجہ سے ہوا ہے یہ سب نا میں اُس کو شادی پہ فورس کرتی نہ یہ سب ہوتا میں بہت بُری ہوں بہت بُری۔مسز دلاور اتنا کہتی زاروقطار رونے لگی تو دلاور خان نے اُن کو اپنے ساتھ لگایا

💕💕💕💕💕💕💕

جی تو ناضرین ہم آپ کو نئ خبر سے آگاہ کرتے چلتے ہیں کے پاکستان کے معروف گلوکار کو یمان مستقیم کو آیا

لالہ یہ ریڈیو بند کریں پلیز۔گاڑی میں بیٹھے شازل گانا چلانے والا تھا جب کوئی نیوز چینل شروع ہوا تبھی آروش بنا پورا سُنے شازل سے بول پڑی

اوکے اینڈ سوری۔شازل معذرت خواہ لہجے میں بولا

نو اِٹس اوکے پر ہم جا کہاں رہے ہیں؟آروش نے پوچھا

اسلام آباد۔شازل کے جواب پہ آروش کا دل دھڑک اُٹھا

وہاں کیوں ہم پاس میں ہی کسی ہسپتال چلتے ہیں۔آروش نے جلدی سے کہا

ہمارے گاؤں کے پاس تو جو قریب والا شہر ہے وہ اسلام آباد ہے اور میں چاہتا ہوں تمہاری طبیعت بلکل ٹھیک ہو دوسرا یہ کے ہم انجوائے کرے گے تم ایسے تو کہی باہر نہیں چلتی تمہارا موڈ بھی فریش ہوجائے گا۔شازل نے مسکراکر بیک مرر سے اُس کو دیکھ کر کہا جس پہ آروش گہری سانس خارج کرتی آنکھوں کو بند کرگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

آروش لائبریری میں موجود تھی جب اُس کو لگا پاس والی چیئر پہ کوئی بیٹھ گیا ہے پر وہ جان کر انجان بنی۔

اسلام علیکم!آواز سن کر اُس کو ایک منٹ نہیں لگا پہچاننے میں کے سامنے والا کون لوگا۔

وعلیکم اسلام۔آروش نے مروتً جواب دیا سلام نہ کرکے وہ گنہگار نہیں بننا چاہتی تھی۔

کیسی ہیں آپ؟دوسرے سوال پہ آروش نے دانت پہ دانت جمائے سُنا۔

ٹھیک۔آروش خود پہ کنٹرول کیے دیا پھر اچانک اُس کی نظر لائبریری کے دروازے پہ پڑی تو اُس کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ وہاں اُن کے گاؤں کا آدمی تھا جو یقیناً اُس کی جاسوسی کرنے آیا تھا۔

اللہ پوچھے آپ سے دادی۔آروش دل ہی دل میں خود کو بڑبڑاتی اُٹھ کھڑی ہوئی وہ نہیں چاہتی تھی کے کوئی اُس کو غلط سمجھے اِس لیے وہاں سے اُٹھنے میں ہی عافیت جانی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان سے کیا تمہاری بات ہوتی ہے؟رات کے وقت آروش سونے کی تیاریوں میں تھی جب اُس کی روم میٹ ہما جو کلاس میٹ بھی تھی پرشوق نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

کون یمان؟آروش بنا کوئی خاص ری ایکٹ کیے ناسمجھی سے پوچھنے لگی۔

ارے وہی یمان جو ہمارا کلاس فیلو ہے اور سب سے زیادہ ہینڈسم اُپر سے اُس کی آواز بھی بہت خوبصورت ہے لاسٹ ویک اُس نے گانا بھی گایا تھا۔ہما نے اُس کو یاد کروانا چاہا جس پہ آروش کی آنکھوں کے سامنے کیفے والا منظر لہرایا تو اپنا سرجھٹکا

نہیں میری کیوں بات ہوگی۔آروش نے سنجیدگی سے جواب دیا

اچھا پر وہ تو تم میں بہت دلچسپی لیتا ہے کلاس میں لیکچر کے بجائے اُس کا دھیان تمہاری طرف ہوتا ہے دوسری بات یہ کے جہاں تمہاری موجودگی کا گمان ہوتا ہے اُس کو وہ وہاں چلا آتا ہے جب تم کالج نہیں آتی تو وہ بے چارہ اُداس ہوجاتا ہے

اگر تمہاری بکواس ہوگئ ہو تو لائیٹ بند کردو مجھے نیند آرہی ہے۔آروش اُس کی بات درمیان میں کاٹتی ناگواری سے بول کر خود کے اُپر چادر تان گئ دوسری طرف ہما نے گھور کر اُس کو دیکھا تھا۔

پتا نہیں کیا چاہتا ہے یہ لڑکا؟کروٹ بدل کر آروش نے پریشانی سے سوچا

💕💕💕💕💕💕💕

ارسم پاکستان آگیا ہے شادی کرنا چاہتا ہے اب وہ۔فائزہ بیگم نے فجر کو بتایا

آپ کو کس نے بتایا؟فجر نے پوچھا 

اُس کی سوتیلی ماں زکیہ کا فون آیا تھا جلد شادی کی تاریخ رکھنے آئے گے۔فائزہ بیگم نے بتایا

اچھا ٹھیک۔فجر جواب دیتی اُٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی جہاں اُس کا سیل فون رنگ کررہا تھا۔

یمان کا دوست عرفان مجھے کیوں کال کررہا ہے؟اسکرین پہ نمبر دیکھ کر وہ تعجب سے بڑبڑائی۔

ہیلو عرفان خیریت؟فجر نے کال اٹینڈ کرنے کے بعد پوچھا

جی آپی آپ کو ایک بات بتانی تھی یمان کے مطلق۔دوسری طرف عرفان نے کہا

کہو میں سن رہی ہوں۔فجر نے اجازت دی تو عرفان نے اپنی بات کا آغاز کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہاری شکل فجر کی شادی کا سن کر لٹکی ہوئی ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟عیشا یمان کے کمرے میں آتی پوچھنے لگی۔

ایسی کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں۔یمان زبردستی مسکراہٹ سے بولا

یمان میرے بھائی کیا بات ہے سچ سچ بتاؤ سب کیا کوئی مسئلہ ہے کالج میں یا کوئی اور بات ہے۔عیشا اُس کا چہرہ اپنی طرح کرکے پوچھنے لگی۔

سچ میں کجھ نہیں آپ خوامخواہ پریشان ہورہی ہیں۔یمان تسلی آمیز لہجے میں کہا تبھی فجر زور سے دروازہ کھول کر کمرے میں آئی اُس کو ایسے آتا دیکھ کر فجر اور یمان دونوں کھڑے ہوگئے۔

دروازہ توڑنا ہے کیا؟فجر نے گھور کر اُس سے کہا جب کی فجر اُس کی بات نظرانداز کرتی یمان کے روبرو کھڑی ہوگئ۔

چٹاخ۔

ایک زوردار تھپڑ اُس نے یمان کے چہرے پہ ماردیا اُس کے عمل پہ عیشا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ جب کی یمان اپنے گال پہ ہاتھ رکھتا سرجھکایا

پاگل ہوگئ ہو کیا فجر؟عیشا نے اُس کو جھڑکا

پہلے اِس سے پوچھو ہم نے اِس کو کالج کیوں بھیجا تھا۔فجر طنزیہ لہجے میں چیخ پڑی

یہ کیسا سوال ہے؟عیشا کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی۔

یمان یہ میں نے کیا سُنا ہے تم کالج میں کسی سیدذادی کے چکر میں ہو کہو یہ سب جھوٹ ہے تمہارا کسی بھی لڑکی کے ساتھ کوئی واسطہ کوئی تعلق نہیں۔فجر اُس کو بازوں سے پکڑتی جھنجھوڑ کر بولی۔

چھوڑو فجر بچہ ہے۔عیشا دونوں کے درمیان آتی بولی

بچہ۔فجر اُس کا لفظ دُھراتی تمسخرانہ انداز میؓ ہنسی

غلطی کردی اِس کو بچہ سمجھ کر کیونکہ اِس نے ثابت کردیا ہے یہ کوئی بچہ نہیں بلکہ بڑا ہوگیا ہے۔فجر نے تیز آواز میں کہا

آہستہ بولا امی سن لینگی تو کیا سمجھے گی۔عیشا نے اُس کو پرسکون کرنا چاہا اِس بیچ یمان خاموش تماشائی بنارہا۔

تو سن لے اُن کو بھی تو آخر پتا چلے لاڈ صاحب نے کیا کیا ہے۔فجر غصے بھری نظروں سے یمان کو دیکھ کر بولی

بات کو گول مٹول کرنے سے اچھا یہ ہے کے تم وہ بات بتاؤ جو اصل ہے کس نے تم سے کیا کہا ہے جو پہلی بار یمان پہ ہاتھ اُٹھایا اور اِس انداز میں اُس سے بات کررہی ہو۔عیشا نے تحمل کا مظاہرہ کیے پوچھا

میں کیا بتاؤ اپنے بھائی سے پوچھو جو گونگا بہرا بنا کھڑا ہے۔فجر نے یمان کی جانب اِشارہ کیا۔

یمان تم کیوں خاموش ہو کیا بات ہے فجر کیا بول رہی ہے بتاؤ اِس میں کوئی صداقت نہیں۔عیشا نے نرمی سے یمان سے پوچھا

وہ مجھے پسند ہیں میں بہت چاہتا ہوں انہیں۔یمان نے بالآخر بتادیا۔اُس کی بات اُن دونوں کے سِروں پہ کسی بم کی طرح گِری عیشا کی آنکھوں میں بے یقینی اُبھری پر فجر نے نخوت سے سرجھٹکا۔

ہوش میں ہو تم۔عیشا ہوش میں آتی بولی

میں اپنے پورے ہوش وحواس میں اعتراف کرتا ہوں مجھے آروش شاہ سے بے انتہا محبت ہے۔یمان دھڑکتے دل کے ساتھ بولا

چٹاخ۔

فجر نے ایک اور تھپڑ اُس کے چہرے پہ جڑا پر اِس بار عیشا آگے نہیں آئی۔

یہ بات کہتے ہوئے تمہیں شرم سے ڈوب کر مرجانا چاہیے تھا۔فجر اُس کا گریبان پکڑ کر بولی

کیوں آپی کیا محبت کرنا گُناہ ہے؟یہ تو خودساختہ جذبہ ہے جو انسان کی دل میں خود ہی پیدا ہوجاتا ہے تو میں کیوں ڈوب کر مرجاتا۔یمان کا لہجہ عجیب تھا

یمان کیا ہوگیا ہے تمہیں مت کرو ایسی باتیں تمہیں ابھی بہت کجھ کرنا ہے یہ کیا تم پیار محبت کے چکر میں پڑرہے ہو۔عیشا اُس کے دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھتی بولی

سچی میں نے کجھ نہیں کیا جو بھی ہوا ہے خودبخود ہوگیا ہے۔یمان اُس کے ہاتھ تھام کر بولا تو عیشا کے قدم لڑکھڑائے۔

شاہ خاندان کی ہے وہ تمہارا اور اُس کا کوئی جوڑ نہیں ساری زندگی رُل جاؤ گے پر وہ تمہاری کبھی نہیں ہوگی اِس لیے ابھی بھی وقت ہے اُس کو بھول جاؤ۔فجر نے گہری سانس بھرتے ہوئے کہا۔

آپی وہ میری رگوں میں  خون کی مانند ڈورتی ہیں میں کیسے اُن سے دستبردار ہوجاؤں جو مجھے اب میرے جینے کی وجہ لگتی ہیں مجھے لگتا ہے اگر وہ مجھ سے یا میں اُن سے الگ ہوگیا تو میں اگلی سانس نہیں لے پاؤں گا آپ مجھے جان سے ماردے پر اُن کو بُھول جانے کے لیے نہ کہے۔یمان بے بسی کی انتہا چھوکر بولا

تمہیں ہماری بات سمجھ کیوں نہیں آرہی یمان وہ بہت بڑے اونچے خاندان کی ہے جان سے ماردے گے تمہیں پر اُس لڑکی کا بال تک نہیں دینگے۔فجر تنگ آتی بولی

مجھے نہیں پتا بس اتنا پتا ہے میں اُن سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتا۔یمان کے جواب پہ وہ بس اُس کو دیکھتی رہ گئیں۔

💕💕💕💕💕💕

اگر تمہارے باپ کو یہ بات پتا چل گئ تو قیامت برپا ہوجائے گی یمان تمہاری مانتا ہے اُس کو کہو عقل کے ناخن لے۔فائزہ بیگم ساری بات جان لینے کے بعد اپنی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی فجر سے بولی۔

بہت کوشش کی اماں بہت کوشش کی تھپڑ تک اُس کو مارا پر وہ کجھ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں عجیب ضد لیکر بیٹھ گیا ہے۔فجر پریشانی سے بولی

یہ کچی عمر کا خمار ہے جو جلدی ختم ہوجائے گا۔فائزہ بیگم گہری سانس بھر کر بولی

ایسی بات نہیں ہے اماں میں نے اُس کی آنکھوں میں اُس انجان لڑکی کی چاہت کے لیے چاہت دیکھی ہے تبھی میں خوفزدہ ہوں عرفان بتارہا تھا کافی خطرناک خاندان ہے اُس لڑکی کا پتا نہیں یمان کی نظر کیسے پڑگئ اُس لڑکی پہ۔فجر اُن کی گود سے سر اُٹھا کر بولی۔

پریشان مت ہو بچہ ہو ٹھیک ہوجائے گا آہستہ آہستہ۔فائزہ بیگم تسلی آمیز لہجے میں بولی

ان شاءاللہ پر آپ دعا کیجیے گا ہمارا اکلوتا بھائی ہے۔فجر نے نم لہجے میں کہا

پریشان مت ہو اللہ بہتر کرنے والا ہے وہ کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا۔فائزہ بیگم اُس کو اپنے ساتھ لگاکر بولی۔

💕💕💕💕💕💕

آپ کو مجھ سے بات کرنا کیا پسند نہیں پر مجھے بہت ہے میں بہت باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ سے۔یمان لائبریری آتا آروش کو دیکھ کر بولا

سارے کالج میں تمہیں میں ہی نظر آئی ہو باتوں کے لیے پلیز جاؤ یہاں سے اور مجھ سے فاصلہ کیا کرو اِسی میں تمہارا فائدہ ہے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

ہر بار فائدے کے بارے میں نہیں سوچتا میں اور آپ کو پتا ہے کل میری بڑی بہن نے مجھے تھپڑ مارے۔یمان نے بتایا آروش کو سمجھ نہیں آیا یہ سب وہ اُس کو کیوں بتارہا ہے۔

تو یہ سب تم مجھے کیوں بتارہے ہو غلطی کی ہوگی تبھی مار پڑی ہوگی اِس لیے ایسی دوبارہ حرکت مت کرنا۔آروش کتاب پہ نظر جمائے بولی تو یمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔

تھپڑ کیوں پڑا یہ بات نہیں بتاؤں گا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہیں آپ بھی نہ ماردے سچی پھر میرا دل ٹوٹ جائے گا کبھی نہ جڑ پانے کے لیے۔یمان نے بتایا۔

دیکھو ایسی باتیں تم مجھ سے مت کرو مجھے دیکھ کر تمہیں کیا لگتا ہے میں کوئی ایسی ویسی لڑکی ہوں جو تمہارے سے باتوں میں لگ جائے گی اگر تم مجھے ٹریپ کرنا چاہتے ہو تو میں بتادو میں بلکل خوبصورت نہیں جب کی کالج میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی تمہاری منتظر ہے اُن کے پاس جاؤ۔آروش نے اِس بار سخت لہجہ اپنایا۔

آپ کو دیکھ کر احترام کرنے کا دل چاہتا ہے دوسری بات کوئی کتنا خوبصورت کیوں نہ ہو مجھے اُس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ میرا دل آپ کو چاہتا ہے آپ کے علاوہ میں کسی کا سوچ بھی نہیں سکتا آپ کجھ کرلیں میں آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑوں گا آپ کو میرا ہونا ہے اور مجھے آپ کا۔یمان جذبات میں آتا جانے کیا کہہ گیا اُس کو خود بھی معلوم نہیں ہوپایا جب کی آروش کو اُس کی ایسی باتوں سے حد سے زیادہ غصہ آگیا تھا تبھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

اگر لائبریری میں نہ ہوتے تو میں تمہارا منہ توڑ دیتی تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسی بات بھی کرنے کی۔آروش سخت مگر دھیمے لہجے میں اُس پہ غرائی۔

آپ کا فیورٹ کلر کونسا ہے کجھ بتائے نہ اپنے بارے میں۔یمان نے جیسے اُس کی بات سنی ہی نہیں۔

واٹ۔آروش اُس کی بے تکی بات پہ اُس کو گھورنے لگی یمان کے لیے اتنا ہی بہت تھا وہ اُس کی جانب دیکھ رہی تھی پیار سے نہ صحیح غصے سے ہی۔

ریڈ کلر میرا پسندیدہ کلر ہے کھانے میں تو سب شکر صبر کرکے کھالیتا ہوں پر بریانی موسٹ فیورٹ ہے اگر تہوار کی بات کی جائے تو وہ عید ہے اور ایک حیرت انگیز بات بتاؤں مجھے کبھی غصہ نہیں آتا آپ کو مجھ سے مل کر اندازہ ہوگیا ہوگا میں کتنا خوش مزاج ہوں۔یمان نے پرسکون لہجے میں بتایا۔

لگتا ہے مرنے کا شوق ہے۔آروش تیز آواز میں کہتی لائبریری سے باہر نکل گئ۔اُس کے جانے کے بعد یمان کے چہرے میں جو چمک تھی وہ بھی غائب ہوگئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیٹ پہ دیدار شاہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔آروش تیز قدموں کے ساتھ ہاسٹل جانے کا اِرادہ کیے ہوئے تھی جب اُن کی حویلی کا ملازم اُس کے سامنے سرجھکائے ادب سے بولا پہلے تو وہ لائبریری کے سامنے اُس کو دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہوئی عجیب وہم سے ہونے لگے پر اُس نے جلدی سے اپنی حالت پہ قابو پاکر باہر کی طرف بڑھی

اسلام علیکم لالہ۔آروش گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ کر سلام کرنے لگی۔

کس لڑکے سے بات کررہی تھی؟دیدار شاہ نے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا

کسی بھی لڑکے سے نہیں۔آروش اپنا لہجہ مضبوط کیے بولی۔

پھر کون تھا وہ لڑکا؟دوسرا سوال

مجھے کیا پتا لالہ کالج میں بہت لوگ ہوتے ہیں مجھے سب کا پتا نہیں ہوتا۔آروش نے اپنا لہجہ نارمل کیے بتایا

آروش کوئی بھی غلط قدم اُٹھانے سے پہلے اپنی حیثیت یاد رکھنا اور یہ بھی کے تمہارا کس خاندان سے تعلق ہے۔دیدار شاہ نے وارن کیا

میں سب جانتی ہوں۔آروش بس یہ بول پائی

اچھی بات ہے تمہارے لیے اور اُس لڑکے کے لیے بھی ورنہ تین چار سال والا واقعہ تم بھولی نہیں ہوگی جو چاچا سائیں نے ایک لڑکی کے ساتھ کروایا تھا۔دیدار شاہ کی بات پہ چھپی دھمکی سے وہ اچھی طرح سے واقف تھی آروش نے بے اختیار یمان کو کوسا جو اپنی نادانی میں اُس کا کردار بھی مشکوک کروارہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

کیا وہ لڑکی بہت خوبصورت ہے؟یمان چھت پہ کھڑا تھا جب عیشا اُس کے ساتھ کھڑی ہوتی پوچھنے لگی۔

پتا نہیں۔یمان نے لاعلمی کا اظہار کیا

پتا نہیں تمہیں تو وہ پسند ہے نہ؟عیشا کو اُس کا جواب ہضم نہیں ہوا۔

میں نے کبھی اُن کا چہرہ نہیں دیکھا مجھے تو یہ بھی نہیں پتا اُن کا کلر کیسا ہے بس اُن کی آنکھیں دیکھی ہیں جس پہ جالیدار پردہ ہوتا ہے وہ خود کو سب سے چھپاتی سر سے لیکر پیروں تک۔یمان کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا 

تمہیں پھر بھی وہ پسند ہے یمان تم اپنے اور اُس لڑکی کے درمیان موجود فرق کو کیوں نہیں سمجھتے۔عیشا نے اُس کو سمجھانا چاہا

آپی پلیز میں اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا میں پہلے ہی بتاچُکا ہوں میں نہیں بھول سکتا ان کو میں انہیں پانے کی ہر کوشش کروں گا پئسے کماؤں گا اپنا نام بناؤں گا تب تو وہ انکار نہیں کرپائے گے۔یمان پُرامید لہجے میں بولا

یمان شاہ خاندان والے بس اپنے خاندان میں رشتیداری کرتے ہیں تمہیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی۔عیشا اُس کی ایک ہی رٹ پہ بیزار ہوئی۔

مجھے نیند آرہی ہے۔یمان اتنا کہتا چھت سے اُترنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارسم سے کہہ کر یمان کا کالج تبدیل کرواؤ ورنہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔عیشا کمرے میں آتی فجر سے بولی جو اپنے مایوں کا جوڑا دیکھ رہی تھی۔

میں نے پہلے ہی بات کر رکھی ہے اُس نے کہا ابھی مصروف ہے شادی کے بعد یمان کا مسئلہ دیکھ لے گا وہ یمان کو دوسرے ملک بھیجنے کا سوچ رہا ہے۔فجر نے سنجیدگی سے بتایا

دوسرے ملک؟عیشا کو یقین نہیں آیا

مجھے یمان کی زندگی اور اُس کا مستقبل عزیز ہے وہ نادان ہے ہم تو سمجھدار ہے نہ پھر کیوں اُس کو آگ میں جلنے کے لیے چھوڑدے۔فجر نے کہا

ہاں وہ سب تو ٹھیک پر بابا سے کیا کہو گی وہ کیا وجہ نہیں پوچھے گے اور یمان کیا وہ مانے گا وہ تو مجنوں بنا ہوا ہے میری مانوں تو کالج جاکر اُس لڑکی سے ملو کیا پتا بات بن جائے۔عیشا نے پریشانی سے تجویز پیش کی۔

ہر بار یمان کی نہیں چلے گی اُس کا شہر سے یا ملک سے باہر جانا ہی بہتر ہے اور میں کیا کہوں گی اُس لڑکی سے جب کی ہمیں پتا ہے غلطی پہ سراسر ہمارا اپنا بھائی ہے۔فجر کی بات پہ عیشا ایک پل کو خاموش ہوئی۔

بات کرکے دیکھ لو کیا پتا تمہارے بات کرنے سے وہ یمان کو سمجھائے کے وہ اُس کا پیچھا چھوڑدے۔عیشا کی بات نے اُس کو سوچنے پہ مجبور کردیا۔

کیا وہ میری بات سُنے گی؟فجر نے تعجب سے کہا

بلکل سُنے گی آخر کو شاہ خاندان سے تعلق ہے اور شاہ خاندان کی لڑکیاں اپنی عزت اور کردار کے معاملے میں بہت محتاط ہوتی ہے۔عیشا نے جلدی سے کہا

ٹھیک ہے میں کجھ دنوں تک جاؤں گی۔فجر کجھ سوچ کر بولی

کجھ دنوں تک نہیں کل ہی جاؤ اور اُس سے بات کرو پھر تو تمہیں مایوں میں بیٹھایا جائے گا۔عیشا اُس کی بات پہ فورن بولی تو فجر نے سر کو جنبش دینے میں اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

اسلام علیکم!آروش گراؤنڈ میں موجود تھی جب یمان اُس کے کجھ فاصلے پہ بیٹھ کر مخاطب کرنے لگا۔

وعلیکم السلام !آروش نے مروتً جواب دیا

آپ سے ایک بات کرنی ہے۔یمان نے آہستہ آواز میں کہا

جلدی سے کہو اور جاؤ یہاں سے۔آروش نے ناگواری سے کہا

مجھ پہ ٹرسٹ کرلیں۔یمان نے ایک آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

دیکھو یمان تم میری بات سُنو اور سمجھ کر اُس پہ عمل کرو مجھے نہیں پتا تمہارے اندر کیا چل رہا ہے اور تم کیا چاہتے ہو پر میں ایک بات واضع کرلوں مجھے تمہاری کسی بھی بات میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے مجھے رسوا کرنے کی کوشش بھی مت کرو اِس لیے بہتر یہی ہے تم مجھ سے دور رہا کرو ورنہ جان سے جاؤ گے۔آروش کٹیلے لہجے میں بولی

آپ ایک دفع مجھ ناچیز پہ اعتبار کرلیں دیکھیے گا یہ بندہ بشر آپ کو کبھی رسوا ہونے نہیں دے گا زندگی کے ہر سفر میں آپ مجھے اپنے ہمقدم پائے گی اگر کوئی آپ کے بارے میں کجھ غلط کہے گا تو گدی سے زبان کھینچ لوں گا پر آپ کی ذات پہ ایک حرف آنے نہیں دوں گا میں بہت محبت کرتا ہوں آپ سے۔یمان اُس کی بات پہ تڑپ اُٹھا تھا۔

چٹاخ

آروش اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر ایک زوردار تھپڑ اُس کے چہرے پہ مارا جس سے وہاں موجود بہت سارے اسٹوڈنٹس متوجہ ہوگئے تھے۔یمان اپنے گال پہ ہاتھ رکھے بے یقین سا کھڑا تھا اُس کو اندازہ نہیں تھا اُس کی محبت کے جواب میں تھپڑ ملے گا اُس کو اپنے اندر چھن سے کجھ ٹوٹتا محسوس ہوا تھا۔

تمہارا مسئلہ کیا ہے تمہیں ایک دفع میں میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی جب میں بار بار تم سے کہہ رہی ہو میرا پیچھا چھوڑو مجھ سے دور رہو تو مطلب دور رہو سمجھ آئی میری بات۔آروش غصے سے تیز آواز میں اُس پہ چیخی جس پہ آس پاس چہ مگوئیاں ہونے لگی یمان کو اپنا آپ زمین میں دھنستا محسوس ہورہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا کجھ ہوا ہے؟عیشا واشروم سے نہاکر نکلی تو فجر کو خاموش ٹِک کر کھڑا پایا تو تفتیش سے پوچھا۔

یمان کے کالج سے فون آیا تھا۔فجر نے بتایا

خیریت؟عیشا نے کہا

یمان کو کالج سے سسپینڈ کیا گیا ہے۔فجر سپاٹ لہجے میں بتانے لگی۔

کیا مگر کیوں؟عیشا ہاتھ میں پکڑا تولیہ پھینکتی بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

اُس نے کالج میں اُس لڑکی سے شاید کوئی بدتمیزی کی لڑکی کے گھروالوں نے کالج کے انتظامیہ کو بہت ڈرایا دھمکایا جس وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ لیا۔فجر کا لہجہ بے تاثر تھا۔

یمان ایسا نہیں کرسکتا وہ تو کسی سے غصے بات تک نہیں کرتا لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کرنا تو بہت دور کی بات ہے مجھے یہ بتاؤ یمان ہے کہاں؟عیشا اُس کو اپنی طرف کھیچتی جھنجھوڑ کر جواب طلب کرنے لگی۔

مجھے نہیں پتا عیشا مجھے نہیں پتا یمان نے ہمارا مان توڑا ہے کتنی اُمیدیں وابستہ تھی ہماری پر اُس نے کیا کردیا۔فجر کی آنکھ سے آنسو گِرا

یار فجر تم تو ایسے مت بولوں جانے یماب کس حال میں ہوگا ہمیں اُس کا ساتھ دینا چاہیے اُس کو ضروری ہے ہمارے ساتھ کی۔عیشا اُس کو سمجھانے کے غرض سے بولی

اگر کوئی لڑکی کسی مرد پہ ہاتھ اُٹھاتی ہے تو کوئی عام وجہ نہیں ہوتی۔فجر نے بتایا

کیا اُس نے ہمارے یمان کو تھپڑ مارا۔عیشا نے پوچھا

ہاں شاید اِس بار وہ سمجھ جائے۔فجر اتنا کہتی کمرے سے باہر نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕

یمان پارک میں خاموش سا بیٹھا تھا جب دس سے بارہ لڑکے اُس کے سامنے کھڑے ہوگئے جن کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے ہتھیار تھے۔یمان ایک نظر اُن پہ ڈالتا پھر نیچھے گھاس کو دیکھنے لگا جب اچانک اُس کو اپنے کندھے پہ کسی کا بھاری ہاتھ محسوس ہوا تو دوبارہ اپنا سر اُٹھایا تو اُس کو یاد آیا یہ آروش کا بھائی ہے

دیدار شاہ نام ہے میرا۔دیدار شاہ مغرور لہجے میں اپنا تعارف کروانے لگا۔

اچھا نام ہے۔یمان اپنے کندھے سے اُس کا ہاتھ ہٹاکر بولا

بچے ہو ابھی تم پھر بھی تمہاری آنکھوں میں کوئی خوف کیوں نہیں کیا تمہیں ڈر نہیں لگ رہا یہ پستول یہ ڈنڈا یہ چاکوں دیکھ کر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو یقینً گر کر بے ہوش ہوجاتا۔دیدار شاہ چُھبتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

آپ ہیں کون جس سے میں ڈرو اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں آپ اللہ نہیں مجھے اگر ڈر ہے تو مخلوق بنانے والے سے ہیں اُس کی بنائی ہوئی مخلوق سے نہیں۔یمان سپاٹ لہجے میں بولا تو سب نے غصے میں آکر اُس کے سامنے بندوقیں تان لی۔

عمر کیا ہے تمہاری؟دیدار شاہ اپنا غصہ ضبط کیے پوچھنے لگا

چار ماہ بعد اٹھارہ سال کا ہوجاؤں گا۔یمان نے بتایا

بہت چھوٹی عمر ہے تمہاری اِس لیے ترس کھاکر کہتا ہوں جہاں سے وہاں لوٹ جاؤں ہمارے خاندان کی لڑکی سے پر دور رہو ورنہ

دیدار شاہ اتنا کہتا خاموش ہوگیا کیونکہ اُس نے دلدار شاہ کو اپنے آدمیوں کے ساتھ آتا دیکھ لیا تھا۔

ورنہ کیا؟یمان نے پوچھا

ورنہ تمہیں اتنا مارے گے کے تمہاری لاش تمہاری ماں تک پہچان نہیں پائے گی۔اِس بار جواب دلدار شاہ نے دیا تھا۔

میں محبت کرتا ہوں ان سے۔یمان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا جب دلدار شاہ نے ایک مکہ اُس کے چہرے پہ مارا۔یمان کے قدم لڑکھڑا گئے تھے اُس نے اپنا انگھوٹھا ہونٹوں کے پاس کیا جہاں خون رس رہا تھا۔

ہمارے خاندان کی لڑکی پہ نظر ڈالنے سے پہلے اپنی حیثیت اور ذات دیکھ لو شاہ خاندان میں مردوں کا کال نہیں آگیا جو وہ ہر آتے جاتے کو اپنے آنگن کا پھول پکڑاے گے ہم اپنی حویلی کی بیٹی کی شادی اپنی برداری اور برابری میں کریں گے اُس سے نہیں جن کے گھر فاقے ہوتے ہیں۔دلدار شاہ اُس کا جبڑا دبوچ کر بولا

چھوڑ لالہ اتنا ڈوز کافی ہے اِس کے لیے بچہ ہے آپ کا مُکہ اِس کو ساری بات سمجھا گیا ہوگا۔دیدار شاہ اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو دلدار شاہ نے خون آشام نظروں سے یمان کو دیکھا جس کی آنکھوں میں خوف کا شبہ تک نہیں تھا یہی بات تھی جو غصے سے اُس کو پاگل کیے ہوئے تھی۔

یہاں۔دلدار شاہ نے اُس کے دل کے مقام پہ اپنی انگلی رکھی۔

اور یہاں بھی۔اب کی دلدار شاہ نے اُس کی کنپٹی میں انگلی رکھی۔

گولی سے سینہ چیر دوں گا اور ساتھ میں تمہارا یہ بھیجا بھی اگر پھر کبھی تم آرو کے آس پاس نظر بھی بھٹکے۔دلدار شاہ نے دھکی آمیز لہجے میں کہا تو یمان ہنس پڑا وہ سب تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

پاگل انسان لالہ نے تمہیں کوئی لطیفہ نہیں سُنایا جو ہنس رہے ہو۔دیدار شاہ کڑے چتونوں سے اُس کو گھور کر بولا

جو کام کل کرنا وہ آج کرے تو کیا قباحت ہے۔یمان نے بے تاثر لہجے میں کہا

تجھے اپنی زندگی پیاری نہیں پر اپنی بہنوں کی تو ہوگی نہ سُنا ہے تیری بہن کی شادی ہے اگر تیرے گھر سے اُس کی ڈولی کے بجائے اگر میت

میں تمہارا منہ توڑدوں گا اگر میری آپی کے بارے میں ایسے الفاظ نکالے بھی تو۔دلدار شاہ کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب یمان اُس کا گلادباتا طیش کے عالم میں غرایا۔دلدار شاہ اُس کی اتنی افتاد پہ بوکھلایا اُس کو قطعاً امید نہیں تھی کے وہ ایسی حرکت بھی کرسکتا ہے۔

چھوڑو لالہ کو دور ہٹو۔وہ سب یمان کو پیچھے کی جانب کھینچتے دلدار شاہ سے دور کرنے لگے یمان اُس کے گلے کی ہڈی کو زور سے دباتا ایکدم پیچھا ہوا غصے سے اُس کی رنگت سرخ پڑگئ تھی اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گُزرتا۔دلدار شاہ کا کھانس کھانس کر حال بے حال ہوگیا تھا دیدار شاہ نے اپنے بندے سے پانی لانے کا کہا

تیری تو۔ایک آدمی یمان کی طرف بڑھنے لگا پر دیدار شاہ نے بیچ میں رک لیا۔

اِس کو بعد میں دیکھ لینگے ابھی لالہ کی طبیعت بگڑ رہی ہے اِس چھٹان بھر کے لڑکے میں جانے کہاں سے اتنی ہمت آئی۔دیدار شاہ غصے یمان کو دیکھ کر بولا تو اُس نے سر جھٹکا۔

دوبارہ آپ میں سے کسی نے میری بہنوں کا نام بھی لیا تو میں جان سے مارنے میں بھی گریز نہیں کروں گا بچہ سمجھ کر کوئی مجھے کمزور نہ سمجھے یمان مستقیم ہوں میں اور یمان مستقیم کو اپنی بہنوں کی حفاظت کرنا آتی ہے۔یمان کے لہجے میں چٹانوں جیسی سخت تھی وہ دیدار شاہ کو دھکا دیتا سائیڈ سے گُزر گیا جاتے ہوئے بھی وہ پانی پیتے دلدار شاہ کو لات مارنا نہیں بھولا تھا۔دیدار نے غصے سے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا۔

آپ نے اُس کو جانے کیوں دیا وہ اکیلا تھا کم عمر لڑکا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔اُن کے آدمی نے سر جھکاکر کہا

ابھی جانے دیا ہمیشہ کے لیے تھوڑی اُس نے جو آج کیا اُس کا حساب تو ہم سود سمیت لینگے۔دیدار شاہ حقارت بھرے لہجے میں بول کر دلدار کے پاس آیا جو کھانستا اپنا سینہ مسل رہا تھا کیونکہ لات یمان نے اُس کے سینے پہ ماری تھی جس وجہ سے پھر سے اُس کو کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔

وہ جان سے بچنے نا پائے۔دلدار شاہ نے کھانسی کے درمیان کہا۔

وہ نہیں بچے گا زندہ فکر نہیں کرے آپ۔دیدار شاہ اُس کی پشت سہلاکر بولا اُس کی آنکھوں سے شیطانیت ٹپک رہی تھی۔

💕💕💕💕💕💕

یمان کیا ہوا ہے بیٹا تمہارا یہ گال اتنا سوجھا ہوا کیوں ہے؟ فائذہ بیگم نے دروازے پہ بیل ہونے پہ فائذہ بیگم جب دروازہ کھولنے آئی تو یمان کو ایسے دیکھ کر اُن کو فکر لاحق ہوئی اُن کی آواز سن کر فجر اور عیشا بھی صحن میں آگئ یمان پہ نظر پڑنے کے بعد وہ بھی پریشان ہوئی۔ 

کجھ نہیں ہوا۔ یمان اندر داخل ہوتا بس یہی بول پایا۔

یمان سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے بابا کا فون آیا تھا اماں کو جو باتیں انہوں نے بتائی وہ ناقابلِ قبول ہیں۔فجر نے سخت رویہ اختیار کیا تو یمان چلتا ہوا اُس کے پاس آیا۔

مجھے معاف کردیجیے گا۔یمان فجر اور عیشا کی جانب دیکھ کر سر جھکاکر یہی بول پایا

یمان کیا کسی نے تمہیں مارا ہے؟عیشا اُس کی بات نظرانداز کرتی پوچھنے لگی تو یمان نے سراثبات میں ہلایا اُس کے اعتراف کرنے پر فجر نے افسوس سے سر کو جنبش دی جب کی فائزہ بیگم کا ہاتھ اپنے سینے پہ پڑا۔

یہاں بیٹھ۔فائزہ بیگم نے صحن میں رکھی چارپائی پہ اُس کو بیٹھایا۔

تم دونوں اندر جاؤ۔فائزہ بیگم نے اُن دونوں سے کہا تو وہ دونوں ایک نظر یمان پہ ڈال کر چلی گئ۔

گانا گانے کا شوق اور اُسے بھول جاؤ یہ دونوں چیزیں ہماری اوقات سے باہر ہیں۔اپنی ماں کی بات پہ یمان نے زخمی نظروں سے اُن کو دیکھا جس سے فائزہ بیگم نے نظریں چُرائی اُن کو کہاں برداشت ہورہا تھا اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اتنا درد دیکھنا

محبت اور خواہش کب اوقات دیکھ کر ہوتی ہے۔یمان ٹوٹے لہجے میں بولا

دھمکی دے کر گئے وہ تیرے باپ کو کسی اور کا نہیں تو اپنی جوانی پہ رحم کھا ابھی تیری عمر ہی کیا ہے جو ایسی چیزوں میں پڑا ہے۔فائزہ بیگم نے جیسے افسوس کیا۔

میں دونوں چیزیں پالوں گا آپ دیکھ لینا۔یمان کے لہجے میں عزم تھا۔

وہ زندہ چھوڑے گے تب نہ تجھ سے بڑی جوان بہنیں ہیں یہاں اُن کی عزت اور جان دونوں خطرے میں ہیں اِن بڑے لوگوں سے نہ دشمنی اچھی اور نہ دوستی توں زمین پہ بیٹھ کر چاند کی خواہش کررہا ہے۔فائزہ بیگم نے ایک اور کمزور سی کوشش کی۔

اماں وہ میرے اندر خون کی طرح گردش کرتی ہے وہ جب ہنستی ہے تو مجھے لگتا ہے اُس سے زیادہ خوبصورت منظر دُنیا میں شاید کوئی ہوگا دوسری بات سنگر بننا میرا خواب میرا جنون ہے جس کو میں پورا کرکے رہوں گا پھر آپ کو فخر ہوگا اپنے بیٹے پہ میں دل اور دماغ کے آگے مجبور ہوں۔یمان جیسے اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔

اٹھارہ سال کا بھی نہیں ہوا ابھی اور ایسی باتیں کررہا ہے کجھ شرم وحیا کر یہ کسے عشق و معشوقی کے چکر میں پڑگیا ہے ایسا کیا کردیا ہے جو اُس بدکردار لڑکی کے باپ اور بھائی کتوں کی طرح تیری تلاش میں ہیں۔فائزہ بیگم کے جواب دینے سے پہلے ہی مستقیم صاحب گھر میں داخل ہوتے صحن میں آکر اُس پہ گرجے

جب کی یمان نے بدکردار لفظ پہ زور سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرلی آنکھیں خون چھلکانے کی حدتک لال ہوگئ تھی۔

آپ ایک دفع مجھ ناچیز پہ اعتبار کرلیں دیکھیے گا یہ بندہ بشر آپ کو کبھی رسوا ہونے نہیں دے گا زندگی کے ہر سفر میں آپ مجھے اپنے ہمقدم پائے گی اگر کوئی آپ کے بارے میں کجھ غلط کہے گا تو گدی سے زبان کھینچ لوں گا پر آپ کی ذات پہ ایک حرف آنے نہیں دوں گا۔

اپنے کہے الفاظ یاد آئے تو بے بسی سی آنکھوں کو میچ لیا آج جس دوہراہے پہ وہ کھڑا تھا وہ اِتنا جان گیا تھا اب اُس کی زندگی میں کھونا ہی لکھا ہے پانے کا وہ بس تصور کرسکتا ہے کیونکہ اُس کی ماں سہی کہتی تھی وہ زمین پہ بیٹھ کر چاند کی خواہش کررہا تھا یہ سب جان کر بھی وہ دستربردار نہیں ہوپارہا تھا پر اُس کو اب پیچھے ہٹنا تھا اپنی بہنوں کے لیے ماں کی التجا کے آگے اُس کو سرجھکانا تھا اپنے سارے کیے قول کو بُھلانا تھا کیونکہ اُس کو ایک اور بات سمجھ آگئ تھی اب محبت پانے کے لیے پئسو کا ہونا ضروری تھا۔

ہمارے خاندان کی لڑکی پہ نظر ڈالنے سے پہلے اپنی حیثیت اور ذات دیکھ لیں شاہوں خاندان میں مردوں کا کال نہیں آگیا جو وہ ہر آتے جاتے کو اپنے آنگن کا پھول پکڑاے گے ہم اپنی بیٹی کی شادی اپنی برداری اور برابری میں کریں گے اُس سے نہیں جن کے گھر فاقے ہوتے ہیں۔کسی کا تکبر بھرا جُملا یاد آیا تو کان کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔

بدکردار نہیں ہے وہ۔ یمان ضبط سے بولا

باکردار لڑکیوں کے پیچھے عاشق نہیں پڑے ہوتے۔ مستقیم صاحب حقارت سے بولے

آپ بنا انہیں جانے ایسی بات نہیں کرسکتے بہتان لگانا کتنا بڑا گناہ ہے یہ بات آپ ہی ہمیں بتاتیں تھے نہ پھر کیوں آج آپ ایسی باتیں کررہے ہیں میں اگر اُن کو چاہتا ہوں اِس میں اِن کا نہیں میرا قصور ہے۔ یمان مستقیم صاحب کے سامنے کھڑا ہوتا شدت بھرے لہجے میں بولا۔اندرونی دروازے کے پاس فجر اور عیشا حیرت سے یمان کا یہ روپ دیکھ رہی تھی جو اُن کے لیے نیا تھا۔ 

گستاخ

چٹاخ

مستقیم صاحب نے زناٹے دار تھپڑ اُس کے چہرے پہ کھینچ کر مارا جس پہ یمان لڑکھڑا کر نیچے گِر پڑا فجر بھاگ کر اُس کے پاس گئ۔ 

کیا کررہے ہیں آپ کیوں ماررہے ہیں اِس کو ہوگئ ہے غلطی اِس سے اب نہیں کرے گا۔ فائزہ بیگم روتے ہوئے بولی

سمجھالوں اِس کو ہم سفید پوش لوگ ہیں جن کے پاس سوائے عزت کے اور کجھ نہیں ہوتا اگر اِسے یہاں رہنا ہے تو سر سے عشق کا بھوت اُتارنا ہوگا۔ مستقیم صاحب دھاڑنے والے انداز میں بولے بات بگڑتی دیکھ کر عیشا کی حالت بُری ہورہی تھی جب کی فجر یمان کو اُس کے کمرے میں لے جانے لگی۔ 

💕💕💕💕💕💕

تم نے اچھا نہیں کیا۔ آروش کمرے میں گُزرے ہوئے واقع کو سوچ رہی تھی جب ہما کی آواز پہ چونک کر اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔ 

کیا اچھا نہیں کیا میں نے؟ آروش کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی۔ 

یمان کو کالج سے سسپیبڈ کروا دیا تم نے اُس نے اگر تمہیں پرپوز کرنے کی کوشش کی تو تم نے تھپڑ مارا تو بات ختم ہوئی نہ پھر یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہما اُس سے خفا ہوئی جب کی آروش کو حد سے زیادہ حیرانی ہوئی

میں نے ایسا کجھ نہیں کیا تم سے کس نے کہا؟ آروش نے پوچھا

پلیز آروش اب معصوم مت بنو چھٹی کے وقت تمہارے بھائی لوگ گئے تھے پرنسپل کے پاس وہی سب باتیں طے ہوئی۔ہما نے کہا

میرا یقین کرو مجھے اِس بارے میں زرہ علم نہیں۔ آروش نے وضاحت دینی چاہی

تو تمہارے بھائیوں کو کس نے بتایا تم نے بتایا ہوگا تبھی تو یہ انہوں نے یہ سب کیا۔ہما کی بات پہ آروش کو گھبراہٹ ہونے لگی وہ جلدی سے اُٹھ کر الماری سے اپنا فون نکالا

السلام علیکم لالہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ آروش نے دیدار شاہ کو کال کیے کہا

کل لینے آرہے ہیں تمہیں ہاسٹل سے پھر بات ہوگی۔ دوسری طرف دیدار شاہ کا اتنا سنجیدگی سے بھرا انداز دیکھ کر آروش کو کسی انہونی کا احساس شدت سے ہوا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

فجر کی شادی کی تاریخ آگے کرلوں ارسم کی فیملی کو کال کرکے کہو اور عیشا کے لیے بھی کوئی مناسب سا رشتہ دیکھ کر رخصت کردو۔رات کا وقت تھا جب مستقیم صاحب نے سنجیدہ لہجے میں فائزہ بیگم سے کہا

تاریخ طے تو ہوچکی ہے نہ پھر یوں پیچھے کرنا اچھا نہیں لگتا جانے وہ کیا سمجھے بیٹی کا معاملہ ہے محتاط تو ہر قدم پہ ہونا پڑتا ہے۔فائزہ بیگم نے کجھ ہچکچاہٹ سے کہا

بلکل بیٹی کا معاملہ ہے محتاط ہونا پڑتا ہے جبھی بول رہا ہوں اُن سے بات کہو اور ساتھ میں یہ بھی کہنا ہم کراچی چھوڑ کر پنڈی روانہ ہوگے ہمیشہ کے لیے۔مستقیم صاحب کی بات سن کر اُن کو حیرانی ہوئی۔

یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں ہم کیوں بھلا اپنا گھر چھوڑ کر کہی اور جائے یہاں آپ کی دکان ہے پھر بھی آپ ایسا کہہ رہے۔فائزہ بیگم سمجھانے کے غرض سے کہا

جو تم سمجھو پر جب سے وہ دکان پہ آکر دھمکی دے کر گئے ہیں میرا دل گھبراہٹ کا شکار ہے تب سے مستقیم صاحب نے گہری سانس بھر کر کہا

شاہ اعلیٰ ذات کے ہیں وہ کسی کی بیٹی کی عزت خراب کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔فائزہ بیگم جیسے اب ساری بات سمجھ گئ۔

جانتا ہوں سمجھتا ہوں پر مجھے اُن دونوں کی طرف سے فکر نہیں ہے یمان کی طرف سے ہے نادانی میں وہ جو غلطی کرچُکا ہے اُس کا خامیازہ بہت بھیانک ہوگا اِس لیے پہلے میں اُس کو یہاں سے دور بھیجوں گا۔مستقیم صاحب نے کہا

وہ کبھی نہیں جائے گا۔فائزہ بیگم نے افسوس سے کہا

اُس کو جانا پڑے گا۔مستقیم صاحب کا انداز حتمی تھا۔

💕💕💕💕💕💕

لالہ آپ لوگوں کو غلطفہمی ہوئی ہے آپ پلیز کالج والوں سے بات کرکے اُس لڑکے کو دوبارہ کالج آنے کا کہے۔دیدار شاہ اور دلدار شاہ آروش کو لیکر الگ فلیٹ میں آئے تھے جبھی آروش نے ہمت کرکے کہا

نامحرم کے بارے میں بات کرنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب سمجھ گئے ہیں کتنا یقین تھا چاچا جان کو تم پہ اور کتنے مان سے تمہیں یہاں بھیجا گیا تھا یہ صلہ دیا تم نے اُس بات کا۔دیدار شاہ کاٹ دار لہجے میں اُس سے بولا

لالہ آپ بہتان لگا رہے ہیں۔آروش اُس کی بات سن کر تڑپ اُٹھی۔

یہ موقع خود تم نے ہمیں فراہم کیا ہے۔دیدار شاہ نے کہا

ایسا کجھ نہیں جیسا آپ سب کو لگ رہا ہے میں ؐخود بابا سائیں سے یہ بات کروں گی وہ ضرور میری بات سمجھے گے۔آروش فیصلہ کن انداز میں بولی۔

وہ کمینہ میرے ہاتھ آجائے اپنی پستول کی ساری گولیاں اُس پہ ختم کروں گا پہلے اُس کے دماغ پہ گولی برساؤں گا جس سے اُس نے ہمارے خاندان کی عزت کو سوچا اُس کے بعد منہ میں گولیاں برساؤں گا جس سے بڑا عشق معشوقی کا اظہار کررہا تھا پھر سینے میں جہاں اُس نے ایک سیدزادی کے لیے جذبات رکھے۔دلدار شاہ کی بات پہ آروش پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

لالہ خدا کے واسطے ایسا کجھ مت کیجیے گا میں بتارہی ہو آپ کو محض ایک غلطفہمی ہوئی اُس لڑکے کا قصور نہیں۔آروش نے جلدی سے کہا

تمہیں صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں اب جو ہوگا تمہارے سامنے ہوگا تاکہ آئیندہ ایسی غلطی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو۔دلدار شاہ حقارت سے بولا

مجھے بابا سائیں سے بات کرنی ہے۔آروش کو بس ایک راہ نظر آئی۔

شوق سے کرلینا پر ہمارا یہاں جو ایک کام اٹکا ہوا ہے وہ ہوجائے اُس کے بعد۔اس بار دیدار نے کہا۔

آپ لوگ کیا کرنے والوں ہو۔آروش کا دل کسی انہونی کے احساس سے دھڑک اُٹھا۔

پتا چل جائے گا تم نے تو بس ایک تھپڑ مارا تھا اب دیکھنا ہم کیا کرتے ہیں۔دلدار شاہ کے لہجے میں تکبر بول رہا تھا جب کی آروش نے اُس وقت کو ہزار مرتبہ کوسا جب اُس نے یمان پہ ہاتھ اُٹھایا تھا اُس کی ایک غلطی کی وجہ سے کسی کی جان خطرے میں آچُکی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہ آپ کیا کررہی ہیں؟یمان نے فائزہ بیگم کو اُس کے کپڑوں کی پیکنگ کرتے دیکھا تو تعجب سے پوچھا

تم پنڈی جارہے ہو کل صبح فجر کے وقت۔فائزہ بیگم نے مصروف انداز میں بتایا اُن کا جواب یمان کے لیے غیرمتوقع تھا۔

کیوں؟یمان نے سنجیدگی سے پوچھا

اب بھی کیوں کی گنجائش نکلتی ہے؟فائزہ بیگم نے اُلٹا اُس سے سوال پوچھا

کیا آپ لوگوں کو ڈر ہے اگر ہے تو غلط بات ہے۔یمان اُن کا ہاتھ تھام کر بولا

دیکھو یمان باتوں میں وقت ضائع مت کرو تمہارا بابا چاہتے ہیں تم یہاں سے جاؤ تو مطلب جاؤ۔فائزہ بیگم نے کہا

میں کیوں جاؤں آپ سب کو یہاں چھوڑ کر زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کو یہ بات بلکل پسند نہیں کے اُس کا بندہ اُس کے بجائے اُس کے بندوں سے ڈرے۔یمان نے اختلاف کیا۔

ضد مت کرنا اپنے باپ کے سامنے جو کہا بس اُس پہ عمل کرنا اب سوجاؤ صبح وقت پہ جاگنا بھی ہے۔فائزہ بیگم نے اُس کی باتوں پہ زیادہ توجہ نہ تھی۔

میں کہی نہیں جاؤں گا اِن حالات میں کسی کے خوف سے تو بلکل بھی نہیں۔یمان کا انداز ہر تاثر سے بے نیاز تھا۔

صبح خود تمہارے بابا بات کرینگے ابھی سوجاؤ۔فائزہ بیگم اتنا کہتی اُس کے کمرے سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

صبح جلدی اُٹھ جانا ہمیں کسی ضروری کام سے جانا ہے۔آروش پریشانی سے اپنے کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی جب دلدار شاہ اُس کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا ہوتا ہوا بولا

کیا ہم گاؤں جائے گے؟آروش نے پوچھا

ایک بہت ضروری کام ہے اُس کے بعد۔دلدار شاہ نے بتایا

ٹھیک ہے۔آروش اُس کا اِرادہ جانے بنا ہاں میں سرہلانے لگی وہ الگ بات تھی اُس کا دل بہت وقت سے عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ تم اُس لڑکی کے ساتھ کیا کررہے تھے؟آروش نے سخت لہجے میں یمان کو دیکھا جو کان کی لو کُھجاتا اُس کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔

نوٹس مانگ رہی تھی تو بس وہ دے رہا تھا۔یمان نے وضاحت دی۔

اچھا جی مجھ سے چلاکی میں نے دیکھا کیسے تم اُس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔آروش کا غصہ کم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔

کیا آپ جیلس ہورہی ہیں؟یمان نے دلچسپی سے پوچھا

جیلس میں کیوں ہونے لگی۔آروش نے اپنا بھرم قائم کرنا چاہا

ٹھیک ہے پھر میں جاؤں اُس کے ساتھ باتیں کرنے؟یمان نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر کہا تو آروش تپ اُٹھی۔

خبردار جو اُس سے بات کی بھی تو میں بتارہی ہوں میں نے اگر دوبارہ تمہیں کسی لڑکی سے بات کرتا دیکھا تو گلا دبادوں گی۔آروش نے وارن کرنے والے انداز میں کہا تو یمان نے ڈرنے کی اداکاری کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان

یمان

مسکرا کیوں رہے ہو؟

اُٹھ جاؤ بیٹا۔

فائزہ بیگم یمان کا کندھا ہلاتی کب سے جگانے کی کوشش میں تھی۔

آپ یہاں؟یمان پٹ سے آنکھیں کھولتا آس پاس دیکھنے لگا جہاں وہ اب اپنے کمرے میں تھا کالج میں نہیں اُس کے چہرے پہ افسردگی چھاگئ یہ خیال ہی اُس کے لیے سوہانِ روح تھا کے وہ اب کبھی اُس سے مل نہیں پائے گا۔

کیا وہ خواب تھا۔یمان بڑبڑایا

یمان کیا ہوگیا ہے تمہیں تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟فائزہ بیگم کو فکر لاحق ہوئی۔

جی میں ٹھیک ہوں بس کچی نیند اور ادھورے خواب سے جاگا ہوں۔یمان عجیب انداز میں بولا

اچھا اُٹھ کر فریش ہوجاؤ پھر میں ناشتہ دیتی ہوں تمہیں۔فائزہ بیگم اُس کے بال سنوار کر بولی

ناشتہ اتنی جلدی؟یمان وال کلاک میں وقت دیکھ کر بولا جہاں صبح کے پانچ بج رہے تھے۔

کل رات بتایا جو تمہیں پنڈی جانا ہے۔فائزہ بیگم نے یاد دھانی کروائی۔

میں نے بھی آپ کو جواب دیا تھا مجھے کہی نہیں جانا۔یمان بدمزہ ہوا۔

اگر میری بات کی تمہاری نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو یہاں سے نکل جاؤ۔دروازے کے پاس کھڑے مستقیم صاحب نے اُس کی بات سن کر سخت لہجے میں کہا

یہ کیا بول رہے ہیں آپ؟فائزہ بیگم تڑپ اُٹھی۔

ٹھیک بول رہا ہوں میں اور تم میری بات کان کھول کر سن لو اگر پنڈی نہیں جاؤ گے تو اِس گھر میں بھی نہیں رہو گے۔مستقیم صاحب کا انداز اٹل تھا۔

ٹھیک ہے میں چلاجاتا ہوں۔یمان فورن سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

یمان کیا پاگل ہوگئے ہو کھڑے رہو یہی۔فائزہ بیگم نے سختی سے کہا۔

نہیں اگر اِن کو مجھ سے زیادہ غیروں کی پرواہ ہے تو ٹھیک ہے میں نہیں رہوں گا۔یمان نے مستقیم صاحب کو دیکھ کر کہا

کہاں جاؤ گے پھر؟فائزہ بیگم پریشانی سے اُن باہ بیٹے کا چہرہ دیکھنے لگی۔

کہی بھی۔یمان کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

لالہ ہم اِتنی صبح یہاں کیوں آئے ہیں؟آروش گاڑی میں بیٹھی دلدار شاہ سے بولی جس نے گاڑی بیچ سڑک پہ روک رکھی تھی۔

چل جائے گا پتا صبر کرو۔دلدار شاہ نے فون میں ایک نمبر ڈائل کرکے کہا تو آروش کو تشویش ہونے لگی۔

ہاں ہیلو دیدار مل گیا ایڈیس؟دلدار شاہ کال پہ بولا

ٹھیک ہے اُس کے گھر سے پکڑ لاؤ۔دوسری طرف سے جانے کیا بتاگیا جب دلدار شاہ نے حکم صادر کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روک 

روک۔

دیدار شاہ جیپ پہ سوار تھا جب اُس نے جیپ ڈرائیو کرتے اپنے ساتھی امیر سے کہا۔

کیا ہوا اُستاد؟امیر نے پوچھا

وہ لڑکا نظر آرہا ہے نہ اُس کے گرد ڈرائیو کرو جیپ اور پیچھے آتی گاڑیوں سے بھی کہو۔دیدار شیطانی لہجے میں کہا تو امیر نے ویسا ہی کیا۔جب کی دیدار دلدار شاہ کے لیے میسج پہ ایک پیغام بھیجنے لگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان سڑک پہ چلتا رک کر ایک بینچ پہ بیٹھ گیا تھا جب اچانک گاڑی کی ہالائیٹ نے اُس نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھنے پہ مجبور کیا۔اُس نے مندی مندی آنکھوں کو کھول کر دیکھا جہاں دو سے تین گاڑیاں اور ایک جیپ تھی یمان کے دماغ میں کجھ کلک ہوا اِس لیے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

دیدار اپنے ساتھیوں کو اِشارہ دیتا اُس کی طرف بڑھنے لگا۔یمان تعجب سے اُن کو اور اُن کے ہاتھوں میں موجود اسلحہ کو دیکھنے لگا۔

مجھ اکیلے کو مارنے کے لیے اتنے سارے لوگ؟یمان کو اپنی خودساختہ سوچ پہ جانے کیوں ہنسی آئی پر اُس نے ظاہر نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم یہی رہنا میں آتا ہوں۔دلدار شاہ نے آروش کو دیکھ کر کہا جو آیة الکرسی پڑھنے میں مصروف تھی۔

آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر کیسے جاسکتے ہیں؟آروش کو جانے کیوں آس پاس کے ماحول سے وحشت ہونے لگی۔

اکیلا کہاں یہی پاس میں ہوں بس ایک دو منٹ میں آجاؤں گا تم ڈرو نہیں۔دلدار شاہ اتنا کہہ کر سیٹ بیلٹ کھول کر گاڑی سے اُتر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہمیں دیکھ کر ساری ہوا نکل گئ اُس دن تو بڑی گرمی چڑھی تھی۔دیدار شاہ طنزیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھ کر بولا تو یمان بے تاثر نظروں سے اُس کو اور باقی سب آدمیوں کو دیکھنے لگے جیسے اُن کے آنے کا مقصد جان گیا ہو۔

مارنے آئے ہو تو ماردو۔یمان نے ہلکہ سا مسکراکر کہا دیدار شاہ نے چبھتی نظروں سے اُس کے گال پہ پڑتے گڑھے دیکھے تھے

یہ نیک کام تو ہم بنا تاخیر کے کرینگے بہت کم عمر لکھوا کر آئے ہو۔جانی پہچانی آواز پہ یمان پلٹا تو دیکھا  دیکھا دلدار شاہ اُس پہ گن تانے کھڑا تھا۔

مجھے کوئی غم نہیں۔یمان بے خوفی سے بولا

دیدار تم سائیڈ پہ جاؤ آج کا منظر آروش کو اچھے سے دیکھانا۔دلدار شاہ کی بات پہ دیدار سرہلاتا چلاگیا جب کی یمان آروش کے نام پہ سائیڈ پہ دیکھنا چاہا تبھی دلدار نے بے دردی سے اُس کے ماتھے پہ پستول کی نال ماری

آآآآہ۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کے اُس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش باہر آؤ۔دیدار شاہ نے گاڑی کے شیشے کو ناک کیا تو آروش جو خود میں ڈری سہمی بیٹھی تھی دیدار شاہ کی آواز سن کر اُس کا دل اُچھل پڑا۔

لالہ آپ بھی یہاں ہم یہاں کیوں رکے ہیں؟آروش اپنے ڈر پہ قابو پاکر بولی

باہر آؤ۔دیدار شاہ نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔آروش ایک نظر ارد گرد ڈوراتی اپنا عبایا سنبھالتی گاڑی سے باہر نکلی۔

جی۔آروش دیدار شاہ کے روبرو کھڑی ہوتی سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

وہ دیکھو تمہاری غلطی کی سزا۔دیدار شاہ نے ایک جگہ پہ اِشارہ کیا تو آروش ناسمجھی سے اُس سمت دیکھنے لگی دور ہونے کی وجہ سے پہلے تو اُس کو کجھ سمجھ نہیں آیا پر جیسے ہی اُس کی نظر یمان پہ پڑی تو حیرت نے آگھیرا تبھی دلدار شاہ نے اپنی پستول کی نال سے اُس پہ حملہ کیا تھا جس کو دیکھ کر اُس کا سانس خشک ہوگیا۔

لالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آروش کے منہ سے بے ساختہ آواز نکلی جس پہ دیدار شاہ نے زور سے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اُس کی آواز کا گلا گھونٹا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارو سالے کو۔دلدار شاہ نفرت سے اپنے ساتھیوں سے بولا تو وہ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑ کر یمان پہ ٹوٹ پڑے جب کی دلدار شاہ شیطانی نظروں سے اُس کو دیکھ کر ایک آدمی سے ڈنڈا لیکر زور سے یمان کے سر پہ مارا تو یمان کو سب کجھ گھومتا محسوس ہوا کان سائیں سائیں کرنے لگے اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑا

دور کھڑی آروش نے یہ منظر دیکھا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اُس نے خود کو دیدار شاہ کی گرفت سے نکالنا چاہا پر ناممکن سا تھا۔

چلو ذرہ سامنے نظارہ کرو۔دیدار شاہ سفاکیت سے کہتا اُس کو گھسیٹ کر لے جانے لگا۔آروش کسی ڈور کی طرح اُس کی طرف کھینچی جارہی تھی اُس کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا جو وہ دیکھ رہی ہے وہ سچ ہے بھی کے نہیں۔

لالہ ایسا کجھ نہیں جیسا آپ سب سوچ رہے ہیں وہ بے قصور ہے معصوم ہے پلیز اُس کو مت مارے۔آروش ہوش میں آتی دیدار شاہ سے منت کرنے لگی۔

خاموش رہو تم تمہارا فیصلہ بھی آج ہوگا۔دیدار شاہ نے نفرت سے اُس کے نقاب میں چُھپے چہرے کو دیکھا۔

بس۔دلدار شاہ نے اپنے ساتھیوں کو اِشارے پہ روک دیا تو وہ یمان سے دور ہوئے جو اب نڈھال حالت میں زمین پہ گِرا پڑا تھا۔آروش نے جب دیکھا تو اُس کو سب اپنا قصور لگا۔

پستول دو۔دلدار شاہ نے ایک آدمی سے کہا جو آروش نے باخوبی سن لیا۔

نہیں۔آروش کا سر نفی میں ہلنے لگا۔

دلدار شاہ سفاک بھری نظروں سے زخمی یمان کو دیکھتا پستول کا ٹریگر دبانے لگا یمان خالی اور دھندلی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا اُس کے حواس کام کرنا بند کرگئے تھے جب کی آروش اپنی سانس تک روکے کھڑی تھی۔

ٹھاہ

ٹھاہ

دلدار شاہ نے اندھا دھند اُس پہ فائرنگ کرنا شروع کردی ابھی وہ تیسری بھی کرتا جب اُس کے ساتھی نے روک لیا۔

استاد جانے دے بچ تو ویسے بھی نہیں پائے گا۔اپنے ساتھی کی بات پہ اُس کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی اُس کے طنزیہ نظروں سے یمان کو دیکھا جو زمین پہ لیٹا تڑپ رہا تھا

تین مکمل کرتا ہوں۔دلدار شاہ اتنا بول کر فائر کرنے والا تھا جب اُس کے کانوں پہ دیدار شاہ کی آواز پہ پڑی۔

لالہ یہاں آئے آروش بے ہوش ہوگئ ہے۔دیدار شاہ کی آواز پہ دلدار شاہ نے اپنے ساتھیوں کو دوسری طرف جانے کا اِشارہ کیے اور خود دیدار شاہ کی طرف بڑھا۔

یمان نے سوائے(آروش)نام کے اور کجھ نہیں سُنا تھا 

آسمان کی جانب دیکھتا وہ تڑپ رہا تھا جب اُس کو لگا اُس کا سانس رک رہا ہے تو کلما پڑھنے لگا

لَا إِلٰهَ

بند ہوتی آنکھوں کے سامنے سب سے پہلے ماں کا عکس لہرایا

 إِلَّا اللّٰهُ 

فجر کا چہرہ سامنے آیا تو اُس نے بامشکل کلمے کے الفاظ ادا کیے 

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ‎ 

خون کا ایک فوارہ اُس کے منہ سے نکلہ یمان کی آنکھوں میں سب سے آخر میں جس کا عکس آیا وہ آروش کی آنکھیں تھی اُس کے بعد یمان کو کسی چیز کا ہوش نہ رہا اُس کا وجود ڈھیلا پڑگیا تھا۔

بنا تیرے نا اِک پل ہو

نہ بن تیرے کوئی کل ہو۔

💕💕💕💕💕💕

حال!

ماہی کمرے میں تھی جب دروازہ ناک ہوا وہ بیڈ سے اُٹھ کر جیسے ہی دروازے کے پاس آکر اُس کو کھولا شبانا کو دیکھ کر اُس کے چہرے کا رنگ سفید ہوگیا۔

آپ۔ماہی اپنے ڈر پہ قابو پاکر بولی

ہاں میں تجھے کیا لگا شازل آگیا ہے تو توں اِس حویلی میں راج کرے گی کمینی۔شبانا اُس کو بالوں سے پکڑتی غرائی۔ماہی کو اپنے سر میں درد کی ٹیسیں اُٹھتی محسوس ہوئی۔

آآ پلیز چھوڑے مجھے۔ماہی نے اپنے بال آزاد کروانے چاہے۔

چھڑواکر تو دِکھا۔شبانا نے غصے میں اُس کے بالوں پہ گرفت مضبوط کی۔

پلیز مجھے درد ہورہا ہے۔ماہی کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔

لے چھوڑ دیا۔شبانا نے ایک جھٹکا دے کر اُس کو چھوڑا تو وہ نیچے فرش پہ اوندھے منہ گِر پڑی۔

بڑا آرام کرلیا کمرے میں اب کچن میں جاؤ سارا کام تم نے کرنا ہے حویلی والوں سے لیکر ملازمو تک کا کھانا تم بناؤ گی میرا بس چلو تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کے آگے کردوں گی۔شبانا ایک لت اُس کی پیٹھ پہ مارکر کمرے سے باہر چلی گئ۔

ماہی اپنا درد برداشت کرتی بھیگے چہرے کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوئی۔

دیکھو ماہی میں جانتا ہوں تم ساتھ چلنے کا کیوں بول رہی ہو پر میں ایک بات واضع کردوں اب کوئی تمہیں کجھ نہیں کہے گا ٹرسٹ می تمہیں میں ضرور ساتھ لے جاتا پر مسئلہ ہوجائے گا کیونکہ میں چاہے جو بھی کروں سب کو پتا ہے تم ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہو تمہارا حویلی سے باہر جانا بند ہے میری اِس بات کا یہ مطلب ہرگز مت سمجھنا کے تم اب ساری زندگی یہاں رہو گی میں جلد تمہیں تمہارے گھروالوں کے پاس چھوڑ آؤں گا پھر تم جیسے پہلے زندگی گُزارا کرتی تھی ویسے ہی گُزارنا۔

شازل کی بات یاد آنے کے بعد اُس کے چہرے پہ طنزیہ بھرے تاثرات آئے۔

کوئی کجھ بھی کہے ہوں تو میں ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی۔بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی وہ خود پہ ہنسی۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہاں اتنا رش کیوں ہے لالہ؟آروش شازل کے ساتھ آئی تو ہسپتال کے باہر اتنی بھیڑ دیکھ کر شازل سے پوچھا

ڈونٹ نو۔شازل نے کندھے اُچکائے

ہم اندر کیسے جائے گے؟آروش نے پوچھا

دوسرا راستہ ہوگا وہاں سے۔شازل نے کجھ سوچ کر بتایا

اچھا۔آروش نے بس اتنا کہا

ایک منٹ میں ذرہ پوچھ آؤں کے لوگ کھڑے کیوں ہیں اتنے کیا ہسپتال کے باہر جلسہ ہونے والا ہے۔شازل اپنی ڈاڑھی کُھجاتا مزاحیہ انداز میں بولا

چھوڑے لالہ ہمارا کیا ہم دوسرے دروازے سے جاتے ہیں۔آروش نے شازل کی بات سن کر کہا

ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔شازل کو اُس کی بات ٹھیک لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شکر اللہ کا تمہیں ہوش آگیا۔نور جو یمان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اُس کو آنکھیں کھولتا دیکھا تو شکرادا کرنے والے انداز میں کہا جب کی یمان سپاٹ تاثرات کے ساتھ جوں کا توں لیٹا ہوا تھا۔

یمان اِٹس می نور۔نور نے اُس کو خاموش دیکھا تو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا

پیشنٹ سے اتنی باتیں مت کریں۔پاس کھڑی نرس نے نور سے کہا تو اُس نے سر کو ہاں میں جنبش دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلاور خان فون پہ بات کرتے آرہے تھے جب اُن کا تصادم کسی لڑکی سے ہوا۔

سوری۔آروش جو نظریں نیچے کیے ہوئے آرہی تھی فورن سے معذرت خواہ ہوئی۔

کوئی بات نہیں بیٹا۔دلاور خان نے شفقت بھرا ہاتھ اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو آروش نے نظریں اُٹھا کر اُن کو دیکھا پھر کجھ قدم دور لیکر وہاں سے دوسرے راستے چلی گئ جب کی دلاور خان کجھ پل کے لیے ساکت ہوئے تھے۔

ڈیڈ کم یمان کو ہوش آگیا ہے۔نور کی آواز سن کر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئے۔

ہممم چلو۔دلاور خان نے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لالہ ہم اتنے بڑے ہسپتال کیوں آئے ہیں؟شازل آروش کو ایک ڈاکٹر کے کیبن لایا تو آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی۔

یہاں میرا دوست ہے اُس سے ملنے آیا تھا تمہیں کہی اکیلا چھوڑ تو نہیں سکتا نہ۔شازل نے مسکراکر بتایا

وہی میں سوچو ایک بخار کے لیے آپ مجھے دل کے ڈاکٹر کے پاس کیوں لیکر آگئے اور آپ مجھے گھر ڈراب کردیتے جو یہاں آپ کا ہے۔آروش نے ساری بات سمجھ آنے کے بعد کہا تو اُس کی پہلی بات پہ شازل مسکرایا

اب تو آگئے ہیں نہ تم یہاں بیٹھو میں آتا ہوں ویسے بھی یہ ڈاکٹر دلشاد کا کیبن ہے تو پریشان مت ہو نہ۔شازل کھڑے ہوکر بولا۔

جلدی کیجیے گا مجھے یہاں اچھا فیل نہیں ہورہا۔آروش نے کہا۔

ڈونٹ وری میں جلدی آؤں گا۔شازل نے تسلی بخش جواب دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

سوپ پورا پینا پڑے گا۔مسز دلاور نے مصنوعی سخت لہجے میں یمان سے کہا

میرا دل نہیں چاہ رہا۔یمان بُرا منہ بناکر بولا

خان آپ ہی اِس کو سمجھائے۔مسز دلاور شکایت بھرے لہجے میں دلاور خان سے بولی جو جانے کِن سوچو میں گم تھے۔اِس لیے اُن کی بات سن نہیں پائے۔

ڈیڈ موم آپ سے بات کررہی ہیں۔نور نے اُن کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا تو جیسے وہ نیند سے جاگے۔

ہاں کیا کہا؟دلاور خان نے پوچھا تو یمان نے گردن موڑ کر اُن کو دیکھا تو یمان کو آج وہ کجھ ڈسٹرب لگے وجہ وہ خود کو سمجھنے لگا۔

میں کہہ رہی تھی یمان سوپ نہیں پی رہا تھا دیکھو کتنا کمزور ہوگیا ہے اُپر سے اِس کی خود پہ ایسی لاپرواہی۔مسز دلاور نے بتایا

یمان سوپ سارا ختم کرو۔دلاور خان نے نرمی سے اُس کو مخاطب کیا۔

بعد میں۔یمان کی ایک ہی رٹ پہ وہ بھی خاموش اختیار کرگئے۔

اچھا مجھے ذرہ ڈاکٹر دلشاد سے کام ہے تو میں آتی ہوں۔نور موبائل اسکرین کو دیکھ کر اُن سے بولی

تمہیں آرام کرنا چاہیے۔مسز دلاور یمان کی پیشانی چومتی اُس سے بولی

گھر کب جائے گے؟یمان نے سوال کیا

ابھی کجھ دن تو یہی رہنا پڑے گا جب تک تم مکمل طور پہ صحت یاب نہیں ہوجاتے۔مسز دلاور نے کہا

میں ٹھیک ہوں اب۔یمان نے کہا

تمہیں ابھی ٹھیک ہونا ہے۔اب کی دلاور خان نے کہا تو یمان اپنے ہونٹوں کو بھینچ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم!مجھے رپورٹس چاہیے تھی۔نور ڈاکٹر دلشاد کے کیبن میں آکر بولی۔

وعلیکم السلام !مسٹر یمان کی رپورٹس تو ارمان لیکر گیا ہے۔ڈاکٹر دلشاد نے مسکراکر بتایا۔

یمان نام پہ آروش چونک پڑی تھی۔

اچھا ٹھیک ہے۔نور ایک نظر عبائے میں ملبوس آروش پہ ڈال کر بولی۔

آروش نے اُس کو دیکھا تو ایسا محسوس کرنے لگی جیسے یہ چہرہ وہ پہلے بھی دیکھ چُکی ہو

آروش کو ہسپتال کے باہر بھیڑ یاد آئی پھر یمان کا نام سن کر اُس کے اندر سوالات اُبھرے جس کا جواب سامنے بیٹھی ڈاکٹر دے سکتی تھی۔

ایکسکیوز می ڈاکٹر

ابھی آروش اتنا بولی تھی جب شازل اندر داخل ہوا۔

آرو چلو۔شازل نے کہا

جی لالہ۔آروش دل مسوس کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

💕💕💕💕💕💕💕

دُر لالہ کیسے ہیں آپ ہمیں کال ہی نہیں کرتے ہم ناراض ہیں آپ سے۔حریم دُرید شاہ کو کال کرکے ناراض لہجے میں بولی

مصروف تھا ورنہ تمہیں تو میں لازمی کال کرتا ہوں۔دُرید شاہ اُس کی ناراضگی محسوس کرتا زِیر لب مسکرایا

ہم نے کہا ہم آپ سے ناراض ہیں۔حریم نے ایک بار پھر کہا

تو بتائے پھر آپ کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟دُرید اُس کے انداز میں بات کرنے لگا۔

آپ ہمیں طوطا مینا لاکر دے۔حریم نے اِتراکر کہا

فائدہ دوسرے دن تم نے ویسے ہی اُن کو آزاد کردینا ہے۔دُرید اُس کی بات سن کر بولا

آپ لاکر دینگے یا نہیں۔حریم نے پھر سے ناراض لہجہ اپنایا۔

اوکے میں لاکر دوں گا پر ابھی تم ایکزامز میں فوکس کرو۔دُرید شاہ نے کہا

وہ تو ہم کررہے ہیں۔حریم نے مُنہ بناکر کہا۔

💕💕💕💕💕💕

کجھ دن بعد!

یمان کو آج ہسپتال سے ڈسچارج مل گیا تھا جس وجہ سے وہ اب اپنے گھر جارہا تھا۔دوسری طرف شازل شاہ اور آروش شاہ بھی آج اپنے گاؤں جارہے تھے شازل ایک بار پھر ماہی کو فراموش کر بیٹھا تھا کیونکہ یہاں اُس کا اپنا ایک ضروری کام تھا جس وجہ سے وہ آروش کو گاؤں حویلی میں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

افففف اتنا ٹریفک۔شازل گاڑی کو بریک لگاتا اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہتا آس پاس دیکھنے لگا۔پچھلی سیٹ پہ آنکھیں موندے بیٹھی آروش نے مسکراکر شازل کو دیکھا جس کو گاؤں جانے کی جلدی تھی۔

گاڑی کیوں روک دی؟یمان جو جانے کن سوچو میں گم تھا گاڑی کو رُکتا دیکھا تو گاڑی ڈرائیو کرتے ارمان سے کہا

سر ٹریفک۔ارمان نے اُس کو آس پاس ہوش دلایا تو اُس نے گہری سانس خارج کرکے دوبارہ سے اپنی سوچو میں گم ہوگیا اگر وہ ونڈو سے باہر نظر ڈالتا تو اُس کو پتا لگتا جس کو وہ سوچ رہا ہے وہ آج کجھ قدم کی دوری پہ تھی۔

یہاں آکر پتا نہیں میرے دل کو چین کیوں نہیں۔آروش نے گہری سانس اندر کھینچتی خود سے سوال کرنے لگی جس کا جواب اُس کے پاس موجود نہیں تھا۔

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے سُننے والا سحر میں جکڑ جاتا ہے۔

آنکھوں کے سامنے ریڈ کلر کی چٹ لہرائی تو ہمیشہ کی طرح اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔بیک مرر سے ارمان نے حیرت سے اُس کی مسکراہٹ کو دیکھا تھا۔

یمان اپنی آنکھیں کھولتا ونڈو کے باہر دیکھنے لگا تو اُس کی نظر ایک گاڑی پہ پڑی جس کا دروازہ تو بند تھا مگر دروازے کے بیچ کسی لڑکی عبایا اٹک ہوا تھا۔

کتنے لاپرواہ ہیں لوگ۔یمان غور سے صرف عبائے کی جانب دیکھتا بس سوچ سکا تبھی سگنل کُھل گئے جس کا پتا یمان کو نہیں ہوا تھا۔

ارمان باہر جاکر اُن سے کہو گاڑی کا دروازہ کھول کر دوبارہ سے بند کرے۔یمان کی اچانک بات پہ ارمان چونک کر آس پاس دیکھنے لگا۔

کہاں سر؟ارمان کو سمجھ نہیں آیا۔

وہاں وہ بلیک کلر کی جو گاڑی ہے۔یمان اُس کو بتاتا اُس سے پہلے عین ونڈو کی جانب دیکھتا وہ گاڑی سٹارٹ ہوچکی تھی۔

سر جانے دے ہم چلتے ہیں۔اپنے پیچھے مسلسل ہوتی گاڑیوں کے ہارن کی آواز سن کر ارمان نے بھی گاڑی سٹارٹ کردی۔یمان کی آنکھوں سے وہ بلیک کلر کی گاڑی اوجھل گئ جس پہ جانے کیوں وہ بُرا محسوس کرنے لگا۔

کہاں گئ وہ گاڑی؟یمان ونڈو سے باہر دیکھتا بڑبڑایا۔

آپ پریشان مت ہو جس لڑکی کا عبایا ہوگا اُس نے ٹھیک کردیا ہوگا۔ارمان نے اُس کو بڑبڑاتا دیکھا تو کہا جس پہ یمان نے محض سر کو جنبش دی 

💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

سر گاڑی آگے نہیں جاسکتی۔گاڑی ڈرائیو کرتے ڈرائیور نے بیک مرر سے اپنے مالک کو دیکھ کر کہا جس کا پورا دھیان اپنے سیل فون پہ تھا

کیوں؟۔سیل فون سے سر اُٹھا کر اُس نے چونک کر پوچھا۔

سر روڈ پہ کوئی بے ہوش پڑا ہے۔ڈرائیور نے بتایا

او گوڈ پھر تو ہمیں چیک کرنا چاہیے اُس کو مدد کی کی ضرورت ہوگی۔پیچھے بیٹھا آدمی اُس کی بات سن کر یکدم گاڑی سے باہر آیا

دلاور صاحب یہ کسی بھی ساز

ڈرائیور کے الفاظ منہ ہی رہ گئے جب اُس نے نیچے لیٹے وجود کو خون میں لت پت دیکھا

او مائے گوڈ اِس بچے کو تو کسی نے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔دلاور خان یمان کو دیکھتا پریشانی کے عالم میں بولا

سر اب تو مرگیا ہوگا۔ڈرائیور نے کہا تو دلاور خان نے اُس کی سانسیں چیک کی جو بہت مدھم چل رہی تھی۔

ہی از لائیو اِس کو جلدی سے ہسپتال لیکر جانا ہوگا تم گاڑی سٹارٹ کرو میں اِس کو لیکر آتا ہوں۔دلاور خان نے کہا

پر سر۔

جو کہا ہے وہ کرو ہری اپ ہمارے پاس وقت کم ہے۔دلاور خان اُس کی بات کاٹ کر بولا تو ڈرائیور گاڑی کی جانب بڑھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ پیشنٹ کے کیا لگتے ہیں؟ڈاکٹر عروج دلدار شاہ اور دیدار شاہ کو مشکوک نظروں سے دیکھ کر پوچھنے لگی۔

بہن ہے ہماری کیا ہوا ہے اُس کو۔دلدار شاہ کرخت آواز میں پوچھنے لگے۔

اُن کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا اگر آپ کجھ منٹ دیر کرتے تو وہ جان کی بازی بھی ہار سکتی تھی۔ڈاکٹر کی بات پہ اُن دونوں کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگی۔

اب وہ کیسی ہے؟دلدار شاہ نے ہمت کرکے پوچھا

ناؤ شی از فائن پر ابھی اُن کو ایک دو دن یہی رہنا ہوگا۔ڈاکٹر جواب دے کر چلی گئ۔

چاچا جان کو ابھی سارے قصے کا پتا نہیں اگر آج کے واقعے کا اُن کو معلوم ہوا تو وہ ہماری بوٹی بوٹی کردینگے۔دیدار شاہ پریشانی کے عالم میں دلدار شاہ سے بولنے لگا جس کی نظریں  سامنے آتے شھباز شاہ اُور اُس کے خاص آدمی پہ تھی۔

لالہ چاچا جان۔دیدار شاہ کا خون خشک ہوا جب اُس کی بھی نظر شھباز شاہ پہ پڑی۔

چاچا جان و

چٹاخ

چٹاخ

دلدار شاہ نے کجھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب شھباز شاہ طیش میں آتے در پہ در تھپڑ اُس کے چہرے پہ جڑدیئے۔

مجھے بتایا کیوں نہیں۔شھباز شاہ دونوں پہ سخت نظریں گاڑھ کر بولے

موقع نہیں ملا

چٹاخ

دیدار شاہ نے بس اتنا کہا تھا جب شھباز نے اُس کے چہرے پہ بھی تھپڑ مارا جس پہ وہ دونوں بس ضبط کرتے رہ گئے۔

جانتے ہو نہ تم دونوں آروش ہمارے لیے کیا ہے پھر اِس گستاخی کی وجہ۔شھباز شاہ غرائے

معاف کردے۔دلدار شاہ نے سرجھکائے کہا

معافی۔شھباز شاہ تحقیر آمیز نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔

آروش ٹھیک ہوجائے اُس کے بعد تم سب کا فیصلہ ہوگا۔شھباز شاہ ہسپتال کا خیال کیے خود پہ ضبط کرنے لگے۔

قصوروار آروش

خاموش۔

دلدار شاہ کجھ کہنے والا تھا آروش کے بارے میں جب شھباز شاہ نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر وارن کیا تو ناچار اُن کو چپ ہونا پڑا۔

میری بیٹی کو اب تک ہوش کیوں نہیں آرہا؟شھباز شاہ سنجیدہ بھرے لہجے میں ڈاکٹر کے کیبن میں آکر استفسار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر تک آجائے گا۔ڈاکٹر پروفیشن انداز میں بتانے لگی۔

کب تک؟شھباز شاہ نے پوچھا

ایک دو گھنٹے تک۔ڈاکٹر نے بتایا

صبح سے رات ہونے والی ہے اب بھی آپ ایک دو گھنٹہ بول رہی ہیں۔شھباز شاہ تیز آواز میں بولے

دیکھے اُن کا نروس بریک ڈاؤں ہوا تھا وہ زندہ ہے اِسی بات پہ فلحال آپ کو شکر گُزار ہونا چاہیے باقی اُن کو ہوش جلدی آجائے گا۔ڈاکٹر نے گہری سانس خارج کرکے کہا تو شھباز شاہ کجھ پرسکون ہوئے۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیسا ہے وہ؟دلاور خان نے ڈاکٹر کو ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلتا دیکھا تو پوچھا

یہ پولیس کیس تھا پر ہم نے آپ کی وجہ سے اُن کو ایڈمٹ کرلیا ہے پر اُن کی کنڈیشن ایسی نہیں کے وہ سروائیو کرپائے۔ڈاکٹر گہری سانس کھینچ کر بولے

آپ ڈاکٹر ہوکر ایسی نااُمیدوں والی باتیں کیوں کررہے ہیں؟دلاور خان کو اُن کی بات پسند نہیں آئی۔

ہم بس آپ کو پہلے سے ہر خبر کے لیے آگاہ کرنا چاہتے ہیں اُن کے سر پہ گہری چوٹیں آئی ہیں وہ ہم اگر نظرانداز کرے تو بتاتے چلے دل کے عین پاس سینے میں اُن کو گولی لگی ہے اگر تھوڑا نشانہ درست ثابت ہوتا گولی دل پہ لگتی تب تو وہ اُسی وقت مرجاتے ہیں لیکن بچاؤ ہوگیا پر زیادہ تر وہ زندہ نہیں رہ پائے گا سر میں لگی چوٹ کی وجہ سے وہ کومہ میں بھی جاسکتے ہیں پھر وہاں اُن کو ہوش آتا ہے یا نہیں یہ بعد کی باتیں ہیں۔ڈاکٹر کا انداز خاصا پروفیشنل تھا

آپ پلیز اُن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں اُن کا آپریشن کرے تاکہ وہ جلد صحتیاب ہوجائے۔دلاور خان پریشانی سے بولے

جہاں تک ہمیں علم ہیں آپ میڈیا سے ہر وقت رابطے میں ہوتے ہیں آپ کا تو کوئی شاید بیٹا نہیں پھر یہ کون ہے؟ڈاکٹر نے جاننا چاہا

یہ میرا بیٹا ہے باہر رہتا تھا اب آیا تو ایسا حادثہ پیش آگیا۔دلاور خان کو نہیں تھا پتا وہ ایسا کیوں بول گئے پر یہ بات سچ تھی وہ بنا کسی رشتے کے یمان کے لیے فکرمند ہوگئے تھے۔

اوو افسوس ہوا سن کر ہم نے گولی تو خیر سے نکال دی ہے پر ابھی وہ خطرے سے باہر نہیں آپ دعا کریں کیونکہ اُن کو دعا کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر ساری بات سننے کے بعد بولا۔

جی وہ ہم کرینگے۔دلاور خان نے کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ٹھاہ

یمان۔بیہوشی کی حالت میں بھی گُزرا ہوا واقع آنکھوں کے سامنے لہرایا تو آروش جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھ بیٹھی۔

آپ ریسٹ کریں۔پاس کھڑی نرس نے آہستہ سے کہا تو آروش ناسمجھی سے آس پاس نظر گھمانے لگی۔

میں کہاں ہوں۔آروش اپنا سر پکڑ کر بولی

آپ ہسپتال میں ہیں اور پلیز اپنے دماغ میں زیادہ زور مت ڈالے یہ آپ کے لیے ٹھیک نہیں۔نرس نے نرمی سے کہا

مجھے کیا ہوا تھا؟آروش نے پتھرائی نظروں سے اُس کو دیکھ کر دوسرا سوال کیا۔

نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا آپ کا خوشقسمت ہیں جو آپ بچ گئ ورنہ ایسی صورتحال میں یا انسان پاگل ہوجاتا ہے یا مرجاتا ہے۔نرس نے بتایا تو آروش کو شدید حیرانی کا جھٹکا لگا۔

ایسا کیسا ہوسکتا ہے۔وہ پریشانی سے بڑبڑائی

آپ لیٹے میں آپ کے فادر کو انفارم کردیتی ہوں کل سے انہوں نے سارا ہسپتال سر پہ اُٹھالیا ہے کے اُن کی بیٹی کو ہوش کیوں نہیں آرہا۔نرس اُس کو سونے کا اِشارہ کرتی خود باہر جانے لگی۔

میرے بابا سائیں سے کہے وہ اندر آئیں مجھے اُن سے بات کرنی ہے۔اپنے باپ کا سن کر آروش جذباتی ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا سائیں۔شھباز شاہ اُس کے کمرے میں آئے تو آروش نے روتے ہوئے اُن کا نام لیا۔

کیا ہوا میرے بچے روتے نہیں۔شھباز شاہ جلدی سے اُس تک پہنچ کر سینے سے لگایا۔

بابا سائیں لالہ والوں نے اُس معصوم کا ماردیا ہماری نظروں کے سامنے۔آروش اُن نے سینے میں چہرہ چُھپاتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔آروش کی ایسی حالت دیکھ کر شھباز شاہ کو بے اختیار دلدار شاہ اور دیدار شاہ پہ غصہ آیا۔

بھول جاؤ۔شھباز شاہ اُس کے بال سنوارتے بولے

بھول جاؤ بابا سائیں کیسے بھول جاؤ اُن سب نے مل کر اُس بے چارے کو بے دردی سے مارا اور آپ کہہ رہے ہیں میں بھول جاؤ۔آروش اُن سے الگ ہوتی بے یقین نظروں سے اُن کا چہرہ دیکھنے لگی۔

اُس نے جو کیا تھا یہ اُس کی سزا تھی۔شھباز شاہ سنگدلی سے بولے

بابا سائیں۔آروش کے گلے سے آواز نکلنا بند ہوئی وہ بُت بنی اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے لگی جو سپاٹ سرد تھا جیسے اُس کی باتوں سے اُن پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں آرام کرو تاکہ جلدی ٹھیک ہوجاؤ فضول باتوں کو سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔شھباز شاہ اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر بولے۔

وہ بے قصور تھا بابا سائیں۔آروش کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

تمہاری اماں سائیں بھی آتی ہوگی انہیں کجھ مت بتائیے گا۔شھباز شاہ نے اُس کی بات نظرانداز کی۔

میں ہمیشہ اِس پچھتاوے میں زندگی نہیں گُزار سکتی کے کس کی جان میری وجہ سے گئ۔آروش ٹوٹے لہجے میں بولی

تمہاری وجہ سے کجھ نہیں ہوا۔شھباز شاہ نے کہا

میری وجہ سے ہوا ہے آپ پلیز مجھے اُس سے ملنے دے پتا نہیں کیسا ہوگا وہ کوئی اُس کو ہسپتال لیکر گیا بھی ہوگا یا نہیں۔آروش کسی خیال کے تحت یکدم منت کرنے لگی

آروش۔شھباز شاہ اب کی سخت ہوئے

وہ کمینہ تو مرگیا ہوگا اگر نہیں تو ہمیں مارنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔دلدار شاہ اچانک اندر داخل ہوتا آروش کی بات سن کر غصے سے بولا

پلیز اللہ کا واسطہ ہے اب تو آپ اُس کو چھوڑدے اُس کو کجھ مت کرئیے گا میں ہر بات مانوں گی آپ کو پر اُس کو مت مارے اللہ سے ڈرے کیا بِگاڑا ہے اُس نے سب میری غلطی ہے اُس کا کوئی قصور نہیں۔آروش دلدار شاہ کو دیکھتی رو کر التجا کرنے لگی اُس کی ایسی حالت پہ شھباز شاہ کا دل کٹ کے رہ گیا۔

ضد نہیں کرو۔شھباز شاہ نے کہا

چاچا سائیں آپ اب بھی اِسکے ساتھ نرمی سے پیش آرہے ہیں جب کی آپ کو پتا ہونا چاہیے غلطی آروش کی بھی ہے سزا کی حقدار وہ بھی ہے۔دلدار شاہ پھٹ پڑا

باہر جاؤ اور ہسپتال کے ڈیوز جمع کرواؤ۔شھباز شاہ نے سخت لہجے میں کہا تو دلدار شاہ ایک نفرت بھری نظر آروش پہ ڈال کر چلاگیا۔ 

بابا سائیں میری بات کا یقین کریں

سوجاؤ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔شھباز شاہ اُس کی بات بیچ میں کاٹ کر اُس کے اُپر چادر ٹھیک کرنے لگے۔

💕💕💕💕💕💕

پتا نہیں میرا یمان کیسا ہوگا؟فائزہ بیگم اپنے آنسو صاف کرتی نم لہجے میں بولی

بابا نے ٹھیک نہیں کیا اتنی صبح کے وقت یوں غصے میں آکر یمان کو باہر جانے کا کہا جب کی وہ یہ بات جانتے تھے کے ان کو دھمکیاں دیتے تھے کجھ لوگ۔عیشا افسوس بھرے لہجے میں بولی۔

جب سے یمان گیا تھا اُن کا سک چین غائب ہوگیا تھا فجر نے اپنا حال بُرا کردیا تھا وہ مایوں میں تھی اُس کی شادی ہونے والی تھی پر اُس کا اکلوتہ بھائی نہیں تھا جانے کہاں چلا گیا تھا اب اُس پہ قرآن کا سایہ کرکے کون رخصت کرے گا یمان کا یوں گمشدہ ہوجانا سب کو پریشانی میں ڈال گیا تھا ارسم اپنی طرف سے اُس کو تلاش کررہا تھا پر ابھی تک کوئی سراخ نہیں ملا تھا فائزہ بیگم نے مستقیم صاحب سے بات کرنا ختم کردی تھی وہ اب بیمار رہنے لگی تھی ہر وقت بُرے برے خیالات آتے یمان کے مطلق جس وجہ سے انہوں نے کھانا پینا تک چھوڑدیا تھا۔

اماں پلیز یمان کو لادے۔فجر فائزہ بیگم کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ کر التجا کرنے لگی۔

میں کہاں سے لاؤ میری بچی میرا اپنا دل اُس کے لیے تڑپ رہا ہے جانے کیسا ہوگا میرا بچہ کس حال میں ہوگا۔فائزہ بیگم کے کلیجے میں ہاتھ پڑا تھا۔

بچہ نہیں تھا سترہ اٹھارہ سال کا بالغ لڑکا تھا کرلیا ہوگا تلاش اپنے لیے اُس نے کوئی ٹھکانا۔مستقیم صاحب گھر میں اندر داخل ہوتے ہوئے سرد لہجے میں بولا

کیسے باپ ہیں آپ تھوڑی سی بھی فکر نہیں اپنے جوان بیٹے کی۔فائزہ بیگم کا دل دکھا۔

اُس جوان بیٹے کو خیال تھا اپنے بوڑھے ماں باپ اور جوان بہنوں کا۔مستقیم صاحب نے تیز آواز میں پوچھا

نادان تھا وہ اُس کو یوں گھر سے باہر کرنا ٹھیک نہیں تھا۔فجر نے آہستہ میں کہا

خود اپنی مرضی سے گیا تھا بھوت سوار تھا اُس کے سر پہ عشق کا۔مستقیم صاحب سر جھٹک کر بولے

آپ نے اُس کا گِٹار تک توڑ دیا آپ کو پتا ہے نہ اُس کے لیے گِٹار کتنا ضروری تھا۔عیشا نے نم لہجے میں باپ سے شکوہ کیا۔

اُس کو ہر چیز عزیز ہے سوائے ہمارے۔ مستقیم صاحب غصے سے کہہ کر چلے گئے۔فائزہ بیگم کی آس بھری نظریں داخلی دروازے پہ ٹِک سی گئ تھی۔تھوڑی سی بھی آہٹ ہوتی تو اُن کو لگتا یمان آگیا ہے پر ایسا کجھ نہیں ہوتا تھا جانے وہ کہاں اور کیوں چلاگیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ عرصے بعد!

دلاور اِس بچے کو ابھی تک ہوش کیوں نہیں آرہا؟مسز دلاور مختلف مشینوں میں جکڑے چت بیڈ پہ لیٹے یمان کو دیکھتی دلاور خان سے پوچھنے لگی جو خود یمان کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھے۔

کومہ میں چلاگیا ہے دعا کرو بس جلدی سے اِس کو ہوش آجائے پتا نہیں کون ہے اِس کے گھروالے کتنے پریشان ہوگے اپنے بچے کے لیے۔دلاور خان نے کہا

کتنے بے رحم لوگ تھے جو اِس بچے کو مارا۔مسز دلاور افسوس سے بولی

بس شکر ہے اللہ کا اِس کی سانسیں چل رہی ہیں۔دلاور خان نے کہا

ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟مسز دلاور نے پوچھا

یہی کے سر پہ آئی گہری چوٹ نے اُس کے دماغ میں گہرا اثر چھوڑا ہے ہوش آ بھی جاتا ہے تو اِس نے وقت پہ پروپر میڈیسن لینی ہے ورنہ دماغ کی نس پھٹ بھی سکتی ہے۔دلاور خان نے بتایا

اور جو آپریشن ہوا تھا۔مسز دلاور نے پوچھا

جب یہ کومہ سے باہر آئے گا تب معلوم ہوگی اِس کی کنڈیشن ٹھیک سے شاید یہ لڑکا اپنی یاداشت بھول سکتا ہے یا اپنا ذہنی توازن ایک اور آپریشن ہوگا کیا پتا پھر سب کجھ ٹھیک ہوجائے۔دلاور خان نے اپنی معلومات کے حساب سے بتایا۔

جو بھی پر اب میں اِس کو کہی جانے نہیں دوں گی عجیب سے انسیت اور لگاؤ محسوس ہورہا ہے۔مسز دلاور آہستہ سے یمان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی بولی تو دلاور خان محض اُن کی بات پہ سرہلاتے رہ گئے وہ جانتے تھے یمان چھوٹا تھا پر اتنا بھی نہیں کے وہ اپنے ماں باپ کو بھول کر کسی اور کے ساتھ رہنے لگ جاتا۔

💕💕💕💕💕💕💕

اماں جان پلیز مجھے ایک مرتبہ ملنے کی اجازت دے میں مرجاؤں گی خدارا مجھ پہ رحم کریں۔

جب سے کلثوم بیگم اُس کے پاس ہسپتال آئی تھی یہ بات جانے وہ کتنی بار کہہ چُکی تھی پر کوئی بھی اُس کی فریاد سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

آروش شرم کرو کیوں خود کو جہنمی بنارہی ہو نامحرم کے پیچھے تمہیں کیا اِس لیے شہر پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔کلثوم بیگم اُس کی ایک ہی رٹ پہ تنگ آکر بولی

آپ سب کو ہو کیا گیا ہے ایسا کجھ نہیں ہے وہ بے قصور تھا اُس کے ساتھ ایسا کیوں کیا آپ لوگوں نے۔آروش بھیگے چہرے سے اُن کو دیکھ کر بولی ایک سیکنڈ کے لیے بھی اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنا ختم نہیں ہوئے تھے یہ خیال اُس کو پل پل مار رہا تھا کے اُس کی وجہ سے کسی کے ساتھ اتنا بُرا ہوا تھا۔

مرگیا ہے وہ اب قبر میں ہوگا کیا کروں گی مل کر۔کلثوم بیگم نے اُس پہ دھماکا کیا۔

مرگیا؟آروش ساکت سی اپنی ماں کا چہرہ دیکھنے لگی اُس کو اپنی سماعتوں پہ یقین کرنا مشکل لگ رہا تھا۔

یہ آپ کیا بول رہی ہیں ایسا کجھ نہیں ہے۔آروش نفی میں سرہلانے لگی۔

تمہیں کیا لگتا ہے جیسا حال اُس کا کیا گیا تھا وہ اب تک زندہ ہوگا؟۔کلثوم بیگم نے طنزیہ سوال کیا۔

میں قاتل ہوں 

میں قاتل ہوں

میں ایک بے قصور انسان کی قاتل ہوں یااللہ یہ مجھ سے کیا ہوگیا میں نے قتل کردیا اُس کا اُس کے جذبات کا اُس کے احساسات کا مجھے بھی مرجانا چاہیے میں کیوں زندہ ہوں۔آروش پاگلوں کی طرح ہاتھ میں لگی ڈرپ کو کھینچنے لگی تو وہاں سے خون رسنے لگا پر وہ ہر چیز سے لاپرواہ اپنے بال نوچنے لگی۔کلثوم بیگم اُس کو رُکنے کی کوشش کرنے لگی پر آروش کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا اُس کے سر پہ جنون سوار ہوگیا تھا خود کو ختم کرنے کا جب آروش اُن کے کنٹرول میں نہ آئی تو کلثوم بیگم تیز آواز میں نرس اور ڈاکٹرز کو آوازیں لگانے لگی جو جلدی سے اندر آگئ تھیں۔

آپ سے ہم نے کہا تھا کوئی اسٹریس والی بات مت کیجیے گا کیوں اِن کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔دو نرسز آروش کو کنٹرول کرتی بیہوشی کا انجیکشن لگانے لگی تبھی اُن کو دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر نے کلثوم بیگم سے کہا جن کا دل بھر آیا تھا اپنی بیٹی کا ایسا پاگل پن دیکھ کر اِس لیے وہ بنا کجھ کہے کمرے سے باہر چلی گئ۔

شاہ صاحب۔کلثوم بیگم کوریڈور میں آئی تو شھباز شاہ نظر آیا تبھی وہ اُن کے پاس آکر آواز دینی لگی۔

ہممم کیا ہوا۔شھباز شاہ نے پوچھا

وہ مرجائے گی آپ خدا کے واسطے کجھ کریں اُس کو ابھی دورہ پڑا تھا اگر ایسا رہا تو وہ پاگل ہوجائے گی۔کلثوم بھیگے لہجے میں کہتی اُن کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی۔

یہ سب دلدار اور دیدار شاہ کی وجہ سے ہوا ہے آج ہماری بیٹی اگر اِس حال میں ہے تو اُس سب کا ذمیدار وہ دونوں ہیں اگر ان کو یہ سب کرنا تھا تو خاموشی سے کرجاتے آروش کی نظروں کے سامنے کیوں کیا میں ان کو چھوڑوں گا نہیں بس آروش ایک دفع ٹھیک ہوجائے۔شھباز شاہ غصے سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بولے

یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے آپ اُس لڑکے والوں کے پاس لیکر جائے آروش کو کیا پتا وہاں سے کوئی تسلی آمیز بات سن کر آروش ٹھیک ہوجائے وہ خود کو قاتل سمجھتی ہے یہی وجہ ہے جس وجہ سے وہ اپنا ہوش کھو بیٹھتی ہے۔کلثوم بیگم نے التجا کی 

میں بتادوں گا آروش کو۔شھباز شاہ اُن کی بات سن کر بولے

وہ یقین نہیں کرے گی تب تک جب تک خود اپنے کانوں سے سن نہ لے۔کلثوم بیگم نے جلدی سے کہا

میں کرتا ہوں کجھ آروش کو گاؤں لیکر جانا ہے اور اُن سب سے حساب بھی لینا ہے جس وجہ سے میری بیٹی کا یہ حال ہوا ہے۔شھباز شاہ پرسوچ لہجے میں بولے تو کلثوم بیگم خاموش ہوگئ اُن کو فلحال آروش کی فکر تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آج فجر رخصت ہوکر ارسم کے گھر آئی تھی وہ بیڈ پہ بیٹھی انتظار تو ارسم کا کررہی تھی پر اُس کی سوچو کا محو یمان کی جانب تھا تبھی کلک کی آواز سے ارسم دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔

میں جانتا ہوں تم یمان کی وجہ سے پریشان ہو۔ارسم بیڈ پہ اُس کے سامنے بیٹھتا اُس کے ہاتھ تھام کر بولا

کیا مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے؟فجر اُس کی جانب دیکھ کر بولی

بلکل ہونا چاہیے تمہاری بھائی ہے میں نے تو بہت کوشش کی پر پتا نہیں وہ کہاں غائب ہوگیا۔ارسم گہری سانس کھینچ کر بولا

میری دعا ہے وہ جہاں بھی صحیح سلامت ہو۔فجر دعائیہ انداز میں بولی۔

وہ ٹھیک ہوگا اب اپنا موڈ ٹھیک کرو ہماری زندگی کا خوبصورت دن ہے آج۔ارسم اُس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اُپر کیے بولا تو فجر زبردستی مسکرائی۔

میں چینج کرلوں۔فجر نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ الگ کیے کہا

شیور۔ارسم نے مسکراکر کہا تو وہ اُٹھ کر واشروم کی جانب چلی گئ۔

دس منٹ بعد وہ واپس آئی تو کمرے میں اندھیرہ تھا وہ سمجھ گئ ارسم سوگیا ہوگا اِس لیے آہستہ قدم اُٹھاتی وہ بیڈ کی جانب آکر ایک سائیڈ پہ لیٹنے لگی۔

میں ایک بار پھر سے کوشش کروں گا یمان کا پتا لگوانے میں بس تم پریشان ہونا ختم کردو مجھے تم مسکراتی ہوئی اچھی لگتی ہو۔فجر کو لیٹے ابھی کجھ منٹس ہوئے تھے جب ارسم اُس کو اپنی جانب کرتا اُس کا سر اپنے سینے پہ رکھ کر محبت بھرے انداز میں بولا

آپ بہت اچھے ہیں مجھے نہیں تھا پتا میں جس سے شادی کرنے جارہی ہو وہ اتنا اچھا ہوگا اور میرا اتنا خیال کرے گا۔ارسم کی بات اُس کا لہجہ فجر کو سکون پہنچارہا تھا تبھی وہ دل میں آئی بات زبان پہ لائی 

ہاہاہا میں جانتا تھا تمہارے خیالات کے بارے میں تبھی تو تم نے میرا پرپوزل ٹھکرادیا تھا۔ارسم اُس کی بات سن کر ہنس کر بولا

ہممم انکار کیا تھا کیونکہ آپ شادی شدہ تھے عمر میں بھی بڑے تھے اور ایک اہم بات یہ کے آپ کے بارے میں باتیں بھی کافی مشکوک سنتی تھی اِس لیے آپ کے لیے میرا دل نہیں مانتا تھا پر دیکھے اب آج ہماری شادی ہوگئ ہے۔فجر کھوئے انداز میں بولی تو ارسم نے عقیدت سے اُس کا ماتھا چوما۔

باقی باتوں کو سائیڈ پہ کرکے عمر کی بات کرتے ہیں تو اِس میں قصور تمہاری اماں کا ہے۔ارسم نے لب دانتو تلے دبائے۔

میری ماں کا قصور کیسا؟فجر ناسمجھی سے پوچھنے لگی۔

وہ ایسے کے اگر وہ جلدی شادی کرتی تو تمہاری پیدائش بھی جلدی ایسے میں ہماری عمر میں گیپ نہ ہوتا۔ارسم نے شریر لہجے میں کہا۔

بہت بدتمیز ہیں آپ۔ساری بات سمجھ آنے کے بعد فجر نے اُس کے سینے پہ تھپڑ مارا

سو تو میں ہوں۔ارسم نے سر کو خم دیتے اپنے لیے یہ لقب قبول کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

ماہی کہاں ہے؟شازل حویلی پہنچ کر ڈائریکٹ اپنے کمرے میں گیا تھا مگر وہاں ماہی کو ناپاکر وہ کلثوم بیگم کے کمرے میں آیا جو نماز کی تیاری میں تھی۔

باورچی خانے میں ہوگی۔کلثوم بیگم شازل کی اچانک آمد پہ اپنی حیرانگی چُھپاکر جواب دینے لگی۔

وہ وہاں کیوں آئے سویئر اماں سائیں اگر اِس بار ماہی کو ایک کھروچ بھی ہوگی تو میں برداشت نہیں کروں گا۔ایک منٹ لگا تھا شازل کو طیش میں آنے میں تبھی وہ غصے سے کھولتا اپنا رخ باورچی خانے میں کرگیا۔کلثوم بیگم نے اُس کو اتنے غصے میں جاتا دیکھا تو پیچھا کرنا چاہا پر ہاتھ میں جمائے نماز دیکھ کر وہ نماز پڑھنے لیے کھڑی ہوگئ۔

ٹھیک سے برتن دھو جان نہیں ہے کیا۔ماہی دُکھتے سر کے ساتھ ٹھنڈے پانی میں برتن دھو رہی تھی جب اُس کے پاس کھڑی ملازمہ نے حقیر لہجے میں اُس سے کہا وہ شبانا کی خاص ملازمہ تھی جس کو اب شبانا نے ماہی کی نگرانی میں کھڑا کیا تھا اِن دنوں میں جتنا اُن دونوں نے ماہی کو ٹارچر کیا تھا یہ بس وہ خود یا اُس کا خدا جانتا تھا کمرے سے دوبارہ وہ سٹورم آگئ تھی کھانے کے نام پہ باسی روٹی اُس کے سامنے کی جاتی۔

ماہی۔ملازمہ کی بات اندر آتے شازل نے سُن لی تھی تبھی اُس نے زور سے ماہی کا نام لیا جس پہ وہاں کھڑی سب ملازمائیں اپنی جگہ چور سی ہوگئ۔

آپ۔شازل کو دیکھ کر ماہی کو لگا جیسے کسی نے تپتی دھوپ سے اُٹھاکر اُس کو ٹھنڈی چھاؤ میں رکھا تھا۔

چھوٹے شاہ صاحب وہ

خاموش مجھے نفرت ہے فضول کی(وضاحت) ایکپلینیشنس سے تم لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی سے ایسے بات کرنے کی میں تم لوگوں کی زبانیں کاٹ ڈالوں گا۔شازل ماہی کو اپنے حصار میں لیتا اُن سب پہ برس پڑا

معافی چاہتے ہیں ہمیں تو بیگم صاحبہ اور چھوٹی بیگم شبانا نے کہا تھا۔وہ سب تھرتھر کانپتی بتانے لگی جس پہ شازل اچٹنی نظر اُن پہ ڈالتا ماہی کی جانب متوجہ ہوا

کیا حال بنالیا ہے تم نے اپنا۔شازل ماہی چہرے پہ پسینے کی بوندیں صاف کرتا بولا جس پہ ماہی بنا کجھ کہے اُس کے سینے پہ سر رکھ گئ۔اُس کی حرکت پہ شازل نے پورے باورچی خانے میں نظریں گھمائی جہاں سب ملازمین کی نظریں نیچے زمین پہ تھی۔

اندر چلو۔شازل نے اُس کے کان کے پاس چہرہ کیے کہا تو وہ جلدی سے دور ہوکر باورچی خانے سے باہر چلی گئ۔

سامان پیک کرلوں۔شازل کمرے میں آتا اُس سے بولا

سامان کیوں؟ماہی جو ابھی پرسکون ہوتی ڈوپٹہ اُتار کر بیڈ پہ سونے کا اِرادہ کیے ہوئی تھی شازل کی بات سن کر حیران ہوئی۔

ایک منٹ۔شازل کی نظر اُس کی گردن پہ موجود نشان پہ پڑی تو خاموش ہونے کا اِشارہ کرتا اُس کے قریب ہوا۔

یہ نشان کیسا ہے؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا

وہ کجھ نہیں۔ماہی کو سمجھ نہیں آیا کیا جواب دے۔

ماہی سچ بتاؤ مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔شازل اُس کا بازوں دبوچتا سخت لہجے میں پوچھنے لگا شازل کی حرکت پہ ماہی کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمایاں ہوئے۔

مجھے درد ہورہا ہے۔ماہی کی آنکھوں سے آنسو نکلے تو شازل غور سے اُس کو دیکھنے کے بعد اُس کا بازوں چھوڑ کر اُس کی گردن پھر بازوں دیکھنے لگا جہاں نیل پڑے ہوئے تھے۔شازل نے زور سے ہونٹوں کو بھینچ لیا۔

بھابھی ماں نے کیا ہے؟شازل اُس کے بازوں پہ لگے نیل کے نشان پہ آہستہ سے انگلیاں پھیر کر پوچھنے لگا۔

ہمم۔ماہی اتنا کہتی سرجھکاگئ۔

سوری مجھے تمہاری بات ماننی چاہیے تھی۔شازل کو افسوس ہوا۔

کوئی بات نہیں۔ماہی نے بس اتنا کہا

تم یہاں بیٹھو میں مرہم لگاتا ہوں۔شازل اُس کو بیٹھاتا خود اُس کے قدموں کے پاس بیٹھ گیا۔

آپ پلیز اُپر بیٹھے مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ماہی کو عجیب لگا شازل کا یوں بیٹھنا وہ خود کو شازل کے قابل نہیں سمجھتی تھی وہ جانتی تھی سامنے بیٹھا شاندار پرسنائلٹی کا مالک شازل اُس کا نہیں تھا اور نہ ہوسکتا تھا وہ یہ سب اُس کے پیار میں نہیں کررہا تھا وہ اِس لیے کررہا تھا کیونکہ وہ اُس کے نکاح میں تھی اُس کی بیوی تھی اور وہ اپنی زمیداری پوری کررہا تھا۔

خاموش رہو اور مجھے اپنا کام کرنے دو آج ہم ویسے بھی شہر کے لیے روانہ ہوگے میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔شازل اُس کے بازوں پہ مرہم لگاتا بتانے لگا۔

آپ میری وجہ سے حویلی سے مت جائے۔ماہی نے کہا

جانا تو پڑے گا مجھے ویسے بھی اسلام آباد جانا ہے میں یہاں پہلے تمہاری وجہ سے تھا اب یہاں کے حالات دیکھ کر میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اِس لیے تم ساتھ چلنا جب تک سب کجھ ٹھیک نہیں ہوجاتا۔شازل نے نرم لہجے میں کہا

آپ اور آروش الگ ہے اِن سب حویلی والوں سے۔ماہی کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی

میں دُرید لالہ آروش اور حریم ہم چاروں سب سے الگ ہیں۔شازل مسکراکر بولا

حریم بھی آپ کی بہن ہے۔ماہی نے پوچھا

ایسا ہی سمجھو وہ میری پھپھو کی بیٹی ہے میری زیادہ تر اُس سے بات نہیں ہوتی وہ دُرید لالہ کے قریب ہے۔شازل نے بتایا

آپ کیوں نہیں کرتے اُس سے بات؟ماہی کو تجسس ہوا۔

میں کیا کروں گا اُس سے بات میں یہاں کم عرصہ رہاں ہوں پہلے پڑھائی کی وجہ سے مُلک سے باہر تھا پھر اسلام آباد میں رہنے لگا ایسے میں میری کم بات ہوتی ہے ہر ایک سے سوائے آروش کے۔شازل نے عام لہجے میں بتایا۔

حریم کے بات کرنے کا انداز الگ ہے بہت۔ماہی نے بتایا۔

جانتا ہوں۔شازل اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اُس کا کام ہوگیا تھا۔

یہ مرہم تم لگاتی رہنا۔شازل مرہم کو سائیڈ ٹیبل پہ رکھتا اُس سے بولا

جی۔ماہی نے سر کو جنبش دی۔

کیا سامان پیک نہیں کرنا میں کسی ملازمہ سے کہوں؟شازل نے اُس کو سوتا دیکھا تو کہا

شازل میری نیند پوری نہیں ہوئی آج وہ پوری کرو شہر کل چلے جائے گے۔ماہی اپنا ہاتھ بڑھاکر اُس کا ہاتھ تھام کر بولی۔

ضرور۔شازل جھک کر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیتا بولا تو ماہی کا دل زور سے دھڑک اُٹھا اُس نے نظر اُٹھا کر شازل کو دیکھو جو نارمل تاثرات کے ساتھ صوفے پہ بیٹھتا موبائیل میں مصروف ہوگیا تھا۔

بے شرم۔ماہی اُس کو نیا لقب دیتی چادر تان کر سوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش کمرے میں آئی تو اپنا سیل فون چارجنگ پہ لگانے کے لیے جیسے ہی رکھنے لگی حریم کی کال آنے لگی۔فون چارج کرنے کا اِرادہ ترک کیے اُس نے کال ریسیو کی۔

السلام علیکم آروش آپی کیسی ہیں۔حریم نے سلام کرنے میں پہل کی۔

وعلیکم السلام میں ٹھیک تم بتاؤ کیسی ہو امتحان کیسے گُزرے؟آروش نے پوچھا

اچھے گُزرے کل ہم حویلی بھی آجائے گے۔حریم نے مِزید بتایا

اچھا ماشاءاللہ لالہ سے بات ہوئی ہے؟آروش نے کجھ سوچ کر پوچھا

اُن کو کال کی تھی پر شاید وہ مصروف تھے اِس لیے کال پِک نہیں کی۔حریم کا لہجہ اچانک مایوس ہوگیا۔

زمینوں پہ ہوگے تم اُداس مت ہو فری ہوکر خود ہی کال کرلینگے۔آروش نے تسلی کروائی۔

وہ تو کرلے گے آپ بتائے آپ شہر گئ تھی کجھ پتا چلا؟حریم نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔

کیا پتا چلنا تھا؟آروش کو سمجھ نہیں آیا

یمان مستقیم اسلام آباد موو ہوگئے ہیں نہ اور ہر چینل پہ یہ خبر نشر ہوئی تھی کے اُن کو ہرٹ اٹیک آیا تھا۔حریم کی بات سن کر آروش کی گرفت اپنے سیل پہ ڈھیلی ہوئی 

مجھے نہیں پتا ایسا کجھ اور تم بھی ان فضول خبروں سے دور رہا کرو یہ سیلیبرٹیز اٹیشن سیکر ہوتے ہیں اِس لیے روز خود کو ہارٹ اٹیک دلواتے ہیں۔آروش کا لہجہ تلخ ہوا۔

ایسی بھی کوئی بات نہیں سچ میں اُن کو ہوا تھا پھر یہ خبر بند ہوگئ تھی۔حریم منہ بناکر بولی۔

مجھے ایک کام ہے بعد میں بات ہوگی۔آروش نے کہا

ٹھیک ہے۔حریم اتنا بولتی کال کاٹ گئ۔

حریم کیوں تم انجانے میں میرے زخم تازہ کردیتی ہو۔آروش اپنے ہاتھ بالوں میں پھنسائے پریشانی سے بڑبڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕

اِن کارڈ میں سے کوئی ایک سلیکٹ کرو۔نور نے کارڈز یمان کی طرف بڑھاکر کہا جو اُس کے بچوں کے ساتھ مصروف تھا۔

کارڈ کس لیے؟یمان نے سوال کیا۔

کوئی ہوش ہے تمہیں یمان تمہاری سالگرہ قریب ہے تمہیں تو پتا ہے اُس دن کیا اناؤسمنٹ ہوگا۔نور اُس کو آنکھیں دیکھاکر بولی تو یمان نے مسز دلاور کی جانب دیکھا جو بہت خوش نظر آرہی تھی۔

تو کیا یہ برتھ کارڈ ہے میں کوئی بچہ تو نہیں۔یمان نے کہا

افففف یمان تم بھی حد کرتے ہو یہ تمہاری اینگیجمنٹ کا ہوگا جو تمہارے برتھ کے کجھ دن بعد ہوگا۔نور نے جیسے اُس کی عقل پہ ماتم کیا

آپ اِن میں سے کوئی پسند کریں۔یمان نے کہا

تم کیوں نہیں کررہے؟نور نے پوچھا

ایسے ہی میرا انٹرسٹ نہیں۔یمان نے کندھے اُچکاکر کہا

ماموں باہر چلے نہ کرکیٹ کھیلتے ہیں۔نور کا سات سالہ بیٹا اسجد یمان کے پاس آتا بولا تو یمان کے چہرے پہ سچی مسکراہٹ آئی۔

چلو چلتے ہیں۔یمان اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا

یاہوووووو۔انہوں نے خوشی کا نعرہ لگایا

شکر ہے بچوں کی وجہ سے مسکراتا تو ہے۔مسز دلاور گلاس وال سے لان کا منظر دیکھتی نور سے بولی

یمان کو بچے پسند ہیں۔نور نے مسکراکر کہا

تبھی تو میں چاہتی ہوں وہ شادی کریں پھر اپنا ماضی سب کجھ بھول کر نئ زندگی کی شروعات کرے آگے بھرے۔مسز دلاور نے کہا

اب راضی تو ہوگیا ہے وہ آپ دعا کرے جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا ہی ہو۔نور نے کہا

ایسا ہی ہوگا۔مسز دلاور کا لہجہ مضبوط تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم یہاں میں نے منع کیا تھا نہ یہاں آنے کو۔دروازہ نوک ہونے پہ فجر باہر آئی تو ارمان کو دیکھ کر اُس نے کہا

مجھے سر نے نہیں بھیجا۔ارمان نے بتانا ضروری سمجھا۔

پھر کیوں آئے ہو۔فجر نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا

یامین ہے میں اُس سے ملنے آیا ہوں۔ارمان ایک نظر اُس کو دیکھ کر بتانے لگا۔

یامین سے کیوں ملنا ہے وہ نہیں ملے گا کسی سے تم جاؤ یہاں سے۔فجر نے سہولت سے انکار کیا۔

میں اتنی دور یامین سے ملنے آیا ہوں آپ پلیز ایسے انکار مت کریں میں بس اُس کو آج پارک لے جاؤں گا پھر واپس آجاؤں گا یامین کو لیکر۔ارمان نے معصوم شکل بنائے کہا

یامین باہر آؤ تمہارے ماموں تم سے ملنے آئے ہیں۔فجر ایک تیز نظر ارمان پہ ڈالتی یامین کو آواز دیتی خود اندر چلی گئ۔

ماموں لاحول ولاقوة۔ارمان جھرجھری لیکر بڑبڑایا۔

انکل آپ۔یامین بھاگتا ہوں ارمان کے پاس آیا

ہائے پرنس کیسے ہو۔ارمان اُس کو گود میں اُٹھاتا چہرے پہ پیار کرتا پوچھنے لگا

میں ٹھیک پر آپ نے کیوں اتنی دیر کی آنے میں۔یامین اُس کے چہرے پہ اپنے ننہے ہاتھ پھیرتا پوچھنے لگا۔

کیونکہ آپ کی مما ہٹلر ہے مجھے آپ سے ملنے نہیں دیتی۔ارمان اُس کا ننہا ہاتھ پکڑ کر چومتا معصوم شکل بنائے بولا۔

میں کہوں گا ممی سے وہ آپ کو مت ٹوکے۔یامین کی بات پہ وہ بے اختیار مسکرایا۔

باہر چلیں۔ارمان آہستہ آواز میں پوچھنے لگا

ہاں۔یامین خوش ہوگیا

چلو پھر۔ارمان اتنا کہتا اُس کو گود میں لیکر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

میرا بیٹا  تمہاری زمیداری تھی یمان تم نے کسی اور کو کیوں دی؟ٹیرس کے پاس کھڑی فجر نے اُن دونوں کو ہنستے مسکراتے جاتا دیکھا تو تصور میں یمان کو مخاطب کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

دُر لالہ ہم نے آپ کو بہت مس کیا۔دُرید شاہ حریم کو لینے آیا تو گاڑی میں بیٹھتے ہی حریم نے پہلی بات یہ کی۔

ہم نے بھی آپ کو بہت مس کیا۔دُرید شاہ بھی اُسی کے انداز میں بولا

سچ میں؟حریم کا چہرہ کِھل اُٹھا

تمہیں کوئی شک ہے۔دُرید نے مصنوعی خفگی سے پوچھا

بلکل بھی نہیں۔حریم نے زور شور سے سر کو نفی میں ہلایا۔

اچھا یہ بتائے پیپرز سب کیسے ہوئے؟دُرید شاہ نے پوچھا

بہتتتتتتتت ہی اچھےےےےےےے کیوں کے تیاری آپ نے جو کروائی تھی۔حریم نے الفاظ کھینچ کر ادا کیے۔

کیا بات ہے آج کافی خوش ہو۔دُرید شاہ نے جاننا چاہا

ہم تو ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور اب زیادہ ہیں کیونکہ ہم یونیورسٹی جایا کرینگے۔حریم نے اپنی خوشی کا راز بتایا تو دُرید شاہ کے چہرے پہ مسکراہٹ غائب ہوئی۔

یونیورسٹی جانا ضروری ہے؟دُرید شاہ نے پوچھا

ہاں نہ ظاہر ہے جاؤں گی نہیں تو پڑھوں گی کیسے ویسے بھی مجھے تو بہت شوق تھا یونیورسٹی جانے کا کتنی بڑی ہوتی ہے نہ اور کتنے لوگ ہوتے ہیں۔حریم پرجوش لہجے میں بتانے لگی۔

ویسے تم آگے پرائیویٹ کلاسس بھی لے سکتی ہو۔دُرید نے کہا

پرائیویٹ کیوں؟کیا آپ کو اعتراض ہے ہمارے یونیورسٹی جانے سے؟حریم کا دل اُداس ہوا تبھی پوچھنے لگی۔

بات اعتراض کی نہیں میں نہیں چاہتا تم یونیورسٹی جاؤ آجکل کا ماحول بھی اچھا نہیں اور میں نہیں چاہتا تم اُس ماحول کا حصہ بنو۔دُرید نے اپنے اندر موجود خدشے کو ظاہر کیا

کیا آپ کو ہم پہ اعتبار نہیں۔حریم نے پوچھا

مجھے لوگوں پہ اعتبار نہیں تم بہت معصوم ہو اور میں چاہتا ہوں یہ معصومیت برقرار رہے۔دُرید شاہ نے اُس کی طرف دیکھ کر مسکراکر کہا

آپ ہم پہ اعتبار کریں ہم وہاں کسی سے دوستی نہیں کرینگے بس آپ یونیورسٹی جانے کی اِجازت خوشی خوشی اور دل سے دے۔حریم نے منت بھرے لہجے میں کہا

تمہارا رزلٹ آجائے اُس کے بعد اِس موضوع پہ بات ہوگی۔دُرید نے کہا

ٹھیک ہے۔حریم نے اثبات میں سرہلایا اُس کو پتا تھا دُرید کبھی اُس کی خواہش کو نظرانداز نہیں کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب کیا ہورہا ہے؟وہ دونوں حویلی پہنچے تو سب کو ہال میں جمع دیکھ کر دُرید شاہ نے پوچھا

شازل شہر جانے کی ضد کررہا ہے ساتھ میں اِس لڑکی کو بھی ساتھ لیکر جانا چاہتا ہے۔فردوس بیگم نخوت سے سرجھٹک کر بولی

آپ لوگوں نے جیسا سلوک میری بیوی کے ساتھ رکھا ہوا تھا اُس کے بعد ہمارا یہاں رہنا بنتا نہیں۔شازل جتانے والے انداز میں بولا

شازل تمہارا دماغ سچ میں خراب ہوگیا ہے تم اِس ونی میں آئی ہوئی لڑکی کے لیے اپنے خونی رشتے چھوڑ کر جارہے ہو کیا تمہاری نظر میں دلدار شاہ کے خون کی یہ اہمیت تھی۔فردوس بیگم نے حیرت سے پوچھا

میں پہلے یہ بات کلیئر کرچُکا ہوں قتل جس نے کیا ہے اُس کا گریبان پکڑے آپ لوگوں کی نظر میں یہ لڑکی ونی میں آئی ہوئی ہے پر میرے نزدیک یہ میری بیوی ہے اور میں اُس کے ساتھ ناانصافی بلکل پسند نہیں کروں گا۔شازل کا انداز اٹل تھا۔

دُرید تم ہی شازل کو سمجھاؤ۔کلثوم بیگم نے دُرید سے کہا جو خاموش کھڑا تھا

حریم تم اپنے کمرے میں جاؤ۔دُرید نے حریم سے کہا

جی۔حریم سب پہ ایک نظر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔

اماں سائیں شازل اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرسکتا ہے وہ خودمختار ہے میں کیا کہوں۔دُرید نے کلثوم بیگم سے کہا تبھی وہاں شھباز شاہ آئے

السلام علیکم بابا سائیں۔آروش نے شھباز شاہ کو آتا دیکھا تو سلام کیا۔

وعلیکم السلام میرا بچہ۔شھباز شاہ نے محبت سے اُس کے سلام کا جواب دیا۔

یہ سب کیا ڈرامہ ہے شازل؟شھباز شاہ نے کرخت آواز میں شازل سے کہا

یہ کوئی ڈرامہ نہیں بابا سائیں بلکل ڈرامہ تو وہ ہے جو اِس حویلی میں لوگ کررہے ہیں ماہی پہ تشدد کرنے کا حق کس نے دیا ہے بھابھی ماں کو اور یہاں موجود ملازموں کو۔شازل اپنے پیچھے چُھپی ماہی کو آگے کرتا اُن سے بولا 

ایک مرتبہ اپنے فیصلے پہ نظرثانی کرو۔شھباز شاہ نے کہا

میں نے سوچ لیا ہے بابا سائیں جب تک اصل قاتل سامنے نہیں آجاتا ماہی شہر رہے گی۔شازل نے کہا

قاتل کیا سامنے آئے گا وہ سامنے آچُکا ہے قتل ذہن سالک نے کیا تھا۔فردوس بیگم نے کہا

آپ کیا وہاں تھی۔شازل نے سنجیدگی سے پوچھا

شازل اپنے لہجے پہ قابوں پاؤ تم بڑوں سے بات کر رہے ہو اخلاق کے دائرے میں رہو ہماری تربیت ایسی نہیں ہے۔شھباز شاہ کو شازل کا انداز ناگوار گُزرا۔

معافی چاہتا ہوں پر بابا سائیں ذین سالک خود کہتا ہے اُس نے بس ایک گولی ماری تھی دلدار لالہ کو جو غلطی سے لگ گئ تھی اپنی جان بچانے کے چکر میں۔شازل نے کہا

چور کبھی یہ بات نہیں مانتا کے اُس نے چوری کی ہے۔فردوس بیگم نے کہا

میں آپ کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتا ہوں تائی جان آپ کی بیٹی بیوہ ہوئی ہے آپ کے لیے صدما گہرا ہے پر آپ فاریہ تائی کا سوچے اُنہوں نے تو اپنا جوان بیٹا کھویا ہے کیا آپ اُن کی تکلیف کا اندازہ لگاسکتی ہیں ہم سب کو دلدار لالہ کی موت کا دُکھ ہے پر ہمیں کسی کو سزا دینے سے پہلے اِس واقعے کے بارے میں چھان بین کرنا چاہیے کے کیا واقع ہم جس کو سزا دے رہے جس کو قصوروار سمجھ رہے ہیں وہ واقع مجرم ہے بھی کے نہیں۔شازل نے گہری بات کی جس پہ سب سوچنے پہ مجبور ہوگئے۔

تم اتنے پُریقین کیسے ہو کے قتل ذین سالک نے نہیں کیا ضرور ایسا تمہیں اِس لڑکی نے کہا ہوگا۔شھباز شاہ نے کہا

ماہی نے مجھے کجھ نہیں کہا حق وِلہ خاندان سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں جب کی ہمارے دشمن اور بھی بہت ہیں اُن میں سے کسی نے کیا ہوگا موقع دیکھ کر اور الزام کسی اور پہ آگیا۔شازل نے دو ٹوک انداز اپنایا

جو بھی پر تم حویلی سے کہیں نہیں جارہے۔شھباز شاہ نے کہا

گستاخی معاف بابا سائیں پر میں یہاں رہوں گا تو پاگل ہوجاؤں گا۔شازل نے کہا

مرضی ہے تمہاری۔شھباز شاہ نے مزید بحث نہیں کی۔

آروش تم چلوں گی ہمارے ساتھ؟شازل نے اچانک آروش کو مخاطب کیا تو اُس نے شھباز کو دیکھا جو اب شازل کس گھور رہے تھے۔

آروش میری بیٹی ہے تمہاری نہیں۔شھباز شاہ نے طنزیہ کیا۔

میں بھی آپ کا بیٹا ہوں اور آروش صرف آپ کی بیٹی نہیں ہماری بہن بھی ہے مجھے فیل ہورہا ہے جب سے آیا ہوں آروش پہلے سے بدل گئ ہے اتنا خاموش تو وہ کبھی نہیں رہتی تھی جتنا اب رہنے لگی ہے۔شازل کی بات پہ شھباز شاہ خاموش ہوگئے جب کی آروش پہلو بدل کے رہ گئ۔

آروش یہاں خوش ہے تمہیں جانا ہے تو اپنی بیوی کو ساتھ لیکر جاؤ۔شھباز شاہ نے کہا

ٹھیک ہے۔شازل ایک نظر آروش پہ ڈال کر بولا تو سب باری باری ہال سے نکلتے چلے گئے سوائے شازل ماہی اور آروش کے۔

آروش بی بی۔آروش وہی کھڑی تھی جب ایک ملازمہ نے اُس کو شاپر دیا۔

شکریہ اب تم جاؤ۔آروش شاپر اپنے ہاتھ میں لیتی اُس سے بولی

یہ تمہارے لیے۔آروش نے ماہی کی جانب وہ شاپر بڑھایا۔ماہی ایک نظر شازل پہ ڈال کر وہ شاپر تھام لیا۔

یہ۔ماہی نے شاپر میں عبایا دیکھا تو حیرت سے آروش کو دیکھنے لگی جب کی شازل کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی۔

تم یہاں کیسے بھی آئی پر تم اب شاہ خاندان کا حصہ بن گئ ہو تمہارا نام شازل شاہ سے جڑگیا ہے اور حویلی میں رہنے والی عورتیں بنا اِس کے حویلی کے باہر قدم رکھنے کا سوچتی بھی نہیں۔آروش نے عبائے کی جانب اِشارہ کیے بتایا

شازل نے کبھی نہیں کہا۔ماہی افسردگی سے بولی۔

لالہ زبردستی کے قائل نہیں پر جب تک تم لالہ کے نکاح میں ہو پردہ کروں گی۔آروش نے کہا

جزاک اللہ میں اب ضرور پہنا کروں گی۔ماہی نے کہا تو آروش نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہی نے گاڑی کو جانے پہچانے راستوں پہ چلتا دیکھا تو اُس کا دل خوش فہم ہوا مگر اپنا وہم قرار دیکر دل کو ڈپٹ دیا مگر شدید حیرانی کا جھٹکا تب لگا جب شازل نے اُس کے گھر کے بڑے گیٹ کے سامنے گاڑی کو بریک لگائی۔

شازل یہ

ماہی اتنا کہتی خاموشی سے چہرہ موڑ کر شازل کو دیکھنے لگی جو اُس کی حیرانگی پہ مسکرا رہا تھا۔

ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس جاکر مل آؤ اپنے گھروالوں سے پھر ہمیں شہر کے لیے نکلنا ہے پھر اللہ جانے کب واپسی ہو۔شازل ہاتھ میں پہنی گھڑی پہ وقت دیکھتا مصروف انداز میں بتانے لگا پر شازل کی بات سن کر ماہی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آنے لگے وہ جو سمجھ رہی تھی اب کبھی اپنے ماں باپ اور باقی گھروالوں سے نہیں مل پائے گی مگر آج اتنے ماہ بعد اپنے گھر جانے کا سوچ کر اُس کا دل تیزی سے دھڑکا رہا تھا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا جو وہ سن رہی ہے سچ ہے بھی یا نہیں

آپ سچ بول رہے ہیں؟ماہی نے کنفرم کرنا چاہا

نہیں آج میرا دل جھوٹ بولنے کو چاہ رہا تھا پاگل جب گاڑی تمہارے گھر کے پاس روکی ہے تو یہ سوال کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔شازل اُس کے سر پہ چپت لگاتا بولا

میں جاتی ہوں۔ماہی اتنا کہتا جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی اُس کا وجود خوشی کے مارے کپکپارہا تھا۔شازل کو اپنے گھروالوں پہ افسوس ہوا جنہوں نے ایک بیٹی کو اپنے ماں باپ اور ایک ماں باپ کو اپنی اولاد سے دور رکھا تھا۔

ایک گھنٹہ یاد سے۔شازل نے اُس کو جاتا دیکھا تو یاد دُہائی کروائی۔

جی جی۔ماہی تیز قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی جانب جاتی بنا پلٹے بولی تو شازل اپنے سیل فون میں بزی ہوگیا۔

امی

آمنہ

ابا جان

بھائی

علی

آپ سب کہاں ہیں؟ماہی گھر کے اندر داخل ہوتی سب کو آوازیں دینے لگی۔

ماہی۔آمنہ جو کچن میں موجود تھی ماہی کی آواز سن کر جلدی سے باہر آئی سامنے عبایا پہنے ماہی کو دیکھ کر آمنہ کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا

آمنہ۔ماہی بھاگتی اُس کے گلے لگی۔

ماہی تم یہاں کیسے۔آمنہ نے حیرت سے پوچھا

میں یہاں کیسے کیوں یہ چھوڑو یہ بتاؤ امی اور تائی کہاں ہیں؟ماہی نے مسکراکر پوچھا

تم مسکرا رہی ہو ماہی؟آمنہ اُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتی جیسے خود کو یقین دِلانے لگی۔

امی کہاں ہیں؟ماہی نے ایک بار پھر اپنی ماں کا پوچھا

وہ اپنے کمرے میں مقید ہوکر رہ گئ ہے جب سے تم گئ ہو۔آمنہ ابھی اُس کو بتارہی تھی جب ماہی بختاور بیگم کے کمرے کی طرف بڑھی۔

امی دیکھے میں آگئ۔ماہی بختاور بیگم کے کمرے میں آتی سیدھا اُن کے سینے سے لگی۔

ماہی میری بچی تم یہاں تمہیں یہاں انہوں نے آنے دیا۔بختاور بیگم نے اتنے وقت بعد کو دیکھا تو اُن کو سکون محسوس ہونے لگا۔

شازل لے آیا مجھے آپ لوگوں سے ملانے کے لیے ایک گھنٹہ ہے میرے پاس ماہی اُن کے ہاتھ چومتی بتانے لگی۔

شازل؟بختاور بیگم سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

شازل میرے شوہر۔ماہی کے چہرے پہ چمک آئی تھی جس کو دیکھ کر بختاور بیگم نے بے اختیار دل میں ماشاءاللہ کہا۔

شھباز شاہ کا بیٹا اتنا رحمدل۔بختاور بیگم کو جیسے یقین نہیں آیا۔

جی امی جان ظالم بے رحم شھباز شاہ کی اولادیں اُن کے جیسی نہیں ہے شازل تو بہت اچھے ہیں۔ماہی نے خوشی خوشی سے بتایا۔

میں تمہیں اب جانے نہیں دوں گی تم کیوں بے قصور ہوکر اُن کے ساتھ رہوں گی شازل جیسا بھی ہو پر تمہارے چہرے پہ موجود یہ نیل اِس بات کے گواہ ہیں کے حویلی والوں کا رویہ تمہارے ساتھ اچھا نہیں۔بختاور بیگم ضدی لہجے میں بولی

میری پیاری امی میں اب حویلی نہیں جاؤں گی شازل مجھے اپنے ساتھ شہر اسلام آباد لے جارہے ہیں۔ماہی نے کہا جو اندر آتی آمنہ نے بے خوبی سن لیا تھا۔

حویلی والوں نے اعتراض نہیں اُٹھایا؟آمنہ نے سوال داغا

اٹھایا بہت اُٹھایا پر شازل نے کسی کی بات نہیں سُنی انہوں نے کہا جب تک اصل قاتل سامنے نہیں آتا وہ گاؤں واپس نہیں آئے گے۔ماہی نے جواب دیا۔

تو کیا شازل کو بھی لگتا ہے میرے بیٹے نے قتل نہیں کیا؟بختاور بیگم کو گونا سکون میسر ہوا۔

اُن کو شک ہے بھائی کی گولی سے دلدار شاہ کا قتل نہیں ہوا۔ماہی نے بتایا۔

تم بہت کمزور ہوگئ ہو ماہی۔آمنہ کی بات پہ وہ مسکرائی۔

میری چھوڑو یہ بتاؤ تم میری ماں کا خیال نہیں رکھتی کیا۔ماہی بختاور بیگم کو دیکھتی روعب بھرے لہجے میں آمنہ سے پوچھنے لگی۔

یہ تو میرا بہت خیال رکھتی ہے پر مجھے بس تیری فکر لگی رہتی ہے۔بختاور بیگم نے آمنہ کی طرفداری کی۔

میری فکر سے آپ آزاد ہوجائے کیونکہ میں بلکل ٹھیک ہوں۔ماہی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

کجھ کھاؤں گی؟آمنہ کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

چائے پیوں گی۔ماہی نے کہا تو آمنہ کمرے سے باہر چلی گئ۔

امی باقی سب کہاں ہیں ابا جان تایا جان تائی اور بھائی۔ماہی نے سب افراد کے بارے میں پوچھا

تیرے ابا تایا بھائی یہ سب زمینوں کے کام سے گاؤں سے باہر ہیں جب کی تیری تائی رشتیدار کے یہاں گئ ہے۔بختاور بیگم نے بتایا تو وہ مایوس ہوئی۔

مجھے لگا تھا میں آج سب سے مل پاؤں گی۔ماہی نے اُداس بھرے لہجے میں کہا

پھر آجانا شازل سے کہنا۔بختاور بیگم نے مسکراکر کہا تو اُس نے گہری سانس خارج کی۔

آج پتا نہیں کیسے میرے کہے بنا یہاں لے آئے آپ کو پتا ہے میں نے کبھی آپ میں سے کسی کا ذکر اُن کے سامنے نہیں کیا کیونکہ مجھے ڈر لگتا تھا کہیں اُن کو غصہ نہ آجائے میں نے آپ لوگوں سے ملنے کی اُمید چھوڑدی تھی پر شازل نے آج مجھ پہ بہت احسان کیا ہے۔ماہی کسی ٹرانس کی کیفیت میں اُن کو سب بتاتی گئ۔

اگر وہ اتنا اچھا ہے تو میری دعا ہے تم دونوں ہمیشہ خوش رہو۔بختاور صدق دل کے ساتھ دعا دینے لگی۔

ہمیشہ۔ماہی اُداس ہوئی۔

ہاں کیوں؟بختاور بیگم نے ناسمجھی سے پوچھا

کجھ نہیں میں آتی ہوں۔ماہی نفی میں سر کو جنبش دیتی اُٹھ کھڑی ہوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد ہے تم یہاں چُھپ کر ناولز پڑھا کرتی تھی۔وہ دونوں چھت پہ آئی تو آمنہ نے مسکراکر کہا

بلکل یاد ہے اپنی زندگی کے یہ خوبصورت لمحات میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ماہی اپنی آنکھیں بند کرکے بولی

تم خوش ہو؟آمنہ نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھا

میں مطمئن ہوں۔ماہی نے بنا تاخیر کیے جواب دیا

جب میں تمہیں شاہ خاندان کے بارے میں بتاتی تھی تو تمہیں شازل شاہ اور آروش شاہ سے بہت چڑ لگتی تھی جب کی تم اُن سے کبھی ملی بھی نہیں تھی اور آج دیکھو شازل شاہ تمہیں اپنے قریبی رشتوں سے ملوانے لایا ہے۔آمنہ نے چائے کا گھونٹ بھر کر کہا۔

تب مجھے پتا نہیں تھا وہ دونوں میری زندگی کا اہم کردار ہوگے۔ماہی نے آہستہ سے کہا

کیا مطلب؟آمنہ کو سمجھ نہیں آیا

مطلب وہ شازل شاہ جو مجھے عیاش قسم کا لگتا تھا وہ آج میرا شوہر ہے جس سے مل کر مجھے پتا چلا جیسا میں اُس کے بارے میں سوچتی تھی وہ اُس کے برعکس ہو وہ بہت اچھا ہے آروش شاہ جو مجھے شہر سے پڑھی آئی مغرور سیدذادی لگتی تھی جس سے ملے بنا مجھے اُس سے چڑ ہوتی تھی اُس نے میرے زخموں پہ مرہم رکھا تھا اُس کا رویہ میرے ساتھ باقیوں کی طرح نہیں تھا وہ مغرور نہیں بلکہ ایک پُراسرار قسم کی لگتی ہے جو بس اپنی دُنیا میں رہتی ہے آس پاس کیا ہورہا ہے اُس میں آروش کا کوئی انٹرسٹ نہیں ہوتا ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے اندر بہت کجھ چُھپائے ہوئے ہے وہ مجھے اب ایک راز اور پہیلی لگتی ہے آروش شاہ سچ میں بہت پیاری ہے جتنا تم نے بتایا اُس سے کئ زیادہ خوبصورت اور خوب سیرت۔ماہی نے جو محسوس کیا وہ سب بتاتی گئ۔

کم عرصے میں بہت جان گئ ہو اُن کے بارے میں۔آمنہ کہے بنا نہ رہ پائی

ہاں شاید تمہیں پتا ہے شازل ایک آئیڈیل پرسن ہے اُس کی خواہش ہر لڑکی کرے گی وہ ایک بہت اچھا بھائی ہے عورت کی عزت کرنا اُس کو خوب آتا خاص طور پہ زمیداری کو اچھے طریقے سے کیسے نبھایا جاتا ہے وہ بھی جانتا ہے مجھے تو آروش اور شازل دونوں شاہ خاندان کے نہیں لگتی آروش تو بلکل بھی نہیں تم نے بس یہ سُنا ہے وہ بہت خوبصورت ہے پر تم نے خود اُس کو نہیں دیکھا میں نے دیکھا ہے وہ واقع خوبصورت ہے پر اُس نے نین نقش شاہ خاندان کے نہیں بلکہ کسی پھٹانوں جیسے ہیں۔ماہی کی آخری بات پہ آمنہ زور سے ہنسی۔

پاگل آروش شاہ پٹھانوں جیسی ہے اگر تم نے یہ بات شھباز شاہ کے سامنے کی تو وہ تمہاری جان لینے میں ایک منٹ نہیں لگائے گے۔آمنہ نے ہنسی کے درمیان کہا

شازل بھی یہی کہتے ہیں۔ماہی نے بتایا

تو کیا یہ بات تم نے اُس سے بھی کی۔آمنہ آج پل پل حیران ہورہی تھی۔

ہاں کی تھی شازل کو بہت بُرا لگا تھا۔ماہی جھرجھری لیکر بولی۔

کیا وہ تم سے پیار کرتا ہے؟آمنہ نے بغور اُس کے تاثرات جانچے۔

وہ میری عزت کرتا ہے اور ایک لڑکی ہمیشہ مرد سے محبت سے زیادہ عزت کی خواہشمند ہوتی ہے مجھے محبت کا تو نہیں پتا مگر ہمارے دل میں ایک دوسرے کے لیے عزت احترام بہت ہے شازل مجھے سمجھتا ہے مجھے سپورٹ کرتا ہے میری پرواہ کرتا ہے مجھ اُس کے علاوہ اور کجھ نہیں چاہیے۔ماہی نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

اگر اِن سب کے درمیان محبت آجائے تو؟آمنہ نے پوچھا

تو پتا نہیں پر ہمارا ساتھ تاعمر کا نہیں میں شازل کو ڈیزرو نہیں کرتی وہ ایک شاندار پرسنائلٹی کا مالک ہے جس نے زیادہ تر اپنا وقت شہر میں گُزارا ہے وہ کبھی گاؤں کی بی اے پاس لڑکی میں دلچسپی نہیں لے گا۔ماہی نے حقیقت پسندانہ انداز رکھا۔

یہ تمہاری سوچ ہے کیا پتا شازل ایسا کجھ نہیں سوچتا نہیں ہو۔آمنہ نے اُس کو اُمید کے جگنوں تھمانے چاہے۔

مجھے ایسے خواب مت دیکھاؤ جس کی تعبیر بھیانک ہو میرے لیے۔ماہی نے نفی میں سر کو جنبش دیکر کہا۔

یہ عبایا تمہیں شازل نے دیا؟آمنہ نے بات کا بدلی

آروش نے دیا اُس نے کہا جیسے بھی پر اب میں شاہ خاندان کا حصہ بن گئ ہو اور شاہ خاندان کی عورتیں عبائے کے بنا حویلی سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی اُس کی باتوں نے مجھے احساس کروایا میں اب ماہی بخت نہیں بلکہ ماہی شازل شاہ ہوں۔ماہی نے بتایا

تو کیا میں یہ سمجھو تم نے پردہ کرنا شروع کیا ہے۔آمنہ کو انجانی خوشی محسوس ہوئی۔

جب تک میرا نام شازل شاہ سے جڑا ہے تب تک میں اپنے پردے کا بہت خیال رکھوں گی اُس کے بعد کیا ہوگا مجھے نہیں پتا۔ماہی نے کندھے اُچکاکر کہا۔

ماہی آپی۔آمنہ کا بھائی علی چھت پہ آیا

ارے علی کہاں تھے تم؟ماہی علی کو دیکھ کر خوش ہوئی

میں باہر کھیل رہا تھا پر ہماری گیٹ کے پاس بڑی گاڑی کھڑی ہے اُس میں ایک گورا مرد تھا اُس نے مجھے کہا میں آپ کو بلا لاؤں۔علی کی بات پہ ماہی نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا

یااللہ شازل نے ایک گھنٹہ دیا تھا اور میں کب سے یہاں ہوں۔ماہی کو پریشانی ہوئی

یہ بڑی گاڑی میں گورا چٹا مرد شازل ہے؟آمنہ نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

بکو مت۔ماہی کا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوا۔

او ہو ہماری ماہی تو اب شرمانے بھی لگی ہے۔آمنہ اپنا کندھا اُس کے کندھے سے ملانے لگی۔

میں جاتی ہوں شازل غصہ ہورہا ہوگا پتا نہیں کب سے گاڑی میں میرا انتظار کررہا ہے۔ماہی نقاب کرتی عجلت سے باہر کو لپکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی دیر۔ماہی جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی شازل نے کہا

سوری وہ اتنے وقت سب سے ملی تو وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ماہی شرمندگی سے بولی

میں سمجھتا ہوں پر مجھے حیرت ہے میں نے ایک گھنٹے کا کہا تھا تم نے تین گھنٹے لگائے اب ہم شہر جانے کب پہنچے رات کے وقت سفر کرنا سیو نہیں ہوتا تمہیں پتا ہے گاؤں میں راستے کتنے کچے ہیں۔شازل نے سنجیدگی سے کہا اور ساتھ میں ہیٹنگ سسٹم آن کرنے لگا دسمبر کا مہینہ تھا شام کے سائے چاروں طرف چھاگئے تھے ماحول میں ہڈیوں میں اُترجانے والی ٹھنڈ سب کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا

گھروالوں سے ملنے وقت کون وقت دیکھتا یا کس کو احساس ہوتا ہے۔ماہی نے سرجھکائے کہا

پہاڑی علاقہ ہے راستہ ناہموار ہے احتیاط سے گاڑی ڈرائیو کروں گا تو گاؤں کی حدوں سے نکلتے ہوئے ڈھائی گھنٹے لگ جانے ہیں میں اکیلا ہوتا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی پر تم میرے ساتھ ہو گاڑی بار بار سلپ ہوگی تو مجھے کجھ مت کہنا۔شازل گاڑی سٹارٹ کرتا اُس کو بولنے لگا۔

میں نہیں کہوں گی کجھ پر کیا گاڑی اب بس اسلام آباد میں رُکے گی؟ماہی اب رلیکس ہوتی پوچھنے لگی۔

نہیں گاڑی مین روڈ پہنچنے کے بعد دریائے جہلم کے عین کنارے پہ واقع ریسٹورنٹ ٹیولپ میں رُکے گی وہاں کھانا کھانے کے بعد ہم کہی اور جائے گے۔شازل نے یہ بات عام انداز میں کہی تھی یا طنزیہ ماہی سمجھ نہیں پائی پر خیر اُس نے مزید کوئی اور سوال نہیں کیا کیونکہ اُس کو لگا شازل نے طنزیہ کیا تھا وہ اسلام آباد جارہے تھے تو جہلم جانے کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا تھا اگر وہ لاہور جارہے ہوتے تو اُس کے بارے میں سوچا جاسکتا تھا۔

میں بھی کتنی پاگل ہوں۔ماہی خود کو کوستی کھڑی کی طرف اپنا چہرہ کیا شازل ایک نظر اُس پہ ڈالتا سی ڈی آن کرگیا جس میں انجانے میں ہی صحیح ماہی کا فیورٹ گانا گاڑی میں گونج اُٹھا 

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

ماہی کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی اُس کو سب  کجھ اب خوبصورت لگ رہا تھا۔وہ ہمسفر تھا گانا ماہی کا موسٹ فیورٹ گانا تھا پر آج اپنے ہمسفر کے ساتھ سن کر اور زیادہ پسند آرہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم نے بات کی حریم سے؟کلثوم بیگم دُرید شاہ کے کمرے میں آتی اُس سے پوچھنے لگی جو زمینوں کے کاغذات دیکھ رہا تھا

کونسی بات؟دُرید شاہ کا سارا دھیان کاغذوں پہ تھا۔

شادی کے بارے میں۔کلثوم بیگم نے یا کروایا

میں نے اُس کا جواب دیا تھا آپ کو اُسی وقت حریم کی شادی کا خیال آپ اپنے دماغ سے نکال دے۔دُرید نے سنجیدگی سے جواب دیا

دیکھو دُرید بلاوجہ کی ضد مت کرو وہ اٹھارہ سال کی ہونے والی ہے یہی عمر ٹھیک ہے۔کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے ٹوکا

حریم کی پڑھائی پوری نہیں ہوئی آپ خالہ جان سے آروش کی بات کریں ویسے بھی تابش اور آروش ہم عمر ہے۔دُرید شاہ کا جواب وہی تھا۔

میں یہاں تم سے حریم کی بات کرنے آئی ہوں اور تم ہو کے بات کو آروش کی طرف لے جارہے ہو۔کلثوم بیگم ناگوار لہجے میں بولی

پہلے آپ مجھے یہ بات بتائے آروش کی شادی کا آپ سب کیوں نہیں سوچ رہے ماشاءاللہ سے اُس کی عمر تو شادی کی ہوگئ ہے نہ پھر کیوں اُس کو گھر میں بیٹھایا ہوا ہے تائی جان حویلی والے سب باتیں بناتے ہیں۔دُرید پوری طرح سے کلثوم بیگم کی جانب متوجہ ہوا تھا۔

آروش تم پہ بوجھ ہے۔کلثوم بیگم افسوس سے دُرید شاہ کا چہرہ دیکھ کر بولی

یہ آپ کیسی بات کررہی ہیں اماں سائیں آروش میری بہن ہے مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا میں اُس کے بارے میں ایسا کجھ سوچ بھی سکتا ہوں میں بس یہ چاہتا ہوں ہمیں اُس کی شادی کردینی چاہیے مجھے اُس کا یوں مایوس رہنا اچھا نہیں لگتا فردوس تائی نور نازلین یہ سب پتا نہیں آروش کے بارے میں کیا کیا باتیں پِھیلا رہی ہیں جس سے آروش ہرٹ ہوتی ہے میں بس اُن سب کے منہ بند کرنا چاہتا ہوں۔دُرید کلثوم بیگم کی بات سن کر تڑپ اُٹھا تھا تبھی ایک سانس میں بولتا چلاگیا۔

پہلے جو ہوا اُس کے بعد آروش شادی نہیں کرنا چاہتی تین سے چار بار اُس نے دولہن کا جوڑا پہنا مگر وہ کبھی سہاگن نہیں بنی آروش نے شاہ صاحب کو قسم دی ہے وہ اب کبھی اُس کی شادی کا نہ سوچے۔کلثوم بیگم دُرید سے نظریں چُراکر بتانے لگی۔

آرو نے قسم کیوں دی کیا کوئی ایسی بات ہے جس سے میں لاعلم ہوں؟دُرید کو حیرت سے کلثوم بیگم کا چہرہ دیکھ کر بولا

مجھے نہیں پتا دُرید اور اتنے سوالات مت پوچھا کرو میں بس یہ کہنا چاہتی ہو آج تم حریم سے خود بات کرو یا میں کروں گی۔کلثوم بیگم گھوم پِھر کر پھر سے حریم کی طرف آئی۔

میں موقع دیکھ کر بات کرلوں گا اُس سے ابھی اُس کا رزلٹ آنا ہے اور حریم یونیورسٹی پڑھنا چاہتی ہے۔دُرید نے بالآخر ہار مان لی۔

یونیورسٹی وہ شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہے تم بس اُس کو رشتے کے لیے راضی کرو۔کلثوم بیگم کی بات پہ دُرید اُن کا چہرہ دیکھنے لگا جیسے کجھ کھوجنا چاہتا ہو۔

اُس دن آپ نے بس نکاح کا کہا تھا اور آج ڈائریکٹ شادی کی بات کررہی ہیں۔دُرید نے سنجیدگی کہا

تم نے اپنی بےجا ضد پہ پہلے ہی وقت برباد کردیا ہے اب مزید نہیں بہت مناسب رشتہ ہاتھ آیا ہے میں تاخیر نہیں کرنا چاہتی۔کلثوم بیگم نے کہا

حریم کہی بھاگ تھوڑی جارہی ہے جو آپ اتنی جلدی مچا رہی ہیں۔دُرید کو اُن کی بات پسند نہیں آئی۔

لڑکیوں کے معاملے میں دیر نہیں کرنی چاہیے میں چلتی ہوں تم حریم سے بات کرکے مجھے بتانا۔کلثوم بیگم اپنی بات کہہ کر چلی گئ پیچھے دُرید اُن کے رویے کے بارے میں سوچتا رہ گیا اُس کا دل فلحال حریم کی شادی کے لیے مان نہیں رہا تھا پر کلثوم بیگم کے بار بار اسرار پہ وہ مجبور ہوگیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

اتنی دیر کردی۔فجر جو کب سے یامین کا انتظار کررہی تھی پر ارمان جانے کہاں اُس کو لیکر غائب ہوگیا تھا شام کے وقت وہ جب واپس آئے تو فجر چھیننے والے انداز میں اُس سے یامین کو لیتی بولی

بس گھومنے پِھرنے میں وقت کا پتا نہیں چلا پت دیکھے ہم رات سے پہلے واپس آگئے۔ارمان آسمان کی جانب دیکھ کر بتانے لگا

بڑا احسان کیا۔فجر نے طنزیہ کیا

نہیں احسان والی تو کوئی بات نہیں اب میں چلتا ہوں۔ارمان مسکراکر بول کر یامین کے سر پہ پیار کیا۔

اگر بچے اتنے پسند ہیں تو شادی کیوں نہیں کرلیتے۔فجر نے جانے کیا سوچ کر پوچھا

کرلیں شادی؟ارمان دانتوں کی نمائش کرتا اُلٹا اُس سے پوچھنے لگا۔

کیا مطلب؟فجر نے گھورا

میرا مطلب کرلوں گا شادی۔ارمان گڑبڑا کر جلدی سے بولا

ہمم مجھے تم سے ایک کام تھا۔فجر نے سنجیدگی سے پوچھا

جی بتائے۔ارمان جی جان سے متوجہ ہوا۔

مجھے یمان کا پرسنل نمبر چاہیے۔فجر کی بات پہ ارمان بُری طرح سے پھسا۔

انہوں نے منع کیا ہے کسی کو بھی نمبر دینے سے۔ارمان سرجھکائے بولا

میں کسی نے اُس کی بہن ہوں وہ بھی بڑی۔فجر نے جتایا

میں جانتا ہوں پر سر ناراض ہوگے۔ارمان نے اپنی مجبوری بتائی۔

نمبر دے رہے ہو یا نہیں؟فجر نے دو ٹوک انداز میں پوچھا تو ارمان سر اُٹھا کر اُس کو دیکھا جس کے چہرے پہ اُمید بھرے تاثرات تھے اور یہی ارمان کی ہار ہوئی تھی بنا یمان کے ری ایکشن کا سوچتے اُس نے نمبر دے دیا۔

شکریہ۔فجر کے چہرے پہ چمک آئی تھی جو ارمان نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

میں چلتا ہوں پھر۔ارمان اتنا کہتا واپسی کے راستے چلاگیا۔

امی آج ہم نے بہت انجوائے کیا جھولے پہ بھی بیٹھا اور پارک میں ہم نے فٹ بال گیم بھی کھیلی۔فجر باہر کا  دروازہ بند کرکے یامین کو لیتی اندر آئی تو وہ کسی ریڈیو کی طرح شروع ہوگیا۔

اچھا پر میری جان اگلی بار آپ اِن انکل کے ساتھ نہیں جائے گے۔فجر نے پیار سے سمجھایا

پر کیوں وہ ارمان انکل تو بہت پیارے ہیں مجھے آئسکریم بھی کِھلائی۔یامین کی آخری بات پہ فجر آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

اتنی سردی میں اُس نے تمہیں آئسکریم کِھلائی اگر تمہاری طبیعت خراب ہوئی تو آدھی رات ہسپتال ہمیں وہ لیں جائے گا۔فجر کو ارمان پہ انتہا کا غصہ آیا۔

وہ۔یامین اپنی بے اختیاری پہ لب دانتوں تلے دباگیا۔

چلو تم اندر اپنے اِس ارمان انکل کو تو بھول جاؤ۔فجر اُس کو گود میں اُٹھائے بولی تو یامین کا منہ بن گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کافی۔یمان ٹیرس پہ کھڑا تھا جب نور نے کافی کا کپ اُس کی طرف بڑھایا

شکریہ۔یمان نے کپ تھام کر کہا

سوئے نہیں ابھی تک؟نور نے پوچھا

کافی پی کر چلا جاؤں گا سونے کے لیے۔یمان نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

تمہاری مسکراہٹ بہت پیاری ہے اِس کو چہرے سے علیحدہ مت کیا کرو۔نور نے مسکراکر کہا

چہرے سے مسکراہٹ خود علیحدہ ہوجائے تو؟یمان نے سوال کیا

تو انسان کو چاہیے وہ خوش ہونے کی وجہ تلاش کرے اپنا ماضی اپنا کل بُھلانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔نور نے کہا تو یمان کی گرفت کپ پہ مضبوط ہوئی۔

آپ کو پتا ہے بات کرنا اور اُس پہ عمل کرنا یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں بات تو ہر کوئی کرسکتا ہے مگر اُس پہ عمل کوئی کوئی کرتا ہے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ہے کجھ چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

یہ بتاؤ کیا تم شروع سے اتنے سنجیدہ مزاج ہو؟نور نے پوچھا

حالات نے بنادیا ہے۔یمان نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

تمہاری بات روزی سے پکی ہوگئ ہے اگر ایسے میں وہ لڑکی تمہارے سامنے آئے تو تم کیا کروگے؟نور نے متجسس لہجے میں کہا

میں خوشی سے مرجاؤں گا۔یمان کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا

یمان۔نور نے تنبیہہ کی

میرے اندر اُن کے ملنے کی اُمید سالوں پہلے دم توڑ گئ تھی اور آپ کو پتا ہے میں نے کبھی اُن کا چہرہ نہیں دیکھا آٹھ سال ہوگئے ہیں پر میرے اندر صرف ایک بار ملنے کی خواہش ہے اُن کا چہرہ دیکھنے کی نہیں وہ جو بھی ہیں جیسی بھی ہوگی مجھے وہ جی جان سے قبول ہے مجھے اُن کی خوبصورتی سے کوئی غرض نہیں مجھے عشق ہے اُن کی پاکیزگی سے مجھے عشق ہے اُن کی حیا سے اُن کا ہر وقت احتیاط سے رہنا مجھے لگتا ہے میں پاگل ہوگیا ہوں کبھی سوچتا ہوں اُن کو بھولنے کی کوشش کرو مگر جب یہ خیال آتا ہے تو دل چاہتا ہے خود کو ختم کرڈالوں۔یمان کھوئے ہوئے انداز میں اپنی کیفیت بتانے لگا۔

خود پہ کنٹرول کرنا سیکھو یمان خود کو ایسا بناؤ کے تم کسی کے اِشارے پہ نہ چلو تمہیں کسی کی خواہش نہ ہو بلکہ ہر ایک کو تمہاری خواہش ہو اپنی ذات کو کسی قلعے کی طرح مضبوط کرو تم چوبیس سال کے مضبوط جسامت کے مرد ہو ایسی کمزور کرنے والی باتیں تمہیں زیب نہیں دیتی۔نور اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتی سمجھانے لگی۔

یہ باتیں سترہ سال کا یمان کررہا ہے آپ سے جس کی ساری خواہشات ایک خواہش پہ بھاری پڑگئ تھی اور وہ تھی آروش شاہ کی محبت۔یمان نے جانے کتنے سال بعد اُس کا نام لیا تھا جس کو سن کر نور حیران ہوئی تھی۔

کالج لائیف والا یمان چاہتا تھا اُس کو آروش شاہ کی توجہ ملے جب اُن کے ہاتھ میں کتابیں دیکھتا تھا نہ تو مجھے حد سے زیادہ جلن ہوتی تھی کیونکہ جب وہ کوئی کتاب پڑھتی تھی تو اُن کو آس پاس کے کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا تھا اور ایسی توجہ میں اپنے لیے چاہتا تھا چاہتا ہوں چاہتا رہوں گا پر کبھی انہوں نے مجھے ایسی توجہ نہیں تھی اُن کا تعلق سید گھرانے سے تھا میرا نہیں تو اِس میں میری تو کوئی غلطی نہیں تھی نہ محبت اوقات دیکھ کر تو نہ کی جاتی نہ پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا یہ سوال مجھے ایک پل کے لیے بھی چین لینے نہیں دیتا اگر میرے نصیب میں اُن کی محبت نہیں تھی تو پھر میرے دل میں محبت کا انوکھا احساس کیوں پیدا ہوا میں تو انجان تھا مجھے کیا خبر تھی ایسی محبتوں کی میرے لیے تو میری بہنیں اور والدین ہی سب کجھ تھے میری دُنیا اور میرا جنون تھا پاکستان کا مشہور سنگت بننا بس یہی تھا اور میں اِس میں مگن تھا پھر میری زندگی میں وہ آئی تو سب کجھ بدل گیا جہاں ہر وقت میرے چہرے پہ مسکراہٹ کا بسیرا ہوتا تھا وہ مسکراہٹ بس ان کے لیے مخصوص ہوگئ جب اُن پہ نظر نہیں پڑتی تھی تو بے سکونی سی محسوس ہوتی تھی میں مریضِ عشق بن گیا تھا جس کی دوا بہت مہنگی تھی اور میں ایک لاعلاج بیماری کا مریض بن گیا۔یمان جیسے اپنی باتوں سے خود کا مذاق اُڑا رہا تھا نور کافی پینا بھول کر یک ٹک یمان کا چہرہ دیکھنے لگی اُس کو بے اختیار یمان پہ ترس آیا جو مضبوط نظر آنے والا شخص مضبوط نہیں تھا۔

میں چلتا ہوں کافی تو ٹھنڈی ہوگئ۔یمان کافی کا کپ نور کے ہاتھ میں دیتا بولا

گُڈ نائٹ۔نور نے کہا

گڈ نائٹ۔یمان اتنا کہتا اپنے کمرے میں آیا۔

میڈیسن کہاں گئ؟یمان کمرے میں داخل ہوتا سائیڈ ٹیبل کے ڈرار کھول کر وہاں سے اپنی میڈیسن لینی چاہی مگر وہ نہیں تھی تبھی وہ اپنی پیشانی مسلتا ارمان کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

السلام علیکم سر۔ارمان نے پہلی ہی بار میں بار کال ریسیو کرتا سلام کرنے لگا۔

میری میڈیسن کہاں ہیں جو تمہیں کہا تھا میرے کمرے کی سائیڈ ٹیبل کی ڈرار میں رکھنا۔یمان سلام کا جواب دیئے بنا کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہلتا بے چینی سے پوچھنے لگا۔

سر وہ تو

کیا وہ تو جلدی بتاؤ مجھے ضرورت ہے اُس کی۔یمان اُس کی بات کاٹتا پریشانی سے بولا

وہ سر دلاور نے کہا تھا آپ کو نہیں دینی۔ارمان نے ہچکچاہٹ میں بتایا

کیا مطلب نہیں دینی اُن کو بتایا کس نے تھا۔یمان غصے سے پوچھنے لگا۔

مجھ سے پوچھا تھا۔ارمان نے ڈر کر بتایا

تم سے پوچھا اور تم نے بتا دیا کیا کہنے ہے تمہارے جب میں نے ایک بار منع کردیا تھا اُن کو میری پرسنل ایکٹویٹی کے بارے میں نہیں بتانا تو کیوں بتایا؟یمان اُس پہ گرجا 

سوری سر اُن کو آپ کی فکر رہتی ہے اور جو آپ میڈیسن لیتے ہیں وہ آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں آپ ہر رات ایک کے بجائے دو تین ایک ساتھ نگل لیتے تھے تبھی سر دلاور نے اُس کو اُٹھوالیا آپ کے کمرے سے۔ارمان نے وضاحت دیتے کہا

کسی کام کے نہیں تم پتا نہیں میں نے کیوں تمہیں اپنے کام کے لیے ہائیر کیا ہے۔یمان سخت لہجے میں اُس کو سُناتا کال بند کرگیا۔دوسری طرف ارمان اپنے سیل فون کی اسکرین تکتا رہ گیا۔

یمان اپنا موبائیل بیڈ پہ پھینکتا اپنے کمرے سے نکلتا دلاور خان کے کمرے کے پاس آکر دروازہ نوک کیا۔

یمان تم اِس وقت خیریت؟دلاور خان دروازے کے پاس آکر حیرت سے یمان سے پوچھنے لگے پھر ایک نظر پلٹ کر بیڈ پہ سوئی زوبیہ بیگم پہ ڈال کر وہ خود دروازہ بند کرکے باہر آئے۔

مجھے میری میڈیسن چاہیے جو آپ نے میرے روم سے اُٹھوائی تھی۔یمان نے اپنے آنے کا مقصد بتایا

وہ تمہیں نہیں مل سکتی۔دلاور خان نے سہولت سے انکار کیا

کیوں نہیں مل سکتی مجھے وہ چاہیے۔یمان بضد ہوا

دیکھو یمان تمہیں پتا ہے وہ میں تمہیں کیوں نہیں دے رہا جانے کیوں تم اپنی جان کے دُشمن بنے ہوئے ہو میں تم سے اتنا غافل جانے کیسے ہوگیا جو تم یہ میڈیسن پانچ سالوں سے یوز کررہے ہو مجھے پتا ہی نہیں تھا وہ تو شکر ہے جو اُس دن ڈاکٹر نے مجھے بتایا میں نے ارمان کی خوب کلاس لی تبھی اُس نے مجھے بتایا۔دلاور خان نے سنجیدگی سے کہا

ارمان کو میں نے منع کیا ہوا تھا میری ایسی کسی پرسنل ایکٹویٹی کا نہ بتائے وہ آپ کو مجھے پتا تھا آپ نے ایسا سلوک کرنا ہے پھر۔یمان ناراض لہجے میں بولا

ارمان تمہارا اسسٹنٹ بعد میں ہے پہلے تمہارا ایک اچھا دوست ہے اِس لیے ہماری طرح اُس کو بھی تمہاری پریشانی ہوتی ہے میں جانتا ہوں تم نے اُس کی کلاس لی ہوگی ذرہ خیال کیا کرو دو سے تین سال بڑا ہے وہ تم سے۔دلاور خان نے اُس کو جھڑکا۔

کوئی بڑا نہیں مجھ سے سیم ایج ہے۔یمان فورن سے بولا

بیٹا جی خود کو تم نے جو اتنا پہلوان بنالیا ہے نہ اُس سے تمہاری عمر نہیں چُھپ سکتی اِس لیے کوششیں بیکار ہیں۔دلاور خان نے بھگور کر تیر مارا

مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی مجھے میڈیسن چاہیے مجھے اُس کے بنا نیند نہیں آتی۔یمان نے زچ ہوکر کہا

وہ اِس لیے کیونکہ تم نے خود کو اُس کا عادی بنالیا ہے ایک دو دن نہیں کروگے استعمال تو خود ہی نیند آجائے گی۔دلاور خان نے ہری جھنڈی دیکھائی۔

آپ نہیں دینگے کے تو موم کے پاس جاؤں گا یا پھر اسٹور سے بھی لے سکتا ہوں۔یمان کا لہجہ دھمکی آمیز ہوگیا۔

رات کے دو بجے کونسا اسٹور اوپن ہوگا؟دلاور خان اُس کو تنگ کرنے لگے۔

ہوگا کوئی نہ کوئی۔یمان نے کہا

چپ چاپ اپنے کمرے میں جاؤ چوکیدار دروازہ نہیں کھول رہا تمہارے لیے رات کا وقت ہے مجھے بھی سونے دو خود بھی سوجاؤ۔دلاور خان جمائی لیتے بولے

میرے ساتھ زیادتی ہے۔یمان نے احتجاج کیا۔

یہاں سے رائٹ جاکر فرسٹ نمبر پہ جو کمرہ ہے وہ تمہارا ہے وہاں جاؤ۔دلاور خان اُس کی بات نظرانداز کرکے ہاتھ سے اِشارے سے اُس کو اُس کا کمرہ بتانے لگے تو یمان ایک نظر اُن پہ ڈالتا جانے لگا جب دلاور خان نے اُس کو آواز دی۔

سنو یمان

جی۔یمان رک گیا۔

یہ جو تم بوڈی وغیرہ کے چکر میں ڈوز لیتے ہو نہ اُس کو بھی ختم کرو ایسا نہ ہو پھر ہمیں تمہارے کمرہ کا دروازہ ہٹا کر بڑا سا گیٹ لگوانا پڑے۔دلاور خان نے بڑے سنجیدگی سے کہا البتہ اُن کی آنکھیں مسکرا رہی تھی۔

میں کوئی ڈوز نہیں لیتا دوسری بات میں یہاں آپ سے اپنی نیند کی دوائی لینے آیا تھا نہ کے آپ کے طعنے سُننے آپ نے تو حد ہی کردی۔یمان جھنجھلاکر کہتا چلاگیا۔دلاور خان بھی ہنس کر اپنے کمرے میں آئے۔

کیا کہہ رہا تھا یمان؟دلاور خان بیڈ پہ بیٹھے تو زوبیہ بیگم نے پوچھا جو جانے کب جاگ گئ تھی۔

کجھ خاص نہیں تم سوجاؤ۔دلاور خان نے ٹالا

مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔زوبیہ بیگم اُٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔

اِس وقت کونسی بات کرنی ہے؟دلاور نے گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا

مجھے بہت عجیب خواب آیا تھا اِس لیے بات کرنا چاہتی ہوں ابھی۔زوبیہ بیگم نے کہا

کہو میں سن رہا ہوں۔دلاور خان نے کہا

تئیس سال ہوگئے ہیں کیا آپ اپنا واعدہ بھول چُکے ہیں۔زوبیہ بیگم نے بس اتنا کہا تھا پر دلاور خان ساری بات سمجھ چُکے تھے۔

تئیس سال سات ماہ پندرہ دن ہوچکے ہیں اور میں کجھ نہیں بھولا جہاں تم نے اتنا صبر کیا ہے وہاں کجھ اور کرلوں۔دلاور خان نے کا لہجہ یکدم سنجیدہ ہوگیا تھا پہلے والی شوخی یکدم غائب ہوگئ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان اپنے کمرے میں آیا اُس نے سونے کی بہت کوشش کی پر نیند نہیں آئی تو وہ اُٹھا وارڈروب کی جانب آیا وہاں اپنے پرسنل ڈرار کا لاک اوپن کیے اُس نے وہاں سے ایک ڈبہ نکالا جو ربن میں بند تھا۔یمان اُس کو لیتا بیڈ پہ بیٹھ کر ربن کھول کر ڈبے کو کھولا تو اُس کی نظر اپنی مطلوبہ چیز پہ پڑی جو ریڈ کلر کی چٹ تھی۔اُس کو دیکھ کر یمان کی آنکھوں کے سامنے وہ پل لہرایا جب اُس نے پہلی بار اِس چٹ کو ہاتھ میں پکڑا تھا جب اُس نے وہ چٹ پہ لکھی تحریر پڑھی تھی۔

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے سُننے والا مسمرائز ہوجاتا ہے۔

پھر وہ دن یاد آیا جب اُس نے دوبارہ سے اِس چٹ کو حاصل کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی!

یمان۔فجر کی آواز پہ وہ یکدم پلٹا تھا

جی۔یمان اپنی حالت پہ قابو پائے بولا

تم جارہے ہو پر جلدی آنا ہمیں تمہاری ضرورت ہے میرے بیٹے کو بھی تمہاری ضرورت ہے بہت۔فجر نے نم لہجے میں اپنی گود میں موجود ایک سالہ یامین کو دیکھ کر اُس سے کہا

آپ اپنا اور یامین کا بہت خیال رکھئیے گا پر میں اپنے آنے کی اُمید نہیں دلاسکتا آپ اور یامین میرے ساتھ چلے مجھے یہاں وحشت ہوتی ہے۔یمان بے بسی سے بولا

غلط کررہے ہو۔فجر نے اُس کو سمجھانا چاہا

کیا صحیح ہے اور کیا غلط اِن سب سے اب میں بہت دور چلا آیا ہوں۔یمان کہتا اُس کی گود سے یامین کو لیکر اُس پہ پیار کرنے لگا۔

تم پہ گیا ہے پورا تمہاری طرح اِس کے گالوں پہ بھی ڈمپلز ہیں۔فجر نے دونوں ماموں بھانجے کو دیکھ کر کہا۔

دعا کیجیے گا قسمت میرے جیسی نہ ہو۔یمان یامین کا ماتھا چوم کر بولا تو فجر کو لگا جیسے اُس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑلیا ہو۔

کیوں ایسی باتیں کرکے تپارہے ہو۔فجر نے افسوس سے کہا

میں چلتا ہوں دیر ہورہی ہے۔یمان یامین کو فجر کی طرف بڑھاکر بولا

ایک چیز لینا بھول رہے ہو۔فجر کی بات پہ یمان کے قدم تھمے تھے۔

کونسی چیز؟یمان سوالیہ نظروں سے فجر کو دیکھنے لگا جواب میں فجر نے اپنی بند مٹھی یمان کی طرف بڑھا کر اُس کو کھولا۔

فجر کے ہاتھ میں وہ چِٹ دیکھ کر یمان تیر کی تیزی سے اُس کے پاس آکر وہ چٹ اپنے ہاتھ میں لے گیا تھا۔

آپ کو کہاں سے ملی؟یمان کا لہجہ اتنا اچانک خوشگوار محسوس کرکے فجر کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔

مجھے لگا تھا تم کوئی خاص ری ایکشن نہیں دوگے مگر اب معلوم ہوا تمہیں ابھی تک وہ یاد ہے بھول کیوں نہیں جاتے اِس کو۔فجر نے کہا

شکریہ آپی مجھے یہ دینے کے لیے۔یمان اُس کی بات سرے سے نظرانداز کرگیا تھا۔

کیا تھا اُس لڑکی میں کیا ہے اِس معمولی کاغذ کے ٹکڑے میں جو تمہارے چہرے پہ اچانک رونق آگئ ہے مت بھولوں اُس نے تمہاری ہنستی بستی زندگی کو اُجاڑا تھا۔فجر نے اُس کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہا

جس کو آپ معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا بول رہی ہیں آپ کو نہیں پتا یہ میرے لیے کیا ہے کبھی کبھی معمولی  نظر آنے والی چیز انسان کے جینے کی وجہ بن جاتی ہے میری زندگی انہوں نے نہیں اُجاری یہ سب میری قسمت میں تھا۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

پتا ہے یمان جب میں نے اِس چٹ کو تمہارے کمرے کی الماری میں دیکھا اِس میں موجود تحریر کو پڑھا تو میرا دل چاہا اِس کو آگ لگادوں پر پھر پتا نہیں کیوں نہیں جلایا۔فجر کی بات پہ یمان کے چہرے پہ اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

میرے پاس بس یہ ایک چیز ہے نشانی کے طور پہ۔یمان نے کہا

فریم کرواکر دیوار پہ چسپاں کردوں۔فجر نے طنزیہ کیا۔

ضرورت پڑی تو ضرور۔یمان نے جوابً کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال!

ایک آنسو یمان کی آنکھ سے نکل کر اُس چٹ پہ پڑا تو یمان نے فورن سے آہستہ سے اُس کو صاف کیا اُس کو ڈر لگنے لگا کہیں تحریر مٹ نہ جائے۔

آپ چاہے میری قسمت میں نہیں تھی مگر میرے دل میں آپ کے علاوہ نہ کوئی ہے اور نہ کوئی کبھی آئے گا میں نے بس ایک لڑکی سے عشق کیا ہے اور وہ آپ ہیں آپ کے علاوہ کسی اور چاہنا کسی اور کو سوچنا میں حرام سمجھتا ہوں۔چٹ پہ موجود آروش نام پہ اپنا ہاتھ پھیرتا یمان تصور میں اُس سے مخاطب ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕

رات کے پہر آروش کی آنکھ کُھلی تو اُس نے اپنے کمرے کی لائٹ آن کرکے وقت دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے وقت دیکھ کر اُس نے گہری سانس بھر کر بیڈ سے اُٹھ کر واشروم کی طرف بڑھی وضو کرنے کی نیت سے۔وضو کرنے کے بعد وہ جائے نماز لیتی تہجد نماز کی نیت کرکے مُسلے پہ کھڑی ہوگئ۔

دعا کا وقت آیا تو اُس نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے اُس کی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہنے لگے تھے جس سے لاپرواہ وہ اپنے ہاتھوں کو  بس دیکھے جارہی تھی۔

یااللہ مجھے معاف کردے۔پانچ منٹ بعد اُس کے ہونٹ پھڑپھرائے۔

میں بہت گنہگار ہوں پلیز یااللہ مجھے معاف کردے میری سوچوں کو میرے اختیار میں کردے میں کسی نامحرم کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی میرے اللہ مجھے اِس گُناہ سے بچالے آپ جانتے ہیں سب جانتے ہے میرے اندر ایک پچھتاوا تھا اُس کی موت کا جو اب ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہ زندہ ہے مجھے اُس سے نفرت سے آپ پلیز اُس کو میرے خیالوں سے باہر کردے میں نفرت میں بھی اُس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی آپ پلیز مجھے ایسا بنادے جیسا آپ چاہتے ہیں میری سوچ کو پاک کردے تاکہ کسی نامحرم کا خیال میرے دماغ میں نہ آئے میں اپنا مقام جانتی ہوں میں یہ بھی جانتی ہوں میرا تعلق کس خاندان سے ہے یااللہ جس طرح آپ نے مجھے نماز پڑھنے کی قرآن پڑھنے کی توفیق دی ہے ٹھیک اُسی طرح مجھ میں اتنی ہمت پیدا کرے جو میں کوئی غلط خیال اپنے دماغ میں نہ لاؤں بیشک آپ ہر چیز پہ قادر ہے۔آروش روتے ہوئے دعا مانگنے کے بعد اُٹھ کر واپس اپنے بیڈ پہ آکر لیٹ گئ تھی اُس کو پتا تھا اب ساری رات جاگ کے گُزارنی ہے کیونکہ نیند کو تو اُس کے پاس آنا نہیں۔

ایک طرف دور اسلام آباد میں یمان مستقیم رات کے وقت اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا آسمان میں موجود چاند کو دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف اپنے گاؤں کی حویلی میں موجود آروش جاگ کر رات گُزار رہی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شازل اور ماہی کو شہر پہنچتے وقت کافی دیر ہوچکی تھی شازل اُس کو گھر چھوڑتا خود کسی کام سے باہر چلاگیا تھا جس پہ ماہی پورے گھر کا جائزہ لینے لگی جو تین کمروں پہ مشتمل ایک خوبصورت سا اپارٹمنٹ تھا بڑا سا ٹی وی لاؤنج تھا عین پاس شاید بیٹھک کی جگہ تھی جس کو ڈرائینگ روم کا نام دیا ہوا تھا ماہی نے پورا گھر چیک کرلیا تھا تینوں کمرے لاکڈ تھے ڈرائینگ روم تک کا دروازہ بھی بند تھا طویل سفر کرنے کے بعد اُس کو تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی تبھی لاؤنج میں موجود صوفے پہ بیٹھ کر شازل کے آنے کا انتظار کرنے لگی عبایا اُس نے کب کا اُتار دیا تھا اب وہ سادہ سے گلابی کلر کے شلوار قمیض میں ملبوس تھی

پتا نہیں کب آئے گے اتنی رات ہوگئ ہے یہ بھی نہیں سوچا ایک عدد بیوی کو گھر میں اکیلا چھوڑ آیا ہوں جو یہاں پہلی بار آئی ہے۔کافی دیر تک شازل کو نہ آتا دیکھ کر ماہی نروٹھے پن سے بڑبڑائی ایک تو اب اُس کی کمر تک اکڑگئ تھی۔

صوفے پہ سوجاتی ہوں۔ماہی اپنے پیر سیدھے کرتی صوفے کو اپنا بیڈ بنالیا تھکن کی وجہ سے جلدی ہی نیند نے اُس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہی

ماہی

اُٹھو شاباش یہاں کیوں سو رہی ہوں۔شازل کھانے پینے کا سامان لایا تھا تو اُس کی نظر بے آرامی سے صوفے پہ سوئی ماہی پہ پڑی تبھی وہ شاپرز ٹیبل پہ رکھتا ماہی کو جگانے لگا۔

آپ۔ماہی نے اپنی آنکھیں کھولی تو شازل کو خود پہ جھکا پایا تو فورن سے اُٹھ بیٹھی۔

ہاں میں کھانا لایا تھا تمہیں بھوک لگی ہوگی۔شازل نے بتایا

آپ نے بہت دیر کردی۔ماہی ڈوپٹہ اچھے سے کندھوں پہ ڈالتی شازل سے پوچھنے لگی۔

ہاں یار بس دیر ہوگئ تم بیٹھو یہاں میں کچن سے پلیٹس لاتا ہوں۔شازل نے کہا

مجھے بتائے میں لیکر آتی ہوں۔ماہی نے اُٹھتے ہوئے کہا۔

تم بیٹھو میں لاتا ہوں۔شازل اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتا خود کچن کی جانب گیا۔

میں نے اپنے ایک دوست سے کہا ہے کجھ دن تک ملازمہ کا بندوبست ہوجائے گا۔شازل واپس آتا ماہی کو بتانے لگا۔

ملازمہ کیوں؟ماہی نے حیرت سے پوچھا

میں تو دن میں زیادہ تر باہر ہوتا ہوں تمہیں اگر کوئی کام ہو تو اُس سے کہنا اور وہ ساتھ ہوگی تو تمہیں یوں اکیلے رہنے میں بوریت بھی نہیں ہوگی پہلے سوچا حویلی میں سے کسی ملازمہ کو لاؤں پھر اپنا خیال جھٹک دیا۔شازل پلیٹس لگاتا بتانے لگا۔

نہیں مجھے کسی ملازمہ کی ضرورت نہیں۔ماہی نے انکار کیا۔

کیوں ضرورت نہیں تمہارے سارے کام وہ کیا کردیا کرے گی تمہیں پتا ہے حریم کے پاس بھی ایک کام والی ہے جو اُس کے سارے کام کردیتی ہے نور نازلین کے پاس بھی ہے آروش کے پاس تو بچپن سے ہوتی تھی ایک پر پتا نہیں کیوں وہ ملازمہ غائب ہوگئ پھر اُس کے بعد میں نے آروش کے پاس کسی ملازمہ کو نہیں دیکھا۔شازل تفصیل سے سب کجھ اُس کو بتانے لگا اور ساتھ کھانا کھانے کی شروعات بھی کرنے لگا۔

آپ کے یہاں حویلی میں تو ملازموں کی فوج ہے پر مجھے اپنا کام خود کرنے کی عادت ہے یہاں میں آپ کا اور اپنا کام کرلوں گی مجھے اچھا لگے گا۔ماہی نے مسکراکر کہا

مرضی ہے تمہاری۔شازل نے زیادہ فورس نہیں کیا

آپ ویسے کیا کام کرتے ہیں؟ماہی کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

میں مونال ریسٹورنٹ میں ویٹر کی جاب کرتا ہوں۔شازل نے سنجیدہ لہجے میں بتایا تو ماہی کھانا بھول کر حیرت سے شازل کو دیکھنے لگی جو سکون سے پانی پی رہا تھا 

واقع؟ماہی کو یقین نہیں آیا

ہاں کیوں کیا ویٹر کی جاب کرنے میں کوئی قباحت ہے؟شازل نے پوچھا

نہیں پر وہ جاب آپ کرتے ہیں؟ماہی کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔

ہاں تمہیں میرا گھر دیکھ کر لگ نہیں رہا میں کتنا غریب بندہ ہوں۔شازل کو ماہی کا حیرانگی سے بھرا چہرہ دیکھ کر ہنسی آرہی تھی۔

آپ کا یہ اپارٹمنٹ بہت خوبصورت ہے آپ غریب تو نہیں بلکہ آپ کا تعلق بہت اونچے خاندان سے ہیں آپ شھباز شاہ کے بیٹے ہیں جو گاؤں کے سرپنج ہیں۔ماہی نے جلدی سے کہا

بلکل میں شھباز شاہ کا بیٹا ہوں مگر مجھے اپنی زندگی اپنے طریقے سے گُزارنا پسند ہے مجھے کسی کا پابند ہونا اچھا نہیں لگتا میں یہاں رہتا ہوں کیوں رہتا ہوں اِس لیے کیونکہ یہاں کوئی مجھے روک ٹوک نہیں کرتا یہاں ایسے کوئی اصول نہیں جن کو دیکھ کر میرا دل خراب ہو مجھے ایڈوینچر سے بھری زندگی پسند ہے جو مجھے چاہیے اور وہ گاؤں میں نہیں یہاں میسر ہے میں اگر گاؤں میں رہوں گا تو لالہ کی طرح زمینے کی دیکھ بھال کرنے ہوگی ڈیرے پہ جانا ہوگا لوگوں کے مسائل سُننا پڑے گے کیونکہ میں شھباز شاہ کا بیٹا ہوں پھر فیصلہ مجھے وہ کرنا پڑے گا جو بڑا آدمی ہوگا کوئی غریب آدمی کا ہوگا تو ہم اُسے غلط قرار دینگے سیدھی بات یہ ہے مجھے زمینوں کی دیکھ بھال کرنا پسند نہیں کجھ سال بعد نئے سرپنج کا فیصلہ ہوگا لالہ نے انکار کردیا ہے میں نہیں چاہتا وہاں کوئی میرا نام لے تبھی میں گاؤں سے دور رہتا ہوں کیونکہ جب وقت آئے گا کوئی بھی سرپنج پہ میرا نام نہیں لے گا میں نے گاؤں والوں کے لیے کیا ہی کیا ہے مجھے اپنی اِس زندگی سے پیار ہے جو میں جی رہا ہوں یہاں سکون ہے۔شازل کھانے سے ہاتھ اُٹھاتا سنجیدگی سے بتانے لگا۔

آپ کی ہر بات ٹھیک مگر آپ ویٹر کی جاب کیسے آپ تو بہت پڑھے لکھے ہیں میں نے تو سُنا تھا آپ اور آپ کے بھائی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھے ہیں۔ماہی نے کہا تو شازل کا قہقہقہ نکل گیا۔

ہاہاہاہاہاہا ماہی یو آر سو کیوٹ مطلب تم کیا واقع اتنی معصوم ہو میں نے تو ایسے ہی جسٹ مزاقً تم سے کہا۔شازل اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے گال کھینچ کر بولا تو ماہی اپنی جگہ چور سی ہوگئ

💕💕💕💕💕💕💕💕

کمرے سب لوکڈ ہیں اور مجھے سونا ہے۔کھانے سے فارغ ہوکر ماہی نے شازل سے کہا

میں کھولتا ہوں آج ہم روم شیئر کرتے ہیں کیونکہ باقی کے جو دو کمرے ہیں اُن کی صفائی نہیں ہوئی اور سامان بھی کوئی نہیں کل میں فرنیچر کا بندوبست کرلوں گا۔شازل نے کہا

تو کیا ہم الگ الگ رومز میں رہے گے۔ماہی نے پوچھا

ہاں کیونکہ حویلی میں تو مجبوری تھی یہاں تو ایسا کجھ نہیں۔شازل نے عام انداز میں کہا اور ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اچھا۔ماہی کا دل اُداس ہوگیا تھا اُس کا دل اچانک سے ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا اُس کو یہ بات تکلیف پہنچا رہی تھی کے شازل اُس کو ایک موقع تک نہیں دے رہا تھا چاہے جیسے بھی جن بھی حالات میں اُن کی شادی ہوئی تھی پر شادی تو ہوئی تھی نہ شریعت کے حساب سے وہ میاں بیوی تھے پر یہ بات شاید شازل جان کر بھی نظرانداز کررہا تھا۔

ماہی۔شازل نے کمرے سے آواز دی تو وہ اپنی سوچو کی دُنیا سے باہر آئی۔

جی آتی ہوں۔ماہی خود کو کمپوز کرتی کمرے میں داخل ہوئی جہاں بیڈ پہ شازل بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا موبائیل میں مصروف تھا۔ماہی خاموشی سے چلتی بیڈ کی ایک سائیڈ پہ آتی کروٹ بدل کر لیٹ گئ پھر کجھ سوچ کر اُس نے اپنا رخ شازل کی طرف کیا جو موبائل میں جانے کیا کررہا تھا۔

آپ کو لائف پارٹنر کیسی پسند ہیں؟ماہی کے چانک سوال پہ شازل چونک کر اُس کو دیکھنے لگا۔

یہ کیسا سوال ہے۔شازل اپنا سیل فون سائیڈ ٹیبل پہ رکھتا اُس کی جانب متوجہ ہوا۔ماہی نے شازل کو سیل فون رکھتے دیکھا تو اُس کو خوشی ہوئی کے وہ اُس کی بات عدم دلچسپی سے نہیں بلکہ دلچسپی سے سن رہا ہے۔

مطلب آپ نے شادی کے حساب سے کسی لڑکی کو آئیڈیلائیز کیا ہوگا نہ۔ماہی نے سمجھانا چاہا

نہیں میں نے ایسا کجھ نہیں سوچا۔شازل اتنا بتاکر اُس کی طرف کروٹ لیکر لیٹ گیا۔

کیوں؟ماہی کو حیرت ہوئی۔

تم حیران بہت ہوتی ہو۔شازل نے شرارت سے اُس کی ناک دبائی۔

بتائے نہ کیوں نہیں سوچا۔ماہی نے بے چینی سے پوچھا۔

کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا شادی کرنا میری زندگی کی ڈکشنری میں شادی کرنا نہیں تھا۔شازل نے بتایا

یہ کیا بات ہوئی شادی تو ہر کوئی کرتا ہے۔ماہی کو سمجھ نہیں آیا

مجھے نہیں تھا پسند شادی کرنا۔شازل بیزار شکل بنائے بولا

کیا آپ کو کوئی پسند تھی جو آپ کو نہیں ملی تو آپ نے شادی کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیا؟ماہی نے غور سے شازل کا چہرہ دیکھا

مجھے کبھی کوئی لڑکی پسند نہیں آئی اگر آتی تو میں ڈنکے کی چوٹ پہ اُس سے شادی کرتا۔شازل مضبوط لہجے میں بولا

کیسے مطلب خاندان کی لڑکیاں تو آپ نے دیکھی نہیں ہوتی پردہ جو ہوتا ہے اور اگر آپ کو خاندان سے باہر کی لڑکی پسند آتی تو وہ کیسے آپ سے ملتی آپ کے یہاں تو خاندان سے یا ذات سے باہر شادیاں نہیں ہوتی نہ؟ماہی متجسس لہجے میں بولی

ہاں پر اگر پسند آتی تو میں اُس کو پالیتا کسی اور کے لیے چھوڑتا نہیں۔شازل سکون سے کہتا سیدھا لیٹ گیا۔

اچھ

اب سوجاؤ رات بہت ہوگئ ہے باقی کی باتیں پھر کبھی ہوگی۔ماہی کجھ کہنے والی تھی جب شازل نے بیچ میں اُس کو خاموش کروادیا جس پہ ماہی نے منہ بنالیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

حریم بی بی آپ کو دُرید شاہ ہال میں بلارہے ہیں۔حریم کتاب کی ورق گردانی کرنے میں مصروف تھی جب ملازمہ نے کمرے میں آکر اطلاع دی

ٹھیک ہے آپ جائے ہم آتے ہیں۔حریم کتاب سائیڈ پہ کرتی اچھے سے ڈوپٹہ پہن کر بولی۔

جی ٹھیک ہے۔ملازمہ اتنا کہتی واپس چلی گئ

السلام علیکم۔دُر لا۔حریم ہال میں آتی مسکراکر سلام کرنے لگی

وعلیکم السلام آؤ بیٹھو۔دُرید نے کہا تو وہ اُس کے ساتھ والے صوفے پہ براجمان ہوئی۔

آپ کو کوئی کام تھا؟حریم نے پوچھا

بنا کام کے بات نہیں ہوسکتی کیا؟دُرید نے شرارت سے پوچھا

ہوسکتی ہے بلکل یہاں ہم آپ سے ہی تو بات کرتے ہیں۔حریم نے مسکراکر کہا

تمہاری رزلٹ کے آنے کی ڈیٹ انائوس ہوئی ہے؟دُرید نے پوچھا۔

ابھی تک تو نہیں ہوئی شاید ایک دو دن تک آجائے۔حریم نے بتایا

ہممم ٹھیک میں نے کجھ یونیورسٹیز دیکھی ہے تم بتانا 

سچ دُر لا ہمیں تو پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروانا ہے لاہور میں کتنا پیارا شہر ہے نہ۔دُرید ابھی بتا ہی رہا تھا جب حریم پرجوش ہوتی اُس کی بات کاٹ کر بولی

لاہور یہاں سے بہت دور حریم اور میں تمہیں اتنا دور نہیں بھیج سکتا شازل اسلام آباد میں ہے اور اب تو اُس کے ساتھ اُس کی بیوی بھی ہے اِس لیے میں تمہیں وہاں بھیجوں گا تاکہ مجھے بھی تسلی ہو۔دُرید نے سنجیدگی سے کہا

اچھا ٹھیک ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں اسلام آباد میں پھر ہمیں مری بھی جائے گے سُنا ہے وہاں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے۔حریم نے فورن سے فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا کیونکہ اسلام آباد جانے میں اُس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہاسٹل سے اچھا تھا وہ گھر میں رہتی وارڈن کی کوئی روک ٹوک بھی نہ ہوتی۔

تمہارا رزلٹ آجائے پر مجھے کوئی اور بات بھی کرنی تھی۔دُرید اصل بات پہ آیا

جی کہے۔حریم فورن متوجہ ہوئی۔

تابش کو جانتی ہو؟دُرید نے پوچھا

آپ کے کزن؟حریم نے جیسے تُکا لگایا۔

ہاں وہی۔دُرید نے پوچھا

ہم انہیں کیسے جان سکتے ہیں۔حریم کی بات پہ دُرید نے اُس کو گھورا

آپ کے کزن تو ایسے کہا جیسے بہت اچھے سے جانتی ہو اُسے۔دُرید نے سرجھٹک کر کہا

ہمیں بس اُن کا نام معلوم ہے کیونکہ وہ آپ کے کزن ہیں۔حریم نے کندھے اُچکاکر کہا

اماں سائیں سے خالہ جان نے تمہارا رشتہ مانگا ہے انہیں تم پسند ہو اور وہ تمہیں تابش کی دولہن بنانا چاہتے ہیں۔دُرید کی بات کسی بم کی طرح اُس کے سر پہ گِری تھی حریم کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی تھی وہ بے یقین اور حیرت کے ملے جُلے تاثرات کے ساتھ دُرید کا چہرہ دیکھنے لگی اُس کے تاثرات نوٹ کرتا دُرید سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ گیا۔

کیا تمہیں اعتراض ہے۔دُرید نے اندازہ لگایا

جی بلکل ہمیں اعتراض ہے۔حریم اپنی جگہ سے اُٹھتی دُرید سے بولی اُس کا دل خوف سے دھڑک رہا تھا دُرید کی بات اُسے پریشانی میں مبتلا کرگئ تھی۔

پر کیوں تابش بہت اچھا لڑکا ہے۔دُرید نے سمجھانا چاہا

ہمیں کوئی غرض نہیں کسی کے اچھے ہونے سے ہمیں ابھی شادی نہیں کرنی۔حریم کی آواز بھر آئی تھی جس کو محسوس کرکے دُرید پریشان ہوا۔

تمہاری پڑھائی پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا اِس لیے اُس کے لیے تم پریشان نہ ہو۔دُرید کو لگا شاید وہ ابھی پڑھنا چاہتی ہے تبھی اُس کو تسلی کروانے لگا۔

ہمیں اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔حریم اتنا کہتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی پیچھے دُرید پریشانی سے اُس کے ردعمل کے بارے میں سوچنے لگا اُس کو اندازہ نہیں تھا حریم اتنا شدید قسم کا رد عمل دے گی۔

اپنے کمرے میں آکر حریم اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹ کر رو پڑی۔

ہمیں نہیں کرنی کسی سے شادی وہ ہم سے ایسی بات کیسے کرسکتے ہیں۔حریم ہچکی کے درمیان بڑبڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم آج پھر آگئے۔فجر نے دوسرے دن ارمان کو دیکھا تو اُس کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ جب بھی آتا تھا ایک یا دو ماہ بعد آتا تھا وہ بھی یمان کے کام سے اور آج اتنی جلدی اُس کا آنا سمجھ نہیں آیا۔

یامین سے ملنے آیا تھا وہ اُس کے اسکول کی چھٹیاں ہیں نہ۔ارمان نے کہا

یامیں گھر پہ نہیں۔فجر نے بتایا

کہاں گیا ہے وہ؟ارمان نے جاننا چاہا

تم سے مطلب۔فجر نے اُس کو گھورا

جی ظاہر ہے مطلب ہے ملنے جو آیا ہوں اتنی دور سے۔ارمان نے معصوم شکل بنائی

لگتا ہے یمان نے تمہیں کام سے نکال دیا ہے ویلے ہو اب تبھی یہاں وہاں گھومتے رہتے ہو۔فجر نے تُکا لگایا۔

ایسی کوئی بات نہیں میری جاب ہے۔ارمان نے فخریہ بتایا

تو وہاں جاؤ یہاں تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔فجر نے اتنا کہہ کر دروازہ بند کرنا چاہا

میں یامین سے ملنے آیا ہوں آپ پلیز اُس کو تو بلوائے۔ارمان نے جلدی سے دروازے کے درمیان اپنا پیر رکھا

یہ کیا بدتمیزی ہے۔فجر ناگواری سے بولی

بدتمیزی کہاں میں تو بس یامین کا پوچھ رہا تھا وہ مجھے مس کررہا ہوگا۔ارمان نے دروازے کے درمیان اپنا پیر ہٹایا۔

وہ عجنبی لوگوں کو یاد نہیں کرتا اِس لیے تم جاؤ دوبارہ یہاں مت آنا۔فجر نے دو ٹوک انداز میں کہا

چلا جاؤں گا پر اتنا تو بتادے یامین ہے کہاں؟ارمان کی سوئی ایک ہی جگہ پہ اٹکی ہوئی تھی۔

عیشا کے پاس گیا ہے۔فجر نے زچ ہوتے بتایا

عیشا کون؟ارمان ناسمجھی سے پوچھنے لگا

میری بہن۔فجر نے دانت پیس کر بتایا

او اچھا میرے ذہن سے نکل گیا آپ اُن کا ایڈریس بتادے میں لیکر آتا ہوں یامین کو۔ارمان اپنے سر پہ ہاتھ مارکر بولا

میں یمان سے کہوں گی تم بہت تنگ کرتے ہو۔فجر نے اُس کو دھمکی دی تو ارمان کا منہ کُھلا کا کھلا رہ گیا۔

میں نے کب آپ کو تنگ کیا۔ارمان نے احتجاجاً کہا

ابھی کیا کررہے ہو؟فجر نے جتایا

میں تو بس یامین کا پوچھ رہا تھا۔ارمان نے کہا

یامین عیشا کی طرح رہے گا دو دن تک سُن لیا اب جاؤ۔فجر نے جان چھڑوانی چاہی

تو کیا آپ یہاں اکیلی ہوتی ہیں۔ارمان نے دوسرا سوال کیا۔

اب اگر تم یہاں سے نہیں گئے تو میں تمہارا یا اپنا سر دیوار پہ ماردوں گی۔فجر نے وارن کیا

میں جاتا ہوں پھر آؤں گا۔ارمان اُس کی دھمکی پہ سٹپٹایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آروش تم سے بات ہوسکتی ہے؟دُرید آروش کے کمرے کا دروازہ نوک کرکے اُس سے بولا

جی لالہ ضرور آپ بتائے۔آروش نے مسکراکر اندر آنے کی اِجازت دی۔

کیا تمہیں پتا ہے تابش کا رشتہ حریم کے لیے آیا ہے؟دُرید نے پوچھا

جی اماں سائیں سے سرسری سے بات ہوئی تھی اِس موضوع پہ۔آروش نے بتایا

میں نے حریم سے بات کی وہ کافی ڈسٹرب ہوگئ تھی کل سے اپنے کمرے سے نہیں نکلی تم اُس سے بات کرو جاکر اُس کو سمجھاؤ۔دُرید نے کہا

لالہ آپ کو نہیں لگتا حریم ابھی بہت چھوٹی ہے وہ شادی جیسی بڑی زمیداری پوری نہیں کرسکتی۔آروش نے اُس کی بات سن کر کہا

اماں سائیں بضد ہے اور میں اُن کی ضد کے آگے مجبور ہوں۔دُرید اپنی پیشانی مسلتا پریشان کن لہجے میں بولا

آپ بھی اِس رشتے سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔آروش غور سے دُرید کے تاثرات جانچتے کہا

میں چاہتا ہوں حریم اپنی پڑھائی پوری کرے وہ بہت معصوم ہے ابھی اُس کا بچپنا نہیں گیا ایسے میں شادی کروانا سراسر بے وقوفی اور اُس کے ساتھ ناانصافی ہے۔دُرید نے کہا

میں حریم سے بات کروں گی وہ ضرور میری بات کو سمجھے گی۔آروش نے کجھ سوچ کر کہا

ٹھیک ہے تم ضرور اُس سے بات کرنا ہم اُس کا بھلا چاہتے ہیں۔دُرید نے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریم۔آروش حریم کے کمرے میں آئی تو اُس کو کھڑکی کے پاس اُداس کھڑا پایا۔

جی۔حریم نے اُس کی طرف اپنا رخ کیا۔

تم روئی ہو؟آروش نے اُس کی سرخ آنکھیں دیکھی تو فکرمند ہوئی۔

آپی ہمیں شادی نہیں کرنی آپ پلیز سب کو بتائے۔حریم آروش کے گلے لگتی روتے ہوئے اُس سے بولی

پر کیوں میں تو یہاں تمہیں بتانے آئی ہو تابش بہت اچھا ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا سب سے بڑی بات اُس کو لالہ نے تمہارے لیے پسند کیا ہے تو وہ کیسے غلط ہوسکتا ہے۔آروش نے نرمی سے کہا تو حریم فورن سے اُس سے الگ ہوئی۔

ہمیں نہیں کرنی شادی آپ سب زبردستی کیوں کررہے ہیں اگر ہم آپ پہ بوجھ ہیں تو بتادے ہم چلے جائے گے اپنے بابا کے یہاں۔حریم اپنے آنسو صاف کرتی آروش سے بولی

یہ بات تم نے سوچ بھی کیسے لی تم ہم پہ بوجھ ہو۔آروش کے کجھ کہنے سے پہلے دُرید شاہ کا دروازے کے پاس کھڑا حریم سے بولا

تو ہمیں اور کیا سوچے یہ اچانک آپ سب کو ہماری شادی کا خیال کیسے آگیا۔حریم نے رخ موڑ کر کہا آروش نے دُرید کو دیکھ کر باہر جانا سمجھا اِس لیے وہ چلی گئ۔

شادی تو ایک نہ ایک ہر لڑکی کی ہوتی ہے نہ اب جب تمہاری کرنا چاہتے ہیں تو تم اتنا اوو ری ایکٹ کیوں کررہی ہو۔دُرید نے کہا

ہم اوور ری ایکٹ نہیں کررہے۔حریم نے فورن سے کہا

دیکھو حریم تم ہم سب کو عزیز ہو تمہیں نہیں پتا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں شاید آروش سے بھی زیادہ میں نے تمہارے لیے اگر شادی کا فیصلہ لیا ہے تو سوچ سمجھ کر دیا ہے۔دُرید اُس کا رخ اپنی جانب کیے بولا

اگر آپ ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں تو خود کیوں شادی نہیں کرلیتے ہم سے۔حریم کی بات سن کر دُرید پھٹی پھٹی نظروں سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جو آنکھوں میں اُمید کے جگنوں لیے اُس کے وجیہہ چہرے پہ نظر جمائے ہوئے تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ ناراض ہیں مجھ سے؟ارمان اسٹوڈیو آتا یمان سے بولا جو آج اپنا نیو سونگ رکارڈ کروانے والا تھا۔

کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے۔یمان اپنے گِٹار کا جائزہ لیتا اُس سے پوچھنے لگا۔

مجھے دلاور سر نے حکم دیا تھا۔ارمان نے وضاحت دی۔

کل تم کہاں تھے؟یمان کے اچانک ایسے سوال پہ ارمان چونک پڑا۔

میں یہی تھا۔ارمان نے گڑبڑا کر کہا۔

اسلام آباد میں تو نہیں تھے دو دن سے۔یمان نے سرسری لہجہ اپنایا

مجھے کہاں جانا ہے یہی ہوتا ہوں۔ارمان نے جلدی سے کہا

تم بتانا نہیں چاہتے تو وہ الگ بات ہے ورنہ میں جانتا ہوں تم دو دن سے کراچی تھے کل رات اسلام آباد پہنچے ہو۔یمان کی بات پہ ارمان نے اپنا سرجھکالیا۔

سر وہ

سب تیاریاں ہوگئ ہے میں چلتا ہوں رکارڈنگ کے بعد مجھے ضروری کام ہے بہت۔یمان اُس کی بات ان سنی کرتا چلاگیا تو ارمان اُس کے پیچھے گیا۔

سر یہ لائنز کجھ ایکسٹرا ہے۔یمان گٹار لیکر بیٹھا تو ایک لڑکی اُس کے پاس آئی۔

ہمم۔یمان اُس کے ہاتھ سے پیپر لیکر بس اتنا بولا

اور گانا گانے کی جگہ پہ کھڑا ہوگیا تو اُس کے ایک ساتھ نے گِٹار اُس کی جانب بڑھایا تو یمان گہری سانسیں اندر کھینچتا گِٹار کی تاروں کو چِھیرتا گانا گانے کی شروعات کرنے لگا۔

یاروں سب دعا کرو۔

یاروں سب دعا کروں

مل کر فریاد کروں

دل جو چلاگیا ہے

اُسے آباد کروں

یاروں تم میرا ساتھ دو ذرہ

ارمان جو یمان کے پیچھے آتا اُس سے بات کرنے والا تھا مگر یہاں یمان کو مصروف دیکھتا اپنا سا منہ لیکر رہ گیا وہ جانتا تھا یمان اُس سے ناراض ہے بہت زیادہ تبھی اُس کی بات سُنے بنا یہاں آگیا تھا ورنہ جب بھی اپنے کسی گانے کی رکارڈنگ کرواتا تو اُس کو ساتھ ضرور لیکر جاتا تھا۔

تجھے دیکھا سانسیں مجھے آتی جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

خدا جے سوڑے مُکھرے بناتا ہے جی کم

مرمٹے تجھ پر بھول گئے ہم

دل گیا دل گیا لے گیا صنم

اُسے دیکھا سانسیں مجھے آتی جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

دل گیا دل گیا لے گیا صنم

اُسے دیکھا سانسیں مجھے آتی جاتی جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

دل گیا دل گیا لے گیا صنم

تجھے دیکھا سانسیں مجھے آتی  جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

گانا گانے کے وقت ہمیشہ کی طرح اُس کے سامنے آروش کی آنکھوں کا سایہ لہرایا تھا جس سے وہ چاہ کر بھی خود کو آزاد نہیں کرسکتا تھا۔

دردِ جدائی میرے دل وچ بھردیا

ہائے۔

دِرد جُدائی میرے دل وِچ بھردیا

میٹھی میٹھی نظروں نے جادوں کیسا کردیا

میٹھی میٹھی نظروں نے جادوں کیسا کردیا

یمان کو وہ پل یاد آیا جب اچانک سے اُس کی ٹکڑ آروش سے ہوتے ہوتے رہ گئ تھی اور اُس نے جب پہلی بار آروش کی شہد آنکھوں کو دیکھا تھا تب سے اُس کو ایک نئے جذبے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔

تھوڑا تھوڑا ہنس کر قہر کیسا ڈھار دیا

تھوڑا تھوڑا ہنس کر قہر کیسا ڈھار دیا

اُس کی اداؤں نے دیوانہ مجھے کردیا

دل گیا دل گیا لے گیا صنم

اُسے دیکھا سانسیں مجھے آتی جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

اُسے دیکھا سانسیں مجھے آتی جاتی جب کم

دھڑکن رُک گئ نکلے نہ دم

گانا ختم ہونے کے بعد یمان نے گِٹار سائیڈ پہ کرکے جانے والا تھا جب ارمان اُس کے سامنے آگیا۔

میں کراچی گیا تھا یامین کی وجہ سے اُس کی چھٹیاں ہیں تو سوچا تھا اُس کو گھمانے پِھرانے لے جاؤں گا تو اُس کا دل بہل جائے گا۔ارمان نے ایک سانس میں سب کجھ بتادیا۔

میرے کراچی جانے کی سیٹ بُک کرواؤ۔یمان اُس کی بات کے جواب میں جو بولا ارمان کے لیے وہ ناقابلِ یقین تھا۔

سوری سر میں کجھ سمجھا نہیں۔ارمان کو لگا شاید اُس کو سننے میں غلطی ہوگئ ہے تبھی پوچھا۔

کراچی جاؤں گا میں اور یہ ویکنڈ میں اپنی بہنوں کے ساتھ گُزاروں گا۔یمان اُس کی حیرانگی بھانپتا بتانے لگا۔

اوکے ٹھیک ہے میں ابھی پہلی فلائٹ دیکھتا ہوں کب کی ہے۔ارمان مسکراتا بولا تو یمان نے سر کو جنبش دینے میں اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شازل صبح اُٹھا تو بیڈ پہ ماہی کو نہ پایا وہ اُٹھا اور فریش ہوکر باہر آیا تو ماہی ٹیبل پہ ناشتہ لگا رہی تھی جس کو دیکھ کر شازل کو خوشگوار حیرت ہوئی 

واہ تم اتنی جلدی اُٹھ گئ اور ناشتے کا احتمام بھی کرلیا زبردست۔شازل کرسی گھسیٹتا بیٹھ کر اُس سے بولا

آپ کو اچھا لگا؟ماہی نے خوشی سے پوچھا

بلکل میں تو سوچ رہا تھا مجھے باہر سے کجھ لانا پڑے گا۔شازل نے بتایا۔

میں فجر کے وقت اُٹھی تھی سارا گھر تو کل دیکھ لیا تھا پھر کچن میں گئ وہاں بس کجھ بریڈ انڈے اور جوس کے ڈبے تھے تو میں نے آملیٹ بنالیا آپ کو جانے کیسے لگے وہاں حویلی میں تو سب ہیوی ناشتہ کرتے ہیں نہ سب۔ماہی خود بھی بیٹھ کر بتانے لگی۔

وہاں تو دیسی گیھ والے پراٹھے کھاکر مجھے اپنے وزن کی ٹینش ہوگئ تھی اُپر سے مکھن لسی اپسس مجھے یہ سب کھانا ہضم نہیں ہوتا۔شازل جھرجھری لیکر بولا

اچھا پر یہ سب تو انسان کے لیے اچھی ہوتی ہیں۔ماہی کو تعجب ہوا

ہاں ہوتی ہے پر مجھے عادت نہیں یہ سب کھانے کی سات سال کا تھا جب شہر میں بورڈن اسکول میں مجھے بھیج دیا گیا اُس کے بعد آمریکا گیا شاید میں تب سولہ یا سترہ برس کا ہوگا اُس کے بعد پھر جب پڑھائی کرنے کے بعد میں پاکستان آیا تو گاؤں میں ہونے والی چیز مجھے پریشان کرنے لگی حویلی میں رہنے سے مجھے وحشت سی ہوتی تھی ایسا لگتا تھا جیسے میں یہاں رہا تو مرجاؤں گا تبھی میں نے اسلام آباد رہنے کو ترجیح دی اب دو سے تین سال سے میں یہاں ہوں میری اپنی پہچان ہے یہاں مجھے ہرکوئی میرے نام سے جانتا ہے کوئی سردار شھباز شاہ کا بیٹا سمجھ کر مجھے جھک کر سلام نہیں کرتا نہ کوئی اپنے مطلب کے لیے میری چاپلوسی کرتا ہے۔شازل آملیٹ کھاتا آرام سے اپنی زندگی کے بارے میں بتانے لگا جیسے اپنے بارے میں نہیں کسی اور کا ذکر ہورہا ہو۔ماہی تو بس حیرانگی والے تاثرات چہرے پہ سجائے شازل کا لاپرواہی والا انداز دیکھ رہی تھی۔

آپ سات سال کی عمر سے اپنے ماں باپ سے اتنا دور رہے؟ماہی حیرانگی سے نکل کر پوچھنے لگی۔

ہاں کیونکہ ہم بچپن میں آروش سے بہت لڑائی کرتے تھے ایک دفع میری وجہ سے آروش بیڈ سے گِری تب آروش چار یا پانچ سال کی ہوگی تو بابا سائیں نے مجھے بورڈن بھیج دیا اُنہیں شک تھا کہیں میں دوبارہ یہ حرکت نہ کرلوں۔شازل ہنس کر بتانے لگا

تو آپ کو کبھی آروش سے جیلیسی نہیں ہوتی تھی؟ماہی متجسس ہوئی۔

کون بھائی اپنی بہنوں سے جلتا ہے آروش میں سب حویلی والوں کی جان تھی کیونکہ وہ شھباز شاہ کی اکلوتی بیٹی تھی بورڈن اسکول مجھے ویسے بھی جانا تھا میں بس کجھ جلدی  ہی چلاگیا۔شازل نے بتایا

کافی عجیب اسٹوری ہے مطلب آپ نے اپنے گھر سے شہر سے دور زندگی گُزاری ہے۔ماہی کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔

بابا سائیں کسی سے ڈرتے نہیں تھے مگر اولاد کے سامنے ہر شخص کمزور ہوجاتا ہے بابا سائیں کو بھی کجھ ایسا خدشا تھا کے اُن کے دشمن کہی ہمیں نقصان نہ پہنچادے اِس وجہ سے انہوں ہمیں دور رکھا آروش ڈرائیور کے ساتھ یا کسی ملازمہ کے ساتھ اسکول یا کہی اور نہیں جاتی تھی بابا سائیں خود اُس کو اسکول چھوڑ آتے تھے پھر چھٹی کے دس منٹ پہلے وہ وہاں پہنچ جاتے چاہے اُنہیں کتنی مصروفیات کیوں نہ ہو آروش کے لیے وہ سب کجھ نظرانداز کرجاتے تھے۔شازل نے مزید بتایا

بیٹیاں سب کو پیاری ہوتی ہیں پر شھباز شاہ جس شخصیت کے مالک ہے اتنے سخت گیر قسم کے اُن کا برتاؤ اپنی بیٹی کے لیے اتنا نرم دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ زیادہ تر ایسے مرد کو بیٹوں کی خواہش ہوتی ہے۔ماہی نے اپنے دل میں موجود بات کو بیان کیا۔

میرے بابا سائیں جیسے بھی ہے انہیں چاہ شروع سے ہی بیٹی کی تھی اماں سائیں بتاتی ہیں بابا سائیں میری اور لالہ کی پیدائش کے وقت اتنا خوش نہیں تھے جتنے آروش کی پیدائش پہ ہوئے تھے۔شازل ماہی کو بتاتا جوس کا گلاس پینے لگا۔

انہیں آروش سے اتنا پیار ہے تبھی وہ اُس کی شادی نہیں کرواتے۔ماہی کی بات پہ شازل کا گرفت گلاس پہ مضبوط ہوئی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی تمہیں کجھ نہیں پتا اِس لیے ایسی باتیں مت کیا کروں میرے سامنے۔شازل خود پہ ضبط کیے بولا

میں نے بس ایک بات کہی سوری اگر آپ کو بُرا لگا ہو تو۔ماہی نے شرمندگی سے کہا

آئیندہ احتیاط کیا کرو اور پلیز ایسی بات آروش کے سامنے مت کرنا۔شازل نے کہا۔

جی۔ماہی نے سر کو جنبش دیتے کہا

تم ریڈی ہوجاؤ پھر مارکیٹ چلتے ہیں تم گروسری خود کرلینا۔شازل بات بدل کر بولا

میں عبایا پہن کر آتی ہوں۔ماہی جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھی۔

عبایا پہننا نہ پہننا تمہاری اپنی مرضی ہے یہ مت سمجھنا ہم تم پہ زبردستی کر رہے ہیں۔شازل نے کہا۔

میں اپنی مرضی سے پہن رہی ہوں۔ماہی نے جواب دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

حریم پاگل مت بنو۔ دُرید اپنے غصے پہ قابو پاتا اُس سے بولا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا تھپڑوں سے اُس کا منہ لال کردیتا۔

ہم نے کجھ غلط تو نہیں کہا۔حریم نے سرجھکائے کہا

حریم میرے صبر کا امتحان مت لو۔دُرید نے سخت لہجے میں کہا

آپ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہیں ہمیں آپ سے محبت ہیں اور ہم آپ کے علاوہ 

چٹاخ

حریم کی بات بیچ میں رہ گئ جب دُرید نے زوردار تھپڑ اُس کے گال پہ مارا جس سے وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گِری

تم۔

دُرید کجھ سخت کہتا کہتا رک گیا ایک غصے بھری نظر وہ زاروقطار روتی حریم پہ ڈالتا ٹھاہ کی آواز سے دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا۔

ہم آپ کے بنا مرجائے گے۔حریم نم لہجے میں کہتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لالہ کیا ہوا آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟آروش نے دُرید کو غصے سے باہر جاتا دیکھا تو اُس کے پاس آئی۔

اگر میں یہاں رہا تو مجھ سے کجھ بُرا ہوجائے گا۔دُرید ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بولا

ہوا کیا ہے آپ تو حریم کے پاس تھے نہ۔آروش نے اُس کو اتنا غصے میں دیکھا تو فکرمند ہوئی۔

حریم کو سمجھاؤ آروش ورنہ میں اُسے جان سے ماردوں گا۔دُرید دانت پہ دانت جمائے بولا

لالہ یہ آپ کیا بول رہے ہیں۔آروش کو دُرید کی بات پسند نہیں آئی۔

شادی کرنا چاہتی ہے وہ مجھ سے سمجھ نہیں آرہا یہ خُرافات اُس کے دماغ میں لایا کون ہے۔دُرید کی بات پہ آروش کا ہاتھ بے ساختہ اپنے منہ پہ پڑا۔

حریم نے ایسا خود کہا۔آروش بے یقینی نظروں سے دُرید کو دیکھ کر بولی

ہاں نہ اُس نے میری عمر کا لحاظ کیا اور نہ ہمارے درمیان موجود رشتے کا۔دُرید سخت خائف معلوم ہورہا تھا۔

حویلی میں یہ بات کسی کو پتا چل گئ تو لوگ بہت باتیں بنائے گے۔آروش نے کہا

جانتا ہوں اِس لیے میں اماں سائیں کو کہتا ہوں وہ اِسی جمعے حریم کا نکاح کروائے۔دُرید پتھریلے لہجے میں اپنا منصوبہ بتانے لگا آروش کو بے اختیار حریم پہ ترس آیا۔

💕💕💕💕💕💕

ماضی!

آج شھباز شاہ آروش کو لیکر یمان کے گھر آئے تھے۔اُن کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا آروش کو ایسی جگہ لانے پہ مگر وہ مجبور تھے۔

یہ اُس کا گھر ہے۔آروش کی آواز پہ وہ اپنی سوچو سے باہر آئے۔

ہمممم یہی ہے تمہاری ضد پہ میں یہاں آیا ہوں۔شھباز شاہ نے ہنکارہ بھر کر کہا

میں اندر جاتی ہوں۔آروش نے بے چینی سے کہا

میں ساتھ چلتا ہوں۔شھباز شاہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولے۔

آپ لوگ کون اور یہاں کیوں آئے ہیں؟مستقیم صاحب نے شھباز شاہ اور آروش کو اپنے گھر میں داخل ہوتا دیکھا تو پوچھا۔صحن میں موجود چارپائی پہ بیٹھی فجر اور عیشا بھی اُن کو دیکھ کر کھڑی ہوگئ۔

فجر کہیں یہ؟عیشا فجر سے بولی تو اُس کو ساری بات سمجھ آئی فجر کے تاثرات یکدم سخت ہوئے تھے۔

تم ہو نہ وہ لڑکی جس نے میرے معصوم بھائی کو اپنی جال میں پھنسایا تھا۔فجر دندناتی آروش کے پاس آئی تو آروش ڈر کر شھباز شاہ کا بازوں تھام گئ۔

تھمیز سے بات کرو جانتی نہیں تم کس کے ساتھ کیا بات کررہی ہو۔شھباز شاہ کرخت آواز میں بولے

سب جانتی ہوں میں کس سے اور کیا بات کررہی ہوں آپ مجھے بس اتنا بتائے یمان میرا بھائی کہاں ہے؟فجر نے طنزیہ لہجے میں کہا

میرے بابا سائیں سے ایسے بات مت کرو انہوں نے کجھ نہیں کیا۔آروش کو فجر کا شمھباز شاہ سے ایسے بات پسند نہیں آیا تھا۔

تم تو مجھ سے بات مت کرو تمہیں دیکھے بنا ہی مجھے اتنی نفرت ہوگئ ہے جو میں بتا نہیں سکتی سید گھرانے سے تعلق ہے نہ تمہارا تو اُس کا تھوڑا لحاظ کرتی پردہ تو کرلیا مگر اپنی حدود بھول گئ تم۔فجر کی آواز تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی فائزہ بیگم کی شور کی آواز پہ باہر آئی تھی۔فجر کی باتوں کو سن کر آروش کا سر نفی میں ہلنے لگا۔

میں ایسی نہیں ہوں۔آروش کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو اُس کے نقاب میں جذب ہوئے

فجر ہمیں بات کرنے دو۔مستقیم صاحب جو اب تک خاموش تھے وہ بولے

میں بس آپ سے پوچھنے آیا تھا اپنے بیٹے کی جان کے بدلے کیا لو گے۔شھباز شاہ سپاٹ لہجے میں پوچھنے لگے اُن کی بات پہ فائزہ بیگم ہاتھ اپنے سینے پہ پڑا تھا۔فجر اور عیشا کو کجھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔

ک ک کیا م مطلب؟فجر نے اٹک اٹک کر پوچھا

وہ لڑکا اب زندہ نہیں رہا میرے بندوں نے اُس کا قتل کردیا۔شھباز شاہ عام انداز میں بولے جیسے کوئی بڑی بات نہ ہو اُن کے لیے مگر وہ اپنی بات سے سب کا دل چیر چُکے تھے۔

نہیں میرا یمان۔

فائزہ بیگم اتنا کہتی زمین پہ ڈھے گئ تھی۔

امی۔

امی

فجر اور عیشا بھاگ کر اُن تک پہنچی تھی۔

بابا سائیں انہیں ہسپتال لے جائے۔آروش نے خوف بھری نظروں سے فائزہ بیگم کو دیکھ کر کہا

تم دفع ہوجاؤ یہاں سے تمہاری وجہ سے ہم نے اپنا اکلوتا بھائی کھویا ہے میری بددعا ہے تمہیں کوئی خوشی نصیب نہ ہو خوشیوں کے دروازے تم پہ بند ہوجائے تم لوگوں نے جو میرے بھائی کے ساتھ کیا ہے نہ اُس کا حساب اللہ تم سب سے لے گا تم سب تڑپوں گے یہ میری آہ ہے۔فجر روتے ہوئے چیخ کر بددعائیں دینے لگی۔آروش کو اپنا سر درد سے پھٹتا محسوس ہوا۔

شھباز شاہ کو غصہ تو بہت آرہا تھا مگر وہ آروش کی وجہ سے خاموش تھے وہ آروش کو خود سے بدزن نہیں کرنا چاہتے تھے۔

فجر چھوڑو انہیں امی کو ہسپتال لے جانا ہے۔عیشا نے روتے ہوئے کہا جب کی مستقیم صاحب ٹیکسی کا بندوبست کرنے گئے تھے

میں ارسم کو کال کرتی ہوں۔فجر اندر کی طرف بھاگی۔

آروش چلو۔شھباز شاہ ایک نظر اُن پہ ڈال کر آروش کا بازوں تھام کر بولے

انہیں ہماری ضرورت ہے۔آروش نے فورن سے کہا

بیٹا ضد مت کرو چلو یہاں سے۔شھباز شاہ اُس کی سُنے بنا اپنے ساتھ لیکر چلے گئے۔

💕💕💕💕💕💕💕

بابا سائیں مجھے گاؤں نہیں جانا آپ پلیز مجھے ایک دفع اُن سب سے ملنے دے مجھے بتانا ہے میں ایسی لڑکی نہیں ہوں انہیں یہ بھی بتانا ہے کے شاید اُن کا بیٹا زندہ ہو پلیز بابا سائیں مجھے گاؤں نہ لیکر جائے پتا نہیں وہ خاتون کیسی ہوگی۔آروش منت بھرے لہجے میں شھباز شاہ سے بولی جو اُس کو آج واپس گاؤں لے جارہا تھا

خاموش رہو آروش۔گاڑی ڈرائیو کرتا دیدار شاہ نے سخت نظروں سے بیک مرر سے اُس کو دیکھ کر کہا

میں ساری زندگی کے لیے خاموش رہنے کو تیار ہوں پر آپ لوگ میری یہ التجا سن لے۔آروش نے روتے ہوئے شھباز شاہ سے کہا جو بے تاثر بیٹھے تھے۔

بابا سائیں۔آروش نے اُن کو جھنجھورا

تمہیں کسی کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تم شھباز شاہ کی بیٹی ہو اُن دو ٹکے کے لوگوں کے بارے میں نہ سوچو۔شھباز شاہ اُس کو اپنے ساتھ لگائے بولا۔

بابا سائیں

آروش نے کجھ کہنا چاہا پر شھباز شاہ نے بیچ میں ٹوک دیا۔

ڈاکٹر نے تمہیں ٹینشن لینے سے منع کیا ہے اِس لیے فضول کی باتوں میں دھیان نہیں دو۔

💕💕💕💕💕

میری ماں کیسی ہے؟فجر نے ڈاکٹر کو ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلتا دیکھا تو بھاگ کر اُس کے پاس آئی۔

آئے ایم سوری شی از نو مور۔ڈاکٹر نے افسوس سے بھرے لہجے میں کہا تو عیشا اور فجر اپنی جگہ ساکت سی ہوگئ۔جب کی مستقیم صاحب نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچ لیا

نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہے آپ دوبارہ چیک کرے وہ بلکل ٹھیک ہوگی۔فجر اپنا سر نفی میں ہلاتی تڑپ کے بولی۔

اللہ آپ کو صبر دے۔ڈاکٹر اُس کو حوصلہ دیتی چلی گئ۔

فجر۔عیشا روتی ہوئی فجر کے گلے لگی۔

ہے عیشا رو کیوں رہی ہو ہماری ماں بلکل ٹھیک ہے وہ بس مذاق کررہی ہیں تاکہ یمان آجائے جیسے بچپن میں کرتی تھی یمان کہی چلاجاتا تھا تو۔فجر اپنے ساتھ لگی عیشا کے بالوں کو سہلاکر بولی۔

میں جاتی ہوں اُن کے پاس۔عیشا اپنی آنسو صاف کرتی ایمرجنسی وارڈ کی جانب بھاگی فجر اُس کے پیچھے جانے والی تھی جب ارسم نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔

ارسم امی ہمارا انتظار کررہی ہیں۔فجر نے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا

فجر حقیقت کو تسلیم کرو۔ارسم اُس کو اپنے ساتھ لگاتا تسلی آمیز لہجے میں بولا تو اُس کا سہارا پاکر فجر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اتنا کے ارسم کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

اپنے کمرے میں جاؤ۔حویلی پہنچ کر شھباز شاہ نے آروش سے کہا تو وہ بنا کوئی بات کیے خاموشی سے اپنے کمرے کے راستے چلی گئ اُس کے جانے کا یقین کرتے شھباز شاہ نے اپنے قدم مہتاب بیگم کے کمرے کی جانب کیے۔

السلام علیکم اماں سائیں۔شھباز شاہ نے ادب سے سلام کیا۔

میرے منع کرنے کے باوجود تم اُس کے بدزات کو لیکر آئے۔مہتاب بیگم نے نفرت سے آروش کا ذکر کیا۔

اماں سائیں پلیز آروش میری بیٹی میرے جگر کا ٹکرا ہے اُس کے خلاف میں ایک لفظ نہیں سُنوں گا۔شھباز شاہ نے حددرجہ سنجیدگی سے بولے

تم اپنی بیٹی کی وجہ سے ماں سے بداخلاقی کررہے ہو۔مہتاب بیگم نے نخوت بھرے لہجے میں کہا

گستاخی معاف اماں سائیں پر وہ میری بیٹی ہے اور بے قصور ہے اِس لیے کوئی بھی اُس پہ الزام نہ ٹھیرائے۔شھباز شاہ نے کہا

ہم نے تو دلدار شاہ سے کہا تھا اُس لڑکے کو بعد میں پہلے آروش کا گلا دباکر ماردینا تھا۔مہتاب بیگم کی بات پہ شھباز شاہ نے بمشکل خود پہ ضبط کیا۔

آروش لاوارث نہیں ہے اُس کا باپ زندہ ہے میں اُس سے ایک پل کے لیے بھی غافل نہیں ہوتا شکر کرے آپ کے پوتوں کو بخش دیا ہے مگر جو اُن کی وجہ سے آروش کی حالت ہوئی تھی نہ میں اپنے پستول کی گولیاں اُن کے سینے پہ برساتا۔شھباز شاہ کا لہجہ برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔

تم مانوں یا نا مانوں تمہاری بیٹی بدکردار ثابت ہوئی ہے ہماری خاندان کی بے عزتی کروانے میں اُس نے کوئی کثر نہیں چھوڑی۔مہتاب بیگم نے دو ٹوک کہا

میری آپ سے گُزارش ہے یہ بات بس ہم چاروں کے درمیان رہے گی کسی اور کو اِس بات کی بھنک تک نہیں پڑنی چاہیے حویلی کے کسی بھی فرد کو بھی نہیں شازل اور دُرید کو تو بلکل بھی نہیں۔شھباز شاہ نے جیسے اپنا فیصلہ سُنایا

کیوں نہ بتاؤں تمہاری لاڈلی کے کرتوت اُن دونوں کو غیرت کا معاملہ ہے۔مہتاب بیگم ناگواری سے بولی

اماں سائیں اول تو میرے بیٹے ایسے نہیں دوسرے بات مجھے جو کہنا تھا وہ میں نے کہہ دیا۔شھباز شاہ کو جیسے کوئی فرق نہیں پڑا

ہم تو یہ بات چھپا بھی لے تو یہ بات یاد رکھو وہاں حویلی کے چودہ پندرہ ملازم تھے جو آروش کے اِس عمل سے واقف ہے اب تک تو انہوں نے سب کو بتا بھی دیا ہوگا اِس لیے میری مانوں قتل کردو اُس کا۔مہتاب بیگم شیطانی مسکراہٹ سے بولی

آپ کو کیا لگتا ہے اُن کو میں نے شہر میں آزاد چھوڑ دیا ہوگا کیا مجھے اپنی بیٹی کا تماشا بنوانا تھا۔شھباز شاہ بھی انہی کے بیٹے تھے مگر ان کی بات سن کر مہتاب بیگم کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی تھی۔

کیا مطلب؟مہتاب بیگم کو کسی انہونی کا احساس ہوا۔

مطلب۔شھباز شاہ اتنا کہہ کر اُس کجھ دن پہلے والا واقعہ یاد کرنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائیں پلیز ہمیں بخش دے ہم کسی کو کونسا کجھ بتائے گے۔دلدار شاہ کے بندے منت بھرے لہجے میں شھباز شاہ سے بولے جو اپنی بندوق میں گولیان بھر رہے تھے۔

میں اپنی بیٹی کی عزت کے معاملے میں رسک نہیں لے سکتا تم لوگوں نے وہاں ہوکر بہت بڑی غلطی کردی ہے تم لوگوں کو کوئی بھی میری بیٹی کے خلاف جانے پہ استعمال کرسکتا ہے اِس لیے میں سب کو ختم ہی کردوں گا تاکہ ایک ہی جھٹکے میں سارا قصہ تمام ہو ۔شھباز شاہ سرد لہجے میں بولے

سائیں پلیز رحم۔ان کا خون خشک ہوا تھا شھباز شاہ کے اِرادے جان کر۔

شھباز شاہ کی زندگی میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں۔شھباز شاہ اپنی بات کہتا اُن کے سامنے بندوق تان لی۔

س سا

ٹھاہ

ٹھاہ

ٹھاہ

اُس سے پہلے کوئی  کجھ کہتا اور بات کرتا شھباز شاہ نے اندھا دھند اُن سب پہ فائرنگ کردی کجھ ہی سیکنڈز میں ہر جگہ خون پھیل گیا تھا شھباز شاہ ایک اچٹنی نظر اُن پہ ڈال کر اُس کوٹھڑی سے باہر چلے آئے جہاں اُس کا خاص آدمی کھڑا تھا۔

اِن سب لاشوں کو ٹھکانے لگادینا۔شھباز شاہ نے حکم صادر کیا جس پہ اُس کے خاص آدمی نے جلدی سے سر کو اثبات میں ہلایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے سب کا قتل کردیا؟مہتاب بیگم اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر بولی

میری بیٹی کا معاملہ تھا آپ نے بہت غلط کیا آروش کے پیچھے بندے لگاکر وہ میری بیٹی ہے ہمیں اپنی تربیت پہ پورا یقین ہے آپ کو ایسا کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا آروش ہے کون۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

ہم آروش کا وجود یہاں برداشت نہیں کرسکتے اُس سے پہلے ہم کوئی غلط قدم اُٹھالے تم اُس کا بندوبست کہی اور کرو۔مہتاب بیگم نے حتمی لہجے میں کہا

اگر آپ ایسا کرے گی تو ہم یہ پوری حویلی آروش کے نام کردینگے۔شھباز شاہ نے گویا دھماکا کیا۔

شھباز ہوش میں رہو سردار بننے کے بعد تم میں بہت گھمنڈ آگیا ہے ہم نے یہ حویلی تمہارے نام اِس لیے نہیں کی تھی اِس حویلی پہ آروش کا حق نہیں آنے والا جو سردار ہوگا اُس کا حق ہے۔مہتاب بیگم کا لہجہ خاصا جتایا ہوا تھا 

ہم آپ سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتے آپ کوئی بھی نقصان آروش کو نہیں پہنچائے گی۔شھباز شاہ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر چلاگیا۔

ایک سیدزادی ہونے کے ناطے آروش جو قدم اُٹھایا ہے اُس کے بعد آروش کو کاری کرنا پڑے گا یا میں اپنے ہاتھوں سے اُس کا قتل کردوں گی مگر اُس گند کو یہاں رہنے نہیں دوں گی۔مہتاب بیگم کو شھباز شاہ کی بات آگ لگاگئ تھی تبھی وہ غصے میں منصوبے بنانے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شھباز شاہ آروش کے کمرے میں آئے تو اُس کو کونے میں گھٹنوں میں سر چُھپائے بیٹھا پایا اُس کو اتنا ڈرا سہما دیکھ کر انہوں نے گہری سانس خارج کی۔

آروش۔شھباز شاہ اُس کے سامنے بیٹھ کر پیار سے اُس کو پکارا تو آروش نے اپنا سر اُٹھایا۔

آپ یہاں فرش پہ کیوں بیٹھے ہیں بیڈ پہ آئے۔آروش نے اُن کو ایسے بیٹھایا پایا تو جلدی سے اُٹھ کر بولی۔

تم پہلے یہاں بیٹھو اور مجھے بتاؤ کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے؟شھباز شاہ نے اُس کو اپنے روبرو کیا۔

میرے کانوں میں بار بار گولیوں کو آوازیں آرہی ہیں بابا سائیں ایسا لگتا ہے جیسے میرا سر درد سے پھٹ جائے گا اُن آوازوں سے جان چھڑواتی ہوں تو پھر اُس لڑکی کی بددعائیں یاد آجاتی ہیں۔آروش نے بے بسی سے بتایا۔

دیکھو میرا بیٹا اُس بات کو چار ماہ ہوچکے ہیں تم بھول جاؤ سب کجھ۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

کیسے بھول جاؤ ایک معصوم کی جان میری وجہ سے گئ ہے یہ گِلٹ مجھے جینے نہیں دے رہا میں کیا کروں۔آروش اپنے بال نوچتے ہوئے بولی۔

آروش میرا بچہ سنبھالوں خود کو جو کجھ بھی ہوا اُس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔شھباز شاہ اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر بولے۔

میری وجہ سے ہوا مجھے پتا ہے سب۔آروش زور سے اپنا سر نفی میں ہلاکر چیخ کر بولی تو شھباز شاہ نے اُس کو اپنے سینے سے لگایا

💕💕💕💕💕💕💕

تمہیں میں نے ایک کام کہا تھا؟مہتاب بیگم نے پاس کھڑی ملازمہ سے کہا جو آروش کے سارے کام کیا کرتی تھی۔

مہتاب بیگم کی بات اُس سے اُن کے پاس بیٹھی چھوٹی حریم کو دیکھا جو چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی پھر اپنا ہاتھ جو اُس نے چادر میں چُھپایا ہوا تھا اُس کو باہر کرکے ایک شیشے مہتاب بیگم کے سامنے کی جس کو دیکھ کر مہتاب بیگم کی آنکھوں میں چمک در آئی۔

یہ کیا ہے؟چاکلیٹ کھاتی حریم نے پوچھا تو مہتاب بیگم نے اُس کو اپنی گود میں بیٹھایا

میں اب بڑی ہوگئ ہو۔حریم نے منہ بسور کر کہا

پتا ہے میرے چندہ پر میرے لیے تو آپ بچی رہے گی کیونکہ میری بیٹی کی نشانی جو ہیں۔مہتاب بیگم اُس کا ماتھا چوم کر بولی۔

میں جاؤں؟ملازمہ نے اپنے ماتھے سے پسینا صاف کرکے ڈر کر اجازت چاہی

نہیں ابھی تم اِس زہر کو آروش کے دودہ میں ملاکر اُس کو پلاؤ گی۔مہتاب بیگم نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو زہر کے نام پہ حریم نے اپنی آنکھیں بڑی کیے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ کر حیرانگی والا تاثر دیا

شاہ سائیں مجھے زندہ قبر میں دفنادینگے۔اُس نے ڈر کر کہا

اگر تم نے میرا کام نہیں کیا تو میں ضرور تمہیں عبرت کا نشانہ بناؤں گی مت بھولوں تمہارے سامنے کون بیٹھی ہے جو ایسا کہنے کے لیے بول رہی ہے میرے پاس ملازموں کی کمی نہیں تمہیں اِس لیے بول رہی ہوں کیونکہ آروش کے کام تم کیا کرتی ہو۔مہتاب بیگم نے سخت نظروں سے اُس کو دیکھ کر سخت لہجے میں کہا

وہ سب تو ٹھیک پر ان کو یہ پِلانا کیوں ہے۔ملازمہ نے ڈر کر کہا

کیونکہ جو اُس نے عمل کیا ہے اُس کی سزا صرف موت ہے اگر وہ زندہ رہی تو باقی بچیوں پہ اثر پڑے گا۔مہتاب بیگم حقارت بھرے لہجے میں بولی اُن کی گود میں بیٹھی حریم فورن سے باہر کو بھاگی تھی جس پہ دھیان کسی کا نہیں گیا تھا۔

آپ ان کی شادی کروادے اگر آروش بی بی کو کجھ ہوا تو شاہ سائیں کے قہر سے ہمیں کون بچائے گا۔ملازمہ کو بس اپنی پڑی تھی۔

جاتی ہو یا تمہارا کام ابھی تمام کروں۔مہتاب بیگم نے اپنے پیچھے رکھی بندوق کو ہاتھ میں لیے کہا تو وہ تیر کی تیزی سے وہاں سے رفو چکر ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا کام ہے؟شھباز شاہ نے ملازمہ کو آروش کے کمرے میں آتا دیکھا تو پوچھا وہ جو پہلے سے خوفزدہ تھی آروش کے بلکل پاس شھباز شاہ کو دیکھ کر اُس کی روح فنا ہوئی تھی اُس کا وجود تھر تھر کانپنے لگا تھا جو شھباز شاہ نے بغور نوٹ کیا تھا پر اُن کے بازوں پہ سر رکھے آروش ہر بات سے سِرے سے ہی انجان تھی۔

آروش بی بی کے لیے دودوہ لائے ہیں۔اُس نے ڈر کر اپنے آنے کا مقصد بتایا۔

آروش دودوہ پینا ہے۔شھباز شاہ ایک نظر اُس پہ ڈال کر نرمی سے آروش سے پوچھنے لگا۔

نہیں بابا سائیں۔آروش نے انکار کیا۔

آپ کو پینا چاہیے آپ کی صحت کے لیے اچھا ہے اور شاہ سائیں آپ یہاں ہیں آپ کو بڑی شاہ صاحب یاد کررہی تھی۔ملازمہ نے جلدی سے کہا

آروش کو یہ نہیں پینا اِس لیے یہ تم پیو۔شھباز شاہ اُس کی بات نظرانداز کرکے بولے

ہ ہمم ہم کیسے پی سکتے ہیں۔وہ ہکلاکر بولی

جیسے پیا جاتا ہے یہی پیو ہمارے سامنے۔شھباز شاہ نے اپنی بات پہ زور دیئے کہا

ہم نہیں پی سکتے۔ملازمہ نے انکار کیا

کیوں؟شھباز شاہ کڑی نظروں سے اُس کو دیکھا

یہ ہم آروش بی بی کے لیے لائے ہیں اور اِن کو ہی پِلاِئے گے۔وہ اپنی حالت پہ قابو پاکر بولی۔

جو میں نے کہا ہے وہ کرو۔شھباز شاہ نے وارن کرتی نظروں سے اُس کو گھورا

بابا سائیں یہ آپ اِس کو کیا کرنے کا کہہ رہے ہیں؟آروش کو شھباز شاہ کے رویے پہ حیرانگی ہوئی کہاں وہ اُن کو اپنے پاس کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے تھے اور اب یہ سب

تم بیٹھو یہی۔شھباز شاہ اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتے خود اُٹھ کھڑے ہوئے۔

شاہ سائیں

خاموشی سے یہ پورا گلاس خالی کرو۔شھباز شاہ نے اُس کی بات بیچ میں کاٹ کر کہا تو وہ اپنا سر نفی میں ہلاکر باہر جانے لگی مگر عین دروازے کے پاس دو اور ملازم کھڑی تھیں جنہوں نے اُس کو پکڑ وہ دودہ اُس کو زبردستی پِلایا۔

بابا سائیں۔آروش حیرت سے اپنی جگہ کھڑی ہوئی۔

زہر پِلانا چاہتی تھی یہ تمہیں۔شھباز شاہ اُس کو اپنے حصار لیکر کہا تو آروش کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ اُس نے بے یقین نظروں سے اُس کو ملازمہ کو دیکھا جس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ایک سال بعد!

دوسری تیسری دفع بارات نہیں آئی لگتا ہے اِس کی قسمت میں شادی کرنا لکھا ہی نہیں۔آروش خاموش سی دولہن کے جوڑے میں ملبوس بیڈ پہ بیٹھی عورتوں کی باتیں سن رہی تھی آج اُس کی شادی تھی مگر جس کے ساتھ تھی اُس کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوچکا تھا جس سے وہ اپنی جان کی بازی ہار چُکا تھا۔

اُس سے پہلے بھی دولہن بنی تھی پہلی بار میں لڑکے والوں کی طرف سے جانے کس بات پہ انکار ہوا اور پھر دوسری دفع میں لڑکا معذور ہوگیا جس وجہ سے شادی نہیں ہو پائی اُس نے اپنے لیے فیصلہ لینا چھوڑدیا تھا سب کجھ شھباز شاہ اور کلثوم بیگم کے حوالے کردیا تھا وہ جو اُس کے لیے فیصلہ لیتے وہ اپنا سر جھکا دیتی یمان کی موت پھر فجر کی بددعا سے وہ نہیں سنبھلی تھی کے اپنی دادی کے حقارت بھرے الفاظ اُس کے مارنے کے منصوبے جان کر وہ اندر سے ٹوٹ سی گئ تھی آج اُن کی موت کو پانچ ماہ گُزر چُکے تھے اُن کی موت پلین کریش ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی جب وہ حج کرنے جارہی تھی مگر شاید اُن کی قسمت میں حج کرنا نہیں تھا۔آروش سے جب اُن عورتوں کی باتیں برداشت نہ ہوئی تو بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

ارے کہاں جارہی ہوں حویلی پوری مہمانوں سے بھری پڑی ہے ایسے میں تم جاؤں گی تو وہ باتیں بنائے گے لوگ۔فاریہ بیگم جو خود افسردہ تھی آروش کو بیڈ سے اُٹھتا پایا تو فکرمندی سے گویا ہوئی پر آروش بنا کوئی جواب دیئے کمرے سے نکل کر بھاگ کر شھباز شاہ کے کمرے میں آئی۔

آرو۔شازل جو شھباز شاہ کے کمرے میں تھا آروش کو عروسی جوڑے میں ایسے آتا دیکھا تو اُس کو اپنے سینے میں ٹیس سی اُٹھتی محسوس ہوئی جب کی کسی کو کال کرنے میں مصروف شھباز شاہ نے اپنی بیٹی کی حالت دیکھی تو ہونٹ سختی سے بھینچ لیے۔

لالہ ہمیں بابا سائیں سے بات کرنی ہیں۔ آروش شھباز شاہ کو دیکھ کر شازل سے بولی تو شازل خاموشی سے کمرے سے باہر چلاگیا۔

آروش

بس بابا سائیں۔

شھباز شاہ نے کجھ کہنا چاہا مگر آروش نے ہاتھ کے اِشارے سے کجھ کہنے سے روک لیا۔

اور کتنا بابا سائیں اور کتنا میں لوگوں کے آگے یوں رسوا اور زلیل ہوگی مجھے نہیں کرنی کوئی شادی میں وہ ہوں جو بددعاؤ کے زِیر اثر ہے آپ کو کیا لگتا ہے ایک ایسی لڑکی کا گھر بس سکتا ہے جو جانے کتنوں کی زندگی برباد کرچُکی ہے۔آروش اپنے آنسو بے دردی سے صاف کیے بولی

ایسی بات نہیں میرے بچے۔شھباز شاہ نے اُس کو سمجھانا چاہا

ایسا ہے ایسا ہی ہے میں ایک بدکردار لڑکی ہوں جس نے پہلے ایک لڑکے کو اپنے پیچھے لگایا پھر جب دل نہیں لگا تو اُس کو قتل کروادیا۔آروش اپنے چہرے پہ زور سے تھپڑ مارتی ہذیاتی انداز میں چیخی۔

آروش 

آروش

آہستہ میری جان تمہاری آواز باہر بھی جاسکتی ہے۔شھباز شاہ اُس کے پاس آکر بیڈ پہ بیٹھا کر بولے

اِن دو سالوں میں میرے ساتھ بہت بُرا ہوا ہے میں اب یہاں نہیں رہنا چاہتی کجھ عرصے کے لیے یہاں سے دور جانا چاہتی ہوں۔آروش نے سپاٹ انداز میں کہا

جیسا تم کہو گی ویسا ہی ہوگا بس تم خود کو تکلیف مت دو۔شھباز شاہ اُس کا چہرہ صاف کیے نرمی سے بولے

آپ کو قسم ہے میری آج کے بعد آپ میری شادی کروانے کا سوچے گے بھی نہیں۔آروش نے اپنا دوسرا مدعا بیان کیا۔

ٹھیک ہے کوئی اور بات؟شھباز شاہ نے کہا

آپ سب کو یہ کہے گے میں اپنی پڑھائی کی وجہ سے جارہی ہوں۔آروش نے مزید کہا

ٹھیک ہے۔شھباز شاہ نے اُس کی یہ بات بھی مان لی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش ہونے لگی اُس نے بامشکل آہستہ اپنی آنکھوں کو کُھولا تو اُس کو سب کجھ دھندلا دھندلا سا نظر آنے لگا۔

آپ کو ہوش آگیا میں ابھی ڈاکٹر کو بُلاتی ہوں۔پاس کھڑی نرس نے اُس کو ہوش میں آتا دیکھا تو فورن سے کہتی باہر کو بھاگی۔جب کی یمان بے مقصد چھت کو گھورنے لگا۔

میں زندہ ہوں میں بچ کیسے گیا۔یمان کو چھت کو گھورتا خود سے سوال کرنے لگا۔

ہیلو ینگ میں۔ڈاکٹر اُس کے روم میں آتا پرجوش انداز میں سلام کرنے لگا۔

میں یہاں کب سے ہوں؟یمان نے بہت ہلکی آواز میں پوچھا گلا خشک ہونے کی وجہ سے اُس کے گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔

پورے دو سالوں سے۔ڈاکٹر کی بات سن کر یمان کو شدید قسم کا حیرت کا جھٹکا لگا

کیاا۔یمان چیخ کر کہتا اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگر اِس طرح اچانک اُٹھنے کی وجہ سے اُس کے سر سے ٹیسیں اُٹھنے لگے 

رلیکس آپ کو ابھی آرام کی ضرورت ہے میں دلاور خان سے بات کرتا ہوں وہ بہت خوش ہوگے آپ کے کومہ سے باہر آنے کی خبر سن کر۔ڈاکٹر اُس کو بیڈ پہ لیٹاتا ہوا بولا

دلاور خان کون؟یمان اپنے سر پہ ہاتھ رکھتا ناسمجھی سے پوچھنے لگا

ڈاکٹر لگتا ہے ان کی یاداشت چلی گئ ہے۔پاس کھڑی نرس نے افسوس بھری نظروں سے یمان کو دیکھ کر کہا اُس کی بات پہ سن کر یمان کو پہلا خیال آروش کا آیا۔

کاش ایسا ہوتا۔یمان نے بے ساختہ سوچا

مجھے سب یاد ہے۔یمان نے جلدی سے کہا

ہم دلاور خان کو کال کرکے آپ کا بتاتے ہیں ابھی آپ ریسٹ کرے۔ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں بولا

مجھے میرے گھر جانا ہے میری ماں اور بہنیں میرے لیے پریشان ہوگی۔یمان نے سنجیدگی سے کہا تو ڈاکٹر کے ماتھے پہ ناسمجھی کے بل نمایاں ہوئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارا نام کیا ہے؟دلاور خان مسکراتی نظروں سے یمان کو دیکھ کر پوچھنے لگے۔

یمان مستقیم۔یمان نے مختصر جواب دیا 

ماشااللہ نام اور شخصیت دونوں بہت خوبصورت ہیں۔زوبیہ بیگم یمان کے واری صدقے ہوئی۔

آپ لوگ کون ہیں اور میں کہاں ہوں میرے گھروالے میرے پاس کیوں نہیں؟یمان نے اپنے اندر آتے سوالات کے جوابات چاہے۔

میں مشہور فلم انڈسٹری کا مالک دلاور خان ہوں یہ میری زوجہ ہیں زوبیہ دلاور خان دوسری بات یہ کے تم کہاں ہو تو تم اسلام آباد میں ہو ہم کراچی سے تمہیں یہاں لائے کیونکہ ہم وہاں زیادہ وقت رُک نہیں سکتے تھے اور نہ تمہیں اکیلا چھوڑ سکتے تھے باقی تمہاری فیملی تو ہمیں اُن کا سیل نمبر دے دو میں ان تک اطلاع پہنچادوں گا۔دلاور خان نے سنجیدگی سے سب کجھ بتایا۔

میں خود جاؤں گا کراچی واپس جانے وہ کیا سمجھ بیٹھے ہو۔یمان پریشانی سے بولا

تمہارا جانا ضروری ہے کیا؟زوبیہ بیگم اُداس سی ہوگئ تھی اُن کو یمان سے عجیب قسم سی انسیت ہوگئ تھی۔

زوبیہ۔دلاور خان نے اُن کو ٹوکا تو وہ خاموش ہوگئ۔

میرا گھر ہے وہاں میرا جانا تو ضروری ہے نہ۔یمان نے کہا۔

جب تم مکمل ٹھیک ہوجاؤ گے تو میں خود تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا۔دلاور خان کے من میں سوالات تو بہت تھے مگر وہ اپنے اندر دباتے بس یہی بولے۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہ ہے میرا چھوٹا سا گھر اُمید ہے تمہیں پسند آیا ہوگا۔شازل آروش کو اپنے چھوٹے سے فلیٹ لاتا شرارت سے بولا

سوری لالہ ہمیں پتا ہے آپ کو یہاں سے آمریکا جانا تھا آپ کی پڑھائی کا حرج ہورہا ہے ہوگا میں نے تو بابا سائیں سے اکیلے رہنے کا کہا تھا خوامخواہ آپ کو بھی اب پریشانی ہوگی۔آروش شرمندگی سے بولی

آرو تم شرمندہ مت ہو تمہیں یاد ہو تو میں بتادوں میں چھٹیوں پہ ہوں مطلب دو ماہ یہاں تمہارے پاس رہوں گا اُس کے بعد تم کسی اور کو ہائیر کرنا ویسے بھی لالہ کی سخت وارننگ کے تم دو ماہ گاؤں کے باہر قدم بھی نہیں رکھو گے اِس نے مجھے بڑا پریشان کیا تھا مگر تمہاری وجہ سے میرا بھی بھلا ہوگیا۔شازل نے مسکراکر  کہا

جزاك اللّٰه خيرًا پر اماں سائیں آپ کو بہت یاد کرتی ہیں اِس لیے اپنا وقت آپ سے جتنا ہوسکے حویلی میں گُزارا کرے۔آروش نے اتنا کہا۔

جب میں چھوٹا تھا اور مجھے بورڈن اسکول بھیج دیا تھا تو یقین جانوں مجھے بھی وہ بہت یاد آیا کرتی تھیں میرا دل نہیں لگتا تھا راتوں کو نیند بھی نہیں آتی تھی پھر مجھے عادت سی ہوگئ اِس لیے اب حویلی میں اگر کوئی پیار سے بات کر بھی لے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ چاپلوسی کررہا ہو یا خوشامدی۔شازل ہلکی مسکراہٹ سے بولا

تو کیا آپ بدلا لے رہے ہیں اُن سے؟آروش نے پوچھا

ارے نہیں میں کیوں بدلا لینے لگا میں تو جسٹ ایسے بتارہا تھا تمہیں خیر تم فریش ہوجاؤ تب تک میں تمہارے لیے کجھ کھانے کا پکاتا ہوں۔شازل نے رلیکس انداز میں کہا

آپ پکائے گے؟آروش کو تعجب ہوا

ہاں کیوں کیا تم نے مجھے اپنی طرح پھوہڑ سمجھا ہے۔شازل نے مصنوعی روعب سے پوچھا۔

نہیں مطلب آپ کُکنگ کیسے۔آروش کو سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔

تمہیں پتا ہے باہر اکیلے رہنے میں انسان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کے وہ سب کجھ سیکھ جاتا ہے اب دیکھو کیا حویلی میں ایسا کوئی مرد ہوگا جس نے باورچی خانے میں قدم بھی رکھا ہوگا یقیناً نہیں پر ایک میں ہوں جس کے دن کی شروعات اور رات کا احتتام کچن میں ہوتا ہے یعنی صبح کا ناشتہ دوپہر کا لنچ رات کا ڈنر مجھے خود کرنا پڑتا تھا پھر جب اسٹڈی کے چکر میں رات بھر جاگنا ہو تو بار بار اُٹھ کر کافی الگ سے بنانا پڑتی ہے۔شازل نے مظلومیت سے کہا

آپ کتنے باتونی ہوگئے ہیں۔آروش نے شازل کو بنا سانس لیے بس بولتا دیکھا تو کہا

ہاں کیونکہ میرے تین سے چار دوست ہیں وہاں اور مزے کی بات بتاؤ وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک باتونی قسم کے ہیں تو بس مجھ پہ اُن کی۔صحبت کا اثر پڑگیا ہے۔شازل اُس کی بات پہ ہنس کر کہتا کچن میں داخل ہوا تو آروش بھی اُس کے پیچھے کچن میں آئی۔

لالہ آپ وہاں ہیلپر رکھنا تو افورڈ کرسکتے ہیں نہ۔آروش نے کہا

وہاں ہیلپر ہیلپ نہیں کرتا۔شازل نے گول مٹول سا جواب دیا۔

آپ کی بیوی کے مزے ہوگے۔آروش نے شازل کو مہارت سے کام کرتا دیکھا تو ستائش بھرے لہجے میں بولی

نہیں یہ مزے بس تمہارے ہیں۔شازل فریج سے انڈے نکال کر اُس سے بولا

وہ کیسے؟آروش کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی۔

پہلے مجھے فریج سے آٹا نکال کردوں پھر بتاتا ہوں۔شازل لب دانتوں تلے دبائے کہا

یہ لے۔آروش نے فریج سے آٹا نکال کر اُس کو پیش کیا

ڈیئر سسٹر وہ ایسے کے میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔شازل نے سکون سے بتایا

کیوں نہیں کرینگے؟آروش نے جاننا چاہا

شادی کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں اور میں اِس شادی وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا۔شازل نے بیزار شکل بنائی۔

آپ کو آمریکا میں کوئی گوری پسند نہیں آئی۔آروش جانے کیوں متجسس ہوئی۔

نہیں کیونکہ وہاں لڑکیاں کالی ہوتی ہیں۔شازل شرارت سے کہا تو آروش نے گھورا

اچھا اگر تصور کریں کوئی لڑکی آپ کو اچھی لگتی ہے تو کیا پھر بھی نہیں کرے گے شادی؟آروش نے پوچھا

نہیں۔شازل نے صاف چِٹا انکار کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کجھ عرصے بعد!

تم اندر جاؤ میں یہی ہوں۔دلاور خان نے یمان سے کہا جو اپنے گھر کے پاس کھڑا بس اُس کو دیکھے جارہا تھا جانے کیوں وہ اپنے اندر ہمت پیدا نہیں کر پارہا تھا کے گھر میں داخل ہوتا اُس کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اُس نے اپنی قیمتی چیز کھودی ہو۔

آپ اندر چلیں آپ غیر ہوکر میرے لیے بہت کجھ کیا ہے۔یمان دلاور خان کی بات پہ بولا

آر یو شیور میں چلوں ساتھ۔دلاور خان نے کنفرم کرنا چاہا۔

جی بلکل۔یمان نے کہا تو دلاور خان نے سراثبات میں ہلایا جیسے اپنی رضامندی ظاہر کی ہو۔

وہ دونوں جب گھر میں داخل ہوئے تو خاموشی نے استقبال کیا یمان نے پورے ہال میں نظر گُھمائی پھر نیچے بچھے قالین کو دیکھا جس پہ بیٹھ کر فائزہ بیگم کپڑے سِلا کرتی تھی آج وہ جگہ پوری خالی تھی نا فائزہ بیگم تھی اور نہ اُن کی کپڑے سِلنے والی مشین۔

لگتا ہے گھر خالی ہے۔دلاور خان نے اندازہ لگایا

میں امی کے کمرے میں جاتا ہوں۔یمان اپنے ڈر کو قابوں پاتا فائزہ اور مستقیم صاحب کے مشترکہ کمرے کی طرف بھاگا تو چونک پڑا کیونکہ مستقیم صاحب نڈھال حالت میں بیڈ پہ پڑے ہوئے تو اور پاس عیشا ہاتھ میں سوپ کا باؤل پکڑے مسلسل اُن سے کجھ کہہ رہی تھی۔

ابا۔یمان جلدی سے اُن کے پاس آیا

یمان!!!!!!!!!

عیشا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ یمان کو اپنے پاس بلکل زندہ صحیح سلامت دیکھ کر۔

آپی ابا کو کیا ہوا ہے؟یمان اُس کے تاثرات نوٹ کیے بنا عیشا سے بولا دلاور خان بھی پریشان ہوگئے تھے۔

ج جا ؤ ی یہ یہا یہاں س سے۔مستقیم صاحب نے یمان کو دیکھا تو مُنہ مور کر بولے تو یمان کو تکیلف ہوئی۔

مجھے معاف کردے پر پلیز ایسے نہ کہے میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔یمان کی آنکھیں نم ہوئی۔

یمان تم کہا تھا اتنے وقت سے تمہیں پتا ہے ہم سب کتنے پریشان تھے ہماری ماں تمہاری جھوٹی موت کا سن کر ہمیں چھوڑ کر چلی گئ پھر  اُن کے بعد ابا کی یہ حالت۔عیشا اپنی آنکھوں کو صاف کیے یمان سے پوچھنے لگی

اماں 

اماں کہاں ہے آپی۔یمان مستقیم صاحب کے پاس سے اٹھتا عیشا سے فائزہ بیگم کا پوچھنے لگا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا اُس کے پیچھے یہ سب ہوگیا ہے۔

وہ اب اِس دنیا میں نہیں۔عیشا اتنا کہتی رو پڑی آج پھر اُس کا غم تازہ ہوگیا تھا جب کی یمان پتھر کا بن گیا یہ خبر سن کر اُس کو آج اپنا آپ بدنصیب لوگوں میں سے لگا جس نے آخری وقت پہ اپنی ماں کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا۔

آپ جھوٹ بول رہی ہیں نہ؟یمان عیشا کو کندھوں سے پکڑتا اُمید بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔

نہیں۔عیشا اُس کے سینے پہ سر ٹکاتی بس اتنا بولی۔

میر میرا کوئی ب بیٹا نہیں میں ب بس دو بٹ بٹیوں ک کا باپ ہ ہوں تم یہاں سے چلے جاؤ اور دوبارہ اپنی شکل مت دیکھانا۔مستقیم صاحب نے اٹک اٹک کر اپنے الفاظ کہے۔

آپ اپنے بیٹے سے ایسے بات کیوں کررہے ہیں آپ کو تو شکر گُزار ہونا چاہیے اللہ نے آپ کو بیٹے کی نعمت سے نوازہ ہے اُس پہ بجائے آپ شکرگُزار ہونے کے اُس سے ایسے بات کررہے ہیں ناراضگی اپنی جگہ مگر یوں بیٹے سے منہ موڑنا اچھی بات نہیں۔دلاور خان نے پہلی مرتبہ باتوں میں حصہ لیا۔

ابا یمان کہاں جائے گا۔عیشا نے یمان کا ہاتھ زور سے پکڑ کر کہا

جہاں دو سال پہلے تھا۔مستقیم صاحب کے جواب پہ یمان کا دل کٹ کے رہ گیا۔

اگر میرے اتنے کہنے کے باوجود بھی آپ اپنی بات پہ قائم ہے تو ٹھیک ہے یمان میں تمہارا باہر گاڑی میں انتظار کررہا ہوں۔دلاور خان افسوس بھرے لہجے میں مستقیم صاحب سے بول کر یمان کو بولے جو خالی خالی نظروں سے اپنا باپ کا ایسا بے رحمی والا سلوک دیکھ رہا تھا۔

یمان اب کہی نہیں جائے گا۔عیشا نے نفی میں سر کو جنبش دے کر کہا

ابا۔یمان نے مستقیم صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کجھ کہنا چاہ رہا تھا مگر مستقیم صاحب نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا۔

تم اپنے کمرے میں جاؤ ابا ابھی ناراض ہے۔عیشا یمان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے لگی۔

اگر یہ یہاں رہا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی۔مستقیم صاحب کو اپنی بات پہ بضد دیکھ کر یمان اپنے آنسو پیتا کمرے سے باہر پھر گھر سے باہر نکلتا چلاگیا۔

یمان

یمان

رُکو میری بات سنو پلیز اب کہی مت جاؤ ابا ناراض ہیں کجھ وقت تک مان جائے گے۔عیشا باہر کی جانب آتی یمان کو روک کر بولی۔

میری لیے یہاں اتنا رہنا ضروری نہیں جتنا ابا کی زندگی ضروری ہے میں نے ماں تو کھودی ہے اپنی وجہ سے مگر باپ کو نہیں کھو سکتا۔یمان کی بات پہ عیشا جیسے کجھ کہنے کے قابل ہی نہ رہی۔

میں آپ سب سے بہت پیار کرتا ہوں میری وجہ سے آپ سب نے بہت تکلیف دیکھی ہیں مگر اب دوبارہ میری وجہ سے ایسا کجھ نہیں ہوگا۔یمان نے شرمندگی سے سرجھکاکر کہا

ایسی بات نہیں ہے یمان۔عیشا نے اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔

مجھے ابھی جانے دے آپی میں نہیں چاہتا میری یہاں موجودگی سے ابا مزید مجھ سے خفا ہو۔یمان نے اُس کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھے۔

فجر کو آنے دو وہ تمہیں دیکھے گی تو خوش ہوجائے گی تمہیں پتا ہے وہ اُمید سے ہے جلد تمہارا بھانجا اِس دُنیا میں آئے گا۔عیشا نے ایک اور کوشش کی۔

آپی مجھے کمزور مت کرے۔یمان اپنے قدم پیچھے کرتا گاڑی میں بیٹھ گیا تو دلاور خان نے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا اِشارہ دیا۔پیچھے عیشا دیر تک گاڑی کو دور جاتا دیکھنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ نے ایسا کیوں کیا؟عیشا اندر کمرے میں آکر مستقیم صاحب سے جواب طلب ہوئی۔

وہ اِس کا مستحق تھا۔مستقیم صاحب نے جواب دیا۔

آپ نے ایسا کیوں کیا وہ اِس کے مستحق نہیں تھا جو آپ نے اُس کو گھر سے بے دخل کیا۔عیشا نے روتے ہوئے کہا

یہاں اُس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔مستقیم صاحب کی اِس بات نے عیشا کو چونکنے پہ مجبور کردیا۔

کیا مطلب؟عیشا اُن کے پاس بیٹھ کر بولی

یہاں اگر رہتا تو کیا پتا جو اِس کو مرا ہوا سمجھ بیٹھے ہوئے وہ یمان کو دوبارہ سے نقصان پہنچائے۔مستقیم صاحب نے کمزور آواز میں کہا

اُس بات کو تو اب بہت عرصہ ہوچکا ہے۔عیشا نے کہا۔

میں یمان کو دوبارہ خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ایک بار غلطی کردی بار بار نہیں وہ اگر دور رہے گا تو اُس کو سمجھ آئے گی پیار محبت کجھ نہیں ہوتا وہ اب اپنے بارے میں سوچے گا اپنی زندگی کے بارے میں سوچے گا۔مستقیم صاحب نے گہری سانس بھر کر کہا

آپ ایک دفع اُس کو اپنے سینے سے تو لگالیتے آپ کے رویے کی وجہ سے وہ اپنی ماں کے لیے رو بھی نہیں پایا آپ کو پتا ہے وہ کیا محسوس کررہا ہوگا اُس نے اپنی ماں کا آخری دیدار نہیں کیا اپنی ماں کے جنازے کو کندھا تک نہیں دیا ایسے میں آپ کی باتوں نے اُس کو بہت توڑا ہوگا ابا ہمارا بھائی اِن چیزوں کا مستحق نہیں وہ ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا جو اُس کو اتنی تکلیفیں اُٹھانی پڑ رہی ہیں۔عیشا نے تکلیف بھرے لہجے میں اُس کی نظروں کے سامنے بار بار یمان کا سہما ہوا چہرہ آرہا تھا۔

میں اگر اُس کو سینے سے لگاتا یا شفقت سے پیش آتا تو وہ کیا یہاں سے جاتا بلکل نہیں جاتا میرے رویے نے اُس کو جانے پہ مجبور کردیا تھا رہی بات تکلیفوں کی تو تکلیف انسان کے حالات یا عمر دیکھ کر نہیں آتی تم دیکھنا اب ہمارا یمان بدل جائے گا جو اُس نے اپنے لیے سوچا تھا اُس کو پورا کرے گا۔مستقیم صاحب اپنے عمل پہ مطمئن تھے۔

ہماری سپورٹ کے بغیر؟عیشا نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا۔

ہاں ہماری سپورٹ کے بغیر۔مستقیم صاحب ہلکہ سا مسکرائے۔

💕💕💕💕💕💕💕

اچھا ہوا جو تم واپس آگئے یہ اب تمہارا ہی گھر ہے۔زوبیہ بیگم نے محبت سے یمان کا چہرہ تکتے ہوئے کہا

کیا آپ دونوں اکیلے رہتے ہیں یہاں؟یمان نے اُن دونوں کے علاوہ گھر میں کسی کو نہیں پایا تو پوچھا

ہاں میرا کوئی بیٹا نہیں پانچ بیٹیاں ہیں جن کی شادی ہوگئ ہیں تو اپنے اپنے شوہروں کے گھر میں ہیں۔دلاور خان نے مسکراکر بتایا۔

سب بیٹیوں کی شادیاں ہوگئ ہیں؟یمان کو جانے کیوں حیرت ہوئی۔

چار بیٹیوں کی شادیاں ہوگئ ہیں دو جڑواں تھی اُن کی ساتھ میں ہوگئ تھی تیسری کی بھی ہوگئ جب کی جو چوتھی بیٹی تھی زرنور اُس کی شادی کو ابھی ایک سال ہوا ہے۔دلاور خان سے پہلے زوبیہ بیگم بول پڑی اُن کے چار بیٹیوں کے زکر پہ یمان کا دل چاہا پانچویں بیٹی کا پوچھے کے وہ کہاں ہیں مگر خاموش رہا۔

میں تمہیں تمہارا کمرہ دِکھاتا ہوں۔دلاور خان ایک نظر زوبیہ بیگم پہ ڈال کر بولے۔

مجھے یہاں رہنا ٹھیک نہیں لگ رہا۔یمان کشمش میں مبتلا اُن سے بولا وہ یہاں آ تو گیا تھا مگر اب اُس کو پچھتاوا سا ہورہا تھا۔

یمان تم مجھے اپنی ماں اور خان کو اپنا باپ ہی سمجھو اِس لیے اتنا فارمل مت ہو یہاں تم ہمیشہ کے لیے رہ سکتے ہو ہمارا بیٹا بن کر۔زوبیہ بیگم محبت سے کہا

میں یہاں کیسے رہ سکتا ہوں میں اپنے گھر جاؤں گا جب میرے والد کی ناراضگی دور ہوجائے گی۔یمان نے کہا

ٹھیک ہے مگر تب تک تو اِس گھر کو اپنا گھر سمجھو۔دلاور خان نے بے تکلف لہجے میں کہا تو یمان محض مسکرادیا بھلا وہ کیسے کسی اور کے گھر کو اپنا سمجھتا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کاش میں اُس دن یہاں ہوتی۔فجر نے عیشا کی ساری بات سُنی تو حسرت سے بولی

یمان ٹھیک ہے صحیح سلامت ہے ہمارے لیے یہی بڑی بات ہونی چاہیے اور تم اب پریشان مت ہوا کرو تمہارے بچے کے لیے اچھا نہیں۔عیشا نے پرسکون لہجے میں اُس کا بھرا ہوا وجود دیکھ کر کہا

تم نے پوچھا نہیں تھا وہ کہاں تھا اتنے وقت تک؟فجر نے کہا

اِن باتوں کا موقع ہی نہیں ملا تم یہ بتاؤں ارسم جیل سے کب رہا ہوگا۔عیشا نے گہری سانس بھر کر پوچھا

پتا نہیں میں خود بہت پریشان ہوں میری ڈیلیوری کے دن بہت قریب آرہے ہیں اور ارسم کی رہائی کا کجھ پتا ہی نہیں۔فجر فکرمند لہجے میں بولی۔

ارسم اتنا بے وقوف تو نہیں جو اُس نے ایک فراڈیہ لوگوں کے ساتھ ملایا اور اُن کی کمپنی میں انویسٹمنٹ کی۔عیشا افسوس بھرے لہجے میں بولی۔

مجھے اُس کا کجھ نہیں پتا میں بس یہ چاہتی ہوں ارسم خیر سے رہا ہوجائے۔فجر نے کہا

ان شاءاللہ تمہاری ڈیلیوری سے پہلے وہ آجائے گا۔عیشا نے دعائیہ انداز میں کہا

ان شاءاللہ اور تم یہ بتاؤ کم سے کم تمہیں یمان سے یہ تو پوچھنا چاہیے تھا نہ وہ دوبارہ کب آئے گا۔فجر گھوم پِھر کر یمان کے زکر پہ آئی ۔

وہ آجائے گا خود ہی اب مجھے تمہیں ایک چیز دیکھانی ہے۔۔عیشا نے کہا اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔

کونسی چیز؟فجر ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی

یہ مجھے یمان کے کمرے کی صفائی کرتے وقت ملی۔عیشا نے ایک چِٹ اُس کی طرف بڑھا کر بتایا۔

یہ۔فجر نے چٹ کو دیکھا تو اُس میں موجود تحریر پڑھ کر بس یہی بول پائی۔

اُس لڑکی نے دی تھی شادی یمان کو۔عیشا نے بتایا تو فجر نے اُس چٹ کو پھاڑنا چاہا پر عیشا نے فورن سے اُس کو روکا۔

نہیں فجر۔عیشا نے نفی میں سرہلایا

کیوں نہیں اُس لڑکی کی وجہ سے ہم سب کی پرسکون زندگی میں اتنا کجھ ہوگیا۔فجر نے چیخ کر کہا

آہستہ فجر تمہارے لیے اتنا ہائپر ہونا ٹھیک نہیں ہمارے ساتھ جو ہوا وہ سب ہماری قسمت تھی یہ چٹ یمان کے لیے بہت معنی رکھتی ہے تبھی تو اتنا سنبھال کر اُس نے اپنے پاس رکھی ہے میں نہیں چاہوں گی کے اِس چٹ کے ٹکڑے کرکے ہم کسی ڈسٹربن میں پھینکے یہ یمان کی امانت ہے ہم اُس کو دینگے پھر اُس کی مرضی۔عیشا نے سنجیدگی سے اُس کو ٹوکا۔

تمہیں کیا لگتا ہے یمان کو اب تک وہ یاد ہونی چاہیے۔فجر نے پوچھا

کچی عمر کی محبت بہت پکی ہوتی ہے میں اور تم جتنا بھی کرلے یمان کے دل سے اُس لڑکی کی محبت ختم نہیں کرسکتے۔عیشا نے کہا تو فجر خاموش سی ہوگئ اُس کے پاس کجھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا جیسے۔

💕💕💕💕💕💕💕

یمان کو دلاور خان اور زوبیہ کے ساتھ رہتے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ وقت ہوگیا تھا دلاور خان اور زوبیہ کو اُس کو اپنے بیٹے کی طرح ٹریٹ کرتے تھے جس سے یمان بھی تھوڑا بہت اُن سے مانوس ہوگیا تھا اور اُن کے بے حد اصرار پہ وہ دلاور خان کو ڈیڈ اور زوبیہ بیگم کو موم کہہ کر پُکارتا تھا۔دلاور خان نے اُس کو اپنی پڑھائی جاری کرنے کا بھی کہا تھا مگر یمان نے سہولت سے انکار کردیا تھا اور بنا اُن کے علم میں کوئی بات ڈالے وہ کسی جاب کی تلاش میں تھا پر آج صبح صبح ہی دلاور خان اُس کو اپنے ساتھ سیٹ پہ لائے تھے جہاں اُن کی نئ آنے والی فلم کی شوٹنگ کی بات وغیرہ ہونی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,

یہ گانے کے لیے کس کو اُٹھالائے ہو۔دلاور خان غصے سے پاس کھڑے اپنے اسسٹنٹ سے بولا اُن کو اپنے فلم کے سونگ کے لیے کسی اچھے سِنگر کی ضرورت تھی جو اُن کو مل نہیں رہا تھا مگر اب جب کوئی ملا تھا وہ ٹھیک سے گانا گا نہیں پارہا تھا جس سے دلاور خان کو اُس پہ غصہ آرہا تھا اُن کے عین پاس بیٹھا یمان خاموشی سے آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا۔

سر میں دوبارہ اچھا گانے کی کوشش کرتا ہوں۔گِٹار پکڑے لڑکے نے فورن سے کہا

کوشش نہیں کرنی اچھا گانا ہے یہ مووی دلاور خان کی ہے اور میں اُس میں کوئی کمی نہیں چاہتا میں سہیل سے گانا کہنے والا تھا مگر وہ جانے کہاں غائب ہے۔۔دلاور خان نے سنجیدگی اور پریشانی کے ملے جُلے انداز سے کہا۔

میں ایک بار کوشش کروں؟آس پاس نظر ڈوراتا یمان سرسری لہجے میں بولا تو دلاور خان نے چونک کر اُس کو دیکھا۔

تمہیں سِنگنگ آتی ہے؟دلاور خان کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

ایک بار ٹرائے کرتا ہوں پھر آپ بتانا۔یمان نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا تو اُس کے دونوں گالوں پہ گڑھے نُمایاں ہوئے جو آج دلاور خان نے شاید پہلی بار دیکھے تھے۔

شیور۔دلاور خان خوش ہوئے تو دلاور خان کے اسسٹنٹ نے گِٹار اُس کی جانب بڑھایا۔

کونسا گائوں؟یمان نے پوچھا

کوئی بھی ابھی تمہاری آواز کی ٹیسٹ ہے۔دلاور خان نے مسکراکر کہا تو یمان سوچ میں پڑگیا پھر کسی خیال کے تحت اُس نے گانا شروع کیا۔

آرام آتا ہے دیدار سے تیرے

مٹ جاتے ہیں سارے غم

ہے یہ دعا کے تجھے دیکھتے 

دیکھتے ہی نکل جائے دم

شکرانہ چاہے جتنا بھی کرلوں 

میں پھر بھی رہے گا وہ کم

تیرا تصور مجھے دے کر

مولا نے مجھ پہ کیا ہے کرم

یمان اتنا گاکر خاموش ہوکر دلاور خان کو دیکھنے لگا جو حیرت کا مجسمہ بنے ہوئے تھے اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا یمان کی آواز گانا گاتے وقت اتنی خوبصورت ہوگی۔

زبردست۔دلاور خان حیرت سے باہر آکر بس یہی بول پائے۔

شکریہ۔یمان نے اتنا کہہ کر گِٹار واپس رکھ دیا۔

تم میرے کیبن میں آنا۔دلاور خان اتنا کہہ کر اٹھ گئے تو یمان اُن کے پیچھے گیا۔

جی۔یمان اُن کے کیبن میں آتا بولا

تم نے بتایا نہیں تمہاری آواز اتنی اچھی ہے۔دلاور خان نے شکایت بھرے لہجے میں کہا

کبھی بتانے کا موقع نہیں ملا۔یمان نے کندھے اُچکائے

تمہیں پتا ہے تم ایک بہت مشہور اور سنگر بن سکتے ہو تو اِس فیلڈ میں کیوں نہیں آجاتے میں تمہاری ہر لحاظ سے مدد کروں گا۔دلاور خان نے کہا

آپ کا مجھ پہ پہلے سے بہت احسان ہے اب مزید نہیں۔یمان نے کہا۔

احسان کیسا تم لیے میرے بیٹے ہو تم اپنا پہلا گانا میری فلم کے لیے گاؤ میں تم اُس کے لیے بہت اچھی پے دوں گا اُس کے بعد دیکھنا پھر تمہارے پاس آفرز آتی جائے گے مگر اُس کے ساتھ تمہیں اپنی پڑھائی جاری رکھنی پڑے گی یہ موسٹ امپورٹنٹ ہے۔دلاور خان نے مسکراکر کہا

اگر میری آواز آپ کو واقع میں پسند آئی ہے تو میں ضرور آپ کے لیے گائوں گا مگر اُس کی میں پے نہیں لوں گا جو آپ نے مجھ پہ خرچ کیا ہے میں اُس کی قیمت چُکانا چاہتا ہوں۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

میں نے جو کجھ کیا وہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر کیا تھا۔دلاور خان نے کہا

میں جو کررہا ہوں وہ آپ کو اپنا باپ سمجھ کر کرہا ہوں باپ بیٹے میں حساب نہیں ہوتا۔یمان کے جواب پہ دلاور خان لاجواب ہوئے جس نے بڑی خوبصورت طریقے سے اپنی بات منوالی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

کجھ عرصے بعد!

لاہور!

آج یمان کا پہلا گانا تھا جو آن ایئر ہونے والا تھا اِس دن کے لیے اُس نے بہت سارے خواب سجائے تھے ہزاروں لوگوں کے سامنے کھڑا ہوکر گانا اُس کا جنون بن گیا تھا جو آج پورا ہونے والا تھا مگر جو خوشی اُس کو محسوس ہونی چاہیے تھی وہ جانے کہاں غائب تھی اُس کو اپنا آپ کھوکھلا سا معلوم ہورہا تھا اُس نے اپنے دماغ کو ساری سوچو سے آزاد کرواکر ایک طائرانہ نظر سب لوگوں پہ ڈالی جو اُس کے گانے کے منتظر تھے یمان نے اپنی آنکھوں کو بند کیا اور گِٹار کی تاروں کو چھیڑا۔

کیا تھی وجہ جو کی بے وفائی

یاد جلا کے راکھ اُڑائی

کیا تھی وجہ جو کی بے وفائی

یاد جلا کے راکھ اُڑائی

جانے ضروری کیوں تھا درد جُدائی

ہونے لگی ہے کیوں یہ سانسیں پرائی

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یہ حالِ دل جو ہم کہہ بھی نہ پائے

کیسی خطا کی وہ کیسی صدائیں

سُنتا نہیں کوئی دل کی صدا 

کہہ بھی نہ پائے

یہ حالِ دل جو ہم کہہ بھی نہ پائے

کیسی خطا کی وہ کیسی صدائیں

سُنتا نہیں کوئی دل کی صدا 

کہہ بھی نہ پائے

یمان نے گانا شروع کیا تو ہال میں موجود سب لوگ اُس کی آواز کے سحر میں جکر چُکے تھے۔

دوسری طرف اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں موجود آروش جو لاؤنج میں بیٹھی چینل سرچنگ کررہی تھی چینل بدلتے بدلتے اُس کے ہاتھ تھام سے گئے تھے اُس نے ایک نظر ٹی وی پہ نظر آتے یمان پہ پڑی تو پہلے اُس نے اپنا وہم جانا تھا جس کو یقین دلانے کے لیے اُس نے وہ چینل دوبارہ سے لگایا جہاں کوئی گانا چل رہا تھا۔

جینے کی دعائیں ہم نے مانگی ہی نہ تھی

ایسا نہیں تھا آنکھیں بھیگی نہ تھی

ہاتھوں کی لکیریں جیسے کھینچی ہی نہ تھی

پوری وفائیں کیسے ہوتی

سِتم ہی ایسا ٹوٹا

نصیباں میرا روٹھاں

ملا تھا کوئی جھوٹا

کوئی ہی جھوٹا!!!!!!!

جانے ضروری کیوں تھا درد جُدائی

ہونے لگی ہے کیوں یہ سانسیں پرائی

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یہ حالِ دل جو ہم کہہ بھی نہ پائے

کیسی خطا کی وہ کیسی صدائیں

سُنتا نہیں کوئی دل کی صدا 

کہہ بھی نہ پائے

یہ حالِ دل جو ہم کہہ بھی نہ پائے

کیسی خطا کی وہ کیسی صدائیں

سُنتا نہیں کوئی دل کی صدا 

کہہ بھی نہ پائے

مولا!!!!!!!!!!!!!!!

کہہ بھی ناپائے!!!!!!!!!

مولا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یہ حالِ دل ہم کہہ بھی نہ پائے

تنہا ایسے کہی مر ہی نہ جائے

یمان جیسے ہی خاموش ہوا پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونج اُٹھا یمان اپنی آنکھوں کو کھول کر گہری سانس بھر کر سب کو سامنے دیکھنے لگا آج اُس کا خواب حقیقت بن کر اُس کے سامنے کھڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش حیرت کا بُت بنی بیٹھی سامنے اسکرین پہ چلتے مناظر کو دیکھ رہی تھی وہ جو اُس کو وہم لگا تھا وہ وہم نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی سامنے گانا گانے والا کوئی اور نہیں یمان مستقیم تھا وائٹ شرٹ کے اُپر بلیک لیدر کی جیکٹ کے ساتھ جینز پینٹ پہنے ہاتھوں میں مختلف قسم کے بینڈز موجود تھے آج آروش نے اُس کو پورے چار سال بعد دیکھا تھا بلکل مختلف انداز میں اُس کی آنکھوں میں جہاں پہلے بے یقینی تھی وہاں آہستہ آہستہ نفرت نے جگہ لی وہ جو اتنے سال خود کو اُس کی موت کا زمیدار سمجھتی آرہی تھی ایک گِلٹ کے ساتھ زندگی گُزار رہی تھی مگر اُس کو یوں زندہ سلامت دیکھ کر اُس کو جانے کیوں یمان سے نفرت ہونے لگی اپنے اندر ایک لاوا پھٹتا محسوس ہوا اُس کو یمان کا یوں اپنی زندگی میں آگے بھرنا یوں مکمل دیکھنا عجیب کے احساس میں گھیر رہا تھا جس کو وہ کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی پھر اچانک جانے اُس کو کیا ہوا وہ اُٹھی اور پاس پڑا گُلدان اُٹھا کر ٹی وی کی جانب پھینکا جس سے چھناک کی آواز کے ساتھ ٹی وی کی اسکرین چکنا چور ہوگئ ہوگئ مگر اُس کو پھر بھی سکون نہیں مل رہا تھا۔

آروش کیا ہوا یہ کیا کردیا۔دُرید جو ابھی اندر داخل ہوا تیز آواز کانوں پہ پڑی تو لاوٴنج میں آیا جہاں ہر طرف کانچ کے ٹکڑے پڑے بِکھرے پڑے تھے خود آروش ساکت سی کھڑی تھی۔

آروش۔دُرید اُس پاس کھڑا ہوتا جھنجھوڑنے لگا تو وہ اپنے ہوش وحواسوں سے بیگانہ ہوتی اُس کے بازوں میں جھول گئ۔

آروش

آروش۔

دُرید پریشانی سے اُس کا گال تھتھپاتا ہوش میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

میرا نام ارمان ہے۔یمان گانے سے فارغ ہوتا کمرے میں آیا تھا جہاں زوبیہ بیگم دلاور خان پہلے سے موجود تھے اور ایک لڑکا بھی تھا جس سے وہ آج پہلی بار ملا تھا۔

تو؟یمان نے آئبرو سِیکڑے

تو کجھ نہیں۔ارمان خجل ہوتا بولا

برخودار آج تو تم نے کمال کردیا۔دلاور خان اُس سے بغلگیر ہوتا بولا

شکریہ سب آپ کی مہربانی ہے۔یمان نے کہا

میرا کجھ نہیں تھا اِس سے ملو یہ ارمان صدیقی ہے۔دلاور خان نے پاس بیٹھے ارمان کا تعارف کروایا تو یمان نے اُس کی طرف چہرہ کیا جو اب اُس کے دیکھنے پہ اپنے بتیس دانتوں کی نمائش کررہا تھا۔

سر آپ کے لیے کال ہے۔وہ سب باتوں میں مگن تھے جب ایک لڑکا یمان کے پاس آتا بولا۔

ہیلو۔یمان نے کال ریسیو کرکے جیسے ہی ہیلو کہا دوسری طرف سے آنی والی خبر نے اُس کے پیروں سے جیسے زمین کھینچ لی۔

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن میں آتا ہوں۔ یمان دھڑکتے دل کے ساتھ بول کر کال کٹ کرگیا۔ 

کیا ہوا یمان بیٹا؟ زوبیہ بیگم اُس کی اُڑی رنگت دیکھ کر پریشان بھرے لہجے میں بولی۔ 

کل میرے بہنوئی کی ڈیٹھ ہوگئ تھی میری بہن کے بیوہ ہونے کا سن کے ابا جو پہلے ہی بیمار تھے وہ بھی گُزرگئے۔ یمان یہ سب کس ضبط سے بتارہا تھا بس وہ جانتا تھا۔ 

یااللہ خیر۔ زوبیہ بیگم پریشان ہوئی

میں کراچی جارہا ہوں۔ یمان نے عجلت میں بتایا۔ 

رُکو یمان ارمان کو ساتھ لے جاؤ۔ دلاور خان نے اُس کو اکیلا جاتا دیکھا تو کہا۔

اُسے کہے آجائے۔یمان بنا پلٹے جواب دینے لگا تو دلاور خان نے ارمان کو اِشارہ کرنے لگا جو فورن سے سر اثبات میں ہلاتا یمان کے پیچھے گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا ہوا تھا آروش کو؟ دُرید نے پریشان کن لہجے میں ڈاکٹر روشن آرا سے پوچھنے لگا۔ 

کسی بات کا گہرا اثر لیا ہے آپ کوشش کرے اُن کو خوش رکھنے کی۔ روشن آرا نے بتایا تو دُرید نے سر کو جنبش دے کر آروش کو دیکھا جو ابھی ہوش میں آئی تھی۔ 

کیا بات ہے آروش تم اتنی گم سم کیوں رہنے لگی ہوں ایسی کونسی بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے؟دُرید آروش کے پاس بیٹھتا نرمی سے استفسار کرنے لگا۔ 

لالہ مجھے گاؤں واپس جانا ہے۔ آروش نے اُس کی بات کے جواب میں بس یہ کہا

ٹھیک ہے۔ دُرید ایک نظر اُس کے چہرے پہ ڈال کر بولا اُس کو اب آروش اُلجھی اُلجھی ہوئی سی لگتی تھی۔ اُس نے بہت بار اُس سے پوچھنے کی کوشش کی مگر کجھ خاص جواب نہ ملتا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان اپنے گھر آیا تو اُس وقت مستقیم صاحب کا جنازہ اُٹھایا جارہا تھا جس کو دیکھ کر یمان کے قدم چلنے سے انکاری ہوئی تھے پہلے ماں اور باپ بھی۔ یمان نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا

کندھا دے وہ آپ کے باپ ہیں۔ یمان جو بُت بن کر ایک جگہ کھڑا ہوگیا تھا ارمان کی بات پہ وہ ہوش میں آتا آگے کی جانب بڑھا۔ 

یااللہ اور کتنی آزمائشیں باقی ہیں۔ یمان نے پہلی بار بے ساختہ اپنے رب سے سوال کیا اُس کا دل چاہ رہا تھا دھاڑے مار مار کر روئے مگر وہ مرد تھا اگر روتا تو لوگ اُس پہ ہنستے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

دُر آپ آگئے۔ حریم نے آروش اور دُرید کو حویلی میں آتا دیکھا گیا  تیر کی تیزی سے اُس کی طرف بڑھی۔ 

کتنی بار کہا ہے لالہ بولا کرو یہ دُر لا کیا ہوتا ہے۔ فاریہ بیگم نے گھور کر اُس سے کہا

ہم تو دُر لا ہی کہے گے۔ حریم نے اُن کو چِڑایا تو وہ محض اُس کو گھور کر رہ گئ۔ 

آج تمہارا رزلٹ ڈے تھا کیا بنا اُس کا؟دُرید نے رزلٹ کا پوچھا

افففف اللہ میاں دُرلا آپ دو ماہ بعد یہاں آئے ہیں بجائے آپ ہماری خیریت پوچھنے کے ہم سے رزلٹ کا پوچھ رہے ہیں۔ حریم نے بڑی چلاکی سے بات کا رخ دوسری طرف کیا

فون پہ بار بار خیریت کا پوچھتا تو تھا میں۔ دُرید نے مسکراکر کہا

ہاں تو نماز کا پوچھے۔ حریم نے ناک منہ چڑھا کر کہا

اِس لڑکی سے نماز کا پوچھو کھانے پینے کا پوچھو ساری شرارتوں کا بھی پوچھ لوں مگر آج کے رزلٹ کا نہ پوچھو کیونکہ محترمہ انڈے لائی ہیں۔ فاریہ بیگم نے اُس کا راز فاش کیا تو دُرید حیرت سے حریم کو دیکھنے لگا جو سٹپٹا کر یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔ 

یہ چچی جان کیا سچ بول رہی ہیں؟ دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

جھوٹ بول رہی ہیں انڈے نہیں بس ایک انڈہ تھا وہ بھی بڑا والا۔ حریم نے فورن سے کہا تو دُرید اُس کی ذہانت پہ عش عش کر اُٹھا۔ 

اگر کجھ پڑھا ہوتا تو یہ بڑے والا انڈہ بھی نہ ملتا۔ دُرید کو افسوس ہوا اُس کا رزلٹ جان کر

آپ کو تو پتا ہے ہمیں انڈے کتنے پسند ہیں حریم ہونٹوں پہ زبان پھیر کر بولی تو دُرید کو وہ بہت کیوٹ لگی۔ 

میں سیریس ہوں حریم تم نے امتحان کی پڑھائی کیوں نہیں کی؟ دُرید نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا

دُر لا آپ نہیں تھے۔حریم نے سر جھکاکر کہا

تو؟دُرید کو اُس کی بات سمجھ میں نہیں آئی

تو ہمارا دل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا آپ جو بھی اسکائپ پہ ہمیں سمجھاتے ہمیں بھول جاتے.حریم نے اعتراف کیا

میں نہیں تھا یہاں تو اِس کا مطلب یہ تو نہیں نہ کے آپ رزلٹ کارڈ میں انڈے لگائے

انڈے نہیں انڈہ۔دُرید جو بہت سنجیدگی سے اُس کو سمجھارہا تھا انڈے نام پہ فورن سے حریم نے اُس کی بات کو ٹوکا۔

جو بھی انڈا یا انڈے مارکس تو نہیں تھے نہ اگر ایسا رہا تو سب یہ کہے گے کے حریم نالائق بچی ہے دُرید شاہ اُس پہ دھیان نہیں دیتا پھر سب حویلی والوں کی بات سچ ثابت ہوگی کے دُرید شاہ کے لاڈ پیار نے حریم فردین علی شاہ کو بگاڑ دیا ہے۔دُرید نے اُس کا پورا نام لیا تو حریم کے چہرے پہ مسکرائٹ آئی۔

دُر لا ہمیں آپ کا نام بہت پسند ہوتا ہے اِس لیے میرے نام کے ساتھ آپ اپنا نام لگالیا کریں حریم دُرید شاہ۔حریم کے پرجوش لہجے میں کہا

توبہ توبہ اتنی بے حیائی۔حریم کی بات پاس گُزرتی فردوس بیگم نے سُن لی تھی تبھی وہی رُک کر دُرید کے کجھ کہنے سے پہلے خود کانوں کو ہاتھ لگاکر بولی۔

بے حیائی کیسی؟حریم کا چہرہ تاریک ہوا تھا۔

تم کمرے میں جاؤ ٹیسٹ کی تیارو ورنہ کسی اچھے کالج میں تمہارا ایڈمیشن نہیں ہوپائے گا۔دُرید فردوس بیگم کی موجودگی کو نظرانداز کرتا نرم لہجے میں حریم سے بولا تو وہ اُس کی بات سن کر فورن اُٹھ کر کمرے میں چلی گئ۔

چچی جان حریم کے سامنے ایسی بات مت کیا کریں۔حریم کے جانے کے بعد دُرید شاہ سخت لہجے میں اُن سے بولا۔

ہونہہ کیوں نہ بولوں چودہ پندرہ سال کے قریب کی عمر ہے اور حرکتیں دیکھو کیسے بڑی ڈھٹائی سے اپنا نام تمہارے نام سے جوڑنا چاہ رہی تھی۔فردوس بیگم نخوت سے سرجھٹک کر بولی تو دُرید نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچا۔

وہ بچی ہے چچی جان اُس نے جو بات کہی اُس کا مطلب وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔دُرید نے ضبط سے کہا

جو بھی پر تمہیں اب چاہیے حریم سے فاصلہ رکھو جیسے حویلی کی باقی عورتوں کے ساتھ رکھتے ہو حریم اب بڑی ہوگئ ہے اُس کا یوں تمہارے سامنے آنا ٹھیک نہیں اُس کو چاہیے تم سے پردہ کرے۔فردوس بیگم نے نیا شوشہ چھوڑا

بارہ سال بڑا ہوں میں اُس سے چچی جان بچوں کی طرح اُس کو پالا ہے ہر چیز کا خیال میں نے اُس کا رکھا ہے اور آپ ہمارے درمیان ایسی بات کہہ رہی ہیں افسوس ہوا مجھے آپ کی بات سن کر۔دُرید تاسف بھری نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولا

بھئ میری بات تمہیں کڑوی ضرور لگے گی مگر ہے سچ حریم تمہاری بہن یا تمہاری اولاد نہیں ہے تو تمہاری پھپھو زاد کزن نہ تو تم اُس کے لیے نامحرم ہو اور نامحرم مردوں سے پردہ کیا جاتا ہے۔فردوس بیگم نے ہاتھ جہاڑ کر کہا۔

شکریہ آپ کے بتانے کا۔دُرید اتنا کہہ کر وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کجھ دن بعد! 

فجر نیچے بیٹھی ارسم کے ساتھ گُزارے ہوئے وقت اور خوبصورت لمحو کو یاد کررہی تھی اُس نے سوچا نہیں تھا اُس کو ارسم سے اِس قدر محبت ہوجائے گی بھلے وہ اُس سے عمر میں بڑا تھا دو شادیاں بھی کرچُکا تھا مگر جتنا پیار اور جتنی اپنائیت اُس نے کجھ لمحو بھی دی تھی اُس سے وہ ارسم کی گُریدہ ہوگئ تھی ارسم کی موت اُس کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھی وہ لمحہ بار بار یاد آرہا تھا جب اُس کو کال پہ بتایا گیا جیل سے بھاگنے کی وجہ سے ارسم کو گولی ماردی گئ تھی جس سے ارسم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تب سے لیکر اب تک وہ قرب سے گُزر رہی تھی ہوش تب آیا جب کانوں میں کیس بچے کی آواز پڑی تو وہ اپنے خیالوں سے چونک پڑی مگر نظر جیسے ہی نظر بے بی کاٹ پہ پڑی تو وہ فورن اپنی جگہ سے اُٹھی۔

یامین میرا بچہ کیا ہوا مما آرہی ہے آپ کے پاس۔یامین کو کاٹ سے اُٹھاکر وہ پیار سے اُس کو بہلانے لگی جس کو بامشکل تین ماہ ہوئے تھے اِس دنیا میں آئے۔

آپ کو کیا ضرورت تھی جیل سے فرار ہونے کی۔یامین کی معصوم شکل دیکھ کر اُس نے ارسم سے شکوہ کیا۔

اوے لڑکی۔ارسم کی سوتیلی ماں فضا اور بھائی دھڑام سے دروازہ کھول کر اُس کے کمرے میں آئی تو فجر ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی

جی آنٹی۔فجر نے بس یہ کہا

بچہ ہمیں دے اور نکل یہاں سے۔فضا نے گھور کر اُس سے کہا

یہ میرے شوہر کا گھر ہے میں کیوں جاؤں یہاں سے۔فجر کے چہرے کا رنگ اُڑا تھا اُن کی بات سن کر۔

امتیاز یامین اِس سے لے۔فضا نے اپنے بیٹے سے کہا جو ایکسرے کرتی نظروں سے فجر کو دیکھ رہا تھا۔

یہ میرا بچہ ہے میں کسی کو نہیں دوں گی اور آپ میرے عدت کے ہونے کا تو لحاظ کرے۔فجر نے تڑپ کر کہا

دو ماہ لحاظ کیا ہے وہ ہی کافی ہے اب بچہ ہمیں دے توں اپنا ٹھکانہ کہی اور تلاش کر۔فضا خود آگے بھر کر اُس سے یامین لیا تو فجر نے اُن سے لینے چاہا پر وہ باہر کی طرف بڑھی۔

دیکھے میں چلی جاؤں گی پر مجھے میرا بیٹا دے۔فجر اُن کے پیچھے بھاگ کر آتی ڈری ہوئی آواز میں بولی ایک یامین ہی تو تھا اُس کا اگر وہ بھی اُس سے لے لیا جاتا تو اُس کا کیا ہوتا۔

یہ ہم اپنے پاس رکھ لینگے پر تجھے نہیں رکھ سکتے۔فضا آرام سے صوفے پہ بیٹھ کر بولی۔

امتیاز تم آنٹی سے کہو نہ وہ یامین مجھے دے۔فجر نے روتے ہوئے امتیاز سے کہا

چھوڑے ہم آپس میں شادی کرکے دوسرا یامین پیدا کرلے گے۔امتیاز خباثت سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولا تو اُس کی گھٹیاں بات پہ فجر نے ایک زناٹے دار تھپڑ اُس کے منہ پہ مارا

پاگل ہوگئ ہے کیا۔فضا نے غصے سے اُس کو دیکھ کر کہا جو نفرت سے امتیاز کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

تیری تو۔امتیاز اُس کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتا تھپڑ مارنے والا تھا جب کسی نے اُس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہنے دیا۔

یم یمان۔فجر نے یمان کو دیکھا تو جذباتی ہوگئ 

تم کون ہو؟امتیاز اپنا ہاتھ اُس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتا پوچھنے لگا۔جس کے جواب میں یمان نے ایک مُکہ اُس کے منہ پہ مارا تو امتیاز کو اپنا جبڑا ٹوٹتا محسوس ہوا۔

واہ۔ارمان داد دیتی نظروں سے یمان کو دیکھنے لگا۔

کون ہو اور کیوں میرے بیٹے پہ تشدد کر رہے ہو؟فضا بیگم زور سے یامین کو صوفے پہ پٹخ کر یمان سے بولی

یامین۔فجر نے یامین کو روتا دیکھا تو تڑپ کر اُس کی جانب بھاگی جس پہ ارمان کا دھیان یمان سے ہٹ فجر کی طرف گیا۔

آج چھوڑ رہا ہوں مگر آئیندہ میری بہن کے آس پاس بھی بھٹکے تو وہ حال کروں جو اپنی ماں بھی پہچاننے سے انکار کردے گی۔یمان ایک زوردار لات اُس کے پیٹ پہ مارکر وارننگ بھرے لہجے میں اُس سے بولا

جاؤ یہاں سے ہمیں تو معاف ہی کرو۔فضا نے امتیاز کے پاس جاکر یمان سے کہا

چلے آپی۔یمان ایک اچٹنی نظر اُن دونوں پہ ڈال کر فجر سے بولا

آپی۔ارمان جو مسلسل فجر کو دیکھے جارہا تھا آپی لفظ پہ چونک کر یمان کو دیکھنے لگا جو فجر کے ساتھ کھڑا ہوتا اُس سے یامین لے رہا تھا ارمان کبھی اُسے تو کبھی فجر کو دیکھتا اُس کو سمجھ نہیں آیا دونوں میں سے بڑا کون ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم دو ماہ سے یہاں ہو تو میرے پاس کیوں نہیں آئے؟فجر یامین کو کمرے میں سُلاتی یمان سے باز پرس ہوئی۔

آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا اِتنا سب کجھ ہوگیا آپ کیسے اتنے گھٹیاں لوگوں کے درمیان رہی۔یمان نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا

وہ سب اچھے تھے مگر آج

فجر اتنا کہتی خاموش ہوگئ۔

آپ میرے ساتھ چلے۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

میں تمہارے ساتھ کہاں چلوں گی اور تم اب کہی نہیں جارہے۔فجر نے دو ٹوک انداز اپناتے کہا

میں اب یہاں نہیں رہ سکتا میں نے سِنگنگ کرنا شروع کردیا ہے۔یمان نے کہا تو فجر کو اتنے وقت بعد چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی۔

سچ میں مبارک ہو تمہیں آخر کو تم نے اپنا خواب سچ کر دیکھایا۔فجر نے خوشی سے کہا

پھر آپ چل رہی ہیں میرے ساتھ؟یمان نے کہا

میں نہیں چل سکتی یمان میرا گھر یہاں ہیں۔فجر نے انکار کیا

آپی ضد نہیں کرے عیشا آپی اپنے سُسرال ہیں آپ یہاں یامین کے ساتھ اکیلے کیسے رہے گی۔یمان کے لہجے میں فکرمندی تھی۔

اگر میرا اتنا خیال ہے تو یہاں رُک جاؤ۔فجر نے اُس کو امتحان میں ڈالا۔

میرے واپسی کے راستے بند ہوچکے ہیں۔یمان نے نظریں چُراکر کہا

میری عدت ختم ہونے تک یہاں رہو یا تب تک جب یامین ایک سال کا نہیں ہوجاتا۔فجر نے سنجیدگی سے کہا

میں آپ کی بات مان لوں گا بدلے میں آپ کو بھی میری بات ماننی پڑے گی۔یمان نے کجھ سوچ کر کہا

کونسی بات؟فجر نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا۔

میں یہاں کراچی میں کوئی اچھا سا فلیٹ خریدوں گا آپ کو یامین کے ساتھ وہاں رہنا ہوگا۔یمان نے کہا

اُس کی کوئی ضرورت نہیں۔فجر کو یہ بات پسند نہیں آئی۔

ضرورت ہے آپی تبھی میں یہ بول رہا ہوں اور آپ کو میری بات یہ ماننے ہوگی۔یمان نے دو ٹوک کہا تو فجر نے گہری سانس خارج ہوا کے سپرد کی۔

💕💕💕💕💕💕💕

دس ماہ بعد!

تم یہ سب سامان گاڑی میں رکھو میں آتا ہوں۔یمان نے ارمان سے کہا

جی ٹھیک ہے۔ارمان نے فورن سے اُس کی بات پہ سرہلاتا باہر کی جانب گیا۔ یمان کے پلٹ کر ایک نظر اُس فلیٹ پہ ڈالی جہاں وہ اتنے ماہ رہا تھا پھر اپنے قدم واپسی کی جانب بڑھائے۔

یمان۔فجر کی آواز پہ وہ یکدم پلٹا تھا

جی۔یمان اپنی حالت پہ قابو پائے بولا

تم جارہے ہو پر جلدی آنا ہمیں تمہاری ضرورت ہے میرے بیٹے کو بھی تمہاری ضرورت ہے بہت۔فجر نے نم لہجے میں اپنی گود میں موجود ایک سالہ یامین کو دیکھ کر اُس سے کہا

آپ اپنا اور یامین کا بہت خیال رکھئیے گا پر میں اپنے آنے کی اُمید نہیں دلاسکتا آپ اور یامین میرے ساتھ چلے مجھے یہاں وحشت ہوتی ہے۔یمان بے بسی سے بولا

غلط کررہے ہو۔فجر نے اُس کو سمجھانا چاہا

کیا صحیح ہے اور کیا غلط اِن سب سے اب میں بہت دور چلا آیا ہوں۔یمان کہتا اُس کی گود سے یامین کو لیکر اُس پہ پیار کرنے لگا۔

تم پہ گیا ہے پورا تمہاری طرح اِس کے گالوں پہ بھی ڈمپلز ہیں۔فجر نے دونوں ماموں بھانجے کو دیکھ کر کہا۔

دعا کیجیے گا قسمت میرے جیسی نہ ہو۔یمان یامین کا ماتھا چوم کر بولا تو فجر کو لگا جیسے اُس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑلیا ہو۔

کیوں ایسی باتیں کرکے تپارہے ہو۔فجر نے افسوس سے کہا

میں چلتا ہوں دیر ہورہی ہے۔یمان یامین کو فجر کی طرف بڑھاکر بولا

ایک چیز لینا بھول رہے ہو۔فجر کی بات پہ یمان کے قدم تھمے تھے۔

کونسی چیز؟یمان سوالیہ نظروں سے فجر کو دیکھنے لگا جواب میں فجر نے اپنی بند مٹھی یمان کی طرف بڑھا کر اُس کو کھولا۔

فجر کے ہاتھ میں وہ چِٹ دیکھ کر یمان تیر کی تیزی سے اُس کے پاس آکر وہ چٹ اپنے ہاتھ میں لے گیا تھا۔

آپ کو کہاں سے ملی؟یمان کا لہجہ اتنا اچانک خوشگوار محسوس کرکے فجر کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔

مجھے لگا تھا تم کوئی خاص ری ایکشن نہیں دوگے مگر اب معلوم ہوا تمہیں ابھی تک وہ یاد ہے بھول کیوں نہیں جاتے اِس کو۔فجر نے کہا

شکریہ آپی مجھے یہ دینے کے لیے۔یمان اُس کی بات سرے سے نظرانداز کرگیا تھا۔

کیا تھا اُس لڑکی میں کیا ہے اِس معمولی کاغذ کے ٹکڑے میں جو تمہارے چہرے پہ اچانک رونق آگئ ہے مت بھولوں اُس نے تمہاری ہنستی بستی زندگی کو اُجاڑا تھا۔فجر نے اُس کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہا

جس کو آپ معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا بول رہی ہیں آپ کو نہیں پتا یہ میرے لیے کیا ہے کبھی کبھی معمولی  نظر آنے والی چیز انسان کے جینے کی وجہ بن جاتی ہے میری زندگی انہوں نے نہیں اُجاری یہ سب میری قسمت میں تھا۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

پتا ہے یمان جب میں نے اِس چٹ کو تمہارے کمرے کی الماری میں دیکھا اِس میں موجود تحریر کو پڑھا تو میرا دل چاہا اِس کو آگ لگادوں پر پھر پتا نہیں کیوں نہیں جلایا۔فجر کی بات پہ یمان کے چہرے پہ اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

میرے پاس بس یہ ایک چیز ہے نشانی کے طور پہ۔یمان نے کہا

فریم کرواکر دیوار پہ چسپاں کردوں۔فجر نے طنزیہ کیا۔

ضرورت پڑی تو ضرور۔یمان نے جوابً کہا۔

یمان۔فجر اُس کو بس دیکھتی رہ گئ۔

آپی پلیز وہ بات مت کرے جو میرے بس میں نہیں۔یمان نے بے بسی سے کہا تو فجر نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

سر چلے؟ارمان نے دیر تک یمان کو آتا نہیں دیکھا تو گاڑی سے اُترتا باہر آیا۔

ٹھیک ہے آپی چلتا ہوں۔یمان نے آخری نظر فجر پہ ڈال کر کہا

پھر کب آؤ گے؟فجر نے اُس کو جاتا دیکھا تو پوچھا

پتا نہیں۔یمان اتنا کہتا باہر کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔

ایک نظر مجھ پہ بھی ڈال لیا کریں کبھی۔ارمان نے فجر کو یمان کی پشت پہ نظر جمائے دیکھا تو شرارت سے بولا

کیا مطلب تمہارا؟فجر ماتھے پہ بل ڈالے ارمان کو دیکھ کر بولی

میرا مطلب ہم جارہے ہیں آپ کو مجھ سے کوئی کام تو نہیں؟ارمان نے بڑی صفائی سے پنترا بدلا

مجھے تم سے کوئی کام نہیں۔فجر نے کہا

سوچ لے کیا پتا کام نکل آئے۔ارمان نے چھیڑنے والا انداز اپنایا۔

نہیں ہے کہا جو۔فجر نے اب کی گھور کر کہا تو ارمان گڑبڑا سا گیا۔

یہ آپ کا بچہ ہے؟ارمان نے اُس کی گود میں یامین کو دیکھ کر بے تُکہ سوال کیا۔

نہیں تو تمہارا ہے۔فجر زچ ہوتی جانے کیا بول گئ اُس کو خود پتا نہیں چلا۔

لاحول ولاقوة میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی بچہ کہاں سے ہوگا یہ یقینً آپ کا ہی بچہ ہے۔ارمان کانوں کا ہاتھ لگاتا اُس کی بات کو اپنا رخ دے گیا تو فجر اُس کو ایک گھوری سے نوازتی اندر کی طرف بڑھی۔ارمان بھی ایک مسکراتی نظر اُس کی پشت پہ ڈالتا اپنے قدم واپسی کی جانب بڑھاگیا۔

فجر اندر آئی تو لینڈ لائن پہ کسی کی کال آرہی تھی اُس نے کمرے میں جاکر آرام سے یامین کو بیڈ پہ لیٹا کر اُس کے دونوں سائیڈز میں تکیے رکھے تاکہ وہ گِر ناپائے پھر باہر آئی جہاں مسلسل جانے کون کال پہ کال کیے جارہا تھا۔

ہیلو کون؟فجر نے کال اُٹھاکر سب سے پہلے یہی پوچھا

عیشا بول رہی ہوں۔دوسری طرف سے سنجیدگی سے جواب دیا گیا۔

عیشا کیسی ہو آج یمان لاہور کے لیے نکل گیا تم اُس سے ملنے کیوں نہیں آئی؟فجر نے ایک ہی سانس میں اُس سے سب پوچھ لیا۔

یمان کو ہمارے گھر کے حالات کا کیسے پتا چلا؟عیشا نے اُس کی بات نظرانداز کرکے اپنی بات کہی۔

میں سمجھی نہیں؟فجر ناسمجھی سے بولی

کل یمان آیا تھا میری ساس کو بہت بھاری رقم پکڑائی ہے اور مجھ سے پوچھنا گوارا تک نہیں کیا۔عیشا نے بتایا

یمان نے تمہاری ساس کو پئسے کیوں دیئے تمہیں کیوں نہیں دیئے۔فجر ابھی بھی اُس کی بات مطلب سمجھ نہیں پارہی تھی مگر اُس کی بات سن کر عیشا نے اپنے موبائل کو کان سے ہٹاکر اسکرین کو گھورا جیسے سامنے فجر ہو۔

تم عقل سے اتنی پیدل کب سے ہونے لگی ہو یمان مجھے پئسے کیوں دیتا میری ساس کیوں دیئے ہر وقت پئسو کی پیاس انہیں ہوتی ہے اور تمہیں پتا ہے یمان اُن کو دھمکاکر گیا ہے کے آج کے بعد وہ کبھی مجھ سے سخت انداز میں بات نہ کرے نا ہی مجھے کسی بات کا طعنہ دیا کریں اگر اُن کو کجھ چاہیے ہو تو وہ اُسے کال کرے پورا غنڈا بن کر آیا ہے یمان اور ایک اہم بات یمان کے پاس اتنے پئسے کہاں سے آئے کیا وہ کوئی غیرقانونی کام تو نہیں کرنے لگا۔عیشا اچانک بات کرتے کرتے یکدم چونک کر بولی

تمہاری عقل شادی کے بعد لگتا ہے گھاس کھانے گئ ہے ایسا کجھ نہیں جب یمان یہاں تھا تو اسلام آباد گیا تھا دو تین دن کے لیے اُس کو ایک سونگ کی آفر ہوئی تھی شاید وہ پئسے اُس نے تمہاری ساس کو دیئے ہو مجھ سے تو ایسا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔فجر نے اپنی معلومات کے مطابق بتایا۔

میری ساس نے مجھ سے پئسے مانگے تھے یہ بات میں نے تمہیں بتائی تھی یمان کو کیسے پتا چلی؟عیشا نے پوچھا

مجھے نہیں پتا کجھ یمان اتنا چپ رہتا تھا مجھے میں ہمت نہیں ہوتی تھی اُس سے کوئی بھی بات کرنے کی اور میں پئسوں کی بات کیسے کرسکتی تھی وہ ہمارا چھوٹا بھائی ہے ہمارا باپ نہیں۔فجر نے جلدی سے اپنی صفائی دی۔

اب یہ تم اُس کو چھوٹا کہنا چھوڑدو اپنی عمر سے دوگنا لگتا ہے جانے کیا کھاتا ہے۔عیشا نے بے زاری سے کہا۔

ماشااللہ کہنے سے زبان میں درد ہوتا ہے کیا؟فجر نے طنزیہ کیا

ماشااللہ سے ہمارا بھائی بڑا ہوگیا ہے اب میری بات سنو یمان سے تمہاری اگر بات ہو تو اُس سے کہنا وہ میرے سسرال کے لیے اتنا کجھ نہ کرے خوامخواہ پھر وہ اُس کے پیچھے پڑ جائے گے گھر کے حالات تمہارے سامنے ہیں یمان کب تک اُن کے لیے کرے گا کل کو اُس نے بھی شادی کرنی ہے اور صبح ایک لڑکا آیا تھا جانے کیا نام ہے اُس کا جو یمان کے ساتھ ہوتا ہے؟عیشا پرسوچ انداز میں کہتی سوچنے لگی۔

ارمان؟فجر نے تُکہ لگایا

ہاں وہی ارمان صبح کو آیا تھا ارشد کو ایک لیٹر دے کر گیا تھا کہا کے کل سے اِس آفس میں جایا کرے اُس کی جاب پکی ہے۔عیشا نے منہ بگاڑ کر بتایا

شکر ہے تمہارے شوہر کی جاب لگ گئ مگر یہ تم اتنے ناشکرے پن کا مظاہرہ کیوں کررہی ہو یمان نے تمہارے لیے اتنا کیا بجائے تم خوش ہونے کے اُس سے اتنا ناراض ہورہی ہو اگر یمان چاہتا تو ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑ سکتا ہے اپنی زندگی میں مگن ہوسکتا تھا مگر اُس نے ایسا کجھ نہیں اُس کو ہم سے پیار ہے ہماری فکر ہے تبھی تو ہمارے لیے سوچ رہا ہے۔فجر نے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا۔

واقع یمان نے میرے لیے بہت کیا جیسے بڑے بھائی اپنی بہنوں کے لیے کرتے ہیں میں ناشکری نہیں ہورہی نا اِس بات سے انکاری ہوں مگر فجر وہ جو کررہا ہے یہ سب صحیح نہیں میرے گھر والے اُس کی زمیداری نہیں بابا نے لوگوں کے ڈر سے میری شادی میں بہت جلدبازی کی میں اپنی قسمت سمجھ کر خاموش رہی پر یہ یمان کی مہربانیاں  اُس کے لیے مشکل بن سکتی ہیں۔عیشا نے کہا

کیا تمہارے ساتھ اُن کا رویہ ٹھیک نہیں ہے؟فجر فکرمند ہوئی۔

ایسی بات نہیں سب اچھے ہیں۔عیشا نے کہا تو وہ پرسکون ہوئی۔

تم یمان کی فکر نہیں کرو وہ سب دیکھ لے گا دوسری بات یمان کوئی غنڈہ نہیں بس تمہارا مستقبل سیکیور کررہا ہے اب ہم چاروں کا ایک دوسرے کے علاوہ ہے کون۔فجر نے افسردگی سے کہا

چوتھا کون؟عیشا کو سمجھ نہیں آیا۔

یامین۔فجر نے تیز آواز میں بتایا

او ہاں میں یہ تمہارا گولوں مولوں بیٹا تو بھول ہی گئ تھی۔عیشا ہنس کر بولی۔

میرا بیٹا کوئی گولوں مولوں نہیں اور نہ بھولنے والی کوئی چیز۔فجر نے فورن سے کہا

ہے تمہارا بیٹا گولوں مولوں اور جو تم اُس کے گالوں پہ پڑتے ڈمپلز دیکھ کر اِتراتی ہوں نہ بتادوں بڑا ہوکر موٹا ہوگا بہت پھر اُس کے یہ ڈمپلز نظر نہیں آئے گے۔عیشا نے اُس کو چِڑایا۔

تم جلتی رہنا میرے بیٹے کی خوبصورتی سے بس۔فجر بُرا ماننے والے انداز میں کہہ کر کال کٹ کرگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

آپ یہاں میں سب سیٹ کردوں گی۔ماہی نے شازل کو کچن میں سامان لاتا دیکھا تو کہا

میں تمہاری ہیلپ کردو اُس کے بعد مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے۔شازل نے کہا

اچھا تو آپ بتادے رات میں کیا کھانا بناؤں؟ماہی نے پوچھا

کجھ بھی نہیں کھانا میں باہر سے کھاکر آؤں گا میرے جانے کے بعد تم باہر کا دروازہ لاک کرکے سونا میرے پاس ڈوپلیکیٹ کی ہے۔شازل شاپرز سے سامان نکالتا مصروف انداز میں بتانے لگا۔

آپ وقت بتادے میں انتظار کرلوں گی۔ماہی نے کہا

دو بج جائے گے مجھے اپنے کلائنٹ سے ملنا ہے پھر ایک فرینڈ سے کیس ڈسکس کرنا ہے بہت مصروف آدمی ہوں میں۔شازل نے اپنی اہمیت بڑھانی چاہی۔

کلائنٹ سے ملنا ہے کیس ڈسکس کرنا ہے آپ کیا کرتے ہیں مطلب کیا یہاں کی کوئی جاب ہے؟ماہی پاس پڑے اسٹول پہ بیٹھ کر شازل سے پوچھنے لگی وہ چاہتی تھی شازل کے بارے میں اُس کو سب معلوم ہو مگر ایک شازل تھا جو اُس کے لیے بہت موڈی انسان ثابت ہوگیا تھا جب دل کرتا تو اپنا آپ اُس پہ کھولتا موڈ نہ ہوتا تو نہ کرتا۔

تمہاری مجازی خدا نے لاء پڑھا ہے۔شازل نے گویا اُس پہ دھماکا کیا۔

لاء پڑھا ہے تو کیا آپ وکیل ہیں؟ماہی نے حیرت میں آکر ہمیشہ کی طرح اپنے بے وقوف ہونے کا ثبوت دیا۔

نہیں میں چپراسی ہوں۔شازل تو اُس کے سوال پہ جل ہی اُٹھا مگر اُس کا جواب سن کر ماہی خجل سی ہوئی تھی۔

آپ اپنے بارے میں سب کجھ بتادے ایک ہی بار میں ہر روز نئ خبر معلوم ہوتی ہے اچھا ہے ایک دفع میں معلومات ہوجائے آپ کے بارے میں پوری طرح سے ہمیں اتنے ماہ ہوگئے ہیں ساتھ رہتے ہوئے مگر مجھے آج پتا چلا ہے کے میرا شوہر وکیل ہے۔ماہی نے منہ بسور کر کہا۔

پھر کبھی بتاؤں گا ابھی مجھے نکلنا ہے۔شازل ہاتھ میں پہنی گھڑی پہ وقت دیکھ کر بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕

دُرید ڈیرے میں بیٹھا مسلسل اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جس سے اُس نے حریم پہ ہاتھ اُٹھایا وہ حریم کو تھپڑ مارنا نہیں چاہتا تھا وہ تو اُس پہ ہاتھ اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا نہ حریم پہ ایک خراش بھی برداشت کرسکتا تھا مگر اُس نے جو بات کہی تھی اُس پہ بے ساختہ اُس کا ہاتھ اُٹھ گیا جس پہ اب اُس کو پچھتاوا ہورہا تھا خود پہ غصہ بھی وہ حریم کو پیار سے سمجھا بھی تو سکتا تھا ہاتھ اُٹھانے کا کیا جواز بنتا تھا۔

رو رہی ہوگی وہ۔دُرید کو اچانک حریم کی فکر ہوئی۔

مجھے ایک بار اُس سے بات کرنی چاہیے کیا پتا وہ سمجھ جائے ہمارے درمیان موجود فرق اُس کو نظر آجائے۔ایک خیال کے تحت دُرید اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ میرے ساتھ ایسے نہیں کرسکتے میں آپ کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔حریم چھت پہ کھڑی ہوکر دور خلاؤ میں دیکھتی نم لہجے میں تصور میں دُرید شاہ سے بولی اُس کی آنکھوں سے گرم سیال بہتے جارہے تھے جس سے وہ سرے سے بے نیاز تھی۔

حریم۔آروش کی آواز پہ حریم نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔

مجھ سے بھی ناراض ہو؟آروش اُس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی

ضرور آپ ہم سے یہ کہنے آئی ہوگی کے ہم اپنا بچپنا چھوڑدے۔حریم کا لہجہ ناراضگی سے بھرپور تھا۔

دُر لا کبھی تم سے شادی نہیں کرینگے حریم وہ تم سے پیار کرتے ہیں بہت پیار کرتے ہیں مگر اُس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے وہ تم سے شادی کرنے کا سوچے گے۔آروش نے نرمی سے اُس کو سمجھایا۔

آج انہوں نے پہلی بار ہم پہ ہاتھ اُٹھایا ہمیں غصے بھری نظروں سے دیکھا ہم سے سخت انداز میں بات کی۔حریم نے ٹوٹے لہجے میں بتایا

تمہاری بات پہ اُن کا عمل فطری تھا۔آروش نے کہا تو حریم نے ناراض نظروں سے اُس کو دیکھا

ہم نے محبت کی ہے کوئی گُناہ تو نہیں کیا۔حریم نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا

کبھی کبھار ہم سے کی ہوئی محبتیں ہمارا گُناہ بن جاتی ہیں۔آروش کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی۔

ہم نے سوچ لیا ہے ہمیں اب کیا کرنا چاہیے۔حریم کو آروش کی بات سمجھ تو نہیں آئی تھی تبھی کجھ یاد آنے پہ اُس نے کہا

کیا کرنے والی ہو تم؟آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

اپنی محبت کو پانے کی ایک کوشش۔حریم کے چہرے پہ پہلی بار مسکرائٹ آئی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم ایک بار پھر آگئے۔فجر دروازہ نوک ہونے پہ باہر آئی تو ارمان کو دیکھ کر سختی سے بولی

میں بھی آیا ہوں۔ارمان کے کجھ کہنے سے پہلے یمان نے سامنے آتے کہا تو فجر کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔

یمان۔فجر فورن سے اُس کے سینے سے لگی ارمان کو اپنا آپ اضافہ لگا تو وہ وہان سے چلاگیا۔

کیسی ہیں آپ؟یمان نے مسکراکر پوچھا

ٹھیک پر تمہیں پتا ہے کتنے وقت بعد آئے ہو۔فجر نے اپنی آنکھیں صاف کیے اُس سے شکوہ کیا 

آ تو گیا نہ اور آپ نے ارمان سے میرا نمبر لیا پھر کال کیوں نہیں کی؟یمان اندر داخل ہوتا بولا

کرنے والی تھی پر تم آگئے بتاکر آتے تو میں تمہارے تمہاری پسند کا کجھ بناتی۔فجر نے کہا

کجھ بھی کھالوں گا میں آپ یہ بتائے یامین کہاں ہے؟یمان نے آس پاس یامین کو نہیں دیکھا تو پوچھ لیا۔

عیشا کے پاس ہے اسکول کی چھٹیاں ہیں نہ تو میں نے اُس کو وہاں بھیجا ہے عیشا کے بچوں سے کھیلے گا تو اُس کا دل بہل جائے گا یہاں ہوتا تو بس مجھے تنگ کرتا۔فجر نے بتایا

میرے پاس بھیج دیتی ارمان آتا تو ہے یہاں۔یمان نے کہا

تم جب گئے تھے رابطہ ہی نہیں کیا اِس لیے میں نے ماموں کے پاس نہیں خالہ کے پاس بھیج دیا۔فجر نے کہا

میں ویسے یہاں آپ اور عیشا آپی کو لینے آیا تھا۔یمان نے کہا

کہاں کیوں؟فجر نے پوچھا۔

اسلام آباد دو دن بعد میری منگنی ہیں آپ دونوں کا ہونا تو لازمی ہے۔یمان نے بے تاثر لہجے میں بتایا تو فجر کے چہرے پہ خوشگوار تاثر نے احاطہ کیا۔

سچ میں یمان مطلب اتنے سالوں بعد تمہیں عقل آگئ۔فجر خوش ہوکر بولی۔

موم نے کہا۔یمان نے جیسے بتایا کے اُس کی کوئی مرضی نہیں۔

عیشا بہت خوش ہوگی یہ بات سن کر اور دو دن بعد تمہاری سالگرہ بھی تو ہے۔فجر پرجوش سی ہوگئ تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہ اِس وقت دروازے پہ کون ہے۔شھباز شاہ جو سونے والے تھے دروازے نوک ہونے پہ بولے

آروش ہوگی بے وقت آپ کے پاس وہ ہی آتی ہے۔کلثوم بیگم نے اندازہ لگایا۔

میں دیکھتا ہوں۔شھباز شاہ آروش کا نام سن کر جلدی سے دروازے کے پاس جانے لگے۔

حریم تم اِس وقت یہاں؟شھباز شاہ نے حریم کو رات کے وقت اپنے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا پایا تو کجھ حیران ہوئے۔

ہمیں آپ سے بات کرنی ہے ماما سائیں۔حریم نے سپاٹ انداز میں کہا

اندر آؤ۔شھباز شاہ بغور اُس کے تاثرات جانچ کر اندر آنے کا کہنے لگے تو حریم اُن کی بات پہ عمل کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔

حریم خیریت تم اِس وقت یہاں۔کلثوم بیگم نے بھی حریم کو دیکھا تو خاصا حیران ہوئی۔

ہممم بیٹھو اب تم اور بتاؤ کیا بات ہے؟شھباز شاہ کلثوم بیگم کو خاموش ہونے کا اِشارہ کرتے حریم سے بولے جو نیچے بچھے قالین کو دیکھے جارہی تھی۔

آپ کو یاد ہے ماما سائیں کجھ عرصہ پہلے آپ نے ہم سے کہا تھا ہم نے آپ پہ بہت بڑا احسان کیا ہے جس کے مشکور آپ ساری عمر رہے گے کیونکہ ہم جو کیا تھا وہ آپ کو احسان لگ رہا تھا جس کو آپ کبھی اُتارنا چاہے بھی تو نہیں اُتار سکتے پھر آپ نے ہم سے واعدہ کیا تھا زندگی میں اگر ہمیں کجھ چاہیے تو آپ ہمیں وہ دلادینگے۔حریم اپنے آنسو پیتی ضبط کرتی شھباز شاہ کو اُن کے کہے جُملے یاد کروانے لگی۔

ہاں یاد ہے تم بتاؤ کیا چاہیے تمہیں۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

ہمیں آپ کا بڑا بیٹا چاہیے۔حریم کی بات پہ کلثوم بیگم گنگ سی حریم کی جرئت دیکھنے لگی جس نے بڑے آرام سے شھباز شاہ سے اپنی بات کہی تھی جو آج تک آروش نے بھی نہ کی ہوگی جب کے اُن کے برعکس شھباز شاہ خاموشی سے حریم کو دیکھ رہے تھے جو اُن کی اکلوتی بہن کی نشانی تھی اور شاید زندگی میں پہلی بار اُن سے کجھ مانگنے آئی تھی۔

حریم ہوش ہو میں ہو تم جانتی بھی ہو کیا بات اور کس سے کررہی ہو۔کلثوم بیگم بیڈ سے اُٹھتی سخت لہجے میں حریم سے بولی

ماما سائیں ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔حریم نے خود کو ایسے ظاہر کیا جیسے کلثوم بیگم کی بات سُنی ہی نہ ہو۔

تم جو چاہتی ہو وہ ہوگا۔شھباز شاہ اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولے تو حریم کے چہرے پہ چمک در آئی تھی مگر کلثوم بیگم خاصا پریشان ہوئی

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ صبح صبح کون ہے؟ماہی جو ابھی ناشتہ کرکے بیٹھی تھی دروازہ نوک ہونے پہ بڑبڑاتی اُٹھ کھڑی ہوئی مگر جیسے ہی اُس نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے اُس کی کسی لڑکیوں کے خوبصورت پیروں پہ پڑی تو ماتھے پہ بل آئے اُس نے سراُٹھایا تو چار سے پانچ لڑکیاں جینز پینٹ شرٹ پہنے فل میک اپ کُھلے بالوں کھڑی تھی۔

تم کون؟اُن میں سے ایک لڑکی نے بغور اُس کا جائزہ لیکر کہا

یہ سوال مجھے آپ لوگوں سے کرنا چاہیے آپ سب کون؟ماہی کو اُن سے عجیب قسم کی جلن ہونے لگی۔

میں عائشہ ہوں اور ہم سب شازل سے ملنے آئی ہیں اُس کی فرینڈز ہیں۔ایک لڑکی جو فل ریڈ کلر کی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھی اُس نے مغرور انداز میں بتایا تو ماہی نے باقی سب کو دیکھا جنہوں نے اپنا تعارف کروانا شروع کیا تھا

میں نیہا

میں دلکش

میں صبور 

میں ماہین

سبھی لڑکیوں نے باری باری اپنا نام بتایا تو عائشہ نام پہ اُس کے دماغ میں کجھ کلک ہوا۔

اندر آنے کا نہیں کہو گی کیا؟عائشہ نے طنزیہ کیا

مجھے لگا آپ سب میں سے کوئی رہ گیا ہو وہ بھی آجاتا۔ماہی نے بھی طنزیہ کا جواب طنزیہ سے دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ارے تم سب یہاں۔ماہی نے ابھی اُن کو اندر آنے کا راستہ نہیں دیا تھا مگر شازل کی آواز سن کر وہ جلدی سے سائیڈ پہ کھڑی ہوگئ تھی۔

شازل کیسے ہو ڈارلنگ؟عائشہ نے شازل کو دیکھا تو جلدی سے اُس کو ہگ کر بے تکلف انداز میں اُس کا حال احوال دریافت کرنے لگی۔ماہی جو ابھی ڈارلنگ لفظ پہ سنبھل نہیں پائی تھی اُس انجان لڑکی کو اپنے شوہر کے گلے لگتا دیکھ کر اُس کی آنکھیں اور منہ دونوں کو کُھلا کا کُھلا رہ گیا باقی چار لڑکیوں نے بھی شازل کو اپنے گھیرے میں لیے رکھا تھا۔ماہی نے غور سے شازل کو دیکھا جو نارمل انداز میں اُن سے بات کررہا تھا۔

بے شرم انسان شاہ خاندان سے اور حرکتیں دیکھیں ذرہ۔ماہی اُن سب کو گھور کر کرہ کر سوچنے لگی۔

شازل تم تو ہمیں بھول ہی گئے تھے کلب میں کیوں نہیں آتے اب۔ماہین صوفے پہ بیٹھتی شکایت بھرے لہجے میں شازل سے بولی تو باقی چاروں بھی سوالیہ نظروں سے شازل کو دیکھنے لگی۔

یہ کیا بات ہوئی کہنے کی بہنیں بھی کوئی بھولنے والی چیز ہوتی ہیں بس اب شازل شادی ہونے کے بعد کجھ مصروف سے ہوگئے ہیں۔شازل کے جواب دینے سے پہلے ماہی بول پڑی۔

واٹ شادی؟عائشہ کے چہرے پہ حیرانگی سے بھرے تاثرات نمایاں ہوئے۔

شازل تم نے شادی کردی؟دلکش اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بولی

کب ہمیں بتانا تو دور بُلایا تک نہیں۔ماہین نے شکوہ کیا

مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی شازل۔نیہا بے یقین لہجے میں بولی۔

میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔صبور رونے کے قریب تھی۔

شازل کی سوئی جو بہن لفظ پہ اٹکی ہوئی تھی اُس سوئی سے اُس کا دھیان اُن پانچوں نے ہٹایا جو سب ایک ساتھ میں اپنے اپنے دل کا حال بیان کررہی تھی۔ماہی نے بیزارگی سے اُن کا چہرہ دیکھا۔

ایسا بھی کیا ہوا جو تم سب اتنا حیران ہو رہی بس شادی کی تو کی ہے مجھے لگا ارحم یا رضا میں سے کسی نے بتایا ہوگا۔شازل عام لہجے میں بولا۔

واہ جی واہ لڑکوں میں بس دو فرینڈز کا نام جب کی لڑکیوں سے دوستی کی تو قطار ہے۔ماہی جلے کٹے انداز میں سوچنے لگی

اُن سے ہماری بات نہیں ہوتی۔ماہین نے بتایا

اچھا پھر اگلی بار آپ سب اُن کے گھر جائے گی۔ماہی نے میٹھا سا طنزیہ کیا۔

ماہی تم یہاں بیٹھی کیوں ہو اِن کے لیے ریفریشمنٹ کا بندوبست کرو نہ۔شازل نے ماہی کو دیکھ کر کہا

شیور۔ماہی زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر اُس سے بولی

شکریہ۔شازل نے مسکراکر اُس سے کہا تو ماہی تیز نظر اُن سب پہ ڈال کر کچن کی طرف بڑھی۔

تم تو بڑا داعوہ کرتے تھے کبھی نہ شادی کرنے کے پھر اِس لڑکی میں کیا نظر آگیا جو ڈائریکٹ شادی کردی۔عائشہ نے حسد بھرے لہجے میں شازل سے کہا

ہماری کوئی لو میریج نہیں۔شازل نے اُن کی غلطفہمی دور کی۔

وہ لڑکی پرٹین تو ایسے کررہی تھی جیسے تم دونوں کے درمیان دھواں دار عشق ہو۔ماہین نے منہ کے زاویئے بنا بنا کر کہا

ہاں اور نہیں تو کیا کیسے ہمیں شازل کی بہن بنا ًڈالا۔نیہا نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔

یہ سب چھوڑو تم سب مجھے یہ بتاؤ آج یہاں کیسے آنا ہوا؟شازل نے اُن کا دھیان اپنی شادی کے ٹاپک سے ہٹایا۔

ماہی تم یہاں کیوں بیٹھی ہو ریفریشمنٹ کا بندوبست کرو ہونہہ میں جیسے اُن چڑیلوں کی نوکرانی ہوں۔کچن میں سامان یہاں سے وہاں پٹھختی ماہی جل کٹے انداز میں بتانے لگی۔

ریفریشمنٹ میں اُن کے سامنے زہر نہ پیش کروں چڑیلے بھوتنی کہی کی تیار شیار ہوکر بھن ڈھن کر میرے شوہر کو اپنے جال میں پھسانے آئی ہیں۔چولہے کی آنچ تیز کرکے وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔

ویسے بنانا کیا ہے ان چڑیلوں کے لیے۔ماہی کو اچانک خیال آیا تو چونک پڑی۔

ایک خون کا پیالہ دوسرا دوسرے میں کُتے کا گوشت؟ماہی کمر پہ ہاتھ رکھ کر گہرے انداز میں سوچنے لگی۔

کُتا اور خون کہاں سے آئے گا۔ماہی نے افسوس سے کہا۔

کل رات والا کباب گرم کرکے اُن کے سامنے پیش کرتی ہوں چائے کے ساتھ۔ماہی کے دماغ میں اچانک خیال آیا تو چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی۔

نہیں نہیں مہمان تو اللہ کی طرف سے رحمت ہوتے ہیں وہ جب جاتے ہیں تو بلائے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں رہے گا ایسا کرتی ہوں بریانی بناتی ہوں۔بریانی؟ماہی اپنے خیالات کی نفی کرتی کجھ اور سوچنے لگی جب بریانی لفظ پہ اُس کو تعجب ہوا۔

کونسا اِن کی دعوت ہے جو میں اِن چڑیلوں بھوتنیوں کے سامنے بریانی پیش کروں گی بریانی بنانے میں وقت بھی بہت لگتا ہے تب تک کیا یہ لوگ یہاں بیٹھی رہے گی ہرگز نہیں اور اگر میں اپنے قیمتی وقت سے کجھ وقت نکال کر بریانی بھی نہ لو پھر جو اِن کو پسند آجائے تو ایسے تو یہ روز میرے گھر آئے گی مجھے کجھ ایسا کرنا ہے جیسے یہ پھر کبھی یہاں نہ آئے۔ماہی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کرے تو کرے کیا۔

یااللہ اِس بار ایسا کرے ہوں اگلی بار اگر کوئی اور مہمان آیا تو اُن کی خدمت بہت زیادہ کروں گی پر اِن کی میں نہیں کرسکتی میرا اتنا بڑا ظرف نہیں۔ماہی اُپر کی جانب دیکھتی فریج سے کباب نکال کر اُس کو گرم کرنے لگی ساتھ میں چولہے پہ گرم پانی بھی چڑھا دیا چائے کے لیے۔

سینکس بنادیتی ہوں کیا پتا شازل وہ کھائے۔کباب گرم کرنے کے بعد اُس کو نیا خیال آیا۔

سب کجھ بنانے کے بعد اُس نے سب اچھے سے ٹرے میں سیٹ کیا پھر باہر کی جانب آئی تو اُس کا خون کھول اُٹھا کیونکہ شازل کے ایک طرف نیہا تو دوسری طرف عائشہ بیٹھی شازل کے کان میں جانے کیا باتیں کررہی تھی۔

بے شرم کیسے اپنے اگل بگل میں لڑکیوں کو بیٹھایا ہوا ہے۔ماہی ٹرے ٹیبل پہ رکھتی بیزاری سے بڑبڑائی۔

غالباً تمہیں یہی بنانا آتا ہے۔عائشہ نے ایک نظر ٹرے پہ ڈال کر ماہی سے کہا

یقیناً آپ کو یہ بھی بنانا نہیں آتا ہوگا۔ماہی تُرکی پہ ترکی بولی تو عائشہ کا چہرہ زلت کے احساس سے سرخ ہوا شازل حیرت سے ماہی کے یہ روپ دیکھ رہا تھا جو اُس کی فرینڈز کو کچا چباجانے والی نظروں سے بس دیکھے جارہی تھی۔

ہاؤ روڈ۔ماہین کو ماہی کا ایسا کہنا بلکل پسند نہیں آیا تھا تبھی کہا مگر ماہی اُن سب کو نظرانداز کرتی کپوں میں چائے ڈالنے لگی۔

پہلےمجھے پانی کا گلاس دو۔عائشہ نے روعب بھرے انداز میں اُس سے کہا تو ماہی نے شازل کو دیکھا جو خود کو لڑکیوں کے درمیان پھنستا محسوس کررہا تھا ماہی شازل نے نظر ہٹاکر اُس کے لیے پانی لینے کچن میں چلی گئ۔

یہ لو پانی۔ماہی نے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھا کر دانت پہ دانت جمائے کہا

تھن

آ آ آ آ یہ کیا کردیا۔عائشہ نے ابھی گلاس میں ہاتھ ڈالا ہی نہیں تھا جب ماہی کے گلاس سے اپنی گرفت نکالی تو سارا پانی عائشہ پہ گِرپڑا جس سے وہ پریشانی سے اُٹھتی تقریباً چیخ پڑی

آہستہ کیا ہوگیا ہے صرف پانی ہی تو ہے۔شازل نے اُس کو اتنا اور ری ایکٹ کرتا دیکھا تو کوفت بھرے لہجے میں بولا

تمہاری بیوی نے مجھ پہ جان بوجھ کر پانی گِرایا۔عائشہ ماہی کو گھور کر بولی جو معصوم شکل بنائے کھڑی تھی۔

مجھے کتنے نفلوں کا ثواب ملے گا ایسا کرکے۔ماہی نے اپنا دفاع کیا۔

عائشہ کوئی بات نہیں تم یہاں بیٹھ جاؤ۔دلکش نے اُس کو اپنے پاس آنے کا اِشارہ دیا

چائے۔ماہی نے شازل کی طرف چائے کا کپ بڑھایا۔

میں چائے اِس وقت نہیں پیتا پلیز میرے لیے کافی بنادو۔شازل نے مسکراکر کہا تو ماہی کے چہرے کی ہوائیاں اُڑگئ۔

کافی۔ماہی نے کنفرم کرنا چاہا کیونکہ اُس نے کبھی کافی نہیں بنائی بنانا تو دور اُس نے کبھی کافی شکل تک نہیں دیکھی تھی کیوں اُن کے گاؤں میں زیادہ تر چائے یا کہوہ پیا جاتا یا نزلہ زکام کے لیے جوشاندہ اب اگر وہ یہ شازل کو بتاتی تو اُس نے اور اُس کی گرلفرینڈز نے یقیناً اُس کا مذاق بنانا تھا۔

ہاں کافی۔شازل نے جیسے مہر لگائی۔

ضرور۔ماہی نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر کہا۔

شازل تمہارے کیس کا کیا بنا؟نیہا نے چائے کا سِپ لیتے شازل سے پوچھا

کل ہیئرنگ ہیں پتا چل جائے گا ویسے بھی میرا کیس اسٹرونگ ہیں۔شازل پرسکون لہجے میں بتایا۔

ہاں بھئ کیوں نہیں ہوگا آپ صاحب تو کیس لینے سے پہلے جانچ پڑتال کرتے ہیں کے جو کیس آپ لینے والے ہیں اُس میں صداقت ہے بھی یا نہیں۔ماہین نے شرارت سے کہا تو سب ہنس پڑے۔

کافی میں پتی ڈالنی ہوتی ہے یا نہیں اور کیا کیا مِکس کرنا پڑتا ہوگا۔کچن میں آتی ماہی پریشان سی ہوگئ اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا اب کرے تو کیا کرے۔

میرے پاس تو موبائیل بھی ورنہ یوٹیوب سے ہی دیکھ لیتی۔ماہی کو آج اپنا شمار جاہل لوگوں میں شمار ہوتا محسوس ہورہا تھا۔

شازل کے پاس تو ہوگی؟اُن کا لے لیتی ہوں ویسے بھی اُن کا فون کمرے میں چارجنگ پہ لگا ہوا ہے اُن کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ماہی کے دماغ کی بتی گُل ہوئی تو جلدی سے شازل کے کمرے میں گئ جہاں عین اُس کی سوچ مطابق فون چارجنگ پہ تھا ماہی نے لپک کر فون ہاتھوں ہاتھ لیا تو خوشقسمتی سے کوئی پاسورڈ بھی نہیں تھا۔

ہائے اللہ شازل آپ کتنے اچھے ہیں۔وال پیپر پہ شازل کی تصور دیکھ کر اور کوئی پاسورڈ نہ دیکھ کر ماہی کی باچھیں کُھل گئ۔وہ جلدی سے کچن میں جاکر موبائل میں یوٹیوب آن کیا پھر کافی بنانے کا طریقہ دیکھا تو اُس کو معلوم ہوا کافی میں پتی کا استعمال نہیں ہوتا ماہی کو بے ساختہ اپنے خیالات پہ ہنسی آرہی تھی۔

لو جی کافی تیار اب میں شازل کو بھی ایسا مزہ چکھاؤں گی کے کبھی اپنے کسی دوست کو گھر آنے کی دعوت نہیں دینگے اسپیشلی اِن چڑیلوں کو تو بلکل بھی نہیں۔ماہی ایک نیا منصوبہ تیار کرتی باہر کی جانب بڑھی۔

کافی۔شازل عائشہ کے کسی بات کا جواب دے رہا تھا جب ماہی نے کافی کا کپ اُس کی طرف بڑھایا۔

تھینکس۔شازل کپ تھام کر اُس سے بولا تو ماہی بلکل اُس کے ساتھ جڑکر بیٹھ گئ۔شازل جو کافی پینے والا تھا ماہی کی اِس حرکت پہ اُس نے اپنی دوستوں کی جانب دیکھا جن کی نظریں اُس پہ تھی شازل اُن سب کو دیکھتا کجھ فاصلے پہ بیٹھا ماہی نے اُس کو کھسکتا دیکھا تو خود بھی تھوڑا کھسک کر دوبارہ سے اُس کے ساتھ جڑکر بیٹھی۔شازل نے گردن موڑ کر اُس کی جانب دیکھا تو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا کیونکہ ماہی میٹھی میٹھی نظروں سے اُس کو ہی دیکھ رہی تھی۔

کیا ہوا کافی پسند نہیں آرہی کیا میں اپنے ہاتھوں سے آپ کو کافی پِلاتی ہوں۔ماہی سب کی موجودگی کو فراموش کیے چاشنی بھرے لہجے میں شازل کو دیکھ کت بولی تو حیرت سے شازل کی آنکھیں اُبلنے کے قریب تھی۔

نہیں پسند ہے میں خود پی لوں گا۔شازل زبردستی مسکراہٹ سے بول کر کافی کا گھونٹ بھرنے لگا۔

آپ کی ڈارھی بہت بڑھ گئ ہے شازل۔ماہی اُس کی بیئرڈ پہ ہاتھ پھیر کر بولی تو شازل کے چہرے کی رنگت پل بھر میں اُڑی تھی۔

ماہی یار نہیں کرو مجھے گدگدی ہورہی ہے۔شازل فورن سے اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس سے بولا تو ماہی اُس کی اُڑی رنگت دیکھ کر بامشکل اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا۔

نامحرم لڑکیوں سے تو بڑا ہنس ہنس کر بات کررہے تھے گلے بھی ملا جا رہا تھا مگر اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھنے میں شرم آرہی ہے واہ کیا کہنے ہیں موصوف کے۔شازل کی سرخ پڑتی رنگت دیکھ کر ماہی چسکا لیکر سوچنے لگی دوسری طرف شازل کو ماہی سے اتنی بے باکی کی اُمید بلکل نہیں تھی وہ سمجھ نہیں پارہا تھا آج ماہی ایسا بی ہیو کیوں کررہی تھی۔

میرے خیال سے اب ہمیں جانا چاہیے۔صبور کباب کی پلیٹ ٹیبل پہ رکھ کر بولی۔

یوئر رائٹ لیٹس گو۔نیہا کو بھی مزید رُکنا ٹھیک نہیں لگا جب کی ماہی کو ذرہ توقع نہیں تھی اُس کا پلین اتنی جلدی کام کرجائے گا۔

اوکے شازل بائے۔وہ سب اُٹھ کر کھڑی ہوکر بولی تو شازل نے صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا۔

مجھے کجھ کام ہے میں آتا ہو۔۔شازل بنا ماہی کی جانب دیکھتا اپنے کمرے کی طرف بھاگا تو اُس کی حرکت پہ ماہی کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا 

اوو اللہ یہ وکیل صاحب تو بڑے شائے نکلے۔ماہی شازل کا ردعمل سوچتی پھر سے ہنس پڑی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ نے حریم کو جھوٹی اُمید کیوں دلائی تھی وہ معصوم ہے اُس کا دل ٹوٹ جائے گا آپ اچھے سے جانتے ہیں دُرید کبھی حریم سے شادی کرنے پہ رضامند نہیں ہوا۔دوسرے دن کلثوم بیگم پریشانی کے عالم میں شھباز شاہ سے بولی جو باہر جانے والے تھے۔

تم سے کس نے کہا میں نے حریم کو جھوٹی اُمید دلائی ہے میں شھباز شاہ ہوں جو کہتا ہوں وہ کرکے بھی دیکھاتا ہوں۔شھباز شاہ مغرور لہجے میں بول کر ڈریسنگ ٹیبل سے اپنی گھڑی اُٹھاکر پہننے لگے۔

حریم کس احسان کی بات کررہی تھی؟کلثوم بیگم کے اچانک خیال آیا تو پوچھ بیٹھی مگر اُن کے سوال پہ شھباز شاہ کے ہاتھ گھڑی پہنتے ہوئے تھمے تھے وہ جیسے ماضی میں کھو سے گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماما جان۔حریم بھاگتی ہوئی شھباز شاہ کے کمرے میں آکر پُھولی ہوئی سانسوں کے درمیان اُن کو آواز دی۔

حریم آپ سے کتنی بار کہا ہے ڈوپٹہ اچھے سے پہنا کرے اب آپ بڑی ہوگئ ہیں۔شھباز شاہ نے اُس کا ڈوپٹہ سر کے بجائے کندھے پہ جھولتا دیکھا تو ڈپٹ کرے بولے

معذرت ماما جان مگر ہمیں آپ کو کجھ بتانا ہے وہ آروش آپی۔حریم اتنا کہتی خاموش ہوئی۔

کیا ہوا آروش کو؟شھباز شاہ آروش کے نام پہ پریشان ہوئے۔

نانون جان انہیں زہر پِلانے کا حکم دے رہی ہم نے ڈرامے میں دیکھا تھا وہاں کہہ رہے تھے زہر پینے سے انسان مرجاتا ہے۔حریم کی بات پہ شھباز شاہ کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہورہا تھا وہ اُٹھے اور آروش کے کمرے کی طرف بڑھے۔

۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ سائیں۔کلثوم بیگم نے اُن کو آواز دی تو وہ جیسے ہوش میں آئے۔

جب اُس نے بتایا تھا تب میں نے کہا تھا اُس سے حریم کی معصومیت میں  بتائی ہوئی وہ بات بہت ضروری تھی ورنہ ہماری آرو کو نقصان بھی ہوسکتا تھا۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہہ کر اپنے کمرے سے باہر جانے لگے 

کیا اب آپ دُرید سے بات کرنے والے ہیں؟کلثوم بیگم نے پیچھے سے آواز دی۔

ہمممم۔شھباز شاہ نے مختصر جواب دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

رات کا وقت تھا شازل گھر واپس لوٹا تو ماہی کو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا پایا۔

ماہی میرے لیے ایک کپ کافی بناکر کمرے میں لاؤ۔شازل اؐس سے کہتا اپنے کمرے کی جانب چل گیا اُس کے جانے کے بعد ماہی نے وال کلاک پہ وقت دیکھا جہاں رات کے گیارہ بج رہے تھے صبح تو اُس نے بڑی دلیری سے شازل کے ہوش اُڑا دیئے تھے مگر اب اُس کو شازل کا سامنا کرنے میں ہچکچاہت سی محسوس ہورہی تھی۔

اللہ کرے صبح کے مطلق وہ کوئی بات نہ کرے۔ماہی دعائیہ انداز میں کہتی کچن میں چلی گئ کافی بنانے کے لیے۔

یااللہ خیر۔ شازل کے کمرے کے پاس کھڑی ہوکر اُس نے گہری سانس بھر کر خود کو ہمت دلائی پھر دروازے کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر دروازہ کھول کر وہ کمر میں داخل ہوئی جہاں شازل سنجیدگی سے بیڈ پہ لیپ ٹاپ لیے کسی کام میں مصروف تھا ماہی نے شکر کا سانس خارج کیا اور کافی کا کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر وہ جانے کے لیے جیسے ہی پلٹی اُس کی کلائی شازل کی آہنی گرفت میں آگئ جس کو محسوس کرکے اُس نے اپنی آنکھوں کو زور سے میچا۔

💕💕💕💕💕💕💕

دُرید کمرے میں آیا تو بیڈ پہ بیٹھے وجود کو دیکھ کر اُس کے زخم پھر سے تازہ ہوئےوہ دندناتا اُس کے قریب آتا بازوں سے پکڑ بیڈ سے نیچے اُتارہ جس سے وہ اُس کی اتنی سخت گرفت میں حریم کراہ اُٹھی۔

کیا کہہ رہی ہو یہاں۔دُریدا شاہ دھاڑا

وہ ہم۔حریم کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا بولے اُس کے لیے دُرید کا یہ رویہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا جس سے اُس کی آنکھیں نم ہوگئ تھی ہمیشہ پیار سے بات کرنے والا شخص کیسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

کیا وہ ہاں کیا وہ یہ مگرمچھ کے آنسو میرے سامنے نہیں چلے گے کیا سمجھتا آرہا تھا میں تمہیں اور کیا نکلی تم۔دُرید اُس کا بازوں اپنی سخت آہنی گرفت میں لیتا غصے سے پھنکارا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ حریم کو شوٹ کردیتا۔

ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔حریم اُس کی بات پہ تڑپ کے بولی

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ بہت شوق تھا نہ تمہیں مجھ سے شادی رچانے کا تو خوش ہوجاؤ ہوگیا شوق پورا تمہارا پر میری بات ذہین نشین کرلوں میں نہ کل تمہارا تھا اور نہ کبھی ہوگا بیٹھی رہو یہاں میرے نام پہ ہمیشہ۔دُرید اُس کو پیچھے دھکیلتا بولا جس سے وہ بیڈ پہ اوندھے منہ گِری۔

آپ ہمارے ساتھ ایسے نہیں کرسکتے۔حریم نے التجائیہ انداز میں کہا مگر وہ بے حس بن کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

💕💕💕💕💕💕

دُرید کمرے میں آیا تو بیڈ پہ بیٹھے وجود کو دیکھ کر اُس کے زخم پھر سے تازہ ہوئےوہ دندناتا اُس کے قریب آتا بازوں سے پکڑ بیڈ سے نیچے اُتارہ جس سے وہ اُس کی اتنی سخت گرفت میں حریم کراہ اُٹھی۔

کیا کہہ رہی ہو یہاں۔دُرید شاہ دھاڑا

وہ ہم۔حریم کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا بولے اُس کے لیے دُرید کا یہ رویہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا جس سے اُس کی آنکھیں نم ہوگئ تھی ہمیشہ پیار سے بات کرنے والا شخص کیسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

کیا وہ ہاں کیا وہ یہ مگرمچھ کے آنسو میرے سامنے نہیں چلے گے کیا سمجھتا آرہا تھا میں تمہیں اور کیا نکلی تم۔دُرید اُس کا بازوں اپنی سخت آہنی گرفت میں لیتا غصے سے پھنکارا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ حریم کو شوٹ کردیتا۔

ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔حریم اُس کی بات پہ تڑپ کے بولی

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ بہت شوق تھا نہ تمہیں مجھ سے شادی رچانے کا تو خوش ہوجاؤ ہوگیا شوق پورا تمہارا پر میری بات ذہین نشین کرلوں میں نہ کل تمہارا تھا اور نہ کبھی ہوگا بیٹھی رہو یہاں میرے نام پہ ہمیشہ۔دُرید اُس کو پیچھے دھکیلتا بولا جس سے وہ بیڈ پہ اوندھے منہ گِری۔

آپ ہمارے ساتھ ایسے نہیں کرسکتے۔حریم نے التجائیہ انداز میں کہا مگر وہ بے حس بن کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

آپ ہمارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے پلیز ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔

حریم

پلیز مت جائے ہمیں چھوڑ کر

حریم ہوش میں آؤ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔کلثوم بیگم حریم کو جھنجھوڑ کر بولی تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھی۔

کیا ہوا ہے۔کلثوم بیگم نے پریشانی سے اُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر کہا تو حریم نے سہمی نظروں سے آس پاس دیکھا جہاں وہ اپنے کمرے میں تھی دُرید شاہ کے کمرے میں نہیں۔

تو کیا وہ خواب تھا؟حریم اپنے سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر بے ساختہ بڑبڑائی۔

تمہاری طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی۔کلثوم بیگم پریشانی سے اُس کا ماتھا چھوکر بولی

آپ اِس وقت یہاں ہمارے کمرے میں کوئی کام تھا۔حریم اُن کی بات نظرانداز کیے بولی

ہاں بس ہم دیکھنے آئے تھے تمہیں رات کا ڈنر بھی نہیں کیا تو مجھے فکر ہو رہی تھی۔کلثوم بیگم نے بتایا

ہمیں بھوک نہیں تھی اِس لیے۔حریم نے جواب دیا

ٹھیک ہے آیة الکرسی پڑھ کر سوجاؤ پھر کوئی بُرا خواب نہیں آئے گا۔کلثوم بیگم نے کہا تو اُس نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میرا ہاتھ چھوڑے۔ماہی نے بنا اُس کی جانب پلٹے آنکھیں میچ کر کہا

اگر میں نہ چھوڑوں تو؟شازل نے مسکراہٹ دباکر کہا

کیوں نہیں چھوڑے گے؟ماہی نے سوال کے بدلے سوال کیا۔

میں نے شیو کروائی ہے وہ دیکھ لو پہلے صبح کہہ رہی تھی نہ بڑھ گئ ہے تو میں نے سوچا کلین شیو ہوجاؤں اب دیکھو اور بتاؤ کیسا لگ رہا ہوں۔شازل کے لہجے میں شرارت صاف عیاں تھی۔

اچھے لگ رہے ہیں اب میرا ہاتھ چھوڑے مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے۔ماہی نے جیسے جان چھڑائی۔

اِدھر دیکھو میری طرف بنا دیکھے کیوں بول رہی ہو۔شازل تھوڑا سائیڈ پہ ہوکر اُس کے لیے جگہ بنائی تو وہ بیڈ پہ بیٹھی۔

اچھے لگ رہے ہیں اب تو میں نے دیکھ بھی لیا۔ماہی نے نظریں اُٹھا کر کہا

آج ناشتے میں کیا لیا تھا۔شازل نے اِس سوال پہ ماہی حیران ہوئی۔

کیوں؟ماہی نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھا۔

تم بتاؤ۔شازل نے زور دیا

انڈا پراٹھا کھایا تھا آپ کے سامنے ہی۔ماہی نے جیسے یاد کروانا چاہا

کھایا تو نارمل تھا پھر ہوکیا گیا تھا تمہیں ایسا برتاؤ کیوں کیا؟شازل نے آخر وہ سوال کرلیا جس سے وہ بچنا چاہ رہی تھی۔

تاکہ وہ یہ ناسمجھے کے ہمارے درمیان کجھ نارمل نہیں۔ماہی نے سرجھکاکر بتایا

کیا ہمارے درمیان ابنارمل چیزیں ہیں۔شازل کو جانے کیوں آج بات پہ بات ہنسی آرہی تھی۔

آپ مجھے تنگ کرنے بند کرے ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی۔ماہی چڑ کر بولی تو شازل کا قہقہقہ بے ساختہ تھا ماہی نے غور سے اُس کی مسکراہٹ کو دیکھا تھا۔

آپ مسکراہٹ بہت پیاری ہے۔ماہی تعریف کیے بنا نہ رہ پائی۔

عائشہ بھی یہی بولتی ہے۔شازل نے اِس بار جان بوجھ کر عائشہ کا نام لیا تو ماہی کے تاثرات یوں ہوگئے جیسے کڑوا بادام نگل لیا ہو۔

آپ کی مسکراہٹ مجھے اِس لیے اچھی لگی کیونکہ آپ جب ہنس رہے تھے تو آپ کی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھی تو اُن کی چمک بہت خوبصورت ہے۔ماہی نے کسی ٹرانس کیفیت میں کہا تو شازل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

میں نے تمہیں زیادہ ہنستے نہیں دیکھا مسکراتی رہا کرو مجھے یقین ہے تمہاری مسکراہٹ میری مسکراہٹ سے زیادہ پیاری ہوگی۔شازل اُس کے ماتھے پہ چپت لگاکر بولا تو ماہی کے چہرہ پہ حیا کے رنگ بِکھرے تھے جو شازل سمجھ نہیں پایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

دُرید مجھے تم سے بات کرنی ہے۔شھباز شاہ نے دُرید شاہ کو ڈیرے سے باہر جاتا دیکھا تو سنجیدگی سے کہا۔

کونسی بات؟دُرید اپنا اجرک ٹھیک کرتا سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولا۔

میں نے تمہاری شادی حریم سے کرنے کا سوچا ہے۔شھباز شاہ نے جیسے اُن پہ بم گِرایا

میری شادی کے فیصلے کا حق صرف میرے پاس ہے۔دُرید گھمبیر لہجے میں بولا

میں تمہارا باپ ہوں اور تمہاری زندگی کے بارے میں فیصلہ لینے کا پورا اختیار ہے میرے پاس۔شھباز شاہ نے حکمیہ انداز میں کہا

جانتا ہوں کے آپ میرے باپ ہیں یہ بھی یاد ہے جو سالوں پہلے آپ نے میرے ساتھ کیا اُس کے بعد میں اپنے زندگی کے کسی بھی فیصلے کا اختیار نہیں دیتا حریم کی شادی تابش سے ہوگی وہ بھی اِسی جعمہ مبارک کے دن۔دُرید اپنی بات کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

میں نے حریم کو زبان دی ہے تم مجھے اُس کے سامنے شرمندہ نہیں کرسکتے۔شھباز شاہ نے روعب بھرے انداز میں کہا۔

اگر آپ چاہتے ہیں میں سالوں پہلے کی طرح حویلی چھوڑ کر نہ جاؤں تو مجھے فورس نہیں کرینگے آپ۔دُرید اُن کے روعب میں آئے بنا بولا

میں نے اُس بچی سے واعدہ کیا ہے۔شھباز شاہ نے دو ٹوک کہا

وہ بچی آپ کی نہیں میری زمیداری ہے اُس کی زندگی کا فیصلہ کل بھی میں کرتا تھا اور آگے بھی میں کیا کروں گا اُس کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔دُرید اپنی بات سامنے کرتا وہاں سے چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج یمان کی سالگرہ اور منگنی کی تیاریاں خان وِلا میں بہت زور سے شور ہورہی تھی یمان ٹیرس پہ کھڑا خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا کیونکہ یہ سارے انتظامات بڑے سے لان میں ہو رہے تھے۔

کیا ہوا اتنے خاموش کیوں ہو؟عیشا نے یمان کو اکیلا کھڑا پایا تو اُس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔

میں منگنی کے حق میں نہیں تھا۔یمان نے جواب دیا۔

راضی تو تھے اِس لیے یہ سب ہورہا ہے ماننا پڑے گا دلاور خان نے سچ میں تمہیں اپنا بیٹا مانتا تبھی تو آج پئسا پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔عیشا نے ستائش لہجے میں کہا

انہوں نے میرے لیے بہت کیا ہے آپی اگر وہ اب مجھ سے کجھ چاہتے ہیں تو میں انکار نہیں کرسکتا۔یمان نے کہا

یمان تم یہاں کیا کررہے ہو مہمانوں کی آمد رفت جارہی ہے جاؤ جاکر جلدی سے تیار ہوجاؤ۔وہ ابھی آپس میں محو گفتگو کررہے تھے جب نور عجلت بھرے انداز میں اُس سے بولی

جی میں بس جارہا تھا۔یمان نے جواب دیا

تم بھی تیار ہوجاؤ۔نور نے یمان کے جانے کے بعد مسکراکر عیشا سے کہا

پہلے بچوں کو کردوں اُس کے بعد۔عیشا نے جوابً مسکراکر کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم مجھے تم سے بات کرنی ہے۔دُرید حریم کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا اُس سے بولا

ہم سن رہے ہیں۔حریم رخ موڑ کر بولی تو دُرید نے گہری سانس ہوا میں خارج کی۔

تمہیں پتا ہے میں تم سے عمر میں بارہ سال بڑا ہوں تم عمر کے جس حصے میں ہوں یہ سب پچکانہ بات ہے

ہماری محبت کی کی تزلیل نہ کرے۔حریم دُرید کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

یہ محبت کا بھوت اپنے دماغ سے اُتاردو حریم میں بس یہ کہنا چاہ رہا ہوں جمعہ کو تمہارا نکاح ہے تابش سے اپنا مائینڈ سیٹ کرلینا اگر تم یہ سمجھی ہوں بابا سائیں کی باتوں میں آکر میں تم سے شادی کرنے پہ رضامندی ظاہر کرلوں گا تو ایسا کجھ نہیں ہونے والا۔دُرید نے  سنجیدگی سے کہا

آپ ہمیں جان سے مار کیوں نہیں دیتے۔حریم نے چیخ کر کہا

حریم۔دُرید نے تنبیہہ کی۔

پلیز ایسا نہیں کرے کیوں زبردستی ہماری شادی کسی اور سے کروا رہے ہیں اگر یہی سب کرنا تھا تو ہمیں آپ نے خود کے قریب کیوں کیا کیوں ہم سے اتنا پیار کیوں ہمارا کہا مانتے تھے۔حریم دُرید کا گریبان پکڑ کر چیخ کر اُس سے جواب طلب ہوئی تو دُرید سپاٹ انداز میں کبھی اُس کا رویا چہرہ دیکھتا تو کبھی اُس کے ہاتھ جو اُس کے گریبان تک پہنچے تھے اگر یہ حرکت کوئی اور کرتا تو یقیناً دُرید نے اُس کے ہاتھ کاٹ دینے تھے مگر سامنے والی شخصیت اُس کو عزیز تھی۔

عقل سے کام لو میرا ساتھ تمہیں محرومیوں کے سوا کجھ نہیں دے سکتا تم ایک بہت اچھی خوبصورت لائیف ڈیزرو کرتی ہوں اور وہ لائیف میں تمہیں نہیں دے سکتا۔دُرید اُس کا ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا بولا

ہمیں محرومیاں منظور ہے پر آپ سے جُدائی نہیں۔حریم اُس کے سینے پہ سر ٹِکاتی بولی تو دُرید نے فورن سے اُس کو خود سے دور کیے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے پیچھے وہ اپنی قسمت پہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان تم یہاں ہو میں کب سے تمہیں تلاش کررہی تھی۔یمان یامین کے شوز لیس باندھ رہا تھا جب روزی بلیک کلر کی بیک لیس ساڑھی میں ملبوس یمان کے پاس آتی بولی خود یمان سنجیدہ تاثرات سجائے بلیک ڈنر سوٹ میں بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا۔

کوئی کام تھا۔یمان بنا اُس پہ ایک نظر ڈالے بولا

آج ہماری انگیجمنٹ ہے تم کیک کٹ کرلوں گے تبھی تو رِنگ ایکسچینج ہوگی۔روزی اپنا ہاتھ اُس بازوں میں حائل کرتی بولی۔

فجر یہ لڑکی مجھے یمان کے لیے بلکل اچھی نہیں لگ رہی ڈریس دیکھو کتنا واحیات ہے اِس کا اُپر سے میڈیاں والے بھی موجود ہیں تصاویر کھیچنے کے لیے۔عیشا نے ایک نظر روزی اور یمان پہ ڈال کر فجر سے بولی

کوئی تو بات ہوگی جو یمان مان گیا ہے۔فجر نے جوابً کہا۔

مجھے کام ہے فلحال تم پارٹی انجوائے کرو۔یمان فاصلہ قائم کرتا اُس سے بولا۔

سر پکچر پلیز۔یمان روزی کو جواب دیتا یامین کو لیتا جانے والا تھا جب فوٹوگرافر نے کہا تو مجبوراً یمان کو روزی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا جس سے روزی کا دل باغ باغ ہوگیا۔

سر شو یوئر ڈمپلز پلیز۔فوٹوگرافر نے پکچر کلک کرنے کے درمیان بولا تو یمان کے چہرے پہ کوفت بھرے تاثرات نمایان ہوئے

💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا تم رو رہی ہو؟نازنین کی آواز پہ آروش نے چونک کر اُس کو دیکھا جو مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

ن نہیں تو میں کیوں روؤں گی۔آروش جو نیوز پہ یمان کی سالگرہ اور انگیجمنٹ کی خبر سُننے میں محو ہوگئ تھی اُس کو پتا ہی نہیں چلا کب اُس کی آنکھ سے آنسو نکل کر گال پہ پھسلا

یہ دیکھو۔نازنین نے اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر اپنا اُس کے سامنے کیا تو آروش حیران ہوئی کیا وہ اتنی بے خبر ہوگئ تھی۔

چینل تو کمال کا لگا ہوا ہے پھر تمہارا یوں ایموشنل ہونا سمجھ نہیں آتا دیکھنا اب یہ سنگر اپنی فیانسی کے لیے گانا بھی گائے گا وہ بھی رومانٹک کپل ڈانس کے ساتھ۔نازنین کندھے اچکاکر مزے سے اُس کو بتانے لگی تو آروش نے چبھتی نظروں سے ٹی وی اسکرین کو دیکھا جہاں یمان اور روزی کی تصاویریں منظرِ عام پہ تھی۔

میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں۔آروش ناگواری سے کہہ کر وہاں سے اُٹھ گئ۔

دو گھنٹے سے نیوز چینل کے سامنے بیٹھی ہے اور بول رہی فالتو وقت نہیں۔آروش کے جانے کے بعد نازنین طنزیہ بڑبڑائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے۔کمرے میں آکر آروش پریشانی کا شکار ہوئی۔

مجھے شیطان کے بہکاوے میں نہیں آنا میں بابا سائیں سے کہہ دوں گی اگر وہ میری شادی کروانا چاہتے ہیں تو کروادے اب مجھے کوئی اعتراض نہیں۔آروش کسی نتیجے پہ آکر پہنچی مگر بار بار عجیب خیالات آئے تو وہ اپنے وارڈروب کی جانب بڑھی وہاں سے اپنی ڈائری نکال کر بیڈ پہ بیٹھ گئ کافی دیر تک بیٹھنے کے بعد اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ آخر لکھے تو کیا لکھے یہ ڈائری دو سالوں سے اُس کے پاس تھی جب جب وہ پریشان ہوتی تو اِس میں کجھ نہ کجھ لکھتی رہتی ابھی بھی دماغ میں کجھ کوندہ تو پین پکڑ کر اُس نے لکھا شروع کیا۔

یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟نہیں تو

کسی سے مجھے شکایت ہے؟نہیں تو

کسی کے بن کسی کی یاد کے بن

جینے جانے کی ہمت ہے؟نہیں تو

ہے وہ ایک خواب ہے تعبیر اُس کو

بھلا دینے کی نیت ہے کیا؟نہیں تو

کسی صورت میں دل لگتا نہیں؟ہاں

تو کجھ دن سے یہ حالت ہے؟نہیں تو

تیرے اِس حال پہ سب کو حیرت

تجھے بھی اِس پہ حیرت ہے؟نہیں تو

ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری

تجھے اُس پہ ندامت ہے کیا؟نہیں تو

ہوا جو یہ ہی مقسوم تھا کیا

یہ ہی ساری حکایت ہے؟نہیں تو

اذیت ناک اُمیدوں سے تجھ کو

اماں پانے کی حسرت ہے؟نہیں تو

تو رہتا ہے خیال وخواب میں گم

تو اُس وجہ فرصت ہے؟نہیں تو

سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے

وہ مجھ سے خوبصورت ہے کیا؟نہیں تو

جون ایلیا۔

لکھنے کے بعد اُس نے گہری سانس لی اور اپنا سر بیڈ کراؤن سے ٹِکالیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کیک کٹ کرنے کے بعد یمان نے سب سے پہلے دلاور خان کے پاس آیا پھر زوبیہ بیگم کے بعد اُس کے بعد فجر اور عیشا کی جانب آگیا۔

میرے خیال سے اب منگنی کی رسم بھی ہوجائے۔زوبیہ بیگم نے کجھ دیر بعد کہا تو روزی کی والدہ نے روزی کو ایک انگھوٹی بڑھائی 

یمان ہاتھ آگے کرو۔یمان کو اپنا ہاتھ آگے نہ کرتا دیکھ کر روزی نے کہا تو یمان نے زوبیہ بیگم کو دیکھا جن کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ تھی یہ دیکھ کر یمان نے اپنا ہاتھ آگے کیا تھا روزی نے اُس کو انگھوٹی پہنائی تو سب تالیاں بجانے میں لگ گئے۔

اب تمہاری باری۔ نور نے ایک خوبصورت انگھوٹی یمان کی طرف بڑھائی تو یمان کے دماغ میں بے ساختہ آروش کا خیال آیا۔

میں ایسا کیسے کرسکتا ہوں۔یمان نے بے بسی سے سوچا 

یمان کیا سوچ رہے ہو رِنگ پہناؤ۔نور نے جیسے اُس کو ہوش میں لانا چاہا۔

جی۔یمان کہتا جیسے ہی رِنگ پہنانے والا تھا اُس کی کانوں میں یہ الفاظ پڑے تو اُس کے ہاتھ تھم سے گئے۔

فجر یامین سیڑھیوں سے گِر گیا ہے۔عیشا کی پریشان بھری آواز سن کر یمان انگھوٹی وہی پھینکتا سب کو سائیڈ پہ کرتا یامین کی جانب بھاگنے والے انداز میں کہا باقی سب پریشانی سے سارا معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

یامین۔فجر کا دل دھل سے گیا بے ہوش یامین کے سر سے خون نکلتا دیکھ کر 

آپی آپ پریشان نہ ہو یامین کو کجھ نہیں ہوگا۔یمان روتی ہوئی فجر کو تسلی دیتا خود یامین کو گود میں اُٹھاتا باہر کی جانب جانے لگا۔

فجر رلیکس۔عیشا نے اُس کو اپنے ساتھ لگایا۔

عیشا وہ یامین کے سر سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۔فجر نے روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان کہا۔

فجر بیٹے پریشان نہ ہو ہم چلتے ہیں ہسپتال دیکھنا کجھ نہیں ہوا۔زوبیہ بیگم نے کہا تو اُس نے محض سرہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آج آپ باہر نہیں گئے۔ماہی نے صبح سے شازل کو اپنے کمرے میں دیکھا تو اُس کے پاس آکر پوچھنے لگی جو لیپ ٹاپ میں بزی تھا۔

ہاں ضروری کام ہے کجھ اِس وجہ سے باہر نہیں گیا سوچا کام ختم کرلوں۔شازل نے جواب دیا۔

اچھا میں کجھ پوچھو آپ سے؟ماہی نے اِجازت چاہی۔

ہاں ضرور پوچھو۔شازل اپنی بیئرڈ پہ ہاتھ پھیرتا اُس سے جواب جب کی اُس کی پرسوچ نظریں لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ تھی۔

آپ کا فیورٹ کلر کونسا ہے؟ماہی نے مسلسل لیپ ٹاپ میں مصروف شازل سے پوچھا

ریڈ۔شازل نے مصروف انداز میں بتایا۔

اچھا۔ماہی کو اُس کا یوں لیپ ٹاپ پہ دھیان دینا ایک آنکھ نہ بھایا۔

تمہارا فیورٹ کلر کونسا ہے۔شازل نے اُس کو خاموش دیکھا تو پوچھ لیا۔

میرا؟؟؟؟ماہی سوچ میں پڑگئ۔

نہیں پڑوس کی سیما کا۔شازل نے طنزیہ کیا تو ماہی اُس کو دیکھتی رہ گئ جو طنزیہ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

بڑا معلوم ہے پڑوس کی لڑکیوں کا۔ماہی بڑبڑائی پھر بولی۔

میرا بھی موسٹ فیورٹ کلر ریڈ ہے آمنہ کہتی ہے لال کلر تو بنا ہی تمہارے لیے ہے ۔ماہی نے بڑھا چڑھا کر بتایا

اچھا۔شازل کو جانے کیوں ہنسی آئی۔

ہاں نہ۔ماہی نے فورن سے کہا

کبھی پہننا ریڈ کلر پھر میں دیکھ کر بتاؤں گا یہ کلر تم پہ کیسا لگتا ہے۔شازل لیپ ٹاپ بند کرتا بولا تو ماہی بلش کرنے لگی۔

جی ضرور آپ یہ بتائے آپ کو چائے زیادہ پسند ہے یا کافی۔ماہی نے دوسرا سوال داغا۔

کافی اور تمہیں؟شازل نے بتانے کے بعد پوچھا

مجھے بھی کافی بہت پسند ہے۔یہ بتاتے وقت ماہی کو یاد نہیں آیا اُس نے کب کافی پی ہو۔اُس کے اِس جواب پہ شازل سمجھ گیا وہ جھوٹ موٹ کا بتارہی ہے۔

نائیس۔شازل غور سے اُس کو دیکھ کر بولا

اور آپ یہ بتائے کھانے میں کیا چیز آپ کو زیادہ پسند ہے۔ماہی نے آرام سے نیا سوال داغا 

کریلے اور بینڈیاں مجھے بہت پسند ہیں یقیناً تمہیں بھی یہ پسند ہوگا کیونکہ غالباً ہماری پسند آپس میں بہت ملتی جلتی ہے۔شازل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا ماہی سے بولا جس کے شکل کریلوں کے نام پہ کریلے جیسی بن گئ تھی۔

جی بہت پسند ہے۔ ماہی نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر کہا

واہ دیئٹس گریٹ چلو پھر ہم کچن میں چلتے ہیں کریلے اور بینڈیاں پکائے گے اور کھانے کے وقت دیکھے گے کس نے زیادہ کھایا۔ شازل پرجوش آواز میں بولا تو ماہی کے چہرے کی رنگت پل بھر میں اُڑی تھی خدا گواہ تھا اُس کو کبھی کریلے اور بینڈی کی سبزی کبھی پسند نہیں آئی تھی اور اب اُس کا شوہر مقابلے کی بات کر رہا تھا وہ بہت بُرا پھنسی تھی مگر اب تیر کمان سے نکل چُکا تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

کیا ہوا؟ چلو۔شازل نے اُس کو ہلتا جُلتا نہ دیکھا تو کہا

وہ میں سوچ رہی تھی سبزیاں پسند ہے تو پسند ہیں اِس وقت کھانے کی یا مقابلے کی کیا ضرورت ہے۔ماہی نے  بات سنبھالنا چاہی۔

بلکل ضرورت ہے آؤ۔شازل اُس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا اپنے ساتھ لیکر جانے لگا۔

گھر میں بینڈیاں اور کریلے نہیں ہے۔ماہی اُس کی تلقین میں چلتی بتانے لگی 

ہیں فریج میں۔شازل نے مزے سے بتایا

یہ لو تم ترتیب سے کریلے اور بینڈیاں کٹ کرو میں تب تک آتا گوند لیتا ہوں۔کہنیوں کے کف فولڈ کرکے شازل نے جان بوجھ کر ماہی کو یہ کام دیا۔

آٹا میں گوندہ لوں گی آپ اپنا ضروری کام کریں۔ماہی نے گہری سانس بھر کر اُس سے کہا وہ سمجھ گئ تھی اب راہِ فرار ممکن نہیں

تم نے کیا مجھے ظالم شوہر سمجھا ہوا ہے جو خود آرام سے بیٹھ کر بیوی سے کام کروائے گا۔شازل نے مصنوعی افسوس سے کہا۔

ایسی بات نہیں۔ماہی نے فورن سے کہا

ایسی بات نہیں تو وہ کرو جو کہا ہے۔شازل نے بنا تاخیر کیے بولا تو ماہی بے دلی سے سبزیاں کاٹنے لگی۔

اور بنو شوہر کی فرمانبردار بیوی اور ملاؤ شوہر کی ہاں میں ہاں۔سبزیاں کاٹنے کے درمیان وہ دانت کچکچا کر سوچنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕

حریم یہ تمہارے نکاح کا جوڑا اور کجھ دیگر سامان ہیں۔فاریہ بیگم حریم کے کمرے میں آتی اُس کی جانب ایک بیگ بڑھاکر بولی

مامی جان ہمیں یہ شادی نہیں کرنی۔حریم نے نم آنکھوں سے اُن کو دیکھ کر کہا

بچے مانا تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتی مگر ایک نہ ایک دن تو شادی ہونی ہے نہ اِس لیے دل چھوٹا نہ کرو۔فاریہ بیگم اُس کی اندر کی کیفیت سے بے نیاز سمجھانے لگی۔

ہمیں تابش لالہ سے نہیں دُر لہ سے شادی کرنی ہے۔حریم کی بات پہ فاریہ بیگم کا ہاتھ منہ پہ پڑا

حریم کیا پاگل ہوگئ ہو یہ کیا بات کہی تم نے خبردار جو دوبارہ ایسا کجھ کہا بھی۔فاریہ بیگم نے اُس کو جھڑکا۔

کیوں مامی جان آخر کیوں اِس میں قباحت کیا ہے ہمیں دُر لا سے محبت اور سب ہماری محبت کو گناہ کیوں بنارہے ہیں۔حریم نے روتے ہوئے کہا

حریم روؤ مت بیٹا یہ سب قسمت کا کھیل ہے دُرید شاہ کبھی تمہیں نہیں اپنائے گا وہ سینے میں دل کے بجائے پتھر لیکر گھومتا ہے اگر وہ تم سے شازل سے آروش سے ہنس کر بات کرلیتا ہے تو اُس کا یہ مطلب بلکل نہیں کے وہ خوش مزاج شخصیت کا مالک ہے دُرید نے ایک بار محبت کی ہے جس کا نتیجہ اُس کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا وہ تمہیں کجھ نہیں دے سکتا اُس کا ساتھ بس تمہیں تڑپائے گا بہتر ہے ابھی سے تم سنبھل جاؤ اور خوشی خوشی اِس شادی کے لیے تیاریاں کرو۔فاریہ بیگم اُس کو اپنے ساتھ لگاکر سمجھانے والے انداز میں بولی جب کی حریم کی سانسیں ایک بات پہ رُک سی گئ تھی۔ (دُرید نے ایک بار محبت کی ہے جس کا نتیجہ اُس کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا)

کس سے محبت کی تھی انہوں نے؟حریم کو لگا اُس کا دل بند ہوجائے گا وہ اتنی بے خبر کیسے  ہوسکتی تھی آخر دُرید شاہ کے معاملے میں

کومل نام تھا۔فاریہ بیگم افسوس بھرے لہجے میں بتانے لگی۔

تھا مطلب؟حریم ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی۔

وہ اب اِس دنیا میں نہیں مرگئ بے چاری۔فاریہ بیگم کی بات نے جیسے اُس کے جسم میں جان پُھوک دی ہو۔

شکر ہے مرگئ ورنہ ہم اپنے ہاتھوں سے اُن کا قتل کردیتے۔حریم جنونیت سے بولی تو فاریہ بیگم اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

بُری بات حریم ایسا نہیں بولتے۔فاریہ بیگم نے اُس کو ٹوکا

کیوں نہ بولے ہم دُر لا اور اُن کی محبت پہ صرف اور صرف ہمارا حق ہے۔حریم بے خوف سی بولی۔

دُرید نے بہت بڑی غلطی کردی تمہیں اتنا لاڈ پیار دے کر وہ یہ تو سوچتا ایک دن تمہیں اپنے گھر بھی جانا ہے ایک دن تمہاری شادی بھی ہونی ہے۔فاریہ بیگم کو افسوس ہوا حریم کی باتیں سن کر۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماتھے پہ ہم نے بینڈیج کرلی ہے بس خوف کی وجہ سے وہ بیہوش ہوئے تھے۔ڈاکٹر نے مسکراکر یمان سے کہا تو فجر کی اٹکی سانس بحال ہوئی۔

میں مل سکتی ہوں اپنے بیٹے سے؟فجر نے بے چینی سے پوچھا

شیور صبح ڈسچارج بھی مل جائے گا۔ڈاکٹر نے بتایا تو فجر فورن سے یامین کے کمرے میں گئ۔

تمہیں انگھوٹی یوں پھینکنی نہیں چاہیے تھی۔روزی نے دیوار سے  پشت ٹِکائے یمان سے کہا

پریشانی میں مجھے کجھ سمجھ نہیں آیا تھا۔یمان نے جوابً کہا

یہ لو اور پہناؤ مجھے۔روزی نے انگھوٹی اُس کے سامنے کی۔

یہاں تک لائی ہو تو پہن بھی لو مجھے کجھ ضروری کام ہے۔یمان ایک نظر اُس کے ہاتھ میں موجود انگھوٹی پہ ڈال کر کہتا سائیڈ سے گُزرگیا پیچھے روزی کی شعلہ باری نظروں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا تھا۔

ہسپتال سے باہر نکلتے ہی یمان نے ایک نمبر ڈائل کیا۔

السلام علیکم سر۔دوسری طرف ارمان نے کال اُٹھاتے ہی سلام کیا۔

وعلیکم السلام کہاں ہو؟یمان نے سلام کا جواب دینے بعد پوچھا

آپ نے لاہور بھیجا تھا بھول گئے ورنہ میں تو آپ کی سالگرہ کے دن ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ارمان شکایت بھرے انداز میں بتانے لگا۔

اچھا اگر کام ختم ہوگیا ہے تو واپس آجانا کل۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

خیریت میرا مطلب سب ٹھیک ہے؟ارمان نے اُس کا سنجیدہ انداز نوٹ کیا تو پوچھا

آجاؤ پھر بات ہوگی۔یمان اتنا کہہ کر کال کٹ کرلی اُس کے بعد گاڑی میں بیٹھتا بے مقصد گاڑی یہاں سے وہاں چلاتا رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی نے اپنے سامنے سالن سے بھری پلیٹ دیکھ کر بے ساختہ تھوک نگلا جس میں سوائے بینڈیوں اور کریلے کجھ نہیں تھا شازل نے چن چن اُس کی پلیٹ میں سبزی ڈالی تھی ماہی کو سمجھ نہیں آرہا تھا آخر آج شازل اُس سے کس بات سے بدلا لے رہا تھا اگر وہ اُس کی گئ شرارت کا بدلا لے رہا تھا تو ماہی نے توبہ کرلی تھی اُس سے پنگا لینے سے۔

کیا ہوا کھانا شروع کرو۔شازل روٹی کا نِوالہ لیتا اُس کی حالت سے لطف اندروز ہوا۔

جی کھاتی ہوں۔ماہی نے اتنا کہہ کر روٹی میں تھوڑی سی بینڈی میکس کی پھر چبانے کے بجائے سیدھا نگل گئ۔

تمہیں پتا ہے یہ سبزی میری اور آروش کی موسٹ فیورٹ ہے ہمارے درمیان اکثر بہت لڑائی ہوتی کے کون زیادہ کھاتا ہے اور کون کم۔شازل نے کھانے کے درمیان اُس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

تبھی تو وہ اتنا کڑوا بولتی ہے۔شازل کی بات پہ اُس نے بے ساختہ سوچا۔

یہ آروش کھاتی ہے؟ماہی نے جیسے کنفرم کرنا چاہا

شوق سے بتایا جو لڑائی ہوتی ہے ہم مقابلہ بازی کرتے تھے کے کون زیادہ اور جلدی کھالیتا ہے  مزے کی بات یہ ہم دونوں جیت جاتے تھے۔شازل نے مزے سے بتایا۔

آپ دونوں کی کیمسٹری بہت اچھی ہے۔ماہی نے بس یہ کہا

ہممم مجھے پتا ہے میری اور آرو کی بہت بنتی ہے ہم بھائی بہن سے زیادہ اور پہلے آپس میں بیسٹ فرینڈز ہیں ہر بات ہم ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں پر اہم بات یہ کے لڑائی بھی بہت ہوتی ہے۔شازل کے لہجے میں آروش کے لیے بے انتہا محبت تھی جس کو محسوس کرکے ماہی کو بے اختیار آروش پہ رشک سا آیا۔

کیا کبھی شازل مجھ سے بھی اتنی محبت کرے گا کیا کبھی میرے ذکر میں بھی اُس کے  لہجے میں اتنی میٹھاس اور محبت ہوگی۔شازل کا خوبصورت چہرہ دیکھتی وہ خود سے سوال کرنے لگی جس کا جواب فلوقت اُس کے پاس موجود نہیں تھا۔

تم سُست کیوں ہوگئ ہو کھانے میں رُکو میں کِھیلاتا ہوں جیسے تم نے مجھے کافی پِلانے کی آفر کی تھی مگر میں آفر نہیں دے رہا کرکے بھی دیکھاؤں گا۔شازل اپنا کھانا چھوڑتا بلکل اُس کے پاس والی چیئر پہ بیٹھا تو ماہی چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگی۔

آپ زحمت نہیں کرے میں کھالوں گی خود ہی۔ماہی نے اُس کو نوالہ بناتے دیکھا تو فورن سے کہا

خاموش میں کِھیلا رہا ہوں نہ ویسے بھی محرم ہوں تمہارا۔شازل عام لہجے میں بولا تو ماہی کو چپ لگ گئ۔

منہ کھولوں یا وہ بھی میں کھولوں ۔شازل نوالہ اُس کے سامنے کرتا مزاحیہ لہجے میں بولا تو ماہی کو جھجھک سی ہونے لگی شازل سے۔

کیا صبح برش نہیں کیا تم نے؟جو منہ کھولنے سے کترا رہی ہو۔شازل شوخ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔

کیا ہے۔ماہی فٹ سے بولی

تو شاباش اچھے بچوں کی طرح منہ کھولوں۔شازل نے بچوں کی طرح اُس کو پچکارنے لگا۔

آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی خوشی خوشی کھالوں گی یہ کریلے اور بینڈی کیا چیز ہیں آپ نے جو میرے لیے کیا ہے وہ شاید ہی کوئی کسی کے لیے کرتا ہو۔ہلکہ سا منہ کھول کر ماہی نے بے ساختہ سوچا۔

آپ بھی کھائے نہ۔ماہی نے شازل کو دیکھ کر کہا

ہاں ایک منٹ؟شازل کا موبائل رِنگ کرنے لگا تو اُس نے خاموش رہنے کا اِشارہ دیا۔

ہیلو ارحم اِس وقت کال خیریت۔شازل نے کال اٹینڈ کرتے کہا

اوکے میں آتا ہوں سیریسلی میں بھول گیا تھا۔دوسری جانب جانے کیا کہا گیا تھا جب شازل اپنی آنکھوں کو زور سے میچ کر بولا ماہی غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جو بات بات پہ الگ سے ایکسپریشن دے رہا تھا

کیا ہوا کس کا فون تھا؟ماہی نے شازل کے کال ڈراب کرنے بعد شازل کو اُٹھتا دیکھا تو پوچھا

میرے فرینڈ کی برتھ ڈے ہے میں وہاں جارہا ہوں تم سوجانا اوکے کافی میں کل تمہیں پلادوں گا۔بات کرتے کرتے آخر میں شازل کا لہجہ شوخ ہوا۔

ابھی تو بہت رات ہوگئ ہے۔ماہی کو یوں شازل کا جانا اچھا نہیں لگا۔

جانا بہت ضروری ہے تم میرا انتظار مت کرنا سوجانا۔شازل اُس کو ہدایت دیتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

توبہ کتنے چلاک ہیں شازل مجھے لگا میرے پہ پیار آیا ہے مگر نہیں انہوں نے بڑی چلاکی سے خود کجھ نہیں کہا بلکہ کڑوا کریلا اور بینڈیاں مجھے کِھلائی۔ماہی کی نظریں جیسے ہی شازل کی پلیٹ پہ پڑی تو اُس کا منہ حیرت سے کھل گیا اُس کو شازل ایسی عقلمندی کی توقع نہیں۔

میرے منہ کا زائقہ ہی خراب ہوگیا ہے لگتا ہے اگین برش کرنا پڑے گا۔ماہی کو اب اپنے منہ کا زائقہ خراب محسوس ہوا جب اپنی پلیٹ پہ نظر پڑی تو جہاں شازل نے اپنی میٹھی میٹھی باتوں کے جال میں پھنساکر اُس کو ساری سبزی کِھلادی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم نے لگتا ہے ہم سے پردہ شروع کرلیا ہے۔شازل کلب پہنچا تو رضا اُس سے ملتا بولا

ایسی بات نہیں بس مصروف تھا کجھ۔شازل نے مسکراکر بتایا۔

شکر ہے تم آئے تو ورنہ مجھے اُمید نہیں تھی۔ارحم اُس کی جانب وائن کا گلاس بڑھا کر بولا

میں آج ڈرنک نہیں کروں گا۔شازل نے انکار کیا۔

کیوں بھئ یہ کیا بات ہوئی تم ہمیشہ ڈرنک کرتے آئے ہو تو آج کیوں نہیں۔ارحم کو شازل کے انکار پہ حیرت ہوئی۔

بیوی اپنے ساتھ لایا ہے شاید اُس نے منع کیا ہو۔رضا ارحم کے ہاتھ پہ تالی مارتا بولا تو ارحم ہنس پڑا۔

ایسی بات نہیں۔اپنے گلے موجود چین کو گھماتا لاپرواہ انداز میں بولا

تو پی نہ یار آج میرا دن ہے۔ارحم نے زبردستی اُس کے ہاتھ میں وائن کا گلاس تھمایا

ہیوی تو نہیں نہ؟شازل نے پینے سے پہلے کنفرم کرنا چاہا

تو آج ڈرنک کرنے سے ڈر کیوں رہا ہے؟ارحم اُس کے جواب پہ چڑ گیا۔

ڈر ور نہیں رہا بس ایسے ہی پوچھا۔شازل ایک ہی گھونٹ میں سارا گلاس خالی کرتا اُس سے بولا تو شازل کو احساس ہوا کے جو اُس نے ڈرنک کی ہے وہ ہیوی تھی۔

سناٹا کتنا ہے یار میوزک وغیرہ لگاؤ۔رضا نے پرجوش آواز میں کہا تو ارحم نے ڈی جے کو اِشارہ کیا۔

دوسرا گلاس دوں؟ارحم نے شازل کو بار بار آنکھیں جھپکتا دیکھا تو کہا

نہیں ایکچوئلی مجھے گھر جانا چاہیے اِس سے پہلے مجھے پہ ڈرنک کا نشہ پوری طرح سے حاوی ہو۔شازل اپنے قدم پیچھے کی جانب بڑھاتا اُس سے بولا

یار شازل کیا ہوگیا ہے کیوں ایسے بیہیو کررہے ہو کوئی پہلی بار تو تم نے پی نہیں۔ارحم کو شازل کا انداز سمجھ نہیں آرہا تھا۔

پہلے کی بات اور تھی۔شازل اتنا کہتا باہر کی جانب گیا آج اُس کو کلب میں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

یہ شازل واپس کیوں چلاگیا؟رضا نے حیرت سے ارحم سے کہا

پتا نہیں۔ارحم نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

کلب سے باہر نکلنے کے بعد شازل فورن سے اپنی گاڑی میں بیٹھا اُس کو بس گھر جانے کی جلدی اِس لیے گاڑی کو فل اسپیڈ میں چھوڑدیا یہ جانتے ہوئے بھی اُس کی یہ حرکت نقصان بھی دے سکتی ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان رات کے پہر بیچ سڑک پہ اپنی گاڑی رُکتا کھڑا تھا اُس کی سپاٹ نظریں آسمان میں موجود چاند پہ تھی وہ ابھی یہ دیکھنے میں لگا ہوا تھا جب ٹھاہ کی آواز سے اُس کی گاڑی سے کسی اپنی گاڑی ٹھوکی تھی یمان اگر اپنی گاڑی سے کجھ دور کھڑا نہ ہوتا تو یقین وہ اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتا۔

آپ ٹھیک ہیں؟یمان نے گاڑی سے کسی کو اُترتا نہیں دیکھا تو پاس جاتا ونڈو پہ نوک کرتا پوچھنے لگا۔

ہاں میں ٹھیک ہوں۔دوسری طرف شازل جو سامنے کھڑی گاڑی دیکھ نہیں پایا تھا تبھی اُس گاڑی ٹکراؤ ہوگیا تھا اُس نے بچانے کی کوشش کی مگر تب تک دیر ہوچکی تھی اُس نے اپنے پاس کسی کی بھاری آواز سُنی تو ونڈو کھولتا اُس کو جواب دینے لگا اُس کا سر بُری طرح سے چکرارہا تھا وائن آہستہ آہستہ اُس پہ اثر کررہی تھی۔

آپ نے ڈرنک کی ہے؟یمان کی نظروں میں ناگواریت بھرے تاثرات نمایاں ہوئے اُس کو یہ چہرہ دیکھا دیکھا سا لگا مگر اُس نے زیادہ توجہ نہ دی۔

ہاں کیا تم نے کبھی نہیں کی؟شازل کی آواز لڑکھڑا سی گئ۔

الحمداللہ نہیں خیر آئے میں آپ کو ڈراپ کردیتا ہوں اِس حالت میں آپ کا ڈرائیو کرنا سیو نہیں۔یمان نے کہا

میں کونسا تمہارے چچا کا پُتر ہوں جو میری مدد کررہے ہو۔شازل نے ہنس کر کہا

انسانیت بھی کسی چیز کا نام ہے۔یمان نے جتایا

اوکے اگر تم اتنا انسسٹ کررہے ہو تو چھوڑ آؤ میری بیگم گھر میں اکیلی ہے۔شازل سیٹ بیلٹ کھولتا جیسے اُس پہ احسان کرنے لگا۔

جی بڑی مہربانی آپ نے مجھے شرف بخشا۔یمان نے میٹھا سا طنزیہ کیا( اگر اُس کو معلوم ہوتا وہ آروش کا بھائی ہے تو ایسے بات کرنے کا سوچتا بھی نہ)

آرام سے۔یمان نے اُس کو گِرتا دیکھا تو جلدی سے اُس کے پاس آیا

اپنے گھر کا ایڈریس بتائے؟یمان نے اُس کو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھانے کے بعد خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے اُس نے ایڈریس پوچھنا لازمی سمجھا

بلو ورلڈ سِٹی۔شازل ٹھوڑی پہ انگلتی رکھتا پرسوچ لہجے میں بولا

بلو ورلڈ سِٹی میں بس آپ کا گھر تو نہیں ہوگا نہ۔یمان نے گہری سانس بھر کر کہا

تم گاڑی تو چلاؤ سوسائٹی بتائی ہے تو گھر بھی بتادوں گا پریشان کیوں ہوتے ہو۔شازل مکمل طور پہ اپنے حواس کھو رہا تھا یمان نے اُس کی بات سن کر غور سے اُس کی جانب دیکھا دیکھنے میں وہ اُس کو بہت میچیور اور پڑھا لکھا لگا مگر جب وہ بات کررہا تھا تو کہی سے بھی میچیورٹی نظر نہیں آئی شاید اُس کی وجہ نشے میں ہونا تھا شازل نے ٹھیک سے اپنے گھر کا پتا بھی دے دیا تھا مگر جانے کیوں یمان کو شازل جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔

ایسے غور سے مت دیکھو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں میری چمڑی چاہے جتنی بھی گوری ہو پر خوبصورتی میں تم مجھ سے زیادہ پیارے ہو۔شازل نے اُس کی نظریں خود پہ محسوس کی تو شریر لہجے میں بولا

مجھے ایسی کوئی خوشفہمی نہیں اور نہ میں ایسا کجھ سوچ رہا تھا۔یمان سرجھٹک کر بولا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کوئی اتنا سیلف کونشئس بھی ہوسکتا ہے کم سے کم اُس کو کسی لڑکے سے ایسی اُمید نہیں تھی کے وہ اپنے سمارٹنس کی بات کرے گا اُس کے خیال میں رنگت اور خوبصورتی کی بات صرف لڑکیاں ہی کیا کرتی ہوگی۔

خوشفہمی کہاں میں تو تمہاری تعریف کررہا ہوں تمہیں خوش ہونا چاہیے ورنہ آج تک میں نے اپنی بیوی کی بھی تعریف نہیں کی۔شازل نے بتایا۔

تمہارا گھر آگیا۔یمان نے گاڑی کو بریک لگاتا بولا

شکریہ شکریہ ویسے تمہارا نام کیا ہے؟شازل کو اچانک نام پوچھنے کا خیال آیا۔

یمان مستقیم۔یمان نے بتایا

بہت اچھا ہے نام تمہاری شخصیت سے میل کھاتا ہے ویسے میرا نام سید شازل شاہ ہے۔شازل سیٹ بیلٹ کھول کر بولا۔

نائیس نیم۔یمان نے مروتً کہا

اوکے میں چلتا ہوں پھر ملے گے۔شازل گاڑی سے باہر نکلتا ہاتھ ہلاتا اُس سے بولا تو یمان نے گاڑی ریورس کی۔

آپ اتنی جلدی واپس آگئے۔ماہی نے شازل کو سیڑھیاں چڑھتا دیکھا تو تعجب سے پوچھا اُس کے خیال میں شازل جیسی باتیں کرکے گیا تھا اب اُس نے دیر واپس آنا ہوگا۔

ہممم۔شازل اتنا کہتا سیڑھیان چڑھنے لگا جب اُس کے قدم لڑکھڑا سے گئے جس کو دیکھ کر ماہی بھاگ کر اُس کے پاس جانے لگی 

آپ ٹھیک ہیں۔ماہی نے پریشانی سے پوچھا

ہاں میں ٹھیک ہوں۔شازل اُس سے کجھ فاصلہ کیے بولا تو ماہی کو شازل کے منہ سے عجیب قسم کی بوء محسوس ہوئی۔

شازل آپ نے شراب پی ہے؟ماہی کے لہجے میں افسوس تھا وہ بھی سوچ بھی نہیں سکتی شازل کسی حرام چیز کو منہ بھی لگاسکتا ہے۔

ہاں مجھے تو عادت ہے پینے کی پر تمہیں پتا ہے آج میرے کمینے دوست نے زبردستی مجھے پِلائی ورنہ میرا پینے کا دل نہیں تھا۔شازل کمرے میں داخل ہوتا اُس کو بتانے لگا۔

میں آپ کے لیے لیموں پانی لاتی ہوں پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ماہی کو اچانک خیال آیا تو وہ اُس کو بتاکر جانے لگی جب شازل نے اُس کی کلائی پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔

کہاں جارہی ہو مجھے چھوڑ کر۔شازل اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا معصوم شکل بنائے بولا مگر اُس کے لہجے میں بے قراری صاف عیاں تھی جو اُس کے اتنے پاس آنے کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہوتی ماہی محسوس نہیں کرپائی۔

آپ کے لیے لیموں پانی لینے۔ماہی نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کر بتایا اُس کو شازل کی حالت جاننے کے بعد باوجود بھی کمرے داخل ہونا اپنا بے وقوفانہ عمل لگا تھا۔

مجھے نہیں چاہیے پلیز تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ مجھے کسی لیموں کی ضرورت نہیں ہے۔شازل اُس کو اپنے سینے سے لگاتا التجائیہ انداز میں بولا تو ماہی کا دل زور سے دھڑکا اُس نے شازل کو خود سے دور کرنا چاہا مگر اُس کی گرفت مضبوط تھی جس کو محسوس کرکے تھک ہار کر ماہی نے اپنا آپ شازل کے حوالے کردیا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان

یمان

تم ٹھیک ہوں؟یمان صبح فجر کے وقت گھر آیا تھا ابھی وہ سونے کا اِرادہ کیے ہوئے تھا جب دلاور خان پریشانی سے اُس کو آواز دیتے کمرے میں داخل ہوئے۔

میں ٹھیک ہوں مگر آپ کجھ ٹھیک نہیں لگ رہے سب خیریت؟یمان بیڈ سے اُٹھتا اُن کے پاس آیا

تمہاری گاڑی دیکھی میں نے کیا تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا؟دلاور خان نے پوچھا

نہیں ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوا بس کسی نے غلطی سے گاڑی کو پیچھے سے ہِٹ کرلیا تھا۔یمان نے جواب دیا۔

تمہیں چوٹ وغیرہ تو نہیں آئی؟دلاور خان نے ایک بار پوچھا

جی کوئی چوٹ نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں آپ پریشان مت ہو۔یمان نے ہلکہ سا مسکراکر کہا تو دلاور خان کجھ پرسکون ہوئے۔

تمہیں ایک بات بتانا چاہ رہا تھا۔دلاور خان جانے والے تھے پھر ایک خیال کے تحت وہ اُس کی طرف پلٹے جی بتائے۔

میں شہر سے کجھ دن دور جارہا تھا ایک بہت ضروری کام سے دعا کرنا ہوجائے گا۔دلاور خان نے سنجیدگی سے کہا

کونسا کام آپ کہے تو میں چلوں ساتھ؟یمان نے بغور اُن کے تاثرات جانچے۔

نہیں میں اکیلے چلا جاؤں گا تمہیں تو لاہور جانا ہے نہ تم وہاں جانا بس یوں سمجھ لوں میری قیمتی چیز کسی اور کے پاس ہے اُس کو لینے جارہا ہوں دعا کرنا وہ محفوظ ہوں۔دلاور خان نے کہا تو یمان نے محض سر کو جنبش دی آج اُس کو دلاور خان کا انداز بے حد مختلف لگا تھا۔

جیسا آپ کو مناسب لگے میں ویسے بھی ایک گھنٹے بعد ہسپتال جاؤں گا آپی اکیلی ہے یامین کے ساتھ جب کی لاہور کی فلائٹ تو میری دو تین دن بعد ہے۔یمان نے بتایا

💕💕💕💕💕💕💕

مما آپ کا بلکل خیال نہیں رکھتی تبھی آپ کو چوٹ آئی نہ۔ارمان صبح ہی اسلام آباد پہنچا تھا اُس کو جیسے ہی یامین کی چوٹ کا پتا چلا تھا وہ فورن اپنے گھر کے بجائے ہسپتال آیا تھا یامین کے سر پہ پٹی بندھی دیکھ کر اُس کو بہت افسوس ہوا۔

میں خیال رکھتی ہوں بس کل جانے کیسے لاپرواہی ہوگئ۔فجر یامین کا ہاتھ چومتی فکرمندی سے گویا ہوئی آج اُس کو ارمان کی بات سے چڑ نہیں ہوئی تھی وہ یامین کے لیے پریشان تھی۔

جانتا ہوں میں بس یامین کو ہنسانا چاہ رہا تھا۔ارمان نے ایک نظر چاکلیٹ کھاتے یامین کو دیکھ کر اُس سے کہا

آپ کل کہاں تھے؟یامین نے ارمان سے پوچھا

میں کل شہر سے باہر تھا آپ کے جو ماموں ہیں نہ انہوں نے کام سے بھیجا تھا۔ارمان نے مسکراکر کہا۔

فجر رہ بات سننا۔عیشا ایک نظر مسکراکر یامین سے بات کرتے ارمان کو دیکھ کر فجر سے بولی تو فجر اسٹول سے اُٹھ کر باہر کی جانب گئ۔

یہ یمان کا اسسٹنٹ یہاں کیا کررہا ہے؟فجر باہر آئی تو عیشا نے پہلا سوال یہی داغا

یمان نے شاید بھیجا ہو۔فجر نے کہا

شاید پر تمہیں نہیں لگتا یامین کو اُس کے ساتھ اتنا اٹیچ ہونا چاہیے؟عیشا نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے وہ یمان کی عمر کا ہے تم اگر کجھ اُلٹا سوچ رہوں تو اُس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دو۔فجر نے سختی سے اُس کو جھڑکا۔

غصہ مت ہو میں نے جسٹ ایک جنرل بات کہی وہ یمان سے چھوٹا نہیں دوسری بات یہ کے یامین کو کسی اجنبی کے ساتھ اتنا کلوز ہونا نہیں چاہیے۔عیشا نے اُس کو غصہ کرتا دیکھا تو اپنی بات کا مطلب سنجھایا

میں خیال کروں گی۔فجر نے بس یہ کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

صبح شازل کی آنکھ مسلسل اپنے فون پہ آتی کال پہ کُھلی اُس نے ہاتھ بڑھا کر دیکھا تو دُرید شاہ کی کال تھی اُس کو اپنا سر درد سے پٹھتا محسوس ہورہا تھا اُس نے سائیڈ ٹیبل پہ دیکھا تو لیموں پانی کا گلاس بھی پڑا تھا۔

لالہ کی وہ بھی اتنی صبح صبح۔شازل بیٹھنے کی کوشش کرتا پریشان ہوا دُرید کی کال دیکھ کر۔

السلام علیکم لالہ خیریت؟شازل کال ریسیو کرتا دُرید سے بولا  جب کے دوسرے ہاتھ سے اُس نے لیموں پانی کا گلاس اُٹھایا 

تم کل رات پھر کلب گئے تھے؟دوسری جانب دُرید شاہ نے سخت لہجے میں استفسار کیا۔

آپ کو کس نے بتایا؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا

مجھے سوال کے بدلے سوال نہیں بلکہ تم سے جواب چاہیے۔دُرید نے دو ٹوک کہا

جی گیا تھا ارحم کی برتھ ڈے تھی اور آپ پلیز میری جاسوسی نہ کروایا کرے میں کوئی بچہ نہیں۔شازل بیزار ہوا۔

تم نے ہیوی ڈوز لی تھی کسی اور کی گاڑی بھی ہٹ کرلی تھی تمہیں پتا ہے اگر اُس کو نقصان ہوتا تو تم کتنے مسئلے میں پڑسکتے تھے جس کی گاڑی تم نے ٹھوکی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی۔دُرید نے غصے سے کہا

آپ یہ مت پوچھنا مجھے کہی چوٹ تو نہیں آئی بس یہ فکر ہے کہی اُس شخصیت کو نقصان پہنچ جاتا تو یہ ہوتا کون تھا وہ پرائم منسٹر تھا۔شازل چڑ گیا۔

گلوکار تھا یمان مستقیم۔دُرید نے بتایا تو شازل کو یاد آیا۔

وہ جس کو کجھ ماہ پہلے ہارٹ اٹیک بھی آیا تھا؟شازل نے کان کی لو کُھجاکر پوچھا

میں نے تمہیں اِس لیے کال نہیں کی کے  تم مجھ سے یمان مستقیم کا بائیو ڈیٹا لو میں نے اِس لیے کال کی ہے کے اب تم شادی شدہ ہو اِس لیے خود میں بدلاؤ لاؤ۔دُرید نے سختی سے کہا جب کی اُس کے کمرے میں آتی آروش یمان مستقیم نام سن کر ایک پل کو ساکت ہوئی تھی۔

جی اور کوئی حکم۔شازل نے کہا

یہی کرلوں بڑی بات ہے۔دُرید طنزیہ انداز میں کہتا کال کٹ کرگیا جبھی اُس کی نظر دروازے کے پاس گم سم کھڑی آروش پہ پڑی

آرو وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ کوئی کام تھا؟دُرید نے آروش کو دیکھ کر مسکراکر کہا

جی بات کرنی تھی ویسے آپ کس سے بات کررہے تھے؟آروش نے اپنا لہجہ نارمل کیے پوچھا

تمہارے نالائق لالہ شازل سے۔دُرید نے بتایا

ایسے تو بولے وہ بہت اچھے ہیں۔آروش فورن شازل کے دفع میں بولی۔

چھوڑو شازل کو تم بتاؤ کیا بات کرنے آئی تھی۔دُرید نے کہا

میں حریم کے سلسلے میں آپ سے بات کرنے آئی تھی کیا آپ کو نہیں لگتا یہ سب بہت جلدی ہورہا ہے اگر آپ اُس کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتے تو حریم کی شادی بھی نہ کروائے۔آروش نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا

وہ تو بچی ہے کم سے کم تم تو بچی ہونے کا مظاہرہ نہ کرو یہی وقت ہے حریم کی شادی کا وہ آہستہ آہستہ سمجھ بھی جائے گی۔دُرید نے کہا

آپ اُس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے مانا کے عمروں کا فرق ہے مگر وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہے آپ کے علاوہ اُس کو کوئی خوش نہیں رکھ سکتا آپ جانتے ہیں محبت کے کھونے کا دُکھ تو آپ کیوں چاہتے 

آروش خاموش۔آروش جو اُس کو سمجھانے کی خاطر بول رہی تھی دُرید نے سختی سے اُس کو ٹوک دیا۔

میں بس

میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اُس معاملے میں مجھے تم سب سے زیادہ حریم کی فکر ہے میں کوئی بھی فیصلہ اُس کے لیے غلط نہیں لے سکتا اور جو میں لے رہا ہوں وہ ہی بہتر فیصلہ ہے۔دُرید دوبارہ سے اُس کی بات کاٹی تو آروش خاموشی سے اُس کے کمرے سے جانی لگی تو دُرید کو احساس ہوا وہ بہت سخت ہوگیا تھا تبھی اُس کو آواز دی

آرو ایک منٹ میری بات سننو۔

آج کے لیے اتنا کافی ہے یہ آپ لوگوں کا آپسی معاملہ ہے مجھے درمیان میں نہیں آنا چاہیے تھا۔آروش بنا مُڑے بولی

ایسی بات نہیں۔دُرید شرمندہ ہوا۔

چلتی ہوں۔آروش سنجیدگی سے کہتی کمرے سے نکل گئ۔

شِٹ یار۔دُرید کو خود پہ غصہ آنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕

دُرید سے بات کرنے کے بعد شازل فریش ہوکر کمرے سے باہر آیا تو ماہی اُس کو کہی نظر نہیں آئی اُس نے چاروں اطراف نظر گُھماکر اپنا رخ کچن میں کیا تو ماہی کو کچن میں پایا۔

گُڈ مارننگ۔شازل اُس کو مارننگ وِش کرتا فریج سے پانی کی بوتل نکالنے لگا دوسری طرف ماہی شازل کی موجودگی محسوس کرکے کانپ سی گئ تھی۔

کیا ہوا؟شازل نے اُس کو جواب دیتا نہیں پایا تو پوچھا

ک کجھ نہ نہیں۔ماہی نے لڑکھڑاہٹ بھرے لہجے میں کہا

تمہاری زبان لڑکھڑا کیوں رہی ہے طبیعت تو ٹھیک ہے؟شازل نے ہاتھ بڑھا کر اُس کی پیشانی چھونا چاہی پر ماہی بدک کر اُس سے دوری ہوئی۔

میں ٹھیک ہوں بلکل۔ماتھے پہ آیا پسینا صاف کرتے ماہی نے جواب دیا کل رات کے بعد اُس میں ہمت نہیں تھی شازل سے نظریں ملانے کی جب کی دل میں کہی نہ کہی اُس کو یہ ڈر بھی لگ رہا تھا کے شازل سب کجھ بھول تو نہیں گیا اکثر اُس نے ناولوں میں پڑھا تھا شراب پینے کے بعد انسان کو کجھ یاد نہیں رہتا اور شازل کا اتنا نارمل ری ایکشن اُس کو الگ الگ وسوسو سے روشناس کروا رہا تھا۔

لگ تو نہیں رہی خیر بریک فاسٹ تیار ہے تو دے دو مجھے باہر جانا ہے۔شازل نے کندھے اُچکاکر بولا

آپ جائے میں لاتی ہوں۔ماہی نے کہا اُس کو شازل کی موجودگی ڈسٹرب کررہی تھی جب کی اُس کی بات سن کر شازل کچن سے نکلتا ڈائینگ ٹیبل پہ جاکر بیٹھ گیا اُس کے جانے کے بعد ماہی خود میں ہمت جمع کرتی اُس کے لیے ناشتہ لیتی باہر آئی ٹیبل پہ وہ اُس کا ناشتہ سجاتی خود جانے لگی تو شازل نے ہاتھ پکڑ کر اُس کو روکا

کیا آج تم میرے ساتھ نہیں کروں گی ناشتہ؟شازل نے اُس کو یوں جاتا دیکھا تو پوچھا

مجھے بھوک نہیں۔ماہی نے زور سے آنکھوں کو میچ کر جواب دیا

یہ کیا بات ہوئی روز ساتھ کرتی ہو تو آج بھی کرو۔شازل کو اُس کی بات نامعقول لگی۔

آپ کرلے میں بعد میں کرلوں گی۔ماہی نے بہانا تراشا

میرے ساتھ کرنے میں کیا مسئلہ ہے اور آج تمہیں ہو کیا گیا ہے؟شازل نے بالآخر پوچھ لیا۔

کجھ نہیں ہوا۔ماہی جواب دیتی خود بھی کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئ اُس نے منٹ میں فیصلہ کرلیا تھا اگر شازل نارمل انداز میں اُس سے بات کررہا تھا تو وہ بھی نارمل رہنے کی کوشش کرے گی۔

تمہاری اسکن کو کیا ہوا ہے؟سلائس کھاتے شازل کی نظریں اُس کے چہرے پہ پڑی تو پوچھا

میری اسکن کجھ بھی تو نہیں۔ماہی گال پہ ہاتھ رکھتی بولی

تمہارا چہرہ لال ہوا پڑا ہے تبھی پوچھا۔شازل نے جیسے وجہ بتائی جب کی اُس کی بات سن کر ماہی اُس کا منہ تکتی رہ گئ

افففف اللہ کیا بے نیازی ہے اِن موصوف کو یہ بھی نہیں پتا کے مجھے اِن سے شرماہٹ محسوس ہورہی ہے۔ماہی نے شازل کو رغبت سے ناشتہ کرتا دیکھا تو بے ساختہ سوچا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماموں مجھے آئسکریم میں کھانی ہے۔یمان یامین کے ڈسچارج ہونے کے بعد اُس کو پارک لیکر گیا تھا اب وہ اُس کو لیکر گھر جانے والا تھا جب اُس نے فرمائشی انداز میں کہا

اوکے چلتے ہیں آئسکریم پارلر۔یمان اُس کی بات سن کر مسکراکر بولا اور گاڑی آئسکریم پارلر کی جانب موڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شازل کسی کام سے کورٹ جانے والا تھا جب اُس کی نظر آئسکریم پارلر میں موجود کسی بچے کے ساتھ کھڑے یمان پہ پڑی جہاں بس اکا دکا ہی لوگ تھے وہ کجھ سوچتا اپنی گاڑی سے اُترتا یمان کے پاس گیا۔

ہائے۔ شازل نے اُس کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا

السلام علیکم۔یمان ایک نظر اُس کو دیکھتا سلام کرنے لگا

وعلیکم السلام میں کل ہوش میں نہیں تھا پھر بھی تمہیں پہچان لیا مگر لگتا ہے تم نے نہیں پہچانا مجھے۔شازل مسکراکر کہتا پاس والی چیئر پہ بیٹھا۔

آپ کو ایسا کیوں لگا میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہوگا۔یمان اپنا دھیان یامین سے ہٹاتا اُس کی جانب کیے بولا

کیونکہ آپ کا اٹیٹیوڈ یہی بتارہا ہے۔شازل نے غور سے یامین کو دیکھ کر اُس سے کہا

ایسی بات نہیں میں نے آپ کو پہنچان لیا تھا شازل شاہ نام ہے نہ آپ کا۔یمان نے کہا

بلکل اچھی بات ہے آپ کو میں یاد ہوں دراصل مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا تبھی یہاں آیا مجھے لگتا ہے کل میں نے نہیں کیا ہوگا۔شازل نے کہا

اٹس اوکے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔یمان نے عام انداز میں کہا

میں نے تمہیں کل تنگ تو نہیں کیا تھا مطلب کل غلطی سے میں ہیوی ڈوز لیکر گیا تھا اِس لیے پوچھ رہا ہوں۔شازل نے جاننا چاہا

میں کونسا لڑکی تھا جو نشے میں ہونے کی وجہ سے آپ مجھے تنگ کرتے۔یمان اُس کی بات کے جواب میں بولا تو شازل ہنس پڑا

کافی اچھی باتیں کرلیتے ہو خیر یہ بتاؤ تمہارا بیٹا ہے یہ اور اِس کے سر پہ کیا ہوا ہے؟شازل نے آئسکریم کھاتے یامین کو دیکھا کر یمان سے پوچھا

بھانجا ہے میرا سیڑھیوں سے گِرنے کی وجہ سے چوٹ آئی ہے۔یمان نے بتایا

سیرسیلی تمہارا بھانجا ہے سیم تمہاری کاپی ہے مگر اِس پاس ڈمپلز ہیں شاید تمہارے پاس نہیں۔شازل نے غور سے یامین کو دیکھا تو کہا کیونکہ آئسکریم کھانے کی وجہ سے یامین کے گالوں پہ ڈمپلز کے نشان نمایاں ہوئے رہے تھے۔

بھانجے اپنے ماموں پہ ہی جاتے ہیں۔یمان محبت سے یامین کو دیکھتا بولا مگر اُس نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا گہرے ڈمپلز تو اُس کے گالوں میں پڑتے ہیں۔

تم سنگر ہو رائٹ؟شازل نے جاننے کے باوجود بھی اُس سے پوچھا جانے کیوں اُس کو یمان سے بات کرنا اچھا لگ رہا تھا۔

رائٹ۔یمان نے مختصر جواب دیا۔

اکیلے رہتے ہو یا فیملی کے ساتھ؟شازل اُس سے ایسے سوالات کررہا تھا جیسے جانے کتنے برسو کی جان پہچان ہو

فیملی کے ساتھ۔یمان نے بتایا

اچھا نائیس میں یہاں پہلے اکیلا رہتا تھا مگر اب اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہوں۔شازل نے خود ہی بتایا

لگتا ہے آپ اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے ہیں تبھی کل رات بھی اُس ذکر اب بھی۔بیوی لفظ پہ یمان کے دماغ میں کل والا واقع تازہ ہوا تو کہا۔

اچھا میں بار بار کررہا تھا۔شازل کو ہنسی آئی تھی۔

ہمم۔یمان نے ہنکارہ بھرا

ویسے تم مجھے آپ نہیں تم کہہ کر پُکار سکتے ہو آپ سے عجیب بڑھاپے والی فیلنگز آتی ہیں۔شازل نے کہا تو یمان نے محض سر کو جنبش دی

اوکے پھر میں چلتا ہوں مجھے کسی ضروری کام سے جانا تھا اور یہاں میں تم سے باتوں میں لگ گیا۔شازل کو وقت کا احساس ہوا تو اُٹھ کھڑا ہوا۔

ٹھیک ہے۔یمان نے کہا

ویسے تم معروف گلوکار ہو مگر حیرت کی بات مجھے یہ لگی کے تم میں غرور نہیں۔شازل ایک مسکراتی نظر اُس پہ ڈال کر چلاگیا۔

خاک ہوں خاک میں مل جاؤں گا پھر غرور کس چیز پہ کروں؟اپنے خاک ہونے پہ۔یمان شازل کی پشت کو تکتا سوچنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

پڑسو حریم کا نکاح ہے تم شازل کو حویلی آنے کا کہو۔شھباز شاہ نے دُرید شاہ سے کہا

جی میں کال کرکے اُس سے کہوں گی۔دُرید نے جوابً کہا۔

ہممم تمہاری بھابھی ماں کی عدت بھی پوری ہوچکی ہے کل لگے ہاتھ اُس کا نکاح بھی دیدار شاہ سے ہوگا۔شھباز شاہ نے بتایا

آپ نے اُن سے پوچھا ہے؟دُرید نے جاننا چاہا

پوچھنا کیا ہے بس یہ طے پایا گیا ہے تو ہوکر رہے گا۔شھباز شاہ نے کہا

آپ آروش کے بارے میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں لیتے۔دُرید نے کہا

آروش کے لیے کیا کونسا فیصلہ؟شھباز شاہ نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھا

اگلے ماہ وہ ماشااللہ سے پچیس سال کی ہوجائے گی آپ کو نہیں اب اُس کی شادی کردینی چاہیے حریم کی شادی ہوجائے گی شازل بھی شہر میں اپنی زندگی بسا بیٹھا ہے بھابھی ماں کا نکاح دوبارہ ہونے جارہا ہے کجھ ماہ بعد نازنین اور نور بھی اپنے گھر کی ہوجائے گی ایسے میں آروش تو تنہا ہوجائے گی۔دُرید کے لہجے میں آروش کے لیے فکر تھی۔

اگر میں یہی بات تمہیں کہوں تو وہ تو خیر سے پچیس کی ہے مگر تم تو بتیس سال کے ہو تمہارے کیا اِرادے ہیں؟شھباز شاہ نے بڑے خوبصورت طریقے سے بات کا رخ آروش کے بجائے اُس کی جانب موڑا

مجھے اب چلنا چاہیے۔دُرید اُن کی بات نظرانداز کیے اُٹھ کھڑا ہوا

کہاں؟شھباز شاہ کا اُس کا یوں جواب نہ دینا بُرا لگا۔

حریم کو شاپنگ کروانا چاہتا ہوں۔دُرید کی بات سن کر اُن کے چہرے پہ استہزائیہ مسکراہٹ آئی۔

اب تم اُس پہ اتنے مہربانیاں کرنے کی ضروری نہیں جب شادی سے انکار کردیا ہے تو اب بس چھوڑدو اُس کی فکر کرنا۔شھباز شاہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔

میرا فیصلہ دُرست ہے اِس بات کا اندازہ آپ سب کو ایک دن ہوجائے گا۔دُرید سنجیدگی سے بولا

تمہارا فیصلہ بہت غلط ہے اور بہت جلد اچھے سے تمہیں پتا چل جائے گا۔شھباز شاہ نے کہا تو دُرید وہاں سے چلاگیا۔

شاہ سائیں آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔شھباز شاہ دُرید کے جانے کے بعد زمینوں کا حساب چیک کررہے تھے جب ایک آدمی نے آکر بتایا

کون؟شھباز شاہ نے پوچھا

نام نہیں بتایا مگر میں نے مہمان خانے میں اُن کو بیٹھایا ہے خود کو آپ کا دوست بتارہے تھے گاؤں کے لگتے نہیں شاید کسی شہر سے آئے ہیں۔آدمی نے بتایا تو شھباز شاہ پرسوچ ہوئے۔

ٹھیک ہے اُس کی مہمان نوازی کا انتظام کرو میں آتا ہوں۔شھباز شاہ نے کہا تو وہ سرہلاتا چلاگیا تھوڑی دیر گُزرنے کے بعد شھباز شاہ بھی اُٹھ کر اپنا رخ مہمان خانے کی جانب کیا۔

السلام علیکم۔شھباز شاہ نے اندر آکر کسی کو پشت کیے کھڑا پایا تو سلام کیا جواب میں سامنے جو بھی تھا اُس نے اپنا رخ شھباز شاہ کی طرف کیا تو شھباز شاہ کو اپنا وجود سناٹوں کی زد میں آتا محسوس ہوا کیونکہ وہ جس شخصیت سے آج اُن کا سامنا ہوا تھا انہوں نے کبھی نہ ملنے کی خواہش کی تھی۔

وعلیکم السلام میرے یار کیسے ہو۔وہ چلتا ہوا بڑے گرمجوشی سے اُن سے ملنے لگا مگر شھباز شاہ کو ابھی بھی سب خواب سا لگ رہا تھا اُن کے اندر گرمجوشی کی تو دور کی بات ہلکی سی خوشی بھی نہیں تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی پورے گھر کی صفائی کرنے کے بعد ٹی وی دیکھنے بیٹھی تھی جب شازل اُس کے پاس آتا بیٹھ گیا۔

آپ نے لیٹ کردی آنے میں۔ماہی نے ٹی وی کی آواز کم کرکے پوچھا

ہممم کام تھا خیر تمہیں شاپنگ کروادوں اُس کے بعد ہمیں گاؤں کے لیے نکلنا ہے۔شازل کی بات پہ پہلے تو ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی مگر گاؤں جانے والی بات پہ اُس کے چہرے کی رنگت پل بھر میں متغیر ہوگئ تھی۔

گاؤں کیوں؟ماہی نے اپنی گھبراہٹ چُھپاکر پوچھا

حریم کی شادی ہے لالہ کا فون آیا گاؤں آنے کا حُکم دیا ہے۔شازل نے بتایا

حریم تو ابھی چھوٹی ہے نہ؟ماہی حریم کی شادی کا سن کر کجھ حیران ہوئی۔

ہاں چھوٹی ہے پر ہمارے یہاں زیادہ تر اِسی عمر میں لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے مطلب اگر پہلا رشتہ آئے تو ہم فورن انکار نہیں کرتے سوچتے ہیں کجھ پھر جب مناسب لگتا ہے تو ہاں کردیتے ہیں ہمارے یہاں منگنیوں کا جھنجھٹ نہیں ہوتا اور ڈائریکٹ نکاح ہوتا ہے پھر رخصتی کرنے میں ہم تاخیر نہیں کرتے ۔شازل نے بتایا

میرا جانا کیا ضروری ہے آپ کے ساتھ؟ماہی نے جھجھک کر پوچھا

بلکل ضروری ہے تم میری بیوی ہوں۔شازل نے فورن سے جواب دیا

میں ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہوں۔ماہی نے جیسے یاد کروایا

اگر تمہارے بھائی نے قتل نہیں کیا تو پریشان مت ہو سچ جلد سب کے سامنے آجائے گا۔شازل پُریقین لہجے میں بولا۔

پھر کیا ہوگا آپ مجھے میرے گھر چھوڑ دینگے؟ماہی کے اندر ایک ڈر سا بیٹھ گیا شازل کی بات پہ۔

تیار ہوجاؤ ہمیں شاپنگ کے بعد گاؤں کے لیے نکلنا ہے وقت بہت کم ہے۔شازل اُس کی بات نظرانداز کرتا اُٹھ کھڑا ہوا تو ماہی نے افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اماں جان حریم کہاں ہیں؟دُرید کلثوم بیگم کے پاس آتا حریم کا پوچھنے لگا۔

صدف آئی تھی اُس کو اپنے ساتھ لیکر گئ ہے۔کلثوم بیگم نے بتایا

خالہ جان آئی تھی پر حریم کو اپنے ساتھ کیوں لیکر گئ اور کہاں گئے ہیں وہ؟دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

نکاح کا جوڑا تو اُس نے اپنی پسند کا لیا تھا پر ولیمے کا جوڑا وہ حریم کو اُس کی پسند کا دِلانا چاہتی تھی تبھی ساتھ لیکر گئ ہے۔کلثوم بیگم نے وضاحت دی۔

ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا کیا آپ نے خالہ جان کو بتایا نہیں اور حریم پانی تک تو میری اِجازت سے پیتی نہیں خالہ جان کے ساتھ حویلی سے باہر چلی گئ مجھ سے پوچھنا تو دور بتانا تک گوارا نہیں کیا۔دُرید کو حریم کا اِس طرح جانا ہضم نہیں ہورہا تھا۔

پہلے کی بات اور ہوتی اب بات اور ہے حریم کا اور تمہارا رشتہ پہلے جیسا نہیں ہوسکتا نہیں نہ وہ اب بنا تمہاری اِجازت کے تمہاری کمرے میں آسکتی ہے نہ تم سے لاڈ اٹھوانا چاہے گی وہ اب تم سے فاصلہ کرے گی تم نے اُس کو ریجیکٹ کیا اور کوئی بھی لڑکی اپنا ریجیکشن برادشت نہیں کرسکتی خاص طور پہ اُس انسان سے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتی ہوں۔کلثوم بیگم سپاٹ انداز میں بولی تو دُرید کو اپنا زمین میں دھنستا محسوس ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم نے ٹِکٹ خرید لی؟فجر نے ارمان کو دیکھا تو پوچھا

آپ یہاں کیوں نہیں رہ لیتی یہاں سب ہیں سب سے بڑی بات یامین یہاں بہت خوش ہے۔ارمان نے اُس کے جانے کی بات سُنی تو بولا

مجھے یہاں رہنا پسند نہیں تم بس وہ بتاؤ جو پوچھا ہے۔فجر نے سنجیدگی سے کہا

جی آج شام کی ہے آپ تیار ہوجانا میں خود آپ کو چھوڑ آؤں گا۔ارمان نے گہری سانس بھر کر بتایا

تم کیوں ہم خود چلے جائے گا۔فجر نے کہا

سر کا حکم ہے۔ارمان نے بتایا

میں یمان سے خود بات کرلوں گی تمہیں زحمت دینے کی ضرورت نہیں۔فجر کجھ سوچ کر بولی

اِس میں زحمت والی تو کوئی بات نہیں آپ کو اگر مجھ سے مسئلہ ہے تو وہ الگ بات ہے۔ارمان نے کہا

مجھے تم سے کیا مسئلہ ہونا ہے؟فجر ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

آپ کو مجھ سے کیا مسئلہ ہے یہ تو آپ کو پتا ہوگا۔ارمان نے کندھے اُچکاکر کہا تو فجر نے گھور کر اُس کو دیکھا

تمہارا اتنا فضول بولنا ضروری ہوتا ہے کیا؟فجر نے طنزیہ کیا

آپ کا ہر بات میں گھورنا ضروری ہوتا ہے کیا انسان نارمل لہجے میں بات بھی کرسکتا ہے۔ارمان ترکی پہ ترکی بولا

تم سے بات ہی کیوں کررہی ہوں میں۔فجر اپنی عقل پہ ماتم کرتی جانے لگی۔

کیونکہ آپ کو مجھ سے بات کرنا اچھا لگ رہا ہے۔ارمان نے پیچھے سے ہانک لگائی جو فجر سِرے سے نظرانداز کرگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

سر آپ کجھ سُنا دیں۔یمان اپنے اسٹوڈیو جارہا تھا جب راستے میں اُس کے فینز نے آ گھیرا۔

گانا نہیں سُنا سکتا میرا گلا خراب ہے۔یمان نے کجھ اِس انداز سے کہا کے سب کی ہنسی نکل گئ۔

کوئی شعر کوئی غزل ہی سُنا دے محبت پہ یا جُدائی پہ آپ بہت اچھے سُناتے ہیں۔ایک فین نے اصرار کیا تو یمان کی پیشانی پہ سوچ کی پرچھائیاں چھائی۔

ٹھیک ہے۔یمان اتنا کہتا اپنا گلا کھنکارنے لگا۔

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں

درد دریا کہ کنارے تو نہیں ہوتے ناں 

رنجشیں ہجر کا معیار گٹھا دیتی ہیں

روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں

راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو 

وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں

ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے

بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں

ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے 

اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں

 اک شخص ہی ہوتا ہے متاع جاں بھی

دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں

یمان کہتا خاموش ہوا تو سب نے خوش ہوکر یاہو کا نعرہ لگایا

💕💕💕💕💕💕💕

کس سے پوچھ کر تم خالہ جان کے ساتھ گئ تھی؟حریم گھر واپس آئی تو دُرید نے سخت لہجے میں اُس سے پوچھا

ہم آپ کے جوابدہ نہیں۔حریم نے بے رخی سے کہا

حریم بدتمیزی مت کرو۔دُرید نے ٹوکا

ہمیں آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔حریم اپنے لہجے میں ناگواری سموئے بولی تو دُرید دنگ سا اُس کو دیکھتا رہا جو بلکل اجنیوں سے زیادہ رُوخے لہجے میں اُس سے بات کررہی تھی یہ اُس کی حریم تو نہیں تھی جو چنچل سی ہوتی تھی جو ایک ایک لفظ تک سوچ سمجھ کر اُس کے سامنے ادا کیا کرتی تھی۔

تم ایسی تو نہیں تھی اتنی جلدی بدل گئ ہو تم۔دُرید کے لہجے میں افسوس تھا اُس کو حریم کا ایسا بات کرنا تکلیف پہنچا رہا تھا۔

آپ کو پتا ہے جب آپ نے ہمارے چہرے پہ تھپڑ مارا تھا تو ٹیس ہمارے دل میں اُٹھی تھی ہم اُس ٹیس اُس کو تکلیف کو نظرانداز کیے اپنی عزت نفس کو مجروح کیے اپنی انا کو مار کر ایک بار پھر خود کو آپ کے سامنے بے مول کیا تھا اور آپ نے کیا کیا تھا ہمیں خالی ہاتھ لوٹا دیا ہم نے کیا چاہا تھا بس آپ سے آپ کا نام چاہا تھا ہماری ڈیمانڈ کوئی بڑی تو نہیں تھی ہم آپ کے کمرے کے کسی کونے میں پڑے رہتے آپ سے اف تک نہ کہتے آپ کا ہر ظلم مسکراکر سہہ جاتے ہم نے کوئی آپ سے یہ تو نہیں کہا تھا ہمیں آپ کی محبت چاہیے ہمیں آپ کی توجہ چاہیے ہم نے بس یہ کہا تھا ہمیں اپنے نکاح میں لے اُس کے بعد چاہے آپ ہم پہ ایک نظر نہ ڈال لیتے کوئی حقیر چیز سمجھ لیتے مگر ہمیں تب ایک چیز کا افسوس تو نہ ہوتا کے ہم نے جس کو دل دیا ہے وہ ہمارا نامحرم نہیں بلکہ محرم ہے اِس جہاں میں اُس کا ساتھ نہ بھی ملا تو خیر تو اُس جہاں میں ضرور ملے گا جو کی دائمی ہے مگر افسوس اب ہماری زندگی میں بس پچھتاوا رہے گا کے ہم نے خیانت کی ہے اُس انسان کے ساتھ جس کو اللہ نے ہمارے لیے چُنا تھا اور ہم شیطان کے بہکاوے میں آکر کسی نامحرم سے عشق کر بیٹھے جو کبھی ہمارا تھا ہی نہیں یہ تو بس ہمارا خود کا وہم تھا۔حریم ایک کے بعد ایک وار دُرید کے دل پہ کرتی چلی گئ وہ تو بس شد سا اُس کی دیوانگی دیکھ رہا تھا حریم کی آنکھوں سے نکلتے آنسو اُس کو کس تکلیف سے دوچار کررہے تھے وہ کوئی اُس سے پوچھتا۔

میں نے بس تمہیں ہمیشہ سے بچی سمجھا۔دُرید نے کمزور سی دلیل دی۔

کاش آپ ہمیں جذبات رکھنے والا انسان بھی سمجھتے آپ کو پتا ہے وقت آنے پہ جب آپ کو آپ کی زیادتی کا احساس ہوگا اور آپ ہمارے پاس آکر شادی کی پیش کش رکھے گیں تو خُدا کی قسم ہم انکار کردینگے کیونکہ ہم اُن میں سے نہیں جو ایک ہی پتھر سے بار بار ٹھوکر کھاتے ہیں۔حریم بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی وہاں رُکی نہیں تھی پیچھے دُرید شاہ کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زوردار تماچا مار کر اپنے تھپڑ کا حساب برابر کرگئ ہو۔

اپنے کمرے میں آکر اُس نے کھینچ کر اپنا حجاب اُتارا اور عبایا اُتار کر نیچے پھینک دیا دُرید کے سامنے تو وہ اپنے اندر کا غبار نکال آئی تھی مگر اب اُس کو خود پہ انتہا کا غصہ آرہا تھا وہ پاگلوں کی طرح در پہ در خود کو تھپڑ مارنے لگی۔

کیوں اتنی باتیں سنائی ہم نے اُنہیں کیا ہماری محبت ایسی ہے زلیل کرنے والی آخر کیوں ہمارے دل نے ہم رسوا کردیا کیوں ہم نے اُس کی سُنی کیوں۔حریم زور سے اپنا گال پہ تھپڑ مار کر خود پہ غصہ اُتارنے لگی۔

ہمیں آپ سے محبت کبھی نہ ہوتی اگر آپ ہمیں اتنی محبت نہ دیتے۔حریم تصور میں اُس کو مخاطب ہوتی رو پڑی۔

سوچوں تو ساری عمر محبت میں گزر گئی

دیکھوں تو ایک شخص بھی میرا نہیں ہوا.

💕💕💕💕💕💕💕💕

د دلاور۔شھباز شاہ کی آواز میں لڑکھڑاہٹ واضع تھی اُن کو یقین نہیں آرہا تھا اتنے سالوں بعد وہ دلاور خان سے مل پائے گے۔

بہت سال گُزرگئے تمہاری تلاش میں ہم آپس میں جگری یار تھے مگر تم نے کبھی مجھے اپنے گاؤں کا نام تک نہیں بتایا نہ ہی رابطہ جس سے تمہارا پوچھتا سب لاعلمی کا اظہار کرتے۔دلاور خان اُن کے گلے ملتے پرجوش آواز میں بولے اُن کی آواز میں کھنک سی تھی چہرہ خوشی کے مارے چمک رہا تھا اُن کے برعکس شھباز شاہ کا جیسے سارا خون چہرے پہ سمٹ سا گیا ہو۔

شاہ تمہیں مجھے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی کیا؟دلاور خان نے اُن کی خاموشی نوٹ کیے پوچھا

ا ای ایسی بات نہیں بس اتنے سالوں بعد یوں اچانک تمہیں دیکھ کر بس حیران سا ہوگیا ہوں۔شھباز شاہ اپنی حالت پہ قابو کیے بولے۔

بس دیکھ لو میں  نے تمہیں تلاش کرلیا۔دلاور خان شرارت سے کہا

بیٹھو۔شھباز شاہ نے بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔

تم بلکل نہیں بدلے۔دلاور خان نے غور سے اُن کی جانب دیکھ کر کہا

کیسے آنا ہوا؟شھباز شاہ نے کسی فالتو بات کو طویل نہ دی سیدھا اصل بات پہ آئے۔

تم سے ملنے آیا تھا اور اپنی امانت لینے آیا ہوں۔دلاور خان پرسکون لہجے میں کہا۔

کونسی امانت؟شھباز شاہ نے بے خبری کا مظاہرہ کیا۔

اپنی بیٹی حور کو لینے آیا ہوں جو تمہیں دی تھی چوبیس سال پہلے امانت کے طور پہ۔دلاور خان کو اُن کے ایسے پوچھنے کی سمجھ نہیں آئی تھی اُن کا دل انجانے خوف سے دھڑک اُٹھا تھا۔

وہ چوبیس سال پُرانی بات تھی جو چوبیس سال پہلے ختم ہوچکی ہے۔شھباز شاہ کے لہجے میں بلا کا اعتماد آ چُکا تھا۔

شاہ بات ختم نہیں ہوئی تھی مت بھولوں میں نے اپنی بیٹی اپنا خون تمہیں سونپا تھا اعتبار کیا تھا اگر تمہیں یاد نہ ہو تو کروادوں تم نے واعدہ کیا تھا امانت میں خیانت نہیں کروں گے۔دلاور خان کو غصہ آگیا تھا۔

پٹھان کا خون جوش مار رہا ہے۔شھباز شاہ اتنے کہہ کر ہنس پڑے

خان تمہارے پاس چار بیٹیاں ہیں نہ اُن کے ساتھ خوش رہو بھلا اولاد بھی کوئی امانت میں دینے والی چیز ہے۔شھباز شاہ نے کہا

میری بیٹی کہاں ہے؟دلار خان نے سرد انداز میں پوچھا

اپنے گھر میں ہے تمہیں یہ تو یاد ہے میں نے کیا کہا تھا تو یہ بھی یاد ہوگا تم نے کیا کہا تھا میری بیٹی کو اپنا نام دو تو میں نے اُس کو اپنا نام دے دیا اب تم جس کو لینے آئے ہو بطور امانت تو وہ شھباز شاہ کی بیٹی ہے تین یا چار کی نہیں ماشااللہ سے چوبیس سال کی ہے وہ کبھی تمہیں اپنا باپ تسلیم نہیں کرے گے کیونکہ اُس کی نظر میں اُس کا باپ شھباز شاہ ہے اور وہ شھباز شاہ سے پیار کرتی ہے اُس کے ہر ڈاکیومینٹس میں کوئی حور دلاور خان نہیں بلکہ سیدہ آروش شھباز شاہ ملے گی بچہ جب بولنے لگتا ہے تو ماں لفظ نکالتا ہے جب کی جس کو تم اپنی بیٹی بول رہے ہو اُس نے پہلا لفظ مجھے دیکھ کر بابا بولا تھا رات کے وقت سونے کے لیے بچے کو زیادہ تر ماں کی ضرورت ہے مگر آروش کو جب تک رات میں گود میں نہ اُٹھاتا اُس کو نیند نہیں آتی تھی اُس کا آئیڈیل باپ فلم انڈسٹری میں کام کرنے والا دلاور خان نہیں وہ کسی دلاور خان کو نہیں جانتی اگر جانتی بھی ہوگی تو بس اِس حیثیت سے کے فلاں فلم کا ڈائریکٹر دلاور خان تھا فلاں فلم کا رائٹر دلاور خان تھا آروش شاہ کی زندگی تین مردوں کے گرد گھومتی ہے پہلا شھباز شاہ جو اُس کا باپ ہے دوسرا دُرید شاہ جو اُس کا بھائی جس کو لالہ لالہ کہتے وہ نہیں تھکتی اور تیسرا شازل شاہ جس میں اُس کی جان بستی ہے تم خود سوچو کیا وہ تمہارے پاس آئے گی بس یہ سن کرکے تم اُس کے حقیقی باپ ہو یہ سن کر کیا وہ اپنی زندگی کے وہ چوبیس سال بھول جائے گی جہاں اُس نے اپنی آنکھ کھولی جہاں اُس نے چلنا سیکھا۔شھباز شاہ نے مغرور لہجے میں کہا اُن کے ہر ایک لفظ پہ غرور اور حقیقت کی جھلک تھی۔

تو میں یہ سمجھو میرا دوست غدار نکلا کیونکہ اسلام ہمیں یہ اجازت نہیں دیتا کے کسی بچے کے نام پہ اُس کے اصل باپ کے علاوہ کسی اور کا نام لگایا جائے مجھے افسوس ہوا جان کر تم نے کبھی حور کو یہ نہیں بتایا اُس کا باپ کون ہے۔دلاور خان کو تکلیف ہوئی اپنے جگری دوست سے ایسی باتیں سن کر

حور نہیں آروش شاہ کہو دوسری بات شھباز شاہ اپنے قول کا پکا ہے میں تم سے غداری نہیں کروں گا۔شھباز شاہ سنجیدگی سے بولے

مجھے میری بیٹی چاہیے اُس کے لیے میں تمہیں منہ مانگی قیمتی دوں گا۔دلاور خان کا یقین شھباز سے اُٹھ گیا تھا۔

میں تم اپنا سب کجھ دیتا ہوں زمینے کاروبار روپیا پئسا بس تم جس خاموشی سے آئے ہو اُس خاموشی سے چلے جاؤ کے تمہاری کوئی پانچویں بیٹی بھی ہے۔شھباز شاہ نے کہا

میں اپنی بیٹی کا سودا نہیں کروں گا۔دلاور خان ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

غصہ آیا نہ سن کر اُس بیٹی کے لیے جس کو تم نے بس چند گھنٹے اپنی بانہوں میں اُٹھایا تھا تو سوچو مجھے کتنا غصہ آیا ہوگا تمہاری بات سن کر میں نے چوبیس سال سے اُس کو بیٹی بنا کر رکھا اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ اُس کو محبت دی کیا میں اُس کا سودا کروں گا۔شھباز شاہ بھی اُٹھ کر طنز کیا۔

دیکھو شاہ وہ میری بیٹی ہے یہ ایک ایسی حقیت ہے جس کو تم جھٹلا نہیں سکتے پیار دینے سے وہ تمہاری بیٹی نہیں ہو سکتی۔دلاور خان نے کہا

ٹھیک کہا میں نہیں چاہوں گا ہماری دوستی میں کوئی رکاوٹ آئے میں نے تم سے امانت لی تھی امانت واپس بھی کروں گا پر اُس کے لیے مجھے وقت چاہیے۔شھباز شاہ نے کجھ سوچ کر کہا

وقت کیوں؟دلاور خان نے پوچھا دل کے کسی کونے میں سکون کی لہر ڈورگئ تھی۔

میں نے کہا نہ وہ کوئی چار یا پانچ سال کی بچی نہیں جس کو تم بتاؤ گے میں تمہارا باپ ہوں تو وہ تمہارے ساتھ لپٹ جائے گی چوبیس سال اُس نے جس کو اپنا باپ سمجھا وہ اُس باپ نہیں اُس کو حقیقت بتانے کے لیے وقت چاہیے حویلی میں کسی کو نہیں پتا آروش کا سوائے میرے اور میری بیوی کے بہت لوگوں کو سمجھانا ہے اُس کے بھائی ہیں جو کبھی اُس کو جانے نہیں دینگے اُن کو سنبھالنے کے لیے وقت چاہیے۔شھباز شاہ نے کہا پہلے جو اُن کی نیت بدل گئ تھی اب اچانک سے انہوں نے اپنے دل کو ڈپٹ دیا تھا۔

ایک دفع میں اپنی بیٹی کو دیکھ لوں اُس کی کوئی تصویر وغیرہ بھی مل جاتی تو اچھا ہوتا اُس کی ماں دیکھ لیتی تو چین آجاتا۔دلاور خان نے کہا

ہمارے یہاں فلحال شادی کا ماحول ہے وہ گُزرجائے خیریت سے اُس کے بعد تم اپنی امانت لیکر جاسکتے ہو مگر ہم جب چاہے آروش سے مل سکتے ہیں اُس پہ کوئی پابندی نہیں ہوگی۔شھباز شاہ نے ابھی سے دو ٹوک کہا۔

اُس کے لیے تم پریشان مت ہونا کیونکہ مجھے پتا ہے میری بیٹی پر میرے سے زیادہ تمہارا حق ہے۔دلاور خان نے پہلی بار مسکراکر کہا۔

ہممم کجھ ماہ پھر صبر کرو۔شھباز شاہ نے کہا

دو ماہ بعد حور کی سالگرہ ہے اُس سے پہلے اگر چلتی تو۔دلاور خان اتنا کہتے چپ ہوگئے۔

میں پھر بتاؤں گا سوچ کر تم اپنا نمبر دیتے جاؤ۔شھباز شاہ نے کہا

میرا نمبر وہی ہے جو آج سے چوبیس سال پہلے تھا میں نے چینج نہیں کیا کیونکہ مجھے لگتا تھا شاید تم کوئی رابطہ کرو۔دلاور خان نے مسکراکر کہا

ٹھیک ہے پھر میں تمہیں کال پہ بتادوں گا۔شھباز شاہ نے گہری سانس بھر کر کہا تو انہوں سر کو خم دیا شھباز شاہ کے سینے میں اُداسی سی پھیل گئ تھی۔

ویسے میری بیٹی دیکھنے میں کسی ہے؟دلاور خان کو اچانک خیال آیا تو اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا

تمہاری کاپی ہے بس آنکھوں کا رنگ مختلف ہے پٹھانوں کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر پٹھانوں والا غصہ اُس کو نہیں آتا۔شھباز شاہ نے بتایا تو ان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕 

اُداس کیوں ہو؟شازل گاڑی ڈرائیو کرتا خاموش بیٹھی ماہی سے بولا وہ دونوں گاؤں جانے کے لیے نکل گئے تھے۔

اُداس نہیں ہوں۔ماہی نے گہری سانس بھر کر کہا

پھر کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے ورنہ تو ایسے تم خاموش نہیں بیٹھا کرتی۔شازل نے ماحول میں چھائی خاموشی کو ختم کرنے کے غرض سے مزاحیہ انداز اپنایا

بس اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی کیا سے کیا ہوگئ ہے میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا جیسا میرا ساتھ ہوگیا ہے۔ماہی نے کھوئے انداز میں کہا تو شازل نے گردن موڑ کر اُس کو دیکھا آج اُس کو ماہی بہت سنجیدہ لگی ورنہ جب پہلی بار وہ اُس سے ملا تھا تھوڑا ڈری سہمی ضرور تھی مگر وہ ایسی باتیں نہیں کیا کرتی تھی۔

کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ اچھی خاصی زندگی تو گُزر رہی ہے تمہاری۔شازل نے ایسا کہا جیسے کجھ جانتا ہی نہ ہو۔

آپ کو کیا نہیں پتا میں کس بارے میں بات کررہی ہو؟ماہی نے پوچھا

دیکھو ماہی۔شازل نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو اُس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔

مانا کے تمہاری شادی عام حالات میں نہیں ہوئی اپنے مستقبل کے لیے تم نے بھی کجھ سوچا ہوگا مگر میں ایک بات کلیئر کردینا چاہتا ہوں میری وجہ سے تمہیں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی میں کبھی تمہاری خواہشات میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔شازل نے مان بھرے لہجے میں کہا تو اُس کے چہرے پہ اطمینان بِکھرا تبھی بنا کجھ کہے اُس نے اپنا شازل کے بازوں پہ رکھ دیا اُس کی حرکت پہ شازل محض مسکرادیا

گانا سُننا چاہوں گی؟شازل نے پوچھا

ضرور۔ماہی نے جھٹ سے کہا تو شازل نے سونگ آن کیا۔

دل مانگ رہا ہے مہلت

تیرے ساتھ دھڑکنے کی

 تیرے نام سے جینے کی

 تیرے نام سے مرنے کی

گانا چلنے کی وجہ سے ماحول اچانک سے ماہی کو رومانٹک ہوتا محسوس ہوا تو وہ شازل کو گانا سننے کی حامی پہ جی بھر کر پچھتائی تھی اُس نے اپنا سر آہستہ سے شازل کے بازوں سے ہٹادیا پھر اپنا دھیان گانے کے بجائے کھڑکی سے باہر چلتے مناظر پہ جمادی۔

دل مانگ رہا ہے مہلت

تیرے ساتھ دھڑکنے کی

 تیرے نام سے جینے کی

 تیرے نام سے مرنے کی

تیرے سنگ چلوں ہر پل

بن کرکے پرچھائی 

ایک بار اجازت دے

مجھے خود میں ڈھلنے کی

گانا سٹاپ کردے یا کوئی اور لگادے۔ماہی کی اچانک کی گئ بات پہ شازل نے چونک کر اُس کو دیکھا

کیوں؟شازل نے تعجب سے پوچھا اُس کا سارا دھیان گانے کے بجائے ڈرائیونگ پہ تھا جس وجہ سے وہ سمجھ نہیں پایا ماہی آخر کس چیز پہ خفت کا شکار ہورہی ہے۔

بس ایسے۔ماہی اُس کی جانب دیکھے بنا بولی

دیکھا ہے جب سے تجھ کو 

میں نے یہ جانا ہے میرے

خواہش کے شہر میں

بس تیرا ٹھکانا ہے

میں بھول گیا خود کو بھی

بس یاد رہا ہے توں آ تیری ہتھیلی 

پہ اِس دل کو میں رکھ لوں

دل بول رہا ہے حسرت 

ہر حد سے گُزرنے کی

 تیرے نام سے جینے کی

تیرے نام سے مرنے کی

شازل نے اب گانے پہ غور کیا تو جیسے وہ ساری بات کی تہہ تک پہنچ گیا اُس کے چہرے پہ اچانک معنی خیز مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

میں نہیں کرنے والا بند لمبا سفر ہے میں بور ہوجاؤں گا تم تو کجھ منٹس میں آرام سے سوجاؤں گی میرے کندھے پہ سر رکھ کر میں کس کے کندھے پہ سر رکھوں گا۔شازل نے مزے سے کہا تو ماہی نے دانت کچکچائے اُس کے بعد شازل نے سوائے اِس گانے کے کوئی اور گانا نہیں سُنا تھا ماہی سوائے ضبط کے کجھ نہیں کرپائی وہ سمجھ گئ تھی شازل جان بوجھ کر اُسے زچ کررہا ہے اور واللہ وہ زچ کرنے میں انتہا کردیتا ہے۔

جانے کیا سکون ملتا ہے مجھے بے سکون کرنے پہ۔ٹیڑھی نظروں سے شازل کو دیکھ کر وہ بس سوچ سکی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کاش آپ ہمیں جذبات رکھنے والا انسان بھی سمجھتے آپ کو پتا ہے وقت آنے پہ جب آپ کو آپ کی زیادتی کا احساس ہوگا اور آپ ہمارے پاس آکر شادی کی پیش کش رکھے گیں تو خُدا کی قسم ہم انکار کردینگے کیونکہ ہم اُن میں سے نہیں جو ایک ہی پتھر سے بار بار ٹھوکر کھاتے ہیں۔

 رات کا وقت تھا دُرید سونے کی کوشش کرنے میں تھا مگر نیند اُس کی آنکھوں سے کوسو دور تھی اُس کے کانوں میں بار بار حریم کے جملے گونج رہے تھے جو اُس کو پریشان کررہا تھا وہ کروٹ پہ کروٹ بدلتا پریشان ہوا تو تھک ہار بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

کیسے کہوں حریم تم مجھے عزیز ہو مگر میں تمہیں وہ پیار نہیں دے سکتا جو تم ڈیزرو کرتی ہوں مجھے تم سے محبت ہے مگر وہ نہیں جو تمہیں مجھ سے ہے جو تم مجھ سے چاہتی ہو۔دُرید اپنا سر ہاتھوں میں گِراتا تصور میں حریم سے مخاطب ہوا اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار حریم کی روئی روئی آنکھیں آ رہی تھی جو اُس کو بے چین کررہی تھی۔

میری دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو تابش کے ساتھ وہ تمہیں ہر وہ چیز دے جو تم ڈیزور کرتی ہو۔دُرید کے چہرے پہ بھولی بُسری مسکراہٹ آئی اُس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا والٹ اُٹھاکر کُھولا جہاں کومل کی تصویر آج بھی موجود تھی تصویر دیکھ کر اُس نے گہری سانس خارج۔

میں تمہارا مجرم ہوں مجھے معاف کردینا نہ میں تمہیں گاؤں آنے کا کہتا اور نہ تمہاری جان جاتی۔تصویر کو دیکھ کر دُرید نے بے ساختہ سوچا

اے میری گُل زر میں تجھے چاہ تھی کتاب کی

اہل کتاب نے مگر۔کیا حال تیرا کردیا

ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا

ہم نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کردیا

میرے لبوں پہ مہر تھی؛پر مہرے شیشہ رونے تو

شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا

چہرہ نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے

وقت نے کس شبیہہ کو خواب وخیال کردیا

💕💕💕💕💕💕

یمان آج اپنے سیکریٹ روم آیا تھا جو اُس نے دلاور خان کے گھر میں ہی تھا مگر یمان نے کبھی کسی کو وہاں آنے کی اجازت نہیں دی تھی جبھی دلاور خان نے اُس کو سیکریٹ روم کا نام دیا تھا اور بہت بار یمان کو چِڑایا بھی تھا یمان کمرے میں داخل ہوتا دروازے کو بند کیے آس پاس دیکھنے لگا جہاں سِوائے ایک پینٹنگ کے کجھ نہیں تھا یمان چلتا ہوا پینٹنگ کے پاس آیا اور اُس کے اُپر سے پردہ ہٹایا تو شُہد آنکھوں کا اسکیچ اُس کے سامنے تھا دلاور خان کو شک ہوا تھا کے یمان نے اِس کمرے میں شاید اُس لڑکی کی کوئی تصویر رکھی ہے تبھی یمان نے پینٹگ کے نام پہ وہ اسکیج یہاں محفوظ کیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اِس بات کی کسی کو بھنک پڑے۔

سب کہتے ہیں آپ کو بھول جاؤں پر میرے دل سے آپ جاتی ہی نہیں میں آپ کا اسیر بن گیا تھا سالوں پہلے اور آج بھی آپ اسیر ہوں۔یمان سامنے کی جانب دیکھتا ایسے بولا جیسے وہ سچ میں اُس کے سامنے کھڑی اُس کی باتیں سن رہی ہوں۔

میں نے کہی پڑھا تھا۔

وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن

وہ جو نہ چاہے تو کیا کرے کوئی۔

اگر ایسا ہے تو مجھے لگتا ہے آپ کا اور میرا سامنا ضرور ہوگا ورنہ کسی کے لیے محبت بے وجہ تو نہیں ہوتی۔یمان کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوں آج بھی تازہ تھے۔

حدود عشق کی جانچ کے پیمانے نہیں ہوتے

وہ جومخلص ہوں ہرایک کے دیوانے نہیں ہوتے

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ سائیں خیریت آج آپ نے آنے میں دیر کردی رات کے دو بج رہے ہیں۔شھباز شاہ حویلی میں داخل ہوئے تو کلثوم بیگم پریشانی سے پوچھنے لگی۔

میں کجھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔شھباز شاہ اُن کی جانب دیکھے بغیر بول کر اپنے کمرے میں جانے کے بجائے اسٹڈی روم میں داخل ہوئے جہاں ڈھیر ساری کتابوں کا مجموعہ تو تھا ہی مگر دیوار پہ بچپن سے لیکر مختلف جگہوں پہ کھینچی گئ آروش کی تصاویر بھی تھی جس میں کہی وہ چلنا سیکھ رہی تھی تو کسی تصویر میں دُرید شاہ اور شازل شاہ کو گھوڑا بنایا ہوا تھا اور خود اُن کے اُپر بیٹھی ہوئی تھی کہی وہ کھیل رہی تھی تو کہی رونے والی شکل بنائی ہوئی تھی اور کجھ تصویر اُس کے اسکول میں لی گئی تھی شھباز شاہ اُن سب تصاویر پہ نظر ڈالنے کے بعد وہ وقت یاد کرنے لگے جب انہوں نے بیٹی جیسی رحمت کو پایا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماضی!

ہسپتال کے کوریڈور میں تیس سالہ نوجوان یہاں سے وہاں چکر لگانے میں مصروف تھا اُن کا دل تیز رفتار سے دھڑک تھا اُن کی بیوی حاملہ تھا اور آج وہ اُن کی خواہش کو پُورا کرنے والی تھی اُن کو بیٹی کی صورت میں شھباز شاہ جن کو گاؤں کا سرپنج بنے ابھی کجھ عرصہ ہی ہوا تھا اُن کو کسی وارث کی خواہش نہیں بلکہ پھول جیسی بیٹی کی تمنا تھی جو آج دس سال بعد دو بیٹے کے پیدا ہونے کے بعد اُن کو ایک بیٹی بھی مل رہی تھی جن کے لیے انہوں نے بہت ساری دعائیں بھی کی تھی اپنی بیوی کلثوم کے حاملہ ہونے کے وقت وہ ان کا خیال تو بہت رکھتے تھے مگر جب سے ان کو پتا چلا تھا اِس بار اللہ کے حکم سے بیٹی ہے تو اُنہوں اپنے گاؤں میں کسی دائی سے رجوع نہیں کیا تھا بلکہ اُن کو لیکر شہر آگئے تھے تاکہ اُن کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو اُن کے اِس طرح شہر آجانے سے اُن کی باپ اسداللہ نے اور ماں مہتاب بیگم نے اعتراض تو بہت اُٹھایا تھا مگر شھباز شاہ سب کو راضی کیے شہر آگئے تھے اِس وقت اُن کا ہر عضو دعا میں مشغول تھا کے اُن کی بیٹی صحیح سلامت ہو کیونکہ ڈاکٹرز نے اُن کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا مگر اُن کے اندر ایک اُمید تھی کے اُن کی بیٹی صحیح سلامت ہی ہوگی مگر اللہ کو شاید کجھ اور ہی منظور تھا۔

شاہ سائیں۔ایک فیمل ڈاکٹر نے اُن کو آواز دی تو شھباز سے تیر کی تیزی سے اُن کی جانب پہنچے تھے۔

کیسی ہے ہماری بیٹی؟ان کی آواز میں بلا کا رعب تھا جس کو محسوس کرتی ڈاکٹر کے وجود میں سنسی سی ڈور گئ تھی۔

آپ کی بیوی نے مُردہ بیٹی کو جنم دیا ہے۔ڈاکٹر نے ڈر ڈر کے بتایا تو شھباز شاہ کو لگا جیسے کسی نے اُن پہ پہاڑ گِرادیا ہو اُن کے خواب اُن کی خواہشات جو بیٹی کے روپ میں انہوں نے سوچے ہوئی تھی وہ کرچی کرچی ہوگئ تھی۔

یہ جھوٹ ہے ایسا کیسا ہوسکتا ہے۔شھباز شاہ بے یقین لہجے میں بولے۔

یہ سچ ہے شاہ سائیں ہم نے آپ کو پہلے سے بتادیا تھا بچہ ٹھیک کنڈیشن نہیں اُس کو گِرادے ماں کے پیٹ سے کیونکہ ایسے میں ماں اور بچہ دونوں خطرے میں مگر آپ نے بات نہیں مانی آپ کی بیوی تو اللہ کے حکم سے ٹھیک ہے مگر بچی نہیں۔ڈاکٹر نے بتایا تو شھباز شاہ نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچ کر باہر آتی نمی کو اندر دھکیلا وہ تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں گئے جہاں کلثوم بیگم کو رکھا گیا تھا  وہ جیسے ہی اندر آئے نرس نے مردہ بیٹی اُن کے سامنے کی جس کو دیکھ کر اُن کا دل تڑپ اُٹھا تھا انہوں نرس کو باہر جانے کا اِشارہ کیا اور خود کلثوم بیگم کی جانب آئے جنہوں نے رو رو کر اپنا حال بے حال کردیا تھا۔

مجھے معاف کردے شاہ سائیں میں آپ کو بیٹی جیسی رحمت نہیں دے سکی۔کلثوم بیگم نے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو کر بولی ضبط سے شھباز شاہ کی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں ہورہے تھے جن کو دیکھ کر کلثوم بیگم کا دل خوفزدہ ہورہا تھا۔

یہ دیکھو۔شھباز شاہ نے اپنی جیب کی پاکٹ سے ایک چھوٹی سی خوبصورت چین نکال کر اُن کے سامنے کی جو ہارٹ شیپ پہ بنی ہوئی تھی کلثوم بیگم کانپتے ہاتھوں سے وہ چین اپنے ہاتھ میں لیکر اُس کو کھولا تو ہارٹ کی ایک سائیڈ پہ بڑے خوبصورت طریقے سے آروش شاہ نام کُندہ ہوا تھا جن کو دیکھ کر ان کے رونے میں روانگی آئی تھی۔

میں نے اپنی بیٹی کا نام بھی سوچ لیا تھا۔شھباز شاہ گھمبیر لہجے میں بولے 

اللہ کو یہی منظور تھا۔کلثوم بیگم نے کہا جبھی شھباز شاہ کا موبائل رِنگ کرنے لگا پہلے تو انہوں نے خاص توجہ نہ دی مگر بار بار کالز آنے پہ وہ موبائل کو بند کرنے والے تھے مگر اسکرین پہ خان کالنگ دیکھ کر اُنہوں کے کال اٹینڈ کرلی کیونکہ کال کرنے والا اُن کا جگری دوست تھا جس کو وہ نظرانداز نہیں کرسکتے تھے

السلام علیکم۔شھباز شاہ اپنا لہجہ نارمل کیے سلام کیا۔

وعلیکم السلام۔کیا تم اسلام آباد آسکتے ہو؟دوسری طرف بڑی سنجیدگی سے کہا گیا تھا۔

میں اسلام آباد میں ہوں تم بتاؤ کیا بات ہے خان؟ پریشان لگ رہے ہو۔شھباز شاہ اُٹھ کر کمرے سے باہر آکر اُن سے بولے۔

میں پریشان ہوں بس تم جلدی سے میرے بتائے ہوئے ہسپتال پہنچ جاؤ۔خان جن کا پورا نام دلاور خان تھا وہ بولے 

میں آتا ہوں۔شھباز شاہ نے مثبت جواب دے کر کال کٹ کردی۔پھر واپس کمرے میں کلثوم بیگم کے پاس آئے۔

میں کسی کام سے باہر جارہا ہوں جلدی واپس آجاؤں گا تب تک تم آرام کرو۔شھباز شاہ نے سنجیدہ بھرے لہجے میں اُن سے کہا

آپ نے حویلی میں کسی کو خبر دی۔کلثوم بیگم اُن کی بات پہ بس یہ بولی۔

میری ہمت نہیں جب واپس جائے گے تب خود بتادینا کل سے اُن کی کال پہ کال آرہی ہے مگر میں ریسیو نہیں کررہا تھا۔شھباز شاہ کے لہجے میں ایک دکھ تھا۔

مع

تم معافی مت مانگوں میں کام سے جارہا ہوں جلدی واپس آؤں گا۔کلثوم بیگم کی بات درمیان کاٹ کر وہ سپاٹ انداز میں اُن سے بول کر باہر نکل گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان کیا بات ہے اتنی ایمرجنسی میں مجھے کیوں بُلایا؟شھباز شاہ دلاور خان کے بتائے ہوئے ہسپتال پہنچ کر پریشان کن لہجے میں اُن سے بولے تو دلاور خان اُن کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف لے گئے جہاں فلوقت کوئی نہیں تھا۔ 

تمہیں پتا ہے میں اپنے سب دوستوں سے زیادہ تم پہ اعتبار کرتا ہوں اور اِسی اعتبار کی وجہ سے میں نے تمہیں یہاں آنے کا کہا اُمید ہے تم میری لاج رکھو گے۔ہسپتال کے کوریڈور میں دلاور خان جس کی بانہوں میں نو مولوں بچہ تھا اُس نے اپنے سامنے کھڑے شھباز شاہ  سے کہا جو اُن کا ہم عمر تھا اور ایک اچھا مضلص دوست تھا

بلکل میرے یار تم حکم کرو۔شھباز شاہ اپنا غم بھول کر اُن کا حوصلہ بڑھایا

تمہیں پتا ہے میری چار بیٹیاں ہیں ہمارے یہاں بچیوں کو ناپسند کیا جاتا ہے میری اماں حضور ان کو جانے کیسے برداشت کررہی ہیں پر اِس بار ان کی سخت تاکید تھی بیٹے کی ورنہ بیٹی اگر ہوئی تو جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔دلاور خان نے بے بسی سے بتایا

بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہے تمہیں اپنی اولاد کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔شھباز شاہ افسوس کا اظہارہ کیا بیٹی کی قدر اہمیت کوئی اُن سے پوچھتا

سب میرے خلاف ہے میرے کام کی وجہ سے اُس کے بعد پسند کی شادی پھر اب بیٹیاں۔اتنا کہتے دلاور خان خاموش ہوگیا

اب مجھ سے کیا چاہتے ہو تم۔گہری سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے شھباز شاہ نے پوچھا

میں چاہتا ہوں میری بچی کی پرورش تم کرو اُس کو اپنا نام دوں پر یہ میری امانت ہوگی جو وقت آنے پہ میں واپس لوں گا۔اپنے دوست  کی بات پہ شھباز شاہ کی نظر اُن کی  گود میں خوبصورت بچی پہ پڑی جس کی آنکھیں بند تھی انہوں نے بے اختیار اُس کو اپنی بانہوں میں بھر کر ماتھا چوما جس سے بچی کسمساکر اپنی آنکھیں کھول کر کبھی اُن کو دیکھتی تو کبھی اپنے اصل باپ کو۔

تمہاری بچی تو بہت پیاری ہے ماشااللہ۔شھباز شاہ نے محبت سے اُس بچی کو دیکھ کر  کہا تو اُن کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آئی

تم لیکر جاؤ گے پیار دو گے اُس کو باپ کا۔ دلاور خان نے آس بھرے لہجے میں پوچھا

ہاں اور میرا واعدہ ہے تمہاری بیٹی کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار دوں گا۔شھباز شاہ نے بچی کا چھوٹا سا ہاتھ چوم کر کہا اُن کی تو جیسے آج مُراد پوری ہوگئ تھی اپنی بیٹی کے مُردہ پیدا ہونے کا غم وہ یکسر بھول سے گئے تھے۔

 میری بچی کا بہت خیال رکھنا اُس کی ہر فرمائش پوری کرنا۔اب کی دلاور خان نے پرسکون لہجے میں کہا

کہا نہ پریشان مت ہو آج سے یہ میری بیٹی تمہیں نہیں پتا مجھے بیٹی کی کتنی چاہ تھی جو آج پوری ہوگئ۔شھباز شاہ پرجوش آواز میں بولے

امانت ہے میری بیٹی۔دلاور خان کا دل کسی خدشے کے تحت دھڑکا تبھی بولے

اور میں امانت میں خیانت نہیں کروں گا تم میرے جگری یار ہو تو کیسے میں تمہارے خون کو تکلیف دوں گا۔شھباز شاہ نے دل موہ لینے والا جواب دیا 

میں تمہارا تاعمر شکرگُزار رہوں گا اور اِس کا نام حور رکھنا۔دلاور خان نے سکون بھری سانس کھینچ کر کہا تو انہوں نے محض سر کو جنبش دی۔

تین یا چار سال بعد میں آؤں گا واپس لینے بس تب تک تم خیال رکھنا میں اپنے بیوی بچوں سمیت باہر سیٹل ہونے کا سوچ رہا ہوں۔دلاور خان نے بتایا۔

ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں میری بیوی ہسپتال میں اکیلی ہے۔شھباز شاہ نے کہا

کیوں ویسے خیریت تو ہے؟دلاور خان نے پوچھا

ہاں بس اللہ کا شکر ہے۔شھباز شاہ نے مسکراکر کہا 

💕💕💕💕💕💕💕

کلثوم۔شھباز شاہ نے ہسپتال پہنچ کر کلثوم بیگم کو آواز دی جو ابھی سوئی تھی۔

شاہ یہ کون۔کلثوم بیگم نے آنکھیں کھولی تو ان کی گود میں بچی دیکھ کر حیران ہوئی 

دلاور خان کی بیٹی تھی مگر اب یہ ہماری بیٹی ہے دیکھو ماشااللہ سے کتنی پیاری ہے۔شھباز شاہ کا چہرہ خوشی کے مارے چمک رہا تھا۔

کیا انہوں نے اپنی بیٹی ہمیں دے دی۔کلثوم بیگم بے یقین لہجے میں اُن سے استفسار ہوئی۔

وہ سب چھوڑو بس یہ بات یاد رکھو ہماری بیٹی مُردہ پیدا نہیں ہوئی یہ ہے ہماری بیٹی آروش شھباز شاہ۔شھباز شاہ اُن کی بات نظرانداز کیے بولی۔

شاہ سائیں مجھے سب سچ سچ بتائے۔کلثوم بیگم نے ساری حقیقت سے آگاہ ہونا چاہا۔

دلاور خان نے اپنی بیٹی مجھے امانت کے طور پہ دی ہے ان کے یہاں بیٹیوں کو منحوس کہا جاتا ہے اُس کے پاس چار بیٹیاں پہلے سے ہیں مگر پانچویں بیٹی کو خطرہ ہے اِس وجہ سے اُن نے مجھے دی ہے۔شھباز شاہ نے مختصر بتایا

اگر یہ امانت ہے تو ہماری بیٹی کیسے ہوئی آج نہیں تو کل انہوں نے واپس لینی ہے اپنی امانت۔کلثوم بیگم ساری بات سننے کے بعد بولی۔

کل کا سوچ کر آج کی خوشی برباد مت کرو بتایا نہ اُس کے پاس چار بیٹیاں پہلے سے موجود ہے تو اُس کو کہاں آروش یاد ہوگی۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

اولاد کیا بھولنے والی چیز ہے؟کلثوم بیگم نے سوال اُٹھایا۔

اُس کو نہیں پتا کجھ ویسے بھی میں اُس سے رابطہ ختم کرلوں گا۔شھباز شاہ کی نیت بدل گئ تھی۔

امانت میں خیانت کرینگے؟کلثوم بیگم کو افسوس ہوا۔

تمہیں بات بتائی ہے اب میری بات غور سے سُنو یہ آج سے ہماری بیٹی ہے حویلی میں سب کو یہی بتانا ہے ٹھیک ہے؟شھباز شاہ نے تائید کرتی نظروں سے اُن کو دیکھا تو کلثوم بیگم نے اپنا سراثبات میں ہلایا

گُڈ کوشش کرنا دیدار اور دلدار میری بیٹی کے دودھ شریک بھائی بن جائے کیونکہ میں نہیں چاہتا میری بیٹی حویلی میں قید رہے حویلی میں سب اُس کے اپنے ہوگے تو یہ تتلی کی طرح ہر جگہ اُڑا کرے گی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔شھباز شاہ بچی کا ماتھا چوم کر بولے تو کلثوم بیگم بس اُن کی بیٹی کے لیے دیوانگی دیکھتی رہ گئ اگر اپنے دوست کی بیٹی سے اتنا پیار ہے تو خود کی بیٹی کے لیے تو جانے کیا کر گُزرتے۔کلثوم بیگم جھرجھری لیکر بس سوچ سکی۔

مجھے دے۔کلثوم بیگم نے اُن کی گود میں بچی کو دیکھ کر کہا تو شھباز شاہ نے احتیاط سے اُن کی گود میں بچی کو ڈالا۔

پٹھانوں کی اولاد لوگ دور سے پہچان لیتے ہیں کیا حویلی میں کسی کو شک نہیں ہوگا کے اِس بچی کے نین نقش شاہوں خاندان کے بجائے پٹھانوں جیسے ہیں آپ غور سے اِس کا چہرہ دیکھے جو ابھی سے اِس کے پٹھان ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کلثوم بیگم اُس بچی کا ماتھا چوم کر بولی

منہوسیت پھیلانے کی ضرورت نہیں لوگ وہ دیکھے گے جو میں اُن کو دیکھاؤں گا یہ ہمارے ساتھ رہے گی تو ہمارے جیسی بن جائے گی۔شھباز شاہ سخت لہجے میں بولے تو وہ خاموش ہوگئ۔

تو کیا اِس بچی پہ وہ اصول لاگو ہوگے جو ایک سیدزادی پہ ہوتے ہیں جبکہ اِس بات سے آپ واقف ہیں یہ سیدزادی نہیں ہوگی۔کلثوم بیگم زیادہ دیر تک خاموش نہ رہ سکی۔

سید شھباز شاہ کی بیٹی ہے اب سے یہ تو سیدزادی ہوگی نہ اور اصول آروش شاہ پہ بھی لاگو ہوگے۔شھباز شاہ تکبر بھرے لہجے میں بولا

💕💕💕💕💕💕💕

تیری بیٹی اتنی الگ کیوں ہے مطلب دُرید جیسے تھوڑا تجھ پہ اور کلثوم پہ ملتا جُلتا ہے شازل تیری کاپی ہے اُس طرح یہ تجھ پہ کیوں نہیں گئ۔مہتاب بیگم تنقید بھری نظروں سے بچی کا جائزہ لیتی بولی۔

ابھی چھوٹی ہے آپ کیسے بول سکتی ہیں ایسے ویسے بھی ہم پہ جائے یا نہیں جائے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔شھباز شاہ پُراعتماد لہجے میں بولے۔

ٹھیک بات ہے مگر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے اِس کے نین پٹھان سے میل جول رکھتے ہیں۔مہتاب بیگم کے لہجے میں شک کا عنصر نمایاں تھا۔

میری بیٹی کو پیار دینے کے بجائے آپ بہت خراب باتیں کررہی ہیں یہ میری بیٹی ہے پھر آپ کی کیا تک بنتی ہے جو پٹھانوں سے ملا رہی ہے۔شھباز شاہ نے اپنا لہجہ سخت کیے بولے۔

غصہ کیوں ہو رہے ہو میں نے جو سمجھا وہ بتایا۔مہتاب بیگم نے کہا

اچھا مجھے آروش دے اِس کے سونے کا وقت ہوگیا ہے۔شھباز شاہ نے اُن کی گود سے آروش کو لیا۔

ہمممم لو ویسے تمہاری بیٹی بڑی ہوکر بہت خوبصورت بنے گی آنکھیں دیکھو کتنی پیاری ہے۔مہتاب بیگم اُس کی شہد آنکھوں کو دیکھ کف شھباز شاہ سے بولی۔

میری بچی تو ابھی سے بہت پیاری ہے۔شھباز شاہ محبت سے اُس کا چہرہ دیکھ کر اُس کی آنکھوں پہ بوسہ دینے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال!

شھباز شاہ ماضی کی یادوں میں اِس قدر کھوئے ہوئے تھے کے ان کو احساس ہی نہیں ہوا کے کوئی اُن کے بلکل پاس بیٹھ کر اُن کی جانب مسلسل دیکھ رہا تھا جیسے جاننا چاہ رہا ہوں کے اتنی گہری سوچ میں ڈوب کر آخر ایسا بھی وہ کیا سوچ رہے ہیں جو اُن کو اپنی آنکھوں میں اُتر آتی نمی تک کا احساس نہیں ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕

بابا سائیں۔ آروش نے اُن کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر جیسے اُن کو اپنی موجودگی کا احساس کروانا چاہا

آرو تم یہاں کب آئی؟ شھباز شاہ جیسے گہری نیند سے جاگے۔ 

صبح سے یہی ہوں آپ کو دیکھ رہی ہوں کیا ہوا یہ آپ کی آنکھوں میں نمی کیوں ہے؟ آروش ہاتھ بڑھاکر اُن کی آنکھوں میں موجود نمی صاف کیے پوچھنے لگی۔ 

صبح ہوگئ ہے؟ شھباز شاہ حیران ہوئے۔ 

جی بابا سائیں صبح ہوگئ ہے اور آج آپ نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی لگتا ہے ساری رات آپ سوئے بھی نہیں۔ آروش نے گہری سانس بھر کر بتایا۔ 

میں قضا پڑھ لوں۔ شھباز شاہ اُٹھ کر بولے تو آروش نے اُن کا ہاتھ تھاما

کیا ہوا ہے آپ کو کیا کوئی بات ہے جو آپ کو پریشان کررہی ہے مجھے بتائے۔ آروش کے لہجے میں فکرمندی کا عنصر نمایاں تھا۔ 

کوئی بات نہیں ہے تم پریشان مت ہو۔ شھباز شاہ زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولے۔ 

اچھا۔ آروش کو یقین تو نہیں آیا مگر زیادہ اصرار بھی نہیں کیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

شازل اور ماہی حویلی پہنچے تو شازل سے سب گرمجوشی سے ملے مگر اُس کے ساتھ کھڑی ماہی کو شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا تو ماہی شازل کے پیچھے کھڑی ہوگئ تھی۔ 

اِس کو ساتھ لائے ہو تو اب یہ یہی رہے گی ونی بن کر تاکہ اپنی اوقات یاد رکھے۔ فردوس بیگم حقارت بھرے لہجے میں ماہی کو دیکھ کر کہا تو ماہی نے زور سے شازل کا بازوں دبوچہ جس پہ شازل نے اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ دے کر اپنے ہونے کا اعتماد بخشا۔

میری بیوی ہے یہ اور اِس کی اوقات کیا ہے وہ آپ لوگوں میں سے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ شازل بے تاثر نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا

شازل

سفر لمبا تھا ہم تھک گئے آرام کرنا چاہتے ہیں۔ فردوس بیگم کجھ کہنا چاہ رہی تھی مگر وہ اُن کی ان سنی کرتا ماہی کو اپنے حصار میں لیتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ 

ایسی بے حیائی تو پہلے کسی نے حویلی میں نہیں کی۔ فردوس بیگم کو شازل کا ایسا بے باک انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ 

تم یہی بیٹھو میں آروش سے مل آؤں۔شازل ماہی کو کمرے میں چھوڑتا اُس سے بولا۔

مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ماہی نے کہا

ڈر کیوں۔شازل اُس کی جانب دیکھتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔

بس لگ رہا ہے۔ماہی نے کہا تو شازل نے گہری سانس لی۔

یہاں بیٹھو۔شازل نے اُس کو بیڈ پہ بیٹھنے کا اِشارہ کرنے لگا اور خود اُس کے ساتھ بیٹھا۔

تمہیں اگر میرے گھروالوں سے ڈر لگ رہا ہے تو ڈرنا چھوڑدو میں تمہارے ساتھ ہوں اور آج نہیں تو کل تمہارے بھائی کی بے گُناھی سب کے سامنے لاکر رہوں گا۔شازل اُس کے گال پہ ہاتھ رکھتا یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا۔

اُس سے کیا ہوگا میرے گھروالے مجھے اپنے ساتھ لیکر چلے جائے گے کیا میرے جانے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ماہی نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا جیسے اُس کو یقین ہو شازل کہے گا تمہیں میں جانے نہیں دوں گا اپنے پاس رکھوں گا ہمیشہ کے لیے

جو وقت آیا نہیں اُس کے بارے میں ابھی سے کیا سوچنا وہ تمہارا گھر ہے اگر تم وہاں جاؤں گی تو مجھے کیا اعتراض ہوگا۔شازل کے جواب نے چھناک سے اُس کے خوابوں کا محل توڑا تھا

ہمممم ٹھیک کہا آپ نے۔ ماہی نے شازل کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹاکر کہا

ماہی۔شازل کو بُرا لگا۔ 

آپ کو آروش کے پاس جانا تھا نہ جائے پھر۔ ماہی اُٹھ کھڑی بولی تو شازل بس اُس کو دیکھتا رہ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آروش تم فری ہو؟ شازل آروش کے کمرے کا دروازہ نوک کرتا بولا

السلام علیکم لالہ جی میں فری ہوں آپ آئے۔ آروش نے مسکراکر کہا

وعلیکم السلام تم سے پوچھنا تھا یہ حریم کی شادی اتنی جلدی کیوں اُس نے تو ابھی پڑھنا تھا نہ۔ شازل بیڈ پہ بیٹھتا اُس سے پوچھنے لگا۔ 

بس خالہ جان نے حریم کا رشتہ مانگا تو اماں سائیں نے انکار نہیں کیا دُرید لالہ کو بھی اعتراض نہیں۔ آروش نے کندھے اُچکائے۔ 

اور حریم کیا وہ راضی ہے اہم تو اُس کی رضامندی ہے نہ؟ شازل نے کہا۔ 

درید لالہ نے اُس کو راضی کرلیا ہے آپ اُس کی ٹینشن نہ لے یہ بتائے آپ کی زندگی کیسی چل رہی ہے؟ آروش نے بات کا رخ اُس کی جانب موڑا

اچھی چل رہی ہے۔شازل نے بس یہ کہا

کیا آپ پریشان ہیں؟آروش نے اندازہ لگایا

نہیں پریشان تو کوئی نہیں بس میں چلتا ہوں بابا سائیں اور اماں جان سے ملنا ہے۔شازل اُٹھ کر بولا تو آروش نے سراثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕

مطلب اب فائنلی ہم اپنی بہن سے ملے گے میں زرگل زرفشاں زرنور کو پاکستان بُلواتی ہوں۔نور پرجوش آواز میں اپنی سب بہنوں کو نام لیتی دلاور خان اور زوبیہ بیگم سے بولی

نہیں ابھی نہیں حور آجائے ایک بار اُس کے بعد۔زوبیہ بیگم اُس کی خوشی دیکھ کر مسکراکر بولی۔

ڈیڈ ویسے وہ تھی کیسی مطلب ہم بہنوں پہ گئ ہیں یا موم پہ؟نور نے اشتیاق بھرے لہجے میں اُن سے پوچھا

بھئ میری بیٹی تو مجھے پہ گئ ہے۔دلاور خان اپنے ہاتھ اُپر کیے فخریہ انداز میں بولے

ہیں واقع؟نور کا منہ بن گیا۔

آنکھیں تو پوری مجھ پہ گئ ہوگی پھر؟زوبیہ بیگم نے جاننا چاہا

لگتا ہے جب وہ پیدا ہوئی تھی تم نے غور نہیں کیا تھا پر میں نے اپنی بچی پہ غور کیا تھا اُس کی آنکھوں کا رنگ ہم سب سے مختلف تھا۔دلاور خان نے مسکراکر بتایا۔

السلام علیکم۔ یمان نے سب کو ایک ساتھ بیٹھا پایا تو خود بھی وہاں آگیا۔

وعلیکم السلام کیسے ہو؟لاہور کی فلائٹ کب ہے تمہاری؟زوبیہ بیگم نے سلام جا جواب دینے کے ساتھ پوچھا

پڑسو کی فلائٹ ہے۔یمان نے بتایا پھر اپنے سیل فون میں بزی ہوگیا

اچھا ڈیڈ یہ بتائے پھر کونسا کلر ہے اُس کی آنکھوں کا ہمیں تو بتایا ہی نہیں کبھی اُس کے بارے میں؟نور نے سلسلہ کلام وہی سے جوڑا

شہد رنگ کی آنکھیں ہیں۔دلاور خان نے مسکراکر بتایا تو اپنے سیل فون پہ کجھ ٹائپنگ کرتے یمان کے ہاتھ کجھ پل کے لیے تھمے تھے۔

کس کی آنکھوں کا رنگ شہد ہے؟یمان کے لہجے میں بے قراری صاف عیاں تھی جو اپنی خوشی میں مگن وہ تینوں محسوس نہیں کرپائے۔

ہماری پانچویں بیٹی حور کی آنکھوں کا رنگ شہد ہے۔زوبیہ بیگم نے مسکراکر بتایا

اچ اچھا۔یمان زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ سائیں آخر ایسی کیا بات ہے جو آپ کو پریشان کررہی ہیں پلیز مجھے بتائے۔کلثوم بیگم فکرمند لہجے میں شھباز شاہ سے بولی جو اُن کو بہت کھوئے کھوئے سے لگ رہے تھے 

مجھے بددعا لگ گئ کلثوم۔شھباز شاہ غیر معی نقطے کو گھور کر اُن سے بولے

بددعا کس کی؟یہ آج آپ کیا بول رہے ہیں؟کلثوم بیگم اُن کے ساتھ بیٹھ کر بولی۔

فراز احمد کی۔شھباز شاہ کی بات پہ کلثوم بیگم ساکت ہوئی تھی۔

فراز احمد کومل کا باپ؟کلثوم بیگم اپنے خوف کو قابو میں کیے پوچھنے لگی تو شھباز شاہ نے گردن موڑ کر کلثوم بیگم کو دیکھا جن کے چہرے کی رنگت اُڑی ہوئی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی!

آرو ٹھیک سے کھاؤ سارا عبایا اپنا خراب کردیا۔شھباز شاہ ڈیڑے پہ بیٹھے تھے جہاں اِس وقت اُن کے ساتھ کوئی تھا کیونکہ آج وہ اپنے ساتھ چودہ پندرہ سالہ آروش کو لیکر آئے تھے جو عبایا اور حجاب پہنے اُن کے ساتھ بیٹھی آئسکریم کھا کم گِرا زیادہ رہی تھی اور شھباز شاہ اپنی شال سے اُس کی آئسکریم صاف کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کو سمجھا بھی رہے تھے۔

میں نے تو ایسے ہی کھانی ہے۔آروش شرارت سے کہتی اِس بار آئسکریم شھباز شاہ کی ناک پہ لگائی تو وہ غصہ کرنے کے بجائے ہنس پڑے۔

تمہاری ماں ٹھیک کہتی ہے پوری شیطان کی اماں بن گئ ہو۔شھباز شاہ اپنی ناک صاف کیے مصنوعی گھوری سے نواز کر بولے۔

ہممم اماں جان یہ بھی ٹھیک کہتی ہے یہ سب شاہ سائیں(کلثوم بیگم کی نقل اُتارتے ہوئے)آپ کا کیا دھڑا ہے۔آروش کے انداز پہ شھباز شاہ کا قہقہقہ بلند ہوا تھا ابھی وہ کجھ کہتے اُس سے کے کوئی غصے میں اُن کے ڈیڑے میں اندر داخل ہوئے تھے جب کی کجھ لوگ جو اُس کو روک رہت تھے وہ دروازے کے پاس ہی کھڑے ہوگئے 

شھباز شاہ۔سامنے والے آدمی نے غصے سے اُن کا نام لیا تو آروش کانپ کر شھباز شاہ کے پیچھے چُھپ گئ۔

کون ہو تم اور اِس گستاخی کا نتیجہ جانتے ہو۔شھباز شاہ نے کڑک آواز میں کہا

بہت اچھے سے جانتا ہوں نتیجہ تم کر ہی کیا سکتے ہو سِوائے معصوم لوگوں کو قتل کروانے کے علاوہ۔آدمی کا لہجہ حددرجہ گُستاخ تھا۔

اپنے آنے کا مقصد بیان کرو اور جاؤ ورنہ تمہاری لاش کُتوں کو بھی نہیں ملے گی۔شھباز شاہ آروش کی موجودگی کا لحاظ کیے اُس سے بولے

تمہیں پتا ہے میں کون ہوں؟اُس نے پوچھا

نہ جانتا ہوں اور نہ جاننا چاہتا ہوں۔شھباز شاہ کا لہجہ غرور سے بھرا ہوا تھا

فراز احمد ہوں میں کومل کا باپ جس کا تم نے بے رحمی سے قتل کیا تھا۔فراز آدمی شخص نے کہا تو شھباز شاہ کے دماغ میں کجھ کلک ہوا

میں نے کوئی قتل نہیں کیا۔شھباز شاہ انجانے بنے۔

تم نے نہ کیا ہو اپنے بھتیجے سے تو کروایا نہ میری بات ہمیشہ یاد رکھنا میں اپنی بیٹی کے قتل کا بدلا ایک دن ضرور تم سے لوں گا وہ کوئی لاوارث نہیں تھی۔فراز نے چیخ کر کہا

جس کے سامنے تم کھڑے ہوکر دھمکی دے رہے ہو اگر وہ چاہے تو ابھی تمہارا سینہ گولیوں سے چھلنی کرسکتا ہے۔شھباز شاہ اپنی بندوق اُٹھا کر اُس سے بولے 

بابا۔آروش سسک پڑی اُس کی آواز پہ فراز کی نظر آروش پہ پڑی 

آرو میری جان ڈرو نہیں بابا ہیں تمہارے پاس۔شھباز شاہ جھک کر اُس سے بولے

لگت ہے بیٹی بہت عزیز ہے۔فراز کی بات پہ شھباز شاہ نے شعلہ برساتی نظروں سے اُس کو گھورا

ایک دن ایسا آئے گا جب تمہاری بیٹی تمہاری آنکھوں کے سامنے کوئی لیکر جائے گا اور تم خاموش تماشائی بننے کے علاوہ کجھ نہیں کر پاؤ گے اُس دن تمہیں احساس ہوگا کے جوان بیٹی کے مرنے کا دُکھ کیا ہوتا ہے۔فراز کی بات سن شھباز شاہ آروش سے الگ ہوتے اپنی بندوق اٹھا کر اُس پہ فائیر کیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال!

کون ہماری بچی کو لیکر جائے گا؟کلثوم بیگم نے پوچھا

دلاور خان اپنی امانت واپس لینے آیا ہے۔شھباز شاہ کی بات سن کر کلثوم بیگم جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی 

امانت؟کونسی امانت وہ امانت جو چوبیس سال پہلے اُنہوں نے دی تھی اُن کو اب خیال آیا ہے کے ان کی کوئی امانت آپ کے پاس رہتی ہے ان سالوں میں وہ کہاں تھے اُن کو پہلے خیال کیوں نہیں آیا یہ اچانک اتنے سالوں بعد آیا اُس سے پہلے کبھی ملنے تک تو نہیں آئے خیر وخبر تک نہیں لی اپنی بیٹی اور اب آگئے ہیں اپنی امانت لینے۔کلثوم بیگم چیخ کر بولی تو شھباز شاہ نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا

یہ دن تو آنا تھا۔شھباز شاہ اپنے دل پہ پتھر رکھ کر بولے۔

آروش کہی نہیں جائے گی وہ ہماری بیٹی ہے۔کلثوم بیگم جذباتی ہوئی۔

خود کو تیار کرو کلثوم مجھے کسی مشکل امتحان میں مت ڈالوں کیونکہ میں پہلے سے پریشان ہوں کے ساری حقیقت سے سب کو کیسے واقف کرنا ہے۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

شاہ سائیں

کلثوم بیگم نے کجھ کہنا چاہا

بس کلثوم شھباز شاہ نے اُن کو آگے بولنے سے باز رکھا جب کی کلثوم بیگم اپنے آنسو پہ بندھ باندھنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ حریم علی ولد فردین علی 'تابش ولد محمد خان  کو دس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

دولہن کے جوڑے میں ملبوس لال چنڑی خود پہ اوڑھے وہ نکاح کے لیے خود کو تیار کیے بیٹھی اُس کے کمرے میں آج عورتوں کا مجموعہ اکھٹا تھا جن کا چہرہ بھی اپنے اپنے ڈوپٹوں میں چُھپا ہوا تھا وجہ وہاں کمرے میں دیدار شاہ دُرید شاہ اور شازل شاہ کا ہونا تھا آج کے دن کے لیے کجھ خواب اُس نے بھی سجائے تھے اور وہ بس یہ تھا دُرید شاہ کی دولہن ہونا مگر آج جو خود پہ لال چُنڑی اوڑھی تھی اُس بڑے حروف میں تابش کی دولہن لکھا ہوا تھا دوسرا ستم اُس پہ یہ تھا نکاح کی رضامندی جاننے کے لیے مولوی صاحب نہیں بلکہ وہ ستمگر خود تھا جو اُس کی خواہشات کا گلا دبانے کے بعد اُس سے اُس کی رضامندی مانگنے آیا تھا اِس وقت اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا مگر آنکھیں بنجر تھی اور لبوں پہ جیسے خاموشی کا قفل لگ گیا تھا۔

حریم۔فاریہ بیگم نے آہستہ سے اُس کا نام لیا تاکہ وہ ہوش کی دُنیا میں آئے۔

یہ محبت کا بھوت اپنے دماغ سے اُتاردو حریم میں بس یہ کہنا چاہ رہا ہوں جمعہ کو تمہارا نکاح ہے تابش سے اپنا مائینڈ سیٹ کرلینا اگر تم یہ سمجھی ہوں بابا سائیں کی باتوں میں آکر میں تم سے شادی کرنے پہ رضامندی ظاہر کرلوں گا تو ایسا کجھ نہیں ہونے والا۔

قبول ہے!

دُرید کے الفاظ کانوں میں ابھی بھی گونج رہے تھے اپنے دل پہ پتھر رکھ کر اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں قبول ہے کہا جس کو سن کر ہاتھ میں تھامے نکاح نامے سے نظریں ہٹاکر دُرید شاہ نے اُس کو دیکھا جو  عورتوں کے درمیان چھپ سی گئ تھی۔

آپ حریم علی ولد فردین علی 'تابش ولد محمد خان  کو دس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

عقل سے کام لو میرا ساتھ تمہیں محرومیوں کے سوا کجھ نہیں دے سکتا تم ایک بہت اچھی خوبصورت لائیف ڈیزرو کرتی ہوں اور وہ لائیف میں تمہیں نہیں دے سکتا

قبول ہے!

اُس نے دُرید شاہ کی آواز سے جان چھڑوانا چاہی۔

آپ حریم علی ولد فردین علی 'تابش ولد محمد خان  کو دس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

تیسرے بار جب دُرید شاہ نے اُس سے پوچھا تو اُس کا دل چاہا انکار کردے مگر اُس دن اپنی کہی باتیں یاد آئی تو اپنی تمام خواہشات کے ساتھ اِس خواہش کو بھی ختم کردیا۔

قبول ہے!

حریم کے تیسری بار قبول ہے کہنے پہ مبارک باد کا شور اُٹھا۔

مبارک ہو میری بچی۔کلثوم بیگم اُس کا ماتھا چومتی بولی۔

مبارک ہو لالہ۔شازل دُرید شاہ کے گلے ملتا بولا تو دُرید اُس سے ملتا نکاح نامہ لیکر حریم کی جانب آیا تاکہ اُس کے دستخط لے سکے۔

حریم۔دُرید نے اُس کے سامنے نکاح نامہ رکھا پھر پین بڑھائی تو حریم نے اُس کے ہاتھ سے پین پکڑ کر نکاح نامے پہ دستخط کرنے لگی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر نکاح نامے والی جگہ پہ گِرا تو دُرید نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھا

مجھے حریم سے کجھ بات کرنی ہے۔دُرید نے گھمبیر آواز میں وہاں کھڑے سب لوگوں سے کہا تو سب باری باری کمرے سے باہر چلے گئے تو حریم نے چُنڑی اُتار کر دوری کی اُس کو اپنا سانس رُکتا محسوس ہورہا تھا۔

حریم۔دُرید اُس کے خوبصورت سِراپے سے نظریں  چُراتا اُس کو آواز دینے لگا مگر حریم کی طرف سے مکمل طور پہ خاموشی تھی اُس نے کوئی جواب نہیں دیا ایسے بنی رہی جیسے کجھ سُنا ہی نہ ہو اُس کا ایسا رویہ دیکھ کر دُرید نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی۔

تم ہمیشہ خوش رہوں گی دیکھنا کجھ وقت بعد تمہیں یہ سب یاد نہیں رہے گا۔دُرید شاہ نے دولہن بنی حریم سے کہا جس نے ایک لفظ تک نہیں بولا تھا بلکل خاموش تھی جیسے بولنا ہی بھول چُکی ہو۔

تم خاموش کیوں ہو کجھ بول کیوں نہیں رہی۔دُرید نے کہا تو حریم نے زخمی نظروں سے اُس کو دیکھا جس سے دُرید نظریں چُراگیا۔

آپ نے ہمارے ساتھ جو کیا ہے نہ وہ ہم کبھی نہیں بھولے گے ہم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گے ہم بہت دور چلے جائے گی آپ کی زندگی سے اتنا کے آپ ہماری پرچھائی دیکھنے کے لیے بھی ترس جائے گے مگر حریم نام کی کسی چیز لڑکی کا آپ کا سامنا نہیں ہوگا آپ نے ہمارے دل پہ وار کیا ہے ہمیں لہولہان کیا ہے آپ نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے نہ اُس کا احساس آپ کو ان شاءاللہ ایک دن ہوجائے گا مگر تب بہت دور ہوچکی ہوگی اُس وقت آپ کے پاس سِوائے پچھتاوے کے کجھ نہیں ہوگا۔حریم بنا دُرید کی جانب دیکھ کر پتھریلے لہجے میں گویا ہوئی تو دُرید کو وہ کہی سے بھی وہ نارمل نہیں لگی یہ وہ حریم نہیں تھی جس کو وہ جانتا تھا یہ تو جانے کون تھی جس کے لہجے میں نہ شوخ پن تھا نہ شرارت تھی۔

تمہاری یہ باتیں مجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں۔دُرید نے کہا

وہ تکلیف آپ محسوس نہیں کرسکتے جو ہم پچھلے ایک ماہ سے برداشت کرتے آئے ہیں اور جو اب ساری زندگی سہے گی آپ ہمیں زندہ قبر میں دفنادیتے مگر یہ شادی نہ ہونے دیتے۔حریم پوری قوت سے چیخ کر اُس کا گریبان پکڑ کر بولی تو اُس کی کلائیوں میں موجود چوڑیوں کا شور برپا ہوا اور شاید دُرید شاہ کے دل میں بھی وہ آج حشر برپا کرچُکی تھی دُرید اپنی حالت سے گھبراہٹ کا شکار ہوتا اُس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا فاصلے پہ کھڑا ہوا۔

آپ نے ماما جان کا بدلا ہم سے لیا ہے اگر آپ کو آپ کی محبت نہیں ملی تو آپ نے ہم سے بھی ہماری محبت چھین لی ماما جان سے انتقام لینے کے چکر میں آپ نے ہمیں کہی کا نہیں چھوڑا ہمارے دل میں ہمارے دماغ میں ہمارے جسم میں آپ خون کی مانند ڈورتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی  آپ نے ہمارا نکاح کسی اور سے کروادیا ہمیں گنہگار بنادیا۔حریم اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتی اُس سے بول کر نیچے فرش پہ بیٹھتی چلی گئ دل میں موجود سارا غبار اب نکل پڑا تھا دوسری طرف دُرید جو اپنی حالت سے پریشان تھا حریم کو یوں پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھا تو گھنٹوں کے بل آتا اُس کے پاس بیٹھا

حریم۔دُرید نے اُس کو سہارا دینا چاہا

مرگئ حریم آپ نے مار دیا حریم کو اگر ہمارے ساتھ یہی سب کرنا تھا تو اپنے بہت پاس کرکے یوں اجنبی کیوں کردیا؟ہمیں آپ کا یہ وقتی سہارا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں آپ کی شکل تک نہیں دیکھنی خدارا یہاں سے چلے جائے کبھی ہمیں اپنی یہ شکل مت دیکھائیے گا کیونکہ ہم جب جب آپ کا یہ چہرہ دیکھے گے ہمیں ہمارا خسارا یاد آئے گا۔حریم ہذیاتی انداز میں چیخ کر بولی تو دُرید کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اُتری تھی وہ حریم کو اِس حال میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اُس کا رونا اُس سے دیکھا نہیں جارہا تھا تبھی ایک جھٹکے سے اُٹھ کر اُس کے کمرے سے چلاگیا۔

یااللہ یہ ہم سے کیا کروادیا کیوں ہمارے دل میں دُر لا کی محبت ڈالی جب قسمت میں کسی اور کا ساتھ دیا تھا ہم کیسے اِس بوجھ کے ساتھ زندگی جیئے گے کے ہم نے اتنا بڑا گُناہ کردیا کسی غیر کی محبت اپنے سینے میں ڈال کر۔حریم اپنا چہرہ ہاتھوں میں چُھپاتی زاروقطار رونے لگی آج اُس کی حالت آروش سے زیادہ بدتر تھی۔جہاں کجھ سال پہلے آروش شاہ تھی وہاں آج حریم علی تھی تاریخ جیسے دوبارہ سے  پلٹ آئی تھی۔

💕💕💕💕💕💕

حریم کو ہمیشہ خوش رکھنا اُس کی آنکھوں میں کبھی کوئی آنسو مت آنے دینا۔دُرید نے خود کو اور اپنی حالت کو سنبھال لیا تھا رخصتی کا وقت جب قریب ہوا تو اُس نے گہرے سنجیدہ لہجے میں تابش سے کہا

جی لالہ۔تابش نظریں نیچے کرتا اُس سے بولا

وہ جو کہے اُس کی بات فورن سے مان لیا کرنا اُس کو کوئی کام کرنے بھول کر بھی مت کہنا اُس کو اِن سب کی عادت نہیں۔دُرید نے مزید کہا تو تابش نے سراُٹھا کر اُس کو دیکھا جس کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔

میں جانتا ہوں آپ نے اُس کو بہت لاڈ پیار سے پالا ہے مگر ایک بات کہنا چاہوں گا لڑکی کی زندگی شادی سے پہلے الگ ہوتی ہے اور شادی کے بعد بہت مختلف ہوجایا کرتی ہے۔تابش کا لہجہ خاصا جتایا ہوا تھا

کیا تم میری باتوں سے انحراف کررہے ہو؟دُرید نے تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھا تو تابش ہڑبڑا سا گیا۔

بلکل بھی نہیں لالہ میں جسٹ ایک بات کررہا تھا حریم جیسے پہلے تھی ویسے ہی میرے گھر رہ لیا کرے گی آپ کو کسی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔تابش نے کہا

اچھی بات ہے اور جب کبھی تمہیں غصہ آئے تو اُس وقت اپنے گھر مت آیا کرنا یو نو کجھ ہوتے ہیں جاہل لوگ جو اپنی فرسٹریشن معصوم بیویوں پہ اُتارتے ہیں تو میں ایسا بلکل نہیں چاہوں گا کے تم غصے میں آکر حریم کو ایک حروف بھی کہو۔دُرید نے وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا تو تابش تپ اُٹھا تھا اُس کو لگتا تھا لڑکیوں کے خاندان والے اُس کے سسرالیوں کے سامنے جھک کر رہتے ہیں مگر دُرید کی باتوں میں چھپی دھمکیوں سے اُس کو غصہ آگیا تھا جو اُس نے بڑی مشکل سے دبایا تھا وہ جانتا اگر کجھ بھی ایسا ویسا کہا تھا تو دُرید ایک لمحہ نہیں لگائے گا اُس کا منہ توڑنے میں۔

لالہ اگر حریم اتنی نازوں کی پلی اور آپ کو عزیز ہے تو میرے ساتھ اُس کی شادی کیوں کروانی چاہی ایسی لڑکیوں کو بس نخرے کرنے آتے ہیں گھر بسانا نہیں آتا۔تابش کی زبان نے دغابازی کردی۔

حریم کے شوہر نہ ہوتے تو اچھے سے اِس بات کا جواب دیتا۔دُرید اُس کے ہاتھ پہ دباؤ دیتا سپاٹ انداز میں بولا تو تابش کو اپنا ہاتھ ٹوٹتا محسوس ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج بہت پیاری لگ رہی تھی تم۔شازل نے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی جیولری اُتارتی ماہی کے پیچھے کھڑے ہوکر مرر میں اُس کا عکس دیکھ کر کہا تو ماہی نے نظر اُٹھا آئینے سے نظر آتا اُس کا عکس دیکھا جو ان دونوں کو بہت مکمل کررہا تھا آج اتفاق سے دونوں کی سیم ڈرسینگ ہوگئ تھی جس سے حویلی میں موجود بہت لوگ جلن کا شکار ہوئے تھے اور شازل کے تو کیا ہی کہنے تھے حویلی میں آئے سب لوگوں سے اُس کا تعارف ایسے کروارہا تھا جیسے دونوں کی لو میریج ہو ماہی کو اپنی قسمت پہ کبھی کبھی رشک آتا تو کبھی کبھی رونا آتا وہ یہ بات سمجھ گئ تھی حویلی کا ہر فرد اُس کے لیے ایک مسٹری کے سِوا کجھ نہیں ان کے بارے میں وہ جتنا سوچے گی اُتنا اُلجھ جائے گی اِس لیے اُس نے سوچنا ہی ختم کردیا تھا اگر اُس کی سمجھ میں اپنا شوہر شازل جس کے ساتھ اب وہ دن کے چوبیس گھنٹے ہوتی ہے اگر اُس کو سمجھ نہیں پارہی تھی تو کسی اور کو کیا خاک سمجھنا تھا اُس نے۔

دل سے تعریف کررہے ہیں؟آج جانے کیوں ماہی کو اُس کی بات سے حیا نہ آئی تھی نہ اُس کے چہرے پہ سرخ رنگ بُِکھرا تھا کیونکہ وہ ابھی تک اُس دن کہی شازل کی باتوں کو بھولی نہیں تھی جو اُس کے دل پہ گہرا تاثر چھوڑ چُکی تھی۔

تم اِن ڈائریکٹلی مجھے جھوٹا بول رہی ہو۔شازل کو جیسے افسوس ہوا۔

میں بس خود کو مزید غلطفہمیوں کا شکار ہونے سے بچا رہی ہوں۔ماہی سنجیدگی سے جواب دیتی واشروم میں جانے لگی جب شازل اُس کی کلائی تھامتا اپنے روبرو کرگیا۔

ناراض ہو؟شازل نے پوچھا

میں کیوں ناراض ہوگی آپ سے کیا ہمارے درمیان ایسا رشتہ ہے جو ایک روٹھے اور دوسرا منائے۔ماہی اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی

تم کیا چاہتی ہو میں تمہیں ہر بار ڈیفینڈ کرتا ہوں مگر تم پھر بھی مجھ سے خوش نہیں ہوتی اب بھی روٹھی روٹھی سی ہو۔شازل اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر بولا وہ جیسے تھک سا گیا تھا۔

کیا آپ کو میرے روٹھنے سے فرق پڑتا ہے؟ماہی نے جاننا چاہا

افکورس پڑتا ہے۔شازل بنا تاخیر کیے بولا

کیوں پڑتا ہے؟ماہی ایک قدم اُس کے پاس بڑھاکر بولی تو شازل کو سمجھ نہیں آیا کیا جواب دے۔

جواب نہیں نہ آپ کے پاس؟ماہی کے چہرے پہ استہزائیہ مسکراہٹ آئی۔

جب میری اِس بات کا جواب ہو تب آپ پوچھ لینا کے میں ناراض ہوں یا نہیں۔ماہی اُس کے ہاتھ سے اپنی کلائی آزاد کرواتی واشروم چلی گئ پیچھے شازل گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم کو تابش کے کمرے میں بیٹھایا گیا تھا فاریہ بیگم اور کلثوم بیگم نے بہت سمجھا کر اُس کو رخصت کیا تھا مگر اب بیڈ پہ اپنا لہنگا پِھیلائے بیٹھی حریم کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے اپنی زندگی ایک ان چاہے جیون ساتھی کے ساتھ گُزارے گی؟اُس کا دل بہت وسوسو کا شکار تھا ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے آج اُس کا آخری دن ہے۔

جانے وہ کونسے لوگ ہوتے ہیں جن کو محبت نہیں ملتی تو یا اُن کو ہارٹ اٹیک آجاتا ہے یا دماغ کی نسیں پھٹ جاتی ہیں مجھ کو تو ایسا کجھ بھی نہیں ہوا نہ دماغ کی نس پھٹی اور نہ ہی دل کی والز پہ کوئی اثر پڑا۔حریم تلخ انداز میں سوچنے لگی۔

اپنا یہ بھاری لہنگا ہٹاؤ مجھے سُونا ہے۔حریم اپنی سوچوں میں گم تھی جب کسی مردانہ آواز پہ اُس نے چونک کر سراُٹھایا

اگر تمہیں لگتا ہے میں تمہارا گھونگھٹ اُٹھا کر تمہاری تعریفوں میں زمین آسمان ایک کردوں گا تو اِس غلطفہمی سے باہر آجاؤ۔تابش نے طنز کیا تو حریم نے اُس کی بات کا کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا خاموشی سے اپنا لہنگا سنبھالتی وہ چینج کرنے کے غرض سے واشروم جانے والی تھی جب تابش نے اُس کا بازوں دوبوچا۔

یہ کیا کررہے ہیں چھوڑے ہمیں۔حریم اپنا بازوں اُس کی سخت گرفت سے آزاد کروانی کی جدوجہد کرتی ہوئی بولی

یہ نخرا کس کو دیکھا رہی ہو سُنو میں تمہارا دُر لا نہیں جو تمہارے ایسے رویے پہ فدا ہوجاؤں گا۔تابش کے اِس قدر ہتک آمیز لہجے میں حریم دنگ رہ گئ۔

ہوش میں رہے ہم آپ کی بیوی ہیں۔حریم نے اُس کو شرم دلانی چاہی۔

یہ تم خود کو اتنی عزت کیوں دے رہی ہو سنو حریم دوبارہ میں لفظ استعمال کرنا ہم کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔تابش نے جیسے وارن کیا۔

آپ ہم سے اِس طرح بات کیوں کررہے ہیں؟حریم کو اندازہ نہیں تھا شادی کی پہلی رات ہی اُس کو نئ آزمائش سے گُزرنا ہوگا۔

میری بات ایک دفع میں سمجھ جایا کرو دوبارہ ہم ورڈ استعمال مت کرنا۔تابش نے گھور کر کہا تو حریم کو سمجھ نہیں آیا اُس کے ہم کہنے سے تابش کو کیا اور کیوں اعتراض تھا۔

ہمیں کیوں نہ کرے استعمال بچپن سے عادت ہے۔حریم نے بڑی مشکل سے خود کو رونے سے باز رکھا۔

دیکھو حریم میں اِس وقت بہت تھکا ہوا ہوں تم سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا اِس لیے سامنے سے ہٹو۔تابش بیزار لہجے میں کہتا بیڈ پہ آ بیٹھا حریم بے تاثر نظروں سے تابش کو دیکھنے لگی جس کے ساتھ نکاح کیے ابھی چند گھنٹے ہوئے تھے اور وہ کیسا رویہ اختیار کررہا تھا۔

تو یہ تھا آپ کا انتخاب میرے لیے جس کو پانے کے بعد ہم سب کجھ بھول کر اپنی زندگی میں مگن ہونے والے تھے۔تابش کو دیکھ کر وہ تصور میں دُرید شاہ سے مخاطب ہوئی۔

کیا آپ اِس شادی سے خوش نہیں تھے؟حریم نے ابھی سے جاننا ضروری سمجھا

بلکل بھی نہیں۔تابش نے صاف لفظوں میں کہا

پھر شادی کیوں کی؟دوسرا سوال

تم بہت امیر ہو اِس لیے اب سب جان لیا تو سوجاؤ۔تابش نے کوفت کا مظاہرہ کیا

وہ اگر تمہاری ماں تھی تو یہ بات بھی جان لو ان کی ہر چیز پہ صرف تمہارا حق ہے یہ حویلی اِس میں تمہارا حصہ بھی اُتنا ہی نکلتا ہے جتنا کے بابا سائیں چچا جان والوں کا نکلتا ہے کیونکہ پھوپھو جان کا جو حصہ تھا وہ تمہیں ہی ملے گا نہ آخر کو تم اُن کی اکلوتی اولاد ہو اِس لیے دوبارہ یہ مت کہنا تم اِس گھر کی مکین نہیں یا تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں کیونکہ جتنی جائیداد تمہاری ہے نہ اُتنی تو درید لالہ یا شازل لالہ کی بھی نہیں وجہ یہ کے تمہارے باپ کی جو جائیداد تھی اُس میں بھی اُن کے مرنے کے بعد تمہارے ہی حصے میں آئی تھی وہ تمہیں تب ملے گی جب تم اٹھارہ سال کی ہوجاؤ گی۔

تابش کی بات سن کر حریم کو آروش کے کہے جُملے یاد آئے تو دل میں ایک ٹیس اُٹھی۔

تو کیا خالہ جان نے اِس لیے شادی کا شور مچایا ہوا کیونکہ کجھ ماہ بعد ہم اٹھارہ سال کے ہوجائے گے پر اِن کو کیا ضرورت ہے ایسی واحیات حرکت کرنے کی۔حریم الجھ سی گئ تھی انسان اتنا لالچی اور مطلب پرست ہوتا ہے یہ بات اُس کو آج معلوم ہوئی تھی۔

ناجانے اب اور کیا کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔حریم افسوس سے سوچتی واشروم میں گُھس گئ اُس کو اب ہر حال میں خود کو آنے والے حالات کے لیے تیار کرنا وہ اتنا سمجھ گئ تھی دُنیا بہت ظالم ہے اگر وہ کمزور پڑی تو اُس کو چیر پھاڑ دینگے۔

💕💕💕💕💕💕

شازل چینج کرکے واشروم سے باہر آیا تو ماہی کو گہری نیند میں سوتا پایا اُس کو دیکھ کر شازل گہری سانس بھرتا چل کر اُس کے پاس آیا جو کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی اُس کا چہرہ دیکھ کر شازل بے ساختہ مسکرایا کیونکہ نیند میں بھی ماہی کے تاثرات ناراضگی سے بھرے ہوئے تھے۔

تعریف تمہاری دل سے کی تھی آج تم واقع بہت پیاری لگ رہی تھی۔شازل تھوڑا جُھک کر اُس کے چہرے سے آئی آوارہ لٹوں کو ہٹاتا ہوا آہستہ سے بولا

تمہاری ناراضگی ناجانے کیوں میرے دل پہ گہرا اثر چھوڑنے لگی ہے مجھے عادت نہیں تمہاری ناراضگی کی مجھے بس تمہاری بے تکی باتوں اور بے تُکے سوالوں کی عادت ہے۔شازل آہستہ سے سرگوشی نما آواز میں کہہ کر اُس کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش کو کب بتانا ہے؟کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا

میں اُس کو اسلام آباد بھیج رہا ہوں۔شھباز شاہ کی بات پہ وہ چونک پڑی۔

اسلام آباد کیوں؟کلثوم بیگم کو سمجھ نہیں آیا۔

شازل کے پاس بھیجوں گا میں ساری حقیقت اُس کو وہاں بتانا چاہوں گا۔شھباز شاہ نے گہری سانس بھر کر بتایا

جیسے آپ کی مرضی مگر آپ کو اِس حقیقت سے سب کو آگاہ پہلے سے کرنا چاہیے تھا اب سب کو پتا چلے گا کتنے مسائل ہوگے گاؤں والے حویلی والے یہ سب کیا باتیں بنائے گے۔کلثوم بیگم پریشانی سے بولی۔

مجھے اِس وقت بس آروش کی ٹینشن ہے جانے وہ کیسا ری ایکٹ کرے مجھے یہ ڈر ہے کہیں وہ ساری بات جان کر مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔شھباز شاہ کسی خدشے کے تحت بولے

وہ کیوں کرے گی آپ سے نفرت کونسا ہم نے اُس کو  اُس کے باپ سے چوری کیا تھا یا لیا تھا اُس کے باپ نے خود ہمیں سونپی تھی۔کلثوم بیگم کو اُن کی بات پسند نہیں آئی۔

جو بھی دُرید اور شازل یہ دونوں میرے سر کا درد ہے آروش سے بہت پیار کرتے ہیں ساری حقیقت جاننے کے بعد اصل تماشا تو انہوں نے کرنا ہے۔شھباز شاہ اپنا ماتھا مسل کر بولے۔

آپ اپنے جگر کا ٹکرا انہیں سونپ رہے ہیں تو وہ دونوں بھی خاموش رہے گے ہاں شازل شاید اوور ری ایکٹ کرے کیونکہ وہ آروش سے بہت  اٹیج ہے۔کلثوم بیگم نے اپنی راے کا اظہار کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہی سامان پیک کرلینا ہمیں جلدی نکلنا ہے۔شازل کمرے میں آتا ماہی سے بولا

پیکنگ میں نے کرلی ہے اپنی بھی اور آپ کی بھی۔ماہی نے اُس کو دیکھ کر بتایا

اچھا اوکے گُڈ پھر تیارو ہوجاؤ میں جب تک سب سے مل لوں۔شازل نے کہا تو ماہی نے سراثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕

حویلی میں کام کرتی مومل میری سہیلی ہے وہ بتارہی تھی ماہی بی بی بڑی خوش ہے اپنے شوہر کے ساتھ۔ستارہ بیگم اور آمنہ باورچی خانے میں ملازمہ کے ساتھ مل کر کھانے کی تیاریوں میں تھی جب ان کی ملازمہ نے بتایا

ونی میں گئ ہوئی لڑکیوں کو شوہر نہیں ہوتا۔ستارہ بیگم نے سرجھٹک کر کہا جب کی آمنہ کی نظریں ملازمہ پہ تھی۔

نہیں جی وہ بتارہی تھی جب حویلی میں شادی کا ماحول تھا تب شازل شاہ نے بڑی عزت سے ماہی بی بی کو سب سے ملوایا اور ماہی بی بی بڑی خوش تھی مہنگا ڈریس اور جیولری پہنی ہوئی تھی کسی کو لگ ہی نہیں رہا تھا وہ ونی میں گئ ہوئی ہیں۔ملازمہ نے کہا تو آمنہ نے آسودگی بھری سانس خارج کی۔

اچھا اب باتیں نہ بگاڑو جاؤ جاکر چھت سے لال مرچیں اُٹھا لاؤ۔ستارہ بیگم نے اُس کو باہر بھیجا۔

امی یہ ٹھیک بول رہی ہیں جب ماہی یہاں آئی تھی تو بہت خوش تھی۔آمنہ نے ستارہ بیگم سے کہا

تمہیں نہیں پتا شازل کا بہت عیاش پرست قسم کا ہے شہر میں بھی بس عیاشی کرنے کے لیے رہتا ہے پتا نہیں شاہ خاندان میں کیسے پیدا ہوگیا۔ستارہ بیگم نے نخوت سے کہا

آپ ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں ماہی نے جیسا بتایا شازل اُس سے بہت مختلف ہے شازل شہر میں رہتا ہے تبھی سب نے اُس کے لیے یہ خودساختہ سوچ سوچی ہوئی ہے۔آمنہ نے ان کی بات کی نفی کی۔

اچھا تو بتا پھر وہ شہر میں کیوں رہتا ہے جب اُس کے ماں باپ سب یہاں رہتے ہیں تو۔ستارہ بیگم نے سوال اُٹھایا۔

سُنا ہے اُس نے اور دُرید شاہ نے وکالت کی ہوئی ہے دُرید شاہ نے اپنی ڈگری ردی میں پھینک دی پر شازل شاہ شہر اپنے کام کی وجہ سے رہتا ہے۔آمنہ نے سرسری لہجے میں بتایا

پتا نہیں کب کی انہوں نے وکالت میں نے تو کبھی نہیں سُنا پتا نہیں تمہیں کون ایسی خبریں دیتا ہے خیر شازل نے کیا کرنا ہے وکالت کا سرپنج کا بیٹا ہے آگے چل کر اِس نے بھی یہی کرنا ہے جو اُس کا باپ کررہا ہے۔ستارہ بیگم نے کہا

وہ تو دُرید شاہ بنے گا کیونکہ بڑا وہ ہے ویسے بھی سرپنج شازل شاہ کبھی نہیں ہونا چاہے گا وہ جانتا ہے اگر وہ ایک بار سرپنج بن گیا تو دوبارہ وہ شہر نہیں جاپائے گا۔آمنہ نے اپنے علم مطابق بات کہی۔

ذین کے اُپر سے قتل کا داغ اُتر جائے اور ماہی گھر واپس آجائے یہی بڑی بات ہے۔ستارہ بیگم نے کہا

ماہی کے آنے کا امکان تو نہیں مگر ہاں شاید کوئی خوشخبری آجائے اُس کی جانب سے ایک سال ہونے والا ہے۔آمنہ اپنی بات کہتی فورن سے کچن سے باہر نکل گئ جبکہ ستارہ بیگم نے جاتی ہوئی آمنہ کی پشت کو گھورا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کجھ دن بعد!

آرو اگر تمہیں اسلام آباد آنا تھا تو پہلے کیوں نہیں آئی جب میں اور ماہی آ رہے تھے۔شازل نے ڈرائیونگ کرتے آروش سے کہا جو جانے کِن سوچو میں گم تھی۔

میں نہیں آنا چاہ رہی تھی پر بابا سائیں نے کہا اسلام آباد گھوم پِھر آؤ حویلی میں رہ کر بور ہوجاتی ہوگی۔آروش نے جواب دیا

شکر ہے انہیں احساس ہوا۔شازل مزاحیہ انداز میں بولا

بُری بات لالہ۔آروش نے ٹوکا

سوری بابا سائیں چمچی۔شازل نے کہا تو آروش ہنسی

میں نے ماہی سے کہا تھا تمہیں لینے جارہا ہوں تو اچھا سا کجھ بنائے۔شازل نے بتایا

اُس کی کیا ضرورت تھی۔آروش نے کہا

بلکل ضرورت تھی

شازل مزید کجھ کہتا جب اُس کی گاڑی کو بریک لگ گئ۔

کیا ہوا لالہ؟اچانک گاڑی رُکنے پہ آروش نے شازل سے پوچھا

پتا نہیں شاید گاڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے۔شازل اُس کو جواب دیتا گاڑی سے باہر نکلا

میں باہر آجاؤں؟آروش نے ونڈو سے چہرہ باہر نکال کر اِجازت چاہی۔

آجاؤ پوچھنے والی کیا بات ہے تم نے ویسے بھی عبایا پہنا ہوا ہے۔شازل اُس کی بات سنتا مسکراکر بولا تو آروش بھی گاڑی سے اُتر آئی۔

اب کیا کرینگے؟آروش نے آس پاس دیکھ کر پوچھا

کیب منگواتا ہوں پانی پتا نہیں یہاں ہوگا بھی کے نہیں۔شازل نے بتایا

کسی مکنیک کو فون کرے۔آروش نے مشورہ دیا

ہممم

شازل ابھی کجھ کہتا کے کسی گاڑی کے رکنے کی چرر  چر نے خاموش ہونے پہ مجبور کیا۔

کوئی ہیلپ چاہیے؟یمان جو اپنے کسی کام سے لاہور جانے والا تھا کسی کو ایسے کھڑا پایا تو اپنی گاڑی کو بریک لگاتا پوچھنے لگا۔

یمان کی آواز پہ آروش نے جھٹکے سے اپنا سراٹھایا تھا عین وقت یمان کی نظر بھی اُس پہ پڑی تھی یمان اُس کو دیکھ کر اپنی جگہ جم گیا تھا جبکہ آروش اپنی نظریں نیچے کرتی شازل کے پیچھے چُھپ گئ تھی۔

یمان تم اچھا ہوا آگئے دراصل میری گاڑی خراب ہوگئ ہے۔شازل بنا اُس کے چہرے کے ایکسپریشن دیکھتا بتانے لگا مگر دوسری جانب یمان نے تو جیسے اُس کی بات سُنی ہی نہیں تھی اُس کی آنکھیں تو اُس کے پیچھے چُھپنے والے وجود پہ جمی تھی۔

کیا یہ میرا وہم ہے؟یمان کے اندر سے اچانک آواز آئی

یمان

یمان

کہاں کھوئے ہو؟شازل نے اُس کو خاموش دیکھا تو اُس کے پاس آتا چٹکی بجاکر بولا

کہیں نہیں یہاں تم بتاؤ۔یمان ہوش میں آتا بولا

ڈراب کردو گے؟اگر تمہیں مسئلہ نہ ہو تو میں اکیلا ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر۔شازل اتنا بتاتا خاموش ہوا۔

میں یہاں پہلے اکیلا رہتا تھا مگر اب اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہوں۔یمان کے کانوں پہ کجھ وقت کہے پہلے شازل کے جُملے آئے تو اُس کو لگا جیسے اُس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑلیا ہو۔

💕💕💕💕💕💕💕

یمان کیا ہوگیا ہے؟لگتا ہے تمہاری آج طبیعت ٹھیک نہیں۔شازل نے اُس کو کھویا کھویا سا دیکھا تو باقاعدہ اُس کا ماتھا چھو کر بولا

م میں ٹھیی ٹھیک ہ ہوں آئے آپ دونوں کو ڈراپ کردیتا ہوں۔یمان اپنے ٹوٹتے دل کی کرچیاں سمیٹتا اُس سے بولا

تھینکس یار آرو تم بیک سیٹ پہ بیٹھ جاؤ۔شازل یمان کا شکریہ ادا کرتا آروش سے بول کر خود فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھا تھا جب کی آروش کے قدم جیسے زمین میں جکڑ سے گئے تھے ایک بار من میں خیال آیا شازل کو منع کردے لِفٹ لینے سے مگر پھر دوسرا خیال آیا کیا پتا یمان نے اُس کو نہ پہچانا ہو مگر کوئی اُس کو بتاتا یمان نے اُس کی آنکھوں سے عشق کیا تھا اُس کے پردہ کرنے کی ادا سے عشق کیا تھا اُس کی آواز سے عشق کیا تھا تو کیسے ممکن تھا وہ آج اُس کو نہ پہنچان پاتا اپنی طرف سے اُس نے تو اپنے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا تھا کے اُس کا سامنا کبھی دوبارہ یمان سے ہوگا وہ بھی اِس طرح سے وہ نظریں چُراتی آگے بھر کر بیک سیٹ پہ بیٹھنے لگی وہ یمان پہ خود پہ جمی نظروں سے خوب واقف تھی اُس کو اُلجھن ہو رہی تھی۔"یمان ساکت نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا جیسے بول رہا ہوں ایک ہی دل ہے کتنی بار توڑے گی؟

یمان پلیز آجاؤ اب۔شازل کی آواز پہ وہ ہوش میں آیا اُس کا دل اِس وقت شدت سے رونے کو چاہ رہا تھا ایک اُمید تھی اُس کے پاس کے وہ اپنی محبت کو پالے گا مگر آہستہ آہستہ اُس کو احساس ہورہا تھا یہ زندگی ہے یہاں ہر کسی کو سب کجھ نہیں ملتا خواہشات کبھی سب پوری نہیں ہوا کرتی کجھ ادھوری بن کر حسرتیں بن جاتی ہے۔"اپنی آنکھوں میں اُتر آتی نمی کو بار بار اندر کی جانب دھکیلتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا اسٹئرنگ پہ اُس کی گرفت سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی جس سے اُس کے ہاتھ کی رگیں تک نمایاں ہورہی تھی اُس کو اپنے ساتھ بیٹھے شازل سے نفرت محسوس ہورہی تھی رُقابت کا احساس شدت سے ہوا تھا۔

"لالہ اِس کو کیسے پہچانتے ہیں اگر لالہ کو سالوں پُرانہ واقع معلوم ہوا تو وہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گیں اُن کی نظروں میں بھی میرے لیے حقارت ہوگی جیسے دلدار لالہ اور دیدار لالہ کی نظروں میں میرے لیے تھی یااللہ میں کیا کروں گی تب مجھے برداشت نہیں ہوگا اگر دُرید لالہ یا شازل لالہ مجھ سے نفرت کرنے لگے گے تو۔دوسری طرف آروش کو اپنی پریشانیوں نے آ گھیرا تھا اُس کو یمان کی نہیں بس اس بات کی پرواہ تھی اگر شازل کو ساری حقیقت کا پتا چل گیا تو کیا ہوگا۔

تھینکس اگین۔گاڑی رُکنے پہ شازل نے یمان سے کہا جس نے کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا جب کی آروش تیر کی تیزی سے گاڑی سے اُتر کر گھر کے اندر بڑھی تھی۔

شازل کے اُترنے کے بعد یمان ریش ڈرائیونگ کرتا لاہور جانے کے بجائے اپنے گھر کے راستے جانے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔حریم لاؤنج میں آئی تو صدف بیگم نے مسکراکر اُس کی تعریف کی حریم نے تاسف سے اُن کے دوغلے پن کو دیکھا تھا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا کلثوم بیگم جو خود سُلجھی ہوئی صلحہ مزاج کی تھی اُن کی بہن ایسی بھی ہوسکتی ہے اُس کی شادی کو آج ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور اِس بیچ وہ صدف بیگم کا یہ پیار بھرا انداز دیکھ رہی تھی اُس کو بس انتظار تھا کب وہ اپنے چہرے پہ لگا نقاب اُتارتی ہیں۔

شکریہ۔حریم نے جوابً کہا تبھی وہاں تابش بھی آکر بیٹھا۔

آج زمینوں سے جلدی واپس آگئے؟صدف بیگم نے اُس کو دیکھ کر پوچھا

جی بس۔تابش بس یہ بولا

آپ کے لیے پانی لاؤ؟حریم نے پوچھا

"اُس کو کوئی کام کرنے کا بھول کر بھی مت کہنا اُس کو اِن سب کی عادت نہیں۔"

حریم کی بات پہ تابش کے کانوں میں دُرید شاہ کی جُملے گونجے۔

مجھے ضرورت نہیں۔تابش اپنا سرجھٹک کر بولا

حریم تم حویلی جاؤ نہ بار بار وہاں سے فون آرہا ہے کے تم کیوں نہیں چکر لگارہی جاؤ اور اپنا سامان بھی لیکر آؤ۔صدف بیگم نے کہا

ہم فلحال وہاں نہیں جانا چاہتے دوسری بات میرا وہاں کوئی سامان نہیں۔حریم نے سنجیدگی سے کہا تو تابش نے اپنی ماں کو دیکھا 

پیپرز وغیرہ تو ہوگے نہ؟صدف بیگم نے ڈھکے چُھپے لفظوں میں کہا

کونسے پیپرز؟حریم جان کر انجان بنی۔

تمہاری ماں کی جائداد اور تمہارے باپ کی جائداد کے پیپرز وہ تمہیں ملنے والی تھی نہ جب تم نے اٹھارہ سال کا ہوجانا تھا۔تابش ڈائریکٹ مدعے کی بات پہ آیا تو صدف بیگم نے گھور کر اُس کو دیکھا مگر تابش نظرانداز کرگیا۔

ہماری کوئی جائداد نہیں دُر لا نے ہمارا بہت خیال کیا تھا ہمیں اچھے اسکول کالجز میں پڑھی وہاں حویلی میں کھایا پیا اِس لیے ہمارا جو کجھ بھی تھا وہ ہم نے دُر لا کے نام کردیا تھا کیونکہ ہمیں اِن سب کی ضرورت نہیں تھی۔حریم نے اُن دونوں کے سروں پہ دھماکا کیا۔

ایسے کیسے ہوسکتا ہے تم ابھی اٹھارہ کی نہیں ہوئی تو کیسے ممکن ہے تم اپنی مرضی سے کسی کے نام کرو۔تابش غصے سے پاگل ہوا

آپ کیوں اتنا غصہ ہو رہے ہو ہماری چیز تھی ہماری مرضی ہم جس کو بھی دے اور آپ کو ایک بات بتادوں دُر لا نے وکالت کی ہوئی ہے کاغذات بنانا اور بنوانا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ہم نے اپنے سائن دے دیئے بس قانونی کارروائی رہتی ہے وہ بھی ہوجائے گی جلد۔حریم پرسکون لہجے میں بولی اُس نے سوچ لیا تھا اپنے باپ کی حلال کی کمائی وہ اِن لالچی لوگوں کو نہیں دے گی بلکہ کسی دارلامان میں دے گی کم سے کم اُس کو ثواب تو ملے گا۔

حریم تمہاری کسی بھی چیز پہ درید شاہ کا کوئی حق نہیں اور کس وکالت کی بات کررہی ہو تمہیں نہیں پتا دُرید کے پاس کوئی ڈگری نہیں اُس نے جانے کس ردی کے سامان میں پھینک دی تھی۔اِس بار صدف بیگم نے کہا تو حریم کے چہرے پہ زخمی مسکراہٹ نے احاطہ کیا اب وہ اُن کو کیا بتاتی وہ دُرید شاہ کے قدموں کی دھول تک کو سنبھالتی تھی پھر کیسے ممکن تھا وہ دُرید شاہ کی اتنی قیمتی چیز کو کسی ردی کے سامان کے نظر کرتی.

ہم نے تو اپنا سب کجھ اُن کے نام کردیا نہ پھر چاہے اُن کا حق تھا یا نہیں۔حریم کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی

اِس کو کسی سائکاٹرسٹ کو دیکھائے زیادہ نہیں تو اِس کا ہم کہنا تو بند ہو ۔تابش طیش کے عالم میں اُٹھ کر کہتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر سے باہر چلاگیا۔

حریم تم حویلی جاؤ گی اور درید سے کہو گی تم اپنا سب کجھ تابش کے نام کرنا چاہتی ہو کیونکہ وہ تمہارا شوہر ہے تمہاری ہر چیز پہ بس اُس کا حق ہے۔صدف بیگم نے کجھ سخت لہجہ اختیار کیا۔

پھر تو تابش کو بھی اپنا سب کجھ ہمارے نام کردینا چاہیے کیونکہ ہم اُنکی بیوی ہیں ان کی ہر چیز پہ ہمارا برابر کا حق ہے۔حریم دوبدو بولی

حریم تمہیں کسی نے سِکھایا نہیں سسرال میں کیسے رہا کرتے ہیں اِس قدر زبان درازی کرنے کا مطلب سمجھتی ہو تم کیسے سمجھتی ماں ہوتی تو اخلاقیات کا درس بھی دیتی۔صدف بیگم کے لفظوں نے اُس کے دل پہ وار کیا تھا۔

ہماری ماں چاہے نہیں پر تابش کی تو ہیں اُن کو کونسا اخلاقیات کا درس حاصل ہے

حریم

چٹاخ

حریم کی اِس قدر بدتمیزی پہ صدف بیگم اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے گال پہ تھپڑ دے مارا تو"حریم کو اپنے کان سائیں سائیں کرتے محسوس ہوئے اُس نے ساکت نظروں سے صدف بیگم کو دیکھا جو خونخوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھیں۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰه اللہ معاف کرے اِتنی بداخلاق ہو تم اگر مجھے پہلے پتا ہوتا تو میں کبھی تمہیں اپنے گھر کی بہو نہ بناتی تابش کو کہتی ہوں تمہیں لگام دے کر رکھے ورنہ کل کو تو تم ہمارے سروں پہ ناچوں گی۔صدف بیگم کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔

ہم کوئی گائے بھینس بکری نہیں جس کو آپ لگام دینے کی بات کررہی ہیں ایک جیتی جاگتی انسان ہیں اور آپ ہم سے اخلاق کی اُمید کیسے لگاسکتی ہیں جس کا شوہر اُس کی شادی کی پہلی رات سے اُس کو باور کروادیتا ہے کے اُس نے شادی محض جائداد کی وجہ سے کی ہے۔حریم اُن کی بات سن کر چیخ پڑی۔

مزاق کیا ہوگا۔اب کی صدف سٹپٹاتی نظریں چُراکر بولی۔

بےوقوف نہیں جو مزاق اور حقیقت کو سمجھ نہ پائے۔حریم طنزیہ لہجے میں بولی۔

اچھا اب بس اپنے کمرے میں جاؤ سسرال کے طور طریقے میں تمہیں اچھے سے سکھایا کروں گی لڑکیوں کو ایسے نہیں برتاؤ کرنا ہوتا سسرال میں ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھایا جاتا ہے اگر تم اپنا گھر بچانا چاہتی ہو تو جیسا میں کہو گی ویسا کرنا ہوگا تمہیں۔صدف بیگم حکیمہ لہجے میں بولی تو حریم بنا کجھ کہے اپنے کمرے میں چلی گئ۔

ضرورت کیا تھی تابش کو ابھی سے سب بتانے کی پیار کا ناٹک کرکے سب کجھ اپنے نام کروادیتا۔حریم کے جانے کے بعد وہ پریشانی سے بڑبڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕

حریم سے بات ہوتی ہے آپ کی؟دُرید کلثوم بیگم کے کمرے میں آتا اُن سے بولا جو قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں مصروف تھی۔

ایک ہفتے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے حریم تو جیسے ہم سب کو بھول چُکی ہے یہاں آنا تو دور کال پہ بات تک نہیں کرتی۔کلثوم بیگم قرآن پاک کو سینے سے لگاتی اُٹھ کر اپنی جگہ پہ رکھ کر بولی۔"کلثو بیگم کی بات سن کر دُرید کے ماتھے پہ پریشانی کی لکیریں نمایاں ہوئی۔

آپ وہاں جائے حریم کے پاس جانے وہ کیسی ہوگی۔دُرید کے لہجے میں فکرمندی تھی۔

یہاں حویلی میں بہت کام ہوتے ہیں فرصت نہیں ملتی میں صدف سے کہوں گی حریم کو یہاں لے آئے۔کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے کہا

میں جاؤں اُس سے ملنے؟دُرید کجھ سوچ کر بولا

تمہارا جانا معیوب سمجھا جائے گا مانا کے تم نے اُس کا بچپن سے بہت خیال کیا مگر اب وہ شادی شدہ ہے تمہارا اُس کے لیے یوں فکرمند ہونا ملنا وغیرہ سب کو مشکوک لگے گا ویسے میں بھی نہیں چاہتی تم حریم سے ملو۔کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے بولی

معیوب کسی کو سمجھنا چاہیے نہیں اور آپ ایسا کیوں چاہتی ہیں کے میں اُس سے نہ ملو؟دُرید نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھ کر پوچھا

وجہ تو اچھے سے جانتے ہو تم حریم کو اُس کے سسرال میں قدم جمانے دو اگر تم ایسے ہی اُس سے ملتے رہے تو اُس کے قدم ڈگمگا جائے گیں اچھا اسی میں ہے وہ تمہیں بھول جائے۔کلثوم بیگم بنا لگی لپٹی کے بولی تو دُرید کی زبان کو جیسے قفل لگ گیا۔

حریم کی شادی ہوگئ ہے اِس کا یہ مطلب تو نہیں نہ کے میرا اُس پہ کوئی حق نہ رہا۔دُرید کجھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا

تمہارا کونسا حق حریم پہ نکلتا ہے؟کلثوم بیگم نے سوال اُٹھایا تو دُرید سمجھ نہیں پایا وہ اِس بات کا کیا جواب دے۔

کوئی نہیں نکلتا۔دُرید کو خوامخواہ چڑ ہونے لگی تو وہ اُن کے کمرے سے باہر چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان گھر داخل ہوتا سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھا اُس نے اپنے کمرے کی ساری چیزیوں کو تنہس نہس کردیا تھا۔

کیوں؟

کیوں؟

آخر میرے ساتھ ہی کیوں؟ڈریسنگ ٹیبل سے سارا سامان وہ نیچے پھینکتا خود سے جواب طلب ہوا آنکھیں خون چھلکانے کی حدتک لال ہوگئ تھی ہاتھ تک زخمی ہوگئ تھے مگر ایک یمان تھا جس کو کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا اُس کے سینے میں آگ لگی ہوئی تھی جو بُجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

گھر میں موجود ملازموں نے جب یمان کے کمرے سے شور سُنا تو دلاور خان کا فون کرنے لگے۔

میں مر کیوں نہیں جاتا آخر کیوں مجھے اُن سے محبت ہوئی کیا اُن کی نظر میں میری محبت کی ذرہ قدر و قیمت نہیں۔کمرے کا حشر نشر کرنے کے بعد وہ نیچھے بیٹھ کر گھٹنے فولڈ کیے بیٹھ گیا اُس کو اپنا دل درد سے پھٹتا محسوس ہورہا تھا۔ہاتھ میں لگے زخم سے خون رس کر فرش کو رنگین کررہا تھا یمان بے تاثر نظروں سے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا جہاں کانچ چُھبا ہوا تھا اُس کے دل میں جانے کیا سمائی جو اپنے دوسرے ہاتھ اُس کانچ کو بے دردی سے اپنے ہاتھ سے نکالا جس سے جہاں اُس کو تکلیف محسوس ہونے کے بجائے عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا وہ پاگل ہوتا جارہا تھا خود کو تکلیف میں دیکھ کر اُس کو تو سکون مل رہا تھا مگر دل کو بے سکونی نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا۔کجھ دیر بعد دلاور خان بھی گھر پہنچ گئے تھے اُنہوں نے جب یمان کی حالت اور کمرے کا حال دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ کسی کبار خانے میں آ گئے ہو جہاں ہر طرف کانچ کی کرچیاں تھی ڈرسینگ ٹیبل کا سارا سامان نیچے اپنی حالت پہ ماتم کُناں تھا مگر جو بات ان کو تکلیف پہنچا رہی تھی وہ یمان کی حالت تھی جو بکھرے بال سرخ آنکھیں سمیت ٹوٹا سا بیٹھا تھا وہ جب شو میں گانا گاتا تو سب اُس کی فیم دیکھ کر اُس کو دُنیا کا خوشقسمت انسان کا نام دیتے جس کے پاس سب کجھ تھا پئسا دولت نام اپنی خود کی پہچان مگر کوئی یمان کی آج والی حالت دیکھتا تو انہیں پتا چلا کے اِس منزل تک پہنچنے کے لیے اُس نے کیا کجھ نہیں جھیلا تھا کس کس کو نہیں کھویا تھا باہر سے جتنا وہ مضبوط نظر آتا تھا اندر سے وہ اتنا ٹوٹا ہوا بکھرا سا تھا کہنے کو تو اُس کے پاس سب کجھ تھا مگر سچ بات تو یہ تھی اُس کے پاس کجھ بھی نہیں تھا۔ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے ہم انسان دوسرے انسان کی ظاہری شخصیت دیکھ کر اُن سے ایمپریس ہوجاتے ہیں ان کو خوشقسمت قرار دیتے ہیں مگر ہم اُن کی اندرونی کیفیت سے یکسر انجان ہوتے ہیں۔

یمان میرے بیٹے یہ کیا حال اپنا بنالیا ہے اور تمہارا ہاتھ او مائی گوڈ یمان کیا تم پاگل ہوگئے ہو۔دلاور خان پریشانی سے اُس کی جانب آتے بولے مگر جب اُن کی نظر یمان کے ہاتھ پہ پڑی تو اُن کی فکر میں اضافہ ہوا انہوں تیز آواز میں ملازم سے فرسٹ ایڈ بوکس لانے کا کہا۔

کیا بات ہے یمان تمہیں تو دوبارہ سے آج لاہور جانا تھا نہ پھر یہ سب؟دلاور خان اُس کے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پوچھنے لگی۔

آج میں نے ان کو دیکھا جن کو دیکھنے کی دعا میری ہر سانس کرتی تھی۔یمان خالی خالی نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولا

کس کی بات کررہے ہو؟دلاور خان کو سمجھ نہیں آیا "جب کمرے میں ملازم داخل ہوا تو انہوں نے جلدی سے اُس کے ہاتھ سے فرسٹ ایڈ بوکس لیکر یمان کے زخم پہ مرہم لگانے لگے۔

جن سے میں پیار کرتا ہوں آپ کو پتا ہے انہوں نے شادی کرلی کیا میری یاد ان کو کبھی نہیں آئی میری محبت کی زرہ پرواہ نہیں انہیں۔یمان کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی جس کو اِس بار اُس نے اندر کی جانب دھکیلنا ضروری نہیں سمجھا۔

یہ تو ہونا تھا نہ یمان تم کیوں خود کو ایک سیراب کے پیچھے بھگاکر اذیت میں مبتلا کررہے ہو گُزرے واقعے کو سات سال سے زیادہ عرصہ ہونے والا ہے محبت تم نے اُس لڑکی سے کی تھی اُس نے نہیں پھر تمہیں کیوں ایسا لگا وہ تمہارے انتظار میں بیٹھی جوگن بن گئ ہوگی۔دلاور خان اُس کی ساری بات سمجھ کر گہری سانس بھر کر بولے۔

انہوں نے کیوں کیا ایسا؟یمان کی ایک ہی رٹ۔

تم نے جب مجھے اپنے ماضی سے آگاہ کیا تھا تو بتایا تھا نہ وہ شاہ خاندان سے ہے جہاں شادی اُن کے اپنوں میں ہوتی ہے خاندان سے باہر نہیں تو جب سارا کجھ تمہیں پتا ہے تو ان سب کا کیا فائدہ۔دلاور خان نے کہا

مجھے ایک اُمید تھی ان کے ملنے کی مگر آج مجھے یہاں بہت تکلیف ہو رہی ہے۔یمان نے اپنے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھ کر بے بسی سے بتایا تو دلاور خان کو اُس پہ ترس آنے لگا جس نے خود پہ خوشیاں حرام کی ہوئی تھی۔

وہ مجھے کیوں نہیں مل سکتی؟یمان اپنی سرخ آنکھوں سے ان کو دیکھ کر بولا

کجھ چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی۔دلاور خان سمجھانے والے انداز میں بولے

میرا دل آج چاہ رہا تھا میں اُس انسان کا قتل کردوں اُس کے خوبصورت چہرے کا نقشہ بگاڑدوں میں ایسا کر بھی دیتا اگر گاڑی میں وہ نہ بیٹھی ہوتی تو میں گاڑی کہی ٹھوک دیتا۔یمان کی نظروں کے سامنے شازل کا عکس لہرایا تو اُس کو نئے سِرے سے تکلیف ہونے لگی۔

ایسا نہیں بولتے خود کو سنبھالوں یمان اور اُس کو بھول جاؤ۔دلاور خان اُس کے اِرادے جان کر اُس کو اپنے ساتھ لگائے بولے انہیں لگ رہا تھا یمان اپنے ہوش میں نہیں تبھی تبھی ایسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہے مگر اُن کو شاید پتا نہیں تھا یمان کی نظر میں اب مار پیٹ عام سی بات تھی۔

میرے بس میں نہیں میرا سانس رُکنے لگتا ہے اگر ایسا سوچتا بھی ہوں تو۔یمان اُن کے سینے لگتا اپنی دل کی حالت بتانے لگا۔ 

تمہیں اُس کی آنکھوں سے عشق تھا نہ تو بس میں اُس آنکھوں والی کوئی لڑکی تمہارے لیے تلاش کرتا ہوں۔دلاور خان نے اُس کا دھیان بٹانے کے غرض سے مزاحیہ انداز میں بولے

مجھے بس وہ چاہیے۔یمان زخمی انداز اپناتا بولا

اور کوئی نہیں آئے گا ہمارے دل پہ

ختم کردی محبت ہم نے ایک پہ

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش نماز پڑھ کر اللہ سے اپنے لیے بہتری کی دعا مانگنے کے بعد ابھی بیٹھی ہی تھی جب ماہی دروازہ نوک کرتی اُس کے کمرے میں آئی۔

ڈنر تیار ہے آجاؤ میں نے سب تمہاری پسند کا بنایا ہے۔ماہی نے مسکراکر پرجوش آواز میں بتایا

میری پسند کا؟تمہیں کیسے معلوم؟آروش کو شازل سے ہوئی بات یاد نہیں تھی۔

شازل نے بتایا تھا ایک دن تو مجھے یاد تھا اِس لیے سوچا آج بنادوں۔ماہی نے بتایا تو آروش سراثبات میں ہلاتی اُس کے ساتھ نیچے آئی۔

تم بیٹھو کھانا شروع کرو میں تب پانی کا جگ لاتی ہوں شازل بھی تب تک آجائے گے۔ماہی اُس سے کہتی خود کچن کی طرف بڑھ گئ۔

آروش نے گہری سانس بھر کر ایک ڈونگے کا ڈھکن اُٹھایا تو اُس کو حیرت ہوئی کیونکہ ڈھکن ہٹانے سے اُس کو نظر آئی گرم گرم بھنڈیا جو ڈونگے میں رکھی ہوئی تھی اُس کو لگا شاید ماہی کو پسند ہو یہ سبزی تبھی اُس نے اپنا ہاتھ دوسرے ڈونگے کی جانب کیا تو وہاں کریلے پڑے ہوئے تھے جس کو دیکھ کر کھائے بنا اُس کی زبان کڑوی ہوگئ تبھی وہاں ماہی بھی آگئ۔

کیا ہوا تم نے کھانا شروع نہیں کیا ابھی تک؟ماہی نے اُس کے سامنے کوئی پلیٹ نہ دیکھی تو تعجب سے پوچھا

یہ سب؟آروش نے تیبل پہ موجود لوازمات کی جانب اِشارہ کیا جیسے کہنا چاہ رہی ہو تم نے تو کہا تھا سب تمہاری پسند کا ہے۔

بھنڈیاں اور کریلے تمہارے موسٹ فیورٹ ہیں نہ شازل نے بتایا تھا بچپن میں تم دونوں کی بہت لڑائی ہوا کرتی تھی کے کون زیادہ کھاتا ہے اور کون کم کبھی کبھی تو آپ دونوں مقابلہ کرتے تھے رائٹ اور دونوں جیت بھی جاتے تھے۔ماہی کو آروش کا ایسے پوچھنا سمجھ نہیں آیا تبھی پرجوش آواز میں بتایا اُس کی بات پہ آروش یاد کرنے لگی اُس نے کب یہ دونوں سبزیاں کھائی تھی۔

ارے واہ میرے بغیر کھانا شروع کردیا۔شازل وہاں آتا مصنوعی افسوس سے بولا مگر نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو آنکھوں میں حیرت در آئی اُس نے بے ساختہ تھوک نگلا۔

ابھی کہا میں آپ کا ویٹ کررہی تھی سوچا بچپن کی یادیں تازہ کردی جائے ایک ساتھ بھنڈیاں کھاکر۔آروش بھنڈیوں کی پلیٹ شازل کے سامنے کرتی ہوئی بولی تو شازل نے ماہی کو دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی پھر آروش کو دیکھا جو اپنی ایک آئبرو اُپر کرتی اُس کو دیکھ کر ایسے جتارہی تھی جیسے کہنا چاہ رہی ہو میری پسند کا تو مجھ سے زیادہ آپ کو پتا ہے۔دونوں کو ایسے تاثرات دیکھ کر شازل کو اپنا آپ بیوی اور بہن کے درمیان بُری طرح سے پھنستا محسوس ہورہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

میں پیزا آرڈر کرتا ہوں۔شازل زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا

پیزا کیوں؟ماہی نے جلدی سے پوچھا

ماہی یار مجھے سمجھ نہیں آیا میں تم کیا کہوں معصوم یا پھر بے وقوف میں نے مزاق کیا تھا تم سے اور تم نے اُس کو سیریسلی لے لیا۔شازل اپنی جیب سے موبائل نکالتا اُس سے بولا تو ماہی کا منہ بن گیا بلاوجہ شرمندگی کا احساس الگ سے ہونے لگا۔

لالہ باہر سے کجھ منگوانے کی ضرورت نہیں۔آروش نے دونوں کو ایک نظر دیکھ کر کہا

کیوں؟شازل نے سے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا۔

ہم سب یہی کھائے گے۔آروش پرسکون بھرے لہجے میں کہتی خود کے لیے روٹیاں نکالنے لگی۔

مجھے یہ پسند نہیں تمہیں پتا ہے۔شازل نے احتجاجاً کہا

مجھے بھی نہیں پسند۔ماہی نے بھی بولنا ضروری سمجھا۔

تم نے تو کہا تھا تمہارا موسٹ فیورٹ ہے۔شازل نے اُس کو گھور کر کہا

اور اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو۔ماہی دوبدو بولی۔"جب کی آروش خاموش نظروں سے اُن کو ایک دوسرے سے لڑتا دیکھ رہی تھی۔

پسند تو مجھے بھی نہیں پر اگر بنایا ہے تو کھانا پڑے گا ورنہ رزق کا ضائع ہوجائے گا اور رزق کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے اِس لیے پسند ہے یا نہیں کھانا لازمی ہے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا تو وہ دونوں خاموش ہوئے کیونکہ دونوں کو آروش کی بات درست لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

میں...!!

اُسکی زندگی کی کتاب کا...!!

لاسٹ پیج ہوں...!!

جِس پر وہ ایکسٹرا لِکھتی ہے...!!

رف، بے دھیانی میں...!!

اور بے ڈھنگ...

یمان یہ تمہارے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے؟زوبیہ بیگم نے رات کے ڈنر کے وقت یمان کا زخمی ہاتھ دیکھا تو فکرمندی سے پوچھنے لگی اُن کو ساری بات کا علم نہیں تھا دلاور خان نے یمان کے کمرے کا حال بہتر کروالیا تھا اور زوبیہ بیگم کو نہیں بتایا وہ جانتے تھے اگر وہ زوبیہ بیگم کو بتائے گے تو وہ پریشان ہوجائے گی اور زوبیہ بیگم اُس وقت گھر پہ نہیں تھیں تو اُن کو پتا بھی نہیں چلا۔

کجھ نہیں بس زرہ سی چوٹ لگ گئ تھی۔یمان سپاٹ لہجے میں بولا

زرہ سی چوٹ تو نہیں لگ رہی تمہاری آنکھیں بھی بہت سرخ ہے۔نور نے اُس کا جائزہ لیکر کہا

میں ٹھیک ہوں۔یمان نے جیسے بات ختم کی۔

لاہور کیوں نہیں گئے؟زوبیہ بیگم کو اچانک خیال آیا تو پوچھ لیا۔

پھر کبھی جاؤں گی۔یمان کو اتنے سوالوں سے کوفت ہونے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہمیں صوفے پہ نیند آتی۔حریم تابش کے سر پہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی

تو؟تابش نے بیزاری سے اُس کو دیکھا

تو یہ کے یا آپ ہمارے لیے الگ روم کُھلوائے یا خود صوفے پہ سوجائے۔حریم نے اپنی بات اُس کے سامنے کی۔

میں تمہارے دُر لا کا نوکر نہیں جو تمہاری ہر بات پہ لبیک پڑھوں گا۔تابش نے اُس کو گھورا

آپ بات پہ بات دُر لا زکر مت چھیڑا کرے۔حریم کو اُس کا یوں بار بار دُرید کے نام پہ طعنہ دینا بُرا لگ رہا ہے وہ دُرید کے بارے میں اب سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی مگر ایک اُس کا شوہر تھا جو اپنے جاہل ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔

حریم پہلی اور آخری بات میں تمہیں بہت بار کہہ چُکا ہوں مجھے تمہارا یہ ہم لفظ کوفت میں مبتلا کرتا ہے اِس لیے اچھا یہی ہے تمہاری لیے کے یہ لفظ استعمال نہ کرو۔تابش اُس کی بات نظرانداز کرتا بولا

کوشش کرینگے۔حریم نے ہر بار بحث کرنا ضروری نہیں سمجھا

ہممم گُڈ دوسری سائیڈ پہ سوجاؤ الگ کمرے میں جاؤں گی تو یہ بات پورے گاؤں میں پھیل جائے گی یہاں ملازم بھی رہتے ہیں۔تابش سنجیدگی سے کہتا خود لیٹ گیا۔

حویلی میں جو ملازم ہوتے ہیں وہ تو حویلی کی باتیں باہر نہیں کرتے۔حریم بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ آکر بولی

یہاں شھباز شاہ نہیں رہتا نہ۔تابش نے طنزیہ کیا۔

ایک بات پوچھو؟حریم نے کجھ سوچ کر اُس کو مخاطب کیا۔

پوچھو۔تابش نے اِجازت دی۔

کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے تھے؟حریم نے کجھ جھجھک کر پوچھا

میرا مزاج تمہارے دُر لا اور شازل کی طرح عاشق مزاج نہیں ایک تمہارا دُر لا تھا جو اپنی محبت کے پیچھے خوار ہوا تو دوسرا شازل لالہ تمہارا جو ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی کو اپنے سر پہ بیٹھا رہا ہے جب کی اُس کو چاہیے تھا اپنی جُتی کے نوک پہ رکھتا۔تابش تکبر سے بولا

حویلی کے مردوں کو عورت کی عزت کرنا آتی ہے۔حریم کا لہجہ خاصا جتایا ہوا تھا۔

تم کیا کہنا چاہتی ہو مجھے عورت کی عزت کرنا نہیں آتی۔تابش اُٹھ کر اُس کا بازوں دبوچ کر بولا تو تکلیف کے احساس سے حریم نے اپنی آنکھوں کو زور سے میچا

جو مرد اپنی بیوی کی عزت نہیں کرسکتا وہ کسی اور لڑکی کو عزت کیا خاک دے گا۔حریم اپنی تکلیف نظرانداز کرتی ہوئی بولی تو تابش کی مردانہ انا کو ٹھیس پہچی۔اُس نے حریم کو بالوں سے پکڑ کر در پہ در اُس کے چہرے پہ تھپڑ رسید کیے اُس کی یہاں بس نہیں ہوئی تھی زہنی اور جسمانی تکلیف وہ اُس کو ساری رات دیتا رہا جس پہ حریم نے بے ساختہ اپنے مرنے کی دعا کی۔

حریم کی زندگی کی یہ رات بہت بھیانک تھی جس نے اُس کے ہر احساسات کو چھین لیا تھا آج کی رات نے حریم پہ بہت بھاری تھی اور وہ اندر سے پوری طرح سے مرچُکی تھی جس کا زمیدار وہ بس دُرید شاہ کو سمجھتی تھی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

دُرید کافی وقت سے سونے کی کوشش کررہا تھا مگر نیند تھی جو شاید اُس سے روٹھی ہوئی تھی جو آنے کا نام تک نہیں لے رہی تھی اُس کو اپنے اندر آج عجیب سے بے چینی محسوس ہورہی تھی جس کو وہ کوئی نام نہیں دے پارہا تھا۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے حریم تکلیف میں ہے۔دُرید بیڈ سے اُٹھتا اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوتا بڑبڑایا۔

میں کجھ زیادہ سوچ رہا ہوں اُس کے بارے میں۔دُرید نے اپنے دل کو ڈپٹا۔

تابش کو کال کرتا ہوں۔کسی خیال کے تحت وہ اپنے فون کی جانب بڑھا تو موبائل کی اسکرین آن کی تو اُس کو احساس ہوا۔

ایک بج رہا ہے اِس وقت کال کرنا ٹھیک نہیں وہ سب سوچُکے ہوگے۔دُرید نے اپنی بات کی نفی اور اپنا سر پکڑتا بیڈ پہ بیٹھ گیا اُس کا دل کسی انہونی کے احساس سے دھڑک رہا تھا جیسے کجھ بُرا نہیں بہت بُرا ہونے والا ہو اور اُس کے سامنے بار بار حریم کا چہرہ آرہا تھا جو اُس کو بے چین کررہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم سوئی نہیں ابھی تک؟ماہی جو کچن سے پانی لینے کے غرض سے جارہی تھی اُس نے جب لاؤنج میں آروش کو بیٹھا پایا تو اُس کے پاس آکر بولی۔

میں نے حریم کے مطلق بہت بُرا خواب دیکھا ہے اِس لیے مجھے نیند نہیں آرہی گھبراہٹ ہورہی ہے اور یہ گھبراہٹ تب تک رہے گی جب تک میں حریم کی آواز نہ سن لوں۔آروش اُس کو دیکھ کر بولی۔

سب ٹھیک ہوگا ایک خواب کے بارے میں اتنا مت سوچو۔ماہی نے اُس کو تسلی کروائی۔

میں کسی خواب کو اتنا سنجیدگی سے خود بھی نہیں لیتی مگر حریم رو روہی تھی اور تم نہیں پتا ہماری حریم بہت بہادر ہے وہ بلاوجہ روتی نہیں ہے۔آروش نے اُس کی بات سن کر کہا

تم بہت پیار کرتی ہو حریم سے؟ماہی نے اُس کی فکرمندی دیکھ کر اندازہ لگایا۔

حریم مجھے عزیز ہے میری کوئی چھوٹی بہن نہیں جس طرح میں لالہ والوں سے چھوٹی ہوں تو وہ میری ٹانگ کھینچا کرتے تھے بچپن میں میری چیزیں غائب کیا کرتے تھے ٹھیک اُسی طرح یہ سب میں حریم کے ساتھ کیا کرتی تھی وہ تب چھوٹی تھی بہت تو ایک بار رونے پہ آجاتی تو بس پھر روتی چلی جاتی اگر کوئی اُس کو خاموش کروانا چاہتا تو اُس کے رونے میں مزید روانگی آجاتی تب میں اُس کو اٹینشن سیکر کہا کرتی تھی سارا وقت درید لالہ کے پیچھے ہوا کرتی تھی کھانا تک اُن کے ہاتھ سے کھایا کرتی تھی مگر جب وہ پڑھائی کے سلسلے میں باہر گئے تو میں نے تھوڑا بہت اُس کا خیال رکھنا شروع کیا وہ بہت حساس تھی اُس کے پاس نہ ماں تھی نہ باپ کا پیار ہم جب اپنی ماؤں کے ساتھ ہوتی تو سب کو وہ حسرت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی مگر جب درید لالہ ہوتے تو اُس محترمہ کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے کے ہم سب سے بڑے دُرید لالہ تھے دلدار لالہ تو حویلی میں کم پائے جاتے تھے تو ہم سب بچوں کا خیال دُرید لالہ رکھتے اور حریم چھوٹی چھوٹی بات لالہ کو بتاتی میری تو جانے کتنی چغلیاں وہ اُن کو دیتی تھی چاہے دُرید لالہ مجھ سے کتنا پیار کیوں نہ کرے مگر جب حریم اُن کے سامنے ہوتی تو میرے بجائے وہ اُن کی سنتے کیونکہ پھپھو جان نے حریم کی زمیداری لالہ کو دی تھی اِس لیے وہ حریم کا کام سب خود کیا کرتے تھے اماں سائیں یا گھر کے ملازموں سے نہیں۔ماہی کے ایک سوال پہ آروش اُس کو سب کجھ بتاتی چلی گئ اور ماہی کجھ حیرت سے اُس کو دیکھ رہی تھی اتنے وقت میں آروش کو اُس نے اتنا زیادہ بولتا نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ اُس کی بات کا ہمیشہ مختصر جواب دیا کرتی تھی مگر آج وہ بہت اچھے سے اُس کو جواب دے رہی تھی ماہی کو آروش آج بہت مختلف لگی۔

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم نظر آتی ہو ویسی ہو نہیں۔ماہی سے رہا نہیں گیا تو کہا۔

آروش جو حریم کے مطلق سوچ رہی تھی ماہی کی اِس بات پہ وہ چونک پڑی 

میں سمجھی نہیں۔آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

میری بات کا مطلب یہ کے تم دیکھنے میں بہت سخت مزاج کی لگتی ہو اور تم بولتی بھی بہت سخت قسم کا ہو مگر آج مجھے ایسا بلکل نہیں لگا آج تم مجھے حساس مزاج کی پیار کرنے والی سب کا خیال کرنے والی لگی ہو۔ماہی اُس کو دیکھ کر مسکراکر بولی

رات بہت ہوگئ ہے تمہیں اپنے کمرے میں جانا چاہیے لالہ اتنظار کررہے ہوگے۔آروش نے اُس کی بات پہ یہ کہا تو ماہی نے اُس کو گھورا

کھڑوس۔ماہی اُس کو دیکھتی نئے لقب سے نوازنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

ہے یمان۔

شازل اپنے کلائنٹ سے ملنے مونال ریسٹورنٹ آیا تھا جہاں اُس کو یمان فینز کے درمیان کھڑا پایا تو اُس کو آواز دی۔

یمان نے اپنے نام کی پُکار پہ سامنے دیکھا تو شازل اُس کو آواز دے رہا تھا شازل کو دیکھ کر یمان کو اپنے زخم تازہ ہوتے محسوس ہوئے اُس نے اپنے ساتھ کھڑے لوگوں سے ایکسکیوز کیا اور ناچاہنے کے باوجود بھی شازل کے پاس آیا

السلام علیکم۔یمان اُس کے پاس والی چیئر پہ بیٹھ کر سلام کرنے لگا۔

وعلیکم السلام کیسے ہو؟شازل نے مسکراکر اُس کو دیکھا جو آج معمول سے زیادہ سنجیدہ نظر آرہا تھا۔

تمہارے سامنے ہوں۔یمان تیکھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر آپ جناب کا تکلف چھوڑ کر بولا "شازل اُس کو ہینڈسم ڈیشنگ پرسنائلٹی کا مالک لگا مگر اپنے مقابلے میں کم لگا"

اِن سے زیادہ تو میں اچھا ہوا پھر انہیں اِس میں کیا نظر آگیا۔یمان اپنا چہرہ دوسری جانب کیے سوچنے لگا

مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا اگر کل تم نہ ہوتے تو پریشانی کا سامنا کرنا کیب جانے کب آتی اور میری بہن مجھ پہ غصہ ہوتی۔شازل کے بہن لفظ پہ یمان کو حیرت کا شدید قسم کا جھٹکا لگا وہ آنکھیں پھاڑ کر اُس کو دیکھنے لگا اُس کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔

بہن؟یمان دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کو دیکھنے لگا اُس کا رواں رواں شازل کے جواب کا منتظر تھا۔

ہاں بہن بھول گئے کیا کل جو میرے ساتھ تھی وہ۔شازل نے کہا تو یمان کو اپنے کم عقل ہونے پہ جی بھر کر غصہ آیا اور دل کے کسی کونے میں سکون ملا پھر اچانک اپنا ری ایکشن یاد آیا تو اُس کے چہرے پہ ہنسی آئی۔

از ایوری تھنگ فائن؟شازل نے اُس کو مسکراتا دیکھا تو کجھ تعجب سے پوچھا اُس کو سب سے زیادہ حیرانی یمان کے ڈمپلز دیکھ کر ہوئی تھی اُس کے حساب سے یمان کے گالوں پہ ڈمپلز نہیں تھے مگر اِس وقت اُس کے اتنے گہرے گڑھے دیکھ کر وہ حیران بھی ہوا تھا اور اُس کو وہ ڈمپلز خوبصورت بھی لگے تھے۔

ہاں فائن۔یمان نے خوشگوار لہجے میں کہا اُس کا موڈ اچانک سے فریش ہوگیا تھا ساری رات جو اُس نے کانٹوں پہ گُزاری تھی اب جیسے بھڑکتے دل کو قرار سا آیا تھا۔

یہ چوٹ کب آئی؟شازل کی نظر اب اُس کے ہاتھ پہ گئ۔

یہ چوٹ میرے بے وقوف ہونے کا ثبوت ہے۔یمان اپنا ہاتھ دیکھ کر بولا

سیریسلی۔شازل اُس کے جواب پہ مسکرایا۔

ہاں تم بتاؤ کجھ کھاؤ گے!یمان نے سخاوت کا مظاہرہ کیا

بل تم پے کرو گے؟شازل نے شرارت سے اُس کو دیکھا 

بلکل میں کروں گا اور تم بتاؤ کیا کرتے ہو؟یمان نے مسکراکر پوچھا

آج تم مجھے کافی خوش دیکھائی دے رہے ہو میں اتنی بار تم سے ملا ہوں اور مجھے اب پتا چلا ہے تمہارے پاس اتنے پیارے پیارے ڈمپلز ہیں سچی بتاؤ تو مجھے پہلے لگتا تھا یہ ڈمپلز بس لڑکیوں پہ سوٹ کرتے ہیں مگر تمہیں دیکھا تو میری سوچ بدل گئ۔شازل اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے یہ بولا

میں خود اپنے ڈمپلز کم دیکھتا ہوں۔یمان اپنی بیئرڈ پہ ہاتھ پھیر کر گول مٹول سا جواب دینے لگا تو شازل قہقہقہ لگانے لگا۔

کبھی کبھی تم مجھے بہت فنی لگتے ہو۔شازل نے اپنی راے کا اظہار کیا جس پہ یمان محض مسکرایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم تیار ہو تو چلے ہم نے شہر جانا ہے۔شھباز شاہ سوچو میں گم کلثوم بیگم سے بولے

ایک مرتبہ سوچ لے شاہ صاحب آروش کا ردعمل شدید ہوگا۔کلثوم بیگم نے انہیں باز رکھنا چاہا

میں جانتا ہوں مگر بتانا تو ہے آخر کو ایک دن اُس کو اپنوں کے پاس جانا تھا۔شھباز شاہ نے یہ بات کس دل سے کہی تھی یہ بس وہ جانتے تھے

حویلی کتنی سونی ہوجائے گی نہ اُس کے بنا۔کلثوم بیگم افسردگی سے بولی

حویلی کا پتا نہیں دل ضرور سُونا سُونا ہوجائے گا۔شھباز شاہ کے کہا تو انہوں نے ضبط سے اپنی آنکھوں کو میچا۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہ حریم ابھی تک اُٹھی نہیں کیا اور تابش وہ کہاں ہے نظر نہیں آرہا کیا وہ بھی ابھی تک سورہا ہے؟صدف بیگم نے ٹیبل پہ ناشتہ سجاتی ملازمہ سے پوچھا

جی وہ حریم بی بی تو شاید ابھی تک سو رہی ہیں مگر تابش بابا صبح سویرے کے گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں آئے۔ملازمہ نے بتایا

اچھا تابش چلاگیا پر یہ حریم کیوں نہیں آئی اُس کو تو صبح سویرے اُٹھنے کی عادت ہے۔صدف بیگم پرسوچ لہجے میں بولی

میں دیکھ آؤں؟ملازمہ نے اِجازت چاہی۔

السلام علیکم۔ابھی صدف بیگم اُس کو کوئی جواب دیتی اُس سے پہلے درید شاہ کی بھاری آواز سن کر صدف بیگم اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

وعلیکم السلام دُرید بیٹا خیریت تم اتنی صبح صبح یہاں؟صدف بیگم نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھا

جی میں بس حریم سے ملنے آیا تھا۔دُرید نے سنجیدگی سے بتاکر آس پاس نظر ڈورانے لگا کل پوری رات اُس کی کروٹیں بدل بدل کر گُزری تھی تبھی وہ صبح ہوتے ہی یہاں چلا آیا تھا۔

حریم سو رہی ہے تم بیٹھو میں اُس کو جگاتی ہوں۔صدف بیگم نے اُس کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا

میں بھی چلتا ہوں دروازے کے پاس رُک جاؤں گا۔دُرید نے کہا

آؤں۔صدف بیگم اُس کی بات پہ سر کو جنبش دیتی اُپر کی جانب بڑھی تو دُرید بھی اُن کے پیچھے جانے لگا۔

حری

صدف بیگم کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے جب انہوں نے بیڈ پہ کافی بکھرے انداز میں حریم کو بے سود لیٹا پایا اُن کے چہرے کی ہوائیاں اُڑگئ تھی۔

دُرید کو نظریں نیچے کرتا آرہا تھا صدف بیگم کے اٙدھورے جُملے پہ بے اختیار اُس نے اپنا سراٹھایا تو نظر حریم کی ایسی لُٹی ہوئی حالت پہ پڑی تو اُس نے ڈھرکتے کے دل کے ساتھ اپنی نظروں کا رخ موڑا جب کی صدف بیگم بھاگ کر اُس کے پاس پہنچتی چادر سے اُس کا وجود ڈھانپنے لگی۔

حریم۔

صدف بیگم کے منہ سے الفاظ نکل ہی نہیں پارہے تھے حریم کی ایسی حالت دیکھ کر جس کا پورا وجود اُس کے ساتھ ہوئی دردندگی کا ثبوت دے رہا تھا

ہٹے آپ۔درید کپکپاہٹ بھری آواز سے کہتا صدف بیگم کو حریم سے دور کرتا ہوا بولا

در

مجھے کجھ نہیں سُننا بس اپنے بیٹے کے لیے کفن کا بندوبست کرے۔دُرید اُن کی بات بیچ میں کاٹتا دھاڑنے والی انداز میں بول کر اپنی پہنی شال اُتار کر حریم کو اچھے طریقے سے  پہنائی جس سے اُس کا پورا وجود چُھپ گیا پھر  اپنے بازوؤں میں اُٹھانے لگا حریم کا ایسے ڈھیلا ڈھلا سا وجود پھر اُس کا زخموں سے چور چہرہ دیکھ کر دُرید کو اپنا دل پھٹتا محسوس ہورہا تھا آنکھوں سے وہ منظر ہٹ نہیں رہا تھا جو اُس نے کمرے میں داخل ہوتے حریم کو ایسی حالت میں دیکھا تھا۔

دُرید میری بات تو سنو۔صدف بیگم نے اُس سے کجھ کہنا چاہا مگر دُرید اٙن سنی کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر جانے لگا۔

اپنی موت کو دعوت دے دی تابش توں نے۔صدف بیگم گِرنے والے انداز میں بیڈ پہ بیٹھ کر بولی دُرید کا اتنا شدت بھر ردعمل دیکھ وہ جان گئ تھی تابش کو دُرید کے ارتکاب سے سِوائے ایک زات کے کوئی بچا نہیں سکتی۔

💕💕💕💕💕💕💕

شھباز شاہ کی گاڑی ابھی گاؤں کی حدود سے گُزرنے والی تھی جب اُس کا سیل فون رِنگ کرنے لگا۔

السلام علیکم۔شھباز شاہ نے کال اٹینڈ کرکے سلام کیا کیونکہ کال اُن کے خاص آدمی کی تھی۔

وعلیکم السلام شاہ سائیں غضب ہوگیا۔دوسری طرف سے بتانے والی بات پہ شھباز شاہ کے ماتھے پہ ان گنت بلوں کا جال بیٹھ گیا۔

گاڑی واپس موڑو۔شھباز شاہ موبائیل بند کرکے ڈرائیور سے بولے۔

شاہ سائیں کیا ہوا؟کلثوم بیگم نے بہت ہلکی آواز میں پوچھا۔

حویلی چلو پتا چل جائے گا۔شھباز شاہ نے تاثر لہجے میں بولے تو کلثوم بیگم نے پھر کوئی اور بات نہیں کی۔

💕💕💕💕💕💕💕

ہمیں پولیس کو انوالو کرنا ہوگا۔دُرید حریم کو لیکر ہسپتال آیا تھا جہاں سب حریم کی حالت دیکھ کر پہلے اُس کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے مگر دُرید کو جاننے کے بعد انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا تھا مگر اب ڈاکٹر کی اِس بات پہ دُرید جو ویٹنگ ایریا میں بیٹھا تھا چونک پڑا تھا۔

پولیس کو کیوں؟دُرید جس کی آنکھیں شدتِ ضبط کی وجہ سے سرخ ہوگئ تھی وہ اپنے سامنے کھڑی لیڈی ڈاکٹر سے پوچھنے لگی۔

دیکھے پیشنٹ کا ریپ کیا گیا ہے اور ایسے کسس میں پولیس کا ہونے لازمی ہے۔ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہا

ریپ؟درید کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سماجائے۔

جی ریپ بہت برے طریقے سے کسی نے اُن کو اپنی دردندگی کا نشانہ بنایا ہے اب جب تک پولیس نہیں آجاتی میں ٹریٹمنٹ شروع نہیں کرسکتے۔ڈاکٹر کی بات دُرید کو تپانے کے لیے کافی تھی۔

اُس کے شوہر نے کیا ہے ریپ سن لیا جان لیا اب جلدی سے علاج شروع کرے ورنہ مجھے ایک منٹ نہیں لگے گا اِس پورے ہسپتال کو آگ لگانے میں۔دُرید شیر کی مانند دھاڑا تو ڈاکٹر ڈر کر اُس سے کجھ قدم دور کھڑی ہوئی۔

ج جی۔وہ جلدی سے جواب دیتی وہاں سے بھاگنے والے انداز میں گئ۔جب کی دُرید کا دل حریم کی حالت جان کر پھٹنے کے قریب تھا۔

آپ نے ہمارے ساتھ جو کیا ہے نہ وہ ہم کبھی نہیں بھولے گے ہم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گے ہم بہت دور چلے جائے گی آپ کی زندگی سے اتنا کے آپ ہماری پرچھائی دیکھنے کے لیے بھی ترس جائے گے مگر حریم نام کی کسی چیز لڑکی کا آپ کا سامنا نہیں ہوگا آپ نے ہمارے دل پہ وار کیا ہے ہمیں لہولہان کیا ہے آپ نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے نہ اُس کا احساس آپ کو ان شاءاللہ ایک دن ہوجائے گا مگر تب بہت دور ہوچکی ہوگی اُس وقت آپ کے پاس سِوائے پچھتاوے کے کجھ نہیں ہوگا۔

مجھے معاف کردو حریم مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئ تم نے ٹھیک کہا تھا میں پچھتارہا ہوں مگر پلیز تم کہی دور مت جانا مجھے سچ میں بہت تکلیف ہو رہی ہے یا یوں سمجھو جو میں اِس وقت محسوس کررہا ہوں اُس کے لیے تکلیف لفظ بہت چھوٹا ہے۔دُرید کے کانوں میں حریم کے الفاظ گونجے تو وہ بے بسی کی انتہا کو چھوتا تصور میں اُس سے مخاطب ہوا اُس کے جسم کا ہر ایک عضو حریم کی سلامتی کی دعا مانگ رہا تھا۔

وہ تکلیف آپ محسوس نہیں کرسکتے جو ہم پچھلے ایک ماہ سے برداشت کرتے آئے ہیں اور جو اب ساری زندگی سہے گی آپ ہمیں زندہ قبر میں دفنادیتے مگر یہ شادی نہ ہونے دیتے۔

دُرید کو ایسا لگ رہا تھا جیسے حریم اُس کے سامنے کھڑی اُس پہ دوبارہ سے گرج رہی ہو مگر ایسا نہیں تھا حریم اُس کے پاس نہیں تھی وہ اپنا کہا سچ ثابت کررہی تھی اُس کو پچھتاوے کے احساس میں ڈال کر سکون سے ہوش وحواس سے بیگانا تھی۔

آپ نے ماما جان کا بدلا ہم سے لیا ہے اگر آپ کو آپ کی محبت نہیں ملی تو آپ نے ہم سے بھی ہماری محبت چھین لی ماما جان سے انتقام لینے کے چکر میں آپ نے ہمیں کہی کا نہیں چھوڑا ہمارے دل میں ہمارے دماغ میں ہمارے جسم میں آپ خون کی مانند ڈورتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی  آپ نے ہمارا نکاح کسی اور سے کروادیا ہمیں گنہگار بنادیا۔

میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی یہ جو میں نے تمہیں اُس حیوان کے ہاتھ سونپا تم تو شروع سے میری زمیداری تھی میں کیوں اپنی زمیداری سے دستبردار ہوا کیوں تمہاری ایک نہ سُنی مگر یہ سچ ہے میں نے کبھی تم سے بدلا نہیں لیا بھلا میں کیوں بابا سائیں کا بدلا تم سے لوں گا تم میرے لیے بہت اہم تھی حریم میں نے تمہارے لیے اچھا سوچا تھا میں چاہتا تھا تم ہمیشہ خوش رہو اگر مجھے زرہ بھی شک ہوتا میرے ایک ایسے فیصلے پہ تمہارا یہ حال ہوگا تو میں کبھی میں ایسا نہ کرتا۔دُرید بے بسی اپنی آنکھوں کو زور سے میچ کر بولا

پلیز حریم مجھے معاف کردینا۔دُرید کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا جس کو دُرید خود بھی محسوس نہیں کرپایا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

پریشان ہو؟شازل نے آروش کو بار بار یہاں سے وہاں ٹہلتا پایا تو پوچھا

لالہ مجھے گاؤں جانا ہے۔آروش نے شازل کی بات سن کر کہا

پر کیوں تم تو یہاں اسٹے کرنے والی تھی۔شازل اُس کی بات پہ حیران ہوا

مجھے اچھا محسوس نہیں ہورہا تھا صبح سے اماں سائیں بابا سائیں دُرید لالہ کو کال کررہی ہو مگر کوئی بھی کال ریسیو نہیں کررہا پتا نہیں حریم کیسی ہوگی۔آروش پریشانی کے عالم میں بولی

حریم اُس کا کیا زکر؟شازل ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا۔

کل خواب دیکھا تو آروش نے تب سے پریشان ہے۔ماہی شازل کی جانب کافی کا مگ بڑھاکر بولی۔

ایک خواب

شازل کی بات اپنے سیل فون پہ آتی کال کی وجہ سے آدھی رہ گئ 

کس کا فون ہے؟آروش نے بے چینی سے پوچھا

حویلی سے ہے۔شازل اُس کو جواب دیتا کال ریسیو کرنے لگا۔

ہیلو دیدار لالہ سب خیریت؟شازل نے کال اُٹھا کر کہا

کجھ خیریت نہیں شہر رہتے ہو تم سے یہ نہیں ہوتا گاؤں میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں۔دوسری طرف دیدار شاہ نے اُس پہ طنز کیا۔

طنز کرنے کے لیے کال کی ہے؟شازل ایک نظر آروش پہ ڈال کر بولا

نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے کال کی ہے کے شام میں حریم کا جنازہ ہے بیوی کے قدموں سے اُٹھنے سے اگر فرصت مل جائے تو جنازے میں شرکت کرلینا۔دیدار شاہ دوبارہ سے طنزیہ کرتا کال ڈراپ کرگیا جب کی اُس کی بات سن کر شازل سمجھ نہیں پایا وہ کیا کہے۔

کیا ہوا لالہ سب ٹھیک ہے؟آروش نے اُس کے نافہم تاثرات دیکھے تو پوچھا

تیاری کرلوں گاؤں کے لیے نکلنا ہے۔شازل سنجیدگی سے دونوں سے کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

مجھے معاف کردو مجھے نہیں تھا پتا تابش ایسا کجھ کرے گا۔صدف بیگم حویلی آتی کلثوم بیگم کے قدموں میں بیٹھ کر بولی جو ساری حقیقیت جاننے کے بعد پتھر سی ہوگئ تھی۔

غیروں کا وحشیانہ انداز دیکھا تو مگر اپنے بھی ایسے ڈستے ہیں جان کر بڑا افسوس ہوا ہم نے کتنے چاہ سے اپنے آنگن کا پھول تمہارے حوالے کیا تھا اور تم جاہل لوگوں نے کیا کردیا اُس کو پھول سمجھ کر توڑ ہی دیا۔فاریہ بیگم سخت نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولی اتنی تکلیف تو ان کو اپنے بیٹے کی موت پہ بھی نہیں ہوئی تھی جتنی حریم کی حالت جاننے کے بعد ہورہی تھی۔

میں شرمندہ ہوں۔صدف بیگم نادم ہوئی۔

تمہارا شرمندہ ہونا ہماری حریم کو پہلے جیسا نہیں بناسکتا آخری وقت تک وہ بے چاری کہتی رہی مامی جان ہمیں شادی نہیں کرنی ہماری شادی نہ کروائے مگر ہم سب جیسے بہرے بن گئت تھے اُس کی آہ پُکار کو سُنا ہی نہیں تھا۔کلثوم بیگم کے لہجے میں ندامت تھی کیونکہ حریم کی شادی میں اُن کا بڑا ہاتھ تھا۔

تابش معافی مانگ لے گا دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔صدف بیگم کی بات پہ سب کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

حریم کیا اتنی گئ گُزری ہے یا اُس کا کوئی ولی وارث نہیں جو تم لوگوں کے ایسے رویے کے بعد ہم دوبارہ سے اُس کو تمہارے حوالے کرے گے حیرت ہے ایسی سوچ آئی بھی کیسے تمہارے دماغ میں۔فردوس بیگم جو اب تک خاموش تھی صدف بیگم کی بات پہ بولی۔

مجھے تو دُرید پہ حیرت ہورہی ہے اور غصہ بھی  آرہا ہے کہاں وہ اُس کے کپڑوں سے لیکر جوتوں تک میں احتیاط کرتا ہے پھر جب اتنا بڑا معاملہ ہوا تو دُرید نے کیا تابش کی نیچر جاننے کی کوشش نہیں کے وہ انسان بھی ہے یا انسان کے روپ میں درندہ۔شبانا کلثوم بیگم کے سامنے پانی کا گلاس رکھتی بولی۔

بس اللہ کرے حریم جلدی ٹھیک ہوجائے ابھی تک تو کوئی تسلی بخش جواب بھی نہیں ملا۔فاریہ بیگم پریشانی سے بولی۔

دُرید ہسپتال میں ہوگا اگر کہی اور ہوتا تو اب تک تابش کے قتل کی خبر آ پہنچی ہوتی۔شبانا ٹیرھی نظروں سے صدف بیگم کو دیکھ کر بولی

اچھی اچھی باتیں کرو۔فردوس بیگم نے اُس کو ٹوکا

آپ شاید وہ واقعہ بھول چُکی ہے پر مجھے اچھے سے یاد ہے جب دُرید پندرہ اور حریم تین سال کی تھی تو لان میں کھیلتے وقت جب حریم کے پاؤں میں صرف ایک کانٹا چُھبا تھا تو کیسے دُرید نے مالی کی جان عذاب کردی تھی کے وہ لان کی صفائی ٹھیک سے کیوں نہیں کرتا۔شبانا نے ہاتھ نچا نچا کر بتایا

یاد ہے مجھے اُس دن کے بعد نہ مالی حویلی کے لان میں نظر آیا اور نہ کوئی خبر ملی اُس کی۔فردوس بیگم اور شبانا کی باتیں صدف بیگم کا دل دھڑکا رہی تھی اُن کو اب حریم کے بجائے اپنے بیٹے کی فکر لاحق ہوئی تھی جو جانے کس کونے میں چُھپ کر بیٹھ گیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج آپ کو اپنے دوست کے پاس جانا چاہیے ہماری بیٹی کو اب واپس آجانا چاہیے ہمارے پاس۔زوبیہ بیگم ٹی وی دیکھنے میں مشغول دلاور خان سے بولی

ہمممم میں بھی یہی سوچ رہا تھا اُس نے کال کرکے کوئی رابطہ بھی نہیں کیا اب تو اتنا وقت بیت چُکا ہے شادی کا ماحول بھی ختم ہوگیا ہوگا۔دلاور خان اُن کی بات سے متفق ہوئے

پھر آپ آج ہی جائے اور ایسا کرے یمان کو بھی ساتھ لیکر جائے اور ہماری بچی کو واپس لائے۔زوبیہ بیگم نے عجلت دیکھائی۔

کل جاؤں گا ابھی نکلوں گا تو رات ہوجائے گی۔دلاور خان نے گہری سانس بھر کر کہا

میں نے یمان کا بھی کہا۔زوبیہ پھر سے بولی

کل دیکھتے ہیں۔دلاور خان کو اُس دن والی یمان کی حالت کا خیال آیا تو کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

شازل ماہی اور آروش کو حویلی چھوڑتا خود ہسپتال آیا تھا جہاں شھباز شاہ دُرید اور دیدار موجود تھے۔

یہ سب کیا ہورہا ہے؟شازل اُن تک پہنچ کر بولا

حریم کو تابش نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور پھر روپوش ہوگیا ہے۔جواب دیدار شاہ نے دیا" دُرید کی ایسی حالت نہیں تھی کے وہ کجھ بولتا۔

اُس نے ایسا کیوں کیا۔شازل کو حیرانی ہوئی۔

موت کا شوق چڑھا تھا اِس لیے۔کاٹ دار لہجے میں اِس بار دُرید نے بتایا۔

جوش میں آکر ہوش نہ گنوا بیٹھنا اِس وقت بس ہمیں حریم کی سوچنی چاہیے تابش کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔دیدار اُس کے اِرادے بھانپتا بولا۔

جو ہوچُکا ہے اُس کے بعد سوچنے کی گُنجائش نہیں نکلتی۔دُرید اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

آپ کہاں حریم کو جب ہوش آئے گا وہ سب سے پہلے آپ کا نام لے گی۔شازل نے اُس کو اُٹھتا دیکھا تو جلدی سے کہا۔

وہ میرا نام نہیں لے گی۔دُرید کے چہرے پہ عجیب قسم کی مسکراہٹ آئی۔

پر لالہ آپ کا یہاں ہونا ضروری ہے۔شازل نے کہا

میں ایک بہت ضروری کام سے جارہا ہوں وہ نپٹالوں اُس کے بعد یہی رہوں گا مگر جب تک میں نہیں آجاتا تم یہاں سے کہیں اور مت جانا۔دُرید اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا سنجیدگی سے بولا تو شازل نے سراثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

حریم ٹھیک تو ہے نہ کوئی خطرے والی بات تو نہیں؟آروش نے کلثوم بیگم سے پوچھا۔

سانسیں چل رہی ہیں بس۔کلثوم بیگم نے گہری سانس خارج کی۔

وہ بچی تھی آپ لوگوں نے اچھا نہیں کیا تھا اُس کی شادی کرواکر۔آروش تلخ ہوئی۔

ہمیں تھوڑی پتا تھا میرا بھانجا ایسا نکلے گا۔کلثوم بیگم کے لہجے میں ملال تھا۔

کیا ہم نہیں جاسکتے ہسپتال؟آروش نے آس بھری نظروں سے اُن کو دیکھا

اپنے بابا سائیں سے کہو کیا پتا وہ تمہیں آنے کی اِجازت دے وہاں کسی عورت کا ہونا بھی ضروری ہے۔کلثوم بیگم نے کہا

میں شازل لالہ سے کہتی ہوں مجھے لینے آئے۔آروش فورن سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آرو میں ابھی نہیں آسکتا تم تھوڑا انتظار کرو تھوڑی دیر تک میں آجاؤں گا تمہیں لینے ابھی دُرید لالہ نے کہا ہے میں ہسپتال سے باہر نہ جاؤں جب تک وہ نہیں آجاتے۔آروش نے شازل کو کال کی تو شازل نے کہا

لالہ ہسپتال نہیں؟آروش کو حیرانی ہوئی۔

وہ کسی کام کا کہہ کر گئے ہیں۔شازل نے بتایا۔

آپ کو نہیں جانے دینا چاہیے تھا۔آروش فکرمندی سے بولی

کیوں جانے نہیں دیتا؟شازل کوریڈور میں آتا پوچھنے لگا۔

دُرید لالہ حریم کی وجہ سے ٹینس ہوگے وہ جانے اب کہاں اور کیا کرینگے اگر تابش لالہ اُن کے ہاتھ آگئے تو دُرید لالہ تو ان کی بوٹی بوٹی کرکے کتوں کے سامنے کرینگے۔آروش نے کہا

وہ اِسی قابل ہے پانچ گھنٹے سے کسی ڈاکٹر نے حریم کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اُس نے حیوان نے بہت بُرا کیا ہے اُس کو جینے کا کوئی حق نہیں۔شازل سرجھٹک کر بولا

💕💕💕💕💕💕💕

کوئی ہے؟

پلیز مجھے باہر نکالو۔

اندھیرے کمرے میں کُرسی پہ بندھا تابش زور زور سے جانے کتنے وقت سے چلارہا تھا مگر کوئی اُس کی فریاد سُننے والا نہیں تھا وہ شہر بھاگنے کے چکر میں تھا مگر کجھ لوگوں نے اُس کو یہاں قید کرلیا تھا۔

تمہیں کیا تمہارے جسم سے روح تک آج نکل جائے گی۔کسی کی بھاری سرد آواز سن کر تابش کا گلا خشک ہوا۔

د درید لالہ؟تابش نے اٹک اٹک کر اُس کا نام لینے لگا اُس کا پورا وجود کانپ اُٹھا تھا دُرید کی آواز سن کر۔

خبردار جو مجھے لالہ کہا بھی تو۔دُرید ایک جست میں اُس تک پہنچتا اُس کا گلا دبوچ کر بولا۔

م مم معاف کک کردے۔تابش کے گلے سے بمشکل آواز نکلی۔

چٹاخ

چٹاخ

معافی تمہیں لگتا ہے میں تمہیں معافی دوں گا کمینے انسان میں آج تمہیں جان سے ماردوں گا۔دُرید اُس کا گلا چھوڑ کر اُس کا چہرہ تھپڑوں سے لال کرتا ہوا غرایا۔

غصہ آگیا تھا پر میں دوبارہ ایسے نہیں کروں گا بس ایک موقع دے۔تابش منت پہ اُتر آیا

وارننگ دی تھی میں نے تمہیں پر تم سمجھنے والی ہڈی نہیں ہو خود تم نے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔دُرید اُس کو بالوں سے پکڑتا نفرت سے اُس کو دیکھ کر بولا۔

نہیں لالہ خدا کے واسطے مجھے مت مارنا میں حریم سے م

چٹاخ

حریم کا نام بھی اپنی گندی زبان سے لیا تو زبان کاٹ کے ہاتھ میں دے دوں گا۔دُرید پھر سے اُس کے چہرے پہ تھپڑوں اور مکوں کی برسات کرتا ہوا بولا۔

میں کل بہک گیا تھا۔تابش کو اپنے کان سائیں سائیں کرتے محسوس ہورہے تھے دُرید کی مار کی وجہ سے مگر اپنی سی کوشش کے شاید وہ اُس پہ رحم کھا جائے۔

پانی لاؤ۔دُرید اُس کی بات نظرانداز کرتا تیز آواز میں بولا تو دو سے تین آدمی گرم پانی کی بڑی بالٹی لائے جس کو دیکھ کر تابش کا رنق فق ہونے لگا اُس کو دُرید کے اِرادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔

نہیں نہیں۔گرم پانی کی بالٹی دیکھ کر تابش اپنا سر نفی میں ہلانے لگا۔

اِس کے اُپر گِراؤ پانی کی ساری بالٹی۔دُرید نے حکم صادر کیا تو تابش اُٹھنے کی کوشش کرنا لگا مگر رسیوں میں بندھے ہاتھوں کی وجہ سے وہ کجھ کر نہیں پایا۔

آ آہ آہ

رررح ممم کرے

آآ ہ

ان آدمیوں نے جیسے ہی تابش کے اُپر گرم پانی گِرایا تو تابش کی دلخراش چیخے گونج اُٹھی اُس کو اپنا سارا جسم گرم پانی سے جھلستا محسوس ہورہا تھا مگر دُرید کو جیسے سکون مل رہا تھا اُس کی آہوں پُکار سن کر۔

لڑکیوں پہ تو بڑی اپنی مردانگی دیکھاتے ہو اور اب یہی پہ تمہاری بس ہوگئ۔وہ آدمی اپنا کام کرکے چلے گئے تو دُرید مصنوعی افسوس سے اُس سے بولا پر تابش میں اتنی سکت نہیں تھی کے وہ کجھ بولتا۔

تمہیں پتا ہے تابش اتنی سی تھی حریم۔دُرید نے اپنے دونوں ہاتھوں کے اِشارے سے اُس کو بتایا۔تابش مندی مندی آنکھوں سے اُس کو دیکھ رہا تھا مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اُس کی مفلوج ہوچکی تھی۔

پھپھو مریم نے اپنے کمرے میں مجھے بُلایا تھا اور کہا تھا دُرید یہ میری پھول جیسی بچی اب تمہاری زمیداری ہے اُس کی آنکھوں میں کبھی آنسو آنے نہ دینا تب سے میں اُس کو ہر سرد دھوپ چھاؤں سے بچاتا آرہا تھا اُس پہ ایک خراش مجھے برداشت نہیں ہوتی تھی پر میرے ایک غلط فیصلے سے وہ پھول پوری طرح سے مُرجھایا گیا ہے جہاں میں ایک خراش برداشت نہیں کرسکتا تھا وہاں تم نے اُس کا پورا وجود زخموں سے چور کردیا ہے تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں معاف کروں گا تم نے اُس کو بس جسمانی تکلیف نہیں دی تابش اُس کو اندر سے بھی پوری طرح سے توڑدیا ہے میں کیسے اُس کو سمیٹوں گا اور تمہیں کس کس غلطیوں کی معافی دوں گا میں نے ہمیشہ اُس کو خوش دیکھنا چاہا دُنیا کی ہر خوشی اُس کے قدموں میں رکھنا چاہا اور تم نے کیا کیا؟اُس کے سامنے تکلیفوں کا پہاڑ سامنے کیا میرا دل پھٹنے کے قریب ہورہا ہے جب جب دماغ میں یہ خیال آرہا ہے کے وہ رات کو کتنا تڑپی ہوگی کتنا احتجاج کیا ہوگا کتنی چیخی ماری ہوگی پر تم نے اُس معصوم پہ رحم نہیں کھایا تو مجھ سے کیسے رحم کی اُمیدیں لگا رہے ہو ۔دُرید برفیلے لہجے میں کہتا اپنی جیب سے پستول نکالی۔

نہیں نہی نہیں۔تابش کی آنکھیں خوف کے مارے پھیل سی گئ تھی جب کی دُرید کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی اُس نے اپنے پستول کا ٹریگر دبایا۔

ٹھاہ 

ٹھاہ

ٹھاہ

ٹھاہ

دُرید بنا اُس کی حالت پہ رحم کھاتا چھ کی چھ گولیاں اُس کے سینے میں پیوست کی۔جس سے تابش کا سر ایک طرف کو لڑھک سا گیا تھا۔

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن 

دُرید پستول دوبارہ اپنی جیب میں رکھتا حقارت بھری نظروں سے اُس کا مُردہ وجود دیکھ کر بڑبڑایا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕 

حریم کیا ہوا رو کیوں رہی ہو؟دُرید شاہ دس سالہ حریم سے پوچھنے لگا

دُر لا آروش آپی نے امیں مالا۔حریم نے روتے ہوئے دُرید سے آروش کی شکایت کی جو مٹی کے برتن بنانے میں مصروف تھی

امیں نہیں ہمیں ہوتا ہے اور مالا نہیں مارا ہوتا بولنا نہ آتا ہو تو بندے کو چاہیے خاموش رہے۔  سولہ سالہ آروش نے اُس کو گھور کر کہا تو حریم اور زور سے رونے لگی۔

آروش۔دُرید نے مصنوعی گھوری سے اُس کو نواز کر حریم کو اپنے ساتھ لگایا

لالہ یہ ایک نمبر کی جھوٹی ہے خود اِس نے میرے سارے محنت سے بنائے ہوئے برتن توڑے ہیں اور اب میسنی بن کر آپ کو میری شکایت لگا رہی ہے اگر ایسا رہا تو میں نے سچ میں اِس کے کان کے نیچے زور سے تھپڑ لگانا ہے۔آروش غصے سے اپنی ناک پُھولا کر بولی

ام جھوٹے نہیں۔حریم نے احتجاج کیا۔

سؤ جھوٹے مرے ہوگے جب تمہارا جنم ہوا ہوگا۔آروش نے پھر سے کہا

حریم علی جھوٹ نہیں بولتی۔حریم ہونٹ لٹکاکر کیوٹ سی شکل بنائی تو دُرید کو بے ساختہ اُس پہ پیارا آیا تبھی جھک کر اُس نے حریم پہ ماتھے پہ بوسہ دیا

حریم علی کا یہی سب سے بڑا جھوٹ ہے کے وہ جھوٹ نہیں بولتی۔آروش نے اُس کو تپایا

دُر لا۔حریم پھر سے روتی دُرید کے سینے میں چہرہ چُھپانے لگی

 میں تمہیں تھپڑ ماروں گا آرو کیوں تنگ کررہی ہو حریم کو یہ تو بچی ہے تم تو بڑی ہو نہ۔دُرید حریم کے بال سہلاتا ہوا اُس سے بولا

جی نہیں ہم بچی وہ بھی چھوٹی سی کاکی سی کل ہی تو جنم ہوا تھا میرا۔آروش فورن بولی 

کل کیوں تمہارا تو صبح جنم ہوا تھا بس صحتمند ہونے کی وجہ سے یہاں آگئ مٹی کے برتن بنانے۔دُرید اُس کو گھور کر بولا

لالہ مجھے یوں گھورے مت میں بتا رہی ہوں بابا سائیں کو آپ کی شکایت لگاؤں گی۔آروش نے اپنی طرف سے دُرید کو دھمکایا

ماما جان کی چمچی۔حریم منہ بسور کر بولی تو دُرید نے لب دانتو تلے دبائے اپنی مسکراہٹ دبائی جب کی آروش کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

خود کیا ہو تم دُرید لالہ کی چمچی۔آروش اُٹھ کر اپنے مٹی والے ہاتھ اُس کے گال پہ لگا کر بولی۔

دُر لا کی آرو جیلس ہورہی ہے۔حریم نے چڑایا

میں ابھی بابا سائیں سے کہتی ہوں کے آپ دونوں کی کلاس لگائے ٹھنڈ میں آج کی رات آپ دونوں کو ننگے پاؤں لان میں کھڑا کرے تب پتا چلے گا آروش شاہ سے پنگا اِز نیور چنگا۔آروش باہر کی جانب بڑھتی ہوئی۔

او چھوٹا پیک بڑا دھماکا حریم کا نام مت لینا۔دُرید نے اُس کو جاتا دیکھا تو کہا

سب سے پہلے تو اِس میسنی کا نام لوں گی۔آروش دُرید کی بات پہ پلٹ کر بولی۔

آگے جاکر تمہارا نام جھوٹوں لی لیسٹ میں سرفہرست ہوگا۔دُرید تپ اُٹھا۔

جی نہیں یہ اعزاز تو آپ چہیتی حریم کا ہے میں کیوں کسی کی جگہ لینے لگی آروش شاہ کسی کی جگہ لیتی نہیں بلکہ خود کی جگہ بناتی ہے۔آروش شانِ بے نیازی سے کہتی باہر کو بھاگو۔

باتوں میں تو اِس کا کوئی ثانی نہیں۔دُرید اُس کی اتنی ڈائیلاگ بازی پہ حیران ہورہا تھا۔

تھارا وت تیوی دے کے گی تو ایشا ہوتا نا۔(سارا وقت ٹی وی دیکھے گی تو ایسا ہوگا نہ)حریم نے دُرید کی معلومات میں اُضافہ کیا۔

تمہیں بڑا پتا ہے۔دُرید اُس کی ناک دباکر بولا۔

تیوں تی ام بی اُن تے سات ہوتے اے۔(کیونکہ ہم بھی اُن کے ساتھ ہوتے ہیں)حریم اُس کے کان کے پاس آتی بتانے لگی۔

اچھا یہ بتاؤ آرو نے کہاں مارا؟جو تم اتنا روئی۔دُرید کجھ سنجیدہ ہوا۔

وہ یہاں بازوں پہ انہوں نے اپنا ناخن دبایا۔حریم پھر سے رونے والی شکل بنائے بتانے لگی۔تو دُرید عش عش کر اُٹھا

سیریسلی حریم آرو کے ناخن تو بہت چھوٹے ہیں تم جو اتنا روئی میں نے سوچا خدانخواستہ آرو نے تمہارا سر تو نہیں پھاڑ دیا۔دُرید اُس کے دونوں بازوں چیک کرتا بولا جہاں کوئی چوٹ یا ناخن تک کا کوئی نشان نہیں تھا۔

آپ تو لگے تو پتا چلے۔(آپ کو لگے تو پتا چلے)اتنی درد ہوتی ہے۔حریم ناراض لہجے میں بولی۔

اچھا درد ہوا ہوگا مگر حریم بہادر بنو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رویا نہیں کرتے کہو اب حریم بڑی ہوکر بہادر بنے گی۔دُرید نے نرمی سے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا تو حریم زور زور سے نفی میں سر کو جنبش دینے لگی۔

کیوں نہیں کہو گی بولو۔دُرید نے تھوڑا سختی سے کہا

ام بادر نہیں آپ تی ٹیوی بنے گے۔(ہم بہادر نہیں آپ کی بیوی بنے گی)حریم نے منہ پُھلا کر کہا

کیا کیا بنوں گی؟دُرید کو سمجھ نہیں آیا

ٹیوی وہی جو ماما جی تی مامی جی ہیں وہ ہی ام آپ تی بنے گی۔(بیوی وہی جو ماما جی کی مامی جی ہیں وہ ہی ہم آپ کی بنے گی۔دس سالہ حریم اب قدرے شرماکر بولی تو ساری بات سمجھ آنے کے بعد دُرید کا چھت پھاڑ قہقہقہ گونجا

ٹی وی تم تیوی بولتی ہو اور بیوی کو تم ٹیوی بول رہی ہو حریم یار اب مجھے تمہاری فکر ہو رہی ہے ماشااللہ سے دس کی ہو مگر تمہارا توتلہ پن نہیں جارہا اگر بیس سال کے ہونے کے بعد بھی تم ایسی رہی نہ تو آرو نے سچ میں تمہارا مزاق اُڑا اُڑا کر جینا دشوار کرنا ہے لگتا ہے مجھے تمہارا چیک اپ کروانا پڑے گا۔دُرید ہنس کر بولا

ام مجاق نہیں تررہے۔حریم بُرا مان گئ۔

مجھے پتا ہے آپ مذاق نہیں کرتی آپ بہت سیریس بندی ہے آپ مزاق کو بھی مزاق نہیں بلکہ سیریسلی لیتی ہیں مگر لگتا ہے تمہیں انار زیادہ کِھلوانا پڑے گا اور چیک اپ بھی کروانا پڑے گا تاکہ توتلہ پن تو ختم ہو۔دُرید مسکراہٹ ضبط کرتا بولا

چھوٹے سائیں شاہ سائیں آپ کو بُلا رہے ہیں۔حریم کجھ کہنے والی تھی جب وہاں ملازمہ سرجھکاکر دُرید سے بولی۔

حریم لگتا ہے تمہارے ماما جی چمچی نے ہماری چغلی دی ہے اب ہمیں واقع ساری رات لان میں گُزارنی ہوگی۔دُرید افسوس بھری شکل بناتا حریم سے بولا تو وہ کھی کھی کرکے ہنسنے لگی۔

۔۔۔٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠۔۔٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

ہسپتال سے کال آئی تھی شازل سائیں آپ کو ہسپتال آنے کا بول رہے۔دُرید ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا تھا جب ایک آدمی نے اُس کو بتایا تو ہوش حقیقت کی دُنیا میں پہنچا۔

ہمممم تم جاؤ۔دُرید سنجیدگی سے اُس کو بولا تو وہ سر کو جنبش دیتا چلاگیا۔

ایک ناخن لگنے پہ اتنا روتی تھی اتنی ساری تکلیف کیسے برداشت کی ہوگی تم نے۔دُرید آج خود کو بہت بے بس پارہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

چٹاخ

خاموش کوریڈور میں تھپڑ کی آواز زور سے گونجی تھی جو شھباز شاہ نے دُرید کے آتے ہی اُس کے گال پہ رسید کیا تھا۔

بابا سائیں۔شازل نے اُن کو روکنا چاہا

چپ کوئی نہیں بولے گا۔شھباز شاہ نے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کو خاموش رہنے کا کہا۔

تمہیں پتا ہے دُرید تم نے کیا حماقت کی ہے قتل کردیا تم نے اِس کا انجام جانتے ہو۔شھباز شاہ کی بات پہ دیدار اور شازل کو شدید قسم کا حیرت سے جھٹکا تھا۔

قتل وہ بھی لالہ نے۔شازل کو یقین نہیں آرہا تھا۔

پہلا قتل نہیں کیا تمہارے لالہ جو اتنا حیران ہورہے ہو۔دیدار شاہ نے اُس کی بڑبڑاہٹ سُنی تو کہا۔

تو میں اور کیا کرتا اُس کو زندہ زمین پہ چلنے پِھرتے دیکھتا اِسے انسان کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے جو عورتوں کو کمزور لاچار بے بس سمجھتے ہیں ان کو جینے کا کوئی حق نہیں عورت کی پیٹ سے پیدا ہوکر عورت کو ہی اپنے پیروں کی جوتی سمجھنے لگتے ہیں میری نظر میں اُن کا کام تمام کرنا ہی عقلمندی ہے۔دُرید آہستہ مگر سخت لہجے میں بولا اُس کو اپنے عمل پہ کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔

مگر لالہ قتل کرنا بہت بڑا گُناہ ہے۔شازل افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

تم اب دین کا درس دینے نہ لگ جانا۔دیدار شاہ نے اُس کو ٹوکا۔

قتل کرنا گُناہ ہے تو کسی معصوم کو اپنی دردندگی کا نشانہ بنانا کیا ثواب کا کام ہے ساری رات اُس کو تشدد کا نشانہ نیکی کا عمل ہے۔دُرید اُس کی بات سن کر سرد لہجے میں بولا تو شازل خاموش ہوگیا۔

ٹھیک تمہاری بات دُرست ہے ایسے تو جانے کتنے مرد تمہیں ملے گے جو آتی جاتی لڑکیوں کو اپنی حوس کا نشانا بناتے ہیں کوئی مرد اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا ہے بہتان بازی کرتا ہے تو ان کا کیا کرو گے انہیں بھی جاؤ اور جاکر قتل کردو ایک کے مرنے سے کیا ہوگا آج ایک مرا ہے کل دوسرا پھر تیسرا ایک کے مرنے سے بُرائیاں ختم نہیں ہوجاتی دُرید اور نہ لوگ پھر گُناہ کرنا چھوڑدیتے اگر کسی ایک کی موت دوسرے کے لیے عبرت کا نشان ہوتی نہ تو آج کہی کوئی گُناہ کوئی بُرائی تمہیں نظر نہ آتی اگر لوگوں کو عبرت لینی ہوتی تو قرآن سے لیتے توبہ کرلیتے۔شھباز شاہ نے کرخت آواز میں کہا تو اُس نے اپنا سرجھٹکا

میری نظر کے سامنے اگر اُن کو گُزر ہوگا تو میں وہ بھی کروں گا چاہے پھر مجھے پھانسی ہوتی یا عمر قید حریم کے ساتھ جو ہوا میں نے فلحال بس اُس کا حساب لیا ہے تاکہ کل دوسرا تابش پیدا نہ ہو تابش کو نہ اب غسل نصیب ہوگا اور نہ قبر نہ ہی اُس کا جنازہ ہوگا نہ کوئی اُس کے لیے جنازہ نماز ادا کرے گا۔دُرید پھنکارا۔

ہمارے یہاں کوئی قانون نہیں ہوتا دُرید ہم اپنے گاؤں کے جج بھی خود ہوتے ہیں اور وکیل بھی ہمارا فیصلہ کوئی کورٹ یا پولیس والے نہیں کرتے یہ سب ہمارے گاؤں کے معزز لوگ کرتے ہیں اور تم نے چاہے جو کجھ کیا جس کے لیے بھی کیا اُس کا حساب تو الگ سے ہوگا۔دیدار کی بات پہ شازل کے دماغ میں کجھ کلک ہوا

کیا ایک بار پھر سے جرگہ بیٹھایا جائے گا۔شازل جیسے دیدار شاہ کی ساری بات سمجھ گیا۔

ظاہر ہے دوسری پارٹی خاموش تو نہیں رہے گی۔دیدار شاہ نے کہا۔

جرگہ بیٹھانے سے پہلے اُن کو ڈوب کر مرجانا چاہیے کیونکہ اُن کو جرگے سے کجھ حاصل نہیں ہوگا سِوائے زلت کے۔دُرید کو کوئی فرق نہیں پڑا۔

ایکسکیوز می پلیز شور مت کرے مریض ڈسٹرب ہورہے ہیں۔پاس سے گُزرتی نرس نے اُن کی آواز سُنی تو کہا

حریم کیسی ہے؟دُرید نے پوچھا

کون حریم؟نرس ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

جس کو ابھی آپ لوگوں نے روم نمبر ٹونٹی فائیو میں شفٹ کیا ہے۔اِس بار شازل نے سمجھایا

جی وہ ابھی خطرے سے باہر نہیں وہ کوئی رسپانس نہیں کررہی جیسے اُن کے اندر جینے کی تمنا نہ ہو وہ مزید جینا نہیں چاہتی۔نرس نے بتایا

وہ کیا چاہتی ہے اور کیا نہیں اُس کی پرواہ کرنے کے بجائے ٹھیک سے علاج کرے آپ کوگ۔دُرید نرس کی بات سن کر بھڑک اُٹھا۔

جی ہم وہ ہی کررہے ہیں۔نرس گڑبڑا کر بول کر وہاں سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

جس طرح جھنگل میں آگ پِھیلتی ہے ٹھیک اُسی طرح دُرید نے تابش کا قتل کردیا یہ بات پورے گاؤں میں پھیل چُکی تھی جس سے حویلی میں جہاں پہلے ہی غم کے بادل تھے اب مزید بڑھ گئے تھے۔

مجھے پتا تھا یہی ہوگا۔شبانا سب پہ ایک نظر ڈال کر بولی اُس کا لہجہ خاصا طنزیہ سے بھرپور تھا۔

نجومی جو ہیں۔آروش کا اُس کا انداز پسند نہیں آیا۔

اپنے لیے دعا کرو اب جرگہ بیٹھے گا تو سب سے پہلے ونی مانگے گے۔شبانا نے شیطانی نظروں سے اُس کو دیکھ کر مصنوعی فکرمندی چہرے پہ سجاکر کہا

سید زادیاں ونی میں نہیں جایا کرتی اگر مجھے اپنے لالہ کے لیے جانا بھی پڑا تو شوق سے جاؤں گی آپ کو میری فکرمندی میں گُھلنے کی ضرورت نہیں۔آروش نے بے تاثر لہجے میں کہا تو شبانا کے تن بدن میں آگ لگ گئ۔

آروش کے پاس بیٹھی ماہی نے رشک سے اُس کا پرسکون چہرہ دیکھا تھا۔

اُن کا تعلق شاہ خاندان سے ان کو چاہیے ایسی رواج ایسے قانون ختم کریں اگر خدانخواستہ کل کلاں اُن کی بیٹی قصاص کے نام پہ جائے وہ بھی غیر سید کے پاس تو وہ کیا کریں گے۔

ماہی کو ماضی میں کہے اپنے جُملے یاد آئے تو اُس نے شرمندگی سے اپنا سر نیچے کرلیا اُس کو آج اپنے الفاظوں پہ پچھتاوا ہورہا تھا۔

کلثوم آپا۔وہ سب عورتیں ہال میں بیٹھی ہوئی تھی جب صدف بیگم اُجڑی ہوئی حالت میں حویلی داخل ہوئی۔

کیا ہوا؟فردوس بیگم نے سپاٹ تاثرات سے پوچھا

کیا ہوا یہ سوال ابھی بھی پوچھنا بنتا ہے میرا بڑا بیٹا تم حویلی والوں نے مارا ہے وہ کہاں ہیں مجھے اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرنا ہے دُرید سے کہے مجھے اپنا بیٹا لاکر دے۔صدف بیگم چیخ چیخ کر بولی۔

آپ خالہ جان اُس وقت کہاں تھی جب حریم پہ اتنا ظلم ہورہا تھا ہمیں آپ حریم پہلے جیسی واپس کردے پھر آپ جانے اور آپ کا بیٹا۔آروش اپنی جگہ سے اُٹھتی اُن کے سامنے آئی۔

دیکھو آروش اگر مجھے میرا بیٹا نہ ملا تو میں جرگہ بیٹھاؤں گی۔صدف بیگم سب پہ نظر ڈال کر دھمکی آمیز لہجے میں بولی۔ماہی پریشانی سے سب کو دیکھنے لگی اُس کو اپنی موجودگی مس فٹ لگ رہی تھی۔

جرگہ بیٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں صدف جو تمہارے بیٹے نے کیا تھا اُس حساب سے جرگہ ہم لوگوں کو بیٹھانا تھا پر دُرید نے خود ہی کام پورا کردیا اِس لیے تمہاری کوششیں رائیگان جاری گی۔کلثوم بیگم نے سرد لہجے میں کہا

آپ تو میری بہن ہیں پھر بھی ایسی باتیں بول رہی ہیں۔صدف بے یقین نظروں سے اُن کو دیکھنے لگی۔

میں تمہاری بہن ہو اِس بات کا افسوس مجھے تاعمر رہے گا ابھی یہاں سے چلی جاؤں ہم سب پہلے سے ہی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔کلثوم بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔

میرا بیٹا قتل ہوا ہے۔وہ چیخ پڑی۔

ہمارے حریم اُس کا کیا جو آپ کے بیٹے نے اُس کے ساتھ کیا قصور کیا تھا اُس کا وہ تو معصوم تھی۔آروش کو اُن کا میرا بیٹا میرا بیٹا کہنا پسند نہیں آیا۔

تم نے اپنے بیٹے کی اچھی پروش نہیں کی کم سے کم اُس کو عورت کی عزت کرنا تو سکھاتی تاکہ وہ اپنی عورت کی عصمت نہ لوٹتا۔فاریہ بیگم جددرجہ ٹھنڈے لہجے میں بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان تم کیا مصروف ہو؟دلاور خان نے یمان کو موبائیل میں مصروف دیکھا تو پوچھا

نہیں بس وہ آن لائن ٹِکٹ بُک کروارہا تھا۔

آج رات میرا شو ہے لاہور میں۔یمان نے بتایا۔

اچھا مطلب بزی ہو۔دلاور خان اُس کی بات سننے کے بعد بولے۔

ابھی ایک گھنٹہ فری ہوں آپ کو کوئی کام ہے تو بتادے۔یمان نے کہا

میں گاؤں جارہا تھا اپنی امانت لینے سوچا تمہیں ساتھ لے چلوں پر اگر تم لاہور جانے کی تیاری میں ہو تو ٹھیک ہے پھر میں خود چلاجاتا ہوں۔دلاور خان نے کہا

آپ ہمیشہ امانت لفظ یوز کرتے ہیں آپ کی امانت ہے کیا؟یمان نے آج پوچھ لیا۔

میری بیٹی۔دلاور خان نے بتایا۔

بیٹی؟یمان کے چہرے پہ ناسمجھی والے تاثرات نمایاں ہوئے۔

ہاں بیٹی جب یہاں آئے گی تو مل لینا۔دلاور خان نے مسکراہٹ سے جواب دیا 

اوکے۔یمان نے کندھے اُچکائے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔ڈاکٹر کی بات نے جیسے سب پہ خاص طور پہ دُرید کے جسم میں نئ روح پھونک دی ہو۔

میں مل سکتا ہوں؟دُرید نے پوچھا

جی مگر کوئی اسٹریس والی بات اُس کے سامنے مت کیجئے گا۔ڈاکٹر نے ہدایت کی تو دُرید سراثبات میں ہلاتا اُس سے ملنے جانے والا تھا مگر شھباز شاہ نے اُس کا بازوں پکڑا۔

بابا سائیں؟دُرید سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھنے لگا۔

بیوہ کردیا ہے تم نے اُس کو عدت میں بیٹھے گی وہ اب تو تمہارا چار ماہ دس دن اُس سے کوئی ملنا نہیں ہوگا۔شھباز شاہ کی بات کسی بم کی طرح اُس پہ گِری وہ ساکت نظروں سے شھباز شاہ کو دیکھنے لگا جو بلکل سنجیدہ تھے۔

میں اتنا وقت اُس سے دور کیسے رہوں گا مجھے حریم کو سنبھالنا ہے۔دُرید کی زبان لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوئی۔

تم نے حریم کا خیال کیا اُس کا یہ مطلب نہیں ہوتا تم اُس کے لیے محرم بن گئے ہو وہ تمہاری ہے تو کزن نہ اُس کا تم سے پردہ بنتا ہے میں نے پہلے کبھی حریم سے نہیں کہا وہ تم سے اپنا چہرہ چُھپائے کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا تھا وہ یہ سمجھے کے ہم اُس سے پیار نہیں کرتے یا وہ کسی غلطفہمی کا شکار بنے تمہارا پہلے جو کوئی اُس پہ حق تھا وہ اُس دن ختم ہوگیا تھا جس دن تم نے اُس کو تابش کے ساتھ رخصت کیا تھا تم اُس کے لیے نامحرم ہو اور حریم کے عدت کے دن ہیں غلطی سے بھی اُس کے سامنے مت آنا۔شھباز شاہ ایک کے بعد ایک جھٹکا دُرید کو دیتے رہے۔دُرید بس بے بسی سے اُن کو دیکھنے لگا جب کی شازل اور دیدار خاموش تھے کیونکہ اُن کو پتا تھا شھباز شاہ درست بات کررہے تھے۔

چار ماہ بہت بڑا عرصہ ہے حریم کو میری ضروری ہے۔دُرید نے احتجاج کیا

اُس کو تمہاری ضرورت تھی دُرید پر تب تم نے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا میں اُس بچی کے سامنے پہلے سے ہی شرمندہ ہوں وہ بھی تمہاری وجہ سے اب جب تم اُس کے لیے فکرمندی دیکھا رہے ہو مجھے غصہ آرہا ہے۔شھباز شاہ نے طنزیہ کیا۔

اُس کے اور میرے درمیان نامحرم والا فرق نہیں۔دُرید سرجھکاکر بولا

کیوں نہیں ہے فرق ہے فرق وہ تمہاری لگتی کیا ہے جب اُس کا نکاح ہورہا تھا نہ تب اُس کے پانچ منٹ پہلے میں نے تم سے کہا تھا حریم سے خود نکاح کرلوں مگر تب نے میری بات نہیں سُنی تو بس اب تمہارا کوئی تعلق نہیں حریم سے۔شھباز شاہ سختی سے بولے

آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے میرا آپ لوگوں سے زیادہ اُس پہ حق ہے میں نے بچپن سے اُس کو پالا ہے۔دُرید کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔

حریم جس حال میں ہے وہ خود تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہے گی حریم سے تم بے فکر ہوجائے آروش تم سے زیادہ اچھے طریقے سے خیال رکھے گی۔شھباز شاہ نے دو ٹوک کہا

حریم بس میرے قریب رہی ہے۔دُرید پھر سے بولا

آروش حریم کی آئیڈیل رہی ہے وہ ہمیشہ سے اپنا وقت آروش کے ساتھ گُزارنا چاہتی تھی اور اب وہی ہوگا جو حریم چاہے گی۔شھباز شاہ نے جیسے پورا پلان ترتیب دے رکھا تھا۔

زیادتی ہے میرے ساتھ آپ دوبارہ میرے ساتھ کررہے ہیں۔دُرید نے کہا

زیادتی وہ ہے جو حریم کے ساتھ ہوئی ہے اور دُرید تم ضد کیوں کررہے ہو چچا جان کے ساتھ کیا تم بھول گئے ہو ہمارے خاندان کے رسم ورواج کو حریم نے دس سال کی عمر میں مجھ سے شازل سے دلدار لالہ سے سب سے پردہ کرنا شروع کیا تھا مگر تمہارے کمرے میں وہ جب چاہے آ جایا کرتی تھی جس حال میں بھی وہ ہو اُس بات پہ سب کو اعتراض تھا مگر پھر بھی کسی نے کجھ نہیں کہا کیونکہ تم نے بچپن سے لیکر اُس کا خیال رکھا تھا مگر اب حالات پہلے جیسے نہیں ہے تم زیادہ نہیں تو حریم کی عدت ختم ہونے تک کا صبر کرو۔اِس بار نے دیدار نے سنجیدگی سے کہا

تمہیں اگر لگتا ہے تمہیں دیکھ کر حریم تم سے لپٹ جائے گی اور پہلے کی طرح سب کی تمہارے ساتھ شکایت کرے گی تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔شھباز شاہ نے جیسے اُس کے دل پہ وار کیا دُرید سے اُن سب کی باتیں برداشت سے باہر ہو رہی تھی تبھی بنا کجھ کہتا وہاں سے نکلتا ہسپتال سے باہر چلاگیا۔اُن سب کی باتوں سے اُس کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا کتنا انتظار کیا تھا اُس نے کے حریم کو ہوش آئے اور جب اتنے وقت بعد ہوش آیا بھی تو کوئی اُس سے ملنے نہیں دے رہا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شھباز شاہ حریم کے پاس آئے تو اُس کو آنکھیں موند کر لیٹا پایا انہوں نے حریم کو دیکھ کر گہری سانس خارج کی اور چلتے ہوئے اُس کے پاس آئے۔

حریم۔شھباز شاہ نے آہستہ سے اُس کا نام لیا مگر حریم کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔

حریم بات کرو مجھ سے۔شھباز شاہ نے اُس کے ڈرب لگے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔

ماما۔حریم کے ہونٹ پِھڑپِھڑائے۔

میں یہی ہوں میرا بچہ۔شھباز شاہ نے اُس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا تو حریم نے اپنی آنکھیں کُھولی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے 

روتے نہیں میرا بچہ آپ تو بہادر ہو نہ۔شھباز شاہ نے اُس کے آنسو صاف کیے تو حریم نفی میں سر کو ہلانے لگی۔

آروش آرہی ہے آپ سے ملنے پریشان مت ہو۔شھباز شاہ نے کہا

ہمارا کیا قصور تھا؟حریم نے بہت آہستہ آواز میں پوچھا

کوئی قصور نہیں تھا خود کو ہلکان مت کرو جو ہوا بھول جاؤ اللہ اپنے پیاروں کو آزماتا ہے تم بھی آزمائش سمجھ کر بھول جاؤ۔شھباز شاہ نے کہا

ہم مرنا چاہتے ہیں ہم مر کیوں نہیں جاتے ہم اتنے ڈھیٹ کیوں ہیں ہمارے دماغ کی نس کیوں نہیں پھٹتی۔حریم کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی۔

حریم بیٹے سنبھالوں خود کو۔شھباز شاہ فکرمند ہوئے۔

آپ ہمارا گلا دبادے ہمیں ماردے ہمیں نہیں جینا پلیز آپ ہمیں ماردے آپ کا ہم پہ احسان ہوگا۔حریم اپنے ہاتھوں سے ڈرپ نوچتی اُن کو منت کرنے لگی۔

حریم نہیں تکلیف ہوگی تمہیں بیٹے۔شھباز شاہ نے جلدی سے اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے۔

اِسی تکلیف سے ہی تو چھٹکارا حاصل پانا چاہتے ہیں ہمیں ماردے ہم مزید برداشت نہیں کرسکتے یہ دُنیا اور اِس کے لوگ بہت ظالم ہے یہاں بھیڑے رہتے ہیں ہمیں اِن بھیڑیوں کی خوراک نہیں بننا۔حریم ہذیاتی انداز میں چیخیں مارنے لگی تو کمرے میں نرسز داخل ہوئی۔

آپ پلیز باہر جائے ہمیں پیشنٹ کو آرام کا انجیکشن لگانا ہے۔ایک نرس نے شھباز شاہ سے کہا تو وہ سراثبات میں ہلاتے وہاں سے چلے گئے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تنہائی میں بیٹھا دُرید سوچ رہا تھا کب اُس نے اپنی زندگی میں خود کو اتنا بے بس پایا تھا؟کبھی بھی تو نہیں مگر جس کیفیت سے وہ آج گُزر رہا تھا وہ بے حد مختلف تھی ایک الگ احساس تھا جس کو وہ چاہ کر بھی کوئی نام نہیں دے پارہا تھا اُس کو اپنے آپ پہ حیرت ہورہی تھی کیسے ایک چھٹانگ بھر کی لڑکی نے اُس کے چاروں چھانے چت کردیئے تھے جس کو ہمیشہ وہ بس ایک بچی سمجھتا آیا تھا کیسے وہ اُس کا سکون برباد کرکے خود آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔

ہمیں آپ سے محبت ہے۔

کانوں میں بے بسی سے کہا ہوا حریم کا جُملا گونجا تو اُس نے آنکھوں کو زور سے میچ لیا ایک باغی آنسو آنکھ سے بہہ کر ڈارھی میں جذب ہوا۔

مانا میں غلط تھا مگر یہ سزا بہت بڑی ملی ہے میں اِس کا حقدار نہیں حریم میرے فیصلے نے اگر تمہاری زندگی خراب کی ہے تو مجھے کم سے کم ایک موقع تو دو میں اُن سب کا ازالہ کروں۔دُرید تصویر میں حریم سے مخاطب ہوا وہ ہسپتال سے سیدھا حویلی آکر خود کو کمرے میں بند کردیا تھا وہ جانتا تھا اُس کے والد کی بات اپنی جگہ ٹھیک تھی مگر یہ بھی سچ تھا وہ حریم سے ملنا چاہتا تھا ایک نظر اُس کو دیکھنا چاہتا تھا اس کو اپنے اندر کجھ خالی پن سا محسوس ہورہا تھا ایک بے چینی تھی جس نے اُس کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

سُنا ہے دو دن بعد جرگہ بیٹھایا جائے گا۔آمنہ نے زین سے کہا

ہممم میں نے بھی سُنا ہے خون کے بدلے خون چاہتے ہیں تابش کا باپ نواب شاہ بہت بپھرا بیٹھا ہے ان کو لاش بھی نہیں ملی تابش کی۔زین نے بتایا

اصولنً جرگہ کرنا نہیں چاہیے کسی کو کیونکہ انہوں نے جو حویلی والوں کی بیٹی کے ساتھ کیا انہوں نے تو بس حساب لیا اپنا۔آمنہ زین کو دیکھتی بولی۔

تابش نے جو کیا مگر اُس کا فیصلہ بھی جرگہ کرتا دُرید شاہ نے جوش میں آکر بہت غلط قدم اُٹھایا ہے۔زین گہری سانس بھر کر بولا

اللہ خیر کرے پر ماہی بھی شہر سے واپس آئی ہے تم نے پتا کیا دلدار شاہ کا قتل کس نے کیا تھا جب اُس کا اصل قاتل سامنے آئے گا تبھی ہمیں ماہی ملے گی۔آمنہ نے فکرمندی ظاہر کی۔

کوشش کررہا ہوں ان شاءاللہ پتا چل جائے گا۔زین نے کہا تو آمنہ زِیر لب آمین بولی

💕💕💕💕💕💕💕

تم ہسپتال میں تھے خیریت؟دلاور خان جو گاؤں پہنچ کر ڈیرے پہ آئے تھے شھباز شاہ سے بولے۔

بس کیا بتاؤں اللہ نے آزمائش میں ڈالا ہ دعا کرنا سب ٹھیک ہوجائے۔شھباز شاہ گہری سانس بھر کر بولے

ہوا کیا ہے مجھے بتاؤ۔دلاور خان نے پوچھا تو شھباز شاہ نے سب کجھ اُن کے گوش گُزار کیا جس کو سن کر دلاور خان سن کر کافی پریشان ہوئے۔

اللہ ہر بیٹی کے نصیب کرے واقع آج کل تو انسان کے روپ میں جانور پائے جاتے ہیں۔دلاور خان افسوس سے بولے۔

ہممم تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا میں۔شھباز شاہ نے اُن کو دیکھ کر کہا

کہو کیا بات ہے؟دلاور خان اُن کی جانب متوجہ ہوا۔

میری بھانجی کی کنڈیشن تمہارے سامنے ہیں حویلی میں عجیب سوگواریت کا ماحول ہے ایسے میں اگر میں آروش تمہارے حوالے کروں گا تو پریشانیوں میں اضافہ ہوگا یہ وقت ایسا نہیں کے میں آروش کو حقیقت سے آگاہ کروں وہ اِس وقت میری کسی بات کا یقین نہیں کرے گی وہ پریشان ہے حریم کے لیے میں چاہتا ہوں وہ کجھ عرصہ ہمارے پاس رہے دیکھو دلاور انکار مت کرنا جب تمہیں ضرورت تھی مدد کی میں نے تمہاری کی اب مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اُمید ہے تم انکار نہیں کرو گے۔شھباز شاہ نے سنجیدہ لہجے میں اپنی بات اُن کے سامنے کی۔

میری تمہاری بات سمجھ رہا ہوں پر شاہ کیا تمہیں نہیں لگتا میری بیٹی سے ساری سچائی چُھپاکر تم نے مجھ سے اور اُس کے ساتھ دونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے جہاں میں نے چوبیس سال صبر کیا ہے وہاں کجھ ماہ اور ٹھیک مگر اِس سے کیا ہوگا کیا چوبیس سالہ لڑکی اچانک اپنے ماں باپ کے بدلنے پہ کیا اُس حقیقت کو تسلیم کرے گی تم نے مجھے بہت مشکل میں ڈال دیا ہے میں کیسے اُس کو فیس کروں گا؟کیا وہ میرے ساتھ آنے پہ راضی ہوجائے گی؟یقین جانوں یہ سوچے مجھے چین سے سونے نہیں دیتی۔دلاور خان شھباز شاہ کی بات سن کر پریشانی کے بولے۔

مجھے نہیں لگتا میں نے کوئی زیادتی کی ہے ہم سید ہیں بنا کسی رشتے کے کسی بچی کی پروش نہیں کرسکتے تھے میں نے جو کیا وہ بلکل ٹھیک تھا اگر ایسا نہ کرتا تو وہ مقام آروش کبھی حاصل نہ کرپاتی جو آج اُس کا ہے رہی بات فیس کرنے کی تو بُرا مت ماننا یہ تمہیں تب سوچنا چاہیے تھا جب تم نے اپنی بیٹی میری گود میں ڈالی تھی کوئی بھی باپ کوئی بھی باپ ہو خان جہاں بات اولاد پہ آئے وہ بے بس نہیں ہوتا مگر یہاں معاملہ تو بیٹی کا تھا جو خدا کی طرف سے رحمت ہوتی ہے پر اُس معاملے میں تم بے بس ہوگئے وہ بھی چوبیس سال تک کون اپنی بیٹی سے اتنا فاصلہ کرتا ہے اگر میں نے تم سے کوئی رابطہ نہیں کیا تو تم نے کونسا اُس کی خبرگیری لی بیٹی کا معاملا بہت نازک ہوتا بیٹی بچی ہو یا بالغ باپ کو سوچنا چاہیے وہ جہاں اپنی بیٹی کو بھیج رہا ہے وہاں اُس کا رہنا سیف ہوگا تم نے دیکھے ہوگے وہ مرد جو اپنی بیٹی کو ایک دن کے لیے نہیں رہنے دیتے کیونکہ وہ بیٹی کے معاملے اپنے سگے رشتیداروں تک یقین نہیں کرپاتے میں تو پھر بھی تمہارا دوست تھا تمہیں پتا ہے تمہاری بیٹی بہت خوبصورت ہے اگر میں وہاں اُس کو اپنی بیٹی کے بجائے تمہاری بیٹی کی حیثیت سے رکھتا نہ تو چاہے میری حویلی میں سید مرد رہتے تھے مگر شیطان ہر ایک کو بہکاتا ہے بنا کسی رشتے کی رہتی تو ہوسکتا تھا میرے بھتیجے اُس کو حراس کرتے ٹارچر کرتے وہ جب حویلی سے باہر نکلتی ہے نہ تو گاؤں کا کوئی آوارہ لڑکا بھی اُس کو دیکھ کر نظریں نیچے کرلیتا ہے اِس لیے نہیں کے وہ گاؤں کے سرپنج کی بیٹی ہے بھلا جن کو اپنے رب کا خوف نہ ہو ان کو میرا کیا ہوگا وہ پتا ہے کیوں کرتے ہیں ایسا کیونکہ اِس لیے کے اُس کی آنکھوں میں حیا ہوتی ہے وہ پردہ کرتی ہے سب سے بڑی بات اُن کی نظر میں وہ ایک سیدزادی ہوتی ہے جس پہ غلط نگاہ ڈال کر وہ گُناہ نہیں کرسکتے آروش کو میں نے ہر جگہ سے پروٹیکشن دی ہے ہماری حویلی میں جو میرے دو تین بھتیجے ہیں نہ اُن سے بھی اُس کا دودہ کا رشتہ ہے دودہ شریک بھائی ہیں اُن کے میں نہیں چاہتا تھا کل کو میرے بھائی اُس کا رشتہ مانگے کیونکہ مجھے یقین تو نہیں بس شک تھا کے تم اُس کو لینے آؤ تو میں کیا جواب دوں گا اگر مجھے امانت میں خیانت کرنی ہوتی تو میں ایسا کرتا اُس کی شادی اپنے کسی بھتیجے سے کرتا یا اُس کو دودہ کسی اور کا دے کر اپنے کسی بیٹے سے شادی کروادیتا مگر اُس کو میں نے اپنی بیوی کی گود میں ڈالا تھا جس نے اپنی بیٹی کھوئی تھی جس کا نام ہم آروش رکھنے والے تھے تمہیں نہیں پتا اُس وقت ہم دونوں پہ کیا گُزر رہی تھی میرا غم الگ تھا میری بیوی کو تھا پر بیٹی کھونے سے زیادہ اُن کو یہ تھا کے وہ مجھے بیٹی کی رحمت سے نہیں نواز پائی میری بیٹی سے محبت دیکھ کر اُس کو شک ہوتا تھا کے جس طرح بیٹوں کی  لالچ میں مرد دوسری تیسری شادی کرتا ہے اُس طرح میں بیٹی کے لیے نہ کردوں مگر تمہیں میں دلچسپ بات بتاتا چلوں میں کبھی ایسا نہ کرتا کیونکہ اولاد مرد کی قسمت سے ہوتی ہے اُس میں عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا جو مرد اولاد کے لیے کرتے دوسری تیسری وہ شادی نہیں بے وقوفی ہوتی ہے اگر اللہ نے ان کو اولاد کی نعمت اور رحمت سے نواز ہوگا تو وہ پہلی سے ہی عطا کردے گا میری قسمت میں اپنی خود کی بیٹی نہیں تھی مگر بیٹی تھی جو تمہارے ذریعے مجھے ملی اگر میرے ایسا کرنے سے تم اُس کو زیادتی کا نام دیتے ہو تو یہ ہی ٹھیک مگر معاشرے میں مرد اگر عزت کرتا ہے نہ تو وہ بس اپنی ماں بہن کی دوسروں کی بہن اُن کے لیے بس لطف کا سامان ہوتی ہے کجھ مائیں ہوتی ہیں جو اپنے بیٹوں کو عورت کی عزت کرنا سیکھاتی ہے مگر کجھ عورتیں خود عورت بن کر بیٹے کو سمجھاتی ہیں یہ لڑکی ہے اِس کو جُتی کی نوک پہ رکھنا تمہاری بیٹی کو جب ہم نے اُس کی گود میں ڈالا تھا نہ تو وہ اپنی بیٹی بھول گئ اِن سالوں میں اُس نے کبھی بھول کر بھی اپنی بیٹی کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ہمارے پاس تو تھی نہ تمہاری بیٹی جس کو اپنی سمجھ رہے تھے۔شھباز شاہ جو پہلے سے پریشان تھے اب دلاور خان کی بات نے اُن کو مزید پریشان کیا جس وجہ سے انہوں نے اپنے دل کا سارا غبار اُن پہ نکالا جس پہ دلاور خان کبھی آبدیدہ ہوئے تو کبھی شرمندہ۔

مجھے آج کوئی ایسا دن بتاؤں کے میں جب آؤں تو تم میرے بنا کہے مجھے میری بیٹی دو کوئی بات کوئی بہانا کوئی پریشانی بتائے بنا۔دلاور خان اُن کی باتوں کے جواب میں بس یہی بول پائے۔

آج سے پانچ ماہ بعد آنا کوئی بہانا نہیں ہوگا میں آروش کو تمہارے ساتھ رخصت کردوں گا۔شھباز شاہ نے سرجھٹک کر کہا

پانچ ماہ زیادہ عرصہ نہیں؟دلاور خان نے پوچھا

اگر اُس سے پہلے ساری حقیقت جاننے کے بعد آروش تمہارے پاس آنا چاہے گی تو میں تمہیں کال کردوں گا۔شھباز شاہ کی بات پہ اُن کے چہرے پہ اطمینان بِکھرا۔

میں تمہارا احسانمند رہوں گا تاعمر تم نے میری بیٹی کو عزت اور پیار بھری زندگی عطا کی ہے اُس کی ساری خواہشوں کو بھی پورا کیا ہوگا۔دلاور خان مشکور نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولے۔

میں نے اُس کی ہر بات مانی ہے مگر ایک بات نہیں مان پایا اُس کی خواہش کو حسرت میں بدل دیا ایسا کرنا میری مجبوری تھی میرے بس میں نہیں تھا۔شھباز شاہ گہری سوچ میں ڈوب کر بولے۔

کونسی خواہش؟مجھے بتاؤ کیا پتا وہ میرے بس میں ہو اور میں اُس کو پورا کردوں مجھے اطمینان ہوگا چلو اپنی بیٹی کے لیے میں نے بھی کجھ کیا۔دلاور خان متجسس بھری نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا۔

اب تو بہت دیر ہوگئ ہے۔شھباز شاہ نے کہا تو دلاور خان کے چہرے پہ مایوسی بھرے تاثرات اترے

💕💕💕💕💕💕💕💕

پریشان ہیں؟ماہی شازل کے پاس بیٹھ کر اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔

ہمممم بہت تمہیں پتا ہے پہلے جب جرگہ بیٹھایا گیا تھا میں تب بھی پریشان تھا کے جانے کسی معصوم کے ساتھ اب کیا ہوگا اُس کو ونی کیا جائے گا مگر اِس وقت میں پریشان ہوں حد سے زیادہ پریشان ہوں کیونکہ اِس بار میری اپنی خود کی بہن خطرے میں ہے شاید میری وجہ سے۔شازل پریشانی سے بتاتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

آپ کی وجہ سے کیوں؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا

پہلے جب جرگہ ہو رہا تھا تو میں بابا سائیں کو سمجھانے آیا تھا تب غلطی سے میں یہ بول بیٹھا کے اگر کل کلاں کو مجھ سے اگر قتل ہوجائے تو کیا آروش کو ونی میں دیا جائے گا تب بابا سائیں نے میری بات بیچ میں کاٹی تھی مگر دیکھو میں ایک بھائی ہوکر اپنی بہن کے لیے کیسے ایسی بات کرگیا اب مجھے وہ بات سمجھ آئی جو لوگ کہتے ہیں کے ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولا کرو کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے اور اب مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ وقت قبولیت کا تھا۔شازل کی بات سن کر ماہی نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے اب وہ کیا بتاتی تمہاری بات تو بیچ میں کاٹ دی گئ تھی مگر میں جلن اور غصے میں آکر ایسی بات بول بیٹھی تھی جس کا پچھتاوا آج اُس کو بھی ہورہا تھا کیا پتا تب وہ اُس کی قبولیت کا وقت ہو۔

آپ خود کو قصوروار کیوں سمجھ رہے ہیں ابھی جرگے میں وقت ہے اور اُس کا فیصلہ کیا ہوگا یہ بھی باقی ہے کیا پتا ایسا کجھ نہ ہو جیسا آپ سمجھ اور سوچ رہے ہیں آپ کے بابا کبھی آروش کو ونی میں ہونے نہیں دینگے۔ماہی نے اؐس کو پرسکون کرنے کی خاطر کہا

جانتا ہوں مگر آروش پاگل ہے وہ مان جائے گی وہ یہ نہیں چاہے گی کے کوئی لالہ کا نام لے۔شازل نے کہا

سب اچھا ہوگا اگر آپ اچھا سوچے گیں تو میں آپ کے لیے کافی بناکر آتی ہوں۔ماہی نے مسکراکر کہا۔

یہاں کافی شاید نہ ہو اگر کجھ بنانا چاہتی ہو تو بس قہوہ بنادینا۔شازل نے کہا تو وہ سراثبات میں ہلاتی کمرے سے باہر نکلی وہ جب باورچی خانے میں آئی تو آروش کو پہلے سے وہاں موجود پایا جو جانے کن سوچو میں گم تھی۔

کیا تم جرگے کی وجہ سے پریشان ہو کے جانے کیا فیصلہ ہوگا اور شاید ڈر بھی ہوگا کہی وہ ونی نہ مانگے۔ماہی نے اُس کو دیکھ کر اندازہ لگاتا تو آروش اُس کی بات پہ چونک پڑی۔

میں شھباز شاہ کی بیٹی ہوں اُن کے دل کا ٹکرا وہ تو مجھے کیا میرے بھائی تک مجھے ونی میں نہیں کرے گے اتنا مجھے یقین نہیں ہے اور میں بے فکر ہوں میں اگر پریشان ہوں تو اُس وجہ سے اپنے لیے پریشان نہیں ہوں حریم کی وجہ سے پریشان ہوں۔آروش نے ایک منٹ میں ماہی کو لاجواب کیا۔

تمہیں بہت مان ہے اپنے باپ پہ؟ماہی نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا

ہر لڑکی کا مان پہلے اُس کا باپ پھر بھائی ہوتا ہے اور میرے بھی یہی ہیں میرے بھائی اور میرے بابا سائیں۔آروش نے اُس کی بات کے جواب میں کہا

ایک بات پوچھو اگر بُرا نہ مانو تو؟ماہی نے ہچکچاہٹ سے کہا

اگر تمہیں لگتا ہے تمہاری بات سے میں بُرا مان جاؤں گی تو کہہ کیوں رہی ہو مت کہو۔آروش نے کندھے اُچکاکر کہا

تم بہت لڑکی ہو آروش تمہارے پاس جو بھی رشتے ہیں وہ سب تم سے بہت پیار کرتے ہیں ہمیشہ تمہارے ہمقدم ہوگے اور ایسا کم لوگوں کی قسمت ہوتا ہے کوئی تمہارا نام نہیں لے سکتا سب تمہارے اپنے تمہارے پاس ہیں جن سے تم محبت کرتی ہو جو تم سے محبت کرتے ہیں۔ماہی سرجھٹک کر آروش سے بولی تو آروش کے کانوں میں کوئی اور جُملا گونجنے لگا دماغ میں پرانی بات تازہ ہوئی تھی۔

آپ ایک دفع مجھ ناچیز پہ اعتبار کرلیں دیکھیے گا یہ بندہ بشر آپ کو کبھی رسوا ہونے نہیں دے گا زندگی کے ہر سفر میں آپ مجھے اپنے ہمقدم پائے گی اگر کوئی آپ کے بارے میں کجھ غلط کہے گا تو گدی سے زبان کھینچ لوں گا پر آپ کی ذات پہ ایک حرف آنے نہیں دوں گا میں بہت محبت کرتا ہوں آپ سے۔

ہاں واقع میں بہت لکی ہوں میرے سب اپنے میرے پاس ہیں جن سے میں پیار کرتی ہوں اور جو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں میری لائیف ایک آئیڈیل لائیف اور پرفیکٹ لائیف ہے جس میں سب کجھ ہے کسی چیز کی کمی نہیں۔آروش اپنا سرجھٹک کر زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولی۔

تمہاری آنکھیں تمہارا لہجہ تمہاری بات کا ساتھ نہیں دے رہا ہاں جو تم بول رہی ہو وہ سب ٹھیک ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے کجھ ہے جو تم چُھپاتی پِھرتی ہو سب سے شاید خود سے بھی مگر تمہارا چہرہ سب کجھ عیاں کردیتا ہے تمہیں پتا ہے میں نے کہی پڑھا تھا آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہے جہاں انسان کو سب پتا چل جاتا ہے دوسرا کیا سوچ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے مگر تمہاری آنکھیں بے تاثر ہوتی ہے بے رونق سی مگر تمہارا چہرہ بہت ایکسپریسیو ہے تم جو جو بات کرتی ہوں تمہارے چہرے کے زاویئے بھی ایسے بن جاتے ہیں تم بھلے سب کجھ چُھپالوں مگر تمہارے چہرے کے تاثرات تمہارا ساتھ نہیں دیتے۔ماہی نے آج جیسے اُس کو اندر تک جھانک لیا تھا۔

تمہیں مجھ پہ ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں اپنے کام سے کام رکھا کرو اور پلیز میرے معاملات میں مت آیا کرو میں جو ہوں جیسی ہوں جیسے نظر آتی ہوں جیسے نظر آنا چاہتی ہوں اُس کے بارے میں تمہیں سوچنے کی ضرورت نہیں یہ صرف میرا معاملہ ہے تمہارا اُس سے کوئی لینا دینا نہیں مجھے بلکل پسند نہیں کوئی میرے معاملات میں دخل اندازی کرے مجھے سخت چڑ ہے اِس بات سے۔آروش کی جیسے کسی کے چوری پکڑ لی تھی تبھی ماہی کی بات سن کر حددرجہ سخت لہجہ اختیار کرگئ تھی جس سے ماہی کو شرمندگی کے احساس نے آ گھیرا۔

سوری اگر تمہیں بُرا لگا ہو تو۔ماہی نے معذرت خواہ لہجے میں کہا تو آروش بنا جواب دیئے وہاں سے چلی گئ۔

آروش کے جانے کے بعد ماہی شازل کے لیے قہوہ بناتی کمرے میں داخل ہوئی۔

لیٹ کیوں کردی۔شازل نے پوچھا

آروش سے بات کررہی تھی تو بس دیر ہوگئ۔ماہی نے آہستہ آواز میں بتایا

کیا ہوا آرو نے کجھ کہا تم سے؟شازل نے اُس کے تاثرات نوٹ کیے تو پوچھا۔

نہیں ویسے ہی نیند آرہی ہے۔ماہی قہوہ اُس کی جانب بڑھاتی نظریں چُراکر بولی

اگر آرو نے کجھ کہا ہے تو بتادو ویسے تم آرو کی بات دل پہ مت لیا کرو وہ بہت اچھی ہے بس کبھی کبھی زبان کی تیز ہوجایا کرتی ہے کیا ہے وہ دل میں کجھ نہیں چُھپاتی جو ہوتا ہے سامنے والے کے منہ پہ مارتی ہے۔شازل نے مسکراکر کہا تو ماہی کی آنکھوں میں شکوہ اُتر آیا۔

کیا ہوا؟شازل ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولا

کجھ نہیں۔ماہی اُس کو جواب دیتی بیڈ پہ کروٹ لیٹی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

ماہی کجھ ہے تو شیئر کرو۔شازل قہوہ کا کپ سائیڈ پہ کرتا اُس کی جانب پوری طرح سے متوجہ ہوا۔

کجھ نہیں بس انجانے میں آروش کے ساتھ پرسنل ہوگئ تو اُس نے ڈانٹ دیا۔ماہی سیدھی ہوتی لیٹ کر جس انداز میں اُس کو بتایا شازل کو وہ بہت پیاری لگی۔

تم سچ میں بہت معصوم ہو۔شازل اُس کا گال کھینچ کر بولا۔

سیدھا سیدھا بے وقوف کیوں نہیں کہتے۔ماہی نے بُرا مان کر کہا تو شازل قہقہقہ لگانے لگا۔

یار اب مجھ کیوں ناراض ہو رہی ہو میں نے تھوڑی آروش سے کہا تمہیں ڈانٹیں مگر تم فکر نہیں کرو میں صبح اُس سے کہوں گا میری بیوی کو دوبارہ مت ڈانٹیں۔شازل کہنیوں کے بل لیٹتا مسکراہٹ ضبط کیے اُس سے بولا

ڈانٹ ہی نہ لے آپ اُسے۔ماہی کو زرہ برابر یقین نہیں آیا۔

اچھا سوجاؤ تمہیں نیند آرہی تھی نہ۔شازل اُس کی جانب کھسک کر آتا اُس کا سر اپنے بازوں پہ رکھ کر بولا

میں جس کروٹ پہ لیٹتی ہوں تو جب جاگ ہوتی ہے پھر بھی وہی ہوتی ہوں۔ماہی نے سراُٹھاکر شازل سے کہا جو اُس کے بال سہلا رہا تھا

مجھے بتانے کا مقصد؟شازل نے پوچھا

مقصد یہ کے آپ کا بازوں صبح تک سن اور ساکت ہوجائے گا۔ماہی نے سکون سے کہا

کجھ نہیں ہوتا تم آنکھیں موند لوں۔شازل نے مسکراہٹ سے کہا۔

ٹھیک ہے میرا کام آپ کو خبردار کرنا تھا سو میں نے کردیا اب آپ جانے اور آپ کا سُن سُناتا بازوں۔ماہی مزے سے کہتی اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھتی آنکھیں بند کرگئ تو شازل بھی نفی میں سرہلاتا خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ مانے یا نہیں مانے مگر سچ یہی ہے کے آپ کے دوست کی نیت میں کھوٹ ہے وہ ہمیں اپنی بیٹی واپس کرنا ہی نہیں چاہتے کاش آپ اُس وقت میرے ساتھ مشورہ کرلیتے تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا مگر عجیب بات ہے ہم اپنی بیٹی کے لیے اُن کے محتاج ہے۔دلاور خان اگلے دن واپس آئے اور اُن کے ساتھ آروش کو ناپا کر زوبیہ بیگم نے پوچھا تو دلاور خان نے اُن کو ساری بات سے آگاہ کیا جن کو سن کر زوبیہ بیگم ناگواری سے بولی۔

وہ ایسا نہیں چاہتا وہ اِس وقت پریشان ہے تبھی ایسا بول رہا ہے اور مجھے اُس کا ساتھ دینا ہے وہ ہماری بیٹی ہمیں واپس کرے گا تم پریشان مت ہو مجھے شاہ پہ پورا بھروسہ ہے اگر ایسا کجھ ہوتا تو اُس کے پاس بہت مواقع تھے۔دلاور نے اُن کو تسلی کروائی ۔

مجھے نہیں لگتا وہ کیوں تصویر تک تو آپ کو دیکھا نہیں رہا۔زوبیہ بیگم اُن کی بات سے انکاری ہوئی۔

💕💕💕💕💕💕

تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟شازل نے ماہی کی زرد ہوتی رنگت دیکھی تو اُس کا ماتھا چھو کر پوچھنے لگا۔

جی میں ٹھیک ہوں۔ماہی زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولی ورنہ حقیقت تو یہ تھی اُس کو صبح سے اپنی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی عجیب بوجھل پن کا احساس ہورہا تھا۔

پکا؟شازل نے کنفرم کرنا چاہا

جی پکا۔ماہی نے جواب کہا

اوکے پھر چلو ناشتہ کرنے۔شازل نے کہا

آپ کرے میرا دل نہیں۔ماہی نے انکار کیا۔

دل کیوں نہیں یہ کیا بات ہوئی ایسا کرو تم یہی بیٹھو آج میں تمہارے لیے بریک فاسٹ بناتا ہوں۔شازل نے خود ہی پلان ترتیب دیا

نہیں شازل پلیز حویلی میں سب کیا سوچے گے۔ماہی کو گھبراہٹ ہونے لگی۔

مجھ کسی کی پرواہ نہیں اِس لیے تم بھی کسی کا مت سوچو یہی بیٹھو میں آتا ہوں۔شازل جلدی سے اُس کو کہتا خود باہر چلاگیا۔

ماہی اُس کے پیچھے جانے والی تھی مگر اُس کو اپنا سر چکراتا محسوس ہوا تو بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

شازل تم یہاں کیا کررہے ہو؟فردوس بیگم باورچی خانے میں آئی تو شازل کو دیکھا تو حیرت سے بولی

میں بریک فاسٹ بنارہا ہوں۔شازل نے مصروف انداز میں بتانے لگا۔

کیاااا؟فاریہ بیگم گِرتے گِرتے بچی۔

جی بریک فاسٹ مطلب ناشتہ۔شازل کو لگا شاید اُن کو مطلب سمجھ نہیں آیا

پتا ہے بیٹا پانچویں تک تو ہم نے بھی اسکول کی شکل دیکھی ہے۔فردوس بیگم نے طنزیہ کہا

اچھا۔شازل جانے کیوں ہنس پڑا

تم یہاں کیا کررہے ہو مرد باورچی خانے میں نہیں آتا۔فردوس بیگم نے سنجیدگی سے کہا

ایسا کس کتاب میں لکھا ہے اور کونسے چیپٹر میں لکھا ہے ذرہ مجھے بھی بتائے تاکہ میں لکھاری کو اکیس توپوں کی سلامی پیش کروں۔شازل کہنیوں کے کف فولڈ کرتا اپیرن پہن کر بولا

شازل تم اپنی حیثیت مت بولوں اور تم ایک ہاتھ سے کیوں کام کررہے ہو دوسرے ہاتھ کو کیا ہوا ہے تمہارے۔فردوس بیگم زچ ہوئی۔

وہ میرا ایک بازوں سن ہوگیا ہے۔شازل اب اُن کی موجودگی ڈسٹرب کرنے لگی۔

سُن کیوں؟فردوس بیگم نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھا

یہ کجھ پرسنل سوال ہے میں نہیں بتاتا مجھے شرم آتی ہے۔شازل نے ڈرامائی انداز میں کہا

تمہیں پتا ہے حویلی میں اگر کسی کو پتا چلا کے تم یہاں کھڑے ہوکر بیوی کی غلامی کررہے ہو وہ بھی اُس کی جو ونی میں آئی ہوئی ہے تو کتنا خراب سمجھے گے وہ تمہاری کون عزت کرے گا۔فردوس بیگم نے اُس کو گھور کر کہا

عزت وہ دیتا ہے جس کے پاس عزت ہوتی ہے اور یہ میری زندگی ہے میں اپنی بیوی کی غلامی کروں یا اُس سے غلامی کرواؤں کسی اور کو اُس میں سردرد نہیں ہونا چاہیے اینڈ پلیز ایکسکیوز می میری بیوی کو بھوک لگی ہے میں اُس تک ناشتہ پہنچادوں۔شازل اپیرن اُتار کر ٹرے ہاتھ میں لیتا فردوس بیگم کے تن بدن میں آگ لگاتا اُن کی سائیڈ سے گُزر گیا۔

جانے اُس ڈائن نے کیا جادوں ٹوٹکا کردیا ہے۔فردوس بیگم نخوت سے سوچنے لگی۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

یہ لے میڈم آپ کا گرما گرم انڈا پراٹھا۔شازل کمرے میں آتا ماہی سے بولا

آپ نے تکلف کیوں کیا شازل جانے وہ اب میرے بارے میں سوچ رہے ہوگے۔ماہی شرمندگی سے بولی

میں نے اُن کو بتادیا اب آپ لوگوں نے میری اتنی کھڑوس لڑکی سے شادی کروائی تو مجھے بھگتنا تو پڑے گا نہ۔شازل چہرے پہ مظلومیت طاری کیا بولا

ہاں شازل میں آپ کو کھڑوس لگتی ہوں اور آپ مجھے بھگتے ہیں۔ماہی کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

ہاں اور نہیں تو کیا تم خود کوئی مجھے ایک بیوی والی خوبی بتاؤ جو تمہارے اندر ہو اور میرے سامنے کی ہو۔شازل شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے بولا تو ماہی سوچ میں پڑگئ۔

ایسی باتیں نہ کرے میں صبح سویرے آپ کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہوں اگر آپ کو کہی جانا ہو تو کپڑے پریس کرتی ہوں آپ کے لیے لنچ تیار کرتی ہوں رات دیر تک ڈنر کے لیے آپ کا انتظار کرتی ہوں جب تک آپ ڈنر نہیں کرتے میں بھی نہیں کرتی اور یہ سب ایک بیوی کرسکتی ہے جو میں کرتی ہوں پھر بھی آپ ایسا بول رہے کے مجھ میں بیویوں والی خوبی نہیں۔ماہی بنا سانس لیے بولی تو شازل کا دل کیا قہقہقہ لگائے مگر اپنی مسکرائٹ اُس نے ضبط کی۔

بیویوں کے اور بھی بہت فرائض ہوتے ہیں جن سے تم سِرے سے انجان ہو یا انجان ظاہر کرتی ہو۔شازل شانِ بے نیازی سے بولا

نہیں شازل مجھے نہیں پتا آپ بتائے میں انہیں بھی پورا کروں گی۔ماہی روہانسی ہوگئ۔

تم نے کیا کبھی ڈرامے فلمیں وغیرہ نہیں دیکھی کیا؟شازل نے اُس کو دیکھ کر کہا

دیکھے ہیں نہ ڈرامے بن روئے من مائل وہ ایک پل عشقیہ خانی دل کیا کرے گُلِ رانا اے مشت خاک  حبس اور بھی بہت مگر یہ سب آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ماہی اُس کو سارے ڈراموں کے نام بتاتی آخر میں پوچھ بیٹھی شازل بس ہونک بنا اُس کو دیکھنے لگا۔

یہ اتنے سب دیکھے ہیں مگر اِن سے سیکھا کیا ہے۔شازل نے اب کی اُس کو گھورا

آپ ڈراموں کی چھوڑے یہ بتائے بیوی کے اور کونسے فرائض ہوتے ہیں جو میں پورے نہیں کرتی۔ماہی نے بے چینی سے پوچھا

بیویاں اپنی شوہروں کو ساتھ اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں اُن کے لیے خود کو سنوارتی ہیں اور بھی بہت کجھ کرتی ہیں مگر ایک تم ہو جو مجھ سے فرمائشیں تک نہیں کرتی۔شازل نے انگلیوں کے اِشارے سے بتانے لگا۔

فرمائشیں کیسی؟شازل کی باتیں ماہی کے سر پہ سے گُزری۔

ماہی یار میں تمہیں کیا کہوں بے وقوف یا معصوم۔شازل نے ہر بار کہا جُملا پھر سے دوہراہا

پلیز بتائے نہ۔ماہی نے پوچھا

یہی کے شیمپو لادو تیل لادو۔شازل جلے کٹے انداز میں بولا وہ سخت بیزار ہوا تھا ماہی کی اِس قدر بے نیازی پہ

شیمپو وغیرہ تو ہر وقت موجود ہوتا ہے باقی تیل میں یوز نہیں کرتی۔ماہی بہت دیر تک سوچنے کے بعد بولی تو شازل اُس کے جواب پہ عش عش کراُٹھا اُس کو حیرانی ہورہی تھی ماہی اب تک اُس کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔

چھوڑو اِن سب کو ناشتہ کرو ٹھنڈا ہورہا ہے۔شازل سرجھٹک کر بولا

پتا ہے شازل مجھے ایسا لگ رہا ہے اگر میں یہ کھاؤں گی تو مجھے قے آئے گی۔ماہی چہرے کے عجیب تاثرات سجاتی شازل سے بولی

اتنا بُرا بھی ناشتہ نہیں بناتا جو تمہیں قے ہی آجائے گی۔شازل اُس کی بات پہ جلدی سے بولا

نہیں وہ بات نہیں ہے۔ماہی نے وضاحت کرنا چاہی۔

چپ چاپ ناشتہ کرو۔شازل خود ہی نوالہ بناتا اُس کے منہ کے پاس کرنے لگا تو ماہی نے ہار مانی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ کھا کیوں نہیں رہی حریم پلیز میرے لیے کجھ کھالوں۔آروش پریشانی سے حریم کو دیکھ کر بولی جو آج اُس کی جانب دیکھ تک نہیں رہی تھی۔

ہمیں بھوک نہیں۔بہت دیر بعد حریم نے اپنوں ہونٹوں کو جنبش دی۔

کھانے سے منہ نہیں موڑتے اللہ ناراض ہوتا ہے اِس لیے کجھ کھالوں۔آروش نے اُس کو سمجھانا چاہا۔

اللہ میاں ہم سے ویسے بھی خوش نہیں ناراض ہیں اگر تھوڑا اور ہوجائے گے تو کیا فرق پڑتا ہے۔حریم تلخ لہجے میں بولی۔

بُری بات ہے حریم ایسے نہیں بولتے۔آروش نے اُس کو ٹوکا

پتا ہے آروش آپی ہم تین چار دنوں سے یہاں ہیں اور سوچ رہے ہیں ہم نے اپنی زندگی میں کب اور کس کے ساتھ اتنا بُرا کیا ہے جو اللہ نے ہمیں سزا دی ہے؟مگر پتا ہے حیرانکن بات کیا ہے کوئی ایک واقع بھی ہمارے ذہن میں نہیں آیا شاید ہم اپنے گُناہوں سے اتنا غافل ہیں کے کجھ یاد نہیں۔حریم کی پلکیں بھیگ چُکی تھی۔اُس کو ایسے حال میں دیکھنا آروش کے لیے تکلیف دہ ثابت ہورہا تھا۔

بعض دفع ہمارے ساتھ بُرا اِس لیے نہیں ہوتا کے ہم بُرے ہوتے ہیں کبھی کبھی اِس لیے بُرا ہوتا ہے کے ہمارا رب ہمیں آزماتا ہے ضروری نہیں کے ہر دفع آپ غلط ہو تمہیں شاید پتا نہیں اللہ بس اپنے پیاروں کو آزماتا ہے تاکہ وہ اپنے رب سے غافل نہ ہو۔آروش اُس کے گال پہ ہاتھ رکھتی نرم لہجے میں بولی۔

محبت خدا سے ہو یا اُس کے بندے سے محبت بس رُلاتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے آپی۔حریم اتنا کہتی زارو زار رونے لگی۔

ایسا نہیں ہے حریم خدا کی مجبت سنوارتی ہے رُلاتی نہیں رُلاتی تو بس نامحرم کی محبت ہے۔آروش اُس کو اپنے ساتھ لگاتی کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔

ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے آپی ہم نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔حریم نے روتے ہوئے کہا

اللہ تمہیں صبر دے گا حریم جس نے تمہارے ساتھ بُرا کیا ہے نہ اللہ کبھی اُن کے ساتھ اچھا نہیں کرے گا۔آروش اُس کے بال سہلاتی بولی۔

ہمارا دم گھٹتا ہے سانس رُک رُک کر آتی ہے۔حریم نے بتایا

اللہ کا نام لیا کرو جو کجھ ہوا اُس کو بھولنے کی کوشش کرو دیکھنا اب تمہارے ساتھ کجھ بُرا نہیں ہوگا۔آروش نے اُس کو دلاسہ دیا۔

اور کیا بُرا ہوگا آپی اتنا کجھ تو ہوگیا ہے۔حریم نے کہا تو آروش کے سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اگر اُس کے بس میں ہوتا تو وہ کبھی حریم کو اتنی تکلیف میں رہنے نہیں دیتی مگر وہ خود بے بس تھی۔

تمہیں آگے بڑھنا ہے حریم فضول لوگوں کے لیے خود کی زندگی خراب مت کرو تمہارے سامنے ابھی بہت کجھ ہے ابھی بھی کجھ نہیں بگڑا تمہیں ٹھیک ہونا ہے حریم یہ رونا دھونا تم پہ سوٹ نہیں کرتا تم بہادر ہو اللہ نے عورت کو بہادر بنایا ہے اگر وہ ہمیں آزماتا ہے تو اُس کا اجر بھی دیتا ہے خود کو یوں کمزور مت کرو اگر اپنا نہیں تو ہمارا سوچو تمہیں اِس حال میں دیکھ کر ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے اِس لیے اپنے لیے نہیں تو ہمارے لیے دوبارہ مسکرانا سیکھو زندگی میں کئ مشکلات آتی ہے اُس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کے انسان جینا چھوڑدے یہ جو مشکلات ہماری زندگی میں اِس لیے نہیں آتی کے ہمیں کمزور کرے بلکہ اِن مشکلات کا سامنا کرنے سے ہم بہادر بن جاتے ہیں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے۔آروش اُس کو رخ اپنی جانب کرتی اُس کا ماتھا چوم کر بولی۔

ہم بہادر نہیں ہے۔حریم نے کسی مجرم کی طرح بتایا

کس نے کہا تم بہادر نہیں تم بہادر ہو اور اگر تم مجھ سے یا حویلی میں کسی سے بھی پیار کرتی ہوں ہمیں اپنا کجھ سمجھتی ہو تو موو آن کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور ہمیشہ رہوں گی اب وہ ہوگا جو تم چاہتی ہو تم میری بات سمجھ رہی ہو نہ؟آروش نے بات کرنے کے درمیان اُس سے پوچھا

جی آپی۔حریم اتنا کہتی اُس کے گلے لگی۔

تم بہت معصوم ہو حریم بہت تمہیں سنبھالنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں میں جانتی ہوں تم پیار کی بھوکی ہوں اور پیار توجہ یہ سب تمہاری کمزوری ہیں تم نے اپنے ماں باپ کو بچپن میں ہی کھویا ہے اُن کی محبت کی ترسی ہوئی ہو یہ وہ خُلا ہے تمہاری زندگی کا جس کو کوئی پُر نہیں کرسکتا درید لالہ بھی نہیں وہ چاہے تم سے کتنی محبت کے دعوے دار تھے مگر انہوں نے کبھی تمہارے ماں باپ کی جگہ نہ لی کیونکہ ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا پر ہاں اگر اماں سائیں یا چاچی جان والے تمہیں اپنی بیٹی سمجھتے تو شاید آج حالات کجھ مختلف ہوتے اب حریم حریم سب کررہے مگر جب حریم اُن کے سامنے ٹھیک صحیح سلامت تھی تو سب کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔حریم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی آروش بس یہ سب سوچ سکی آج حریم کی حالت دیکھ کر اُس کو اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا اگر اُس کے ساتھ ہرکوئی نرمی سے پیش آئے گا اُس کو اعتماد کی ڈوری پکڑائے گا تو وہ جلدی اپنے کل سے نکل کر آنے والے کل کے بارے میں اچھا سوچے گی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آج جرگہ تھا اور سب اُس جگہ پہ پہنچ چُکے تھے تابش کے گھر سے اُس کا چھوٹا بھائی عاقب اور اُس کا باپ عاکف آیا تھا جب کی حویلی سے شھباز شاہ ارباز شاہ دیدار شاہ دُرید شاہ اور شازل شاہ یہ سب اور گاؤں کے معزز لوگ بھی آئے تھے جن میں حشمت اللہ اور حق اللہ کا بھی شمار ہوتا تھا۔

لالہ یہ سب مجھے ایسے کیوں گھور رہے ہیں جیسے میں اِن کا قرضا لیکر بھاگ گیا ہوں۔شازل نے سب لوگوں کی نظریں خود پہ جمی دیکھی تو خاموش بیٹھے دُرید سے پوچھا

اپنی ڈرسنگ دیکھو جواب مل جائے گا۔جواب دُرید کے بجائے دیدار شاہ نے دیا تھا جو اُس کے برابر بیٹھا تھا اور خود شازل اُن دونوں کے درمیان بیٹھا تھا

شازل نے ایک نظر اپنی ڈریس پہ ڈالی وہ اِس وقت بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ گھٹنوں سے پھٹی جینز پینٹ میں ملبوس تھا گلے میں بڑی سا لاکیٹ پہنا ہوا تھا جس پہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ہاتھ حرکت کررہے تھے۔

 شازل نے خود کو غور سے دیکھا پھر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا جو جیل سے سیٹ ہوئے تھے پھر اپنی ڈارھی پہ ہاتھ پھیرا جو آتے وقت اُس نے شیو کی تھی۔

سب کجھ سیٹ تو ہے۔شازل بڑبڑایا مگر تبھی اُس کی نظر اپنے گھٹنوں پہ پڑی جہاں سے جینز پھٹی ہوئی تھی۔

مطلب یہ میری گوری چِٹی پنڈلیاں دیکھ رہے ہیں شرم آنی چاہیے اِن کو۔شازل اپنے دونوں گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو دُرید اور دیدار نے زبردست قسم کی گھوری سے اُس کو نوازہ تو شازل گڑبڑا گیا۔

گاؤں کے سب لوگوں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی ہے بس ایک تم ہو جس نے اپنا یہ عجیب و حلیہ بقول تمہارے شہری کپڑے پہنے ہوئے ہیں تبھی سب تمہیں عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں زیادہ نہیں تو جتنے وقت یہاں رہتے ہو تو شلوار قمیض پہنا کرو۔دیدار شاہ نے اچھا خاصا اُس کو لتاڑا اُس سے پہلے شازل کجھ کہتا جرگہ شروع ہوا۔

جیسا کے آپ سب کو پتا ہے یہاں ہم سب کیوں آئے ہیں۔شھباز شاہ نے بات کا آغاز کیا

میرے جواب بیٹے کا قتل کیا ہے دُرید شاہ نے ہمیں اپنے بیٹے کے خون کے بدلے دُرید شاہ کا خون چاہیے۔تابش کا باپ عاکف شاہ بولے

کتنی بوتلیں چاہیے خون کی ہمیں بتادے ہم مینیج کرلے گے۔شازل نے بڑی سنجیدگی سے کہا مگر آنکھوں میں تپانے والے تاثرات صاف عیاں تھے۔

یہاں کوئی مذاق نہیں ہورہا شازل ہمیں دُرید کی جان چاہیے۔عاقب ناگواری سے بولا

تمہیں جان کیوں چاہیے عزرائیل ہو کیا؟شازل نے طنزیہ کیا

اپنی حد میں رہو اور ہم بڑوں کو بات کرنے دو۔عاکف شاہ نے اُس کو ٹوکا

بات ختم ہوچکی ہے آپ کے حیوان بیٹے نے جو کیا تھا ہم نے بس اُس کو اُس کا جواب دیا ہے ہم نے اپنا فیصلہ خود کردیا اب کوئی جرگہ نہیں بنتا۔شازل کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔

میرے بیٹے نے جو کیا وہ اُس کا حق تھا۔عاکف شاہ کی بات پہ دُرید نے زور سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

وہ اُس کی بیوی تھی کوئی گائے بکری نہیں جس کے ساتھ آپ لوگون نے جانوروں جیسا سلوک کیا تھا جرگہ تو ہمارا آپ پہ بنتا ہے ہماری معصوم بہن کی زندگی کے ہر رنگ آپ لوگوں نے چھینے ہیں اُس کی معصومیت چھینی ہے۔اِس بات دیدار شاہ کاٹ دار لہجے میں کہا

اچھا ہوگا جو اِس بات کا فیصلہ ہم بڑے کرے۔گاؤں کے معزز آدمی نے مداخلت کی۔

ٹھیک ہے کرے آپ لوگ فیصلہ مگر دیدار کی بات ٹھیک ہے جرگہ بنتا نہیں تابش کے ساتھ جو میں نے کیا وہ اُس کے مستحق تھا اگر دوبارہ گاؤں کے کسی لڑکے نے ایسا کیا تو اُس کا انجام بھی تابش سے مختلف نہیں ہوگا۔دُرید کے لہجے میں سختی تھی۔

ہمیں دُرید کا خون یا اُس کی بہن چاہیے ونی میں۔عاکف شاہ کی بات پہ اچانک ماحول میں سناٹا چھاگیا تھا شھباز شاہ کا ہاتھ بے ساختہ اپنے پستول پہ پڑا تھا

بھرے مجموعے میں سیدزادی کا نام لینا اچھی بات نہیں۔حشمت اللہ جو خاموش تھے وہ سنجیدگی سے بولے

میری بہن کا اگر کسی نے نام بھی لیا تو میں اُس کا وہ حشر کروں گا اُن کی روح تک کانپ اُٹھے گی۔دُرید اچانک شیر کی مانند دھاڑا۔

لالہ رلیکس۔شازل ایک نظر جرگہ میں بیٹھے لوگوں پہ ڈالتا دُرید سے بولا تو اُس نے سرجھٹکا۔

ٹھیک ہے اگر آرو

ہماری بیٹی کا نام یہاں کوئی نہیں لے گا۔گاؤں کا معزز آدمی کجھ کہنے والا تھا جب سرپنج کی جگہ بیٹھے شھباز شاہ نے انہیں خبردار کیا۔

اصول سب پہ وہی ہیں دُرید اگر آپ کا بیٹا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے اُس کو سزا نہیں ملے گی۔دوسرے آدمی نے ناپسندیدہ نظروں سے دُرید کو دیکھ کر کہا

ہمیں سبز قدموں والی چاہیے بھی نہیں اگر حویلی سے کوئی لڑکی نہیں آسکتی کیونکہ وہ سیدزادیاں ہیں تو ٹھیک ہیں ہمیں غیرسید لڑکی چاہیے ونی میں۔تابش کا چھوٹا بھائی بولا تو سب نے ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

لگتا ہے یہ حویلی کی ملازماؤ کی بات کررہا ہے حویلی میں آتے وقت کسی پہ دل آگیا ہوگا۔شازل بڑبڑایا تو دُرید نے کڑی نظروں سے اُس کو گھورا جس کو ایسی پیچیدہ حالات میں بھی لطیفے سوجھ رہے تھے

ہمیں وہ لڑکی چاہیے جو حویلی میں ونی کے طور پہ گئ تھی حشمت اللہ کی بیٹی۔تابش کے چھوٹے بھائی  عاقب نے کہا تو شازل کی آنکھوں میں خون اُتر آیا

میں تمہاری زبان کاٹ دوں گا اگر میری بیوی کا نام بھی لیا تو۔شازل کے چہرے کی رگیں غصے سے تن چُکی تھی۔

ہمیں ونی چاہیے وہ حشمت اللہ کی بیٹ

کمینے انسان میں تمہیں جہنم وصل کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا پھر مانگتے رہنا ونی وہ میری بیوی ہے میری عزت ہے کسی حشمت اللہ کی بیٹی نہیں۔عاقب اُس سے پہلے مزید کجھ کہتا شازل ایک ہی جست میں اُس تک پہنچتا گلا پکڑ کر چہرے پہ مُکے برسانے لگا۔شازل کے ردعمل پہ سب لوگ فورن سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے۔

شازل چھوڑو اُسے۔دُرید اُس کو عاقب سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر شازل پہ جیسے جنون سوار ہوگیا تھا وہ جو کجھ پہلے دُرید کو پرسکون کرنا چاہ رہا تھا اب خود آپے سے باہر ہوگیا تھا۔شُھباز شاہ سنجیدہ نظروں سے اپنے بیٹے جو ہمیشہ کول ڈاؤن رہتا تھا اُس کو دیکھ رہے تھے اُس کا ردعمل اُنہیں بہت کجھ سمجھا گیا تھا۔

شازل میں نے کہا ہٹو۔دُرید نے زبردستی اُس کو عاقب سے ہٹایا مگر تب بھی شازل نے ایک زوردار لات عاقب کے پیٹ پہ ماری جس سے وہ کراہ اُٹھا۔

تو سیدھا کہو نہ تمہارے دل بہلانے کا کام وہ خوب اچھے سے کررہی ہے تبھی تو تم اُس کو چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے۔عاقب اپنی ناک سے بہتا خون صاف کرتا فضول بولنے سے باز نہیں آیا۔

شازل نے اُس کی بات پہ ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بھینچی تبھی اُس کی نظر لڑکے کے ہاتھ میں موجود بندوق پہ پڑی تو اُس سے بندوق چھینننے لگا۔

کلمہ پڑھ لو۔شازل بندوق کا رخ اُس کی جانب کرتا پتھریلے لہجے میں بول کر اُس پہ فائر کھول دیا

ٹھاہ

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ کیوں کیا کیا لالہ۔شازل جیسے فائر کرنے والا تھا دُرید نے اُس کا ہاتھ اُپر کرلیا تھا جس وجہ سے نشانہ مس ہوگیا تھا تبھی شازل غصے بھری نظروں سے عاقب کو دیکھتا دُرید سے بولا جب کی وہاں موجود سب لوگوں کی اٹکی سانسیں بحال ہوئی تھی۔عاکف شاہ نے جلدی سے عاقب کو اپنے پیچھا کھڑا کرلیا تھا۔

یہ میں بھی پوچھ سکتا ہوں کیا کرنے والے تھے تم جُرم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہو اور اب خود جُرم کرنے والے تھے مجھے بتاتے تھے کے قتل گُناہ ہے تو پھر کیوں خود قتل کرنے والے تھے۔دُرید ایک ایک لفظ چباکر بول کر اُس کے ہاتھ سے بندوق چھینی۔

یہ جُرم نہیں تھا لالہ یہ کمینہ انسان میری بیوی کے بارے میں اتنا گھٹیاں بول رہا تھا اور میں خاموش تماشائی کا رول ادا کرتا کیا اتنا بے غیرت سمجھ ہوا ہے۔شازل غصے سے پھنکارا۔

شازل عقل سے کام لو۔دُرید نے جھڑکا۔

میں آپ سے بات کیوں کر ہی کیوں رہا ہوں میں آج اِس کمینے کو چھوڑوں گا نہیں۔شازل ایک بار پھر عاقب کو مارنے کے لیے بڑھا مگر وہاں کھڑے لوگ درمیان میں آگئے۔

جرگہ میں کیا تماشا بنایا ہوا ہے۔وہاں موجود ایک آدمی نے کہا 

تماشا تو یہ ہمارے گھر کی عورتوں کو لگارہے ہیں اگر یہ سب ایک منٹ سے پہلے نہیں گئے تو خدا کی قسم میں ان باپ بیٹے کو زندہ قبر میں دفناؤں گا۔شازل غصے سے چیخا۔

جرگہ کل دوبارہ ہوگا ابھی سب جائے۔شھباز شاہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر سنجیدہ بھرے لہجے میں بولے تو سب ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے۔

یہ کیا بات ہوئی آپ ایسا کیسے کرسکتے۔ایک آدمی نے اعتراض اُٹھایا

ٹھیک ہے فیصلہ کل ہوگا مگر آپ سب خود پہ کنٹرول کرنا ایسا نہ ہو کل بھی وہ تماشا ہو جو آج ہوا ہے۔حشمت اللہ نے شھباز شاہ کی بات پہ اتفاق کیا تو انہوں نے سر کو اثبات میں ہلایا تو باری باری سب وہاں سے چلتے گئے۔

میں تو تمہیں ایویں کم ہمت ڈرپوک سمجھتا تھا مگر آج تو تم نے ثابت کردیا کے تمہاری رگوں میں بھی شاہوں خاندان کا خون ہے۔دیدار شاہ نے داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا جس پہ شازل نے سرجھٹکا۔

ویسے تمہیں غصہ کجھ زیادہ آگیا ایسا ہی ہوتا ہے جو لوگ کبھی کبھی غصہ کرتے ہیں اُن کے غصے میں بلا کا روعب ہوتا ہے کیونکہ وہ سردیوں کی شام کی طرح خاموش اور پُراسرار نظر آتے ہیں مگر پھر بعد میں طوفان کھڑا کرتے ہیں جیسے کے تم نے کیا۔دیدار نے مزید کہا تو شازل نے زچ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

میں اگر چھوٹا ہوتا تم سے تو تمہاری یہ لال انگارہ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر ضرور ڈر جاتا مگر کیا ہے کے میں تم سے بڑا ہوں اِس لیے مجھے ڈر بلکل بھی نہیں لگ رہا۔دیدار شاہ اُس کا کندھا تھپتھپاکر بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕

جانے جرگہ میں کیا ہورہا ہے۔فاریہ بیگم فکرمندی سے بولی۔

اللہ خیر کرے گا دُرید اگر عقل سے کام لیتا تو اچھی بات تھی ہم یوں سب پریشان تو نہ ہوتے۔فردوس بیگم نے کہا

دُرید نے جو کیا وہ بلکل ٹھیک کیا ایسے لوگ صرف زمین پہ بوجھ ہوتے ہیں۔کلثوم بیگم فردوس بیگم کی بات کے جواب میں بولی۔

وہ سب آگئے ہیں جرگہ سے۔ملازمہ نے آکر اُن کو اطلاع دی تو سب نے اچھے سے خود پہ چادر لی۔

شازل

شازل کیا ہوا کیا بنا وہاں؟کلثوم بیگم نے تیز قدموں سے چلتے شازل کو سیڑھیوں کی طرف جاتا دیکھا تو اُس سے پوچھنے لگی۔مگر شازل اٙن سنی کرتا وہاں سے چلاگیا۔

اِس کو کیا ہوا؟فردوس بیگم تعجب سے بولی

اب تو دیدار یا دُرید سے پتا چلے گا وہاں ہوا کیا۔فاریہ بیگم گہری سانس بھر کر بولی۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

آپ آگئے کیا فیصلہ ہوا وہاں؟ماہی نے کمرے میں شازل کو آتا دیکھا تو فورن سے اُس کی جانب لپکی مگر شازل کی سرخ آنکھیں بکھرے بال دیکھ کر اُس کو ڈر بھی لگا۔

آپ کو کیا ہوا؟ماہی نے شازل سے پوچھا جو بس خاموش نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

بتائے شاز

ابھی ماہی اپنی بات مکمل کرتی اُس سے پہلے شازل آگے بھرتا اُس کو اپنے سینے لگاگیا۔ماہی کا دل زور سے دھڑکا اُس کو شازل سے ایسی کسی حرکت کی توقع نہیں تھی۔

شازل چھوڑے۔ماہی نے شازل کی گرفت مضبوط ہوتی محسوس کی تو فورن سے کہا اُس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے شازل اُس کی ہڈیاں توڑ کر ہی دم لے گا۔

تم صرف میری ہوں۔شازل اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بڑبڑایا

کیا بول رہے ہیں؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا۔

تم کس کی ہو؟شازل اُس کا چہرہ اپنے روبرو کرتا پوچھنے لگا تو ماہی اُس سے پہلے شکر کا سانس ادا کرتی شازل کے بے قرار لہجے میں ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

یہ کیسا سوال ہے؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا

تم کس کی ہو ماہی آج میں تمہاری کوئی بے وقوفی برداشت کرنے والا نہیں جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو تم یہاں ونی میں میرے نکاح میں آئی تھی تو بتاؤ کس کی ہو۔شازل اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا پوچھنے لگا۔ماہی کو تو آج شازل کا انداز دیکھ کر غش کھانے کے در پہ تھی جواب کیا خاک دینا تھا اُس نے۔

بہری ہوں میں کجھ پوچھ رہا ہوں سُنائی نہیں دے رہا۔شازل اُس پہ دھاڑا تو ماہی کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی۔

آ آپ ک کی ہ ہوں۔ماہی نے اٹک اٹک کر بتایا۔

ہمممم گُڈ تو کوئی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا سمجھ آرہی ہے نہ میری بات؟شازل اُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا جنون بھرے لہجے میں بولا تو ماہی نے فورن سے سراثبات میں ہلایا۔

کسی کی ہمت کیسے ہوئی تمہارے بارے میں کجھ کہنے کی۔شازل اُس کو دوبارہ سے اپنے سینے سے لگاتا بڑبڑایا مگر اِس بار ماہی نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

میں منہ توڑدوں گا اُس سالے کا جس نے تمہارے بارے میں سوچا بھی۔شازل اُس کے بالوں میں بوسہ دیتا طیش میں غِرایا تو اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز ماہی کو اپنے کانوں تک سُنائی دی اُس کو اب شازل سے جھجھک محسوس ہونے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

میں نہ کہتی تھی آپ کی اولاد عاشق مزاج ہے اور یہ شازل مجھے اِس سے تو عشق معشوقی کی اُمید خواب میں بھی نہ تھی کیسے شادی کے نام پہ پتنگے لگ جاتے تھے اور اب جرگہ میں اتنا بڑا تماشا لگایا اُس نے مجنوں کا سیکنڈ پارٹ نہ ہو تو۔فاریہ بیگم ساری بات جاننے کے بعد سرجھٹک کر بولی۔

یہ وقت مذاق کا نہیں فاریہ۔کلثوم بیگم نے اُن کو ڈپٹا

مذاق میں کونسا کررہی ہوں میں تو بس بتارہی ہوں شازل کو کیا ہوگیا ہے کہاں وہ نکاح کے بعد شہر بھاگ گیا تھا اور اب اُس لڑکی کے پیچھے اتنا پاگل ہوا پڑا ہے۔فاریہ بیگم بُرا مان کر بولی۔

ہے بھی تو خوبصورت لڑکی پھنسا لیا ہوگا اپنی اداؤں میں۔فردوس بیگم نے باتوں میں حصہ لیا۔

لگتی تو ایسی نہیں میں نے دیکھا بہت معصوم ہے بے چاری جب کوئی ملازمہ بھی اُس پہ ہاتھ اُٹھاتی تو گونگی بہری بن جاتی مگر اففف تک نہیں کرتی تھی ورنہ اگر شازل یہاں آنے میں ایک دن دیر کرتا تو جیسا حشر شبانا نے اُس کا کیا تھا اُس نے تو تڑپ کر مرجانا تھا۔فاریہ بیگم تاسف سے بولی۔

کوئی معصوم بے چاری نہیں سب ڈرامہ ہے اُس کا میں تو اب اِس کو حویلی میں برداشت نہیں کروں گی ونی میں آئی تھی جس کی اوقات دو ٹکے کی نہیں تھی اور اب سالی شازل شاہ کے دل پہ راز کرے گی اپنی اوقات بھول گئ ہے جو میں اُس کو اچھے سے یاد کرواؤں گی۔شبانا نفرت بھرے انداز میں بولی جب سے اُس نے سُنا تھا اُس کے دل میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔

شازل بڑی مشکل سے یہاں رُکا ہے اب تم کجھ ایسا نہ کردینا کے وہ پھر سے چلا جائے یہاں سے۔کلثوم بیگم نے شبانا کی بات سن کر اُس کو باز رکھنا چاہا

اگر آپ لوگ کجھ نہیں کررہے تھے تو مجھے کرنے دے ایسا نہ ہو پھر وہ کوئی وارث پیدا کرکے دے اگر ایسا ہوا تو اُس کے قدم یہاں مضبوط ہوجائے گے۔شبانا نے فورن سے کہا

سوچ سمجھ کرو بولوں اب کیا یہ ونی میں آئی ہوئی لڑکی شاہ خاندان کو وارث دے گی۔فردوس بیگم ناگواری سے بولی۔

رنگ ڈھنگ نہیں دیکھے آپ نے اِس کے تھی کیسی اور ہو کیسی گئ ہے شہر کی ہوا خوب لگی ہے اُسے۔شبانا نے غصے سے کہا

دس سال ہوگئے تھے تمہاری شادی کو مگر تم نے میرے بیٹے دلدار کو وارث نہیں دیا اب اگر یہ دے گی تو شاہ خاندان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔فاریہ بیگم کو دونوں ماں بیٹی کی باتیں پسند نہیں آئی تو مداخلت کی۔

آپ مجھے بانجھ ہونے کا طعنہ دے رہی ہیں جب کی یہ بات اچھے سے جانتی ہیں کمی مجھ میں نہیں آپ کے بیٹے میں تھی۔شبانا تپ اُٹھی۔

مانا کے میرے بیٹے میں خامی تھی مگر اب کیا میرے دوسرے بیٹے میں بھی خامی ہے اتنا عرصہ تو ہوگیا ہے پھر بھی تمہاری طرف سے کوئی خوشخبری نہیں آئی۔فاریہ بیگم کی اِس بات سے شبانا شرم سے پانی پانی ہوگئ اُس کو ذرہ برابر اُمید نہیں تھی اُس کی چچی جو رشتے میں ساس بھی یہ بات سب کے سامنے کرے گی۔

تمہاری بات کا مطلب اب یہ لڑکی حویلی کو وارث دے گی جس کا تعلق سید گھرانے سے نہیں اِس کو تو ہم چلتا کرے گے شازل کی دوبارہ شادی ہوگی وہ بھی خاندان کی لڑکی سے۔فردوس بیگم تیکھی نظروں سے فاریہ بیگم کو دیکھ کر بولی۔

آپ اُس لڑکی کا پتہ کاٹ سکتی ہیں مگر اُس کے بچے کا نہیں کیونکہ وہ بچہ شازل کا ہوگا یعنی سیدزادہ ہوگا اور کون باپ اپنی اولاد سے بیگانی رہے گا۔فاریہ بیگم نے کہا

تم لوگ بحث میں ایسے پڑی ہو جیسے سچ میں وہ آج ہمیں وارث دینے والی ہو ابھی ایسا کجھ نہیں ہوا تو بات کرنے کا مقصد۔کلثوم بیگم کو اُن سب کی باتوں سے بیزاری ہوئی تو ٹوکا جس پہ وہ سب اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیسی ہے وہ؟دُرید ہسپتال آتا آروش سے حریم کی خیریت معلوم کرنے لگا۔

زندہ ہے۔آروش نے جواب دیا۔

ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟دُرید کو تکلیف ہوئی۔

جس ٹروما میں وہ ہے اُس کا زندہ رہنا بڑی بات ہے آپ کو نہیں پتا وہ راتوں کو ڈر جاتی ہے اُس کی طبیعت بِگڑتی رہتی ہے۔آروش نے پریشانی سے بتایا

کاش میں اُس سے مل پاتا۔دُرید کے لہجے میں حسرت تھی۔

حریم عدت میں ہے یہ بات وہ خود نہیں جانتی کیونکہ میں نے اُس کو نہیں بتایا کے آپ نے اُس کے مجرم کا قتل کیا ہے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

اچھا کیا جب وہ پوری طرح سے صحتیاب ہوجائے تو تب بتادینا۔دُرید نے کہا۔

اگر آپ حریم سے بات کرنا چاہتے ہیں تو میں کال پہ بات کروادوں کیا پتا وہ آپ سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلے اُس کو جب سے ہوش آیا ہے اُس نے ایک مرتبہ بھی مجھ سے خالہ یا تابش کا ذکر نہیں کیا۔آروش دُرید کی حالت سمجھتی گہری سانس لیکر بولی۔

اُس نے میرا نام لیا ہے؟میں اُس سے ملنے کیوں نہیں آیا اُس کی خیریت معلوم کیوں نہیں کی کیا اُس نے وجہ پوچھی ہے؟دُرید نے آروش سے پوچھا تو اُس نے نفی میں سر کو جنبش دی جس پہ دُرید کے چہرے پہ زخمی مسکراہٹ آئی۔

پھر میں کیسے مان لوں وہ مجھ سے کال پہ بات کرنے کے لیے راضی ہوجائے گی۔دُرید کے چہرے پہ اُداس مسکراہٹ آئی۔

جرگہ میں کیا ہوا؟اور حریم کو ڈسچارج کب ملے گا وہ یہاں بے سکون ہے حویلی چلے گی تو اچھا محسوس کرے گی۔آروش نے بات کا رخ بدلا۔

فیصلہ کل ہوگا جرگے کا اور میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں کے ڈسچارج پیپرز تیار کرے۔دُرید نے کہا تو آروش نے سراثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا بات ہے جب سے آپ کی جرگہ سے واپسی ہوئی ہے آپ کے چہرے پہ عجیب سا سکون ہے اور اب یہ مسکراہٹ؟بختاور بیگم نے حشمت اللہ صاحب کو پرسکون دیکھا تو پوچھ لیا

ہاں میں واقع بہت خوش ہوں کیونکہ آج میں نے شازل کو دیکھا جو ماہی کا شوہر ہے میرے اندر پہلے بہت وسوسے تھے ماہی کو لیکر جب تم نے بتایا تھا ماہی یہاں آئی تھی اور بہت خوش تھی تو مجھے اطمینان نہیں آیا تھا مگر آج جب اُس جا شوہر اُس کے لیے وہاں سب سے لڑا تو دل میں اطمینان اُترا ایک خلش تھی جو آج ختم ہوگئ میری بیٹی واقع وہاں خوش ہوگی کیونکہ اُس کا شوہر شازل ہے اور مجھے شازل سب سے منفرد لگا عورتوں کی عزت کرنے والا اور کروانے والا۔حشمت اللہ صاحب پرسکون لہجے میں ان کو بتانے لگے۔

ہماری بیٹی وہاں ونی کے طور پہ گئ تھی اگر اُس کا شوہر شازل نہ ہوتا تو اب تک ہماری بیٹی زندہ نہ ہوتی وہ تو اللہ کا شکر ہے اُس کا نکاح شازل سے ہوا اور سسرال میں لڑکی کی عزت تبھی ہوتی ہے جب اُس کا شوہر اُس کو اپنے ہونے کا احساس کرواتا ہے اُس کو اطمینان بخشتا ہے اور میرے رب کا شکر ہے شازل نے ماہی کو ونی کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنی بیوی اور اپنی عزت سمجھا۔بختاور بیگم بھی اُن کی بات سے متفق ہوئی۔

بس اب ذین کا سچ ثابت ہوجائے اصل قاتل کون تھا پھر ہم اپنی بیٹی کو واپس لائے گے۔حشمت اللہ صاحب نے گہری سانس بھر کر کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

رات کے اِس وقت تم یہاں کیا کررہی ہو؟ماہی جو باورچی خانے میں پانی لینے کے غرض سے آئی تھی اپنے پیچھے شبانا کی آواز سن کر وہ ڈر پلٹی۔

پانی لینے آئی تھی۔ماہی نے اپنے ڈر پہ قابو پایا۔

شازل پہ کونسا جادوں کیا ہے تم نے جو وہ تیری وجہ سے قتل کرنے چلا تھا۔شبانا اُس کے بال مٹھی میں جکڑ کر بولی تو ماہی حیرانکن نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

بال چھوڑے میرے۔ماہی نے جلدی سے اُس کو خود سے دور کیا تو شبانا نے خونخوار نظروں سے اُس کو گھورا جو کندھوں سے اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کررہی تھی۔

تیری اتنی ہمت۔شبانا نے زور سے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

میں نے شازل پہ کوئی جادو نہیں کیا اور میں نہیں جانتی آپ کس قتل کی بات کررہی ہیں۔ماہی اپنے قدم پیچھے لیتی ہمت کرکے بولی۔

او اچھا اِس میسنی شکل پہ شازل مرتا ہوگا میں نہیں آنے والی تیرے جھانسے میں جتنا ہوسکے اُتنا دور رہ شازل سے ورنہ وہ حال کروں گی کے یاد رکھوں گی۔شبانا نے دھمکی آمیز لہجے میں اُس کو وارن کیا۔

آپ مجھے ڈرا نہیں سکتی وہ میرے شوہر ہے میں اُن سے دور رہوں یا پاس اُس کا فیصلہ آپ نہیں میں خود کروں گی۔ماہی کی حاضر جوابی پہ شبانا حیرت سے گنگ ہوتی نظروں سے اُس کو گھورنے لگی جو پہلے آنکھیں اُٹھا کر نہیں دیکھتی تھی اور آج اُس کو جواب دے رہی تھی۔

آگئ نہ اپنی اصلیت پہ اور یہ کس کی شے پہ بہادری کا مظاہرہ کررہی ہو؟شبانا اُس کی ٹھوڑی پکڑ کر طنزیہ بولی۔

شازل کی شے پہ انہوں نے کہا مجھے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور مجھے اب سمجھ آرہا ہے واقع میں مجھے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں میں کیوں ڈروں جب میرے بھائی بے قصور ہیں میں بے قصور ہوں تو کیوں آپ لوگوں کے بلاوجہ ظلم سہو میں کوئی گڑیا نہیں جس کو آپ اپنی مرضی سے چلائے گی۔ماہی اُس کا ہاتھ جھٹک کر بولی ڈرپوک تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں تھی مگر اُس پہ جو حالات آگئے تھے اُس نے اُس کی ہمت چھین لی تھی جو دوبارہ شازل کے اعتماد کی وجہ سے آئی تھی۔

میں تمہاری زبان کاٹ دوں گی۔شبانا اُس پہ دھاڑی مگر آج پہلی بار ماہی کو اُس سے خوف نہیں آیا

سوچ لے شازل آپ کے ہاتھ کاٹ دینگے۔ماہی تُرکی پہ تُرکی بولی۔

تیری تو

گالی مت دیجئے گا سُنا ہے ایک گالی پہ قبر میں بہت کیڑے کاٹنے آتے ہیں تعداد فلحال میں بھول چُکی ہوں مگر جب یاد آئے گی تو بتادوں گی ناؤ ایکسکیوز می میرے شوہر میرا انتظار کررہے ہیں اگر میں نہیں گئ تو میری تلاش میں وہ خود یہاں آجائے گے۔شبانا اُس سے کجھ کہنے والی تھی جب ماہی اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بول کر سائیڈ سے گُزری۔

تمہارا تو پتہ میں کاٹ کر رہوں گی۔شبانا نے غصے اُس سے کہا۔ 

شبانا کی بات پہ ماہی رُک کر پلٹ کر اُس کو دیکھنے لگی۔

میں کوئی درخت نہیں ہوں انسان ہوں۔ماہی اُس کو جواب دیتی وہاں سے چلتی بنی پیچھے شبانا بیچ وتاب کھاتی رہ گئ۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

لو جی میں وہاں بڑی بڑی چھوڑ کر آئی ہوں کے میرے شوہر میرے انتظار میں ہیں مگر ایک میرے شوہر محترم ہیں جن کو سونے سے فرصت نہیں۔ماہی اپنے کمرے میں آئی تو شازل کو گہری نیند میں سوتا دیکھ کر بڑبڑائی۔

شازل۔ماہی بیڈ پہ بیٹھتی شازل کو آواز دینی لگی کے شاید جاگ جائے۔

شازل اُٹھے نہ باتیں کرتے ہیں۔ماہی شازل کا بازوں ہلاتی اُس سے بولی۔

یار ماہی آج مجھے معاف کرو میں اپنا دوسرا بازوں تم پہ قربان نہیں کرسکتا پہلے والا ہی ابھی زخمی ہے۔شازل کی نیند میں ڈوبی آواز سن کر ماہی نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا۔

صبح تو بڑا پیار آرہا ہے تھا(نقل اُتارتے ہوئے) ماہی تم صرف میری ہوں ونی میں میرے نکاح میں آئی ہوں اور اب محترم کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔ماہی نے بلند آواز میں اُس کی نقل اُتارنے لگی۔

یار ماہی تمہیں باتیں رات کے وقت کیوں یاد آتی ہے سوجاؤ اچھے بچوں کی طرح۔شازل اُس کی جانب کروٹ لیتا بولا

میں اچھی بچی نہیں ہوں۔ماہی نے فورن سے کہا

اِدھر آؤ۔شازل نے اپنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھایا تو ماہی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اُس نے اپنا ہاتھ شازل کی چوڑی ہتھیلی پہ رکھا تو شازل سیدھا لیٹتا اُس کا سر اپنے سینے پہ رکھنا۔

مجھے پتا نہیں تھا تمہارا سر اتنا بھاری ہوگا جو میرا معصوم بازوں اتنا سُن ہوجائے گا۔شازل نے شرارت سے کہا تو ماہی نے اُس کے سینے پہ مُکہ برسایا

کوئی نہیں میرا سر بھاری بس آپ کے ڈرامے ہیں۔ماہی خفگی سے بولی۔

اچھا جی میری غلطی پر اب تم سونے کی کرو۔شازل نے ہنس کر کہا

ایسے نیند نہیں آئے گی۔ماہی نے کہا

تو پھر کیسے آئے گی؟شازل نے تعجب سے پوچھا

آپ اپنا ہاتھ میرے بالوں میں رکھ کر اُنہیں سہلائے پھر آئے گی۔ماہی شرم سے سرخ ہوتی اُس سے بولی تو شازل کا چھت پھاڑ قہقہقہ گونجا۔

چلو شکر میری بیوی نے کوئی تو فرمائش کی۔شازل اُس کے بال سہلاتا ہنس کر بولا تو ماہی پرسکون ہوتی اپنی آنکھیں موند گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

جرگہ پہ سب لوگ پہنچ گئے تھے اور آج اصل فیصلہ ہونا تھا۔

آپ لوگوں نے مل بیٹھ کر فیصلہ کیا ہوگا تو بتائے پھر آپ کو چاہیے عاکف شاہ بیشک دُرید شاہ اپنی جگہ ٹھیک تھا مگر اُس کو تابش کا قتل نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ جرگہ بیٹھانا تھا پھر اُس کا فیصلہ ہوتا۔گاؤں کے بزرگ نے سنجیدگی سے اپنی بات سب کے سامنے رکھی۔

سرپنج شھباز شاہ ہے مہربانی ہوگی اگر آپ اُن کو فیصلہ کرنے دے۔شازل نے سب پہ کڑی نظریں ڈال کر کہا

بیشک یہاں کے سرپنج شھباز شاہ ہیں مگر جرگہ پہ سب کو اپنی رائے دینے کا حق ہے اور فیصلہ انصاف کا ہوگا شھباز شاہ کو اپنے بیٹے کے لیے بھی وہی فیصلہ لینا ہوگا جو باقی سب کے لیے کرتے ہیں۔بزرگ نے جوابً کہا

انصاف کی بات تو آپ نہ ہی کرے تو بہتر ہوگا کیونکہ جرگے کا مطلب میری ڈکشنری میں معصوموں کے ساتھ ناانصافی اور معصوم لڑکیوں کے ارمانوں کا قتل ہوتا ہے جو یہاں کسی اور کے گُناہ کی بھینٹ چڑھتی ہے۔شازل کا انداز خاصا طنزیہ تھا جس پہ وہ بزرگ اپنی جگہ چور سے ہوگئے۔

آج یقین ہوگیا کے تم واقع میں وکیل ہو جس کے پاس ایک کے بعد ایک دلائل موجود ہوتی ہیں۔دیدار شاہ اُس کے کان کے پاس آتا بولا تو شازل کے چہرے پہ پہلی بار مسکراہٹ آئی۔

فیصلہ ہونے سے پہلے میں ایک بات سے سب کو آگاہ کرتا چلوں۔شھباز شاہ کی سپاٹ آواز پہ سب لوگ اُن کی جانب متوجہ ہوئے 

ونی میں کوئی نہیں جائے گی قتل کے بدلے کیونکہ میری کوئی بیٹی نہیں۔شھباز شاہ کی بات پہ سب لوگ حیرانگی سے ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگے شازل کے چہرے کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوگئ تھی دُرید کو شدید قسم کا حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔

بابا سائیں آپ کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔شازل بہت دیر بعد بولنے کے قابل ہوا۔

کوئی اپنی بیٹی کے ہوتے ہوئے ایسے کیسے انکاری ہوسکتا ہے۔

بس ونی میں نہ کرنے کے بہانے ہیں لاڈلی جو ہے۔شھباز شاہ کی بات پہ سب لوگ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے۔

میں شھباز شاہ ہوں مجھے اپنی بات منوانے کے لیے نہ تو جھوٹ بولنے کی ضرورت ہے اور نہ بہانے کرنے کی میری کوئی بیٹی نہیں جو میری بیٹی حیثیت سے میرے پاس رہتی ہے وہ میرے دوست دلاور خان کی بیٹی ہے جو امانت کے طور پہ آج سے چوبیس سال پہلے اُس نے مجھے دی تھی اگر میری اتنی وضاحت کے باوجود بھی بھی کسی کو یقین نہیں آیا تو ڈی این اے ٹیسٹ اگر کوئی کروانا چاہے تو بیشک کرواسکتا ہے۔شھباز شاہ کی بات پہ اچانک خاموشی چھاگئ تھی جیسے کسی کے پاس بولنے کے لیے کجھ بچا ہی نہیں تھا دُرید شاہ اور شازل شاہ بے یقین نظروں سے شھباز شاہ کو دیکھ رہے تھے جن کا چہرہ ہر احساس سے عاری تھا در حقیقت  شھباز شاہ خود بے یقین تھے انہوں نے آروش کی حقیقت ایسے کسی کو بتانا نہیں چاہی تھی وہ جو پہلے سوچتے تھے کس طرح وہ سب کو بتائے گے کس طرح آروش کا سامنا کرے گے؟ آج زندگی نے اُن کو ایسے موڑ پہ لایا تھا جو وہ پورے گاؤں والوں کے سامنے آروش کی حقیقت بیان کرنے پہ مجبور ہوگئے تھے اِس وقت اُن کی اندرونی کیفیت سے کوئی واقف نہیں تھا آج جو کجھ انہوں نے کہا تھا وہ کس دل سے کہا یہ بس وہ خود جانتے تھے۔

💕💕💕💕💕💕

اگر یہ سچ ہے تو ہمیں پہلے کیوں نہیں پتا چلا؟گاؤں کے کسی آدمی نے کہا

کیونکہ یہ بات جاننا آپ کے لیے ضروری نہیں تھا۔شھباز شاہ نے دو ٹوک انداز میں کہا

ہمیں ونی نہیں چاہیے نہ دُرید شاہ کا خون ہمیں کجھ زمینیں چاہیے۔عاکف شاہ کی بات پہ سب لوگ اُن کو دیکھنے لگے۔

زمینیں کیا تم اپنے بیٹے کے عیوض زمینوں کے خواہش مند ہو؟لوگوں نے جیسے مذاق اُڑایا۔

خاموش اگر عاکف کی یہی خواہش ہے تو ٹھیک ہے مگر اُس کے بعد ہمارا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔شھباز شاہ نے گھمبیر آواز میں کہا تو سب نے سراثبات میں ہلایا

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

یہ کیا تھا بابا سائیں اتنا بڑا سچ آپ ہم سے کیسے چُھپاسکتے ہیں۔وہ لوگ ڈیرے پہ پہنچے تو دُرید شاہ نے خاموش بیٹھے شھباز شاہ سے پوچھا

تم لوگوں کا جاننا ضروری نہیں تھا۔شھباز شاہ نے سپاٹ انداز میں کہا

دلاور خان کیا وہ ہے جس کی فلم کو اِس سال کی بیسٹ فلم ہونے کا ایوارڈز ملا تھا؟شازل سنجیدہ بھرے لہجے میں بولا

ہاں وہ دلاور خان جس نے مجبوری کے تحت اپنہ بیٹی کی ذمیداری مجھے سونپی تھی مگر اب کجھ ماہ سے وہ چاہتا ہے میں اُس کو اُس کی امانت واپس لوٹاؤں۔شھباز شاہ کے چہرے پہ مایوسی بھرے تاثرات نمایاں ہوئے

آروش کے نین نقش آنکھوں کو رنگ سب مختلف ہوتا ہے اُس کا رنگ گورا چٹا ہے پر وہ جیسے پٹھان خاندان کی لگتی ہے آپ نے کبھی اُس کے گال دیکھے ہیں کیسے سرخ وسپید

شھباز شاہ کے جواب پہ شازل کے کانوں میں ماہی کے الفاظ گونجے۔

آرو کہی نہیں جائے گی

آروش کہی نہیں جائے گی۔

دُرید اور شازل یکدم ایک ساتھ بولے تو شھباز شاہ مسکرائے۔

بابا سائیں میں اِس سچائی کو نہیں مانتا آرو حویلی سے کہی نہیں جائے گی اگر کسی کو اعتراض ہوا تو میں اُس کو اپنے ساتھ رکھوں گا مگر وہ کسی دلاور خان کے پاس نہیں جائے گی اُن کا لائیف اسٹائیل بہت الگ ہے جب کی ہماری آرو الگ انداز میں اپنی زندگی گُزاری ہے وہ وہاں ایڈجسٹ نہیں کرے پائے گی دوسری بات کے وہ خود کہی نہیں جائے گی۔شازل کا انداز حتمی تھا۔

میں شازل کے ساتھ ہوں اگر آروش ہماری بہن نہیں اُن کی بیٹی ہے یہ خیال اُن کو اب کیوں آیا چوبیس سال پہلے کیوں نہیں آیا۔دُرید بھی دو ٹوک انداز میں بولا

تم دونوں آروش سے مجھ سے زیادہ پیار نہیں کرتے اگر میں راضی ہوگیا ہوں تو تم دونوں کو بھی ہوجانا چاہیے اگر نہ بھی ہو تو میں تم دونوں کا اعتراض کسی خاطے میں نہیں لانے والا۔شھباز شاہ نے سرد لہجے میں بولے

مانا کے آپ ہم سے زیادہ پیار کرتے ہیں مگر وہ بہن ہے ہماری ہمارا حق ہے اُس پہ ایسے کیسے آپ اُس کو جانے دے سکتے ہیں۔شازل کو اُن کی بات پسند نہیں آئی۔

آپ ہماری بات کسی خاطے میں چاہے نہ لائے پر آروش کا سوچے کبھی اُس کے بارے میں سوچا ہے حقیقت جاننے کے بعد اُس کا کیا ری ایکشن ہوگا؟کتنی تکلیف ہوگی اُس کو کتنا مشکل ہوگا اُس کے لیے اِس حقیقت کو تسلیم کرنا اور اللہ جانے وہ کبھی تسلیم کرپائے گی بھی یا نہیں دُرید پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پِھیرنے لگا۔

وہ سمجھدار ہیں۔شھباز شاہ بس یہی بول پائے۔

آپ کی سمجھدار بیٹی آپ کو کسی سے شیئر نہیں کرتی تھی اگر بچپن میں آپ غلطی سے ہمیں دیکھ لیتے تو وہ رونے لگ جاتی تھی کے آپ نے اپنی نظریں اُس پہ کیسے اور کیوں ہٹائے گی تو آپ کیسے بول سکتے ہیں وہ یہ بات مانے گی کے شھبازشاہ اُس کا آئیڈیل فادر اُس کا اپنا باپ نہیں بلکہ دلاور خان ہے جس کی زندگی بس فلمیں بنانے میں گُزری ہے۔شازل تو اُن کے جُملے پہ بھڑک اُٹھا۔

پیار سے سمجھاؤں گا تو سمجھ جائے گی جب تک حریم ٹھیک نہیں ہوجاتی یہ بات آروش کو پتا نہیں چلنی چاہیے کیونکہ حریم کو آروش کی ضرورت ہے ایسے میں اگر آروش یہاں سے چلی گئ تو جو سُدھار حریم کی صحت پہ آرہا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔شھباز شاہ نے کہا

آرو کا سوچے رو رو کر خود کو نڈھال کرلے گی آپ سے ناراض ہوجائے گی میں بتارہا ہوں۔شازل نے اُن کو سمجھانا چاہا

میں جانتا ہوں تم آروش سے بہت پیار کرتے ہو مگر یقین کرو میں زیادہ اُس سے پیار کرتا ہوں اور مجھے پتا ہے اُس کو کیسے سنبھالنا ہے۔شھباز شاہ کی بات پہ شازل کو چپ لگ گئ۔

💕💕💕💕💕💕

آؤ کچن میں کام میری مدد کرواؤ مفت میں تو روٹیاں توڑنے نہیں دوں گی میں تمہیں۔ماہی اپنے کمرے کی صفائی کررہی تھی جب شبانا کمرے میں آکر طنزیہ لہجے میں بولی

آپ جائے میں آتی ہوں۔ماہی نے جواب دیا

ہممم جلدی آنا۔شبانا ایک تیکھی نظر اُس کے سِراپے پہ ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئ۔

یااللہ میری مدد کرنا ایک تو شازل بھی حویلی میں نہیں ضرورت کیا تھی مجھے اِن لوگوں کے سامنے زبان چلانے کی۔ماہی نے کل تو بہادر کا مظاہرہ کرلیا تھا مگر اب اُس کو ڈر لگ رہا تھا خود میں ہمت جما کرتی وہ باورچی خانے میں آئی تو وہاں فردوس بیگم شبانا اور ملازمائیں پہلے سے موجود تھی جن کو دیکھ کر اُس نے اپنا خشک ہوتا گلا تر کیا۔

میں کیا بناؤں؟ماہی اپنے ماتھے سے آتا پسینا صاف کرتی پوچھنے لگی اُس کو اچانک سے گھبراہٹ کا احساس ہونے لگا تھا۔

پلاؤ اور گاجر کا حلوہ بنادو مہربانی ہوگی تمہاری۔شبانا نے طنزیہ کہا تو ماہی نے ملازماؤ کو دیکھا جو چھ سے سات تھی وہ سمجھ گئ تھی وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے اُس سے کام کروانا چاہتی ہیں ورنہ اُس کی یہاں ضرورت نہیں تھی۔

چاول میں نے بھگو دیئے ہیں وہ پڑے ہیں سامنے۔ایک ملامہ نے اِشارے سے اُس کو بتایا

اندھی نہیں ہے وہ نظر آتا ہے تم اپنے کام پہ توجہ دو۔شبانا نے ملازمہ کو لتاڑا۔

ماہی خاموشی سے اپنا کام کرنے لگی وہ جلدی سے ان سب سے دور جانا چاہتی تھی۔

تیرے کو اتنا پسینا کیوں آرہا ہے گرمی تو نہیں ہے۔فردوس بیگم اُس کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں دیکھی تو تنقیدی نظروں سے اُس کو گھورا 

طبیعت ٹھیک کجھ دنوں سے۔ماہی نے بنا دیکھے جواب دیا اُس کے ہاتھ تیزی سے گاجر کاٹنے میں مصروف تھے۔

اماں۔شبانا نے فردوس بیگم کا بازوں پکڑا تو انہوں نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو وارن کیا۔

اچھا کیا ہوا ہے کجھ دِنوں سے تمہیں؟فردوس بیگم نے باورچی خانے میں موجود سبھی ملازموں کو جانے کا اِشارہ کیے ماہی سے پوچھا

طبیعت ٹھیک نہیں تو چکر آتے ہیں اور قے وغیرہ آجاتی ہر دس پندرہ منٹ بعد آج شازل سے دوائی وغیرہ کی بات کروں گی۔ماہی کی بات سن کر اُن دونوں ماں بیٹی کی رنگت پل بھر اُڑی تھی۔

ک ک کوئ کوئی ضرورت نہیں دوائی میں دوں گی کھالینا حویلی میں رہنے والی عورتیں تھوڑی تھوڑی سی بات اپنے شوہروں کو نہیں بتاتی۔شبانا نے بڑی مشکل سے اپنی حالت کو قابو پائے اُس سے کہا۔

تم جاؤ یہاں سے۔فردوس بیگم نے اُس کے ہاتھ سے چھڑی کھینچ کر بولی تو ماہی کے ہاتھ میں کٹ لگ گیا۔

ج جی۔ماہی اپنا ہاتھ دیکھتی فورن وہاں سے بھاگی۔

میرا شک ٹھیک نکلا یہ بدبخت سچ میں وارث دینے والی ہے۔شبانا پریشانی سے فردوس بیگم سے بولی۔

نجومی بننے کی ضرورت نہیں کرتے ہیں ابھی تو اِس کو خود نہیں پتا اچھی بات ہے ہم خود ہی کرلیتے ہیں کجھ اور وارث ہی ہو ضروری نہیں کیا پتا بیٹی ہو۔فردوس بیگم پرسوچ لہجے میں بولی۔

بیٹی ہو یا بیٹا مسئلہ وہ نہیں مسئلہ اولاد کا ہے جو وہ دینے والی ہوں میں بتارہی ہوں اماں اِس قاتل کی بہن کو میں یہاں برداشت نہیں کرپاتی تو بچہ کیسے کروں گی۔شبانا نے جلدی سے کہا

اِس کو وہ ٹیبلیٹ دیتے ہیں حمل روکنے والی اُس سے تو کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔فردوس بیگم کی آنکھوں میں شیطانی چمک آئی۔

حمل سے تو ہوگئ ہے نہ۔شبانا نے جیسے اُن کی عقل پہ ماتم کیا۔

میری اماں نہ بن دیکھنا میری دی ہوئی دوائی سے بچہ پیدا ہونے سے پہلے مرجائے گا۔فردوس بیگم نے کہا تو شبانا بھی سمجھنے والے انداز میں سرہلانے لگی۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

ڈسچارج ملنے پہ آروش حریم کو لیکر حویلی آگئ تھی حریم زیادہ نہیں تو پہلے سے کجھ بہتر تھی۔

السلام علیکم۔ماہی جو کمرے میں جانے والی تھی اُن دونوں کو دیکھا تو سلام کیا۔

وعلیکم السلام۔آروش نے جواب دیا جب کی حریم اپنا نقاب اُتارنے لگی۔

کیسی ہو تم؟ماہی نے مسکراکر حریم سے پوچھا

ٹھیک۔حریم نے مختصر جواب دیا۔

کجھ کھاؤ گی میں بنادیتی ہوں ہسپتال میں تو پرہیزی کھانا کھاکر اُکتاگئ ہوگی۔ماہی نے اپنائیت بھرے لہجے میں پوچھا

ہمیں بھوک نہیں سونا چاہتے ہیں اگر کجھ کھانا ہوگا تو ہم بتادینگے۔حریم نے آہستہ آواز میں کہا

مجھے تم سے سوری کرنا تھا۔آروش نے سنجیدگی سے ماہی کو دیکھ کر کہا

سوری کیوں؟ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی

میں اُس رات تم سے روڈ ہوگئ تھی مجھے بعد میں احساس ہوا اپنے رویئے کا دراصل میں پریشان تھی ایسے میں تمہاری باتوں سے مزید ڈسٹرب ہورہی تھی۔آروش کی بات پہ ماہی مسکرائی۔

مجھے پتا ہے تم حریم کی وجہ سے پریشان تھی میں نے تمہارے رویے کا بُرا نہیں منایا تھا بس تھوڑا دُکھ ہوا تھا۔ماہی نے صاف گوئی سے کہا

شکریہ۔آروش اُس کو جوابً کہتی حریم کی جانب متوجہ ہوئی جو غور سے ماہی کو دیکھ رہی تھی۔

اپنے کمرے میں چلوں گی میرے ساتھ روم شیئر کرو گی؟آروش نے سوچوں میں گم حریم سے پوچھا جس کی نظریں تو ماہی پہ تھی مگر دماغ جانے کہاں تھا

آپ کے کمرے میں رہنا چاہتی ہوں۔حریم نے سرجھکائے کہا تو آروش نے سراثبات میں ہلایا

آپ کی رنگت کیوں پیلی ہورہی ہے کیا پھر سے آپ کو کسی نے مارا ہے؟حریم ناچاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی اُس کی بات سن کر آروش نے چونک کر ماہی کا جائزہ لیا مگر اُن دونوں کے برعکس ماہی کے چہرے پہ حریم کے سوال پہ گہری مسکراہٹ آئی جو خود تکلیف میں ہونے کے باوجود اُس کی فکر کررہی تھی۔

مجھ کسی نے نہیں مارا میں ٹھیک ہو بس تم ٹھیک ہوجاؤ۔ماہی نرمی سے اُس کا گال چھو کر بولی۔

اگر بخار وغیرہ ہے تو مجھے بتادو میں میڈیسن دے دیتی ہوں۔آروش کو بھی وہ ٹھیک نہیں لگی تو کہا۔

ہاں پلیز اگر میڈیسن ہے تو مجھے دے دو ایک ہفتے سے کمزوری محسوس ہورہی ہے۔ماہی نے اُس کی بات پہ فورن سے کہا

ایک ہفتے سے بیمار ہو پہلے بتادیتی خیر میں حریم کو کمرے میں چھوڑ آؤں اُس کے بعد تمہارے پاس آتی ہوں۔آروش حریم کا ہاتھ تھام کر اُس سے بولی تو ماہی نے سراثبات میں ہلایا۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

تم یہاں لیٹو کوئی فضول بات نہیں سوچنی بس آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرو تھوڑی دیر تک میں بھی آتی ہوں۔کمرے میں آکر آروش حریم کے اُپر چادر ٹھیک کرتی اُس کو ہدایت دینے لگی۔

آپ کا شکریہ میرا بہت خیال رکھا ہے آپ نے۔حریم مشکور نظروں سے آروش کو دیکھ کر بولی۔

تمہاری جگہ اگر میری اپنی چھوٹی بہن ہوتی تو شاید میں تب بھی یہی کرتی میں اگر تم سے کبھی روڈ ہوجایا کرتی تھی تو اِس کا یہ مطلب نہیں مجھے تم عزیز نہیں تھی میں تمہارا خیال رکھ رہی ہوں اُس کے لیے تمہیں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔آروش اُس کا ماتھا چوم کر نرمی سے بولی تو حریم نے گہری سانس لی۔

لائیٹ آن رہنے دے۔حریم نے آروش کو لائیٹ بند کرتا دیکھا تو بولی۔

اچھا ٹھیک ہے۔آروش اُس کو جواب دیتی خود کمرے سے باہر چلی گئ۔

آروش کے جانے کے بعد حریم سونے والی تھی جب اُس کی نظر دوسری سائیڈ پہ تکیے کے نیچے کسی شے پہ پڑی جو تھوڑا نظر آرہا تھا حریم نے ہاتھ بڑھاکر تکیہ دور کیا تھا ایک گلابی رنگ کی ڈائری تھی جس کو دیکھ کر حریم متجسس ہوئی اُس نے ایک نظر دروازے پہ ڈالی جہاں سے آروش گئ تھی پھر ڈائری لیتی ایسے ہی ورق اُلٹ پلٹ کرنے لگی تو اُس کی نظر ایک ورق پہ موجود شعر پہ تھم سی گئ۔

دیــدار  جـو  ہــوا۔۔۔۔۔ایـک تـیـری۔۔۔۔۔۔۔نـگاہ۔۔۔ســے۔۔

قــدموں نـے آگـے۔۔۔۔چـلنـے سـے ۔۔۔۔۔۔۔انـکار کـر دیـا۔۔

آپی کو شاعری پسند ہے کیا؟کیا میں اُن کی ڈائری پڑھوں مجھے پڑھنا چاہیے اُن کی اِجازت کے بغیر؟حریم ڈائری کو دیکھتی سوچنے لگی اُس کا بہت دل چاہ رہا تھا ڈائری کھول کر پڑھنے کا۔

ابھی رکھتی ہوں پھر کبھی پڑھوں گی۔حریم ڈائری کو اپنے تکیے کے پیچھے رکھتی ہوئی بولی

💕💕💕💕💕💕💕💕

سوچا نہیں تھا کے میں کبھی یہ کہوں گا کے آروش میری بیٹی نہیں۔شھباز شاہ غیرمعی نقطے پہ نظر جمائے بولے۔

میرا دل بہت اُداس ہے شاہ سائیں وہ تو ہماری بچی تھی چاہے میں نے اُس کو جہنم نہیں دیا تھا مگر وہ تھی تو چند گھنٹوں کی جب آپ اُس کو میرے پاس لائے تھے۔کلثوم بیگم اُس کے پاس بیٹھ کر بولی۔

مجھے آروش کی فکر ہورہی ہے۔شھباز شاہ نے کہا

ٹوٹ جائے گی وہ گُزرے واقع نے اُس پہ گہرا اثر چھوڑا تھا جس وجہ سے اُس کے لہجے میں کڑواہٹ گُھل گئ تھی حویلی میں دندناتی سب کی ناک میں دم کرنے والی آروش ایک خاموش مزاج لڑکی بن گئ تھی جہاں پہلے حویلی میں اُس کے قہقہقہ گونجتے تھے وہاں ہم اُس کی مسکراہٹ کو ترس گئے تھے مگر جو اب ہونے والا ہے وہ تو ہماری بچی سے سانسیں چھین لے گا پہلے محبت کا رشتہ نہیں تھا تو احساس حال ہوگیا میری بچی کا مگر اب تو اُس کو اپنے باپ سے اپنے بھائیوں سے اپنی ذات سے اپنے نام سے عشق ہے تو وہ کیسے اِن سب کے الگ رہ پائے گی چوبیس سال بہت بڑا عرصہ ہے شاہ سائیں آروش سے ساری حقیقت چُھپادے اپنے دوست سے کہے جیسے چوبیس سال گُزارے ویسے باقی کے سال بھی گُزار لے۔کلثوم بیگم کے لہجے میں ماں کی تڑپ تھی۔

بہت بار سوچا میں نے اِس بارے میں پر یہی فیصلہ ہوا آروش امانت کے طور پہ ملی تھی جس پہ میں نے دیانتداری کی مگر اب خیانت نہیں کرسکتا مزید اُس سے اُس کی اصل پہچان نہیں چُھپا سکتا۔شھباز شاہ کرب سے بولے۔

کاش ہم نے اُس کا کسی سے دودہ کا رشتہ نہ بنایا ہوتا تو وہ ہمیشہ یہاں رہ لیتی۔کلثوم بیگم کے لہجے میں حسرت تھی۔

یہ سوچو کے ہم اپنی بیٹی کی شادی کروا رہے ہیں اور اب اُس کی رخصتی کا وقت آ پہنچا ہے ہمیں چاہیے کے خوشی خوشی اُس کو رخصت کرے۔شھباز شاہ نے کہا

ہم اپنے دل کو کوئی بھی دلاسہ دے کر سنبھال لے گے مگر آروش کیا وہ اُس کے لیے کوئی دلاسہ کام آئے گا کاش آپ اُس سے اتنی محبت نہ کرتے اُس کو اپنے لاڈ پیار کا عادی نہ بناتے اُس کی غلطیوں پہ اُس کو پیار دینے کے بجائے اُس کو سخت ڈانٹ دیتے تو شاید کجھ ٹھیک ہوتا۔کلثوم بیگم کے لہجے میں افسوس بول رہا تھا مگر اُن کی باتوں کا جواب شھباز شاہ کے پاس نہیں تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

پریشان ہو میں جانتا ہوں سچ کہوں تو مجھے بھی بڑا افسوس ہوا جان کر۔دیدار شاہ نے حویلی کی پچھلی سائیڈ پہ شازل کو خاموش کھڑا پایا تو اُس کے پاس آتا کہنے لگا۔

آپ کو افسوس ہوا ہوگا لیکن جو میں محسوس کہہ رہا ہوں اُس کو میں الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔شازل کی بات پہ وہ لاجواب ہوا۔

ہممم ٹھیک کہہ رہے ہوگے اب تو جانے کیوں ایک کے بعد پریشانیاں حویلی کا رخ احاطہ کیے ہوئے ہیں بہت بُری نظر لگی ہے حویلی کو تبھی تو خوشیاں رخ موڑ گئ ہیں۔دیدار گہری سانس بھر کر بولا

میں آروش سے مل آؤں۔شازل اُس کی بات سنتا اندر کی طرف جانے لگا۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

آروش میڈیسن لیتی ماہی کے پاس جانے والی تھی جب اُس کو لگا پاس کھڑی دو ملازمین اُس کو دیکھ کر آپس میں بات کررہی ہیں پہلے اُس کو اپنا وہم لگا مگر جب اُس نے واقع اپنا نام سُنا تو اُن کے روبرو کھڑی ہوتی بازوں فولڈ کیے اُن کو دیکھنے لگی جو اُس کو دیکھ کر گھبراگئ تھی۔

خاموش کیوں ہوگئ ہو مجھے بتاؤ تاکہ مجھے بھی پتا چلے میرے بارے میں کیا باتیں کررہی ہو۔آروش نے ناگوار نظروں سے دونوں کو دیکھ کر کہا

ایسی بات نہیں آپ کے بارے میں بات نہیں کررہے ہم۔ایک نے ہمت کرکے کہا

مجھے جھوٹا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔آروش نے سخت لہجہ اختیار کیا حویلی میں داخل ہوتے شازل نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا

جی وہ میرے شوہر نے بتایا وہ جرگہ میں تھے اُس نے سُنا کے شاہ سائیں نے کہا اُن کی کوئی بیٹی نہیں اگر کسی کو یقین نہیں تو ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوسکتا ہے۔دوسری ملازمہ نے ڈر کر بتایا۔

کیا بکواس ہے یہ ہوش میں ہو تم جانتی بھی ہو کیا بات کررہی ہو۔آروش اُس کی ساری بات سن کر چیخی۔شازل فورن سے اُس کے پاس آیا

آرو۔شازل نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

لالہ اچھا ہوا آپ آگئے اِنہیں دیکھے کیا بکواس کررہی ہیں اگر بابا سائیں کو پتا چل گیا یہ اُن کے بارے میں اور میرے بارے میں کیا بول رہی ہیں وہ اِن دونوں کو چھوڑے گے نہیں۔آروش شازل کی طرف رُخ کرتی ایک سانس میں اُس کو بتانے لگی۔

تم دونوں جاؤ یہاں سے دوبارہ مجھے نظر نہ آؤ۔شازل نے اُن دونوں کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا تو وہ فورن سے رفو چکر ہوئی۔

آپ تھے نہ وہاں بتائے مجھے کیا فیصلہ ہوا وہاں بابا سائیں نے کیا باتیں کی۔آروش شازل کا چہرہ اپنی جانب کیے بے چینی سے کہا

آرو۔شازل اُس کا ہاتھ تھام کر بے بسی سے اُس کو دیکھتا رہا اُس میں ہمت نہیں تھی آروش کو کجھ بھی بتانے کی۔

کیا آرو لالہ بتائے مجھے جو میں پوچھ رہی ہوں یا میں جاؤں بابا سائیں کے پاس۔آروش اپنا ہاتھ چھڑواکر بولی۔

اِدھر آؤ۔شازل نے اُس کو اپنے ساتھ لگایا

لالہ مجھے سچ بتائے میں جانتی ہوں مگر پھر بھی آپ بتائے مجھے پتا ہے میرے بابا سائیں کبھی ایسا نہیں بول سکتے وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں انہیں پتا ہے اگر وہ ایسا مذاق میں بھی بولے گے تو میں اُن سے ناراض ہوجاؤں گی۔آروش شازل سے دور ہوتی اپنا سر نفی میں ہلانے لگی شازل اُس کو دیکھ کر اپنے لب سختی سے بھینچ گیا۔

میری بات سُنو پہلے۔شازل نے کہا

مجھے نہیں سُننا مجھے بابا سائیں کے پاس جانا ہے آپ میرے پیچھے مت آئیے گا۔آروش شازل کو دیکھتی اپنے قدم پیچھے لینے لگی ہمیشہ سر پہ رہنے والا اُس کا ڈوپٹہ کندھوں تک لڑھک آیا تھا جب کی کندھوں پہ پڑی شال کب کا نیچے گِرپڑی تھی مگر اِس وقت آروش کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا وہ تیز قدم سے سیڑھیاں چلتی شھباز شاہ کے کمرے میں جانے لگی آج اُس کو یہ سیڑھیاں طویل سے طویل ہوتی محسوس ہو رہی تھی اُس کا پورا وجود کانپ رہا تھا اُس کے کانوں میں بار بار ملازمہ کی بات گونج رہی تھی جو اُس کو عجیب گھبراہٹ کا شکار کررہی تھی سیڑھیاں ختم ہوئی تو اُس کی جان میں جیسے جان آئی وہ بھاگ کر شھباز شاہ کے کمرے کے پاس آئی مگر دروازے کے پاس اُس کے قدم انکاری ہوئے اُس نے گہرے سانس لیکر خود کو پرسکون کرنا چاہا مگر کر نہ پائی اُس نے دھڑام سے دروازہ کھولا تو سامنے بیڈ پہ شھباز شاہ اور کلثوم کو ایک ساتھ بیٹھ پایا جو اُس کے ایسے آنے پہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے کلثوم بیگم اُس کے حُلیے پہ حیران ہوئی تھی جب کی شھباز شاہ بہت کجھ سمجھ گئے تھے۔

یہ آپ نے سب گاؤں والوں کے سامنے کیا کہا کے میں آپ کی بیٹی نہیں؟آروش شھباز شاہ کے کمرے میں آتی بے یقین نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولی

آرو یہ کیا طریقہ ہے کمرے میں آنے کا اور اپنے باپ سے بات کرنے کا؟کلثوم بیگم نے ناگواری سے کہا

یہی تو میں آپ دونوں سے پوچھنے آئی ہوں کے یہ کیا طریقہ ہے اپنی بیٹی کے ہوتے ہوئے انہوں نے ایسا کیوں کہا کے اِن کی کوئی بے بیٹی نہیں ڈی این اے ٹیسٹ تک راضی ہوگئے۔آروش اُن کی بات پہ چیخی۔

آرو میری جان

نہیں ہوں میں آپ کی جان نہ آپ کے دل کا ٹکڑا آپ جھوٹ بولتے ہیں مجھ سے کے آپ مجھ سے بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں جھوٹ بولتی ہیں اماں سائیں جنہوں نے کہا تھا آپ میری پیدائش پہ بہت خوش ہوئے تھے آپ کے پیر زمین پہ نہیں ٹِک رہے تھے مجھے دھوکے میں رکھا تھا آپ لوگوں نے۔آروش کے گلے میں آنسوؤ کا گولہ اٹک گیا۔

ایسی بات نہیں ہے چندہ۔کلثوم بیگم کو اُس کو ایسے دیکھ کر تکلیف ہوئی۔

تو کیسی بات ہے بتائے مجھے آپ مجھے ونی کردیتے خدا کی قسم بابا سائیں نہ مجھے کوئی تکلیف ہوتی اور نہ میں کبھی افففف کرتی میں اپنے لالہ کے لیے ہنسی خوشی یہ قربانی دے ڈالتی مگر جو آپ نے یہ کہا آروش ہماری بیٹی نہیں اِس جُملے نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔آروش شھباز شاہ کے روبرو آتی نم نظروں سے دیکھتی نم لہجے میں بولی تو شھباز شاہ کو لگا جیسے کسی نے اُن کا دل چیر کے رکھ دیا ہو

یہ سچ ہے آروش تم ہماری بیٹی نہیں۔شھباز شاہ نے ہمت کرکے کہا مگر وہ آروش کی آنکھوں میں نہ دیکھ پائے اپنا رخ بدل گئے جب کی اُن کے ایک جُملے پہ آروش کو اپنا وجود سناٹوں کی زد میں آتا محسوس ہوا اُس نے بڑی مشکل سے اپنا گلا تر کیا۔

مجھے ایسے مذاق نہیں پسند۔آروش کو اپنی آواز کھائی سی آتی محسوس ہوئی جب کی کلثوم بیگم کا کلیجہ منہ کو آیا۔

یہ کڑوا سچ ہے تم میری بیٹی نہیں مگر مجھے خود کی بیٹی سے زیادہ عزیز ہو میری جان میرے دل کا ٹکڑا ہو اُس میں کوئی جھول نہیں میں نے ہمیشہ تمہیں اپنی بیٹی مانا ہے تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولا مجھے سچ میں اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز اور پیاری ہو۔شھباز شاہ نے اپنی آنکھوں کو زور سے میچ کر کہا اُن کے لیے بہت تکلیف دہ عمل تھا آروش کو ساری سچائی سے روشناس کروانے کا۔

اچھا پھر بتائے کس کچڑے کے ڈبے سے ملی تھی میں آپ کو۔آروش اپنے آنسو بے دردی سے صاف کرتی اُن سے جواب طلب ہوئی تو شھباز شاہ تڑپ کر اُس کی جانب مڑے۔

آروش ایسے نہیں کہو مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔شھباز شاہ اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر بولے

تکلیف؟آروش نے اُن کا الفاظ دُھرایا

اِس وقت آپ میری تکلیف کا اندازہ لگاسکتے ہیں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کے جب ایک باپ اپنی بیٹی سے یہ کہتا ہےکے تم میری بیٹی نہیں تو اُس بیٹی پہ کیا گُزرتی ہیں۔آروش بے تاثر نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولی

مجھے اندازہ ہے میرے بچے۔شھباز شاہ نے بے بسی سے کہا

اگر ہوتا تو یہ سب مجھ سے نہ کہتے۔آروش اُن کی بات سے انکاری ہوئی

میں بے بس ہوں آروش تمہارا باپ دلاور خان اگر میرے پاس نہ آتا تو میں کبھی یہ راز فاش نہ کرتا وہ تمہیں واپس اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے تم بتاؤ میں کیا کروں اُس کی دی ہوئی امانت اپنے پاس رکھ لوں اپنے دوست سے دغابازی کرو تاکہ دوستی کے اُپر سے لوگوں کا اعتبار اُٹھ جائے میں لاکھ بُرا صحیح آروش پر اپنے جُڑے رشتوں کے ساتھ مخلص ہوں۔شھباز شاہ اُس کو اپنے حصار میں لیکر آہستہ آواز میں بولے

آپ بے بس نہیں میرے مجرم ہیں میں آپ کو معاف نہیں کروں گی اور مجھے کسی دلاور خان کے پاس نہیں جانا میرے باپ آپ ہیں شھباز شاہ میں آروش شھباز شاہ ہوں آپ میرے نام سے اپنا نام الگ نہیں کرسکتے اتنی بڑی زیادتی کرنے کا حق میں آپ کو نہیں دوں گی آپ تو مجھ سے پیار کرتے ہیں پھر کیسے مجھے کسی اور کے پاس بھیج سکتے ہیں آپ کو تو ایک منٹ کے لیے بھی میرا وجود حویلی سے باہر برداشت نہیں ہوتا تو پھر کیسے ہمیشہ کے لیے کسی اور در پہ چھوڑ سکتے ہیں بتائے مجھے کیا ہے جواب؟آپ کے پاس میرے سوالوں کا۔آروش نے اُن کو جھنجھوڑا۔

وہ کوئی اور نہیں تمہارا باپ ہے۔شھباز شاہ نے اُس کو سمجھایا۔

وہ باپ جس کو میں نے کبھی دیکھا نہیں وہ باپ جس کی آواز تک میں نے نہیں سُنی یا وہ باپ اگر میرے سامنے بھی آگیا تو میں پہچان نہ پاؤں وہ باپ جس کا لمس میں نے اپنی زندگی کے چوبیس سالوں سے محسوس نہیں کیا وہ باپ جس کے وجود سے میں سِرے سے ناواقف تھی یا وہ باپ جس کا نام بھی آج جانی ہوں وہ بھی چوبیس سال بعد۔آروش بولنے پہ آئی تو بولتی چلی گئ شھباز شاہ کا چہرہ شرم سے جھک گیا تھا جب کی کلثوم بیگم بس آروش کو دیکھ رہی تھی۔

میں ہوں کیا آپ بتادے کیا ہوں میں؟کٹھ پتلی گڑیا مطلب حد نہیں چوبیس سالوں سے میں اپنی زندگی ایک گمان کے تحت گُزار رہی تھی میری ساری سچائی جھوٹی تھی میں خود کو ایک سیدزادی سمجھ رہی تھی وہ زندگی جیتی آرہی تھی اپنے سید گھرانے پہ مجھے فخر تھا جہاں لڑکیاں بقول اُن کے ماڈل زمانے کی تھی جینز پینٹ پہنا کرتی تھی اور ایک میں تھی جو اِس جدید دؤر میں عبایا پہنتی تھی سادہ حُلیہ اختیار کرتی ہے اپنے اللہ کو راضی کرتی ہے نامحرم کے سامنے اپنی نمائش نہیں کرتی تھی اُس کو اپنے باپ دادا پہ فخر تھا جنہوں نے ہمیں بچپن سے ایسا  ماحول دیا جو ہمیں کبھی عبایا بوجھ نہیں لگا حجاب اولڈ فیشن نہیں لگا نقاب سے گھٹن نہیں ہوئی بلکہ ایک سکون محسوس ہوتا کے میں محفوظ ہوں بُری نظروں سے مگر آج آپ مجھے بتارہے ہیں میرا تو اِس خاندان سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں میں اِس خاندان کی بیٹی نہیں کسی دلاور خان شخص نامی کی بیٹی ہوں جس کو چوبیس سال بعد یاد آیا ہے کے اُس کی ایک بیٹی ہے جو اُس نے اپنے دوست کو ایک امانت پہ دی تھی چلو اب واپس کرتے ہیں بہت رکھ لیا اپنا بوجھ کسی اور در پہ۔آروش کا لہجہ طنزیہ بے بسی افسوس دُکھ تکلیف سے بھرپور تھا وہ کبھی بولتے بولتے ہنس پڑتی تو کبھی اپنی حالت پہ آنسوؤ کو بے دردی سے صاف کرتی۔

تعلق ہے میرا بچہ خون کا نہیں تو کیا ہوا اپنائیت کا احساس کا رشتہ ہے جو خون سے زیادہ مضبوط ہے اور گہرا۔کلثوم بیگم نے پہلی بات لب کُشائی کی۔

میں کہیں نہیں جاؤں گی آپ لوگ پلیز مجھے جانے مت دینے اگر میں نہیں چاہتی تو بات ختم ہوئی نہ۔آروش شھباز شاہ کے سینے سے لگتی روتے ہوئے بولی۔

وہ باپ ہے ایک بار مل تو لو تمہاری ایک ماں ہے اُس کی تڑپ کا اندازہ لگالو۔شھباز شاہ اُس کے بالوں میں بوسہ دے کر بولے۔

ان کو میرا خیال تب نہیں آیا جب وہ مجھے آپ کے ہاتھ سونپ رہے تھے ایک ماں کو تو اپنی اولاد سے دوری ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں ہوتی وہ کیسی ماں تھی جو چوبیس سال رہ لی اُن کو اپنا وجود خالی محسوس نہیں ہوا تبھی تو مجھے کجھ احساس نہیں ہوا کے میرا ایک حصہ یہاں ہے دوسرا کہی اور۔آروش کی باتوں میں صداقت تھی جس پہ شھباز شاہ نے فلوقت اُس پہ کوئی پریشر نہیں ڈالا نہ کسی بات کا زیادہ دباؤ دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی اپنے کمرے میں بیٹھی آروش کا انتظار کررہی تھی مگر بہت وقت گُزرجانے کے بعد بھی آروش نہیں آئی تو اُس نے خود جانے کا سوچا وپ ابھی دروازہ کھول کر باہر جانے والی تھی جب سامنے شبانا بھی شاید اُس کے کمرے میں آنے والی تھی۔

جی؟ماہی نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھو

یہ لو۔شبانا نے اپنا ہاتھ اُس کے سامنے کیا جہاں کوئی ٹیبلیٹ تھی۔

یہ کیا ہے؟ماہی نے بے تُکہ سوال کیا۔

سردرد کی گولی ہے نظر نہیں آرہا ہے؟شبانا نے گھور کر کہا

کل تک تو مجھے بندوق کی گولی سے مارنے کے در پہ تھیں اور آج یہ سردرد کی گولی یااللہ تیری کایا۔ماہی شبانا کا چہرہ دیکھتی بس یہ سوچ سکی۔

کیا ہوا لو اور کھاؤ۔شبانا نے اُس کو خاموش دیکھا تو کہا

میں نے آج سے پہلے تو کبھی کسی کو سردرد کے لیے یہ گولی لیتے نہیں دیکھا۔ماہی کے سوال پہ وہ گڑبڑا سی گئ۔

ہم یہی کھاتے ہیں اب لو جلدی سے میرے سامنے کھاؤ۔شبانا اپنی حالت پہ قابو پائے اُس پہ سختی سے پیش آئی۔

میں نے صبح سے کجھ کھایا نہیں وہ کھالوں پہلے اُس کے بعد یہ کھاؤں گی۔ماہی اُس کے ہاتھ سے ٹیبلیٹ لیکر بولی

ہممم جلدی سے کھالینا۔شبانا اتنا کہتی وہاں سے چلی گئ۔

جو کل تک میری جانی دُشمن بنی ہوئی تھی اور اب اگر میں اُن کے ہاتھ سے پانی کا گھونٹ بھی پِیو تو لعنت ہے مجھ پہ میرے جسم سے تو ابھی اِن کی مار کے نِشان تک نہیں مِٹے تو میں کیسے سوچ لوں یہ میرے لیے کجھ اچھا سوچ سکتے ہیں مرنے کے قریب بھی ہوگی تو اِیک قطرہ اِن سے پانی کا گھونٹ نہیں لوں گی یہ ٹیبلیٹ کھانا تو بہت دور کی بات ہے۔ماہی شبانا کی دی ہوئی ٹیبلیٹ کو نیچے پھینکتی اُس کو پاؤں سے مسل کر بڑبڑائی۔

ایویں شازل کو میں بے وقوف لگتی ہوں ورنہ عقلمندی تو مجھ پہ شروع اور مجھ پہ ختم ہے۔ماہی شوخی ہوئی۔عین اُسی وقت شازل کمرے میں داخل ہوا۔

آپ کو کیا ہوا ہے؟ماہی نے شازل کو اتنا خاموش دیکھا تو فکرمندی سے پوچھنے لگی۔

سر میں درد ہے تھوڑا۔شازل سنجیدگی سے اُس کو جواب دیتا بیڈ پہ سر ہاتھوں میں گِرائے بیٹھ گیا۔

اچھا ٹیبلیٹ دوں کوئی پیناڈول یا بروفون یا جو آپ کہے؟ماہی کی بات پہ شازل نے سراُٹھاکر اُس کو دیکھا جس کے چہرے پہ فکرمندی کا تاثرات صاف نمایاں تھے۔

تمہارے پاس اِس وقت کونسی گولی ہے؟شازل کے سوال پہ ماہی کو چپ لگ گئ۔

کوئی بھی نہیں۔ماہی یہاں وہاں دیکھتی بولی۔

پوچھا تو ایسے جیسے اسٹور پہ کھڑی ہو۔شازل سرجھٹک کر بولا

میں آروش سے مانگ کر دیتی ویسے سردرد زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ماہی اُس کی کشادہ پیشانی چھوتی بولی۔

ہاں بہت ہے۔شازل اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولا

میں دبادوں؟ماہی نے پوچھا

دبادو۔شازل نے جواب دیا تو ماہی جلدی سے بیڈ پہ آتی آرام سے اُس کا سر دبانے لگی تو شازل کو اپنے اندر سکون اُترتا محسوس ہوا عین اُسی وقت شازل کے سیل پہ کال آنے لگی شازل نے ایسے ہی بیٹھے پینٹ کی پاکٹ سے موبائیل نکالا تو عائشہ کالنگ لکھا آرہا تھا جو ماہی نے بھی دیکھ لیا تھا۔

یہ چڑیل اِس وقت کال کیوں کررہی ہے۔ماہی شازل کا سر زور سے دباتی دانت پیس کر بولی

ہیلو عائشہ۔شازل کال اسپیکر پہ کرتا اُس سے بولا۔

سر درد سے پھٹا جارہا ہے مگر موصوف کو عائشہ کی کال پھر بھی ریسیو کرنی ہے۔ماہی کے اندر آگ کا شعلہ بھڑکنے لگا۔

کہاں ہو میں تمہارے گھر آئی تھی پر تمہارا فلیٹ لاک ملا۔دوسری طرف عائشہ نے کہا

ہمیں پتا تھا تم آؤں گی بنا بُلائے مہمان کی طرح تبھی ہم وہاں سے بھاگ گئے۔ماہی کلس کر سوچنے لگی۔

میں اپنے گاؤں آیا ہوں۔شازل نے بتایا

اوو مجھے کیوں نہیں بتایا تمہیں پتا ہے نہ مجھے کتنا شوق ہے تمہارا گاؤں دیکھنے کا۔عائشہ خفگی بھرے لہجے میں بولی۔

تمہیں شوق ہوگا گاؤں دیکھنے لگا مگر گاؤں کو شوق نہیں جو تمہارے بھاری قدموں کا بوجھ برداشت کرے۔ماہی کے ہاتھوں کی حرکت تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی جس سے شازل کو اپنے سر کا درد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا محسوس ہورہا تھا تبھی اُس نے ماہی کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر اُس کو روک لیا۔

نیکسٹ ٹائیم تمہیں انفارم کروں گا ابھی میں مصروف ہوں پھر بات کرتا ہوں۔شازل اُس کو جواب دیتا کال کٹ کرگیا۔

کیا؟شازل کال کٹ کرتا ماہی کو دیکھنے لگا تو اُس نے کہا

وہی تو میں پوچھنا چاہ رہا ہوں کیا؟میرے سر سے کونسی جنگِ عزیم لڑنے کا اِرادہ ہے۔شازل کی بات پہ ماہی شرمندہ ہوگئ۔

اب ٹھیک سے دباؤں گی۔ماہی نے کہا

نہیں ضرورت کوئی۔شازل نے سرجھٹک کر کہا

اچھا نہ ناراض تو نہ سچی میں پیار سے دباؤں گی۔ماہی نے اصرار کیا تو شازل اُس کو دیکھتا خاموشی سے اُس کی گود میں سر رکھتا لیٹ گیا جس پہ ماہی جتنا حیران ہوتی اُتنا کم تھا۔

مجھے سکون چاہیے اِس لیے خاموش رہو تاکہ میں سوجاؤں۔شازل اُس کے بالوں کی لٹ اپنے ہاتھ کی انگلی میں لپیٹتا بولا 

شازل کیا کوئی بات ہے جو آپ کو پریشان کررہی ہے آج جرگہ تھا نہ کیا ہوا پھر وہاں؟ماہی اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی پوچھنے لگی۔

تمہارا اندازہ ٹھیک تھی ماہی۔شازل بس اتنا بولا

کونسا اندازہ؟ماہی سمجھ نہیں پائی۔

یہی کے آروش کا تعلق پٹھان خاندان سے لگتا ہے وہ واقع پٹھان خاندان سے ہے۔شازل کے چہرے پہ اُداسی سے بھرپور مسکراہٹ آئی۔

یہ کیا بول رہے ہیں آپ؟ماہی کے ہاتھ ساکت ہوئے تھے شازل کی بات سن کر۔

یہ سچ ہے پورے گاؤں کو یہ بات پتا چل گئ ہے حویلی میں بھی پھیل جائے گی۔شازل گہری سانس لیکر بولا

وہ تو آپ کی بہن ہے نہ؟ماہی پریشانی سے بولی

وہ میری بہن ہے مگر شھباز شاہ کی بیٹی نہیں ہے۔شازل کی بات پہ ماہی شازل کو بس دیکھتی رہ گئ جس کے چہرے کے تاثرات بہت افسردہ تھے۔

آپ آروش سے بہت پیار کرتے ہیں اگر جو آپ بول رہے ہیں وہ سچ ہے تو میں آپ کی تکلیف محسوس کرسکتی ہوں یہ نہیں کہوں گی بلکہ میں بس آپ کی تکلیف کا اندازہ لگاسکتی ہوں محسوس نہیں کرسکتی کیونکہ کوئی بھی انسان تب تک کسی کی تکلیف محسوس نہیں کرسکتا جب تک وہ خود اُس تکلیف سے نہ گُزرا ہو۔ماہی آہستہ آواز میں بولی مگر تب تک شازل گہری نیند میں چلاگیا تھا۔

آپ کو میں نے ہمیشہ بولتے اور مسکراتے دیکھا ہے پلیز اب بھی پہلے جیسے بن جائے یہ سنجیدگی یہ خاموشی آپ پہ تھوڑی بھی سوٹ نہیں کررہی۔ماہی نے شازل کو سوتا پایا تو اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیتی اُس کے کان کے پاس آکر سرگوشی نما آواز میں بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آروش مرے مرے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی تو حریم کو سونے کے بجائے نماز پڑھتا دیکھا تو وہ خاموشی سے آکر بیڈ کی پائینی پہ بیٹھ گئ۔

حریم نماز پڑھنے سے فارغ ہوئی تو خود بھی آروش کے پاس فاصلے پہ بیٹھ گئ اُس کی نظر آروش کے چہرے پہ ابھی نہیں پڑی تھی۔

آپ نے ٹھیک کہا تھا بعض دفع مشکلات اللہ اِس لیے نہیں دیتا کے وہ ناراض ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر اُس کو آزماتا ہے کے اُس کا بندہ اُس کی دی ہوئی آزمائش سے کجھ سِیکھتا ہے یا مزید اُس سے غافل ہوجاتا ہے وہ چاہتا ہے اُس کے بندے اُس کو یاد کرے آپ کو پتا ہے آپی پہلے ہم نماز وقت پہ نہیں پڑھتے تھے فجر والی نماز تو ہم نے کبھی پڑھی ہی نہیں نیند عزیز ہوتی تھی نماز سے مگر ایک دلچسپ بات بتاؤں کیا اُس حادثے سے ہم نے کجھ سیکھا ہو یا نہ ہو نماز پانچ وقت کی وقت پہ ادا کرنا ضرور سِیکھا ہے پہلے ہم اللہ سے ناراض تھے کے اُنہوں نے ہمیں ایسی مشکل میں کیوں ڈالا پر ایک آیت ہمارے ذہن میں آئی جس میں لکھا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کو اُس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا پھر بہت سی خبریں جو کبھی ہم نے ایسے ہی دیکھی ہوں جس میں نیوز چینل والے بتاتے ہیں آج نو سال بچی کے ساتھ زیادتی کا حادثہ پیش آیا اُس کی لاش بیچ سڑک پہ برہنہ حالت میں ملی تو کبھی یہ سُننے کو ملتا ہے آج اِس جھنگل میں لڑکی کے ساتھ یہ واقع پیش آیا جس کو اپنی دردندگی کے نشانہ بنانے کے بعد فلاں نے یہاں پھینک دی کبھی معلوم ہوتا ہے ناکام عاشق نے محبت نہ ملنے پہ ایک معصوم لڑکی کے چہرے پہ تیزاب پھینک دیا اگر ہم اِن باتوں کو مدعے نظر کر اپنے بارے میں سوچے تو ہمارے ساتھ جو ہوا وہ کرنے والا ہمارا اپنا محرم انسان تھا ہمارا غم اگر بڑا ہے تو اُن کا پہاڑ جیسا ہے جن کے ساتھ زنا کرنے کے بعد بھی چین نہیں آتا تو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں اُن پہ کیا گُزرتی ہوگی اُن کے ماں باپ پہ کیا گُزرتی ہوگی جب اُن کو ایسی باتیں پتا چلتی ہوگی اپنی بیٹیوں کے معاملے پہ کاش ہمارا معاشرہ جتنی محنت بیٹیوں کی پرورش میں کرتا اُس کا آدھا حصہ بیٹوں کی تربیت میں لگائے جیسے بیٹیوں کو حُکم دیتے ہیں سر سے ڈوپٹہ نہ اُترے کسی غیر مرد کے سامنے ویسے ہی اپنے بیٹوں سے بھی کہا اگر کوئی لڑکی سامنے سے گُزرے تو بیٹا عزت سے اُس کو راستہ دینا اپنی نگاہیں نیچے رکھنا بیٹیوں پہ اکثر بہت پابندیاں ہوتی ہیں کاش کجھ پابندیاں بیٹوں پہ بھی کرے تو زیادہ نہیں تو کم معصوم لڑکیوں اور بچیوں کی عصمت پامال ہونے سے بج جائے ماں باپ کو چاہیے وہ اپنے بیٹے کی ہر ایکٹویٹی پہ نظر رکھے وہ کس سے ملتا جُلتا ہے اُس کی دوستی کس قسم کے لڑکوں سے ہے بیٹوں کو کیوں اتنی چھوٹ دیتے ہیں؟ کیوں اُن کو آزادی دیتے ہیں اتنی؟کہتے ہیں یہ معاشرہ مردوں کا ہے تو کوئی اُن سے پوچھے اگر سب کجھ مردوں کو ہے تو اللہ نے عورت جیسی رحمت کیوں پیدا کی؟"حریم بہت سنجیدہ انداز میں اپنے دل کا حال کھولتی بہت گہری باتیں کرگئ۔"آروش گردن موڑ کر اُس کو دیکھنے لگی جس کا چہرہ بے رونق سا تھا ہمیشہ والی شوخی چنچلاپن کا نام ونشان تک نہیں تھا۔"حریم کو دیکھ کر آروش کو اپنا غم چھوٹا لگنے لگا اور ایک حریم تھی جس کو اپنا غم دوسروں کے سامنے چھوٹا لگ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی اصل زیادتی ہوئی کس کے ساتھ ہے؟حریم کے ساتھ؟جس کو جب زندگی کے خوبصورت رنگوں سے روشناس ہونا تھا تو قسمت نے دُنیا کا بھیانک روپ اُس کے سامنے کرکے اُس کے خود کے رنگ چھین لیے تھے یا اُس کے ساتھ جس کی چوبیس سال زندگی اپنی اصل شُناخت کے بغیر گُزری تھی۔

کہاں سے سِکھی ہیں یہ باتیں؟آروش غور سے اُس کا چہرہ دیکھ کر بولی

بہت پہلے سیکھی تھی مگر جب خود پہ آئی ہے تو غور بھی کرنے لگی ہوں پہلے سُنتی تھی کسی کی بھی زندگی پرفیکٹ مکمل نہیں ہوتی مگر اب واقع یقین تک آگیا ہے کے ہاں زندگی میں کجھ بھی پرفیکٹ مکمل نہیں ہوتا سب کجھ مل بھی جائے تو کسی نہ کسی چیز کی حسرت رہ جاتی ہے۔حریم کے چہرے پہ اتنے وقت بعد مسکراہٹ آئی تھی مگر اُداسی سے بھرپور تھی۔

سب کجھ ٹھیک ہوجائے گا بس اچھے کی اُمید رکھو۔آروش اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی بولی۔

اُمیدیں رکھنا چھوڑدیا ہے ہم نے کیونکہ جب اُمیدیں ٹوٹتی ہیں تو اُن کے ٹوٹنے کی آواز روح تک گھائل کردیتی ہیں۔حریم نے آج آروش کو اپنی باتوں سے لاجواب کردیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

تجھے پکا یقین ہے یہی وہ شخص ہے جس نے میرے جانے کے بعد دلدار شاہ کا قتل کیا تھا؟ذہن اپنے ہاتھ میں موجود موبائل پہ ایک تصویر دیکھتا اپنے دوست ساجد سے بولا

سؤ فیصد یقین ہے پر معاف کرنا یار میں نے اتنا وقت برباد کردیا پر میں بھی کیا کرتا مجبور تھا اپنے باپ اور بیوی کے سامنے۔ساجد نے تھوڑا شرمندہ ہوکر کہا

کوئی بات نہیں بس یہ شخص ہے کون اور اِس نے کیوں قتل کیا دلدار شاہ کا یہ بات معلوم ہوجائے گا مگر مسئلہ یہ ہے کے پہلے اِس شخص کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ذین پرسوچ نگاہوں سے اُس تصویر کو دیکھتا ہوا بولا

اُس کے لیے توں کیوں فکرمند ہورہا ہے شازل شاہ سے بول آخر کو اُس کے چچا زاد بھائی کا اصل قاتل یہی ہے اُپر سے وہ خود وکیل ہے اچھے سے سب سنبھال لے گا اُس کو پتا ہوگا کیسے مجرم کو سامنے لانا ہے۔ساجد نے پرجوش آواز میں کہا

وہ شازل شاہ وکیل ہے پر کافی نان سیریس آدمی ہے وہ کیسے مجرم کو پکڑے گا وکیل ہے پولیس یا ایجنٹ نہیں مجھے خود کجھ کرنا پڑے گا۔ذین کو ساجد کی بات ٹھیک نہیں لگی۔

توں پھر کونسا پولیس یا ایجنسی کا بندہ ہے دیکھ شازل کی پہلی مُلاقات کا اثر نہ لے وہ بہت کام کا انسان ہے ہر کیس وہ جیتا ہے جس میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے سب سے دلچسپ کام وہ غریبوں کے کیس لیتا ہے کیونکہ اُن کے پاس پئسے نہیں ہوتے کوئی اچھا سا وکیل ہائیر کرنے کے لیے تو وہ ایسے اُن لوگوں کی مدد کرلیتا ہے ورنہ خود سوچ اُس کو کیا ضروری ہے وکیل بننے کی زمیندار کا بیٹا ہے جو گاؤں کا سرپنج ہے وہ اگر نان سیریس رہتا ہے تو اپنی عادت سے مجبور ہے ورنہ اپنے پیشے سے وہ بہت سیریس مخلص انسان ہے بہت نام ہے اُس کا شہر میں بس میسنا بنتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اُس کی کیونکہ وہ لگنے نہیں دیتا بھلا توں خود سوچ وہ صرف شہر کیوں رہتا ہے؟"اتنی بڑی حویلی ہے اُس کی پر وہ اسلام آباد کے تین کمروں کے فلیٹ میں رہتا ہے اپنے کام کی وجہ سے وہ وہاں ہوتا ہے۔ساجد نے شازل کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرلیے۔

جتنی تعریف تم کررہے ہو دیکھنے میں تو وہ اُس کے مستحق نہیں لگتا میں نے تو یہی سُنا ہے کے وہ عیاشی کرتا ہے شہر میں بہت غلط لوگوں سے اُس کا اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ذین سرجھٹک کر بولا

جتنے لوگ اُتنی زبانیں اُن کو چھوڑ میری بات مان اور شازل سے رابطہ کر آخر کو تم اپنی بہن بھی تو لینی ہے اُن سے۔ساجد کی یہ بات ذین کے دل پہ لگی۔

ہممم میں کرتا ہوں اُس سے رابطہ مگر یار کیا ہے ابھی وہ کسی اور باتوں کی وجہ سے پریشان ہے ایسے میں مجھے نہیں لگتا شازل کو دلدار شاہ کے معاملے میں کوئی انٹرسٹ ہوگا کیونکہ اِس بار وہ اپنی بہن کی وجہ سے ٹینس ہوگا۔ذین کجھ سوچ کر کہا

پھر تو یہ اچھا موقع ہوا نہ وہ پریشان ہے تم جو کہو گے وہ مان لے گا اگر تم کہو گے مجھے اپنی بہن چاہیے تو وہ کجھ نہیں بولے گا کیونکہ کہی نہ کہی اُس کو بھی لگتا ہے کے اصل قاتل کوئی اور ہے۔ساجد نے کہا

میں نے کہا تھا وہ نان سیریس ہے یہ نہیں کہا تھا کے وہ بیوقوف ہے۔ذین کوفت سے بولا

تم بات کرو پھر خود پتا چلے گا۔ساجد نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے کہا تو ذین سوچ میں پڑگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

حریم ٹھیک سے کھانا کھاؤ کمزور ہوگئ ہو پہلے ہی۔آروش نے حریم کو ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتے دیکھا تو کہا

آپی ہمارا دل متلا رہا ہے مزید نہیں کھایا جائے گا۔حریم کھانے سے ہاتھ کھینچ کر بولی۔

ایسے کیسے تم نے کجھ کھایا ہی نہیں حریم تم نے دوائی بھی کھانی ہوتی ہے اِس لیے خیال کرو اپنا۔آروش فکرمندی سے بولی۔

اگر کجھ کھانا نہیں چاہتی تو یہ دودہ پیو۔فاریہ بیگم اُس کے لیے دودہ کا گلاس لاتی اُس سے بولی۔

ہاں یہ

دور کرے۔آروش فاریہ بیگم سے دودہ کا گلاس لیتی حریم کو پِلانے والی تھی جب وہ دودہ کا گلاس دور کرتی منہ پہ ہاتھ رکھتی واشروم کی جانب بھاگی۔

حریم

حریم

کیا ہوا؟آروش پریشانی سے واشروم کے دروازے کے پاس کھڑی اُس کو آوازیں دینے لگی مگر وہاں سے حریم کوئی جواب نہیں آیا 

حریم کیا تم ٹھیک ہو؟آروش کی پریشانی کم ہونے کو نہیں آرہی تھی۔

چچی آپ دیکھے حریم کو جانے کیا ہوا؟آروش فاریہ بیگم سے بولی جن کی پرسوچ نظریں واشروم کے دروازے پہ ٹِکی ہوئی تھی۔

ہ م۔ہم۔ٹ ٹھیک ہیں۔حریم واشروم کا دروازہ کھولتی نڈھال حالت میں باہر آئی۔

یااللہ حریم دیکھو کیسی پیلی رنگت ہوگئ ہے تمہاری ٹھیک سے اپنا خیال کیوں نہیں کرتی۔آروش جلدی سے آگے بڑھتی اُس کو سہارا دیتی بولی۔

حریم بیٹے یہاں آؤ بیٹھو آرام سے۔فاریہ بیگم حریم کو بیڈ پہ بیٹھاتی اُس پہ چادر ٹھیک کرنے لگی۔

آروش تم کسی ملازمہ سے کہو عبداللہ صاحب کی بیگم کو بُلا کر لائے۔فاریہ بیگم حریم کا ماتھا چومتی آروش سے بولی

وہ جو دوائیاں لِکھتی ہیں؟آروش نے اندازہ لگایا۔

ہاں وہی جلدی سے کہو ملازمہ سے۔فاریہ بیگم نے کہا

ہم ٹھیک ہے آپ کسی کو مت بُلائے۔حریم نے اُن کو رُوکنا چاہا

ضروری ہے بیٹا تم خاموش رہو۔فاریہ بیگم نے اُس کو پیار سے ڈپٹا۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

آرام سے کہا جارہی ہو بھاگ کر؟دُرید شاہ نے آروش کو اتنا عجلت میں دیکھا تو فورن سے سامنے آتا بولا

لالہ وہ حریم کو قے آئی

حریم کو قے آئی تھی اگر اُس کی طبیعت خراب تھی تو پہلے مجھے بتانا چاہیے تو میں اُس کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتا۔آروش کجھ بتانے والی تھی جب اُس سے پہلے دُرید درمیان میں اُس کی بات کاٹ کر بولا

وہ شہر کیسے جاسکتی ہے لالہ۔آروش نے یاد کروایا۔

میں کجھ نہیں جانتا تم بس اُس کو تیار کرو میں گاڑی میں تم دونوں کا انتظار کررہا ہوں۔دُرید سنجیدگی سے بولا۔

بابا سائیں ناراض ہوگے۔آروش نے کہا

تم ہوگی تو کجھ نہیں کہے گے ویسے بھی اُن کے کہے مطابق میں دو ماہ سے حریم کے سامنے نہیں آیا مگر اب اُس کی طبیعت اگر خراب ہے تو میں کوئی رِسک نہیں لے سکتا۔دُرید کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔

حریم کو راضی کرتی ہوں۔آروش تھکی ہوئی سانس خارج کرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔

حریم۔آروش کمرے میں آتی حریم کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اُس کا نام لینے لگی جو آنکھیں موندے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔

جی۔حریم سیدھی ہوتی اُس کو دیکھنے لگی۔

تیار ہوجاؤ ہمیں شہر جانا ہے۔آروش نے بتایا

شہر کیوں؟حریم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

ہوسپٹل دُرید لالہ نے کہا ہے کے وہاں ٹھیک سے علاج ہوگا۔آروش کی بات پہ حریم کے دل نے ایک بیٹ مس کی آج اتنے وقت بعد اُس کا نام سُنا تھا شاید دیکھنا بھی ہوتا۔

وہ کون ہوتے ہیں ہمارے بارے میں فیصلہ لینے والے ہمیں کہیں نہیں جانا اُن کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں۔حریم سپاٹ انداز میں بولی

حریم ضد مت کرو اپنی حالت دیکھو کیا تھی اور کیا بن گئ ہو۔آروش نے اُس کو سمجھانا چاہا

ہم جو تھے اور جو ہیں اُن کا زمیدار آپ کے لالہ ہیں جنہوں نے ہمیں کانٹوں بھرے راستے میں تنہا چھوڑ کر اُس کو پار کرنے کا کہا تھا۔حریم طنزیہ انداز میں بولی

لالہ کا کیا قصور اُن کو تھوڑی پتا تھا اِس سب باتوں کا۔آروش نے اُس کو سمجھانا چاہا

عقل سے کام لو میرا ساتھ تمہیں محرومیوں کے سوا کجھ نہیں دے سکتا تم ایک بہت اچھی خوبصورت لائیف ڈیزرو کرتی ہوں اور وہ لائیف میں تمہیں نہیں دے سکتا۔

آروش کی بات پہ حریم کے کانوں میں دُرید کے کہے جُملے گونجے تو وہ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی۔آروش حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی۔

حریم۔آروش کو سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔

ہاہاہاہا پتا ہے کیا آپ کے سو کالڈ  لالہ نے ہم سے کیا کہا تھا؟ وہ میری شادی کروا کر ایک خوبصورت زندگی مہیا کررہے ہیں دیکھے کتنی اچھی زندگی بسر کررہے ہیں ہم۔حریم ہنستے ہوئے بتانے لگی تو آروش کا دل کٹ کے رہ گیا۔

ایسے مت ہنسو۔آروش نے دُکھ بھری نظروں سے اُس کو دیکھا جس کا پورا چہرہ لال ہوگیا تھا اور اتنا ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔

ہم تیار ہوکر آتے ہیں ویسے بھی اب کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیں وہ پاس ہو یا دور ہمارے لیے ایک بات ہے۔حریم اب کی سنجیدہ ہوکر بولی۔

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

وہ نہی

دُرید آروش کو اکیلا دیکھ کر کجھ کہنے والا تھا جب اُس کے پیچھے آتی حریم کو دیکھ کر دُرید کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔

دوسری طرف حریم نظریں جُھکائے بنا دُرید کی موجودگی کا احساس کرتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئ۔دُرید نے گہری سانس بھر کر اُس کو دیکھا تھا جس نے اُس پہ ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہیں کیا تھا حریم کا یہ بیگانہ پن اُس کو تکلیف پہنچارہا تھا بہت تکلیف۔

آپ کو پتا ہے جب آپ نے ہمارے چہرے پہ تھپڑ مارا تھا تو ٹیس ہمارے دل میں اُٹھی تھی ہم اُس ٹیس اُس کو تکلیف کو نظرانداز کیے اپنی عزت نفس کو مجروح کیے اپنی انا کو مار کر ایک بار پھر خود کو آپ کے سامنے بے مول کیا تھا اور آپ نے کیا کیا تھا ہمیں خالی ہاتھ لوٹا دیا ہم نے کیا چاہا تھا بس آپ سے آپ کا نام چاہا تھا ہماری ڈیمانڈ کوئی بڑی تو نہیں تھی ہم آپ کے کمرے کے کسی کونے میں پڑے رہتے آپ سے اف تک نہ کہتے آپ کا ہر ظلم مسکراکر سہہ جاتے ہم نے کوئی آپ سے یہ تو نہیں کہا تھا ہمیں آپ کی محبت چاہیے ہمیں آپ کی توجہ چاہیے ہم نے بس یہ کہا تھا ہمیں اپنے نکاح میں لے اُس کے بعد چاہے آپ ہم پہ ایک نظر نہ ڈال لیتے کوئی حقیر چیز سمجھ لیتے مگر ہمیں تب ایک چیز کا افسوس تو نہ ہوتا کے ہم نے جس کو دل دیا ہے وہ ہمارا نامحرم نہیں بلکہ محرم ہے اِس جہاں میں اُس کا ساتھ نہ بھی ملا تو خیر تو اُس جہاں میں ضرور ملے گا جو کی دائمی ہے مگر افسوس اب ہماری زندگی میں بس پچھتاوا رہے گا کے ہم نے خیانت کی ہے اُس انسان کے ساتھ جس کو اللہ نے ہمارے لیے چُنا تھا اور ہم شیطان کے بہکاوے میں آکر کسی نامحرم سے عشق کر بیٹھے جو کبھی ہمارا تھا ہی نہیں یہ تو بس ہمارا خود کا وہم تھا۔

حریم کی باتیں اُس کے کانوں میں سُنائی دی تو دُرید نے ایک افسردہ سانس خارج کی۔

لالہ آجائے۔حریم کے ساتھ بیٹھی آروش نے دُرید کو ایک جگہ جما دیکھا تو آواز دی'جس پہ دُرید اپنا دماغ ہر سوچو سے آزاد کرتا ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا خالی فرنٹ سیٹ کو دیکھ کر اُس نے بیک ویو مرر کی جانب دیکھا جہاں حریم کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا مگر اُس کی نظریں جُھکی ہوئی تھی اُس کو حریم کی اتنی خاموشی برداشت نہیں ہورہی تھی مگر وہ مجبور تھا کیونکہ قصوروار تھا تبھی بنا کجھ کہے اُس نے گاڑی سٹارٹ کی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

دو ماہ پہلے!

شازل آپ کے فون پہ کال آرہی ہے۔ماہی بیڈ شیٹ دُرست کرتی شازل سے بولی جو چینجنگ روم میں تھا۔

چیک کرو کس کا ہے۔شازل نے وہی سے آواز دی تو ماہی چلتی ہوئی سائیڈ ٹیبل پہ موجود شازل کا فون ہاتھ میں لیا جہاں کسی انون نمبر سے کال تھی۔

نیو نمبر ہے۔ماہی نے بتایا

اچھا میں آتا ہوں۔شازل اتنا کہتا کمرے میں آیا۔

میرے لیے کافی تو لانا۔شازل موبائل ہاتھ میں لیتا ماہی سے بولا تو وہ سراثبات میں ہلاتی کمرے سے باہر چلی گئ۔

السلام علیکم۔شازل تیسری بار آتی کال ریسیو کرتا سلام کرنے لگا۔

وعلیکم السلام میں ذین سالک بات کررہا ہوں۔دوسری طرف سے بتاگیا۔

میں کسی ذین سالک کو نہیں جانتا۔شازل نے کندھے اُچکائے کہتے مرر میں دیکھتا اپنے ایک ہاتھ سے بال سیٹ کرنے لگا۔

میں ماہی کا بھائی ہوں جس پہ دلدار شاہ کے قتل کا الزام لگا تھا۔ذین نے بتایا

اوو تو یوں کہوں نہ سالے صاحب یار کہاں غائب تھے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا کبھی۔شازل کا لہجہ اچانک بے تکلف ہوگیا تھا جیسے جانے کتنے سالوں کی جان پہچان ہو اُس کے برعکس زین اپنے کان سے موبائیل ہٹاتا اسکرین کی گھورنے لگا۔

مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے۔زین سنجیدگی سے بولا

فالتو اور غیرضروری بات میں سنتا بھی نہیں۔شازل نے جوابً کہا

کیا تم دو منٹس کے لیے سیریس ہوسکتے ہو؟زین زچ ہوتا بولا

کیونکہ آئے سی یو روم میں لیکر جانا ہے یا ایمرجنسی وارڈ میں؟شازل مصنوعی حیرت سے بولا

تمہارا مسئلہ کیا ہے؟زین بے اختیار چیخ پڑا

بتاؤں تو حل کروگے؟شازل نے فورن سے پوچھا

مجھے لگ رہا ہے میں نے بہت بڑی غلطی کردی۔ذین اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا گہرے سانس لیکر بولا

اچھا کونسی غلطی؟شازل کمرے میں داخل ہوتی ماہی کو دیکھ کر بولا

تمہیں کال کی وہ غلطی۔زین دانت پیس کر بولا

مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کے میں نے تمہاری کال ریسیو کرکے بہت بڑی غلطی کی۔شازل ماہی کو دیکھ کر آنکھ ونک کیے زین سے بولا"جب کی اُس کی حرکت پہ ماہی سٹپٹاکر کافی اُس کے پاس رکھ کر کمرے سے باہر چلی گئ۔

مجھے دلدار شاہ کے قتل کے بارے میں بہت اہم باتیں ڈسکس کرنی ہے اور ایک تم ہو جس کو مُزاکرات سُوجھ رہی ہیں۔ذین تپ کر بولا

مُزاکرات سے مُراد؟شازل اپنی ڈارھی کُھجاتا پوچھنے لگا۔

میں نے دلدار شاہ کا قتل نہیں کیا۔زین اُس کی بات نظرانداز کیے بولا

جانتا ہوں۔شازل بنا تاخیر کیے بولا ساتھ میں کافی کا گھونٹ بھرنے لگا۔

اگر جانتے ہو تو میری بہن کو اپنی قید میں کیوں رکھا ہے؟زین سنجیدگی سے بولا

اُس کو قید میں چھوڑنے والے تم سب تھے۔شازل نے کندھے اُچکائے

مجھے میری بہن چاہیے۔زین نے کہا

تمہاری بہن کوئی سامان یا چیز تو ہے نہیں جس کو میں اُٹھا کر تمہیں دے دوں وہ میری بیوی ہے اور ایک بیوی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی چاہے حالات جیسے بھی ہو۔شازل دو ٹوک انداز میں بولا

وہ میرے عیوض آئی تھی تو اگر میں نے کجھ کیا نہیں تو وہ کیوں تم لوگوں کے پاس رہے۔زین نے کہا

یہ بات تمہیں اب یاد آئی ہے جب ایک سال سے زائد وقت گُزر چُکا ہے۔شازل نے طنزیہ کیا۔

تب میرے پاس ثبوت نہیں تھا اپنی بے گُناہی کا اب ہے۔زین نے جتایا

حالات بہتر ہوجائے میں ماہی کو ملوانے کے لیے لے آؤں گا۔شازل نے جیسے اُس کو تسلی دی۔

ملوانے سے کیا مُراد ہے وہ میری بہن ہے اب بس ہمارے پاس رہے گی۔ذین کو اُس کی بات ناگوار گُزری

وہ کہاں رہے گی اِس بات کا فیصلہ تم نہیں میں کروں گا۔شازل سرد لہجے میں بولا

وہ بہن ہے میری میں بھائی ہوں اُس کا اُس کو جو میں کہوں گا وہ کرے گی۔زین کو طیش آیا

تمہاری بہن تھی اب وہ میری بیوی ہے جب ایک لڑکی قصاص کے نام پہ کی جاتی ہے تو اُس کا سب بائیکاٹ ہوجاتا ہے ماہی کا بھی سمجھو۔شازل نے پرسکون لہجے میں کہا

جب میں نے کجھ کیا نہیں تو قصاص کیسا؟زین کا بس نہیں چل رہا تھا وہ فون کے اندر گُھس جاتا۔

دیکھو سالے صاحب وہ قصاص میں آئی آسمان سے ٹپکی یا زمین پھاڑ کر چیر کر آئی برحال وہ اب میری بیوی ہے اور میں ہرگز نہیں چاہوں گا تم ایسے اُس پہ حق جتاؤ اگر میں نے کہا ملوانے لاؤں گا تو لاؤں گا بس اُس پہ ہی صبر شکر کروں باقی رہی لالہ کے قتل کی بات تو میں تم سے ملنا چاہوں گا یہ باتیں فون پہ ڈسکس نہیں ہوسکتی۔شازل سنجیدگی سے اپنی بات کہتا کال ڈراپ کرگیا بنا زین کو کجھ کہنے کا موقع دیئے۔

ساری کافی کا مزہ خراب کردیا۔شازل نے کافی کا گھونٹ پیا تو سخت بدمزہ ہوتا بڑبڑایا

💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا سوچ رہی ہیں؟فاریہ بیگم نے کلثوم بیگم کو خاموش دیکھا تو پوچھا

تم نے شازل کی بیوی کو دیکھا ہے؟کلثوم بیگم نے کہا

ہاں بہت بار پر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟فاریہ ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی 

اُس کی طبیعت دن بدن گِرتی محسوس ہو رہی ہے اور ایک شازل ہے جس کو نظر نہیں آرہی اپنی بیوی کی حالت۔کلثوم بیگم نے کہا

شازل سے کہے وہ شہر لیکر جائے چیک اپ کے لیے پرائی بچی ہے اگر کل کلاں کوئی اُونچ نیچ ہوجائے تو کیا جواب دینگے اُس کے ماں باپ کو۔فاریہ بیگم نے کہا

آئے شازل تو کہتی ہوں۔کلثوم بیگم گہرک سانس بھر کر بولی

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

شازل کمرے میں آیا تو ماہی کو اپنا سردباتا دیکھا۔

کیا ہوا؟سر میں درد ہے؟شازل اُس کے پاس چل کر آتا بولا۔

ہاں تھوڑا سا۔ماہی نے بتایا

آؤ میں دباتا ہوں۔شازل اُس کے پاس بیٹھ کر بولا

نہیں شکریہ اتنا نہیں ہے خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ماہی نے انکار کرنا چاہا

میں دباتا ہوں اور تمہاری طبیعت کجھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔شازل آہستہ آہستہ اُس کا سر دباتا ہوا بولا

ہاں کجھ دنوں سے مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے۔ماہی نے بتایا

کیا مطلب تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔شازل اُس کی بات پہ فکرمند ہوا۔

سر درد مجھے لگا خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ماہی سرسری لہجے میں کہا تو شازل کو اُس کی لاپرواہی پہ غصہ آیا۔

محھے کسی کام سے باہر جانا تھا تم تیار ہوجاؤ ہوسپٹل چلتے ہیں۔شازل اپنی جگہ سے اُٹھتا اُس سے بولا۔

شازل ہوسپٹل کیوں میں ٹھیک ہوں۔ماہی نے بتانا چاہا

تمہاری راے نہیں مانگی جو کہا ہے وہ کرو چہرہ دیکھا ہے اپنا کیسے زردی مائل ہوگیا ہے مجھے غصہ تم پہ زیادہ خود پہ آرہا ہے پتا نہیں کیسے میں اتنا غافل ہوگیا۔شازل سنجیدگی سے بولا

آپ خوامخواہ پریشان ہورہے۔ماہی نے کہا

دس منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی سے تیار ہوجاؤ۔شازل نے آنکھیں دیکھائی تو ناچار ماہی کو اُس کی ماننی پڑی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ شازل پتا نہیں اُس لڑکی کو کہاں لیکر گیا ہے؟شبانا نے پریشانی سے فردوس بیگم سے کہا

شہر ڈاکٹر کے پاس۔فردوس بیگم نخوت سے بولی

یہ تو پھر ٹھیک نہیں۔شبانا ۔حقارت سے اُن کی بات سن کر بولی۔

فکر نہیں کرو اُس گولی نے اپنا کام کرلیا ہوگا۔فردوس بیگم نے پرسکون لہجے میں کہا

آپ کو پکا یقین ہے۔شبانا کو چین نہیں آرہا تھا۔

سؤ فیصد یقین ہے ایسا ہی ہوگا کسی کو شک بھی نہیں ہوگا کے وہ کبھی ماں بننے والی تھی یا نہیں۔فردوس بیگم کا اعتماد قابلِ دید تھا۔

ویسے مجھے چچی جان نے کہا کے اُس بدبخت کو اُن کے کمرے میں آنے کا کہوں۔شبانا نے بتایا

یہ اِس ونی میں آئی ہوئی لڑکی کو اِتنا سر پہ کیوں چڑھا رہے ہیں؟فردوس بیگم تپ اُٹھی۔

مجھے نہیں پتا بس میرا بچہ ہوجائے تاکہ خاندانی کنگن مجھے ملے ناکہ شازل کی بیوی کو۔شبانا نے شیطانی مسکراہٹ سے بولی

اُس کی تو فکر نہیں کر دیکھنا اگلا سردار تیرا بیٹا ہوگا دُرید شاہ کبھی شادی نہیں کرے گا اور یہ جو شازل کی بیوی ہے آج ہے کل نہیں ہوگی سمجھو ساری  رُکاوٹیں ہی ختم۔فردوس بیگم بہت دور کے خیالات سوچ رہی تھی۔

ہائے اماں تیرے منہ میں گلاب جامن۔شبانا خوش ہوتی بولی۔

چل میں ذرہ کلثوم کے پاس جاؤں اور اُس کو کہوں ونی میں آئی دو ٹکے کی لڑکی کی فکر نہ کرے تو اچھا ہے۔فردوس بیگم اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

میرا تو کلیجہ جلتا ہے جب اُس کو دیکھتی ہوں تو۔شبانا دانت پہ دانت جمائے بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

چیک اپ تو آپ کا ہوگیا ہے اور باقی رپورٹس آنے تک پتا چل جائے گا پریشانی کی ویسے کوئی بات نہیں اکثر ایسی حالت میں ہوتا ہے۔شازل ماہی کو شہر کے قریب ہسپتال لایا تو ڈاکٹر نے مسکراکر کہا

کِس حالت میں ایسا ہوتا ہے؟ماہی کے اندر پلتا سوال شازل نے پوچھا

کیا آپ کو نہیں پتا چلا ابھی تک؟ڈاکٹر نے کافی حیران نظروں سے دونوں کو دیکھا

جی آپ کیا بات کررہی ہیں؟اِس بار ماہی نے پوچھا

آپ ماشااللہ سے

ایکسکیوز می۔ڈاکٹر کجھ بتانے والی تھی جب شازل کے سیل فون پہ کال آنے لگی۔

اِٹس اوکے۔ڈاکٹر نے مسکراکر کہا

آپ ماہی کو سب سمجھا دے میں کال سن کر آیا بہت ضروری ہے۔شازل اُن دونوں کو دیکھ کر کہتا کیبن سے باہر چلاگیا۔

آپ کیا بتارہی تھی؟ماہی نے پوچھا

آپ ایک ماہ سے ایکسیپٹ کررہی ہیں۔ڈاکٹر کی بات ماہی حیران کن نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی اُس کو یقین نہیں آرہا تھا یہ سب کیا کہا ڈاکٹر نے اور اُس نے کیا سُنا؟گُزری رات والا منظر آنکھوں کے پردوں میں لہرایا تو صبح والی شازل کی بیگانگی بھی اُس کو یاد آئی جس پہ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔

آ آر ی یو شیور ڈاکٹر؟ماہی نے بمشکل اپنی لڑکھڑاہٹ پہ قابو پایا

یس باقی رپورٹس آجائے اُس کے بعد تصدیق ہوجائے گی۔ڈاکٹر نے مسکراکر کہا

شک شکریہ۔ماہی نے آہستہ آواز میں کہہ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اُس کو اِس وقت خوشی محسوس کرنے کے بجائے خوف محسوس ہورہا تھا

اگر شازل نے بچے پہ سوال اُٹھایا تو؟اُن کو تو شاید کجھ یاد بھی نہیں اور کیا حویلی والے ونی میں آئی ہوئی لڑکی کا بچہ قبول کرے گے کاش رپورٹس میں ایسا کجھ نہ ہو۔کیبن سے باہر نکلتی ماہی کے چہرے پہ پریشانی کے سائے لہرانے لگے اُس کا پورا وجود کانپ رہا تھا وہ یہ سب کس دل سے سوچ رہی تھی بس وہ جانتی تھی۔

تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟شازل نے ماہی کو دیوار کے ساتھ لگے گم سم کھڑا پایا تو اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولا

ایسے ہی۔ماہی یکدم سیدھی ہوئی۔

رپورٹ کا بتایا وہ کب تک آئے گی؟شازل کی بات پہ ماہی نے چونک کر اُس کو دیکھا۔

ایک ہفتہ بعد۔ماہی نے بتایا

اوکے میں لے آؤں گا ویسے تو کوئی بات نہیں نہ پریشانی والی؟شازل اُس کی بات سن کر بولا

نہیں ہے ایسی تو کوئی بات۔ماہی نے کہا

چلو پھر۔شازل نے مسکراکر کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج آپ بات کرینگے شازل سے؟آمنہ نے قہوہ کا کپ زین کی جانب بڑھاکر پوچھا

ہاں شام میں اُس سے ملنا ہے دل تو نہیں چاہ رہا پر مجبوری ہے۔زین کے قہوہ کا کپ ہاتھ میں لیے کہا

ایسا کیوں بول رہے؟آمنہ کو سمجھ نہیں آیا

بہت نخرا ہے اُس میں ماہی ماہی ایسے بول رہا تھا جیسے ہم نے اپنی بہن کو خوشی خوشی اُس کے ساتھ رخصت کیا ہو۔زین سر جھٹک کر بولا

شاہ خاندان سے ہے تھوڑا بہت تو ایٹیٹیوڈ دیکھائے گا نہ ورنہ شاہوں کیسے لگے گا۔آمنہ اُس کی بات سن کر مسکراکر بولی

جو بھی پر مجھے اُس کے بات کا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا ایسا نان سیریس انسان میری بہن ڈیزرو نہیں کرتا۔زین نے سنجیدگی سے کہا

آپ ماہی کو یہاں لائے گے بھی تو وہ ساری عمر اِس در پہ بیٹھی رہے گی کیونکہ حویلی والوں کے یہاں طلاقیں نہیں ہوا کرتی چاہے کوئی رشتہ نبھانا چاہے یا نہیں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں ایک بار جیسے تیسے رشتہ جڑ سو جڑ گیا اُس کو قبر تک نبھانا پڑے گا دُرید شاہ نے کیوں قتل کیا اپنے خالہ زاد بھائی کا اِس لیے نہ کیونکہ اُس کو پتا تھا اگر وہ زندہ رہا تو حریم کو ساری زندگی اُس کے نام پہ بیٹھنا پڑے گا تبھی اُس نے حریم کو بیوہ کردیا کیونکہ اُن کے یہاں بیوہ ہونا طلاقِ یافتہ سے بہتر ہے۔آمنہ کی بات پہ زین لاجواب ہوا تھا۔

اگر ایسا ہوا تو ہم کورٹ سے خلع لینگے۔زین کے دماغ میں اچانک خیال آیا تو کہا

ماہی کی مرضی جان کر۔آمنہ نے جیسے اُس کا جُملہ مکمل کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ اُس کی تصویر ہے جس نے قتل کیا تھا۔ذین نے اپنا فون شازل کی طرف کیا

شکل سے تو ایسے لگ رہا ہے جیسے زندگی میں کبھی مکھی بھی نہیں ماری ہوگی اتنا بے دردی سے قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔شازل نے تصویر دیکھ کر اُس پہ تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔

کسی کی شکل پہ ظاہر نہیں ہوتا وہ قاتل ہے یا ننہا منہا کاکا۔زین نے دانت پہ دانت جمائے کہا

تم اب یہ بتاؤ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟میں کیا کروں گا اِس قاتل کا دیدار کرکے۔شازل اصل بات کی جانب آیا۔

مجھے بس اتنا پتا ہے کے یہ لاہور کا رہائشی ہے اسلام آباد میں اِس کا آنا جانا رہتا ہے

میرے پاس تو کبھی نہیں آیا۔شازل اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولا۔

میں نے یہی نہیں کہا کے یہ اسلام آباد میں تم سے ملنے آتا ہے۔زین صبر کے گھونٹ پی کر بولا

اچھا آگے۔شازل سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دیتا اُس کو بات جاری کرنے کا اِشارہ کرنے لگا۔

تمہارے شہر میں کُونٹیکٹس ہوگے تمہارے لیے اِس کے بارے میں کجھ معلوم کروانا مشکل کام نہیں۔زین اتنا کہتا خاموش ہوا

اِس کا مطلب تم اِن ڈائریکٹلی مجھ سے یہ بول رہے ہو میں اسلام آباد سے لاہور پھر لاہور سے اسلام آباد جاؤں؟شازل اپنے ہاتھ کی مٹھی ہونٹوں پہ رکھتا داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔

ہاں میں ایسا چاہتا ہوں کیونکہ میری بے گُناہی ثابت ہونے کا بس یہ ایک راستہ ہے دوسرا یہ کے تمہارے کزن کا قاتل بھی پکڑا جائے گا۔زین سنجیدگی سے بولا

ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا اور پورے گاؤں کے سامنے اِس قاتل کا چہرہ بھی لاؤں گا اور کجھ؟شازل زین کو اُس کا فون واپس کرتا ہوا بولا

میری بہن چاہیے مجھے بہت مظالم اُس نے سہہ لیے بے قصور ہوکر۔زین کی بات پہ شازل کے ماتھے پہ بل آئے۔

اُس بے قصور کو بلی کا بکرا بنانے والے بھی تم خود ہو۔شازل نے طنزیہ کیا

میں ماہی کو کب لینے آؤں؟زین اُس کی بات نظرانداز کرکے بولا

وہ اب میری بیوی دوسری بات یہ کے میں جس کام سے جارہا ہوں وہاں میرا ایک ٹھکانہ نہیں ہوگا اور ماہی کو میں انجان شہر میں اکیلا چھوڑ نہیں سکتا اِس لیے جب تک میری واپسی نہیں ہوگی وہ تم لوگ کے پاس رہے گی مگر اُس کے بعد میں اُس کو لینے آجاؤں گا۔شازل نے سنجیدگی سے کہا

کیا تم یہ رشتہ نبھانہ چاہتے ہو؟زین نے سنجیدگی سے پوچھا

تمہیں کیا لگتا ہے؟شازل نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا

پہلے قاتل سامنے آجائے اُس کے بعد دیکھے گے آگے کیا ہونا ہے۔زین کندھے اُچکاکر بولا

وہ ہوگا جو میں چاہوں گا اور ایک بات میں کلیئر کردوں سید شازل شاہ کو اپنے راستے میں رُکاوٹیں پسند نہیں اِس لیے دھیان رکھنا ایسا نہ ہو پھر میں تمہیں لات مار کر اپنے راستے سے ہٹاؤں کسی گلی میں پڑے پتھر کی طرح۔شازل اُس کے پاس تھوڑا جُھکتا سپاٹ انداز میں کہہ کر بہت کجھ باور کرواگیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش کمرے میں آنا۔کلثوم بیگم نے پانی کا جگ اُٹھا کر جاتی آروش کو سیڑھیاں چڑھتا دیکھا تو کہا۔

آپ کو کام تھا؟آروش اُن کے کمرے میں داخل ہوتی پوچھنے لگی۔

ناراض ہو؟کلثوم بیگم اُس کو اپنے پاس بیٹھاتی پوچھنے لگی۔

کیا میرا حق ہے ناراض ہونے کا؟آروش نے اُلٹا اُن سے سوال داغا

ایسا لہجہ مت اختیار کیا کرو دل کٹ سا جاتا ہے۔کلثوم بیگم نے افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

میرا اپنا دل کٹا ہوا ہے اماں سائیں۔آروش اُداس مسکراہٹ سے بولی

ہم نے تمہاری حقیقت چُھپائی اُس میں ہماری مجبوری تھی بیٹا۔کلثوم بیگم نے آہستہ آواز میں کہا

مجھ کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

کب تک سب کجھ اپنے تک محدود رکھو گی؟دل میں جو کجھ ہے اُس کو باہر کرو یقین جانو جس سکون کی تلاش میں ہو وہ مل جائے گا۔کلثوم بیگم اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر بولی۔

مجھے کسی کی تلاش نہیں اور نہ میرے اندر کجھ ہے اب میں چلتی ہوں حریم کمرے میں اکیلی ہے اُس کو میری ضرورت ہے اگر کمرے میں کوئی ساتھ نہ ہو تو وہ ڈر جاتی ہے۔آروش سنجیدگی سے کہتی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

حریم کو اپنا عادی مت بناؤ آروش یہ جو حالات اُس پہ آئے اکیلے لڑنے دو ورنہ وہ بس دوسروں میں پناہ تلاش کرتی رہے گی خود کجھ نہیں کرپائے گی یہ لڑائی اُس کی اپنی ہے اچھا ہے وہ خود لڑے۔کلثوم بیگم نے اُس کو سمجھانا چاہا

معذرت اماں سائیں وہ بچی ہے اور اُس کو سہارے کی ضروری ہے میں اُس کو سہارہ دے کر بے سہارہ نہیں کرسکتی اُس نے سب کجھ اکیلے جھیلا ہے اب ساتھ کی ضرورت ہے جو میں اُس کو دوں گی اور آپ فکر نہیں کرے وہ میری عادی نہیں بنے گی بہت مضبوط دل کی ہے پہلے اُس کی باتیں دُرید لالہ سے شروع اور اُن پہ ختم ہوا کرتی تھی اور اب دُرید لالہ کا ذکر بھول سے بھی نہیں کرتی۔آروش سپاٹ لہجے میں بول کر کمرے سے باہر چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی مجھے تم سے بات کرنی ہے ایک۔ ماہی سونے کے لیے لٹنے والی تھی جب شازل نے اُس کو مخاطب کیا۔ 

جی کہے۔ ماہی اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔ 

میں کسی ضروری کام سے لاہور جارہا ہوں تو میں چاہتا ہوں جاتے وقت تمہیں تمہارے والدین کے پاس چھوڑ آؤں مجھے حویلی والوں پہ یقین نہیں جانے وہ کیسا رویہ اختیار کرے میرے جانے کے بعد تمہارے ساتھ آرو کو بھی اب اپنا ہوش نہیں ہوتا ہر وقت حریم میں لگی ہوئی ہوتی ہے۔شازل اپنی بات کہتا اُس کو دیکھنے لگا جو جانے کہاں کھوئی ہوئی تھی۔

میں یہی ٹھیک ہوں۔ماہی نے بس یہ کہا وہ جس کنڈیشن میں تھی اُس کو اپنے گھر جانا ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔

تم شیور ہو؟شازل کو اُس کی بات عجیب لگی مگر اُس نے اپنی بات اُس پہ مسلط کرنا ٹھیک نہیں سمجھا۔

جی آپ نے خود ہی بولا تھا میں ونی میں آئی ہوں حویلی والے مجھے اپنے گھر جانے نہیں دینگے۔ماہی اُداس مسکراہٹ سے بولی

ہاں مگر اب سب کلیئر ہے قاتل تمہارا بھائی نہیں۔شازل نے کہا

کیا آپ مجھ سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں؟ماہی بدگمان ہوئی۔

ایسی کوئی بات نہیں فضول بکواس نہیں کرو میں نے اِس لیے کہا کیونکہ تمہارا بھائی چاہ رہا تھا تم اُن کے پاس آؤ۔شازل کو اُس کی بات پہ غصہ آیا تبھی سخت لہجے میں بولا

مجھے ایسا لگ رہا ہے اگر میں یہاں سے گئ تو حویلی کے دروازے میرے لیے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گے۔ماہی کو ایک پل کے لیے خیال آیا وہ شازل کو ساری بات بتادے مگر اُس میں ہمت نہیں ہوئی۔

حویلی کے لیے دروازے بند بھی ہوجائے تو پریشان مت ہوں میرے گھر کے دروازے ہمیشہ تمہارے لیے کُھلے ہوئے ہوگے۔شازل کا اِشارہ اپنے اسلام آباد والے گھر کی جانب تھا جو ماہی اچھے سے سمجھ گئ تھی۔

ٹھیک ہے پھر آپ مجھے امی کے گھر چھوڑ آئیے گا۔ماہی کجھ سوچ کر بولی۔

جو تم کہو مگر پریشان مت ہو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا اگر کوئی اور بات ہے جو تم کہنا چاہ رہی ہو تو بے جھجھک ہوکر بول دو۔شازل اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا اُس کو اعتماد بخشنے لگا۔

کوئی بات نہیں۔ماہی خود کو ہشاش بشاش ظاہر کرتی بولی۔

ٹھیک ہے سوجاؤ پھر میں کوشش کروں گا ہسپتال سے تمہاری رپورٹس لیکر اُس کے بعد لاہور جاؤ۔شازل نے مسکراکر کہا تو ماہی کا خون خشک ہوا۔

رپورٹس کے رہنے دے میں ٹھیک تو ہوں۔ماہی اپنے ڈر پہ قابو پائے بولی۔

رپورٹس لانی تو ضروری ہیں نہ یہ کیا بات ہوئی۔شازل کو اُس کی بات عجیب لگی مگر ماہی کا دل انجانے وسوسو سے گھیرا ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم نے کروٹ لیکر اپنے ساتھ لیٹی آروش کو دیکھا جو گہری نیند میں تھی حریم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اُس کے چہرے کے سامنے لہرایا تاکہ یقین ہوسکے آروش واقع سوگئ ہے کے نہیں وہ ایک بات جان گئ تھی آروش بہت محتاط ہوکر اُس کے ساتھ سوتی تھی اُس کی ایک آہٹ پہ اُٹھ کر بیٹھ جایا کرتی تھی جو حریم کو سمجھ نہیں آتا آروش کی نیند کچی ہوا کرتی تھی یا نیند میں بھی وہ اُس کی خاطر فکرمند ہوتی تھی۔

آپی سوگئ ہیں یہی صحیح موقع ہے ڈائری پڑھنے کا۔حریم آروش کو غور سے دیکھتی سوچنے لگی جب سے اُس کے ہاتھ میں آروش کی ڈائری آئی تھی تب سے اُس کو تحسس ہوتا تھا کے آخر اُس ڈائری میں لِکھا کیا ہوگا۔وہ آہستہ سے اپنے پیر بیڈ سے نیچے کرتی ڈائری ہاتھ میں لیتی بنا قدموں کی چاپ کیے اُس کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آئی۔ اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیے اُس نے آگے سے پردے ڈال لیے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔

لائٹ آن کرتی حریم صوفے پہ بیٹھی ڈائری کے ورق گِردانی کرنے لگی۔

بات نہیں ہوتی مگر یقین کیجیے

وہ میرے لیے بہت خاص ہے۔

الفاظ گِرادیتے ہیں جذبات کی قیمت

ہر بات الفاظوں سے تو نہیں کی جاسکتی

ایک شخص آیا تھا میری زندگی میں

پھر میری زندگی بن گیا

اور پھر تیری سوچو نے 

میری زندگی اُجاڑ دی

اُن سے بچھڑ جانے میں ہی بھلائی تھی

آج یہ احساس ہوگیا

یہ کافی ہے کے وہ میرا ہوا تھا

اِس بات کو تو چھوڑ کہ

وہ اب کس کا ہے

حال کرلینا'گنوا دینا'یہ الگ دُکھ ہیں

لیکن کل تک جو آپکا تھا آج اُسے کسی اور

دیکھنا'حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں

دوریوں سے سکون ملنے لگے تو

جُدائی کا ڈر ختم ہوجاتا ہے

خزاں کی دھوپ سے شکوہ فضول ہے

محسن میں یوں بھی پھول تھی 

مجھے آخر بکھرنا تھا

یہ کیا اِس میں تو بس شاعری ہیں ہم نے تو سوچا تھا آپی نے اپنے دل کی باتیں بیان کی ہوگی مگر وہ تو عجیب ہیں انسانوں سے کیا اپنی ڈائری میں بھی کجھ نہیں لکھا۔حریم ڈائری بند کرتی بے دلی سے بڑبڑائی اُس کا خراب موڈ مزید خراب ہوگیا تھا 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

جلدی آئیے گا۔شازل نے ماہی کے گھر کے باہر گاڑی رُوکی تو اُس نے شازل کی جانب رُخ کیے کہا

میں یہی کوشش کروں گا بس تم پریشان مت ہونا کیونکہ دیر سویر ہوسکتی ہے بس دعا کرنا میرا مقصد پورا ہوجائے۔شازل نے مسکراکر کہا

میری دعا آپ کے ساتھ ہیں بس آپ جلدی آئیے گا۔ماہی نے سنجیدگی سے کہا

ماہی میں ایک بار پوچھتا ہوں اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ مجھے تم بہت کھوئی کھوئی سی لگ رہی ہو۔شازل اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا بولا۔

اگر کوئی بات ہوگی تو میں سب سے پہلے آپ کو ہی بتاؤں گی۔ماہی نے زبردستی مسکراہٹ سے کہا تو شازل نے مزید اصرار نہیں کیا وہ چاہتا تھا ماہی خود اُس کو سب کجھ بتائے جو اُس کے دل میں چُھپا تھا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ماہی میری بچی خدا کا شکر تم اپنے گھر واپس آگئ۔بختاور بیگم ماہی کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئ تھی باقی سب بھی اُس کے گرد جمع ہوگئے تھے۔

شازل لاہور گئے تھے تبھی مجھے یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ماہی نے جانے کیا جتانا چاہا مگر سب اُس کو دیکھ کر خوشی میں اتنے مگن تھے کے غور ہی نہیں کیا۔

کتنی کمزور ہوگئ ہو کیا کھاتی پیتی نہیں تھی۔بختاور بیگم اُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر بولی

میں ٹھیک ہوں بس آپ لوگوں نے بہت وقت بعد دیکھا ہے تبھی لگ رہا۔ماہی نے مسکراکر کہا

میری بچی مجھ سے ناراض تو نہیں؟حشمت صاحب اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولے

بلکل بھی نہیں۔ماہی مسکراکر کہتی اُن کے سینے سے لگی باقی سب بھی آبدیدہ ہوگئے تھے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

حال!

دُرید شاہ اور آروش اِس وقت ویٹنگ ایریا میں تھے حریم کا چیک اپ ہورہا تھا جس وجہ سے وہ ڈاکٹر کے انتظار میں تھے۔

ڈاکٹر حریم کیسی ہیں اُس کو کیا ہوا تھا؟ڈاکٹر باہر آئی تو دُرید بے چینی سے پوچھنے لگا

آپ دونوں میرے کیبن میں آئے۔ڈاکٹر سنجیدگی سے اُن دونوں کو دیکھ کر بولی۔

جی بتائے کیا کوئی خطرے والی بات تو نہیں؟آروش دُرید کے ساتھ کیبن میں آتی پوچھنے لگی۔

She is expecting;

ڈاکٹر اُن دونوں کو یہ خبر سُناتے ہوئے کافی ناخوش نظر آرہی تھی جب کی اُن دونوں پہ تو جیسے کسی نے بم گِرایا تھا۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔آروش کو اپنی آواز کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی جب کی دُرید کجھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔

Is she unmarried?

ڈاکٹر دونوں کے تاثرات جانچتی اپنا اندازہ لگانے لگی تو دُرید کی آنکھوں میں خون اُتر آیا جب کی آروش کو بھی اُن کا ایسے پوچھنا پسند نہیں آیا تھا۔

ایکسکیوزمی ڈاکٹر وہ شادی شدہ ہے ہم بس اُس کی عمر کی وجہ سے پریشان ہوگئے تھے سن کر۔دُرید اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بولا

رائٹ میں خود پریشان ہوگئ تھی کیونکہ وہ بہت کم عمر اور کمزور سی ہیں ایسے میں اُن کا پریگننٹ ہونا خطرے سے خالی نہیں پر آپ لوگوں کی حیرانی سمجھ نہیں آئی وہ اگر آپ لوگوں کو بھی چھوٹی لگ رہی ہے تو شادی کیوں کروائی اُس کی اتنی جلدی پھر یہ سب تو ہونا تھا نہ ابھی تو وہ خود بچی ہے آجکل کہاں ایسے ہوتا ہے قانونی حساب سے یہ جرم بھی ہے۔ڈاکٹر باتوں سے اُن کو کافی بے باک معلوم ہوئی جب کی آروش اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گئ۔

وہ ایک بالغ لڑکی ہے پھر جرم کیسا۔آروش نے سوال کیا تو دُرید نے اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر خاموش رہنے کا اِشارہ کیا

ہم بہت خیال رکھے گے حریم کا آپ بس اُن کی ڈائیٹ کا بتادے اُس کے لیے کیا ٹھیک رہے گا اور کیا نہیں۔دُرید سنجیدگی سے بولا

آپ سب کو اُن کا بہت خیال رکھنا بھی چاہیے ورنہ بہت کرائسس سے اُن کو گُزرنا ہوگا خیر میں کجھ سیمپلز وغیرہ لکھ کر دے رہی ہوں اور ایک چارٹ بناکر دوں گی آپ کو وہ فالو کرنا ہوگا۔ڈاکٹر اب کی پروفیشنل انداز میں بولی

اگر حریم کی جان کو نقصان ہے تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کے بچہ نہ ہو۔دُرید کی بات پہ آروش جھٹکے سے سر اُٹھا کر دُرید شاہ کو دیکھنے لگی جس کا انداز سرد سپاٹ تھا

لالہ۔آروش نے اُس کو باز رکھنا چاہا

مجھے بات کرنے دو آرو حریم کی ایسی کنڈیشن نہیں جو بے بی کا خیال رکھ سکے میرے لیے سب سے پہلے حریم ہے۔دُرید نے اُس کو ٹوک کر کہا

کیا آپ اُن کے ہسبنڈ ہیں؟کیونکہ مجھے اُن کے ہسبنڈ کو سب کجھ سمجھانا چاہتی ہوں تاکہ کسی بھی کام میں کوتاہی نہ ہو۔ڈاکٹر دُرید کی بات سن کر اُس سے استفسار ہوئی۔

آپ پلیز یہ بتائے جو میں نے پوچھا۔دُرید نے ان کی بات نظرانداز کی۔

اگر آپ کا اِشارہ ابارشن کی جانب ہیں تو میں کلیئر کردوں یہ ایک غیرقانونی عمل ہے ہمارے ہوسپٹل میں ایسا نہیں ہوتا ہم کسی معصوم کی جان نہیں لیتے۔ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا

ہمیں کوئی ابارشن نہیں کروانا آپ بس احتیاطاً چیزیں بتائے ہم سب حریم کا بہت خیال رکھے گے۔آروش دُرید کو دیکھتی ڈاکٹر سے بولی۔

جی ٹھیک مگر ایک بات کہنا چاہوں گی اگر آپ لوگوں کو اُن کے پریگننٹ ہونے پہ ایشو ہے تو یہ تب سوچنا چاہیے تھا جب اُس کی شادی کروا رہے تھے یہ سب پہلے ہوا کرتا تھا آج کے زمانے میں بچیوں کی اتنی جلدی شادیاں نہیں ہوتی آپ لوگ خود سوچے کیا سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی کی شادی کروانا ایک دُرست عمل ہے؟پریگنسی میں بہت پیچیدگیاں ہوتی ہے کئ لڑکیوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ڈاکٹر دونوں کو دیکھتی بولی تو وہ دونوں خاموش رہے کیونکہ کسی کے پاس اُن کی باتوں کا جواب نہیں تھا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کیا آپ کو ڈاکٹر سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔وہ دونوں کیبن سے باہر آئے تو آروش نے دُرید سے کہا

جانتا ہوں میں اِس وقت تمہیں بہت بُرا لگ رہا ہوں مگر میں کیا کرتا اُن کی بات سن کر مجھے گھبراہٹ ہونے لگی تھی اگر حریم کو کجھ ہوجاتا تو۔دُرید بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا

اُس کو کجھ نہیں ہوگا لالہ آپ پریشان نہ ہو بس اُس کے لیے دعا کرے وہ ٹھیک ہوں سب کجھ خیریت سے ہوجائے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

ہممم ٹھیک تم حریم سے کہو وہ آئے ہمیں اب گاؤں کے لیے نکلنا چاہیے۔دُرید نے کہا تو آروش نے سر کو جنبش دیتے حریم کی جانب بڑھی جو روم میں تھی۔

💕💕💕💕💕💕

اِس بار تمہارا ٹِرپ کافی لمبہ نہیں گُزرا؟زوبیہ بیگم یمان کا وجیہہ چہرہ دیکھتی اُس سے پوچھنی لگی جو ابھی لاہور سے آیا تھا۔

جی بس مصروفیت بہت ہوگئ تھی وہاں ایک دو انڈسٹریز تھی جہاں سے آفر ملی تھی سونگز تھی اُن کی رکارڈنگ سے فارغ ہوا پھر لاہور کا موسم خراب ہوگیا تھا راستے بند ہوگئے تھے اِس لیے واپس آنے میں وقت لگ گیا۔یمان ہلکی سی مسکراہٹ سے بولا

ہم نے تمہیں بہت مس کیا تمہارے بنا گھر سُونا سُونا سا ہوگیا تھا۔زوبیہ بیگم اُس کا ماتھا چوم کر بولی۔

اب تو یقیناً تم فری ہوگے؟دلاور خان نے پوچھا

جی فری ہوں اور تھکا ہوا بھی آرام کروں گا۔یمان نے جواب دیا۔

چلو اچھا ہے آرام کرو باتیں تو اب ہوتی رہے گی کمزور بھی لگ رہے ہو اپنا خیال بلکل بھی نہیں کرتے۔زوبیہ بیگم نے خفگی بھرے لہجے میں کہا

کہاں کمزور ہے اتنا ہٹا کٹا تو سامنے بیٹھا ہے۔یمان کے کجھ کہنے سے پہلے دلاور خان بول پڑے

آپ بس نظر لگانا میرے بچے کو۔زوبیہ بیگم نے اُن کو گھورا کر کہا تو یمان ہنس پڑا جب کی دلاور خان نے اپنے ہاتھ اُپر کرلیے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم۔آروش کمرے میں آئی تو حریم کو خاموش دیکھا جس پہ اُس کو اندازہ ہوگیا تھا کے حریم اپنی پریگنسی کی بات جان گئ ہے۔

آپ کو پتا چلا ڈاکٹر نے کیا کہا؟حریم بنا آروش کی جانب دیکھے بولی۔

جانتی ہوں۔آروش بس اتنا بولی۔

ہمیں لگ رہا ہے جیسے اللہ نے ہمیں ہمارے صبر کا اجر دیا اولاد کی صورت میں۔حریم کی بات پہ آروش چونک کر اُس کو دیکھنی لگی وہ تو سمجھی تھی حریم یہ خبر جان کر شور مچائے گی بچہ گِرانے والی بات کرے گی مگر اُس کے تاثرات خوشگوار تھے اور بہت وقت بعد آروش نے دیکھے تھے۔

تم خوش ہو؟آروش کو پتا نہیں کیوں یقین نہیں آیا

کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے آپی؟ہمارا اپنا بچہ ہوگا آپی ہمارے وجود کا حصہ آپ کو پتا ہے نہ ہمیں بچے کتنے پسند ہیں پر اِس بار تو ہمارا اپنا ہوگا آپ کو پتا نہیں ہمیں کتنی خوش محسوس ہورہی ہے۔حریم نے بتایا تو آروش کو وہ کوئی پاگل لگی۔

مجھے تمہاری خوشی سمجھ نہیں آرہی؟آروش کہے بنا نہ رہ پائی۔

کیوں آپی کیا ہمارا خوش ہونا جائز نہیں؟حریم نے پوچھا تو آروش اُس کے ساتھ بیٹھی۔

ایسی بات نہیں ہے مگر وہ تابش

وہ ہمارا بچہ ہوگا آپی کسی اور کا نہیں ہم اُس کی پرورش کرینگے اور جی جان لگا دینگے بیٹی ہوگی یا بیٹا بیٹے کو کسی تابش کی طرح نہیں بنائے گے اور نہ بیٹی کو کمزور بنائے گے ہم نے دیکھا ہے اولاد کے لیے لوگوں کو ترستے ہوئے مگر جب ہمیں بنا مانگے مل رہی ہے تو ہم ناخوش ہوکر کفر نہیں کرینگے آپ خود کہتی ہیں اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے تو ہم نے اِس بات کو اللہ کی رضا سمجھ کر خود کو راضی کرلیا ہے ہم اِس معصوم سے نفرت(حریم نے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھا) کیوں کرے جو سِرے سے ہر بات سے انجان ہے جو ابھی اِس دُنیا میں آیا بھی نہیں ہم نے ایک بات سیکھ لی ہے انسان سے محبت کروگے تو رُل جاؤں گے مگر اللہ سے محبت کروگے تو سنور جاؤں گے ہمیں آہستہ آہستہ ساری بات سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اللہ تعالیٰ اگر ہمیں اولاد سے نواز رہا ہے تو ان شاءاللہ اُس کو پالنے کی سکت بھی دینگے۔حریم اُس کی بات کاٹ کر بولی تو اور آج وہ اپنی باتوں سے آروش کو لاجواب کرچُکی تھی وہ جو کجھ اُس نے نہیں سوچا تھا وہ حریم نے بیان کردیا تھا۔

تم بدل گئ ہو حریم۔آروش بس یہی بول پائی اگر کسی اور وقت حریم یہ باتیں کرتی تو وہ خوش ہوجاتی مگر آج جانے کیوں اُس کو افسوس ہورہا تھا اُس کو حریم کی پچکانہ باتیں سننے کی عادی تھی جس کی بات کی شروعات کسی سنگر سے شروع اور ایکٹر پہ ختم ہوجاتی تھی اور آج اُس کے منہ سے اتنی گہری بات سن کر جانے کیوں اُس کو دُکھ ہوا تھا

ہم بدلنا چاہتے ہیں آپی۔حریم اُداس سا مسکرائی

💕💕💕💕💕💕💕 

وہ ہمسفر تھا

ہاں وہ ہمسفر تھا

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا

ہاں وہ ہمسفر تھا

MuSic/

آمنہ ماہی کے کمرے میں آئی تو اُس کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس خارج کی جو اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس گم سم کھڑی تھی جب کی کمرے کا میوزم سسٹم آن تھا جو یقیناً ماہی نے ہی آن کیا ہوگا۔

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی۔

 وہ ہمسفر تھا

وہ ہمسفر تھا

آمنہ چلتی ہوئی ماہی کے برابر کھڑی ہوتی اُس کو دیکھنے لگی جس کی آنکھیں تو اُداس تھی مگر چہرے پہ ایک عجیب سی رونق تھی ماں بننے کی رونق۔

ماہی کے ماں بننے والی خبر اُن سب کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی وہ جو ماہی کے لیے خلع کا نوٹس تیار کرنے ہوئے کا سوچے ہوئے یہ خبر جاننے کے بعد تھم سے گئے تھے۔

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو کبھی سنائی نہ تھی

غزل بھی وہ جو کسی کو کبھی سنائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی۔

 وہ ہمسفر تھا

وہ ہمسفر تھا

تمہیں آج پھر جانا چاہیے۔آمنہ کجھ دیر خاموش کھڑی ہونے کے بعد ماہی سے بولی جس کو چُپ لگ گئ تھی۔

کہاں؟ماہی بنا اُس کی جانب دیکھے بولی

شاہ حویلی۔آمنہ نے بتایا

ایک بار گئ تھی چوکیدار نے اندر ہی نہیں جانے دیا لالہ اسلام آباد بھی گئے تھے مگر شازل پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ماہی کندھے اُچکاکر بولی

اسلام آباد کو چھوڑو اِس بار حویلی جاؤ دیکھنا کوئی کجھ نہیں کہے گا آخر کو تم اُن کو وارث دینے والی ہو۔آمنہ نے اُس کو حوصلہ دینا چاہا

ان کو ونی میں جانے والی لڑکی سے وارث چاہیے ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی۔ماہی اپنا مزاق اُڑاتی ہوئی بولی۔

ماہی پاگلوں جیسی باتیں نہیں کرو یہ بہت پیچیدہ معاملات ہوتے ہیں تم یہ بات جتنا اُن سے چھپاؤ گی اُتنا تمہارے لیے مسئلہ کھڑا ہوجائے گا اِس لیے ہوش کے ناخن لو اور جاؤ حویلی تم شازل شاہ کی بیوی ہو حویلی پہ تمہارا حق ہے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاؤ اگر اپنے لیے نہیں تو اِس بچے کے لیے۔آمنہ نے اِس بار سخت لہجے میں کہا

وہ میرے بچے کو نقصان نہ پہنچادے۔ماہی نے نیا خدشا ظاہر کیا۔

مجھے تم پہ پہلے ہی بہت غصہ ہے ماہی ایک تو تم نے اتنی بڑی بات اپنے شوہر سے چُھپائی ہے دوسرا تم اپنی ضد پہ اڑی ہوئی ہو میں تمہارے لیے چادر نکالتی ہو جاؤ حویلی یا میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔آمنہ نے سنجیدگی سے کہا

چادر لاؤ میں اکیلی جاؤں گی۔ماہی نے کہا تو آمنہ نے شکر کا سانس خارج کیا

💕💕💕💕💕💕💕

تم یہاں کوئی کام تھا؟فجر یامین کو اسکول سے واپسی لاتی گھر آئی تو اپنے گھر کے باہر ارمان کو دیکھ کر حیران ہوئی۔

جی یامین سے ملنے آیا تھا بہت عرصہ ہوگیا ہے ہم پارک نہیں گئے۔ارمان یامین کو اپنی گود میں اُٹھاتا فجر کو دیکھ کر بولا

یامین اسکول سے تھکا ہوا آیا ہے کہی نہیں جائے گا کھانا کھائے گا پھر آرام کرے گا۔فجر نے سنجیدگی سے کہا

نہیں ممی مجھے جانا ہے۔ارمان کے کجھ کہنے سے پہلے یامین نے کہا تو ارمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی جبکی فجر نے اُس کو گھورا

کوئی ضرورت نہیں سیر سپاٹے کرنے کی۔فجر دو ٹوک کہتی ارمان سے یامین لینے لگی مگر ارمان نے جلدی سے یامین کو پیچھے کیا۔

کیا ہوگیا ہے کیوں ضد کررہی ہیں خود تو معصوم کو پاس والے پارک تک نہیں لیکر جاتی اور مجھے بھی منع کررہی ہیں میں اتنی دور سے آیا ہوں اُس کا ہی لحاظ کرلے۔ارمان کو آج فجر کا انداز پسند نہیں آیا تو کہا

یامین میرا بیٹا ہے میری مرضی میں جو کجھ کروں تم اِس معاملات سے دور رہو تو بہتر ہے اور رہی بات دور سے آنے کی تو اپنی مرضی سے آتے ہو میں نہیں آنے کا کہتی آنے کے لیے۔فجر بے رخی سے بولی

آپ بھی کہہ کے دیکھ لے سچی بھاگا بھاگا آؤں گا۔ارمان شرارت سے بولا

مجھے کوئی ضرورت نہیں تم بس جاؤ یہاں سے۔فجر نے اُس کو آنکھیں دیکھائی۔

ہم تو پارک جائے گے اگر آپ نے جوائن کرنا ہے تو موسٹ ویلکم۔ارمان بھی اپنے نام کا ایک تھا

بھاڑ میں جاؤ تم مجھے اپنا بیٹا واپس کرو۔فجر زچ ہوئی اُس کی ایک ہی رٹ پہ

ٹھیک ہے اب آپ نے خود اجازت دی ہے تو ہم چلتے ہیں۔ارمان اتنا باہر کی جانب بڑھنے لگا تو فجر فورن سے اُس کے راستے میں حائل ہوئی

کہاں؟فجر نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

آپ نے جو کہا ابھی بھاڑ میں جاؤ تو بس ہم وہی جارہے ہیں۔ارمان معصوم شکل بنائے بولا تو یامین کھی کھی کرنے لگا۔

تم جہنم میں جاؤ یا بھاڑ میں مگر مجھے میرا بیٹا واپس کرو پر مجھے ارمان غصہ مت دلاؤ۔فجر نے سختی سے کہا

مجھے کیا ضرورت آپ کو غصہ دلانے کی وہ تو ہر وقت آپ کی ناک میں پہلے سے موجود ہوتا۔ارمان نے جلے پہ نمک چھڑکا

ارمانننننننن۔فجر نے غصے سے اُس کے نام کو کھینچ کر ادا کیا۔

جی میں سن رہا ہوں۔فجر نے جتنے غصے سے اُس کا نام لیا ارمان نے اُتنے ہی پیار سے کہا تو فجر جھنجھلا اُٹھی۔

دفع ہو جہاں جانا ہے جاؤ میری بلا سے۔فجر زچ ہوکر کہتی اندر جانے لگی جب ارمان نے مزید آگ لگائی۔

دفع کیسے جاؤں آپ ایڈریس سینڈ کریں یا چھوڑ آتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ارمان کی بات پہ فجر نے پلٹ کر کھاجانے والی نظروں سے اُس کو گھورا تو ارمان نے یامین کو باہر لے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

حویلی کے لیے دروازے بند بھی ہوجائے تو پریشان مت ہوں میرے گھر کے دروازے ہمیشہ تمہارے لیے کُھلے ہوئے ہوگے۔

ماہی جیسے تیسے کرکے حویلی میں داخل ہوئی مگر اُس کے کانوں میں بار بار شازل کی آوازیں گونجنے لگی تو اُس کی آنکھیں پل بھر میں نم ہوئی تھی۔

آپ نے تو میرے لیے کوئی بھی دروازہ کُھلا نہیں چھوڑا شازل۔ماہی نے بے ساختہ تصور میں شازل سے شکوہ کیا تبھی شابانا کی نظر اُس پہ پڑی تو دندناتی اُس کے سر پہ نازل ہوئی۔

تم یہاں پھر آگئ۔شبانا نے بڑی سی چادر میں چُھپے ماہی کے وجود کو دیکھ کر چنگاڑتی آواز میں کہا

مجھے شازل سے ملنا ہے کہاں ہیں وہ؟مجھے بہت ضروری بات بتانی ہے اُنہیں۔ماہی نے اپنے آنسوؤ کا گلا گھونٹ کر کہا

او بی بی نہیں ہے وہ یہاں اور تم پہلی فرصت سے یہاں سے باہر نکلو ورنہ دھکا دے کر باہر کروں گی۔شبانا اُس کا بازوں دبوچتی بولی۔

شازل اسلام آباد میں بھی نہیں ہے آپ پلیز بتائے وہ کہاں ہیں مجھے بہت ضروری بات بتانی ہے اُنہیں میں اُن کے بچے کی ماں بننے والی ہوں پلیز مجھ پہ رحم کرے میرا ملنا شازل سے بہت ضروری ہے۔ماہی نے روتے ہوئے منت کی جب کی اُس کی بات پہ شبانا کے چہرے پہ ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جارہا تھا۔

کیا بکواس ہے یہ۔شبانا چیخی

بکواس نہیں ہے سچ میں پریگننٹ ہوں دو ماہ سے خدارا میری بات پہ یقین کرے اور بتائے شازل کہاں ہیں؟ماہی پھوٹ پھوٹ کر روتی زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔

جانے کس کا گند ہمارے بیٹے پہ تھوپ رہی ہے یہ بدبخت۔فردوس بیگم جو ابھی آئی تھی اُس کی بات سُنتی بالوں سے پکڑ کر بولی۔جس کی تکلیف سے وہ کراہ اُٹھی مگر اُس کو زیادہ سے زیادہ تکلیف شازل کے غائب ہوجانے پہ تھی جانے وہ کہاں چلاگیا تھا جو اُس سے ایک بار اتنے وقت میں رابطہ تک نہیں کیا تھا۔

مجھ پہ بہتان لگاتے ہوئے اللہ سے ڈرے۔ماہی افسوس بھری نظروں سے اُن کو دیکھ کر بولی

اچھا بی بی ہم بہتان لگارہے ہیں تو یہ بچہ پہلے تو ظاہر نہیں تھا جب توں اپنی ماں کے گھر گئ تو یہ بچہ اچانک سے آگیا۔فردوس بیگم کی اِس قدر گھٹیاں بات پہ ماہی کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا جواب دے۔

میں آپ میں سے کسی کے سامنے بھی جوابدہ نہیں مجھے بس شازل سے بات کرنی ہے۔ماہی اپنے آنسو صاف کرتی اُن سے بولی

بولا نہیں

کیا ہورہا ہے یہاں؟شبانا ابھی کجھ کہنے والی تھی جب کلثوم بیگم فاریہ بیگم کے ساتھ ہال میں آتی رعبدار آواز میں پوچھنے لگی"کلثوم بیگم کو دیکھ کر ماہی کو کجھ سکون ملا اُس کو ایک اُمید کی کرن نظر آئی۔

آنٹی مجھے شازل سے بات کرنی ہے پلیز میری بات کا یقین کرے میرے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ شازل کا ہے خدا کے واسطے مجھ پہ کوئی بہتان نہ لگائے۔ماہی بھاگ کر کلثوم بیگم کے پاس آتی بولی تو حیرت سے سرتا پیر اُس کو دیکھنے لگی

شازل تو حویلی نہیں وہ تو تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر خود شہر کے لیے نکل گیا تھا۔فاریہ بیگم اپنی حیرانگی چُھپاتی اُس کو جواب دینے لگی۔

تم ماں بننے والی ہو؟کلثوم بیگم کے لہجے میں خوشگوار حیرت تھی جس کو محسوس کرکے ماہی کو کجھ ڈھارس ملی۔

چچی جان کیا ہوگیا ہے آپ کو اِسی کی سُن کیوں رہی ہیں باہر نکالے جانے کس کا گند شازل کے نام کررہی ہے دو ماہ سے اپنے ماں کے گھر تھی جانے کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے۔شبانا حقارت بھرے لہجے میں کہتی ہر حد پار کرگئ

شبانا ہوش میں ہو کیا بول رہی ہو کسی کے کردار پہ بہتان لگانا جانتی بھی ہو کتنا بڑا گُناہ ہے اللہ کا سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔فاریہ بیگم شبانا کی بات سن کر ناگواری سے بولی

تم یہاں بیٹھو۔کلثوم بیگم ایک اچٹنی نظر شبانا پہ ڈال کر ماہی کو پاس پڑے سینٹر صوفے پہ بیٹھانے لگی جس کے پورے وجود میں کپکپی طاری تھی 

کب معلوم ہوا تمہیں اور کیا شازل کو پتا ہے یہ بات؟کلثوم بیگم نے اُس کی زرد ہوتی رنگت دیکھ کر اُس سے پوچھا

جس دن شازل مجھے شہر علاج کے لیے لیکر گئے تھے مجھے تب پتا چلا تھا پر اِس بات سے شازل لاعلم ہے۔ماہی نے ڈر کر بتایا

دیکھا ابھی اِس کا جھوٹ پکڑگیا بھلا شازل کو کیسے نہیں پتا چلا جب وہ ساتھ تھا۔شبانا باز نہ آئی۔

آنٹی میں آپ کو ساری بات بتاؤں گی پر آپ میرا یقین کرے ایسا کجھ نہیں جیسے یہ بول رہی ہے۔ماہی نے بے بسی سے کلثوم بیگم کے ہاتھ تھام کر بولی۔

تم فلحال اپنے کمرے میں جاؤ پھر بات ہوگی تمہاری طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی۔کلثوم بیگم اُس کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں دیکھ کر بولی۔

چچی

خاموش شبانا بہت بول لیا تم نے مگر اب چپ کرجاؤ یہ بچہ شازل کا ہی ہے مجھے تو پہلے ہی اِس کی طبیعت پہ شک ہورہا تھا مگر شازل اِس کو میکے لیکر گیا تو میں خاموش ہوگئ اب مجھے پتا چلا شازل کیوں اِس کو حویلی میں نہیں چھوڑتا کیونکہ اُس کو پتا ہے تم لوگوں کا رویہ اِس کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدتر ہوگا مگر میری ایک بات سن لو تم سب پہلے میں خاموش تھی تم لوگوں کا اِس معصوم کے ساتھ رویہ جیسا بھی تھا میں نے دیکھ کر اٙن دیکھا کردیا کیونکہ مجھے لگتا تھا یہ تمہارے سہاگ کے قاتل کی بہن ہے تمہارا وقتی غصہ ہے پر اب تم نے دوسری شادی کرلی ہے اب دیدار شاہ تمہارا سہاگ ہے اِس لیے بہتر یہی ہے اُس پہ توجہ دو تمہارا ایک شوہر تھا تو فاریہ کا بڑا بیٹا تھا اُس نے کبھی اِس پہ غصے سے بھری نگاہ بھی نہیں ڈالی تھی پھر تم کیوں اِس کے پیچھے پڑی ہوئی ہو بخش دو اب اِس کو ویسے بھی کجھ دن کی مہمان ہے پھر شازل اِس کو اپنے ساتھ شہر لیکر جائے گا۔کلثوم بیگم نے بُری طرح سے فردوس بیگم اور شبانا کو ایک ساتھ لتاڑہ جس سے دونوں کا چہرہ بے عزتی کے احساس سے سرخ ہوگیا تھا۔

اِس دوٹکے کی لڑکی کی وجہ سے آپ میری بے عزتی کررہی ہیں میں اِس حویلی کی بڑی بہو ہوں۔شبانا چیخی

جس لڑکی کو تم دو ٹکے کا بول رہی ہو وہ حویلی کے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے شازل کی بیوی ہے اگر اُس کو پتا چل گیا نہ تو کوئی لحاظ نہیں کرے گا وہ۔کلثوم بیگم نے طنزیہ انداز اپنایا

یہ ایک ونی میں آئی ہوئی لڑکی ہے آپ کیوں اِس اوقات بھول رہی ہیں۔شبانا پاگل ہونے کے در پہ تھی جب کی ماہی بس رونے میں مصروف تھی

اِس کی اوقات یہ ہے کے یہ لڑکی حویلی کو وارث دینے والی ہے جو تم نے دس سالوں تک نہیں دیا۔کلثوم بیگم نے دو ٹوک کہا

آپ میری بے عزتی پہ بے بے عزتی کیے جارہی ہے میں برداشت نہیں کروں گی۔شبانا غصے سے ماہی کو دیکھ کر کلثوم بیگم سے بولی

میں بس تمہیں حقیقت سے روشناس کروا رہی ہو۔کلثوم بیگم کا آج انداز ہی الگ تھا

یہ وارث نہیں دے گی۔شبانا نے غصے سے کہا

اُٹھو میں تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ آؤ۔کلثوم بیگم شبانا کو نظرانداز کرتی ماہی کو سہارہ دیتی بولی تو ماہی نے تشکر بھری نظروں سے اُن کو دیکھا جو آج اُن کے لیے وسیلہ بن کر آئی تھی اور اب وہ ماہی کو کسی فرشتے سے کم نہ لگی۔

السلام علیکم۔دُرید شاہ آروش حریم یہ بھی اِس وقت شہر سے واپس آئے تو سب کو ایک ساتھ کھڑا پایا تو سلام کیا۔

وعلیکم السلام آگئے تم سب کیا ہوا تھا حریم کو؟فاریہ بیگم سلام کا جواب دیتی پوچھنے لگی۔

آپ سب بیٹھے میں بتاتی ہوں۔آروش ایک نظر حریم پہ ڈال کر بولی جب کی کلثوم بیگم ماہی کو لیکر اُپر چلی گئ تھی۔

آپی ہم اپنے کمرے میں جائینگے۔حریم آروش سے بولی تو اُس نے محض سراثبات میں ہلایا

بتا بھی چُکو کیا ہوا ہے؟فردوس بیگم جلے کٹے انداز میں بولی۔

السلام علیکم چاچا سائیں۔آروش نے ارباز شاہ کو حویلی میں آتا دیکھا تو سلام کیا

وعلیکم السلام۔ارباز شاہ سلام کا جواب دیتے اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔

حریم ماں بننے والی ہے۔آروش سب کو دیکھ کر بولی تو سب اپنی جگہ ساکت ہوئے تھے سوائے فاریہ بیگم کے کیونکہ اُن کو پہلے سے اِس بات کا علم ہوگیا تھا۔

کیا کہا تم نے میں نے ٹھیک سے سُنا نہیں؟فردوس بیگم اپنا کان اُس کے سامنے کیے بولی تو آروش نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

حریم ماں بننے والی ہے۔آروش اِس بات کجھ تیز آواز میں بولی۔

ماشااللہ مجھے پتا تھا یہی بات ہوگی پر حریم کا رد عمل کیسا تھا۔فاریہ بیگم کجھ فکرمندی سے بولی

ہمیں تابش کا بچہ نہیں چاہیے حریم کو چاہیے وہ اپنا بچہ گِراے۔آروش کے کجھ کہنے سے پہلے فردوس بیگم حقارت سے سرجھٹک کر بولی ہال میں سناٹا سا چھاگیا تھا اُن کی بات پہ جب کی اُن سب کے درمیان بیٹھا دُرید شاہ بس اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔

سوچ سمجھ کر بولا کرو فردوس کیا جانتی نہیں کتنا بڑا گُناہ ہے۔فاریہ بیگم نے سختی سے اُن کو ڈپٹا

بلکل ٹھیک بول رہی ہیں اماں اب کیا ہم اُس بدبخت کے بچہ حویلی میں پالے گے۔شبانا نخوت سے سرجھٹک کر بولی

تم دونوں ماں بیٹی کو ہو کیا گیا ہے۔فاریہ بیگم اُن دونوں کو دیکھ کر کوفت سے بولی جو پہلے ماہی کے پیچھے پڑے تھے اور اب حریم کے۔

وہ صرف تابش لالہ کا بچہ نہیں ہوگا حریم کا بھی ہوگا آپ لوگوں کو اندازہ بھی نہ ہو ایسے جُملے حریم کے دل پہ کیا اثر کرینگے وہ خود اُس معصوم سے نفرت کرنے لگے گی جو اِس دنیا میں آیا ہی نہیں۔آروش فردوس بیگم کے خاموش ہونے کے بعد حریم کے دفاع میں بولی

خون تو اُس تابش کا ہوگا نہ۔فردوس بیگم طنزیہ بولی

مگر پرورش تو یہاں حویلی میں ہوگی نہ خون سے زیادہ پرورش اثر کرتی ہے نہ اُس کی پرورش یہاں حویلی میں ہوگی تو اِن باتوں کا مطلب۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

حریم کا بچہ یہاں نہیں رہے گا تو مطلب نہیں رہے گا۔فردوس بیگم اپنی جگہ بضد ہوئی۔

میں حریم سے نکاح کروں گا اُس کی عدت کے دوسرے دن دیکھتا ہوں پھر کون میرے بچے کے بارے میں ایسی بات کرتا ہے۔دُرید کی بات اُن سب کے سِروں پہ بجلی کی طرح گِری۔

ہوش میں ہو برخودار؟ارباز شاہ نے طنزیہ کیا۔

بلکل ہوش میں ہوں نکاح سادگی سے ہوگا اِس لیے کسی کو کوئی بھی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں۔دُرید بے تاثر لہجے میں بولا

ایسا نہیں ہوسکتا۔فردوس بیگم نے اعتراض اُٹھایا

ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں اِس بات کا فیصلہ میں کروں گا۔دُرید کا لہجہ حددرجہ سرد ہوگیا تھا

بیٹا جی عقل کے ناخن لو جوش میں ہوش گنوا بیٹھے ہو حریم ماں بننے والی ہے تو پھر کیسے تم اُس کی عدت کے اگلے دن نکاح کروگے۔فردوس بیگم کا لہجہ طنزیہ سے بھرپور تھا۔

میں سمجھا نہیں۔درید ناسمجھی سے اُن سب کو دیکھ کر بولا

لالہ اگر لڑکی ماں بننے والی ہو تو اُس درمیان دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا اگر حریم سے نکاح کرنا بھی چاہتے ہیں تو بچے کے پیدا ہونے تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔اِس بار آروش نے دُرید کو سمجھانے والے انداز میں کہا تو دُرید خاموش ہوگیا تھا اُس کے لیے انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل ہوتی جارہی تھیں۔

💕💕💕💕💕

تم ٹھیک ہوں؟ارحم فکرمندی سے شازل کو دیکھ کر بولا جو ہسپتال کے بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا

میں ٹھیک ہوں مگر اُس کمینے کو میں چھوڑوں گا نہیں جس نے میرا خوبصورت حُلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔شازل اپنے ماتھے پہ ہاتھ رکھتا سیل فون کی فرنٹ کیمرہ کھول کر اپنا چہرہ دیکھ کر بولا

شکر کر تیری جان بچ گئ ہے اور ایک تو ہے جس کو اپنی شکل کی پڑی ہوئی ہے اگر جان ہی نہ رہتی تو اِس شکل کا توں نے اچاڑ ڈالنا تھا۔رضا جو دو دنوں سے اُس کے لیے پریشان تھا شازل کی ہوش میں آنے کے بعد ایسی بات سن کر دانت پیس کر بولا

میں اچار نہیں کھاتا خیر یہ بتاؤ میرا ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد وہ کمینہ پکڑا گیا یا موقع پہ ہی بھاگ گیا۔شازل نے دونوں کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔

پکڑا گیا ہے اُس کی فکر نہیں کرو تم۔ارحم نے جواب دیا

میرے پاس اور بھی بہت سے کام ہے سِوائے اِس فکر کے۔شازل منہ کے زاویئے بناتا اپنی سیلفی بنانے لگا۔

تم یہ فون اِدھر کرو۔رضا نے تپ کر اُس کے ہاتھ سے موبائیل چھینا۔

کیا یار یادگار تصاویر تو بنانے دو تاکہ یاد رہے مجھے چوٹ بھی آئی تھی۔شازل اُس کی طرف ہاتھ بڑھاکر بولا

یہ کوئی اتنا خاص موقع نہیں جو تم نے یادگار بنانا ہے تمہارا پورے دو ماہ سے گھر سے رابطہ نہیں ہوا تمہیں اندازہ ہے وہ کتنے پریشان ہوئے ہوگے۔ارحم نے اُس کو گُھڑکا

اوہ ہاں ماہی تو بہت پریشان ہو رہی ہوگی۔شازل کو اچانک خیال آیا تو کہا تو اپنے سر پہ ہاتھ مار کر بولا

ماہی؟رضا اور ارحم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگے

تم دونوں کی بھابھی ہے اِس لیے بھابھی بولو اور مجھے یاد آیا میرے ہاتھ میں کجھ رپورٹس تھی وہ کہاں گئ؟شازل فکرمندی والے تاثرات سجائے بولا

وہ تو میری گاڑی میں ہے کس چیز کی رپورٹس تھی ہم نے چیک نہیں کی تھی۔رضا نے جواب دیا

وہ دراصل مجھے شرم آرہی ہے۔شازل دونوں کو دیکھتا شرمانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا بولا

شازل توں نہ آج ہمیں بہت غصہ دلارہا ہے۔اِس بار ارحم زچ ہوا

یار کیا کروں بات ہی کجھ ایسی ہے۔شازل یہاں وہاں دیکھ کر بولا

نہ بتا ارحم تو گاڑی سے رپورٹس لاؤ خود ہی دیکھ لینگے کیا ماجرہ ہے۔رضا ارحم سے بولا

ارے نہیں نہیں میں بتاتا ہوں دراصل میں باپ کے رتبے پہ فائز ہونے والا ہوں کتنی عجیب بات ہے نہ حویلی میں سب سے چھوٹا بیٹا ہوں میں اور سب سے پہلے یہ شرف مجھے حاصل ہورہا ہے۔شازل اپنی دُھن میں بتانے لگا جبکہ ارحم اور رضا مُنہ کُھولے اُس کو دیکھنے لگے جس کا چہرہ یہ بات بتاتے وقت چمک رہا تھا۔

تم مذاق کررہے ہو؟رضا نے اپنی حیرت پہ قابو پائے پوچھا

مذاق کرنے کے لیے مجھے یہی بات رہ گئ تھی کیا کے میں باپ بننے والا ہوں کمینوں میں سچ میں باپ بننے والا ہوں۔شازل بدمزہ ہوتا دونوں کو گھور کر بولا

اتنی جلدی توں تو پہلے اِس شادی سے خوش نہیں تھا۔رضا اب بھی ماننے سے انکاری تھا۔

ہاں اور کیسے نکاح کے دن یہاں اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ارحم بھی رضا کی بات سے متفق ہوا۔

سب سے پہلے اتنا جلدی نہیں ہوا ڈیڑھ سال ہوگیا ہے ہماری شادی کو اور الحمد اللہ اب ایسا کجھ نہیں وہ پہلے کی بات تھی۔شازل مزے سے بولا

یار ارحم کوئی پہلے بڑے ڈنکے کی چوٹ پہ کہا کرتا تھا کے میں سید شازل شاہ ہوں میں کبھی شادی نہیں کروں گا اور اب وہ باپ کے رتبے پہ فائز ہونے والا ہے واقع یہ بہت عجیب بات ہے نہیں؟رضا چڑانے والی نظروں سے شازل کو دیکھ کر ارحم سے بولا تو شازل کجھ سٹپٹایا

ارے یہ تو کجھ بھی نہیں یاد ہے ایک دفع شازل نے کیا کہا تھا؟ارحم رضا کا ساتھ دیتا سوچنے کی اداکاری کیے رضا سے بولا تو شازل نے اُس کو آنکھیں دیکھائی مگر اُن دونوں کو فرق نہیں پڑا۔

مجھے یاد ہے مگر تم ٹھیک سے یاد کروادوں۔رضا ارحم کو دیکھ کر بولا۔

محترم سید شازل شاہ کے انمول الفاظوں میں سے چند الفاظ زیر اثر یہ ہیں کے(نقل اُتارتے ہوئے)

مجھے ان لوگوں پہ تعجب ہوتا ہے جو محبت کے نام پہ اپنی ساری زندگی ایک لڑکی کے ساتھ گُزار لیتے ہیں میں تو دو دن ایک ہی لڑکی کی شکل دیکھوں تو بوریت ہوتی ہے زندگی ایک بار ملتی ہے تو کیا گُزارا بھی ایک سے ہو نو نیور ہونہہ۔ارحم باقاعدہ شازل کی نقل اُتارتے رضا کی گرد چکر کاٹتا بولا تو رضا ہنس پڑا

اب بس بھی کرو پُرانی باتیں تھیں۔شازل اُن کو زچ کیے پچھتایا

کہاں پُرانی باتیں یار ہمارے لیے تو کل کی بات ہے ہمیں تو یقین نہیں ہورہا تھا دو دن ایک شکل دیکھ کر بوریت کا شکار ہونے والا شخص ایک لڑکی کی شکل ڈیڑھ سال کیسے برداشت کرگیا۔ارحم باز نہیں آیا۔

مار کھاؤ گے اب تم دونوں مجھ سے۔شازل نے دانت پیس کر کہا

ہمارا پتا نہیں بیوی سے تجھے ضرور مار پڑنے والی ہے۔رضا اتنا بول کر زور سے قہقہقہ لگانے لگا تو شازل نے دانت کچکچائے۔

💕💕💕💕💕💕💕

یہ آج سے تمہارے ساتھ رہے گی۔کلثوم بیگم نے پاس کھڑی ملامہ کی جانب اِشارہ کیے ماہی کو بتایا

پر کیوں؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا

کیونکہ تم ماشااللہ سے ماں بننے والی ہو تو کوئی تو ہو جو تمہارا خیال رکھے اور تم نے لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے۔کلثوم بیگم نے سمجھایا

آپ کا شکریہ اگر کل آپ نہ ہوتی تو میں یہاں نہ ہوتی۔مامی سرجھکائے بس اتنا بولی

شکریہ کی کوئی بات نہیں تم میرے شازل کی بیوی ہو ایسے میں میرا فرض ہے تمہارا خیال رکھنا خیر اپنا دماغ ہر سوچ سے آزاد کرو زیادہ سوچنا اچھی بات نہیں بس آرام کرو۔کلثوم بیگم اُس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر بولی تو ماہی نے سراثبات میں ہلایا۔

میں نے ناہید کو تمہارے کھانے پینے کا بتادیا ہے اِس لیے یہ جو کہے تمہیں ماننا ہوگا۔کلثوم بیگم جاتے جاتے تاکید کرنا نہ بھولی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کیا ہوا آج آپ خاموش ہیں؟حریم نے آروش کو آج معمول سے زیادہ سنجیدہ دیکھا تو پوچھا

تمہیں بتایا تھا نہ میں بابا سائیں کی بیٹی نہیں؟آروش سپاٹ لہجے میں اُس سے بولی

جی۔حریم بس یہ بول پائی۔

کجھ ماہ بعد میں یہاں سے چلی جاؤں گی ہمیشہ کے لیے جانے سے پہلے ایک بات کہوں گی تمہارے دُر لا بہت اچھے ہیں انہوں نے اگر تمہاری محبت کو قبول نہیں کیا تو اُس میں انہوں نے تمہارا بھلا چاہا تھا تم یہ بات مت سوچنا کے وہ تمہیں اپنے قابل نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود کو تمہارے قابل نہیں سمجھتے تھے اماں سائیں نے جب تمہارے لیے تابش لالہ کا رشتہ سامنے کیا تو انہوں نے انکار کیا تھا پھر تمہاری لالہ سے شادی کرنے کی ضد نے انہیں مجبور کیا کوئی سخت قدم اُٹھانے پہ انہوں نے اپنی محبت کو پانے سے پہلے کھویا تھا حریم جب وہ محض بیس اکیس سال کے تھے تمہیں اُن کے غم کا اندازہ نہیں ہوسکتا وہ سمجھتے تھے اگر تمہاری شادی اُن سے ہوگی تو وہ کہی تمہارے ساتھ ناانصافی نہ کرجائے دُرید شاہ جو میرے لالہ ہے وہ جب تمہارے لیے کجھ خریدتے تھے تو چپل تک ملائم لیتے تھے کے کہیں چلنے میں تمہیں مسئلہ نہ ہو تمہارے پیروں میں کہیں درد نہ پڑجائے وہ بہت محتاط رہتے تھے مگر حریم اُن کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے وہ محبت نہ بھولنا جو انہوں نے تمہیں دی تھی جو وہ تم پہ لُٹا چُکے تھے دُرید لالہ نے دو قتل کیے ہیں اور وہ دو ہی قتل تمہاری وجہ سے کیے ہیں پہلا قتل اپنی پندرہ سالہ زندگی میں کیا تھا مالی کا قتل صرف اِس بات پہ کے اُن کی ایک غلطی کی وجہ سے تمہارے پاؤں پہ چوٹ آئی تھی تمہاری آنکھوں سے آنسو نکلے تھے لالہ رات کے پہر اپنا دایاں پیر جلتے کوئلوں پہ رکھتے تب تک رکھا جب تک تمہارا پاؤں بلکل ٹھیک نہیں ہوا تمہاری چوٹ کا نشان تو مٹ گیا مگر لالہ کا دایاں پیر اگر دیکھو گی نہ تو آج بھی وہ نشان نظر آئے گے لالہ نے تم سے بہت کی ہے مگر اُس میں پانے کی خواہش حاصل کی تمنا نہیں تھی لالہ کی محبت بس اتنی ہے کے وہ بس تمہیں خوش اور مطمئن دیکھنا چاہتے تھے وہ تمہاری زندگی گُلزار بنانا چاہتے تھے سب کو لگتا تھا لالہ شادی اِس لیے نہیں کرتے کیونکہ اُن سے اُن کی محبت چھینی گئ مگر در حقیقت انہوں نے تمہاری وجہ سے شادی نہیں کی اگر وہ شادی کرتے تو یقیناً اپنی ازواجی زندگی میں مگن ہوجاتے اُن کی توجہ تم پہ ہٹتی تو نہ مگر کم ضرور ہوجاتی جو لالہ نہیں چاہتے تھے ایک بارہ سال کے بچے کا ذہن کچا ہوتا ہے جو بعد میں بہت پکا ثابت ہوتا ہے بڑے لوگ باتیں فراموش کرجاتے ہیں مگر بچے نہیں لالہ بارہ کے تھے پھپھو نے تمہاری ذمیدادی لالہ کو دی تھی لالہ چاہتے تو وہ اُن کی بات کو نارملی لیتے کوئی کجھ کہتا بھی نہ کیونکہ وہ بچے تھے دُرید شاہ جو اپنی استعمال شدہ چیزیں بھی کسی کو نہیں دیتے تھے انہوں نے اپنا کمرہ تک تمہارے ساتھ شیئر کیا وہ تو تم جب چھ سال کی ہوئی تو اماں سائیں نے ان سے کہا حریم کا اب تمہارے کمرے میں رہنا ٹھیک نہیں لگتا اُس کو دوسرے کمرے میں رہنا چاہیے تو لالہ مان گئے تمہیں اگر چوٹ لگتی ہے تو تم سے زیادہ تکلیف اُنہیں ہوتی ہے تمہارے ساتھ جو حادثہ پیش آیا اُس کو تم قسمت کا لکھا سمجھتی ہو تو لالہ کو زمیدار مگر کبھی یہ بھی سوچا کرو تمہاری تکلیف پہ اُن کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی جو انہوں نے تابش لالہ کا قتل تک کرڈالا اب جب تم انہیں کہو گی میری حالت کے اصل گنہگار آپ ہیں تو یہ لالہ کے ساتھ حقیقتاً ناانصافی ہوگی انہیں جان بوجھ کر تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں لیا غلطیاں انسان کرتے ہیں غلط فیصلے بھی انہیں سے ہوا کرتے ہیں مگر ایک بات کی وجہ سے گُزری ہوئی بے لوث محبت کو فراموش نہیں کیا جاتا اگر تمہارے لیے یہ فیصلہ لالہ کے بجائے تمہارے والدین سے ہوتا تم ان کو معافی کردیتی تو میں بس یہ کہوں گی ان کو بھی معاف کردینا ضروری نہیں پچھتاوا محبت کا کھونا احساسِ ندامت بس میرے دُرید لالہ کے حصے میں آئے اُن کی زندگی میں بھی خوشیاں مختصر ہی رہی ہیں کسی کی بھی زندگی مکمل نہیں ہوا کرتی تھی میرے لالہ کی تو بلکل بھی نہیں۔آروش حریم کا ہاتھ پکڑتی ٹھیرے ہوئے لہجے میں اُس کو بتانے لگی جب کی حریم اپنی سانسیں تک رُوک چُکی تھیں آروش نے جانے اُس سے کیا کجھ کہا تھا مگر اُس کے کانوں میں بس یہ الفاظ گونج رہے تھے۔

دُرید لالہ نے دو قتل کیے ہیں اور وہ دو ہی قتل تمہاری وجہ سے کیے ہیں پہلا قتل اپنی پندرہ سالہ زندگی میں کیا تھا مالی کا قتل صرف اِس بات پہ کے اُن کی ایک غلطی کی وجہ سے تمہارے پاؤں پہ چوٹ آئی تھی تمہاری آنکھوں سے آنسو نکلے تھے لالہ رات کے پہر اپنا دایاں پیر جلتے کوئلوں پہ رکھتے تب تک رکھا جب تک تمہارا پاؤں بلکل ٹھیک نہیں ہوا تمہاری چوٹ کا نشان تو مٹ گیا مگر لالہ کا دایاں پیر اگر دیکھو گی نہ تو آج بھی وہ نشان نظر آئے گے۔

ایک شخص کررہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش!اُس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جون ایلیا

اگر انہوں نے ہم سے بے لوث محبت کی ہے تو ہمیں بے لوث زخم بھی دیئے ہیں جن کی تکلیف اُن کی دی گئ محبتوں سے زیادہ ہے ہم تکلیف کو بُھلاکر محبت یاد کرنا بھی چاہے تو ہم سے نہ ہو پائے گا معافی مانگنا مشکل نہیں پر کسی کو معاف کرنا بہت مشکل ہے۔حریم اپنا ہاتھ آروش کے ہاتھ سے چھڑواتی سپاٹ لہجے میں بولی تو آروش نے افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھا

تم لالہ کے معاملے میں خودغرضی کا مُظاہرہ کررہی ہو اگر یہی سب تم لالہ کے ساتھ کرتی تو وہ جواب میں افففف تک نہ کرتے کیونکہ اُن کا دل تمہارے معاملے میں وسیع ہے وہ تمہارے سؤ قتل تک معاف کردینگے۔آروش افسوس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

اگر کوئی آپ کی محبت کو ٹھکرائے تو آپ کیا کرے گی؟حریم کے سوال پہ آروش کے قدم زمین پہ جکڑ سے گئے تھے۔

میں ایک سید زادی ہوں یہ نہیں کہوں گی کیونکہ اب میرے پاس وہ حق نہیں ہے مگر ایک سید گھرانے سے پرورش پانے کے بعد اتنا ضرور کہوں گی میرا دل مضبوط ہے میں نے اپنے دل کے دروازے پہ سخت پہرے لگائے ہیں جو کم سے کم کوئی نامحرم مرد نہیں کھول سکتا جو ٹھکرانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ایک بات میں واضع کرلوں لالہ نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا نہیں ہے وہ ایسا مر کر بھی نہیں کرسکتے بس ان کی ایک خواہش تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنے کی نے ہر ایک کے سامنے مجرم بنادیا ہے سب کو لالہ کا فیصلہ نظر آرہا ہے مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا لالہ نے حریم علی کے معیار کا لڑکا بہت اُونچا سوچا ہوا تھا وہ خود کو بھی اُس معیار پہ پورا نہیں سمجھتے تھے انہیں لگا تھا تابش لالہ تمہارے لیے آئیڈیل شوہر ثابت ہوگے لالہ کوئی نجومی نہیں تھے جو اُن کو پتا چل جاتا سب پہلے سے جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں تمہارا نکاح تابش لالہ سے پہلے سے لکھا ہوا تھا جو کوئی کجھ بھی کرتا ہوکر ہی رہنا تھا۔آروش سنجیدہ بھرے لہجے میں کہتی کمرے میں رُکی نہیں تھی جب کی حریم تو جیسے پتھر کی بن گئ تھی آروش کی باتیں اُس کو کسی تماچے سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

آپ کو کیا پتا آپی جب آپ کسی کو حد سے زیادہ چاہوں اور وہ ہی انسان آپ کا ہاتھ پکڑ کر کسی اور کے حوالے کرے تو کیا محسوس ہوتا ہے خواب کرچی کرچی ہوجاتے ہیں دل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے جینے کی تمنا آہستہ ختم ہوجاتی ہے پر آپ یہ نہیں سمجھ سکتی کیونکہ آپ کو کبھی کسی سے پیار نہیں ہوا یا آپ ایسی محبت کو مانتی نہیں اپنی انا کا پرچم بُلند کرنا چاہتی ہیں ورنہ اگر محبت ہونی ہوتی ہے تو ہوجاتی ہے چاہے پھر آپ اپنے دل پہ کوئی مضبوط قلعہ ہی کیوں نہ باندھ لو بس محبت کے دو اقسام ہوتے ہیں ایک وہ محبت جس میں آپ بے اختیار ہوجاتے ہیں تو دوسری محبت میں آپ کو اپنی محبت پانے سے زیادہ اپنی انا عزیز ہوتی ہے اور ہمیں جو محبت ہوئی ہے اُس میں ہم بے اختیار ہوئے تھے۔حریم اپنا سر گُھٹنوں میں گِراتی اُداس مسکراہٹ سے سوچنے لگی۔

ہم کو آتا اگر شرمندہ و رسوا کرنا

آپ کو تو ہم کہیں کا بھی رہنے نہ دیتے

💕💕💕💕💕💕💕

شازل گاؤں پہنچ گیا تھا مگر اُس کو پہنچتے پہنچتے رات ہوگئ تھی تبھی وہ سیدھا حویلی آیا تھا ماہی کے پاس اگلے دن جانے کا سوچا تھا اُس نے کیونکہ اُس کو لگ رہا تھا ماہی ابھی تک اپنے والدین کے پاس ہوگی مگر جب وہ اپنے کمرے آکر لائیٹ آن کی تو بیڈ پہ لیٹے وجود کو دیکھ کر اُس کو حیرت کے بجائے خوشگوار احساس نے آ گھیرا'شازل آہستہ قدموں کے ساتھ چلتا بیٹھ پہ بیٹھ کر غور سے ماہی کو دیکھتا اُس کے چہرے پہ گِرے بال پیچھے کرنے لگا تو ماہی نے چونک کر آنکھیں کُھولی اُس کو اتنی جلدی آنکھیں کُھولتا دیکھ کر شازل کو حیرت ضرور ہوئی۔

شازل؟ماہی ایک جست میں اُٹھتی شازل کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر اُس کی موجودگی کا احساس کرنے لگی اُس کو یہ سچ ایک خواب لگ رہا تھا۔

ہاں میں مگر تم ایسے ری ایکٹ کیوں کررہی ہو؟شازل اُس کا ہاتھ پکڑے نرمی سے پوچھنے لگا تو ماہی جیسے نیند سے جاگی۔

شازل آپ سچ میں ہیں۔ماہی کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی۔

نہیں میرا بھوت تم سے ملنا آیا ہے۔شازل اُس کے ایک ہی سوال پہ چڑ کر بولا 

آپ کہاں چلے گئے تھے مجھ سے ایک بار بھی رابطہ نہیں کیا آپ کتنے ظالم ہیں کتنی آسانی سے مجھے بھول جاتے ہیں ایسا کون کرتا ہے؟باتیں تو بہت بڑی بڑی چھوڑتے ہیں مگر عمل تھوڑا بھی نہیں کرتے آپ بلکل اچھا نہیں کرتے میرے ساتھ میں بہت بہت ناراض ہوں آپ سے دو ماہ بعد واپس آئے ہیں پر اِس عرصے میں ایک بار بھی یہ نہیں سوچا ماہی کیسی ہوگی؟کیا آپ کو میری ذرہ پرواہ نہیں؟ماہی زور سے شازل کے گلے لگتی روتی ہوئی بولنے لگی۔شازل جو اُس کی حرکت پہ حیران تھا مگر اُس کی باتیں سن کر اُس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔

یہاں دیکھو میری طرح کیوں رو رہی ہو اتنا میں نے کونسا آنے میں دس سال لگا دیئے اور اِس بیچ تمہارے بالوں میں چاندی گُھل گئ اور میرے انتظار میں تمہاری جوانی برباد ہوگئ۔شازل اُس کا چہرہ سامنے کرتا اُس کے آنسو صاف کرنے لگا تو ماہی جو رونے میں مصروف تھی شازل کے منہ سے ایسی سیریس سچویشن میں بے تُکی بات سن کر منہ کُھولے اُس کو دیکھنے لگی۔

شازل آپ بہت مین ہیں۔ماہی اُس کے کندھے پہ مُکے برساتی دور ہونے لگی جب شازل ہنس کر اُس کو دوبارہ سے اپنے سینے سے لگایا۔

مذاق کررہا تھا یار سوچا تمہارا موڈ ٹھیک ہوجائے گا مجھے کیا پتا تھا تمہارا ٹیمپریچر گرم ہے۔شازل آرام سے کہتا آخر میں اپنی عادت سے مجبور ہوا۔

بات نہ کرے آپ۔ماہی منہ بسور کر بولی

پھر کس سے کروں؟شازل اُس کے بالوں میں بوسہ دیتا شرارت سے بولا

اپنی ہوتی سوتی سے۔ماہی نے کہا

اچھا نہ اِدھر دیکھو میری طرف یہاں کیسے آئی تم؟میں نے تو تمہیں تمہارے والدین کے پاس چھوڑا تھا؟شازل کجھ سیریس ہوا۔

آپ تو چاہتے ہی یہی ہیں میں کبھی نہ آؤں یہاں۔ماہی اُس کی بات پہ بُرا مان کر بولی۔

میں ایسا کیوں چاہوں گا اللہ اللہ کرکے تو بیوی ملی ہے۔شازل اُس کی بات پہ فورن سے بولا

شازل اور کتنی بیویوں کی چاہت ہے آپ کو؟جو یوں حسرت سے بول رہے۔ماہی تپ اُٹھی۔

بیویوں کی کہاں بس ایک تمہاری ہی چاہت ہے۔شازل اُس کو دیکھ کر آنکھ وِنک کیے بولا تو ماہی جھنپ سی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

میں آپ سے ناراض ہوں۔ماہی اپنے دھڑکتے دل پہ قابو پائے بس یہ بولی

اچھا تو اُس ناراضگی کو دور کیسے کیا جائے؟شازل نے مسکراکر اُس کے پُھولے گال کھینچ کر پوچھا

جب آپ کان پکڑ کر اُٹھک بیٹھک نہیں کرتے۔ماہی اتنا کہتی زور سے آنکھوں کو میچ گئ جب کی شازل کی مسکراہٹ یکدم سمٹ گئ تھی وہ حیرت سے ماہی کو دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا

کیا کہا تم نے؟شازل اُس کا چہرہ اپنی طرف کیے جیسے کنفرم کرنا چاہ رہا تھا۔

اُٹھک بیٹھک۔ماہی نے سٹپٹاکر کہا

کیا ہوگیا ہے ماہی میں کوئی بچہ ہوں سید شازل شاہ ہوں میں اور یہ سب میں نہیں کرسکتا کجھ اور کہو۔شازل اچانک سے سنجیدہ ہوگیا تھا جس کو محسوس کرکے ماہی کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔

اب کیا ہوگیا ہے ماہی رو کیوں رہی ہو سچی بہت روندو قسم کی ہو۔شازل اُس کو اپنے ساتھ لگائے بولا

آپ خود کو بھی تو دیکھے اتنے وقت بعد آئے ہیں اور بات بھی ایسے کررہے ہیں تو مجھے رونا تو آئے گا نہ۔ماہی نے سارا الزام اُس پہ ڈالا

یار تم لڑکیاں کبھی اپنی غلطی بھی مان لیا کرو اب کون اپنے شوہر سے یہ کان پکڑ کر اُٹھک بیٹھک کرواتا ہے۔شازل ماہی کی بات پہ فورن سے بولا

بیوی ہوں آپ کی اگر کہہ دیا تو کونسا بڑی بات ہوگئ ڈراموں میں تو کرتے ہیں ہیروں۔ماہی نے منہ بسور کر کہا

ہاں یہ ٹھیک ہے ڈراموں میں دیکھا تو تم نے سوچا ہوگا کیوں نہ اب اپنے مجازی خدا پہ ٹرائے کرے۔شازل نے طنزیہ کہا۔

اچھا نہ سوری۔ماہی اپنا سر اُس کے سینے سے ہٹاتی کان پکڑ کر کیوٹ شکل بنائے بولی تو شازل کو بے اختیار اُس پہ پیار آیا تبھی جھک کر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔

او شِٹ۔شازل کو کجھ یاد آیا تو بڑبڑایا۔ماہی جو آنکھیں بند کیے ماتھے پہ اُس کا لمس محسوس کررہی تھی شازل کی آواز پہ چونک کر آنکھیں کھول کر اُس کو دیکھا۔

کیا ہوا شازل؟ماہی نے پوچھا

میں تمہاری رپورٹس اپنے دوست کے پاس بھول آیا۔شازل نے بتایا تو ماہی کے چہرے کی رنگت پل بھر میں فق ہوئی تھی شازل کو دیکھ کر وہ رپورٹس والی بات بلکل فراموش کیے ہوئے تھی مگر اُس کو اب یاد آیا وہ پریگننٹ ہے جو بات وہ شازل سے چُھپانا چاہتی تھی اُس کو شازل کے ری ایکشن سے ڈر لگ رہا تھا اور اب بھی یہی ہورہا تھا۔

کیا یہ خوبصورت لمحات چند پل کے تھے؟شازل کا چہرہ دیکھ کر اُس نے بے اختیار سوچا

تھینک یو سو مچ ماہی مجھے اتنی بڑی خوشخبری دینے کے لیے تمہیں پتا نہیں جب ڈاکٹر نے مجھے رپورٹس پکڑا کر یہ بات بتائی تو میں کتنا خوش ہوا مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کے ایسا بھی کجھ ہوسکتا ہے میرا بس نہیں چل رہا تھا میں اُسی وقت اُڑ کر تمہارے پاس آجاتا مگر آ نہیں پایا۔ماہی اپنی سوچوں میں ہی مگن تھی جب شازل اچانک سے اُس کو خود میں بھینچ کر بولا تو ماہی کو در پہ در حیرت کے شدید جھٹکے لگ رہے تھے۔

تم کیا خوش نہیں؟شازل نے اُس کی طرف خاموشی محسوس کی تو اُس کا چہرہ سامنے کیے سنجیدگی سے پوچھنے لگا جواب میں ماہی رونے میں مصروف ہوگئ۔

ماہی سیلاب لانا ہے کیا رو کیوں رہی ہو؟شازل اب بیزار ہوا۔

میرا ڈر میری خوشی پہ غالب آگیا میں وہ خوشی محسوس ہی نہیں کرپائی جو ایک ماں اپنے پہلے بچے کے آنے کی خوشی میں کرتی ہے ۔ماہی ہچکیوں کے درمیان بتانے لگی۔

کس بات کا ڈر؟شازل نے پوچھا تو ماہی نے نظریں اُٹھا کر شازل کو دیکھا وہ سمجھ نہیں پائی شازل کو اب کیا جواب دے۔

مجھے لگا آپ میرے بچے کو قبول نہیں کرے گے بلکہ اپنا بچہ ماننے سے ہی انکار کردینگے۔ماہی کی بات پہ شازل کی کُشادہ پیشانی پہ بل نمایاں ہوئے تھے پل بھر میں اُس کی سفید رنگت غصے سے سرخ ہوگئ تھی۔

اِس بکواس کا مطلب؟یہ خناس خُرافات باتیں تمہارے اِس کوڑے دماغ میں کس نے ڈالی؟شازل اُس کی کنپٹی پہ نوک کرتا ضبط کی انتہا کو چھو کر پوچھنے لگا۔ماہی کی باتیں اُس کو کسی تماچے سے کم نہیں لگ رہی تھی مگر وہ اُس کے رونے کا اور جس کنڈیشن میں وہ تھی اُس کا لحاظ کررہا تھا ورنہ وہ کیا کر گُزرتا وہ خود نہیں جانتا تھا۔

آپ نشے میں تھے اُس رات۔ماہی شازل سے تھوڑا دور کھسک کر بولی

تو؟شازل کو سمجھ نہیں آیا

دوسرے دن آپ کا بیہیوئر نارمل تھا مجھے لگا آپ کو کجھ یاد نہیں اِس وجہ سے۔ماہی نے انگلیاں چٹخاکر کہا

تو؟شازل نے زور سے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا

تو میرے اندر بہت خدشات پیدا ہونے لگے اور میں نے اکثر ڈراموں میں دیکھا ہے ہیروں شراب کی حالت پہ سب کجھ کر دیتا ہے پھر دوسرے دن اُس کو کجھ یاد نہیں رہتا پھر جب ہیروئن ماں بننے والی ہوتی ہے نہ تو ہیروں اُس بچے کو اپنا ماننے سے انکار کردیتا ہے اور ہیروئن کو گھر سے بے دخل کردیتا پھر احساس اُس کو ڈرامے کی لاسٹ ایپیسوڈ میں ہوتا ہے۔ماہی نے آہستہ آواز میں اپنی کیفیت بھی بیان کی ساتھ میں ڈرامے کی کہانی بھی اُس کے گوش گُزار کی۔شازل بڑے ضبط سے اُس کی چلتی زبان کو دیکھ رہا تھا

یار ماہی میں تمہیں کیا کہوں معصوم یا حددرجہ بے وقوف۔شازل اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا جھجھنلا کر بولا

میں بے وقوف نہیں۔ماہی بُرا مان کر بولی

سب سے پہلے تم خود کو کسی ڈرامے کی ہیروئن اور مجھے ہیرو سمجھنا چھوڑ دو سچی بہت بڑا احسان ہوگا تمہارا میرے پہ۔شازل اُس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دانت پہ دانت جمائے بولا

ایسا کیوں کررہے ہیں آپ۔ماہی نے فورن سے اُس کے ہاتھ نیچے کیے۔

آج کے بعد تم کوئی ڈرامہ نہیں دیکھوں گی تمہارا جو یہ مینٹل پیس دماغ ہے نہ مزید خراب ہوتا جارہا ہے۔شازل نے اُس کو وارن کیا۔

آپ میری بے عزتی کررہے۔ماہی نے پھر سے رونے کی تیاری پکڑی

ماہی سب سے پہلے اپنا رونا بند کرو اگر تمہاری وجہ سے ہمارا بچہ روندو پیدا ہوا نہ تو میں تمہیں بخشو گا نہیں۔شازل اُس کے بار بار رونے پہ زچ ہوا

ہاں آپ کو تو بہانا چاہیے مجھ پہ غصہ ہونے کا۔ماہی روتی ہوئی بولی۔

ماہی تمہاری بات کسی بھی غیرت مند مرد کو بہت کجھ کرنے پہ اُکسا سکتی ہے میرا رویہ نارمل تھا تو تم کیا چاہتی ہو میں کیا کرتا دوسرے دن۔شازل کی بات پہ ماہی گڑبڑائی 

مجھے نیند آرہی ہے۔ماہی جمائی لیتی ہوئی بولی تو شازل اُس کی چلاکی پہ عش عش کر اُٹھا۔

پہلے یہ بتاؤ تم یہاں کیسے آئی؟شازل کو جو بات بار بار ستارہی تھی وہ بالآخر پوچھ لی۔

آپ نے مجھے امی کے جب گھر چھوڑا تو ایک ہفتے بعد اُن کو میری پریگنسی کا پتا چل گیا تھا گھر میں سب کو یہ بات جانے کیوں ناگوار لگی بابا اور اماں والے خلع کے کاغذات تیار کروانا چاہتے تھے مگر میں پریگننٹ تھی تو انہوں نے ایسا کجھ نہیں کیا آمنہ مجھ پہ بہت غصہ ہوئی تھی میں نے آپ سے یہ اتنی بڑی بات کیوں چُھپائی

تو کیا تم پہلے سے ہی یہ بات جانتی تھی؟شازل اُس کی بات کاٹ کر بولا تو ماہی نے کسی مجرم کی طرح اپنا سر جُھکالیا

میرے اتنے بار پوچھنے پہ بھی تم نے مجھے لاعلم رکھا؟شازل کو اب افسوس ہوا۔

سوری شازل اُس وقت میں جس کیفیت سے گُزر رہی تھی اُس کا شاید ہی آپ کو کجھ اندازہ ہو حویلی والوں کے سخت رویے کے بعد جس طرح آپ میری ڈھال بنے مجھے سہارہ دیا اُس کے بعد میں ٹوٹ جاتی اگر آپ مجھ سے نفرت کرنے لگ جاتے تو۔ماہی نے نظریں جُھکائے کہا

میں تمہارا ڈھال بنا تمہیں سہارا دیا مگر مجھے افسوس رہے گا میں تمہارا اعتبار تک نہ جیت سکا۔شازل کی بات پہ ماہی نے تڑپ کر شازل کو دیکھا

ایسی بات نہیں شازل مجھے خُدا کے بعد آپ پہ اعتبار ہے۔ماہی نے جلدی سے کہا

اگر اعتبار ہوتا تو یوں سہارا دے کر میں تمہیں بے سہارا کروں گا یہ بات نہ سوچتی تم تمہیں پتا ہے ماہی جو گھٹیاں بات تم نے کی ہے نہ وہ تو میں مر کر بھی نہیں سوچ نہیں سکتا تھا مگر تم نے سوچنا کیا بول بھی دیا۔شازل نے سنجیدگی سے کہا۔

مجھے معاف کردے غلطی ہوگئ۔ماہی نے ندامت سے کہا

کان پکڑ کر اُٹھک بیٹھک کرو تب میں سوچوں گا معاف کرنا ہے یا نہیں۔شازل تھوڑا مغرور ہوا

شازل آپ کو پتا ہے پریگننٹ ہوں آپ میری اِس کنڈیشن میں مجھ سے اُٹھک بیٹھک کرائے گے پھر اُس کے بعد بھی سوچے گے معاف کرنا ہے یا نہیں؟ماہی کا حیرت کے مارے مُنہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔

ہاں تو جس طرح اِس کنڈیشن میں چلنا کھانا پینا آرام کرنا ضروری ہوتا ہے اُٹھک بیٹھک بھی لازمی ہونا چاہیے ایسے پیٹ کم باہر نکلے گا۔شازل کی عجیب فلاسفی سن کر ماہی کی شکل دیکھنے لائق تھی اُس کے تاثرات جانچ کر شازل نے بڑی مشکل سے اپنے قہقہقہ کا گلا گھونٹا۔

شازل آپ بہت بہت بُرے ہیں بُرے سے بھی زیادہ بُرے ہیں۔ماہی اُس کے اُپر کشن پھینکتی چیخی۔

افففف اللہ ماہی ایک منٹ مجھے امیجن کرنے دو تم کیسی لگوں گی بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ۔شازل پھر بھی باز نہ آیا جلتی پہ تیل کا کام اُس نے خوب اچھے سے انجام دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

دو ماہ پہلے۔

تم نے تصویر دے کر تو مجھ پہ احسان کیا ہے اب اُس کا نام وغیرہ بتاکر دوسرا احسان بھی کردو۔آج شازل کو لاہور آئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا مگر اُس کو اُس آدمی کے بارے میں کجھ بھی معلوم نہیں ہوا تھا تبھی اُس نے تپ کر زین کو کال کی تھی۔

مجھے اگر یہ سب پتا ہوتا تو میں خود اُس کو لاہور سے یہاں گاؤں میں نہیں پکڑ آتا۔دوسری طرف زین بھی بُرے موڈ میں معلوم ہورہا تھا۔

تو یہاں تم نے مجھے تیلاب سے سوئی ڈھونے بھیجا ہے؟شازل جل کر خاک ہوا تھا

اپنے بھائی کا اصل قاتل ڈھونڈنے آئے ہو مجھ پہ کوئی احسان نہیں کررہے ہو جو اٹیٹیوڈ دیکھا رہے ہو اپنا یہ شاہوں والا لہجہ حویلی میں استعمال کیا کرو۔زین کو اُس کا لہجہ ایک آنکھ نہ بھایا تو کہا

مجھے اپنے لالہ کے لیے قاتل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں اور جو میں یہاں آیا ہوں اُس کو احسان ہی سمجھو کیونکہ ہم سب کی نظر میں قاتل تم ہو ایسے میں اگر وہ آدمی مل بھی جاتا ہے تو تمہارا فائدہ ہوا تمہارے ماتھے پہ لگا قاتل کا تھپا جو ہے نہ بڑے حرفوں سے لکھا وہ ہٹ جائے گا۔وہ بھی شازل تھا ایٹ کا جواب پتھر سا دینا اُس کو خوب آتا تھا۔

میں اپنے دوست سے کہوں گا وہ کجھ معلومات حاصل کرے۔زین نے جیسے جان چھڑائی۔

جی بڑا احسان ہوگا میں وکیل ہوں یہاں کا پرائم منسٹر یا اُستاد نہیں جو ہر ایک بندے کا مجھے پتا ہوگا میری جان پہچان ہوگی۔شازل اپنی بات کہتا کھٹکاک سے کال بند کرگیا دوسری طرف سے زین بس ضبط کرتا رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہی تم پریگننٹ ہو اور یہ بات تم نے شازل شاہ کو نہیں بتائی ہوش ہے تمہیں اِس بات کی وجہ سے کتنا غلط ہوسکتا ہے تمہارے ساتھ۔آمنہ نے ماہی سے ساری بات جانی تو اُس پہ چیخی

میں کیا کرتی مجھے ڈر تھا کہی شازل مجھ سے بدزن نہ ہوجاتے۔ماہی نے نم لہجے میں بولی

اور اب کیا اب اُس کو پتا نہیں چلے گا بے وقوف لڑکی وہ تو اب زیادہ بدزن ہوگا تم یہاں ہو شازل شاہ کو آج یا کل ساری بات پتا چل جانی ہے یہ ایسی بات نہیں جس کو تم چُھپانا چاہوں گی اور وہ چُھپ جائے گی۔آمنہ نے اُس کی عقل پہ ماتم کیا

مجھے کجھ نہیں پتا اُس وقت جو مجھے سمجھ آیا میں نے وہ کیا بنا انجام کا سوچے۔ماہی نے اپنا سر ہاتھوں میں گِراے بے بسی سے بتایا

میں نہیں جانتی تم حویلی جاؤ اور انہیں بتاؤ تم شازل شاہ کے بچے کی ماں بننے والی ہو پہلے جو بھی پر اِس حالت میں تمہارا یہاں رہنا صحیح نہیں۔آمنہ نے جیسے حُکم صادر کیا۔

میں ونی میں گئ تھی وہاں لاڈ یا چاہ سے بیاہ کر نہیں لیکر گئے تھے وہ جو میں کہوں گی میں شازل کے بچے کی ماں بننے والی ہوں اور وہ مجھے گلے سے لگادینگے۔ماہی سرجھٹک کر بولی

ماہی اچھا سوچو گی تو اچھا ہوگا وہ تمہیں چاہ سے بیاہ کر لے گئے ہو یا تم قصاص میں دی گئ تھی یہ ضروری نہیں ضروری یہ ہے کے اب تم اُنہیں وارث دینے والی ہو۔آمنہ اُس کے ساتھ بیٹھی سمجھانے لگی۔

آمنہ پلیز تم اِس وقت مجھے اکیلا رہنے دو۔ماہی نے التجائیہ انداز میں بولی تو آمنہ اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شازل کو دلدار شاہ کے قاتل کو تلاش کرنے میں آج ایک ماہ ہوگیا تھا اور اُس کو یہ معلوم ہوا تھا کے اُس کا نام غفار فراز ہے جو اب کسی بزنس کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا ہے تبھی شازل نے اسلام آباد کی ٹِکٹ بُک کروائی تھی اور اپنے دوستوں کو کال پہ اطلاع دے کر اُس غفار نامی شخص کے ساتھ ملاقات بھی فِکس کروائی تھی اِس لیے وہ اسلام آباد پہنچ کر سیدھا مونال ریسٹورنٹ آیا تھا جہاں غفار فراز اُس کے انتظار میں تھا۔

السلام علیکم۔شازل غفار سے مصافحہ کیے سلام کرنے لگا

وعلیکم السلام ویسے تو میں دُشمنوں سے ہاتھ نہیں ملاتا مگر تم سے ملادیتا ہوں۔غفار تیکھی نظروں سے شازل کا جائزہ لیتا ہاتھ ملاکر اُس سے بولا جو اُس کو ہوبہو شھباز شاہ کی کاپی لگ رہا تھا اگر دونوں میں کجھ فرق تھا تھا نیچر کا تھا۔

یہ تو مجھ ناچیز پہ آپ کا بہت بڑا احسان ہوا پتا نہیں میں اب میں یہ اتنا بڑا احسان کیسے چُکا پاؤں گا اگر آپ مجھ سے مصافحہ نہ کرتے تو میں تو کسی کو منہ دِکھانے کے قابل بہ رہتا۔شازل نے خاصا طنزیہ لہجہ اختیار کیا 

مجھے لوگوں کا اٹیٹیوڈ دیکھانا پسند نہیں اِس لیے مجھ سے بات کرتے وقت حد میں رہو۔غفار نے گھور کر کہا

زندگی میں بہت ایسے کام ہوتے ہیں جو انسان دل پہ جبر رکھ کر کرتا ہے ناچاہتے ہوئے بھی جیسے اب تم میری مثال لو اِس وقت تمہاری شکل مجھے بہت منہوس لگ رہی ہے مگر دیکھو میں کیسے پھر بھی تمہیں مسکراکر دیکھ رہا ہوں اور رہی بات حد کی تو سید شازل شھباز شاہ کی حد کیا ہے وہ یہ خود ڈیسائیڈ کرتا ہے کسی اور کو موقع دینے سے پہلے اُس کا نام نشان مٹادینا زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔شازل نے بڑی آسانی سے آپ سے تم تک کا سفر کیا

یہ بول تمہیں بہت مہنگے پڑسکتے ہیں۔غفار نے اُس کو وارن کیا

سستی چیزیں میں اپنی شوز کی نوک پہ رکھتا ہوں۔شازل نے یکدم اپنی ٹانگ ٹیبل پہ رکھ کر اُس کا رخ غفار کی جانب کیا جیسے اپنے چمکتے شوز دیکھانے چاہے پر غفار نے جلدی سے اپنا چہرہ دوسری جانب کیا۔

میرا وقت برباد کرنے کا مقصد؟غفار نے غصے سے پوچھا

میرے لالہ کا قتل کیوں کیا؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا

تم سے کس نے کہا میں نے قتل کیا ہے کوئی؟غفار نے طنزیہ کیا

میں چاہوں نہ مار مار کر تمہارا کچومڑ بنا سکتا ہوں پھر ایک منٹ میں تم تسلیم کرو گے کے تم نے قتل کیا ہے اِس لیے عزت سے پوچھ رہا ہوں عزت سے جواب دو۔شازل وارن کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

کچومڑ؟غفار ہنسا

ہاں کچومڑ جو میں ابھی تمہارا بنانے والا ہوں۔شازل اپنی شرٹ کے بازوں فولڈ کرتا اُس سے بولا تو ایک منٹ کے لیے غفار کے چہرے پہ گھبراہٹ کے تاثرات نمایاں ہوئے تھے۔

میں بتاؤں گا پر آج نہیں کجھ دن بعد جب تم میری بتائی ہوئی جگہ پہنچو گے۔غفار نے اُس کے خطرناک اِرادے جان کر جلدی سے کہا

گُڈ بوائے خوامخواہ کول مائینڈڈ بندے کا ٹیمپریچر لوز کررہے تھے۔شازل اُس کی بات پہ گہری مسکراہٹ سے اُس کا کندھا تھپتھپاکر بولا

💕💕💕💕💕💕💕

آپ اندر نہیں جاسکتی۔آمنہ کے بار بار اصرار پہ جب ماہی حویلی میں داخل ہونے لگی تو بڑے سے گیٹ پہ موجود چوکیدار اُس کے راستے میں حائل ہوتا بولا

کیا مطلب میں شازل شاہ کی بیوی ہوں آپ مجھے اندر جانے سے نہیں روک سکتے۔ماہی اپنی چادر کو کونا مضبوطی سے پکڑے چوکیدار سے بولی

ہم اندر سے یہی کہا گیا ہے آپ کو حویلی میں نہ آنے دیا جائے۔چوکیدار سنجیدگی سے جوابً بولا تو ماہی کی آنکھیں لبالب پانی سے بھرگئ 

مجھے اندر جانے دے اگر شازل کو پتا چل گیا نہ تو وہ کسی کو چھوڑے گے نہیں۔ماہی نے اپنی طرف سے اُن کو ڈرانا چاہا

دیکھے وہ یہاں نہیں ہیں آپ بھی یہاں سے جائے۔چوکیدار نے اب کی اُس کو دھکا دے کر کہا تو ماہی گِرتے گِرتے بچی

یہ کیا بدتمیزی۔ماہی چیخی

شور نہ کرے میڈم جائے یہاں۔اب کی دوسرا چوکیدار بھی بولا تو ماہی کو اپنی بے بسی پہ جی بھر رونا آیا اُس نے حسرت سے حویلی کو دیکھا جو بہت بڑی اور خوبصورت تھی مگر وہاں رہنے والے لوگ خوبصورت تو تھے مگر اُن کا دل بڑا نہیں تھا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔

شازل کہاں ہیں آپ؟ماہی بے ساختہ تصور میں اُس سے مخاطب ہوئی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

اب تم کیا کروگے؟ارحم نے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے شازل سے پوچھا

ابھی تو ہسپتال جانا ہے ضروری کام ہے وہاں جو میں بھول گیا تھا۔شازل نے جواب دیا

ہسپتال کیوں میری مانو فلحال تم کہی آنا جانا بند کرو ایک تو تم نے قاتل کو اتنا ایزی لیکر اُس کو دھمکایا ہے ڈر ہے وہ کہیں تمہیں بھی نہ نقصان پہنچادے۔ارحم نے اُس کو سمجھایا

میں کسی سے ڈرتا نہیں ہسپتال جانا میرا ضروری ہے پھر ملتے ہیں۔شازل فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اُس سے بولا

ان شاءاللہ ٹیک کیئر۔ارحم اُس کی بات سن کر گہری سانس بھر کر بولا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آپ بہت لیٹ آئے ہیں رپورٹس لینے۔ڈاکٹر نے شازل کو دیکھا تو کہا

جی بس مصروفیت کی وجہ سے خیر آپ یہ بتائے رپورٹس تو ٹھیک ہے نہ مطلب میری وائیف کو کیا ہوا تھا؟شازل تھوڑا فکرمند ہوا

جی پریشانی کی کوئی بات نہیں یہ میں پہلے سے بتاچُکی ہوں اور یہ رہی آپ کی وائیف کی رپورٹس جو پوزیٹو آئی ہیں ماشااللہ سے آپ باپ بننے والے ہیں۔ڈاکٹر نے مسکراکر رپورٹس اُس کی جانب کرکے بتایا تو شازل بے یقین نظروں سے اُن کو دیکھنے لگا 

سیریسلی؟شازل کے چہرے پہ خوشگوار تاثرات نمایاں ہوئے

جی بلکل پروف آپ کے سامنے ہیں۔ڈاکٹر کا اِشارہ رپورٹس کی جانب تھا۔

بہت شکریہ۔شازل رپورٹس ہاتھ میں لیتا خوشدلی سے بولا۔

افففف کاش میں ماہی کو سیل فون لیکر دیتا تو کم سے کم آج اُس سے بات تو ہوپاتی جانے اب وہ کیسی ہوگی اپنا خیال رکھ بھی رہی ہوگی یا نہیں۔شازل ہسپتال سے باہر آتا سوچنے لگا اُس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ تھی جس کو دور سے گاڑی میں بیٹھے کسی نے حسد بھری نظروں سے دیکھا اُس نے اپنے ہاتھ کی گرفت اسٹیئرنگ پہ مضبوط کی اور تیز رفتار سے گاڑی چلاتا شازل کا پیچھے کرنے لگا دوسری طرف  وہ بھی روڈ کراس کرنے والا تھا جب کوئی تیز رفتار گاڑی اُس کو ہِٹ کرکے جاچُکی تھی شازل کا سر بُری طرح پتھر پہ لگا تھا جس وجہ سے اُس کے سر سے خون بل بل کر نکل رہا تھا جب کی اُس کے ہاتھ میں پکڑی رپورٹس دور جاکر گِری تھی 

💕💕💕💕💕💕💕

حال!

صبح ماہی کی آنکھ شازل کے جاگنے سے پہلے کُھلی تھی وہ بہت غور سے شازل کو دیکھ رہی تھی جب اُس کی نظر شازل کے ماتھے پہ پڑی جہاں کسی چوٹ کا خاصا نشان تھا کل رات اپنی دُھن میں اُس نے غور نہیں کیا مگر اب اُس کے چہرے پہ فکرمندی کے سائے لہرائے تھے۔

یہ کس چیز کا نشان ہوگا؟ماہی اپنا ہاتھ شازل کے ماتھے پہ چوٹ کے نشان پہ رکھتی بڑبڑائی۔

جس چیز کا بھی ہو تمہاری عقل پہ یہ بات نہیں آنی۔شازل کی اچانک آواز پہ ماہی نے چونک کر اُس کو دیکھا جس کی آنکھیں تو بند تھی مگر ہونٹوں پہ شریر قسم کی مسکراہٹ تھی۔

ناراض ہوں میں آپ سے۔ماہی نے جتایا

میں بھی ناراض ہوں۔شازل سیدھا ہوکر لیٹا۔

یہ اچھی بات ہے روٹھے ہوئے کو ماننے سے بہتر خود بھی ناراض ہوجائے۔ماہی بُرا مان کر بولی تبھی شازل کا سیل رِنگ کرنے لگا۔

ہیلو رضا۔شازل ایک نظر ماہی پہ ڈال کر کال ریسیو کیے رضا سے کہا

شازل میں غفار کو لیے گاؤں پہنچ گیا ہوں تم بس گاؤں کے لوگ جمع کرو غفار سب کے سامنے سچ بتائے گا کے اُس نے تمہارے لالہ کا قتل کیوں کیا۔دوسری طرف رضا نے کہا

ٹھیک ہے میں پنچائیت بیٹھاتا ہوں۔شازل مختصر بول کر کال ڈراپ کرگیا۔

کس لیے پنچائیت بیٹھائے گے؟ماہی نے ناسمجھی سے شازل کو دیکھ کر پوچھا

مُبارک ہو تمہارے بھائی سے آج قتل کا الزام ہٹ جائے گا۔شازل مسکراکر بس یہی بولا

💕💕💕💕💕💕💕

حریم کیسی ہے؟آروش دُرید کے کمرے میں آتی اُس کا وارڈروب سیٹ کررہی تھی جب دُرید نے پوچھا

ٹھیک ہے آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ سب بچے کے آنے کی وجہ سے ہورہا ہے دیکھیے گا بچے کی پیدائش کے بعد وہ پہلے والی حریم بن جائے گی۔آروش کے لہجے میں اُمید کی کرن تھی جس کو محسوس کیے دُرید زِیرلب مسکرایا

تم اُس کا بہت خیال رکھ رہی ہو تبھی وہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے۔دُرید نے مسکراکر کہا

اگر وجہ میں ہوتی اُس کے ٹھیک ہونے کی تو وہ کب کا ٹھیک ہوجاتی مگر اُس میں بدلاؤ بچے کی وجہ سے آرہا ہے گھنٹوں پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر اُس سے باتیں کرتی ہے جیسے وہ سن یا سمجھ رہا ہو۔۔آروش سر جھٹک کر بتانے لگی 

ایسی باتیں مت کرو۔دُرید نے کہا تو آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی 

کیوں لالہ؟آروش نے بالآخر پوچھ لیا

اُس کے لیے سب سے ضروری میری ذات ہوا کرتی تھی اور اب جب کسی اور کو وہ اہمیت دے رہی ہے تو مجھے جیلسی ہو رہی ہے۔دُرید عجیب لب ولہجے میں بولا

وہ کوئی اور نہیں ہماری حریم کا بچہ ہوگا اور ابھی تو آپ جیلسی والا ورڈ یوز کررہے ہیں مجھے پتا ہے بچے کی آنے کی دیر ہے آپ نے دوسرے بچے کو بھی پالنا ہے جیسے حریم کا خیال رکھا تھا۔آروش جوابً بولی

تمہیں لگتا ہے حریم مجھے اتنا حق دے گی وہ بچے کے پاس میرا سایہ برداشت کرلے وہ ہی بڑی بات ہے۔دُرید کے لہجے میں مایوسی تھی۔

ایسی مایوسی والی باتیں آپ کب سے کرنے لگے لالہ یقین جانے آپ پہ بلکل سوٹ نہیں کررہی۔آروش دُرید کی باتیں سن کر اُداس ہوئی۔

زندگی بہت عجیب ہے آرو ہم سے وہ کام کروادیتی ہے جس کو کرنے کے بعد سوائے پچھتاوے کے کجھ نہیں ہوتا میں نے حریم کے لیے پُھولوں کی سیج کو چاہا تھا مگر میری وجہ سے اُس کا سامنا کانٹوں سے ہوگیا۔دُرید گہری سوچ میں ڈوب کے بولا تو آروش کا دل کٹ کے رہ گیا۔

سب کجھ ٹھیک ہوجائے گا لالہ آپ اُداس مت ہو مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔آروش دُرید کا اپنے ہاتھ میں لیکر التجا کرنے لگی 

میں اُداس نہیں ہوں آرو بس آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کررہا ہوں حریم مجھ سے نفرت کرنے لگی ہے وہ حریم علی جس کی زبان دُر لا دُر لا کہہ کر تھکتی نہیں تھی۔دُرید اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولا

آپ کجھ بھی کہہ لے لالہ مگر مجھے پتا ہے حریم مر تو سکتی ہے مگر آپ سے کبھی نفرت نہیں کرسکتی وہ آپ سے خفا ضرور ہے مگر وہ کبھی آپ سے نفرت نہیں کرسکتی یہ اُس کے بس میں نہیں ہے۔آروش نے کہا تو دُرید خاموش ہوگیا اُس کے پاس کہنے کو کجھ بچا ہی نہیں تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم تو ہمارے گاؤں کے نہیں پھر کیوں دلدار شاہ کا قتل کیے روپوش ہوگئے؟پنچایت میں بیٹھے موجود لوگوں میں سے ایک بزرگ نے غفار سے سوال پوچھا جو خاموش بیٹھا تھا باقی سب بھی اُس کے جواب کے منتظر تھے۔

میں دلدار شاہ کو قتل نہیں کرنا چاہتا تھا میرا مقصد شھباز شاہ کے بیٹوں کو قتل کرنا تھا مگر پھر میرا خیال بدل گیا۔غفار نفرت بھری نظروں سے شھباز شاہ اور شازل شاہ کو دیکھ کر بولا دُرید جب کی موجود نہیں تھا۔

میرے بیٹوں سے تمہاری کیا دُشمنی؟شھباز شاہ نے روعبدار آواز میں پوچھا

شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں غفار فراز ہوں جس کے باپ اور بہن کا تم نے قتل کروایا تھا اسی گاؤں میں۔غفار نے حقارت سے اُن کو دیکھ کر کہا تو شازل کی پیشانی میں بل نمایاں ہوئے تھے جب کی شھباز شاہ سوچ میں پڑگئے کے سامنے والا شخص کس قتل کے بارے میں بات کررہا ہے انہوں نے تو جانے کتنے قتل کروائے تھے اور کیے تھے تو یہ کون تھا جو بدلا لینے پہنچ گیا۔

میرے بابا سے تہمیز سے بات کرو ورنہ آئے تو اپنی ٹانگوں سے ہو جانے کے لیے کسی کے کندھوں کی ضرورت پڑے گی۔شازل نے سخت لہجے میں کہا

کس کی بات کررہے ہو تم؟شھباز شاہ شازل کو خاموش رہنے کا اِشارہ کیے غفار سے بولے

فراز احمد کا بیٹا غفار احمد اور کومل کا بھائی ہوں میں کیا اب بھی نہیں پہچانا مجھے میری بہن کا قتل کروایا تم نے کیونکہ وہ تمہارے بڑے بیٹے دُرید شاہ سے شادی کرنا چاہتی تھی میرے باپ کو خود تم نے مارا کیونکہ وہ انصاف چاہتے تھے۔غفار چیخا تو چہ مگوئیاں شروع ہوگئ تھی اُس کی بات سن کر جہاں شھباز شاہ خاموش ہوئے تھے وہی شازل نے شکر ادا کیا تھا کے دُرید شاہ نہیں ورنہ یقیناً وہ نئ تکلیف سے گُزرتا۔

جو ہوگیا سو ہوگیا بات ختم پنچایت ختم۔شھباز شاہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر روعب بھرے لہجے میں کہتے کھڑے ہوئے تو باقی سب بھی کھڑے ہوئے۔

مجھے انصاف چاہیے۔غفار تڑپا

اِس دُنیا میں کسی کو انصاف نہیں ملتا اگلے جہاں میں شاید تمہیں مل جائے۔شھباز شاہ کو تنکے کا بھی فرق نہیں پڑا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کجھ ماہ بعد!

وقت تیزی سے گُزرتا جارہا تھا ماہی کو پریگنسی کا سات ماہ تھا تو دوسری طرف حریم کا پانچواں مہینہ شروع ہوگیا تھا شازل نے ماہی کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا تھا اُس کی ہر ضرورت ہر بات کا خیال رکھا تھا تو کہی اُس کے گول مٹول ہوتے وجود کو دیکھ کر خوب رکارڈ بھی کر ڈالا تھا اُن دونوں کی زندگی بہت خوشگوار تھی جب کی حریم اب بھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئی تھی آروش نے اُس کا بہت خیال رکھا تھا مگر ایک سال ہوگیا تھا حریم نے دُرید سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی جب اُس کی شادی ہوئی تھی اُس دن کے بعد پھر کوئی بات نہ ہوئی۔

یمان مستقیم نے اپنا نام مزید بنایا تھا اب زوبیہ بیگم اُس کی شادی کروانے کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی تھی مگر ایک یمان تھا جو ہر بار ٹال مٹول دیتا۔

ارمان فجر کو پسند کرتا تھا یا شاید پسندیدگی سے زیادہ بات آگے کو تھی مگر اُس نے سوچ لیا تھا وہ اب مزید وقت برباد نہیں کرے گا اپنا پرپوزل فجر کے سامنے ضرور پیش کرے گا پھر چاہے فجر اُس کا سر ہی کیوں نہ توڑ دیتی اُس کو پرواہ نہیں تھی۔

💕💕💕💕💕💕

دیکھ لو شاہ آج پورے آٹھ ماہ بعد آیا ہوں اب تمہیں چاہیے اپنا واعدہ پورا کرو۔دلاور خان آج پھر شھباز شاہ کے ڈیڑے پہ موجود تھے مگر اِس بار وہ یہ عزم کیے ہوئے تھے کے آروش کو ضرور ساتھ لیکر جائے گے۔

میں اپنا واعدا پورا کروں گا آج آروش تمہارے ساتھ جائے گی وہ میری بات کبھی ٹال نہیں سکتی دوسرا میں نے اُس کو تمہارا بتادیا تھا۔شھباز شاہ بے تاثر لہجے میں بولے

تو پھر جلدی مجھے میری بچی سے ملواؤ بہت انتظار کیا ہے پچیس سال معمولی عرصہ نہیں۔دلاور خان بے چینی سے بولے

تم گاڑی تیار رکھو دو گھنٹے کے اندر وہ تمہارے ساتھ ہوگی۔شھباز شاہ بس یہی بول پائے۔

💕💕💕💕💕💕

کتنا وزن بڑھ گیا ہے میرا پیٹ بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے ڈریمون سے لیا ہے۔ماہی آئینے کے پاس کھڑی ہوتی ہر اینگل سے اپنا جائزہ لیتی بڑبڑائی

ماہی تم نے فروٹ کیوں نہیں کھایا دن بدن لاپرواہ ہوتی جارہی ہو تم۔شازل کمرے میں داخل ہوا تو اُس کی نظر پلیٹ پہ موجود فروٹ پہ پڑی جو جوں کا توں پڑا ہوا تھا تبھی شازل نے سختی سے کہا

شازل یہ دیکھے میں کتنی موٹی ہوگئ ہوں۔ماہی اُس کی بات نظرانداز کرتی روہانسے لہجے میں بولی

تمہیں تو میں روز دیکھتا ہوں میری گولوں مولوں بیوی۔شازل اُس کو اپنے حصار میں لیتا شرارت سے بولا

شازل مجھے موٹی نہیں ہونا۔ماہی رونے کے در پہ تھی 

ماہی تم موٹی ہوگئ ہو۔شازل نے اُس کو چِڑایا

شازل بات نہ کرے آپ مجھ سے۔ماہی اُس کا حصار توڑ کمرے سے باہر چلی گئ شازل بھی ہنستا بیڈ پہ بیٹھ گیا 

💕💕💕💕💕💕

تمہارا باپ آج تمہیں لینے آیا ہے تیار ہوجاؤ۔آروش باورچی خانے میں حریم کے لیے دودھ گرم کررہی تھی جب کلثوم بیگم نے اُس سے کہا

مجھے نہیں جانا اماں سائیں۔آروش کا دل زور سے دھڑکا اُن کی بات سن کر

بچوں جیسی باتیں مت کرو آروش تمہارے بابا سائیں نے واعدہ کیا ہے اُن سے اب تم کیا چاہتی ہو وہ اُن کے سامنے جھوٹے ثابت ہو۔کلثوم بیگم جذباتی لہجے میں کہا

بابا سائیں کہاں ہیں میں خود اُن سے بات کرلوں گی۔آروش اتنا کہتی جانے لگی جب کلثوم بیگم نے اُس کا بازوں پکڑ کر روکا

شاہ سائیں دُرید یہ دونوں حویلی نہیں شازل کو بھی کسی کام سے باہر بھیجا ہے تم تیار ہوجاؤ باہر تمہارا باپ تمہارے انتظار میں ہے۔کلثوم بیگم نے بڑی مشکل سے الفاظ ادا کیے

میں آپ لوگوں کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں لالہ والوں کو کیوں باہر بھیجا اگر وہ ہوتے تو مجھے کبھی جانے نہ دیتے۔آروش کی آنکھوں میں آج عرصے بعد نمی اُتر آئی تھی۔

حریم کو میں دودہ دے دوں گی تم جاؤ۔کلثوم بیگم اجنبی لہجے میں بولی تو آروش بس اُن کو دیکھتی رہ گئ اُس کو یقین نہیں آرہا تھا سامنے والی اُس کی اماں سائیں تھی جو آج ایسے بات کررہی تھی جیسے جانتی ہی نہ ہو

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش کو نہیں تھا پتا وہ کیسے اپنے کمرے میں گئ کیسے عبایا پہنا حجاب پہنا نقاب کیا وہ بس اپنی ماں کلثوم بیگم کا رویہ اور شھباز شاہ کے بارے سوچ رہی تھی جو اُس پہ جان نچھاور کرتے تھے مگر آج جب وہ جارہی تھی تو اُس کو پیار تک نہیں دے رہے تھے اپنی دعاؤں تک سے محروم رکھا ہوا تھا

حور میرا بچہ پہچانا اپنے باپ کو؟دلاور خان نے اُس کو گیٹ سے باہر آتا دیکھا تو مسکراکر اُس کے پاس آتے بولے جواب میں آروش نے نظریں اُٹھا کر خالی خالی نظروں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو اُس کا اصل باپ تھا وہ سمجھ نہیں پائی اُس کو کیا کرنا چاہیے اپنے اصل باپ کے ملنے کی خوشی منائے یا پچیس سالوں سے جس کو اپنا باپ سمجھا اُس سے الگ ہونے کا سوگ منائے

بیٹھو بہت ساری باتیں کرنی ہیں تم سے؟دلاور خان نے اُس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تو آروش بنا کجھ کہے بیٹھ گئ۔

اپنے باپ کو اپنا چہرہ تو دیکھاؤ۔دلاور خان ڈرائیونگ سیٹ پہ آکر اپنا رخ اُس کی جانب کیے اُس کا دستانے پہنے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے بولے تو آروش جیسے گہری نیند سے جاگی۔

گ گھ گھر چلے۔آروش کی زبان پہلی بار لڑکھڑائی تھی۔

اچھا ٹھیک ہے۔دلاور خان اُس کی بات پہ مسکرائے۔

تمہاری ماں اور بہن کراچی گئ ہوئی ہیں انویٹیشن پہ اُن کو پتا نہیں میں آج تمہیں لینے آرہا ہوں اگر پتا ہوتا وہ کبھی نہ جاتی دوسرا میں نے اُس کو سرپرائز دینے کا سوچا ہے خوبصورت سرپرائز تمہاری بدولت اور ایک بات تمہاری باقی تینوں بہنوں کو میں نے پاکستان آنے کا کہہ دیا ہے زرگل زرفشاں اور زرنور یہ ان شاءاللہ کل یا پڑسو تک آجائے گی بہت ناراض رہتی تھی مجھ سے مگر اب مجھے پتا ہے ناراضگی ختم ہوجائے گی اُن کی۔دلاور خان گاڑی ڈرائیو کرتے مسلسل اُس سے باتیں کیے جارہے تھے مگر آروش کی توجہ کا مرکز اُن کی باتیں نہیں بلکہ حویلی والے تھے اُس کو بہت دُکھ ہورہا تھا وہ جارہی تھی تو نہ اُس کو کسی سے ملنے دیا جارہا تھا تو نا کوئی اُس سے ملنے آرہا تھا۔

شازل لالہ کم سے کم آپ تو میرا ساتھ دیتے۔آروش نے بے ساختہ تصور میں شازل سے شکوہ کیا اُس کو اُمید نہیں یقین تھا اگر دُرید یا شازل میں سے کوئی حویلی میں ہوتا تو وہ کبھی آروش کو جانے نہ دیتے

 شاید اِس لیے بابا سائیں نے دونوں کو باہر بھیجا اور خود بھی چلے گئے۔آروش نے افسوس سے سوچ کر اپنے چہرے کا رخ ڈرائیونگ کرتے دلاور خان پہ کیا جو فل براؤن کلر کے کوٹ پینٹ میں ملبوس تھے بال شاید جیل سے سیٹ کیے ہوئے تھے چہرے کی رنگت گوری چِٹی صاف تھی اتنی کے اُبھری ہوئی رگیں بھی واضع ہورہی تھی اور چہرے پہ ہلکی سی ڈارھی تھی وہ اپنی عمر سے بہت کم ایج معلوم ہوئے اُس کو اُس نے شازل کے علاوہ کسی کو بھی جینز پینٹ شرٹ نہیں دیکھا تھا شھباز شاہ سے لیکر دُرید شاہ تک سب شلوار قمیض پہنا کرتے تھے جو اُن پہ بہت ججتی تھی جب کی شہر زیادہ رہنے کی وجہ سے شازل سوائے عید والے دن کے کبھی بھی شلوار قمیض نہیں پہنتا تھا۔

آروش اپنا سرجھٹک کر اپنا سر سیٹ سے ٹِکا کر آنکھیں موندلی تھی باقی کا سارا راستہ خاموشی کی نظر نہیں ہوا تھا دلاور خان کی ڈرائیونگ کافی تیز تھی آروش نے بہت بار سوچا کے آہستہ کہنے کا بولے مگر دل کی بات دل میں رہ گئ۔

آگیا ہمارا۔آروش جو اب نیند سے جھول رہی تھی دلاور خان کی آواز پہ چونک کر اُس نے سامنے دیکھا پھر اپنی سیٹ کا ڈور کھول کر باہر آئی تو ایک عالیشان گھر اُس کے سامنے تھا جو باہر سے اُس کی حویلی کی طرح بڑا تو نہیں تھا مگر خوبصورت ضرور تھا مگر آروش کو کوئی کشش محسوس نہیں کی اُس کی نظریں قطار پہ کھڑے مرد اور عورت کے ٹولے پہ تھی جو ہاتھ میں پھولوں کا تھال پکڑے ہوئے تھے یقیناً اُس کے استقبال کے لیے۔

تمہارا پہلا دن ہے تو سوچا کجھ اسپیشل کیا جائے اپنی چپل اُتاردو باقی کے راستہ تمہیں پھولوں پہ قدم  رکھ کر طے کرنا ہے اور اب تم یہ نقاب پہ ہٹا سکتی ہو۔دلاور خان اُس کو اپنے ساتھ لگائے مسکراکر بولے اُن کا چہرہ خوشی کے مارے چمک رہا تھا۔

اب کیا نامحرم مرد میرے اُپر پھولوں کی برسات کرینگے؟آروش نے دل میں سوچا اُس کے چہرے پہ ناپسندیدگی کے تاثرات اُبھرے تھے جو نقاب ہونے کی صورت میں کوئی دیکھ نہ پایا

مجھے پھولوں سے الرجی ہے آپ پلیز اِن سب سے کہے یہاں سے جائے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا تو دلاور خان کی مسکراہٹ پھیکی ہوئی۔

سوری بیٹا مجھے معلوم نہیں تھا۔دلاور خان نے بلاوجہ شرمندہ ہوئے انہوں نے نیچے دیکھا جہاں لائن سے پھول بِچھے ہوئے تھے پھر اُن سب ملازموں کو اِشارے سے جانے کا کہا

اندر آؤ۔دلاور خان اُس کا ہاتھ پکڑے اندر آئے۔آروش نے ایک چور نگاہ آس پاس ڈالی کسی کو نہ پاکر اُس نے اپنا نقاب اُتارا اُس کے چہرے کو دیکھ کر دلاور خان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی آج اُن کے چہرے پہ عجیب چمک اور باپ والی شفقت نمایاں تھی۔

ماشااللہ میری بچی تو میری سوچ اور باقی اولاد سے زیادہ پیاری ہے۔دلاور خان اُس کا ماتھا چوم کر بولے تو آروش کو بے ساختہ شھباز شاہ کی یاد آئی۔

مجھے پتا ہے تم ناراض ہو مگر میں تمہیں سب کجھ بتاؤں گا۔دلاور خان نے آروش کو خاموش دیکھا تو کہا

میرے سر میں درد ہے اگر آپ بُرا نہ مانے تو مجھے کسی کمرے کا بتائے آرام کرنا چاہتی ہوں۔آروش بس یہی بولی وہ چاہ کر بھی نارمل رویہ اختیار نہیں کرپا رہی تھی اُس کے لیے مشکل لگ رہا تھا بھلے وہ اُس کا باپ تھا مگر اُس نے ساری عمر کسی اور کو باپ دیکھا تھا کچی عمر سے لیکر جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے تک

ہاں کیوں نہ تم آرام کرو مجھے تمہارے آرام کا خیال ہی نہیں آیا باپ ہوں نہ اتنے سالوں بعد اپنی بچی کو دیکھا ہے تو سمجھ نہیں آرہا کیسے ری ایکٹ کرو۔دلاور خان اُس کی بات سن کر اپنے سر پہ ہاتھ مار کر بولے تو آروش مسکرا بھی نہ پائی۔

تمہیں پہلے کجھ کھانا چاہیے سفر لمبا تھا بھوک لگی ہوگی کجھ کھالوں اُس کے بعد پین کلر لیکر آرام کرنا تمہارا کمرہ میں نے تیار کروا دیا ہے تمہیں پسند آئے گا بہت۔دلاور خان کو اُس کی بھوک کا خیال آیا تو کہا

نہیں ابھی بس مجھے آرام کرنا ہے۔آروش نے انکار کیا

اچھا ٹھیک ہے تمہارا کمرہ اُپر ہے رائٹ جاکر جو پہلا کمرہ ہے وہ تمہارے بھائی کا ہے اُس کے ساتھ والا کمرہ میں نے تمہارے لیے سیٹ کیا ہوا ہے میں لیکر چلتا ہوں تمہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کمرے میں انٹرکام موجود ہے نہیں لیفٹ سائیڈ پہ کمرہ نور کا ہے اُس کے پاس جانا۔دلاور خان نے تفصیل سے بتایا

کچن کہاں ہوتا ہے؟اپنی بات کے جواب میں آروش کا یہ جواب سن کر دلاور خان چونکے ضرور تھے۔

کچن؟دلاور خان کو لگا جیسے انہوں نے سُننے میں غلطی کی ہو

جی کچن مجھے اپنے کام خود کرنا اچھا لگتا ہے۔آروش نے جواب دیا

یہاں بہت ملازم ہیں تم بس حکم کرنا یہ تمہارا اپنا خود کا گھر ہے تکلف کی ضرورت نہیں۔دلاور خان نے کہا

بات تکلف کی نہیں ۔۔۔۔۔'آروش نے نے کہا

یہاں سیدھا جاکر ٹرن لینا وہاں کچن ہے۔دلاور خان نے ایک جانب اِشارہ کیا تو۔۔۔۔۔۔۔"آروش نے سر اثبات میں ہلایا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ہیلو یمان کہاں ہو؟آروش کو اُس کے کمرے میں چھوڑ آنے کے بعد دلاور خان نے "یمان کو کال کیے پوچھا'

میں اسٹوڈیو ہوں خیریت؟یمان نے جواب دینے کے بعد پوچھا

ہاں مجھے کال آئی ہے شوٹ پہ جانا تھا تم گھر آسکتے ہو یہاں کوئی نہیں اور حور اکیلی ہوگی۔دلاور خان نے کہا۔

آپ نور آپی کی بات کررہے؟یمان کو لگا شاید اُن کو نام لینے میں غلطی ہوگئ ہے۔

نہیں یار تم بس گھر آنے کی تیار کرو ویسے بھی رات ہونے والی ہے۔دلاور خان نے عجلت دیکھائی

موم کہاں ہیں؟یمان نے اپنا سوال داغا

کراچی میں ہے بتایا جو تھا شادی میں انوائٹڈ تھے۔دلاور خان نے کہا تو بے اختیار یمان نے لب دانتوں تلے دبائے

سوری میرے مائینڈ سے نکل گیا تھا میں بس کجھ دیر تک آتا ہوں آپ اپنے شوٹ پہ جائے۔یمان ہاتھ میں پہنی گھڑی پہ وقت دیکھ کر کہا

ٹھیک ہے جلدی۔دلاور خان اتنا کہتے کال ڈراپ کرگئے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش اپنا عبایا اُتار کر تھوڑا لیٹنے کے بعد اپنے کمرے کا جائزہ لینے لگی جو پورا پِنک کلر سے ڈیکوریٹ تھا اور وائٹ کلر کے پردے لگائے ہوئے تھے جو بہت خوبصورت لگ رہے تھے اور عام طور پہ لڑکیاں یہ کلر زیادہ پسند کرتی تھی تبھی شاید دلاور خان نے اُس کا کمرہ اِس انداز سے تیار کروایا تھا مگر آروش کو پرپل کلر پسند تھا حویلی میں  اُس کا کمرہ سب سے بڑا اور خوبصورت پرپل کلر سے سیٹ کیا ہوا تھا ویسے تو حویلی میں سب کمرے ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر آروش کا کمرہ سب سے خاص تھا۔

اچھا ہے مگر میرا حویلی میں موجود زیادہ پیارا کمرہ ہے۔آروش بیڈ شیٹ کی سطح پہ ہاتھ پھیرتی بڑبڑائی"اُس کی نظر وال کلاک پہ پڑی جہاں رات کے دس بجے کا وقت ہورہا تھا۔

حویلی میں سب اِس وقت رات کا کھانا کھارہے ہوگے۔وقت دیکھ کر آروش کو خیال آیا

حریم دوائی کھاکر سوئی ہوگی بھی کے نہیں۔آروش کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آنے لگے۔

میں اپنے لیے چائے بناتی ہوں نیند تو ویسے نہیں آنی۔آروش کجھ سوچتی بیڈ سے اُٹھ کھڑی"دلاور خان نے جیسا اُس کو بتایا تھا وہ وہاں آئی تو بڑا سا کچن اُس کے سامنے تھا۔

حیرت ہے لائیٹ آن ہے لگتا ہے رات کے وقت لائیٹ آف نہیں کرتے۔آروش نے کچن کی لائیٹس آن دیکھی تو اپنا تُکا لگایا۔'پھر چلتی ہوئی فریج کی جانب آئی تاکہ دودہ نکال سکے مگر سامنے والی فریج بہت مختلف تھی اُس نے پہلی بار ایسی دیکھی تو تبھی اُس کو سمجھ نہیں آیا فریج کو کھولا کیسے جائے؟

فریج۔۔۔۔۔فریج ہوتی انسان عام بھی تو لے سکتا ہے مقصد تو صرف کولنگ کا ہوتا ہے نہ تو ایسی شو آف کرنے لیے عجیب وغریب فریج لینے کی کیا ضرورت جو دوسرا انسان یہ سمجھ نہ پائے کے فریج کو کھولا کیسے جائے؟آروش کو بہت دیر تک سمجھ نہیں آیا تو تپ کر بڑبڑائی۔""چاہے حویلی میں لیٹیسٹ چیزیں موجود ہوتی تھی اُس کو ہر چیز کا پتا ہوتا تھا مگر یہاں کی ہر چیز اُس کو عجیب لگ رہی تھی اگر وہ تھوڑا ٹھیک سے غور کرتی تو اُس کو معلوم ہوتا شازل کے اسلام آباد والے فلیٹ میں بھی ایسی فریج موجود تھی جس کو وہ آسانی سے کھول اور بند بھی کرچُکی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یمان گھر آیا تھا تو اُس کو بہت دیر ہوچکی تھی"وجہ"ٹریفک کا ہونا تھا دوسری بات اُس کو بھوک بھی لگی ہوئی تھی اپنے لیے کجھ آرڈر کرنے کا سوچ کر وہ اُپر کی جانب جارہا تھا جب اُس کو کجھ غیرمعمولی سا محسوس ہوا اُس نے گردن پیچھے کی جانب موڑی تو کچن کی لائیٹس آن نظر آئی جو کی اُس کے لیے حیرانکن بات تھی۔

اِس وقت کون ہوگا کچن میں؟یمان اپنی ڈارھی میں ہاتھ پِھیرتا پرسوچ انداز میں بڑبڑایا

اگر نور آپی ہیں تو اُن سے کہتا ہوں کجھ کِھیلادے۔نور کا خیال جیسے ہی یمان کو آیا اُس نے اپنے قدم کچن کی طرف بڑھائے جہاں اُس کو آروش کی پشت نظر آئی

نور آپی آپ ہیں ؟یمان نے آروش کی پشت کو دیکھا تو پیچھے سے آواز لگائی اُس کو لگا شاید نور ہو جب کی وہ یہ بات جانتا تھا نور ہیلدی اور لمبے قدم کی تھی مگر اِس وقت اِن چیزوں پہ غور کون کررہا تھا دوسری طرف وہ جو اپنے دھیان میں مگن تھی جانی پہچانی مرادنہ آواز پہ اُس کا دل اُچھل کر حلق میں آیا تھا وہ بے ساختہ پلٹی تھی یمان کی نظریں جو سامنے ہی تھی آروش کے پلٹنے پہ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر ابھی باہر آجائے گا'دوسری طرف آروش کا حال بھی اُس سے زیادہ مختلف نہیں تھی اُس کی شہد رنگ آنکھیں حیرت اور بے یقینی کے مارے پوری کُھلی کی کُھلی رہ گئ تھی وہ جو ہمیشہ اپنا چہرہ ہر ایک سے چُھپاتی تھی اُس کو آج یہ بھی خیال نہیں آیا تھا کے اُس کو حجاب تو تھا مگر چہرے پہ نقاب نہیں تھا مگر یمان کی نظریں اُس کے چہرے سے کسی بھی نقش دیکھنے کے بجائے آنکھوں پہ ٹِکی ہوئی تھی جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو کے ہاں سچ ہے یا محض اُس کی آنکھوں کا دھوکہ۔

آپ؟یمان کجھ توقع کے بعد بولنے کے قابل ہوا آروش کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر اُس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے تھے اُس نے تو خواب میں بھی آروش کو بنا حجاب یا نقاب کے دیکھنے کا نہیں سوچا تھا مگر آج وہ حقیقت بن کر یوں اُس کے سامنے تھی تو یمان کی نظر خودبخود احتراماً جُھک گئ۔ایک منٹ کے حصے میں اُس نے خود کو ہزار بار ملامت کی تھی چاہے اِس وقت آروش کو خیال نہیں آیا تھا مگر اُس کو تو چاہیے تھا نہ کے وہ اپنی محبت اپنے عشق کے پردے کا خیال رکھتا چاہے اُس نے اِس وقت کا حد سے زیادہ بے صبری سے انتظار کیا تھا مگر بنا کسی پاک رشتے کے اُس کے اندر کبھی یہ خواہش نہیں ہوئی تھی کے وہ آروش کا چہرہ دیکھتا اُس کی محبت پاک تھی اُس میں کسی بھی چیز کی حوس نہ تھی خوبصورتی کی نہ جسم کی۔۔اُس کو بس آروش شاہ چاہیے تھی جس کو اُس نے تب سے چاہا تھا جب وہ "محبت" کے "م" سے بھی پوری طرح سے ناواقف تھا۔

آروش جو حیرت سے گنگ کھڑی تھی یمان کے "آپ"کہنے پہ اُس کی حیرانگی میں اضافہ ہوا تھا تو کیا وہ اُس کو آج بھی یاد تھی مگر "کیوں"کیسے اُس کو پہچان بھی کیسے لیا۔اُس کی نظر یمان کی جُھکی نظروں پہ پڑی تو اُس کو یکدم خیال آیا وہ بے نقاب کھڑی ہے وہ بنا کجھ کہتی تیزی سے کچن سے باہر نکلتی بھاگتی اپنے کمرے کی جانب گئ۔یمان کی ڈھرکن اُس کے اتنا پاس آنے کے بعد دور جانے پہ تیزی سے دھڑکی ضرور تھی اُس کے اندر کا نظام درھم برھم ہوگیا تھا اُس کو امید تھی ایک دن سامنا ضرور ہوگا مگر یوں ہوگا یہ نہیں تھا پتا۔وہ جانتا تھا جب آروش شاہ اُس کے سامنے آئے گی تو وہ اپنے ہوش ضرور کھو بیٹھے گا مگر یوں اُس کی حالت غیر ہوجائے گی اِس طرح سے رونگھٹے کھڑے ہوگے یہ اُس کو نہیں تھا پتا۔ اُس کو ایک جگہ کھڑا ہوئے جانے کتنا وقت بیت گیا تھا اُس کے وجود میں ہلکی سی بھی جنبش نہیں ہوئی تھی اسٹل ہوکر کھڑا ہوگیا تھا جیسے خود کوئی مجسمہ ہو کجھ اور دیر گُزری پھر یمان کی حیرت آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی تھی بھینچے ہوئے ہونٹوں پہ خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا پھر یمان مستقیم کی مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی آج اُس کے ڈمپل کُھل کر سامنے آئے تھے چہرے پہ عجیب سی رونق در آئی تھی جس وجہ سے اُس کی وجیہہ شخصیت میں مزید نکھار آیا تھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا وہ سچ میں تھی؟ یا میرا وہم تھا؟ یمان کجھ بولنے کے قابل ہوا بھی تو یہی بول پایا۔ 

وہ سچ میں تھی مگر یہاں کیسے اور کیا میں اُن کو یاد تھا؟ یمان کچن سے باہر دیکھتا خود سے تانے بانے جوڑنے لگا۔ 

پہچانہ تبھی تو ایسے بھاگی۔یمان کو ہنسی آئی وہ کچن سے نکلتا اُپر کی جانب آیا تو اپنے کمرے میں کا دروازہ کھولنے والا تھا جب نظر اپنے پاس والے کمرے پہ پڑی جو آج کُھلا ہوا تھا ورنہ اکثر اُس نے بند دیکھا تھا 

تو کیا وہ میرے پاس والے کمرے میں قیام پزیر ہیں؟ یمان نے دور کی کوڈی پھینکی اپنے کمرے کے دروازے سے ہٹتا چلتا ہوا اُس کے کمرے کے دروازہ کے پاس پہنچا۔اُس نے دروازے کے پاس ہاتھ رکھ کر ابھی نوک کرنے والا تھا پھر رُک گیا

گھر میں تو ہمارے علاوہ کوئی نہیں ایسے میں کیا بات کروں گا میں اِن سے؟ خوامخواہ مجھے غلط سمجھ لے تو؟ یمان نے اپنے ہونٹ بے دردی سے کُچلے یہ اُس کی بچپن کی عادت تھی خود سے بڑبڑانے کی ساتھ میں ہونٹ دانتوں تلے دبانے کی۔ 

لیکن وہ یہاں کیسے کیوں یہ سولات مجھے بے چین کردینگے اور ابھی کوئی ہے بھی نہیں تو ساری رات کیسے کٹے گی؟یمان کا پریشانی سے بُرا حال تھا اُس کو سب کجھ جاننے کی جلدی تھی۔ 

وہ یہاں کیسے کیوں ہے کو رہنے دیتے ہیں اور وہ میرے پاس ہیں میں نے اُن کو دیکھا اِس بات کی خوشی مناتے ہیں۔ یمان نے بہت وقت بعد عقل کی بات سوچی۔

چل یمان اب صبح ہونے کا ویٹ کر کیونکہ یہ راز تو تب ہی کُھل سکتا ہے۔ یمان کمرے میں آکر بیڈ پہ گِرنے والے انداز میں لیٹ کر جیسے ہی آنکھوں کو بند کیا تو چھن سے آروش کا حیرانی سے بھرا خوبصورت چہرہ آیا جس پہ اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔ 

آنکھیں تو خوبصورت ہے مگر محترمہ خود بھی پیاری ہے ایویں تو میں اُن کو گرویدہ نہیں بنا خیر پیاری نہ بھی ہوتی تو میں نے اُن سے ہی عشق کرنا تھا۔یمان خود سے کہتا اپنی آنکھوں کو زور سے میچ گیا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش کمرے میں آتی اپنی سانسیں بحال کرنے لگی اُس کو یقین نہیں آرہا تھا اُس نے اتنے سالوں بعد یمان کو دیکھا تھا اُس سب سے جو زیادہ بات اُس کو حیرانگی میں مبتکلا کررہی تھی وہ یہ تھی آخر یمان نے اُس کو پہچان کیسے لیا؟

وہ یہاں کیا کررہا ہے؟آروش کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہلتی بڑبڑائی۔

تمہارا کمرہ اُپر ہے رائٹ جاکر جو پہلا کمرہ ہے وہ تمہارے بھائی کا ہے اُس کے ساتھ والا کمرہ میں نے تمہارے لیے سیٹ کیا ہوا۔

توں یہ اُن کا اشارہ اِس کی جانب تھا یہ ہے میرا بھائی؟آروش کے کانوں میں دلاور خان کے الفاظ گونجے تو بے تُکی سوچے اُس کے گرد منڈلانے لگی۔

نہیں یہ تو نہیں اُس کا گھر تو کراچی میں تھا نہ۔آروش نے اپنی سوچ کی نفی کی۔

میری بلا سے وہ جہاں بھی ہو میں کیوں اُس کو اپنے سر پہ سوار کررہی ہو مہمان ہوسکتا ہے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔آروش خود کو ڈپٹنے کے بعد بھی یمان کو سوچنے لگی اُس کا دل عجیب خوف کے احساس سے دھڑک رہا تھا۔

 💕💕💕💕💕💕💕

وہ ہماری بہن تھیں بابا سائیں آپ نے دوبارہ سے دھوکہ دیا ہے۔ دُرید کو اگلے دن جیسے ہی آروش کے جانے کا پتا چلا تھا وہ غصے سے بپھرا ہوگیا تھا۔جب کی شازل بے یقین سے بیٹھا تھا۔ 

اونچی آواز میں بات مت کرو دُرید باپ میں ہوں تمہارا تمہیں میرا باپ بننے کی ضرورت نہیں۔شھباز شاہ کو دُرید کا انداز ایک آنکھ نہ بھایا

بابا سائیں آپ نے اچھا نہیں کیا آرو ہماری بہن تھیں آپ کیسے اُس کو کسی کے ساتھ بھی رخصت کرسکتے ہیں۔ اب کی شازل غمزدہ لہجے میں اُن سے جواب طلب ہوا

وہ اُس کا باپ تھا اگر میں نے جانے دیا تو کجھ سوچ کر ہی جانے دیا ہوگا۔ شھباز شاہ تنگ آکر بولے

مجھے نہیں پتا آپ نے کیا اور کیوں سوچا؟ مگر بات یہ ہے آپ نے ہمیں دھوکے سے اپنے کاموں میں اُلجھا کر آروش کو بھیج دیا۔دُرید نے ناگواری سے کہا

کوئی دھوکہ نہیں دیا تھا اب جاؤ دونوں۔شھباز شاہ نے جانے کا اِشارہ کیا

بابا سائیں میں آرو واپس لاؤں گا اگر آپ یہاں اُس کو حویلی میں نہیں رکھ سکتے تو کوئی بات نہیں میں اپنے گھر لیکر جاؤں گا۔شازل کا انداز بے لچک تھا

پاگلوں والی باتیں کرنے کی ضروری نہیں آروش اپنے ماں باپ بہنوں کے پاس ہے اِس لیے کسی کو بھی اُس کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں اور کوئی تب تک اُس سے نہیں ملے گا جب تک آروش اپنے ماں باپ کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوجاتی۔شھباز شاہ نے سخت رویہ اختیار کیا۔

وہ کبھی اُن لوگوں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگی آپ یہ بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کررہے کہاں گئ آپ کی وہ محبت جو اپنی بیٹی سے کرتے تھے مجھے تو سمجھ نہیں آرہا آپ نے اُس کو جانے کیسے دیا آپ کوئی بھی بہانا کرکے اپنے دوست کو ٹال سکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا وہ اتنے سالوں بعد آیا اور آپ نے آروش کو اُس کے ساتھ جانے دیا پتا نہیں وہ کیسے ہوگی؟ اُن کے گھر کا ماحول کیسا ہوگا؟آروش کیسے ایڈجسٹ کرپائے گی؟اُس کو تو اپنے کمرے کے علاوہ کہیں سکون بھی نہیں آتا۔شازل یہاں سے وہاں چکر لگاتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پریشانی کے عالم میں بولتا گیا۔

سکون کا سانس تم لو جہاں وہ اِس وقت موجود ہے وہ اُس کے والدین کا گھر ہے بلکل ایسا ہی ماحول ہے جیسا یہاں ہے۔شھباز شاہ نے ایک نظر اُس کے پریشان چہرے پہ ڈال کر کہا

سیریسلی اگر اُن کا ماحول ہماری حویلی جیسا ہوتا تو پچیس سال پہلے وہ اپنی بیٹی آپ کو نہ دیتے پالنے کے لیے بلکہ خود اُس کی کفالت کرتے جانے کیسا باپ تھا۔۔۔جو اپنی بیٹی کے لیے آواز نہ اُٹھا پایا۔دُرید اُن کی بات سن کر دانت پیس کر بولا۔

تم دونوں حد سے بڑھ رہے ہو۔شھباز شاہ کا دل چاہا دونوں کے منہ پہ تھپڑ ماردے۔

ہمیں تھپڑ مار کر اپنا شوق بھی پورا کرلے مگر ہمیں اپنی بہن چاہیے۔شازل نے جیسے اُن کو اندر تک جانچ لیا۔

اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔شھباز شاہ نے اُس کو گھورا

یہ سیریس میٹر ہے بابا سائیں آپ نے ایسا کیوں کیا؟دُرید کی سوئی ایک ہی بات پہ اٹکی ہوئی تھی۔

میں جانتا ہوں تم دونوں کی آروش سے محبت تم دونوں کو پتا چلتا تو اُس کو جانے نہ دیتے اور آروش تم دونوں کی ایسی حالت دیکھتی تو وہ کمزور پڑجاتی کبھی نہ جاتی تبھی میں نے ایسا کیا سن لیا جواب اب ہوگئ تسلی۔شھباز شاہ نے سنجیدگی سے کہا

نہیں ہوئی تسلی اور تب نہیں ہوگی جب آپ آرو کو واپس لائینگے۔شازل نے اُن کی بات سے انحراف کیا

تم آج میرے ہاتھوں سے مار کھاؤ گے شازل باپ بننے والے ہو اُس کا لحاظ کرو ایسا نہ ہو میں تمہاری اولاد کے سامنے دُھلائی کرو۔شھباز شاہ کی بات پہ شازل کا منہ حیرت سے کُھلا تھا

میں آپ کو آپ کے اِن عظیم خیالوں اِرادو میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دوں گا اور یہ کیا بات ہوئی باپ بننے والے ہو تو کیا کرو گُونگا بن جاؤ۔شازل ایک سانس میں بولا

اپنی توں توں میں میں بند کرو۔شھباز شاہ نے ڈپٹا۔جب کی دُرید ایک تاسف بھری نگاہ اُن دونوں پہ ڈال کر چلاگیا۔

میں خود یہاں سے چلا جاتا ہوں مگر ایک بات میں آپ کو بتادوں سخت قسم کا ناراض ہوں میں۔شازل بھی جاتے وقت اُن کو جتاگیا 

ایک سے بڑھ کر ایک نکمی نالائق بیٹے میرے ہی ہونے تھے۔شھباز شاہ نے دونوں کے جانے کے بعد اپنا سر پکڑلیا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

شازل پریشان ہیں آپ؟ماہی نے شازل کو کمرے میں آتا دیکھا تو فکرمندی سے اُس کی جانب دیکھا۔

مجھے کیا پریشان نہیں ہونا چاہیے آرو میری بہب تھی وہ یہاں سے کل چلی گئ اور مجھے اب پتا چل رہا ہے۔شازل نے افسوس سے کہا

میں جانتی ہوں آپ بہت افسردہ ہیں مگر یہ تو ہونا تھا نہ وہ کب تک یہاں رہتی آروش نے ساری حقیقت جان لی تھی اُس کو ماں باپ کے پاس تو جانا تھا نہ۔ماہی شازل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی۔

اُس کو نہیں جانا چاہیے تھا مجھے بہت غصہ ہے خود پہ سب پہ۔شازل بس یہی بولا

غصہ بے وجہ ہے آپ کو چاہیے بس اُس کے لیے دعا کرے کے وہ یہ حقیقت جلدی سے قبول کرلے۔ماہی نے اُس کو سمجھایا

ہممم خیر تم کھڑی کیوں ہو بیٹھو۔شازل کو اچانک خیال آیا تو جلدی سے اُس کو بیٹھنے میں مدد کی۔

آپ اپنی پریشانی دور کرے اور میں ٹھیک ہوں۔ماہی نے مسکراکر کہا

نظر آرہا ہے ماشااللہ سے دن بدن گول مٹول ہوتی جارہی ہو۔شازل اپنی جون میں آتا شرارت سے اُسکو دیکھ کر بولا

آپ پریشان اچھے تھے۔ماہی شازل کی بات پہ بدمزہ ہوتی بولی

ہاہاہاہاہا بہت بُری بیوی ہو اچھی بیویاں شوہروں کو پریشان دیکھ کر خود بھی رونے لگ جاتی ہیں اور ایک تم ہو۔شازل اُس کی بات پہ قہقہقہ لگاتا ہوا بولا۔

شوہر اگر آپ جیسے ہو تو مجھ جیسی بیویاں شکر ادا کرتی ہوگی۔ماہی دانت پیس کر کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

کہاں جارہی ہو بیٹھو یہی اگر کہی گِر وِر گئ تو کون اُٹھائے گا مجھے میں تو اتنی طاقت نہیں دوسرا کرین آنے میں بھی وقت لگ جائے گا۔شازل نے اُس کو باہر جاتا دیکھا تو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بیٹھائے شریر لہجے میں کہا۔

میں اگر بُری بیوی ہوں تو آپ بھی کوئی اچھے شوہر نہیں۔ماہی اُس کے ساتھ بیٹھ کر منہ بناکر بولی

اب جیسے کو تیسا ملتا ہے۔شازل ہنکارہ بھر کر بولا تو ماہی روہانسی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

جب سے کیا ہے دلبر

میں نے دیدار تیرا

ہرپل مجھے رہتا ہے

بس انتظار تیرا

کوئی جادوں!!!!!!!!!!!

ہاں کوئی جادوں

بار بار ہونے!!!!!! لگا ہے

مجھے کو تیرا انتظار ہونے لگا ہے

کہتے ہیں میرے یار

یمان۔

یمان جو صبح سویرے اپنے کمرے سے نکلتا سیڑھیاں اُتررہا تھا ساتھ میں خوشگوار موڈ میں گانا گاتا جارہا تھا تو ہال میں بیٹھے دلاور خان نے اُس کو ایسے دیکھا تو پُکارا

یس ڈیڈ۔یمان جو کچن میں جانے والا تھا دلاور خان کی آواز پہ اُن کی جانب متوجہ ہوا۔

خیریت ہے؟دلاور خان نے بغور اُس کا جائزہ لیے پوچھا جو آج روز معمول سے زیادہ تیار تھا یا ان کو ایسا لگ رہا تھا۔

جی سب ٹھیک ہے پر آپ کیوں؟ایسے پوچھ رہے ہیں۔یمان نے اپنے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ سجا کر بولا تو دلاور خان کو غش آتے آتے رہ گیا ایسا اتنے سالوں میں پہلی بار ہوا تھا جو یمان اتنا خوش اور بات پہ بات مسکرا رہا تھا۔

تم آج ضرورت سے زیادہ خوش نظر آرہے ہو ماشااللہ اچھی بات ہے مگر وجہ سمجھ نہیں آرہی تمہاری اِس خوبصورت مسکراہٹ کی۔دلاور خان نے صاف گوئی سے کہا تو یمان اپنے اپنے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتا قہقہقہ لگانے لگا تو دلاور خان کو سمجھ نہیں آیا انہوں نے ایسا بھی کیا لطیفہ سُنادیا۔

کیا آپ کو میری مسکراہٹ پسند نہیں آرہی؟یمان مصنوعی افسوس سے بولا

بلکل پسند آرہی ہے بلکہ میری تو سالوں سے یہ حسرت تھی تمہیں یوں خوش باش دیکھنا۔دلاور خان نے جلدی سے کہا

اچھا ڈیڈ میری چھوڑے یہ بتائے کیا گھر میں کوئی مہمان آیا ہے ہمارے؟یمان اپنے مطلب کی بات پہ آیا جو کل رات سے اُس کو بے چین کیے ہوئی تھی۔

کیا تم نے حور کو دیکھا؟دلاور خان نے مسکراکر پوچھا

حور کو تو نہیں پری کو ضرور دیکھا۔یمان کی آنکھوں کے پردے میں آروش کا سراپا لہرایا تو اُس کے منہ سے بے ساختہ پھسلا

مطلب؟دلاور خان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگے 

وہ میرا مطلب میں پوچھ رہا تھا کون حور؟یمان گڑبڑا کر بولا

حور میری بیٹی تمہیں بتایا تھا نہ میں اُس کو لینے جارہا ہوں پھر یہ بھی رات بتایا تھا حور اکیلی ہے تم جلدی آجانا۔دلاور خان پرجوش لہجے میں اُس کو بتانے لگے۔

کیوں دوبارہ ہارٹ اٹیک دلوانا چاہتے ہیں ڈیڈ۔یمان اپنی گردن پہ ہاتھ پھیرتا بڑبڑایا۔۔۔۔اُس کی سوئی بس "بیٹی"لفظ پہ اٹک گئ تھی۔

کیا بڑبڑائے ہو زور سے کہو تاکہ میں بھی تو سُنوں۔دلاور خان نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر کہا

وہ کون بیٹی ہے آپ کی جن کی آنکھیں شہد ہیں؟یمان فورن سے اُن کے پاس آتا بے چینی سے پوچھنے لگا اُس کا رواں رواں کان بن گیا تھا۔

ہاں حور کل تم اُس سے ملے؟دلاور خان اپنی خوشی میں یمان کی بے چینی محسوس ہی نہیں کرپائے جو اُس کے چہرے پہ صاف عیاں تھی۔

مگر اُنہوں نے تو اپنا نام سیدہ آروش شاہ بتایا تھا۔یمان سامنے کی جانب اپنا رخ کیے ایک چور نگاہ دلاور خان پہ ڈالی۔

ہممم بس میں لاچار باپ نہ بنتا تو آج میری بیٹی خود کو خان خاندں کا کہلواتی شاہ خاندان کا نہیں۔دلاور خان افسوس بھرے لہجے میں بولے تو یمان کے ماتھے پہ ناسمجھی والی لکیریں اُبھری

میں سمجھا نہیں؟یمان پوری طرح سے دلاور خان کی جانب متوجہ ہوا

تمہیں سب کجھ تو بتایا ہوا ہے میری پانچویں بیٹی میرے دوست کے پاس ہے وہ حور آروش ہے میری بیٹی جو اب میرے پاس رہے گی۔دلاور خان نے مسکراکر بتایا تو یمان کی آنکھیں بے یقینی سے پوری طرح کُھلی کی کُھلی رہ گئ

آپ مذاق کررہے ہیں؟یمان بس یہی بول پایا

میں کیوں تم سے مذاق کروں گا کیا وہ تمہیں میری بیٹی نہیں لگی؟دلاور خان بُرا مان گئے

مگر وہ تو۔یمان اتنا کہتا خاموش ہوگیا

میرا دوست سید تھا اِس لیے حور بھی خود کو سیدہ بتارہی مگر وہ سیدہ نہیں ہے میری بیٹی ہے اُس کی رگوں میں سیدزادے کا خون نہیں پٹھانوں کا خون ہے۔دلاور خان نے اُس کی آدھی بات کا مطلب اخذ کیے بتایا

تو یمان کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا ری ایکشن دے اپنا۔۔۔۔سالوں پہلے جس وجہ کے طور پہ اُس کی محبت کو ٹھکرایا گیا تھا اصل میں وہ حقیقت تھی ہی نہیں۔

ایسا بھی ہوتا ہے؟یمان سر جھٹک کر بولا

کیا مطلب؟دلاور خان کو سمجھ نہیں آیا

میرا مطلب اگر وہ آپ کی بیٹی ہے مگر پرورش تو کہیں اور سے پائی ہیں تو کیا انہوں نے اتنے سالوں بعد جس کو باپ مانا جس خاندان کا طور اطوار قبول کیا تھا اچانک سے اگر سب بدل جائے تو کیا وہ نارمل رہی کجھ کہا نہیں ہے آپ سے شکوہ شکایت نہیں کی؟یمان کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے تبھی یہی کہا

کل آئی ہے بہت بات چیت وغیرہ بھی نہیں ہوئی آج اُس کی ماں بھی آجائے تو کیا پتا وہ اپنا دل کھول دے۔دلاور خان نے کہا

ناشتہ کیا ہے انہوں نے؟یمان کو فکر ہوئی

نہیں سو رہی ہے شاید میں گیا تھا پر اُس نے دروازہ نہیں کھولا۔دلاور نے کہا

اب تک تو اُٹھ جانا چاہیے تھا دس بج رہے ہیں پتا نہیں کل کجھ کھایا ہوگا یا نہیں۔یمان نے اپنا لہجہ سرسری بنائے کہا

میں دیکھتا ہوں۔دلاور خان کو بھی خیال آیا تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شھباز شاہ کمرے میں آئے تو کلثوم بیگم کو گم سم بیٹھایا پایا۔

کیا ہوا؟شھباز شاہ اندر داخل ہوئے استفسار ہوئے

آروش بہت اُداس ہوکر گئ ہے آپ نہ خود ملے نہ مجھے ٹھیک سے ملنے دیا جانے وہ کیا سوچ رہی ہوگی۔کلثوم بیگم نم لہجے میں بولی

مجھے میں اتنی ہمت نہیں تھی جو میں اُس کو یہاں سے جاتا ہوا دیکھتا۔شھباز شاہ سنجیدگی سے بولے کل سے وہ خود اضطرابی کیفیت کا شکار تھے۔

میں نہیں جانتی شاہ سائیں بس میرا دل اُداس ہورہا ہے بار بار آروش کا منت بھرا التجا کرتا چہرہ آرہا ہے آپ کو پتا ہے نہ وہ کتنا پیار کرتی ہے سب سے۔کلثوم بیگم نے کہا تو انہوں نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا

بس کجھ دنوں کی بات ہے پھر بات وغیرہ کرلینا۔شھباز شاہ نے کہا

میں ملنا چاہوں گی۔کلثوم بیگم اُن کی بات سن کر بولی

ملنا ٹھیک نہیں ابھی۔شھباز شاہ نے ٹوکا تو وہ خاموش ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

میں اندر آسکتا ہوں؟دلاور خان نے آروش کے کمرے کا دروازہ کُھلا دیکھا تو مسکراکر پوچھا

ج جی۔آروش جو اپنی سوچو میں گُم تھی اُن کی آواز سن کر چونک پڑی۔

ناشتہ تیار ہے سوچا تمہیں بتادوں کل رات بھی تم نے ٹھیک سے نہیں کھایا کجھ تمہاری والدہ صاحبہ بھی آنے والی ہیں تھوڑی دیر تک۔دلاور خان اُس کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیر کر بولے

مجھے دراصل بابا سائیں سے بات کرنی ہے پتا نہیں انہوں نے کل رات دوائیں کھائی ہوگی بھی یا نہیں اور صبح کا ڈوز بھی دیتی ہوں اُن کو اگر وقت سے دوائیں نہ کھائے تو طبیعت بِگڑ جاتی ہے اُن کی۔۔ اگر آپ کے پاس نمبر ہے تو میری بات کروادے مجھے حریم کے بارے میں پوچھنا تھا پریگنسی کا پانچواں ماہ ہے اُس کا اور وہ کمزور ہے بہت اِس لیے اُس کی اچھی خوراک اور واک وغیرہ کا خیال میں کرتی ہوں ورنہ اُس کو تو کجھ ہوش نہیں ہوتا کے خود سے کرلے کجھ اور کل اُس کی ڈاکٹر کے ساتھ اپائمنٹ ہیں منتھلی چیک اپ کی شاید اب ڈاکٹر دوائی الگ کوئی دے اُس کی ڈائیٹ وغیرہ کا بتائے حریم کی رو رپورٹس تک میرے پاس ہیں کسی اور کو نہیں پتا اُس کا۔ ۔آروش دلاور خان کی بات کے جواب میں یہ بولی اُس کو صرف اور صرف کبھی حریم کی فکر ستاتی تو کبھی شھباز شاہ کی اگر اُن دونوں سے دھیان ہٹتا تو سوچو کا رخ دُرید اور شازل کی جانب چلا جاتا

شاہ کوئی بچہ تو نہیں اور حور تمہارا والد میں ہوں اور رہی کوئی حریم تو اُس کا خیال بھی اب کوئی اور رکھ لے گا تمہیں اُس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔دلاور خان تھوڑا سنجیدہ ہوئے اُن کو لگ رہا تھا وہ اپنی ماں یا بہن کا پوچھے گی مگر اُس کی توجہ کا مرکز حویلی والے تھے جو اُن کو بُرا لگ رہا تھا۔

میرا پیدائشی نام آروش ہے اور میں جانتی ہوں وہ کوئی بچے نہیں پر میرے بابا ہے جیسے اُن کو میری فکر ستاتی ہے ٹھیک مجھے بھی ستارہی ہے اور وہ کوئی حریم نہیں ہے میری پُھپھو کی بیٹی ہے مجھے چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز ہے مانا کے وہاں بہت سارے لوگ ہیں جو اُس کا خیال رکھ سکتے ہیں مگر اُس کو میری عادت ہوگئ ہے سارا کجھ مجھے پتا ہے کے کب حریم نے کونسی دوا کھانی ہے؟کب حریم کو کھانا کِھلانا چاہیے؟ کب اُس کو واک کروانی ہے؟ کب اُس کو آرام کرنا چاہیے؟ اور میں یہ بھی جان گئ ہوں میرا خون کا رشتہ آپ کے ساتھ ہے مگر احساس؛محبت؛ کا ایک مضبوط رشتہ ہے جو میرا اُن لوگوں کے ساتھ جڑا ہے میں نے اپنی زندگی کے پچیس سال وہاں گُزارے ہیں جس میں میرے والد سید شھباز شاہ تھے اور اب بھی ہیں میرے دل میں اُن کے لیے محبت میں کمی نہیں آئی اور نہ آئے گی شاید باپ اور بیٹی کا رشتہ خدا نے بنایا ہی کجھ اِس طرح ہیں جو میرے والد میں بہت عیب ہونے کے باوجود میرے دل میں اُن کے لیے کینا نہیں آیا کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی کبھی یہ خیال نہیں آیا کے کاش میرے بابا سائیں ایسے نہ ہوتے کیونکہ وہ جیسے بھی ہیں میرے بابا ہے مجھے ہر حال میں قبول ہے میری جان بستی ہے اُن میں۔میرے آئیڈیل بابا ہے آپ کو نہیں پتا میں ہر نماز کے بعد نفل ادا کرتی ہوں کسی میں اپنے بابا کی لمبی دعا مانگتی ہوں تو کسی میں اُن کے گُناہوں کی معافی اور یہ کام میں تب سے کرتی ہوں جب میں نے اپنی آنکھوں سے اُن کو قتل کرتا دیکھا تھا(آروش کو وہ پل یاد آیا جب شھباز شاہ نے فراز احمد کو گولی ماری جو سیدھا اُن کے سینے میں پیوست ہوئی تھی) عام طور پہ ایسے حالات میں بچہ حراس ہوجاتا ہے اُس کو بُرے بُرے خواب آتے ہیں ڈر لگنے لگتا ہے اُس انسان سے مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا نہ مجھے اپنے بابا سے ڈر لگا نہ میں حراس ہوئی اور نہ بُرے خوابوں نے مجھے ستایا کیونکہ میرے بابا سائیں کی محبت کجھ اِس انداز سے تھی کے کب میں اُن سے بدگمان ہو ہی نہیں پائی جتنا پیار انہوں نے مجھے دیا ہے شاید ہی کوئی باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہوگا اُن کا میرے ساتھ خون کا رشتہ نہیں تھا یہ بات وہ جانتے تھے میں نہیں تو میں  ساری حقیقت جاننے کے بعد اکثر یہ سوچتی تھی اگر میں اُن کی اپنی خود کی بیٹی تو پھر جانے وہ میرے لیے کیا کرتے؟میرے منہ سے شاید آپ کو اُن کا ذکر بُرا لگ رہا ہو مگر میری زبان اُن کے ذکر کی عادی ہے جو میرے دل میں اُن کے لیے جگہ ہے وہ کسی کی بھی نہیں ہوسکتی میں ہر ایک چیز کے بغیر رہ سکتی ہوں مگر اپنے بابا سائیں کے بنا نہیں۔آروش کو دلاور خان کا انداز پسند نہیں آیا تھا اِس لیے جو جو منہ میں آتا گیا وہ بولتی گئ کیونکہ اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار شھباز شاہ کے ساتھ گُزارا ہوا ہر لمحہ کسی فلم کی طرح چل رہا تھا جب کی دلاور خان دنگ سے ہوگئے تھے اُس کی شھباز شاہ سے ایسی محبت دیکھ کر جانے کیوں اُن کو اب اپنے سالوں پہلے لیے گئے فیصلے پہ پچھتاوا ہو رہا تھا۔

ٹھیک ہے میں آروش کہوں گا تمہیں اگر حور نام پسند نہیں تو اور مجھے بُرا نہیں لگے گا کیونکہ میں جانتا ہوں تم نے اپنی زندگی کا ایک حصہ وہاں گُزارا ہے ساری حقیقت کو تسلیم کرنا تمہارے لیے آسان نہیں میں نے جو سالوں پہلے فیصلہ لیا تھا اُس کے لیے تم ہم سے ناراض بھی ہوگی

میں آپ سے ناراض نہیں ہوں بلکہ میں کسی سے بھی ناراض نہیں کیونکہ اگر آپ ایسا نہ کرتے ایسا فیصلہ نہ لیتے تو میں آج جو ہوں وہ نہ ہوتی ایک بھائی کے پیار سے محروم ہوتی آپ کے فیصلے کی وجہ سے مجھے شھباز شاہ جیسا باپ ملا کلثوم شھباز شاہ جیسی ماں ملی دُرید شاہ جیسا لالہ ملا جو کبھی کبھی وقت آنے پہ باپ جیسا رول ادا کردیتا تو کہیں شازل شاہ جیسا لالہ ملا جس سے میں کوئی بھی بات بلاجھجھک بول سکتی تھی وہ میرا لالہ بعد میں میرا ہمراز ہم زاد پہلے تھا جس سے چاہے جتنا بھی لڑ جھگڑ لو بعد میں معافی بھی وہ مانگ لیتا خود چوٹ کھالے گا مگر اپنی بہن پہ ایک آنچ نہیں آنے دے گا مگر زندگی کے خوبصورت لمحات وہاں اُن لوگوں کے ساتھ گُزرے ہیں میں آپ سے ناراض نہیں بلکہ میں آپ کی مشکور ہوں۔آروش دلاور خان کی بات درمیان میں کاٹ کر کھوئے ہوئے لہجے میں بولی تو دلاور خان لاجواب ہوئے تھے۔

میں کوشش کروں گا تم یہاں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو مگر بیٹا تمہارا اپنا گھر یہ ہے بہتر نہیں تم یہاں خود کو ایڈجسٹ کرلوں جیسے وہاں کا رنگ ڈھنگ اپنایا تھا ویسے یہاں کے اپنالوں کیونکہ حقیقت تو تمہاری یہی ہے۔دلاور خان مسکراکر بولے۔

میں کوشش کروں گی کسی کو بھی مجھ سے شکایت نہ ہو۔آروش کجھ نارمل لہجے میں بولی

چلے پھر نیچے؟دلاور خان نے پوچھا تو آروش نے سراثبات میں ہلایا۔

وہ دونوں نیچے آئے تو ملازم ٹیبل پہ کھانا سیٹ کررہے تھے میل سرونٹ کو دیکھ کر آروش نے اپنا چہرہ جلدی کور کرلیا تھا

میں اپنے کمرے میں ناشتہ کروں گی۔آروش کی بات پہ دلاور خان نے چونک کر پلٹ کر اُس کو دیکھا جس کی بس آنکھیں نظر آرہی تھی۔

یہاں کیوں نہیں؟اور تم نے اپنا چہرہ کیوں چُھپایا ہے؟دلاور خان نے تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

میں پردہ کرتی ہوں آپ شاید بھول رہے میری پرورش کہاں ہوئی ہیں آپ پلیز یہاں سے ہر میل سرونٹ نکال دے اور جو بھی ہوتے ہیں ایسے میں یہاں ان کمفرٹیبل رہوں گی۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

آروش تم سیدزادی نہیں ہو اِس لیے بیٹا تمہیں اب یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں۔دلاور خان نے اُس کو سمجھانے کے غرض سے کہا تو آروش حیرت سے اُن کو دیکھنے لگی جو اُس کو پردہ کرنے سے روک رہا تھا۔

کیسی باتیں کررہے ہیں آپ؟مانا کے میں سیدزادی نہیں پر کیا میں اب یہ جان کر اپنا پچیس سالوں سے کیا پردہ توڑدوں اُس کو ختم کرلوں کیونکہ اب سیدزادی سے پٹھان بن گئ ہو۔آروش کے لہجے میں بے یقینی"بے بسی" اور جانے کونسے جذبات شامل تھے۔

میں فلم انڈسٹری کا مالک ہوں بیٹا ساتھ میں ایک مشہور فلم ڈائریکٹر تمہاری ماں اپنے زمانے کی ایک مشہور ماڈل رہ چُکی ہیں اُن کی تو اب بھی بہت سوشل ایکٹویٹیز ہیں تمہاری بہنیں فلموں میں ایز آ ہیروئن کا رول پلے کرچُکی ہیں ایسے میں تمہارا یہ سب ہمارے لیے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔دلاور خان کو سمجھ نہیں آیا وہ اپنی بات آروش کو کیسے سمجھائے۔

میرے پردے سے کسی کو یا آپ کو کیا مشکلات ہوگی؟آروش ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی۔

لوگ عجیب عجیب باتیں کرئے گے اور ہم تمہارا تعارف کیسے کرائے گے اپنے سرکل میں موجود لوگوں سے اگر تم ایسے ہی رہی تو۔دلاور خان نے کہا

لوگوں کا کام باتیں کرنا ہے اور معذرت کے ساتھ میں آپ کے سرکل کے لوگوں کی وجہ سے خود کے لیے جہنم کا راستہ نہیں چُن سکتی میں چاہے ایک سیدزادی نہیں مگر میرا تعلق تو ابھی بھی اپنے دین سے ہے میں تو مسلمان عورت ہوں نہ تو ایک مسلمان عورت کو اللہ تعالیٰ نے پردے کا حُکم دیا ہے مجھے اُمید ہے آپ میری بات کو سمجھے گے اور پھر دوبارہ اِس بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں کرینگے اگر نہیں تو مجھے حویلی چھوڑ آئے۔آروش سنجیدگی سے کہتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔جب کی دلاور خان کو حددرجہ پریشانی نے آ گھیرا تھا۔

نور اور زوبیہ اچھے سے سمجھا دینگی میں باپ تھا مجھے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی اگر ماں یا بہنوں میں سے کوئی کہے گا تو خود ہی مان جائے گی۔دلاور خان کجھ سوچ کر پرسکون ہوئے۔

نجمہ۔انہوں نے ملازمہ کو آواز دی۔

جی صاحب؟نجمہ فورن سے متوجہ ہوئی۔

اُپر آروش کے لیے اچھا سا بریک فاسٹ لیکر جاؤ اور یمان کہاں ہیں؟دلاور خان ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھ کر بولے

میں یہاں ہوں۔ملازمہ کے کجھ کہنے سے پہلے یمان داخلی دروازے سے آتا دلاور خان سے بولا

کہاں تھے؟دلاور خان نے پوچھا

کال تھی اِس لیے لان میں تھا اور یہ آپ کی بیٹی کہاں ہیں؟یمان نے آس پاس گہری نظر ڈال کر اپنے لہجے کو سرسری کرنا چاہا مگر پھر بھی بے چینی صاف عیاں تھی۔

کمرے میں ہے وہاں ناشتہ کرے گی نجمہ لیکر جارہی ہے۔دلاور خان نے نجمہ کی جانب اِشارہ کیا جو ایک ٹرے میں ناشتہ سیٹ کررہی تھی۔

بریڈ جوس اور جیم کے بجائے پراٹھا ٹھیک رہے گا کیونکہ عام طور پہ گاؤں کے رہنے والے یہی کھاتے ہیں۔یمان نے ٹرے میں ہلکہ پُلکہ سا دیکھا تو کہے بِنا نہ رہ پایا جب کی اُس کی بات پہ دلاور خان حیرت سے یمان کو دیکھنے لگے جس کی فکرمند نظریں ٹرے میں تھی جو آروش کے لیے تیار ہو رہی تھی۔

تمہیں کیسے پتا آروش گاؤں میں رہتی تھی؟۔دلاور خان کے سوال پہ یمان کی سِٹی گم ہوئی تھی۔

کیا مطلب کیسے پتا آپ نے خود تو بتایا تھا وہ گاؤں میں رہتی ہے اب یوں مجھے مشکوک نظروں سے نہ دیکھے آپ نے خود ہی بتایا تھا ورنہ میرے پاس کوئی غیبی علم تھوڑی ہے۔یمان گڑبڑا کر جلدی سے وضاحت دیتے بولا

مجھے تو ایسا کجھ یاد نہیں میں نے تو گاؤں کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا تھا۔دلاور خان اپنے دماغ پہ زور دیئے بولے

آپ کی غلطی نہیں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ باتیں بھول جانا عام بات ہے اِس لیے ڈونٹ وری۔یمان سارا کجھ اُن کی عمر پہ ڈالتا جوس کا جگ اُٹھائے گلاس میں جوس انڈیلتا ٹرے میں رکھ کر ملازمہ کو اُپر جانے کا اِشارہ دینے لگا۔جب کی دلاور خان یمان کو گھورنے میں مصروف تھے ایسا پہلی بار ہوا تھا جو کسی نے اُن کو عمر کا طعنہ دیا ہو اور وہ یمان نے یہ بات اُن کے لیے ناقابلِ قبول تھی تبھی وہ یہ محسوس نہیں کرپائے یمان آروش کے لیے کتنے بریڈز جمع کرتا ٹرے میں رکھ چُکا ہے اُس کے لیے حیران بس نجمہ ہو رہی تھی اُس نے بے ساختہ اپنا تھوک نگلا۔

صاحب ایک دو بریڈ ٹھیک ہے وہ اتنی سمارٹ اور گوری چِٹی ہے مجھے نہیں لگتا اتنا کجھ کھاتی ہوگی پراٹھا بھی آپ بول رہے ورنہ انہوں نے ایسا کجھ نہیں کہا بڑے صاحب کو۔نجمہ نے جلدی سے ٹرے یمان کی پہنچ سے دور کیا جو ٹیبل پہ سارا کجھ ایک ٹرے میں رکھنے کے در پہ تھا۔

تمہیں بڑا پتا ہے۔یمان نے آنکھیں چُھوٹی کیے اُس کو گھورا تو وہ گِڑبڑائی اُس نے پہلی بار یمان کا ایسا انداز دیکھا تھا۔

اِسے چھوڑو میری طرف دیکھو کیا کہا میں بوڑھا ہوتا جارہا ہوں؟بیٹا جی پٹھان کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔دلاور خان نے یمان کا دھیان اپنی جانب کیا تو نجمہ فورن وہاں سے کھسک گئ۔

آئے واز جسٹ کِڈنگ۔یمان جوس کا گلاس منہ کے پاس کرتا جلدی سے بولا

بھئ مجھے ایسا مذاق پسند نہیں۔دلاور خان نے ہاتھ اُپر کیے کہا

اچھی بات ہے۔یمان نے جیسے جان چُھڑائی

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ذات بدل گئ" ماں باپ بدل گئے' گھر بدل گیا"اب میں اپنا حُلیہ بھی بدل دوں کبھی نہیں میں نے بہت کمپرومائز کرلیا مگر اپنے پردے پہ بلکل کوئی کمپرومائز نہیں۔آروش جب سے کمرے میں آئی تھی بڑبڑانے میں مصروف تھی تبھی دروازہ نوک ہوا

کون ہے؟آروش نے کوفت بھری نظروں سے دروازے کو دیکھا

میں ہوں نجمہ آپ کے لیے ناشتہ لائی ہوں۔دروازے کے پار کھڑی نجمہ نے بتایا تو اُس کی بھوک چمک اُٹھی تھی کل کا سارا دن اُس نے کجھ نہیں کھایا تھا جس وجہ سے اب زور کی بھوک نے اُس کو ستایا تھا۔

آجاؤ۔آروش نے اِجازت دی۔

یہ آپ کا ناشتہ۔نجمہ نے مسکراکر ناشتے کی ٹرے کمرے میں موجود شیشے کی ٹیبل پہ رکھی تو آروش کی نظر ٹیبل پہ پڑی تو ماتھے پہ بل نمایاں ہوئے

یہ کیا ہے؟آروش بریڈ کو عجیب نظروں سے دیکھ کر نجمہ سے بولی

بریڈ ہے جی۔نجمہ نے پرجوش آواز میں بتایا تو آروش نے اُس کو گھورا

مجھے بھی نظر آرہا ہے مگر میں ناشتہ اتنا ہلکہ نہیں کرتی مجھے بھوک لگی ہے میرے لیے دیسی گیھ سے پراٹھا بناؤ دو تین۔آروش بریڈ ٹرے میں واپس رکھتی نجمہ سے بولی جس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ تھی۔

دو تین پراٹھے وہ بھی دیسی گیھ کے ساتھ؟؟نجمہ پورا منہ کھول کر کہتی ساتھ میں ہاتھ کی انگلیوں کو بھی اِشارہ کرنے لگی۔

ہاں کیوں؟کیا گھر میں آٹا نہیں یا گیھ ختم ہے؟آروش کو اُس کا اتنا حیران ہونا سمجھ نہیں آیا

آٹا تو بہت ہے جی مگر آپ دیسی گیھ والے پراٹھے نہ کھاؤ موٹی ہوجائے گی اور آجکل اچھے رشتے سِلم و سمارٹ لڑکیوں کے لیے آتے ہیں۔نجمہ نے اپنے مفت مشورے سے اُس کو نوازہ تو آروش نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا جیسے کجھ دیر قبل یمان نے گھورا تھا۔

میں بچپن سے یہی کھاتی آئی ہوں اور ایسی ہی ہوں تم شہری لوگوں کو کیا پتا دیسی گیھ کے فوائد۔آروش سر جھٹک کر کہتی بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

وہ جی اصل بات یہ ہے کے یہاں دیسی گیھ نہیں۔نجمہ گِڑبڑا کر بولی

دیسی گیھ نہیں؟آروش نے کنفرم کرنا چاہا

ہوگا جی کیوں نہیں ہوگا میں کچن میں دیکھتی ہوں۔نجمہ اتنا کہتی کمرے سے باہر جانے لگی۔

سُنو یہ ٹرے واپس لے جاؤ مجھے نہیں کھانا روکھا سوکھا سا بریڈ۔آروش منہ کے زاویئے بگاڑ کر بولی

روکھا سوکھا کہاں ہیں جوس کا گلاس ہے اور جیم بھی تو ہے۔نجمہ نے فورن سے کہا تو آروش تپ اُٹھی۔

تم لیکر اِسے۔آروش نے بیزاری سے کہا

جی بہتر۔نجمہ اتنا کہتی فورن ٹرے لیتی باہر نکلی۔

اففففف یااللہ مجھے صبردے مجھے نہیں رہنا یہاں عجیب لوگ ہے لنچ کے وقت ناشتہ کررہے ہیں اور پتا نہیں لنچ کب تیار ہوتا ہوگا اِن کا۔نجمہ کے جانے کے بعد آروش بڑبڑائی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کیا ہوا؟آروش نے کجھ نہیں کھایا؟دلاور خان نے اُس کو ایسے واپس آتا دیکھا تو پوچھا یمان بھی اپنا کھانا بھول کر اُس کو دیکھ رہا تھا۔

وہ صاحب جی انہوں نے کہا مجھے دو تین دیسی گیھ والے پراٹھے کھانے ہیں میں یہ سب نہیں کھاتی ناشتے میں۔نجمہ ایک نظر یمان پہ ڈالتی بولی تو دلاور خان کی نظریں بے ساختہ یمان پہ پڑی جو اُن کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے بول رہا ہوں میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔

اچھا ٹھیک ہے وہ جو کہتی ہے تم بناؤ۔دلاور خان نے کہا

مجھے پراٹھا نہیں بنانا آتا کُک بھی چُھٹی پہ ہے۔نجمہ نے اپنا مسئلہ بتایا

تمہیں آسان سا پراٹھا بنانا نہیں آتا؟دلاور خان کو یقین نہیں آیا

نہیں صاحب۔نجمہ نے فورن سے کہا

مجھے آتا ہے میں بنادیتا ہوں تم جلدی سے اُن کو دے آنا۔یمان جلدی سے کہتا اپنی جگہ سے اُٹھ کر پہنی ہوئی براؤن لیدر کی جیکٹ اُتارتا شرٹ کی بازوں کے کف فولڈ کرنے لگا۔

صاحب آپ بنائے گے؟

یمان تم پراٹھے بناؤ گے؟ملازمہ اور دلاور خان ایک آواز میں بولے تو یمان جو کف فولڈ کررہا تھا اُن کو دیکھنے لگا جن کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھی۔

ہاں کیوں ڈید آپ نے میرے لیے اتنا کیا ہے میں آپ کی بیٹی کے لیے دو تین پراٹھا نہیں بنا سکتا۔یمان جلدی سے بولا

تم نے کبھی بتایا نہیں ایسا کجھ اور تمہیں تو اسٹوڈیو جانا ہوتا ہے آج تو بارہ بج گئے ہیں۔دلاور خان ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر بولے

نہیں آج مجھے کہی نہیں جانا سوچا آج کا دن آپ کے ساتھ سپینڈ کروں۔یمان نے مسکراکر کہا

چلو اچھا ہے سالوں بعد تمہیں میرا خیال تو آیا مگر تمہیں پراٹھا بنانے کی ضرورت نہیں میں ڈرائیور سے کہہ کر منگواتا ہوں۔دلاور خان نے جوابً مسکراکر کہا

باہر سے کیسے جانے وہ کونسے آئلز ایک ساتھ ملاکر کھانے کی چیزوں میں ڈالتے ہیں ملاوٹ کرتے ہیں ایسے میں اُن کا گلا بھی خراب ہوسکتا ہے وہ بیمار بھی ہوسکتی ہے یہاں میں ٹھیک سے کردوں گا سب کجھ۔دلاور خان کی بات پہ یمان نے اپنی بات پہ زور دیا۔

صاحب بنانے دے نہ اگر یہ اپنی بہن کے لیے بنانا چاہتے ہیں تو۔نجمہ ستائش بھری نظروں سے یمان کے ڈمپلز دیکھتی دلاور خان سے بولی تو یمان کی مسکراہٹ پل بھر سمٹ گئ تھی کُشادہ پیشانی میں لاتعداد بلوں کا اُضافہ ہوا تھا

کیا کہا بہن کونسی بہن ہوش ہے کجھ۔یمان بہن لفظ پہ تپ اُٹھا جب کی اُس کا انداز دیکھ نجمہ ڈر کر کجھ قدم دور ہوئی۔

کیا ہوگیا ہے یمان ہوش کرو اور جاؤ پراٹھا بناؤ آروش کو بھوک لگی ہوگی۔دلاور خان کو اُس کا ایسا ردعمل سمجھ تو نہیں آیا مگر وہ نظرانداز کیے بولے

جی میں جاتا ہوں۔یمان جو سخت نظروں سے نجمہ کو دیکھ رہا تھا آروش کے ذکر پہ جلدی سے بول کر کچن کی جانب بڑھا

تم بھی ساتھ جاؤ اُس کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑجائے۔دلاور خان نے نجمہ سے کہا جو خاموش کھڑی تھی۔

جی صاحب۔نجمہ فرمانبرادی کا مظاہرہ کیے کچن میں آئی جہاں یمان کینٹ کے پاس کھڑا جانے کیا تلاش کررہا تھا

میں آٹا گوندھ کے دیتی ہو۔نجمہ نے یمان کو مخاطب کیے کہا

شکریہ مگر میں خود کرلوں گا۔یمان نے صاف چِٹا انکار کیا تو وہ اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔

ویسے آپ نے کبھی اپنے لیے بھی پراٹھا نہیں بنایا آج کیسے بنارہے ہیں حیرت کی بات یہ راز کبھی آپ نے ظاہر تو نہیں کیا اور دلچسپ بات آپ کو آٹا گوندنا بھی آتا ہے یہ تو تعجب والی بات ہے ویسے۔نجمہ نے یمان کو دیکھ کر بھرپور حیرانی کا مظاہرہ کیا جو آٹے میں تھوڑا پانی ڈال رہا تھا

یہ مجھے دے میں پکڑ لیتی ہوں۔نجمہ نے یمان کو اپنی گھڑی اور دوسرے ہاتھ کی کلائی میں موجود مختلف بینڈز اُتارتا دیکھا تو کہا

شکریہ۔یمان اپنی چیزیں اُس کو دیتا خود اپنے دونوں ہاتھ آٹا گوندنے میں لگادیئے۔پاس کھڑی نجمہ پرشوق نظروں سے کبھی اُس کو تو کبھی اُس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں جو اب آٹے سے لدے ہوئے تھے۔

مجھے کیا دیکھ رہی ہو؟یمان جو آٹا گوند رہا تھا خود پہ اُس کی نظریں محسوس کی تو گھور کر پوچھا

صاحب ایمان سے بہت پیارے لگ رہے ہیں یوں آٹا گوندنے ہوئے آپ کے یہ گورے چِٹے ہاتھ گندمی آٹے میں کیا خوب جچ رہے ہیں پر ایک بات بتائے کیا آپ نیچرل گورے گورے ہیں یا گورے ہونے کا انجیکشن لگایا ہے میں نے نہ یوٹیوب پہ دیکھا تو ایک مشین ہوتی ہیں وہ انسان جاتا ہے تو رنگت کالی ہوتی ہے مگر جب واپس مشین سے نکالتا ہے تو پورا گورا ہوتا ہے کہیں آپ نے بھی تو ایسا نہیں کیا اور مجھے تو آپ کے یہ دونوں ڈمپلز بھی نکلی لگتے ہیں ایسا لگتا ہے بھلا اتنے گہرے تھوڑی ہوتے ہیں اور آپ کی بیئرڈ بھی ہے تو بھی نظر آرہے۔نجمہ پوری طرح سے یمان کا جائزہ لیتی بولی اتنے سالوں بعد اُس کو پہلی بار اتنا غور کرنے کا وقت ملا تھا تبھی اپنے اندر موجود ساری باتیں اُس کے سامنے کی۔

ایکسرا نکال لیا ہے تو مجھے گھورنا بند کرو۔یمان اُس کی بات سن کر نفی میں سرہلاتا کہہ کر سینک کی جانب بڑھ کر اپنے ہاتھ دھونے لگا

آپ یہی رُکے میں اپنا موبائل لاتی ہوں پھر سیلفی لیتے ہیں سچے بڑے پیارے لگ رہے ہیں۔نجمہ اتنا کہتی کچن سے باہر کو بھاگی۔یمان اُس کی بات پہ دھیان دیئے بنا اپنے کام میں مصروف رہا۔نجمہ جب تک واپس آئی تب تک یمان ایک پراٹھا بنا چُکا تھا

آپ کی سپیڈ بڑی باسٹ(فاسٹ)ہے۔نجمہ ایک نظر پراٹھے پہ ڈال کر اپنی فون کا کیمرہ آن کرنے لگی۔

مجھے تنگ مت کرو۔نجمہ اُس کے پاس کھڑی ساتھ میں سیلفی لینے لگی تو یمان نے اُس کو ٹوکا

نہیں صاحب تنگ کہاں بس ایک دو اپنے ساتھ تصویریں لینے دے سچی میری بہنیں تو جل جل کے راکھ ہوجائے گی آفٹر آل آپ اتنے بڑے سٹار ہیں۔نجمہ دانتوں کی نمائش کرتی بولی تو ناچار یمان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کے ساتھ تصویر نکلوانے لگا تو نجمہ کا موبائل گِرتے گِرتے بچا وہ خوشی سے نہال ہوتی تھر تھر تصویر اپنے موبائل میں کیچ کرنے لگی۔

اب فٹو یہاں سے۔یمان سر جھٹک کر بولا تو نجمہ کھی کھی کر ہنسنے لگی۔

ہائے بنا فلٹر کے آپ کی تصویریں کتنی پیاری آئی ہے اگر میں ایک دو اپنی انسٹا اکاؤنٹ میں لگادوں تو ضرور وائرل ہوجانی ہے پھر ہر ایک اپنے پیج پہ پوسٹ کرے گا اور کیپشن ہوگا پاکستان کا مشہور گلوکار یمان مستقیم کی پراٹھے بنانے وقت خوبصورت تصاویر سوشل میڈیا پہ دھوم مچاتے ہوئے۔نجمہ نے بونگیاں مارنے پہ کوئی کثر نہیں چھوڑی۔

اگر تمہارا ہوگیا تو پراٹھے لیکر جاؤ۔یمان اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیے اُس سے بولا

ہائے بن گئے اتنی جلدی۔نجمہ حیران ہوئی۔

ہمممم یہ پکڑو۔یمان نے ٹرے اُس کو پکڑائی۔

خوشبو تو بڑیا آ رہی ہے۔نجمہ بڑبڑاتی کچن سے باہر جانے لگی۔

سُنو۔یمان نے اچانک سے اُس کو آواز دی

جی صاحب۔نجمہ فورن سے پلٹی۔

اُن سے کہنا آج بنا دیسی گیھ کے کھائے کل دیسی گیھ والے پراٹھے ہوگے اور یہ سب تم اُس کو اپنی طرف سے کہو گی پراٹھے بھی تم نے بنائے ہیں اگر وہ پوچھے تو۔یمان نے سنجیدگی سے اُس کو سمجھایا

جی وہ تو میں کہہ دوں مگر آپ اُن کو آپ کیوں بول رہے وہ آپ سے بڑی تو نہیں ہیں۔نجمہ نے ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر کہا

پراٹھے ٹھنڈے ہورہے ہیں۔یمان اُس کی بات نظرانداز کیے بولا تو نجمہ منہ کے زاویئے بگاڑتی آروش کے کمرے کی جانب بڑھی۔

یااللہ مجھے بھی کوئی پراٹھے بنانے والا شخص دے دو۔نجمہ حسرت بھری نظروں سے پراٹھوں کو دیکھ کر دعائیہ انداز میں بڑبڑانے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

میں آجاؤں؟نجمہ آروش کے کمرہ کا دروازہ نوک کیے اُس سے اجازت طلب ہوئی

ہاں آجاؤ اتنا وقت کون لگاتا ہے پراٹھے بنانے میں۔آروش نے اُس کو اجازت دیتے ہوئے کہا

او جی بنانے والا وقت لگاتا ہے۔نجمہ کی زبان میں کُھجلی ہوئی۔

میرے آگے کوئی نہیں بولتا اِس لیے خاموش رہو۔آروش اُس کو گھور کر کہتی پراٹھا اپنی جانب کِھسکانے لگی جب کی نجمہ منہ لٹکائے اُس کو دیکھنے لگی۔

بیچارا قسمت کا مارا ہوگا جس کی اِن سے شادی ہوگی۔نجمہ غور سے آروش کا سنجیدہ چہرہ دیکھتی ان دیکھے انسان سے ہمدردی کرنے لگی اُس کو آروش نک چڑھی سی لگی ساتھ میں خوبصورت بھی جس نے نماز کے اسٹائل میں ڈوپٹہ پہنا ہوا تھا ہونٹوں کے پاس بنا ہوا چھوٹا سا تِل جو اُس پہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔

بنانے والے نے فرصت سے بنایا ہے ویسے اگر کیا ہوتا جو یہ اپنے بال دیکھاتی۔نجمہ آروش کو دیکھتی ٹھنڈی سانس لیکر سوچنے لگی دوسری طرف آروش نے پراٹھے کا پہلا نوالہ توڑ کر کھانے لگی تو اُس کو بہت پسند آیا جو اُس کے چہرے سے ظاہر ہونے لگا تھا مگر اُس نے جلدی سے اپنے تاثرات پہ قابو پائے نارمل انداز میں کھانے لگی۔

بندہ ایک لفظ تعریف کرلیتا ہے کتنی محنت اور لگن سے یمان سر نے پراٹھے بنائے تھے جیسے کوئی قلعہ فتح کرنا ہوا اور ایک یہ ہے جو تعریف تک نہیں کرسکتی۔نجمہ جو بہت دیر تک اُس انتظار میں تھی کے آروش کجھ کہے گی مگر اُس کو خاموشی سے کھاتا دیکھ کر منہ بنائے بڑبڑانے لگی۔

تم کیا یہاں بیٹھی میرے نوالے گِن رہی ہو جاؤ یہاں سے برتن میں خود لاؤں گی نیچے۔آروش کی نظر نجمہ پہ پڑی تو فورن سے اُس کو ٹوکا تو ہڑبڑا کر کمرے سے باہر نکلی جہاں یمان یہاں سے وہاں ٹہلتا شاید اُس کے ہی انتظار میں تھا۔

کجھ کہا انہوں نے؟یمان نے نجمہ کو دیکھا تو جلدی سے اُس کی جانب بڑھا

بڑے صاحب کی چاروں بیٹیاں ایک طرف اور یہ ایک طرف توبہ خدا کی اتنی کھڑوس ہیں کے کیا بتاؤ۔نجمہ ہاتھ جھلا کر کہتی نیچے کی جانب بڑھی۔

بھلا مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کے یہ کتنی کھڑوس ہیں۔یمان آروش کے کمرے کا دروازہ دیکھ کر مسکراکر خود سے بولا۔

💕💕💕💕💕💕

آپی کو ہم سے مل کر جانا چاہیے تھا۔فاریہ بیگم حریم کے لیے کھانا لائی تو اُس نے شکوہ کناں لہجے میں کہا۔

میں کیا کہہ سکتی ہوں بیٹا یہاں ہم سب بھی پریشان ہے وہ کیسے پٹھان لوگ کے ساتھ رہ رہی ہوگی اور کجھ کھایا پیا ہوگا بھی یا نہیں۔فاریہ بیگم نوالہ اُس کی جانب بڑھائے بولی

کیا اب آپی پٹھانوں کے ساتھ رہے گی؟حریم کی آنکھوں میں اشتیاق اُبھر آیا

ہممم۔فاریہ بیگم نے ہنکارہ بولا

کیا ہم اُن کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟آپ کو پتا ہے ہمیں پٹھان لوگ بہت پسند ہیں اُن کی لینگویج اتھارٹی بول چال طور طریقے سب بہت دلچسپ ہوتے ہیں اور اُن کا ڈریسنگ سینس تو کمال کا ہوتا ہے وہ پتا نہیں گرارہ یا شرارہ پہنتے ہیں جس میں شیشوں کا کام ہوا ہوتا ہے اور اُن کے ماتھے پہ جھومر پہ پہنا ہوتا ہے یہ ہم نے ڈراموں میں دیکھا ہیں اور پٹھان لوگوں کو غصہ بھی بہت جلد آجاتا ہے اور بہت آتا ہے۔حریم سارا کجھ بھول کر فاریہ بیگم کو بتانے لگی جو حیرت سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

بھئ یہ سب کجھ تو مجھے نہیں پتا مجھے بس آروش کی یہ فکر ہو رہی ہے کے وہ انجان لوگوں میں کیسے رہے گی۔فاریہ بیگم نے کہا

انجان کہاں؟وہ تو اُن کے والدین ہوگے نہ اور دیکھیے گا وہ بہت خوش رہے گی۔حریم نے مسکراکر کہا

کاش ایسا ہو جیسا تم بول رہی ہو۔فاریہ بیگم بھی جوابً مسکراکر بولی

آپ کی بات ہو تو ہم سے کروائیے گا ہم اُن سے تصاویریں مانگے گے پوری فیملی کی پھر جب ہمارا بچہ ہوجائے گا نہ تو ہم اُس کے ساتھ آپی کے پاس جائے گے۔حریم کا لہجہ پرجوش ہوتا جارہا تھا فاریہ بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی اُس کو پہلے جیسے انداز میں بات کرتا دیکھ کر۔

ٹھیک ہے میں دیدار سے کہہ کر آج ہی تمہاری اُس سے بات کرواتی ہوں پھر جو چاہے اُس سے پوچھ لینا اور مانگ لینا جتنی چاہے تصاویریں۔فاریہ بیگم اُس کے ماتھے بوسہ لیتی ہوئی بولی

شکریہ۔حریم خوش ہوئی

اچھا اب کھانا کھاؤ اُس کے بعد دوائیں بھی کھانی ہے۔فاریہ بیگم نے اُس کی توجہ کھانے کی جانب بڑھائی تو حریم نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ماہی کب سے نوٹ کررہی تھی شازل کو جس کا پورا دھیان لیپ ٹاپ کی جانب تھا اور اُس کے ہاتھوں کی انگلیاں تیزی سے کیبورڈ پہ چل رہی تھی اُس کو مزید برداشت نہیں ہوا تو آہستہ سے چل کر بیڈ پہ اُس کے ساتھ بیٹھ کر لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھنے لگی تو اُس کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ شازل نے گوگل پہ پٹھان ذات سرچ کی ہوئی تھی۔

یہ آپ کیا کررہے؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا

بابا سائیں نے کہا تھا ہمارا ماحول اور جہاں آروش گئ ہے اُن کا ماحول ایک جیسا ہے تو وہی دیکھ رہا تھا کے پٹھان لوگ کیسے ہوا کرتے ہیں اُن کا رہن سہن پہننا اوڑھنا کافی دلچسپ اور خوبصورتی سے بیان ہے مگر صرف ایک پٹھان کی بات کرے جہاں میری بہن گئ ہے تو وہاں ایسا کجھ نہیں۔شازل نے گہری سانس بھر کر سنجیدگی سے کہا

کیا مطلب؟ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

یہ دیکھو۔شازل نے ایک منٹ میں کجھ سرچ کرنے کے بعد لیپ ٹاپ کی اسکرین ماہی کی طرف کی۔

دلاور خان؟ماہی نے اتنا کہہ کر شازل کو دیکھا

ہاں دلاور خان آروش کا ریئل فادر جس کو خاندان والوں نے عاق کرلیا تھا وجہ ایک کرئسچن عورت سے شادی کرنا اُس کے بعد یہ فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے سب خاندان والوں نے اعتراض اُٹھایا تھا اِن کے خاندان میں پردے پہ سختی تھی مگر دلاور خان جس طرح پہلے نون مسلم عورت سے شادی کی اُن کے لیے سب بیہودگی تھی دلاور خان نے بیوی نے اسلام تو قبول کیا مگر اسلام کو اپنایا نہیں عام طور پہ لڑکی اپنے شوہر کے حساب سے طور طریقے اپناتی ہے مگر یہاں ایسا نہیں ہے یہاں دلاور خان  نے اپنی بیگم کے طور طریقے اپنائے۔شازل اتنا کجھ کہتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو ماہی نے غور سے شازل کا چہرہ دیکھا جہاں چاکلیٹی براؤں آنکھیں جس میں ایک الگ سی چمک ہوا کرتی تھی ایک عزم ہوتا تھا آج وہ اُداس تھی کشادہ پیشانی پہ بے شمار بل تھے کھڑی ناک عنابی ہونٹ جہاں ہر وقت خوبصورت مسکراہٹ  کا احاطہ ہوا کرتا تھا آج سختی سے بھینچے ہوئے تھے تیز سفید رنگت جس میں ہلکہ سرخ پن بھی تھا بیشک وہ ایک شاندار مکمل انسان تھا جس کی خواہش ہر لڑکی کرتی ہوگی وہ صرف چہرے سے خوبصورت نہیں تھا اُس کی بس چہرے کی بناوٹ خوبصورت نہیں تھی بلکہ وہ خود پورا خوبصورت تھا اُس کا ہر انداز بے لچک اور شاندار تھا اُس کی شخصیت میں ایک الگ چارم ہوتا تھا جو اُس کو احساسِ کمتری کا شکار کرتا تھا وہ ایک بات اچھے سے جانتی تھی اگر وہ شازل کی زندگی میں بیوی یا ونی کی حیثیت سے نہ جاتی تو سامنے والا شخص کبھی بھی اُس پہ ایک نگاہ نہ ڈالتا وہ چاہے جتنا سج سنور لیتی مگر ظاہری خوبصورتی کے لحاظ سے وہ شازل سے بہت کم تھی۔

تمہیں کیا ہوا؟ شازل نے ماہی کی طرف سے خاموشی پائی تو گردن موڑ کر اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بہت کھوئی ہوئی سی لگی۔ 

مجھے آپ کی یہ چین بہت پسند ہے آپ کے گلے میں بہت سوٹ کرتی ہے۔ ماہی شازل کی چانک آواز پہ ہوش میں آتی شازل پہنی ہوئی لونگ چین کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی تو شازل نے اُس کو گھورا کہاں وہ اُس کے ساتھ اپنا مسئلہ ڈسکس کررہا تھا آروش کے مطلق اور کہاں یہ محترم اُس کی پہنی ہوئی چین میں اٹکی ہوئی۔ 

کہو تو تمہیں گفٹ کردوں ویسے بھی بچے کی پیدائش پہ تمہیں کجھ تحفے میں دینا ہے تو یہی ٹھیک۔ شازل لیپ ٹاپ دور کرتا اُس کو اپنے حصار میں لیے بولا

میرا وہ مطلب نہیں تھا یہ آپ کی ہے اور آپ پہ ہی سوٹ کرتی ہے میں نے تو بس ویسے ہی کہا رہی بات بچے کی پیدائش پہ تحفہ دینے کی تو وہ نہ بھی دے فرق نہیں پڑتا کونسا ہماری زندگی میں سب کجھ نارمل رہا ہے نہ آپ نے مجھے منہ دیکھائی دی اور نہ ہماری شادی کی پہلی انیورسری منائی اب تو خیر سے دوسری بھی آنے والی ہیں میری سالگرہ کے دن بھی آئے تھے کونسا آپ نے تب مجھے برتھ ڈے گفٹ کیا۔ماہی اُس کی شرٹ کے بٹنز سے چھیڑ چھاڑ کرتی اپنی شکایات کا اظہار کرنے لگی تو شازل نے اپنی ٹھوڑی اُس کے سر پہ رکھی۔

مجھے نہیں تھا پتا میری بیگم اتنی حساس ہوگی میری غلطی ہے مجھے تمہاری ہر چیز کا خیال رکھنا چاہیے تھا میں کوشش کروں گا تمہیں کبھی شکایت کا موقع نہ دوں۔ شازل اُس کے بالوں میں بوسہ دے کر بولا

میں نے ویسے ہی آپ سے دل کی بات کی ورنہ میرے لیے دنیاوی چیزوں سے زیادہ آپ کا ساتھ ضروری ہے میرے لیے آپ کا میرا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں میں آپ کے قابل نہیں تھی مگر آپ کو مجھ سے نوازا گیا اور میں اتنی اچھی نہیں تھی جو میرا جیون ساتھی آپ بنے ہے میں بہت خوشقسمت ہوں شازل اور یہ بات مجھے آپ کے ملنے کے بعد پتا چلی ہے۔ ماہی جذب کے عالم پہ بولتی چلی گئ۔ 

کون کس چیز کا حقدار یہ بات ہمارا رب بہتر جانتا ہے تم اِس بات کے بارے میں مت سوچو اور تم نے کہا میں تمہارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تو کیا میں اِس کو اِظہارِ محبت سمجھو؟ شازل کا لہجہ آخر میں شرارت سے بھرپور ہوگیا

جی نہیں نعمت ہی سمجھے۔ ماہی نے منہ بنا کر کہا تو شازل کا چھت پھاڑ قہقہقہ گونج اُٹھا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

دُرید مجھے تم سے بات کرنی ہے بیٹا۔ کلثوم بیگم دُرید کے کمرے میں آتی اُس سے بولی

جی کہے میں سن رہا ہوں۔ دُرید اُن کی جانب متوجہ ہوا

تمہاری شادی کروانا چاہتی ہو تمہاری عمر تیس سال سے اُپر ہوگئ ہے ماشااللہ سے اور اب میں تمہیں یوں اِس طرح اکیلے نہیں دیکھ سکتی۔ کلثوم بیگم اُس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولی

اماں سائیں میں حریم سے شادی کروں گا بس اب کجھ ماہ ہے بچہ پیدا ہوجائے اُس کے بعد۔ دُرید نے جواب دیا

حریم سے شادی کا فیصلہ کرنے میں تم نے دیر لگادی ہے وہ نہیں مانے گی۔ کلثوم بیگم گہری سانس بھر کر کہا

اُس کو منانا میرا کام ہے وہ مان جائے گی آپ فکر نہ کرے۔ دُرید نے کلثوم بیگم سے زیادہ خود کو تسلی کروائی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

صبح کو آنا تھا اور شام لگادی۔ دلاور خان زوبیہ بیگم اور نور کو آتا دیکھا تو خوشگوار لہجے میں کہا

ٹریفک ایشو ڈیڈ۔ نور نے اُن سے مل کر بتایا

میرے پاس سرپرائز تم دونوں کے لیے۔ دلاور خان نے کہا تو زوبیہ بیگم اور نور ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ 

زرگل زرفشاں اور زر نور آ رہی ہے کل پاکستان کیا وہ سرپرائز ؟نور نے اُن کو دیکھ کر کہا

وہ تو آرہی ہیں مگر سرپرائز دوسرا ہے چلو تو دیکھاؤ۔دلاور خان نے ایک طرف ہوکر راستہ دیا تو دونوں نے کندھے اُچکائے

لیٹس سی کے کیا سرپرائز ہے۔زوبیہ بیگم نے کہا تو نور نے تائید میں سرہلایا

یہ دیکھو۔دلاور خان نے آروش کے کمرے کا دروازہ کھول کر اُن کو جانے کا اِشارہ دے کر کہا تو اُن کی نظر ایک لڑکی پہ پڑی جو مگن انداز میں کسی مسلے کے بغیر نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔

وہ از شی؟نور نے ناسمجھی سے دلاور خان کو دیکھا

یہ حور ہے میری بچی؟زوبیہ بیگم آروش کی پشت دیکھی تو اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر نم لہجے میں دلاور خان سے پوچھا۔

بلکل یہ ہماری بچی ہے۔ دلاور خان نے کہا نور کو بھی خوشگوار حیرت نے آ گھیرا۔ 

وہ سب دس منٹس سے آروش کی نماز ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ دوسری طرف آروش اپنے حساب سے نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو زوبیہ بیگم اور نور کو حیرت سے دیکھنی لگی۔ 

یہاں آؤ میرے پاس کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں میں تمہاری ماں ہوں۔زوبیہ بیگم آروش کے پاس آتی اُس کو اپنے گلے لگائے کر خوشی سے چور لہجے میں بتانے لگی۔

اور میں تمہاری بہن زرتاشہ نور ۔نور نے بھی اپنی موجودگی کا احساس کروایا تو آروش غور سے دونوں کا جائزہ لینے لگی پہلے زوبیہ بیگم کو دیکھا کندھوں تک آتے بال چہرے پہ فل میک اپ کیے ہوئے تھی کپڑوں کے لحاظ سے انہوں نے گھٹنوں تک آتی ریڈ اسکرٹ اور ٹائیٹس میں ملبوس تھی ڈوپٹے کے نام پہ گلے میں مفلر پہنا ہوا تھا۔زوبیہ بیگم کو دیکھنے کے بعد آروش کو کلثوم بیگم کا سِراپا آیا جس کو اُس نے کبھی ایسے حُلیے میں تو کیا کبھی بنا ڈوپٹے تک نہیں دیکھا ہمیشہ وہ سر پہ ڈوپٹہ پہنے دیکھا تھا رہی بات میک اپ کی تو اُس نے کلثوم بیگم کے کمرے میں میک اپ والی کوئی چیز تک نہیں دیکھی کرنا تو بہت دور کی بات تھی وہ ہمیشہ سادہ مگر خوبصورت لباس میں ملبوس ہوا کرتی تھی چہرہ ہر مصنوعی چیز سے صاف ہوتا تھا۔آروش کی نظر نور پہ پڑی جو خود کو اُس کی بہن بتارہی تھی جو کالے رنگ کی گھٹنے سے نیچے آتی شرٹ میں تھی جس کے ساتھ سیم کالی ٹائیٹس تھی۔

کیا ہوا تم کجھ بول کیوں نہیں رہی کیا ہم سے مل کر اچھا نہیں لگا؟آروش جو نور کا جائزہ لینے میں تھی اُس کی آواز پہ چونک کر نفی میں سرہلایا۔

ایسی بات نہیں۔آروش نے بس اتنا کہا

ماشااللہ تم بہت پیاری ہو اور آواز بھی۔نور اُس کا چوم کر بولی تو آروش کو بلاوجہ شرم محسوس ہونے لگی۔

حور تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں کتنا یاد کیا تھا میری تو اُمید ہی ختم ہوگئ تھی کے میں کبھی تم سے مل پاؤں گی۔زوبیہ بیگم اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر محبت سے اُس کا چہرہ دیکھ کر بولی

میرا نام آروش ہے۔آروش اُن کی بات کے جواب میں بس یہی بولی تو وہ ہنس پڑی جب کی اُس کے نام بتانے پہ نور کے دماغ میں کجھ کلک ہوا تھا۔

"یہ باتیں سترہ سال کا یمان کررہا ہے آپ سے جس کی ساری خواہشات ایک خواہش پہ بھاری پڑگئ تھی اور وہ تھی آروش شاہ کی محبت"

"کالج لائیف والا یمان چاہتا تھا اُس کو آروش شاہ کی توجہ ملے جب اُن کے ہاتھ میں کتابیں دیکھتا تھا نہ تو مجھے حد سے زیادہ جلن ہوتی تھی کیونکہ جب وہ کوئی کتاب پڑھتی تھی تو اُن کو آس پاس کے کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا تھا اور ایسی توجہ میں اپنے لیے چاہتا تھا چاہتا ہوں چاہتا رہوں گا پر کبھی انہوں نے مجھے ایسی توجہ نہیں تھی اُن کا تعلق سید گھرانے سے تھا میرا نہیں تو اِس میں میری تو کوئی غلطی نہیں تھی نہ محبت اوقات دیکھ کر تو نہ کی جاتی نہ پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا یہ سوال مجھے ایک پل کے لیے بھی چین لینے نہیں دیتا اگر میرے نصیب میں اُن کی محبت نہیں تھی تو پھر میرے دل میں محبت کا انوکھا احساس کیوں پیدا ہوا میں تو انجان تھا مجھے کیا خبر تھی ایسی محبتوں کی میرے لیے تو میری بہنیں اور والدین ہی سب کجھ تھے میری دُنیا اور میرا جنون تھا پاکستان کا مشہور سنگت بننا بس یہی تھا اور میں اِس میں مگن تھا پھر میری زندگی میں وہ آئی تو سب کجھ بدل گیا جہاں ہر وقت میرے چہرے پہ مسکراہٹ کا بسیرا ہوتا تھا وہ مسکراہٹ بس ان کے لیے مخصوص ہوگئ جب اُن پہ نظر نہیں پڑتی تھی تو بے سکونی سی محسوس ہوتی تھی میں مریضِ عشق بن گیا تھا جس کی دوا بہت مہنگی تھی اور میں ایک لاعلاج بیماری کا مریض بن گیا۔"

ٹھیک ہے میں خیال کروں گی کے تمہیں آروش کہوں۔زوبیہ بیگم نے مسکراکر آروش سے کہا تو نور نے اپنا سرجھٹکا

آپ لوگوں کے پاس جائے نماز ہے میں نے اپنے کمرے میں دیکھا وہ نہیں تھا اگر آپ کے پاس ہو تو مجھے دیجئے گا میں نے آتے وقت کجھ لیا نہیں تھا وہاں۔آروش باری باری سب کو دیکھ کر بولی

جائے نماز کیوں؟نور جو اپنی سوچو کے تانے بانے جوڑ رہی تھی آروش کی بات سن کر اُس نے بے تُکہ سوال کیا

جائے نماز کیوں چاہیے ہوتا نماز پڑھنے کے لیے نہ کیا آپ لوگوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی؟ویسے آپ لوگ مجھے پٹھان نہیں لگے کیونکہ اُن کے بول چال کا طریقہ پہننے اوڑھنے کا انداز بہت الگ ہوتا ہے اور وہ اُردو بہت مشکل سے ہی بولا کرتے ہیں۔آروش کہے بنا نہ بول پائی۔

ہاں سب یہی بولتے ہیں ہم ڈفرنٹ ہیں کیونکہ ہم پٹھانوں کے بیچ کم رہے ہیں۔نور اُس کی بات کا مطلب سمجھے بنا ہنس کر بولی تو آروش نے پھر کوئی اور بات نہیں کہی۔

یمان کے کمرے میں ہوگا میں وہاں سے لیکر تمہیں دے دوں گا۔دلاور خان اُس کے سرپہ ہاتھ رکھ کر کہا تو "یمان"کے نام پہ آروش کو اُلجھن ہونے لگی اُس کو اچانک اُس رات والا واقع یاد آیا تو جھرجھری سی آئی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہی کمرے میں ایک جگہ بیٹھی بور ہو رہی تھی تو اُس نے اپنے کمرے کی صفائی کرنے کا سوچا ہلانکہ کے اُس کو سخت تاکید تھی کوئی بھی کام نہ کرنے کی مگر وہ بھی کیا کرتی کمرے سے باہر اکیلی جا نہیں سکتی تھی کیونکہ بہت سیڑھیاں تھی اور نیچے شازل شفٹ ہو نہیں رہا تھا وہ اسلام آباد واپس جانا چاہتا تھا مگر کلثوم بیگم نے اُس کو صاف الفاظوں میں کہہ دیا تھا اُس کو اگر جانا ہے تو جائے مگر ماہی تب تک نہیں جاسکتی جب تک بچے کی پیدائش نہ ہو اِس وجہ سے شازل بھی یہی رُکا ہوا تھا کیونکہ وہ ماہی کو حویلی میں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

ماہی ابھی بیڈ سے اُتر کر بیڈ شیٹ چینج کرنے والی تھی جب اُس کو کجھ غیرمعمولی پن محسوس ہوا اُس نے بے ساختہ اپنا ہاتھ پیٹ پہ رکھا اُس کو سمجھ نہیں آیا یوں اچانک اُس کو پیٹ پہ زور سے کیا لگا۔

یااللہ یہ تو مجھے لات مار رہا ہے۔ماہی کو تکلیف کا احساس ہونے لگا ابھی وہ اِسی میں تھی جب شازل کمرے میں داخل ہوا

کیا ہوا ایسے بُت بن کر کیوں کھڑی ہو؟شازل کمرے میں آیا تو ماہی کو پیٹ پہ ہاتھ رکھے یوں ایک جگہ جما دیکھا تو پوچھا

شازل آپ کے بچے نے لات ماری وہ بھی زور سے۔ماہی رونے والی شکل بنائے پلٹ کر شازل کو دیکھ کر بتایا

واہ جی واہ ویسے تو میرا بچہ میرا بچہ کہہ کر تمہاری زبان نہیں تھکتی تھی اور اب جب زور سے لات ماری تو وہ میرا بچہ ہوگیا۔شازل اُس کی بات پہ گھور کر بولا

ہاں کیونکہ مجھے لگا تھا یہ میرا بچہ ہے اِس کو میرا خیال ہوگا مگر نہیں یہ آپ کی طرح ہے جس کو میرا خیال نہیں۔ماہی روہانسی ہوئی۔

ہاہاہاہا وہ میرا بیٹا ہے بس میرے پہ ہی جائے گا تمہاری طرح ہوا تو سارا وقت اُس کا رونا ہی ختم نہیں ہوگا۔شازل جھرحھری لیکر بولا

کتنے بے حس انسان ہیں آپ اور ناشکرے الگ سے آپ کو اتنی پیاری بیضوی نین نقش والی خوبصورت بیوی ملی ہے اُس پہ بجائے آپ قدر کرنے کے یوں روندو بولا کرتے ہیں۔ماہی شازل کی بات پہ اُس سے بولی تو شازل جو بیڈ پہ جارہا تھا پلٹ کر غور سے اُس چہرہ دیکھنے لگا

ک کیا ہوا۔ماہی اُس کے ایسے دیکھنے پہ گِڑبڑائی۔

یس آئے نو اِٹ۔شازل پرجوش آواز میں بولا تو ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

کیا پتا تھا آپ کو؟ماہی بیزار ہوئی۔

بیضوی شکل بیضو نین نقش رائٹ؟شازل اُس کے الفاظ دوہراتا تائید انداز میں اُس کو دیکھنے لگا۔

رائٹ۔ماہی نے کہا

یو نو واٹ جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا نہ تبھی مجھے فیل ہوا تھا جیسے تمہاری شکل دیکھی دیکھی ہوئی سے ہے مگر تب ٹھیک سے یاد نہیں آیا مگر اب یاد آیا میں نے جب قائد اعظم کی ہسٹری پڑھی تو اُس میں لکھا تھا قائد اعظم کا قد لمبا تھا اور چہرہ بیضوی تھا اور اب یاد آیا تمہاری شکل تو قائد اعظم محمد علی جناح سے ملتی ہے۔شازل پرجوش آواز میں کہتا ماہی کے ارمان میں پانی پھیرچُکا تھا اُس کو یہ بات اچھے سے سمجھ آئی تھی شازل سے کسی سیریس اور رومانٹک بات کی اُمید رکھنا مطلب آ بیل مجھے مار کے مُصداق ہے۔

قائد اعظم؟سیریسلی شازل میں آپ کو اُن کے جیسی لگتی ہوں کیا آپ کو کوئی اور نہیں ملا تھا جو کسی مرد سے میری شکل ملوادی۔ماہی بامشکل خود پہ قابو کیے دانت پیس کر بولی

بڑی ہی کوئی ناشکری ہو میں تم سے قائد اعظم جو ہمارے مُلک کے بانی تھے اُس کی شکل سے تمہاری شکل ملوا کر تم اتنا بڑا اعزاز دے رہا ہوں اور تم یوں نخرے دیکھا رہی ہو۔شازل تاسف سے اُس کی جانب دیکھ کر اپنا سر نفی میں ہلانے لگا۔

مجھے نہیں چاہیے اتنا بڑا اعزاز شکریہ۔ماہی منہ بسور کر بولی

ناشکری جو ہو۔شازل اتنا کہتا بیڈ پہ آرا تراچھا لیٹا۔

مجھے آپ ایک بتائے کیا پوری۔۔۔۔دُنیا میں آپ کو ایک قائد اعظم ملا تھا جس سے آپ میرا موازنہ کرنے لگ گئے۔ماہی اُس کے کجھ فاصلے پہ بیٹھ کر پوچھنے لگی۔

آج ہمارا پاکستان جو آزاد ہے نہ وہ اُن کے بدولت ہے اور میں نے تمہارا چہرہ اُن سے ملایا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے ایسے موازنے پہ۔شازل بھی اپنے نام کا ایک تھا۔

مجھے آپ غور سے دیکھے کیا پتا اب علامہ اقبال جیسا لگے۔ماہی تپ کے بولی تو شازل نے اپنا قہقہقہ ضبط کیے اُس کا جائزہ لینے لگا۔سیاہ ریشمی بال جن کی آوارہ لٹیں اُس کے دونوں گالوں کو چوم رہی تھی پُرکشش آنکھیں پتلے ہونٹ جن کا اُس نے پاؤٹ بناکر جیسے اپنی طرف سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا ماہی کی رنگت زیادہ گوری چٹی نہیں تھی گندمی مگر صاف تھی اُس کے نین نقش بہت خوبصورت تھے پر جو اُس کو سب سے منفرد بناتا تھا وہ اُس کی معصومیت تھی جو اُس کے چہرے سے صاف عیاں تھی اگر شازل کو اُس کی کوئی بات اٹریکٹ کرتی تھی تو وہ اُس کی معصومیت اور باتیں تھی جو وہ ناسمجھی کے عالم میں بیان کرجاتی تھی دیکھنے میں وہ پہلے بہت دُبلی پتلی سی تھی مگر اب کجھ ماہ سے پریگنسی کی وجہ سے اُس کا وجود بھرا بھرا سا ہوا تھا شازل کی نظریں اُس کے چہرے سے ہٹ کر کندھوں پہ اوڑھی شال پہ پڑی جس سے اُس نے اپنا سارا وجود چُھپایا ہوا تھا کپڑے بھی وہ کافی کُھلے ہوئے پہننے لگی تھی۔ماہی کا سارا جائزہ لینے کے بعد شازل کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی تھی۔

دن بدن گولوں مولوں ہوتی جارہی ہو۔شازل اتنا کہتا زور سے قہقہقہ لگانے لگا۔ ماہی جو شازل کی خود پہ مسلسل نظریں محسوس کیے اب یہ سوچے ہوئے تھی کے وہ ایک لفظ تعریف کا ضرور بولے گا مگر اُس کی بات سن کر اُس کا پورا چہرہ سرخ ہوگیا تھا شازل نے صحیح معنوں میں اُس کے ارمانوں کا قتل کیا تھا۔

بہت ہی مین انسان ہیں آپ۔ماہی تپ کے کہتی اُس کے اُپر تکیوں کی بارش کرنے لگی مگر شازل کی ہنسی رُک ہی نہیں رہی تھی اُس کو ماہی کا تپا تپا سا چہرہ مزا دے رہا تھا اُس کو ایک عجیب سا سکون ملتا تھا ماہی کو تنگ کیے اور شازل کو اپنا یہ سکون بہت عزیز تھا جس کا احساس اُس کو فلوقت نہیں تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

خان میں آج بہت خوش ہوں اور ہماری بیٹی ماشااللہ سے کتنی پیاری ہے اُس کی آواز بات کرنے کا انداز سب منفرد اور اٹریکٹو ہے۔رات کے سونے کے وقت زوبیہ بیگم مسکراکر خوشی سے چور لہجے میں دلاور خان سے بولی

ماشااللہ سے خوبصورت ہے مگر شاہ نے اُس کی پرورش بھی بہت اعلیٰ انداز میں کی ہے ایک مٹھاس سی ہے اُس کے لہجے میں۔دلاور خان اُن کی بات سے متفق ہوئے 

یہ تو ہے پھر ہم پارٹی آرگنائز کب کرے؟زوبیہ بیگم پرجوش آواز میں بولی

آروش کا انٹروڈیوس ہو اُس کے لیے پارٹی کی بات کررہی ہو؟دلاور خان نے تائید بھری نظروں سے اُن کو دیکھا۔

جی بلکل اب دُنیا والوں کو دیکھانا چاہیے ہماری بیٹی ہے وہ۔۔۔شاندار قسم کا فنکشن ہوگا میں تو پورے شہر کے لوگوں کو انوائیٹ کروں گی اور جشن مناؤ گی۔۔۔پہلے میں پارٹی اور گیدرنگز میں اکیلی جایا کرتی تھی پر اب آروش کو ساتھ لے جایا کروں گی۔زوبیہ بیگم کا چہرہ خوشی کے مارے دمک رہا تھا۔

ہممم ایک ہفتے تک میڈیا والے بھی ہوگے میں سب سے آروش کے بارے میں بات کروں گا سب کو بتاؤں گا میں بہت خوش ہوں۔دلاور خان نے کہا

مجھے تو اب گھر میں عجیب سی رونق محسوس ہورہی ہے۔زوبیہ بیگم نے کہا اُن کی خوشی دیکھ کر دلاور خان مسکرائے پھر بولے۔

آروش کھانے کی ٹیبل پہ کیوں نہیں آئی تھی؟

اُس کو بھوک نہیں تھی میں نے بہت کہا تھا پر وہ نہیں آئی تھی تو اسرار زیادہ میں نے بھی نہیں کیا۔زوبیہ بیگم نے بتایا

ہممم یمان نے بھی نہیں کیا۔دلاور خان اُن کی بات پہ بولے

یمان سے یاد آیا آپ نے ایک چیز نوٹ کی؟زوبیہ کو اچانک خیال آیا تو کہا

کس چیز پہ؟دلاور خان ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگے۔

میں جب سے آئی ہوں یمان کے چہرے پہ ہر وقت مسکراہٹ کا احاطہ ہے بات کرو تو مذاق بھی کرجاتا ہے اور ایسی حرکتیں کررہا ہے جو اُس نے کبھی نہیں کی۔زوبیہ بیگم کجھ حیرانگی سے بولی

ہاں یمان میں بدلاؤ آرہا ہے جو کی اچھی بات ہے۔دلاور خان کہا

اچھی بات ہے مگر اتنا اچانک اور یکدم سے یہ بات کجھ ہضم نہیں ہورہی۔زوبیہ بیگم کو کجھ کٹھک رہا تھا۔

زیادہ مت سوچو اور سوجاؤ کل آروش کو بازار لے جانا شاید اُس کو کسی چیز کی ضرورت ہو۔دلاور خان نے اُن کا دھیان دوسری بات کی جانب کیا۔

ہاں یہ بات میں بھی سوچ رہی تھی آصفہ کا مشہور بوتیک ہے اور بہت اچھے ڈیزائن کے کپڑے لیکر دوں گی میں اُس کو آج کجھ ماسیوں والے روپ میں تھی۔زوبیہ بیگم نے آروش کے پیارے حُلیے کو ماسیوں روپ کا نام دیتی ہوئی بولی جو اگر یہ بات آروش سُن لیتی تو یقینً اُس کا دل ٹوٹتا

💕💕💕💕💕💕💕

یہ لیکر جاؤں اگر انکار کرے تو زور دینا کے کھائے اور کہنا خالی پیٹ سونا اچھی بات نہیں ہوتی اللہ ناراض ہوتا ہے اور ہمارے نبیؐ کا فرمان ہے اگر گھر میں کھانے کا کجھ نہ بھی ہو تو ایک کھجور ہی کھانا چاہیے یہاں تو اُن کے لیے بہت سی نعمتیں ہیں۔یمان کھانے کی ٹرے سیٹ کرتا بنا روکے نیند سے جھولتی نجمہ سے بولا

صاحب اگر اتنا تکلف کیا ہے تو خود ہی کھانا دے دیتے اُن نک چڑھی میم کو آپ کے برابر میں ہی تو رہتی ہے اور یقین جانے جتنا درس آپ نے مجھے ایک منٹ میں دیا ہے وہ جب میں پانچویں جماعت میں تھی نہ تب اتنا تو اسلامیات والی ٹیچر نے بھی نہیں دیا ہوگا۔نجمہ جمائیاں لیتی یمان سے بولی تو اُس نے تیز گھوری سے اُس کو نوازہ۔

جو کہا ہے وہ کرو۔یمان نے ٹوکا

جی کرتی ہوں۔نجمہ اتنا کہتی ٹرے ہاتھ میں پکڑی

احتیاط سے۔یمان نے تاکید کی۔

دروازے تک آپ ہی اُٹھا کر لے چلے۔نجمہ کو جو سونے کی پڑی تھی یمان کی اتنی اوور کیئر پہ جھنجھلائی ویسے تو نو بجے کے بعد اُس کے کام کا وقت ختم ہوجاتا ہے مگر آج یمان نے گیارہ بجے اُس کو زحمت دی تھی۔

کتنی نالائق ہو تم اتنا سا کام بھی تمہیں نہیں آتا۔یمان نے اچھا خاصا اُس کو شرمندہ کرنا چاہا

ایسی بات بھی اب نہ بولے بارہ بجنے والے ہیں وہ تو سو بھی چُکی ہوگی۔نجمہ کا منہ اُس کی بات پہ حیرت سے کُھل گیا۔

اتنی جلدی کوئی نئ جگہ پہ ایڈجسٹ نہیں ہوتا اِس لیے جاؤں اور کھانے کا بولو۔یمان نے کہا

میری مانے تو آپ بھی سوجائے کیونکہ آپ کے جاگنے سے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یہ سوچ کرکے آپ کا بلوا کبھی بھی آسکتا ہے۔نجمہ نے اُس کو اپنے مشورے سے نوازہ

اُن کے پاس جاؤ تاکہ کھانے کے بعد وہ سوجائے ورنہ آنکھوں کے گردے ہلکے ہوجائے گے۔یمان کی اِس بات پہ نجمہ گِرتے گِرتے بچی۔

کتنا پتا ہے آپ کو کبھی اپنی فیانسی کے بارے میں خبرگیری کرلیا کرے۔نجمہ کی بات پہ یمان کے ماتھے پہ بل آئے جس کو دیکھ کر نجمہ وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئ۔یمان بھی اپنا سرجھٹکتا کمرے کی جانب بڑھا کیونکہ اُس کو بھی اب سخت نیند آرہی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

تم یہاں اِس وقت؟دروازہ نوک ہونے پہ آروش نے دروازہ کھولا تو نجمہ کو دیکھ کر حیران ہوئی

جی آپ کے لیے کھانا لائی تھی۔نجمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی جانب اِشارہ کیا

میں نے تو نہیں کہا تھا۔آروش نے کہا

پر میں لائی ہوں خالی پیٹ سونا اچھی بات نہیں ہوتی اللہ ناراض ہوتا ہے اور ہمارے نبیؐ کا فرمان ہے اگر گھر میں کھانے کا کجھ نہ بھی ہو تو ایک کھجور ہی کھانا چاہیے یہاں تو آپ کے لیے بہت سی نعمتیں ہیں۔نجمہ نے یمان کا جُملا رٹ رٹائے طوطے کی طرح کہا

اچھا شکریہ اب جاؤ۔آروش اُس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑتی بولی تو نجمہ سرہلاتی واپس چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم ابھی تک سوئی نہیں؟رات کے پہر فاریہ بیگم کی آنکھ کُھلی تو انہوں نے حریم کو جاگتا دیکھا تو تفتیش بھرے لہجے میں بولی۔آروش کے جانے کے بعد وہ حریم کے پاس سویا کرتی تھی اور اُس کا ہر کام بھی کرتی تھی۔

ہمیں نیند نہیں آرہی آپی کی یاد آرہی آپ نے کہا تھا بات کروائے گی مگر ابھی تک نہیں کروائی۔حریم نے جیسے شکوہ کیا 

میرے بچے اگر میرے ہاتھ بات کروانا ہو تو میں ابھی کرواؤ پر مجھے دیدار سے پتا چلا آروش کے پاس کوئی موبائل نہیں وہ یہاں سے خالی ہاتھ گئ تھی جب اُس کے باپ کا نمبر مل جائے گا تو وہ بات کروائے گا۔فاریہ بیگم نے تسلی آمیز لہجے میں اُس سے کہا

آپی نے ابھی تک پھر موبائل کیوں نہیں لیا؟کیا اُن کو ہماری یاد نہیں آتی؟حریم نے دوسرا سوال کیا

یاد اُن کو کیا جاتا ہے جن کو ہم بھول جاتے ہیں اور تمہیں لگتا ہے آروش تمہیں بھول گئ ہوگی؟فاریہ بیگم نے کہا تو حریم نے نفی میں سرہلایا

پھر آرام سے سوجاؤ میں کرتی ہوں کجھ جس سے آروش سے تمہاری بات ہوجائے۔۔فاریہ بیگم نے کہا تو حریم مسکراکر سر کو جنبش دیتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان خواب وخروش کے مزے لوٹ رہا تھا جب اُس کا موبائیل فون رِنگ کرنے لگا پہلے تو یمان ٹس سے مس نہ ہوا مگر کال کرنے والا بھی شاید بہت ڈھیٹ ثابت ہوا یمان کی نیند میں خلل ڈالے کے ہی پرسکون ہوا۔

یمان اپنی مندی مندی آنکھیں کھولتا سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا فون دیکھنے لگا اُس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل کی اسکرین پہ ارمان کالنگ دیکھ کر اُس نے گہری سانس خارج کی۔

سر صبح ہوگئ ہے۔یمان نے ابھی کال ریسیو کر کے کان کے پاس کی تھی جب دوسری طرف ارمان بول پڑا

یہ بتانے کے لیے کال کی ہے۔یمان اپنی آنکھیں مسلتا اُس سے بولا

بلکل نہیں آپ نے جو چاند چڑھایا ہے نہ اُس کی آگاہی دینے کے لیے کال کی ہے۔ارمان نے کہا تو یمان کے ماتھے پہ بل پڑے

کونسا چاند چڑھایا ہے میں نے جس کی خبر مجھے نہیں تمہیں ہے۔یمان نے کہا

لگتا ہے کل رات سے آپ نے اپنا فون یوز نہیں کیا آپ کی تصاویر سوشل میڈیا پہ ٹاپ ٹرینڈ ہیں۔ارمان اُس کی بے نیازی پہ دانت پیس کر بولا

میں نے ایسا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔یمان سنجیدہ تھا

واہ بھئ آپ نے تو وہ مثال قائم کی ہے آگ لگے بستی میں آپ اپنی مستی میں۔ارمان کی بات پہ یمان تپ اُٹھا

ارماننننن۔یمان نے وارن کیا

سر آپ نے جو پراٹھے بنائے اور اُس کی تصاویر خان سر کے گھر کی ملازمہ نجمہ کے ساتھ کلک کی ہے وہ جانے کس نے سوشل میڈیا پہ دی ہے اور اب وائرل ہوگئ ہے ہر کوئی آپ کے ہاتھوں کا پراٹھا کھانا چاہتا ہے اور مزے کی بات بتاؤ کیا میں نے نیٹ پہ ایک بہت بڑا توا بھی دیکھ لیا اُس کو آرڈر کرتے ہیں پھر اسلام آباد کی کسی سنسان جگہ پہ اُس کو پہنچائے گے اب بڑے اسٹائل سے شرٹ کے بازوں کے کف فولڈ کرکے پراٹھے بنانے میں مصروف ہوجائیے گا میں اُس کو پیک کرتا لوگوں میں تقسیم کرتا جاؤں گا۔ارمان ایک سانس میں بولتا جارہا تھا۔

کیا تم نیند میں ہو؟یمان کو اُس کی بے تکی باتوں کا مطلب اب بھی سمجھ نہیں آیا تھا۔

آپ کو نیند سے جاگنے کی کوشش میں ہوں۔جواب فورن سے آیا تھا۔

مجھے تم غصہ دلارہے ہو۔یمان جھنجھلا اُٹھا 

سریسلی یمان سر؟میں آپ کو غصہ دلارہا ہوں یہاں کل رات سے جانے جانے کون کونسے لوگ کہاں کہاں سے نکل کر مجھے کال پہ کال کیے جارہے ہیں میرا جرم کیا ہے مجھے کس کی سزا مل رہی ہے ایک رات ہوتی ہے انسان کے پاس سونے کے لیے مجھے تو وہ بھی مُیسر نہیں میرا قصور بس اتنا ہے کے میں ارمان ملک کو بس آپ کے اکلوتے اسسٹنٹ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ارمان کی دُھیائیاں آج عروج پہ تھی۔

یہ ضرور نجمہ کا کیا دھرا ہوگا اُس کو تو میں دیکھتا ہوں میڈیا کو بھی میں ہینڈل کرلوں گا اور تم اپنی نیند پوری کرلوں۔یمان بالوں میں ہاتھ پھیر کر اُس سے بولا

یہ میڈیا والے تب تک ہینڈل نہیں ہوگے جب تک آپ اِن کو پراٹھے نہ کھیلائے میری مانے میں نے جو کجھ دیر پہلے مُفید مشورہ دیا تھا اُس پہ عمل پیراں ہوجائے۔ارمان نے رازدرانہ انداز میں کہا

وہ تو بس ایک کے لیے تھے۔یمان کی آنکھوں کے سامنے آروش کا سِراپا لہریا تو کھوئے ہوئے انداز میں بولا

ایک کے لیے کس کے لیے؟اُس نجمہ کے لیے؟ارمان نے یمان کے جذبات کا جنازہ نکالنے میں سب کو پیچھے چھوڑدیا۔

شکر کرو جو تم میرے سامنے نہیں ورنہ وہ حشر کرتا کے یاد کرتے۔یمان ارمان کی بات پہ دانت کچکچائے بولا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کیا کر گُزرتا۔

آپ نے بات ایسی کی کے میں اور کیا کرتا۔ارمان خجل ہوا جب کی یمان نے کال ڈراپ کردی تھی۔

عجیب بات ہے اتنا مفید مشورہ تھا میرا اگر عمل پیراں ہوتے تو اپنا فائدہ ہوتا۔ارمان موبائل کی اسکرین کو گھورتا بولا۔ابھی وہ اُس کو جیب میں رکھنے والا تھا جب فون رِنگ کرنے لگا تو ارمان بیزاری سے کال کاٹنے والا تھا جب نظر موبائل فون کی اسکرین پہ لکھے دُنیا کالنگ کو دیکھ کر اُس کو اپنی بینائی پہ یقین نہ آیا اُس سے پہلے رنگ ٹون ختم ہوجاتی ارمان نے جلدی سے کال ریسیو کی

زے نصیب

زہے نصیب آج مجھے خود سے کال کیسے کرلی۔ارمان کال ریسیو کیے شریر لہجے میں بولا

یمان سے بات کرنی تھی کہاں ہیں وہ؟دوسری طرف فجر نے سنجیدگی سے کہا

ضرور آپ نے وائرل ہوئی تصاویر دیکھی ہوگی اور خواہش جاگی ہوگی کے میں بھی پراٹھے کھاؤں تو بے فکر رہے میں یمان سر سے پراٹھو کی ریسپی لیکر آپ کے لیے بناؤں گا ویسے تو مجھے پتا ہے گُندم کا آٹا گوندنا ہوتا ہے پھر اُس کو بال جتنا گول کر چپاتی کی طرح بنایا جاتا ہے اُس کے بعد غبارے جتنا چپاتی کو پُھلائے پھر توے پہ رکھ کر اُس کی میں گیھ ڈالنا ہوتا ہے بس پھر گرما گرم پراٹھے تیار۔ارمان نے مزے سے اُس کو پراٹھے بنانے کا طریقہ بتایا تو فجر نے صوفے کا سہارہ لیا

کیا تم کوئی سستا نشہ کرتے ہو؟فجر نے طنزیہ کیا۔

میں مہنگا نشہ بھی افورڈ کرسکتا ہوں پر وہ حرام ہیں تبھی میں نہیں کرتا۔ارمان نے فخریہ انداز میں کہا

میں نے بہت بڑی غلطی کی تمہیں کال کرکے مجھے بہت ضروری بات کرنی تھی یمان سے مگر تمہاری وجہ سے یاد نہیں کے کیا کہنا تھا۔فجر دو انگلیوں سے اپنا مسلتی دانت پیس کر بولی

جان کر خوشی ہوئی۔ارمان تھوڑا شرماکر بولا

کیا جان کر خوشی ہوئی۔فجر کو سمجھ نہیں آیا

یہی کے جب آپ مجھ سے بات کرتی ہیں تو پھر آپ کو کجھ یاد نہیں ہوتا سب کجھ بھول جاتی ہیں۔ارمان فجر کی بات کا اپنا مطلب نکال کر بولا تو فجر نے بہت بُری طرح سے اپنے دانت کچکچائے

سائیکو انسان۔فجر دانت پہ دانت جمائے کہتی کال ڈراپ کرگئ۔

ٹوں

ٹوں

ٹوں کی آواز پہ ارمان نے موبائیل کان سے ہٹاکر اسکرین کو دیکھا تو منہ بن گیا۔

کوئی عزت نہیں میری ان دونوں بہن بھائی کی نظروں میں جب دیکھو اپنی بھڑاس نکال کر کال کٹ کرجاتے ہیں اب میں کس پہ اپنی بھڑاس نکالوں؟ارمان سیل فون جیب میں رکھتا تاسف سے بڑبڑایا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ارمان سے بات کرنے کے بعد یمان اپنا سیل فون اسکرول کرنے لگا تو اُس کی نظر اپنی تصاویرات پہ پڑی جہاں لائیکس اور کمینٹس کی بھرمار تھی۔

اگر کوئی پراٹھا کِھلانے والا مل جائے تو میں بھی ابھی شادی کرلوں ورنہ کنواری مرجاؤں۔

لاحوال ولاقوة۔یمان کی نظر ایک کمنٹ پہ پڑی تو بے ساختہ کہا۔

جو بھی تصویر تو خاصی لی ہے نجمہ نے۔یمان اپنی تصویر زوم کرکے دیکھتا مسکراکر بولا تبھی اُس کے دماغ میں کجھ کلک ہوا۔

ہائے بنا فلٹر کے آپ کی تصویریں کتنی پیاری آئی ہے اگر میں ایک دو اپنی انسٹا اکاؤنٹ میں لگادوں تو ضرور وائرل ہوجانی ہے پھر ہر ایک اپنے پیج پہ پوسٹ کرے گا اور کیپشن ہوگا پاکستان کا مشہور گلوکار یمان مستقیم کی پراٹھے بنانے وقت خوبصورت تصاویر سوشل میڈیا پہ دھوم مچاتے ہوئے۔

نجمہ تمہیں تو میں آج چھوڑوں گا نہیں۔یمان دانت پیس کر کہتا بلینکٹ ہٹاکر بنا پاؤں میں سلپر پہنے ایسے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ آج جلدی اُٹھ گئ تو سوچا آپ کے لیے ناشتہ یہی لے آؤں۔نجمہ آروش کے کمرے میں آتی اُس سے بولی۔

ہممم میں جلدی اُٹھتی ہوں اِس لیے تم چھ بجے کے قریب میرا ناشتہ لادیا کرو۔آروش اُس کو دیکھ کر بولی۔

ٹھیک ہے مگر اتنی جلدی؟نجمہ حیران ہوئی۔

فجر نماز پڑھنے کے بعد نیند نہیں آتی۔آروش پراٹھے کا نوالہ توڑ کر بولی

آپ بھی دیر اُٹھنے کی عادت ڈال دے کیونکہ یہاں کوئی بھی دس گیارہ بجے سے پہلے نہیں اُٹھتا۔نجمہ نے کہا

مجھے اِن کے جیسا بننے کا کوئی شوق نہیں۔آروش سنجیدگی کہہ کر نوالہ منہ میں ڈال تو سخت بدمزہ ہوئی۔

یہ کیا ہے؟کل تو اتنے اچھے تھے اور آج اتنے نمکین کیوں ہے؟کل کس نے بنائے تھے؟اور آج کس نے بنائے ہیں آروش کڑوا منہ بناتی نجمہ سے بولی

'پراٹھے بھی تم نے بنائے ہیں اگر وہ پوچھے تو۔"

آروش کے سوال پہ نجمہ کو یمان کا جُملا یاد آیا۔

میں نے بنائے تھے۔نجمہ نے کہا

اور آج کس نے؟آروش پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑ کر اُس سے بولی

کُک نے نمکین اِس وجہ سے ہیں شاید اُس نے آٹا گوندنے وقت نمک میکس کردیا ہوگا۔نجمہ نے بتایا

آئیندہ سے تم ہی پراٹھے بنایا کروں گی اور ٹھیک چھ بجے یہاں دے دیا کرو۔آروش ٹرے پڑے کیے اُس سے حکیمہ لہجے میں بولی

چھ بجے تو وہ اُٹھتے نہیں۔نجمہ کی زبان بے اختیار پِھسلی۔

کون نہیں اُٹھتا؟آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

میرا بھائی کچن کا دروازہ اُس نے کُھولنا ہوتا ہے نہ۔نجمہ نے گڑبڑاکر کہا

تو ڈوپلیکیٹ چابی بنوالوں اپنے لیے۔آروش نے مشورہ دیا

جو حُکم میرے آقا۔نجمہ ٹرے ہاتھ میں لیتی جانے لگی جب آروش نے کہا

سُنو یہ پراٹھے تم کھالینا ایسے پھینک کر ضائع نہ کرنا۔

کل والے پراٹھے کھانے وقت تو آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی تھی اور اب کیسے بول رہی۔نجمہ آروش کی بات پہ بس سوچ سکی

اور کوئی حُکم؟نجمہ نے پوچھا

نہیں جاؤ تم۔آروش نے کہا تو وہ کمرے سے باہر چلی گئ۔

ایک حویلی کے ملازمائیں ہوتی تھی جن کو دیکھ کر ایسا لگتا کے روبوٹ ہیں اور یہاں کی ہے جن کی زبانیں قینچی سے زیادہ تیز ہیں۔نجمہ کے جانے کے بعد آروش تاسف سے بڑبڑائی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

تم؟یمان سارے گھر میں نجمہ کو تلاش کرتا اپنے کمرے میں جارہا تھا جب اُس کی نظر آروش کے کمرے سے نکلتی نجمہ پہ پڑی تو اُس سے پہلے وہ کجھ کہتا نجمہ نے ٹرے اُس کے سامنے کی۔

انہوں نے ناشتہ نہیں؟طبیعت ٹھیک نہیں تو میں کسی ڈاکٹر کو فون کروں؟یمان جس مقصد سے نجمہ کو تلاش کررہا تھا وہ بھول کر فکرمندی سے بولا

میرے خیال سے ڈاکٹر کی ضرورت آپ دونوں کو ہے اگر آپ دونوں نے اپنا علاج نہیں کروایا تو ضرور ممکن ہے ایک دن میں پاگل خانے میں چیختی چلاتی ہر ایک کو نظر آؤں گی۔نجمہ یمان کی بات کے جواب میں بولی

کیا پاگلوں والی بات کررہی ہو؟یمان نے عجیب نظروں سے اُس کو دیکھا

صاحب تو اور کیا کہوں؟ایک وہ محترمہ ہے جن کو آئے مشکل سے بیالیس گھنٹے ہوئے ہیں مگر اتنے میں جتنی بار میں نے اُپر سے نیچے۔نیچے سے اُپر تک کا سفر کیا ہے نہ میرا وزن ضرور گِرتا جائے گا ایک وہ ہے جن کو پانی بھی کمرے تک دینا پڑتا ہے مجال ہے جو غلطی سے بھی پیر باہر کو نکالے ایسے تو مہمانون کا رویہ بھی نہیں ہوتا اور اب اُن کو یہ پراٹھے نہیں کھانے آپ کے بنائے ہوئے پراٹھے پسند آگئے ہیں وہ کھانے ہیں وہ بھی صبح کے چھ بجے جب کی وہ وقت آپ کے سونے کا ہوتا ہے رات کے ایک دو بجے آپ کی آمد ہوتی ہے گھر میں۔نجمہ ایک سانس میں بولی۔

کیا وہ ایک دفع بھی کمرے سے باہر نہیں آئی؟یمان فکرمند ہوا

نہیں اور جب میں کمرے میں جاؤں تو مجھے بار بار بتانا پڑتا ہے میں نجمہ ہوں آپ کے لیے ناشتہ لائی ہوں۔آپ کے لیے کھانا لائی ہوئی؛آپ کے لیے جگ پانی کا لائی ہوں اگر نہ بتاؤں تو چاہے باہر والا دروازہ کھٹکھٹاکر سوکھ کر کانٹا ہوجائے اُنہوں نے دروازہ نہیں کھولنا ہوتا میں تو اب نیند میں یہ بڑبڑانے لگی ہوں کے میں نجمہ ہوں؛میں نجمہ ہوں۔نجمہ روہانسی ہوگئ تھی۔

گھر میں کون کون ہوتا ہے؟یمان نے بس اتنا پوچھا

آپ لوگ ہوتے ہیں میں ہوتی ہوں رشیدہ ہوتی ہوں اُس کے علاوہ کُک ہوتا ہے صفائی کرنے والا مختار ہوتا ہے نور صاحبہ کے بچوں کا خیال کرنے والا گلنواز ہوتا ہے بڑے صاحب کا ڈرائیور بھی کبھی کبھی آجاتا ہے۔نجمہ نے پورا حساب کرکے بتایا۔

ہممم اچھا میں پراٹھے بنادیتا ہوں تم لے جانا۔یمان پرسوچ انداز میں بولا

آپ اُن کے لیے ایسا کیوں کررہے نک چڑھی ہے ایک لفظ تعریف کا نہیں بولنا انہوں نے۔نجمہ نے منہ کے زاویئے بگاڑ کر کہا

یہ میں اُن کے لیے کررہا ہوں ایک لفظ تعریف کے لیے نہیں اُس کے لیے پوری دُنیا بیٹھی ہے۔یمان اُس کے ہاتھ سے ٹرے لیتا بولا

باتیں اچھی کرلیتے ہیں مگر ٹرے مجھے دے آپ کی اُن کا حکم ہے یہ میں کھاؤں۔نجمہ یمان کے بار بار 'ان"لفظ پہ بدمزہ ہوتی بولی جب کی یمان کے چہرے پہ آپ کی ان پہ گہری مسکراہٹ آئی تھی۔

یہ میں کھالوں گا تم کھاؤں تو ہوسکتا ہے تمہارا ویٹ بڑھے پھر موٹی لڑکی سے کون شادی کرے گا۔یمان ہونٹ دانتوں تلے دبائے بولا

آپ اُن کا چھوٹا ہوا کھانا کیوں کھانے لگے اور یہ وزن کی فکر آپ سیلیبرٹیز کو ہوتی ہے ہم کو نہیں اور اگر آپ کو یاد ہو تو بتادوں جب آپ کو اٹیک آیا تھا تو ڈاکٹرز نے سخت تاکید کی تھی کے آپ کوئی بھی زیادہ تیل والی چیز نہ کھائے ویسے بھی آپ ڈائیٹ کونشئس انسان ہے۔نجمہ کو یمان کی بات کجھ پلے نہیں پڑی۔

اگر تمہیں یاد ہو تو کل دیسی گیھ آیا تھا وہ کھانے سے کجھ نہیں ہوتا دوسرا مجھے اٹیک آیا تھا وہ پُرانی بات ہے۔یمان سکون سے کہتا کچن کے راستے جانے لگا

مانا وہ پُرانی بات ہے مگر تاکید تو عمر بھر کے لیے تھی۔نجمہ اُس کے پیچھے چلتی ہوئی بولی

دماغ خراب نہیں کرو اور نور آپی کے کمرے میں جاؤں اُن کے بچے جاگ گئے ہوگے۔یمان نے سنجیدگی سے اُس کو ٹوکا

💕💕💕💕💕💕💕💕

ان کی زندگی میں بھی پرائیویسی نام کی کوئی چیز نہیں۔شازل اپنے لیپ ٹاپ پہ یمان کی تصویریں دیکھتا افسوس بھرے لہجے میں بولا۔

کن کی زندگی میں؟ماہی جو ڈرائے فروٹ کھانے میں مشغول تھی شازل کی بات پہ بولی

تم فروٹ کھاؤ۔شازل نے کہا تو ماہی کا بن گیا

دیکھائے نہ۔ ماہی زبردستی لیپ ٹاپ کی اسکرین اپنی طرف کی تو یمان کی تصورات دیکھ کر اُس کی آنکھیں پوری طرح سے کُھلی کی کُھلی رہ گئ۔

یہ یمان مستقیم ہے نہ؟ماہی نے شازل سے پوچھا

ہاں یمان مستقیم ہے تمہارے چچا کا بیٹا نہیں جو اتنی دیدے پھاڑ کر دیکھ رہی ہو مجھے تو کبھی اِس طرح نہیں دیکھا۔شازل لیپ ٹاپ کی اسکرین کی بند کرتا اُس سے بولا

میرے چچا کا بیٹا ہوتا پھر تو کیا ہی بات ہونی تھی ویسے کیا اِن کو بھی آپ کی طرح گھرداری آتی ہے؟ماہی متجسس لہجے میں بولی

گھرداری؟شازل اُس کو تیز نظروں سے گھور کر بولا

جی میرا مطلب کُکنگ۔ماہی گڑبڑا کر بولی

وزن کے ساتھ ساتھ عقل بھی موٹی ہوتی جارہی ہے۔شازل نے سرجھٹک کر کہا

میں ناراض ہوجاؤں گی۔ماہی نے دھمکی دی

مرضی ہے ویسے تم اِس کو کیسے جانتی ہو؟شازل نے غور سے اُس کے تاثرات نوٹ کرکے پوچھا

کس کو؟ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

یمان مستقیم کو؟شازل نے دانت پیس کر کہا

اُن کو کون نہیں جانتا میں نے اِن کے سارے گانے سُنے ہیں اور کیا گاتا ہے سچی اِس کے گانے سیدھا دل پہ ٹھاہ کرکے لگتے ہیں۔ماہی نے مزے سے کہا

اِن کے سارے گانے سُنے ہیں اور کیا گاتا ہے سچی اِس کے گانے سیدھا دل پہ ٹھاہ کرکے لگتے ہیں۔شازل نے اُس کی نقل اُتاری

کیا ہے نقل کیوں اُتار رہے میری؟ماہی چڑ کر بولی۔

کیونکہ اتنا بھی کوئی توپ چیز نہیں وہ اِس سے اچھا تو میں گانا گاسکتا ہوں اور یقین جانوں پھر اِس بندے کا نام ونشان نہیں رہے گا آواز تو کیا شکل سے بھی میں کئ گُنا پیارا ہوں۔شازل کالڑ جہاڑ کر بولا

ہو ہی نہ جائے آپ مشہور یمان مستقیم جیسا کوئی نہیں ہی از ون اینڈ اونلی۔ماہی نے زبان دیکھ کر اُس کو چڑایا

تمہیں شرم نہیں آتی اپنے شوہر کے سامنے کسی اور کی تعریف کرتے۔شازل نے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا

شرم کیسی؟میرا موسٹ فیورٹ سنگر ہے وہ بھی پانچ سالوں سے میں اِن کو جانتی ہوں ویسے آپ کو شرم آنی چاہیے خود سے چھوٹو سے جیلس ہورہے ہیں۔ماہی نے اُلٹا شازل کو شرمندہ کردیا

چھوٹا؟شازل کی آنکھیں اُبلنے کی حدتک کُھلی کی کُھلی رہ گئ۔

جی پچیس سال کا ہے وہ جب کی آپ ماشااللہ سے اٹھائیس سال کے ہونے والے ہیں۔ماہی نے شان بے نیازی سے کہا

اتنا یہ بیبا بچہ اور میں پچاس سال کا بوڑھا جس کے بال سفید ہوگئے ہیں چہرے پہ جھڑیاں آگئ ہیں دانت تو سِرے سے نہیں ہے گِر کر ٹوٹ گئے ہیں۔شازل تپ اُٹھا۔

ہاہاہاہاہا سیریسلی شازل؟آپ پچاس سال کے ہوجائے گے تو ایسا روپ اختیار کرجائے گے۔ماہی شازل کی بات پہ ہنس ہنس کر بےحال ہوئی۔

آج کے بعد تم یمان مستقیم کا کوئی گانا نہیں سنوگی اور نہ اُس کو فالو کرو گی۔شازل نے دانر پہ دانت جمائے کہا

جب سے میرا قیام حویلی میں ہوا میں نے کوئی گانا نہیں سُنا رہی بات فالو کرنے کی تو اُس کے لیے ایک فون کی اشد ضرورت ہے۔ماہی نے کہا

اچھا یہ مجھے دو کیا ہر وقت کھاتی رہتی ہو۔شازل نے ڈرائے فروٹ کی پلیٹ اپنی جانب کِھسکائی۔

یہ میرے ہیں۔ماہی نے احتجاج کیا۔

میں بھی تمہارا ہوں۔شازل نے بنا تاخیر کیے کہا تو ماہی کی زبان کو تالے لگ گئے۔

💕💕💕💕💕💕💕

ارمان دلاور خان کے یہاں آیا تو نجمہ کے لیے عدالت کھڑی ہوگئ تھی دلاور خان زوبیہ بیگم خشمگین نظروں سے اس کو گھور رہے تھے جب کی نور اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لیے یمان کی تصویریں دیکھ رہی تھی اُن سب سے بے نیاز یمان خود کچن میں موجود ہوگیا جیسے وائرل اُس کی نہیں کسی اور کی تصاویریں وائرل ہوگئ ہو۔

تمہیں پتا تھا یمان کا کیا مقام ہے؟پھر بھی تم نے ایسی حماقت کی۔زوبیہ بیگم نے اُس کو لتاڑہ

بیگم صاحبہ قسم لے میں نے تو اپنے بس اپنا واٹس ایپ اسٹیٹس لگایا تھا پتا نہیں کیسے وہاں سے چوری ہوگیا۔نجمہ نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا اِن سب سے تو وہ خود ناواقف تھی۔

تم اسٹیٹس بھی کیوں لگایا ایسی حالت میں یمان کے ساتھ تصویریں بنائی کیوں؟دلاور خان نے کہا

یمان کچن میں کیا کرنے گیا تھا؟نجمہ کے کجھ کہنے سے پہلے نور نے پوچھا

او جی چھوٹی بہن جو آپ کی ہیں اُن کے لیے پراٹھے بنانے گئے تھے۔نجمہ کی بات پہ سب حیران ہوئے سوائے دلاور خان کے لیے

میں نے تو اُن کو کبھی پانی اُبالتے ہوئے نہیں دیکھا۔ارمان حیرت سے بولا

اب پراٹھا بناتے دیکھ لے کچن میں ہی ہیں وہ یہ نہ ہو یمان صاحب کو کچن میں دیکھنے کی حسرت دل میں دباکر قبر میں دفن ہوجائے۔نجمہ نے اپنی طرف سے ہر ایک کو مشورہ دینا ضروری سمجھا۔

تمہاری زبان آجکل کجھ زیادہ نہیں چلنے لگی میں چھڑا چھانٹ کنوارہ سا خوبرو نوجوان ابھی شادی تک نہیں کی بچے تک نہیں ہوئے میرے اور تم مجھے قبر تک پہچانے میں لگی ہوئی ہو ان شاءاللہ مجھے قبر میں دیکھنے کی حسرت تم قبر میں لیکر جاؤ گی۔ارمان کے تو اُس کی بات تپاگئ تھی۔

توبہ ہے آپ چھڑے چھانٹ ہیں تو میں نے کونسا اپنے بچوں کی قطارے بنا رکھی ہے میں بھی پیور سنگل ہوں شادی تو دور کسی سے آنکھ مٹکا تک نہیں کیا۔نجمہ کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔

خاموش رہو تم دونوں یہاں ہم ایک سیریس میٹر ڈسکس کرنے بیٹھے ہیں اور تم دونوں نے بچوں کی طرح لڑائی شروع کردی ہے۔زوبیہ بیگم نے دونوں کو ٹوکا تو دونوں خاموش ہوگئے

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

لگتا ہے خود ہی دینے جانا پڑے گا۔یمان نے نجمہ کو آتا نہ دیکھا تو پرسوچ انداز اپنائے بڑبڑایا اُس کو پتا تھا سب ڈرائینگ روم میں ہیں تبھی ٹرے میں ہاتھ میں لیتا آروش کے کمرے کے باہر کھڑا ہوتا کجھ سوچ کر دروازہ نوک کیا۔

دوسری طرح آروش جس کا بھوک سے بے حال تھا دروازہ نوک ہوتے ہیں بنا پوچھے دروازہ کھول دیا مگر اپنے سامنے نائٹ سوٹ میں بکھرے بالوں سمیت اور بنا چپل کے یمان کو دیکھ کر اُس کو حیرانی کا شدید جھٹکا لگا تھا اُس نے جلدی سے اپنے چہرے کا رخ طرف کیے اُس کی جانب پشت کرکے کھڑی ہوگئ۔

یمان کو شاید اُس کو ایسے ہی ری ایکشن کی اُمید تھی تبھی اُس نے اپنا سر پہلے سے جُھکایا ہوا تھا۔

تم؟

تم یہاں کیا کررہے ہو؟آروش نے جھنجھلا کر پوچھا جو اپنے لاپرواہ حُلیے میں بھی حدردجہ پیارا لگ رہا تھا۔

وہ میں آپ کے لیے ناشتہ لایا ہوں خود لے یا مجھے اِجازت دے کے میں اندر آکر رکھ لوں۔یمان نے سراُٹھا کر مسکراکر کہا

نجمہ کہاں ہیں؟آروش اُس کی بات نظرانداز کرتی بولی

پتا نہیں۔یمان نے لاعلمی کا اظہار کیا

تم جاؤ یہاں سے۔آروش دروازے پہ ہاتھ رکھ کر اُس سے بولی تو یمان نے غور سے اُس کی پشت کو دیکھا جو دو دن سے ایک ڈریس میں ملبوس تھی۔

آپ کے پاس کوئی اور کپڑے نہیں کیا؟یمان پوچھے بنا نہ رہ پایا

تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ سوال کرنے والے؟آروش اُس کے سوال پہ تپ اُٹھی۔

آپ کے مستقبل کا مجازی خدا۔یمان اپنی مسکراہٹ دبائے بولا۔

لگتا ہے اب بھی عقل سے پیدل ہو۔آروش کا دل زور سے دھڑکا تھا اُس کی بات پہ جس کو کنٹرول میں کیے وہ بس یہی بول پائی۔

عقل سے پیدل نہیں ہوں سمجھدار ہوں تبھی تو آپ کا انتظار کیا۔یمان پرسکون لہجے میں بولا

مگر میرا جواب پہلے والا ہی ہے۔آروش کی بات پہ یمان کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی وہ کمرے میں داخل ہوتا ٹرے بیڈ پہ رکھ کر واپس اپنی جگہ پہ کھڑا ہوگیا اتنے میں آروش بس صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئ۔

ہمارے درمیان بس ذات کا فرق تھا جو اب نہیں تو آپ کے انکار کی وجہ؟یمان سنجیدہ ہوا

میں تمہارے آگے جوابدے نہیں۔آروش نے سپاٹ لہجے میں کہا

مگر مجھے آپ کا جواب چاہیے۔یمان بضد ہوا

جاؤں یہاں سے ورنہ میں شور مچاؤں گی۔آروش نے دھمکی دی

شور مچا کر کیا کہے گی؟کے میں نے آپ کی عزت پ

چٹاخ۔

آروش کی بات پہ یمان کو بہت تکلیف ہوئی تھی جس کو نظرانداز کیے وہ بولنے والا تھا جب آروش پلٹ کر ایک تھپڑ اُس کے چہرے پہ مارا۔

تم خود کو کیا سمجھتے ہو؟اور مجھے کیا سمجھتے ہو؟تمہیں میں ایسی لگتی ہوں جو یوں سرے عام اپنی عزت کا تماشا بنائے گی۔آروش اُس کا گریبان پکڑے دھاڑی۔

آروش کے اِس قدر قریب ہونے پہ یمان کا دل بے ایمان ہوا تھا  دل عجیب ترز سے دھڑکنے لگا تھا وہ تو خواب میں بھی ایسا سوچ نہیں سکتا تھا حقیقت میں اتنا پاس ہونا تو بہت دور کی بات تھی ایک ہی سیکنڈ میں اُس کی حالت غیر ہوئی تھی یمان بنا آروش کو چھوئے اُس کا ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا اپنا سر نفی میں ہلاتا اپنے کمرے کے راستے چل دیا۔

آروش اُس کے عمل پہ حق دق رہ گئ اُس کو جی بھر کر اپنی اِس قدر بے اختیاری پہ غصہ آیا تھا جانے اُس کو یمان کی باتوں میں کیا ہوجاتا تھا جو اُس کی سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفلوج ہوجایا کرتی تھی۔

یہ مجھ سے کیا ہوگیا وہ نامحرم تھا میرا۔آروش اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر بڑبڑائی پل بھر میں اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر رخسار بھگا گئے تھے۔

°°°°°°°°°°°°°°°

بہل تو جائے دلاسو سے میرا دل لیکن

چلتی کہاں ہیں،صحراؤں میں کشتیاں،

یہ مجھے کیا ہوجاتا ہے اُن کو ایسے اپنے پاس دیکھ کر۔یمان اپنے کمرے میں آتا سر ہاتھوں میں گِرائے بیٹھ گیا اُس کو آروش کا تھپڑ مارنا بُرا نہیں لگا تھا بلکل بھی نہیں لگا تھا اُس کو اگر بُرا لگتا تھا تو بس اُس کا انکار جو وہ بار بار کرتی تھی۔

شاید میرے مرنے کے بعد اُن کو میرا احساس ہو کے میں اُن کو کتنا چاہتا ہوں اب تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ میری جان لیکر ہی رہے گی۔یمان کے چہرے پہ زخمی مسکراہٹ در آئی تھی اپنے اندر ایک اُداسی کی لہر ڈورتی محسوس ہوئی سر الگ سے درد سے پھٹا جارہا تھا۔وہ سمجھ نہیں پارہا تھا ایسا وہ کیا کرے جو آروش اُس کی بن جائے۔کیا اتنے سالوں بعد بھی اُس کا عشق لاحاصل ہی رہے گا آروش کو کبھی اُس کی پرواہ نہیں ہوگی۔

آپ چاہے مجھ سے پیار نہ کرے بس میری بن جائے میرے لیے وہ ہی بڑی بات ہوگی۔یمان کی آنکھ میں آنسو گِر کر ڈارھی میں جذب ہوا تھا

💕💕💕💕💕💕💕💕

ہر وقت کمرے میں کیوں رہتی ہوں ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔نور آروش کے کمرے میں آتی بولی جو خاموشی سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہوئے تھی۔

دل نہیں کرتا باہر آنے کو۔آروش سنجیدگی سے بولی

کیا تم روئی ہو؟اور ناشتہ کیوں نہیں کیا نجمہ لنچ کے وقت یہاں آئی تھی پر تم نے دروازہ نہیں کھولا تھا خیریت؟نور اُس کی سر آنکھیں اور ناشتے کی ٹرے دیکھ کر بولی جو جوں کی توں پڑی تھی جیسے یمان رکھ کر گیا تھا۔

بھوک نہیں ہے۔آروش نے مختصر جواب دیا

اچھا ویسے مجھے یہاں موم نے بھیجا تھا وہ چاہتی ہے تم ساتھ چلو مال شاپنگ کرنے کے لیے۔نور نے پرجوش آواز میں کہا

مجھے کہی نہیں جانا اُن سے کہے وہ خود ہی اپنی پسند سے کجھ لے آئے۔آروش اُس بات سن کر بولی

اٹس اوکے آج نہیں تو کل چلنا میرے خیال سے کل بھی تم انہیں کپڑوں میں تھی اگر تم کہو تو اپنے کجھ ڈریسز تمہیں دیتی ہوں جو میں نے استعمال نہیں کیے۔نور نے اُس کا جائزہ لیتے کہا

کوئی مُناسب ڈریس ہے تو پلیز دے انہیں کپڑوں میں بار بار نماز پڑھتی ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے اور میں ایک جائے نماز بھی کہا تھا آپ لوگوں نے دیا نہیں۔آروش ایک نظر اُس کے کپڑوں میں ڈال کر "مناسب"لفظ پہ زور دے کر بولی۔

جائے نماز یاد نہیں رہا ہوگا ڈیڈ کو میں ابھی دونوں چیز تمہیں بھجواتی ہوں۔نور اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولی

قرآن پاک بھی چاہیے تھا۔آروش نے کہا

وہ تو یہاں ہوگا۔نور نے الماری کی جانب اِشارہ کیے بتایا

میں نے پورا کمرا بہت بار چیک کیا ہے مگر وہ چیزیں نہیں ہیں جو مجھے چاہیے۔آروش نے جواب دیا۔

اچھا ٹھیک ہے میرے کمرے میں ہے وہ بھجواتی ہوں۔نور مسکراکر کہا

شکریہ۔آروش نے کہا تو نور مسکراکر سراثبات میں ہلاتی چلی گئ۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش بی بی یہ بیگ نور بی بی نے آپ کے لیے بھیجا تھا۔کجھ دیر بعد نجمہ آروش کے کمرے میں آتی ایک بیگ اُس کو دے کر بولی

جائے نماز اور قرآن؟آروش ایک نظر بیگ پہ ڈال کر بولی۔

جائے نماز تو یمان صاحب کے کمرے میں ہوگا اور اُن کا کمرہ صبح سے لاک ہے اِس لیے ابھی کے لیے یہی دیئے۔نجمہ نے جواب دیا۔

اچھا تم جاؤ۔یمان نام پہ آروش کے تاثرات بدلے تھی تبھی کجھ اور پوچھنے کے بجائے یہ کہا۔

ٹھیک ہے۔نجمہ اتنا کہتی کمرے کا دروازہ بند کرتی چلی گئ تو آروش گہری سانس لیکر بیگ کو کھول کر دیکھا جس میں پانچ مختلف ڈیزائن کے ڈریسز تھے۔

اب میں یہ کپڑے پہنوں گی۔آروش سب جوڑے الگ الگ کرکے دیکھتی بڑبڑائی جس میں کوئی جوڑا بیک لیس تھا تو کو سلیولیس تھا کسی میں شلوار کے بجائے ٹائیٹس تھی ڈوپٹہ تو سِرے سے کسی میں نہیں تھا اُس کو سبھی جوڑے بیکار لگے۔

حد ہے۔آروش بدمزہ ہوتی سب کپڑوں کو بیڈ سے نیچے پھینک دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

نجمہ یہ سب مختار والے کہاں چلے گئے؟دلاور خان نے اگلے دن گھر میں کسی میل سرونٹ کو ناپاکر نجمہ کو آواز دے کر اُس سے پوچھا جو لاؤنج کی صفائی کرنے میں مصروف تھی۔

اُن کی تو چھٹی کردی ارمان سر نے یمان صاحب کے کہنے پہ۔نجمہ نے بتایا

چھٹی کردی مگر کیوں؟دلاور خان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگے۔

وہ جی آپ کی چھوٹی بیٹی کو اچھا نہیں لگتا تبھی وہ بار نہیں آتی اپنے کمرے سے تو اِس لیے انہوں نے یہ کیا آپ کا جو ڈرائیور ہے وہ گھر میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ یمان صاحب نے خود پرسنلی اُس کو وارن کیا ہے کُک بھی اب نہیں رہا صفائی والا بھی نہیں رہا اُن کے بدلے دوسری ملازماؤں کا بندوبست یمان صاحب نے ارمان سر کے زمے لگایا ہے۔نجمہ نے تفصیل سے بتایا

یہ یمان نے ایسا کیوں کیا؟وہ سب پُرانے سرونٹس تھے ہمارے۔زوبیہ بیگم جو ابھی لاوٴنج میں آئی تھی نجمہ کی بات سن کر بولی

کجھ سوچ کر اُس نے کیا ہوگا خیر میں اب نکلتا ہوں ایک شوٹ کے لیے فیصل آباد جانا پڑے گا۔دلاور خان نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر زوبیہ بیگم سے کہا

فیصل آباد کیوں آپ کو یاد نہیں ہم نے گھر میں ایونٹ کرنے کا سوچا تھا دُنیا میں سامنے اپنی بیٹی کو بھی تو لانا ہے۔زوبیہ بیگم دلاور خان کی بات پہ تعجب سے گویا ہوئی۔

میں جلدی واپس آجاؤں گا اور اِس ایونٹ کی زمیداری میں نے ارمان کو دی ہے وہ اچھے سے سب سنبھال لے گا مگر ایک بات کا خاص خیال رکھنا یہ بات آروش کو پتا نہ چلے ہم اُس کو سرپرائز دے گے۔دلاور خان نے مسکراکر اُن کو تسلی کروائی

یہ تو اچھی بات ہے میں پھر آج آروش کو لیکر جاتی ہوں شاپنگ کے لیے ایونٹ کے لیے اُس کے پاس بہت اعلیٰ ڈریس ہونا چاہیے اسٹائلش سا۔زوبیہ بیگم خوش ہوئی

آروش بی بی تو جو بھی پہنے گی اُن پہ وہ سوٹ کرے گا۔نجمہ زوبیہ بیگم کی بات پہ خاموش کھڑی نجمہ بول پڑی

یہ تو ہے مگر وہ دلاور خان کی بیٹی ہے اُس کو سب سے الگ لگنا چاہیے۔زوبیہ بیگم نے کہا

اچھا پھر میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔دلاور خان کو وقت کا احساس ہوا تو کہا

ٹھیک ہے بائے۔زوبیہ بیگم نے کہا تو وہ مسکرائے

اللہ کی امان صاحب۔نجمہ بھی اتنا کہتی اپنے کام میں لگ گئ۔

نجمہ سنو۔دلاور خان کے جانے کے بعد زوبیہ بیگم نے نجمہ کو مخاطب کیا۔

جی؟نجمہ اُن کے سامنے ہوئی

نور تو سوئی ہوئی ہوگی تم آروش کو کہو میں اُس کا لاؤنج میں انتظار کررہی ہو آجائے۔زوبیہ بیگم نے کہا تو نجمہ اُپر کی جانب بڑھی کجھ ہی مینٹس میں آروش نجمہ کے ہمراہ لاونج میں داخل ہوئی۔

السلام علیکم۔آروش نے زوبیہ بیگم کو دیکھ کر سلام کیا

وعلیکم السلام کیسی ہو؟ظاہر ہی نہیں ہوتی اپنی ماں کی خیرو خبر لیا کرو۔زوبیہ بیگم محبت سے اُس کو دیکھ کر بولی

جی ضرور۔آروش نے بس اتنا کہا

نور نے مجھے بتایا تھا اُس نے تمہیں اپنے ڈریسز دیئے ہیں تو آج وہ پہنتی نہ کیا پسند نہیں آئے؟۔زوبیہ بیگم نے اُس کا ڈریس اور حجاب دیکھ کر کہا۔

جی پسند نہیں آئے۔آروش صاف گوئی سے بولی

اچھا وہ تو بہت بڑے ڈیزائنر سے اپنے کپڑے ڈیزائن کرواتی ہے خیر تم آجاؤ میرے ساتھ چلنا وہاں پھر تم اپنی پسند کے ڈریسز لینا۔زوبیہ بیگم نے مسکراکر کہا تبھی اُن کے سیل پہ کال آنے لگی تو وہ اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔

میرے لیے ایک کپ چائے تو لانا۔آروش نے دوسری ملازمہ کو گُزرتے دیکھا تو کہا جس پہ وہ سرہلاتی چلی گئ۔

یمان بھی کل سارا وقت اپنے کمرے میں رہنے کے بعد آج اسٹوڈیو جانے کے لیے نکل رہا تھا جب اُس کے فون پہ بھی کال آنے لگی۔تو وہ سائیڈ پہ ہوا۔

اچھا میں یمان سے کہوں گی۔دوسری طرف سے زوبیہ کو جانے کیا کہا گیا تھا جب انہوں نے کہا"یمان"لفظ پہ اِس بار کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا راشدہ چائے کی ٹرے لیکر آئی تو آروش وہ پینے لگی۔

راشدہ یمان کو یہاں آنے کا کہو بات کرنی ہے ضروری۔زوبیہ بیگم کال ڈراپ کرنے کے بعد راشدہ سے کہا۔

جی وہ رہے۔راشدہ نے ایک طرف اِشارہ کیے بتایا تو زوبیہ بیگم نے وہاں گردن موڑ کر دیکھا

یمان؟ یمان جو کسی سے کال پہ بات کرنے میں مصروف تھا لاؤنج میں آروش کے ساتھ بیٹھی زوبیہ بیگم نے اُس کو آواز دی۔ 

جی۔ یمان سیل فون کان کے پاس رکھتا اُن کی جانب متوجہ ہوا۔ 

یہاں آؤ۔زوبیہ بیگم نے آنے کا کہا تو یمان کی نظر آروش پہ پڑی جو صوفے پہ براجمان تھی اور اُس کی بیک یمان کے سامنے تھی جس سے وہ اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا مگر یمان کو کل واقع یاد آیا تو اُس نے اپنا سرجھٹکا

آپ کو کجھ کام ہے تو بتادے میں ویسے بھی اسٹوڈیو جانے کے لیے نکل رہا تھا۔یمان فاصلے پہ کھڑا ہوتا سنجیدہ لہجے میں اُن سے بولا

کیا ہوگیا ہے یمان اتنا دور کھڑے ہوکر کیوں بات کررہے ہو اگر آروش سے جھجھک رہے ہو تو مت جھجھکو نور کی طرح یہ بھی تمہاری بہن ہے۔زوبیہ بیگم کی بات پہ یمان کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پہ پڑا تھا جب کی چائے پیتی آروش نے بے ساختہ اُس کی اُڑی رنگت کو تصور کیا تھا

"اَسْتَغْفِرُاللّٰه بہن ہر کوئی دوبارہ ہارٹ اٹیک دلوانے کے پیچھے پڑا ہے۔یمان جھرجھری لیکر تپ کر سوچنے لگا۔

یہ میری بہن نہیں ہیں میں نے کوئی بہن چارہ (بھائی چارہ) تھوڑی کُھولا ہے جو۔۔۔جو آتا ہے اِن کو میری بہن بناکر چلا جاتا ہے مطلب حد ہے کسی کے احساسات کا قتل کروانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی کسی نے۔ یمان اچھا خاصا جھنجھلا اُٹھا تھا کہاں وہ اب شادی کے خواب دیکھنے لگا تھا اور کہاں گھروالے دونوں کے نکاح کا سوچنے کے بجائے رکشا (سُرخشا)  بندھن پہنانے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔

💕💕💕💕💕💕💕

یمان کیا ہوگیا ہے اِس لہجے میں بات کیوں کررہے آروش کو بُرا لگ سکتا ہے۔زوبیہ بیگم یمان کا آج ایسا رویہ دیکھ کر حیرت سے غوطہ زن ہوتی ہوئی بولی یمان جو ہر وقت آرام سے بات کرتا تھا اور اب یوں اِس طرح۔

مجھے بھی بُرا لگ سکتا ہے آپ لوگوں کا یوں بار بار اِن کو میری بہن کہنا۔یمان بولنے بنا نہ رہ پایا

سوری بیٹا لگتا ہے یمان آج شاید نیند میں ہے۔زوبیہ بیگم یمان کو گھور کر آروش سے بولی جو اب اپنے چائے کے کپ کو دیکھ رہی تھی۔

کوئی بات نہیں۔آروش محض بس یہی بولی تو یمان نے اُس کی پشت کو گھورنے لگا جو انجان بن کر بیٹھی تھی۔

یمان میں نے تمہیں اِس لیے آواز دی تھی کیونکہ روزی کا فون آیا تھا۔زوبیہ بیگم نے ابھی اتنا کہا تھا جب یمان بیچ میں بول پڑا

کون روزی؟

یمان میری مانو کمرے میں جاکر اپنی نیند پوری کون روزی؟تمہاری فیانسے روزی جس کے ساتھ کجھ وقت میں شادی ہے۔زوبیہ بیگم کو آج یمان ٹھیک نہیں لگا تبھی کہا۔

"فیانسے"لفظ پہ آروش نے نظریں اُٹھا کر زوبیہ بیگم کو دیکھا جو یمان کو دیکھ رہی تھی۔

کیوں فون کیا تھا اُس نے آپ کو؟یمان کو اِس وقت روزی کا ذکر ایک آنکھ نہیں بھایا تھا

اُس کی کجھ فرینڈز ہیں جن سے وہ تمہیں ملوانا چاہتی ہے ساتھ میں تم دونوں کو پارٹی میں بھی جانا ہے جو تم دونوں کے لیے آرگنائز کی گئ ہے۔زوبیہ بیگم نے اُس کو بتایا

میرا آج ٹف شیڈول ہے میری طرف سے آپ معذرت کرلے۔یمان نے فورن سے انکار کیا

یمان اچھا نہیں لگتا وہ فیانسی ہے تمہاری اُس کا حق ہے تم پہ بیچاری تم سے مانگتی کیا ہے اور مجھے ویسے بھی آروش کو لیکر مال جانا ہے شاپنگ کے لیے۔زوبیہ بیگم نے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

شاپنگ پہ یہ چلے گی؟یمان جتنا حیران ہوسکتا تھا اُتنا ہو کر بولا

میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی میں خود نہیں جاتی کہی حویلی میں بھی اماں سائیں سارا کجھ کرتی تھی یہاں بھی آپ کردے۔زوبیہ بیگم اُس سے پہلے یمان کو جواب دیتی آروش بول کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔

رکو تو کہاں جارہی ہو۔زوبیہ بیگم نے اُس کو جاتا دیکھا تو آواز دی

میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں دو پہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔آروش جواب دیتی تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چلی گئ۔

یہ کیا بات ہوئی ساتھ چلتی تو اچھا تھا نہ۔زوبیہ بیگم پریشانی سے بڑبڑائی

میں چلتا ہوں آپ کے ساتھ  کیا پتا میری وجہ سے آپ کی کجھ مدد ہوجائے گی۔یمان جلدی سے زوبیہ بیگم کے پاس بیٹھ کر بولا

تمہارا تو آج ٹف شیڈول تھا؟زوبیہ نے گھور کر طنزیہ کیا تو یمان سٹپٹاگیا۔

"تھا"ٹف شیڈول تھا اب نہیں ہے۔یمان نے "تھا"لفظ پہ خاصا زور دے کر کہا

یمان؟زوبیہ نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھا

 موم آپ ماں ہیں اور آپ سے بڑھ کر میرے لیے کوئی ٹف شیڈول تو نہیں ہوسکتا نہ پہلے ماں پھر کام دوجا۔یمان اُن کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر بولا تو زوبیہ بیگم اُس کے واری صدقے ہوئی۔

ماں صدقے جائے میں بس چینج کرلوں پھر چلتے ہیں۔زوبیہ بیگم خوش ہوتی اُس کا ماتھا چوم کر بولی

میں تب گاڑی سٹارٹ کردیتا ہوں پورچ سے نکال کر۔یمان جوابً بولا تو زوبیہ بیگم اُٹھ کر چلی گئ۔

یمان ابھی باہر جانے والا جب اُس کی نظر ٹیبل پہ چائے کے کپ پڑی جس میں آروش کجھ دیر پہلے چائے پی رہی تھی۔یمان نے ایک چور نظر آس پاس ڈورائی پھر وہ کپ اپنے ہاتھ میں لیا جس میں آدھی چائے ابھی بھی باقی تھی۔یمان چند پل اُس کو دیکھتا رہا پھر وہی کپ اپنے ہونٹوں کے پاس کیے آروش کی بچائی ہوئی چائے کا سِپ لینے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا ہوا آپ پریشان ہیں؟ماہی نے شازل کو بہت دیر تک بات کرتا نہ دیکھا تو خود ہی بات کا آغاز کیا اُس کو محسوس ہوا تھا جب سے وہ شہر سے منتھلی چیک اپ کے بعد واپس آئے تھے شازل کجھ خاموش سا تھا مگر اصل بات کیا تھی وہ اُس سے بے خبر تھی۔

ہاں نہیں میں کیوں پریشان ہونے لگا۔شازل اُس کی بات سن کر چونک کر بولا

پھر اتنا خاموش تو نہیں ہوتے آپ جتنا آج ہیں۔ماہی اُس کے پاس بیٹھ کر بولی

تمہیں زیادہ فیل ہورہا ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔شازل اُس کی ناک دبائے بولا

کاش ایسا ہی ہو۔ماہی نے کہا

ہممم ایسا ہی ہے خیر تم نے دوائی لی؟شازل بات بدل کر بولا۔

جی لی ہے۔ماہی نے مسکراکر کہا

اوکے پھر آرام کرتا ہوں،میں آتا ہوں کجھ ضروری کام ہے۔شازل اُس کا گال تھپتھپاکر بول کر اُٹھ کھڑا ہوا۔

شازل۔شازل اُس کے پاس سے گُزر رہا تھا جب ماہی نے اُس کا ہاتھ پکڑا

کیا ہوا؟شازل سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔

آپ پریشان ہے مجھے لگ رہا ہے۔ماہی شازل کو اتنا چپ دیکھ کر روہانسی ہوئی۔مگر شازل کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی تھی۔

یہاں آؤ۔شازل نے اُس کو اپنے حصار میں لیا تو ماہی پرسکون ہوتی اُس کے سینے لگی اپنی آنکھوں کو بند کرگئ تھی۔

میں پریشان اِس لیے ہوں کے میں نے اکثر سُنا ہے عورتیں شادی کے بعد جب بچے پیدا کرتی ہیں تو اُن کا ویٹ بڑھ جاتا ہے فِگر بھی ڈول مول سی ہوجاتی ہیں کوئی کپڑے اُن کو فِٹ ہی نہیں آتی چلنے میں بھی اُن کو دُشواری ہوتی ہے اُٹھنے میں تو کسی کے سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔تم اتنی گولوں مولوں سی ہوگئ ہو مگر میں خود کو یہ تسلی کرواتا ہوں ہمارے بچے کی پیدائش کے بعد تم پھر سے پہلی کی طرح سمارٹ نظر آؤں گی۔پر اگر ایسا نہ ہوا تو بیڈ پہ تم سوؤں گی تو میں کہا؟سوؤں گا۔بس ایک یہ فکر ہے جو رات کو مجھے سونے نہیں دیتی۔ماہی جو اپنی آنکھیں بند کیے ہوئی تھی شازل کی سنجیدہ لہجہ میں گوہر افشانی سن کر اُس کے چودہ طبق روشن ہوئے وہ ایک ہی جھٹکے سے شازل سے دور ہوتی آنکھیں پھاڑ کر اُس کو دیکھنی لگی جس کا قہقہقہ ضبط کرنی کی کوشش میں سفید رنگت سرخ ہوگئ تھی۔

شازل آپ بہت بہت بہت زیادہ مین ہیں۔ماہی دانت کچکچاکر بولی

ہاہاہاہا میری گولوں مولوں سی بیوی اگر میں نے کہا پریشان نہیں ہو تو تم کیوں پریشان ہو رہی ہو ایسی بات سوچ کر جب کی ڈاکٹر نے تمہیں اِس حالت میں کوئی بھی اسٹریس لینے سے منع کیا ہے۔شازل اُس کے سامنے آتا اُس کا ماتھا چوم کر بولا

مجھے آپ سے بات نہیں بہت بُرے ہیں آپ ہر بار میرا مذاق اُڑاتے ہیں جب ہمارا بے بی ہوگا نہ تو میں آپ کی شکایت کروں گی اُس سے۔ماہی نروٹھے پن سے بولی

یہ ظلم مت کرنا اپنے معصوم شوہر پہ۔شازل نے مظلوم سی شکل بنائی۔

میں تو کروں گی۔ماہی کا انداز دیکھ کر شازل مسکراکر دوبارہ سے اُس کو اپنے حصار میں لیکر اُس کے بالوں میں بوسہ دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

یمان اور زوبیہ بیگم اسلام آباد کے بڑے مال میں داخل ہوگئے تھے یمان نے اپنے چہرے پہ ماسک پہنا ہوا تھا جس وجہ سے اُس کا چہرہ کور تھا وہ نہیں چاہتا تھا لوگوں کی بھیڑ جمع ہو۔اور یہاں مال میں یمان آیا تو زوبیہ بیگم کے ساتھ تھا مگر مال میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر ہر طرف پِھر رہی تھی وہ زوبیہ بیگم کے ساتھ ہوکر بھی اُن کے ساتھ نہیں تھا۔

یمان آروش کے لیے یہ ڈریس کیسا رہے گا۔زوبیہ بیگم ایک ڈریس یمان کے سامنے کیے بولی۔

یمان جو پرشوق نظروں سے ایک وائٹ کلر کے خوبصورت گاؤن کو دیکھ رہا تھا زوبیہ بیگم کی آواز پہ چونک کر اُن کی جانب دیکھا جو ایک گھٹنوں تک آتی شرٹ اُس کو دیکھا رہی تھی جو تھی سلیولیس۔

یہ آپ آروش کے لیے رہی ہیں؟یمان کی آنکھوں میں ناگواری بھرے تاثرات آئے تھے جس کو چُھپانا اُس نے ضروری نہیں سمجھا

ہاں پیاری ہے نہ کالا رنگ تو اُس پہ خوب بھی جچے گا۔زوبیہ بیگم خاصے پرجوش لہجے میں بولی۔

آہمم۔آپ کو نہیں لگتا کجھ اور لینا چاہیے اُن کے لیے جیسے یہ گاؤن کتنا پیارا ہے ساتھ سیم کلر کا حجاب بھی ہے یا پھر وہ ڈریسز دیکھے کتنے پیارے اور نفیس ہیں۔یمان کبھی گاؤن تو کبھی خوبصورت پرنٹڈ سوٹس کی طرف اِشارہ کرتا اُن کو بتانے لگا۔

ہم کونسا آروش کو کسی میلاد میں بھیج رہے جو ایسے ڈریسز لے ماڈرن زمانہ ہے تمہیں لڑکیوں کی شاپنگ کا نہیں پتا میں خود ہی دیکھ لیتی ہوں۔زوبیہ بیگم نے اُس کی بات سن کر ہنس کر سرجھٹکا

آپ کا یہ ماڈرن زمانہ اُن کو نہیں آنے والا پسند خیر ہم اپنی فیوچر وائیف کے لیے اُن کے حساب سے خریداری کرتے ہیں جو غالباً نہیں یقیناً اُن کو بہت پسند آئے گی۔یمان زوبیہ بیگم کو دیکھ کر سوچتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

ایکسکیوزمی۔یمان نے ایک سیلز بوائے کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

Yes,sir how can I help you ?

سیلز بوائے مسکراکر یمان کے پاس آکر بولا

مجھے یہ گاؤن پیک کرکے دے اور ساتھ میں بیس پچیس ڈریسز کے درمیان نفیس خوبصورت کے ڈریسز بھی جس میں سیم کلر کا ڈوپٹہ اور اسٹالر بھی ہو۔ آپ کو سمجھ آرہا ہے نہ میرے کہنے کا مطلب؟۔یمان اپنی بات کرنے  بعد تائید نظروں بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا

Yes,of course sir, I completely understand.

سیلز بوائے یمان کی بات سن کر مسکراکر بول کر کجھ ڈریسز اُس کے سامنے کیے۔

آپ کے کہنے کا مطلب تھا ایسی ڈریسز جو مشرقی گرلز پہنتی ہیں۔سیلز بوائے ڈریسز پیک کرنے کے بعد بیگز یمان کی طرف بڑھا کر بولا

یا رائٹ۔یمان ہنس کر بولا پھر ایک چور نظر آس پاس کی جہاں زوبیہ بیگم نہیں تھی شاید وہ کہیں اور گئ تھی۔یمان مال سے باہر آتا  اُن سب بیگز کو گاڑی کی پچھلی ڈگی میں رکھ کر دوبارہ مال کے اندر آتا زوبیہ بیگم کو تلاش کرنے لگا۔

آپ کی ہوگئ شاپنگ پانچ گھنٹے ہوگئے ہیں۔یمان کو مال کے تین چار چکر کاٹنے کے بعد بلاآخر زوبیہ بیگم ملی تو ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر اُس نے کہا

آلموسٹ ہوگئ ہے بس ایونٹ کے لیے آروش کے لیے کوئی ڈریس پسند نہیں آرہا سوچ رہی ہو وہ اپنی ڈیزائنر سے ڈیزائن کراؤ۔زوبیہ بیگم نے پرسوچ لہجے میں اُس سے کہا

ایونٹ؟یمان سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھنے لگا۔

ہاں آروش کے لیے ہم نے ایک پارٹی آرگنائز کرنے کا سوچا ہے۔زوبیہ بیگم نے بتایا 

او اچھا۔یمان صرف یہی بول پایا

ہاں اور آج رات زر فشاں زر نور زرگل بھی پاکستان لینڈ کررہی ہیں۔زوبیہ بیگم نے مزید بتایا

یہ تو اچھی بات ہے۔یمان اُن کی خوشی دیکھ کر مسکرایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آروش یہ تمہارے لیے کال ہے تمہارے گھر سے۔نور آروش کے کمرے میں آتی اپنا فون اُس کی جانب بڑھائے بولی تو آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

میرے لیے کال آپ کے سیل فون پر؟آروش کو بات کجھ سمجھ نہیں آئی۔

ہاں حویلی سے ہے شاید انہوں نے ڈیڈ کو کال کی تھی مگر وہ تو یہاں تھے نہیں تو میرا نمبر اُن کو دے دیا۔نور نے بتایا تو آروش نے بے چینی سے اُس کے ہاتھ سے فون لیکر اپنے کان کے پاس کیا۔

السلام علیکم۔آروش فون کان کے پاس کرتی سلام کرنے لگی۔نور ایک مسکراتی نظر اُس پہ ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئ۔

وعلیکم السلام کیسی ہو میری بچی؟دوسری جانب سے نم لہجے میں کلثوم بیگم سے پوچھا

جیسی بھی ہوں آپ لوگوں کو کیا آپ لوگوں نے تو پرواہ سمجھ کر حویلی سے بے دخل کردیا تھا۔آروش شکوہ بھرے لہجے میں بولی

ایسے مت کہو آروش۔کلثوم بیگم تڑپ کے بولی

تو اور کیا کہوں اماں سائیں؟جب سے یہاں آئی ہوں کسی نے مجھے یاد تک نہیں شازل لالہ نے بھی نہیں مجھے لگا تھا اُن کو جیسے پتا چلے گا وہ مجھے لینے آئے گے مگر آپ سب نے بتادیا میں تب سب کو پیاری تھی جب شھباز شاہ کی بیٹی تھی جب پتا چلا میں کسی دلاور خان کی بیٹی ہوں تو سب نے منہ موڑ لیا۔آروش کی آنکھیں بھیگی تھی۔مگر دوسری جانب موبائل جو اسپیکر پہ تھا دُرید شاہ اور شازل شاہ نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا تھا اُس کی بات پہ۔شازل کلثوم بیگم سے موبائل لیتا اسپیکر آف کرتا اپنے کان کے پاس کرگیا۔

بہت بدگمان ہوگئ ہو آرو۔شازل نے افسوس بھرے لہجے میں کہا

بدگمان کرنے والے بھی آپ سب ہیں۔آروش پہلے تو شازل کی آواز پہ حیران ہوئی تھی مگر اُس پہ قابو پہ دوبدو بولی۔

تمہیں کیا لگتا ہے ہمیں تمہاری پرواہ نہیں تمہاری یاد نہیں آتی؟شازل نے سنجیدگی سے کہا

بلکل یہی لگتا ہے اگر آپ کو میری پرواہ ہوتی تو آج میں یہاں نہ ہوتی آپ میں سے کسی کو میری یاد کیوں آئے گی؟جب بابا سائیں کو پتا نہیں کے اُن کے دل کا ٹکڑا کس حال میں ہے۔شھباز شاہ کا خیال آتے ہی اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔

کیا کجھ ہوا ہے آرو مجھے بتاؤ؟شازل اُس کی آخری بات پہ پریشان ہوا جب کی دُرید اور کلثوم بیگم کی نظریں بھی اُس پہ ٹک گئ۔

اور نہیں تو کیا حویلی میں کسی کو ایک بار کوئی کام کہتی تھی یا کوئی چیز لانے کا کہتی تھی تو مل جایا کرتی تھی اور یہاں جب سے آئی ہوں ہر ایک سے جائے نماز اور قرآن کا بولا ہے بار بار یاد بھی کرواتی ہوں مگر مجال ہے جو کسی نے اُس پہ عمل کیا ہوا ہاں کہہ کر چلے جاتے ہیں اور ایک میں ہوں جو یہاں بس اُن کی راہ تکتی ہوں۔آروش شکایتی لہجے میں بولی تو شازل نے گہری سانس لی۔

تو پھر کیا تم نے نماز نہیں پڑھی اتنے وقت سے؟شازل نے پوچھا اور کال دوبارہ سے اسپیکر پہ کی۔

لالہ نماز کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ پڑھتی ہوں ایک شال ہے اُس کو بار بار دھوتی ہوں یا کبھی ایسے ہی فرش پہ پڑھ لیتی ہوں مگر جائے نماز کا ہونا تو ضروری ہے نہ۔آروش کی بات پہ دُرید اور شازل کو اُس پہ انتہا کا پیار آیا تھا جب کی کلثوم بیگم کے چہرے پہ فکرمندی چھائی۔

آروش تم دھوتی ہوں شال؟اسلام آباد میں تو ٹھنڈ بھی ہوگی زیادہ پانی میں ہاتھ مت ڈالا کرو ورنہ بیمار پڑجاؤ گی۔کلثوم بیگم نے پریشانی سے کہا

یہاں میرے لیے بابا سائیں نے کوئی خاص ملازمہ نہیں رکھی ہوئی جو گلاس پانی کا بھی خود اُٹھا کر دے دن میں جانے کتنی بار دھونی پڑتی ہے اب بار بار تو میں کسی کو نہیں بُلاسکتی نہ کیا سمجھے گے کتنی پھوہر ہے یہ۔آروش کلثوم بیگم کی بات پہ سرجھٹک کر بولی۔

پھوہر تو تم ہو۔شازل نے اُس کو چڑایا تو دُرید نے اُس کو گھور کر دیکھا جب کی کلثوم بیگم اُس کی بات نظرانداز کیے آروش سے بولی

لالہ سے تو اچھے سے بات کی ماں سے کیوں ایسے بات کررہی؟

کیونکہ جب میں یہاں آرہی تھی تو آپ نے مجھے گلے نہیں لگایا تھا اور نہ ماتھا چوم کر یہ کہا تھا اللہ کی امان۔آروش بنا تاخیر کیے بولی

آرو کونسا تم جنگ یا بارڈر پہ جارہی تھی جو اماں سائیں ایسا کرتی۔شازل نے کہا تو کلثوم بیگم نے ایک تھپڑ اُس کے بازوں پہ جھرا تو وہ منہ بسور کے بیٹھ گیا۔

آروش تمہیں میں لینے آؤں؟دُرید نے پہلی بار باتوں میں حصہ لیا۔

بابا سائیں واپس یہاں بھیج دینگے۔آروش افسردگی سے بولی

ان کا دل بھی نہیں لگتا یہاں تمہارے بنا۔کہتے نہیں مگر نظر آتا ہے۔دُرید نے نرمی سے کہا

وہ جب خود سے کہے تو آجاؤں گی یا جب حُریم کی ڈیلیوری کا وقت قریب ہوگا۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

حریم سے پہلے میرا بچہ اِس دُنیا میں آئے گا تو کیا تب نہیں آؤں گی؟میں بتارہا ہوں آرو بات نہیں کروں گا کبھی۔شازل نے رعب سے کہا۔

لالہ مجھے یاد ہے آپ کے بچے کی پیدائش میں اب بس خیر سے دو ماہ رہتے ہیں اور آپ کو پتا ہے اگر آپ لوگوں نے بچے کا نام نہیں سوچا تو وہ رکھ لے جو میں نے سوچا ہے آخر کو میں بھی پُھپھو ہوں اُس کی۔آروش کا لہجہ اشتیاق سے بھرپور ہوگیا تھا۔وہ تینوں بھی مسکراکر اُس کی طرف متوجہ ہوئے

ہم نے واقع ابھی تک نہیں سوچا تم بتاؤ کیا سوچا ہے؟شازل نے مسکراکر پوچھا

اگر خیر سے بیٹا ہوا تو "سید شازم شازل شاہ"اور اگر خیر سے بیٹی ہوئی تو "سیدہ شازمہ شازل شاہ"۔آروش نے بتایا

ماشااللہ نام تو دونوں پیارے ہیں۔کلثوم بیگم نے کہا تو آروش خوش ہوئی۔

لالہ آپ کو کیسا لگا نام؟آروش نے شازل سے جاننا چاہا

مجھے بھی بہت پسند آئے ہیں ہم یہی نام رکھے گے۔شازل نے کہا

ماہی کو بُرا تو نہیں لگے گا نہ وہ ماں ہے۔آروش کو اچانک ماہی کا خیال آیا تو پوچھا

نہیں وہ بے غرض اور معصوم ہے مجھے پتا ہے اگر میں اُس کو یہ نام سُناؤں گا تو خوش ہوگی کیونکہ نام اُس نے نہیں سوچے صرف کھانے کی پڑی رہتی ہے۔اور اب تو جیسے جیسے ڈیلیوری کا وقت قریب پہنچ رہا ہے وہ چڑچڑی سی ہونے لگی ہے۔شازل کے لہجے میں ماہی کے ذکر میں محبت تھی جس کو سب نے محسوس کیا تھا۔

ٹھیک ہے ویسے لالہ حریم کہاں ہیں میری اُس سے بات کروائے۔آروش نے مسکراکر کہا

وہ سو رہی ہے اُس کو آجکل نیند بہت آنے لگی ہے تم کل اُس سے بات کرنا جب وہ جاگ رہی ہوگی تو میں تمہیں کال کردوں گا اِسی نمبر پہ۔اِس بار جواب دُرید نے دیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ڈرائیور یا نجمہ لے آتی گاڑی سے۔زوبیہ بیگم نے یمان سے کہا جو سب شاپنگ بیگز ایک ساتھ لارہا تھا۔

کیا ہوا اگر میں لے آیا تو۔یمان ہلکی مسکراہٹ سے بولا

نجمہ آروش کو تو بلاؤ۔زوبیہ بیگم مسکراکر یمان کو دیکھتی نجمہ کو آواز دینے لگی۔

میں آتا ہوں ایک کام ہے۔یمان نے کہا

کہاں؟ ابھی تو باہر سے آؤ۔زوبیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا۔

ضروری کام ہے آتا ہوں۔یمان مسکراکر کہتا باہر چلاگیا تب تک آروش بھی نیچے آگئ تھی۔

السلام علیکم۔آروش نے سلام کیا

وعلیکم السلام۔صبح ہی تو سلام کیا تھا۔زوبیہ بیگم اُس کو سلام کا جواب دیتی مسکراکر بولی 

آپ کو کوئی کام تھا؟آروش بس یہ بولی

ہاں یہ دیکھو میں نے تمہارے لیے بہت بڑے  مال سے کپڑے خریدے ہیں یقیناً تمہیں پسند آئے گے اور اب اِنہیں میں سے کوئی پہننا اِس ایک جوڑے کو پہننے ہوئے ایک ہفتہ ہونے والا ہے۔زوبیہ بیگم نے مسکراکر اُس کو دیکھ کر کہا

شکریہ۔آروش اتنا کہتی ایک بیگ کھولا

یہ تو جینز ہیں۔آروش ایک کے بعد ایک بیگ کھولتی سارے ڈریسز بیگز میں سے نکالتی اُن سے بولی۔کسی ڈریس میں بازوں نہیں تھے تو کوئی بیک لیس تھی یا تو حددرجہ شارٹ ڈریسز تھی جن کو دیکھ کر اُس کے تاثرات میں ناپسندیدہ ہوگئے۔

تو؟زوبیہ کو سمجھ نہیں آیا

تو میں ایسے کپڑے نہیں پہنی۔میں ایسے پہنتی ہوں جیسے میں نے ابھی پہنے ہوئے ہیں۔آروش نے اپنی جانب اِشارہ کیے سنجیدگی سے کہا

دیکھو آروش تم پہلے ایسے کپڑے پہنتی ہوگی مگر اب تمہیں پہنا لائیف سٹائیل بدلنا ہوگا۔زوبیہ بیگم نے نرمی سے کہا

آپ نے بس یہ مہنگے ڈریسز لیکر پئسو کا ضائع کیا ہے کیونکہ نہ میں نے ایسے کبھی کپڑے پہنے ہیں اور نہ کبھی پہننے کا تصور کرسکتی ہوں مجھے پورے اور کُھلے ہوئے کپڑے پسند ہیں۔آروش نے اُن کی بات کے جواب میں کہا۔

شاید تم میری بات سمجھی نہیں۔زوبیہ بیگم نے اُس کی ایک ہی رٹ پہ کہا

میں نہیں شاید آپ میری بات نہیں سمجھ پائی آپ لوگوں کا جیسا لائیف سٹائیل ہے وہ میرا نہیں ہوسکتا ہے۔اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو یہ غلط ہے اور اگر بات چاہ کی ہے تو میں چاہتی ہوں آپ لوگ وہ لائیف سٹائیل اپنائے جو میں نے اپنایا ہوا۔میرا لائیف سٹائیل اگر آپ لوگوں کو اپنانے میں مشکل لگ رہی ہے تو مجھے بھی مشکل لگ رہا ہے۔آروش دو ٹوک انداز میں کہتی وہاں سے چلی گئ۔پیچھے زوبیہ بیگم حیرت سے بس اُس کی پشت کو دیکھنے لگی۔

کیا ہوا موم؟نور چیونگم چباتی اُن کے ساتھ بیٹھ کر بولی

یہ کپڑے دیکھو۔زوبیہ بیگم نے بیگز کی جانب اِشارہ کیا

واہ بہت پیارے ہیں کیا آروش کے لیے ہیں؟نور ستائش بھری نظروں سے کپڑوں کو دیکھ کر بولی

ہاں اُس کے لیے تھے مگر محترمہ نے کہا وہ یہ ایسے کپڑے نہیں پہنے گے آروش وہ بات مجھ سے کرگئ ہے جو سالوں پہلے خان کی ماں نے مجھ سے کہی تھی۔زوبیہ بیگم نے سرجھٹک کر بتایا۔

آروش نے کیا کہا؟اور دادو نے کیا کہا تھا؟نور نے جاننا چاہا

یہی کہا تھا میری ساس نے کے وہ غیرتمند پٹھان ہے اُن کے یہاں لڑکیاں ایسے کپڑے پہن کر نمائش نہیں کرتی اپنے جسم کی لہٰذا اگر مجھے اُن کے یہاں رہنا ہے تو بڑا سا ڈوپٹہ پہننا پڑے گا۔زوبیہ بیگم جھرجھری لیکر کہا

ہاؤ چیپ۔جسم کی نمائش ہر ایک کا اپنا طور طریقہ ہوتا ہے زندگی بسر کرنے کا۔نور نے ناگواری سے کہا

اور نہیں تو کیا جب تم چاروں پیدا ہوئی تھی تو اُن کا کہنا تھا اِن سب کو بھی بڑی ہوکر اپنی ماں جیسا بننا حرام کمائی کمانی ہے تم سب کو غیر مسلم کہا تھا جب کی تم لوگوں کا باپ مسلمان تھا اور میں نے بھی شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔زوبیہ بیگم نے مزید کہا

الحمداللہ وی آر مسلمز وہ کون ہوتی تھی ہمارے مسلمان ہونے پہ سوال کرنے والی تھی۔آپ نے ہمیں سب پہلے کیوں نہیں بتایا تھا؟اور ڈیڈ کیا ان کو پتا تھا ان کی ماں آپ کو ایسے اپنی باتوں سے ٹارچر کیا کرتی تھی۔نور نے جاننا چاہا

خان سے کجھ ڈھکہ چُھپا نہیں تھا بڑا ہی کوئی جاہلانہ رواج تھا دلاور خان کی بہنیں اپنے گھر میں بھی آدھا چہرہ چُھپاکر رکھتی تھی پہلے یہ سب نہیں بتایا کیونکہ وہ جیسی بھی تھیں تم چاروں کی دادی تھی اِس لیے سوچا تم لوگوں کو کیا بدگمان کروں اُن سے۔زوبیہ بیگم بولی

کیا ڈیڈ کی بہنیں بھی ہیں؟نور کو حیرانی ہوئی جان کر۔

ہاں دو بہنیں تھی ایک بڑی اور ایک چھوٹی۔بڑی کا نام خجستہ تھا تو چھوٹی کا یاسمین۔زوبیہ بیگم نے بتایا۔

اچھا ہوا جو ڈیڈ یہاں موو آن ہوگئے۔نور اُن کی بات سن کر بولی۔

ہاں مگر یہ آروش تو مجھے اُن کا عکس لگتی ہے اِس کی آنکھیں اپنی دادی سے ملتی ہے۔زوبیہ بیگم نے کہا

واٹ ایور اگر یہ ڈریسز نہیں لے رہی تو میں لے لیتی ہوں کیونکہ بہت دِنوں سے میں شاپنگ کرنے کا سوچ رہی تھی۔نور نے کہا

ہاں تمہاری مرضی مگر اِن میں جو سینڈلز اور گھر میں پہننے کے لیے سلپرز ہیں وہ تم آروش کو دے آؤ۔زوبیہ بیگم نے کہا

سینڈلز تو ڈریسز سے میچ ہوگی تو وہ میں لوں نہ۔نور نے کہا

اُس کے پیروں کی ناپ کے ہیں اُس کو دو۔زوبیہ نے آنکھیں دیکھائی تو ناچار نور اُٹھ کھڑی ہوئی۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟شازل نے ماہی کو کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا پایا تو پوچھا

گھٹن کا احساس ہورہا تھا تو بس یہی چلی آئی۔ماہی نے بتایا

طبیعت ٹھیک ہے؟یہاں بیٹھو۔شازل نے اُس کا ماتھا چھو کر صوفے پہ بیٹھایا۔

ہاں طبیعت تو ٹھیک ہے بس عجیب ڈر لگ رہا ہے۔ماہی اُس کے کاندھے پہ سر ٹِکاکر بولی

ڈر کیوں؟شازل سنجیدہ ہوا

اگر ڈیلیوری کے دوران مجھے کجھ ہوگیا تو۔ماہی نے کہا تو شازل نے زور ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچی

یہ خُرافت سوچنے کے علاوہ کوئی اور کام بھی کرلیا کرو۔شازل نے سختی سے اُس کو ڈپٹا

کہیں باہر چلے؟ماہی نے بس یہ کہا

اُٹھو چلتے ہیں۔شازل اُس کا ماتھا چوم کر بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان گھر آیا تو بہت رات ہوگئ تھی اُس نے جو شاپنگ کی تھی وہ بیگز لاتا نجمہ کو ہال میں آنے کا کہنے کا سوچتا خود گانا گُنگُناتا کچن میں جانے لگا۔

تیری نظروں کا جو جام پی لے 

تیری نظروں کا جو جام پی لے

عمر بھر پھر وہ سنبھلتا نہیں ہے

یہ کیا تم ہر جگہ ٹپک جاتے ہو تہمیز نہیں کہیں بھی آنے جانے کی۔یمان جو گانا گُنگُناتا اپنی دُھن میں کچن میں داخل ہوا تھا آروش کی آواز پہ یکدم اپنا رخ بدل گیا۔

سوری ایکچوئلی مجھے پتا نہیں تھا نہ آپ بھی یہاں موجود ہیں ورنہ میں کچن کا دروازہ ناک کرکے آتا۔یمان اپنی مسکراہٹ دبائے بولا تو آروش نے اُس کی پشت کو گھورا

میں جب یہاں ہوں تو تم یہاں مت آیا کرو۔آروش نے دانت پیس کر کہا

کیوں کیا آپ کو مجھ سے شرم آتی ہے؟یمان مصنوعی حیرت سے بولا

کیا پاگل ہو مجھے کیوں تم سے شرم آنے لگی۔آروش نے تیز آواز میں کہا

پھر کیا اعتراض یقین جانے میں نے بس ایک دفع آپ کا چہرہ دیکھا تھا وہ بھی اتفاقً اُس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔یمان اپنے گلے کی ہڈی میں ہاتھ رکھتا معصومیت سے بولا

فضول گوئی کے علاوہ کجھ آتا ہے؟آروش نے زچ ہوکر بولی

یقینً آپ نے اپنے چہرے کے گرد ڈوپٹہ لیا ہوگا تو کیا میں مڑ سکتا ہوں؟یمان اُس کی بات نظرانداز کیے بولا تو آروش نے کوئی جواب نہیں دیا جس پہ یمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور خود ہی اپنا رخ آروش کی جانب کیا جو اُس کی سوچ کے مطابق اپنے چہرے پہ ڈوپٹہ لیے ہوئے تھی اور خونخوار نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی یمان سمجھ گیا تھا یقینً آروش کا چہرہ بھی لال بھبھو بن گیا ہوگا۔یمان کی مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی دوسری طرف آروش کی نظر اُس کے ڈمپلز پہ پڑی تو مزید تاؤ آیا۔

آپ موٹی ہوگئ ہیں۔یمان لب دانتو تلے دبائے سرتا پیر اُس کو دیکھ کر بولا تو آروش کی رنگت پل بھر میں سرخ انار ہوگئ تھی جو اگر یمان دیکھتا تو یقین بیہوش ہوجاتا

اپنی نظروں کا علاج کرواؤ۔آروش اپنا رخ بدل کر کافی میکر سے کافی کپ میں انڈیل کر اُس سے بولی۔اُس کو شام سے اپنے سر میں درد ہورہا تھا مگر اُس نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔مگر اب جب سردرد برداشت سے باہر ہوتا محسوس ہونے لگا تو اُس کو لگا سب اب سوگئے ہوگے تبھی وہ کچن میں آئی تھی اپنے لیے کافی بنانے کا سوچتی مگر اچانک یمان کی آمد نے اُس کو تپادیا تھا۔

کس کس چیز کا علاج کرو دل کا جو آپ کو چاہتا ہے؟دماغ کا جو ایک سیکنڈ کے لیے بھی آپ کے خیالوں سے غافل نہیں ہوتا؟یمان ایک قدم اُس کی جانب بڑھاتا بولا تو آروش کے ہاتھ ایک پل کو تھمے تھے۔

میرے سامنے بکواس مت کیا کرو ورنہ تیسرا تھپڑ مارنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔آروش نے ٹوکا

شکریہ۔یمان اُس کی ساری باتیں نظریں انداز کیے اپنا چہرہ اُس کے کان کے پاس کرتا دلکش مسکرائٹ سے بولا بولا

کس

اِس لیے۔یمان بڑی چلاکی سے اُس کی بنائی ہوئی کافی اپنے ہاتھ میں لیتا پیچھے سے اُس کے چہرے پہ پھونک مار کر دور کھڑا ہوا۔آروش جو وجہ پوچھنے والی تھی یمان کی حرکت پہ ایک جگہ اسٹل ہوگئ تھی۔

یہ میری کافی ہے مجھے واپس کرو۔آروش ہوش میں آتی اُس پہ چیخی۔

میں بھی تو آپ کا ہوں۔یمان آنکھ وِنک کرتا شرارت سے اُس سے بولا تو آروش تپ اُٹھی جب کی یمان کے ڈمپلز آج اندر ہی نہیں جارہے تھے۔

مجھے واپس کرو ورنہ میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔آروش ہاتھ کی مٹھی بھینچ کر بولی

شوق سے مگر کتنا عجیب لگے گا نکاح کے دن جب میں ٹوٹے سر کے ساتھ آپ کے ساتھ بیٹھا ہوگا میرا تو کجھ نہیں جائے خوامخواہ لوگ آپ کا دل بُرا کرینگے۔یمان کی سوچ بہت دور تک پہنچی

دماغ کی سرجری کرواؤ۔آروش نے طنزیہ کیا۔

میرے دماغ کو کیا ہوا ہے جو سرجری کرواؤ۔یمان بُرا مان گیا۔

مجھے اپنا کافی کا کپ واپس کرو۔آروش صبر کا گھونٹ پی کر بولی

یہ لے۔یمان کافی کا ایک بڑا سا گھونٹ اپنے اندر انڈیلتا کافی کپ اُس کی جانب بڑھانے لگا تو آروش نے دانت کچکچائے

خود پیو۔آروش اُس کو تیز گھوری سے نوازتی کچن سے باہر جانے لگی جب یمان اُس کے راستے میں حائل ہوا

کہتے ہیں چھوٹا کھانے اور پینے سے محبت بڑھتی ہے کیوں نہ ہم بھی ٹرائے کرے میں نے بہت بار ٹرائے کیا ہے کبھی آپ کا چھوٹا پراٹھے کھائے ہیں تو کبھی آپ کی چائے آج آپ بھی کرے کیا پتا آپ کا دل میرے لیے پگل جائے۔یمان اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تو آروش کا دل بغاوت پہ اُتر آیا تھا کیا کجھ نظر نہیں آیا تھا اُس کو یمان کی آنکھوں میں عزت،پیار،احترام،پاکیزگی سے بھرے جذبات کے علاوہ بھی بہت کجھ جن کو دیکھ کر آروش نے بے اختیار تھوک نگلا اُس کو کمزور نہیں تھا بننا مگر ایک یمان تھا جو اُس کو کمزور بنانے میں ہر ہتھیار استعمال کررہا تھا۔

دیکھو یمان

آپ کو ہی تو دیکھ رہا ہوں مگر یقین جانے صرف آپ کی خوبصورت آنکھوں کو چہرہ تب دیکھوں گا جب ہمارے درمیان پاکیزہ رشتہ ہوگا ابھی میرے اندر ایسی کوئی خواہش نہیں۔آروش جو ہمت کرتی کجھ کہنے والی تھی۔یمان اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر اپنی بات بولا تو آروش بس اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

تمہیں شاید یاد نہیں میری وجہ سے تم موت کے منہ میں گئے تھے۔آروش نے اُس کو خود سے بدذن کرنا چاہا

آپ کا خیال آپ کی آنکھیں کجھ اور یاد رہنے ہی نہیں دیتی۔یمان اُس کی بات پہ مبہم سا مُسکرایا

تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ لیتے؟آروش کجھ فاصلے میں کھڑی ہوتی اُس کو بولی

آپ اپنی ضد کیوں نہیں چھوڑتی یقین جانے جو کہے گی وہ کروں گا بنا کوئی سوال کیے۔یمان نے دوبدو کہا۔

اتنا اعتماد۔آروش نے طنزیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

بلکل یقین نہیں آتا تو آزماکر دیکھ لے۔یمان نے کہا

میرے لیے کیا کرسکتے ہو؟آروش نے جاننا چاہا

یہ دُنیا چھوڑ سکتا ہوں۔یمان بنا تاخیر کیے بولا تو آروش کا دل ڈوب کے اُبھرا

میرے لیے مجھے چھوڑ دو یمان ہمارا ملنا نہ سات آٹھ سال پہلے ممکن تھا اور نہ آج کبھی ممکن ہوگا۔آروش سنجیدگی سے اُس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتی رُکی نہیں تھی مگر یمان نے اِس بار روکا نہیں تھا وہ تو اُس کے لفظوں پہ پتھر کا بن گیا تھا۔

میں ناممکن کو ممکن بنا کر رہوں گا آپ ایک دن مجھ سے پیار ضرور کرے گی چاہے اُس کے لیے مجھے مرنا ہی کیوں نہ پڑے۔یمان کافی دیر بعد بولنے کے لائق ہوا تو خود سے بڑبڑاتا۔ہال میں واپس آیا اور لینڈ لائن میں نجمہ کو کال کرکے یہاں آنے کا کہہ کر وہ اُس کا انتظار کرنے لگا جو کجھ ہی منٹس میں اُس کے سامنے آگئ تھی۔

صاحب آپ مجھے ایک بتادے میری نیند سے آپ کو کوئی خاص دُشمنی ہے۔نجمہ آتے ہی نون سٹاپ بولنے لگ پڑی۔

تمہاری نیند سے مجھے کیا مسئلہ ہوگا؟یمان ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولا

صاحب یہ کجھ دنوں سے جو آپ بے وقت کسی کام کے لیے انٹر کام گُھماتے ہیں یہ پہلے تو نہیں کرتے تھے اب لگتا ہے مجھے انٹرکام کا کام (کریڈل) الگ کر کے سونا چاہیے تاکہ کسی کی کال تو نا آئے ویسے بھی نو دس بجے کا بعد میرا کام ختم ہوجاتا ہے۔نجمہ جمائی لیتی اُس سے بولی

میں نے کوئی تمہیں کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے نہیں بُلوایا یہ بیگز ہیں اُن کو دے آؤں۔یمان نے گھور کر کہا 

ایک بات بتاؤں صاحب ؟جو آپ کا کمرہ ہے ٹھیک تین قدموں کی مُساوت پہ اُن کا کمرا ہے یہ نہیں تھا اچھا کے آپ اپنے کمرے میں جاتے وقت اپنے قدموں کو مزید تھوڑی زحمت دیتے اور اُن کے کمرے کا دروازہ نوک کرکے اُن کو یہ بیگز دیتے۔نجمہ نے ایسے بتایا جیسے یمان کو کجھ پتا ہی نہیں تھا۔

سیریسلی نجمہ مجھے پتا نہیں تھا اچھا ہوا تم نے بتادیا اب یہ بیگز اُٹھاؤ اور اُن کو دے آؤ میرا نام

آپ کا ہی نام آئے گا کیونکہ میں اپنا نام لینے سے تو رہی بنا دیکھے ہی بتاسکتی ہو ایک جوڑے کی قیمتی میری ماہانہ سیلری سے زیادہ ہوگی۔یمان جو طنز بھرے لہجے میں اُس کو بتارہا تھا نجمہ اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولی

یار تمہارا مسئلہ کیا ہے؟تمہاری زبان اتنی بریک لیس کیوں ہے؟یمان زچ ہوتا ہوا بولا

اچھا میں بریک دیتی ہوں اپنی زبان کو آپ خوش ہوجائے اُن سے کہوں گی یہ بیگز آپ رکھ لے میری عمر بھر اور مستقبل میں کی جانے والی کمائی کی شاپنگ ہیں مجھے پیدا ہوتے ہوئے الہام ہوا تھا ایک دن آپ آئے گی اِس لیے میں نے روپیہ روپیہ جوڑ کر آپ کے لیے خریداری کی ہے۔نجمہ پھر سے بولنا شروع ہوئی تو یمان نے صبر کا گھونٹ بھرا۔

جاؤ یہاں سے۔یمان نے کہا

جاتی ہوں یہ تو اُٹھالوں پہلے۔نجمہ نے کہا

اپنے کوارٹرز میں جاؤ میں خود دے آؤں گا تمہاری مہربانی۔یمان سنجیدگی سے بولا

اگر خود جانا تھا تو مجھے کیوں کہا آنے کو۔نجمہ کا منہ کُھل گیا۔

میرا دماغ خراب ہوگیا تھا اِس وجہ سے اب جاؤ اُس سے پہلے میرا بی پی شوٹ کرجائے۔یمان تیز آواز میں بولا

ایک تو آپ امیروں کا بی پی جلدی شوٹ کرجاتا ہے اور ایک ہم ہوتے ہیں دونوں پاؤں قبر میں پہچنے والی ہوتے ہیں تو بچ جاتے ہیں۔نجمہ جاتے جاتے ہوئے بھی اپنی زبان کے جوہر دِیکھانے سے باز نہیں آئی۔جب کی یمان اُس کی پشت کو گھورتا سر نفی میں ہلانے لگا۔

میں خود تو جاؤں مگر جو باتیں میں نے اب کی ہے دوبارہ میری شکل دیکھ کر انہوں نے اب سیدھا میرا سر پھاڑ دینا ہے۔یمان بیگز ہاتھوں میں لیتا اُپر کی جانب چلتا بڑبڑایا

کمرے کے پاس پہنچ کر یمان گہری ساس بھرتا دروازہ نوک کرنے لگا۔ 

آروش بیڈ پہ لیٹی یمان کی باتوں کو سوچ رہی تھی وہ لاکھ چاہنے کے بعد باوجود بھی اپنا ذہن یمان کی سوچ سے جھٹک نہیں پارہی تھی مگر جب کمرے کا دروازہ نوک ہوا تو اُس نے تعجب سے دروازہ کو دیکھا

اِس وقت کون ہوگا؟ آروش بڑبڑائی تھوڑا چہرے کے گرد ڈوپٹہ رکھے دروازہ کھولا تو یمان کو دیکھے اُس نے صبر کا گھونٹا بھرا

تم یہاں پھر؟ آروش نے اُس کو گھورا

میں آپ کو یہ دینے آیا تھا۔ یمان نے جلدی سے اُس کی توجہ بیگز کی جانب کی۔ 

کیا ہے یہ؟ آروش سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

آپ کو موم کی شاپنگ پسند نہیں آئی تھی نہ تو انہوں نے یہ کجھ ڈریسز آپ کے لیے دوسرے منگوائے تھے۔یمان کو کجھ اور سمجھ نہیں آیا تو یہی بول دیا

یہ سارے؟ آروش نے کنفرم کرنا چاہا

جی یہ سارے آپ کے ہیں۔ یمان نے کہا

وہ خود کیوں نہیں؟ اور تمہیں کیوں اِس وقت یہاں بھیجا کچن میں تم نے ایسا کجھ نہیں بتایا تھا۔ آروش نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

تب مجھے کجھ نہیں تھا پتا تو آپ کو کیسے بتاتا یہ تو ابھی انہوں نے کہا اور آپ کو سختی سے تاکید کی ہے کے کل اِنہیں میں سے کوئی جوڑا پہنے۔ یمان بڑی صفائی سے ایک کے بعد ایک جھوٹ بولا

ہممم شکریہ۔ آروش بحث سے بچتی بیگز اُٹھانے والی تھی جب یمان پھر بولا

بہت بیگز ہیں اور بھاڑی ہیں آپ نہیں اُٹھا پائے گی میں وارڈروب سیٹ کردیتا ہوں۔ یمان اتنا کہتا بنا آروش کو کجھ بولنے کا موقع دیئے کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ 

آروش کُھلے منہ کے ساتھ اُس کی جرئٹ پہ اپنے دانت بُری طرح سے کچکچائے

یمان یہ کیا بدتمیزی ہے؟باہر جاؤ۔آروش دروازہ کے پاس کھڑی پیچھے جانے کے بجائے وہی پہ رک کر اُس سے سخت لہجے میں بولی

بدتمیزی کہاں میں تو آپ کی مدد کرنے آیا ہوں۔ یمان بُرا مان کر بولا

دیکھو یمان بہت رات ہوگئ ہے جاؤ یہاں سے مجھے فلحال تمہاری کسی بھی مدد کی ضروری نہیں۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

ٹھیک ہے۔یمان بیگز رکھتا بنا اُس پہ ایک نظر ڈال کر چلاگیا۔اُس کے جانے کے بعد آروش دروازہ بند کرتی بیگز کو دیکھنے لگی جو یمان رکھ کر گیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

شازل آپ نے میری آنکھوں پہ ہاتھ کیوں رکھا ہے؟ ماہی پریشانی سے شازل سے بولی جو آج سارا دن حویلی میں نہیں تھا آنے کے بعد صرف اُس سے یہ کہا وہ تیار ہوجائے اور اب جانے وہ اُس کو کہاں لاتا اُس کے آنکھوں پہ ہاتھ رکھ گیا تھا جس وجہ سے اُس کو کجھ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔

سرپرائززززز۔ شازل اُس کی آنکھوں پہ سے اپنے ہاتھ ہٹاتا بولا تو ماہی بار بار اپنی آنکھوں کو جھپک کر کھول کر سامنے دیکھنے لگی جہاں دیوار پہ ایک بورڈ چسپاں تھا اور اُس بورڈ کے چاروں اطراف خوبصورت رنگ برنگی لائیٹس تھی جس پہ خوبصورت حرفوں سے لکھا تھا۔ 

Happy birthday my wife 

Happy 1st anniversary 

And Happy 2nd anniversary 

Welcome baby

شازل یہ۔ اُس سے کجھ بولا نہیں گیا۔ ماہی ایک نظر بورڈ پہ ڈالنے کے بعد چاروں اطراف دیکھنے لگی جہاں غبارے اور پھولوں کے ساتھ ہال خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ہال کے بیچوں بیچ ایک ٹیبل تھا جس میں ایک کے بجائے چار کیک تھے اور کجھ گفٹس کے پاکٹس تھے۔

مجھے نہیں تھا پتا چلا تمہاری سالگرہ کب آئی اور کب گئ۔ ایک اچھے شوہر ہونے کی حیثیت سے میرا فرض تھا تمہاری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبریٹ کرنا جب کی سالگرہ کا دن تو تمہاری زندگی کا خاص دن تھا اور اب میرے لیے بھی ہے۔ 

ہمارا نکاح جن حالات میں ہوا تھا اُس کو کب ایک ماہ سے ایک سال ہوگیا مجھے پتا نہیں چلا تو اُس کو مناتا کیسے؟ ایسے ہی ہماری شادی کو ماشااللہ سے دو سال ہوگئے۔ 

پھر آتے ہیں ہمارے بچے کی جانب جو ہمارے لیے اللہ کی نعمت ہے اُس کے آنے کی خوشی تو پہلے ہی منانی چاہیے تھی تم نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی ہے اُس کو منانا چاہیے تھا دھوم دھام سے جب کی وہ بھی نہیں کرپایا مجھے افسوس تھا مگر جب تم نے یہ سب بیان کیا تو مجھے لگا۔ تمہارے لیے میں اِتنا تو ہی کرسکتا ہوں اِس لیے میں صبح سے یہاں تھا اپنے ڈیرے میں تیاری کی سوچا تمہیں سرپرائز دوں حویلی میں مجھے ٹھیک نہیں لگا اور یہاں تو کوئی آتا بھی نہیں تو مجھے یہ بیٹر آپشن لگا۔  شازل اُس کے گرد اپنا حصار بناتا نرم لہجے میں بولا تو ماہی کی آنکھوں میں نمی اُتری تھی۔ 

میں نے ویسے ہی کہا تھا شازل مگر یہ سب مجھے بہت اچھا لگا۔ ماہی خوشی سے چور لہجے میں کہا تو شازل نے اُس کا ماتھا چوما

مجھے پتا تھا تمہیں یہ سب پسند آئے گا اگر ہم اسلام آباد ہوتے تو میں یہ سب کسی اچھے سے ہوٹل میں ڈیکوریٹ کرتا مگر گاؤں میں تو مجھ سے بس یہ بورڈ اور لائیٹس وغیرہ ہوپائی۔ شازل نے کہا

یہ سب بہت ہے میں بتا ہی نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں۔ ماہی کا چہرہ دمک اُٹھا تھا۔ 

تم نے مجھ سے کبھی کجھ نہیں مانگا مگر میں چاہتا ہوں تم مجھ سے ہر چیز کی فرمائش کرو نخرے کرو میں شوہر ہوں تمہارا مجھ پہ تمہارے علاوہ کسی کا حق نہیں۔ شازل نے محبت بھرے لہجے میں اُس کو مان دیا تھا ماہی نے اپنی ٹھوڑی اُس کے سینے پہ ٹکائی۔ 

سوچ لے اگر میں ناز نخرے دیکھاؤں گی تو آپ کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔ماہی نے مسکراکر وارن کیا۔

منظور ہے مجھے یہ مسئلہ۔شازل بولا تو ماہی ہنس پڑی۔

آپ اتنے اچھے کیوں ہیں شازل؟ماہی اُس کے گال کھینچ کر بولی

اگر میں اچھا نہ ہوتا تو مجھے تمہاری جیسی گولوں مولوں معصوم عرف بے وفوق عرف کم عقل عرف نادان بیوی کیسے مل پاتی۔شازل اُس کے بھرے ہوئے گالوں کو زور سے دائیں بائیں ہلاتا شرارت سے بولا تو ماہی کا منہ گیا

میں بے وقوف نہیں۔ماہی نے لاڈ سے کہا

تم ہو ماہی۔شازل نے مسکراہٹ دبائی۔

اچھا کیک کاٹے یا یہ سب بس سجانے کے لیے ہیں۔ماہی نے بات کا رخ بدلا

بڑی چلاک ہو۔ شازل نے اُس کی بات بدلنے کے انداز پہ کہا

افکورس کیونکہ میں آپ کی بیوی ہوں۔ ماہی نے آنکھیں پٹپٹاکر معصوم شکل بنائے کہا تو شازل نفی میں سرہلانے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕

زرفشاں زر نور زرگل پاکستان آگئ تھی وہ سب آروش سے ملنے کے بعد ہال میں بیٹھے ہوئے تھے ساتھ میں مروتً آروش بھی تھی مگر یمان اور زرگل کے  خاص ملازم کی وجہ سے اُس نے چہرے پہ نقاب کیا ہوا تھا جو سب کو عجیب لگ رہا تھا سوائے یمان کے۔زرفشاں جو سب سے بڑی تھی اُس نے یمان کو مخاطب کیا

مان بہت وقت ہوگیا ہے تمہارا لائیو سونگ نہیں سُنا تو آج سُنادو۔ زرفشاں کی بات پہ یمان جو دلاور خان اور زوبیہ کے درمیان بھی بیٹھی آروش کو بار بار اپنے ہاتھ مسلتا دیکھ رہا تھا زر فشاں کی آواز پہ چونک کر اُس کو دیکھا جو اُس کو یمان کے بجائے "مان" نام سے مخاطب کرتی تھی۔ 

مان؟ یہ دینے میں کیا تکلیف ہو رہی تھی۔ آروش زرفشاں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچنے لگی۔ 

گانا؟ یمان اُس کو دیکھ کر مسکرایا

ہاں گانا گِٹار بتادو میرا ملازم لے آئے گا تمہارے کمرے سے۔ اِس بار زرگل نے مسکراکر کہا۔ 

میرے کمرے میں جائے گا تو سامنے سے نظر آجائے گا۔ یمان نے کہا تو زرگل نے اپنے ملازم کو اِشارہ کیا تو وہ یمان کے کمرے میں گیا اور وہاں سے گِٹار اُٹھا لایا۔ آروش نے اُس کو گانا گانے کی تیاری کرتا دیکھا تو اُٹھ کر جانے لگی۔

آپ کہاں جارہی ہیں یقین جانے میں اتنا بُرا گانا نہیں گاتا۔ یمان نے اُس کو سب کے سامنے مخاطب کیا تو آروش اُس کی جرئت پہ سب کے سامنے گھور بھی نہیں پائی اور خاموشی سے واپس بیٹھ گئ کیونکہ وہ کسی کو شک نہیں دلوانا چاہتی تھی۔ 

میں جوس اور چپس کے پاکٹس لاتی ہوں۔ نور کو اچانک خیال آیا تو اُٹھ کر کچن میں چلی گئ۔ اُس کے جانے کے بعد سب اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے۔ 

یمان نے ایک مسکراتی نظر آروش پہ ڈالی اور گانا شروع کیا۔ 

کتابوں میں پڑھا تھا یہ خدا کو پیار

ہے پیارا کیا جو پیار  ہم نے تو ہوا 

دشمن جہاں سارا 

ٹھکرا دیا میں نے

 یہ جہاں لے آج تجھ کو چُنا۔۔۔۔۔۔۔۔

یمان نے ابھی اتنا ہی گایا تھا جب آروش نے وہاں سے جانا چاہا تو یمان بے نیازی کا مظاہرہ کرتا اچانک اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا اور اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں غصہ ہلکورے لے رہا تھا وہ اُس کے سامنے بے بس ہوتی صوفے پہ بیٹھ گئ۔ 

تیرا عشق ہے میری سلطنت 

توں ہے ضد میری تو جنونیت

میں ہوں دل جلا مجھے تیری لت

توں ہے ضد میری تو جنونیت 

آروش کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتا وہ آج ایک جذب سے گانا گارہا تھا جب کی آروش کا بس نہیں چل رہا تھا وہ یہاں سے اُٹھ کر کہی بھاگ جاتی آج دوسری بار اُس کو اپنا آپ بے بس سا لگ رہا تھا اس نے اپنی طرف سے کوشش تو بہت کی تھی یہاں سے اُٹھ کر چلی جائے پر یمان نے بنا کسی کو شک دلائے اُس کی کوششوں کو ناکام بنادیا تھا جس سے وہ دل ہی دل میں کلس کے رہ گئ تھی۔اُن دونوں کی حالت سے ہر کوئی بے نیاز سب بس یمان کے گانے کو انجوائے کررہے تھے۔ 

میں آیا ہوں تیرے در پہ تو اب جانا نہیں ہوگا

جیو گا یا مروں گا میں جو ہونا ہے یہی ہوگا

کہتا ہوں میں بے ساختہ سن لے یہ میرا خدا

تیرا عشق ہے میری سلطنت 

توں ہے ضد میری تو جنونیت

میں ہوں دل جلا مجھے تیری لت

توں ہے ضد میری تو جنونیت 

آروش کی اب سچ میں بس ہوئی تھی وہ سب سے نظر بچاتی اُپر کی طرف بڑھ رہی تھی جب یمان ایک بار پھر اچانک گِٹار کے ساتھ اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا آروش کا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پہ پڑا اُس نے غصے سے یمان کو دیکھا۔ نقاب ہونے کی وجہ سے بھی وہ آروش کے چہرے کے تاثرات کا اندازہ لگاسکتا تھا اُس کے تپے ہوئے تاثرات کا سوچ کر اُس کے ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ آئی تھی جس کو دیکھ کر آروش کو مزید تاؤ آیا اب وہ بنا کسی کا لحاظ کیے ایک جھٹکے سے یمان کو سائیڈ پہ کرتی اندر کی طرف بڑھ گئ یمان کی نظروں سے دور تک اُس کا پیچھا کیا تھا جہاں پہلے آنکھوں میں چمک تھی وہاں نمی نے بسیرا کردیا تھا۔باقی سے نے بھی حیرت سے آروش کا ایسا ردعمل دیکھا تھا۔یمان بے تاثر نظروں سے وہاں دیکھ رہا تھا جہاں سے ابھی آروش گئ تھی کسی نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا یمان نے گردن موڑ کر دیکھا تو دلاور خان اُس کو ہی دیکھ رہے تھے۔ 

یہ کیا تھا یمان؟ دلاور خان نے سنجیدگی سے پوچھا تو ایک منٹ میں یمان نے فیصلہ کرلیا تھا وہ دلاور خان کو ساری سچائی بتادے گا۔ 

میں آپ کی بیٹی سے بہت پیار کرتا ہوں۔ یمان نے اُن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہا تو سب اپنی جگہ ساکت و جماد یمان کو دیکھنے لگے اُن میں سے کسی کو بھی یمان کی ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ جب کی دلاور خان کو اُس کا ایسا نڈر انداز دیکھ کر غصہ آیا تھا۔ 

چٹاخ

دلاور خان کا بے ساختہ ہاتھ اُٹھا تھا اور اُس کے گال پہ نشان چھوڑ گیا تھا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یمان

یمان

یمان اٹھو۔ 

صبح کے بارہ بج گئے ہیں۔نور ایک گھنٹے سے کھڑی ہوتی یمان کو آواز پہ آواز دیئے جارہی تھی مگر یمان جیسے آج سالوں کی نیند پوری کررہا تھا جو ٹس سے مس نہیں ہوا تھا پھر اچانک سے وہ اُٹھ بیٹھا تو نور ایک قدم دور کھڑی ہوئی۔ 

کیا ہوگیا ہے؟ تم نے اپنا ہاتھ گال پہ کیوں رکھا ہے؟ نور ناسمجھی سے اُس کو دیکھ کر بولی تو یمان خود حیران ہوتا پہلے اُس کو دیکھنے لگا پھر اپنے ہاتھ کو جو گال پہ تھا۔ 

آپ یہاں؟یمان شرمندہ ہوتا بس یہی پوچھ پایا وہ ابھی تک اپنے خواب کے زِیر اثر تھا۔ 

ہاں وہ زرفشاں زر نور زرگل آئی ہیں تمہارا انتظار کررہی ہیں تبھی سوچا تمہیں اُٹھادوں مگر تم شاید کوئی خواب دیکھ رہے تھے۔ نور اپنے آنے کا مقصد بتاتی غور سے اُس کو دیکھنے لگی۔ 

میری بچی کُچی زندگی تو بس خواب دیکھنے میں گُزرجانی ہے مگر حقیقت میں ہونا کجھ نہیں۔ نور کے سوال پہ یمان بڑبڑایا

کیا بول رہے ہو مجھے کجھ سُنائی نہیں دیا؟ نور نے اُس کو بڑبڑاتا دیکھا تو اپنا کان اُس کی طرف کیا

میں کہہ رہا تھا شکریہ مجھے جگانے کا ورنہ تو میں آج خود کو قبر میں اُتارنے کے بعد ہی اُٹھتا۔ ہڑبڑی میں یمان جانے کیا کہہ گیا احساس تب ہوا جب سب کجھ بول دیا۔ 

مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ نور فکرمندی ہوتی اُس کا ماتھا چھو کر ٹیمپریچر چیک کرنے لگی۔ 

میں ٹھیک ہوں آپ جائے میں فریش ہوکر آتا ہوں۔ یمان زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولا

اوکے پر جلدی آنا وہ تینوں آروش سے پہلے تم سے ملنا چاہتی ہیں۔ نور اُس کو ہدایت دیتی کمرے سے باہر چلی گئ تو یمان گہری سانس خارج کرتا دوبارہ سے لیٹ گیا۔ 

دو بار وہ بھی تھپڑ مار چُکی ہیں۔ آپی نے بھی دو تین بار تھپڑ مار چُکی ہیں اُن کے بھائیوں نے بھی بہت بُرا حال کیا تھا اب اگر ایک تھپڑ ڈیڈ مارے گے تو کجھ نہیں ہوگا۔ یمان سب تھپڑوں کا حساب کرنے کے بعد خود کو ہمت دیتا فریش ہونے کے لیے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°

مان کیسے ہو؟ یمان تیار ہوتا باہر آیا تو زرفشاں زرگل زر نور اُس سے مل کر پوچھنے لگی۔ یمان پورے ہال میں نظریں پِھرانے لگا جہاں آروش نہیں تھی اور نہ اُس کو تھپڑ مارنے کے لیے دلاور خان۔ 

میں ٹھیک آپ بتائے فلائیٹ کیسی رہی؟ یمان نے مسکراکر پوچھا

بہت تھکادینے والی۔ جواب زرگل نے دیا تھا

ناشتہ کیا آپ لوگوں نے اور کب پہنچی ہیں یہاں؟ یمان نے تینوں کو دیکھ کر پوچھا

صبح کے پانچ بجے ناشتہ وغیرہ کردیا ہے آتے ہی ہم سوگئے تھے۔ زرنور نے ہنس کر کہا تو یمان محض مُسکرادیا

موم ڈیڈ کب آرہے ہیں۔ زرگل نے زوبیہ بیگم سے پوچھا

کل اور پڑسو تم سب کے لیے سرپرائز ہے۔ زوبیہ بیگم نے مسکراکر کہا

کونسا سرپرائز؟یمان ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگا

اگر بتادیا تو سرپرائز کیسا؟ زوبیہ بیگم نے کہا تو یمان بس مسکرادیا۔ 

ہم ذرہ اپنی بہن سے تو مل آئے۔ زر نور نے کہا تو باقی سب بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

تم سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا جب سے پتا چلا تم یہاں آچُکی ہوں پھر تو ہم بے صبرے ہوگئے تھے پاکستان آنے کے لیے۔ زرگل نے مسکراکر آروش سے کہا جو حیرت سے اُن سب کو دیکھ رہی تھی۔ان تینوں کا نور نے تعارف کروالیا تھا مگر آروش کی حیرانگی ختم ہونے نام نہیں لے رہی تھی کہاں اُس کو حویلی میں اپنے اکلوتی بیٹی ہونے پہ فخر ہوتا تھا اور اب یہاں بن مانگے بیٹھے بیٹھائے اچانک سے اللہ نے اُس کو چار بہنوں سے نواز دیا تھا۔ 

مجھے اِنہوں نے بتایا تھا آپ لوگوں کے آنے کا۔ آروش نے نور کی طرف اِشارہ کیے بتایا

ہاں اِس کو ہم نے منع کیا تھا کسی کو بھی نہ بتائے تمہیں سرپرائز دینے کا سوچا تھا مگر اِس نے سارا مزہ خراب کردیا۔ زرنور ہلکہ سا تھپڑ نور کو مار کر بولی تو وہ اُن کی نوک جھونک پہ مسکرا پڑی۔

آروش بی بی گاؤں سے آپ کے لیے کجھ سامان آیا ہے۔وہ سب آپس میں بیٹھے ہوئے تھے جب رشیدہ نے اُس کو بتایا

گاؤں سے؟گاؤں لفظ پہ آروش کا دل خوشی سے اُچھل پڑا۔

جی۔رشیدہ نے ابھی اتنا کہا تھا جب آروش بنا پیروں میں چپل پہنے باہر کو بھاگی۔

زرفشاں زرنور زرگل اور نور حیرت سے اُس کو بھاگتا دیکھنے لگے۔

اِتنی خوشی تو ہم سے ملنے پہ بھی نہیں ہوئی تھی جو گاؤں کے سامان کا سن کر اُس کے چہرے پہ آئی ہے۔زرگل منہ بنا کر بولی

آروش نے اپنی زندگی کا ایک حصہ گاؤں میں گُزارا ہے تو اُس کے نام پہ خوش ہونا ایک فطری عمل ہے ہمیں اُس کو سمجھنا چاہیے ہم چاہے رشتے میں اُس کی بہنیں ہیں مگر اصلی رشتہ تو اُس کا کسی اور کے ساتھ جڑا ہے یوں سمجھوں ہم اُس کے اپنے ہوکر بھی غیر ہے جب کی وہ غیر ہوکر بھی اُس کے اپنے ہیں۔ہم سے آروش کا بس خون کا رشتہ ہے جب کی گاؤں والوں کے ساتھ احساس اور محبت گہرا رشتہ ہے چوبیس سے پچیس سال اُس نے وہاں گُزارا ہے یہ کوئی عام بات نہیں۔زرگل کی بات پہ نور نے ہلکی مسکرائٹ سے کہا

جو بھی پر خونی رشتوں میں کشش ہوتی ہے۔زر فشاں نے کہا

آہستہ آہستہ اُس کو کشش محسوس ہونے لگے گی اگر ہم اُس کو ویسا ہی پیار اور توجہ دینگے تو۔نور نے کہا

اچھا ابھی آؤ نیچے چل کر دیکھتے ہیں کیا سامان آیا ہے اُس کے لیے۔زونور اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن سب سے بولی

ہاں چلو۔زرگل فورن سے بولی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش بیٹا یہ سب کیا ہے؟ زوبیہ بیگم حیرت سے آروش کو بولی جو خاصی پرجوش تھی بیگ کھول رہی تھی۔ 

یہ قرآن پاک ہیں اور یہ جائے نماز شال نماز کا ڈوپٹہ تسبیح۔اُس کے ساتھ کجھ میرے دیگر ضرورت کے سامان جیسے سیل فون لیپ ٹاپ اور میری ڈائری ہلکی پُھلکی چیزیں وغیرہ۔ آروش نے مسکراکر بتایا

تم نے اُن کو تکلف کیوں دیا ہمیں بتادی یہ سب سامان آجاتا یہاں۔ زوبیہ بیگم کو بُرا لگا 

جائے نماز اور قرآن میں نے یہاں ہر ایک کو بار بار کہا تھا جواب میں بس ہاں کہہ کر ہر کوئی چلاجاتا جب کی لالہ والوں سے میں نے نہیں کہا تھا ایک سرسری سا ذکر کیا تھا جس پہ انہوں نے یہ سب سامان بُھجوایا ہے۔ آروش کی مسکرائٹ پھیکی ہوئی تھی۔ 

اچھا تو یہ کپڑے اور جوتیں ہیئر برش گفٹس کا سامان کیوں ہیں؟زرگل والے جو ابھی نیچے آئے تھے اُن میں سے زر فشاں نے کہا

یہ سب جوڑے نئے ہیں بابا سائیں اماں سائیں دُرید لالہ شازل لالہ نے عید پہ دیئے تھے مگر کبھی پہننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور رہی بات جوتوں کی تو اُن کو پتا ہے میری پسند کا جب کی جو آپ میرے لیے لائی تھی وہ ہیلز والے تھے مجھے اُن پہ چلنا تک نہیں آرہا تھا ہیئر برش اِس لیے اُنہوں نے بھیجا کیونکہ یہ برش میرا فیورٹ ہے میں ہمیشہ اِس برش سے بالوں میں کنگی کرتی ہوں جب کی گفٹس انہوں نے اپنی طرف سے بھیجے ہیں۔ آروش نے ہر چیز کی وضاحت دی اُس کا دل بُری طرح سے ہر چیز پہ اچاٹ ہوگیا تھا۔ 

سیڑھیوں کی ریلنگ کے پاس کھڑا یمان یہ سب خاموشی سے دیکھ رہا تھا آروش کو اپنے خریدے ہوئے ڈریس میں دیکھ کر اُس کے اندر گُدگُدی ہوئی تھی مگر اب جب نے اُس کو کٹہرے پہ کھڑا پایا تھا تو یمان بس چپ کھڑا اُن کو دیکھ رہا تھا وہ جانتا تھا آروش کو اپنے لیے لڑنا آتا ہے مگر اُس کو تعجب زوبیہ بیگم پہ ہورہا تھا جو اُس سے عجیب وغریب قسم کے سوال اور اعتراض اُٹھا رہی تھیں۔ 

اچھا کوئی بات نہیں تم اندر جاؤ میں یہ سامان کسی ملازمہ کے ہاتھوں تمہارے کمرے میں بھجواتی ہوں۔نور نے اُس کی توجہ دوسری جانب کی تو وہ بنا کہے اپنے کمرے میں جانے لگی تو یمان اُس سے پہلے اپنے کمرے میں چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

السلام علیکم۔ارمان مسکراکر فجر کو دیکھ کر بولا

تم یہاں کیوں آئے ہو؟ فجر اُس کو دیکھ کر حیران ہوئی جب کی ارمان ہمیشہ اچانک سے ہی آیا کرتا تھا۔ 

سلام کا جواب دینا ہر مسلمان پہ فرض ہے۔ ارمان نے جیسے یاد کروایا

وعلیکم السلام اب بتاؤ کیوں یہاں بار بار ٹپک پڑتے ہو؟فجر نے گھور کر کہا

میں تو یامین کے لیے آیا تھا وہ مجھے یاد کررہا ہوگا۔ارمان نے اپنے آنے کا مقصد بتایا

وہ تمہیں یاد نہیں کرتا اِس لیے تم اُس کی عادتیں مت بِگاڑو۔فجر نے سنجیدگی سے کہا

میں کیوں اُس کی عادتیں بگاڑنے لگا آپ پلیز اُس کو بتائے میں آیا ہوں۔ ارمان نے اتنا ہی کہا تھا جب یامین خود بھاگتا اُس کے پاس پہنچا

السلام علیکم چاچو۔ یامین ارمان کے پاس کھڑا ہوکر بولا تو فجر نے اُس کو گھورا جب کی ارمان شرارتی نظروں سے فجر کو دیکھ کر یامین کو گود میں اُٹھاکر اُس کے گالوں پہ بوسہ دینے لگا۔ 

یامین اندر جاؤ۔فجر یامین کو دیکھ کر بولی

مجھے چاچو کے ساتھ پارک جانا ہے۔یامین اپنے بازوں ارمان کے گلے میں حائل کرتا نروٹھے پن سے بولا

چاچو لاحول ولاقوة چیمپئن میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا مجھے ماموں اور چاچو مت بولا بلکہ پارٹنر بولا کرو۔ یامین کے "چاچو" لفظ پہ ارمان نے اب غور کیا تو جلدی سے یامین کو ٹوک کر بولا۔کیونکہ وہ چاچو بولتا یا ماموں ایسے تو وہ یا یمان کا بھائی بنتا یا فجر یہ دونوں نام اُس گنوارا نہیں تھے کیونکہ یمان بھی تو فجر کا بھائی تھا۔ 

اوکے پارٹنر۔یامین فرمانبرداری کے تمام رکارڈ توڑ کر بولا

مجھے پتا ہے تم نے آگے چل کر بہت ترقی کرنی ہے۔ ارمان تو واری صدقے ہوا اُس کے۔ 

فجر کبھی ارمان کو گھورتی تو کبھی اپنے بیٹے کو جنہوں نے اُس کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہوا تھا۔ 

میں بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوں گا پھر ماموں یمان کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ یامین کی بات پہ جہاں ارمان کا مُنہ حیرت سے کُھلا تھا وہی فجر بھی سٹپٹائی تھی۔ 

پہلے ماموں کی شادی تو ہونے دو جن کی شادی کا دور دور تک کوئی نام تو کیا مجھے تو ہلکہ سا نشان بھی نہیں آتا اور  تم نے ابھی سے اُن کی بیٹی پہ نظر رکھی ہوئی ہے جو اِس دنیا میں آئی ہی نہیں ہے۔ ارمان جھرجھری لیکر بولا تو یامین نے منہ بسورا

امی کہتی ہیں اگر میں کوئی شرارت نہیں کروں گا اچھا بچہ بن کر رہوں گا تو میری دولہن ماموں یمان کی بیٹی ہوگی اور اُس کے بھی بہت پیارے پیارے ڈمپلز ہوگے۔یامین کی صفائی گوئی فجر کو پہلو بدلنے پہ مجبور کرگئ۔ارمان اپنی نظریں یامین سے ہٹاتا فجر کو دیکھنے لگا جو یہاں وہاں دیکھ کر خود کو لاتعلق ظاہر کررہی تھی۔ 

میری بات آپ لکھ کے رکھ لے یامین کی شادی کی عمر ہوجائے گی اُس کے بعد آپ کے بھائی کو خود کی شادی کا خیال آئے گا تو کیا یامین اُن کی بیٹی سے شادی کرے گا یا گود میں لیکر ایڈاپٹ کرے گا۔ ارمان کی بات پہ یامین کو اُس کی ساری بات تو سمجھ نہیں آئی تھی مگر جو سمجھ آئی تھی اُس پہ یامین کا منہ اُترگیا۔ 

تمہیں تو پارک لیکر جانا تھا یامین کو۔ فجر نے بات بدلنا چاہی۔ 

وہ تو ہم جائے گے مگر آپ ذرہ اِس بچے پہ رحم کرے۔ ارمان نے جیسے قسم اُٹھائی تھی آج فجر کو شرمندہ کرنے کی

تمہیں کیا مسئلہ ہے میرا بیٹا ہے یہ اور مرضی جو میں اُس سے کہوں تمہیں کیا پتا کتنا ناک میں دم کرتا ہے میرے ایک ہی اِس کی دُکھتی رگ ہے۔ فجر اپنی خجلت مٹانے کے غرض سے بولی

بڑا افسوس ہوا جان کر تم نے ساری عمر کنوارہ رہنا ہے۔ ارمان رحم بھری نظروں سے یامین کو دیکھ کر بولا تو اُس نے ہونٹ باہر نکال کر رونی شکل بنائی۔

انسان کی شکل اچھی نہ ہو تو کوئی بات ہی اچھی کرلے اور یہ تم کیا میرے بیٹے کو پٹی پڑھا رہے ہو۔فجر طنزیہ لہجے میں کہتی آخر میں سخت لہجے میں بول پڑی

پٹی تو آپ پڑھا رہی ہیں خیر وی آر گیٹنگ لیٹ تو گُڈ بائے۔ ارمان ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر اُس کو بولا

یمان کے اسسٹنٹ تبھی لحاظ کررہی ہو۔ فجر نے جتایا

جی شکر ہے کسی کے لیے تو لحاظ کیا۔ ارمان منہ بسور کر کہتا گیٹ عبور کرگیا۔ 

💕💕💕💕💕💕

آپ کو آروش سے ایک مرتبہ بات کرلینی چاہیے۔ رات کے پہر کلثوم بیگم نے شھباز شاہ سے کہا جن کی آنکھوں سے نیند کوسو دور تھی۔ 

ہممم سوچ رہا ہوں کروں اُس سے بات بہت ناراض ہوگی وہ۔ شھباز شاہ گہری سانس بھر کر بولے۔ 

جتنی بھی ناراض وہ ہو اگر آپ اُس کو خود سے کال کرینگے تو وہ سب کجھ بھول جائے گی۔ کلثوم بیگم نے کہا

جانتا ہوں بہت وقت ہوگیا ہے اُس کو حویلی سے گئے اب تو میرا دل بھی مچلتا ہے اُس سے بات کرنے کو۔ شھباز شاہ نے دل کی بات کی۔

پھر جلدی بات کیجئے گا۔ کلثوم بیگم نے کہا تو شھباز شاہ نے سر کو جنبش دی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج ایونٹ تھا جس میں دلاور نے ہر کسی کو انوائٹ کیا تھا ان کی اسلام آباد میں واپسی کل رات ہوئی تھی جب کی ایونٹ کا سارا انتظام ارمان نے کیا ہوا تھا اُس کے کام سے دلاور خان کافی مطمئن ہوئے تھے۔ مہمانوں کی آمد رفت جاری تھی میڈیا والوں کا بھی ایک ہجوم اکھٹا ہوا تھا ہر کوئی دلاور خان کی چھوٹی بیٹی آروش سے ملنا چاہتا تھا جس کو انہوں نے اتنے سالوں تک کسی سے ذکر تک نہیں کیا تھا۔ 

زرفشاں زر نور زرگل نور زوبیہ بیگم یہ سب تیار ہوکر مہمانوں سے ملنے میں لگی ہوئی تھی جب کی آروش ابھی تک نیچے نہیں آئی تھی اور نہ اُس کو اتنے مہمانوں کی خبر تھی۔

بلیک گول گلے والی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پینٹ پہنے جب کی ایک ہاتھ میں سیم بلیک لیدر کی جیکٹ پکڑے یمان جیسے ہی ریلنگ کے پاس سے گُزرتا اُس کی نظر نیچے لوگوں کا اتنا رش اور آمد رفت دیکھنے میں پڑی تو اُس کو اپنی بینائی پہ شک ہوا۔ وہ جیکٹ بازوں پہ رکھتا حیرت سے ہر ایک کو دیکھنے لگا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب نیچے کیا ہورہا ہے۔ 

میڈیا والوں نے اُس کو دیکھا تو چاروں طرف سے گھیرلیا یمان اپنا آپ اُن سے بڑی مشکل سے بچاتا دلاور خان کی طرف پہنچا

ڈیڈ یہ سب کیا ہے؟ یمان دلاور خان سے آہستہ آواز میں مخاطب ہوا۔ 

سرپرائز کیسا لگا؟ دلاور خان ہاتھوں میں وائن کا گلاس پکڑے گرمجوشی سے اُس کے ساتھ مل کر بولے

ایسا سرپرائز کیوں اور کس لیے؟ یمان ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگا۔ 

یہ سارا کجھ میں نے اپنی بیٹی آروش کے لیے کیا ہے اُس کو منظرِ عام پہ لانا چاہتا ہوں جیسے ہی سب کو پتا چلا ہے میری ایک اور بیٹی بھی ہے سب بیتا ہوگئے ہیں اُس سے ملنے کے لیے اب بس آروش کے آنے کی دیر ہے۔ دلاور خان آس پاس لوگوں کی جانب اِشارہ کرتا اُس کو بتانے لگے۔ 

اُن کو پتا ہے یہ بات اور اگر پتا ہے تو کیا وہ مان گئ؟ یمان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا

کہاں یہ سب تو آروش کے لیے سرپرائز ہے میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں وہ کتنا خوش ہوگی یہ سب دیکھ کر اُس کو آج پتا چلے گا میں اُس سے کتنا پیار کرتا ہوں وہ جب یہاں آئے گی تو دیکھے گی یہ سب تیاریاں کے کیسے میں نے پئسا پانی کی طرح بہایا ہے۔ دلاور خان نے کہا تو یمان بس اُن کو دیکھتا رہ گیا اُس کو پتا تھا آروش کو یہ سب پسند نہیں آئے گا۔ 

ڈیڈ آپ ایک مرتبہ اُن سے پوچھ لیتے ی

خان یہاں کیا کررہے ہیں آپ مسٹر فیضی یاد کررہے ہیں آؤ گیسٹ سے ملو۔یمان کجھ کہنے والا تھا جب زوبیہ بیگم اُن دونوں کی طرف آتی دلاور خان سے بولی تو وہ اُن کے ساتھ چل پڑے جبکی یمان کی بات درمیان میں رہ گئ تھی۔یمان اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آپ موٹی ہوگئ ہیں۔ 

آروش یمان کا خریدہ ہوا وائٹ گاؤن پہنے ہوئے آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی جب اُس کے کانوں میں یمان کا جُملا گونجا تھا اُس نے غور سے ہر اینگل سے اپنا جائزہ لیا۔جہاں وہ وائٹ گاؤن کے ساتھ سیم حجاب کیے بنا کسی کے میک اپ کے شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی اُس کو کہی سے بھی اپنا آپ موٹا نہیں لگا۔

نظر خراب ہے اُس کی۔آروش جھرجھری لیکر بڑبڑائی۔

صبح زوبیہ بیگم اُس کو نیٹ والی ساڑھی پہن کر نیچے آنے کا کہتی چلی گئ تھی اُس کو نہیں تھا پتا کے زوبیہ بیگم نے کیوں تیار ہوکر جلدی آنے کا کہا تھا مگر جو بھی تھا اُس کو ساڑھی پسند نہیں آئی تھی بلکہ یہ گاؤن آیا تھا تبھی وہ پہن کر تیار ہوگئ تھی۔

اب جاتی ہوں پتا نہیں کیا بات ہے؟آروش بیڈ سے وائٹ کلر کا بڑا سا ڈوپٹہ اُٹھاتی کمرے سے باہر جانے لگی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یمان اپنی پیشانی مسلتا بار بار ایونٹ میں آئے اتنے سارے لوگوں کو دیکھ رہا تھا جہاں مرد حضرات بھی تھے میڈیا والوں کا ہجوم الگ سے تھا اُپر سے دلاور خان کا کہنا آروش کو کجھ نہیں پتا اُس کے لیے سرپرائز ہے وہ جب یہاں آئے گی تو پتا چلے گا۔یہ بات یمان کو پریشانی میں مبتلا کررہا تھا وہ اِن سب کو دیکھتا آروش کے پاس جانے کا سوچ رہا تھا۔جب ایک آواز اُس کے کانوں میں پڑی

وہ رہی میری سسٹر۔یمان نے اپنا سر اُٹھا کر اُپر کی جانب دیکھا تو آنکھوں میں سرد پن ڈور آیا جہاں آروش اپنے ڈوپٹے کے ساتھ اُلجھتی آروش ہر چیز سے بے نیاز سیڑھیوں سے چند قدم ہی دور تھی۔اُس سے پہلے کوئی اور مرد اُس کو دیکھتا یا میڈیا والے اپنے کیمرے کا رخ اُس کی جانب کرتے۔یمان سب کجھ فراموش کیے اُس کی طرف بھاگنے لگا تو سب حیرت اور تعجب سے یمان کو دیکھنے لگے۔

آروش کی نظر اپنی طرف بھاگ کر آتے یمان پہ پڑی تو اُس کے چلنے کی رفتار مدھم ہوئی تھی وہ ناسمجھی سے یمان کو دیکھ رہی تھی اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا اِشاروں کِناروں سے وہ کیا بات اُس کو باور کروا رہا تھا۔

جائے یہاں سے۔یمان تیز قدموں سے اُس تک بھاگ کر آتا کہنے لگا تو آروش بس اُس کا چہرہ تکنے لگی جو ڈھال بن کر اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا آروش اُس کے پیچھے دیکھنے والی تھی جب یمان نے بے ساختہ اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر وہاں دیکھنے سے باز رکھا تھا۔

آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی میں نے کہا اندر جائے۔۔۔۔۔یمان کا پہلی بار اُس سے بات کرتے ہوئے لہجہ سخت ہوگیا تھا جس کو محسوس کیے آروش کو بھی پہلی بار اُس سے ڈر لگنے لگا تھا۔ٹھیک اُسی وقت ہال میں موجود سب لوگوں کی چہ مگوئیاں تیز ہوتی گئ جس کو سن کر آروش کو جیسے سارا کجھ سمجھ آگیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

آروش اپنے چہرے پہ نقاب کرتی اپنے قدم واپسی کی جانب لیتی جلدی سے جو کمرہ اُس کو سمجھ آیا وہ اُس میں چلی گئ۔ 

آروش کے جانے کے بعد یمان کی جیسے اٙٹکی سانس بحال ہوئی اُس نے پلٹ کر نیچے ہال میں دیکھا جہاں سب خاموش سے ہوگئے تھے ہر ایک کی آنکھوں میں سوال تھا کوئی آپس میں چہ مگوئیاں کررہا تھا تو کوئی اپنے تیئے اندازے لگارہا تھا جب کی میڈیا والوں کو یہ تھا انہوں نے کیوں ایک بھی تصویر ٹھیک سے کیچ نہیں کی۔ 

سوری ٹو سے گائیز مگر ایونٹ کا احتتام ہوگیا ہے آپ لوگ یہاں آئے اُس کے لیے بہت بہت شکریہ پر اب آپ جاسکتے ہیں۔ یمان سب پہ ایک نظر ڈالتا تیز آواز میں بولا تو زوبیہ بیگم دلاور خان ہر کوئی ساکت سا یمان کو دیکھنے لگے جو اُن کو پوری طرف سے نظرانداز کیے ہوئے تھا

یمان یہ سب کیا کہہ رہے ہو؟ دلاور خان نے اُس کو ٹوکا

ارمان باہر کا گیٹ پوری طرح سے کُھلوادو تاکہ کسی کو جانے میں کوئی دکت نہ ہو۔یمان فلحال دلاور خان کی بات نظرانداز کرتا ارمان سے بولا تو سب لوگ باتیں بناتے باری باری چلتے جارہے تھے۔ زر فشاں زرگل نے انہیں روکنا چاہا مگر نے سود

کیا ہوگیا ہے تمہیں یمان ؟اندازہ ہے تمہیں کتنی انسلٹ ہوئی ہے ہماری تمہاری اِس حرکت کی وجہ سے باہر میڈیا والے جان کیا بکواس کررہے ہوگے ہمارے بارے میں۔ سب کے جانے کے بعد دلاور خان نے یمان کو جھڑکا

یہ سوال تو ڈیڈ مجھے آپ سے کرنا چاہیے یہ کیا کرنے والے تھے آپ؟ آپ جانتے ہیں وہ پردہ کرتی ہیں اُس کے باوجود بھی آپ نے اتنے سارے لوگوں کو انوائٹ کیا میڈیا تک کو بلوایا اگر اُن کی ایک بھی تصویر نیوز پہ آتی اُن کو پردہ ٹوٹ سکتا تھا۔ یمان نے سب کو افسوس کرتی نظروں سے دیکھ کر کہا

پردہ پردہ واٹ پردہ؟ آجکل کے زمانے میں ایسا کجھ نہیں ہوتا اسپیشلی وہاں جہاں ہم موو آن کرتے ہیں ہماری سوسائٹی میں ایسی چیزوں کو جاہلیت کا نام دیا جاتا ہے۔زوبیہ بیگم یمان کی بات پہ بولی

ہمیں زمانے کی سوچ سے نہیں اپنے دین کی نظر سے سوچنا چاہیے۔ یمان نے سنجیدگی سے کہا

دیکھو یمان آج تم مجھے بہت ڈس پوائنٹ کیا ہے لوگ کیا کہے گے دلاور خان جس کی فلمیں سینما میں دھوم مچاتی ہے جو خوبصورت اور مشہور ماڈلز کو کاسٹ کرتا ہے وہ خود کی بیٹی کو یوں چُھپانا چاہتا ہے زمانے ایسے تو میرے کریئر پہ یہ باتیں اثرانداز ہونے لگے گی۔ دلاور خان نے افسوس سے یمان کو دیکھ کر کہا

آپ زمانے کے بارے میں اور اُس زمانے میں رہنے والوں کی سوچ اور باتوں کا خیال اپنے دماغ سے نکال کر یہ سوچے آپ کی اپنی بیٹی کیا سوچے گی؟ آپ کو اُن کو اپنے اعتماد میں لینے کے بجائے خود سے دور کررہے ہیں۔ یمان نے اُن کو سمجھانا چاہا

آروش سے تو میں بات کرتی ہوں وہ کیوں یہ ضد باندھ بیٹھی ہیں۔ زوبیہ بیگم اتنا کہتی سیڑھیوں کی جانب جانے لگی تو وہ چاروں بھی اپنی ماں پیچھے گئ جب کی یمان اور دلاور ہال میں موجود تھے۔ 

وہ آگئ تھی یمان مگر تم نے اُس کو جانے کیا کہا جو وہ واپس چلی گئ اگر تم بیچ میں نہ آتے تو اب سب نارمل ہوتا۔ دلاور خان اپنی مسلتے یمان سے بولے۔

کجھ بھی نارمل نہ ہوتا ڈیڈ۔ یمان نے کہا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش کا وجود ہلکہ ہلکہ کانپ رہا تھا اُس کو سوچ سوچ کر خوف آرہا تھا اگر درمیان میں یمان نہ آیا ہوتا تو اُس کی تصاویریں میڈیا پہ ہر طرف پھیلی ہوئی ہوتی۔یہ سوچ آتے ہی اُس کے وجود  میں سرد لہر ڈور گئ۔ وہ ابھی اپنی سوچو میں تھی جب کمرے میں زوبیہ بیگم آئی۔ 

آروش تم کیوں چلی آئی یہاں؟ زوبیہ بیگم کے سوال پہ آروش نے زخمی نظروں سے اُن کو دیکھا

آپ کو پتا تھا مجھے یہ سب نہیں پسند پھر بھی آپ لوگوں نے یہ کیا؟ آروش اُن نے روبرو کھڑتی ہوتی بولی

دیکھو آروش ہم تو تمہیں سرپرائز دینا چاہ رہے تھے پر تم ایسا رویہ اختیار کر رہی ہو ہم چاہتے تھے تم خوش ہوجاؤ تمہیں پتا لگے ہم سب بہت پیار کرتے ہیں تم سے۔زرگل اُس کا رخ اپنی جانب کیے بولی

پیار؟خوش؟آپ لوگوں کو لگا میں ایسی چیزوں سے خوش ہوجاؤں گی؟آروش طنزیہ انداز میں ہنسی

کجھ غلط نہیں تھا وہ سب تم اگر آجاتی تو ہم سب کو اچھا لگتا تمہیں بھی اچھا لگتا یہ سب آجکل نارم ہیں تم بھی نارمل وے پہ دیکھو۔زوبیہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا

میں ایسا کجھ نہیں چاہتی اور آپ لوگوں کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے اِن سب کے لیے فورس نہ کیا جائے۔ آروش اُن کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر بولی

آروش میں تمہاری ماں ہوں تمہیں میری بات کا پاس رکھنا ہوگا اِس لیے کل تم میرے ساتھ گیدرنگ میں چل رہی ہو وہ ڈریس پہن کر جو آج صبح میں نے تمہیں دی تھی۔ زوبیہ بیگم نے حکیمہ لہجہ اختیار کیا۔ 

کیسی ماں ہیں آپ جو خود اپنی بیٹی کو بے پردہ کرنا چاہتی ہیں۔ اب کی اُن کی بات پہ آروش تقریباً چیخ پڑی

آروش۔ زرفشاں جو اب تک خاموش تھی آروش کو یوں بات کرتا دیکھا تو  اُس کو ٹوکنا چاہا

کیا آروش؟ ہاں کیا آروش؟ میں آپ کی نظر میں ہوں کیا ایک کٹھ پتلی جس کو پچیس سال پہلے کسی اور کے حوالے کرتے ہیں آپ پھر جب دل چاہا واپس بلوالیا کسی نے یہ نہیں سوچا میں کیا چاہتی ہو؟ مجھے اپنے اصل والدین کے پاس جانا بھی ہے یا نہیں میری خوشی کسی کو نظر نہیں آتی ہر کو اپنی پڑی ہے کسی کو امانت واپس لینی ہے تو کسی کو امانت واپس دے کر دیانتدار بننا ہے اپنا سر خرو کرنا چاہتا ہے۔ آروش بولنے پہ آئی تو بولتی چلی گئ۔ 

بدتمیزی مت کرو۔ زرفشاں کو سمجھ نہیں آیا وہ کیسے اُس کو خاموش کروائے جب کی زوبیہ اور باقی سب حیرت سے گنگ اُس کو دیکھنے لگے۔ 

آپ لوگ میری زات کے ساتھ مزاق کرنا بند کرے جو یہاں میرے بابا ہے انہوں نے کہا آروش تم پردہ مت کرو سیدہ نہیں ہو پٹھان ہو تو آج میں کہتی ہوں میرے سامنے کسی اُس پٹھان مرد کو لائے جو اپنے گھر کی عورتوں سے کہتا ہو تم سر پہ ڈوپٹہ نہ لو ننگے سر رہو میں نے تو سُنا تھا پٹھان لوگ غصے کے بہت تیز ہوتے ہیں بہت غیرتمند ہوتے ہیں اگر کوئی اُن کی عورت کا نام بھی لے تو مرنے مارنے پہ اُتر آتے ہیں تو یہاں کا کیسا نظام ہے؟ میں تھوکتی

چٹاخ

آروش جو بنا سانس لیے بولتی جارہی تھی اُس کی باتوں پہ زوبیہ بیگم کا ہاتھ بے ساختہ اُٹھ کر اُس کے گال پہ نشان چھوڑگیا تھا۔ 

آروش اپنے گال پہ ہاتھ رکھتی بے یقین نظروں سے زوبیہ بیگم کو دیکھنے لگی جن کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوگیا تھا۔ 

اتنی بداخلاقی یہ تربیت کی ہے پچیس سالو

میری تربیت پہ سوال مت اُٹھائے جانتی کیا ہیں آپ تربیت کے بارے میں؟آپ کی نظریں میں یہ تربیت ہیں؟ آروش اُن کی بات درمیان کاٹ کر زرفشاں کی طرف اِشارہ کرنے لگی جو مغربی سلیولیس لباس میں ملبوس تھی۔ 

تین بچوں کی ماں کو ایسا لباس زیب نہیں دیتا کبھی فرصت ملے تو ترجمے سے قرآن پڑھیے گا پتا چلے گا ہمارا اللہ ہم مسلمان عورتوں کو کیا حُکم دیتا ہے۔  مجھے میری اماں سائیں نے اِس ٹکڑے کی اہمیت بتائی تھی تب جب میں محض دس سال کی تھی۔آروش نے اپنا حجاب اُتار کر اُن کے سامنے کیا۔ 

انہوں نے کہا تھا آروش تم اب جوان ہوگئ ہو کبھی خود کو ننگے سر مت ہونے دینا ہمیشہ حجاب میں رہنا میں تو اپنے لالہ اور اپنے بابا سائیں کے سامنے بھی بغیر ڈوپٹے کے نہیں گئے تو نامحرم مردوں کے سامنے کیسے اپنی نمائش کرو اللہ نے اپنے محرم کے لیے پردے کا حکم دیا ہے تو سوچے اگر میں نامحرم کے سامنے جاؤں گی تو کتنا عذاب نازل ہوگا مجھ پہ۔آروش تھک ہار کر بیڈ پہ بیٹھتی اپنا سر ہاتھوں میں گِرالیا۔ 

ابھی تم نئ ہو آہستہ آہستہ ہمارے ماحول میں ایڈجسٹ کرلوں گی۔ زوبیہ بیگم کو جیسے اُس کی اتنی باتوں پہ رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا

سوچ ہے آپ کی نہ اماں سائیں بابا سائیں کی تربیت اتنی کمزور ہے اور نہ میرا ایمان۔ آروش کا لہجہ بے لچک تھا۔ زوبیہ بیگم ایک سنجیدہ نظر اُس پہ ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئ۔ جب کی اُن کی باتوں سے آروش کا دل زخمی ہوگیا تھا اُن سب کے جانے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ پورے کمرے میں اُس کی سسکیاں گونجنے لگی۔ 

💕💕💕💕💕💕

شازل۔ ماہی صوفے پہ شازل کے پاس بیٹھ کر اُس کا نام لیا۔ 

ہمممم۔ شازل نے جوابً ہمم کہنے پہ اکتفا کیا

آپ کب سے ڈرنک کرتے ہیں میرا مطلب کیوں ڈرنک کرتے ہیں جب آپ کو پینے کے بعد کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ ماہی اپنی ہی بات پہ گڑبڑاکر شازل سے بولی

تم نے یہ سوال آج کیسے پوچھ لیا؟ شازل کو اُس کا جواب عجیب لگا۔ 

ایسے ہی من میں آیا تو سوچا پوچھ لیا۔ ماہی نے خود کو لاپرواہ ظاہر کرنا چاہا

سچ بتاؤ۔شازل کو یقین نہیں آیا مگر ماہی اپنی انگلیاں چٹخانے لگی اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ اب کیسے شازل کو اپنی بات سمجھائے؟

جب آپ نے لاسٹ ٹائیم ڈرنک کی تھی؟ماہی اتنا کہتی چپ ہوگئ

ہاں آگے۔شازل پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ ہوا

تو جو اُس ٹائم آپ کو فیل ہوا یا پھر خواہش ہوئی کیا وہ پہلے کبھی ایسا ہوا تھا جب آپ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ہوکر پیتے تھے تو۔ ماہی بے ترتیب لفظوں کا چُناؤ کرتی شازل سے پوچھنے لگی جس پہ شازل کو پہلے کجھ سمجھ نہیں آیا مگر جب اُس کو سمجھ آیا تو چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ نے احاطہ کیا وہ تھوڑا کھسک کر ماہی کے قریب بیٹھا تھا ماہی ہڑبڑا کر اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر فاصلہ قائم کرنے لگی تو شازل مزید اُس کے قریب ہوا

کیا ہے دور رہ کر بھی جواب دیا جاسکتا ہے۔ ماہی نے ٹوکا

وہ میں تمہاری بات سمجھ نہیں پایا ٹھیک سے تو تم تھوڑا ایکسپلین کرو یا کوئی ہینٹ وغیرہ دو تو میں سمجھو۔ شازل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا بولا

اتنے آپ ناسمجھ تو نہیں۔ ماہی نے منہ کے زاویئے بگاڑے۔ 

تم ایک اور کوشش کرو کیا پتا اِس بار میں سمجھ جاؤں۔شازل نے اسرار کیا۔

میں یہ کہنا چاہ رہی کے ڈرنک کے بعد جو اُس دن آپ سے ہوگیا کیا پہلے کبھی ہوا؟ ماہی نے سرسری لہجہ کیے پوچھا

اُس دن مجھ سے کیا ہوگیا تھا؟ شازل کو اب اپنی ہنسی کنٹرول کرنا محال لگا۔ 

شازل کیا واقع آپ میری بات نہیں سمجھ پارہے یا ڈرامہ کررہے؟ ماہی نے اب کی خفگی بھرے لہجے میں کہا تو شازل کی ہنسی چھوٹ گئ۔ 

ہاہاہاہاہاہا ماہی سیریسلی مجھے سمجھ نہیں آرہا ایسے سوال پہ میں تمہیں معصوم کہوں یا بے وقوف۔ ہنس ہنس کر شازل کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔ 

آپ کی نظروں میں تو ہمیشہ مجھے بے وقوف ہی رہنا ہے اِس لیے اب بتائے پہلے ایسی کوئی طلب محسوس ہوئی تھی یا نہیں۔ ماہی جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں بولی

آنسٹلی بات بتاؤ؟شازل تھوڑا اُس کی جانب جھکا تو ماہی فورن سے اپنے چہرہ پیچھے کرنے لگی۔

دور رہ کر بتائے۔ماہی نے کہا

دور ہی ہو درمیان میں تمہارا اتنا بڑا پیٹ جو ہے۔شازل کی بات پہ اُس کا منہ بن گیا جو چڑانے کا کوئی بھی موقف ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔

بتائے اب آنسٹلی۔ ماہی نے پوچھا

وہ کیا ہے نہ پہلے ایسا کجھ فیل نہیں ہوا تھا اور نہ ایسی کوئی خواہش اندر میں جاگی تھی جب میں اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ پیتا تھا اور نہ ایسا کجھ ہوا جو لاسٹ ٹائیم پیتے وقت مجھ سے ہوگیا تھا۔پتا ہے کیوں؟  شازل اپنی بات پہ سسپینس پھیلا کر اُس کے بہت قریب ہوتا گیا تھا جس پہ ماہی سانس تک روکے ہوئے تھی اُس نے اُس وقت کو ہزار بار کوسا جب شازل سے ایسا سوال کیا۔ 

ک کیوں؟ ماہی کی زبان لڑکھڑائی

کیونکہ تب میں کنوارہ چھڑا چھانٹ تھا تمہارے جیسی پیاری بیوی نہیں تھی نہ اِس لیے ایسی کوئی طلب بھی نہیں جاگی۔ شازل اپنی بات کے احتتام پہ اُس کے جُھکنے والا تھا جب ماہی یکدم اُس کو دھکا دیتی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ 

ب بے ش شرم۔ ماہی لڑکھڑاہٹ بھری آواز میں کہتی واشروم میں جانے لگی تو شازل کا چھت پھاڑ قہقہقہ فضا گونجا

اگر میں شرم و حیا والا ہوتا تو اِس وقت تم اتنا بڑا پیٹ لیکر نہ گھوم رہی ہوتی۔ شازل کی اِس قدر بے باک بات پہ ماہی کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

نیوز چینلز دیکھے آپ نے؟ زوبیہ بیگم خاصے تپے ہوئے لہجے میں دلاور خان سے بولی

ہمممم کل سے ہر اینکر چیخ چیخ کر بول رہا ہے اپنی فلم میں لڑکیوں کو ننگے سر شارٹ کپڑے پہنانے والا دلاور خان اپنی بیٹی کو چُھپائے بیٹھا ہے وہ درس دیتی ہے یوں سمجھو جتنے منہ اُتنی باتیں۔ دلاور خان پریشانی سے ڈوبی آواز میں بولے

یہ دیکھے۔زوبیہ بیگم نے ایک میئگزین دلاور خان کے پاس کی تو وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگا۔ 

یہ کیا؟ دلاور خان تعجب سے میئگرین کی فرنٹ سائیڈ پہ یمان کی بیک سائیڈ والی تصویر اور آروش کا ہلکہ سا نظر آتا حجاب دیکھ کر زوبیہ بیگم سے بولے جس میں یمان کا چہرہ تو صاف عیاں تھا مگر آروش کا نہیں کیونکہ یمان کا ہاتھ اُس کے گال پہ تھا

سب لوگوں کو نیا اسکینڈل مل گیا ہے۔ زوبیہ بیگم نظریں چُراتی بولی

ایسی بکواس خبر چھپوانے والے کا آفس میں ہمیشہ کے لیے بند کرواتا ہوں۔ دلاور خان نے طیش میں آکر گرجے

یمان نے پہلے ہی بندوبست کرلیا ہے۔ زوبیہ بیگم نے کہا

سمجھ نہیں آرہا میں کروں تو کیا کروں؟ باہر جاتا ہوں تو میڈیا والے تیار بیٹھے ہیں مجھے گھیرلینے کے لیے۔ دلاور خان نے کہا

ایک انٹرویوں میں سارا کجھ کلیئر کردے ایسا کرے آروش کو بھی راضی کرلے کیا تاکہ وہ بھی ساتھ ہو انٹرویو میں ایسے یہ خاموش نہیں ہونے والا معاملہ۔ زوبیہ بیگم نے مشورہ دیا۔ 

آروش سے بات کرنی تو ہوگی ورنہ ہمارے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ دلاور خان نے کہا

ہاں اور یمان کو بھی کہے زیادہ آروش کی سائیڈ نہ لے وہ نہیں جانتا ایسے معاملات کیسے ہینڈل کیے جاتے ہیں۔ زوبیہ بیگم نے کہا تو دلاور خان نے اثبات میں سرہلایا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش دو دن سے اپنے کمرے تک محدود تھی وہ نہ خود باہر آئی تھی نہ کسی کو اندر آنے کی اِجازت دی تھی مگر وقت پہ یمان کے کہنے پہ نجمہ اُس کو کھانا دے کر چلی جاتی تھی فلوقت ہر ایک نے اُس کو اُس کے حال پہ چھوڑا ہوا تھا جس پہ آروش نے شکر کا سانس خارج کیا تھا اب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتی یمان کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی نروس حالت میں اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی جو بھی تھا اُس دن یمان جیسے اُس کی ڈھال بن گیا تھا ایسے اگر وہ نہ کرتا تو وہ جیتے جی مرجاتی اگر کسی اور حساب سے یمان مدد کرتا تو شاید آروش کو کبھی خیال نہ آتا کے اُس کو یمان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے مگر اب وہ خود کو یمان کے احسان تِلے دبتا محسوس کررہی تھی کیونکہ یمان نے اُس کی حفاظت کی تھی اُس کا چہرہ کوئی اور نہ دیکھ لے وہ سب کجھ فراموش کیے سامنے آگیا تھا۔ آروش کا ہاتھ بے ساختہ اپنے گال پہ پڑا تھا جہاں یمان نے اپنا ہاتھ رکھا۔ جانے کیوں اُس کو اب بھی یمان کا لمس محسوس ہونے لگا تو اُس نے جلدی سے اپنا ہاتھ گال سے ہٹایا مگر تبھی دروازہ کھول کر یمان باہر جانے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھا آروش کو اپنے سامنے دیکھ کر اُس کو خوشگوار حیرت نے آ گھیرا جب کی آروش اُس کی اچانک آمد پہ ہڑبڑا سی گئ۔ 

آپ یہاں خیریت؟

 کوئی کام تھا؟ یمان نے ایک سانس میں پوچھا

میں ٹھیک ہوں بس تمہارا شکریہ ادا کرنے آئی تھی انجانے میں ہی مگر تم نے مجھ پہ بہت احسان کیا ہے اگر اُس دن تم نہ ہوتے تو۔ آروش اتنا کہتی خاموش ہوئی تو یمان مسکرادیا

مجھے اُس دن ہونا تھا کیونکہ مجھے آپ کو پروٹیکٹ کرنا تھا اُس کے لیے آپ کو شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں اور جو میں نے کیا وہ میرا احسان نہیں میری محبت میری عقیدت تھی جس کو گوارا نہیں تھا کے کوئی اور آپ کو دیکھے۔ یمان شدت پسندی سے بولا

میرے اِس طرح بات کرنے پہ تمہیں کوئی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں میرا جواب آج بھی وہی ہے۔آروش نے کہا

ضد چھوڑدے آپ کیونکہ آپ کا انتظار تو میں اپنی آخری سانس تک کروں گا۔ یمان کا اعتماد قابلِ دید تھا

اور تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے کے تمہارا انتظار حاصل ٹھیرے گا؟ آروش نے جاننا چاہا

کیو

یمان صاحب آپ کی فیانسی روزی میم ملنے آئی ہیں شی ویٹنگ فار یو ویری بے صبری سے۔ یمان آروش سے کجھ کہنے والا تھا جب نجمہ دونوں کے درمیان مداخلت کرتی قدرے شرمانے والے انداز میں یمان سے اُردو انگلش میں بولی تو اُس کی بات پہ یمان نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا کیونکہ وہ اپنے چہرے پہ آروش کی تمسخرانہ نظریں اچھے سے محسوس کررہا تھا یمان نے بے بسی سے اپنی آنکھوں کو بند کرکے کھولا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

چچی جان حریم کہاں ہیں؟آج اُس کے چیک اب کا دن تھا ہمیں شہر کے لیے نکلنا تھا۔ دُرید باورچی خانے میں فاریہ بیگم کے پاس آکر بولا

دُرید بیٹا اُس نے منع کردیا ہے بول رہی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ فاریہ بیگم نے گہری سانس بھر کر بتایا

اِتنے ماہ وہ میرے ساتھ چلی ہے تو پھر آج کیا مسئلہ ہے؟ دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

بیٹا پتا نہیں بس اچانک اُس کو کیا ہوجاتا ہے بہت چڑچڑی سی ہوگئ ہے بات پہ بات کاٹ کھانے کو ڈورتی ہے۔ فاریہ بیگم کافی پریشانی سے بولی

میں ٹھیک کرتا اُس کو بہت دنوں سے ڈھیل دی ہے اُس کا نتیجہ ہے۔ دُرید تیز آواز میں کہتا جانے لگا جب فاریہ بیگم بول پڑی

نرمی سے بات کرنا بیٹا کیونکہ وہ جس کنڈیشن میں ہے اُس حالت میں اُس کا یوں اسٹریس لینا اچھی بات نہیں۔ 

آپ فکر نہ کرے دُرید اُن کو تسلی دیتا باورچی خانے سے نکل گیا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کون؟ دروازہ نوک ہونے پہ حریم نے پوچھا

میں ہوں دُرید۔دوسری طرف سے آتی آواز پہ حریم کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ 

کیا کام ہے؟ حریم اجنبی لہجے میں بولی

دروازہ کھولوں۔ درید اُس کی بات نظرانداز کرکے بولا

ہم نہیں کھولے گے آپ جائے یہاں سے۔ حریم نے اپنے لہجے کو سخت کیا۔ 

مجھے غصہ مت دلاؤ حریم جلدی سے دروازہ کھولوں اور تیار ہوجاؤ آج تمہارے چیک اپ کا دن ہے میں کوئی کوتائی برداشت نہیں کروں گا۔دُرید نے جتانے والے انداز میں کہا

آپ کو ہماری فکر میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہمیں اگر چیک اپ کروانا ہوگا تو ہم خود دیکھ لینگے۔ حریم نے سنجیدگی سے کہا

ایک منٹ کے اندر اندر دروازہ کھولوں وگرنہ میں دروازہ اگر توڑ کر اندر آیا نہ تو ایک لگاؤں گا کان کے نیچے پھر نکل جائے گی یہ ساری اکڑ۔دُرید اُس کی ایک ہی رٹ پہ زچ ہوتا بولا تو حریم کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آنے لگے ایسے ہی دیکھتے دیکھتے وہ زور سے سسکیاں لیتی زارو قطار رونے لگی جس کی آواز دُرید نے باآسانی سے سُنی اور سن کر خاصا پریشان ہوگیا۔

حریم

حریم

حریم یار کیا ہوگیا ہے؟کیوں رو رہی ہو کیا کہی پین ہورہا ہے؟مجھے بتاؤ میں ڈاکٹر کو یہی بلوالیتا ہوں مگر پلیز تم روؤ مت۔دُرید اُس کے ایسے رونے پہ حددرجہ پریشانی کا شکار ہوتا دروزہ کھٹکھٹا کر اُس سے ایک سانس میں بولا تبھی ایک ملازمہ اُس کے ہاتھ میں ڈوپلیکیٹ چابی تھماکر گئ تھی تو دُرید دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تھا حریم کو دیکھ کر وہ جیسے سانس لینا تک بھول گیا جو اپنا پورا وجود گرم شال میں چُھپائے چہرہ ہاتھوں دیئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

حریم۔ دُرید سے اُس کی حالت دیکھی نہیں گئ جبکی حریم نے اپنا سر نہیں اُٹھایا ویسی ہی پوزیشن میں رہی

تمہیں میری بات بُری لگی؟ دُرید تھوڑا فاصلے پہ کھڑا ہوتا پوچھنے لگا

ہمیں آپ سے کوئی بات نہیں کرنی پلیز جائے یہاں سے۔ حریم ہچکیوں کے درمیان بولی تو دُرید کا دل کٹ کے رہ گیا

میں جانتا ہوں تم مجھ سے نفرت کرنے لگی ہو پر حریم میری غلطی کی سزا خود کو یا بچے کو تو نہ دو پلیز اُٹھ کر تیار ہوجاؤ چیک اپ کے لیے جانا ہے پریگنسی کی حالت میں ایسے رونا یوں لاپرواہی ظاہر کرنا بچے کے لیے ٹھیک نہیں۔دُرید انجانے میں اُس کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ گیا حریم کا رونا یکدم بند ہوگیا تھا۔

آپ جائے ہم آتے ہیں۔حریم بنا اُس کو دیکھ کر سپاٹ انداز میں بولی کجھ بھی مگر وہ اپنے بچے کی حالت پہ کوئی کمپرومائز یا لاپرواہی نہیں کرنے والی تھی یہ تو طے تھا 

آنسو تو صاف

ہاتھ مت لگائے آپ مجھے۔ حریم نے بے دردی سے اُس کا ہاتھ جھٹکا تو دُرید نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

کیوں کررہی ہو ایسا؟ دُرید نے پوچھا

ہم آپ کے جوابدے نہیں۔ اجنبی لہجہ

میں ایسا کیا کیوں کروں؟جو تم پہلے کی طرح ہوجاؤ اور مجھے معاف کردو؟دُرید گھٹنوں کے بل اُس کے قدم کے پاس آکر بیٹھا تو حریم کے چہرے پہ عجیب تاثرات نمایاں ہوئے۔کل جو وہ اُس کے قدم کی دھول بننا چاہتی تھی آج وہ لمبا چوڑا مضبوط عصابوں کا مالک مرد اُس  کے قدموں کے پاس بیٹھا تھا

آپ ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑدے یہ آپ کا بڑا احسان ہوگا ہم پہ۔حریم بے رخی سے بولی

یہ تو ناممکن ہے تابش کی موت کا اگر تمہیں علم ہے تو یہ بھی بتا ہوگا میرے آگے کیا منصوبے ہیں۔دُرید اُس کو دیکھ کر بولا

ہمیشہ وہ نہیں ہوگا جو آپ چاہتے ہیں۔حریم نے باور کروایا

ہمیشہ کا پتا نہیں مگر اِس بار وہ ہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں۔دُرید کا لہجہ مضبوط تھا

آپ کی سوچ ہے۔حریم نے طنز کیا

میرا یقین ہے۔دُرید دوبدو بولا

جلد ہی یہ یقین ٹوٹے گا۔ حریم نے کہا

وہ تو آگے چل کر پتا چلے گا ابھی تم اُٹھو مجھے فاریہ چچی کو بھی تیار ہونے کا کہنا ہے آگے ہی تم نے بہت باتوں میں وقت ضائع کردیا ہے۔ دُرید اُٹھ کر کندھوں پہ اپنی مردانہ شال دُرست کیے سارا الزام اُس پہ ڈال کر بولا

ہم کوئی باتیں نہیں کررہے تھے اور نہ ہم آپ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں جو آپ کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ حریم تلخ ہوئی

حریم کیا ہوگیا ہے یار؟ میں بس مزاق کررہا تھا۔ دُرید نے وضاحت دینا چاہی

ہمارا اور آپ کا کوئی مزاق نہیں۔ حریم دو ٹوک لہجے میں اتنا کہتی واشروم کی طرف جانے لگی۔ 

"بہت چڑچڑی سی ہوگئ ہے بات پہ بات کاٹ کھانے کو ڈورتی ہے۔ "

دُرید کے کانوں میں فاریہ بیگم کے کہے جُملے گونجے تو اُس نے بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم تو غائب ہی ہوجاتے ہو میرا تو زرہ برابر خیال نہیں تمہیں۔ روزی نے شکوہ کناہ لہجے میں یمان سے کہا

ایسا کِس نے کہہ دیا تم سے؟ یمان کو تمہاری بہت پرواہ ہے ہر ایک سے بس تمہارا ذکر کرتا ہے۔ یمان کے جواب دینے سے پہلے آروش نجمہ کے ساتھ ریفریشمنٹ کا سامان لاتی اُس سے بولی تو یمان جھٹکے سے گردن موڑ کر آروش کو دیکھنے لگا جس کی تنقیدی نظریں سلیولیس شرٹ کے ساتھ گھٹنوں تک پھٹی ہوئی پینٹ پہنے روزی پہ تھی جس کے کندھوں تک آتے بال کُھلے ہوئے تھے اور چہرے پہ بڑی فرصت سے میک اپ کیا گیا تھا

میرے گنہگار کانوں نے تو کبھی یمان صاحب کے منہ سے بھولے سے بھی روزی نام نہیں سُنا۔ نجمہ چور نظروں سے روزی آروش اور اُڑی ہوئی رنگت کے ساتھ بیٹھے یمان کو دیکھ کر سوچنے لگی۔ 

تم آروش رائٹ؟ روزی کی باچھیں کُھل گئ تھی آروش کی بات پہ اِس لیے اُس کو دیکھ کر نام کنفرم کرنا چاہا

رائٹ۔ آروش اتنا کہتی سینٹر صوفے پہ بیٹھی تو یمان نے پہلو بدلا

یمان پھر کیا خیال ہے آج رات ڈنر ساتھ کرے۔ روزی یمان کو دیکھ کر پرجوش لہجے میں بولی تو یمان کی نظریں بے ساختہ آروش پہ پڑی جو گال پہ ہاتھ رکھ کر بڑی دلچسپ نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی اُس کے ایسے دیکھنے پہ یمان نے ایک ساتھ کئ بیٹ مس کی تھی اُس نے جلدی سے اپنی نظروں کا زاویئہ اُس پہ سے ہٹایا مگر اُس نے ایک منٹ میں سوچ لیا تھا اگر آروش نے موقعے پہ چونکا مارا ہے تو وہ چھکا مار ہی سکتا تھا یخلت اُس کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی تھی دونوں گالوں کے ڈمپلز پوری آب وتاب سے نمایاں ہوئے تھے جن کو دیکھ کر جانے کیوں آروش کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹیاں بجتی سُنائی دی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

سوری ٹو سے بٹ آج اِنہوں نے مجھ سے کہا تھا کے اِن کا بہت دل کررہا ہے باہر جانے کو جب سے یہ آئی ہیں کہی آؤٹنگ وغیرہ پہ نہیں گئ اور یہ اسلام آباد بھی پہلی بار آئی ہیں اور ان کا بہت دل چاہ رہا ہے اسلام آباد کی خوبصورتی دیکھنے کو تو میں نے اِن کے ساتھ پلان کردیا ہم جائے گے ایسے میں اب میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا آروش کو بہت بُرا لگے گا۔ یمان بڑے سلیقے سے ایک کے بعد ایک جھوٹ اور اپنے اندر دبی خواہش کا سِرا آروش کے سر پہ تھوپا جو پوری آنکھیں اور منہ کھولے اُس کو دیکھ رہی تھی۔ 

اووہ اچھا۔ روزی کے چہرے پہ نافہم تاثرات نمایاں ہوئے. 

میں نے ک

شکر ہے اِس کو بھی تھوڑا خیال آیا ہم سے نہیں تو تم سے کہہ دیا میں بھی سوچ رہی تھی باہر جانے کا پلان ہو مگر آروش نے تمہیں کہہ دیا ہے تو اب دیر نہیں کرنا خوب اِس کو گُھمانا پِھیرانا انجوائے کروانا۔آروش ابھی کجھ کہنے والی تھی جب دلاور خان کے ساتھ آتی زوبیہ بیگم نے شاید یمان کی بات سن لی تھی تبھی فورن سے بولی تو آروش نے خونخوار نظروں سے یمان کو دیکھا جس کے جواب پہ یمان نے آنکھ ونک کی۔ 

نہیں میں نے اپنا پلان چینج کردیا ہے میرا اب موڈ نہیں۔آروش سنجیدگی سے کہتی اُٹھ کر جانے لگی۔ 

یہ کیا بات ہوئی بیٹا تم نے یمان سے کہا ہے تو اب جاؤ یمان نے تو سارا انتظام بھی کردیا ہوگا۔دلاور خان نے اُس کو جاتا دیکھا تو کہا

ہاں اور نہیں تو کیا میں نے ریسٹورنٹ میں ایک الگ سے کیبن تک بُک کروایا ہے تاکہ اِن کو کھانا کھانے میں مشکل نہ ہو کمفرٹیبل رہے۔یمان نے جلدی سے دلاور خان کی بات پہ تائید کی۔وہ کیسے خود پہ ضبط کیے ہوئے تھا وہ بس یہ خود جانتا تھا ورنہ دل تو اُس کا بھنگڑا ڈالنے کا کہہ رہا تھا۔

اُس کیبن میں تم اپنی فیانسی کو لیکر جانا ہے۔آروش نے دانت کچکچائے

ایک تو اِن محترمہ کے مزاج نہیں ملتے اتنے معروف گلوکار کے ساتھ گھومنے کا موقع مل رہا ہے اور ایک یہ ہیں جو ٹھکڑا رہی ہیں ناشکری نہ ہو تو۔نجمہ اُس کی ایک ہی رٹ پہ سخت بدمزہ ہوئی

آروش کیا ہوگیا ہے کیوں ہر ایک بات پہ ضد کرتی ہو جاؤ اور جو اپنی تیاری کرنی ہے کر آؤ۔زرفشاں اپنے بیٹے کو فیڈر پلاتی آروش کو ٹوک کر بولی تو آروش نے بے بسی سے یمان کو دیکھا جو اب اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کر خاصی دلچسپ نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو آپ کا مذاق آپ پہ ہی بھاری پڑا۔

💕💕💕💕💕💕

ضرور کوئی سازش چل رہی ہوگی تمہارے دماغ میں۔ دیدار بالوں میں برش کرتا شبانا سے بولا جو جانے کِن سوچو میں گم تھی۔ 

تمہیں کیا لگتا ہے میں بس سازشیں کرتی ہوں؟ شبانا ناگواری سے بولی

لگتا تو کجھ ایسا ہے۔ دیدار نے تائید انداز میں کہا

تم نہ اپنی حد میں رہا کرو سمجھے۔ شبانا بیڈ سے اُترتی تو اُس کو وارن کرنے والے انداز میں بولی

تم اپنی آواز نیچے رکھ کر بات کیا کرو مجھے قطعاً پسند نہیں عورتوں کا یو گلا پھاڑ کر بات کرنا۔ دیدار اُس کا جبڑا دبوچ کر وارن کرنے والے انداز میں بولا

تم جھنگلی وحشی انسان چھوڑو مجھے۔ شبانا اپنے ہاتھ پاؤں چلاکر اُس کو خود سے دور کرتی گہرے سانس بھرنے لگی۔

آئیندہ کے بعد سوچ سمجھ کر مجھ سے بات کرنا۔دیا کیا ہے تم نے مجھے تمہیں تو میرا احسانمند ہونا چاہیے جانتے ہوئے بھی کے تم ایک بیوہ اور بھانج عورت کے ساتھ مجھ سے عمر میں بڑی ہو تو بھی میں نے تم سے شادی کی اور تم ہو جو مجھے اکڑ دیکھا رہی ہو۔ دیدار حقارت سے اُس کو دیکھ کر بولا

تو نہ کرتے کوئی تمہارے پاؤں نہیں پڑا تھا۔شبانا چیخی۔دیدار کی باتیں کسی کاری ضرب کی طرح اُس پہ لگی تھی۔

لالہ کی بیوہ تھی اِس لیے شادی کی وہ بھی تم جیسی عورت سے اور ہاں ایک بات کان کھول کر سن لو اگر تمہیں لگ رہا ہے تمہارے یوں مجھے اولاد نہ دینے پہ بھی میں خاموش رہوں گا تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے کیونکہ مجھے اولاد چاہیے اور میں دوسری شادی کروں گا۔ دیدار دو ٹوک انداز میں بولا تو شبانا کی آنکھیں  بے یقینی سے پھیل گئ۔ 

تم ایسا کجھ نہیں کروگے۔ شبانا نے کہا

میں کیا کروں گا اور کیا نہیں اُس کے لیے مجھے تم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تم رہو ہر ایک کی خوشیوں سے جلتی ہوئی تم اِسی سب کے لائق ہو۔ دیدار ہتک آمیز لہجے میں بولا

دیدار تم ایسا کجھ نہیں کرو گے میں ہرگز یہاں اپنی سوتن کو برداشت نہیں کروں گی۔ شبانا پاگل ہونے کے در پہ تھی۔ 

برداشت تو تمہیں کرنا پڑے گا اِس لیے شازل کی نہیں میری دوسری شادی کی تیاری کرو۔ دیدار طنزیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہتا چلاگیا۔پیچھے شبانا یہاں سے وہاں ٹہلتی اپنے اشتعال پہ قابو پانے لگی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش عبایا پہنتی باہر آئی تو یمان گاڑی میں بیٹھا اُس کا انتظار کررہا تھا وہ ایک غصے سے بھری نگاہ اُس پہ ڈال کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ کر زوردار آواز سے دروازہ بند کیا۔ 

آپ کو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھنا تھا۔ یمان بیک ویو سے اُس کو دیکھ کر بولا

یہاں اپنی ہوتی سوتی کو بیٹھانا اور گاڑی کو یہی کہیں سائیڈ پہ کرو مجھے کہی باہر نہیں جانا اور میں کوئی نہیں پہلی بار آئی ہو اسلام آباد بہت بار آچُکی ہوں۔ آروش نے تیز آواز میں کہا

ایسا کیوں ایک جگہ پہ رُکنے سے بہتر ہے لونگ ڈرائیو پہ جائے۔ یمان نے اپنا نظریہ پیش کیا

مجھے تم پہلے یہ بتاؤ میں نے کب تم سے کہا مجھے تمہارے ساتھ آؤٹنگ پہ جانا ہے؟آروش نے گھورتے ہوئے کہا

اور میں نے کب ہر ایک سے روزی کیا ذکر کیا؟یمان گردن موڑ کر پوری طرح سے اُس کی جانب متوجہ ہوا۔

ہاں تو وہ تمہاری فیانسی تھی اگر میں نے ایسا کجھ کہہ بھی دیا تو کوئی بڑی بات نہیں۔آروش نے گڑبڑا کر وضاحت تھی۔ 

اگر ایسی بات ہے تو آپ میری محبت ہیں اگر میں نے ایسا کجھ باہر جانے کا کہہ دیا تھا کوئی بڑی نہیں بات نہیں۔ یمان کندھے اُچکاکر لاپروائی سے بولنے لگا۔ 

شرم کرو یمان اپنی منگیتر کے ہوتے ہوئے بھی تم ایسی بات کررہے ہو۔ آروش نے اُس کو گھورتے ہوئے کہا

جب میری منگیتر نہیں تھی میں تب بھی آپ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا اور وہ میری فیانسی نہیں ہے ہماری منگنی نہیں ہوئی۔ یمان سنجیدہ ہوا

جھوٹ۔ آروش نے سرجھٹکا

میں کبھی آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا یہ سچ ہے ہماری انگیجمنٹ ہونی تھی مگر ہوئی نہیں تھی کیونکہ میرے بھانجے یامین کو چوٹ آئی تھی۔ یمان نے صفائی پیش کی۔ 

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تمہاری منگنی ہوئی ہے یا نہیں بس تم اپنے دماغ سے میرا خیال نکال دو۔ آروش نے سنجیدگی سے کہا

میں ایسا کیا کروں؟جو آپ کو میری محبت پہ ایمان آجائے؟ یمان بے بسی کی انتہا کو چھو کر بولا

تم میرے لیے کیا کرسکتے ہو؟ آروش نے جاننا چاہا

ایوری تھنگ فار یو۔یمان بنا تاخیر کیے بولا

اپنا نام چھوڑ سکتے ہو؟ آروش نے کہا تع یمان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا۔ 

میں سمجھا نہیں۔یمان نے کہا

سنگنگ کرنا تمہارا پیشن تمہارا جنون ہے تو کیا تم اتنی اونچائی پہ پہچنے کے بعد اتنا نام کمانے کے بعد اُس کو چھوڑ سکتے ہو؟جب کی یہ تمہاری پہچان ہے بہت حاصل کیا ہے تم نے اور آگے چل کر بھی بہت اپرچیونٹیز تمہیں مل سکتی ہے۔ آروش کا انداز چیلنج سے بھرپور تھا۔ 

بلکل چھوڑ سکتا ہوں یوں سمجھے میں نے چھوڑ دیا کیونکہ میرے لیے آپ سے بڑھ کر اور کجھ نہیں سنگنگ کرنا اگر میرا جنون ہے تو آپ اُس جنون سے بڑھ کر میرا عشق ہے میرے جینے کی وجہ ہیں آپ میں ہر روز ایک اِس اُمید سے جیتا تھا کے آپ مجھے ضرور ملے گی اتنے سالوں بعد بھی میں ایک اُمید کے تحت جیتا رہا کے میرا اور آپ کا سامنا ضرور ہوگا تب تو میری نظر میں آپ سیدہ آروش شاہ تھی اور یقین جانے جب میں نے آپ کو اچانک سے اپنے روبرو دیکھا تھا تو کیا محسوس کیا تھا۔یمان آروش کی بات کے احتتام پہ بنا تاخیر کیے بولا تو آروش سانس روکے بس اُس کو بولتا دیکھتی رہی اُس کو یمان کوئی پاگل لگا جو اپنے اتنے بڑے نقصان کی بات بہت عام انداز میں کررہا تھا۔ 

تم پاگل ہو۔ آروش بہت دیر بعد بس یہی بول پائی۔ 

آپ سے ملنے کے بعد ہوا ہوں۔ یمان نے مسکراکر کہا تو آروش کے پاس جیسے لفظ ختم ہوگئے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شازل اپنے کیس کی وجہ سے آج اسلام آباد آیا تھا اور ماہی کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا کیونکہ ڈیلیوری کے دن قریب سے قریب ہوتے جارہے تھے ایسے میں گاؤں میں رہنا شازل کو ٹھیک نہیں لگا تھا اِس لیے سب کے اعتراض کے باوجود وہ ماہی کو یہاں لایا تھا اِگر گاؤں میں ماہی کو کوئی تکلیف ہوتی تو وہاں کوئی اچھا ڈاکٹر موجود نہیں تھا اور گاؤں سے شہر جانے میں بھی وقت لگ جانا تھا جب کی اسلام آباد میں سب اُس کے لیے آسان تھا۔وہ ابھی ماہی کو ڈھیر ساری ہدایت دیتا گھر سے باہر آیا تھا جب اُس کے سیل پہ کال آنے لگی اُس نے نمبر دیکھا تو ذین کالنگ لکھا آرہا تھا۔ 

السلام علیکم سالے صاحب۔ شازل کال ریسیو کرتا خوشگوار لہجے میں اُس کو سلام کرنے لگا۔

وعلیکم السلام وہ مجھے کہنا تھا کے ماہی کا خیر سے نواں مہینہ شروع ہوگیا ہے

اچھا ماہی کا خیر سے نواں مہینہ شروع ہوچکا ہے اچھا ہوا بتادیا۔میں تو ورنہ ابھی تک پہلا مہینہ سمجھے ہوئے تھا۔ذین ابھی بات کررہا تھا جب شازل اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولا تو ذین نے صبر کا گھونٹ بھرا

بی سیریس شازل اُس کا نواں منتھ ہے تو امی چاہتی ہیں وہ گھر آئے۔ ذین نے سنجیدگی سے کہا

اب وہ کونسا سڑک پہ کھڑی ہے ماشااللہ سے اپنے گھر میں موجود ہے۔ شازل نے جواب دیا

دیکھو لڑکی کا جب نواں منتھ شروع ہوتا ہے تو وہ اپنی ماں کے گھر رہتی ہے اِس لیے اصولن ماہی کو بھی آنا چاہیے۔ ذین کے کہا

دیکھو بھئ وہ تب ہوتا ہوگا جب لڑکی پوری آٹھ ماہ اپنے شوہر کے گھر ہوتی ہوگی یہاں تو شروعاتی پورے دو ماہ اُس نے اپنی ماں کے گھر گُزارہے تو اصولن ایسا کوئی اصول مجھ پہ لاگو نہیں ہوتا۔ شازل نے آرام سے کہا۔ 

یہ کیا بات ہوئی شازل؟ ہر لڑکی اپنی ماں کے گھر رہتی ہے ڈیلیوری کے دوران اور یہ ایک نارمل بات ہے۔ ذین اُس کی بات پہ تپ اُٹھا

ہوگی نارمل بات مگر ہمارے معاملے شروعات سے کجھ نارمل نہیں ہوا تو اب کیسے نارمل ہوگا یا رہے گا؟ اور تمہارے یہاں ایسا ہوتا ہوگا ہمارے یہاں ایسا کجھ نہیں ہوتا پیچیدہ معاملات ہیں کہیں بھی کبھی بھی کوئی اونچ نیچ ہوجاتی ہے اور میں کوئی ایسا رِسک نہیں لے سکتا۔ شازل نے صاف الفاظوں میں انکار کیا

تمہیں کیا لگتا ہے ہم اپنی بہن کا خیال نہیں رکھے گے؟ ذین اُس کی بات پہ بولا

مجھے ایسا کجھ نہیں لگتا میں بس اپنی بیوی اور بچے کے لیے اور سینسٹو ہوں۔شازل اِس بار سنجیدگی سے بولا

ٹھیک ہے مگر اگلی بار ایسا نہیں ہوگا۔ ذین نے کہا تو اُس کی بات پہ شازل کی ہنسی نکل گئ۔ 

ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ شازل نے کہا تو ذین ناسمجھی سے موبائل اسکرین کو گھورنے لگا۔ 

مطلب؟ ذین نے پوچھا

مطلب پہلا بچہ خیر سے ہوجائے اُس کے بعد دوسرے بچے کی پلاننگ ہوگی۔ شازل کی بات پہ ذین سٹپٹاگیا۔ 

انتہا کے بے شرم ہو میرے کہنے کا مطلب تھا ڈیلیوری کے بعد ماہی ہسپتال سے سیدھا ہماری طرف آئے گی حویلی نہیں۔ زین نے جلدی سے صفائی پیش کی۔ 

مگر میرے کہنے کا وہ ہی مطلب تھا جو تم سمجھے۔ شازل نے اِیک بار پھر کہا تو ذین نے کال کاٹنے میں عافیت جانی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ نے یہ اچانک فیصلہ کیوں لیا مطلب کوئی خاص وجہ؟میڈیا تھر تھر یمان کی تصویریں کھینچتا اُس سے جواب طلب ہوا آج اُس نے کانفرنس کروائی تھی جس میں اُس نے بتایا اب وہ کبھی کوئی گانا نہیں گائے گا سنگنگ کو ہمیشہ کے لیے وہ خیرآباد کررہا ہے جو کبھی اُس کا جنون ہوا کرتا تھا۔

مجھے بس اپنی آواز دُنیا تک پہچانی تھی اپنی الگ ایک پہچان بنانی تھی جو میں نے اِن گُزرے کجھ سالوں میں بنالی ہے تبھی گائیکی کو اب خیرآباد کررہا ہوں۔یمان مائک اپنی طرف ٹھیک کرتا میڈیا کو اُن کے سوالوں کا جواب دینا

آپ کو پتا ہے آپ کی اِس کانفرنس سے آپ کے فینز کا معصوم دل ٹوٹ سا گیا ہے۔ایک لڑکی نے اپنا سوال اُس کے سامنے کیا تو یمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی جس سے اُس کا ڈمپل نمایاں ہوا تو سب مبہوت ہوکر اُس کے چہرے پہ سجی مسکراہٹ کو دیکھنے لگے۔

ہر چیز کا زوال آتا ہے یوں سمجھ لے یہاں بھی کجھ ایسا ہی ہوا ہے۔یمان نے گول مٹول سا جواب دیا۔

سر مگر آپ نے ابھی اور طریقی کی منازلوں کو چھونا تھا پھر اتنی جلدی ہاتھ کھینچنے کی کوئی تو وجہ ہوگی  آپ جانتے ہیں آپ کے پہلے گانے سے لیکر اب تک جو بھی گانا آیا ہے وہ کافی فیمس ہوا ہے۔ایک صحافی نے الجھن بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ یمان نے اچانک سے کیا فیصلہ کردیا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا اُس کا؟ زوبیہ بیگم ٹی وی پہ چلتے یمان کی باتیں سنی تو بولی اُن کو یمان سے ایسے کسی عمل کی توقع نہیں تھی۔ آروش خود اپنی جگہ جماد و ساکت تھی اُس کو ذرا برابر نہیں تھا پتا یمان اُس کی بات کو اتنا سیریسلی لے گا۔ 

یمان آئے تو کہے ایسی احمقانہ حرکت کرنے کا کیا جواز تھا۔ نور نے زوبیہ بیگم سے کہا جب کی آروش اپنی جگہ چور سی بن گئ تھی۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

میں جانتا ہوں یہ سب کے میں یوں اِس طرح فیصلے پہ سب کے لیے بہت حیرانگی کا باعث ہے مگر یہ بھی سچ ہے میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ وچار کے بعد کیا ہے میں سب کا بہت شکر گُزار ہوں جنہوں نے مجھے سپورٹ کیا۔ یمان نے مسکراکر جواب دیا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

فجر بت بنی کھڑی ٹی وی پہ چلتے مناظر دیکھ رہی تھی جب اُس کا فون رِنگ کرنے لگا۔ فجر نے موبائل اسکرین پہ دیکھا تو عیشا کالنگ لکھا آرہا تھا۔ 

السلام علیکم۔فجر ٹی وی بند کرتی کال پہ متوجہ ہوئی۔ 

وعلیکم السلام یہ یمان کو کیا ہوگیا ہے جو آئے دن دھماکا کرتا رہتا ہے۔ عیشا نے چھوٹتے ہی پوچھا

ہوتا یہاں تو میں کان کھینچتی مگر یمان نے تو مجھے بھی پریشان کردیا ہے۔ فجر نے گہری سانس بھر کر کہا

یاد ہے کیسے پاگل ہوا کرتا تھا سنگر بننے کے لیے اور جب ہوگیا ہے تو ایسے گِیو اپ کررہا ہے۔ عیشا نے کہا

میں پوچھوں گی اُس سے کیا سوچ کر اُس نے میڈیا والوں کے سامنے گائیکی کو خیر آباد بولا ہے۔ فجر جوابً بولی

اب کیا فائدہ تیر تو کمان سے نکل گیا نہ۔ عیشا سر جھٹک کر بولی

کوئی تیر کمان سے نہیں نکلا جس طرح آج کانفرنس کی ہے ٹھیک اُس طرح دوبارہ کانفرنس کروائے گا یمان میں دیکھتی کیسے وہ اپنا مستقبل برباد کرتا ہے۔ فجر مضبوط لہجے میں بولی

ہاں تم ہی اُس کو کہو عقل کے ناخن لے وہ اب بچہ نہیں ہے۔ عیشا نے کہا تو فجر گہری سانس بھری۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

سر کیا آپ اپنے فیصلے سے مطمئن ہیں؟ کانفرنس ختم ہونے کے بعد ارمان نے یمان سے پوچھا

تمہیں کیا لگتا ہے؟ یمان نے اُلٹا اُس سے سوال داغا

مجھے تو آپ ضرورت سے زیادہ مطمئن لگ رہے۔ ارمان نے صاف گوئی سے بتایا

تو پوچھنے کا فائدہ۔یمان نے کہا

آپ کا یوں اچانک فیصلہ کرنا سب کو الجھن میں ڈال گیا ہے بہت کالز موصول ہو رہی ہیں مجھے دلاور انکل الگ سے ٹینس ہیں۔ ارمان نے بتایا

میں سب کو ہینڈل کرلوں گا۔ یمان نے کہا تو ارمان خاموش ہوگیا۔ 

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ کیا تھا یمان؟ہر نیوز اینکر کیا گلا پھاڑ پھاڑ کر بول رہا ہے تم ایسا کیسے کرسکتے ہو؟ ایٹلیسٹ ہم سے مشورہ تو کرتے۔ یمان جیسے ہی گھر پہنچا سب نے اُس کو اپنے گھیرے میں لیا

ڈیڈ میں اگر کانفرنس سے پہلے آپ میں سے کسی کو بتاتا تو یقیناً آپ لوگ مجھے روکتے تبھی میں نے نہیں بتایا۔ یمان ایک نظر سب پہ ڈال کر بولا

افکورس ہم میں سے کوئی بھی تمہیں یہ حماقت کرنے نہ دیتا۔ زوبیہ بیگم نے کہا

یہ حماقت نہیں ہے موم۔ یمان نے جلدی سے کہا

اِس حماقت ہی کہا جاسکتا ہے یمان کیونکہ کوئی باشعور انسان جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا۔ دلاور خان نے کہا

آپ لوگوں کو ایسا کیوں لگ رہا کے میں نے جو کیا وہ احمقانہ فیصلہ ہے جو میں نے جذبات میں آکر لیا ہے میں ایک اٹھائیس سال کا میچیور پرسن ہوں اگر میں نے یہ فیصلہ لیا ہے تو کجھ سوچ کر ہی لیا ہوگا۔ یمان اِس بار حددرجہ سنجیدگی سے بول کر جیسے بات ختم کردینی چاہی۔ 

روزی کو پتا ہے یہ بات؟ زرفشاں نے پوچھا

اب تک تو پوری دُنیا میں یہ خبر نشر ہوگئ ہوگی تو اُس کو بھی چل گیا ہوگا پتا۔ یمان نے کندھے اُچکاکر کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕 

کانفرنس کا زمہ یمان نے تمہیں دیا ہوگا اور تمہیں یہ بھی پتا ہوگا وہ کانفرنس کیوں کررہا ہے تو تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا میں روکتی یمان کو ایسا کرنے سے۔ فجر ارمان کو کال کرتی ایک سانس میں اُس سے بولی

دیکھے مجھے زمہ دیا تھا مگر یہ نہیں تھا پتا کے وہ کیا بم گِرانے والے ہیں۔ ارمان نے اپنی صفائی پیش کی۔ 

کہاں ہے وہ؟ فجر نے پوچھا

اپنے گھر ہیں اور اُن کو بہت سمجھایا مگر وہ کسی کی کوئی بھی بات سننے کے موڈ میں نہیں۔ ارمان نے بتایا

دلاور خان نے بھی کوئی ری ایکٹ نہیں کیا؟فجر نے پوچھا

وہ خود پریشان ہوگئے تھے یمان سر کے اِس  فیصلے پہ۔ ارمان نے بتایا تو فجر سوچ میں پڑگئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

بہت کم عقل ہو تم۔ آروش رات کے وقت کچن میں آئی تو وہاں یمان کو پہلے سے شیلف سے ٹیک لگائے کھڑا پایا تو کہا

مجھے پتا تھا آپ ضرور آئے گی۔ یمان اُس کی بات کے جواب میں بس یہ بولا

تو کیا تم میری ٹائمنگ کو نوٹ کرتے ہو؟ آروش گھورا

میں خود نوٹ نہیں کرتا خودبخود نوٹ ہوجاتی ہے۔ یمان نے بتایا

اچھا اب جاؤ مجھے کافی بنانی ہے اپنے لیے۔آروش سرجھٹک کر بولی

ایک کپ میرے لیے بھی۔یمان نے کہا

کِس خوشی میں؟آروش نے آئبرو ریز کیے

نہ کسی غم اور نہ کسی خوشی کے لیے ایسے ہی بنا کر دے۔یمان نے کجھ سوچ کر کہا

میں نہیں بناؤں گی تمہارے لیے۔ آروش نے انکار کیا

کوئی بات نہیں ہم ایک کپ شیئر کرلینگے ویسے بھی شیئرنگ از کیئرنگ۔یمان نے کندھے اُچکاکر کہا

کافی لیکر چلے جانا۔ آروش کافی میکر کو دیکھتی یمان سے بولی تو اُس نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا

💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ عرصے بعد! 

شازل کمرے میں آیا تو بیڈ پہ ماہی کو پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر تڑپتا دیکھا تو اُس کے چہرے کی ہوائیاں اُڑگئ۔ 

ماہی

ماہی کیا ہوا؟ شازل ایک ہی جست میں اُس تک پہنچتا گال تھپتھپاکر بولا

پ پی پین ہ ہو ہور ہورہا۔ ماہی گہرے گہرے سانس لیتی بتانے لگی اُس کے چہرے پہ تکلیف کے آثار صاف نمایاں تھے جس کو دیکھ کر شازل نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے

تم فکر نہیں کرو کجھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہوجائے گا پین بھی بلکل ختم ہوجائے گا ہم ابھی ہسپتال جائینگے۔ شازل نرمی سے اُس کے گال سہلاتا ماتھے پہ بوسہ دے کر وارڈروب سے اُس کے لیے بڑی شال نکال کر اُس تک آیا۔ 

اُٹھنے کی کوشش کرو۔ شازل شال اچھی طرح سے اُس کو پہناتا بولا تو ماہی نے زور سے نفی میں سرہلایا۔اُس کی آنکھیں بار بار بند ہورہی تھی۔ جس پہ شازل اُس کو اپنے بازوں میں اُٹھاتا باہر کی جانب بڑھا۔ 

تم یہاں آرام سے بیٹھو۔ شازل نے اُس کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ آرام سے بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آکر جلدی سے گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔ 

ش ش شا شازل ا اگ اگر م مج مجھے کجھ ہ ہو ہوجائے ت تو آپ پلیز دو دوسرے شادی مت کریئے گا۔ماہی نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی شازل کو جو پہلے ہی پریشان تھا اِیسی سچویشن میں ماہی کی بات سن کر وہ مزید جھنجھلا اُٹھا

بے وقوفوں جیسی باتیں مت کرو ماہی تمہیں اور ہمارے بچے کو کجھ نہیں ہوگا۔ شازل نے اُس کو جھڑکا

آپ کو نہیں پتا پریگنسی میں کجھ بھی ہوسکتا ہے۔ماہی تکلیف برداشت کرتی اُس سے بولی

مجھے نہیں پتا تمہیں بڑا پتا ہے ایڈوانس میں جانے کتنے بچوں کی پیدائش کروائی ہے تم نے۔ شازل بیک ویو مرر سے اُس کو گھور کر بولا

آپ بس یہ بتائے دوسری شادی نہیں کرینگے۔ ماہی کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔

ماہی خدا کا واسطہ ہے اِس حالت میں کجھ پوزیٹو سوچو اور نہیں کرتا میں کوئی دوسری شادی ایک پہلا تمہارے والا تجربہ ہی کافی ہے۔ شازل اضطرابی حالت میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہتا گاڑی کی اسپیڈ تیز کرگیا۔ 

میرے بعد ہمارے بچے کی اچھی پرورش کرنا شازل۔ ماہی کے اِس والے جُملے پہ شازل کا دل چاہا گاڑی کہیں ٹھوک دے مگر خود پہ ضبط کے کڑے بندھ باندھتا اپنا سارا دھیان گاڑی ڈرائیو کرنے میں لگادیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

یمان نے اپنا الگ سے بزنس کرنے کا سوچا تھا جس پہ اُس نے کام کرنا بھی شروع کردیا تھا اور ہمیشہ کی طرح ارمان اُس کے ساتھ تھا۔ دلاور خان نے فنانشلی اُس کی مدد کرنا چاہی تھی مگر یمان نے سہولت سے انکار کردیا تھا کے اب اُس کے پاس سب کجھ ہے جس پہ دلاور خان محض مسکرادیئے تھے۔ہر ایک نے یمان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر یمان اپنی بات کا ایک نکلا۔فجر کی بہت ڈانٹ کے بعد بھی کہا وہ اب کبھی گانا نہیں گائے گا۔ 

ابھی وہ گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا تھا جب اُس کو اپنے سر میں درد کی شدید ٹیسیں اُٹھتی محسوس ہوئی۔ اُس نے جلدی سے گاڑی سائیڈ پہ کھڑکی کی اور اپنے ہاتھ سر پہ رکھنے لگا۔ کجھ دنوں سے اُس کے ساتھ ایسا ہورہا تھا بیٹھے بیٹھائے سر میں درد ہونا شروع ہوجاتا تھا پہلے تو اُس نے نظرانداز کیا مگر اب کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کا سوچ کر اُس نے گاڑی گھر کے بجائے کسی ہسپتال کی طرف موڑ دی

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یہ سردرد آپ کو کب سے ہے؟ ڈاکٹر نے بغور اُس کے چہرے کا جائزہ لیکر پوچھنے لگا۔ 

ایک دو ہفتوں سے۔ یمان سوچ کر بتانے لگا۔ 

ایک دو ہفتوں سے تو کیا اِس بیچ آپ کو علاج کروانے کا خیال نہیں آیا؟ اپنی صحت پہ انسان کو اتنی لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کبھی کبھی معمولی چیزیں آگے چل کر آپ کی جان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا

آپ کی بات تو ٹھیک مگر سردرد میں نے سوچا خود ہی ٹھیک ہوجائے گا اور کبھی کبھار سردرد کی گولی کھاتا تو ختم ہوجاتا تھا۔ یمان نے بتایا

ہمممم۔ ڈاکٹر نے ہونکارہ بھرا

دیکھے مسٹر یمان آپ کا پوری طرح جائزہ آئے مین چیک اپ کے بعد جو مجھے لگ رہا ہے وہ میں ابھی آپ کو بتاکر پریشان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اصل وجہ تو رپورٹس کے بعد آئے گی اور میں چاہتا ہوں جو عموماً ہونا بھی چاہیے آپ کے دماغ کا ایکسرا بھی لیا جائے۔ڈاکٹر نے سنجیدگی سے اُس کو دیکھ کر کہا

دماغ کا ایکسرا؟ یمان کو ہنسی آئی۔ 

اِٹس سیریس میٹر مسٹر یمان۔ ڈاکٹر کو اُس کو یوں مُسکرانا پسند نہیں آیا وہ پہلے سے ہی اُس کی اِس قدر لاپروائی پہ حیران تھے۔ 

اوکے سوری نو ایشو۔ پر آپ کو کیا لگ رہا ہے مجھے کیا ہوا ہوگا؟ یمان نے جاننا چاہا

رپورٹس آجائے پھر آپ خود دیکھ لینا ابھی یہ بتائے کیا کبھی آپ کے سر میں کوئی چوٹ آئی تھی؟ ڈاکٹر نے اپنی نظریں اُس پہ مرکوز کیے پوچھا

نہیں۔ یمان نے بنا دیر کیے بتایا

سوچے پھر یاد کرے کیا پتا چوٹ آئی ہو یا کسی نے سر پہ حملا کیا ہوا جس کی وجہ سے آپ کے دماغ میں کوئی گھاؤ آگیا ہو اور اُس پہ بھی آپ نے یوں لاپروائی برتی ہو۔ڈاکٹر کی بات پہ یمان کے دماغ میں سالوں پُرانہ واقع یاد آیا تو اُس نے اپنا سرجھٹکا

جی حملا ہوا تھا میں ایک ڈیڑھ سال تک شاید کومہ میں بھی چلاگیا تھا مگر کوئی گھاؤ وغیرہ نہیں آیا تھا ایسا۔یمان نے بتایا

آپریشن ہوا تھا؟دوسرا سوال

آپریشن؟کومہ میں ہونے پہ شاید ہوا ہو وہ مجھے نہیں ہے پتا مگر کومہ سے باہر نکل آنے کے بعد کوئی آپریشن وغیرہ نہیں ہے ہوا۔یمان پہلے تو "آپریشن" لفظ پہ اُن کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا پھر سوچ سوچ کر جواب دیا

آر یو شیور؟ڈاکٹر نے کنفرم کرنا چاہا

یس آیم شیور۔ کومہ کے بعد میں ٹھیک تھا اِس لیے آپریشن وغیرہ نہیں کروایا تھا اور نہ ٹھیک سے علاج کے لیے فیملی ڈاکٹر کے پاس گیا کبھی۔ یمان نے بتایا تو وہ جیسے ساری بات سمجھ گئے۔ 

مطلب آپریشن کے آثار تھے مگر آپ نے خود نہیں کروایا؟ڈاکٹر کہنیاں میز پہ ٹِکائے بولا

جی کیونکہ میں نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ یمان بے لچک آواز میں بولا

ٹھیک ہے رپورٹس آئے گی تو آپ کو انفارم کردیا جائے گا اور ایکسرا بھی لیبارٹری میں کجھ مسئلہ ہے جس وجہ سے آج نہیں مل سکتا۔ڈاکٹر نے کہا تو یمان سر کو جنبش دیتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ 

شازل نے حویلی میں سب کو اِطلاع کردی تھی شھباز شاہ اور دُرید کلثوم بیگم یہ سب ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ مگر ماہی کی طرف سے ابھی تک کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ 

شازل پچھلی تین گھنٹوں سے روم کے دروازے کے باہر یہاں سے وہاں ٹہل کر کسی اچھی خبر کے انتظار میں تھا۔ 

شازل بیٹھ جاؤ کیوں خود کو تھکا رہے ہو سب ٹھیک ہوگا۔دُرید سے رہا نہ گیا تو کہا

میں ٹھیک ہوں لالہ۔شازل جواب دیا انگلی دانتوں کے درمیان دبائے پھر سے یہاں سے وہاں ٹہلتا رہا۔شھباز شاہ نفی میں سرہلاتے شازل کو دیکھ رہے تھے جس کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے سانس بھی مشکل سے لے رہا ہو۔

آروش کو بتایا ہے کسی نے وہ یہاں ہے تو اچھا ہوتا ہسپتال آجاتی۔شھباز شاہ کو آروش کا خیال آیا تو شازل سے پوچھا

بچہ خیر سے ہوجائے۔ماہی ٹھیک ہو پھر بتاؤں گا۔شازل کے جواب میں سب نے تاسف سے اُس کو دیکھا۔

شازل بیٹا کیوں خود کو ہلکان کررہے ہو اللہ نے چاہا تو ماں اور بچہ دونوں ٹھیک ہوگے تمہیں یوں یہاں سے وہاں ٹہلتا دیکھ کر میرا سر گھوم رہا ہے۔کلثوم بیگم نے اُس کو سمجھانا چاہا

مجھ سے بیٹھا نہیں جائے گا آپ

ابھی شازل بات کر ہی رہا تھا جب کانوں میں کسی بچے کے رونے کی آواز پڑی تو اُس کی زبان اور چلتے قدموں کو بریک لگی تھی اُس نے اُمید بھری نظروں سے کلثوم بیگم کو دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

لگتا ہے خیر سے بچہ ہوگیا مُبارک ہو شازل۔کلثوم بیگم نے کہا تو شازل کو جیسے یقین نہیں آیا وہ بس اُن کو دیکھتا رہا پھر یکدم اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی اور آنکھوں میں خوشی سے ہلکی نمی بھی۔دُرید اپنی جگہ سے اُٹھ کر چل کر اُس کے پاس آکر گلے سے لگایا

مُبارک ہو میرے نان سیریس بھائی باپ بن گئے ہو تمہارا پارٹ ٹو آگیا ہے جو یقیناً تم سے دو ہاتھ آگے ہوگا۔ دُرید نے کہا تو شازل ہنسا۔

شکریہ لالہ مگر ماہی جانے کیسے ہوگی؟  اور کیا پتا خیر سے بیٹی ہو۔ شازل اتنا کہتا چپ ہوگیا

مُبارک ہو بیٹا ہوا۔دُرید کے جواب دینے سے پہلے ڈاکٹر نرس کے ہمراہ آتی اُن کو مُبارک باد دینے لگی۔

کلثوم بیگم اُٹھ کر گلابی چھوٹے سے کمبل میں لپیٹے نرس کی گو میں موجود بچہ لیکر اپنی گود میں لیا

ماشااللہ۔کلثوم بیگم اُس ننہی سی جان کو دیکھ کر ماشااللہ کہتی اُس کا ماتھا چومنے لگی۔

میری بیوی کیسی ہے؟آپ نے اُس کا نہیں بتایا۔شازل نے پریشانی سے پوچھا

آپ پریشان مت ہو ماں بھی بلکل ٹھیک ہے بس دوائی کے زیر اثر ابھی غنودگی میں ہے۔ڈاکٹر نے مسکراکر جواب دیا تو شازل نے شکر کا سانس خارج کیا تو اُس کی نظر اپنے بچے پہ پڑی جو اب شھباز شاہ کے پاس تھا۔

مجھے تو دیکھائے۔شازل اُن کے پاس آکر بولا تو شھباز شاہ نے بچہ اُس کے سامنے کیا تو شازل کا منہ کُھل گیا۔

یہ کیا ہے؟ شازل بچے کو گود میں لیے بنا بولا

تمہارا بچہ ہے اور کیا ہے۔ شھباز شاہ نے اُس کے سوال پہ دانت پیسے

اتنا چھوٹو؟ شازل بے یقین تھا۔ 

تمہیں کیا لگا تھا چلنے کودنے والا بچہ ہوگا۔ دُرید نے بھی اُس کو گھورا

نہیں مگر یہ ضرورت سے زیادہ چھوٹا ہے۔ شازل نے کہا

کجھ بچے ایسے کمزور پیدا ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجاتی ہے اُن کی گروتھ۔ کلثوم بیگم نے مسکرا کر بتایا

کمزور کیوں؟ ماں تو اِس کی بڑی گولوں مولوں ہوگئ تھی۔ شازل ابھی تک بے یقین تھا۔ 

بکواس مت کرو اور اپنے بچے کو اُٹھاؤ۔شھباز شاہ نے کہا تو شازل مسکراکر بچے کو اپنی گود میں اُٹھایا۔

ایک بھنڈی میں بھی تم سے زیادہ وزن ہوگا۔شازل اُس کی بندی آنکھوں چھو کر بولا تو اُن تینوں نے اپنا سر پکڑا۔

کہاں جارہے ہو؟دُرید نے اُس کو بچے کو لیکر جاتا دیکھا تو پوچھا

ماہی کو ہوش آگیا ہوگا وہ بھی تو اپنا پیدا کیا ہوا نمونہ دیکھے۔شازل اُس کو جواب دیتا کمرے میں چلاگیا جہاں اب ماہی کو رکھاگیا۔

شازل اندر آیا تو ماہی کو آنکھیں موند کر لیٹا پایا اُس نے بچے کو اُس کی سائیڈ پہ لیٹایا اور خود جھک کر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیا تو ماہی کی آنکھیں کُھل گئ۔ 

شازل۔ ماہی نے شازل کو اپنے قریب دیکھا تو اُس کے لب پھڑپڑائے

مُبارک ہو اللہ کے حکم سے خیر سے بیٹا ہوا ہے۔ شازل نے محبت سے اُس کے بال سہلاکر بتایا تو ماہی کے چہرے پہ ممتا بھری چمک آئی جس کو محسوس کرتے شازل نے دوبارہ سے اُس کا ماتھا چوما اور بچے کو اُٹھا کر اُس کی گود میں دے کر خود اُس کے سرہانے بیٹھا۔ 

ماشااللہ کتنا پیارا ہے ہمارا بچہ۔ماہی اُس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو بار بار چومتی شازل سے بولی جو مسکراکر دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ 

ایک منٹ۔ شازل اُس کو اِشارہ کرتا اپنی پینٹ کی جیب سے سیل فون نکالا۔ 

یادگار تصویر تو بنتی ہے نہ۔ شازل نے مسکراکر کہا

میری اچھی نہیں آئے گی میری بعد میں لیجئے گا ابھی آپ اپنی اور بچے کی لے۔ ماہی نے خود کو امیجن کیے شازل سے کہا تو شازل نے چونک کر اُس کو دیکھا۔ 

پیاری تو لگ رہی ہو اور مجھے تم پہ آج بار بار پیار بھی بہت آرہا ہے جی چاہ رہا ہے تمہارے گالوں کو کھاجاؤں۔شازل اُس کے دونوں پہ گالوں پہ پیار کرتا شرارت سے بولا تو ماہی نے اُس کے بازوں پہ ہلکہ سا تھپڑ مارا

اب آپ مجھے گالوں مولوں نہیں کہے گا نہ؟ ماہی نے یقین دُہانی چاہی تو شازل کو ہنسی آئی۔

پتا نہیں اب تو عادت ہوگئ ہے بولنے کی۔ شازل نے معصوم شکل بنائے کہا

بہت بُرے ہیں آپ۔ ماہی روہانسی ہوئی۔

مذاق کر رہا ہوں یار ابھی تم اپنے نمونے کی شکل یہاں کرو ورنہ بڑا ہوکر بولے گا میں تو نظر ہی نہیں آرہا۔ شازل سیل فون کی کیمرہ آن کرتا اُس سے بولا

نمونہ؟ شازل میرا بچہ ابھی اِس دُنیا میں آیا ہے آپ نے اُس کو بھی نہیں بخشہ اور عجیب وغریب نام سوچ لیا۔ ماہی اپنے بچے کو سینے سے لگاتی شازل کو دیکھ کر بولی۔ 

اب خود دیکھو کتنا چھوٹا ہے میرا کیا قصور جو بھی اِس کو دیکھے گا یہی بولے گا کیا نمونہ عجوبہ پیدا کیا ہے۔ شازل کندھے اُچکاکر کہتا سیلفی بنانے لگا۔ 

عجوبہ۔ ماہی رونے کے در پہ ہوئی۔ 

ہاں اگر یہ ہماری بیٹی ہوتی تو میں عجوبہ نام رکھتا۔ شازل نے مزے سے اپنے عزائم سے آگاہ کیا۔

خدا کا خوف کرے۔ ماہی نے تاسف سے اُس کو دیکھا

تمہیں پتا ہے کیا؟ شازل تصویریں نکالنے کے بعد چیک کرتا اُس سے بولا

کیا؟ ماہی نے منہ بناکر پوچھا

ہماری شادی کو اتنے سال ہوگئے ہیں اور یہ ہماری پہلی تصاویریں ہیں جو ساتھ میں لی ہے۔ شازل نے مسکراکر کہا تو ماہی نے چونک کر سیل فون کی اسکرین کی طرف دیکھا پھر شازل کو جس کے چہرے پہ آج عجیب سی رونق تھی۔ 

شازل کیا آپ خوش ہیں؟ ماہی نے ہچکچاہٹ سے پوچھا

مطلب؟ شازل ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا تو ماہی نے اُس کے بازوں پہ اپنا سرٹِکایا۔

مطلب آپ میرے ساتھ خوش ہیں؟ ہمارے بچے کی آمد پہ خوش ہیں؟ماہی نے پوچھا

بہت خوش ہو تمہاری سوچ سے زیادہ پتا ہے کیا میں نے کبھی شادی کرنے کا نہیں سوچا تھا ایسا لگتا تھا شادی ایک قید ہے جس میں آپ ایک انسان کے پابند ہوجاتے ہیں۔شادی ایک بہت بڑی زمیداری ہے جو اگر آپ کرتے ہیں تو آپ چاہے یا نہ چاہے مگر اِس زمیداری کو نبھانا ہے شادی کا لفظ مجھے ایک جیل کی طرح  لگتا تھا بس مجھے عجیب چڑ تھی اِس نام سے شاید میں کبھی پہلے تم سے نہیں ملا تھا۔ تمہارے ملنے کے بعد مجھے پتا چلا نکاح کا رشتہ واقع ایک بہت خوبصورت رشتہ ہے اللہ کا بنایا ہوگا اگر یہ قید ہے تو ایک خوبصورت قید ہے۔ اگر مجھے ساری عمر تمہارا پابند ہونا پڑے تو میں بنا سوچے سمجھے تمہارا پابند بن جاؤں گا۔اور یہ شادی جو ایک بہت بڑی زمیداری ہے تو مجھے تمہاری اور ہمارے بچے کی ذمیداری ہنسی خوشی قبول ہے یہ شادی کرنا اگر جیل میں جانا ہے تو میرے لیے ایک خوش قسمتی کے بات ہے میں تاعمر اِس جیل میں رہنا چاہوں گا میں جب تمہیں دیکھتا ہوں نہ تو مجھے اب اپنی سوچ پہ ہنسی آتی ہے۔ اگر میرا تمہارے ساتھ نکاح نہ ہوا ہوتا تو شاید مجھے کبھی عقل نہ آتی زندگی کی اصل خوبصورتی کا پتا نہ چلتا جو میں نے تمہارے ساتھ محسوس کی ہے مجھے پتا نہ چلتا "پیار" کیا ہے؟ کسی کو کھونے کا ڈر کیا ہوتا ہے؟ کوئی اچانک سے آپ کی رگوں میں خون کی مانند کیسے ڈورتا ہے؟یہ سب جو مجھے پہلے سُنی سُنائی باتیں لگتی تھی اب میں خود اِس میں اپنا آپ گُھستا محسوس کرتا ہوں۔ ماہی کے ایک سوال پہ شازل نے آج اپنا آپ اُس کے سامنے کھول لیا جو ماہی چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اُس کو سن رہی تھی۔ 

کیا میں اِس کو اِظہارِ محبت سمجھو؟ ماہی نے شرارت سے پوچھا

سچی بات کہوں میں خوامخواہ پریشان ہورہا تھا جبکہ تمہیں دیکھ کر لگ نہیں رہا کجھ گھنٹے پہلے ہمارے بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ شازل نے بڑی آسانی سے بات کا رخ بدلا تو اُس کی بات سن کر ماہی کا منہ گیا۔ 

کجھ گھنٹے ہوئے ہیں ناکہ کجھ منٹس جو آپ ایسے بول رہے ویسے بھی نارمل ڈیلیوری تھی۔ ماہی نے جتایا

ہمم ویسے اِس کی آنکھیں ابھی تک بند کیوں ہے؟ شازل نے اپنے بچے کو دیکھ کر ماہی سے کہا

پتا نہیں میں بھی خود سوچ رہی ہوں یہ آنکھیں کھولے اور اپنی مما کو دیکھے۔ ماہی نے مسکراکر جواب دیا۔ 

آروش نے اِس کا نام سوچ لیا ہے۔ شازل نے بتایا

اچھا کیا؟ ماہی پرجوش ہوئی۔ 

تم نے سوچا ہے کوئی نام بچے کا؟ شازل نے پہلے اُس سے جاننا چاہا

میں نے تو بہت سوچے مگر سمجھ نہیں آرہا کونسا رکھوں آپ وہ بتائے جو آروش نے سوچا ہے۔ ماہی نے کہا

تم نے کونسے نام سوچے ہیں؟ پہلے یہ بتاؤ۔شازل بضد ہوا۔

فیروز خان؛احسن خان؛عمران عباسی؛حمزہ علی عباسی؛بلال عباسی؛ہمایوں سعید؛فرحان سعید؛عاصم اظہر'منیب بٹ؛ فیصل قریشی

ایک منٹ

ایک منٹ

بریک پہ پاؤ رکھو میں نے تم سے اپنے بچے کا نام پوچھا ناکہ یہ کے تم مجھے پاکستان کے ڈرامہ انڈسٹری کے نام گُنواؤ ۔شازل نے کڑی نظروں سے گھور کر ماہی سے کہا

تو کیا بس اُن کے خوبصورت نام ہوسکتے ہیں ہمارے پیارے شہزادے کا نام نہیں ہوسکتا۔ ماہی نے منہ بسور کر کہا۔ 

اِس کا نام شازم شازل شاہ ہوگا۔شازل اُس کی بات پہ تاسف سے سر کو جنبش دیتا بولا

شازم ماشااللہ بہت پیارا نام ہے میرے دماغ میں نام کیوں نہیں آیا یہ۔ ماہی کو افسوس ہوا۔ 

فلموں اور ڈراموں کی زندگی سے باہر آؤ تو کجھ اور بھی آئے۔شازل نے کہا

ویسے شازم نام کیا مطلب؟ماہی نے متجسس ہوکر پوچھا

شازم نام کا مطلب ہے "خوشی"

ہماری زندگی میں یہ ویسے بھی خوشی بن کر آیا ہے۔ماہی شازل کی بات پہ شازم کو دیکھ کر بولی جو اب اپنی آنکھیں کھول کر ٹُک ٹک کبھی شازل کو دیکھتا تو کبھی ماہی کو۔

آگیا تمہارے شہزادے کو ہوش۔شازل نے ماہی کو بتایا جو شازم کے واری صدقے ہو رہی ہو۔

میرا پیارا شازی۔ماہی اُس کے چہرے پہ پیار کرتی بولی تو شازل کو لگا جیسے وہ مسکرا رہا ہے۔

میری بیوی ہے لائن مارنے کا سوچنا بھی مت۔شازل شازم کو آنکھیں دیکھاتا اُس کو اپنی گود میں اُٹھا کر وارن کرنے لگا۔

میرا بیٹا ہے اِس لیے آرام سے بات کرے بلکہ پیار کرے۔ماہی نے اُلٹا اُس کو وارن کیا

اچھا تو ایسی بات ہے۔شازل اتنا کہتا زور سے اُس کے ننہے گالوں پہ بوسہ کیا تو وہ بھاں بھاں کرتا رونے میں شروع ہوگیا

شازل یہ کیا۔ماہی کی آہستہ آواز میں چیخ نکلی مگر اُس کو اتنا روتا دیکھ کر شازل خود سٹپٹا گیا تھا۔

میں اماں سائیں کو کہتا ہوں اِس کا اسپیکر بند کروائے۔شازل اُس کو تسلی دیتا باہر جانے لگا جب کی شازل کی پشت کو دیکھ کر اُن سے اپنا سر نفی میں ہلایا۔

کیا ہوا رو کیوں رہا ہے؟ شازل باہر آیا تو کلثوم بیگم شازم شازل کی گود سے لیتی اُس سے بولی

بس کجھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی اور آپ کے پوتے کو میرا پیار راس نہیں آیا دیکھے رو کیسے رہا ہے جیس جانے کتنے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اِس پہ اور اِس کی آواز سن کر لگ رہا ہے جیسے گلے میں کجھ اٹکا ہوا ہے۔ شازل نان سٹاپ بولتا گیا۔ 

شرم کرو بیٹا ہے تمہارا۔ کلثوم بیگم نے اُس کو جھڑکا

ماں کی طرف روندو ہے۔ شازل باز نہ آیا

تمہارا کجھ نہیں ہوسکتا خیر ماہی کے گھر فون کرو اُن کو بتاؤ تاکہ وہ ہسپتال تو آئے۔کلثوم بیگم شازم کو بہلاتی شازل سے بولی

او ہاں میں تو بھول گیا تھا کرتا ہوں کال۔شازل کو اچانک خیال آیا تو اپنے سر پہ ہاتھ مار کر بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم نے کبھی اپنی آئبرو سیٹ نہیں کروائے کیا؟میں کروں بہت اچھا شیپ بن جائے گا اور تم مزید پیاری لگوں گی۔ زرنور نے غور سے آروش کا چہرہ دیکھ کر کہا وہ سب اِس وقت ہال میں بیٹھے تھے اندر یمان اپنے کمرے میں کام میں مصروف تھا۔

میں نہیں کرواتی کیونکہ یہ گُناہ ہوتا ہے۔آروش نے بتایا

ہر کوئی کرواتا ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ نور نے کہا

اچھا پر مجھے نہیں پسند اور نہ ایسا کوئی شوق ہے۔ آروش نے کوئی بحث نہیں کی۔ 

تمہارا سچ میں دل نہیں چاہتا فیشن کرنے کو؟ اور تم کیا انتہا کی بورنگ زندگی گُزارتی تھی گاؤں میں؟ زرگل نے پوچھا

میں نے بورنگ نہیں ایک خوبصورت زندگی گُزاری مجھے اُتنی آزادی دی جتنی ایک لڑکی کو ملنی چاہیے اور فیشن مجھے کرنا ہوتا ہے تو وہ میں حویلی میں کرلیتی ہوں کسی اور کے لیے نہیں اپنے کے لیے۔آروش نے ٹھیرے ہوئے لہجے میں بتایا۔

تمہاری باتیں پتا نہیں کیوں مجھے سمجھ نہیں آتی۔ زرفشاں بولی۔ تبھی سب کی نظریں تیزی سے سڑھیاں پھلانگ کر اُترتا یمان پہ پڑی

ارے ارے کہاں کی سواری ہے؟زرنور نے آواز دی

وہ ایک ضروری کام ہے میں آتا ہوں۔ یمان ایک نظر آروش پہ ڈال کر جواب دینے لگا۔ 

کبھی گھر بھی ٹک جایا کرو۔ نور نے کہا

نیا نیا کام ہے اِس لیے بہت کام ہوتا ہے۔ یمان نے بتایا

تو تمہیں کس نے کہا اچھا خاصا سنگر تھے یوں بزنس مین بننے کی کیا ضرورت تھی۔ زرگل نے ہر بار کہی بات دوہرائی

بعد میں بات ہوگی ابھی مجھے لیٹ ہورہا۔ یمان عجلت میں کہتا باہر جانے لگا۔ آروش پرسوچ نظروں سے اُس کو جاتا دیکھنے لگی آج سے پہلے اُس نے کبھی یمان کو اتنا ہڑبڑی میں جاتا نہیں دیکھا تھا۔ 

آپ کا فون مسلسل بج رہا تھا تو میں یہی لائی۔ نجمہ آروش کو اُس کا سیل فون بڑھا کر بولی تو آروش نے اُس کے ہاتھ سے موبائل لی جہاں شازل لالہ کالنگ لکھا آرہا تھا۔ 

السلام علیکم لالہ۔ کال اُٹھانے کے بعد آروش نے مسکراکر سلام کیا

وعلیکم السلام مبارک ہو تم پُھپھو بن گئ ہو بیٹا ہوا ہے۔  دوسری طرف سے شازل نے مسکراکر اُس کو بتایا

کیا سچ ماشااللہ۔ آپ کو بھی مُبارک ہو۔ آروش کی خوشی کے مارے چیخ نکلی

زرفشاں زرگل زرنو نور حیرت سے اُس کے چہرے پہ سجی سچی مسکراہٹ کو دیکھنے لگے۔ 

خیر مُبارک تم آرہی ہو نہ ہم ہسپتال میں ہیں لوکیشن سینڈ کرتا ہوں۔ شازل نے کہا

جی میں ضرور آؤں گی حویلی والوں سے بھی ملنا ہے حریم کی بھی بہت آرہی ہے وہ ناراض ہے مجھ سے۔آروش نے بے چینی سے کہا

اوکے پھر جلدی سے آجاؤ سب لوگ تمہارا انتظار کررہے ہیں۔شازل نے کہا

ٹھیک ہے خدا حفظ لالہ میری طرف سے میرے بھتیجے کو ڈھیر سے پیار دیجئے گا۔آروش اتنا کہتی کال ڈراپ کرگئ۔

خیریت؟ نور نے پوچھا

بلکل میں پُھپھو بن گئ ہوں بابا کب تک آئے گے؟ مجھے ہسپتال جانا تھا۔ آروش نے مسکراکر بتایا

رات تک شاید کوئی ڈیڈ کی کوئی ایک ٹائمنگ نہیں یمان آئے تو اُس کے ساتھ یا پھر ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ۔زرفشاں نے اپنا نظریہ پیش کیا۔

اچھا۔ آروش کا دل بوجھ سا گیا اُس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اُڑ کر اپنے گھروالوں کے پاس جاتی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

میرا خدشا ٹھیک نکلا آپ کو برین ٹیومر ہے مسٹر یمان اور یہ سب آپ کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے یمان سے کہا۔جو حیرت کا مجسمہ بنے ایکسرے کو دیکھ رہا تھا۔ڈاکٹر کی باتیں اُس کو کسی دھماکے سے کم نہیں لگ رہی تھی اُس کو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُس کو آسمان سے اُٹھا کر زمین پہ بڑی بے دردی سے پھٹخ دیا ہو ابھی تو اُس نے دل سے زندگی جینے کا سوچا تھا ابھی تو شروعات تھی پھر یہ سب کیوں؟ کیسے ہوگیا؟ کیا اُس کا خوشی پہ کوئی حق نہیں؟ اُس کو  خوشیاں راس کیوں نہیں آتی؟ ہر بار تقدیر اُس کے ساتھ بھیانک مذاق کیوں کرتی ہے؟ 

آپ کا شکریہ۔ یمان کو اِس وقت کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا تو اِس لیے بس اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ 

آپ کا فیملی ڈاکٹر کون ہے؟ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اللہ نے چاہا تو ان شاءاللہ سب کجھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ڈاکٹر نے کہا

ڈاکٹر حمید اختر نام تھا۔ یمان اتنا بتاتا وہاں رُکا نہیں تھا رپورٹس اور ایکسرا لیکر اُن کے کیبن سے تیز قدموں کے ساتھ باہر چلاگیا۔ 

💕💕💕💕💕💕

کیا ہورہا ہے یہاں؟ شبانا شازل کے کمرے کے پاس ملازماؤ کی قطار دیکھی تو اُن کو گھور کر بولی

وہ شازل صاحب کے یہاں خیر سے بیٹے ہوا ہے تو بس بڑی بیگم کا حُکم چھوٹے شازل شاہ کے کمرے میں سجاوٹ کی جائے بے بی کاٹ اور ہر جگہ غبارے ہو۔ ایک ملازمہ نے بتایا تو شبانا گِرتے گِرتے بچی۔ 

بیٹا ہوا ہے؟اور ایسی واحیات سجاوٹ کرنے کا چچی جان تو نہیں کہہ سکتی۔  شبانا نے گھور کر پوچھا

جی انہوں نے ہی کہا ہے آج بہت سالوں بعد حویلی کو وارث ملا ہے تو سب بہت خوش ہیں۔ ملازمہ نے سر جھکاکر بتایا تو شبانا نفرت سے کمرے کو دیکھ کر تن فن کرتی وہاں سے چلی گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

آروش سے صبر نہیں ہورہا تھا اِس لیے اُس نے سوچ لیا تھا یمان آئے گا تو وہ اُس سے کہے گی کے وہ اُس کو ہسپتال چھوڑ آئے اُس کو عجیب تو لگ رہا تھا مگر دل کے ہاتھوں کے مجبور تھی۔  ابھی وہ ہال میں ٹہلتی یمان کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی جب یمان اُس کو گھر میں آتا داخل ہوا۔ 

آروش تعجب سے اُس کے ہاتھ میں موجود چیزیں دیکھنے لگی۔وہ اُس سے پہلے یمان کو مخاطب کرتی یمان لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔ 

اِس کو کیا ہوا؟ آروش نے اُس کو اتنا سنجیدہ دیکھا تو بڑبڑائی۔ پھر جانے کیا خیال آیا تو وہ اُس کے پیچھے جانے لگی۔ 

یمان کے کمرے کے پاس پہنچ کر اُس نے دروازہ نوک کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا ہی تھا جب وہ خودبخود کُھلتا چلاگیا۔ اُس نے کمرے میں قدم رکھا تو یمان کمرے میں اُس کو نظر نہیں آیا مگر واشروم سے پانی گِرنے کی آواز آرہی تھی۔ آروش مایوس ہوتی جانے والی تھی جب نظر اچانک بیڈ پہ اُن چیزوں پہ پڑی جو یمان کے ہاتھوں میں تھی یعنی رپورٹس اور ایک لفافے پہ۔آروش نے ایک چور نگاہ واشروم کے دروازے پہ ڈالی اور آہستہ قدم لیتی بیڈ کے پاس آئی۔ وہ جانتی تھی یہ ایک غیراخلاقی عمل ہے مگر جانے کیوں اُس کو تجسس ہورہا تھا۔ 

آروش واشروم کے دروازے پہ نظر ڈالتی رپورٹس کھول کر دیکھنے لگی تو اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ۔ 

یہ کیا؟ 

آروش بے یقین نظروں سے رپورٹس کو دیکھتی لفافہ کھولنے لگی جہاں سے ایک ایکسرا برآمد ہوا وہ دیکھ کر جانے کیوں آروش کو اپنی ٹانگوں پہ کھڑا رہنا محال لگنے لگا اُس کا دماغ یہ بات ماننے سے انکاری تھا کے یمان کو "برین ٹیومر" ہے۔ 

آپ؟ یمان اپنے خیال میں واشروم سے باہر آتا تو کمرے میں آروش کو کھڑا دیکھ کر اپنی جگہ جم سا گیا تھا آج پہلی بار آروش اُس کے کمرے میں اندر داخل ہوئی تھی اگر کوئی اور وقت ہوتا تو یمان ضرور اُس کو تنگ کرتا مگر اِس بار وہ ایسا کجھ نہیں کرپایا۔ 

یہ سب؟ آروش یمان کی آواز پہ اُس کو دیکھ کر رپورٹس کی طرف اِشارہ کیا تو یمان نے نظریں چُرائی جب کے اُس کی حرکت پہ آروش کو پتا نہیں چلا کب اُس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔ 

یہ جھوٹ ہے فیک رپورٹس ہیں نہ؟ آروش آہستہ سے چلتی ہوئی اُس کے روبرو کھڑی ہوئی۔ یمان میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ نظریں اٹھا کر اُس کو دیکھتا۔

یہ سچ ہے فیک رپورٹس کیوں ہوگی آپ کو تو خوش ہونا چاہیے بلآخر مجھ سے جان چھوٹنے والی ہے ۔یمان اتنا کہتا اُداسی سے مسکرایا تھا۔ آروش کو لگا جیسے کسی نے اُس کے دل پہ وار کیا ہو۔ 

یہ جھوٹ رچایا ہے نہ تم نے تاکہ مجھے شرمندگی ہو اور یہ تم بار بار نظریں کیوں چُرا رہے ہو ؟میری طرف دیکھو۔ آروش کے ہاتھ اُس کے گریبان تک پہنچا تھا۔ 

میرے مرنے پہ آپ کو شرمندگی ہوگی؟ کیوں ہوگی؟ بلکل نہیں ہونی چاہیے میرے ہونے یا نا ہونے سے آپ کو کیا فرق پڑے گا میرا ہونا اور نہ ہونا آپ کے لیے تو ایک سا برابر ہے اچھا ہوا جو یہ بیماری مجھے لاحق ہوئی۔ یمان اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تو آروش کی گرفت اُس کے گریبان پہ سخت ہوئی تھی اُس کا دل چاہ رہا تھا یمان کے چہرے پہ ایک تھپڑ رسید کرے مگر اُس میں ہمت نہیں تھی۔ 

بابا کو پتا ہے۔ آروش نے بس یہ کہا۔جواب میں یمان ہلکہ سا مسکراکر اُس کے ڈوپٹے کے دونوں طرف کونا پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لپیٹا جس سے کندھوں سے اُترتا ڈوپٹہ یمان کے ہاتھ میں آیا تھا اب آروش صرف حجاب میں اُس کے سامنے تھی جو اچھی طرح سے اُس کو ڈھانپے ہوئے تھا آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔مگر جب یمان نے وہ ہاتھ اُس کے ہاتھوں پہ رکھ کر اپنے گریبان سے ہٹائے تو آروش کا دل زور سے دھڑکا۔

اُس نے یمان کو دیکھا جس کے ہاتھ میں اُس کے دونوں ہاتھ تھے مگر دونوں ہاتھوں کے رمیان اُس کا ڈوپٹہ تھا اگر یمان ایسے ہی اُس کا ہاتھ ٹچ کرتا یا سہلاتا تو بھی اُس کے ہاتھوں کی نرماہٹ محسوس نہ کرپاتا۔یمان نے اُس کا ہاتھ تھاما ضرور تھا مگر ایسے کے لگ نہیں رہا تھا کیونکہ اِس بار بھی یمان نے بنا چھوئے دونوں میں فاصلہ برقرار رکھا تھا۔ 

مجھے پتا ہے آپ حیران ہو رہی ہوگی مگر مسلمان ہونے کی صورت میں اتنا مجھے بھی پتا ہے کے کسی نامحرم کو چھونا بہت بڑا گُناہ ہے اُس کا ہاتھ بھی نہیں پکڑنا چاہیے چاہے آپ میری محبت ہیں مگر مجھے آپ کا احترام ہے اللہ گواہ ہے میں نے کبھی آپ کو بُری نظر سے نہیں دیکھا اُس دن جو ایونٹ میں ہوا تھا وہ سب بے اختیاری میں ہوا تھا وگرنہ یقین جانے میں ایسا کجھ نہیں کرتا۔ یمان آہستہ آواز میں بول کر اُس کے ہاتھ نیچے کرکے اپنے ہاتھوں کے گرد لپیٹا ڈوپٹہ کھول کر اچھی طرح سے اُس کے گرد پھیلایا۔ 

آروش بس خاموش نظروں سے یمان کا چہرہ دیکھنے لگی وہ کیا بات اُس سے کررہی تھی اور یمان کا جواب دے رہا تھا۔ 

یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔ آروش نے کہا

وہ ہرٹ ہوگے۔ یمان بس یہ بولا

علاج ٹھیک سے لوگے تو کجھ نہیں ہوگا تمہیں۔ آروش کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے

آپ چاہتی ہیں میں ٹھیک ہوجاؤ۔یمان ایک قدم اُس کی طرف بڑھا کر بولا۔

میں نے جسٹ مشورہ دیا ہے۔ آروش سنجیدگی سے کہہ کر اُس کے کمرے سے باہر چلی گئ تو یمان نے مایوسی سے اُس کو خود سے دور جاتا دیکھا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

کمرے میں آنے کے بعد آروش کو بے چینی نے آ گھیرا اُس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیوں اِتنا بے چین ہوگئ ہے؟ اُس کے اندر کیوں بے چینی پھیلی ہوئی ہے؟ یہ سب آروش کی سمجھ سے بالآتر تھا مگر جو بھی تھا وہ نہیں چاہتی تھی یمان کو کجھ بھی ہو۔ 

یااللہ۔اُس کی گھبراہٹ میں اُضافہ ہونے لگا تو وہ اُٹھ کر واشروم میں وضو کرنے چلی گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

مسٹر یمان میڈیسن میں نے لکھ لی ہے آپ ایک بار ہسپتال چکر ضرور لگائے ویسے میں آپ کو آپریشن کروانے کا ضرور کہوں گا۔ ڈاکٹر نے کال پہ یمان سے کہا

آپریشن سے بچنے کے کتنے چانسز ہیں؟ یمان نے پوچھا

سؤ میں سے دس پرسنٹیج۔ڈاکٹر نے کہا تو یمان کے چہرے پہ مایوسی بھری مسکان آئی۔

اور اگر آپریشن نہ ہو تو؟دوسرا سوال

تین سے پانچ سال مزید زندہ رہنے کے چانس ہیں مگر آپ کو بہت تکلیف سے گُزرنا پڑے گا اِس لیے میری مانے اللہ کا نام لیکر آپریشن کے لیے اپنی رضامندی دے خود کو پروپر تیار کرے اُور اِس میں جتنا آپ لیٹ کرینگے آپ کے لیے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے بہتر ہوگا آپ دوبارہ وہ غلطی نہ دوہراے۔ڈاکٹر نے اُس کو سمجھانا چاہا

میں ہسپتال چکر ضرور لگاؤں گا مگر آپریشن نہیں کرواسکتا کیونکہ دس پرسنٹیج کی اُمید پر میں تین یا پانچ سال ضائع نہیں کرنا چاہوں گا میرے لیے یہ بہت ہیں۔یمان کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔

آپ کو اللہ پہ یقین نہیں؟ڈاکٹر نے پوچھا

اللہ پہ اپنی قسمت پہ نہیں۔یمان تلخ ہوا۔

قسمت بھی تو اللہ ہی لکھتا ہے نہ۔ڈاکٹر نے کہا

کہتے ہیں انسان جب پیدا ہوتا ہے تو تب ہی اللہ اُس کی قسمت لکھ دیتا ہے اُس کا رزق لکھ دیتا ہے۔مگر بات زندگی کی کروں تو ابھی تین سالوں کی اُمید ہے میرے اندر میں دس پرسنٹیج پہ یقین نہیں کرسکتا۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕

ہمیں شازل لالہ کا بے بی دیکھنا تھا۔ حریم اپنے بھرے ہوئے وجود کے ساتھ فاریہ بیگم کے پاس بیٹھ کر بولی۔ 

وہ آجائے گے کجھ دنوں تک پھر دیکھ لینا اور گود میں بھی اُٹھالینا۔ فاریہ بیگم نے مسکراکر کہا

ہم سے انتظار نہیں ہورہا اور ہمیں آروش آپی سے بھی ملنا ہے وہ بھی تو وہاں ہوگی۔ حریم نے اپنی مجبوری بتائی۔ 

وہ بھی حویلی آئے گی اور جب تمہارا وقت ہوگا تو تمہارے آخری ماہ سے لیکر پہلے ماہ تک تمہارے ساتھ ہوگی۔ فاریہ بیگم نے اُس کو تسلی کروائی۔ 

کیا واقع وہ ہمارے ساتھ ہوگی؟ حریم پرجوش ہوئی۔ 

بلکل کہہ رہی تھی جب تمہارا نواں مہینہ شروع ہوگا تو تمہیں شازل کے گھر کے بجائے وہ اپنے گھر میں لائے گی کیونکہ وہاں کسی غیر مرد کا آنا جانا نہیں رہتا تم آرام سے رہ سکتی ہو وہاں بس آروش کا باپ ہوتا ہے۔فاریہ بیگم نے مسکراکر کہا

یہ تو اچھی بات ہے ہم تو ویسے بھی اپنے کمرے میں ہوتے ہیں بس شام کے وقت واک کرنا ہوتی ہے۔ حریم کا چہرہ چمک اُٹھا تھا۔ 

تو پھر بس یہ ماہ گُزرنے دو خیر سے۔ فاریہ بیگم نے کہا تو حریم نے مسکراکر سراثبات میں ہلایا اُس کو پتا نہیں چلا کیسے فاریہ بیگم نے اُس کا دھیان شازل کے بچے سے ہٹاکر دوسری طرف کرلیا تھا.

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میرا شونا بے بی اپنی مما کا چاند۔ ماہی شازم کو اپنے سینے سے لگاتی اُس کو پچکارنے لگی جس پہ وہ ہلکہ سا مسکرا رہا تھا اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر ماہی تو اُس کے واری صدقے جارہی تھی بار بار اُس کا چہرہ چوم کر اپنی ممتا نچھاور کرتی۔ 

ماہی کے گھر والے بھی ہسپتال آئے تھے مگر زیادہ لوگوں کا رہنا آلاؤ نہیں تھا تو وہ مل کر تھوڑی بہت بات چیت وغیرہ کرکے اُس کو دعائیں دے کر واپس چلے گئے تھے جبکہ ذین یہی روکا ہوا تھا ہسپتال کا روم جہاں ماہی ایڈمنٹ تھی وہ پورا تحائف سے بھرا پڑا تھا ماہی کی ماں بختاور بیگم نے شازم کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں سونے کے انگھوٹی پہنائی تھی جو بار بار اُس کی انگلی سے اُتر جاتی تو وہ ماہی نے کلثوم بیگم کو دی تھی تاکہ وہ فلحال سنبھال کر رکھے کجھ وقت بعد وہ شازم کو پہنائے گی۔ 

بغیر دانتو کے ہنس رہا بڑا ہی کوئی ڈھیٹ ثابت ہوا ہے یہ۔شازل جو پاس بیٹھا تھا شازم کو یوں ہلکہ سا مسکراتا دیکھا تو اُس نے ہر بار کی طرح اپنی راے دینا ضروری سمجھا۔ 

شازل ہم دونوں آپ سے ناراض ہوجائے گے اگر اب اور آپ نے میرے بچے کو کجھ کہا بھی تو۔ماہی نے تنگ آکر شازل سے کہا جو دو دن سے کوئی موقع جانے نہیں دے رہا تھا شازم کو دیکھ کر کوئی نہ کوئی ایسا جُملا کہتا جس پہ اُس کا دل تڑپ اُٹھتا اپنے بچے کے لیے ایسے الفاظ سن کر مگر ایک شازل تھا جو جانے کون کون سے بدلے نکال رہا تھا اُس معصوم سے۔

تم کیوں ناراض ہو رہی اور یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ شازل اپنی جگہ سے اُٹھتا اُس کے پاس آکر پینٹ کی جیب سے ایک لاکیٹ نکالا تھا۔ ماہی کے چہرے پہ خوشگوار حیرت کے تاثرات نمایاں ہوئے کیونکہ یہ لاکیٹ سیم شازل کے لاکیٹ جیسا تھا بس فرق یہ تھا اُس کے لاکیٹ میں اُس کا نام لکھا ہوا تھا جب کی شازل کے لاکیٹ میں پتھر بنا ہوا۔ 

یہ میرے لیے واہ بہت پیارا ہے۔ ماہی نے خوش ہوکر کہا۔ 

شازل مسکراکر شازم اُس سے لیتا اُس کو بے بی کارٹ میں لیٹاکر دوبارہ ماہی کی طرف متوجہ ہوا۔

لاؤ پہناؤ۔شازل نے کہا تو ماہی نے مسکراکر لاکیٹ اُس کی طرف بڑھایا

ویسے یہ میرا وہ تحفہ ہے جو آپ نے شازم کی پیدائش پہ دینا تھا؟شازل لاکیٹ کا لاک لگارہا تھا جب ماہی نے پوچھا

ہاں وہی ہے۔شازل لاکیٹ پہننانے کے دور ہوتا اُس کو دیکھنے لگا۔

اچھا لگ رہا ہے نہ؟ماہی نے خوشی سے پوچھا

ہاں بہت۔شازل نے فورن سے جواب دیا۔

آروش کیوں نہیں آئی ابھی تک؟ دو سے تین ہوگئے ہیں ہم یہاں ہیں۔ ماہی نے سوالیہ نظروں سے شازل کو دیکھا

اُس کا باب کام کی وجہ سے باہر ہے وہ کسی اور کے ساتھ جانا نہیں چاہتی مگر آج بابا سائیں خود اُس کو لینے جائینگے ویسے بھی کل تمہارا ڈسچارج ہے حویلی میں سب کو انتظار ہے۔ شازل نے بتایا۔ 

آپ کے بابا کو شازم قبول ہے؟ ماہی نے ہچکچاہٹ سے پوچھا

ہاں کیوں؟ شازل کو اُس کا ایسا سوال سمجھ نہیں آیا۔ 

نہیں ویسے ہی دراصل میں آپ کے خاندان کی نہیں نہ تو سوچا بچہ شاید اِس وجہ سے پسند نہ ہو۔ ماہی نے کہا

ایک تو تمہارے خدشات جانے کب ختم ہوگے خیر جب یہ بچہ اِس دُنیا میں آیا ہے تو تم ماہی شازل شاہ بن چُکی تھی ایسے میں کسی کو یہ بات ناگوار لگنے کی کوئی تک نہیں بنتی ویسے بھی مجھے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ شازل نے سنجیدگی سے کہا

مطلب شازم کو وہ مقام ملے گا جو شاہ خاندان کے مردوں کا ہوتا ہے؟ مرغی کی ایک ٹانگ والی مثال قائم کردی ماہی نے۔ 

یار ماہی میں تمہیں کیا کہوں؟ بیوقوف یا معصوم؟ جب یہ میرا بیٹا میرا خون ہے حویلی کا وارث ہے تو ظاہر ہے شازم شاہ کا بھی وہ مقام ہوگا جو ہر ایک کا ہوتا ہے اور تمہیں پتا ہے اگر ہماری بیٹی ہوتی تو بھی کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ بیٹی اللہ کی طرف سے "رحمت" ہوتی ہے اور ہمارے خاندان میں بیٹی کی پیدائش کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ویسے ہی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے جیسے بیٹے کی پیدائش پہ کیا جاتا ہے حویلی میں بیٹی کو اُس کا رتبہ دیا جاتا ہے جس کی وہ حقدار ہوتی ہے۔ شازل کا لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔ 

شکریہ۔ ماہی بس یہی بول پائی جس پہ شازل نے اپنا سرجھٹکتا شازم کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی نیند پوری کررہا تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕

 آروش بنا مقصد چاولوں کو میں چمچ گُھما رہی تھی دو دن ہوچکے تھے اُس کا یمان سے سامنا نہیں ہوا تھا اور وہ کرنا بھی نہیں چاہتی تھی وہ بس اب اُس سے دور رہنا چاہتی تھی وہ کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچتی اُٹھنے والی تھی جب اُس کی نظر داخلی دروازے سے بھاگ کر آتے ایک بچے پہ پڑی تو آروش بار بار آنکھیں جھپکتی اُس بچے کو دیکھنے لگی جو اُس کو بلکل یمان کا عکس لگ رہا تھا۔ 

یامین جو ارمان کے ساتھ آیا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تو اپنی جگہ رُک سا گیا تھا وہ پوری آنکھیں کھول کر اُس کو دیکھنے لگا کیونکہ یہ چہرہ اُس کے لیے نیا تھا اُس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا کے شاید ارمان ہو مگر وہ اُس کو گھر میں چھوڑ کر خود واپس چلاگیا۔ 

السلام علیکم۔یامین نے آروش کو سلام کیا تو وہ جو غور سے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی یکدم ہوش میں آتی اُس کے سلام کرنے پہ مسکرائی تھی۔ 

وعلیکم السلام آپ کون؟اور یہاں کیسے؟ آروش سلام کا جواب دے کر چلتی ہوئی اُس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی۔ 

میرا نام یامین ارسم ہے اور یہاں مجھے پارٹنر چھوڑ کر گئے ہیں اور میں سات سال کا ہوں پر آپ کون؟ یامین ایک سانس میں اپنا تعارف کروتا اُس سے پوچھنے لگا تو آروش کو وہ بہت کیوٹ لگا۔ 

یہاں بیٹھو۔ آروش اُس کو بانہوں میں اُٹھاتی صوفے پہ بیٹھایا۔ 

آپ نے بتایا نہیں آپ کون؟نام کیا ہے آپ کا؟ یامین نے ایک بار پوچھا

پہلے آپ یہ بتائے آپ کو سلام کرنا کس نے سِکھایا ہے؟ آروش مسکراکر اُس کے گال کھینچ کر پوچھنے لگی کیونکہ یہاں سب لوگ اُس کو "ہائے" "بائے" پھر صبح شام کے وقت "گُڈ مارننگ" یا گُڈ آفٹر نون" کہتے ہیں ایسے میں اِس بچے کا یوں سلام کرنا اُس کو اچھا لگا تھا۔ 

امی نے وہ کہتی ہیں جس سے بھی آپ ملو اُس کو "السلام علیکم "کہا کرو ایسے میں ثواب ملتا ہے۔ یامین نے آنکھیں بڑی بڑی کرکے بتایا۔ 

اچھا اور آپ کے بابا؟ آروش نے دلچسپی سے اُس کے تاثرات نوٹ کرکے دوسرا سوال کیا۔ 

بابا؟ یامین تھوڑا اُداس ہوا تھا جس کو محسوس کرکے آروش کو لگا جیسے اُس نے کجھ غلط پوچھ لیا ہو۔ 

آپ کو بُرا لگا میرا سوال کرنا؟ تو سوری ویسے میرا نام آروش ہے۔ آروش نے مسکراکر اُس کے دھیان دوسری طرف کرنا چاہا

نہیں بُرا نہیں لگا امی کہتی ہیں بڑوں کی باتوں کا بُرا نہیں منایا جاتا ہے اور وہ اکثر بتاتی ہیں کے بابا جنت میں ہیں اِس لیے میں اور امی اکیلے رہتے ہیں ویسے میں نے تو بابا کو کبھی دیکھا ہی نہیں۔ یامین نے بتایا تو آروش کو اُس پہ ترس سا آیا جو سِرے سے ہی باپ کی محبت سے انجان تھا۔ 

آپ کی مما نہیں آئی؟آروش کو اُس سے باتیں کرنا اچھا لگنے لگا۔ 

نہیں وہ دور دور ہیں مجھے تو یمان ماموں نے بُلایا ہے۔ یامین نے سامنے کی طرف اِشارہ کرکے اُس کو بتایا تو آروش جھٹکے سے پلٹی جہاں یمان کب سے ہاتھ سینے پہ باندھتا اُن کو بات کرتا سُن رہا تھا۔ 

کیسے ہو چیمپئن؟یمان چلتا ہوا یامین کے پاس آتا اُس کو بانہوں میں اُٹھاتا گالوں پہ پیار کرنے لگا۔ 

میں ٹھیک آپ کیسے ہیں؟ یامین نے بتانے کے بعد پوچھا

تم نے اکیلے بچے کو یہاں آنے کا کہا یہ کیسے رہے گا اپنی ماں کے بنا؟آروش نے ڈائریکٹ یمان سے سوال کیا

میں نے تو آپی کو بھی کہا تھا مگر وہ نہیں آئی اور یامین کو اکیلے بھیج دیا۔ یمان نے جواب دیا

یہ تمہارا بھانجا ہے؟ آروش نے پوچھا

جی۔ یمان نے جواب دیا۔ 

تمہارے جیسا لگ رہا ایسے لگ رہا ہے جیسے تمہارا بیٹا ہے۔ آروش کہے بنا نہ رہ پائی۔ 

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ان شاءاللہ ہمارے بچے مجھ پہ نہیں آپ پہ جائینگے۔ یمان یامین کے بال سیٹ کرتا ایسے بولا جیسے کوئی عام سی بات ہو مگر اُس کی بات پہ آروش کی رِنگت خون چھلکانے کی حدتک سرخ ہوگئ تھی۔ 

بے شرم انسان۔ آروش صوفے سے کشن اُٹھاتی اُس کی طرف پھینک کر وہاں سے چلی گئ۔ جبکہ یمان کا قہقہقہ چھوٹ گیا تھا۔ یامین حیرت سے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ 

ماموں وہ کون تھی؟ یامین نے یمان کو مسکراتا دیکھا تو پوچھا

تمہاری مامی تھی۔ یمان نے کہا تو یامین کو کجھ خاص سمجھ تو آیا پر اُس نے سراثبات میں ایسے ہلایا جیسے ساری بات سمجھ آگئ ہو

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش ابھی اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کے اُس کے کال سیل فون رِنگ کرنے لگا اُس نے اسکرین پہ نمبر دیکھا تھا تو بابا کالنگ لِکھا آرہا تھا آروش نے جلدی سے کال ریسیو کی۔ 

السلام علیکم بابا سائیں کیسے ہیں آپ؟ آروش نے جلدی سے کال اٹینڈ کیے کہا

وعلیکم السلام میں ٹھیک تیار ہوکر باہر آجاؤ میں لینے آیا ہوں کل ہم نے واپس گاؤں جانا ہے۔شھباز شاہ نے مسکراکر اُس سے کہا

جی میں بس پانچ منٹ میں آتی ہوں۔آروش خوش سے کال کاٹ کر الماری سے اپنا عبایا نکالنے لگی پھر ایک خیال کے تحت وہ بیڈ موبائل اُٹھاتی زوبیہ بیگم کا نمبر ملانے لگی مگر نو رسپانس آیا تو اُس نے ایک میسج اُن کے نمبر چھوڑا پھر خود تیار ہوتی نیچے آکر باہر کی طرف آئی جہاں شھباز شاہ گیٹ کے پاس کھڑا تھا اور ساتھ میں اُن کی گاڑی کے پیچھے تین چار گاڑیاں مزید تھی۔اتنے وقت بعد شھباز شاہ کو اپنے پاس دیکھ کر آروش جلدی سے آگے بھر کر اُن کے سینے سے لگی۔ 

میں نے آپ کو بہت یاد کیا ناراض بھی تھی آپ سے۔ آروش نے شکوہ کیا۔ جس پہ شھباز شاہ محبت سے اُس کے سر پہ اپنا ہاتھ پِھراکر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ 

تمہارا بابا سائیں مجبور تھا ورنہ تمہیں پتا ہے نہ ہمیں تم سب سے زیادہ عزیز ہو۔ شھباز شاہ نے کہا تو اُس نے سر کو اثبات میں ہلایا۔ 

آؤ گاڑی میں بیٹھو۔شھباز شاہ نے مسکراکر کہا تو وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ آکر بیٹھ گئ۔

💕💕💕💕💕💕

آپی آپ کیوں نہیں آئی؟ یمان نے فجر کو کال کیے اُس سے پوچھا

مجھے اپنے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے ویسے بھی یامین کو تو میں نے تمہارے پاس بھیجا ہے نہ۔ فجر نے مسکراکر کہا

وہ تو ٹھیک پر وہ بچہ ہے اچانک رات کو اُٹھ کر آپ کو یاد کرے تو؟ یمان نے کارٹوں دیکھتے یامین پہ نظر ڈال کر کہا

اُس کی فکر نہیں کرو وہ نیند کا بہت پکا ہے رات کو سوتا ہے تو میں زبردستی اُس کو صبح کے وقت جگاتی ہو۔ فجر نے کہا تو یمان مسکرادیا۔ 

ٹھیک ہے پھر۔ یمان نے کہا

اور تمہارا کب اِرادہ ہے شادی کرنے کا اب ہوجانی ہے چاہیے تمہاری شادی۔ فجر نے پوچھا

آپی میں روزی سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ یمان بے بسی سے بولا

یمان بچوں جیسی باتیں مت کرو روزی تمہارے نام پہ بیٹھی ہے اور تمہارے سر سے اُس لڑکی کا بھوت اُترتا نہیں اتنے سال ہوگئے ہے عجیب برباد کی ہے اُس لڑک

آپی پلیز اُن کو کجھ مت کہے۔ فجر کجھ کہنے والی تھی جب یمان نے بیچ میں ٹوکا

لو اب میں بھی بُری لگوں گی وہ لڑکی اچھی لگے گی جس نے تمہیں موت کے منہ تک پہچا دیا تھا۔ فجر ناگواری سے بولی

آپ میری بڑی بہن ہیں مجھے عزیز ہے آپ کا مقام الگ ہے اور اُن کا الگ ہے نہ آپ کی وجہ سے مجھے وہ بُری لگے گی اور نہ اُن کی وجہ سے آپ اِس لیے ایسی باتیں نہ کرے۔ یمان فجر کی بات گہری سانس بھر کر بولا

سیرسیلی یمان؟ وہ کل آئی لڑکی ابھی تک اتنی اہم ہے تمہارے لیے۔فجر کو جیسے یقین نہ آیا

وہ میرے لیے کیا ہے میں خود نہیں جانتا۔یمان کھوئے ہوئے لہجے میں بولا

مجھے بہت غصہ آرہا ہے تم پہ یمان اور اُس لڑکی پہ غصہ کاش جب وہ آئی تھی میں اُس کو جان سے ماردیتی یہ قصہ ہی ختم ہوجاتا۔فجر جذبات میں آکر بول تو گئ تھی مگر یمان کا ماتھا ٹھٹکا تھا۔ 

وہ آئی تھی مطلب؟ کیا آروش سے آپ کی مُلاقات ہوئی ہے؟ کب کیسے؟ یمان ایک سانس میں پوچھنے لگا تو فجر کو چپ لگ گئ۔ 

پُرانی بات ہے چھوڑو میرے منہ سے پِھسل گیا۔ فجر نے ٹالا

آپ پلیز۔ یمان بضد تھا۔ 

اپنے باپ کے ساتھ آئی تھی تمہاری جان کی قیمتی لینے اور تمہیں پتا ہے یمان؟ اُس کے باپ نے کہا تھا تم مرچکے ہو اور یہ بات تھی جس وجہ سے ہماری ماں ہمیں چھوڑ کر چلی گئ تھی اگر وہ نہ آتی اپنے باپ کے ساتھ تو آج ہماری ماں ہمارے ساتھ ہوتی۔ فجر نفرت سے گویا ہوئی جبکہ یمان کو لگا وہ جیسے سانس لینا بھول گیا ہے وہ کجھ کہنے کے قابل ہی نہ رہا تھا

انہوں نے قیمتی نہیں پوچھو ہوگی۔ بہت دیر بعد یمان بس یہی بول پایا۔ 

واہ کیا کہنے ہیں تمہارے اب بھی تمہیں اُس لڑکی پہ مان ہے کے اُس نے ایسا نہیں کہا ہوگا؟ تو ہاں نہیں کہا تھا مگر اُس کے باپ نے کہا وہ بھی تو اُس کی ساتھ آئی تھی نہ میسنی بن کر۔ فجر کو یمان پاگل لگا۔ 

آپ اُن کے لیے اپنا دل صاف کرلے وہ بہت اچھی ہے اور امی زندگی اللہ نے اتنی لکھی تھی اُس میں کسی انسان کا کوئی قصور یا ہاتھ نہیں ہوتا۔ یمان نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ 

بات یہ ہے یمان کے تم پوری طرح سے اُس کے لیے پاگل ہوچکے ہو مگر وہ تمہیں گھاس نہیں ڈالتی ورنہ تم اُس کے غلام بن جاتے۔ فجر نے بات تو غصے میں کہی تھی مگر یمان کو جانے کیوں ہنسی آئی تھی اگر فجر کو پتا چل جاتا وہ دونوں اب ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں وہ اُس لیے پراٹھا بھی بنا چُکا تھا لڑکیوں کی شاپنگ کا تجربہ بھی کرچُکا تھا تو یقیناً فجر نے اسلام آباد آکر اُس کا گلا دبادینا تھا۔ 

آپی اصل بات وہ نہیں جو آپ نے کہی اصل بات یہ ہے کے وہ مجھے اِس لیے گھاس نہیں ڈالتی کیونکہ اُن کو پتا ہے انسان گھاس نہیں کھاتے۔ یمان نے چڑانے والے انداز میں اُس سے کہا تو فجر خاصی تپ اُٹھی۔ 

شکر کرو تم میرے سامنے نہیں ورنہ

ورنہ میرا گلا آپ کے ہاتھ میں ہوتا۔ یمان اُس کی بات کاٹ کر ایک بار پھر شرارت سے بولا تو اِس بار غصہ کرتی فجر بھی ہنس پڑی

تمہیں کیا ہوا ہے کیوں یہاں سے وہاں ٹہل کر رہی ہو؟فردوس بیگم شبانا کے کمرے میں آئی تو اُس کو کمرے میں سے  یہاں سے وہاں ٹہلتا دیکھا تو تعجب سے استفسار کیا۔

اُس منحوس کی کتنی بار آپریشن ہوئی ہے جو ابھی تک ہسپتال میں مری پڑی ہے نارمل ڈیلیوری تھی نہ تو آجانا چاہیے تھا اب تیسرا دن ہے اُس کا۔شبانا پھٹ پڑی۔

میری بلا سے وہی رہے پر خیر بچے کی طبیعت بگڑ گئ تھی جس دن وہ پیدا ہوا تھا تبھی وہی ہیں کل یا آج نکل پڑے گے یہاں۔فردوس بیگم سرجھٹک کر بولی

ڈرامہ ہے سراسر وہ اُس شازل کا کمرہ دیکھے ذرہ پورا کِھلونے سے بھرا پڑا ہے جیسے وہ آکر ہی کِھیلنے لگے گا اور ایسا بھی کیا ہوگیا تو اُس چوزے کو جو گاؤں آنا ہی سب بھول گئے ہیں۔شبانا کجھ کر دینے کے در پہ تھی۔

سانس کا مسئلہ ہوگیا تھا بچے ہوتے ہیں بیمار پیدائش کے شروع کے دن تو دو سے تین دن لگ جاتے ہیں تم کیوں سوار کررہی ہو اِس بات کو اپنے دماغ میں دفع کرو نہ آئے تو بہتر ہیں خوامخواہ ہمارا اپنا خون جلے گا اُس ونی میں آئے ہوئی لڑکی کا بچہ دیکھ کر۔فردوس بیگم دانت پیس کر بولی۔

کہاں گئے وہ چچا سائیں کے اصول؟ہمارے خاندان میں کب کسی مرد نے غیر خاندان میں شادی کی ہے جو یہ شازل نے ایک غیر خاندان کی لڑکی کو اپنے گلے کا ہار بنایا ہوا ہے اب دیکھیے گا آپ "اُس کا بیٹا بھی یہی سب کرے گا حویلی میں ہر آنے والی نسل سارے اصولوں کو توڑ کر یہ سب کرے گی اب یہاں سیدزادیاں نہیں ہوگی کبھی ونی میں آئی ہوئی لڑکیاں راج کرے گی تو کبھی کوئی شہری ناچنے والی یا کوئی نہ کوئی اُٹھا کر لائے گا اِس حویلی میں مگر اماں میں بتادوں میں یہ سب ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔شبانا پاگل ہوتی اپنے بال نوچنے لگی۔

شبانا بچے صبر سے کام لے ایسا کجھ نہیں ہونے والا وہ آئے گی نہ تو اُس کو بھی دیکھ لینگے اور اُس بچے کو بھی۔فردوس بیگم نے شیطانیت سے کہا

آرام سے تو میں رہنے دوں گی بھی نہیں اُس بچے کو سانس کا مسئلہ ہورہا تھا اب دیکھیے گا میں کیسے سانسیں اُس پہ تنگ کرتی ہوں کیونکہ حویلی کا اصل وارث تو میرا اپنا خون ہوگا۔شبانا اٹل انداز میں بولی اُس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی جس سے وہ سب کو تباہ کردینا چاہتی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ نے گاڑی ہسپتال کے بجائے لالہ کے گھر کی طرف کیوں کروائی؟وہ لوگ شازل کے گھر کے پاس آئے تو آروش نے پوچھا

کیونکہ وہ لوگ یہی ہیں تمہاری بھابھی ماں کی نارمل ڈیلیوری تھی مگر شازم کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ہسپتال رہنا پڑا مگر اب شازل نے بتایا کے وہ گھر آگئے ہیں۔شھباز شاہ نے بتایا

شازم کو کیا ہوا تھا؟اور آپ لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا؟آروش جو گھر کے اندر داخل ہو رہی تھی اُن کی بات پہ رُک سی گئ۔

تمہیں بتا کر پریشان نہیں تھا کرنا اور بچے تو اکثر بیمار ہوجاتے ہیں نہ۔شھباز شاہ نے تسلی آمیز لہجے میں کہا

پر بابا سائیں پھر بھی دو سے تین دن کیوں؟آروش نے ایک پھر سے کہا

چھوڑو اِن سب باتوں کو اور اندر چلو۔شھباز شاہ اُس کی بات ٹال کر بول کر کہتے اُس کو لیے اندر کی جانب آئے۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ماشااللہ بے بی تو بہت پیارا ہے۔آروش بچے کو گود میں اُٹھا کر اُس کے چہرے پہ پیار کرتی ہوئی بولی۔

ہاں اِس پیارے بے بی کی وجہ سے اپنا لالہ بھی نظر نہیں آیا۔شازل نے کہا جبکہ ماہی مسکراکر اُن کو دیکھ رہی تھی شھباز شاہ کجھ دیر پہلے چلے گئے تھے جبکہ کلثوم بیگم نماز پڑھ رہی تھی۔

ملی تو صحیح آپ سے۔آروش نے کہا

ہاں جی اب تو روکھا سوکھا ملنا ملانا ہوگا کیونکہ یہ نمونہ جو آگیا ہے۔شازل مصنوعی افسوس سے بولا

لالہ خبردار جو میرے بھتیجے کو نمونہ کہا بھی تو۔آروش نے سختی سے اُس کو وارن کیا تو شازل نے اپنے ہاتھ کھڑے کرے کیے

میری توبہ بھئ جو اِس نمونے کو نمونہ کہوں بھی تو۔شازل ہاتھ کھڑے کرکے کہتا باز نہ آیا جس پہ ماہی اور آروش محض اُس کو گھور پائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

سر اگر آپ بُرا نہ مانے تو ایک بات کہوں؟ارمان لیپ ٹاپ میں مصروف یمان کو دیکھ کر بولا

ہاں کہو اجازت کیوں لے رہے ہو۔یمان نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا تو ارمان نے اپنا گلا تر کیا۔

وہ دراصل میں فجر سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ارمان ہمت کرکے بولتا یمان کے تاثرات نوٹ کرنے لگا جو نارمل تھے۔

پھر سے کہنا؟یمان نے کہا تو ارمان گڑبڑا سا گیا

آپ کی بہن فجر سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ غصہ نہ ہو تو۔ارمان فورن سے بولا

تمہیں پتا ہے وہ شادی شدہ ہے اُن کا سات سالہ کا بچہ بھی ہے تم سے ایک دو سال عمر میں بڑی بھی ہے پھر بھی تم اُن سے شادی کرنا چاہتے ہو یہ سب جاننے کے باوجود بھی؟یمان نے سنجیدگی سے کہا

جی میں سب جاننے کے باوجود بھی اُن سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں اُن سے پیار کرتا ہو اور پیار کا عمر سے تعلق نہیں ہوتا اور یہ تو پھر بھی ایک دو سال کی بات ہے۔ارمان کا لہجہ مضبوط ہوگیا تھا۔

یامین کو بھی قبول کرو گے اور اگر تمہیں بعد میں پچھتاوا ہوا تو؟تمہارا تو کجھ نہیں ہوگا رُل تو میری بہن جائے گی بیوہ ہوئی تو سنبھل گئ تھی اپنی اولاد کی خاطر مگر اگر طلاق ہوئی تو وہ نہیں سنبھل پائے گی۔یمان نے ہر طرف سے اطمینان کرنا چاہا وہ خود پریشان تھا اگر اُس کو کجھ ہوجاتا تو اُن کی بہنوں کا کیا ہوگا؟ایک تو اپنے شوہر بچوں میں مصروف زندگی گُزار رہی تھی مگر اُس کی بڑی بہن کا کیا ہوگا جو اُس پہ ماں کی طرح اپنی محبت نچھاور کرتی تھی۔

یامین کو میں نے قبول کرلیا ہے سر اور وہ میری محبت ہے میرا شوق نہیں جو آگے چل کر ختم ہوجائے گا۔مانا کے وہ آپ کی بڑی بہن ہیں اور ایک بھائی کے سامنے اُس کی بہن کے لیے ایسی باتیں سُننا تھوڑا عجیب سا ہے مگر آپ جانتے ہیں میں اکیلا رہتا ہوں میرا کوئی بڑا نہیں جس کے تھڑو میں اپنی بات آپ تک پہچاتا میں چاہتا تو خان سر سے کہہ سکتا تھا وہ آپ کو منالیتے مگر میں خود آپ کو یقین دلوانا چاہتا تھا کے میں اُن کو خوش رکھوں گا یہ خواہش میں بہت سالوں سے اپنے اندر دبائے ہوئے تھا آپ سے شیئر نہیں کیا کیونکہ میں پہلے خود کو اُن کے قابل بنانا چاہتا تھا۔ارمان نے سنجیدگی سے کہا اُس کی آنکھیں اُس کی باتوں کے سچ ہونے کی گواہی دے رہی تھیں۔یمان بھی تھوڑا بہت پرسکون ہوگیا تھا یہ سوچ کر کے یامین کو بھی باپ کا پیار ملے گا۔

آپی نہ مانے تو؟یمان نے ایک اور بات اُس کے سامنے رکھی۔

میں منالوں گا۔ارمان کا اعتماد قابلِ دید تھا۔

ٹھیک ہے تم اُن کو راضی کرو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا میں خوش ہوں کے میری بہن کو بھی خوشیاں نصیب ہوگی جو وہ ڈیزرو کرتی ہیں۔یمان نے مسکراکر کہا 

اوکے میں پھر چلتا ہوں۔ارمان اتنا کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

کہاں جارہے ہو؟یمان نے پوچھا

اپنی فیوچر والی وائیف کو منانے۔ارمان اپنی ٹون میں آتا تھوڑا شرماکر بولا

اتنا آسان نہیں ان کو راضی کرنا۔کیسے راضی کرو گے؟یمان نے پوچھا

اِٹس ٹو پرسنل سر۔ارمان نے کہا

آگئے نہ اپنی اوقات پہ۔یمان نے گھور کر کہا

آنسٹلی سر جب میں سنجیدگی سے بات کررہا تھا نہ تو میرے اندر کا کیڑا بار بار مجھے کاٹ رہا تھا اور بول رہا تھا اوے ارمان یہ کیسے بات کررہا ہے؟پی وی تو نہیں لی۔ارمان ڈرامائی انداز میں بولا

دفع ہوجاؤ اُس سے پہلے میرا اِرادہ بدل جائے۔یمان کو تاؤ آیا

سوچ لے سر آسمان پہ لٹکتے میرے بچے مجھے بددعا دے رہے ہیں کے میں نے کیوں تاخیر کی ہے اُن کو یہاں بُلانے میں اگر آپ نے ایسا ویسا کجھ کیا تو وہ آپ کو بددعائیں دینگے۔ارمان نے باز نہ آیا

تمہیں تو

اوکے سر باے سر ٹیک کیئر سے۔یمان اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کی طرف بڑھنے والا تھا جب ارمان اُس کے اِرادے جان کر جلدی سے رفو چکر ہوگیا۔

💕💕💕💕💕💕

آروش واپس کب آئے گی؟نور نے زوبیہ بیگم سے پوچھا

کجھ دن تو وہاں رہے گی تقریباً ایک دو ہفتہ۔زوبیہ بیگم نے جواب دیا۔

ایک دو ہفتہ بہت زیادہ وقت ہے اُس کو چاہیے تھا بس مل کر واپس آجاتی۔پاپ کارن کھاتی زرگل نے کہا

ہممم مگر خان نے اِجازت دی ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں اچھا ہے مل آئے اُن سے۔زوبیہ بیگم نے کہا

اُن کی وجہ سے وہ ہم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی صرف حویلی کا ذکر ہوتا ہے اُن کے لوگوں سے ہی بس پیار ہے ہم اُس کی بہنیں ہیں مگر مجال ہے جو کبھی خود سے بات کرلیا کرے۔زر فشاں نے بھی باتوں میں حصہ لیا۔

ہاں اور نہیں تو کیا ہم آئے بھی تو اُس سے ملنے ہیں نہ پھر تو ہمیں واپس جانا ہے بس کجھ دن پھر اپنے اپنے گھر آپ کو تو پتا ہے ہمارے لیے کتنا مشکل ہے پاکستان آنا۔ خاموش بیٹھی زرنور نے کہا

میں تو خان سے کہتی تھی اُس کو واپس لائے مگر وہ مانتا ہی نہیں تھا اگر بہت دن پہلے آجاتی تو آج یہ سب نہ ہورہا ہوتا۔زوبیہ بیگم گہری سانس بھر کر بولا

ڈیڈ کی بھی غلطی ہے جب دادی نے بہت پہلے عاق کرلیا تھا تو آروش کو بھی ہمارے ساتھ رہنا چاہیے تھا تعلقات تو ویسے بھی ختم ہوگئے اپنی جگہ آروش بھی ٹھیک ہے پر چوبیس سال جس کے ساتھ زندگی جیسے زندگی گُزاری اُس کو بُھلانا اتنا آسان نہیں۔نور نے اپنی رائے دی۔

ویسے ہماری بہن ہے بہت پیاری اٹیٹیوڈ بھی بہت اُس میں۔زرنور نے کہا تو بس ہنس پڑی تبھی یمان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اُن کے پاس بیٹھ گیا۔

ہیلو بزی مین۔یمان جیسے ہی بیٹھا زر فشاں نے کہا

بزی مین کہا اب تو فری مین ہوں۔یمان نے کہا

پھر بتاؤ ہم کب تمہاری ڈولی لیکر جائے روزی کی طرف۔نور نے شرارت سے پوچھا تو یمان چپ سا ہوگیا۔

میں تو سوچ رہی ہوں اِس سال یمان کی شادی بھی ہوجائے پھر ہم آروش کا سوچے۔زوبیہ بیگم کی بات پہ یمان کو یکدم گُھٹن کا احساس ہوا تھا۔

پہلے اُس کو ہماری لائیف سٹائیل کی طرف آنے دے وہ جس طرح رہتی ہے کون لڑکا اُس سے شادی کرنا چاہے گا اعتراض 

مجھے کوئی اعتراض نہیں۔زرفشاں ابھی بات کررہی تھی جب یمان کی زبان یکدم پھسلی تھی اُس پہ سب کی نظروں کا محو یمان بن گیا تھا۔

میرا مطلب تھا کسی کو کیا اعتراض ہوگا؟یمان سب کی نظریں خود پہ محسوس کرتا گڑبڑا کر بولا

تمہیں کیا پتا یمان ہر لڑکا چاہتا ہے اُس کی شریک حیات قدم سے قدم ملا کر چلے نہ کے خود کو یوں چار دیواروں میں بند رکھے۔زوبیہ بیگم نے اُس کی بات کے جواب میں کہا

کوئی اُلو کا پٹھا ہوگا۔یمان سرجھٹک کر بڑبڑایا جو پاس بیٹھی نور نے باخوبی سُن لیا تھا

ویسے مجھے خوشی ہوئی کے تم نے اُس لڑکی کو بُھلادیا اور روزی کے ساتھ اپنی نئ زندگی گُزارنے کا فیصلہ کیا۔نور بغور اُس کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرتی بولی تو یمان اُس کی اچانک ایسی کہ جانے والی بات پہ چونکا

ہاں میں بھی خوش ہوں ہمارا یمان بہت ساری خوشیاں ڈیزرو کرتا ہے اُس لڑکی نے دیا ہی کیا تھا یمان کو سِوائے دُکھو اور تکلیفوں کے۔موت کے منہ سے بچا تھا یمان۔زوبیہ بیگم کی بات پہ یمان نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا۔

خیر چھوڑے اُس لڑکی کا ذکر جو ہے ہی نہیں۔زرنور نے کہا تو سب نے سراثبات میں ہلایا 

میں فریش ہوجاؤں۔یمان اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن سے کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

وہ سب حویلی پہنچ گئے تھے سب لوگ اُن کو دیکھ کر خوش ہوئے تھے اور سب نے شازم کا صدقہ اور اُس کو اپنی گود میں اُٹھایا تھا سوائے فردوس بیگم اور شبانا کے۔ماہی خود بھی نہیں چاہتی تھی کے اُس کا بچہ اُن دونوں میں سے کسی کے پاس بھی جائے۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°′

ہائے کیا ہمارا بچہ بھی اتنا چھوٹا سا ہوگا؟حریم آروش دونوں شازل اور ماہی کے مشترک کمرے میں تھے جب حریم غور سے سوئے ہوئے شازم کو دیکھ کر حیرت سے پوچھا

یہ 2.5 کا ہے۔آروش نے ماہی کی اُتری شکل دیکھی تو مسکراہٹ دبائے حریم سے کہا

مطلب؟حریم کو سمجھ نہیں آیا

مطلب شازم کمزور ہے یا نہیں یہ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ 2.5 اور 4.5 کے درمیان پیدا ہونے والا بچہ بھی نارمل ہوتا ہے اِس لیے بچے کا ویٹ دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اِس ویٹ والے بچے بھی صحتمند ہوتے ہیں مگر ہوسکتا ہے تمہارا بچہ مزید صحتمند ہو۔آروش نے آرام سے اُس کو سمجھایا

کمزور ہے دیکھے نہ کیسے جب سے آیا ہے سویا پڑا ہے مگر کمزور کیوں ہے؟شازل لالہ تو اِن کا بہت خیال کرتے تھے پھر بچہ کیوں اتنا چھوٹا سا نکل آیا؟اور ماشااللہ سے اِن کا پیٹ بھی تو ٹھیک سے بڑا تھا میں تو سمجھی تھی بچہ ایک یا تین پاؤنڈ کا تو ضرور ہوگا مگر شازم کو دیکھ کر لگ رہا ہے ڈائیپر بھی مشکل سے بے چارہ سنبھال پائے گا۔حریم اپنی دُھن میں مگن بچے کا ایکسرا نکال رہی تھی جس پہ آروش کا قہقہقہ نکل گیا تھا اُس کو اصل خوشی اِس بات پہ تھی کے حریم باقائدہ سے ٹھیک ہوگئ تھی  مگر دوسری طرف ماہی کو حریم شازل سے کم نہ لگی جو اُس کے معصوم بچے کو بخش نہیں رہے تھے۔

پانی کم ہوگا نہ۔آروش بمشکل بول پائی۔

وہ بھی تو تب نہ جب ماں کمزور ہو یا پھر وہ اپنی خوراک کا ٹھیک سے خیال نہیں کرتی ہو ایسا تو کجھ نہیں تھا پھر کیوں؟حریم کوئی بات ماننے کو تیار نہیں تھی اتنی گہرائی سے شازل نے بھی شازم کا ایکسرا نہیں لیا تھا جتنا کجھ ہی وقت میں حریم نے لیا تھا اُس کو اب اپنے بچے کی فکر ہونے لگی تھی جو جانے کیسے پیدا ہونا تھا۔

ایسی کوئی بات نہیں مانا کے جب بچے کا وزن تین گرام کا آتا ہے تو والدین خوش ہوتے ہیں مگر یہ بھی ایک نارمل بات ہے اور آہستہ آہستہ شازم کا ویٹ بھی ٹھیک ہوجائے گا تم دیکھنا۔آروش نے مسکراکر کہا

ہاں اور اگر تین گرام یا سات پاونڈ کا آتا تو بھی سب نے کہنا تھا اتنا صحتمند بچہ ہے پھر نظر لگ جانی تھی اِس لیے اللہ نے پہلے سے اِتنا ویٹ دیا اُس کا۔ماہی پہلی بار بولی۔

آپ کی بات بھی ٹھیک ہے مگر عقیقہ جب ہوگا تو گاؤں کی عورتیں کس کو دیکھے گی یہ تو اِتنا چھوٹا سا ہے۔حریم کی پھر وہی بات پہ ماہی نے اپنا سر پکڑا تو آروش ہنس ہنس کر بے حال ہوئی۔

نیو برن ہے میرا بچہ اور کونسا ان گاؤں کی عورتوں نے پہلوان جیسا بچہ دیا ہوگا دیکھنا ایک دو ماہ بعد بلکل ٹھیک ہوجائے گا۔ماہی کجھ دیر بعد بولی

آپ کی بات کا مطلب ایک سال بعد یہ ڈورے گا پوری حویلی میں مگر اِس کو دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے رینگے گا بھی بڑی مشکل سے۔حریم نے شازم کی طرف اِشارہ کیا تو ماہی اور آروش دونوں کی بس ہوئی تھی وہ سمجھ گئ تھی حریم کو اُن کی کوئی بات دماغ میں نہیں بیٹھنی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مائے گُڈنس کے آج یمان مستقیم نے مجھے خود یہاں بلوایا ہے وہ بھی کوئی ضروری بات کرنے کے لیے۔روزی یمان کے پاس والی چیئر پہ بیٹھتی خوش بھرے لہجے میں بولی اُس کو اپنے اسسنسٹ سے معلوم ہوا تھا کے یمان اُس سے ملنا چاہتا ہے تبھی وہ شام کے وقت ملنے چلی آئی تھی ریسٹورنٹ میں۔

میں واقع تم سے ضروری بات کرنا چاہتا تھا سوچا یہی بلالوں۔یمان بس یہی بولا

میں سن رہی ہوں۔روزی نے اپنی کہنیاں میز پہ ٹِکائی۔

مجھے برین ٹیومر ہے۔یمان نے جیسے اُس کے سر پہ دھمکا کیا

واٹ؟؟؟؟روزی تقریبً چیخ پڑی

آہستہ۔یمان نے تنبیہہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

انتہا کا واحیات مذاق تھا یمان۔روزی نے کہا

تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں مذاق کرنے کے لیے تمہیں آنے کا کہا ہے؟یمان نے طنزیہ کیا

آر یو سیریس؟روزی بے یقین تھی۔

ہممم تمہیں بتانے کا مقصد میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اِس لیے تمہیں چاہیے میرا انتظار مت کرو تمہارے آگے بہت لمبی زندگی ہے۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

کوئی علاج سے یا آپریشن وغیرہ تو ہوگا نہ مطلب کجھ ٹھیک ہونے کے چانسز۔روزی نے بس یہ کہا

کوئی علاج نہیں ہے میں نے تمہیں بتادیا ہے اور ہاں مجھے اپنا فیصلہ مجھے پہ بتادینا اگر ہاں کہو یا نہ پر میری درخواست ہے یہ بات کسی اور کو مت بتانا۔یمان اپنی جگہ کھڑا ہوتا اُس سے بولا تو روزی نے محض اپنا سراثبات میں ہلایا

💕💕💕💕💕💕💕

وقت تیزی سے گُزرتا جارہا تھا شازم کا عقیقہ خیر سے ہوگیا تھا آروش بھی اپنے باپ دلاور خان کے گھر واپس لوٹ گئ تھی یمان کی بیماری کا ابھی تک کسی کو پتا نہیں چلا تھا آروش خود حیران تھی یمان کیوں یہ حقیقت سب سے چُھپا رہا ہے مگر اُس نے یمان میں ایک چیز نوٹ کی تھی اور وہ تھی یہ کے یمان بہت خاموش رہنے لگا ہے پہلے جہاں وہ اُس کو تنگ کرتا تھا اب ایسا کجھ بھی نہیں ہوتا تھا اور یہ بھی کے وہ تھوڑا کمزور بھی ہوتا جارہا تھا جس پہ اُس نے سوچ لیا تھا وہ کسی بہانے دلاور خان کو یمان کی بیماری کا ضرور بتائے گی۔روزی سے ملنے کے ایک ہفتہ بعد یمان کو اُس کا میسج موصول ہوا تھا کے وہ اُس کے ساتھ اپنا رشتہ ختم کرتی ہے یمان نے جب یہ میسج دیکھا تو اُس نے کوئی خاص ری ایکٹ نہیں کیا تھا کیونکہ وہ خود ایسا ہی کجھ چاہتا تھا۔اور ارمان نے یمان سے تو بات کرلی تھی مگر اُس میں فجر سے یہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔حویلی میں شبانا نے بہت بار شازم کو نقصان پہچانا چاہا تھا مگر کوئی موقع اُس کے ہاتھ نہیں آتا تھا کیونکہ شازم یا تو سارا وقت ماہی کے پاس ہوتا تھا یا پھر کلثوم بیگم اور فاریہ بیگم کے پاس جنہوں نے شازل کے اسلام آباد جانے پہ پابندی لگائی ہوئی تھی اِس لیے وہ بھی فلحال شازم کی پیدائش کے ڈیڑہ ماہ سے یہی تھا کیونکہ وہ بھی یہاں ٹھیک تھا اپنے بچے اور بیوی کے سنگ خوش تھا ویسے بھی شازم میں سب کی جان اٹکی ہوئی تھی کبھی کسی ایک کی گود میں ہوتا کسی دوسرے کی گود میں۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

دلاور خان پریشانی سے گاڑی ڈرائیو کرتے ڈاکٹر حمید کے ہسپتال جارہے تھے جنہوں نے اُن کو ایسی خبر سُنائی تھی جس پہ وہ یقین کرنے سے بلکل قاصر تھے۔وہ نہیں جانتے تھے وہ ہسپتال کیسے پہنچے کتنی بار ان کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔مگر وہ جیسے ہی ڈاکٹر حمید کے کیبن میں آئے تو اُن کے ساتھ خاموش بیٹھے یمان کو پہلے سے وہاں موجود بیٹھا پایا۔

یہ کیا بات کہی تم نے کے یمان کو برین ٹیومر ہے؟کس نے کہا ایسا تم سے؟دلاور خان ڈائریکٹ اصل بات پہ آئے۔

اُس سے جس سے یمان کا علاج چل رہا ہے دو ماہ سے وہ ڈاکٹر میرا جاننے والا تھا اِس بات سے میں خود لاعلم رہتا اگر پڑسو میں اُس سے ملنے ہسپتال نہ جاتا اگر میں نے پڑسو یمان کو اُس ہسپتال سے نکلتا دیکھا پھر ڈاکٹر شجاع سے پوچھا تو اُس نے میرے ساتھ یمان کا کیس ڈسکس کیا اور اُس نے یہ بھی بتایا وہ پورے دو ماہ سے یمان کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کے وہ آپریشن کروائے مگر یمان اپنی بات پہ بضد ہے کے اُس کو آپریشن نہیں کروانا بلکہ تڑپ تڑپ کے مرنا ہے۔دلاور خان کے سوال پہ ڈاکٹر حمید جیسے پھٹ پڑے تھے دلاور خان بس ساکت سے اُن کو دیکھنے لگے جب کی یمان کی نظریں غیرمعی نقطے پہ ٹِکی ہوئی تھی۔

میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو دلاور اپنے یمان سے پوچھو میں نے کہا تھا تمہیں بار بار کہا تھا یمان کے دماغ کا آپریشن ضروری ہے مگر نہیں تمہارے نزدیک میری بات کی اہمیت نہیں تھی تب یمان کے بےجا ضد کی اہمیت تھی اب نتیجہ آگیا سامنے برین ٹیومر ظاہر ہوا ہے۔ڈاکٹر حمید نے دلاور خان کو کجھ بولتا نہ دیکھا بس خود پہ نظریں محسوس کی تو سخت بھرے لہجے میں دلاور خان سے بولے جن کو اُن کی بات سے چُپ ہی لگ گئ تھی۔

تم کیوں خاموش ہو یمان تمہارے لیے تو یہ جشن کا دن ہونا چاہیے تم خود کہتے تھے نہ حرام کی موت مرنا نہیں چاہتے اور یہ زندگی تم جی نہیں سکتے تمہیں مرنے کا شوق تھا تو خوش ہوجاؤ موت آہستہ آہستہ آرہی ہے تمہارے پاس۔دلاور خان نے اچانک ایک دم خاموش بیٹھے یمان نے سے کہا جو اپنی جگہ ساکت وجامد تھا۔

میں مرنا چاہتا تھا پر میں اب جینا چاہتا ہوں مجھے مرنا نہیں ہے ڈیڈ مجھے جینا ہے۔یمان دلاور خان کی بات سنتا اُن کے پاس آتا دیوانوں کی طرح ایک ہی بات بار بار دُہرانے لگا جس کو سن کر دلاور خان اور ڈاکٹر حمید اپنی جگہ حیران ہوگئے تھے۔

یمان۔دلاور خان کے منہ سے الفاظ نکلنے سے انکاری ہوئے تھے۔

جی ڈیڈ میں سچ کہہ رہا ہوں وہ مجھے مل گئ ہے میں اب اُن کو پاسکتا ہوں مجھے جینا ہے اگر میں مرگیا تو وہ کسی اور کی ہوجائے گی اور میں اُن کو کسی اور کا ہونے نہیں دے سکتا۔یمان کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ڈاڑھی میں جذب ہوا تھا جس کو دیکھ کر دلاور خان تڑپ اُٹھے تھے انہیں یمان نے آج بھی حیران کردیا تھا اُن کو حیرت ہورہی تھی آج بھی یمان کو اپنی زندگی کی فکر نہیں تھی اُس کو بس ایک بات کی پرواہ تھی اگر وہ مرجاتا ہے تو اُس کی محبت کسی اور کی ہوجائے گی۔

کون ہے وہ؟کب اور کہاں دیکھا تم نے اُس کو اچانک سے؟دلاور خان اُس کی بکھری حالت دیکھ کر بس یہ پوچھ پائے مزید بحث کرنے کا تو جیسے کوئی وجاہت ہی نہیں تھی مگر کجھ دیر کے لیے یمان کو دوبارہ سے چپ سی لگ گئ تھی۔

آ۔۔۔۔۔آروش آپ کی بیٹی۔یمان نے بلآخر اُن کے سامنے اپنی چپی توڑی تو دلاور خان پھٹی پھٹی نظروں سے یمان کو دیکھنے لگے جو کسی مجرم کی طرح اپنا سرجھکائے بیٹھا تھا اُس کی حالت کسی ہارے ہوئے جواری سے کم نہیں لگ رہی تھی

پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کبھی؟ اتنا وقت تو ہوگیا ہے تھا آروش کو گھر آئے۔دلاور خان بس یہی پوچھ پائے۔

سوچا تھا پہلے خود سے اُن کو راضی کرلوں پھر آپ سے بات کروں مگر ڈیڈ وہ ابھی تک میری محبت پہ یقین نہیں کرتی پتا نہیں کیا بے یقینی ہے اُن کو میں جو بھی کرلوں جیسا بھی کرلوں اُن کو اعتبار ہی نہیں آتا۔یمان بے بسی سے بولا

پریشان مت ہو کیونکہ اب تمہیں مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یمان اب وہ ہوگا جو تم چاہتے ہو تم بس آپریشن ہوجانے دو۔دلاور خان اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولے

آپریشن میں بچنے سے زیادہ مرنے کے چانسز زیادہ ہیں میں پہلے اُن سے نکاح کروں گا اُس کے بعد آپریشن کے لیے حامی بھروں گا آپ بس اُن کو نکاح کے لیے راضی کرے۔یمان ضدی لہجے میں بولا تو دلاور خان نے ڈاکٹر حمید کو دیکھا جو کندھے اُچکا گئے تھے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج صبح سے حریم کی طبیعت بگڑ گئ تھی جس لیے دُرید اُس کو ہسپتال لایا تھا فاریہ بیگم اُس کے ساتھ تھی۔ہسپتال پہچتے ہیں حریم کو ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا تھا جس وجہ سے دُرید کے اندر عجیب قسم کے خدشات بیٹھ گئے تھے اُس کا ہر عضوو حریم اور اُس کے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا گو تھا۔

چچی جان ڈاکٹر نے آپریشن کا بولا ہے۔دُرید پریشانی سے فاریہ بیگم سے بولا

کجھ نہیں ہوتا دُرید ان شاءاللہ آپریشن کی نوبت نہیں آئے گی تم بس خود کو پرسکون رکھو۔فاریہ بیگم نے اُس کو تسلی کروائی۔

ابھی تو تین سے چار دن رہتے تھے نہ۔دُرید پرسوچ لہجے میں فاریہ بیگم سے بولا

رہتے تو تھے مگر حریم کی طبیعت خراب ہوگئ تھی شاید اِس لیے بول رہے ہو۔فاریہ بیگم نے کہا

آپ دعا کرے۔دُرید بس یہی بول پایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ کہاں جارہے ہیں؟ماہی نے شازل کو تیار ہوتا دیکھا تو پوچھا

اسلام آباد حریم ہوسپٹل میں ہے۔شازل نے جواب دیا

ابھی تو دن ہیں نہ؟ماہی نے کہا

ہممم مگر اُس کی اچانک طبیعت خراب ہوگئ ہے لالہ کا فون آیا تھا مجھے جانا ہے اُن کو ضروری پڑسکتی ہے۔شازل نے جواب دیا

اچھا میں بھی چلوں ساتھ؟ماہی نے پوچھا

شازم تنگ کرے گا ویسے بھی اِس کو سردی لگ جاتی ہے اور ایسے موسم میں اتنا لمبا سفر بچے کے لیے ٹھیک نہیں۔شازل نے کہا

میں شازم کو کمبل میں ڈھانپ لوں گی اور پھر آپ گاڑی کا ہیٹر آن کرلینا اور اتنا لمبا سفر بھی نہیں مجھے حریم کا بے بی دیکھنا ہے۔ماہی بضد ہوئی۔

شازم اماں سائیں کے حوالے کرو پھر ہم چلتے ہیں۔شازل نے کجھ سوچ کر کہا تو ماہی نے اُس کو گھورا

شازل دو ماہ کا بچہ اپنی ماں کے بنا کیسے رہے گا؟ہزار کام ہوتے ہیں بچے کے ایک اور ہمارا شازی ہے بھی ابھی بہت چھوٹا۔ماہی نے جیسے اُس کی عقل پہ ماتم کیا۔

وہ ہی تو تمہیں سوچنا چاہیے یہ ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا جو اِس کو ساتھ لیکر کہیں بھی آیا جایا جائے اِس لیے تم یہی رکو ایک دو دن کی تو بات ہے خیر سے بچہ ہوجائے پھر واپس آنا ہے۔شازل نے نرمی سے اُس کو سمجھایا

اچھا ٹھیک ہے جلدی۔ماہی نے نیم رضامندی دی تو شازل مسکرایا

اپنا اور شازم کا خیال رکھنا۔شازل اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

💕💕💕💕💕💕

آپ بابا کو کال کرے نہ مجھے ہسپتال جانا ہے ایمرجنسی ہے۔آروش نے پریشان سے زوبیہ بیگم سے کہا

وہ راستے میں ہیں مگر آروش تم پورا ایک ماہ وہاں گُزار چُکی ہوں اب پھر تم وہاں جانا چاہتی ہو کیونکہ پھر کسی کی ڈیلیوری ہے تم کوئی ڈاکٹر تو نہیں۔زوبیہ بیگم نے کہا

میں ڈاکٹر نہیں ہوں مگر مجھے ابھی وہاں رہنا چاہیے تھا کیونکہ میں نے حریم سے واعدہ کیا تھا میں اُس کی ڈیلیوری کے آخری ماہ میں اُس کے ساتھ رہوں گی یا یہاں بلوالوں گی مگر آپ لوگوں کو میرا وہاں جانا پسند نہیں آیا جبکہ وہ اِسی شہر میں تھے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

ہاں تو وہ لڑکی یہاں رہ لیتی۔زوبیہ بیگم نے کہا

دُرید لالہ کو ٹھیک نہیں لگا تھا۔آروش نے وجہ بتائی۔

ایک تو اِن گاؤں والے کے مسائل بہت ہیں خیر تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں۔زوبیہ بیگم نے سرجھٹک کر کہا

میں ایسے کسی کے ساتھ چلی جاؤں۔آروش کو بُرا لگا۔

اچھا میں ارمان کو کال کرتی ہوں وہ تمہیں چھوڑ آئے گا گھر کا بچہ ہے وہ تم بھی تو اتنے عرصے سے اُس کو جانتی ہوں۔زوبیہ بیگم نے کہا

ٹھیک ہے مگر پھر آپ نجمہ کو بھی کہیے گا وہ ساتھ آئے۔آروش کجھ سوچ کر بولی

نجمہ کیوں؟زوبیہ بیگم نے تعجب سے پوچھا

اکیلے ٹھیک نہیں لگتا۔آروش نے اتنا کہا ہی تھا جب دلاور خان اور یمان گھر کے اندر داخل ہوئے اُن دونوں کے اتنے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر آروش کو شک گُزرا۔

السلام علیکم بابا۔آروش نے دونوں کو دیکھ کر سلام کیا

وعلیکم السلام تم کہی جارہی ہو؟دلاور خان نے اُس کو عبائے میں ملبوس دیکھا تو پوچھا یمان جو سیدھا اپنے کمرے میں جارہا تھا دلاور خان کی بات پہ پلٹ کر آروش کو دیکھا جو عبائے اور حجاب میں تھی۔

جی ہسپتال جانا ہے میری کزن کی ڈیلیوری ہے آپ کا انتظار کر رہی تھی کے آپ چھوڑ آئے۔آروش نے بتایا

میں چھوڑ آتا ہوں۔یمان اُس کی بات سُنتا فورن سے بولا

اُس کی ضرورت نہیں شکریہ۔آروش بنا اُس کو دیکھ کر بولی۔

میں چھوڑ آؤں گا اور مجھے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے آروش سے۔دلاور خان نے یمان کو دیکھ کر کہا تو اُس نے خاموش سے سراثبات میں ہلایا

💕💕💕💕💕💕💕💕

حریم کیسی ہے؟دُرید نے ڈاکٹر کو باہر آتا دیکھا تو فورن سے اُس کی طرف بڑھ کر بولا

جی وہ اب ٹھیک ہے ڈیلیوری بھی آج ہوگی۔ڈاکٹر نے بتایا

آپریشن ہوگا؟دُرید کسی خدشے کے تحت بولا

ہمم نہیں کیونکہ اُن کی طبیعت بہت سنبھل چُکی ہے اور دن بھی پوری ہیں تو ایسا نہیں ہوگا۔ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہا

تین چار دن رہتے ہیں ابھی اور یہاں کی ایک ڈاکٹر نے کہا تھا ڈیلیوری کے آخری دن بچہ گرو کرتا ہے میرا مطلب وزن وغیرہ جو ہوتا ہے اگر آج ہوگا تو بچے کو کوئی نقصان وغیرہ تو نہیں ہوگا نہ۔دُرید نے سوالیہ نظروں سے اُن کو دیکھ کر کہا

کہا ہوگا مگر اب سب نارمل ہے آپ بس دعا کرے  ماں اور بچہ اللہ کے فضل سے دونوں ٹھیک ہے۔ڈاکٹر نے کہا تو دُرید نے شکر کا سانس خارج کیا

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آپ کو شاید کوئی ضروری بات کرنی تھی؟دلاور خان نے گاڑی ہسپتال کے پاس روکی تو آروش جو سارے راستے میں انتظار میں تھی کے کب دلاور خان کوئی بات کرے گا مگر اُس کو کوئی بات نہ کرتا دیکھ کر خود ہی بات کی۔

ہاں مگر اب شاید وقت ٹھیک نہیں تم گھر آجاؤں گی تو بات ہوجائے گی۔دلاور خان نے کہا

آپ اب بھی مجھ سے بات کرسکتے ہیں اگر آپ کو مناسب لگے تو۔آروش نے کہا

مجھے آج پتا چلا کے یمان کو برین ٹیومر ہے۔دلاور خان نے کہا تو آروش چپ سی ہوگئ تھی وہ دلاور خان کے چہرے سے اُن کی تکلیف کا اندازہ باخوبی لگاسکتی تھی۔

وہ آپ کو عزیز ہے؟آروش نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا۔

سترہ اٹھارہ سال کا تھا یمان جب وہ مجھے خون میں لت پت سڑک پہ نیم مُردہ حالت میں ملا تھا اُس کے سینے میں دو گولیاں ماری گئ تھی سر سے خون الگ سے بہہ رہا تھا جب میں نے اُس کو ایسی حالت میں دیکھا تو یہ سوچنے لگا کوئی ایک بچے کو اتنی بے رحمی سے کون مار سکتا ہے اور کیوں؟(دلاور خان کی بات پہ آروش کا وجود لرزا تھا آج پھر وہ واقعہ اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جس کو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی)"میرے ڈرائیور نے کہا مجھ سے کے اُس کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ مرگیا ہوگا مگر میرا دل مان نہیں رہا تھا عجیب قسم کی ایک انسیت مجھے اُس سے محسوس ہونے لگی وہ نے اُس کی سانسیں چیک کی جو بہت مدھم سے چل رہی تھی میری اُس وقت اسلام آباد کی فلائٹ تھی میں کبھی کراچی میں زیادہ عرصہ نہیں رہا تھا اُس بار بھی اپنے ایک شوٹ کی وجہ سے گیا تھا جہاں اتفاق سے مجھے یمان بھی ملا تھا پھر جب ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر اُس کا چیک اپ کیے بنا مُردہ قرار دیا پولیس کیس نہیں بنا تھا ضرور بنتا مگر میری ایک پہچان تھا ایک نام تھا میں نے سب ہینڈل کرلیا تھا ڈاکٹروں نے اُس علاج کرنا شروع کیا دو گولیاں نکلا چُکے تھے اور مجھ سے کہا اگر گولی مارنے والا کا نشان تھوڑا بھی پکا ہوتا تو ایک گولی سیدھا یمان کے دل میں لگتی۔(آروش کو گھٹن کا احساس ہونے لگا تھا بے ساختہ اُس نے اپنا نقاب اُتارا تھا وہ نہیں جانتی تھی دلاور خان کیوں اُس کو یہ سب ایسے اچانک سے بتارہا ہے مگر جو بھی تھا یہ حقیقیت سن کر آروش کو ایک بار پھر سے اپنا آپ مجرم لگنے لگا تھا کیونکہ اُس نے بس یمان کو مار کھاتے دیکھا تھا اُس کے بعد یمان کِن تکلیفوں سے گُزرا وہ اِن سب سے جان کر بھی انجان تھی) مگر اللہ کا شکر تھا گولی دل کے پاس تھی دل پہ نہیں لگی تھی ورنہ یمان آج زندہ نہ ہوتا وہ گولیوں سے تو بچہ گیا مگر جو اُس کے سر پہ وار ہوا تھا اُس نے یمان کے دماغ کی رگوں کو ڈیمیج کیا تھا ایک سے ڈیڑھ سال تک وہ کومہ میں رہا تھا جب ہوش آیا تو اپنے گھر جانے کی ضد کی مگر تب وہ اُس حالت میں نہیں تھا جو سفر کرپاتا ایک دو ماہ تک میں نے اُس کو ٹالا پھر ہم جو کراچی سے لاہور سے اسلام آباد پھر لاہور سے اسلام آباد آگئے تھے دوبارہ کراچی آگئے تو ایک نئ خبر ہماری منتظر تھی پتا ہے کونسی بات ہے؟دلاور خان نے گردن موڑ کر آروش کو دیکھا جس کی رنگت فق تھی اُس کا وجود ہلکہ سا کانپ رہا تھا۔

ک کیا؟آروش نے ہمت جمع کرکے پوچھا

یمان کی ماں اِس فانی دُنیا سے چل بسی ہے وجہ اپنے بیٹے کی جُدائی تھی کتنا بدنصیب بیٹا تھا نہ جو اپنی ماں کا چہرہ بھی نہ دیکھ پایا نہ اپنی ماں کے جنازے کو کندھا دیا اور کتنی بدنصیب وہ ماں تھی جو مرتے وقت اپنے بیٹے کو یاد کرتی رہی مگر اُس سے مل نہ پائی زیادہ تر والدین بیٹے کی خواہش اِس وجہ سے کرتے ہیں کے تاکہ وہ اُن کے بوڑھاپے کا سہارہ بنے مگر یمان کی ایک غلطی نے اُس سے اپنے ماں باپ سے دور کردیا وہ اپنے اصل سے چھوٹ گیا۔دلاور خان گہری سانس بھر کر خاموش ہوگئے تھے۔جب کی آروش کے منہ سے ایک سسکی بر آمد ہوئی تھی وہ چاہ کر بھی خود کو رونے سے باز نہیں رکھ پائی تھی۔

اُس کو اپنالوں بیٹا وہ مررہا ہے تم اُس کو جینے کی اُمید تھمادوں۔دلاور خان نے اچانک کہا تو آروش بے یقین نظروں سے دلاور خان کو دیکھنے لگے جو سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

یہ آپ کیا بول رہے؟آروش نے کہا

یمان نے مجھے دیا ہے وہ جس کو کالج لائیف میں چاہتا تھا وہ تم ہو۔دلاور خان نے بتایا

جو وہ مجھ سے چاہتا ہے وہ ناممکن ہے۔آروش نے کہا

کیوں ناممکن ہے بیٹا؟دلاور خان کو سمجھ نہیں آیا

بس ناممکن ہے اور مجھے ہوسپٹل جانا ہے۔آروش اتنا کہتی نقاب پہنے لگی۔

سنگدلی کا مظاہرہ مت کرو اتنا آروش وہ چاہتا ہے تمہیں۔دلاور خان نے افسوس سے اُس کو دیکھ کر کہا

پر میں ایسا کجھ نہیں چاہتی آپ کے لیے منہ بولے بیٹے سے زیادہ اپنی بیٹی کے فیصلے کی اہمیت ہونی چاہیے۔آروش اتنا کہتی گاڑی کا دروازہ کھول کر ہسپتال کے اندر جانے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ مجھے دے میں اِس کو اپنی گود میں اُٹھاؤ۔شبانا ابھی نہا کر باورچی خانے  میں جانے کا اِرادہ کیے ہوئے تھے جب اُس کی نظر شازم پہ پڑی جو کلثوم بیگم کی گود میں تھا۔

یہ پکڑو میں بھی نماز پڑھ لوں۔کلثوم بیگم شازم کو شبانا کی گود میں دے کر بولی تو شازم اپنی آنکھیں بڑی بڑی کرتا شبانا کو دیکھنے لگا جو اُس کو تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

سُنا ہے تجھے سردی بڑی لگتی ہے۔کلثوم بیگم کے جانے کے بعد شبانا شازم کے اطراف لپیٹے ہوئے کمبل کو کھول کر اُس سے بتانے لگی تو جب کمبل سارا کُھل گیا تو شازم اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہلانے لگا۔

بڑی جلدی تھی اِس دُنیا میں آنے کی۔شبانا اُس کا چھوٹا سا ہاتھ پکڑ کر بولی تو شازم کا دوسرا چھوٹا سا ہاتھ اُس کے کُھلے ہوئے گیلے بالوں میں بُری طرح سا اُلجھا تھا۔ 

آآہ۔ شبانا جو اُس کو گھورنے میں مصروف تھی اپنے سر پہ کجھ کھچاؤ محسوس کرکے اُس کی چیخ نکلی تھی وہ شازم کا ہاتھ چھوڑتی اُس کے دوسرے ہاتھ سے اپنے بال نکالنے لگی کیونکہ شازم کے ہاتھ کی مٹھی بند ہوگئ تھی۔

مُٹھی کھولو اپنی۔شبانا اپنے سر میں اُٹھتی ٹیسوں کو برداشت کرتی شازم سے ایسے بولی جیسے وہ اُس کی بات سمجھ رہا ہو وہ اپنا سر اُس پہ جُھکانے لگی تاکہ اُس کی مٹھی آسانی سے کھول سکے مگر ایسے میں شازم اپنا دوسرا ہاتھ اُس کے چہرے پہ پھیرنے لگا تو شبانا کی آنکھ کا نشانہ ہوگیا۔شبانہ بُری طرح سے پھسی تھی۔ماہی جو خود شازم کو لینے آئی تو اُس کو ایسے دیکھا تو فورن سے بھاگ کر شبانا کے پاس آئی۔

یہ آپ نے کمبل کیوں اُتارا یہ چھوٹا سا بچہ ہے یہ تو خیال کرتی۔ماہی شازم اُس سے لیتی فکرمندی سے بولی

کجھ نہیں ہوتا اِسے میرے بال نوچے ہیں تمہارے بیٹے نے۔شبانا نے تیز آواز میں کہا تو ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

شازم اب اتنا بڑا بھی نہیں ہوا جو کسی کے بال نوچے آپ کو چاہیے تھا اپنے بال باندھ لیتی ایسے میں کسی بچے کے ہاتھ میں بال اٹک تو جاتے ہیں نہ۔ماہی شازم کے گرد کمبل اُوڑھ کر شبانا کو جوابً بولی۔

اِس کو اپنے بستر پہ لیٹایا کرو میں نیچے نہ دیکھو دوبارہ۔شبانا نے دونوں کو گھورا

سارا دن اپنے بستر اور بے بی کاٹ میں ہوتا ہے اب تھوڑا کُھلی فضا میں آیا تو آپ کو ناگوار لگ رہا ہے۔ماہی کو اُس کی بات بُری لگی تو کہا

یہ کُھلی فضا نہ اپنے کمرے میں اِس کو دیا تھا یہاں دینے کی ضرورت نہیں اللہ جانے میرے کتنے بال ٹوٹے ہوگے۔شبانا اُس کو سخت لہجے میں سُناتی اپنے بالوں کو دیکھ کر بڑبڑائی۔

چلو مما کا شہزادہ اب سونے کا وقت ہوگیا ہے ہم اپنے کمرے میں جائے گے۔ماہی شبانا کو نظرانداز کرتی شازم کو پچکارنے لگی جو اُس کو دیکھ رہا تھا۔

میرا بچہ مجھے امی کب بولے گا؟ماہی اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیتی بتاتے کرتی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔شبانا بھی جلدی کڑھتی باورچی خانے میں جانے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آروش شازل دُرید اور فاریہ بیگم یہ سب بیٹھے انتظار میں تھے کے کب ڈاکٹر اُن کو کوئی خوشخبری سُناتی ہے شھباز شاہ بھی آنے والے تھے مگر اُن کو کوئی کام پڑگیا تھا جس وجہ سے شہر نہ آپائے مگر آروش کا زیادہ تر توجہ دلاور خان کی باتوں کی طرف تھیں وہ چاہ کر بھی اپنا ذہن اُن کی باتوں سے جھٹک نہیں پارہی تھی۔

مُبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔ڈاکٹر نومولود بچے کو اپنی گود میں اُٹھاتی باہر آکر اُن سب سے مسکراکر بولی تو سب خدا کا شکر ادا کرکے اُٹھ کھڑے تھے۔

مجھے دے۔دُرید تیر کی تیزی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھ کر اُس سے بچی لی جس کی آنکھیں بند تھی۔

بڑی خاموشی سے آئی ہے شازم تو رو کر پیدا ہوا تھا۔شازم بچی کو دیکھ کر بولا تو فاریہ بیگم نے اُس کو گھورا اُن سب سے بے نیاز دُرید بچی کے چہرے پہ اپنا شفقت بھرا لمس چھوڑ رہا تھا۔

حریم کیسی ہے؟آروش نے ڈاکٹر سے پوچھا

شی اِز فائن تھوڑی دیر تک آپ اُس سے مل سکتے ہیں۔ڈاکٹر نے بتایا۔

بہت پیاری ہے ماشااللہ لائیک پرنسز۔شازل بچی کو دُرید کی سے لیکر اپنی بانہوں میں اُٹھا کر بولا۔

مجھے بھی تو دے۔آروش نے کہا تو شازل نے اُس کو زبان دیکھائی جس پہ آروش نے معصوم شکل بنائے دُرید کو دیکھا

توں اپنا بچہ یہ ہمیں دے۔دُرید کی بات پہ آروش جہاں خوش ہوئی تھی وہاں شازل کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا تھا۔

اب میں کسی کو اپنا بچہ نہیں دوں گا۔دُرید نے بچی آروش کو دی تو شازل نے کہا

دیکھتے ہیں۔دُرید نے چیلنج کرتی نظروں سے اُس کو دیکھا

چھوٹا ہونا بھی ایک عذاب۔شازل منہ بناتا کہہ کر بینچ پہ بیٹھ گیا جس پہ سب نے نفی میں سراثبات میں ہلایا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

ہمیں یقین نہیں آرہا یہ ہماری بچی ہے۔حریم بچی کو دیکھتی عجیب کیفیت میں بولی اُس کی آنکھوں میں خوشی کے مارے آنسو آگئے تھے۔

یقین کرلوں بچے۔فاریہ بیگم نے مسکراکر کہا جب کی آروش نے اُس کو اپنے ساتھ لگایا

نام سوچا ہے کوئی؟آروش نے پوچھا 

حورم۔حریم اتنا بتاکر بچی کا ماتھا چوما

ماشااللہ بہت پیارا نام کیا ہے۔فاریہ بیگم اور آروش ایک ساتھ بولی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

لالہ آپ حریم سے ملنے نہیں جائینگے؟شازل نے دُرید سے پوچھا جو خاموش کھڑا تھا۔

میں اب اُس سے نکاح کے دن ملنے جاؤں گا میں نہیں چاہتا وہ مجھے دیکھ کر کجھ بُرا فیل کرے۔دُرید ہلکی مسکراہٹ سے بولا

وہ بُرا فیل کیوں کرے گی؟آپ کو جانا چاہیے اور کیا وہ آپ سے نکاح کرے گی آئے مین جو اُس کے ساتھ ہوا ہے۔شازل ہچکاہٹ سے بولا

اُس کو راضی ہونا پڑے گا میں اُس کو راضی کرلوں گا جانتا ہوں غصہ ہوگی مگر پھر سب کجھ ٹھیک ہوجائے گا۔دُرید کا لہجہ پُرامید تھا۔

ہوپ سو۔شازل بس یہی بول پایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ابھی تو اُس نے بہت ساری خوشیاں دیکھنی تھی۔دلاور خان نے زوبیہ بیگم کو یمان کے "برین ٹیومر"کا بتایا تو انہوں نے اپنا سر پکڑلیا تھا وہ چاروں بھی اپنی جگہ پریشان ہوگئ تھیں۔

مجھے تو شروع سے ہی شک ہوگیا تھا کے آروش اور یمان کا کوئی نہ کوئی سین ضرور ہے۔نور نے کہا

مجھے تو حیرت اِس بات پہ ہے کے ہم نے یہ بات محسوس کیوں نہیں کی کے جب سے یہاں آروش آئی ہے تب سے یمان میں خاصا بدلاؤ آیا تھا۔زوبیہ بیگم نے کہا

ڈیڈ آپ آروش سے بولے وہ یمان کے لیے راضی ہوجائے اب کیا وہ اُس کی جان لیکر رہے گی۔زرگل نے دلاور خان سے کہا

زر۔زوبیہ بیگم نے اُس کو ٹوکا

نو موم اِٹس ٹو مچ ناؤ آروش آخر چاہتی کیا ہے؟ چلو مان لیا پہلے ذات پات کا مسئلہ تھا گھر والے نہیں مانے واٹ ایور جو کجھ بھی تھا مگر اب تو ایسا نہیں نہ کجھ آپ فادر ہیں اُس کے ایسا چاہتے ہیں کے یمان اور اُس کا نکاح ہوجائے تو آروش کو کیا مسئلہ ہے؟ یمان میں کِس چیز کی کمی ہے ویل میئنرڈ ہے ویل ایجوکیٹڈ ہے گُڈ لُکنگ ہینڈسم ہے اور سب سے بڑی بات اُس کو چاہتا ہے آروش کیوں اپنی بات پہ بضد ہے۔زرفشاں سنجیدگی سے بولی۔

میں آروش کو راضی کرلوں گا اُس کی بے جا ضد پہ میں یمان کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔دلاور خان گہری سانس بھر کر بولے

یس ڈیڈ یو کین ڈو اِٹ۔زرنور نے بھی کہا تو انہوں نے ہنکارہ بھرا۔

پر ڈیڈ یمان پہلے آپریشن کیوں نہیں کرواتا نکاح کیوں چاہتا ہے؟زرگل پرسوچ لہجے میں بولی۔

پتا نہیں۔دلاور خان نے لاعلمی کا مظاہرہ کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ دن بعد!

آپ اتنا جلدی جارہی ہیں شازم کی باری پہ تو پورا ایک ماہ تھی اور اب ہماری حورم کی باری پہ بامشکل ایک ہفتہ رہی ہے۔حریم نے شکوہ کناں لہجے میں آروش سے کہا جو بیڈ پہ لیٹی حورم کے ساتھ مصروف تھی

میرا بس چلے تو میں یہاں سے کہیں نہ جاؤں مگر دلاور بابا نے کہا ہے تو مجھے جانا پڑے گا۔آروش نے گہری سانس بھر کر بتایا

پھر کب آئے گی؟حریم نے اُداسی سے پوچھا

ان شاءاللہ جلد۔آروش نے مسکراکر کہا

اچھا۔حریم بس یہی بولی

تم حورم کو بے بی کارٹ میں ڈالو میں آتی ہوں۔آروش بیڈ سے اُٹھ کر حریم سے بولی

ڈالتی ہو ایک تو یہ سوتی بہت ہے۔حریم منہ بناکر حورم کو دیکھ کر بولی

کجھ دنوں کی بات ہے پھر کہو گی یہ سوتی کیوں نہیں کیونکہ اکثر بچے رات کے وقت ہی تنگ کرتے ہیں اپنی ماں کو۔آروش اُس کی بات پہ نفی میں سرہلاکر بولی تو حریم ہنس کر حورم کو اپنی گود میں اُٹھانے لگی جب کی آروش کمرے سے باہر آئی تو اُس کا سامنا دُرید سے ہوا جس کے ہاتھوں میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔

لالہ یہ؟آروش نے سوالیہ نظروں سے دُرید کو دیکھا۔

اب تو ہمارا نکاح ہوسکتا ہے نہ تم نے ایک بار خود بتایا تھا حریم یہ بات جانتی ہے کے میں نے تابش کا قتل کیا تھا۔دُرید نے سنجیدگی سے بولا

جی میں نے ایک بار باتوں ہی باتوں میں اُس کو بتادیا تھا پر حریم نے کبھی مجھ سے ذکر نہیں کیا تھا پھر اور اب نکاح آپ جلدبازی کررہے ہیں۔آروش پریشان ہوئی

یہ جلدبازی نہیں ہے حریم ایسے مجھے کبھی حورم کے پاس نہیں جانے دے گی دوسرا وہ حورم کی اکیلی پرورش نہیں کرسکتی وہ خود ابھی چھوٹی ہے اور مجھے یہ بتاؤ تم ایک ہفتے سے یہاں ہو تم نے حورم کو میرے پاس دیکھا؟دُرید سنجیدگی سے کہتا آخر میں اپنی سوالیہ نظریں اُس پہ ٹِکائی۔

نہیں لالہ۔آروش نے نظریں چُرائی۔

وہ جان بوجھ کر حورم کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہے پر میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔دُرید اٹل انداز میں بولا

آپ کو لگتا ہے وہ مان جائے گی؟آروش نے جھجھک کر پوچھا

اُس کو ماننا ہوگا کیا میری ایک غلطی کی وجہ سے خود کو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور رہ پائے گی؟میں تو اِس بات پہ حیران ہوتا ہوں جہاں پہلے مجھ سے بات کیے بغیر اُس کا گُزارا نہیں ہوتا تھا یہ دو سال اُس نے بنا مجھ سے کوئی بات بنا کسی شکوہ شکایت کے کیسے گُزارے ہیں۔دُرید اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پریشانی سے بولا

آپ جائے حریم کے پاس وہ بولے یا نہ بولے مگر سب جانتے ہیں وہ آپ سے پیار کرتی ہے آپ کو یاد کرتی ہے بس خود کو ایک خول میں چُھپا کے رکھا ہوا ہے۔آروش نے گہری سانس بھر کر کہا

مجھے حریم کو اِس خول سے ہی تو باہر نکالنا ہے۔دُرید فورن سے بولا تو آروش مسکراکر سائیڈ پہ ہوگئ جس پہ دُرید اُس کے سر پہ ہاتھ پھیرتا حریم کے کمرے کی طرف بڑھا۔

دُرید نے حریم کے کمرے کا دروازہ کُھولا تو حریم کی پشت دیکھائی دی۔حریم نے دروازہ کُھلنے پہ بے خیالی میں دروازے کی طرف دیکھا جہاں دُرید شاہ کھڑا تھا آج اُس کو اِتنے وقت بعد دیکھ کر حریم نے اندر ہلچل مچل تھی جس کو وہ سِرے سے نظرانداز کرگئ تھی۔

آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟حریم حورم کو بے بی کارٹ میں لیٹا کر دُرید کی جانب متوجہ ہوکر بولی تو دُرید جو غور سے حریم کا چہرہ دیکھ رہا تھا اُس کی آواز پہ ہوش میں آیا دُرید کو حریم پہلے سے زیادہ کمزور لگی تھی۔

یہ کپڑے ہیں پہن کر جلدی سے تیار ہوجاؤ۔دُرید ہاتھ میں پکڑا بیگ بیڈ پہ رکھ کر اُس سے بولا

ہم کس لیے تیار ہونے لگے بھلا؟حریم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

کپڑے چینج کر آؤ پھر بتاتا ہوں۔دُرید نے اُس کی طرف دیکھ کر جواب دیا

ہمیں کجھ نہیں کرنا اور آپ اپنا بیگ لیکر جائے یہاں سے۔حریم نے سنجیدگی سے کہا

ہمارا نکاح ہے آج شام اِس لیے فورن سے کپڑے تبدیل کرکے آؤ۔دُرید کی بات اُس کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی ایک پل کے لیے حریم کی سانس ساکن ہوئی تھی دُرید کی بات پہ۔

ک کی کیا مذاق ہے یہ ؟حریم کی زبان لڑکھڑاسی گئ تھی۔

مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔دُرید نے کہا

آپ سے نکاح کرنے سے اچھا ہم خودکشی کرلے۔حریم نخوت سے سرجھٹک کر بولی

فضول مت بولو حریم۔دُرید دھاڑا

آہستہ بات کرے ہماری بچی سو رہی ہے۔حریم جلدی سے حورم کو دیکھ کر دُرید سے بولی

ہماری بچی۔دُرید اُس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ کر اُس کا لفظ اچک کر بولا تو حریم بُری طرح سے سٹپٹائی تھی اُس کا کہاں عادت تھی دُرید کی ایسی والہانہ نظروں کی۔

ہماری اور تاب

اِس سے آگے ایک لفظ مت بولنا حریم ورنہ مجھ سے بُرا کو نہیں ہوگا۔حریم کجھ کہنے والی تھی جب دُرید ایک جست میں اس تک پہنچ کر وارن کرنے لگا۔

آپ سے بُرا کوئی اور ہے  بھی نہیں سکتا ہمیں آپ سے نکاح نہیں کرنا اِس لیے چلے جائے یہاں سے۔حریم رخ موڑ کر بولی

سوچ لو حریم اگر تم نے انکار کیا تو اُس صورت میں تم کبھی حورم کا چہرہ نہیں دیکھ نہیں پاؤں گی میں اُس کو تم سے دور لیکر جاوں گا۔دُرید سخت لہجے میں بولا تو حریم گردن موڑ کر بے یقین نظروں سے دُرید کو دیکھنے لگی جو اُس کے سامنے کھڑا اُس کی بیٹی کے بارے میں ایسے بول رہا تھا

آپ کا ایسا کوئی حق نہیں اور خبردار جو ایسا سوچا بھی تو۔حریم نے وارن کیا جب کی دُرید ایک نظر اُس پہ ڈال کر کاٹ میں لیٹی حورم کو اُٹھا کر بانہوں میں بھرا تو حریم کا دل خوف کے احساس سے دھڑک اُٹھا۔

دُر لا پلیز حورم مجھے واپس دے آپ ہمارے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟حریم نے دُرید کو حورم لیکر کمرے سے باہر جاتا دیکھا تو تیزی سے اُس کے راستے میں حائل ہوتی بولی۔

دُرید کے لب "دُر لا"لفظ پہ گہری مسکراہٹ میں ڈھلے میں تھے آج ایک عرصے بعد اُس نے اپنے لیے حریم سے یہ لفظ سن تھا جو اُس کو پرسکون کرگیا تھا اُس نے نرمی سے حورم کو بیڈ پہ لیٹا کر اُس کا ماتھا چوما  پھر حریم کے روبرو آیا جو سہمی ہوئی نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

اچھا لگا مجھے در لا سن کر پر اب تمہیں چاہیے دُر لا سے "لا" ہٹا کر بس "در"پہ آجاؤ اور میں ایسا کجھ نہیں کرنا چاہتا تھا تم بس نکاح کے لیے تیار ہوجاؤ۔دُرید نے نرمی سے اُس کو دیکھ کر کہا

ہم نہیں کرنا 

ٹھیک ہے پھر حورم کو بھول جاؤ میں اُس کو پال لوں گا جو میرے لیے مشکل نہیں کیونکہ تم بھی حورم جتنی تھی جب پُھپھو جان نے تمہارا وجود میرے حوالے کیا تھا تب تو میں چھوٹا تھا پھر بھی تمہارا خیال رکھ لیا کرتا تھا تو اب تو میرے لیے یہ بائے ہاتھ کا کھیل ہیں۔حریم دوبارہ سے انکار کرنے والی تھی جب دُرید حورم کو ایک بار پھر اُٹھانے کے لیے جُھکا

نہیں نہیں

پلیز نہیں

ہم کرینگے آپ سے نکاح بس آپ حورم کو ہم سے دور نہ کرے۔اُس سے پہلے دُرید حورم کو سچ میں لے جاتا حریم جلدی سے ایک سانس میں بولی تو دُرید کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ چھاگئ۔

ڈیٹس لائیک مائے گُڈ گرل تو جاؤ پھر تیار ہوجاؤ۔ دُرید شاپنگ بیگ اُس کو دے کر بولا

بہت بُرے ہیں آپ۔ حریم نے کہا

نکاح کے بعد تفصیل سے بتانا کتنا بُرا ہوں ابھی جلدی سے چینج کر آؤ۔دُرید اُس کا گال تھپتھپاکر بولا تو حریم اُس کا ہاتھ جھٹکتی واشروم میں جاکر تیز آواز میں دروازہ بند کرنا چاہا مگر اچانک حورم کا خیال آیا تو جی بھر کر اپنی بے بسی پہ رونا آیا اُس نے آہستہ آواز میں دروازہ بند کیا اور دروازے سے ٹیک لگاکر کھڑی ہوگئ تھی اُس کو ایک بار پھر دُرید بُرا لگنے لگا تھا کیونکہ آج دُرید نے اُس کی کمزوری پہ وار کیا تھا اُس کو ایسی توقع ہر ایک سے تھی مگر دُرید سے نہیں۔

ہم آپ کو اتنا تنگ کرینگے کے خود آپ ہمیں چھوڑ دینگے۔حریم خود سے اتنا کہتی چونکی پھر بولی

چھوڑینگے کیا وہ؟آج سے بہت پہلے اُنہوں نے چھوڑ دیا ہے۔حریم کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اُس کے رخسار بھگا گئے۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپی مجھے آپ کو کجھ بتانا تھا۔یمان فجر کو کال کرتا اُس سے بولا

ہاں کہو میں سن رہی ہوں۔فجر نے کہا

میں نے آپ کا رشتہ طے کردیا ہے۔یمان اتنا کہتا چپ ہوگیا۔

کیا طے کردیا ہے؟فجر ناسمجھی سے پوچھنے لگی اُس کو لگا شاید اُس نے غلط سن لیا ہو

میں آپ کی شادی کروانا چاہتا ہوں۔یمان نے کہا تو فجر کے ماتھے پہ بلوں کا جال بِچھ گیا۔

میری نہیں اپنی شادی کا سوچو اور تمہیں شرم نہیں آئی اپنی بڑی بہن سے اِس طرح کی بات کرتے ہوئے؟۔فجر نے ناگواری سے کہا اُس کو یمان کی بات بلکل پسند نہیں آئی تھی۔

آپ سے پہلے میری ہوگی تو یہ واقع شرم والی بات ہے کیونکہ بڑی تو آپ ہیں نہ۔یمان نے کہا

یمان میں مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔فجر نے اُس کو ٹوکا

میں بھی سنجیدہ ہوں آپی اور آپ کی شادی کا سوچ رہا ہوں آخر کب تک آپ اکیلے یامین کے ساتھ رہے گی۔یمان نے سنجیدگی سے کہا

اگر بہن کا اِتنا خیال ہے تو آجاؤ واپس کراچی۔فجر نے کہا

میں نہیں آسکتا آپ آجائے کیونکہ آپ کی شادی یہاں ہوگی۔یمان کی بات پہ وہ تپ اُٹھی۔

ہو کیا گیا ہے آج تمہیں؟جب میں کہہ رہی ہوں مجھے شادی نہیں کرنی تو کیوں ایک بات کو لیکر بیٹھ گئے ہو میری شادی کی عمر نہیں ہے میرا ایک سات سال کا بیٹا ہے اگر تمہیں یاد ہو تو یامین نام ہے اُس کا۔فجر نے اُس سے ایسے کہا جیسے سچ میں یمان سب کجھ بھول گیا ہو

آپ کی عمر کو کیا ہوا ہے اچھی خاصی جوان ہے آپ کے آگے ایک پوری زندگی ہے اور یامین کو ایک باپ کے پیار کی ضرورت ہے آپ کیوں ایک بچے کو باپ کی شفقت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں آپ کو اندازہ بھی نہیں باپ لفظ پہ وہ کتنا اُداس ہوجاتا ہے۔یمان نے اُس کو سمجھانا چاہا

میں نے یامین کو باپ کی شفقت سے محروم نہیں رکھا اللہ نے ارسم کو اپنے پاس بلاکر یامین کو باپ کی شفقت سے محروم رکھا ہے جب وہ پیدا ہوا تھا۔فجر کی آنکھیں بھیگی تھی۔

مایوسی والی باتیں مت کرے قسمت آپ کو موقع دے رہی ہیں تو اِس کو جانے نہ دے ارمان آپ سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ یامین کو بھی باپ کا پیار دے گا بس آپ حامی بھرلیں۔یمان کی آخری بات پہ فجر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ۔

اُس ارمان کی یہ مجال جو اُس نے میرے بارے میں ایسا سوچا شرم نہیں آئی اُس کو ایک بیوہ پہ نظر ڈالتے ہوئے جو ایک بچے کی بھی ماں ہے۔فجر کو ارمان پہ غصہ آیا

آپی اُس نے کوئی ناجائز بات تو نہیں کی عزت سے آپ کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے۔یمان پاس پڑے صوفے پہ بیٹھ کر اپنی پیشانی مسل کر بولا

اُس کو بتاؤ عمر میں اُس سے میں بڑی ہوں ایک بیوہ ہوں دوسرا ایک بچے کی ماں ہوں وہ شادی کے لیے کسی اپنے جیسی لڑکی کا سوچے جو اُس کی عمر اور غیر شادی شدہ ہو۔فجر نے کہا

آپ شادی سے مسئلہ کیا ہے؟یمان نے پوچھا

شادی ایک بار ہوتی ہے جو میری ہوچکی ہے اور میں دوسری نہیں کرنا چاہتی۔فجر نے کہا

شادی ایک بار نہیں ہوتی فلمی ڈائیلاگ نہ مارے۔یمان کی بات پہ فجر نے موبائیل اسکرین کو گھورا

تمہاری نظر میں کتنی شادیاں کی جاتی ہیں؟فجر نے طنزیہ کیا۔

آپی ضروری نہیں ایک شادی کامیاب نہ ہو تو دوسری شادی کرنا گُناہ ہے ایک طلاقِ یافتہ کو بھی دوسری شادی کرنے کا حق ہے اور ایک بیوہ کو بھی آپ پلیز میری بات مان لے اتنے سالوں بعد کجھ مانگ رہا ہوں۔یمان نے کہا

تمہاری ہر بات میں مان لوں گی مگر سوائے شادی کے۔فجر اتنا کہتی کال ڈراپ کرگئ۔

میری تو بچی کُچی زندگی آروش سے آپی اور آپی سے آروش کو منانے میں گُزرجانی ہیں مگر مجال ہے جو اِن کے کان میں جوں تک بھی رینگتی ہو۔یمان موبائیل اسکرین کو دیکھ کر تاسف سے بڑبڑایا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ حریم علی ولد فردین علی شاہ 'دُرید شاہ ولد شھباز شاہ  کو پچاس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

حریم اسکن کلر کے گھیرادر شلوار قمیض پہنے سر پہ لال چنڑی اوڑھے ایک بار پھر نکاح کے لیے خود کو تیار کیے ہوئے تھی جس میں نہ پہلے اُس کی رضامندی تھی اور نہ اِس بار وہ دل سے رضامند ہوئی تھی۔فرق صرف اتنا تھا کے پہلے اُس کی رضامندی جاننے دُرید شاہ آیا تھا تو اِس بار شازل شاہ آیا تھا پہلے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر آج اُس کی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں تھا پہلے عورتوں کا جم غفیرا تھا تو اِس بار صرف حویلی کے فرد موجود تھے۔

حریم بولو خاموش کیوں ہو؟آروش نے اُس کو کوئی جواب نہ دیتا پایا تو آہستہ آواز میں کہا

"سوچ لو حریم اگر تم نے انکار کیا تو اُس صورت میں تم کبھی حورم کا چہرہ نہیں دیکھ نہیں پاؤں گی میں اُس کو تم سے دور لیکر جاوں گا۔"

قبول ہے۔

وہ انکار کرنے کا سوچتی تو کانوں میں دُرید کے الفاظ گونجتے جس کو وہ چاہ کر بھی جھٹک نہیں سکتی تھی کیونکہ سوال اُس کی معصوم بیٹی کا تھا۔

آپ حریم علی ولد فردین علی شاہ 'دُرید شاہ ولد شھباز شاہ  کو پچاس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

قبول ہے!

ایک بار پھر پوچھا گیا تو اُس نے بنا کوئی اور بات سوچے قبول ہے کہہ دیا جس پہ سب کے چہرے پہ سکون ٹھیرا تھا۔

آپ حریم علی ولد فردین علی شاہ 'دُرید شاہ ولد شھباز شاہ  کو پچاس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

قبول ہے!

سپاٹ انداز میں تیسری بار بھی "قبول ہے"کہہ کر اُس نے جیسے اپنی جان چھڑائی۔

مبارک ہو۔ماہی اُس کو اپنے گلے سے لگاکر بولی۔

سائن۔شازل نے نکاح نامہ اُس کے سامنے کیا تو سائن کرتے وقت حریم کے ہاتھ کپکپائے ضرور تھے۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

مُبارک ہو لالہ بال سفید ہونے سے پہلے آپ کا نکاح ہوگیا۔شازل دُرید کے گلے لگتا شرارت سے بولا تو دُرید ہنس پڑا

خیر مُبارک۔دُرید نے جوابً کہا

غالباً آپ اپنی زوجہ کے پاس جانا چاہتے ہیں؟شازل نے شریر نظروں سے اُس کو دیکھا

غالباً نہیں یقیناً مگر اُس کے لیے تمہیں سائیڈ پہ ہونا پڑے گا۔دُرید اُس کو سائیڈ پہ کرتا بولا تو شازل ہنس پڑا

دُرید حریم کے کمرے میں آیا تو وہاں بس آروش اور ماہی بیٹھی ہوئی تھی اُس کے ساتھ باقی سب شاید چلے گئے تھے۔

ماہی اور آروش نے دُرید کو دیکھا تو خاموشی سے کمرے سے نکل گئ تو دُرید دروازہ بند کرتا حریم کی طرف متوجہ ہوا۔

نکاح مبارک ہو۔دُرید اُس کے پاس بیٹھ کر بولا

ہمیں آپ سے نکاح نہیں تھا کرنا۔حریم چیخ پڑی

آہستہ بات کرو پاس ہی بیٹھا ہوں تمہارے۔دُرید کان پہ ہاتھ رکھ کر اُس سے بولا

آپ آخر چاہتے کیا ہے؟حریم چنڑی اُتار کر اُس سے سوالیہ نظروں سے دیکھ کر بولی

جو میں چاہتا تھا وہ مجھے مل گیا۔دُرید اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر اُس کو دیکھ کر مسکراکر بولا

ہاتھ مت لگائے۔حریم نے اُس کا ہاتھ جھٹکتا تو دُرید کو بُرا تو بہت لگا مگر ضبط کرگیا۔

حورم کی چیزیں اور اپنی چیزیں پیک کرو کیونکہ اب تمہیں میرے کمرے میں ہونا ہے۔دُرید نے حکیمہ لہجے میں کہا

غور سے دیکھے ہم وہی ہیں جس کو آپ نے دھتکارا تھا جس کے گال پہ آپ نے تھپڑا مارا تھا جس کی محبت آپ نے اُس کے منہ پہ ماری تھی۔حریم بیڈ سے اُٹھتی دُرید کو یاد کروانے لگی۔

کیا تم یہ سب کجھ بھول نہیں سکتی؟دُرید اُس کے روبرو کھڑا ہوتا بولا

نہیں ہم نہیں بھول سکتے اور نہ آپ کو کبھی بھولنے دینگے۔حریم نم لہجے میں بولی۔

حریم۔دُرید اُس کو دونوں بازوں سے پکڑتا اپنے روبرو کھڑا کرنے لگا۔

چھوڑے ہمیں۔حریم نے تیز آواز میں کہا

میری طرف دیکھو۔دُرید اُس کو اپنے حصار میں لیتا اُس کا چہرہ اپنی طرح کرنے لگا جو بامشکل اُس کے سینے تک آرہی تھی۔

ہمیں نہیں دیکھنا آپ کی طرف اور نہ آپ کے کمرے میں رہنا ہے آپ نکاح کرنا چاہتے ہیں وہ ہوگیا اب بخش دے ہمیں اور ہماری بیٹی کو۔حریم رخ موڑ کر بولی دُرید کے اتنے پاس کھڑے ہونے پہ اُس کا پورا چہرہ لال ٹماٹر ہوگیا تھا جس کو  دُرید نے بہت غور سے دیکھا حریم کو اپنا آپ دُرید کے چوڑے وجود میں دبتا محسوس ہورہا تھا۔

تم مجھے عزیز ہو حریم اور اب تو تمہاری بیٹی تم سے زیادہ عزیز ہوگئ ہے۔دُرید نے اُس کے ہاتھ پہ بوسہ دے کر کہا تو حریم نے زور سے اپنی آنکھوں کو میچا

اگر آپ کو لگتا ہے ایسی حرکتیں کرکے آپ ہمیں بلیک میل کرسکتے ہیں ہم سے اپنی ہر بات منواسکتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے اگر اب آپ نے مزید یمیں دھمکی دی تو ہم حویلی سے چلے جائے گے۔حریم نے پہلی بار اُس کو دیکھ کر کہا

اچھا تو اب مجھے تم چھوڑ جانے کی دھمکی دو گی رہ لو گی میرے بنا؟دُرید اُس کی بات پہ محفوظ ہوا

ہم سنجیدہ ہیں۔حریم کو اُس کا یوں مسکرانا پسند نہیں آیا

یقین جانے ہم آپ سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔دُرید اُس کے انداز میں "ہم"لفظ یوز کرنا لگا تو حریم تپ اُٹھی وہ اُس کے سینے پہ تھپڑ مارنے لگی تھی مگر پھر جانے کیوں رُک گئ 

کیا ہوا؟دُرید نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا

آپ بہت بُرے ہیں۔حریم اتنا کہتی زور شور آواز میں رونے لگی تو اُس کے پل میں تولہ پل میں ماشہ والا روپ دیکھ کر دُرید حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا جو اچھی بھلی اُس سے لڑ رہی تھی اور اب ایسے رو رہی تھی جیسے اُس نے جانے کیا کردیا ہو۔

ہے حریم یار کیا ہوگیا؟ رو کیوں رہی ہو؟دُرید اُس کے آنسو صاف کرتا بولا

ہمیں آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔حریم نے سوں سوں کے درمیاں کہا

آپ کو ہمارے ساتھ ہی رہنا پڑے گا اب تو ہمارا نکاح ہوگیا ہے اگر آپ ہمارے ساتھ ایسا کرے گی تو اللہ آپ کو گُناہ دے گا۔دُرید اُس کا بچوں جیسا انداز دیکھ کر مسکراہٹ دبائے بولا

آپ ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں۔حریم اُس کو گھور کر بولی تو دُرید نے اُس کی نم پلکلوں پہ بوسہ دیا تھا تو حریم آج اُس کا ایسا روپ دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچی۔

آپ بہت بے شرم ہیں۔حریم اپنی حالت پہ قابو پاکر اُس کو بتانے لگی 

اچھا اور کجھ؟دُرید شرارت سے اُس کو دیکھنے لگا۔

میں آپ کو اپنی بیٹی کے پاس جانے نہیں دوں گی۔حریم نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا

میں اُس کا باپ ہوں وہ میری بیٹی ہے تم مجھے اُس سے دور نہیں کرسکتی۔دُرید آرام سے بولا

وہ آپ کی بیٹی نہیں ہے اُس کے باپ کو آپ نے

خاموش۔حریم کجھ کہنے والی تھی جب دُرید نے سختی سے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اُس کی آواز کا گلا گھونٹا تو حریم سہمی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی 

حورم میری بیٹی ہے میں اُس کا باپ ہوں یہ بات اپنے ذہن میں بیٹھالوں میں دوبارہ سے تمہارے منہ پہ کسی اور کا نام نا سنوں۔دُرید کا لہجہ اچانک پتھریلا ہوگیا تھا جس کو محسوس کرکے حریم کو اُس سے خوف آنے لگا اُس کا وجود ہلکا سا کانپنے لگا تھا۔

حریم؟دُرید نے اُس کو کانپتا دیکھا تو پریشان ہوا

ہمیں وحشت ہو رہی ہے آپ سے۔حریم اپنے قدم پیچھے کی جانب کِھسکاتی دُرید سے بولی تو وہ بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا جس کے چہرے پہ خوف کے تاثرات نمایاں تھے۔

حریم تم مجھ سے ڈر رہی ہو؟دُرید کا لہجہ ٹوٹ سا گیا تھا۔

آپ بھی تو مرد ہیں اور سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں آپ بھی اپنی طلب پوری کرنے کے بعد ہمیں چھوڑ دینگے۔حریم دیوار کے ساتھ لگتی سہمے ہوئے لہجے میں بولی

حریم تمہیں مجھ پہ یقین نہیں کیا میں تمہیں ایسا لگتا ہوں؟دُرید اُس کی طرف آتا پوچھنے لگا اُس کو حریم اپنے حواسوں میں نہیں لگی۔

ہمیں آپ کے ساتھ نہیں رہنا مجھے بس اپنی بیٹی کے ساتھ رہنا ہے۔حریم بار بار ایک لفظ دوہرانے لگی تو دُرید گہری سانس بھرتا اُس کو اپنے ساتھ لگا گیا۔

حریم رلیکس تمہیں اپنے دُرید پہ یقین کرنا چاہیے۔دُرید اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا پرسکون کرنے لگا۔

ہمیں آپ پہ یقین نہیں آپ نے ہمیں ایک حیوان کے حوالے کیا تھا۔حریم اُس کی قمیض کو سینے سے جکڑتی آہستہ آواز میں بولی

مجھ سے غلطی ہوگئ تھی پلیز معاف کردو۔دُرید نے شرمندگی سے کہا

ہم معاف نہیں کرے گے آپ کو کبھی بھی۔حریم نے بضد لہجے میں کہا تو دُرید نے زور سے اُس کو خود میں بھینچا

💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش اپنے اسلام آباد والے گھر پہنچ گئ تھی وہ اپنے کمرے میں آئی تو اُس کے کانوں میں دلاور خان کی کہی باتیں گونج رہی تھی۔

ہم سے ملی نہیں اور اپنے کمرے میں آگئ۔آروش اپنی سوچو میں گم تھی جب زوبیہ بیگم اُس کے کمرے میں آکر بولی

السلام علیکم سوری مجھے لگا آپ لوگ گھر پہ نہیں ہوگے۔آروش کھڑی ہوتی شرمندہ لہجے میں بولی

کوئی بات نہیں یہ بتاؤ حویلی میں سب کیسے ہیں؟زوبیہ بیگم نے مسکراکر پوچھا

سب ٹھیک ہے اور آج تو دُرید لالہ کا نکاح بھی ہوگیا خیر سے۔آروش نے مسکراکر پرجوش لہجے میں بتایا تو زوبیہ بھی مسکرا پڑی۔

اب تمہارا کیا خیال ہے؟زوبیہ بیگم نے کہا

کس بارے میں؟آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا۔

یمان کے بارے میں۔زوبیہ بیگم نے کہا تو آروش کے تاترات یکدم بدل سے گئے۔

میں نے یمان اور بابا کو بتادیا ہے اپنا ہے جواب۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

تم اِتنی پتھر دل لگتی تو نہیں پھر کیوں یمان کے معاملے میں اتنا سنگدلی کا مظاہرہ کررہی ہو کیا کجھ نہیں کیا اُس نے تمہارے لیے کم عمری میں تمہارے بھائیوں سے زخمی بنا ہارٹ اٹیک کا مریض بن گیا بائے پاس ہوتے ہوتے رہ گیا اب وہ ایک نئ بیماری کا شکار ہے تو تم کیوں اُس کو اتنا تڑپا رہی ہو آخر اُس کی غلطی کیا ہے؟اُس کے دل میں موجود جو تمہارے لیے محبت ہے وہ کیوں تم چاہتی ہو کے گُناہ بن جائے۔نور جو کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی تھی آروش کا جواب سُنا تو اُس پہ پھٹ پڑی۔

اُس کے ساتھ جو ہوا ہے اُس کی زمیدار میں نہیں ہوں۔آروش کے وضاحت کرنا چاہی۔

تم

نور ابھی کجھ کہنے والی تھی جب نجمہ بھاگ کر اُن کے پاس آتی بولی۔

او جی ارمان صاحب کی کال آئی تھی بتا رہے تھے کے یمان صاحب کی طبیعت خراب ہوگئ ہے ہسپتال لیکر گئے ہیں۔نجمہ کی بات پہ زوبیہ بیگم کا ہاتھ اپنے سینے پہ پڑا تھا جب کے آروش کے چہرے کی ہوائیاں اُڑگئ تھی۔

یااللہ خیر یمان صبح تک تو ٹھیک تھا۔زوبیہ بیگم حواس باختہ ہوتی کہہ کر آروش کے کمرے سے باہر نکلنے لگی۔آروش بھی پریشان ہوتی اُن کے پیچھے جانے لگی تھی جب نور نے اُس کا بازوں پکڑا

تم کہاں جارہی ہو؟نور نے پوچھا تو آروش کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا جواب دے

امی پ پر۔۔پریشان ہے۔آروش لڑکھڑاہٹ بھرے لہجے میں بولی

تو کجھ نہیں ہوتا آروش تم یہاں بیٹھ کر بس یمان کی بے بسی کا فائدہ اُٹھاؤ اُس کو مزید تڑپانے کا سوچو یا پھر اُس کے مرنے کی خبر کا انتظار کرو۔نور نے کہا تو آروش بس اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئ۔

یہ کیسی بات کررہی ہیں آپ؟میں کیوں اُس کے مرنے کا انتظار کرنے لگی۔آروش نے کہا

پھر تمہارے بار بار انکار کرنے کی وجہ کیا ہے؟کیوں بار بار یمان کو ریجیکٹ کرتی ہو؟نور نے سوال پہ سوال کیا

میں بس شادی نہیں کرنا چاہتی۔آروش نظریں چُرا کر بولی۔

سچ بتانا آروش کیا اتنے سالوں میں تمہارے دل میں کبھی بھی یمان کے لیے سوفٹ کارنر پیدا نہیں ہوا؟اُس کا بار بار اظہارِ محبت کرنا تمہارے لیے اُس کا پریشان ہونا تمہیں دیکھ کر اُس کے چہرے پہ مسکرائٹ آجاتی ہے کیا کبھی بھی تمہیں یمان پہ ترس نہیں آیا تمہاری جگہ اور کوئی لڑکی ہوتی تو وہ کبھی یمان کو اگنور نہ کرتی مگر بات یہ ہے کے وہ پاگل تمہیں چاہتا ہے تمہارا طلبگار ہے تمہارے در پہ سوالی بن کر آیا ہے اور ایک تم ہو جو وہ مرے یا جیے تمہیں اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اُس کو برین ٹیومر یو یا بلڈ کینسر تمہاری بلا سے بھاڑ میں جائے۔نور سنگدلی سے اُس کو دیکھ کر بولی تو آروش کو اپنا دل مٹھی میں جکڑتا محسوس ہوا۔

میں چاہتی ہوں وہ جیے میں نے کبھی اُس کا بُراق نہیں چاہا مجھے اُس کی جان عزیز ہے میں تبھی اُس کو خود سے دور رکھنا چاہتی ہوں میرا ساتھ اُس کو کجھ نہیں دے سکتا۔آروش لرزتے وجود کے ساتھ بولتی بیڈ پہ بیٹھتی چلی گئ جبکہ نور ناسمجھی اور تعجب سے اُس کو دیکھنے لگی جو اپنا سر ہاتھوں میں گراے بیٹھ گئ۔

میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھی۔نور نے کہا

میری بات کا کوئی مطلب تھا بھی نہیں آپ بس جائے یہاں سے۔آروش نے سپاٹ لہجے میں کہا

یمان کے ساتھ تم اچھا نہیں کررہی دیکھنا پچھتاؤ گی۔نور سنجیدہ لہجے میں کہہ کر وہاں سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ہم کہاں سوئے گے؟حریم نے بے دلی سے اپنا اور حورم کا سارا سامان دُرید کے کمرے میں شفٹ کرلیا تھا مگر جب رات کے پہر وہ حورم کے کاموں سے فارغ ہوئی تو بیڈ پہ ٹیک لگاکر بیٹھے دُرید سے مخاطب ہوئی جو کوئی کاغذات دیکھ رہا تھا۔

زوجہ محترمہ یہ بیڈ آپ کی نظریں کرم کو نظر نہیں آرہا؟دُرید کاغذات سے نظر ہٹاتا کشمش میں کھڑی حریم سے بولا

ہم حریم ہیں۔حریم جتایا

تو ہم نے کب کہا ہے حریم ہمارا نام ہے؟دُرید مصنوعی حیرانگی کا اظہار کرتا بولا

یہ آپ "ہم"لفظ کیوں استعمال کررہے ہیں؟حریم نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو گھورا

کیوں کیا ہم استعمال نہیں کرسکتے ؟دُرید نے سوال کے بدلے سوال کیا

آپ نے ہمیں زچ کرنے کے لیے نکاح کیا ہے؟حریم نے بھی سوال کے جواب دینے کے بجائے سوال کیا

سوجاؤ حریم نیند تمہارے دماغ پہ سوار ہوگئ ہے۔دُرید نے کہا

ہم یہاں نہیں سوئے گے۔حریم نے کہا

اگر تمہارا صوفے پہ سونے کا اِرادہ ہے یا تم سمجھ رہی ہو میں جاکر صوفے پہ سوؤ گا تو پلیز یہ اب گھسا پِٹا سین ہوگیا ہے بھول جاؤ اور آرام سے بیڈ پہ آکر سوجاؤ۔دُرید نے کہا

ہمیں اپنے کمرے میں جانا ہے۔حریم دوبارہ سے بضد ہوئی

ٹھیک ہے جاؤ مگر حورم یہی میرے پاس رہے گی۔دُرید نے پرسکون لہجے میں کہا۔

اب کیا آپ بات پہ بات ہمیں حورم کے واسطے بلیک میل کرینگے؟حریم نے پوچھا

بلکل بھی نہیں ضد تم کررہی ہو کیا تمہیں نہیں پتا شادی کے بعد ایک لڑکی کی کیا جگہ ہوتی ہے؟دُرید نے سنجیدگی سے کہا

ہم آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔حریم نے کہا

مگر اب تو ہوگئ نہ شادی۔دُرید نے کہا

ہم یہاں بیڈ پہ سو رہے ہیں مگر آپ یہ مت سمجھیے گا کے ہم آپ کی دھمکی سے ڈر گئے ہیں۔حریم بیڈ کی ایک سائیڈ پہ آکر بیٹھ کر دُرید سے بولی۔

جی جی ہمیں پتا ہے حریم دُرید شاہ کسی سے نہیں ڈرتی۔دُرید سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دے کر بولا تو حریم نے اِس بار کوئی جواب نہیں بس خاموشی سے سونے کے لیے لیٹ گئ۔

آپریش میں اب تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ڈاکٹر حمید نے سنجیدگی سے دلاور خان سے کہا

یمان ہوش میں ہیں؟دلاور خان اُن کی بات پہ پوچھنے لگے۔

ابھی آیا ہے مگر ایسے یمان کی یاداشت کا مسئلہ ہوجائے گا اب اگر مزید تاخیر ہوئی تو اور کیا پتا پھر آپریش بھی کام نہ آئے۔ڈاکٹر نے کہا

تو آپ کرے نہ انتظار کس چیز کا ہے۔زوبیہ بیگم نے کہا

پیشنٹ راضی ہے۔ڈاکٹر حمید نے کہا

میں بات کرتا ہوں یمان سے۔دلاور خان اُن سے کہتے یمان کی طرف جانے لگے جہاں اُس کو رکھا گیا تھا۔

یمان ضد چھوڑدو اور مان جاؤ کیونکہ اب تم جو وجہ بنا رہے ہو نہ وہ بھی تمہیں یاد نہیں آئے گی پوری طرح سے تمہارے حواسوں سے آروش نکل جائے گی۔دلاور خان نے اپنی طرف سے ایک کوشش کی تو یمان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔

مسکرا کیوں رہے ہو؟دلاور خان کو اِس وقت اِس حالت میں اُس کا مسکرانا پسند نہیں آیا

اُن سے تعلق دل کا ہے حواسوں سے نکل بھی جائے تو دل میں ہمیشہ رہے گی۔یمان کے جواب پہ دلاور خان بس اُس کو دیکھتے رہ گئے۔

تمہارا آپریش ہوگا اور اب بہت سن لی تمہاری پاگلوں والی باتیں۔دلاور خان نے سخت لہجہ اختیار کیا۔

نہیں بلکل بھی نہیں جب تک وہ مجھ سے نکاح نہیں کرلیتی میں آپریشن نہیں کرواؤں گا۔یمان تیز آواز میں کہنا چاہ رہا تھا مگر ایسے اپنے دماغ میں اُس کو ٹیسے اُٹھتی محسوس ہو رہی تھی۔

چہرہ دیکھو اپنا مرجھایا گیا ہے رنگت دیکھو اپنی جو پیلی ہوگئ ہے اور اِس حالت میں تمہیں نکاح کی سوجھ رہی ہے کجھ ہوش ہے تمہیں۔دلاور خان نے اُس کی ایک ہی رٹ سن کر زچ ہوئے۔

آپریشن میں میرے بچپنے کا چانسز مرنے سے کم ہیں اور مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگ رہا یہ برحق ہے مگر وہ کسی اور کی ہوجائے گی کہتے ہیں جو اِس دُنیا میں نہیں ملتے وہ اُس دُنیا میں مل جاتے ہیں تاعمر کے لیے پر ڈیڈ اُس دنیا میں ملنے کے لیے اِس دُنیا میں نکاح ہونا تو ضروری ہے نہ اگر نکاح ہوجائے گا تو میں سکون سے مرجاؤں گا پر ایسے نہیں مرنا چاہتا۔یمان بے بسی سے اُن سے بولا تو دلاور خان حق دق اُس کی باتیں سُنتے رہے جس کی سوچ جانے کہاں تک پہنچ گئ تھی۔

یمان تم پاگل ہو۔دلاور خان نے کہا

آپ اُن کو یہاں بلوادے۔یمان نے اُن کیا بات نظرانداز کی۔

وہ آگئ ہے۔ارمان کی آواز پہ چونک کر دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں عبایا پہنے آروش کھڑی تھی اُس کو دیکھ کر یمان کے چہرے پہ جہاں سکون اُترا تھا وہی اُس کی بھیگی آنکھوں نے اُس کو پریشانی میں مبتلا کیا تھا۔

میں آتا ہوں۔دلاور خان اُن دونوں کو وقت دینے کا سوچتے وہاں سے چلے گئے تو ارمان بھی اُن کے پیچھے چلاگیا۔اُن کے جانے کے بعد آروش آہستہ سے چلتی یمان کے پاس آئی۔

آپ روئی ہیں؟یمان نے فکرمندی سے دیکھا تو آروش نے اپنے چہرے سے نقاب اُتارا تو اُس کی سرخ ناک دیکھ کر یمان کی فکر میں اُضافہ ہوا اُس نے ایک بات شدت سے نوٹ کی تھی کے اب آروش اُس کے سامنے اپنا چہرہ نہیں ڈانپتی تھی شروع کے دن کے علاوہ وہ اب ایسے ہی اُس سے بات کرلیا کرتی تھی۔

آپریشن کے لیے مان جاؤ یمان۔آروش نے پہلی بار لب کُشائی کی۔

آپ نکاح کے لیے مان جائے۔یمان اُس کے ہی انداز میں بولا تو آروش نے نظریں اُٹھا کر اُس کو دیکھا جس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی آروش کو اُس دن والا یمان یاد آیا جب اُس نے کچن میں اُس کو دیکھا تھا تب کتنا مختلف تھا یمان اور آج کتنا مختلف لگ رہا تھا۔

تمہیں لگ رہا ہے میں کسی اور سے شادی کرلوں گی تو ایسا نہیں ہے میں نہیں کروں گی کسی سے بھی شادی تم بس آپریشن کے لیے رضامند ہوجاؤ۔آروش نے اُس کو سمجھانا چاہا

میری رضامندی آپ کی رضامندی سے جڑی ہے۔یمان کی بات پہ آروش نے بے بسی سے اُس کو دیکھا

ٹھیک ہے میں کرلیتی ہوں نکاح۔آروش نے ایک ہی منٹ میں فیصلہ کیا تو یمان نے بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا۔

کبھی اُن کا نام لینا کبھی اُن کی بات کرنا

میرا عشق اُن کی چاہت میرا شوق اُن پہ مرنا

آپ مذاق کررہی ہیں؟بہت دیر بعد یمان بس یہی بول پایا

نہیں بابا سائیں دُرید لالہ شازل لالہ آجائے اُس کے بعد جو تم چاہتے ہو وہ ہوگا۔آروش اتنا کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

آپ دل سے راضی ہیں نہ؟یمان نے اُس کو جاتا دیکھا تو پوچھا

تمہارے لیے نکاح کا ضروری ہونا چاہیے میری رضامندی کا نہیں۔آروش اُس کو جواب دیتی باہر نکل گئ۔

باہر آتے اُس نے سب کو اپنا فیصلہ سُنادیا تھا جس پہ سب کے چہروں پہ طمانیت چھاگئ تھی۔دلاور خان آروش کے کہنے پہ شھباز شاہ کو کال کرنے لگے اور ارمان اُن سب پہ ایک نظر ڈال کر الگ حصے میں آیا اور ایک نمبر ڈائل کیا

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے کال کرنے کی۔دوسری طرف فجر کال اُٹھاتے ہی اُس پہ برس پڑی۔

اسلام آباد کی پہلی فلائٹ بُک کرے خود بھی آئے اور اپنی بہن اور اپنے اُن کے بچوں کو بھی لائے۔ارمان مسکراہٹ دبائے بولا

کس خوشی میں؟فجر نے بیزاری سے پوچھا

آپ کے بھائی کا نکاح ہورہا ہے نکاح میں شرکت نہ سہی مبارک باد دینے آجائے۔ارمان نے کہا

یمان کا نکاح؟فجر بے یقین نہیں ہوئی۔

جی آجائے ایئرپورٹ پہ ریسیو کرنے کے لیے یہ بندہ بشر حاضر ہوگا۔ارمان نے مزے سے کہا

یمان کا نکاح ہوتا آج تو یہ بات وہ خود مجھے بتایا ابھی دو دن پہلے ہی میری اُس سے بات ہوئی تھی اُس نے کہا کے وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اور آج یہاں تم مجھے اُس کے نکاح کا بتارہے ہو۔فجر کو یقین نہ آیا

فلحال اُنہیں کسی چیز کا ہوش نہیں اِس لیے یہ خبر میں نے آپ کو سُنادی آپ اِسے غنیمت جانے اور آجائے پھر یہ شکوہ مت کیجئے گا کے کسی نے بتایا نہیں۔ارمان نے گہری سانس خارج کرکے بتایا۔

یمان ٹھیک تو ہے؟فجر پریشان ہوئی۔

جی وہ خود تو ٹھیک ہے بس کسی اور کو ٹھیک رہنے نہیں دیتے کہاں میں اپنے بچوں کے خواب دیکھ رہا تھا اور سر نے چپ کے چپ کے اپنے ٹانکے فِٹ کردیئے۔ارمان نے افسوس بھرے لہجے میں کہا

تمہیں تو میں وہاں آکر سیٹ کرتی ہوں۔فجر کو اچانک یاد آیا تو جل کر کہا

جلدی سے سیٹ کردے میں آپ کے انتظار میں ہوں۔ارمان بے خوفی سے بولا تو فجر تپ کے کال کٹ کرگئ۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

نکاح ہوجائے اب۔دلاور خان نے آروش سے کہا

بابا سائیں اور لالہ نہیں آئے وہ آجاتے پہلے تو اچھا تھا۔آروش نے بس یہ کہا

ان کے آنے میں ابھی وقت لگ جائے گا خیر سے ولیمہ ہوگا تو وہ ساتھ ہوگے۔دلاور خان اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولے تو آروش خاموش ہوگئ۔جس کو سب لوگ رضامندی جان کر خوش ہوئے۔دلاور خان نے ارمان سے امام صاحب کو یہاں آنے کا کہا آروش جو یمان کے وارڈ میں بیٹھی تھی زوبیہ بیگم نے اُس کے سر پہ لال ڈوپٹہ پہنا دیا۔یمان کی خوشی کا آج کوئی ٹِھکانا نہیں تھا آخر کار آج اُس کی خواہش پوری ہونے جارہی تھی جس کا اُس نے بہت عرصے سے انتظار کیا تھا۔کجھ ہی وقت میں امام صاحب گواہوں کے ساتھ آگئے تھے اور نکاح کے کلمات پڑھنا شروع ہوئے۔

آپ آروش خان ولد دلاور خان 'یمان مستقیم ولد مستقیم احمر کو ایک کڑور روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

عقل سے پیدل نہیں ہوں سمجھدار ہوں تبھی تو آپ کا انتظار کیا۔

قبول ہے۔

آروش نے آہستہ آواز میں اپنی رضامندی ظاہر کی تو یمان جو گردن موڑ کر اُس کو ہی دیکھ رہا تھا اُس کی ہلکی آواز سن کر مسکرادیا۔

آپ آروش خان ولد دلاور خان 'یمان مستقیم ولد مستقیم احمر کو ایک کڑور روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے۔

"کس کس چیز کا علاج کرواؤ دل کا جو آپ کو چاہتا ہے؟دماغ کا جو ایک سیکنڈ کے لیے بھی آپ کے خیالوں سے غافل نہیں ہوتا"؟

قبول ہے۔

اُس کے آس پاس یمان کے جُملوں کی بازگشت ہونے لگی جس پہ وہ اپنی آنکھوں کو بند کرتی امام صاحب کے دوسری بار پوچھنے پہ دوبارہ سے "قبول ہے"کہہ گئ۔

آپ آروش خان ولد دلاور خان 'یمان مستقیم ولد مستقیم احمر کو ایک کڑور روپے حق مہر سکہ رائج الوقت میں اپنے نکاح میں۔۔۔۔۔۔۔ قبول ہے

"مجھے پتا ہے آپ حیران ہو رہی ہوگی مگر مسلمان ہونے کی صورت میں اتنا مجھے بھی پتا ہے کے کسی نامحرم کو چھونا بہت بڑا گُناہ ہے اُس کا ہاتھ بھی نہیں پکڑنا چاہیے چاہے آپ میری محبت ہیں مگر مجھے آپ کا احترام ہے اللہ گواہ ہے میں نے کبھی آپ کو بُری نظر سے نہیں دیکھا اُس دن جو ایونٹ میں ہوا تھا وہ سب بے اختیاری میں ہوا تھا وگرنہ یقین جانے میں ایسا کجھ نہیں کرتا۔"

قبول ہے!

تیسری بار پہ بھی اُس نے قبول ہے کہہ دیا تو یمان نے پرسکون ہوکر اپنی آنکھون کو بند کرکے کھولا تھا آج اُس کی محبت پاکیزہ محبت میں بدل گئ تھی جس کو وہ چاہتا تھا وہ اُس کے ساتھ حلال رشتے میں جڑگئ تھی۔

امام صاحب نے پھر جب یمان سے پوچھا تو اُس نے بھی بے چینی سے قبول ہے کہہ دیا دلاور خان اور زوبیہ بیگم اُس کے چہرے کی رونق دیکھ کر خوشی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔

مبارک ہو۔نور آروش کو اپنے ساتھ لگائے خوشی سے بولی مگر آروش خاموش رہی۔

ناراض ہو؟میں جانتی ہوں میں نے تمہیں بہت کجھ کہہ دیا تھا پر تم ایک بات پہ ضد کرکے بیٹھ گئ تھی تو میں اور کیا کرتی۔نور نے اُس کو خاموش دیکھا تو کہا

میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔آروش نے بس یہ کہا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°

آپ سے کجھ بات کرنا چاہتا ہوں۔یمان نے آروش کو دیکھ کر مسکراکر کہا تو آروش اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کے پاس آتی اسٹول پہ بیٹھ گئ باقی سے باہر چلے گئے تھے اب بس وہ دونوں تھے۔

کیا بات؟آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔یمان نے بتایا

جانتی ہوں۔آروش تاسف سے اُس کو دیکھ کر بولی تو یمان ہنس پڑا

کیا میں آپ کا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں؟یمان نے اُس کو دیکھ کر اِجازت چاہی تو آروش نے خود ہی اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا

میں جانتا ہوں آپ خوش نہیں میں بہت بُرا لگتا ہوں آپ کو۔یمان اُس کے ہاتھ کی پشت سہلاتا کہنے لگا۔

ایسا نہیں ہے۔آروش کے منہ سے بے ساختہ پھسلا تو یمان نے سراُٹھا کر اُس کو دیکھا

پھر کیسا ہے آپ بتائے؟یمان نے بے چینی سے پوچھا۔

تم مجھے کالج لائیف سے ہی بُرے کبھی نہیں لگے تھے بس میں جس خاندان سے تعلق رکھتی تھی ایسے میں تمہارا میرے لیے ایسے میں جذبات رکھنا بہت بُرا لگتا تھا۔آروش نے کہا

ایک بات بتاؤ مجھے یقین نہیں آرہا کے اب آپ میری آپ پہ صرف میرا حق ہے اب کوئی آپ کو مجھ سے دور نہیں کرسکتا۔یمان نے محبت بھرے لہجے میں کہا

تم مجھے آپ کیوں کہتے ہو؟ تم کہہ کر بھی مخاطب کرسکتے ہو۔آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا تو یمان سوچ میں پڑگیا

پتا نہیں۔یمان بہت دیر سوچنے کے بعد بولا تو آروش نے اُس کو گھورا

آج تمہارا آپریشن ہوگا۔آروش نے بتایا

جانتا ہوں مگر میں اب پرسکون ہوں۔یمان نے جوابً کہا

کیا تمہیں میں کبھی بُری نہیں لگی میرا بار بار تمہیں یوں دھتکارنا چڑ نہیں دینے لگا؟آروش نے اُس کو دیکھ کر پوچھا جس کی نظریں اُس کے ہاتھ پہ تھیں

تکلیف ہوتی تھی یہاں۔یمان نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پہ رکھا تو آروش کجھ بولنے کے قابل نہ رہی۔

اگر میں بدصورت ہوتی تو؟آروش نے اُس کی والہانہ نظروں سے بچپنے کے لیے دوسرا سوال کیا

تو بھی میں آپ سے ایسی محبت کرتا کیونکہ مجھے آپ کے چہرے سے محبت نہیں ہوئی تھی آپ کی پاکیزگی آپ کی حیا آپ کے گریز سے محبت ہوئی تھی جہاں سب لڑکیاں خود کو خوبصورت دیکھانے کے لیے مہنگے کپڑے پہنا کرتی تھی وہاں آپ ہر وقت عبایا اور حجاب نقاب میں رہتی تھی مجھے آپ کی یہ چیزیں بہت اٹریکٹ کرتی تھی میں چاہ کر بھی خود کو آپ سے محبت کرنے پہ روک نہیں پایا تھا۔یمان نے جواب دیا

تم پاگل ہو۔آروش کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہے

اگر بچ جاؤں تو آپ ٹھیک کرلینا۔یمان نے مسکراکر کہا

ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو؟آروش کا دل دھڑکا تھا یمان کی بات پہ

خوبصورت لمحات چند پل کے لیے ہوتے ہیں نہ۔یمان نے کہا

میری نماز کا وقت ہوگیا ہے۔آروش اتنا کہتی اُٹھ کر جانے لگی مگر یمان نے اُس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت مضبوط کی۔

کاش آپ سرجن ہوتی۔اُس کو دیکھ کر یمان نے حسرت بھرے لہجے میں کہا

سرجن ہوتی تو؟آروش کو اُس کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا

تو آج آپ میرا علاج کرتی۔یمان نے دل کی بات بیان کی۔

تم بچوں جیسی باتیں کیوں کررہے ہو؟آروش کو اب پریشانی ہونے لگی

کہیں پڑھا تھا مرد اپنی من پسند عورت کے سامنے بچہ بن جاتا ہے شاید یہ وجہ ہو۔یمان کندھے اُچکاکر بولا

اچھا تصور کروگے تو اچھا ہوگا۔آروش دوبارہ سے اُس کے پاس بیٹھ کر بولی

ُآپ ساتھ ہوگی تو یقیناً اچھا ہوگا۔یمان اُٹھ کر تھوڑا اُس کے قریب ہوا

میں جاؤں؟آروش ایک نظر اُس کو دیکھ کر اِجازت چاہی تو یمان دیر تک ہنستا رہا آروش کو اُس کا ہنسنا بُرا نہیں لگ رہا تھا وہ غور سے قریب سے اُس کے ڈمپل دیکھنے لگی۔

آپ مجھ سے اِجازت لے رہی ہیں؟سمجھ نہیں آرہا میں کیسا ری ایکشن دوں۔یمان اپنی ہنسی ضبط کرتا بولا

اوور ہونے کی ضرورت نہیں۔آروش نے ٹوکا

ہاں اب لگی نہ آپ کھڑوس سی آروش۔یمان نے اُس کی آنکھوں میں غصہ دیکھا تو کہا

تمہیں میں کھڑوس لگتی ہوں؟آروش کا حیرت سے منہ کُھل گیا

صرف کھڑوس کیا سنگدل بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے آپ نے میرے معاملے میں۔یمان نے مزید کہا

تو تم نے بھی تو اپنی ضد منوالی نہ۔آروش نے منہ کے زاویئے بگاڑے 

میں نے اپنی ضد نہیں منوائی میں نے بس اپنی محبت پائی ہے۔یمان نے خوشی خوشی جواب دیا۔

ہاتھ چھوڑو مجھے اب باہر جانا ہے اور تمہیں یاد کروادوں یہ ہوسپٹل ہے۔آروش نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے چھڑوانا چاہا مگر یمان کی گرفت مضبوط تھی۔

ہممم کافی ایڈوینچر بھرے انداز میں ہمارا نکاح بھی ہاسپٹل میں ہوا ہے۔یمان نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر کہا

ہاتھ چھوڑو۔آروش نے اُس کو آنکھیں دیکھائی

دل نہیں چاہ رہا بڑی مشکل سے تو میرے ہاتھ میں آپ کا ہاتھ آیا ہے۔یمان نے کہا 

مجھے نماز پڑھنی ہے۔آروش نے بہانا تراشا

عِشا کی نماز میں وقت ہے۔یمان نے اُس کا بہانا ٹال دیا

مجھے تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا ہی نہیں چاہیے تھا۔آروش بُری طرح سے زچ ہوئی کیونکہ یمان کی پکڑ اُس کے ہاتھ پہ مضبوط تھی۔

ہاتھ کیا اب تو آپ پوری خود کو مجھے سونپ چُکی ہیں۔یمان نے آنکھ وِنک کیے کہا تو آروش سرتا پیر سرخ ہوئی۔

بہت ڈھیٹ انسان ہو۔آروش تھک ہار کر اپنی کوشش کو ترک کر اُس سے کہا

ایک بات بتائے سچی سچی پھر میں آپ کا ہاتھ آج کے لیے چھوڑ دوں گا۔یمان کو اُس پہ ترس آیا

کونسی بات؟آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھا

ہم کالج میں ڈیڑ سال تک رہے تو کیا اِس وقت میں ایک دن یا ایک پل کے لیے میں آپ کو اچھا نہیں لگا میری سوچے آپ کے دماغ میں حاوی نہیں ہوئی کیا میری سوچے میری محبت کی طرح یکطرفہ تھی؟یمان اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تو آروش کا دل پوری شدت سے دھڑکا تھا وہ اب اُس کو کیا بتاتی وہ کبھی اُس کی سوچو سے غافل نہیں ہوئی تھی وہ ناچاہنے کے باوجود بھی اُس کو سوچتی رہتی تھی۔

می

سچ بتائیے گا۔آروش نے کجھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے جب یمان بیچ میں بول پڑا

جب تم کالج کے کیفے ۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔میں گانا گارہے تھے تب ۔۔۔۔مجھے تم اچھے لگے۔۔۔تھے۔۔۔مگ۔۔مگر یہ میرے ۔۔۔۔۔لیے غلط۔۔۔تھا۔۔۔۔تمہاری آواز۔۔۔مجھے بہت اچھی۔۔۔۔لگی تھی۔۔۔۔۔تمہیں یاد ہو یا۔۔ نا ہو۔۔۔میں۔۔۔نے ایک۔۔۔۔چِٹ۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔لکھی۔تھی۔۔۔۔۔جو۔ ۔۔میں لکھنا نہیں چاہتی وہ۔ ۔۔۔میرا۔ ۔۔خودساختہ۔ ،۔عمل تھا جو میں کرنا نہیں۔ ۔۔۔۔۔چاہتی تھی مگر۔ ۔۔۔۔ہوگیا۔ ۔۔تھا تمہاری آواز۔ ۔۔۔۔نے مجھے۔۔۔۔۔۔جکڑا۔۔۔۔۔تھا۔ ۔۔اُس دن۔ ۔۔میں پہلی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بار کمزور۔ ۔۔۔۔،۔پڑی۔ ۔۔۔۔۔تھی۔ ایسا۔ ۔۔پہلی بار۔ ۔ہوا تھا۔ ۔۔میں نے خود کو بہت۔ ۔بار زرنش بھی کی تھی۔ ۔آروش لڑکھڑاہٹ بھرے لہجے میں آہستہ آہستہ اُس کو بتانے لگی تو یمان سانس لینا تک بھول چُکا تھا۔

میں آپ کے قریب آنا چاہتا ہوں۔یمان یک ٹک اُس کا چہرہ دیکھ کر بولا تو آروش کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی مگر اُس سے پہلے وہ بات کا مطلب پوچھتی یمان آگے بھر کر اُس کو اپنے حصار میں لیکر سینے سے لگایا تھا آروش کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی دل کے دھڑکنے کی آواز کانوں میں صاف گونجتی محسوس ہورہی تھی بے اختیاری میں اُس نے یمان کی پشت پہ اپنے بازوؤں کا حصار قائم کیا تھا

ہر کسی کے نام پہ نہیں گونجتی،

دھڑکنیں بڑی بااصول ہوتی ہیں

آپ اُس چٹ کے بارے میں پوچھ رہی تھیں کے مجھے یاد ہے یا نہیں وہ تو میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں آپ سے جڑی کوئی بھی بات میں کیسے بھول سکتا ہوں۔یمان اُس سے الگ ہوتا اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر بولا

میرا ساتھ تمہیں کجھ نہیں دے سکتا۔آروش نے نظریں جُھکائے کہا

مجھے آپ مل چُکی ہیں میرے لیے وہ ہی بڑی بات ہے اب مجھے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہے۔یمان مسکراکر بولا

جانے کتنے پاگل فوت ہوئے ہوگے جو تم پیدا ہوئے تھے۔آروش اُس کی بات پہ کہے بنا نہ رہ پائی۔

آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کے جانے کتنے عاشق فوت ہوئے ہوگے جو میں پیدا ہو۔یمان اُس کو دیکھ کر شرارت سے بولا تو اِس بار آروش بھی مسکرادی۔

اچھا اب مجھے جانے دو۔آروش نے کہا

میرا دل نہیں چاہ رہا ابھی تو آپ ملی ہے ابھی تو ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں ہوئی مجھے بہت ساری باتیں کرنی ہیں آپ سے۔یمان نے کہا

پھر ہوتی رہیں گی ابھی سب باہر بیٹھے لوگ جانے کیا سوچے گے۔آروش نے اُس کو سمجھانا چاہا۔

کیا گارنٹی ہے کے یہ باتیں بعد میں ہوگی۔یمان اُس مسکراہٹ سے بولا

ایسی باتیں مت کرو یمان۔آروش کو بُرا لگا۔

میں آپریشن نہیں کروانا چاہتا آپریشن سے آج مروں گا آپریشن نہیں کرواؤں گا تو کل مروں گا اچھا ہے نہ کے آج سے بہتر کل مروں۔یمان کی باتیں آروش کا دل دھڑکا رہی تھیں۔

اب تم تھپڑ کھاؤ گے میرے ہاتھ سے۔آروش نے ڈپٹ کر کہا

مارے۔یمان نے اپنا گال اُس کے سامنے کیا تو آروش ہلکہ سا تھپڑ رسید کرتی اُس کے سینے سے لگ گئ اُس کی حرکت پہ یمان گہری مسکراہٹ سے اُس کے گرد اپنا حصار قائم کیا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ دیر بعد!

یمان کا آپریشن شروع ہوچکا تھا سب لوگ دعا مانگنے میں محو تھے جبکہ آروش ہسپتال کے پرے روم میں نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔

خان یہ تم نے کس کے ساتھ آروش کا رشتہ کیا ہے اور وہ بھی یہاں؟شھباز شاہ جیسے ہی ہسپتال پہنچے دلاور خان کے روبرو کھڑے ہوکر بولے دُرید اور شازل بھی سنجیدہ نظروں سے اُن کو دیکھ رہے تھے۔

نکاح ہوگیا ہے خیر سے۔دلاور خان نے گہری سانس بھر کر بتایا

واٹ نکاح؟ایسے کیسے آپ آرو کا نکاح ایرے غیرے سے کرسکتے ہیں ہمارے آنے کا آپ کو انتظار کرنا چاہیے تھا۔دلاور خان کی بات پہ شازل بھڑک اُٹھا

آپ کو بتایا کیا وہ کم تھا آروش ہمارے گھر کی بیٹی تھی پورا اختیار تھا ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا۔نور شازل کی بات پہ بولی

پچیس سال بعد آپ کو اپنے اختیارات یاد آئے اُس سے پہلے کہاں سوئے ہوئے تھے آپ کے اختیارات سوری ٹو سے آپ ہم مردوں کے درمیان نہ بولے تو اچھا ہوگا ورنہ کسی کا لحاظ کرنے کا عادی سید شازل شاہ بھی نہیں آپ عورت ہیں تبھی آپ کو وارننگ دے رہا ہوں میں نہیں چاہتا اپنی تربیت کے خلاف کوئی عمل کرو جو میرے اخلاق کو گراں گُزرے۔۔شازل نے ایک ہی منٹ میں نور کی بولتی بند کی تو وہ اپنی جگہ پہلو بدلتی رہ گئ۔

آپ لڑکے سے ملینگے تو خود تسلی ہوجائے گی۔دلاور خان نے نرمی سے کہا

آروش کہاں ہیں اور وہ لڑکا کہاں ہیں؟اِس بار دُرید نے پوچھا

آروش پرے روم میں ہیں جبکہ یمان کا آپریشن ہورہا ہے۔دلاور خان نظریں چُراکر بولے

آپریشن؟کس چیز کا آپریشن یہ کس مریض کے ساتھ آپ نے آروش کا رشتہ کیا ہے؟شازل حیرت سے اُن کو دیکھنے لگا۔

وہ مریض نہیں ہے اِس لیے ایسا لفظ اُس کے لیے استعمال مت کرو۔زوبیہ بیگم جو اب تک خاموش تھی یمان کے لیے ایسا لفظ سن کر مزید خاموش نہ رہ پائی۔

آنٹی پھر میں کیا کہوں؟شازل نے کہا

تم دونوں آروش کے بھائی ہو تو یقیناً آج سے سات آٹھ سال پہلے یمان پہ حملہ بھی تم دونوں نے کیا ہوگا دیکھنے میں تو شریف لگتے ہیں مگر اپنے عمل سے بےحسی کی ساری حدود پار کردی تھی۔نور کو اچانک یاد آیا تو مداخلت کرتے ہوئے کہا تو جہاں دُرید اور شازل کے ماتھے پہ ناسمجھی کے بل نمایاں ہوئے وہی شھباز شاہ کے تاثرات یکدم تن سے گئے تھے۔

میرے خیال سے آپ  اپنے دماغ کا آپریشن کروائے۔شازل کو نور سے چڑ ہونے لگی۔

لڑکیوں سے بات کرنے کی تھمیز نہیں تمہیں؟نور نے طنزیہ کہا

آپ کو تھمیز نہیں کے جب دو تین چار بڑے لوگ بات کررہے ہو تو درمیان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔شازل دوبدو بولا

یہ ہوسپٹل ہے۔ارمان جو خاموشی سے لائیو شو ملاحظہ فرمارہا تھا اُن کی آواز تیز ہوتی محسوس کی تو یاد کروایا

ہم تو مچھی مارکیٹ سمجھ بیٹھے تھے۔شازل اُس کی بات پہ طنزیہ بولا

جی تبھی تو بتایا یہ ہاسٹل ہے مچھی مارکیٹ نہیں.ارمان کہاں پیچھے رہنے والا تھا

تم

اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو میں شاہ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔شازل ارمان کو کوئی جواب دینے والا تھا جب دلاور خان نے کہا

میں بھی سننا چاہوں گا کیونکہ معاملہ ہماری بہن ہے ہم ایسے کسی پہ اعتبار نہیں کرسکتے۔دُرید مضبوط لہجے میں گویا ہوا۔

تم دونوں یہی رہو۔شھباز شاہ شاید اُن کی بات جان گئے تھے تبھی دونوں سے کہا کیونکہ وہ جس بات کو اتنے سالوں سے دفن کیے ہوئے تھے نہیں چاہتے تھے کے باہر آئے وہ تو ابھی تو نور کی بات پہ حیران تھے کے کیا وہ لڑکا زندہ تھا؟اُن کے خیال سے مرچُکا ہوگا اور یہ کیسا اتفاق تھا جو آروش کا اُس کے ساتھ نکاح بھی ہوگیا تھا۔

بابا سائیں میں تو پوری تسلی کے بعد رخصتی دوں گا آرو کی۔شازل بضد تھا۔

کیوں کباب میں ہڈی والا تھا کام کررہے ہیں اللہ اللہ کرکے تو سر کی شادی ہوئی ہے۔ارمان شازل کی بات سن کر منہ بنا کر بولا جیسے اُس کو شازل کی بات خاص پسند نہیں آئی تھی۔

تم میرے منہ مت لگو۔شازل نے اُس کو گھورا

میں بھلا اتنا دور کھڑا آپ کے منہ کیسے لگوں گا ویسے بھی کونسا آپ میری بیوی ہیں۔ارمان نے حد ہی پار کردی جس پہ نور اور زوبیہ بیگم کے ساتھ ساتھ دلاور خان نے بھی اُس کو گھورا تھا۔

میں باہر انتظار کررہا ہوں۔دلاور خان اتنے کہتے وہاں سے چلے گئے۔

چلو۔دُرید نے شازل سے کہا جو ایک جگہ پہ کھڑا ہوگیا تھا۔

میں پہلے آرو کو دیکھ لوں پھر آتا ہوں۔شازل نے کہا تو دُرید نے سراثبات میں ہلایا جبکہ شازل نے اپنے قدم پرے روم کی طرف بڑھائے۔

شازل پرے روم میں آیا تو آروش کو محویت سے نماز ادا کرتا دیکھا جو اُس کے لیے حیرانکن تھا کیونکہ نماز کا وقت ختم ہوگیا تھا پھر آروش جانے کونسی نماز ادا کررہی تھی۔شازل چلتا ہوا آروش کے پاس بیٹھا تو آروش سلام کرنے کے بعد کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو گردن موڑ کر دیکھا جہاں شازل کو بیٹھا پایا

لالہ۔اچانک شازل کو دیکھ کر آروش نے اُس کو پُکارا جو خاموشی سے بس اُس کی بھیگی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔

مجھے پتا تھا تم اِس نکاح سے خوش نہیں ہوگی میں کرتا ہوں بابا سائیں سے بات اور دیکھتا ہوں کون میری بات سے انحراف کرتا ہے وہ دلاور خان اگر تمہارا اصل باپ ہے تو ہم بھی کسی گنتی میں آتے ہیں تمہیں رونے کی یا کسی بات کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں تمہارا لالہ ابھی زندہ ہے۔شازل اُس کی آنکھوں کو دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں بولا تو آروش حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی۔

لالہ کیا ہوا ہے؟ایسی کوئی بات نہیں میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا ہے۔آروش نے آہستگی سے کہا

واٹ؟ آرو تم نے جان بوجھ کر دریا میں چھلانگ لگائی مجھے تم سے ایسی کسی بے وقوفی کی توقع نہیں تھی نجانے اُس لڑکے کا کس لیے آپریشن 

برین ٹیومر ہے اُسے۔شازل ابھی کجھ کہنے والا تھا جب آروش نے بتایا

Brain toumar?Aro you gone a mad?

شازل کو اب اُس پہ غصہ آیا۔

آپ کجھ نہیں جانتے لالہ یہ نکاح ضروری تھا اُس کی زندگی کے لیے۔آروش نے کسی مجرم کی طرح بتایا

ہاں اُس کی زندگی کے لیے ضروری تھا تمہاری زندگی چاہے تباہ و برباد ہو۔شازل نے اُس کو جھڑکا۔

آپ ایسے بات کیوں کررہے؟آروش کو بُرا لگا۔

تو کیا اکیس توپوں کی سلامی پیش کروں ایک تو تمہاری پہلے شادی نہیں ہورہی تھی تم راضی نہیں ہوئی تھی اور اب راضی پہ کس کے لیے ہو جو ایک بیمار شخص ہے جس کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔شازل نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا

وہ بیمار شخص نہیں ہے لالہ اور کسی بھی انسان کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

تم اُس انسان کے لیے مجھ سے بحث کررہی ہو؟مجھے دلیلیں پیش کررہی ہو اپنے لالہ کو؟شازل بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

میں نے بس ایک بات کہی لالہ آپریشن اگر کامیاب ہوگیا تو وہ بلکل ٹھیک ہوجائے گا۔آروش نے بتایا

اگر آپریشن کامیاب نہ ہوا تو؟شازل نے پوچھا

ایسی بات کیوں کررہے ہیں؟آروش کا دل خوف سے دھڑکا

تو پھر کیسی بات کروں؟شازل نے پوچھا

مجھے نوافل ادا کرنے ہیں۔آروش نے کہا

ٹھیک کرو تم نوافل ادا مگر بھول ہے تمہاری کے وہ انسان کبھی ٹھیک ہوگا برین ٹیومر کوئی عام بات نہیں۔شازل سنجیدگی سے کہہ کر اُٹھ کر چلاگیا تھا پیچھے آروش کو اپنا وجود زلزلے کی زد میں آتا محسوس ہوا

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ کے کہنے کا مطلب میری بہن اُس شخص کو پہلے سے جانتی ہیں؟دلاور خان نے شروع سے لیکر اب تک ساری بات دونوں کے گوش گُزار کی تو شھباز خاموش ہوگئے تھے وہی دُرید بے یقین لہجے میں بولا

کیا تمہیں نہیں پتا یہ بات تو بہت پُرانی ہیں۔دلاور خان نے اُلٹا اُس سے سوال داغا تو دُرید شھباز شاہ کو دیکھنے لگا۔

آپ اتنی بڑی بات کیسے چُھپاسکتے ہیں بابا سائیں؟دُرید سنجیدگی سے شھباز شاہ سے بولے

پُرانی باتیں ہیں دفع کرو میں خود اُس لڑکے سے کبھی نہیں ملا تھا یہ سارا کا سارا کجھ دلدار اور دیدار کا کیا دھڑا ہے۔شھباز شاہ نے کہا

آپ کے حکم کے بغیر وہ کجھ نہیں کرتے۔دُرید کو یقین نہ آیا

اماں سائیں کا حکم تھا انہیں میں خود لاعلم رہتا اگر مجھے اپنے خاص آدمی ساری ماجرہ سے آگاہ نہ کرتے تو۔شھباز شاہ بس یہ بولے

اب سمجھا میں آروش کے بدل جانے کی وجہ۔دُرید گہری سوچ میں ڈوب کر بولا تو شھباز شاہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہم ہسپتال کیوں آئے؟ارمان فجر اور عیشا کو ہسپتال لایا تو فجر نے ڈر کر پوچھا۔

میں نے آپ کو پہلے نہیں بتایا تھا آپ پریشان ہوجاتی سر کا آج آپریشن ہیں۔ارمان یامین کو گود میں اُٹھاتا سنجیدگی سے بتانے لگا۔

آپریشن کس چیز کا یمان ٹھیک تو ہے؟عیشا پریشانی سے پوچھنے لگی۔

اُن کو برین ٹیومر ہے۔ارمان نے جیسے اُن کے سر پہ دھماکا کیا۔

یہ۔۔۔کیا۔۔۔بکواس ہے؟فجر کی زبان لڑکھڑاسی گئ

یہ حقیقت ہے آج اُن کا آپریشن ہیں جس کے لیے وہ بہت مشکل سے مانے ہیں آپ بس اُن کے لیے دعا کرے کے جب ہسپتال کے اندر جائے تو کوئی اچھی خبر ہماری منتظر ہو۔ارمان کا لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔

میرا دل گھبرا رہا ہے۔عیشا کا وجود خود کی وجہ سے لرزنے لگا تھا مگر فجر میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ کجھ کہتی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

یمان کیسا ہے؟ان لوگوں نے جیسے ہی اتنے وقت بعد وارڈ سے ڈاکٹر کو باہر نکلتا دیکھا تو سب لوگ بے چینی سے اُن کی طرف بڑھ کر پوچھنے لگی فجر اور عیشا کا حال سب سے زیادہ بُرا تھا یامین اپنی ماں کو ایسے روتا دیکھ کر خود بھی سہم کر ارمان کے پیچھے چُھپ گیا تھا۔

آپریشن کامیاب ہوا یمان ٹوٹلی فائن ناؤ۔ڈاکٹر حمید نے جیسے اُن سب پہ نئ زندگی کی پھونک ماری۔

یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر۔زوبیہ بیگم نے بے ساختہ اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔

عیشا فجر کے لگی تھی۔

صدقہ ضرور دیجئے گا یمان کا اُس کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ڈاکٹر حمید دلاور خان کے کندھا تھپتھپاکر بولے جن کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو تھے۔

ہم اُس لڑکے سے کب مل سکتے ہیں؟شازل جمائی لیتا اُن سے استفسار ہوا

یہ کون ہے؟عیشا نے آہستہ آواز میں فجر سے پوچھا جو غور سے شازل اور دُرید کو دیکھ رہی تھی جبکہ شھباز شاہ وہاں موجود نہیں تھے۔

پتا نہیں۔فجر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

ابھی نہیں کجھ دیر بعد۔ڈاکٹر نے بتایا

چلو فجر نماز کا وقت ہونے والا ہے۔دُرید اپنی مردانہ شال کندھوں پہ ٹھیک کرتا شازل سے بولا تو اُس نے اپنا سرہلایا۔

میں آروش کو سُناؤں آؤں یہ خوشخبری۔نور پرجوش آواز میں کہتی پرے روم کی طرف بھری کیونکہ آروش اب تک وہاں سے نہیں نکلی تھی۔

آروش نام تو۔۔عیشا فجر کو اتنا کہتی خاموش ہوگئ تھی۔

صرف ایک کا نام نہیں ہوتا تم بس یمان کا سوچو۔فجر اُس کی آدھی بات کا مطلب سمجھتی سرجھٹک کر بولی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

آروش

آروش مُبارک ہو آپریشن کامیاب ہوگیا۔نور سجدے میں گِری مسکراکر آروش کو بتایا تو اُس نے اپنا سراُٹھایا

سچ میں؟آروش نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا

ہاں۔نور مسکراکر کہتی اُس کے گلے لگی تھی جبکہ آروش کا وجود سن ہوگیا تھا اُس کے کانوں میں بار بار ماضی میں سُنے گئے جُملے گونج رہے تھے۔

"کلثوم بھابھی اپنی بیٹی کے لچھن دیکھے دو دفع بارات آتے آتے نہیں آئی اِس کی تیسری دفع دولہا عین نکاح کے وقت مرگیا پھر کس چیز کی اکڑ ہے اِس کو"

"شوہر ہونے دیتی کہاں ہو تمہارے سبز قدم نگل جاتے ہیں"

وہ کہاں ہیں؟

جب وہ سب باری باری یمان سے ملنے آئے تو یمان نے چھوٹتے ہی یہ سوال کیا تھا اُس کے لہجے میں بے چینی صاف چھلک رہی تھی۔

"اُس کے بھائی وغیرہ آئے تو اُن کے ساتھ ہے تم یہ بتاؤ کیسا محسوس کررہے ہو؟زوبیہ بیگم نے مسکراکر بتانے کے بعد پوچھا

"کیا اُن کو پتا ہے آپریشن کا اور مجھے ہوش آگیا ہے تو اُن کو یہاں آنا چاہیے تھا۔یمان نے جیسے اُن کی بات سُنی ہی نہیں تھی۔

"تو کیا ہوا آجائے گی تمہیں پتا ہے فجر اور عیشا دونوں آئی ہیں رو رو کر اُن کا بُرا حال ہوگیا ہے ناراض بھی ہیں شاید تم سے تم نے اُن کو اتنی بڑی بات جو نہیں بتائی شاید اِس وجہ سے ملنے بھی نہیں آئی۔زوبیہ بیگم نے اُس کی توجہ دوسری جانب گامزن کروانی چاہی

"میں اُن کو منالوں گا آپ یہ بتائے کیا وہ بھی مجھ سے ناراض ہیں اگر ہاں تو کیوں؟یمان نے بے چینی سے پوچھا تو زوبیہ بیگم نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔

"تم روکو میں اُس کو کہتی ہوں تمہارے پاس اور پلیز یمان اپنے دماغ میں زیادہ دباؤ مت ڈالو۔زوبیہ بیگم نے ملتجی لہجے میں کہا" تو یمان نے محض سر کو خم دیا اُس کو بس بے چینی اور شدت سے آروش کو دیکھنے کی چاہ ہورہی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

تم یہاں کیوں کھڑی ہو یمان کے پاس جاؤ اُس کو ضرورت ہے تمہاری۔دلاور خان نے آروش سے کہا جو ویٹنگ ایریا میں موجود تھی آروش کی تلاش میں زوبیہ بیگم بھی وہاں آگئ تھی۔

"آپ لوگوں کو یمان کی جان چاہیے تھی جس کی شرط میرا اور اُس کا نکاح تھا جو ہوگیا اب مجھ سے کسی اور بات کی توقع مت کیجئے۔آروش جس انداز میں بولی تھی زوبیہ بیگم اور دلاور خان حیران سے اُس کو دیکھنے لگا۔

اِس بات سے کیا مطلب ہوا تمہارا؟زوبیہ بیگم بازوں سے پکڑ کر اُس کو اپنی طرف کرتی بولی

"مطلب صاف ہے وہ اب ٹھیک ہے تو مجھے بلی کا بکرا بنانا بند کردے میں نے نکاح بس اِس وجہ سے کیا کیونکہ یمان آپریشن کے لیے مان نہیں رہا تھا ورنہ میں کبھی اُس سے نکاح نہ کرتی اب آپ خوش ہوجائے وہ سہی سلامت ہے۔آروش سنگدلی سے بولی

وہ وہاں تمہارے لیے تڑپ رہا ہے تمہاری آہٹ سُننے کو بے قرار ہے اور یہاں تم وہی ضد پکڑ کر بیٹھ گئ ہو۔زوبیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا

آپ کی بیٹی میں ہوں تو آپ کو میری طرف ہونا چاہیے نہ کے کسی اور کی طرفداری کرنا آپ کو زیب دیتا ہے۔آروش نے سنجیدگی سے کہا

آروش بیٹا کیا ہوگیا ہے ایسا کیوں کررہی ہو؟دلاور خان پریشان ہوئے۔

"میں کجھ وقت بابا سائیں کے پاس رہنا چاہتی ہوں بہتر ہوگا آپ یمان کو خلع کے پیپرز تیار کرواکر دے ورنہ شازل لالہ وکیل ہیں وہ خود سب ہینڈل کردینگے۔آروش کی اتنی بڑی بات پہ وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے اُن کو سمجھ نہیں آیا یوں اچانک آروش کو ہو کیا گیا جو ایسی باتیں کررہی ہیں۔

ترس کھاؤ اُس پہ۔زوبیہ بیگم نے التجائیہ لہجے میں کہا

آپ لوگ مجھ پہ ترس کھائے مجھ سے وہ بات نہ منوائے جو میں ماننا ہی نہیں چاہتی۔آروش اِس بار ہاتھ جوڑ کر بولی تو فلوقت کے لیے دلاور خان اور زوبیہ بیگم نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ؟یمان جو شدت سے آروش کا انتظار کررہا تھا مگر آروش کے بجائے شازل کو کسی آدمی کے ساتھ دیکھا تو حیرانگی کا اظہار کیا وہ سِرے سے بھول چکا تھا کے وہ "آروش" کا بھائی ہے۔

تم تو یمان مستقیم ہو نہ جس نے حال میں ہی سِنگنگ کو خیرآباد کہا تھا؟شازل جو خود حیرت سے یمان کو دیکھ رہا تھا یمان کے پوچھے گئے سوال پہ وہ چپ تھا کے کیا جواب دے تبھی دُرید تنقیدی نظروں سے اُس کا جائزہ لیتا ہوا بولا

جی۔یمان بس یہی بولا

آروش کو تم پہلے سے جانتے تھے تو اب تک کہاں تھے؟اگر تمہیں واقع اُس سے پیار تھا تو حویلی کیوں نہیں آئے؟دُرید اسٹول کھینچ کر اُس پہ بیٹھ کر سنجیدگی سے یمان سے دوسرا سوال پوچھنے لگا تو شازل جو ایک حیرانگی سے باہر نہیں آیا تھا دوسری حیرانگی میں غوطہ زن ہوتا۔

اگر آتا تو کیا آپ لوگ اُن کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتے؟یمان نے جواب کے بجائے اُلٹا اُس سے سوال داغا

ہم دیتے یا نہیں دیتے وہ بعد کی بات تھی تمہیں اپنی قسمت تو آزمانی چاہیے تھی نہ۔دُرید نے کہا

ہر طرح سے اپنی قسمت آزمائی تھی اور یقین جانے منہ کے بل گِرا تھا۔یمان کے جواب پہ دُرید چند پل خاموش رہا تھا۔

یہ کیا باتیں ہورہی ہیں؟اور یمان کیا تمہارا آرو سے نکاح ہوا ہے تم کیسے آرو کو جانتے ہو؟شازل نے ایک بعد ایک سوال پوچھا

جی میرا اور اُن کا نکاح ہوا ہے رہی بات کیسے جاننے کی تو وہ پُرانی بات ہے۔یمان نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

تم واقع ہماری بہن کو چاہتے ہو یا بس ڈائیلاگ بازی کررہے ہو؟ دُرید نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا

ڈائیلاگ بازی کے لیے مرد گرل فرینڈ بناتا ہے پاک رشتہ قائم کرکے نکاح میں نہیں لیتا۔یمان کے جواب پہ دُرید لاجواب ہوا تھا۔

ایمپریسو مگر ہم اپنی طرف سے پوری تسلی کرکے آرو تمہارے حوالے کرینگے۔شازل کی بات پہ یمان کی پیشانی میں بل نمایاں ہوئے تھے۔

وہ میرے نکاح میں ہے۔یمان نے یاد کروایا

تو؟شازل نے آئبرو ریز کیے

تو یہ کے اب آپ میں سے کسی کی نہیں چلے گی۔یمان کی بات پہ شازل کا قہقہقہ بے ساختہ تھا۔

بیٹا جی بات یہ ہے کے آرو نے خود کہا ہے وہ ہمارے ساتھ حویلی چلے گی۔شازل اُس کے پاس آکر بولا تو یمان بے یقین نظروں سے اُس کو دیکھا جیسے اُس کو یقین نہ آیا ہو دُرید نے غور سے اُس کی بدلتی رنگت کو دیکھا تھا۔

وہ کیوں چلے گی آپ لوگوں کے ساتھ؟یمان نے پوچھا

ہمارے ساتھ چلنے کے لیے اُس کو کسی وجہ کی ضرورت کا ہونا ضروری نہیں ۔شازل نے کندھے اُچکائے کہا۔

مجھے اُن سے بات کرنی ہے۔یمان نے کہا

ابھی تم اپنے سخت سسر سے بات کرنے کے لیے خود کو تیار کرو۔شازل نے مزے سے بتایا

سسُر؟یمان ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا۔

ہاں سسُر آرو کے باپ شھباز شاہ سے۔شازل نے بتایا

پہلے آروش سے بات کرنا چاہتا ہوں۔یمان نے کسی اور بات پہ زیادہ توجہ نہ دی۔

💕💕💕💕💕💕💕

عیشا تمہیں پتا ہے یمان کا نکاح کس لڑکی سے ہوا ہے؟فجر غصے سے عیشا سے بولی

کس سے ہوا ہے یمان کی وجہ سے اتنا پریشان تھی کے نکاح کا پوچھنا یاد ہی نہیں آیا ویسے روزی سے ہی ہوا ہوگا نکاح۔عیشا نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا

اُس آروش سے جس سے یمان کالج لائیف میں پیار کرتا تھا۔فجر نخوت سے سرجھٹک کر بتانے لگی۔

کیا مطلب کیسے؟عیشا حیران ہوئی۔

جانے کیسے کو چھوڑو وہ دلاور خان کی بیٹی نکلی یمان نے ایک بار اُس سے نکاح کرنے کی ضد کی جو ہو بھی گیا۔فجر پریشانی کے عالم میں کہتی بینچ پہ بیٹھ گئ۔

یہ تو پھر اچھی بات ہوئی نہ بالآخر ہمارے یمان کو اُس کی محبت مل گئ یاد ہے؟کیسے کہا کرتا تھا میں اپنا جنون اور محبت دونوں پالوں گا اور دیکھو ایسا ہو بھی گیا۔عیشا خوشی سے چور لہجے میں بولی تو فجر نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھا

مجھے سب یاد ہے پر شاید تم بھول رہی ہو اُس لڑکی کی وجہ سے یمان نے کیا کجھ برداشت کیا تھا۔فجر نے جتایا

کل کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے جو کل ہوگیا سو ہوگیا اچھا تھا یا بُرا ہم اُس کو بدل نہیں سکتے ہمیں آج کے بارے میں سوچنا یمان کتنا خوش ہوگا مجھے اُس کی خوشی دیکھنی ہے۔عیشا پرجوش آواز میں کہتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"عیشا کیا تم پاگل ہوگئ ہو؟فجر کو عیشا پاگل لگی۔

پاگل کیوں؟عیشا تعجب بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

"تمہیں وہ لڑکی قبول ہے یمان کی بیوی ہونے کی حیثیت سے؟فجر نے پوچھا

"ہمارے قبول کرنے یا نہ کرنے سے کیا ہوگا؟" جس کو قبول کرنا تھا اُس نے کردیا اور ہم یمان کی بہنیں ہیں اور ہمارا چھوٹا بھائی ہے ہمیں بس اُس کی خوشی دیکھنی چاہیے اُس کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے۔عیشا نے مسکراکر کہا تو فجر کو اُس کی بات ٹھیک لگی تو خاموش ہوگئ"جو بھی تھا اُس کے لیے اولین ترجیح یمان کی خوشی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم یمان سے ملنے کیوں نہیں جارہی؟ بے چارہ تمہارا انتظار کرتا ہے۔شازل نے آروش کو دیکھ کر کہا یمان سے ملنے کے بعد اُس کے سارے خدشے ختم ہوچکے تھے۔

جاؤں گی۔آروش نے بس یہ کہا

کب؟شازل نے پوچھا

پتا نہیں۔آروش نے لاعلمی کا مظاہرہ کیا۔

ابھی مل لو شام میں ہم گاؤں کے لیے نکلے گے۔شازل نے بتایا

مجھے ملنا ہوگا تو مل لوں گی۔آروش نے اکتاہٹ کا مظاہرہ کیا تو شازل خاموش ہوگیا "اُس کو آروش کجھ اُلجھی ہوئی سی لگی"

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

پورا ایک دن گُزرگیا وہ میرے پاس کیوں نہیں آرہی؟ مجھے اُن سے بات کرنی ہے۔یمان نے فکرمندی سے دلاور خان سے پوچھنے لگا

وہ چلی گئ۔دلاور خان بس یہ بولے

ک ک۔۔۔کہاں۔۔چ ل۔۔چلی گئ؟یمان کی زبان لڑکھڑاسی گئ 

اُس نے نکاح اِس لیے کیا تھا تاکہ تم آپریشن کے لیے راضی ہوجاؤ اور تمہاری جان بچ جائے ورنہ اُس کو نکاح میں دلچسپی نہیں تھی وہ خلع تک پہنچ گئ ہیں۔دلاور خان کے لہجے میں ندامت کی جھلک تھی۔

جان دے کر بے جان کرگئ ہیں وہ اُن کو یہ نہیں کہنا چاہیے کے یمان بچ گیا یمان کو تو وہ مار کر تو نہیں البتہ توڑ کرکے ضرور گئ ہیں۔یمان کے چہرے پہ سایہ لہرایا تھا دلاور خان کی بات پہ ایک بار پھر وہ مضبوط مرد دلاور خان کے آگے رویا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ ماہ بعد۔

دن تیزی سے گُزر رہے تھے اُس دن کے بعد یمان کو چپ لگ گئ تھی فجر کو نئے سِرے سے آروش پہ غصہ آیا تھا مگر خود پہ ضبط کیے ہوئے تھے چار سے پانچ ماہ ہوچکے تھے وہ یہی اسلام آباد میں تھی کیونکہ یمان کو ایسے اکیلا چھوڑنا اُس کو ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔دوسری طرف حویلی میں آروش کا دل بھی نہیں لگ رہا تھا ایک خول میں اُس نے خود کو بند کردیا تھا کسی سے بھی زیادہ بات چیت کرنا اُس نے جیسے خود پہ حرام کرلیا تھا سارا وقت بس اپنے کمرے تک محدود رہتی حویلی والے بھی سب اُس کے لیے پریشان تھے دلاور خان بہت بار اُس کو لینے حویلی آئے تھے مگر آروش نے صاف انکار کردیا تھا اپنے جان سے اُس میں ہمت نہیں تھی یمان کا سامنا کرنے کی اُس کو بار بار یمان کا لمس یاد آتا پیار بھری باتیں یاد آجاتی جس پہ وہ بے چینی کا شکار ہوجاتی وہ چاہ کر بھی یمان کے پاس نہیں جا پارہی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ب با ب ب۔

شازل کروٹ کے بل گہری نیند میں تھا جب آٹھ ماہ کا ہوتا شازم گردن موڑ کر بڑی مشکل سے آواز نکال کر اُس کو جگانے کی کوشش کررہا تھا۔

بب با۔شازم نے اپنے ہلکے سے اپنے چھوٹے سے ہاتھ اُپر کیے۔تبھی کمرے میں ماہی داخل ہوئی۔

جاگ گیا میرا شہزادہ۔ماہی شازم کو جاگتا دیکھا تو مسکراکر اُس کو اپنی گود میں اُٹھاکر چٹاچٹ اُس کے گالوں کو چوم لیا۔

بب با۔شازم پھر سے یہی الفاظ منہ سے نکالنے لگا ۔

کبھی مما امی بھی کہہ لیا کرو۔ماہی اُس کا منہ صاف کرتی مسکین شکل بنائے بولی کیونکہ ایسے الفاظ نکالنے سے شازم کے منہ سے تھوک نکل کر اُس کی چن کو چھو رہی تھی۔

ببا بب با۔شازم پھر سے یہی الفاظ نکالنے لگا تو ماہی اُس کا ماتھا چوم کر شازل کو دیکھنے لگی جو ابھی بھی گہری نیند میں تھا

آؤ تمہارے بابا کو اُٹھاتے ہیں نیند سے۔ماہی شرارت سے اُس کو کہتی کروٹ کے بل لیٹے شازل کی پیٹھ پہ شازم کو کھڑا کرنے لگی.

گُڈ مارننگ شازم کے ببا اُٹھ جائے صبح ہوگئ ہیں۔ماہی شازل کے کان کے پاس جھک کر اُونچی آواز میں بولی تو شازل نے یکدم اپنی آنکھیں کھول کر خود پہ جھکی ماہی کو دیکھا پھر شازم کو جو اُس کو ہی دیکھ رہا تھا۔

میری صبح نہیں ہوئی ابھی تک۔شازل سیدھا لیٹتا شازم کو اپنے سینے پہ بیٹھائے بولا

بارہ بجنے والے ہیں حویلی کے مردوں کے ساتھ آپ نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ماہی نے منہ بناکر بتایا

اپنی بیوی کے ساتھ کرلوں گا ناشتہ یہ بتاؤ اِس گولوں مولوں نے دودہ پیا۔شازل شازم کے گالوں کو کھینچتا پوچھنے لگا تو ماہی نے کڑے تیوروں سے اُس کو گھورنے لگی کیونکہ جب سے اب کجھ شازم کی صحت ٹھیک نہیں ہوئی تھی شازل اب "نمونے" کے بجائے اُس کو "گولوں مولوں"کہتا تھا

کوئی اچھا نام سوچ لیا کرے۔ماہی نے نروٹھے پن سے کہا

اچھا نام تو ہے گولوں مولوں کی ماں گولوں مولوں۔شازل شرارت سے اُس کے گال کھینچ کر بولا

اچھا چھوڑے میں باہر جارہی ہوں آپ کے لیے ناشتہ لینے اُٹھ کر فریش ہوجائے آپ اور ہاں شازم کو بے بی کارٹ میں ڈالیے گا یا پھر اُس کے دونوں اِطراف اچھے سے تکیے رکھیے گا۔ماہی اُٹھ کر اپنے بالوں کا جوڑا بناتی شازل کو ہدایت دینے لگی۔

جو حکم میرے آقا۔شازل سر کو خم دیتا بولا تو ماہی کِھلکھلائی۔

اِدھر آؤ۔شازل نے اپنے پاس آنے کا کہا

کیوں؟ماہی ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی 

آؤ تو۔شازل نے کہا تو ماہی اُس کے پاس بیٹھی جس پہ شازل اُٹھ کر اُس کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا تو ماہی نے اپنی اپنی آنکھیں موندلی۔

اب جاؤ۔شازل نے اِجازت دی تو وہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ سراثبات میں ہلاتی وہاں سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

مجھ میں کیا کاٹیں چُھبے ہوئے جو میرے بیٹھتے ہی تم اُٹھ جایا کرتی ہوں۔دُرید کمرے میں آیا تو حریم کو کمرے سے باہر جاتا دیکھا تو اُس کا بازوں پکڑ کر اپنے روبرو کھڑا کیے پوچھنے لگا آج اُن کے نکاح کو اتنا وقت ہوگیا تھا مگر حریم کے سرد رویے میں تھوڑا بھی سُدھار نہیں آیا تھا وہ جتنی اُس کو ڈھیل دے رہا تھا حریم اُتنی ہی اپنی منمانی کیا کرتی تھی۔

چھوڑے ہمیں۔حریم سنجیدگی سے اُس کو دیکھتی خود سے دور کرنے لگی مگر دُرید اُس کی کوشش کو ناکام بناتا سختی سے اُس کے بازوں کو دبوچا

پہلے میری بات کا جواب دو کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں کررہی ہو ایسے؟دُرید نے جان چاہا

ہم سے پوچھنے کے بجائے آپ خود سے یہ سوال پوچھے گے تو زیادہ بہتر ہوگا کس گمان میں ہیں آپ کے نکاح کے بعد ہمارا رویہ آپ کے ساتھ بہتر ہوجائے گا تو یہ آپ کی بڑی بھول ہے آپ ہمارے دل سے اُترگئے ہیں۔حریم نے زخمی مسکراہٹ چہرے سجائے کہا تو دُرید نے سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچا

میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ مجھے مجبور مت کرو کے میں تمہارے ساتھ سخت رویہ اختیار کرو پیار سے بات کررہا ہوں تو پیار سے بات کیا کرو۔دُرید نے دو ٹوک انداز میں کہا

ہم کوئی چابی کی گڑیا نہیں جس کو جب چاہا جیسے چاہا آپ نے استعمال کرلیا تھا ہم بھی ایک انسان ہیں ہم کس دل کے ساتھ اِس کمرے میں رہ رہے ہیں وہ بس ہمارا خدا جانتا ہے ہمارے بس چلے تو اپنی بیٹی کو لیکر یہاں سے بہت دور چلے جائے جہاں کسی سید دُرید شاہ کا نام ونشان تو کیا سایا بھی اپنی بیٹی پہ نہ پڑے۔حریم زہر خند لہجے میں بولی تو دُرید بُت بنا اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جو بے تاثر تھی۔

معاف کیوں نہیں کرلیتی تم مجھے آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا بار بار اپنے کیے گئے فیصلے پہ پچھتارہا ہوں اب میں کیا کروں تمہاری رضامندی کے بغیر میں نے کبھی تمہیں چھوا تک نہیں تمہارے پاس نہیں آیا کبھی اپنا حق نہیں جتایا تمہیں وقت دے رہا ہوں کے شاید؛شاید تم ٹھیک ہوجاؤ اپنے رویے پہ نظرثانی کرو مگر تم دن بدن مجھ سے بدزن ہوتی جارہی ہو۔دُرید اُس کو چھوڑتا بے بسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا یہ چھوٹی سی لڑکی اُس کو کڑے امتحان میں ڈال رہی تھی جس کو وہ کتنی ہی کوششوں کے باوجود پاس نہیں کرپارہا تھا۔

اِس میں کونسی بڑی بات آئے کرے اپنا حق وصول اور ہمیں آزاد کردے اِس نام ونہاد رشتے سے دم گھٹتا ہے ہمارا یہاں آپ کے پاس وحشت ہوتی ہیں جب آپ ہمارا ہاتھ پکڑتے ہیں جب آپ اپنی یہ جھوٹی محبت ہماری بچی پہ نچھاور کرتے ہیں۔حریم اپنے گرد لپیٹی چادر کو اُتار کر پھینکتی نفرت بھرے لہجے میں اُس سے بولی تو دُرید کے ماتھے کی رگیں اُبھریں تھی۔

سمجھتی کیا ہو تم مجھے؟دُرید دھاڑنے والے انداز میں کہتا اُس کا جبڑا سختی سے دبوچتا دیوار کے ساتھ لگا گیا تھا "حریم کی جُملے اُس پہ کسی تماچے کی طرح برسے تھے۔

چ چھوڑے.۔۔۔۔ہمیں۔حریم نے اُس کو خود سے دور کرنا چاہا تو دُرید نے ہاتھ کی مٹھی بناکر دیوار پہ مارکر اُس سے دور ہوا۔حریم زور سے کھانستی شاک کی کیفیت میں دُرید کو دیکھنے لگی جس کا حال غصے سے خراب ہوگیا تھا یکلخت حریم کو اپنی حالت اور سخت جملوں کا احساس ہوا تھا تو اُس کا دل چاہا ڈوب کے مرجائے کہیں۔

پہنو یہ شال دُرید شاہ اپنے نفس کا پجاری نہیں ہے اور نہ میں تمہارے قُربت کے لیے تڑپ رہا ہوں پاگل تھا میں جو سمجھ بیٹھا تھا اپنی محبت سے تمہیں پہلے جیسا کردوں گا اپنی اُس غلطی کا ازالہ کرلوں گا جس کی وجہ سے تم آج اِس حالت میں پہنچی ہو مگر میں غلط تھا مجھے یہ بات ماننی چاہیے کے حریم علی کے دل میں دُرید شاہ اُترگیا ہے اُس کی محبت ختم ہوگئ ہے اور میں اِسی قابل ہوں۔دُرید اُس کی قالین پہ پڑی چادر اُٹھا کے اُس کو دیتا بولا تو حریم کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوگئے تھے۔

تمہیں اب مزید وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کے بعد نہ تو میں تمہارا کبھی ہاتھ پکڑوں گا اور نہ اپنا سایہ حورم پہ پڑنے دوں گا اُس کو اپنی جھوٹی محبت سے دور کروؑ گا۔دُرید سنجیدہ انداز میں کہتا تیز آواز میں دروازہ بند کرتا کمرے سے باہر چلاگیا۔پیچھے حریم فرش پہ بیٹھتی چلی گئ۔

یہ ہم سے کیا ہوگیا؟حریم چہرہ ہاتھوں میں چُھپاتی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یمان می

فجر اپنے دھیان میں یمان کے کمرے میں آئی تو دھوئیں نے اُس کا استقبال کیا پورے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا تھا فجر اپنے منہ پہ ڈوپٹہ رکھتی یمان کو تلاش کرنے لگی جو کمرے کی سائیڈ میں موجود صوفے پہ بیٹھا ہوا فجر چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی تو آنکھوں میں بے یقینی اُتر آئی۔

یمان جو سگریٹ کا دھواں اُڑانے میں مگن تھا اچانک فجر کو اپنے کمرے میں دیکھا تو جلدی سے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلا

یمان تم نے سگریٹ پینا بھی شروع کردیا ہے اب کیا یہی کام رہ گیا تھا۔فجر نے سخت ناگوار لہجے میں اُس کو کہتے ایش ٹرے کو دیکھا جو پوری سگریٹس کی بھری پڑی تھی جیسے یمان بہت وقت سے یہی کام کرتا رہا ہو

ایسی بات نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔بس میں۔۔۔۔۔۔۔ایسے۔۔ہی۔یمان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا گڑبڑا کر صفائی دینا چاہی مگر لفظوں نے اُس کا ساتھ نہیں دیا۔

کیوں اُس بے حس لڑکی کی وجہ سے اپنا سینا جلارہے ہو جانتے ہو نہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہیں۔فجر کا لہجہ ہنوز ناگوریت سے بھرپور تھا۔

سوری۔یمان سرجھکاتا بس یہی بولا

کب سے پینا شروع کیا ہے؟فجر نے سنجیدگی سے پوچھا

آج کے بعد نہیں پیوں گا۔یمان نے کہا

کب سے پینا شروع کیا ہے؟اور دن میں کتنی ڈبیاں خالی کرتے ہو؟فجر نے دوبارہ سے اپنا سوال دوہرایا

چار ماہ سے۔یمان سرجھکائے بولا

چار ماہ سے؟فجر کو مزید حیرت نے آ گھیرا وہ آخر کیسے اتنا غافل ہونے لگی تھی۔

جی۔یمان بس یہ بولا

تمہارے لیے بس وہ لڑکی اہم ہے کیا خلع چاہتی ہے نہ ہو؟تو بھیجو طلاق کے کاغذات اُسے۔فجر تنفر سے بولی

آپی۔یمان نے تڑپ کر اُن کو دیکھا جو اُس کو اتنا سنگین مشورہ دے رہی تھی۔

تم دوبارہ اِس چیز کو منہ نہیں لگاؤں گے۔فجر نے ایش ٹرے کی جانب اِشارہ کیے کہا

نہیں پیوں گا۔یمان نے جوابً کہا

باہر آجاؤ تمہارے کمرے کی صفائی کروانی ہے۔فجر نے کہا تو یمان نے سر کو خم دیا۔

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

ابھی تجھ سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کہاں ہے

وہی شخص جس پہ اپنے دل و جاں نثار کردوں

وہ اگر خفا نہیں ہے ، تو ضرور بدگماں ہے

کبھی پاکے تجھ کو کھونا کبھی کھوکے تجھ کو پانا

یہ جنم جنم کا رشتہ تیرے میرے درمیاں ہے

خلع ایک بہت بڑا فیصلہ ہے آروش اللہ کے سامنے سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق کا ہوتا ہے میاں بیوی کا ایک خوبصورت رشتہ ہوتا ہے اُس کو یوں بنا کسی وجوہات پہ ختم نہیں کیا جاتا۔کلثوم بیگم اپنی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی آروش سے بولی۔

جانتی ہوں اماں سائیں۔آروش بس یہی بول پائی۔

اگر جانتی ہو تو ایسا کیوں کررہی ہو؟کلثوم بیگم نے کہا تو آروش اُن کی گود سے سراُٹھاتی دیکھنے لگی۔

میرے قدم سبز ہیں اماں سائیں اگر میں اُس کے پاس گئ تو اُس کو کجھ ہوجائے گا میں جب سے اُس کی زندگی میں آئی ہوں کجھ نہ کجھ اُس کے ساتھ بُرا ہوتا ہے پہلے میری وجہ سے اُس کو مار پڑی پھر جب میں اُس کے گھر گئ تھی تو اُس کی ماں چلی گئ اِس دُنیا سے پھر جب تک میں نہیں تھی اُس کی زندگی میں تو سب کجھ ٹھیک تھا پھر جب ہمارا سامنا ہوا تو اُس کے لیے نئ مشکل سامنے آئی اُس کو برین ٹیومر ہوگیا جو پہلے تھا ہی نہیں یہ سب جان کر میں کیسے اُس کے پاس جاؤں کیسے بار بار اُس کی زندگی کو مشکل بناؤں؟آروش ندامت سے چور لہجے میں بولی

یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے آروش؟ایک پڑھی لکھی ہوکر کیسے جاہلوں والی بات کررہی ہو تم کیسے خود کو سبز قدموں والی یا منحوس کہہ سکتی ہو؟اللہ کی بنائی ہوئی کوئی بھی مخلوق منحوس نہیں ہوتی اور نہ اُس کی بنائی گئ تخلیق کو کوئی منحوس کہہ سکتا ہے اللہ ناراض ہوجاتا ہے میرا بچہ۔کلثوم بیگم حیرانی سے آروش کی بات سن کر بولی

سب یہی کہتے ہیں اماں سائیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیوں میری تین بار شادی ہوتے ہوتے رہ گئ؟آروش کے گلے میں آنسو کا گولا اٹکا

کیونکہ تم اُن میں سے کسی کے بھی نصیب میں نہیں تھی تم کسی اور کا نصیب تھی جس کے ساتھ تمہارا نکاح ہوا ہے تمہارا ایک پاک اور مضبوط رشتہ جڑگیا ہے جس کو تم اپنی بے وقوفی میں آکر فراموش نہیں کرسکتی وہ لڑکا تمہارا شوہر ہے ہر طرح سے تم پہ حق رکھتا ہے اگر وہ اتنے ماہ سے تمہاری پُکار کا انتظار کررہا ہے تو اُس کو مایوس مت کرو اُس کے پاس جاؤ اُس کو ضروری ہے تمہاری کیونکہ وہ چاہے تو تمہارے ساتھ زبردستی بھی کرسکتا ہے یہاں سے لے جاسکتا ہے تمہیں۔کلثوم بیگم نے اُس کی حالت کے پیش نظر اُس کو سمجھایا

وہ زبردستی نہیں کرے گا۔آروش سرجھکاکر بولی۔

وہ مرد ہے کجھ بھی کرسکتا ہے۔کلثوم بیگم نے باور کروایا

وہ کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے میں ہرٹ ہوں وہ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا اگر اُس کو زبردستی کرنی ہوتی تو کب کا کرچکا ہوتا۔آروش کے لہجے میں یمان کے لیے اعتبار بول رہا تھا۔

اتنا اعتبار کرتی ہوں اُس پہ؟کلثوم بیگم اُس کی بات پہ مسکرائی۔

شاید۔آروش نے نظریں چُرائی

میاں بیوی کے ایک دوسرے پہ بہت حقوق ہوتے ہیں اگر وہ تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا یہ بات تم مانتی ہو تو خود بھی اُس کو تکلیف مت دو۔کلثوم بیگم نے کہا

ہمت نہیں ہے اُس کا سامنا کرنے کی۔آروش نے محبوری بیان کی۔

ہمت پیدا کرو وہ کوئی غیر نہیں تمہارا شوہر ہے۔کلثوم بیگم نے اب کی ڈپٹا تو آروش خاموش ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تم یہاں؟دُرید ڈیڑے پہ آیا تو شازل کو پہلے سے وہاں موجود پایا جس کی گود میں شازم بھی کھیل رہا تھا۔

کیا میں یہاں نہیں ہوسکتا؟شازل ہشاش بشاش لہجے میں بولا

ہوسکتے ہو مگر شازم کو نہیں لانا چاہیے تھا اِس کو بھوک بھی لگ سکتی ہے۔دُرید نے کہا

فیڈر لایا ہوں ساتھ اب ویسے بھی یہ ماشااللہ سے بڑا ہوگیا ہے بھوک کو کنٹرول کرنا اِس کو آنا چاہیے اور یہاں اِس لیے لایا کیونکہ ماہی کہتی ہے میری غیرموجودگی میں شازی اُس کو بہت تنگ کرتا ہے۔شازل نے مسکراکر کہا

کوئی کام تھا؟دُرید نے سنجیدگی سے پوچھا

جی میں اسلام آباد واپس جانا چاہتا ہوں۔شازل نے بتایا

میرا نہیں خیال تمہیں شہر اب جانا چاہیے۔دُرید نے کہا

میں مزید یہاں نہیں رہ سکتا ماہی اور شازم کو لیکر جانا چاہتا ہوں۔شازل گہری سانس بھر کر بولا

شازم کا یہاں رہنا ٹھیک ہوگا اچھا ہے وہ حویلی کے طور طریقے دیکھے شہر میں ہوگا تو کجھ سیکھ نہیں پائے گا۔دُرید اُس کی بات کے جواب میں بولا

میں اپنے بچے کی اچھی پرورش کروں گا یہاں رہ کر وہ بس قتل و غارت کرنے سیکھے گا جو میں نہیں چاہتا۔شازل سنجیدہ تھا۔

کوشش کرکے دیکھ لو۔دُرید نے بحث نہیں کی۔

آپ ولیمہ کب کررہے؟شازل نے پوچھا

میرے ولیمے سے تمہارا کیا لینا دینا؟دُرید کو اُس کا سوال پوچھنا سمجھ نہیں آیا

میرا تو کوئی کام نہیں دراصل میرا جب ولیمے نہیں ہوا تھا تو کسی نے کجھ کہا نہیں تھا مگر یہ گاؤں ہے آپ یہاں کے رہائشی اور یہاں کے سرپنج کے بیٹے جس پہ ہر ایک کی نظر ہوتی ہے آپ کا ولیمہ نہیں ہورہا تو سب باتیں بنارہے ہیں۔شازل سرسری لہجے میں بولا تو دُرید نے سختی سے اپنے ہاتھ کی مٹھیوں کو بھینچا

مجھے جب کرنا ہوگا میں کرلوں گا۔دُرید نے سنجیدگی سے کہا

ہمم میرا بھی ہوگا۔شازل مزے سے بولا

تمہارا؟دُرید نے کنفرم کرنا چاہا

ہاں میرے ولیمے کی تو کسی کو پرواہ ہے نہیں تو میں خود کرلوں اِس لیے سوچا جس دن آپ کا ہوگا اُس دن میں بھی رکھ لوں گا۔شازل سکون سے بولا

تمہارا ایک بیٹا ہے اور تم اب ولیمہ کروگے پہلے کہاں سوئے ہوئے تھے؟دُرید نے میٹھا سا طنزیہ کیا۔

آپ ایسے بات کررہے ہیں جیسے کجھ پتا نہ ہو ہر بات سے تو واقف ہیں آپ میرا نکاح جس حال میں ہوا تھا وہاں ولیمہ کیسے ہوسکتا تھا۔شازل منہ بناکر بولا 

کرتا ہوں انتظام تمہارے ولیمے کا۔دُرید نے بتایا

صرف میرا نہیں آپ کا بھی ہوگا۔شازل نے جتایا

تمہارے ہوجائے وہ ہی بڑی بات ہے۔دُرید نے اُس کو گھورا

لالہ ولیمہ ساتھ ہوگا میں بتارہا ہوں۔شازل بضد تھا۔

مرضی ہے تمہاری۔دُرید نے جیسے جان چھڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

میرے لیے کافی بنائی ہیں آپ نے؟ارمان کچن میں آیا تو فجر کو کافی کا کپ پکڑے سوچو میں گُم پایا تو جان بوجھ کر شرارت سے بولا

میرا تم سے بحث کرنے کا موڈ نہیں۔فجر نے سرجھٹک کر کافی کا سِپ لیکر کہا

پھر کس چیز کا موڈ ہے وہ بتادے اور اگر آپ کہے تو میں ابھی امام صاحب کو کہیں سے پکڑ لاتا ہوں۔ارمان مزے سے اپنے اِرادے بتانے لگا۔

تمہیں شرم نہیں آتی ایک بیوہ سے ایسی بات کرتے ہوئے؟فجر نے اُس کو شرمندہ کرنا چاہا

شرم؟وہ کیا ہوتی ہے؟ارمان سوچنے کی اداکاری کرتا بولا

میرا دماغ مت چاٹو۔فجر نے بیزاری کا مظاہرہ کیا۔

ویسے بی سیریس سنجیدگی سے بات کرتے ہیں آپ کو مجھ سے نکاح کرنے میں کیا مسئلہ ہے خوش شکل ہوں، خوش مزاج ہوں،ایسی خاصی سیلری بھی ہے اچھا خاصا قد بھی ہے عمر بھی زیادہ نہیں۔ارمان نے بھرپور سنجیدگی اختیار کیے کہا

خوش شکل ہوں، خوش مزاج ہوں،ایسی خاصی سیلری بھی ہے اچھا خاصا قد بھی ہے عمر بھی زیادہ نہیں۔تو اپنے جیسے کوئی تلاش کرو مجھ جیسی بیوہ اور ایک بچے کی ماں کے پیچھے لگ کر اپنا وقت ضائع مت کرو۔فجر اُس کے جُملے واپس لوٹاتی ہوئی بولی

مگر میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں سُنا ہے بیوہ عورت سے شادی کرنا بڑا ثواب کا کام ہے۔ارمان اُس کو تنگ کرنے سے باز نہ آیا

اگر ثواب کمانا ہے تو دُنیا میں بہت ساری بیوائیں ملے گی اُن سب سے شادی کرکے ثواب کماؤ۔فجر اُس کے جواب پہ جل کے بولی

کسی اور کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اِس سے پہلے بال سفید ہوجائے آپ ہاں کردے۔ارمان نے کہا

دیکھو ارمان مجھے مجبور نہ کرو کے میں تمہارا سر پھاڑدوں۔فجر نے ضبط کرتے کہا۔

سر شادی کے بعد بھی پھاڑ سکتی ہیں ابھی یہ بتائے وِل یو میری می؟آئے پرومیس کبھی اپنی اُلٹی سٹی باتوں سے آپ کو تنگ نہیں کروں گا آپ جو کہے گی وہ کروں گا ایک وقت کا کھانا بھی پکالوں گا کبھی کبھی نہیں روزانہ آپ کے ناخن پہ پالیش بھی لگالیا کروں گا یامین کو سگے باپ سے زیادہ پیار دوں گا بس آپ یس اور ڈن کردے میرے لیے نہیں تو اپنے لیے ،اپنے لیے بھی نہیں تو یامین کے لیے کتنا معصوم سا پیارا سا کیوٹ سا ہے اُس کو بھی ایک باپ کا پیار چاہیے ہوتا ہے۔ارمان اچانک اُس کے گھٹنوں کے بل بیٹھتا اپنی پینٹ کی جیب سے ایک ڈبی نکال کر اُس کے سامنے کرکے کہا تو ڈبی میں موجود رِنگ دیکھ کر اور ارمان کی نان سٹاپ باتیں سن کر فجر  اپنی جگہ ہکا بکا اُس کو دیکھتی رہ گئ جو اب واقع سنجیدہ نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

میں تم سے عمر میں بڑی ہوں۔فجر نے دوبارہ سے بتایا

جانتا ہوں۔ارمان کو کوئی فرق نہیں پڑا

بیوہ ہوں ایک سات سال کے بچے کی ماں بھی ہوں تمہارے لیے کوئی اچھی خوبصورت لڑکی ہونی چاہیے۔فجر نے اُس کو سمجھانا چاہا

میں جانتا ہوں آپ ایک بیوہ اور سات سال کے بچے کی ماں ہیں مگر جب مجھے آپ سے پیار ہوا تھا تب بھی آپ ایک بیوہ اور بچے کی ماں تھی مگر فرق بس اتنا تھا کے تب وہ بچہ کجھ دنوں کا تھا اور اب سات سالوں کا ہوگیا ہے میرے جذبات آپ کے لیے پُرانے ہیں اِس لیے اِس کو ٹھکڑائے مت۔ارمان کی بات سے فجر آج سچ میں لاجواب ہوگئ تھی۔

اب ہاتھ بڑھا بھی دے تھک گیا ہوں ایسے بیٹھ بیٹھ کر۔ارمان نے اُس کو خاموش دیکھا تو کہا جس پہ فجر ہنس پڑی

واہ آپ ہنسی مطلب پھسی۔ارمان خوش ہوتا بولا

اگر میں نا کہوں تو۔فجر بازوں سینے پہ باندھ کر بولی۔

تو میں روز آپ سے اظہار محبت کروں گا۔ارمان بنا تاخیر کیے بولا

بہت ڈرامے باز ہو تم۔فجر نفی میں سر کو جنبش دیتی بولی

آپ اپنا ہاتھ بڑھائے میری طرف یقین جانے شادی کے بعد پوری فلم بن جاؤں گا اور آپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گا۔ارمان دلکشی سے بولا تو جانے کیا سوچ کر فجر نے اُس کے ہاتھ سے رِنگ لی۔

مجھے پہنانی تھی۔ارمان نے احتجاجاً کہا

شادی کے بعد پہنا لینا جب تمہارا حق ہو۔فجر نے کہا تو ارمان کا پورا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا بے ساختہ وہ اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر بیہوش ہونے کی اداکاری کرنے لگا۔

کیا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں؟ارمان کھڑا ہوتا بار بار اپنی آنکھوں کو جھپک کر بولا

اب بس کرو اپنے یہ ڈرامے کرنا۔فجر بدمزہ ہوتی بولی۔

تو کیا آپ واقع مان گئ ہیں۔ارمان دانتوں کی نمائش کرتا ایک قدم اُس کی طرف بڑھاکر بولا

ہاں ماننا پڑا کیونکہ 

فجر اتنا کہتی خاموش ہوگئ۔

کیونکہ؟ارمان نے بے چینی سے پوچھا

کیونکہ میرا بیٹا تمہارے بہت کلوز ہے دوسرا وہ واقع باپ کی محبت کو مس کرتا ہے میں تم ست شادی تو کرلوں گی مگر مجھ سے تم واعدا کرو یامین کے ساتھ ہمیشہ اچھے سے رہو گے۔فجر سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

اُس کی آپ فکر نہ کرے یامین مجھے بھی عزیز ہے۔ارمان نے کہا

شکریہ یہ لو۔فجر نے رِنگ اُس کو واپس تھمائی۔

واپس کیوں؟ارمان کو ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگا۔

ابھی کوئی رشتہ نہیں جو میں تم سے یہ لوں۔فجر نے عام لہجے میں کہا۔

ویسے مان تو آپ گئ کیا ہوجاتا اگر کجھ ماہ پہلے مان جاتی تو۔ارمان نے ٹھنڈی سانس خارج کرتے کہا۔

بڑے ہی کوِئی ناشکرے انسان ہو۔فجر خشمگین نظروں سے اُس کو گھور کر کہتی کچن سے چلی گئ جس پہ ارمان بھی ہنس کر سرجھٹکتا کچن سے نکل گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آروش بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی نیند آنکھوں سے کوسو دور تھی ساری رات گُزرگِئ تھی مگر ایک منٹ کے لیے بھی اُس کو نیند نہیں آئی تھی ابھی وہ فجر کی نماز پڑھ کر بیٹھی تھی کے ایک بار پھر پوری شدت سے یمان کی یاد اُس کو ستانے لگی اُس کا خوبصورت عکس،اُس کی مسکراہٹ گالوں پہ پڑنے والے ڈمپل شوخی سے بھری آنکھیں اور  کانوں میں بھی بار بار یمان کے کہے جانے والے جُملے دماغ میں گردش کررہے تھے وہ ابھی اِسی سوچو میں تھی جب سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اُس کا موبائیل بجنے لگا۔

آروش نے موبائل اسکرین کو دیکھا تو کوئی انون نمبر دیکھا کجھ پل تو وہ خالی نظروں سے نمبر کو دیکھتی رہی پھر کجھ سوچ کر کال ریسیو کردی

اگر مجھے تڑپانے کا شوق ختم ہوگیا ہو تو پلیز واپس آجائے۔ابھی اُس نے موبائیل کان کے پاس لگایا ہی تھا جب دوسری طرف سے یمان کی گھمبیر آواز اُس کے کانوں سے ٹکڑائی۔

یمان۔۔آروش اُس کا نام لیتی زور سے آنکھوں کو بند کرگئ۔

میرے معاملے میں آپ اتنی سنگدل کیوں ہیں؟میری بے چینی میری بے قراری میری محبت میرا عشق میری تڑپ آپ کو نظر کیوں نہیں آتی؟نا جینے دیتی ہیں نا مرنے دیتی ہیں اگر یہی سب کرنا تھا تو کیوں میری جان بچانے کی خاطر یہ ڈرامہ کیا؟مرنے دیتی مجھے۔یمان زخمی لہجے میں کہتا اُس کے دل کو لہولہاں کرگیا تھا آروش بے ساختہ منہ پہ ہاتھ رکھتی اپنی سسکیوں کا گلا گھوٹنے لگی۔

خاموش کیوں ہیں جواب دے؟یمان نے اُس کو بات کرتا نہ دیکھا تو کہا

س ۔۔۔س۔۔۔و۔۔سوری۔آروش نے لڑکھڑاتی آواز میں بس یہ بول پائی

سوری؟یمان اتنا کہتا قہقہقہ لگانے لگا۔

کیا آپ کا سوری میری تکلیف کا ازالہ کرسکتا ہے میری راتوں کی نیند واپس لوٹا سکتا ہے جو آپ کے جانے کے بعد روٹھ گئ ہیں؟یمان نے پوچھا

میں جانتی ہوں میں بہت بُری ہو

ہاں ہیں آپ بُری بہت بُری ہیں مگر پتا ہے کیا؟آپ مجھے بُری نہیں لگتی دل کے قریب لگتی ہیں آپ جتنا مجھ سے دور بھاگنا چاہتی ہیں یہ دل آپ کے لیے اُس سے زیادہ مچلنے لگتا ہے میرے حالِ دل سے تو آپ واقف ہیں پھر بھی ایسا کرتی ہیں کیوں؟کیا واقع میری محبت میں اتنی تاثیر نہیں جو آپ کے دل کو میرے لیے نرم کردے؟یمان نے ایک کے بعد ایک سوال کیا

میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے

بہت سے زیادہ ہرٹ کیا ہے آپ نے آٹھ سالوں سے ایک اٙن دیکھی آگ میں جل رہا ہوں مجھے بس اِس بات کی سزا مل رہی ہے کے میں نے اُس لڑکی کو چاہا جس کے دل میں میرے لیے کوئی احساس ہی نہیں جس کو میری تھوڑی بھی پرواہ نہیں۔یمان اُس کی بات درمیان میں کاٹ کر بولا

پرواہ ہے۔آروش نے کہا

نہیں ہے اگر ہوتی تو اِس وقت آپ میرے پاس ہوتی میری دسترس میں ہوتی یوں میں یوں آپ کے لیے تڑپ نہ رہا ہوتا۔

میں جانتی ہوں تم ناراض ہو۔آروش اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوؤ کو بے دردی سے صاف کرتی بولی

میں کیوں لگا آپ سے ناراض؟کونسا آپ نے مجھے ایسا کوئی حق دیا ہے۔یمان جیسے خود کا مذاق اڑا رہا تھا۔

ایسی باتیں کیوں کررہے ہو؟آروش کو تکلیف ہوئی۔

معافی چاہتا ہوں آپ کا وقت برباد کیا دوبارہ نہیں کروں گا۔یمان اتنا کہتا کال کاٹ گیا تو گرم سیال آنکھوں سے بہتے آروش کے گال بھگا گئے تھے دوسری طرف یمان کو اپنے اندر گھٹن کا احساس ہونے لگا تو شرٹ کے اُپری بٹن کھولتا کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوگیا اُس کو آس پاس کے ماحول سے وحشت سی ہونے لگی۔

شازل شازم کو لیے کمرے میں آیا تو نظر بیڈ پہ گہری نیند میں سوئی ماہی پہ پڑی تو زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نے اُس کے چہرے پہ احاطہ کیا۔شازم کو بے بی کارٹ میں ڈالے وہ ماہی کی طرف متوجہ ہوا جس کا ایک ہاتھ بیڈ سے لٹک رہا تھا شازل آگے بھرتا اُس کا ہاتھ بیڈ پہ کیا اور خود جھک کر اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر واشروم کی جانب بڑھ گیا۔

حورم ہماری جان چُپ ہوجاؤ۔حریم نیند نے نڈھال ہوتی حورم کو گود میں اُٹھاتی کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل کر اُس کو بہلا رہی تھی مگر ایک حورم تھی جس کا رونا رات کو شروع ہوا تھا تو دن چڑھے تک وقفے وقفے سے شروع ہورہا تھا۔

حریم کیوں رو رہی ہے حورم پیٹ میں تو درد نہیں کہیں اِسے۔کلثوم بیگم حریم کے کمرے میں آئی تو اُس کی گود سے حورم کو لیتی ہوئی بولی

نہیں یہ اُنہیں یاد کررہی ہے جو کل سے غائب ہیں۔حریم روہانسی ہوتی بتانے لگی یکدم اُس کی آنکھیں لبالب آنسوؤ سے بھرگئ تھی۔

تم تو مت روؤ اور یہ دُرید کیا رات میں بھی نہیں آیا؟کلثوم بیگم پریشان کن لہجے میں استفسار ہوئی۔

نہیں اُن کو پتا ہے کے حورم کو جب وہ اپنی گود میں لیتے ہیں تو خوش ہوتی ہیں ورنہ نہیں اور سوتی بھی اُن کے سُلانے پہ ہیں مگر پھر بھی وہ نہیں آئے اگر ایسا کرنا تھا تو حورم کو اپنا عادی کیوں بنایا؟حریم اپنی آنکھیں صاف کرتی بولی

"اچھا تم بدگمان مت ہو ضرور کوئی کام پڑگیا ہوگا ورنہ وہ اتنا غیرذمیدار نہیں میں حورم کو اپنے ساتھ لیکر سُلادوں گی تم اپنی پوری نیند کرو حورم کا رونا اِتنا ٹھیک نہیں بیمار ہوجائے گی تمہیں پہلے ہی میرے پاس آجانا تھا۔کلثوم بیگم اُس کو تسلی کرواتی ہوئی بولی تو حریم محض سراثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا ہے تمہیں سکون نام کی کوئی چیز نہیں؟کبھی ملے ہو اُس سے؟شازل جو اپنی گود میں شازم کو بیٹھائے ایک ہاتھ سے اپنا سیل فون پکڑے کجھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا مگر بار بار شازم اُس کے ہاتھ ہٹاتا خود اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ موبائیل اسکرین پہ پھیر رہا تھا۔تبھی شازل نے اُس کو جھڑکا

آرام سے بات کرو بیٹا ہے ہمارا۔وارڈروب سیٹ کرتی ماہی نے ٹوکا

جانتا ہوں یہ نمونا ہمارا بیٹا ہے مگر اِس کو بھی کجھ عقل دو جس کو بیٹھا تو جاتا نہیں اور آیا بڑا میرا موبائیل چلانے جیسے بہت اچھے سے آتی ہوں۔شازل شازم کو گھور کر بولا جو اپنی آنکھوں کو پوری طرح سے کھولتا موبائل اسکرین کو دیکھ رہا تھا

بچہ ہے جو دیکھے گا وہی کرے گا۔ماہی نے کہا

اچھا تو ہم جو چلتے پھیرتے ہیں یہ اِس کو نظر نہیں آتا؟ہم جو باتیں کرتے ہیں یہ اِس کو سُنائی نہیں دیتی؟کبھی اِن چیزوں کو بھی تو کرکے دیکھے مگر نہیں موصوف کا دماغ تو خرافاتی چیزوں میں لگا رہتا ہے۔شازل سرجھٹک کر بولا

مجھے دے شازی آپ کو تو بس موقع چاہیے میرے بچے کو باتیں سُنانے کا۔ماہی شازل کی گود سے شازم کو لیتی منہ بسور کر بولی

اچھا نہ کہاں جارہی ہو ناراض ہوکر بیٹھو یہاں میرے پاس ایک بات بتانی ہے۔شازل ماہی کا ہاتھ تھامتا اپنے ساتھ بیٹھا کر بولا

جی بتائے کیا بات کرنی ہے؟ماہی سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

میں نے ہمارا ولیمہ کرنے کا سوچا ہے۔شازل اُس کے چہرے پہ پڑتے بالوں کو کان کے پیچھے اُڑستا بتانے لگا۔

کیا ہوگا ہمارا؟ماہی کو لگا جیسے اُس نے کجھ غلط سُنا

ولیمہ۔شازل نے دوبارہ سے کہا

شادی کے اتنے سال بعد ایک بچے کے بعد آپ کو ولیمے کی سوجھی ہے۔ماہی حیرت سے شازل کو دیکھ کر بولی

تمہیں خوشی نہیں ہوئی سن کر؟شازل الگ سے حیران ہوا وہ تو سمجھا تھا یہ بات سن کر ماہی سیدھا اُس کے گلے لگے گی مگر یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی تھی۔

بلکل بھی نہیں شازل کتنا عجیب لگے گا۔ماہی نے فورن سے کہا

اِس میں عجیب کیا بات ہے ولیمہ کرنا تو سنت ہے۔شازل نے کہا

ہاں پر وہ شادی کے اگلے دن ہوتا دو تین سال یا بچے کی پیدائش کے بعد تھوڑی۔ماہی منہ بناکر بولی

تمہیں کجھ نہیں پتا اور ایسی بات مت کرو یہ غلط ہے۔شازل نے اِس بار سنجیدگی سے ٹوکا

اچھا سوری کب ہوگا ہمارا ولیمہ؟ماہی معصوم شکل بناتی بولی تو شازل کو نے اختیار اُس پہ آیا جس پہ وہ جھک کر اُس کا ماتھا چوم گیا۔

وہ جب

پپ ۔۔۔پاپ۔۔ پپ۔۔۔۔۔۔۔

شازل ماہی کی پیشانی کے ساتھ اپنی پیشانی ٹِکائے بتانے والا تھا جب شازم کی آواز پہ حیرت سے اُس کو گھورنے لگا۔

یہ کوئی پاپ نہیں ہم ایک دوسرے پہ پاک ہیں اور پاپ وہ ہے جو تم ہم میاں بیوی کی پرائیویسی میں دخل دے کر کر رہے ہو چلو شاباش اپنی آنکھیں بند کرو بڑا آیا ہمیں پاپ کا درس دینے۔شازل اپنی آنکھیں چھوٹی کیےاُس کو گھور کر بولا تو شازم روہانسا ہوتا ماہی کو دیکھنے لگا جس کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا تھا۔

ہاہاہا شازل کیا ہوگیا ہے وہ پاپ بول رہا ہے جس کا مطلب ہے صاف شازم صاف کہنا چاہ رہا ہے کیونکہ شازم کا ڈائیپر چینج کرنا ہے جو آج میں نے نہیں کیا۔ماہی ہنسی کے درمیان میں شازل کو بتانے لگی۔

تو آج سے اِس کو مما سکھانے سے اچھا ہے "صاف" لفظ سکھاؤ خوامخواہ کسی اور کے سامنے ایسا لفظ باہر نکالا تو لوگ جانے کیا سمجھے گے کے ہم کونسا پاپ کررہے ہیں۔شازل نے کہا تو اُس کی بات پہ ماہی نے منہ بسورا۔

اچھا ہمیں اب اپنا کام کرنے دے آپ کی تو شازی سے شکایات ختم نہیں ہوگی۔ماہی کھڑی ہوتی بولی

اپنے شازی کے کرتوتوں پہ نظر نہ ڈالنا کبھی۔شازل تو جل اُٹھا جبکہ ماہی ہنستی واشروم کی جانب بڑھ گئ۔

پاپ۔ ماہی کے جانے کے بعد شازل لفظ دوہراتا ہنس پڑا

💕💕💕💕💕💕💕💕

میں نکاح سادگی سے چاہتی ہوں جس میں بس ہم ہو اور کجھ گواہ۔فجر نے دلاور خان زوبیہ بیگم اور خاموش بیٹھے یمان کو دیکھ کر کہا۔زرفشاں زرگل زرنور تو پہلے ہی پاکستان سے چلی گئ تھی اب کجھ ماہ پہلے نور بھی اپنے گھر چلی گئ تھی۔

وہ سب تو ٹھیک مگر فنکشن وغیرہ تو کوئی ہونا چاہیے تھا نہ۔زوبیہ بیگم نے کہا

نکاح سادگی سے کرنے کا حکم ہے کیونکہ سادگی میں برکت ہوتی ہے۔فجر نے ایک بار پھر کہا تو زیادہ کسی نے زور نہ دیا۔

شام کو نکاح خواہ آجائے گا آپ تیار رہنا۔یمان نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔

ویسے یہ یامین کہاں ہے نظر نہیں آرہا؟دلاور خان آس پاس نظر ڈورا کر بولے۔

اُس کو ارمان لیکر گیا ہے پارک۔فجر نے بتایا۔

اچھا رات کو ہمیں بھی نکلنا ہے ایک دوست کی پارٹی ہے۔زوبیہ بیگم نے کہا

ٹھیک۔فجر اتنا کہتی یمان کو دیکھنے لگی جو اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔

تم چلو گے نہ یمان؟تمہارا بھی انویٹیشن آیا تھا۔دلاور خان نے یمان کو مخاطب کیا

میرا موڈ نہیں۔ یمان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

کب تک ایسا چلے گا؟فجر نے سنجیدگی سے پوچھا

پتا نہیں آپی۔یمان نے کندھے اُچکائے۔

آپ اپنی بیٹی کو سمجھاتے کیوں نہیں؟فجر اب کی دلاور خان اور زوبیہ بیگم سے بولی۔

ہم نے بہت کوشش کی ہے۔زوبیہ بیگم افسردہ سانس خارج کرتی بولی تو یمان وہاں سے اُٹھ کر چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ کہاں تھے کل سے؟دُرید جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا حریم لپک کر اُس کے روبرو کھڑی ہوتی پوچھنے لگی۔

کام تھا ضروری۔دُرید بنا دیکھے جواب دیتا وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔

آپ ناراض ہیں؟حریم انگلیاں چٹخاتی پوچھنے لگی۔

نہیں۔دُرید سپاٹ لہجے میں کہتا واشروم میں داخل ہوا تو حریم نے نم نظروں سے واشروم کے بند دروازے کو دیکھا

آپ کے لیے کھانا لاؤں؟دس پندرہ منٹ بعد دُرید واشروم سے نکلتا اپنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر آتا تو حریم نے کھانے کا پوچھا

تمہیں کب سے میرے کھانے پینے کی فکر ہونے لگی؟دُرید اُس کے روبرو کھڑا ہوتا سنجیدگی سے بولا تو حریم کجھ پل بول نہ پائی۔

ہمیں معاف کردے ہمیں آپ سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھی۔حریم اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتی آنسو بہاتی بولی

مجھے تمہاری معافی نہیں چاہیے۔آج دُرید اُس کے آنسو سے پِگھلا نہیں تھا رخ پھیر کر بس یہی بولا

پلیز ایسے برتاؤ مت کرے ہم جانتے ہیں آپ ناراض ہیں پر ایسے مت کہے ہم معافی مانگ رہے ہیں نہ اور پھر کبھی ایسے بات نہیں کرینگے۔حریم اُس کے سامنے کھڑی ہوتی ندامت سے بولی۔

کیا چاہتی ہو تم حریم؟جو تم چاہتی تھی وہ کر تو رہا ہوں نہ اب کیا کروں؟دُرید تنگ آتا بولا

ایسے نہ کرے حورم کو آپ کی عادت ہوگئ ہے وہ کل رات سے بہت رو

کہاں ہے حورم؟حریم ابھی بات کررہی تھی جب دُرید سنجیدہ سے پوچھنے لگا۔

آپ کو حورم کی پرواہ ہے مگر ہمارے آنسو آپ کو نظر نہیں آرہے؟حریم چڑ کر بولی

تم اب بڑی ہوگئ ہو تمہیں میری ضرورت کہاں۔دُرید طنزیہ لہجے میں کہتا کمرے سے جانے والا تھا جب حریم آگے بھرتی اُس کے سینے پہ اپنا سر رکھ گئ اُس کے عمل پہ دُرید ساکت سا اُس کو دیکھنے لگا جو رونے کا شغل فرما رہی تھی۔

رو کیوں رہی ہو؟دُرید اُس کے گرد حصار بناتا بولا

آپ ناراض جو ہیں۔حریم سوں سوں کرتی ہوئی بتانے لگی۔

نہیں ہوں میں ناراض۔دُرید اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا

پھر ایسے بات کیوں کررہے ہیں؟دوسرا سوال

تمہیں وحشت جو ہوتی ہے۔دُرید نے کہا تو حریم نے اُس کے سینے سے سراُٹھا کر دیکھا۔

ہم ایسے ہی بول گئے تھے آپ نے ہماری باتوں کو دل پہ لے لیا پہلے تو ایسے نہیں کرتے تھے۔حریم اُس کی جانب دیکھتی شکوہ کناں لہجے میں بولی۔

پہلے تم ایسی باتیں نہیں کرتی تھی جو دل پہ لگتی۔دُرید نے کہا۔

کیا آپ ہم سے پیار کرتے ہیں؟یا حورم کی وجہ سے نکاح کیا؟حریم نے جاننا چاہا

تمہیں کیا لگتا ہے؟دُرید اُس کے گالوں پہ آنسو کے نشان ہاتھ کی پوروں سے صاف کرتا اُلٹا اُس سے سوال پوچھنے لگا۔

ہمیں لگتا ہے آپ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے یہ نکاح کیا۔حریم نظریں جُھکائے بولی

تم مجھے عزیز ہو حریم کیسے یقین دلاؤ؟دُرید جھک کر اُس کی پیشانی چومتا بولا۔

آپ نے ہمیں بہت تکلیف دی ہیں گال پہ تھپڑ بھی مارا تھا۔حریم کو پھر سے وہ باتیں یاد آئی تو نم نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا۔

میں شرمندہ ہوں اپنے عمل پہ۔دُرید اُس کے گال پہ پھیرکر بولا

تھپڑ کی گونج آج تک سُنائی دیتی ہیں ہمیں ہمارے کانوں میں۔حریم نے بتایا

بھول جاؤ سب۔دُرید نے کہا

آپ بدل جائینگے ہم سے پیار بھی نہیں کرتے۔حریم منہ بسور کر ایک بار پھر بولی تو دُرید کے دل میں شدت سے خواہش جاگی کے وہ اپنا سر دیوار پہ مارے۔

میں اب کیا اگر سینے سے دل نکال کر تمہارے سامنے پیش کروں تو آجائے گا یقین؟دُرید ضبط کرتا اُس سے پوچھنے لگا

آپ طنز کررہے ہیں؟حریم کو دُکھ ہوا

میری کیا مجال میں تو بس آپ سے پوچھ رہا ہوں زوجہ محترمہ۔دُرید مسکراہٹ ضبط کرتا بولا

یہ زوجہ محترمہ کیا ہوتا ہے؟حریم نے اُس کو گھورا

وہی جو آپ میری ہیں۔دُرید اُس کو دوبارہ سے اپنے حصار میں لیکر بولا۔

آپ واقع ہم سے پیار کرتے ہیں؟وہی مرغی کی ایک ٹانگ 

حریم اب لگاؤں گا کان کے نیچے۔دُرید نے اُس کو گھورا تو وہ ہنس کر اپنا سر اُس کے سینے پہ رکھ گئ۔

آپ بوڑھے ہورہے ہیں؟حریم نے کہا تو دُرید نے ایک جھٹکے سے اُس کو خود سے دور کیا تو حریم سٹپٹاکر یہاں وہاں دیکھنے لگی۔

کیا کہا؟دُرید نے تند نظروں سے اُس کو گھورا

وہ اُس دن ہم نے آپ کے بالوں میں ایک سفید بال دیکھا تھا۔حریم دانتوں کی نمائش کرتی ہوئی بولی۔

جھوٹ۔دُرید ماننے سے انکاری ہوا

سچی میں اِتنوں سا چھوٹوں سا بال تھا سفید اگر آپ غور کرینگے تو نظر آجائے گا۔حریم دو انگلیوں سے فاصلہ بناتی بتانے لگی۔

بڑی ہی کوئی عجیب شے ہو بجائے تم میرے نین نقش پہ غور کرنے کے اتنوں سے سفید بال پہ غور کرتی ہو۔دُرید نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا

اب نظر آگیا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔حریم شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کرتی بولی۔

ایک سفید بال سے کوئی بوڑھا نہیں ہوتا۔دُرید نے جتایا

آپ تو بڑے ایج کونشئس نکلے۔حریم نے شرارت سے کہا

بات نہ کرو تم مجھ سے۔دُرید ناراض لہجے میں اُس سے کہتا ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھتا بالوں میں برش پھیرنے لگا۔

اچھا نہ ہم تو مذاق کررہے تھے خیر آپ یہ بتائے کھانا لاؤں آپ کے لیے؟حریم نے مسکراکر کہا

تم نے کھانا کھایا ہے؟درید گردن موڑ کر اُس کو دیکھ کر بولا

نہیں۔حریم نے معصوم شکل بنائی۔

حد کرتی ہوں حریم جاؤ کسی ملازمہ سے کھانے کا کہو اور تم حورم کو لے آؤ۔دُرید نے حکم صادر کیا۔

لاتی ہوں حورم کو پر اُس کے سامنے ہمیں بھول مت جائیے گا۔حریم اُس کو تاکید کرتی کمرے سے باہر نکلی۔دُرید اُس کی بات پہ مسکراکر سرجھٹکتا خود پہ پرفیوم چِھڑکنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یونہی کوئی مل گیا تھا

سرِ راہ چلتے چلتے

وہیں تھم کے رہ گئی ہے

میری رات ڈھلتے ڈھلتے

یونہی کوئی مل گیا تھا ۔۔۔

جو کہی گئی نہ مجھ سے

وہ زمانہ کہہ رہا ہے

کہ فسانہ بن گئی ہے

میری بات ٹلتے ٹلتے

یونہی کوئی مل گیا تھا ۔۔۔

شبِ انتظار آخر

کبھی ہوگی مختصر بھی

یہ چراغ بجھ رہے ہیں

میرے ساتھ جلتے جلتے

یونہی کوئی مل گیا تھا۔

آروش نے فیصلہ کرلیا تھا وہ اب مزید وقت ضائع نہیں کرے گی اب مزید وہ یمان کو تکلیف نہیں دے گی بلکہ وہ اچانک جاکر یمان کو سرپرائز دے گی۔یمان کا ری ایکشن سوچ سوچ کر اُس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا وہ اپنے سر پہ ڈوپٹہ ٹھیک کرتی کمرے سے باہر نکلتی شھباز شاہ کے کمرے میں آئی۔

بابا سائیں۔آروش نے شھباز شاہ کو آواز دی۔

جی میرا بچہ آؤ اندر۔شھباز شاہ نے مسکراکر اندر آنے کی اِجازت دی۔

مجھے اسلام آباد جانا ہے آپ چھوڑ آئینگے؟آروش اندر داخل ہوتی اُن سے بولی۔

کیوں نہیں تم تیار ہوجاؤ میں چھوڑ آؤں گا۔شھباز شاہ نے ہلکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

وہاں مجھے آپ کی بہت یاد آتی ہے۔آروش نے بتایا

ہم سب بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔شھباز شاہ اُس کو اپنے ساتھ لگائے بولے تو آروش مسکرائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ارمان اور فجر کا خیر سے نکاح ہوگیا تھا جس پہ ارمان بہت خوش تھا۔نکاح کے بعد وہ فجر کو اور یامین کو اپنے گھر لایا تھا نکاح پہ عیشا نہیں آئی تھی کیونکہ اُس کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی جس وجہ سے اُس نے معذرت کرلی تھی جبکہ یمان فجر کے نکاح کے وقت تو ساتھ تھا پھر کسی ضروری کام کا کہہ کر چلاگیا تھا۔

مجھے چٹکی کاٹیں۔ارمان کمرے میں داخل ہوا تو بیڈ پہ بیٹھی فجر کو دیکھ کر ڈرامائی انداز میں کہا

سُدھر جاؤ۔فجر نے اُس کو گھورا

عموماً اِس دن پہ لڑکیاں شرم سے گُلنار ہوجایا کرتی ہیں اور ایک آپ ہیں جو مجھ پہ روعب جمارہی ہیں۔ارمان منہ بسور کر بولا

منہ دھوکر رکھو کے میں شرم سے گُلنار ہوگی۔فجر نے کہا تو ارمان سخت والا بدمزہ ہوا

خیر ماشااللہ سے بہت بڑا والا ہوں میرا ارمان تو ٹوٹ گیا خیر آپ ہاتھ دے اپنا۔ارمان تھوڑا اُس کے قریب بیٹھ کر اپنی ہتھیلی اُس کے سامنے کی تو فجر نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پہ رکھا۔

شکریہ میرا پرپوزل قبول کرنے کے لیے اور میری زندگی میں شامل ہونے کے لیے۔ارمان اُس کے ہاتھ کی انگلی میں رِنگ پہناتا اُس پہ اپنے لب رکھتا بولا تو فجر کے گال سچ میں گلابی ہوئے تھے جس کو وہ چاہ کر بھی ارمان سے چُھپا نہ پائی۔

او مائے گُڈنس یہ میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں آپ بلش کررہی ہیں؟ارمان سینے پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پہ گِرنے والے انداز میں لیٹتا فجر سے بولا 

تم سُدھرنے والی ہڈی ہی نہیں ہو۔اپنی خفت مٹانے کے غرض سے فجر نے پاس پڑا کشن اُس پہ دے مارا

ہاہاہاہاہاہا ابھی سے ہی بیویوں والے کام شروع کردیئے۔ارمان ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوتا بولا

مرو تم یہاں میں یامین کے پاس جارہی ہوں۔فجر بیڈ سے اُٹھتی بولی تو ارمان کرنٹ کھاکر اُٹھ کھڑا ہوا۔

ایسا ظلم مت کیجئے گا ابھی تو مجھ اپنے نکاح ہونے کا یقین تک نہیں آیا اور آپ جارہی ہیں۔ارمان اُس کے روبرو کھڑا ہوتا بولا۔

تمہیں یقین تو آنا نہیں ہے اِس لیے میں اپنے بیٹے کے پاس جارہی ہو۔فجر اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر پیچھے کرتی ہوئی بولی۔

میں تو مذاق کررہا تھا مجھے تو یقین بھی کب کا آگیا ہے اور یامین تو خواب و خرخوش کے مزے لوٹ رہا ہے کیوں اُس کی نیند خراب کرنا چاہ رہی ہیں آپ۔ارمان اُس کے دونوں کا ہاتھ تھام کر بولا۔

تم بہت نان سیریس انسان ہو۔فجر نے بتایا

ہوگا مگر آپ کے لیے میں بہت سیریس کنڈیشن والے جذبات رکھتا ہو۔ارمان شوخ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو فجر مسکرادی اُس کو احساس ہورہا تھا ارمان اتنا بُرا نہیں تھا جتنا وہ اُس کو سمجھتی تھی وہ ایک خوش طبع انسان تھا جس کو بس خوشیاں بانٹنی آتی تھی وہ بھی بغیر کسی غرض کے۔

💕💕💕💕💕💕💕

یمان گھر داخل ہوا تو اندھیرے نے اُس کا استقبال کیا وہ ہاتھ مار کر سوئچ بورڈ کو ٹٹول کر لائیٹس آن کی تو پورا ہال روشنی میں نہاگیا مگر ہال کی وسط پہ کھڑی ہستی کو دیکھ کر یمان کتنے ہی پل ساکت رہا تھا اُس کو یقین نہیں آرہا تھا کے واقع آروش ایک بار اُس کے سامنے کھڑی ہے یا اُس کا وہم ہے۔وہ چلتا ہوا اُس کے روبرو کھڑا ہوگیا اور غور سے آروش کو دیکھنے لگا جو نم نظروں سے اُس کو ہی دیکھ رہی تھی جو بکھرے بال اُلجھا ہوا حُلیہ بڑی ہوئی شیو کے ساتھ وہ یمان لگ ہی نہیں رہا تھا جس کو وہ جانتی تھی پہچانتی تھی آروش کو خود پہ حد سے زیادہ غصہ آنے لگا وہ کیوں آخر اُس کے ساتھ زیاتی کر جایا کرتی تھی؟

آپ سچ میں ہیں؟یمان اُس کو چھو کر دیکھتا جیسے خود کو یقین دلانا چاہ رہا تھا کے ہاں وہ واقع اُس کے سامنے کھڑی تھی۔

ہ ہاں۔آروش سرجھکاتی بولی۔

آج کیسے مجھ پہ ترس آگیا آپ کو؟یمان اپنی پیشانی اُس کی پیشانی سے جوڑ کر سکون کا سانس اپنے اندر کھینچ کر بولا

کیا مجھے نہیں آنا چاہیے تھا؟آروش نظریں اُٹھاکر اُس کو دیکھ کر بولی۔

میری حالت دیکھنے کے بعد آپ کا یہ پوچھنا بنتا ہے؟یمان نے بے اختیار شکوہ کیا۔

میں اپنی ہر زیادتی کی تم سے معاف

اِس سے آگے ایک لفظ نہیں آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔آروش نم لہجے میں اُس سے معافی مانگنے والی تھی جب یمان اُس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش کرواکر بولا۔

تم جتنے اچھے ہو میں اُتنی ہی بُری ہوں میں کبھی سمجھ نہیں پاؤں گی کے تمہیں مجھ سے اتنی محبت کیوں ہیں؟آروش کی آنکھ سے آنسو گِر کر گال پہ پِھسلا۔

اب چھوڑ کر تو نہیں جائے گی نہ؟یمان اُس کا چہرہ ہاتھ کے پیالوں میں بھرکر تصدیق چاہنے لگا۔

مزید ہمت نہیں کے بہادری کا مظاہرہ کروں۔م۔۔۔می۔۔۔۔میں۔۔۔سچ۔۔۔۔میں۔۔۔۔تم۔۔۔۔سے۔۔۔۔۔پیار۔۔۔۔۔کرتی ہوں۔۔۔۔۔بہت۔۔۔پیار کرتی ۔۔۔۔ہوں کب۔۔۔سے۔۔کیسے۔۔یہ نہیں جانتی۔۔۔۔میں۔آروش نے اٹک اٹک کر اظہار کیا تو یمان سانس لینا بھول کر یک ٹک آروش کا چہرہ دیکھنے لگا جس کا پورا چہرہ آنسوؤ سے تر تھا۔

مجھے یقین نہیں آرہا۔یمان خود پہ ہنس پڑا

کرلو یقین۔آروش نے کہا

مجھے آپ مل گئ ہے میں اِس بات پہ جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے میرے لیے آپ کا ہونا کسی نعمت یا معجزے سے کم نہیں مجھے آپ تب ملی جب میرے اندر آپ کے پانے کی خواہش دم توڑنے لگی تھی۔یمان زور سے اُس کو خود میں بھنیچتا جذب کے عالم میں بولا تھا جس پہ آروش نے سکون سے اپنی آنکھوں کو موندا تھا پھر ایک خیال کے تحت اپنی آنکھیں کھول کر یمان سے تھوڑا فاصلہ کیے کھڑی ہوتی اُس کی شرٹ کے اُپری بٹن کھولنے لگی۔

یہ آپ کیا کررہی ہیں کوئی آجائے گا؟یمان آروش کی حرکت پہ سٹپٹاتا اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولا تو اُس کی بات اور ری ایکشن کا مطلب جان کر آروش نے اُس کو بُری طرح سے گھورا۔

خاموشی سے کھڑے رہو۔آروش نے اُس کو ٹوکا پھر شرٹ کے چار بٹن ایسے ہی کھول دیئے جس پہ یمان کے ماتھے پہ پسینے چھوٹنے لگے تھے اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ اچانک آروش کو ہو کیا گیا؟

بٹنز کھولنے کے بعد آروش نے یمان کے سینے پہ دیکھا تو سختی سے اپنے ہونٹوں کو بھینچ گئ تھی جہاں آج بھی واضع طور پہ گولیوں کے نشان ظاہر تھے۔یمان جو ناسمجھی سے آروش  کے چہرے کے بدلتے تاثرات نوٹ کررہا تھا اُس کی نظروں کے تعاقب میں نظریں نیچے کیے اپنے سینے کی جانب دیکھا تو اُس کو ساری ماجرا سمجھ آگئ۔

آپ کو یاد تھا؟یمان کجھ حیران ہوا کیونکہ اِن نشانوں کا پتا تو فجر یا عیشا کو تو کیا ارمان کو بھی نہیں تھا شاید دلاور خان کو بھی نہیں

بھولی کب تھی۔آروش اتنا کہتی اُس کے دل کے مقام پہ اپنا ہاتھ رکھا جس کے کجھ فاصلے پہ گولی کا نشان تھا اور کجھ نیچے ایک اور گولی کا نشان بھی واضع تھا۔

بھول جائے۔یمان اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ پہ رکھ کر بولا

کوشش کرتی ہوں مگر ہو نہیں پاتا میری ایک غلطی کی وجہ سے تمہارے ساتھ یہ سب ہوا تھا۔آروش نے کہا اُس کی نظریں ابھی بھی اُن نشانوں پہ تھیں۔

آپ کی وجہ سے کجھ نہیں ہوا اِس لیے ایسا نہ سوچے۔یمان اُس کو اپنے حصار میں لیکر بولا

شرٹ کے بٹن بند کرو اپنے۔آروش کو اب اُس کے ایسے کھڑے ہونے پہ شرم محسوس ہونے لگی۔

میں کیوں کروں بند کھولے آپ نے ہیں تو خود کرے۔یمان شرارت سے اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے ٹکرا کر کہا۔

بے شرم ہو تم۔آروش نے گھور کر کہا تو یمان ہنس کر اُس کو اپنے حصار میں قید کیا۔

پردہ کرو کیونکہ.......... تم کسی باپ کا غرور ہو

پردہ کرو کیونکہ......... تم کسی بھائی کی غیرت ہو

پردہ کرو کیونکہ....... تم کسی شوہر کی عزت ہو

پردہ کرو کیونکہ......... تم کسی کے گھر کی زینت ہو

پردہ کرو کیونکہ...... پردہ حیاء کا زیور ہے

پردہ کرو کیونکہ...... پردے میں عورت کی شان ہے

پردہ کرو...کیونکہ تم کوئ معمولی سامان نہیں...بلکہ اسلام کی شہزادی  ہو

زوبیہ بیگم دلاور خان کی تلاش میں یہاں وہاں نظریں پھیر رہی تھیں جب اُن کے کانوں میں کسی عورت کی آواز پڑی تو اُن کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا وہ پلٹ کر دیکھنے لگی جہاں ایک عورت سات سالہ بچی کو حجاب کی صورت میں ڈوپٹہ پہناتی مسلسل پردے کے بارے میں اُس کو بات رہی تھی۔ 

اِتنی چھوٹی سی بچی کو ایسے ڈوپٹہ کیوں پہنا رہی ہو؟بچی ہے اُلجھن ہوگی اُسے۔ زوبیہ بیگم کے قدم بے ساختہ اُن کی طرف بڑھے تھے۔ اُن کی بات پہ وہ عورت مسکرائی پھر سراٹھاکر اُن کو دیکھا

ڈوپٹا اُلجھن نہیں دیتا سکون دیتا ہے مانا کے میری بچی بہت چھوٹی ہے مگر جیسا ماحول بن گیا ہے اُس سے مجھے خوف آتا ہے میں نہیں چاہتی اِس ماحول کی ہوا میری بیٹیوں کو لگے اور وہ بھی ماڈرن کے نام پہ جہالت کا روپ اختیار کرنے لگے جائے اگر ابھی سے عادت ہوگی حجاب کی تو بڑھی ہوکر اِن کو ڈوپٹے سے اُلجھن یا گھٹن نہیں ہوگی بلکہ سکون ملے گا اِن کو احساس ہوگا کے ہمارے اللہ کو عورتیں کیسے پسند ہوتی ہیں جس طرح قرآن پاک کو غلاف پہنایا جاتا ہے ٹھیک اُس طرح ایک اسلام کی شہزادی ہونے کی صورت میں اِن کے سروں پہ حجاب ہونا لازم ہیں تاکہ کسی نامحرم یا ہوس پرست کی نظریں انہیں نہ چھو پائے۔وہ بہت خوبصورت اور دھیمے لہجے میں بولی تو زوبیہ بیگم لاجواب ہوئی۔ 

سیدزادی ہو؟ زوبیہ بیگم نے اِندازہ لگایا

ایک مسلمان عورت ہوں۔اس نے بتایا

پردے کے بارے میں کیا جانتی ہوں مطلب آجکل کہاں یہ سب ہوتا ہے زمانہ بہت آگے نکل چُکا ہے تمہیں چاہیے اپنی بیٹی کا دماغ اوپن کرو اُس میں کانفڈنٹ لاؤ۔زوبیہ بیگم نے اپنی بات کہی۔

میری امی حضور کہا کرتی تھی جب میں نے بارہ سال کی عمر میں اُن سے پوچھا تھا کے وہ حجاب یا پردہ کیوں کرتی ہیں تو انہوں نے بتایا۔ 

میں آج کی ماڈرن لڑکی ہوں اور پردہ کرتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے یہ 1400 سال پرانا ہے ۔

حجاب نہ لینا تو حضرت آدم کے زمانے کا رواج تھا ۔

مگر میں تو آج کی ماڈرن لڑکی ھوں ۔

اب یہ آخری نبیؐ کے حکم سے ہے 

نہ انکے بعد کوئی نبی آئے گا نہ میرا فیشن بدلے گا، 

اور ویسے بھی اگر فیشن اچھے ھوں تو بدلتے نہیں ۔

صرف وہی بدلتے ہیں جن کو اچھا بنانے کی گنجائش ہوتی ہے۔

میرا فیشن تو پرفیکٹ ہے۔ حجاب ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں۔ رب تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک آیت ہے جو ماڈرن لڑکیاں تھامے رکھتی ہیں، اور ویسے بھی جیسے ہر عمارت پہ غلاف نہیں سوائے 

خانہ کعبہ کے ہر کتاب پہ غلاف نہیں سوائے قرآن پاک کے ویسے

ھر لڑکی کو چادر نصیب نہیں ہوتی سوائے

حیاء والی کے، 

تب کجھ خاص سمجھ نہیں آیا تھا مگر پھر آگیا آہستہ آہستہ۔اُس نے بتایا

باتیں اچھی کرلیتی ہو۔ زوبیہ بیگم ایمپریس ہوئی اُن کو آج پہلی بار اپنی ڈریسنگ سے شرمندگی  ہونے لگی تھی۔ 

باتوں کا کیا ہے وہ تو ہر کوئی کرلیتا ہے ہاں مگر اپنی اچھی باتوں پہ عمل کوئی کوئی کرتا ہے۔ وہ بولی۔ 

میری ایک بیٹی بھی پردہ کرتی ہے۔ زوبیہ کو آروش کا خیال آیا تو بتایا

ماشااللہ یہ تو اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو صراطِ مستقیم پہ چلائے۔ وہ دعائیہ انداز میں بولی

میں چلتی ہوں اب۔ زوبیہ بیگم کو وقت کا احساس ہوا تو کہا جس پہ اُس عورت نے محض سراثبات ہلانے پہ اکتفا کیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شازی بس کر جا میں نے سچ میں تمہیں کچڑے کے ڈبے میں پھینک آنا ہے۔ آدھی رات کے وقت شازل نیند سے بے حال ہوتا کمرے میں یہاں سے وہاں شازم کو گود میں اُٹھائے ٹہلاتا تپ کر اُس سے بولا ۔

آرام سے بات کرے اور آپ کی روح نہ کانپی میرے بچے کے بارے میں ایسی بات کرنے کی کونسا باپ اپنے بیٹے کو پھینک آنے کا کہتا ہے۔ بیڈ کراؤں سے ٹیک لگائے جمائی لیتی ماہی نے منہ بسور کر کہا

تم اگر ہر وقت کا رونا نہ روتی تو اِس وقت یہ تمہارا ایجاد کیا گیا نمونہ روندو نہ ہوتا۔شازل تپ کے بولا

شازی کو نمونہ نہ کہے اور ہر بچہ روتا ہے اِس میں کوئی نئ بات نہیں۔ماہی نے کہا

نمونے کو نمونہ ہی کہا جاتا ہے۔شازل نے جتایا

اچھا مجھے نیند آرہی ہے میں سونے لگی ہو یہ فیڈر پڑا ہے شازم کو پلا دیجئے گا۔ماہی کی آنکھیں بار بار نیند سے بند ہونے لگی تو اُس نے کہا

ہممم تم سوجاؤ میں شازی کو لان میں لے جارہا ہو یہ چپ بھی ہوجائے گا تمہاری نیند بھی ڈسٹرب نہیں ہوگی۔شازل اُس کی نیند کا خیال کرتا بولا تو ماہی چادر تان کر سوگئ۔

شازل لان میں آیا تو دُرید کو حورم کے ساتھ پہلے موجود پایا تو اُس کی ہنسی نکل گئ۔

تم یہاں؟دُرید جو حورم کو سُلانے کی کوششوں میں تھا شازل کو دیکھا تو حیران ہوا۔

جی تاکہ اِس کا پھٹا ہوا اسپیکر بند ہو۔شازل اتنا کہتا لان میں موجود ایک بینچ پہ بیٹھ گیا۔

آج حورم کو بھی کمرے میں نیند نہیں آرہی تھی دُرید نے بتایا

حریم کہاں ہے پھر؟شازل نے پوچھا

وہ گہری نیند میں ہے اُس کو تو پتا بھی نہیں ہم یہاں ہے دن میں حورم اُس کو بہت تنگ کرتی ہے اِس لیے تھکن کی وجہ سے جلدی سوگئ تھی۔دُرید نے بتایا

ایک تو یہ پرنسز بہت نخریلی ہے دل کرتا ہے تو آجاتی ہے ورنہ منہ نہیں لگاتی۔شازل ہنس کر بولا۔

ماں پہ گئ ہے۔دُرید بھی ہنس دیا

اچھا لالہ ولیمہ کب ہوگا ہمارا؟شازل کو بیٹھے بیٹھائے اچانک اپنا ولیمہ یاد آیا

جلدی ہوجائے گا تمہیں کیوں اِتنی بے قراری ہے؟۔دُرید بدمزہ ہوتا بولا۔

ایسے ہی پوچھا ویسے یہاں آتے ہی شازی چپ ہوگیا ہے۔شازل شازم کو دیکھ کر بولا

کہو تو میں چٹکی کاٹوں اِس کے بازوں پہ پھر جو رونا اِس نے شروع کرنا ہے تو گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں آسانی سے چپ نہیں ہوگا۔دُرید اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا بولا تو شازل تو جیسے تڑپ اُٹھا تھا خود وہ چاہے کجھ بھی کہتا مگر کسی اور سے اُس کو ایسا مذاق بھی گوارہ نہیں تھا۔

اللہ کا خوف کرے معصوم کو چٹکی کاٹنے سے آپ کے ہاتھ نہیں کانپیں گے؟شازل شازم کو خود میں بھینچتا بولا تو دُرید کا قہقہقہ بے ساختہ تھا کیونکہ شازل کا ری ایکشن ایسا تھا جیسے وہ اُٹھ کر شازم کو سچ میں چٹکی کاٹنے لگا ہو

توبہ ہے مذاق کیا تھا جسٹ۔دُرید نے ہنسی کے درمیان کہا

یہ بڑا ہوجائے بتاؤں گا میں آپ کی حسرتیں اِس کو۔شازل نے سر کو جنبش دیتے کہا تو دُرید نے نفی میں سر کو ہلایا۔

شازم کو دیکھو سو گیا ہے کمرے میں لے جاؤ اُس کو۔دُرید نے کہا

میں تو جارہا ہوں آپ بھی جائے یا آج کی رات یہاں قیام کرنے کا اِرادہ ہے۔شازم اپنی جگہ سے اُٹھ کر بولا۔

میں بھی حورم کو لیکر کمرے میں جارہا ہوں۔دُرید نے بتایا تو شازل بھی حویلی کے اندر داخل ہوا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

کہاں تھے آپ؟دُرید کمرے میں داخل ہوا تو حریم نے پوچھا۔

تم جاگ گئ کیا میں تو تمہاری نیند خراب نہ ہو اِس وجہ سے گیا تھا۔دُرید حریم کو مسکراکر دیکھتا حورم کو بے بی کارٹ میں لیٹانے لگا۔

حورم رو رہی تھی تو ہمیں جگا دیتے۔حریم کو شرمندگی ہوئی۔

رو نہیں رہی تھی ویسے ہی ہم باپ بیٹی واک پہ گئے تھے۔دُرید بیڈ پہ آکر بولا

ہاں اچھا۔حریم نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی۔

سوجاؤ۔دُرید نے کہا تو وہ کھسک کر اُس کے پاس آتی اپنا سر اُس کے سینے پہ رکھا 

ہمیں شرمندگی ہوتی ہے۔حریم نے بتایا

شرمندگی کیوں؟دُرید اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا پوچھنے لگا۔

ہم نے آپ کو بہت باتیں سُنائی تھیں یہ جانتے ہوئے بھی کے آپ نے بچپن سے ہمارے لیے بہت کجھ کیا ہماری ہر ضروریات کو پورا کیا بنا کہے بنا مانگے وہ سب کجھ ہمیں دیا جس کو شاید ہم ڈیزرو بھی نہیں کرتے تھے مگر جب ہم نے ایک چیز آپ سے مانگی اور آپ نے نہ دی تھی تو ہم نے آپ کے کیے گئے احسانات بھی بھول گئے۔حریم آہستگی سے بولی۔

میں نے تم پہ کوئی احسان نہیں کیا زوجہ محترمہ میں نے جو کجھ کیا تھا وہ میری محبت تھی مجھے تم بچپن سے عزیز رہی ہو۔دُرید نے کہنے کے ساتھ ہی اُس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔

اچھا تو ہم اگر آپ کو اتنے عزیز تھے تو آپ نے وولٹ میں ہماری تصویریں رکھنے کے بجائے کسی چڑیل کی تصویر کیوں رکھی ہے۔حریم ٹیرھی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی تو دُرید کو زبردستی قسم کا کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔

آپ ٹھیک ہیں؟حریم اُس کے سینے سے سر اُٹھاتی فکرمندی سے پوچھنے لگی۔

ہاں میں ٹھیک مگر زوجہ آپ یہ بتائے کے میری جاسوسی کب سے کرتی آئی ہیں اور میں نے تو اپنے وولٹ میں کسی چڑیل کو جگہ نہیں دی۔دُرید واپس اُس کو اپنے حصار میں لیکر بولا

ہونہہ آپ کجھ بھی کہے ورنہ وولٹ اور دل میں پہلے سے ہی کسی کو پُر کیا گیا ہے۔حریم دُکھی دل سے بولی۔

تو کیا میں بیس سال کا نوجوان آٹھ سال کی بچی کے ساتھ آنکھ مٹکا کرتا خیر اتنا بھی میں نظرباز نہیں تھا تمہیں تو میں نے اپنا بچہ سمجھا تھا مگر مجھے کیا پتا تھا تم میرا بچہ نہیں بلکہ میرے بچے کی اماں بنو گی۔دُرید قہقہقہ لگاکر بولا تو حریم کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔

یوں بات نہ بدلے ہم سیریس ہیں۔حریم خود کو کمپوز کرتی اُس کے سینے پہ ہاتھ مارکر خفگی سے بولی۔

اچھا میری زوجہ محترمہ سیریس ہے تو ہم بھی سیریس ہوتے ہیں۔دُرید مسکراہٹ ضبط کرتے اپنا ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے اپنا وولٹ اُٹھاکر بلب آن کیا۔

حورم اُٹھ جائے گی۔حریم بے بی کارٹ کو دیکھتی دُرید کو گھور کر کہنے لگی۔

نہیں اُٹھتی وہ ویسے بھی بچوں کی اِن چیزوں سے فرق نہیں پڑتا بے چاوں کو نیند آجاتی ہے۔دُرید نے ناک سے مکھی اُڑائی۔

یہ وولٹ کیوں اُٹھایا ہے؟حریم نے بات کا رخ بدلا

یہ دیکھو۔دُرید نے وولٹ کھول کر اُس کے سامنے کیا جہاں ایک طرف اُس کی تصویر تھی تو دوسری طرف حورم کی۔

پہلے تو ایک چڑیل کی ہوتی تھی اب کیا فائدہ ہماری رکھنے کا۔حریم منہ بسور کر بولی۔

تمہیں یہ تو پتا ہے کے یہاں کسی چڑیل کی تصویر ہوا کرتی تھی مگر یہ نہیں پتا اُس چڑیل کے ساتھ ایک پری کی تصویر بھی ہوا کرتی تھی۔دُرید نے مسکراکر بتایا

ہم سمجھے نہیں؟حریم ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

ہم آپ کو سمجھاتے ہیں۔دُرید نے کہا تو "ہم"لفظ پہ حریم نے اُس کو گھورا

یہاں کوم

کسی اور لڑکی کا نام مت لیجئے گا ہم بتارہے ہیں رونے لگ جائینگے۔دُرید ابھی "کومل"کہنے والا تھا جب حریم اُنگلی اُٹھاتی اُس کو وارن کرنے لگی۔

کیا ہوگیا ہے حریم نام ہی تو لینا تھا ایسے کیوں برتاؤ کررہی ہو ویسے بھی وہ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے۔دُرید پریشانی سے اُس کو دیکھ کر بولا

ہمیں گنوارہ نہیں آپ کسی اور کا نام بھی لے چاہے وہ اِس دُنیا میں ہو یا نہ ہو مگر آپ کے دل میں تو ہے نہ اگر ہمارے بس میں ہوتا تو آپ کے دل سے اُس کو نوچ کر باہر کرتے۔حریم کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اُتر آئی تھی۔

یار مجھے پتا نہیں تھا میری معصوم بیوی اتنی پوزیسیو ہوگی۔دُرید اُس کی نم ہوتی آنکھوں پہ بوسہ دے کر بولا

ہمارے ہوتے ہوئے آپ کیسے کسی اور کو چاہ سکتے ہیں؟ اگر آپ اُس سے شادی کرتے تو کبھی سوچا تھا ہمارا کیا ہوگا؟ہم تو اپنا سب کجھ آپ کو مانتے تھے حویلی میں اتنے سارے افراد ہونے کے باوجود بھی آپ کے پاس آتے تھے اگر کوئی اور لڑکی آتی تو وہ تو ہمیں آپ کی زندگی سے دودہ میں سے مکھی کی طرح باہر کرتی۔حریم شکوہ کرتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

حریم میری جان وہ بات کیوں سوچ رہی ہو جس کے پاس نہ سر ہے اور نہ پیر نہ کوئی تیسرا حصہ تم یہاں اِس وقت پورے حق کے ساتھ میرے پاس ہو میرے قریب ہو تو کوئی اور ڈر کیوں پالا ہوا ہے؟دُرید نرمی سے اُس کو سمجھانے کی خاطر بولا

نہ سر ہے اور نہ پیر نہ کوئی تیسرا حصہ سچی شازل لالہ جیسی بات کی ہے۔حریم تاسف سے دُرید کو دیکھ کر بولی

وہ بھی تو میرا بھائی ہے نہ خیر سوجاؤ اب۔دُرید نے مسکراکر کہا تو حریم نے سونے کے لیے آنکھیں موندلی

💕💕💕💕💕💕💕

آج آروش کی رخصتی کا ایونٹ تھا جس پہ مختصر لوگوں کو انوائٹ کیا گیا تھا مردوں کے بیٹھنے کی الگ جگہ تھی تو عورتوں کی الگ۔حویلی سے کلثوم بیگم فاریہ بیگم ماہی اور حریم آئی ہوئی تھی جب مرد حضرات میں ہر کوئی آیا تھا۔

زیادہ اُوور بنا دیا ہے مجھے نہیں پسند یہ سب۔آروش مرر میں اپنا عکس دیکھ کر ماہی سے بولی جس نے زبردستی اُس کے چہرے پہ ہلکہ سا میک اپ کیا تھا ڈریس میں اُس نے کسی لہنگے کے بجائے براؤن کلر کا فراق پہنا تھا جو کے یمان کی پسند کا تھا۔

اوور نہیں ہے ہیں نہ حریم تم بتاؤ؟ماہی نے بیڈ پہ اِسٹل بیٹھی حریم کو مخاطب کیا۔

آروش آپی۔حریم نے آروش کو آواز دی۔

ہمم۔آروش نے اُس کو دیکھا

سچی بات بتائے کیا واقع آپ کی شادی یمان مستقیم سے ہونے جارہی ہے ہمیں یقین نہیں آرہا آپ ایک سِنگر کی بیوی بننے والی ہیں۔حریم کے لہجے میں بے یقینی صاف عیاں تھی جس کو محسوس کرتی آروش مسکرادی تھی۔

اب وہ سنگر نہیں ہے سِنگِنگ کو اُس نے خیرآباد کہہ دیا ہے۔ماہی نے جواب دیا

جو بھی مگر تھے تو ایک مشہور ہستی نہ ٹیلینٹ تو اُن میں اب بھی موجود ہوگا جو مجھے لگتا ہے وراثت میں اُن کی بچوں کو ملے گا اگر بیٹے کو ملا تو اچھی بات ہے دوسرا یمان مستقیم زندہ ہوگا اگر بیٹی کو ملا تو کجھ اچھی بات نہیں کیونکہ وہ تو دُنیا میں اپنی آواز پہچانے سے رہی سوچنے والی بات ہے بچوں میں اچھی آواز کا ٹیلینٹ کس کو ملے گا؟بات کرتے کرتے حریم کی سوچے جانے کہاں تک پہنچ گئ تھی جب کے "بچوں"کے لفظ پہ آروش خفت کا شکار ہوئی تھی۔

حریم فضول گوئی مت کرو۔آروش نے اُس کو ڈپٹا جبکہ ماہی نے مسکراہٹ ضبط کی۔

آپی آپ کے دل میں تو لڈوؤں کی فیکٹری پھوٹی ہوگی سچی ایسا ہمسفر جو ملا ہے۔حریم اپنی ہی دُھن میں مگن تھی۔

حریم؟؟؟۔آروش نے تنبیہہ کی۔

اچھا سُنیں نہ آپ کے پاس رومال تو ہوگا ہی؟حریم اُٹھ کر اُس کے پاس آئی

رومال کیوں؟آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

رومال اِس لیے تاکہ آپ اُن نے انٹرویو لے میرے لیے سچی بڑا ارمان تھا اُن سے انٹرویو لینے کا۔حریم حسرت بھرے لہجے میں بولی

تمہارا دماغی خراب ہوگیا ہے۔آروش نے ایک چپت اُس کے ماتھے پہ رسید کی تبھی کمرے میں زوبیہ بیگم کلثوم بیگم اور فجر داخل ہوئی

ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔کلثوم بیگم اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر بولی۔

شکریہ۔آروش مسکرائی۔

آؤ تمہیں یمان کے کمرے میں چھوڑ آنے کا وقت ہوگیا ہے۔فجر نے کہا تو آروش کی نظریں ماہی پہ پڑی جو معنی خیز مسکراہٹ سے اُس کو دیکھ رہی تھی پھر آروش کی نظر حریم پہ پڑی جو مسکراہٹ ضبط کرتی یہاں وہاں دیکھ کر بے نیازی کا مظاہرہ کررہی تھی اُن دونوں کو دیکھ کر آروش کو خوامخواہ شرم محسوس ہونے لگی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

مجھے تم سے بات کرنا تھی۔آروش کو کمرے میں بیٹھانے کے بعد فجر نے اُس سے کہا

کونسی بات؟آروش نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولی

میں نے تمہیں بہت باتیں سُنائی تھی جب تم ہمارے گھر آئی تھی تو۔فجر نے کہا تو آروش خاموشی سے بس اُس کو دیکھنے لگی۔

میں کوئی لمبی چوڑی تھمید نہیں باندھوں گی میں بس یہ کہوں گی کے مجھے معاف کردینا۔فجر نے گہری سانس بھر کر کہا

میرے اندر آپ کے لیے کوئی کینہ نہیں ہے۔آروش نے جوابً کہا

تم اچھی ہوگی یا اچھی ہو تم میں کوئی تو بات ہوگی جو یمان تمہارے لیے اتنا پریشان ہوتا ہے تمہیں اتنا چاہتا ہے میں تو کبھی یمان کو سمجھ نہیں پائی اِس معاملے میں اُس نے آخر تم میں کیا دیکھا۔فجر مسکراکر اُلجھے ہوئے لہجے میں بولی

یہ بات تو سمجھ میں بھی نہیں پائی۔آروش ہنس کر بولی۔

اچھا میں چلتی ہوں اب۔فجر نے کہا تو آروش نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

فجر کے جانے کے کجھ ہی وقت بعد یمان کمرے میں داخل ہوا تھا یمان کی نظر آروش پہ پڑی تو اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا وہ کشمکش میں مبتلا ہوتا بیڈ پہ اُس کے پاس بیٹھا۔

"یمان کے بیٹھتے ہی آروش نے نظر اُٹھا کر یمان کو دیکھا جو اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔

یہ اتنا چپ کیوں ہوگیا ہے؟آروش نے اُس کو دیکھ کر بے ساختہ سوچا

السلام علیکم۔ یمان نے اتنی خاموشی کے بعد سلام کیا تو آروش کی جان اُچھل کر حلق میں آئی۔

اوو سوری کیا ہوا؟یمان شرمندہ ہوا

وعلیکم السلام جان نکال دی تھی میری۔آروش اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اُس کو گھور کر بولی۔

وہ آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آرہا کے میں کیا کروں؟یمان معصوم شکل بنائے بولا تو آروش سمجھ نہیں پائی وہ شرمائے یا اُس کو گھورے۔

میری منہ دیکھائی؟آروش اپنی خجلت مٹانے کے غرض سے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی اُس کے سامنے کیے کہا تو یمان نے مسکراکر اپنا ہاتھ اُس پہ رکھا

ٹرخا رہے ہو؟آروش نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کو دیکھا

میری یہ مجال ویسے تو میں پورا آپ کا ہوں پھر منہ دیکھائی کیوں چاہیے آپ کو؟یمان شرارت سے اُس کو دیکھ کر بولا

یمان میری منہ دیکھائی میں سچ بتارہی ہوں بات نہیں کروں گی۔آروش نے اُس کے ہاتھ خالی دیکھے تو وارن کیا۔

وہ تو مل جائے گی آپ پہلے آپ کی شان میں ایک شعر عرض کرنا چاہتا ہوں۔یمان اُس کے ہاتھ کی پشت چوم کر اپنے آنکھوں پہ لگائے بولا تو آروش کا چہرہ پل بھر میں گُلنار ہوا تھا اُس کو یمان سے پہلی بار جھجھک محسوس ہوئی تھی۔

اِجازت ہے؟یمان مسکراتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر بولا تو آروش نے محض سراثبات میں ہلایا اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ یمان کی والہانہ نظروں کا سامنا کرتی۔

من تو شدم تو من شدی من تن شدم توں جاں شدی

تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری۔

یمان اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو آروش ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی کیونکہ اُس کو مطلب سمجھ نہیں آیا۔

میں سمجھی نہیں۔آروش کے منہ سے پِھسلا تو یمان ہنس پڑا

I have become you,and you me,

I'm the body,and you soul ,

So that no one can say hereafter, 

That you are someone,and me someone else,

"آپ میری ہیں"اور مجھ میں آپ ہیں میں جسم ہوں"آپ روح ہیں" تو اِس لیے کوئی ہمیں الگ ہے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں اور آپ ایک ہی ہیں۔

یمان اپنی بات کے احتتام میں اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے ٹِکاکر گہری سانس اپنے اندر کھینچی۔

تم بہت اچھے ہو۔آروش بس یہی بول پائی 

میری شان میں کجھ اور بھی بول لیا کرے۔یمان فرمائشی انداز میں بولا

اور کیا کہوں؟آروش نے پوچھا

ایک لفظ محبت کا۔یمان آنکھ ونک کیے بولا

مطلب اظہارِ محبت سُننا چاہتے ہو؟آروش نے اندازً کہا

بلکل۔یمان نے فورن سے سر کو جنبش دی

میری منہ دیکھائی کا کیا بنے گا۔آروش کی سوئی گھوم پِھر کر اپنی منہ دیکھائی پہ آئی۔

میں آپ کو کجھ دیکھانا چاہتا ہوں۔یمان مسکراہٹ ضبط کرتا بولا

مجھے کجھ نہیں دیکھنا۔آروش نے گردن موڑ کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

آپ ناراض تو نہ یہاں دیکھے۔یمان مسکراتا اُس کا چہرہ اپنی طرف کیا تو آروش کی نظر اُس کے گال پہ پڑی جہاں اُس کا ڈمپل چمک کر معدوم ہوچکا تھا۔

مجھے تمہارے ڈمپل زہر لگتے ہیں۔آروش نے کہا

اچھا۔یمان بہت دیر تک ہنسا

ہنسو مت۔آروش نے منہ بسورا

آپ بہت کیوٹ ہیں اور مجھے یہ بات آج پتا چلی ہے۔یمان اُس کے گال کھینچ کر بولا

مجھے چینج کرنا ہے۔آروش اتنا کہتی بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تو یمان نے اُس کو اپنی طرف کھینچا۔

یہ کیا بدتمیزی ہے۔آروش اُس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتی گھورنے لگی۔

بدتمیزی کہا آپ پہلی بار میرے لیے تیار ہوئی ہے تو مجھے تعریف کرنے کا موقع تو دے۔یمان نے کہا

جس طرح میری منہ دیکھائی ہضم کرلی ہے تعریف بھی اپنی کسی ہوتی سوتی کی کرنا۔آروش نے کہا تو یمان نے اُس پہ اپنا گھیرا تنگ کیا۔

میں نے کبھی سوچا نہیں تھا ہمارے درمیان ایسا وقت بھی آئے گا۔یمان کھوئے ہوئے لہجے میں بولا

کتنے چالاک ہو نہ تم منہ دیکھائی کی بات کیسے نظرانداز کر رہے ہو۔آروش نے کہا

ایسا نہیں ہے۔یمان نے جھک کر عقیدت سے اُس کا ماتھا چوما

پھر کیا بات ہے؟آروش نے پوچھا

ایک منٹ۔یمان اُس سے کہتا سائیڈ ٹیبل کے ڈرار کھول کر وہاں سے کجھ کاغذات اور ایک چیز نکال کر اُس کو دی تھی آروش ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگی اچانک اُس کی آنکھوں میں بے یقینی اُتر آئی تھی یمان دلچسپی سے اُس کے تاثرات نوٹ کررہا تھا۔

یمان ی۔۔یہ؟آروش کے منہ سے الفاظ نکلنا مشکل ہوئے۔

کیسا لگا؟میرا پہلا تحفہ۔۔۔یمان اُس کے کاندھے پہ اپنی ٹھوڑی ٹِکائے پوچھنے لگا تو آروش کی آنکھوں خوشی سے آنسو آئے تھے وہ ایک جھٹکے سے پلٹ کر یمان کے سینے سے لگی تھی۔

یمان سچ میں ہم عمرہ کرنے جائینگے؟آروش پرجوش لہجے میں اُس سے پوچھنے لگی۔

جی بلکل کیا آپ کو یقین نہیں آرہا؟یمان اُس کو خوش دیکھ کر مسکراکر بولا

مجھے سچ میں یقین نہیں آرہا بہت بہت شکریہ تمہارا۔آروش نے کہا 

میں بہت وقت سے سوچ رہا تھا آپ کو منہ دیکھائی میں کیا دوں کیونکہ میں جانتا تھا آپ کو گولڈ کی چیزیں اٹریکٹ نہیں کرتی پھر سوچا کیونکہ عمرے پہ جایا جائے۔یمان نے کہا

تم واقع بہت اچھے ہو۔آروش نے ایک بار پھر کہا

ایک اور چیز دیکھانی ہیں۔یمان اُس سے الگ ہوتا وارڈروب سے ایک چیز نکالی۔

یہ کس چیز کا اسکیج ہے؟آروش نے متجسس لہجے میں پوچھا

دیکھ لیں۔یمان نے اُس کی طرف بڑھایا۔

میری آنکھوں کا اسکیج؟آروش حیران ہوئی۔

جی کیونکہ میرے پاس بس یہی تھی پہلے یہ دوسرے کمرے میں تھا اب سوچ رہا ہوں اپنے کمرے میں لگاؤں۔یمان نے بتایا

تم نے کب بنوایا تھا؟آروش نے پوچھا

بنوایا نہیں تھا خود بنایا تھا آج سے چار پانچ سال پہلے۔یمان نے بتایا

کیا چیز ہو تم یمان۔آروش اُس کو دیکھ کر بولی

آپ بتائے میں کیا کہوں؟یمان نے چھیڑنے والے انداز میں کہا

تمہارے ڈمپلز مجھے بہتتتتتت اچھے لگتے ہیں۔آروش نے "بہت"کو کھینچ کر ادا کیا۔

ابھی تو آپ نے کہا تھا زہر لگتے ہیں؟یمان نے جیسے یاد کروایا

میں نے کہا اور تم نے مان لیا۔آروش کے گال پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔

ایک بات کہوں؟یمان نے پوچھا

بار بار اِجازت کیوں لے رہے؟آروش آئبرو اُچکائے پوچھا

ایسے ہی خیر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کے میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں اور آپ کو پانے کے بعد بہت خوش ہوں۔یمان اُس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا

شکریہ۔آروش نظریں جھکائیں بولی۔

شکریہ کس چیز کے لیے؟یمان نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

مجھ سے پیار کرنے کے لیے اِتنا اچھا تحفہ دینے کے لیے۔آروش نے وجہ بتائی۔

اُس کے لیے آپ کو بس تاعمر میرے ساتھ رہنا ہے کسی شکریہ کی ضرورت نہیں۔یمان نے کہا۔

اچھا یہ بتاؤ تمہیں کیا کیا پکانا آتا ہے؟آروش کے دماغ میں اچانک کجھ کلک ہوا تو پوچھا۔

آپ کیا کھانا چاہتی ہیں؟یمان نے اُلٹا اُس سے سوال پوچھا

میں بس جاننا چاہتی ہوں۔آروش نے بتایا

مجھے بس پراٹھے ہی بنانا آتے ہیں وہ بھی آپی والوں سے سیکھا تھا۔یمان نے بتایا تو آروش ہنسی۔

ویسے اچھے بناتے ہو پراٹھے۔آروش نے تعریفی انداز میں کہا

بڑی جلدی تعریف کردی آپ نے اور میرے اُن پراٹھوں کا کمال ہے جو آپ موٹی ہوگئ ہیں۔یمان ہونٹ دانتوں تلے دبائے بولا

ہاں ہاں تمہیں تو سوکھی لکڑیوں جیسی لڑکیاں پسند ہوگی جن کے ساتھ تمہارے گانے ہوتے تھے یا وہ جن کے ساتھ ماڈلنگ کرتے تھے۔آروش جذبات میں آتی اپنا بھانڈا پھوڑگئ۔

ڈونٹ ٹیل می کے آپ میرے گانے سُنتی تھی۔یمان خوشگوار حیرت سے اُس کو دیکھ کر بولا تو آروش سٹپٹائی۔

ای۔۔۔۔۔ایسا۔۔۔کج۔۔۔۔۔کجھ نہیں۔۔وہ تو میں نے تُکا لگایا۔آروش نے بات سنبھالی۔

اچھا آپ کہتی ہیں تو مان لیتا ہوں ورنہ مجھے یقین نہیں آرہا۔یمان نے کہا

اچھا میں اب چینج کرنے جارہی ہوں۔آروش نے اپنے ہاتھ اُس کے ہاتھ سے چھڑواکر بولی۔

جلدی آئیے گا مجھے بہت باتیں کرنی ہیں آپ سے۔یمان نے اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے زور سے ٹکرا کر بولا

ساری رات مجھے واشروم میں قیام کرنا ہے۔آروش جل کے بولی تو یمان کا قہقہقہ چھوٹ گیا۔

توں ملا توں یقین آیا

مجھ پہ بھی مہربان محبت ہے۔۔۔

شکرانے نفل ادا کرلے؟آروش واشروم سے باہر آئی تو یمان نے کہا

س۔۔۔اتھ ساتھ؟؟آروش حیران ہوئی۔

جی میری امامت۔یمان نے کہا

ض۔۔۔ضرور۔آروش کی زبان جانے کیوں لڑکھڑائی۔

میں چینج کر آؤں۔یمان اتنا کہتا جلدی سے واشروم کی جانب چلاگیا جبکہ آروش کو اب بھی اپنی قسمت پہ اعتبار نہیں آیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شازل شازی کے گال کتنے پیار ہیں اور پُھولے ہوئے نرم سے ہیں دیکھ کر دل چاہتا ہے چٹا چٹ چوم لیا جائے۔ماہی پرجوش لہجے میں شازل کو بتانے لگی وہ سب اِس وقت اپنے اسلام آباد والے گھر میں موجود تھے۔

ہاں واقع پیارے ہیں اور پُھولے ہوئے نرم سے ہیں دیکھ کر دل چاہتا ہے تھپڑ مارا جائے ویسے تھپڑ مارنے سے کتنی اچھی آواز گونجے گی جسٹ امیجن۔شازل اُس کی گود میں شازی کو دیکھ کر بولا تو ماہی نے تاسف سے اُس کو دیکھا۔

آپ سے کسی اچھی بات کی توقع رکھنا فضول عمل ہے۔ماہی نفی میں سراثبات میں ہلاکر بولی۔

اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔شازل نے کہا

اچھا سُنیں ذین لالہ کی شادی ہے اور میں پورے ایک ماہ اپنے گھر رہوں گی اتنا وقت ہوگیا ہے گھر نہیں گئ۔کجھ یاد آتے ہی ماہی شازل کے پاس کھسک کر بتانے لگی۔

ایک ماہ کس خوشی میں رہو گی وہاں؟شازل نے ایک ماہ والی بات پہ اُس کو گھورا

لالہ ہیں میرے اور بہنوں کے کتنے ارمان ہوتے ہیں اپنے بھائیوں کی شادی کو لیکر۔ماہی نے منہ بسور کر کہا

ہوتے ہوگے مگر تم جسٹ فنکنشن وغیرہ میں جاکر واپس آؤں گی ایک ماہ کیا ایک دن بھی رہنا نہیں بنتا تمہارا وہاں۔شازل نے حکم سُنایا

یہ میرے ساتھ زیادتی ہے۔ماہی نے احتجاج کرنا چاہا

اگر تم گئ تو وہ میرے ساتھ زیادتی ہوگی۔شازل دوبدو بولا

آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ماہی روہانسی ہوئی۔

مجھے کرنا پڑے گا کیونکہ ایک ماہ بہت زیادہ وقت ہے۔شازل نے کندھے اُچکائے۔

آپ چاہتے ہیں میں اپنے بھائی کی شادی پہ مہمانوں کی طرح جاؤں؟کتنا بُرا لگے گا یہ۔ماہی نے کہا

نہیں لگتا بُرا۔شازل شانِ بے نیازی سے بولا

بات مت کیجئے گا۔ماہی ناراضگی سے کہتی اپنے اور شازل کے درمیان میں شازم کو لیٹا کر خود کروٹ کے بل سوگئ۔

ماہی یار ناراض تو مت ہو میری حالت بھی تو سمجھو میرا دل نہیں لگے گا تمہارے اور شازی کے بغیر۔شازل اُس کے عمل پہ گہری سانس بھر کر بولا مگر ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ماہی؟؟؟شازل نے اُس کو آواز دی۔

ماہی میری آواز کو نظرانداز مت کرو۔شازل کو بُرا لگا تبھی ضبط کیے بولا

مجھے آپ سے بات نہیں کرنی اِس لیے آواز مت دے۔ماہی نرٹھے پن سے بولی تو شازل نے درمیان میں لیٹے شازی کو بے بی کارٹ میں لیٹایا اور خود بیڈ پہ آکر اُس کو اپنے حصار میں لیا۔

ناراض ہو؟شازل نے جاننے کے بعد بھی پوچھا

آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ماہی سرجھٹک کر بولی۔

چلو ایک ماہ نہیں ایک ہفتہ رہ لینا۔اُس کی ناراضگی پہ شازل دل پہ پتھر رکھ کر بولا

اِس احسان کی بھی ضرورت نہیں میں جاؤں گی ہی نہیں۔ماہی کی آنکھیں نم ہوئی

ایک ہفتے سے زیادہ میں رہنے نہیں دوں گا ماہی کیونکہ مجھے یاد آئے گی تم دونوں کی کیسے رہوں گا میں؟شازل پہلی بار بے بس ہوا۔

آپ خود کا نہ میرا سوچے آپ کو یاد ہے؟ شازی میرے پیٹ میں دو ماہ کا تھا جب میں گئ تھی اور اب ماشااللہ سے ہمارا بیٹا ایک سال کا ہونے جارہا ہے میں نے ایک دفع بھی چکر نہیں لگایا۔ماہی اُس کی جانب کروٹ لیکر بولی۔

کیا تم ایک ماہ وہاں رہ لو گی؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا

میرے ماں باپ کا گھر ہے ظاہر سی بات ہے رہ لوں گی یہ کیسا سوال ہوا؟ماہی کو سمجھ نہیں آیا

ٹھیک ہے پھر چلی جانا۔شازل سنجیدگی سے کہتا اُس کے گرد اپنا حصار توڑ کر کروٹ لیکر لیٹ گیا۔

شازل اب آپ کیوں ناراض ہو رہے؟ماہی اُس کی پشت کو گھور کر بولی۔

"تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے"شازل نے جتایا

آپ شوہر ہیں میرے آپ کی ناراضگی کا فرق مجھے پڑے گا۔ماہی نے کہا

شوہر کی بات کا بھی پاس ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی۔شازل نے طنزیہ کیا۔

اچھا ٹھیک ہے جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہوگا۔ماہی اپنا سر اُس کی پشت سے ٹکاکر بولی تو شازل کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی۔

سوچ لو۔شازل اُس کی طرف رخ کرتا بولا

سوچنا کیسا جب کرنا وہ ہی ہے جو آپ نے کہنا ہے۔ماہی ناک منہ چڑھا کر بولی تو شازل کی ہنسی چھوٹ گئ۔

میری گولوں مولوں بیوی بہت عقلمند ہے۔شازل شدت سے اُس کا ماتھا چوم کر بولا۔

شکر ہے کبھی عقلمند بھی کہا۔ماہی منہ بسور کر بولی۔

ایس

شازل کجھ کہنے والا تھا جب شازم کے رونے کی آواز کانوں میں ٹکرائی تو اُس نے گھور کر بے بی کارٹ کو دیکھا۔

یہ اِس نمونے کو سارا دن چھوڑ کر اِس وقت رونا یاد آتا ہے جب ہمیں سونا ہوتا ہے۔شازل دانت پیس کر بولا

ہاہاہاہاہا کیونکہ وہ سارا دن سوتا ہے تبھی۔ماہی ہنسی ضبط کرتی بولی۔

ویسے تم نے اچھا نہیں کیا رات والی ڈیوٹی مجھے سونپ کر۔شازل اُس کو دیکھ کر بولا

تو آپ دن میں شازی کو سنبھال لیا کرے تب میں اپنی نیند پوری کرلوں گی اور رات کو اِس کی دیکھ بھال کیا کروں گی۔ماہی آنکھیں پٹپٹاکر بولی۔

ویسے کبھی کبھی نہ مجھے لگتا ہے جیسے ہماری لو میریج ہے۔شازل اُس کو دیکھ کر پرسوچ لہجے میں بولا

اچھا اور یہ ایسا کیوں؟ماہی نے دلچسپ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا اِس درمیان وہ دونوں شازم کو فراموش کرگئے تھے۔

کیونکہ تم پہلے ہی دن سے مجھے عزیز ترین ہوگئ تھی جب پہلی بار دیکھا تھا معصوم سی کیوٹ سی ڈری سہمی سی۔شازل نے آج پہلی بار صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

میں تب آپ کے لیے ایک انجان لڑکی تھی۔ماہی نے کہا

ام ہم تم میری بیوی تھی اُس وقت۔شازل نے کہا تو وہ مسکرائی۔

وہ بیوی جس سے آپ چڑتے تھے۔ماہی نے یاد کروایا

ہاں کیونکہ میں تم سے ناواقف تھا اور اب جب اُس وقت کو سوچتا ہوں تو ہنسی آجاتی ہے۔شازل نے بتایا۔

اور آپ کو پتا ہے میں کیا سوچتی ہوں؟ماہی نے کہا

کیا سوچتی ہو؟سوال پوچھا گیا

یہی کے اگر ہمارا نکاح نہ ہوتا اور ایسے ہی ہماری اتفاقً کہیں ملاقات ہوجاتی تو آپ کو کبھی مجھ معمولی شکل وصورت والی لڑکی پسند نہ آتی۔ماہی نے کہا

ہوجاتی کیونکہ محبت کرنے کے لیے محبوب کا چہرہ خوبصورت ہونا میٹر نہیں کرتا مجھے تو تمہاری معصومیت اٹریکٹ کرتی ہے۔شازل اُس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر جیسے ہی بولا شازم نے رونے میں رفتار بڑھائی۔

جائے شازی بولا رہا ہے۔ماہی مسکراہٹ ضبط کرتی بولی

اگر اِس نے اپنے کرتوت نہیں بدلے تو وہ دن دور نہیں جس دن میں اِس کو باہر پھینک آؤں گا۔شازل جلے کٹے انداز میں کہتا بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

صرف دودہ پِلادے سوجائے گا پھر۔ماہی نے مسکراکر کہا

فیڈر تو خالی ہے۔شازل نے فیڈر اُس کے سامنے لہرایا۔

لائے میں کچن سے لاتی ہوں۔ماہی اتنا کہتی اُٹھنے لگی جب شازل بول پڑا

"تم بیٹھو میں لاتا ہوں۔

دودہ کو اُبالیے گا پہلے کیونکہ آج میں نے نہیں اُبالا تھا۔ماہی نے اُس کو جاتا دیکھا تو کہا

حریم نے حورم کے لیے اُبال لیا ہوگا۔شازل اتنا کہتا کمرے سے باہر چلاگیا تو ماہی مسکراتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مُبارک ہو آپ کے بھائی کی نئیا پار لگ ہی گئ آخر۔فجر یامین کو سُلانے کے بعد کمرے میں آئی تھی جب ارمان نے شرارت سے کہا

تمہیں بھی مُبارک ہو۔فجر اُس کو گھور کر بولی

سوچنے کی بات ہے کیا واقع آپ ویسا کرے گی جیسا یامین کو کہتی ہیں؟ارمان اُس کو دیکھ کر بولا

کیا کہتی ہوں میں یامین کو؟فجر ناسمجھی سے اُس کو دیکھنے لگی۔

یہی کے یمان سر کی بیٹی سے شادی وغیرہ۔ارمان نے کہا تو فجر ہنس پڑی۔

کیا ہوگیا ہے ارمان؟یامین بچہ ہے تنگ کرتا ہے تو بہلانے کی خاطر اُس سے کہتی ہوں مگر تم نے تو اُس بات کو سیریسلی ہی لے لیا۔فجر نے جیسے اُس کی عقل پہ ماتم کیا۔

میری تو خیر ہے اگر یہ بات یامین سیریسلی لے گیا تو؟ارمان پرسوچ لہجے میں بولا

سات سال کا بچہ ہے وہ اُس کو یہ بات یاد نہیں رہے گی ویسے بھی میں اب اُس کو ایسا کجھ نہیں کہتی صرف دو بار کہا تھا۔فجر نے کہا

ماشااللہ سے ایک ماہ بعد وہ آٹھ سال کا ہوجائے گا دوسری بات کے اب کیوں نہیں کہتی اُس سے؟ارمان نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

کیونکہ جب رات ہوتی تو وہ بار بار پوچھتا ماموں کی بیٹی کیسی ہوگی؟دیکھنے میں پیاری ہوگی؟اُس کے گالوں میں ہماری طرح ڈمپل ہوگے؟ہم کب اُس کو دیکھے گے؟۔فجر جھرجھری لیکر بتانے لگی تو ارمان ہنس پڑا۔

ہمارا یامین سیریس لگتا ہے۔ارمان نے کہا

ایسا کجھ نہیں۔فجر اُس سے کہتی سونے کے لیے لیٹ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج "دُرید حریم"اور "شازل ماہی"کا ولیمہ تھا جس کا کھانا سب سے پہلے گاؤں کے غریب لوگوں میں تقسیم ہوا تھا اور بچوں کو حویلی کی ایک سائیڈ پہ بیٹھا کر کھانا کِھلایا جارہا تھا حویلی میں آج پورا گاؤں جیسے شرکت کرنے آیا تھا مگر آروش نہیں آ پائی تھی کیونکہ اپنے ولیمے کے اگلے تھے وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے نکل گئے تھے۔

آج تو ہم تھک گئے۔حریم کمرے میں آتی تھکن زدہ لہجے میں بولی

کونسا ہل چڑھایا تھا ایک جگہ پہ بیٹھی ہوئی تھی۔دُرید جو اُس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تھا وہ بولا

تبھی تو تھک گئے ہیں اِتنا بھاری جوڑا جیولری توبہ۔ویسے ہماری حورم کہاں ہیں؟ بات کرتے کرتے حریم کو اچانک حورم کا خیال آیا تو پوچھا

شازل کے پاس ہے۔دُرید نے بتایا

اچھا آپ نے بتایا نہیں ہم کیسے لگ رہے ہیں؟حریم دُرید کے سامنے کھڑی ہوتی گول گول گھومنے لگی تو دُرید کو وہ بچی لگی۔"حریم اِس وقت بلیو کلر کے لہنگے میں ملبوس تھی ساتھ میں سیم کلر کا حجاب پہنا ہوا تھا چہرے پہ ہلکے سے میک اپ کا ٹچ تھا بلیو کلر اُس نے دُرید کی وجہ سے پہنا تھا کیونکہ ایک کلر دُرید کا فیورٹ تھا۔

ہماری زوجہ بہت پیاری لگ رہی ہے۔دُرید اُس کا ہاتھ تھام کر مسکراکر بولا۔

آپ بھی اچھے لگ رہے ہیں ویسے آپ کبھی شازل لالہ کی طرح جینز پہنا کرے نہ۔حریم اُس کو کاٹن کے سفید شلور قمیض کے ساتھ مردانہ شال میں ملبوس دیکھا تو فرمائشی انداز میں کہا جس پہ دُرید نے اُس کو گھورا

چینج کر آؤ تب تک میں ملازمہ سے کھانے کا کہتا ہوں۔دُرید نے بات کا رخ بدلا۔

اچھا۔حریم نے منہ بسورا۔

بھلا پہلے میں چینج کرلوں۔دُرید بڑبڑاتا وارڈروب کی جانب بڑھا

اِس سائیڈ پہ میرے کپڑے ہوتے ہیں۔حریم ابھی اُس کو روکنے والی تھی مگر اُس سے پہلے دُرید نے وارڈرب کھول دیا تھا جس پہ حریم کے سارے کپڑے کسی بارش کی طرح دُرید پہ برسے تھے حریم لب دانتوں تلے دباتی جلدی سے رخ بدل گئ۔جبکہ دُرید جو تپ کے اُس کو کجھ کہنے والا تھا مگر جب نظر سامنے ایک فریم پہ پڑی تو الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے اُس نے ہاتھ بڑھا کر فریم کو لیا۔

سچی وہ ہم واڑدروب سیٹ کرنے والے تھے مگر بھول گئے تھے ہڑبڑی میں کپڑے رکھ لیے تھے مگر اب ٹھیک کردینگے۔حریم نے ہڑبڑاکر کہا پر دُرید سن کہاں رہا تھا وہ تو یک ٹک فریم میں موجود ایک چیز کو دیکھ رہا تھا جس کا ہونا اُس کے لیے ناقابلِ یقین تھا اُس کو تو یاد بھی نہیں تھا اُس نے ایل ایل بی کی تھی یا اُس کو ڈگری بھی حاصل ہوئی تھی وہ تو اِن چیزوں کو فراموش کیے ہوئے تھا 

یہ کیا ہے حریم؟بہت دیر بعد دُرید بولنے کے اہل ہوا۔

ہمارے کپڑے۔حریم بنا دیکھے بولی تو دُرید چلتے ہوئے اُس کے پاس آیا

میں اِس کا پوچھ رہا ہوں۔دُرید نے فریم اُس کے سامنے کیا تو حریم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ۔

یہ آپ کو کہاں سے ملا؟ہمیں دے۔حریم نے فریم اُس کے ہاتھ سے لینا چاہا پر دُرید نے اُس کی پہنچ سے دور کیا 

مجھے وہ دن اچھے سے یاد ہے جب یہ میں نے ملازمہ کو دی تھی کے ردی کے سامان کے ساتھ اِس کو بھی جلائے تم اُس وقت نہیں تھی وہاں اور اگر تھی بھی تو تمہاری عمر نو سے دس سال کی تھی پھر یہ میری ڈگری تمہارے پاس کیسے آئی؟وہ بھی صحیح سلامت جس کو تم نے فریم تک کروایا ہے۔دُرید کا لہجہ سنجیدہ تھا۔

"ہم دس سال کے تھے اور وہ ملازمہ جس کو آپ نے دی تھی وہاں سے ہم چوری کرکے لائے تھے ہمیں نہیں تھا پتا یہ ڈگری ہے یا کجھ اور ہمیں بس اتنا پتا تھا کے یہ آپ کی چیز ہے جو ہمارے لیے ازحد بہت ضروری تھی ہم کیسے آگ کی نظر کرتے اور یہ فریم تب کروایا تھا جب ہمیں آپ کے وکالت کرنے کا پتا چلا تھا۔حریم نے جواب دیا تھا دُرید بس اُس کو دیکھتا رہ گیا۔

حریم میں اب تمہیں کیا کہوں؟سچ بتاؤں تو تم نے مجھے اسپیچ لیس کردیا ہے۔دُرید اُس کو اپنے حصار میں لیکر بولا

جان کر خوشی ہوئی ویسے آپ نے اِس ڈگری کو پھینکنا کیوں چاہا تھا؟اور کیا آپ نے کبھی کوئی کیس نہیں لڑا؟حریم نے متجسس لہجے میں پوچھا۔

پُرانی بات ہے چھوڑدو اور ہاں میں نے کبھی کوئی کیس نہیں لڑا یہ کام بس شازل کرتا ہے۔دُرید نے جواب دیا۔

اچھا۔حریم بس یہی بولی۔

تم نے بتایا نہیں تھا کبھی کے یہ تم نے سنبھال کر رکھا ہے؟دُرید نے سوالیہ نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

ایسے ہی اگر آج بھی آپ کی نظر نہ پڑتی تو ہم بتانے والے نہیں تھے۔حریم نے کہا تو دُرید نے گہری سانس خارج کی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میں آپ کی ماں سے ملنا چاہتی ہوں۔زوبیہ بیگم نے دلاور خان سے کہا تو انہوں نے چونک کر اُن کو دیکھا۔

میری ماں سے؟دلاور خان نے کنفرم کرنا چاہا

جی آپ کی ماں سے ہمیں صلح کرنی چاہیے میری غلطی کی وجہ سے آپ اپنی ماں سے دور ہوئے جبکہ وہ تو بس مجھے اور میری بیٹیوں کو نیک راہ پہ چلانا چاہتی تھی دین کا درس دینا چاہتی تھی بتانا چاہتی تھیں کے ایک مسلمان عورت کی کیا حدودطے کی ہے اللہ تعالیٰ نے"میں پہلے یہ سمجھ نہیں پائی کیونکہ میں نام مسلم تھیں قرآن کے بارے میں زیادہ تر معلومات نہیں بس پہلا کملہ پڑھ کر خود کو مسلمان بنادیا سوزی سے زوبیہ بن گئ نام کو بدل دیا مذہب کو بدل دیا مگر دل سے اسلام کو شاید قبول نہیں کیا اور اپنی بیٹیوں کو بھی خود جیسا بنادیا دین سے دور پھر فرق اتنا کے وہ قرآن پڑھ کر بھول چُکی ہیں اور میں نے کبھی قرآن پاک کو پڑھنا چاہا بھی نہیں۔زوبیہ بیگم کے لہجے میں ندامت صاف جھلک رہی تھی جس کو محسوس کرتے دلاور خان نے ڈوب مرنے کے مقام پہ پہنچے تھے۔

قرآن پڑھ کر بھول جانا بہت بڑا گُناہ ہے۔دلاور خان بس یہی بول پائے۔

اِس گُناہ کی معافی مانگنی چاہیے توبہ کرنی چاہیے کے پھر کبھی ایسی کوئی غلطی ایسا کوئی گُناہ ہم سے سرزند نہیں ہوگا۔زوبیہ بیگم نے کہا تو دلاور خان نے گہری سانس بھر کر سر کو اثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

دلاور خان اور زوبیہ بیگم پیشاور گئے تھے جہاں دلاور خان کا آبائی گھر تھا انہوں نے اپنے گھروالوں سے اپنی ماں بہنوں سے معافی مانگی تھی جس پہ اُن کی ماں جو اب ضعیف ہوچکی تھی اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوئی تھی ساری خطائیں اُن کی معاف کرکے انہوں نے آپس میں ہر معاملہ سُلجھا دیا تھا تقریباً ایک ماہ پیشاور قیام کرنے کے بعد اسلام آباد واپس پہنچے تھے جہاں دلاور خان خصوصی کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کے وہ فلم انڈسٹری چھوڑ رہے ہیں یہ خبر سن کر جہاں سب اچانک فیصلے پہ حیران و پریشان ہوئے تھے وہی آروش بہت خوش ہوئی تھی وہ اور یمان اللہ کے کرم سے عمرہ کرکے واپس پہنچ چُکے تھے جہاں اُن کو دلاور خان اور زوبیہ بیگم کا بدلا ہوا انداز دیکھنے کو ملا تھا۔

میں بہت خوش ہوں۔آروش زوبیہ بیگم کو دیکھ کر خوش ہوکر بولی۔

بس اللہ کا کرم ہیں اُس نے مزید دلدل میں گِرنے سے بچادیا۔زوبیہ بیگم اُس کو اپنے ساتھ لگاکر بولی یمان مسکراکر بس اُن کو دیکھ رہا تھا۔

صاحب آپ آگئے۔نجمہ اچانک لاؤنج میں آتی یمان سے بولی جس کو آئے تقریباً دو گھنٹے ہوگئے۔

نہیں راستے میں ہوں پہنچ کر بتادوں گ۔یمان نے اُس کے بے تُکے سوال پہ گھور کر کہا

اچھا بتادیجئے گا میں آپ کے لیے کافی بناکر لاؤں گی۔اُس کو چڑتا دیکھ کر نجمہ دانتوں کی نمائش کرتی بولی تو آروش کی ہنسی نکل گئ۔

تم اپنے گاؤں گئ تھی کب واپس آئی؟آروش نے مسکراکر پوچھا

او جی کل واپسی ہوئی تھی۔نجمہ قدرے شرما کر بولی

تو اِس میں شرمانے والی کیا بات ہے؟یمان کو اُس کا شرمانا سمجھ نہیں آیا

وہ کیا ہے نہ ہمارا ٹانکا بھی فِکس ہوگیا گل شیر کے ساتھ۔نجمہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چُھپائے بتانے لگی تو زوبیہ بیگم اور آروش خاصی حیرت بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگے۔

ماشااللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔آروش نے کہا

مجھے گل شیر کے ساتھ ہمدردی ہے۔یمان خاصے افسوس بھرے لہجے میں گویا ہوا تو نجمہ کا منہ بن گیا۔

یمان کیوں تنگ کررہے ہو بے چاری کو۔زوبیہ بیگم نے کہا تو یمان ہنس پڑا

یہ بتاؤ شادی کب ہے؟ یمان نے اب کی سنجیدگی سے پوچھا

ایک دو ماہ تک۔نجمہ شرم سے بے حال ہونے لگی جبکہ اُس کی حالت دیکھ کر آروش کی ہنسی نہیں رُک رہی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج شازم شاہ کی پہلی بار سالگرہ تھی جس کے لیے پوری حویلی کو سجایا گیا تھا گاؤں میں الگ سے تحائف بانٹے جارہے تھے ماہی یہ سب دیکھ کر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران ہوتی جارہی تھی کیونکہ اُس کے سب ٹھیک تھا نہ کوئی صورت کا مسئلہ اور نہ ذات وغیرہ کا وہ شازم شاہ کی بیوی تھی جو کی اب اُس کی پہچان تھی اور آج شازم کی سالگرہ کے ساتھ ساتھ گاؤں دستار بندی کا بھی فیصلہ ہونا تھا جو یقیناً دُرید شاہ کے حق میں ہونا تھا کیونکہ شازل نے پہلے ہی منع کیا ہوا تھا کے وہ سرپنج نہیں بنے گا دوسرا کی بات دیدار شاہ نے اپنی دوسری شادی کا اعلان کیا تھا جس پہ کسی نے اعتراض نہیں اُٹھایا سوائے فردوس بیگم اور شبانا بیگم کے انہوں نے ہنگامہ بہت رچایا تھا مگر کسی نے اُن کی بات سُننا گوارا نہیں کیا تھا شبانا بس ہر وقت ہر ایک کو دیکھتی جلتی کڑھتی رہتی اُس کا بس نہیں چلتا تھا وہ ہر چیز کو اُجاڑ کے رکھ دیتی مگر اُس کا حسد صرف اُس کو ہی جلا کر راکھ کررہا تھا "دیدار نے دوسری شادی کر بھی لی اور وہ بس ہاتھ مسلتی رہ گئ کیونکہ وہ اب دیدار کے کمرے میں نہیں ہوتی دوبارہ اپنے کمرے میں قیام پزیر ہوگئ تھی قسمت نے اچھے سے ہر چیز کا حساب اُس سے برابر کیا تھا جو وہ ماہی کے لیے سوتن لانا چاہتی تھی اب اپنی سوتن کو دیکھ کر وہ بس صبر کے گھونٹ بھرتی رہ جاتی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

او ہو پورے کپڑے گندے کردیئے۔ماہی تاسف سے شازم کو دیکھ کر بولی جو کیک کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا اُس کے ہاتھ اُس کا چہرہ کپڑے سب کجھ کیک سے لُودھا ہوا تھا کیونکہ شازل نے ایک الگ سا کیک شازم کے سامنے کیا تھا جس پہ اُس نے اپنا حشر نشر کردیا۔

کیا ہوا اِس کو بھی تو پتا ہو یہ اب پُرانہ ہوگیا ہے۔شازل دھب سے بیڈ پہ لیٹ کر سکون سے بولا

خیر میری باتیں مجھے شبانا بھابھی کے لیے افسوس ہورہا ہے۔ماہی نے شازل سے کہا

تمہیں افسوس کرنے کی ضرورت نہیں بھابھی ماں وہ کاٹ رہی ہیں جو انہوں نے بویا تھا۔شازل سنجیدگی سے بولا

ہاں مگر اُن کے پاس اولاد ہونی چاہیے تھی۔ماہی نے کہا

چھوڑو یہ سب باتیں شازم کے کپڑے چینج کرو آج ہمیں اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے۔شازل نے بات کا رخ بدلا تو ماہی نے مزید کجھ نہیں کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟آروش کی صبح آنکھ کُھلی تو یمان کی نظریں خود پہ محسوس کیے پوچھا

آپ کیا پریگننٹ ہیں؟یمان کے ایسے سوال پہ آروش کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگی وہ سمجھ نہیں پائی یہ اچانک صبح صبح یمان کو کیا ہوا ہے جو ایسا سوال پوچھ رہا ہے۔

نہیں پر تم کیوں یہ پوچھ رہے ہو۔آروش خود پہ قابو پائے جواب میں بولی

آپ کو پتا ہے میں نے خواب میں کیوٹ سی بچی کو دیکھا تبھی پوچھا۔یمان نے کہا تو آروش خاموشی سے اُس کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ تھی 

تمہیں بیٹیاں پسند ہیں؟آروش نے پوچھا

ہاں بہت میں چاہتا ہوں ہماری بیٹی ہو آپ جیسی پیاری سی۔یمان اُس کو دیکھ کر بولا

اچھا تم فریش ہوجاؤ آفس بھی جانا ہوتا ہے تمہیں۔آروش نے کہا تو یمان اُٹھ کر واشروم میں چلاگیا تھا پر آروش گہری سوچ میں ڈوب گئ تھی کجھ دنوں سے اُس کو اپنی حالت خراب محسوس ہورہی تھی مگر وہ نظرانداز کررہی تھی مگر یمان کی بات پہ اُس کو خوشکن احساسات نے آ گھیرا تھا اُس نے بے ساختہ اپنا ہاتھ پیٹ پہ رکھا تھا یمان کے آفس جانے کے بعد اُس نے کلثوم بیگم کو کال کیے یمان کے خواب کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ایک بتائی تھی جس پہ وہ عمل پیراں ہوئی تو  پوزیٹو رسپانس دیکھ کر آروش کا دل زور سے دھڑکا تھا اُس سے اپنی خوشی سنبھالے نہیں جارہی تھی۔

یمان کتنا خوش ہوگا۔آروش اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتی تصور میں یمان کو لائے سوچنے لگی۔

آروش نے سوچ لیا تھا وہ یمان کو سرپرائز دے گی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

موم آروش کہاں ہیں؟یمان گھر آیا تو آروش کو دیکھ کر زوبیہ بیگم سے پوچھا کیونکہ ہر روز وہ اُس کے لیے ہال میں انتظار کیا کرتی تھی۔

شاید کمرے میں ہو میں نے تو نہیں دیکھا صبح سے اُس کو۔زوبیہ بیگم نے بتایا تو یمان کجھ پریشان ہو۔

میں دیکھتا ہوں۔یمان اُن سے کہتا کمرے میں آیا تو جہاں آروش نہیں تھی یمان ایک نظر پورے کمرے میں ڈورا رہا تھا جب ڈریسنگ مرر پہ لگی ایک چٹ نے اُس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔یمان ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آتا چٹ اپنے ہاتھ میں لی تو وہاں لکھی تحریر دیکھ کر ساکت سا رہ گیا جس میں محض تین حرف لکھے ہوئے تھے۔

Me come baba

یمان بار بار چٹ کو دیکھتا رہا اُس کی آنکھوں میں بے یقین صاف ظاہر تھی دل میں ایک الگ شور برپا تھا یخلت اُس کو آروش کا خیال آیا تو چٹ پہ اپنی گرفت مضبوط کرتا ٹیرس میں آیا جہاں اُس کی سوچ کے مطابق آروش موجود تھی۔

آروش۔یمان نے اُس کو آواز دی تھی تو آروش اُس کی جانب اپنا رخ کرتی نظریں چُرانے لگی تو یمان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ چھائی تھی وہ تیز قدموں سے اُس تک پہنچتا اپنے گلے لگاگیا تھا۔

تھینک یو سووووووووووو مچ۔میں بتا نہیں سکتا کے کتنا خوش ہوں میں۔یمان زور سے اُس کو خود میں بھینچتا شدت سے بولا تو آروش مسکرائی۔

مجھے تمہارہ یہی خوشی دیکھنی تھی۔آروش نے بتایا تو یمان نے اُس کا ماتھا چوما

آپ کو پتا ہے پہلے مجھے یقین نہیں آرہا تھا میں اپنی کیفیت کیسے بیان کروں ایون میں ابھی بھی کنفیوز ہوں۔یمان نے کہا

میں بھی بہت خوش ہوں۔آروش نے بتایا

آپ ہوسپٹل گئ تھی؟یمان کو اچانک خیال آیا تو پوچھا

نہیں گھر میں پریگنسی ٹیسٹ کی تو معلوم ہوا۔آروش نے آہستہ آواز میں بتایا

موم ڈید کو پتا ہے یہ بات ؟یمان نے مسکراکر پوچھا

سب سے پہلے تمہیں بتایا ہے۔آروش نے بتایا تو اُس کی مسکراہٹ گہری سے گہری ہوتی گئ۔

آئے بتاتے ہیں انہیں۔یمان اُس کے ہاتھ پہ اپنی گہری گرفت مضبوط کیے کہا تو آروش نے سراثبات میں ہلاکر اُس کے ہمقدم ہوئی وہ جانتی تھی اب آگے کا سفر خوبصورت ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ عرصے بعد!

ہسپتال کے کوریڈرو میں موت جیسا سناٹا چھایا ہوا تھا یمان پریشانی سے یہاں سے وہاں ٹہلنے میں مصروف تھا جبکہ شازل سنجیدہ بینچ پہ خاموش بیٹھا ہوا تھا دُرید نہیں تھا یہاں کیونکہ آروش کی پریگنسی کے ایک ماہ بعد خیر سے حریم دوبارہ پریگننٹ ہوئی تھی جس پہ وہ تو بہت خوش تھی مگر دُرید پریشان ہوگیا تھا ایک تو حورم بھی چھوٹی تھی دوسرا حریم کی ایج بھی کم تھی ایسے میں وہ دو بچوں کو کیسے سنبھالتی مگر جلد ہی حریم نے اُس کے خیالات دور کردیئے تھے دوسرا درید اُس کا بہت سارا خیال رکھ رہا تھا۔اور آج آروش کی ڈیلیوری تھی جس پہ یمان کی جان پہ بن آئی تھی تبھی وہاں ڈاکٹر آئی تو سب الرٹ ہوئے۔

مُبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔لیڈی ڈاکٹر نے مسکراکر بتایا تو  سب خوش ہوئے تھے وہی یمان نے شکر کا سانس ادا کیا تھا ارمان کے ساتھ بیٹھا نو سالہ یامین کا منہ "بیٹا"لفظ پہ اُترگیا تھا۔

میں مل سکتا ہوں۔یمان نے بی چینی سے پوچھا

شیور۔ڈاکٹر کا اتنا کہنا تھا اور یمان ایک منٹ کی تاخیر کے بنا وارڈ میں چلاگیا جہاں آروش کو رکھا گیا تھا۔

کیسا محسوس کررہی ہیں آپ؟یمان آروش کا ماتھا چوم کر فکرمندی سے اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا جس کی نظریں اپنے چھوٹے سے بچے پہ تھی۔

میں ٹھیک ہوں یہ دیکھو ہمارا بچہ کتنا پیارا ہے تم پہ گیا ہے بلکل۔آروش پرجوش لہجے میں اُس کو بتانے لگی تو یمان کی نظر اب نومولود بچے پہ پڑی۔

ماشااللہ مجھے دے۔یمان نے مسکراکر کہا تو آروش نے اُس کی گود میں بچہ دیا تبھی وہاں زوبیہ بیگم دلاور خان فجر یامین اور شازل داخل ہوئے تھے۔

آرو کیسی ہو؟شازل آروش کے پاس کھڑا ہوتا پوچھنے لگا۔

میں ٹھیک ہوں۔آروش نے مسکراکر بتایا

یمان یامین کو بچہ دیکھاؤ یہ بہت پرجوش تھا۔فجر کی بات پہ جہاں سب مسکرائے تھے وہی یامین کی شکل ایسی بن گئ جیسے کڑوا بادام نگل لیا ہو۔

آپ کو بیٹی دینی تھی یہ بیٹا کیوں دیا؟یامین منہ کے ہزار زاویئے بناتا آروش سے مخاطب ہوا تو سب کا منہ حیرت سے کُھل گیا 

یامین۔فجر نے اُس کو تنبیہہ کی۔

آپی چھوڑے یامین تم یہاں آؤ اور دیکھو بلکل تمہارے جیسا ہے یہ۔یمان نے اُس کو پچکارہ۔

مجھے لِٹل فیری چاہیے۔یامین بضد ہوا۔

ماں سامنے کھڑی ہے اُس سے فرمائش کرو ایک سے دو فیری تمہیں دے گی۔شازل کی زبان میں کُھجلی ہوئی مگر اُس کی ایسی بات پہ فجر سٹپٹائی تھی۔

لالہ۔آروش نے اُس کو گھورا تو شازل نے کندھے اُچکائے۔

مجھے ماموں کی فیری چاہیے۔یامین نے ایک بار پھر کہا۔

تم یہاں آؤ۔یمان نے اُس کو اپنے پاس آنے کا کہا تو وہ مرے مرے قدموں کے ساتھ اُس تک چل کر آیا۔

یہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے  پہلے اِس کو تو دیکھو پھر فیری بھی مل جائے گی تمہیں۔یمان نے اُس کو پچکارہ تو یامین خوش ہوگیا آروش مسکراکر یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی جب شازل نے اپنا سیل فون اُٹھا کر اپنے موبائیل میں سب کجھ محفوظ کرنے لگا۔

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hal E Dil Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Hal E Dil written by  Rimsha Hussain . Hal E Dil by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages