Pages

Saturday 20 July 2024

Yeh Ishq Novel By Hamna Tanveer New Complete Romantic Novel

 Yeh Ishq  Novel By Hamna Tanveer New Complete Romantic Novel 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Yeh Ishq By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel 


Novel Name: Yeh Ishq 

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel


جلدی سے اٹھک بیٹھک کرو... وہ انگلی سے اشارہ کرتی ہوئ بولی..

ملازم سر جھکاےُ کرنے لگا...

سیاہ سلکی بال کمر پر کسی آبشار کی مانند گرے ہوۓ تھے...

دانین یہ کیا... زبیر رنداوھا اندر آتے ہی بولے..

دانین کی پشت ان کی جانب تھی...

اس نے چہرہ موڑا جہاں خفگی دکھائ دے رہی تھی...

مہتاب جیسا روشن چہرہ سرمئ بڑی بڑی آنکھیں, پنکھڑی جیسے گلابی لب آپس میں مبسوط تھے وہ ساڑھے پانچ فٹ کی سلم سی لڑکی انہیں دیکھ کر واپس سے چہرہ موڑ گئ...

میری جان کے چہرے پر صبح صبح ناراضگی خیر تو ہے... وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے..

میرا رجسٹر گم کر دیا اس نے میرے نوٹس تھے اب مجھے شدید غصہ آ رہا ہے... وہ آنکھیں چھوٹی کیے بولی..

اوووہ اچھا چلیں مل جاےُ گا آپ بریک فاسٹ تو کر لیں..

تم کیوں رک گۓ جلدی سے کرتے جاؤ... دانین اسے ساکن کھڑا دیکھ کر بولی..

آئیں ہمارے ساتھ... وہ دانین کو کندھے سے تھامتے ہوۓ لے گۓ..

ابھی مجھے اور سزا دینی تھی اسے... وہ منہ بناتی چئیر کھینچ کر بیٹھ گئ...

ڈیڈ نیو ائیر ریمیمبر میرا گفٹ... وہ پلکوں کی باڑ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی...

یس ریمیمبر آپ ٹینشن نہ لیں..

بس پاپا میں یونی جا رہی ہوں...

لیکن آج.. وہ حیران ہوےُ..

مجھے کچھ کام ہے اس لیے جانا ہے.. وہ کھڑی ہوتی ہوئ بولی..

اور ہاتھ ہلاتی نکل گئ...

اس محل نما گھر سے دانین زبیر نکلتی دکھائ دی تو گارڈز اور ڈرائیور الرٹ ہو گۓ...

دانین کے لیے دروازہ کھولا اور تابعداری سے استفسار کرنے لگا..

میڈم چلاؤں...

ہاں... دانین موبائل پر انگلیاں چلاتی مصروف سے انداز میں بولی..

وہ آئینے کے سامنے کھڑا سٹڈ لگا رہا تھا عقب میں دروازے کے وسط میں ملازم سر جھکاےُ کھڑا تھا..

کسرتی وجود, دودھیا رنگت پر بڑھی ہوئ شیو, سیاہ مبہوت کر دینے والی آنکھیں, عنابی لب, مغرور کھڑی ناک اور گال پر پڑتا گڑھا اسے مزید قاتلانہ بنا دیتا, دراز قد, کشادہ سینہ, سیاہ گھنے بالوں کو جیل لگا کر کھڑے کر رکھا تھا وہ اپنی شخصیت کے سحر سے مقابل کو چاروں شانے چت کر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا...

سر آج آپ کی میٹینگ ہے...

ہممم.. کس کے ساتھ..

سر آپ کے دوست ہمدانی صاحب کے ساتھ..

اس کو کینسل کر دو...

جی سر...

آج مجھے کچھ اور کام ہے... بولتے ہوۓ اس کے گال پر گڑھا پڑ گیا..

سر ناشتہ ریڈی ہے... وہ تابعداری سے سر ہلاتا باہر نکل گیا..

وہ ایک آخری نظر خود پر ڈالتا موبائل سنبھالتا اس خواب گاہ سے باہر نکل آیا...

ہیلو ہاں رفیق... وہ فون کان سے لگاےُ بولا..

کام بلکل پرفیکٹ ہونا چائیے تم جانتے ہو مجھے غلطیاں پسند نہیں نہ ہی میں معاف کرتا ہوں.. بولتے بولتے اس کے چہرے پر سختی در آئ...

اچھا میں تم سے بیس منٹ بعد بات کرتا ہوں.. زینے اترتے ہوۓ اس نے فون بند کر دیا...

آہل نے بلیو ٹوتھ کان کو لگا لی اور ناشتہ کرنے لگا...

ہاں رفیق... وہ الرٹ ہو گیا..

ٹھیک ہے تم نظر رکھو میں بس نکل رہا ہوں... کہتے ہوۓ وہ کھڑا ہو گیا...

ملازم نے ہاتھ میں پکڑا اس کا کوٹ آگے کیا...

آہل کوٹ پہنتا باہر نکل گیا...

گارڈز اس کی تقلید کر رہے تھے...

آہل کی گاڑی کے آگے اور پیچھے گارڈز کی گاڑیاں تھیں...

روشن پیشانی پر شکنیں ابھریں وہ نگاہیں موبائل اسکرین پر مرکوز کیے ہوۓ تھا...

دانین چلتی ہوئ جا رہی تھی گردن تنی ہوئ تھی وہ مغرور سی لڑکی ناک چڑھاےُ آس پاس دیکھ رہی تھی...

ہاےُ میشو... دانین اس کے گلے لگ گئ..

آؤ لائیبریری چلتے ہیں پہلے... وہ چلتی ہوئ بولی..

دانین صراحی دار بےداغ گردن کو ہلاتی چلنے لگی...

وہاں بیٹھتے ہیں.. دانین نے ہاتھ سے اشارہ کیا لیکن عین اسی لمحے کوئ اور سٹوڈنٹ وہاں آ بیٹھی.

وہاں تو...

ڈونٹ وری میشو ہم وہیں بیٹھیں گے... وہ دانت پیستی ہوئ بولی..

تم وہ ناول لے آؤ میں جا کر بیٹھتی ہوں...

وہ یونی میں ایسے چلتی مانو یہ بھی اس کے باپ کی ملکیت ہو...

یہاں سے اٹھو...

وہ اپنا ملائ جیسا نازک ہاتھ ٹیبل پر زور سے مارتی ہوئ بولی..

ایکسکیوز می لیکن کیوں..

کیونکہ مجھے یہاں بیٹھنا ہے گیٹ اپ... وہ اشارہ کرتی ہوئ بولی..

آپ کہیں اور بیٹھ جائیں...

تم مجھے جانتی ہو میں کون ہوں دانین زبیر مجھے لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی... بولتے بولتے دانین کی آواز بلند ہو گئ...

جو سٹوڈنٹس بیٹھے تھے ناگواری سے انہیں دیکھنے لگے...

میم آپ پلیز بیٹھ جائیں باقی بھی ڈسٹرب ہو رہے ہیں... لائبریرین شور سن کر آ گیا...

مجھے یہیں بیٹھنا ہے شی ہیو ٹو گو... وہ سینے پر بازو لپیٹتی ہوئ بولی..

وہ جانتی تھی سامنے دانین زبیر ہے جس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی سو خاموشی سے اٹھ گئ..

دانین فاتحانہ مسکراہٹ لیے بیٹھ گئ...

تم آج کیوں آ گئ...

میشو اس کے سامنے بیٹھتی ہوئ بولی..

یار گھر میں بور ہوتی ہوں میں اس لیے آ گئ.. وہ منہ بناتی ہوئ بولی...

ارحم نہیں آیا... میشو بک کھول کر بیٹھ گئ...

آےُ گا تو پوچھوں گی میں کتنا ٹائم ہو گیا لیکن ابھی تک نہیں آیا.. وہ اپنی بائیں کلائ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئ بولی...

یہ وہی انگلش ناول ہے نہ جو تم کہ رہی تھی.. دانین صفحے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی....

ہاں وہی ہے جو میں نے تمہیں بتایا تھا پڑھ لو بہت مزے کا یے...

دانین اثبات میں سر ہلاتی پڑھنے لگی..

***********

انعم...

مام کیا مسئلہ ہے کیوں صبح صبح تنگ کر رہیں ہیں... وہ لحاف منہ پر لیتی ہوئ بولی...

دانین تیار ہو کر یونی بھی چلی گئ ہے اور تمہاری ابھی تک صبح نہیں ہوئ ٹائم دیکھو ذرا...

مام کام بولیں کام... وہ جھنجھلا کر بولی..

تمہارے ماموں کا نمبر مجھ سے ڈیلیٹ ہو گیا ہے اپنے فون سے دیکھ کر بتاؤ...

اچھا آپ جائیں میں ٹیکسٹ کر دیتی ہوں....

کر دینا یہ نہ ہو کہ مجھے پھر سے آنا پڑے...

جی جی کر دیتی ہوں... وہ موبائل اٹھاتی ہوئ بولی..

رحیم کا نام دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئ...

کسی کو بھول مت جانا ثانیہ...

ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی آپ بھی اپنے سب دوست احباب کے نام ڈائری پر لکھ دیتے ورنہ بھول جاؤں گی میں... وہ فون پکڑے نمبر ملاتی ہوئیں بولیں...

اچھا میں لکھ دیتا ہوں پہلے ارسلان سے پارٹی کے انتظامات کی تفصیل لے لوں... وہ فکرمندی سے کہتے چلے گۓ...

شکر ہے بھیج دیا نمبر ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا دوبارہ کمرے میں جانا پڑے گا... وہ میسج دیکھتی ہوئ بولی..

میری بات سنو مرتضیٰ پارٹی کے سارے کام تمہارے ذمے ہیں... وہ فون کان سے لگاےُ ہوۓ تھا...

میں آج بہت ضروری کام سر انجام دینے جا رہا ہوں اس لیے کسی بھی چیز کو دیکھ نہیں سکوں گا مہمانوں سے لے کر کھانے تک ہر چیز اور ایسی شاندار پارٹی ہونے چائیے کہ بس دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں...

ہاں خیر ہی ہے آج تو ایک خاص مہمان بھی ہمارے بیچ ہوں گے... وہ دھیرے سے مسکراتا ہوا بولا..

ہاں تم گھر آ جاؤ باہر گارڈن میں ہی ارینج کروانا سب...

ٹھیک ہے پھر جب ضرورت پڑے کال کر لینا... آہل نے کہ کر فون رکھ دیا...

بس یہیں روک دو اور میرے پیچھے کوئ نہ آےُ.. وہ یونی سے کچھ مسافت پر اتر گیا..

چہرے پر رومال باندھ لیا اور دھیمی چال چلتا اندر آ گیا...

ہاں رفیق کہاں ہے وہ...

واش روم میں سر...

وہ چہرے سے رومال ہٹاتا واش روم کی جانب چلنے لگا...

یونی میں زیادہ سٹوڈنٹس نہیں تھے اکا دکا دکھائ دے رہے تھے...

آہل مطمئن انداز میں چلتا ہوا واش روم میں آ گیا...

دانین پوری آنکھیں کھولے شیشے میں اسے دیکھنے لگی..

یہ جو منہ پر آنکھیں لگیں ہے کام کرنے سے قاصر ہیں کیا...

بلکل بھی نہیں... وہ سینے پر بازو باندھے دروازے سے ٹیک لگاےُ کھڑا تھا..

تو پھر نظر نہیں آتا یہ گرلز واش روم ہے... وہ چہرہ موڑ کر اسے گھورنے لگی...

بلکل بھی نہیں مجھے واش روم سے کیا گرلز ہو یا بوائز...

میں تمہیں ابھی کے ابھی یونی سے آؤٹ کروا سکتی ہوں جانتے بھی ہو میں کون ہوں...

محترمہ جب آپ کو خود نہیں پتہ آپ کون ہیں تو پھر میں کیسے جان سکتا ہوں... وہ سادگی سے کہتا دانین کے سامنے آ رکا...

جیب میں ہاتھ ڈالا اور رومال باہر نکالا...

ایک منٹ تمہیں ابھی بتاتی ہوں... دانین موبائل پر نمبر ڈائل کرنے لگی...

آہل نے موقع کو غنیمت جانا اور دانین کے منہ پر رومال رکھ دیا...

دانین پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی وہ ہاتھ مار کر اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی لیکن اس کے فولادی ہاتھ کو ہٹا نہ سکی اور چند پلے لگے, دانین آہل کی بانہوں میں جھول گئ...

آہل کے چہرے کا ڈمپل نمایاں ہوا دانین کو بازوؤں میں اٹھاتا باہر نکل آیا گاڑی پچھلے گیٹ کے عین سامنے کھڑی تھی اور آہل حیات کو کون روک سکتا تھا وہ طمانیت سے چلتا ہوا گاڑی تک آیا اور دانین کو عقبی سیٹ پر لٹا کر خود آگے آ گیا...

چلو اب... آنکھوں پر گاگلز لگاتا ہوا تحکمانہ انداز میں بولا...

ڈرائیور زن سے گاڑی بھگا لے گیا...

آہل بیک مرر میں دانین کو دیکھنے لگا اس لمحے اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ورنہ اس لڑکی کا معصومیت سے دور دور تک کوئ ناطہ نہیں... وہ مسکراتا ہوا بولا..

آہل باہر نکلا اور دانین کو اٹھا کر اندر کی جانب چلنے لگا...

ایک چئیر پر دانین کو بٹھا کر رسیوں سے باندھ دیا...

جنگلی بلی کسی بھی لمحے ہوش میں آ سکتی ہے....

خیال رکھنا جیسے ہوش میں آےُ مجھے بتا دینا... آہل کہ کر اس کمرے سے باہر نکل گیا...

زبیر رنداوھا اب تمہیں معلوم ہو گا جب کوئ اپنی عزیز چیز کو چھین لے تو کیسا محسوس ہوتا ہے... آہل کی آنکھوں میں نفرت چھلک رہی تھی...

سر جھٹکتا وہ صوفے پر بیٹھ گیا...

کہاں ہے تمہارا باس بلاؤ اسے... دانین کے چلانے کی آوازیں سنائ دینے لگیں آہل مسکراتا ہوا اندر آ گیا...

تو ہماری مہمان ہوش میں آ گئ... آہل اسے دیکھ کر محظوظ ہوا..

میں تمہیں جان سے مار دوں گی تمہاری ہمت کیسے ہوئ مجھے یہاں لا کر باندھنے کی... وہ طیش میں پاگل ہو رہی تھی..

ریلیکس ڈئیر... آہل اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا بولا..

دانین ہاتھ ہلا کر کھولنے کی کوشش کر رہی تھی...

اس طرح صرف تمہیں تکلیف ہو گی یہ کھلیں گیں پھر بھی نہیں... وہ بھرپور اطمینان سے بولا..

کیا مصیبت ہے تمہیں مجھے کھولو... دانین کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا...

کھول دوں گا جب میرا کام ہو جاےُ گا ابھی تو شام ہوئ ہے نیو ائیر کا گفٹ مجھ سے نہیں لو گی...

تمہیں کیسے معلوم... وہ آبرو اچکا کر بولی..

اگر تم تھوڑی سی دلچسپی سیاست میں لیتیں تو آج مجھے پہچان لیتی...

اووہ آہل... وہ غور سے دیکھتی ہوئ بولی...

تم اور تمہارے سیاسی کیڑے بھاڑ میں جائیں مجھے کھولو ابھی کے ابھی سئیرئسلی میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی...

اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا... وہ دانین کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا.

ہوں... دانین نے سر جھٹکا..

ٹیپ... آہل نے ہاتھ آگے کیا..

کیا کرنے لگے ہو تم...

یار ایک تو تم بولتی بہت ہو... آہل نے کہتے ہوۓ دانین کے نازک لبوں پر ٹیپ لگا دی...

وہ کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی...

__________

ابھی کچھ دیر میں تم دانین زبیر سے دانین حیات بن جاؤ گی اور میری بات سن لو غور سے نکاح خاموشی سے کر لینا... وہ منہ تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا..

دانین بولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ٹیپ کے باعث گھور کر رہ گئ...

ہاں رفیق مولوی صاحب اور گواہ آ گۓ ہیں...

رفیق اس کے سامنے کھڑا تھا..

جی سر وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہیں...

اچھا پھر مولوی صاحب کو بولو دس منٹ رکیں میں دلہن کو تیار کر لوں کیونکہ اس کی کوئ سہیلی نہیں ہے یہاں سو... آہل نے مسکرا کر بات ادھوری چھوڑ دی..

رفیق بھی ہلکا سا مسکرا دیا...

آہل موبائل پر کچھ ٹائپ کرتا پھر سے اندر آ گیا بائیں ہاتھ میں گن پکڑ رکھی تھی...

سو میری جنگلی بلی ٹائم آ چکا ہے زیادہ کچھ نہیں بس تین لفظ بولنے ہیں... وہ دانین کے منہ سے ٹیپ اتارتا ہوا بولا...

کتے, کمینے, بےغیرت .. ہو گۓ تین لفظ اب مجھے کھولو اور اپنی شکل غائب کر لینا کیونکہ اگر تم نے نہیں کی تو میں کروا دوں گی... دانین کی آنکھیں شعلے اگل رہیں تھیں..

ویری بیڈ... وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا..

دانین کو گن پوائنٹ پر رکھا اور لب کھولے..

نکاح پڑھو ورنہ گولی چلا دوں گا..

تمہیں کیا لگتا ہے میں اس کھلونے سے ڈر جاؤں گی نہیں پڑھتی چلا کر دکھاؤ مجھ پر گولی..

ٹھیک ہے... کہ کر اس نے گولی چلا دی...

آہ.. وہ کراہ کر اسے دیکھنے لگی...

گولی اس کی بازو کو چھو کر گزری تھی...

ابھی صرف چھو کر گزری ہے اگلی سیدھا دل میں اتاروں گا... وہ شعلہ بار نظروں سے دیکھتا ہوا بولا..

آئیں مولوی صاحب نکاح پڑھوائیں...

وہ مسکرایا تو گال کا ڈمپل نمایاں ہوا...

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے..

وہ اس کی بازو پر ہاتھ رکھے خون کو بہنے سے روکے ہوےُ تھا...

قبول ہے... اس ظالم کو گھورتی ہوئ بولی..

یہ تمہارا نیو ائیر کا گفٹ...

وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا..

مولوی صاحب دعا مانگ کر گواہوں سمیت باہر نکل گۓ...

کس خوشی میں مجھ سے نکاح کیا ہے تم نے.. وہ دھاڑی..

نیو ائیر کی خوشی میں,, میں نے سوچا کچھ نیا ہونا چائیے زبردست ہے نہ... وہ شرارت سے بولا..

میری بازو... وہ ناک چڑھاتی ہوئ بولی..

اووہ فکر مت کرو میں ہی پٹی کروں گا کیونکہ زخم بھی میں نے دیا ہے لیکن اگر تم تمیزداری کا مظاہرہ کروں گی تبھی تمہیں لے کر جاؤں گا باہر ورنہ بےہوش کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا....

ہاں ساری زندگی بےہوش کر کے یہیں رکھ لینا مجھے... وہ تپ کر بولی.

چلو آؤ... وہ دانین کا بازو پکڑے چلنے لگا...

دانین اس کمرے سے باہر نکلی تو دائیں بائیں دیکھنے لگی...

گھر ہے,, نا جانے کس کے گھر میں اٹھا لایا ہے.. وہ منہ بسورتی ہوئ بولی...

کچھ ہی وقت میں گاڑی آہل کے گھر کے سامنے آ رکی....

اب کیا مصیبت ہے مجھے کہاں لے آےُ ہو... گاڑی پورچ میں آ کر رک گئ...

تمہارے سسرال لایا ہوں اتنا بھی نہیں معلوم نکاح کے بعد لڑکیاں سسرال جاتی ہیں... کہ کر وہ گاڑی سے باہر نکل گیا..

دانین سینے پر ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئ.

آؤ باہر... وہ اس کی جانب کا دروازے کھولے جھانکتا ہوا بولا..

دانین کا چہرہ ایسے تھا مانو سنا ہی نہیں..

میڈم باہر آ جاؤ اب ورنہ سارا خون نکل جاےُ گا....

نہیں آ رہی میں جو کرنا ہے کر لو...

آہ... آہل کے گال کا ڈمپل نمایاں ہوا....

کچھ دیر قبل کا واقعہ شاید تم فراموش کر گئ جب میں زبان سے بات کروں تو مان لیا کرو ورنہ پھر میں اس سے بات کرتا ہوں... وہ جیب سے گن نکالتا ہوا بولا.

دانین پھٹی پھٹی آنکھوں اسے دیکھنے لگی...

تم دوبارہ سے مارو گے مجھے..

بلکل اگر تم باہر نہ نکلی,, ویسے ایک اور طریقہ بھی ہے تمہیں اٹھا کر لے جا سکتا ہوں.. وہ مسکراتا ہوا بولا..

دانین جل کر اسے دیکھنے لگی..

چوائس تمہاری دو منٹ ہیں سوچ لو...

بہت زیادہ نہیں دو منٹ..

دانین گاڑی سے باہر نکلتی ہوئ بولی..

دو منٹ میں چار پانچ لوگ آرام سے مارے جا سکتے ہے...وہ پرسکون انداز میں بولا..

یا اللہ یہ انسان مجھے وزیر اعلیٰ کم اور دہشت گرد زیادہ لگتا ہے... دانین اپنا دائیاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھتی ہوئ بولی...

اندر داخل ہوتے ہی ملازم دکھائ دئیے لائٹس نے ہر شے کو منور کر رکھا تھا...

وسیع سے لاؤنج کے وسط میں بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی..

آہل نے دانین کا بازو پکڑتا اور تیز تیز قدم اٹھاتا زینے چڑھنے لگا...

تم کسی ریس میں نہیں کھڑے... دانین اس کے ساتھ کھینچی چلی جا رہی تھی..

آہل مسکراتا ہوا سپیڈ گھٹا گیا...

راہداری عبور کر کے آہل نے دروازہ کھولا..

بیڈ پر بیٹھ جاؤ..

کیوں.. دانین اچھل پڑی..

سرمئ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے دیکھنے لگی...

کچھ نہیں کرتا ڈاکڑ کو بلانے لگا ہوں.. کہ کر اس نے فون کان سے لگا لیا...

مرتضیٰ ڈاکڑ کو میرے کمرے میں بھیجو ابھی.

دانین کوفت سے آہل کو دیکھنے لگی...

مطلب حد ہو گی مجھے اٹھا لایا پھر نکاح بھی کر لیا... وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی..

ہاں حد ہی ہے سچ میں نہ... وہ دانین کو دیکھتا ہوا بولا..

تمہارے کان ہیں یا پھر کچھ فٹ کروا رکھا ہے ان میں, وہاں بیٹھے بھی سب سن لیا... دانین دانت پیستی ہوئ بولی...

ڈاکڑ اندر آیا آہل کو دیکھتا ہوا اپنا کام کرنے لگا..

دانین کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے..

کیڑے پڑیں تمہیں اللہ کرے...

آہل لب دباےُ مسکرانے لگا...

ہاں کچھ دیر بعد بھیج دینا ابھی بزی ہوں.. آہل فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا..

ایسے کیسے غائب ہو گئ دانین,, تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا یونی سے کہاں جا سکتی ہے وہ... زیبر طیش میں گارڈز پر چلا رہے تھے...

سر ہم انتظار کرتے رہے لیکن وہ باہر نہیں نکلیں.. گارڈ سر جھکاےُ بولا..

تمہیں پیسے میں دانین کی حفاظت کے لیے دیتا ہوں یہ بہانے بنانے کے لیے نہیں... وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ٹہلنے لگے...

فون بھی بند جا رہا ہے کہاں ڈھونڈیں دانین کو.. وہ کوفت سے بولے..

ثانیہ فکرمندی سے انہیں دیکھ رہی تھی..

آپ کو کیا لگتا ہے یہ کس کا کام ہے...

معلوم نہیں دانین سے کسی کی کیا دشمنی...

دانین سے نہیں آپ سے تو بہت لوگوں کی ہے نہ.. وہ افسوس سے نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولیں..

سیاست میں ایک نہیں ہزاروں لوگوں سے دشمنیاں ہوتیں ہیں یہ گارڈز کس لیے رکھے تھے میں نے,, معلوم نہیں کس کا دماغ گھوما ہے جو دانین کو اٹھا لیا...

ایک سوچ پر دوسری سوچ حاوی ہو رہی تھی دماغ سوچ سوچ کر مفلوج ہو رہا تھا...

ابھی تک کسی نے فون بھی نہیں کیا...

زبیر موبائل پر نمبر ڈائل کرنے لگی..

ہاں سنو دانین کی لوکیشن ٹریس کروانی ہے...

سر نمبر آن ہو گا تو لوکیشن بھی ٹریس کر سکیں گے..

لعنت ہو... وہ فون بند کرتے جھنجھلا کر بولے..

دانین ٹھیک تو ہو گی نہ... ثانیہ پھر سے گویا ہوئ.

ٹھیک ہو گی اتنا تو میں جانتا ہوں,, آسم کو بھیجو... وہ سٹڈی کی جانب بڑھتے ہوےُ بولے..

ثانیہ سانس خارج کرتیں انہیں جاتا دیکھنے لگی...

یہ تمہارا آج کا ڈریس... ملازم رائل بلیو کلر کی میکسی لیے کھڑا تھا جب آہل نے لب کھولے...

دانین ناپسندیدگی سے اسے دیکھنے لگی...

مجھے گھر جانا ہے... وہ اس کی بات نظر انداز کرتی ہوئ بولی..

چلی جانا گے بھی ساری زندگی وہیں رہی ہو اب کچھ دن میرے پاس رہ لو... وہ ملازم کو اشارہ کر کے بولا..

ملازم الماری کے ساتھ ہینگ کرتا باہر نکل گیا..

تمہاری دشمنی ڈیڈ سے ہے تو مجھ سے کیوں نکاح کیا...

سوئیٹ ہارٹ اب میں تمہارے ڈیڈ سے تو نکاح کرنے سے رہا..

ویسے تم نے شاید سنا ہو جیسے بادشاہ کی جان طوطے میں ویسے ہی تمہارے باپ کی جان دانین میں رائٹ.. وہ دانین کی تیکھی ناک دباتا ہوا بولا...

ہوں... دانین اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئ بولی..

تمہارا یہ جو منہ ہے نہ میں توڑ کر پھینک دوں گی...

نو اپنے شوہر کے بارے میں ایسا نہیں بولتے,,ویسے بھی میرا ڈبل فائدہ ہو گیا تمہارے باپ سے بھی کام نکلوا لوں گا اور تم بھی میری...

مائ فٹ... دانین اسے پرے دھکیلتی ہوئ بولی..

اتنا غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا...

دانین بھی تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں آئ سئیور تمہیں گولی میرے ہاتھوں ہی لگے گی... دانت کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ گیا...

اچھا باقی باتیں بعد میں تم تیار ہو جاؤ آج کی پارٹی کی خاص مہمان تم ہی ہو...

کوئ نہیں... دانین بیڈ پر بیٹھ گئ...

میرا نشانہ بہت اچھا ہے چوتکتا بلکل نہیں.. وہ چلتا ہوا بولا..

دانین مٹھیاں بھینچ کر رہ گئ...

اچھی مصیبت ہے ڈیڈ کے چکر میں مجھے اس حیوان نے پکڑ لیا ہے جو بات کرتا ہے تو صرف گولی کی نوک پر یہ کیا بات ہوئ بھلا... دانین کوفت سے بولی..

ڈیڈ آپ سے تو میں بات نہیں کروں گی اپنے دشمنوں کو میرے سر پھینک دیا,اب یہاں سے نکلوں کیسے... وہ کمرے کی تلاشی لینے لگی.. کھڑکی تو تھی لیکن نیچے اس کی فوج کھڑی تھی...

سیکیورٹی تو ایسے ہے جیسے کوہےنور لے کر بیٹھا ہے...

دانین کی بازو بیڈ کی پشت سے ٹکرا گئ...

آہ.. دانین تکلیف سے کراہنے لگی...

مجھے لگا تھا صرف دھمکی دے رہا ہے لیکن اس کمینے نے تو سیدھا گولی ہی مار دی...

اتنے وقت میں دانین کو اس بات کا تو اندازہ ہو گیا کہ وہ زبان سے بات کرنے والا انسان نہیں..

اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک لڑکی نمودار ہوئ.دانین پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی.

ہیلو میم.. وہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لیے بولی..

کون ہو تم اور کس کیے آئ ہو... دانین بنا کسی لحاظ کے بولی..

وہ میم سر نے مجھے بھیجا ہے آپ کے میک اپ کے لیے اور وہ پوچھ رہے تھے آپ کی بائیں بازو ٹھیک ہے نہ... وہ گھبرا کر بولی..

بائیں بازو... دانین حیرت سے دیکھنے لگی...

اوووہ سمجھ گئ دھمکی... یہ انسان تو مجھے چند گھنٹوں میں پاگل کر دے گا...

چینج کر کے آتی ہوں.. دانین منہ بسورتی ڈریس لے کر واش روم میں چلی گئ...

آسم ابھی تک دانین کی کوئ خبر کیوں نہیں ملی معلوم کیوں نہیں ہوا تمہیں... زیبر ضبط کرتے ہوۓ بولے...

سر یونی میں اکا دکا سٹوڈنٹس تھے اور گارڈز تو گیٹ کے باہر ہی کھڑے تھے یقیناً وہ عقبی گیٹ سے گےُ ہوں گے,,میں کوشش کر رہا ہوں لیکن بنا کسی دھمکی کے سیدھا اٹھا کر لے گۓ تھوڑا مشکل ہے سر... کسی سٹوڈنٹ نے بھی نہیں دیکھا ورنہ آسان ہو جاتا....

جو لے کر گیا ہے وہ بھی کوئ مطالبہ نہیں کر رہا آخر ہے کون... وہ کوفت سے بولے..

سر آپ ریلیکس رہیں میں کوشش کرتا ہوں کچھ وقت تک معلوم ہو جاےُ آپ پارٹی کی تیاری کریں مہمان آنا شروع ہو گۓ ہیں...

پارٹی میں سب لوگوں نے چہرے پر ماسک لگا رکھے تھے...

آہل ماسک ہاتھ میں پکڑے کمرے میں آیا...

وہ اس وقت بلیو فور پیس پہنے ہوۓ تھا بال ہمیشہ کی طرح جیل لگا کر کھڑے کر رکھے تھے بےداغ چہرہ جگمگا رہا تھا...

دانین کی پشت دکھائ دے رہی تھی...

آہل نے بیوٹیشن کو اشارہ کیا تو وہ باہر نکل گئ...

دانین نے چہرہ موڑ کر عقب میں دیکھا...

آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں ڈوب گیا, وہ غضب ڈھا رہی تھی رائل بلیو کلر میں اس کا رنگ مزید چمکنے لگا تھا..

سیاہ ریشمی بال کمر پر گرے ہوۓ تھے گہری گلابی رنگ کی لپ اسٹک اسے مزید پرکشش بنا رہی تھی دانین گھنی پلکوں کی باڑ اٹھاےُ اسے دیکھ رہی تھی..

سرمئ آنکھوں میں خفگی تھی...

آہل لب دباےُ دانین کے سامنے آ رکا..

پرفیکٹ... وہ ستائش سے بولا..

آہل نے ہاتھ بڑھا کر دانین کے گال کو چھونا چاہا جسے دانین نے جھٹک دیا...

ویری بیڈ بلکل جنگلی بلی ہو... وہ جیب میں ہاتھ ڈالے بولا.

اور تم چلتی پھرتی غنڈہ گردی...

میں میل ہوں جینڈر کا تو دھیان رکھو...

مجھے تو کوئ اور ہی مخلوق لگتے ہو... وہ ناگواری سے بولی.

چہرے پر اکتاہٹ واضح تھی..

آہل کی نظر اس کی کلای سے ہوتی ڈریسنگ پر گئ..

ایک تو تم چاہتی ہو تمہیں ہر بات پر دھمکی دی جاےُ... وہ بولتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل سے سونے کی باریک, نفیس سی چوڑیاں اٹھانے لگا...

دانین کی کلائ پکڑی..

دانین نے ہاتھ چھڑوا کے پیچھے کر لیے..

تمہاری بازو لے کر بھاگ نہیں جاؤں گا...

تمہارا کیا بھروسہ اپنی مشق کرنے کے لیے لے جاؤ...

اگر لے کر گیا بھی تو تمہیں لے کر جاؤں گا اس بازو کا کیا کروں گا میں.. وہ آگے جھک کر دانین کی بازو پکڑتا ہوا بولا اور دانین کی دودھیا نازک سی کلائ میں چوڑیاں پہنانے لگا. اب ٹھیک ہے, یہ تمہارا ماسک اور میں پارٹی میں کوئ بدمزگی نہ دیکھوں ورنہ نقصان صرف اور صرف دانی کا ہو گا.. وہ کہ کر مڑ گیا...

دانی کون...

میری جان تم...

صرف شکل سے ہی نہیں اندر سے بھی لوفر ہو.. دانین جل کر بولی..

دانین کافی لمبا ہو جاتا ہے اتنے وقت میں انسان ایک کام کر سکتا ہے...

بلکل تم جیسا انسان ایک بندہ مار سکتا ہے اتنے وقت میں...

آاااا کتنی جلدی تم مجھے جان گئ ہو ویسے اچھا ہے جتنی جلدی سمجھ جاؤ گی.. وہ ہلکا سا مسکرا کر باہر نکل گیا...

تمہاری جان بھی میں ہی لوں گی, یہ گن کہاں رکھتا ہے... دانی سوچتی ہوئ بیڈ کے دراز چیک کرنے لگی...

کمینہ یے ایک نمبر کا یہاں کیوں رکھے گا... وہ کوفت سے بولی...

بارہ بجے آہل دانی کا ہاتھ تھامے باہر آیا..

تمام لائٹس آف تھیں ایک لائٹ انہیں فوکس کر رہی تھی ساتھ ہی آسمان جگمگانے لگا..

آتش بازی کا حسین نظارہ تھا.. فلک ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا مختلف روشنیوں سے جگمگا رہا تھا...

لوگ ہاتھوں میں گلاس لیے کھڑے تھے سب کے چہرے ماسک سے مخفی تھے, لوگ آہل کے پہلو میں کھڑی اس لڑکی کو دیکھنے کے لیے پرتجسس دکھائ دے رہے تھے...

ہیپی نیو ائیر... آہل نے گلاس اوپر کر کے کہا..

سب نے مسکراتے ہوۓ اپنا گلاس بلند کیا..

تم کچھ نہیں پیوں گی جنگلی بلی..

تمہارا خون پیوں گی... دانی تپ کر بولی..

وہ تو ویمپ پیتے ہیں تم تو میری پیاری سی بیوی ہو اور انسان بھی...

دانی نے رخ موڑ لیا...

موسیقی کی دھن سنائ دینے لگی.. سب خوش گیپوں میں مصروف تھے..

ہیو اے ڈانس ود یو... آہل اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتا ہوا بولا..

مرنا پسند کروں گی میں اس سے بہتر...

آہل کے چہرہ پر گڑھا پڑا..

سوچ لو میں گن ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہوں.. وہ دانی کے کان میں سرگوشی کرنے لگا...

ہیلو مسٹر فہیم... آہل سامنے موجود نفس کو دیکھ کر بولا...

واہ بھئ نیو ائیر پر آپ نے سوچا کچھ نیا کرتے ہیں... وہ دانی کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا.

بلکل سال گیا تو پرانے لوگ بھی گےُ نیا سال نئے لوگ... وہ چہک کر بولا..

دانی جی بھر کر بدمزہ ہوئ...

اس کے بعد آہل لوگوں سے ملنے لگا دانی مجبوراً منہ بسورتی اس کے ساتھ کھڑی رہی..

آئ ایم سو سوری کیا کروں لوگوں سے بھی ملنا پڑتا ہے...

میری بلا سے ملتے رہو مجھے کیا...

اب چپ چاپ میرے ساتھ ڈانس کرو... وہ دانی کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

آہل اب کی بار میں تمہیں گولی ماروں گی... وہ دانی کا ہاتھ پکڑے سٹیج پر لے آیا..

شوق سے مار لینا تمہارے ہاتھوں سے مرنے کا اپنا ہی لطف ہو گا...

دانی اسے گھور کر رہ گئ...

ڈھیٹ انسان....

شکریہ لیکن میں پہلے سے جانتا ہوں.. کہتے ہوۓ اس نے دانی کی کمر پر ہاتھ رکھا اور اسے خود سے قریب کر لیا...

__________

دانی اس کے ساتھ آ لگی...

تم سمجھتے کیا ہو آخر خود کو.. وہ خفگی سے بولی..

تمہارا شوہر... اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا معصومیت سے بولا...

شوہر مائ فٹ...

شش.. میں نے کیا کہا تھا تمیزداری کا مظاہرہ کرنا ورنہ میں جس چیز کا مظاہرہ کروں گا پھر تمہاری آواز نہیں نکلنی.... وہ سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا...

دانی نے اپنی ہیل اس کے پاؤں پر رکھ دی...

مجھ سے زیادہ ظالم تو تم ہو.. وہ محظوظ ہوتا ہوا بولا..

آہل نے اس کی انگلی پکڑی اور گھمانے لگا...

نظر چاہتی ہے دیدار کرنا

یہ دل چاہتا ہے تمہیں پیار کرنا

تمہارے خیالوں میں ڈوبے رہے ہم

ہے کیا حال دل کا یہ کیسے کہیں ہم

مہکنے لگے گا بدن یہ تمہارا

ہم آنکھوں سے ایسی شرارت کریں گے

تمہارے سواء کچھ نہ چاہت کریں گے

کہ جب تک جئیں گے محبت کریں گے

موسیقی کی دھن پر وہ دونوں رقص کر رہے تھے..

کچھ ستائش سے اور کچھ حسد سے انہیں دیکھ رہے تھے اس لڑکی کو جاننے کے لیے سب کے اندر تجسس بیدار ہو رہا تھا جو آہل کے ہمراہ تھی..

گانا بند ہوا تو تالیوں کا شور سنائ دیا...

آہل مسکراتا ہوا سب کو دیکھ رہا تھا...

دانی اکتا کر سامنے موجود نفوس کو دیکھ رہی تھی...

دانین کہاں ہے ثانیہ..

وہ دانین اپنی دوستوں کے ساتھ ہے... انہوں نے بہانہ بنایا..

پہلے تو ہمیشہ سب کے ساتھ مناتی تھی...

ہاں بس اس بار فرینڈز کا کچھ پلان تھا تو ان کے ساتھ چلی گئ...

اوووہ اچھا.. وہ اثبات میں سر ہلانے لگی...

سر آہل حیات کے ساتھ کوئ لڑکی ہے بہت چالاک ہے وہ اس کی پارٹی کی تھیم ماسک ہے اس لیے پورا یقین نہیں کہ وہ لڑکی دانین میم ہی ہیں یا نہیں..

ہوں,, اس آہل کو کیا مصیبت آن پڑی, وہ تو کچھ بھی نہیں جانتا... وہ سر جھٹکتے ہوۓ بولے...

جی سر میں بھی حیران ہوں اسے کسی بات کا علم نہیں پھر وہ کیوں دانی میم کو اغوا کرے گا... وہ الجھ کر بولا..

صبح جاتا ہوں میں اس کی طرف, اس کے سیکڑی سے رابطہ کرو کہ میٹینگ رکھے میری آہل کے ساتھ...وہ سیگرٹ سلگاتے ہوےُ بولے..

جی سر میں ابھی کوشش کرتا ہوں رابطہ کرنے کی پارٹی کے باعث دقت ہو گی اس وقت بات ہونے میں لیکن میں دیکھتا ہوں.. وہ کہتا ہوا چل دیا...

آہل کس لیے تم دانین کو لے گۓ ہو, کیسے معلوم ہو سکتا ہے اسے نہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے وہ یہاں نہیں تھا اتنا وقت ہو گیا وہ خاموش رہنے والا انسان نہیں ہے پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے.. وہ جتنا سوچتے اتنا الجھ جاتے...

ہاں رفیق بولو.. آہل بلیو ٹوتھ پر ہاتھ رکھتا ایک سائیڈ پر آ گیا..

ڈیمٹ.. وہ کیسے نکل سکتے ہیں.. آہل کے چہرے پر اکتاہٹ واضح تھی...

خیر تم نظر کرو جلد بازی میں وہ کوئ نہ کوئ غلطی ضرور کریں گے مجھے جلد از جلد جاننا ہے وہ کہاں لے کر گۓ ہیں انہیں سمجھ رہے ہو نہ تم... آخر میں وہ درشتی سے بولا..

آہل جونہی مڑا دانی اس کے عقب میں کھڑی تھی...

کیا ہوا دل نہیں لگ رہا تھا میرے بنا.. آہل نے پل بھر میں موڈ بدلا..

نہیں میں سوچ رہی تھی میرے سر سے منحوسیت کہاں غائب ہو گئ کیونکہ تم تو پیچھا چھوڑتے نظر نہیں آ رہے..

ہاہاہاہا جسے تم منحوسیت کہ رہی ہو تمہاری خوشنصیبی یے آہل حیات ہر کسی کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا...

مجھے کیا رکھو یا نہ رکھو مجھے گھر جانا ہے..

فلحال تو ایسا کچھ نہیں ہو گا سو خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح پارٹی اینجواےُ کرو.. وہ دانی کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

مانا کہ تم بڈھے ہو گۓ ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بچی ہوں... دانی جل کر بولی..

اچھا اب تم کھانا کھاؤ میرا دماغ نہیں چلو... وہ دانی کو اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا بولا..

پتہ نہیں ایسے لوگ مرتے کیوں نہیں ہیں... دانی کوفت سے بولی

کیوں بھری جوانی میں بیوہ ہونا چاہتی ہو..

تمہاری بیوی ہونے سے اچھا بندہ بیوہ ہو جاےُ جو بات کرتا ہے تو صرف گن سے... دانی کو غصہ آنے لگا تھا...

اتنا غصہ مت کیا کرو میں نے کوئ شرارت کر دی تو پھر منہ پھلا کر بیٹھ جاؤ گی....

حد ہے یہاں بندہ اس سے ٹائم ٹیبل لکھواےُ کہ کب کیسا رد عمل دینا ہے اور کب کیسا. دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

آہل مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا...

دانی ٹراؤزر پر ٹی شرٹ پہن کر واش روم سے نکلی, بیڈ پر لیدر کی جیکٹ پڑی تھی دانی نے اٹھا کر پہن لی...

اچھا ٹھیک ہے مجھے انفارم کرتے رہنا تم, ہاں اس کو بول دو آنے کا... آہل بولتا ہوا کمرے میں آ گیا...

دانی ناگواری سے اسے دیکھنے لگی...

کپڑے نکالتا وہ واش روم میں چلا گیا....

آ گیا جلاد... دانی بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ.

آہل تولیے سے چہرہ خشک کرتا باہر نکلا..

سو کیسی لگی پارٹی میری جنگلی بلی کو... وہ مسکراتا ہوا دانی کے سامنے آ بیٹھا..

تمہاری طرح زہر.. دانی بدمزہ ہوئ...

آہل قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا...

تم یہاں کیوں بیٹھے ہو.. دانی تیکھے تیور لیے بولی پیشانی پر بل پڑ گۓ..

کیا مطلب... آہل الجھ گیا..

یہاں میں نے سونا ہے اٹھو... دانی ہاتھ سے اشارہ کرتی ہوئ بولی...

یہ میرا بیڈ ہے میں کیوں جاؤں... وہ بیڈ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا...

یہ تمہارا نہیں فوم کا بیڈ یے.. دانی بیڈ پر انگلی رکھتی ہوئ بولی..

آہل مسکرانے لگا تو ڈمپل نمایاں ہوا..

دانی اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی..

یہ اپنے ڈمپل کی نمائش کم ہی کیا کرو تم...

اچھا اب اتار کر پھینک دو اسے... وہ تعجب سے بولا...

بلکل, فضول میں اوور ہوتے ہو... دانی جل کر بولی..

تم بھی تو ہر وقت اپنی گرے آنکھوں کی نمائش کرتی ہو میں نے تمہیں کہا کہ ان کی کھڑکی بند کر کے رکھا کرو.. وہ آنکھیں چھوٹے کیے بولا...

کہ لو مجھے کیا.. دانی شانے اچکاتی ہوئ بولی.

اچھا بیگم جی میں بہت تھک گیا ہوں صبح بہت کام ہیں اب سو جاؤ... وہ تکیہ درست کرتا ہوا...

مجھے ایک بات بتاؤ باقی گھر تم نے رینٹ پر دیا ہے...

نہیں کیوں.. وہ حیران ہوا..

تو پھر کسی اور کمرے میں سو جاؤ ایک ہی کمرہ ہے کیا...

مطلب مجھے میرے کمرے سے نکال رہی ہو چپ کر کے سو جاؤ اب یہیں ورنہ تمہیں معلوم ہے میں دھمکی دینے میں وقت کا ضیاع نہیں کرتا...

مجھے لگتا ہے تم مجھے پاگل کر دو گے دھمکیاں دے دے کر... دانی رونے والی شکل بناتی ہوئ لیٹ گئ...

بیچ میں اس نے تکیہ رکھ دیا..

یہ باؤنڈری ہے اگر تم نے بارڈر پار کیا تو...

تو... دانی بول رہی تھی جب وہ بیچ میں بول پڑا...

تو میں تمہیں تب بتاؤں گی... دانی کو کچھ سمجھ نہ آیا...

آہل مسکراتا ہوا لیٹ گیا..

مجھے کوئ باؤنڈری لائن نہیں روک سکتی سمجھی... وہ کہتا ہوا لائٹ آف کر گیا...

ہاں تم جیسے دہشت گرد کو کون روک سکتا ہے.. دانی کروٹ لیتی ہوئ بڑبڑائ..

آہل سن چکا تھا اور اب دھیرے سے مسکرا رہا تھا...

انعم تم نے اپنے ڈیڈ سے بات نہیں کی... رحیم فکرمندی سے بولا...

کی تھی... انعم اداسی سے بولی..

پھر... اس کے لہجے میں بےچینی تھی..

پھر کیا وہی جواب,,نہیں, پتہ نہیں ڈیڈ اتنے میٹیرلسٹک کیوں ہیں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا نہ ہی پیسے ہی ہم خوشیاں خرید سکتے... وہ اکتا کر بولی..

تم ٹھیک کہ رہی ہو لیکن انہیں کون سمجھاےُ یہ بات...

دانین مل جاےُ تو میں دوبارہ بات کروں گی ان سے...

دانین کہاں گئ.. وہ حیرت سے بولا..

کسی نے اغوا کر لیا ہے اسے اور ظاہر سی بات ہے ڈیڈ سے دشمنی کے عوض دانین کو اٹھا لیا..

تو معلوم نہیں ہوا..

ابھی تک تو نہیں ڈیڈ بتا رہے تھے آہل حیات شاید ملوث ہے اس سب میں کل صبح معلوم ہو گا یہ سچ ہے یا نہیں...

اچھا پھر کب مل رہی ہو تم مجھ سے...

ویک اینڈ پر تمہارا آف بھی ہو گا...

ہاں ویک اینڈ ٹھیک ہے, انعم کال آ رہی ہے میں تمہیں دوبارہ کال کرتا ہوں... کہ کر اس نے فون بند کر دیا...

انعم نے موبائل تکیے کے نیچے رکھا اور آنکھیں موند لیں..

دانی آج مجھے بہت کام ہیں سو تمہاری جانب سے کوئ شکایت موصول نہ ہو مجھے.. وہ کف بند کرتا ہوا بولا..

دانی جو بیڈ پر بیٹھی جمائ لے رہی تھی منہ بسورتی نیچے اتر آئ...

نہ میرے پاس موبائل ہے نہ میگی, زندگی اجیرن کر دی ہے تم نے.. دانی اس کے عقب میں کھڑی ہو گئ...

آہل آئینے میں اسے دیکھنے لگا...

ٹھیک یے دونوں چیزیں مل جائیں گیں اور کچھ.. وہ ٹائ کی ناٹ ٹائٹ کرتا ہوا بولا..

دانی لب دباےُ سوچنے لگی...

اووہ میں تو بھول گیا.. آہل کی نظر دانی کی گردن پر پڑی تو بولا..

ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھولا تو وہ سامنے پڑا تھا...

کیا.. دانی آبرو چکا کر بولی..

آہل نے ہاتھ میں اٹھایا اور دانی کے قریب آ گیا.

کیا مصیبت ہے اب... دانی اسے قریب پا کر بولی.

آہل نے مسکراتے ہوۓ لاکٹ دانی کی شفاف گردن کی زینت بنا دیا.. یہ معمولی سا لاکٹ اب قیمتی ہو گیا ہے... وہ ستائش سے دیکھتا ہوا بولا..

دانی نے آئینے میں دیکھا تو لاکٹ پر دانی لکھا تھا جس کے اندر چھوٹے چھوٹے ہیرے مبسوط تھے..

یہ کس خوشی میں.. وہ ہاتھ میں پکڑتی ہوئ بولی...

منہ دکھائ سمجھ لو لیکن میں نے ویسے ہی لیا تھا بہت پہلے.. اور ہاں دانی اگر یہ مجھے تمہاری گردن میں دکھائ نہ دیا تو تمہاری خیر نہیں.. کہ کر وہ کوٹ اٹھا کر چلنے لگا..

رفیق آےُ گا کپڑے بدل لو ان کپڑوں میں تم باہر نہ نکلنا...

مجھے کیوں یہاں رکھا ہوا ہے.. دانی اس کے سامنے آ گئ.

دانی مجھے بہت سے کام کرنے ہیں رات میں بات کرتے ہیں.. وہ دانی کو بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر کرتا ہوا بولا...

آہ.. ظالم.. دانی کراہ کر اپنی بازو دیکھنے لگی..

آہل کا ہاتھ ناب پر تھا جب دانی کی آواز سنی.وہ ہاتھ اٹھاتا واپس آیا..

کیا ہوا.. وہ فکرمندی سے بولا..

لوہے جیسا تمہارا ہاتھ ہے کس نے کہا تھا یہاں سے پکڑنے کو.. دانی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئ چلائ..

آئم سوری مجھے خیال نہیں رہا... آہل کہ کر کب بورڈ سے فسٹ ایڈ باکس نکال لایا...

جیکٹ اتارو... وہ باکس کھولتا عجلت میں بولا.

کیوں.. دانی پیچھے کو ہو گئ...

احمق لڑکی بینڈیج کروں اب خود اتارو گی یا میں اتاروں... وہ ماتھے پر بل ڈالتا ہوا بولا..

دانی منہ بناتی جیکٹ اتارنے لگی...

دکھاؤ مجھے... وہ دانی کی بازو پکڑتا ہوا بولا لیکن اب نیچے سے پکڑی تھی...

پٹی سرخ ہو گئ تھی مطلب اس نے زیادہ ہی زور سے پکڑا تھا...

آہل افسوس سے پٹی کھولنے لگا...

آئم سوری میں نے جان بوجھ کر نہیں پکڑا تھا.آہل بہتے خون کو صاف کرتا ہوا بولا..

تکلیف سے دانی کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا.دانی خاموش تھی...

میں تمہیں گولی نہیں مارنا چاہتا تھا...

تم نے مجھے گولی ماری ہے... دانی زور دے کر بولی...

آئ نو کیونکہ میں دانین کو جانتا ہوں اس لیے تم کبھی نکاح کے لیے راضی نہ ہوتی مجھے معلوم تھا...

اور اگر میری جان چلی جاتی پھر...

میں پرانا کھلاڑی ہوں میرا نشانہ کبھی نہیں چوکتا صرف چھوٹا سا زخم دینا تھا تاکہ تم ڈر جاؤ اور ایسا ہی ہوا... وہ پٹی کرتا ہوا بولا..

تم انتہائ گھٹیا انسان ہو.. دانی حقارت سے بولی..

آئ نو... وہ دانی کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا.

دانی تلملا کر اسے دیکھنے لگی جو ڈھیٹ بنا ہوا تھا...

اب میں جا رہا ہوں تنگ مت کرنا مجھے.. کہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا..

ہاں رفیق بولو آ گیا زیبر ٹھیک میں بھی آ رہا ہوں..

___________

آہل راہداری سے چلتا ہوا زینے اترنے لگا...

زبیر رنداوھا لاؤنج میں ہی کھڑا تھا..

آہل مصافحہ کرتا بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا..

بولو زبیر رنداوھا کیسے آنا ہوا... آہل جان بوجھ کر انجان بنا..

دانین تمہارے پاس ہے,, کیوں.. وہ ضبط کرتے ہوۓ بولے..

تمہارے پاس کوئ ثبوت تم یونہی آ کر مجھ پر الزام نہیں لگا سکتے میں کوئ معمولی انسان نہیں ہوں اگر یاد ہو تو وزیر اعلیٰ ہوں... وہ تفاخر سے بولا..

جانتا ہوں اچھے سے اور یہ بھی جانتا ہوں میری بیٹی تمہارے پاس ہے اب اپنا مطالبہ کرو اور میری بیٹی کو میرے حوالے کرو...

ٹھیک ہے یہ چوہے بلی کا کھیل ختم کرتے ہیں دانی میرے پاس ہے اور اب وہ یہیں رہے گی..

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا... وہ کھڑے ہو گۓ.

کول ڈاؤن, میں نے نکاح کیا ہے اس سے یونہی نہیں رکھ رہا اپنے ساتھ.. آہل مطمئن سا بولا..

زبیر کو آسمان گھومتا ہوا محسوس ہوا...

اگر نکاح کر لیا ہے تو ہم خلع لیں گے میری بیٹی کو میرے حوالے کر دو آہل ورنہ.. ان کی آواز بلند ہو گئ...

ورنہ کیا.. آہل چلا کر کھڑا ہو گیا..

رفیق کو اشارہ کیا..

ورنہ جو میں کروں گا تم یاد کرو گے..

فلحال تو تم کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو.. آہل پرسکون انداز میں بولا..

اگلے لمحے رفیق دانی پر گن تانے اسے لے آیا..

دانین.. زبیر اسے دیکھ کر تڑپ اٹھے..

جہاں کھڑے ہو وہیں کھڑے رہنا یہ گولی چلانے سے پہلے پوچھے گا نہیں...

آہل میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا... وہ غصہ سے آگ بگولہ ہو گۓ...

تم بھول رہے ہو کہ میرے گھر میں کھڑے ہو اپنی اوقات میں رہو... آہل دھاڑا..

زبیر لب بھینچے اسے دیکھنے لگے..

دانی دم سادھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی..

کیا کہ رہے تھے خلع لو گے جاؤ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے خلع لو گے کیا ثبوت ہے ہمارے نکاح کا تمہارے پاس بولو..

تمہیں جو چائیے بولو.. وہ مفاہمت پر آےُ..

ابھی تو مجھے کچھ نہیں چائیے لیکن بعد میں بتاؤں گا دانی میرے پاس ہے تم جا سکتے ہو جب میرا دل کرے گا تمہارے سامنے اپنا مطالبہ رکھ دوں گا..

آہل میں پولیس کو لے آؤں گا,,,تم میری بیٹی کے بارے میں بات کر رہے ہو.. وہ مٹھیاں بھینچتے ہوۓ بولے..

شوق سے لے آؤ پہلی بات کہ مجھ پر ہاتھ کون ڈالے گا دوسری بات اگر تم مجھ پر اغوا کا الزام لگاؤ گے تو میں نکاح نامہ دکھا دوں گا ہر صورت میں تمہارے ہاتھ خالی رہیں گے سو خاموشی سے واپس چلے جاؤ میرا فون تمہیں آ جاےُ گا..

دانی تم آ جاؤ میرے ساتھ یہ کچھ نہیں کرے گا... وہ دانی کا ہاتھ پکڑ کر بولے..

ڈیڈ آر یو میڈ, وہ مجھ پر آلریڈی ایک گولی چلا چکا ہے آپ مجھے مروانا چاہتے ہیں کیا مجھے اپنی زندگی بہت عزیز ہے پھر چاہے کچھ دن اس گھٹی...

دانی... آہل نے گھور کر اسے دیکھا.

دانی نے لب وہیں مبسوط کر دئیے..

آہل حیات تم اچھا نہیں کر رہے...

ویل کیسا محسوس کر رہے ہو اپنی عزیز جان کو کسی اور کے پاس دیکھ کر...

تمہیں میں بعد میں بتاؤں گا کیسا محسوس کر رہا ہوں... وہ دانت پیستے ہوےُ بولے..

وہ باہر کا راستہ ہے میرا پہلے ہی بہت وقت برباد کر چکے ہو تم.. وہ سختی سے بولا..

زبیر ہنکار بھرتے چلے گۓ...

آہل نے آبرو اچکا کر رفیق کو اشارہ کیا وہ گن جیب میں ڈالتا نکل گیا..

دانی ابھی تک خوف کے زیر اثر تھی چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا دانی نے کپڑے چینج کیے تھے لیکن بال بکھرے ہوۓ تھے..

آہل نے ہاتھ بڑھا کر دانی کے چہرے پر آئ شرارتی لٹوں کو کان کے پیچھے کیا کمرے میں جاؤ ناشتہ وہیں آ جاےُ گا... وہ اس کا منہ تھپتھپاتا باہر کی جانب چل دیا...

ملازم دانی کے سامنے سر جھکاےُ کھڑا تھا...

پتہ نہیں کیا چاہتا ہے یہ شخص... دانی کوفت سے کہتی زینے چڑھنے لگی...

سر آپ نے چیف سیکریٹری کو طلب کیا تھا... رفیق کی آواز ابھری..

ہاں آ گیا ہے وہ... آہل نے کان میں بلیو ٹوتھ لگا رکھی تھی...

ٹھیک ہے اسے بھیجو... آہل سٹڈی روم میں ٹہل رہا تھا..

چند ساعتوں بعد چیف سیکریٹری نمودار ہوا... شہر میں چوری,ڈکیتی کی وارداتیں بڑھتیں جا رہیں ہیں تم نے آگاہ کیا تھا تو سد باب کیوں نہیں کر رہے... آہل صوفے پر بیٹھا تھا وہ آہل کے عین سامنے براجمان تھا..

سر میں نے محکمہ کے افسروں کو ہدایات جاری کر دیں تھیں لیکن کوئ خاطر خواہ پیش رفت دکھائ نہیں دے رہی..

خیال رہے اب حکومت ختم ہونے والی ہے اگر اس طرح کے حالات رہے تو عوام ووٹ نہیں دے گی...

جی میں آج پھر سے طلب کرتا ہوں افسروں کو اور ڈیڈ لائن دیتا ہوں,اور سر جو پراجیکٹس چل رہے ہیں وہ تو الیکشن تک تمام نہیں ہوں گے ان کا کیا کریں ختم کر دیں..

نہیں ختم مت کرو ابھی سلو ڈاؤن کر دو کیونکہ اگلی جو بھی حکومت ہو گی وہ پرانے منصوبے ختم کر کے نئے بناےُ گی...

ٹھیک ہے سر اور کل محکمہ خدمات و عمومہ انتظامات کے سربراہ کے ساتھ میٹینگ تھی سرکاری ملازمین کو کچھ زیادہ ہی مراعات دی گئ ہیں اس میں کچھ ترمیم کر دی جاےُ... وہ کہ کر آہل کو دیکھنے لگا..

ہر ادارے کے سرکاری ملازمین کو رہائش مت دو چند مخصوص ادارے کے لیے مختص کر دو جن کا کام اہمیت کا حامل ہو...

ہسپتال اور عوام کو تحفظ ان دونوں چیزوں پر فوکس کرو... آہل فائل دیکھتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے سر میں آج ہی میٹنگ رکھتا ہوں.. کہ کر وہ کھڑا ہوا اور مصافحہ کرتا نکل گیا..

سر دانین میم کمرے سے باہر نکل گئیں ہیں... آہل کا ہاتھ بلیو ٹوتھ پر تھا...

تم اس کے ساتھ رہو میں آتا ہوں... وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا..

یہ لڑکی سکون سے نہیں بیٹھے گی...

میم آپ یہاں... ملازم اسے حیرت سے دیکھتا ہوا بولا...

کیوں یہ تمہاری ملکیت ہے جو میں یہاں نہیں آ سکتی..دانی غصے سے بولی..

نہیں میم میرا مطلب آپ کو کسی چیز کی طلب تھی تو مجھے کہ دیتیں میں لے آتا... وہ سر جھکاےُ بول رہا تھا...

اپنا کام کرو تم مجھے جو چائیے ہو گا میں خود لے لوں گی.. دانی منہ بسورتی کیبنز کھولنے لگا..

کوک کے ہاتھ کانپنے لگے اس کے لیے کام کرنا دوبھر ہو گیا تھا..

اگر کہیں کچھ نقص نکال گئیں تو میری تو خیر نہیں آہل سر سے.. وہ تشویش سے بولا..

آہاں... دانی کو مطلوبہ شے مل گئ...

وہ پینٹ کی جیب میں رکھتی باہر نکل گئ..

دانی کو جاتا دیکھ کر وہ سانس خارج کرتا اپنا کام کرنے لگا..

کہاں ہے دانی... آہل کمرے کے باہر کھڑا تھا..

دانی اس کے عقب سے چلتی ہوئ آ رہی تھی..

پاؤں کی آہٹ سن کر آہل نے چہرہ موڑا اور خفگی سے دانی کو دیکھنے لگا..

جنگلی بلی تمہیں منع کیا تھا نہ مجھے تنگ مت کرنا.. وہ دانی کی جانب چلتا ہوا بولا..

گارڈز ایک منٹ سے پہلے غائب ہو گۓ...

نہ مجھے فون ملا ہے نہ ہی میگی آئ ہے...

آہل انگلی سے پیشانی مسلتا اسے دیکھنے لگا...

یار اتنے کام ہوتے ہیں میں بھول گیا اچھا میں ابھی فون کرتا ہوں آہل موبائل نکال کر نمبر ڈائل کرنے لگا..

ہاں رفیق سب سے پہلے ایک موبائل لے کر آؤ اور جس طرح بھی ممکن ہو دانی کی میگی لے آؤ اس کے گھر سے...

دانی خاموش کھڑی اسے دیکھ رہی تھی...

بس کچھ ہی دیر میں تمہاری مطلوبہ چیزیں مل جائیں گیں اب مجھے تنگ مت کرنا میں کسی کام سے جا رہا ہوں رات سے پہلے واپس نہیں آ سکوں گا... آہل نرمی سے بول رہا تھا..

مجھے باہر جانا یے.. دانی اس کی بات کو نظر انداز کرتی ہوئ بولی...

آہل مسکرا کر اسے دیکھنے لگا...

باہر تو تم میرے ساتھ ہی جا سکتی ہوں اور ابھی میرے پاس ٹائم نہیں بلکل بھی... وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا..

دانی نے بال ٹیل پونی میں مقید کر رکھے تھے پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر پنک کلر کی لپ اسٹک لگا رکھی تھی..

اگر تم مجھے باہر نہ لے کر گۓ تو پھر دیکھنا میں کیا کرتی ہوں تمہیں پھر سے واپس آنا پڑے گا سو بہتر ہے پہلے مجھے باہر لے جاؤ پھر جہاں جانا ہو چلے جانا... دانی دھمکاتی ہوئ بولی...

آہل نے ایک نظر ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ڈالی.. بارہ بج رہے تھے...

اچھا ٹھیک ہے چلو لیکن جانا کہاں ہے... آہل اس کے ہمقدم ہوتا ہوا بولا..

واک پر... دانی خوش ہوتی ہوئ بولی..

واک تم گارڈن میں بھی کر سکتی ہو میرا نہیں خیال کہ وہ چھوٹا ہے واک کے لیے..

مجھے باہر نکلنا ہے کل سے مجھے قید کر رکھا ہے ایسا لگ رہا ہے کسی نے جیل میں ڈال دیا ہے مجھے...

آہل محظوظ ہوتا گارڈز کو اشارہ کرتا باہر نکل آیا..

گارڈز ان کی تقلید کرنے لگے لیکن کچھ فاصلے پر تھے...

وہ گھر سے باہر نکل آےُ تھے...

کالونی بلکل ویران تھی...

آہل جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا...

تم مجھے گھر میں بند کر کے رکھو گے... دانی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہی تھی.

ظاہر ہے تمہیں چھوڑا تو بھاگ جاؤ گی..

لیکن میری یونی میرا لاسٹ ائیر ہے اور تمہاری وجہ سے میں اپنا ائیر ویسٹ نہیں کروں گی...

کوئ مسئلہ نہیں تمہارے لیے پروفیسر گھر آ جائیں گے پھر جا کر ایگزام دے دینا.. وہ حل نکالتا ہوا بولا..

مجھے اس گندے سے گھر میں نہیں پڑھنا.. دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

تمہیں پسند نہیں آیا میرا گھر...

بلکل بھی نہیں.. دانی کھل کر بولی..

ایک منٹ دانی.. آہل کا فون رنگ کر رہا تھا..

ہاں رفیق بولو...

ہاں میں بس نکلنے والا تھا کچھ کام پڑ گیا تم ایسا کرو میرا انتظار کرو ہاں اور انہیں بولو جانا مت میں کچھ دیر میں آتا ہوں... آہل رخ موڑے بات کر رہا تھا..

دانی نے پینٹ کی جیب سے سرخ مرچ والا شاپر نکالا اور مٹھی بھر لی..

جونہی آہل دانی کی جانب مڑا دانی نے سرخ مرچ اس کی آنکھوں میں پھینک دی اور دوڑ لگا دی..

دانی... وہ آنکھیں مسلتا ہوا چلایا...

دانی پیچھے مڑے بنا اپنی تمام تر توانائ صرف کرتی سرپیر دوڑ رہی تھی..

گارڈز اس کے پیچھے لپکے...

یا اللہ میں نکل جاؤں بس یہاں سے... دانی کالونی کا گیٹ دیکھ کر بولی..

لیکن ایک جگہ پر اس کا پاؤں اڑ گیا اور دانی منہ کے بل جا گری..

آہ.. آہ... دانی زمین بوس ہوئ کراہنے لگی..

ایک گارڈ پانی سے آہل کا منہ دھلوا رہا تھا.

گارڈز دانی کے سر پر پہنچ چکے تھے...

بس بہت ہے... آہل سرخ آنکھیں لیے تیز تیز قدم اٹھانے لگا.... گارڈز دانی کے گرد گن لیے کھڑے تھے.

دانی منہ بناتی آہل کو اپنی جانب آتا دیکھ رہی تھی..

اٹھو... وہ دانی کی بازو پکڑ کر دھاڑا..

دانی کسی معصوم پنچھی کی مانند اس کے ساتھ چلنے لگی...

نیچے گرنے کے باعث پینٹ بھی پھٹ چکی تھی...

ڈاکڑ کو فون کر دو.. آہل نے چہرہ موڑے بنا کہا.

کمرے میں آ کر دانی کی بازو اپنی گرفت سے آزاد کی..

دانی میں اگر تمہیں نرمی سے ڈیل کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ایسی حرکتیں کرو ایک بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں بٹھا لو میری مرضی کے بنا تم یہاں سے باہر ایک قدم بھی نہیں نکال سکتیں.. وہ ضبط کرتا ہوا بولا...

دانی لب بھینچے اس کی انگارہ بنی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی.

اب اگر تم نے کچھ الٹا سیدھا کیا تو میں بھی گن رکھ کر بات کروں گا یاد رکھنا... کہ کر وہ کمرے سے نکل گیا...

میرے کپڑے لے کر آؤ... وہ ملازم کو دیکھ کر بولا..

آہل منہ دھو کر کپڑے چینج کر کے نکل گیا, دانی پر سیکورٹی پہلے سے زیادہ سخت کر دی..

رفیق تم الیکشن کی تیاری بھی ساتھ میں شروع کر دو اور ہاں خیال رہے کوئ بدنظمی نہ ہو...

ٹھیک یے سر...

اور معلوم ہوا ہے وہ کہیں نہیں گۓ صرف ہمیں دھوکہ دینے کے لیے ایسے ظاہر کیا جیسے انہیں کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے لیکن وہ وہیں پر تھے... رفیق خبری کی بتائ معلومات فراہم کرنے لگا..

وہ وہاں تھے تو تمہاری نظروں سے کیسے اوجھل ہو گۓ بتاؤ مجھے رفیق تمہاری نظر انہیں کیوں نہ دیکھ پائ... آہل غصے سے چلا رہا تھا...

سر معلوم نہیں ہم نے پورے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا تھا لیکن وہاں کوئ ذی روح نہیں ملا شاید کوئ ایسی جگہ بنائ ہو انہوں نے جہاں انہیں چھپا دیا ہو تاکہ ہم تلاشی کے کر اس جگہ سے مطمئن ہو جائیں...

ہممم دیکھتا ہوں کتنے دن چھپا کر رکھتے ہیں لیکن یاد رہے حکومت کی میعاد پوری ہونے سے پہلے یہ کام ہو جاےُ ورنہ مشکل ہو گی... آہل فکرمندی سے بولا..

جی سر ٹھیک ہے میں کام تیز تر کر دیتا ہوں اور سر الیکشنز کے لیے بینرز بنواےُ شروع کر دوں پھر....

ہاں کر دو اور اس دفعہ ان جگہوں پر جلسے منعقد کرنا جہاں سے ہمیں کم ووٹ ملے ہوں..

جی سر اور ایک لڑکی آئ تھی..

وہی والا کیس... آہل ہاتھ مسلتا ہوا بولا..

جی سر..

ٹھیک یے میں دیکھ لوں گا خود ویسے بھی ہاتھوں پر کھجلی ہو رہی ہے... وہ آہستہ سے مسکرایا...

رفیق اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر مسکرا دیا....

سر یہ دانین میڈم کا فون اور میگی کو لانا مشکل ہے دھمکی دینی پڑے گی زبیر کو پھر شاید دے کیونکہ گھر میں داخل ہونا اب بچوں کا کھیل نہیں ....

ہاں ایک دو دھمکیاں دے دو, خو دینے آےُ گا میگی کو... آہل سوچتا ہوا بولا..

تم باقی سب دیکھ لینا مجھے آرمی چیف سے ملنا تھا... آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

جی سر... وہ تابعداری سے بولا..

آہل موبائل پر انگلیاں چلاتا باہر نکل گیا...

آہل کو دیکھ کر گارڈز بھی گاڑیوں کی جانب آےُ...

آہل اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ گیا..

آگے پیچھے گارڈز کی گاڑیاں تھیں...

چلو.. آہل بلیو ٹوتھ کا بٹن دباتا ہوا بولا..

آہل گیارہ بجے گھر میں داخل ہوا...

دانی منہ بسوری بیڈ پر بیٹھی تھی...

آہل کمرے میں آیا اور کوٹ کا بٹن کھولتا آنکھوں میں ناراضگی لیے بیٹھی دانی کو دیکھنے لگا...

میری جنگلی بلی ناراض ہے... وہ ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا بولا...

دانی نے گھورنے پر اکتفا کیا...

میں چینج کر لوں پھر تم جنگ کا محاذ کھولنا.آہل مسکراتا ہوا چل دیا..

جاہل انسان خود سارا دن گھر سے غائب اور مجھے یہاں نظر بند کر رکھا ہے ہاےُ میگی بھی نہیں آئ ابھی تک... دانی دکھ سے بولی..

آہل ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہنے باہر نکلا..

ہاں کھانا بھیج دو کمرے میں...

وہ کہتا ہوا دانی کے سامنے آ بیٹھا...

چوٹ کیسی ہے اب, کھانا کھایا تم نے... وہ فکرمندی سے بولا...

تمہاری وجہ سے لگی ہے مجھے چوٹ... دانی تقریباً چلائ...

واہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے... آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

تم ہو چور میں نہیں سمجھے... دانی خفگی سے بولی..

اچھا چپ کھانا آ رہا ہے پھر بات کرتے ہیں.. آہل آہٹ سن کر بولا..

اس لڑکے کے کان نا جانے کس چیز کے بنے ہیں.. دانی بڑبڑائ.

ملازم ٹرے ان کے سامنے رکھتا باہر نکل گیا..

تم نے کھانا کھایا... آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

ہاں کھا لیا تھا...

جھوٹ بول رہی ہو تم صبح سے کمرے سے باہر نہیں نکلی تو کھانا کب کھایا...

تم اپنے کام سے گےُ تھے یا مجھ پر نظر رکھ رہے تھے...

آہل کا ڈمپل پھر سے عود آیا..

تم پر ہمیشہ نظر ہوتی ہے فکر مت کرو اب کھاؤ جلدی سے...

کیوں تمہارے پیچھے کتے لگے ہیں ...

تم بولتی بہت ہو... وہ جیب سے گن نکال کر سامنے رکھتا ہوا بولا...

دانی دانت پیستی کھانا ڈالنے لگی...

آہل مسکراتے ہوۓ کھانے لگا...

تمہاری آزادی کے لیے میرے پاس ایک ڈیل ہے...

_________

آہل اس کی جانب چہرہ موڑتا ہوا بولا..

تم جیسے انسان سے ڈیل کی توقع ہی کی جا سکتی ہے... دانی اکتا کر بولی..

اب بولو بتاؤں یا نہیں... وہ آبرو اچکا کر بولا

نہیں میں کسی سے اچھے دن کا پوچھتی ہوں پھر میں کارڈز چھپواتی ہوں تمہیں بھیجوں گی کہ آہل مجھے اپنی ڈیل بتا دو پھر تم بتانا..دانی بد مزہ ہوئ..

آہل مسکراہٹ دباتا اسے دیکھنے لگا....

ڈیل یہ ہے کہ تم پانچ مہینے میرے ساتھ رہو گی...

کس خوشی میں.. دانی نے اسے ٹوکا....

ہماری شادی کی خوشی میں...

ہوں,, شادی گولی مار کر کون شادی کرتا ہے..

آہل حیات.. وہ تفاخر سے بولا..

آہل کم اور جاہل زیادہ لگتے ہو مجھے... دانی تپ کر بولی..

آگے سنو اب,, یہ پانچ مہینے جب میرا دل کرے گا تمہیں کہیں بھی لے جاؤں گا میری اجازت ہو گی تو تم اپنے گھر جاؤ گی ورنہ یہیں میرے ساتھ رہو گی پورے پانچ مہینے ..آہل ہاتھ کی پانچوں انگلیاں دکھاتا ہوا بولا..

اور ہاں ایک ایگریمینٹ ہو گا جس پر ہم دونوں کے سائن ہوں گے اگر تم اس ڈیل سے پیچھے ہٹی تو نتیجہ کی ذمہ دار خود ہو گی...

اور اس سب بکواس میں میرا کیا فائدہ..

آہ,, تمہارا فائدہ تمہاری آزادی پھر تم گھوم پھر سکو گی اپنے باپ کے پاس بھی جا سکو گی کیا اتنا فائدہ کافی نہیں... وہ آبرو اچکا کر بولا..

ہممم ہے تو فائدے میں..دانی سوچتی ہوئ بولی..

اب جلدی بتاؤ اتنا ٹائم نہیں ہے سوچنے...

کیوں کسی کو مارنے کا ٹائم دے کر آےُ ہو.. دانی دانت پیستی بولی..

خیر صبح تک مجھے بتا دینا جو بھی فیصلہ کرو... کہ کر آہل لیٹ گیا..

دانی منہ بناتی لیٹ گئ...

ایسے بھی تو ساتھ ہی رکھا ہے اس نے, تو ڈیل کرنے میں فائدہ یے کم سے کم باہر تو نکلوں گی... دانی سوچ بچار کرنے لگی...

آسم میں کیسے ہاتھ پے ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاؤں... زبیر غصے میں چلاےُ...

ابھی تک میں نے ثانیہ کو نہیں بتایا کہ اس کمینے نے دانین سے نکاح کر لیا ہے.. وہ مٹھیاں بھینچتے ہوۓ بولے..

سر بات تو وہ ٹھیک کر رہا ہے ہم سچ میں اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے کیونکہ کوئ بھی تیار نہیں ہو گا وہ بھی اس صورت میں جب اس کی حکومت چل رہی ہے... وہ سوچتا ہوا بولا..

ایک تو اس کمینے کے آگے پیچھے کوئ نہیں ہے ورنہ اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا تو دیکھتے کیسے خود دانین کو چھوڑ کر جاتا یہاں..

سر مجھے نہیں لگتا وہ کچھ جانتا ہے کہ دس سال پہلے کیا ہوا تھا شاید وہ صرف عاقب حیات کی تلاش میں ہے کیونکہ اگر جانتا تو کچھ اور کرتا یہ سب نہیں ہو سکتا ہے اسے دانین میڈم پسند آ گئیں ہوں اور آپ جانتے ہیں وہ کتنا شدت پسند آدمی ہے... آسم نے اپنا تجزیہ دیا.

ہاں معلوم تو مجھے بھی یہی ہوتا ہے وہ خاصا پرسکون ہے ورنہ طیش میں ہوتا... وہ سوچتے ہوۓ بولے...

فلحال سر ہمیں نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کی کال کا انتظار کرنا ہے کہ وہ اپنا مطالبہ ظاہر کرے تاکہ وجہ معلوم ہو سکے...

ہممم ٹھیک ہے تم جاؤ پھر کل صبح سوچیں گے اس کے بارے میں.. زبیر کھڑے ہوتے ہوۓ بولے...

************

آہل تیار ہو رہا تھا جب اس کی نظر بےخبر سوتی ہوئ دانی پر پڑی..

وہ مسکراتا ہوا دانی کے پاس آیا...

سرمئ آنکھیں اس وقت پردے میں تھیں...

خود میڈم سو رہی ہے... وہ دانی کی بازو دیکھتا ہوا بولا...

دانی اس کے چھونے پر آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی...

نہیں مجھے بتا دو اب تم مجھے سونے بھی نہیں دو گے..دانی اٹھ کر بیٹھ گئ...

میری نیندیں حرام کر کے تم سکون سے سو رہی ہو...وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا..

حرام,, کی میں تمہارے کان میں ڈیک چلا دیتی ہوں رات میں یا پھر تمہارے سونے کے بعد کانٹے چبھاتی ہوں جو تمہاری نیند حرام ہو گئ ہے...

ساری جگہ تم لے لیتی ہو.... وہ شرارت سے بولا..

توبہ کتنا جھوٹا انسان ہے ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہو کوئ یقین بھی نہ کرے....

اچھا تم مجھے اپنا فیصلہ بتاؤ...

یہ پوچھنے کے لیے تم نے میری نیند خراب کی.. دانی سرمئ آنکھوں کو پورا کھولے بولی...

بلکل.. وہ سائیڈ ٹیبل پر بیٹھتا ہوا بولا..

اب تو نہیں بتا رہی میں.. دانی منہ بسورتی لیٹ گئ...

اسے تو بتا دو گی پھر تم... آہل گن نکال کر گولیاں چیک کرنے لگا...

دانی رونے والی شکل بناتی پھر سے اٹھ بیٹھی..

مطلب حد کی بھی حد ہی ہو گئ تم کیا چیز ہو آخر...

تمہارا آہل.. وہ نرم مسکراہٹ لیے بولا...

کتے پڑے ایسے آہل کو... دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئ بولی

بعد میں تم ہی سوگ مناؤ گی...

میں یہاں پارٹی رکھوں گی تم سوگ کی بات کرتے ہو...

دانی تم میرا ٹائم بہت ویسٹ کرتی ہو جلدی بتاؤ نہیں تو میری گن ترس رہی ہے چلنے کے لیے...

یہ معذور ہے چل نہیں سکتی دیکھو کہاں ہے اس کے پیر... دانی آگے ہو کر بولی..

جب چلاؤں گا پھر اچھے سے معلوم ہو جاےُ گا کہ پیر ہیں یا نہیں... آہل اس کی پیشانی پر گن کی نوک رکھتا ہوا بولا..

دانی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا..

منظور ہے مجھے ڈیل.. دانی فوراً بولی..

گڈ گرل, اپنے باپ کو فون کر کے بتا دو...

سم تو دی نہیں فون تمہارے سر سے کروں... گن ہٹتے ہی دانی پھر سے شروع ہو گئ..

آہل نے فون ان لاک کیا اور دانی کو پکڑا دیا..

دانی مبہوت ذدہ سی دیکھنے لگی وال پیپر پر اس کی تصویر لگی تھی...

پہلے کال کر لو تصویر بعد میں دیکھ لینا... وہ بالوں میں برش چلاتا ہوا بولا..

یا اللہ یہ انسان ہے یا جن سو میل پر بھی سب معلوم ہو جاتا.. دانی بڑبڑاتی ہوئ نمبر ڈائل کرنے لگی..

فکر مت کرو انسان ہی ہوں میں... وہ مسکرا کر بولا..

میں دس منٹ بعد اندر آؤں گا اس دس منٹ میں ساری بات کر لینا اور میگی کا مطالبہ بھی کر لینا ورنہ مجھے اسے بھی گولی کی نوک پر لانا پڑے گا.. وہ کہتا ہوا دروازے کی جانب چل دیا...

مجھے تو لگتا ہے تم بھی گولی کی نوک پر آےُ ہو.. دانی فون کان سے لگاےُ بڑبڑائ..

آہل مسکراتا ہوا باہر نکل گیا..

سر... آسم پریشان سا ان کے پاس آیا..

انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے باز رکھا..

لیکن دانی پانچ مہینے کیسے اس گھٹیا انسان کے ساتھ..

آپ مجھے آج ہی لے جا سکتے ہیں بتائیں...

زبیر خاموش ہو گۓ..

پاپا وہ زبان سے نہیں گن سے بات کرتا ہے آپ چند گھنٹے یہاں رہ کر دیکھیں معلوم ہو جاےُ گا میں کس طرح رہ رہی ہوں یہاں.. وہ دکھ سے بولی..

اچھا ٹھیک یے آپ سائن کر کے گھر آ جاؤ پھر دیکھ لیں گے کیا کرتا ہے...

ٹھیک ہے... کہ کر دانی نے فون بند کر دیا..

ہاں بولو آسم.. وہ فون جیب میں ڈالتے ہوۓ بولے...

سر بہت بڑا مسئلہ ہو گیا..

کیا ہوا.. وہ حیرت سے بولے..

عاقب حیات بھاگ گیا نا جانے راتوں رات کیسے فرار ہو گیا وہ...

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا وہ واحد گواہ ہے اور اگر وہ آہل کے ہاتھ لگ گیا تو,, تم جانتے ہو اس سب کا مطلب کیا ہے... وہ پیشانی مسلتے یہاں سے وہاں ٹہلنے لگے..

سر پتہ ہی نہیں چلا وہ کیسے نکل گیا اور ایک بات وہ اپنا لیپ ٹاپ بھی ساتھ لے گیا ہے...

اس کے لیپ ٹاپ میں کچھ ہو گا ضرور.. زبیر فکرمندی سے بولے..

تمہیں میں کہتا تھا وہ پاگل نہیں ہے اس کے لیپ ٹاپ میں کچھ ہو گا تبھی اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے دیکھو اب ساتھ لے گیا ناجانے کون سا ثبوت رکھا ہو گا اس نے کچھ بھی کرو عاقب حیات مجھے چائیے زندہ یا مردہ اور اس کا لیپ ٹاپ بھی... وہ درشتی سے کہتے باہر نکل گےُ..

آسم فون کان سے لگاےُ ان کے پیچھے نکل آیا..

آٹھ منٹ کی کال کی تھی دانی نے... وہ کال بند کر کے فون چیک کرنے لگی...

سب جگہ پاسورڈ لگے تھے....

ہوں,, ایسے پاسورڈ لگا رکھے ہیں جیسے خرانہ رکھا ہوا ہے اندر... دانی سر جھٹکتی ہوئ بولی..

آہل اندر آیا تو دانی نے ساری ایپس ریموو کر دیں..

اس میں تمہارے مطلب کا کچھ نہیں.. وہ دانی کے تیور سے بھانپ گیا.

ویل جنگلی بلی تم نے اچھا فیصلہ لیا اگر نہ بھی لیتی تو میری مرضی کے بغیر تم باہر نہیں جا سکتی تھی..

وہ دانی کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا..

جانتی ہوں تم جیسے کمینے کو گولی مارنے, اغوا کرنے, زبردستی کے علاوہ اور آتا ہی کیا ہے..

تم سے محبت کرنا.. وہ دانی کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

وہ مسکرا رہا تھا اور ڈمپل مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا..

دانی ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی..

تم سے نکاح کرنے کی دو وجوہات ہیں پہلی جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں جو اہم ہے وہ بتا دیتا ہوں کہ آہل حیات تم سے محبت کرتا ہے..

یہ کیسی محبت ہے کہ اس بندے کو گولی مار دو..

آہل چہرہ نیچے کرتا دھیرے سے مسکرا دیا..

یہ جنون ہوتا ہے آہل حیات جو بھی کام کرتا ہے جنون سے کرتا ہے پوری شدت سے پھر بات تمہاری تھی ہر گز جانے نہیں دے سکتا تھا..

عجیب پاگل انسان ہو تم...

جنگلی بلی ریڈی رہنا آج میں جلدی آ جاؤں گا تمہیں بوکسنگ سکھاؤں گا...

مجھے تمہارے جیسا دہشت گرد نہیں بننا.. وہ منہ بسورتی ہوئ بولی..

تمہیں بھی عادت ہے شاید,, گولی کی آواز سن لو گی تو سارے نخرے ختم ہو جائیں گے... وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا...

کھانے میں بھی تم گولی اور بارود یہی سب کھاتے ہو گے...

دانی تم...

لیکن یہ تو تم ایکسٹرا ڈوز لیتے ہو گے نہ...

اچھا دانی ڈئیر میرا میٹینگ کا ٹائم ہو گیا اور آج کوئ الٹی سیدھی حرکت نہیں میگی بھی آ جاےُ گی مجھے آنا نہ پڑے گھر ورنہ.. وہ دانی کا منہ تھپتھپاتا ہوا مڑ گیا..

ورنہ کیا.. دانی سر اونچا لیے بولی...

ورنہ تم صرف گن سے بات سمجھتی ہوں اور آ کر میں کچھ بولنے میں وقت کا ضیاع بلکل نہیں کروں گا یاد رکھنا... وہ تنیہ کرتا باہر نکل گیا...

وقت کا ضیاع تمہارے جیسے بچے رو رہے ہیں نہ وقت کا ضیاع ہو گا... دانی منہ بسورتی لحاف اوڑھ کر لیٹ گئ...

بس تم خود نظر رکھنا رفیق کسی دوسرے پر مت چھوڑنا مجھے بھروسہ نہیں کسی پر... آہل بولتا ہوا آ رہا تھا, کان میں بلیو ٹوتھ لگی تھی.دانی اسے گارڈن میں ہی نظر آ گئ..

میگی کو اٹھاےُ پیار کر رہی تھی... آہل ناگواری سے اسے دیکھنے لگا..

دانی کمرے میں چلو.. وہ تحکم سے کہتا چلنے لگا..

میگی تم یہیں بیٹھی رہو میں آتی ہوں وہ پاگل آ گیا یے.. دانی منہ بناتی چل دی..

سفید رنگ کی بلی گھاس پر چلنے لگی..

دانی جیکٹ کی زپ بند کرتی اس کے پیچھے چلنے لگی..

اب کیا مصیبت ہے تمہیں... کمرے میں آ کر دانی بولی..

آہل کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا..

دانی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی...

آہل نے اس کی جیکٹ پکڑی اور اپنی جانب کھینچا...

مجھے تم کسی کے ساتھ نظر نہ آؤ...

میں کس کے ساتھ تھی... وہ حیرت سے بولی..

میگی کے ساتھ...

آہل وہ بلی ہے کوئ انسان نہیں...دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے بولی..

مجھے فرق نہیں پڑتا...

مجھے تمہاری ذہنی حالت پر شبہ ہو رہا ہے چھوڑو میری جیکٹ.. دانی اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئ بولی جو بند کی ہوئ زپ پر تھا..

اچھ چلو پھر تھوڑی سی مشق ہو جاےُ... وہ مسکراتا ہوا دانی کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر نکل آیا.

ایک تو اس جاہل کا پتہ نہیں چلتا کب کیا ہوجاےُ.. دانی کوفت سے بولی.

کمرے میں نیم تاریکی تھی..

آہل نے اسے دستانے پہناےُ...

میرے چھوٹے سے ہاتھوں میں یہ کیا اتنے بڑے بڑے پہنا دئیے.. دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

جتنا ہارڈ یہ ہے نہ تمہارا ہاتھ ٹوٹ جاےُ گا.. آہل دستانے پہنتا ہوا بولا..

مارو اب اس پر.. وہ ہوا میں معلق اس گول سے پتھر کی مانند سخت بلڈر کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا..

دانی نے لبوں پر زبان پھیری اور مکہ بنا کر اس پر جھڑ دیا وہ صرف دو انچ اپنی جگہ سے ہلا. آہل مسکرانے لگا..

یہ دیکھو ایسے مارتے ہیں... کہ کر اس نے ایک مکہ مارا وہ وہ دور جا ہوا پھر سے واپس آیا تو آہل نے پکڑ لیا..

اب تم مارو پوری طاقت کے ساتھ...

تم مجھے اپنے جیسا باڈی بلڈر کیوں بنانا چاہتے ہو..

سیلف ڈیفینس... کبھی تمہیں ضرورت پڑ سکتی ہے..

دانی نے پھر سے مارا تو اب کچھ دور ہوا لیکن آہل جتنا دور نہیں گیا..

پھر سے مارو اور زور سے...

میری ساری اینرجی یہی صرف کر دینا تم.. کہ کر دانی نے پوری شدت سے مکہ مارا..

وہ کافی دور تک گیا, دانی مسکراتی ہوئ آہل کو دیکھنے لگی ...

آہل بھی جواباً مسکرانے لگا لیکن جونہی وہ واپس آیا سیدھا دانی کے منہ پر آ لگا اس سے پہلے کہ دانی زمین بوس ہوتی آہل نے آگے ہو کر اسے پکڑ لیا..

آؤچ.. آہ... دانی کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ..

احمق لڑکی تمہیں نہیں معلوم وہ واپس بھی آےُ گا.. وہ دانی کو گھورتا ہوا بولا..

ایک تو میری ناک ٹوٹ گئ ہے اوپر سے تم بول رہے ہو... دانی خفگی سے بولتی سیدھی ہوئ..

آج کے لیے بس اتنا بہت ہے.. وہ دانی کو اشارہ کرتا چلنے لگا...

دانی ناک مسلتی اس کے ساتھ چلنے لگی..

زیادہ تو نہیں لگی... دانی آئینے میں دیکھ رہی تھی جب آہل بولا..

نہیں بچ گئ ہوں... وہ ناک پر انگلی پھیرتی ہوئ بولی...

دانی منہ بناتی بیڈ پر لیٹ گئ...

آہل صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ کھولے اپنا کام کر رہا تھا..

***********

آہل کی آنکھ کھلی تو بستر کی دوسری سائیڈ خالی نظر آئ..

دانی کہاں چلی گئ.. وہ متفکر سا اٹھ بیٹھا..

آہل نے کمبل پرے کیا اور سلیپر پہنتا باہر نکل آیا..

صبح صبح کہاں جا سکتی ہے... وہ بولتا ہوا چلنے لگا..

دانی کہاں یے... وہ گارڈ کے سر پر کھڑا ہوتا ہوا بولا..

سر وہ پچھلے گارڈن میں..

آہل مطمئن ہوتا عقبی گارڈن کی جانب چلنے لگا...

بچاؤ... دانی بھاگتی ہوئ چلا رہی تھی.

آہل... اسے سامنے دیکھتی دانی نے سپیڈ مزید بڑھا دی...

دانی کے پیچھے کتا بھاگ رہا تھا..

آہل بچاؤ مجھے.. وہ کہتی ہوئ اس کے پیچھے کھڑی ہو گئ..

سٹاپ... آہل کتے کو دیکھتا ہوا بولا..

آہل کو دیکھ کر وہ رک گیا..

دانی نے مضبوطی سے آہل کی شرٹ کو تھام رکھا تھا.. تنفس تیز ہو گیا تھا..

چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئیں تھیں..

کتا آہل کے پیچھے جانے کی کوشش کرنے لگا..

ٹومی یہ اس گھر کی فرد ہے.. آہل پنجوں کے بل بیٹھتا اس کے بال سہلاتا ہوا بولا..

اپنے جیسے جانور پال رکھے ہیں.. دانی پھولے سانس سے بولی..

یکدم آہل کے چہرے سے نرمی غائب ہوئ جس کی جگہ سختی نے لے لی...

گو بیک.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا اور ٹومی واپس چل دیا...

دانی کی بازو پکڑی اور تیز تیز چلنے لگا..

یا اللہ ایک تو یہ بندہ پتہ نہیں پیڑول پیتا ہے شاید جو اتنا تیز چلتا ہے.. دانی اس کے ساتھ تیز تیز چلتی ہوئ بولی..

آہل نے کمرے میں لا کر اسے چھوڑا..

بازو پر اس کی انگلیوں کے نشان رہ گۓ تھے..

ہاےُ... دانی آہ بھرتی اپنی بازو دیکھنے لگی..

ایک بات میں تمہیں کلئیر کر دوں یہ صرف تم ہو دانی جو مجھے کچھ بھی کہ لیتی ہو اور میں ہنس کر ٹال دیتا ہوں تمہاری جگہ کوئ اور ہوتا تو اب تک بولتے کے قابل نہ رہتا...وہ چبا چبا کر بولا..

دانی تھوک نگلتی اسے دیکھنے لگی..

تمہیں اگر میں کچھ بھی بولنے کی اجازت دے رہا ہوں تو اس کا ہر گر یہ مطلب نہیں کہ تم سب کے سامنے بھی یونہی بولو اور میں ایک بات دہرانے کا عادی نہیں اگلی بار میری گولی بولتی ہے صرف تمہارے کیس میں ورنہ میں پہلی بار بھی نہیں بولتا... وہ شعلہ بار نظروں سے دیکھتا ہوا بولا..

اچھا مجھے پتہ چل گیا اب نہیں بولتی کچھ.. دانی نے بات ماننے میں عافیت جانی...

رفیق ذرا میری میٹینگ کرواؤ اس کے ساتھ, دانی نے دماغ خراب کر دیا ہے اس پر ہاتھ صاف کروں میں.. وہ غصہ میں بول رہا تھا...

اور میری اجازت کے بغیر تم باہر نہ نکلو...

دانی اچھا کہ کر بیٹھ گئ...

انعم تم آج پھر اس بھکاری کے ساتھ تھی.. زبیر اسے آتا دیکھ کر چلاےُ...

وہ بھکاری نہیں ہے سمجھے آپ... انعم بھی انہی کے انداز میں بولی...

تمہاری شادی میجر احد سے ہونی ہے پھر کیوں اس کے ساتھ گھومتی پھرتی ہو مجھے ذلیل کروانے کا شوق ہے کیا... وہ کوفت سے بولے..

اورمیں بھی آپ کو ہزار بار بول چکی ہوں کہ میں رحیم سے ہی شادی کروں گی ,,بلکہ کروں گی نہیں کر چکی ہوں.. وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی...

زبیر رنداوھا بےیقینی سے اسے دیکھ رہے تھے.. ایک کے ساتھ اس آہل نے زبردستی نکاح کر لیا دوسری اپنی مرضی سے کر آئ ہے آخر اس گھر میں ہو کیا رہا ہے...

ثانیہ ان کی آوازیں سنتی گھبرا کر وہاں آئ..

کیا ہو گیا آپ دونوں ایسے کیوں چلا رہے ہیں..

اپنی نواب زادی سے پوچھیں نکاح کر کے آئیں ہیں اس دو ٹکے کے لڑکے کے ساتھ...

ڈیڈ آئ ٹولڈ یو..

اووہ شٹ اپ,, تماشہ بنا رکھا ہے ہر چیز کو.. وہ انعم کی بات کاٹتے ہوۓ بولے.

انعم یہ کیا فضول حرکت ہے تم کیسے نکاح کر سکتی ہو....

جیسے آپ لوگ زبردستی میری منگنی کر سکتے ہیں...

میری جان کلاس دیکھنی پڑتی ہے سٹیٹس دیکھنا پڑتا ہے یونہی نہیں منہ اٹھا کر کسی کے ساتھ بھی شادی نہیں کر سکتے...

آپ کی کلاس آپ کو ہی مبارک ہو, لائف میری ہے اور میں اس کے ساتھ رہ لوں گی یہ آپ کا مسئلہ نہیں..

لیکن میرا مسئلہ ہے سب لوگوں میں ہماری ناک کٹ جاےُ گی کہ زبیر رنداوھا آئل ریفائنری کا مالک اپنی بیٹی دی تو کیسے یتیم خانے میں تھو تھو کریں گے سب...

مجھے فرق نہیں پڑتا آپ کے لوگوں سے مجھے جس سے پیار یے میں اسی کے ساتھ زندگی گزاروں گی... کہ کر وہ واک آؤٹ کر گئ...

زبیر تلملا کر رہ گۓ..

سمجھاؤ اسے ورنہ میں خود اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گا... وہ ثانیہ کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے..

آپ خود ہینڈل کریں وہ نہیں سنتی میری اور مجھے ڈنر پر جانا ہے ٹائم بھی نہیں ہے... وہ ٹائم دیکھتی چلی گئیں...

یہ ہیں ہمارے دولت کے نشے میں چور لوگ جو غریب آدمی کو انسان ہی نہیں سمجھتے انہیں اپنے ساتھ بٹھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں صرف اسی لیے کیونکہ ان کے پاس دولت نہیں آج ہمارا معاشرہ دولت سے چل رہا ہے لوگ سٹیٹس دیکھ کر ملتے ہیں جن کا سٹیٹس میچ نہیں کرتا ان سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں

آج کی تلخ اور کڑوی حقیقت...

لے آےُ ہو اسے... آہل شرٹ کے آستین اوپر کرتا ہوا بولا..

جی سر اندر ہے...

کچھ پوچھا تم نے...

جی میں نے پوچھا تو بلا جھجھک اقرار کر لیا کہ اس لڑکی کے ساتھ زبردستی میں نے کی تھی,,سر یہ تیسری لڑکی ہے جسے اس نے نشانہ بنایا.

آہل کی آنکھوں میں خون اتر آیا...

اس کی طبیعت میں صاف کرتا ہوں...وہ طیش میں بولتا اندر آ گیا جہاں اسے باندھ کر رکھا ہوا تھے..

اپنے کتوں سے کہو مجھے کھولیں... آہل کو دیکھ کر وہ چلایا..

آہل نے رفیق کو اشارہ کیا,,وہ رسیاں کھول کر سائیڈ پر ہو گیا..

کیا لگتی ہے وہ تمہاری جو مجھے اٹھا لاےُ ہو بتاؤ... وہ آہل کے سامنے آتا ہوا بولا..

ایک جیتی جاگتی انسان جسے تم نے مردہ لاش بنا دیا یے... آہل اس کے منہ پر گھونسہ جھڑتا ہوا بولا..

وہ منہ پر ہاتھ رکھتا ہونٹ سے نکلنے والے خون کو صاف کرنے لگا...

بھولو مت میرے ڈیڈ نے تمہیں ووٹ دلواےُ تھے... کہ کر اس نے آہل کے منہ پر مکہ مارنا چاہا لیکن آہل نے اپنا ہاتھ آگے کر کے روک لیا..

مجھے سب یاد ہے اور یہ بھی یہ کہ تیسری لڑکی ہے جسے تم نے موت کے گھاٹ اتارا ہے... آہل نے اس کے پیٹ میں مکہ مارا...

تمہیں اتنی تکلیف ہے تو اگلی بار تمہیں بھی بلا لوں گا اب یہ سب بند کرو... وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

تمہارے نزدیک کوئ اہمیت ہی نہیں ہے کہ جس لڑکی کے لیے اس کی عزت ہی سب کچھ تھی تم نے وہی چھین لی,, غریب کے پاس صرف عزت ہی تو ہوتی ہے تم نے وہ بھی نہ رہنے دی اس کے پاس... آہل بولتا ہوا اس کے منہ پر پانچ دس مکے رسید کر چکا تھا ایک ہاتھ سے اس کا کالر پکڑ رکھا تھا..

وہ کمزور سا لڑکا آدھ موا ہو گیا آہل کے فولادی ہاتھ کھا کر...

آہل نے اسے جھٹکے سے پیچھے پھینکا...

آہل ڈیڈ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے... وہ تیز تیز سانس لیتا ہوا بولا..

آہل نے جیب سے گن نکالی اور اس کی ٹانگ پر مار دی..

تمہیں میں نے وارنگ دی تھی کہ شاید تم سدھر جاؤ لیکن نہیں.. کہ کر اس نے دوسری ٹانگ پر بھی گولی چلا دی.. وہ لڑکھڑا کر نیچے گر گیا..

آہ... وہ کراہتا ہوا آہل کو دیکھنے لگا..

بس کرو میں مر جاؤں گا...

وہ چیخ رہا تھا چلا رہا تھا..

اور ڈیڈ تمہارے مجھے تب مارے گے جب تم انہیں بتاؤ گے...

کیا مطلب...وہ خوف سے دیکھتا ہوا بولا..

رفیق اس کی زبان بند کرنا اور ہاتھ تڑوانا تمہارا کام ہے اس کے بعد گھر والوں کو یہ تحفہ بھیج دینا... وہ گن جیب میں ڈالتا ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا..

رفیق نے کیمرہ بند کر کے موبائل جیب میں ڈال لیا...

یہ شاہی درندے جو غریبوں کی عصمتوں کو نیلام کرتے ہیں ایک ایک کر کے ان درندوں کو سزا دوں گا... آہل طیش میں بولتا باہر نکل گیا.. نہیں پلیز میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا مجھے چھوڑ دو.. میں ڈیڈ کو بھی نہیں بتاؤں گا..

رفیق نے اس کے منہ پر جھانپڑ مارا...

پہلے نہیں معلوم تھا تمہیں اب کوئ فائدہ نہیں.. کہ کر رفیق نے اس کی گردن میں انجیکشن لگا دیا...

آہل آستین نیچے کرتا کوٹ پہننے لگا..

موبائل کی بیپ سنائ دی تو دانی کا نام جگمگا رہا تھا..

تو میڈم کو اب میری یاد بھی آنے لگی ہے... وہ مسکراتا ہوا موبائل جیب میں ڈالے چلنے لگا..

ہااا,, میرا فون نہیں اٹھایا..

دانی منہ کھولے موبائل کو دیکھنے لگی..

آنے دو پوچھتی ہوں اسے... دانی دانت پیستی ہوئ بولی...

آہل اندر آیا تو کوٹ کا بٹن کھول کر اتارنے لگا..

کہاں تھے تم... دانی کڑے تیور لیے بولی..

پہلی بار بلکل بیوی لگ رہی ہو.. وہ دانی کی ناک دباتا ہوا بولا..

میرا فون کیوں نہیں اٹھایا.. دانی نے سوال بدلا...

تمہارا شوہر کوئ معمولی انسان نہیں ہزار کام ہوتے ہیں مجھے...

ہاں ہاں مجھے پتہ ہے تمہیں جو کام ہیں اب چپ کر کے بتاؤ میری میگی کہاں ہے...

میری مت کہا کرو.. آہل خفگی سے بولا..

کیوں..

غصہ آتا ہے..

آئ کانٹ بیلیو تم ایک بلی سے جل رہے ہو... دانی آنکھیں چھوٹی کیے بولی..

بلکل.. آہل کے فون پر بیل سنائ دی..

ایک منٹ.. دانی کو اشارہ کرتا سائیڈ پر ہو گیا.. ہاں رفیق..

سر اس کا کام ہو گیا نہ وہ بول سکتا ہے نہ ہی لکھ سکتا صرف سن سکتا ہے اور اشاروں سے سمجھانا اتنا آسان نہیں...

گڈ اس کا حال معلوم کرنے والوں میں پہلا نام میرا ہونا چائیے خیال رکھنا..

جی سر میں آپ کو انفارم کر دوں گا...

دانی آگے کو ہوتی سننے کی کوشش کر رہی تھی..

کیا سمجھ آیا...

وہ ایک دم سے مڑا...

دانی گھبرا کر پیچھے ہو گئ..

کچھ بھی سنائ نہیں دیا اتنی آہستہ بول رہے تھے مجھے لگتا ہے اسے بھی کچھ سمجھ نہیں آیا ہو گا.. دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

تم جو خود سے بات کرتی ہو مجھے تو وہ بھی سنائ دے جاتا ہے.. آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

تم نے تو مائیکروفون فٹ کر رکھے ہیں.. دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

میگی کہاں ہے...

میگی اللہ کو پیاری ہو گئ.. وہ بھرپور اطمینان سے بولتا صوفے پر بیٹھ گیا...

دانی صدمے سے اسے دیکھنے لگی..

تم نے میگی کو مار دیا.. دانی کے رخسار پر ایک موتی آ گرا..

میں نے نہیں مارا کسی اور نہیں... وہ دانی کو دیکھے بنا بولا..

تم جانتے ہو وہ کب سے میرے ساتھ تھی تم نے میری میگی کو... دانی باقائدہ رونے لگی تھی..

آہل نے فون سے نظر ہٹا کر ساتھ بیٹھی دانی کو دیکھا جس کے رخسار پر ایک کے بعد دوسرا آنسو گر رہا تھا..

آہل نے اس کا رخ اپنی جانب کیا..

تمہاری آنکھ سے کسی اور کے لیے آنسو نکلے مجھے برداشت نہیں ہو گا... آہل کے چہرے پر سختی تھی..

تم..

میں جانتا ہوں وہ پچھلے دو سال سے تمہارے ساتھ تھی لیکن تمہیں کوئ اور چھوےُ آہل حیات کو یہ گوارا نہیں...

تمہیں صرف اپنی من مرضی کرنا گوارا ہے باقی ساری دنیا جاےُ بھاڑ میں.. دانی حلق کے بل چلائ..

تم پوچھ رہی تھی نہ کہاں سے آیا ہوں یہ دیکھو اب سوچ سمجھ کر بات کیا کرنا مجھ سے... وہ ویڈیو پلے کرتا ہوا بولا..

دانی حقہ بقہ سی ویڈیو دیکھنے لگی جس میں آہل ایک کمزور سے لڑکے کو پیٹ رہا تھا پھر آہل نے گولی چلا دی...

دانی منہ پر ہاتھ رکھے حیرت سے اسے دیکھنے لگی...

یہ کیا تھا. وہ بامشکل بول پائ...

تم نے دماغ خراب کر دیا تھا سوچا ہاتھ صاف کر لوں..

دانی میگی کا دکھ بھول گئ...

ہاتھ ٹیشو سے صاف کرتے ہیں جاہل انسان,, لوگوں سے نہیں...

آہل خفگی سے اسے دیکھنے لگا..

دانی تھوک نگلتی پیچھے ہو گئ...

نہیں میرا مطلب ایسے کون مارتا ہے... دانی سنبھل کر بولی.

آہل کا ڈمپل پھر سے نمایاں ہوا...

دانی اس کے ڈمپل کو پسندیدگی سے دیکھنے لگی..

تمہارا شوہر.. آہل نرمی سے بولا..

اچھا پھر میں جا کر سوتی ہوں... دانی کی آنکھوں میں خوف تیر رہا تھا..

وہ کھڑی ہوئ تو آہل نے اس کی کلائ تھام لی..

اللہ ,,اب یہ مجھے نہ گولی مار دے.. دانی بڑبڑاتی ہوئ واپس بیٹھ گئ..

میں کھا نہیں جاؤں گا تمہیں.. وہ گھورتا ہوا بولا.

تمہارا کیا بھروسہ جو انسانوں سے ہاتھ صاف کرتا ہے وہ مجھ جیسی کو کھا بھی تو سکتا ہے نہ...

تمہیں کھانے کے لیے نہیں لایا میں...

پھر.. دانی جھٹ سے بولی..

آہل نے دانی کے چہرے سے بال ہٹاےُ...

کل شکار پر چلیں گے...

کس کے شکار پر... دانی حونق ذدہ رہ گئ..

فکر مت کرو انسانوں کا شکار نہیں.. آہل مسکراتا ہوا بولا.

یہ ڈمپل تم نے کہاں سے لیا..

دانی دلچسپی سے بولی..

تم نے یہ آنکھیں کہاں سے لیں ہیں... آہل نے الٹا سوال داغا..

دانی منہ بناتی اسے دیکھنے لگی..

میری نیچرل ہیں...

تو میرا کیا آرٹی فیشل ہے...وہ گھور کر بولا..

تمہارا کیا بھروسہ کچھ بھی کر سکتے ہو..

کچھ کر کے دکھاؤں پھر تمہیں.. وہ دانی کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا ہوا بولا..

نہیں میں جانتی ہوں تمہیں ثابت کرنے کی ضرورت نہیں... دانی اپنا ہاتھ چھڑواتی تیزی سے نکل گئ..

آہل قہقہ لگاتا ہوا کھڑا ہو گیا..

سو جاؤ تم مجھے کام ہے لائٹ آن رہے گی... وہ کپڑے نکالتا ہوا بولا.

دانی نے چہرہ کمبل میں چھپا لیا...

ہاےُ میگی میں تو تمہارا حساب بھی نہیں مانگ سکتی اس جاہل سے.. دانی دکھ سے بولی.

مجھے پتہ ہوتا تو تمہیں گھر ہی رہنے دیتی یہاں بلا کر تمہیں بھی,,آہل, اف.. دانی نے جھرجھری لی....

سر عاقب حیات کی لاش ہوٹل میں سے ملی ہے.. آسم اس کے سامنے آتا ہوا بولا..

اور اس کا لیپ ٹاپ..

جی سر وہ ہمارے پاس ہے آپ بےفکر رہیں اب..

لیکن بظاہر اس نے خودکشی کی ہے اگر پولیس کو شک پڑ گیا تو کون مجرم ثابت ہو گا...

سر ایک ویٹر کو میں نے پھنسا دیا ہے اور اسے بھی معلوم نہیں کہ بہت جلد قتل کیس میں وہ اندر ہو جاےُ گا..

بہت اچھے,, اب مجھے ذرا اس رحیم سے ملواؤں جس نے ایک اور مصیبت ڈال رکھی ہے.وہ کوفت سے بولے..

سر اسے بھی میں نے آنے کا بول دیا ہے بس آنے ہی والا ہو گا آئیں چلتے ہیں.. وہ آگے کو اشارہ کرتا ہوا بولا..

رحیم ڈیڈ کچھ بھی کہیں تم ان کی بات مت ماننا.. انعم فون کان سے لگاےُ بول رہی تھی.. تم فکر مت کرو میں اپنی بات پر قائم رہوں گا..

انعم متفکر سی فون بند کر کے ٹہلنے لگی...

تم ہو رحیم.. زبیر سر سے پیر تک حقارت سے دیکھتے ہوۓ بولے..

جی سر... وہ کھڑا ہو گیا...

اوقات ہے تمہاری ہمارے برابر میں بیٹھنے کی.. وہ کڑے تیوروں سے بولے..

رحیم کو اپنا آپ حقیر لگنے لگا..

تمہاری بہنیں جوان ہیں خیال کیا کرو کسی دن اگر... وہ بات ادھوری چھوڑ کر رحیم کو دیکھنے لگے..

رحیم زخمی انداز میں انہیں دیکھنے لگا...

لیکن پھر بھی ہماری بیٹی نے تمہیں پسند کیا یے اس لیے یہ تحفہ دے رہے ہیں اس کا دل لگانے کے لیے,, ایک ہفتے تک طلاق کے پیپرز مل جانے چائیں بشمول تمہارے سائن... کہ کر وہ کھڑے ہوۓ اور تن فن کرتے چل دئیے...

رحیم آنکھوں میں نمی لیے اس بریف کیس کو دیکھنے لگا..

پھر آنکھیں مسلتا بریف کیس اٹھایا اور گھر چل دیا...

آہل سو رہا تھا جب اس کا فون رنگ کرنے لگا.. ہاں رفیق بولو... وہ غنودگی میں بولا..

واٹ, کب اور کیسے... آہل فوراً اٹھ بیٹھا آنکھوں میں نیند کی ایک جھلک بھی دکھائ نہ دے رہی تھی..

شٹ شٹ شٹ, میں چھوڑوں گا نہیں اس کمینے کو... آہل طیش میں بولتا کمبل پرے پھینکتا بیڈ سے نیچے اتر گیا..

دانی تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی..

رفیق تم خود جاؤ پولیس کے ساتھ تم اپنی تفتیش کرو میں نہیں چاہتا اس بار وہ بچ جائیں... آہل ٹہلتا ہوا بول رہا تھا..

ہاں میں تیار ہو کر نکلتا ہوں تب تک تم جا کر صورتحال دیکھو... آہل موبائل بیڈ پر پھینکتا کپڑے نکالنے لگا...

اسے کیا ہو گیا صبح صبح.. دانی بڑبڑاتی ہوئ بیٹھ گئ..

تم ایک کام تک نہیں کر سکتی... آہل کوفت سے بولا..

کون سا کام.. دانی حیرت ذدہ بولی..

کپڑے نہیں نکال سکتی میرے... وہ تقریباً چلا رہا تھا...

تمہاری وجہ سے ملازم کو کمرے میں نہیں آنے دیتا پہلے سب وہی کرتا تھا اب خود کرو... وہ کوفت سے بولتا ہوا واش روم میں گھس گیا..

اللہ ,,اس بندے کا کچھ معلوم نہیں ہوتا کب میٹر ہو جاےُ...

دانی اس کے بدلتے تیور دیکھ کر خاموش ہو گئ..

ابھی باہر نکلے گا تو پھر مجھ پر برسے گا...

سر بظاہر دکھایا گیا ہے کہ خودکشی ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ ماٹم کے بعد ہی اس بات کی تصدیق ہو گی...

تم نے وہاں کے ویٹرز سے پوچھا.. آہل کا چہرہ بےتاثر تھا...

جی سر ایک ویٹر سے میری بات ہوئ جس نے عاقب حیات کو روم دکھایا تھا جب وہ آےُ تو ان کے ہاتھ میں صرف ایک لیپ ٹاپ تھا لیکن جب پولیس کو لاش ملی تو اس کمرے سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا..

مطلب ان کے آنے کے بعد اور مرنے سے پہلے,,اس بیچ میں کوئ ان سے ملنے گیا تھا جس نے ان کا لیپ ٹاپ اٹھا لیا وہی قاتل ہو گا... آہل حتمی انداز میں بولا..

جی سر اس ویٹر نے بتایا کہ ایک امجد نامی ویٹر ان کے کمرے میں کافی دینے گیا تھا..

تم ایسا کرو سی سی ٹی وی فوٹیج نکلواؤ اور مجھے اس آدمی سے ملواؤ جو ان کے کمرے میں گیا تھا...

جی سر میں کچھ ہی دیر میں آپ کو انفارم کرتا ہوں...

جی ناظرین آپ نے بلکل درست سنا آہل حیات کے چچا عاقب حیات نے آج خودکشی کر لی جو ایک عرصہ سے روپوش تھے آج انکی لاش ہوٹل میں پنکھے سے لٹکتی پائ گئ ,, انہوں نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی اتنا عرصہ سب کی نظروں سے غائب رہنے کے بعد آج عاقب حیات نے خودکشی کر لی جی ہاں ہر دلعزیز عاقب حیات خالق حقیقی سے جا ملے عوام کی جانب سے افسوس کا اظہار ایسے لیڈر روز روز نہیں ملتے...

نماز جنازہ پوسٹ ماٹم کے بعد مغرب کے وقت ادا کی جاےُ گی باقی تفصیلات جانیے اس بریک کے بعد...

زبیر رنداوھا ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ اس تازہ نیوز کو سن رہے تھے...

ویسے فائدہ ہی ہو گیا تمہارے مرنے کا جو واحد گواہ تھا وہی مر گیا... وہ مطمئن انداز سے بولے...

آہل نے کپڑے چینج کیے اور سادہ حلیے میں ہوٹل آ گیا چہرہ پر رومال باندھ رکھا تھا وہ اکثر ایسے ہی حلیے میں لوگوں کے بیچ گھومتا پھرتا...

رفیق ہوٹل میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں یہاں بات کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس کا حلیہ پہلے جیسے نہیں رہے گا... آہل مٹھیاں بھینچ کر بولا...

سر ہوٹل کی عقبی گلی فل وقت سنسان ہے آپ وہاں لے جائیں اسے..

ہممم ٹھیک ہے میں تمہیں صوتحال سے آگاہ کرتا رہوں گا..

کہ کر وہ چلنے لگا...

امجد کہاں ہے.. وہ ایک ویٹر کو روک کر بولا.. شاید روم سروس کے لیے گیا ہو آپ کون,, میں بلا دوں اسے...

ہاں مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے اسے بلا دو.. آہل سنبھل کر بولا...

پانچ منٹ بعد امجد اس کے ہمراہ آتا دکھائ دیا..

جی سر... وہ پریشانی سے بولا.

تم سے کچھ بات کرنی ہے آؤ... آہل اسے عقبی دروازے سے باہر لے آیا رفیق کے عین مطابق گلی سنسان تھی..

تم نے عاقب حیات کا قتل کیا.. بولتے بولتے اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہو گۓ...

آہل نے منہ سے رومال ہٹا دیا...

آپ... وہ ششدہ رہ گیا...

بھاگنے کا سوچنا بھی مت... آہل عقب سے اس کی کالر پکڑتا ہوا بولا..

سر میں نے کچھ نہیں کیا میں کچھ بھی نہیں جانتا..

اگر اس دنیا کو مزید دیکھنا چاہتے تو بتاؤ وہ لیپ ٹاپ کہاں ہے اور کیسے مارا تم نے عاقب حیات کو.. آہل اس کا گلہ دباتا ہوا بولا..

امجد کا سر دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا..

سر... وہ کھانسنے لگا..

آہل نے گرفت ڈھیلی کی...

سر مجھے پیسے دئیے تھے وہ لیپ ٹاپ اٹھانے کے اور ایک انجیکشن دیا تھا انہیں بےہوش کرنے کے لیے میں نے انجیکشن لگا کر لیپ ٹاپ اٹھا لیا اور انہیں دے دیا اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا....

رفیق سی سی ٹی وی فوٹیج ان کے آنے کے بعد سے مرنے تک مکمل تھی..

نہیں سر بیچ میں ایک جگہ پر بار بار ایک ہی کلپ چل رہی تھی یقیناً کسی نے بیچ والا حصہ ڈیلیٹ کیا اور اس کی جگہ پیچھے والی کلپ پلے کر دی...

تم جھوٹ بول رہے ہو.. آہل نے اس کے منہ پر مکہ جھڑ دیا..

اس کے ناک سے خون بہنے لگا...

سر میں بلکل سچ بول رہا ہوں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں میں آپ سے جھوٹ بول کر کہاں جاؤں گا... وہ روتا ہوا بولا..

پیسے کس نے دئیے تھے... آہل ایک الٹا قدم لیتا ہوا بولا..

سر اس نے اپنا نام نہیں بتایا لیکن شاید کوئ سیاسی آدمی تھا معلوم نہیں کون تھا..

میرا شک صحیح تھا زبیر تمہیں بخشوں گا نہیں میں..

طیش میں آہل نے مٹھیاں بھینچ لیں...

رفیق آ جاؤ یہاں... وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا ہو کر بولا..

سر کیا کہا اس نے... رفیق اسے پانی کا گلاس دیتا ہوا بولا..

بہت چالاک ہے زبیر بےہوشی کا انجیکشن لگوایا اس کے بعد کوئ اور آیا ہو گا جس نے چاچو کو لٹکا دیا تاکہ خودکشی معلوم,, پوسٹ ماٹم میں صرف بےہوشی کا مادہ ملے گا جس سے ثابت نہیں ہوتا لیکن کیس اس ویٹر پر چلے گا بیوقوف... آہل ہارا ہوا لگ رہا تھا..

میں گھر جا رہا ہوں جنازہ کے وقت آؤں گا... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا نکل گیا...

آہل کمرے میں آیا تو دانی رو رہی تھی..

اب کون مر گیا ہے جو ماتم منا رہی ہو.. آہل کوفت سے بولا..

تم نے اچھا نہیں کیا میگی کو مار کر, وہ بےزبان جانور کیا کہ رہی تھی تمہیں...

آہل ناٹ ڈھیلی کرتا بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا..

دانی تشویش سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا وہ آج بجھا بجھا سا تھا...

تم کچھ بولو گے نہیں... دانی اسے خاموش دیکھ کر بولی..

دانی فلحال میں تمہاری بےمقصد باتوں کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا...

دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی..

مطلب سرے سے کوئ اہمیت ہی نہیں.... وہ منہ میں بڑبڑائ..

جی فلحال کوئ اہمیت نہیں.. کہ کر وہ سٹڈی میں چلا گیا...

تم سٹڈی لاک کیوں کرتے ہو... دانی اس کے پیچھے آتی ہوئ بولی..

میرا ضروری سامان پڑا ہے تم یہاں کیوں آ گئ.وہ ناگواری سے بولا..

مجھے دیکھنے کا شوق ہے... دانی کہ کر شیلف کی جانب آ گئ...

کتابوں کا انبار لگا ہوا تھا چھت کو چھوتے شیلف بکس سے لبریز تھے...

دانی دلچسپی سے کتابیں دیکھنے لگی..

دانی جاؤ مجھے آرام کرنا ہے...

تو میں کیا تمہارے ساتھ ڈانس کر رہی ہوں جو تم آرام نہیں کر سکتے میں خاموشی سے اپنا کام کروں گی تم کر لو آرام...

دانی باہر جاؤ... آہل زور سے بولا..

کیوں.. دانی چہرہ موڑ کر خفگی سے بولی..

دانی مجھے مجبور مت کیا کرو...

میں تو نہیں جا رہی...

میرے چاچو مر گےُ ہیں تمہیں کچھ اندازہ ہے. وہ یک دم چلایا..

دانی سانس روکے اسے دیکھنے لگی...

آئم سوری...

اب جاؤ یہاں سے مجھے کچھ کام ہے... اب کہ وہ ذرا نرمی سے بولا..

دانی لب کاٹتی باہر نکل آئ...

ہاےُ چاچو مر گےُ بیچارے کے... دانی افسوس کرتی بیٹھ گئ...

آہل سفید کرتا پاجامہ پہنے جنازے میں کھڑا تھا...

میڈیا پے در پے تصویریں بنانے میں مصروف تھا.آہل حیات کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکا شاید بےحسی کی انتہا تھی اس پر...

آہل گاگلز لگاتا اپنی گاڑی کی جانب چلنے لگا.. آگے پیچھے گارڈز کی نفری تھی...

سر آپ کچھ کہنا چاہیں گے عاقب حیات کے قتل کے بارے میں جسے خودکشی کی شکل دی گئ... رپوٹر اپنا چینل چلانے کے لیے ترس رہے تھے..

سر پلیز کچھ تو کہیں, کون ہو سکتا ہے جس نے عاقب حیات کو قتل کر ڈالا...

آہل خاموش چلتا ہوا جا رہا تھا..

سر لوگ جاننا چاہتے ہیں آپ کی راےُ...

آپ لوگوں کو کچھ اندازہ ہے میرے بھائ جیسے چاچو اس دنیا سے چلے گۓ جن کا ایک عرصے سے نام و نشان نہیں تھا... آہل نیور کاسٹر پر دھاڑا..

آپ لوگوں کو اپنی کوریج کی پڑی ہے اور وہاں کوئ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے شرم کریں آپ لوگ... آہل افسوس سے بولتا گاڑی میں بیٹھ گیا...

ناظرین وزیر اعلیٰ آہل حیات کو اپنے چچا کی وفات کا شدید دکھ ہے اس دکھ کا اظہار آپ دیکھ چکے ہوں گے وہ پریس کانفرس کرنے یا کوئ بھی بیان دینے سے انکاری ہیں اور ان کا یہ رد عمل اس بات کا ثبوت تھا کہ انہیں اپنے عزیز جان چچا کی موت کا دھچکا لگا ہے.. رپوٹر اس کے جاتے ہی اپنی کوریج کی جانب واپس آ گیا..

کیا بنا رفیق... آہل دو دن بعد اس کے سامنے آیا.سر وہی توقع کے عین مطابق قصور کسی کا اور سزا کسی کو اس ویٹر پر کیس چلے گا آپ کے جانے کے بعد پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج لے کر گئ کیونکہ پوسٹ ماٹم کی رپورٹ آ گئ تھی باقی تمام کیسیز کی مانند یہ بھی سالوں سال چلتا رہے گا تاریخ ہے تاریخ دیتے جائیں گے... وہ افسوس سے بولا..

ہممم یہی امید تھی مجھے خیر مجھے کورٹ سے انصاف چائیے بھی نہیں میں خود بدلہ لے لوں گا,, تم چیف سیکریٹری سے مل کر اسے آگاہ کرو کہ پولیس کے محکمے پر توجہ دے بہت شکایات موصول ہو رہی ہیں اور یہ خوش آئیند نہیں...

جی سر میں کہ دوں گا...

ٹھیک ہے پھر میں تمہیں فون کر کے بتا دوں گا کچھ کام ہے.کہ کر وہ نکل گیا..

جی سر....

آہل کمرے میں آیا

________

تو دانی منہ بسورے بیٹھی تھی...

آہل اس پر ایک نظر ڈالتا وارڈروب کھول کر کھڑا ہو گیا...

تم مجھے آج بتا ہی دو کس جرم کی سزا دے رہے ہو... دانی کھڑی ہو گئ..

محبت کی.. آہل مسکرا کر بولا..

مجھے کوئ محبت نہیں تم سے...

میں نے ایسا کب کہا.. وہ چہرہ موڑ کر الماری کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا...

تو مجھے کیوں یہاں بند کر رکھا ہے ایسا لگ رہا ہے میں کومہ میں چلی گئ ہوں.. دانی صدمے سے بولی..

کومہ میں جانے والے پیشنٹ بولتے نہیں ہیں صحیح طرح جاؤ اور بولو بھی مت.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

آہل میں تمہارا منہ توڑ دوں گی, مجھے باہر جانا ہے...

تمہارا یہ نازک سا ہاتھ پھل بھی نہیں توڑ سکتا... آہل اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

لیکن تمہارا منہ بخوبی توڑ سکتا ہے.. دانی گھور کر بولی..

اچھا بتاؤ کہاں جانا ہے...

تمہاری قبر دیکھنے تیار ہوئ کہ نہیں کب تک جاؤ گے تم وہاں.. دانی سنجیدگی سے بولا..

آہل قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا...

تم اپنا ڈمپل اتار دو... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

دانی تمہارا دماغ ٹھیک ہے نہ میں کیسے ڈمپل اتار سکتا ہوں...

ہاں بلکل جیسے ابھی یہ کوٹ اتارا.. دانی جان بوجھ کر بولی..

ڈمپل کا تو معلوم نہیں ہاں لیکن یہ شرٹ ضرور اتار سکتا ہوں میں... آہل شرٹ کے بٹن کھولنے لگا..

بند کرو اسے لوفر کہیں کے مجھے باہر لے کر چلو ورنہ میں تمہیں سونے نہیں دوں گی.. دانی خفگی سے بولی..

پوچھ تو رہا ہوں کہاں جانا ہے تم نے بتاؤ لے جاتا ہوں.. آہل بٹن بند کرتا ہوا بولا..

مجھے پانی پوری کھانی ہے اور گھر بھی جانا ہے...

پانی پوری ابھی آ جاےُ گی اس کے لیے جانے کی ضرورت نہیں...

مجھے جا کر کھانی ہے...

کیوں یہاں کیا مسئلہ ہے.. وہ گھور کو بولا..

یہاں میرے منہ سے باہر نکل آےُ گی اس لیے وہاں جا کر...

اچھا اور وہاں نہیں نکلے گی.. وہ سینے پر ہاتھ باندھتا ہوا بولا..

نہیں وہاں تو اس کا مالک کھڑا ہو گا اس کے سامنے تھوڑی ایسی حرکتیں کرے گی...

دانی تمہارے پاس خالی دماغ بھی نہیں ہے چینج کر لو چلتے ہیں اور گھر نہیں جانا صرف پانی پوری کھلاؤں گا...

گھر جانے میں تمہارے پیسے لگے گے کیا.. دانی اس کا کالر کھینچتی ہوئ بولی..

ایسے کام مت کیا کرو کیونکہ جس دن میں نے کیے پھر تمہارا یہ منہ بند ہو جاےُ گا... وہ خفگی سے اپنی کالر چھڑواتا ہوا بولا..

دانی سنبھل کر ایک قدم پیچھے ہو گئ..

نہیں جانا تو مطلب نہیں اب پانی پوری کھانی ہے یا نہیں بتاؤ ٹائم نہیں ہے میرے پاس...

ہاں ٹائم تم کراےُ پر دے کر آتے ہو نہ جو کبھی ہوتا ہی نہیں ہے... دانی جل کر بولی..

جا کر چینج کر لو.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

دانی سنگھار میز کے سامنے کھڑی تھی جب آہل بلیک کرتا پہنے کف بند کرتا آئینے میں دکھائ دیا...

دانی ٹائم دیکھو ذرا.. وہ آئینے میں گھورنے لگا.

ہاں جانتی ہوں تم اتنے وقت میں بہت سے بندوں کو مار سکتے ہو لیکن دانی صرف تیار ہو سکتی یے اور ابھی تو میں جلدی ہو رہی ہوں.. وہ خفگی سے بولی..

ایک گھنٹہ جلدی ہے.. امیزنگ.. وہ گھڑی پر نظر ڈالتا سائیڈ پر آ گیا..

اگر تم دو منٹ میں باہر نہ آئ تو میں اکیلا چلا جاؤں گا..

اکیلے تم نے گھاس چرنی ہے نہ.. دانی منہ بسورتی آ گئ...

اس کو تھوڑا ریسٹ بھی دیا کرو اور کوئ تماشہ مت لگانا,چلو اب.. وہ باہر کی جانب قدم بڑھاتا ہوا بولا...

ہاں رفیق آ گۓ ہو,, ٹھیک ہے تم گاڑی سٹارٹ کرو ہم آ رہے ہیں.. آہل بلیو ٹوتھ کان سے لگاےُ بول رہا تھا...

فون کو ہی گرل فرینڈ بنایا ہوا ہے تو کسی اور کی کیا ضرورت بھلا..

تمہیں جیلیسی ہو رہی ہے...

مجھے بتاؤ تم بندہ اب خود سے بھی بات نہیں کر سکتا کیا.. دانی جل کر بولی.

آہستہ کیا کرو پھر..

تمہارے نزدیک آہستہ تو پھر اشاروں میں ہوتی ہو گی..

آہل مسکراتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا..

پہلے لڑکی کو بٹھاتے ہیں اخلاقیات بھی نہیں معلوم تمہیں تو پتہ نہیں کیسے چیف منسٹر ہو.. دانی بولتی ہوئ بیٹھ گئ..

آہ... تمہیں معلوم ہیں نہ تو میں نے سوچا میں معلوم کر لوں گا تو ساری ہمارے پاس آجائیں گیں کچھ باقیوں کے لیے بھی رہنے دیں... وہ مسکراتا ہوا بولا..

تمہارا ڈمپل مجھے زہر لگتا ہے..

مت دیکھا کرو... وہ موبائل پر انگلیاں چلاتا ہوا بولا...

ہر وقت نمائش تو کرتے رہتے ہو پھولوں کی نمائش بھی سال میں ایک بار لگتی ہے لیکن تمہارے ڈمپل کی تو تعداد ہی نہیں ہے...

آہل مجھے یونی جانا ہے...

اس ٹائم کون سی یونی اوپن ہوتی ہے.. وہ مصروف سے انداز میں بولا..

ابھی نہیں صبح...

فلحال نہیں..

آہل کیا مصیبت ہے تمہیں مجھے گھر میں دیواروں کی پیمائش کرنے کو چھوڑا ہوا ہے..

تو مت کرو تم.. وہ بھرپور اطمینان سے بولا..

کیڑے پڑیں تمہیں جاہل اللہ پوچھے گا تم سے.. دانی جل کڑھ کر باہر دیکھنے لگی...

آہل کا ڈمپل مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے...

اس طرح تم مجھے خود دعوت دیتی ہو کہ..

کہاں ہے انویٹیشن کارڈ.. دانی چہرہ موڑ کر بولی..

آہل چہرہ جھکاےُ مسکرانے لگا...

شرما تو ایسے رہے ہو جیسے کسی لڑکی سے رشتے کی بات کر دی ہو...

رفیق مجھے ٹیپ لا دو.. وہ منہ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا...

میں ویسے بھی خاموش ہو سکتی ہوں اپنے ہتھیار منگوانے کی ضرورت نہیں...

میں باہر جا کر کھاؤں گی... گاڑی رکی تو دانی چہکی...

کوئ ضرورت نہیں ہے چپ کر کے گاڑی میں کھاؤ کوئ نیوز نہیں بنوانا چاہتا میں.. وہ غصے سے بولا...

آہل مجھے نہیں پتہ سیاست تمہاری اور مصیبت مجھے...

کیا چاہتی ہو گن سامنے رکھوں پھر مانو گی.. وہ دانی کی جانب جھکتا ہوا بولا...

اتنی پسند ہے تو گن ہی کھالیا کرو نہیں جا رہی میں باہر پیچھے رہو اب...دانی انگلی اس کے سینے پر رکھتی پیچھے کرنے لگی..

رفیق باہر کھڑا ہو کر پانی پوری بنوانے لگا..

میم.. وہ دانی کو پکڑاتا ہوا بولا...

دانی لبوں پر زبان پھیرتی کھانے لگی...

رفیق مرچ اور تیز کرواؤ.. وہ سی سی کرتی ہوئ بولی..

آہل نے موبائل سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا...

اتنی مرچ صحت کے لیے اچھی نہیں..

تم ڈاکڑ ہو..

نہیں...

پھر چپ رہو جس دن ڈاکڑ بن جاؤ گے اس دن کہنا.. دانی اثر لیے بنا کھانے لگی..

آہل نفی میں سر ہلاتا اپنا کام کرنے لگا..

تم بھی کھاؤ.. دانی نے پلیٹ اس کے سامنے کی.

میں ہیلتھ کو لے کر بہت کانشیوس ہوں...

مجھے نہیں پتہ کھاؤ ورنہ میں تمارے اوپر گرا دوں گی...

اووہ اب تم مجھے دھمکی دو گی.. آہل موبائل جیب میں ڈالتا ہوا بولا..

ہاں اور اگر تم نے نہیں کھائ تو میں تمہاری آنکھوں میں ڈال دوں گی.. دانی گھورتی ہوئ بولی.

اچھا لاؤ... آہل اس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتا ہوا بولا..

اتنے سپائسی کیسے کھا رہی ہو تم.. آہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی..

دانی آنسو صاف کرتی ہنسنے لگی..

یہ والے اس سے بھی زیادہ ہیں...

جب تمہیں مرچ لگ رہی ہے تو کیوں کھا رہی ہو... وہ حیرت سے بولا...

یہی تو مزہ ہے تمہارے جیسے بلیک اینڈ وائٹ لوگوں کو کیا معلوم...

مطلب.. آہل گھور کر بولا..

مطلب سن اٹھارہ سو پچس کے زمانے کے ہو تم تب بلیک اینڈ وائٹ ہی پچرز ہوتی تھیں... دانی اثبات میں گردن ہلاتی ہوئ بولی...

صرف دس سال بڑا ہوں تم سے...

صرف دس سال... دانی کی گرے آنکھیں پھیل گئیں...

میرے لیے تو دس دن کی مانند ہیں.. وہ مسکرا کر بولا...

میں اکیس کی ہوں.

اور میں ایکتیس کا...

ہاےُ مرنے والے ہو پھر تم, تیاری کر لو بہت گناہ کیے ہیں تم نے...

تم فکر مت کرو...وہ رفیق کو اشارہ کرتا ہوا بولا..

مجھے پانی چائیے... دانی سرخ ہوتی آنکھوں سے بولی..

رفیق نے آہل کو بوتل دی آہل نے اسے تھمائ..

اور کھلا دوں...

ہاں مزہ آ جاےُ گا... وہ بوتل منہ سے ہٹاتی ہوئ بولی...

ابھی گھر نہیں جانا...

پھر کہاں جانا ہے...

پاگل خانے... دانی مزے سے بولی..

آر یو سئیرئس..

یس, تمہیں وہاں چھوڑنے کے لیے...

سچ میں تمہاری زبان کا کچھ کرنا پڑے گا.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

رفیق جا کر سامان لے آؤ...

جی سر... وہ گاڑی روک کر باہر نکل گیا..

کون سا سامان..

گنز اور بامب...

ہاےُ اللہ.. دانی پیچھے ہوتی دروازے سے ٹکرا گئ..

کس کو مارنا ہے...

دانی کو.. وہ شرارت سے بولا..

کیوں اب تو میں تمہارے گھر ہی ہوں.. وہ تھوک نگلتی ہوئ بولی..

تم بہت تنگ کرتی ہوں...

میں دو سال کی بچی ہوں کیا جو تمہاری شرٹ کھینچ کھینچ کر بلاتی ہوں... دانی گھور کر بولی...

آہل مسکراتا ہوا اسے دیکھنے لگا...

جنگلی بلی کبھی خاموش بھی رہ لیا کرو...

مجھے سم کیوں نہیں دی.. وہ اپنا فون نکالتی ہوئ بولی..

ضرورت نہیں تمہیں... وہ گاگلز لگاےُ باہر دیکھ رہ تھا..

ہاں صرف تم ہی محتاج ہو پورے ملک میں جسے ہر چیز کی ضرورت ہے...

دانی خاموش... آہل کی پیشانی پر شکنیں ابھریں..

رفیق جلدی کرو...

دانی منہ بناتی باہر دیکھنے لگی..

بس اس سوٹے کی کمی تھی یہ بھی پوری کر دی تم نے...

دانی اسے سیگرٹ سلگاتا دیکھ کر جل کر بولی..

تمہیں میری ہر چیز سے مسئلہ ہے.. آہل قہقہ لگاتا ہوا بولا..

اور نہیں تو, مجھ پر تشدد کر رہے ہو تم..

ایک گولی کے علاوہ کون سا تشدد کیا میں نے.. وہ دھواں نکالتا ہوا بولا..

دانی ناک چڑھاتی اسے دیکھنے لگی..

تمہارے لیے ایک گولی معمولی سی بات ہے..

بلکل وہ تو کسی کو بھی لگ سکتی یونہی راہ چلتے...

راہ چلتے,, بارش ہو رہی ہے کیا گولیوں کی... دانی اس کے اطمینان پر منہ کھولے دیکھنے لگی...

میں جانتا ہوں تمہیں سیگرٹ بلکل نہیں پسند لیکن دیکھو جب سے تم آئ ہو میں نے ایک بار نہیں پی... وہ معصومیت سے بولا..

پھر اب کیوں پی رہے ہو.. دانی بیڈ کراؤن سے آگے ہوتی ہوئ بولی...

ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں.. آہل نے کہتے ہوۓ ٹیبل پر پاؤں رکھ دئیے...

لیکن تمہارا منہ توڑنا بہت ضروری ہے..

سو جاؤ تم...

اس تمباکو نوشی میں کیسے سوؤں میں.. وہ ہاتھ سے دھواں ہٹاتی ہوئ بولی..

آہل دانتوں تلے لب دباےُ مسکرانے لگا..

*************

ایک دو سنوائ کے بعد مجرم دکھائ نہیں دینا چائیے... زبیر ٹہلتے ہوۓ بولے..

جی سر ایسا ہی ہو گا...

اور وہ لیپ ٹاپ میں نے اپنے لاکر میں رکھ لیا ہے جو بھی یے بعد میں اسے چیک کریں گے پہلے اس کیس کو رفع دفع کرواؤ جلدی...

جی سر بس شروع ہو جاےُ کیس زیادہ دن نہیں چلے گا...

ایک وہ کمینہ ہے دانی کو اپنے پاس رکھ کر بیٹھا ہے ناجانے کیا چل رہا ہے اس کے دماغ میں... وہ کلس کر بولے..

آسم خاموش رہا...

سر رحیم آ گیا ہے.. آسم موبائل دیکھتا ہوا بولا.. بلاؤ اسے اندر, آج یہ قصہ بھی ختم کریں..

سر یہ پیپرز سائن کر دئیے ہیں میں نے.. وہ زبیر کے سامنے کھڑا بول رہا تھا..

ہممم عقلمندانہ فیصلہ لیا ہے...

اگر اب میری بیٹی کے ساتھ دکھائ دئیے تو دوبارہ دنیا میں دکھائ نہیں دو گے.. وہ درشتی سے بولے...

سر میں بس ایک بار ملنا چاہتا ہوں انعم سے...

میڈم بولو تمہاری اوقات ہے اس کا نام لینے کی..وہ تقریباً چلاے..

سوری سر میم انعم.. وہ آنسو پیتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے مل لینا ایک بار اب نکلو یہاں سے.. وہ کدورت سے بولے..

رحیم سانس خارج کرتا نکل گیا...

آہل مجھے یونی جانے دو اب تو میں نے ڈیل بھی کر لی ہے... دانی اسے جھنجھوڑتی ہوئ بولی..

وہ جو گہری نیند میں تھا ناگواری سے دانی کو دیکھنے لگا..

دانی تنگ مت کرو..

آہل میں اکیلی چلی جاؤں گی..

تم کمرے سے باہر قدم رکھ کر دکھاؤں مجھے.. وہ کروٹ لیتا ہوا بولا..

تم انتہائ درجے کے گھٹیا انسان ہو.. دانی جل کر بولی..

میں جانتا ہوں بتانے کی ضرورت نہیں..

دانی کو اس کی ڈھٹائ پر مزید غصہ آنے لگا..

جنگلی بلی جاگ رہی ہو تو میرے کپڑے ہی نکال دو..

میں صرف تمہاری جان نکال سکتی ہوں..

نہیں تم سے وہ بھی نہیں ہو گا.. آہل مسکراتا ہوا اٹھ بیٹھا..

اب کیوں اٹھے ہو سوےُ مرے رہو... دانی جلتی کڑھتی بولی.

تم سونے دو پھر نہ..

میں تو کہتی ہوں ایک ہی بار قبر میں جا کر سو جاؤ کوئ تنگ نہیں کرے گا سکون سے رہو اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دو..

اتنی جلدی میرا وہاں جانے کا ارادہ نہیں...

ہاں سب کو بھیج کر جاؤ گے... دانی کہ کر بیڈ سے اتر گئ..

اچھا سنو...

میں نہیں سن رہی.. دانی سلیپر پہنتی ہوئ بولی..

آہل بیڈ سے اتر کر اس کے سامنے آ گیا..

کیا ہے... دانی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا..

آج شکار پر جانا ہے تیار ہو جاؤ..

گولی کھانے کے لیے...

نہیں مارنے کے لیے.. وہ دانی کی ناک دباتا ہوا بولا..

میں نہیں جا رہی.. دانی کہ کر مڑ گئ..

دانی کی کلائ آہل کے ہاتھ میں آ گئ...

کیا کہا..

ویسے تو مائیکروفون فٹ ہیں آج اچھی بھلی آواز سمجھ نہیں آئ... دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

مجھے نہ سننے کی عادت نہیں...

اچھا پھر تم اکیلے چلے جاؤ,, اس میں نہ کہیں بھی نہیں ہے.. دانی اپنی کلائ اس کے لوہے جیسے ہاتھ سے آزاد کروانے کی سعی کرتی ہوئ بولی..

آہل مسکراتا ہوا آگے ہوا اور دائیں ہاتھ سے دراز میں سے گن نکال لی...

دانی نے بےچینی سے پہلو بدلا...

ہاں کیا کہ رہی تھی تم... وہ گن کی نوک سے دانی کے چہرے پر آئ لٹ کو پیچھے کرتا ہوا بولا..

دانی کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا..

تم دوسری بار بھی مار دو گے... دانی نے کسی خیال کے تحت پوچھا...

بلکل.. وہ ڈمپل کی نمائش کرتا ہوا بولا...

دانی کو پسینہ آنے لگا..

اب بتاؤ کہاں جانا ہے تمہیں... وہ نرمی سے بول رہا تھا..

اس ماں کو ہٹاؤ گے تو کچھ بول پاؤں گی نہ..

تم ایسے ہی بتا دو ٹائم ضائع ہو رہا ہے ورنہ میں کچھ اور کام کروں...

ہاتھ چھوڑو تیار ہونے جاؤں میں... دانی نے ہتھیار ڈال دئیے...

گڈ گرل, تمہیں بھی صرف اس کی زبان سمجھ آتی ہے.. وہ گن جیب میں ڈالتا ہوا بولا..

بلکل جیسے تمہیں صرف اسی سے بولنا آتا ہے زبان تو کسی کو دے کر آتے ہو نہ... دانی جل کر کہتی کپڑے نکالنے لگی...

میرے بھی نکال دو... وہ بیڈ پر بیٹھتا مسکراتا ہوا بولا..

تمہارے ہاتھ ٹوٹے نہیں ہیں خود نکال لو... دانی کہ کر واش روم میں گھس گئ...

آہل نفی میں سر ہلاتا مسکرانے لگا..

آہل بلیو جینز کی پینٹ پر گرے ٹی شرٹ پہنے آنکھوں پر گاگلز لگاےُ سنیکرز پہنے وہ نارمل روٹین سے منفرد لگ رہا تھا فون کان سے لگاےُ کھڑا تھا.

دانی چلتی ہوئ آئ تو آہل نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو اس وقت بلیک جینز پر بلیک ہی شرٹ پہنے ہوئ تھی سرمئ آنکھوں پر گاگلز لگا رکھے تھے سیاہ ریشمی بالوں کی ٹیل پونی بنا رکھی تھی جو پشت پر اٹکھیلیاں کر رہے تھے لانگ شوز پہنے وہ آہل کے سامنے کھڑی ہو گئ..

آہل ستائشی نظروں سے اسے دیکھنے لگا...

ثاقب صاحب بعد میں بات کرتا ہوں آپ سے....کہ کر اس نے فون بند کر دیا...

چلیں.. وہ مسکرا کر بولا..

نہیں پہلے مولوی صاحب کو بلوا کر خطبہ سنتے ہیں اس کے بعد جائیں گے...

دانی سے کبھی سیدھے جواب کی توقع نہیں کی جاسکتی... وہ دھیرے سے مسکرایا.

_______

انعم سائن کرو اس پر...وہ انعم کے سامنے پیپرز پھینکتے ہوۓ بولے..

مجھے نہیں کرنا سائن پہلے رحیم کو بولیں... انعم جانتی تھی وہ کسی صورت بھی سائن نہیں کرے گا...

وہی دے کر گیا ہے یہ پیپرز اور دیکھ لو اس کے سائن بھی ہیں.. کہ کر وہ انعم کے سامنے والے صوفے پر براجمان ہو گۓ..

انعم پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی..

آپ نے گن پوائنٹ پر سائن لیے ہوں گے... وہ پیپرز دیکھتی بےیقینی سے بولی..

بلکل بھی نہیں اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا کسی نے...

پھر کوئ دھمکی مجھے بتائیں کیسے سائن لیے آپ نے.. وہ یکدم چلائ...

انعم بہت ہو گیا اب خاموشی سے سائن کر دو جو پوچھنا یے اس سے پوچھ لینا ایک بار ملنے آےُ گا... وہ ناگواری سے بولے..

ڈیڈ میں آپ سے...

میں مزید بحث نہیں کرنا چاہتا نہ ہی کوئ تماشہ چاہتا ہوں,,سو اب اس کے ساتھ کوئ رابطہ مت رکھنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا... وہ درشتی سے کہتے چلے گۓ...

انعم آنکھوں میں اشک لیے پیپرز کو دیکھنے لگی...

رحیم تم نے سائن کر دئیے... وہ منہ پر ہاتھ رکھے آنسو پینے کی سعی کرنے لگی...

اس میں جائیں گے ہم.. دانی آہل کی لینڈ کروزر دیکھ کر بولی..

ہاں کیوں...آہل تعجب سے اسے دیکھنے لگا..

مجھے لگا گدھا گاڑی منگواؤ گے... دانی سنجیدگی سے بولی..

اگر یہی دماغ تم سیاست میں لگاؤ تو کہاں سے کہاں پہنچ جاؤ...آہل مسکراہٹ دباتا ہوا بولا...

تمہاری فضول سیاست تمہیں ہی مبارک اب چلو گے یا کسی کا انتظار ہے...دانی کے چہرے پر اکتاہٹ واضح تھی..

آہل مسکراتا ہوا اندر بیٹھ گیا...

اسی کے ساتھ لگے رہنا تھا تو مجھے ساتھ کیوں لاےُ... دانی اس کے ہاتھ سے موبائل لیتی ہوئ بولی...

وہ ایک گھنٹے سے خاموش بیٹھی تھی اور اب اکتا کر بول پڑی..

دانی مجھے بو آ رہی ہے.. آہل منہ بناتا ہوا بولا..

ہیں نہ مجھے بھی آ رہی ہے موزے بدلو اپنے... دانی دو انگلیوں سے ناک بند کرتی ہوئ بولی..

آہل نے قہقہ لگا کر اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا...

بس ابھی میں اپنا کام ختم کر لوں آگے جیب میں جائیں گے میں خود چلاؤں گا پھر ٹائم نہیں ملے گا...

پتہ نہیں کون سے کام ختم نہیں ہوتے... دانی کوفت سے کہتی باہر دیکھنے لگی...

آہل دھیرے سے مسکرانے لگا..

دانی تم اپنا فون کیوں مانگ رہی تھی.. آہل جیپ چلا رہا تھا..

مجھے اپنے دوستوں کے نمبر چائیے..

کیا کرنے ہیں نمبر...

سر میں مارنے ہیں,, دینا پسند کرو گے... دانی جل کر بولی..

نہیں معلوم تو ہو نہ کام کیا ہے...

تم مجھے بتا کر جاتے ہو کہاں جا رہے ہو تو پھر میں کیوں بتاؤں تمہیں...

اچھا ٹھیک ہے سب کے مل جائیں گے لیکن ارحم کا نہیں... وہ سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا..

کیوں.. دانی کی پیشانی پر لکریں ابھریں..

میری مرضی.. وہ شانے اچکاتا ہوا بولا..

اللہ کرے کوئ جانور کھا جاےُ تمہیں کسی کا تو بھلا ہو...

پہلی بیوی ایسی دیکھی ہے جو شوہر کے مرنے کی دعا کرتی ہے...

میں نے بھی تم جیسا دہشت گرد پہلی بار دیکھا ہے کہنے کو پرائم منسٹر ہو لیکن مجھے تو لگتا ہے دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہو... دانی اسے جانچتی نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی...

تم نے باکسنگ نہیں کی دوبارہ... آہل سامنے سڑک پر دیکھتا ہوا بولا..

آس پاس گھنے درخت اور سزہ ہی سزہ دکھائ دے رہا تھا ہر طرف ویرانی سنسانی تھی...

نہیں تم کیا چاہتے ہو میری ناک اگر اس دن بچ گئ تو اب پھر سے جا کر توڑ لوں اسے... وہ ناک پر ہاتھ رکھتی ہوئ بولی...

کوئ بات نہیں میں سرجری کروا دوں گا... وہ طمانیت سے بولا..

کاش اپنی یادشت کی سرجری کروا لو جس کے بعد دانی نہ ہو... دانی حسرت سے بولی..

یہ سرجری کے بعد بھی ممکن نہیں.. آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانت ناگواری سے اسے دیکھتی بائیں جانب دیکھنے لگی...

ہیلو سر...

ہاں بولو... رفیق الرٹ ہوا..

سر انعم میم کی طلاق ہو گئی ہے خوب ہنگامہ ہوا میں نے انعم میم کو کہتے سنا تھا کہ میں ڈیڈ سے بدلہ لوں گی...وہ آس پاس دیکھتا رازداری سے کہنے لگا..

ویری گڈ.. بس تم محتاط رہنا کسی کو شبہ نہ ہو تم پر...

جی سر... کہ کر اس نے فون رکھ دیا..

زبردست... رفیق مسکراتا ہوا آہل کا نمبر ملانے لگا لیکن ناٹ ریچایبل آ رہا تھا...

سگنل چلے گۓ ہوں گے... رفیق خود کلامی کرتا فون بند کرنے لگا...

آہل گن پکڑے چل رہا تھا دانی اس کی تقلید کر رہی تھی...

تمہاری دم کہاں ہے... دانی عقب میں دیکھتی ہوئ بولی..

آہل چہرے موڑے اسے دیکھنے لگا...

تم گارڈز کی بات کر رہی ہو...

نہیں کھسروں کی,, گارڈز کے سوا کون تھا ہمارے ساتھ... دانی گھوری سے نوازتی ہوئ بولی..

وہ کچھ فاصلے پر ہیں کچھ ٹائم ہمیں اکیلا بھی رہنا چائیے... وہ سامنے چہرہ کرتا چلنے لگا...

تمہارے ساتھ اکیلے رہنا تو خطرے سے خالی نہیں...

دانی منہ بسورتی اس کے ساتھ آ گئ...

آہل تم اس ہرن کو مارو گے... دانی اسے نشانہ باندھتا دیکھ کر بولی...

ظاہر ہے... وہ گن سیٹ کرتا ہوا بولا..

نہیں تم اس بےزبان کو نہیں مارو گے... دانی چلائ..

دانی ہم یہاں لڈو کھیلنے نہیں آےُ شکار کرنے آئیں ہیں اور یہاں سب ہی بےزبان ہیں.. آہل پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا..

ہرن رک کر آس پاس دیکھنے لگا...

آہل نے اسے نشانے پر رکھا ہوا تھا جونہی آہل نے ٹریگر دبایا دانی نے سامنے آ کر گن اوپر کر دی..

دانی تمہارا دماغ خراب ہے کیا اگر غلطی سے بھی گولی تمہیں لگ جاتی پھر... وہ چہرے پر خفگی لیے بولا..

اس میں اتنی حیرانی والی کیا بات ہے تم نے پہلے بھی تو ماری تھی ایک بار پھر سہی..

پہلے کی بات اور تھی تب میں نے نشانہ لگایا تھا اور اب اتفاقاً تمہارے لگتی.. وہ دانی کی دائیں بازو پکڑتا ہوا بولا..

چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھا...

چھوڑو مجھے... دانی بازو چھڑواتی ہوئ بولی..

شکار نہیں کریں گے تو بھوکی رہو گی کیا... آہل گن شانے پر ڈالتا ہوا بولا..

تمہارے گھر میں تو کچھ بھی دستیاب نہیں نہ تو ہم پہلے دربار پر چلے جائیں گے لنگر نوش فرما کر پھر گھر جائیں گے...

ہاہاہاہا میرا مطلب ہے جنگلی بلی شام تک بھوکی رہو گی... وہ دانی کی ناک دباتا ہوا بولا..

ہاں رہ لوں گی... دانی منہ بناتی ہوئ بولی.. ٹھیک ہے پھر چلو واک کرتے ہیں.. آہل قدم اٹھاتا ہوا بولا..

دانی اس کے ہمقدم ہو گئ...

تمہیں معلوم ہے تم بہت ہی گھٹیا ہو.. دانی کو میگی یاد آ گئ...

کیسے... آہل کا چہرہ ابھی بھی جھکا ہوا تھا..

اچھا چلو میں تمہیں تین آپشن دیتی ہوں تمہیں بتانا ہے کہ تم کس آپشن میں فٹ آتے ہو.. دانی کچھ سوچ کر بولی..

ٹھیک ہے دو..

وہ جنگل کے بیچ میں چل رہے تھے خشک پتوں پر چلنے سے آواز پیدا ہو رہی تھی..

لمبے گھنے درخت جن کے باعث سڑک دکھائ نہیں دے رہی تھی...

تم کس طرح کے انسان ہو..

سوال یہ ہے اور اب آپشن دیتی ہوں..

دو آپشن..

نمبر ون گھٹیا..

آہل کے لب مسکرانے لگے..

نمبر ٹو انتہائ گھٹیا..

آہل کا ڈمپل گہرا ہوتا جا رہا تھا..

نمبر تھری حد سے زیادہ گھٹیا..

آہل کھل کر ہنس دیا..

اس میں کوئ بھی آپشن درست نہیں میڈم..

ایک کا تو انتخاب کرنا پڑے گا... دانی گھور کر بولی..

جو تمہیں زیادہ پسند ہو وہی... آہل اسے دیکھ کر بولا..

مطلب تینوں... دانی آبرو اچکا کر بولی..

صحیح ہے تینوں... آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

چلو ایک اور سوال...

اس بار آپشنز کے ساتھ انصاف کرنا.. وہ دانی کو گھورتا ہوا بولا..

انسانوں کو انصاف ملے نا تم آپشنز کی بات کرتے ہو.. دانی اس کی بات ہوا میں اڑاتی ہوئ بولی..

اچھا چلو پوچھو...

آہل سڑک پر آتا ہوا بولا..

تم مجھے پھر سے گولی مار سکتے ہو..

آپشنز ہیں..

نمبر ون ہاں...

نمبر ٹو جی ہاں...

نمبر تھری جی جی بلکل ہاں...

بہت چالاک ہو...

تم جیسے شاطر انسان کے ساتھ چالاک بننا پڑتا.. وہ منہ بسورتی ہوئ بولی..

اب بتاؤ...

اس کا جواب میں نہیں دوں گا.. وہ چہرہ جھکاتا ہوا بولا..

مطلب تم پھر سے گولی مارنا چاہتے ہو... چی چی چی.. دانی نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولی.. کل میں یونی بھی جاؤں گی...

اچھا ٹھیک ہے چلی جانا...

ہیں... آہل تمہارے اندر کسی اور کی روح تو نہیں آ گئ... دانی آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی..

نہیں بلکل بھی نہیں... وہ مسکراتا ہوا بولا چہرہ اب بھی جھکا رکھا تھا..

اور گھر بھی جاؤں گی..

وہ دونوں جیپ کے پاس آ چکے تھے..

اتنی رعایت نہیں دے سکتا میں تمہیں...

کون سا سامان خرید رہی ہوں میں تم سے جو رعایت دے رہے ہو مجھے.. وہ آگے ہوتی گھور کر بولی..

آہل اس کی گردن میں جگمگاتا دانی دیکھنے لگا...

گھر بعد میں کل صرف یونی,, کیا چاہتی ہو یہ بھی کینسل کر دوں...

دانی منہ پھلا کر جیپ پر بیٹھ گئ...

گر گئ پھر.. وہ دانی کے عین مقابل آ گیا...

نہیں کوئ پہاڑ جو اگر گر گئ تو بچوں گی نہیں..

تمہیں معلوم ہے کتنے قدم اٹھاےُ تم نے...

نہیں.. دانی لاعملی ظاہر کرتی ہوئ بولی...

52 اس سڑک سے یہاں تک... وہ حسب عادت جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا..

دانی مبہوت سی اسے دیکھنے لگی..

تم یہ گن رہے تھے...

ہاں... وہ دھیرے سے مسکرایا..

سائیکو کیس ہو تم پورے کے پورے.. دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی..

گھر چلیں... دانی نیچے اترتی ہوئ بولی..

تھک گئ ہو.. آہل بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا..

ہاں... دانی دھیرے سے بولی...

چلو.. وہ اشارہ کرتا ہوا بولا...

گھر چلو پھر تمہیں بتاؤں گی... دانی دل ہی دل میں سوچتی بیٹھ گئ...

سر... آہل کے گھر میں داخل ہوتے ہی رفیق آ گیا..

ہاں.. آہل چہرہ موڑ کر بولا..

کچھ بات کرنی تھی آپ سے..

دانی بھی اس کے ساتھ ہی رک گئ تھی..

دانی تم کمرے میں جاؤ میں آتا ہوں..

دانی منہ بسورتی چلنے لگی...

ہاں بولو رفیق... آہل صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا..

سر انعم زبیر کو طلاق ہو گئ ہے زبیر نے زبردستی طلاق دلوائ ہے...

آہاں امیزنگ.. دشمن کا دشمن دوست... آہل کا چہرہ کھل اٹھا..

رفیق اب وقت ضائع کیے بنا میری میٹنگ رکھو انعم کے ساتھ اب اگلا داؤ کھیلنے کی باری ہے,,دانی سے اسے اتنا دھچکا نہیں لگا جتنا اس بار لگے گا,, بہت مزہ آےُ گا زبیر کو اس حال میں دیکھنے کا... آہل مسکرا رہا تھا..

جی سر میں کوشش کرتا ہوں ایک دو دن تک آپ کی ملاقات کروا دوں... رفیق مسکراتا ہوا بولا...

اور سر میں سوچ رہا تھا ایک جلسہ منعقد کر لیں اب...

نہیں ابھی کچھ دن رک جاؤ میں ذرا دانی کی طرف سے مطمئن ہو جاؤں پھر جلسے کی جانب متوجہ ہوں گے...

جی سر ٹھیک ہے اور ملازم تنخواہ بڑھانے کی بات کر رہے تھے...

انہیں بولو نئی حکومت بننے کے بعد... آہل کہتا ہوا کھڑا ہو گیا...

جی سر ٹھیک ہے...

آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا چل دیا..

سر کھانا.. کوک اس کے عقب سے بولا..

ہاں کھانا,,, ایسا کرو فروٹ بھیج دو ابھی کھانا کچھ دیر تک... آہل چہرے موڑے بنا بول کر چل پڑا..

وہ جی سر کرتا چل دیا...

آہل کمرے میں آیا تو دانی بکس دیکھ رہی تھی..

یہ تم نے منگوائیں ہیں.. دانی چہرہ اٹھا کر بولی..

ہاں اب بکس کے بغیر تو تم پڑھ نہیں سکتی...آہل کپڑے لے کر نکل گیا...

_________

آہل آج تو تم نہیں بچتے میرے ہاتھ سے... دانی چھری دیکھتی ہوئ بولی...

تم نے میری میگی کو مارا تھا نہ پہلے مجھے گولی ماری,, تمہاری طرف تو بہت حساب ہیں.. وہ آنکھوں میں نمی لیے بولی..

ہاےُ میری میگی کتنی کیوٹ تھی وائٹ ملائم ملائم بالوں والی,, اس جاہل حیات نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا..

لیکن میں ماروں گی کیسے کبھی کسی کو مارا بھی نہیں ہے... دانی چھری کو دیکھتی ہوئ بولی..

دانی چھری اٹھا کر واش روم کے دروازے کے باہر کھڑی ہو گئ,, دانی کے ہاتھ کپکپا رہے تھے کہیں میرے ہی نہ لگ جاےُ... وہ خوفزدہ ہوتی ہوئ بولی...

آہل جیسے ہی باہر نکلا اس کا فون نیچے گر گیا دانی کے چاقو مارا لیکن آہل نیچے جھک گیا...

آہل چہرہ اٹھاےُ دانی کو دیکھنے لگا...

تم یہاں... دانی کے ہاتھ میں چاقو دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا..

آہل نے پلک جھپکتے دانی کے ہاتھ سے چاقو چھین لیا...

دانی یہ بچوں کے استعمال کی چیزیں نہیں جس چیز کو استعمال کرنا نہ آتا ہو اسے پکڑتے نہیں ہیں... وہ خفگی سے بولا..

دانی کلس کر واپس صوفے پر آ بیٹھی..

بہت بری بات ہے... آہل اس کے ساتھ آ بیٹھا..

دانی کی نظر اس کی دائیں بازو پر پڑی جہاں ٹیٹو بنا ہوا تھا,, کچھ اور نہیں دانی لکھا تھا...

تمہیں دانی بہت پسند ہے... وہ ششدہ سی بولی..

آہل اس کے چہرے کو دیکھتا پھر اپنی بازو دیکھنے لگا...

آج اس نے آدھی آستین والی شرٹ پہنی تھی...

ہاں مجھے یہ نام بہت پسند ہے جیسے تمہیں میرا ڈمپل بہت پسند ہے.. وہ نرمی سے بولا..

ہاں میں تو جیسے تمہارے ڈمپل کی خوبصورتی میں قصیدے پڑھتی گونگی ہو گئ ہو نہ... دانی جل کر بولی..

صورتحال تو کچھ ایسی ہی ہے... وہ کھاتا ہوا بولا..

دانی خاموش ہو گئ...

میں تمہیں اس لیے نہیں لایا کہ تم مجھے مارنے کی پلانگ کرو.. وہ دانی کو گھورتا ہوا بولا..

پھر کس لیے لاےُ ہو.. دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئ بولی..

تاکہ مجھے روز روز کوٹھے پر نہ جانا پڑے.. آہل شرارت سے بولا..

تم کوٹھے پر جاتے ہو شرم نہیں آتی... دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی...

اس میں شرم میں والی کون سی بات ہے.. وہ دانی کی شرٹ سے اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا..

مجھے نیند آئ ہے... دانی اس کے تیور بھانپ کر بولی..

سو جانا ابھی بہت ٹائم ہے... آہل دلچسپی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھنے لگا..

آج کس سے ٹائم مانگ کر لاؤ ہو چھوڑو مجھے چھھوندروں والی حرکتیں ہیں تمہاری... دانی اپنی شرٹ چھڑواتی کھڑی ہو گئ...

مطلب تمہارے آنے کے بعد بھی کوٹھے پر جاؤں... وہ دانی کو بیڈ کی جانب جاتا دیکھ کر بولا..

میرہ بلا سے کوٹھے پر جاؤ یا کلب میرا سر مت کھاؤ صبح یونی جانا ہے میں نے... کہ کر وہ لحاف میں گھس گئ..

بہت بےحس ہو.. وہ ناراض ناراض سا بولا..

اور تم غنڈے..

میری شکل دیکھو کہاں سے غنڈہ لگتا ہوں..

غنڈے نہیں بلکہ دہشت گرد ایسا لگ رہا ہے دہشت گردوں کے گروہ نے اغوا کر لیا ہے...

آہل مسکراتا ہوا لیپ ٹاپ اٹھا کر بیٹھ گیا...

************

دانی میں خود تمہیں لینے آؤں گا اور اگر تم نے یونی سے باہر قدم بھی رکھا تو یاد رکھنا تمہارا کیا حال کروں گا میں... آہل سختی سے بولا..

دانی ناگواری سے دیکھتی گاڑی سے اتر گئ...

شکر ہے یونی تو آئ ورنہ اس کمینے نے تو اپنے گھر میں قید کر لیا تھا...

دانین تم...میشو اس کے گلے لگتی ہوئ بولی..

تم کہاں غائب ہوئ نہ تمہارا فون مل رہا تھا نہ تمہاری مام نے کچھ بتایا... وہ فکرمندی سے بولی..

یار وہ خبیث ذلیل آہل حیات ہے کہ اس نے مجھے اغوا کر لیا تھا..

ہاااا,, پھر کیسے واپس آئ تاوان لیا ہو گا...

ہاں تاوان میں فلحال تو نکاح پڑھوایا ہے... دانی منہ بناتی ہوئ بولی.

ہیں تاوان میں نکاح کون کرواتا ہے... وہ حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی...

وہ جاہل حیات... دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

پھر کیا ہوا مجھے بتاؤ یار کتنی انٹرسٹنگ سٹوری ہے... میشو مزے سے بولی..

گولی مار کر نکاح کیا یے اس نے... تمہیں انٹرسٹنگ لگ رہی ہے... دانی چئیر پر بیٹھتی ہوئ بولی..

اچھا پھر بھی سب بتاؤ مجھے... میشو تجسس سے بولی.

واہ دانین تمہیں ایسا عاشق ملا.. وہ حسرت سے بولی..

عاشق نہیں غنڈہ ہے وہ منہ کھولتا ہے تو صرف دھمکیاں باہر نکلتی ہیں... دانی غصے سے بولی...

یہ لاکٹ اس نے دیا.. میشو اس کی گردن کی زینت بنے لاکٹ کو دیکھتی ہوئ بولی..

ہاں.. دانی آہستہ سے بولی..

دانی... میشو نے زیر لب دہرایا..

اب سے میں بھی تمہیں دانی بلاؤں گی..

اب تم اسی کے ساتھ واپس جاؤ گی.. میشو نے سوال داغا...

میرا دماغ خراب نہیں ہوا جو اس کے پاس واپس جاؤ...

پھر... میشو پریشانی سے بولی..

پھر یہ کہ مجھے فون دو ڈیڈ کو بولوں مجھے لینے آئیں...

تمہیں کیا لگتا ہے اس نے کوئ انتظام نہیں کیا ہو گا..

عقبی گیٹ پر پورا دن ڈیوٹی ہے تمہاری ایک منٹ بھی نہیں ہٹنا تم نے وہاں سے سمجھ رہے ہو نہ... آہل اونچی آواز میں بولا..

جی سر...

اور تم اکیلے آگے والے گیٹ کے سامنے اور ہاں اپنا حلیہ بدلو عام لوگوں جیسے کپڑے پہنو,, اگر دانی یونی سے باہر نکلی تو تم سب کی خیر نہیں... آہل سختی سے بولا..

جی سر آپ کو شکایت نہیں ملے گی..

جاؤ اب جلدی...

آہل کہ کر گاڑی میں بیٹھ گیا...

کیا ہو گا لیکن میں جانتی ہوں وہ عقبی گیٹ پر گارڈز کو تعینات کرے گا آگے بھی شاید کرے لیکن دوسرے گیٹ پر زیادہ سخت ہو گی میں آگے والے گیٹ سے جاؤں گی اس نے سوچا ہو گا دانی اگلے گیٹ سے جانے کی حماقت نہیں کرے گی لیکن میں اسی سے جاؤں گی اور ایسے نہیں جاؤں گی..دانی اسے لائحہ عمل بتاتی ہوئ دیکھنے لگی..

پھر...

پھر کیا کسی سے برقع لے کر دو مجھے تاکہ جو کوئ کھڑا ہو مجھے دیکھ نہ سکے..

دانی پلان تو صحیح ہے لیکن اگر تم پھنس گئ پھر... وہ پریشانی سے گویا ہوئ..

پھر کیا گولی نہیں مارے گا میں جانتی ہوں..

کیوں اس نے پہلے بھی تو ماری...

اب نہیں مارے گا... دانی پراعتماد تھی...

اچھا پھر یہ لو فون.. میشو اسے فون تھماتی ہوئ بولی..

ہاےُ دانین... ارحم دور سے آتا دکھائ دیا..

متوسط قدامت, گندمی رنگ بھورے بال وہ نارمل سی شکل کا مالک تھا...

کیسے ہو ارحم.. دانی اسے دیکھتی ہوئ بولی..

میں تو بلکل ٹھیک ہوں لیکن تم کہاں غائب تھی...

پہلے آتے تو تم بھی سن لیتے اب میشو سے سن لینا پوری کہانی میں کال کر کے آئ...

دانی سائیڈ پر آ گئ...

ارحم آبرو اچکا کر میشو کو دیکھنے لگا..

بعد میں بتاؤں گی...

ڈیڈ ابھی آئیں اس کا کوئ بھروسہ نہیں کسی بھی وقت ٹپک سکتا ہے..

اچھا میں گاڑی بھیجواتا ہوں اگر خود آیا تو اس کے لوگ چوکنا ہو جائیں گے...

ٹھیک ہے جلدی بھیجیں... دانی اکتا کر بولی..

آپ لوگوں کی سیاست میں مصیبت مجھے پڑی ہے... دانی کوفت سے بولتی واپس آ گئ..

میشو مجھے اب برقع لا کر دو جلدی, ایک منٹ وہ جو اسلامیات والی پروفیسر ہیں ان سے لے آؤ میرے پاس پیسے نہیں ورنہ دے دیتی...

تم فکر مت کرو میں دے دوں گی بلکہ انہیں نیا منگوا دوں گی ڈرائیور لینے آےُ گا تو لے آےُ گا میں گھر فون کر دوں گی.. کہتی ہوئ وہ نکل گئ..

دانین سپیچ کمپٹیشن... ارحم اسے دیکھتا ہوا بولا..

آئ ریمیمبر اور ہمیشہ کی طرح میں ہی ونر ہوں گی... دانی تفاخر سے بولی..

گریٹ,, تم آ گئ ہو تو میں سوچ رہا تھا باہر چلیں کہیں...

فلحال میں کہیں نہیں جا سکتی جب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جاتا...

کیا مطلب..

وہ الجھ کر دانی کو دیکھنے لگا...

میشو سمجھا دے گی تمہیں..

دانی سب سیٹ ہے نہ.. میشو گھبرا کر بولی..

ہاں ڈیڈ نے سب سیٹ کر لیا ہو گا تم فکر مت کرو.. دانی نقاب کرتی ہوئ بولی..

میشو میری ہیلپ کرو سمجھ نہیں آ رہا کیسے کروں... دانی سکارف کے ساتھ الجھتی ہوئ بولی..

آتا تو مجھے بھی نہیں ہے لیکن تھوڑا بہت کوشش کرتی ہوں.. میشو کہتی ہوئ اس کی مدد کروانے لگی..

دانی گیٹ پر آئ تو سامنے مہران کھڑی دکھائ دی,, وہ نارمل انداز میں چلتی ہوئ گاڑی میں آ بیٹھی...

گارڈ نے اسے دیکھا لیکن پہچان نہیں سکا پھر گاڑی دیکھ کر وہ سمجھا کہ یونی کی کوئ لڑکی ہو گی...

جیسے ہی ڈرائیور گھر کی جانب چل دیا دانی سانس خارج کرتی مسکرانے لگی..

آہ شکر ہے اس آہل سے تو جان چھوٹے گی... دانی مسرور سی بولی...

نقاب نہیں ہٹاتی ابھی راستے میں کسی نے دیکھ لیا تو وہیں عود پڑے گا... دانی نے ہاتھ نیچے کر لیا...

گاڑی ان کے محل نما گھر کے پورچ میں آ رکی.. زبیر رنداوھا وہیں کھڑے تھے..

ڈیڈ... دانی کھلکھلاتی ہوئ ان کے سینے سے آ لگی...

میری جان شکر ہے واپس آ گئ... زبیر پرسکون سے بولے...

تھینک گاڈ اس نے مجھے یونی جانے دیا ورنہ ناجانے کب تک مجھے اپنے گھر میں مقید رکھتا... دانی منہ بسورتی ان کے ساتھ چلنے لگی..

بس زیادہ دن نہیں چلتی حکومت پھر چاہے کسی کی بھی ہو... وہ بیٹھتے ہوۓ بولے..

دانین تم آ گئ... ثانیہ اس کے گلے لگتی ہوئ بولی..

انعم کہاں ہے... دانی برقع اتارتی ہوئ بولی..

اپنے کمرے میں ہے... زبیر ہنکار بھرتے ہوۓ بولے..

اسے میرے آنے کی خوشی نہیں ہوئ... دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئ بولی...

اس کے لیے سوگ منانا زیادہ اہم ہے..

ثانیہ منہ بناتی ہوئی بولی..

کون سا سوگ... دانی الجھ گئ..

اس رحیم سے نکاح کیا ہوا تھا میڈم نے تمہارے ڈیڈ نے طلاق دلوائ ہے اب... ثانیہ نے مختصر بتا دیا..

اووووہ... دانی افسوس سے انہیں دیکھنے لگی..

انعم کہاں جا رہی ہو... انعم شانے پر بیگ ڈالے باہر کی جانب چلتی ہوئ دکھائ دی..

میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی... وہ سپاٹ چہرہ سے کہتی باہر نکل گئ..

کسی کو بھیجیں اس کے پیچھے.. ثانیہ فکرمندی سے بولی..

جانے دو رحیم سے ملنے جا رہی ہو گی میں نے ہی اجازت دی تھی ایک بار ملنے کی... وہ کوفت سے بولے..

اچھا.. کہ کر ثانیہ موبائل کو دیکھنے لگی...

مام کہاں... دانی انہیں کھڑا دیکھ کر بولی..

دانین میری بکنگ ہے پارلر میں مجھے وہاں جانا ہے آ کر تم سے بات کروں گی...

دانی بس انہیں دیکھ کر رہ گئ اور وہ چلتی بنی...

کہاں گولی ماری تھی اس نے.. زبیر فکرمندی سے بولی..

بازو پر ماری تھی.. دانی بائیں بازو پر ہاتھ رکھتی ہوئ بولی.

اب کیسی ہے,, ڈاکڑ کو بلاؤں..

نہیں اب بہتر ہے یونی جانے سے پہلے ڈاکڑ نے بینڈیج چینج کی تھی...

زبیر اثبات میں سر ہلاتے موبائل کو دیکھنے لگے...

سر... آسم اس کے عقب سے بولا..

ہاں... زبیر چہرہ موڑ کر بولے..

بات کرنی تھی...

دانیین میں آتا ہوں... کہ کر وہ ڈرائینگ روم میں چلے گۓ...

سب کو اپنے اپنے کاموں کی پڑی ہے میں اتنے دن اس ذلیل کے پاس رہی کسی کو پرواہ ہی نہیں.. دانی افسوس سے کہتی اپنے کمرے کی جانب چل دی...

سر اس ویٹر کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے... آسم بےچارگی سے بولا..

زبیر مسکرانے لگے..

بہت خوب دانین بھی واپس آ گئ ہے چیزیں پھر سے ٹریک پر آ گئیں ہیں تم ایسا کرو اب الیکشن کی تیاری کرو اسی ہفتے ایک جلسہ ہو جانا چائیے وہ آہل حیات ابھی اپنے کاموں میں مصروف ہے پھر اس کے بعد وہ دوسرا کام کریں گے... وہ طمانیت سے بولے...

ٹھیک ہے سر پھر میں انتظامات کرتا ہوں... وہ سر ہلاتا نکل گیا...

تم نے مجھے کیوں بلایا یے... انعم ناگواری سے بولی...

آہل ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ بلیو فور پیس پہنے تفاخر سے بیٹھا تھا..

گردن تنی ہوئ تھی...

بہت افسوس ہوا تمہاری طلاق کا سن کر... آہل دکھ سے بولا..

انعم نے بےچینی سے پہلو بدلا...

تمہیں کیسے علم ہوا..

آہ.,,آہل حیات کو علم ہو جاتا ہے اس بات کو مت سوچو کیسے..

پھر کیوں بلایا یے مجھے...

تمہارے باپ نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ مجھے بہت افسوس ہے خیر میں تمہیں رحیم سے ملوا تو نہیں سکتا ہاں لیکن بدلہ لینے میں مدد کر سکتا ہوں..

انعم آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی...

تم میرا بدلہ کیوں لو گے بدلے میں کیا چائیے تمہیں...

نہیں مجھے کچھ بھی نہیں چائیے بس کچھ پرانے حساب چکتا کرنے ہیں تمہارے باپ سے...

اور اگر میں نے جا کر ڈیڈ کو سب بتا دیا پھر...

تم نہیں بتاؤ گی ایک ایسے باپ کو جسے صرف اپنی ایک ہی بیٹی سے پیار ہے... آہل زخموں پر نمک چھڑکنے لگا...

اس بیٹی سے جو دوسری سے بیٹی سے زیادہ خوبصورت ہے... وہ پے در پے وار کر رہا تھا...

انعم زخمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

کیا کرو گے تم... وہ مفاہمت پر اتر آئ...

گڈ,, کرنا یہ ہے کہ تمہارے باپ کی آئل ریفائنری میں بس آگ لگانی ہے...

بس...انعم کی آنکھیں پھیل گئیں...

ہاں ایسے ہی لیا جاتا ہے بدلہ اس انسان کی سب سے عزیز چیز کو تباہ کر دو اور تمہارے باپ کے لیے پیسے سے اہم کچھ بھی نہیں اب دانی کو مار نہیں سکتے ہم اس لیے آئل ریفائنری سے کام چلانا پڑے گا ویسے بھی قصور تمہارے باپ کا ہے دانی کا نہیں.. وہ سمجھاتا ہوا بولا..

اور آگ کیسے لگے گی.. انعم الجھ گئ..

تم لگاؤ گی...

میں کیسے... وہ ششدہ سی بولی..

تمہیں بس وہاں جا کر سیٹلمینٹ کرنی ہے کسی ایک ملازم کے ساتھ اور کام ہو جاےُ گا...لیکن اس میں میرا بھی نقصان ہے...

ہاں مالی مدد میں تمہاری کر دوں گا جب جتنے پیسے بولو گی مل جائیں گے اگر چاہو تو ایگریمینٹ کر لو آہل حیات اپنی زبان سے نہیں پلٹتا... وہ ٹیک لگاتا ہوا بولا..

کب کرنا ہے..

میری طرف سے آج ہی چلی جاؤ ریفائنری چکر لگانے...

ہمممم ٹھیک ہے اپنا نمبر دے دو میں تمہیں آگاہ کر دوں گی.. وہ کھڑی ہوتی ہوئ بولی..

میرا نمبر تمہیں رفیق دے دے گا.. وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا...

انعم مصافحہ کرتی چلی گئ...

سر ایک بری خبر ہے... رفیق اندر آ کر بولا...

ڈونٹ ٹیل می کہ ڈانی چلی گئ ہے... آہل اس کی گھبراہٹ دیکھ کر بولا..

جی سر... وہ مایوسی سے بولا..

لعنت ہو تم سب پر,, وہ لڑکی چکما دے کر چلی گئ سو رہے تھے کیا سب کے سب... آہل رفیق پر دھاڑا...

سر میں نے معلوم کیا ہے لیکن بقول ان کے دانی میم باہر نکلی ہی نہیں...

باہر نہیں نکلی تو کیا آسمان کھا گیا اسے اور تمہیں کیسے معلوم ہوا پھر... آہل کی پیشانی پر لکریں ابھریں..

سر آسم کا فون آیا تھا... وہ سر جھکاےُ بولا..

سارے کے سارے فضول ہیں سب کو نکال دو انہیں پیسے میں گپے ہانکنے کے دیتا ہوں نہ.. آہل کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا..

سر اب کیا کرنا ہے...

آہل دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ٹہلنے لگا..

ابھی رہنے دو اسے اپنے باپ کے گھر دو دن خوش ہو جاےُ پھر میں خود دیکھتا ہوں... وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا...

میم آپ کے مہمان آےُ ہیں... ملازم ناک کر کے بولا..

کون سے مہمان... ثانیہ کی پیشانی پر لکریں ابھریں..

میم آپ کی چھوٹی بہن اور ان کی فیملی..

ہوں.. اب ان غریبوں سے جا کر ملوں میں اتنا ٹائم ہوتا ہے میرے پاس... ثانیہ منہ بناتی ہوئ بولی..

اچھا تم ایسا کرو بوتل وغیرہ رکھو میں آتی ہوں اور سنو زیادہ سامان مت رکھنا بس ایک دو چیزیں رکھ دو... وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی..

جی میم..

_________

ہاں کیسی ہو آسیہ... ثانیہ منہ بناتی ہوئ بولی.

میں ٹھیک تم کیسی ہو... وہ گلے ملتی ہوئیں بولیں..

میں بھی ٹھیک ہوں, بیٹھو.. وہ ناپسندیدگی سے بولیں...

کیسی ہیں آنی... انعم خوشدلی سے بولتی ان کے پہلو میں بیٹھ گئ...

بچو ہاتھ نہیں لگانا اسے... وہ گلدان دیکھ رہے تھے..

بہت مہنگا ہے یہ ٹوٹ جاےُ گا یہاں آ جاؤ.. ثانیہ ناگواری سے بولی...

زبیر بھائ نے بلایا تھا انہیں کوئ کام تھا ان کے بابا سے.. وہ ثانیہ کو دیکھتی ہوئ بولی جو جبراً مسکرا رہی تھی..

ثانیہ ہمممم کہ کر موبائل میں مصروف ہو گئ..

ہاےُ ثانیہ... ایک ماڈرن سی خاتون مسکراتی ہوئیں اندر آئیں..

ثانیہ اٹھ کر اس کے گلے لگیں..

کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو جا کر کچھ لاؤ... ثانیہ ملازم کو گھورتی ہوئیں بولیں..

دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں ٹیبل مختلف انواع کے لوازمات سے بھر چکا تھا..

بیٹھو نہ,, کتنے دنوں بعد آئ ہو... ثانیہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی..

آسیہ افسوس سے بہن کو دیکھنے لگی وہ جو مہینوں بعد آئ تھی اس سے بات کرنے کو ایک لفظ تک نہ تھا اور جو دنوں بعد مل رہی اس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئ..

ماما آپ کیوں ہمیں لے آتیں ہیں یہاں...

بچو میں نے بلایا ہے آپ کو... انعم مسکراتی ہوئ بولی..

پندرہ سالہ ثمرین مسکرانے لگی..

آسیہ اس کے بولنے پر گھورنے لگیں..

میں نے سوچا آپ لوگ کب سے نہیں آےُ نیو ائیر پارٹی پر بھی نہیں آےُ.. انعم آسیہ کو دیکھتی ہوئ بولی...

ہمیں تو انویٹیشن نہیں ملا... آسیہ حیرت سے بولی..

مام... انعم نے باتیں کرتی ثانیہ کو ٹوکا..

آپ نے آنی کو انویٹیشن نہیں دیا تھا کیا... وہ حیرت سے بولی..

اووہ میں بھول گئ آئم سو سوری... ثانیہ افسوس سے بولی..

تمہارا نمبر بھی ڈیلیٹ ہو گیا تھا مجھ سے آسیہ اسی لیے یاد نہیں رہا... وہ مظلومیت سے بولی..

کوئ بات نہیں... آسیہ مسکراتی ہوئ بولی..

ماما گھر کب جانا ہے..

چھ سالہ بچی ان کا پلو کھینچتی ہوئ بولی..

ثمرین آپ دونوں کو گارڈن میں لے جاؤ کھیلو وہاں پر... انعم نے مداخلت کی..

ثمرین سر ہلاتی دونوں کو لے گئ...

ہاں تم نے دیکھا تھا اس کا ڈریس بلکل ہی بےکار تھا اور کہ رہی تھی دوبئی سے لیا ہے جھوٹ بول رہی تھی صاف پتہ چل رہا تھا.. ثانیہ پیشانی پر بل ڈالے بول رہی تھی..

آنی انکل کی جاب سیٹ نہیں ہوئ... انعم فکرمندی سے بولی..

نہیں ویسے ہی ہے لیکن شکر ہے اللہ کا گھر کا سسٹم چلتا جا رہا ہے.. وہ ایک صابر خاتون تھیں..

میں نے ڈیڈ کو بولا تھا لیکن وہ کہتے اگر اب ہماری حکومت آ گئ تو پھر..

کوئ بات نہیں انعم تم نے کہا اتنا ہی بہت ہے... وہ مشکور تھیں...

دانین کہاں ہے...

وہ سو رہی ہے کمرے میں...

دانی جمای روکتی لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئ وہ نیوز فیڈ چیک کر رہی تھی جب آہل کی کال آنے لگی..

ایسے موت کے فرشتے کی مانند نازل ہوتا ہے.. دانی کال کٹ کرتی ہوئ بولی..

دانی پک اپ دی کال اور آئ ویل... اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر بھیج دیا...

بس دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں آتا اسے... دانی کوفت سے بولی..

دانی نے نہ چاہتے ہوۓ بھی فون اٹھا لیا..

کیا مصیبت ہے تمہیں... دانی کی آواز ابھری..

آہل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئ...

بہت سمارٹ ہو مجھے دھوکہ دے کر چلی گئ.. وہ ٹیبل پر پاؤں رکھتا ہوا بولا..

ہاں تو میں نے جانا نہیں تھا تمہارے ساتھ ہی رہتی کیا..

نکاح اس لیے تو کیا تھا تاکہ میرے ساتھ رہو...

تو اب طلاق دے دو کیونکہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی...

دانی ڈئیر تم بھول رہی ہو ایگریمینٹ ہوا تھا ہمارا میں جب چاہوں تمہیں اٹھا کر لے جا سکتا ہوں دنیا کی کوئ عدالت مجھے روک نہیں سکتی.

جاہل انسان... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

جو کرنا ہے کر لو مجھے کیا.. دانی لاپراواہی سے بولا..

اچھا چلو میں نے سمجھ لیا کہ تم میکے گئ ہو اب رات کو ریسٹورینٹ آ جانا...

کون سے ریسٹورینٹ اور کیوں.. دانی کی آنکھیں پھیل گئیں..

میں نے تم سے کہا تھا جب کہوں گا تم آؤ گی...

تمہارے باپ کی ملازم نہیں ہوں میں.. دانی تنک کر بولی.

پھر تم مجھے مجبور کرتی ہو کہ میں زبردستی کروں...

میں نے کیا تمہارے پاؤں پکڑے ہیں کہ مجھے آ کر لے جاؤ جو تم مجبور ہو رہے ہو...

ایک دن ایسا بھی ہو گا... آہل کا لہجہ پراعتماد تھا..

بلی کے خواب میں چھچھیڑے... دانی منہ بسور کر بولی..

ہاہاہاہا اور تمہارے خواب میں...

تمہارا سر...

مطلب میں ہی ہوں گڈ ہونا بھی ایسا ہی چائیے میں تمہیں ٹیکسٹ کر دوں گا کب کہاں آنا ہے ٹھیک ہے...

تم پک کرنے آؤ گے... دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں..

اتنا فارغ نہیں میں تمہیں پک کرنے آؤں خود آ جانا ڈرائیور کے ساتھ...

ہو گئ تمہاری بکواس...

آہل کا ڈمپل گہرا ہوا..

ہاں اب تم کر لو..

مس کر رہی ہو مجھے... آہل چند پل کی خاموشی کے بعد بولا..

پتھر نہیں پڑے میرے دماغ پر جو تم جیسے جنگلی کو مس کروں گی میں...

ویل ٹائم پر پہنچ جانا انتظار سے سخت کوفت ہے مجھے بعد میں نتیجے کی ذمہ دار تم خود ہو گی...

ہر چیز کی ذمہ دار میں ہی ہوں اس ملک میں جتنے غلط کام ہو رہے سب کی ذمہ دار بھی دانی ہے تم تو خود کے بھی ذمہ دار نہیں ہو نہ... دانی کلس کر بولی..

ٹھیک ہے جنگلی بلی رات میں ملتے ہیں...

تم سے ملنے کے لیے تو جہنم میں آنا پڑے گا کیونکہ وہی بیسٹ جگہ ہے تمہارے لیے..

آہل نے مسکراتے ہوۓ فون بند کر دیا...

پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو.. دانی ہنکار بھرتی بیڈ سے نیچے اتر گئ...

بکھرے بالوں کو کیچر میں قید کر کے بالکونی میں نکل آئ...

سورج ڈھل رہا تھا دانی اس ڈھلتے سورج کو دیکھنے لگی...

اف رات ہو گی پھر اس جاہل کو جھیلنا پڑے گا..

دانی سوچتی ہوئ وارڈروب کھول کر کھڑی ہو گئ...

کیا پہنوں... وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی...

دانی کی نظر لاکٹ پر پڑی...

کمینے نے میرے نام کا ٹیٹو بنوا رکھا ہے... منہ بناتی ہوئ بولی...

پتہ نہیں کیسے میری جان چھوٹے گی اس جاہل سے ناجانے کہاں سے میرے پیچھے لگ گیا ہے...

دانی ڈریس نکالتی ہوئ بڑبڑانے لگی...

یہاں ہوتا نہ تو سب سن چکا ہوتا... دانی لاشعوری طور پر اس کے متعلق سوچ رہی تھی...

مدھم روشنیوں میں آہل ایک ٹیبل پر بیٹھا گھڑی دیکھ رہا تھا..

یہ لڑکی ہمیشہ وہی کرتی ہے جس کام سے منع کرو... وہ کوفت سے بولا...

اسی اثنا میں دانی آتی ہوئ دکھائ دی...

ریڈ کلر کی شرٹ پہنے ساتھ میں وائٹ جینز سیاہ سلکی بال آدھے کیچر میں مقید تھے پنک کلر کی لپ اسٹک اسے جاذب نظر بنا رہی تھی.. آہل اسے دیکھ کر مسکرانے لگا...

دانی اس کے سامنے والی چئیر کھینچ کر بیٹھ گئ....

لڑکی آتی ہے تو بندہ اٹھ کر بٹھاتا ہے اسے لیکن مجال ہے جو اخلاقیات سے تمہارا دور دور تک کوئ ناطہ ہو... دانی بیٹھتی ہی شروع ہو گئ..

تمہارا خاصا قریبی تعلق ہے اس لیے مجھے ضرورت نہیں... وہ مسکرایا تو گال کا ڈمپل نمایاں ہوا...

کیوں بلایا ہے مجھے..

ڈنر کرنے کے لیے... وہ کہنیاں ٹیبل پر رکھے باہم ہاتھوں کو ملاتا ہوا بولا..

کیوں میں تمہیں لقمے دیتی ہوں... دانی گھور کر بولی.

کچھ ایسا ہی سمجھ لو...

ہوں... دانی ہنکار بھرتی بائیں جانب دیکھنے لگی...

ویٹر کھانا سرو کرنے لگا...

یہاں سے تم میرے ساتھ جاؤ گی... آہل پلیٹ میں ڈالتا ہوا بولا..

میں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ... دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی..

تم مجھے بہت غصہ دلاتی ہو...

آہل مٹھیاں بھینچ کر بولا...

تو میں کیا کروں.. دانی شانے اچکاتی کھانے لگی..

میرے ساتھ چلو چپ کر کے...

ایک ہی بار منہ پر ایلفی نہ لگا لوں میں جو بار بار بولتے ہو خاموش ہونے کا... دانی کلس کر بولی..

نہیں پھر تم مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کرو گی...

اچھا مذاق کر لیتے ہو... اور ہاں مجھے بتاؤ یہاں پبلک پلیس میں بھی تم مجھ پر گن رکھو گے کیا ساتھ لے جانے کے لیے... دانی آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھنے لگی..

ایک منٹ جنگلی بلی.. آہل فون کان سے لگاتا سائیڈ پر آ گیا...

کیا ہوا رفیق...

سر آگ لگ چکی ہے اور تقریباً ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے بہت مشکل ہے کوئ ایک چیز بھی بچ جاےُ...

بہت خوب... آہل مسکراتا ہوا بولا..

لیکن اب دانی کو واپس لازمی لانا پڑے گا... آہل فکرمندی سے بولا..

سر آپ انہیں اپنے ساتھ لے آئیں..

نہیں رفیق یہاں زبردستی نہیں کر سکتا.. آہل پیشانی مسلتا ہوا بولا..

پھر سر کیا حکم ہے...

ایسا کرو ابھی جانے دو اسے کل صبح کی پلانگ کر لو یونی سے سب کچھ سیٹ کر لے لینا میں کوئ ایشو افورڈ نہیں کر سکتا... آہل سختی سے بولا..

جی سر آپ ٹینشن مت لیں...

آہل فون بند کر کے واپس آ گیا...

یہ رفیق تمہارا مشیر خاص کم اور گرل فرینڈ زیادہ لگتا ہے... دانی گلاس لبوں سے ہٹاتی ہوئ بولی..

تمہیں جلن ہوتی ہے...

جلیں میرے دشمن... دانی سر جھٹکتی ہوئ بولی..

اچھا ٹھیک ہے پھر تم گھر جا سکتی ہو کچھ دن رہ لو لیکن آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے.. آہل ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا..

تمہاری سوچ ہے جس دن میں واپس آؤں نہ اس دن مجھ سے بات کرنا...

چیلینگ کر رہی ہو... آہل محظوظ ہوا..

جو مرضی سمجھ لو ویسے بھی تمہیں زبان سے کی گئ باتیں تو سمجھ نہیں آتیں صرف اسلحہ اور بارود کی زبان سمجھ آتی..

گھر جانے کا ٹائم ہو گیا اٹھو.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

تم میرے باپ نہیں ہو... دانی گھور کر بولی..

بلکل میں تمہارا شوہر ہوں... آہل اس کے پاس آتا ہوا بولا.

دانی ہنکار بھرتی اٹھ گئ...

ابھی میں نے کھایا بھی نہیں تھا..

اپنے باپ کے گھر سے کھا لینا یقیناً وہ تمہیں لنگر پر نہیں ٹالتا ہو گا... آہل مسکراتا ہوا بولا..

وہ دونوں ایک ساتھ چل رہے تھے جونہی وہ باہر نکلے میڈیا بےصبری سے آگے آ گیا...

سر کیا آپ دونوں کی منگنی ہو گئ ہے...

کیا رشتہ یے آپ کا دانین زبیر سے...

سر یہ مخالف پارٹی سے ہیں آپ کے ساتھ ان کی موجودگی کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہے..

آہل نے ایک نظر دانی پر ڈالی جو جی بھر کر سب کو گھوری سے نواز رہی تھی پھر دانی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر میڈیا کو دیکھنے لگا...

یہ میری منکوحہ ہیں...

آہل نے گویا دھماکہ کر دیا..

دانی سمیت سب ششدہ رہ گۓ...

سر کب ہوا آپ کا نکاح کیا آپ دونوں نے الحاق کر لیا ہے...

تھینک یو... آہل مسکراتا ہوا دانی کو لیے چلنے لگا...

گارڈز اس کے لیے راستہ بنا رہے تھے..

آہل تمہارا دماغ سیٹ ہے... دانی گاڑی کے پاس آ کر بولی..

بلکل تمہارے ساتھ... وہ شرارت سے بولا..

ڈوب کر مر جاؤ تم اب یہ میڈیا پاگلوں کی طرح اس نیوز کو چلاےُ گا...

تو چلا دے میں نے جھوٹ نہیں بولا..

عین اسی لمحے ایک لڑکا دانی کے ساتھ سے گزرا اور جاتے جاتے اپنے ہاتھ سے دانی کا ہاتھ پکڑا آہل کی نظر سے وہ بچ نہ سکا البتہ دانی اس کی پشت کو گھورنے لگی..

رفیق اس لڑکے کو سائیڈ پر لے کر جاؤ میں آ رہا ہوں.. آہل عقب میں کھڑے رفیق کو آہستہ آواز میں کہ کر دانی کو دیکھنے لگا...

جنگلی بلی اب گھر جاؤ تم شاباش... آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی گاڑی میں بیٹھ گئ...

_________

سر کیا ہوا.. رفیق متعجب سا بولا..

تم اس لڑکے کو سائیڈ پر لگاؤ میں آ رہا ہوں..

آہل کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا..

رفیق اسے بہانے سے ایک تاریک اور سنسان گلی میں لے آیا...

میں پچھلے ہفتے ملا تھا تم سے یاد ہے... رفیق جھوٹ بول کر اسے روکنا چاہ رہا تھا..

نہیں مجھے یاد نہیں کہ آپ مجھ سے ملے ہوں گے... وہ آنکھوں میں حیرت لیے بولا..

آہل تن فن کرتا وہاں آیا..

مٹھیاں سختی سے بند کر رکھی تھیں گردن کی رگیں تنی ہوئیں تھیں اور آنکھوں میں لہو دوڈ رہا تھا...

آہل نے گارڈ کو اشارہ کیا

گارڈ نے اس لڑکے کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی.آہل اس کے سامنے آیا اور وہی ہاتھ پکڑا جس سے دانی کا ہاتھ پکڑا تھا آہل نے زور سے ہاتھ نیچے کیا اور ہڈی ٹوٹنے کی آواز برآمد ہوئ...

آااا... کون ہو تم... آہ... وہ کراہ رہا تھا..

دوبارہ یہ دانی کو ہاتھ لگانے کا سوچے گا بھی نہیں... آہل رفیق کو دیکھتا ہوا بول کر چل دیا.. گاڑیاں گلی کے دہانے پر کھڑی تھیں آہل گارڈز کے بیچ چلتا بیٹھ گیا ساتھ ہی رفیق بھی بھاگ کر ان کے ساتھ آ بیٹھا...

وہ لڑکا دوسرے ہاتھ سے پٹی ہٹاےُ ہقہ بقہ سا آس پاس دیکھنے لگا لیکن کوئ دکھائ نہ دیا چہرے پر تکلیف کے آثار تھے..

آہل کا چہرہ ابھی تک سرخ تھا..

رفیق مجھے اس بات سے کوئ مسئلہ نہیں کہ وہ گارڈز کے ہوتے ہوۓ وہاں سے کیسے گزرا,,وہ دانی کو جان بوجھ کر چھو کر گزرا اور یہ میں کبھی معاف نہیں کر سکتا...

سوری سر نیکسٹ ٹائم سیکورٹی ٹائٹ رکھوں گا اور گارڈز بھی چینج کروں گا یہ کام صحیح نہیں کر رہے..

جو مرضی کرو لیکن کل صبح کوئ شکایت نہ ملے مجھے کیونکہ اب اصل کھیل شروع ہو رہا ہے... آہل زبیر کے متعلق سوچتا ہوا بولا...

زبیر سر تھامے بیٹھے تھے...

کیا ہوا آپ کو... ثانیہ فکرمندی سے بولی..

سب کچھ تباہ ہو گیا پوری فیکڑی میں آگ پھیل گئ ایک ایک چیز کو ختم کر دیا.. وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولے...

فکر نہ کریں پھر سے سیٹ کر لینا...

تمہارا دماغ درست ہے پھر سے سیٹ کرنے میں کڑوروں روپے لگے گے سارا جمع کیا پیسہ اب اُدھر لگانا پڑے گا بیٹھے بٹھاےُ مصیبت پڑ گئ.. وہ کوفت سے بولے...

ثانیہ افسوس کرتی بیٹھ گئ...

آسم معلوم ہوا یہ کس کا کام ہے... وہ فون کان سے لگاےُ بولے..

ثانیہ بال کھولے برش کرنے لگیں...

نہیں سر فلحال تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا اور آگ نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے ایسے میں معلوم کرنا اور بھی مشکل ہے ناجانے کیسے آگ لگ گئ... وہ پریشانی سے بولا..

زبیر نے غصے سے فون رکھ دیا...

دانی تم اس آہل سے ملنے کیوں گئ تھی...

چند ساعتوں بعد وہ دانی کے کمرے میں کھڑے تھے...

ڈیڈ وہ پبلک پلیس میں مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا ویسے بھی میں نے ایگریمینٹ سائن کیا تھا نا جاتی تو خود آ جاتا مجھے اٹھانے...دانی شانے اچکاتی ہوئ بولی...

لیکن پھر بھی اگر وہ تمہیں لے جاتا پھر...

ڈیڈ اگر میں نہ جاتی تو وہ کورٹ چلا جاتا ہر حال میں ہمیں ہی گھٹنے ٹیکنے پڑتے سو میں نے یہاں گھٹنے ٹیکنے بہتر سمجھے...

اس نے بھی ہر طرف سے پھنسا رکھا ہے نہ نکل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں... وہ آگ بگولہ ہوتے نکل گۓ...

اب میڈیا اس خبر کو ایسے اچھالے گا جیسے دوسرا کوئ کام ہی نہیں ہے... وہ چلتے ہوۓ بڑبڑا رہے تھے....

اب کیا کہنا چاہتے ہو رحیم.. انعم خود پر ضبط کرتی ہوئ بولی...

رحیم زخمی نظروں سے اسے دیکھنے لگا...

تم نے یقین کر لیا انعم... وہ دکھ سے بولا..

تمہارے سائن تھے... بولتے بولتے انعم کی آواز بھرا گئ...

تو کیا سائن لیے نہیں جا سکتے...

کیسے لیے تم سے سائن بتاؤ... انعم نے بےچینی سے پہلو بدلا...

یہ قیمت لگائ تمہارے باپ نے ہمارے پیار کی... وہ بریف کیس اوپر رکھتا ہوا بولا..

انعم کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے...

اور صرف یہی نہیں فری میں دھمکی بھی دی کہ بہنیں جوان ہیں ان کا خیال کرو... رحیم کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا..

انعم آنسو بہاتی نفی میں سر ہلانے لگی..

انعم اگر بات میری ہوتی تو میں موت کو بھی گلے لگا لیتا لیکن میری بہنوں کا کوئ قصور نہیں اس سب میں, میں انہیں اپنے پیار کی سزا نہیں دے سکتا تھا.. وہ نم آنکھوں سے بول رہا تھا اور انعم کے لیے اس کے مقابل بیٹھنا دوبھر ہو رہا تھا وہ کیا سوچ رہی تھی اور حقیقت کیا تھی...

رحیم کیوں آخر کیوں ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہم نے تو نکاح بھی کر لیا تاکہ ہماری محبت پر داغ نہ لگے پھر کیوں ہم الگ ہو گۓ ہماری راہیں کیوں جدا ہو گئیں اور اس طرح کے اب کبھی نہیں مل سکتے ساری راہیں مسدود ہو گئ ہیں.. انعم کے آنسوؤں میں روانی آ گئ...

رحیم بےبسی سے اسے دیکھنے لگا...

ہوتی ہے کتنی تکلیف یہ درد دینے والے کیا جانے..

محبت کی رسمیں زمانے والے کیا جانیں..

تمہارے باپ جیسے لوگ محبت کے مفہوم نہیں جانتے اس لیے اس پاک رشتے کو ختم کر دیا وہ رشتہ جسے اللہ پسند کرتا ہے لیکن ان کے لیے پیسہ سب سے اہم ہے ہم جیسے لوگ تمہارے برابر کھڑے ہونے کے اہل نہیں.. وہ بامشکل آنسوؤں پر بندھ باندھے ہوۓ تھا...

انعم نفی میں سر ہلاتی آنسو بہا رہی تھی...

کیسے رحیم میں کیسے رہ لوں تمہارے بنا میں نے سائن کر کے خود سے راےُ قائم کر لی تھی کہ تم نے اپنی مرضی سے سائن کیے ہیں اب میں کہاں جاؤں کیسے اپنے دل کو سمجھاؤ تم میرے سامنے بیٹھے ہو لیکن اتنے دور ہو کہ میں ساری زندگی بھی سفر کروں تو یہ مسافت طے نہیں کر سکتی...

محبت کرنا گناہ نہیں لیکن ناجانے کیوں لوگ اسے جرم قرار دے کر سنگین سزا سنا دیتے ہیں... رحیم سر جھکاےُ بول رہا تھا..

ہماری محبت تو غلط نہ تھی کتنے سالوں سے ہمارا نکاح ہوا ہے تمہیں پسند کرتے ہی میں نے اس لیے پہلی بات ہی نکاح کرنے کی,, کی تھی کیونکہ جو محبت کرتے ہیں وہ حرام رشتوں میں وقت کا ضیاع نہیں کرتے ہماری محبت بھی سچی تھی اور پاک بھی لیکن پھر بھی ہم آج جدا ہیں...

انعم ہم دونوں ہی بےبس ہیں ہماری محبت ہار گئ اور یہ ظالم زمانہ جیت گیا... وہ آنکھ کا گوشہ صاف کرتا چلا گیا...

انعم کا چہرہ متواتر آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا پہلے صرف تکلیف تھی لیکن اب حد سے سوا تھی...

وہ ہاتھ کی پشت کی چہرہ صاف کرتی کھڑی ہوئ بریف کیس اٹھایا اور چل دی...

***********

دانی پروفیسر کے آفس میں تھی...

آہل اس کے عقب سے نمودار ہوا اس نے ہونٹ پر انگلی رکھ کر پروفیسر کو بولنے سے باز رکھا..

آہل کے ہمراہ گارڈز کی نفری تھی...

آہل کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی دانی کے عین عقب میں کھڑے ہو کر اس کے ہاتھ پیچھے کیے اور ہتھکڑی لگا دی..

دانی اس اچانک افتاد پر بوکھلا گئ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چہرہ موڑے آہل کو دیکھنے لگی...

یہ سب کیا ہے... دانی حیرت سے بولی..

خاموش رہو دانی...

آہل سختی سے بولا...

دانی کبھی پروفیسر کو دیکھتی تو کبھی آہل کو...

اب خاموشی سے میرے ساتھ چلو ورنہ مجھے تمہارا منہ بھی بند کرنا پڑے گا.. وہ دانی کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا..

آہل تم زبردستی...

ہاں میں زبردستی تمہیں لے جا سکتا ہوں,, رفیق راستہ صاف ہے... آہل چہرہ موڑ کر بولا..

جی سر کوئ سٹوڈنٹ نہیں ہے آپ جا سکتے ہیں عقبی راستے سے... رفیق تابعداری سے بولا.

آہل آبرو اچکاتا دانی کی بازو پکڑے چلنے لگا...

آہل میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی...

آہل خاموشی سے چلتا رہا اور گاڑی کے پاس پہنچ کر دانی کو اندر دھکیلا پھر خود بیٹھ کر دروازہ بند کر دیا..

تم اچھا نہیں کر رہے...دانی کو غصہ آ رہا تھا..

دانی خاموش رہو... آہل سامنے دیکھتا ہوا بولا...

یہ مرے گا تو مجھے بھی سکون ملے گا... دانی کلس کر بولتی باہر دیکھنے لگی...

میں کیا مجرم ہوں جو مجھے اس طرح ہتھکڑی لگا کر لاےُ ہو... دانی اس کے ساتھ چلتی ہوئ بولی...

بلکل تم نے جرم کیا ہے...

کون سا جرم کیا ہے میں نے.. دانی کمرے کے وسط میں کھڑی ہو کر بولی..

آہل دروازہ بند کرتا واپس آیا..

میرا دل چوری کیا ہے...

دل تو چاہ رہا ہے تمہارا منہ نوچ لوں پھر سے مجھے یہاں لے آےُ ہو... دانی روہانسی ہو گئ...

اگر میری بات مانتیں تو تمہیں آزادی بھی مل جاتی...

دھوکے باز انسان تم نے کل تو نہیں کہا کہ تم مجھے واپس لے آؤ گے...

تم نے مجھے بتایا تھا کہ یونی سے فرار ہو جاؤ گی,,شکر کرو تمہیں کچھ کہا نہیں.. وہ دانی کی بازو دبوچتا ہوا بولا..

کیا کہ لیتے تم ہاں یہی ہے نہ ایک گولی مار دیتے... دانی آنکھوں میں سرخی لیے بولی..

آہل اس کی بازو پر زور ڈالتا اسے دیکھنے لگا.. پھر جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا...

جنگلی ہو تم... دانی حلق کے بل چلائ...

آرام کرو تم... وہ دانی کے ہاتھ کھولتا ہوا بولا..

دانی خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگی.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا باہر نکل گیا..

ہوں,, پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو... دانی سر جھٹکتی ٹہلنے لگی...

اتنی آسانی سے تمہیں جیتنے نہیں دوں گی میں آہل حیات میں بھی دانین ہوں... کہتی ہوئ اپنے ہاتھ دیکھنے لگی...

دانی اٹھو کھانا کھا لو... آہل اس کے سر پر کھڑا بول رہا تھا...

مجھے نہیں کھانا... دانی نے کہ کر پھر سے آنکھیں بند کر لیں...

جنگلی بلی کی بھوک ہڑتال ہے لیکن تم جانتی ہو حکومت پر زیادہ فرق نہیں پڑتا... وہ کہتا ہوا بیڈ پر بیٹھ گیا...

بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری حکومت...

دیکھو میں بلکل فئیر تھا لیکن تم نے دھوکے بازی شروع کی تم نہ کرتی تو میں بھی نہ کرتا..

تم نے مجھے قید کر رکھا تھا کیوں نہ میں کرتی... دانی چلاتی ہوئ اٹھ بیٹھی..

ٹائم دیکھو بھوکی رہو گی تو تمہارا ہی نقصان ہے... وہ نرمی سے بولا...

تمہارا تو نقصان نہیں نہ پھر میرا سر مت کھاؤ..

آہل لب دباےُ بغور دانی کو دیکھنے لگا...

تم ایسے نہیں مانو گی... کہ کر اس نے دانی کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا دانی کسی مقناطیسی کشش کی مانند اس کی طرف کھینچی آئ...

اب مجھے بتا دو تم خود کھانا کھاؤ گی یا میں اپنے طریقے سے کھلاؤ... آہل اس کے چہرے پر آئ شرارتی لٹوں کو پیچھے کرتا ہوا بولا...

دانی پیچھے ہوتی ہاتھ چھڑوانے لگی لیکن آہل کی گرفت سے ہاتھ نکالنا ممکن نہیں تھا...

مر جاؤ تم آہل تمہارے....

دانی کے دماغ میں جھماکا ہوا تو خاموش ہو گئ...

آہل آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا...

مجھے بھوک لگی ہے... دانی نے پینترا بدلا..

گڈ گرل... آہل اس کا ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا.. یہیں کھاؤ گی یا نیچے...

دانی سلیپر پہنتی کھڑی ہو گئ...

آ رہی ہوں میں.. وہ کہتی ہوئ واش روم میں چلی گئ...

آہل مسکراتا ہوا میسج ٹائپ کرنے لگا..

تھینکس انعم تم نے بہت مدد کی...

دانی سیٹ ہو تو تمہیں بھی دوسرا جھٹکا دوں میں زبیر... آہل سوچتا ہوا موبائل ٹیبل پر رکھ کر آئینے کے سامنے آ گیا...

کوٹ اتار کر رکھ دیا اور بازو فولڈ کرنے لگا...

آہل رفیق کے ساتھ چلا گیا تو دانی واپس کمرے میں آ گئ...

اندر داخل ہوتے ہی دانی کی نظر آہل کے موبائل پر پڑی...

دانی کا چہرہ کھل اٹھا...

تمہیں تمہاری طرح کی ڈیل کرنا پڑے گا.. دانی اس کا فون اٹھاتی ہوئ بولی...

گھر جاؤں یا نہ جاؤں لیکن یونی تو ضرور جاؤں گی.. دانی سوچ کر مسکرانے لگی...

آہل پیشانی پر بل ڈالے کمرے میں آیا...

ٹیبل دیکھا تو خالی تھا...

دانی میرا فون دیکھا ہے تم نے.. وہ پریشان سا بولا..

ہاں وہ جو گولڈن کلر کا ہے...

ہاں وہی...

وہ جو آئ فون ہے نہ...

دانی مذاق مت کرو فون کہاں ہے بتاؤ...

وہ تو نہیں دیکھا میں نے... دانی معصومیت سے بولی...

آہل تیکھی نظروں سے دیکھتا اس کے سامنے آیا..

جھوٹ مت بولو..

میں کیوں جھوٹ بولوں گی.. دانی صاف مکر گئ..

فون واپس کرو میرا...

میرا تمہارے فون سے کیا فائدہ لاک تم نے لگا رکھا ہے بتاؤ... دانی بھی بیڈ سے اتر کر کھڑی ہو گئ...

دانی اس میں بہت ضروری چیزیں ہیں واپس کرو مجھے... وہ اکتا کر بولا..

تو میں کیا کروں جب میرے پاس نہیں ہے تو پھر کیسے لا دوں...

آہل دانت پیستا اسے گھورنے لگا...

کیا چائیے بولو.. وہ ہتھیار ڈالتا ہوا بولا..

یونی...دانی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئ بولی..

ٹھیک ہے چلی جانا کوئ نہیں روکے گا اب فون دو... آہل بےصبری سے بولا..

تمہارا کیا بھروسہ...

آہل حیات اپنی زبان سے نہیں پلٹتا کہ دیا نہ اگر روکوں تو یہ میری گن ہے نہ اس سے اپنا شوق پورا کر لینا ناؤ گیو می بیک...

اگر میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا تو یاد رکھنا فون تو تمہارے پاس ہی رہے گا اس کے بعد تم باہر کی دنیا کی شکل بھی نہیں دیکھ سکو گی...آہل کے چہرے سے سختی چھلک رہی تھی..

یقین کرنے کے سوا چارہ بھی کوئ نہیں.. دانی اسے دیکھتی ہوئ سوچنے لگی پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر فون اسے پکڑا دیا..

کل چلی جانا یونی... کہ کر وہ باہر نکل گیا...

یس.. دانی گریٹ اس کو اسی طرح ہینڈل کر سکتی ہوں میں اس منحوس ایگریمینٹ کی وجہ سے میں گھر نہیں جا سکتی چلی بھی جاؤں تو کیا فائدہ پھر اٹھا کر یہیں لے آےُ گا بہت شاطر ہے یہ جاہل حیات ساری راہیں مسدود کر رکھی ہیں کسی ایک سمت سے بھی نہیں نکل سکتی... وہ کوفت سے بولتی بیڈ پر گر گئ...

تھینک گاڈ سپیچ کمپٹیشن میں حصہ لے سکوں گی اب میں... دانی پرجوش سی بولی..

یہ گارڈ پورا ٹائم تمہارے ساتھ رہے گا اور دانی اب اگر تم نے مجھے چیٹ کیا تو آئ پرامس بہت برا ہو گا... آہل کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہیں تھیں...

اس روبوٹ کے ساتھ میں نہیں رہ سکتی... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

تم سے مشورہ نہیں مانگا...

لیکن میں پھر بھی دے رہی ہو جاہل حیات سن رہے ہو نہ... دانی زور دے کر بولی..

آہل مسکرا کر اسے دیکھنے لگا..

مجھے لگتا ہے تم یونی نہیں جانا چاہتی...

کہیں کسی کھائ میں جا کر گرو تم کہ پھر کبھی مل بھی نہ سکو... دانی جل کر بولی..

اب کوئ تماشہ مت لگانا میں کچھ مصروف ہوں آج کل..

تم ہمیشہ ہی مصروف ہوتے ہو یہ کوئ نئی بات نہیں... دانی بیگ اٹھاتی چل دی...

آہل اسے گیٹ سے اندر جاتی دیکھ رہا تھا...

سر اب ریفائنری کے متعلق کیا حکم ہے... آسم صوفے پر بیٹھا بولا..

فلحال چھوڑ دو بہت پیسہ انویسٹ کرنا پڑے گا, ابھی الیکشن پر توجہ دو اس بار ہماری حکومت آنی چائیے, حکومت میں آنے کے بعد ریفائنری کا کام شروع کریں گے..

سر میں سوچ رہا تھا کہ ریفائنری میں آگ لگی ہے سب جانتے ہیں کیوں نہ ڈونیشن اکٹھا کریں مزدوروں کے نام پر کہ وہ بےروزگار ہو گۓ ہیں لیکن لگائیں گے ہم فیکڑی پر... آسم کہ کر انہیں دیکھنے لگا..

آئیڈیا اچھا ہے لیکن ابھی مناسب نہیں سب الیکشن کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تمہیں جلسے کا بولا تھا میں نے... وہ تیکھے تیور لیے بولے..

جی سر گراؤنڈ کا انتخاب کر لیا ہے صفائ وغیرہ شروع کروا دی ہے انتظامات مکمل ہوتے ہی میں آپ کو مطلع کر دوں گا...

زبیر اثبات میں سر ہلاتے باہر دیکھنے لگے...

سر دانین میم کو آہل حیات پھر سے لے گیا ہے.. زبیر سر تھام کر بیٹھ گۓ...

اس کمینے کا میں کیا کروں سمجھ سے باہر ہے میری بیٹی کو کھلونا بنا لیا ہے... وہ کوفت سے بولے...

سر ناجانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے آہل حیات سب جانتا ہے دس سال پہلے کیا ہوا تھا اسے ایک ایک بات معلوم ہے لیکن وہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں کرتا... آسم نے خدشہ ظاہر کیا...

لیکن آہل جیسا لاابالی شخص اتنا عرصہ خاموش رہے ناممکنات میں شمار ہے... وہ نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولے..

ٹھیک ہے سر میں احتیاطاً اس پر نظر رکھتا ہوں شاید کچھ معلوم ہو جاےُ..

ہاں یہ ٹھیک ہے...

رفیق چیف سیکریٹری سے بولو ابھی ملاقات نہیں ہو سکتی,, ہاں مجھے وہاں بھی جانا ہے سوچ رہا ہوں ایک پریس کانفرس کر لوں دانی کو لے کر کافی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں... آہل بولتا ہوا چلتا آ رہا تھا بلیو ٹوتھ کان میں لگا رکھی تھی...

اینجیو کے بارے میں مجھ سے مت پوچھا کرو جب جتنے پیسے کہیں دے دیا کرو,, ایک وہی تو ہیں جواچھا کام کر رہے ہیں..

آہل جونہی لاؤنج میں آیا تو اپنی بینائ پر یقین نہ آیا گارڈز ڈانس کر رہے تھے اور دانی ٹیبل پر پاؤں رکھے آرام دہ انداز میں بیٹھی تھی...

سٹاپ دِس ناس سینس... آہل چلایا..

اس کی آواز سنتے ہی گارڈز سیدھے کھڑے ہو گۓ...

دانی ناگواری سے اسے دیکھنے لگی...

تم لوگ جاؤ... گارڈز کو اشارہ کر کے آہل دانی کی جانب آیا...

دانی ابھی تک اسی انداز میں بیٹھی تھی...

آہل نے اس کی بازو پکڑی اور کھینچ کر کھڑا کیا..

کیا بدتمیزی ہے یہ... دانی چلائ..

آہل اس کی سنے بنا چلنے لگا...

آہل میرا ہاتھ چھوڑو لوہے جیسا ہاتھ ہے تمہارا...دانی بولتی ہوئ اس کے ساتھ چلتی جا رہی تھی..

ایک تو یہ جاہل ایسے چلتا ہے جیسے کتے کو پتھر مار کر آیا ہو...دانی کوفت سے بولتی اس کے ساتھ تیز تیز چلتی جا رہی تھی...

آہل نے کمرے میں آ کر اس کا ہاتھ چھوڑا..

گارڈز تمہاری حفاظت کے لیے ہیں تمہاری تفریح کا سامان نہیں... آہل کے چہرے پر بلا کی سختی تھی...

تم بھی تو دن رات ان پر حکم چلاتے ہو...

میں حکم چلاتا ہوں تمہاری طرح انہیں انسانوں کے درجے سے نہیں گراتا ان کی بھی عزت نفس ہے یہی سکھایا ہے تمہارے باپ نے...

جیسے تم میرے ساتھ کھیلتے ہو میں ان کے ساتھ کھیل رہی تھی سمپل....

میں نے تمہیں کبھی سب کے سامنے ذلیل کیا بولو... وہ دانی کو جھنجھوڑتا ہوا بولا..

آئیندہ ایسا کچھ کیا تو نتائج اس سے زیادہ برے ہوں گے,, میں ان پر چلاتا ہوں لیکن بلاوجہ نہیں کبھی دیکھا ہے تم نے مجھے... آہل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا.

دانی منہ بسورتی بائیں جانب دیکھ رہی تھی آنکھیں کسی بھی لمحے برسنے کو تیار تھیں..

وہ بھی انسان ہیں انہیں انسانوں کی طرح ٹریٹ کرو اگر خدا نے ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ ہم اپنے نیچے ایسے ہزاروں بندے رکھ سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ان کو بےعزت کرو اس گھر میں آج تک ملازموں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا نہیں رکھا گیا نہ میرے ڈیڈ نے,,نہ ہی میں نے اور آئیندہ تم بھی نہیں کرو گی... آہل جھٹکے سے اسے پیچھے کرتا باہر نکل گیا...

جاہل جاہل جاہل... دانی روتی ہوئ بیڈ پر ڈھیر ہو گئ...

آہل واپس آیا تو دانی ابھی تک بیڈ پر ہی تھی.ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کرتا وہ دانی کے سامنے بیٹھ گیا...

جنگلی بلی ناراض ہے... دانی کا چہرہ اس کے بالوں سے پوشیدہ تھا...

بات نہ کرو تم مجھ سے...دانی آنکھیں بند کیے ہوۓ تھی...

اچھا پھر میگی کے متعلق جو نیوز میں لایا تھا وہ کسی اور کو سناؤ... آہل بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی...

کیا کہا تم نے میگی... دانی بولتی ہوئ اٹھ بیٹھی...

آہل نے مسکرانے پر اکفتا کیا..

مجھے بتاؤ کہاں ہے میگی... دانی اس کی بازو جھنجھوڑتی ہوئ بولی..

ابھی کسی نے کہا کہ بات مت کرو.. آہل معصومیت سے بولا..

بھاڑ میں گئ وہ بات تم مجھے بتاؤ میگی کہاں ہے...

پہلے یہ ماتم ختم کرو ایسے بی ہیو کر رہی ہو کوئ مر گیا ہے... آہل گھور کر بولا..

شکر کرو تم نہیں مرے میرے ہاتھوں.. دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

میگی کا سین یہ ہے کہ وہ جہاں بھی ہے سیف ہے اس کا خیال رکھا جا رہا ہے تو تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں...

مجھے میگی لا کر دو... دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

سوری وہ اب اس گھرمیں نہیں آےُ گی...

تم کتنے بدتمیز ہو...

جنگلی بلی میں جانتا ہوں اب چلو میرے ساتھ.. آہل اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

کہاں.. دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئ بولی..

چلو تو.. آہل اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا..

میرا ہاتھ چھوڑو میں نہیں آ رہی...

دانی ضد مت کرو... آہل کے چہرے کے تاثرات سخت ہو گۓ...

اللہ کرے منہ کے بل سیڑھیوں سے گر جاؤ تم اور بچ بھی نہ سکو... دانی کہتی ہوئ کھڑی ہو گئ..

آہل نے اسے کھینچا اور چلنے لگا...

آہل تمہیں میں کسی کنواں میں پھینک دوں گی پانی پی پی کر مرو گے تم, لوگ چلو بھر پانی میں ڈبوتے ہیں میں کنواں میں ڈوبوؤں گی...

تمہیں اجازت ہے جو مرضی کر لینا... آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

تم ہر بات پر حامی کیسے بھر لیتے ہو... دانی الجھ کر بولی..

کیونکہ میں تمہاری طرح ضد نہیں کرتا...

تم جیسے بڈھے ضعیف کبیر انسان کو ضد سوٹ بھی نہیں کرتی تمہیں تو چائیے ہاسپٹل کے کسی وارڈ میں کھانستے ہوۓ دکھائ دو... دانی نقشہ کھینچتی ہوئ بولی..

امیزنگ... بہت سوچ بچار کرتی ہو...وہ دانی کی ناک دباتا ہوا بولا..

کسی دن میری ناک کا انتقال ہو جاےُ گا تمہاری بلڈوزر جیسی انگلی کے نیچے آ کر... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

میرے لیے اتنا نہیں کر سکتی...

تمہیں زہر پلا سکتی ہوں بہت شوق سے.. دانی جل کر بولی..

اچھا چھوڑو دب یہ دیکھو اب... آہل مسکراتا ہوا طوطے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا..

دانی آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی...

دانی آ گئ... طوطا اسے دیکھ کر بولا..

دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی...

تمہارا نام میں نے سکھایا ہے اسے بہت مشکل سے ابتدا میں تو آنی کہتا تھا... آہل مسکراتا ہوا بتانے لگا...

اب تمہیں جلن نہیں ہو رہی یہ میرا نام لے رہا ہے...دانی اسے گھورتی ہوئ بولی..

آہل دانی... طوطا پھر سے اپنی تیکھی آواز میں بولا..

آہل آبرو سے اٹھا کر دانی کو دیکھنے لگا...

یہ ہم دونوں کا نام ایک ساتھ لیتا ہے ہیں نہ مٹھو... آہل مٹھو کو دیکھ کر بولا..

میاں مٹھو چوری کھانی... طوطا دانی کو دیکھ کر بولا..

کچھ کھلاؤ اسے... آہل خفگی سے بولا..

اپنی انگلی کھلا دوں,, کچھ دو گے تو کھلاؤں گی نہ... دانی گھوری سے نوازتی ہوئ بولی..

آہل نے اس کے سامنے مرچ کی..

یہ کھلاتے ہو اسے.. دانی آنکھیں پوری کھول کر بولی...

ابھی یہی کھانے کا ٹائم ہے...

دانی نے پنجرے میں مرچ کی تو مٹھو نے فوراً اپنی چونچ میں پکڑ لی...

تم کیا ہو آہل... دانی بغور اسے دیکھ کر بولا...

مطلب... آہل الجھ گیا...

کبھی تمہارے ہاتھ پر دانی, کبھی یہ لاکٹ,کبھی مٹھو کو میرا نام یاد کروانا... دانی الجھتی ہوئ بولی..

تمہارا دیوانہ... آہل چمکتی سحر انگیز آنکھیں اس پر گاڑھتا ہوا بولا..

دانی نے جھرجھری لی...

تم مجھے پاگل کر دو گے... خفگی سے کہتی چلنے لگی...

آہل ہاتھ ہلاتا دانی کے پیچے آ گیا...

کیا ہوا.. آہل اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا..

کچھ نہیں... دانی اپنی سوچ میں گم تھی...

دانی بکس لے کر بیٹھ گئ اور آہل لیپ ٹاپ کھولے اپنا کام کرنے لگا...

آہل کا موبائل دونوں کے وسط میں پڑا تھا موبائل کی ٹون بجی دانی نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو ششدہ رہ گئ...

انعم کا نام لکھا تھا..

آہل نے بےدھیانی میں فون اٹھایا...

کس کا میسج ہے آہل... دانی آگے کو ہوتی ہوئ بولی..

تمہاری نظریں بہت گھومتی ہیں آس پاس اپنے کام پر دھیان دیا کرو... آہل خفگی سے بولا..

کون سے پارک میں نظر آئیں تمہیں میری نظریں بتاؤ...

آہل نفی میں سر ہلاتا مسکرانے لگا...

اپنے کام پر رکھا کرو انہیں...

ایلفی ڈال لوں اپنی آنکھوں میں پھر کہیں نہیں گھومیں گیں یہ... دانی دانت پیستی ہوئ بولی...

دانی تم خاموش نہیں ہوتی...کیوں,, تھک نہیں جاتی..

بلکل جیسے تم نہیں مرتے ویسے میں بھی نہیں تھکتی..

آہل سانس خارج کرتا نگاہیں واپس لیپ ٹاپ پر مرکوز کیے کام کرنے لگا...

ملازم ناک کر کے کھانا لے آیا...

پہلے دانی میڈم کو چیک کروائیں... آہل کی نظریں ہنوز اسکرین پر تھیں...

کیوں... دانی اچھل پڑی...

ہاں تم میری بیوی ہو کھانا پہلے چیک کرو پھر میں کھاؤں گا ہو سکتا ہے کوک نے زہر ملا دیا ہو... آہل دانی کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

دانی تھوک نگلتی آنکھیں جھپکنے لگی..

میں نے تو کھانا کھا لیا ہے... دانی کو سامنے مشکل دکھائ دے رہی تھی..

کوئ مسئلہ نہیں جسٹ ون بائٹ...

آہل مجھے نہیں کھانا... دانی زور سے بولی..

کیوں نہیں کھانا تمہیں بتاؤ... آہل بھی چلایا..

اِدھر لاؤ... وہ ملازم کو اشارہ کرتا ہوا بولا...

ملازم نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی...

آہل نے چمچ دانی کے منہ کے سامنے کیا...

کھولو منہ... چہرے پر زمانے بھر کی سختی عود آئ...

دانی نفی میں سر ہلانے لگی...

باہر جاؤ... ملازم کو کہ کر دانی کو دیکھنے لگا..

کھاؤ اسے دانی ورنہ میں زبردستی کھلاؤں گا.. آہل کا لہجہ بےلچک تھا..

آہل اس میں زہر ہے میں نہیں کھا سکتی... دانی آنکھیں بند کرتی ہوئ بولی...

آہل افسوس سے اسے دیکھنے لگا...

تھینک یو سو مچ دانی... آہل ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا..

یکدم دانی کو شرمندگی نے آن گھیرا...

آہل لیپ ٹاپ اٹھا کر سٹڈی میں چلا گیا...

دانی شرمسار سی اس کی پشت کو دیکھنے لگی...

انعم ایک کام اور بھی ہے... آہل نے میسج ٹائپ کیا...

واٹ... انعم کا جواب موصول ہوا..

تمہیں اپنے ڈیڈ کے روم سے لیپ ٹاپ لینا ہے اور وہ یقیناً تمہیں لاکر میں ملے گا...

ڈیڈ کا لاکر ناٹ پاسبل...

کوشش کرو...

یہ کام دانین بخوبی کر سکتی ہے تمہارے ساتھ ہی ہے منا لو اسے... انعم سینڈ کر کے باہر دیکھنے لگی.. چہرے پر دکھ کے ساےُ تھے...

دانی سے امید لگانا بےکار ہے تم کوشش کر کے دیکھنا ورنہ میں دیکھ لوں گا...

_______

اووکے آئ ویل ٹراےُ... آہل نے سانس خارج کیا اور موبائل چئیر پر رکھ دیا...

کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا...

دانی اچھا نہیں کیا تم نے... وہ افسوس سے بولا..

کچھ ٹوٹا تھا آہل کے اندر...

آہل نے کرب سے آنکھیں موند لیں..

وہ اندر سے کیا تھا یہ کوئ بھی نہیں جانتا تھا اس نے اپنے اندر کے آہل کو چھپا رکھا تھا جو بلکل مختلف تھا...

دانی آج میں تمہیں لینے آؤں گا... گاڑی جیسے ہی یونی کے باہر رکی آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

کیوں... دانی کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

فارم ہاؤس جانا ہے اس لیے جلدی لینے آؤں گا تمہیں... وہ سامنے دیکھتا ہوا بولا..

اچھا... دانی رات کے لیے ابھی تک شرمندہ تھی لیکن سوری کہنا اسے گوارا نہ تھا اس کے سامنے کیسے وہ اپنی انا توڑ دیتی...

دانی نے چہرہ موڑ کر دیکھا آج آہل اسے نہیں دیکھ رہا تھا, دانی چہرہ سامنے کرتی چلنے لگی...

دانی تم نہیں جانتی میں نے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگواےُ ہیں اس لیے تمہاری کوئ حرکت مجھ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی... آہل خود کلامی کرنے لگا...

تمہارے چہرے سے معلوم ہوتا ہے تم شرمندہ ہو چلو یہی بہت ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہے... آہل کا ڈمپل پھر سے عود آیا..

فارم ہاؤس کیوں جانا ہے... دانی گاڑی میں بیٹھتی ہوئ بولی...

ویسے ہی...

ویسے ہی کیا وہاں چیز بانٹ رہے ہیں کیا جو تم نے لینی ہے... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

آہل مسکرا کر اسے دیکھنے لگا...

دانی پھر سے اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی...

آہل... دانی نے پہلی بار اسے اس طرح پکارا..

ہاں... آہل چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگا...

پھر سے مسکراؤ...

کیوں... وہ تعجب سے بولا..

مسکراؤ تو نہیں تمہارا ڈمپل لے کر بھاگتی میں...دانی گھور کر بولی..

آہل اس کی بات پر کھل کر مسکرا دیا.

زہر لگتا ہے مجھے تمہارا ڈمپل... دانی پیچھے ہوتی ہوئ بولی...

اسے مسکراتا دیکھ کر دانی کو تسلی ہو گئ کہ اب وہ نارمل یے....

آہل حیرت سے اسے دیکھنے لگا...

یہ لڑکی پل میں تولہ پل میں ماشہ... وہ آہستہ سے بولا..

کب تولا تم نے مجھے... دانی گھور کر بولی..

تم پاگل ہو...آہل اس کے سر پر چت لگاتا ہوا بولا...

گاڑی فارم ہاؤس کے باہر رکی...

آ جاؤ... آہل باہر نکلتا ہوا بولا..

دانی بھی اس کی تقلید کرتی نکل گئ...

گھر کہاں ہے... دانی وسیع گارڈن جس میں بڑے بڑے درخت بھی لگے تھے ان کو دیکھ کر بولی...

یہیں ہے... آہل چلتا ہوا بولا..

ہم یہاں گھاس پر سوئیں گے... دانی حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکی...

تمہیں بہت جلدی ہوتی ہے چلو گی تو معلوم ہو جاےُ گا...

گارڈز ان کے عقب میں چل رہے تھے...

آہل کبھی تو اپنی پونچھ کو چھوڑ دیا کرو... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

کیوں... وہ دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

میں ڈیڈ کو بھی بولتی تھی مجھے گارڈز کے ہمراہ مت بھیجا کریں لیکن ہر وقت وہ میرے ساتھ رہتے اور تم بھی ایسا ہی کرتے ہو...

ابھی چلے جائیں گے اور کچھ...

دانی لاجواب ہو گئ...

وہ چہرہ جھکاےُ چلنے لگی...

کھانا کھا کر میں تمہیں نشانے بازی سکھاؤں گا... آہل پانی پیتا ہوا بولا..

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے یا تو تم مجھے آدمی بنانے کی سعی کر رہے ہو یا پھر اپنے جیسا باڈی بلڈر...

آہل قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا...

تم آہل حیات کی بیوی ہو پتہ چلنے چائیے...

پھر کیا میرے منہ پر لکھا جاےُ گا آہل حیات کی بیوی... دانی منہ بسورتی کھانے لگی...

دانی تمہاری باتیں بہت دلچسپ ہوتی ہیں...

اور تمہاری بلکل فضول... دانی اسے ہنستا دیکھ جل کر بولی...

آہل اتنی دور سے تو میں اندھی ہو جاؤں گی لیکن کبھی نشانہ نہیں لگے گا...دانی کافی فاصلے پر لگے بورڈ کو دیکھتی ہوئ بولی جس کے وسط میں بنے سرخ رنگ پر نشانہ لگانا تھا..

ڈرامے نہ کرو اور اسے پکڑو چپ کر کے... آہل اسے گن تھماتا ہوا بولا...

اللہ گن ہے یا بم کا گولہ... دانی آنکھیں باہر نکالتی ہوئ بولی...

اب بائیں آنکھ بند کر کے یہاں سے دیکھ کر نشانہ لگاؤ... آہل اسے سمجھاتا دائیں جانب کھڑا ہو گیا...

دانی نے نشانہ لگایا لیکن گولی بورڈ پر کہیں دکھائ نہ دی...

دانی منہ پھلا کر آہل کو دیکھنے لگی...

ایک بار پھر سے لگاؤ...

دانی منہ بناتی پھر سے نشانہ باندھنے لگی...

اب کی بار پھر سے گولی پیچھے درخت کو جا لگی..

دیکھو نہیں لگی... دانی مایوسی سے بولی..

اچھا ایک بار پھر سے لگاؤ...

میں نہیں... دانی آہل کو دیکھتی ہوئ...

دانی لگاؤ ایک بار پھر... آہل غصے سے بولا..

تمہارے نہ لگا دو... دانی بڑبڑاتی ہوئ پھر سے نشانہ باندھنے لگی...

آہل اس کے قریب آیا اور عقب میں کھڑا ہو گیا.. دانی چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی..

آہل نے بائیاں ہاتھ دانی کے بائیں ہاتھ پر رکھا جس سے اس نے گن کو نیچے سے پکڑ رکھا تھا پھر دائیاں ہاتھ دانی کے دائیں ہاتھ پر رکھا جو ٹریگر پر تھا...

دانی سے آہل کی گرم سانسیں ٹکرا رہی تھیں دانی اس کی قربت سے کنفیوز ہو رہی تھی.. آہل نے گن کو اونچا کیا اور نشانہ باندھنے لگا. دانی دم سادھے کھڑی تھی..

آہل نے ٹریگر دبایا اور گولی سیدھی سرخ نشان کو جا لگی...

دانی میں پٹی کی وجہ سے نہیں آ سکتا لیکن گارڈز آ سکتے ہیں شرافت سے آ جاؤ یہاں...

دانی ناک چڑھاتی اس کی سمت قدم بڑھانے لگی...

پہلے شرافت کو تو بلاؤ پھر ہی اس کے ساتھ آ سکوں گی... دانی مسکراتی ہوئ بولی..

دانی... آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..

اچھا بھئ آ گئ یہ لو... دانی کہتی ہوئ اس کے سامنے آ گئ...

آہل زینے اترنے لگا..

دانی چینج کر کے نکلی تو آہل لیپ ٹاپ رکھے بیٹھا تھا...

ایک لیپ ٹاپ اور ایک وہ رفیق دونوں اس کی ہاف گرل فرینڈ ہیں... دانی بولتی ہوئ اسے گھورنے لگی...

آاااچھی,, آہل نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلانے لگا...

دانی اس کے ساتھ آ بیٹھی..

دانی نے ہاتھ بڑھا کر ویڈیو سٹاپ کر دی..

آہل چہرہ موڑے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا..

تم مووی بھی دیکھتے ہو... دانی تعجب سے بولی..

ہاں,, اور اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے.

تم تو خود فلم ہو تمہیں کیا ضرورت مووی دیکھنے کی..

آہل نے ہینڈ فری اتاری اور دانی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا,, تم بھی دیکھو میرے ساتھ..

یہ میری بازو ہے سپرنگ نہیں جسے تم کھینچتے رہتے ہو... دانی کا سر آہل کی بازو سے ٹکرایا تھا..

آہل اسے نظر انداز کیے اسکرین پر نظریں مرکوز کر گیا...

دانی سر جھٹکتی مووی دیکھنے لگی..

ہاےُ اللہ بس کر دو کیسی خون خرابے والی مووی ہے... دانی لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرتی ہوئ بولی..

اتنی اچھی تو ہے... آہل مسکراتا ہوا بولا..

تمہیں تو ایسی ہی اچھی لگیں گے ٹرینینگ جو لینی ہوتی تم نے...

تم ایسے سو جاؤ گے... دانی اسے نیم دراز ہوتے دیکھ کر بولی..

ہاں کیوں...

نہیں میرا مطلب رات میں میرا ہاتھ وات لگ گیا تو.. دانی فکرمندی سے بولی

تم ہاتھ مارتی ہو...

نہیں لیکن اب نیند میں کیا معلوم ہاتھ مار دوں یا پیر,, لوگ چلتے ہیں نیند میں تو میں ہاتھ بھی نہیں مار سکتی...

پھر کیا کریں اب.. آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

میں کسی دوسرے روم میں سو جاتی ہوں..

نہیں کسی دوسرے روم میں نہیں جا سکتی تم...

کیوں تم نے باقی سب بیچ رکھا یے کیا..

تم میرے سامنے ہی رہو گی..

نہیں فرار ہوتی.. دانی آہستہ سے بولی..

بات فرار کی نہیں ہے...

اچھا پھر میں صوفے پر سو جاتی ہوں... دانی حل پیش کرتی اسے دیکھنے لگی...

تم یہیں سو جاؤ کوئ مسئلہ نہیں..

نہ بھئ نہ تمہیں کچھ ہو گیا تو مجھ پر قتل کیس ہوا ہو میں صوفے پر سو جاؤں گی...

ٹھیک ہے اگر تم ایزی ہو کر سو سکتی ہو تو تمہاری مرضی...

دانی سر ہلاتی اٹھ گئ..

دانی مجھے کب بورڈ سے شرٹ نکال دو.. آہل اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا ہوا بولا..

تم میرے سامنے چینج کرو گے... دانی کی آنکھیں پھیل گئیں..

شرٹ چینج کر رہا ہوں.. آہل شانے اچکاتا ہوا بولا...

دانی ناک سکوڑتی شرٹ نکالنے لگی..

یہ لو..

تھینک یو.. آہل مسکراتا ہوا بولا..

بائ سیپس تو ایسے ہیں جیسے غبارے میں پھونک بھری ہو... دانی منہ کھولے دیکھتی ہوئ بولی,,

گوری بازو کی رگیزن ابھری ہوئیں تھیں پھر ان پر بنا ٹیٹو چار چاند لگا رہا تھا..

آہل مسکراتا ہوا شرٹ پہننے لگا...

آہل مجھے تمہاری ہیلپ چائیے... آہل انعم کا میسج پڑھنے لگا...

کھانا.. دانی سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی...

دس منٹ تک..

عجیب ہی ٹائم ہیں اس بندے کے ابھی کھا لے گا تو باہر نکل آےُ گا کیا.. دانی بڑبڑاتی ہوئ اٹھ گئ...

آہل مسکراتا ہوا جواب لکھنے لگا...

کیسی ہیلپ..

تم سے مل کر بات کرنا چاہتی ہوں...

آہل میسج پڑھتا پرسوچ دکھائ دینے لگا...

دانی ارحم سے دور رہا کرو... آہل میسج ٹائپ کرتا ہوا بولا..

ہیں,, ارحم کہاں سے آ گیا... دانی ششدہ سی اسے دیکھنے لگی..

جو کہا ہے اس پر عمل کرو دوبارہ اس سے بات مت کرنا ورنہ وہ بولنے کے قابل نہیں رہے گا,, وہ سختی سے بولا..

تمہارے گارڈز کا منہ میں توڑتی ہوں.. دانی غصے سے بولی..

دانی کوئ فضول گوئ نہیں اور جہاں بیٹھی ہو بیٹھی رہو...

عموماً میں وارنگ دینے میں وقت کا ضیاع نہیں کرتا لیکن تمہیں دے رہا ہوں...

کہ تو ایسے رہے ہو جیسے دو تین ملک دے رہے ہو مجھے... دانی سر جھٹکتی ہوئ باہر نکل گئ.

ہیلو انعم..

کب مل سکتے ہو تم... انعم نے چھوٹتے ہی پوچھا..

فلحال تو چند دن نہیں لیکن میں رفیق کو بول دوں گا کہ تمہارے لیے ٹائم مینج کر دے کیونکہ گھر میں دانی ہوتی ہے ورنہ یہاں ملاقات کر لیتے...

ہاں دانی کے سامنے نہیں ٹھیک ہے میں کچھ دن ویٹ کر لیتی ہوں... انعم نے کہ کر فون بند کر دیا...

************

مس قدسیہ کیسی ہیں آپ... زبیر اس خاتون کے گلے لگتے ہوےُ بولے...

ہمیں کیا ہونا ہے زبیر صاحب... وہ بیٹھنے کا اشارہ کرتیں ہوئیں بولیں...

ریفائنری کا سن کر بہت افسوس ہوا زبیر... وہ دکھ سے بولیں..

افسوس تو سچ میں بہت بڑا ہے اسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں... وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ بولے...

ہاں ہاں بولو تم...

سمگلنگ سے اس بار جو پے مینٹ آےُ گی آپ وہ ساری مجھے دے دیں,, الیکشن بھی سر پر ہیں پھر یہ ریفائنری کا مسئلہ...

چلو ٹھیک ہے لیکن اس بار پے مینٹ بھی زیادہ ہے.. وہ زبیر کو دیکھتی ہوئیں بولیں.

اگلی دو پے مینٹس آپ رکھ لینا لیکن ابھی مجھے اشد ضرورت ہے...

کوئ مسئلہ نہیں میرا تو سرکل چل رہا ہے لیکن وہ ائیر ہوسٹس بہت تنگ کر رہی ہے...

کیا کہتی ہے...

پیسے زیادہ مانگ رہی ہے کہتی خطرہ بھی تو زیادہ ہے...

اس کی جو ویڈیو یے وہ دکھا دینا اور کہ دینا اگر جیل کی ہوا کی بجاےُ باہر کی ہوا کھانا چاہتی ہو تو خاموشی سے کام کرو,, پیٹ نہیں بھرتے ان کے پھر چاہے جتنا بھی دے دو..

بلکل.. لالچ بڑھتا ہی جاتا ہے...

دانین کا سناؤ آہل کے پاس ہی ہے کیا...

ظاہر ہے کہتا ہے نکاح کیا ہے اب ثبوت بھی نہیں نکاح کا میں تو کچھ کر ہی نہیں سکتا جب جب سوچتا ہوں خون کھولتا ہے میرا... زبیر ضبط کرتے ہوۓ بولے..

کہیں آہل حیات پر حملہ تم نے...

میں پاگل ہوں کیا جو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماروں گا,, نا جانے کس کی حرکت ہے یہ... وہ کوفت سے بولے..

غصے کا تیز ہے وہ لیکن انسان اچھا ہے...

آپ کو تو اول روز سے ہی پسند ہے وہ...

ہاں لیکن وہ مجھے لفٹ کیوں کرواےُ گا... وہ آہ بھرتی ہوئیں بولیں..

کہیں تو اغوا کروا لیں... وہ شرارت سے بولے...

وہ اغوا ہونے والوں میں سے نہیں... وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئیں بولیں...

خیر میں چلتا ہوں پھر جیسے آئیں مجھے کال کر دینا... زبیر کھڑا ہوتا ہوا بولا..

ہاں میں انفارم کر دوں گی... وہ مسکراتی ہوئیں بولیں..

آہل تم کب ٹھیک ہو گے... دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

کیوں تم نے کون سا کام کروانا ہے مجھ سے.. آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

جالے صاف کروانے ہیں گھر کے... دانی اکتا کر بولی..

آج جنگلی بلی کا آف ہے,, کہاں جانا ہے بولو.. وہ دانی کی جانب رخ موڑتا ہوا بولا..

میں اکیلی چلی جاتی ہوں...

سوچنا بھی مت...

پھر تمہیں ایسے کیسے لے کر جاؤں...

آہل حیات بہت مضبوط ہے تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے...

ہاں بلکل تمہاری رگیں لوہے کی ہیں نہ....

کہاں جانا ہے بتاؤ... آہل دانی کے چہرے سے بال ہٹاتا ہو بولا..

تمہیں میرے بالوں سے کیا مسئلہ ہے... دانی گھورتی ہوئ بولی...

تم ٹھیک نہیں کرتی تو مجھے کرنے پڑتے ہیں.. آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا.

یہ میرا چہرہ ہے تمہارا نہیں.. دانی منہ پر انگلی رکھتی ہوئ بولی.

تم پوری کی پوری میری ہو تو یہ چہرہ میرا کیوں نہیں..

اچھا جاؤ تم رکھ لو,,مجھے کرکٹ کھیلنی ہے...

میڈم آپ کے شوہر تو نہیں کھیل سکتے... وہ شانے اچکاتا ہوا بولا..

تو آپ کی بیگم تو کھیل سکتی ہیں نہ... دانی اسی کے انداز میں بولی...

اکیلی کھیلو گی...

یہ جو نیچے اتنی فوج تیار کر رکھی ہے جنگ کروانی ہے کیا ان سے...

آہل خاموش ہو گیا...

تمہارے سامنے کھیلوں گی وہ بال کروائیں گے بس... دانی اس کی خاموشی کا مفہوم سمجھ کر بولی...

ٹھیک ہے چلو..

آہل موبائل جیب میں ڈالتا ہوا بولا..

زبیر کی کوئ خبر کیا کر رہا ہے آج کل... آہل رفیق کے ہمراہ کھڑا تھا..

ریفائنری پھر سے سٹارٹ کرنے کا سوچ رہا ہے... اور اتنا پیسہ کہاں سے آےُ گا... آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

ڈاکڑ قدسیہ...

رفیق پتہ لگواؤ یہ دونوں کر کیا رہے ہیں پچھلے دو ماہ سے...

جی سر میں بھی یہی سوچ رہا تھا...

کیونکہ ڈاکڑی سے اتنا پیسہ پاسبل نہیں... آہل نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا..

سامنے دانی بیٹ پکڑے کھیل رہی تھی...

________

سر بچوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا ہے.

کیوں... آہل تعجب سے بولا..

سر حسین کہتا ہے کہ میں جاب کر رہا ہوں خود کروں گا گھر کا سارا خرچ...

بیوقوف ہے وہ,, پورا گھر کیسے چلا سکتا ہے وہ...

جی سر میں نے بھی کہا,, اسی باعث وہ آپ سے ملنے بھی نہیں آےُ کہ آپ کی بات تو وہ ٹال نہیں سکتے...

ہمممم,, تم انہیں کہنا میں بلا رہا ہوں, خود بات کروں گا...

آہل فائل کو دیکھتا ہوا بولا..

دانی نے شاٹ ماری اور گیند سیدھا آہل کے منہ پر آ لگی...

دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی جو اپنی ناک رگڑ رہا تھا...

دانی نے بیٹ نیچے پھینکا اور بھاگ کر اس کے پاس گئ..

آئم سو سوری مجھے نہیں پتہ تھا بال تمہیں لگ جاےُ گی..

دانی اس کا ہاتھ ہٹا کر دیکھتی ہوئ بولی,, اس کی ناک سرخ ہو رہی تھی...

درد ہو رہا ہے کیا...دانی ہچکچاتی ہوئ بولی..

بس بہت ہو گیا چلو اندر...

کچھ لگا دو میں یہاں... دانی اس کے ساتھ چلتی ہوئ بولی..

نہیں ضرورت نہیں...

تم مجھے کچھ نہیں کہو گے.. دانی نے کسی خیال کے تحت پوچھا..

کیا کہوں... وہ رک کر دانی کو دیکھنے لگا..

جیسے سب کو مارتے ہو دو چار تھپڑ مار دیتے شاید...

سب میں اور تم میں زمین آسمان کا فرق ہے.. آہل جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا...

دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی,, کبھی کبھی وہ بلکل عام سا شخص لگتا جس کے لیے دانی بہت اہمیت کی حامل ہے...

کیا ہوا... وہ دانی خاموش پا کر بولا..

کچھ نہیں... دانی نفی میں سر ہلاتی چلنے لگی..

دانی تم روم میں رہنا اب دوست ملنے آئیں گے مجھ سے...

تو میں کیا انہیں باہر نکال دوں گی...

نہیں تمہیں کسی کے سامنے آنے کی ضرورت نہیں جا کر پڑھائ کرو... وہ سرد لہجے میں بولا...

دانی شانے اچکاتی چلنے لگی...

سنو.. آہل نے اسے ٹوکا..

ہاں,, دانی چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی...

تمہارا لاکٹ... وہ آبرو اچکا کر بولا..

وہ اس کا لاک ٹوٹ گیا تھا..

اچھا مجھے دینا میں ٹھیک کروا دوں گا...

دانی اچھا کہ کر زینے چڑھنے لگی...

آہل ڈرائینگ روم میں چلا گیا..

پتہ نہیں کب آےُ گا.. دانی آہل کی منتظر تھی..

میشو بھی پتہ نہیں کہاں ہے فون اٹھا ہی نہیں رہی... وہ کوفت سے بولی..

آہل میں گھر کب جاؤں گی... آہل کے کمرے میں قدم رکھتے ہی دانی بول پڑی...

آہل آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا...

کیا کرنا یے گھر جا کر...

ڈانس... دانی تپ کر بولی..

یہیں کر لو پھر... وہ سٹڈی کھولتا ہوا بولا..

اچھا پھر باہر لے کر چلو مجھے..

کیوں.. آہل چہرہ موڑ کر بولا..

کھانے کے لیے...

تو گھر میں کھانا نہیں مل رہا تمہیں... وہ فائلز نکالتا ہوا بولا..

صاف صاف کہو کوئ بھی بات نہیں مانو گے... دانی سینے پر بازو باندھے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بولی..

ٹھیک ہے کہیں نہیں جانا اب خاموشی سے چلی جاؤ... آہل کی پیشانی پر شکنیں تھیں...

آہل یہ کیا بات ہوئ..

دانی جب میں کام کر رہا ہوں تو مجھے تنگ مت کیا کرو... وہ فائل پر نظریں دوڑاتا ہوا بولا....

مجھے بھوک لگی ہے...

ابھی آ جاےُ گا کھانا کمرے میں جاؤ تم...

جاہل... دانی کوفت سے بولتی چلی گئ...

یہ پہلے کیوں نہیں معلوم ہوا مجھے... وہ صفحے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوا بولا..

ایک گھنٹے بعد آہل سٹڈی سے نکلا...

ڈیٹ پر گےُ تھے کیا... دانی تپ کر بولی..

آج کھانا تم بناؤ گی... وہ دانی کے ساتھ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا..

تم بھی مذاق کرنے لگے ہو....

میں بلکل سئیریس ہوں... آہل سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا بولا..

میں نے کبھی پانی بھی نہیں ابالا...

تو آج ابال لینا نو ایشو...

نو ایشو گیو می ٹیشو.... دانی دانت نکالتی ہوئ بولی..

آ جاؤ.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

میں تو نہیں آ رہی...

اچھا میں دیکھتا ہوں کیسے نہیں آتی تم... وہ دانت پیستا ہوا آگے آیا...

کیا کرو گے... دانی اس کے خطرناک تیور دیکھ کر بولی...

بیڈ پر جاؤ... آہل اسے بازو سے پکڑتا ہوا بولا..

کیوں..

دانی اپنی بازو چھڑواتی ہوئ بولی...

آہل نے لائٹ آف کر دی...

آہل کی آنکھوں میں شرارت تھی,,

واٹ ربش,, لائٹ ان کرو.. دانی چلائ...

تمہیں ایک بار اچھے سے سمجھا دو.. آہل بولتا ہوا چلنے لگا...

آہل میں...

کیا تم... آہل موبائل کی ٹارچ دانی پر مارتا ہوا بولا..

کیا کرو گی تم بولو... آہل کے چہرے پر سختی عود آئ...

دانی چار مہینے سے بھی کم ٹائم ہے... دانی دل ہی دل میں سوچنے لگی...

میں کھانا بناؤں گی... دانی مسکرا کر بولی..

گڈ گرل,, آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

دانی منہ چڑاتی اس کے پیچھے چل دی...

کیڑے مکوڑے کھلاؤں گی تمہیں... دانی آہل کو گھورتی ہوئ بولی جو شیلف پر چڑھ کر بیٹھا تھا..

تم کیڑے مکوڑے کھاتی ہو... آہل محظوظ ہوا..

نہیں لیکن تمہارے لیے اسپیشل ڈش یہی بناؤں گی... آہل قہقہ لگاتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا...

آہل میں نے کبھی چولہا بھی نہیں جلایا... دانی رونے والی شکل بناتی ہوئ بولی...

چولہا جلا کر دو میم کو.. آہل کوک کو اشارہ کرتا ہوا بولا جو حیران پریشان سا کھڑا تھا..

جی سر... وہ کہتا ہوا چولہا جلانے لگا...

دانی منہ کھولے آہل کو دیکھنے لگی...

یہ لو آج بھی تم نے چولہا نہیں جلایا اب بناؤ..

کیا بناؤ... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

تمہیں معلوم ہو گا میں تو کھانے کے لیے بیٹھا ہوں... آہل ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا..

ہوں... دانی سر جھٹکتی آگ کو دیکھنے لگی سرخ شعلے اوپر آ رہے تھے...

میم کیا دوں آپ کو...

مجھے چیتے کا گوشت لا کر دو...

دانی کی بات پر آہل منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی روکنے کی سعی کرنے لگا...

کوک منہ کھولے دانی کو دیکھنے لگا...

ایسے کیا دیکھ رہی ہو اگر دانین حیات کچھ بنا ہی رہی ہیں تو دنیا کی انوکھی چیز بناےُ گی.. وہ تفاخر سے بولی...

چکن نکال کر دو فریج دو... آہل مسکراتا ہوا بولا..

اگر چکن دیا تو تمہیں کچا کھلاؤں گی میں مجھے چیتے کا گوشت ہی چائیے...دانی شیلف پر زور سے ہاتھ مارتی ہوئ بولی...


دیوار کے ساتھ جو شیلف تھی آہل اس پر بیٹھا تھا اور جس شیلف کے سامنے دانی کھڑی تھی وہ باورچی خانے کے وسط میں تھی..

کہاں سے لا کر دوں...


جنگل سے اور کہاں سے... دانی گھور کر بولی..


تم باہر جاؤ... آہل کوک کو دیکھتا ہوا نیچے اتر آیا..

اب تم اپنی فضول حرکتوں پر مت آنا... دانی اس کا ارادہ بھانپ کر بولی..


ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں...آہل کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی...


تم اتنی معصوم قوم...دانی گھور کر بولی..

کیا بناؤ گی تم... آہل اس کے عین مقابل آ کھڑا ہوا...


تمہارا سر... دانی دانت پیستی ہوئ بولی....

کیا کہا.. آہل کہ کر ایک قدم آگے بڑھا تو دانی نے دو قدم الٹے اٹھاےُ...

تمہارے کان ایکسپائر ہو گۓ ہیں نئے ڈلواؤ جا کر...


مسز حیات آپ چکن بنائیں گیں یا نہیں... آہل دانی کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..


ظاہر یے چکن ہی بناؤں گی اب تمہیں تو بنانے سے رہی.. دانی منہ بسور کر بولی..

ویری گڈ اینڈ یہ رہا چکن... آہل فریج سے نکالتا ہوا بولا...


آہل اس میں سے تو سمیل آ رہی ہے دانی گوشت کو سونگھتی ہوئ بولی... دانی ناک پر انگلی رکھے ہوۓ تھی..


ہاں تو کچا گوشت ہے سمیل تو آےُ گی نہ... آہل اس کی ناک سے انگلی ہٹاتا ہوا بولا..


میں پرفیوم لے کر آتی ہوں ایسے تو میرا سانس بند ہو جاےُ گا...دانی سرمئ آنکھوں کو پورا کھولے ہوۓ تھی...


دماغ خراب ہے تمہارا اسے ایسے ہی بناتے ہیں اب جلدی کرو مجھے بھوک لگی ہے... وہ شیلف سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا...

اتنی ہی بھوک لگی ہے تو کھا لو سامنے پڑا ہے میں تو دو دن سے پہلے نہیں بنا سکتی...


دانی ایک ہاتھ سے ناک پر انگلی رکھے دوسرے ہاتھ سے گوشت باؤل میں نکالنے لگی...

آہل دلچسپی سے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دیکھ رہا تھا...


آہل یہ کیا ہے...

مجھے کیا معلوم... وہ شانے اچکاتا ہوا بولا..


تمہیں کیوں نہیں معلوم تم چیف منسٹر ہو...

میڈم چیف منسٹر کا کام ملک سنبھالنا ہے گھر نہیں..


ہاں تو ملک بھی تو ایک ایک گھر سے مل کر بنتا ہے بلکل فارغ ہو تم تو... دانی منہ بناتی چیزیں چیک کرنے لگی پاس ہی آئ پیڈ پڑا تھا ساتھ ساتھ سرچ کرتی جاتی...


آہل کوکنگ جانتا تھا لیکن دانی کے سامنے جان بوجھ کر انجان بن رہا تھا...


اگر تم نے یہ نہ کھایا تو میں تمہیں کھا جاؤں گی.... دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی..

نو پرابلم...


یہ قورمہ بنایا یے تم نے... آہل سالن دیکھتا ہوا بولا..

نہیں نورمہ کو بنایا ہے سیکنڈ ائیر کی بک میں پڑھا ہو گا تم بٹن بٹن فسٹ لیسن... دانی دانت پیستی ہوئ بولی...

اچھا... آہل لب دباےُ سالن ڈالنے لگا...


دانی ففٹی ففٹی ہے بیکار اتنا کہ کھایا نہیں جا سکتا لیکن تمہاری شکل دیکھ کر کھا سکتا ہوں...


کیوں میری شکل سے ٹیسٹ چھلک رہا ہے کیا جو تمہیں پھر یہ سالن کھانے لائق لگے گا...


تم کیوں نہیں کھا رہی.. آہل اسے رنگ گھماتے ہوۓ دیکھ کر بولا..

میرا دل نہیں کر رہا... دانی منہ بناتی ہوئ بولی...


دل کیوں نہیں کر رہا اگر اپنے کھانے کی وجہ سے کہ رہی ہو تو کوک نے بھی کھانا بنایا یے تم وہ کھا لو.. آہل فکرمندی سے بولا..


نہیں تم کھا لو میں تھک گئ ہوں... دانی بال سمیٹتی ہوئ چلنے لگی...

اس لڑکی کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا...


دانی سو کر اٹھی تو آہل اس کے بغل میں بیٹھا تھا...

اٹھ گئ تم... آہل چہرہ موڑ کر بولا..


ہاں... دانی جمائ لیتی ہوئ بولی...

دانی آہل کی بازو سے ٹیک لگا کر موبائل چیک کرنے لگی..

آہل اس خوشگوار تبدیلی پر جہاں حیران تھا وہاں خوش بھی...


آہل مجھے میچ دیکھنے جانا یے... دانی میشو کو جواب دیتی ہوئ بولی..


کہاں... آہل کی انگلیاں تیزی سے چل رہیں تھیں..

دوبئی,, اپنے دوستوں کے ساتھ...


کہیں نہیں جانا تم نے... آہل بےلچک لہجے میں بولا..

پلیز مجھے بہت شوق ہے...


تم پہلے بھی تو گئ تھی...

ہاں لیکن تب فوراً واپس آ گئ تھی یہ بھی معلوم ہو گا تمہیں...


جی ہاں میں جانتا ہوں لیکن اکیلی نہیں..

آہل تین لوگ اکیلے کیسے ہوتے ہیں مجھے بتاؤ.. دانی ابھی تک اس کی بازو سے ٹیک لگاےُ نیم دراز تھی..


میرے پاس ٹائم ہوا تو تمہیں لے جاؤں گا ورنہ نہیں...

دانی خاموش ہو گئ موبائل بند کر کے اپنے اوپر رکھ لیا اور سوچنے لگی...


جیسا جلاد یہ یے میشو اور ارحم کے ساتھ کبھی جانے نہیں دے گا میں نے تو میچ دیکھنا ہے پھر اسی کے ساتھ چلی جاتی ہوں... دانی لب کاٹتی سوچ رہی تھی..


سوچ لیا..

تم کیا جن ہو.. دانی اس کی جانب رخ موڑتی حیرت سے بولی..


نہیں میں بس اپنی دانی کو جانتا ہوں جس دن جانا ہو مجھے بتا دینا تمہارا آئ ڈی کارڈ بھی بنانا پڑے گا...

کیوں.. دانی کی آنکھیں پھیل گئیں...


مجھ سے نکاح ہوا ہے تمہارا شادی کے بعد لڑکی کا آئ ڈی کارڈ دوبارہ بنتا ہے..


تمہیں سب کچھ معلوم ہوتا.. اچھا مجھے اپنا فون دو..

کیوں... آہل کی پیشانی پر لکریں ابھریں..


دو تو سہی...دانی اس کی شرٹ کھینچتی ہوئ بولی..

کیا کرنا ہے تم نے...


کچھ توڑنے کا دل کر رہا ہے...

دانی تنگ مت کرو میں کام کر رہا ہوں.. آہل اپنی بازو سے اس کیا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا.


تم ہو ہی جاہل حیات,, کھا نہیں جاؤں گی تمہارا فون... دانی منہ موڑ کر بیٹھ گئ...

جنگلی بلی خفا ہو گئ ہے...


تمہیں کیا..

اچھا یہ لو,, لیکن تم کیا کرو گی میرے فون کا....آہل اس کی گود میں فون رکھتا ہوا بولا..


سب کچھ ان لاک کرو... دانی آہل کی جانب رخ موڑ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ..


آہل اسے دیکھ کر مسکرانے لگا تو ڈمپل پھر سے عود آیا..

خود لگاؤ پاسورڈ...


اممممم... دانی منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی پھر دانی لکھ کر اینٹر کیا...

دانی مبہوتذدہ سی اسے دیکھنے لگی...


دیکھ لو جو دیکھنا ہے...

دانی نے گیلری کھولی تو اپنی بصارت پر یقین نہ آیا,, دانی بےاعتنائ سے آہل کو دیکھنے لگی..

ایسے مت دیکھو...آہل کی نظریں اسکرین پر تھیں...


چور,, میری پکس چوری کیں ہیں تم نے... دانی اپنی ڈھیروں تصویریں دیکھ کر بولی..

چوری تو نہیں کی بس لے لیں کسی طریقے سے..


وہ چوری ہی ہوتی ہے,, دانی مسکراتی ہوئ اپنی تصویریں دیکھ رہی تھی...

اچھا جی... آہل نے کہ کر بات ختم کی...


وال پیپر تو کمال کا ہے... دانی پسندیدگی سے بولی جو کہ اسی کی تصویر تھی..

یہ میری فیورٹ ہے... بولتے بولتے آہل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ رینگ گئ...


اور میں... بےاختیار دانی کے لبوں سے پھسلا...


یہ ایک مسٹری ہے...

کیا.. دانی لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرتی ہوئ بولی..

کہ تم میرے لیے کیا ہو,, تمہیں یہ مسٹری سولوو کرنی ہے.. آہل اس کی ناک چھیڑتا ہوا بولا..


تم عجیب نہیں بہت عجیب ہو اور یہ مسٹری دنیا کی مشکل ترین مسٹری ہو گی...


تو کیا دانی حیات اسے حل کرنا پسند نہیں کریں گیں...

چیلینج... دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی..


ڈن,, جو مانگو گی دوں گا سولوو اِٹ....آہل کہ کر لیپ ٹاپ کی اسکرین اوپر کی اور کام کرنے لگا...

دانی پھر سے اس کا موبائل دیکھنے لگی...


انعم کا نمبر کیا کر رہا ہے آہل کے پاس... دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں...

دانی تم نے کھانا نہیں کھایا..


ہاں تم رونی کو بولو یہیں لے آےُ کھانا... دانی اس کی میلز چیک کرنے لگی...

میسجز پر لاک تھا جو کہ دانی کے نام سے نہیں کھلا..


میسجز کا پاسورڈ کیا ہے... دانی چہرہ اٹھا کر بولی..

تمہارا وہاں کوئ کام نہیں... آہل سرد مہری سے بولا..


مجھے کھول کر دو... دانی نے فون اس کے سامنے کیا..

تھینک یو,, آپ چیک کر چکی ہیں مزید اب ضرورت نہیں... آہل نے کہ کر فون جیب میں ڈال کیا..


بدتمیز حیات... دانی کہ کر بیڈ سے اتر گئ...

آہل مسکراتا ہوا دانی کو دیکھنے لگا...

***********

ڈاکڑ قدسیہ آپ آہل سے ملنے کیسے جا سکتی ہیں... زبیر ششدہ سا بولا..


وہ اتنے برے حادثے سے نکلا تھا میں کیوں نہ جاتی...

لیکن آپ جانتی ہیں نہ وہ کون ہے...


میں اچھے سے جانتی ہوں اور میری دشمنی آہل سے نہیں...

لیکن پھر بھی آہل...


زبیر آہل کی اپنی ایک الگ جگہ ہے,, میرے دل کی کدورت اسے اس جگہ سے ہٹا نہیں سکتی...


اور اگر وہ جان گیا ماضی تو پھر جانتی ہیں وہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کرے گا... زبیر نے تنبیہ کرنا چاہا..


ماضی ماضی میں رہ گیا وہ کبھی نہیں جان سکتا دس سال پہلے کیا ہوا تھا عاقب جانتا تھا اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا تم اور میں آہل کو بتانے سے رہے سو تم پریشان مت ہوا کرو...


اگر وہ لاعلم ہے تو پھر دانین کو کیوں اپنے ساتھ رکھا ہے اس نے...


ہو سکتا ہے اسے دانین پسند آ گئ ہو,, اسی لیے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا..


دانین میری بیٹی ہے کوئ کھلونا نہیں جسے پسند کیا اور اٹھا کر اپنے گھر لے گۓ...


زبیر پرسکون رہو وہ محفوظ ہے پھر تم کیوں ہائپر ہو رہے ہو...


اگر دانین کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو میں دیکھتا آپ کا یہی رد عمل ہوتا کیا... زبیر افسوس سے بولا..


ڈاکڑ قدسیہ سر نفی میں ہلاتی چاےُ میں چمچ ہلانے لگیں...

***********

سر ایک بری خبر ہے.. رفیق بوکھلا کر بولا..

کیا ہوا رفیق... آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

سر کسی نامعلوم افراد نے فائرنگ کی ہے ایک آدمی جاں بحق اور دو افراد زخمی ہوےُ ہیں.

_________

اووہ شٹ... ارجنٹ میٹینگ رکھو رفیق... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا..

جی سر...

کچھ ہی دیر میں محکموں کے سربراہ کانفرس روم میں بیٹھے تھے...

یہ بلکل اچھا نہیں ہوا خیر جو ہو گیا اسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن شہر میں ہنگامی صورت حال نافذ کر دو, ڈبل سواری پر پابندی لگا دو,

جی سر...

حساس علاقوں میں آرمی کو تعینات کر دو فوری طور پر,, اور رفیق پتہ لگواؤ کس نے فائرنگ کی ہے اس شخص کی پشت پناہی کون کر رہا ہے... آہل فکرمندی سے بولا..

جی تو ناظرین جیسا کہ آپ کو آگاہ کیا گیا کہ ایک نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک افراد جاں بحق اور چار افراد زخمے ہوےُ ہیں جی ہاں چار افراد کچھ دیر قبل پیش آنے والا یہ واقعہ لوگوں کو خوفزدہ کر گیا ہے دیکھتے ہیں حکومت اس کے پیش نظر کیا اقدامات کرتی ہے...

تمام افسر اپنے اپنے کام کے لیے چلے گۓ...

رفیق معلوم کرواؤ اس آدمی کے بارے میں جو جاں بحق ہوا ہے,, اس کی رہائش اور فیملی وغیرہ کا,,,میں خود جاؤں گا...

لیکن سر آپ خود کیسے خطرہ مول لے سکتے ابھی تو آپ کا زخم بھی تازہ ہے... رفیق متفکر سا بولا..

تم فکر مت کرو رفیق مجھے کچھ نہیں ہو گا....آہل پراعتماد انداز میں بولا...

دانی یونی میں ہے... آہل کو یکدم اس کا خیال آیا...

جی سر ابھی ٹائم نہیں ہوا ان کے آنے کا...

پھر ایسا کرو تم اسے خود گھر لے کر آؤ مجھے کسی اور پر بھروسہ نہیں اور دانی کو کچھ نہیں ہونے دے سکتا میں...

جی سر میں دانین میڈم کو لے کر آتا ہوں ساتھ میں اس آدمی کی معلومات بھی..

رفیق کہ کر باہر نکل گیا...

آہل دو انگلیوں سے پیشانی مسلتا ٹہلنے لگا...

یقیناً یہ کسی سیاسی پارٹی کی حرکت ہے,, ان کے لیے زندگی کتنی بےمول ہے اپنے مفاد کی خاطر کسی کو بھی موت کے بھینٹ چڑھا دیں گے کوئ مسئلہ ہی نہیں... آہل تلخی سے سوچنے لگا...

واقعے زندگی کی کوئ اہمیت نہیں... آہل ماضی میں جا رہا تھا...

آہل نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اور نفی میں سر ہلاتا خود کو باز رکھنے لگا,,

میں معذرت چاہتا ہوں آپ سے کہ ہمارے دور حکومت میں ایسا واقعہ پیش آیا,,

مجھے بہت افسوس ہے لیکن موت کا وقت طے ہے کسی نہ کسی بہانے سے لے جاتی انسان کو, خدا کے فیصلے میں ہم دخل نہیں دے سکتے,, لیکن میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ آپ کا خرچ حکومت اٹھاےُ گی ہماری حکومت دوبارہ آےُ یا نہ آےُ..

بہت شکریہ آپ کا.. خاتون دوپٹے سے آنکھیں مسلتی ہوئ بولی..

میں جانتا ہوں دنیا کی کوئ بھی چیز ان کی کمی پوری نہیں کر سکتی لیکن جینے کے لیے بنیادی ضروریات کھانا, لباس, تعلیم ان کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ کام میں بخوبی انجام دے سکتا ہوں آپ کے شوہر کو واپس نہیں لا سکتا لیکن ان کی ذمہ داری ضرور اٹھا سکتا ہوں...

آپ نے اتنا کہا یہی بہت ہے جانتی ہوں دنیا کی کوئ دولت ان کے بابا کو واپس نہیں لا سکتی...

آہل افسوس سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھنے لگا...

یتیمی بہت دردناک شے ہے میں جانتا ہوں کیونکہ آہل حیات بھی ایک یتیم ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کبھی آپ سے غفلت نہیں برتوں گا یہ بچے میرے بچوں کی مانند ہیں.

میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ خود تشریف لاےُ ہمارے اس چھوٹے سے گھر میں.

ناظرین آپ نے دیکھا ابھی ابھی وزیر اعلیٰ آہل حیات خود مرحوم فیض رسول کے غریب خانہ میں تشریف لاےُ ان کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا اور ان کی مالی امداد کرنے کی یقین دہانی کرائ جی ہاں ان کا کہنا تھا وہ خود بھی یتیم ہیں ان کا درد سمجھ سکتے ہیں,, آہل حیات ناساز طبیعت کے باوجود خود تشریف لاےُ اور ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی کروائ ہے خواہ ان کی حکومت دوباہ بنتی ہے یا نہیں وہ اس فرض کو ادا کریں گے....

آہل جونہی گھر میں داخل ہوا نظر دانی اور اس کے دوستوں سے ٹکرائ, چہرے پر ناگواری عود آئ چونکہ ارحم بھی ان کے ہمراہ تھا...

آہل طیش میں آگے آیا دانی کا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز قدم اٹھانے لگا,

میشو جس نے بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا اسے دیکھ کر خاموش ہو گئ...

آہل کیا مسئلہ ہے کیوں مجھے لے جا رہے ہو... دانی اس کے ساتھ بامشکل قدم ملاتی ہوئ بولی..

یا اللہ گولی کھا کر بھی اس بندے کی بیٹری ذرا لو نہیں ہوئ ختم ہونا تو بہت دور کی بات ہے...

آہل نے دروازہ بند کیا اور دانی کو دروازے ساتھ لگا دیا...

ہوا کیا ہے...دانی اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر بولی..

آہل نے دونوں ہاتھ دانی کے بازو پر رکھے,, تمہیں منع کیا تھا نہ ارحم سے دور رہنے کو...

آہ.. آہل مجھے درد ہو رہا یے.. دانی نے بازو اس کی گرفت سے آزاد کروانی چاہی جس کی انگلیاں کسی لوہے کی سلاخ کی مانند دانی کی نازک بازو میں پیوست ہو رہیں تھیں...

میری بات کا جواب دو.. آہل کی گرفت مزید سخت ہو گئ...

آہل مجھے درد ہو رہا یے... دانی کی آنکھ سے آنسو چھلکنے لگے...

ٹھیک یے جب وہ بولنے کے قابل نہیں رہے گا پھر تم باز آؤں گی... آہل نے کہ کر اس کی بازو آزاد کی...

دانی دونوں ہاتھوں سے بازو مسلتی شکایتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

تم اسے کچھ مت کرنا میں دوبارہ ارحم سے بات نہیں کروں گی...

کیوں,, کیا لگتا ہے وہ تمہارا جو اس کی فکر ہے تمہیں.. آہل کا منہ دبوچتا ہوا بولا..

دانی ناراض ناراض سی اس کا ہاتھ ہٹانے لگی.آہل نے سر جھٹک کر ہاتھ ہٹایا اور ٹہلنے لگا...

اور کسی پر نہیں تو مجھ پر تو رحم کھا لیا کرو.. دانی روتی ہوئ چلائ..

آہل دو انگلیوں سے پیشانی مسلنے لگا...

تمہیں درد نہیں ہوتا تو اس کا مطلب باقی سب بھی پتھر کے ہیں... دانی دکھ سے بول رہی تھی...

آنسو لڑھک کر گال پر آ رہے تھے..

آہل کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے اور چہرہ موڑ کر دانی کو دیکھنے لگا جو شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہی تھی...

آہل نے اسے شانوں سے تھام کر صوفے پر بٹھایا اور خود گھنٹوں کے بل بیٹھ گیا...

آئم سوری... آہل اپنی انگلی کی پوروں سے دانی کے رخسار پر آےُ آنسو صاف کرتا ہوا بولا.. دانی نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھنے لگی...

یہ جہاں سے تم نے پکڑا تھا گولی ماری تھی یہاں یاد ہے... دانی حلق کے بل چلائ..

آہل نے شرمندگی سر جھکا لیا...

جاہل ہو تم سچ میں... آنسو پھر سے دانی کے رخسار کو بھگونے لگے...

اووکے آئ پرامس دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہو گا آہل اپنی دانی کو درد نہیں دے گا... آہل اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتا ہوا بولا..

دانی نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی...

تم ارحم کے ساتھ نظر نہ آؤ مجھے دانی میں ایک بات بار بار دہرانے کا روادار نہیں ہوں..

لیکن تم اسے کچھ نہیں کہو گے وہ میرا بچپن کا دوست ہے...

میں جانتا ہوں اس لیے تمہیں پہلے آگاہ کیا تاکہ تم دور رہو اس سے ورنہ سیدھا اس کا کام کرتا,, میشو سے رکھو دوستی مجھے کوئ مسئلہ نہیں لیکن ارحم سے نہیں... آخر میں آہل کے چہرے کے تاثرات سخت ہو گۓ...

آہل وہ دوست ہے میرا...

دانی اسلام مرد اور عورت کو دوستی کی اجازت نہیں دیتا,,, کیا دوست ہونے سے وہ تمہارا محرم ہو گیا ہے...

دانی لاجواب ہو گئ... کم از کم آہل سے اس نوعیت کے جواب کی توقع نہیں تھی..

بولو دانی تم اس کے ساتھ اتنی فرینک ہوتی ہو کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے...

نہیں.. دانی دھیرے سے بولی..

پھر میں کیسے برداشت کر لوں,, میرا بس چلے تو کسی کی نظر بھی نہ پڑنے دوں تم پر..

تم اتنے شدت پسند کیوں ہو...

کیونکہ دانی صرف میری ہے تم پر حق ہے تو صرف میرا,, یہ جو ہوا بھی تمہیں چھوتی ہے نہ مجھے ناگوار گزرتی ہے میرا بس چلے تو ان ہواؤں کو بھی روک دو... دانی آنکھوں میں حیرت سموےُ اس کی دیوانگی سن رہی تھی...

تم نماز پڑھتے ہو... دانی نے کسی خیال کے تحت پوچھا..

کبھی کبھار جب وقت مل جاےُ... آہل دانی سے نظریں ملاےُ بغیر بولا..

تو نماز بھی تو فرض ہے تم اسے کیوں نہیں پورا کرتے...

دانی یہ میرا اور میرے اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے کیا میں نے کبھی تمہیں نماز پڑھنے کو کہا نہیں نہ کیونکہ یہ تمہارے اور اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے میں بیچ میں دخل نہیں دے سکتا لیکن چونکہ تم میری بیوی ہو تو اس چیز سے میں تمہیں روک سکتا ہوں کہ یہ ہم دونوں کے بیچ کا معاملہ ہے جو باتیں آج بتا رہا ہوں انہیں اپنے ذہہن میں بٹھا لینا کیونکہ میں دہرابے کا عادی نہیں...

دانی خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگی...

ٹھیک ہے میں نہیں رکھوں گی ارحم سے دوستی...دانی دھیرے سے بولی..

گڈ گرل,, اب جاؤ انہیں فارغ کرو.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

دانی چہرہ صاف کرتی باہر نکل گئ...

انعم ابھی میرے پاس ٹائم ہے بولو آ سکتی ہو.. آہل فون کان کو لگاےُ بولا..

ہاں ٹھیک ہے وہیں آنا ہے نہ جہاں پہلے ملے تھے..

ہاں اسی جگہ پر آ جاؤ لیکن خیال سے کسی کو معلوم نہ ہو تم مجھ سے ملنے آ رہی ہو...

ٹھیک ہے.. انعم نے کہ کر فون رکھ دیا...

دانی میں کام سے جا رہا ہوں رات میں آ جاؤں گا... آہل لاؤنج میں آکر بولا..

ٹھیک ہے... دانی اثبات میں سر ہلاتی ہوئ بولی..

آہل نے ایک نظر اس پر ڈالی اور گاگلز لگاتا باہر نکل گیا...

بولو کیسی ہیلپ چائیے...

آہل کسی طرح میری جان احد سے چھڑوا دو وہ نہایت کمینہ انسان ہے... انعم اکتا کر بولی..

آہل اس کی بات کا مفہوم سمجھ گیا...

ہاں میں جانتا ہوں اسے باپ فوج میں تھا تو بیٹے کو آرام سے جگہ مل گئ... آہل اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا..

جان صرف تم سے چھڑوانی ہے یا دنیا سے.. آہل ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر بولا..

نہیں صرف مجھ سے,, اگر اسے میری طلاق کا معلوم ہو جاےُ تو آئم شیور اس کی فیملی انکار کر دے گی...

ہممم اور تمہاری طلاق کے کاغذات ابھی تک کورٹ نہیں پہنچے جہاں تک مجھے علم ہے,, کہاں ہیں وہ پیپرز...

ہاں,, ڈیڈ تو اس دن چلے گۓ تھے پیپرز شاید میرے روم میں ہی ہیں انہیں صرف سائن کروانے سے مطلب تھا...

تم ایسا کرو وہ پیپرز اپنے ڈیڈ کو دے دو کہ کورٹ میں جمع کروائیں باقی میں دیکھ لوں گا..

اگر میری طلاق نہیں ہوئ تو تم کیوں کروانا چاہتے ہو...

جب تک رحیم تمہیں بول کر طلاق نہیں دیتا تب تک نہیں ہو گی ویسے بھی پیرز بھی تو کورٹ تک جائیں تو پھر نہ...

لیکن میرا نام نہ آےُ ورنہ ڈیڈ رحیم کو نہیں چھوڑیں گے...

تم بےفکر رہو میں ہر چیز اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گا اور کچھ...

نہیں بس یہی ایک کام ہے,, اور ایڈوانس میں تھینکس... وہ ممنونعیت سے بولی..

نو ایشو... آہل کوٹ بند کرتا کھڑا ہو گیا...

اگلی ملاقات یقیناً تم مجھے شکریہ کہنے کے لیے کرو گی... آہل ہلکا سا مسکرایا...

آی ہوپ سو.. انعم مسکرا کر بولی..

آہل جیب میں ہاتھ ڈالتا چلنے لگا...

اللہ کرے آہل سب سیٹ کر لے... انعم دعا مانگتی چلنے لگی...

________

پلیز مجھے چھوڑ دو,, وہ ہاتھ جوڑے منت کر رہی تھی...

پلیز مجھے جانے دو تمہیں جو چائیے مل جاےُ گا لیکن پلیز مجھے جانے دو,, تم جو کہو گے تمہیں دے دوں گی... وہ آنسو بہاتی منت سماجت کر رہی تھی لیکن مقابل ہنسی اڑاتا شرٹ کے بٹن کھولنے لگا..

اس کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا...

پلیز مت کرنا یہ پلیز میری زندگی تباہ ہو جاےُ گی پلیز مجھے چھوڑ دو تمہاری ہر مانگ پوری ہو گی لیکن یہ مت کرو... اس کا جسم کپکپانے لگا تھا ہاتھ پاؤں ڈھنڈے پڑ گۓ چہرے کا رنگ فق ہو گیا,, خوف کی ایک سرد لہر اس پر سرایت کر گئ...

**********

آہل کمرے میں آیا تو ناسمجھی سے دانی کو دیکھنے لگا دانی حونق ذدہ سی بیڈ پر کھڑی تھی...

واٹ ہیپنڈ... وہ دانی کو دیکھ کر حیرت سے بولا..

تھینک گاڈ آہل تم آ گۓ... دانی لمبا سانس کھینچتی ہوئ بولی...

کیا ہوا ہے تم اوپر کیا کر رہی ہو...

آہل ہمارے روم میں چھپکلی ہے... دانی زور سے آنکھیں بند کرتی ہوئ بولی...

آہل سر پر ہاتھ مارتا دانی کو دیکھنے لگا...

نیچے اترو دانی... آہل گھور کر بولا..

نو... پہلے تم چھپکلی کو مارو... دانی کے چہرے پر خوف کی لکریں تھیں..

دانی میں کیسے اسے مار سکتا ہوں...

کیوں ساری دنیا کو مار سکتے ہو چھپکلی کو مارتے ہوۓ تمہارا ضمیر جاگ رہا ہے کیا...

یار وہ نظر تو آ نہیں رہی تم نیچے آ جاؤ.. آہل کو غصہ آ رہا تھا...

ابھی نظر نہیں آ رہی لیکن کیا پتہ جیسے میں نیچے پاؤں رکھوں وہ آ جاےُ.. نو میں نہیں آ رہی... دانی دونوں ہاتھ آپس میں مبسوط کیے ہوئ تھی...

یا اللہ یہ لڑکی... آہل سر تھام کر بیٹھ گیا..

اب میں کیا کروں میڈم مجھے بتائیں... آہل چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا..

تم پہلے چھپکلی کو ڈھونڈو,,

اچھا,, دانی بول رہی تھی جب آہل نے ٹوکا..

پھر اس کو مارو اس کے بعد میں نیچے آؤں گی.. دانی تھوک نگلتی ہوئ بولی...

آہل نفی میں سر ہلاتا کھڑا ہو گیا اور دانی کے سامنے آیا...

اگر وہ تمہارے پاؤں پر چڑھ جاےُ گی تو کیا ہو جاےُ گا... آہل شریر لہجے میں بولا..

اِاااا... دانی جھرجھری لیتی ہوئ بولی..

یار تم نیچے آؤ وہ نہیں آےُ گی...

میں نہیں پہلے مجھے اس کی لاش دکھاؤ پھر میں بیڈ سے نیچے پاؤں رکھوں گی...

آہل منہ پر ہاتھ رکھے مسکراتا ہوا دانی کو دیکھنے لگا سرمئ آنکھوں میں خوف تیرتا دکھائ دے رہا تھا...

اچھا پھر آؤ میں تمہیں باہر لے جاتا ہوں کیونکہ اسے ڈھونڈنے کے لیے بیڈ اٹھانا پڑے گا..

تم میرے ساتھ ہی بیڈ اٹھا لو...

آہل کا ڈمپل مزید گہرا ہو گیا...

دانی میں جا رہا ہوں اگر تم نے باہر جانا ہے تو آ جاؤ ورنہ پھر اپنی دوست کے ساتھ رہو... آہل جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا..

آہل تم میرے لیے ایک چھپکلی نہیں مار سکتے کیا... دانی رونے والی شکلی بناتی ہوئ بولی..

بلکل بھی نہیں... وہ قطعیت سے بولا..

اللہ کرے تمہیں کھا جاےُ یہ چھپکلی تمہاری شرٹ کے اندر گھس جاےُ یہ چھپکلی اور پھر باہر بھی نہ نکلے...دانی جل بھن کر بولی..

اووکے مسز حیات میں جا رہا ہوں آپ یہیں رہیں... آہل مسکراتا ہوا دروازے کی جانب چل دیا...

آہل نہ کرو... دانی صدمے سے بولی..

اچھا ٹھیک ہے آؤ... دانی ہار مانتی ہوئ بولی..

دانی تھوک نگلتی ڈرتی ہوئ نیچے دیکھنے لگی..

آہل شریر مسکراہٹ لیے دانی کے سامنے آیا اور دانی کو اپنی بازوؤں میں اٹھا لیا.. دانی نے اس کی گردن میں بازو ڈال دئیے اور نیچے دیکھنے لگی...

گرا دوں تمہیں... وہ بولتا ہوا چلنے لگا..

میں تمہیں گھر سے نکال دوں گی اگر تم نے اپنے اس ارادے پر عمل کیا تو... دانی گھورتی ہوئ بولی..

کتنی بھاری ہو تم دانی... آہل دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

دانی کو اٹھایا ہے تم نے گندم کی بوری کو نہیں..

آہل کھل کر مسکرا دیا,, دانی پھر سے اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی...

کیا دیکھ رہی ہو... آہل کمرے سے باہر آتا ہوا بولا..

تمہارا گندہ سا ڈمپل... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

آہل نفی میں سر ہلاتا زینے اترنے لگا...

اب اتار دو مجھے پاؤں سلامت ہیں میرے..

میری مرضی جب ہو گی اتار دوں گا... آہل اس کی گرے آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

ہاں بازو ٹوٹ جائیں نہ پھر بھی نہ اتارنا میں تو کہتی ہوں پکڑنے سے پہلے ایلفی لگا لینی تھی تاکہ کبھی اتار ہی نہ سکو مجھے...

آہل مسکراتا ہوا لاؤنج میں آ گیا..

اتار دو مجھے کوئ ایوارڈ نہیں ملنا...

دانی کو شرارت سوجھی تو اپنی انگلی سے آہل کی گردن گدگدانے لگی..

دانی بہت شرارتی ہو تم... آہل اسے نیچے اتارتا ہوا بولا..

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے تمہارا بھی یہی حال ہے... دانی کمر پر ہاتھ رکھتی گھور کر بولی..

کچھ کھاؤ گی... آہل جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا..

ہاں.. دانی بھی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہوئ بولی..

کیا کھاؤ گی بتاؤ...

تمہاری کڈنی... دانی مسکرا کر کہتی اسے دیکھنے لگی.

ہاہاہاہا وہ نہیں دے سکتا تمہیں اس کے علاوہ کچھ بولو...

آہل تم نے کہا تھا کہ یہ ایک مسٹری ہے کہ دانی تمہارے لیے کیا ہے... دانی سپاٹ انداز میں بول رہی تھی...

بلکل.. آہل نے کہ کر اس کی جانب ایک قدم بڑھایا...

اتنی جلدی حل کر لی حیرت ہے...

نہیں ابھی حل نہیں کی,, یہ مسٹری نہیں بلکہ تم بہت عجیب ہو... دانی کے چہرے پر الجھن تھی..

اچھا تو پھر نہیں کرو گی اسے حل.. وہ دانی کی گرے آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا...

کروں گی,, معلوم ہے کبھی کبھی لگتا ہے دانی تمہارے لیے کوئ اہمیت نہیں رکھتی جب تم مجھے کچھ سمجھتے نہیں ہو...

اچھا اور کبھی کبھی... آہل نے مسکراتے ہوۓ دانی کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں پھنسائیں,, آہل نے مسکراتے ہوۓ نظر اٹھا کر دانی کو دیکھا....

اور کبھی کبھی لگتا ہے تم دانی سے بہت محبت کرتے ہو... دانی ہاتھ سے نظر اس کے چہرے تک لے جاتی ہوئ بولی...

میری خواہش ہے کہ تم جلدی اس مسٹری کو حل کرو...

تم نے مجھے کسی مقصد کے تحت اپنے پاس رکھا ہے کیا...دانی نے خدشہ ظاہر کی...

تمہیں کیا لگتا ہے میری آنکھیں پڑھ لو...

مجھے یہ آنکھوں کی زبان نہیں آتی... دانی معصومیت سے بولی.

سمجھ جاؤ گی بہت جلد.. آہل اپنی ناک سے دانی کی ناک رگڑتا ہوا بولا...

تم مجھے پاگل کر دو گے سچ میں... دانی جھرجھری لیتی ہوئ بولی..

ایک منٹ کال کر لوں.. آہل مسکراتا ہوا سائیڈ پر آ گیا..

رفیق سنو میں دانی کو لے کر باہر نکل رہا ہوں تم مجھے کال کرنا میں دانی سے دور جا کر بات کروں گا اتنے میں دانی غائب ہو جانی چائیے اور محتاط رہنا غلطی کی گنجائش نہیں میں نہیں چاہتا کوئ بھی چیز بگڑ جاےُ... آہل فکرمندی سے بولا...

جی سر ٹھیک ہے... آہل مسکراتا ہوا واپس آ گیا...

باہر چلیں... وہ حسب عادت جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا...

دانی مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتی چلنے لگی. میرا آئ ڈی کارڈ کب تک آ جاےُ گا...

آ جاےُ گا جلد ہی,, میرے ساتھ گھومنے کے لیے تیار ہو.. وہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے کالونی میں...

ہاں تمہارا لاکٹ,, پہنا دوں... وہ جیب سے نکالتا ہوا بولا..

پہلی بار پوچھا تھا جب پہنایا تھا.. دانی گھور کر بولی..

آہل مسکراتا ہوا اس کے قریب ہوا اور اس لاکٹ کو پھر سے دانی کی گردن کی زینت بنا دیا..

اب ٹھیک ہے...

مجھے اپنی بازو دکھاؤ...

کیوں.. آہل تعجب سے بولا..

دکھاؤ تو... دانی اس کا بائیاں ہاتھ پکڑتی ہوئ بولی..

ٹیٹو دیکھنا یے... وہ سٹڈ کھولتا ہوا بولا..

ہاں.. دانی اشتیاق سے بولی.

**********

سر رفیق دو دن سے مسلسل کال کر کے زمین کا مطالبہ کر رہا ہے...

مجھے لگا تھا یہ آہل کسی محبت کے چکر میں دانی کو اپنے پاس رکھے ہوےُ ہے لیکن اس کی نظر میری ریفائنری والی زمین پر ہے... وہ کوفت سے بولے...

سر وہ دھمکی دے رہا یے کہ دانی میڈم کو جان سے مار دے گا اگر زمین آہل حیات کے نام نہ کی تو....

میں اسے پھر سے اوپن کرنے کی کوشش کر رہا اور یہ کمینہ میری کمائ کا واحد ذریعہ بھی بند کرنا چاہتا ہے...

سر فائرنگ کروانے کا بھی کوئ فائدہ نہیں ہوا اس نے لواحقین کے گھر جا کر عوام کے دل مزید اپنے جانب کھینچ لیے ہیں...

یہی بات مجھے زہر لگتی ہے یہ جو ہمیشہ لوگوں کے پاس پہنچ جاتا اپنے جو گولی لگی اس کی فکر نہیں اور دوسروں کے ساتھ افسوس کرتا پھر رہا ہے...

سر پھر اب کیا کریں...

دھمکی دے رہا ہے کچھ نہیں کرے گا دانی کو لیکن تم پھر بھی احتیاطاً پیپرز تیار کروا لو دانی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کچھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا میں...

لیکن سر,, آپ...

کس نے کہا میں اسے زمین دے رہا ہوں تمہیں احتیاطاً بولا اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں جا کر اسے تحفے میں اپنی زمین دے دوں... وہ ہنکار بھرتے ہوۓ بولے..

جی سر مجھے لگتا ہے وہ جانتا کچھ نہیں صرف زمین کے چکر میں یہ سب کر رہا..

ہاں اب تو مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے ویسے بھی وہ ماضی سے ناآشنا رہے تو ہی بہتر ہے ہمارے لیے ورنہ یہ تو میری جان کا دشمن بن جاےُ گا...

جی سر وہ لیپ ٹاپ اور اس میں موجود مواد تباہ ہو چکا ہے اور یہ پھر سے آپ کے لیے خط آیا ہے... وہ پریشانی سے بولا..

وہ آہل حیات کم یے کیا جو یہ نیا دشمن میرے پیچھے پڑ گیا... وہ جھنجھلا کر لفافہ کھولنے لگے...

میں رات نو بجے تمہیں فون کروں گا تاکہ تم مجھے اپنی رہائ کی قیمت بتا سکو...

پھر سے صرف ایک ہی سطر تھی...

لعنت ہو اس پر... اب آہل کو قیمت دوں یا اسے... وہ سر تھام کر بیٹھ گۓ...

دروازے پر دستک ہوئ تو زبیر نے سر اٹھا کر دیکھا..

کیا ہے... وہ خفگی سے بولے..

سر یہ انعم میڈم نے آپ کو دینے کو بولا تھا...

وہ پیپرز زبیر کے سامنے رکھتا ہوا بولا..

چلو اس سب میں کچھ تو اچھا ہوا... وہ سانس خارج کرتے دیکھنے لگے..

کل لے جانا یہ پیپرز کورٹ میں,, اور رفع دفعہ کرواؤ اسے... وہ کہتے ہوۓ کھڑے ہو گۓ...

سیگرٹ سلگائ اور کھڑکی میں آ کر پینے لگے..

آہل نے آستین اوپر کی اور بائیں بازو دانی کے سامنے کر دی,, سیاہ رنگ سے لکھا گیا دانی جو کبھی نہیں مٹ سکتا تھا... بازو کی رگیں ابھریں ہوئیں تھیں,, دانی اس کی فولادی بازو پکڑے ٹیٹو پر ہاتھ پھیرنے لگی...

تمہیں درد نہیں ہوا تھا... دانی نے چہرہ اٹھا کر کہا..

تمہیں کیا لگتا ہے میں کوئ کمزور سا انسان ہوں..

نہیں لیکن پھر بھی...

آہل نے بازو چھڑوائ اور آستین نیچے کرنے لگا...

ایک تو تم آدھی باتوں کے جواب نہیں دیتے... دانی منہ بسورتی چلنے لگی..

آہل دھیرے سے مسکرانے لگا...

جتنا تمہارے جاننے کے لیے اہم ہوتا ہے اس سے آگاہ کر دیتا ہوں میں...

دانی چہرہ موڑے اسے گھورنے لگی..

آہل کا فون رنگ کرنے لگا...

تمہاری ہاف گرل فرینڈ کا ہو گا... دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی..

دو منٹ... وہ مسکرا کر کہتا دانی سے دور جا کھڑا ہوا..

دانی اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی جب کسی نے عقب سے دانی کے منہ پر رومال رکھا,, دانی کے چہرے کے تاثرات پہلے حیرت سے پھر غصہ میں تبدیل ہو رہے تھے,, اس نے آہل کو آواز دینے کی سعی کی لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی دانی کو بےہوش کر کے ہی دم لیا...

آہل نے منہ پر رومال باندھا اور دانی کو اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا...

چلو... تحکم سے کہتا باہر دیکھنے لگا...

دانی کو رسیوں سے باندھ کر کرسی پر بٹھا رکھا تھا آہل اس کے عقب میں تھا جب کہ رفیق اس کے سامنے کھڑا ہوش میں آنے کا منتظر تھا...

رفیق نے ہاتھ میں گن تھام رکھی تھی اور آہل پرسکون انداز میں ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ بیٹھا تھا...

دانی کا چہرہ بائیں جانب جھکا ہوا تھا دانی آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے لگی حواس بحال ہوےُ تو معلوم ہوا کہ اسے کسی نے اغوا کر لیا ہے دانی نے خود کو چھڑوانے کی سعی کی لیکن رسیاں اس کی سوچ سے زیادہ مضبوط تھیں,, دانی نے چہرہ اٹھا کر سامنے دیکھا تو اپنی بصارت پر شبہ ہوا...

رفیق تم... دانی ششدہ سی بولی.

رفیق نے زبیر کو ویڈیو کال کی اور کیمرہ دانی کی جانب کر دیا...

دیکھ لو اپنی بیٹی کو,, تمہیں لگا تھا یہ سب مذاق ہے...

رفیق اگر دانین کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا... زبیر طیش میں بولے.. کول ڈاؤن جو مانگا ہے دے دو اور اپنی دانین کی زندگی بچا لو تمہاری بیٹی کی زندگی کا سوال ہے آخر کو...

بکواس مت کرو... زبیر دھاڑا..

دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی..

رفیق یہاں ہے تو آہل کہاں ہے,, کیا یہ سب آہل نے کروایا یے یا پھر رفیق خود ایسا کر رہا یے... دانی کے دماغ میں کئی سوال جنم لے رہے تھے.آہل نے عقب سے اشارہ کیا اور رفیق نے گولی چلا دی...

دانی نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں...

زبیر حونق ذدہ سے اسے دیکھ رہے تھے...

کل صبح اگر پیپرز نہ ملے تو دانین کی لاش ملے گی... رفیق نے کہ کر فون بند کر دیا..

زبیر صدمے سے وہیں بیٹھ گۓ...

آسم وہ سچ میں دانین کو مار دیں گے مجھے کچھ کرنا پڑے گا...

سر آہل کے ساتھ ہم کوئ گیم نہیں کھیل سکتے اگر دیکھا جاےُ تو دانین میڈم اس کی بیوی ہیں تو آپ اس کے نام وہ ریفائنری والی جگہ کر دیں بعد میں جس طرح آہل نے دانین میڈم کا استعمال کیا آپ بھی دانین میڈم کو یوز کر کے زمین واپس لے لیجیے گا اس طرح دانین میم بھی محفوظ ہو جائیں گیں اور زمین بھی مل جاےُ گی... آسم کہ کر انہیں دیکھنے لگا...

مشورہ تو اچھا ہے بس پھر جلدی سے کرو یہ کام پہلے بھی اس نے دانین پر گولی چلائ تھی نکاح کرنے کے لیے اسے میری بیٹی سے کوئ مطلب نہیں ہے صرف اپنے کام سے مطلب ہے میں اب رسک نہیں لے سکتا..

ٹھیک ہے سر میں جاتا ہوں پھر... آسم سر ہلاتا نکل گیا...

اب تو ریفائنری کو پھر سے اوپن کرنے والا تھا میں اور اس آہل کی وجہ سے سب کچھ ختم ہو جاےُ گا مجھے کسی اور بزنس کے بارے میں سوچنا چائیے... زبیر فکرمندی سے بولے...

ایسے تو ایک دن سارا پیسہ ختم ہو جاےُ گا.. انہیں خطرہ لاحق ہو گیا...

_______

دانی نے آنکھیں کھولیں اور خود پر نظر ڈالی..

چوک گیا نشانہ.. رفیق دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی...

یہ سب کیا ہو رہا یے آہل کہاں ہو تم... دانی دائیں بائیں دیکھتی ہوئ بڑبڑائ...

آہل نے دانی کے عقب سے رفیق کو اشارہ کیا... رفیق نے انجیکشن اٹھایا اور دانی کی گردن میں لگا دیا...

دانی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی چند ساعتوں بعد دانی ہوش سے بیگانہ تھی...

رفیق باہر نکل گیا آہل چل کر دانی کے سامنے آ گیا دانی کا چہرہ جھکا ہوا تھا...

آہل نے ہاتھ بڑھا کر دانی کے چہرے سے بال ہٹاےُ...

آئم سوری دانی تمہیں تکلیف ہو رہی ہو گی لیکن یہ ناگزیر ہے... آہل افسوس سے بولا..

بس کل صبح تک پھر تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا... آہل دھیرے سے مسکرا دیا...

آسم فون کرو آہل کو... زبیر فکرمندی سے بولے.

آسم سر ہلاتا فون ملانے لگا...

ہاں بولو زبیر پھر دانی کا جنازہ پڑھنے آؤ گے یا پیپرز بھیجواؤ گے... آہل صوفے پر بیٹھا تھا پاؤں میز پر رکھے ہوۓ تھے دونوں پاؤں آپس میں ضرب کھا رہے تھے...

اچھا نہیں کر رہے آہل میری محنت کو تم یوں چھین رہے ہو ہضم نہیں ہو گا تمہیں یہ...

میرا ہاضمہ خراب ہو گا یا نہیں ڈیٹس نان آف یور بزنس اگر میرا وقت برباد کرنا ہے تو بولو فون بند کروں... آہل اکتا کر بولا..

میں پیپرز بھیجوا رہا ہوں آسم کے ہاتھ بتاؤ کہاں...

تم زحمت مت کرو رفیق آ جاےُ گا تمہارے گھر اسے پیپزر دے دینا میں دانی کی زندگی بخش دوں گا...

زبیر خاموش ہو گیا...

دانی واپس گھر آےُ گی...

میں نے تمہیں چوائس نہیں دی ہاں یا نہ میں جواب دو میں بھی ترس رہا ہوں تمہیں کسی کا جنازہ پڑھتے دیکھنے کے لیے... آہل کدورت سے بولا..

زبیر تڑپ اٹھے...

اچھا اچھا ٹھیک ہے بھیجو رفیق کو دانی کو بھی میں اپنے پاس لے ہی آؤں گا...

ہاں,,وقت بتاےُ گا دانی کس کے پاس رہے گی.. آہل نے کہ کر فون رکھ دیا...

آہل کہ کر دانی کے پاس آ گیا...

دانی بس کچھ ہی دیر میں ہم واپس چلے جائیں گے اس کے بعد بس ایک کام مجھے تم سے کروانا ہے... وہ جیب میں ہاتھ ڈالے دانی کو دیکھ کر بولا...

آہل کا فون رنگ کرنے لگا تو وہ دانی کی جانب پشت کیے کان سے لگا کر کھڑا ہو گیا...

فون کی رنگ سے دانی کی پلکوں میں جبنش آئ,, دانی نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے نفس کو دیکھا..

سر وہ پیپرز دینے سے انکار کر رہا ہے کہتا پہلے دانی کو لے کر آؤ...

مجھے معلوم تھا یہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا...

میں ایک فون کرتا ہوں اس کے بعد پیپرز تمہارے ہاتھ میں ہوں گے...

آہل نے کہ کر فون سامنے رکھا اور ویڈیو کال ملا لی...

جیب سے گن نکال کر دانی کے عقب میں آ گیا..تمہیں میری بات بلکل سمجھ نہیں آتی نہ... آہل سختی سے بولا..

َزبیر طیش میں آہل کو دیکھنے لگے...

آہل نے دانی کو کھولا ,,,دانی ششدہ سی اسے دیکھنے لگی...

آہل تم... دانی آہستہ سے بولی...

آہل اسے نظر انداز کرتا زبیر کو دیکھنے لگا...

آہل دانی کے عقب میں کھڑا اس کے سر پر گن تانے ہوۓ تھا...

آہل اگر دانی کو کچھ بھی ہوا..

تمہیں زبان سے سمجھایا تھا لیکن سمجھ نہیں آیا دانی اچھے سے جانتی ہے میں ایک بار پہلے بھی اسے گولی مار چکا ہوں اور تم جانتے ہو میرا نشانہ قطعاً نہیں چوکتا... آہل کے چہرے پر بلا کی سختی تھی...

اشک آنکھوں سے ٹوٹ کر دانی کے رخسار پر آ گرے...

دانی بےیقینی کی کیفیت میں تھی...

ڈیڈ یہ جو مانگ رہا ہے اسے پلیز دے دیں میں جانتی ہوں یہ گولی چلا دے گا... دانی کے اندر کچھ ٹوٹا..

دانی یہ کچھ نہیں...

آہل نے ٹریگر پر ہاتھ رکھتا...

صرف تیس سیکنڈ اس کے بعد دانی سے تم بات نہیں کر سکو گے.

زبیر شش و پنج میں مبتلا آہل کو دیکھنے لگے جہاں زمانے بھر کی سختی تھی پھر نظر دانی پر پڑی جو بےآواز آنسو بہا رہی تھی...

ناچاہتے ہوۓ بھی زبیر نے پیپرز آسم کو دے دئیے...

دو منٹ بعد رفیق کی کال آنے لگی...

آہل نے جیب سے دوسرا فون نکالا...

ہاں رفیق بولو...

سر میں نکل چکا ہوں یہاں سے لیکن ان کا کوئ بھروسہ نہیں جب تک میں پہنچ نہیں جاتا آپ دانین میم کو چھوڑیے گا مت..

ہاں ٹھیک ہے تم آ جاؤ.. آہل نے کہ کر فون بند کر دیا..

ویل زبیر کیسا لگ رہا یے دانی کو یوں موت کے دہانے پر دیکھ کر...

آہل تم میرے ہاتھ لگو...

کول ڈاؤن تم مجھ سے نیچے ہو سو بھڑاس نکالنے کا سوچنا بھی مت...آہل نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا...

دانی سر جھکاےُ اشکوں کو بےمول کر رہی تھی کم از کم اب اسے آہل سے ایسی توقع نہیں تھی...

جونہی رفیق اندر آیا آہل نے گن ہٹا دی اور رفیق کو اشارہ کیا...

رفیق نے کال بند کر دی اور پیپرز رکھ کر باہر نکل گیا...

واؤ جنگلی بلی تم نے بہت اچھی ایکٹنگ کی ایک پل کو تو میں بھی حیران رہ گیا... آہل اس کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا..

دانی نے اپنا دائیں ہاتھ آہل کے بائیں رخسار پر دے مارا... آہل ششدہ سا اسے دیکھنے لگا...

گھٹیا ترین انسان ہو تم ایسا انسان آج تک نہیں دیکھا میں نے آہل حیات شرم آنی چائیے تمہیں محبت کا لبادہ اوڑھ کر تم اپنے مفاد پورے کر رہے ہو تم نے سہی کہا تھا یہ سچ میں ایک مسٹری ہے اینڈ آئ نو اس میسٹری کا اینڈ بےحد برا ہے اور تم اس سے بھی زیادہ برے ہو.. دانی اس کا گریبان پکڑے بول رہی تھی...

آہل کی آنکھوں میں لہو دوڑنے لگا...

تم نے اچھا نہیں کیا دانی... آہل اس کے ہاتھ جھٹکتا ہوا بولا...

میں نے اچھا نہیں کیا یا تم نے اچھا نہیں کیا مجھے پاگل بنا رہے تھے تم ہاں کھلونا سمجھ رکھا یے کیا جب دل کیا پیار سے رکھا اور جب دل کیا گن تان لی مارنا چاہتے ہو نہ مجھے تو مارو آج ختم کر دو اس کہانی کو یہ روز روز کے تماشے سے تو میری جان چھوٹ جاےُ گی.. دانی اس کا گن والا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھتی ہوئ بولی...

چلاؤ گولی... دانی روتی ہوئ ہذیانی انداز میں بولی..

دانی تم کیا... آہل بوکھلا کر اسے دیکھنے لگا..

شوٹ... دانی چلائ,,, دانی کی آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئیں تھی تکلیف چہرے سے نمایاں تھی,,

دانی سٹاپ دِس,, آہل نے گن ہٹانی چاہی...

آئ سیڈ شوٹ می... دانی دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے گن تھامتی ہوئ بولی...

آہل بےبس ہو رہا تھا...

آئ کانٹ... آہل افسردگی سے بولا..

واےُ,, ابھی دس منٹ پہلے تم مجھے مارنے والے تھے نہ پھر اب کیا مسئلہ ہے... دانی اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی دور دھکیلتی ہوئ بولی..

تم نے فون نہیں چیک کیا...

کون سا فون... دانی آبرو اچکا کر بولی...

تم پچھتاؤ گی دانی تم کبھی یہ مسٹری حل نہیں کر پاؤ گی... آہل کرب سے کہتا الٹے قدم اٹھانے لگا...

تم جیسے انسان...

دانی بول رہی تھی جب آہل تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا...

دانی کو گھر لے جاؤ... رفیق کو بنا دیکھے کہ کر چلا گیا...

لیکن سر آپ... رفیق اسے طیش میں دیکھ کر گھبرا گیا...

دانی نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں...

کیوں نہیں ماری تم نے مجھے گولی... دانی ہاتھوں میں چہرہ چھپاےُ وہیں زمین پر بیٹھ گئ...

کیا ہو تم,,آہل سچ میں کبھی میں اس مسٹری کو حل نہیں کر سکتی...دانی تکلیف میں تھی..

جب بھروسہ ٹوٹتا ہے تو صرف دل ہی نہیں انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے بلکل اسی طرح جیسے کسی درخت کی ٹہنی ٹوٹ جاےُ تو وہ باقی نہیں رہتی حیات کا سفر تمام ہو جاتا ہے اس کے بعد سب کچھ ختم ہو جاتا یے دانی کو بھی ایسا ہی گمان ہو رہا تھا...

میم چلیں سر نے آڈر دیا یے... رفیق اندر آ کر بولا..

دانی نے چہرہ اٹھا کر رفیق کو دیکھا جو سر جھکاےُ کھڑا تھا...

دانی ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑتی کھڑی ہو گئ اور باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی رفیق اس کے عقب میں چلنے لگا...

زبیر سر تھام کر بیٹھے تھے...

اب پتہ نہیں کیا ہو گا میری تو دنیا کی برباد ہو گئ... وہ آہ بھرتے ہوۓ بولے..

اس آہل حیات نے ناجانے کون سی خلش کا بدلہ لیا ہے...

آسم گاڑی نکالو ڈاکڑ قدسیہ کے پاس جانا یے... وہ بامشکل خود کو آنسو بہانے سے باز رکھتے ہوۓ بولے...

جی سر ٹھیک یے اور وہ پیپرز...

ہاں وہ تم کورٹ میں جمع کروا دینا...زبیر کھڑے ہوتے ہوۓ بولے...


واٹ,, آہل نے تم سے زمین لے لی مطلب وہ جانتا ہے اگر سب کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ تو ضرور جانتا ہے ورنہ تم سے یوں گن پوائنٹ پر زمین نہ لیتا... ڈاکڑ قدسیہ متفکر سی بولیں..

اگر وہ کچھ جانتا بھی ہے تو صرف میرے بارے میں جانتا ہو گا آپ بھی میرے ساتھ شامل تھیں اس بات سے وہ انجان ہو گا کیونکہ یہ بات صرف میں اور آسم جانتے ہیں وہ عاقب بھی نہیں جانتا تھا پھر آہل کے جاننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا..

زبیر تم سد باب کر لو یہ نہ ہو کہ تم اسی غلط فہمی میں مبتلا رہو اور وہ تمہیں سب کے سامنے رسوا کر کے جیل کی ہوا کھلا دے...

کیسے کروں سد باب سب کچھ تو لے گیا ہے... وہ مظلومیت سے بولے...

کچھ بھی ہو آہل کو میرے بارے میں کچھ علم نہیں ہونا چائیے میں اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتی.... وہ سختی سے بولیں...

بےفکر رہیں آہل کو کبھی معلوم نہیں ہو سکتا آپ کے متعلق...

ایک اور لڑکی کو اغوا کیا ہے ٹیڈی نے.. اس کا سودا ہو جاےُ تو مزہ آ جاےُ گا خوبصورت بھی ہے اچھے پیسے مل جائیں گے... ڈاکڑ قدسیہ سوچتی ہوئیں بولیں...

ہاں تو آپ کس کی منتظر ہیں بس کریں اس کا سودا اور پیسے منگوائیں...

وہ لڑکی بہت ضدی یے ابھی کل ہی پکڑا ہے اسے دو چار دن لگیں گے عقل ٹھکانے لگانے میں..

خوبصورت ہے تو پھر میں اس کی عقل ٹھکانے لگا دیتا ہوں کیا خیال ہے...

نہیں جس کے ساتھ ڈیل کرنی ہے وہ لڑکی بلکل صاف چاہتا ہے کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو تبھی زیادہ پیسے دے رہا ہے تم دور ہی رہنا اس سے ورنہ سودا خراب کر دو گے... وہ گھور کر بولیں...

اچھا ٹھیک ہے پھر کوئ اور لڑکی ہو گی کسی سے تو ملوا دیں بہت ٹینشن میں ہوں...

پہلے جو تھیں ان کا سودا تو کر دیا تھا البتہ ایک لڑکی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ کام کر رہی وہ تمہاری بات مان سکتی کیونکہ اسے پیسوں سے مطلب ہے صحیح غلط سے نہیں...

اب میں اپنا کاروبار ہونے کے باوجود پیسے دوں گا... زبیر کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

نہیں وہ میں خود اس کے ساتھ حساب کر لوں گی تم اپنا کام کر لو... وہ زبیر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتیں ہوئیں بولیں..

دکھنے میں کیسی ہے.. زبیر کھڑے ہوتے ہوۓ بولے..

جوان ہے خوبصورت بھی اچھا وقت گزرے گا تمہارا مزے کرو... وہ آنکھ مارتی ہوئ بولیں..

زبیر قہقہ لگاتا باہر نکل گیا...


آہل مٹھیاں بھینچے گاڑی سے باہر نکلا,,

یہ آہل کا ریسٹ ہاؤس تھا آہل اندر آیا اور آس پاس چیزوں کو گھورنے لگا...

دانی تم نے اچھا نہیں کیا... وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا..

آہل نے واس اٹھایا اور دیوار پر دے مارا اس کے بعد ایک ایک چیز اٹھاتا گیا اور دیوار پر مارتا گیا ایک شیشہ آہل کے ہاتھ پر لگ گیا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا صوفے پر ڈھے گیا..

موبائل نکال کر دانی کی تصویر دیکھنے لگا... تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا پھر مجھے تھپڑ مارا دانی تم کیسے مجھ پر ہاتھ اٹھا سکتی ہوں تم نے آہل حیات پر ہاتھ اٹھایا اچھا نہیں کیا تم نے دانی...

_______

دانی مرے مرے قدم اٹھاتی کمرے میں آئ...

مجھے لگا تھا تم اتنے برے بھی نہیں جتنے ظاہر کرتے ہو لیکن آہل حیات تم میری سوچ سے بھی زیادہ برے ہو,,,تم ایک مفادپرست انسان ہو اتنے وقت سے مجھے پاگل بنا رہے تھے تم صرف اپنے مطلب کی خاطر کر رہے تھے سب کچھ...اشک تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے...

آہل تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے نہ اب دیکھنا دانین بھی تمہیں دھوکہ دے گی تم نے میرے ساتھ جو کیا میں بھی وہی کروں گی میں بھی تمہیں وہیں چوٹ پہنچاؤں گی جہاں تم نے مجھے پہنچائ پھر تمہیں معلوم ہو گا جب کوئ بھروسہ توڑتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے تمہاری بےاعتنائ تمہیں سود سمیت لوٹاؤں گی دیکھنا تم... دانی چہرہ صاف کرتی ہوئ بولی...

دانی اٹھ کر واش روم میں آ گئ ٹونٹنی کھول کر منہ پر چھینٹے مارے اور تولیہ سے چہرے خشک کرتی باہر نکل آئ...

آہل نے کہا تھا تم نے فون چیک نہیں کیا.. دانی کی پیشانی پر لکریں ابھریں...

فون تو میرا روم میں پڑا تھا... دانی بولتی ہوئ دراز چیک کرنے لگی,, لیکن فون وہاں نہیں تھا..

یہاں تو کچھ بھی نہیں پھر آہل نے کیوں کہا..جھوٹا ہے وہ ایک نمبر کا آہل حیات تم قابل اعتبار انسان نہیں ہو,, جھوٹے فریبی.. دانی بڑبڑاتی ہوئ واش روم میں چلی گئ...

دانی بار بار کروٹ بدل رہی تھی,,رہ رہ کر آہل پر غصہ آ رہا تھا لیکن اس کی غیرموجودگی بھی پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی...

دانی کوفت سے اٹھ بیٹھی...

جاہل حیات کہاں دفعہ ہو گۓ ہو دو بج رہے ہیں اور تمہارا کوئ نام و نشان نہیں... دانی گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئ بولی..

عین بیس منٹ بعد آہل کمرے میں داخل ہوا بکھرا بکھرا سا شرٹ باہر نکلی ہوئ تھی کوٹ ہاتھ پر ڈال رکھا تھا...

دانی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا,,

تمہیں زبان سے سمجھایا تھا لیکن سمجھ نہیں آیا,, دانی اچھے سے جانتی ہے میں ایک بار پہلے بھی اسے گولی مار چکا ہوں اور تم جانتے ہو میرا نشانہ قطعاً نہیں چوکتا,,, آہل کے الفاظ ہتھوڑے کی مانند دانی کے دماغ پر برس رہے تھے,,, چہرے پر تلخی عود آئ لیکن پھر اپنا بدلہ یاد آنے پر دانی چہرے کے تاثرات نرم کرتی بیڈ سے اتر گئ...

کہاں تھے تم.. دانی اس کے ہاتھ سے کوٹ لیتی ہوئ بولی البتہ چہرے پر معمولی سی خفگی تھی...

تم نے فون چیک کیا.. آہل اسے شانوں سے تھام کر بولا...

آنکھوں میں سرخی تیر رہی تھی...

کیا ہے میرے فون میں.. دانی کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا...

دانی میں نے تمہیں ٹیکسٹ کیا تھا کہ تمہیں صرف اداکاری کرنے ہے ڈرنے کی کیونکہ مجھے وہ زمین چائیے اس لیے نہیں کہ مجھے لالچ ہے...

اچھا پھر کیوں میرے ڈیڈ سے ان کی ریفائنری لی تم نے... دانی سینے پر بازو لپیٹتی ہوئ بولی..

دانی وہ زمین تمہارے ڈیڈ کی نہیں بلکہ میرے ڈیڈ کی ہے اور میں نے اپنی چیز لی ہے کسی کا حق نہیں مارا... آہل دانی کے ہاتھ تھامتا ہوا بولا..

دانی استہزائیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی...

ٹھیک ہے میں نے تم پر اعتبار کیا لیکن تم وعدہ کرو کبھی میرا بھروسہ,, میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤ گے..دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی..

آہل دھیرے سے مسکرایا تو ڈمپل پھر سے نمایاں ہوا..

تھینک یو,,میں کبھی تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گا.. آہل نے کہ کر دانی کی جانب ایک قدم بڑھایا...

اگر تم نے مجھ سے کچھ چھپایا... دانی تنبیہ کرتی ہوئ اسے دیکھنے لگی...

کبھی نہیں,, دانی آہل کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے میں تمہیں کسی شرط پر کھونا نہیں چاہتا... آہل اپنی پیشانی دانی کی پیشانی کے ساتھ لگاتا ہوا بولا...

دانی کی دھڑکنیں عجیب ہی لے پر دھڑک رہیں تھیں اتنی تیز کہ دانی کو لگا دل ابھی باہر نکل آےُ گا...

اب کسی خوش فہمی میں مبتلا مت ہو جانا... دانی اس کے سینے پر مکہ رسید کرتی ہوئ بولی...

آہل قہقہ لگاتا وارڈروب کی جانب چل دیا...

تم نے کھانا کھایا... آہل جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھ بیٹھا..

نہیں.. دانی آس پاس دیکھتی ہوئ بولی..

کیوں,, چلو اٹھو پہلے کھانا کھاؤ...

مجھے بھوک نہیں ہے... دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئ بولی...

کوئ بحث نہیں پہلے کھانا کھاؤ پھر جو کرنا ہو کرو...

لوگ موبائل سے بلاک کرتے ہیں میں نے تمہیں دنیا سے بلاک کر دینا ہے... دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی ہوئ بولی..

تم جہاں سے بھی بلاک کر دو میں تو پھر بھی تمہارے ہمراہ رہوں گا... آہل اس کے چہرے پر بوسہ دیتی لٹوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کرتا ہوا بولا...

ڈھیٹ ہو پورے...

بلکل میڈم... آہل مسکراتا ہوا تائیدی انداز میں بولا..

حد ہوتی ہے لیکن تم نے تو ہر حد پار کر رکھی جاہل حیات... دانی کوفت سے کہتی لیٹ گئ..

تم ایسے نہیں سو سکتی...

تو کیا رینٹ دوں پھر سونے دو گے... دانی جل کر بولی..

نہیں تم سے رینٹ نہیں چائیے لیکن ایک بات مان لو...

تمہاری بات مانوں پاگل نہیں ہوں میں...

پھر میرے لیے تھوڑی سی پاگل ہو جاؤ...

مجھے اپنی حکومت کا حصہ مت سمجھو جس پر اپنی مرضی مسلط کرو گے...

دانی کھانا کھا لو پھر سو جانا گیٹ اپ.. آہل دانی کا منہ تھپتھپاتا ہوا کھڑا ہو گیا..

دانی ناچاہتے ہوۓ بھی کھڑی ہو گئ...

*************

یہ ہے وہ لڑکی... زبیر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوۓ بولے...

ہاں یہی ہے بہت تنگ کیا ہے اس نے.. ڈاکڑ قدسیہ ناگواری سے بولیں..

دو چار دن ڈال دینا تھا کسی کے آگے سارے نخرے ختم ہو جاتے... زبیر اس جوان لڑکی کے گال کو چھوتے ہوۓ بولے...

لڑکی نے نخوت سے سر جھٹک دیا..

یہ جو پاکباز بنتی ہو نہ چپ چاپ بات مان لو ورنہ پھر اچھے سے سمجھائیں گے تمہیں.. زبیر اس کا منہ دبوچتے ہوۓ بولا...

لڑکی خونخوار نظروں سے زبیر کو گھورنے لگی..

صبح تک میرے پاس رہے گی تو دیکھنا اس کے بعد ہر بات مانے گی... زبیر اسے بالوں سے کھینچتا ہوا بولا..

آہ... جنگلی انسان چھوڑو مجھے... وہ دائیں بائیں سر مارتی ہوئ بولی...

زبیر ڈاکڑ قدسیہ پر ایک نظر ڈالتا اندر کمرے کی جانب چل دیا,, آہستہ آہستہ لڑکی کی چیخ و پکار میں کمی آنے لگی اور یکدم خاموشی چھا گئ,, دل دہلا دینے والی خاموشی...

ڈاکڑ قدسیہ سر جھٹکتی باہر نکل گئ...

***********

آہل مجھے ڈیڈ سے ملنے جانا ہے... دانی آہل کو آئینے کے سامنے کھڑا دیکھ کر بولی..

خیریت,, آہل آبرو اچکا کر بولا..

ہاں بس دل کر رہا ہے ان سے ملنے کو... دانی اداسی سے بولی...

اور اگر تم پھر سے واپس نہ آئ تو... آہل اس کے سامنے آتا ہوا بولا..

تو پھر وہ جو سڑک پر گھوم رہی ہوتیں ہیں نہ مانگنے والی ان میں سے کسی کو لے جانا ساتھ دانی بنا کر....

لیکن وہ دانی نہیں ہو گی...

اچھا ٹھیک ہے,,

واپس آ جاؤ گی... آہل سانس خارج کرتا ہوا بولا...

تمہیں کیا لگتا ہے... دانی اپنی گرے آنکھیں اس کی سیاہ آنکھیوں میں گاڑھتی ہوئ بولی...

شام کو میں خود آ جاؤں گا تمہیں لینے... آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانی پھر سے اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی...

کیا ہوا..

تمہارا ڈامپل بہت بیکار ہے... دانی منہ بسورتی وارڈروب کھول کر کھڑی ہو گئ...

پھر نہ دیکھا کرو... آہل مسکراتا ہوا بال بنانے لگا...

تمہارے ڈمپل کو بلکل بھی شرم نہیں آتی ہر وقت باہر ہی رہتا ہے اسے کہو کبھی گھر میں بھی رہ لیا کرے بےشرم... دانی کپڑے دیکھتی ہوئ بول رہی تھی اور آہل کا ڈمپل مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا...

تم تیار ہو جاؤ میں ایک کال کر کے آیا...

رفیق بہت احیتاط سے کرنا ہے یہ کام مجھے کسی بھی صورت میں پیپرز چائیے...

جی سر آپ بےفکر رہیں کام ہو جاےُ گا میں صبح سویرے سے اسی کی تاک میں ہوں...

ٹھیک ہے... کہ کر آہل نے فون بند کر دیا...

***********

جلدی آ جانا... آہل دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

جلدی کیا بس گیٹ کو ہاتھ لگا کر آ جاؤں... دانی خفگی سے بولی...

آہل اداسی سے مسکرا دیا...

جاؤ... آہل کے کہتے ہی دانی باہر نکل گئ..

دانی نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو وہ جا چکا تھا,ہوں,,میرے اندر جانے کا بھی انتظار نہیں کیا.. دانی سر جھٹکتی چلنے لگی...

ڈیڈ کہاں ہیں... دانی ملازم کو دیکھتی ہوئ بولی...

وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہیں میڈم...

ٹھیک ہے... دانی ڈرائینگ روم کی جانب چل دی...

دروازہ ناک کیا اور اندر آ گئ...

تم جاؤ میں بعد میں بات کرتا ہوں... زبیر دانی کو دیکھتے ہوۓ بولے..

دانی مسکراتی ہوئ ان کے سینے سے لگ گئ....

شکر ہے اپنی لخت جگر کو بھی دیکھنے کا موقع ملا.., زبیر نم آنکھوں سے بولے...

دانین تم ٹھیک ہو,, اس نے تمہیں,,,

نہیں ڈیڈ اس نے کچھ نہیں کیا مجھے,, میں بلکل ٹھیک ہوں... دانی ان سے الگ ہوتی ہوئ بولی..

وہ خود چھوڑ کر گیا ہے... زبیر تفتیشی انداز میں بولے..

جی شام میں آےُ گا لینے... دانی صوفے پر بیٹھتی ہوئ بولی...

زبیر اثبات میں سر ہلاتے دانی کے سامنے بیٹھ گۓ...

ڈیڈ وہ ریفائنری والی زمین کس کی ہے...

اب تو وہ اس آہل حیات کی ملکیت ہے...

ڈیڈ وہ زمین آپ کی تھی یا نہیں... دانی کے چہرے پر سختی عود آئ...

بیٹا وہ زمین میری ہی تھی تم ایسے کیوں استفسار کر رہی ہو... زبیر حیرت سے بولے..

ڈیڈ آہل کہتا ہے وہ زمین آپ کی نہیں بلکہ اس کے ڈیڈ کی تھی اس نے اپنی چیز آپ سے واپس لی ہے... دانی زور دے کر بولی...

زبیر نفی میں سر ہلاتے افسوس سے دانی کو دیکھنے لگے...

اس نے جھوٹ بولا ہے تم سے تاکہ تم میرے خلاف ہو جاؤ ہمارے بیچ میں دڑار پیدا کر رہا ہے وہ,,اگر ایسا ہی تھا تو کیا اس نے تمہیں پہلے بتایا...

نہیں,,, دانی چہرہ جھکا کر بولی..

تو پھر اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ جھوٹا ہے ورنہ تمہیں پہلے بتا دیتا...

لیکن ڈیڈ وہ کہتا ہے اس نے مجھے ٹیکسٹ کیا تھا اس سب سے پہلے...

تو تم نے وہ ٹیکسٹ پڑھا... زبیر پہلو بدل کر بولے...

نہیں ڈیڈ میرا فون ہی نہیں ملا کل سے... دانی مایوسی سے بولی..

میری بات سمجھو وہ تمہیں بیوقوف بنا رہا ہے اسی لیے فون بھی غائب ہے تمہارا...

مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے ڈیڈ,, لیکن کبھی کبھی وہ بہت سچا لگتا ہے اس کی باتیں ایک سحر طاری کر دیتی ہیں...

دانین میں نہیں چاہتا تمہاری زندگی ایک ایسے انسان کے ہاتھوں برباد ہو جاےُ اس لیے اب غور سے میری بات سن لو...

جی ڈیڈ... دانی سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی...

تمہیں صرف دکھاوا کرنا ہے کہ تم آہل سے پیار کرتی ہو,, اس کے بعد جب وہ تم پر بھروسہ کرنے لگے تم زمین یا تو اپنے نام کر لینا یا پھر میرے نام,, جیسا اس نے کیا تم بھی ویسا ہی کرو گی...

دانی یک ٹک زبیر کو دیکھ رہی تھی...

آپ ٹھیک کہ رہے ہیں ڈیڈ آہل کو سبق سکھانا ہو گا اسے بھی معلوم ہونا چائیے کیسا محسوس ہوتا ہے...

تم جا کر ثانیہ سے ملو مجھے کچھ کام ہے,, اور فون تمہارے جانے سے پہلے میں لے دوں گا...زبیر مسکراتے ہوۓ بولے..

دانی سر ہلاتی باہر نکل گئ...

*************

آسم ڈرائیو کر رہا تھا نگائیں ہنوز سامنے سڑک پر تھی

فون کی رنگ ٹون سن کر آسم نے رفتار کم کردی اور فون کان سے لگ لیا...

ہیلو ہاں بولو... وہ سامنے سڑک پر دیکھتا ہوا بولا..

کیا,,, کیسے ہوا یہ,,میں ابھی آتا ہوں بس دس منٹ میں... رفیق نے کہ کر یوٹرن سے گاڑی واپس موڑلی اورفل سپیڈ پر دوڑانے لگا...

***********

آپ کا زخم کیساہے حیات صاحب... ڈاکڑ قدسیہ جوس کا گلاس لبوں سے ہٹاتی ہوئ بولیں...

یہ معمولی سے زخم مجھے روک نہیں سکتے... آہل تفاخر سے بولا..

آہ,, بلکل آپ کی ہمت سے تو ہم واقف ہیں,, ویسے اس ملاقات کا پس منظر...وہ آبرو اچکا کر بولی..

کام کرنا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ... آہل ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا..

میرے ساتھ,, خوش آئیند ہے یہ... وہ مسکراتی ہوئ بولی...

بولیں کون سا کام منافع بخش ہو گا... آہل جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا...

کچی گوٹیاں تو ڈاکڑ قدسیہ نے بھی نہیں کھیلی تھیں...

میرا خیال ہے لیدر انڈسٹری مناسب رہے گی...

آہل اثبات میں سر ہلاتا انہیں دیکھنے لگا...

چلیں ٹھیک ہے پھر میں رفیق کو بولو گا معلومات لے,, اگر مجھے بھی مناسب لگا تو اسی پروجیکٹ کو شروع کریں گے...

ضرور کیوں نہیں مجھے خوشی ہو گی آپ کے ساتھ کام کرنے میں... ڈاکڑ قدسیہ پسندیدگی سے بولیں...

آہل کا فون رنگ کرنے لگا تو ایکسکیوز کرتا سائیڈ پر آ گیا...

دانی انعم کے کمرے کے باہر تھی جب اسے آواز سنائ دی...

آہل تم میری کال کیوں اٹینڈ نہیں کر رہے...

دانی کے قدم وہیں منجمد ہو گۓ,, آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں...

انعم میں بہت بزی تھا اور ابھی اس وقت بھی بزی ہوں...

تمہارے پاس باقی سب کاموں کے لیے ٹائم ہے اور میرے...

انعم میری بات سنو,, تمہارا کام میں کروا رہا ہوں تھوڑا صبر کرو یہ کام پلک جھپکتے نہیں ہو جاتے... آہل ضبط کرتا ہوا بولا...

دانی بےیقینی سے انعم کو سن رہی تھی...

اسے اپنی قوت سماعت پر شبہ ہوا...

اچھا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی تمہاری کال کا... انعم نے مایوسی سے کال بند کر دی...

دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی...

آہل تمہارے کتنے روپ ہیں ایک ہی بار میں سب آشکار کیوں نہیں کر دیتے...دانی چلتی ہوئ بولنے لگی...

کچھ ٹوٹا تھا دانی کے اندر...

تمہیں بھی رولاؤں گی میں آہل دیکھنا,, تم جیسا انسان جو دوسروں کو رولاتا ہے اپنے چاچو کی موت پر بھی نہیں روےُ تھے نہ تم,, میں رولاؤں گی تمہیں... دانی ہاتھ کی پشت سے گال رگڑتی اپنے کمرے کی جانب چل دی..

**********

آسم گاڑی سے نکلا اور بھاگ کر اندر چلا گیا...

رفیق جو اس کی تاک میں تھا آسم کو ہاسپٹل کا دروازہ عبور کرتے دیکھ کر باہر نکلا اور اس کی گاڑی کی جانب آیا جلدی جلدی میں وہ گاڑی لاک کرنا ہی بھول گیا تھا,,,رفیق فاتحانہ مسکراہٹ لیے آگے آیا اور دروازہ کھول کر پیپرز اٹھا لیے...

زبردست... وہ کہتا ہوا اپنی گاڑی کے پاس آیا اور زن سے گاڑی بھگا لے گیا...

سر,, کام ہو گیا اب آگے کے لیے کیا حکم ہے... رفیق فون کان سے لگاےُ ڈرائیور کر رہا تھا..

ویری گڈ رفیق اب ایسا کرو فلحال ان پیپرز کو احتیاط سے اپنے پاس رکھو میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا ان کے ساتھ کیا کرنا ہے..

جی سر ٹھیک ہے اور ڈاکڑ قدسیہ کے ساتھ میٹینگ کا کیا نتیجہ نکلا...

وہ بھی پکی کھلاڑی ہے لیکن میں اس کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھ چکا ہوں اور مجھے یقین ہے بہت جلد معلوم ہو جاےُ آخر کس کام میں ملوث ہیں زبیر اور قدسیہ... آہل ہنکار بھر کر بولا..

ٹھیک ہے سر میں پیپرز کو سنبھال کر رکھتا ہوں...

************

ٹھیک سات بجے آہل کی گاڑی زبیر کے گھر کے پورچ میں کھڑی تھی,, آہل گاڑی کے اندر بیٹھا تھا گاڑی کے باہر گارڈز کھڑے تھے...

دانی زبیر کے سینے سے لگی ہوئ تھی اور آہل طیش میں انہیں دیکھ رہا تھا,,مٹھی زور سے بند کر رکھی تھی...

بس کرو تمہاری بدائ نہیں ہو رہی... آہل دروازہ کھول کر بولا...

دانی ناگواری سے دیکھتی گاڑی میں آ بیٹھی..

آہل نے گاگلز لگا کر چہرہ موڑ رکھا تھا دانی نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر چہرے کا رخ موڑ کر باہر دیکھنے لگی...

آئیندہ تم اگر اپنے باپ کے گلے لگی تو دیکھنا تمہارا کیا حشر کروں گا... آہل انگلی اٹھاےُ وارن کرتا ہوا بولا..

دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی...

تمہارا دماغ خراب ہے کیا وہ میرے ڈیڈ ہیں... دانی کو اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہوا...

میں کچھ نہیں جانتا تمہارے ڈیڈ ہوں یا کوئ بھی... آہل کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی...

تم پاگل ہو پورے کے پورے بدتمیز انسان.. دانی اس کی انگلی پیچھے کرتی ہوئ بولی..

میری بات سمجھ آئ یا نہیں... آہل دانی کی کلائ پکڑتا ہوا بولا..

انگلیاں تھیں یا گرم سیسہ جو دانی کو اندر گڑھتا ہوا محسوس ہوا...

آہل میرا ہاتھ چھوڑو.. دانی دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئ بولی..

میں کیا پوچھ رہا ہوں... آہل دانی کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

آہل تمہارا دماغ خراب ہے چھوڑو مجھے... دانی چلائ...

میری بات کا جواب دو چھوڑ دوں گا... آہل کے چہرے پر بلا کی سختی تھی...

دانی اس کے ہاتھ پر مکے برسا رہی تھی لیکن اس کے فولادی ہاتھ پر کوئ اثر نہ ہوا...

اچھا نہیں ملتی کسی سے اب تو چھوڑ دو... دانی التجائیہ نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی..

آہل نے ہاتھ کھولا اور دانی کو آزاد کیا اسی لمحے ایک آنسو ٹوٹ کر بےمول ہوا..

بہت برے ہو تم بد دماغ گندے انسان... دانی بولتی بیڈ پر ڈھیر ہو گئ..

آہل سانس خارج کرتا سٹڈی کا لاک کھولتا اندر چلا گیا...

دانی اپنی کلائ پر سرخ نشان دیکھنے لگی جو کہ آہل کی انگلیوں کے تھے...

آہ,,, کتنی زور سے پکڑا تھا... دانی آنکھیں مسلتی ہوئ بولی...

آہل ایک البم اٹھا کر بیٹھ گیا...

دودھیا رنگ خوبصورت نقش والی لڑکی کی وہ تصویر تھی جس پر آہل ہاتھ پھیر رہا تھا...

وقت کیسے پنکھ لگا کر اڑتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا جو لوگ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں انہیں ماضی کا حصہ بنا دیتا وہ لوگ ملتے تو ہیں لیکن صرف یادوں میں اور کچھ یادیں اتنی تلخ ہوتیں ہیں کہ انہیں نہ ہی سوچا جاےُ تو بہتر ہے,,,

پانا اور کھونا دونوں زندگی کا حصہ ہے لیکن میں خوش نہیں مجھ سے میری خوشیاں چھین لیں گئیں میری لڑائ ہے اس سے جسے لوگ نصیب کہتے ہیں نہیں مانتا میں کچھ بھی,, آہل کی آنکھ نم ہو گئ...

دانی کے پاؤں کی چاپ سنائ دی تو آہل نے البم بند کر دیا...

میرا دل چاہتا ہے تمہارے اوپر ہاتھی چھوڑوں.. دانی گھورتی ہوئ بولی..

کیوں... آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

کیونکہ کسی چھوٹے جانور سے تمہارا کچھ نہیں ہو گا تمہاری طرح ہی کوئ بڑا سا ہونا چائیے... دانی بولتی ہوئ اس کے سامنے آ گئ...

ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہو پڑھائ پر توجہ دو... آہل البم ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا..

یہ دیکھو ذرا کیسے تشدد کیا تم نے مجھ پر میڈیا میں جا کر دکھاؤ میں... دانی دھمکاتی ہوئ کرسی کی بازو پر بیٹھ گئ..

آہل نے آہستہ سے دانی کی بازو پکڑی اور دیکھنے لگا...

اچھی بات ہے تم پر صرف آہل کا حق ہے سو نشان بھی آہل کے ہی ہونے چائیے... وہ پرسکون انداز میں بولا..

تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے... دانی منہ بنا کر بولی..

پانی پیو گی... آہل دھیرے سے مسکرا کر بولا..

تمہارا خون پیو گی... دانی جل کر بولی..

اتنا غصہ مت کیا کرو...

ہاں سارا غصہ تم نے خرید رکھا یے نہ جو ہم نہیں کر سکتے...آہل کھڑا ہو گیا دانی کو شانوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا...

اووکے آئم سوری,, لیکن تم میری بات خاموشی سے مان لیا کرو...

گونگی ہو جاؤں پھر خاموشی سے مان لیا کروں گی بلکہ ایسا کرو ایک گولی میرے منہ کے اندر مار دو خود ہی...

شش,, آہل نے خفگی دانی کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ دی...

تم بہت بدتمیز ہو... دانی نم آنکھوں سے بولی..

مجھے پتہ ہے... آہل مسکراتا ہوا بولا..

تم جاہل حیات... دانی اس کا گریبان پکڑتی ہوئ بولی...

آہل نظریں جھکاےُ اس کے ہاتھوں کو دیکھتا پھر دانی کو دیکھنے لگا...

صرف تم ہو جو میرے گریبان پر ہاتھ ڈال لیتی ہوں ورنہ کسی کی اتنی مجال نہیں...

ہاں تو...

تو کچھ نہیں میری جنگلی بلی,,دوبئی نہیں جانا کیا تمہیں... آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

اوووہ,, میں تو بھول گئ.. دانی سر پر ہاتھ مارتی ہوئ بولی..

کب جائیں گے ہم جلدی بتاؤ...دانی اس کی شرٹ کھینچتی ہوئ بولی...

ایک دو دن تک اب مجھے تنگ مت کرو جا کر سو جاؤ شاباش... آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا...

تنگ تو ایسے کہتے ہو جیسے تمہاری آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جاتی ہوں میں... دانی منہ بسورتی چلنے لگی...

آہل مسکراتا ہوا ٹیبل پر جھکا اور البم اٹھا کر مطلوبہ جگہ پر آ گیا محتاط انداز میں البم کو واپس اپنی جگہ پر بکس کے عقب میں رکھ دیا...

آخر کیا رکھا ہے اس نے سٹڈی میں جو مجھے بھی اندر نہیں جانے دیتا... دانی انگلی میں لاکٹ گھماتی ہوئ بولی...

کسی دن چیک کرنی پڑے گی اس کی سٹڈی شاید کچھ معلوم ہو جاےُ... دانی سوچتی ہوئ لیٹ گئ...

***********

آسم تمہارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے نہ کیسے وہ پیپرز غائب ہو گے... زبیر ششدہ سے اسے دیکھنے لگی...

سر میرے بیٹے کا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا میں اسی کو دیکھنے ہاسپٹل گیا تھا اور جب باہر نکلا تو گاڑی میں پیپرز نہیں تھے...

حد ہوتی ہے تم پہلے پیپرز کو احتیاط سے رکھتے... وہ دھاڑے..

سر میرا بیٹا تھا وہ کوئ رشتہ دار نہیں... آسم نے دلیل دی..

ہوں,,, تمہارے بیٹے کے چکر میں میرا کام بگڑ گیا,, ناجانے کس کے ہاتھ لگے ہوں گے ایک اور مصیبت سر پڑ گئ... وہ ہنکار بھرتے بیٹھ گۓ...

سوری سر... آسم سر جھکا کر بولا..

کیسی طبیعت ہے تمہارے بیٹے کی... زبیر پیشانی پر بل ڈالتے ہوۓ بولے...

اب بہتر ہے صبح سے...

ہمممم,,, زمین کا مسئلہ تو میں نے حل کر لیا ہے دانین کو بولا ہے وہ زمین لے گی آہل سے,, اس جانب سے میں مطمئن ہوں,,, بس وہ ویڈیو والا آدمی مل جاےُ سمجھ سے باہر ہے وہ ویڈیو کیسے بن سکتی ہے اور ہم اتنے وقت سے لاعلم تھے...

بلکل سر حیرت کی بات سے وہ شخص بھی اتنے سالوں سے خاموش تھا پھر آج کیوں بول پڑا... آسم الجھ کر بولا...

پتہ نہیں کس کو موت پڑی ہے اب.. زبیر کوفت سے کہتے باہر نکل گۓ...

************

انعم تم کیوں آ گئ ہو یہاں... رحیم پریشانی سے گویا ہوا...

رحیم میں تمہیں کچھ بتانے آئ ہوں... انعم نے کہتے ہوۓ اس کی جانب ایک قدم بڑھایا...

انعم پلیز میری بات کو سمجھو تم چلی جاؤ یہاں سے...رحیم آس پاس دیکھتا ہو بولا...

رحیم تم ایسے کیوں بول رہے ہو,,کیا تمہاری محبت اتنی کم تھی کہ چند دن کی دوری پر ختم ہو گئ... انعم آنکھوں میں نمی لیے بولی..

انعم میرا وہ مطلب نہیں ہے میں آج بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی پہلے کرتا تھا لیکن اب بات میری بہنوں کی ہے میں انہیں اپنی محبت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا وہ معصوم ہیں انہیں سزا نہیں دلوانا چاہتا... رحیم بےبسی سے بولا..

ہماری طلاق نہیں ہوئ... انعم کا چہرہ بےتاثر تھا..

رحیم پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا...

________

تم نے مجھے بول کر طلاق نہیں دی اور پیپرز بھی ابھی تک کورٹ میں نہیں گےُ سو ہم آج بھی ایک دوسرے کے نکاح میں ہیں... دو موتی ٹوٹ کر انعم کے رخسار پر آ گرے...

تم سچ کہ رہی ہو...رحیم بےیقینی کی کیفیت میں بولا...

بلکل سچ... انعم مسکرا دی...

لیکن انعم میں ان فاصلوں کو کبھی طے نہیں کر سکتا ہمارے بیچ سب سے بڑی دیوار سٹیٹس کی ہے میں تمہاری کلاس کا نہیں تم بڑے لوگ ہو ہم جیسے تمہارے بیچ نہیں آ سکتے... وہ مایوسی سے بولا..

رحیم میرے لیے یہ سٹیٹس یہ کلاس کچھ اہمیت نہیں رکھتا میرے لیے صرف ہمارے رشتے کی اہمیت ہے تم مجھے دو وقت کا کھانا بھی کھلا دو گے نہ میں اسی میں خوش رہ لوں گی کیونکہ مجھے تمہارے جیسا انسان چائیے نہ کہ دولت پرست انسان جن کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہے... انعم نے روتے ہوۓ رحیم کے شانے پر سر رکھ دیا...

رحیم کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں...

تم دعا کیا کرو انعم کہ ہم ایک ہو جائیں یہ فراق یہ فاصلے سب تمام ہو جائیں...

ان شاء اللہ ہم ایک دن ساتھ ہوں گے اور بہت خوش ہوں گے... انعم مسکرا کر بولی...

اب تم جاؤ اس سے پہلے کہ ہمیں کوئ دیکھ لے... رحیم فکرمندی سے بولا..

اب تم میری کال اٹینڈ کرو گے نہ... انعم گاڑی کی جانب بڑھتی ہوئ بولی..

ہاں بلکہ اب میں خود تمہیں کال کروں گا... رحیم دو قدم پیچھے ہٹتا ہوا بولا..

انعم مسکراتی ہوئ گاڑی میں بیٹھ گئ...

************

دانی کی آنکھ کھلی تو چہرہ موڑ کر آہل کو دیکھنے لگی جو بےخبر سو رہا تھا...

سوتے ہوۓ کتنا معصوم لگ رہا ہے ویسے کسی شیطان سے کم نہیں بدتمیز... دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی...

دانی کے دماغ میں جھماکا ہوا تو فوراً محتاط انداز میں بیڈ سے نیچے اتر گئ...

سلپیر پہنے بغیر کمرے سے باہر نکلی اور آس پاس دیکھتی چلنے لگی...

دانی نے چابیوں کا گچھا اٹھا اور ان بند دروازوں کی جانب چلنے لگی جنہیں وہ کئی دفعہ دیکھ چکی تھی...

راہداری میں چلتے ہوۓ دانی چہرہ موڑ کر اپنے عقب میں دیکھتی جاتی پھر دائیں جانب مڑ کر جلدی سے پہلے کمرے کا لاک کھولنے لگی...

اس جاہل حیات کا کوئ بھروسہ نہیں کبھی بھی میرے سر پر پہنچ سکتا ہے... دانی چابیاں بدلتی ہوئ بڑبڑائ...

اف اللہ کون سی چابی ہے یہاں کی... دانی کوفت سے بولی...

کلک کی آواز آئ اور دروازہ کھل گیا دانی نے دروازے پر ہاتھ رکھا اور وہ کھلتا چلا گیا...

تاریکی میں کچھ بھی دکھائ نہیں دیتا تھا...

دانی نے سوئچ بورڈ تلاشنا چاہا لیکن دکھائ نہ دیا پھر آہل کا خیال آیا تو دروازہ لاک کر کے واپس آ گئ...

کمرے میں واپس آئ تو آہل اسی انداز میں سو رہا تھا جیسے وہ دیکھ کر گئ تھی...

دانی سانس خارج کرتی واش روم میں گھس گئ...

جنگلی بلی آج میرا جلسہ ہے اس لیے رفیق تمہیں لینے آےُ گا یونی سے... آہل ناشتہ کر رہا تھا...

اچھا پھر سے گولی کھانے کا ارادہ ہے کیا...

دانی چہرہ اٹھا کر بولی...

آہل ہلکا سا مسکرا دیا...

یہ جو کھا رہے ہو نہ اسے کھانا بولتے ہیں یہی کھایا کرو گولیاں نہیں جو تم دوسروں کو بھی کھلاتے ہو...

اچھا میڈم اب مجھے دیر ہو رہی ہے چلیں... آہل ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہو گیا...

مجھے لگتا ہے تمہیں دنیا سے جانے کے لیے بھی دیر ہو رہی ہے وہاں کا خیال کیوں نہیں کرتے... دانی اس کے ساتھ چلتی ہوئ بولی...

آہل مسکراتا ہوا آگے نکل گیا...

جواب دے دو گے تو گناہ ہو جاےُ گا یہ زبان تو اللہ نے ڈیکوریشن پیس کے طور پر بھیجی ہے نہ... دانی جل کر بولی...

آہل نفی میں سر ہلاتا بلیو ٹوتھ کان سے لگاتا گاڑی میں بیٹھ گیا...

***********

سر مجھے لگتا ہے یہ کام آہل کا ہے... آسم کافی سوچ بچار کے بعد بولا...

آہل کو اس سب سے کیا فائدہ اس کے پاس دانی ہے پھر اور کیا چائیے اسے...

پتہ نہیں سر لیکن رہ رہ کر میرے دماغ میں آہل حیات کا نام ہی آ رہا ہے,, آج اس کا جلسہ بھی ہے..

بہت کمینہ ہے مر جاےُ گا لیکن سیاست نہیں چھوڑے گا... زبیر پیشانی پر بل ڈالتے ہوۓ بولے..

ڈاکڑ قدسیہ سے پیمنٹ لے آنا تم,, میری بات ہوئ ہے صبح ان سے...

جی سر میں لے آؤں گا,, سر کیا میں ہاسپٹل جاؤں..

ہاں جاؤ,, اب پیپرز تو نکل گۓ ہاتھ سے...

آسم افسوس سے دیکھتا ہوا چلنے لگا...

یہ بڑے لوگ صرف اپنے مفاد کو دیکھتے ہیں کوئ مر رہا ہے یا جی رہا ہے انہیں اس بات سے کوئ فرق نہیں پڑتا... آسم سوچتا ہوا باہر نکل گیا...

***********

دانی آ جاؤ اب لیٹ ہو رہا ہے... آہل گھڑی دیکھتا ہوا بولا..

کیوں تم نے گھوڑی چڑھنا ہے... دانی اس کے سامنے آتی ہوئ بولی..

نہیں میرا وقت بہت قیمتی ہے...

ہاں تو غلطی تمہاری ہے تمہیں چائیے تھا مجھے کم از کم دو دن پہلے بتاتے جبکہ تم نے مجھے ایک گھنٹہ پہلے بتایا ہے.. دانی منہ بناتی بیگ کندھے پر ڈالنے لگی...

آہل جیب میں ہاتھ ڈالے کمرے سے باہر نکل گیا..

آہل یہ تمہارا پرائیوٹ جیٹ ہے نہ... دانی اس کے پہلو میں چلتی ہوئ بولی...

بلکل...

پھر تمہیں کس بات کی جلدی تھی...

دانی گھور کر بولی,,, سرمئ آنکھوں پر گاگلز لگا رکھیں تھیں...

آہل نے مسکرانے پر اکتفا کیا...

میرے جاہل حیات مجھے لگتا ہے تم نے یہ جیٹ چوری کیا ہے اسی لیے تمہیں جلدی تھی تاکہ وہ بندہ تمہیں آ کر پکڑ نہ لے... دانی کہانی گھڑتی ہوئ بولی...

میری جنگلی بلی کچھ بھی سمجھ لے کوئ مسئلہ نہیں...

ہاں تمہیں پاگل بھی سمجھ لے ہیں نہ...

آہل مسکراتا ہوا تیز تیز قدم اٹھانے لگا...

ہوا سے دانی کے بال اڑ کر اس کے چہرے پر بوسہ دے رہے تھے دانی نے گرے کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہن رکھی تھی ہونٹوں پر اورنج لپ اسٹک لگاےُ وہ سامنے والے کو چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی...

آہل نے دانی کے سامنے ہاتھ پھیلایا,, دانی نے نرم سی مسکراہٹ لیے آہل کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا...

************

مجھے یہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھاؤ...آسم دھاڑا...

سر ہمیں اجازت نہیں ہے اس طرح کسی کو بھی فوٹیج دینے کی...

جب یہ گولیاں تمہارے اندر چلی جائیں گیں نہ فوٹیج میں تب بھی دیکھ لوں گا سو بہتر ہے اپنے جیتے جی دے دو... آسم اس کی پیشانی پر گن رکھتا ہوا بولا..

مقابل کا سانس خشک ہو گیا...

سر دیکھیں اگر ممکن ہوتا تو میں پہلے ہی...

آسم نے ٹریگر پر ہاتھ رکھا...

کیا کہ رہے تھے تم...

آپ اس طرح نہیں کر سکتے... کہ کر اس نے آسم کے پیٹ میں ٹانگ ماری...

آسم کے ہاتھ سے گن نیچے گر گئ...

آسم نے رخ موڑا اور اس کے منہ پر ایک مکہ جھڑ گیا,, مقابل دور جا گرا..

اس کے بعد آسم نے اس کے پیٹ پر یکے بعد دیگرے کئی مکے رسید کیے...

بولو ابھی بھی دکھاؤں گے یا کچھ اور پیٹ پوجا کرنا چاہتے ہو.. آسم اسے دیوار پر مارتا ہوا بولا..

وہ کھانستا ہوا آسم کو دیکھنے لگا...

کنڑول روم میں اس وقت صرف یہ دو نفوس موجود تھے...

وہ خاموشی سے چئیر پر بیٹھا اور چند روز پہلے کی ویڈیو پلے کر دی...

آسم گاڑی سے نکلا اور ایک لمحے کی تاخیر کے بعد رفیق دکھائ دیا..

مجھے معلوم تھا یہ کام رفیق کے علاوہ کسی کا نہیں ہو سکتا...

وہ دیوار پر مکہ مارتا ہوا بولا..

کیا آپ کو اپنے ساتھ لے جانی ہے یہ ویڈیو...

نہیں بس بہت ہے فضول میں اپنے منہ کا نقشہ خراب کروایا... آسم ہنکار بھرتا نکل گیا...

***********

دانی میرا ہاتھ پکڑ لو... آہل دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

کیوں میں چھوٹی بچی ہوں جو گم ہو جاؤں گی.. دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

جب سٹیڈیم کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہو گا پھر کچھ پتہ نہیں چلتا,,

تم نے وی آئ پی سیٹ نہیں کروائ... دانی کی آنکھیں پھیل گئیں...

آہل نے اس کا ہاتھ تھاما اور تیز تیز چلنے لگا...

کون سے کتے کو پتھر مارا ہے جو ایسے بھاگ رہے ہو... دانی بامشکل اس کے ساتھ قدم ملاتی ہوئ بولی...

آہل کون سی ٹیم جیتے گی...دانی دوسری بال کے بعد بولی..

میری جنگلی بلی ابھی تو میچ شروع ہوا ہے کیسے بتا سکتا ہوں کون سی ٹیم جیتے گی...آہل اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا..

تم بلکل بیکار کے چیف منسٹر ہو,, اتنا بھی نہیں معلوم کون سی ٹیم ون کرے گی.. دانی چہرہ موڑ کر بیٹھ گئ...

آہل مسکراتا ہوا اسکرین کو دیکھنے لگا...

آہل,, دانی اس کی جانب چہرہ موڑتی آہستہ سے بولی...

ہاں بولو... آہل کی نظریں دانی پر نہیں تھی البتہ لبوں پر مسکراہٹ عود آئ...

مجھے میکسویل سے ملنا ہے پلیز پلیز.. دانی اس کی شرٹ پکڑتی ہوئ بولی...

ناٹ ایٹ آل... آہل سختی سے بولا..

آہل پلیز میرا فیورٹ ہے وہ صرف ایک بار.... دانی نے کہتے ہوۓ اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا...

دانی تم مجھ سے جو جائز چیز مانگو گی میں دوں گا لیکن اس کی طرح کی باتیں مجھ سے توقع مت رکھنا کہ میں پوری کروں گا... آہل اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا جن پر گاگلز لگا رکھے تھے..

دانی نے اپنے ہاتھ آہل کے ہاتھ سے نکالنے چاہے....

بہت برے ہو تم...

اچھا بہت شکریہ میڈم... آہل مسکراتا ہوا بولا..

کیڑے پڑیں تمہیں بلکہ شہد کی مکھیاں پڑیں جب کاٹیں گی نہ پھر پتہ چلے گا... دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی...

آہل نے ایک ہاتھ سے اپنی گاگلز اتاریں پھر دانی کے چہرے سے گاگلز اتاریں...

بہت بری بات ہے دانی... آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..

تم جاہل حیات ہو میں بلکل ٹھیک کہتی ہوں ہمیشہ اپنی مرضی چلاتے ہو... بولتے بولتے دانی کی آنکھیں چھلک پڑیں....

پاگل لڑکی... آہل اپنے ہاتھ کی پوروں سے دانی کے رخسار پر گرے آنسو صاف کرتا ہوا بولا..

چپ کرو اب ورنہ تمہیں یہیں چھوڑ جاؤں گا...

چھوڑ جاؤ پھر میں میکسویل سے بھی مل لوں گی... دانی روتی ہوئ بولی...

دانی ایک دن تمہیں احساس ہو گا کہ آہل حیات کیا ہے..

آہل نے مسکراتے ہوۓ دانی کی پیشانی پر اپنی پیشانی ٹکا دی...

دانی کی دھڑکن معمول سے تیز ہو گئ...

آہل تم مجھے الجھا دیتے ہو... دانی کی آنکھیں بند تھیں...

میں تو چاہتا ہوں تم سلجھاؤ اسے....

آہل تم...

بولو دانی خاموش کیوں ہو گئ...

کچھ نہیں... دانی پیچھے ہٹتی ہوئ بولی...

تم ٹھیک ہو...

ہاں تمہاری تو پوری کوشش ہوتی ہے کچھ ہو ہی جاےُ مجھے.. دانی منہ بناتی شرٹ ٹھیک کرنے لگی...

آہل مسکراتا ہوا میچ دیکھنے لگا...

ڈیڈ کہتے ہیں کہ میرا فون آہل نے غائب کروایا ہو گا بلکل آہل کے گھر سے کہاں جا سکتا ہے فون... دانی اسے دیکھتی ہوئ سوچنے لگی...

آہل تم مجھے پاگل کر دو گے سچ میں... دانی بےبسی سے دیکھتی ہوئ بولی...

دل کہتا ہے تم سچے ہو لیکن دماغ ماننے پر رضامند نہیں وہ دلیل مانگتا ہے اور میرے پاس کوئ ٹھوس تاویل نہیں... دانی چہرہ جھکا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی...

اتنا مت سوچا کرو دانی... آہل کی نظریں ابھی بھی دانی پر نہیں تھیں,, دانی نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا..

تم الجھی ہوئ بلکل اچھی نہیں لگتی...

پھر تم سلجھا دو نہ... دانی اس کی جانب رخ موڑتی ہوئ بولی...

میں جانتا ہوں تمہیں بہت شوق ہے مسٹریسز کا سو ناؤ سولو اٹ...

دانی مایوسی سے اسے دیکھنے لگی...

تم نے روزہ رکھا ہے...

نہیں.. آہل الجھ کر دانی کو دیکھنے لگا...

پھر تم غریب مسکین بن گۓ ہو کیا یہاں...

نہیں تو...

تو پھر کچھ کھانے کو بھی لاؤ نہ مجھے رُولانے پر لگے ہوۓ ہو..

اچھا میری جنگلی بلی کیا کھاؤ گی بتاؤ...

دل تو چاہتا ہے تمہاری بوٹی بوٹی کر کے کھا جاؤں... دانی گھورتی ہوئ بولی...

میں خود لے آتا ہوں... آہل مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا...

ناظرین یہ جو نکاح نامہ اور طلاق کے کاغذات آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں یہ کسی اور کے نہیں بلکہ معروف سیاستدان زبیر رنداوھا کی بڑی بیٹی انعم رنداوھا کے ہیں,,, جی ہاں انعم جن کی منگنی میجر احد سے ہوئ تھی جو کہ جانے مانے آرمی آفیسر کے بیٹے ہیں ان کی منگنی کو زیادہ وقت نہیں ہوا جب کہ انعم کی شادی کو تین سال ہو چکے ہے...

جی بلکل ناظرین ذرا دیکھیں اس پر تین سال قبل کی ڈیٹ ہے یعنی انعم کے خفیہ نکاح کو تین سال ہونے کو ہیں اور سب اس بات سے لا علم تھے کون ہے یہ رحیم نامی لڑکا جس سے انعم نے نکاح کیا اور سب سے پوشیدہ رکھا آخر کیا وجہ رہی ہو گی جو انعم نے اس طرح سے نکاح کیا سب سے چھپا کر مزید سننے میں آیا ہے کہ انعم کے منتگیر بھی اس بات سے لاعلم ہیں کیا یہ کوئ سیاسی معاہدہ ہے یا پھر کسی خطا پر پردہ پوشی کی سعی یا پھر اس کا پس منظر کچھ اور ہی ہے,,,

انعم رنداوھا نے سب کی نظروں سے اوجھل ہو کر نکاح کر رکھا تھا اس سے کچھ وقت قبل دانین حیات کے نکاح کا معلوم ہوا تھا جس کا ابھی تک کوئ تحریری یا مصوری ثبوت نہیں ملا مزید آپ کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ وزیر اعلیٰ آہل حیات اپنی منکوحہ کے ساتھ دوبئی گےُ ہیں جی ہاں آپ نے بلکل درست سنا صحت یاب ہونے کے بعد وہ اپنی منکوحہ کے ہمراہ چھٹیاں منانے گۓ ہیں ان کی واپسی کب متوقع اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور انعم کے نکاح کی تفصیلات آپ سنیں گے دس بجے کی بولیٹن میں ابھی حاضر ہوں گے ایک بریک کے بعد...

زبیر سر تھام کر بیٹھے تھے,, دس دفعہ احد اور اس کے ڈیڈ کی کال آ چکی تھی جنہیں انہوں نے اٹینڈ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس جواب نہیں تھا...

دیکھ لو اپنی لاڈلی کے کارنامے کہیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا...

میں کیا کہ سکتی ہوں آپ ہی دیکھ رہے تھے یہ سارے کام مجھے تو آج بھی مسز مصطفیٰ کے ہاں ڈنر پر جانا تھا لیکن اس خبر کے باعث نہیں گئ کہ وہاں سب کو کیا کیا جواب دوں گی اور ذرا اب احد کے گھر والوں سے بھی بات کر لیں میرے فون پر بھی کالز آ رہیں ہیں... وہ کوفت سے بولیں...

اگر پارٹیز کو چھوڑ کر کچھ دھیان گھر پر دیا ہوتا تو آج یہ سب دیکھنے کو نہ ملتا...

تم اچھے سے جانتے ہو مجھ سے یہ ٹیپیکل ماؤں والے کام نہیں ہوتے.. وہ ادا سے بال پیچھے کرتی ہوئ بولی...

بھولو مت تم بھی ایک غریب گھر سے آئ تھی یہ تو میں نے ہاتھ پاؤں مارے تو آج ملکہ بن کر بیٹھی ہو ورنہ جھاڑو پوچہ کر رہی ہوتی آج بھی...

تم ماضی کو نہ ہی کریدا کرو تو بہتر ہے,, خود بھی غریب ہی تھے دو وقت کی روٹی بامشکل کھلاتے تھے آےُ بڑے مجھے طعنے دینے والے... ثانیہ ہنکار بھرتی کمرے سے باہر نکل گئ..

اس گھر میں سب کچھ میں ہی دیکھوں پاگل کر دیا ہے ایک کام ختم نہیں ہوتا اور دوسرا شروع... وہ کوفت سے کہتے صوفے پر ڈھیر ہو گۓ...

***********

رحیم تم نے نیوز دیکھی...انعم پرجوش انداز میں بولی...

ہاں انعم لیکن مجھے فکر ہو رہی ہے اگر تمہارے ڈیڈ نے میری بہنوں کو...

تم فکر مت کرو ڈیڈ کو کبھی معلوم نہیں ہو گا کہ یہ سب میں نے کروایا ہے..

مجھے بہت انتظار ہے,, نا جانے کب ہم ایک ہوں گے...

میں جانتی ہوں تم نے شرعی حق رکھنے کے باوجود کبھی میرے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا...

________

اور مجھے تمہارے جیسا انسان ہی چائیے جو لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا ہے آج کے زمانے میں عزت کے ساتھ کھیلنے والے تو بہت ملیں گے لیکن عزت کی پاسداری کرنے والے بہت کم,, جہاں عزت نہ ہو وہاں حیات ممکن نہیں محبت سے زیادہ عزت اہمیت رکھتی ہے...

رحیم دھیرے سے مسکرا دیا...

میری تو بس یہی دعا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جاےُ...

تم دیکھنا رحیم ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جاےُ گا اور ہم ساتھ ہوں گے... انعم کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئ بولی..

***********

آہل تمہیں معلوم ہے مجھے باہر کے ممالک کی سب سے اچھی چیز یہ آزادی لگتی ہے,, کوئ گارڈز نہیں اکیلے گھومنا پھرنا... دانی دونوں بازو کھولے چلتی ہوئ بول رہی تھی آہل محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا...

جانتا ہوں جنگلی بلی اسی لیے تو تمہیں لے کر آیا ہوں...

دانی رک کر اسے دیکھنے لگی...

تم سب جانتے ہو میرے بارے میں لیکن میں کیوں نہیں جانتی تمہارے بارے میں,,, کچھ بھی نہیں جانتی... دانی چلتی ہوئ اسکے سامنے آ رکی...

تمہارے ساتھ رہتا ہوں جان لو مجھے... آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا...

بہت مشکل ہے... دانی اداسی سے بولی...

تم کر لو گی آئ نو... آہل کا لہجہ پر اعتماد تھا..

آہل سمائل کرو...

کیوں... آہل تعجب سے بولا...

یار کرو تو...

لیکن کیوں...

تمہارے گندے سے ڈمپل کو باہر پھینکنا ہے میں نے....

آہل سر جھکا کر مسکرانے لگا...

تمہاری منہ دکھائ نہیں ہو رہی جو ایسے شرما رہے ہو... دانی منہ بسور کر بولی..

دانی نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ڈمپل چھونا چاہا لیکن آہل نے اس کا ہاتھ تھام لیا..

دانی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

تمہیں تو میرا ڈمپل اچھا نہیں لگتا,, آہل آبرو اچکا کر بولا..

ہاں زہر لگتا ہے مجھے تمہارا ڈمپل.. دانی ناک چڑھاتی پیچھے ہو گئ...

آہل تمہاری فیملی کہاں ہے,, کبھی کسی کے بارے میں تم نے بات نہیں کی... دانی چلتی ہوئ بولی...

آہل کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا,,

کیا میں نے کچھ غلط بول دیا, آہل کو خاموش پا کر دانی پھر سے گویا ہوئ...

ہاں,, تمہیں اس بارے میں نہیں پوچھنا چائیے تھا... آہل سامنے دیکھتا ہوا بولا..

لیکن اگر میں کچھ پوچھوں گی نہیں تو مجھے کیسے تمہارے بارے میں معلوم ہو گا,,

ایک منٹ دانی,, فون دیکھ کر آہل سائیڈ پر آ گیا..

ہاں بولو کیا ہوا...

سر رفیق پر فائرنگ ہوئ ہے,,

واٹ,, کب ہوئ اور رفیق ٹھیک ہے... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا...

جی سر اللہ کا شکر ہے زیادہ نقصان نہیں ہوا...

تم رفیق کو بولو میں آ رہا ہوں فکر نہ کرے...

آہل نے کہ کر فون بند کر دیا...

دانی ہمیں واپس جانا ہو گا..

لیکن کیوں...

رفیق پر فائرنگ ہوئ ہے میں اس حال میں یہاں تمہارے ساتھ تفریح نہیں کر سکتا....

اوووہ تمہاری ہاف گرل فرینڈ ٹھیک ہے پھر... دانی کہ کر اس کی ہمقدم ہو گئ...

تم گھر پر ہی رہنا مجھے ٹائم لگ جاےُ گا... دانی کو اترتے دیکھ کر آہل بولا..

ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی.. دانی کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی اور ڈرائیور زن سے گاڑی بھگا لے گیا...

دانی کو افسوس ہو رہا تھا رفیق کے لیے...

وہ بیچارا دن رات آہل کے لیے کام کرتا ہے,, چلو اچھا ہوا کہ آہل چلا گیا کم از کم کسی کا احساس تو کرتا ہے... دانی بولتی ہوئ چلنے لگی...

اووہ ہاں وہ کمرہ,, آہل لیٹ آےُ گا میں اب اس کمرے کو چیک کر سکتی ہوں..

دانی تیز تیز قدم اٹھاتی زینے چڑھنے لگی...

چابیاں لے کر وہ پھر سے اسی کمرے کے سامنے کھڑی تھی,, دل میں خوف کنڈلی مار کر بیٹھا تھا لیکن پھر بھی ہمت بندھاتی لاک کھولنے لگی...

دانی نے ہاتھ رکھا اور دروازہ کھلتا چلا گیا,,

موبائل کی ٹارچ آن کر کے دانی سوئچ بورڈ تلاشنے لگی جونہی سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا پورا کمرہ تاریکی سے روشنی میں نہا گیا...

کمرہ بلکل صاف تھا مانو روز اس جگہ کی صفائ کی جاتی ہو,, دانی تعجب سے اردگرد کا جائزہ لینے لگی...

سامنے دیوار پر بڑی سی تصویر مبسوط تھی جس میں ایک بے حد حسین لڑکی تھی,, دودھیا رنگ, گلابی رخسار, پنکھڑی کی مانند لب,, سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور گال پر پڑتا گڑھا اسے بیش بہا حسین بنا جاتا,, وہ حسن کا مکمل پیکر تھی,,

سچ میں بہت خوبصورت ہے... دانی ستائش سے بولی..

لیکن یہ ہیں کون... دانی الجھ کر دیکھنے لگی,, دانی اس ایک تصویر میں اتنی مگن ہو گئ کہ آس پاس کا خیال ہی نہیں رہا,, دانی کا فون رنگ کرنے لگا...

آہل,, دانی کی پیشانی پر لکریں ابھریں...

ہاں آہل,, دانی آس پاس دیکھتی ہوئ بولی...

دانی تم اس کمرے میں کیا کر رہی ہو...آہل کی غصے سے لبریز آواز ابھری..

وہ وہ میں تو بس...

باہر نکلو ابھی کہ ابھی...

آہل میں...

میں نے کہا باہر نکلو دانی تمہیں سنائ نہیں دے رہا... آہل دھاڑا...

دو موتی ٹوٹ کر دانی کے رخسار پر آ گرے,, دانی ہاتھ کی پشت سے گال رگڑتی باہر بھاگ گئ..

بہت برے ہو تم جاہل حیات... دانی کمرے میں آتی بیڈ پر اوندھے منہ گر گئ...

***********

آسم یہ سب کیا مصیبت ہے احد نے منگنی توڑ دی ہے تم ہاتھ پے ہاتھ دہرے بیٹھے ہو ابھی تک..

نہیں سر میں نے رفیق پر فائرنگ کروائ ہے بلکل اسی طرح جیسے اس نے میرے معصوم بیٹے کا ایکسیڈینٹ کروایا اور رہی بات رحیم کی تو اس کے لیے آپ جو حکم دیں...

اس کی چھوٹی بہن کو اٹھا لاؤ پھر دیکھنا کیسے کتے کی دم سیدھی ہوتی... زبیر حقارت سے بولے..

وہ تو ٹھیک ہے سر لیکن چونکہ نکاح نامے کے باعث لوگ اس کی معلومات حاصل کر رہے ہیں سو اگر فلحال اسے یا اس کے گھر والوں کو کچھ ہوا تو سیدھا ہم پر الزام آےُ گا میرا خیال ہے کچھ دن تک خاموشی اختیار کرتے ہیں تب تک یہ میڈیا بھی بھول جاےُ گا اور کسی نئی خبر کو نشر کرنے میں دکھائ دے گا...

ہمممم کہ تو تم ٹھیک رہے ہو پھر کر لیتے ہیں دو چار روز کا انتظار...لیکن اس سب میں آہل کا کیا فائدہ.. زبیر داڑھی مسلتے ہوۓ بولے...

سر پتہ نہیں یہ آہل کون سی گیم کھیل رہا ہے میں کوشش کرتا ہوں ان کے متعلق کچھ معلوم ہو...

انعم پتھر کی بنی ان آوازوں کو سن رہی تھی,, ڈیڈ آپ اس حد تک کیسے جا سکتے ہیں... وہ منہ پر ہاتھ رکھے مرے مرے قدم اٹھانے لگی...

آپ تو ہمارے آئیڈیل ہوا کرتے تھے پھر آپ اس طرح سے کیسے کسی کی بیٹی کے ساتھ... انعم کو لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہے...

نہیں میں اپنی وجہ سے کسی اور کے ساتھ غلط نہیں ہونے دوں گیا...

آہل کمرے میں آیا تو دانی بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی تھی,, آہل جانتا تھا اس لیے چہرے پر نرمی لیے دانی کے سرہانے بیٹھ گیا...

کیا ہوا جنگلی بلی,, آہل اس کے بال چہرے سے ہٹاتا ہوا بولا...

بات مت کرو مجھ سے تم... دانی اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئ بولی...

فل غصے میں ہو,, کتنی بار کہا ہے غصہ مت کیا کرو تمہاری چھوٹی سی ناک پر غصہ اچھا نہیں لگتا..

چلے جاؤ یہاں سے مجھے کوئ بات نہیں کرنی تم سے,, تم بہت بہت برے ہو جاہل حیات.. دانی روتی ہوئ بولی...

آہل کا فون وائبریٹ ہونے لگا تو اٹھ کر باہر نکل آیا..

آہل کے نکلتے ہی دانی حیرت سے اٹھ بیٹھی...

تمہیں کوئ فرق نہیں پڑتا آہل میں ناراض ہو جاؤں یا غصہ کروں,, تم حد درجہ کے بے مروت اور بےحس انسان ہو... دانی رخسار رگڑتی ہوئ بولی..

ہاں انعم کیا ہوا...

آہل دروازے کے باہر کھڑا تھا...

آہل ڈیڈ رحیم کی بہن کو اٹھوانے کا پلان بنا رہے ہیں پلیز تم ایسا مت ہونے دینا.

دانی اٹھ کر دروازے کے ساتھ آ کھڑی ہوئ...

انعم میری بات سنو,, تم فکر مت کرو میں ہر چیز سیٹ کر لوں گا مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ کچھ ایسا ہو گا اس لیے جب مجھے ادراک ہوا تو میں نے سد باب بھی کر دیا,, تم ٹینشن مت لو کچھ نہیں ہو گا..

ٹھیک ہے تم کہ رہے ہو تو میں نہیں لیتی ٹینشن... انعم نے کہ کر فون بند کر دیا البتہ ابھی بھی دل مطمئن نہیں ہوا تھا..

دانی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا...

آہل اور انعم.. وہ بامشکل بول پائ..

کیا اسی لیے انعم احد سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ تو رحیم کے ساتھ اور اب آہل... دانی چلتی ہوئ بیڈ پر آ بیٹھی...

آہل تم دھوکے باز ہو ,,,دانی نفی میں سر ہلاتی بول رہی تھی..

آہل اندر آیا تو نظر دانی سے ٹکرائ...

کیا ہوا دانی.. وہ پریشانی سے گویا ہوا...

کچھ نہیں ہوا مجھے...

اگر میری کوئ بات بری لگی ہے تو اس کے لیے سوری لیکن مجھے بتاؤ تو رو کیوں رہی ہو...آہل اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا...

دور رہو مجھ سے تم... دانی اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئ بولی...

ٹھیک ہے چلا جاؤں گا تم سے دور پہلے مجھے بتاؤ کیوں رو رہی ہو.. آہل نے نرمی سے کہ کر دانی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے...

آہل تم بہت برے ہو... آنسو آہل کے ہاتھ پر گرنے لگے..

اچھا پھر اس برے سے آہل کو وجہ بھی بتاؤ نہ...

تمہارے لیے میری کوئ اہمیت نہیں ہے تم ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہو میں کچھ بھی کہ لوں تم میری بات نہیں مانتے...

تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو... آہل دو انگلیوں سے دانی کی تھوڑی اوپر کرتا ہوا بولا...

دانی سرخ آنکھوں سے آہل کو دیکھنے لگی...

ہاں کرتی ہوں,,

پھر کیوں سوچتی ہو ایسا...

مجھے ثبوت چائیے,,,

کیسا ثبوت بولو ابھی دیتا ہوں...

ریفائنری والی زمین میرے نام کر دو میں یقین کر لوں گی تمہارا.. دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی...

آہل بغور دانی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں ہلکی سی جھجھک تھی...

دانی تم مجھے بیوقوف بنا رہی ہو,, ٹھیک ہے پھر آج آہل حیات تمہارے ہاتھوں بیوقوف بننے کو تیار ہے... آہل کرب سے سوچتا ہوا دانی کو دیکھ رہا تھا...

ٹھیک ہے میں پیپرز تیار کرواتا ہوں اور کچھ... دانی حیرت سے اسے دیکھنے لگی جس نے ایک لمحے میں رضامندی دے دی...

اور میں کیسے اعتبار کروں تمہارا... دانی کو خاموش پا کر آہل گویا ہوا....

دانی چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالنے... آہل دانی کے ہاتھوں کو دیکھنے لگا...

دانی اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہی تھی...

میں خود کو تمہارے سپرد کرتی ہوں... دانی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی...

نو.. آہل نے دانی کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھ دئیے... دانی جانتی تھی فلحال وہ ایسا کبھی نہیں کرے ایک چیز جو وہ اتنے عرصے میں جان گئ تھی وہ یہ تھی کہ وہ حوس کا پجاری نہیں تھا...

اس سب کی ضرورت نہیں آہل حیات تم پر بھروسہ کرتا ہے اور ایک بات دانی میرا بھروسہ کبھی مت توڑنا مجھے نفرت سے چیٹرز سے...آہل اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا...

دانی لمحہ بھر کو ٹھٹھک گئ,, مانو وہ اس کی آنکھیں پڑھ رہا ہو....

کبھی نہیں ہو گا ایسا... دانی کے لیے بولنا محال ہو گیا...

کتنا مشکل ہے کسی کو فریب دینا نا جانے آہل تم کیسے کر لیتے ہو یہ سب... دانی اسے دیکھتی ہوئ سوچنے لگی....

آہل وہ کمرہ کس کا ہے...

دانی ابھی تمہارے لیے یہ جاننا اہم نہیں.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا....

پلیز آہل تم مجھے اپنی بیوی مانتے ہو تو پھر مجھے لاعلم کیوں رکھتے ہو....

کیونکہ تم مجھے اپنا شوہر نہیں مانتی اور دانی ہر چیز کا وقت طے ہے جب اس کا وقت آےُ گا تمہارے بنا کہے سب کچھ بتا دوں گا آئ پرامس..

________

آہل کی آنکھوں میں اپنے لیے مان دیکھ کر دانی نا چاہتے ہوۓ بھی اثبات میں سر ہلانے لگی...

تمہاری ہاف گرل فرینڈ ٹھیک ہے... آہل کو کوٹ اتارتے دیکھ کر دانی بولی...

ہاں ٹھیک ہے فائرنگ گھر پر ہوئ بٹ لکیلی گھر پر اس وقت صرف رفیق تھا ورنہ باقی سب کو بھی نقصان پہنچتا...

کس نے کیا یہ... دانی تجسس سے بولی..

میرا خیال ہے میں بھی تمہارے ساتھ دوبئی تھا... آہل دانی کو گھورتا ہوا بولا..

تم وزیر اعلیٰ ہو تمہیں معلوم ہونا چائیے کس نے کیا ہے...

میں وزیر اعلیٰ ہوں نجومی نہیں جو سب معلوم ہو... آہل مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلاتا واش روم میں گھس گیا...

دانی اپنی بکس اٹھا کر بیٹھ گئ...

اس بدتمیز کی وجہ سے میں پڑھائ بھی نہیں کر سکی...

آہل دانی کے دائیں جانب آ کر بیٹھ گیا,,شرٹ کے آستین اوپر کر رکھے تھے دانی کی نظر اس کے بازو پر پڑی..

مجھے تمہارا یہ ٹیٹو بہت پسند ہے... دانی اس کے ساتھ ٹیک لگاتی اس کی بازو ہاتھ میں پکڑتی ہوئ بولی...

مجھے بھی بہت پسند ہے... آہل پسندیدگی سے بولا..

دانی مومل جیسی انگلیاں آہل کے بازو پر بنے ٹیٹو پر پھیرنے لگی...

مجھے دے دو یہ.. دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی یوں کہ بامشکل دانی کا چہرہ بچا ورنہ آہل کے چہرے سے ٹکرا جاتا...

پاگل ہو تم بلکل... آہل اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکراتا ہوا بولا...

دانی خفگی سے دیکھنے لگی...

تم ہی رکھ لو بلکہ میں تو کہتی ہو کسی بریف کیس میں بند کر کے رکھ لو کہیں چوری نہ کر لے کوئ.. دانی بڑبڑاتی ہوئ کھڑی ہو گئ...

آہل قہقہے لگاتا اسے دیکھنے لگا جس کی ناک پر غصہ تھا...

************

دانی دیکھو اس نے مجھے تباہ و برباد کر دیا ہے.. زبیر مظلومیت سے بولے...

کیا مطلب ڈیڈ... دانی الجھ کر اسے دیکھنے لگی...

پہلے تم سے زبردستی نکاح کر کے اپنے ساتھ رکھا پھر ریفائنری میں آگ لگوائ پھر زمین بھی لے لی اور اب انعم پر نظر ہے اس کی اسی لیے تو احد سے منگنی ختم کروائ...

دانی بےیقینی کی کیفیت میں انہیں دیکھنے لگی...

انعم پر کیسے...

بیٹا انعم کے طلاق کے کاغذات آہل نے چوری کرواےُ تھے اور دیکھو تمہارے ڈیڈ آج خالی ہاتھ ہیں سب کچھ چھین لیا اس نے مجھ سے.. وہ آنسو بہاتے ہوۓ بولے..

ڈیڈ پلیز آپ روئیں مت مجھے بتائیں میں کیسے آپ کی ہیلپ کروں... دانی دکھ سے بولی....

نئی حکومت کس کی بنے گی یہ تو ابھی سے دکھائ دے رہا ہے...

آہل کی.. دانی نے مداخلت کی...

ہاں اور اگر ہماری حکومت نہ آئ تو جو آخری امید ہے وہ بھی ٹوٹ جاےُ گی دانی میں کیسے تمہاری مام اور انعم کو سنبھالوں گا مجھے اپنی پرواہ نہیں میں فاقے بھی کر لوں گا لیکن.. وہ بات ادھوری چھوڑ کر رونے لگے...

ڈیڈ پلیز چپ کر جائیں,, آپ جو کہیں گے میں کروں گی میں آپ کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی پلیز مجھے بتائیں...

زبیر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ در آئ جو اس نے بروقت روک دی...

سنو پھر تمہیں کیا کرنا ہے..

زبیر نے سارا پلان دانی کے گوش گزار کر دیا...

کیا یہ کام کرے گا... دانی الجھ کر بولی..

سو فیصد جتنا میں آہل کو جان چکا ہوں یہ پلان ضرور کام کرے گا...

ڈیڈ اس میں کوئ خطرہ تو نہیں کیونکہ آہل شاید مجھ سے محبت کرتا ہے میں سو فیصد تو نہیں کہ سکتی لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے... دانی دوسری جانب دیکھتی ہوئ بول رہی تھی..

نہیں دانی کسی کو کسی بھی نوعیت کا نقصان نہیں پہنچے گا میں تمہیں کہ رہا ہوں تمہیں بھروسہ نہیں اپنے ڈیڈ پر...

ایسی بات نہیں ہے ڈیڈ ٹھیک ہے پھر آپ مجھے بتا دیجیے گا جب اس پلان کو عملی شکل دینی ہو تو ابھی میں چلتی ہوں آہل باہر کھڑا ہو گا اور آپ ابھی مت نکلنا یونی سے ورنہ اسے معلوم ہو جاےُ گا ہماری ملاقات کا....

دانی تنبیہ کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئ...

آج اتنی دیر کیوں لگا دی تم نے...آہل جانچتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا..

کچھ نہیں بس بکس باہر تھیں تو بیگ بند کر رہی تھی... دانی اس کے شانے پر سر رکھتی ہوئ بولی...

آہل مطمئن نہیں ہوا...

اف ڈیڈ کتنا عجیب لگ رہا ہے یہ سب اور برا بھی کہ آہل کو دھوکہ دوں... دانی اس کی بازو پکڑتی ہوئ سوچنے لگی...

آہل بھی اس تبدیلی پر حیران تھا خوشی کی رمق تک نہ تھی اس کے چہرے پر البتہ شک و شبہات سر اٹھا رہے تھے...

ہاں رفیق تم جب تک صحت یاب نہیں ہو جاتے تب تک کام پر مت آنا لیکن جو فون کال کا بولا تھا وہ کر دیا... آہل بلیو ٹوتھ کان سے لگاےُ بول رہا تھا اپنی بازو دانی کی گرفت سے آواز کروا کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا...

نا جانے کیوں آہل ایسا معلوم ہوتا ہے تم سب جانتے ہو پھر کیوں مجھ سے استفسار نہیں کر رہے,, پلیز تم خود ہی میرا جھوٹ پکڑ لو... دانی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئ سوچ رہی تھی...

جی سر ان کے گھر کے باہر فل ٹائم پہرہ ہے وہ بھی خفیہ اور اس گھر کی خواتین پر خاص نگرانی ہے کوئ انہیں چھو بھی نہیں سکتا لے جانا تو بہت دور کی بات ہے...

پھر ٹھیک ہے بس میں اس جانب سے مطمئن ہونا چاہتا تھا اور پریس کانفرس کی معلومات. آہل دانی کو نظرانداز کر رہا تھا...

جی سر میں نے پوچھا ہے سب کچھ سیٹ ہے ساری تیاری مکمل ہے آپ دانین میڈم کے ساتھ جا سکتے ہیں..

ہممم ٹھیک ہے تم اپنا خیال رکھنا اور بچوں کو پیسے بھیجوا دینا یاد سے..

جی سر ٹھیک ہے...

آہل فون بند کر کے باہر دیکھنے لگا...

یکدم دانی کو شرمندگی نے آن گھیرا..

دانی تم کمرے میں جاؤ مجھے کام ہے...

آہل,, دانی نے اس کی کلائ پکڑ لی..

آہل چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگا...

تم ناراض ہو مجھ سے... دانی نے کسی خوف کے تحت پوچھا...

آہل اپنی دانی سے ناراض ہو سکتا ہے کیا.. آہل مسکراتا ہوا دانی کی جانب آیا...

لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے...

کچھ بھی الٹا سیدھا مت سوچا کرو,, آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا...

ناجانے ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے تم مجھ سے دور جا رہے ہو... دانی نم آنکھوں سے اسے جاتا دیکھنے لگی...

مجھ سے خفا مت ہونا پلیز آہل... دانی آہستہ آہستہ چلنے لگی...

دانی کمرے میں آئ تو سٹڈی کا دروازہ کھلا ہوا تھا,, دانی کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

آہل بھول گیا ہے یا پھر چاہتا ہے کہ میں دیکھوں.. دانی بولتی ہوئ اندر آ گئ...

اللہ,,, اتنی ساری بکس میں کیا ڈھونڈوں,, معلوم نہیں کیا چھپایا ہے اس نے یہاں...

دانی ایک ریک کی طرف آئ اور بکس دیکھنے لگی...

یہاں تو ساری بکس ہی ہیں ایسے کیسے پتہ چلے گا... دانی منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی.. بکس رکھتے ہوۓ دانی کا ہاتھ لگا اور تین چار بکس گر گئیں تو ان کے عقب میں کچھ دکھائ دیا,,دانی نے ہاتھ بڑھایا اور اسے اٹھا لیا...

دانی اس البم کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی جس کے ایک کور پر ٹوٹا ہوا دل بنا ہوا تھا...

دانی آہل کی چئیر پر بیٹھ گئ اور البم کھول لیا..

یہ تو وہی لڑکی ہے جس کی تصویر اس بند کمرے میں لگی تھی... دانی تصویر پر ہاتھ پھیرتی ہوئ بولی...

کتنی خوبصورت ہے,,, کون ہے یہ لڑکی... دانی تعجب سے بولی...

پوری البم میں صرف اسی لڑکی کی تصویریں تھیں,,, کون ہے یہ جسے آہل نے چھپا کر رکھا ہوا ہے... دانی سوچتی ہوئ کھڑی ہو گئ اور محتاط انداز میں اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا..

آس پاس دیکھتی دانی باہر نکل آئ...

دانی چینج کر کے بکس میں سر دئیے بیٹھی تھی جب آہل کمرے میں آیا...

دانی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا...

آئسکریم,, دانی مسکرا کو بولی..

کھاؤ گی... آہل ایک آئسکریم اس کے سامنے کرتا ہوا بولا...

نہیں نہاؤ گی اس کے ساتھ... دانی گھور کر بولی..

آہل قہقہ لگاتا اس کے سامنے بیٹھ گیا...

دانی نے ایک کارنیٹو اس کے ہاتھ سے لی اور کھولنے لگی...

آرام سے جنگلی بلی...

دانی گھوری سے نوازتی اپنے کام میں مشغول ہو گئ...

آہل مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا...

دانی نے اس کے بازو کے ساتھ ٹیک لگا لی,, تم اتنے برے بھی نہیں ہو جاہل حیات... دانی آئسکریم کھاتی ہوئ بولی...

بہت شکریہ کہ آپ مجھے سمجھ رہیں ہیں...

آہل سچ میں ایک دن میں تمہیں جان جاؤں گی نہ... دانی اشتیاق سے بولی البتہ چہرے اس کا آہل کی جانب نہیں تھا...

بلکل اگر تم سیدھے ٹریک پر چلتی رہی...

کیوں اس میں الٹے سیدھے ٹریک بھی ہیں... دانی سیدھی ہو کر اسے دیکھنے لگی...

بلکل اگر تم نے غلط راستے کا انتخاب کیا تو کھو جاؤ گی,, آہل جان چکا تھا دانی اور زبیر کی ملاقات کے متعلق...

دانی آنکھیں جھپکاتی اسے دیکھنے لگی...

تم کیسے پڑھ لیتے ہو میرا چہرہ... دانی یکدم اداس ہو گئ...

ہنستی رہا کرو ایسے بلکل اچھی نہیں لگتی تم.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

تم پڑھائ کرو مجھے ضروری کام سے جانا ہے..

آہل تمہارے کام ہی ختم نہیں ہوتے... دانی منہ بسور کر بولی...

آپ کا شوہر کوئ عام سا بندہ نہیں ہے میڈم سو کام کرنے کو ہوتے ہیں,,,

ہاں پینٹ کرنے والے ہو نہ جو سب کے گھر میں جانا ہوتا...

آہل بال بناتا دانی کو دیکھ کر مسکرانے لگا...

جلدی آ جاؤں گا لیکن تم کھانا کھا لینا.. آہل اس کے سامنے آ کر منہ تھپتھپاتا ہوا بولا...

دانی منہ بناتی اسے دیکھنے لگی...

رشوت خور اسی لیے آئسمریم لاےُ تھے نہ کہ بچی کو دے کر بہلا دوں گا... دانی اس کی پشت کو گھورتی ہوئ بولی...

آہل مسکراتا ہوا باہر نکل گیا..

بدتمیز حیات... دانی بڑبڑاتی ہوئ بک کھولنے لگی,,ایک ہاتھ میں آئسکریم پکڑ رکھی تھی... دانی کمرے سے باہر نکلی اور ٹیرس پر آ گئ...

ہوا پتوں میں سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی,, رات کی تاریکی میں ہر چیز خاموش تھی اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا,,, فلک کی چادر پر ننھے منھے ستارے ٹمٹما رہے تھے,,,آفتاب سب سے چھپ کر بیٹھا تھا,, دانی مسکراتی ہوئ جھولے پر بیٹھ گئ...

دانی لاشعوری طور پر آہل کے بارے میں سوچنے لگی...

جاہل حیات تم اچھے ہو,,, یا شاید مجھے لگنے لگے ہو,, دانی جھولا جھلاتی ہوئ بولی...

تمہارا ڈمپل اف,,, بہت پیارا ہے... دانی مسکراتی ہوئ بولی,,, یہ احساس ہی نہایت خوش کن تھا کہ وہ انسان میرا ہے,,, تین مہینے بعد کیا ہو گا,, دانی مستقبل کو سوچنے لگی...

کیا ہمارے راستے الگ ہو جائیں گے,,, دانی اداسی سے بولی,,,

پھر میں کس کے ساتھ لڑائ کروں گی,, پھر مجھے دانی کون بلاےُ گا,, دانی لاکٹ ہاتھ میں پکڑتی ہوئ بولی...

آہل تم نے مجھ پر سحر پھونک دیا ہے دیکھو آج دانین تمہارا نام لے رہی ہے تم سے دور جانے پر میری آنکھیں نم ہو رہیں ہیں,,, تم مجھے برے لگتے تھے پھر کیوں آج ایسا محسوس ہو رہا ہے تم خفا ہوتے ہو تو لگتا ہے پوری دنیا روٹھ گئ ,لیکن تمہیں تو خفا ہونا بھی نہیں آتا,,,

ایک منٹ,, تم مجھ سے خفا نہیں ہوتے میں کچھ بھی کہ دوں اس کا کیا مطلب ہوا,,, دانی سیدھی ہو کر بیٹھ گئ,,, اس بات سے انجان کہ دو آنکھیں اسے مسکرا کر دیکھ رہیں ہیں...

اس کا مطلب جاہل حیات مجھ سے... دانی مسکرانے لگی...

آہل دھیرے سے چلتا ہوا دانی کے ساتھ بیٹھ گیا...

آاا.. دانی کے چیخ مارنے پر آہل نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...

جنگلی بلی میں ہوں...

اوووہ جنگلی بلا... دانی اسی کے انداز میں بولی..

یہاں کیا کر رہی ہو... آہل جھولے کی بازو سے پشت لگاتا ہوا بولا یوں کہ دانی کا دائیں رخ دکھائ دیتا...

لڑکوں کے ساتھ کھیل رہی ہوں,, دکھائ نہیں دے رہا.. دانی شرارت سے بولی...

کہاں ہیں لڑکے... آہل دانی کی گود پر اپنی ٹانگیں رکھتا ہوا بولا...

ہٹاؤ... دانی خفگی سے پیچھے کرتی ہوئ بولی لیکن آہل نے پھر واپس رکھ لیے,,,

یہ کیا بدتمیزی ہے ہٹاؤ اپنی لوہے جیسی ٹانگوں کو... دانی پھر سے پیچھے کرتی ہوئ بولی..

میں تو نہیں ہٹا رہا... آہل کی آنکھوں میں شرارت تھی...

دانی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی...

رکھ لو اگر تمہاری ٹانگوں کے وزن سے میری ایکسپائر ہو گئیں نہ پھر تمہاری ہی لوں گی میں...

دانی اس کے سینے پر پنچ مارتی ہوئ بولی...

صبح سحری کے لیے اٹھنا ہے چلو کمرے میں...

تم مجھے جانتے ہو نہ... دانی اس کی جانب رخ موڑتی ہوئ بولی...

بلکل... آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا...

تو پھر تم جانتے ہو گے کہ دانی,,,

ساری رات جاگتی ہے سحری کر کے پھر سوتی ہے... آہل نے اس کی ادھوری بات مکمل کر دی..

بلکل ٹھیک کہا... دانی نے چہرہ پھر سے سامنے کر لیا..

لیکن مجھے تو جاگنے کی عادت نہیں...

تو کیا ہوا اب ڈال لو... دانی لاپرواہی سے بولی...

کیوں...آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

کیونکہ اب دانی بھی تمہارے ساتھ ہے...

اچھا میڈم نہیں سوتا میں بھی... آہل ہتھیار ڈالتا ہوا بولا...

کل پریس کانفرس ہے ہماری, پہلے بھی میں نے کینسل کر دی اب کل تنگ نہیں کرنا تم نے.. آہل اسے گھورتا ہوا بولا..

بھئ مجھے نہیں پسند یہ سب تم خود ہی کرو جو کرنا ہے... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

دانی میں پیار سے کہ رہا ہوں نہ مان لو,, صرف ایک بار,, میں تو خود بھی نہیں چاہتا تمہیں سب کے سامنے لانا لیکن کبھی کبھی ضروری ہو جاتا ہے...

اچھا ٹھیک ہے لیکن جلدی جلدی کیونکہ مجھ سے زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہا جاتا...

ٹھیک ہے آہل مسکراتا ہوا بولا..

آؤ کمرے میں چلتے ہیں... آہل اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا...

نہیں مجھے یہیں بیٹھنا ہے... دانی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئ بولی..

اوووکے بیٹھ جاتے ہیں یہیں پر...

دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی...

کیا دیکھ رہی ہو... دانی آہل کو یک ٹک دیکھ رہی تھی...

کچھ نہیں... دانی نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولی...

***********

بہت بہت مبارک ہو عنایت صاحب... زبیر ان کے گلے لگتے ہوےُ بولے...

بہت شکریہ رنداوھا صاحب...

بھئ بیٹا گھوڑی پر چڑھ گیا تو ہماری محفل کہاں ہیں.. وہ ذو معنی انداز میں بولے...

ہاں ہاں محفل کا تو خاص انتظام کیا ہے آپ تسلی رکھیں بس میرا ایک سالہ آ جاےُ پھر شروع کرتے ہیں... وہ کمر پر تھپکی دیتے ہوۓ بولے...

زبیر قہقہ لگاتے آگے چلے گۓ...


ٹپ ٹپ برسا پانی,,

پانی میں آگ لگائ,,

آگ لگی دل میں تو,,

ہم کو تیری یاد آئ,,


تمام مرد حضرات شراب کے گلاس پڑے مدحوش تھے اور سامنے سٹیج پر بےباق لباس میں ملبوس جوان لڑکیاں رقص میں مشغول تھیں کچھ اپنی اداؤں سے سب کو دیوانہ بنا رہیں تھیں,,

نہ کسی کو اپنا ہوش تھا نہ ہی آس پاس کا کچھ یاد تھا تو صرف سامنے رقص کرتیں خوش شکل لڑکیاں,, جو ان کا ایمان خراب کر رہیں تھیں,, لیکن جن کا ایمان پہلے ہی خراب ہو مزید کیا خراب ہو گا...

************

آہل جلدی جلدی پانی پی لو ٹائم ختم ہو جاےُ گا...دانی گلاس اٹھاتی ہوئ بولی...

آہل مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا...

پاگل ہو تم دیکھنا تمہیں پیاس لگے گی نہ پیو مجھے کیا.. دانی بسورتی پانی پینے لگی...

آہل آرام سے پراٹھے کے ساتھ انصاف کر رہا تھا جبکہ دانی جلدی جلدی کھا رہی تھی...

دانی ابھی ٹائم سے سکون سے کھاؤ... آہل اسے گھور کر بولا.

_______

ہاں تم تو یہی چاہتے ہو کہ میں کم کھاؤ تاکہ پھر مجھے روزہ لگے...دانی بھی جواباً گھوری سے نوازتی ہوئ بولی.

پاگل ہو تم... آہل مسکراتا ہوا بولا..

تم تو جیسے بہت نارمل ہو نہ... دانی منہ بسورتی پلیٹ پر جھک گئ...


آہل واپس آیا تو دانی تیار کھڑی تھی,, شلوار قمیص میں ملبوس, دوپٹہ سلیقے سے سیٹ کیے,, چہرہ میک اپ سے عاری تھا لیکن پھر بھی حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھیں...

چلیں.. دانی اسے دیکھ کر بولی...

حیرت کی بات ہے آج تم ٹائم پر کیسے ریڈی ہو گئ... آہل بازو اوپر کیے گھڑی دیکھتا ہوا بولا...

میں نے سوچا اگر میں دیر سے تیار ہوئ پھر ہم لیٹ ہو جائیں گے اور اگر پریس کانفرس کے دوران افطار کا ٹائم ہو گیا پھر کیا کروں گی میں...

آہل قہقہ لگاتا باہر نکل گیا.

دانی یاد رکھنا کوئ الٹی سیدھی حرکت نہیں تمیز کے دائرے میں رہنا ہے... آہل انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا..

میں کوئ چھوٹی بچی ہوں کیا... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

جی ہاں تم چھوٹی سی بچی ہو جو بہت شرارتی ہے...

اللہ کرے تمہارے بچے شرارتی ہوں پھر معلوم ہو گا شرارتی بچے کس چیز کا نام ہے...

وہ تو ہم دونوں کے ہوں گے... آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانی گھور کر سامنے دیکھنے لگی..


آج اس پریس کانفرس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کچھ لوگ کافی وقت سے بول رہے ہیں کہ آہل حیات نے دانین کو بنا نکاح کے اپنے ساتھ رکھا ہے سو میں نے سوچا ایک ہی بار میں سب کو جواب دے دیا جاےُ تاکہ سب کو معلوم ہو جاےُ کہ آہل حیات ایک انسان ہے درندہ نہیں,,,

آہل کے دائیں جانب رفیق بیٹھا تھا,,بائیں جانب دانی اور دانی کے ساتھ ایک لڑکی تھی,, سامنے ایک ٹیبل پڑا تھا جس پر مائیک تھے,, آس پاس گارڈز کھڑے تھے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوۓ تھے سیکورٹی فل ٹائٹ تھی.. دانی بور ہوتی سامنے بیٹھے رپورٹرز کو دیکھ رہی تھی...

آہل نے رفیق سے نکاح نامہ لیا اور سب کے سامنے کیا,,, میرا خیال ہے اب سب کو یقین آ جاےُ گا کہ دانین حیات میری منکوحہ ہے جو شک و شبہات ہیں آج دور ہو جائیں گے...

لیکن سر یہ نکاح ہوا کب,, ایک رپورٹر بولی...

نکاح کب ہوا کیسے ہوا,, یہ سب جاننا آپ کے لیے اہم نہیں ہر انسان کی ایک ذاتی زندگی ہوتی پروفیشنل لائف سے ہٹ کر سو میری بھی پرسنل لائف ہے جتنا آپ لوگوں کے لیے جاننا اہم تھا اس سے آگاہ کر دیا گیا,, مزید کوئ سوال... آہل نے پیچھے ہو کر ٹیک لگا لی...

رپوٹرز جلدی جلدی لکھ رہے تھے...

آہل,,دانی ٹیبل کے نیچے آہل کی آستین کھینچتی ہوئ بولی...

دانی,,, آہل مسکرا کر سامنے دیکھتا ہوا بولا..

آہل وہ جو تمہارے سامنے رپوٹر بیٹھی ہے نہ اسے بولو تمہیں فائزہ بیوٹی کریم کی اشد ضرورت ہے...

آہل منہ پر ہاتھ رکھے مسکراہٹ روکنے لگا...

اور اس آدمی کو تو دیکھو وہ جو آخر میں بیٹھا ہے ایسا لگ رہا ہے اپنی روح کسی کو ادھار دے کر آیا ہے لگ ہی نہیں رہا زندہ ہے... دانی مزے لیتی ہوئ بولی..

دانی چپ کر جاؤ... آہل مسکراتا ہوا بولا..

اور اس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے ہاتھی بیٹھا ہے آہل دیکھو اس کو یہ جو میرے سامنے بیٹھا ہے گھور ایسے رہا یے جیسے میں نے اس کی بھینس بھگائ ہو... دانی منہ بسور کر بولی..

دانی سچ میں بہت برا پیش آؤں گا,, اب تمہاری آواز نہ نکلے...

مس دانین حیات آپ کچھ کہنا چائیں گے...

نہیں جب آہل نے سب کچھ بتا دیا ہے تو پھر میرے کچھ کہنے کا جواز نہیں بنتا... دانی مسکراتی ہوئ بولی...

میم میری یہ بیٹی آپ کو بہت پسند کرتی ہے,,دانی پسندیدگی سے اس چھوٹی سی چار سالہ بچی کو دیکھنے لگی..

اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو یہ آپ کے ساتھ ہینڈ شیک کرنا چاہتی ہے... وہ التجائیہ انداز میں بولی ..

بےاختیار دانی آہل کو دیکھنے لگی...

آہل نے اثبات میں سر ہلا دیا.

بھیج دیں... دانی مسکراتی ہوئ بولی...

آہل کو شرارت سوجھی تو دانی کا دائیں ہاتھ پکڑ لیا,, بچی سٹیج پر چڑھ کر دانی کے سامنے آ گئ...

آہل میرا ہاتھ چھوڑو,, دانی گھور کر مسکرانے لگی..

میں تو نہیں چھوڑوں گا,,, آہل دھیرے سے مسکرایا..

آہل پلیز دیکھو وہ مجھے بکے دے رہی ہے میں کیسے لوں اس سے... دانی مظلومیت سے بولی..

تمہیں میں منع کر رہا تھا تم نے میری بات مانی,, آہل سرگوشی کر رہا تھا...

اچھا اب مانوں گی چھوڑ دو,, دانی کے کہتے ہی آہل نے دانی کا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کر دیا,, سب حیرت سے دانی کو دیکھ رہے تھے جو بچی سے بکے نہیں لے رہی تھی,, دانی مسکراتی ہوئ کھڑی ہو گئ اور بچی کو گود میں اٹھا لیا...

بکے ٹیبل پر رکھ دیا,,

کیا نیم ہے آپ کا... دانی اس کیوٹ سی گول مول سی بچی کو دیکھتی ہوئ بولی...

ایمان... وہ آنکھیں ٹپٹپاتی ہوئ بولی...

بہت پیارا نیم ہے... دانی خوشدلی سے بولی...

آپ بہت پیاری ہیں,, وہ دانی کے گال کھینچتی ہوئ بولی...

آپ بھی بہت کیوٹ ہو... دانی اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئ بولی...

آہل پرسکون سا دانی کو دیکھ رہا تھا...

تھینک یو... دانی نے اسے نیچے اتارا تو وہ مصافحہ کرتی ہوئ بولی...

ویلکم ڈئیر,,, دانی مسکراتی ہوئ واپس آ گئ..

آہل نے رفیق کو اشارہ کیا تو وہ کھڑا ہو گیا,, گارڈز الرٹ ہو گۓ...

آہل دانی کا ہاتھ پکڑتا کھڑا ہو گیا اور چلنے لگا,, آگے پیچھے گارڈز چل رہے تھے...

ایک دن ہماری بھی ایسی ہی کیوٹ سی بیٹی ہو گی... آہل دانی کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا..

تمہیں بیٹیاں پسند ہیں,,, دانی اس کی جانب دیکھتی ہوئ بولی...

بلکل... آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانی سر جھکا کر مسکرانے لگی...

اظہار نہیں تھا لیکن احساس تھا پیار کا,,, وہ اظہار کر کے بھی دانی کو انجان رکھ رہا تھا اور دانی کے اظہار کیے بنا ہی آہل سمجھ چکا تھا ,,ضروری نہیں الفاظ سے اظہار کیا جاےُ پھر معلوم ہوتا,, کچھ اظہار ہوتے ہیں جنہیں محسوس کیا جاتا ہے رویے میں جنہیں دیکھا جاتا ہے آنکھوں میں جنہیں ڈھونڈا جاتا ہے فکر میں,, ہر محبت کے اظہار کے لیے الفاظ کی مدد درکار نہیں ہوتی سمجھنے والے بنا کہے بھی سمجھ جاتے ہیں,,, ہر کسی کے اظہار کا الگ طریقہ ہوتا ہے,, یہ دانی کے اظہار کا طریقہ تھا...


دانین کا دماغ خراب ہو گیا ہے وہ کیسے اس آہل حیات کو قبول کر سکتی ہے...

زبیر ان کی پریس کانفرس دیکھ کر طیش میں آ گۓ...

یہ پاگل لڑکی سب کچھ خراب کر دے گی,,, دانین میرا فون بھی نہیں اٹھا رہی پتہ نہیں کون سا جادو کر دیا ہے میری بیٹی پر... زبیر مٹھیاں بھینچ کر بولے...

سر مجھے لگتا ہے دانین میڈم کو دوسرے طریقے سے ہینڈل کرنا پڑے گا...

کس طریقے سے,, زبیر آبرو اچکا کر بولا..

آپ نے کہا تھا شاید دانین میڈم آہل کو پسند کرنے لگیں ہیں سو اگر وہ آہل حیات کو پسند کرتیں ہیں تو اس کی جان بچانے کے لیے کچھ بھی کریں گیں...

دماغ خراب ہو گیا ہے کیا وہ آہل حیات ہے اس پر ہم ہاتھ نہیں ڈال سکتے اور دوسری بات اس سے ایک باپ کا امیج خراب ہو جاےُ گا میں چاہتا ہوں دانین مجھے اپنا آئیڈیل سمجھے جیسے آج تک سمجھتی آئ ہے اگر میں اپنی بیٹی کو دھمکاؤں گا تو وہ میرے خلاف ہو جاےُ گی نہیں,, یہ ٹھیک نہیں,, اس کے لیے آہل کو پھنسانا پڑے گا... وہ سوچتے ہوۓ بولے..

آپ کے پاس کوئ آئیڈیا یے... آسم اسے پرسوچ دیکھ کر بولا...

بلکل,, وار کریں گے لیکن مختلف انداز میں تاکہ میری امیج خراب نہ ہو اور دانی بھی ہمارے لیے کام کرے.. زبیر مسکراتے ہوۓ بولے...

سر زبردست آئیڈیا ہے سانپ بھی مر جاےُ گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی... آسم مسرت سے بولا..

بس تم آہل سے رابطہ کرو اور اسے میرے فارم ہاؤس پر بلاؤ اس کا قصہ بھی ختم کریں... زبیر مسکراتے ہوۓ کھڑے ہوگۓ....

************

کہاں سے آوارہ گردی کر کے آ رہے ہو... دانی دروازے پر آ کر بولی...

آہل معصوم سی شکل بناےُ دانی کو دیکھنے لگا....

کام سے گیا تھا..

ٹائم دیکھو ذرا کون سا کام تھا تمہارا بتاؤ مجھے,,,

پتہ ہے میں افطاری کے بعد سے انتظار کر رہی ہوں... دانی خفگی سے بولی..

سوری میری جنگلی بلی لیکن کام بھی ضروری تھا ڈاکڑ قدسیہ کے ساتھ میٹینگ تھی...

کون ڈاکڑ قدسیہ,, دانی آبرو اچکا کر بولی...

بلکل بیوی لگ رہی ہو... آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا...

مجھے گمراہ مت کرو تم پہلے بتاؤ... دانی اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئ بولی...

اچھا مجھے اندر تو آنے دو کمرے میں...

جی نہیں پہلے کلئیر کرو پھر,,, دانی دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی...

اچھا جی یہ دیکھ لو یہ ہیں ڈاکڑ قدسیہ,,, آہل ان کی تصویر دکھاتا ہوا بولا..

یہی ملی تھی تمہیں,, اور تم نے اس کی تصویر اپنے فون میں رکھی ہے... دانی صدمے سے بولی..

پاگل ہو تم میں نے فیسبک سے نکال کر دکھائ ہے یہ دیکھو,, آہل اس کی آئ ڈی دکھاتا ہوا بولا..

اب اندر آ سکتا ہوں...

ہاں اب تم گھر پرویش کر لو... دانی شرارت سے کہتی اندر آ گئ...

مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے کب سے... دانی بیڈ پر بیٹھتی ہوئ بولی,,, آہل کپڑے نکالتا رخ موڑ کر دانی کو دیکھنے لگا...

تمہیں کہا تو ہے میرا انتظار مت کیا کرو,, جب بھوک لگے کھا لیا کرو... آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..

تمہارے ساتھ کھانے کی عادت ہو گئ ہے... دانی اداسی سے بولی...

تم ٹھیک ہو... آہل اس کے سامنے آ گیا..

ہاں تم بس جلدی سے چینج کرو پھر مجھے کھانا کھلانا....

اپنے ہاتھ سے..

کوئ پاؤں سے بھی کھلاتا ہے.. دانی گھور کر بولی...

اچھا بس دو منٹ... آہل مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا...

دانی مسکرانے لگی..

پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے مجھے,, یہ انسان مجھے پاگل کرتا جا رہا ہے... دانی سر کھجاتی ہوئ بولی...

وقت پنکھ لگاےُ اڑ رہا تھا...

رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا..

آہل مجھے لگتا ہے تم نے آسم کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا ورنہ اس طرح کے رویے کی توقع کم از کم مجھے نہیں تھی...

زبیر ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر بیٹھا تھا فون کان سے لگا رکھا تھا...

مجھے ان فضول سی باتوں میں دلچسپی نہیں.. آہل اکتا کر بولا...

آہل تم کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہو جاؤ لیکن آج بھی بچے ہی ہو,,یہ آنکھ مچولی کا کھیل ختم کرو مرد ہو نہ تو سامنے آ کر کھیلو یہ پیٹھ پیچھے وار کرنا بزدلوں کا کام ہے تم بھی شاید ڈرتے ہو...

میں کسی سے ڈرتا ہوں یا نہیں یہ تمہارا مسئلہ نہیں رہی بات سامنے آ کر کھیلنے کی تو ٹھیک ہے اب آمنے سامنے کھیلیں گے...

آہاں,, آئ لائک اٹ,,, تم یہ تو جانتے ہو گے کہ دس پہلے جو کچھ ہوا اس سب میں زبیر رنداوھا ملوث تھا لیکن..

لیکن کیا,,,آہل سیدھا ہو گیا...

لیکن ایک اور انسان بھی میرے ہمراہ تھا جس سے تم بلکل لاعلم ہو تمہارے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں...

کون ہے وہ...آہل مٹھیاں بھینچ کر بولا...

آہ,,, آمنے سامنے کی بات ہوئ تو اب آمنے سامنے بات ہو گی,, سامنے آؤ تم سے ڈیل کرنی ہے ایسے کیسے بتا دوں..

ہوں,,, لالچی انسان کہاں آنا ہے بتاؤ,, آہل ہنکار بھرتا ہوا بولا...

میرے فارم ہاؤس پر آ جانا,, اور ہاں اکیلے آنا ہمت ہے تو... زبیر نے کہ کر فون بن کر دیا...

سالے... آہل نے گلدان اٹھا کر زمین پر دے مارا...

کون ہو سکتا ہے وہ دوسرا انسان... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا سوچنے لگا...

________

چاچو نے تو صرف زبیر کا نام لیا تھا پھر اب یہ دوسرا انسان کون ہے,,, ہو سکتا ہے زبیر جھوٹ بول رہا ہو,,, لیکن مجھ پر ہاتھ ڈالنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کا مقصد کچھ اور ہی ہو گا تبھی تو اتنے وقت کے بعد اس نے خود سے بات کا آغاز کیا... آہل الجھتا ہوا ٹہل رہا تھا...

سر چیف سیکریٹری کے ساتھ آپ کی میٹینگ ہے... رفیق اندر آتا ہوا بولا...

یار میٹینگ... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا...

آپ ٹھیک ہیں سر... رفیق فکرمندی سے بولا..

ہاں ٹھیک ہوں ایک مسئلہ ہے لیکن میٹینگ کے بعد بتاؤں گا اور ہاں پولیس کے محکمے کے سربراہ کو بھی بلانا تھا مجھے بات کرنی تھی اس سے بھی...

سر میں ابھی کال کر دیتا ہوں تب تک آپ چیف سیکریٹری سے بات کریں وہ آ جاےُ گا... رفیق نمبر ملاتا ہوا بولا...

آہل کوٹ کا بٹن بند کرتا کانفرس روم میں آ گیا....

کچھ دیر بعد دانی آتی دکھائ دی...

میم اندر سر کی میٹینگ چل رہی ہے آپ ابھی نہیں جا سکتی..

تم مجھے روک رہے ہو... دانی تیکھے تیور لیے بولی...

سوری میم لیکن سر نے آڈر دیا ہے کہ جب تک میٹنگ نہیں ہو جاتی کسی کو اندر نہ آنے دیا جاےُ...

فون کرو اپنے سر کو اور بتاؤ دانین حیات آئ ہے... دانی سینے پر بازو باندھتی ہوئ بولی...

سوری سر آپ کو ڈسٹرب کیا وہ دراصل دانین میڈم آپ سے ملنے آئیں ہیں اور اندر آنے کے لیے بضد ہیں..

جی ٹھیک ہے سر.. کہ کر اس نے فون بند کر دیا..

میم وہ آ رہے ہیں صرف دو منٹ ویٹ کر لیں...

ہممم... دانی کہ کر دوسری جانب دیکھنے لگی...آپ کے لیے چئیر لاؤں,,,

نہیں میں ٹھیک ہوں ایسے ہی...

اگلے ہی لمحے آہل باہر آتا دکھائ دیا...

کیا ہوا دانی... وہ دانی کا ہاتھ پکڑے سائیڈ پر آ گیا...

مجھے روزہ لگ رہا ہے... دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

آہل نے چہرے پر عود آنے والی مسکراہٹ کو روکتے ہوۓ دانی کو گھورنے لگا...

تم نے مجھے اس لیے بلایا ہے...

بلکل مجھے باہر جانا پلیز میرے ساتھ چلو...

دانی میں میٹینگ چھوڑ کر آیا ہوں... آہل فکرمندی سے بولا..

چھوڑ آےُ ہو نہ تو بس اب میرے ساتھ چلو...

دانی ایسے ضد مت کیا کرو مجھے کام بھی تو کرنا ہے نہ...

مجھے نہیں پسند تمہاری یہ سیاست میں کچھ نہیں جانتی ابھی میرے ساتھ چلو...

آہل سانس خارج کرتا دانی کو دیکھنے لگا...

تم نے پانی پیا ہے نہ... دانی اسے ہشاش بشاش دیکھ کر بولی...

پاگل ہو کیا.. آہل خفگی سے بولا..

ہاں ہاں بول لو مجھ سے جھوٹ دیکھو صاف پتہ لگ رہا ہے تم نے پانی پیا پے...

اور وہ کیسے... آہل جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا..

وہ ایسے کہ آپ ابھی مجھے خوب گھمائیں گے اور پھر بھی آپ کو روزہ نہیں لگے گا اس کا مطلب آپ نے پانی پیا ہے...

آہل نفی میں سر ہلاتا مسکرانے لگا...

اچھا میں میٹینگ ختم کر لو,, آہل اس کے چہرے پر آئ لٹ کو کان کے پیچھے کرتا ہوا بولا..

نہیں میرے ساتھ چلو بس کوئ میٹینگ اٹینڈ نہیں کرنی...

کبھی کبھی تم بہت تنگ کرتی ہو اب تو گولی سے بھی نہیں ڈرتی,,,

کیونکہ اب تمہاری بیوی ہوں نہ,, اب مجھے باتوں میں مت الجھاؤ اور چلو بس... دانی اس کی بازو میں اپنی بازو ڈالتی ہوئ بولی...

اچھا میں معذرت تو کر لوں سب سے...

ہاں وہ کر لو... دانی خوش ہوتی ہوئ بولی...

جہاں جہاں میں کہوں گی ان سب جگہ پر جانا ہے... دانی اس کے ساتھ کار کی جانب چلتی ہوئ بولی...

پھر تمہیں روزہ نہیں لگے گا...

پھر تو میرا دھیان ہٹ جاےُ گا پتہ بھی نہیں چلے گا کب دن ختم ہوا...

آہل مسکراتا ہوا چلنے لگا...

***********

بتاؤ اب زبیر کون ہے وہ دوسرا انسان جو تمہارے ساتھ اس گھناؤنے کھیل میں شریک تھا... آہل کدورت سے بولا.

بہت جلدی ہے تمہیں آہل,, زبیر ٹانگ پے ٹانگ چڑھا کر بیٹھا تھا آہل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا..

میرا پاس اتنا فضول وقت نہیں ہے زبیر... آہل ضبط کرتا ہوا بولا..

ہاں بھئ وزیر اعلیٰ ہو تم وقت کیسے ہو سکتا ہے لیکن بہت افسوس ہے مجھے تمہارے لیے... زبیر بظاہر دکھ سے بولے...

زبیر جو بات ہے وہ کرو میرا وقت برباد مت کرو... آہل کا بس نہیں چل رہا تھا زبیر کا منہ نوچ لے...

ڈیل کرنی ہو گی تمہیں...

کس نوعیت کی ڈیل,, آہل آبرو اچکا کر بولا...

میں تمہیں اس انسان کا نام بتاؤں گا جو میرے ساتھ تھا بدلے میں تم دانین کو چھوڑ دو گے.. زبیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

آہل کو لگا وہ سانس لینا بھول گیا..

دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا..

بتاؤ پھر کیا کرو گے...

میں دانی کو طلاق دے دوں گا,, مجھے اس انسان کا نام بتاؤ,,, ضبط کے باعث آہل کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں...

آہ,, آئ لائک اٹ,, بہت سمجھدار ہو تم اور آج عملی نمونہ بھی دیکھ لیا...

ویسے آہل ایک بات تو ہے دُر عدن خوبصورت بہت تھی.. زبیر جان بوجھ کر آہل کا ضبط آزما رہا تھا...

زبیر اگر تم نے اپنی گندی زبان سے دوبارہ یہ نام لیا تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا میں... آہل اٹھ ایک ہی جست میں زبیر کے سامنے کھڑا اس کا گریبان پکڑے ہوۓ تھے...

کیوں کیا ہوا غصہ آتا ہے,, سوچو مجھ پر کیا گزرتی ہو گی,, میری بیٹی بھی دن رات تمہارے کمرے میں تمہارے ہمراہ ہوتی ہے میں کیسے براداشت کروں....

بھولو مت تم نے دس سال پہلے کیا کیا تھا... آہل اس کا منہ نوچتا ہوا بولا...

آہ,, لیکن ثبوت تو تمہارے پاس کوئ بھی نہیں پھر کیسے ثابت کرو گے... زبیر اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا..

ثبوت بھی مل جاےُ گا اور تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا بھی...

لیکن کچھ بھی کہو آہل وہ دن بہت کمال کے تھے اف دُر عدن کا حسن,, پاگل کر دیتا تھا... زبیر کھڑے ہو کر بولے..

یہاں آ کر آہل کا ضبط جواب دے گیا...

آہل نے زبیر کے منہ پر مکہ مارا اس کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر پے در پے چار پانچ مکے رسید کر کے زبیر کا منہ سوجھا دیا... زبیر نے دھکا دے کر آہل کو پیچھے کیا...

بھولو مت تم میری جگہ پر کھڑے ہو,,, آہل کو دونوں جانب سے گارڈز نے پکڑ لیا تھا...

اپنی اس غلیظ زبان سے دوبارہ نام لینے کا سوچنا بھی مت ورنہ میں بھی تمہیں مارنے سے پہلے نہیں سوچوں گا,,, آہل گارڈ سے خود کو آزاد کرواتا تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا.. جن یادوں سے وہ پچھلے دس سالوں سے بھاگ رہا تھا آج اس طرح سامنے آئیں کہ آہل بپھر سا گیا,, وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا چل رہا تھا,, چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو رہے تھے مانو اس کی آنکھیں شعلے اگل رہیں ہوں,, تو جو آگ اس کے اندر لگی ہو گی اس کا تو کوئ حساب ہی نہیں...

سر آپ ٹھیک ہیں,,رفیق آہل کو دیکھ کر اس کی جانب لپکا...

ہاں میں ٹھیک ہوں تم ڈرائیور کو بولو کہ گھر چلے... آہل پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہوا بولا..

رفیق اثبات میں سر ہلاتا فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا,,

رفیق کو اس کی ذہنی حالت کا اندازہ اس کی جسمانی حالت سے ہو رہا تھا وہ چوٹ دے کر نہیں چوٹ کھا کر آیا تھا...

سر کسی چیز کی ضرورت ہے آپ کو...

نہیں رفیق فلحال کچھ نہیں چائیے مجھے... آہل حسب معمول جیب میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا..

دانی اسے ٹیرس سے دیکھ چکی تھی,, اسی لیے فوراً زینے اترنے لگی..

آہل میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں,, آہل کا چہرہ رفیق کی جانب تھا...

دانی ابھی نہیں.. وہ دس سال پہلے والا آہل تو نہیں لیکن کوئ اور آہل لگ رہا تھا...

میں باکسنگ کر لوں پھر تم سے بات کرتا ہوں.. آہل رفیق کا شانہ تھپتھاتا ہوا بولا..

لیکن سر آپ...

تم فکر مت کرو رفیق پچھلے دس سالوں سے خود کو سنبھالا ہے آج بھی سنبھال لوں گا... آہل نے مسکرانے کی سعی کی لیکن مسکرا نہ سکا...

دانی الجھ کر دونوں کو دیکھ رہی تھی..

آہل باکسنگ والے روم کی جانب چل دیا...

آہل کو کیا ہوا... دانی اسے جاتا دیکھ کر بولی..

روزہ رکھ کر کون باکسنگ کرتا ہے... وہ بال باندھنے کی غرض سے واپس کمرے میں چلی گئ...

***********

انعم تمہارے ڈیڈ تو کبھی نہیں مانیں گے پھر کیا بنے گا ہمارے رشتے کا...

رحیم تم فکر مت کرو آہل کہتا ہے ہمیں انتظار کرنا ہے ایک دن سب ٹھیک ہو جاےُ گا...

آہل حیات کی بات کر رہی ہو نہ تم...

ہاں دانین کا شوہر...

لیکن انعم کیسے سب ٹھیک ہو گا تمہارے ڈیڈ نہ کل مانے تھے نہ آج اور نہ ہی آنے والے وقت میں مانیں گے تم بھی اچھے سے جانتی ہو...

میں جانتی ہوں لیکن دیکھو جس طرح آہل نے احد سے میری جان چھڑوا دی ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئ آئیڈیا ہو تبھی تو اتنے وثوق سے کہ رہا تھا...

پتہ نہیں انعم یہ بڑے لوگ ہیں میری تو سمجھ سے باہر ہیں... رحیم اداسی سے بولا..

ٹھیک ہے ہمارا مستقبل دکھائ نہیں دے رہا لیکن ہم ایک دوسرے کے نکاح میں ہیں کیا یہ بہت نہیں تمہارے لیے اب کم از کم مجھ سے کوئ شادی نہیں کرے گا تو ڈیڈ مان ہی جائیں گے ویسے بھی وہ خود بھی غریب ہوتے جا رہے ہیں اور ایک دن شاید سڑک پر آ جائیں اس دن تم ان سے اوپر ہو گے...

انعم آہل کی باتوں سے جو اخذ کر سکی رحیم کے گوش گزار کر دیا...

اوووہ تو یہ بات ہے... رحیم اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا..

ہاں اسی لیے میں بھی امید لگاےُ بیٹھی ہو,, امید پر ہی دنیا قائم ہے میں نے بھی اسی امید پر اپنی دنیا قائم کر لی ہے...

تم ٹھیک کہ رہی ہو,, اچھا میں چلتا ہوں اب,, مجھے نوشین کو اکیڈمی سے لینے جانا ہے... رحیم کھڑا ہوتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے کوئ مسئلہ نہیں...

انعم مسکراتی ہوئ کھڑی ہو گئ...

رحیم نے بائیک کی کیک ماری اور زن سے بھگا لے گیا.

رفیق دانی کی دوبارہ اپنے باپ سے کوئ ملاقات تو نہیں ہوئ...

نہیں سر,, میں خود دانین میڈم پر نظر رکھے ہوۓ ہوں اس دن کے بعد سے میڈم نے کوئ ملاقات نہیں کی...

ہممم صحیح,,, باکسنگ کرتے ہوۓ آہل کی نظر دانی پر پڑی جو سینے پر بازو لپیٹے خفگی سے دیکھ رہی تھی...

آہل اسے نظر انداز کرتا اپنی باکسنگ کرنے لگا..

روزہ رکھ کر یہ کام کون کرتا ہے...دانی اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئ بولی...

آہل کا تنفس تیز ہو چکا تھا,, رخ موڑے دانی کو دیکھنے لگا...

فلحال مجھے اکیلا چھوڑ دو,, آہل اپنا ہاتھ آزاد کرواتا ہوا بولا..

دانی خاموشی سے اس کا ہاتھ پکڑے باہر کی جانب چلنے لگی...

دانی میں نے کہا ہے مجھے اکیلا رہنا ہے...آہل حلق کے بل چلایا اور اپنا ہاتھ دانی کے ہاتھ سے نکال لیا...

دانی ششدہ سی اسے دیکھنے لگی...

آہل یہ سب...

تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آتی کیا مجھے ابھی کسی سے بات نہیں کرنی مطلب کسی سے نہیں..

دانی نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی آہل کا یہ روپ وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی...

ٹھیک ہے مجھ سے بات مت کرنا اب تم... دانی ہاتھ کی پشت سے گال رگڑتی بھاگ گئ...

آہل سر جھٹکتا واپس اندر آ گیا...

زبیر دل تو کر رہا ہے تمہیں جان سے مار دوں,, تم,, آہل نے ہاتھ بند کیا اور مکے برسانے لگا...

سوری سر آپ کو ڈسٹرب کیا,, عمیر ہاسپٹل میں ہے آپ سے بات کرنا چاہتا ہے... رفیق اندر آتا ہوا بولا..

کیا ہوا اسے... آہل آبرو اچکا کر بولا..

کالا یرکان,, دو دن پہلے ہاسپٹل میں بھرتی ہوا ہے...

اور تم مجھے آج بتا رہے ہو,, وہ بھی اس کے فون آنے پر,, رفیق تمہارا دھیان کہاں ہے... آہل تیکھے تیور لیے اس کے سامنے آیا...

سوری سر وہ زخموں کے باعث کچھ غفلت برت گیا...

زخموں کا سن کر آہل نرم پڑا...

ٹھیک ہے تم اپنا علاج اچھے سے کرواؤ پہلے مکمل طور پر صحت یاب نہیں لگ رہے... آہل اس کے ہاتھ سے فون پکڑتا ہوا بولا..

بابا,, آہل نے جیسے ہی فون کان سے لگایا عمیر کی آواز ابھری...

جی بیٹا... آہل کا لہجہ نرمی لیے ہوۓ تھا..

بابا یہ مجھے ٹیکا لگا رہے ہیں اتنی زور سے... چھ سالہ عمیر نرس کو گھورتا ہوا بولا..

بیٹا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے جب آپ فٹ ہو جائیں گے پھر کوئ بھی آپ کو انجیکشن نہیں لگاےُ گا..

آپ آئیں گے...

جی میں صبح آؤں گا,,

ٹھیک ہے,,

بابا اب کام کر لیں..

جی بابا... میں آپ کا انتظار کروں گا... وہ مسرت سے بولا..

آہل نے مسکرا کر فون بند کر دیا...

آہل نے فون رفیق کی جانب بڑھا دیا...

سر دانین میڈم اس سب کے بارے میں...

تم فکر مت کرو,, دانی نہیں جان سکتی اس متعلق...

آہل تھکے تھکے انداز میں صوفے پر ڈھے گیا...

سر آپ کو اس کا سامنا کرنا ہو گا آپ گزشتہ دس برس سے بھاگ رہے ہیں اور ماضی سے جتنا بھاگا جاےُ وہ پہاڑ بن کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے...

میں جانتا ہوں رفیق لیکن وہ سب بہت تکلیف دہ ہے یاد کرنا تو دور غلطی سے بھی سوچ لوں تو دل پھٹنے لگتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کوئ کوڑے برسا رہا ہے بہت بھیانک تھا وہ سب,, تم جانتے ہو,, بہت اچھے سے جانتے ہو میں کیسے نکلا تھا اس سب سے اب ایک بار پھر سے وہ سب دیکھنا,, آہل نفی میں سر ہلا رہا تھا آنکھیں کرب سے بند کر رکھیں تھیں,, آہل حیات کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتا,, یہاں آ کر میری ہمت جواب دے جاتی ہے اسی لیے تو ماضی کے صفحوں کو الٹ کر نہیں دیکھتا کہ غم پھر سے تازہ ہو جاتا ایسا معلوم ہوتا ہے ابھی میرے سامنے وہ سب وقوع پذیر ہو رہا ہے,, آہل منہ پر ہاتھ رکھے ہوۓ تھا...


یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا


سر پلیز سنبھالیں خود کو... رفیق کی آنکھوں میں بھی نمی تیر رہی تھی...

اگلی بار زبیر بلاےُ تو تم چلے جانا میں جانتا ہوں وہ مجھ پر وار کر رہا ہے تاکہ میں اپنا آپا کھو دو,, جو بھی بات ہو تم کرو گے میں بار بار اس اذیت سے نہیں گزر سکتا...

سمجھ رہے ہو نہ رفیق...

جی سر آپ فکر مت کریں میں آگے کی ساری بات کروں گا...


ہاں,, مجھے اور بھی بہت سے کام ہے یہ یادیں میرا دماغ مفلوج کر دیتی ہیں لیکن بس اس زبیر کا منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دوں گا میں.آہل دائیں بائیں گردن موڑتا کھڑا ہو گیا...

میں ٹھیک ہوں رفیق... رفیق کو اٹھتے دیکھ کر آہل ہاتھ کے اشارے سے بولا...

جی سر...

آہل تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا,, منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر وہ کمرے کی جانب چلنے لگا...

ہاں دانی,, وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچتا ہوا چل رہا تھا...

توقع کے عین مطابق دانی بیڈ پر گری رو رہی تھی..

آہل سانس خارج کرتا کمرے سے باہر نکل گیا..

شاید ابھی بھی اس میں ہمت نہیں تھی...

دانی ٹیبل پر بیٹھی بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی اذان کا وقت قریب ہی تھا لیکن آہل کی کچھ خبر نہیں...

جاہل حیات کہاں دفعہ ہو گۓ ہو... دانی چہرہ موڑ کر بولی..

آج دانی اکیلی بیٹھی تھی ٹیبل پر...

آنا ذرا تم دیکھنا اندر نہیں آنے دوں گی ساری رات الو کی طرح جاگتے رہو گے تم... دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

آہل ٹھیک ہو پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے فون بھی نہیں اٹھا رہا جاہل کہیں کا...

دانی کو فکر بھی ہو رہی تھی اور غصہ بھی آ رہا تھا...

اذان کی آواز سنائ دی تو مایوسی سے پانی پینے لگی,, آج تمہارے بغیر ہی روزہ کھول رہی ہوں.. دانی کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر بےمول ہو گیا...

________

بہت برے ہو تم بہت زیادہ برے... دانی روتی ہوئ چئیر سے اٹھی اور ٹیرس پر چلی گئ...

نو بجے کے قریب آہل گھر میں آیا تو کافی حد تک سنبھل چکا تھا...

کمرہ خالی دیکھ کر آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

دانی کہاں گئ... وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آیا...

دانی کہاں ہے,,, سی سی ٹی وی روم میں بیٹھے ورکر کو فون کر کے بولا...

سر وہ ٹیرس پر گئیں تھیں...

اور اب... آہل عجلت سے بولا..

ابھی بھی ٹیرس پر ہی ہیں...

آہل سانس خارج کرتا ٹیرس پر آ گیا...

دانی جھولے پر بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی,آنکھوں میں اداسی نے ڈیرے جما رکھے تھے..

آہل اس کے ساتھ آ بیٹھا,, آج دانی نہیں ڈری شاید اس کی خوشبو سے واقفیت حاصل کر گی تھی..

کیوں آےُ ہو یہاں... دانی کا چہرہ ابھی تک اوپر تھا..

نہیں آنا چائیے تھا کیا...

نہیں,, جہاں سے آےُ ہو وہیں واپس جاؤ...دانی کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا...

آہل نے اس کی گود میں سر رکھ لیا...

دانی حیرت سے اسے دیکھنے لگی...

پلیز دانی میں بہت ٹینشن میں ہوں,, آہل اس کے روئ جیسے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا بولا...

پھر تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا سب کچھ اپنی ہاف گرل فرینڈ کو بتاتے ہو ایسا کرو اسے فل گرل فرینڈ بنا لو اور اپنے ساتھ ہی رکھ لو.. دانی خفگی سے دیکھتی ہوئ بولی...

تمہیں رفیق سے جیلیسی ہوتی ہے... آہل قہقہ لگاتا ہوا بولا..

مجھے بہت غصہ آتا ہے جب دیکھو اسی کے ساتھ چپکے رہتے ہو سچ سچ بتاؤ کون سی گم اسٹک لگائ تھی... دانی آبرو اچکا کر بولی..

بلکل بیکار تھی تبھی تو الگ بھی ہو جاتے تم لا دو کوئ اچھی سی لانگ لاسٹنگ...

میں نے تیزاب لا کر دینا دونوں پر گرا دوں گی..دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی ہوئ بولی...

پھر آہل کہاں سے لاؤ گی... آہل بولتا ہوا اٹھ بیٹھا..

یہ جو میرا گندا سا آہل ہے نہ مجھے نہیں پسند مجھے وہ پہلے والا آہل چائیے جس کے پاس بیکار سا ڈمپل بھی تھا..

آہل کھل کر ہنس دیا..

میری پاگل سی دانی,, آہل اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑتا ہوا بولا..

اور تم میرے پاگل سے جاہل حیات... دانی جل کر بولی..

ہوں تو تمہارا ہی چاہے جیسا بھی ہوں...

ہاں چاہے دورے پڑتے ہوں نیند میں گانے گاتے ہو,,, تمہیں معلوم یے تم خراٹے مارتے ہو... دانی اسے گھورتی ہوئ بولی...

جھوٹ,, آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

سچی,, مجھے نیند بھی نہیں آتی کل رات تو مجھے ایسا لگ رہا تھا گاڑی چل رہی ہے پھر تمہیں دیکھا تو تم خراٹے لے رہے تھے... دانی مزے سے بولی..

کتنے جھوٹ بولتی ہو نہ تم... آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا...

تم بندے مار لو میں جھوٹ بھی نہ بولو... دانی برا مان گئ...

ہاہاہاہا لیکن میں تمہارے جھوٹ پکڑ لیتا ہوں..

اب تم سحری تک مجھ سے باتیں کرو گے ورنہ....دانی اس کا گریبان پکڑتی ہوئ بولی...

ورنہ کیا... آہل محظوظ ہوا...

ورنہ تمہیں بنا سحری کیے روزہ رکھنا پڑے گا پھر بنا روزہ کھولے اگلا روزہ رکھنا پڑے گا وہ بھی بنا کچھ کھاےُ...

اتنی بڑی سزا... آہل پوری آنکھیں کھول کر بولا...

بلکل تم جیسے ہاتھی کے لیے سزا بھی زرافے جیسی ہونی چائیے...

اچھا چلو کمرے میں چل کر باتیں کرتے ہیں..

نہیں ہم یہیں پر بیٹھیں گے... دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی...

میں نے چینج بھی نہیں کیا...

تو یہی کر لوں میں آنکھوں پر ہاتھ رکھ لوں گی... دانی شرارت سے بولی..

آہل مسکراتا ہوا اسے دیکھنے لگا...

اب تم خود آؤں گی یا میں خود لے جاؤں...

اس دن کی طرح جب تمہاری دوست چھپکلی آئ تھی کمرے میں... دانی یاد کرتی ہوئ بولی..

بلکل,, آہل اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا..

دانی منہ بناتی سلیپر پہننے لگی...

***********

سر آہل تو چلا گیا اور مجھے نہیں لگتا وہ دوبارہ آےُ گا یہاں... آسم فکرمندی سے بولا..

میں جانتا ہوں وہ دوبارہ یہاں نہیں آےُ گا کیونکہ میں نے اس کے زخم کریدے ہیں جسے وہ پوری دنیا سے چھپا کر بیٹھا ہے...

تو سر اس میں ہمارا نفع نہیں...

نفع بھی ہو گا میں سوچ رہا تھا پہلے آہل کوئ غلطی کرے زیادہ بڑی نہیں چھوٹی سی پھر اس کے بعد میں اپنی چال چلوں,, مزہ تب آےُ گا ابھی سب پھیکا پھیکا سا لگے گا جب آگ لگتی ہے شعلے بھڑکتے ہیں پھر کھیل کا مزہ ہے کم از کم یہ تو کلئیر ہو گیا کہ آہل حیات جانتا ہے لیکن صرف میرے بارے میں ڈاکڑ قدسیہ کے بارے میں نہیں جانتا,, وہ کچھ بھی کرے گا ان کے متعلق جاننے کے لیے...

تو سر آپ آہل کو بتا دیں گے... آسم حیرت سے بولا..

بلکل جہاں میرا مطلب ہو گا میں بتا دوں گا آخر کو وہ بھی شامل تھی اسے بھی مزہ چکھنا چائیے آہل کے طیش کا.. وہ حقارت سے بولے...

لیکن سر آپ دونوں تو ایک ساتھ کام...

آسم اتنے سالوں سے میرے ساتھ ہو ابھی تک اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے,, اس سیاست میں کوئ کسی کا نہیں ہوتا یہاں سب اپنے مفاد کے پیچھے بھاگتے ہیں اگر کسی کے ساتھ ہیں تو اپنی غرض کی خاطر سمجھے اب.. زبیر اسے گھورتے ہوۓ بولے...

جی سر,, تو مطلب ابھی خاموشی سے انتظار کرنا ہے صحیح وقت کا...

بلکل تبھی مزہ آےُ گا..زبیر صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولے...

************

آہل مجھے نہیں پسند یہ دیکھو کتنی سمیل ہے اس کی.. دانی ایک ہاتھ ناک پر رکھتی ہوئ بولی...

آہل بیوٹیشن کو جاری رکھنے کا اشارہ کرتا دانی کے پاس آ گیا...

احمق لڑکی دیکھو تمہارے ہاتھ پر مہندی کتنی اچھی لگ رہی ہے...

اور میرے ناک میں جو یہ سمیل تیر کی طرح گھس رہی ہے اس کا کیا کروں..

سپرے کر لو... آہل اس کے کان میں بولا..

تمہارے منہ میں نہ کر دوں میں سپرے,, پھر اچھا اچھا بولو گے.. دانی دانت پیستی ہوئ بولی..

بس کچھ ہی دیر میں ہو جاےُ گی..

تمہیں اتنی پسند ہے تو پھر اپنے ہاتھوں پر لگا لو بلکہ آہل میں تو کہتی ہوں پورے جسم پر لگوا لو.. دانی آنکھ مارتی رازداری سے بولی...

آہل اس کی ناک دباتا مسکرانے لگی...

تھینک یو سر,,, بیوٹیشن سر ہلاتی باہر نکل گئ...

دانی آہل کو گھورنے لگی..

جنگلی بلی دیکھو تمہارے ہاتھ کتنے پیارے لگ رہے ہیں... آہل ستائش سے دیکھتا ہوا بولا..

دل تو کر رہا ہے تمہارے منہ پر چھاپ دوں,, اب میں کام کیسے کروں گی ایسا لگ رہا ہاتھ ٹوٹ گےُ ہیں... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی..

کون سا کام کرنا ہے بتاؤ,, آہل اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا...

مجھے مووی دیکھنی ہے.. اور دیکھو میرے ہاتھ میں کیسے آن کروں... دانی دونوں ہاتھ آہل کے سامنے کرتی ہوئ بولی...

میں کر دیتا ہوں آن,, آہل بیڈ سے اترتا ہوا بولا....

اپنے فون میں لگا کر دو... دانی چہرہ اونچا کر کے بولی...

آہل جیب سے موبائل نکالتا انگلیاں چلانے لگا...

دانی مسکراتی ہوئ اسے دیکھنے لگی...

مجھے اب بھوک بھی لگی ہے... دانی جان بوجھ کر بولی..

ابھی تو کھانا کھایا تھا,, آہل تعجب سے بولا..

تو دوبارہ بھوک نہیں لگ سکتی کیا,, میں نو اینڑری کا بورڈ تو نہیں لگایا کہ اب واپس نہ آنا..

اچھا میں کھلا دیتا ہوں دو منٹ... آہل سمجھتا ہوا بولا..

تم یہ دیکھو میں آتا ہوں,, وہ دانی کے سامنے اپنا فون رکھتا ہوا بولا..

دانی پاؤں جھلاتی بیڈ پر اوندھی لیٹی تھی جب آہل واپس کمرے میں آیا...

منہ کھولو... آہل اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا..

دانی نے منہ کھولا لیکن جیسے ہی نظر مچھلی پر پڑی اچھل کر پیچھے ہو گئ.

جاہل حیات تمہیں نہیں معلوم کیا میں یہ نہیں کھاتی...

آج کھا لو وہ بھی میرے ہاتھ سے... آہل اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا..

پاگل ہو کانٹا پھنس ونس گیا تو میں کہاں جاؤں گی... دانی اپنی بازو چھڑوانے کی سعی کرنے لگی...

کچھ بھی نہیں ہو گا میں خود چیک کروں گا.. آہل کی آنکھوں میں شرارت تھی...

کوئ ضرورت نہیں ہے تمہاری فش کے پیچھے میں اپنی جان خطرے میں ڈال دوں کبھی نہیں.. دانی قطعیت سے بولی..

پلیز صرف ٹیسٹ کر لو...

دانی گھورتی ہوئ نفی میں سر ہلانے لگی...

دانی... آہل غصے سے دیکھتا ہوا بولا...

مجھے نہیں پسند پاگل حیات,,, دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

منہ کھولو...

میں تمہارے ہاتھ پر کاٹ لوں گی... دانی خونخوار نظروں سے دیکھتی ہوئ بولی..

تم ایسا کچھ نہیں کرو گی اب کھاؤ اسے ورنہ میں زبردستی بھی کھلا سکتا ہوں,,

یہ جو تم کر رہے ہو نہ اس کا نام زبردستی ہے..

آہل نے نوالہ دانی کے منہ میں ڈال دیا...

دانی عجیب عجیب شکلیں بناتی چبانے لگی..

یہ جس کو تم مار کر مجھے کھلا رہے ہو نہ رات کو اس کی روح آےُ گی تم سے بدلہ لینے دیکھنا,, میں تو کہ دوں گی اس جاہل کو پکڑو.. دانی سوں سوں کرتی ہوئ بولی..

کیسی لگی.. آہل اس کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا..

بلکل تمہاری جیسی فضول, دانی جل کر بولی.

آہل مسکراتا ہوا باہر نکل گیا...

بدتمیز انسان,, دانی بڑبڑاتی ہوئ مووی دیکھنے لگی...

آہل کمرے میں آیا اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا...

آہل ڈائمنڈ کی رنگز دیکھ رہا تھا ساتھ ساتھ ایک نظر دانی پر بھی ڈال لیتا جو مووی دیکھنے میں مگن تھی..

آہل کی نظر اس بلیو ڈائمنڈ والی رنگ پر ٹھر گئ جس کی قیمت $32.6 ملین تھی آہل نے دانی کو دیکھا اور پھر سے رنگ کو,, پرفیکٹ.. وہ مسکراتا ہوا بولا..

دانی اپنے بال ہٹاؤ... آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..

یہ جو تحفے سے میرے ہاتھ بھر دئیے ہیں کیسے صحیح کروں میں,, مجھے نہیں پتہ... دانی منہ بناتی ہوئ بولی...

آہل لیپ ٹاپ بند کر کے دانی کے سامنے بیٹھ گیا...

دانی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

آہل نے ہاتھ بڑھا کر دانی کے چہرہ پر بوسہ دیتی شرارتی لٹوں کو پیچھے کیا...

دانی آنکھیں جھپکاتی اسے دیکھنے لگی....

تم ایسے کیوں کرتے ہو...

کیسے...

تمہیں میرے بالوں سے بھی مسئلہ ہے...

ویسے نہیں لیکن جب تمہارے چہرے پر آ جاتے پھر مسئلہ ہوتا... آہل شانے اچکاتا ہوا بولا..

ایک ہی بات ہے... دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی...

ایک بات نہیں ہے میں برداشت نہیں کر سکتا تمہیں کوئ چھوےُ...

آہل یہ میرے اپنے بال ہیں کوئ انسان نہیں... دانی نے سمجھانا چاہا...

واٹ ایور,, مجھے فرق نہیں پڑتا...

تم پاگل ہو سچ میں... دانی نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولی..

آہل نے اپنی پیشانی دانی کی پیشانی پر ٹکا دی..

ہاں شاید... وہ دھیرے سے بولا...

دانی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئ...

کس کے لیے... دانی نے آنکھیں بند کر کے کہا...

تمہارے لیے... آہل بھی آنکھیں بند کیے دانی کو محسوس کر رہا تھا...

جھوٹ... دانی مسکرا کر بولی...

تمہاری مرضی... آہل نے کہتے ہوۓ اس کا ہاتھ تھام لیا...

دانی ایک کام کرو گی... آہل التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا..

کون سا کام... دانی پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی...

میں چاہتا ہوں تم اب حقیقت سے واقف ہو جاؤ..

کون سی حقیقت... دانی اسے دیکھنے لگی...

تمہارے ڈیڈ کے لاکر میں میرے چاچو کا لیپ ٹاپ ہے مجھے وہ لا کر دینا ہے...

لیکن تمہارے چاچو کا لیپ ٹاپ ڈیڈ کے پاس کیسے اور تمہیں کیا کام... دانی الجھ گئ...

تم لیپ ٹاپ لے آؤ تمہارے تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے..

وہ جو بند کمرے تم دیکھتی ہوں ان کے متعلق بھی جان جاؤ گی...

دانی سپاٹ انداز میں اسے دیکھنے لگی...

تم سچ کہ رہے ہو مجھے سب کچھ بتاؤ گے نہ..

ہاں تمہیں سب بتا دوں گا بس مجھے وہ لیپ ٹاپ چائیے دانی کسی بھی شرط پر... آہل اسے بازوؤں سے تھامتا ہوا بولا...

اچھا اگر میں گھر جاؤں گی تو لا دوں گی تمہیں.. دانی مسکراتی ہوئ بولی...

آہل بھی دھیرے سے مسکرا دیا..

دانی نے ہاتھ بڑھایا اور آہل کے ڈمپل کو چھو کر دیکھنے لگی,, آہل کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئ...

دانی مسکرانے لگی..

کسی زمانے میں تمہیں یہ ڈمپل بلکل پسند نہیں تھا... آہل اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

آج بھی زہر لگتا ہے... دانی منہ بناتی ہوئ بولی.

آہل قہقہ لگاتا بیڈ سے اتر گیا...

کہاں جا رہے ہو... دانی اسے دروازے کی سمت بڑھتا دیکھ کر بولی...

فون کرنے جا رہا ہوں تم مووی دیکھو ابھی آ جاؤں گا... آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا...

جلدی آ جانا یہ نہ ہو کہ واپس آؤ تو تمہیں دانی کی بجاےُ ہڈیوں کا ڈھانچہ ملے... دانی زور سے بولتی اسے دیکھنے لگی جو مسکراتا ہوا باہر نکل گیا تھا...

***********

کیسی ہو دانین... انعم اس کے گلے لگتی ہوئ بولی...

میں ٹھیک ہوں اور تم... دانی گرمجوشی سے نہ ملی...

میں بھی بلکل ٹھیک,, بیٹھو... انعم اسے دیکھ کر بولی,, آہل باہر سے ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا..

وہ مجھے ڈیڈ سے ملنا تھا...دانی جبراً مسکراتی اندر چل دی...

انعم شانے اچکاتی گارڈن کی جانب چل دی...

ثانیہ تیار ہو کر باہر نکل رہی تھی جب دانی دروازے پر پہنچی,, دانی سے مل کر وہ چلی گئ اور دانی زبیر کے پاس آ گئ,, جب سے آہل نے منع کیا تھا دانی زبیر سے گلے ملنے سے گریز برت رہی تھی...

ڈیڈ آج کل کیا کر رہے ہیں آپ... دانی آس پاس دیکھتی ہوئ بولی..

کچھ نہیں بس الیکشن کی تیاروں میں مصروف ہیں کام تو کچھ بھی نہیں رہا... وہ مظلومیت سے بولے...

تو پھر یہ سب کیسے کر رہے ہیں آپ... دانی فکرمندی سے بولی..

بھیک مانگ کر اور کیسے,,, کچھ سے ادھار لے کر.. زبیر افسوس سے بولے...

آئم سوری ڈیڈ لیکن میں آہل کو دھوکہ نہیں دے سکتی تھی اسی لیے آپ کی کال اٹینڈ نہیں کرتی تھی,, ڈیڈ آہل کو دھوکہ دینا ممکن نہیں وہ میرا چہرہ میری آنکھیں پڑھ لیتا ہے اسے خود معلوم ہو جاتا ہے...

دانی مجھے اگر افسوس ہے تو صرف اس بات کا کہ تم ایک غلط انسان کے ساتھ ہو,, جو تمہیں اپنے ساتھ صرف اپنے فائدے کے لیے رکھے ہوۓ ہے...

نہیں ڈیڈ آہل ایسا نہیں ہے... دانی نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولی...

تم خود کو تسلی دے رہی ہو یا مجھے,,, پانچ مہینے پورے ہونے کو ہیں جلد یا بدیر وہ تم سے بات کرے گا اس متعلق...

دانی بےیقینی کی کیفیت میں نفی میں سر ہلانے لگی...

تم آج یہاں آئ نہیں بھیجی گئ ہو صحیح کہ رہا ہوں نہ... زبیر کے لہجے میں چوٹ تھی...

دانین کس لیے بھیجا ہے اس نے تمہیں بتاؤ مجھے... زبیر دانی کے ساتھ آ بیٹھے...

نہیں ڈیڈ ایسا کچھ بھی نہیں آہل نے بولا تھا آج عید ہے تو میں سب سے مل آؤ... دانی آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئ بولی...

دانین اب تم اپنے ڈیڈ سے بھی جھوٹ بولو گی...وہ افسوس سے بولے...

ایسا کچھ بھی نہیں ہے ڈیڈ... دانی نفی میں سر ہلاتی بول رہی تھی..

ایک منٹ آسم آیا ہے میں کچھ دیر تک آیا...

زبیر جانتا تھا آہل نے دانی کو لیپ ٹاپ لینے کے لیے بھیجا ہو گا اسی لیے خود ہی موقع فراہم کر دیا تاکہ دانی کو رنگے ہاتھوں پکڑ سکے...

دانی نے موقع کو غنیمت جانا اور زبیر کے جاتے ہی اٹھ کھڑی ہوئ...

نہیں آہل میرا استعمال نہیں کر رہا... دانی بولتی ہوئ الماری کے سامنے آ گئ...

دانی لاک جانتی تھی اس لیے ایک ہی لمحے میں کھول لیا لیکن اندر چند پیپرز اور پیسوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا...

آہل نے کہا تھا لاکر میں ہو گا لیکن یہاں تو نہیں ہے...

دانی لاکر بند کر کے الماری میں تلاشنے لگی...

دانین کیا ڈھونڈ رہی ہو... زبیر کی آواز پر دانی اچھل پڑی..

کچھ بھی نہیں ڈیڈ... دانی نے فوراً الماری بند کر دی...

کیا چائیے تمہیں... زبیر جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے...

نہیں وہ... دانی سے کوئ بات نہیں بن رہی تھی...

دانی جو چائیے مجھ سے مانگ لیتی لیکن اس طرح میری غیرموجودگی میں تلاشی لینا.. وہ آنسو بہاتے بیٹھ گۓ...

میری بیٹی کو کیا بنا دیا اس آہل حیات نے آج اپنے باپ کی جاسوسی کر رہی ہے... وہ روتے ہوۓ بول رہے تھے...

ڈیڈ ایسا کچھ نہیں آہل نے مجھے لیپ ٹاپ کا بولا تھا میں وہی دیکھ رہی تھی کہاں ہے مجھے دے دیں آپ... دانی اس کے سامنے بیٹھتی ہوئ بولی....

کون سا لیپ ٹاپ دانین,, زبیر حیرت سے بولے..

آہل کے چاچو کا,, دانی جھجھک کر بولی...

میرے پاس کیسے ہو سکتا ہے عاقب حیات کا لیپ ٹاپ...وہ ششدہ سے بولے...

پتہ نہیں ڈیڈ آہل نے بولا تھا.. سرمئ آنکھوں میں الجھن تھی...

دانین میں نے تمہیں کہا تھا کہ وہ تمہیں استعمال کر رہا ہے دیکھو کیا میں غلط کہ رہا تھا...

ڈیڈ ایسا کچھ نہیں یے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں,, وہ بس سب سے الگ ہے... دانی نے مطمئن کرنا چاہا..

اچھا ایک منٹ رکو,, زبیر کہ کر کھڑے ہو گۓ اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لاےُ...

یہ چند روز پہلے آہل میرے پاس آیا تھا اب خود دیکھ لو... زبیر نے ویڈیو پلے کر دی...

میں دانی کو طلاق دے دوں گا... اسکرین پر آہل دکھائ دے رہا تھا اور آہل کی آواز دانی کیسے نہ پہچانتی...

نو,,, دانی بےیقینی سے دیکھنے لگی...

میں جانتی ہوں آپ سیاست والوں کو آپ نے کچھ کہا ہو گا تبھی اس نے یہ بات کی... دانی آنسو بہاتی زبیر کو جھنجھوڑنے لگی...

دانی میں نے کچھ بھی نہیں کہا اسے وہ مجھ سے بھی لیپ ٹاپ مانگ رہا تھا کہ اگر میں لیپ ٹاپ دے دوں تو وہ تمہیں طلاق دے کر فارغ کر دے گا...

ڈیڈ کیا ہے اس لیپ ٹاپ میں... دانی حلق کے بل چلائ...

دانین میں تو خود بھی نہیں جانتا عاقب کی لاش ہوٹل سے ملی تھی پھر میرے پاس کیسے اس کا لیپ ٹاپ آ سکتا ہے... وہ معصومیت سے بولے..

پاگل کر دیا یے آپ سب نے مجھے...

دانی چلاتی ہوئ باہر نکل گئ...

زبیر آنسو صاف کرتا مسکرانے لگا...

دیکھتا ہوں میں کیسے دانین کو میرے خلاف کرتے ہو تم آہل... وہ ہنکار بھرتے باہر نکل گۓ...

دانی اپنے کمرے میں آ گئ...

کیا ہو رہا ہے یہ سب... دانی نے آنسوؤں کو بہنے دیا...

آہل کچھ کہتا ہے اور ڈیڈ کچھ,, کبھی آہل انعم کے ساتھ تو کبھی میرے ساتھ کبھی تم ڈیڈکے خلاف کھڑے ہوتے ہو,, آہل تم ہو کیا مجھے گمان تھا کہ میں تمہیں سمجھنے لگی ہو لیکن میں آج بھی وہیں کھڑی ہوں جہاں اول روز کھڑی تھی تم نے خود پر ہزاروں ماسک چڑھا رکھے اور جب کوئ مسک اترتا ہے تو تکلیف صرف مجھے ہوتی ہے صرف مجھے... دانی بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھتی چلی گئ...

کس پر بھروسہ کروں اور کس پر نہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا... دانی سر ہاتھوں میں تھامتی ہوئ بولی...


سر میری معلومات کے مطابق جس جگہ کا میں آپ کو بتا رہا تھا وہاں لڑکیوں کو اغوا کر کے رکھا جاتا ہے,, رفیق کی آواز اسپیکر پر ابھری...

بہت خوب رفیق عید کا موقع ہے سب اپنے اپنے گھر میں ہوں گے میرا نہیں خیال وہاں کوئ خاص انتظام ہو گا آج... آہل ٹہلتا ہوا بولا..

جی سر متوقع تو یہی ہے,, میں نے آئ جی سے بات کی ہے کچھ بڑے آفیسر کو میرے ہمراہ بھیجیں گے وہ...

ٹھیک ہے تم جاؤ اور سب سے پہلے مجھے خبر دینا ان کے باس کی اور اس میں ملوث تمام افراد کی... آہل نے کہ کر فون بند کر دیا...

دانی کا فون آف کیوں جا رہا ہے... آہل فکرمندی سے بولا..

ایک بار پھر سے دانی کا نمبر ملایا لیکن مایوسی ہوئ...

ہوپ سو وہ ٹھیک ہو... آہل بولتا ہوا نمبر ڈھونڈنے لگا..

ہیلو,, مانی,,

جی سر...

دانی کہاں ہے مجھے پوری خبر چائیے وہ صحیح سلامت ہے نہ...

جی سر دانین میڈم اپنے کمرے میں ہیں اور بلکل ٹھیک ہیں کچھ ہی دیر پہلے میں نے انہیں جاتے دیکھا تھا...

آہل سانس خارج کرتا اثبات میں سر ہلانے لگا..

ٹھیک ہے...کہ کر آہل نے فون بند کر دیا...

دانی نے فون کیوں آف کیا ہے... آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

اف کچھ سمجھ نہیں آ رہا کون صحیح ہے اور کون غلط...

دانی سر تھامے باہر نکل آئ,, وہ مرے مرے قدم اٹھاتی چل رہی تھی عید کا تہوار تھا لیکن اس گھر کے افراد کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا سوگ منا رہے ہیں انعم اپنے کمرے میں پریشانی کے عالم میں ٹہل رہی تھی اور ماں باپ ڈنر پر جا چکے تھے...

آہل پلیز میری بات سن لو مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے... انعم کی روتی ہوئ آواز دانی کی سماعتوں سے ٹکرائ...

انعم دیکھو فلحال میں اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہوں میرے پاس وقت نہیں ہے...

اچھا ٹھیک ہے تم مل نہیں سکتے لیکن فون پر تو میری بات سن سکتے ہو نہ... انعم التجائیہ انداز میں بولی...

میں اس وقت ایک میٹینگ میں ہوں فری ہو کر تمہیں کال بیک کرتا ہوں...

ٹھیک میں تمہاری کال کا انتظار کروں گی... انعم مایوسی سے بولی...

دانی دیوار پر ہاتھ رکھے اشک بہا رہی تھی وہ انعم کی باتوں کو نظر انداز کرتی آ رہی تھی..

کہیں ڈیڈ ٹھیک تو نہیں کہ رہے تھے کہ انعم اور آہل... دانی نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...

اشک تیزی سے دانی کے چہرے کو بھگو رہے تھے,, دانی بھاگتی ہوئ اپنے کمرے میں آ گئ..

فون آن کیا تو میسیجز کی ٹون سنائ دینے لگی,, کسی انجان نمبر سے تصویریں آئیں تھیں..

دانی نے واٹس ایپ کھولی اور تصویریں کھولنے لگی...

آہل کی تصویریں تھیں کوئ خاتون اس کی جانب جھکی کان میں بول رہی تھی... دانی کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

دانی نے دوسری تصویر کھولی,, یہ انعم کے ساتھ تھی,, آس پاس کوئ بھی دکھائ نہیں دے رہا تھا انعم مسکرا رہی تھی...

دانی ناسمجھی سے ان تصویروں کو بار بار ذوم کر کے دیکھنے لگی...

یا اللہ یہ انسان مجھے پاگل کر کے ہی دم لے گا...

دانی موبائل سامنے دیوار پر مارتی ہوئ بولی..

آہل تم دھوکے باز ہو,, مجھے بیوقوف بنا رہے ہو اور میں بنتی جا رہی ہوں حد ہے دانین تم پر حد ہے... دانی خود کو کوستی ہوئ بولی...

آہل حیات اب دانین تمہیں بتاےُ گی دھوکہ دیا کیسے جاتا ہے جو محبت کا لبادہ تم نے اوڑھا میں بھی وہی اوڑھ کر تمہیں دھوکہ دوں گی پھر تم مجھے بتانا کیسا ٹیسٹ تھا اس دھوکے کا تمہارے سامنے کسی اور کے ساتھ کھڑی ہوں گی میں,, تم سے برداشت نہیں ہوتا نہ مجھے کوئ چھوےُ اب میں تمہارا ضبط آزماؤں گی دیکھتی ہوں کیا کرو گے تم میرے ساتھ... دانی چہرہ رگڑتی کھڑی ہو گئ...

آئینے کے سامنے آئ,, آدھے بالوں کو کیچر لگایا اور چہرہ سیٹ کرنے لگی...

یہ منحوس تو اب نہیں چلے گا... شوز پہن کر موبائل کے ٹکڑے اٹھاتی ہوئ بولی...

آہل تم لینے آؤ گے یا میں ڈرائیور کے ساتھ آ جاؤں... دانی لینڈ لائن سے فون کر رہی تھی..

میں خود کچھ مصروف ہوں لیکن گاڑی بھیج دیتا ہوں تم آ جاؤ اپنے باپ کے ڈرائیور کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں... آہل نے کہ کر فون بند کر دیا..

ہوں,, دیکھاؤں گی اب میں تمہیں کس باپ کی بیٹی ہوں... دانی ہنکار بھرتی باہر نکل آئ...

یہ نمونہ یہاں کیا کرنے آیا تھا... آہل طیش کے عالم میں کمرے میں آیا...

دوست ہے وہ میرا.. دانی اثر لیے بنا بولی...

تمہیں وارن کیا تھا میں نے اس سے دور رہنا.. آہل اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا..

آہ,,, آہل مجھے درد ہو رہا ہے چھوڑو... دانی کراہ کر بولی..

تمہیں میری بات کیوں سمجھ نہیں آتی... آہل کے چہرے پر سختی بڑھتی جا رہی تھی...

پاگل ہوں میں اس لیے کچھ سمجھ نہیں آتا لیکن اگر تم نارمل انسان ہو تو میری بازو چھوڑو مجھے تکلیف ہو رہی ہے... دانی حلق کے بل چلائ....

آہل خود کو نارمل کرتا دو قدم دور ہو گیا...

دانی بازو سہلاتی شکایتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

بس یہی آتا ہے تمہیں کرنا...

لیپ ٹاپ کہاں ہے... آہل اس کا سوال نظر انداز کرتا ہوا بولا,, جب سے زبیر نے وہ سب یاد کروایا تھا اس کا خون خول رہا تھا جس کے باعث آہل بلا وجہ غصہ کرنے لگا تھا اور دانی اس کے غصے کی شکار ہو رہی تھی...

نہیں ملا... دانی رکھائ سے بولی...

کیا مطلب نہیں ملا... آہل آبرو اچکا کر بولا..

نہیں ملا تو مطلب نہیں ملا اس میں ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ نہیں آئ.. دانی تیز تیز بول رہی تھی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی...

تمہیں ملا نہیں یا جان بوجھ کر نہیں لائ بتاؤ مجھے... آہل اس کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا..

ایک بار بتا دیا ہے میں نے بار بار وضاحت دینے کی روادار نہیں ہوں میں سمجھے... دانی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئ بولی...

دانی کے بدلتے تیور دیکھ کر آہل خاموش ہو گیا..

کیا ہوا یے تمہیں... اب کہ آہل نرمی سے بولا..

کچھ نہیں ہوا مجھے چھوڑو... دانی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئ بولی...

آہل اسے بیڈ کے پاس لے آیا اور اپنے سامنے بٹھا لیا...

دانین حیات تم سے زیادہ آہل حیات تمہیں جانتا ہے اب بتاؤ کیا ہوا ہے جنگلی بلی کیوں بنی ہوئ ہو...

مجھے تم سے بات نہیں کرنی... دانی چہرہ جھکا کر بولی,, آنکھیں کسی بھی لمحے برسنے کو تیار تھیں...

لیکن مجھے تو تم سے ہی کرنی ہے,, اچھا یہ بتاؤ پانچ مہینے پورے ہونے والے ہیں,, آگے کے بارے میں کیا سوچا ہے... آہل اس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا..

وہ جلد یا بدیر اس متعلق تم سے بات کرے گا.. دانی کے کان میں زبیر کی آواز گونجنے لگی...

تم کیوں اس بارے میں بات کر رہے ہو...

کیونکہ بات کرنا ضروری ہے...

میں ضروری نہیں سمجھتی...

دانی ہمیں اس بارے میں بھی اور اپنے مستقبل کے بارے میں بھی بات کرنی پڑے گی ایسے کب تک چلتا رہے گا... آہل نرمی سے سمجھانے لگا...

جب تک میرا دل کرے گا...

کیا مطلب... آہل پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا..

جب تک میرا دل کرے گا میں تمہارے ساتھ رہوں گی اور اس بارے میں ہم کوئ بات نہیں کریں گے....

جب تک میرا دل کرے گا میں اسے اپنے پاس رکھوں گا اور اس پر مزید کوئ بحث نہیں ہو گی...

کتنی مماثلت تھی الفاظ میں...

آہل نفی میں سر ہلاتا دانی کو دیکھنے لگا...

لمحہ بھر کو اسے لگا وہ وقت میں پیچھے چلا گیا ہے...

دانی میری نظروں سے دور ہو جاؤ... آہل ضبط کرتا ہوا بولا...

دانی پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

یہ کیا بات ہوئ...

آئ سیڈ گیٹ آؤٹ... آہل ماضی میں گم ہوتا جا رہا تھا...

تم انتہائ مطلب پرست اور گھٹیا انسان ہو آہل حیات تمہیں صرف اپنی ذات سے مطلب ہے باقی ساری دنیا جاےُ بھاڑ میں تم صرف اپنے مفاد کو اپنے نفع نقصان کو سوچتے ہو دوسرے کیا سوچتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں تمہیں کوئ فرق نہیں پڑتا... دانی روتی ہوئ اس کا گریبان پڑے بول رہی تھی...

آہل نے سختی سے آنکھیں بند کر رکھیں تھیں..

دانی آؤٹ,, میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں کچھ وقت تمہیں میری باتیں کیوں سمجھ نہیں آتیں,,, یکدم آہل پھٹ پڑا..

دانی اس کا گریبان چھوڑتی باہر بھاگ گئ...

______

رفیق یہ جگہ تو خالی ہے... پولیس اہلکار آس پاس دیکھ رہے تھے...

سر مجھے یہاں کی ہی لوکیشن ملی تھی اور اس جگہ کو دیکھیں مجھے لگتا ہے وہ فرار ہو گۓ...

رفیق ٹوٹی پھوٹی چیزوں اور رسیوں کو دیکھتا ہوا بولا..

ساری جگہ کی اچھے سے چھان بین کرو,, آفیسر اونچی آواز میں بولا اور سب ٹارچ آن کیے چل دئیے..

شٹ... رفیق افسوس سے دیوار پر ہاتھ مارتا ہوا بولا..

اگر وہ فرار بھی ہوۓ ہوں گے تو کچھ وقت قبل,, رفیق کے دماغ میں جھماکا ہوا..

یقیناً عقبی دروازہ بھی ہو گا,, رفیق سوچتا ہوا اندر کی جانب چل دیا...

گھوم پھر کر عقب میں آیا تو ایک دروازہ کھلا تھا..

مجھے معلوم تھا وہ ابھی فرار ہوۓ ہوں گے,, رفیق اپنی گن نکالتا باہر نکل گیا,, یہاں آبادی زیادہ نہیں تھی ویران سا علاقہ تھا...

دور اسے ایک گاڑی کھڑی دکھائ دی..

رفیق محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگا...

تم انہیں لے جاؤ جو باقی سامان ہے وہ میں لے آتا ہوں بائیک پر ,,اگر سر کو معلوم ہو گیا تو ایک منٹ میں کام تمام کریں گے... رفیق قریب پہنچا تو آواز سنائ دینے لگی...

رفیق نے آگے ہو کر دیکھا تو گاڑی میں لڑکیاں تھیں لیکن اس کے آگے جانے سے پہلے ہی وہ گاڑی والا نکل گیا...

رفیق پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا جوں ہی وہ اس کے عقب میں پہنچا رفیق نے اس کے سر پر گن ماری,, وہ سر پر ہاتھ رکھے چہرہ موڑ کر رفیق کو دیکھنے لگا خون نہیں نکلا تھا کیونکہ گولی نہیں چلائ تھی...

رفیق نے اسے اپنے ٹھکانے پر پہنچا دیا کیونکہ آہل خود ڈیل کرنا چاہتا تھا اور خود واپس اسی گھر میں آ گیا..

گھر کی حالت دیکھ کر اور ان اشیاء کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لڑکیوں کو رکھا گیا تھا لیکن شاید انہیں معلوم ہو گیا تبھی ہم سے پہلے نکل گۓ...

آفیسر رفیق سے ڈسکس کرنے لگا...

جی سر مجھے بھی یہی شبہ ہے کسی نے انہیں آگاہ کر دیا... رفیق افسوس سے بولا..

لیکن میں شکرگزار ہوں آپ آج کے روز آےُ باقی یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے...

کوئ بات نہیں یہ تو ہمارا فرض ہے لیکن زیادہ خوشی تب ہوتی اگر وہ پکڑے جاتے...

پکڑے بھی جائیں گے اب وہ نیا ٹھکانہ ڈھونڈیں گے کام مشکل ہو جاےُ گا...

ٹھیک کہ رہے ہو یہاں پر نظر رکھواؤں گا میں تاکہ کوئ آےُ تو معلوم ہو سکے...

رفیق مصافحہ کرتا نکل گیا...

***********

آہل ڈیڈ ٹھیک کہتے تھے تم صرف اپنے مطلب کے لیے میرے ساتھ ہو اور میں تمہاری وجہ سے ڈیڈ کو انکار کر رہی تھی کتنی بیوقوف ہوں میں,, میں نے تمہیں لیپ ٹاپ نہیں دیا تو تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا اگر مجھے اپنی بیوی مانتے تو پہلے ہی سب کچھ بتا دیتے پتہ نہیں کیا کیا کرتے رہتے ہو تم جیسا انسان اعتبار کے قابل ہی نہیں ہے ,,, میں ناجانے کیوں تم پر بھروسہ کرنے لگی تھی تم نے تب بھی مجھے دھوکہ دیا تھا جب تمہیں ریفائنری چائیے تھی اور اب بھی تم صرف میرا استعمال کر رہے ہو اور اب جب مجھ سے کوئ غرض ممکن نہیں تو تمہیں مستقبل یاد آ گیا ہے مطلب اب مجھے اٹھا کر پھینکنا چاہتے ہو,, کتنے خود غرض ہو تم آہل میں تمہیں کیا سمجھتی رہی اور تم کیا نکلے کر لی آج دانین حیات نے یہ مسٹری بھی سولو آہل حیات ایک مطلب پرست اور خود غرض انسان ہے بس اور کچھ بھی نہیں... دانی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا,, تکلیف چہرہ سے عیاں تھی...


رفیق میں نے تمہیں بھیجا تھا ساتھ میں اسی لیے لیکن پھر بھی وہ فرار ہو گےُ... آہل افسوس سے بولا..

سر سب کو تو نہیں پکڑ سکا لیکن ایک لڑکا ہاتھ لگا ہے اس سے اگلوا سکتے ہیں البتہ شک تو میرا زبیر پر ہی ہے لیکن پھر بھی تصدیق کرنا زیادہ مناسب ہے...

ٹھیک ہے تم اسے سنبھال کر رکھو اس کی خاطر تواضع کے لیے میں خود آؤں گا...

جی سر میں نے اسے ٹھکانے پر پہنچا دیا ہے آپ ہی کا انتظار ہے...

آہل نے بنا کچھ کہے فون بند کر دیا...

آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا چلنے لگا...

یہ زبیر نا جانے کون سی پٹیاں دانی کو پڑھا دیتا ہے جو وہ اس طرح ری ایکٹ کرنے لگتی ہے پہلے کم ٹینشنز ہیں جو وہ مزید بھیج دیتا,,زبیر کے منہ سے سن کر تو میں اب جلد از جلد اسے سزا دینا چاہتا ہوں تم آزاد گھوم رہے ہو اور میرا خون جل رہا ہے... آہل مٹھیاں بھینج کر بولا...

دانی,,, اف کیا کروں میں تمہارا,,, دانی کا خیال آنے پر اس کے اعصاب ڈھیلے پڑے...

فلحال تمہیں نہ چھیڑنا ہی بہتر ہے بعد میں آ کر بات کروں گا... آہل کوٹ بدلتا ہوا بولا...


ہیلو ڈیڈ... دانی کی آہستہ سے آواز ابھری...

کیا ہوا دانین.. زبیر فکرمندی سے بولے..

ڈیڈ میں آپ کی ہیلپ کرنے کے لیے تیار ہوں...

دانین اگر تم آہل کے ساتھ خوش...

ڈیڈ اب واپس دیکھنے کا وقت نہیں رہا آپ کب تک اس طرح سروائیو کریں گے اس لیے مجھے کوئ مسئلہ نہیں آپ کا ساتھ دینے میں آپ مجھے کال کر کے بتا دینا جس دن کا پلان ہو.. دانی نے کہ کر فون بند کر دیا...

زبیر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی...

یہ ہے رحیم جو میری بیٹی کا شوہر بننا چاہتا ہے شکل دیکھو ذرا اس کی کیسی غریبوں والی... زبیر حقارت سے بولے...

رحیم سر جھکاےُ کھڑا تھا...

لڑکے کی ہمت تو دیکھو زبیر پیار کرنا تو ایک طرح نکاح کر لیا,, یہ سب لالچی ہوتے ہیں تبھی لڑکیوں کو پیار کا جھانسہ دیتے ہیں تاکہ ہماری دنیا میں آ سکیں...

رحیم وہ ویٹر سے ٹرے لو اور یہاں سب کو سروو کرو... زبیر تحکم سے بولے..

رحیم آنسو پیتا چل دیا..

رحیم ٹرے لے کر آیا اور سب کو سروو کرنے لگا سب ہنس رہے تھے اسے دیکھ کر...

تم تھک گۓ ہو گے نہ جاؤ بیٹھ جاؤ شاباش.. زبیر اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

وہاں کہاں جا رہے ہو... رحیم چئیرز کی جانب قدم بڑھا رہا تھا,, یہاں بیٹھو میرے پاؤں کے پاس.. وہ نخوت سے بولے...

رحیم مجبور تھا یہ سب سہنے پر سو خاموشی سے ان کے پاؤں میں بیٹھ گیا...

یہ اوقات ہے ان کی اور چلے ہیں ہمارے برابر بیٹھنے.. زبیر کدورت سے بولے...

بلکل صحیح کیا تم نے زبیر ان جیسے گندے لوگوں کو ان کی اصل جگہ دکھا کر اب عمر بھر اپنی اوقات نہیں بھولے گا یہ..

سب رحیم کو دیکھ کر قہقے لگا رہے تھے...

انعم کو جب سے معلوم ہوا تھا اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا..

نا جانے ڈیڈ کیا کریں گے رحیم کے ساتھ...

وہ ٹہلتی ہوئ بولی..

ڈیڈ کیوں اسے پارٹی میں لے گۓ,, یقیناً بےعزت کرنے کے لیے لے گۓ ہوں گے,, پیار تو انہیں صرف دانین سے ہے تو پھر میری پسند کی کیا اہمیت اتنا سب ہونے کے بعد انہوں نے ایک بار میری خواہش کو مد نظر نہیں رکھا ان کے لیے صرف ان کا سٹیٹس ہی سب کچھ ہے یا پھر دانین کیونکہ وہ خوبصورت ہے اور میں دانین جیسی خوبصورت نہیں نہ میرے پاس دانین جیسی آنکھیں ہیں نہ ہی اس کے جیسا رنگ... انعم کمپلیکس کا شکار تھی...


اوووہو,, ڈرنک نیچے گر گئ...

رحیم ایک کام کرو اپنی شرٹ اتارو اور زمین صاف کرو... زبیر نیچے دیکھتے ہوۓ بولے...

رحیم آنسو صاف کر رہا تھا...

جلدی کرو کیا سوچ رہے ہو... وہ غصے سے بولے...

رحیم تھوک نگلتا شرٹ اتارنے لگا,,, پارٹی میں موجود تقریباً سبھی لوگ اس تماشے سے محظوظ ہو رہے تھے سواےُ اس ایک لڑکی کے جو ہمدردی اور دکھ سے رحیم کو دیکھ رہی تھی...

رحیم نے شرٹ اتاری اور زمین پر گری ڈرنک صاف کرنے لگا,, آس پاس سب کے قہقے گونج رہے تھے,, رحیم کو لگا وہ مر چکا ہے اتنی تذلیل اتنی تضحیک,, شاید اس کی جگہ کوئ اور ہوتا تو مر چکا ہوتا لیکن وہ ابھی زندہ تھا کیونکہ اسے زندہ رہنا تھا اپنے گھر کی بقا کی خاطر اپنی محبت کی سزا اسے تنہا جھیلنے تھی اپنے گھر کو اس عتاب سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا تبھی اپنی عزت کا جنازہ نکالنے یہاں آ گیا...

*************

یہ نمونہ اٹھا کر لاےُ ہو... آہل کوٹ اتارتا ہوا بولا..

جی سر یہی ایک ملا ہے...

آہل اس کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گیا...

ہمممم اب تم خود انتخاب کر لو مار کھا کر بتاؤ گے یا پھر بنا مار کھاےُ... آہل آستین اوپر چڑھاتا ہوا بولا...

میں نے کچھ بھی نہیں کیا پھر کیا بتاؤ... وہ چلایا...

سر اپنے باس کا نام بتانا دور یہ اس بات سے بھی انکاری ہو رہا کہ سمگلنگ کے کام میں شامل ہے یہ.. رفیق آہل کے کان میں سرگوشی کرنے لگا...

ویل کوئ مسئلہ نہیں رفیق ابھی اس کی طبیعت درست کر دیتا ہوں میں...

آہل اس کا گریبان پکڑتا ہوا کھڑا ہو گیا,, چہرے پر زمانے بھر کی سختی عود آئ,,

ایک بار پھر پوچھ رہا ہوں کس کے لیے کام کر رہا ہے تو... آہل اس کا جبڑا پکڑتا ہوا بولا..

وہ نفی میں سر ہلانے لگا...

ٹھیک ہے پھر مزہ چکھنا اب... آہل نے کہ کر اس کے منہ پر مکہ مارا,,, اس کے دونوں ہاتھ باندھ رکھے تھے..

آہل نے یکے بعد دیگرے کئی مکے اسے مارے کبھی دیوار میں پٹخا تو کبھی زمین پر,,, وہ آدھ موا ہو کر زمین پر گر چکا تھا لیکن ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا...

آہل پھر سے اس کی جانب بڑھا لیکن رفیق بیچ میں آ گیا...

سر مزید مارا تو وہ مر جاےُ گا...

آہل ہنکار بھرتا پیچھے ہو گیا...

اس سے دوبارہ پوچھنا اور اگر نہ بتاےُ تو میں صبح دوسرا ڈوز دینے آ جاؤں گا لیکن مجھے جلد از جلد جاننا ہے... آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا..رفیق نفی میں سر ہلاتا اس لڑکے کو دیکھنے لگا...

اگر بتا دیتے تو اتنی دھلائ نہ ہوتی تمہاری...

لڑکا بے ہوش ہو چکا تھا...


تمہارا دماغ تو ٹھکانے پر ہے نہ وہ کیسے غائب ہو سکتا ہے... ڈاکڑ قدسیہ کی پیشانی پر شکنیں ابھریں...

میڈم اس نے کہا تھا بائیک پر آتا ہوں لیکن وہ آیا ہی نہیں ہم نے معلوم کروایا ہے پولیس کے ہاتھ نہیں لگا...

تو پھر کس کے ہاتھ لگا ہے وہ... وہ حیرانی سے بولیں...

اس بات کا علم نہیں وہ روپوش ہوا ہے یا کسی نے اسے اغوا کیا ہے... وہ سر جھکا کر بولا..

سب کے سب بیکار ہو ایک کام ٹھیک سے نہیں ہوتا... وہ جھنجھلا کر بولیں...

زبیر کو اپنے کاموں سے فرصت ملے تو یہاں پر دھیان دے... وہ فون ملاتی ہوئیں بولیں...

لیکن پھر دے ناکامی ہوئ...

************

دو دن ہو گۓ دانی کمرے سے باہر نہیں نکلی,, آہل نے دوبارہ دانی سے کسی نوعیت کی کوئ بات نہ کی..

چینج کر کے آہل کمرے سے نکلا اور جس کمرے میں دانی تھی اس جانب چل دیا....

دانی صوفے پر بیٹھی نیل پینٹ لگا رہی تھی آہٹ پر سر اٹھا کر دیکھا,, دل تو چاہ رہا تھا اسے باہر نکال دے لیکن اپنے پلان کی خاطر خاموش رہی...

آہل دانی کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا دانی اپنے کام میں مشغول رہی جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو...

دانی,, آہل نے دھیرے سے پکارا..

ہمممم... دانی انگلی پر برش پھیرتی ہوئ بولی..

تم ناراض ہو...

تمہیں معلوم ہونا چائیے...

دانی غلطی میری بھی تھی لیکن غلطی تمہاری بھی تھی,, تم اس طرح کیوں ری ایکٹ کر رہی تھی...

آہل مجھے اس بارے میں کوئ بات نہیں کرنی.. دانی کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا...

یہاں دیکھو.. آہل اس کا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا..

دانی ہاتھ روکے اسے دیکھنے لگی..

چند پل خاموشی کی نظر ہوےُ...

آؤ اپنے کمرے میں چلیں...آہل اس کی بازو پکڑتا کھڑا ہو گیا..

دانی صرف ایک ہی رات کی بات ہے...

_______

دانی آہل کو دیکھتی ہوئ سوچنے لگی..

آہل آبرو اچکا کر دانی کو دیکھنے لگا...

دانی نیل پینٹ رکھتی کھڑی ہو گئ...

تم پورے کے پورے جاہل حیات ہو.. دانی اس کے ساتھ چلتی ہوئ بولی...

آہل مسکرایا تو ڈمپل پھر سے عود آیا,,

تم ناراض ہو کر بلکل اچھی نہیں لگتی.. آہل اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا..

اچھا پھر کیسے اچھی لگتی ہوں..

جب ہنستی مسکراتی ہو... آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانی ناک چڑھاتی ہوئ اسے دیکھنے لگی....

دانی مجھے کام سے جانا ہے...

اس وقت,,, دانی سرمئ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے دیکھنے لگی..

ہممم اس وقت,, تم سو جانا میرا انتظار مت کرنا.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا...

پھر مجھے کیوں لاےُ تھے اس روم سے اگر تم نے خود چلے جانا تھا تو... دانی منہ بسورتی ہوئ بولی...

تمہیں تنگ کرنے کے لیے... آہل اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکراتا ہوا بولا..

دانی خفگی سے اسے دیکھنے لگی..

آہل مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا اور سٹڈی میں چلا گیا چند لمحوں بعد آہل کا فون رنگ کرنے لگا آہل عجلت میں باہر نکل گیا نہ دانی کو باےُ بولا نہ ہی سٹڈی لاک کی...

دانی سانس خارج کرتی بیڈ سے نیچے اتر گئ..


سر میں باہر گیا تھا اور جب واپس آیا تو یہ اس حال میں ملا... رفیق زمین پر گری اس لڑکے کی لاش کو دیکھتا ہوا بولا..

شٹ,,, زبیر کا نام تو لے لیا تھا اگر عدالت میں بھی چلا جاتا ...آہل نے جھنجھلا کر بات ادھوری چھوڑ دی...

سر آگے کیا حکم ہے...

اس کی لاش کو ٹھکانے لگاؤ,, اور عمیر سے معذرت کر لینا میں دوبارہ نہیں جا سکا اس سے ملنے,, انہی کاموں میں الجھا ہوا تھا کل جلسہ بھی ہے میرا,, آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا..

جی سر ٹھیک ہے,, اور دانین میڈم کے لیے آپ نے جو تیاریاں کرنے کو بولا تھا وہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں..

گڈ,,, لیکن میں صبح میں جاؤں گا نظر ثانی کرنے کے لیے تاکہ کسی قسم کی کمی نہ رہ جاےُ,, دو دن سے دانی سے بات نہیں ہوئ ناراض ہے لیکن میں جانتا ہوں یہ سرپرائز اس کی ساری ناراضگی ہوا کر دے گا... آہل مسکرا کر بولا...

جی سر...

دانی سٹڈی روم میں آ گئ...

کون تھی وہ لڑکی جس کی تصویریں دیکھی تھیں میں نے,, آہل تم نے مجھ سے بہت کچھ چھپا رکھا ہے.. دانی بولتی ہوئ ریک کی جانب آ گئ...

آدھا گھنٹہ بیت گیا لیکن خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا... دانی مایوسی سے بکس کو دیکھنے لگی.. بس مزید میں نہیں ڈھونڈ سکتی... دانی بولتی ہوئ بیٹھ گئ...

دانی کی نظر بائیں جانب پڑی تو آنکھوں میں حیرت سمٹ آئ...

میں نے ان بکس کو ہاتھ نہیں لگایا پھر,, دانی بولتی ہوئ کھڑی ہو گئ...

کتابیں الٹی سیدھی پڑیں تھیں..

دانی ایک ایک کر کے بکس نکالنے لگی,,

اوووہ تو تم بکس کے پیچھے رکھتے ہو اپنے راز.. دانی ڈائری اٹھاتی ہوئ بولی..

اے-ڈی..

اے سے آہل اور ڈی سے دانی لیکن یہ ڈائری تو پرانی لگتی ہے پھر میرا نام نہیں ہو سکتا ڈی سے کسی اور کا نام ہو گا کہیں اس تصویر والی لڑکی کا نام تو نہیں... دانی کے دماغ میں جھماکا ہوا..

اس سے پہلے آہل واپس آےُ میں اسے سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیتی ہوں شاید اب مجھے معلوم ہو جاےُ کہ آہل حیات ہے کیا... دانی سوچتی ہوئ باہر نکل آئ,, یونی کا بیگ اٹھایا اور ڈائری اس میں رکھ دی...

سانس خارج کرتی دانی بیڈ پر آکر لیٹ گئ,,

دانی چھت کو گھور رہی تھی,, پھر کروٹ بدل کر آہل کی خالی نشست کو دیکھنے لگی.

آہل حیات اب تمہیں معلوم ہو گا جب کوئ دھوکہ دیتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے,,اب تمہیں اندازہ ہو گا کہ میں کیا محسوس کر رہی ہوں,,مجھے کھلونا بنا کر رکھا ہوا تھا نہ اب جب تمہارے جذبات کا مذاق بنے گا تب تمہیں احساس ہو گا... دانی نخوت سے سر جھٹکتی ہوئ بولی..

************

رحیم تم نے میرا نمبر کیوں بلاک کر دیا ہے... انعم ملازم کا فون پکڑے کھڑی تھی...

انعم تم پلیز بات کو سمجھو ہم جیسے لوگ تم بڑے لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے,, ہمارے پاس سب سے قیمتی چیز عزت ہی ہوتی ہے اور اگر کوئ اسی پر ڈاکہ ڈال دے تو ہم تو کہیں کے نہیں رہتے...

رحیم تم مجھے تو بتاؤ ہوا کیا ہے اس دن ڈیڈ تمہیں کیوں لے گۓ تھے اپنے ساتھ...

اس رات کا منظر نظروں کے سامنے گھوما تو رحیم کی آنکھ سے ایک آنسو چھلک پڑا...

بس تم چھوڑو اس رات جو بھی ہوا میں بلکل ٹھیک ہوں,, تم نے یہی پوچھنے کے لیے فون کیا یے نہ.

ہاں مجھے ٹینشن ہو رہی تھی ڈیڈ اچانک تمہیں لے گۓ اور اس کے بعد تم نے میرا نمبر بلاک کر دیا..

انعم اگر ہمارے ہاتھوں میں ملنے کی لکیر ہو گی تو ہم ضرور ملیں گے اور اگر ملنے کی لکیر نہیں ہے تو پھر کتنے کی کوشش کیوں نہ کر لیں ہم کبھی ایک نہیں ہو سکیں گے... رحیم تحمل سے بولا...

پلیز ایسا مت بولو... انعم کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو گۓ...

انعم حقیقت پسند بنو,, خیالوں کی دنیا میں رہنے والوں کو اکثر حقیقت توڑ دیتی ہے...

میں نہیں ٹوٹنا چاہتی,, میں نہیں چاہتی ہمارے خواب ٹوٹیں,, ایک چھوٹی سی تو خواہش کی تھی میں نے تمہارا ساتھ بس اور کچھ بھی نہیں...

انعم قسمت کے آگے میں بھی مجبور ہوں اور تم بھی ہم اپنے نصیب سے لڑ نہیں سکتے...

میں نہیں مانتی کچھ بھی میں نے آج تک برداشت کیا مجھ سے زیادہ دانی کو اہمیت دی جاتی اسے مجھ سے زیادہ محبت ملی میں خاموش رہی کچھ نہیں کہا میں نے لیکن تم سے دستبردار نہیں ہو سکتی رحیم...

فون میں انعم کی سسکیاں سنائ دے رہیں تھیں...

رحیم میں اس سے زیادہ سکت نہ تھی... اس نے فون بند کر دیا..

ہیلو,, رحیم,, میری بات سنو,, ہیلو... انعم بول رہی تھی لیکن جب فون دیکھا تو کال ڈراپ ہو چکی تھی...

انعم وہیں زمین پر بیٹھ گئ...

ڈیڈ کیوں کر رہے ہیں آپ ایسا قسمت سے زیادہ تو آپ ہمیں الگ کرنے کے درپے ہیں...

انعم گال رگڑتی کھڑی ہوئ,, چھری اٹھائ اور زبیر کے کمرے کی جانب چل دی...

دروازہ ناک کیا اور کھول کر اندر داخل ہو گئ.. انعم کیا ہوا تم اس وقت... ثانیہ حیرت سے بولی..

ڈیڈ آج اس بات کا فیصلہ ہو ہی جاےُ پھر...

کس بات کا فیصلہ... وہ انعم کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ششدہ رہ گۓ...

یا تو میرا اور رحیم کا رشتہ باقی رہے گا یا پھر میں,, بتائیں اب آپ کے لیے آپ کی کلاس زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا میری زندگی... انعم ہذیانی انداز میں بول رہی تھی...

انعم پلیز اس کو ہٹاؤ ہاتھ پر لگ جاےُ گی.. زبیر فکرمندی سے بولے...

میری بات کا جواب دیں...

انعم یہ بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں پلیز اپنے ڈیڈ کی بات مانو پھینک دو اسے کچھ ہو جاےُ گا... وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوۓ بولے..

ڈیڈ اگر آپ نے مزید ایک قدم بڑھایا تو میں چلا دوں گی.. انعم زور دے کر بولی..

خون کا ایک قطرہ انعم کی کلائ سے ماربل کے فرش پر جا گرا...

ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کروں گا لیکن پلیز تم اسے پھینک دو دیکھو خون بہ رہا ہے... زبیر کے چہرے پر پریشانی کی لکریں تھیں...

انعم ڈیڈ کی بات مان لو ہم اس رشتے کو ختم نہیں کریں گے اب تو چھوڑ دو اسے... ثانیہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہوئ بولی..

پرامس.. انعم زبیر کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی...

پرامس.

انعم نے چھری نیچے پھینک دی,, زبیر نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا...

پاگل ہو کیا بھلا تم سے بڑھ کر مجھے اپنی کلاس ہو سکتی ہے کیا... وہ نم آنکھوں سے بولے..

ڈیڈ پلیز ہمیں الگ مت ہونے دینا میں مر جاؤں گی... انعم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا..

الیکشن ہو جائیں پھر دھوم دھام سے تمہاری شادی کروں گا... زبیر اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے..

سچ میں ڈیڈ.. انعم نم آنکھوں سے مسکرا دی..

بلکل... ثانیہ بھی آگے آ گئ,,

آئیندہ کبھی ایسا سوچنا بھی مت... وہ خفگی سے دیکھتی ہوئ بولی..

تھینک یو مام ڈیڈ... انعم دونوں کے وسط میں تھی...

ثانیہ بھی نم آنکھوں سے مسکرانے لگی...

اب تم کمرے میں جاؤ اور پرسکون ہو کر سو جاؤ... زبیر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے..

اووکے ڈیڈ... انعم کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا...

تم سچ میں ان کی شادی کرواؤ گے... ثانیہ زبیر کو دیکھتی ہوئ بولی...

اب تو کروانی پڑے گی اپنے سامنے انعم کو مرتے نہیں دیکھ سکتا میں... زبیر رخ پھیر کر بولے...

ٹھیک کہ رہے ہو تم ویسے بھی اب تو سب کو علم ہو چکا ہے پھر کیا فائدہ انہیں الگ کرنے کا.. ثانیہ افسوس سے بولی..

زبیر نمبر ملاتے باہر نکل آےُ...

جی ڈیڈ... دانی نیند کے خمار میں تھی...

دانی کل کے لیے تیار ہو تم...

جی ڈیڈ کانفرم ہے آئم ریڈی...

اووکے ٹھیک یے پھر کل ملاقات ہو گی..

اووکے ڈیڈ... دانی فون بند کرتی پھر سے سو گئ...

آہل رات گۓ کمرے میں آیا تو لائٹ آن تھی,, دانی ابھی تک جاگ رہی ہے.. وہ حیرت سے بولتا آگے آیا لیکن جب دانی سے نظر ٹکرائ تو وہ بےسدھ سو رہی تھی,, آہل کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئ...

آہل چینج کر کے اپنی جگہ پر آ گیا...

سرمئ آنکھیں اس وقت پردے میں تھیں,, آہل کی نظریں دانی کے روشن چہرے پر تھیں جہاں اس کے بال منتشر تھے...

آہل نے ہاتھ بڑھایا اور دانی کے چہرے سے بال ہٹانے لگا,, آہل کے لمس پر دانی کسمسائ...

دانی کی نیند خراب نہ ہو اس خیال کے تحت آہل نے فوراً اپنا ہاتھ ہٹا لیا...

آہل یک ٹک دانی کو دیکھ رہا تھا,, دانی نیند میں مسکرانے لگی تو آہل بھی مسکرا دیا,, دانی کو دیکھتا وہ کب نیند کی وادی میں اترا اسے خود بھی معلوم نہ ہوا..

***********

کیا ہوا ڈاکڑ قدسیہ... زبیر صبح سویرے اڈے پر آ کر بولا..

تمہیں کچھ ہوش ہو تو معلوم ہوتا کہ ڈینی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے...

کیا,, لیکن اس دن تو سب بچ کر نکل آےُ تھے..

سب آ گۓ تھے لیکن ڈینی نے بائیک پر آنے کا بولا تھا اور اب تک نہیں آیا جس کا صاف یہی مطلب ہے کسی کے ہاتھ لگ گیا ہے وہ... وہ غصے میں چلا رہیں تھیں...

تو ایک بات سے میں بھی آپ کو آگاہ کرتا چلوں آہل سب جانتا ہے سب کچھ میرے سامنے آ کر اس نے اعتراف کیا ہے وہ یہ سب بدلے کی آڑ میں کر رہا ہے اور بہت جلد وہ آپ کے گلے میں بھی طوق ڈال دے گا...

زبیر اگر تم نے میرا نام لیا تو تمہارا نام و نشان مٹا دوں گی... وہ طیش میں بولیں..

آرام سے ڈاکڑ صاحبہ بھولیں مت آپ بھی برابر کی شریک ہیں اور ثبوت میرے پاس بھی ہے ایک لمحہ لگے گا مجھے آپ کا راز فاش کرنے میں اس کے بعد آہل حیات آپ کے ساتھ کیا کرے گا بخوبی اندازہ ہو گا آپ کو... زبیر تیکھے تیور لیے بولا...

ڈکڑ قدسیہ لب بھینچے اسے دیکھنے لگی..

ہمیں لڑنے کی بجاےُ مصلحت سے کام لینا چائے... وہ مفاہمت پر اتر آئیں..

بلکل میں بھی یہی چاہتا ہوں... زبیر ان کے سامنے کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا..

زبیر تم آہل کو اس بات کا علم نہیں ہونے دو گے کہ میں بھی تمہارے ساتھ شامل تھی...

ہاں لیکن تب تک جب تک آپ میرے ساتھ تعلقات درست رکھیں گیں یہ جو مجھ پر غصہ نکال رہیں ہیں نہ میں آپ کا ملازم نہیں ہوں... زبیر غرایا..

اچھا اچھا ٹھیک ہے وہ بس غصے میں نکل گیا اب دھیان رکھوں گی...

دھیان رکھیں گیں تو بہتر ہو گا... زبیر کھڑا ہوتا ہوا بولا..

کہاں...

کچھ کام یے,, اور میرا مشورہ مانیں تو کچھ عرصہ یہیں پر رہیں پولیس ہماری تاک میں ہو گی کہ ہم جگہ تبدیل کریں اور وہ ہم پر ہاتھ ڈالے,,

ہاں تم ٹھیک کہ رہے ہو اور ایک کام کرنا ہے زبیر..

کیا کام...

میرے کلینک پر ایک لڑکی آتی ہے آگے پیچھے کوئ نہیں صرف ایک ماموں ہے,, اس کو اٹھوانا ہے خوبصورت بھی ہے اچھے دام ملیں گے اس کے...

مجھے ایڈریس اور اس لڑکی کی تفصیل میل کر دیں میں آسم کو بول دوں گا ہو جاےُ گا یہ کام... زبیر چلتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے میں کر دیتی ہوں...

زبیر بنا کچھ بولے باہر نکل گیا...

************

آج تم میرا فیورٹ کلر پہنو گی...آہل دانی کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں..

کیوں...

بس میرا دل کر رہا یے... آہل بغور اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا..

کبھی کبھی تم کنفیوز کر دیتے ہو مجھے... دانی جھرجھری لیتی ہوئ بولی...

کون سا ہے تمہارا فیورٹ کلر.. دانی الماری کی جانب دیکھتی ہوئ بولی..

بلیک,, دانی کا ہاتھ ابھی تک آہل کے ہاتھ میں تھا...

اور اگر میرے پاس بلیک نہ ہو پھر...

پھر ابھی آ جاےُ گا کوئ مسئلہ نہیں...

اچھا پھر ابھی چائیے مجھے منگواؤ... دانی اس کی جانب دیکھتی ہوئ بولی..

ایک منٹ... آہل اس کا ہاتھ چھوڑتا فون نکال کر کمرے سے باہر چلا گیا...

دانی سانس خارج کرتی کب بورڈ بند کرنے لگی..

پانچ منٹ بعد آہل اندر آ گیا..

بس ابھی آ جاےُ گا کچھ دیر میں.. آہل مسکراتا ہوا بولا..

دانی بامشکل مسکرا پائ...

دانی آج میرا جلسہ ہے اس لیے ڈرائیور تمہیں لینے آےُ گا... گاڑی یونی کے باہر رکی تھی..

ٹھیک یے.. دانی کہ کر باہر نکل گئ...

دانی نے چلتے ہوۓ چہرہ موڑ کر دیکھا ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ دانی کو نہیں دیکھ رہا تھا وہ جا چکا تھا...

میرے اندر جانے کا بھی انتظار نہیں کرتے تم... دانی سر جھٹکتی تیز تیز قدم اٹھانے لگی...

***********

سر دانین میڈم یونی میں نہیں ہیں... گارڈ بوکھلایا ہوا اندر آیا...

واٹ,, تمہارا دماغ خراب ہو گیا یے کیا یونی نہیں تو پھر کہاں یے.. آہل کھڑا ہو گیا...

پتہ نہیں سر میں انتظار کر رہا تھا لیکن میڈم باہر نہیں آئیں پھر اندر جا کر پوری یونی میں دیکھا لیکن میڈم کہیں نہیں تھیں...

اور گھر... آہل مٹھیاں بھینچ کر بولا..

نو سر... وہ مایوسی سے سر جھکا کر بولا..

واٹ ربش,, تم سب پاگل ہو کیا کون لے گیا دانی کو... آہل حلق کے بل چلایا...

سر کیا ہوا... رفیق گھبرا کر اندر آیا...

رفیق ایسے ناکارہ لوگوں کو تم نکالتے کیوں نہیں ہو... آہل اس پر دھاڑا...

سوری سر مجھے علم نہیں کسی بات کا...

یہ تمہارے فضول آدمی مجھے آکر کہ رہے ہیں دانی غائب یے کیسے غائب ہو سکتی ہے وہ... آہل اس کا گریبان پکڑتا ہوا بولا..

سر میں خود صبح سے آپ کے ساتھ ہوں... رفیق سر جھکا کر بولا..

گاڑی نکالو... آہل کوٹ کا بٹن بند کرتا ہوا بولا..

اور سر جلسہ...

کینسل کر دو کہ دینا آہل حیات کو ایمرجنسی آ گئ دانی سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں... آہل بولتا ہوا باہر نکل گیا..

رفیق نمبر ملاتا اس کے عقب میں چلنے لگا...

آہل یونی آیا اور ایک ایک جگہ خود دیکھنے لگا.

سر ہم نہیں جانتے وہ کب یونی سے نکلیں... چوکیدار آہل کے سامنے کھڑے تھے..

کوئ نہیں جانتا دانی کب باہر نکلی تو کیا آسمان نگل گیا اسے... آہل اسے گریبان سے پکڑتا ہوا چلایا..

سر... رفیق بیچ میں آ گیا...

__________

آہل ہنکار بھرتا پیچھے کو ہو گیا...

آہل خود کو سنبھالتا وہاں سے نکل گیا,, گھر آیا تو وہاں بھی دانی کا نام و نشان نہیں تھا...

دانی کہاں چلی گی ہو تم... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا...

صبح سے رات ہونے کو تھی اور دانی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا...

آہل بےبسی کی انتہا پر تھا...

آہل ٹوٹ رہا تھا اس کی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی...

پتہ نہیں کس حال میں ہو گی دانی,, وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا ٹہل رہا تھا...

آہل کی آنکھیں نم تھیں...

کیا خبر ہے رفیق...

آہل اسے اندر آتے دیکھ کر بےصبری سے بولا..

رفیق نفی میں سر ہلاتا چہرہ جھکا گیا...

شہر میں ناقہ بندی لگائ...

جی سر چیک پوسٹ پر ہر گاڑی چیک ہو رہی ہے میں خود خفیہ طور پر بھی معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئ سراغ نہیں مل رہا,, میں نے یونی کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی یے دانی میڈم بارہ بجے تک یونی میں دکھائ دیں اس کے بعد وہ نظر نہیں آئیں...

رفیق وہ کہاں جا سکتی ہے.... آہل گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا...

سر... رفیق آگے بڑھا...

جاؤ رفیق میں ٹھیک ہوں... آہل چہرے پر دونوں ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

رفیق نا چاہتے ہوۓ بھی چلا گیا...

دانی کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں... آہل نے ہاتھ ہٹاےُ تو وہ تر تھے دس سال بعد آج آہل حیات رو رہا تھا جو اپنے چاچو کی موت پر بھی نہیں رویا وہ دانی کو کھونے کے خوف سے رو رہا تھا...

آہل کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا...

دانی تم نہیں جا سکتی مجھ سے دور نہیں... وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بول رہا تھا..

آہل نے اٹھ کر سیگرٹ سلگائ اور پینے لگا,, متواتر آنسو اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے ایش ٹرے بھر چکا تھا لیکن آہل کا دکھ جوں کا توں برقرار تھا...

تین گھنٹے مزید بیت گۓ,, آہل ایک کے بعد دوسری سیگرٹ سلگا رہا تھا ایک آگ اندر جل رہی تھی اور ایک باہر ان دونوں میں صرف آہل حیات جھلس رہا تھا...

ناٹ اگین,, ہر بار ایسا نہیں ہو گا میں تنہا نہیں رہوں گا مجھے قسمت سے لڑنا پڑا تو اس بار لڑوں گا لیکن میں دانی کو خود سے دور نہیں جانے دوں گا کسی شرط پر بھی نہیں... آہل چہرہ صاف کرتا ہوا بولا..

شرٹ درست کرتا باہر نکلا جہاں رفیق اس کا منتظر تھا...

سر یہ کام زبیر کا یے,,

وہ کیسے... آہل سرخ انگارہ بنی آنکھوں سے دیکھتا ہوا بولا..

سر وہ بھی غائب ہے صبح سے...

اووہ,, لیکن دانی کو غائب کروانے کا کیا مقصد.

سر شاید وہ زمین واپس لینا چاہتا ہو اسی لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا...

زبیر کو میں کسی صورت نہیں بخشنے والا.. آہل مٹھیاں بھینچ کر بولا...

آہل تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا...

آہل نے بٹن دباےُ تو ہر چیز روشن ہو گئ...

فرش سرخ رنگ کے غباروں سے ڈھکا ہوا تھا,, ریڈ اور گولڈن کلر کی لائٹس سے سب کچھ جگمگانے لگا تھا...

سامنے دیوار پر ہیپی برتھ ڈے دانی لکھا تھا..

وسط میں بڑا سا فانوس لٹک رہا تھا دیواریں لائٹس سے مخفی تھیں...

دو موتی آہل کی آنکھ سے ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے....

آہل نے جیب سے ڈبی نکالی جس میں نیلے ہیرے والی انگوٹھی تھی...

سب کچھ دہرا کا دہرا رہ گیا...وہ گھٹنوں زمین پر گراتا ہوا بولا...

دانی کہاں چلی گئ ہو پلیز واپس آ جاؤ... آہل بکھر رہا تھا ریزہ ریزہ ہو رہا تھا...

آہل نے ڈبی جیب میں ڈالی اور باہر نکل آیا,,

رفیق آگ لگوا دو یہاں...

لیکن سر کیوں... رفیق تعجب سے بولا..

جو کہا یے وہ کرو...

آہل اپنے حواس میں نہیں تھا...

جی سر ٹھیک یے.. ایک اور بات سر...

کیا... آہل آبرو اچکا کر بولا..

سر مجھے لگتا ہے زبیر دانین میڈم کو ملک سے باہر لے گیا ہے...

تم نے معلوم کروایا...

جی سر,, وہ ائیر ہوسٹس جو منی لانڈرنگ میں ملوث تھی اس سے معلوم ہوا ہے کہ آج ایک لڑکی کو غیر قانونی طور پر باہر لے جایا گیا یے..

تم نے اسے آزاد چھوڑ رکھا یے... آہل کو حیرت ہوئ...

جی سر کیونکہ اس طرح کے کام ایسے لوگوں کے ذریعے کرواےُ جاتے,, میں نے اسے آزاد چھوڑا تھا شاید آج کے لیے...

مجھے تمام معلومات چائیں کون لے کر گیا کہاں لے کر گیا یے ابھی کہ ابھی... آہل اسے جھنجھوڑتا ہوا بولا..

جی سر میں کوشش کرتا ہوں وہ پوری طرح منہ نہیں کھول رہی لیکن معلوم ہو جاےُ گا..

رفیق کہ کر نکل گیا..

ناظرین تازہ ترین خبر سے آپ کو آگاہ کرتے جائیں آج وزیر اعلیٰ آہل حیات کا جلسہ تھا لیکن کسی باعث منسوخ کر دیا عوام دلبرداشتہ ہو رہی ہے ان کا کہنا ہے اپنے لیڈر سے ایسی توقع نہیں تھی,,

ایسی کون سی وجہ ہو گی جس کے باعث وزیر اعلیٰ آہل حیات نے چند گھنٹے قبل جلسہ منسوخ کر دیا ابھی تک اس حوالے سے ہمیں کوئ خبر نہیں ملے لیکن جیسے ہی معلومات ملیں گی سب سے پہلے ہم آپ کو آگاہ کریں گے مزید جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے..

آہل نے فون بند کر دیا,, ایک سوچ دوسری سوچ پر حاؤی ہو رہی تھی آہل کو لگا اس کے دماغ کی نسیں آج پھٹ جائیں گیں...

عین اسی لمحے آہل کا فون رنگ کرنے لگا زبیر کا نام دیکھ کر آہل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا..

تم نے جلسہ منسوخ کر دیا اووہو بہت افسوس ہوا مجھے سن کر...

دانی کہاں ہے زبیر... آہل چلایا..

دانین تو تمہارے پاس تھی پھر مجھے کیسے...

بکواس مت کرو اچھے سے جانتا ہوں میں اب سیدھی طرح بولو کیا چائیے تمہیں...

آسڑیلیا آ جاؤ بتا دوں گا کیا چائیے مجھے...

کہاں ہو تم... آہل کھڑا ہو گیا...

آ کر ڈھونڈ لو... زبیر نے کہ کر فون بند کر دیا..

رفیق مجھے آسڑیلیا جانا ہے جلدی میرا جیٹ تیار کرواؤ اور ایک بات کسی کو بھی علم نہیں ہونا چائیے میری روانگی کا سمجھ رہے ہو نہ...

جی سر میں خود دیکھتا ہوں...

آہل کمرے سے باہر نکلا...

روبن,, جلدی سے میرا بیگ تیار کرو ہری اپ... آہل اشارہ کرتا ہوا بولا...

یہ تو معلوم ہو گیا دانی زبیر کے پاس ہے لیکن وہ ٹھیک یے یا نہیں یہ تو وہاں جا کر معلوم ہو گا,, زبیر کا کوئ بھروسہ نہیں وہ دانی کو نقصان پہنچا سکتا ہے... آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا...

************

دانی بال باندھتی کمرے سے نکلی...

ڈیڈ آہل آ گیا...

ہو سکتا ہے پہنچ چکا ہو,, کیونکہ میں نے اسے کہ دیا تھا...

دانی اثبات میں سر ہلاتی بیٹھ گئ...

تم ناشتہ کرو میں ایک فون کر لوں... زبیر کھڑے ہوتے ہوۓ بولے...

دانی ٹیبل پر پڑے ناشتے کو گھورنے لگی..

روز آہل کے ساتھ کھانے کی عادی سی ہو گئ تھی...

لیکن آہل تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ میں ڈیڈ کے ساتھ اس پلان میں شامل ہوں... دانی منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی...

کوئ مسئلہ نہیں میں خود تمہیں بتاؤں گی,, پہلے بیوقوف بناؤں گی پھر حقیقت سے روشناس کرواؤں گی... دانی سوچتی ہوئ کھانے لگی...


آہل ایلبری کی سرزمین پر کھڑا تھا آنکھوں پر گاگلز لگاےُ تھری پیس پہنے وہ ہمیشہ کی مانند سحر انگیز دکھائ دے رہا تھا...

رفیق تم نے سمتھ کو آگاہ کر دیا تھا...

جی سر وہ آیا ہو گا گاڑی لے کر... رفیق آس پاس دیکھتا ہوا بولا..

رفیق متلاشی نگاہوں سے گردوپیش میں دیکھ رہا تھا اور اسے مطلوبہ شخص نظر آ گیا...

سر وہاں کھڑا ہے آجائیں... رفیق آگے بڑھتا ہوا بولا...

آہل رفیق کے ہمراہ چلنے لگا...

آہل حیات... سمتھ خوشدلی سے آہل کے گلے لگا..

کیسے ہو سمتھ..

بلکل فٹ لیکن تم فٹ نہیں لگ رہے... وہ آہل کا جائزہ لیتا ہوا بولا..

کافی ٹائم بعد دیکھ رہے ہو اس لیے...آہل نے مسکرانے کی سعی کی...

وہ دونوں انگلش میں بات کر رہے تھے...

چلیں... سمتھ گاڑی کی جانب بڑھتا ہوا بولا..

بلکل.. آہل کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا,, آہل کے بعد رفیق بھی گاڑی میں بیٹھ گیا...

آہل شیشے اوپر کیے باہر دیکھ رہا تھا,, آسڑیلیا کی یہ سڑکیں وہ بہت بار دیکھ چکا تھا,,

سوچا نہیں تھا دوبارہ یہاں آؤں گا... آہل کی نظر سڑک پر تھی...

زندگی کسی نہ کسی بہانے ہمیں واپس لے آتی ہے وقت واپس نہیں آتا ہم اس جگہ واپس چلے جاتے ہیں لیکن ہمارے واپس جانے سے کچھ بھی واپس نہیں آتا جو پیچھے چھوٹ گیا وہ وہیں کہیں رہ جاتا ہے پھر کچھ بھی واپس نہیں آتا ہاتھ میں رہ جاتی ہے تو صرف دھول.. آہل سانس خارج کرتا سمتھ کو دیکھنے لگا...

سمتھ عیسائ تھا,,

ڈیڈ میں کب سے انتظار کر رہی ہوں آپ کا...

ایک نو عمر لڑکی سنہری بال, نیلی آنکھیں,, بےداغ روشن چہرہ,, سمارٹ سی چلتی ہوئ سامنے آئ...

آنا بڑی ہو گئ ہے... آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

بلکل ورجینیا کی موت کے بعد کچھ زیادہ ہی.. وہ اداسی سے بولا...

آہل نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا...

ڈیڈ آہل حیات... آنا آنکھوں سے اشارہ کرتی ہوئ بولی..

آنا مسکراتی ہوئ آہل کے گلے لگ گئ..

آہل دو قدم پیچھے ہٹ گیا اور مصافحہ کرنے کی غرض سے ہاتھ آگے کیا...

اووہ سوری,, آنا شرمسار سی ہاتھ ملانے لگی..

آپ کو میں یاد ہوں... آنا آہل کے ہمراہ چلتی ہوئ بولی...

میں کسی کو نہیں بھولتا.. آہل دھیرے سے مسکرایا تو آنا کی نگاہ واپس آنا بھول گئ وہ ستائش سے اس کے ڈمپل کو دیکھ رہی تھی جو اب غائب ہو چکا تھا...

کھانا ریڈی ہے آپ لوگ فریش ہو جائیں پھر مل کر کھائیں گے... آنا کچن کی جانب چلتی ہوئ اونچی آواز میں بولی...

آنا کی کسی بات کا برا مت ماننا آہل,, وہ...

سمتھ میں جانتا ہوں تم فکر مت کرو..

تھینک یو...

تھینکس تو تمہارا تم نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دی...

اتنا تو کر ہی سکتا ہوں میں تمہارے لیے دوست کس دن کام آئیں گے...

آہل مسکراتا ہوا زینے چڑھنے لگا...

رفیق تم بھی چلے جاؤ,, آنا بار بار کھانا گرم کر کے نہیں دے گی...

رفیق مسکراتا ہوا چل دیا..

یہاں تک آ گۓ ہو تو دانی کو بھی ڈھونڈ لو... آہل زبیر کا میسج پڑھ رہا تھا...

کمینے انسان دانی کو تو میں ڈھونڈ لوں گا لیکن تمہیں نہیں چھوڑوں گا... آہل مٹھیاں بھینج کر بولا..

مسٹر آہل آپ لیٹ ہو رہے ہیں.. آنا دروازہ ناک کرتی ہوئ بولی..

سوری... آہل کہتا ہوا باہر نکل آیا...

************

رحیم تم جانتے ہو الیکشن کے بعد ہماری شادی ہو گی اوہ مائ گاڈ میں بہت خوش ہوں... انعم مسرت سے بولی.

تم سچ کہ رہی ہو....وہ بےیقینی سے بولا..

بلکل ڈیڈ نے خود کہا ہے کہ مجھ سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں اس لیے انہوں نے رضامندی دے دی...

یہ تو بہت اچھی بات ہے,, لیکن رحیم خوش نہیں تھا...

کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئ... انعم اس کا چہرہ پڑھتی ہوئ بولی..

خوشی تو بہت ہے بس گھر کی فکر بھی ہے,, اپنی وجہ سے انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا..

رحیم تم اب فکر مت کرو اب سب اچھا ہی ہو گا... مثبت سوچو... انعم اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی ہوئ بولی...

رحیم مسکرا کر اثبات میں سر ہلانے لگا...

**********

تین دن ہو گۓ تھے لیکن دانی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوا...

میں جانتا ہوں رفیق یہ پاکستان نہیں ہے جہاں دانی آسانی سے مل جاےُ گی... آہل مایوسی سے بولا...

سر آپ کی زبیر سے بات ہوئ وہ کیا کہ رہا تھا..

اگر میں الیکشن میں کھڑا ہوا تو نتیجہ کا ذمہ دار خود ہوں گا...

مطلب وہ یہ سب حکومت بنانے کے لیے کر رہا ہے...

بلکل,,

______

اور اس سب میں اتنا اندھا ہو گیا ہے کہ دانی کو بھی نہیں بخشا...

میں تمہاری ہیلپ کر سکتی ہوں... آنا آہل کے سامنے آتی ہوئ بولی...

آنا تم بچی ہو ابھی.. آہل نے اسے جھٹکنا چاہا..

آہل یہ پاکستان نہیں ہے یہ میرا شہر ہے میں سب کو جانتی ہوں اور سب مجھے.. آنا زور دے کر بولی..

آہل نے رفیق کو اشارہ کیا تو وہ چلا گیا..

اگر تم دانی کو خود ڈھونڈو گے تو انہیں معلوم ہو جاےُ گا وہ لوگ الرٹ ہو جائیں گے,,اس طرح وہ دانی کو کہیں اور بھی لے جا سکتے ہیں...

تو کیا میں ہاتھ پے ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں... آہل کوفت سے بولا..

نہیں میں نے تمہیں کہا یہ میرا شہر ہے اگر میں دانی کو ڈھونڈوں گی تو انہیں معلوم نہیں ہو گا میں اپنے لوگوں سے پوچھوں گی جنہیں میں جانتی ہوں اس طرح ان لوگوں کو علم نہیں ہو گا کہ تم دانی کو نہیں ڈھونڈ رہے وہ ریلیکس رہیں گے....

آہل سانس خارج کرتا دوسری جانب دیکھنے لگا..

اور تم میری ہیلپ کیوں کروں گی...

تم مسلمان ہو نہ...

ہاں.. آہل دھیرے سے بولا..

بس پھر میں تمہارا کام کروں گی تم میرا کام کرنا...

کیسا کام... آہل آبرو اچکا کر بولا..

تم مجھے قرآن کا ترجمہ سناؤ گے...

آنا دیکھو میں کیسے سنا سکتا ہوں... آہل جھجھک کر بولا...

حیرت کی بات ہے تم مسلمان ہو پھر کیا مسئلہ.. آنا کی پیشانی پر بل پڑ گۓ...

میرا مطلب وہ نہیں تھا.. آہل سر جھکا کر بولا...

تمہارا جو بھی مطلب تھا چھوڑو اسے اور ڈیل کرو.. آنا ہاتھ آگے کرتی ہوئ بولی...

تم اسے ڈھونڈ لو گی... آہل اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

آف کورس.. وہ طمانیت سے بولی...

آہل نے ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کر لیا...

اب تم وضو کرو اور مجھے ترجمہ سناؤ.. وہ اشتیاق سے بولی...

لیکن تم عیسائ ہو... آہل تعجب سے بولا..

میں بعد میں تمہیں بتاؤں گی اب پلیز... وہ معصومیت سے بولی...

آہل نا چاہتے ہوۓ بھی اٹھ گیا...

آہل باوضو ہو کر قرآن پکڑے بیٹھا تھا...

آنا میں کہاں سے ترجمہ تمہیں سناؤں میرا مطلب کوئ خاص ٹاپک,, آہل الجھ کر اسے دیکھنے لگا...

تم ایسا کرو کسی پیغمبر کے نام سے جو سورت ہے اس کا سنا دو... آنا سوچتی ہوئ بولی..

آہل تھوک نگلتا دیکھنے لگا...

آہل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کس سورت کا انتخاب کرے...

ٹھیک ہے میں تمہیں سورۃ ہود کا ترجمہ پڑھ کر سناتا ہوں... آہل کہتا ہوا سورۃ کھولنے لگا...

آنا سر پر دوپٹہ لیے توجہ سے اسے دیکھ رہی تھی...

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔

آیت نمبر 1

یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں, پھر تفصیل کی گئیں, حکمت والے خبردار کی طرف سے...

آیت نمبر 2

کہ بندگی نہ کرو مگر اللہ کی, بیشک میں تمہارے لیے اسکی طرف سے ڈر اور خوشی سنانیوالا ہوں..


ڈر سنانے سے مراد قیامت کی ہولناکیاں بتانا کفر کرنے کے بدلے جو عذاب تیار کیا گیا ہے وہ بتانا تاکہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہو اور وہ غلط راستہ چھوڑ دیں..

اور خوشی... آنا نے اسے ٹوکا...

خوشی ان کے لیے ہے جو نیک صالح کام کرتے ہیں اللہ کو راضی کرتے ہیں ان کے لیے جنت کی نوید ہے جہاں انسان ہمیشہ رہے گا اور وہ بہترین جگہ ہے...

آیت نمبر 3

اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا دے گا ایک ٹھراےُ وعدہ تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچاےُ گا اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں.


یعنی جو اللہ کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے آئیندہ کے لیے نیک عمل کرنے کی توفیق عطا کرے گا,, مطلب پہلا قدم ہمیں اٹھانا ہے جب ہم اللہ کی جانب قدم بڑھائیں گے تو اللہ بھی ہمیں سیدھے راستے پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے گا...

یہاں وعدے سے مراد قیامت ہے جس دن نیکیوں اور بدیوں کی جزاوسزا ملے گی... اس دن کوئ بھی نہیں بچ سکے گا معمولی سے معمولی گناہ ہمارے عذاب کا باعث بن سکتا ہے اور معمولی سے معمولی نیکی بھی ہماری نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے,, منحصر کرتا ہے نیت پر اور اللہ نیتوں کو دیکھتا ہے...

تم نے شاید سنا ہو اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے...

آیت نمبر 4

تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے...


یعنی موت کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے... آہل بولتا جا رہا تھا اور دل پر جمی گرد صاف ہوتی جا رہی تھی دل پر جمی برف پگھلتی جا رہی تھی...

وہ ہر شے پر اس طرح قادر ہے کہ روزی دینا,, موت دینا پھر موت کے بعد زندہ کرنا ان سب پر صرف اللہ قدرت رکھتا ہے,, آنا کیا تمہارے ڈاکڑز کسی کو مرنے سے بچا سکیں ہیں اتنی کامیابی کے بعد بھی لوگ ان کے ہاتھوں میں جان دے دیتے ہیں کیوں,, کیا وہ کسی مردے کو زندہ کر سکتے ہیں تمہاری سائنس بہت آگے بڑھ رہی ہے لیکن کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جاےُ وہ وہیں تک محدود رہے گی جہاں تک اللہ چاہتا ہے جو کام اللہ کرنے پر قادر ہے وہ کوئ نہیں کر سکتا...

آنا دم سادھے اسے سن رہی تھی دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی اپنے کیے گےُ اعمال کو لے کر...

آیت نمبر 5

سنو وہ اپنے سینے دوہرے کرتے ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے بےشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے...


حضور کے زمانے میں منافق حضرت محمد کے سامنے خوشامد کی باتیں کرتے تھے جبکہ دلوں میں بغض اور عداوت رکھتے تھے,, وہ لوگ اپنے سینے میں عداوت ایسے چھپاتے تھے جیسے کپڑے کی تہ میں کوئ چیز چھپائ جاتی ہے.. بعض ایسا کرتے تھے کہ حضور کو دیکھ کر چہرہ جھکا لیتے تاکہ آپ انہیں دیکھ نہ سکیں ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئ کہ وہ جو کچھ اپنے دل میں رکھتے ہیں اللہ سب جانتا ہے ان کے ظاہر کو بھی اور باطن کو بھی..

آیت نمبر 5

اور زمین پر چلنے والا کوئ ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو, اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھرے گا اور کہاں سپرد ہو گا, سب کچھ ایک صاف بیان کرنیوالی کتاب میں ہے..

ٹھرے گا سے مراد یعنی وہ جانتا کے فلاں بندے کی رہائش کہاں سے اور سپرد سے مراد موت ہے یعنی دفن ہونے کی جگہ...

آیت نمبر 6

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا کہ تمہیں آزماےُ تم میں کس کا کام اچھا ہے اور اگر تم فرماؤ کہ بےشک تم مرنے کے بعد اٹھاےُ جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو...


عرش کے نیچے پانی کے سوا کوئ مخلوق نہ تھی اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ عرش اور پانی آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پہلے تخلیق کیے گےُ... یعنی آسمان اور زمین کی درمیانی کائنات کو پیدا کیا تاکہ انسانوں کو آزما سکے کہ کون شکر گزار ثابت ہوتا ہے کون پرہیزگار ثابت ہوتا ہے اور کون منکر...

آیت نمبر 7

اور اگر ہم ان سے عذاب کچھ گنتی کی مدت تک ہٹا دیں تو ضرور کہیں گے کس چیز نے روکا ہے سن لو جس دن ان پر آےُ گا ان سے پھیرا نہ جائیگا اور انہیں گھیرے گا وہی عذاب جس کی ہنسی اڑاتے تھے...


مطلب... آنا الجھ کر اسے دیکھنے لگی..

مطلب یہ کہ جب حضور پاک لوگوں کو قیامت کے متعلق بتاتے تو کفار کہتے کہ ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا دیر کیوں ہو رہی ہے,, وہ مذاق بناتے تھے اس بات کا...

آنا اثبات میں سر ہلانے لگی....

آیت نمبر 8

اور اگر ہم آدمی کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں پھر اسے اس سے چھین لیں ضرور وہ بڑا ناامید ناشکرا ہے...


یعنی اگر ہم پر اللہ کوئ عنایت کرتا ہے پھر اس چیز کو ہم سے چھین لیتا ہے تو ہم ناامید ہو جاتے ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں ایسے وقت میں صبر کرنے کی بجاےُ گزشتہ نعمت کی بھی ناشکری کرتے ہیں.ایک آنسو آہل کی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا...

آیت نمبر 9

اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی تو ضرور کہے گا کہ برائیاں مجھ دے دور ہوئیں بےشک وہ خوش ہونے والا بڑائ مارنے والا ہے..

آیت نمبر 10

مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے ان کیلیے بخشش اور بڑا ثواب ہے...


آہل کے چہرے پر اداسی کے ساےُ تھے...

آیت نمبر 11

تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے اس میں سے کچھ تم چھوڑ دو گے اور اس پر دل تنگ ہو گے اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئ خزانہ کیوں نہ اترا یا ان کیساتھ کوئ فرشتہ آتا تم تو ڈر سنانے والے ہو اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے...


کفار آپ کا تمسخر اڑاتے تھے کہ اگر آپ نبی ہیں تو اللہ نے آپ کے ساتھ کوئ خزانہ یا فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا,, اس پر یہ آیت نازل ہوئ...

آیت نمبر 12

کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے جی سے بنا لیا تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائ ہوئ دس سورتیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جو مل سکیں سب کو بلا لو اگر تم سچے ہو..

آیت نمبر 13

تو اے مسلمانو اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہ ہی کے علم سے اترا ہے اور یہ کہ اسکے سوا کوئ سچا معبود نہیں تو کیا اب تم مانو گے..

آیت نمبر 14

جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ دیں گے..

آیت نمبر 15

یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آگ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوۓ جو ان کے عمل تھے...


یہ آیت مشرکوں کے لیے نازل ہوئ یعنی وہ دنیا میں اگر کوئ اچھا کام کرتے ہیں مطلب محتاجوں کو دینا یا کسی پریشان حال کی مدد کرنا تو اس کا بدلہ اللہ انہیں دنیا میں ہی کثرت مال ,اولاد یا صحت کی صورت میں دے دیتا ہے آخرت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں..

آیت نمبر 16

تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس پر اللہ کی طرف سے گواہ آےُ اور اس سے پہلے موسی کی کتاب پیشوا اور رحمت وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں تو آگ اس کا وعدہ ہے تو اے سننے والے تجھے کچھ اس میں شک نہ ہو بےشک وہ حق ہے تیرے رب کیطرف سے لیکن بہت آدمی ایمان نہیں رکھتے.


حضرت محمد نے فرمایا اسکی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد کی جان یے اس امت میں جو کوی بھی ہے یہودی ہو یا نصرانی جس کو بھی میری خبر پہنچے اور وہ میرے دین پر ایمان لاےُ بغیر مرجاےُ وہ ضرور جہنمی ہے...

پہلے چاہے یہودی ہو یا نصرانی لیکن حضور کے بعد صرف اسلام کے ہی پیروکار ہوں اگر نجات چاہتے ہیں تو..

آیت نمبر 17

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا ارے ظالموں پر خدا کی لعنت...


روز قیامت انیباء اور ملائکہ گواہی دیں گے ایسے لوگوں پر جو اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے....

آیت نمبر 18

جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں اور وہی آخرت کے منکر ہیں..

آیت نمبر 19

وہ تھکانے والے نہیں زمین میں اور نہ اللہ سے جدا ان کے کوئ حمایتی انہیں عذاب پر عذاب ہو گا وہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے...


یعنی اللہ جب چاہے انہیں عذاب دے سکتا ہے کیونکہ وہ اللہ کی زمین میں ہے جہاں ان کا کوئ حمایتی نہیں کہ انہیں عذاب سے بچائیں ان کی مدد کریں,,وہ اللہ کے ملک میں ہیں نہ اس سے بھاگ سکتے ہیں نہ بچ سکتے ہیں..

آیت نمبر 20

وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں اور ان سے کھوئ گئیں جو باتیں جوڑتے تھے..

آیت نمبر 21

خواہ نخواہ وہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہیں...

آیت نمبر 22

بےشک جو ایمان لاےُ اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لاےُ وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے...

آیت نمبر 23

دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہے اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا دونوں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے...


یعنی جو حق اور سچ کو سن کر بھی اس کی جانب نہ آےُ اس کی مثل اندھے اور بہرے کی مانند ہے کہ جسے نہ کچھ دکھائ دیتا ہےنہ سنائ دیتا ہے اور جو اس راہ مستقیم پر چل پڑے وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی تبھی تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے بتاےُ ہوۓ راستے پر چل پڑا اگر وہ بھی اندھا اور بہرا ہوتا تو سیدھے راستے کی بجاےُ گمراہی کی راہ پر گامزن ہوتا...

آنا آنسو صاف کرتی چلی گئ...

ہم جیسوں کا شمار کن لوگوں میں ہو گا,, آہل خود کلامی کر رہا تھا...

ہم بھی تو سب دیکھتے ہیں سنتے ہیں بلکہ جانتے بوجھتے ہوۓ غلط کام کرتے ہیں اور شیطان کے بتاےُ ہوۓ راستے پر چلتے ہیں ہم کیسے مسلمان ہیں سالوں سال گزر جاتے ہیں قرآن اٹھا کر نہیں دیکھتے ایک کونے میں اسے سجا کر رکھ دیتے ہیں اور یہ غیر مسلم سمجھتے ہیں ہم بہت اچھے مسلمان ہیں کیونکہ ہم نو مسلم پر زندگی تنگ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں خامیاں نکالیں گے اور کبھی اپنا موازنہ نہیں کیا,, سچ میں انسان کو اپنا موازنہ کرنا چائیے تاکہ معلوم ہو کل وہ کہاں کھڑا تھا اور آج کہاں,,, آہل کو اپنا آپ کسی دلدل میں دھنسا محسوس ہو رہا تھا جس کی ماں اسے دین سکھاتی رہی آج اس نے اسی دین کو چھوڑ رکھا تھا,, آہل سانس خارج کرتا باہر دیکھنے لگا,, See less

غلط غلط ہی ہوتا ہے چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو چاہے بڑے پیمانے پر,, ہم لوگ گناہ صرف اس گناہ کو سمجھتے ہیں جو گناہ کبیرہ ہو,, چھوٹے چھوٹے گناہ کو ہم معمولی سمجھتے ہیں ان کی خیر ہے ایسا کر کے شیطان کو راضی کرتے ہیں,, حیرت کی بات ہے ہم جس کا کھاتے ہیں جس کے بندے ہیں اسی کو بھول جاتے ہیں اسے راضی کرنے کی بجاےُ شیطان کو راضی کرتے ہیں,, یہ جو دن بھر ہم چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے ہیں نہ یہی ہمیں رسوا کریں گے حساب ان کا بھی دینا ہے,, کبھی ایک دن بیٹھ کر سوچنا میں دن بھر کیا کرتا ہوں اور پھر دیکھنا کون سا کام ہے جس کام سے اللہ نے منع کیا اور ہم دھڑلے سے سرزد کر رہے ہیں اس میں کسی اور کا نہیں صرف ہمارا خسارہ ہے دنیا تو فانی ہے ایک دن تمام ہو جاےُ گی لیکن وہ جو بعد کی دنیا ہے نہ وہ تمام نہیں ہو گی ہمیں اس دنیا میں ناچ گانے یا غیبت برائ کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ ان سے بچ کر ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے بھیجا ہے....

آہل تم ابھی چھوٹے ہو یہ باتیں اپنے دماغ میں بٹھا لو جب آغاز سے ہی بنیاد درست نہ بنائ جاےُ تو اختتام اچھا ہو گا کبھی توقع مت رکھنا,, زندگی سب کو موقع نہیں دیتی وقت بدلنے کے لیے,, زندگی سب کو ملتی ہے کوئ اسے سنوار لیتا ہے اور کوئ آخرت کو تمہیں بھی اپنے راستے کا تعین خود کرنا ہے یہ چند روزہ زندگی یا پھر وہ اخروی زندگی جہاں ہمیشہ رہنا ہے...

مام,, آہل نے روتے ہوۓ چہرہ ہاتھوں میں گرا لیا...

آپ کی باتیں میں بھول گیا تھا آج مجھے یاد آ رہی ہیں,, آپ کے اتنا سمجھانے کے باوجود آہل حیات نے سب بھلا دیا پھر سے اس دنیا کے لیے جینے لگا یہ دنیا جو صرف ایک فریب ہے...

آہل سانس خارج کرتا قرآن اٹھا کر اندر لے آیا,, آنا کہاں رکھنا ہے... وہ آنا کے کمرے کے دروازے میں کھڑا ہو کر بولا..

سامنے کمرے میں جاؤ وہاں شیلف پر سب سے اوپر رکھ دینا... آنا کھڑکی میں بیٹھی تھی چہرہ باہر کی جانب تھا...


دانی آہل کی ڈائری پکڑے بیٹھی تھی,, ابھی کھولی ہی تھی کہ ہوا سے صفحے الٹنے لگے...

وہ پینٹ شرٹ پہنے آنکھوں پر گاگلز لگاےُ, سیاہ بالوں کو کھولے جو ہوا سے باتیں کر رہے تھے,, تفخر سے چلتی ہوئ جا رہی تھی..

جی ڈیڈ میں آسڑیلیا پہنچ چکی ہوں,, لیکن مجھے لگا تھا آپ نے کسی کو بولا ہو گا کہ مجھے ریسیو کرنے آئیں لیکن,,, دُر عدن نے ہنکار بھر کر بات ادھوری چھوڑ دی...

میں نے اپنے ایک دوست کو کہا تھا تم وہیں رکو میں فون کرتا ہوں... انہوں نے کہ کر فون بند کر دیا..

دُر عدن فون کو گھورنے لگی...

اس کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ ہر گزرنے والے کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیتی اس پر اس کا ظالم ڈمپل...

زبیر کی آواز پر دانی نے ڈائری بند کر دی اور اپنے نیچے چھپا لی...

دانین تم نے کھانا نہیں کھایا,, وہ خفگی سے دیکھتے ہوۓ بولے..

وہ ڈیڈ ابھی بھوک نہیں لگی تھی اس لیے... دانی جبراً مسکراتی ہوئ بولی..

زبیر کے جاتے ہی دانی نے پہلا صفحہ کھول لیا..

25 دسمبر 2008 کی وہ رات تھی جب چاچو کا فون آیا...

آہل ہاسٹل میں تھا,,

یار کلب نہیں جانا میری مام نے سختی سے منع کیا یے..آہل گھورتا ہوا بولا..

ممی ڈیڈی بواےُ,, کب تک مام کی سنتے رہو گے چلتے ہیں دیکھنا وہاں جا کر تمہیں ہوش ہی نہیں رہے گا...

سب بےہوش ہو جائیں گے تو لاشیں کون لاےُ گا... آہل کشن مارتا ہوا بولا..

ایک منٹ... آہل کا فون رنگ کرنے لگا تو سب کو اشارے سے خاموش رہنے کو بولا..

جی چاچو...

آہل تم واپس آ جاؤ...

چاچو خیریت ایسا کیا ہو گیا,,

میں ایسے تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا تم بس اپنا سامان پیک کرو اور نکلو یہاں سے...

چاچو آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے نہ... آہل بولتا ہوا کھڑا ہو گیا...

وہ اردو میں بات کر رہا تھا اور باقی سب سمجھنے سے قاصر تھے...

میں نے تمہاری ٹکٹس کانفرم کروا دی ہیں تم بس نکلنے کی تیاری کرو اور ہاں اپنا چہرہ چھپا کر رکھنا کسی کو بھی معلوم نہیں ہونا چائیے تم پاکستان آ رہے ہو...

لیکن چاچو میں ایسے کیسے,, ہیلو چاچو,, آہل بول رہا تھا لیکن کال ڈراپ ہو گئ...

________

آنا تم نے بتایا نہیں...آہل کافی کا مگ لیے اس کے سامنے آ بیٹھا...

تم جانتے ہو میری مام عیسائ تھیں لیکن جب موت نے انہیں اپنی بانہوں میں لیا تو وہ مسلمان تھیں,, وہ مجھے کہتی رہتی کہ آنا مرنا تو مسلمان کی حالت میں,, بار بار کہتی کہ میں قرآن پڑھو سمجھو شاید میں اسلام قبول کر لوں تم جانتے ہو وہ میرے سامنے قرآن کھول کر بیٹھ جاتیں اور مجھے ترجمہ سنانے لگتیں لیکن میں ہیڈ فونز لگا لیتی تاکہ ان کی بات نہ سن سکوں...

تو پھر اب کیوں سن رہی ہو..

جب سے ان کی ڈیتھ ہوئ ہے وہ اکثر میرے خواب میں آتیں ہیں اور ناراض رہتی ہیں مجھ سے...

اسی لیے تم نے مجھے کہا...

ہاں اسی لیے جب تم آےُ تو میں نے سوچا تم سے مدد لی جاےُ... آنا کی آنکھوں میں اداسی کے ساےُ تھے..

تمہاری مام ایک اچھی انسان تھیں... آہل کافی کا سپ لیتا ہوا بولا..

دانی کی آنکھیں گرے کلر کی ہیں نہ.. آنا اشتیاق سے بولی,,,

ہاں,, آہل کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئ...

آنا دلچسپی سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی,,

تم نے بہت اچھی سورت سنائ میرے دماغ میں جو سوالات تھے ان کے جواب مل گۓ...

آنا اسے خاموش دیکھ کر گویا ہوئ...

آہل دھیرے سے مسکرایا...

آج ہم دانی کو ڈھونڈنے نہیں جائیں گے کیا... آہل اسے گھر کے حلیے میں دیکھتا ہوا بولا..

ضرور جائیں گے مجھے بس دو منٹ دو... آنا کھڑی ہوتی ہوئ بولی..

آہل سر ہلاتا باہر نکل گیا..

پانچ منٹ بعد آنا کپڑے چینج کر کے اس کے سامنے کھڑی تھی..

آہل نے منہ پر رومال باندھ رکھا تھا,, ویل یہ بھی ٹھیک ہے,, آنا گاڑی میں بیٹھتی ہوئ بولی..

دانی کی تصویر مجھے واٹس ایپ کر دو... آنا باہر دیکھتی ہوئ بولی..

************

دانی آج مجھے آہل کو فون کرنا ہے اسکے لیے تمہیں بھی تیاری کرنی یے..

کیسی تیاری ڈیڈ... دانی الجھ کر دیکھنے لگی...

تمہارے چہرے پر ایسے نشان بنانے ہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ تم پر تشدد ہوا ہے,,

لیکن کیوں ڈیڈ..

آہل کو میں جانتا ہوں وہ ایسے بات مانے گا وہ خالی دھمکی سمجھے گا میری بات کو...

ٹھیک ہے ڈیڈ.. دانی منہ بناتی ہوئ بولی..

کبھی دانی کا دل چاہتا آہل کو فون کر کے سب بتا دے لیکن جیسے ہی سب یاد آتا پھر سے تلخی عود آتی,, وہ کشمکش میں مبتلا تھی اس کا دل مطمئن نہیں تھا..

آہل کے فون پر زبیر کی کال آنے لگی...

بولو,, آہل سپاٹ انداز میں بولا..

مجھے لگتا ہے تمہارے لیے دانی بلکل اہمیت نہیں رکھتی تبھی تو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہو,,.

جو بکواس کرنی ہے وہ کرو.. آہل ضبط کرتا ہوا بولا...

دانی کی سلامتی چاہتے ہو تو تم ٹکٹ لینے سے انکار کر دو گے,, تم الیکشن میں کھڑے نہیں ہو گے..

دانی کو بھی میں اپنے پاس لے آؤں گا اور الیکشن بھی میں ہی جیتوں گا... آہل چبا چبا کر بولا..

سوچ لو دانی کی زندگی کا سوال ہے...

زبیر اگر تم نے دانی کو ہاتھ بھی لگایا تو...

ایک منٹ یہ خود دیکھ لو,, زبیر نے کہ کر کیمرہ آن کر دیا,,

ہلکی سی روشنی میں دانی کرسی پر بیٹھی دکھائ دے رہی تھی چہرے پر نیل پڑے ہوۓ تھے ناک سے خون بہ رہا تھا,, دانی کو رسیوں میں جکڑا ہوا تھا,, آہل تڑپ کر اسے دیکھنے لگا..

زبیر میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا... آہل کا بس نہیں چل رہا تھا اسے فون سے باہر کھینچ لے..

زبیر نے دانی کے بال دبوچ کر چہرہ اونچا کیا..

آہ,, دانی کراہ کر اسے دیکھنے لگی..

آہل پلیز مجھے بچا لو ڈیڈ پتہ نہیں کیوں ایسے کر رہے ہیں ,, آہل پلیز کچھ کرو.. دانی روتی ہوئ بول رہی تھی...

آہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی,, آنا افسوس سے دانی کو دیکھنے لگی...

زبیر کیمرہ بند کر کے وائس کال پر آ گۓ..

ہاں اب بتاؤ کیا کہ رہے تھے تم الکیشن میں کھڑے ہو گے...

تم دانی کو کچھ نہیں کرو گے اور اگر اسے مزید ایک کھروچ آئ تو میں تمہیں زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا,,

جو کرنا ہو گا بعد میں کرنا جب مجھے ڈھونڈ لو گے ابھی کا بتاؤ میرے پاس وقت نہیں ہے دانین کو دو دن سے بھوکا رکھا ہوا یے نہ,,

آہل کا دماغ مفلوج ہوتا جا رہا تھا,,

ٹھیک ہے میں ٹکٹ نہیں لوں گا لیکن تم دانی کو کوئ تکلیف نہیں دو گے.. آہل ضبط کرتا ہوا بولا,,.

ثبوت دے دو میں دانی کو تنکا بھی چبھنے نہیں دوں گا,, زبیر کال بند کرتے ہوۓ بولے..

آہل فون ڈیش بورڈ پر پھینکتا سیٹ پر سر گرا گیا,,

تم ٹھیک ہو.. آنا فکرمندی اس کا بازو ہلاتی ہوئ بولی.

آہل نے ہاتھ کے اشارے سے باز رہنے کو بولا..

آنا لب بھینچے باہر دیکھنے لگی...

رفیق پاکستان فون کر کے پارٹی کو بتا دو کہ آہل حیات اس بار الیکشن میں کھڑا نہیں ہو گا میرا ٹکٹ کسی اور میمبر کو دے دیں..

لیکن سر کیوں.. رفیق تعجب سے بولا,,

زبیر نے شرط رکھی ہے,, دانی کی زندگی کے لیے,,

جی سر ٹھیک ہے,,رفیق افسوس سے بولا..

آہل نے فون بند کر دیا...

آنا واپس چلو....

لیکن ابھی تو ہم...

کل دیکھ لیں گے ابھی واپس چلو.. آہل سپاٹ انداز میں بولا..

آنا نا چاہتے ہوۓ بھی گاڑی ریورس کرنے لگی... آہل گھر آتا سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا..

آہل نے سیگرٹ سلگائ جیسے ہی وہ لبوں کے پاس لایا اس کے ہاتھ کپکپانے لگے,,

آہل نے ایش ٹرے میں مسل دیا سیگرٹ کو اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھڑکی میں کھڑا ہو گیا..

دانی کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں,, تم تکلیف میں ہو اور میں کچھ نہیں کر رہا, معاف کر دینا مجھے دانی,, میرے ساتھ رہتے ہوۓ تمہیں وہ زبیر اتنی دور لے آیا,, آنسو گر کر اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے,,

لیکن دیکھنا میں تم تک پہنچ جاؤں گا تمہیں اس تکلیف سے بچا لوں گا,, دانی کا درد آہل کو محسوس ہو رہا تھا,,

دانی چہرہ صاف کر کے ٹیرس پر آ گئ...

جب سے آہل کو دیکھا تھا آنکھیں برستی جا رہیں تھیں تھیں,, کیا ہو رہا یے مجھے,, دانی ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئ بولی, میرے لیے تم نے ڈیڈ کی بات مان لی آہل کیوں,تم مجھے استعمال کر رہے تھے تو پھر اب کیوں میری تکلیف تم سے برداشت نہیں ہوئ,, کہیں میں غلط تو نہیں کر رہی,, وہ ڈائری مجھے لگتا ہے سارے سوالوں کے جواب اسی میں ہیں, آہل حیات کیا یے مجھے اسی سے معلوم ہو گا,, دانی بولتی ہوئ چلنے لگی, دروازہ بند کر کے دانی نے ڈائری نکال لی...

چاچو آپ نے مجھے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا,, آہل ائیرپورٹ پر عاقب کو دیکھتا ہوا بولا..

آہل یہاں بہت مسئلے چل رہے ہیں تم گھر چلو بتاتا ہوں,, وہ آس پاس دیکھتا ہوا بولا,,

آہل نا سمجھی کے عالم میں اس کے ساتھ چلنے لگا..

چاچو ہم گھر کیوں نہیں جا رہے,, آہل راستے کا تعین کرتا ہوا بولا..

تمہارے ڈیڈ آج کل فارم ہاؤس پر ہیں,,

کیوں,, آہل کی پیشانی پر بل پڑ گۓ..

عاقب خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا..

تم ابھی خاموشی سے کمرے میں چلو صبح ملنا سب سے.. عاقب اسے دھکا دیتے ہوےُ بولا..

چاچو یہ سب کیا آپ مجھے ٹینشن دے رہے ہیں.. آہل مزاحمت کرتا ہوا بولا..

یہاں سب ہی ٹینشن میں ہیں,, وہ کمرے کا دروازہ لاک کرتا ہوا بولا..

یہاں گارڈز کیوں نہیں ہیں.. آہل آبرو اچکا کر بولا,,

مجھے نہیں معلوم..

یار آپ کو کچھ معلوم نہیں کچھ آپ بتانا نہیں چاہتے تو پھر مجھے آسڑیلیا سے کیوں بلایا.. آہل اکتا کر بولا..

خاموشی سے بیٹھ جاؤ... عاقب اسے بیڈ کی جانب دھکیلتا ہوا بولا..

عجیب ہیں آپ بھی... آہل کوفت سے کہتا بیڈ پر بیٹھ گیا...

عاقب خاموشی سے ئہلنے لگا...

اب قوالی شروع کریں.. آہل شرارت سے بولا..

آہل آلتی پالتی مار کر بیٹھا تھا..

عاقب مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا..

تمہاری مام... عاقب بول کر آہل کو دیکھنے لگا..

کیا ہوا مام کو,, پہلے والی شوخی غائب ہو گئ....عاقب سانس خارج کرتا دوسری جانب دیکھنے لگا,,

پچھلے چھ دن سے غائب ہیں..

واٹ,, اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں آپ لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا.. آہل کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی..

تمہیں پہلے بھی کہا یے دھیرے بولو,, سب سے چھپا کر لایا ہوں.. وہ آہل کے منہ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

مام کہاں ہیں بتائیں مجھے.. آہل بیڈ سے نیچے اترتا ہوا بولا...

نہیں جانتا میں.. عاقب مایوسی سے بولا..

میرے منہ پر پاگل لکھا ہے کیا آپ جیسے سیاسی لوگ یہ نہیں جانتے کہ میری مام کہاں ہیں.. آہل اس کا گریبان پکڑتا ہوا بولا..

آہل ریلیکس,, عاقب اسے شانوں سے تھامتا ہوا بولا..

میں کیسے ریلیکس ہو جاؤں.. آہل انہیں دھکا دیتا ہوا بولا..

آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ٹہلنے لگا..

چاچو آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں سب بتا دیں مجھے ورنہ اس شہر کے ایک ایک بندے کو جان سے مار دوں گا میں.. وہ طیش کے عالم میں بول رہا تھا...

اسی باعث تم لاعلم تھے تمہیں اس لیے نہیں بلایا کہ ساری دنیا کو بتاتے پھرو,,

پھر کیوں بلایا ہے..

تاکہ میری مدد کرو میرے ساتھ مل کر کام کرو لیکن تم.. وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا,,

ہاں تو مجھے کچھ بتائیں گے تو سمجھ آےُ گا نہ.. آہل تنک کر بولا..

آرام کرو بتاتا ہوں.. وہ کھانے کی ٹرے سامنے کرتے ہوۓ بولے..

آپ کو لگتا ہے میں کھانا کھاؤں گا.. آہل تیکھے تیور لیے بولا..

بلکل بھی نہیں لیکن اگر سب کچھ جاننا چاہتے ہو تو کھاؤ خاموشی سے....

ہوں,, سب دھمکی دے کر کام کرواتے... آہل ہنکار بھرتا ٹرے اپنے جانب کھسکاےُ عاقب کو گھورنے لگا..

جب تم سیاسی انسان بن جاؤ گے پھر پوچھوں گا تم سے...

اور میں تو آپ کو بتا دوں گا نہ... آہل خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا..

یار کھانا تو سکون سے کھا لو.. عاقب مسکراتا ہوا بولا..

دل تو چاہ رہا ہے آپ کو کھا لوں,, یار مجھے نہیں کھانا مجھے بتائیں مام کہاں ہیں.. آہل ٹرے پیچھے کرتا ہوا بولا..

عاقب جانتا تھا وہ نہیں کھاےُ گا لیکن پھر بھی سعی کی,,

تمہاری مام,,

ایک منٹ,, آہل نے ہاتھ کے اشارے سے روکا..

عاقب آبرو اچکا کر دیکھنے لگا..

کیا آپ کو آواز سنائ دی...

کیسی آواز...

شاید کتے بھونک ریے ہیں.. آہل بولتا ہوا کھڑکی پر آ گیا..

لیکن کتے,, مطلب کوئ گھر میں گھسا ہے... عاقب اس کی بات سمجھتا ہوا کھڑکی پر آ گیا....اندھیرے میں کچھ بھی دکھائ نہیں دے رہا تھا..

دور گیٹ کے پاس آہل کو ہیولہ سا دکھائ دیا,, میں صحیح تھا گھر میں کوئ گھسا تھا وہ دیکھو,, وہ اشارہ کرتا ہوا بولا..

عاقب آنکھیں چھوٹی کیے دیکھنے لگا..

پھر تیزی سے دونوں دروازے کی جانب لپکے,, جلدی کھولیں چاچو,,

لاک شاید خراب ہو گیا تھا,,

چاچو یہ کھل کیوں نہیں رہا... آہل کوفت سے بولا..

پتہ نہیں شاید,, عاقب دروازے پر ٹانگ مارتا ہوا بولا..

میرے ساتھ اسے توڑنے کی کوشش کرو.. عاقب شانہ دروازے پر مارتا ہوا بولا,,

آہل بھی دروازے کو دھکا مارنے لگا,,

یار اتنے مضبوط بنانے کی کیا ضرورت تھی آپ کو.. آہل کافی دیر کوشش کرنے کے بعد گویا ہوا,,

مجھے کیا معلوم,, کمرے سے کچھ بھاری اٹھاؤ.. عاقب عقب میں دیکھتا ہوا بولا..

دروازے پر دستک ہو رہی تھی,,

دانی نے سر اٹھا کر دیکھا, کوئ زور زور سے دروازہ بجا رہا تھا,,

دانی نے ڈائری کو احتیاط سے رکھا اور دروازے کی جانب آ گئ,, چہرے پر خوف کی لکریں تھیں,,

کیا کام یے,, دانی میڈ کو دیکھتی سانس خارج کرتی ہوئ بولی,,

شام ہوتے ہی آنا آہل کے کمرے میں آ گئ..

آہل سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا..

تم بھول گۓ.. وہ نیلی آنکھوں کو پھیلا کر بولی..

آہل اس کی بات سمجھتا اثبات میں سر ہلاتا اٹھ گیا..

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آیت نمبر 24

اور بےشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا, کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں..

آیت نمبر 25

کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو, بیشک میں تم پر ایک مصیبت والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں..

آیت نمبر 26

تو اس کی قوم کے سردار جو کافر ہوۓ تھے بولے, ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئ بڑائ نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں..

آیت نمبر 27

بولا اسے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو تم اس سے اندھے رہے کیا ہم اسے تمہارے گلے چپیٹ دیں اور تم بیزار ہو..

آیت نمبر 28

اور اے قوم میں تم سے کچھ اس پر مال نہیں مانگتا میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور میں مسلمانوں کو دور کرنے والا نہیں بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں تم کو نرے جاہل لوگ پاتا ہوں..


یہاں مسلمانوں کو دور کرنے سے مراد ہے کہ لوگ انہیں کہتے تھے کہ آپ ایماندار لوگوں کو اپنی محفل سے نکال دیں تاکہ ہم آپ کی مجلس میں بیٹھ سکیں تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کیسے انہیں نکال دوں کہ وہ اللہ کے قرب سے فائز ہونے کی غرض سے بیٹھے ہیں..

ان کی قوم نے ان پر تین شبہے کیے تھے ایک تو یہ کہ ہم تم میں اپنے اوپر کوئ بڑائ نہیں پاتے یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں,, دوسرا یہ کہ ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری کسی نے پیروی کی ہو, مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے مطلب یہ تھا کہ وہ بھی صرف ظاہر میں مومن ہیں باطن میں نہیں,, تیسرا یہ کہ ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں...

آیت نمبر 29

اور اے قوم مجھے اللہ سے کون بچا لے گا اگر میں انہیں دور کر دوں گا تو کیا تمہیں دھیان نہیں..

آیت نمبر 30

اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان لیتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں انہیں نہیں کہتا جن کو تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں کہ ہر گز انہیں اللہ کوئ بھلائ نہ دے گا اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے ایسا کروں تو ضرور میں ظالموں سے ہوں...


ان کے شبہات کے جواب میں یہ کہا,,

میں نے تو کہا ہی نہیں کہ میرے پاس خزانے ہیں تو تم کیوں موازنہ کر رہے ہو جس بات کا میں نے ذکر کیا ہی نہیں اور رہی بات ان کی جو مجھ پر ایمان لاےُ تو یہ کہ میں غیب کا علم نہیں رکھتا اس لیے میں نہیں بتا سکتا کہ ان کے دل میں کیا ہے,, تو کیا تم غیب کا علم رکھتے ہو جو کہ رہے کہ وہ بظاہر مومن تھے اندر سے نہیں,, میں اس بات کا دعوہ نہیں کرتا باوجودیکہ میں نبی ہوں پھر تم کیسے کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لاےُ..

تیسرا میں نے کبھی فرشتہ ہونے کا دعوی نہیں کیا تو تمہارا یہ شبہ بھی بے بنیاد ہے..

ہم کتنے آرام سے کہ دیتے ہیں کہ فلاں بندہ ایسا ہے فلاں ایسا ہے اس کا ایمان کمزور ہے تو اس کے دل میں یہ ہے,,, کسی کے دل میں کیا ہے یہ تو کوئ بھی نہیں جانتا سواےُ اللہ تو پھر ہم کیسے دعوے کر لیتے ہیں کہ اس کے دل میں یہ چل رہا ہے,,, جب آپ کسی کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو کیا آپ کو غیب کا علم ہوتا ہے؟؟؟

آیت نمبر 31

بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے آؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر تم سچے ہو...

آیت نمبر 32

بولا وہ تو اللہ تم پر لاےُ گا اگر چاہے اور ت تھکا نہ سکو گے...

آیت نمبر 33

اور تمہیں میری نصیحیت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جب کہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف پھرو گے..

آیت نمبر 34

کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنے جی سے بنا لیا تم فرماؤ اگر میں نے بنا لیا ہو گا تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں تمہارے گناہ سے الگ ہوں..

آیت نمبر 35

اور نوح کو وحی ہوئ کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہونگے مگر جتنے ایمان لا چکے تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں...

آیت نمبر 36

اور کشتی بناؤ ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوباےُ جائیں گے..

آیت نمبر 37

اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے ہیں اس پر ہنستے ہیں بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گے جیسا تم ہنستے ہو..

آیت نمبر 38

تو اب جان جاؤ گے کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے...

آیت نمبر 39

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور ابلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کر لے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ اور جن پر بات پڑ چکی ہے ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اور اس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے...

آیت نمبر 40

اور بولا اسمیں سوار ہو اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اسکا ٹھرنا بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے..

آیت نمبر 41

اور وہ انہیں لے جا رہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو..

آیت نمبر 42

بولا اب میں کسی پہاڑ کی پناہ لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا کہا آج اللہ کے عذاب سے کوئ بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے اور ان کے بیچ میں موج آڑے آئ تو وہ ڈوبتوں میں رہ گیا...

آیت نمبر 43

اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بےانصاف لوگ...

آیت نمبر 44

اور نوح نے اپنے رب کو پکارا عرض کی اے میرے رب میرا بیٹا بھی تو میرا گھر والا ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور سب سے بڑھ کر حکم والا..

آیت نمبر 45

فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں تو مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں میں تجھے نصحیت فرماتا ہوں کہ نادان نہ بن...


مطلب ان کا بیٹا کنعان منافق تھا آپ کے سامنے خود کو مومن ظاہر کرتا جب کہ مومن نہیں تھا اگر وہ آپ کے سامنے اپنا کفر ظاہر کر دیتا تو آپ اس کی نجات کی دعا نہ کرتے...

آیت نمبر 46

عرض کی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور رحم نہ کرے تو میں زیاں کار ہو جاؤں..

آیت نمبر 47

فرمایا گیا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کیساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر اور کچھ گروہ ہیں جنہیں ہم دنیا برتنے دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا..

آیت نمبر 48

یہ غیب کی خبریں ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے نہ تمہاری قوم اس سے پہلے تو صبر کرو بیشک بھلا انجام پرہیزگاروں کا..


ٹھیک ہے باقی کل... آہل قرآن بند کرتا ہوا بولا..

ہممم, آہل قرآن کتنا دلچسپ ہے نہ میرا مطلب آج جو تم نے سنایا ایسا معلوم ہو رہا تھا میں کوئ سٹوری سن رہی ہوں... وہ ابھی تک لفظوں کے سحر میں تھی...

ہاں لیکن یہ سب سچ ہے...

میں جانتی ہوں مام بھی کہتی تھیں قرآن سب سچ کہتا ہے حقیقت سے آشنا کرتا ہے شاید اب مام مجھ سے ناراض نہ ہوں...

لیکن تم نے ابھی تک کلمہ نہیں پڑھا... آہل قرآن رکھ کر اسے دیکھنے لگا...

ہاں کیونکہ میں ڈرتی ہوں...

کس بات سے... آہل الجھ کر اسے دیکھنے لگا..

کہ میں اسلام کے مطابق چل سکوں گی یا نہیں آہل میں ڈرتی ہوں اگر میں ٹھیک سے اللہ کے احکام پر عمل نہ کر سکی پھر...

آہل لاجواب ہو گیا,, وہ غیر مسلم ہو کر اس بارے میں سوچ رہی تھی کہ اگر وہ اللہ کے احکام نہیں بجا لاےُ گی تو کیا ہو گا اس کے دل میں اللہ کا خوف تھا اور ہم مسلمان ہو کر یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ہم اللہ کے احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں ایک حساب سے جھٹلا رہے ہیں قول سے نہیں لیکن فعل سے جس کام سے منع کیا گیا اسی کام کو کرتے ہیں آج کا مسلمان دیکھا جاےُ تو کیسا معلوم ہوتا ہے کام کے لیے نماز چھوڑ دیتا ہے قرآن پڑھنے کے لیے وقت نہیں لیکن کوئ نئی مووی آ جاےُ تو سب سے پہلے دیکھے گا,, نعت سننے میں قباحت محسوس ہوتی ہے اور گانے فخر سے سنتے ہیں کوئ نعت پڑھتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائ نہیں کریں گے اسے پسند نہیں کریں گے اور اگر کوئ گانے گاتا ہے تو اس کی واہ واہ کریں گے اس کے دیوانے ہو جائیں گے بڑے بڑے شاپنگ مال میں جا کر ہزاروں روپے لٹا دیں گے لیکن کسی غریب کو دیتے ہوۓ ہماری جان نکل جاتی ہے,, بیماری میں ڈاکڑ کھانے سے منع کرے گا تو کر لیں گے لیکن روزہ رکھنے کی توفیق نہیں ہو گی دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کر لیں گے اور جو ہمارا گھر ہے اس کے لیے سوچنے کی زحمت بھی نہیں کریں گے ہم جیسے لوگ محفل میں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں کسی کا مال کھانا غلط ہے سود کھانا حرام ہے لیکن اسی دولت کی خاطر خود ہر غلط کام کریں گے یہ سوچے بنا کہ پیسہ تو ایک دن ختم ہو جاےُ گا لیکن جس طریقے سے کمایا وہ کبھی نہیں مٹے گا,, آہل نے شرمندگی سے سر جھکا لیا,, ہم جیسے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں ہے...

آنا جب تم اسلام کے دائرے میں آ جاؤ گی تو اللہ تمہیں تمام فرض کی ادائیگی کی توفیق بھی دے گا... آہل کافی دیر بعد بولا..

جانتی ہوں لیکن پہلے میں خود کو تیار کرنا چاہتی ہوں پھر دائرہ اسلام میں قدم رکھنا چاہتی ہوں.. آنا دھیرے سے مسکرا دی..

لیکن آہل مسکرا نہ سکا وہ انجانے میں آہل کو آئینہ دکھا رہی تھی...

************

وہ آپ کے کپڑے پریس کرنے تھے...

دانی راستہ دیتی سائیڈ پر ہو گئ...

جلدی کرو.. دانی خفگی سے بولی..

وہ جلدی جلدی کپڑے لے کر نکل گئ...

دانی لاک کر کے پھر سے وہیں سے پڑھنے لگی,,

بھاری چھوڑیں میں کھڑکی سے کود رہا ہوں..

دھیان سے.. عاقب اسے کھڑکی سے لٹکتے دیکھ کر بولا..

فکر مت کرو آہل سپورٹس میں بہت اچھا ہے...

جیسے ہی آہل نیچے کودا عاقب بھی کھڑکی سے باہر نکل آیا..

آہل عاقب کا انتظار کیے بنا اندر آ گیا اور اندر کا منظر دیکھ کر آہل کا دماغ گھوم گیا اس نے دیوار کا سہارا لے لیا مبادہ گر ہی نہ جاےُ..

آہل کیا ہوا,,

سناٹا سن کر عاقب اندر آتا ہوا بولا لیکن جیسے ہی نظر عابد حیات کی لاش پر پڑی اپنی بصارت پر شبہ ہوا...

آہل تھوک نگلتا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگا,, آنسو منظر کو دھندلاتے جا رہے تھے...

عابد حیات کی لاش خون سے لت پت تھی چھاتی پر گولیوں کے نشان تھے وہ خون میں رنگ چکے تھے... ماربل کے فرق پر ان کا خون بہ رہا تھا,,

ڈیڈ,, آہل دوزانو بیٹھ کر ان کا منہ تھپتھپانے لگا..

ڈیڈ کیا ہوا آنکھیں کھولیں... وہ عابد حیات کا چہرہ تھپتھپا رہا تھا..

چاچو دیکھیں ڈیڈ... آہل برستی آنکھوں سے چہرہ موڑ کر بولا..

عاقب آہل کے ساتھ آ بیٹھا...

چاچو ڈیڈ کو بولیں نہ آنکھیں کھولیں پلیز آپ نے کہا تھا صبح بات کرنا سب سے لیکن ڈیڈ تو....وہ کبھی عابد حیات کو جھنجھوڑتا تو کبھی عاقب حیات کو...

عاقب آنسو بہاتا اپنے عزیز جان بھائ کی لاش کو دیکھ رہا تھا..

چاچو میں کیا بکواس کر رہا ہوں.. آہل اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر پرے دھکیلتا ہوا بولا,,

آہل سنبھالو خود کو.. وہ بامشکل بول پاےُ..

آپ کا دماغ ٹھکانے پر ہے میں کیسے سنبھالوں خود کو ڈیڈ اس حال میں میرے سامنے پڑے ہیں... آہل کو اس کی عقل پر شبہ ہوا...

آہل میرے بھائ سنبھال خود کو ابھی تو بہت سے زخم سہنا باقی ہیں... عاقب اسے گلے سے لگاتا ہوا بولا..

آہل کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا..

چاچو مجھے ڈیڈ سے باتیں کرنی تھیں لیکن وہ تو آنکھیں ہی نہیں کھول رہے ڈیڈ نے بولا تھا اب میں آؤں گا تو شکار پر چلیں گے بہت کچھ ڈیسائیڈ کیا تھا ہم نے چاچو یہ سب کیا ہو گیا... آہل زادوقطار رو رہا تھا..

ڈیڈ پلیز اٹھیں آنکھیں کھولیں دیکھیں آپ کا بیٹا آپ کا غرور آہل حیات آ گیا یے پلیز مجھ سے بات کریں ڈیڈ آپ ایسے نہیں کر سکتے.. وہ عابد حیات کو جھنجھوڑتا ہوا بولا..

عاقب خاموش آنسو بہا رہا تھا...

ڈیڈ میری بات سنیں پلیز ایک بات مجھ سے بات کرلیں مجھے دیکھیں گے بھی نہیں کیا پلیز آنکھیں کھولیں ڈیڈ.. آہل بلکتا ہوا ان کے سینے پر سر رکھے بولنے لگا,,

عاقب حیات چہرہ صاف کرتا کھڑا ہوا اور اندر چلا گیا...

ڈیڈ پلیز اٹھ جائیں نہ میں آپ کے لیے آیا ہوں اور آپ مجھ سے بات ہی نہیں کر رہے... آہل دیوانہ وار بول رہا تھا...

آہل میری بات سنو غور سے.. عاقب اس کا سر عابد حیات کے سینے سے اٹھاتے ہوۓ بولے..

کیا.. بولتے ہی آہل کی آنکھ سے دو موتی ٹوٹ کر زمین بوس ہو گۓ...

یہ کام زبیر رنداوھا کا یے اور جیسے میں تمہیں بولوں گا تم ویسے کرو گے میری بات سمجھ رہے ہو نہ... عاقب اسے شانوں سے جھنجھوڑتے ہوۓ بولے..

لیکن چاچو,,

اب تم خاموش رہو گے بلکل خاموش,, تمہارے ڈیڈ کا قتل ہوا ہے یہ بھی کسی کو معلوم نہیں ہونا چائیے میں نہیں چاہتا بھائ کی لاش کی بےحرمتی ہو پوسٹ ماٹم کے باعث,,

لیکن..

عاقب نے گھور کر اسے خاموش کروایا..

اس ملک میں کسی کو انصاف ملا ہے,,

نہیں,, آہل مایوسی سے بولا..

ہمیں بھی نہیں ملے گا اس لیے ہم خود اپنا انصاف لیں گے تم سمجھ رہے ہو نہ,,

جی چاچو لیکن ڈیڈ,,

آہل مرد بنو وہ جا چکے ہیں اس دنیا سے ہم انہیں واپس نہیں لا سکتے لیکن ان کا بدلہ ضرور لے سکتے ہیں اور اس کے لیے تمہیں میری ہر بات ماننی پڑے گی سمجھ رہے ہو نہ.. عاقب اس کا منہ تھپتھپاتے ہوۓ بولا جو کہ عابد حیات کی جانب تھا..

جی چاچو,

اپنا منہ بند رکھنا ہے تم نے,,

تم کل آسڑیلیا ہے واپس آؤ گے بھائ کے پرائیوٹ جیٹ میں,, ساری دنیا کے لیے..

ٹھیک ہے چاچو,, آہل بےجان سا دکھائ دے رہا تھا..

باقی باتیں بعد میں,, میں رفیق کو بلواتا ہوں وہ ہمارے ساتھ کام کرواےُ گا اٹھو اب..

عاقب اسے کھڑا کرتے ہوۓ بولے..

لیکن چاچو میں ڈیڈ کو دیکھنا,,,

پاگل مت بنو آہل میں ایک بھائ کو کھو چکا ہوں اب دوسرے بھائ کو کھونے کا حوصلہ نہیں مجھ میں...

آہل سر جھکاےُ ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا..

تم باہر نہیں نکلو گے کمرے سے...

یہ عجیب پاگل پن ہے میرے ڈیڈ کوئ گولیاں مار کر چلا گیا اور میں کمرے میں چھپ کر بیٹھ جاؤں..

میں نے کیا کہا تھا میری بات مانو گے تم... عاقب سختی سے بولا..

آہل سر جھٹکتا ٹہلنے لگا,,

آنکھوں میں لہو دوڑ رہا تھا,, دماغ میں اگر کوئ نام تھا تو صرف زبیر رنداوھا کا,,

کافی پیو گے... آنا کافی کا مگ آہل کے سامنے کرتی ہوئ بولی,,

آہل ٹیرس پر اکیلا بیٹھا تھا جب آنا وہاں نمودار ہوئ,,

تھینک یو,, آہل کپ پکڑتا ہوا بولا..

تمہاری شادی کب ہوئ,, آنا کافی پیتی ہوئ بولی..

آہل خاموشی سے بھاپ اڑاتی کافی کو دیکھنے لگا..

دانی تم سے چھوٹی ہے نہ...

ہاں,, آہل نے مختصر سا جواب دیا..

مجھے لگتا ہے تم کم گو ہو,,

نہیں میں بس تنہائ پسند ہوں,, آہل سپ لیتا ہوا بولا,,

دانی بہت لکی یے اسے ایسا چاہنے والا ملا ہے,, آنا کی نظریں آہل کے گرد طواف کر رہیں تھیں اور آہل بخوبی واقف تھا,,

پتہ نہیں,, آہل شانے اچکاتا ہوا بولا,,

تم چلو گے,, آنا کھڑی ہوتی ہوئ بولی,,

کہاں,, آہل چہرہ اٹھا کر اسے دیکھتا ہوا بولا,,

واک پر جا رہی ہوں ساتھ میں دانی کے بارے میں بھی معلوم کروں گی,,

نہیں تم چلی جاؤ,, آہل کی آنکھوں میں اداسی کے ساےُ تھے,,

آہ,, دانی,, آہل آہ بھرتا آسمان کو دیکھنے لگا,,

میں ہار گیا دانی ایک بار پھر سے,,تمہیں بھی کھو دیا میں نے,, شاید میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے کچھ بھی نہیں,, آنسو اس کے رخسار پر آ گرے,, دانی خود تو گئ تھی ساتھ میں آہل کی مسکراہٹ بھی لے گئ تھی,,,

پتہ نہیں دانی کس حال میں ہو گی زبیر جیسے انسان سے ہر قسم کی توقع کی جا سکتی ہے کاش میں دانی سے غفلت نہ برتتا,, میرے باعث وہ تکلیف میں ہے میری دانی درد میں ہے اور میں یہاں بیٹھا ہوں,,

آسڑیلیا ہمیشہ میرے لیے برا ثابت ہوا ہے آج بھی برا ہی معلوم ہو رہا,,, پلیز اللہ تعالیٰ دانی کو کچھ مت ہونے دینا اس کی حفاظت کرنا,, دس سال بعد آہل کے دل سے دعا نکلی,,

آہل جس نے دعا مانگنا ترک کر دیا تھا کیونکہ اسے یقین نہیں رہا تھا آج دانی کی حفاظت کے لیے اس کا دل دعا گو تھا انسان کچھ بھی کر لے اللہ کے سامنے بےبس ہے کتنی ہی طاقت کا مالک کیوں نہ بن جاےُ لیکن اللہ اسے اپنے سامنے جھکا لیتا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہو جاےُ کہ صرف اللہ قدرت رکھتا ہے بندہ کچھ نہیں کر سکتا,, آہل بےبسی کی انتہا پر تھا...


ناظرین آپ کو آگاہ کرتے چلیں وزیر اعلیٰ آہل حیات نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا ہے انہوں نے ٹکٹ لینے سے منع کر دیا ان کا کہنا ہے وہ اس بار الیکشن نہیں لڑیں گے الیکشن کے قریب آ کر ان کا یہ بیان خاصا حیران کن ہے عوام کشمکش میں مبتلا مزید بتاتے چلیں چند روز پہلے آہل حیات نے کسی ایمرجنسی کے باعث اپنا جلسہ منسوخ کر دیا تھا اور اس کے بعد سے وہ دکھائ نہیں دئیے,, ذرائع کے مطابق وہ بیرون ملک ہیں لیکن کس کام کے سلسلے میں وہ گےُ ہیں اس کی تفصیل ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ وہ کس ملک میں رہائش اختیار کیے ہوۓ ہیں,, اس وقت ان کا یہ انکشاف بہت سی باتوں کو جنم دے رہا یے عوام ان کے بیان پر خفا اور رنجیدہ ہے,, زبیر ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ اس بریکنگ نیوز کو سن رہے تھے اور چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی,,


دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان لفظوں کو پڑھ رہی تھی,,

ڈیڈ,, آپ نے آہل کے ڈیڈ کو مارا,, دانی منہ پر ہاتھ رکھے آواز دبانے کی کوشش کرنے لگی چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,, آہل میں تمہیں کتنا غلط سمجھتی رہی جبکہ تم حق پر تھے,, تم سچ کہ رہے تھے عاقب حیات کے لیپ ٹاپ میں کوئ ثبوت ہو گا تبھی تم نے مجھے کہا مجھ پر بھروسہ کیا اور میں نے ڈیڈ کو بتا دیا,, ڈیڈ آپ ایک قاتل ہیں,,

اووہ نو یہ میں نے کیا کر دیا,, آہل کو معلوم ہو گا تو کیا گزرے گی اس پر میں نے بہت غلط قدم اٹھا لیا نہیں مجھے آہل کے پاس جانا ہے,, دانی ڈائری بند کرتی ہوئ بولی,,

تم سچے تھے آہل تم ہمیشہ سے صحیح تھے میں ہی پاگل تھی جو تمہیں سمجھ نہیں سکی آہل تمہاری مسٹری حل کر لی میں نے,, تمہاری سرد مہری کی وجہ میرے ڈیڈ ہیں تمہارے ڈیڈ کی موت,, دانی دیوار سے ٹیک لگاےُ چہرہ گھٹنوں پر گراےُ بیٹھی تھی,,

اف اللہ میں نے کیا کر دیا آہل مجھے معاف کر دے گا نہ,, نہیں میں اب آہل کو مزید تنگ نہیں کروں گی,,, دانی چہرہ رگڑتی کھڑی ہو گئ,,

ڈائری کو اپنے بیگ میں رکھا اور خود کو کمپوز کرتی باہر نکل آئ,, دانی زینے اتر رہی تھی وہ تیزی سے چل رہی تھی کہ اچانک اس کا پاؤں سلپ ہوا اور دانی نیچے جا گری,,

ڈیڈ,, دانی درد سے کراہنے لگی...

دانی,, زبیر فکرمندی سے اٹھ کر آےُ,,

دانین دھیان سے چلنا تھا نہ دیکھو اب چوٹ لگ گئ,, دانی کی پیشانی سے خون بہ رہا تھا,,

دانی زیادہ اونچائ سے نہیں گری تھی اس لیے زیادہ چوٹ نہیں لگی...

ڈیڈ مجھے آہل کے پاس جانا یے آپ پلیز اسے بلا دیں,, دانی آنسو بہاتی ہوئ بولی,,

زبیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے دانی کو دیکھنے لگے...

دانین تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا جو بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو,, زبیر غصے سے بولے,,

دانی ششدہ سی اسے دیکھنے لگی,,

ڈیڈ پلیز مجھے آہل سے ملنا ہے مجھے لے جائیں اس کے پاس,, دانی التجائیہ انداز میں زبیر کے ہاتھ پکڑتی ہوئ بولی,,

ہیلو,,اگر کسی ڈاکڑ کو جانتے ہو تو جلدی لے کر آؤ اور ہاں دھیان سے اعتماد والا انسان ہونا چائیے,, زبیر دانی کی بات کو نظر انداز کرتے فون پر بات کرنے لگے...

ڈیڈ میں کچھ کہ رہی ہوں,, دانی اسے جھنجھوڑتی ہوئ بولی,,

دانین خاموش رہو اب اتنے قریب آ کر تم سب کچھ خراب نہیں کر سکتی جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے تم یہیں رہو گی سمجھی اور کوئ بات نہیں ہوگی دوبارہ اس کے متعلق,, وہ درشتی سے بولتے کھڑے ہو گۓ...

اپنی غلطی کا آج دانی کو شدت سے احساس ہو رہا تھا..

ڈیڈ پلیز ایسا نہ کریں,,

شٹ اپ دانی تمہیں یہاں کسی چیز کی کمی نہیں پھر کیوں ضد کر رہی ہو اب خاموشی سے جتنے دن باقی ہیں گزارو کیونکہ آہل کے پاس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا,, ان کے چہرے پر بلا کی سختی تھی,,

دانی کا چہرہ اشک بار تھا,, وہ شکوہ کناں نظروں سے زبیر کو دیکھنے لگی,,

اور ہاں ایک بات پاکستان جا کر تم آہل سے طلاق لے لو گی تمہارا رشتہ میں نے طے کر دیا ہے...

دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے زبیر کو دیکھنے لگی..

آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے سمجھے,, دانی چلاتی ہوئ زینے چڑھنے لگی,,

زبیر ہنکار بھرتے دانی کو دیکھنے لگے...

آہل پلیز مجھے لے جاؤ یہاں سے... دانی دروازہ کے ساتھ پشت لگاتی زمین پر بیٹھ گئ,,

ڈیڈ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ,, پہلے آہل کو دکھ دیا اور اب مجھے نہیں. میں کسی صورت آپ کی بات نہیں مانوں گی,, دانی اتنی کمزور نہیں ہے,, پیشانی کا خون جم چکا تھا,, لیکن آہل کو کیسے معلوم ہو گا میں یہاں ہوں,, دانی کو فکر ستانے لگی,,

انہی خیالوں میں غرق دانی نیند کی وادی میں اتر گئ..

************

رفیق عمیر کا خیال رکھ رہے ہو نہ,,

جی سر میں روز معلوم کرتا ہوں اپنے اعتماد والے بندے اس کی حفاظت پر تعینات کر رکھے ہیں,,

ہممم کیسی طبیعت ہے اب اس کی,,

بہتر ہے پہلے سے, آپ کو یاد کرتا ہے,,

یہ سب کچھ اتنی اچانک ہوا کہ مجھے موقع ہی نہیں ملا عمیر سے ملنے کا,, آہل افسوس سے بولا..

جی سر اور وہ جو سمگلنگ والا کیس تھا نہ اس پر بھی میں نے کچھ لوگوں کو نظر رکھنے کا بولا ہے,,

گڈ,, کچھ معلوم ہوا آج کل کہاں ہیں,,

نہیں سر ان کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہو سکا شاید انہوں نے ابھی تک جگہ تبدیل نہیں کی...

ہاں نظر رکھنا کبھی نہ کبھی تو ہاتھ آئیں گے..

سر ہم کب تک ایسے انتظار کریں گے,,

رفیق کا اشارہ دانی کی جانب تھا,,

آنا گئ ہے شاید کوئ سراخ مل جاےُ,,

سر آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا,, رفیق فکرمندی سے بولا,,

کھا لوں گا فکر مت کرو,, آہل اس کا شانہ تھپتھاتا چل دیا..

رفیق دکھ سے آہل کو دیکھنے لگا,,

آنا دروازے کے وسط میں کھڑی دستک دے رہی تھی,,

آہل نے سر اٹھا کر دیکھا,,

آ جاؤں,, آنا مسکرا کر بولی..

آ جاؤ,, آہل رفیق کو اشارہ کرتا کھڑا ہو گیا..

آج ہم کہاں جائیں گے, آہل بغور اسے دیکھ کر بولا..

آج میں سوچ رہی ہوں کچھ ایسے علاقوں میں جائیں جہاں زیادہ آبادی نہ ہو,,آنا سوچتی ہوئ بولی,,

آہل اثبات میں سر ہلاتا چلنے لگا...

************

دانی پیشانی پر ہاتھ رکھے اٹھ بیٹھی,,سر ابھی تک چکرا رہا تھا,,

حواس بحال ہوےُ تو آہل کا خیال عود آیا,,

آہل میں کیسے تمہارے پاس آؤں,, دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی,,

ڈیڈ تو نہیں لے جائیں گے,, دانی بولتی ہوئ بیڈ سے اتری اور بیگ لے کر بیٹھ گی,,

پھر سے ڈائری کو دیکھنے لگی,, جس پر اے اور ڈی لکھا تھا,, اس بوسیدہ سی ڈائری میں تمام سوالوں کے جواب تھے دانی کچھ سے روشناس ہو چکی تھی کچھ سے باقی تھی..

آہل آنکھوں پر گاگلز لگاےُ جیٹ سے اترا,, تیز ہوا سے اس کے بال لہلہا رہے تھے,,چہرے پر بلا کی سختی تھی البتہ آنکھوں میں کرب اور دکھ کے ساےُ تھے,,

عاقب حیات آگے آےُ اور آہل کو گلے لگایا,,

آہل رو دینا چاہتا تھا لیکن آس پاس پارٹی کے لوگ کھڑے تھی سو خود پر بندھ باندھ لیا ,,ویسے بھی وہ ساری رات روتا رہا تھا اس لیے اب کافی حد تک مضبوط ہو چکا تھا,,,

چلیں,,آہل قدم بڑھاتا ہوا بولا,,

آگے پیچھے گارڈز کی نفری تھی آہل اور عاقب حیات ان کے وسط میں چلتے ہوےُ گاڑی میں آ بیٹھے,,

گھر پہنچتے ہی لاؤنج میں عابد حیات نظر آےُ آہل وہیں ان کے سرہانے بیٹھ گیا,,گاگلز اس نے گاڑی میں ہی اتار دیں تھیں,,آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے عابد حیات کے دوست احباب اور کچھ سیاسی شخصیات وہاں موجود تھیں,,کیونکہ خاندان کے نام پر اور کوئ بھی نہیں تھا,,

آہل خاموش آنسو بہا رہا تھا باپ کا صدمہ کچھ کم ہوا تو ماں یاد آ گیُ...

چاچو مام کہاں ہیں,,وہ نم آنکھیں,,تر چہرہ اٹھاےُ عاقب کو دیکھتا ہوا بولا,,

آہل شاید اس ظالم کو تمہاری ماں پر ترس آ جاےُ اور وہ چھوڑ دے اسے تاکہ وہ آخری بار اپنے شوہر کو دیکھ سکیں,,عاقب اس کے ساتھ بیٹھ کر سرگوشی کرنے لگا,,آہل کے تن بدن میں آگ لگ گیُ,,

مجھے بات کرنی ہے آپ سے,,وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا اور کمرے کی جانب قدم بڑھانے لگا,, عاقب افسردگی سے اس کے پیچھے چل دیا,,,

مام کہاں ہیں مجھے بتائیں,,آہل عاقب کا گریبان پکڑتا ہوا بولا,

اگر معلوم ہوتا تو تمہارے ڈیڈ نہ لے آتے...

لعنت ہے آپ کی ایسی سیاست پر میری مام ایک ہفتے سے غائب ہیں اور آپ جانتے ہی نہیں ہمممم,,آہل انہیں دھکا دیتا ہوا بولا,,

مار لو مجھے مار لو لیکن میں کہتا ہوں جس کا غصہ ہے اسی پر نکالنا,,عاقب ہنکار بھر کر بولا..

آہل نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دروازے پر دستک سنائ دی,,

عاقب ہاتھ سے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے دروازے پر آےُ..

سر میڈم آئیں ہیں,,ملازم سر جھکاےُ بولا,,

مام,,آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا,,

آپ سب پلیز ڈرائینگ روم میں بیٹھ جائیں آہل اور اس کی مام کچھ وقت عابد حیات کے ساتھ اکیلے رہنا چاہتے ہیں,,عاقب سب کو دیکھتا ہوا بولا,,

ملازم سب کو لے کر ڈرائینگ روم میں چلا گیا...

مام,,آہل اسے دیکھ کر بولا جو اس کے سامنے ابتر حلیے میں کھڑی تھی,,چہرے پر جگہ جگہ نشان پڑے تھے کچھ نیلے اور کچھ سرخ,

________

وہ پہلے سے لاغر دکھائ دیتی تھی تکلیف اس کے چہرے سے عیاں تھی,,

آہل اسے دیکھ کر تڑپ اٹھا,,

مام کس نے آپ کی یہ حالت,,آہل اسے سینے سے لگاتا ہوا بولا,,

آہل میرا بیٹا,, دُر عدن روتی ہوئ بولی,,

مام پلیز بس کریں,,آہل کو تکلیف ہو رہی تھی,, عدن بلک بلک کر رو رہی تھی,,

بس مام جتنا رونا تھا رو لیا اب رونے کی باری ان کی ہے جنہوں نے آپ کو رُولایا آپ کے ایک ایک آنسو کا بدلہ لوں گا میں,,آہل اس کا چہرہ صاف کرتا ہوا بولا,,

عدن نفی میں سر ہلاتی روےُ جا رہی تھی آج اسے دیکھ کر کوئ یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ وہی دُر عدن ہے جس پر ایک دنیا مرتی ہے...

چلیں اندر,,آہل اسے ساتھ لگاےُ چلنے لگا جو لڑکھڑا کر چل رہی تھی,, آہل ضبط کیے چل رہا تھا,,

جیسے ہی عدن کی نظر عابد حیات کی میت سے ٹکرائ وہ اپنی جگہ پر ششدہ رہ گیُ,,

عدن پتھرائ نظروں سے کبھی آہل کو دیکھتی تو کبھی عابد کو,,

آہل,, وہ آہل کا بازو ہلاتی ہوئ بولی,,

آہل نم آنکھوں سے چلتا ہوا جا رہا تھا,,

آہل نے پہلے عدن کو بٹھایا پھر خود عابد کے سرہانے بیٹھ گیا,,

عابد کیا ہوا آپ کو آنکھیں کھولیں,,عدن ان کا چہرہ ہلاتی ہوئ بولی,,

آہل تمہارے ڈیڈ یہ سب..وہ بوکھلا کر آہل کو دیکھنے لگی,,

مام کل رات زبیر نے ڈیڈ پر فائرنگ کی تھی,, دو موتی ٹوٹ کر آہل کے رخسار پر آ گرے,,

عدن نفی میں سر ہلاتی آہل کو دیکھنے لگی..

آہل میں کیسے,,عدن کے الفاظ منہ میں رہ گےُ کیونکہ وہ زمین بوس ہو چکی تھی,,

مام,,آہل عدن کا چہرہ بازو پر رکھے منہ تھپتھپانے لگا...

مام کیا ہوا آپ کو,, آہل کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا,,

چاچو پانی,,آہل چہرہ اوپر کر کے بولا,,

عاقب جو ابھی ابھی وہاں آیا تھا پانی لینے کو بھاگ کھڑا ہوا,,

یہ لو آہل,,,وہ گلاس تھما کر دوزانو بیٹھ گیا,,

آہل عدن کے چہرے پر چھینٹے مارنے لگا لیکن اس کے ساکن وجود میں کوئ حرکت نہ آئ,,

میں ڈاکڑ کو بلاتا ہوں,,عاقب کھڑا ہو کر نمبر ملانے لگا..

مام آپ کو کچھ نہیں ہو گا سن رہی ہیں نہ آپ ,,آپ کا آہل آپ کو کچھ نہیں ہونے دے گا ابھی تو ہم نے ڈیڈ کا بدلہ بھی لینا ہے ہیں نہ,, آپ بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا,,آہل اسے اپنے ساتھ لگاےُ دیوانہ وار بول رہا تھا,,

دس منٹ بعد ڈاکڑ آتا دکھائ دیا,,آہل عدن کو اپنے کمرے میں لے آیا اور اسے بیڈ پر لٹا دیا ,,چہرہ موڑ کر ڈاکڑ کو دیکھنے لگا,,

میری مام کو کچھ ہوا تو تمہیں بخشوں گا نہیں میں,,آہل اس کا گریبان پکڑے بول رہا تھا آنکھوں میں لہو دوڑ رہا تھا,, ڈاکڑ تھوک نگلتا ٹائ درست کرنے لگا..

آہل انہیں اپنا کام کرنے دو,,عاقب اسے اپنی جانب کھینچتے ہوےُ بولے,,

چاچو مام کو کچھ نہیں ہو گا نہ,,,عاقب کو وہ اس وقت کوئ معصوم سا بچہ معلوم ہو رہا تھا,,

کچھ نہیں ہو گا بھابھی کو,,عاقب نے کمزور سی تسلی دی,,

آہل دم سادھے ڈاکڑ کو دیکھ رہا تھا جو عدن کا معائنہ کر رہا تھا,,ڈاکڑ چہرہ موڑے انہیں دیکھنے لگا آہل کے غضب کے باعث وہ بولنے سے ہچکچا رہا تھا,,

کیا ہوا بولو,,عاقب اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا,,

سوری سر لیکن ان کی موت ہو چکی ہے,,وہ افسوس سے بولا..

تمہیں بولا تھا مام کو کچھ نہیں ہونا چائیے,,آہل اس کا گریبان پکڑے دیوار کے ساتھ لگاتا ہوا بولا..

آہل,,عاقب آگے بڑھا لیکن اس سے قبل آہل اس کے منہ پر ایک عدد تھپڑ مار چکا تھا,,ڈاکڑ ہقہ بقہ سا اسے دیکھ رہا تھا,,

عاقب نے آہل کو الگ کیا اور ڈاکڑ کو جانے کا اشارہ کیا,,

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا,,عاقب آنکھوں میں نمی لئے بولے,,

آئل انہیں پرے دھکیلتا عدن کے پاس آ گیا,,

مام پلیز اٹھیں وہ ڈاکٹر بکواس کر رہا تھا پلیز آنکھیں کھولیں,, آپ تو ایسا مت کریں مام پلیز اٹھیں ابھی تو آپ نے مجھے سب بتانا تھا ابھی ہم نے بہت کچھ کرنا تھا آپ کیسے مجھ سے منہ موڑ سکتی ہیں,, آہل عدن کو جھنھوڑتا ہوا بول رہا تھا,,

عدن کا گلابی چہرہ مرجھایا ہوا تھا آنکھوں کے گرد حلقے پڑے تھے اور چہرہ بگڑا ہوا تھا جو کہ تشدد کی نشاندہی کر رہا تھا,,

مام پلیز نہ کریں میرے ساتھ ایسا میں کہاں جاؤں پہلے ڈیڈ اور اب آپ پلیز اٹھیں نہ مام کیوں میری بات نہ مان رہیں آپ,, آہل پاگلوں کی مانند چلا رہا تھا,,

چاچو کیا مسئلہ ہے سب کے ساتھ,,عدن کی جانب سے خاموشی پا کر آہل حلق کے بل چلایا,,

عاقب کے پاس کچھ بھی نہیں تھا بولنے کو حتی کہ دو بول ہمدردی کے بھی نہ تھے,,

مام کیوں,, کیوں مجھے چھوڑ دیا آپ دونوں نے پاگل کر دیا ہے اب کون میرا انتظار کرے گا کون مجھے ڈانٹے گا یار یہ کیا کر دیا آپ نے... آہل اس کے ہاتھ تھامے بول رہا تھا...

کون اب آہل کو سمجھاےُ گا کون مجھے نصیحت کیا کرے گا اچھا نہیں کیا آپ دونوں نے ایک ساتھ مجھے چھوڑ دیا

لا وارث کر دیا ہے ناراض ہوں میں آپ دونوں سے.. آہل اس کے ہاتھ چھوڑتا کھڑا ہو گیا,,

آہل,, عاقب اس کی جانب بڑھے..

بات مت کریں مجھ سے,کوئ کچھ نہیں لگتا میرا,, آہل اس کا ہاتھ جھٹکتا باہر نکل گیا,,

آہل باہر نکلا ہے گارڈز کو اس کے ہمراہ بھیجو,, آہل کے نکلتے ہی عاقب فون کان سے لگاےُ بولنے لگا...

دُر عدن پر نظر پڑیں تو آنکھیں پھر سے چھلک پڑی,

کوئی ایک تو رک جاتا آہل کے پاس آپ دونوں بھی ایک ساتھ چل دئیے,,

محبت کی رسمیں دنیا والے نہیں جانتے,, آج آپ دونوں نے ثابت کر دیا جتنی محبت آپ کے بیچ تھی زندہ تھے تو ساتھ میں اور جب دنیا سے منہ موڑا تو بھی ساتھ میں,, لیکن بھابھی اپنے اکلوتے جوان کا تو خیال کرتیں کچھ ہمت کر لیتیں اپنے بیٹے کی خاطر,, میں نہیں جانتا اسے کیسے سنبھالوں گا,, وہ خاصا لاابالی سا ہے,, عاقب کے چہرے پر آنسو بہ رہے تھے,,,

لیکن اللہ کے حکم کے آگے بندہ کیا کر سکتا ہے شاید آہل کے نصیب میں یہی لکھا تھا,, وہ کرب سے بولتا باہر نکل آیا,,

بھابھی کے غسل کا انتظام کرو,, ملازمہ کو کہ کر وہ عابد حیات کے پاس آ گے...

نہیں مانتا میں کچھ بھی,, کوئی مجھے چھوڑ کر نہیں گیا,, آہل چلتا جا رہا تھا اور بولتا جا رہا تھا متواتر اشک اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے,,

مام بھی میرے ساتھ رہیں گیں اور ڈیڈ بھی میں دیکھتا ہوں کیسے مجھ سے دور جاتے ہیں,, وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا چل رہا تھا,, گارڈز کچھ فاصلے پر اس کا تعاقب کر رہے تھے,,

آہل تھک کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا,,

سامنے جھیل تھی,, وہی جھیل جو اس کی ماں کو بے حد پسند تھی,, وہ اکثر و بیشتر اسی جھیل پر آ کر کھڑے ہو جاتے,,

آہل نم آنکھوں سے ماضی میں بہتا جا رہا تھا,, نظریں ہنوز اس نیلی جھیل پر تھیں,,

آہل میری بات غور سے سن لو تمہاری شادی دانی سے ہو گی,, عدن خفگی سے دیکھتی اس کی ناٹ ٹائٹ کرنے لگی..

مام وہ بچی ہے,, اور نام دیکھیں دانی بانی,, آہل منہ بناتا ہوا بولا,,

خبردار اگر تم نے دانی کے نام کو بگاڑا تو,, عدن گھوری سے نوازتی ہوئ بولی,,

لیکن مام وہ بدتمیز ہے پھر میرے ساتھ کھڑی چھوٹے بہن لگے گی,, آہل نے قائل کرنا چاہا,,

میں کچھ نہیں جانتی تمہاری بیوی وہی بنے گی اور وقت کے ساتھ انسان بدل جاتا ہے تم بھی جب آسٹریلیا سے واپس آؤ گے نہ تو وہ بدل چکی ہو گی,,

ہوں بدل چکی ہو گی میں دنیا بھی فتح کر کے آجاؤں گا وہ پھر بھی ایسے ہی چڑیل رہے گی,,,

کیا کہا تم نے,, عدن اس کا کان کھینچتی ہوئی بولی,,

میں کیا کہ سکتا ہوں بھلا,, آہل معصومیت سے بولا..

تمہیں آسٹریلیا بھیج رہی ہوں پڑھائ کے لئے,, اس کے علاوہ کوئی الٹا سیدھا کام کیا تو بہت برا پیش آؤں گی,

اچھا جی کیا کریں گیں آپ,, آہل گریل پر ہاتھ رکھتا جھیل کو دیکھنے لگا,

بات نہیں کروں گی تم سے,, عدن چہرہ موڑ کر کھڑی ہو گئ..

آپ کی ایسی کی تیسی جو اگر مجھ سے بات نہ کی وہ بھی اس دانی میرا مطلب ہماری دانی کے باعث... آہل اسے عقب سے ہگ کرتا ہوا بولا,,

عدن مسکرانے لگی تو ڈمپل نمایاں ہوا,,

میرا پیارا بیٹا,, وہ آہل کے رخسار پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی,,

اور میری پیاری مام,,آہل اس کے ڈمپل پر بوسہ دیتا ہوا بولا,,

حال کی تلخیاں آہل کو ماضی سے باہر نکال لائیں,,

مام آپ نے کہا تھا مجھ سے بات نہیں کریں گے,, آپ نے سچ کر دکھایا,, آپ کیسے اپنے بیٹے سے ناراض ہو سکتی ہیں,, آہل گھٹنے زمین پر رکھے چہرہ ہاتھوں میں چھپاے بلک رہا تھا,,

کہیں وہ لوگ مام اور ڈیڈ کو لے نہ جائیں,, جونہی گھر کا خیال آیا آہل چہرہ صاف کرتا کھڑا ہو گیا,,

ناظرین آپ کو ایک اور افسوسناک خبر سے آگاہ کرتے چلیں دُرعدن حیات اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ہیں کچھ دیر قبل ان کی موت کی آفسوسناک خبر ملی,, نہایت دکھ کے ساتھ آپ کو بتاتے چلیں کہ عابد حیات کی زوجہ محترمہ دُرعدن حیات اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئیں ہیں ان سے کچھ وقت قبل ان کے شوہر کی موت کی درد ناک خبر سے آپ کو آگاہ کیا تھا آج یہ جوڑا اللہ کو پیارا ہو گیا جنہوں نے دنیا میں محبت نبھائ موت بھی انہیں جدا نہ کر سکی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اپنے شوہر کی میت دیکھ کر وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور ان کے ہمراہ اس دنیا سے منہ موڑ لیا,, جنازے کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ عصر کی نماز کے بعد پڑھایا جاےُ گا قوم نے آج ایک عظیم لیڈر اور ایک عظیم بہن کو کھو دیا جس کی زندگی سب کے لئے مشعل راہ تھی جن کی زندگی سے لوگ سبق حاصل کرتے ان سے سیکھتے تھے آج وہ سب کو روتا چھوڑ کر چلی گئیں,, لوگ صدمے اور دکھ میں ہیں عوام کی جانب سے افسوس کا اظہار, وہ عابد حیات اور ان کے کام کو تاعمر یاد رکھے گی,,

مزید تفصیلات جانیے کچھ دیر میں,,

ناجانے کتنا وقت آہل گزار کر آیا تھا واپس لوٹا تو لاؤنج لوگوں سے بھرا تھا وسط میں عدن اور عابد حیات کی میتیں پڑیں تھیں,, غم پھر سے تازہ ہو گیا,, لہو جوش مارنے لگا,,

نہیں کچھ نہیں ہوا میرے مام ڈیڈ کو,, آہل اونچی آواز میں بولتا ہوا آگے آیا,, عاقب رنج اور افسوس سے آہل کو دیکھنے لگے..

خبردار اگر کوئی انہیں لے کر گیا تو,, آہل ان دونوں کے چہرے کی جانب آ بیٹھا,, ایک ہاتھ عدن کی چارپائی پر تھا تو دوسرا ہاتھ عابد کی چارپائی پر,, سب لوگ افسردگی سے آہل کا دیوانہ پن دیکھ رہے تھے,,

آہل یونہی سارا وقت دونوں کے سرہانے بیٹھا باتیں کرتا رہا اور جیسے ہی جنازے کا وقت ہوا آہل طیش کے عالم میں سب پر برس پڑا..

اگر کسی نے ہاتھ بھی لگایا تو میں کاٹ پھینکوں گا سب کو,, آہل انگلی اٹھاۓ بول رہا تھا,,

یہاں سب کی لاشیں ملیں گیں جس نے میرے مام ڈیڈ کو مجھ سے دور کرنے کی سعی کی,, اور اسے دھمکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا,,

سب لوگ شدہ سے اسے دیکھنے لگے,,

مولوی صاحب نے عاقب کو اشارہ کیا,,

عاقب سر ہلاتا آہل کے پاس آیا,,

چاچو میں کوئی بات نہیں سنو گا مذاق سمجھ رکھا ہے کیا آپ سب نے ہاں,, وہ حلق کے بل چلا رہا تھا,,

کچھ نہیں ہوا میرے مام ڈیڈ کو ابھی جاگ جائیں گے وہ سو رہے ہیں سمجھ رہے ہیں نہ آپ,, وہ دانت پیستا ہوا بولا,

آہل میرے بھائ بات سن میری,, عاقب اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامتا ہوا بولا,,

چاچو نہیں,, آہل خوف کے زیر اثر عاقب کو دیکھ کر بولا,,

آہل میرا بھائ دیکھ اللہ کے حکم کے آگے ہم سب بےبس ہیں ان کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی اسے میں یا تو کوئی نہیں بدل سکتا جتنی جلدی حقیقت کو تسلیم کرے گا تیرے حق میں بہتر ہو گا,, وہ نرمی سے سمجھانے لگے..

چاچو پلیز ایسا مت بولیں,, میری جان نکلتی محسوس ہو رہی ہے,, آہل اشک بہاتا ہوا بولا,,

مجھے بھائ کہتا ہے نہ پھر میری بات مان لے بھائ اور بھابھی کی تدفین کا وقت ہو رہا ہے میرے ساتھ کندھا دے شاباش,, عاقب اسے گلے لگاتا ہوا بولا,

چاچو میں کیسے انہیں چھوڑ آؤں میں کیسے زندہ رہوں گا بتائیں میں کیوں لے جانے دو مام ڈیڈ کو نہیں چاچو,, آہل کا دماغ قبول کرنے پر رضامند نہیں تھا,

آہل تجھے کرنا ہو گا اپنی مام کی باتیں یاد ہیں نہ سوچ انہیں کتنا برا لگے گا اب جیسے میں کہتا ہوں ویسے کر,, عاقب اس سے الگ ہوتے ہوئے بولے,

آہل روتا ہوا نفی میں سر ہلا رہا تھا,,

مولوی صاحب آگے بڑھ کر عابد حیات کے چہرے پر کفن باندھ رہے تھے,

نہیں پلیز مت کرو مجھے مت دور کرو,, آہل بلکتا ہوا عاقب کی گرفت میں تھا,,

چاچو انہیں روک دیں پلیز,, نہیں میری مام نہیں پلیز کسی کو تو رہنے دیں میرے پاس چاچو یہ زیادتی ہے,, آہل اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کر رہا تھا اور کامیاب بھی ہو گیا, آہل نے عدن کے چہرے سے کفن ہٹا دیا,,

نہیں میری مام کو نہیں لے جا سکتے آپ,,آہل عدن کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا,,

بچے حوصلہ کر اللہ تجھے صبر جمیل عطا کرے... مولوی صاحب اس کے سر پر ہاتھ رکھے دعا دینے لگی,,

آہل نفی میں سر ہلاتے آنسو بہا رہا تھا,, آہل کے آنسو عدن کے چہرے پر گر رہے تھے,,

عاقب نے اسے پکڑا اور پیچھے کر لیا,,

نہیں آپ نہیں کر سکتے ایسا,, آہل چلا رہا تھا پورے لاؤنج میں صرف آہل کی آہ و زاری سنائی دے رہی تھی آہل اپنے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی رلا رہا تھا,,

عاقب کے ساتھ دو مزید لوگوں نے آہل کو پکڑا کیونکہ وہ عاقب کی گرفت سے نکلتا جا رہا تھا,,

کیسے کر سکتے ہیں آپ مولوی صاحب میرے ماں باپ کو لے جا رہے ہیں کہاں گیا آپ کا دین بتائیں مجھے,,

آہل خاموش ہو جاؤ,, عاقب اسے ہوش میں لانے کی سعی کرنے لگا,,

لیکن وہ جس کی سنتا تھا وہ تو آنکھیں میٹ کر موت کی نیند سو چکی تھی,,

مام پلیز آٹھ جائیں ان سب کو جھوٹا ثابت کر دیں کچھ نہیں ہوا آپ کو پلیز نہیں,, عدن کا چہرہ کفن میں چھپ گیا,,

گرم مادہ مسلسل آہل کے چہرے کو تر کر رہا تھا,,

لعنت ہو آپ سب پر,,, وہ دیوانہ وار بولتا چلا جا رہا تھا,,

عاقب نے ایک زوردار تھپڑ آہل کے منہ پر مارا,, اب اگر ایک لفظ منہ سے نکالا تو گولی مار دوں گا,, عاقب اس کا منہ دبوچتا ہوا بولا,,

آہل شکوہ کناں نظروں سے عاقب کو دیکھنے لگا,, شاید اسے ہوش میں لانے کے لئے یہ ناگزیر تھا,,

چلو اب کندھا دو,, عاقب اسے آگے دھکیلتا ہوا بولا,,

آہل چپ چاپ اس کی بات پر عمل کرنے لگا,

خاموشی میں ارتکاز پیدا ہوا,, اور اللہ ہو اکبر کی صدا بلند ہوئ,,

آہل کو لگا وہ خود کو دفن کرنے جا رہا ہے,,

پہلے اس نے عابد کی میت کو کندھا دیا پھر کچھ وقت بعد وہ عدن کی میت کو کندھا دینے آگیا پھر قبرستان تک وہ عدن کی میت کو کندھا دئیے چلتا رہا,, اسے بار بار کہا کے تھک جاےُ گا کسی اور کو جگہ دے دے لیکن وہ نہیں مانا,,

جنازے میں ایک کثیر تعداد نے شرکت کی یہاں تک کہ لوگ مسجد سے باہر دور دور تک پھیلے تھے اتنی بڑی تعداد آئ تھی ان کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے اسی بھیڑ میں عقب میں کہیں زبیر رنداوھا بھی کھڑا تھا چہرے کو پوشیدہ رکھے,, آہل سب سے آگے کھڑا تھا عاقب کے ہمراہ,,

اس کے بعد باری باری دونوں کو دفن کیا گیا, آہل بت بنا سب دیکھ رہا تھا منہ پر اس نے کفل لگا لیا البتہ اشکوں کو بہنے دیا کیونکہ ان پر کوئی کفل نہیں لگایا جا سکتا وہ ہر باڑ کو توڑ کر نکل آتے ہیں,,

آہل بیٹھ کر ان کے نام کی سلیٹ کو دیکھنے لگا عابد حیات ولد نصار حیات نیچے تاریخ لکھی تھی,, پھر نگاہوں کا زاویہ موڑا,,

دُر عدن حیات زوجہ عابد حیات نیچے تاریخ لکھی تھی,,

کتنی آسانی سے آپ دونوں چلے گئے نہ,, آہل منہ بناتا ہوا بولا,,

لوگ منتشر ہوتے جا رہے تھے,, آہل سے کچھ فاصلے پر گارڈز کھڑے تھے لوگ عاقب حیات سے افسوس کر رہے تھے کیونکہ آہل اپنے حواس کھو بیٹھا تھا,,

________

ایک بار میرا خیال نہیں آیا ایک بار نہیں سوچا کہ میں کیسے زندہ رہوں گا میرے پاس کچھ تو چھوڑ جاتے,,,کیا کوئی جینے کی وجہ ہے,, وہ شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہا تھا,,

آپ دونوں نے صرف ایک دوسرے کے ساتھ وفا نبھائ میرے ساتھ نہیں,, میں کچھ نہیں لگتا آپ کا اگر میرا احساس ہوتا تو آپ نہ جاتی مام اپنے آہل کے لیے جیتیں لیکن نہیں آپ کو ڈیڈ سے زیادہ محبت تھی آہل سے بھی زیادہ جگر کا ٹکڑا مجھے کہتی تھی پھر اب کیسے اپنے جگر کے ٹکڑے کو چھوڑ گئیں بتائیں مجھے,, کہاں گئ وہ محبت جو مجھ پر نچھاور کرتیں تھیں,, ڈیڈ کو انکار کر کے میری مانتی تھیں پھر آج کیوں میری نہیں مانی مام آپ تو نا جاتی ڈیڈ تو میرے پہنچنے سے قبل ہی جا چکے تھے آپ تو مجھ سے مل کر بھی نہیں رکیں ایک بار بھی آپ کے دل نے منع نہیں کیا ایک بار بھی آپ کو آہل یاد نہیں آیا مام,, وہ مٹی پر ہاتھ پھیرتا بول رہا تھا,, آنسو گیلی مٹی میں جذب ہو رہے تھے تازہ گلابوں کی خوشبو چار سو پھیلی ہوئ تھی,, بہت غلط کیا آپ نے اب آہل حیات آپ سے بات نہیں کرے گا آپ نے میرے بارے میں نہیں سوچا اب میں بھی نہیں سوچوں گا,, آہل چہرہ رگڑتا ہوا کھڑا ہو گیا,,

دل تھا کہ جانے پر راضی نہیں تھا آہل پھر سے وہیں بیٹھ گیا,, مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ آپ دونوں کو چھوڑ جاؤں,, وہ چہرہ جھکا کر بولا,,

لوگ کہتے ہیں اللہ مجھے صبر دے میں کیا کروں گا صبر کا مجھے صبر نہیں چائیے مجھے آپ دونوں چائیے ہر صورت میں پلیز واپس آ جائیں ایسی بھی کیا ناراضگی میں نے تو آپ کو خفا بھی نہیں کیا تھا دانی سے شادی پر حامی بھی بھر لی تھی باہر بھی کچھ غلط نہیں کیا پھر کیوں,,

عاقب حیات سب سے مل کر اس کے پاس آگے..

چاچو پلیز ایک بار بول دیں انہیں کہ واپس آجائیں بس ایک بار میں,, آنسوؤں کے گولے نے آہل کے الفاظ کا دم توڑ دیا,,, عاقب بےبسی سے اسے دیکھنے لگا,,

آہل بس چلو اٹھو گھر چلیں,,

چاچو بس ایک بار بلا دیں مام ڈیڈ کو آپ جہاں کہو گے چلو گا بس ایک بار مجھے ملنا ہے میں نے تو بات بھی نہیں کی ان سے,, آہل زاروقطار روتا ان کے سینے سے لگ گیا,, بس آہل ہمت کرو تم کمزور کب سے ہو گئے ہاں,, عابد حیات کا بیٹا شیر ہے اور دیکھو خود کو کیا حال بنا رکھا ہے,,

جب سے وہ دونوں چلے گئے میں بھی کمزور ہو گیا,, آہل معصومیت سے بولا,,

تم کمزور نہیں ہو سمجھے آہل یہ رونا دھونا ختم کرو تمہیں اپنے مام ڈیڈ کا بدلہ لینا ہے سمجھ رہے ہو نہ تم ایسے ہار نہیں مان سکتے ظالموں کو سزا دینی ہے تم کرو گے یہ,,,

آہل نے ایک نظر عقب میں قبروں پر ڈالی اور عاقب کے ہمراہ چل دیا,,

تم کچھ دیر سو جاؤ پھر ہم بات کریں گے,, عاقب اس پر لحاف اوڑھتا ہوا بولا,,

چاچو آپ یہیں پر رہنا,,

میں یہیں ہوں تم فکر مت کرو,,

عاقب اس کے سرہانے بیٹھ گئے,,

ڈاکٹر نے آہل کو نیند کا انجیکشن لگا دیا عاقب جانتا تھا وہ ایسے نہیں سوےُ گا,, ہیلو ہاں بول,, عاقب فون کان سے لگاےُ سائیڈ پر آ گیا,,

بس اللہ کا حکم,, ہم کیا کر سکتے ہیں,, ہاں بھابھی کو صدمہ لگا تھا ویسے بھی جو وہ برداشت کر رہیں تھیں اس کے بعد ان میں کہاں اتنی سکت تھی کہ یہ صدمہ برداشت کرتیں,, عاقب افسوس سے بول رہا تھا,,

تم آےُ تھے جنازے میں,, عاقب حیرت سے بولا,,

ہاں میں آہل کے ساتھ تھا معلوم نہیں کون کون آیا تھا,, اچھا تم نے میل چیک کی,,

پھر چیک کرو تو مجھے بتانا,, ٹھیک ہے میں کچھ کام کر لوں پھر بات کرتا ہوں,, عاقب نے کہ کر فون بند کر دیا..

مام, آہل دائیں بائیں سر ہلاتا پکار رہا تھا البتہ آنکھیں بند تھیں,,

مام,, میری بات سنیں مام ڈیڈ پلیز سنیں تو,, آہل جھٹکے سے اٹھ بیٹھا,,

آہل تم ٹھیک ہو,, عاقب فکرمندی سے بولے, آہل اجنبی نظروں سے عاقب کو دیکھنے لگا,, دھیرے دھیرے حواس بحال ہونے لگے تو حقیقت یاد آنے لگی, آنکھیں نمکین پانی سے تر ہو گئیں,

آہل پلیز سنبھالو خود کو,, عاقب اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولے,

چاچو میں ٹھیک ہوں,, آہل کی بھاری آواز ابھری,,

میں بس مام سے ناراض ہوں, وہ عاقب سے الگ ہوتا سپاٹ انداز میں بولا..

نہیں آہل,, عاقب نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا, تم کچھ نہیں جانتے تمہاری مام نے کیا کچھ برداشت کیا ہے یہ تو ان کی ہمت ہے کہ وہ پلٹ آئیں ورنہ شاید کوئی اور ہوتی تو کب سے آنکھیں بند کر چکی ہوتی,,

کیا مطلب چاچو,, اور مام کو کس نے اغوا کیا تھا آپ مجھے سب کچھ بتا کیوں نہیں رہے,, آہل الجھ کر دیکھنے لگا,,

تم جانتے ہو نہ بھابھی کی خوبصورتی پر بہت سے لوگوں کی گندی نظر تھی لیکن عابد حیات کی زوجہ ہونے کے باعث کوئی ہاتھ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا,,

پھر کس نے ہاتھ ڈالا,,

زبیر رنداوھا نے, عاقب رنج و غم کے عالم میں بولے,,

واٹ,, لیکن کیوں آئ مین پہلے تو,, آہل کی پیشانی پر بل پڑ گئے..

تمہارے ڈیڈ کی ریفائنری زبیر رنداوھا کے پاس ہے,,

اووہ تو اس کمینے کی نظر ڈیڈ کی ریفائنری پر تھی,, پھر مام کو کیوں,,

اس نے سات دن پہلے بھابھی کو اغوا کیا,, بھائ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ زبیر ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہے,,

پھر,, آہل آنکھوں میں نمی لئے بولا,,

پھر کیا دو دن بعد بھائی کو کال کی اور ریفائنری کا مطالبہ کیا,,بھائی نے عجلت میں پیپرز تیار کرواےُ لیکن,, عاقب نے کہ کر چہرہ جھکا لیا,,

لیکن کیا چاچو,, آہل دم سادھے اسے سن رہا تھا,,

لیکن اس کی گندی نظر بھابھی پر بھی تھی,, آہل نے مٹھیاں بھینچ لیں,,

وہ روز بھابھی کو اذیت سے دوچار کرتا روز انہیں موت کے گھاٹ اتارتا پھر بھائی کو بلاتا اور انہیں ویڈیو دکھاتا جو کیمرہ اس نے لگایا ہو گا,,

آہل کی گرفت ڈھیلی پڑی اور مٹھی کھول دی یکدم وہ ٹوٹ سا گیا,,

بھائی نا جانے کہاں سے اتنا حوصلہ لے آتے, وہ روز بھائی کو بلاتا بنا گارڈز اور ہتھیار کے اور روز ان کی روح پر زخم دیتا اور جو زخم بھابھی کو دئیے ان کا کوئی حساب ہی نہیں ہے وہ درندہ تمہاری مام کو کھا گیا آہل,, آہل کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,, تکلیف اس کے چہرہ سے عیاں تھی,, آنکھیں کرب سے میچ رکھیں تھیں,,

ہمارے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں تھا زبیر نے بھابھی کو کہاں رکھا کب اغوا کیا کچھ بھی نہیں,, وہ سات دن بھائی مر مر کر جیتے رہے اور بھابھی جی جی کر مرتی رہیں,,تمہیں لاعلم تمہارے غصے کے باعث رکھا گیا پھر بات تو تمہاری مام کی تھی بھائی رسوائی نہیں چاہتے تھے اس لئے مجبور تھے ویسے بھی ہم کیسے انہیں پکڑتے کوئی سراغ ہی نہیں مل سکا,,

آہل نفی میں سر ہلا رہا تھا,, عاقب خاموش ہوا تو آہل کی سسکیاں سنائی دینے لگیں,, میری مام کے ساتھ اتنا سب ہو گیا اور مجھے کسی نے بتانا گوارا نہیں کیا,, آہ,, مام,, مجھے مام کے پاس جانا ہے,, آہل چہرے سے ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا,,

آہل اس وقت,, وہ آہل کا بازو پکڑتے ہوئے بولے,,

چاچو میں کچھ نہیں جانتا مجھے میری مام کے پاس جانا ہے وہ اذیت میں تھیں درد سے گزرتی رہیں اور میں ان سے ناراض ہو کر آ گیا نہیں,, آہل بولتا ہوا نیچے اتر گیا,,

ایک منٹ رکو گارڈز کے ساتھ جانا,, عاقب اس کے پیچھے لپکتے ہوئے بولے,

آہل سنی ان سنی کرتا باہر نکل گیا,,

آہل بکھرا بکھرا سا چل رہا تھا,, جیسے ہی عدن کی قبر پر نظر پڑی,, آہل گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا,,

آئم سوری مام,, پلیز اپنے آہل کو معاف کر دیں ,مجھے نہیں معلوم تھا آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا پلیز مام بس ایک بار معاف کر دیں مجھے,, آہل قبر پر سر رکھے بلک رہا تھا,, گارڈز کچھ فاصلے پر کھڑے تھے,,

مام میں آپ کو ویسا آہل بن کر دکھاؤں گا جیسا آپ چاہتی تھیں بس آپ مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئ میں نے بنا سوچے سمجھے آپ کو اتنا سب کہ دیا,, آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے,, لیکن مام جب تک میں آپ کا اور ڈیڈ کا بدلہ نہیں لے لیتا مجھ پر اپنی خوشی حرام ہے آہل حیات کے جینے کی صرف ایک ہی وجہ ہے بدلہ صرف بدلہ اور کچھ بھی نہیں,, آہل کے چہرے پر زمانے بھر کی سختی عود آئ,, لیکن مام ڈیڈ آپ دونوں کے بغیر جینا سزا کی مانند ہے مجھے لگ رہا میں اپنا وجود یہاں چھوڑ گیا ہوں واپس کچھ بھی نہیں گیا,, مجھے بتائیں کیسے جیا جاےُ,, میرا سب کچھ تو آپ دونوں ہی تھے آہل حیات کی زندگی تو آپ کے محور میں گردش کرتی تھی اتنی لمبی زندگی کیسے گزرے گی,, آہ,, آہل نے بہتے ہوئے آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھا لیا,, کوئی راز کوئی ہنر بتا جاتے کچھ تو بتا دیتے جانے سے پہلے کچھ باتیں ہی کر لیتے جانتے ہیں میں کتنا ترس رہا تھا,, آپ دونوں سے ملنے کے لیے اور ملے بھی تو کس طرح کہ آپ دونوں زمین کے نیچے اور میں اوپر,, مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے میری سانسیں کیوں نہیں رکیں مام,, میں کیوں ابھی تک زندہ ہوں,, غم پھر سے تازہ ہو گیا مانو کسی نے زخموں کو کرید دیا ہو,,

می میں کیسے رہو مام آپ جانتی ہیں مجھے کتنا غصہ آتا ہے میں کیسے برداشت کروں گا مجھے کون سنبھالے گا مام,, کون سنبھالے گا مجھے,, میں زبیر کو نہیں بخشوں گا کبھی نہیں مجھ سے میری زندگی چھینی ہے نہ میری خوشی میں بھی اس سے اس کی خوشی اس کی زندگی چھینوں گا,, آہل چہرہ رگڑتا ہوا بولا,,

بس آہل حیات اب نہیں روےُ گا,, بولتے بولتے دو آنسو آہل کے رخسار پر لڑھک آےُ,, بہت ساری ہمت جمع کرنی ہے مجھے,, اٹھ کر پھر سے چلنا ہے مجھے,, دُر عدن حیات نے کبھی ہار نہیں مانی تھی آہل حیات بھی نہیں مانے گا,, چاہے وہ شخص میرا کلیجہ نکال کر لے گیا ہے لیکن میں بھی نہیں چھوڑوں گا اسے,, آہل آستین سے گال صاف کرتا ہوا بولا..

کہاں ہے,,, آہل چہرہ موڑے گارڈ کو دیکھنے لگا,,

گارڈ اس کے پاس آیا,, آہل کھڑا ہوا,,

مام میں ابھی آتا ہوں بس,, وہ چہرہ موڑ کر کہتا چل دیا,

وضو کر کے آہل واپس آیا تو ہاتھ میں سورت تھی,,فاتحہ پڑھ کر دونوں کی قبر پر پھونک مار دی,,

دعا کر کے کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگا,, دل تو چاہتا تھا یہیں بیٹھا رہے تاعمر لیکن اب نئے عزم لے کر وہ اٹھا تھا جنہیں پورا کرنا نہایت اہم تھا,,

مام ڈیڈ جا رہا ہوں میں پتہ نہیں یہاں واپس آؤں گا یا نہیں کیونکہ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں روز اس دکھ کا سامنا کرو... آہل آنکھوں میں نمی لئے تیز تیز قدم اٹھاتا ان سے دور ہوتا گیا,, گاگلز لگاےُ اور گاڑی میں بیٹھ گیا,,

یہ تھا وہ آہل حیات جس سے ساری دنیا مل رہی تھی کیونکہ جو حقیقت میں تھا وہ یہیں ان کے ساتھ مدفن ہو گیا تھا,,

دانی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,,

اشک صفحوں پر گر رہے تھے,,

دانی نے وہیں پڑھنا چھوڑ دیا,, ڈائری کے صفحے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ لکھنے والا اشک بار تھا تبھی صفحے اکڑے ہوۓ تھے,,

_______

آہل سچ میں تمہاری ہمت ہے کہ تم ابھی تک زندہ ہو ورنہ شاید کوئی اور ہوتا تو اب تک مر چکا ہوتا,,

تم نے اتنے بڑے زخم پوشیدہ رکھے ہوۓ تھے اپنے سینے میں اتنے راز مدفن کر رکھے تھے اور کسی کو بھنک بھی نہیں لگنے دی کہ تم اپنے اندر کیسی جنگ لڑ رہے ہو,, آہل تم سچ میں ایک مسٹری ہو,,

کوئی انسان اپنے اندر کون سی جنگ لڑ رہا ہے کون سا دکھ لے کر جی رہا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا اسی لئے کہتے ہیں سوچ سمجھ کر بولنا چائیے کیونکہ ہم نہیں جانتے سامنے والا انسان کس حالت میں ہے ہر انسان میں دنیا کے سامنے رونے کی عادت نہیں ہوتی زیادہ تر خود کو مضبوط کر کے ایک خول چڑھا لیتے ہیں لیکن ہماری دل دکھانے والی باتیں انہیں بےتحاشا اذیت پہنچاتی ہیں کیونکہ جو زخم کھا چکے ہوتے ہیں نہ ان کا دل بہت نازک ہوتا ہے معمولی سی بات پر ہی ٹوٹ جاتا اور میں کہتی ہوں ہم نے بولنے سے پہلے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ الفاظ اس انسان کو کتنی تکلیف دیں گے دلوں کو مارنے کے لیے خنجر یا تلوار کی نوبت نہیں آتی الفاظ یہ کام بخوبی کرتے ہیں,,

ہم تو بول دیتے ہیں کچھ بھی, بڑی آسانی سے کسی کے بھی کردار کے بخیے ادھیڑ دئیے یا پھر کچھ بھی بول دیا اگر کوئی تاخیر کر رہا ہے کسی کام میں تو خود سے راےُ قائم کر لیں گے اور دھڑلے سے اس انسان کو سنا کر فارغ کریں گے کبھی سوچا آپ نے کہ کتنی تکلیف ہوتی ہو گی اور یہ تکلیف جسمانی تکلیف سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے میرے نزدیک اس تکلیف کا ازالہ ممکن نہیں کیونکہ دل کانچ کی مانند ہوتے ہیں کبھی ٹوٹ جاتے ہیں تو کبھی توڑ دئیے جاتے ہیں,, دلوں پر مہر لگ جاتی ہے جب آپ کے کہے الفاظ نشتر بن کر پیوست ہو جاتے ہیں پھر کتنی ہی معافی تلافی کریں لیکن وہ خلش کبھی پوری نہیں ہوتی کیونکہ الفاظ سے ہی دل جیت لئے جاتے ہیں اور انہیں سے توڑ دئیے جاتے ہیں,, اگر ہم ایک بار یہ سوچ لیں کہ کہیں اسے میری یہ بات بری نہ لگ جاےُ تو یقین جانیں بہت سے دل ٹوٹنے سے بچ جائیں گے لیکن ہمارے لئے تو بولنا زیادہ اہم ہے کسی کے دل ٹوٹنے سے بھی زیادہ,, زبان سب کے پاس ہے لیکن استعمال کا طریقہ منفرد ہے کوئی بنا سوچے سمجھے جو منہ میں آیا بول دیا سامنے والا چاہے زمین بوس ہو جاےُ اور کچھ سوچ سمجھ کر الفاظ کا مناسب چناؤ کر کے پھر بولتے ہیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو,, لیکن میں کہتی ہوں ہمت رکھیں جو آج آپ پر تہمت لگا رہے ہیں یا آپ کا دل دکھا رہے ہیں اللہ سب دیکھ رہا ہے وہ انصاف کرنے والا ہے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں, وہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے,, ایک دن ہر اس انسان کو جواب مل جاےُ گا جو آپ کو برا کہتا ہے آپ بس اپنی نیت صاف رکھیں بس اتنا یاد رکھیں فرق پڑتا ہے تو صرف اللہ کی ذات سے اور اللہ جانتا ہے ہمارے دلوں کو بھی ہماری نیتوں کو بھی جو برا کرتا ہے یا بولتا ہے وہ خود بھرے گا اپنا کیا ہی سامنے آتا ہے پھر بندہ سوچتا ہے ایسا کیوں ہوا اگر اپنے قول فعل پر نظرثانی کر لیں تو معلوم ہو جاےُ کہ ایسا کیوں ہو رہا, اللہ ہم سب کو نیک ہدایت دے,, آمین..

کاش میں تم سے ابھی مل سکتی آہل,, دانی حسرت سے بولی,

بس تم جلدی سے مجھے لے جاؤ,, پھر دیکھنا سب ٹھیک ہو جاےُ گا دانی ہر غلطی کا آزالہ کرے گی,, آہل سب ٹھیک ہو جاےُ گا تم بھی پہلے جیسے ہو جاؤ گے,, دانی برستی آنکھوں سے باہر دیکھتی ہوئی بولی, اگر میں کھڑکی سے کود جاؤں,, دانی بولتی ہوئ آگے آئ,, لیکن اونچائ دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے لگی,,

اف میں نے کیوں ڈیڈ کو ہاں بول دیا ڈائری تو مجھے رات ہی مل گئ تھی کاش میں آہل کے گھر میں رہ کر پڑھ لیتی پھر کچھ بھی خراب نہ ہوتا,, آہل پتہ نہیں کہاں ہو گا,, دانی کو اس کی فکر ستانے لگی,,

بھوک کا احساس ہوا تو ڈائری بیگ میں ڈالتی باہر نکل آئ...

اشہد دانین کا خیال تم رکھو گے الیکشن قریب آ رہے ہیں میرا مزید یہاں رہنا مناسب نہیں,, دانی کی سماعتوں سے زبیر کی آواز ٹکرائی,,

کہیں یہ وہی اشہد تو نہیں,, دانی بڑبڑاتی ہوئی آگے ہوئی تو نظر اشہد کے چہرے سے ٹکرائی,,

اووہ مائ گاڈ یہ تو وہی کمینہ ہے ڈیڈ اسے میرے ساتھ کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں,, دانی ششدہ سی انہیں دیکھ رہی تھی,,

آہل پلیز ڈو سم تھینگ یہ کمینہ تو,,

دانی الٹے پیر واپس کمرے میں آ گئی,,

آہل مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئ پلیز تم آ جاؤ میری غلطی کو سزا مت بننے دو,, دانی ہاتھ مسلتی ٹہل رہی تھی,,

***********

آہل رات گئے گھر آیا تو آنا نے اسے دروازے میں ہی روک لیا,,

تم کہاں تھے صبح سے,, وہ اچنبھے سے بولی,

کام تھا کچھ,, آہل دائیں بائیں دیکھتا ہوا بولا,,

آج تم میرے ساتھ دانی کو تلاش کرنے کیلئے بھی نہیں گےُ,, آنا تفتیشی انداز میں بولی,, تم چلی گئ تھی نہ بہت ہے,, آہل کا انداز جان چھڑانے والا تھا,,

آنا منہ کھولے اسے دیکھنے لگی,,

تم اتنا روڈ کیوں ہو رہے ہو,

میں ایسا ہی روڈ ہوں,, آہل چبا چبا کر بولتا اندر چل دیا,,

آنا منہ بناتی دروازے بند کرنے لگی,,

کھانا نہیں کھاؤ گے کیا,, آنا اسے زینے چڑھتے دیکھ کر بولی,,

نہیں,, آہل سرد مہری سے کہتا چلا گیا,,

عجیب انسان ہے,, آنا کہتی ہوئی چل دی,,

آہل سانس خارج کرتا کمرے میں آ گیا,,

کتنے دن ہو گےُ تھے دانی سے دور ہوۓ آہل نے حساب نہیں رکھا,,

دانی کب ملو گی مجھے,, وہ تھکا تھکا دکھائ دے رہا تھا,, صبح سے آہل مارا مارا پھر رہا تھا دانی کی تلاش میں,,

تمہاری یاد مجھے تھکا رہی ہے دانی,,, پلیز واپس آ جاؤ,, آہل حیات تمہارا ایڈیکٹ ہو گیا ہے,, آہل منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا,,

آئ ہوپ دانی ٹھیک ہو گی, ,,

ساری رات آنکھوں میں بسر ہوئ,, آہل نے ٹائم دیکھا تو فجر پڑھنے چل دیا,,

ساری رات دانی کروٹ بدلتی رہی, بےچینی اور خوف کے باعث دانی ٹھیک سے سو نہیں سکی,, فون بھی نہیں ہے میرے پاس کیسے بتاؤں آہل کو,, دانی سوچتی ہوئ آٹھ بیٹھی,,, جب دماغ مفلوج ہونے لگا تو پھر سے ڈائری نکال کر بیٹھ گئ,,

آہل گارڈز کے ہمراہ چلتا ہوا آ رہا تھا آنکھوں پر گاگلز لگاےُ, چہرے پر سختی سجاےُ وہ پہلے سے منفرد دکھائی دے رہا تھا,,

چاچو اب بتائیں آگے کیا کرنا ہے,,

آہل اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا,,

مجھے خوشی ہے تم نے خود کو سنبھال لیا,, عاقب اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا,,

چاچو ہم دوبارہ اس واقعے کو یاد نہیں کریں گے ورنہ آپ مجھے سنبھال نہیں پائیں گے, آہل بے لچک لہجے میں بولا,, لہجے کی سرد مہری چہرے پر واضح تھی,,

ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں,,

اس بار الیکشن میں ہماری حکومت بنے گی لیکن تمہیں سیاست کا بلکہ تجربہ نہیں میرا مشورہ ہے کہ پہلے تم سمجھو سیاست کو پھر اس میں قدم رکھا, تب تک میں سنبھال لو گا یہ سب,,

ہممم ٹھیک کہا آپ نے, ویسے بھی میرا لاسٹ سمیسٹر رہتا ہے میں اسے پورا کرنے کے بعد مستقل پاکستان میں رہوں گا,,

ہاں تم چلے جاؤ پھر جب واپس آؤ گے ہم دیکھ لیں گے زبیر سے بدلہ کیسے لیں,, ویسے میرے پاس ثبوت ہے تم بے فکر رہو میرے لیپ ٹاپ میں محفوظ ہے,,

جیسے آپ کو مناسب لگے مجھے بھی کچھ وقت چائیے خود کو سیٹ کرنے کے لیے,, آپ پھر میری ٹکٹس کنفرم کروا دیں,, باقی زبیر کو بعد میں خود میں دیکھ لوں گا,, آہل کہتا ہوا کھڑا ہو گیا,

تم کہاں جا رہے,,

میں کمرے میں جا رہا ہوں آرام کرنے,, آہل سپاٹ انداز میں کہتا زینے چڑھنے لگا,,

آہل کمرے میں آیا,, کب سے کیا ضبط ٹوٹ گیا,, آنسو پھر سے اس کے رخسار کو بھگونے لگے,,

آہل مرے مرے قدم اٹھاتا سٹڈی روم میں آیا,, مطلوبہ شیلف کے پاس آیا اور ڈائری نکال لی,,

اے ڈی, آہل ان لفظوں پر ہاتھ پھیرنے لگا,,

عدن بنا کسی پر نظر ڈالے چل رہی تھی گردن تفخر سے تنی ہوئ تھی, وہ چھ فٹ کی لڑکی دودھیا رنگت کی مالک,, سیاہ سحر انگیز آنکھیں سیاہ ریشمی بال جو کسی آبشار کی مانند اس کی پشت پر گرے ہوتے, گلابی عنابی لب, اس پر گال پر پڑتا گڑھا,, تباہی مچا دیتا,,,

وہ راستے کا تعین کیے بنا چل رہی تھی آسٹریلیا کی سڑکیں اس کے لئے انجان تھی لیکن وہ دُر عدن تھی جس کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا,,, رات کا وقت اور ایسی آفت تنہا چلتی جا رہی تھی عدن کو اپنے عقب میں آہٹ سنا دی,, عدن آبرو اچکا کر عقب میں دیکھنے لگی لیکن کوئی دکھائ نہیں دیا,, وہم سمجھ کر وہ چلنے لگی,,

لیکن کچھ مسافت طے کرنے پر اسے پھر سے آہٹ سنائی دی اور اب کی بار مقابل چھپا نہیں بلکہ سامنے آ گیا,,

عدن غصے سے گھورنے لگی مانو یہ بھی اس کے باپ کی ملکیت ہو,,

وہ ایک ہی جست میں عدن کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا,,

عدن ہقہ بقہ سی اس افتاد کو دیکھنے لگی,, چھوڑو مجھے,, میری ایک فون کال پر تم جیل میں دکھائ دو گے,, عدن مزاحمت کرتی ہوئ بولی,,

لیکن مقابل قہقہ لگاتا عدن کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لے آیا,

فون کرنے کے قابل ہو گی تو پھر نہ,,

عدن ایک نازک گڑیا کی مانند تھی اس باڈی بلڈر کی فولادی گرفت سے خود کو آزاد نہیں کروا سکتی تھی,, عدن اسے پرے دھکیلنے کی سعی کرتی آس پاس نظر دوڑانے لگی,

ہیلپ پلیز,, سم باڈی ہیلپ می,, عدن چلا رہی تھی لیکن اس سنسان علاقے میں کوی ذی روح دکھائ نہ دیا,,

لیو می,, عدن اسے خود سے دور کرنے لگی,, اسی ہاتھاپائی میں عدن کی شرٹ کا گریبان پھٹ گیا,,, عدن پر خوف کی لہر سرایت کر گئ,,

وہ چلاتی ہوئ اسے پرے دھکیل رہی تھی اسی اثنا میں ایک نفس کا ہیولہ دکھائ دیا,,

پلیز ہیلپ می,, عدن حلق کے بل چلائ,,

وہ ایک نقاب پوش لڑکی تھی جس کے ہاتھ میں پائپ تھا وہی پائپ اس لڑکے کے سر میں مارا,, اس کی گرفت ڈھیلی پڑی,, وہ عدن کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگی,

سٹاپ یو بلڈی,, وہ سر پر ہاتھ رکھے چلانے لگا,,

عدن اور وہ لڑکی کافی دور تک نکل آےُ جہاں لوگ دکھائ دینے لگے,, عدن اپنے کپڑوں کے باعث خود میں سمٹی ہوئ تھی,, اس لڑکی کے پاس سکارف جس سے اس نے نقاب کر رکھا تھا اس کے علاوہ کوئی دوپٹہ نہیں تھا,,وہ شش و پنج میں مبتلا ہو کر عدن کو دیکھنے لگی,, ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر سکارف میں جذب ہوا اور اس نے نقاب ہٹا دیا,, سکارف اتار کر عدن کے جسم کو ڈھانپ دیا,, عدن پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی,,

جلدی کرو,, وہ آس پاس دیکھتی ہوئ بولی,,

عدن خاموش اس کے ساتھ چلنے لگی,,

ہاسٹل پہنچ کر وہ تیزی سے کمرے اپنے کمرے کی جانب چل دی,, عدن خود کو زمین میں گڑھتا ہوا محسوس کر رہی تھی,, اس کے بعد جب بھی وہ لڑکی عدن کو دکھائ دی روتی ہوئ دکھائ دی,,

عدن نے بہت بار معافی مانگی اور وہ ہر بار اسے کہتی کہ معافی کی ضرورت نہیں یہاں سے عدن کی زندگی میں تغیر و تبدل آیا,,

مام آپ کی زندگی بدل گئ تبھی آہل حیات بھی ایک انسان ہے ورنہ شاید میں بھی باقی سب جیسا ہوتا,,

دانی کی گرے آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں اور میں چاہتی ہوں میرے آہل کی بیوی وہی بنے اس گھر میں دانی آےُ,, آہل نم آنکھوں سے ان لفظوں کو پڑھ رہا تھا,,

مام دانی کو تو میں فراموش کر گیا,, ایک طرف آپ کا بدلہ اور دوسری جانب آپ کی خواہش,, بہت مشکل ہے یہ سب,, آہل نے ڈائری بند کر دی,,

پھر کچھ سوچ کر قلم اٹھایا اور لکھنے لگا,, کبھی پہلے صفحے پر لکھتا تو کبھی عدن کے لکھے ہوۓ کے ساتھ لکھتا جاتا,, اس کی ماں کو بھی عادت تھی وہ ڈائری کبھی ترتیب سے نہیں لکھتی تھی کبھی کسی صفحے پر لکھنے لگ جاتی تو کبھی کسی صفحے پر,, آہل کے آنسو ڈائری پر گر رہے تھے لیکن وہ لکھتا جا رہا تھا شاید وہ آخری بار ہر چیز کو لکھ کر پیچھے چھوڑ دینا چاہتا تھا,, لیکن ماضی سے کبھی پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا وہ کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتا ہے,,

دانی نے صفحہ الٹ کر دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا شاید سیاہی ختم ہو گئ تھی تبھی آگے نہیں لکھا,, دانی نے سوچتے ہوۓ ڈائری بند کر دی,,

تو تم نے اپنی مام کی خواہش پوری کرنے کے لیے مجھ سے نکاح کیا,, لیکن تمہاری مام مجھے کیسے جانتی تھیں اور ڈیڈ کو کیسے جانتے تھے تم سب,, دانی الجھ کر سوچنے لگی,,

ان سب سوالوں کے جواب آہل حیات صرف تم دے سکتے ہو,, تو کیا سچ میں وہ مجھ سے محبت کرتا ہے,, دانی کو اس کے ہاتھ پر بنا ٹیٹو یاد آ گیا,,

آہل حیات مجھے سب معلوم ہو گیا تمہاری مسٹری دانین حیات نے حل کر لی ہے بس اب تم سے ملنا چاہتی ہوں,,


تھینک یو آج تم میرے ساتھ آےُ ورنہ میں تو سوچ رہی تھی تم ناراض ہو, آنا سیٹ بیلٹ باندھتی ہوئ بولی,,

نہیں ناراضگی والی کیا بات,, آہل باہر دیکھتا ہوا بولا,

نو ایشو,, آنا مسکراتی ہوئ ڈرائیو کرنے لگی,,


میڈم آپ کو سر بلا رہے ہیں,, میڈ دانی کے دروازے پر کھڑی تھی,,

دانی تھوک نگلتی اس کے ساتھ چل دی,, نیچے آئ تو سامنے وہ وحشی اشہد جٹ دکھائ دیا,, دانی کو اس کی بےباق نظروں پر غصہ آ رہا تھا,

دانی میری فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے,,

کہاں جا رہے ہیں آپ, دانی حیرت سے بولی,,

پاکستان جا رہا ہوں الیکشن کے باعث بہت سے کام کرے ہوۓ ہیں,, زبیر اسے دیکھ کر بولے..

لیکن آپ نے بولا تھا میرے ساتھ رہیں گے میں یہاں اکیلی کیا کروں گی مجھے بھی ساتھ لے کر چلیں,,

تمہیں پاکستان نہیں لے جاسکتا,, تمہاری حفاظت کے لئے اشہد کو بلوایا ہے میں نے,

کس سے حفاظت کے لئے,, اور جسے بلایا ہے مجھے تو اس سے تحفظ چائیے,, دانی اونچی آواز میں بولی,,

آہل سے اور کس سے,, اور اشہد سے تمہاری شادی ہو گی ہماری بات ہو گئ ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں,, وہ سفاکی سے بولا,

ڈیڈ مجھے لگتا ہے آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے, میں نے آپ کے پلان میں ہیلپ کا بولا تھا آہل کو چھوڑنے کا نہیں,,

یہ سب بعد کی باتیں وقت آنے پر طے کریں گے اب تم بنا چوں چراں کئے یہاں رہو گی سمجھی,, زبیر اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولے,,

میرے جو دل میں آےُ گا میں وہ کروں گی دیکھتی ہوں کیا کر لیں گے آپ لوگ دانین حیات ہوں میں, لاؤنج میں دانی کی آواز گونج رہی تھی,,

دانین مجھے مجبور مت کرو کوئی سخت قدم اٹھانے پر,, زبیر سختی سے بولے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے باہر نکل گئے,,

دانی ششدہ رہ گئ,,

اشہد کمینگی سے دیکھتا دانی کی جانب بڑھنے لگا,,

آج تو وہ تمہارا سو کالڈ شوہر بھی نہیں ہے,وہ کہتا ہوا دانی کی جانب قدم بڑھانے لگا,,

میرے قریب آنے کی کوشش مت کرنا منہ توڑ کر ہاتھ میں دے دوں گی,, دانی غرائ,,

لیکن وہ قہقہ لگاتا دانی کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا,

لیپ ٹاپ پر ویڈیو چل رہی تھی اور لڑکی کی چیخ و پکار سنا دے رہی تھی,, ڈاکٹر قدسیہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ آرام دہ انداز میں بیٹھیں تھیں,,

زبیر اگر تم نے مجھے دھوکہ دیا تو میرے پاس بھی بہت کچھ ہے,, میں ڈوبوں گی تو تمہیں ساتھ لے کر,, وہ ہنکار بھرتی ہوئی بولی,,

ماما,, عائزہ پکارتی ہوئی اندر آئی,,

ڈاکٹر قدسیہ نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا ویڈیو بند کر دی,,

ہاں بولو,, وہ چہرہ موڑ کر مسکرانے لگیں,,

مجھے کام سے جانا تھا اور ڈرائیور ابھی تک نہیں آیا کہاں بھیجا ہے آپ نے اسے,, وہ پیشانی پر بل ڈالے کھڑی تھی,,

عائزہ مجھے کچھ کام تھا اسی لئے بھیجا تھا ابھی آ جاےُ گا,,

اب میں انتظار کرتی رہوں,, وہ منہ بناتی صوفے پر بیٹھ گئ,

میں کال کر کے پوچھتی ہوں کہاں رہ گیا,,

ماما انکل زبیر جس لڑکے کو بےعزت کر رہے تھے انعم نے اس کے ساتھ نکاح کیا ہے,, عائزہ یاد کرتی ہوئ بولی,,

ہاں,, لیکن تم بھی گئی تھی کیا اس پارٹی میں,, وہ اچنبھے سے بولی,,

ظاہر ہے گئ تھی تو استفسار کر رہی,, وہ شانے اچکاتی ہوئی بولی,,

عائزہ تمہیں بارہا منع کیا ہے ہر پارٹی میں جانا مناسب نہیں پھر کیوں سمجھ نہیں آتا,, ان کی پیشانی پر شکنیں ابھریں,,

ماما میں بن بلائے مہمان تو نہیں تھی وہاں,,

عائزہ تمہیں میری باتیں نا جانے کیوں سمجھ نہیں آتیں,, وہ کوفت سے بولیں,

گاڑی کا ہارن سنا دیا تو عائزہ کھڑی ہو گئی,,

کوئی مسئلہ نہیں ڈرائیور آ گیا ہے میں چلتی ہوں,, وہ مسکراتی ہوئ نکل گئ,,

اس لڑکی کا میں کیا کروں,, وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں..

زبیر تم واپس آؤ گے یا نہیں,, وہ تنک کر بولیں,,

میں بس چند گھنٹوں میں پہنچ جاؤں گا,,

وہاں دل لگا کر بیٹھ گئے ہو معلوم ہے کتنے مسائل در پیش ہے,, ایک تو مناسب جگہ کا انتخاب نہیں ہو رہا سب مجھے ہی کرنا پڑ رہا ہے پیسے لینے پہنچ جاتے ہو,,

میں نے کہا نہ آ رہا ہوں,, سب کام کر لوں گا آپ کو فکر کرنے کی نوبت نہیں آےُ گی,,

ہوں,, نوبت نہیں آےُ گی,, وہ سر جھٹکتی فون بند کر گئ,,

***********

دانی طیش کے عالم میں اشہد کو دیکھنے لگی,,,

تمہاری اتنی ہمت کہ میرا ہاتھ پکڑو,, دانی نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا,, اشہد کے تن بدن میں آگ لگ گئی,,

تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا,,,

میں نے تو صرف ہاتھ اٹھایا ہے آہل ہوتا نہ تو اب تک یہ ہاتھ ٹوٹ چکا ہوتا,, دانی اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کروا چکی تھی,,

سمجھتی کیا ہو خود کو تم, وہ دانی کے بال دبوچتا ہوا بولا,,

کھڑکی کے پٹ وا تھے باہر شام کے ساےُ گہرے ہو رہے تھے,, ہوا سے پردے پھڑپھڑا رہے تھے,,

دانی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا,,

اچھا پھر ایک ڈیل کرتے ہیں,, دانی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی,

کیسی ڈیل,, وہ اچنبھے سے بولا,,

مجھے دو دن کی مہلت دو,,

کس خوشی میں,, وہ دانی کے بال کھینچتا ہوا بولا,,

آہ,, دانی دانت پیستی اسے دیکھنے لگی,,

عقل کے اندھے ہر کام کرنے کے لیے انسان سوچتا ہے تو میں بھی وقت مانگ رہی اگر دو دن بعد بھی میرے فیصلے میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آیا تو,,دانی رک کر اسے دیکھنے لگی,, اشہد کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی,,

ہوں تو میں تمہارے رحم و کرم پر مزاحمت کرنے کا بھی کوئی نفع نہیں,, دانی لب کاٹتی ہوئی اسے دیکھنے لگی,,

ہممم دو دن ٹھیک ہے یونہی گزر جائیں گے اس کے بعد تو کوئی بھی تمہیں بچا نہیں پاےُ گا,,

دانی کو معلوم تھا وہ بیوقوف ایسا ہی کرے گا,,

دانی آبرو اچکا کر آس پاس دیکھنے لگی,, اشہد اس کے عین سامنے کھڑا تھا,,


کیا ہوا گاڑی کیوں رک گئی,, آہل آبرو اچکا کر آنا کو دیکھنے لگا,,

مجھے لگتا ہے خراب ہو گئ,, آنا سٹارٹ کرنے کی سعی کرنے لگی,,

آہل باہر نکل آیا,, اس بیاباں میں تو کوئی شاپ بھی نہیں ملے گی,, آہل جیب میں ہاتھ ڈالے چلتا ہوا بولا,,

ہاں مجھے بھی یہی توقع ہے,, آنا شرمسار سی بولی,,

تم یہیں رکو میں کچھ فاصلے تک دیکھ کر آتا ہوں,,

ٹھیک ہے تم جاؤ میں یہیں کھڑی ہوں,, آنا سر ہلاتی ہوئی بولی,,

آہل آس پاس دیکھتا چلنے لگا,,

دونوں سمت میں درخت ہی درخت دکھائ دے رہے تھے,, سبزہ ہی سبزہ,, ہوا پتوں میں سر سراہٹ پیدا کر رہی تھی,,,


دانی نے موقع کو غنیمت جانا اور اشہد کے منہ پر ایک مکہ جھڑ دیا,, اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بنا دانی نے دوسرا مکہ اس کے پیٹ میں مارا,, اشہد پیٹ پر ہاتھ رکھے کراہنے لگا,,

دانی دروازے کی جانب لپکی لیکن پھر واپس آئ اور ایک مکہ اس کی کمر میں دے مارا,,

دانی کی بچی تم میرے ہاتھ سے بچ کر دکھانا اب,, وہ کراہتا ہوا بولا.

پہلے مجھے پکڑ کر تو دکھاؤ,, دانی کہ کر بھاگ نکلی,,

آؤچ,, آہل کی مانند جنگلی ہے,, وہ منہ پر ہاتھ رکھتا دروازے کی جانب آیا جسے دانی باہر سے لاک کر گئ تھی,,

اشہد دروازے کھولنے کی سعی کرنے لگا لیکن وہ مقفل تھا,

دانی,, وہ ہنکار بھرتا کھڑکی کے پاس آ گیا,, کھڑکی سے باہر نکل کر وہ آس پاس دیکھتا چلنے لگا,,

یہیں کہیں ہو گی اتنی جلدی کہاں جا سکتی,,, وہ محتاط انداز میں نگاہ دوڑاتا ہوا بولا,,

دانی اندھا دھند بھاگتی جا رہی تھی ساتھ میں چہرہ موڑ کر عقب میں دیکھ لیتی,, لیکن وہ دکھائ نہیں دے رہا تھا,, دانی کا تنفس تیز ہو گیا,,

وہ کمر پر ہاتھ رکھے تیز تیز سانس لینے لگی, بال بکھر کر چہرے پر جھول رہے تھے,, دانی کو آہٹ سنا دی تو آنکھیں پھیل گئیں,,

خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی دانی نے پھر سے بھاگنا شروع کر دیا,,

اشہد اسے دیکھ چکا تھا,, اسی لیے خاموشی سے اس کا تعاقب کرنے لگا,,

دانی نے عقب میں دیکھا تو کوئی دکھائ نہ دیا,,

مجھے لگتا ہے وہ کسی اور سمت میں نکل گیا ہو گا,, دانی سانس بحال کرتی ہوئی بولی,,

اسی لمحے اشہد نے دانی کا بازو دبوچا,, دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی,,,

مجھ سے بچ نہیں سکتی تم,, وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا,,

دانی نے اس کے ہاتھ پر اپنے دانت گڑھ دئیے,,

وہ تکلیف سے کراہنے لگا اور مجبوراً دانی کا ہاتھ چھوڑ دیا,,

پتہ نہیں ڈیڈ کس ویرانے میں لے آےُ مجھے تو راستے کا بھی علم نہیں,, دانی بھاگتی ہوئی بول رہی تھی,

دانی عقب میں دیکھتی بھاگ رہی تھی جب وہ سامنے سے آتے نفس سے ٹکرا گئ,, دانی کا سانس اتھل پتھل ہو رہا تھا,, دانی کے چہرے پر بالوں کا پہرہ آ گیا,, دانی انگلیوں سے بال ہٹاتی اس وجود کو دیکھنے لگی جس سے ابھی ابھی ٹکرائ تھی,, جونہی نظر آہل کے چہرے سے ٹکرائی,, دانی کی آنکھیں نم ہو گئیں,, دانی کو اپنی بصارت پر شبہ ہونے لگا,,

آہل اپنی جگہ ساکت تھا, بے یقینی سے دانی کو دیکھنے لگا,,

دانی کے چہرے پر خوف کی لکریں تھیں,,

آہ آہل مجھے بچا لو وہ کمینہ اشہد میرا تعاقب کر رہا ہے,, دانی اس کی عقب میں جاتی ہوئ بولی,,آہل کی پشت میں دانی نے خود کو چھپا لیا,,

اشہد کے نام پر آہل کی آنکھوں میں لہو دوڑنے لگا گردن کی رگیں تن گئیں,, آہل مٹھیاں بھینچے سامنے دیکھنے لگا جہاں سے اشہد نمودار ہوا,,

آج یا تو تم زندہ جاؤ گے یا پھر میں,, آہل کہتا ہوا آگے بڑھنے لگا,,

آہل نہیں ہم واپس چلتے ہیں,, دانی اس کے پیچھے لپکتی ہوئی بولی,

دانی تم وہاں جا کر کھڑی ہو جاؤ,, آہل کے چہرے پر زمانے بھر کی سختی تھی,,

آہل نہیں,,

دانی نے اسے روکنا چاہا,

دانی تم نے سنا نہیں,, آہل کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا.

ناچار دانی کو جانا پڑا,,

دانی کچھ فاصلے کا راستہ طے کر کے کھڑی ہو گئ,

پلیز اللہ تعالٰی آہل کو کچھ نہ ہو, دانی آنکھیں زور سے میچ کر ہاتھ اٹھاےُ بول رہی تھی,,

آہل گردن دائیں بائیں ہلاتا اشہد کے سامنے آیا,,

اووہ تو شوہر صاحب تشریف لے آےُ,, اشہد مزاح کا رنگ دیتا ہوا بولا,,

آہل اس کے ناک سے بہتا خون دیکھ رہا تھا, بنا کچھ بولے آہل نے اس کے ناک پر اپنے فولادی ہاتھ سے مکہ مارا,, اشہد دو قدم پیچھے جا گرا,,

تجھے وارن کیا تھا لیکن اپنی زندگی سے بلکل پیار نہیں تجھے,, آہل اس پر جھک پر بنا دیکھے مکے برسانے لگا,, اشہد نے اسے دھکا دیا,, آہل کمر کے بل جا گرا,,

اشہد کے منہ سے, ناک سے خون بہ رہا تھا,, وہ آدھ موا ہو گیا تھا,

بھاڑ میں گےُ تم اور تمہاری دانی,, کہ کر وہ بھاگنے لگا,,

آہل منہ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگا,,

نامرد کہیں کا,, آہل قہقہ لگاتا دانی کی جانب قدم بڑھانے لگا,,

مسز آہل کون سی کاروائی آپ نے کی,, آہل اس کے روبرو آتا ہوا بولا,,

دانی فکرمندی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی لیکن وہ بلکل ٹھیک تھا,,

جو تم نے سکھائی تھی,, دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی,,

ویری گڈ,, اب معلوم ہو گیا کیوں سکھایا تھا تمہیں,, وہ دانی کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہوا بولا,

بلکل سیلف ڈیفینس, دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی,,

تم ٹھیک ہو نہ دانی,, آہل اسے سر تا پیر دیکھتا ہوا بولا, آہل کی آنکھوں میں اپنے لیے فکر دیکھ کر دانی کی آنکھیں چھلک پڑیں,,

کیا ہوا دانی,, آہل پریشانی سے اسے دیکھنے لگا,,

کچھ بھی نہیں ہوا مجھے بلکل ٹھیک ہوں دیکھو,,دانی نم آنکھوں سے مسکراتی ہوئی بولی,,

زبیر نے تمہیں,,

کچھ بھی نہیں کیا,, دانی مان سے بولی,,

آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھنے لگا,,

آئم سوری دانی,, میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکا,, آہل اس کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں پھنساتا ہوا بولا,,

نہیں آہل,, دانی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا,,

ہوا سے دونوں کے بال لہرا رہے تھے,,

آہل کو پھر سے دانی کے بالوں سے الجھن ہونے لگی,,

تم آج بھی اپنے بال ٹھیک نہیں کرتی, وہ خفگی سے دیکھتا اپنے دائیں ہاتھ سے دانی کے چہرے سے بال ہٹانے لگا,,

کیونکہ میں جانتی ہوں تم یہ کام بخوبی کرتے سکتے ہو,, دانی دھیرے سے مسکرائی, دانی کو دیکھ کر آہل بھی مسکرانے لگا,, دانی واپس آئی تھی اور آہل کی مسکراہٹ بھی لوٹ آئی,,

دانی مبہوت زدہ آہل کے ڈمپل کو دیکھنے لگی,,

میں نے تمہارے اس گندے سے ڈمپل کو بہت مس کیا,, دانی ناک چڑھاتی ہوئ بولی,,

ہاہاہاہا گندہ سا پھر بھی مس کیا,, آہل قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا,,

ہاں نہ,, دانی منہ بسور کر بولی,,,

تھینک گاڈ تمہیں کچھ نہیں ہوا,, آہل نے کہتے ہوۓ اپنی پیشانی دانی کی پیشانی سے لگا دی,,

دانی مسکرانے لگی,,

تم نے مجھے مس کیا,, دانی آنکھیں بند کرتی ہوئ بولی,,

تمہیں کیا لگتا ہے,, آہل کی آنکھیں بھی بند تھیں,,,

بہت مس کیا ہو گا تم نے مجھے,, بولتے بولتے دانی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئ,, بلکل,, آہل تائیدی انداز میں بولا,,

آہل ڈیڈ کے ساتھ میں بھی اس پلان میں شامل تھی تاکہ تم الیکشن نہ لڑو,, دانی نے گویا دھماکہ کیا,,

آہل دو قدم دور ہٹتا دانی کو دیکھنے لگا,, سیاہ آنکھوں میں حیرت سموےُ وہ دھیرے دھیرے نفی میں سر ہلا رہا تھا,,

آہل پلیز میری بات سنو,, مجھے پہلے کچھ بھی معلوم نہیں تھا,,

بس دانی,, پہلے والی نرمی کی جگہ سختی نے لے لی,,

________

میں نے تمہیں آگاہ کیا تھا کہ مجھے دھوکہ دینے والوں سے سخت نفرت ہے,, آہل کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں,,

آہل ایک بار میری پوری بات سن لو,, دانی اس کی جانب بڑھی,,

آہل نے ہاتھ کے اشارے سے دور رہنے کو بولا,,

مجھے کچھ نہیں سننا دانی,, تم نے ثابت کر دیا اس زبیر کی بیٹی ہو تم,, آہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی,,

کچھ ٹوٹا تھا آہل کے اندر,,

آہل نفی میں سر ہلاتا اس سمت دیکھنے لگا جہاں سے وہ آیا تھا,,

چلو اب,, وہ دانی کو دیکھے بنا بولا,,

آہل ایک بار سن تو لو پوری بات,, دانی اس کی ہمقدم ہوتی ہوئی بولی,,

دانی اپنا منہ بند رکھو,,,آہل ضبط کی انتہا پر تھا,,

آہل میں نے تمہاری وہ,,

چپ بلکل چپ,, آہل دانی کے لبوں پر انگلی رکھتا ہوا بولا,,

مجھے مجبور مت کرو میں سختی سے پیش آؤں تمہارے ساتھ,, آہل کے چہرے پر بلا کی سختی تھی,,

دانی شکوہ کناں نظروں سے آہل کو دیکھنے لگی,,

آہل نے دانی کا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز قدم اٹھانے لگا,,

آہل مجھے بعد میں حقیقت معلوم ہوئ,, دانی اس کے ساتھ بمشکل قدم ملاتی ہوئ چلائ,,

دانی اگر ایک بھی لفظ تمہارے منہ سے نکلا تو یہیں چھوڑ جاؤں گا,, آہل بے لچک لہجے میں بولا,,

سورج اپنی مسافت طے کر کے زوال تک جا چکا تھا,, اندھیرا بڑھ رہا تھا,, دانی آس پاس بڑے بڑے درختوں کو دیکھتی خاموش ہو گئ,,

گھر لے کر جاےُ گا نہ وہاں بات کر لوں گی,, دانی سوچتی ہوئ خاموش ہو گئ,,

آنا ان دونوں کو دیکھ کر حیران رہ گئ,,

پھر مسکراتی ہوئ آگے آئ,,

واؤ دانی مل گئ تمہیں,, وہ براہ راست آہل کو مخاطب کرتی ہوئ بولی,,

دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں,,

آنا,, آہل کے دوست کی بیٹی,, وہ دانی کے سامنے ہاتھ کرتی اپنا تعارف کروانے لگی,, آہل دانی کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا,, دانی منہ بناتی مصافحہ کرنے لگی,,

اب واپس کیسے جائیں گے, آہل آنا کو دیکھ کر بولا,,

میں نے ڈیڈ کو فون کر دیا تھا وہ مکینک کو لے کر آتے ہوں گے,, وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی,,

آہل اثبات میں سر ہلاتا ان سے کچھ فاصلے پر آ گیا,,

دانی کو آہل پر غصہ آنے لگا تھا,,

ٹھیک ہے غلطی ہو گئ لیکن سننے میں کیا قباحت تھی,, دانی اسے گھورتی ہوئ بولی جو آنا کے ساتھ محو گفتگو تھا,,

کچھ ہی دیر میں مکینک آیا اور آنا گاڑی ڈرائیو کرنے لگی,, آہل فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا اور دانی پیچھے,,

دانی رونے والی شکل بناےُ آہل کو دیکھ رہی تھی جو لاپرواہ سا بنا بیٹھا تھا,,

کیا سوچا تھا اور کیا ہو رہا ہے دانی تم پاگل ہو سچ میں,, دانی خود کو کوستی باہر دیکھنے لگی,

آنا دونوں کے بیچ سرد مہری کو محسوس کر رہی تھی,, لیکن آہل کے مزاج کے باعث خاموش رہی,,

آنا دانی کو کمرہ دکھا دینا میں جا رہا ہوں,, آہل گاڑی سے نکل کر بولا,,

کہاں جا رہے ہو تم,, دانی دونوں کے وسط میں آ گئ, آنا نے دو قدم الٹے اٹھاےُ,,

تمہارے لئے جاننا اہم نہیں تم یہاں خاموشی سے رہو گی اور خبردار اگر کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تم نے,, آہل اردو میں بول رہا تھا اور آنا سمجھنے سے قاصر تھی,,

تم چلے جاؤ گے تو میں کروں گی الٹی سیدھی حرکتیں پھر مجھے ڈانٹنے تو آؤں گے نہ واپس,,

بہت برا پیش آؤں گا میں دانی,, آہل انگلی اٹھا کر بولا,,

برا پیش آؤ یا اچھا واپس تو آ جاؤ گے نہ بہت ہے یہی,, دانی اثر لئے بنا بولی,,

تم مجھ سے ڈرتی کیوں نہیں ہو,, آہل اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا,,

تم ڈریکولا ہو کیا جو میں تم سے ڈروں,, دانی اسے گھورتی سے نوازتی ہوئ بولی,,

آہل نفی میں سر ہلاتا اسے جھٹکے سے پیچھے کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا,,

جاہل حیات,,

دانی بازو مسلتی ہوئ آنا کو دیکھنے لگی,,

آ جاؤ,, آنا مسکراتی ہوئ اندر چل دی,,

دانی منہ بناتی اس کے پیچھے چل دی,,

آہل ہوٹل آ گیا کمرہ بک کروایا اور تیزی سے کمرے کی جانب چلنے لگا,,

دانی نے اسے توڑ کے رکھ دیا تھا,,

دانی کیوں,,, کیوں کیا تم نے ایسا,, کیا کمی تھی میری محبت میں جو تم بھی اس زبیر کے ساتھ مل گئ,, مطلب تم دونوں مل کر مجھے بیوقوف بنا رہے تھے تبھی تمہارے چہرے پر تشدد کے کوئی آثار نہیں تھے,, آہل بیڈ کی پائنتی سے پشت لگا کر زمین پر بیٹھ گیا,,

مام دانی کا انتخاب آپ نے کیا تھا مجھے بتائیں اب ایسی دھوکے باز لڑکی کو میں اپنے ساتھ رکھوں,, آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے,,

اتنی تکلیف تو شاید اس کے کھونے پر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی اس کے دھوکے نے دی ہے مام یہ سب ایک جیسے ہیں کوئی فرق نہیں,, وہ چہرہ گھٹنوں پر گراےُ بول رہا تھا,, آہل خاموش ہوا تو گھڑی کی ٹک ٹک سنائ دینے لگی باہر کی تاریکی سے زیادہ اس کے اندر تاریکی تھی جتنی خاموش یہ رات تھی اتنا ہی خاموش یہ کمرہ تھا,,

مام پھر سے ٹوٹ گیا آپ کا آہل پھر سے بکھر گیا,, وہ نہیں جانتی کیسے میں نے خود کو جوڑا تھا یہ توڑ جوڑ کا عمل نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے وہ میری اذیت سے واقف نہیں اور دیکھیں اس نے مجھے پھر سے وہیں لا کھڑا کیا,, میرے ساتھ ہی کیوں ہمیشہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ,, لوگ کہتے ہیں آہل حیات کو کسی چیز کی کمی نہیں لیکن کوئی مجھ سے پوچھے کیا میرے پاس کچھ ہے,, آنسو جینز میں جذب ہو رہے تھے,,


میرے لئے شاید کچھ بھی نہیں ہے آہل حیات صرف محرومیاں دیکھنے کے لیے آیا ہے میرے نصیب میں کچھ بھی نہیں لکھا کچھ بھی نہیں,, دانی تمہیں میں نے بےتحاشا چاہا اور تم نے مجھے بدلے میں کیا دیا دھوکہ جیسے تمہارے باپ نے دس سال پہلے میرے ڈیڈ کو دیا تم نے بھی سود سمیت مجھے لوٹا دیا,, میں کبھی نہیں جیت سکتا کبھی نہیں,, میرے لئے ناکامیاں ہی لکھی ہیں,, آپ کی محبت چھن گئ میں نے صبر کر لیا اب یہ محبت تو مل جاتی مجھے لیکن وہ بھی نہیں,, کچھ بھی نہیں ہے تمہارے لیے آہل حیات سمجھے تم,, آہل حلق کے بل چلایا,, باہر رم جھم شروع ہو چکی تھی,, باہر آسمان رو رہا تھا اور اندر آہل,, ہوا سے پردے پھڑپھڑا رہے تھے,, سرد ہوا کے جھونکے آ کر آہل سے ٹکرا رہے تھے,, یہ زندگی ہے,, آہل استہزائیہ ہنسا,,

نہیں چائیے مجھے ایسی زندگی,, بولتا ہوا آہل کھڑا ہو گیا,, رات پوری طرح اپنے پر پھیلا چکی تھی,, آہل کھڑکی میں آ کر کھڑا ہو گیا اندھیرے میں جلتی روشنیاں کیا حسین منظر پیش کر رہیں تھیں لیکن جب دل میں آگ لگی ہو تو کوئی منظر حسین نہیں لگتا,, آہل نے کھڑکی بند کر دی,,

اس سے بہتر تو میں دانی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچتا ہی نہ,, آہل سیگرٹ سلگاتا ہوا بولا,,

پوری رات وہ سموکنگ کرتا رہا ایش ٹرے بھر چکا تھا اور اب راکھ باہر گر رہی تھی لیکن آہل کو پرواہ نہیں تھی آنکھیں سرخ انگارہ بنی ہوئیں تھیں مانو اس کی آنکھوں میں آگ لگی ہو,,

***********

ہمیں برائیڈل ڈریس دکھائیں,, انعم بیٹھتی ہوئی بولی,

انعم یہاں تو بہت ایکسپینسیو ہوں گے,, رحیم آس پاس دیکھتا ہوا بولا,,

اف تم فکر مت کرو یہ ڈریس تو ڈیڈ کی جانب سے ہے اس لئے جہاں سے مرضی لوں تم جو بھی مجھے لے دو گے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا,, انعم سہولت سے بولی, رحیم فکرمندی سے سیلز مین کو دیکھنے لگا,,

اب تم بس مجھے یہ بتاؤ کون سا اچھا لگے گا,, انعم سامنے دیکھتی ہوئی بولی,,

گھنٹہ بعد وہ دونوں باہر نکلے,, آؤ نہ,, رحیم اسے کھڑا دیکھ کر بولا,,

پیدل چلتے ہیں دیکھو موسم کتنا اچھا ہے,, انعم آسمان پر چھائے سرمئ بادلوں کو دیکھتی ہوئ بولی,,

ٹھیک ہے چلو,, وہ مسکراتا ہوا انعم کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا,,

بارش کے آثار دکھائ دے رہے تھے سڑکیں معمول سے زیادہ ویران تھیں,,

کچھ کھاؤ گی,, رحیم آس پاس دیکھتا ہوا بولا,,

پانی پوری کھاتے ہیں دانین کو بھی بہت پسند ہے,, وہ مسکرا کر بولی,,

تم یہاں رکو میں لے کر آتا ہوں,, رحیم کہتا ہوا چل دیا,

رحیم دائیں بائیں دیکھتا سڑک پار کرنے لگا اسی اثنا میں ایک تیز رفتار گاڑی آئ اور رحیم کو دور گرا مارا,,

انعم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی,, گاڑی والا ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا فرار ہو گیا,, دیکھتے ہی دیکھتے رحیم خون میں نہا گیا,,

رحیم,, انعم بیگ پھینکتی چلاتی ہوئ اس کی جانب لپکی جو خون میں لت پت تھا,,

رحیم,, انعم اس کا چہرہ تھپتھپاتی ہوئ بولی,, رحیم کا روشن چہرہ اس وقت خون سے لبریز تھا جیسے خون سے ہولی کھیلی گئ ہو,,

رحیم کی آنکھوں میں نمی تھی,,

رحیم تمہیں کچھ نہیں ہو گا,, میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی,,, انعم روتی ہوئی بول رہی تھی,,

پلیز کوئی ایمبولینس کو بلاؤ,, انعم بائیں جانب دیکھتی ہوئی چلائ,, آہستہ آہستہ لوگ جمع ہوتے جا رہے تھے,,

انع انعم,, رحیم اٹک اٹک کر بولا,,

ہاں میں سن رہی ہوں,, انعم کے آنسو رحیم کے چہرے پر گر رہے تھے,,

ہو س سکے تو می میری بہنوں ک کا خیال رکھنا,,, رحیم کو اپنے پیار سے زیادہ اپنے گھر والوں کا دکھ تھا ناجانے زندگی اسے مہلت دے نہ دے,,

رحیم کا سانس اکھڑنے لگا,,

تم فکر مت کرو انہیں کچھ نہیں ہو گا اور تمہیں بھی کچھ نہیں ہونے دوں گی میں ابھی ایمبولینس آ جاےُ گی نہ پھر ہم ہاسپٹل چلیں گے,, انعم بول رہی تھی لیکن رحیم آنکھیں بند کر چکا تھا,,,,

رحیم,, انعم اسے خاموش پا کر بولی,,

رحیم مجھے جواب تو دو,, انعم اس کا چہرہ تھپتھپانے لگی,, لیکن رحیم کے بے جان وجود میں جنبش نہ آئ,,

نہیں رحیم,, تم ایسا نہیں کر سکتے آنکھیں کھولو ابھی ایمبولینس آ جاےُ گی پلیز ایسا نہ کرو میرے ساتھ,, انعم زاروقطار رو رہی تھی,,,

لوگ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے,,

ارے یہ تو زبیر رنداوھا کی بیٹی ہے نہ, ہجوم میں سے کسی کی آواز سنائی دی,,

ہاں وہی ہے جس نے چھپ کر نکاح کر رکھا تھا یہ وہی لڑکا ہے,,

رحیم پلیز آنکھیں کھولو,, میں مر جاؤں گی تمہارے بغیر پلیز ایسا مت کرو میرے ساتھ,, انعم اسے جھنجھوڑ رہی تھی لیکن اس کی حیات کا سفر تمام ہو چکا تھا,,

ایمبولینس آئ تو انعم کھڑی ہو گئ,

پلیز جلدی کریں,, انعم ہاتھ مسلتی ہوئی بولی,,

سوری میم ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے,, وہ رحیم کا معائنہ کرتے ہوئے بولے,

انعم نفی میں سر ہلاتی انہیں دیکھنے لگی,, دوبارہ چیک کریں شاید کوئی غلطی ہو گئ ہو ایسا نہیں ہو سکتا,,

وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی, میم ان کی ڈیتھ کو دس منٹ ہو چکے ہیں آپ کیوں ضد کی رہی ہیں,, وہ رحیم کو گاڑی میں ڈالتے ہوۓ بولے,

انعم آنسو بہاتی بھیڑ کو چیرتی ہوئ نکل گئ,,

نہیں تم نہیں جا سکتے,,, اب تو اچھا وقت آنے والا تھا ہماری شادی ہونے والی تھی,, تم کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتے ہو, انعم بولتی ہوئ چلتی جا رہی تھی,,

انعم کہاں ہے, زبیر ثانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے,

باہر گئ تھی مجھے کیا معلوم,, وہ لاعلمی ظاہر کرتی ہوئ بولی,,

رحیم کی ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئ ہے انعم کا فون بند جا رہا ہے, وہ پریشانی سے گویا ہوےُ,,

تمہیں کیسے معلوم,, ثانیہ کی پیشانی پر شکنیں ابھریں,,

اب میں تمہیں تفصیل بتاؤں یا انعم کو ڈھونڈوں,, وہ جھنجھلا کر کہتے نکل گئے,,,

ناظرین آپ کو تازہ ترین خبر سے آگاہ کرتے چلیں کہ زبیر رنداوھا کی بڑی بیٹی انعم جس نے سب سے چھپ کر نکاح کر رکھا تھا آج ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا,, جی ہاں ایک حادثے میں ان کی جان چلی گئ,, مزید معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے جو کہ الیکشن کے بعد متوقع تھی لیکن آج ایک تیز رفتار گاڑی نے رحیم کو ٹھوکر ماری اور قسمت نے اسے مزید مہلت نہ دی, کیا یہ ایک حادثہ ہے یا سوچی سمجھی سازش,, اس کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ گاڑی والا آن کی آن میں وہاں سے فرار ہو گیا,,

آئیے رحیم کے گھر والوں سے گفتگو کرتے ہیں,,

آپ رحیم کی والدہ ہیں,, رپورٹر ان کی جانب مائیک کرتی ہوئی بولی,,

جی,, وہ دوپٹہ سے چہرہ چھپاےُ ہوۓ تھیں,,

بہت دکھ ہوا آپ کے بیٹے کا سن کر اللہ ان کا آگے کا سفر آسان کرے,, تو آپ کا کیا کہنا ہے یہ ایک حادثہ ہے,,,

اللہ بہتر جانتا ہے نہ ہم وہاں موجود تھے نہ کچھ جانتے ہیں,, وہ آنسو پونچھتی ہوئیں بولیں,,

آپ کے شوہر نظر نہیں آ رہے,,

میرے شوہر اس دنیا میں نہیں,, ہمارے گھر میں صرف رحیم ہی ایک مرد تھا اور وہ بھی جوانی میں اللہ کو,,,وہ چہرہ موڑے آنسو بہانے لگیں,,

اللہ آپ کو صبر عطا کرے جو چلے جائیں ان کا نعم البدل تو مل نہیں سکتا صرف تسلی ہوتی جو انسان دے سکتا,, دیکھتے ہیں حکومت اس حوالے کوئی اقدام اٹھاتی ہے یا نہیں,, بہت شکریہ,,, کہ کر رپورٹر باہر نکل آئ,,

جی ناظرین ابھی ہم نے رحیم کے اہل خانہ سے بات کی تو معلوم ہوا وہ اپنے گھر کے اکلوتے مرد تھے تین بہنوں کا اکلوتا بھائ, والد صاحب پہلے ہی وفات پا چکے تھے,, آپ نے ملاحظہ کیا ان کے گھر والے سوگ کے عالم میں ہیں آخر کو جوان بیٹا ,جوان بھائ کھویا ہے انہوں نے,, ان کی موت ایک حادثہ ہے یا کوئی سازش اس حوالے سے ان کی والدہ نے کوئی بیان نہیں دیا, اس کے متعلق جیسے ہی کوئی خبر ملتی ہے سب سے پہلے آپ کو آگاہ کریں گے,,


انعم آنسو بہاتی چل رہی تھی,, وہ کہاں آ چکی تھی اسے معلوم نہیں,,, رحیم تم کیسے جا سکتے ہو میرے سامنے میرے ہاتھوں میں تم نے دم توڑا,, میں کیسے جیوں گی کیسے,,, انعم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,,

ایک ہی تو خواہش تھی میری وہ بھی پوری نہ ہو سکی اسے اس طرح سے چھین لیا مجھ سے کہ میں چاہ کر بھی یہ فاصلے مٹا نہیں سکتی,,, پلیز واپس آ جاؤ میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر پلیز آ جاؤ,, مجھے ایسی سزا مت دو جسے میں کاٹ نہ سکوں,, انعم درخت کے ساتھ پشت لگا کر بیٹھ گئ,, متواتر اشک اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے,, آنسو سامنے کا منظر دھندلا رہے تھے,,

**********

کتنے بدتمیز ہو تم جاہل حیات میری بات بھی نہیں سنی تم نے,, آج آےُ بھی تو مجھ سے ملے بغیر ہی چلے گۓ,,

دانی یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی,, جب سے آنا نے بتایا تھا آہل آیا تھا دانی طیش میں تھی,,

تم ہمیشہ جاہل حیات ہی رہو گے مجھے معافی تو مانگنے دیتے کچھ بولنے بھی نہیں دیا,, دانی تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئ,,

اور یہ آنا پتہ نہیں کون سی مصیبت کا نام ہے جب دیکھو اس کے منہ پر آہل کا نام ہوتا,,

آہل,, دانی کے لب مسکرانے لگے,,

تم ایسے نہیں آؤ گے میں کچھ کروں گی تب آؤ گے,, دانی کا دماغ کام کرنے لگا تھا,,

اب دیکھتی ہوں تم کیسے مجھ سے نہیں ملتے,, دانی مسکراتی ہوئ کمرے سے باہر نکل آئ,,

آنا باہر گارڈن میں تھی,, بہترین موقع ہے,, دانی بڑبڑاتی ہوئی زینے چڑھنے لگی,,

دانی ٹیرس پر آ کر یہاں وہاں دیکھنے لگی,, پھر آہل کا نمبر ملایا,,

بیل جا رہی تھی لیکن وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا بلکل اسی طرح جیسے پچھلے دو دن سے کر رہا تھا,,,

آہل اگر تم نے فون نہیں اٹھایا تو نقصان کے ذمہ دار تم خود ہو گے,, دانی میسج ٹائپ کرتی مسکرانے لگی,, سینڈ کر کے پھر سے کال ملانے لگی,,

آہل سانس خارج کرتا اس کا میسج پڑھ رہا تھا,, پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا,,

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے,, چھوٹتے ہی دانی بولی,,

یہ کہنے کے لیے فون کیا ہے,, آہل بیزار سا بولا,,

نہیں تمہیں کچھ بتانے کے لئے فون کیا ہے,,

دانی جو کہنا ہے بولو اتنا وقت نہیں ہے میرے پاس,,

جانتی ہوں تمہارے پاس سب کے لئے وقت ہے صرف میرے لئے نہیں اب میں یہاں سے کود کر مر بھی جاؤں گی نہ تب بھی مت آنا,, دانی نے کہ کر فون بند کر دیا,,,

دانی,, آہل کھڑا ہو گیا,, لیکن فون بند ہو چکا تھا,,

آہل لب کاٹتا دانی کا نمبر ملانے لگا لیکن فون بند جا رہا تھا,,

پاگل لڑکی اب کیا کرنے والی ہے,, آہل کوفت سے کہتا باہر نکل آیا,,

دانی کا چہرہ تر ہو چکا تھا,, آہل کی بات نے تکلیف دی تھی یا شاید اسے بہانہ چائیے تھا رونے کے لیے,,

دانی آنسو بہاتی دیوار پر چڑھ گئ,,

آہل اگر تم نہ آےُ اور میں گر کر مر گئ پھر,, دانی نیچے دیکھتی سوچنے لگی,,

ہاں بولو آہل,, آنا فون کان سے لگاےُ بولی,

معلوم نہیں پہلے تو کمرے میں تھی,, آنا نے کہ کر چہرہ اوپر اٹھایا تو ششدہ رہ گئ,,

اووہ مائ گاڈ آہل وہ سچ میں ٹیرس پر کھڑی ہے,,,

پاگل ہے وہ,, اسے بولو میں آ رہا ہوں نیچے اتر جاےُ وہ,, آہل گاڑی کی سپیڈ بڑھاتا ہوا بولا,,,,

اوکے ایک منٹ,,آنا فون کان سے ہٹا کر دانی کو دیکھنے لگی,,,

دانی آہل آ رہا ہے تم پلیز نیچے اتر جاؤ,, آنا حلق کے بل چلائی,,,

تم جھوٹ بول رہی ہو,, دانی آنسو بہاتی ہوئی بولی,,

نہیں سچ میں دیکھو اس کا فون آیا ہے مجھے,,,

مجھے فون کیوں نہیں کیا اس نے,, دانی منہ بسورتی سوچنے لگی,,

آہل رش ڈرائیونگ کرتا گھر پہنچا اور دانی کو اوپر دیکھ کر دماغ گھوم گیا,,

غصے میں اندر آیا اور زینے چڑھنے لگا,,

دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی جو اس وقت اس کے سامنے کھڑا تھا,,

نیچے اترو,, ضبط کے باعث آہل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا,,

کیوں اتروں میں,, دانی بضد ہوئی,,

ایسا نہ ہو کہ میں خود تمہیں دھکا دے دوں پھر شوق پورا کر لینا اپنا,, آہل اسے گھورتا ہوا بولا,,,

کتنے بدتمیز ہو نہ تم,, دانی آنکھیں چھوٹی کیے بولی,,,

آہل نے اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا,,

دانی مسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی نیچے اتر آئ,,

دل تو کر رہا ہے دو لگاؤں تمہارے,,

اگر تم گۓ تو میں سچ میں کود جاؤں گی یہاں سے,, دانی اس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی,,

آہل نظریں جھکاےُ اس کے ہاتھ کو دیکھتا پھر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جہاں خفگی نمایاں تھی,,

_______

بولو کیا کہنا ہے,, آہل اس کا ہاتھ ہٹاتا سرد مہری سے بولا,,

دانی اس کا ہاتھ پکڑے زینے اترنے لگی اور اپنے کمرے میں لے آئ,,

یہاں بیٹھو میرے سامنے,, دانی بیڈ پر بیٹھتی ہوئ بولی,,

آہل نا چاہتے ہوۓ بھی بیٹھ گیا,,

تم کیوں کر رہے ہو ایسا,, دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی,,

آہل جانتا تھا دانی کے سامنے وہ کمزور پڑ جاےُ گا اس لئے اس سے گریز برت رہا تھا,,,

تم مجھے بتاؤ یہ سب کرنے کی وجہ,,

دانی ششدہ سی اسے دیکھنے لگی,,

تم مجھ سے محبت کرتی ہو,, آہل اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا,,

دانی لمحہ بھر کو خاموش ہو گئ,, اس سوال کی توقع نہیں تھی اسے,,

بولو اب خاموش کیوں ہو,, آہل اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتا ہوا بولا,,

نہیں,, دانی دھیرے سے بولتی چہرہ جھکا گئ,,

پھر کیا مطلب اس سب کا مجھے اس طرح سے بلانا اور دھمکانا,,

تمہاری محبت یہی تھی کیا,, دانی نے خود کو موضوع سے ہٹانا چاہا,,

میری محبت,, تمہیں کیا فرق پڑتا ہے بتاؤ,,

کیوں مجھے فرق نہیں پڑتا,, دانی چہرہ جھکاےُ بول رہی تھی,, دانی کو اس کے الفاظ تکلیف دے رہے تھے,,,

آہل کھڑا ہوا اور چلتا ہوا کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا,,

دانی پانچ مہینے پورے ہو گےُ ہیں آہل حیات اپنی زبان کا پکا ہے اس لئے اب تمہارے ساتھ نہیں,,

کیا مطلب تمہارا,, دانی تڑپ کر اسے دیکھنے لگی لیکن آہل اسے دیکھ نہیں رہا تھا,,

میں نے طلاق کے لیے وکیل کو بول دیا ہے,, پاکستان واپس جا کر تم آزاد ہو جاؤ گی اس زبردستی کے بندھن سے,, آہل نے آنکھیں زور سے میچ رکھیں تھیں,,

تم نے اس لیے,, دانی بولتی بولتی خاموش ہو گئ,,

وہ الفاظ جوڑ رہی تھی لیکن اس سے کوئی بات نہیں بن پا رہی تھی,,

آہل,, دانی سر جھکاےُ ہاتھ مسل رہی تھی,, آہل اس کے آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا تبھی اسے دیکھنے سے احتزار برت رہا تھا,,

بولو,, آہل کی بھاری آواز گونجی,,

کس بات کی سزا دے رہے ہو,, دانی بولتی ہوئ زمین پر بیٹھ گئ,,

دانی کی آواز سے آہل کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رو رہی ہے,,

آہل شاید آج اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا جو وہ اپنے دل میں چھپاےُ بیٹھی تھی,,

اسی لئے مجھے اپنے ساتھ رکھا تھا تم نے,, دانی شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو رخ موڑے کھڑا تھا ہمیشہ کی مانند ہاتھ جیب میں ڈال رکھے تھے,,

دانی پلیز چپ ہو جاؤ,, آہل کو تکلیف ہو رہی تھی,,

تمہیں میرے رونے سے فرق پڑتا ہے,, دانی چلائ,,

نہیں تمہیں فرق نہیں پڑتا اگر پڑتا تو وہاں کھڑے مجھے طلاق کی نوید نہ سنا رہے ہوتے,, دانی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا,,

آہل چہرہ جھکاےُ چلتا ہوا دانی کے سامنے آ بیٹھا,,

تم روتی ہوئ بلکل اچھی نہیں لگتی,, آہل اپنی انگلیوں کی پوروں سے دانی کے آنسو چنتا ہوا بولا,,

آہل مجھ سے غلطی ہوئی میں مانتی ہوں لیکن میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا دھوکہ تو تب ہوتا اگر میں تمہیں کچھ نہ بتاتی,, مجھے بتاؤ تمہیں کیسے معلوم ہوتا,, دانی اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بول رہی تھی,, اشکوں نے پھر سے چہرے کو تر کر دیا...

میں چاہتی تو تمہیں حقیقت سے ناآشنا رکھتی لیکن میں نے خود تمہیں بتا دیا پھر بھی تم مجھے دھوکہ باز کہ رہے ہو ,,آہل تم مجھے کچھ بھی نہیں بتاتے ہر چیز سے لاعلم رکھا ہوا ہے تو پھر بتاؤ میں کیا کرتی,,

آہل سر جھکاےُ اسے سن رہا تھا,,

تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا کچھ بھی نہیں,, خود بتاؤ ایک بیٹی اپنے باپ پر یقین کرے گی یا پھر ایک ایسے انسان پر جس نے اس پر گولی چلائ ہو,, بولو اب,, دانی آنسو بہاتی بول رہی تھی آہل نے دھیرے سے اپنے ہاتھ دانی کے ہاتھ سے نکالے,, چہرہ اٹھا کر دانی کو دیکھا جس کی ناک اور رخسار سرخ ہو چکے تھے,,

دانی مجھے صرف اس بات نے تکلیف دی کہ تم نے مجھے دھوکہ دیا تم ایک بار مجھے کہتی میں الیکشن چھوڑ دیتا,, آہل آنکھوں میں نمی لئے بولا,,

مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم میری بات مان لو گے ورنہ میں کبھی یہ قدم نہ اٹھاتی آہل میں خود پچھتا رہی تھی بعد میں,, دانی اسے دیکھتی ہوئی بول رہی تھی,,

آہل اپنی انگلی کی پوروں سے دانی کے آنسو صاف کرنے لگا,, دانی آنکھیں بند کئے اس کے لمس کو محسوس کرنے لگی,,

تم نے مجھے انجان رکھا ہر بات سے تم نے مجھے اپنی فیملی کے بارے میں کبھی نہیں بتایا میرے استفسار کرنے کے بعد بھی,,

آہل چونک کر دانی کو دیکھنے لگا,,

تمہیں کیا معلوم ہے دانی,, آہل آبرو اچکا کر بولا,,

مجھے بہت کچھ معلوم ہو چکا ہے تمہاری فیملی کے متعلق,,دانی اس کی آنکھوں کی نمی کو دیکھتی ہوئی بولی,,

تم نے میری ڈائری پڑھی,,

ہاں,, دانی بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئ بولی,,

میری اجازت کے بغیر تم نے ڈائری پڑھی,, کہاں ہے وہ ڈائری,, آہل بولتا ہوا کھڑا ہو گیا,,

وہ ڈائری تو وہیں رہ گئی آہل,, دانی کھڑی ہوتی آہستہ سے بولی,,

دانی تم مجھے تبھی بتا دیتی,, تم پاگل ہو کیا اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ گئی تو,, آہل سر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا,,

مجھے بھول گیا اپنے ساتھ لانا,, دانی چہرے پر معصومیت سجاےُ بولی,,

دانی تم,, آہل جھنجھلا کر کہتا باہر نکل گیا,,

آہل کہاں جا رہے ہو,, دانی اس کے پیچھے لپکی,,

جو کام تم نے خراب کر دیا ہے اسے ٹھیک کرنے,, آہل طیش میں چلایا,,

دانی سہم کر اسے دیکھنے لگی,,

تم صرف چیزیں خراب کر سکتی ہو دانی,, آہل ایک نظر دانی پر ڈالتا باہر نکل گیا,,

دانی اداسی سے اسے جاتا دیکھنے لگی,,

میں کیسے بھول گئ اگر اشہد کے ہاتھ لگ گئی آہل تو مجھ سے بات نہیں کرے گا,,

لیکن آہل کو کیا معلوم کہ ڈائری کہاں ہے,, دانی کے دماغ میں جھماکا ہوا,, دانی تیزی سے زینے چڑھتی کمرے میں آئ,, موبائل کی تلاش میں اردگرد نگاہ دوڑانے لگی,,

کہاں رکھ دیا,, دانی دراز میں چیک کرتی ہوئی بولی,,

اف سامنے پڑا ہے اور نظر نہیں آ رہا,, دانی بیڈ سے موبائل اٹھاتی ہوئی بولی,,

کال تو اٹینڈ نہیں کرے گا میسج کرتی ہوں,,,

آہل ڈائری میرے بیگ میں ہے جو میں یونی لے جاتی تھی,,

دانی نے تین چار میسجز ایک ساتھ کر دئیے,, اللہ کرے تم دیکھ لو میرے میسج,, آہل فل سپیڈ پر ڈرائیو کر رہا تھا,, جس راز کو اس نے پچھلے دس سال سے دفن کر رکھ تھا اب اس کے کھلنے کا خدشہ ستانے لگا,,

آہل اس گھر کے سامنے کھڑا تھا,, آہل نے دروازے کو کھولنے کی سعی کی لیکن وہ مقفل تھا,, کچھ سوچ کر وہ آس پاس دیکھنے لگا,,

کھڑکی,, لیکن وہ بھی بند تھی,,

شٹ,, اب اندر کیسے جاؤں,,

آہل گرد و پیش میں نظر ڈالتا ہوا بولا لیکن گھاس اور درختوں کے سوا کچھ بھی دکھائ نہ دیا,,

آہل واپس کھڑکی کے سامنے آیا اور شیشے پر مکے مارنے لگا,, لیکن شیشے پر کوئی اثر نہ ہوا,, آہل بنا روکے مکے مار رہا تھا لیکن شیشہ ٹوٹ نہ سکا,, آہل کا تنفس تیز ہو چکا تھا وہ لمبے لمبے سانس لیتا شیشے کو گھورنے لگا,, پھر کہنی سے وار کرنے لگا کافی دیر بعد بالآخر شیشہ ٹوٹ ہی گیا,,

آہل نے ٹوٹے ہوۓ شیشے سے اندر ہاتھ ڈالا تو اس کا ہاتھ بھی زخمی ہو گیا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی,, آہل نے کھڑکی کھولی اور اندر چھلانگ لگا دی,, میسج وہ پڑھ چکا تھا,, دانی کو کون سا کمرہ دیا ہو گا,, وہ لاؤنج کو دیکھتا ہوا بولا پھر کچھ سوچ کر زینے چڑھنے لگا,, کمرے کا دروازہ لاک نہیں تھا آہل کھول کر اندر آ گیا آہل متلاشی نگاہوں سے آس پاس دیکھنے لگا,,

جیسے ہی بیگ پر نظر پڑی آہل بےصبری سے آگے بڑھا اور کھول کر دیکھنے لگا,,

آہل سانس خارج کرتا بیٹھ گیا,,

شکر ہے کسی کے ہاتھ نہیں لگی,, وہ بیگ شانے پر ڈالتا ہوا بولا,

ورنہ جس بدنامی سے بچنے کے لیے ڈیڈ نے قفل لگا لئے تھے وہ آج اتنے برس بعد ہو جاتی,,آہل کی آنکھوں میں آنسو تیرنے رہے تھے,,

آہل کا ہاتھ خون سے رنگ چکا تھا,, وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا,, گاڑی میں بیٹھا اور واپسی کی جانب چل دیا,,

دانی یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی جیسے ہی نظر آہل پر پڑی اس کی جانب لپکی,,

آہل تمہیں ڈائری مل گئ,, دانی اس کے سامنے آتی ہوئی بولی,,

آہل گھور کر اس کے بائیں جانب سے آگے نکل گیا,,

دانی زبان دانتوں تلے دئیے اس کے پیچھے چلنے لگی لیکن جیسے ہی نظر آہل کے ہاتھ سے ٹکرائ دانی ششدہ رہ گئی,,

آہل تمہارا ہاتھ,, دانی فکرمندی سے کہتی اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگی,,

آہل نے دانی کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال لیا,,

آہل پلیز کچھ بولو تو,,

دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں,,

دانی مجھے فلحال کوئی بات نہیں کرنی تم سے سمجھ گئی,, اب جاؤ,, آہل آبرو سے اشارہ کرتا ہوا بولا,,,

آنا جو کچن میں تھی ان کی آوازیں سن کر باہر نکل آئ,,

رفیق کہاں ہے,,, آہل آنا کو دیکھتا ہوا بولا,

وہ ڈیڈ کے ساتھ باہر گیا ہے اور یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا,, آنا کی آنکھیں پھیل گئیں,,

کچھ نہیں ہوا مجھے فسٹ ایڈ باکس لا دو,, آہل دانی کو نظر انداز کرتا ہوا بولا,,

ایک منٹ میں لاتی ہوں,, آنا کہ کر چلی گئ,

تم بیٹھو میں بینڈیج کر دیتی ہوں,, دانی اس کے سامنے آتی ہوئی بولی,,,

دانی میں کون سی زبان بولتا ہوں جو تمہیں سمجھ نہیں آتا,, آہل کے چہرے پر بلا کی سختی تھی,,

دانی لب بھینچے اپنے کمرے کی جانب چل دی,,

آہل کی سرد مہری پر دانی کو درد ہو رہا تھا, آنکھوں میں نمی جمع ہونے لگی,

میں کر لوں گا خود,, آہل آنا سے باکس لیتا ہوا بولا,,

تم کیسے کرو گے الٹے ہاتھ سے,, آنا تعجب سے بولی,,

میں کر لوں گا,, آہل بیٹھتا ہوا بولا,,

میں کر دیتی ہوں,, آنا اس کے ہاتھ سے باکس لیتی ہوئی بولی,,

آنا,, آہل نے احتجاج کرنا چاہا,,

شاید ہم دوست ہیں,, آنا اسے گھور کر کہتی خون صاف کرنے لگی,,

دانی کمرے سے نکل کر انہیں دیکھ رہی تھی,,

مجھ سے نہیں کروائی تم نے اس آنا سے کروا رہے ہو جاہل حیات,,,

دانی بڑبڑاتی ہوئ واپس کمرے میں آ گئی,,

اب تم آنا میرے پاس میں بھی تم سے بات نہیں کروں گی,, دانی تہیہ کرتی ہوئی بولی,, وزیر اعلیٰ ہو گے تم اپنے گھر میں,, دانی سر جھٹکتی ہوئی بولی,,

************

کہاں تھی انعم,, ثانیہ نیم بیہوشی کی حالت میں انعم کو دیکھتی ہوئی بولی,,

سڑک کے کنارے بیٹھی تھی,, زبیر فکرمندی سے کہتے انعم کو دیکھنے لگے,,,

ڈاکٹر کو فون کیا تم نے,,, ثانیہ انعم کے سرہانے بیٹھتی ہوئی بولی,,

ہاں کر دیا تھا بس آتا ہو گا,, زبیر چکر لگاتا ہوا بولا,,,

زبیر کا فون رنگ کرنے لگا تو باہر نکل گیا,,

زبیر کہاں ہو تم, ڈاکٹر قدسیہ کی گرج دار آواز ابھری,,

میں گھر پر ہوں,, کیوں,, زبیر کی پیشانی پر بل پڑ گۓ,,

جلدی سے یہاں پہنچو کام ہے,,

ابھی,,

ہاں ابھی,, ڈاکٹر قدسیہ زور دے کر بولیں,,

زبیر ہنکار بھرتا اندر آیا,,

میں کچھ کام سے جا رہا ہوں مجھے فون کر دینا,, زبیر کہ کر باہر نکل گۓ,,,

ثانیہ ہقہ بقہ سی زبیر کو جاتا دیکھنے لگی,,

رحیم,, انعم دھیرے دھیرے بول رہی تھی,,

انعم آنکھیں کھولو بیٹا,, ثانیہ نرمی سے گویا ہوئی,,

نہیں رحیم تمہیں کچھ نہیں ہو گا,,

______

بند آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے,,

ابھی ایمبولینس آ جاےُ گی میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی,, انعم بیہوشی کی حالت میں بول رہی تھی,,

انعم ہوش کرو,,ثانیہ اسے ہلاتی ہوئی بولی,

نہیں رحیم تم نہیں جا سکتے,, انعم نفی میں سر ہلا رہی تھی,,

نہیں تم نہیں جا سکتے, انعم چلاتی ہوئی اٹھ بیٹھی,,, ثانیہ گھبرا کر اسے دیکھنے لگی,,

انعم کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,,,

وہ آس پاس دیکھنے لگی,,

مام مجھے یہاں کون لایا اور رحیم کہاں ہے,,

انعم میری جان خود کو سنبھالو وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا,,

انعم نفی میں سر ہلاتی آنسو بہانے لگی,,

مام اس نے میرے ہاتھوں میں,, انعم دونوں ہاتھ آگے کرتی ہوئی بولی,,

میرے سامنے دم توڑا,, میں بول رہی تھی وہ سن بھی رہا تھا لیکن پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں,, میں نے بہت بولا اسے کہ اپنی آنکھیں کھولے لیکن اس نے میری بات نہیں مانی مام,, وہ تو کبھی ضد نہیں کرتا تھا پھر اب کیوں,, کیوں چلا گیا وہ مام کیوں,, انعم بولتی ہوئی ثانیہ کے گلے لگ گئ,,

ثانیہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں رحیم کے لئے نہیں انعم کی حالت دیکھ کر,,

انعم بچہ بس,, ثانیہ اس کی پشت تھپکتی ہوئی بولی,,

مام وہ کیوں چلا گیا,, کیسے جا سکتا ہے وہ اس نے وعدہ کیا تھا مجھ سے وہ کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑتا مام پھر اب کیسے مجھے روتا چھوڑ گیا,, آپ کو پتہ ہے اس کا چہرہ می میرے ان ہاتھوں میں تھا وہ مجھ سے بات بھی کر رہا تھا مام وہ نہ رو رہا تھا میں نے اسے کہا کہ تمہیں کچھ نہیں ہو گا لیکن اس نے انتظار ہی نہیں کیا,, انعم دیوانگی میں بولتی چلی جا رہی تھی,, آنسو اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے,,

ثانیہ اس کے آنسو صاف کرنے لگی,,

بس کر دو انعم,,,

کیسے بس کر دو میرے سامنے بار بار اس کا چہرہ آ رہا ہے خون میں رنگا ہوا چہرہ,, مام اسے کتنی تکلیف ہو رہی ہو گی میں وہاں تھی لیکن کچھ نہیں کر سکی میرے سامنے اس نے آنکھیں بند کیں اور میں بس دیکھتی رہ گئ مام,,

انعم چپ ہو جاؤ اپنے دماغ پر زور مت دو,,ثانیہ فکرمندی سے گویا ہوئی,

مام وہ بھی تو کسی کا بیٹا تھا ان پر کیا گزر رہی ہو گی کسی کا بھائ تھا ان کا تو رحیم کے سوا کوئی بھی نہیں ہاےُ وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا کسی کے بارے میں بھی نہیں سوچا اس نے,,

ڈاکٹر نمودار ہوا تو ثانیہ نے سکھ کا سانس لیا,,,

ڈاکٹر پلیز چیک کریں انعم کو,, وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی,,

ابھی تو میں نے انہیں انجیکشن دے دیا ہے جس سے وہ کچھ دیر آرام سے سو سکیں گیں لیکن بہتر ہو گا آپ ہاسپٹل آ کر مکمل چیک اپ کروا لیں کیونکہ زیادہ تر کیسیز میں لوگوں کے دماغ متاثر ہو جاتے ہیں بروقت معلوم ہو جاےُ تو ان کے حق میں بہتر ہو گا,, وہ ثانیہ کو کہتے باہر نکل گئے, ثانیہ پریشانی کے عالم میں انعم کو دیکھنے لگی,,

مجھے خدشہ ہے کہیں انعم کو کچھ ہو نہ جاےُ,, وہ کہتی ہوئی کال ملانے لگی,,

************

آہل ڈائری کو احتیاط سے اپنے بیگ میں رکھ کر باہر نکل آیا,,,

دانی نکلی نہیں کمرے سے,, وہ آنا کے کمرے میں آتا ہوا بولا,,

نہیں دوبارہ میں نے تو نہیں دیکھا اسے,,

آہل اثبات میں سر ہلاتا چل دیا,,

کچھ سوچ کر آہل دانی کے کمرے میں آ گیا,,

دانی صوفے پر فون لئے بیٹھی تھی,,,

آہل چلتا ہوا اس کے سامنے آ بیٹھا,,

دانی گیم کھیلنے میں مگن تھی البتہ آہل کی موجودگی سے واقف تھی لیکن ظاہر ایسے کر رہی تھی جیسے انجان ہو,,

آہم آہم,, آہل کھانس کر دانی کو دیکھنے لگا,,

دانی نے کوئی اثر نہیں لیا,,

دانی,, چند پل خاموشی کی نذر ہونے کے بعد آہل نے دانی کو پکارا,

دانی سنی ان سنی کرتا اپنی گیم کھیلتی رہی,,

جب میں غصے میں ہوں تو بحث مت کیا کرو دانی,, آہل اس کی جانب رخ موڑتا ہوا بولا,,

اچھا,, دانی ہنوز نظریں اسکرین پر جماےُ ہوۓ تھی,,

اسے سائیڈ پر رکھو,,آہل خفگی سے موبائل نیچے کرتا ہوا بولا,,

کیوں,,,دانی اجنبی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی,,

کیونکہ میں بات کر رہا ہوں,,

تو میں کیا کروں جب میں بات کر رہی ہوتی ہوں تم بھی یونہی کرتے ہو,, دانی کے چہرے پر سختی نمایاں تھی,,

اب میری بات سنو,, آہل اس کے ہاتھ سے فون لیتا ہوا بولا,,

مجھے نہیں سننی تمہاری کوئی بھی بات جو پہلے کہا تھا سن لیا تھا وہی بہت ہے,, دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی,,

جنگلی بلی ناراض ہے,, آہل دلچسپی سے اس کا جائزہ لیتا ہوا بولا,,,

آہل فون واپس کرو,, دانی اس کے ہاتھ سے کھینچنے کی سعی کرتی ہوئی بولی,,

اور اگر نہ کروں پھر,, آہل شریر لہجے میں بولا,,

جو باکسنگ سکھائی ہے تم پر بھی ڈیمو دے سکتی ہوں,, دانی دانت پیستی ہوئی بولی,,

کر لو,, آہل مسکراتا ہوا بولا,, اس کی آنکھیں بھی اس کا ساتھ دے رہیں تھیں,,

آہل تم نہایت گھٹیا انسان ہو میرا فون واپس کرو,, بولتے بولتے دانی کی آواز بلند ہو گئی,,

تھک جاؤ گی تم,, آہل اسے تنگ کرتا موبائل اپنی پشت پر کر گیا,,

دانی اسے گھورنے لگی,,,

تمیز سے دے دو مجھے,, دانی ضبط کرتی ہوئی بولی,,

پہلے میری بات سنو,, آہل اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا,,

نکلو میرے کمرے سے چلو,, دانی اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی,,

بات نہیں کرو گی,, وہ دانی کو اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا,,

دانی بمشکل اس کے چہرے سے ٹکرانے سے بچ سکی,,

نہیں,, دانی کی پیشانی پر تین کریں ابھریں,,

ٹھیک ہے جنگلی بلی,, آہل ڈمپل کی نمائش کرتا کھڑا ہو گیا,,

اسے اپنے جہیز میں لے جانا,, دانی تپ کر بولی,,

آہل جلانے والی مسکراہٹ دانی کی جانب اچھالتا موبائل گھماتا باہر نکل گیا,,

بدتمیز حیات,, دانی کشن دروازے پر مارتی کوفت سے بولی,,

***********

زبیر مجھے تو لگ رہا ہے انعم پاگل ہو گئی ہے جب سے آئی ہے وہی باتیں دہرا رہی ہے,, ثانیہ پریشانی کے عالم میں گویا ہوئی,,

چیک اپ تو کروا لیا ہے اب رپورٹس آئیں گیں تو معلوم ہو گا,, زبیر کہتے ہوۓ بیٹھ گیا,,

زبیر کہیں یہ سب تم نے تو,, ثانیہ نے خوفزدہ ہو کر بات ادھوری چھوڑ دی,,

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا,, زبیر پھٹ پڑے,,

ثانیہ لب بھینچے کھڑی ہو گئی,,

اب دعا کرو انعم کو کچھ ہو نہ ورنہ اس کا الزام صرف تم پر ہو گا,,

تمہیں کیا لگتا ہے,, زبیر دانت پیستا ہوا بولا,,

تم نے رحیم کو مروایا ہے,, تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں میں...ثانیہ ہنکار بھرتی ہوئی بولی,,

تمہاری زبان ضرورت سے زیادہ چلنے لگی ہے,, زبیر طیش میں بولا,,

تم نے میرے اکاؤنٹ میں پیسے جمع نہیں کرواےُ,, ثانیہ موضوع بدلتی ہوئی بولی,

کام کرنے دو تو پیسے بھی آئیں گے نہ,, کبھی دانین تو کبھی انعم انہی دونوں کے مسائل حل کرتا رہوں میں,, وہ کوفت سے بولے,,

ہاں تو تمہاری بیٹیاں ہیں بوجھ ہیں تو اتار پھینکو پھر,, ثانیہ کہتی ہوئ باہر نکل گئ, زبیر جھنجھلا کر فون ملانے لگے,,

آسم ڈاکٹر قدسیہ کے کلینک سے جس لڑکی کا بولا تھا کیا بنا اس کا,,

سر آج کل وہ ہر جگہ اپنے ماموں کے ساتھ جا رہی ہے اس لئے ہاتھ ڈالنے میں دقت پیش آ رہی ہے,,

کچھ بھی کرو اسے اٹھاؤ,, اس کا سودا ہو گا تو پیسے بھی ملیں گے,,

سر پولیس چوکنا ہے اس لئے میں محتاط ہوں جلد بازی میں کہیں ہم پکڑے نہ جائیں,,

تم پولیس کی فکر مت کرو,, چار پیسے منہ پر پھینکے گے تو منہ پر قفل لگا لیں گے بس جلد از جلد اسے قابو کرو,,

جی سر میں کوشش کرتا ہوں,,

زبیر نے بنا کچھ کہے فون بند کر دیا,,

***********

آنا تم کھانا بہت اچھا بناتی ہو,, آہل کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی,,

دانی منہ بسورتی کھانے لگی,,

تھینک یو,, آنا مسکرا کر بولی,,

کاش میری بیوی کو بھی کھانا بناتا آتا,, آہل آہ بھرتا ہوا بولا,

دانی ضبط کئے بیٹھی تھی اور آہل اس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا,,

دانی کو کھانا بنانا نہیں آتا, آنا اسے خوشگوار موڈ میں دیکھ کر بولی,,

کھانا بنانا تو دور اسے پانی ابالنا بھی نہیں آتا,,

ہاں نہیں آتا اور آنا تو جیسے ماسٹر شیف ہے نہ,, دانی جل کر اردو میں بولی,,

آنا نا سمجھی سے آہل کو دیکھنے لگی,,

سمتھ بھی مسکرا رہا تھا,, البتہ سمجھنے سے قاصر تھا,,

جلنے کی بو آ رہی ہے دانی,, آہل ناک پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا,,,

ہاں تمہارا منہ جل رہا ہے جا کر پانی ڈالو,, دانی کہ کر چلی گئ,,

آہل نچلا لب دباےُ مسکرانے لگا,,

آنا اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی,,

سر,, رفیق آہل کو دیکھتا ہوا بولا,

میں آ رہا ہوں,, آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا,

ہاں بولو کیا ہوا,, آہل باہر نکل آیا,,

سر عمیر کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے وہ آپ سے ملنے کی ضد کر رہا یے,,

آہل پیشانی مسلتا سوچنے لگا,,

ابھی تو میرا واپس جانے کا ارادہ نہیں,, میں کوشش کروں گا عمیر کو منانے کی آج ویڈیو کال کروں گا اسے,, آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا,,

جی سر لیکن ہاسپٹل میں رہنے کے باعث خوفزدہ ہو گیا ہے وہ,,

ہاں ابھی چھوٹا ہے نہ اسی لئے تنگ کرتا ہے خیر میں دیکھتا ہوں,, باقی تم پوری نظر رکھنا عمیر پر,, اس پر ایک آنچ بھی نہ آےُ,,

آہل کہتا ہوا اندر آ گیا,,

لیپ ٹاپ کھول کر کال ملانے لگا,,

کیسا ہے میرا بیٹا,, آہل عمیر کو دیکھتا ہوا بولا,,

بابا میں آپ سے ناراض ہوں,, عمیر منہ پھلا کر بولا,,

کیوں,, آہل مسکرا کر بولا,,

آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتے,, پتہ ہے مجھے اتنے بڑے بڑے انجیکشن لگاےُ ہیں اتنے سارے,, وہ دونوں ہاتھ کھول کر بولا,,

آہل دھیرے سے مسکرا دیا,,

آپ ماما کی بات مانا کریں نہ,,,

پہلے آپ آئیں پھر,, عمیر بضد ہوا..

بیٹا میں پاکستان میں نہیں ہوں,,

پھر کہاں ہیں آپ,, عمیر صدمے سے بولا,,

میں آسٹریلیا آیا ہوں آپ کے لئے بہت سارے گفٹس اور ٹوائز لاؤں گا,,,

آپ وہاں کیوں ہیں,, عمیر معصومیت سے بولا,,

بیٹا بابا کو کچھ کام ہے اس لئے,, میں جیسے پاکستان آؤں گا سب سے پہلے اپنے بیٹے سے ملنے آؤں گا,,

پکا,,

پکا,, آہل مسکرا کر بولا

لو یو بابا,, عمیر مسرت سے بولا,,

لو یو ٹو,, آہل مسکرا رہا تھا..

آہل لیپ ٹاپ بند کر کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا,, شام گہری ہوتی جا رہی تھی,,

دانی,, آہل زیر لب دہراتا مسکرانے لگا,,

آہل کچھ سوچ کھڑا ہوا چینج کر کے دانی کے کمرے کی جانب چل دیا,,

کمرہ خالی دیکھ کر آہل باہر نکل آیا,,

جنگلی بلی کہاں گئ,, آہل سوچتا ہوا چلنے لگا,, دانی گارڈن میں ٹہلتی ہوئی دکھائ دی تو آہل مسکراتا ہوا اس کے پاس آ گیا,,

دانی کافی پینے چلو گی,,آہل چابیاں گھماتا ہوا بولا,,

تمہارے ساتھ,,دانی ناک چڑھا کر بولی,,

میرے علاوہ کوئی اور دکھائی دے رہا,,نہیں نہ تو یقیناً میرے ساتھ ہی,,وہ مسکرایا تو ڈمپل پھر سے عود آیا,,

ہوں,,نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ,,دانی کہ کر مڑ گیُ,,

اچھا پھر میں آنا سے پوچھ لیتا ہوں,, آہل شرارت سے بولا,,

آنا سے نہیں,, اسے ڈاکٹر نے کافی پینے سے منع کیا ہے اب تم اتنا اصرار کر رہے ہو تو میں آ جاتی ہوں تمہارے ساتھ,,دانی احسان کرنے والے انداز میں بولی,,

آہل اس کی جیلیسی پر مسکرانے لگا,,

مجھے ڈاکٹر نے کب کافی سے منع کیا,,آنا عقب میں کھڑی سوچنے لگی,,

میں چینج کر کے آتی ہوں,,

آہل تابعداری سے سر ہلا کر ٹہلنے لگا,,

بیس منٹ بعد دانی باہر نکلی,, وائٹ ٹی شرٹ کے ساتھ ریڈ کلر کی جینز پہنے بالوں کو ٹیل پونی میں مقید کئے ہلکی سی لپ اسٹک لگاےُ وہ جاذب نظر لگ رہی تھی,,

آہل چند لمحے بنا پلک جھپکے اسے دیکھتا رہا,,

کیا,, دانی آبرو اچکا کر بولی,,

کچھ نہیں,, آہل نفی میں سر ہلاتا چلنے لگا,,

دانی شانے اچکاتی اس کے پیچھے چل دی,,

گاڑی کہاں ہے,, دانی گرد و نواح میں نظر ڈالتی ہوئی بولی,,

میڈم یہ آسٹریلیا ہے تمہارے شوہر کا ملک نہیں,, آہل اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا,,

تو یہاں ہم غریب ہیں,, دانی ناک چڑھاتی ہوئی بولی,,

بلکل,, آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا,,

جھوٹے ایک نمبر کے,,دانی کہ کر سڑک پر دیکھنے لگی,,

کہاں ہے کافی شاپ,, دس منٹ دانی خاموشی سے چلنے کے بعد اکتا کر بولی پیشانی پر تین لکریں نمایاں تھیں,,

کس نے کہا ہم کافی پینے جا رہے, آہل انجان بنتا دانی کو دیکھنے لگا,,

آہل تم نہ,,

میں کیا,, وہ لب دباےُ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا,,

دانی پھر سے اس کے ڈمپل کو گھورنے لگی,

تمہارا ڈمپل مجھے ڈسٹریکٹ کرتا ہے,, دانی خفگی سے بولی,,

تم مت دیکھا کر میرے ڈمپل کو,, آہل کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئ,, آنکھیں مسکرانے کے باعث چمک رہیں تھیں,,

تم نمائش نہیں کرو گے تو جیل نہیں ہو جاےُ گی تمہیں,, دانی جل کر بولی,,

اچھا آؤ وہاں چلتے ہیں,, آہل درخت کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا,,

یہاں اکا دکا لوگ دکھائ دے رہے تھے,,

تم کہاں لے آےُ ہو مجھے,, آگر ہم گم ہو گئے پھر,, دانی اس چھوٹی سی جھیل کو دیکھتی ہوئی بولی,,

اچھی بات ہے نہ پھر ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے سب سے دور,, آہل اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا,,

دانی پیشانی پر بل ڈالے دو قدم پیچھے ہٹی,,

کیوں ڈرتی ہو مجھ سے,, آہل اس کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا,,

کیونکہ تم برے ہو,, دانی سرمئ آنکھیں میں ناراضگی سموےُ بولی,,

آج تمہیں اچھا والا آہل دکھاتا ہوں,, آہل اس کا ہاتھ پکڑے اس چھوٹے سے پل پر آ گیا جو جھیل کے دوسرے کنارے پر جانے کا راستہ تھا,,

دانی سر جھکاےُ اس کے ساتھ کھڑی ہو گئ,,

شفاف نیلا پانی دونوں کا عکس دکھانے لگا, اندھیرا بڑھ رہا تھا بلب کی روشنی اندھیرے کو چیرنے کی سعی کر رہی تھی,, گھاس پر پتے گرے ہوۓ تھے,, ہوا انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک رہی تھی,,

دانی اس کے بولنے کی منتظر تھی,,

آئم سوری,, آہل کی نظریں جھیل پر تھیں,,

کس بات کے لئے,, دانی سنجیدگی سے بولی,

تم پر غصہ کرنے کے لیے,, آہل شرمسار سا بولا,,

ہوں,, دانی استہزائیہ ہنسی,,

سوری بھی آنا کو ہی بول دو,, دانی کا غصہ ابھی تک برقرار تھا,,

میری بات سنو دانی,, آہل دانی کو شانوں سے تھام کر اپنی جانب رخ موڑتا ہوا بولا,,

میں صرف تمہیں تنگ کر رہا تھا,, میں ایک پریکٹیکل سا بندہ ہوں مجھے منانا نہیں آتا,, آہل سادگی سے بولا,,

اتنی معصوم شکل مت بناؤ,, دانی اس کا ناک دباتی ہوئی بولی,,

آہل دھیرے سے مسکرا دیا,,

اگین سوری,,

فار واٹ,, دانی آبرو اچکا کر بولی,,

تمہیں لاعلم رکھنے کے لئے,,

تم نے ٹھیک کہا غلطی میری بھی ہے کہ میں نے تم پر اعتبار نہیں کیا اگر میں تمہیں حقائق سے آگاہ کر دیتا تو تم ایسا نہیں کرتی,

_______

لیکن دانی تم جانتی ہو نہ یہ سب کتنا حساس ہے میں تمہیں اعتماد میں لینا چاہتا تھا اور یقین کرو جس دن میں نے تم سے ہمارے مستقبل کے متعلق بات کی اس دن میں تمہیں سب بتانا چاہتا تھا لیکن تمہاری بےاعتنائی دیکھ کر مجھے مناسب نہیں لگا,, آہل چہرہ جھکاےُ بول رہا تھا,, دانی انہماک سے اسے سن رہی تھی,,

آئ نو میں نے تم پر اعتبار نہیں کیا کیونکہ جب میں تم پر بھروسہ کرنے لگتی تم میرا اعتماد توڑ دیتے, پھر میں نے تم پر یقین کرنا ترک کر دیا,,

غلطی نہ تمہاری تھی نہ میری شاید وقت کی تھی شاید وقت غلط تھا لیکن دانی آہل حیات تمہیں کھونے سے ڈرتا ہے,,آہل کی آنکھوں میں ڈھیروں جذبے سمٹ آےُ,,

دانی مسرت سے اسے دیکھنے لگی,,

آج میں یہ سب اسی لئے کہ رہا ہوں کیونکہ تمہارے ہجر میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ آہل دانی کے بنا ادھورا ہے آہل کو مکمل کرنے کے لیے دانی کا ہونا لازمی ہے,, تمہیں میں نے اپنی سانسوں میں پرویا ہے اب کیسے تمہارے بنا جیا جاےُ,, پانج مہینے,, تمہیں دیکھنے کا,, تمہیں سننے کا,, تمہاری خوشبو کا عادی ہو گیا ہوں میں,,

تم مجھے واپس مل گئی ہو اب میں دوبارہ تمہیں کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا,, آہل نے ہتھیار ڈال دئیے,,

لیکن تم تو کہ رہے تھے طلاق,,

ہاں سوچا تھا اور کہ بھی دیا تھا لیکن,,آہل چہرہ اٹھا کر نفی میں سر ہلاتے لگا,

کہنا بھی مشکل تھا اور کرنا نا ممکن,,

دانی اس کے اظہار پر کھل اٹھی,,

ابھی بھی کوئی ناراضگی تو بتا دو,, آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا,

تم مجھ پر غصہ نہیں کرو گے,, دانی خفگی سے بولی,,

اوکے میں پوری کوشش کروں گا کہ آئیندہ ایسا نہ ہو لیکن تم بھی میری بات مانو گی جب میں کچھ کہوں تو مان لیا کرو,,

اچھا ٹھیککک ہے,, دانی ٹھیک کر لمبا کرتی ہوئی بولی,,

آہل کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی,

تم دوبارہ آنا کے آس پاس دکھائ دئیے تو چھوڑوں گی نہیں میں سمجھے,, دانی اس کے سینے پر پنچ مارتی ہوئی بولی,,

آہل کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی,,

میں تھک گئی ہوں,, دانی منہ بناتی ہوئی بولی,,

آؤ بیٹھتے ہیں پھر,, آہل اس کا ہاتھ تھامے جھیل کے دوسری جانب آ گیا,, دونوں درخت کی اوٹ میں بیٹھ گئے,,

اب آگے کا ڈیسائیڈ کر لیں,, آہل دور خلا میں دیکھتا ہوا بولا,,

ہاں لیکن پہلے مجھے بتاؤ تمہاری مام مجھے کیسے جانتی تھیں اور میرے ڈیڈ کو بھی,, دانی کو اپنے سوال یاد آ گئے,,

آہل کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ تھی,,

تم جان چکی ہو گی کہ مام نے تمہارا انتخاب کیا تھا میرے لئے,, زبیر میرے ڈیڈ کا بہت پرانا دوست تھا,,

ڈیڈ اسے بہت سپورٹ کرتے اس کے بنا کہے مدد کر دیتے لیکن اسی نے ڈیڈ کو ختم کر دیا صرف ڈیڈ کو ہی نہیں میری مام کو بھی,, آہل کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر شرٹ میں جذب ہو گئے,,

دانی ہاتھ کی پشت سے آنکھیں مسلتی رنج سے آہل کو دیکھنے لگی,,

تم جانتی ہو میری مام بہت اچھی تھیں,,

خوبصورتی ایسی تھی کہ لوگ مرتے تھے ان پر,, آہل کی آنکھیں چمکنے لگیں,, پہلی بار وہ اپنے دل کی بات کسی انسان سے شئیر کر رہا تھا,,

وہ صرف باہر سے نہیں اندر سے بھی خوبصورت تھیں,, مام تمہیں بہت پسند کرتی تھیں تمہارے سامنے میری بات بھی نہیں مانتی تھیں,, آہل آنسو بہاتا نرمی سے مسکرا دیا,,

دانی دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھتی اس کی آواز میں کھو گئی تھی,,

انہیں تمہاری آنکھیں بہت پسند تھیں,, آہل ماضی کو یاد کرتا ہوا بول رہا تھا,,

اور تمہیں,, بے ساختہ دانی کے لبوں سے پھسلا,,

اور مجھے پوری کی پوری,,آہل مسکرایا تو ڈمپل نمایاں ہوا,,

دانی نے مسکراتے ہوۓ چہرہ جھکا لیا,,

تمہارا نام بھی مام نے رکھا تھا,, دانی,,

پھر تم نے اپنی مام کی بات مان لی,, دانی اشتیاق سے بولی,,

مان لی تھی تبھی تو آج تم میرے ہمراہ ہو,,

تم لڑکے ہو کر کیسے مان گئے,,

ہاں پہلے تم مجھے بلکل پسند نہیں تھی,, آہل صاف گوئی سے بولا,

دانی خفگی سے اسے دیکھنے لگی,,

تب میں اٹھارہ سال کا تھا جب ڈیڈ مجھے آسٹریلیا پڑھنے کے لیے بھیج رہے تھے,, مام نے مجھے سختی سے تاکید کی کہ میں کسی لڑکی کو پسند نہ کروں کیونکہ وہ تمہیں پسند کر چکی تھیں,,

مجھے تم بلکل پسند نہیں تھی بدتمیز سی گرے آنکھوں والی,, آہل مسکراتا ہوا بولا,,

پھر کیسے پسند آ گئی,, دانی تجسس سے بولی,,

اپنی مام کی خواہش کا احترام کیا پھر کچھ سالوں بعد تمہیں فالو کرنے لگا تمہاری پسند نہ پسند,, تم کہاں جاتی ہو کیا کرتی ہو کس سے ملتی ہو ہر چیز معلوم کرنے لگا,,

بس اسی معلومات کے دوران تم اچھی لگنے لگی مام کے باعث دماغ تمہیں قبول کر چکا تھا پھر دل بھی ہاتھ دھونے لگا,,

کس صابن سے,, دانی نہایت سنجیدگی سے بولی,,

آہل پہلے نا سمجھی سے پھر سمجھنے پر قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا,,

تمہاری آنکھوں کے باعث,, آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا,,

مطلب تم نے یہ ٹیٹو سچ میں میرے لئے بنوایا ہے,, دانی بے یقینی کی کیفیت میں بولی,,

نہیں مذاق میں بنوایا تھا, آہل گھور کر بولا,,

سمپل سی بات ہے تمہارے لیے ہی بنوایا ہے,,

دانی مسکراتی ہوئی اثبات میں سر ہلانے لگی,,

اور کچھ جاننا چاہتی ہو,, آہل فرصت سے اسے دیکھتا ہوا بولا,

نہیں مجھے لگتا ہے تم نے سب کلئیر کر دیا ہے,, دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی,,

اب آپ کچھ کہنا چاہیں گیں,, آہل اس کا جواب سننے کا منتظر تھا,,

مجھے کیا کہنا ہے,, دانی جان بوجھ کر انجان بنی,

آہل مسکرا کر دوسری جانب دیکھنے لگا,,,

چلو کوئی نہیں,, کسی دن تمہاری بھی باری آےُ گی,,

دانی اسے دیکھتی کھل کر مسکرا دی,,

آہل ہلکا پھلکا سا ہو گیا تھا,, دل کا غم سنایا تو بوجھ اتر گیا,,

اس کی نظریں جھیل پر تھیں جب دانی نے اسے پکارا,,

ہممم,, آہل چہرہ اس کی جانب موڑتا ہوا بولا,,

دس سال پہلے جو بھی ہوا مجھے بہت دکھ ہوا جان کر,,

آہل کے چہرے پر کرب دکھائی دینے لگا,,

مجھے افسوس ہے میں تمہیں سمجھ نہیں سکی لیکن میں نے تمہاری مسٹری حل کر لی ہے سو اب دانی صرف تمہاری ہے,, میں ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گی,, دانی اس کے ہاتھ اپنے نرم مومل مانند ہاتھوں میں لیتی ہوئی بولی,,

تمہارے مام ڈیڈ کا بدلہ میں بھی لوں گی کیونکہ جو غلط ہے وہ غلط ہے پھر چاہے میرے ڈیڈ کو سزا کیوں نہ ملے,, آہل دانی کی آنکھوں میں اپنے لیے مان دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دیا,,

دانی یہ سب بہت مشکل ہے,,

آہل میں تمہارے ساتھ مل کر بدلہ لوں گی ہم دونوں تم اکیلے نہیں ہو,, دانی اس کے ہاتھ دباتی ہوئی بولی,,,

آہل کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے,,

دس سال بعد مانو کوئی اپنا ملا ہے,, آہل کا چہرہ جھکا ہوا تھا,,

تم نہیں جانتی دانی میں کس کرب سے گزرا ہوں,, میں اتنا سخت کیوں ہوں,, اتنا غصہ کیوں کرتا ہوں تم نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی,, جس انسان کی زندگی میں اتنی تلخیاں ہوں کچھ باقی نہ ہو وہ ایسے ہی بے حس ہو جاتے ہیں,, تم جانتی ہو اس واقعے کے بعد میں صرف دو دفعہ مام ڈیڈ کی قبر پر گیا تھا صرف دو دفعہ اس کے بعد نہیں,, میرے مام ڈیڈ میرے دوست کی مانند تھے,,

ہم ایک ساتھ بہت خوش تھے لیکن پھر ہماری خوشیوں کو آگ لگ گئی پہلے مجھے آسٹریلیا بھیج دیا میں نہیں جانا چاہتا تھا لیکن ڈیڈ کے اصرار پر مان گیا تم سوچو جو اتنا وقت اپنے مام ڈیڈ سے دور رہے اور آنے پر وہ اس حال میں ملیں کیا وہ انسان زندہ ہو سکتا ہے,, آہل نفی میں سر ہلا رہا تھا,, میں ختم ہو گیا تھا اس دن میرا دل مر چکا تھا اس کے بعد آہل حیات صرف ایک روبوٹ کی مانند تھا جس کا مقصد صرف بدلہ تھا اسی آگ میں جلتا اسی میں مرتا اور اسی میں جیتا,, دل ایسے تھا جیسے پھٹ چکا ہو اتنی تکلیف تھی,, ہم تینوں ایک دوسرے کے لئے پاگل تھے ایسی بونڈنگ کسی پیرنٹس اور بچوں میں نہیں ہو گی جیسی ہماری تھی,, یہاں تک کہ مام میری گرل فرینڈ بن جاتی تھیں ڈیڈ کو جیلیس کرنے کے لیے اور وہ مجھ سے بھی جھگڑنے لگتے تھے, ایسی تھی ہماری فیملی, آہل دھیرے سے مسکرایا,,

وہ دن بیسٹ تھے جو اب کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتے,, مرنے کو تو یہی بات کافی ہے کہ وہ کبھی نہیں لوٹیں گے بات کرنا تو دور دیکھ بھی نہیں سکتا انہیں,, آہل کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا,, وہ اپنے ساتھ ساتھ دانی کو بھی رلا رہا تھا,,

تمہیں کچھ بتاتا ہوں,, آہل پرجوش سا بولا,,

دانی کو یہ آہل بلکل مختلف لگا تھا جس سے وہ انجان تھی,,

ایک بار مام کی ڈیڈ سے لڑائی ہو گئ,, ہم دونوں شکار پر چلے گئے اور جب ڈیڈ کو معلوم ہوا وہ طیش میں آ گئے,,

تمہیں معلوم ہے وہ اپنی پریس کانفرس چھوڑ کر جنگل میں آ گئے,, اس کے بعد میری خوب کی,, مام ہمیشہ میرا دفاع کرتیں پھر وہ ہمیں گھر لے آےُ اور مجھے وارنگ دی کہ اگر میں دوبارہ مام کو اس طرح لے کر گیا تو مجھے گھر سے نکال دیں گے,, آہل قہقہ لگاتا جھیل کو دیکھ رہا تھا,,

بہت مزے کے تھے وہ دن,,

پھر تم نے اپنے ڈیڈ سے کچھ نہیں کہا,,,

کہا تھا,, آہل یاد کرتا ہوا بولا,,

میں نے کہا ڈیڈ میں کون سا آپ کی بیوی کو بھگا کر لے گیا تھا جو آپ ایسے بول رہے,,

ڈیڈ بولے دور رہا کرو میری بیوی سے,, دانی اسے پہلی بار اس طرح ہنستا ہوا دیکھ رہی تھی,,

پھر مام ڈیڈ کو ڈانٹنے لگیں,, اور ڈیڈ مجھے گھورتے ہوۓ خاموش ہو گئے,,

آہل کے ہاتھ ابھی تک دانی کے ہاتھوں میں تھے,,

ماضی ہمیشہ تکلیف دہ نہیں ہوتا بہت سی خوبصورت یادیں بھی ہوتیں ہیں,, بس ہم ہمیشہ غم کو حاوی کر لیتے ہیں اچھا وقت بھول جاتے ہیں,,

ٹھیک کہ رہی ہو لیکن یہ یادیں بھی تکلیف دیتی ہیں جب حقیقت سے سامنا کریں کہ وہ کبھی واپس نہیں آ سکتے پھر کیا اچھا کیا برا کچھ یاد نہیں رہتا,,

آہل جو بیت گیا اسے واپس نہیں لا سکتے لیکن مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں تمہیں اس غم کو قابو کرنا ہو گا خود پر حاوی مت ہونے دیا کرو سامنا کرو اس کا آہل تم بہت مضبوط ہو,,

آہل اثبات میں سر ہلاتا دانی کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالتا چہرہ صاف کرنے لگا,,

تمہیں دیکھتا ہوں تو زندگی کا احساس ہوتا ہے تمہارے آنے سے آہل حیات نے مسکرانا سیکھا,, تمہاری محبت نے میرے دل کو جلا بخشی,, آج میں مسکراتا ہوں تو دل سے,, آہل بغور دانی کو دیکھتا ہوا بولا,,

تم ہمیشہ ایسے ہی مسکراؤ گے میرے جاہل حیات,, دانی شرارت سے بولی,,

بلکل میری جنگلی بلی,, آہل اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑتا ہوا بولا اور اپنی پیشانی دانی کی پیشانی سے ٹکا دی,,

دانی آنکھیں بند کرتی مسکرانے لگی,,

کتنے پل, کتنے لمحے, کتنی ساعتیں بیت گئیں دونوں نے حساب نہیں رکھا,,

ہوا ان کے چہرے پر بوسے دے رہی تھی,, رات پوری طرح اپنے پر پھیلا چکی تھی,, تاریکی میں یہ دونوں نفس ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے,,

خاموشی ان کے بیچ گفتگو کر رہی تھی,, چاند انہیں دیکھ کر بادلوں میں شرما گیا,, فون کی رنگ ٹون نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا,, سکوت ٹوٹا تو آہل پیچھے ہوتا جیب سے فون نکالنے لگا,,

ہاں رفیق بولو,,

دانی پونی اتار کر بال سیٹ کرنے لگی,,

ہاں تم کروا دو وہ کام اس کے بعد تم پاکستان چلے جانا,,

میں دانی کو لے کر بعد میں آؤں گا فلحال میں واپس نہیں جانا چاہتا کچھ وقت سکون سے رہنا چاہتا ہوں,,

ٹھیک ہے پھر مجھے کال کر دینا تم,, آہل نے کہ کر فون بند کر دیا,,

________

ہم واپس کب جائیں گے,, دانی اسے فون واپس رکھتے دیکھ کر بولی,,

ابھی نہیں جائیں گے کچھ دن چھٹیاں منائیں گے,, آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا,,

تم الیکشن میں حصہ نہیں لو گے,, دانی شرمندگی سے بولی,,

نہیں اب وقت نہیں رہا ویسے بھی جنگلی بلی کو سیاست نہیں پسند اس لئے,, آہل ناک چڑھا کر بولا,,

تم میری نقل کر رہے ہو,, دانی گھوری سے نوازتی ہوئی بولی,,

بلکل بھی نہیں,, آہل معصومیت سے بولا,,

اف میرے معصوم حیات,, دانی اسے نئے نام سے نوازتی ہوئی بولی,,

آہل مسکراتا ہوا نفی میں سر ہلاتے لگا,,

گھر چلیں,, آہل کھڑا ہو کر دانی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا بولا,,

دانی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی کھڑی ہو گئی,,

آہل مجھے نہیں معلوم تھا تم اتنا بول سکتے ہو,, دانی مسرور سی بولی,,

کیوں میرے منہ میں زبان نہیں,, آہل برا مان گیا,,

نہیں زبان تو ہے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ قینچی کی طرح بھی چلتی ہے,,

آہل قہقہ لگاتا سامنے دیکھنے لگا,,

غریب حیات کچھ لے دو مجھے بھوک لگی ہے,,

آؤ ڈرنک کریں,, آہل شرارت سے بولا,,

شرم کرو خود تو کرو گے ساتھ میں مجھے بھی ملا رہے,, ویسے کیسا ٹیسٹ ہوتا ہے ایک بار پینے میں کوئی قباحت نہیں,, دانی رازداری سے بولی,,

مذاق کر رہا ہوں میں زیادہ خوش مت ہو,, آہل گھورتا ہوا بولا,,

مجھے ایسے ہی خوش فہمی میں مبتلا کر دیا,, دانی ناک چڑھاتی ہوئی بولی,,

آہل مسکراتا ہوا تیز تیز قدم اٹھانے لگا,,

آہل تمہارے چاچو کے لیپ ٹاپ میں کیا تھا,,دانی ٹی شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے واش روم سے نکلتی ہوئی بولی,,

میں خود بھی نہیں جانتا جب پاکستان واپس گیا تو اسی دن چاچو غائب ہو گئے اس کے بعد تم جانتی ہو کب ملے,,آہل اداسی سے بولا,,

اووہ,, اور تب الیکشن کون جیتا تھا,,,

ہماری پارٹی جیتی تھی لیکن زبیر نے سب کو یہ کہ دیا کہ ڈیڈ نے اس کے ساتھ الحاق کر لیا تھا اور سب نے یقین بھی کر لیا کیونکہ ریفائنری بھی اس کے نام تھی اسی لئے,, حکومت اس نے بنائی چاچو کو دھمکا کر خاموش کروا دیا تبھی تو ریفائنری چلا سکا وہ,, آہل ہنکار بھرتا ہوا بولا,,

اووہ اور اس کے بعد,,

اس کے بعد پھر میں نے پارٹی الگ کر لی اور پانچ سال حکومت کی,,

مزہ آیا,, دانی بات کو مزاح کا رنگ دیتی ہوئی بولی,,

کس بات کا,, آہل آبرو اچکا کر بولا,,

حکومت کرنے کا,,

پاگل ہو تم,, آہل ہنستا ہوا بولا,,

پھر اب کیا کرو گے تم کیسے ڈیڈ سے بدلہ لو گے,, دانی اس کے بائیں جانب بیٹھتی ہوئی بولی,,,

فلحال ہم چھٹیوں پر ہیں پاکستان جا کر سوچیں گے,, آہل اس کی پیشانی پر منتشر بال ہٹاتا ہوا بولا,,

بتا تو سکتے ہو نہ,, دانی منہ بنا کر بولی,

جی نہیں,, آہل اسی کے انداز میں بولا,,

مت بتاؤ,, دانی ناک سکوڑتی گیم کھیلنے لگی,,

یار اس کو بند کرو پہلے کھانا کھا لو,,

نہیں,, پہلے اسے ختم کروں گی پھر کھانا,, دانی موبائل سائیڈ پر کرتی ہوئی بولی,,

میرے واپس آنے تک گیم ختم ہو,, آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا,,

دانی اس کی بات پر کان دھرے بنا کھیلتی رہی,,

دانی تم ابھی تک کھیل رہی ہو,, آہل واپس آ کر خفگی سے بولا,,

ختم ہی نہیں ہوئی,, دانی شانے اچکاتی ہوئی بولی,,

کھانا ڈھنڈا ہو جاےُ گا,, آہل غصے سے بولا,

پھر کیا منہ میں جانے سے انکار کر دے گا,,

دانی کہاں خاموش رہنے والی تھی,,

آہل مسکراتا ہوا ٹرے رکھ کر بیٹھ گیا,,

منہ کھولو,,

نوالہ دانی کے سامنے کرتا ہوا بولا,,

سو سوئیٹ,, دانی مسکرا کر کہتی منہ کھولنے لگی,,

آہل اپنے ساتھ ساتھ دانی کو بھی کھلانے لگا,,

دانی کو خود پر رشک آنے لگا تھا,,

گیم ختم ہوئی تو دانی نے آہل کو بتاےُ بنا پھر سے نئی گیم سٹارٹ کر لی,,

دانی کی آنکھوں میں شرارت تھی,,

منہ کھولو,, آہل ہاتھ آگے کرتا ہوا بولا,,

دانی منہ کھولے ہوۓ تھی اور آہل ہاتھ پیچھے کھینچتا جا رہا تھا دانی آگے ہوتی جا رہی تھی نظریں موبائل پر تھیں,,

دانی کی پیشانی آہل کے رخسار سے ٹکرائی تو نگاہ اٹھا کر آہل کو دیکھنے لگی,, جو چہرے پر خفگی سجاےُ گھور رہا تھا,,

دانی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور موبائل سائیڈ پر رکھ دیا,,

اب کھلاؤ,,

اب خود کھاؤ,, آہل ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتا کھڑا ہو گیا,, دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی,,

کھلا دیتے تو کون سا گناہ ہو جاتا,, دانی بولتی ہوئی کھانے لگی,,

جنگلی بلی مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں,, آہل کہتا ہوا مڑ گیا,,

ہاں پوری دنیا کا ٹھیکہ تم نے اٹھا رکھا ہے نہ..دانی خفگی سے بولی,,

آہل مسکراتا ہوا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا,,

************

کمرہ تاریکی میں ڈوبا تھا,, کھڑکی کے آگے پردہ تھوڑا سا سرکا ہوا تھا جس کے باعث چاند کی ہلکی ہلکی روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی,, تاریکی کے ہمراہ مکمل خاموشی کا راج تھا,, گھڑی کی ٹک ٹک واضح سنائی دے رہی تھی,,

انعم رحیم کا چہرہ تھامے بیٹھی تھی,, خون آلود چہرہ,,

رحیم تمہیں کچھ نہیں ہو گا,,

رحیم کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی,,

ابھی ایمبولینس آ جاےُ گی میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی,, انعم آنسو بہاتی اسے تسلی دے رہی تھی لیکن رحیم کی آنکھیں بند ہو چکیں تھیں,,

رحیم آنکھیں کھولو رحیم,,

رحیم,, انعم چلا کر آٹھ بیٹھی,, تنفس تیز ہو چکا تھا وہ لمبے لمبے سانس لیتی گرد و پیش میں نگاہ دوڑانے لگی,,

انعم نے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا اور لیمپ آن کیا,, آنسو نکل کر رخسار پر آ رہے تھے,,

انعم نے گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں ختم کر لیا,,

کمبل پرے پھینکتی بیڈ سے اتر آئی اور چلتی ہوئی کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی,,

باہر تاریکی کا راج تھا,, انعم کو یہ رات اداس لگ رہی تھی,, ستارے آسمان کی چادر پر دکھائی نہیں دے رہے تھے,, البتہ مہتاب پوری آب و تاب سے دمک رہا تھا,,

انعم آنسو بہاتی آسمان کو دیکھنے لگی,,

میرا چاند تو چلا گیا,,

اب میں کیا کروں وہ منظر ایسے معلوم ہوتا ہے ہر لمحہ میری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے میرے سامنے وہ واقعہ وقوع پذیر ہوا لیکن دل ابھی بھی ماننے سے انکاری ہے,, کیسے سمجھاؤں اسے,, انعم تھکے تھکے انداز میں کھڑکی میں بیٹھ گئی,,

کاش کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے ہم کبھی جدا نہ ہوتے,, رحیم تم تو چلے گئے میں یہاں کیا کروں مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے,, اس سے بہتر تو یہ ہوتا تمہاری جگہ موت مجھے لے جاتی تمہاری ضرورت بہت سے لوگوں کو ہے لیکن میری,, انعم نے بات ادھوری چھوڑ کر سر جھکا لیا,,

سانس خارج کرتی وہ کمرے کو دیکھنے لگی,,

کچھ چیزیں یا خواہشات ہوتی ہیں جو ہمیں نہیں ملتی لیکن کافی وقت بعد ان سے مماثلت رکھنے والی کوئی چیز مل جاتی لیکن انسانوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا وہ ایک بار چلے جائیں پھر کبھی نہیں ملتے,, اور جب ہم ایک انسان کی خوبیاں کسی دوسرے انسان میں ڈھونڈنا شروع کر دیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ جو وہ تھا کوئی اور نہیں ہو سکتا,, کیوں چلے گئے تم دیکھو مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے ایک تم ہی تو تھے میری تنہائی کے ساتھی اور اب دیکھو پہلے سے زیادہ تنہا ہو گئی ہوں,, پہلے عادت تھی لیکن تم نے عادت خراب کر دی اب میں کیا کروں رحیم بتاؤ مجھے,, انعم نے روتے ہوۓ چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا,,

************

آہل کہاں غائب ہے,, دانی رفیق کو دیکھتی ہوئی بولی,,

میم وہ کسی ضروری کام سے گئے ہیں,,

کون سا ضروری کام یہاں آن پڑا, دانی بڑبڑاتی ہوئ چلنے لگی,,

دانی فون پر نمبر ملانے لگی پہلی بیل پر ہی ریسیو کر لیا گیا,,

کہاں ہو تم,,

کیوں مس کر رہی ہو,, آہل لب دباےُ مسکرانے لگا,,

پہلے مجھے یہ بتاؤ یہاں بھی تمہی حکومت چلا رہے ہو,,

نہیں اب تو نگران حکومت ہے ہماری ختم,,

پھر کون سے کام ختم نہیں ہوتے تمہارے,, دانی تنک کر بولی,,

بلکل بیویوں والی ٹون ہو گئی ہے تمہاری,, آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا,,

جو پوچھا ہے اس کا جواب مت دینا اپنی فارسی جھاڑتے رہنا,,

اب ہر کام تو تمہیں بتایا نہیں جا سکتا نہ,,

ہاں اپنی ہاف گرل فرینڈ کو سب بتا سکتے ہو مجھے نہیں,,

اچھا میں گھر آ کر تم سے بات کرتا ہوں,, آہل نے کہ کر فون کاٹ دیا اور پھر سے کھلونے دیکھنے لگا,,

آہل رات میں واپس آیا,, دانی اس کی منتظر تھی جیسے ہی نظر آہل پر پڑی پیشانی پر بل پڑ گئے,,

جنگلی بلی میرا انتظار کر رہی تھی,, آہل بولتا ہوا دانی کے ساتھ آ بیٹھا,,

نہیں گلی کے وہ جو آوارہ لڑکوں ہیں نہ ان کا انتظار کر رہی تھی تمہیں کسی نے غلط خبر دے دی..

چھوڑو یہ سب اور میری بات سنو,, آہل اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا,,

کیا,, دانی آبرو اچکا کر بولی,,

تمہارے لئے ایک ڈریس لایا ہوں جلدی سے تیار ہو جاؤ,,

آہل میں آج پیدل نہیں چلنے والی تمہارا ارادہ تو مجھے لنگڑا کرنے کا ہے,, دانی گزشتہ دن یاد کرتی ہوئی بولی,,

نہیں آج ہم گاڑی پر جائیں گے,, آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا,,

اچھا پھر ٹھیک ہے,, دانی سر ہلاتی کھڑی ہو گئی,,

جلدی کرنا,,

اب تمہارے پیچھے کون لگا ہے جو جلدی ڈال رہے ہو صبح سے آوارہ گردی کرتے ہوئے نہیں معلوم تھا,, دانی خفگی سے دیکھتی مڑ گئ,,

آہل مسکراتا ہوا موبائل پر ٹائپنگ کرنے لگا,,

آہل کھڑا ہوا اور چینج کرنے دوسرے کمرے میں چلا گیا واپس آیا تو دانی کو شیشے کے سامنے پایا,,

آہل مسکراتا ہوا اس کے عقب میں کھڑا ہو گیا,,

کہاں جانا ہے ہم نے,, دانی آئینے میں اس کا عکس دیکھتی ہوئی بولی,,

ڈیٹ پر,, آہل ڈمپل کی نمائش کرتا ہوا بولا,,

اووہ اچھا,, ویسے تمہارے جیسے ضعیف لوگ بھی ڈیٹ پر جاتے ہیں کیا,,دانی شرارت سے بولی,,

کیوں ہم ضعیف لوگوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا,,

تمہارا دل بھی تو بڈھا ہو گیا ہو گا نہ,,

اگر تم دو منٹ میں نہ آئی تو میں آنا کو لے جاؤں گا اپنے ساتھ,,آہل دھمکاتا ہوا سائیڈ پر ہو گیا,,,

ہاں آنا تمہاری ماسی لگتی ہے نہ اسے ساتھ لے جاؤ گے تم,,, دانی جل بھن کر بولی,,

دانی سلیو لیس رائل بلیو کلر کی سکرٹ پہنے ہوئے تھی,, سیاہ لمبے بال کمر پر گرا رکھے تھے گرے آنکھوں پر پلکوں کی گھنی چادر بچھی تھی,,, اب دانی ڈیپ ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگانے میں مگن تھی,,

اس کے سرخ و سپید رنگ پر یہ رنگ چار چاند لگا رہا تھا,,

آہل خود بھی بلیو کلر کی ٹی شرٹ پہنے ہوۓ تھا سیاہ بالوں کو جیل لگا کر کھڑا کر رکھا تھا,, سفید رنگت پر بڑھی ہوئی شیو کیا دل کش منظر پیش کر رہی تھی اس پر اس کا ظالم ڈمپل,,

وہ لمحہ بھر بعد دانی پر نظر ڈالتا پھر واپس سے موبائل پر نظریں جما لیتا,,

دانی میں آنا کے ساتھ جا رہا ہوں,, آہل فون جیب میں ڈالتا ہوا کھڑا ہو گیا,,

دانی روہانسی ہو کر آہل کو دیکھنے لگی,,

تم نہ,, دانی دانت پیستی اس کے سامنے آ گئی,,

اب چلو جلدی سے,, آہل پیشانی پر ڈالتا ہوا باہر نکل گیا,,

باطل حیات کہیں کا,,

دانی بڑبڑاتی ہوئی آہل کی تقلید کرنے لگی,,

دانی باہر آئی تو آہل گاڑی میں بیٹھا تھا,,

میرا خیال ہے میں تمہارے ساتھ ہی جا رہی ہوں,, دانی اس کی جانب آتی ہوئی بولی,

آف کورس,, کوئی شک,, آہل آبرو اچکا کر بولا,,

جب ڈیٹ پر لے جاتے ہیں تو دروازہ لڑکا کھولتا ہے لیکن تم تو اپنی سیٹ پر مل مار کر ایسے بیٹھے ہو جیسے بعد میں ملنی ہی نہیں تھی,, دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی,,

آہل سر کھجاتا دانی کو دیکھنے لگا,,

وہ کیا ہے نہ دانی مجھے عادت نہیں ان فیکٹ مجھے تو اپنے گارڈز کی یاد آ رہی ہے وہی ڈور اوپن کرتے تھے ,,آہل معصومیت سے بولا,

آےُ بڑے تم چیف منسٹر,,دانی بڑبڑاتی ہوئی بیٹھ گئ,,

سیٹ بیلٹ,, آہل اشارہ کرتا ہوا بولا,,

چپ کر کے گاڑی چلاؤ ایسا نہ ہو سیٹ بیلٹ سے تمہارا منہ باندھ دو میں,, دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی,,

آہل لب دباےُ مسکراتا ہوا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا,,

اووہ شٹ,, ایک منٹ,, آہل گاڑی روک کر دانی کو دیکھنے لگا,,

واٹ,, دانی کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں,,

آہل نے جیب سے ایک سیاہ پٹی نکالی,,

مجھے اغوا کر کے تاوان مانگنے کا ارادہ ہے کیا,, دانی تکہ لگاتی ہوئی بولی,,

صرف اغوا کرنے کا ارادہ ہے, آہل نے کہتے ہوۓ دانی کی آنکھوں پر پٹی رکھی اور ہاتھ پیچھے لے جا کر باندھ دی,,

بس اندھا کرنے کی کسر رہ گئ تھی وہ بھی پوری کر دی تم نے,,دانی بولتی ہوئی سیدھی ہو گئی,,

آہل دھیرے سے مسکرا دیا,,

مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر آہل باہر نکلا,, دانی کی جانب آ کر دروازہ کھولا اور ہاتھ پکڑ لیا,

آ جاؤں باہر,, دانی اس کا لمس محسوس کرتی ہوئی بولی,,

ہاں آ جاؤ,,

دانی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آہل کے ہمراہ چلنے لگی,, آہل کا ہاتھ پکڑے دانی کا دل عجیب ہی کیفیت میں گرفتار تھا,,

آہل ہم کہاں جا رہے ہیں,, دانی سے زیادہ دیر خاموش نہ رہا گیا تو بول پڑی,,

ڈیٹ پر,, آہل اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا,,

دانی نفی میں سر ہلاتی مسکرانے لگی,,

لکڑی سے بنی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر آہل نے دانی کا ہاتھ چھوڑا اس کے عقب میں آیا اور پٹی کھول دی,, تاریکی سے

روشنی میں آ کر دانی کی آنکھیں چندھیا گئیں,, آنکھیں چھوٹی کیے وہ پہلے آہل کو پھر سامنے سمندر کو دیکھنے لگی,,

آہل اس کا ہاتھ پکڑے زینے اترنے لگا,,

دانی خوشگوار حیرت میں مبتلا تھی,,

لکڑی کے زینے اتر کر وہ دونوں ریت پر آ گئے,, سنہری ریت جو سونے کی مانند دکھائی دے رہی تھی,,

آہل بیٹھ کر شوز اتارنے لگا,, دانی نے بھی اپنے نیلے سینڈل اتار دئیے,,

لہریں شور مچا رہیں تھیں,, تیز ہوا کے جھونکے آ کر ان سے ٹکرا رہے تھے,, تاحد نظر نیلگوں شفاف پانی دکھائی دے رہا تھا,, دانی آہل کو بھلا کر پانی کی جانب بڑھنے لگی,, ڈھنڈا یخ بستہ پانی,, دانی جھرجھری لیتی پیچھے ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے ایک بڑی لہر آئی اور دانی کو گھٹنوں تک بھگو گئی,,

آہل پینٹ فولڈ کرتا دانی کو دیکھنے لگا پھر کھڑا ہوا اور دانی کے پہلو میں آ گیا,,

پانی کو دیکھ کر مجھے بھول گئی,, آہل شکوہ کناں نظروں سے دیکھتا ہوا بولا,, اس سمت ان دونوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا,,

تم جانتے ہو دانی دیوانی پانی کی,, دانی پانی میں ہاتھ ڈالتی ہوئی بولی,,

آہل مسکرا کر اسے دیکھنے لگا,,

دانی پانی بہت ڈھنڈا ہے بیمار پڑ جاؤ گی آ جاؤ,, آہل اسے کہتا پیچھے ہو گیا لیکن دانی پانی دیکھ کر پاگل ہو گئی تھی,, لہریں آتیں اور اسے بھیگا دیتیں,, سمندر اس کے ساتھ کھیل رہا تھا,, خاموشی میں لہروں کی آواز ارتعاش پیدا کر رہیں تھیں,, فلک پر مہتاب جگمگا رہا تھا,,

دانی ڈھنڈ لگ جاےُ گی,, آہل اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا,,

آہل ابھی تو پانچ منٹ بھی نہیں ہوۓ,, دانی منہ بسورتی ہوئی بولی,,

میں کچھ نہیں سنوں گا,, آہل گھور کر بولا,,

یہ کیا بات ہوئی ہم ہاتھ لگانے آےُ تھے کیا سمندر کو,, دانی ناراض ناراض سی گیلی ریت پر چلنے لگی,,

نہیں ہم کسی اور کام کے لیے آےُ ہیں,,

مچھلیاں پکڑنے کا کام کرنے آےُ ہو کیا,,

نہیں بہت خاص ہے تم بیوقوف ہی رہنا,, آہل اس کے سر پر چت لگاتا ہوا بولا,,

لہریں آتیں اور ان کے پاؤں کو بوسہ دے کر پاؤں کے نیچے سے ریت کھینچ کر لے جاتیں,,

رات کے ٹائم سمندر خوفناک ہوتا ہے دیکھو لہریں کتنی بڑی ہیں,, آہل نرمی سے سمجھانے لگے,,

کچھ مسافت طے کرنے کے بعد دانی کو مدھم مدھم سی روشنیاں دکھائی دینے لگی,,

ریت پر چھوٹی چھوٹی لائٹس پڑیں تھیں جن سے دانی لکھا ہوا تھا,,

کچھ فاصلے پر چار پلر کھڑے تھے جن پر سفید کپڑے باندھ کر گلدستے مبسوط کر رکھے تھے پلرز کے وسط میں سفید رنگ کی سطح بنا کر دو تکیے رکھے ہوۓ تھے آس پاس موم بتیاں پڑیں تھیں,, سامنے سمندر کی لہریں دکھائی دے رہیں تھیں,,

دانی مبہوت زدہ اس منظر کو دیکھ رہی تھی,,

آہل,, دانی اس کے مقابل آتی ہوئی بولی,,

پسند آیا,, آہل جانتا تھا لیکن اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا,,

دانی کی آنکھیں نم ہو گئیں,,

دونوں کے بیچ فاصلے ختم ہو چکے تھے,, آہل نفی میں سر ہلانے لگا,,

تم نے یہ سب میرے لئے کیا ہے,, دانی ستائش سے دیکھتی ہوئی بولی,,

پاگل ہو کیا یہ سب تو میں نے آنا کے لئے کیا ہے اسے پسند آےُ گا نہ,, آہل فاصلوں کو سمیٹتا دو قدم دانی کی جانب بڑھا,,

دانی پہلے خفگی سے پھر مسکرا کر آہل کو دیکھنے لگی,,

میرے جاہل حیات تمہاری بیوی بیوقوف نہیں ہے,, دانی اس کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی,,

اچھا جی مجھے لگا احمق ہو تم,, آہل اپنی پیشانی دانی کی پیشانی سے ٹکراتا ہوا بولا,

ظالم حیات,, دانی پیشانی مسلتی ہوئی بولی,,

مجھے یقین نہیں آ رہا,, دانی بائیں جانب دیکھتی ہوئی بولی جہاں اس کا نام لکھا تھا,,

مسز آہل یقین کر لیں,, آہل خمار آلود لہجے میں بولا,,

دانی نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جہاں ڈھیروں جذبے سمٹ آےُ تھے,,

تیز ہوا دانی کے بالوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی,, دانی اپنی انگلی کی پوروں سے آنکھوں پر آتے بال ہٹانے لگی,,

تمہاری برتھ ڈے,, آہل کہ کر خاموش ہو گیا,

اووہ میرا برتھ ڈے,, میں تو بھول گئی,, دانی پیشانی پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی,,

آہل نرم مسکراہٹ لئے دانی کو دیکھ کر جیب سے ڈبی نکالنے لگا,,

دانی آبرو اچکا آہل کو دیکھنے لگی,,

تمہاری برتھ ڈے کے لئے سوچا تھا میں نے لیکن قسمت کو شاید ایسے منظور تھا,, آہل نیلے ڈائمنڈ والی انگوٹھی نکالتا ہوا بولا,,

دانی ششدہ رہ گئی,,

ہاتھ آگے کرو,, آہل ہتھیلی اس کے سامنے پھیلاتا ہوا بولا,,

ایسے نہیں,, دانی ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی بولی,

پھر,, آہل کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں,,

گھٹنوں پر بیٹھ کر پہلے مجھے آئ لو یو بولو پھر پہناؤ,, دانی نچلا لب دباےُ دھیرے سے مسکرانے لگی,,

آہل چہرہ جھکاےُ مسکرانے لگا,,

آر یو سیرئیس,,آہل حیرت سے بولا,,

آف کورس آئ ایم,, دانی سینے پر بازو باندھتی ہوئی بولی,,

اچھا مذاق ہے دانی,, آہل اس کی بات ہوا میں اڑاتا ہوا بولا.

نو یہ مذاق نہیں,, دانی پوری آنکھیں کھولتی ہوئی بولی,,

میں یہ سب نہیں کر سکتا دانی,, آہل شانے اچکاتا ہوا بولا,,

کیوں تم کیوں نہیں کر سکتے اس کے لئے کون سا کورس درکار ہے جو تم نے کیا نہیں بتاؤ,, دانی تیکھے تیور لئے بولی,,

ہاتھ آگے کرو اب,, آہل اس کی بات کو اہمیت دئیے بنا بولا,,

میں تو ایسے نہیں پہنوں گی زندگی میں ایک بار تو پروپوز کرنا ہے روز روز تو نہیں کرتا کوئی بھی اس میں بھی تمہاری جان جا رہی ہے,, اب جلدی سے بیٹھو,,

آہل ہنستا ہوا دانی کو دیکھنے لگا,,

دانی تم پاگل ہو,, آہل نفی میں سر ہلاتا ہنس رہا تھا,,

جی نہیں میں بلکل نارمل ہوں اور اگر مجھ سے انگیجمینٹ کرنی ہے تو پہلے بیٹھو نیچے مجھے صحیح سے پروپوز کرو پھر پہنو گی میں,,

صحیح سے مطلب ابھی غلط طریقے سے کر رہا تھا,,

بلکل اب جلدی کرو آہل,, دانی منہ بناتی ہوئی بولی,,,

دانی مجھے بتاؤ چیف منسٹر آہل حیات گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پروپوز کرتا ہوا اچھے لگے گا,,

بلکل بہت اچھا لگے گا اب زیادہ نخرے مت کرو اتنے نخرے تو دلہن نہیں کرتی جتنے تم کر رہے ہو,, دانی خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی,,

عشق بھی عجیب چیز ہے وہ سب کروا لیتا جس کی توقع بھی نہیں کی جاتی,,

انسان جھکتا ہے صرف اسی انسان کے لئے جس کے لئے دل دھڑکتا ہو جس کے نام پر دھڑکنیں رقص کرتی ہوں,, آہل حیات بھی جھکا تھا اپنے عشق کے سامنے اپنی حیات کے سامنے,,

آہل نچلا لب دباےُ گھٹنہ نیچے ریت پر رکھے چہرہ اوپر اٹھاےُ اپنے محبوب کو دیکھنے لگا جو اس کا عشق اس کا جنون,,

دانی اشتیاق سے آہل کو دیکھ رہی تھی,,

آہل جلدی بولو نہ,, دانی بےصبری سے بولی,,

آہل کے لئے بولنا محال ہو رہا تھا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح دانی کو پروپوز کرے گا,,

اب تم کر رہے ہو یا میں جاؤں,, دانی اسے خاموش پا کر بولی,,

آہل کا چہرہ جھکا ہوا تھا,,

دانی تم میرا عشق, میرا سکون میری زندگی ہو,, تمہارے بنا آہل حیات ادھورا ہے خود کو میری زندگی میں شامل کر کے اس ادھورے آہل کو مکمل کر دو,, آہل انگوٹھی سامنے کئے بول رہا تھا لب مسکرا رہے تھے اور آنکھیں ان کا ساتھ دے رہیں تھیں,,

دانی خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی,, زندگی اس طرح مہربان ہو گی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا,, وہ جھکا تھا جو کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتا وہ اس کے لئے جھک گیا تھا,,

تمہیں مکمل کرنے سے دانی بھی مکمل ہو جاےُ گی,, دانی نے کہتے ہوۓ آہل کی ہتھیلی پر رکھ دیا,,

آہل دانی کی جانب دلفریب مسکراہٹ اچھالتا انگوٹھی پہنانے لگا,, کھڑا ہوا اور دانی کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا,,

اب خوبصورت ہو گئی ہے یہ رنگ,, آہل ستائش سے بولا,, دانی کے سرخ و سپید رنگ کے ہاتھوں میں نیلا ہیرا جگمگانے لگا تھا,, دانی کے ہاتھ میں آ کر وہ مزید پرکشش اور قیمتی دکھائی دے رہی تھی,, اس کی زینت بڑھ گئی تھی,,

دانی نم آنکھوں سے دیکھتی اس کی جانب آئ,,

تھینک یو سو مچ آہل,, بولتے بولتے دانی کی آنکھ سے دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے,,

آہل اپنی انگلیاں دانی کے رخسار پر رکھتا آنسو پونچھنے لگا,,

دانی اس کے لمس پر آنکھیں بند کر گئی,, آہل کی خوشبو دانی کے نتھنوں سے اندر جا رہی تھی..

آہل نے دانی کی کمر پر بائیاں ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا,,

دانی نے پیشانی آہل کے سینے سے لگا دی دانی کا بائیاں ہاتھ آہل کے کشادہ سینے پر تھا,,, دانی کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہیں تھیں,, آہل کی قربت میں وہ خود کو فراموش ہوتا محسوس کر رہی تھی,, دانی اردگرد سے بیگانہ اس کی خوشبو اور قربت کو محسوس کر رہی تھی,,

آہل آنکھیں بند کئے چہرے اوپر کیے ہوۓ تھا,,

وہ دونوں اس خوبصورت رات کا حصہ لگ رہے تھے,, سنائی دے رہا تھا تو صرف لہروں کا شور یا ان کے بیچ کی خاموشی,,

آسمان بادلوں سے پوشیدہ ہوتا جا رہا تھا,, دیکھتے ہی دیکھتے آسمان برسنا شروع ہو گیا,,,

آہل کے چہرے پر قطرے گرے,, تو چہرے پر خفگی در آئی,,

بارش تیز ہو رہی تھی,, دانی اس کے حصار میں سب کچھ بھول گئی تھی یاد تھا تو صرف آہل,,

مجھے لگتا ہے ہماری ڈیٹ خراب ہو گئی,,آہل دانی سے الگ ہوتا ہوا بولا,,

مجھے نہیں لگتا,, دانی خوشگواری سے بولی,,

مطلب,, آہل الجھ کر اسے دیکھنے لگا..

ہماری ڈیٹ تو مزید خوبصورت ہو گئی ہے,, دانی ہاتھ کھولے آسمان کو دیکھتی ہوئی بولی..

واپس چلیں,, آہل تیز ہوتی بارش کے باعث بولا جو دونوں کو بھگا رہی تھی,,

کیوں,, دانی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی..

تم جانتے ہو نہ مجھے بارش کتنی پسند ہے..دانی اس کے قریب آتی ہوئی بولی..

آہل کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی تو ڈمپل بھی عود آیا..

دانی دلچسپی سے اس کا ڈمپل دیکھنے لگی لیکن آہل کی مسکراہٹ سمٹنے پر وہ بھی منظر سے غائب ہو گیا,,

دانی گرے آنکھوں میں ناراضگی سموےُ آہل کو دیکھنے لگی..

اپنا فون نکالو,,

خیریت,,

ہاں میں سوچ رہی تھی ہمارے بچوں کو فون کر دوں کہ ہم لیٹ ہو جائیں گے تو ہمارا انتظار نہ کریں,, دانی نہایت سنجیدگی سے بولی..

آہل ہنستا ہوا اسے دیکھنے لگا,,

دو نہ,, دانی خفگی سے بولی,

اچھا یہ لو,, آہل فون نکالتا ہوا بولا..

واٹر پروف ہے نہ,, دانی برستی بوندوں کو دیکھتی ہوئی بولی..

جی میڈم,, آہل بغور اسے دیکھتا ہوا بولا..

دانی ہممم کہتی اپنا کام کرنے لگی...

لیٹس ہیو اے ڈانس,, دانی اپنا مطلوبہ گانا ڈھونڈتی ہوئی بولی..

یہ نہیں,, آہل ناک چڑھاتا اس کے ہاتھ سے فون لے کر دیکھنے لگا..

دانی اس کی پسند دیکھنے کی منتظر تھی..

آہل کو گانا نظر آیا تو لب مسکرانے لگے,,

دانی اشتیاق سے دیکھ رہی تھی,,

آہل نے فون رکھا اور دانی کو دیکھنے لگا,,

بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور دونوں کو تیزی سے بھیگاتی جا رہی تھی,, دانی کے سارے بال گیلے ہو چکے تھے,, آہل اس کے قریب ہوا اور ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر خود سے قریب کر لیا دوسرے ہاتھ سے دانی کا ہاتھ تھاما,, دانی مسرور سی یہ سب اینجواےُ کر رہی تھی,,

بوند بوند میں

گم سا ہے

یہ ساون بھی تو

تم سا ہے

اک اجنبی احساس ہے

کچھ ہے نیا

کچھ خاص ہے

قصور یہ سارا

موسم کا ہے

بوند بوند میں

گم سا ہے

یہ ساون بھی تو

تم سا ہے

چلنے دو من مرضیاں

ہونے دو گستاخیاں

پھر کہاں یہ فرصتیں

پھر کہاں نزدیکیاں

کہ دو تم بھی کہیں

لا پتہ تو نہیں

دل تمہارا بھی تو کچھ

چاہتا تو نہیں

بوند بوند میں

گم سا ہے

یہ ساون بھی تو

تم سا ہے

گانا اس حسین منظر کی عکاسی کر رہا تھا جس کا حصہ دانی اور آہل تھے..

آہل نے ایک ہاتھ کمر پر رکھا اور دانی کو گھمانے لگا,, سمندر کی موجیں تیز ہو رہی تھیں,, ہوا کے جھونکے ان کے چہرے پر بوسے دے رہے تھے اور بارش کی بوندیں انہیں سیراب کر رہیں تھیں,,

آہل نے جھٹکے سے اسے اپنے قریب کر لیا,,

دانی کے لئے اس سے خوبصورت منظر کوئی نہیں ہو سکتا تھا,, اپنے چاہنے والے کے سنگ ایک خوبصورت ترین رات,, پسندیدہ انسان, پسندیدہ منظر, پسندیدہ موسم ہر چیز پرفیکٹ تھی وہ خوشنصیب تھی کیونکہ پرفیکشن کسی کسی کے نصیب میں آتی ہے,,

گیلی ریت پر دونوں کے پاؤں کے نشاں ثبت ہوتے اور بارش انہیں پھر سے مٹا دیتی,,

دونوں پوری طرح بھیگ چکے تھے..

دانی میرا خیال ہے اب واپس چلنا چائیے,,

لیکن آہل تم نے یہ اچھا نہیں کیا رات میں یہاں آےُ,, دانی کے چہرے پر اداسی کے ساےُ تھے,,

مجھے اس سے بہترین جگہ نہیں ملی اسی لئے,, آہل شانے اچکاتا ہوا بولا,,

ہم یہاں پھر سے آئیں گے,, دانی اجازت طلب نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی..

ڈن,, آہل اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

اب چلیں,, آہل مسکرایا تو ڈمپل نمایاں ہوا,,

دانی مسکرا کر اثبات میں سر ہلانے لگی,,

آہل فون جیب میں ڈالتا دانی کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا,,

دانی چہرہ موڑ کر اس حسین رات کو دیکھنے لگی,, دل جانے سے انکاری تھا لیکن آہل کو انکار نہیں کرنا چاہتی تھی وہ,,

گاڑی میں آ کر بیٹھے تو سردی کا احساس ہونے لگا,

_______

آہل نے ہیٹر آن کر دیا,,

دانی کی آنکھوں میں نیند نے ڈیرے جما لئے,, آہل تیز چلانا,, وہ جمائی روکتی ہوئی بولی..

آہل اثبات میں سر ہلاتا سٹارٹ کرنے لگا,,

کمرے میں آتے ہی دانی واش روم میں گھس گئی,,

چینج کر کے وہ کمبل اوڑھ کر آہل کا انتظار کرنے لگی,,

کچھ ہی دیر میں آہل مسکراتا ہوا کمرے میں آیا اور دروازہ بند کر دیا,,

میرا انتظار کر رہی تھی,,

نہیں ہمسایوں کا,, دانی شرارت سے بولی..

پھر ہمسایوں سے مل کر ہی سونا,, آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا,,

دانی بند ہوتی آنکھوں سے مسکرا دی,,

گڈ نائٹ,, آہل کو دیکھ کر آنکھیں موند لیں..

آہل خاموشی سے اسے دیکھتا مسکرانے لگا جو نیند کی وادی میں اتر چکی تھی,,

آہل کا دل بھرا نہیں تھا دل سے یہی صدا نکل رہی تھی کہ بنا پلک جھپکے بس دانی کو دیکھتا رہے,, آہل نے ہاتھ بڑھا کر دانی کے چہرے سے بال ہٹاےُ جن میں ابھی بھی نمی تھی,, لائٹ آف کی اور دانی کی جانب رخ موڑ کر لیٹ گیا,, دانی کو دیکھتے کب نیند اس پر مہربان ہوئی وہ خود بھی نہ جان سکا,,

آہل کچی نیند سے اٹھ کر دانی کو دیکھنے لگا جو بے خبر سو رہی تھی,,

آہل کو شرارت سوجھی تو محتاط انداز میں لحاف ہٹا کر نیچے اترا اور بنا چاپ پیدا کئے باہر نکل گیا,,

تقریباً دس منٹ بعد وہ واپس آیا تو ہاتھ میں کافی کا مگ تھا,,

دانی اٹھو,, آہل اس کے سر پر کھڑا بولنے لگا,

آہل ابھی سونے دو,, دانی لحاف منہ پر اوڑھتی ہوئی بولی,,

آہل نے ہاتھ بڑھا کہ کمبل ہٹایا,,

دانی اٹھ جاؤ ورنہ میں یہ کافی تمہارے منہ پر انڈیل دوں گا,,

دانی آنکھیں کھول کر پیشانی پر بل ڈالے آہل کو دیکھنے لگی,

ایسے کون اٹھاتا ہے,,

میں,, آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا,,,

صبح صبح کیا مصیبت آن پڑی ہے تمہیں,, دانی رونے والی شکل بناتی ہوئی بولی,,

جم جا رہے ہیں ہم نکلو اب جلدی سے,, آہل مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا..

دانی نا چاہتے ہوۓ بھی اٹھ بیٹھی..

میرے واپس آنے تک تم تیار ملو,, آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا..

کوئی کہے گا یہ رات والا جاہل حیات ہے جو اب جلاد بنا ہوا رات ایسے میٹھا بن رہا تھا مانو شہد بھی کڑوا ہو اس کے سامنے.. دانی سر جھٹکتی واش روم میں گھس گئی..

کون سی چڑیل کو ٹائم دے کر آےُ تھے جم میں,, دانی کڑھتی ہوئی بولی..

تمہیں,, آہل شرارت سے بولا..

دانی آہل کے دائیں جانب چل رہی تھی,,

شکل دیکھتی ہے تمہیں ٹائم دوں گی میں چوزے کہیں کے,, دانی ہنکار بھرتی ہوئی بولی..

اچھا چوزی.. آہل ڈمپل کی نمائش کرتا ہوا بولا..

اللہ کرے یہ رنیگ مشین خراب ہو جاےُ پھر ساری زندگی بھاگتے رہنا تم,, دانی ابھی تک غصے میں تھی..

تم کس اینگل سے میری بیوی لگ رہی ہو..

آہل اسے گھورتا ہوا بولا,,

نہ فرنٹ سائیڈ سے نہ بیک سائیڈ سے نہ رائیٹ سائیڈ سے اور نہ ہی بیک سائیڈ سے سمجھے,, دانی تنک کر بولی,,

اچھا اب اپنا خون مت جلاؤ اور جا کر ورزش کرو.. آہل سپیڈ تیز کرتا ہوا بولا,,

مرغ حیات,, دانی بڑبڑاتی ہوئی چل دی..

آہل نفی میں سر ہلاتا مسکرانے لگا,,

دانی آس پاس دیکھتی چلنے لگی,, نیند کا خمار ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا,, دانی جمائی روکتی آہل کی نظر سے بچ کر ایک کونے میں آ گئی,,

موبائل نکالا اور گیم کھیلنے لگی,,

مجھ پر حکم ایسے چلاتا ہے جیسے الیکشن میں جیتا ہو مجھے,, دانی سر جھٹکتی اسکرین کو دیکھنے لگی,,

آہل گھنٹے بعد دانی کی تلاش میں یہاں وہاں گھومنے لگا بالآخر اسے دانی دکھائی دے گئی..

میڈم ہم یہاں کسی کام سے آئیں ہیں,, آہل اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹتا ہوا بولا,,

بھاگنا ہی ہے نہ تم وہاں بھاگ رہے اور میں یہاں موبائل پے سمپل,, دانی شانے اچکاتی ہوئی بولی..

کل تمہارے سر پر ڈنڈا رکھوں گا,, آہل اس کا ہاتھ پکڑے دروازے کی جانب چلنے لگا,,

ہاں اور وہی ڈنڈا بار بار غلطی سے تمہیں ہی لگے گا,, بولتے بولتے دانی کی نظر اس کی بازو سے ٹکرائی تو پلٹنا بھول گئی,,

سرمئ آنکھوں میں حیرت تھی,,

آہل یہ کیا,, دانی اس کے بائی سیپس کو انگلی سے چھوتی ہوئی بولی..

اووہ میں بھول گیا,, آہل سر کھجاتا ہوا بولا..

کیا.. دانی الجھ کر بولی..

مجھے دوسری شرٹ پہننی تھی جلدی میں یہ پہن لی,,

آہل اس وقت سیاہ بنا آستین والی شرٹ پہنے ہوۓ تھا..

تم نے کہاں کہاں ٹیٹو بنوا رکھے ہیں,, دانی قدم روکے اسے دیکھنے لگی..

آہل مسکرایا تو ڈمپل بھی اپنی دید کی خاطر عود آیا..

تمہیں درد نہیں ہوتا,, دانی جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا,,

آہل کا دائیاں بازو کہنی سے لے کر شانے تک ٹیٹو سے پوشیدہ تھا,, اور ٹیٹو کچھ اور نہیں بلکہ دانی کے نام کا تھا,,

یہ ٹیٹو دوسری بازو والے ٹیٹو سے زیادہ بڑا تھا,,

درد ہوتا ہے یا نہیں تمہیں کیا کرنا ہے,, آہل آبرو اچکا کر بولا,,

تم نے جو پاگلوں کی طرح ٹیٹو بنوا رکھے ہیں تو میں پوچھ بھی نہیں سکتی کیا..

آہل حیات بہت مضبوط ہے یہ معمولی سا درد کچھ بھی نہیں,,

اچھا پھر گھر چلو کچھ بتاتی ہوں تمہیں.. دانی اس کا ٹیٹو دیکھتی ہوئی چلنے لگی,,

آہل شانے اچکاتا اس کے پیچھے چل دیا,,

آہل مجھے بھی ٹیٹو بنوانا ہے,, دانی اس کا بائیاں ہاتھ پکڑے ٹیٹو پر انگلیاں پھیرتی ہوئی بولی,,

سفید بازو کی نیلی رگیں ابھریں ہوئیں تھیں جن پر سیاہ رنگ کی مانند دانی لکھا تھا..

تم پاگل ہو کیا,, آہل کو اس کی عقل پر شبہ ہوا,,

کیوں,, دانی معصومیت سے بولی...

بہت درد ہوتا ہے کوئی ضرورت نہیں بنوانے کی,, آہل حتمی انداز میں بولا..

تم بنوا سکتے ہو میں کیوں نہیں,,دانی خفگی سے بولی..

دانی میں مرد ہوں اور بہت مضبوط ہوں جبکہ تم نازک ہو کیسے برداشت کرو گی..آہل فکرمندی سے بولا..

ایک بات بتاؤ سچ سچ تمہیں درد ہوا تھا,, دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی..

ہاں,, آہل سانس خارج کرتا ہوا بولا..

تم نے بھی برداشت کیا نہ میں بھی کر لوں گی لیکن مجھے بھی بنوانا ہے پلیز آہل,, دانی اس کے ہاتھ تھامتی ہوئی بولی..

ابھی کچھ وقت قبل تم مجھے کھری کھری سنا رہی تھی,, آہل نے اسے موضوع سے ہٹانا چاہا,,

ہاں اور اب اچھی اچھی سنا رہی ہوں,, دانی نرم مسکراہٹ سجاےُ اسے دیکھتی ہوئی بولی,

آہل کا ڈمپل پھر سے نمایاں ہوا,,

دانی چند لمحے بنا پلک جھپکے اس کے ڈمپل کو دیکھتی رہی,,

بہت بے شرم ہے تمہارا ڈمپل اسے بولو دوپٹہ لے کر نکلا کرے باہر,, دانی اس کے مضبوط بازو پر مکہ جھڑتی ہوئی بولی,,

اچھا میں کہ دوں گا اب تم ناشتے کی تیاری کرو پھر ہم باہر چلیں گے,, آہل شکر ادا کرتا ہوا بولا کہ وہ بھول گئی ٹیٹو کو,,

ہاں سب کریں گے لیکن پہلے ٹیٹو,, دانی اپنی بات پر قائم رہی..

دانی تم میری بات کیوں نہیں مانتی.. آہل اب کہ غصے سے چلایا..

کیونکہ تم میری بات نہیں مانتے, دانی اس کے غصے کو کسی خاطر میں لائے بنا اس کے مد مقابل آئ,,

ڈرتی کیوں نہیں ہو مجھ سے ہقں,, آہل اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا..

کیوں ڈروں میں تم سے.. دانی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی..

جانتی ہو نہ میرا غصہ کتنا خطرناک ہے.. آہل گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا,,

دانی کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہوۓ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹی..

کچھ بھی کر لو,, میں تو ٹیٹو بنواؤں گی.. دانی چہرہ اس کے قریب کرتی ہوئی بولی..

آہل نے آہستہ سے اس کی بازو آزاد کر دی..

بہت ضدی ہو دانی.. آہل افسردگی سے بولا..

بلکل تمہاری طرح.. دانی مسرور سی بولی..

تم نے لڑکے سے بنوایا تھا یا لڑکی سے,, دانی تجسس سے بولی..

ایک مرتبہ لڑکے سے اور ایک مرتبہ لڑکی سے,, آہل دکھی دکھائی دینے لگا..

دونوں بار لڑکے سے کیوں نہیں بنوایا.. دانی اس کی شرٹ کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی..

دانی بہت درد ہو گا میری بات مان لو..

کچھ نہیں ہو گا تم اب مجھے لے کر چلو,,

نہیں مانو گی,, آہل نے آخری بار پوچھا,,

نو,, دانی نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی..

پھر آؤ میں بناتا ہوں,, آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

ایک منٹ میں آتا ہوں.. آہل کہ کر باہر نکل گیا,,

آہل تم بنا لو گے,, دانی اسے اندر آتا دیکھ کر بولی..

ہاں میں بنا لوں گا کسی اور کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا..

دانی مسکرا کر اسے دیکھنے لگی,,

تم چینج کر لو تب تک رفیق مشین لے آےُ گا,, آہل سپاٹ انداز میں بولا..

دانی پرجوش سی کپڑے نکالنے لگی,,

آہل ناشتہ بھی کر لیا تمہاری ہاف گرل فرینڈ کہاں رہ گئی,, دانی چکر لگاتی ہوئی بولی..

میں نے فون کیا ہے بس آتا ہو گا.. آہل فون پر ٹائپنگ کرتا ہوا بولا..

دانی ہممم کہ کر اسے دیکھنے لگا..

آہل خفا خفا دکھائی دے رہا تھا,, دانی اس کے پہلو میں بیٹھ گئی,,

چند ساعتوں بعد رفیق آہل کو ایک باکس پکڑا کر چلا گیا..

آؤ.. آہل کہتا ہوا کھڑا ہو گیا..

دانی اشتیاق سے اس کے عقب میں چل دی..

کہاں بنوانا ہے.. آہل مشین نکالتا ہوا بولا..

یہاں کندھے کے نیچے,, دانی عقب میں شانے کے نیچے ہاتھ رکھتی ہوئی بولی..

دانی کی شرٹ اس طرز کی تھی کہ اس کا گریبان بازو تک تھا یوں کہ شانے پر شرٹ نہیں تھی,,

دانی بیٹھ گئی تو آہل اس کے عقب میں بیٹھ گیا..

کیسا ٹیٹو,,

تمہارا نام,, بولتے ہوۓ دانی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی..

دانی میں صرف اے لکھوں گا,,

نہیں پورا لکھو,, دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی..

نہیں میں نے تمہاری بات مان لی نہ اب تم بھی مان لو,, آہل اس کا چہرہ آگے کرتا ہوا بولا..

یہ کیا بات ہوئی خود دو جگہ پر لکھوا لیا اور مجھے ایک بار بھی پورا نہیں,,

اب خاموش اور ہلنا مت,, آہل مشین آن کرتا ہوا بولا..

جونہی آہل نے مشین دانی کے شانے کے نیچے رکھی دانی کی ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی,,

آہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی..

دانی زور سے آنکھیں بند کئے دانت دباےُ ہوےُ تھی,, مٹھی زور سے بند کر رکھی تھی..

دانی کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا..

آہل نے مشین ہٹا دی..

ہو گیا,, دانی آنکھیں صاف کر کے بولی,,

ہاں ہو گیا..

آہل مشین واپس باکس میں ڈالتا ہوا بولا..

کیسا بنا ہے.. دانی خوشی سے چپکی..

ہممم اچھا ہے.. آہل کہ کر کھڑا ہو گیا,,

آہل تم ناراض ہو,,دانی اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی..

آہل شکوہ کناں نظروں سے دانی کو دیکھ رہا تھا..

تمہیں یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی..

لیکن میں کرنا چاہتی تھی,, دیکھو دو منٹ کی بات تھی.. دانی فاصلے سمیٹتی ہوئی بولی..

لیکن جو تکلیف ہوئی وہ,,

دانی نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ دی..

جتنا تم میرے لئے کرتے ہو یہ اس کا ایک فیصد بھی نہیں.. دانی نے بولتے ہوۓ سر آہل کی پیشانی سے لگا دیا..

کچھ بھی کرنے کو آہل بہت ہے..

کیا تم میری خوشی میں خوش نہیں.. دانی آنکھیں بند کئے بول رہی تھی..

لیکن آئیندہ ایسی کوئی خوشی کی اجازت نہیں دوں گا..

اوکے ڈن.. اب پلیز اپنے گندے سے ڈمپل کا دیدار کروا دو.. دانی چہرے سے بال ہٹاتی پیچھے ہو گئی تو آہل مسکرانے لگا..

یہ ہوئی نہ میرے جاہل حیات والی بات.. دانی اس کے گال کھینچتی ہوئی بولی..

آہل خفگی سے دانی کو دیکھنے لگا,,

میں بچہ نہیں ہوں,, آہل برا مان گیا..

ہاں میں تو بھول گئ تھی تم تو ضعیف کبیر انسان ہو.. میں چینج کر کے آتی ہوں,, دانی کہ کر واش روم میں گھس گئی..

دانی ننگے پاؤں ریت پر کھڑی تھی,, سمندر اس کے ساتھ شرارتیں کر رہا تھا اور وہ بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہی تھی آہل اس کے عقب میں کھڑا تھا کیونکہ آہل کی تاکید کے باوجود وہ پھر سے آگے چلی جاتی..

دانی زیادہ آگے مت جاؤ یہ سمندر اپنے اندر لے جاتا ہے سب کچھ... آہل اس کی بازو پکڑتا خفگی سے بولا..

لیکن دانی کہاں سننے والی تھی..

اچھا اب نہیں جاتی,, دانی مسکرا کر کہتی آگے چل دی..

پانچ منٹ بعد وہ پھر سے کافی فاصلے پر کھڑی تھی,, لہریں آتیں اور اسے آدھے سے زیادہ بھیگا دیتیں..

وہ کشتی میں بیٹھ کر اس جزیرے پر آےُ تھے جہاں اکا دکا لوگ دکھائ دے رہے تھے,,

خشکی کے اس چھوٹے سے قطعے کے سوا چاروں سمت صرف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا تا حد نظر نیلا شفاف پانی,, آخر تک پانی اور آسمان ایسے دکھائی دیتے جیسے دونوں کا ملاپ ہو رہا ہو,,نیلا آسمان اور نیلگوں پانی دونوں آپس میں مل رہے تھے,,,

دانی آنکھوں پر سن گلاسز لگاےُ پانی سے باہر نکلی اور آہل کی جانب چلنے لگی جو پتھروں پر بیٹھا تھا,,

میں بلکل صحیح کہتی ہوں تم بڈھے ہو گۓ ہو.. دانی تنک کر بولی..

کیوں اب کیا ہو گیا,, آہل گاگلز سر پر لگاتا اسے دیکھنے لگا,,

یہاں ڈر کر بیٹھو ہو میرے ساتھ آؤ.. دانی اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی..

تاکہ دونوں ایک ساتھ ڈوبیں.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

اچھا مت آؤ پانی میں کچھ اور کرتے ہیں..

دانی نیچے بیٹھتی ہوئی بولی..

دونوں ہاتھ ریت میں ڈالے وہ کچھ لکھنے لگی..

آہل دلچسپی سے دانی کو دیکھنے لگا..

دانی آہل,, آہل زیر لب دہراتا مسکرانے لگا..

دونوں کے وسط میں ہارٹ بنا تھا..

دانی آبرو اچکا کر آہل کو دیکھنے لگی,,

بہت زبردست,, آہل ستائش سے بولا..

دانی اس کے ہمراہ کھڑی ہو کر دیکھنے لگی..

ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے نہ.. دانی چہرہ اٹھا کر آہل کو دیکھتی ہوئی بولی..

ان شاءاللہ.. آہل مسکراتا ہوا بولا..

کشتی آ گئی ہے آؤ چلیں,, آہل اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوا بولا..

دانی مسکرا کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی چلنے لگی..

کشتی تیزی سے چل رہی تھی,, دانی مسحور کن سی پانی کو دیکھ رہی تھی,,

اگر ہم گر گئے پھر,, دانی آہل کو دیکھتی ہوئی بولی..

برا کیوں سوچتی ہو.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

اب ہم کہاں جائیں گے..

جہاں تم کہو..

اممم سوچ لو,, دانی منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی..

تمہارے لئے سوچنے کی ضرورت نہیں.. آہل اپنی ناک دانی کی ناک سے رگڑتا ہوا بولا..

پھر ٹھیک ہے,, دانی مسرور سے بولی..

بچپن میں سائیکل نہیں چلائی تم نے.. آہل اسے سائیکل پر بیٹھتے دیکھ کر بولا..

تمہارے ساتھ کبھی نہیں چلائ.. دانی اسے آنکھ مارتی ہوئی بولی..

آہل نفی میں سر ہلاتا اپنی سائیکل پر سوار ہو گیا..

نو چیٹنگ جاہل حیات اوکے..دانی اسے دیکھ کر چلائ..

اوکے... آہل ہاتھ ہلاتا ہوا بولا..

تھری ٹو ون.. دانی بول رہی تھی..

جیسے ہی ون کی آواز ہوا میں گونجی دونوں نے پیڈل مارا اور سائیکل چلانے لگے..

آہل تیز تیز پاؤں مارتا دانی سے آگے نکل گیا...

دانی ہونق زدہ سی اسے دیکھنے لگی پھر اس سے آگے نکلنے کی سعی کرنے لگی اسی اثنا میں دانی کا پاؤں سلپ ہوا اور دھڑام کی آواز سنائی دی..

آہل پاؤں زمین پر رکھے چہرہ موڑ کر دانی کو دیکھنے لگا جو زمین بوس ہو چکی تھی.

آہل بمشکل ہنسی دباتا چلتا ہوا دانی کے پاس آیا...

_______

کس بات کی جلدی تھی,,وہ سائیکل کھڑی کر کے گھٹنوں کے بل دانی کے سامنے بیٹھ گیا,,

میرے بچے رو رہے تھے گھر میں اس بات کی جلدی تھی,, دانی جل کر بولی,,

آہل قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا جو زمین پر گری ہوئی تھی,,

شرم تو نہیں آتی میں نیچے گر گئی ہوں اور تم ہنس رہے ہو,, دانی بازو سے گرد جھاڑتی ہوئی بولی..

ہاں تو اور کیا کروں,, آہل منہ پر ہاتھ رکھے مسکراہٹ دبانے کی ناکام سعی کرنے لگا,,

قسم سے آہل انتہائ درجے کے فضول انسان ہو تم,, دانی بدمزہ ہو کر بولی اور اٹھ بیٹھی,,

میں سوچ رہی تھی تم اندھوں کی مانند بھاگتے ہوۓ آؤ گے مجھے اٹھانے کے لیے پھر راستے میں ٹھیڈا کھا کر گر جاؤ گے لیکن تم تو ایسے ہنس رہے جیسے مزاحیہ فلم دیکھ رہے.. دانی منہ بسورتی ہوئی بولی..

آہل ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا,,

مجھے گری ہوئی چیزیں اٹھانے کی عادت نہیں.. آہل دانی کو جلانے کی غرض سے بولا..

دانی کا بس نہیں چل رہا تھا آہل کے بال نوچ لے..

دائیں بائیں دونوں جانب درخت تھے اور وسط میں جو راستہ تھا جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے درختوں سے پتے ٹوٹ کر گرے ہوۓ تھے,,

اف دانی تم بہت کیوٹ ہو.. آہل پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنس رہا تھا..

آدم خور حیات,, دانی جل کڑھ کے کھڑی ہو گئی..

دکھاؤ لگی تو نہیں,, آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

اب کیا دیکھنے آےُ ہو کہ میری بازو کے گوشت کا جنازہ نکلا کہ نہیں.. دانی آگے ہوتی گھور کر بولی..

تم مجھ سے جیت نہیں سکتی.. آہل اس کے سر پر چت لگاتا ہوا بولا..

تم جیسے ڈریگن حیات سے کون جیت سکتا,, دانی بولتی ہوئی شرٹ جھاڑنے لگی,

رہنے دو پہلے بھی گندی ہی تھی,, آہل شرارت سے بولا..

تمہارا منہ بھی گندا ہے میں نے کبھی کہا,, نہیں نہ اس لئے خاموش رہو,, دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی,,

آہل لب دباےُ مسکرانے لگا..

دوبارہ سے ریس لگانی ہے کیا.. آہل جان بوجھ کر بولا..

تمہارا تھوڑا سا نہیں پورا کا پورا دماغ خراب ہے,,پتہ نہیں تمہیں وزیر اعلی کس نے بنا دیا مل جاےُ مجھے وہ بندہ آنکھیں نکال دوں میں اس کی,, دانی دانت پیستی ہوئی بولی..

اللہ معاف کرے.. آہل کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا...

دانی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے آہل کو دیکھنے لگی..

کیا,, آہل آبرو اچکا کر بولا..

تھوڑی معافی اور مانگ لو بہت زیادہ گناہ تم نے کیے ہیں... دانی افسردگی سے بولی,,

آہل نفی میں سر ہلاتا سائیکل پر بیٹھ گیا..

بیٹھو گی یا آنا کو بلاؤ.. آہل کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بولا..

مجھے لگتا ہے آنا تمہاری جڑوا بہن ہے بچپن میں کسی میلے میں کھو گئی ہو گی تبھی تمہیں بہت یاد آتی ہے.. دانی اس کی آستین کھینچتی ہوئی بولی...

اچھا اب نہیں کہتا کچھ بھی بیٹھ جاؤ نہ.. وہ چہرے پر مظلومیت سجاتا ہوا بولا..

اچھے سے بولو پھر بیٹھوں گی..

جب میں تمہیں نرمی سے ڈیل کرتا ہوں تم زیادہ نخرے نہیں دکھاتی.. آہل آنکھیں چھوٹی کیے گھور کر بولا..

ہاں تو نہیں دکھانے چائیے کیا میرا حق ہے میں استعمال نہ کروں تو کیا گھر لے جاؤ جیسے میچ میں ریویو استعمال نہیں کرتے پھر گھر لے جاتے چاہے آؤٹ ہو,, دانی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا..

اچھا میری پیاری سی کیوٹ سی وائف میرے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گیں میں آپ کو آسٹریلیا گھماتا ہوں سائیکل پر.. آہل ہار مانتا ہوا بولا..

ویسے ہو تو تم بہت بے مروت لیکن پھر بھی کیا یاد کرو گے.. دانی احسان کرتی آہل کے عقب میں بیٹھ گئی اس طرح کہ چہرہ آہل کی مخالف سمت میں تھا اور پشت آہل کی پشت کے ساتھ تھی,, دانی نے سر آہل کی پشت کے ساتھ ٹکا دیا..

آہل مسکراتا ہوا پیڈل مارنے لگا..

آہل ڈمپل کی نمائش کرتا سائیکل چلاتا جا رہا تھا سارے منظر پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے,, دونوں خاموشی میں ایک دوسرے کو محسوس کر رہے تھے کچھ باتیں ہوتیں ہیں جو خاموشیوں میں سنائی دیتی ہیں...

میرے جاہل حیات.. دانی سوچوں میں غرق اسے پکارنے لگی..

یس میری جنگلی بلی,,

تم اتنے بھی برے نہیں,, بولتے بولتے دانی دھیرے سے مسکرا دی..

آہل نے یکدم بریک لگائی تو دانی جو اپنے دھیان میں بیٹھی تھی اس کی کمر سے ٹکرائی,,

اب تم بھی گرا دو,, دانی بولتی ہوئی نیچے اتر گئی..

کبھی تم مجھ سے جھگڑتی ہو اور کبھی میں برا نہیں راز کیا ہے,, آہل اسے گریبان سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا..

راز یہ ہے کہ,, دانی آنکھیں ٹپٹپاتی ہوئی بولی..

تمہیں معلوم ہے جہاں جتنی لڑائی ہوتی ہے وہاں پیار بھی اتنا ہی ہوتا ہے...

اچھا مطلب پھر ہم تلواریں لے کر لڑائی کیا کریں..

تم تو جنگ کا میدان بنانے بیٹھ گئے ہو,,دانی خفگی سے بولی..

پھر کون سا میدان بنائیں,, آہل اپنی بائیں ہاتھ کی انگلیاں دانی کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پھنساتا ہوا بولا..

جو تمہیں پسند ہو,, دانی دھیرے دھیرے اس کے رنگ میں رنگتی جا رہی تھی,,

اگر میں کہوں کہ بدل جاؤ پھر,, آہل اسے آزمانے لگا..

پھر میں بدل جاؤں گی,, اپنے رنگ سے زیادہ اچھا تمہارے رنگ لگنے لگا ہے,, آہل کی قربت کا نشہ دانی کے سر چڑھ کر بول رہا تھا,,

آہل نے دائیاں ہاتھ بڑھا کر دانی کی پیشانی پر منتشر بالوں کو سیٹ کیا,,

گھر چلیں,, آہل اس پاس دیکھتا ہوا بولا..

اتنی جلدی,, دانی صدمے سے بولی...

نہیں گاڑی لے کر چلتے ہیں کہیں دور,,

آہل سائیل سے اتر کر چلنے لگا...

دور کہاں..دانی اس کی ہمقدم ہوتی ہوئی بولی..

سب سے دور... آہل اسکے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا..

دانی مسکراتی ہوئی سر جھکا کر چلنے لگی,,

دانی کا چہرہ بلش کر رہا تھا,, آہل کو اس کا یہ روپ اچھا لگ رہا تھا,,

آہل کا ڈمپل بھی کبھی نمودار ہوتا تو کبھی غائب ہو جاتا وہ دانی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا..

آہل تم نے پھر سے مجھے اندھی کر دیا ہے,, دانی آنکھوں پر بندھی سیاہ پٹی پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی..

بس چند منٹ کی مسافت ہے خاموشی سے طے کر لو.. آہل اس کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا,,

دانی خاموش ہو کر چلنے لگی,,

دوسرا ہاتھ بھی پکڑو,, آہل کہتا ہوا زینے چڑھنے لگا..

گرا مت دینا مجھے,,

میرے ہوتے کچھ نہیں ہو گا.. آہل مان سے بولا..

دانی مسکراتی ہوئی زینے چڑھنے لگی,,

یہ لکڑی سے بنی ایک کمرے پر مشتمل کاٹیج تھی جس میں ایک عدد کھڑکی تھی جس سے باہر جھیل دکھائی دے رہی تھی,, دراصل یہ کاٹیج جھیل میں بنائی گئی تھی پانی کے اوپر چاروں سمت صرف پانی تھا,,

رات کے اندھیرے میں روشنیاں جل رہیں تھیں جو اس منظر کو مزید حسین بنا رہیں تھیں,, سرخ, نیلی اور پیلی روشنیاں سحر پھونک رہیں تھیں,, جھیل کے پانی پر مہتاب دکھائی دے رہا تھا اور یہ مصنوعی روشنیاں..

دانی کی زبان گنگ ہو گئی,,

وہ کھڑکی میں کھڑی اس منظر میں لاپتہ ہو چکی تھی جھیل سے پرے درخت دکھائی دے رہے تھے جو زیادہ گھنے نہیں تھے,, لیکن قدرت کا حسین امتزاج تھا,,

دانی کو قدرتی خوبصورتی سے لگاؤ تھا اور آہل تو اس کی رگ رگ سے واقف تھا,,

جنگلی بلی میں بھی تمہارے ساتھ ہوں,, آہل کھڑکی کے دوسرے کونے میں کھڑا ہوتا ہوا بولا..

آہل تم مجھے پاگل کر دو گے.. دانی کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ کا راج تھا,,

وہ عشق ہی کیا جو دیوانہ نہ کرے,, آہل مسکرا کر بولا..

دانی چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی,,

تم کیسے کر لیتے ہو یہ سب,, دانی خود پر جتنا رشک کرتی کم تھا,,

کیا.. آہل انجان بنتا ہوا بولا..

وہ سب جو مجھے پسند ہے,, دانی باہر جھیل کو دیکھتی ہوئی بولی..

عشق کسی کو پا لینے کا نام نہیں,, عشق تو مر مٹنے کا نام ہے خود کو قربان کر دینے کا نام ہے,, اپنے لیے تو سب جیتے ہیں عشق اس انسان کے لئے جینے کا نام ہے.

اپنی ذات کو فراموش کر کے صرف اپنے محبوب کو یاد رکھنا خود کو اس کے لئے وقف کر دینا یہ ہے عشق,, اس کی خوشی کو اپنی خوشی پر فوقیت دینا,, اپنی خواہشوں کو پس پشت ڈال کر اس کی خواہشوں کا احترام کرنا,,

دانی مبہوت زدہ سی آہل کو سن رہی تھی,,

آسان لفظوں میں سمجھاؤں تو

ع سے عاجزی کرنا,,

ش سے شریک نہ بنانا,,

ق سے قاتل بھی وہی میرا,,

آہل مسکرا رہا تھا اس کی آنکھیں اور ڈمپل بھرپور انداز میں اس کا ساتھ دے رہے تھے..

دانی نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھ رہی تھی,, آنکھیں کسی بھی لمحے برسنے کو بےتاب تھیں,,

آہل مجھے گولی مارو,,

واٹ,, آر یو کریزی؟؟ آہل پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا,, مسکراہٹ کہیں غائب ہو گئی..

مجھے یقین نہیں آ رہا,, دانی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی,

آہل چہرہ نیچے کئے مسکرانے لگا..

دانی تم بلکل پاگل ہو,, آہل چہرہ اوپر کیے دانی کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

جیسے تم میرے لئے.. دانی ستائش سے بولی..

کوئی شک نہیں,, وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا بولا..

آج بھی آسمان البرآلود تھا لیکن بارش کے آثار نہیں تھے,, البتہ ہوائیں اپنے عروج پر تھیں.. بلکل اسی طرح جیسے ان کے بیچ محبت عروج پر تھی..

آہل کی شخصیت کا سحر دانی کو جکڑ رہا تھا,,

دانی مسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی,,

بیوقوف تو نہیں بنا رہے مجھے,,

تمہارے سامنے کھڑا ہوں پڑھ لو میری آنکھیں کیا کہتی ہیں کم از کم یہ تم سے جھوٹ نہیں بولیں گیں,, اس کے جذبوں کی صداقت کی گواہی اس کا ایک ایک لفظ اس کی آنکھیں دے رہیں تھیں,,

دانی مزید کچھ کہ کر اس کے جذبوں کی ناقدری نہیں کرنا چاہتی تھی,,

آہل پرسکون سا دانی کو دیکھنے لگا جو اب بھی باہر دیکھ رہی تھی,,

کاش آہل ہم ہمیشہ ایسے ہی منظر کا حصہ بنیں رہیں,, دانی حسرت سے بولی...

ایسا ہی ہو گا... آہل کا لہجہ پر اعتماد تھا..

آئ وش میں بھی اسی طرح تمہیں چاہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت سے,,,دانی دل ہی دل میں گویا ہوئی..

چند پل خاموشی کی نذر ہوےُ,,

آہل ایک بات مجھے سچ سچ بتاؤ,, دانی کھڑکی میں بیٹھ چکی تھی,,

آہل آبرو اچکا کر کھڑکی میں ہی بیٹھ گیا,, کھڑکی اتنی کشادہ تھی کہ دونوں کے بیچ فاصلہ تھا,,

تم کوٹھے پر جاتے ہو,,

آہل مسکرایا تو ڈمپل پھر سے عود آیا,,

بلکل بھی نہیں ویسے سیاست میں یہ شامل ہے لیکن آہل حیات اس بیماری سے پاک ہے.. آہل بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

چلو شکر ورنہ مجھے لگ رہا تھا تمہیں کوٹھے سے پکڑ پکڑ کر لانا پڑے گا,, دانی آنکھوں میں شرارت لئے بولی..

آہل اس کی ناک دباتا مسکرانے لگا,,

دانی سانس خارج کرتی اسے دیکھنے لگی,,

دیر رات تک دونوں وہیں بیٹھے رہے پھر جب آنکھیں کھلی رکھنا نا ممکن ہو گیا تو دانی منہ بناتی آہل کو دیکھنے لگی..

مجھ بہت نیند آ رہی ہے گھر چلیں,, دانی کی آنکھیں نیند کے خمار کے باعث سرخ ہو رہیں تھیں,,

تم مجھے پہلے کہ دیتی.. آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..

اتنی اچھی جگہ ہے واپس جانے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا,, دانی جمائی روکتی ہوئی بولی..

آہل اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا,,

دانی گھر پہنچنے سے قبل ہی گاڑی میں سو گئ,, آہل اس کے چہرے سے بال ہٹاتا اس کے نازک سراپے کو دیکھنے لگا پھر باہر نکلا چلتا ہوا دانی کی جانب آیا اور اسے اپنی بازوؤں میں اٹھا لیا...

دانی گہری نیند میں تھی اس لئے ہلی تک نہیں,,

آہل چلتا ہوا کمرے میں آیا دانی کو بیڈ پر لٹایا لائٹ آن کی اور دانی کی جانب آ کر اس کے پاؤں دیکھنے لگا پھر ہاتھ بڑھا کر دانی کے شوز اتارنے لگا لحاف دانی پر ڈال کر اسے دیکھنے لگا,,

_______

کچھ شرارتی لٹیں دانی کے چہرے پر بوسے دے رہیں تھیں,, آہل خفگی سے دیکھتا آگے آیا اور دانی کے چہرے پر آےُ سارے بال ہٹا دئیے,, مطمئن ہو کر الماری سے کپڑے نکالنے لگا,,لائٹ آف کر کے نائٹ بلب جلا دیا تاکہ دانی کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو اور خود چینج کرنے کی غرض سے واش روم میں چلا گیا,,,

**********

کیا فائدہ تمہارا وہاں جانے کا,, دانین نکل گئی نہ ہاتھ سے.. زبیر افسوس سے دیکھتے ہوئے بولے..

آپ کی بیٹی جنگلی ہے پھر وہ آہل بھی ٹپک پڑا میں کیسے مقابلہ کرتا,, اشہد نے کمزور سی دلیل دی..

خیر کوئی مسئلہ نہیں اب وقت نہیں رہا کہ آہل الیکشن میں حصہ لے سکے ہاں جو سودا تم سے دانین کا میں نے کیا وہ اب ڈانوں ڈول ہوتا دکھائی دے رہا یے کیونکہ شیر کے پنجرے میں ہاتھ ڈالنا خطرے سے خالی نہیں...

آپ نے میرے ساتھ سودا کیا ہے پلٹ نہیں سکتے.. اشہد طیش میں بولا...

کول ڈاؤن.. ابھی صرف سودا ہوا ہے پیسے نہیں دئیے تم نے.. زبیر اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے..

ابھی دے دیتا ہوں پیسے لیکن یہ سودا ختم نہیں ہونا چائیے.. اشہد کہتا ہوا باہر نکل گیا..

زبیر افسوس سے نفی میں سر ہلانے لگے..

اب دانین کو لانا چاند کو زمین پر لانے کے مترادف ہے.. وہ کہتے ہوۓ چل دئیے..

************

آہل ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا تھا جب آنا کی نظر اس کے ٹیٹو پر پڑی تو آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی,,

آہل بات سنو.. آنا نے اسے جاتے ہوئے پکارا..

ہاں بولو..

بیٹھو گے کچھ بات کرنی ہے.. آنا سنجیدگی سے بولی..

ہاں ٹھیک ہے,, سمتھ تم چلو میں آتا ہوں..

آہل کہتا ہوا صوفے پر براجمان ہو گیا..

ایک بات پوچھوں آہل.. آنا ہچکچا رہی تھی..

ہاں پوچھو ایسے تمہید کیوں باندھ رہی ہو..

آہل الجھ کر اسے دیکھنے لگا..

آہل اسلام میں ٹیٹو حرام ہے نہ.. آنا کی نظر اس کے بائیں بازو پر تھی,,

آہل کی نظر آنا کے چہرے سے ہوتی ہوئی اپنی بازو پر پڑی..

ہاں,, آہل پس و پیش ہوئے بنا بولا..

پھر تم نے کیوں بنوایا ہوا اور میں نے سنا ہے دانی کے بھی بنایا ہے تم نے,, آہل تم نے اپنے ساتھ ساتھ دانی کو بھی گناہگار بنا دیا,, میں مانتی ہوں کہ وضو نماز ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی ہے تو حرام..

آنا جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا,,

آہل لاجواب ہو گیا,, آنا درست کہ رہی تھی,, اس متعلق تو اس نے سوچا ہی نہیں..

تم جانتے ہو نہ ٹیٹو بنوانے والے پر لعنت ہوتی ہے اللہ کی,, آنا دکھ سے بول رہی تھی..

میں نے آج تک نہیں بنواےُ.. آہل ششدہ سا اسے دیکھنے لگا..

آہل کا سر ندامت سے جھکا ہوا تھا..

تم ٹھیک کہ رہی ہو آنا میں نے غلط کیا اپنے ساتھ بھی اور دانی کے ساتھ بھی,, آہل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی..

آگر تمہیں میری بات کا برا لگا ہو تو..

نہیں آنا میں تو تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے باور کرایا ورنہ میں فراموش کئے ہوۓ تھا اس بات کو.. آہل نادم سا بولتا ہوا کھڑا ہو گیا..

آنکھوں کی نمی منظر کو دھندلا رہی تھی,,

یہ میں نے کیا کر دیا... آہل بولتا ہوا چلنے لگا..

وضو کرتے ہوئے آہل کی آنکھیں برسنا شروع ہو گئیں,,

آہل جاےُ نماز بچھا کر بیٹھ گیا,, اشک مصلے پر گر رہے تھے,, ندامت ہی ندامت تھی کیسا مسلمان تھا وہ جو اللہ کے احکام فراموش کر گیا اور وہ غیر مسلم ہو کر اسے یاد دہانی کرا رہی تھی,,

یا اللہ میں تیرا گناہگار بندہ تیرے سامنے ہاتھ پھیلاےُ بیٹھا ہوں,, مجھ سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہے اے اللہ پاک پلیز مجھے معاف کر دے,, کہتے ہیں سچے دل سے توبہ کی جاےُ تو اللہ معاف کر دیتا ہے اور بارگاہ الٰہی میں تو ندامت کا ایک آنسو بھی بہت ہوتا ہے,,

آہل زاروقطار رو رہا تھا,,

پلز اللہ پاک میں گمراہ ہو گیا تھا مام کے جانے کے بعد سے ہر چیز سے لڑنے لگا تھا فراموش کر گیا آپ کے احکام,, لیکن آپ تو غفور و رحیم ہیں بخشنے والے مجھ گناہگار کو بھی معاف کر دیں,, آہل بولتا ہوا سجدے میں گر گیا,, مسلسل اشک جاےُ نماز کو تر کر رہے تھے,, اس نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ ٹیٹو بنوانا حرام ہے نہ تب جب خود بنوا رہا تھا نہ ہی تب جب دانی کے بنا رہا تھا,,

دانی آہل کی تلاش میں یہاں آئی تو ششدہ رہ گئی,, آہل کی سسکیاں سنائی دے رہیں تھیں,,

دانی حیران پریشان سی آگے بڑھی,,

آہل,, دانی نے اسے دھیرے سے پکارا..

لیکن آہل سن نہیں سکا وہ اپنے رب کے ساتھ محو گفتگو تھا...

دانی ناسمجھی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آ بیٹھی,,

آہل کیا ہوا تمہیں,, دانی نے پریشانی کے عالم میں کہتے ہوۓ آہل کی پشت پر ہاتھ رکھا,,

اپنی کمر پر کسی کے ہاتھ کا گمان ہوا تو آہل نے چہرہ اٹھا دیا,, آنسوؤں سے تر چہرہ سرخ آنکھیں سرخ ناک,, دانی ششدہ سی اسے دیکھ رہی تھی,,

آہل کیا ہوا...

دانی مجھے معاف کر دو.. آہل نے روتے ہوۓ دانی کے ہاتھ پکڑ لیے,,

دانی الجھ کر اسے دیکھنے لگی..

کس بات کی معافی..

دانی میں نے اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی گناہگار بنا دیا مجھے معاف کر دو آہل بہت برا ہے بہت برا ہے,, آہل کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ کیسے بھول سکتا ہے..

آہل کچھ بتاؤ گے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے,, دانی اسے دیکھتی ہوئی بولی..

دانی میں نے ٹیٹو بنوایا اور میرے باعث تم نے بھی بنوایا,, تم بھی بھول گئ ٹیٹو بنوانا حرام ہے,,

دانی افسوس سے اسے دیکھنے لگی,,

دانی تم جانتی ہوں جو لوگ ٹیٹو بنواتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور یہ سب میرے باعث ہو رہا ہے,, آہل نے کہتے ہوۓ سر جھکا لیا...

دانی کے الفاظ دم توڑ چکے تھے,,

میں نے کیوں نہیں سوچا یہ,, دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے آہل کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی,,

پھر ہاتھ بڑھا کر اپنی پشت پر بنے ٹیٹو کو چھوا,,

آہل اب کیا ہو گا,, دانی خوفزدہ سی بولی..

کیا ہم پر ہمیشہ اللہ کی لعنت رہے گی,, دانی کی آنکھوں میں نمکین پانی دکھائی دینے لگا...

آہل کرب سے اسے دیکھنے لگا..

دانی اگر سچے دل سے توبہ کر لی جاےُ تو اللہ معاف کر دیتا ہے لیکن پتہ نہیں وہ مجھے معاف کرے گا یا نہیں...آہل سر جھکاےُ بول رہا تھا..

دانی بنا کچھ بولے کھڑی ہو گئی,,

آہل نادم تھا تبھی سر نہیں اٹھا سکا..

دانی چلتی ہوئی باہر نکل گئی,,

یہ کیا کر دیا میں نے,, وہ منہ پر ہاتھ رکھے سوچنے لگی...

جیسے شراب حرام ہے ہم نہیں پیتے ویسے ہی ٹیٹو حرام ہے پھر کیوں بنوا لیا ہم نے,, دو موتی ٹوٹ کر دانی کے رخسار پر آ گرے.. مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ سچے دل سے توبہ کیسے کرتے ہیں,, دانی بولتی ہوئی کمرے میں آ گئ...

اگر ہماری زندگی اسی غلطی کی نذر ہو گئی پھر اگر اللہ نے ہمیں معاف نہیں کیا پھر...دانی کے دماغ میں کئی سوال سر اٹھا رہے تھے... اشک ٹوٹ کر چہرے کو تر کر رہے تھے..

آج رات ان کی فلائٹ تھی,,

پورا دن دانی اور آہل اپنے اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے,, شیطان نے انہیں فراموش کروایا کہ یہ کام حرام ہے لیکن حدیث میں ہے کہ اگر سچے دل سے توبہ کی جاےُ تو اللہ پاک معاف کرنے والا مہربان ہے,, انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر انسان سے کوئی نہ کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تبھی تو انسان کہلاتا ہے لیکن وہ رب تو کافروں کی بھی سنتا ہے کوئی اللہ کے سامنے روےُ گڑگڑاےُ,, دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو تو وہ پاک ذات معاف کر دیتی ہے..

فلائٹ کا ٹائم ہوا تو آہل کے فون پر کال آنے لگی,,

رنگ ٹون نے اسے سوچوں کے محور سے باہر نکالا,, آہل چہرہ صاف کرتا جاےُ نماز سے اٹھا تہ لگا کر مخصوص جگہ پر رکھ دی..

ہاں رفیق بولو.. آہل کی آواز بھاری ہو چکی تھی,,

سر آپ ٹھیک ہیں,, رفیق فکرمندی سے بولا.

ہاں میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ..

سر مجھے کنفرم کرنا تھا آپ آ رہے ہیں نہ..

ہاں بس کچھ ہی دیر میں فلائٹ کا ٹائم ہو جاےُ گا تم انتظار کرنا میرا,, آہل نے کہ کر فون بند کر دیا,,

واش روم میں جا کر چہرے پر چھینٹے مارے,, تولیے سے خشک کرتا باہر نکل آیا اور دانی کے کمرے کی جانب چلنے لگا,,

دانی سر جھکاےُ بیڈ پر بیٹھی تھی,,

آہل کو پھر سے شرمندگی نے آن گھیرا..

دانی تیار ہو تم,, آہل اس سے نظریں ملاۓ بغیر بولا..

ہاں میں ریڈی ہوں,, دانی کا چہرہ دوسری جانب تھا..

آہل ہممم کہتا بیگ دروازے میں رکھنے لگا..

آہل واقف تھا کہ دانی رو رہی ہے لیکن قصوروار بھی وہی تھا..

آہل بیگ رکھ کر دانی کے سامنے بیٹھ گیا..

تم ٹھیک ہو.. فکرمندی سے بولا..

ہاں,, آہل اس کا کچھ کر نہیں سکتے ہم.. دانی نم آنکھوں سے آہل کو دیکھنے لگی..

پاکستان جا کر ڈاکٹر سے بات کروں گا اگر کوئی حل نکل سکا تو,, آہل نے دانی کو دیکھتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی..

دانی اثبات میں سر ہلانے لگی..

ناراض ہو مجھ سے,, آہل اسے خاموش پا کر بولا..

نہیں آہل تم سے کیوں ناراض ہونا تم نے تو مجھے روکا تھا بہت بار لیکن میں نے تمہاری ایک نہیں سنی,, دانی افسوس سے بول رہی تھی..

آہل کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا جب انسان غلط ہو تو یونہی الفاظ ختم ہو جاتے ہیں,,

چلو ٹائم ہو رہا ہے فلائٹ کا.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

تم جاؤ میں شوز پہن کر آتی ہوں.. دانی نیچے اترتی ہوئی بولی..

آہل سر ہلاتا نکل گیا..

دانی سانس خارج کرتی سنگھار میز کے سامنے آ گئ,,

شرٹ ہٹا کر اس اے کو دیکھنے لگی جسے اس نے بے حد اشتیاق سے بنوایا تھا یہ سوچے بنا کہ یہ حرام ہے..

کاش میں اسے ختم کروا سکوں,, دانی بولتی ہوئی شوز پہننے لگی..

دانی نیچے آئ تو آہل فون کان سے لگاےُ کھڑا تھا..

آنا اور سمتھ بھی وہیں کھڑے تھے,,

دانی جبراً مسکرا کر آنا سے ملی پھر سمتھ کا شکریہ ادا کر کے آہل کو دیکھنے لگی,,

ہاں چلو,, آہل دانی کو اشارہ کرتا سمتھ کو دیکھنے لگا..

سمتھ بھی ان کے ساتھ باہر نکل گیا..

تھینک یو سو مچ سمتھ,, آہل ائیر پورٹ پر سمتھ کے گلے لگتا ہوا بولا..

ضرورت نہیں ہم بھی پاکستان آئیں گے پھر تم میزبانی کرنا,, سمتھ ہلکے پھلکے انداز میں بولا..

ضرور آنا مجھے انتظار رہے گا.. آہل مسکرا کر بولا..

آنکھوں پر گاگلز لگاتا ہاتھ ہلاےُ آہل دانی کے ہمراہ اندر چل دیا..

تمام سفر خاموشی کی نظر ہوا..

ائیر پورٹ پر رفیق گارڈز کے ہمراہ کھڑا تھا وہی سرزمین اور پھر سے وہی روٹین..

میڈیا بھی موجود تھا لیکن رفیق نے انہیں آہل سے دور رکھا اور راستہ بناتا دونوں کو گاڑی میں بٹھا دیا..

یہ میڈیا نیوز بنانے کے لیے ہمیشہ بےتاب رہتا ہے.. دانی سرمئی آنکھوں کو گاگلز میں چھپاےُ باہر دیکھتی ہوئی بولی..

ان کا کام ہے.. آہل فون پر مصروف تھا..

دانی نے سیٹ کی پشت سے سر لگا دیا اور آنکھیں موند لیں..

دانی تم جا کر آرام کرو مجھے کچھ کام ہے.. آہل لاؤنج میں کھڑا دانی کو کہنے لگا..

تم نے بھی تو سفر کیا ہے تم آرام نہیں کرو گے کیا... دانی کو حیرت ہوئی.

نہیں مجھے کچھ کام ہے بعد میں کر لوں گا آرام.. آہل کہتا ہوا چل دیا..

دانی نفی میں سر ہلاتی زینے چڑھنے لگی..

سر عمیر کی طرف.. رفیق اس کے عقب سے نمودار ہوتا ہوا بولا..

ہاں میں نے سوچا پہلے اس سے مل لوں پھر باقی سب, اور ہاں رفیق ذرا معلوم کرنا ٹیٹو ختم کروانے کے ٹریٹمینٹ کے متعلق..

جی سر میں آپ کو انفارم کر دوں گا.. رفیق گاڑی کا دروازہ کھولتا ہوا بولا..

آہل کوٹ کا بٹن کھولتا اندر بیٹھ گیا..

آہل جب بھی عمیر سے ملنے جاتا کوئی گارڈ اس کے ہمراہ نہ ہوتا سواےُ رفیق کے..

آہل چہرے پر رومال باندھ گاڑی سے نکلا اور چلنے لگا,,

یہاں زیادہ رہائشی نہ تھے سو وہ آسانی سے آ جا سکتا تھا..

دروازہ عمیر نے ہی کھولا..

بابا.. وہ خوشی سے چہکا..

میرا بیٹا.. آہل اسے گود میں اٹھا کر چہرہ پر بوسہ دیتا ہوا بولا..

بابا میں اتنے دنوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں.. وہ ناراض ناراض سا بولا..

بابا کام سے گئے تھے نہ.. آہل اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہوا بولا..

اب کیسی طبیعیت ہے میرے بیٹے کی,, آہل چلتا ہوا اندر آ گیا..

ابھی بھی کڑوی کڑوی گندی سی دوائی کھلاتی ہیں ماما.. وہ ناک چڑھاتا ہوا بولا..

آئیندہ آپ نے ماما کی ہر بات ماننی ہے دیکھیں ورنہ پھر سے بیمار پڑ جائیں گے اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوۓ کوئی نخرے نہیں کرنے.. آہل سختی سے تاکید کرتا ہوا بولا..

اچھا بابا آپ آتے ہی ڈانٹنیں لگ گئے ہیں.. وہ رونے والی شکل بناتا ہوا بولا..

بابا آپ کے لئے گفٹس لگاےُ ہیں.. آہل رفیق کو دیکھتا ہوا بولا..

سچی..

مچی,, آہل اسی کے انداز میں بولا..

پھر رفیق سے بیگز لے کر ٹیبل پر رکھ دئیے..

بابا میں ماما کے ساتھ کھولوں گا.. وہ واپس آہل کی گود میں بیٹھتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے آپ ماما کے ساتھ دیکھ لینا..

آہل گھنٹہ بھر اس کے ساتھ کھیلتا اور باتیں کرتا رہا..

اب بابا جائیں.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا..

آپ بہت لیٹ آتے ہیں.. وہ اداسی سے بولا..

اوکے نیکسٹ ٹائم جلدی آؤں گا..

پرامس.. وہ ہاتھ آگے کرتا ہوا بولا..

بابا کہ رہے ہیں نہ تو ضرور آئیں گے.. آہل اس کے چہرے پر بوسہ دیتا ہوا بولا..

اوکے.. وہ سر ہلاتا ہوا بولا..

عمیر ماما کو بتا دینا کہ بابا آےُ تھے.. آہل کہ کر باہر نکل گیا..

عمیر اشتیاق سے چیزوں کو دیکھنے لگا,, پھر کمرے کی جانب چلنے لگا..

ماما.. وہ دروازہ کھول کر وسط میں کھڑا تھا..

جی میری جان..

بابا آےُ تھے اور میرے لئے بہت سارے گفٹس لاےُ ہیں آئیں ہم دونوں کھولیں,,

آہل آیا تھا,,وہ زیر لب دہراتی ہوئی کھڑی ہو گئی..

مجھ سے پھر مل کر نہیں گیا.. وہ افسوس سے بولتی عمیر کے پاس آ گئ اسے گود میں اٹھایا اور چلنے لگی..

کیا کہ رہے تھے بابا.. وہ بولتی ہوئی چلنے لگی..

عمیر نان سٹاپ شروع ہو گیا وہ ماں سے زیادہ باپ کی سنتا اور مانتا تھا...


انعم کو کہا تھا تم نے,, آہل کی نظریں ہنوز موبائل پر تھیں..

جی سر وہ پہنچ چکی ہوں گی.. رفیق ٹائم دیکھتا ہوا بولا..

گڈ.. آہل اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا..

کچھ ہی دیر میں آہل اسی جگہ پر موجود تھا جہاں وہ ہمیشہ انعم سے ملاقات کرتا..

انعم پہلے سے لاغر اور بیمار دکھائ دے رہی تھی چہرہ بجھا ہوا تھا کرب اور اداسی نمایاں تھی,,

آہل افسوس سے اسے دیکھتا بیٹھ گیا..

خیریت مجھے بلایا تم نے.. انعم سپاٹ انداز میں بولی..

رحیم کا سن کر بہت دکھ ہوا..

تم یہاں نہیں تھے آہل لیکن اب آ گئے ہو تو کم از کم اس کے گھر والوں کی حفاظت کر لینا.. انعم بائیں جانب اندھیرے کو گھورتی ہوئی بول رہی تھی..

انعم اگر میں یہاں ہوتا تو شاید رحیم کی موت ایسے نہ ہوتی لیکن میں اسے موت سے بچا نہیں سکتا تھا کیونکہ موت اٹل ہے...

_______

موت کا وقت طے ہے اس میں کوئی ردوبدل نہیں کر سکتا ہاں یہ ہو سکتا تھا کہ اس کی موت جس حادثے میں ہوئی اس کی بجاےُ کوئی اور بہانہ بن جاتا لیکن انعم میں یا تم کوئی بھی اسے بچا نہیں سکتے تھے.. آہل دکھ سے بول رہا تھا..

ٹھیک کہ رہے ہو تم,, رفیق بتا رہا تھا یہ حادثہ نہیں ہے.. انعم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی..

ہاں میرے پاس ریکارڈنگ ہے ایک,,

آہل نے کہ کر ریکارڈنگ پلے کر دی..

جی سر رحیم کا کام ہو گیا ہے... یہ آسم کی آواز تھی انعم بخوبی پہچان گئی..

اچھی بات ہے اور خیال رہے مجھ پر شک نہیں آنا چائیے.. زبیر کی آواز انعم کیسے نہ پہچانتی...

سر آپ بے فکر رہیں اول تو آپ آسٹریلیا میں ہیں دوسرا اسے ایک حادثے کی شکل دی گئی ہے جس کا چاہ کر بھی کوئی سراغ نہیں مل سکتا..

انعم کی آنکھیں چھلک پڑیں..

آہل نے فون واپس جیب میں ڈال لیا..

تمہیں کہاں سے ملی یہ..

کال ٹریس کروا رہے تھے ہم لیکن اس سے زیادہ نہیں کر سکے آسم کو شک ہو گیا سو بند کرنا پڑی.. آہل افسوس سے بولا..

اب تم کیا چاہتے ہو.. انعم مدعے پر آئی..

تم کیا چاہتی ہو.. آہل آگے ہو کر بولا انعم اس کے عین مقابل صوفے پر بیٹھی تھی,,

میں کچھ بھی نہیں چاہتی آہل رحیم کی موت نے مجھے ختم کر دیا ہے ہاں اگر تمہیں مدد درکار ہے تو کر سکتی ہوں لیکن اپنے لیے کچھ نہیں چائیے.. انعم کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا,, آہل کو اسکی حالت پر ترس بھی آ رہا تھا اور افسوس بھی ہو رہا تھا لیکن اس نے اس سے زیادہ بڑے دکھ دیکھے تھا اس لئے پتھر بنا ہوا تھا..

پھر تم ایسا کرو زبیر کے لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل کرو کوئی ثبوت یا کچھ بھی,, تمہارے ہاتھ لگے تو مجھے دے دینا,

لیکن کیسا ثبوت.. انعم الجھ کر اسے دیکھنے لگی..

کوئی ایسی غیر معمولی بات جو تمہیں ٹھٹھکنے پر مجبور کر دے وہی میرے کام کی ہو گی..

ٹھیک ہے میں کوشش کرتی ہوں.. انعم کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی..

اور کچھ.. انعم آہل پر ایک نظر ڈالتی ہوئی بولی..

نہیں بس یہی.. اور رحیم کے گھر والوں کی فکر مت کرنا وہ میری ذمہ داری ہیں.. آہل کہتا ہوا کھڑا ہو گیا..

ٹھیک ہے.. انعم کہتی ہوئی باہر نکل گئی..

رات کے ساےُ گہرے ہو رہے تھے,,

رفیق گھر چلو اب باقی کام کل دیکھ لیں گے.. آہل بلیو ٹوتھ کان سے اتارتا ہوا بولا..

ڈرائیور نے گاڑی گھر کی جانب موڑ دی..

دانی دو بار سو کر آٹھ چکی تھی لیکن آہل واپس نہیں آیا...

یہاں آتے ہی غائب.. دانی خفگی سے بولی ہوئی چکر لگا رہی تھی..

آہل کمرے میں آیا تو دانی کا ناراض ناراض سا چہرہ دکھائی دیا..

آہل سر کھجاتا دانی کی جانب بڑھنے لگا جو سینے پر بازو باندھے اسے گھور رہی تھی..

اوکے آئم سوری زیادہ دیر ہو گئی..

آہل اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر وضاحت دینے لگا....

ابھی بھی نہیں آنا تھا,, دانی غصے سے گویا ہوئی..

کہتی ہو تو چلا جاتا ہوں واپس ابھی بھی کچھ کام رہتے ہیں.. آہل معصومیت سے بولا..

اتنے تم شریف حیات.. دانی تنک کر بولی..

یہ بتاؤ کھانا کھا کر آےُ ہو.. دانی پیشانی پر بل ڈالے بول رہی تھی..

ویسے کھا کر تو نہیں آیا..

معلوم تھا مجھے.. اب جلدی سے فریش ہو جاؤ ورنہ میں بے ہوش ہو جاؤں گی..

تمہیں کتنی بار بولا ہے میرا انتظار مت کیا کرو..

میں نے بھی تمہیں بہت بار بولا ہے مجھے عادت ہو گئی ہے اب مزید ٹائم ویسٹ نہ کرو.. دانی اثر لئے بنا بولی..

آہل نفی میں سر ہلاتا کپڑے دیکھنے لگا جو دانی نے نکالے تھے,, دھیمی سی مسکراہٹ نے چہرے پر احاطہ کر لیا..

دانی صبح ریڈی رہنا,, یونی جانا ہے تم بہت حرج ہو گیا ہے تمہارا.. آہل فکرمندی سے بولا..

اچھا,, یہ بتاؤ ڈیڈ کو معلوم ہو گیا تھا کیا جب میں وہاں سے بھاگی..

ہاں وہ اشہد پاکستان آ گیا تھا تین روز پہلے اس نے آگاہ کر دیا ہو گا..

وہ اتنے دن آسٹریلیا میں رہا..

ہاں وہ کون سا غریب باپ کی اولاد ہے ویسے بھی سوچ رہا ہو گا کس منہ سے واپس جاےُ.. آہل ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا..

پھر ڈیڈ کچھ کریں گے.. دانی محتاط انداز میں بولی..

تم کیوں فکر کر رہی ہو,, کچھ نہیں کر سکتے اب وہ تمہیں,,خود تو میں تمہارے ساتھ یونی میں نہیں رہ سکتا اس لئے گارڈ تمہارے ساتھ رہے گا میں کوئی رسک نہیں لے سکتا..

ٹھیک ہے مجھے کوئی مسئلہ نہیں..

آہل میں تمہاری مام کا کمرہ دیکھ سکتی ہوں نہ.. دانی اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھنے لگی..

ہاں دیکھ سکتی ہوں کوئی مسئلہ نہیں.. آہل مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا..

دانی اس کے ڈمپل کو دیکھتی کھڑی ہو گئی..

تم تو فریش لگ رہی ہو.. آہل اسے اپنے ساتھ چلتے دیکھ کر بولا..

ہاں میں پورا دن سوتی رہی ہوں..

بس پھر اب بیٹھ کر سٹڈی کرنا ساری رات.. آہل اس کے بال بکھیرتا ہوا بولا..

یہ جب چہرے پر آتے ہیں نہ تب بھی تمہیں ہی مصیبت پڑتی ہے.. دانی تنک کر بولی..

ٹھیک کرنے کے لیے بھی تو میں ہی ہوں.. آہل مسکرا کر کہتا آگے نکل گیا..

دانی منہ بسورتی آہستہ آہستہ چلنے لگی..

***********

ڈیڈ میری طبیعت کچھ بوجھل سی ہو رہی ہے.. انعم زبیر کو لیپ ٹاپ کھولے دیکھ کر بولی..

زبیر لیپ ٹاپ سائیڈ پر کرتے انعم کو دیکھنے لگے..

تم میڈیسنس لے رہی ہو..

نہیں ڈیڈ.. انعم اداسی سے بولی..

بہت بری بات ہے انعم ایسے تو بیمار پڑ جاؤ گی...زبیر کے فون کی رنگ ٹون نے انہیں خاموش کروا دیا...

ڈاکٹر قدسیہ کا نام دیکھ کر وہ جھنجھلا کر انعم کو دیکھنے لگے پھر معذرت کرتے باہر نکل گئے..

انعم نے لیپ ٹاپ اپنے سامنے کیا اور ہیڈن فائلز دیکھنے لگی جہاں کچھ ویڈیوز پڑیں تھیں.. دیکھنے کا وقت نہیں تھا انعم نے بنا سوچے فلیش لگائی اور کاپی کرنے لگی,,

وہ کھڑی ہوئی اور چلتی ہوئی دروازے میں آ گئی لیکن زبیر ابھی بات کر رہا تھا.. بس جلدی جلدی کاپی ہو جاےُ.. انعم ہاتھ مسلتی ہوئی بولی..

انعم نے فولڈر بند کیا اور فلیش اتارنے لگی. زبیر فون بند کئے کمرے میں داخل ہوےُ تو انعم سر جھکاےُ بیٹھی تھی..

انعم مجھے ضروری کام سے جانا ہے میں کل تمہیں ڈاکٹر کے پاس خود لے کر چلوں گا.. وہ انعم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوےُ بولے..

ٹھیک ہے ڈیڈ.. انعم کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی..

زبیر نے یہ دیکھے بنا کہ اس نے میلز کھول رکھی تھیں اور اب ڈیسکٹوپ کھلا تھا لیپ ٹاپ بند کر دیا..

انعم نے آہل کو کال ملانے لگی بیل جا رہی تھی لیکن وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تھا کچھ سوچ کر وہ رفیق کا نمبر ڈائل کرنے لگی..

رفیق سنو.. میرے پاس ایک فلیش ہے جس میں, میں نے ڈیڈ کے لیپ ٹاپ سے کچھ ڈیٹا کاپی کیا ہے اسے آہل تک پہنچانا ہے.. انعم نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہ دیا..

ٹھیک ہے آپ خود مجھے دیں میں سر کو دے دوں گا..

مجھے اپنی ڈاکٹر کے پاس جانا ہے تم ہاسپٹل آ جانا وہاں میں تمہیں دے دوں گی.. انعم کچھ دیر سوچ کر بولی..

ٹھیک ہے میڈم میں آ جاؤں گا..

انعم نے اوکے کہ کر فون بند کر دیا..

اس فلیش میں کیا تھا انعم نے جاننے کے سعی نہیں کی نہ ہی اس کے لئے اہم تھا,, جو اہم تھا وہ رہا نہیں تھا..

انعم فلیش اپنے بیگ میں رکھتی لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی...

***********

ڈاکٹر قدسیہ میری غیر موجودگی میں آپ نے سب کچھ بہت اچھے سے سنبھالا,, آہل ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا...

بزنس میں ایسا کرنا پڑتا ایک کی غیرموجودگی میں دوسرا ہی ہینڈل کرتا کوئی مسئلہ نہیں..

لیکن اب تو کام سلو ہو گیا ہے کیونکہ گرمی شروع ہو رہی ہے.. آہل موبائل ہاتھ میں گھماتا ہوا بولا..

ہاں لیکن ہم ونٹر کے لئے پہلے سے سٹاک تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں,, ایک کمپنی کی جانب سے تو آڈر بھی آیا ہوا ہے کافی بڑا ہے,

چلیں آپ فکر نہیں کریں میں فیکٹری کا ایک چکر لگا لوں گا,,

ویسے لاسٹ پیمنٹ کتنی آئی..

ماما میری بات سنیں.. عائزہ بنا ناک کیے اندر آتی ہوئی بولی..

عائزہ یہ کون سا طریقہ ہے.. ڈاکٹر قدسیہ بظاہر مسکرا کر بولیں..

عائزہ کی نظر آہل سے ٹکرائی جو مسکرا رہا تھا,, اس نے کئی بار آہل کو دیکھا تھا ٹی وی پر نیوز پیپر پر لیکن ملنے کا اتفاق پہلی بار ہوا...

ہیلو مسٹر آہل حیات.. عائزہ مسکرا کر بولی..

ہیلو کیسی ہیں آپ.. آہل نا چاہتے ہوۓ بولا.

عائزہ اس کے ڈمپل پر خود کو ہارتا محسوس کر رہی تھی دل میں ایک چھوٹی سی خواہش جاگی کہ اس ظالم گڑھے کو چھو کر دیکھے لیکن یہ مناسب وقت اور مناسب موقع نہیں تھا..

آہ,, میں بلکل ٹھیک آپ بتائیں سنا ہے گھومنے گئے ہوۓ تھے.. عائزہ ڈاکٹر قدسیہ کے پہلو میں بیٹھ گئ..

جی بس وائف کو بھی ٹائم دینا پڑتا.. آہل شانے اچکاتا ہوا بولا..

عائزہ کی نظروں کا مفہوم وہ بخوبی سمجھ رہا تھا...

عائزہ ہم کچھ ڈسکس کر رہے تھے کیا آپ کو کوئی کام ہے.. ڈاکٹر قدسیہ کو عائزہ پر غصہ آ رہا تھا لیکن ضبط کر کے بولیں..

ماما میری برتھ ڈے آپ ہمیشہ کی طرح بھول گئیں..

لیکن ابھی بارہ نہیں بجے میں فری ہو کر بات کرتی ہوں آپ سے.. ڈاکٹر قدسیہ اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئیں بولیں جس کا مطلب تھا وہ یہاں سے جاےُ..

عائزہ منہ بناتی کھڑی ہو گئی..


آہل کی گاڑی پورچ میں آ کر رکی تو نظر دانی اور میشو سے ٹکرائی جو ایک دوسرے سے گلے مل رہیں تھیں..

آہل ناگواری سے دیکھتا باہر نکل آیا..

ہیلو.. میشو آہل کو دیکھتی ہوئی بولی..

ہیلو.. آہل سپاٹ انداز میں بولتا ایک نظر دانی پر ڈال کر اندر چل دیا..

ٹھیک ہے دانی پھر یونی میں ملتے ہیں.. میشو کہتی ہوئی نکل گئی..

دانی مسکراتی ہوئی اندر آ گئی..

آہل زینے چڑھ رہا تھا..

اسے کیا ہوا... دانی سوچتی ہوئی اس کے پیچھے چل دی..

آہل بٹن کھول کر کوٹ اتار رہا تھا جب دانی کمرے میں آئی..

تمہیں کیا ہوا... دانی آبرو اچکا کر بولتی اس کے سامنے آ رہی..

تم لڑکیوں سے صرف بات کیا کرو.. آہل کو سمجھ نہیں آیا کیسے سمجھاےُ..

کیا مطلب.. دانی الجھ کر اسے دیکھنے لگی..

میرا مطلب کہ میشو یا پھر کوئی اور لڑکی ہو تو اس سے بھی دور رہا کرو...

دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے آہل کو دیکھنے لگی..

بس کرو باہر نکل آئیں گیں.. آہل اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

تم بات بھی تو ایسے کرتے ہو... دانی بےیقینی کی کیفیت میں بولی..

بس مجھے معیوب لگتا ہے.. آہل شانے اچکا کر بولا..

اچھا جی نہیں ملتی کسی سے خوش.. دانی اس کی شرٹ پکڑتی ہوئی بولی..

ہاں خوش.. آہل اس کے بال سیٹ کرتا ہوا بولا..

ایک اور بات مانو گی.. آہل التجائیہ نظروں سے دانی کو دیکھ رہا تھا..

تم بس بولو.. دانی کا انگ انگ آہل کا نام لینے لگا تھا..

میں نے تمہارے لئے ڈریسز پسند کئے ہیں اب سے تم وہی پہنا کرنا.. آہل فاصلوں کو سمیٹتا ہوا بولا..

اگر تم ایسا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے.. دانی نے بنا دیکھے ہی حامی بھر لی..

تھینک یو.. آہل دانی کی جانب جھکا ہی تھا کہ فون رنگ کرنے لگا..

دانی مسکراتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی..

تمہاری ہاف گرل فرینڈ کا ہو گا.... دانی کہتی ہوئی صوفے کی جانب آ گئی..

بلکل سہی.. آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا..

دانی تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں.. آہل واپس آ کر دانی کے ساتھ بیٹھتا ہوا بولا..

ہاں بولو...دانی بک بند کرتی آہل کو دیکھنے لگی...

ڈاکٹر قدسیہ کی بیٹی کو میں ڈیٹ کر رہا ہوں....

دانی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی..

کیوں اور مجھے بتا رہے.. دانی سمجھ نہ سکی..

ڈیٹ اس لئے کر رہا ہوں کہ بعد میں اسے قدسیہ کے خلاف کروں گا یہ جو ویڈیو ہمارے پاس ہے,, جو انہوں نے مام کے ساتھ کیا وہ سب تو نہیں کر سکتا میں کیونکہ عائزہ کا اس میں کوئی قصور نہیں میں چاہ کر بھی ان جیسا ظالم نہیں بن سکتا لیکن اس قدسیہ کی جان اپنی بیٹی میں ہے اور جب اپنی ہی بیٹی طعن کرے گی پھر تکلیف ہو گی اسے,,

دانی انہماک سے آہل کو سن رہی تھی,,

اور تمہیں اس لئے بتا رہا ہوں تاکہ تم غلط نہ سمجھو تمہیں معلوم ہونا چائیے تمہارا شوہر کن سرگرمیوں میں مشغول ہے... آہل اس کے بائیں رخسار پر اپنا ہاتھ رکھتا ہوا بولا...

دانی افسردہ سی اسے دیکھنے لگی..

میں بھی چاہتی ہوں کہ قدسیہ سے بدلہ لیں اور اگر تمہیں یہی مناسب لگتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں,, نا جانے کیسے دانی نے یہ سب بولا..

میں جانتا ہوں تمہارے لئے مشکل نہیں نا ممکن ہے مجھے اجازت دینا لیکن اگر میرے پاس کوئی اور راستہ ہوتا تو ایسا کبھی نہ کرتا چاہے بدلہ ہی کیوں نہ ہے تو غلط ہی.. آہل اس کے بال سیٹ کرتا ہوا بول رہا تھا..

بس تم کچھ غلط نہیں کرو گے.. دانی اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی..

آئی پرامس.. آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

دانی کے چہرے پر اداسی کی رمق تھی...

وقت پنکھ لگاےُ اڑ رہا تھا حال کو ماضی میں بدلتا جا رہا تھا کسی کے لیے اچھی یادیں تو کسی کے لیے بری یادیں بنتا جا رہا تھا ایسا ہی ہوتا ہے وقت کبھی نہیں رکتا نہ کسی عام انسان کے لئے نہ کسی بادشاہ کے لئے شاید ہم رک جاتے ہیں زندگی کے سفر میں,, زندگی کا یہ سفر جو کہ چلتے رہنا کا نام ہے جب دل تھک جاےُ تو انسان رک جاتے ہیں آگے بڑھنے کی سکت نہیں رہتی,,

انعم بھی رک گئی تھی اس ایک واقعے نے اس کی خواہشات کا دم توڑ دیا تھا وہ ایک چلتی پھرتی لاش بن گئی تھی,,

سانس لینے کو زندگی تو نہیں کہتے وہ بھی صرف سانس لے رہی تھی جتنے سانس باقی تھے انہیں پورا کر رہی تھی لیکن زندہ کہیں سے بھی نہیں تھی....

ایک مہینہ گزر چکا تھا الیکشن سر پر تھے,,

آہل عائزہ کے ساتھ تھا وہ ہمیشہ یہی کوشش کرتا کہ جتنا ممکن ہو سکے اس سے دور رہے لیکن عائزہ کی کوشش اس کی قربت حاصل کرنے کی تھی,,

آج عائزہ اسے گھر لے آئی تھی ڈاکٹر قدسیہ اس بات سے انجان تھیں..

آہل عائزہ کے کمرے میں تھا عائزہ فاصلے کم کر رہی تھی,,

آہل کوئی بہانے سوچنے لگا تاکہ یہاں سے نکل سکے, اسی اثنا میں عائزہ آگے بڑھی اور آہل کے ---------

آہل ایک قدم پیچھے ہٹا..

میرا خیال ہے ابھی اس کا وقت نہیں آیا.. آہل بمشکل مسکرا سکا..

وقت لانے سے آتا ہے تم بہت ہچکچاتے ہو.. عائزہ منہ بناتی ہوئی بولی...

ہاں کیونکہ سیاسی انسان ہو کوئی سکینڈل افورڈ نہیں کر سکتا میں,,

میں کوئی سکینڈل بننے ہی نہیں دو گی,,

اچھا یہ بتاؤ ڈاکٹر قدسیہ گھر پر ہیں.. آہل کو بالآخر بہانہ مل ہی گیا..

ہاں اس وقت آ جاتی ہیں ماما کیوں.. عائزہ آبرو اچکا کر بولی..

مجھے فیکٹری کے متعلق کچھ بات کرنی ہے تم سے بعد میں ملتا ہوں میں.. آہل کہتا ہوا باہر نکل گیا..

عائزہ منہ بناتی بیڈ پر بیٹھ گئی..

آہل پیشانی مسلتا ہوا چل رہا تھا..

پھر انعم کو کال کی اور چلتا ہوا ڈاکٹر قدسیہ کے پاس آ گیا..

وہ لیپ ٹاپ کھولے بیٹھیں تھیں..

آہل کو دیکھ کر کھڑی ہو گئیں..

آؤ بیٹھو.. صوفے کی جانب اشارہ کرتیں خود بھی بیٹھ گئیں..

یہ جو پروجیکٹ ملا ہے کیا خیال ہے آپ کا لینا چائیے.. آہل سیدھا مدعے پر آیا..

میرا تو مشورہ ہے لینا چائیے..

لیکن مجھے وہ اعتماد والے لوگ نہیں معلوم ہوتے.. آہل نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا..

ڈاکٹر قدسیہ لب بھینچے آہل کو دیکھنے لگی جو آج کچھ مختلف دکھائی دے رہا تھا..

ڈاکٹر قدسیہ نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ ان کا فون رنگ کرنے لگا..

انعم کا نام دیکھ کر پیشانی پر لکریں ابھریں تو آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی..

آہل ٹائم ہے میں یہ کال لے لوں..

جی آپ لیں کوئی مسئلہ نہیں.. آہل ٹیک لگاتا ہوا بولا..

ڈاکٹر قدسیہ اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئیں..

آہل تو تھا ہی موقع کی تاک میں,,

وہ آس پاس دیکھتا کھڑا ہوا اور لیپ ٹاپ کے سامنے آ گیا..

آہل ہیڈن فائلز دیکھنے لگا,,

لیکن وہ لاک تھیں..

بعد میں دیکھا جاےُ گا,, آہل کہ کر جیب سے فلیش نکال کر لیپ ٹاپ کے ساتھ لگانے لگا,,

جو بھی تھا وہ کاپی کرنے لگا..

بس ڈاکٹر قدسیہ کے آنے سے قبل یہ ہو جاےُ دوبارہ ایسا موقع نہیں ملے گا.. آہل فکرمندی سے اسکرین کو دیکھنے لگا جہاں تیس پرسنٹ لکھا آ رہا تھا,,

ڈاکٹر قدسیہ آپ نے جو کھیل کھیلا تھا مجھے سب معلوم ہو گیا ہے..

انعم بول رہی تھی اور وہ پریشان ہوتی جا رہیں تھیں..

کون سا کھیل یہ پہیلیاں بوجھوانا بند کرو اور صاف صاف بات کرو,,

آہل کی مام کے ساتھ آپ نے دس سال پہلے جو کیا...

ڈاکٹر قدسیہ کو پیروں تلے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی..

کیا مطلب ہے انعم...

مطلب میں سب جانتی ہوں جو آپ نے کیا..

انعم تم حد پا کر رہی ہو کیسے مجھ پر الزام لگا سکتی.. وہ یکدم پھٹ پڑیں...

میں الزام نہیں لگا رہی یہ آپ بھی اچھے سے جانتی...انعم بول رہی تھی لیکن کال ڈراپ ہو گئی شاید سگنل کا مسئلہ تھا..

ہیلو انعم.. ڈاکٹر قدسیہ بولتی ہوئی فون دیکھنے لگی..

انعم کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے یہ راز تو میرے اور زبیر کے بیچ تھا.. وہ پیشانی مسلتی اندر آ گئیں..

آہل صوفے پر بیٹھا مسکرا رہا تھا..

کیا کہ رہے تھے.. وہ حواس بحال کرتی ہوئیں بولیں..

میرا خیال ہے ان کا پروجیکٹ نہیں لینا چائیے ہمیں کمی نہیں ہے کام کی... آہل دو ٹوک انداز میں بولا,,

جس کمپنی کی بات ہو رہی تھی وہ کمپنی ڈاکٹر قدسیہ نے ریکیمینڈ کی تھی,,

ڈاکٹر قدسیہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی آہل کو دیکھنے لگی..

ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں..

آپ انہیں انکار کر دیجئے گا.. آہل کھڑا ہوتا ہوا بولا...

بیٹھو تو چاےُ, ڈاکٹر قدسیہ بول رہیں تھیں لیکن آہل نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش کر دیا...

میں گھر جا کر پی لوں گا... شکریہ.. آہل کہ کر باہر نکل گیا..

کہیں آہل کو معلوم تو نہیں ہو گیا.. وہ دروازے کی سمت دیکھتی ہوئیں بولیں..

آہل سیدھا کمرے میں آ گیا...

دانی کو دیکھ کر اسے رنج نے آن گھیرا..

آ گئے تم... دانی اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی..

ہاں.. آہل بولتا ہوا قدم اٹھانے لگا..

آہل کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دانی شلوار قمیض پہننے لگی تھی,,

دانی لان کی شرٹ کے ساتھ کیپری پہنے ہوۓ تھی..

کیا ہوا.. دانی اس کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر بولی..

دانی آئم سوری... آہل چہرہ جھکاےُ دانی کے ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

سوری کس لئے... دانی الجھ کر آہل کو دیکھنے لگی..

آہل خاموش رہا..

آہل بتاؤ بھی مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے.. دانی کے ہاتھ ابھی تک آہل کے ہاتھ میں تھے..

دانی عائزہ نے... آہل الفاظ جوڑ رہا تھا..

کیا.. دانی کو خطرہ لاحق ہوا,,

عائزہ نے میرے فیس پر کس کی.. آہل نادم ہو کر بولا..

دانی کے چہرے پر دکھ کے ساےُ تھے,, آہل کو بانٹنا ہی اس کے لئے سوہان روح تھا,,

دانی نے آہل کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ نکالے چاہے..

مجھے کیوں بتا رہے ہو.. دانی بمشکل آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئی بولی..

دانی میں نکلنے کا سوچ رہا تھا لیکن..

دانی نے اپنے ہاتھ آہل کے ہاتھ سے نکال لئے..

اچھا.. کہ کر وہ دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگی..

دانی کی کلائی آہل کے ہاتھ میں آ چکی تھی..

آہل چھوڑ دو.. دانی کے لئے ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا..

دانی میری بات سنو..

آہل لیٹ می گو.. دانی کا چہرہ دروازے کی جانب تھا...

آہل نے اس کی کلائی آزاد کر دی..

دانی ایک لمحے کی تاخیر کئے بنا کمرے سے نکل گئی..

آہل افسوس سے اسے دیکھنے لگا..

شٹ.. آہل نے الماری پر مکہ مارا..

پھر فون نکال کر نمبر ملانے لگا..

رفیق کچھ ڈیٹا کاپی کیا ہے میں نے,, ہاں میرے کمرے میں آ جاؤ.. آہل صوفے پر بیٹھ چکا تھا..

رفیق نے فائلز ان لاک کیں اور آہل کو دکھانے لگا,,

آہل ششدہ سا اسکرین پر چلتے مناظر دیکھنے لگا...

رفیق بھی اپنی نشست پر منجمد تھا,,

ویل الیکشن میں زیادہ دن نہیں زبیر کی عزت کا جنازہ تو میں نکالوں گا.. آہل ویڈیو بند کرتا ہوا بولا..

جلد از جلد کسی نیوز کاسٹر سے بات کرو اور خیال رہے میرا نام نہ آےُ..

جی سر میں بات کرتا ہوں...

ڈاکٹر قدسیہ زبیر کا نمبر ملا رہیں تھیں لیکن وہ اٹھا نہیں رہا تھا..

یہ کام زبیر کا ہو گا لیکن انعم کو بتانے کا کیا مقصد...

وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہیں تھیں دماغ کی نسیں مانو ابھی پھٹ جائیں گیں دماغ مفلوج ہوتا جا رہا تھا..

______

عائزہ کمرے سے نکل رہی تھی جب آہل کی کال آنے لگی..

ہیلو آہل.. عائزہ فون کان سے لگاےُ باہر کی جانب چلنے لگی..

کیا کر رہی ہو..

میں بس باہر جا رہی تھی خیریت.. عائزہ تعجب سے بولی..

ہاں تمہیں کچھ دکھانا تھا..

کیا,, ایسا کرو تم..

میرے پاس اتنی فراغت نہیں کہ خود آؤں تمہارے پاس.. آہل اپنی ٹون میں واپس آ چکا تھا...

عائزہ لب بھینچے گاڑی میں بیٹھنے لگی..

پھر.. آہل کو خاموش پا کر وہ بولی..

میں تمہیں واٹس ایپ کرتا ہوں خود دیکھ لینا,, پہلے یہ بتاؤ مجھ پر بھروسہ کرتی ہو.. آہل فون کان سے لگاےُ ٹہل رہا تھا..

ہاں خود سے بھی زیادہ.. عائزہ مسرت سے بولی..

گڈ.. پھر تمہیں لازمی دیکھنی چائیے یہ ویڈیو.. آہل نے کہ کر فون بند کر دیا...

آہل ہیلو آہل.. عائزہ نے اسکرین کو دیکھا تو کال بند ہو چکی تھی,,

عجیب انسان ہے.. عائزہ بڑبڑاتی ہوئی واٹس ایپ کھولنے لگی..

آہل فون بند کر کے باہر نکل آیا..

وہ دانی کو ڈھونڈتا ہوا چل رہا تھا,,

دانی گھٹنوں پر سر رکھے سسک رہی تھی..

آہل تم کیسے کر سکتے ہو,,

دانی کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کرب ہی کرب تھا,,

میں خود کو فراموش کر کے تمہارے رنگ میں رنگ گئی اور تم..

میرے آس پاس کسی کو برداشت نہیں کرتے تم پھر میں کیسے برداشت کر لوں پہلے کہا کہ صرف اسے اپنی جانب مائل کرنا ہے ڈیٹ کرنا ہے اور اب یہ سب... تم کیسے کر سکتے ہو..

جیسے ہر رات کے بعد صبح کا اجالا پھیلتا ہے ویسے ہی ہر سحر کے بعد رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے صدا وقت ایک جیسا نہیں رہتا,, اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں اور ہر کسی کی زندگی میں ضرور آتے ہیں..

میرا دل نہیں مانتا آہل.. آنسو ٹوٹ کر بے مول ہو رہے تھے کیونکہ انہیں سمیٹنے والا آج موجود نہیں تھا,,

ٹیرس پر ہو گی,, آہل بولتا ہوا زینے چڑھنے لگا,,

جیسے ہی آہل اوپر آیا نظر دانی سے ٹکرائی,,

آہل چلتا ہوا اس کے سامنے آ گیا,, دانی زمین پر بیٹھی تھی,,

پاگل لڑکی.. آہل اس کا سر اوپر کرتا ہوا بولا..

دانی نے اس کے ہاتھ ہٹا دئیے اور چہرہ موڑ لیا,, نا جانے کیوں وہ آہل کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی..

یہ کیا حال بنا لیا ہے.. آہل آلتی پالتی مارتا زمین پر بیٹھ گیا...

تم کیوں آےُ ہو یہاں.. دانی رخ پھیرے بولی.

ناراض ہو مجھ سے.. آہل اس کا بائیاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا..

تمہیں کیا فرق پڑتا ہے جو دل میں آتا ہے کرتے ہو.. دانی نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی سعی کی لیکن آہل کی گرفت سے آزاد کروانا ممکن نہیں تھا..

میری جنگلی بلی آہل حیات صرف تمہارا ہے. آہل اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا..

نہیں چائیے مجھے.. دانی کی آواز بھرا گئی..

آنا کو دے دو پھر.. آہل ہلکے پھلکے انداز میں بولا....

جسے مرضی دو بس مجھ سے بات نہ کرو,,

تم جانتی ہو مجھے منانا نہیں آتا... آہل بے چارگی سے بولا..

دانی نے کوئی جواب نہیں دیا...

تم سے بات کئے بغیر جاہل حیات کیسے رہ سکتا ہے.. آہل لب دباےُ مسکرا کر بولا..

دانی کے لب دھیرے سے مسکراےُ..

دانی میں نے خود کچھ نہیں کیا کبھی اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا اور میں اسے بھی نہ کرنے دیتا لیکن..

آہل نے دانی کو دیکھتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی...

آہل میں تمہیں شئیر نہیں کر سکتی.. دانی کمزور پڑ رہی تھی,,

آئ نو,, اور اب مزید کرنا بھی نہیں پڑے گا یہ چیپٹر کلوز کر دیا ہے میں نے.. آہل دونوں ہاتھوں سے دانی کا چہرہ تھامے اپنی جانب کرتا ہوا بولا..

دانی کا چہرہ تر تھا,,,

آہل نفی میں سر ہلانے لگا..

تمہیں جو تکلیف ہوئی اس کے لئے سوری لیکن میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا.. آہل انگوٹھے کی پوروں سے دانی کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا..

آہل کوئی بھی سوری اس تکلیف کو ختم کرنا تو درکنار کم بھی نہیں کر سکتی...

میں جانتا ہوں دانی,, آہل دکھ سے بولا..

اب اپنے جاہل حیات کو معاف کر دو.. آہل اجازت طلب نظروں سے دانی کو دیکھ رہا تھا..

آہل کی قربت میں دانی خود کو پگھلتا ہوا محسوس کر رہی تھی وہ ہار رہی تھی شاید اس کے عشق کا نشہ ہی ایسا تھا کہ دانی بے بس ہو جاتی,, دانی نظریں اٹھا کر آہل کی سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگی,,

تم آئیندہ عائزہ کے آس پاس بھی دکھائی نہیں دو گے..

پرامس.. آہل پلک جھپکنے سے پہلے بولا,,

دانی اثبات میں سر ہلانے لگی...

آہل کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن دانی کو دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا..

آہل پیچھے ہوتا ہوا بولا..

دل تمہارے سامنے ہار جاتا ہے آہل.. دانی چہرہ جھکا کر بولی..

کیونکہ دل بلکل درست کہتا ہے اب آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے,, آہل اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا..

دانی دائیں ہاتھ سے رخسار رگڑتی آہل کے ساتھ چلنے لگی..

میں نے عائزہ کو یہ والی ویڈیو بھیج دی ہے جو ہمیں زبیر کے لیپ ٹاپ سے ملی تھی اور رات تک زبیر کی ویڈیو میڈیا تک پہنچ جاےُ گی جو مجھے قدسیہ کے لیپ ٹاپ سے ملی ہے.. آہل لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتا ہوا بول رہا تھا..

لیکن آہل تم سزا کیسے دلواؤ گے ان دونوں کو,, ڈیڈ کو شاید اس باعث سزا مل جاےُ لیکن ڈاکٹر قدسیہ کو کیسے.. دانی الجھ کر اسے دیکھنی لگی..

دانی آہل اور رفیق کانفرس روم میں بیٹھے تھے,,

اس متعلق میں بھی سوچ رہا تھا لیکن کوئی اچھا آئیڈیا نہیں ملا.. آہل مایوسی سے بولا..

سر اگر ہم انہیں سمگلنگ کے کام میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیں تو ڈاکٹر قدسیہ کو بھی سزا ملے گی اور صرف سزا ہی نہیں رسوائی بھی ہو گی.. رفیق کافی سوچ بچار کے بعد بولا..

میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان پر ہاتھ کیسے ڈالا جاےُ وہ بل میں چھپ کر بیٹھے ہیں,, آہل کوفت سے بولا..

میرے پاس ایک آئیڈیا ہے.. دانی کے دماغ میں جھماکا ہوا..

کیسا آئیڈیا.. آہل چئیر دانی کی جانب گھماتا ہوا بولا..

فرض کرو اگر مجھے وہ لوگ پکڑ لیں..

شٹ اپ دانی.. آہل غرایا....

میں نے کہا ہے فرض کرو,, میری تو سن لو پوری بات.. دانی خفگی سے بولی..

ایسا کوئی فضول کام جب کرنا ہی نہیں پھر فرض بھی کیوں کریں.. آہل کی گردن کی رگیں تن گئیں,, آنکھیں ضبط کے باعث سرخ ہو رہی تھیں..

رفیق ذرا اپنے باس کو ڈھنڈا کرو.. دانی دانت پیستی ہوئی بولی..

سر سننے میں کوئی قباحت نہیں,, رفیق کافی حد تک اس کی بات سمجھ چکا تھا..

رفیق تمہارا دماغ گھوم گیا ہے کیا.. آہل کو اس کی عقل پر شبہ ہوا..

آہل اگر تم نے اپنی ہی مرضی کرنی ہے پھر مجھے کیوں شامل کیا تھا.. دانی ٹیبل پر ہاتھ مارتی کھڑی ہو گئی..

آہل لب بھینچے دوسری جانب دیکھنے لگا..

بولو.. آہل نا چاہتے ہوےُ بولا..

ٹھیک ہے فرض کرو وہ مجھے اٹھا لیتے ہیں تم میرے ذریعے ان تک پہنچ سکتے ہو اور مجھے پورا یقین ہے جب وہ مجھے اپنے اڈے پر لے جائیں گے تو دونوں وہیں پر رہیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں میں دانین حیات ہوں تم پولیس کو لے کر وہاں آ جانا یقیناً وہاں اور لڑکیاں بھی ہوں گی اس طرح آسانی سے انہیں پکڑا جا سکتا ہے.. دانی پرجوش انداز میں بولی..

گریٹ دانین حیات,, میرے منہ پر پاگل لکھا ہے کیا...آہل دانت پیستا ہوا بولا..

بلکل بھی نہیں..

تو پھر تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں ان کے ہاتھ میں دے دوں گا,, آہل دانی کو گھورتا ہوا بولا..

تم کرو گے جب تمہارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا تو تم کرو گے.. دانی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بولی..

سر دیکھا جاےُ تو دانین میڈم کا آئیڈیا بہترین ہے..

تم سے راےُ نہیں مانگی.. آہل ایک پل میں بیگانہ ہو گیا تھا..

اور تم سوچنا بھی مت مجھے کچھ بھی کرنا پڑے لیکن تمہیں خطرے میں نہیں ڈال سکتا اور دوبارہ اس پر کوئی بحث نہیں ہو گی.. آہل بولتا ہوا کھڑا ہو گیا..

دانی منہ بسورتی اسے دیکھنے لگی..

آہل نے فون اٹھایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا..

رفیق تم مناؤ گے آہل کو.. دانی حتمی انداز میں بولی..

میم کوئی شک نہیں کہ سر مجھ سے مشورہ لیتے ہیں اور اسے عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں لیکن یہاں بات آپ کی ہے اس لئے مشکل ہو گا..

تم کوشش کرنا میں بھی کوشش کرو گی آہل کو قائل کرنے کی.. دانی بولتی ہوئی کھڑی ہو گئ..

جی میم ٹھیک ہے.. رفیق سر ہلاتا ہوا بولا..

دانی اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئ..

ناظرین یہ جو مناظر آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں یہ کسی اور کے نہیں بلکہ زبیر رنداوھا کے ہیں یہ شرمناک ویڈیو زبیر رنداوھا کی ہے جنہوں نے بے رحمی سے ان لڑکیوں کی زندگی تباہ کر دی انہیں مارا نہیں لیکن اپنی حوس پوری کرنے کے لیے موت کے گھاٹ اتار دیا..

جی ہاں ناظرین ٹی ایل ایم کی جماعت سے تعلق رکھنے والے زبیر رنداوھا جو گزشتہ پانج برس کے لئے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے خود کو عوام کا رکھوالے کہلانے والے زبیر رنداوھا حقیقت میں ایک درندہ ہے جس نے نا جانے کتنی معصوم جانوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا ہو گا ہم آپ کو صرف تصویریں دکھا رہے ہیں جب کہ ہمارے پاس پوری پوری ویڈیوز محفوظ ہیں,,

خدمت کا نعرہ لگانے والے زبیر رنداوھا کی اصلیت آپ ٹی وی اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں جو انسان کے روپ میں ایک درندہ ہے کچھ دیر قبل ہمیں یہ ویڈیو موصول ہوئی اور ہم نے عوام کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا تاکہ ایسے لوگوں کا احتساب ہو سکے انہیں سزا و جزا کے مراحل سے گزرنا پڑے.. یہ بڑے سیاسی لوگ جرم کرتے جاتے ہیں اور ہر بار کسی نہ کسی بہانے خود کو بچا لیتے ہیں لیکن سوچنے والی بات ہے زبیر رنداوھا کس طرح خود کو بچائیں گے,,

ہم سب زبیر رنداوھا کی جانب سے جواب کے منتظر ہیں دیکھتے ہیں کیا دلیل وہ پیش کریں گے,, یا پھر پیش کریں گے بھی یا نہیں,, مزید تفصیلات جانیے اس نیوز کے بعد...

زبیر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکرین پر چلتے مناظر دیکھ رہا تھا,,

پیروں تلے زمین اور سر سے آسمان دونوں کھسک گئے تھے,, بیٹھے بٹھائے یہ کیا ہو گیا.. وہ بڑبڑاےُ..

آنکھیں یقین کرنے سے انکاری تھیں,,

ڈاکٹر قدسیہ نے کیمرے لگواےُ تھے اور مجھے معلوم نہیں.. وہ طیش کے عالم میں کھڑے ہو گئے...

ڈاکٹر قدسیہ سر تھامے بیٹھی تھیں عائزہ انہیں لعن طعن کر کے گھر سے جا چکی تھی کہاں گئی تھی یہ انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا...

فون کی رنگ ٹون نے انہیں سوچوں کے محور سے باہر نکالا....

زبیر کا نام دیکھ کر آنکھوں میں شعلے بھڑکنے لگے..

آ گیا تمہیں خیال مجھے فون کرنے کا پہلے تو مجھے یہ بتاؤ تم نے انعم اور عائزہ کو وہ ویڈیو کیسے دے دی..وہ حلق کے بل چلائیں..

گولی مارو اس ویڈیو کو مجھے یہ بتاؤ تم نے کیمرے لگوا رکھے تھے اور میری ویڈیو بناتی تھی یہ کیا بیہودہ حرکت کی ہے تم نے جانتی ہو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا,, زبیر دھاڑے..

کون سی ویڈیو اور کون سی حرکت.. ڈاکٹر قدسیہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے..

آہ,, کیسے انجان بن رہی ہو اب,, ٹی وی نہیں دیکھا کیا یہ نیوز اینکر جو گلا پھاڑ پھاڑ کر بکواس کر رہی ہے اسے میں کیا سمجھوں.. زبیر کا بس نہیں چل رہا تھا ڈاکٹر قدسیہ کو فون سے باہر نکال لے..

ایک منٹ رکو میں نے ٹی وی آن نہیں کیا.. ڈاکٹر قدسیہ فون کان سے لگاےُ ریموٹ سے ایل ای ڈی آن کرنے لگی..

مطلوبہ نیوز چینل لگایا تو اپنی بینائی پر شبہ ہوا..

یہ کس .. اور کیسے.. وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرنے لگیں..

اب معلوم ہوا میری عزت کا جنازہ نکال دیا تم نے اچھا نہیں کیا اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ....

زبیر مجھے خود بھی علم نہیں اس سب کا.. وہ ششدہ سی بولیں..

معصوم بننے کی کوشش مت کرو جو تم بلکل نہیں ہو.. زبیر چبا چبا کر بولا..

تم ایسا کرو میرے گھر آؤ اس طرح فون پر کچھ سمجھ نہیں آےُ گا الجھنیں مزید بڑھ رہیں ہیں..

آتا ہوں اور حساب بھی کروں گا تم سے.. زبیر ہنکار بھرتا فون بند کر کے چلنے لگا..

آسم ایک پریس کانفرس کا انتظام کرو اور کچھ حل نکالو اس کا.. وہ آسم کو ہدایات دیتے چلنے لگے..

سر اس کا صرف ایک ہی حل ہے ویڈیو ایڈیٹنگ,, آپ پریس کانفرس پر یہی کہ دیں سب سے..

کچھ بھی کہ لوں اب ووٹ کون دے گا مجھے.. وہ کوفت سے بولے..

ہو سکتا ہے لوگ یقین کر لیں..

یقین کر لیں ہوں.. زبیر سر جھٹکتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ گئے...

آہل ایک بات میں تمہیں بتا دوں تم نے ان دونوں پر ایک ساتھ حملہ کر کے دشمنی میں اضافہ کر لیا ہے..

تو کیا فرق پڑتا ہے میں تیار ہوں لڑنے کے لیے.. آہل اثر لیے بنا بولا..

میرا مطلب ہے تم نے انہیں دعوت دے دی ہے کہ مجھ پر حملہ کرو اور تمہاری کمزوری کیا ہے.. دانی آبرو اچکا کر بولی..

تم اپنے دماغ پر زور مت دو میں دیکھ لوں گا خود.. آہل نے اسے ٹالنا چاہا..

تم سمجھ نہیں رہے آہل یہ بیسٹ طریقہ ہے وہ اپنے بدلے کی خاطر مجھے نقصان پہنچائیں گے کیونکہ تمہاری کمزوری صرف دانی ہے لیکن حقیقت میں یہ پلان ہمارا ہو گا ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے..

دانی نے اسے قائل کرنا چاہا..

میں تمہاری حفاظت کر لوں گا تم فکر مت کرو لیکن تمہیں خطرے میں جھونک نہیں سکتا.. آہل نے بے لچک لہجے میں بولا..

کتنے ضدی ہو نہ تم.. دانی ناک چڑھاتی ہوئی بولی..

جی شکریہ کہ معلوم ہو گیا اب دوبارہ یہ بات مت کرنا میرا جواب یہی رہے گا..

آےُ بڑے تم چیف منسٹر.. دانی بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئ..

آہل اس کی بات پر دھیرے سے مسکرا دیا..

**********

زیادہ بولو مت زبیر پہلے تم نے میری بیٹی کو مجھ سے دور کیا ہے.. ڈاکٹر قدسیہ ضبط کرتی ہوئیں بولیں..

میں کیوں ایسا کروں گا بتائیں مجھے,,

وہ ویڈیو صرف تمہارے پاس تھی پھر مجھے بتاؤ عائزہ کے پاس کیسے آئی..

اگر آپ کو خبر ہو تو عائزہ گزشتہ کچھ وقت سے آہل کے ساتھ ہے.. زبیر نے آگاہ کیا..

تمہیں کس نے کہا.. ڈاکٹر قدسیہ آبرو اچکا کر بولیں..

اگر آپ اڈے سے نظر ہٹا کر گھر پر ڈالیں تو معلوم ہو جاےُ گا.. زبیر طنزیہ بولا..

بس بس زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے..

اب آپ مجھے بتائیں کہ ویڈیو لیک کیوں کی..

میں نے لیک نہیں کی یہ ویڈیو کتنی دفعہ کہو.. ڈاکٹر قدسیہ کوفت سے بولیں..

اس سب کا فائدہ صرف آہل حیات کو ہے مطلب میرا شک درست ہے یہ سب وہی کمینہ کر رہا ہے ہمیں ایک دوسرے سے لڑوا کر کمزور کرنا چاہ رہا ہے.. زبیر ہنکار بھرتے ہوۓ بولے..

تبھی عائزہ مجھ پر چلا رہی تھی یہ سب آہل کی شہ پر کر رہی ہے وہ,, آہل حیات...ڈاکٹر قدسیہ مٹھیاں بھینچ کر بولیں..

مطلب وہ جان چکا ہے آپ کے متعلق لیکن حیرت کی بات ہے ہمارے لیپ ٹاپ تک کیسے رسائی حاصل کی اس نے...

______

یہ وقت ان باتوں کو سوچنے کا نہیں ہے,, آگے کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کا ہے..

آہل حیات میری دشمنی تمہاری ماں سے تھی اور اس کا قصہ دس سال قبل ختم ہو گیا لیکن میری عزیز جان بیٹی کو مجھ سے دور کرنے پر تم نے مجھے بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے.. وہ حقارت سے بولیں..

ہمیں مل کر اس آہل حیات کو تباہ کرنا ہو گا لگتا ہے پچھلا نقصان بھول گیا ہے وہ تبھی میدان میں اتر آیا ہے... زبیر ہنکار بھرتا ہوا بولا..

کوئی مسئلہ نہیں ہم بھی بھرپور انداز میں جوابی کاروائی کریں گے وہ کھل کر لڑ رہا ہے تو ہم بھی منہ توڑ جواب دیں گے.. ڈاکٹر قدسیہ چبا چبا کر بولیں..

میں آپ کے پاس دوبارہ آتا ہوں ابھی مجھے پریس کانفرس کے لئے جانا ہے...

کیا اس سے کوئی نفع ہو گا.. ڈاکٹر قدسیہ نے اسے ٹوکا..

کوئی خاطر خواہ نفع تو نہیں پہنچے گا لیکن کوشش کرنے میں کیا حرج.. زبیر کہ کر باہر نکل گیا...

آہل حیات تم پیٹھ پیچھے سے وار کر رہے تھے مجھے معلوم نہ ہو سکا عائزہ کو ہتھیار بنا کر اچھا نہیں کیا تم نے... وہ بولتی ہوئیں کھڑی ہو گئیں..

************

آہل دانی کے ہمراہ صوفے پر بیٹھا تھا,, ہاتھ میں پیڈ پکڑ رکھا تھا جس میں لائیو نیوز چل رہی تھی,,

میں آپ سب کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے مجھے بدنام کرنے کے لیے کیا ہے آپ اس ایک ویڈیو کو دیکھ کر میری تمام شخصیت کو تباہ نہیں کر سکتے اور سب سے بڑی بات یہ ویڈیو ایڈیٹ کی گئی ہے میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا..

لیکن سر کون آپ کے خلاف اس طرح کے حملے کر رہا یے..

میں نہیں جانتا یقیناً کوئی سیاسی پارٹی ہو گی جسے الیکشن ہارنے کا خدشہ ہو گا تبھی ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے..

لیکن سر ویڈیو کو دیکھ کر معلوم تو نہیں ہوتا کہ ایڈیٹ کی گئی ہو... رپورٹر بول کر زبیر کو دیکھنے لگی...

سر اپنی بات پھر سے دہرائیں.. آسم نے عقب سے سرگوشی کی..

آج کل اتنی صفائی سے یہ کام ہوتا کہ دیکھیں آپ جیسے رپورٹر بھی دھوکہ کھا گئے.. میری ساخت تباہ کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے,, لوگ مجھے جانتے,,

زبیر کے الفاظ منہ میں تھے جب ایک ٹماٹر اس کے منہ پر آ لگا,,

وہ ششدہ سا آگے جھانکنے لگا,, لیکن نشانہ باز دکھائی نہ دیا,,

اس کے بعد انڈے اور ٹماٹر کی بارش ہو گئی کوئی چھت سے یہ کام سر انجام دے رہا تھا,, آسم دیکھو کون ہے یہ.. زبیر کہتے ہوۓ مڑ گئے...

رپورٹر بھی حیران سے اس منظر کو دیکھ اور نظر بند کر رہے تھے,,

ناظرین آپ نے دیکھا ابھی ابھی زبیر رنداوھا کا ٹماٹر اور انڈے مارے گئے جب وہ اپنی پریس کانفرس میں بات کر رہے تھے عوام مشتعل ہے ان کی اس ویڈیو پر,, کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ زبیر رنداوھا کا سرے عام پھانسی دے جاےُ تاکہ لوگ عبرت حاصل کر سکیں...

رپورٹر بول رہا تھا لیکن آہل نے بند کر دی نیوز...

آہل ہنس رہا تھا,,

دانی کے دل میں زبیر کے لئے نفرت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی,,

دیکھ رہی ہو.. آہل اس کے شانے پر بازو رکھتا ہوا بولا..

بلکل ایسا ہی انجام ہونا چائیے ایسے لوگوں کا.. دانی حقارت سے بولی,,

اس سے بھی زیادہ برا انجام ہو گا تم دیکھنا.. آہل اسکرین پر دیکھتا ہوا بولا..

دانی نے سر آہل کے شانے پر رکھ دیا..

تم ٹھیک ہو.. آہل فکرمندی سے گویا ہوا..

ہاں,, مجھے کیا ہونا,, دانی سانس خارج کرتی ہوئی بولی,,

نفرت بھی تھی لیکن تکلیف بھی اپنے باپ سے اسے ایسی توقع نہیں تھی,, اور جب امید ٹوٹتی ہے تو تکلیف بھی بے حد ہوتی ہے وہ تو پھر اس کا باپ تھا...

کل یونی مت جانا تم دانی.. آہل متفکر سا بولا..

کیوں.. دانی کو حیرت ہوئی..

تمہاری یونی سے کچھ فاصلے پر جو گراؤنڈ ہے وہاں عوامی تحریک کا جلسہ ہے کوئی بدنظمی ہو سکتی ہے..

تم مجھے لینے آ جانا,,ویسے بھی پیپر ہے جانا لازمی ہے.. دانی کا سر ابھی تک آہل کے شانے پر تھا..

ٹھیک ہے میں خود لینے آ جاؤں گا.. آہل اس کا بائیاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا جو ہاتھ وہ دانی کے شانے پر رکھ ہوۓ تھا..

نیلا ہیرا جگمگا رہا تھا,, یہ انگوٹھی دانی کے ہاتھ کی زینت بنی ہوئی تھی,,

دانی کا دھیان رنگ پر گیا تو دماغ میں جھماکا ہوا..

آہل مجھے جیولر کے پاس جانا ہے.. دانی سر اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی..

خیریت.. آہل کی پیشانی پر لکریں ابھریں..

مجھے تمہارے لئے رنگ لینی ہے بلکل تمہارے ڈمپل جیسی گندی سی...

آہل مسکراتا ہوا دانی کو دیکھنے لگا..

دانی شہادت کی انگلی سے اس کے ڈمپل کو چھونے لگی..

گندی سی لینی ہے تو پھر رہنے دو.. آہل اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑتا ہوا بولا..

جی نہیں مجھے لینی ہے..

ٹھیک ہے میں گھر بلا لوں گا جیولر کو..

ہر چیز اٹھا کر گھر لے آؤ گے کیا جیسے مجھے اٹھا کر لاےُ تھے..

بلکل تمہارے لئے سب کچھ گھر میں آ سکتا ہے..

ہاں پتہ چلے کسی دن پورا ملک ہمارے گھر میں آ جاےُ..

تم پورا ملک نہ منگوانا..

مجھے میرا آہل مل گیا بس اور کچھ نہیں چائیے.. دانی اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی پیشانی اس کی پیشانی سے ٹکا گئی..

اچھی بات ہے.. آہل مسرور سا بولا..

لیکن میں کبھی نہیں بھولوں گی تم نے مجھے گولی ماری تھی.. دانی آنکھیں بند کئے بول رہی تھی,,

وہ تو مجبوری میں ماری تھی نہ.. آہل معصومیت سے بولا..

ہاں تم پر کسی نے گن رکھی تھی نہ مجبوری میں.. دانی ہنکار بھرتی ہوئی بولی..

میڈم اگر میں گولی نہ مارتا تو آج تم میرے ساتھ نہ ہوتی..

جو بھی ہو جاہل حیات نے مجھے گولی ماری دیکھنا میں ہمارے بچوں کو بھی بتاؤں گی.. دانی دھمکاتی ہوئی پیچھے ہو گئی..

آہل لب دباےُ مسکراتا ہوا اسے دیکھنے لگا..

ہمارے بچوں کو کیوں..

ان کو بھی تو معلوم ہو نہ کہ ان کا باپ کیسا ظالم انسان ہے.. دانی ناک چڑھاتی ہوئی بولی..

شوق سے بتانا.. آہل اثر لیے بنا بولا..

ڈھیٹ پن میں تو ایم بی بی ایس کیا ہے تم نے.. دانی جل کر بولی..

آہل مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا..

اب کہاں کی تیاری ہے.. آہل فون جیب میں ڈال رہا تھا جب عمیر کی کال آنے لگی آہل کی پیشانی پر شکنیں ابھریں..

ہیلو عمیر.. آہل بولتا ہوا باہر نکل گیا..

جناب کے مزاج ہی نہیں ملتے.. دانی اسے باہر جاتا دیکھ کر بولی..

بابا آپ ماما کی کال کیوں نہیں لے رہے... عمیر سادگی سے بولا..

بیٹا میں بزی تھا,, آہل چلتا ہوا گاڑی میں آ بیٹھا,,

رفیق کی طرف... آہل فون کان سے ہٹا کر بولا..

ڈرائیور اثبات میں سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا..

ابھی بھی میں ضروری کام کے لیے جا رہا ہوں..

اچھا مجھے لگا آپ ناراض ہیں ماما سے..

نہیں بس کام اتنے ہوتے ٹائم نہیں ملتا,,

بابا آپ دوبارہ کب آئیں گے... وہ اداسی سے بولا..

میں کوشش کروں گا آنے کی لیکن پرامس نہیں کر رہا..

آپ نے کہا تھا جلدی آئیں گے..

عمیر مجھے بات کرنے دو بابا سے... ایمان کی آواز سنائی دی..

آہل نے فوراً فون بند کر دیا...

ماما پہلے مجھے بات کرنے دیں پھر.. عمیر ایمان کو دیکھتا ہوا بولا..

بابا آپ آج آ جائیں.. عمیر بول رہا تھا لیکن دوسری جانب سے مکمل خاموشی تھی..

بابا,, آپ کی آواز کیوں نہیں آ رہی..

مجھے دکھاؤ.. ایمان ہاتھ بڑھاتی ہوئی بولی..

مجھے معلوم تھا بند کر دیا ہو گا تم نے آہل.. ایمان نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی..

بیٹری لو ہو گئی ہے فون کی اس کئے بند ہو گیا.. ایمان اسے بہلاتی ہوئی بولی..

اووہ اچھا پھر آپ چارجنگ پے لگا دیں میں ہوم ورک کر لیتا ہوں.. عمیر کہ کر صوفے سے اتر گیا..

************

زبیر طیش کے عالم میں یہاں سے وہاں چل رہا تھا..

کوئی فائدہ نہیں ہوا,, اس کمینے آہل حیات کے باعث میری شخصیت متاثر ہو رہی ہے.. آج لوگوں نے میرے منہ پر زبیر رنداوھا کے منہ پر سب کے سامنے.. زبیر مٹھیاں بھینچے خاموش ہو گیا..

سر ڈاکٹر قدسیہ آئیں ہیں.. ملازم سر جھکاےُ ان کے سامنے آتا ہوا بولا..

ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آتا ہوں.. زبیر شیشے میں بال دیکھتا ہوا چلنے لگا..

بہت افسوس ہوا مجھے تمہاری پریس کانفرس دیکھ کر... ڈاکٹر قدسیہ افسوس سے بولیں,,

میرے علم میں آیا ہے کہ میڈیا تمہیں سزا دینے کے لیے آواز اٹھا رہا ہے ادارے کب تک خاموش رہیں گے... وہ فکرمندی سے بولیں..

اس آہل حیات نے ایک دم سے بازی پلٹ دی مجھے لگا تھا وہ بچہ کیا بگاڑ سکتا ہے میرا...

اب معلوم ہوا وہ بچہ کیا کر سکتا ہے.... ڈاکٹر قدسیہ نے اسے ٹوکا....

ہوں,,خوش تو اسے بھی نہیں رہنے دوں گا اس کی زندگی دانین کے گرد گھومتی ہے نہ اس کی زندگی ہی چھین لوں گا میں.. زبیر حقارت سے بولے..

کیا سوچا تم نے اس بارے میں...

کل عوامی تحریک کا جلسہ ہے ایک چھوٹا سا جھٹکا اپنے داماد کو دوں گا,,

کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں.. ڈاکٹر قدسیہ آنکھیں چھوٹی کیے بولیں...

زیادہ نہیں صرف ڈر وہ بھی تھوڑا سا,,

اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے جیل جانے کا ارادہ ہے کیا..

میں سوچ رہا ہوں روپوش ہو جاؤں کیونکہ الیکشن جیتنا تو درکنار مجھے چند ووٹ مل جائیں وہ بھی غنیمت ہے...

ثانیہ کہاں ہے. ڈاکٹر قدسیہ نے موضوع بدلا,

وہ سرجری کے لئے گئی ہے..

کیا ہوا اسے.. ڈاکٹر قدسیہ حیرت سے گویا ہوئیں..

فکر مت کریں ناک کی سرجری کروانے گئی ہے. زبیر سر جھٹکتا ہوا بولا..

اووہ اچھا اچھا.. ڈاکٹر قدسیہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئیں بولیں...

***********

دانی کی آنکھ کھلی تو چہرہ موڑے دائیں جانب آہل کو دیکھنے لگی,, جس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی,, وہ شاید سچ میں اتنا ہی معصوم تھا..وقت بہت ظالم چیز ہے معصومیت چھین کر تجربہ دے دیتا ہے آہل کی زندگی بھی تجربے کی نذر ہوئی تھی اس سب میں وہ تو بےقصور مارا گیا صرف وہی نہیں اس کی فیملی بھی.. دانی کی نظریں آہل کے چہرے کے گرد تھیں,, دماغ سوچوں میں الجھتا جا رہا تھا دن بہ دن آہل سے محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا, محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے یہ آپ سے کچھ بھی کروا سکتی ہے دانی بھی ہار جاتی تھی اپنی محبت کے سامنے, عائزہ والے واقعے نے اسے توڑ دیا تھا لیکن آہل کو دیکھتے ہی اس کا دل سب فراموش کر گیا نا جانے کیسے نشہ تھا اس کے عشق کا جو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تھا,,

دانی دھیرے سے مسکرا دی..

میرا جاہل حیات.. دانی بولتی ہوئی اس کی جانب جھکی,, دل شرارت پر مجبور کر رہا تھا,,

آہل کے نرم سیاہ بال اس کی پیشانی پر بکھرے ہوۓ تھے,,

دانی آہل کی عادت کو یاد کرتی مسکرانے لگی,,,

تمہیں میرے بالوں سے ہمیشہ مسئلہ ہوتا ہے نہ.. دانی بےخبر آہل سے مخاطب تھی جو گہری نیند میں تھا..

دانی نے ہاتھ بڑھا کر آہل کی پیشانی سے بال ہٹاےُ,,

آہل نے جھٹ دانی کا ہاتھ پکڑ لیا,,

دانی گھبرا کر اسے دیکھنے لگی,, دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہو گئی تھی,,

آہل ڈرا دیا مجھے,, دانی خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی..

کیا کر رہیں تھی تم.. آہل دلچسپی سے دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

کچی نیند میں آہل کا جگمگاتا ہوا چہرہ مزید دلکش دکھائی دے رہا تھا اس پر اس کا مسکرانا دانی کو چاروں شانے چت کر گیا..

میں اپنے کیوٹ سے ہزبینڈ کا معائنہ کر رہی تھی,, دانی اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی,,

اچھا پھر کیا ملا آپ کو ڈاکٹر صاحبہ..

میں دیکھ رہی تھی کہیں کوئی خرابی تو نہیں پڑ گئی تم میں,,

________

بس یہ جو ڈمپل ہے نہ یہ مجھے گفٹ کر دو.. دانی اس کے سینے پر بازو رکھے ان پر اپنا چہرہ رکھے مسکراتی ہوئی بولی..

میں تو سار ہی تمہارا ہوں جو لینا ہو لے لو,, آہل جذبات سے چور لہجے میں بولا..

اچھا پھر کچھ ارشاد فرمائیں..

میں ابھی بھی تقریباً نیند میں ہوں,, آہل جمائی روکتا ہوا بولا..

دانی آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگی..

بہت بدتمیز ہو تم ویسے.. دانی کہتی ہوئی اسکے سینے سے بازو ہٹا کر بیڈ سے اتر گئی..

بہت شکریہ مجھے آگاہ کرنے کے لیے.. آہل سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

دانی بنا جواب دئیے اپنے اور آہل کے کپڑے نکالنے لگی,,

دانی تیار ہو کر صوفے پر بیٹھ گئ وہ آہل کی منتظر تھی,,

آہل جان بوجھ کر دیر کر رہا تھا..

آہل حیات مجھے یونی جانا ہے..

دانی اس کے عقب میں کھڑی ہوتی تپ کر بولی..

تو کیا ہوا مجھے بھی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے جانا ہے,, آہل محظوظ ہوتا ہوا بولا..

دانی نے اس کی بازو پکڑی اور رخ اپنی جانب موڑا...

تم وزیراعظم سے ملنے جاؤ گے تو مجھے کون لینے آےُ گا.. دانی اداسی سے بولی..

میں نے سوچا ہی نہیں.. آہل کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں..

دانی اس کی شرٹ کے اوپر والے بٹن بند کرنے لگی,, ٹائی بھی پہنا دو,, آہل کو اچھا لگ رہا تھا دانی کا اس کے قریب رہنا..

دو سال کے بچے ہو نہ تم..دانی خفگی سے کہتی متلاشی نگاہوں سے بیڈ کو دیکھنے لگی,,

پھر ٹائی اٹھا کر لائی,,

اب اپنی گردن نیچے کرو,, دانی ہاتھ اوپر کرتی ہوئی بولی,,

آہل نے سر جھکا لیا دانی مصروف سے انداز میں ٹائی باندھنے لگی,,

کتنی دیر لگے گی,, آہل کافی دیر بعد بولا..

مجھے نہیں باندھنی آتی لو خود باندھ لو.. دانی ہاتھ اٹھاتی ہوئی بولی..

پھر اتنی دیر سے کیا کر رہی تھی,, آہل ڈمپل کی دید کرواتا ہوا بولا..

میں نے سوچا کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں.. دانی منہ بسورتی ہوئی بولی..

آہل شیشے میں دیکھتا ٹائی باندھنے لگا,,

میں کوشش کروں گا جلدی فارغ ہو جاؤ,,اگر مجھے لیٹ ہو گیا تو تم یونی میں ہی رہنا میں کال کر دوں گا,, آہل دانی کو دیکھتا ہدایات دے رہا تھا,, دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے,, گاڑی یونی کے باہر کھڑی تھی,,

اوکے باس.. دانی مسکرا کر بولی,,

آہل دھیرے سے مسکرا دیا,,

دونوں ہونے والی انہونی سے انجان لمحوں کا لطف لے رہے تھے,,

جاؤں میں,, دانی کا ہاتھ آہل کے ہاتھ میں تھا,, وہ اجازت طلب نظروں سے آہل کو دیکھ رہی تھی...

مجھ سے پوچھو گی تو میں تو کبھی بھی نہیں کہوں گا جانے کو,,

جانا بھی کون چاہتا ہے.. دانی اس کی سیاہ گہری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی,, آہل کی آنکھیں سمندر جیسی گہری تھیں جس کی گہری کوئی نہیں ماپ سکتا جتنا نیچے جاتے جاؤ گے اتنا گہرا ہوتا جاےُ گا,, بس اترتے جاؤ کبھی ختم نہیں ہو گا..

وزیر اعظم سے میری ماسی ملنے جاےُ گی.. دانی شریر لہجے میں بولی..

جاؤ مجھے بھی لیٹ ہو رہا ہے.. آہل اس کا ہاتھ چھوڑتا ہوا بولا..

دانی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی,,

دانی چہرہ موڑ کر عقب میں دیکھنے لگی وہ آج بھی نہیں دیکھ رہا تھا اسے,,

بہت جلدی ہوتی ہے تمہیں.. دانی بڑبڑاتی ہوئی گیٹ عبور کرنے لگی,, عقب میں گارڈ چل رہا تھا...

آہل ہمیشہ کچھ فاصلے پر گاڑی روک کر دانی کو اندر جاتے دیکھتا تھا اور وہ سمجھتی تھی کہ اسے ہمیشہ جلدی ہوتی ہے..

***********

رحیم تمہیں کچھ نہیں ہو گا میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی,,

رحیم پلیز آنکھیں کھولو رحیم پلیز میری بات کا جواب دو,,

انعم کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا آنکھیں برس رہیں تھیں,,

انعم نے آنکھیں کھول دیں,,

وہ لمبے لمبے سانس لیتی گرد و پیش میں نگاہ دوڑانے لگی,,

میں تو اپنے کمرے میں ہوں,,

اووہ خواب تھا,, ایک آنسو ٹوٹ کر رخسار پر آ گرا..

میں کیا کروں...

انعم نے تھکے تھکے انداز میں چہرہ ہاتھوں میں گرا لیا..

نا میں آگے جا سکتی ہوں نہ پیچھے تم مجھے بیچ راستے میں چھوڑ گئے ہو جہاں نہ منزل دکھائی دیتی ہے نہ راستہ,, جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن ان کا کیا جو ان سے جڑے ہوتے ہیں وہ پھر نہ زندہ میں شمار ہوتے ہیں نہ ہی مردہ میں,,

انعم نفی میں سر ہلا رہی تھی,,

تمہیں بھولنا بھی نہیں چاہتی لیکن اس اذیت ناک دن کو یاد بھی نہیں رکھنا چاہتی,, دماغ اپنی مرضی چلاتا ہے اور دل اپنی مرضی دونوں کے بیچ میں,, میں ختم ہوتی جا رہی ہوں,,

یہ دیمک زدہ محبت مجھے اندر ہی اندر سے کھا رہی ہے کھوکھلا کر رہی ہے یہ روز روز کی اذیت سے تو ایک ہی بار موت مجھے اپنی آغوش میں لے جاےُ کم از کم سکون تو میسر ہو گا,, وہ کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے لگی,,

سورج کی کرنیں اندر کمرے میں آ رہیں تھیں,, کاش انسان کے بس میں زیادہ نہیں بس تھوڑا سا تو ہوتا,, کسی کو کھونا پھر اس کے بنا جینا یہ خیال ہی سوہان روح ہے تو پھر اس سے گزرنے کی تکلیف کوئی سوچ بھی نہیں سکتا پل پل مرتی ہوں جب یہ خیال عود آتا ہے کہ رحیم کبھی واپس نہیں آےُ گا دل آج بھی یقین کرنے پر راضی نہیں شاید لوگ اسی وجہ سے پاگل ہو جاتے ہیں ادھوری محبت اور ادھوری خواہشیں جب دم توڑ دیتی ہیں پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا,, زندگی میرے لئے کیا ہے صرف سانسوں کا کھیل جس دن یہ کھیل تمام اس دن یہ زندگی بھی تمام,, بس اتنی سی بات ہے اور انسان اتراتا پھرتا ہے ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں پھر بھی اکڑتا ہے سالوں کی پلانگ کرتا ہے لیکن وقوع پذیر تو اللہ کی پلانگ ہوتی,, ہم کیا کیا سوچ بیٹھتے ہیں اور زندگی صرف ایک لمحہ لیتی ہے صرف ایک لمحہ اور سب کچھ بدل جاتا,,

انعم استہزائیہ ہنس دی,,

یہ دنیا اور اس دنیا کے کھیل سب بیوقوف ہیں اس دنیا کے پیچھے بھاگ رہے جہاں سے ایک سیکنڈ میں چلے جانا پھر سارا کھیل ساری پلانگ دھری کی دھری رہ جانی,,

انعم سر بیڈ کی پشت سے ٹکا دیا,,

دل بوجھل سا تھا,, لیکن شاید اب کچھ سکون تھا دل کا غبار نکل گیا تو انعم بھی خاموش ہو گئی,, لیکن آنسو خاموش نہیں ہوتے وہ اپنی زبان بولتے رہتے جب تک تکلیف ختم نہیں ہوتی,,

ناظرین آپ کو بتاتے چلیں جامعہ یونیورسٹی میں آج خودکش دھماکہ ہوا,, کچھ دیر قبل طلبہ و طالبات پرچے حل کرنے میں مصروف تھے جب یہ افسوسناک واقع پیش آیا,,

ابھی ہم آپ کو اندر کے مناظر دکھائیں گے بہت سے سٹوڈنٹس زخمی ہیں اور کچھ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں فلحال کچھ نہیں کہا جا سکتا,,

سیکورٹی کے باوجود کوئی سٹوڈنٹس اندر بامب لے گیا اور یہ ایک خودکش حملہ ہے بہت سے طالبات اس سے متاثر ہوئے ہیں,, جامعہ یونیورسٹی جہاں طلبہ معمول کے مطابق پیپر دینے میں مصروف تھے اچانک ایک دل دوز آواز سنائی دی اور چاروں سمت دھواں چیخ و پکار سنائی دینے لگی,,

یہ آپ دیکھ سکتے ہیں مناظر کیا حال ہو گیا ہے اس یونیورسٹی کا,, خون کے نشانات تو کہیں بیگ رجسٹر گرے پڑے ہیں مزید معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ ایگزامینیشن حال میں ہوا ہے جہاں طلبہ اپنا پرچہ حل کرنے میں مصروف تھے سب معمول کے مطابق کام کر رہے تھے اس بات سے انجان کہ کچھ دیر میں ایسا واقعہ ہونے والا ہے,, آرمی اہلکار پہنچ چکے ہیں زخمیوں کو طبعی امداد دی جا رہی ہے آپ ٹی وی اسکرین پر یہ مناظر دیکھ سکتے ہیں فوجی مدد کے لیے آ چکے ہیں اور اب زخمیوں کو اور لاشوں کو باہر لے جایا جا رہا ہے,, اس دھماکے کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ جہاں دھماکہ ہوا وہاں صرف طالبات بیٹھے تھے,, اور حملہ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا..

مزید تفصیلات سے آگاہ کرتے چلیں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز کا اس سانحہ کو لے کر افسوس کا اظہار ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ آج ہمارے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں یہ طالبات پاکستان کا مستقبل ہیں کل کو ملک کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہو گی جس کسی کا بھی یہ کام ہے وہ پاکستان کی ساخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تبھی تو ہمارے مستقبل ہمارے طالبات پر حملہ کیا پاکستان کا مستقبل تاریک کرنے کی سنگین کوشش کی جا رہی ہے,, مزید ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت اس بات کا نوٹس لے معلوم کرے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے,, لواحقین کے اہل خانہ سے افسوس کا اظہار..

جماعت اسلامی کے سربراہ کی پریس کانفرس,, سانحے کی مذمت اور یونیورسٹی انتظامیہ سے نوٹس لینے کا اعلان...

سابق وزیر اعلیٰ آہل حیات کا اس سانحے کو لے کر ٹویٹ,,ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی سعی,, واقعے کی مذمت اور نگران حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی یقین دہانی,,

ناظرین ہمیشہ کی طرح نیو رہا آج بھی سب سے آگے سب سے پہلے,, حملے کی تفصیلات سے لے کر اندر کے مناظر تک سب سے پہلے آپ کو آگاہ کیا نیو نے,, مزید تفصیلات کے لیے ہمارا چینل سبسکرائب کریں اور لمحہ بہ لمحہ باخبر رہیں,,

ملتے ہیں اس بریک کے بعد...


آہل کو جیسے معلوم ہوا وہ یونی کے لئے نکل گیا,,

یونی کے باہر افراتفری مچی ہوئی تھی,,

سب یہاں سے وہاں بھاگ رہے تھے رپورٹرز اپنی کوریج میں محو تھے آرمی اہلکار زخمی طالبات کو باہر لا رہے تھے,,

یہ منظر دیکھ کر آہل کا دماغ گھوم گیا..

دانی اللہ کرے تم ٹھیک ہو.. آہل بولتا ہوا گاڑی سے نکلا..

سر,, گارڈز اس کے پیچھے لپکے...

سر آپ اندر نہیں جا سکتے..

آرمی جوان نے آہل کو روکا..

تم ہو کون مجھے روکنے والے اندر میری بیوی ہے اور میں اندر نہیں جا سکتا.. آہل اسے گریبان سے پکڑتا ہوا چلایا..

سوری سر آپ آئیں اندر..

کیپٹن سکندر آہل کو دیکھ کر اس کی جانب لپکا..

آہل اسے جھٹکے سے چھوڑتا تیز تیز قدم اٹھانے لگا..

سابقہ وزیر اعلیٰ ہیں وہ.. کیپٹن اسے گھور کر بولا..

فوجی اہلکار سپٹا گیا..

یونیورسٹی کی شکل بدل چکی تھی,,

ایک طرف ملبہ گرا ہوا تھا جس کے نیچے سے آرمی اہلکار طالبات کو نکالنے میں مصروف تھے جگہ جگہ خون گرا ہوا تھا رجسٹر بیگ سب کچھ نیچے بکھرا ہوا تھا صفحے اڑ رہے تھے,,

آہل بالوں میں ہاتھ پھیرتا آس پاس دیکھ رہا تھا..

سر آپ ہمیں اپنی وائف کی تصویر دکھائیں ہو سکتا ہے انہیں باہر لے جایا جا چکا ہو.. کیپٹن سکندر اس کے سامنے آتا ہوا بولا..

ایک منٹ دکھاتا ہوں,, آہل کو دیکھ کر معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سابق وزیر اعلیٰ ہے,, اس وقت وہ ایک خوفزدہ سا انسان لگ رہا تھا بلکل عام سا جو کسی اپنے کو کھونے کے خوف میں گھرا تھا,, چہرے پر دکھ اور پریشانی کے آثار تھے,, آنکھوں میں فکر تھی,, لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی نا جانے قسمت انہیں آزما رہی تھی یا کوئی دکھ دینے والی تھی,,

یہ تصویر ہے,, بتائیں کیا آپ انہیں لے گئے ہیں,,

کیپٹن غور سے تصویر کو دیکھنے لگا..

نہیں سر ایسی کسی لڑکی کو نہیں لے کر گئے ہم,,

دھیان سے دیکھیں یا پھر کسی اور سے پوچھیں ہو سکتا ہے آپ نے دیکھا نہ ہو,, آہل کی جان مانو اب نکلتی کہ اب نکلتی,,

سر میں گیٹ پر ہوں اور جتنے طالبات کو لے جایا گیا ہے میں نے چیک کیا ہے شاید وہ اندر ہی ہوں آئیں دیکھتے ہیں.. وہ آہل کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

آہل کا ضبط جواب دیتا جا رہا تھا,, دل کسی انہونی کی ردا سنا رہا تھا,,

آہل بمشکل آنسوؤں کو بہنے سے روک رہا تھا لیکن زیادہ دیر وہ اس کاوش میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا,,

آہل کیفے میں آ گیا لیکن یہاں بھی دانی کا نام و نشان نہیں تھا..

کہاں جا سکتی ہے.. آہل پیشانی مسلتا ہوا بولا..

سر ایسا کریں آپ ویٹ کریں جب تک تمام طالبات کو نکالا نہیں جاتا کیونکہ زیادہ تر طالبات ایگزامینیشن ہال میں تھے اور ابھی بھی وہاں کچھ طالبات ہیں,,

آہل نے طیش میں اس کا ہاتھ جھٹکا..

آپ کا مطلب ہے میں اپنی بیوی کی موت کی خبر سننے کا انتظار کروں.. آہل اس پر برس پڑا..

سر زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہم کیا کر سکتے ہیں بھلا.. میجر نے سمجھانا چاہا..

بچہ نہیں ہوں میں اور ابھی کہ ابھی مجھے میری بیوی سامنے چائیے ورنہ.. آہل اس کا گریبان پکڑتا ہوا بولا..

سر میں سمجھ سکتا ہوں آپ مجھے پانچ منٹ دیں میں کچھ کرتا ہوں.. وہ سنبھل کر بولا..

پانچ منٹ,, اس کے بعد تم میں سے بھی کوئی یہاں دکھائی نہیں دے گا.. آہل اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہوا بولا..

کیپٹن کالر درست کرتا چل دیا..

آہل چہرہ پر ہاتھ رکھے خود کو رونے سے باز رکھ رہا تھا..

دانی کہاں چلی گئی ہوں تم,, میں پھر سے تم سے غافل ہو گیا,,

آہل کے ہاتھ نم ہو رہے تھے,,

***********

زبیر ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ ڈاکٹر قدسیہ کے ڈرائینگ روم میں بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا...

ویسے مجھے تو بہت افسوس ہو رہا ہے ایک کی خاطر کتنے لوگ جان سے گئے.. زبیر اسکرین کو دیکھتے ہوئے بولے..

اس سب کا کیا فائدہ... ڈاکٹر قدسیہ تیکھے تیور لئے بولی,,

ڈر... زبیر انہیں دیکھتا ہوا بولا..

اب تو وہ دانی کو بلکل بھی نہیں نکلنے دے گا احمق...ڈاکٹر قدسیہ کو اس کی عقل پر شبہ ہوا...

ہو سکتا ہے دانین بیچاری بھی اس حادثے کی لپیٹ میں آ گئی ہو..وہ چہرے پر مظلومیت سجاےُ بول رہے تھے,,

ڈاکٹر قدسیہ سر جھٹکتی کافی پینے لگی..

عائزہ واپس نہیں آئی,, زبیر نے موضوع تبدیل کیا..

نہیں,, فون بھی بند کر رکھا ہے بیوقوف لڑکی نے اس آہل حیات کی باتوں میں آ کر... ڈاکٹر قدسیہ کوفت سے بولیں..

تو آپ نے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی,, زبیر کو حیرت ہوئی..

کتوں کی طرح میرے آدمی اسے ڈھونڈ رہے ہیں لیکن خدا جانے کون سے بل میں چھپ کر بیٹھی ہے... مجھے تو دن رات اسی کی فکر کھائے جا رہی ہیں کہیں کچھ غلط نہ ہو جاےُ اس کے ساتھ... وہ متفکر سی بولیں..

_________

لاؤنج میں پڑا فون رنگ کر رہا تھا,,

ملازم آس پاس دیکھنے لگا,,

نہ سر ہیں گھر پر نہ ہی میڈم..

لینڈ لائن پر کم ہی کسی کا فون آتا تھا,, کچھ سوچ کر اس نے فون اٹھا لیا..

جی کون...

یہ آہل حیات کا نمبر ہے... مقابل تیز تیز بول رہا تھا..

جی آپ کون..

مجھے آہل حیات سے بات کرنی ہے ابھی..

لیکن سر تو گھر پر نہیں ہیں,, آپ دوبارہ فون کر لینا..

ٹھیک ہے میں دوبارہ فون کر لوں گا لیکن تم اپنے سر کو بتا دینا کہ ان کے لئے فون آیا تھا اور یاد رہے یہ کہنا مت بھولنا کہ نہایت اہم ہے ان کے لئے جو بات میں کرنا چاہتا ہوں..

جی سر میں کہ دوں گا..

دوسری جانب سے بنا کچھ کہے فون بند ہو گیا...

وہ شانے اچکاتا ہوا اپنے کام کو چل دیا..

شہر میں جگہ جگہ ناقہ بندی لگا رکھی تھی,,

حساس علاقوں میں آرمی اہلکار تعینات تھے,,

انعم ششدہ سی اس نیوز کو دیکھ رہی تھی,,

یہ تو دانین کی یونی ہے,, وہ منہ پر ہاتھ رکھے اسکرین کو دیکھ رہی تھی,,

اووہ مائی گاڈ دانین کو کچھ ہو تو نہیں گیا, انعم بولتی ہوئی نمبر ڈائل کرنے لگی,, دانین فون اٹھاؤ... بیل جا رہی تھی لیکن اس نے اٹینڈ نہیں کی,,

انعم کچھ سوچ کر آہل کا نمبر ملانے لگی لیکن وہاں سے بھی ناکامی ہوئی,,

ہاں رفیق کا ملاتی ہوں,,

انعم فون کان سے لگاےُ منتظر تھی,,اسپیکر پر رفیق کی آواز ابھری..

ہیلو رفیق دانین کہاں ہے میں اسے فون کر رہی تھی وہ ٹھیک ہے,, انعم فکرمندی سے بولی...

میم ابھی تک دانین میڈم کا معلوم نہیں ہو سکا میں کسی کام کے لیے شہر سے دور آیا ہوں,, سر ڈھونڈ رہے ہیں انہیں..

انعم نے اچھا کہ کر فون بند کر دیا..

اللہ کرے دانین ٹھیک ہو... انعم کے لبوں سے بے ساختہ دعا نکلی..

آہل پاگلوں کی طرح یونی میں گھوم رہا تھا لیکن دانی کا کچھ معلوم نہیں ہو سکا وہ چلتا ہوا یونی کے عقبی حصے میں آ گیا,,

آہل کو گارڈ دکھائی دیا..

آہل لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس تک پہنچا اور اسے گریبان سے پکڑ لیا..

دانی کہاں ہے,, آہل کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے,,

سر وہ میڈم اس نے اپنے عقب میں اشارہ کیا,, دانی ملبے پر بیٹھی پانی پی رہی تھی,,

دانی...آہل نے اسے پکارا,, آہل کی حالت ایسی تھی مانو کسی نے تپتے صحرا میں پانی کی بوند پلا دی ہو,, مانو رکا ہوا سانس بحال ہوا ہو,,

دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھتی کھڑی ہو گئی,

نم آنکھوں سے آہل کو دیکھتی وہ اس کی جانب آئی اور آہل کے سینے سے لگ گئی,,

تم اتنی دیر سے کیوں آےُ ہو,, دانی اشک بہاتی ہوئی بولی,, دانی کے آنسو آہل کی شرٹ میں جذب ہو رہے تھے..

آہل دانی کی کمر پر ایک ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ سے اس کے بال سہلا رہا تھا,, آہل کے آنسو دانی کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے,,

میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں دانی..

تمہیں کالز بھی کی تھیں گارڈ نے,, دانی اس سے الگ ہوتی خفگی سے بولی..

میرا فون پتہ نہیں شاید سائلنٹ پر ہے,, آہل اسے سر تا پیر دیکھتا ہوا بولا..

دانی کی پیشانی پر خون جما ہوا تھا,,

یہ چوٹ,, آہل اس کے زخم کو انگلی سے چھوتا ہوا بولا..

وہ میرا پاؤں سلپ ہو گیا تھا تو گر گئ...

تم ٹھیک ہو نہ دانی,,, آہل مطمئن نہیں ہوا تھا..

میں بلکل ٹھیک ہوں آہل.. دانی مسکرا کر بولی,,

شکر ہے.. میری تو جان ہی نکل گئی تھی... آہل اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا بولا,,

دانی اس کی فکر پر دھیرے سے مسکرا دی..

گارڈ کو بھی چوٹیں لگی تھی,,

چلو گھر چلتے ہیں,, آہل اس کے چہرے سے بال ہٹاتا ہوا بولا..

ہاں چلو.. دانی قدم اٹھاتی ہوئی بولی..

تم یہاں سے سیدھا پہلے ہاسپٹل جانا مرہم پٹی کروا کے پھر آنا... آہل گارڈ کو دیکھتا ہوا بولا..

جی سر وہ اثبات میں سر ہلاتا ان کے آگے چلنے لگا...

آہل دانی کا ہاتھ پکڑے پرسکون سا چل رہا تھا پہلے والی فکر اور پریشانی کہیں دبک کر بیٹھ گئی تھی,,

گیٹ پر انہیں کیپٹن سکندر مل گئے...

سر مل گئی آپ کی وائف... وہ مسکراتا ہوا بولا..

جی,, آہل بھی جواباً مسکرایا...

آپ کو زحمت ہوئی معذرت... وہ ہاتھ آگے کرتا ہوا بولا..

معذرت کی ضرورت نہیں بس معاملہ بیوی کا تھا نہ.. آہل مصافحہ کرتا ہوا بولا..

خدا حافظ سر.. وہ سر ہلاتا ہوا بولا..

خدا حافظ... آہل کہ کر چلنے لگا..

آہل یہ تمہارے دوست تھے,, دانی چہرہ موڑ کر انہیں دیکھنے لگی,,

نہیں,, تم چہرہ سامنے کرو.. آہل خفگی سے بولا..

دانی اس کی جیلیسی پر مسکرانے لگی,,

مجھے آرمی والے بہت پسند ہیں,, دانی گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی..

لیکن تمہیں تو سیاست والوں کے ساتھ ہی رہنا ہے.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

ڈرائیور انہیں دیکھ کر گاڑی بھگانے لگا,,

حادثے کے باعث معمول سے زیادہ ٹریفک تھی,, ان کی گاڑیوں کے آگے پیچھے گارڈز کی گاڑیاں تھیں...

مجھے سیاست بلکل بھی نہیں پسند.. دانی ناک چڑھا کر بولی..

لیکن یہ سیاسی بندہ تو پسند ہے نہ.. آہل اس کی جانب رخ کئے ہوۓ تھا..

یہ تو بہت پسند ہے.. دانی کا چہرہ کھل اٹھا,,

آہل مسکراتا تو ڈمپل پھر سے عود آیا...

آہل تم سیاست چھوڑ دو.. دانی التجائیہ انداز میں بولی..

تم نے کہا اور میں نے مان لیا چھوڑ دی سیاست اور کچھ,, آہل اس کی گرے آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..

ہمیشہ ایسے ہی رہنا.. دانی نے کہ کر اس کے شانے پر سر رکھ دیا..

آہل نے اس کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھنسا لیں..

لیکن تم بھی تو پیپر دینے گئی تھی پھر.. آہل اپنا اور دانی کا ہاتھ دیکھتا ہوا بولا..

میں پہلے نکل آئی تھی,, چکر آ رہے تھے مجھے اندر گھٹن محسوس ہو رہی تھی اس لئے جلدی جلدی کر کے باہر نکل آئی...

اچھی بات ہے.. میں نے ڈاکٹر کو میسج کر دیا ہے وہ پٹی بھی کر دے گا تمہیں چیک بھی کر لے گا,, صبح کیوں نہیں بتایا تم نے مجھے,,,آہل چہرہ موڑے دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

دانی آنکھیں بند کئے ہوےُ تھی...

صبح تو کچھ بھی نہیں تھا شاید پیپر دیکھ کر.. دانی شرارت سے بولی..

دیر تک پڑھتی رہتی ہو شاید اسی لئے ہو رہا ہے...

ہاں کل رات بھی بس ایک گھنٹہ سوئی تھی میں.. دانی یاد کرتی ہوئی بولی..

آہل کا فون رنگ کرنے لگا تو دانی کا ہاتھ آزاد کرتا فون نکالنے لگا..

ہاں رفیق کہاں ہو تم..

سر میں بس پہنچنے والا ہوں,, انعم میڈم کا فون آیا تھا دانین میم کا پوچھ رہیں تھیں..

ہاں دانی ٹھیک ہے میرے ساتھ ہے تم بتا دینا اسے..

جی سر ٹھیک ہے,, میں پھر آتا ہوں گھر..

ٹھیک ہے.. آہل نے کہ کر فون بند کر دیا..

فی میل ڈاکٹر تھی جس نے دانی کے پٹی کی کیونکہ آہل حیات کسی مرد کو برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ دانی کو ہاتھ لگاےُ...

نیند نہ لینے کے باعث چکر آ رہے تھے نیند پوری کریں ٹھیک ہو جائیں گیں,, وہ آہل کو بتا رہی تھی...

ٹھیک ہے ,,رفیق آپ کو باہر تک چھوڑ آےُ گا,, آہل رفیق کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا..

آہل تمہیں کیا لگتا ہے یہ حملہ کس نے کیا ہو گا.. دانی بیڈ پر ٹیک لگاےُ بیٹھی تھی,,

ہو سکتا ہے زبیر کا کام ہو لیکن وہ یہ سب کرے گا اس کی توقع نہیں تھی مجھے....

آہل میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں مانگا,, پہلی بار مانگ رہی ہوں پلیز انکار مت کرنا..

دانی تمہیں لگتا ہے میں انکار کروں گا جو چائیے بولو.. آہل نرمی سے بولا..

آہل پلیز اجازت دے دو ڈاکٹر قدسیہ کے خلاف جو پلان بنایا ہے,, آہل اس عورت نے ایک کے ساتھ نہیں نا جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ غلط کیا اور ہم کیسے اسے بے پردہ کریں گے آہل اس نے بہت سی زندگیاں تباہ کیں ہیں..

دانی میں تمہارے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتا چاہے ڈاکٹر قدسیہ سے بدلہ نہ لوں لیکن تمہیں نہیں,, آہل نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا..

آہل کسی نہ کسی کو تو روکنا پڑے گا نہ ورنہ وہ اسی طرح مزید لڑکیوں کو نشانہ بنائیں گیں آہل سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں قیامت تو انہی گھروں میں ٹوٹتی ہے جہاں قہر برستا ہے,, ہم سب کچھ دیکھتے ہوۓ آنکھیں بند نہیں کر سکتے,, دانی نے اسے قائل کرنا چاہا..

دانی نہیں.. آہل آہستہ سے بولا..

آہل سب سے بڑھ کر میں مام کا بدلہ لینا چاہتی ہوں ڈاکٹر قدسیہ نے جو کیا اس کا انجام بھی بہت بھیانک ہونا چائیے,, تمہیں معلوم ہے مجھے مام بہت پسند ہیں تم صحیح کہتے تھے وہ باہر سے ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی خوبصورت تھیں,, کاش میں ان سے مل سکتی,, دانی حسرت سے بولی..

دانی تم مجھے کمزور کر رہی ہو..

دانی تمہاری طاقت ہے کمزوری نہیں,, دانی اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی..

سب یہی سمجھتے ہیں کہ آہل حیات کی کمزوری دانین ہے لیکن تم سب کو جھٹلا دو مجھے اپنی طاقت بنا لو... دانی پر اعتماد لہجے میں آہل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئی بول رہی تھی,,

آہل جانتا بھی سب تھا اور سمجھتا بھی تھا لیکن دل ماننے پر رضامند نہیں تھا دانی کو خود سے دور کرنا موت کو دعوت دینا تھا..

آہل پلیز یہ ایک چیز مجھے دے دو کبھی کچھ نہیں مانگوں گی.. دانی التجائیہ انداز میں بولی..

اچھا ٹھیک ہے کر لو اپنی مرضی... آہل خفا خفا سا بولا..

ایسے نہیں ٹھیک سے بولو..

ٹھیک ہے.. آہل مسکرا کر بولا تو ڈمپل گدگدانے لگا..

لیکن دل میں ہزاروں خدشے تھے,, دل اور دماغ کی جنگ میں اس بار جیت دماغ کی ہوئی تھی..

تم سو جاؤ اب آرام کرو...آہل اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

دانی دھیرے سے مسکرا دی..

میں رفیق سے ملنے جا رہا ہوں,,

آہل کوٹ بدلتا ہوا بولا..

لائٹ آف کر دوں.. آہل دروازے کے پاس پہنچ کر بولا..

ہاں کر دو.. دانی لیٹ چکی تھی,,

آہل مسکرا کر لائٹ آف کرتا باہر نکل گیا...

سر آپ کے لئے کوئی کال آ رہی ہے.. رفیق کی پیشانی پر شکنیں تھیں..

کہاں,, آہل اس کے ہمراہ چلتا ہوا بولا.

سر لینڈ لائن پر,, نام نہیں بتایا,,آپ سے بات کرنا چاہتا ہے..

ملاؤ نمبر.. آہل صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا..

رفیق نے ریسیور اسے پکڑا دیا..

جی آہل حیات بول رہا ہوں میں,, آہل فون کان سے لگاتا ہوا بولا..

آہل میرے پاس تمہارے لئے کچھ ہے...

کیا.. آہل کی پیشانی پر بل پڑ گئے..

میں ملنا چاہتا ہوں تم سے,, یہ ثبوت اب تمہارے حوالے کر دینا چاہتا ہوں...

آہل سیدھا ہو گیا...

کون سا ثبوت..

جہاں کہو گے میں ملنے آ جاؤں گا لیکن کال پر نہیں بتا سکتا..

ایک کام کرو میرے گھر آ جاؤ,, آہل پیشانی مسلتا ہوا بولا..

ٹھیک ہے میں آ جاتا ہوں...

کب تک آؤ گے..

بس کچھ ہی دیر میں..

ٹھیک ہے... آہل نے کہ کر فون رکھ دیا..

کون تھا سر.. رفیق تجسس سے بولا...

پتہ نہیں کسی ثبوت کی بات کر رہا تھا آےُ گا تو معلوم ہو گا...

سر آپ نے اسے گھر بلا لیا.. رفیق کو حیرت ہوئی..

رفیق جس کے پاس لینڈ لائن کا نمبر ہے اس کا مطلب وہ جانتا ہے مجھے,, میرے بچپن سے یہی نمبر چل رہا ہے جانتے ہو نہ... آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

جی سر میں خود دیکھوں گا اسے پھر اندر لاؤں گا...

ہاں تم اپنی تسلی کر لینا.. آہل اثبات میں سر ہلاتا کانفرس روم میں چل دیا..

_______

کچھ ہی دیر میں ایک عمر رسیدہ شخص رفیق کے ہمراہ نمودار ہوا..

ہیلو آہل حیات.. وہ مصافحہ کرتا ہوا بولا..

آہل نے ہاتھ سے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا...وہ آہل کے دائیں جانب کرسی پر بیٹھ گیا...

رفیق آہل کے بائیں جانب بیٹھ گیا..

بولو کیسا ثبوت ہے تمہارے پاس.. آہل ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ چئیر اس کی جانب گھماتا ہوا بولا..

اس میں ہے وہ ثبوت جس کی آپ کو تلاش تھی..

آہل آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا..

اس نے ایک فلیش جیب سے نکالی اور ٹیبل پر رکھ کر آگے کر دی..

آہل پیشانی پر بل ڈالے لیپ ٹاپ آن کرنے لگا..

کون سی فائل,, آہل کی انگلیاں تیزی سے چل رہیں تھیں..

اس میں صرف ایک ہی ویڈیو ہے وہ دیکھ لیں..

آہل نے ویڈیو پروجیکٹر پر پلے کر دی..

یہ فارم ہاؤس تھا آہل کے ڈیڈ کا,,

عابد حیات پریشانی کے عالم میں ٹہل رہے تھے,,,رات کی تاریکی کے باعث لاؤنج میں مصنوعی روشنیاں جل رہیں تھیں...

ایک منٹ بعد زبیر رنداوھا نمودار ہوا..

وہی رات,, آہل کیسے بھول سکتا تھا,,

آہل پھر سے اسی دوراہے پر آن پہنچا تھا,,

بار بار وہی سب آہل کو لگا کوئی اس کی روح پر کوڑے برسا رہا ہے,,

زبیر رنداوھا مسکرا کے گلے ملا اور جیب سے گن نکال کر عابد حیات کی پسلی میں گولی مار دی,, وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دور ہوتے زبیر کو دیکھنے لگے,,

گن میں سائلنسر لگا تھا جس کے باعث آواز سنائی نہیں دی,, اس کے بعد زبیر نے کئی گولیاں عابد حیات کے سینے میں اتار دیں.. عابد حیات تڑپ رہے تھے, وہ بولنا چاہتے تھے لیکن جسم میں اتنی سکت باقی نہ رہی تھی کہ کسی کو آواز دے سکتے,,

زبیر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا جو تڑپ رہے تھے,, ماربل کا فرش خون سے رنگتا جا رہا تھا عابد حیات کی جان نکلتی جا رہی تھی وہ ہاتھ بڑھا کر زبیر کو پکڑنے کی سعی کر رہے تھے لیکن زبیر کو ترس نہیں آیا,, عابد حیات کا منہ تھپتھپا کر وہ باہر نکل گیا..

عابد حیات کا سانس اکھڑنے لگا وہ آخری سانسیں لے رہے تھے,,

عابد حیات کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگی,, ادھوری خواہشیں ادھورے کام,, وہ کرب میں تھے تکلیف میں تھے,, قسمت نے ان کی مشکل آسان کر دی,, انہیں آخری ہچکی آئی اور اگلا سانس نہیں آ سکا..

عابد حیات کی آنکھیں بند ہو چکیں تھیں...

خون بہتا جا رہا تھا,,

خاموشی ہی خاموشی تھی ایک بھیانک رات کی بھیانک خاموشی,,

آہل ضبط کی انتہا پر تھا,, قسمت اسے آزما رہی تھی,, انتہا کر رہی تھی, آہل کو لگا وہ دس سال پیچھے چلا گیا ہے..

ڈیڈ.. آہل کے لبوں سے پھسلا..

آہل کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور وہ اس بات سے انجان بنا عابد حیات کے بے جان وجود کو دیکھ رہا تھا...

اسکرین سیاہ ہو گئی,, ماضی کی یادیں بھی بند ہو گئیں... آہل چہرہ رفیق کی جانب کئے صاف کرنے لگا..

پھر اس شخص کی جانب دیکھنے لگا..

تمہیں یہ کہاں سے ملی,, کون ہو تم.. آہل کے دماغ میں کئی سوال سر اٹھا رہے تھے...

عاقب حیات نے بھیجی تھی یہ ویڈیو تمہاری مام ڈیڈ کی وفات کے بعد..

آہل کو حیرت کا جھٹکا لگا,

لیکن چاچو نے مجھے نہیں دی یہ ویڈیو تمہیں کیوں.. آہل کی پیشانی پر بل پڑ گئے..

اس وقت تم خود کو سنبھال نہیں پا رہے تھے اس لئے عاقب حیات نے محفوظ رکھنے کے لئے مجھے بھیج دی..

کیسے جانتے ہو تم چاچو کو... آہل ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھا,,

وہ شخص خاموش ہو گیا...

آہل میں چاہتا ہوں تم زبیر کو اس کے انجام تک پہنچاؤ.. وہ دکھ سے بولا..

کیوں,, تمہارا کیا ناطہ ہے ہم سے.. آہل جانچتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا...

میں تمہاری مام کا دوست تھا اسی لئے عاقب نے مجھے یہ ویڈیو بھیجی, میں زبیر سے بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن اس نے میرا بھی جینا حرام کر دیا میں جیسے تیسے کر کے ملک سے باہر چلا گیا پھر واپس نہیں آیا اب چار ماہ بعد لوٹا تو زبیر کو دھمکانے لگا اس ویڈیو کے ذریعے لیکن زبیر سے بدلہ تم جیسا انسان لے سکتا ہے تمہاری حکومت تھی تمہارے ہاتھ میں پاور تھی اور میرے پاس اس ویڈیو کے سوا کچھ بھی نہیں تھا اگر میں خود ڈیل کرتا تو شاید مجھے موت کی نیند سلا دیتا اسی لئے اب تمہیں تمہاری امانت سونپ دی ہے..

بدلہ کیوں لینا چاہتے تھے,, آہل اطمینان سے بولا..

وہ سانس خارج کرتا آہل کو دیکھنے لگا..

میں دُر عدن کو پسند کرتا تھا اور جو حال زبیر رنداوھا نے اس کا کیا کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا اسی لئے اپنی بیوی کو چھوڑ کر تمہیں یہ دینے آیا ہوں,,

مطلب,,

میری بیوی کو کینسر تشخیص ہوا تھا اس لئے مجھے واپس جانا پڑا ابھی بھی علاج جاری ہے لیکن میں یہ تمہیں اپنے ہاتھ سے دینا چاہتا تھا اسی لئے خود دینے آیا ہوں..

تھینک یو تم نے اسے سنبھال کر رکھا.. آہل اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا..

تھینکس کی ضرورت نہیں بس زبیر کو اس کے انجام تک پہنچا دو,, عبرت ناک انجام ہونا چائے اس کا.. وہ حقارت سے بولا..

آہل نے رفیق کو اشارہ کیا تو رفیق اٹھ کر باہر چلا گیا,,

کچھ دیر بعد ملازم کے ہمراہ رفیق واپس آیا ملازم لوازمات کی ٹرے پکڑے ہوۓ تھے,,

اس سب کی ضرورت نہیں آہل.. وہ آہل کو دیکھتا ہوا بولا..

آپ میری مام میرے چاچو کے دوست ہیں میرے مہمان اور آہل حیات گھر آےُ مہمان کو ایسے نہیں بھیجتا...

آہل پرسکون انداز میں بول رہا تھا..

وہ آہستہ سے مسکرانے لگا..

آہل واپس کمرے میں آ گیا..

زبیر تمہاری پھانسی کا پھندا تو میرے ہاتھ آ چکا ہے تم دیکھنا زندگی تنگ کر دوں گا تم پر گھر سے باہر نہیں نکل سکو گے..

آہل طیش سے بولا..

دانی سو رہی تھی..

آہل دانی کے سرہانے بیٹھ گیا,,

لوگ سوچتے ہیں آہل حیات دانی کے لئے پاگل کیوں ہے,, وہ دانی کے بالوں میں انگلیاں چلاتا ہوا بول رہا تھا..

میری مام کا انتخاب ہے دانی,, جتنی محبت میں اپنی مام سے کرتا ہوں میں کیسے ٹال دیتا آن کی خواہش کا احترام مجھ پر فرض تھا پھر تمہیں تو یہاں آنا ہی تھا چاہے وہ واقعہ پیش آتا یا نہیں.. آہل کی نظریں دانی کے روشن چہرے پر تھیں, سرمئی آنکھیں پردے میں تھیں...

آہل کو وہ پری کی مانند لگتی تھی اس کی پری,,

میری جنگلی بلی,, آہل دھیرے دھیرے بول رہا تھا,, بولتے بولتے اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی,,

آہل نے بیڈ کی پشت سے سر لگا دیا,, اور آنکھیں موند لیں..


دانی جمائی روکتی اپنے بائیں جانب دیکھنے لگی جہاں آہل بیٹھا بیٹھا ہی سو گیا تھا,,

اوووہ میرا جاہل حیات یونہی سو گیا.. دانی اسے دیکھتی ہوئی اٹھ بیٹھی,,

اگر آواز دی تو آہل جاگ جاےُ گا.. دانی منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی,,

دانی بیڈ سے اتری تو آہٹ سن کر آہل نے آنکھیں کھول دیں..

ڈرامے باز تم جاگ رہے تھے,, دانی سلیپر پہن کر اس کی جانب آئی..

پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ لگی,,

تم تھکے ہوۓ ہو سو جاؤ.. دانی بغور اسے دیکھتی ہوئی بولی..

نہیں ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں.. آہل کہ کر اتر گیا..

بہت ڈھیٹ ہو میری بات تو نہ ماننے کا عقد کیا ہے تم نے...دانی خفگی سے دیکھتی الماری کھول کر کھڑی ہو گئی...

تمہیں دکھانے کے لیے کچھ ہے میرے پاس شاید اللہ بھی چاہتا ہے زبیر کو سزا ملے.. آہل تولیے سے چہرہ خشک کرتا ہوا بولا..

ایسا کیا ہے.. دانی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی,,

تم فریش ہو جاؤ پھر دکھاتا ہوں..

اچھا ٹھیک ہے..

دانی کہ کر پھر سے کب بورڈ کی جانب منہ موڑ کر کھڑی ہو گئی..

میں انتظار کر رہا ہوں.. آہل ہانک لگاتا نکل گیا...

اب تمہیں ان کے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں,, آہل ہاتھ میں پکڑے پین کو گھماتا ہوا بولا..

دانی کی نظریں ہنوز اسکرین پر تھیں,

لیکن آہل ڈاکٹر قدسیہ وہ بچ جاےُ گی.. دانی اس کی جانب چہرہ موڑتی ہوئی بولی..

اس کے لئے بھی کوئی نہ کوئی حل نکل آےُ گا لیکن تمہیں ان کے پاس بھیجنا کہاں کی عقل مندی ہے.. آہل پھر سے اپنی بات پر واپس آ گیا..

آہل یو کانٹ ڈو دس,, سب کچھ تم اکیلے کیوں کرو گے.. دانی برا مان گئی..

دانی سوال تمہاری زندگی کا ہے,, ہاں میں بہت خودغرض ہوں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا دانی تمہیں کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا,,

آہل تمہیں خود پر یقین ہو یا نہ ہو لیکن مجھے پورا یقین ہے تم مجھے کچھ نہیں ہونے دو گے.. دانی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی دباؤ ڈالتی ہوئی بولی..

آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں دیکھ رہا تھا,,

اس لمبے سے ٹیبل پر جس کے گرد کرسیوں کی دو قطاریں تھیں صرف یہی دو نفوس بیٹھے تھے آہل ہمیشہ کی طرح سربراہی کرسی پر اور دانی اس کی بائیں جانب والی کرسی پر..

دانی تم کیوں ضد کرتی ہو.. آہل مجبور ہو کر بولا..

کیونکہ تم میری بات نہیں مانتے.. دانی خفا خفا سی بولی..

تمہیں اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ہے کیا...

دانی ہر چیز ٹھیک ہے لیکن تم پر آ کر... آہل بات ادھوری چھوڑ کر نفی میں سر ہلانے لگا..

میں نے تمہیں بولا تھا کہ ایک چیز تم سے مانگ رہی اب تمہاری مرضی... دانی بولتی ہوئی کھڑی ہوئی ایک نظر آہل پر ڈالی اور دروازے کی جانب قدم بڑھانے لگی..

آہل بے بسی سے اسے جاتا دیکھنے لگا..

ناظرین آپ کو صبح کے واقعے کے متعلق آگاہ کرتے چلیں مرنے والوں کی تعداد پچیس ہو گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کر گئی ہے,,

جامعہ یونیورسٹی میں پیش آنے والا یہ واقعہ جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا کئی گھروں کے چراغ بجھا دیا کچھ طلبہ تو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے,,


زبیر نے بٹن دبا کر ایل ای ڈی بند کر دی...

ڈاکٹر قدسیہ فون پر محو تھیں,,

عائزہ بیٹا میری بات تو سنو..

ماما مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی اور بہتر ہو گا آپ دوبارہ مجھے کال نہ کریں مر گئیں آپ میرے لیے.. وہ روتی ہوئی بولی..

میری جان ایسے نہیں بولتے, تم مجھے وضاحت..

وضاحت,,, آپ سے میں وضاحت طلب کروں مجھے تو شرم آ رہی ہے آپ کو اپنی ماما کہتے ہوۓ آپ ایسی ہوں گی میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی لعنت ہے مجھ پر ایسی عورت کی بیٹی ہوں میں.. عائزہ نے چلاتے ہوۓ فون بند کر دیا..

عائزہ میری بات سنو.. ہیلو عائزہ..

ڈاکٹر قدسیہ فون کان سے ہٹاےُ اسکرین کو دیکھنے لگی..

سانس خارج کرتیں واپس اندر آ گئیں..

دیکھ رہی ہیں میڈیا اس واقعے کے پیچھے پڑ گیا اس طرح مجھے بھی کچھ سکون مل گیا ورنہ ایک مہینے تک مجھے ذلیل کرتا رہتا... زبیر ہنکار بھرتے ہوۓ بولے..

جو کرنا ہے جلدی کرو میرا بس نہیں چل رہا آہل حیات کا گلا دبا دوں... وہ طیش کے عالم میں گویا ہوئیں...

دل تو میرا بھی یہی چاہ رہا ہے لیکن آہل کو نقصان پہنچانا آسان نہیں اور مفید بھی نہیں دانی کے ذریعے نقصان پہنچائیں گے تو مزہ آےُ گا جب وہ روز تڑپے گا دانی کے لئے,, کچھ سال تو اسے یہی معلوم کرنے میں صرف ہو جائیں گے کہ دانی کو بھیجا کہاں ہے اور جب معلوم ہو گا وہ کس ملک میں ہے پھر باقی زندگی وہاں تلاشنے میں تمام کر دے گا کیونکہ وہ تو کہاں کی کہاں پہنچ جاےُ گی..زبیر ترتیب دیتے ہوئے بولے..

بلی کے خواب میں چھیچھڑے... ڈاکٹر قدسیہ جل کر بولیں..

کیسے.. زبیر کی پیشانی پر بل پڑ گئے...

دانی ہاتھ کیسے لگے گی مجھے بتاؤ وہ آہل حیات نے سیکورٹی ڈبل کیا ٹرپل کر دی ہو گی....

میرے بلاوے پر تو دانی نہیں آےُ گی لیکن ثانیہ کے بلانے پر آ جاےُ گی.. زبیر سوچتا ہوا بولا..

آہل پھر بھی نہیں جانے دے گا...

جب ثانیہ بستر مرگ پر ہو گی کیا دانی اپنی ماں کو دیکھنے بھی نہیں آےُ گی... وہ بے حسی سے بولے..

تم ثانیہ کے ساتھ کیا کرو گے... وہ ششدہ سی گویا ہوئی..

نہیں کروں گا کچھ نہیں لیکن دانی جو جھوٹی خبر ملے گی..اور بس اسے باہر ہی تو نکالنا ہے... وہ شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولے...

اور ثانیہ مان جاےُ گی...

ابھی فون کر لیتے ہیں.. زبیر فون نکالتا ہوا بولا...

کمینے انسان میں تمہیں کیا سمجھتی تھی اور تم کیا نکلے یہ جو راتوں کو کام کا بول کر جاتے تھے یہی سب کرتے تھے تم... ثانیہ فون اٹھاتے ہی پھٹ پڑی..

یہ سب فضول بکواس ہے.. تم لوگوں کی باتوں پر اعتبار کر رہی....

تمہیں جانتی ہوں میں جیسی تمہاری گندی نیت تبھی میرا فون نہیں لے رہے تم اور کہاں چھپ کر بیٹھے ہو...

اگر تم نے مزید کوئی فضول گوئی کی تو تمہارے بینک اکاؤنٹ سب کچھ بند کروا دوں گا.. زبیر دھاڑا..

ثانیہ لب بھینچ کر رہ گئی...

اب میری بات سنو غور سے سمجھی.. زبیر ہنکار بھرتے ہوۓ بولے..

***********

آہل یہ سنو...

دانی اسے کچھ دیر قبل کی ریکارڈ کی گئی کال سنانے لگی...

ڈیڈ مجھے بلا رہے ہیں تم ریڈی ہو نہ.. دانی اسے دیکھتی ہوئی بولی..

ہاں سب کچھ تیار ہے ایک چپ لگاؤں گا میں جس سے ہم تمہاری لوکیشن ٹریس کرتے رہیں گے..

ٹھیک ہے پھر.. دانی دھیرے سے مسکرائی لیکن آہل مسکرا نہیں سکا...

آہل سانس خارج کرتا کمرے سے باہر نکل گیا...

آہل ابھی ٹیرس پر آ کھڑا ہی ہوا تھا کہ اس کا فون رنگ کرنے لگا,, جیب سے فون نکالا تو ایمان کا نام جگمگا رہا تھا..

آہل نے فون سائلنٹ پر لگایا اور جیب میں ڈال لیا وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے دور خلاؤں میں دیکھ رہا تھا,, رات معمول سے زیادہ تاریک اور خوفناک تھی,, فلک کی چادر بلکل سیاہ تھی کوئی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا چاند کی پہلی تاریخ تھی تبھی وہ بھی غائب تھا,, تاریکی میں ہر سمت سناٹا سنائی دے رہا تھا آہل کی پیشانی پر لکریں نمایاں تھیں,,

فون پھر سے وائبریٹ ہونے لگا تو آہل نے کچھ سوچ کر فون باہر نکالا اور رفیق کا نمبر ملانے لگا,, بنا تاخیر کئے رفیق نے کال اٹینڈ کر لی,,

جی سر...

رفیق چاچی کا فون آ رہا ہے مجھے کافی دنوں سے تم انہیں کہ دو کہ آہل بزی ہے اور یہ بھی کہ وہ عمیر کو سمجھا دیں فلحال میں نہیں آسکتا اس سے ملنے..

جی سر میں بول دیتا ہوں... رفیق تابعداری سے بولا..

آہل نے مزید بنا کچھ بولے فون بند کر دیا..

دانی دبے پیر چلتی ہوئی آ رہی تھی,,

آہل اس کی خوشبو سے آشنا تھا وہ سمجھ گیا کہ اس کے عقب میں دانی ہے...

دانی پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی تھی,,

دانی مجھے معلوم ہے...

دانی منہ بسورتی تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے سامنے آ گئی..

ہر چیز کیسے معلوم کر لیتے ہو تم... وہ آہل کو گھورتی ہوئی بولی..

آہل نے کوئی جواب نہیں دیا..

میرے پیارے حیات.. دانی اسے بازوؤں سے پکڑ کر رخ اپنی جانب موڑتی ہوئی بولی,,

آہل کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھری...

اگر تم ایسا کرو گے پھر میں کیسے ریلیکس رہوں گی... دانی بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی..

آہل کے پاس بولنے کو شاید ایک لفظ بھی نہیں تھا,,

آہل دانی تم سے بہت محبت کرتی ہے,, دانی اس کے کان کےقریب ہوتی سرگوشی کرنے لگی....

تمہارے عشق سے مجھے عشق ہونے لگا ہے,, تم جانتے ہو محبت کے پنچھیوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ جو آپ کے ہوں وہ کبھی چھوڑ کر نہیں جاتے اور جنہیں قید سے ہی محبت ہو جاےُ ان کے متعلق دل میں کوئی شبہ نہیں رکھنا چائیے,, دانی کو آہل کی قید سے بھی محبت ہو گئی ہے,, دانی اس کے کان میں سر پھونک رہی تھی,,

آہل کے چہرے پر اداس بھری مسکراہٹ تھی,, سو میرے آوارہ گرد سے شوہر اب بلکل پریشان نہیں ہونا دانی کو تم سے کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا جن کے راستے ملتے ہوں ان کی منزل ضرور ملتی ہے اور ہمیں تو ہماری منزل مل چکی ہے یہ تو بس ایک چھوٹا سا امتحان ہے,,

دانی پیچھے ہوتی اسے دیکھنے لگی...

آہل سانس خارج کرتا اسے دیکھنے لگا...

تم ٹھیک کہ رہی ہو,, دل کو دلاسہ دینا نہایت کٹھن تھا...

تم بچپن میں بھی ایگزام سے ایسے ہی ڈرتے تھے کیا... دانی آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھتی ہوئی بولی..

آہل کا ڈمپل پھر سے دانی کو ستانے لگا..

آہل نے دانی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھاما اس کی جانب جھکا اور دانی کی پیشانی کو اپنا لمس بخشا اپنے پیار کی مہر ثبت کر دی,, دانی بند آنکھوں سے مسکرا دی..

آہل نے چہرہ جھکا کر دانی کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا دی,, کتنے لمحے ایک دوسرے کی قربت میں قید ہوۓ انہیں معلوم نہیں تھا,,

چلو اب کمرے میں چلیں صبح جلدی اٹھنا ہے... دانی پیچھے ہوتی ہوئی بولی..

آہل مسکراتا ہوا اس کا ہاتھ تھامے چلنے لگا..

زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ یہی ہوتا جب آہل اس کا ہاتھ تھامے چلتا دانی کو لگتا کہ زمین پر نہیں فلک پر چل رہی ہے,,

آہل, آہل اب اٹھ بھی جاؤ... دانی گزشتہ دس منٹ سے اسے اٹھا رہی تھی اور وہ ہلنے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا,,

کتنے بدتمیز ہو نہ تم اتنے بھاری بازو بنا رکھے ہیں ہلاتے ہوۓ ہی بندے کی آدھی طاقت تلف ہو جاےُ..

بندے کی ہو گی نہ لیکن تم تو بندہ نہیں ہو.. آہل بند آنکھوں سے بولا..

ہاااا تم جاگ رہے ہو,,اور میں پاگلوں کی طرح تمہیں جگا رہی ہوں تب سے... دانی کو جی بھر کر غصہ آیا..

آہل کا ڈمپل بھی کبھی نمودار ہوتا تو کبھی غائب ہو جاتا,,

دو نمبر حیات.. دانی بولتی ہوئی کپڑے نکالنے لگی,,

دانی ڈارک پنک کلر کی پورے آستین والی فراک زیب تن کئے ہوئی تھی..بالوں کو پکڑ کر جوڑے کی شکل میں قید کر رہی تھی جب آہل شرٹ کے بٹن بند کرتا آئینے میں نمودار ہوا..

ہو گئی ہے تمہاری صبح... دانی کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی..

آہل لب دباےُ مسکرانے لگا..

بس اس بے شرم کو دکھاتے رہا کرو بولنے پر تو ٹیکس لگتا ہے اور تم غریب عوام کھانا پتہ نہیں کیسے کھاتے ہو ٹیکس کہاں سے دو گے... دانی جل کڑھ کے بولی..

آہل مسکراتا ہوا اپنے کام میں مصروف تھا,,

دانی اپنا لاکٹ اور رنگ اتار دو.. آہل اس پر نظر ڈالتا ہوا بولا..

کیوں.. دانی کی آنکھوں میں الجھن تھی..

وہ لوگ تمہاری تلاشی لیں گے اور سب سے پہلے اس طرح کی چیزیں اتار پھینکیں گے,, بلکہ یہ کہو اپنے پاس رکھ لیں گے...

اووہ اچھا میں اتار دیتی ہوں.. دانی بولتی ہوئی لاکٹ کا لاک کھولنے لگی,,,

لاکٹ اور رنگ مٹھی میں بند کئے وہ عقب میں کھڑے آہل کی جانب دیکھنے لگی..

کیا ہوا.. آہل اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر بولا..

مائی ڈئیر ہزبینڈ یہ آپ اپنے پاس رکھ لیں جب میں واپس آؤں تو اپنے ہاتھ سے پہنانا..

دانی اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی ہتھیلی پر رکھتی ہوئی بولی,,

آہل نے مٹھی بند کر لی اور یہی والا ہاتھ دانی کے پیچھے لے جا کر اس کے شانوں پر رکھا اور خود سے قریب کر کے اپنے سینے سے لگا لیا... دانی نے اپنے ہاتھ آہل کی پشت پر باندھ لئے...

میرا دل ابھی بھی مطمئن نہیں.. آہل آہستہ آہستہ بول رہا تھا..

صرف چند گھنٹوں کی بات ہے.. دانی بھی سرگوشی کرنے لگی,,

آہل اس سے الگ ہوا چلتا ہوا بیڈ کے پاس آیا اور چپ نکال کر دانی کے سامنے آ گیا,,

اس سے تمہاری لوکیشن ٹریس کریں گے ہم.. آہل اس کی فراک کے گریبان کے اندر چپ لگاتا ہوا بولا...

خیال رہے ان کے سامنے ظاہر نہ ہو یہ چپ اور تم اس چپ کو دیکھو گی بھی نہیں کیونکہ انہیں ذرا سا بھی شک ہوا تو حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں اور خطرناک بھی..

سمجھ رہی ہو نہ..

ہاں میں سمجھ گئی اب مجھے چھوڑنے تو آؤ گے نہ...

ایسا ہو سکتا ہے کیا کہ آہل تمہیں چھوڑنے نہ جاےُ.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

دانی مسکراتی ہوئی چلنے لگی,, آہل سٹڈ لگاتا کوٹ اٹھا کر باہر نکل آیا..

دانی ہاسپٹل آ گئی جہاں ثانیہ ایڈمٹ تھی,,ثانیہ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے یہ دانی سے جھوٹ بولا گیا,, ہاسپٹل آنے کے چند منٹوں بعد ہی دانی غائب ہو گئ,,,

آہل رفیق کے ہمراہ بیٹھا تھا لمحہ بہ لمحہ نظر دانی پر تھی,,

اسے ہاسپٹل سے لے جایا جا رہا تھا,,

رفیق بیک پلان تیار ہے نہ..

آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..

جی سر سب کچھ ریڈی ہے...

گڈ.. آہل کہ کر پھر سے پیڈ کو دیکھنے لگا..

سر میں نے ایمان میڈم کو کال کر دی تھی وہ کہ رہیں تھیں کہ فری ہو کر مجھ سے بھی بات کریں آپ...

آہل اثبات میں سر ہلانے لگا..

دانی ہوش سے بیگانہ گاڑی میں تھی,,

زبیر اور ڈاکٹر قدسیہ دونوں اپنے اڈے پر تھے,, جہاں پہلے سے کئی لڑکیاں موجود تھیں,, حال سے بے حال سبھی ایسے ہی تھیں,,

لاےُ کیوں نہیں ابھی تک دانین کو.. ڈاکٹر قدسیہ کوفت سے بولیں..

میںم ٹریفک ہے پھر پولیس کا بھی خطرہ ہے اس لئے سڑک کی بجاےُ گلیوں سے آ رہے ہیں..

ہممم جلدی کرو,, وہ عجلت میں بولیں..

کیا ہوا اتنی بےصبری کیوں ہو رہیں ہیں.. زبیر پرسکون انداز میں بولا..

اگر کہیں پکڑے گئے نہ تو وہ آہل حیات نہیں چھوڑے گا ہمیں....

ان کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر بھی خوف کے ساےُ نمایاں تھے ان کے برعکس زبیر پرسکون انداز میں بیٹھا تھا..


تم اتنا ریلیکس کیوں ہو.. ڈاکٹر قدسیہ پہلو بدلتی ہوئی بولیں..

مجھے تو وہ آہل حیات پہلے ہی برباد کر چکا ہے مزید اب کیا کرے گا,, ان کے لہجے میں چوٹ تھی...


ڈاکٹر قدسیہ سر جھٹکتی ٹہلنے لگی...

کچھ ہی دیر میں ان کے آدمی دانی کو اٹھاےُ نمودار ہوۓ..

یہاں چئیر پر بٹھا دو..

وہ کرسی کی جانب اشارہ کرتیں ہوئیں بولیں..


اور ہاں دروازہ اچھے سے بند کیا ہے نہ... وہ سب کو گھورتی ہوئیں بولیں..

جی میڈم کر دیا ہے.. وہ یک زبان ہو کر بولے..

وہ مطمئن ہوتیں بیٹھ گئیں..


اب دانی کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا..

زیادہ ہیوی ڈوز تو نہیں دی... وہ پیشانی پر بل ڈالتی ہوئیں بولیں..

نہیں میڈم جو آپ نے بولی تھی وہی دی ہے..

وہ اثبات میں سر ہلاتیں دانی کو دیکھنے لگی,,


دانی ہوش میں آ چکی تھی لیکن بظاہر خود کو بے ہوش ظاہر کر رہی تھی,,


وہ وقت کا ضیاع کرنا چاہتی تھی تاکہ آہل وقت پر پہنچ سکے,, البتہ ان کے پلان میں شامل نہیں تھا لیکن دانی نے پہلے سے سوچ رکھا تھا...

حد ہے یہ ہوش میں کیوں نہیں آ رہی.. ڈاکٹر قدسیہ بلی کے جلے پیر کی مانند یہاں سے وہاں چل رہیں تھیں..


پانی لاؤ اسے میں دیکھتی ہوں.. وہ ہنکار بھرتی ہوئیں بولیں.

زبیر اس سب میں خاموش تماشائی بنا ہوا تھا کیونکہ یہ کام ڈاکٹر قدسیہ ہی سر انجام دیتیں تھیں...

ڈاکٹر قدسیہ نے پانی کا گلاس پکڑا اور دانی کے منہ پر پانی پھینک دیا..

دانی کی پلکوں میں جنبش آئی,, وہ حرکت کرنے لگی,, دانی گردن ہلاتی آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے لگی,,

جونہی حواس بحال ہوۓ اور نظروں کا تبادلہ ڈاکٹر قدسیہ سے ہوا تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا..

دانی کے ہاتھ اور ٹانگیں کرسی سے بندھی تھیں البتہ منہ کھلا تھا..

آپ.. دانی سرمئی آنکھوں کو پورا کھولے انہیں دیکھنے لگی..

بلکل میں,, ہم نے سوچا تھوڑی مہمان نوازی کر دیں تمہاری..


لیکن میں یہاں کیسے... دانی دائیں بائیں دیکھتی ہوئی بولی,,


نیم تاریکی میں ڈوبا یہ کمرہ جس کے وسط میں ایک بلب لگا تھا جو بمشکل وسط سے اندھیرے کو چیرنے میں کامیاب ہو رہا تھا کنارے تاریکی میں ڈوبے تھے,,


دانی پر خوف کی ایک لہر سرایت کر گئی,,

میں تو ہاسپٹل.. زبیر کو سامنے آتا دیکھ کر دانی کے الفاظ دم توڑ گئے,, اتنے وقت بعد وہ اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی اور ایسے حالات میں,,دانی کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی...


تمہارے شوہر کے ساتھ کچھ حساب تھے سوچا برابر کر لوں... زبیر کی آنکھوں سے نفرت چھلک رہی تھی,,


ڈیڈ آپ مجھے کیسے.. دانی آنسوؤں پر بندھ باندھتی ہوئی بولی..

زبیر معلوم کرو آہل کہاں ہے, اگر اسے خبر ہوئی تو حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں, ڈاکٹر قدسیہ انہیں دیکھتی ہوئیں بولیں..


میں آسم سے معلوم کرتا ہوں..

مجھ شرم آ رہی ہے آپ کو اپنا ڈیڈ کہتے ہوۓ کوئی باپ اپنی ہی بیٹی کے ساتھ ایسے کیسے کر سکتا ہے.. دانی رنج کے عالم میں بولی...


تم اپنے باپ کی بجاےُ اس آہل کا ساتھ دے رہی تھی,, وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے..

میں ہمیشہ آہل کا ہی ساتھ دوں گی کیونکہ وہ حق پر ہے آپ کی طرح مجرم نہیں,, آپ نے ایسے ایسے گناہ کئے ہیں کہ.. دانی نے طنزیہ بات ادھوری چھوڑ دی..


تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو,, لیکن اب آہل حیات میرا بدلہ دیکھے گا,,


بدلہ تو آپ دیکھیں گے آہل آپ کو پھانسی تک پہنچا کر ہی دم لے گا یاد رکھیے گا میری بات.. دانی چلا رہی تھی,,

دانی کی بات پر زبیر ٹھٹھا...

دماغ تیزی سے کام کرنے لگا..

آپ دونوں جیسے لوگ میں نے آج تک نہیں دیکھے,, نفرت ہو رہی ہے مجھے,,

ڈاکٹر قدسیہ ناگواری سے دیکھتی دانی کے پاس آئیں,,


شوہر نے اپنے جیسا بنا دیا ہے تمہیں بھی,, وہ تاسف سے بولیں..

آپ جیسی عورت سے تو میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی بہت اچھا کیا آہل نے آپ کے ساتھ بلکہ اس سے بھی برا کرنا چائیے تھا,,


مجھے لگتا ہے تمہیں اپنی زندگی سے بلکل بھی پیار نہیں...وہ دانی کا منہ دبوچتی ہوئی بولی..


دانی خونخوار نظروں سے گھورنے لگی..


آپ جیسی عورت پر لعنت ہے.. ڈاکٹر قدسیہ نے دانی کا منہ چھوڑا تو دانی حلق کے بل چلائی..


اس کمرے میں دانی کی آواز گونج رہی تھی..

ڈاکٹر قدسیہ نے نخوت سے دیکھا پھر ہاتھ عقب میں کیا,, آدمی نے ان کے ہاتھ پر ٹیپ رکھ دی..

خبردار اگر..

دانی بول رہی تھی لیکن ڈاکٹر قدسیہ نے اس کے ہونٹوں پر ٹیپ لگا دی.. دانی سر جھٹک کر انہیں دیکھنے لگی,,


زبیر آسم سے بات کر رہا تھا,,

ڈاکٹر قدسیہ فون ملا کر دانی کا سودا طے کرنے لگیں..

ہاں بتاؤ آہل کی کیا خبر ہے..

دانی کو اب ڈر لگنے لگا تھا,,


آہل پلیز آ جاؤ کہاں رہ گئے ہو تم.. دانی نم آنکھوں سے زبیر اور قدسیہ کو دیکھ رہی تھی,,

تم نے کہا تھا فوراً آ جاؤ گے لیکن اب اتنا وقت ہو گیا تم نہیں آےُ..

اگر آہل نہ آیا... نہیں ایسا نہیں ہو سکتا آہل ضرور آےُ گا.. دانی خود ہی اپنی نفی کرنے لگی,,

دماغ مسلسل سوچوں کے حصار میں تھا..

آہل ہاسپٹل میں ہے ساتھ میں کوئی لڑکی ہے..

ہاسپٹل,, ڈاکٹر قدسیہ پیشانی پر بل ڈالتی زیر لب دہرانے لگی,,


وہاں کیا کام اس کا..

آسم بتا رہا تھا کسی بچے کو لے کر گیا ہے شاید پہلے سے شادی کر رکھی ہو..


ڈاکٹر قدسیہ ششدہ سی اسے دیکھ رہی تھی,,

دانی کو اپنی قوت گویائی پر شبہ ہوا..


نہیں انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے آہل نے اپنا ماضی مجھے بتا دیا تھا ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا,,,دانی نفی میں سر ہلاتی سوچ رہی تھی,

پھر وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں..

دل میں وسوسے جنم لے رہے تھے,,

آہل کہاں ہو پلیز آ جاؤ...

دانی کے دل سے ایک ہی صدا نکل رہی تھی,,


گھڑی کی ٹک ٹک سنائ دے رہی تھی سیکنڈ منٹوں میں تبدیل ہو رہے تھے وقت بیت رہا تھا,, دانی کو اپنی جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی لیکن آہل کا کچھ پتہ نہیں,, دانی مایوس ہوتی جا رہی تھی,,


خود کو آزاد کروانے کی مشقت میں وہ بےحال ہو گئی تھی,,

دانی چئیر سے اٹھنے کی سعی کرنے لگی..


ڈاکٹر قدسیہ شور کے باعث چہرہ موڑے ناگواری سے دانی کو دیکھنے لگی..

کیا مصیبت ہے تمہیں ایک بار کہا ہے نہ خاموشی سے بیٹھی رہو.. وہ آٹھ کر دانی کے سامنے آ گئیں..


دانی نے دور ٹیبل پر پڑے پانی کی جانب چہرہ کرتے ہوئے اشارہ دیا..

ڈاکٹر قدسیہ چہرہ موڑے ٹیبل کو دیکھنے لگی پہلے نا سمجھی سے پھر سمجھ آنے پر اثبات میں سر ہلاتیں چل دیں..


واپس آ کر دانی کے چہرے سے ٹیپ اتاری..

دانی لمبے لمبے سانس لینے لگی,,


تمہیں سانس نہیں آ رہا کیا.. ڈاکٹر قدسیہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگیں..

دانی سانس اندر کھینچتی نفی میں سر ہلانے لگی..


زبیر اسے سانس کا کوئی مسئلہ ہے کیا.. ڈاکٹر قدسیہ کے طوطے اڑ گئے دانی کی بات پر..

پہلے تو نہیں تھا اب کا معلوم نہیں.. وہ بولتے ہوۓ ان کے پاس آ گئے...


پانی... دانی کا سانس پھولا ہوا تھا..

ڈاکٹر قدسیہ نے بوتل دانی کے منہ کو لگائی اور آہستہ آہستہ پانی پلانے لگیں,,


ڈیڈ آپ کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ ایسا میں وہی دانین ہوں آپ کی بیٹی.. دانی کرب سے بولی..


دانین خاموش رہو.. زبیر اس کی بات کا اثر لئے بنا بولے..

کیسے باپ ہیں آپ.. دانی روتی ہوئ چلائی..


جیسا تمہارا شوہر ہے یہ دیکھو اسے فکر ہی نہیں تمہاری اپنی پہلی بیوی کے ساتھ ہے.. زبیر اسے تصویر دکھاتے ہوۓ بولے..

دانی نفی میں سر ہلاتی دیکھنے لگی,,

ایسا کچھ نہیں ہے آپ لوگ مجھے گمراہ کر رہے ہیں آہل کے خلاف کر رہے ہیں لیکن میرا بھروسہ اتنا کمزور نہیں جو آپ جیسے گھٹیا لوگوں گی باتوں میں آ کر ٹوٹ جاےُ...


زبیر نے ایک زوردار تھپڑ دانی کے منہ پر مارا..

تمیز سے بات کرو تمہارا باپ ہوں,, اس کمینے آہل نے تمہیں بھی اپنی زبان سکھا دی ہے... وہ کدورت سے بولے..


آپ کیا سمجھتے ہیں بچ جائیں گے ہاں جو کرنا ہے کر لیں میرے ساتھ لیکن یاد رکھیے گا آہل کو جب معلوم ہوا تو آپ دونوں اس دنیا میں دکھائی نہیں دیں گے, آپ کا انجام. پھانسی کا پھندا ہی ہو گا...

دانی دانت پیستی ہوئی بولی..


بہت اچھی پلانگ ہے دونوں میاں بیوی کی,, لیکن میری پیاری دانین تمہیں باور کروا دوں عدالت ثبوت مانگتی ہے..اور ثبوت میں مٹا چکا ہوں کیا کرے گا تمہارا شوہر مجھے بتاؤ..


آہل کے پاس ہے ثبوت بس اسے پتہ چل جاےُ کہ آپ لوگوں نے مجھے اغوا کیا ہے دیکھیے گا کیا حال کرتا ہے آپ دونوں کا.. دانی دونوں کو گھوری سے نوازتی ہوئی بولی..


زبیر کو وہ ویڈیو یاد آ گئی..


کون بھیجتا تھا مجھے وہ ویڈیو کہیں دانی اسی ثبوت کی بات تو نہیں کر رہی.. زبیر کے چہرے کا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا..


نہیں آہل کو جیتنے نہیں دے سکتا میں.. وہ دماغ میں تانے بانے جوڑ رہے تھے,,

بہت زبان چلتی ہے تمہاری,,

اے بات سنو.. ڈاکٹر قدسیہ اپنے آدمی کو آواز دیتی ہوئیں بولیں..


اب اگر اس کے منہ سے ایک بھی لفظ نکلے تو گولی مار دینا..

________

ڈاکٹر قدسیہ کہ کر مڑ گئیں..

دانی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا,, آدمی اس پر بندوق تانے کھڑا تھا..


آہل اب تو تمہیں آنا ہی پڑے گا,, دانی دل ہی دل میں بولی..


آہل عمیر کے سرہانے کھڑا تھا...

چاچی مجھے ضروری کام سے جانا ہے,, عمیر اٹھے تو آپ اسے سمجھا دینا.. آہل عمیر کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا..


ٹھیک ہے اگر ضروری کام ہے تو میں نہیں روکوں گی لیکن مجھے تم سے بات کرنی ہے اگلی بار وقت نکال کر آنا.. وہ خفا خفا سی بولیں..


جی ٹھیک ہے میں چلتا ہوں.. آہل کہ کر باہر نکل آیا..

وہ افسردگی سے آہل کو دیکھنے لگیں..


جب سے دیکھ رہی ہو تمہیں ایسے ہی نظر آتے ہو ہر وقت کسی نہ کسی کام میں,,

تمہاری اپنی بھی کوئی زندگی ہے یا نہیں آہل.. وہ دکھ سے سوچ رہی تھیں..


رفیق میری بات سنو میں جا رہا ہوں دانی کے پاس میں تمہیں کال کروں گا تم پولیس لے کر پہنچ جانا تب تک میں دانی کو لے کر نکل جاؤں گا,,


لیکن سر آپ اکیلے...رفیق اس کے پیچھے لپکا...


نہیں گارڈز کو ساتھ لے جا رہا ہوں.. آہل کہتا ہوا تیز تیز قدم اٹھانے لگا..


آہل کے چہرے پر فکر نمایاں تھی..

جلدی اس ایڈریس پر چلو.. آہل گاڑی میں بیٹھتا ہوا بولا..


ایک گاڑی میں گارڈز تھے,,

شٹ یہ ٹریفک بھی آج ہی ہونی تھی کیا.. آہل باہر دیکھتا کوفت سے بولا..


کوئی متبادل راستہ نہیں معلوم تمہیں.. آہل ڈرائیور کو مخاطب کرتا ہوا بولا..


نو سر یہ جگہ شہر سے تھوڑا ہٹ کر ہے وہاں آنا جانا نہیں ہوتا..

گھنٹہ لگا انہیں اس ٹریفک سے نکلنے میں,,


دانی تھکنے لگی تھی وہ آہل کی منتظر تھی لیکن آہل ابھی تک نہیں پہنچا تھا جب کہ پلان کے مطابق آہل کو کچھ ہی دیر میں آ جانا چائیے تھا,,


مجھے بھوک لگی ہے اور پلیز میری ٹانگیں کھولو مجھے درد ہو رہا ہے.. تکلیف دانی کے چہرے سے نمایاں تھی..


ہاں تاکہ تم بھاگ جاؤ... زبیر دانی کو دیکھتا ہوا بولا..

ان گنز کے سامنے آپ کو لگتا ہے میں بھاگنے کی غلطی کروں گی... دانی گھورتی ہوئی بولی..


جاؤ کھانا لاؤ.. ڈاکٹر قدسیہ اپنے سامنے کھڑے آدمی کو دیکھتی ہوئیں بولیں...


کچھ ہی دیر میں آدمی پلیٹ میں چاول لئے واپس اندر آ گیا..


ڈاکٹر قدسیہ نے آدمی کو اشارہ کیا تو وہ دانی کے پاؤں کی رسیاں کھولنے لگا پھر ہاتھ بھی کھول دئیے...

دانی اپنی بازو دیکھتی مسلنے لگی,,


میں کچھ نہیں بولوں گی لیکن پلیز مجھے باندھنا مت دوبارہ.. دانی ڈاکٹر قدسیہ کو دیکھتی ہوئی بولی..


ڈاکٹر قدسیہ آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگی جہاں بلا کی مظلومیت تھی..


کھانا کھاؤ چپ کر کے.. وہ پلیٹ سامنے کرتی ہوئیں بولیں...

دانی ناک چڑھاتی پلیٹ کو دیکھنے لگی..


یہ پلیٹ تو صاف نہیں لگ رہی..

تمہارے باپ نے ریسٹورنٹ نہیں کھولا جو ملا ہے چپ کر کے کھاؤ...


میں نہیں کھا سکتی ایسا کھانا.. دانی منہ بناتی ہوئی بولی..


آہل اس بوسیدہ سے گھر کے باہر کھڑا تھا جہاں کی لوکیشن انہیں مل رہی تھی,,


محتاط رہنا اندر بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں اور گنز.. آہل آبرو اچکا کر بولا..

گارڈ نے ایک گن آہل کو دی اور پھر اپنی گن پکڑ کر اس کے عقب میں چلنے لگا..

آہل آس پاس دیکھتا اندر آیا,,

شاید وہ دروازہ لاک کرنا بھول گئے تھے..

جیسے ہی آہل کو آدمی دکھا وہ پیچھے ہو گیا,

آہٹ سن کو وہ آدمی دروازے کے پاس آیا..

آہل نے اس کے عقب سے منہ پر ہاتھ رکھا اور گردن موڑ دی,, کڑیچ کی آواز آئی وہ وہ زمین پر گر گیا...

چلو.. آہل گارڈز کو دیکھتا ہوا بولا..

سامنے دو دروازے تھے..

اور دونوں کے باہر آدمی کھڑے تھے..

آہل انہیں دیکھ کر پیچھے ہو گیا,,

دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا,,

آہل دیوار کے عقب میں کھڑا تھا یہاں کاٹھ کباڑ کا سامان پڑا تھا,,

آہل نے ایک باکس کو ٹانگ ماری خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوا اور وہ زمین بوس ہو گیا..

آدمی گرد و پیش میں نگاہ دوڑانے لگے,,

آواز سنی تم نے... ان میں سے ایک بولا..

ہاں دروازے کی جانب سے آئی ہے..

میں دیکھتا ہوں.. وہ کہتا دروازے کی جانب آ گیا,, جیسا کہ آہل نے سوچا تھا,,

آہل کے ہاتھ میں انجیکشن تھا,,

جیسے ہی وہ دیوار سے آگے آیا آہل نے اس کی گردن میں انجیکشن گھونپ دیا..

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے گردن پر ہاتھ رکھے آہل کو دیکھنے لگا,, گارڈ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا وہ مزاحمت کر رہا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ بھی زمین بوس ہو گیا..


دس منٹ گزر گئے..

وہ ابھی تک آیا نہیں,,

دروازے کی بھی آواز نہیں آئی...وہ پیشانی پر بل ڈالے بول رہا تھا,,

اس کے علاوہ اور کوئی بھی آدمی نہیں تھا,, کچھ سوچ کر وہ بھی اسی جانب چلنے لگا..


آہل تو تھا ہی موقع کی تاک میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر گردن کو موڑا اور توڑ دی..

وہ بنا آواز کے کراہنے لگا..

آہل گارڈز کو اشارہ کرتا آگے چلنے لگا...


نا جانے دانی کس کمرے میں ہو گی,,

آہل پرسوچ دکھائی دے رہا تھا..

مجھے کچھ اچھا لا کر دو میں نہیں کھاؤں گی یہ... دانی کافی دیر سے ایک ہی بات دہرا رہی تھی,,


تمہیں دعوت پر مدعو نہیں کیا جو مل رہا ہے خاموشی سے کھا لو.. ڈاکٹر قدسیہ ضبط کرتی ہوئیں بولیں..


آپ کو چائیے تھا میرے لئے پیزا یا پھر کچھ اور ہوٹل سے منگوا لیتیں.. دانی خفگی سے بولی...


یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے.. وہ تپ کر بولیں..


ٹھیک ہے لیکن باپ تو یہیں ہے نہ اب میرا خیال تو رکھنا پڑے گا نہ... دانی منہ پھلا کر بولی..

ڈاکٹر قدسیہ دانت پیستی ہوئی دانی کو دیکھ رہی تھی,, اس کا بس نہیں چل رہا تھا دانی کے سر میں کچھ دے مارے..


آہل دروازے کو کان لگاےُ آوازیں سن رہا تھا اور دانی کی آواز وہ کیسے نہ پہچانتا,, آہل کے لب دھیرے سے مسکراےُ,,

وہ دانی کی بات سن چکا تھا,, جنگلی بلی خوب تنگ کر رہی ہے دونوں کو,,

آہل بولتا ہوا دروازے کھولنے لگا...


وہ سب دانی کی جانب متوجہ تھے,,


سب کے چہرے دانی کی جانب تھے اور دانی کا چہرہ دروازے کی جانب,, آہل بنا چاپ پیدا کئے اندر آیا,,

دانی اسے دیکھ کر کھل اٹھی لیکن چہرے کے تاثرات نارمل کرتی باقی سب کو دیکھنے لگی,,,


میرے لئے کچھ اچھا سا منگوائیں,, ویسے تو آپ ڈاکٹر ہیں اور اتنی کنجوسی کر رہیں ہیں اور یہ پتہ نہیں سو سال پرانی بریانی میرے ماتھے مار دی ہے... دانی مزے سے بولی..


آہل کو دیکھ کر وہ ہلکی پھلکی ہو گئی تھی,,

آہل نے زبیر کے سر پر گن رکھ دی..


زبیر کو کسی چیز کا گمان ہوا تو چہرہ موڑ کر اپنے عقب میں دیکھنے لگا,,,

آہل کو دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں...


تم.. وہ بمشکل بول پاےُ..

بلکل میں.. آہل ڈمپل کی نمائش کرتا ہوا بولا..


ہاےُ میرا ہیرو.. دانی جذبات سے بھرے لہجے میں بولتی آہل کو دیکھنے لگی,,

عین اسی لمحے ان کے آدمی نے دانی پر گن رکھ دی...


اب چلاؤ گولی.. زبیر فاتحانہ مسکراہٹ لئے بولے..

گن ہٹا... آہل چلایا..


تم گولی بھی چلا دو گے نہ تب بھی یہ گن نہیں ہٹاےُ گا,, گن لوڈ ہے صرف ٹریگر دبانے کی ضرورت ہے اور دانین اللہ کو پیاری ہو جاےُ گی,, زبیر سفاکی سے بولا..


زبیر میں تمہیں زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا اگر دانی کو ایک کھروچ بھی آئی تو.. آہل اس کا منہ دبوچتا ہوا بولا..

دوسرے ہاتھ سے گن اس پر تان رکھی تھی,,


شوق سے دفن کرنا لیکن صرف مجھے نہیں دانین کو بھی... زبیر نے آدمی کو اشارہ کیا تو اس نے گولی چلا دی جو سامنے دیوار میں پیوست ہو گئی,,


دانی کی چیخ برآمد ہوئی,,

آہل چہرہ موڑے دانی کو دیکھنے لگا,, جو خوفزدہ سی کھڑی تھی,,


گن نیچے کرو آہل ورنہ اب سیدھا دانی کے دماغ میں جاےُ گی گولی.. زبیر کدورت سے بولے..


آہل نے نا چاہتے ہوۓ بھی گن نیچے کر دی,,

گن لو سب سے.. زبیر دوسرے آدمی کو دیکھتے ہوئے بولے..


سر.. گارڈز آہل کو دیکھنے لگے..

دے دو.. آہل دانی کو دیکھتا ہوا بولا,, جس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی,,


میں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ان کے پاس بھی گنز ہوں گی شٹ,, آہل خود کلامی کر رہا تھا,,

اب رفیق کو کیسے فون کروں گا.. آہل کو فکر ستانے لگی,,سب کچھ خراب ہوتا دکھائی دینے لگا تھا..


ویری گڈ.. زبیر آہل کے ہاتھ سے گن لیتا ہوا بولا..

اب تم بھی جا کر اپنی بیوی کے پہلو میں کھڑے ہو جاؤ اور تم اس پر گن رکھو.. زبیر دوسرے آدمی کو دیکھتے ہوئے بولے..


بس بس اتنا قریب بھی مت جاؤ جانتے ہیں تمہاری بیوی ہے... زبیر اسے دانی کے ہمراہ کھڑا ہوتے دیکھ کر بولے...


آہل دانی سے کچھ فاصلے پر کھڑا گیا..

دونوں کے ساتھ ایک ایک آدمی گن ان پر رکھے کھڑا تھا..

واہ آہل تم خود چل کر ہمارے پاس آ گئے..


ڈاکٹر قدسیہ آگے آتیں ہوئیں بولیں..

ہاں تم جیسا بزدل نہیں ہوں نہ.. آہل حقارت سے بولا..


ویسے تم نے عائزہ کو مجھ سے دور کر کے بلکل اچھا نہیں کیا,,

وہ افسوس سے بولتی ہوئ آہل کو دیکھنے لگی,,


تکلیف ہوئی غصہ آیا نہ مجھے بھی آیا تھا جب تم دونوں نے میرے مام ڈیڈ کو تکلیف سے دوچار کیا تھا.. آہل کے چہرے بلا کی سختی تھی,,,


تمہاری ماں تو اسی قابل تھی,, وہ حقارت سے بولی..

زبان سنبھال کر بات کرو ورنہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی.. آہل ضبط کرتا ہوا بولا..


یاد ہو تو تم دونوں ہمارے قبضے میں ہو ہم نہیں.. ڈاکٹر قدسیہ استہزائیہ ہنسی...


تم جیسی غلیظ عورت یہی کر سکتی ہے...

ڈاکٹر قدسیہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی..

تم...

تم جیسی عورت پر لعنت ہے میرا بس چلے نہ تم دونوں کو چوک میں ٹانک کر کوڑے ماروں.. آہل بھڑاس نکال رہا تھا..


سمجھتے کیا ہو تم خود کو.. ڈاکٹر قدسیہ اس کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی..

آہل نے چہرہ نیچے کر کے نظر اس کے ہاتھ پر ڈالی پھر چہرہ اوپر,,

آہل حیات,, آہل تفاخر سے بولا..


ویسے مجھے بہت مزہ آیا جب عائزہ تمہارے منہ پر لعنت ڈال کر گئی,, بیوقوف ہے تمہاری بیٹی خود کو مجھے سونپ دیا,, آہل اس کا ضبط آزمانے لگا..


ڈاکٹر قدسیہ نے دانی کے منہ پر تھپڑ مارا..

دانی کراہ کر اسے دیکھنے لگی,,

آہل حیران سا اسے دیکھنے لگا..


تمہیں ایسے تکلیف ہوتی ہے,, ڈاکٹر قدسیہ مسکراتی ہوئ بولی,,

دوبارہ دانی کو ہاتھ لگایا تو آئی پرامس تمہارا ہاتھ توڑ کر پھینک دو گا اور اسے خالی دھمکی مت سمجھنا,, آہل نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر قدسیہ کے منہ پر تمانچہ مارا..

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے آہل کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں میں لہو دوڑ رہا تھا..


ایک اور آدمی آگے آیا اور آہل کو پکڑ لیا,,

دو لوگوں نے آہل کو قابو کیا ہوا تھا لیکن وہ پھر بھی قابو نہیں آ رہا تھا..


دانین کو تو میں ایسی ایسی اذیت دوں گی آہل تم بھی یاد کرو گے اور تمہاری یہ بیوی بھی.. وہ دانی کا منہ دبوچتی ہوئی بولی..


آہل خاموش ہو گیا مزید بول کر وہ دانی کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا,,


زبیر نے آدمی کو اشارہ کیا وہ گن رکھ کر آہل کے سامنے آیا اور اس کے منہ پر مکے برسانے لگا,,

آہل دانی کے باعث برداشت کر رہا تھا,, مزاحمت کرتا تو وہ دانی کو نقصان پہنچاتے...

آہل کا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور خون بہنے لگا.. دانی کرب سے آہل کو دیکھ رہی تھی,,


آہل نے ہاتھ چھڑاویا اور ہاتھ کی پشت سے خون صاف کرنے لگا,,,,


پلیز آہل کو کچھ مت کرو.. دانی ڈاکٹر قدسیہ کو جھنجھوڑتی ہوئی بولی,,,

لیکن اس نے دانی کا ہاتھ جھٹک دیا اور پھر سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا..


میں نے کہا دانی کو ہاتھ بھی نہیں لگانا.. آہل غرایا,,

سامنے کھڑے آدمی کے پیٹ میں ٹانگ ماری اور خود کو آزاد کروانے لگا..

مت ماریں اسے وہ جنگلی ہے آپ کو معلوم نہیں اس کا.. زبیر پیشانی پر بل ڈالتا ہوا بولا..


دانی آنسو بہاتی آہل کو دیکھ رہی تھی,,

ویسے بھی دانین کا سودا کیا ہے آج رات اسے بھیجنا ہے اس طرح بھیجا تو وہ پیسے کم دے گا عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا.. زبیر جھنجھلا کر بولا..


اچھا اچھا ٹھیک ہے.. وہ ہاتھ اٹھا کر زبیر کو بولنے سے باز رکھتی ہوئی بولی..

دانی کو واپس آہل سے کچھ فاصلے پر کھڑا کر دیا..


آہل کے بال اس کی پیشانی پر بکھرے ہوۓ تھے رخسار پر نیل پڑ چکے تھے اور ہونٹ سے نکلتا خون جم چکا تھا,,


جاننا چاہو گے تمہاری ماں کو کس بات کی سزا دی گئی,, ڈاکٹر قدسیہ پھر سے آہل کے سامنے آ گئی..

آہل ضبط کے مراحل پار کر چکا تھا وہ مٹھیاں بھینچ کر ڈاکٹر قدسیہ کو دیکھنے لگا,,


دراصل تمہاری ماں کے باپ نے جو کہ بد قسمتی سے میرا بھی باپ تھا,, میری امی سے شادی کئے بنا مجھے پیدا کیا لیکن اتنا برا نہیں تھا وہ اس نے شادی کر لی میری امی سے لیکن عدن کی ماں نے میری امی کو قبول نہیں کیا وہ روتی رہی گڑگڑاتے رہی کہ مجھے اس گھر میں رہنے دو کسی کونے میں پڑی رہو گی لیکن نہیں طارق حیات نے ہماری ضرورت کا خیال رکھا ہمیشہ بنا کہے پیسے بھیج دیتا لیکن وہ کبھی ہمارے پاس نہیں آیا ایک بیوی کو اس کے شوہر کا پیار نہیں ملا ایک بیٹی کو اپنے باپ کا پیار نہیں ملا اور عدن,, وہ ہنکار بھر کر آہل کو دیکھنے لگی,,


آےُ دن اس کی نیوز چلتی کبھی کہاں تو کبھی کہاں وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی اپنے بھائ کی لاڈلی تھی,,


اسے سب کا پیار ملا دنیا اسے جانتی تھی اس سے محبت کرتی تھی اس پر مرتی تھی ہر بندے کی زبان پر عدن کا نام ہوتا وہ سیاست میں بھی قدم جما رہی تھی اسے سب کچھ ملا اچھا شوہر اچھا گھر سب کچھ اور میں,,


میں ساری زندگی ترستی رہی لیکن باپ کا سایہ میسر نہیں آیا,,

شوہر ملا تو بھی شراب نوشی میں مبتلا..ہوں... وہ سر جھٹکتی آہل کو دیکھنے لگی..


اتنی آرام دہ زندگی گزارنے کی عدن کو کچھ تو قیمت ادا کرنی تھی نہ.. وہ افسردگی سے بولی..


آہل افسوس سے دیکھتا نفی میں سر ہلا رہا تھا..


میری مام کو ایسے گناہ کی سزا دی گئی جو انہوں نے کبھی سرزد ہی نہیں کیا,,

آہل جتنا افسوس کرتا اتنا کم تھا..


بس بہت ہو گیا یہ ڈرامہ اب خاموشی سے مجھے وہ ویڈیو دو ورنہ دانی کو آخری بار دیکھ لو.. زبیر دانی کی پیشانی پر گن رکھتا اونچی آواز میں بولا..


آہل چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگا..

دانی نم آنکھوں سے زبیر کو دیکھنے لگی,,

تم جیت نہیں سکتے مجھ سے.. زبیر آہل کو دیکھتا ہوا بولا..


زبیر تم دانی کو کچھ نہیں کرو گے تمہیں ویڈیو چائیے میں دوں گا لیکن گن ہٹاؤ.. آہل کو لگا کوئی اس کی جان نکال رہا ہے...


یہ گن تب تک نہیں ہٹے گی جب تک ویڈیو مجھے مل نہیں جاتی اگر کوئی چالاکی کی تو میں ایک لمحے کی تاخیر کئے بنا گولی چلا دوں گا پھر نہ کہنا آگاہ نہیں کیا..


لیکن ویڈیو تو گھر پر ہے مجھے چھوڑو..

پاگل سمجھ رکھا ہے کیا..


رفیق یقیناً تمہارے گھر ہو گا میں آسم کو بھیجتا ہوں رفیق کو بولو ویڈیو اس کے حوالے کر دے..


ٹھیک ہے میں بول دیتا ہوں.. آہل ہاتھ آزاد کرواتا جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکالنے لگا,,,,


زبیر کو اپنی فکر تھی سامنے پھانسی کا پھندا دکھائی دے رہا تھا,,


ہیلو رفیق,,

جی سر میں آؤں..


ہاں,, میری بات سنو آسم گھر آےُ گا ابھی تم اسے ویڈیو دے دو ڈیڈ کے قتل والی رات کی..

لیکن سر..


میں جو کہ رہا ہوں کرو.. آہل دھاڑا..

ٹھیک ہے سر.. رفیق نے کہ کر فون بند کر دیا..


اب گن ہٹاؤ.. آہل تڑپ کر بولا..

دانی کبھی آہل کو دیکھتی تو کبھی زبیر کو..


آہل ڈیڈ مجھ پر گولی نہیں چلائیں

آدمی دانی کے عین مقابل گن لے کر کھڑا ہو گیا..

دانی وہ مار دے گا تم نہیں جانتی..

آہل وہ میرے ڈیڈ ہیں...


دانی تم خاموش رہو.. آہل سختی سے بولا..

دانی اور آہل دونوں کے ہاتھ پیچھے لے جا کر باندھ دئیے گئے,,


دونوں ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے تھے سامنے دو آدمی گنز لئے کھڑے تھے..

ڈاکٹر قدسیہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاےُ کرسی پر بیٹھی اس منظر سے محظوظ ہو رہیں تھیں,,


کچھ ہی دیر میں آسم اور زبیر اندر آےُ,,

چیک کی ہے نہ تم نے..

جی سر میں دیکھ چکا ہوں وہی ویڈیو ہے یہ.. آسم اس کے ہمراہ آگے آتا ہوا بولا..


مل گئی نہ ویڈیو اب اس آدمی کو ہٹاؤ.. آہل دانی کے سامنے کھڑے آدمی کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا..

زبیر نے اسے اشارہ کیا,,


آہل کی نظریں آدمی پر تھیں,, اس کا ہاتھ ٹریگر پر جا رہا تھا اگلے لمحے گولی چلنے کی آواز آئی,,


سناٹے میں گولی کی آواز گونجی,,

خون کے چھینٹے فرش پر گرے,,

سبھی ششدہ سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے,, دانی آہل کے عقب میں آ چکی تھی...

آہل کی پسلی میں گولی پیوست ہوئی تھی,,

خون کی تیز دھار بہنے لگی تھی..

__________

چھ سال بعد:

دانی بے خبر سو رہی تھی جب اسے اپنے چہرے پر حرکت محسوس ہوئی,,دانی نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں..

یہ کوئی اور نہیں اس کی لاڈلی آن تھی,,

جو اپنے بال دانی کے چہرے پر پھیر رہی تھی,,

آن یہ کیا بدتمیزی یے..دانی اکتا کر بولی..

میں نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں...وہ معصومیت سے بولی..

آپ کو نیند نہیں آتی,, دانی خفگی سے بولی..

آن اس پر چڑھی بیٹھی تھی,,

عمیر کہتا ہے رات کو آلو جاگتے ہیں اس لئے میں آنکھیں بند رکھتی ہوں رات کو لیکن اب تو صبح ہو گئ نہ.. وہ گھڑی دانی کی آنکھوں کے ساتھ لگاتی ہوئی بولی..

آف آن,, پیچھے ہٹاؤ اسے.. دانی ہاتھ سے پرے کرتی ہوئی بولی..

آپ سکون سے کیوں نہیں بیٹھتی.. دانی اٹھ بیٹھی...

آن نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور دانی کے لاکٹ کے ساتھ کھیلنے لگی,,

آن ٹوٹ جاےُ گا اس کے ساتھ مت کھیلا کریں.. دانی اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی..

میں نیا لا دوں گی,, آپ کیوں ڈر رہیں ہیں.. وہ لاپرواہی سے بولا..

تمہارے بزنس چل رہے ہیں نہ جو تم نیا لا دو گی اب پلیز باہر چلی جاؤ مجھے سونے دو,,

ماما کتنا سوتی ہو آپ.. آن ناک چڑھاتی ہوئی بولی..

اگر آپ کو یاد ہو تو ہم رات کو دو بجے سوےُ تھے اور ابھی صبح کے چھ بجے ہیں کیوں میری جان کے پیچھے پڑی ہو آپ.. دانی رونے والی شکل بناتی ہوئی بولی..

میں تو آپ کے اوپر بیٹھی ہوں بس دیکھو.. وہ اوپر اٹھتی ہوئی بولی..

یا اللہ مجھ صبر دے.. دانی خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی بولی..

مطلب مجھے سونے نہیں دو گی آپ.. دانی تحمل سے بولی..

بلکل بھی نہیں.. وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی بولی..

دانی کو بلکل آہل کی کاپی لگتی تھی اسی جیسی مغرور اور بد دماغ...

اپنے باپ پر گئی ہو پوری کی پوری.. دانی جل کر بولی ہوئی آن کو بیڈ پر بٹھا کر خود نیچے اتر گئی,,


کیا ہے بھئ.. آن احتجاج کرنے لگی جس کا مطلب تھا ابھی وہ دانی کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی...


آن ٹرسٹ می ایک زور دار تھپڑ کھا لو گی نہ سکون سے بیٹھ جاؤ گی,,

دانی کپڑے نکالتی ہوئی بولی..


ہاتھ تو لگا کر دکھائیں مجھے,, آن کہاں اثر لینے والی تھی,,

دانی دھیرے دھیرے الماری میں سر مارنے لگی...


کوئی شک نہیں آن تم مجھے پاگل کر دو گی...


ڈاکٹر ٹھیک کر دیں گے نو پرابلم.. وہ ڈمپل کی نمائش کرتی ہوئی بولی..


پہلے آہل اور اب یہ میڈم ڈمپل کی نمائش کرتی پھرتی ہے.. دانی تپ کر بڑبڑاتے لگی..

میں سب سن رہی ہو..


جانتی ہوں تمہارے کان بہت تیز ہیں.. دانی اس کے کپڑے لے کر مڑی..


اب اگر نہاتے ہوۓ کوئی شرارت کی...

تو کیا کر لیں گیں آپ.. وہ اطمینان سے بولی..


سچ میں آن میں کچھ نہیں کر سکتی.. دانی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے...


گڈ.. وہ دانی کا منہ تھپتھپاتی ہوئی بولی,,


دانی سر جھٹکتی اسے اٹھا کر واش روم میں لے آئی...

ماما آپ ٹاول بھول گئیں.. آن باتھ ٹب میں گھستی ہوئی بولی..


دانی گھورتی ہوئی باہر نکل گئی...

آن ٹب میں کھڑی تھی پاؤں اونچے کئے اور پانی چلا دیا خود باہر نکل آئی اور شاور چلا کر ڈانس کرنے لگی,, وہ بہترین نوعیت کی باتھ روم سنگر تھی,,


لیلا میں لیلا

ایسی ہوں لیلا

ہر کوئی چاہے مجھ سے ملنا اکیلا


دانی واپس آئی تو آن ٹھمکے لگاتی گنگنا رہی تھی,,


دانی کا دل چاہ رہا تھا یا تو آن کا سر دیوار میں دے مارے یا پھر اپنا..


آن آپ ایک جگہ ٹک کے بیٹھ نہیں سکتی.. دانی اس کا بازو پکڑتی ہوئی بولی,, دوسرے ہاتھ سے شاور بند کیا اور چلتی ہوئی ٹب کے پاس آ گئی,,


آن گھورتی ہوئی ٹب میں چلی گئی...

پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے آپ کو.


آن پانی سے کھیلتی ہوئی بولی..

ڈھنڈے ڈھنڈے پانی سے نہانا چائیے

گانا آےُ یا نہ آےُ دانا چائیے..

آن گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی تھی..

آن اپنا منہ بند کر لو... دانی گھوری سے نوازتی ہوئی بولی..


ماما اس کا ٹیسٹ کیسا ہوتا ہے.. آن شیمپو کو دیکھتی ہوئی بولی..

میں نے کبھی پی کر نہیں دیکھا,, دانی ضبط کرتی ہوئی بولی..


اب پی کر دیکھ لیں.. آن اس پر چھینٹے پھینکتی ہوئی بولی..


کر دئیے نہ گندے میرے کپڑے... دانی گھورتی ہوئی بولی..

تو کیا ہوا آپ نے تھوڑی دھونے ہیں,, آن منہ بسورتی ہوئی بولی..


دانی سانس خارج کرتی اس کے بالوں میں شیمپو لگانے لگی,,


مجھے بھوک لگی ہے... دانی نے ابھی اسے بیڈ پر بٹھایا ہی تھا کہ وہ بول پڑی..


ایسے ہی لے جاؤ نیچے.. دانی غصے سے بولی..

آن چہرہ موڑ کر بیٹھ گئی جو اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا..


دانی اس کا چہرہ اپنی جانب کرتی کپڑے پہنانے لگی,,

میں چینج کر لوں پھر باہر جانا ہے.. دانی کمرہ لاک کرتی ہوئی بولی..


آن خفا خفا سی صوفے پر بیٹھ گئی,,

ماما مجھے یہ نہیں کھانا..


آن منہ موڑتی ہوئی بولی..

آن یہ تیسری بار ناشتہ بنوایا ہے آپ نے اور پیٹ میں ایک نوالہ بھی نہیں گیا,,


تو کوک کو بولیں اور بنا دے... وہ اثر لئے بنا بولی..


چپ کر کے کھاؤ یہی.. دانی اس کو پکڑتی ہوئی بولی..

میں پولیس کو بلا لوں گی...آن اس کے ہاتھوں سے نکلنے کی سعی کرنے لگی..


بلا لینا پہلے ناشتہ کر لو..

ایمان آتی ہوئی مسکرانے لگی..


آن پھر سے ماما کو تنگ کر رہیں ہیں آپ.. وہ خفگی سے بولی..


چاچی یہ میری بات ہی نہیں سنتیں.. وہ منہ بناتی ہوئی بولی..


دانی ہلکان ہو رہی تھی لیکن آن نے منہ میں ایک نوالہ نہیں ڈالا..

دفعہ ہو جاؤ.. دانی اسے چھوڑتی ہوئی بولی..


تم بھی ضد مت کیا کرو وہ تو بچی ہے.. ایمان نرمی سے سمجھانے لگے..


چاچی میں کہاں ضد کرتی ہوں ضد تو اسے کہتے ہیں جو یہ میڈم کرتی ہے...


دانی چار سالہ آن کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی جو بالوں کو جھلاتی ہوئی چلتی جا رہی تھی,,


وہ اپنی عمر کے دوسروں بچوں سے بڑی لگتی تھی قد بھی بڑا تھا رنگ روپ ہر چیز آہل جیسی تھی لیکن ضد حاضر جواب دانی جیسی تھی جو اب اکتائی رہتی تھی,,


عمیر تم نے مجھے ووٹ دینا ہے سمجھے.. آن انگلی اٹھا کر بول رہی تھی..


ہاں میں تمہیں ہی دوں گا ووٹ تم ٹینشن مت لو...

اب چیٹنگ مت کرنا ورنہ میں چھوڑوں گی نہیں تمہیں,, آن دھمکاتی ہوئی بولی..


جاؤ نہ کرو یقین جب دوں گا پھر دیکھ لینا.. عمیر بولتا ہوا چلنے لگا..


میری تو کوئی بات ہی نہیں سنتا..


آن بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل آئی,, گارڈ اس کے عقب میں تھے..

آن شرارت کے موڈ میں تھی,,


چلتی ہوئی اندر آ گئی...


مجھے چابی دیں گاڑی کی.. وہ دانی کو گھورتی ہوئی بولی..

کیا کرنی ہے آپ نے چابی,, مجھے اچھے سے یاد ہے لاسٹ ٹائم آپ نے جو گاڑی کا حال کیا تھا عمیر کے ساتھ مل کر.. دانی گھور کر بولی..


وہ تو غلطی سے ہو گیا تھا نہ اب دیں مجھے,, وہ دانی کی شرٹ کھینچتی ہوئی بولی..


آن تم نے میری ناک میں دم کر رکھا ہے.. دانی کوفت سے بولی..


ماما یہاں دیکھیں.. آن اس کا چہرہ اپنی جانب موڑتی ہوئی بولی..

اب کیا ہے.. دانی کھا جانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی بولی..


آپ کی ناک میں تو دم نہیں ہے.. وہ چہرہ نیچے کئے اس کی ناک پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی..


آن جہاں تھی نہ وہیں چلی جاؤ.. دانی اسے آگے دھکیلتی ہوئی بولی...

میں کورٹ میں جاؤں گی.. وہ انگلی اٹھا کر کہتی باہر نکل گئ..


دانی نے تھک کر سر ٹیبل پر گرا لیا..


سکول سے بھی اس کی کمپلینز کی اتنی لمبی لسٹ تیار ہے.. دانی ایمان کو دیکھتی ہوئی بولی..


بچی ہے ابھی بڑی ہو گئ تو ٹھیک ہو جاےُ گی...

سچ میں چاچی بچے پالنا بہت مشکل ہے.. دانی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی..


ایمان دھیرے سے مسکرا دی..


حارب مجھے دانی کی طرف چھوڑ آئیں.. انعم شیشے کے سامنے سے ہٹتی ہوئی بولی..


میں ایک فون کال کر لوں پھر چلتے ہیں.. حارب مسکرا کر کہتا باہر نکل گیا..

انعم مسکراتی ہوئی بیڈ کی جانب چلنے لگی..

آٹھ ماہ کے علی کو گود میں اٹھایا اور اسے لے کر باہر نکل آئی..


چلیں.. حارب انعم کو دیکھتا ہوا بولا..


میں آنٹی کو بتا دوں.. انعم کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئ..


ہمارا بےبی کیسا ہے.. دانی علی کو پکڑتی ہوئی بولی..

ماما مجھے پکڑیں.. آن جلتی ہوئی بولی..


آپ چھوٹی بچی ہیں کیا جو آپ کو پکڑوں.. دانی خفگی سے دیکھتی بیٹھ گئی..


حارب بھائی آپ کیسے ہیں... دانی ان کی جانب متوجہ ہوئی..

ماما چھوڑیں علی کو.. دانی اس کی آستین کھینچتی ہوئی بول رہی تھی..

آن.. دانی خفگی سے دیکھتی ہوئی بولی..

بلکل ٹھیک,,

انکل آپ نے کہا تھا مجھے اپنے ساتھ لے کے جائیں گے.. آن حارب کے پاس آتی ہوئی بولی..


آپ پولیس اسٹیشن میں کیا کریں گے.. حارب اسے گود میں بٹھاتا ہوا بولا..


میں گولیاں ماروں گی.. آنا پرجوش انداز میں بولی..


بس یہ شروع ہو گئی,, انعم آنٹی کی طبیعت اب کیسی ہے..


بس ویسے ہی ہیں جس دن ڈائلئسز کروا کے آتی ہیں اس دن کافی خراب ہو جاتی طبیعت (یہاں گردے واش کروانے کی بات ہو رہی ہے)

اللہ انہیں صحت دے.. دانی علی کو دیکھتی ہوئی بولی جو سو رہا تھا..


ماما اب چھوڑ بھی دیں.. آن پھر سے دانی کے پاس آ گئی..

انعم نے مسکراتے علی کو پکڑ لیا..


آن دانی کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گئی..

دانی مسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی..

خالہ یہ بڑا کیوں نہیں ہوتا..


ہو جاےُ گا آن.. انعم نرمی سے بولی..

کب ہو گا اتنے دن ہو گئے ابھی بھی اِتو سا ہے.. آن انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی..


جب آپ بڑی ہو جائیں گیں نہ علی بھی بڑا ہو جاےُ گا..

میں تو اتنی بڑی ہو گئ ہوں..


جی بہت بڑی.. دانی اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولی..

ایمان ملازم کے ہمراہ آئی..


تکلف کی ضرورت نہیں میں بس پولیس اسٹیشن جا رہا تھا.. حارب کھڑا ہوتا ہوا بولا..


ناشتہ کر لیں پھر چلے جانا.. ایمان بولتی ہوئی بیٹھ گئی..

نہیں بھابھی پھر کبھی مجھے دیر ہو رہی ہے ایک کیس پر کام کر رہا ہوں..

چلیں ٹھیک ہے...


حارب انعم کو مخاطب کرتا چلا گیا..


تم خوش ہو انعم.. دانی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی..

ہاں خوش ہی ہوں.. انعم کے چہرے پر اداسی در آئی..


وہ جو خلش ہے کوئی بھی پوری نہیں کر سکتا...

حارب بھائی تمہارے ساتھ..


نہیں حارب تو بہت اچھے ہیں لیکن دانی محبت جن سے ہوتی ہے وہ کہاں دل سے نکلتے ہیں.. انعم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی آنکھوں کے سامنے رحیم کا خون آلود چہرہ آ گیا,,


آئم سوری.. دانی اس کے رخسار پر گرے اشکوں کو دیکھتی ہوئی بولی..


آن نا سمجھی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی,,

ماما آپ نے خالہ کو مارا ہے.. آن منہ پر ہاتھ رکھے حیرانی سے بولی..


جی ہاں مارا ہے میں نے آپ کو بھی ایسے ہی مارا کروں گی میں..

میں ایسے بھاگ جاؤں گی.. آن اس کی گود سے اترتی باہر بھاگ گئ..

علی کی ویکسین کروائی تھی تم نے انعم.. ایمان نے موضوع بدلا,,

اس کے اپنے زخم بھی ہرے ہو گئے تھے انعم کی بات پر...

نہیں حارب کے پاس ٹائم ہی نہیں تھا پھر آنٹی کو ہاسپٹل لے جانا ہوتا اسی میں پورا ہفتہ گزر گیا..

تم لازمی کروا لینا اس عمر میں بچے بہت جلدی بیمار پڑ جاتے ہیں علی ہے بھی کمزور.

جی میں سوچ رہی تھی دانی کے ساتھ چلی جاؤں گی..

ہاں کوئی مسئلہ نہیں مجھے بھی جانا تھا ہاسپٹل چاچی آپ بھی ہمارے ساتھ چلنا..

ہم سب چلے جائیں گے تو آن کا کون سنبھالے گا..

اووہ آن,, ہمارے گھر کا مسئلہ کشمیر....

_________

دانی آہ بھرتی ہوئی بولی..

ایمان مسکرانے لگی,,


ایسے افلاطون بچے میں نے آج تک نہیں دیکھے انعم تم دعا کرنا علی اس جیسا نہ نکلے...


دانی کی بات پر انعم بھی مسکرانے لگی..

میم رفیق سر آےُ ہیں.. ملازم دانی کے عقب سے بولا..


اچھا انہیں بولو میں آ رہی ہوں.. دانی کھڑی ہوتی ہوئی بولی..

انعم میں آتی ہوں.. دانی کہتی ہوئی باہر کی جانب چلنے لگی,,


لان کی پرنٹ شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے دوپٹہ گلے میں ڈالے بالوں کو جوڑے کی شکل میں قید کئے پرکشش دکھائی دے رہی تھی,,


میم جیٹ ریڈی ہے کس دن پھر...

آج یا کل تک,, میں تمہیں کال کر کے کانفرم بتا دوں گی..

اور آن..


آن فلحال تو یہیں رہے گی چاچی کے ساتھ بعد میں تم اسے لے آنا..


جی ٹھیک ہے...اس کے علاوہ..

نہیں بس ٹھیک ہے,, میں تمہیں کال کر دوں گی..

رفیق سر ہلاتا چلا گیا..

دانی مسکراتی ہوئی اندر آ گئی..

کہاں بھئ... ایمان شرارت سے بولی..

کہاں جا سکتی ہوں.. دانی مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی..

تم بھی جا رہی ہو...انعم حیرانی سے بولی..

اکیلے جا رہی ہے آن کو یہیں چھوڑ کر... ایمان نے لقمہ دیا...

دانی چہرہ جھکاےُ مسکرانے لگی..

اوہو بھئ پرائیویسی چائیے ہو گی... انعم بھی اسے تنگ کرنے لگی..

اسے بھی لے جاؤں گی نہ.. دانی گھورتی ہوئی بولی..

ہاں پہلے خود اینجواےُ کرنا ہو گا نہ... ایمان شوخ لہجے میں بولی..

چاچی آپ بھی نہ,, اب بندہ ملنے بھی نہ جاےُ... دانی کا چہرہ بلش کرنے لگا تھا..

نہ نہ جاےُ ہم نے کب روکا ہے کیوں انعم,, ایمان نے اسے بھی شامل کیا..

بلکل بھابھی,,جاےُ لیکن بچوں کے ساتھ... انعم شرارت سے بولی..

اس کے باپ کا حکم ہے میں کیا کہ سکتی... دانی شانے اچکاتی ہوئی بولی..

اچھا جاؤ تم پیکنگ کر لو,, ورنہ وہ مجھ پر شروع ہو جاےُ گا کہ میری غیر موجودگی میں دانی کو ٹارچر کیا ہم نے...

رات میں کر لوں گی...

دھیان سے کرنا آن نے دیکھ لیا تو ہنگامہ کھڑا کر دے گی... ایمان دانی کو دیکھتی ہوئی بولی..

جی اسے آپ کے کمرے میں بھیج دوں گی.. دانی فون چیک کرتی ہوئی بولی..

اسکرین پر لائف لائن جگمگا رہا تھا میسجز کی بھرمار تھی...

دانی کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی..

میڈم کب آؤ گی,, دانی نے میسج کھولا اور ریپلائی کرنے لگی...

بہت جلدی ہے آپ کو..

دانی سینڈ کر کے انعم کو دیکھنے لگی جو چاچی کے ساتھ کپڑوں پر تبصرہ کر رہی تھی...


انعم میں نماز پڑھ لوں اس کے بعد ہم ہاسپٹل چلتے ہیں پھر مجھے پیکنگ بھی کرنی ہے...دانی کھڑی ہوتی ہوئی بولی..

ٹھیک ہے ..انعم سر ہلاتی ہوئی بولی..

دانی اپنے کمرے میں چل دی...

دانی رفیق کو کال کر چکی تھی سو بنا کسی فکر کے ہاسپٹل چلی گئی...

آن آپ جا کر عمیر بھیا کے ساتھ کھیلو... دانی پیکنگ کے باعث اسے بھیجنا چاہ رہی تھی,,


میری لڑائی ہے عمیر بھائی سے.. وہ منہ پھلا کر بیڈ پر بیٹھ گئی..


کیوں اب کیا ہو گیا..


وہ مجھے ووٹ نہیں دیں گے اس لئے پرامس نہیں کر رہے,,

ہاےُ اللہ اس لڑکی کا دماغ,, اس کے باپ کی سیاست کم تھی کیا جو بھی یہ بھی شروع ہو گئی..


آن وہ آپ سے بڑے ہیں جا کر سوری کرو اور کھیلو ان کے ساتھ..

میں آن حیات ہوں کیوں کروں سوری.. وہ مغرورانہ انداز میں گردن اکٹر کر بولی..


بہت بری بات ہے آن.. دانی نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑا..


چلو جاؤ وہ آپ کو ہی ووٹ دیں گے ماما بول دیں گے انہیں...


نہ دیا نہ تو میں آپ کو پکڑوں گی... وہ انگلی اٹھا کر کہتی باہر نکل گئی..


توبہ,,, پتہ نہیں کیا کھا کر پیدا کیا تھا اسے.. دانی نفی میں سر ہلاتی پیکنگ کرنے لگی,,


فون مسلسل رنگ کر رہا تھا..

میڈم مجھ سے صبر نہیں ہو رہا... لائف لائن کی جانب سے میسج آیا..


آپ کی جو لاڈلی ہے نہ مجھے کچھ کرنے دے پھر نہ.. دانی کے ساتھ میں غصے والا ایموجی بھیجا..


جلدی آ جاؤ... دانی پڑھتی ہوئی مسکرانے لگی..


اچھا جی.. دانی سینڈ کر کے پھر سے پیکنگ کرنے لگی...


رات کے بارہ بجے آن کی واپسی ہوئی..

شکر ہے آپ کو یاد آیا کہ واپس بھی آنا ہے ورنہ مجھے لگ رہا تھا خود لینے آنا پڑے گا.. دانی اسے دیکھتی شروع ہو گئی..


ہاں تو گارد کو بھیج دیتی میں آ جاتی.. وہ لاپرواہی سے بولی..


گارڈز آپ کے لئے ہی بیٹھے ہے نہ.. دانی آنکھیں چھوٹی کیے بولی..


ہاں تو اور کس لئے ہیں,, اب مجھے تنگ نہ کریں بابا سے بات کرنے کا ٹائم ہو رہا... وہ بیڈ پر چڑھتی ہوئی بولی..


آئیں جی کریں اپنا کام,, اور زیادہ تنگ نہیں کرنا بابا کو.. دانی گھورتی ہوئی اٹھ گئی...


دانی تیار کھڑی تھی,, جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنے اس کا دودھیا رنگ جگمگانے لگا تھا, بالوں کو پونی میں مقید کئے,بیگ کندھے پر ڈالے وہ آن کی منتظر تھی,,


میڈم کہاں جا رہیں ہیں,, آن ٹی شرٹ کے ساتھ جینز کی شارٹس پہنے بولتی ہوئی چلتی آ رہی تھی,,


میں ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی,, دانی گھٹنوں کے بل بیٹھتی آن کو گلے لگاتی ہوئی بولی..


تو ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے ایسے کون ملتا,, آن پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی..


میں.. دانی اس کے سر پر چت لگاتی ہوئی بولی...


سچ سچ بتائیں کہاں جا رہیں.. وہ دانی کو گھورتی ہوئی بولی...


ڈاکٹر کے پاس ہی جانا,, آپ بھی ساتھ آ جائیں.. دانی جانتی تھی وہ ہاسپٹل سے کتنا ڈرتی ہے...


کوئی نہیں بہانے سے مجھے انجیکشن لگوانا ہو گا جائیں خود ہی میں اپنی چاچی کے پاس ہوں...وہ ایمان کے عقب میں چھپتی ہوئی بولی..


ایمان نے اسے گود میں اٹھا لیا..


دانی مسکرانے لگی,, پھر آن کے گال پر بوسہ دیا,, اور چلنے لگی..


دل کی حالت غیر ہو رہی تھی وہ پہلی بار نہیں ملنے والی تھی اس سے,, لیکن اتنے دن اس کے بغیر رہنے کے بعد ایسا معلوم ہو رہا تھا مانو صدیاں بیت گئیں ہوں,,


دانی مسرور سی گاڑی میں بیٹھ گئی..


دوبئی کی سرزمین پر پاؤں رکھتے ہی دانی کو وہ خوبصورت پل یاد آ گئے جو اس نے آہل کے سنگ یہاں سمیٹے تھے,,


بے شک ماضی ہمیشہ تکلیف دہ نہیں ہوتا وہ بہت سی خوبصورت یادیں بھی چھوڑتا ہے بس انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے...


دانی کے لئے گاڑی پہلے سے موجود تھی,,

جناب خود غائب ہیں.. دانی کو اس پر غصہ آنے لگا تھا,,


اتنے دن ہو گئے اور مجھے لینے آنے کی زحمت تک نہیں کر سکتے زیادہ ہی نخرے آ گئے ہیں.. دانی بڑبڑاتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی,,


گاڑی فائیو سٹار ہوٹل کے باہر رکی,,

دانی چلتی ہوئی اندر آ گئی,,


ہیلو میم.. ریسیپشن پر اسے بکے دیا گیا,, ہیو اے نائس ٹرپ.. وہ روم کے متعلق آگاہ کرتی مسکرا کر بولی..


جاہل حیات,, مجھے مجبور کر دیا یہ کہنے پر.. دانی غصے سے سرخ ہوتے چہرہ لئے چلنے لگی,,


کمرے میں پہنچی تو وہاں بھی وہ موجود نہیں تھا..


دانی منہ کھولے اس عالیشان کمرے کو دیکھنے لگی,,

پھر دروازہ زور سے بند کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی..


آئیں زرا اب میں بھی نہیں جاؤں گی یہاں سے.. دانی سوچتی ہوئی سلیپر اتارنے لگی,, فون دیکھا تو معمول کے برعکس خاموش تھا...


عجیب و غریب انسان ہے.. دانی فون سائیڈ ٹیبل پر رکھتی لیٹ گئی,, آنکھیں بند ہی کیں کہ نیند مہربان ہو گئی,,


آہل مسکراتا ہوا اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا,,

میڈم کمرے میں چلی گئی اب کیسے دیکھوں گا,, آہل کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا نظریں لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھیں...


چلو کوئی نہیں,, میں بھی نیند پوری کر لیتا ہوں,, آہل کھڑا ہو کر بیڈ کی جانب آ گیا..


رات ہو چکی تھی لیکن دانی ابھی تک سو رہی تھی شاید ایک عرصے بعد سکون کی نیند وہ سوئی تھی,,


دروازے پر دستک نے دانی کی نیند میں خلل پیدا کیا.. دانی آنکھیں مسلتی دوپٹہ گلے میں ڈالتی دروازے پر آئی..


میم یہ آپ کے لئے ہے.. دانی پیشانی پر بل ڈالے چیزیں لینے لگی,,


دانی ان بیگ کو دیکھ رہی تھی اس سے پہلے کہ استفسار کرتی وہ چلا گیا,,


دانی شانے اچکاتی اندر آ گئی..


ویلکم مائی وائف.. کارڈ پر لکھے حروف پڑھتے ہوئے دانی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی..


آہل کیوں ستا رہے ہیں,, دانی روہانسی ہو کر فون کو دیکھنے لگی جو ابھی تک خاموش تھا,,


دانی کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئی,,


ایک گھنٹہ لگا کر دانی تیار ہوئی سینڈل پہن کر دانی نے فون اٹھایا اور باہر نکل آئی,,


ڈرائیور اس کا منتظر تھا,,


لگتا ہے خود سامنے نہیں آئیں گے...دانی نفی میں سر ہلاتی گاڑی میں بیٹھ گئی کیونکہ یہ آہل کی ہدایت تھی,,


گاڑی تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں تھی,,


دانی نے سیاہ ریشمی رومال منہ پر لپیٹ رکھا تھا,, رات کی تاریکی میں مصنوعی روشنیوں سے جگمگاتا یہ شہر حسین تھا لیکن آہل کے بنا کوئی بھی منظر دل کو بھا نہیں رہا تھا,,


گاڑی سنسان راستے پر چلنے لگی,, دانی کا دل خوف کے باعث دبک کر چھپ گیا,,


آہل,, دانی نے فوراً اسے میسج کیا..

یس...


اگلے ہی لمحے اس کا جواب موصول ہوا..

مجھے ڈر لگ رہا ہے...


ڈرنے کی ضرورت نہیں دانی صرف دو منٹ کی بات ہے,,

دانی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ٹھیک دو منٹ بعد گاڑی رک گئی,,


ویران سا علاقہ تھا دور دور درخت دکھائی دے رہے تھے,,


آہل کہاں لے آئیں ہیں مجھے.. دانی رومال ہٹاتی باہر نکل آئی جب عقب سے کسی نے اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی..


آہل آپ..


یس میں ہی ہوں.. آہل پٹی باندھتا اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگا,,


آہل کی خوشبو,, دانی کے لب مسکرانے لگے,,


آہل اس کے ساتھ تھا فاصلہ نہ ہونے کے برابر,,


چلیں اب.. آہل آگے آتا اس کا ہاتھ تھام کر بولا..

آہل یہ جگہ ہموار نہیں میں گر جاؤں گی,,


کہتی ہو تو اٹھا لوں,, آہل شوخ لہجے میں بولا...


میں ناراض ہوں آپ سے.. دانی چلتی ہوئی بول رہی تھی,,


ساری ناراضگی ہوا کر دیں گے.. آہل تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بولا..


مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر دانی کے عقب میں آیا اور آنکھوں سے پٹی ہٹا دی,,


دانی آنکھیں کھولتی آس پاس نظر ڈالنے لگی,,


رات کی تاریکی میں سب پوشیدہ تھا,, پہاڑ بھی سیاہ دکھائی دے رہے تھے وہ غالباً اونچائی پر تھے,,,


فلک کی چادر پر بےشمار ستارے بکھرے ہوۓ ٹمٹما رہے تھے,,

چودھویں کا چاند اپنی آب و تاب لئے روشنی بکھیر رہا تھا سیاہ رات میں چاند کی چاندی کیا دلکش منظر پیش کر رہی تھی,,


دانی نے زمین پر نظر ڈالی ایک جانب آگ جل رہی تھی,, تو دوسری جانب کیمپ لگایا ہوا تھا,,


اسے آہل پر پیار آنے لگا تھا وہ آج بھی اس کی پسند کو اہمیت دیتا تھا,, آنکھوں میں نمی تیرنے لگی,,


ایک تو تم مجھے بھول جاتی ہو.. آہل اس کے عقب سے بولا..


دانی نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو سیاہ پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا,, بال ہلکے کروا رکھے تھے ہلکی ہلکی شیو, روشن چہرہ اس پر ستم یہ کہ اسکا ڈمپل جس کی وہ بھرپور انداز میں نمائش کر رہا تھا,,


دانی کی نظروں میں ستائش تھی محبت کے جگنو تھے,,


آہل دو قدم دور ہوتا فرصت سے دانی کو دیکھنے لگا

جو سیاہ پورے آستین والی میکسی پہنے اپنی تمام تر خوبصورتی لئے سیدھا دل میں اتر رہی تھی,,


سیاہ بال آبشار کی مانند کمر پر گرے ہوۓ تھے,,

گرے آنکھیں آج بھی روشن تھیں,, آہل نے نظر نیچے کی دانی کے لب جو ڈارک ریڈ لپ اسٹک سے پوشیدہ تھے,,


وہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئی تھی اور آہل تو پہلے ہی چاروں شانے چت ہو چکا تھا اس پر مزید اس کا حسن,, وہ سر جھٹکتا ہوا آگے بڑھا..


دانی کے عین مقابل آیا,, دانی کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں,,

آہل نے مسکراتے ہوۓ دانی کو اپنے ساتھ لگا لیا...


آج لگ رہا ہے میری بینائی لوٹ آئی,,

دانی نے مسکرا کر آنکھیں بند کر لیں,,


وہ آہل کو محسوس کرنا چاہتی تھی اس کی قربت میں خود کو بھول جانا چاہتی تھی

جیسا ہمیشہ ہوتا اس کے عشق کا نشہ دانی کے سر چڑھ جاتا,, پھر نشہ ہو اور انسان خود کو بھولے نہ ایسا ممکن نہیں,,


آہل نے اسے خود سے الگ کیا دانی کے چہرے پر آےُ بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیا,,


کیسا لگ رہا ہے.. وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا..

اپنی زندگی سے مل رہی ہوں,, دانی اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی,,


آؤ بیٹھتے ہیں,,آہل اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا اور آگ کے گرد بیٹھ گئے,,


البتہ دوبئی کی گرمی اجازت تو نہیں دیتی آگ کی لیکن پھر بھی.. آہل شانے اچکاتا ہوا بولا..


دانی نے مسکراتے ہوۓ سر اس کے شانے پر رکھ دیا..

ایک منٹ دانی.. آہل اس جانب دیکھتا ہوا بولا جہاں سے وہ آےُ تھے,,


ایک لڑکا آیا اور کافی کے دو مگ آہل کو پکڑا کر چلا گیا,,

آہل نے ایک مگ دانی کے سامنے کیا,,

تم نے کھانا کھایا,,


آہل سپ لیتا ہوا بولا..

ہاں کھایا تھا,, دانی بغور اسے دیکھتی ہوئی بولی,,


آگ کے انگارے ان کے چہرے کو روشن کر رہے تھے,,

اس کی تنہائی کا ساتھی اس کا عشق,, دانی محبت پاش نظروں سے آہل کو دیکھ رہی تھی,,


بس کر دو نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا..

آہل اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا..


میرے پاس پرمیشن ہے آپ کو دیکھنے کی.. دانی لب دباےُ مسکراتی ہوئی بولی..

میڈم بندہ پورا کا پورا آپ کا ہے جتنا مرضی دیکھیں.. آہل اس کی جانب رخ موڑتا ہوا بولا..

آن نے تنگ تو نہیں کیا.. آہل یاد کرتا ہوا بولا..

اووہ ہاں اچھا یاد کروایا,,

آپ کو اگر دورے سے فرصت ملے تو ایک دورہ اپنے گھر کا بھی کر لیں وزیراعظم آہل حیات,, دانی طنزیہ بولی..

ہاں اب تمہارے ساتھ کروں گا گھر کا دورہ بھی...آہل لب دباےُ مسکراہٹ روکتا ہوا بولا..

وہ آپ کی افلاطون بیٹی نے میرا جینا دو بھر کر دیا تھا,, دانی پوری آنکھیں کھولے اسے بتانے لگی,,

میرے خیال میں وہ افلاطون آپ کی بھی بیٹی ہے.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

مجھے ایک ٹانگ پے کھڑا کر کے بھگایا ہے آن نے.. دانی منہ بناتی ہوئی بولی..

تو آپ دوسری ٹانگ بھی لگا لیتی... آہل شریر لہجے میں بولا..

آپ پر ہی گئی ہے وہ.. دانی اس کے بائیسیپ پر پنچ مارتی ہوئی بولی..

اچھا جی مجھ پر گئی ہے.. آہل ہار مانتا ہوا بولا..

اسے اچھا لگتا تھا دانی کے سامنے ہار جانا, وہ جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا تھ دانی کے سامنے جھک جاتا ہار مبور کر دیتا...

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں.. دانی اس کی نظروں سے پزل ہو رہی تھی,,

یہی کہ تم آج بھی ویسی ہی ہوں,, آہل نے ہاتھ پیچھے لے جا کر دانی کے شانوں پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا...

کیسی,, دانی اس کی خوشبو اپنے اندر اتارتی ہوئی بولی..

میری جنگلی بلی..

اب تو مت کہا کریں.. دانی منہ بسورتی ہوئی بولی..

آن کو سنبھال رہی ہو نہ آپ اب معلوم ہوا مجھ میں کتنا حوصلہ ہے,,

کیا مطلب,, دانی اس کا بازو ہٹاتی آبرو اچکا کر بولی..

مطلب آپ کے ساتھ رہ رہا ہوں اتنے سالوں سے میری برداشت دیکھو.. آہل لب دباےُ مسکرا رہا تھا.

دانی برا مان گئی اور پیچھے ہو گئی..

آہل نے لاکٹ سے پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا,, اب تو میرے پاس آ گئی ہو آپ اب کہیں نہیں جا سکتی,, دانی کا ناک آہل کے ناک سے مس ہوا..


پہلے مجھے یہ بتائیں آپ سری لنکا گۓ تھے پھر مجھے یہاں کیوں بلایا,, دانی لاکٹ سے اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کرتی ہوئی بولی.


ہماری خوبصورت یادوں کو تازہ کرنے کے لیے.. آہل نفی میں سر ہلاتا اسے باز رہنے کی تاکید کر رہا تھا..


دانی نے ہار مان لی,,

اچھا پھر واپس کب جائیں گے آن نے گھر میں طوفان کھڑا کر دیا ہو گا,,


ابھی آپ کے کچھ دن صرف میرے لئے ہیں,, چاچی سنبھال لیں گے اس افلاطون کو..


اور اب آپ کے کام,, آہل فاصلے کم کرتا جا رہا تھا,,

چند دن تو نکال ہی سکتا ہوں آپ کے لئے...


آپ پہن لیں اتنا دل کر رہا ہے تو..لاکٹ ابھی تک آہل کے ہاتھ میں تھا..

ہاہاہاہا نہیں یہیں پر اچھا لگتا ہے.. آہل لاکٹ چھوڑتا ہوا بولا..


چلو آؤ اندر چلتے ہیں یہاں تو وہ بات نہیں.. آہل شوخ لہجے میں کہتا کھڑا ہو کر اس کے سامنے ہتھیلی پھیلاتا ہوا بولا..


دانی گھوری سے نوازتی ہوئی اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے چلنے لگی,,


وہ دونوں بھی اس خوبصورت رات کا حصہ لگ رہے تھے سیاہ لباس میں ملبوس ان کے رنگ مزید نکھر گئے تھے,,


مجھے مس کیا,, آہل تکیے کے ساتھ ٹیک لگاتا ہوا بولا..

بہت زیادہ..

اچھا اتنے زیادہ دن تو نہیں تھے,, آہل نے کہتے ہوۓ بازو کھول دی دانی اس کے ساتھ بیٹھ گئی تو آہل نے اس کے گرد بازو حمائل کر دی ,,دانی کا سر آہل کے شانے پر تھا,,


ویسے مجھے یہ دن سال کی مانند لگ رہے تھے,, آہل دھیرے سے بولا..

ابھی تو کہ رہے تھے زیادہ دن نہیں,, آپ ویسے بھی کہاں فری ہوتے بس سارا دن اپنی سیاست میں لگے رہتے, اور رہتے بھی مجھ سے دور وزیراعظم ہاؤس میں,,

اب مزید چار سال اور آٹھ ماہ ایسا ہی چلے گا آپ کا شوہر وزیر اعظم بنا ہے ملک چلانا ہے...

اور گھر کون چلاےُ گا,, دانی کے چہرے پر خفگی تھی,,

اور سیاست میں واپس جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا,,

میں نے سیاست میں جانے کو کہا تھا مجھ سے دور نہیں,,

آپ کو بولا تو تھا میرے ساتھ آ جاؤ سیاست میں پھر روز آپ کے ساتھ ایک آدھی پرائیوٹ میٹنگ تو کر ہی لیتا,, آہل مسکراتا ہوا شوخ لہجے میں بولا,,


دانی مسکراتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی,,


پھر آن نے چاچی کو پاگل کر دینا تھا,,


کیوں آپ ہو گئی ہو.. آہل محظوظ ہوا..

نہیں بس ہونے والی تھی آپ کے پاس آ گئی ہوں نہ اب نارمل ہو جاؤں گی,,, دانی مسرور سی بولی..


لو یو آہل.. دانی بائیں ہاتھ سے اس کا دائیاں ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی,,,

لو یو ٹو,, آہل اس کا ہاتھ دباتا ہوا بولا...


اب مجھے بتاؤ آپ پرائم منسٹر ہاؤس کیوں نہیں آتی مستقل...

آپ مجھے آن کے پاس بھی بھٹکنے نہیں دیتے اور خود اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں... دانی منہ بناتی ہوئی بولی..


ہاں کیونکہ اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا نہ... آہل بے چارگی سے بولا..


دانی اسے دیکھ کر مسکرانے لگی...

**********

دانی آج کینیڈا کے لئے نکلنا ہے آپ نے سامان تو نکالا نہیں ہو گا نہ... آہل ہوٹل واپس آتا ہوا بولا..


نہیں آپ نے یہ بھیج دئیے تھے تو میں نے بیگ بھی نہیں کھولا..


چلو گڈ,, پھر ٹائم نہیں لگے گا ناشتہ کر لو پھر چلتے ہیں,,

لیکن آہل اتنی جلدی,,


میڈم اتنے زیادہ دن نہیں لے سکتا میں,, لوگوں نے شور مچا دینا ہے کہ آہل حیات ملک کو چھوڑ کر سیر سپاٹے کرنے نکلا ہے,,


اووہ چلیں ٹھیک ہے پھر,,

عائزہ کا معلوم ہے آپ کو..


دانی بالوں میں برش کرتی ہوئی بولی..

ہاں شادی کر لی ہے اس نے بھی,,


ہاےُ افسوس ہو رہا ہے آپ کو.. دانی بے چارگی سے اسے دیکھتی ہوئی بولی..

آہل تیکھے تیور لئے دانی کو گھورنے لگا..


مجھے کیوں افسوس ہونے لگا.. آہل فون چیک کرتا ہوا بولا..

آپ کی ایکس جو تھی,, دانی کی آنکھوں میں شرارت تھی,,


تمہیں ایکس نہ بنا دوں میں ,,

دانی چلتی ہوئی اس کے مقابل آئی,,


دائیں ہاتھ سے آہل کی شرٹ کا گریبان پکڑا اور آہل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی لب کھولنے لگی,,


آپ میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے ایکس بنائیں,, نہ دانی سے پہلے کوئی تھی نہ دانی کے بعد ہو گی,,


جب جانتی ہو پھر کہتی کیوں ہو.. آہل اس کی ناک دباتا ہوا بولا..

دانی مسکرانے لگی,,


آہل بھی اسے دیکھ کر مسکرانے لگا..

کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھا تو چاروں سمت قدرت نے سفید چادر بچھا رکھی تھی سردی اپنے عروج پر تھی,,


دانی مفلر پہنے ہوۓ تھی سردی اتنی شدید تھی کہ وہ ہاتھ رگڑتی آہل کے ہمراہ چل رہی تھی,,


یہاں کسی کام سے آئیں ہیں کیا..

دانی آہل کی جانب چہرہ موڑتی ہوئی بولی,, منہ سے دھواں نکل رہا تھا جو ہوا میں معلق ہونے کی بجاےُ گم ہو جاتا,,


ہاں یہ جو ہمارے ٹیٹو ہیں,, یاد ہے تم نے کہا تھا انہیں ختم کروا لیں,,


دانی کے چہرے پر خوشی کی رمق تھی,, وہ بھولا نہیں تھا اور دانی کو لگا تھا اب یہ ٹیٹو قبر تک اس کے ساتھ جاےُ گا...


آہل آپ اس لئے یہاں لاےُ ہو مجھے,,

بلکل جو غلطی ہوئی اسے سدھارنا بھی تو ہے نہ,,


مام کہتی تھی اصل انسان وہی ہے جو غلطی ہونے کے بعد اسے مان کر توبہ کرے سدھارے اور دوبارہ کبھی اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے,,


مجھے بھی اپنی غلطی سدھارنی ہے تم سے عشق آج بھی جنون کی حد تک ہے لیکن یہ گناہ کبیرہ ہے اس لئے اسے ختم کروانا ہی بہتر ہے...


آہل کی باتیں سن کر دانی کی آنکھوں میں اشکوں نے ڈیرے جما لئے,,

کہاں سے کروائیں گے ہم,, وہ ائیر پورٹ کے باہر تھے,, گاڑی ان کی آمد سے قبل ان کی منتظر تھی,,


اور پاکستان میں بھی تو لوگ باتیں بنائیں گے نہ,,دانی کو فکر ستانے لگی..


میں کہ دوں گا علاج کے لیے آیا ہوں تمہارے ساتھ آؤٹنگ بھی ہو جاےُ گی اور کام بھی..آہل کا ڈمپل پھر سے عود آیا...


وہ آپ کی مغرور سی اولاد بھی سارا دن اپنے ڈمپل کی نمائش کرتی پھرتی ہے,, دانی اس کے ڈمپل کو دیکھتی ہوئی بولی..


پھر تو سچ میں میری بیٹی ہے.. آہل قہقہ لگاتا گاڑی میں بیٹھ گیا,,


ناظرین آپ کو تازہ ترین خبر سے آگاہ کرتے چلیں وزیر اعظم آہل حیات جو کہ سری لنکا کے دورے پر گئے تھے خرابی صحت کے باعث وہ پہلے دوبئی اور اب کینیڈا میں موجود ہیں,, ذرائع کے مطابق انہیں جو گولی لگی تھی اس کے باعث کچھ مسائل در پیش آ رہے تھے جس کے عوض انہیں فوری طور پر کینیڈا جانا پڑا علاج کی خاطر,, مزید تفصیل سے آگاہ کرتے چلیں ان کی اہلیہ دانین حیات بھی ان کے ساتھ ہیں,, ان کی صحت کے لئے دعا گو...

پیڑول کی قیمت کی کمی, حکومت نے پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمت کا اعلان کر دیا...

اگلے کچھ دن موسم البرآلود رہے گا محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی پیشگوئی...

پاکستان اور انگلینڈ کے بیچ ٹیسٹ میچ کا آغاز,, پاکستانی ٹیم نے پچاسی رنز بناےُ تین وکٹ کے خسارے پر...

تفصیل جانیے اس بریک کے بعد....


آہل نے فون بند کیا تو دانی بول پڑی...

لیکن آہل میں نے سنا ہے ٹیٹو ختم کروانے میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے,, دانی کے چہرے پر خوف کی لکریں تھیں,,


ہاں ہوتی ہے لوگ کہتے ہیں ٹیٹو بنواتے وقت بھی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ختم کرواتے وقت ہوتی ہے اور آٹھ سے دس سیشنز میں کام مکمل ہوتا ہے یہ کام...


دانی ہاتھ پیچھے لے جا کر اس حصے کو ہاتھ سے چھونے لگی لیکن کوٹ کے باعث چھو نہ سکی..


لیکن ہم اس طریقے سے ختم نہیں کروائیں گے امریکہ اور کینیڈا میں ایک تحریک چل رہی ہے ٹیٹو صاف کروانے کی,,

رینڈم ایکٹ آف ٹیٹو پروجیکٹ

(Random Act Of Tattoo Project)

وہ لوگ مفت سروس دے رہے ہیں,,سٹی ٹیٹو کلب کی مالک ایک خاتون میمفس کیڈو نے اس تحریک کا آغاز کیا ہے,,


میمفس کا کہنا ہے کہ وہ ٹیٹو صاف کرنے کے لیے لیزر والا طریقہ استعمال کرتے ہیں جو تقریباً بنا تکلیف کے مکمل ہو جاتا ہے,,

ہم بھی وہیں سے صاف کروائیں گے,, آہل اسے تفصیل سے آگاہ کرنے لگا..


ہممم ٹھیک ہے اگر تکلیف ہو گی بھی تو کوئی مسئلہ نہیں یہ صاف ہو جاےُ گا نہ بس یہی چائیے..

آہل دھیرے سے مسکرا دیا..


اب تم ہوٹل میں رہو رات میں تمہیں لینے آؤں گا میں, ویٹر آےُ گا ڈریس دینے تم ریڈی رہنا,, آہل دروازے میں کھڑا اسے ہدایات دے رہا تھا..


ٹھیک ہے لیکن..

میری ٹینشن مت لو.. آہل اس کا منہ تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا,,


دانی چینج کر کے کمبل اوڑھ کر سو گئی,,

دانی ٹائم سے پہلے ہی تیار ہو گئی,,


آہل تیار ہو کر کمرے میں آیا اور دانی کو لے کر نکل گیا دانی اور آہل پیچھے بیٹھے تھے,,


لمبی سڑک اور دائیں بائیں درخت برف سے ڈھکے ہوۓ تھے,, زمین اس سفید چادر میں پوشیدہ تھی,, برف نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا,, برف سے ڈھکے درخت پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے گاڑی سپیڈ سے چل رہی تھی,,


آہل آپ ایسی سنسان ویران جگہ ڈھونڈتے کیسے ہو,, دانی برف پر پاؤں رکھتی ہوئی بولی,,

اس کا پاؤں نیچے دھنس گیا,, دانی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی...


دانی نے ٹی شرٹ کے ساتھ جینز پہن رکھی تھی اوپر ریڈ کلر کا گھٹنوں تک آتا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا ساتھ میں لانگ شوز پہن رکھ تھے,,

بال ہمیشہ کی مانند کھول رکھے تھے,,


سردی سے دانی کے ناک اور رخسار سرخ ہو رہے تھے,, آہل کو وہ گڑیا کی مانند لگ رہی تھی,,


گورے ہاتھوں کو مسلتی ہوئی چلتی جا رہی تھی,, بائیں ہاتھ میں جگمگاتا نیلا ہیرا ہر ایک کو ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیتا,,


بس مل جاتی ہے.. آہل شانے اچکاتا ہوا بولا..

آہل خود بھی جینز اور شرٹ پر اوورکوٹ پہنے ہوۓ تھے,, تنگ جینز کے ساتھ لانگ شوز پہنے وہ اپنی عمر سے کم لگتا تھا,,


نیلا آسمان بھورے درختوں کی ٹہنیوں پر گری سفید برف,,سامنے ایک لکڑی سے بنا چھوٹا سا گھر تھا

جس میں صرف ایک ہی کمرہ تھا,,


اس کی چھت بھی برف سے ڈھکی ہوئی تھی,, اس کاٹیج پر لائٹس لگائی گئیں تھیں,, جس کے باعث وہ جگمگا رہا تھا...


آپ چاہتے ہو کہ میں یہاں سے کبھی نہ جاؤں.. دانی ستائش سے اردگرد نگاہ ڈالتی ہوئی بولی..


نہیں میں آپ کو اپنے ساتھ لے جانا ہی پسند کروں گا,, آہل مسکراتا ہوا بولا..


پھر ایسی جگہ دکھا رہے جہاں سے واپس جانے کا دل نہیں کرے گا,,


اس کاٹیج کے عقب میں ایک اور کاٹیج بھی تھی جو اس کی نسبت بڑی تھی رقبے کے لحاظ سے...


دانی کے دانت بجنے لگے تھے,, لیکن پھر بھی وہ نیچے برف پر بیٹھ گئی,,

جنگلی بلی اندر چلو.. آہل اسے دیکھ کر مسکراتا ہوا آگے آیا,,


اندر بھی چلے جاتے ہیں اتنی کیا جلدی ہے,, دانی سرمئی آنکھیں اوپر اٹھاتی ہوئی بولی..


کیا کرنے والی ہیں آپ .. آہل سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا..


دیکھ لینا.. دانی کہتی ہوئی برف میں ہاتھ ڈال کر لکھنے لگی,,

یخ بستہ ہوائیں چل رہیں تھیں,,

دانی گھٹنوں کے بل آگے چلتی جا رہی تھی,,


آہل اس کے عقب میں کھڑا ہو کر پڑھنے لگا,,

آہل مائی ہارٹ بیٹ آخر میں دل بنا تھا,,


سچ میں ایسا ہی ہے کیا,, دانی کھڑی ہو کر اس کے مقابل آئی تو آہل گویا ہوا..


بلکل دھڑکن چلے گی تو زندگی بھی چلے گی میری زندگی آپ کے دم سے چل رہی ہے یہ دھڑکنیں آپ کی دھڑکنوں کے ساتغ منسلک ہیں,, دانی اس کے سینے پر شہادت کی انگلی رکھتی ہوئی بولی,,


آپ کو معلوم ہے آہل میں ایک دعا ضرور کرتی ہوں.. دانی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بول رہی تھی,,


کیا.. آہل کی آنکھوں میں تجسس تھا,,


یہی کی جب بھی موت آےُ ہم دونوں کو ایک ساتھ آےُ کیونکہ نہ آپ میرے بغیر رہ سکتے ہو نہ ہی میں,, بولتے بولتے دانی کی آنکھوں سے اشک چھلک پڑے...


آہل نفی میں سر ہلاتا دانی کے رخسار پر گرے آنسوؤں کو صاف کرنے لگا,,


ابھی تو زندگی ہمیں خوشیاں دے رہی ہے ان آنسوؤں کو مت لایا کرو..


ہمیشہ ایسے ہی میرے ساتھ رہنا.. دانی اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی...


آئی پرامس,, آہل اس کی پیشانی پر اپنی پیشانی ٹکاتا ہوا بولا...


ضبط کے باوجود آنسو بہ رہے تھے,, نا جانے خوشی کے آنسو تھے یا دور ہونے کے خوف کے,,


بس اب اگر چپ نہ ہوئی تو میں نے تھپڑ بھی لگا دینا ہے.. آہل خفگی سے دیکھتا پھر سے اس کے آنسو چننے لگا..


آپ مجھے ماریں گے,, دانی اس کے ہمراہ چلتی ہوئی بولی,,

بلکل..

آہل اس کی تائید کرتا دروازہ کھولنے لگا..

_______

میں پھر آپ کو یہیں بند کر کے چلی جاؤں گی,, دانی اندر قدم رکھتی ہوئی بولی..


پھر جب واپس آؤ گی نہ آپ کو سنو مین ملے گا,,


نہیں جب گرمی آےُ گی پگھل جاؤ گے,, دانی ہنستی ہوئی بولی..


کیا سے کیا بنا دیا مجھے,, آہل مسکراتا ہوا بولا..یہ سفیدی دل کو بھا رہی تھی,,

اتنی برف کس کا دل کرے گا یہاں سے واپس جانے کو,, دانی برف کا گولہ بناتی آہل پر اچھالتی ہوئی بولی,,


اچھا یہ بات ہے تو پھر رکو.. آہل نیچے جھکتا ہوا بولا..

آہل سے پہلے دانی نے ایک اور برف کا گولہ بنایا اور آہل کو دے مارا,,


آہل مسکراتا ہوا اوپر اٹھا اور ہاتھ میں پکڑا برف کا گولہ دانی کو مارا..


دانی نے چہرے کے آگے ہاتھ کر لئے ورنہ منہ پر لگ جاتا..

گھنٹہ بھر وہ ایک دوسرے کو برف مارتے رہے,, پھر تھک کر برف پر ہی بیٹھ گئے..


آہل ٹھنڈی ہے.. دانی مزاح سے بولی..

مجھے لگا گرم ہے اچھا ہوا آپ نے بتا دیا ورنہ مجھے تو معلوم ہی نہ ہوتا.. آہل سادگی سے بولا..


دانی نے اس کے بازو پر مکہ جھڑ دیا..

آہل کا ڈمپل پھر سے عود آیا,,


آہل یہ لمحے یہ وقت کتنا خوبصورت ہے نہ..

کاش وقت تھم جاےُ اور ہم ہمیشہ کے لئے اسی حسین منظر کا حصہ بن جائیں..


ہر کوئی یہی چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں,, آہل دور خلا میں دیکھتا ہوا بولا..

تاحد نظر برف ہی برف دکھائی دے رہی تھی,, ہر چیز کو پوشیدہ کئے...


میں جانتی ہوں وقت کیسے تھمتا ہے سانس کیسے رکتی ہے, وہ رات ایسے تھی مانو گھڑی کی سوئیاں رک گئیں ہوں,,


پرندے اڑان بھرنا بھول گئے ہوں,, ہر چیز تھم گئی تھی,,

تاریک اور خاموش بھیانک رات,,

اس رات مجھے لگا آپ کو کھو دوں گی,, دانی کی آنکھیں برس رہیں تھیں,,


دانی آپ اس رات کو یاد رکھتی ہو اور اب میں آپ کے ساتھ ہوں یہ.. آہل آبرو اچکا کر بولا..


ہر تاریک رات کو سحر کے اجالے چیر دیتے ہیں,,وہ برا وقت تھا گزر گیا,,


زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں تبھی زندگی چلتی ہے ورنہ دیکھا ہے سکوت چھا جاےُ تو زندگی باقی نہیں رہتی,,


ہم نے مل کر وہ برا وقت گزار لیا اب اس اچھے وقت پر ہمارا پورا حق ہے اور یہاں سے میں بہت خوبصورت یادیں سمیٹنا چاہتا ہوں,,


آہل اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بول رہا تھا,

دانی نم آنکھوں سے مسکرانے لگی,,

ماضی کسی فلم کی مانند دانی کے سامنے چلنے لگا..


چھ سال قبل:

آہل دانی کے سامنے آ چکا تھا اور گولی اس کی پسلی میں پیوست ہو چکی تھی,,


تمام افراد کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا,, آہل دانی کی جانب رخ موڑے مسکرا رہا تھا,,


دانی منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی,,

آہل,, دانی نے ابھی پکارا ہی تھا کہ باہر سے آوازیں سنائیں دینے لگی پھر گولیاں چلنے لگیں,,


رفیق اندر آیا تو زبیر اور ڈاکٹر قدسیہ گھبرا گئے,,

پولیس اہلکار رفیق کے عقب میں تھے,,


پولیس کی نفری ڈبل تھی.. انہوں نے اندر آتے ہی سب پر بندوق تان لی...


رفیق دانی کو دیکھتا اس سمت آیا تو آہل کو زمین پر گرے دیکھ کر نفی میں سر ہلانے لگا,,


رفیق نے دانی کی رسی کھولی....

رفیق آہل کو لئے گارڈز کے ہمراہ باہر نکل آیا...


دانی بے یقینی کی کیفیت میں چل رہی تھی...

آہل کو گاڑی میں لٹا کر رفیق گارڈز کو ہدایات دیتا خود واپس اندر چلا گیا...


سینئر آفیسر لڑکیوں کو نکال رہا تھا وہ اس بات سے انجان تھا کہ دانی اور آہل بھی وہاں موجود تھے...


رفیق نے پولیس اہلکاروں کو سمجھا دیا کہ آہل اور اس کی بیوی کی موجودگی کا ذکر نہ کیا جاےُ...


زبیر اور ڈاکٹر قدسیہ فرار کا راستہ سوچنے لگے..

اگر ایک قدم بھی ہلے تو گولی چل جاےُ گی,, رفیق زبیر کو حرکت کرتا دیکھ کر بولا..


زبیر تھوک نگلتا ڈاکٹر قدسیہ کو دیکھنے لگا..

ان سب سے گنز لے کر باہر پھینک دی گئیں تھیں..


آفیسر اور باقی اہلکار بھی اس کمرے میں آ گئے,, اسی اثنا میں میڈیا بھی آن پہنچا,جسے رفیق نے بلایا تھا...


ان سب کو نکال کر باہر لے جایا جا رہا تھا,,

سر کیا یہاں لڑکیوں کو اغوا کر کے رکھا جا رہا تھا,, رپورٹرز مائیک لئے کوریج کے لئے بےچین تھے,,


لڑکیاں کا حال کافی خراب تھا جس کے باعث ان کی کوریج سے منع کر دیا گیا,,

اے ایس پی کاشف رضا آگے آےُ اور انہیں تفصیل سے آگاہ کرنے لگے,,


زبیر رنداوھا اور ڈاکٹر قدسیہ دونوں سمگلنگ میں ملوث ہیں لڑکیوں کو اغوا کر کے بیرون ملک بھیجتے ہیں...


سر آپ کو کیسے علم ہوا ان کے ٹھکانے کا..

ہم کافی وقت سے ان پر نظر رکھے ہوۓ تھے...


پہلے بھی ان کے ٹھکانے پر چھاپہ ڈالا لیکن یہ لوگ پہلے ہی فرار ہو گئے لیکن بھلا ہو آہل حیات کا جن کے مشیر خاص نے ہمیں اس جگہ کے متعلق آگاہ کیا اور آج ہم انہیں پکڑنے میں کامیاب ہو گئے..


ناظرین آپ کو تازہ ترین خبر سے آگاہ کرتے چلیں زبیر رنداوھا جو روپوش ہو گئے تھے پولیس ان کی تلاش میں تھی اور آج یہ سمگلنگ کے کیس میں گرفتار ہوےُ ہیں مزید بتاتے چلیں زبیر رنداوھا اکیلے نہیں تھے بلکہ مشہور و معروف ڈاکٹر قدسیہ اقبال بھی اس سب میں ملوث ہیں..


جی ہاں آپ دیکھ سکتے ہیں ان دونوں مجرموں کے چہرے جھکے ہوۓ ہیں...


ڈاکٹر جو لوگوں کی جان بچاتے ہیں آج ایک شرمناک قصے سے پردہ اٹھا ہے ڈاکٹر قدسیہ لوگوں کی جان بچانے کی بجاےُ انہیں موت کے گھاٹ اتار رہیں ہیں..


معصوم اور نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ظلم و تشدد کا معاملہ انہیں بیرون ملک فروخت کر کے یہ اپنا خزانہ بھر رہیں تھیں لیکن کہتے ہیں نہ سو دن چور کے ایک دن صاد کا,,

سو آج وہ پکڑے ہی گئے..


سابق وزیر اعلیٰ آہل حیات کے مشیر خاص کے باعث یہ پندرہ لڑکیاں موت کے گھاٹ اترنے سے بچ گئی,,


ہماری اپیل ہے کہ ان دونوں مجرموں کو سخت سے سخت سزا سنائی جاےُ تاکہ آئیندہ ایسا سوچنے سے بھی پہلے ان جیسے درندوں کی روح کانپ اٹھے..


کیمرہ مین آصف کے ساتھ میں ہوں آپ کی رپورٹر نادیہ...


دانی بلی کے جلے پیر کی مانند ہاسپٹل کی راہداری میں چل رہی تھی,, آہل آئی سی یو میں تھا اور دانی کے لئے ایک ایک ایک لمحہ عذاب کی مانند تھا,,


وہ تنہا تھی,, اور اندر آہل زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا..


ڈاکٹر میرے ہزبینڈ.. دانی ڈاکٹر کو باہر نکلتے دیکھ کر ان کی جانب بڑھی..


دیکھیں آپ کے ہزبینڈ کی کنڈیشن کافی کریٹیکل ہے کیونکہ انہیں پہلے بھی گولی لگ چکی ہے اور آج ان کا کافی خون ضائع ہو چکا ہے اگر جلد از جلد خون کا انتظام نہ ہوا تو ہم انہیں بچا نہیں سکیں گے...


دانی آنسو بہاتی نفی میں سر ہلا رہی تھی..

ان کا بلڈ گروپ کیا ہے...آپ میرا چیک کریں..

ڈاکٹر اس کمزور سی لڑکی کو دیکھنے لگا,,


ان کا او نیگیٹو ہے...جس کا ملنا بہت مشکل ہے...

ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد مل جاےُ..


لیکن زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ دعا کریں..

وہ کہ کر چلے گئے,,


دانی پتھر کی مورت بنی ان کے الفاظ میں گم گئی تھی...

نہیں آہل کو کچھ بھی نہیں ہو گا...


میرا بلڈ گروپ تو بی پازیٹو ہے....

گرم مادہ دانی کے چہرے کو تر کر رہا تھا,, دانی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے...


پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوئیں..

بس جلدی سے آہل کا بلڈ گروپ مل جاےُ,, دانی کے لبوں سے ایک ہی صدا نکل رہی تھی...


دانی آہل کو دیکھ بھی نہیں سکتی تھی...

دانی ایک لمحے کے لیے بھی بیٹھی نہیں..


گھٹنے بعد رفیق راہداری میں نمودار ہوا..

رفیق پلیز آہل کے بلڈ گروپ کا انتظام کرو ڈاکٹر کہتے ہیں اگر وقت پر نہ ملا تو.. دانی نے سسکتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی...


میڈم آپ فکر مت کریں میں کرتا ہوں بات ڈاکٹر سے..

رفیق کہتا ہوا ڈاکٹر کے کیبن میں چلا گیا...


واپس لوٹا تو چہرے پر مایوسی تھی..

کیا ہوا.. دانی سوں سوں کرتی بےصبری سے بولی...


ہمارے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے,, ڈاکٹر بات کر رہے ہیں لیکن او نیگیٹو بہت مشکل ہے...


رفیق پلیز کچھ بھی کرو آہل کے کسی دوست یا کسی سے بھی رابطہ کرو آہل کو کچھ نہیں ہونا چائیے,, دانی ہاتھ کی پشت سے چہرہ رگڑتی چلنے لگی...


ہاسپٹل میں گارڈز کی بھاری نفری تعینات تھیں اس سمت میں کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں تھی..


دانی کی ایک کمرے کے اندر نگاہ پڑی..

کچھ سوچ کر وہ اندر آ گئی...


نرس عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی.. کمرے میں زیادہ اجالا نہیں تھا مدھم سی روشنی جل رہی تھی...


نرس نے سلام پھیرا تو سوالیہ نظروں سے دانی کو دیکھنے لگی..

مجھے بھی نماز پڑھنی ہے,, دانی جھجھکتے ہوۓ بولی..


سامنے سے وضو کر لیں.. وہ انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی بولی..

دانی وضو کرنے چلی گئی..


میرا دوپٹہ چھوٹا ہے کیا آپ...

آپ لے لیں,, دانی کی بات مکمل ہونے سے قبل وہ بول پڑی..


دانی نے اس کا دوپٹہ لیا اور چہرے کے گرد لپیٹ لیا...

دانی کو یاد تھا آخری بار نماز رمضان میں پڑھی تھی...


انسان کتنا خودغرض ہے نہ جب چیزوں پر اپنا بس نہیں رہتا تو اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے اور دیکھیں اللہ اتنا رحیم ہے کہ اپنے بندے کو خالی ہاتھ نہیں موڑتا...


دانی عشاء کی نماز پڑھنے لگی,, آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے, نماز میں بھی اسے آہل کا خیال آنے لگتا...


دانی نے نماز توڑ دی اور پھر سے شروع کی پوری یکسوئی کے ساتھ,, بمشکل وہ نماز مکمل کر سکی...


دعا کے لیے ہاتھ اٹھاےُ تو الفاظ دم توڑ گئے اور آنسو بولنے لگے..

دانی کا ہاتھ متواتر آنسوؤں کے باعث تر ہو چکا تھا وہ خاموش تھی اس کا دل بول رہا تھا اس کی ایک ایک سانس اپنے محرم کو پکار رہی تھی اور وہ اللہ تو ان کی بھی سنتا ہے جن کی زبان نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے بندہ پکارے اور وہ سنے نہ ایسا ہو نہیں سکتا....


کئی ساعتوں بعید دانی کا سکتا ٹوٹا,, اس خاموشی میں دانی کی سسکیاں سنائی دے رہیں تھیں..

آہل کو کھونے کا خیال ہی اس کی روح کو چھلنی کر رہا تھا..

اللہ پاک پلیز آہل کو زندگی دے دیں..

آپ نے مجھے ہر نعمت عطا کی میں نے کبھی شکر کا ایک کلمہ نہیں پڑھا مجھے کبھی آپ سے مانگنے کی نوبت نہیں آئی آج میں آپ کے در پر آئی ہوں اپنے محرم اپنے شریک حیات کی زندگی کی سفارش لے کر....


آپ تو گنہگاروں کے بھی رب ہیں مجھ گنہگار کی بھی سن لیں...

بس یہ ایک دعا قبول کر لیں اللہ پاک ساری زندگی آپ سے کچھ نہیں مانگوں گی,, میں آہل کو.. دانی کے الفاظ دم توڑ گئے...

میں نہیں رہ سکتی آہل, ان کی محبت میرے لیے بہت اہم ہے چاہے تو میری سانسیں روک دیں لیکن آہل کو بچا لیں ان کی جان بخش دیں انہیں زندگی دے دیں...


مقروض تو میں آپ کی ہوں لیکن ساری زندگی آپ کی احسان مند رہوں گی,, پلیز اللہ پاک مجھے میرے مجازی خدا سے الگ مت کرنا...


دانی نے روتے ہوۓ سر سجدے میں گرا دیا...

دانی کی ہچکیاں سنائی دے رہی تھی,, کب تک وہ اسی حالت میں بیٹھی رہی اسے معلوم نہیں..

آہل کا خیال سر اٹھانے لگا تو منہ پر ہاتھ پھیرتی باہر نکل آئی..

رفیق بیٹھا ہوا تھا,, دانی کا چہرہ ابھی بھی تر تھا...

رفیق,,آ,, آہل,, دانی رک رک کر بول رہی تھی...

خون کا انتظام ہو گیا ہے...

سچ میں,, دانی بے یقینی کی کیفیت میں تھی...

کچھ دعائیں ایسے بھی قبول ہوتیں ہیں اس نے سوچا نہیں تھا...

جی ڈاکٹر کے کسی دوست نے دیا ہے,, بس آپریشن مکمل ہو جاےُ پھر آپ سر سے مل سکیں گیں...

یا اللہ تیرا بہت بہت شکریہ تو نے میری سن لی..

دانی آنکھیں بند کئے,, دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے دل ہی دل میں بول رہی تھی...

یہ رات دانی کے لئے نہایت کٹھن تھی,, پوری رات وہ جاگتی رہی..

وقت شاید رک گیا تھا یا دانی کو ایسا معلوم ہو رہا تھا..

ایک ایک لمحہ ایک سال کی مانند گزر رہا تھا...


صبح صادق کے وقت آہل کی طبیعت سنبھلی البتہ آپریشن رات ہی کامیاب ہو چکا تھا لیکن پیچیدگی کے باعث کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی...

دانی فجر کی نماز پڑھ کر کمرے میں آئی دوپٹہ اسی طرح چہرے کے گرد تھا..

آہل جاگ رہا تھا لیکن آنکھیں بند کر رکھیں تھیں...

آہٹ پر اس کی پلکوں میں جنبش آئی,, دانی کی خوشبو وہ پہچان گیا تھا...

دانی خود پر قفل لگاتی آگے آئی.. کہ روےُ گی نہیں..


بیٹھتی ہوئی آہل کا ہاتھ جس پر ڈرپ لگی ہوئی تھی...

اپنے ہاتھ میں لے لیا,,

آہل,, دانی نے دھیرے سے پکارا..

آہل آنکھیں کھول کر چہرہ موڑے دانی کو دیکھنے لگا..

آہل تم ٹھیک ہو نہ.. دانی بےچینی سے بولی..

جنگلی بلی میں ٹھیک ہوں.. آہل دھیرے سے مسکرایا..

تم نے مجھ ڈرا دیا تھا پتہ ہے جان نکل گئی تھی میری

_______

آہل خاموش اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا,, سفید دوپٹے میں لپٹا دانی کا روشن چہرہ...

کیوں آےُ تم میرے سامنے.. دانی کے چہرے پر خفگی در آئی...

آہل کہنیاں بیڈ پر رکھے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا..

اپنے دائیں جانب بیڈ پر ہاتھ رکھتا دانی کو اشارہ کیا...

دانی اٹھ کر اس کے ساتھ آ بیٹھی...

آہل حیات بہت خودغرض ہے دانی,, خود کو تم سے جدا کر سکتا ہے لیکن تم سے جدا ہونا گوارا نہیں,, دانی کے ہاتھ آہل کے ہاتھ میں آ چکے تھے...

تمہارے سامنے میں نہیں میرا عشق آ گیا تھا...

تمہیں میں نے کتنی بار کہا ہے بھوک لگے تو کھانا کھایا کرو یہ گولیاں نہیں,, دانی پیشانی پر بل ڈالتی ہوئی بولی,,

آہل ہولے سے مسکرانے لگا...

آئیندہ اگر تم نے گولی کھانے کا سوچا تو میں خود گولی مار دوں گی تمہیں,, دانی اس کا گریبان پکڑتی اپنی جانب کھینچتی ہوئی بولی...

اچھا میڈم اب نہیں کھاتا یہ چیزیں,, صحت کے لئے مضر ہیں میں سمجھ گیا,, آہل اس کی سرمئ آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا....

اچھے بچوں کی طرح رہنا ہے تم نے یہ دہشتگردوں والی حرکتیں چھوڑ دو...

اور کوئی حکم..

رات کو گھر بھی جلدی آنا ہے,, دانی معصومیت سے بولی...

یہ بھی ہو گیا...

اور ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ہے.. دانی کہتے ہوۓ اس کے سینے سے لگ گئی, دانی آہل کے سینے کے دائیں جناب تھی..

اندرونی حصہ بھی لائٹس لگا کر روشن کر رکھا تھا,,

لیکن سردی بہت ہے,,

تو کیا اس موسم میں گرمی ڈھونڈ رہی ہو,,

نہیں موسم کو چائیے تھوڑا خیال کر لے اب سردی میں بندہ چاہے کنگڑ جاےُ,, دانی بازو پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی..

یہ بندہ کس دن کام آےُ گا,, آہل بولتا ہوا اس کے قریب آیا..

دانی نے مسکراتے ہوۓ پیشانی اس کے سینے پر رکھ دی...

میرے جاہل حیات,,

آہ,, میں بہت مس کر رہا تھا اس نیم کو,, آہل ڈمپل کی نمائش کرتا ہوا بولا..

**********

آہل آج دوپہر میں کیوں,, دانی اس کے ساتھ برف پر پاؤں رکھتی ہوئی بولی..

برف اتنی زیادہ تھی کہ جونہی وہ پاؤں نیچے رکھتے گھٹنے سے نیچے ان کی ٹانگیں برف میں چھپ جاتیں..

کیونکہ یہ جگہ صبح میں دیکھنے والی ہے,, آہل اس کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا,,

اور بھی بہت سے کپل ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے,,

یہ دیکھ رہی ہو,, یہ ہلٹن فالز ہے,, آہل قدم روکتا ہوا بولا..

اوپر سے بہتی آبشار برف بنی ہوئی تھی,,

گرمیوں میں وہاں اوپر سے پانی بہتا ہوا نیچے آتا ہے اور اب دیکھو پانی نیچے آتا جم گیا ہے,, آہل ہاتھ کے اشارے سے بول رہا تھا..

دانی کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں زبان گنگ ہو گئی..

بہت زبردست... دانی کافی دیر بعد بولی,,

سیاہ پتھروں پر سفید برف کا راج تھا,,

جہاں بھی دیکھتے برف ہی برف دکھائی دیتی,, درخت, پتھر,بہتا ہوا پانی, زمین ہر چیز پر برف نے قبضہ جما رکھا تھا,,

آہل کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا,, آہل نے بازو دانی کے گرد حمائل کر دیا...


ایسا ہی ہوگا,, آہل نے کہتے ہوۓ دانی کے سر پر بوسہ دیا..

دانی کو زندگی کا احساس ہو رہا تھا سانس جو ختم ہو رہی تھی پھر سے چلنا شروع ہو گئی ...


اب جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ.. دانی اس سے الگ ہوتی ہوئی بولی..

گیم ہے کیا جو جلدی سے پوری کر لوں.. آہل گھور کر بولا..


میں نہ تمہارا بہت سارا خیال رکھوں گا پھر دیکھا تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ گے..


گڈ,, آہل ڈمپل کی دید کرواتا ہوا بولا..

دانی حسرت سے اس کے ڈمپل کو دیکھنے لگی..


سر کیسی طبیعت ہے آپ کی... رفیق اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا..

بہتر ہوں, رفیق تمہارا بہت شکریہ اگر تم وقت پر نہ آتے تو..

نہیں سر, آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں,, رفیق نے اسے ٹوک دیا...

تمہارے بغیر شاید اس سب ممکن نہ ہوتا... آہل ممنون تھا..

سر عاقب حیات نے مجھے کہا تھا کہ میں مرتے دم تک آپ کے ساتھ رہوں آپ کا ساتھ دوں چاہے اپنی جان قربان کیوں نہ کرنی پڑے....

میں ہمیشہ تمہیں اپنے ہمراہ دیکھنا چاہوں گا,, تم کچھ وقت کے لیے چھٹی لے لو فیملی کے ساتھ کہیں چلے جاؤ...

نہیں سر جب تک یہ سارا معاملہ ختم نہیں ہوتا میں سکون سے نہیں بیٹھ سکتا جب وقت آےُ گا میں خود آپ کو بول دوں گا...

آہل مسکرا کر اثبات میں سر ہلانے لگا...


زبیر رنداوھا اور ڈاکٹر قدسیہ پر فیسبک, ٹویٹر, یوٹیوب, غرض پورے سوشل میڈیا پر لعن طعن ہو رہی تھی...


لوگ انہیں گالیاں, بد دعائیں نا جانے کیا کیا بول رہے تھے... اور وہ دونوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے...


آہل نے زبیر پر اپنے ڈیڈ کے قتل کا کیس بھی دائر کر دیا اور عدالت سے اپیل کی کہ وہ زبیر کو عمر قید یا پھانسی کی سزا نہ دے,, آہل زبیر کو گلیوں میں رسوا ہوتا دیکھنا چاہتا تھا...


کیس چل رہا تھا آہل تین دن بعد ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آ گیا تھا کیس کا سارا کام رفیق دیکھ رہا تھا اور آہل کو آگاہ کرتا جا رہا تھا...


پہلی پیشی کے بعد زبیر کو عدالت سے باہر پولیس وین کی جانب لے جایا جا رہا تھا جب اس کے منہ پر جوتا آ لگا, صرف زبیر ہی نہیں ڈاکٹر قدسیہ کے منہ پر بھی جوتا لگا..


میڈیا نے یہ منظر نظر بند کر لیا, عوام خاصی مشتعل تھی..


زبیر کیسا لگ رہا ہے یہاں... آہل سلاخوں کے اس پار کھڑا تھا اور زبیر اُس پار, انڈر وسط میں ایک بلب حل رہا تھا جس کی روشنی مدھم سی تھی لوہے کی سلاخوں کے تھامے زبیر تاسف سے آہل کو دیکھ رہا تھا, مجرموں والے کپڑے پہنے,بکھرے بال وہ پہلے سے زیادہ بوڑھا دکھائی دینے لگا تھا,,

آہل تم نے اچھا نہیں.. زبیر افسردگی سے بولا..

تم نے بھی اچھا نہیں کیا تھا میرے مام ڈیڈ کے ساتھ اور اس کے مقابلے تو یہ کچھ بھی نہیں,, آہل حقارت سے بولا..

زبیر آہ بھرتا رخ موڑ گیا,,

اب کیا تماشہ دیکھنے آےُ ہو...

سنا ہے تمہیں دل کے مسائل پیش آ رہے ہیں فکر مت کرنا موت اتنی جلدی نہیں آےُ گی تمہیں...آہل نفرت سے کہتا چلنے لگا....


آہل کے اعصاب خاصے مضبوط تھے,, وہ صحتیاب ہو رہا تھا,,

آہل کا ہر کام دانی کے ہاتھ سے ہو کر گزرتا,, دانی دن بھر اس کے گرد رہتی,, دانی نے نماز پڑھنا شروع کر دیا تھا,, آہل اس خوشگوار تبدیلی کے رونما ہونے پر جہاں حیران تھا وہاں خوش بھی تھا...


آہل ایک بات سمجھ نہیں آئی.. دانی الجھ کر اسے دیکھنے لگی..

کیا... آہل آبرو اچکا کر بولا..


تم پولیس کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لاےُ,, گارڈز بھی کم نہیں تھے تعداد میں لیکن پھر بھی پولیس کو کیوں نہیں...

دانی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں البتہ آہل کا چہرہ پرسکون تھا..


اس لئے دانی کیونکہ پولیس کے ساتھ ہمیں میڈیا کو بھی بلانا تھا تاکہ وہ سب کو ان کا اصلی روپ دکھا سکے انہیں بےپردہ کر سکے ساری دنیا کے سامنے...


دانی اثبات میں سر ہلا رہی تھی,,

آہل سانس لینے کو لمحہ بھر رکا اور پھر سے گویا ہوا..


اگر میں اپنے ساتھ پولیس کو لاتا تو ہم دونوں بھی منظر پر آ جاتے میڈیا تم پر بھی بات کرتا اور میں تمہیں زیر بحث لانا مناسب نہیں سمجھتا,, جانتی ہو سب سے پرسنل بیوی ہوتی ہے اور کم از کم میں اپنی ذاتیات پر اس طرح سے بحث و تمحیص برداشت نہیں کر سکتا..


اس لئے میں گارڈز کے ساتھ تمہیں لینے آیا تاکہ میرے نکلتے ہی رفیق پولیس اور میڈیا کو لے آےُ...


اووہ اب سمجھی میں... دانی اسے دیکھتی ہوئی بولی..

آہل دھیرے سے مسکرانے لگا..

دانی گھڑی ڈیکھتی نماز پڑھنے چلی گئی...


آہل یقین نہیں آتا ڈیڈ نے مجھ پر گولی چلانے کا بولا..

دانی نماز پڑھ کر اس کے پاس آ بیٹھی..


دانی آج ایک راز سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں میں...

کیسا راز.. دانی آہل کو دیکھتی ہوئی بولی...


زبیر تمہارا باپ نہیں ہے,, آہل نے گویا دھماکہ کیا...

پھر,, میرے ماں باپ...


تم میری مام کے بھائی کی بیٹی ہوں یعنی میرے ماموں کی بیٹی...

تو میں زبیر کے گھر میں, دانی الجھ کر آہل کو دیکھنے لگی...

میں سمجھاتا ہوں,, آہل نے اسے ٹوکا..


تمہارے مام ڈیڈ کا ایک کار حادثے میں انتقال ہو گیا تھا.

تم بہت چھوٹی تھی اس وقت..

زبیر کے ساتھ ڈیڈ کی دوستی بہت گہری اور پرانی تھی..

اس لیے مام نے زبیر کو تمہاری دیکھ بھال کا بول دیا کیونکہ وہ میری شادی تم سے کروانا چاہتی تھیں اس لئے تمہیں ہم اپنے گھر نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ پھر تمہیں بتانا پڑتا تمہارے مام ڈیڈ کے متعلق..

یوں تم ماں باپ کے پیار سے بھی محروم رہتی, البتہ تمہیں پیار تو ملتا لیکن دل میں ہمیشہ یہی خیال رہتا کہ یہ میرے مام ڈیڈ نہیں...


مام نے تمہیں زبیر کے سپرد کرتے وقت یہ بات بول دی تھی کہ دانی ایمانت ہے ہماری اسے واپس اسی گھر میں آنا ہے..


وہ اپنے بھائی کی آخری نشانی کسی اور کو نہیں دینا چاہتی تھیں, اور تمہیں بہو بنانے کا فیصلہ تو تمہاری پیدائش کے وقت ہی کر لیا تھا انہوں نے...


تمہیں انجان رکھا تاکہ کبھی تم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ تمہارے مام ڈیڈ اس دنیا میں نہیں..

تم سے شادی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی مام نے کہا تھا کچھ بھی ہو جاےُ دانی کو اس گھر میں لانا ہے ہمارا خون ہمارے ہی خاندان میں آنا چائیے..


دانی انہماک سے سن رہی تھی..

اس حادثے کے بعد بھی میں مجبور تھا تم سے شادی کے لیے اسی باعث پھر محبت آڑے آ گئی,,آہل مسکرا کر بولا..


دانی کچھ پل خاموش رہی کچھ بول ہی نہ سکی..

آہل نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی..


لیکن پھر ڈیڈ مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے تھے..دانی نم آنکھوں سے بولی..

کیونکہ جس گھر میں تم سب رہ رہے ہو وہ تمہارے نام ہے وہ گھر تمہارے مام ڈیڈ کا یعنی دانین کا ہے..


اسی لئے تو زبیر تم سے محبت کرتا تھا تاکہ تمہاری شادی کے بعد وہ گھر خود رکھ لے اگر تمہیں یاد ہو اٹھارہ سال کی ہونے کے بعد زبیر نے تم سے کوئی پیپرز سائن کروانے چاہے تھے...آہل آبرو اچکا کر بولا..


ہاں مجھے یاد ہے جب میں پڑھنے لگی تو ڈیڈ گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ غلطی سے تمہیں دے دئیے یہ پیپرز,, پھر وہ واپس لے گئے..


ہممم,, آہل اثبات میں سر ہلانے لگا...

کتنا کچھ چھپایا ہوا تھا تم نے مجھ سے, سو میرے کزن اینڈ ہزبینڈ یہ بتائیں آپ پہلے سے شادی شدہ ہیں کیا...


تمہیں میری معصوم سی شکل دیکھ کر لگتا ہے کیا...

بلکل بھی نہیں لیکن جاننا میرا حق ہے..


اچھا لے لو پھر اپنا حق,, تم میری پہلی اور آخری بیوی ہو...آہل کی آنکھوں میں ڈھیروں جذبے سمٹ آےُ...


دانی کا چہرہ بلش کرنے لگا..

تم شاید ایمان چاچی کی بات کر رہی ہو...

چاچو کا بیٹا عمیر وہ مجھے بابا کہتا ہے..

کیونکہ میں اسے ایک یتیمی کی زندگی گزارتے نہیں دیکھنا چاہتا...

اسی لئے اسے اس محرومی سے دور رکھا ہے اس نے چاچو کو نہیں دیکھا سو مجھے ہی اپنا بابا سمجھتا ہے..


دانی کا چہرہ کھل اٹھا,,

تم شکل سے تو اتنے اچھے نہیں لگتے... دانی اس کے چہرے کا جائزہ لیتی ہوئی بولی..


شکل سے کیا بدمعاش لگتا ہوں,,

بلکل گینگسٹر لگتے ہو سب کو مارنے والے دہشتگرد ٹائپ.. بس داڑھی بڑی ہونے چائیے تھی,,. دانی نقشہ کھینچتی ہوئی بولی..


دہشتگردی پر اترا نہ پھر تمہیں معلوم ہو گا,, آہل دانی کی شرٹ کا گلا پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا...


اب تم بد معاش ہونے کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہو,, دانی پلکوں کی باڑ اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی,,


الزام تو لگا ہی دیا ہے سچ ہی بنا دیں پھر,, آہل شوخ لہجے میں بولا..

پہلے ٹھیک تو ہو جاؤ پھر بدمعاشی بھی کر لینا,, دانی اس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی..


مجھے تو ابھی کرنی ہے,, آہل شرارت سے بولا..

آہل میں نہ پنچ مار دوں گی سچ میں وہ بھی آپ کے منہ پر,, دانی خونخوار نظروں سے گھورتی ہوئی بولی..


اچھا جاؤ چھوڑ دیا اپنا سامان لے لو مجھ سے..

آہل دراز کھول کر اندر ہاتھ ڈالتا ہوا بولا..


کون سا سامان... دانی آبرو اچکا کر بولی...

آہل نے لاکٹ اور رنگ نکالی...


دانی کا ہاتھ پکڑ کر رنگ پہنائی...

تم نے کہا تھا جب میں واپس آؤں تو اپنے ہاتھ سے پہناؤں..

آہل آگے جھک کر دانی کے گلے میں لاکٹ پہنانے لگا...


اب پرفیکٹ ہے,, آہل دانی کا منہ تھپتھپاتا ہوا بولا..

دانی نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی..


میں دیکھتی ہوں,, دانی کہتی ہوئی دروازے کے پاس آئی..

رفیق سر کہ رہے ہیں عمیر اور ایمان میڈم آئیں ہیں..


انہیں بھیج دو.. آہل آگے ہو کر بولا..

کچھ ہی دیر میں عمیر اور ایمان بھی کمرے میں موجود تھیں...

بابا آپ کے چوٹ لگی ہے... وہ حیران سا بولا..

کچھ نہیں ہوا بابا کو... آہل اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا..

وہ آپ کی چھوٹی ماما ہیں آپ ان کے پاس جا کر بیٹھ جاؤ.. آہل صوفے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا, جہاں دانی بیٹھی تھی..


آج تم مجھے بتاؤ زرا مجھ سے ملتے کیوں نہیں تھے,,, ایمان کڑے تیور لئے بولی..


آہل لب دباےُ مسکراہٹ دبانے کی سعی کر رہا تھا..

وہ دراصل چاچی میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ ٹوٹ گیا اس لئے آپ کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا...


زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے شاید عاقب کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی, لیکن تم نے تو حد ہی کر دی...


اب تو بیٹھا ہوں نہ آپ کے سامنے.. آہل نادم سا بولا..

میں خود آئی ہوں تم نے تو بتانا گوارا نہیں کیا کہنے کو اپنے ہو تم.. وہ خفا خفا سی بولیں...


مجھے رفیق نے بتایا تو میں نے رفیق کو بولا پھر وہ مجھے لے کر آیا..

اب آپ آئیں ہیں نہ تو یہیں رہیں گیں ہمارے ساتھ یہ جو میڈم ہمیں دیکھ رہی ہے نہ میری بیوی ہے... آہل شرارت سے بولا..


دانی سٹپٹا گئی...

چہرہ موڑ کر عمیر سے بات کرنے لگی...


ایمان مسکرا کر دانی کو دیکھنے لگی..

ایمان عمیر کو لے کر باہر چلی گئی...


آہل بہت بدتمیز...

آپ کا آوارہ,دہشتگرد,جلاد سا شوہر بدتمیز ہی ہو گا,, آہل اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بولا..


دانی قہقہ لگاتی اس کے پاس آ گئی..

میرے بدتمیز حیات یہ بتائیں کہ ایمان چاچی کا کسی کو معلوم کیوں نہیں میرا مطلب کوئی بھی نہیں جانتا شاید..


چاچو نے چھپ کر شادی کی تھی میرے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا اسی لئے جو دیکھ لے انہیں میری بیوی بنا دیتے ہیں جیسے تم نے بنایا...


تم بھی تو چھپے رستم ہو پورے کے پورے,, ایسے راز دفن کر کے بیٹھے ہو...

مزید کوئی راز نہیں اب ہم سکون سے رہ سکتے ہیں...


پاکستان میں انصاف آٹے میں نمک کی مانند ملتا ہے,, زبیر کو کم سزا کی اپیل تو آہل نے کی تھی لیکن ڈاکٹر قدسیہ پانچ سال کی سزا کاٹ کر رہا ہو گئ...


ڈاکٹر قدسیہ رہائی کے بعد دکھائی نہیں دیں البتہ زبیر سڑکوں پر بھیک مانگتا دکھائی دیتا,کیونکہ نہ اس کے پاس گھر تھا نہ کاروبار..اور جاب, اسے کوئی چپڑاسی بھی نہیں رکھتا تھا..


کوئی اس پر تھوک دیتا تو کوئی ترس کھا کر پیسے دے جاتا...

وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کبھی کسی گلی میں دکھائ دیتا تو کبھی کسی گلی میں..


ڈاکٹر قدسیہ نے بھی باہر نکل کر اسے سہارا نہ دیا..

زبیر کے جن سے تعلقات تھے انہوں نے بھی منہ موڑ لیا انہیں اپنی ساخت زبیر سے زیادہ عزیز تھی... آسم بھی بیگانہ ہو گیا یہ سیاسی لوگ ایک ہی تھالی کے چٹے پٹے کی مانند ہوتے ہیں...


سفید بال چہرے پر جمی گرد کرتا جگہ جگہ سے پھٹا,, یہ زبیر پہلے والے زبیر سے بلکل مختلف تھا جو مر مر کر جی رہا تھا.. کبھی کھانے کو مل جاتا تو کبھی نہیں...


ثانیہ اور انعم کو آہل سنبھال رہا تھا البتہ وہ اپنے گھر میں رہائش اختیار کیے ہوئیں تھیں...

انعم کا علاج بھی آہل کروا کر رہا تھا,, زبیر کا انجام دیکھ کر اشہد نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی....

کہاں گم ہو گیُ... آہل نے دانی کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی..

دانی لمحوں میں سالوں کا سفر طے کر آئی تھی...

کہیں نہیں میرے ڈیشنگ حیات... دانی اس کے چہرے پر نظر ڈالتی ہوئی بولی...

آہل کا ڈمپل پھر سے عود آیا,, جو دانی کی توجہ کا مرکز بن گیا...

**********

ہم روز گھومتے رہیں گے کیا,,

دانی آہل کو دیکھتی ہوئ بولی..


کیوں تھک گئی ہو..

بلکل بھی نہیں...


میں نے سوچا ٹیٹو صاف کروانے سے پہلے گھوم پھر لیں,, آہل چوٹیوں پر جمی برف کو دیکھتا ہوا بولا..


یہاں سے گاڑی میں بیٹھتے ہیں,, آہل سڑک کی جانب دیکھتا ہوا بولا..

دانی اثبات میں سر ہلاتی چلنے لگی...

نیاگرا آبشار,, آہل دانی کی بازو میں اپنی بازو ڈالے چل رہا تھا...

دانی مبہوت زدہ سی اس منظر کو دیکھ رہی تھی..

برف ہی برف تھی ,,دانی نے نیچے دیکھا جہاں آبشار گرتی تھی..

دانی کو خوف محسوس ہونے لگا,,

برف جس طرح جمی تھی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ پانی کتنی تیزی سے بہتا ہو گا..

آہل اور دانی ریلنگ پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے..آس پاس دوسرے لوگ کھڑے تھے..

سامنے درخت برف سے ڈھکے ہوۓ تھے اور بہتی آبشار جمی ہوئی تھی...

اونچائی کافی زیادہ تھی,,

بہتا پانی اب برف کی شکل میں تھا...

آہل بہت کمال کی جگہ ہے,, دانی بھرپور انداز میں جائزہ لیتی ہوئی بولی...

دونوں نے گرے کلر کے اوورکوٹ پہن رکھے تھے,,دانی نے ہڈ سر پر ڈال رکھی تھی...

کافی دیر اس مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہ دونوں چلنے لگے...

دانی آہل کا ہاتھ پکڑے چل رہی تھی...

برف پر ان کے پاؤں کے نشاں بنتے جا رہے تھے...

ہر طرف سفیدی ہی سفیدی تھی....

وہ دونوں واک کر رہے تھے...

زندگی کے خوبصورت ترین لمحات میں سے یہ ایک لمحہ ہے.. دانی پاؤں کو دیکھتی ہوئی چل رہی تھی..

بلکل ایسا ہی ہے...اور میں لکی ہوں کہ تمہارے ساتھ ان لمحوں کو جی رہا ہوں...

میری خواہشوں میں سے ایک خواہش یہی تھی کہ تمہارے ساتھ یہ منظر دیکھوں.

معصوم حیات آپ کی خواہشیں کتنی معصوم ہیں نہ بلکل آپ کی طرح,, دانی طنزیہ بولی..


بلکل آپ کا شوہر نہایت معصوم ہے.. آہل سادگی سے بولا..

آف... دانی ہنستی ہوئی بولی..


کوئی شک ہے...آہل رک کر اسے دیکھنے لگا..

بلکل بھی نہیں.. دانی مسکراتی ہوئی بولی...


نہیں میری چھٹی حس کہ رہی ہے کہ ابھی بھی شک کی گنجائش نکل رہی ہے... آہل اسے دیکھتا ہوا بولا..


دانی نفی میں سر ہلاتی دھیرے دھیرے مسکرا رہی تھی..

آہل نے اس کی کمر کے گرد ہاتھ رکھ کر خود سے قریب کر لیا...


پکا,, وہ دانی کے کان کے قریب بولا..

پکا,, دانی بھی اسی کے انداز میں اس کے کان میں سرگوشی کرنے لگی...


آہل مسکرا رہا تھا اور دانی اس کے ڈمپل کو دیکھتی جا رہی تھی,,, دل گستاخی پر مجبور کر رہا تھا...


دانی آہل کے قریب ہوئی اور اس کے ڈمپل کو اپنا لمس بخشتی اس پر اپنے لب رکھ دئیے..


آہل کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی...

دانی آہستہ سے دور ہوئی تو بال چہرے پر آ گئے..


شک تو اب مجھے ہو رہا ہے.. آہل اس کے بال پیچھے کرتا ہوا بولا..

کر لیں مجھے کیا,, دانی شانے اچکاتی اس کی گرفت سے نکل گئی...


آہل مسکراتا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا اس کے پیچھے چلنے لگا...


مزید ایک ہفتہ وہ کینیڈا میں رہے ٹیٹو صاف کروانے کی غرض سے...

آہل اور دانی جیٹ میں بیٹھے تھے...


ایک بوجھ سا تھا دل پر دانی کے جو اب اتر چکا تھا,, اللہ نے اسے ایک بہترین ہمسفر سے نوازا تھا...


آہل.. دانی اس کا بازو ہلاتی ہوئی بولی جو آنکھیں بند کئے ہوۓ تھا...

جی.. آہل آنکھیں کھولتا اس کی جانب متوجہ ہوا..


تھینک یو...

کس لئے..آہل اس کے بال سیٹ کرتا ہوا بولا..

یہ ٹیٹو صاف کروانے کے لیے,, دانی کی آنکھیں نم ہو رہیں تھیں...


مجھے تھینکس کہنے کی ضرورت ہے کیا آپ کو.. آہل خفگی سے دیکھتا ہوا بولا..


نہیں لیکن کبھی کبھی یہ تھینکس اور سوری کسی رشتے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کا مطلب ہے آپ کے لئے وہ انسان اہمیت کا حامل ہے...


میں جانتا ہوں.. آہل پر اعتماد لہجے میں گویا ہوا..

اب ہم واپس جا رہے ہیں..

نہیں سعودی عرب,, مجھے وہاں بھی دورے کے لیے جانا تھا..


سعودی عرب کے نام پر دانی کی آنکھیں چمکنے لگیں...

دانی کے بنا کہے وہ اس کی پسند کی ہر چیز ممکن بنا رہا تھا...


آہل آپ بہت اچھے ہو,,

لیکن تم نہیں..آہل کے چہرے پر خفگی تھی..


کیوں,, دانی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی..

حارب آیا تھا گھر.. آہل تفتیشی انداز میں بولا...

جی آےُ تھے..حارب بھائی..


اور تم نے بات بھی کی اس سے... آہل کی پیشانی پر تین لکریں تھیں..

آہل صرف حال احوال دریافت کیا تھا میں نے تو.. دانی ششدہ سی بولی..


آپ کو منع کیا ہے نہ...

آہل حارب بھائی کی شادی انعم سے آپ نے کروائی ہے نہ...


جی ہاں...

تو کیا وہ ایسے ہیں... دانی بے یقینی کی کیفیت میں بولی..

نہیں..


تو کیا میں ایسی ہوں,, دانی بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بول رہی تھی..


بلکل بھی نہیں.. آہل نرمی سے بولا.

پھر.. دانی ناراض ناراض سی بولی..


بس مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کوئی آپ سے بات کرے میرا بس چلے تو آن کو بھی آپ سے بات نہ کرنے دو...


بہت اچھے سے جانتی ہوں آپ کو...

میرا دل چاہتا ہے آپ کو سب سے چھپا کر اپنے دل میں رکھ لوں,, آہل فرط جذبات سے مغلوب ہو کر بول رہا تھا..


پوری نہیں آؤں گی آپ کے دل میں.. دانی شہادت انگلی اس کے دل پر رکھتی ہوئی بولی..


جانتا ہوں اس لئے تو رکھتا نہیں,, آہل قہقہ لگاتا ہوا بولا..

آپ کی وجہ سے سب مجھے مغرور کہتے ہیں,, دانی نروٹھے پن سے بولی..


کہنے دو آپ نے کیا کرنا ہے آپ کے لئے صرف آہل حیات اہم ہونا چائیے..

دانی منہ بسورتی دوسری جانب دیکھنے لگی..


آہل فون نکال کر کال کرنے لگا,,

ہاں میں جا رہا ہوں,, وہاں پہنچ کر کانفرس کال کرنا پھر آگاہ کروں گا,,

سہی,,

اچھا ایسا کرو مجھے میل کر دینا,, میں شاہ فیصل سے ملنے سے پہلے چیک کر لوں گا..


نہیں وہاں کوئی خاص بات نہیں بن سکی,, موہوم سی امید ہے کہ وہ مشاورت کریں گے تو شاید راضی ہو جائیں باقی جیسے اللہ کی رضا...


نہیں ہاسپٹلز کو سب سے پہلے ,, نگرانی کے لئے ایماندار لوگوں کو رکھو,,

اور ہاں چاولوں کا زرمبادلہ آےُ تو مجھے آگاہ کرنا,, باقی انتظامات تم دیکھ لینا میں عمرہ کر کے آؤں گا...


میڈیا باتیں بناتا ہے تو بنانے دو,, یہ فرائض پہلے ہیں باقی کام بعد میں...

ہاں ٹھیک ہے مجھ کال کر لینا,, میں بتا دوں گا..

آہل نے کہ کر فون بند کر دیا..

***********

حارب آج اتنی لیٹ..انعم اسے دبے پیر کمرے میں آتے دیکھ کر اٹھ بیٹھی..

حارب مسکراتا ہوا آگے آیا...


تمہیں بتایا تو ہے آج کل ایک کیس پر کام کر رہا ہوں بس اسی وجہ سے.. حارب شانے اچکاتا ہوا بولا..


آپ کے بازو پر کیا ہے... انعم کی نظر جمے ہوۓ خون پر پڑی..

انعم چلتی ہوئی اس کے مقابل آ گئی..

کچھ نہیں بس چھوٹی سی چوٹ ہے.. حارب نے بازو پر ہاتھ رکھ کر ٹالنا چاہا..


دکھائیں مجھے... انعم فکرمندی سے بولی..

میں کہ رہا ہوں بس معمولی سی خراش..


حارب بول رہا تھا لیکن انعم نے اس کا ہاتھ ہٹا دیا,,

حارب یہ معمولی سی خراش ہے... انعم کی آنکھیں باہر نکل آئیں..


حارب سر کھجاتے ہوۓ انعم کو دیکھنے لگا...

اور آپ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں گئے ایسے ہی,, انعم ششدہ سی اسے دیکھ رہی تھی جو بلکل فریش تھا..


رات کے تین بجے کون سا ڈاکٹر بیٹھا ہو گا.. حارب ہاتھ پر بندھی گھڑی اس کے سامنے کرتا ہوا بولا..


آپ بیٹھیں میں کر دیتی ہوں.. انعم الماری کی جانب بڑھتی ہوئی بولی....

ہمارا شہزادہ سو رہا ہے.. حارب علی کو پیار کرتا ہوا بولا..


ایک گھنٹہ روتا رہا ہے پھر جا کر کہیں سویا.. انعم بولتی ہوئی اس سامنے آ گئی..


حارب نے شرٹ اتار دی,انعم اس کی بازو پکڑتی ہوئی زخم دھونے لگی,,

درد تو نہیں ہو رہا,,انعم کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے جبکہ حارب پرسکون سا بیٹھا تھا..


یہ پولیس والے کا ہاتھ ہے... وہ مسکراتا ہوا بولا..

اس کا مطلب یہ تو نہیں زخم لے کر یونہی گھومتے رہیں.. انعم خفگی سے بولی..


حارب دلچسپی سے انعم کا جائزہ لے رہا تھا جس کا چہرہ نیچے جھکا ہوا تھا بال جوڑے میں قید تھے چھوٹے بال جوڑے سے نکل کر چہرے پر جھول رہے تھے...


انعم اس کے بازو پر سفید پٹی باندھنے لگی..

ویسے مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے پہلی بار کی ہے آپ صبح سب سے پہلے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے...

انعم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی جو ٹٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا..


ایسے کیا دیکھ رہے ہیں... انعم آبرو اچکا کر بولی..

یہی کہ میں خوش نصیب ہوں مجھے تمہارے جیسے بیوی ملی.. حارب کی آنکھیں چمک رہیں تھیں...


آپ خود اتنے اچھے ہیں کہ,, انعم کی آنکھیں بھر آئیں...

رویا مت کرو, تم مسکراتی ہوئی اچھی لگتی ہو.. وہ انعم کا چہرہ صاف کرتا ہوا..


تھینک یو حارب....آپ نے مجھے سنبھالا...انعم اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی..

انعم تم اس سب کی حقدار ہو.. حارب اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا..


اب بس دوبارہ میں تمہیں روتا ہوا نہ دیکھوں یہ کیس پورا ہو جاےُ پھر چھٹیاں لے کر گھومنے چلیں گے... حارب نرم مسکراہٹ لئے بولا..

انعم نے مسکراتے ہوۓ اس کے شانے پر سر رکھ دیا..


اللہ اگر مشکل دیتا ہے تو اس کے بعد آسانی بھی ضرور آتی ہے,, ہر اندھیری رات کا اختتام دن کے اجالے پر ہوتا ہے...

************

دانی برقعہ پہنے ہوۓ تھی اور آہل احرام باندھے چل رہا تھا...

کعبے کے سامنے بیٹھ کر آہل سب کچھ بھول گیا تھا یہ بھی کہ دانی بھی اس کے ہمراہ ہے...


اللہ پاک معاف کر دینا مجھے میں نے خطا کی اور آپ نے مجھے اس خطا کو مٹانے کی توفیق دی...

آج میرے جسم پر وہ ٹیٹو نہیں ہے میں آپ کے حرم میں خود کو پاک کر کے آیا ہوں..

لیکن میں جانتا ہوں میرے اعمال میں وہ گناہ لکھا جا چکا ہے جسے کوئی بھی ازالہ نہیں مٹا سکتا,, متواتر آنسو آہل کے چہرے کو بھگو رہے تھے...


لیکن جتنا میرے بس میں ہو سکا میں نے کیا اس غلطی کو سدھارنے کی پوری کوشش کی اور آج الحمدللہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا..


بس آپ مجھے معاف کر دینا مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر اپنا کرم کرنا.. آج میں یہاں معافی مانگنے ہی آیا ہوں نا جانے ایسے لگتا تھا کہ آپ نے مجھے معاف نہیں کیا....


میرے ساتھ ساتھ دانی بھی اس بوجھ سے آزاد ہو گئی ہے یہ خیال ہی تکلیف دہ تھا کہ میرے باعث دانی گناہگار بنی..


مجھ سے زیادہ بد قسمت انسان اور کون ہو گا بھلا جس نے اپنی محرم کو ہی گنہگار بنا دیا...


آہل کرب میں تھا گناہ کبھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اور جب جب سامنے آتے ہیں تکلیف ہوتی ہے تب انسان خواہش کرتا ہے کاش میں اس گناہ کو ختم کر ڈالوں کوئی ایسا امر ہو جس سے یہ گناہ میرے نامہ اعمال سے مٹ جاےُ کیونکہ روز قیامت یہی گناہ پھر سے شرمندگی کا باعث بنے گا..


لیکن وہ مٹ نہیں سکتا,, اللہ نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا تاکہ وہ سہی غلط کی پہچان کر سکے برائی اچھائی میں فرق کر سکے,

گناہ و ثواب کی تفریق کر سکے تاکہ بعد میں اسے پچھتانا نہ پڑے کیونکہ انسان بنا سوچے سمجھے جو دل میں آیا کر ڈالتا ہے اور اس کے بعد صرف پچھتاوے ہاتھ آتے ہیں...


یہ دنیا کی زندگی جس کا کوئی بھروسہ نہیں ہم اس کے عوض اپنی آخرت برباد کر لیتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن اپنی آخرت کو نہیں سوچتے ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس کی تیاری نہیں کرتے..


ہم آخرت سے متعلق سن کر رو تو دیتے ہیں لیکن پھر بھی غفلت برتتے ہیں,

انسان غافل ہے اپنے آپ سے اپنے مقصد حیات ہے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاےُ گا تو آخرت میں منہ دکھانے کے لائق بھی ہو جاےُ گا..

لیکن اگر ابھی بھی دنیا کی رنگینیوں میں کھویا رہا تو اللہ حساب کرنے والا ہے اس دن کوئی بادشاہ کوئی فقیر نہیں بچ پاےُ گا,,

ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا, اے انسان ذرا اپنی آخرت کو سوچ تو کہاں کھڑا ہے کیا اللہ اور اس کے رسول کو منہ دکھا پاےُ گا؟؟؟


دانی چہرہ صاف کرتی آہل کو دیکھنے لگی جو رو رہا تھا..

دل کے داغ دھل چکے تھے,, دل پر جمی گرد صاف ہو گئی تو قلبِ سکوں بھی میسر آ گیا,, اس لمحے کوئی دانی سے پوچھتا کہ اللہ کی مہربانی کیا ہے,,


دانی کے دل سے ایک ہی صدا نکل رہی تھی شکر الحمدللہ ..

آہل کھڑا ہوا تو دانی بھی اس کی تقلید میں کھڑی ہو گئی..


وہ دونوں چلنے لگے,, نظر جب حرم کے دروازے پر پڑی تو آہل مسکرانے لگا اور دانی ششدہ رہ گئی...


آن بھاگتی ہوئی آ رہی تھی,, آہل زمین پر گھٹنے رکھے بانہیں کھولے ہوۓ تھا,,آن اس کے سینے سے لگ گئی...


میرا بےبی,, آہل اس کے چہرہ پر بوسہ دیتا ہوا بولا..

سامنے سے ایمان اور عمیر چلتے ہوئے آ رہے تھے..

بابا,,آپ کہاں تھے,, پتہ ہے میں نے آپ کو اتنا سارا مس کیا..


اچھا اب بابا کو ایک اچھی سی کس دیں,, آہل گال پر ہاتھ رکھتا کھڑا ہو گیا...

آن نے مسکراتے ہوۓ آہل کے گال پر بوسہ دیا...


میری جان.. آہل نے اس کے دونوں رخساروں پر بوسے دیئے..

ہااا,, ماما,, آن کی نظر دانی سے ٹکرائی تو ششدہ رہ گئی..


بابا ماما تو ڈاکٹر کے پاس گئیں تھیں,, وہ منہ پر ہاتھ رکھے حیرانی سے بولی..

دانی لب دباےُ مسکرانے لگی...


اچھاااا آپ نے جھوٹ بولا تھا نہ آپ بابا کے پاس گئ تھی نہ.. وہ انگلی اٹھاتی ہوئی بولی..

اپنے بابا سے پوچھیں,, دانی آہل کو دیکھتی ہوئی بولی..


ایمان سامنے آئی تو دانی اس سے ملنے لگی...

ایمان اور عمیر آگے چلے گئے...


آپ ماما کو تنگ کر رہیں تھیں نہ اس لئے بابا نے ماما کو بلا لیا..

مجھے کیوں نہیں بلایا آپ نے.. وہ آہل کا ناک زور سے دباتی ہوئی بولی..

پھر آپ بابا کو بھی تنگ کرتیں اس لئے.. آہل مسکراتا ہوا بولا.


میں تو تنگ نہیں کرتی کسی کو بھی ماما مجھے تنگ کرتی ہیں میری بات بھی نہیں مانتی,, بابا پتہ ہے کھانا کوک بناتا ہے اور غصہ ماما کرتی ہیں,, وہ منہ بناتی ہوئی بولی..

اچھا مجھے بھی ملنے دیں اب.. دانی آہل کو گھورتی ہوئی بولی..

میرے پیچھے آپ بہت بار ملی ہیں اب بس..


ہیں,, مطلب..

مطلب آن سے دور رہا کریں.. آہل بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا..

کیوں,, دانی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی...


بس میرے قریب رہا کریں.. آہل شرارت سے بولا..

جب آن چھوٹی تھی تب بھی دور کرتے نہ آن کو مجھ سے...


تب تو مجبور تھا اب تو ماشاءاللہ میری جان بڑھ ہو گئی ہے.. آہل آن کا رخسار کھینچتا ہوا بولا..

آن بھی برقعہ پہنے ساتھ میں اسکارف لئے ہوئی تھی...


وہ بار بار ڈمپل کی نمائش کر رہی تھی چھوٹی سی آن اس مختلف انداز میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی..


کیا بول رہے ہیں آپ دونوں میں سب سن رہی ہوں... آن ناک چڑھاتی ہوئی بولی...


اب آن کا جو بھی کام ہو گا آپ ہی کریں گے...

میرے سامنے نہیں میری غیرموجودگی میں آن سے مل سکتی ہیں آپ... آہل لب دباےُ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا..

ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گئی, دانی پیشانی پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی..

کیا.. آہل آبرو اچکا کر اسے دیکھنے لگا...

آن کعبہ کو دیکھنے لگی...

ہماری فیملی میں ایک اور مہمان آنے والا ہے.. دانی کا چہرہ چمک رہا تھا...

سچ میں...آہل بغور اسے دیکھ رہا تھا..

بلکل.. دانی تائیدی انداز میں بولی...

ماما یہ اللہ کا گھر ہے... آن سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی..

جی بیٹا یہ اللہ کا گھر ہے...

آن دلچسپی سے جائزہ لینے لگی...

پہلے کیوں نہیں بتایا.. آہل گھور کر بولا..

مجھے بھی صبح معلوم ہوا ڈاکٹر کا فون آیا تھا,, آہل نے دوسرا بازو دانی کے گرد حائل کر دیا دانی اس کے سینے پر سر رکھ دیا...

سامنے کعبہ نظر آ رہا تھا اور ڈھیروں خوشیاں تھیں جنہیں سمیٹتے سمیٹتے ان کا دامن چھوٹا پڑ رہا تھا...

آپ میری ماما ہو نہ,, عمیر کہ رہا تھا میری ماما ہیں,, آن چہرہ موڑ کر دانی کو دیکھنے لگی..

میں آن کی ماما ہوں.. دانی اس کے چہرہ پر بوسہ دیتی ہوئی بولی...

دانی سرشار سی ہو کر آہل کے سینے پر سر رکھے کعبہ کو دیکھنے لگی...

دانی کو دیکھ کر آن نے بھی چہرہ آہل کے چہرہ ساتھ لگا دیا...

آہل دونوں کو دیکھ کر مسکرانے لگا جس میں اس کے ڈمپل اور آنکھوں نے بھرپور ساتھ دیا..

اگر اللہ نے کچھ لیا تھا تو اس کے بدلے بہت سی خوشیاں بھی دیں تھیں اور آہل جتنا شکر ادا کرتا کم تھا..

میرا عشق میرا جنوں بس توں...

آہل دانی کو دیکھتا ہوا بولا اور لب دم بخود مسکرانے لگے..

 ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yeh Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Yeh Ishq  written by Hamna Tanveer  . Yeh Ishq by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment