Dil Pukary Tujhe By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 2 July 2024

Dil Pukary Tujhe By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story

Dil Pukary Tujhe By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Mera Dil Pukary Tujhe By Farwa Khalid Complete Romantic Novel


Novel Name: Dil Pukary Tujhe

Writer Name: Farwa Khalid 

Category: Complete Novel


اِشمل سلمان آپ کا نکاح ارسلان احمد کے ساتھ باعیوض   تین لاکھ حق مہر کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے.؟

مولوی صاحب کی آواز اُس کے کانوں میں گونجی تھی. 

اِتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو مولوی صاحب کے دلہے کے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا آپ نے.

اِس سے پہلے کے وہ اقرار میں جواب دیتی جب کمرے میں اُبھرتی ایک اور آواز سن کر وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی. جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ اُس تک پہنچ چکا تھا.

اِشمل نے جھٹکے سے چہرہ اُوپر اُٹھایا تھا جس کی وجہ سے گھوگنھٹ کی شکل میں لیا دوپٹہ شانوں پر ڈھلک گیا تھا. آہان رضا میر چہرے پر سرد تاثرات سجائے اُسے غصے سے گھور رہا تھا. اسلحہ سے لیس گارڈز اُس کے پیچھے موجود تھے.

مولوی صاحب آپ نکاح شروع کریں میری بیٹی کا نکاح ارسلان سے ہی ہوگا.

سلمان صاحب اُسے وہاں دیکھ کر دل میں موجود ڈر کے باوجود اپنے لہجے کو مضبوط بناتے بولے.

جب سلمان صاحب کی بات کو نظر انداز کرتے وہ شہانہ چال چلتا آگے بڑھ کر اِشمل کے ساتھ بیٹھی سدرہ کو ہٹنے کا اشارہ کرتا اُس کے ساتھ جا بیٹھا تھا.

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی اور یہ...

اِشمل اُس کی حرکت پر طیش میں آتی ابھی بولی ہی تھی جب آہان کے اشارہ کرنے پر اُس کے آدمیوں نے اِشمل کے پاپا اور بھائی کے سر پر بندوق رکھی تھی. اِشمل نے آنکھیں پھاڑے آہان کی طرف دیکھا تھا. جو وارن کرتی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.

اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں. اِس کا ثبوت بھی تمہیں مل جائے گا اپنے باپ اور بھائی کھو کر اگر تم نے میرے ساتھ نکاح سے انکار کیا تو. بولو تیار ہو میرے ساتھ نکاح کے لیے.

اُس کی بات سنتے اِشمل نے روتی آنکھوں سے سلمان صاحب اور احد کی طرف دیکھا تھا اور بے بسی سے سر اثبات میں ہلایا تھا. اِس کے علاوہ اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا.

اِشمل تم ایسا کچھ نہیں کرو گی. کرنے دو اِسے جو یہ کرنا چاہتا ہے. 

سلمان صاحب غصے سے آہان کی طرف دیکھتے چلاتے ہوئے بولے.

دیکھیے سر آپ لوگوں نے پہلے ہی فرار ہوکر جو اتنی بڑی غلطی کی ہے اُس کی سزا ابھی باقی ہے مزید کچھ ایسا نہ کریں جس پر آپ لوگوں کو پچھتانہ پڑے. معاف تو میں کسی کو کرتا نہیں ہوں کیونکہ یہ لفظ میری ڈکشنری میں ہے ہی نہیں.

آہان نے سخت لہجے میں اُنہیں باور کروایا تھا 

بیٹا پلیز خدا کے لیے ایسا مت کرو میری بیٹی تم سے نکاح نہیں کرنا چاہتی. کیوں کر رہے ہو زبردستی. چھوڑ دو اِنہیں.

اسما بیگم روتے ہوئے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتی بولی تھیں. وہاں موجود باقی لوگ بلکل خاموشی سے اپنی جگہ ڈرے بیٹھے تھے. کوئی بھی اِن کے معاملے میں گھس کر اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا.

دیکھیں والدہ صاحبہ آپ میرے لیے بہت قابلے عزت ہیں ایسا مت کریں. اور اِس سب کا فائدہ بھی نہیں ہے. جب میں اپنی مرضی کرنے پر آؤں تو میری سگی ماں بھی مجھے نہیں روکتیں کونکہ وہ جانتی ہیں میں اپنا کہا پورا کرکے رہوں گا تو پلیز یہ سب کرکے مجھے شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش مت کریں.

وہ ڈھٹائی سے بولتا اُنہیں خاموش کروا گیا تھا. اور اِشمل کا دوپٹہ پکڑ کر واپس گھوگھنٹ کی طرح اُس کے چہرے پر ڈال دیا تھا.

جب اُس کے اشارے پر مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا تھا اور وہ کچھ ہی دیر میں ناچاہتے ہوئے بھی اِشمل سلمان سے اِشمل آہان رضا میر بن چکی تھی. 

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

صبح بخیر ایوری ون.

اِشمل ڈائنگ ٹیبل پر آتے بولی تھی.

اِشمل آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ یہ کیا طریقہ ہے ناشتہ کرنے کا.

اسما بیگم اُسے یوں ہی کھڑے کھڑے جوس کا گلاس منہ سے لگاتے دیکھ ٹوکتے ہوئے بولیں.

ماما پلیز ٹائم نہیں ہے میں لیٹ ہو رہی ہوں.

اِشمل جلدی جلدی بریڈ کھاتے بولی.

پاپا دیکھے اپنی لاڈلی بیٹی کی حرکتوں کو آپ صرف ہمیں ہی ڈانٹتے رہتے ہیں. 

پندرہ سالہ احد منہ بناتے اِشمل کی چغلی کرتے بولا.

چپ کرکے بیٹھو چھوٹے. پاپا مجھے اِس لیے نہیں ڈانٹتے کے میں اپنی ڈیوٹی پر پہنچنے کے لیے جلدی کررہی ہوں تم دونوں کی طرح آہستہ آہستہ ناشتہ کرکے سکول سے لیٹ ہونے کی کوشش نہیں کر رہی.

اِشمل اُسے لتاڑتے ہوئے بولی. سلمان صاحب اُن کی باتوں پر مسکراتے خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے.

آپی لیکن آپ اِس بات سے انکار بھی نہیں کرسکتی کے آپ بابا کی کچھ زیادہ ہی فیورٹ ہیں.

ہما بھی منہ چڑاتے بولی کیونکہ وہ دونوں اِس بات سے بہت جیلس ہوتے تھے کے ہمیشہ سے اِشمل سلمان صاحب کی لاڈلی رہی تھی.

ہاں تو تم لوگ بھی بنو نا فیورٹ میں نے کب مناہ کیا ہے. پر اُس سے پہلے اپنی شرارتے کم کرنی پڑیں گی تم لوگوں کو جو کے تم دونوں کے لیے کافی مشکل کام ہے. اوکے میں جارہی ہوں اِن دونوں نے باتوں میں لگا کر مجھے مزید لیٹ کروا دیا ہے.

اِشمل سلمان صاحب اور اسما بیگم کا گال چوم کر اُن سے دعائیں لیتی اور  اُن دونوں کو گھورتی جلدی سے وہاں سے نکل گئی تھی.

سلمان صاحب اور اسما بیگم کی تین اولادیں تھی. سب سے بڑی اِشمل سلمان جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اب ایک پرائیوٹ ہاسپٹل میں جاب کر رہی تھی. جس کا شمار شہر کے بڑے ہاسپٹلز میں ہوتا تھا. اُس سے چھوٹی ہما سلمان تھی جو انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد اب یونیورسٹی میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی. سب سے چھوٹا احد سلمان تھا جو میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا.

سلمان صاحب ایک سرکاری ملازم سفید پوش سے انسان تھے. اُن کی زندگی کا گزر بسر بہت اچھے سے ہورہا تھا. وہ اپنے چھوٹے سے گھرانے میں بہت خوشحال اور مطمئن تھے.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

دیکھئں آپ یوں آئی سی یو کے سامنے گنز اُٹھا کر نہیں کھڑے ہوسکتے پلیز آپ اُس طرف چلے جائیں.

نرس مسکین سی صورت بنا کر اُن ہٹے کٹے گارڈز کو دیکھتی بولی. جو اُس کے کتنی بار کہنے کے بعد بھی اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تھے.

جب تک میرے بیٹے کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہ مل جائے یہ لوگ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے. کیا کر رہے یہ ڈاکٹر اندر اتنی دیر سے بتاتے کیوں نہیں کچھ.

حسنین رضا میر پریشانی اور بے چینی کے ساتھ بولے تھے. اُن کا جان سے عزیز اکلوتا بیٹا  اِس وقت آئی سی یو میں تھا. نشے میں گاڑی چلانے کی وجہ سے اُس کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا. اطلاع ملتے ہی وہ اپنے بھائی فرقان رضا میر کے ساتھ گارڈز کو لے کر شہر کے لیے نکل آئے تھے. لیکن ڈاکٹر اُنہیں کچھ بتا ہی نہیں رہے تھے. کس وقت سے اُن کی جان سُولی پر اَٹکی ہوئی تھی.

ڈاکٹر کیسا ہے میرا بیٹا اب. اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے اندر.

ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر اِشمل کو آئی سی یو سے نکلتا دیکھ کر حسنین رضا میر جلدی سے اُن کی طرف بڑھتے بولے.

دیکھیں اُن کے بازو پر کافی گہری چوٹ آئی ہے. اور کچھ کانچ کے ٹکڑے ٹوٹ کر بازو میں پھنس گئے تھے. جس کی وجہ سے ہمیں سرجری کرنی پڑی. لیکن اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے اُنہیں روم میں شفٹ کیا جا رہا ہے. تھوڑی دیر میں اُنہیں ہوش آجائے گا.  

ڈاکٹر شہریار نے تفصیل سے بتاتے اُن کی پریشانی دور کی تھی. حسنین رضا میر سکھ کا سانس لیتے پیچھے ہٹے تھے اور فرقان رضا میر کو گھر میں انفارم کرنے کا کہا تھا. جہاں سے کتنی بار فون آچکا تھا. وہاں بھی سب بہت پریشان تھے. گھر کی عورتوں کو اِس طرح ہاسپٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

اِشمل یہ جو پیشنٹ کل ایکسیڈنٹ کے بعد آیا ہے. کچھ زیادہ ہینڈسم نہیں ہے. یار اُس کی آنکھیں ہی بندے کو اپنا دیوانہ بنا دیتی ہیں. کاش تمہاری جگہ میری ڈیوٹی وہاں لگی ہوتی.

سدرہ اُس کے ساتھ سٹاف روم کی طرف جاتے ٹھنڈی آہ بھرتے بولی. جب اِشمل اُسے بس دیکھ کر رہ گئی تھی. صبح سے چار ڈاکٹر سے پہلے ہی وہ یہ بات سن چکی تھی.

کاش واقعی میری جگہ تمہاری لگ جاتی کیونکہ کل سے اُس نے مجھے تنگ کرکے رکھا ہوا ہے.  ایک دن میں ہی دماغ خراب کردیا ہے میرا. اور دیکھتا ایسے گھور گھور کر ہے.اگر وہ میرا پیشنٹ نہ ہوتا تو بتاتی میں اُسے.

اِشمل دانت پیستی بولی.

ویسے ڈسچارج کب ہونا ہے اُس نے.

سدرہ اُس کی اُکتائی ہوئی شکل دیکھ کر بولی.

ابھی تو اُس کے بازو کا زخم کافی گہرا ہے شاید کچھ دن لگ جائیں.

اِشمل صوفے پر بیٹھ کر سامنے پڑی فائل اُٹھاتے بولی.

ڈاکٹر صاحبہ وہ روم نمبر 27 کے پیشنٹ میڈیسن نہیں لے رہے کہہ رہے ہیں مجھے بازو میں درد ہورہا ہے ڈاکٹر کو بلاؤ.

نرس اُس کو پیغام سناتے بولی.

اِس بندے کے ساتھ مسئلہ کیا ہے آخر. چلو تم میں آرہی ہوں.

اِشمل نے زور سےفائل واپس ٹیبل پر پٹخی تھی. کیونکہ کل سے اِس پیشنٹ نے ایسے ہی اُس کی ناک میں دم کرکے رکھا ہوا تھا. جب سدرہ نے اُس کے چِڑنے پر اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی.

ہاں ہنس لو تم. ﷲ کرے تمہیں بھی کوئی ایسا پیشنٹ ملے تو سمجھ آئے تمہیں بھی. اور لگتا ہے یہ تو پہلی بار کسی ہاسپٹل میں آیا ہے جس کو یہ نہیں پتا کہ ڈاکٹر فل ٹائم کسی ایک پیشنٹ کے پاس کھڑے ہوکر اُسے انٹرٹین نہیں کر سکتی.

اِشمل ناچار اُٹھتے ہوئے بولی.

آہان رضا میر کو جب ایکسیڈنٹ کے بعد لایا گیا تھا تو وہ نشے میں تھا. جس سے اِشمل کو اُس کے بارے میں کافی حد تک یہ تو سمجھ آچکا تھا کہ وہ کس طبیعت کا مالک ہے. اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اُس سے دور رہنا چاہتی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


دیکھئے میر صاحب آپ میڈیسن کیوں نہیں لے رہے ہیں. اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا زخم کیسے ٹھیک ہوگا.

اِشمل اُس کے روم میں آتی چہرے پر اپنی مخصوص پروفیشنل مسکراہٹ سجا کر بولی.

میں نے یہ کب کہا مجھے میڈیسن نہیں لینی. لینی ہیں لیکن اِس نرس سے نہیں تم سے ڈاکٹر اور چیک اپ بھی کرو میرے بازو کا اِس میں صبح سے بہت درد ہے.

آہان رضا میر اِشمل کے چہرے پر نظریں گاڑھے بولا.

بےبی پنک کلر کے کپڑوں پر سفید کوٹ پہنے سوٹ کے ہمرنگ دوپٹے کو سلیقے سے اوڑھے وہ سادگی میں بھی غضب ڈھارہی تھی. آہان کی نظریں بار بار دوپٹے کے ہالے میں موجود اُس کے چہرے پر پھسل رہی تھیں. جسے محسوس کرکے اِشمل نے ناگواری سے پہلو بدلا تھا.

نرس میڈیسن دیں مجھے.

نرس سے میڈیسن اور پانی کا گلاس لیتی وہ اُس کی طرف بڑھی تھی. ایک دن میں وہ اتنا تو جان ہی گئی تھی کہ یہ شخص حد درجہ ضدی تھا اپنی بات منوائے بغیر نہیں رہے گا.

گلاس پکڑاتے اِشمل کا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے ٹچ ہوا تھا. جس پر اِشمل نے فوراً ہاتھ پیچھے کھینچا تھا.

میرا زخم بھی چیک کرو.

میڈیسن لینے کے بعد اگلا آرڈر جاری ہوا تھا.

میں نے صبح ہی آپ کے بازو کی ڈریسنگ چینج کی ہے. اِس طرح بار بار کھولنے سے آپ کا زخم ٹھیک نہیں ہوگا. آپ پلیز سمجھے میری بات کو.

اِشمل نہایت تحمل سے بولی تھی کیونکہ جانتی تھی وہ جان بوجھ کر اُسے تنگ کر رہا ہے.

تو میں چاہتا ہی کب ہوں کے زخم ٹھیک ہو.

وہ اِشمل کی طرف دیکھتا نرس کی بھی پرواہ کیے بغیر ڈھٹائی سے بولا.

آپ اب ریسٹ کریں میں باقی پیشنٹ کو دیکھ لوں.

اُس کی بات کو یکسر نظر انداز کرتے وہ مزید اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر وہاں سے نکل گئی تھی. .

اِنٹرسٹنگ مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ اِس بورنگ ہاسپٹل میں کوئی اتنی انٹرسٹنگ چیز بھی موجود ہوگی. ورنہ بہت پہلے ہی ایکسیڈنٹ کروا کر آجاتا یہاں. ڈاکٹر اِشمل تم جتنا مجھ سے بھاگو گی میں اُتنا تمہیں پاس بلاؤ گا اپنے.

اُس کی اِتنی عجلت پر آہان رضا میر دل میں سوچتے مسکرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ایکسکیوزمی آہان رضا میر اِس ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں مجھے اُن کا روم نمبر بتا دیں.

اِشمل ریسپشن کے پاس سے گزر رہی تھی جب اُسے وہاں ایک بہت ہی ماڈرن سی لڑکی کھڑی نظر آئی تھی جو آہان رضا میر سے ملنے آئی تھی شاید.

اُس کے حلیے سے وہ اتنا اندازہ تو لگا ہی چکی تھی کہ ضرور یہ اُس چھیچورے کی کوئی گرل فرینڈ ہی ہوسکتی ہے. اِشمل سر جھٹکتی وارڈ کی طرف بڑھ گئی تھی.

ڈاکٹر اِشمل وہ روم نمبر 27 کے پیشنٹ آپ کو دو تین دفعہ بلاچکے ہیں. آپ پلیز ....

ابھی وارڈ میں وہ پہلے مریض کی طرف ہی بڑھی تھی جب نرس نے اُسے پھر سے آہان رضا میر کا پیغام دیتے بےچارگی سے کہا تھا.

میں ابھی اِن مریضوں کو دیکھ لوں پھر جاتی ہوں. ویسے بھی ابھی میر صاحب کی خاص مہمان آچکی ہے فلحال بزی ہوں گے وہ.

وہ نرس کو جواب دیتی بولی.

وارڈ کے مریضوں کو چیک کرتے اُسے تقریباً ایک گھنٹا تو ہوچکا تھا. یہی سوچ کر وہ آہان کے روم کی طرف بڑھی تھی کہ اب تک اُس کی وہ گرل فرینڈ جاچکی ہوگی. اب ویسے بھی اُسکا ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے والا تھا اور پھر اُسے گھر کے لیے نکلنا تھا.

روم میں قدم رکھتے سامنے کا منظر دیکھ کر اِشمل نے فوراً سے نظریں نیچے کی تھیں. وہ لڑکی آہان کے پاس بیڈ پر بیٹھی بلکل اُس کے اُوپر جھکی نہ جانے کیا کررہی تھی. اِشمل اِس بے حیائی پر شرم سے سُرخ ہوتی پلٹنے ہی لگی تھی جب آہٹ پر اُن دونوں نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا تھا.

ارے ڈاکٹر صاحبہ واپس کہاں جارہی ہیں اندر آئیں نا.

اُسے وہاں سے پلٹتے دیکھ آہان جلدی سے بولا تھا.

جب نا چاہتے ہوئے بھی اِشمل اندر کی طرف بڑھی تھی. وہ لڑکی ابھی بھی ویسے ہی اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھی تھی.

تانیہ اِن سے ملو یہ ہیں ڈاکٹر اِشمل اتنے دنوں سے میرا بہت اچھے سے خیال رکھ رہی ہیں.

آہان اِشمل کے لال پڑتے چہرے کو بغور دیکھتے تانیہ کو بتاتے بولا تھا.

او اب میں سمجھی آہان رضا میر کا ہاسپٹل سے ڈسچارج ہونے پر دل کیوں نہیں چاہ رہا.

تانیہ بھی اِشمل کا سر سے پیر تک جائزہ لیتی بولی.

اُسے اِس ڈاکٹر کی خوبصورتی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی. تانیہ آہان کی سب سے قریبی دوست تھی. اور اُسے بے حد پسند کرتی تھی کچھ دنوں سے آوٹ آف کنٹری ہونے کی وجہ سے وہ آہان سے مل نہیں پائی تھی. اِس لیے آج واپس آتے ہی سب سے پہلے آہان کے پاس آئی تھی.

ویسے کافی عقل مند ہو تم اتنی جلدی سمجھ گئی.

آہان اُس کی بات پر معنی خیزی سے مسکراتا بولا تھا.

اُس کا جواب تانیہ کو بلکل اچھا نہیں لگا تھا. اُسے اِس ڈاکٹر سے عجیب سی جیلسی محسوس ہوئی تھی.

اوکے آہان اب میں چلتی ہوں. جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ. تم اِس طرح بیڈ پر لیٹے بلکل اچھے نہیں لگ رہے.

اِس سے پہلے کے اِشمل اُن کی باتوں پر اُنہیں ٹوکتی تانیہ اپنی بات کہتی اُٹھی تھی اور ایک بار پھر جھک کر آہان کے چہرے پر بوسہ دیتی وہاں سے چلی گئی تھی. جبکہ اِشمل دل ہی دل میں اِس کی حرکت پر استغفرﷲ پڑھ کر رہ گئی تھی. لیکن مغرب کی پیروی کرتے وہ لوگ اتنے آگے نکل چکے تھے کہ اُن لوگوں کے لیے شاید اب یہ عام سی بات تھی.

اِشمل خود بھی جلدی سے اُس کا چیک اپ کرتی وہاں سے نکل گئی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بیٹا میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں ڈسچارج کرنے کی. تمہاری ماں بہت پریشان ہے تمہارے لیے وہ دیکھنا چاہتی ہے تمہیں.

حسنیں رضا میر آج پھر اُسے ساتھ آنے کے لیے راضی کر رہے تھے جو پچھلے ایک ہفتے سے اُن کے اتنا کہنے کے باوجود بھی ڈسچارج ہونے کے لیے تیار نہیں تھا. اُن کی سمجھ سے بالاتر تھی یہ بات کہ پہلے ہاسپٹل کے نام سے چڑہنے والا اب وہاں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں تھا.

بابا بولا نا میں نے آپ کو. جب تک میرا زخم بلکل ٹھیک نہیں ہو جاتا میں یہیں رہوں گا. اب اِس بارے میں میں مزید کوئی بات نہیں سننا چاہتا.

آہان کے دوٹوک لہجے پر حسنین رضا میر نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کر لی تھی. ہر ایک پر اپنا حکم چلانے والے اپنے لاڈلے کے سامنے آکر بے بس ہو جاتے تھے. جو ضد اور غصے میں اُن سے بھی بہت آگے تھا.

پاس کھڑی نرس کو ہدایت دیتی اِشمل نے اُس کی بات پر دل ہی دل میں اُسے کوسا تھا. جو کسی صورت یہاں سے جانے کے لیے تیار نہیں تھا. اور پچھلے ایک ہفتے سے اُس کی جان عذاب میں ڈالی ہوئی تھی. اُس کا زخم اب کافی بہتر ہوچکا تھا.

ڈاکٹر صاحبہ میرے بیٹے کا اچھے سے خیال رکھا جانا چاہئے اِس کے معاملے میں میں کسی قسم کی کوہتاہی برداشت نہیں کروں گا.

اِشمل کو اپنے رُعب دار لہجے میں ہدایت دیتے وہ آہان سے مل کر گارڈز کے ساتھ وہاں سے نکل گئے تھے.

ڈاکٹر صاحبہ تم کہاں جارہی ہیں شاید تم نے سنا نہیں ابھی میرے والد محترم کیا کہہ کر گئے ہیں.

اِشمل باہر کی طرف بڑھی ہی تھی جب آہان کی بات پر پلٹ کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا.

میڈیسن تو دے دی ہیں آپ کو اِس سے زیادہ آپ کا اور کیسے خیال رکھا جائے.

اُس کی طرف دیکھتے اِشمل لفظوں کو چبا چبا کر بولی تھی. اُس کا دل کرتا تھا اِس شخص کی آنکھیں نوچ لے جن سے وہ اُسے بے باکی سے گھورتا تھا.

قریب تو آؤ بتاتا ہوں کہ کیسے خیال رکھا جاتا ہے. اب اتنے دور سے کیسے سمجھ آئے گی.

اُسے پاس آنے کا اِشارہ کرتے وہ معنی خیزی سے بولا تھا.

واٹ ربش آپ کی اتنے دنوں سے فضول حرکتیں میں خاموشی سے برداشت کر رہی ہوں اِس کا یہ مطلب نہیں آپ کچھ بھی بولیں گے. وہ اور لڑکیاں ہوتی ہوں گی جن کو یہ سب پسند ہوگا لیکن میں ویسی نہیں ہوں تو آپ اُنہی پر ہی یہ سب ٹرائی کریں. مجھے اُن جیسا سمجھنے کی غلطی مت کیجئے گا.

اُس کی بات اور لہجے پر اِشمل غصے سے لال ہوتی بولی.

جب اِشمل کی بات سن کر آہان رضا میر نے قہقہ لگایا تھا.

ابھی تو میں نے کوئی فضول حرکت کی بھی نہیں ڈاکٹر تم ابھی سے تنگ آگئی. آگے کیا ہوگا تمہارا. جب میں نے سچ میں کوئی حرکت کر دی تو. اور میں اچھے سے جانتا ہوں کہ تم اُن سب جیسی نہیں ہو. جو میرے ایک اشارے پر میری بانہوں میں ہوتی ہیں. لیکن ہاں تم پر کچھ زیادہ محنت کرنی پڑے گئی پر آنا تو تمہیں بھی یہیں ہوگا.

شٹ اپ بہت ہوگئی تمہاری فضول بکواس اب میں کسی صورت مزید اِس روم میں ڈیوٹی نہیں کروں گی.

اِشمل غصے سے کہتی وہاں سے نکل گئی تھی.

معصوم سی ڈاکٹر صاحبہ تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہارا یہ مجھ پر چلانا تمہیں کتنا مہنگا پڑے گا.

اِشمل کے یوں غصے سے جانے پر آہان رضا میر آگے کا سوچتے ہوئے بولا تھا.

پہلی نظر میں ہی ڈاکٹر اِشمل اُسے بہت پسند آئی تھی. اور اُوپر سے اُس کا ایٹی ٹیوڈ جس طرح وہ آہان رضا میر جیسے شاندار شخص کو اِگنور کرتی تھی یہ بات آہان کو مزید اُس کی طرف متوجہ کر گئی تھی.

ہر جگہ کی طرح یہاں پر بھی اُس نے بہت سی ڈاکٹرز کو اُس کے سٹیٹس اور پرسنیلٹی سے مرعوب ہوتے دیکھا تھا. لیکن ڈاکٹر اِشمل اُسے سب سے مختلف لگی تھی. وہ اُس کی نظروں میں بھی باقیوں کی طرح اپنے لیے ستائش دیکھنا چاہتا تھا لیکن اُس کی نگاہوں میں اپنے لیے ناگواری دیکھ وہ اُسے مزید زِچ کرتا رہتا تھا. See less

واؤ آپی کیا بنا رہی ہیں آپ.

ہما کچن میں داخل ہوتی بولی.

اِشمل نے آج ہاسپٹل سے چھٹی کی تھی. اتنے دنوں کی ٹف روٹین سے وہ تھک چکی تھی. تھوڑا ریسٹ چاہتی تھی اور کل ہی اُس نے اپنے سینئر ڈاکٹر عثمان سے بات کرکے آہان رضا میر کے روم سے اپنی ڈیوٹی ہٹوا لی تھی. اب وہ کافی مطمیئن تھی. اور مزے سے کوکنگ کرتے آج کا دن انجوائے کر رہی تھی.

اُسے کوکنگ کرنے کا بہت شوق تھا. اور اُس کے ہاتھ میں ذائقہ بھی بہت تھا. اِس وقت بھی بریانی کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی جس پر ہما کچن میں کھینچی چلی آئی تھی.

بریانی.. احد کی فرمائش پر...

اِشمل نے مسکراتے جواب دیا تھا.

بس اُسی کی بات کی اہمیت ہے آپ کے آگے میں جو اتنے دنوں سے کیک کی فرمائش کر رہی وہ بھول گئیں آپ.

ہما منہ پھلاتے ناراضگی سے بولی تھی.

میری ڈرامہ کوئین زرا فریج کھول کر تو دیکھو.

اِشمل کی بات پر ہما جلدی سے فریج کی طرف بڑھی تھی .

واؤ آپی یو آر دا بیسٹ.

فریج میں پڑا کیک دیکھ کر ہما پیار سے اُس کا گال چھوتی خوشی سے بولی. جس پر اِشمل ہلکا سا مسکرائی تھی.

واہ مزا آگیا آج تو کھانے کا.

سلمان صاحب ڈنر ختم کرتے بولے.

یہ آپ سب لوگ تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں. جیسے روز بدذائقہ کھانا کھانے کو ملتا ہے آپ سب کو.

اسما بیگم مصنوعی ناراضگی چہرے پر سجاتی بولیں.

بیگم آپ بھی کھانا بہت اچھا بناتی ہیں لیکن جو بات میری بیٹی کے ہاتھ کے کھانے میں ہے وہ اُس میں نہیں.

سلمان صاحب مسکراتے بولے.

ہاں ویسے یہ بات تو میں بھی مانتی ہوں.

اسما بیگم پیار سے اِشمل کی طرف دیکھتی بولیں.

اچھا میں اپنے روم میں جارہا ہوں. تھوڑی دیر میں احمد نے آنا ہے تو اُدھر چائے بھجوا دیجئے گا.

سلمان صاحب اپنے دوست کا بتاتے وہاں سے اُٹھ گئے تھے. احمد اُن کے بہت قریبی دوست تھے اُن کا ایک دوسرے کے گھروں میں بہت آنا جانا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اُس ڈاکٹر کو بلاؤ مجھے اُس کے علاوہ کسی سے علاج نہیں کروانا.

آہان رضا میر اپنے وجیہہ چہرے پر غصے کے تاثرات سجائے سامنے کھڑی نرس کی طرف دیکھتا کرخت لہجے میں بولا. نرس اُس کے چلانے پر سہم کر جلدی سے وہاں سے نکلی تھی.

ڈاکٹر اِشمل پچھلے دو دنوں سے اُس کے روم میں نہیں آئی تھی اِس کا مطلب یہی تھا کہ اپنے کہے کے مطابق وہ اپنی ڈیوٹی ہٹوا چکی ہے وہاں سے.

ڈاکٹر اِشمل آپ کو ڈاکٹر عثمان بلا رہے ہیں.

وہ ابھی اپنی ڈیوٹی کرکے سدرہ کے ساتھ کینٹین میں آکر بیٹھی تھی. جب وارڈ بوائے اُس کے پاس آتا بولا.

اوکے اُنہیں کہیں میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں.

اِشمل کو شدت سے چائے کی طلب ہورہی تھی. چائے پیئے بغیر اُٹھنے کا اُس کا بلکل دل نہیں تھا.

وہ روم نمبر 27 کے پیشنٹ نے بہت ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے. اِس لیے ڈاکٹر عثمان کا کہنا ہے کہ ابھی اور اِسی وقت اُدھر پہنچیں.

اُس کو نہ اُٹھتا دیکھ وارڈ بوائے پھر بولا تھا.

اُس کی بات سنتے چائے کی طرف جاتے اِشمل کے ہاتھ وہی رُکے تھے. آنکھوں میں ناگواری کی لہر دوڑ گئی تھی.

میں نے کہا تھا نا میر صاحب دیوانے ہوچکے ہیں تمہارے. کسی صورت اپنے روم سے تمہاری ڈیوٹی ہٹنے نہیں دے گے.

سدرہ اُس کا غصے سے لال ہوتا چہرہ دیکھ کر بولی.

جب اُس کی بات کا جواب دیے بغیر اِشمل غصے سے اُٹھی تھی.

ڈاکٹر عثمان اُسے روم کے باہر ہی کھڑے ملے تھے.

سر آپ نے بلایا مجھے.

روم کے دروازے کی طرف دیکھتی وہ خود پر کنٹرول کرتے بولی. اچھے سے جانتی تھی اُنہوں نے اُسے یہاں کیوں بلایا.

ڈاکٹر اِشمل معذرت کے ساتھ لیکن میں نے آپ کی اِس روم میں واپس ڈیوٹی لگا دی ہے. اگر یہ معاملہ میرے بس میں ہوتا تو میں ضرور آپ کے ساتھ تعاون کرتا.

اِشمل نے ڈاکٹر عثمان کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا تھا. جو اِس ہاسپٹل کے مالک ہونے کے باوجود بھی اُس رئیس ذادے کے سامنے کافی بے بس لگ رہے تھے.

اِشمل کو اپنا آرڈر سناتے اُس سے نظریں چراتے وہاں سے نکل گئے تھے.

اِشمل نے جیسے ہی روم میں قدم رکھا اُسکی نظر سامنے بیڈ پر تکیوں سے ٹیک لگا کر لیٹے آہان رضا میر پر پڑی تھی. جو چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے شوخ نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.

مجھ سے پیچھا چھوڑوانے کی ناکام کوشش کرنا چھوڑ دو ڈاکٹر اِشمل سلمان.

اُسے سامنے کھڑے دیکھ وہ جتاتے لہجے میں بولا تھا. اور پھر بیڈ سے اُٹھتا اُس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا.

جب تم بلکل ٹھیک ہوچکے تو جاتے کیوں نہیں ہو یہاں سے.

اِشمل سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھتی بولی.

ٹھیک ؟ کس نے کہا میں ٹھیک ہوگیا ہوں. بلکہ تم نے تو مجھے مزید اپنا بیمار بنا دیا ہے.

آہان اُس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا.

دیکھو پلیز میں تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں. میں ایک بہت ہی سادہ اور شریف گھرانے کی لڑکی ہوں پلیز تمہارے اِس بی ہیوئیر سے میری کافی بدنامی ہوسکتی ہے.

اِشمل تحمل سے اُسے سمجھاتے بولی.

کیونکہ ہاسپٹل میں وہ اپنے بارے میں آہان کی حرکتوں کی وجہ سے کچھ غلط باتیں سن چکی تھی.

ہاہاہاہا تو تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ میرا گھرانہ شریف نہیں ہے.

اُس کی بات کا اپنا ہی مطلب نکالتا وہ مزاق اُڑاتے بولا تھا.

جب اِشمل نے اپنی اتنی سنجیدہ بات کے ایسے جواب پر غصے سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

آہان کی نظریں اُس کے غصے سے پھولے چہرے پر اَٹک کر رہ گئی تھیں. وہ جب بھی غصے میں ہوتی تھی اُس کے گلابی نرم نرم سے پھولے ہوئے گال مزید پُھول جاتے تھے. اور اِس وقت بھی یہی ہوا تھا. جب اُس کے قریب کھڑے آہان رضا میر نے بے خودی میں اُن کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا. لیکن اُس کا ارادہ بھانپتے اِشمل اُس کا ہاتھ جھٹکتی پیچھے ہوئی تھی.

اپنا ہاتھ جھٹکے جانے پر آہان نے غصے سے اِشمل کی طرف دیکھا تھا. زخم کی پرواہ کیے بغیر اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا.

چھوڑو میرے ہاتھ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی. چھوڑو مجھے ورنہ میں شور مچا دوں گی.

اِشمل اُس سے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی چلائی تھی.

اوکے مچاؤ شور. مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا پر تمہاری وہ کیا کہہ رہی تھی تم ......ہاں بدنامی ہوسکتی ہے.

اُس کی دونوں کلائیوں کو ایک ہاتھ کی گرفت میں لیتے دوسرے ہاتھ سے اُس کے گال کو چھوا تھا. اِشمل نے فوراً نخوت سے اپنا چہرہ پیچھے کیا تھا.

تمہارا یہ انداز میرے اندر موجود تمہیں حاصل کرنے کے جذبات کو مزید ہوا دے رہا ہے. اِس لیے میری بات کان کھول کر سُن لو اب سے تم پر صرف میرا حق ہے. اور ہاں وہ دنیا دیکھاؤے کے لیے باقی کی جو فارمیلیڑیز ہوتی ہیں وہ بھی جلد ہی پوری کردوں گا میں. ابھی تو میں جارہا ہوں اِس ہاسپٹل سے لیکن میری بات یاد رکھنا تم صرف میری ہو.

اُس کی کلائیوں کو اپنی سخت گرفت سے آزاد کرتے اُس پر ایک گہری نظر ڈالتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا. اُس کے کچھ بہت امپورٹنٹ کام پینڈنگ تھے اِس لیے وہ مزید اب یہاں نہیں رُک سکتا تھا.

اِشمل نے اپنی کلائیوں کی طرف دیکھا تھا جو اُس شخص کی سخت گرفت کی وجہ سے بلکل لال ہوچکی تھیں. وہ دوپٹے سے اپنے گال کو رگڑتی پریشانی سے سر پکڑتی وہیں بیٹھ گئی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بیٹا تم ریسٹ کرلو کچھ دن کام تو ہوتا رہے گا. ابھی دو دن پہلے ہی تو ڈسچارج ہوئے ہو. اور تب سے مسلسل کام میں مصروف ہو.

حسنین رضا میر اُس کی طرف دیکھتے فکرمندی سے بولے.

میں بھی تو اِسے کب سے یہی کہہ رہی ہوں. پر میری بات کب سنتا ہے یہ.

ہاجرہ بیگم بھی بےچارگی سے آہان کی طرف دیکھتی بولیں.

میں بلکل ٹھیک ہوں. اتنے دنوں سے ریسٹ ہی کر رہا ہوں.

آہان اُن کی باتوں پر سپاٹ سے انداز میں بولا.

پہلے آپ دونوں مجھے یہ بتائیں یہ حنا کی شادی کا کیا معاملہ ہے. میں نے آپ لوگوں کو مناہ کیا تھا نا. انکار کردیں اُن لوگوں کو حنا کی شادی وہاں نہیں ہوگی. میرے چند دنوں کی بے خبری میں آپ لوگوں نے اُس کی بات بھی پکی کر دی. میرا صرف ایکسیڈنٹ ہوا تھا مرا نہیں تھا.

آہان اُن دونوں کی طرف دیکھتا سرد تاثرات کے ساتھ بولا تھا.

ﷲ نہ کرے کیسی غلط بات منہ سے نکال رہے ہو.

دیکھا حسنین آپ نے میرے بیٹے کے آتے ساتھ ہی اُن ماں بیٹیوں نے کردی اِس سے ہماری چُغلی.

ہاجرہ بیگم غصے سے پہلو بدلتے بولیں.

تو کیا غلط کیا اُنہوں نے اگر آپ کی سگی بیٹی ہوتی تو کیا آپ اُس کے ساتھ بھی ایسے ہی کرتیں.

آہان ہاجرہ بیگم کی بات پر اُن کی طرف دیکھتا بولا.

لیکن میں اُن لوگوں کو زبان دے چکا ہوں.

آہان کی بات پر حسنین رضا میر فوراً بولے.

تو یہ بات آپ کو پہلے سوچنی چاہیے تھی. آپ تو جیسے یہ بات بھول ہی بیٹھے ہیں کہ وہ دونوں آپ کی سگی اولادیں ہیں. لیکن جو بھی ہے میں اِس بارے میں اب مزید کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا. حنا کی شادی وہاں بلکل نہیں ہوگی. اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈیں آپ. حنا کی شادی وہیں ہوگی جہاں میں چاہوں گا.

آہان حسنین رضا میر کو طنزیہ انداز میں باور کرواتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا.

دیکھا کیسے آتے ساتھ ہی میرے بیٹے کو اُن لوگوں نے پٹیا پڑھا دیں اور آپ کا کہنا ہے کہ بے چاری ہیں وہ. بے چاریاں ایسی نہیں ہوتیں.

ہاجرہ بیگم اپنا پلین خراب ہونے پر غصے سے بھناتی بولیں. جبکہ حسنین رضا میر نے اِس وقت خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

کیا میں اندر آسکتا ہوں.

آہان دروازے پر ہلکا سا ناک کرتے بولا.

میری جان اندر آؤ وہاں کیوں کھڑے ہو.

عاصمہ بیگم آہان کی آواز سنتی خوشی سے بیڈ سے اُٹھتی بولیں.

ماشاءﷲ بیٹا کیسی طبیعت ہے اب تمہاری. تمہارے ایکسیڈنٹ کا سن کر تو دل اتنا بے چین تھا. اب تمہیں اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر سکون آیا.

عاصمہ بیگم اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتی بولیں.

جب اُن کی اِتنی محبت پر وہ مسکرا کر رہ گیا تھا.

دیکھ لیں پھر آپ کی دعاؤں کی وجہ سے ہی میں بلکل ٹھیک آپ کے سامنے کھڑا ہوں.

آہان اُن کا ہاتھ تھام کر مجبت سے بولا.

ایک بات پر میں آپ سے بہت ناراض ہوں. اتنی بڑی بات ہوگئی یہاں اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں. اِس کا یہی مطلب ہے نا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا نہیں سمجھتیں.

آہان اُن کی طرف دیکھتا ناراضگی سے بولا تھا.

ایسی بات نہیں ہے بیٹا تم جانتے ہو تم مجھے اپنی سگی اولاد سے بھی بڑھ کر عزیز ہو. میں کسی قسم کا کوئی فساد نہیں چاہتی تھی اِس لیے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا.

عاصمہ بیگم نظریں چُراتی بولیں. اب وہ اُسے ہاجرہ بیگم کی دھمکی کے بارے میں کیا بتاتیں. جو اُنہوں نے آہان کو کچھ بھی نہ بتانے کے لیے دی تھی. وہ نہیں جانتی تھیں آہان کو کیسے پتا چلا.

اسلام و علیکم بھائی. مجھے پورا یقین تھا آپ ضرور آئیں گے.

حفصہ آہان کو عاصمہ بیگم کے پاس بیٹھا دیکھ چہکتے ہوئے آگے بڑھی تھی.

کیسی ہے میری گڑیا.

آہان اُسے بازوں کے گھیرے میں لیتے محبت سے بولا.

میں بلکل ٹھیک ہوں. تھینکیو سومچ بھیا میری ایک کال پر فوراً آنے کے لیے.

حفصہ آہان کے ساتھ لگ کر بیٹھتے بولی. جب اُس کی بات پر عاصمہ بیگم نے اُسے گھورا تھا.

دیکھ رہے بھیا آپ امی مجھے کیسے غصے سے دیکھ رہی ہیں. کہ میں نے آپ کو کیوں بتایا. آپ کے جانے کے بعد یہ مجھے ڈانٹیں گی بھی.

حفصہ منہ بناتی آہان کو اُن کی شکایت کرتے بولی.

بلکل بھی نہیں بڑی امی میری گڑیا کو کسی نے نہیں ڈانٹنا. بہت اچھا کیا ہے اِس نے مجھے انفارم کرکے. اور آئندہ بھی ایسے ہی کرنا ہے.

آہان نے حفصہ کی سائیڈ لیتے کہا.

جس پر عاصمہ بیگم ہولے سے مسکرائی تھیں.

حنا نظر نہیں آرہی کہا ہے وہ.

آہان نے حنا کی غیر موجودگی نوٹ کرتے پوچھا تھا.

آپی اپنے کمرے میں ہیں.

حفصہ کے بتانے پر آہان اُس طرف بڑھ گیا تھا.

دروازہ کی آواز پر حنا نے سر اُٹھا کر دیکھا تھا لیکن سامنے کھڑے آہان کو دیکھ کر وہ روتے ہوئے بھاگ کر اُس کے گلے لگی تھی.

بھیا مجھے یہ شادی نہیں کرنی.

حنا اُس کے ساتھ لگی روتے ہوئے بولی.

رونے کی ضرورت نہیں ہے. تمہارا بھائی زندہ ہے ابھی تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی ناانصافی نہیں ہونے دوں گا.

آہان کی بات پر حنا نے سُرخ آنکھیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا.

بابا نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے.

حنا آنسوؤں کے درمیان بولی.

میں سب جانتا ہوں. اور میری بابا سے بات ہوچکی ہے. اب ایسا کچھ نہیں ہوگا. اس لیے اب یہ رونا بند کرو.

آہان نے اُس کے آنسو صاف کرتے پیار سے کہا. جس پر حنا نے آنکھوں میں حیرانی لیے اُس کی طرف دیکھا.

آپ سچ کہہ رہے ہیں.

اُس کی بات پر آہان نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

تھینکیو سومچ بھائی آپ بہت اچھے ہیں.

حنا خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی تھی. اُسے اپنا یہ بھائی جان سے بڑھ کر عزیز تھا. جو ایک گھنے سائے کی طرح ہر وقت اُن کے لیے موجود ہوتا تھا.

جب اُسے خوش دیکھ آہان بھی مسکرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


حسنین رضا میر کے والدین کی ڈیتھ ہوچکی تھی. جو اُن کے لیے کروڑوں کا ورثہ چھوڑ کر گئے تھے. حسنین رضا میر بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے. اُن سے چھوٹی اُن کی بہن سفیہ تھی جو شادی کے بعد اپنے گھر میں آباد تھیں. اُن سے چھوٹے فُرقان رضا میر تھے جن کی شادی کے کچھ مہینوں بعد اُن کی بیوی کی ایک ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوچکی تھی. جس کے بعد بہن بھائیوں کے بار بار کہنے پر اُنہوں نے دوسری شادی کرلی تھی. دوسری بیوی سے اُن کی تین اولادیں تھیں. دوبیٹے اور ایک بیٹی. حسنین رضا میر نے پہلی شادی اپنے والدین کی مرضی سے اپنی یتیم ماموں زاد عاصمہ بیگم سے کی تھی. جن سے اتنے سال اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے اولاد کی خواہش میں دوسری شادی اپنی چچا زاد ہاجرہ بیگم سے کی تھی. ہاجرہ بیگم ایک بہت ہی تیز خاتون تھیں. ہاجرہ بیگم نے آہان رضا میر کو جنم دے کر حسنین رضامیر اور اِس پوری حویلی پر اپنا قبضہ جمالیا تھا. کچھ عرصے بعد عاصمہ بیگم کے ہاں حنا اور پھر حفصہ کا جنم ہوا تھا لیکن وہ حسنین رضا میر کو بیٹا نہیں دے پائی تھیں اور نہ ہی کبھی ہاجرہ بیگم جیسا مقام حاصل کر پائی تھیں. ہاجرہ بیگم نے اُن کی اور اُنکی بیٹیوں کی حیثیت حویلی میں ملازموں کے برابر ہی رکھی ہوئی تھی. وہ ہر وقت اُنہیں کسی نہ کسی طرح بے عزت کرنے اور نیچا دیکھانے کے چکروں میں لگی رہتی تھیں. آہان شروع سے ہی بہت حساس طبیعت کا مالک تھا. گھر کا ماحول اُسے بہت ڈسٹرب کرتا تھا. کچھ ہاجرہ بیگم کی تربیت کا اثر تھا کہ وہ کافی ضدی اور ہٹ دھرم ہوگیا تھا. اِس سارے ماحول سے تنگ آکر وہ زیادہ تر ہاسٹل میں رہنے لگا تھا جہاں وہ کافی بُری صحبت کا شکار ہوچکا تھا.

پھر کچھ عرصہ لندن میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس جب گھر لوٹا تو گھر کا ماحول ابھی بھی ویسا ہی تھا. بلکہ اب تو عاصمہ بیگم کے ساتھ ساتھ اُن کی بیٹیوں کو بھی ٹارچر کیا جارہا تھا. یہ سب دیکھنا اب مزید آہان کے بس میں نہیں تھا اُس نے حسنین رضا میر سے کہہ کر عاصمہ بیگم کو حویلی میں ایک الگ پورشن دلوا دیا تھا. جہاں اور تو نہیں لیکن وہ ہاجرہ بیگم کے ہر وقت کے طعنوں سے محفوظ تھیں.

اُن کے حالات دیکھ کر آہان عاصمہ بیگم اور اپنی دونوں بہنوں سے کافی قریب ہو گیا تھا. اور اپنی سگی ماں کی حرکتوں نے اُسے اُن سے کافی دور کر دیا تھا. یہ سب دیکھ کر ہاجرہ بیگم نے عاصمہ بیگم کو مزید تکلیف پہنچانا شروع کر دی تھی. وہ سمجھتی تھیں عاصمہ بیگم اُنہیں اُن کے بیٹے سے دور کر رہی ہیں. اور اِسی وجہ سے اُنہوں نے حنا کا رشتہ ایک کافی بڑی عمر کے شخص سے طے کروا دیا تھا.

آہان کو جیسے ہی حفصہ کے ذریعے پتا چلا تھا وہ فوراً وہاں پہنچا تھا. اور اُن دونوں کو یہ سب کرنے سے باز رکھا تھا. عاصمہ بیگم کو شروع سے ہی آہان بہت پیارا تھا اور اب اُس کے اتنا خیال اور عزت دینے پر مزید عزیز ہوگیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ڈاکٹر اِشمل یہ آپ کے لیے آیا ہے.

اِشمل سدرہ کے ساتھ وارڈ کا راؤنڈ لے کر واپس آرہی تھی جب نرس نے اُس کے پاس آتے سُرخ گلابوں کا فریش بکے اُس کی طرف بڑھایا تھا.

میرے لیے کس نے بھیجا.

اِشمل حیرت سے بکے تھامتی بولی. جب نرس لاعلمی سے سر ہلاتی آگے بڑھ گئی تھی.

ویسے جس نے بھی بھیجا ہے یہ ہے بہت خوبصورت.

سدرہ پھولوں کی خوشبو سونگتی بولی.

اِشمل بکے کو اُوپر نیچے کرکے دیکھ رہی تھی کہ بھیجنے والے نے کچھ تو رکھا ہی ہوگا بیچ میں. اُس نے زور سے ہلایا تھا جب اُس میں سے ایک چھوٹا سا کارڈ نکل کر نیچے گرا تھا.

جھک کر کارڈ اُٹھاتے اِشمل نے کھول کر دیکھا تھا. کارڈ پر لکھے الفاظ دیکھ اِشمل نے ناگواری سے بکے کو اُٹھا کر پاس پڑے ڈسٹ بن میں ڈال دیا تھا.

یہ کیا کیا تم نے دیکھاؤ مجھے کیا لکھا ہے اِس پر.

اِشمل جو کارڈ کے بھی ٹکڑے کرنے والی تھی سدرہ اُس کے ہاتھ سے لیتی بولی.

آہان رضا میر کی طرف سے پہلا نظر...

اِس سے پہلے کے سدرہ آگے پڑھتی اِشمل کارڈ اُس کے ہاتھ سے چھین کر ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ڈسٹ بن میں پھینکتی آگے بڑھ گئی تھی.

یہ شخص سمجھتا کیا ہے خود کو. گھٹیا , لوفر , ایڈیٹ...

اِشمل غصے سے سٹاف روم سے اپنا پرس اُٹھاتی بڑبڑاتے ہوئے بولی.

جب اُسی وقت اُس کا فون بجا تھا.

غصے میں بنا انجان نمبر پر غور کیے اِشمل نے فون اٹینڈ کرتے کان سے لگایا تھا.

ہائے سویٹ ہارٹ کیسی ہو. کیسے لگے میرے فلاورز.

فون سپیکرز سے اُُبھرتی آواز سنتے اِشمل نے غصے سے دانت بھینچے تھے.

تمہارے پاس میرا نمبر کیسے آیا. اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اتنے فضول لفظوں سے پکارنے کی.

اِشمل سٹاف روم سے نکلتی غصے سے بولی.

نمبر کیا میں تو تمہارا سارا بائیو ڈیٹا معلوم کروا چکا ہوں ڈاکٹر. گلشن کالونی میں رہتی ہو. والد صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں. دو چھوٹے بہن بھائی ہیں. ہما اور احد. اور سچ اپنی ہونے والی ساسو ماں کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا میں. وہ ایک گھریلو سادہ سی خاتون ہیں.

اور رہی بات ایسے پکارنے کی تو اب بندہ اپنی ہونے والی بیوی کو اور کیسے پُکارے کوئی اچھا طریقہ ہے تمہارے پاس تو وہ ٹرائی کر لیتا ہوں میں.

آہان تفصیل سے اُس کی بات کا جواب دیتا اُسے مزید تپا گیا تھا.

یہ کیا بکواس ہے. جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہوسکتا.

اِشمل اُس سے اِس طرح سب گھروالوں کی بارے میں سن کر گھبراتے ہوئے بولی. وہ اُس کی سوچ سے بھی بڑھ کر شاطر ثابت ہوا تھا. شاید وہ اُسے کچھ زیادہ ہی ہلکے میں لے رہی تھی.

لیٹس سی پھر کس کی سوچ پوری ہوتی ہے. اور ہاں آئندہ یہ ریڈ کلر پہنے نظر نہ آؤ تم مجھے. اِس کلر میں تمہیں دیکھنے کا حق صرف میرا ہے.

اِشمل چلتی ہوئی باہر آچکی تھی جب آہان کی بات پر اُس نے جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھا تھا. جب اُس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑی بلیک شیشوں والی مرسڈیز پر پڑی تھی.

اِس طرح مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کروں. اگر میں سامنے آگیا توتمہارے لیے ہی مشکل ہوگی. ویسے بھی اِس کلر میں جتنی خوبصورت تم لگ رہی ہو مجھ پر خود پر کنٹرول کرنا کافی مشکل ہوجائے گا.

آہان اُس کے اِردگرد دیکھنے والی حرکت پر چوٹ کرتے بولا.

تم ایک انتہائی پاگل اور بےشرم انسان ہو. ایسی بے ہودہ باتیں اپنی گرل فرینڈز سے کرو جاکر تاکہ کوئی فائدہ بھی ہو. اور آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا.

اِشمل اُس کی باتوں پر غصے سے سُرخ ہوتی فون بند کرکے پرس میں رکھتی وہاں سے ہٹ گئی تھی. کیونکہ واقعی اِس شخص کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ابھی گاڑی سے نکل کر سامنے ہی نہ آجائے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


وہ گھر آکر بغیر کھانا کھائے سیدھی اپنے روم میں آگئی تھی. اور تب سے مسلسل کمرے میں پریشانی سے اِدھر سے اُدھر چکر لگارہی تھی. لیکن اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے.

تبھی موبائل وائبریٹ ہوا تھا سدرہ کا نمبر دیکھ کر اُس نے کال ریسیو کی تھی.

اِشمل کیا ہوا تم ہاسپٹل سے اِس طرح کیوں آگئی. یار اُس نے بکے ہی تو بھیجا ہے اِس میں اتنی پریشان ہونے والی کیا بات ہے. کب تک وہ ایسے کرے گا جب تمہاری طرف سے کوئی رسپونس نہیں آئے گا تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا.

سدرہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولی.

سدرہ یہ شخص ایسے ٹلنے والا نہیں ہے. تم نہیں جانتی وہ میرے بارے میں ایک ایک بات معلوم کروا چکا ہے مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے. وہ اِتنی آسانی سے میرا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے. میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا بابا ہارٹ پیشنٹ ہیں اُنہیں میں کسی صورت کوئی ٹینشن نہیں دے سکتی اور ماما وہ تو ویسے ہی ہر بات کی اتنی ٹینشن لیتی ہیں. اور ابھی تو ویسے بھی گھر میں میرے رشتے کی بات چل رہی ہے.تم جانتی تو ہونا.

اِشمل شدید پریشانی سے بولی.

ہمہ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو. بات تو واقعی پریشانی والی ہے. ویسے ایک آئیڈیا ہے میرے پاس کیا پتا کام کر جائے.

سدرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی.

ہاں تو بتاؤ جلدی.

اِشمل جلدی سے بولی

اب اگر اگلی بار اُس نے تم سے کانٹیکٹ کیا تو تم اُسے صاف لفظوں میں بتا دینا کہ تم انگیجڈ ہو اور بہت جلد تمہاری شادی ہونے والی ہے.

سدرہ کی بات پر اِشمل ایک پل کے لیے خاموش ہوئی تھی.

تمہیں کیا لگتا میرے ایسا کہنے سے وہ پیچھے ہٹ جائے گا.

اِشمل کچھ دیر کے بعد بولی.

اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتی پر ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے. کیا پتہ پیچھے ہٹ جائے.

اوکے دیکھتی ہوں پھر میں. بس اُس فضول شخص سے جان چھوٹ جائے میری.

اِشمل ناگواری سے بولی.

ویسے تم بھی ایک عجیب ہی لڑکی ہو باقی لڑکیاں جس بندے کا پیچھا کرتی ہیں. جس کے خواب دیکھتی ہیں. تم اُسی سے پیچھا چھوڑوانا چاہتی ہو.

سدرہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولی.

تو یہ بندہ اُنہیں لڑکیوں کو مبارک ہو مجھے نہیں چاہئے ایسا فضول شخص.

اِشمل اُس کی بات پر چڑتے ہوئے بولی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بات سنو لڑکی دیکھائی نہیں دے رہا تمہاری پھوپھو آئی بیٹھی ہیں. اور تم منہ اُٹھا کر اپنے حُجرے میں گھسی جارہی ہو. جاؤ کچھ لے کر آؤ اِن کے لیے.

حنا جو سر جھکائے اپنے پورشن کی طرف جارہی تھی ہاجرہ بیگم کی چنگارتی آواز پر پلٹ کر اُن کی طرف دیکھا تھا. جو سفینہ بیگم اور اُن کے بیٹے عارفین کے ساتھ بیٹھی تھیں. ہاجرہ بیگم نے اب یہ اپنی عادت بنا لی تھی کہ ہر آئے گئے کے سامنے اُنہیں ایسے ہی ذلیل کرنا ہے.

اب یہاں کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو. جاؤ کچن میں.

ہاجرہ بیگم ایک بار پھر حقارت سے اُس کی طرف دیکھتے بولیں. حب حنا خاموشی سے سر جھکائے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی. یہاں ہر کام کے لیے دس دس ملازم موجود تھے لیکن ہاجرہ بیگم جان بوجھ کر اُنہیں نیچا دیکھانے کے لیے سب کے سامنے ایسا کرتی تھیں.

ویسے بھابھی بہت اچھے سے سیدھا کرکے رکھا ہوا ہے آپ نے اِن کو.

سفیہ بیگم کی بات پر ہاجرہ بیگم مسکراتی اب اُن لوگوں کا قصہ شروع کرچکی تھیں. جب عارفین نے تاسف سے اُن دونوں کو دیکھا تھا. لیکن اُس نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا. کیونکہ اِن دونوں کے سامنے اُن کی سائیڈ لے کر وہ مزید کوئی نیا ڈرامہ نہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا. عارفین کی نظریں بار بار بھٹک کر کچن کی طرف جا رہی تھیں جہاں کچھ دیر پہلے حنا نم آنکھوں کے ساتھ گئی تھی. اُسے حنا بچپن سے ہی بہت پسند تھی لیکن چاہ کر بھی وہ اپنی ماں کے سامنے اپنی پسندیدگی بتا نہیں سکتا تھا. کیونکہ وہ بھی اِن لوگوں کو اِتنا ہی ناپسند کرتی تھیں جتنا ہاجرہ بیگم.

اب وہ بس ﷲ سے بہتری کی دعا ہی کرسکتا تھا.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ڈاکٹر اِشمل کوئی پیشنٹ ہیں ڈاکٹر عثمان کے آفس میں بیٹھے ہیں. ڈاکٹر عثمان نے آپ کو بلانے کے لیے کہا ہے.

نرس کے پیغام پر وہ سر ہلاتی آفس کی طرف بڑھ گئی تھی.

دروازہ ناک کرتے وہ اندر داخل ہوئی تھی. ڈاکٹر عثمان کی چیئر تو خالی پڑی تھی. لیکن سامنے والی کرسی پر اُسے کوئی بیٹھا نظر آیا تھا. جیسے ہی وہ آگے بڑھی سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر اُس کا دماغ ایک پل کے لیے گھوم گیا تھا. جو مزے سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا اُسے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا.

اُس پر غصے بھری نگاہ ڈال کر بغیر کچھ کہے اِشمل وہی سے واپس پلٹی تھی. جب آہان نے سرعت سے اُس کی کلائی پکڑ کر اُسے وہی روکا تھا. اور کھڑا ہوتا اُس کے سامنے آیا تھا.

اتنی بھی کیا جلدی جانے کی ڈاکٹر صاحبہ پہلے اپنے مریض کا چیک اپ تو کرلیں.

اُس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ معنی خیزی سے بولا.

چھوڑو میرا ہاتھ. مجھے تم جیسے فضول اور گھٹیا انسان سے کوئی بات نہیں کرنی.

اِشمل غصے سے ہاتھ چھوڑواتی بولی. جب اُس کی بات پر آہان نے اُس کے بازو کو جھٹکا دے کر خود سے قریب کیا تھا.

اگر میں تمہاری ہر بات آرام سے سن لیتا ہوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں تم مجھے کچھ بھی بولو گی. میری نرمی سے بات کرنے کا تم ناجائز فائدہ اُٹھا رہی ہو.

آہان سخت لہجے میں بولا.

تو کس نے کہا ہے تمہیں کہ آکر مجھ سے بات کرو. کیوں پیچھے پڑے ہو میرے.

اِشمل پیچھے کی طرف ہوتی اُسی کے انداز میں بولی.

اُس دن بتایا تو تھا کیا چاہتا ہوں میں.

آہان اُس کے غصے سے لال ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا.

میں تم جیسے انسان سے کسی صورت شادی نہیں کروں گی. اور تمہاری معلومات میں اضافہ کے لیے تمہیں بتادوں کہ میں انگیجڈ ہوں اور بہت جلد میری شادی ہونے والی ہے. اِس لیے شرافت سے میرے راستے سے ہٹ جاؤ.

اِشمل اُس سے اپنا ہاتھ چھوڑواتی وارن کرتے لہجے میں بولی.

جب اُس کی بات اور انداز پر آہان نے زور سے قہقہ لگایا تھا جیسے اِشمل نے اُسے شادی کی خبر نہیں کوئی جوک سنایا ہو.

اوہ نو یہ کیا کہہ رہی ہو تم اب کیا ہوگا. نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.

اِشمل نے حیرت سے آہان کی طرف دیکھا تھا.

میری معصوم سی ڈاکٹر تمہیں کیا لگا تھا تمہاری اِس بات سے میں پریشان ہوجاؤ گا اور ایسے بولوں گا.

آہان اُس کے حیران چہرے کی طرف دیکھتا زرا سنجیدگی سے بولا.

تمہیں میں نے کیا کہا تھا تم صرف میری ہو. تو تمہیں کیا لگا تمہارے معاملے میں میں اتنا بے خبر رہوں گا. ایک ایک بات کا علم ہے مجھے. اور جو بات چل رہی تمہارے گھر میں وہ بھی بہت جلد ختم ہوجائے گی.

ابھی وہ مزید بات کرتا لیکن سیل فون پر آتی امپورٹنٹ کال کی وجہ سے نرمی سے اُس کا گال چھوتا وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


احد اُس طرف بہت رش ہے اکیلے مت جاؤ آپی ابھی آرہی ہیں ڈانٹیں گی تمہیں.

ہما احد کو روڈ کے قریب کھڑے آئس کریم والے کے پاس جاتے دیکھ بولی. وہ لوگ اِشمل کے ساتھ شاپنگ کے لیے آئے ہوئے تھے. اِشمل اُنہیں وہی باہر رُکنے کا کہہ کر سدرہ کے ساتھ دوبارہ کسی کام سے اندر گئی ہوئی تھی. جب احد آئسکریم دیکھ کر اُس طرف بڑھا تھا.

کچھ نہیں ہوتا میں کوئی چھوٹا بچہ تھوڑی نہ ہوں. آپی کے آنے سے پہلے جلدی سے لے آتا ہوں.

ہما کو جواب دیتے وہ جلدی سے آگے چلا گیا تھا.

یار آہان آج کتنے دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تم سے اتنے دنوں سے کہاں تھے.

حماد آہان سے بغلگیر ہوتے خوشدلی سے بولا.

میں تو اِدھر ہی تھا تم لگتا ہے آج کل کچھ زیادہ مصروف ہو.

آہان اُس کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اُچھالتے بولا. جس پر حماد ڈھٹائی سے مسکرایا تھا.

مطلب تم اتنے غافل بھی نہیں ہو جتنا بنتے ہو. دو دن پہلے ہی وہ پاکستان آئی ہے. شاید کسی ایونٹ کے سلسلے میں. بہت ضد کررہی ہے تم سے ملنے کی.

حماد اُسے ٹاپ ماڈل صوفیہ کے بارے میں بتاتے ہوئے بولا. جو آہان رضا میر کی دیوانی تھی.

میں نے تم سے کچھ پوچھا اِس بارے میں.

آہان سرد نگاہ حماد پر ڈالتے بولا.

کیا تم اُس کی غلطی معاف نہیں کرسکتے. کتنی بار وہ تم سے معافی مانگ چکی ہے.

حماد ایک بار پھر اُس کی حمایت میں بولا تھا.

تم اچھے سے جانتے ہو میں کسی کو معاف نہیں کرتا بلکہ سزا دیتا ہوں. اور اُس کی سزا یہی ہے کہ میں اُسکی شکل بھی کبھی نہ دیکھوں. اور نہ ہی ابھی میرے پاس اتنا فضول وقت ہے اُسے ڈسکس کروں. گڈ بائے

آہان ابھی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی لگا تھا جب سامنے کا منظر دیکھ ایک پل کے لیے رُکا تھا.

اوہ شٹ.

سامنے سے وہ لڑکا اپنی ہی مستی میں چلا آرہا تھا.جب پیچھے سے ڈرائیور سے بے قابو ہوتا ٹرک اُس کے بہت قریب تھا.

وہ گاڑی کو وہی چھوڑتا اُس طرف بھاگا تھا.

احد سائیڈ پر ہو.

ہما احد کی طرف دیکھ کر زور سے چلائی تھی.

احد نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹرک اُس کے بلکل قریب پہنچ چکا تھا. اس سے پہلے کے ٹرک اُس سے ٹکراتا کسی نے اُسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچا تھا.

آہان احد کو پکڑتے کر پیچھے کرتے پاس کھڑی گاڑی سے ٹکرایا تھا. احد نے اُس کا دوسرا بازو پکڑ کر خود کو گرنے سے بچایا تھا. وہ ڈر کے مارے ہولے ہولے کانپ رہا تھا.

آپ ٹھیک ہو.

آہان اُس کے سفید پڑتے چہرے کی طرف دیکھتے بولا. جب احد نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا تھا.

احد احد تم ٹھیک ہو. تمہیں لگی تو نہیں.

ہما روتے ہوئے احد کا چہرہ تھامتی بولی تھی.

آپ کا بہت بہت شکریہ. آپ نے میرے بھائی کی جان بچاکر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے.

ہما آہان کی طرف دیکھتے تشکر بھرے لہجے میں بولی.

اِس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے.لیکن آپ لوگ کیئر فل رہیں اتنی رش والی جگہ پر یوں لاپرواہی دیکھانا بہت خطرناک ہوسکتا ہے.

آہان نرمی سے اُس کو جواب دیتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا.

میں تم لوگوں کو وہاں ڈھونڈ رہی ہوں اور تم لوگ یہاں کھڑے ہو.

اِشمل اُن کو وہاں کھڑے دیکھ قریب آتے بولی.

کیا ہوا تم دونوں کو. ہما تم رو کیوں رہی ہو.

اِشمل اُن دونوں کی اُتری شکلیں دیکھ پریشانی سے بولی.

جب ہما نے نظریں نیچے کیے اُسے ساری بات بتائی تھی.

کیا. احد میری جان تم ٹھیک ہو کہیں چوٹ تو نہیں لگی. تم لوگوں کو منع کیا تھا. وہاں سے کہیں مت جانا.

اِشمل فکرمندی سے احد کو ساتھ لگاتے بولی.

وہ پہلے ہی اتنے ڈرے ہوئے ہیں تم اُنہیں مزید کیوں ڈانٹ رہی ہو. ہما جس نے احد کو بچایا وہ ہے کدھر.

کب سے خاموش کھڑی سدرہ اِشمل کو ٹوکتے ہما سے پوچھتے ہوئے بولی.

وہ اُدھر.... لگتا ہے وہ چلے گئے ہیں.

ہما اُس طرف اشارہ کیا تھا. جہاں کچھ دیر پہلے اُسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا. لیکن اب وہ وہاں سے جاچکا تھا.

اچھا چلو گھر چلتے ہیں. ﷲ اُس شخص کو اِس نیکی کا اجر دے.

اِشمل احد کا ہاتھ تھامے اُن کو وہاں سے چلنے کا اِشارہ کرتے آگے بڑھی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

سدرہ آج مجھے گھر جلدی جانا ہے. احد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے. میں نے سر عثمان سے بات کرلی ہے. باہر موسم بھی خراب ہے اِس لیے میں ابھی نکل رہی ہوں.

لیکن تم جاؤ گی کیسے ہاسپٹل کی وین کا ٹائم تو ایک گھنٹے بعد کا ہے.

ہاں جانتی ہوں میں ٹیکسی کر لوں گی.

اِشمل سدرہ کو بتاتے جلدی جلدی اپنی چیزیں لیتی وہاں سے نکل آئی تھی.

اِشمل نے ابھی بلڈنگ سے باہر قدم رکھا ہی تھا جب ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی. اور نہ ہی قریب کوئی ٹیکسی نظر آرہی تھی. یہاں کھڑے ہوکر ویٹ کرنے سے بہتر اُس نے تھوڑا آگے چل کر ٹیکسی دیکھنے کا سوچا تھا. وہ ہاسپٹل سے تھوڑا سا ہی آگے بڑھی تھی جب ٹیکسی تو نہ ملی لیکن اچانک سے بارش کافی تیز ہوچکی تھی. وہ جلدی جلدی قدم اُٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی جب ایک گاڑی اُس کے پاس آکر رُکی تھی. اُس نے اپنے قدم پھر بھی نہ روکے تھے.

گاڑی میں بیٹھو.

آہان رضا میر گاڑی سے نکل کر اُس کے سامنے آتے بولا.

اُس کے اچانک سامنے آجانے کی وجہ سے اِشمل کو مجبوراً رُکنا پڑا تھا. ورنہ سر ضرور اُس کے چوڑے سینے سے ٹکرا جاتا.

میرے راستے سے ہٹو. میں یوں کسی بھی ایرے غیرے کی گاڑی میں نہیں بیٹھتی.

اِشمل سرد تاثرات کے ساتھ بولی.

ہر بات میں بحث کرنا ضروری ہوتا ہے کیا. خاموشی سے بیٹھو گاڑی میں. سب لوگ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں جو کہ میں کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا.

آہان نے ایک نظر اُس کے بھیگے وجود پر ڈالی تھی. اُس کے کپڑے بلکل گیلے ہوکر جسم سے چپک چکے تھے. آس پاس سے گزرتے لوگوں کی نظریں اِشمل پر پڑتی دیکھ آہان کی کشادہ پیشانی پر موجود سلوٹوں میں مزید اضافہ ہوا تھا. اُسے اپنی جگہ سے نہ ہلتا دیکھ آہان نے آگے بڑھ کر اُس کا بازو پکڑنا چاہا تھا. جب وہ یکدم پیچھے ہوئی تھی.

تم ہوتے کون ہو مجھ پر حق جتانے والے. کس حق سے مجھے چھوتے ہو میرے قریب آتے ہو. ہو تو تم بھی میرے نامحرم نا جیسے یہ باقی سارے لوگ ہیں پھر میں کیوں بیٹھوں تمہارے ساتھ.

اِشمل شدید غصے سے چلاتی بولی.

وہ آہان رضا میر تھا جس کے ایک اشارے سے لوگ اُس کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتے تھے. کسی کی جرأت نہیں تھی اُس کی بات سے انکار کرے. اُس کے سامنے اُونچی آواز میں بولنے والا دوبارہ بولنے کے لائق نہیں بچتا تھا لیکن یہ لڑکی اُس کی کمزوری بن چکی تھی. جس کا اتنا چیخنا چلانا وہ آرام سے برداشت کر لیتا تھا. وہ نہیں جانتا کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے یا نہیں لیکن وہ آہان رضا میر کو پہلی نظر میں بھا گئی تھی. کسی صورت بھی وہ اُسے حاصل کرنا چاہتا تھا.

اِس بات کا جواب بھی بہت جلد مل جائے گا تمہیں. مگر اِس وقت تو تمہیں میری گاڑی میں بیٹھنا ہی ہوگا.

اِشمل کو مزید کچھ بھی کہنے سننے کا موقعہ دیئے بغیر اُسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا تھا. اور فوراً سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا گاڑی لاک کر چکا تھا.

کوئی فائدہ نہیں ہے. اپنی انرجی ہی ویسٹ کر رہی ہو. یہ دروازہ میری مرضی کے بغیر نہیں کھلے گا.

اُسے مسلسل گاڑی کے دروازے سے زور آزمائی کرتے دیکھ آہان گہری نظر اُس پر ڈالتا پُرسکون لہجے میں بولا تھا.

اِشمل اُس کی گہری بے باک نظریں خود پر محسوس کرکے مزید خود میں سمٹی تھی. اور دوپٹے کو مزید خود پر ٹھیک کرتی دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی تھی. اُس کی احتیاتی تدابیر پر شدید موڈ خراب ہونے کے باوجود بھی آہان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی. تھوڑی دیر پہلے اُس کی باتوں پر آیا غصہ اب شاید ختم ہو چکا تھا.

آہان اپنی ہی کیفیت پر اُلجھا تھا. وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اِس لڑکی کو سامنے دیکھ کر وہ کیوں ایسا ہوجاتا تھا. اُس کی اِتنی سخت باتوں کے باوجود بھی اُسے کچھ نہیں کہتا تھا. وہ ایسا تو کبھی نہیں تھا.

اپنی سوچوں کو جھٹکتے آہان نے توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کی تھی. شدید بارش کی وجہ سے گاڑی چلانا کافی مشکل ہورہا تھا. جب اچانک سامنے سے ایک گاڑی بہت سپیڈ سے کراس کرتی گزری تھی اگر آہان جلدی سے گاڑی کو لیفٹ سائیڈ پر نہ موڑتا تو ٹکراؤ یقینی تھا. اِس زور دار جھٹکے کی وجہ سے اِشمل کا سر آہان کے کندھے سے ٹکرایا تھا. اور دوسرے ہاتھ سے بے اختیاری میں اِشمل نے اُس کے بازو کو تھامہ تھا. اگر وہ ایسا نہ کرتی تو واپس گاڑی کے ڈور سے سر ٹکرا کر ضرور توڑوا بیٹھتی.

گاڑی کو نارمل پوزیشن میں لاتے آہان نے اپنے ساتھ لگی اِشمل کی طرف دیکھا تھا. جب اِشمل جلدی سے پیچھے ہوتی سیدھی ہوکر بیٹھی تھی.

دیکھ لو ڈاکٹر صاحبہ اب تم خود میرے قریب آئی ہو بعد میں پھر نہ الزام لگانا مجھ پر کہ میں نے کچھ کیا ہے.

آہان اُس کے سُرخ پڑتے چہرے کی طرف دیکھتا معنی خیزی سے بولا.

مجھے کوئی شوق نہیں تمہارے قریب آنے کا. یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے. اگر گاڑی چلانی نہیں آتی تو مت چلاؤ یوں دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے. یا پھر اُس دن کی طرح کہیں نشہ تو نہیں کیا ہوا. کیونکہ تم جیسے آوارہ مزاج اور ہوس پرست انسان سے اور اُمید بھی کیا کی جاسکتی ہے.

اِشمل اُس کی بات پر غصے سے طیش میں آتی بولی. جب اُس کی بات سنتے آہان نے زور سے بریک پر پاؤں رکھا تھا. گاڑی سائیڈ پر روکتے وہ اُس کی طرف مڑا تھا.

تمہیں بہت شوق ہے نا مجھ پر الزام لگانے کا تو ہاں ہوں میں اِس وقت نشے میں. جانتی ہو ایک نشئی اور ہوس پرست انسان تو کچھ بھی کر سکتا ہے. ایک تنہا لڑکی کہ ساتھ.

آہان بازو سے پکڑ کر اِشمل کو اپنے بے حد قریب کرتے بولا. اُس کی گرم سانسوں سے اِشمل کو اپنا چہرا جُھلستہ ہوا محسوس ہوا تھا. اِشمل کو شدت سے اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہوا تھا.

چھوڑو مجھے. درد ہورہا ہے.

اِشمل اُسے پیچھے دھکیلتی بولی. اُس کی سخت گرفت سے اِشمل کو اپنا بازو ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا.

کیا ہوا اب لگاؤ مجھ پر کوئی نیا الزام.

اِشمل کو اُس سے آج پہلی بار خوف محسوس ہوا تھا. واقعی وہ اُس کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا تھا.

اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ آہان اُس کا بازو چھوڑتا سیدھا ہوا تھا. اور گاڑی کو ہوا کی سپیڈ پر بھگاتے اُس کے گھر کے سامنے روکی تھی. کیونکہ جتنے غصے میں اِس وقت تھا. وہ زیادہ دیر خود پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا تھا. اِشمل شکر ادا کرتی جلدی سے باہر نکلی تھی.

اُس کے اُترتے ہی آہان نے پہلے سے بھی زیادہ تیز سپیڈ میں گاڑی آگے بڑھائی تھی. جب اِشمل اُس کے جنونی انداز پر گھبراتی گھر کے اندر داخل ہوگئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِتنی اُداس کیوں بیٹھی ہو تم. میرا مشورہ مانوں اور بتادو بھیا کو کہ تم عارفین بھائی کو لائیک کرتی ہو.

حفصہ حنا کے پاس ٹیرس پر آتی بولی.

حفصہ آہستہ بولو. کبھی تو کوئی کام سوچ سمجھ کے کرلیا کرو. کسی نے سُن لیا تو نئی مصیبت آجائے گی.

حنا اُسے گھورتے ہوئے بولی. جو کبھی بھی کچھ بھی بول دیتی تھی.

بھئ مجھے تو اب کسی بات کی کوئی ٹینشن نہیں ہے. میرے پیارے آہان بھیا ہے نا سب سنبھال لیں گے. اِسی لیے تمہارے لیے بھی مشورہ ہے میرا اِس بار آئیں تو اُنہیں سب بتادو. منٹوں میں سب ٹھیک کر دیں گے. جیسے ابھی سب ٹھیک کر کے گئے ہیں..

حفصہ محبت سے آہان کا ذکر کرتی بےفکری سے بولی.

میں پسند کرتی ہوں نا. وہ تو نہیں کرتے مجھے اگر کرتے ہوتے تو یوں خاموشی اختیار نہ کرتے میں نے خود پھوپھو کو کہتے سنا ہے. وہ عارفین کا رشتہ اپنی نند کی بیٹی سے کرنے کی بات کررہی تھیں.

حنا اپنے آنسو صاف کرتے بولی.

چلو جی کیا بنے گا تم لوگوں کا. ہم دونوں اچھے سے جانتی ہیں کہ عارفین بھائی تمہیں کتنا لائیک کرتے ہیں اور تم اُنہیں. لیکن تم جیسے ڈرپوک لوگوں کو محبت کرنی ہی نہیں چاہئے. وہ اُدھر اپنی اماں جان سے ڈر کر بیٹھے ہیں اور تم اِدھر اپنی سے.

حفصہ اُن دونوں کی عقل پر ماتم کرتے بولی.

اِس سے پہلے کے وقت تم دونوں کے ہاتھ سے نکل جائے کچھ کرلو. ورنہ پھر دونوں بعد میں روتے رہنا.

حفصہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولی.

جب وہ مرد ہوکر کوئی سٹینڈ نہیں لے رہے تو میں کیسے کچھ کروں. اور بھیا پہلے ہی ہمارے لیے اتنا کچھ کرچکے ہیں میں اُن کو اِس معاملے میں انوالو کرکے بابا اور ہاجرہ امی کی ساتھ اُن کا رشتہ مزید خراب نہیں کرنا چاہتی. اور تمہیں بھی میری قسم بھیا کو اِس بارے میں کچھ نہیں بتاؤ گی.

حنا کی بات پر حفصہ بھی خاموش ہوگئی تھی. اُسے بھی کسی حد تک حنا کی بات مناسب لگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ایک ہفتے گزر چکا تھا لیکن اُس دن کے بعد سے آہان نے اُس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا. جس وجہ سے وہ بہت خوش تھی. لیکن وہ نہیں جانتی تھی. یہ خاموشی اُس کے لیے کتنا بڑا طوفان لانے والی تھی.

سلمان صاحب نے اُس کا رشتہ اپنے دوست احمد کے بیٹے ارسلان سے طے کر دیا تھا. اُسے ارسلان کے بارے میں کچھ خاص نہیں پتا تھا. سلام دعا کے علاوہ اُن کی آپس میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی. لیکن اِشمل اِتنا جانتی تھی کہ وہ ایک شریف اور اچھا انسان ہے اِس لیے اُسے اِس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا.

آج ہاسپٹل سے لوٹتے اُسے تھوڑی دیر ہوگئی تھی. جب گھر میں غیر معمولی خاموشی سے اُسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا. چاروں طرف نظر دوڑاتی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی.

یہ یہ سب کیا ہے ماما. یہ کون لایا اور آپ ایسے کیوں بیٹھی ہیں.

اِشمل نے حیرت سے ٹیبل اور صوفوں پر پڑے بہت سارے سجے تھال کی طرف دیکھا تھا. اور قریب ہی دونوں ہاتھوں پر سر جھکائے بیٹھی اسما بیگم کی طرف بڑھی تھی. جب اُس کی آواز پر اسما بیگم نے پریشان نظروں سے اُس کی طرف دیکھا.

تمہارے بابا نے کہا ہے جیسے ہی تم واپس آؤ اُن کے کمرے میں بھیجا جائے.

اُسے کہتے وہ وہاں سے اُٹھ گیئں تھیں.

اسما بیگم کے لہجے سے اُسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا.

بابا آپ نے بلایا مجھے.

اِشمل دروازے پر ہلکا سا ناک کرتی اندر داخل ہوئی تھی.

ہممہ بیٹا بیٹھو یہاں.

سلمان صاحب سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے بولے.

آج کچھ لوگ تمہارا رشتہ لے کر آئے تھے. جدی پشتی رئیس اور ہماری حیثیت سے بہت اُونچے ہیں وہ لوگ. ہمارا اور اُن کا کوئی میل نہیں. ابھی اُن کو گئے کچھ گھنٹے نہیں گزرے کے بیسوں لوگ آکر پوچھ چکے ہیں ہم سے. اور ناجانے کیا کیا باتیں بنائی جارہی ہیں. کیونکہ میر خاندان کو ہر کوئی جانتا ہے. اتنے بڑے لوگوں کا ہمارے گھر آنا سب کے لیے حیرانی کا باعث تو ہوگا ہی.

تمہیں یہ سب بتانے کامقصد صرف یہی ہے کہ. تم پر میں اپنے حالات واضع کردوں. کیونکہ جس طرح وہ لوگ رشتہ لے کر آئیں ہیں اُس سے تو صاف ظاہر ہے کہ اِس سب میں تمہاری بھی رضامندی شامل ہے.

سلمان صاحب کی آخری بات پر اِشمل نے تڑپ کر اُن کی طرف دیکھا تھا.

بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں. ایسا کچھ نہیں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں.

اِشمل اُن کی بے اعتباری پر نم آنکھوں سے اُن کی طرف دیکھتے بولی. جب سلمان صاحب نے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا.

تم اُس لڑکے کو جانتی ہو؟ مل چکی ہو اُس سے؟

اُن کی بات پر اِشمل نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

اگر ایسا تھا تو تم نے ارسلان سے رشتے پر رضا مندی کیوں دی.

سلمان صاحب بے تاثُر چہرے کے ساتھ اُس کی طرف دیکھتے بولے. جب اِشمل مزید اُن کی بے اعتباری برداشت نہ کرتے ہوئے اُن کے قدموں کے قریب آبیٹھی تھی.

بابا آپ نے ہمیشہ اپنی بیٹی پر اتنا اعتبار کیا ہے پلیز ایک بار اب بھی میری پوری بات سن لیں.

اِشمل اُن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے بولی تھی.

جب سلمان صاحب نے اُسے کندھوں سے پکڑ کے کر اُوپر اپنے پاس بیٹھایا تھا.

بولو بیٹا میں سن رہا ہوں.

اِشمل گود میں رکھے ہاتھوں کو مسلتی اُنہیں آہان کے ہاسپٹل آنے سے لے کر آگے کی ساری بات بتاتی چلی گئی تھی.

بیٹا تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے یہ سب.

سلمان صاحب اُس کے آنسو صاف کرتے بولے.

میرے لیے تمہاری خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے. تمہاری خوشی کے خیال سے میں اُن لوگوں سے میل نہ ہوتے ہوئے کسی حد تک اِس رشتے کے لیے خود کو رضا مند کر چکا تھا. لیکن اب تمہاری مرضی جان کر میں بہت مطمیئن ہوگیا ہوں.

سلمان صاحب پر سکون لہجے میں بولے.

بابا وہ شخص بہت پاور فل ہے. اتنی آسانی سے خاموش نہیں بیٹھے گا.

اِشمل اُنہیں آہان رضا میر کے بارے میں آگاہ کرتے بولی.

جو ہوگا دیکھا جائے گا بیٹا. زیادہ سوچ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے. جاؤ جاکر ریسٹ کرو.

اُن کی بات پر اِشمل سر ہلاتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


کیسا لگا پھر میرا سرپرائز ڈاکٹر اِشمل سلمان.

اِشمل ابھی اپنے روم میں پہنچی ہی تھی جب موبائل پر بجتے انجان نمبر کو دیکھا تھا. وہ جانتی تھی یہ کون ہوسکتا ہے. اور اِشمل کے اندازے کے مطابق کال اُٹھاتے ہی آگے سے اُسی کی آواز سنائی دی تھی.

تم نے یہ سب کرکے اچھا نہیں کیا. آج تمہاری وجہ سے پہلی بار میں نے اپنے بابا کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھی ہے. اِس کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی.

اِشمل اُس کی آواز سنتے شدید غصے سے بولی تھی.

تم سے معافی مانگ بھی کون رہا ہے ڈاکٹر صاحبہ. بلکہ ابھی تو آگے میں اور بھی بہت کچھ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں. تمہیں ابھی کال کرنے کا مقصد یہی بتانا تھا. میں اپنے مزاج سے ہٹ کر بہت اچھے سے پیش آرہا تھا تم سے لیکن شاید تمہیں وہ سب راس نہیں آیا اب تم آہان رضا میر کا اصلی رُوپ دیکھو گی.

آہان نے کہتے ساتھ ہی فون بند کر دیا تھا. جب اِشمل موبائل وہی پھینکتی چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رونا شروع ہوچکی تھی. اِس شخص نے اُس کی اچھی بھلی زندگی کا سکون برباد کرکے رکھ دیا تھا. اور اب مزید پتا نہیں کیا کرنے والا تھا. See less

اب کیا ہوگا اِشمل.

سدرہ اُس کے پاس بیٹھتے بولی.

بابا نے تو اُن لوگوں کو صاف انکار کردیا ہے. اب پتا نہیں وہ کیا کرے گا.

اِشمل پریشانی سے سامنے دیکھتے بولی.

ویسےجب وہ گھر والوں کو انوالو کرچکا ہے تو مجھے وہ کافی سیریس لگتا ہے. کیا پتا واقعی تم سے محبت کرتا ہو. کیا تم ایک بار اُس کے بارے میں سوچ نہیں سکتی.

سدرہ کی بات پر اِشمل نے غصے بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

تمہارے کہنے کا مطلب ہے. کہ میں اُس آوارہ شخص سے شادی کے لیے تیار ہوجاؤں. جو نشہ کرتا ہے. نامحرم عورتوں کے ساتھ رات دن گزرتے ہیں اُس کے. میں نے خود اپنی آنکھوں سے اُس دن اُس لڑکی کے اتنے قریب دیکھا ہے اُسکے. وہ جانتا ہے اُس کی باقی گرل فرینڈز کی طرح میں اُسے اتنی آسانی سے تو ملنے والی نہیں ہوں. اِس لیے یہ ڈرامہ رچا رہا ہے. اور جب دل بھر جائے گا اِس ڈرامے سے تو چھوڑ دے گا. محبت کرنے والے ایسے بے عزت نہیں کرتے جیسے وہ مجھے کررہا ہے.

اِشمل سدرہ کی بات پر غصے سے بھڑکتے بولی.

لیکن تم نے بھی تو کب آرام سے بات کی ہے اُس سے. ہمیشہ فضول باتیں اور انسلٹ ہی کی ہے. اور آج کل کے دور میں تو بہت کم ہی کوئی اتنا شریف ہوگا کہ جس کی کوئی گرل فرینڈ نہ ہو. اور وہ تو جس سوسائٹی میں رہتا ہے وہاں یہ سب نارمل باتیں ہیں.

سدرہ ایک بار پھر اُس کی وکالت کرتے بولی

سدرہ اگر تم نے ایسی ہی باتیں کرنی ہیں تو یہاں سے اُٹھ جاؤ میرا پہلے ہی دماغ خراب ہوا پڑا ہے مزید مت کرو.

اِشمل اُس کی باتوں پر کھرے لہجے میں بولی.

اچھا اچھا سوری غصہ مت کرو یہ بتاؤ سلمان انکل نے ارسلان کے گھروالوں سے کوئی بات کی پھر اِس بارے میں.

سدرہ اِشمل کاخراب ہوتا موڈ دیکھ کر بات بدلتے بولی.

پتا نہیں مجھے کچھ خاص نہیں پتا. ماما کہہ تو رہی تھیں کل کے آج بات کرنی ہے.

اِشمل کی بات پر سدرہ بس سر ہلا کر رہ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


تمہارے کہنے پر ہم لوگ گئے اُن کے گھر لیکن اُنہوں نے صاف انکار کردیا ہے اِس رشتے سے. اُن کا کہنا ہے کہ اُن کی بیٹی کا رشتہ پہلے سے کہیں اور طے ہو چکا ہے. اور آہان ہمارا اور اُن لوگوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے میرے خیال میں تو تم بھی ایک بار سوچ لو اپنے فیصلے پر.

حسنین رضا میر اُسے تفصیل بتاتے بولے.

شادی تو میری اُسی لڑکی سے ہوگی جوڑ ہے یا نہیں آپ اِس بات کی فکر مت کریں. اور گھر میں شادی کی تیاریاں شروع کر دیں. کیونکہ جلد ہی آپ کی بہو گھر آنے والی ہے.

آہان اُنہیں اپنی بات سمجھاتے نپےتلے لہجے میں بولا.

لیکن وہ لوگ تو انکار کر چکے ہیں پھر تم کیا کرو گے.

حسنین رضا میر اُس کی ضدی طبیعت سے اچھے سے واقف تھے اِس لیے اُس کی بات پر فکرمندی سے بولے.

یہ میرا مسئلہ ہے میں دیکھ لوں گا. آپ گھر میں سب کو انفارم کردیں. اپنی بیوی کے استقبال میں مجھے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چاہئے.

آہان اپنے مخصوص انداز میں اُنہیں باور کرواتا فون رکھ چکا تھا.

کیا ہوا آپ پریشان لگ رہے ہیں کیا کہا آہان نے.

پاس بیٹھی ہاجرہ بیگم حسنین صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں.

مبارک ہو تمہیں جیسا تم اپنے بیٹے کو بنانا چاہتی تھی ویسا ہی بن گیا ہے. ہر بات میں اپنی چلانے کی قسم کھا رکھی ہے اُس نے. اُن لوگوں کے انکار کے باوجود بھی کہتا ہے وہی شادی کروں گا. اب پتا نہیں آگے کیا کرنے والا ہے.

حسنین رضا میر ہاجرہ بیگم کو سناتے ہوئے بولے.

تو کیا ہو گیا ہے اِس میں جب اُس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری ہوئی ہے. یہ تو پھر اُس کی پسند کی شادی کی بات ہے یہ پوری کیے بغیر وہ کیسے رہ سکتا ہے. اور کیا ہوا اگر وہ لوگ ہمارے سٹیٹس کے نہیں. میرے بیٹے کو اُس کی مرضی کرنے دیں. ویسے بھی جیسے ہر چیز سے بہت جلد اُس کا دل بھر جاتا ہے اِس شادی سے بھی ایسا ہی ہوگا. پھر میں اپنی پسند اور سٹیٹس کی بہو لاؤں گی.

ہاجرہ بیگم اُنہیں اپنی پلیننگ بتاتے بولیں. جب حسنین رضا میر اُن کی باتوں پر صرف سر جھٹک کر رہ گئے تھے. اُنہیں آج تک اپنی بیوی کے دماغ کی سمجھ نہیں آئی تھی.

حنا اِدھر آؤ جلدی ایک بڑے مزے کی نیوز ہے میرے پاس.

حفصہ عاصمہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے حنا کو بھی آواز دیتےبولی.

یاﷲ خیر آرام سے کیا ہوگیا تمہیں.

عاصمہ بیگم اُس کی اتنی جلد بازی پر گھبراتے ہوئے بولیں.

آپ کو پتا ہے امی بھیا کی شادی ہو رہی ہے. واو کتنا مزا آئے گا. پتا نہیں بھابھی کیسی ہوں گی. بھیا کی پسند ہے پھر تو اچھی ہی ہوں گی نا.

حفصہ خوشی سے اُنہیں بتاتے ہوئے بولی.

تمہیں کس نے بتایا.

حنا بھی اُس کی بات سنتے اندر داخل ہوتی بولی.

ابھی میں نے بابا اور ہاجرہ امی کی باتیں سنی ہیں. بابا بھیا سے بات کر رہے.

حفصہ عاصمہ بیگم کے پاس بیٹھتے اُنہیں تفصیل بتانے لگی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


سلمان صاحب نے آج آفس سے چھٹی کی تھی. اِس لیے آج وہ گھر پر ہی تھے. جب بیل بجنے کی آواز پر وہ اُٹھ کر گیٹ کی طرف بڑھے تھے.

اسلام و علیکم انکل کیسے ہیں آپ.

سلمان نے حیرت سے ایک نظر سامنے کھڑے خوبرو نوجوان اور کچھ فاصلے پر گاڑی کے پاس کھڑے گارڈ کی طرف دیکھا تھا.

وعلیکم اسلام جی آپ کون میں نے پہچانا نہیں.

سلمان صاحب اُس کی طرف دیکھتے بولے جو اُن کی بات سن کر وہ مسکرایا تھا.

کیا آپ مہمانوں کو ایسے ہی دروازے پر کھڑا رکھتے ہیں. ہم اندر چل کر بھی بات کرسکتے ہیں.

آہان اُن کی طرف دیکھتا سوالیہ انداز میں بولا.

جب سلمان صاحب اُسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اندر کی طرف بڑھ گئے تھے.

میرا نام آہان رضا میر ہے. جس کا کچھ دن پہلے رشتہ آیا تھا آپ کے گھر. مجھے نہیں لگتا اِس سے زیادہ تعارف کی ضرورت ہے آپ کو کیونکہ جہاں تک مجھے لگتا آپ کی بیٹی میرے بارے میں سب کچھ بتاچکی ہوگی.

آہان کی بات ہر سلمان صاحب کے چہرے کے تاثرات سرد ہوئے تھے. اندر داخل ہوتی اسما بیگم نے بھی آہان کی طرف دیکھا تھا. براؤن کلر کی قمیض شلوار میں ملبوس بالوں کو جیل لگا کر ایک سٹائل سے سیٹ کیے مضبوط مردانہ کلائی میں قیمتی گھڑی پہنے وہ ٹانگ پر ٹانگ چھڑہائے صوفے کی بیک سے ٹیک لگائے پرسکون انداز میں بیٹھا تھا. اگر اسما بیگم کو اِشمل اِس کی حرکتوں کا نہ بتاچکی ہوتی تو یہ روشن پیشانی والا نوجوان اُنہیں اِشمل کے لیے ارسلان سے ہزار گنا بہتر لگا تھا.

تو تمہارے گھر والوں کو میں اُس رشتے کا جواب بھی دے چکا ہوں پھر کیا لینے آئے ہو تم یہاں.

سلمان صاحب سپاٹ سے لہجے میں بولے.

وہ تو انکار میں جواب دیا آپ نے. میں اقرار میں جواب لینے آیا ہوں.

آہان اُن کی طرف دیکھتا بولا.

میری بیٹی کا رشتہ طے ہوچکا ہے اور کچھ دنوں میں اُس کا نکاح ہے. اِس لیے تم اُس کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو. نہ ہی وہ ایسا کچھ چاہتی ہے اور نہ ہی ہم.

سلمان صاحب اپنی کیفیت کنٹرول کرتے بولے.

نکاح تو اُس کا مجھ سے ہی ہوگا. چاہے آپ لوگوں کی مرضی اِس میں شامل ہو یا نہ ہو. دو دن ہیں آپ لوگوں کے پاس اچھے سے سوچ لیں. اگر آپ کا جواب اقرار میں ہوا تو بہت اچھی بات ہے. ورنہ میں اپنے طریقے سے اقرار کرواؤں گا پھر آپ اعتراض مت کیجئے گا.

آہان سنجیدہ لہجے میں اُنہیں اپنی بات سمجھاتے وہاں سے نکل گیا تھا.

اب کیا ہوگا سلمان یہ تو صاف دھمکی دے کر گیا ہے. یہ کچھ غلط نہ کریں ہماری بیٹی کے ساتھ.

اسما بیگم سلمان صاحب کے پاس آتے پریشانی سے بولیں. کیونکہ وہ باہر موجود آہان کا پروٹوکول دیکھ چکی تھیں. ہاتھوں میں بندوق اُٹھائے کھڑے گارڈز دیکھ کر تو اُنہیں ویسے ہی خوف آرہا تھا.

میں بات کرتا ہوں احمد سے.

سلمان صاحب فکرمندی سے کہتے وہاں سے اُٹھے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ماما اب بہت ہوگیا. وہ شخص ہمارے گھر آکر دھمکی دے کرگیا ہے. آپ پاپا سے کہیں پولیس کو انفارم کریں.

اِشمل اسما بیگم کی بات سنتے غصے سے بولی.

کوئی فائدہ نہیں. تمہارے پاپا کا کہنا ہے پولیس بھی اُنہیں لوگوں کے جیبوں میں ہوتی ہے اپنی ہی عزت خراب کرنے والی بات ہے اُنہیں اِس معاملے میں شامل کرکے.

اسما بیگم فکرمندی سے بولیں.

تو پھر اب پاپا نے کیا سوچا اِس بارے میں.

اِشمل پریشانی سے اُن کی طرف دیکھتے بولی.

احمد بھائی سے بات کی ہے تمہارے پاپا نے کل تمہارا نکاح ہے ارسلان سے.

اسما اُس کے پاس بیٹھتے بولیں.

ماما پر ایسے کیسے اتنی جلدی.

اِشمل اُن کی بات پر حیرانی سے بولی.

تمہارے بابا کا فیصلہ ہے یہ ہم اُن لوگوں کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے. ابھی صرف نکاح ہوگا. رخصتی حالات ٹھیک ہونے کے بعد اپنے ٹائم پر ہی ہوگی.

اسما بیگم اُسے سلمان صاحب کے فیصلے سے آگاہ کرتے بولیں. جب اِشمل نے خاموشی سے اُنہیں دیکھا تھا. اُس شخص سے تو وہ کسی صورت شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کسی بھی قیمت پر اُسے اُس کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتی تھی. ارسلان سے تو ویسے بھی اُس کی شادی ہونی ہی تھی تو ابھی ہی سہی. اِشمل کو اُس شخص سے جان چھوڑوانے کے لیے سلمان صاحب کا یہ فیصلہ مناسب ہی لگا تھا.

پر ماما یہاں پر تو وہ نکاح نہیں ہونے دے گا. جب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی خبر رکھی ہوئی اُس نے تو یہ بھی پتا چل جائیں گا.

تمہارا نکاح یہاں نہیں ہوگا بلکہ حیدر آباد میں تمہاری خالہ کے گھر ہوگا آج ہی ہمیں وہاں کے لیے نکلنا ہے. میں نے ساری پیکنگ کرلی ہے. تم بھی کھانا کھا کر تیار ہوجاؤ.

اسما بیگم اُسے ہدایت دیتی وہاں سے نکل گئی تھیں.

اِشمل کی بس اب یہی دعا تھی کہ کل تک سب کچھ خیر خیریت سے ہوجائے. اُس آہان رضا میر کی شکل دوبارہ نہ دیکھنی پڑے.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


وہ لوگ رات کو ہی حیدرآباد پہنچے تھے. آج اُس کا نکاح تھا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُس کی زندگی کا سب سے امپورٹنٹ دن ایسا ہوگا. اُس کی دوستوں میں اِس سارے معاملے سے صرف سدرہ کو ہی علم تھا اِس لیے وہ بھی اِشمل کے ساتھ ہی وہاں آئی تھی. ہما اور احد بھی پریشان سے اِس سب معاملے پر حیران تھے.

اِشمل اپنی سوچوں میں ہی گم تھی جب سلمان صاحب مولوی صاحب اور باقی چند ایک قریبی لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے.

اِشمل سلمان آپ کا نکاح ارسلان احمد کے ساتھ باعیوض تین لاکھ حق مہر کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے.؟

مولوی صاحب کی آواز اُس کے کانوں میں گونجی تھی.

اِتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو مولوی صاحب کے دلہے کے آنے کا انتظار بھی نہیں کیا آپ نے.

اِس سے پہلے کے وہ اقرار میں جواب دیتی جب کمرے میں اُبھرتی ایک اور آواز سن کر وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی. جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ اُس تک پہنچ چکا تھا.

اِشمل نے جھٹکے سے چہرہ اُوپر اُٹھایا تھا جس کی وجہ سے گھونگھٹ کی شکل میں لیا دوپٹہ شانوں پر ڈھلک گیا تھا. آہان رضا میر چہرے پر سرد تاثرات سجائے اُسے غصے سے گھور رہا تھا. اسلحہ سے لیس گارڈز اُس کے پیچھے ہی موجود تھے.

مولوی صاحب آپ نکاح شروع کریں میری بیٹی کا نکاح ارسلان سے ہی ہوگا.

سلمان صاحب اُسے وہاں دیکھ کر دل میں موجود ڈر کے باوجود اپنے لہجے کو مضبوط بناتے بولے.

جب سلمان صاحب کی بات کو نظر انداز کرتے وہ شہانہ چال چلتا آگے بڑھ کر اِشمل کے ساتھ بیٹھی سدرہ کو ہٹنے کا اشارہ کرتا اُس کے ساتھ جا بیٹھا تھا.

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی اور یہ...

اِشمل اُس کی حرکت پر طیش میں آتی ابھی بولی ہی تھی جب آہان کے اشارہ کرنے پر اُس کے آدمیوں نے اِشمل کے پاپا اور بھائی کے سر پر بندوق رکھی تھی. اِشمل نے آنکھیں پھاڑے آہان کی طرف دیکھا تھا. جو وارن کرتی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا.

اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں. اِس کا ثبوت بھی تمہیں مل جائے گا اپنے باپ اور بھائی کھو کر اگر تم نے میرے ساتھ نکاح سے انکار کیا تو. بولو تیار ہو میرے ساتھ نکاح کے لیے.

اُس کی بات سنتے اِشمل نے روتی آنکھوں سے سلمان صاحب اور احد کی طرف دیکھا تھا اور بے بسی سے سر اثبات میں ہلایا تھا. اِس کے علاوہ اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا.

اِشمل تم ایسا کچھ نہیں کرو گی. کرنے دو اِسے جو یہ کرنا چاہتا ہے.

سلمان صاحب غصے سے آہان کی طرف دیکھتے چلاتے ہوئے بولے.

دیکھیے سر آپ لوگوں نے پہلے ہی فرار ہوکر جو اتنی بڑی غلطی کی ہے اُس کی سزا ابھی باقی ہے مزید کچھ ایسا نہ کریں جس پر آپ لوگوں کو پچھتانہ پڑے. معاف تو میں کسی کو کرتا نہیں ہوں کیونکہ یہ لفظ میری ڈکشنری میں ہے ہی نہیں.

آہان نے سخت لہجے میں اُنہیں باور کروایا تھا

بیٹا پلیز خدا کے لیے ایسا مت کرو میری بیٹی تم سے نکاح نہیں کرنا چاہتی. کیوں کر رہے ہو زبردستی. چھوڑ دو اِنہیں.

اسما بیگم روتے ہوئے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتی بولی تھیں. وہاں موجود باقی لوگ بلکل خاموشی سے اپنی جگہ ڈرے بیٹھے تھے. کوئی بھی اِن کے معاملے میں گھس کر اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا.

دیکھیں والدہ صاحبہ آپ میرے لیے بہت قابلے عزت ہیں ایسا مت کریں. اور اِس سب کا فائدہ بھی نہیں ہے. جب میں اپنی مرضی کرنے پر آؤں تو میری سگی ماں بھی مجھے نہیں روکتیں کونکہ وہ جانتی ہیں میں اپنا کہا پورا کرکے رہوں گا تو پلیز یہ سب کرکے مجھے شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش مت کریں.

وہ ڈھٹائی سے بولتا اُنہیں خاموش کروا گیا تھا. اور اِشمل کا دوپٹہ پکڑ کر واپس گھونگھٹ کی طرح اُس کے چہرے پر ڈال دیا تھا.

جب اُس کے اشارے پر مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا تھا اور وہ کچھ ہی دیر میں ناچاہتے ہوئے بھی وہ اِشمل سلمان سے اِشمل آہان رضا میر بن چکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤ 

میں اپنی بیوی سے کچھ دیر بات کرنا چاہتا ہوں.

آہان کے کہنے پر اُن لوگوں کو کچھ بھی بولنے کا موقعہ دیے بغیر گارڈز نے اُنہیں باہر جانے کا اشارہ کیا تھا. سلمان صاحب مولوی صاحب کے ساتھ پہلے ہی جاچکے تھے.

اِشمل بھی سب کے ساتھ باہر کی طرف جانے لگی تھی جب آہان نے اُس کا بازو پکڑ کر روکا تھا.

چھوڑو مجھے.

اِشمل اُس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھوڑواتی بولی. اُس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں سے ابھی سب لوگ باہر گئے تھے اور جلدی سےاُس طرف بڑھی تھی.

جب آہان نے پیچھے سے اُس کا بازو پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے طرف موڑتے اُسے دروازے سے لگایا تھا. اور ہاتھ بڑھا کر دروازہ لاک کر دیا تھا.

اِشمل نے اُس کے اتنے قریب آنے پر اُس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پرے کرنا چاہا تھا. جب آہان نے اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتے پیچھے دروازے کے ساتھ لگایا تھا.

دور رہو مجھ سے انتہائی بُرے انسان ہو تم.جتنی من مانی کرنی تھی کرچکے. اب خدا کے لیے میری جان چھوڑ دو.

اِشمل اُس سے اپنے بازو چھوڑوانے کی کوشش کرتے بولی.

اِتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تمہیں اپنے ہوست پرست ہونے کا ثبوت بھی تو دینا ہے ڈئیر وائف.

آہان اُس کے کان کے نزدیک جھکتے ہوئے بولا تھا اور ہولے سے اُس کے کان کی لوح کو چوما تھا.

اُس کی اِس حرکت پر اِشمل فوراً پیچھے ہوئی تھی. جب پیچھے موجود دروازے سے زور سے اُس کا سر لگا تھا. درد کے احساس سے اُس نے آنکھیں بند کی تھیں. آہان نے فوراً اُس کے سر کی طرف ہاتھ لے جاکر سہلایا تھا. جب اِشمل نے نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکا تھا.

اُس کی آنکھوں میں نفرت دیکھ آہان نے اپنی اِس بے ساختہ حرکت پر خود کو ہی کوسا تھا. وہ اُس کی محبت نہیں ضد تھی تو پھر کیوں اُس کی تکلیف پر اُسے بُرا لگ تھا. لیکن شاید اِس بات کا جواب اِس وقت اُس کے پاس بھی موجود نہیں تھا.

تم جیسے لوگ صرف نفرت کے قابل ہی ہوسکتے ہیں. جو صرف طاقت کے زور پر اپنے سے کمزور لوگوں کو زیر کرنا جانتے ہیں.

اِشمل نفرت بھرے لہجے میں اُس کی طرف دیکھتے بولی.

جب آہان نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک جھٹکے سے اپنے قریب کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اُس کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی تھی. اُس کے اتنے قریب تر ہونے پر اِشمل نے تڑپ کر پیچھے ہونا چاہا تھا. لیکن آہان کی مضبوط گرفت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائی تھی.

تو ہم جیسے لوگوں نے کب کہا کہ ہم سے محبت کی جائے. ہم تو آپ جیسے لوگوں کی نفرت میں بھی خوش ہیں. اور کیا ہوا اب تو میں تمہارا محرم ہوں نا تو اب اِس مزاحمت کا مطلب.

آہان ہاتھ سے اُس کی ٹھوڑی کو اُوپر کرتا بولا تھا. پرپل اور بلیک کمبی نیشن کے سوٹ میں اُس کا صاف رنگ اور بھی دمک رہا تھا. ستواں ناک, لپ سٹک سے سجے ہونٹ, بڑی بڑی آنکھیں اور اُن پر سایہ فگن لمبی پلکیں آہان کا دل بے ایمان کرنے لگی تھیں. آہان نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اُس کے ہونٹوں کو چھوا تھا. جب اِشمل نے اُسکا ہاتھ جھٹکا تھا.

بے انتہا نفرت کرتی ہوں میں تم جیسے گھٹیا شخص سے. تم نے ہر جگہ میرا تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے. تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں. مذاق سمجھ رکھا ہے نا تم نے نکاح جیسے پاک رشتے کو. بندوق کے زور پر تم نے یہ نکاح کروایا ہے نہیں مانتی میں تمہیں اپنا شوہر....

آہان کی بات اور حرکت پر اِشمل غصے سے دھاڑی تھی. اِشمل کی مسلسل مزاحمت سے اُس کا دوپٹہ لڑھک کر کندھوں پر گر چکا تھا. جب آہان کی نظر اُس کی شفاف گردن پر پڑی تھی. اس کی قربت کے زیرِ اثر بہکتے آہان اُس کی گردن پر جھکا تھا. اور بھر پور انداز میں اپنے جنون کی تحریر رقم کرتاچلا گیا تھا. آہان کی اتنی بے باکی پر اِشمل کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے. سانس جیسے اٹک کر رہ گیا تھا. اِشمل نے اُس کے کندھوں پر دباؤ ڈالتے اُسے پیچھے کرنا چاہا تھا جب آہان اُس کا بازو جکڑتے اُسے مزید قریب کر گیا تھا. اُس کے دھکتے لمس سے اِشمل کو اپنی گردن جلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی.

اُس کے حصار میں تڑپتی وہ اُس سے دور ہونے کی کوشش کررہی تھی. جب آخر کار اُس کی حالت پر ترس کھاتے آہان پیچھے ہٹا تھا لیکن اپنی گرفت سے ابھی بھی آزاد نہیں کیا تھا.

نکاح تو ہمارا ہوچکا ہے اور تم میری بیوی ہو. اب یقین آگیا یا دوبارہ ثبوت چاہئے.

آہان اُس کے شرم اور غصے سے سُرخ پڑتے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا.

پہلے تو میرا یہی اِرادہ تھا کہ میں نکاح کرکے رخصتی کے لیے تھوڑا ٹائم دوں تمہیں لیکن تم اور تمہارے گھر والوں نے یہ جو حرکت کی ہے. اُس کی سزا یہی ہے کہ ہماری رخصتی اِسی ہفتے ہوگی. اور تم دوبارہ کوئی ایسی ویسی حرکت کرکے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا مت کرنا یہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا.

اُسے وارننگ دیتے لہجے میں کہتے آہان نے استحقاق بھرا لمس اُس کے دونوں گالوں پر چھوڑا تھا. اُس کی مونچھوں کی چُبھن اِشمل کو شدت سے محسوس ہوئی تھی. جب وہ اُسے اپنے حصار سے آزاد کرتا وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل ایسا مت کرو تم جانتی تو ہو اُسے وہ تمہیں وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالے گا. یہ سب کرکے تم اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کررہی ہو.

سدرہ کب سے اُسے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی. اسما بیگم بھی اُسے کتنی بار منع کرچکی تھیں لیکن وہ کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی. سلمان صاحب کو بہت مشکل سےمنا کر وہ پہلے ہی اجازت لے چکی تھی.

سدرہ تم کیا چاہتی ہو میں اُس شخص کے ساتھ خاموشی سے رُخصت ہوجاؤ.

اِشمل آخرکار اپنی خاموشی توڑتی چلا کر بولی.

لیکن اِشمل تم کب تک اُس سے ایسے ہی چھپ کررہوگی یوں فرار بھی تو اِس مسئلے کا حل نہیں ہے نا.

سدرہ اُس کا ہاتھ پکڑتی نرمی سے بولی.

اُس سے دور رہنے کے لیے جو کچھ کرسکتی ہوں کروں گی. اور جہاں میں جارہی ہوں وہ شخص وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.

اِشمل بیگ کی زپ بند کرتے بولی.

تمہیں کیا لگتا ہے اُس نے اِس گھر کے اردگرد اپنے آدمی نہیں پھیلا رکھے ہوں گے. جب وہ اتنے آرام سے حیدرآباد پہنچ سکتا ہے تو اُس گاؤں تک کیسے نہیں پہنچے گا جہاں تم جارہی ہو. جبکہ اب تو تم اُس کے نکاح میں بھی ہو.

سدرہ پلیز میں پہلے ہی بہت ٹینس ہوں تم بس دعا کرو. میں آسانی سے یہاں سے نکل جاؤں. اور اُس کی شکل نہ دیکھنی پڑے دوبارہ.

اِشمل بلیک چادر اوڑھتے بولی. اُس کا ارادہ ابھی رات کو ہی نکلنے کا تھا. کل سے مسلسل کی جانے والی اُسکی کوششوں سے ایک فرینڈ کے تھرو کسی گاؤں کے ہاسپٹل میں اُس کی جاب ہوگئی تھی اِس لیے وہ آج کے آج ہی وہاں کے لیے نکلنا چاہتی تھی. سلمان صاحب نے اُس کے جانے کا بندوبست کروا دیا تھا وہ ویسے ہی اِشمل سے بہت شرمندہ تھے.کہ اِس نکاح کو نہ رکوا پائے تھے. وہ اِس وقت خود کو بہت ہی بے بس اور لاچار محسوس کر رہے تھے. اُن کا سب سے اچھا دوست احمد بھی اُنہیں اور اِشمل کو ہی قصوروار ٹھہرا کر جاچکا تھا.

سلمان صاحب اپنے بارے میں تو سب کچھ برداشت کر گئے تھے لیکن اپنی بیٹی کے کردار پر کچھ بھی برداشت نہیں کر پائے تھے. اور کافی تلخ کلامی کے بعد سلمان صاحب نے اُن سے ہر تعلق توڑ دیا تھا.

اِشمل سب سے ملتی گاڑی میں آبیٹھی تھی. اُس نے سدرہ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اُس کے گھروالوں کا خیال رکھے گی. اور روز سلمان صاحب کا چیک اپ کرنے آئے گی کیونکہ اُن کی طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں تھی. سدرہ نے اُسے اُن کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی بھرپور یقین دہانی کروائی تھی.

اِشمل کو آہان سے پہلے سے بھی کہیں زیادہ نفرت محسوس ہوئی تھی. جس کی وجہ سے اُسے اِس طرح اپنوں کو چھوڑ کر اپنے ہی گھر سے یوں چھپ کر رات کے اندھیرے میں نکلنا پڑا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


پانچ گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد وہ اُس گاؤں میں پہنچی تھی. وہاں موجود واحد ڈاکٹر اور نرس کو شاید اُس کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اِس لیے وہ پہلے سے ہی اُس کے انتظار میں موجود تھیں.

ہاسپٹل کی بلڈنگ زیادہ بڑی تو نہیں تھی لیکن کافی خوبصورت تھی. اِشمل کو وہ لوگ بہت اچھے سے ملی تھیں. اُن کی رہائش ہاسپٹل کی پچھلی طرف تھی اِشمل کو بھی وہیں اُن کے ساتھ رہنا تھا. نرس اُسی گاؤں کی رہائشی تھی لیکن ڈاکٹر زیبا کی تنہائی کی وجہ سے اُس کے پاس رہتی تھی. تھوڑی دیر اُن سے باتیں کرکے اِشمل اپنے روم میں آگئی تھی. کمرہ اتنا بڑا نہیں تھا لیکن ایک انسان کے آرام سے رہنے کے لیے کافی تھا. پچھلی تین راتوں سے نہ سونے اور مسلسل ذہینی تناؤ کی وجہ سے اِشمل کو اِس وقت اپنا سر پھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا.

گھروالوں کی وجہ سے وہ ابھی بھی بہت فکرمند تھی کہ کہیں وہ اُنہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کیونکہ اُس شخص سے کسی بات کی بھی اُمید کی جاسکتی تھی. ایسے تو اُسے نیند آنی نہیں تھی اِس لیے اُس نے پرس سے سلیپنگ پلز نکال کر پانی سے اُنہیں اندر نگلا تھا. اور کمبل خود پر اوڑھتے لیٹ گئی تھی.

اسلام و علیکم!

اِشمل ڈاکٹر زیبا کے آفس میں داخل ہوتے بولی.

وعلیکم اسلام کیسی رہی پہلی رات آپ کی یہاں نیند تو ٹھیک سے آئی نا آپ کو.

ڈاکٹر زیبا اپنی سیٹ سے کھڑے ہوتے اُس کے پاس آتی بولی.

جی صحیح رہا سب. آپ پلیز مجھے میرا آفس دیکھا دیں.

اِشمل مختصر سا جواب دیتے بولی.

اوکے آئیں میرے ساتھ میں نے بتول سے کہہ کر کل ہی آپ کا آفس سیٹ کروا دیا تھا.

ڈاکٹر زیبا اُس کے ساتھ آفس سے نکلتے بولی.

یہ رہا آپ کا آفس اگر مزید کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیجیئے گا.

ڈاکٹر زیبا کے کہنے پر اِشمل اثبات میں سر ہلا کر اُسے شکریہ کہتے اپنی آفس کے اندر آگئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


کیا بکواس کر رہے ہو تم. تم لوگوں کو میں نے وہاں اپنی نیندیں پوری کرنے کے لیے بیٹھایا ہوا ہے کیا. جاؤ اور ڈھونڈو اُسے. جلد سے جلد اُس کا پتا لگنا چاہئے مجھے ورنہ میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا یاد رکھنا میری بات.

آہان اپنے آدمی کی بات سنتا بیڈ سے اُٹھتا اُس پر چلاتے ہوئے بولا تھا.

جی....جی سر ہم پتا لگاتے ہیں ہمیں بس تھوڑا سا ٹائم دے دیں.

آہان نے فون بند کرتے غصے سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا.

اِشمل آہان میں جتنا تم سے نرمی سے پیش آنے کی کوشش کرتا ہوں تم ہر بار کچھ ایسی حرکت کرکے میرے اندر کے وحشی انسان کو جگا دیتی ہو. ہمیشہ تمہارے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے سے خود کو باز رکھا ہے میں نے لیکن اِس بار جو تم نے حرکت کی ہے اُس کی سزا تو ہر حال میں تمہیں بھگتنی ہوگی.

آہان مٹھیاں بھینچتا غصے کے عالم میں بولا تھا.

اُس نے پاس پڑا سگریٹ سلگھاتے ابھی اُس کا ایک کش ہی لیا تھا. جب ایک بار پھر اُس کا فون بجا تھا. گھر کا نمبر دیکھ کر اُسے نے کال ریسیو کرتے موبائل کان سے لگایا تھا.

بھیا آپ سے میں بہت سخت ناراض ہوں اتنی بڑی نیوز آپ نے ابھی تک مجھے نہیں بتائی پورا خاندان اکٹھا ہو چکا ہے لیکن آپ نے ہمیں ابھی تک اپنی شادی میں انوائٹ کرنا تو دور بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا.

حفصہ اُس کے کال اٹینڈ کرتے ہی بغیر اُسے کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر اپنا ہی شروع ہوچکی تھی.

گھر والوں کو بھلا کون انوائٹ کرتا ہے اپنے ہی گھر کی شادی میں. اور بہت زیادہ بزی ہونے کی وجہ سے میں بتا نہیں پایا جو کہ میں نے غلط کیا. اپنی غلطی میں تسلیم کرتا ہوں اور آپ اِس کے بدلے جو سزا دینا چاہیں مجھے قبول ہے.

آہان اپنے خراب موڈ کو بحال کرتا نرمی سے اُس کی بات کا جواب دیتے بولا.

اوکے. تو آپ کی سزا یہ ہے کہ ابھی کے ابھی مجھے میری بھابھی کی پکچرز سینڈ کریں مجھے دیکھنا ہے اُنہیں ویٹ نہیں ہورہا مجھ سے.

اِشمل کے ذکر پر آہان کے تاثرات ایک بار پھر سخت ہوئے تھے.

بھیا بولے نا آپ خاموش کیوں ہوگئے بھیج رہے ہیں نا آپ.

اُس کی خاموشی پر حفصہ ایک بار پھر بولی تھی.

اوکے بھیج رہا ہوں.

آہان نے گیلری سے اِشمل کی نکاح والی پکچر نکال کر اُسے سینڈ کی تھی اور موبائل وہی پھینکتے فریش ہونے واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


دودن گزر چکے تھے اُسے ڈھونڈتے لیکن ابھی تک اِشمل کا کچھ پتا نہیں چلا تھا. اُس کے گھروالوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتے وہ کہاں گئی ہے.

آہان رضا میر اچھے سے جانتا تھا کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن اب وہ اُن کو مزید ٹارچر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا. اُس کا پرابلم صرف اِشمل سے تھا تو اِس سب کی سزا بھی صرف اُسے ہی بھگتنی تھی.

وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ہاتھ میں سگریٹ لیے بیٹھا تھا. وہ دو دنوں سے ناجانے کتنے سگریٹ پھونک چکا تھا.

اِس وقت بھی گاڑی میں دھواں پھیلا ہوا تھا. جب موبائل کی آواز پر وہ اُس طرف متوجہ ہوا تھا.

دوسری طرف کی بات سن کر اُس کے چہرے پر جلا دینے والی مسکراہٹ بکھری تھی. کچھ دیر اُس کی بات سن کر آہان نے فون رکھتے ڈرائیور کو گاڑی دوسری طرف موڑنے کی ہدایت دی تھی.

تمہاری مجھ سے فرار کے لیے کی گئی اتنی کوششیں بھی کسی کام نہیں آئیں. اب تمہیں مجھ سے آزادی کسی صورت نہیں مل سکتی. تیار ہوجاؤ میرے اندر لگی اُس آگ کو بجھانے کے لیے جو تمہاری اپنی ہی لگائی گئی ہے.

سگریٹ کا گہرا کش لیتے دل ہی دل میں وہ اُس سے مخاطب تھا.

اِشمل کو آج تیسرا دن تھا یہاں آئے. اُس کا زیادہ وقت یہاں فارغ ہی گزرتا تھا کیونکہ بہت کم مریض ہی ہاسپٹل آتے تھے. اُس کی گھروالوں سے ایک دو بار ہی بات ہوسکی تھی. اِس وقت بھی وہ بیٹھی اُنہیں سے بات کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی جب کوئی دھاڑ سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا. اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر اِشمل ایک پل کے لیے اپنی جگہ پر ساکت ہوئی تھی.

تم... تم یہاں ..؟

اِشمل حیرت سے سامنے کھڑے آہان رضا میر کی طرف دیکھتے بولی. جب وہ قہر برساتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا آگے بڑھا تھا.

کیا کہنے آپ کے ڈاکٹر صاحبہ مجھ سے چھپنے کے لیے میرے ہی گاؤں میں میرے ہی ہاسپٹل میں پناہ لیے بیٹھی ہیں امیزنگ.

آہان اُس کے قریب آچکا تھا اُن کے درمیان اب صرف ایک ٹیبل کا فاصلہ رہ گیا تھا.

کیا مطلب.....

اِشمل اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے بولی.

سب مطلب اچھے سے سمجھاتا ہوں میں تمہیں..

آہان جارحانہ انداز میں اُس کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے باہر کی طرف بڑھا تھا. اِشمل مسلسل اُس سے اپنا بازو چھوڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی. باہر کھڑی بتول نے بھی حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا.

آہان کے خاص آدمی جمال کی بیوی کل ہی اِشمل کے پاس اپنا چیک اپ کروانے آئی تھی. اور اِشمل کے اچھے رویے اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئی تھی. اور اپنے شوہر سے بات کرتے سرسری سا گاؤں میں آنے والی نئی ڈاکٹر کا بتایا تھا. جب جمال اِشمل کا نام سن کر چونکہ تھا اور مزید تحقیق کرنے سے پتا چلا تھا کہ یہ وہی ڈاکٹر اِشمل ہے جس کو وہ لوگ پاگلوں کی طرح پورے شہر میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے.

آہان نے اُس کو اُسی کے روم میں لاکر بیڈ پر پھینکا تھا. اور دروازہ لاک کرتے اُس کی طرف بڑھا تھا.

کیا بدتمیزی ہے یہ. تم پاگل تو نہیں ہوگئے.

اِشمل بیڈ سے اُٹھتی دوسری طرف بڑھی تھی. جب آہان سامنے پڑے ٹیبل کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا اُس تک پہنچا تھا. ٹیبل پر پڑی چیزیں زوردار آواز پیدا کرتی نیچے جاگری تھیں.

میری نرمی کا بہت ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے تم نے لیکن اب اور نہیں. تمہیں ایک دفعہ اپنی بیوی ہونے کا احساس تو دلانا چاہتا ہوں. اپنے حق کو تم پر ثابت کرنے کی چھوٹی سی کوشش کرنی ہے.

آہان نے اُسے بازوؤں سے جکڑ کر بے بس کرتے ہوئے اپنے مقابل کیا اور اُس کی حیران اور خوفزدہ آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھتے بولا.

تم ہوش میں تو ہو. چھوڑو مجھے.

اِشمل اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے بولی. وہ کسی صورت بھی اُس کے سامنے کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی.

میں تو ہوش میں ہوں لیکن اب تمہارے ہوش ٹھکانے لگانے والا ہوں.

آہان کے ایک جھٹکے پر اِشمل اُچھل کر بیڈ پر گری تھی آہان بھی اُس کے ساتھ ہی تھا. اِشمل اُس سے خود کو چھڑانے کی جبکہ آہان مزید اُس پر تسلط جمانے کی کوشش کررہا تھا اور اپنی طاقت کی وجہ سے چند سیکنڈ میں ہی اُس پر مکمل حاوی ہوچکا تھا.

اِسی ہاتھاپائی کی وجہ سے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ اور گلدان زمین بوس ہوئے تھے. باہر کھڑی بتول دم سادھے اندر ہونے والی توڑ پھوڑ کی آوازیں سنتی وہی کی وہی کھڑی رہ گئی تھی. اُس کی ہمت نہیں تھی باہر سے کسی اور کو بلانے کی یا اندر جاکر اُسے روکنے کی کیونکہ وہ آہان رضا میر کے معاملے میں گھس کر اپنی موت کو دعوت نہیں دینا چاہتی تھی.

آہان اِشمل کو پوری طرح اپنے قابو میں کر چکا تھا. اِشمل مکمل طور پر اُس کی تحویل میں آنے کی وجہ سے ہل بھی نہیں پارہی تھی.

تم میرے ساتھ مزید زبردستی نہیں کرسکتے.

اِشمل اُس کے حصار میں تڑپتی ہوئی بولی تھی.

مجھے ہر طرح کی زبردستی کا مکمل حق حاصل ہے سویٹ ہارٹ.

اُس کے گلے سے دوپٹہ نکالتے وہ اُس کی گردن پر جھک چکا تھا. اُس کے دھکتے لبوں کا لمس محسوس کرکے اِشمل اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتی چلائی تھی.

پلیز چھوڑ دو مجھے تم جو کہو گے میں کروں گی. خدا کے لیے ایسا مت کرو.

اِشمل اُس کے آگے التجائی انداز میں کہتی سسکتے ہوئے بولی. آنسو پورا چہرا بھگو چکے تھے. وہ بے بسی اور بے مائیگی کے احساس سے سسکی تھی. جب اُس کے چہرے پر جھکے آہان نے نمی کے احساس پر سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. وہ اُس کی یہی ضد اور اکڑ ہی تو ختم کرنا چاہتا تھا لیکن اُس کو اِس طرح بے بس کرکے دل کو خوشی محسوس کیوں نہیں ہورہی تھی. ہمیشہ یہ آنسو دیکھ کر وہ کیوں بگھل جاتا تھا. آہان اُسے اپنے حصار سے آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا. وہ خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھا. وہ رُخ موڑے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا تھا. اتنا چاہنے کے باوجود وہ ہمیشہ کی طرح اِس لڑکی کو تکلیف میں نہیں دیکھ پایا تھا. اِشمل اپنے بکھرے حواسوں کو بحال کرتی سیدھی ہوئی تھی. جب اُس کی اگلی بات سن کر اِشمل کی سانسیں اٹکی تھیں.

آج ہماری مہندی ہے اور کل رخصتی تمہیں ابھی اور اِسی وقت میرے ساتھ میری حویلی چلنا ہوگا اِس کے علاوہ تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے. اگر تم خاموشی سے میرے ساتھ چل کر میری بات مانتی ہوتو ٹھیک ہے. ورنہ دوبارہ تمہارے قریب آنے میں مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی کیونکہ مجھے میرا جائز حق وصول کرنے سے خود تم بھی نہیں روک سکتی. یہ بات میرے خیال میں ابھی تم اچھے سے سمجھ چکی ہوگی.

اِشمل کا دل چاہا تھا اِس شخص کا ابھی اور اِسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کردے. لیکن باقی بہت سی باتوں کی طرح وہ یہ بات بھی بس سوچ کررہ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان اِشمل کو لے کر حویلی میں آچکا تھا. آہان نے ہاجرہ بیگم کو ساری بات بتا کر اُنہیں ہی باقی خاندان والوں سے نبٹنے کا کہا تھا. اور خود مزے سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا.

ہاجرہ بیگم نے آج کے دن اِشمل کے رہنے کا انتظام گیسٹ روم میں کیا تھا اور تین چار ملازماؤں کو اُس کی خاطر مدارت کے لیے بھیج دیا تھا. کیونکہ آہان کا سختی سے آرڈر تھا کہ میری بیوی کو کسی قسم کی کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہئے.

اِشمل نے وہاں کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی. اُس کا دل چاہ رہا تھا آہان سمیت اُس کی اِس پوری حویلی کو آگ لگا دے.

ابھی تھوڑی دیر پہلے اُس کی آہان کے موبائل پر اسما بیگم سے بات ہوئی تھی کیونکہ اُس کا موبائل آہان کے قبضے میں تھا. اسما بیگم نے اُسے چپ چاپ آہان کی ہر بات ماننے کا حکم دیا تھا وہ اُن کی بات پر شاک میں آگئی تھی بجائے اُس کا ساتھ دینے کے وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھیں.

ضرور اِس بے ہودہ شخص نے اُنہیں بلیک میل کیا ہوگا. ورنہ ماما ایسا کبھی نہ کہتیں.

آہان رضا میر بہت ہوگئی تمہاری من مانیاں بہت شوق ہورہا ہے نا تمہیں مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا تو دیکھو میں اب کیسے تمہاری زندگی عذاب بناتی ہوں.

جس طرح تم نے مجھے بے بس کیا ہے ویسے تمہیں بھی اسی حال تک پہنچاؤ گی.

اِشمل نے نفرت سے اُس کے بارے میں سوچتے خود سے عہد کیا تھا. جب اُسی وقت دروازہ ہلکے سے ناک کرتے حفصہ نے اندر جھانکا تھا.

بھابھی کیا میں اندر آسکتی ہوں.

حفصہ اِشمل کی طرف دیکھتے مسکرا کر بولی تھی. جب اِشمل نے اُس کے بھابھی کہنے پر غصے سے اُسے گھورا تھا. پر حفصہ کو پہلے کب کسی بات کی پرواہ ہوئی تھی جو اب ہوتی. اِشمل کی گھوری کو نظرانداز کرتے وہ بغیر اُس کی اجازت کا انتظار کرتے اندر آگئی تھی.

واؤ بھابھی آپ تو تصویر سے زیادہ خوبصورت ہیں. میں جانتی تھی میرے بھیا کی پسند شاندار اور لاجواب ہی ہوگی بلکل اُن کی طرح.

حفصہ اُس کے موڈ کی پرواہ کیے بغیر اپنی باتیں شروع ہوچکی تھی.

بھابھی آپ بول کیوں نہیں رہیں. اوہ میں بھی کتنی پاگل ہوں آپ اتنا لمبا سفر کرکے آئی ہیں تھکی ہوئی ہوں گی نا. آپ آرام کریں میں شام کو آپ سے ملتی ہوں.

کافی نجانے کیا کیا باتیں بتاتی اچانک اُس کی خاموشی کا احساس کرتے حفصہ اِشمل کے بجھے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتی پیار سے اُس کا گال چھوتی باہر نکل گئی تھی. ایک پل کے لیے اِشمل کو اپنا رویہ بہت بُرا لگا تھا وہ ہمیشہ سے ایک بہت ہی نرم مزاج اور خوش اخلاق کی مالک رہی تھی لیکن پھر اگلے ہی پل آہان رضا میر کا خیال آتے ہی وہ اپنے دل کو سخت کرتے ویسے ہی بیٹھی رہی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ہاجرہ بیگم ابھی تھوڑی دیر پہلے اُس کے پاس آئی تھیں اُن کے ساتھ ہاتھوں میں کپڑوں اور زیورات کے تھال اُٹھائے ملازمائیں بھی موجود تھیں. شہر سے مشہور بیوٹیشنز کو بھی بلایا گیا تھا. جنہوں نے اُسے شادی کے تمام فنکشنز کے لیے تیار کرنا تھا.

بیٹا آپ کو یہ لوگ تیار کر دیتی ہیں مہمان بھی آنا شروع ہوچکے ہیں. پھر کچھ دیر بعد فنکشن شروع ہوجانا ہے.

ہاجرہ بیگم بہت ہی پیار سے اُسے پچکارتے بولیں. وہ پہلے بھی دو تین بار اِشمل کے پاس آچکی تھیں. لیکن اُن کی ہر بات کا جواب اِشمل نے صرف ہوں ہاں میں یا سر ہلا کر ہی دیا تھا وہ اِس وقت کسی سے بھی اچھے سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی. ہاجرہ بیگ اچھے سے جانتی تھیں کہ اُن کا صاجزادہ اُسے یہاں زبردستی لے کر آیا تھا اِس لیے وہ آرام سے اِشمل کا یہ رویہ برداشت کر رہی تھیں. لیکن وہ اِشمل کی خوبصورتی سے بہت خائف بھی تھیں. اُنہیں اتنا تو پتا تھا کہ آہان کی پسند خوبصورت ہی ہوگی. لیکن اِشمل کا بھرپور حسن اور دل کو چھو لینے والی سادگی دیکھ وہ بہت حیران بھی تھیں. کیونکہ وہ اِشمل کی جگہ کوئی تیز طراز ماڈرن سی لڑکی سوچے بیٹھی تھیں.

بیوٹیشن کو اُسے تیار کرنے کا کہہ کر وہ باہر نکل گئی تھیں. جب اِشمل نے خود کو خاموشی سے بیوٹیشنز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا.

آپ تو صرف ڈریس چینج کرکے ہی اتنی پیاری لگ رہی ہیں.

بیوٹیشنز اُس کی نیچرل بیوٹی سے بہت متاثر ہوئی تھیں. دودھیا رنگت اور چہرے پر پھیلی گلابی سے پہلے سے بلش آن لگے ہونے کا گمان ہورہا تھا. پنک ہونٹوں کو جیسے کسی قسم کی لپ سٹک کی ضرورت ہی نہیں تھی.

تھوڑی ہی دیر میں بیوٹیشنز نے اپنی مہارت سے اُس کے حُسن کو مزید نکھار دیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


حنا تم ابھی تک یہیں بیٹھی ہو باہر نہیں آنا کیا.

حفصہ تیار ہوکر کمرے میں گھسی بیٹھی حنا کے پاس آتی بولی.

میں گئی تھی باہر لیکن سفیہ پھوپھو اور ہاجرہ امی جن نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں مجھ سے زیادہ دیر وہاں نہیں رُکا گیا مجھے نہیں جانا اب باہر.

حنا بےچارگی سے بولی

اوہو یار وہ تو مجھے بھی ایسے ہی گھور رہی ہیں تو کیا اب اُن لوگوں کی وجہ سے ہم بھیا کی شادی بھی انجوائے نہ کریں. ہمیں اپنی خوشی میں شامل نہ ہوتا دیکھ کر بھیا کو کتنا بُرا لگے گا.

حفصہ اُسے مناتے ہوئے بولی. جب حنا اُس کی بات پر اپنی جگہ سے اُٹھی تھی.

چلو آؤ.

حفصہ اُس کا ہاتھ پکڑتی باہر نکل گئی تھی.

. پوری حویلی کو دلہنوں کی طرح سجایا گیا تھا. حویلی کے وسیع و عریض احاطے میں بہت اعلٰی پیمانے پر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا. اردگرد کے بہت سارے گاؤں کے معزز لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا. مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ انتظام کیا گیا تھا. صرف خاندان کے مردوں کو ہی عورتوں کے سائیڈ پر آنے کی اجازت تھی. خاندان کی تقریباً سبھی عورتیں شدت سے آہان رضا میر کی بیوی دیکھنے کی خواہش مند تھیں. وہاں موجود بہت سی لڑکیاں جو آہان سے شادی کی خواہش مند تھیں. اُن کا تو اِس فنکشن میں شرکت کرنے کا اصل مقصد ہی یہی تھا. سب لوگ اُس خوش قسمت لڑکی کو دیکھنا چاہتے تھے جو آہان رضا میر کی چاہت تھی.

آہان بلیک کُرتا شلوار پہنے بھرپور مردانہ وجاہت کے ساتھ پوری محفل پر چھایا ہوا تھا. ابھی ہی وہ تھوڑی دیر پہلے باقی کزنز کے ساتھ وہاں داخل ہوا تھا. کتنی ہی حسرت بھری نظریں اُس پر اُٹھ رہی تھیں جن کی اُسے زرا بھی پرواہ نہیں تھی. عارفین اور چچازاد عاقب کی باتوں پر مسکراتے اُس نے سامنے کی طرف دیکھا تھا لیکن سامنے کے منظر میں اُس کی نظریں اٹک کر رہ گئی تھیں.

مختلف رنگوں سے سجے خوبصورت سے آنچل کی چھاؤں میں اُس کی کزنز کے درمیان چلتی وہ آہان رضا میر کے دل کی دنیا ہلا گئی تھی.

اُس نے ہر جگہ بہت حسن دیکھا تھا. ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت لڑکیاں دیوانی تھی اُس کی جن میں بہت ساری اُس کی دوست بھی رہی تھیں پر کوئی بھی کبھی اُسے اٹریکٹ نہیں کر پائی تھی. لیکن اِشمل میں نہ جانے ایسی کیا کشش تھی کہ جس دن سے اُسے دیکھا تھا وہ کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں پایا تھا.

اِشمل یلو کلر کے پیروں تک آتے سٹائلش سے فراک میں جس کے کناروں پر گرین کلر کے موتیوں اور کڑاہی سے نفیس ساکام کیا گیا تھا. پھولوں کا زیور پہنے وہ آہان رضا میر کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی. اُسے لے جاکر سٹیج پر بیٹھایا گیا تھا.

ہاجرہ بیگم کی آواز پر آہان ہوش کی دنیا میں لوٹتا اِشمل کی طرف بڑھا تھا.

لگتا ہے مجھ سے بدلہ لینے کی تیاری سٹارٹ ہوچکی ہے. اِس طرح ہتھاروں سے لیس ہوکر تم مجھے اپنا دیوانہ بنانا چاہتی ہو کیا.

اُس کے پاس بیٹھتے آہان اُس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے بولا.

میرا منہ مت کھولواؤ آہان رضا میر ورنہ جیسے تم نے میرے خاندان والوں کے سامنے میرا تماشہ بنایا ہے ویسا ہی میں تمہارے ساتھ بھی کر دوں گی.

اِشمل مشکل سے اُس کی بات ہضم کرتی جھکے سر کے ساتھ بولی.

امپریسو میری بیوی بنتے ہی کچھ زیادہ بہادری نہیں آگئی تم میں. ویسے یہ ساری بہادری دن ٹائم کہاں چلی گئی تھی.

آہان مسکراتے ہوئے سامنے کی طرف دیکھتا اُس کو مزید چھیڑتے ہوئے بولا. اُس کی بات پر اِشمل غصے سے اُسے گھور بھی نہ سکی تھی کیونکہ وہاں سب لوگ اُنہیں کی طرف متوجہ تھے.



حنا مجھے تم سے بات کرنی ہے.

حنا کسی کام سے اندر آئی تھی. جب عارفین اُس کے سامنے آتے بولا.

مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی پلیز میرا راستہ چھوڑیں.

حنا اُس کے یوں اچانک سامنے آجانے کی وجہ سے گھبراتے ہوئے بولی.

حنا مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے پلیز میری ایک بار بات سن لو.

حنا وہاں سے جانے لگی تھی جب عارفین نے اُس کا ہاتھ پکڑتے جانے سے روکا تھا.

کیا ہورہا ہے یہاں.

سفیہ بیگم آنکھوں میں ناگواری لیے اُن دونوں کی طرف دیکھتے قریب آتے بولیں.

ٹھیک کہتی ہیں ہاجرہ بھابھی شکل سے جتنی معصوم لگتی ہو اندر سے اُتنی ہی شاطر ہو تم ماں بیٹیاں اور کچھ نہیں ہوسکا میرے بیٹے کے پیچھے پڑگئی ہو.

بغیر کسی قسم کا لحاظ رکھے سفیہ بیگم حنا کی طرف دیکھتے زہر خند لہجے میں بولیں.

امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں.

عارفین اپنی ماں کی بات پر تڑپ کراُن کی طرف دیکھتا بولا.

عارفین تم جاؤ یہاں سے تم سے تو میں بعد میں بات کرتی ہوں.

وہ عارفین کو وہاں سے جانے کا کہتی تیز لہجے میں بولیں.

لیکن امی...

اگر تھوڑی سی بھی اپنی ماں کی عزت کرتے ہوتو جاؤ یہاں سے..

سفیہ بیگم کی بات پر عارفین بے بسی سے آنسو بہاتی حنا کی طرف دیکھتا وہاں سے نکل گیا تھا.

تم جو سوچ رہی ہونا ویسا میں کبھی نہیں ہونے دوں گی. بےشک کہنے کو تم لوگ میرے بھائی کی بیٹیاں ہو لیکن جب آج تک اُسی نے تم لوگوں کو قبول نہیں کیا تو میں کیوں اپنے سر ڈالوں تمہیں. آئندہ میرے بیٹے سے دور رہنا اگر آئندہ اُس کے آس پاس بھی نظر آئی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. سمجھی تم.

نخوت سے اُسے سائیڈ پر جھٹکتی وہ باہر کی طرف بڑھ گئی تھیں.

حنا زلت کے احساس سے روتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی. اب اُس میں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بھیا بہت پیاری جوڑی ہے آپ دونوں کی. پرفیکٹ کپل جیسے ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں.

حفصہ اِشمل کے ہاتھ پر مہندی لگاتے محبت سے بولی.

تھینکیو گڑیا.

آہان حفصہ کی بات پر مسکرا کر بولا.

حنا کہاں ہے نظر نہیں آئی مجھے.

حنا کی غیر موجودگی نوٹ کرتے اُس نے حفصہ سے پوچھا تھا.

وہ کسی کام سے اندر گئی ہے ابھی آتی ہوگی. میں بھیجتی ہوں اُسے آپ کے پاس.

حفصہ آہان کو جواب دیتی حنا کو بلانے دوسری طرف بڑھ گئی تھی. جب آہان کو فرقان چچا کا بڑا بیٹا اسد حوس باختہ سا اپنی طرف آتا دیکھائی دیا تھا.

کیا ہوا اسد سب خیریت ہے.

آہان اُس کی طرف دیکھتا فکرمندی سے بولا تھا. جب اسد نے جھک کر جو بات آہان کو بتائی تھی سٹیج پر موجود سب لوگ آہان کے چہرے پر اُبھرتے پتھریلے تاثرات دیکھ کر ڈر گئے تھے.

اُس بے غیرت کی اتنی جرأت کہ اُس نے میری حویلی میں قدم رکھا.

آہان غصے سے مٹھیاں بھینچتا وہاں سے اُٹھا تھا. اِشمل بھی اُس کے اتنے غضب ناک انداز پر خوفزدہ ہوتی اُس کی طرف متوجہ ہوئی تھی.

آہان کیا ہوا ہے اتنے غصے میں کہاں جارہے ہو.

ہاجرہ بیگم اُسے بازو سے پکڑ کر روکتے بولیں. جب وہ سہولت سے اُن کا ہاتھ ہٹاتے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

اسد تم بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے.

ہاجرہ بیگم اسد کی پاس آتے بولیں.

ملک حسیب آیا ہے.

اسد اُنہیں مختصر سا جواب دیتا آہان کے پیچھے بھاگا تھا.

یاﷲ خیر یہ منحوس شخص کیوں آگیا یہاں میرے بیٹے کی خوشیوں کو نظر لگانے.

ہاجرہ بیگم پریشانی کے عالم میں پاس پڑے صوفے پر بیٹھتے بولیں.

آہان رُک جاؤ تم کیا کررہے ہو. اِس طرح کرنے سے معاملہ اور بگڑ جائے گا.

حسنین صاحب آہان کو روکتے ہوئے بولے.

بابا آپ جانتے بھی ہیں کیا کہہ رہے آپ. وہ کمینہ میری حویلی میں گھس آیا ہے اور بجائے اُسے دھکے دے کر باہر نکالنے کے آپ اُس کی خاطر مدارت میں لگ گئے ہیں.

وہ سب اُسے روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہے تھے. لیکن وہ کسی کے قابو میں نہیں آرہا تھا. حسنین صاحب کا بازو جھٹکتے وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا.

کس نے بتایا ہے آہان کو اُس کے آنے کا میں نے منع کیا تھا نا اُسے اِس بات کی خبر نہیں ہونی چاہئے.

حسنین صاحب اُن سب پر چلاتے آہان کے پیچھے بڑھے تھے.

واہ جی دلہا صاحب خود آئے ہیں ہمارا استقبال کرنے.

آہان کو اندر داخل ہوتا دیکھ صوفے پر سکون سے بیٹھا ملک حسیب مسکراتے ہوئے بولا.

تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری حویلی میں قدم بھی رکھنے کی.

آہان اُس کی بات سنتا آگے بڑھا تھا. اور اُس کے آگے لوازمات سے سجے ٹیبل کو پاؤں سے ایک طرف اُچھالتے آہان نے اُسے گریبان سے پکڑ کر صوفے سے اُٹھاتے اپنے سامنے کیا تھا. ملک حسیب کے آدمیوں نے آگے بڑھنا چاہا تھا لیکن اُنہیں پہلے ہی آہان کے آدمی روک چکے تھے.

میں تو آپسی دشمنی بھلا کر تمہیں شادی کی مبارک باد دینے آیا تھا لیکن میرے گریبان پر ہاتھ ڈال کر تم اچھا نہیں کررہے آہان رضا میر.

ملک حسیب اُس سے اپنا گریبان چھوڑواتا آہانت کے احساس سے بولا تھا.

دفعہ ہو جاؤ یہاں سے اور آئندہ میرے گاؤں کی طرف نظر اُٹھا کر بھی مت دیکھنا ورنہ وہ حال کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گے. اور کچھ نصیحت اپنے بھائی سے بھی لے لینا ایک سال پہلے اُس کا خون بھی ایسے ہی جوش مار رہا تھا. اور اب چارپائی سے اُٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا. کہیں تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی نہ کچھ ہوجائے.

آہان نے اُس کا گریبان چھوڑتے زور دار طریقے سے دروازے کی طرف دھکا دیا تھا. جب ملک حسیب کو اُس کے آدمی نے سہارا دیتے گرنے سے بچایا تھا.

تم اچھا نہیں کررہے آہان رضا میر. میں سب کچھ بھلا کر تمہارے طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا تھا. لیکن تم نے میری بے عزتی کرکے مجھے میرے ہی فیصلے پر پچھتانے پر مجبور کر دیا ہے. اب تم دیکھو میں تمہارے ساتھ کرتا کیا ہوں. تمہارا یہ غرور یہ اکڑ مٹی میں نہ ملا دی تو میرا نام بھی ملک حسیب نہیں.

شکر کرو اِس بار پچھتانے کا موقع بھی مل رہا ہے اگر اگلی بار میرے گاؤں کا رُخ کیا تو اِس بات کا بھی موقع نہیں ملے گا اور اپنی یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا میں اِن سے ڈرنے والا نہیں ہوں.

آہان اُس کی بات پر استہزایہ انداز میں ہنستے ہوئے بولا تھا. جب ملک حسیب غصے سے بکتہ جھکتا وہاں سے نکل گیا تھا.

آہان جب وہ آرام سے بات کرنے آیا تھا تو تم نے یہ سب کیوں کیا. اِس دشمنی کو ایک بار پھر ہوا کیوں دے رہے ہو.

حسنین رضا میر فکرمندی سے آہان کی طرف دیکھتے بولے.

بہت افسوس کی بات ہے ویسے. اور میں آپ لوگوں کی طرح ڈرپوک نہیں ہوں کہ اپنے گاؤں اپنی حویلی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والوں کی یوں مہمانوں کی طرح بیٹھا کر خاطر مدارت کروں گا.

آہان اُن سب پر غصے اور تاسف بھری نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا.

حسنین اب کیا ہوگا وہ لوگ دھمکی دے کر گئے ہیں.

ہاجرہ بیگم کو جب سے پوری بات پتا چلی تھی. وہ پریشانی سے سر پکڑ کر بیٹھی تھیں. مہندی کا فنکشن ختم ہوچکا تھا. آہان شدید غصے میں ہونے کی وجہ سے دوبارہ اِشمل کے پاس نہیں جا پاپا تھا.

ویسے دیکھا جائے تو آہان اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہے. وہ لوگ ضرور دوبارہ کسی سازش سے ہی آئے ہوں گے. ہمیں اِس طرح اُنہیں اندر بلا کر نہیں بٹھانا چاہئے تھا.

فُرقان صاحب بھی فکرمندی سے بولے تھے.

ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو تم لیکن میرے خیال میں فلحال اِس بات کو یہیں ختم کر دینا چاہئے. گھر میں شادی کا ماحول ہے اتنے مہمان آئے ہوئے ہیں. اِس معاملے کو بعد میں دیکھتے ہیں.

حسنین بات ختم کرتے وہاں سے اُٹھ گئے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اُف کتنا جنگلی ہے یہ شخص کتنے غصے میں کل اُٹھ کر گیا ہے. لگتا ہے اِس کو لڑائی جھگڑا کرنے دوسروں کو دھمکانے کے علاوہ اور کچھ آتا ہی نہیں ہے.

اِشمل اپنے گیلے لمبے بال ڈرائے کرتے رات کے بارے میں سوچتے بڑبڑاتے ہوئے بولی. کل آہان کا جلالی رُوپ دیکھ کر ایک بار تو وہ بھی ڈر گئی تھی.

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ ناک ہونے پر چونکتی اُس طرف متوجہ ہوئی تھی.

بی بی جی بڑی بیگم صاحبہ کا حکم ہے کہ یہ ڈریس آپ کو آج پہننا ہے.

ملازمہ ڈریس اُس کے پاس رکھتے بولی تھی اور خاموشی سے روم سے نکل گئی تھی. اِشمل نے بے دلی سے سُرخ رنگ کے بھاری ڈریس کی طرف دیکھا تھا.

میم آپ چینج کر لیں ڈریس پھر آپ کو تیار بھی کرنا ہے.

کافی دیر بعد بیوٹیشن اندر داخل ہوتے اِشمل کو ابھی تک ایسے ہی بیٹھا دیکھ کر بولی. جب اِشمل ناچاہتے ہوئے بھی لہنگا اُٹھاتے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھی.

آہان مجھے سچ میں تمہاری سمجھ نہیں آتی. اُس طرف صرف عورتیں ہوں گی اب عورتوں کے سامنے دلہن کا اتنا بڑا گھونگھٹ کرنے کی کیا تُک بنتی ہے. اتنے دور دور سے مہمان آئے ہوئے ہیں میر خاندان کی بڑی بہو دیکھنے کے خواہشمند ہیں.

ہاجرہ بیگم آہان کے ساتھ اُسکی باتوں پر اُلجھتی اِشمل کے روم میں داخل ہوئی تھیں. ڈریسنگ روم میں چینج کرتی اِشمل نے بھی اُن کی بات سنی تھی.

تو دوسرا آپشن بھی تو دیا ہے نا آپ کو ریڈ ڈریس کی جگہ کسی اور کلر کا ڈریس پہنا دیں اُسے.

آہان نے اِشمل کی تلاش میں چاروں طرف نظریں دوڑائی تھیں لیکن روم میں بیوٹیشنز اور ایک دو ملازمیں ہی موجود تھیں. اِشمل جو ڈریس چینج کرچکی تھی کمر پر موجود ڈوریوں سے اُلجھ رہی تھی آہان کی بے تکی بات سن کر مزید تپی تھی.

آہان ہمارے خاندان کی روایت ہے یہ دلہن شادی والے دن سُرخ رنگ کا جوڑا ہی پہنتی ہے.

ہاجرہ بیگم بے چارگی سے بولی تھیں. پورے خاندان میں ہر جگہ حکم چلانے والیں وہ اپنے بیٹے کے سامنے ہمیشہ بے بس ہوجاتی تھیں.

ماں جو میں کہہ رہا ہوں وہی ہوگا. اب یہ آپ پر ہی ہے کہ آپ کیسے مینج کرتی ہیں.

آہان اُن کی مسلسل بحث سے تنگ آکر چڑتے بولا. جب ہاجرہ اُس کے دوٹوک انداز پر بس اُسے دیکھ کر رہ گئی تھیں. اور حسنین رضا میر کے بلاوے پر جلدی سے کمرے سے نکل گئی تھیں.

آہان رضا میر میں نے آج تک تم جیسا ضدی اور خودسر انسان نہیں دیکھا. تم سمجھتے کیا ہو خود کو. ہر جگہ تمہاری مرضی ہی کیوں چلنی چاہئے.

اِشمل ڈوریوں کو ہاتھ سے جھٹکتی پاس پڑا دوپٹہ خود پر اچھے سے اوڑھتی باہر نکل آئی تھی. اُس کے لفظوں کو اگنور کرتے آہان نے پسندیدگی کی نظروں سے اِشمل کی طرف دیکھا تھا جو آج دوسری بار اُس کے سامنے سُرخ لباس میں موجود تھی. بمشکل اِشمل سے نظریں ہٹا کر آہان نے ایک نظر وہاں موجود باقی سب پر ڈالی تھی جو اِشمل کو آہان رضا میر پر چلاتے دیکھ حیرت ذدہ سی کھڑی تھیں. کیونکہ آج تک کوئی اُس سے اُونچی آواز میں بات تک کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا یہاں تک کے اُس کے ماں باپ بھی. اور اُس کی نئی نویلی دلہن اُس سے کیسے بات کررہی تھی. آہان کے اشارے پر اپنی حیرت پر قابو پاتیں وہ لوگ خاموشی سے وہاں سے نکل گئی تھیں.

ہر جگہ کہاں اپنی مرضی چلا پارہا ہوں. ابھی تو تم سے محبت بھی نہیں ہوئی اور خود کو تمہارے معاملے میں اتنا بے بس محسوس کررہا ہوں اگر محبت ہوگئی تو پتا نہیں مجھ بے چارے کا کیا ہوگا.

آہان اُس کی طرف قدم بڑھاتے بولا.

تم جاؤ یہاں سے مجھے تیار ہونا ہے دیر ہو رہی ہے.

اِشمل اُس کے تیور دیکھ کر جلدی سے بولی. اِس وقت شاید وہ اُسے چھیڑ کر غلطی کر بیٹھی تھی.

میرے لیے تیار ہونے کی اتنی جلدی ہے میری دلہن کو اچھا لگا یہ سن کر.

آہان اُس کے قریب پہنچ چکا تھا. جب اِشمل جلدی سے پیچھے ہوئی تھی لیکن پیچھے موجود ڈریسنگ ٹیبل کی وجہ سے وہ دو قدم ہی پیچھے ہو پائی تھی.

کیا ہوا تم ڈر رہی ہو مجھ سے.

آہان اُس کی گھبراہٹ دیکھ کر بولا تھا. جب اُس کی نظر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اُٹھی. اِشمل کا ریشمی دوپٹہ پھسل کر اُس کی کمر سے ہٹ چکا تھا. کھلی ڈوریوں کے ساتھ اُس کی دودھیا کمر آہان کے سامنے تھی.

اُس کی نگاہیں کو خود پر محسوس کرتے اِشمل نے دوپٹہ ٹھیک کرنا چاہا تھا.

اب اِس کا کوئی فائدہ نہیں....

آہان نے اُس کو کمر سے پکڑ کر اپنی گرفت میں لیتے قریب کیا تھا.

یہ کیا کر رہے ہو تم چھوڑو مجھے.

اِشمل کا دوپٹہ نیچے گر چکا تھا. وہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اُس کے سامنے تھی. آہان آج پہلی بار اُس کو ایسے دیکھ رہا تھا.

تمہاری ہیلپ کر رہا ہوں سویٹ ہارٹ.

بمشکل خود کو بہکنے سے بچاتے آہان نے اُسے جواب دیا تھا. اور دونوں بازو اُس کے گرد لپیٹتے اُس کی ڈوریوں کو گرفت میں لیا تھا. اِشمل نے اُس کے ہاتھوں کا لمس اپنی کمر پر محسوس کرکے تڑپ کر اُس کے حصار سے نکلنا چاہا تھا لیکن آہان نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا.

آگے جھکے ہونے کی وجہ سے آہان کی ٹھوڑی اِشمل کے کندھے سے ٹچ ہورہی تھی. اِشمل اُس کے حصار میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی لیکن کوشش کے باوجود بھی اُس سے دور نہیں ہو پائی تھی. آہان کی اِس قدر قربت پر اے سی کی ٹھنڈک میں بھی اِشمل کے پسینے چھوٹ چکے تھے.

آہان نے ڈوریوں کی گِرا لگاتے اِشمل کی کمر کو ہاتھ سے چھوتے اُس کی نرماہٹوں کو محسوس کیا تھا. اور جھک کر اُس کے کندھے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تھے. اُس کے پُرشدت لمس پر اِشمل نے سختی سے آہان کا کالر اپنی مُٹھی میں جکڑا تھا. پہلی بار اُس کی قربت پر اِشمل کا دل زور سے دھڑکا تھا.

اُس کی حرکت پر آہان مسکراتا پیچھے ہٹا تھا. اور اِشمل کے لال ٹماٹر جیسے چہرے کی طرف نگاہ کی تھی. جب کے مسکرانے پر اِشمل نے خونخوار نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

اتنے پیار سے مت دیکھو ڈئیر وائف ایسے نا ہو میں بھول جاؤ کہ ہماری ویڈنگ نائٹ ابھی نہیں کچھ گھنٹوں بعد ہے.

آہان اُس کو مزید چڑاتے بولا.

میرے ساتھ ویڈنگ نائٹ منانے کا موقع تو تمہیں کچھ گھنٹوں بعد بھی نہیں ملے گا آہان رضا میر.

اِشمل نے اُس کی طرف دیکھتے دل میں ہی سوچا تھا. جب آہان اُسے گہری نظروں سے دیکھتا بجتے فون کی طرف متوجہ ہوتے وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

بارات کے فنکشن کا انتظام مہندی سے بھی کئی زیادہ شاندار کیا گیا تھا. ہر طرف رنگ اور خوشبو پھیلی ہوئی تھی. آہان رضا میر بلیک کلر کی شیروانی میں کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہو رہا تھا. ہاجرہ بیگم ناجانے کتنی بار اُس کی بلائیں لے چکی تھیں.

اِشمل کو آہان کی ضد پر ریڈ لہنگے کی جگہ گولڈن لہنگا پہنایا گیا تھا. کیونکہ آہان کے مطابق ریڈ ڈریس میں اِشمل کو دیکھنے کا حق صرف اُس کا تھا. بہت مشکل سے اِشمل لہنگا تبدیل کرنے پر مانی تھی. لیکن گولڈن کلر کے لہنگے اور بناؤ سنگھار نے اِشمل کے حسن کو مزید چار چاند لگادیے تھے. کسی کی نظریں دلہن سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھیں. آہان بھی اِشمل کا اتنا سندر رُوپ دیکھ کر اچھا خاصہ گھائل ہوچکا تھا.

ناجانے کتنی رسمیں کی گئی تھیں جن کے بارے میں اِشمل نے آج پہلی بار سنا تھا. بہت ساری رسموں کے بعد اِشمل کو آہان رضا میر کے بیڈ روم میں لے جایا گیا تھا.

بیڈروم کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا. سجاوٹ میں زیادہ استعمال سُرخ گلابوں کا کیا گیا تھا. جن کی خوشبو پورے کمرے میں پھیل کر ایک مسحور کن سی فضا قائم کررہی تھی. لیکن اِشمل کو اِن سب چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا. آہان کی کزنز کے روم سے نکلتے ہی اِشمل فوراً بیڈ سے اُٹھی تھی.

آہان رضا میر بہت ہوگئیں تمہاری من مانیاں اب اور نہیں.

بیڈ کے سامنے والی وال پر لگی آہان کی بڑی سی تصویر کی طرف دیکھتے اِشمل اُس سے مخاطب ہوئی تھی. جس میں وہ اپنی دل کو چھو لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھا.

اِشمل نے سب سے پہلے خود کو بھاری دوپٹے کے بوجھ سے آزاد کیا تھا. پھر ایک ایک کرکے اپنی جیولری اُتارتے وہ الماری سے ایک آرام دہ سوٹ کا انتخاب کرتی واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی. شاور لے کر فریش ہوتے اِشمل واپس بیڈروم میں آئی تھی اور جلدی جلدی بال ڈرائے کرکے وہ بیڈ پر رکھے اپنے پرس کی طرف بڑھی تھی. اور پرس میں سے سلیپنگ پلز نکالی تھی. اِشمل نے ہاتھ میں سلیپنگ پلز کی مناسب مقدار لے کر جو اُس کے لیے نقصان دہ نہ ہوں پانی کے ذریعے اندر لی تھیں.

اِشمل آرام سے پانی کا گلاس واپس رکھتے بیڈ پر موجود کمبل کو سر سے پیر تک اوڑھتے لیٹ گئی تھی. یہ سب کرتے اتنے دنوں بعد مسکراہٹ نے اُس کے چہرے کو چھوا تھا. وہ خوش ہوتے آہان کا غصے بھرے ری ایکشن کا سوچتی تھوڑی ہی دیر میں نیند کی وادیوں میں پہنچ چکی تھی.

آہان جلدی سے سب کو نبٹاتے روم میں داخل ہوا تھا کیونکہ اُسے اپنی پیاری بیوی کے ارادوں کا کچھ حد تک تو علم تھا ہی سہی. لیکن جیسے ہی وہ بیڈروم میں داخل ہوا تھا اُس کی توقع کے عین مطابق اِشمل اپنا کارنامہ سرانجام دے چکی تھی.

آہان دروازہ لاک کرتا بیڈ کی طرف بڑھا تھا. اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے آہان نے آہستگی سے اُس کے چہرے سے کمبل ہٹایا تھا. جب نظریں اُس کے صبیحہ چہرے پر ٹھہر سی گئی تھیں. وہ گہری نیند میں بے خبر سوئی ہوئی تھی. جاگتے ہوئے ہر وقت اُس پر چیخنے چلانے کو تیار اِس وقت سوئی ہوئی کوئی معصوم سی پری معلوم ہو رہی تھی.

میری معصوم سی ڈاکٹر تم کیا سمجھتی ہو. یہ سب کرکے مجھ سے بچ جاؤ گی.

آہان نے شہادت کی اُنگلی سے اِشمل کی پیشانی کو چھوتے گردن تک ایک لائن کھنچی تھی.

وہ ہمیشہ اُن چیزوں سے دور رہا ہوں جو اُس کی کمزوری کا باعث بنے اور اُن سب میں پہلے نمبر پر محبت تھی. جس کا شکار وہ کبھی نہیں ہونا چاہتا تھا. لیکن جب بھی وہ اِشمل کے قریب آتا تھا اُس کا خود پر سے اختیار ختم ہونے لگتا تھا. اِشمل سے نکاح اُس نے صرف ضد میں آکر کیا تھا. لیکن اب وہ اُس کے معاملے میں خود کو کمزور محسوس کررہا تھا. وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ محبت تھی یا نہیں. پر اب وہ اِشمل کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا. آج اُس کی اِس حرکت پر آہان کو غصہ آنے بجائے اُسکی معصومیت پر ہنسی آئی تھی.

آہان نے ایک ہاتھ سے اِشمل کے نرم گالوں کو چھوا تھا. اور اُس کے ماتھے پر بوسہ دیتا اُٹھ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


حنا تمہیں ہوا کیا ہے. میں نوٹ کر رہی ہوں کل سے تم بہت چپ چپ سی ہو. آج بھی صرف بھیا سے مل کر تم واپس روم میں آگئی تھی. سفیہ پھوپھو کی بات کو اتنا سیریس کیوں لے رہی ہو. وہ تو شروع سے ہمارے ساتھ ایسا کرتی آئی ہیں.

حفصہ حنا کے پاس بیڈ پر بیٹھتی بولی. جو اُسے کل سے بہت پریشان لگ رہی تھی.

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے. بس میری طبیعت نہیں ٹھیک اِس لیے شاید تمہیں فیل ہوا ہو.

حنا اُس سے نگاہیں چُراتے بولی.

تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو کیا.

حفصہ مشکوک نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے بولی.

تم سے کچھ چھپ سکتا ہے بھلا. میرے سر میں درد ہے نکلو میرے روم سے تنگ مت کرو مجھے.

حنا اُس سے جان چھوڑواتی بولی. کیونکہ حفصہ اگر تھوڑی دیر مزید وہاں بیٹھتی تو ضرور اُس سے سب اُگلوا لیتی.

اچھا اچھا جارہی ہوں.

حفصہ اُس کی طرف دیکھ کر منہ بناتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی.

کاش حفصہ میں بھی تمہاری طرح ایسے ہی ہر ٹینشن سے آزاد ہوتی. لیکن مجھے لگتا ہے میری زندگی کی یہ ساری آزمائشیں کبھی ختم نہیں ہوں گی. اور آہان بھائی وہ کب تک ایسے ہی ڈھال بن کر کھڑے رہیں گے میرے آگے.

حنا نے بیڈ کراؤن سے سر ٹِکاتے سوچا تھا.

اُس گھٹیا انسان کا بھائی اب کیوں آیا ہے حویلی. اگر اُس نے بھیا کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو.

جب سے اُسے ملک حسیب کی آمد کا پتا چلا تھا. وہ یہ بات سوچ سوچ کر پاگل ہوچکی تھی.

میر خاندان اور ملک خاندان کی ناجانے کتنے سالوں سے آپس میں دشمنی چلتی آرہی تھی. دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو نیچا دیکھانے کا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے. ملک خاندان کتنی بار اُن کے گاؤں کے لوگوں اور اُن کی عزتوں پر حملہ آور ہوچکے تھے. لیکن میر خاندان نے کبھی بھی اپنے مرتبے سے گر کر ایسی کوئی اوچھی حرکت کبھی نہیں کی تھی. ملک خاندان کے اُن کے گاؤں میں آنے پر پابندی لگا دی گئی تھی. آہان رضا میر کو بہت بعد میں اِن باتوں کا پتا چلا تھا جب وہ لندن سے اپنی تعلیم مکمل کرکے لوٹا تھا. لیکن حسنین رضا میر کے سمجھانے پر کے اب وہ لوگ پیچھے ہٹ چکے ہیں آہان نے اُن کے یقین دلانے پر خاموشی اختیار کرلی تھی.

لیکن ایک سال پہلے ملک حسیب کے بڑے بھائی ملک ذیشان نے حنا کو شادی کی ایک تقریب میں دیکھا تھا. عورتوں کو باہر کی طرف آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن حنا ساتھی لڑکیوں کی شرارت میں آکر اُس طرف آنے کی غلطی کر چکی تھی. حنا کو دیکھ کر اُس کی نیت ویسے ہی خراب ہوگئی تھی اور یہ جان کر کے وہ میر خاندان کی بیٹی ہے اُن کو سبق سکھانے کے لیے اُس کا دماغ اپنی گھٹیا پلینگ شروع کرچکا تھا. وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے ہی حنا اُسے کہیں اکیلی ملے وہ اُسے اغوا کروا لے گا. اور بہت جلدی ہی اُسے ایسا موقعہ مل بھی گیا تھا.

حنا آہان کے شہر والے گھر سے واپس حویلی آرہی تھی. ڈرائیور اور ایک گارڈ بھی گاڑی میں موجود تھے جیسے ہی ملک ذیشان کو اِس بات کی خبر ملی تھی وہ اتنا اچھا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا اِس لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ پہلے ہی اُس راستے پر پہنچ چکا تھا. جیسے ہی گاڑی وہاں سے گزری تھی . ملک ذیشان کے آدمیوں نے اُس پر فائرنگ کر کے ڈرائیور اور گارڈ کو ہلاک کردیا تھا. اور حنا کو لے کر وہاں سے نکلنے ہی لگے تھے جب ایک مخبر کی اطلاع پر آہان اپنے ساتھیوں کے ساتھ بروقت وہاں پہنچا تھا. اور سیدھے اُن پر فائر کھول دیے تھے. ملک ذیشان اِس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھا بوکھلاہٹ میں وہ کچھ سمجھ ہی نہ پایا تھا. اور آہان اُس کے سر پر پہنچ چکا تھا. آہان نے اُس کی دونوں ٹانگوں پر فائر کیا تھا. ملک ذیشان سمیت اُس کے دو آدمی زخمی اور تین ہلاک ہوچکے تھے. حنا کی کنڈیشن اُسے حویلی لے جانے والی نہیں تھی اِس لیے آہان اُسے واپس اپنے شہر والے گھر لے آیا تھا. حنا اُس واقعے سے بھی زیادہ آہان سے ڈری ہوئی تھی. کہ وہ اِس ساری بات کا ذمہ دار اُسے ٹھہرائے گا. جیسے کے ہمیشہ سے اِس معاشرے میں ہوتا آیا تھا بے قصور ہوتے ہوئے بھی لڑکی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا تھا لیکن اِس بار بھی آہان اُس کی ڈھال بن گیا تھا. اُس نے حسنین صاحب اور باقی سب کو یہی بتایا تھا کہ ملکوں نے اُس پر حملہ کیا تھا. جس کا اُس نے صرف جواب دیا ہے. اور کسی کے سامنے بھی حنا کا کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں آنے دیا تھا. یہاں تک کے یہ بات آج تک حفصہ اور عاصمہ بیگم کو بھی پتا نہیں تھی.

حنا کل پھر ملک حسیب کی اِس حویلی میں آمد کا سن کر بُری طرح ڈر چکی تھی. کیونکہ وہ جانتی تھی وہ لوگ آہان سے اُس بات کا بدلا لینے کے لیے پھر کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے. اُسے اُس کا بھائی دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا جو اُن کی خاطر ہر ایک سے لڑ جاتا تھا. لیکن وہ اُس کی سلامتی کی دعا کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل کی جیسے ہی آنکھ کھولی اُسے خود پر کوئی بوجھ سا محسوس ہوا تھا. انجان جگہ پر خو کو دیکھ کر پہلے تو وہ کچھ سمجھ ہی نہ پائی تھی لیکن جیسے ہی دماغ نیند سے بیدار ہوا اور اپنا رات والا کارنامہ یاد آیا تو اُس نے جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھنا چاہا تھا لیکن آہان کے کسرتی بازوں ک حصار میں ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر پائی تھی. اُس نے گھبرا کر آہان کی طرف دیکھا تھا جو بغیر شرٹ کے اُس کے بے انتہا قریب سویا ہوا تھا. اُس کے ایک بازو پر اِشمل کا سر دھرا ہوا تھا. جبکہ دوسرا اِشمل کے گرد لپٹا ہوا تھا. اِشمل نے بغیر شرٹ کے اُس کے اتنے قریب ہونے پر حیا سے سُرخ پڑتے جلدی سے اُس کا حصار توڑ کر نکلنا چاہا تھا. جب آہان نے اُسے مزید خود میں بھینچ کر ایسا کرنے سے روکا تھا.

یہ کیا کر رہے ہو تم. چھوڑو مجھے.

اِشمل اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتی چلائی تھی.

یار بیوی قسم سے کچھ نہیں کررہا. سو رہا ہوں صرف.

آہان اُس کے کھلے بالوں میں چہرا چھپاتے خمار آلود لہجے میں بولا.

یہ کیا بے ہودگی ہے آہان رضا میر. دور رہو مجھ سے.

اِشمل ایک بار پھر چلاتے ہوئے بولی. جب آہان ایک جھٹکے سے اُسے اپنے قریب تر کرتے کروٹ لے کر اُس کے بلکل اُوپر جھکا تھا.

ابھی تم نے میری بے ہودگیاں دیکھی ہی کہاں ہیں ورنہ یہ سوال کبھی نہ کرتی مجھ سے.

آہان اُس کے ہونٹوں کو چھوتے اُن پر جھکا تھا جب اِشمل نے جلدی سے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر ایسا کرنے سے باز رکھا تھا.

سویٹ ہارٹ اب تم مکمل طور پر میرے قبضے میں تمہارے وجود پر تم سے بھی زیادہ میرا حق ہے. پھر کب تک یہ سب کرکے خود کو مجھ سے بچاتی رہو گی. ابھی تو تمہاری رات والی حرکت کا بھی بدلہ لینا ہے.

آہان اُس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیتے شوخ نظروں سے اُس کے کپکپاتے ہونٹوں کی طرف دیکھتے بولا.

پلیز مجھے اِس رشتے کو قبول کرنے کے لیے کچھ وقت چاہئے. میں اِس سب کے لیے ذہنی طور پر بلکل تیار نہیں ہوں. تم نے میرے ساتھ ہمیشہ ہر معاملے میں زبردستی ہی کی ہے. لیکن پلیز مجھے اب کچھ وقت چاہئے.

اِشمل کو اُس کی گہری نظریں خود میں سمٹنے پر مجبور کررہی تھی.

کتنا وقت چاہئے تمہیں.

آہان ہاتھ اُس کی گردن میں پھنسے بالوں کو نکالتے ہوئے بولا.

کم از کم دو مہینے تو چاہئے ہی.

اِشمل بہت مشکل سے بولی تھی.

میں دو دن تم سے دور رہنے کو تیار نہیں اور تمہیں دو مہینے چاپئیں. یار یہ تو ظلم ہے مجھ بے چارے پر. اور یہ دو مہینے تمہیں اِس رشتے کو سمجھنے کے لیے چاہئے یا اِس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ترکیبیں ڈھونڈنے کے لیے.

آہان اُس کی بات پر ہنستے ہوئے بولا. جب اِشمل اُس کے بلکل ٹھیک گیس کرنے پر اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتے ہوئے بولی

تم جو بات بھی کہو گے میں مانوں گی پلیز.

اِشمل کسی طرح بھی اُسے خود سے دور رکھنے کی کوشش کررہی تھی. وہ جانتی تھی اگر اُس سے غصے سے بات کی تو اُس نے ضد میں آکر کچھ نہیں ماننا اِس لیے اُس کی حرکتوں کو برداشت کرتے ہر لحاظ سے اپنے لہجے کو نرم رکھتے بولی.

پکا وعدہ میں جو کہوں گا تم مانوگی.

آہان اُس کی طرف دیکھتا معنی خیزی سے بولا.

ہاں پکا وعدہ.

اِشمل اُس کے لہجے پر غور کیے بغیر جلدی سے بولی.

اوکے کِس می.

آہان چہرا اُس کے قریب کرتا بولا.

کیا لیکن یہ...

اِشمل کو اُس سے ویسے بھی کسی اچھی بات کی اُمید تو تھی نہیں لیکن اُس کی ایسی فرمائش پر دل کیا تھا اُس کے یہ ہنستے دانت توڑ دے.


دیکھو تم مکر نہیں سکتی ابھی تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے.

آہان اُس کی حیران پریشان سی صورت دیکھتا بولا.

یہ غلط ہے ایسا کوئی وعدہ نہیں ہوا میرا تم سے.

اِشمل مکمل اِنکاری ہوئی تھی.

مطلب تم وعدہ توڑ رہی ہو. اوکے مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہے.

آہان اُس کی حالت سے لُطف اندوز ہوتا دوبارہ اُس پر جھکا تھا.

نہیں رکو پلیز...

اِشمل فوراً بولی تھی. قریب تو اُس شخص نے ویسے ہی اُس کے آنا تھا. تو یہ ڈیل اُس لحاظ سے بُری نہیں تھی. آہان نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جب اِشمل نے دل پر پتھر رکھتے تکیہ سے زرا سا سر اُوپر اُٹھاتے اُس کے رُخسار پر اپنے کپکپاتے ہونٹ رکھے تھے. اُس کے نازک ہونٹوں کے لمس نے آہان کے اندر ایک ہلچل سی پیدا کر دی تھی.

اب میں نے تمہاری بات مانی ہے تم بھی میری بات مانو گے.

اِشمل دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں جھکائے بولی.

لیکن میں نے کِس یہاں تو نہیں یہاں بولی تھی.

آہان اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کرتے بولا. جب کب سے اُس کی باتیں برداشت کرتے اِشمل کو اپنا ضبط جواب دیتا محسوس ہوا تھا.

اُس نے غصے سے اِس بے ایمان شخص کو گھورا تھا اور کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا. جب آہان اُس کے ہونٹوں پر جھکتا اُس کے الفاظ اپنے ہونٹوں میں دبا گیا تھا. اُس کی حرکت پر اِشمل کی آنکھوں کی پتلیاں سائز میں کئی گنا بڑھ گئی تھیں. اِشمل نے اُس کے بازو کو سختی سے جکڑا تھا اور خود سے دور کرنا چاہا تھا. لیکن آہان ابھی اُس سے دور ہونے کے لیے تیار ہی نہیں تھا.

کافی دیر بعد آہان اُس کے ہونٹوں کو آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا. اور اِشمل کی طرف دیکھا تھا جو گہرے گہرے سانس لیتے اپنی سانسوں بحال کرنے کی کوشش کررہی تھی.

دو ہفتوں کا ٹائم ہے تمہارے پاس اِس رشتے کو سمجھنے کے لیے اُس کے بعد کسی قسم کی مہلت کی اُمید مت رکھنا مجھ سے. اور ہاں یہ چھوٹی موٹی گستاخیاں تو ہوتی ہی رہیں گی اِن سے تم مجھے نہیں روک سکتی.

آہان اُس کی ٹھوڑی چومتا کر اُس کے اُوپر سے اُٹھتا واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا.

اِشمل اپنے دل پر ہاتھ رکھے دھڑکنوں کو قابو میں لانے کی کوشش کرتی رہ گئی تھی. اور دل ہی دل میں اُسے اچھی خاصی گالیوں سے بھی نوازہ تھا.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

بہت خوبصورت ہو آپ لیکن آپ نے اچھا نہیں کیا مجھ سے میرا حق چھین کر. آہان کی پہلی بیوی بننے کا حق صرف میرا تھا.

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ولیمے کی تقریب کے بعد اِشمل کو کمرے میں لایا گیا تھا جب آہان کی باقی کزنز تو وہاں سے نکل گئی تھیں لیکن آہان کی خالہ زاد بسمہ اُس کے پاس رُکتے کافی کھردرے لہجے میں بولی.

تو کیا تم پہلے سوئی ہوئی تھی. کر لیتی اُس بے ہودہ شخص سے شادی. آج میں تو اِس مصیبت نہ پھنسی ہوتی.

اِشمل نے اُس کی بات پر دل میں سوچا تھا. جب بسمہ نے اپنی اتنی بڑی بات کے جواب میں اُسکی خاموشی پر بےحد حیرانگی سے اُسے دیکھا تھا.

کافی مغرور لگتی ہیں آپ. مغرور ہونا بھی چاہئے آہان رضا میر کی بیوی ہونا کوئی عام بات نہیں. لیکن ایک بات یاد رکھیئے گا. آہان سے میری شادی تو ضرور ہوگی. اور بہت جلد اُن کی زندگی سے میں آپ کو نکال باہر کروں گی.

بسمہ اپنی بات کا جواب نہ ملنے پر اپنی توہین محسوس کرتی اُس کی طرف دیکھتے چیلجنگ انداز میں بولتی دروازے کی طرف بڑھی تھی.

اِشمل کو اُس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.

وہ پہلے ہی اتنے بھاری لباس میں مشکل سے کھڑی تھی اُس کو جاتے دیکھ شکر کا کلمہ پڑھتی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی تھی.

تم یہاں کیا کررہی ہو.

روم میں داخل ہوتے آہان نے بسمہ کو اپنے کمرے میں دیکھ کر اپنے مخصوص سرد لہجے میں پوچھا تھا.

وہ میں اِشمل سے ملنے آئی تھی.

بسمہ اُس کو اچانک وہاں دیکھ کر گڑبڑائی تھی.

بھابھی ہے وہ تمہاری تمیز سے بھابھی کہہ کر پُکاروں تو زیادہ بہتر رہے گا.

اِشمل نے اُن دونوں کی باتیں سنتے پانی کا گلاس منہ سے لگایا تھا. جب آہان کی بھابھی والی بات پر اُس کی ہنسی نکل گئی تھی اور منہ میں پانی ہونے کی وجہ سے اِشمل کو زور سے کھانسی آگئی تھی. آہان اِشمل کے کھانسنے پر جلدی سے اُس کی طرف بڑھا تھا. اور بسمہ خونخوار نظروں سے اِشمل کی طرف دیکھتی وہاں سے نکل گئی تھی.

کیا ہوا تم ٹھیک ہو.

آہان اُس سے پانی کا گلاس پکڑتا اُس کی پیٹھ سہلاتے فکرمندی سے بولا.

اِشمل اثبات میں سر ہلاتے پیچھے ہوئی تھی.

آہان نے بغور اُس کے حسین رُوپ کی طرف دیکھا تھا. لائٹ براؤن میکسی میں بھاری خاندانی زیورات پہنے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی. آہان کی خود پر گہری نظریں محسوس کرکے وہ وہاں سے ہٹنے ہی لگی تھی جب آہان اُس کے سامنے آتے راستہ روک چکا تھا.

میں اِس بھاری لباس میں بہت تھک چکی ہوں مجھے چینج کرنا ہے.

اِشمل اُسے سامنے سے ہٹنے کا اشارہ کرتی بولی جب آہان مزید قریب آیا تھا.

میں بھی تمہاری ہیلپ ہی کرنا چاہتا ہوں.

آہان نے کہتے ساتھ ہی دوپٹے کی پنز نکالتے اُسے اِس بوجھ سے آزاد کیا تھا.

اِشمل نے پیچھے ہونا چاہا تھا جب آہان نے اُسے کمر سے تھام کر ایسا کرنے سے روکا تھا.

آہان نے آہستہ سے اُس کے کان کو چھوتے اُن کو جھمکوں سے آزاد کیا تھا. اِشمل کے لیے اُس کی قربت کسی آزمائش سے کم نہیں تھی. مصلحت کے تحت وہ بہت مشکل سے وہاں کھڑی تھی. آہان نے ہاتھ اُس کی گردن کے گرد لے جاکر بھاری طلائی ہار کو اُس سے جُدا کیا تھا اور اپنی پاکٹ سے ایک بے حد نازک سی چین نکال کر اُس کے گلے میں پہناتے جھک کر اُس پر ہونٹ رکھ دیے تھے اور ساتھ ہی ایک شوخ سی جسارت کی تھی جس پر اِشمل شرم اور غصے سے سُرخ پڑتی اُس کے حصار سے نکلتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بھائی میں اُس شخص کو چھوڑو گا نہیں. اُس نے وہاں سب کے سامنے بے عزت کرکے مجھے اپنے گھر سے نکالا. بہت خوشیاں منا رہا ہے نا یہ میر خاندان. مزہ تو تب آئے گا جب بہت جلد اپنے جوان بیٹے کی لاش دیکھیں گے اپنے دروازے پر .

ملک حسیب بدلے کی آگ میں جلتے بولا.

حسیب جوش سے نہیں ہوش سے کام لو. آہان رضا میر کو اِس طرح ختم کرنا آسان نہیں ہے. اُلٹا ہم اپنا مزید نقصان کروائیں گے. اور ابھی تو اُس سے بہت حساب نکلتے ہیں. اتنا جلدی اُس کو اُوپر پہنچانے میں بھی تو مزہ نہیں آئے گا.

ملک ذیشان اپنے چھوٹے بھائی کا غصہ کم کرتے بولا. ملک حسیب نے ویل چیئر پر بیٹھے اپنے بھائی کی بات پر اُس کی طرف دیکھا تھا.

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں بھائی.

ملک حسیب اُس کے پاس بیٹھتے بولا.

آہان رضا میر کو بھی ختم کریں گے لیکن پہلے اُس کو اچھا خاصہ تڑپا کر. اُسے ایسی جگہ پر وار کرو جہاں وہ سہہ نہ پائے اور تڑپ کر رہ جائے. اُسے میں ویسے ہی بے بس اور لاچار دیکھنا چاہتا ہوں جیسا اُس نے مجھے کیا ہے.

ملک ذیشان اُسے مشورہ دیتے شیطانی مسکراہٹ سے بولا.

جب ملک حسیب نے اُس کی بات پر قہقہ لگاتے پرسوچ انداز میں اُس کی بات کی تائید کی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل صبح سو کر اُٹھی تو اُسے آہان کمرے میں کہیں نظر نہ آیا تھا. وہ لاپرواہی سے سر جھٹکتی واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی. تھوڑی دیر بعد جب وہ فریش ہو کر نکلی تو تب بھی اُسے بیڈ روم خالی ہی ملا تھا. جب اُس کی نظر بیڈ پر پڑے آہان کے بجتے فون پہ پڑی تھی. اِشمل آگے بڑھی تھی لیکن یوں بنا اجازت کے موبائل اُٹھانا اُسے غیر اخلاقی حرکت لگی تھی. لیکن پھر یہ سوچ کرکے اِس شخص نے اب تک کونسی اُس کے ساتھ اخلاقی حرکت کی تھی جو وہ اِس بات کا خیال رکھے.

سکرین پر ایک بےحد حسین اور ماڈرن سی لڑکی کی تصویر جگمگا رہی تھی. یہ وہی لڑکی تھی جس کو اُس دن ہاسپٹل میں اِشمل نے آہان کے بے حد قریب دیکھا تھا. وہ منظر یاد آتے ہی اِشمل نے جلدی سے کال ریسیو کرتے فون کان سے لگایا تھا.

آہان میں اتنے دنوں سے تمہیں کال کررہی ہوں. نا تم میری کال اٹینڈ کررہے ہو نہ ہی میسج کا ریپلائے کر رہے ہو. دیٹس ناٹ فیئر.

موبائل سے تانیہ کی ناراض سی آواز اُبھری تھی.

دیکھئے آہان رضا میر کی شادی ہوچکی ہے اور میں اُن کی وائف بات کررہی ہوں. اِس طرح کسی کے شوہر کو کال کرکے ڈسٹرب کرنا اچھی بات نہیں.

اِشمل دل ہی دل میں آہان کا کام خراب کرنے کا سوچ کر مسکرائی تھی.

اب جب اِس کی گرل فرینڈ ناراض ہوکر اُسے چھوڑ دے گی تب مزہ آئے گا.

واٹ...

اِشمل نے تانیہ کی بس اتنی ہی آواز سنی تھی جب پیچھے کھڑے اُس کی بات سنتے آہان نے اُس کے ہاتھ سے موبائل لیا تھا.

اِشمل نے فوراً پلٹ کر آہان کی طرف دیکھا تھا جو اُسے خوشمگی نظروں سے گھور رہا تھا.

ہیلو بےبی کیسی ہو.

آہان جان بوجھ کر تانیہ کو اِس انداز میں مخاطب کرتے بولا.

جب اِشمل اُس کی بات پر غصے سے وہاں سے ہٹنے لگی تھی لیکن آہان نے اُس کی کلائی کو اپنے قبضے میں لیتے قریب کیا تھا.

آہان یہ تمہاری وائف نے کال اٹینڈ کی تھی. مجھے یقین نہی آرہا. لگتا ہے ایک دن میں ہی اپنی بیوی کے دیوانے ہوچکے ہو. جو اُس کو اتنا حق دے دیا کہ اُس نے اِس طرح تمہاری کال اٹینڈ کرلی.. ورنہ آہان رضا میر سے بغیر پوچھے کوئی اُس کی اتنی پرسنل چیز کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کرسکتا.

تانیہ بے حد حیرت سے بولی. کیونکہ اُسے اچھے سے پتا تھا آہان اپنی پرسنل چیزوں کے معاملے میں کتنا جنونی تھا.

ہاہاہا کچھ ایسا ہی ہے. لیکن فلحال مجھے خود اپنی کنڈیشن سمجھ نہیں آرہی.

اِشمل مسلسل اُس سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی. لیکن آہان اُسے اتنی آسانی سے چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا. اِشمل نے اُس کے ہنسنے پر آہان کو غصے سے گھورا تھا. اُسے تو لگا تھا. اِس انکشاف پر اُس کی گرل فرینڈ ناراض ہوکر اُس سے لڑائی کرے گی. پر لگتا تھا وہ بھی اِس شخص کی طرح ڈھیٹ تھی.

ہممہ کافی لکی گرل ہے جس نے آہان رضا میر کو اپنا دیوانہ بنا لیا ہے.

تانیہ حسرت بھرے لہجے میں بولی.

آہان نے اِشمل کا بازو اُس کی کمر کے گرد موڑتے اُسے جھٹکے سے اپنے قریب کیا تھا جب اِشمل نے دوسرا ہاتھ اُس کے سینے پر رکھتے درمیان میں فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی.

آہان تم سن رہے ہو میری بات....

تانیہ آہان کی خاموشی پر بولی تھی. لیکن وہ اُس کی سن ہی کب رہا تھا. آہان نے اپنا چہرا اِشمل کے چہرے کے قریب کرتے اُس کی گال کو چھوا تھا.

تانیہ میں کل آرہا ہوں لاہور پھر بات ہوتی ہے. اوکے بائے

آہان نے تانیہ کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر کال کاٹ دی تھی.

آہان رضا میر چھوڑو مجھے. یہ گھٹیا حرکتیں جاکر تم اپنی گرل فرینڈ سے ہی کرنا.

اِشمل غصے سے اُس سے دور ہوتی تپے ہوئے لہجے میں بولی.

لیکن ابھی تو میری گرل فرینڈ کو ہی تم نے یہ کہہ کر دوبارہ فون کرنے سے منع کیا نا کہ ہم ہزبینڈ وائف کو ڈسٹرب نہ کرے.

آہان اتنی جلدی اُسے بخشنے کے موڈ میں بلکل نہیں لگ رہا تھا. اُس کے کیچڑ میں مقید بالوں کو ہاتھ بڑھا کر اُس نے آزاد کیا تھا. جو ایک آبشار کی طرح دونوں کے گرد پھیل گئے تھے.

غلطی ہوگئی مجھ سے معاف کردو.

اِشمل اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتے بولی.

اور میری بیوی کو یہ پتا ہونا چاہئے کے میں کبھی کسی کی غلطی معاف نہیں کرتا.

آہان اُس کے بالوں میں چہرا چھپاتے خمار آلود لہجے میں بولا تھا.

جب اُسی وقت دروازے پر نوک ہوا تھا. اِشمل جلدی سے اُسے دور ہوئی تھی. لیکن آہان کی طبیعت پر یہ مداخلت سخت گِراں گزری تھی. آہان کے غصے سے پوچھنے پر ملازمہ باہر سے ہی ناشتہ لگ جانے کا پیغام دیتی وہاں سے ہٹ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


سب بتایا ہے سفیہ نے مجھے. اپنی اِن حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ تمہارے باپ اور بھائی کے سامنے تمہارے سارے کرتوت کھول کر رکھ دوں گی میں.

ہاجرہ بیگم پاس سر جھکا کر کھڑی حنا پر گرجتے بولیں.

جب اِشمل نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تھا. آہان آج صبح ہی کسی کام سے شہر جاچکا تھا. اِشمل جانتی تھی اپنی اُس گرل فرینڈ سے ہی ملنے گیا ہوگا کل فون پر اُسے یہی تو کہہ رہا تھا. اِشمل کو اِس طرح خاموش ہوکر ایک جگہ بیٹھنے کی عادت بلکل نہیں تھی وہ کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر تنگ آچکی تھی. ہاجرہ بیگم بھی اُسے کتنی بار باہر آنے کا کہہ چکی تھیں. اِس لیے وہاں آئی تھی لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اُس کے قدم وہی رُک گئے تھے.

لیکن ہاجرہ امی اُس دن عارفین بھائی نے حنا کو بات کرنے کے لیے روکا تھا اِس سب میں حنا کا کوئی قصور نہیں.

سفیہ بیگم نے ہاجرہ بیگم کو اُس واقعہ کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بتایا تھا. اور ہاجرہ بیگم نے پہلے کب اُن کو بےعزت کرنے کا موقعہ ہاتھ سے جانے دیا تھا جو اب ایسا کرتیں.

تم چپ کرو لڑکی تم سے بات نہیں کررہی میں. تمہارے بھی کچھ زیادہ پَر نکل آئے ہیں میں کرتی ہوں تمہارا بھی بندوبست.

ہاجرہ بیگم حفصہ کی طرف ناگوار لہجے میں دیکھتے ہوئے بولیں. حفصہ نے ایک افسوس بھری نظر آنسو بہاتی عاصمہ بیگم پر ڈالی تھی جو نہ کبھی اپنے حق کے لیے لڑی تھی نہ آج اُن کی حمایت میں کچھ بول پائی تھیں.

اسلام و علیکم!

کب سے باہر کھڑے یہ سب تماشہ دیکھتے آخر کار اِشمل نے اندر قدم رکھا تھا.

وعلیکم اسلام بہو آؤ بیٹھو.

ہاجرہ بیگم سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے اِشمل کو دیکھتے خوش دلی سے بولیں.

اُسے اندر آتا دیکھ حنا جلدی سے اپنے آنسو صاف کرتے رُخ موڑ گئی تھی.

ہاجرہ بیگم نے اِشمل سے اُس کے گھر والوں کا پوچھتے حنا سے اُس کا دھیان ہٹانا چاہا تھا. وہ نہیں چاہتی تھیں. کہ اِشمل کو اِس بارے میں کچھ بھی پتا چلے اور بات آہان تک پہنچے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

ہاں بولو کچھ پتا چلا....

آہان فون کان سے لگائے اپنے آفس سے نکلتے گاڑی کی طرف بڑھا تھا

واٹ اور تم مجھے اب بتا رہے ہو. کتنے دن ہوگئے ہیں اِس بات کو.

دوسری طرف کی بات سنتے آہان غصے سے بولا.

ہاسپٹل کا ایڈریس سینڈ کرو مجھے.

آہان اُس سے بات کرکے فون بند کرتے گاڑی میں آبیٹھا تھا.

کیا ہوا ہے سلمان صاحب کو.

ہاسپٹل میں پہنچ کر وہ اپنے آدمی جمال کے پاس آتے بولا.

آہان نے دو دن پہلے سلمان صاحب کا فون بند ہونے کی وجہ سے جمال کو اُن کے گھر خیر خبر لینے بھیجا تھا. جس کے بارے میں جمال نے اُسے آج خبر دی تھی.

سر ڈاکٹرز کے مطابق مائینر سا ہارڈ اٹیک آیا ہے. لیکن اب اُن کی طبیعت کافی بہتر ہے. اور آپ کے کہے کے مطابق اُن کو پتا لگے بغیر تمام بل کلیئر کر دیے ہیں.

آہان کو وہاں موجود دیکھ کچھ فاصلے پر کھڑی ہما نے حیرت سے اُس کی باتیں سنی تھیں.

ہممہ گڈ. اُن کے آس پاس ہی رہو. اُنہیں کسی قسم کی کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہئے.

آہان اُسے مزید ہدایت دیتا وہاں سے نکل گیا تھا. جب ہما جلدی سے اُس کے پیچھے بڑھی تھی.

پہلے اُس کا ارادہ سلمان صاحب سے ملنے کا تھا لیکن پھر اُن کی طبیعت کے خیال سے اُس نے اُن سے ملنا مناسب نہ سمجھا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اُسے دیکھ سلمان صاحب کی طبیعت مزید خراب ہو.

ایکسکوزمی آہان رضا میر.

آہان ابھی ہاسپٹل کی انٹرنس پر ہی تھا جب ہما نے اُسے پیچھے سے پُکارا تھا. اپنا نام سنتے آہان نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا.

جی فرمائیں....

آہان نے سوالیہ انداز میں ہما کی طرف دیکھا تھا.

میں اِشمل سلمان کی سسٹر ہوں ہما. مجھے میری آپی سے ملنا ہے.

اُس نے ہما کو نکاح والے دن ہی سرسری سا دیکھا تھا اِس لیے اُسے پہچان نہیں پایا تھا.

پہلی بات تو یہ کہ اب وہ اِشمل سلمان نہیں اِشمل آہان ہے. اور جہاں تک رہی ملنے والی بات تو ابھی تو یہ پاسبل نہیں ہے. لیکن بہت جلد ہی آپ کو ملوا دوں گا آپکی سسٹر سے.

آہان اُس کی بات پر سنجیدہ انداز میں بولا.

آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں کیا.

ہما کی بات پر آہان نے اثبات میں سر ہلایا تھا.

آپ نے اُس دن صرف آپی کو ڈرانے کے لیے احد اور بابا کے سر پر بندوق رکھی تھی نا. تاکہ وہ نکاح کے لیے مان جائیں.؟

ہما اُس کی طرف دیکھتی پُر یقین لہجے میں بولی.

آپ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتی ہیں.

آہان نے جواب دینے کے بجائے اُس سے سوال کیا تھا.

کیونکہ مجھے لگتا ہے آپ اتنے بُرے نہیں جتنا آپ خود کو شو کرواتے ہیں. اگر آپ واقعی میں ویسے ہوتے تو اُس دن اپنی جان کی پراوہ کیے بغیر احد کو نہ بچاتے اور آج یہ سب جان کر کہ ہمیں اِس ہاسپٹل کا بِل پے کرنے میں پرابلم ہورہی ہے بنا بتائے آپ خود سارا بل پے نہ کرتے.

آہان نے حیرت سے سامنے کھڑی چھوٹی سی لڑکی کی طرف دیکھا تھا.

آپ اپنی آپی سے کافی زیادہ عقلمند لگتی ہیں کیونکہ مجھے لگتا ہے اُسے تو صرف لڑنا ہی آتا ہے.

آہان اِشمل کا ذکر کرتے اُس سے بات کرتے پہلی بار مسکرایا تھا.

جی نہیں میری آپی بہت اچھی ہیں اُن جیسا کوئی نہیں ہے.

ہما اُس کے ایسے جواب پر منہ پھلاتے بولی.

جب اُس کی بات کی تائید آہان رضا میر کے دل نے بھی کی تھی.

تو پھر آپ کب لارہے آپی کو.

اُس کی خاموشی پر ہما نے ایک بار پھر پوچھا تھا.

جب آہان اُسے جلد ہی اِشمل سے ملوانے کا وعدہ کرتا وہاں سے نکل آیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان تم تو مائرہ سے ملنے گئے تھے نا اتنی جلدی کیسے آگئے. یا تم اُس کی طرف گئے ہی نہیں.

آہان ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی حماد کے بے حد اسرار پر مائرہ سے ملنے گیا تھا. کیونکہ حماد کے مطابق مائرہ نے پچھلے ایک ہفتے سے آہان سے ملنے کے لیے اُس کا سر کھایا ہوا تھا. مائرہ ایک بہت ہی امیر باپ کی بگڑی اولاد تھی . اُس نے حماد کے ساتھ آہان کو ایک پارٹی میں دیکھا تھا. اور تب سے وہ آہان سے دوستی کی خواہش مند تھی.

حماد اُسے اتنی جلدی واپس آتا دیکھ حیرانی سے بولا.

کیا ہوا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا. تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو.

حماد اُس کو خاموشی سے پیشانی مسلتے دیکھ اُٹھ کر اُس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا.

ہاں یار طبیعت تو ٹھیک ہے. پر لگتا ہے دماغ خراب ہوگیا ہے.

آہان نے اُکتائے ہوئے لہجے میں بولتے سگریٹ جلا کر منہ سے لگایا تھا.

کیا مطلب میں سمجھا نہیں.

حماد اُس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولا.

آج جب میں مائرہ کے پاس بیٹھا تھا تو مجھے اُس کی شکل میں اِشمل نظر آنے لگی. اُس کے چھوٹے چھوٹے بالوں کی میں اِشمل کے لمبے بال سمجھ کر تعریف کرنے لگا.... مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا وہ میرے حواسوں پر اتنا سوار کیوں ہو رہی ہے.

آہان کی بات سن کر حماد سے اپنا قہقہ رُکنا مشکل ہوگیا تھا.

ہاہاہاہا اور مائرہ کا کیا ری ایکشن تھا آگے.

اُس کے ہنسنے پر آہان نے اُسے سخت نظروں سے گھورا تھا.

ری ایکشن کیا ہونا تھا وہ بچاری حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی. میں طبیعت خرابی کا بہانہ کرکے وہاں سے اُٹھ آیا.

اوہ مائی گاڈ. یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں.آہان رضا میر اپنی چارمنگ پرسنیلٹی سے اتنی حسیناؤں کو دیوانہ بنانے والا آج خود کسی کا دیوانہ بن چکا ہے. تم ہمیشہ سے یہی کہتے آئے ہو نا کہ آہان رضا میر کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوسکتی تو مان لو میری بات کہ تم بھی اب اِس مرض کا شکار ہوچکے ہو. یہ لو پیوں اِس کو شاید دماغ کچھ جگہ پر آجائے.

حماد اُس کی حالت اُس پر بیان کرتا بولا. اور وائن سے بھرا گلاس اُس کے سامنے رکھا تھا.

نہیں ایسا کچھ نہیں ہے یہ بس چند دنوں کی اٹریکشن ہے.

آہان اُس کی بات کا انکار کرتے وہاں سے اُٹھا تھا. آج تو اُس کا شراب کو ہاتھ لگانے پر بھی دل نہیں کیا تھا.

کہاں جارہے ہو.

حماد نے اُسے اُٹھتا دیکھ سوال کیا تھا.

گاؤں...

آہان نے رُک کر مختصر سا جواب دیا تھا.

اب اِسی بات سے ہی اندازہ لگا لو تم ہمیشہ مہینے بعد گاؤں کا چکر لگاتے ہو اور اِس بار دو دن بھی نہیں رُکا گیا تم سے.

حماد ہنستے ہوئے بولا جب آہان کچھ بھی بولے بغیر اُسے گھوری سے نوازتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا.

آہان کچھ دیر گاڑی میں بیٹھے گاؤں نہ جانے کا سوچتا رہا تھا لیکن اُس کا دل اِس بات سے انکاری تھا. نا چاہتے ہوئے بھی دل کی ضد پر اُس نے گاڑی گاؤں کی طرف موڑی تھی.

حماد کی بات تو وہ سختی سے مسترد کر آیا تھا لیکن وہ خود بھی کہیں نہ کہیں یہ بات سمجھ چکا تھا. کہ اِشمل اُس کے لیے بہت ضروری ہوچکی تھی. اُس کے بغیر شہر میں یہ دو دن بھی آہان کے بہت مشکل سے گزرے تھے.

اور اِن دو دنوں میں حماد کے اتنے اسرار پر بھی وہ شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگا پایا تھا. ابھی تو اُس نے اِشمل سے کوئی ایسا رشتہ بھی نہیں بنا پایا تھا لیکن پھر بھی وہ اُس کے بارے میں سوچتے بن پیئے ہی بہک جاتا تھا.

اِشمل کا لڑتا جھگڑتا رُوپ تصور میں آتے ہی ایک خوبصورت مسکراہٹ نے آہان کے چہرے کو چھوا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اشمل ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تنگ آچکی تھی اِس لیے وہ پوری حویلی دیکھنے کے لیے کمرے سے نکل آئی تھی.

وہ راہداری سے گزری تھی جب اُس کی نظر دائیں طرف بنی سیڑھیوں پر بیٹھی حنا پر پڑی تھی. حنا بھی اُسے دیکھ چکی تھی. اِس لیے جلدی سے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کرتے اپنی طرف آتی اِشمل کو دیکھ وہ ہولے سے مسکرائی تھی.

کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں.

اِشمل نے اُس اداس آنکھوں والی لڑکی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تھا.

جی بھابھی کیوں نہیں بیٹھیں پلیز.

حنا اُس کی بات پر خوشدلی سے بولی.

میں جانتی ہوں یہ بہت پرسنل سوال ہے لیکن اِن کچھ دنوں میں میں نے نوٹ کیا ہے آہان کی مدر کا رویہ آپ لوگوں کے ساتھ بہت توہین آمیز ہے. ایسا کیوں ہے

اِشمل کے سوال پر حنا نے ایک پل کے لیے خاموش نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

میں بتاتی ہوں آپ کو بھابھی اگر اِس پر رہی آپ تو ہوگیا آپ کی معلومات میں اضافہ.

پاس آتی حفصہ اِشمل کی بات سنتے جلدی سے بولی. جب حنا نے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا.

بھابھی اب تو آپ اِس گھر کی بہت اہم فرد ہیں آپ کو خاندان کی ساری باتوں کا علم ہونا چاہئے.

حفصہ حنا کے اشاروں کو اگنور کرتی بولی. اور اِشمل کو اپنے حالات کے اور ہاجرہ بیگم کے رویے کے بارے میں شروع سے لے کر آخر تک بتاتی چلی گئی.

اِشمل کو اُن کے بارے میں سن کر کافی دکھ ہوا تھا. اور ساتھ ہی آہان کی اتنی تعریف اُس سے ہضم نہیں ہوپائی تھی.

لیکن یہ تو سراسر ناانصافی ہوئی نا آپ لوگوں کا بھی اِس سب پر اُتنا ہی حق ہے جتنا اُن کا اور آپ لوگوں کو بھی اُن کے برابر ہی عزت ملنی چاہئے.

اِشمل سے یہ بات کسی صورت برداشت نہیں ہوئی تھی. ہاجرہ بیگم کی خاص ملازمہ اُن تینوں کو وہاں اکٹھا بیٹھا دیکھ چکی تھی اِس کے بتانے پر ہاجرہ بیگم فوراً وہاں پہنچی تھیں اور اِشمل کی آخری بات بھی سنی لی تھی.

موقع ملتے ہی شروع ہوگی تم لوگ میرے خلاف سازشیں تیار کرنے.

ہاجرہ بیگم اُن کے قریب آتے حنا اور حفصہ کو غصے بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں.

آنٹی ایسی بات نہیں آپ غلط سمجھ رہی ہیں.

اِشمل کو اُن کا انداز بلکل پسند نہیں آیا تھا.

بہو تمہیں ابھی صرف دو دن ہوئے ہیں آئے. اِس لیے تم اِن معاملوں سے دور ہی رہو تو اچھا ہے. میں اچھے سے جانتی ہوں کیا صحیح ہے کیا غلط.

ہاجرہ بیگم اِشمل کی طرف دیکھتے سرد لہجے میں بولیں.

اور تم دونوں یہ جو اپنی بھابھی کے آنچل میں چھپ کر میرے خلاف پلیننگ کرنے کی کوشش کررہی ہو. یہ بات مت بھولو کہ یہاں پر ہمیشہ سے میری چلتی آئی ہے اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا. چند دنوں کے لیے آئے لوگوں سے اُمیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں ہے.

اُن کی طرف دیکھتے ہاجرہ بیگم نے اِشمل پر طنز کرتے ہوئے کہا. کیونکہ اُن سے اِشمل کے تیور کسی صورت برداشت نہیں ہورہے تھے.

دیکھیں میں آپ سے بہت عزت سے بات کررہی ہوں اور آپ سے بھی اِسی کی اُمید رکھتی ہوں.

اِشمل اُن کی بات پر ضبط سے کام لیتی آرام سے بولی.

عزت بہو میں اچھے سے جانتی ہوں تمہیں میرا بیٹا کیسے لایا ہے اور تم کسی طرح بھی ہمارے خاندان کی شان و شوکت کے قابل نہیں ہو. یہ ایک دو دن کی ملی اہمیت نے لگتا ہے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے. تم جیسی کتنی آئی اور کتنی گئی ہیں اُس کی زندگی سے. بہت جلد ہی اُس کا دل تم سے بھی بھر جائے گا تو اُس کے ساتھ زندگی گزارنے کے اتنے بڑے بڑے خواب سجانے کی ضرورت نہیں ہے.

ہاجرہ بیگم نخوت سے اِشمل کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں. جب اُسی وقت آہان نے اندر قدم رکھا تھا.

کیا ہورہا ہے یہاں.

ہاجرہ بیگم کی آخری بات سنتے ہوئے وہ سخت تاثرات سے بولا تھا. اُسے اُن سے ایسی بات کی اُمید بلکل نہیں تھی.

سب نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا تھا. آہان کی نظریں ضبط سے سُرخ ہوتے چہرے کے ساتھ کھڑی اِشمل پر تھیں.

آہان بیٹا تم....

اُسے اِس طرح اچانک وہاں دیکھ ہاجرہ بیگم ایک پل کے لیے بوکھلا سی گئی تھیں.

اِشمل کچھ بھی بولے بغیر نفرت بھری نظروں سے آہان کی طرف دیکھتی وہاں سے نکل گئی تھی.

ماں آپ سے مجھے اِس بات کی اُمید بلکل نہیں تھی. اگر آپ کو ساری باتوں کا پتا ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کے آپ اِس طرح اِشمل کو بے عزت کریں گی جس کی اِس سب میں کوئی غلطی بھی نہیں ہے. میری لائف میں اُس کی کتنی امپورٹنس ہے آپ کبھی جان ہی نہیں سکتیں.

آہان ہاجرہ بیگم کو سخت لہجے میں سمجھاتے بولا.

آہان تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو. میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا.

آپ کی بات کا مطلب جو بھی تھا لیکن میری بات بھی اچھے سے سن لیں اِشمل میری بیوی میری عزت ہے میں کسی صورت اُس کی انسلٹ برداشت نہیں کرسکتا. اور ہاں میں نے اُس سے شادی چند دنوں کے لیے نہیں کی. وہ میری محبت ہے اور ہمیشہ میری زندگی میں رہے گی. آپ کو اِس بارے میں جو بھی غلط فہمی ہے اُسے دور کر لیں.

آہان اُنہیں اچھے سے باور کرواتا وہاں سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


تم رو رہی ہو.

آہان کمرے میں آتے اِشمل کی سُرخ آنکھیں دیکھ اُس کی طرف بڑھا تھا.

تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی باتوں کی ویلیو میرے نزدیک اتنی نہیں ہے کہ میں اُن پر آنسو بہاؤں. نفرت کرتی ہوں میں تم سے اور ہر اُس شخص سے جو تم سے منسلک ہے.

اِشمل غصے سے آہان پر چلاتے بولی.

اِشمل بی ہیو یور لینگویج اگر میں تمہاری ہر فضول بات اور حرکت برداشت کرتا ہوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی بولوں.

آہان اُس کی بات سنتے ضبط سے بولا.

تو کس نے کہا ہے مجھے برداشت کرو. تمہارے نزدیک لڑکیوں کی اہمیت اتنی ہی ہے نا کہ تم اُن کو یوز کرکے پھینک دیتے ہو اور پھر کوئی نئی پسند آجاتی ہے. اور تم مجھے بھی تو یہاں صرف اور صرف اپنی ضد اور انا میں اپنے نفس کی پیاس بجھانے لائے ہونا تو ٹھیک ہے. میں خود کو تمہارے سامنے پیش کررہی ہوں. اپنا مطلب پورا کرو اور طلاق دو مجھے.

اِشمل بلکل آہان کے سامنے کھڑے ہوتے بولی.

اِشمل.....

کب سے اُس کی باتوں پر ضبط کرتے غصے سے آہان کا ہاتھ اُٹھا تھا لیکن اِشمل تک پہنچنے سے پہلے ہی اُس نے خود کو ایسا کرنے سے روک لیا تھا.

مارو نا رُک کیوں گئے. تم جیسے کمزور مرد سے اور توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے.

اِشمل اِس وقت غصے میں جو منہ میں آیا بولتی گئی تھی.

اگر میں کمزور مرد ہوتا تو تم اِس طرح میرے سامنے کھڑے ہوکر یوں چلا نہ رہی ہوتی. اگر میں چاہوں تو ابھی اور اِسی وقت تمہاری بولتی بند کروا دوں. تم ایک لفظ کہنے کے قابل نہیں رہو گی میرے سامنے. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کروں گا کیونکہ میں آہان رضا میر ہوں جسے خود پر اور اپنے نفس پر پورا کنٹرول ہے.

تم نے میرے کردار پر اُنگلی اُٹھائی ہے. تمہارے نزدیک میں ایک بدکردار انسان ہوں نا. تو ٹھیک ہے جو تمہیں سوچنا میرے بارے میں سوچوں کیونکہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کون میرے بارے میں کیا سوچتا ہے. نہ ہی آج تک میں نے کسی کے سامنے اپنی کوئی صفائی پیش کی ہے اور نہ ہی اب تمہارے آگے کروں گا.

آہان غصے سے اِشمل کی طرف دیکھتے بولا.

اور ہاں ایک اور بات..

آہان اِشمل کے بے انتہا قریب آتے بولا. شدید غصے میں ہونے کی وجہ سے اُس کے اتنے قریب آنے پر بھی اِشمل پیچھے نہ ہٹی تھی. دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کی طرف رہے تھے. ایک کی آنکھوں میں غصہ اور بے پناہ نفرت تھی جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں غصے کے پیچھے چھپی بے پناہ چاہت تھی. جس کو آج اُس نے خود پہلی دفعہ جانا تھا

میری ایک بات کان کھول کر اچھے سے سُن لو آج تو طلاق کا نام لیا ہے لیکن آئندہ اگر میں نے تمہارے منہ سے یہ بات سنی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا. تم سے نکاح کرتے وقت بھی میرا یہی ارادہ تھا اور اب بھی میں تمہیں کسی صورت نہیں چھوڑنے والا. چاہے میری زندگی میں کوئی اور لڑکی ہو یا نہ ہو. تم ہمیشہ میری زندگی میں ہی رہوگی. تم پر صرف اور صرف میرا حق ہے.

جو بات وہ آج اُسے بے حد محبت اور چاہت سے کہنے والا تھا. وہی بات بے انتہا غصے میں کہتے وہاں سے نکل گیا تھا. اِشمل اُس کی اِن باتوں کا اپنے مطابق معنی اخذ کرتی غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی. وہ اتنا تو جانتی تھی کہ وہ غصے کا کتنا تیز ہے اِس لیے اُسے غصہ دلا کر وہ اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہتی تھی لیکن یہاں تو سب کچھ اُلٹ ہوگیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


کافی دیر ہوچکی تھی اُنہیں سفر کرتے ہوئے. جب اِشمل نے تھک کر سر سیٹ کی پُشت سے ٹکا دیا تھا. آہان لب بھینچے خاموشی سے ڈرائیونگ کررہا تھا. اُس نے ایک بار بھی اِشمل کی طرف نہیں دیکھا تھا. ہمیشہ سے گاؤں آتے جاتے ڈرائیور ہی گاڑی چلاتا تھا لیکن اِس بار آہان خود ڈرائیو کررہا تھا.

دو دن سے اُن لوگوں کی آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی. اِشمل تو پہلے بھی اُس سے کوئی بات نہیں کرتی تھی لیکن دو دنوں سے آہان نے بھی اُسے مخاطب نہیں کیا تھا. جس کی اِشمل کو زرا برابر بھی پرواہ نہیں تھی.

آج صبح آہان نے اُسے شہر جانے کے لیے تیاری کرنے کا کہا تھا. جس پر اِشمل نے بغیر کوئی جواب دیے خاموشی سے عمل کیا تھا. شہر داخل ہوتے ہی آہان نے گاڑی اِشمل کے گھر کے راستے پر ڈالی تھی. جس پر اِشمل نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا تھا. اُسے آہان سے اتنی مہربانی کی اُمید بلکل نہیں تھی.

آہان نے گاڑی گھر کے سامنے روکی تھی. اِشمل گاڑی رُکتے ہی بغیر اُس کی طرف دیکھے جلدی سے اُتر گئی تھی. اور اُسی خاموشی سے گھر کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی. اُس نے ایک بار بھی پلٹ کر آہان کی طرف دیکھنے یا اُسے اندر آنے کا کہنے کی زحمت نہیں کی تھی. آہان اچھے سے اِشمل کے نزدیک اپنی اہمیت جانتا تھا لیکن پھر بھی دل کو کہیں نہ کہیں اُمید تھی کہ شاید وہ ایک بار خود سے مخاطب کرے لیکن پھر اپنے دلِ ناداں کی اِس خواہش پر ہنستے آہان نے گاڑی آگے بڑھا دی تھی.

آپی... ماما دیکھیں آپی آئی ہیں.

ہما اِشمل کو اندر داخل ہوتے دیکھ خوشی سے چلاتے اُس کی طرف بڑھی تھی.

کیسی ہے میری بہنا.

اِشمل اُسے گلے لگاتے پیار سے بولی.

ماما بابا آفس گئے ہیں.

اِشمل سب سے مل کر ڈرائنگ روم میں بیٹھتے بولی.

نہیں وہ آفس نہیں گئے. اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ اپنے کمرے میں آرام کررہے ہیں.

ماما کیا ہوا بابا کو آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.

اسما بیگم کی بات پر اِشمل پریشانی سے اُن کی طرف دیکھتے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی.

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی دوائی لے کر سوئے ہیں.

سلمان صاحب کے روم میں داخل ہوتے اسما بیگم دھیرے سے بولی تھیں. اِشمل کچھ دیر اُن کے پاس بیٹھے فکرمندی سے اُن کی طرف دیکھتی رہی تھی. وہ اُسے پہلے سے کافی کمزور لگے تھے. تھوڑی دیر بعد اسما بیگم کے کہنے پر وہ اُٹھ کر اُن کے ساتھ باہر آگی تھی.

ماما بابا کی اتنی طبیعت خراب تھی اور آپ لوگوں نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا.

اِشمل اسما بیگم کی طرف دیکھتے شکوہ کناں لہجے میں بولی.

مجھے مناسب نہیں لگا اِس طرح تمہیں کال کرکے بلوانا.

پہلے تم مجھے یہ بتاؤ آہان اور اُس کے گھروالوں کا رویہ تمہارے ساتھ کیسا تھا.

اسما بیگم اُس کا ہاتھ تھامتے فکرمندی سے بولیں. جب اِشمل نے اُنہیں وہاں گزرے تمام حالات کے بارے میں بتایا تھا. سوائے آہان سے ہوئی اپنی آخری لڑائی کے.

اُس کی بات سن کر اسما بیگم کی پریشانی کافی حد تک کم ہوچکی تھی. اُنہیں آہان پہلی نظر میں ہی اتنا بُرا نہیں لگا تھا.

بیٹا جو ہوا ویسا نہیں ہونا چاہئے تھا. لیکن قسمت کا لکھا کوئی نہیں ٹال سکتا. وہ جیسا بھی ہے اب تمہارا شوہر ہے اور میرے مطابق اُس کا یہ سب کرنے کا طریقہ غلط تھا لیکن وہ انسان بُرا نہیں ہے. تم اِن پچھلی تمام باتوں کو بھول کر اُسے دل سے قبول کرلو. اب یہی تمہارے حق میں بہتر ہے.

اسما بیگم اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں. جب اُن کی بات پر اِشمل نے حیرانی سے اُنہیں دیکھا تھا. اُسے اسما بیگم سے اِس بات کی اُمید بلکل نہیں تھی.

ماما آپ جانتی بھی ہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں. آپ مجھے اُس انسان کو قبول کرنے کو کہہ رہی ہیں جس نے ہر جگہ ہمارا تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے. بابا کی اِس حالت کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہے. میں شدید نفرت کرتی ہوں اُس سے. مزید اُس کے ساتھ نہیں رہ سکتی.

اِشمل ناراضگی سے اُن کی طرف دیکھتے بولی.

اِشمل تم اِس وقت صرف جذباتی ہوکر سوچ رہی ہو. لیکن میں اتنا غلط فیصلہ تمہیں بلکل نہیں لینے دوں گی. اگر اُس کی وجہ سے ہمارا تماشہ بنا تھا تو اب دوبار پہلے سے زیادہ عزت بھی اُسی کی وجہ سے مل رہی ہے. وہی سب خاندان والے جنہوں نے اِس طرح نکاح کا سن کر ہم سے بائیکاٹ کر لیا تھا یہ پتا چلتے ہی کہ تمہارا نکاح حسنین رضا میر کے بیٹے آہان رضا میر سے ہوا ہے کتنی دفعہ ہمارے گھر کے چکر لگا چکے ہیں. اتنے بڑے خاندان کے ساتھ نام جڑ جانے کی وجہ سے اب پہلے سے بھی زیادہ عزت سے پیش آرہے ہیں. تم ایسے لوگوں کی وجہ سے یہ رشتہ ختم کرنا چاہ رہی ہو. اور تمہارے بابا کی طبیعت کا زمہ دار اگر تم اُسے ٹھہرا رہی ہو تو سوچو وہ یہ سب تو پھر بھی برداشت کر گئے ہیں. تمہارا اتنا بڑا فیصلہ سہہ پائیں گے.

اسما بیگم کے حقیقت بیان کرنے پر اِشمل نے دکھ سے اُن کی طرف دیکھا تھا.

ماما آپ چاہتی ہیں میں اپنی پوری زندگی کمپرومائز کرتے اُس شخص کے ساتھ گزار دوں جس سے میں دنیا میں سب سے زیادہ نفرت کرتی ہوں. ماما ہمیشہ عورت کے لیے ہی یہ سب مجبوریاں اور کمپرومائز کیوں ہوتا ہے. حالات کے آگے ہمیشہ عورت ہی بے بس کیوں ہوتی ہے.

اِشمل آنکھوں میں آئے آنسو بے دردی سے جھٹکتے بولی.

اِشمل میری جان تم کچھ زیادہ سوچ رہی ہو. بیٹا میں تمہاری ماں ہوں کبھی تمہیں کوئی ایسا مشورہ نہیں دوں گی جس سے تم دکھی ہو. یا تمہاری آنے والی زندگی میں مشکلات آئیں. لوگوں کو تم سے زیادہ اچھے سے سمجھتی ہوں. اگر آہان بُرا ہوتا اور غلط ارادے سے تمہاری طرف بڑھتا تو یوں اپنے بڑوں کو بھیج کر ہمارے گھر رشتہ نہ بھجواتا. میں مانتی ہوں ضد میں آکر اُس نے جس طرح نکاح کیا وہ بہت غلط ہے لیکن پھر اُس نے سب کے سامنے تمہیں اپنا کر عزت دے کر اپنی غلطی کا کسی حد تک ازالہ بھی تو کیا ہے نا. تمہیں اُسے ایک موقع ضرور دینا چاہئے.

اسما بیگم کی بات پر اِشمل نے بس خاموشی سے اُن کی طرف دیکھا تھا. اُس نے ہمیشہ اُن کی ہر بات سنی اور مانی تھی اور زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب بھی رہی تھی. لیکن اِس بار اُس کا دل اُن کی بات ماننے کو ہرگِز تیار نہیں تھا.

آپی آپ پریشان مت ہوں. میرے خیال میں آپ کو امی کی بات ماننی چاہئے.

اُسے خاموش دیکھ اسما بیگم وہاں سے اُٹھ گئی تھیں. جب ہما اُس کے پاس آتے بولی.

کیوں تمہیں بھی وہ شخص بُرا نہیں لگتا ہوگا.

اِشمل نے اُس کی بات پر گھور کر اُسے دیکھا تھا.

آپی وہ واقعی میں ویسے...

ہما پلیز مجھے مزید اُس شخص کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی.

اِشمل اُس کی بات سنے بغیر جلدی سے بولی کیونکہ اِس وقت اُسے وہ شخص زہر سے بھی زیادہ بُرا لگ رہا تھا.

آپی پلیز میری بات تو سُن لیں. آپ کو کچھ بتانا ہے.

ہما نے پھر بولنا چاہا تھا جب اِشمل اُسکی بات سنے بغیر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


پاپا آپ اِس طرح بلکل اچھے نہیں لگ رہے بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں.

اِشمل سلمان صاحب کے پاس بیٹھی اُن کی طرف دیکھتے فکرمندی سے بولی.

اب میری بیٹی آگئی ہے نا میرے پاس اب میں جلد ہی ٹھیک ہو جاؤں گا.

سلمان صاحب اُس کا خوشی سے جگمگاتا چہرہ دیکھ آسودگی سے بولے.

اِشمل کو آج پانچواں دن تھا وہاں آئے. سلمان صاحب کی طبیعت کے خیال سے اُس نے اُن کے سامنے یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ آہان کے ساتھ خوش ہے اور اِس رشتے کو دل سے قبول کر چکی ہے. اُس کے لیے سلمان صاحب کی صیحت سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا. اُس نے یہی سوچا ہوا تھا کہ اب وہ اُس شخص کے پاس واپس کبھی نہیں جائے گی لیکن اسما بیگم سے بات کرنے کے بعد اور سلمان صاحب کو دیکھ کر وہ اب اپنا فیصلہ بدل چکی تھی. وہ اتنی خود غرض نہیں بننا چاہتی تھی کہ اپنی خوشیوں کی خاطر اپنوں کو مزید کوئی تکلیف پہنچائے پہلے ہی اُس کی وجہ سے وہ لوگ بہت پریشانی اُٹھا چکے تھے.

لیکن آہان رضا میر کو اُس نے ابھی بھی معاف نہیں کیا تھا. اُس کے لیے دل میں موجود نفرت ابھی قائم و دائم تھی.

پاپا یہی آپ کی بیٹی ہیں نا ہم تو جیسے آپ کے کچھ نہیں لگتے.

سلمان صاحب کی بات پر ہما مصنوعی ناراضگی سے بولی. جب اُس کی بات ہر وہ دونوں مسکرا ئے تھے.

آپی آپ کو ماما بلارہی ہیں نیچے.

احد کمرے میں آتا اِشمل سے بولا. جب وہ اُس کی بات پر سر ہلاتی اُٹھ گئی تھی.

جی ماما آپ نے بلایا.

اِشمل کچن میں اُن کے پاس آتے بولی.

اِشمل آہان کو کال کرو ابھی اور رات کے کھانے ہر بلاؤ.

اسما بیگم کی بات پر اِشمل نے ناراضگی سے اُن کی طرف دیکھا تھا.

ماما اب ڈنر پر بلانے کی کیا ضرورت ہے. اتنی بھی عزت دینے کی ضرورت نہیں ہے اُس شخص کو.

اِشمل ناگواری سے بولی.

اِشمل وہ شوہر ہے تمہارا اور اِس گھر کا داماد. جتنا جلدی تم اِس رشتے کو قبول کرو اُتنا اچھا ہے. اور تمہارے پاپا بھی اُس کے بارے میں پوچھ رہے تھے.

اسما بیگم اُسے تنبیہی انداز میں کہتے فون اُس کی طرف بڑھایا تھا. جسے ناچار اِشمل کو پکڑنا پڑا تھا.

ﷲ جی پلیز وہ کال ہی اٹینڈ نہ کرے اور نہ ہی یہاں آئے.میں کم از کم ایک مہینے تک تو اُس کی شکل بلکل نہیں دیکھنا چاہتی.

اِشمل نے فون کان سے لگاتے دعا کی تھی. پہلی بیل پر کال اٹینڈ نہیں کی گئی تھی. اِشمل اپنی دعا قبول ہونے پر خوش ہوتی جب اسما بیگم نے اُسے دوبارہ کال کرنے کو کہا تھا. دوسری بار پر کال اٹینڈ کرتے آہان کی گھمبیر آواز سپیکر پر اُبھری تھی.

آہان میٹنگ میں بزی ہونے کی وجہ سے پہلے کال اٹینڈ نہیں کر پایا تھا. لیکن پھر اِشمل کے گھر کا نمبر پہچانتے اُس نے فوراً کال اٹینڈ کی تھی.

ماما تمہیں آج رات کے ڈنر پر بلا رہی ہیں.

بغیر کسی سلام دعا کے اُس کی آواز سنتے اِشمل فوراً بولی. جب اُس کی بات پر اسما بیگم نے غصے سے اُسے دیکھا تھا.

اِشمل کی آواز سنتے اُس نے گہرا سانس ہوا میں خارج کیا تھا. وہ سمجھ گیا تھا اُس سے زبردستی بلوایا جارہا ہے.

اسلام و علیکم! بیٹا کیسے ہو.

اسما بیگم اِشمل سے موبائل لیتے آہان سے بات کرتے بولیں.

بیٹا آپ اُس دن بھی اِشمل کو چھوڑ کر باہر سے لوٹ گئے. اور اُس کے بعد آئے بھی نہیں. لیکن آج آپ کو ڈنر ہمارے ساتھ کرنا ہوگا.

سلام دعا کے بعد اسما بیگم اُس سے بولیں. اِشمل وہی کھڑی اُن کے تاثرات سے سمجھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے.

اوکے بیٹا. پھر ہم آپ کا انتظار کریں گے.

اُس سے بات کرکے فون بند کرتی وہ اِشمل کی طرف مُڑی تھیں.

اِشمل آہان آج شام کو آرہا ہے. تمہارے بابا بھی ہوں گے آہان سے اچھے سے عزت سے پیش آنا اور شوہر کو تم کہہ کر نہیں آپ کہہ کر مخاطب کرنا چاہئے.

اسما بیگم کی بات سنتی اِشمل جل کر رہ گئی تھی.

ماما آپ لوگوں کا اتنا بڑا دل ہوسکتا ہے لیکن میرا نہیں ہے. اُس نے جو میرے ساتھ کیا ہے میں اُس کے لیے اُسے کبھی معاف نہیں کروں گی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


سر مے آئی کم اِن.

آہان اپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھا تھا. جب مینیجر کی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف دیکھا تھا. اور سر کے اشارے سے اُسے اندر آنے کی اجازت دی تھی.

سر اِس فائل پر سائن کر دیں.

وہ آہان کے سامنے فائل رکھتے بولا.

سر آج شام سات بجے آپ کی میٹنگ ہے فاروقی صاحب کے ساتھ.

فائل بند کرتے اُس نے آہان کو مخاطب کیا تھا.

کینسل کر دو مجھے ضروری کام سے کہیں جانا ہے.

آہان کی بات پر سر ہلاتے وہ وہاں سے نکل گیا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ میٹنگ بہت امپورٹنٹ تھی وہ آہان سے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرپایا تھا. کیونکہ اُن کے باس کے پہلے ہی مزاج نہیں ملتے تھے اور اِن کچھ دنوں سے تو وہ ویسے ہی اُنہیں اُکھڑا اُکھڑا سا لگا تھا.

آہان کو اب اپنے آپ ہر ہی غصہ آرہا تھا. پورے پانچ دن ہوچکے تھے اِشمل کو دیکھے. جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اُس کی بے چینی بڑھ رہی تھی. اُس نے بہت کوشش کی تھی کہ اُس کے بغیر رہ کر دل کو سنبھالے کے اِشمل اُس کے لیے اتنی امپورٹنٹ نہیں ہے. لیکن اُس کا دل مکمل طور پر اُس سنگدل لڑکی کا ہوچکا تھا. جو اُس سے بےحد نفرت کرتی تھی.

آہان نے غصے میں اِشمل سے یہ تو کہہ دیا تھا کہ اُسے کوئی پرواہ نہیں وہ اُس کے بارے میں کیا سوچتی ہے. لیکن دل کو شاید صرف اُسی کی پرواہ تھی. آج تک آہان نے کبھی اِس بات پر توجہ نہیں دی تھی کہ کون اُس کے حوالے سے کیا رائے رکھتا ہے. لیکن اُس دن اِشمل سے اپنے لیے وہ الفاظ سن کر اُسے بہت بُرا لگا تھا. وہ اُسے بتانا چاہتا تھا وہ اتنا غلط نہیں ہے جتنا وہ اُسے سمجھتی ہے لیکن شدید غصے اور انا میں کچھ نہیں کہہ پایا تھا.

گھر کے ماحول کی وجہ سے اُس نے ہمیشہ سے گھر سے دور رہنے کو ترجیح دی تھی. اتنے سارے اپنوں کے ہوتے اُس نے خود کو ہمیشہ تنہا ہی رکھا تھا. اپنے ماں باپ کے دوسروں سے رواں رکھے جانے والے رویے نے اُسے اُن سے بدظن کر دیا تھا.

ہاسٹل میں رہتے اُس کی دوستی حماد سے ہوئی تھی. جس کے والدین کی ڈیتھ ہوچکی تھی اور وہ اپنی نانی کے ساتھ رہتا تھا. حماد کی صحبت میں رہتے وہ غلط کاموں کی طرف راغب ہوچکا تھا. حماد اور اُس کے گروپ کے لیے سیگریٹ نوشی, شراب پینا اور لڑکیوں سے دوستی کرنا عام بات تھی آہستہ آہستہ وہ بھی یہ سب کام اپنا چکا تھا. لیکن ہمیشہ غیر لڑکیوں سے اُس کا تعلق ایک حد تک ہی رہا تھا اُس نے خود کو کبھی بھی اُس حد سے آگے تجاوز نہیں کرنے دیا تھا. بہت سی لڑکیوں نے اُس کی پرسنیلٹی اور سٹیٹس سے متاثر ہوکر اُس سے تعلق بنانا چاہا تھا لیکن وہ ہمیشہ اِس کام سے دور رہا تھا.

ہاسپٹل میں اِشمل کو دیکھتے پہلی بار اُسے کسی لڑکی نے اتنا اٹریکٹ کیا تھا. اُسے اِشمل کا اگنور کرنا بہت بُرا لگا تھا جس وجہ سے وہ اُسے جان بوجھ کر چڑانے لگا تھا اِشمل کی بدتمیزی اور اپنے لیے کہے گئے سخت الفاظ بھی حیرت انگیز طور پر اُسے بُرے نہیں لگتے تھے. اِسی دوران اُس کے دل نے پہلی بار کسی لڑکی کو پانے کی خواہش کی تھی. وہ اِشمل کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا. وہ اُسے پوری عزت کے ساتھ اپنانا چاہتا تھا.لیکن اِشمل اور اُس کے گھروالوں کے رویے کی وجہ سے ضد میں آکر اُس نے غلط قدم اُٹھایا تھا. جس کے لیے اُسے اب بھی کوئی پچھتاوا نہیں تھا.

اِشمل کی اتنی شدید نفرت دیکھ اُسے نہیں لگا تھا کہ وہ کبھی بھی اُس کی محبت حاصل کرپائے گا. لیکن اُس کی کال اور جس طرح اسما بیگم نے اُس سے بات کی تھی آہان کے اندر ایک اُمید پیدا ہوچکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

آہان کو بیس منٹ ہوچکے تھے وہاں بیٹھے لیکن اِشمل ابھی تک اُس کے سامنے نہیں آئی تھی. سلمان صاحب بھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے. آہان نے اپنے پچھلے رویے پر اُن دنوں سے شرمندگی کا اظہار کرتے معزرت کی تھی. جب اُسے شرمندہ دیکھ دونوں نے اُسے کھلے دل سے معاف کردیا تھا. سلمان صاحب کو وہ پہلی ملاقات سے کافی بدلہ اور سُلجھا ہوا لگا تھا. اور اپنی بیٹی کو اُس کے ساتھ خوش دیکھ اور اُس کا نصیب جان کر اُنہوں نے اُسے کھلے دل سے قبول کرلیا تھا.

اِشمل فوراً سے چلو باہر آہان کس ٹائم سے آیا ہوا ہے اور تم ابھی تک کمرے میں گھس کر بیٹھی ہو.

اسما بیگم اِشمل کے کمرے میں داخل ہوتے بولیں.

آپ ہی کی وجہ سے لیٹ ہورہی ہوں میں. یہ سب پہننے کی کیا ضرورت ہے ماما.

اِشمل چوڑیاں کلائیوں میں ڈالتے اُکتائے ہوئے لہجے میں بولی.

ماما ایک ہاتھ میں بہت ہیں نا اِن کو رہنے دوں.

اِشمل اُن کی طرف دیکھتی بےچارگی سے بولی. جب اسما بیگم نےاُس کی اُتری شکل دیکھ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتے اُسے باہر آنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گئی تھیں.

اسلام و علیکم!

اِشمل نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے آہان کی طرف دیکھ کر سلام کیا تھا. آہان جو سلمان صاحب سے بات کررہا تھا اُس کی آواز پر سلام کا جواب دیتے اُس کی طرف دیکھا تھا.

لیکن اُس پر سے اپنی نظریں ہٹانا بھول چکا تھا جو مہرون کلر کے جدید طرز کے شارٹ فراک اور ٹراؤزر میں ہلکے پھلکے میک اپ اور جیولری پہنے اُس کا دل دھڑکا گئی تھی. اِشمل اُس کے اِس طرح بے خُود ہوکر دیکھنے پر خجل سی ہوتی اسما بیگم کے ساتھ صوفے پر جابیٹھی تھی.

آہان بھائی آپکو پتا ہے آپی پچھلے دو گھنٹوں سے آپ کے لیے تیار ہورہی ہیں.

ہما اِشمل کی طرف دیکھتے شرارتی انداز میں بولی. جس پر اِشمل نے اُسے ٹھیک ٹھاک گھوری سے نوازہ تھا جو آہان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی. پھر ایسے ہی احد اور ہما اُسے آہان کے سامنے اُس کے حوالے سے چھیڑتے تنگ کرتے رہے تھے. جس پر اِشمل کو چڑتے دیکھ آہان نے بہت انجوائے کیا تھا.

آہان کو اِشمل کے گھروالوں سے مل کر بہت اچھا لگا تھا. بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا. آہان نے آج اِشمل کا ایک نیا رُوپ ہی دیکھا تھا. محبت بھرا انداز جس طرح وہ سلمان صاحب اور باقی سب گھروالوں سے کیئر اور محبت سے پیش آرہی تھی آہان کے دل نے بھی یہ خواہش کی تھی کہ کاش وہ بھی اُس کی زندگی میں ایسے ہی امپورٹنٹ ہو اور وہ اُس سے بھی ایسے ہی بے انتہا محبت کرے لیکن فلحال اپنی بیوی کے مزاج دیکھ کر تو اُسے کوئی ایسی اُمید نظر نہیں آرہی تھی.

آہان چائے لے لیں.

کھانے کے بعد سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے. جب اِشمل چائے سرو کرتی آہان کی طرف بڑھی تھی. آہان نے سلمان صاحب سے بات کرتے جان بوجھ کر اِشمل کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا. جس کی وجہ سے اِشمل کو مجبوراً اُسے مخاطب کرنا پڑا تھا.

اُس کے اندازِ تخاطب پر آہان نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا تھا. اُس کہ نظروں کا مطلب سمجھتے اِشمل نے چائے کا کپ اُس کی طرف بڑھایا تھا. کیونکہ باقی سب بھی اُنہیں کی طرف متوجہ تھے.

اوکے انکل آنٹی اب کافی دیر ہوچکی ہے. ہمیں اب نکلنا ہوگا. چلیں اِشمل.

اُن دونوں سے بات کرتے آہان اِشمل سے مخاطب ہوا تھا. اُس کی بات سن کر اِشمل انکار کرنے ہی والی تھی. لیکن اسما بیگم کے اشارے پر مجبوراً خاموشی سے اثبات میں سر ہلاگئی تھی.

اُن سب کے وہاں رات رُکنے کے بھرپور اسرار پر بھی آہان سہولت سے انکار کرتے اِشمل کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان اُسے اپنے شہر والے گھر میں لے آیا تھا. جو اُس نے لندن سے واپس آنے کے بعد لاہور میں رہنے کے لیے بنوایا تھا. وہ حویلی سے زیادہ یہاں رہتا تھا. جس کی شان و شوکت حویلی جیسی تو نہیں تھی لیکن اُس سے کم بھی نہیں تھی.

آہان اِشمل کو اپنے پیچھے بیڈ روم میں آنے کا کہہ کر اُوپر کی طرف بڑھ گیا تھا. وہ فریش ہوکر واش روم سے نکلا تو اِشمل اُسے بیڈ روم میں دیکھائی نہیں دی تھی. اِشمل کو دیکھنے وہ نیچے آیا تھا لیکن لاؤنج خالی دیکھ اُس نے فکرمندی سے ملازمہ کو بلا کر اِشمل کا پوچھا تھا جب ملازمہ کا جواب سُنتے آہان کی پیشانی پر سُلوٹیں اُبھری تھیں. ملازمہ کو بھیج کر وہ گیسٹ روم کی طرف بڑھا تھا. اندر داخل ہوتے اُس کی نظر اِشمل پر پڑی تھی. وہ جو بنا دوپٹے کے پر سکون سی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھے چوڑیاں اُتارنے میں مصرورف تھی آہٹ کی آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر اُوپر دیکھا تھا. سامنے کھڑے آہان کو دیکھ کر اِشمل نے جلدی سے دوپٹے کی تلاش میں نظریں دوڑائی تھیں. جو بیڈ کے دوسری سائیڈ ہر گرے ہونے کی وجہ سے دیکھ نہیں پائی تھی.

تم یہاں کیا کررہی ہو. میں نے تمہیں بیڈ روم میں آنے کے لیے کہا تھا نا.

آہان اُس کے حسین سراپے کو گہری نظروں سے دیکھتے بولا.

مجھے آپ کے ساتھ اُس روم میں نہیں رہنا. میں یہی رہوں گی.

اِشمل اُس کی نظروں سے گھبرا کر رُخ موڑتے بولی.

اچھا اور اِس بات کی اجازت کس نے دی تمہیں.

آہان اُس کے قریب آتے بولا.

مجھے ہر بات میں کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے.

اِشمل اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتے بولی.

جب آہان نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے بےحد قریب کیا تھا.

مطلب تم نہیں آؤ گی میرے ساتھ بیڈ روم میں.

آہان اُس کی کلائیوں میں موجود چوڑیوں کو چھوتے ہوئے بولا.

نہیں.

اِشمل اُس کی حرکت پر صرف اتنا ہی بول پائی تھی.

یہ کیا کر رہے ہیں آپ.

آہان مزید کچھ بھی بولے بغیر اُسے بانہوں میں بھرتے باہر کی طرف بڑھا تھا. جب اِشمل چلاتے ہوئے بولی.

وہی جو مجھے کرنا چاہئے.

وہ اِشمل کا شرم سے سُرخ پڑتے چہرے کی طرف دیکھتے بولا.

اِس بار میں انتہائی شرافت سے تمہیں یہاں لایا ہوں. اگر نیکسٹ ٹائم ایسی کوئی فضول حرکت کی تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی.

آہان اُس کو اچھے سے باور کرواتے بولا. جب اِشمل اُس کے اتنے قریب ہونے کی وجہ سے اپنی پوزیشن کاخیال کرتے کچھ بول بھی نہ سکی تھی کیونکہ واقعی اِس وقت وہ اُسے چھیڑ کر اپنے لیے ہی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی. آہان کے نیچے اُتارنے پر اِشمل جلدی سے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی تھی.

اِشمل کافی دیر بعد چینج کرکے نکلی تھی تاکہ آہان سو چکا ہو مگر اُسے بیڈ پر لیٹے موبائل پر مصروف جاگتے دیکھ وہ خاموشی سے ٹیرس کی طرف بڑھ گئی تھی.

ٹیرس پر آکر سامنے کا منظر دیکھ اِشمل کا خراب موڈ کافی حد تک بحال ہوچکا تھا. اُس سائیڈ پر سامنے ہی ٹیرس بنایا گیا تھا. وہاں کی گئی مدھم سی لائٹنگ کا پانی میں پڑنے کی وجہ سے پانی کی لہریں ہر طرف ایک دلکش سما باندھ رہی تھیں.

اِشمل کو یہ جگہ بہت پسند آئی تھی. کافی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد وہ کمرے میں آئی. تو آہان کو سوتا دیکھ آرام سے اِشمل بستر کی دوسری طرف آکر بیٹھ گئی تھی.

پتا نہیں ہر ایک کو یہ شخص اتنا اچھا کیوں لگتا ہے. کسی کو کیوں نظر نہیں آتا یہ ایک نمبر کا انا پرست , خودسر اور بدتمیز انسان ہے جسے صرف اپنی اور اپنی خواہشات کی پرواہ ہے دوسرے لوگ جائیں بھاڑ میں.

اِشمل کی نظریں آہان کے مغرور نقوش پر تھیں. جو واقعی کسی کو بھی اپنا دیوانہ کرنے کی صلا حیت رکھتے تھے.

اِشمل آہان کی طرف دیکھتے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی. جب آہان کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئی تھی.

ڈئیر وائف اگر تم نے اچھے طریقے سےمجھے گھور لیا ہو تو لائٹ آف کرکے سو جاؤ کافی رات ہوچکی ہے آج کے لیے میری اتنی بُرائیاں کافی ہیں.

اِشمل سمجھ رہی تھی کہ وہ سو چکا ہے لیکن بند آنکھوں سے بھی وہ اُس کی نظریں خود پر اچھے سے محسوس کر رہاتھا جب اُس کی بات پر اِشمل خفت ذدہ سی لائٹ آف کرتی بیڈ پر ایک طرف بلکل کونے پر ہوتے لیٹ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اُن کو وہاں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا. آہان روز اُس کے اُٹھنے سے پہلے آفس کے لیے نکل جاتا تھا اور رات کو بہت لیٹ لوٹتا تھا. کہ اِشمل سو چکی ہوتی. اِشمل اِس روٹین سے تنگ آچکی تھی. وہ سوچ کر یہی آئی تھی کہ آہان رضا میر سے بلکل کوئی بات نہیں کرے گی لیکن یہ رویہ تو اُسی نے اپنا رکھا تھا جس سے اِشمل اتنی جلدی تنگ آچکی تھی. گھر کے ہر کام کے لیے ملازم موجود تھے اِس لیے وہ پورا دن فارغ ہوتی تھی جس سے وہ زیادہ کوفت کا شکار ہورہی تھی. وہ پورے گھر کا اچھا سے جائزہ لے چکی تھی لیکن صرف بیڈروم کے ساتھ بنا روم جو لاک تھا وہاں نہیں گئی تھی.

ساڑھے نو بجے کا ٹائم تھا جب آہان روم میں داخل ہوا تھا. اِشمل نے آج جلدی آنے پر اُسے حیرانی سے دیکھا تھا. آہان کافی تھکے ہونے کی وجہ سے اُس کے پاس صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا تھا. اِشمل نے غور سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

کیا ہوا.

اُسے اپنی طرف دیکھتا پاکر آہان نے سوالیہ انداز میں پوچھا.

تم نے شراب پی ہوئی ہے.

اِشمل نے مشکوک انداز میں اُس کی طرف دیکھا تھا. جب آہان نے اُس کے انداز پر اپنی اچانک اُمڈ آنے والی ہنسی کو روکا تھا. اور شرارت کے موڈ میں آتے اثبات میں سر ایسے ہلایا تھا جیسے واقعی وہ نشے میں ہو.

اِشمل اپنا شک درست ہوجانے پر گھبرا کر اُس کے پاس سے اُٹھی تھی. جب پاس سے گزرتے آہان نے اُس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا. اِشمل اِس اچانک حملے کے لیے بلکل تیار نہیں تھی سیدھی آہان کی گود میں جاگری تھی.

یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے.

آہان نے اُس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھتے اُسے مکمل طور پر قید کیا تھا جب اِشمل اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے چلائی.

ہمیشہ مجھ سے دور ہونے کی کوشش میں کیوں رہتی ہو. اتنی زیادہ نفرت کرتی ہو مجھ سے.

آہان اُس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کرتے بہکتے ہوئے بولا.

دیکھو تم ہوش میں نہیں ہو پلیز دور رہوں مجھ سے.

اِشمل کو اب اُس کے انداز سے خوف محسوس ہوا تھا.

ہوش میں ہوتے ہوئے کب پاس آنے دیتی ہو.

آہان نے اُس کے دائیں گال پر لب رکھے تھے. اُس کے لمس پر اِشمل نے کسمسا کر دور ہونا چاہا تھا لیکن آہان ابھی اُسے آزاد کرنے کے موڈ میں نہیں تھا. اُسے اِشمل کا یہ گھبرایا رُوپ دیکھ کر مزا آنے لگا تھا. جو اُس کو سچ میں نشے میں سمجھ کر بہت گھبراہٹ کا شکار ہوچکی تھی.

اور جیسے میری مان کر پیچھے ہٹ جاتے ہو نا تم.

اِشمل مسلسل اُس سے دور ہونے کے چکروں میں تھی. اُس کی بات سنتے آہان جھک کر اُس کے بائیں گال پر لب رکھ چکا تھا.

ایسا تو مت کہو. تمہاری ہی تو مانی ہے میں نے ورنہ اِن دوریوں کو کب کا مٹاچکا ہوتا میں.

آہان ایک جھٹکے سے اُسے صوفے پر گراتے اُس کو مکمل اپنے قبضے میں کیا تھا. اور اِشمل کی گردن سے دوپٹہ نکالتے اُس پر جھکا تھا. اِشمل نے اُس کے انداز پر خوفزدہ ہوتے زور سے آنکھیں میچی تھیں. جب وہ ہوش میں ہوتا تھا تو وہ لڑ جھگڑ کر کسی طرح بھی اُسے سے دور ہوجاتی تھی لیکن آج اُسے نشے میں ہونے کا سمجھ کر وہ اُسے سے بہت زیادہ گھبرا رہی تھی. جو واقعی آج اُس کی کوئی بات نہیں سن رہا تھا.

اُس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن اور کندھے پر محسوس کرتے اِشمل کپکپا کر رہ گئی تھی کیونکہ اِس بار اُس کا لمس بہت شدت بھرا تھا. جسے مزید برداشت کرنا اُس کے بس سے باہر تھا.

اِشمل کو اپنے حصار میں کپکپاتے دیکھ آہان نے بغور اپنی ہر وقت لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار شیرنی کو دیکھا تھا. جو اِس وقت بلکل بھیگی بلی بنی ہوئی تھی. اُس کی حالت دیکھ آہان سے اپنا قہقہ روکنا مشکل ہوگیا تھا.

آہان کے ہنسنے کی آواز سنتے اِشمل نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں. جو اُس پر جھکا آنکھوں میں بھرپور شرارت لیے مسکرا رہا تھا.

یار مجھے نہیں پتا تھا میرے شراب میں ہونے کا سن کر تم ایسے آرام سے میری بانہوں میں آجاؤ گی.

اِشمل نے اُس کی شرارت سمجھتے شدید غصے میں آتے اُسے گھورا تھا. اور اُس کے حصار سے نکلنا چاہا تھا. لیکن آہان نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا.

ایسے مت دیکھو ورنہ کہیں نشے میں نہ ہوتے ہوئے بھی میں بہک جاؤں.

آہان اُس کی قربت کے زِیر اثر خمار آلود لہجے میں بولا.

تم بہت بڑے ڈرامہ باز انسان ہو.

اِشمل اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے اُوپر سے ہٹاتے غصے سے بولی. کیونکہ اِس شخص نے ابھی کچھ دیر پہلے اُس کی جان نکال کر رکھ دی تھی. دھڑکنیں ابھی تک جگہ پر نہیں آرہی تھیں.

میری جان تمہارے ساتھ رہتے مجھے روز اپنی ایک نئی خوبی پتا چلتی ہے جو آج تک کبھی کسی نے نہیں بتائیں مجھے.

آہان اُس کو آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا. جس پر اُس کا زرا دل نہیں تھا لیکن جب سے اُس پر اِشمل کے لیے اپنے دل میں موجود محبت واضح ہوئی تھی وہ اُس سے مزید زبردستی کرکے اپنا حق وصول نہیں کرنا چاہتا تھا. بنا کسی زور زبردستی کے وہ اِشمل کو اُسی محبت سے اپنی طرف بڑھتے دیکھنا چاہتا تھا. جتنی محبت وہ اُس سے کرنے لگا تھا.

اِشمل اُس کی شوخ شرارتی نظروں کو اپنے وجود پر محسوس کرتی جلدی سے باہر نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان آفس جاچکا تھا. اِشمل بھی ناشتہ کرتے باہر گارڈن میں آگئی تھی. اُسے ٹیرس کے بعد گھر کا یہ حصہ بہت پسند آیا تھا. جہاں مختلف قسم کے پھول پودوں سے گارڈن کو سجایا گیا تھا.

اِشمل کافی دیر وہاں بیٹھی رہی تھی جب اچانک اُس کا دھیان بیڈ روم کے ساتھ موجود روم کی طرف گیا تھا.

کچھ سوچتے اِشمل نے ملازمہ کو بلوا کر اُس روم کا لاک کھولنے کا بولا تھا.

بیگم صاحبہ آہان سر نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے اُس روم میں جانے سے.

اُس کی بات سنتے ملازمہ آہستہ سے بولی.

آپ اُس روم کی کیز مجھے دیں میں خود نبٹ لوں گی آپ کے سر سے.

اِشمل کی بات اُس نے خاموشی سے سر ہلاتے کیز اُسے لا کر دے دی تھیں.

اِشمل نے اُس روم کا دروازہ کھولتے اندر قدم رکھا تھا. جب سامنے ہی موجود شیشے کی الماری میں سجی شراب کی بوتلیں دیکھ اُس کا دماغ گھوم گیا تھا.

تو اِس وجہ سے اِس روم کو لاک کرکے رکھا ہوا ہے. بہت شوق ہےنا دوسروں پر اپنی مرضی مصلت کرنے کا اب میں بتاتی ہوں تمہیں آہان رضا میر کتنا بُرا لگتا ہے.

اِشمل نے اردگرد نظریں دوڑائیں جب نظر دروازے کے پاس رکھی باسکٹ پر پڑی تھی. باسکٹ کو اُٹھا کر الماری کے پاس رکھتے اِشمل نے شراب کی ساری بوتلیں اُس میں ڈالی تھیں. اور ملازمہ کو بلاکر اُسے باہر پھینکنے کا کہا تھا. ملازمہ آہان کے غصے کی وجہ سے ایسا کرنے سے انکاری تھی لیکن پھر اِشمل کا حکم بھی نہیں ٹال سکتی تھی کیونکہ اِس بات کی بھی آہان نے ہی سختی سے ہدایت دی تھی. ناچار تین ملازمیں باسکٹ اُٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گئی تھیں. اِشمل نے اپنی نگرانی میں وہ تمام بوتلیں ضائع کروائی تھیں. اور آہان کا غصے بھرا ری ایکشن کا سوچ کر مسکرائی تھی کیونکہ جس طرح کل آہان نے اُسے بے وقوف بنایا تھا اُس بات کا بدلہ بھی تو لینا تھا نا.

حنا دعا مانگ کر جائے نماز سے اُٹھی تھی. اور کس ٹائم سے بجتے موبائل کو اُٹھایا تھا. انجان نمبر دیکھ ایک پل کے لیے تو اُس کا دل نہیں کیا تھا اُٹھانے پر لیکن پھر کچھ سوچتے اُس نے کال ریسیو کی تھی.

ملک ذیشان بات کررہا ہوں. اور میری بات سنے بغیر فون رکھنے کی غلطی مت کرنا ورنہ تمہارا ہی نقصان ہوگا.

دوسری طرف کی بات سنتے حنا اپنی جگہ پر کانپ کر رہ گئی تھی. ملک ذیشان اب اُس کو کس ارادے سے فون کررہا ہے. اب پھر کون سی نئی سازش ہے اُس کی. حنا نے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتے پریشانی سے سوچا تھا.

تم نے مجھے فون کیوں کیا ہے. مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی.

حنا ڈرتے ڈرتے بولی.

کیوں بھول گئی اتنی جلدی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نا. تمہارے اُس بھائی نے میرے ساتھ کیا کیا تھا. تمہیں کیا لگا میں اتنی آسانی سے بھول جاؤ گا تمہیں. میں نے تمہیں صرف یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ اگر اپنے بھائی کا عبرت ناک انجام نہیں دیکھنا چاہتی تو جو میں کہوں گا تمہیں وہ کرناہوگا. کیونکہ ہر بار کی طرح قسمت اُس کا ساتھ نہیں دے گی. اچھے سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اپنے بھائی کی زندگی چاہتی ہو یا اپنی خوشی. اور ہاں اگر تم نے اُسے یا کسی اور کو اِس فون کا بتانے کی کوشش کی تو تمہارا بھائی جان سے جائے گا.

فون بند ہوچکا تھا لیکن حنا اُسی طرح اپنی جگہ ساکت سی کھڑی تھی. آنکھوں سے گر کر آنسو اُس کا چہرہ بھگو چکے تھے. گرنے کے سے انداز میں وہ وہی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی.

اُس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے ایک مصیبت ابھی ختم نہیں ہوتی تھی جو دوسری شروع ہوجاتی تھی. وہ اپنی اِس زندگی سے ہی تنگ آچکی تھی جس میں آزمائشیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں.

نہیں میری وجہ سے بھیا کو کچھ نہیں ہونا چاہئے. لیکن میں اُس شخص کی بات بھی تو نہیں مان سکتی. میں کیا کروں میرے رب میری مدد فرما.

حنا چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل ٹیرس پہ کھڑی تھی جب اُسے آہان کی گاڑی پورچ میں رُکتے دیکھائی دی تھی. اُس نے جان بوجھ کر اُس روم کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا.

ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے جب اُسے آہان کی غصے سے چلانے کی آواز آئی تھی. اِشمل کو آج اُس کی اِس طرح غصے بھری آواز سن کر بہت مزا آرہا تھا. کیونکہ ویسے تو آہان نے اُس کی کسی بھی بات پر غصہ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی. اُس کے اتنے بُرے رویے کا بھی آہان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا.

اِشمل مسکرا رہی تھی جب آہان اُسے ڈھونڈتا کمرے میں داخل ہوا تھا. ٹیرس پر اُس کو موجود دیکھ وہ اُس کی طرف بڑھا تھا. اُس کا غصے بھرا چہرہ دیکھ اِشمل نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے چہرا نیچے کر لیا تھا. لیکن اُس کی مسکراہٹ آہان نوٹ کرچکا تھا.

اِشمل یہ کیا حرکت تھی.

آہان کڑے تیوروں سے اُسے گھورتے بولا.

کونسی حرکت.

اِشمل انجان بنتے بولی.

تم اچھے سے جانتی ہو میں کس بارے میں بات کررہا ہوں. اِس لیے مجھے سیدھی طرح سے جواب چاہئے.

آہان اُس کے قریب آتے بولا.

مجھے اپنے گھر میں حرام چیز نہیں رکھنی تھی اِس لیے پھینک دی. اور مجھے یہ غصہ دیکھانے کی ضرورت نہیں ہے میں تم سے ڈرنے والی نہیں ہوں.

اِشمل اُس کی طرف دیکھتے ڈرے بغیر بولے.

آہان کو اُس کا اپنا گھر کہنا بہت اچھا لگا تھا.

غصہ ؟ تو تمہیں لگ رہا ہے میں غصے میں ہوں اِس وقت.

ڈیئر وائف ابھی تک تم نے میرا غصہ دیکھا ہی نہیں ہے. اور میری یہی کوشش ہے کہ کبھی دیکھو بھی نہیں.

آہان اُس کی بات پر مسکراتے بولا.

اُسے مسکراتے دیکھ اِشمل کو اپنی پوری محنت پر پانی پھیڑتا محسوس ہوا تھا.

بہت ہی کوئی ڈھیٹ انسان ہے یہ.

اِشمل اُسے گھورتے دل میں بولی.

لیکن جو تم نےمجھ سے پوچھے بغیر میری اتنی امپورٹنٹ چیز ویسٹ کر دی اُس کی سزا تو ضرور ملے گی تمہیں.

آہان اُس کے قریب ہوتے بولا. اِشمل نے وہاں سے ہٹنا چاہا تھا جب آہان نے ٹیرس کے جنگلے پر اُس کے دونوں طرف ہاتھ رکھتے اُسے اپنی قید میں لیا تھا.

کیا مطلب کیسی سزا.

اِشمل اُس کی طرف دیکھتے ناسمجھی سے بولی.

شراب پی کر مجھے سکون ملتا ہے. اِک نشہ سا طاری ہو جاتا ہے. جو ہر غم بھلا دیتا ہے. تمام تھکن دور کر دیتا ہے. اب جب کہ تم نے اُسے ضائع کردیا ہے. تو اُس کی کمی تمہیں پوری کرنی ہوگی.

آہان اُس کے نرم ہونٹوں پر انگھوٹھا پھیرتے بولا.

کیا نہیں یہ غلط بات ہے. ....

اِشمل اُس کی بات سمجھتے ابھی بولی ہی تھی جب آہان اِشمل کے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لیے اُس کے ہونٹوں کو قید کرچکا تھا. اِشمل اُس کے پر شدت لمس پر تڑپ کر رہ گئی تھی. اور دونوں ہاتھوں سے اُسے پرے دھکیلنا چاہا تھا جبکہ اُس کی مزاحمت پر اُس سے دور ہونے کے بجائے آہان کے عمل میں مزید شدت آئی تھی. جب کچھ دیر بعد اُس کی حالت پر رحم کھاتے آہان اُس سے دور ہوا تھا. اِشمل نے گہرے گہرے سانس لیتے چہرا اُس کے سینے پر ٹکایا تھا. اُسے لگا تھا وہ ابھی گر جائے گی.

آہان نے اِشمل کے کانپتے وجود کو اپنے حصار میں لیا تھا.

میری معصوم سی ڈاکٹر کیوں مجھ سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہو. نازک جان سی تو ہو تم میرے زرا سے لمس پر یہ حال ہے اگر کسی دن سچ میں تمہاری بنائی گئی اِن نازک سی دیواروں کو توڑ کر تمہارے بہت قریب آگیا تو کیا ہوگا تمہارا. اور جو آج غلطی کی ہے اُسی کی یہ خوبصورت سی سزا تو روز ایسے ہی ملتی رہے گی. تھینکس میرا اتنا خوبصورت نقصان کرنے کے لیے.

آہان اُس کے کان میں سرگوشی کے سے انداز میں بولا تھا. اُس کی بات سنتے اِشمل فوراً اُس کے حصار سے نکلی تھی اور غصے بھری نظروں سے اُسے گھورا تھا. آہان محبت سے اُس کے سُرخ چہرے کو دیکھتے مسکرایا تھا.

ٹیرس کا منظر کچھ ہی دیر میں بدلی چکا تھا. جہاں تھوڑی دیر پہلے اِشمل مسکراتے اور آہان غصے میں کھڑا تھا. وہی اب آہان مسکرا رہا تھا اور اِشمل شدید غصے میں آچکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل نے آہان سے اجازت لے کر دوبارہ سے ہاسپٹل جوائن کرلیا تھا. گھر میں بیٹھ بیٹھ کر وہ بُری طرح تنگ آچکی تھی. جس وجہ سے آہان نے بھی اُس کی بوریت کے خیال سے آرام سے اجازت دے دی تھی. لیکن آہان کے آڈر کے مطابق وہ ڈرائیور کے ساتھ ہی آتی جاتی تھی.

سدرہ بھی اُس کے واپس ہاسپٹل میں آجانے کی وجہ سے بہت خوش ہوئی تھی. اور اُسے آہان کے حوالے سے خوب چھیڑا بھی تھا کیونکہ اِشمل نے اُسے اپنے تعلق کی حقیقت نہیں بتائی تھی. صرف اتنا ہی کہا تھا کہ آہان کا رویہ اُس کے ساتھ بہت اچھا ہے.

اِشمل اِس وقت بھی ایک بچے کے پاس کھڑی اُس سے اُس کی طبیعت کا پوچھ رہی تھی. جب نرس اُس کے پاس آئی تھی.

ڈاکٹر صاحبہ وہ گارڈ نے بتایا ہے باہر کوئی صاحب کھڑے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابھی.

نرس کی بات پر اِشمل کو لگا تھا آہان ہی ہوگا شاید. اِس لیے مریض کو کچھ ہدایت دیتی باہر کی طرف آگئی تھی.

گارڈ کے اشارے پر وہ آگے بڑھی تھی لیکن آہان کی جگہ کسی انجان شخص کو گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے دیکھ وہ حیران ہوئی تھی. کیونکہ اِس شخص کو پہلے اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا.

گاڑی کے پاس کھڑا ملک حسیب اِشمل کو وہی رُکتا دیکھ مسکراتے ہوئے آگے بڑھا تھا. اور اُس کے پاس پہنچتے اُسے سلام کیا تھا.

سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں.

اِشمل سلام کا جواب دیتے اُس اجنبی کی طرف دیکھتے بولی.

آپ کیسے پہچان سکتی ہیں مجھے ہم آج پہلی بار مل رہے ہیں. مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ڈاکٹر اِشمل کیا ہم وہاں بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں.

ملک حسیب بہت ہی مہذب انداز میں سامنے ہاسپٹل کے گارڈن میں پڑی چیئرز کی طرف اشارہ کرتے کہا.

اُس کی بات پر اِشمل نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اثبات میں سر ہلاتے اُس طرف چلنے کا کہتی آگے بڑھی تھی.

جی فرمائیں کیا بات کرنی ہے آپ کو مجھ سے.

اِشمل بیٹھتے ہی فوراً بولی.

ملک حسیب اِشمل کی خوبصورتی سے کافی متاثر ہوا تھا.

آہان رضا میر کافی خوبصورت بیوی ڈھونڈی ہے تم نے. جسے ایک نظر دیکھ کر ہی میری نیت خراب ہو گئی ہے.

ملک حسیب اِشمل کی طرف دیکھتے دل ہی دل میں مکاری سے مُسکرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان آج میٹنگ سے جلدی فارغ ہوگیا تھا. ہما اور احد کا اُسے دوبار فون آچکا تھا. کہ اِشمل کو لے کر گھر آئے. اِس لیے آج وہاں جانے کا سوچتے وہ آفس سے جلدی نکل آیا تھا.

ہاسپٹل میں پہنچ اُس نے گارڈ کو اِشمل کو بلانے کا کہا تھا. جس پر گارڈ نے اُسے سامنے کی طرف اشارہ کرتے اِشمل کا بتایا تھا. آہان گارڈ کے بتانے کے مطابق اُس طرف بڑھا تھا لیکن سامنے کا منظر دیکھ اُس کا خون کھول اُٹھا تھا. غصے سے مُٹھیوں کو بھینچتے وہ آگے بڑھا تھا.

آپ کو جو بات بھی کرنی ہے جلدی کریں. میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے.

اِشمل کو اُس کا اِس طرح خود کو گھورنا بہت بُرا لگا تھا. ِاِس لیے وہ اِس بار زرا تیز لہجے میں بولا.

ڈاکٹر اِشمل میرا نام ملک حسیب ہے آہان رضا میر کا بہت ہی گہرا دشمن ہوں. اور جیسے کے دشمنوں کے حوالے سے ہر طرح سے با خبر رہنا چاہئے میں بھی آہان رضا میر کے بارے میں ہر بات جانتا ہوں یہ بھی کہ آپ کے ساتھ اُس نے کس طرح زبردستی شادی کی. میں اچھے سے جانتا ہوں. آپ اِس رشتے سے خوش نہیں ہیں. اور اُس سے الگ ہونا چاہتی ہیں لیکن اُس کی طاقت کے آگے بے بس ہوکر ایسا کچھ نہیں کرسکتیں. میں اِسی سلسلے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں. آہان رضا میر سے آپ کو طلاق دلوا سکتا ہوں. کیونکہ ویسے بھی وہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے.

آہان جو اُن دونوں کی طرف بڑھا تھا. لیکن ملک حسیب کی بات کانوں میں پڑتے وہ ایک پل کے لیے وہی رُکا تھا. مقصد صرف اِشمل کا جواب جاننا تھا.

اِشمل کو خاموشی سے اپنی بات سنتے دیکھ حسیب نے کوٹ کی جیب سے طلاق کے پیپرز نکال کر اِشمل کی طرف بڑھائے. جنہیں اِشمل نے اُس کی طرف دیکھتے خاموشی سے پکڑا تھا.

ملک حسیب بہت اچھی پلیننگ کی. بہت ری سرچ کی ہوگی تم نے ہم دونوں پر لیکن افسوس کہ تم مسسز آہان رضا میر کے سامنے بیٹھے ہو. میں اپنے شوہر سے بے انتہا محبت کرتی ہوں اور تمہاری غلط فہمی دور کردوں تاکہ اگلی بار ایسی کوئی گھٹیا حرکت کرنے کا نہ سوچو تم. میں آہان سے الگ ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی. کسی نے تمہیں ہمارے بارے میں یہ غلط انفارمشن دے کر بےوقوف بنایا ہے. شکر مناؤ کے آہان کے متعلق تمہاری اتنی بکواس آرام سے سن لی ہے میں نے ورنہ ابھی گارڈز کو بلوا کر تمہاری عقل ٹھکانے لگوا دوں. پکڑو اِنہیں اور نکلو یہاں سے.

اِشمل اُسکی آخری بات پر غصے میں آتے بولی اُسے اِس شخص کی نظریں ہی بہت بُری لگ رہی تھی. اپنے اور آہان کے ریلیشن کے بارے میں اُس کی بکواس سن کر اِشمل نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہاتھ میں پکڑے پیپرز کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتے اُس کے منہ پر دے مارے تھے. اُس دن مہندی کی رات ملک جسیب کی آمد پر اُسے ہاجرہ بیگم اور باقی عورتوں کی باتیں سن کے اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا. کہ وہ کتنا گھٹیا شخص ہے.

آہان کے ساتھ اُس کا رویہ جیسا بھی تھا. لیکن آہان کے دشمن سے اِس طرح اپنی پرسنل لائف کا سن کر اُسے بہت بُرا لگا تھا.

یہ تم نے اچھا نہیں کیا اِس کا انجام بہت بُرا ہوگا.

ملک حسیب طیش میں آتے اپنی جگہ سے اُٹھا تھا. جب آہان اُس کے اِشمل پر چلانے سے مزید خود کو وہاں نہ روک پاتے غصے سے آگے بڑھا تھا.

انجام تو اب تمہارا اچھا نہیں ہوگا بزدل انسان ہمت ہے تو مرد بن کر سامنے سے لڑوں.

آہان نے ایک زور دار مکہ ملک حسیب کے منہ پر دے مارا تھا. جب اِس اچانک ہونے والے حملے پر نہ سنبھلتے وہ پیچھے جاگرا تھا.

آہان یہ کیا کررہے ہیں آپ چھوڑیں اُسے.

اِشمل آہان کو اتنے غصے میں دیکھ گھبراتے ہوئے آگے بڑھی لیکن آہان نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے وہیں روکا تھا.

آہان کا اِشمل پر دھیان ہونے کی وجہ سے ملک حسیب نے جلدی سے اُٹھتے اُس کے منہ پر ایک پنچ دے مارا تھا. جس پر آہان مزید غصے میں آتے ملک حسیب پر جھپٹا اور بلیک بیلٹ ہونے کی وجہ سے کچھ ہی دیر ملک حسیب کا حشر بگاڑ دیا تھا. آہان کو اتنا غصے میں بپھڑا دیکھ اِشمل کو اُس سے شدید خوف محسوس ہوا تھا. وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پائی.

جب کسی کی اطلاع پر ہاسپٹل کے گارڈ جلدی سے وہاں بھاگتے آئے اور بہت مشکلوں سے آہان کو اُس سے دور کیا تھا. جب آہان ایک طرف سہم کر کھڑی اِشمل کا ہاتھ پکڑے گاڑی میں آبیٹھا اور تیز رفتار سے گاڑی چلاتے گھر پہنچا تھا.

وہ گاڑی سے نکل کر بنا اِشمل سے کوئی بات کیے سیدھا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا تھا.

اِشمل نے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھتے ملازمہ کو جوس لانے کا کہا اور ساتھ ہی آہان کی طرف بھی بھجوانے کو کہا تھا تاکہ اُس کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہو.

بیگم صاحبہ سر بہت غصے میں اُوپر گئے ہیں اور اُن کا سختی سے آڈر ہے کہ جب وہ غصے میں ہوں تو کوئی اُن کے پاس نہ آئے.

ملازمہ کی بات پر اِشمل نے اُسے جوس وہی رکھنے کا کہہ کر جانے کا اشارہ کیا تھا اور گہرا سانس ہوا میں خارج کرتے اُس نے خود کو نارمل کیا تھا. اُس نے بہت لوگوں کو غصے میں دیکھا تھا لیکن اتنا شدید غصہ کرتے کبھی کسی کو نہیں دیکھا تھا اُسے اب سمجھ آئی تھی کہ آہان کے اردگرد رہنے والے لوگ اُس کے غصے سے اتنا خائف کیوں تھے.

آہان جتنے غصے میں تھا اِشمل نے ایک بار تو سوچا تھا کہ وہی بیٹھی رہے لیکن پتا نہیں کیوں دل آج اُس شخص کی کچھ زیادہ ہی سائیڈ لے رہا تھا. کیونکہ اِشمل نے آہان کے ہاتھ پر بھی خون دیکھا تھا. ضرور اِس مار پیٹ میں اُسے بھی چوٹ لگی تھی. جس کا سوچتے اِشمل اُس کے غصے میں ہونے کے باوجود دل کے مجبور کرنے پر اُوپر کی طرف بڑھ گئی تھی.

اِشمل ہولے سے دروازہ کھولتےاندر داخل ہوئی . آہان ہاتھ میں سیگریٹ لیے ریوالونگ چیئر پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا. اِشمل نے اُس کے پاس رکھے ٹیبل پر جوس کا گلاس رکھتے ایک نظر ایش ٹرے میں پڑے سیگریٹس کی طرف دیکھا تھا. آہان اِشمل کی موجودگی نوٹ کرنے کے باوجود بھی ویسے ہی بیٹھا تھا. اِشمل کی نظر آہان کے ہونٹ سے نکلے خون اور ہاتھ پر پڑی تھی جو ملک حسیب کو پیٹنے کی وجہ سے زخمی ہوا تھا.

وہ الماری سے میڈیکل کِٹ نکالتے اُس کی طرف بڑھی اور آہان کا ہاتھ پکڑ کر سیگریٹ چھیننے کے انداز میں لے کر ایش ٹرے میں پھینکی تھی. جس پر آہان نے آنکھیں کھولتے سخت نظروں سے گھورا. لیکن اِشمل اُس کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر اُس کے ہاتھ پر لگے خون کو روئی سے صاف کرنے لگی تھی.

اِشمل میں اِس وقت بہت غصے میں ہوں. تم جاؤ یہاں سے.

آہان نے اُس کی گرفت سے بازو نکالتے ایک اور سگریٹ سلگایا تھا.

ملک حسیب کو اتنا مارنے کے بعد بھی اُسے سکون نہیں مل رہا تھا. کیونکہ جس طرح اُس نے اِشمل پر نظر ڈالی تھی آہان کا دل کر رہا تھا. اُس شخص کو وہیں ختم کر دے.

آہان رضا میر میرے سامنے یہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے. خاموشی سے بیٹھے رہو اور مجھے اپنا کام کرنے دو.

اِشمل اُس کا غصہ کم پڑتے دیکھ اُسے گھورتے بولی.

تم اُس کی بات سننے کیوں گئی تھی.

آہان سرد انداز میں اُس کی طرف دیکھتے بولا. لیکن اِشمل اُس کی بات کا جواب دیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہی.

میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں اِشمل.

آہان نے پاس کھڑی اِشمل کو بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر گرایا تھا. جواب میں اِشمل نے بھی اُس کی حرکت پر غصے سے اُسے گھورا تھا لیکن بولی پھر بھی کچھ نہیں تھی اور ہاتھ بڑھا کر باکس میں سے روئی نکال کر اُس پر ڈیٹول ڈالتے آہان کے ہونٹ کے پاس موجود زخم پر لگا خون صاف کرنے لگی تھی.

اِشمل میں پہلے ہی بہت غصے میں ہوں اور تم اِس طرح خاموش رہ کر مجھے مزید غصہ دلا رہی ہو.

آہان اپنے اُوپر مزے سے بیٹھی جھک کر زخم صاف کرتی اِشمل کو گھور کر بولا.

اچھا مطلب ابھی آہان رضا میر کو مزید غصہ آنا باقی ہے. ویری گڈ. میں وہاں ایک ڈاکٹر ہوں. ہزاروں لوگوں سے اُن کی بیماری کے سلسلے میں ملنا ہوتا ہے بات کرنی ہوتی ہے. مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کون ہے اور کس مقصد سے ملنا چاہتا ہے. اب اُس غریب کی اتنی بُری حالت تو کردی ہے. میرے خیال میں اب تمہارا غصہ کم ہوجانا چاہئے.

اِشمل زخم صاف کر چکی تھی جب اُس کی بات کا جواب دیتے پیچھے ہٹی تھی لیکن آہان نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا. اِشمل کی بات پر آہان کو اُس ملک حسیب کو دیا اِشمل کا جواب یاد آیا تھا. غصہ تو اُس کا اِشمل کے پاس آنے اور اتنے کیئرنگ انداز سے ویسے ہی دور ہوچکا تھا. لیکن اپنے تنے ہوئے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے اُسے اِشمل کا قریب رہنا اچھا لگ رہا تھا.

تم نے اُس کو کیا کہا اُس کی گھٹیا باتوں کے جواب میں.

آہان کی بات پر اِشمل نے اُس کی طرف دیکھا تھا. اِشمل خود بھی ابھی تک نہیں سمجھ پارہی تھی کہ ملک حسیب کے منہ سے آہان کے بارے میں غلط الفاظ سن کر اُسے اتنا غصہ کیوں آیا تھا. جو کچھ اُس نے کہا تھا وہ بھی تو کچھ ٹائم پہلے یہی چاہتی تھی نا. تو پھر اتنا بُرا کیوں لگا تھا. اِشمل کو خود بھی اپنی کیفیت کی سمجھ نہیں آرہی تھی.

جب اُس کا سوال سنا ہے تو میرا جواب بھی تو سنا ہی ہوگا نا. اور زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ صرف اُس کی بکواس بند کرنے کے لیے بولا تھا.

اِشمل نے اُس کی خوش فہمی دور کرتے اُٹھنا چاہا تھا لیکن آہان کے اپنے گرد موجود بازوؤں کی وجہ سے ایسا نہیں کر پائی تھی.

تھوڑی دیر کے لیے سکون چاہئے مجھے پلیز.

اُس کی مزاحمت پر آہان نے اُسے دور ہونے سے روکتے خود میں بھینچا تھا. پہلے کبھی بھی اُس کا غصہ اتنی جلدی ختم نہیں ہوتا تھا. وہ پوری پوری رات سیگریٹ اور شراب کے ساتھ گزار دیتا تھا مگر سکون پھر بھی نہیں ملتا تھا. لیکن آج پہلی دفعہ حیرت انگیز طور پر اتنے شدید غصے کے باوجود وہ اِشمل کے قریب آنے پر اتنی جلدی پرسکون ہوچکا تھا. اِس لڑکی کی تھوڑی سی کیئر اتنی اچھی تھی تو اِس کی محبت کیسی ہوگی.

اِشمل اُس کی بات سنتے چاہنے کے باوجود بھی دوبارہ مزاحمت نہیں کر پائی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


بیگم صاحبہ نیچے کوئی لڑکی آئی ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے.

ملازمہ کمرے کا دروازہ ناک کرکے اُس کے پاس آتے بولی.

اوکے تم اُنہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ میں ابھی آتی ہوں.

ملازمہ سرہلاتی وہاں سے نکل گئی تھی.

مجھ سے کون ملنے آسکتا ہے یہاں.

اِشمل حیرانی سے سوچتی نیچے کی طرف بڑھی تھی.

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتےاُس کی نظر صوفے پر بیٹھی لڑکی پر پڑی تھی. جو کوئی اور نہیں بلکے مشہور سُپر ماڈل صوفیہ تھی. جو بے حد سٹائلش سی سلیولیس شارٹ شرٹ میں ٹائٹ پینٹ اور بنا دوپٹے کے اپنے بے پناہ حُسن کے ساتھ مغرور انداز میں براجمان تھی. اِشمل اُسے وہاں دیکھ حیرت ذدہ سی آگے بڑھتے اُسے سلام دیتے اپنی طرف متوجہ کیا تھا.

اِشمل پر نظر پڑتے بنا اُس کے سلام کا جواب دیتے اُس نے اپنی جگہ پر ہی بیٹھے سر سے پاؤں تک اِشمل کا گہری نظروں سے جائزہ لیا تھا. اِشمل نے اُس کے انداز پر اُلجھن بھری نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

تو تم ہو آہان رضا میر کی بیوی. مجھے تو ایسا کچھ خاص تعریف کے قابل نظر نہیں آرہا تم میں. جو آہان رضا میر جیسے شخص کو اپنا دیوانہ بنا لے.

صوفیہ اُس کے مقابل آتی حسد بھری نظروں سے اُسے دیکھتے بولی.

ایکسیکوزمی مس یہ کیا طریقہ ہے کسی کے گھر میں جاکر بی ہیو کرنے کا.

اِشمل اُس کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرتے تحمل سے بولی.

ہاہاہا یہ تمہارا نہیں آہان کا گھر ہے اور تم سے پہلے میں اِس گھر میں رہ چکی ہوں. آہان کے اتنے قریب کے تم سوچ بھی نہیں سکتی. تم سے بھی پہلے آہان پر میرا حق ہے. میں یہاں تمہیں صرف اتنا سمجھانے آئی ہوں کہ آہان اور میں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں. ہمارے درمیان کسی بات پر لڑائی ہوگی تھی جس کی وجہ سے آہان نے مجھ سے ناراض ہوکر مجھے سزا دینے کے لیے تم سے نکاح کیا ہے. اُس دن آہان کا ایکسیڈنٹ ہماری لڑائی کے بعد ہوا تھا.

لیکن اب میں واپس آچکی ہوں. اور بہت جلد آہان اور میرے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا. اِس لیے تم اپنا بندوبست کر لو.

صوفیہ اُسے آہان سے بدظن کرنے کے لیے اپنی من گھڑت کہانی سناتی وہاں سے نکل گئی تھی. کیونکہ اِشمل کا چہرا دیکھ اُسے اپنا منصوبہ کامیاب ہوتا محسوس ہوا تھا.

ابھی ہی تو اُس نے آہان کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا. دل اُس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کرنے پر آمادہ ہوا تھا. آہان کے بھی تو ہر عمل سے اُس کے لیے محبت ہی جھلکتی تھی. اِشمل اُس کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ایک لڑکی اپنے بارے میں اتنی بڑی بات کیسے کرسکتی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تھا جب اُس کی نظر ہاتھ پر چہرا ٹکا کر بیٹھی اِشمل پر پڑی تھی. جو ناجانے کِن خیالوں میں گم تھی کہ آہان کے اندر آنے پر بھی متوجہ نہ ہوئی تھی. آہان اُس کے انداز پر غور کرتے اُس کے قریب آکر بیٹھا تھا جس پر اِشمل نے چونک کر اجنبی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

کیا ہوا کوئی پرابلم ہے.

آہان کو اُس کے انداز سے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا تھا. لیکن اِشمل اُس کی بات کا جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھی تھی. اور کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی.

اِشمل یہ کیا طریقہ ہوا تم ایسے اُٹھ کر کیوں آگئی وہاں سے. کیا مسئلہ ہے.

آہان اپنے اِس طرح سے اگنور کیے جانے پر کمرے میں آکر اُس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف رُخ موڑتے بولا.

مسئلہ میرے ساتھ نہیں آہان رضا میر تمہارے ساتھ ہے.

اِشمل اُس سے اپنا بازو چھڑواتے چلاکر بولی. آہان کے لیے اِشمل کا یہ انداز سمجھ سے بالاتر تھا.

مجھے بلکل سمجھ نہیں آرہا تم میرے سامنے اتنا اچھا بننے کا ناٹک کیوں کررہے ہو. یہ شراب چھوڑنے اور محبت کا جھوٹا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے. یہ اتنا اچھا بن کر تمہارے وہ تمام گناہ نہیں چھپ جائیں گے جو تم نے نجانے کتنی نامحرم لڑکیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرکے کیے ہیں. آج وہ صوفیہ آئی ہے کل کو باقی بھی آئیں گی. مجھے رہنا ہی نہیں ہے تم جیسے شخص کے ساتھ.

اِشمل آنسوؤں بھری آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھتے چلا کر بولی تھی. آہان نے دُکھ سے اُسے بدگمانی کی انتہا پر دیکھا تھا. اِس لڑکی کو اُس نے خود سے بڑھ کر چاہا تھا. اور وہ اُس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کے بجائے اُسے ڈرامہ کہہ رہی تھی.

خاموش کیوں ہو آہان رضا میر آج تمہاری سچائی سامنے آنے کے بعد الفاظ ختم ہوگئے کیا.

اِشمل کے طنز پر آہان نے سُرخ آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھا تھا. اور اُسے دونوں بازوؤں سے جکڑتے اپنے بے حد قریب کیا تھا.

اِشمل تمہیں پہلے بھی کہا تھا میں نے کہ اپنے بارے میں آج تک میں نے کبھی کسی کے سامنے صفائی نہیں دی. تم مجھ پر جتنے الزام لگاتی مجھے فرق نہ پڑتا لیکن میری محبت کو جھوٹا کہہ کر تم نے اچھا نہیں کیا.

ہاں مانتا ہوں میں بہت بُرا ہوں میں. بہت لڑکیوں سے دوستی رہی ہے میری لیکن کبھی اپنی حد کراس نہیں کی. میں اپنی لمٹس سے اچھے سے واقف تھا. صوفیہ بھی خود میری طرف بڑھی تھی. لیکن میرا خدا گواہ ہے کبھی اُس کو اپنے قریب نہیں آنے دیا. اُس کے مطابق وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھی. اور ہمیشہ کے لیے میرا ہونا چاہتی تھی. لیکن میں جانتا تھا اُسے مجھ سے نہیں میری ظاہری شخصیت اور میری شان و شوکت سے پیار تھا. میں نہ کبھی محبت پر یقین رکھتا تھا اور نا ہی اِس جذبے کے زیرِ اثر ہونا چاہتا تھا. میں نے اُسے صاف لفظوں میں انکار کر دیا تھا. ہزاروں لوگوں سے سہرانے جانے کے بعد اُسے میرا ریجیکٹ کرنا برداشت نہیں ہوپایا تھا.

اور مجھ سے بدلہ لینے کے لیے ہماری ایک پارٹی میں لی گئی پہلے کی تصویر کو غلط رنگ دے کر میڈیا کے سامنے لانا چاہتی تھی. اُس کامقصد مجھے سب کے سامنے بدنام کرنا تھا. لیکن میری خوش قسمتی سے جس چینل میں اُس نے وہ پکچرز دی تھیں وہاں کا ہیڈ میرا بہت اچھا دوست تھا. اُس نے ساری بات مجھے بتا دی تھی. جس پر میں نے صوفیہ کو اُس کی حرکت پر بے عزت کرنے کے ساتھ ساتھ اُس سے مکمل بائیکاٹ کر دیا تھا.

وہ آج تک مجھ سے اپنی غلطی پر معافی مانگتی پھر رہی ہے اور یہ جان کرکے میری شادی ہو چکی ہے. اُس سے برداشت نہیں ہوا جس وجہ سے تمہیں مجھ سے بدظن کرنے یہاں پہنچ گئی. اور شاید اِس کام میں اُسے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی.

آہان اُس کی آنکھوں میں دیکھتا افسوس سے بولا تھا.

اِشمل تم سوچ بھی نہیں سکتی میرے دل میں تمہارے لیں کتنی محبت اور شدتیں ہیں. اور شاید نہ ہی کبھی تم اِس پر یقین کر پاؤ.

تمہاری ہر بات سر آنکھوں پر لیکن میری محبت پر الزام لگا کر اچھا نہیں کیا تم نے. جس کے لیے میں تمہیں بلکل معاف نہیں کروں گا.

آہان اُس کو ایک جھٹکے سے خود سے دور کرتے کمرے سے ہی نہیں گھر سے بھی نکل گیا تھا.

اِشمل خاموشی سے بیڈ پر آبیٹھی تھی. آہان کی بات سن کر اُسے اپنی کہی گئی باتوں پر شدت سے پچھتاوا ہوا تھا. اُس نے آہان کی آنکھوں میں سچائی دیکھی تھی. آہان کا اقرار سنتے اُس کے دل کو ایک انجانی خوشی محسوس ہو رہی تھی.

اِشمل اتنی بکواس کرنے کی کیا ضرورت تھی. آرام سے بھی تو پوچھ سکتی تھی نا تم اُس سے.

اُس کے اِس طرح غصے سے جانے پر اِشمل خود کو دل ہی دل میں کوستی اُس کا انتظار کرنے لگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے.

عارفین سفیہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتا بولا.

آجاؤ بیٹھو بولو کیا بات ہے.

سفیہ بیگم عارفین کی طرف دیکھتے بولیں.

مجھے ثوبیہ سے شادی نہیں کرنی آپ پلیز اِس بات کو یہیں ختم کردیں.

عارفین سفیہ بیگم کی طرف دیکھتا دوٹوک انداز میں بولا. اب مزید برداشت کرنا اُس کے بس میں نہیں رہا تھا. اِس لیے آج اُس نے اُن سے بات کلیئر کرنے کا فیصلہ کیا تھا.

تم جانتے بھی ہو تم کیا کہہ رہے ہو اپنی ماں کو انکار کررہے ہو.

سفیہ بیگم اُس کی بات سنتے غصے سے بولیں.

جی میں اچھے سے جانتا ہوں کہ کیا کہہ رہا ہوں آپ کو میری بات سمجھنی ہوگی.

عارفین دھیمے لہجے میں بولا.

ایسا نہیں ہوسکتا. میں تمہاری پھوپھو کو زبان دے چکی ہوں.

سفیہ بیگم نے بات ختم کرنی چاہی تھی.

تو آپ انکار کردیں کیونکہ میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ آپ اِس طرح مجھ سے پوچھے بغیر نہیں کرسکتیں.

عارفین میں اچھے سے سمجھ رہی ہوں تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو. اُس لڑکی کا خیال اپنے دل سے نکال دو. میں اُس کے ساتھ تمہاری شادی کبھی نہیں ہونے دوں گی.

سفیہ بیگم حنا کی بات کرتے نخوت سے بولیں.

تو آپ بھی میری بات یاد رکھیے گا اگر میری شادی حنا سے نہ ہوئی تو کسی سے بھی نہیں ہوگی. اور نہ ہی آپ مجھے اِس کے لیے مجبور کر پائیں گی.

عارفین سفیہ بیگم کو اپنا فیصلہ سناتا اُن کی مزید کوئی بھی بات سنے بغیر کمرے سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان نے دو دن سے اِشمل سے کوئی بات نہیں کی تھی. اِشمل نے اُس سے اپنے رویے کی معافی مانگنی چاہی تھی لیکن آہان کے سرد انداز ہر کچھ بھی نہ بول پائی تھی.

کچھ دنوں میں سدرہ کی منگنی تھی اور وہ اِشمل کو ہاسپٹل سے آف ہوتے ہی اپنے ساتھ شاپنگ پر لے آئی تھی. اِشمل کا بلکل موڈ نہیں تھا لیکن سدرہ کے اسرار پر خاموشی سے اُس کے ساتھ آگئی تھی. ہما نے بھی کچھ شاپنگ کرنی تھی جس وجہ سے اُسے بھی پِک کر لیا تھا.

یہ کیسا ڈریس ہے اِشمل.

سدرہ کتنے ہی ڈریسز دیکھ چکی تھی لیکن اُس کو ابھی تک کوئی پسند نہیں آرہا تھا. جب اچانک ایک لائٹ پرپل کلر کا شرارا سوٹ پر نظر پڑتے وہ اُس طرف بڑھی تھی.

واؤ آپی بہت خوبصورت ہے آپ پر یہ کلر سوٹ بھی بہت کرے گا.

اِشمل کے ساتھ ساتھ ہما کو بھی وہ سوٹ سدرہ کے لیے اچھا لگا تھا.

تھینک گارڈ تم لوگوں کی شاپنگ کمپلیٹ ہوئی چلو اب چل کر کچھ کھا لیں. مجھے بہت بھوک لگی ہے.

اِشمل اُن کے ساتھ سیکنڈ فلور کی طرف بڑھی.

اوہ نو میرا ڈریس والا شاپر تو نیچے شاپ پر ہی رہ گیا. کیفے میں داخل ہوتے ہما یاد آنے پر منہ پر ہاتھ رکھتے بولی.

تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے ہما.

اِشمل اُکتائے ہوئے لہجے میں بولی.

اچھا کوئی بات نہیں اِشمل تم کچھ آڈر کرو ہم لوگ اتنی دیر میں جلدی سے جاکر لے آتے ہیں.

سدرہ اِشمل سے کہتی ہما کے ساتھ نیچے کی طرف بڑھ گئی تھی.

اِشمل کیفے میں بیٹھی اُن لوگوں کا انتظار کر رہی تھی جنہیں گئے پندرہ منٹ ہوچکے تھے. جب اُسے وہاں ایک عجیب سی سمیل فیل ہوئی تھی. اور تھوڑی ہی دیر بعد لوگوں کے شور کے ساتھ ہر طرف دھواں پھیلتا دیکھائی دیا تھا. اِشمل بھی اپنی چیئر سے اُٹھتی فکرمندی سے آگے بڑھی تھی.

سدرہ آپی یہ کیا ہورہا ہے سب لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں. ہما نے سدرہ کے ساتھ شاپ سے نکلتے حیرانی سے لوگوں کو باہر کی طرف بھاگتے دیکھا تھا.

جب سیکنڈ فلور پر نظر پڑتے ہی دونوں اپنی جگہ ساکت ہوئی تھیں. سیکنڈ فلور پر آگ پھیل چکی تھی. ہر طرف سے دھواں اور آگ کے شعلے نکل رہے تھے جو سیکنڈ فلور کو اپنی لپیٹ میں لینے کے ساتھ ساتھ اب گراؤنڈ فلور کی طرف بڑھ رہے تھے.

اِشمل تو سیکنڈ فلور پر ہی تھی نا.

سدرہ ہولے سے بڑبڑائی تھی. اردگرد سے لوگ اندھا دھند بھاگتے اپنی جان بچاتے باہر کی طرف جارہے تھے. جب سیکیورٹی گارڈ نے اُنہیں بھی باہر کی طرف جانے کا اشارہ کیا تھا.

اُنہوں نے بسی سے سیکنڈ فلور کی طرف دیکھا تھا جہاں آگ پوری طرح پھیل چکی تھی. دل میں اِشمل کے نیچے آجانے کی دعا کرتے وہ لوگ باہر کی طرف بڑھی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

آہان تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے نکلا تھا. اُسے ایک عجیب بے چینی سی فیل ہورہی تھی دو دن سے اِشمل سے کوئی بات نہ کرنے کی وجہ سے اُس کا موڈ بھی بہت آف تھا.

ابھی وہ آدھے راستے پر ہی پہنچا تھا جب سیل پر ہما کی کال دیکھ اُس نے ریسیو کرتے فون کان سے لگایا تھا. لیکن ہما کی بات سنتے اُسے اپنی سانس رُکتے محسوس ہوئی تھی. اُس کی مزید کوئی بات سنے بغیر آہان نے گاڑی شاپنگ مال کی طرف موڑی تھی. گاڑی کو فل سپیڈ میں بھگاتے بیس منٹ کا راستہ پانچ منٹ میں طے کرتے وہ وہاں پہنچا تھا. وہاں لوگوں کا بہت رش موجود تھا. فائر بریگیڈ والے بھی پہنچ چکے تھے. سیکورٹی گارڈ لوگوں کی بھیڑ کو قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے. آہان بھاگنے کے سے انداز میں گاڑی سے اُترتے تیزی سے بھیڑ کو چیرتے آگے کی طرف بڑھا تھا.

سر آپ اندر نہیں جاسکتے اندر بہت خطرہ ہے آگ ہر طرف پھیل چکی ہے.

اُسے اندر کی طرف جاتے دیکھ سیکورٹی گارڈز نے اُسے پکڑ کر روکنا چاہا تھا. آہان ایک پل کے اندر اِشمل تک پہنچ جانا چاہتا تھا. اِشمل کی جان خطرے میں ہونے کا سوچ وہ پاگل ہورہا تھا.

اندر میری بیوی موجود ہے ڈیم ایٹ.

آہان اُنہیں پکڑ کر دور پھینکتے اندر کی طرف بڑھا تھا. اُوپر کی نسبت نیچے والے فلور میں آگ کم پھیلی تھی ابھی. آہان بہت مشکل سے آگ کے بیچ میں سے راستہ بناتا آگے بڑھا تھا. سیکنڈ فلور پر جانے والی لفٹ مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آچکی تھی. آہان جلدی سے دوسری طرف سے ہوتے سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا. لیکن سیکنڈ فلور پر پہنچ کر اُس کے قدم تھم سے گئے تھے. ہر چیز آگ کی لپیٹ میں آچکی تھی. ہر طرف دھواں اور آگ کے شعلے بھڑکنے کی وجہ سے آہان کو راستے کا تعین کرنے میں بھی بہت دشواری کا سامنا ہو رہا تھا. لیکن وہ کسی صورت ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا اِشمل کو لیے بغیر یہاں سے باہر نکلنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

وہ ایریا بہت بڑا ہونے کی وجہ سے آہان اِشمل کو اتنی آسانی اور جلدی ڈھونڈ کافی مشکل تھا. جب کچھ سوچتے اُس نے موبائل نکالتے اِشمل کا نمبر ڈائل کیا تھا.

بیل جارہی تھی لیکن اِشمل نے کال ریسیو نہیں کی تھی. جس پر آہان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہورہا تھا. دوسری کے بعد تیسری کال پر فون اٹینڈ کر لیا گیا تھا. جب سپیکر پر اُبھرتی اِشمل کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر آہان کے بے قرار دل کو جیسے قرار آیا تھا. اُس نے پہنچنے میں دیر نہیں کی تھی اُس کی اِشمل ٹھیک تھی اب وہ اُسے کچھ نہیں ہونے دے گا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


لوگوں کو بھاگتے دیکھ آگ کا سن کر اِشمل بھی گراؤنڈ فلور کی طرف بڑھی تھی جب افرا تفری کے عالم میں کیفے کے چھوٹے سے دروازے سے لوگ مشکل سے راستہ بناتے نکل رہے تھے. اِشمل آگے بڑھی تھی جب پاس سے گزرتے شخص کا دھکا لگنے سے اُس کا سر بُری طرح سامنے والی دیوار سے ٹکرایا تھا. اور وہ اپنے حواسوں پر قابو نہ رکھتے وہی بے ہوش ہوکر گری تھی.

جب اُس کو ہوش آیا تو اُس کے چاروں طرف آگ پھیل چکی تھی. پورا کیفے خالی ہوچکا تھا. آگ آہستہ آہستہ ہر چیز کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی. آگ کو اپنے اردگرد دیکھ اِشمل کواپنی موت بہت قریب نظر آئی تھی. وہ اب کسی قسم کی مدد کی اُمید نہیں کرسکتی تھی کیونکہ اِس بھڑکتی آگ میں کوئی پاگل شخص ہی کود سکتا تھا. اور وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ واقعی اُس کی محبت میں پاگل شخص اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اُس آگ میں کود چکا تھا.

اِشمل خوفزدہ انداز میں ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھی تھی. دھوئیں کی سمیل سے اُس کا سر بُری طرح چکرا رہا تھا. جب اُس کی آنسوؤں بھری آنکھوں کے سامنے پاپا, ماما , ہما اور احد کے ساتھ ساتھ اُس دشمنِ جاں کا چہرا بھی لہرایا تھا. جو اپنے حق جماتے محبت اور دھونس بھرے انداز سے اُس کے دل میں پورے طمطراق کے ساتھ براجمان ہوچکا تھا.

آہان رضا میر..

اِشمل نے محبت سے اُس کا نام پُکارا تھا. جب اچانک کچھ فاصلے پر گِرے موبائل پر نظر پڑتے اِشمل نے آگے ہوکر اُسے اُٹھایا تھا. موبائل پر جگمگاتا نمبر دیکھ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا. ابھی تو اُس نے آہان کو پوری شدت سے پُکارا بھی نہیں تھا.

اِشمل نے جلدی سے کال اٹینڈ کی تھی.

اِشمل ڈرنےکی ضرورت نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا. تم مجھے جلدی سے بتاؤں تم سیکنڈ فلور پر کس سائیڈ پر ہو.

اُس کی گھبرائی آواز سن کر آہان اُسے تسلی دیتے بولا.

نہیں آہان یہاں بہت آگ پھیل چکی ہے تم آگے مت آنا.

اِشمل اُس کی بات سنتے چلائی

اِشمل یہ ضد کرنے کا ٹائم نہیں ہے جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو.

آہان اُس سے ڈبل آواز میں چلایا تھا.

میں کیفے کے اندر موجود ہوں. یہ لفٹ سے آگے دائیں طرف دو تین شاپ چھوڑ کر ہے.

اِشمل کی بات پر آہان کیفے کی لوکیشن کافی حد تک سمجھ چکا تھا. کیونکہ وہ نیچے سے لفٹ دیکھ چکا تھا کہ وہ کس سائیڈ پر ہے. اِشمل اُس سے زیادہ دور نہیں تھی.

اِشمل فون بند مت کرنا اوکے.

آہان اُسے ہدایت دیتا آگے بڑھا تھا.

بہت مشکل سے راستہ بناتے وہ کیفے کے بلکل سامنے پہنچ چکا تھا. جب اُس کی نظر شیشے کے پار موجود اِشمل پر پڑی تھی. اِشمل بھی اُسے دیکھ چکی تھی. کیفے میں داخل ہونے والا راستہ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا. آہان نے اردگرد نظریں دوڑائی تھیں جب اُس کی نظر ایک طرف پڑے قالین پر پڑی تھی. آہان نے قالین اُٹھا کر کھولتے اُس سے خود کو کور کیا تھا. اِشمل اُسے مسلسل سر ہلا کر اندر آنے سے منع کررہی تھی. آہان ایک ہی جست میں آگ میں کودا تھا. اِشمل اُسے اِس طرح آگ میں چھلانگ لگاتے دیکھ زور سے چلاتے بے ہوش ہوکر بیچے گری تھی.

آہان کیفے کے اندر پہنچا تھا قالین میں کور ہونے کی وجہ سے محفوظ رہا تھا لیکن قالین کو ایک کونے سے آگ پکڑ چکی تھی. آہان نے پاؤں مار کر پہلے آگ کو بھجایا تھا اور پھر بےتابی سے نیچے گری اِشمل کی طرف بڑھا تھا. اُس کا چہرا تھپتھپاتے اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی لیکن اِشمل کو ہوش میں نہ آتے دیکھ آہان نے اُسے کندھے پر ڈال کر دونوں کے گرد اچھے سے قالین اوڑھی تھی اور احتیاط سے گزرتے وہاں سے نکل آیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان پریشان نظروں سے بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹی اِشمل کو دیکھ رہا تھا. جس کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا. ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈاکٹر اُس کا چیک اپ کرکے گیا تھا. ڈاکٹر کے مطابق وہ ڈر اور دھویں کی وجہ سے بے ہوش تھی تھوڑی دیر میں ہی ہوش میں آجانا تھا.

آہان اِشمل کے پاس بیڈ پر آبیٹھا تھا. اور ہولے سے اُس کے ہاتھ کو تھام کر لبوں سے لگایا تھا.

آہان...نہیں آہان کو کچھ نہیں ہونا چاہئے.

اِشمل بند آنکھوں سے چلاتی یکدم ڈر کر اُٹھی تھی. جب آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھے آہان کو دیکھا تھا. اور آگے ہوکر اُس کا چہرا دونوں ہاتھوں سے چھوتے اُس کا اپنے سامنے ہونے کا یقین کرنا چاہا تھا. آہان جانتا تھا وہ اِس وقت ڈر کے زیرِ اثر اپنے حواسوں میں نہیں تھی. اِس لیے اُسے سینے سے لگاتے اپنے ہونے کا احساس دلاتے خود میں بھینچا تھا.

آہان نے یہ کچھ گھنٹے جس اذیت میں گزارے تھے وہ مزید اِن کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا. اُسے آج شدت سے احساس ہوا تھا کہ یہ لڑکی اُس کی سانسوں سے بھی زیادہ ضروری تھی اُس کے لیے. اِشمل چاہے اُس سے جتنی بھی نفرت کرے لیکن اب وہ ایک پل بھی اُس کے بغیر جینے کا تصور نہیں کرسکتا تھا.

اِشمل بلکل اُس کے سینے سے چمٹی ہوئی تھی. اُس کے گرد بازو باندھے اُس کے سینے میں چہرا چھپائے وہ اُس سے کسی صورت جدا ہونے کو تیار نہیں تھی. اور آہان بھی کب ایسا چاہتا تھا. وہ بھی اُسے مکمل طور پر اپنے حصار میں لے چکا تھا.

اِشمل پوری رات ایسے ہی اُس کے سینے پر سر رکھ کر سوتی رہی تھی. صبح بہت لیٹ اُس کی آنکھ کھلی تھی. جب پورے حواسوں میں لوٹتے اپنی پوزیشن سمجھتی شرم سے سُرخ ہوئی تھی. وہ بلکل آہان کے اُوپر چڑھ کر سورہی تھی. اُس کا سر آہان کے چوڑے سینے پر دھرا اُس کے دائیں کندھے کی طرف لڑھکا ہوا تھا. اور بائیاں بازو سائیڈ سے آہان کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا. آہان کا بازو بھی اُس کے اُوپر ہونے کی وجہ سے وہ اُس کی قید میں تھی. ہمیشہ کی طرح آہان کو شرٹ لیس دیکھ اِشمل کو مزید حجاب نے آگھیرا تھا. وہ اُس کے اُوپر سے اُٹھنا چاہتی تھی لیکن ایسا کرنے سے آہان کی آنکھ کھلنے کا خطرہ تھا کیونکہ اِشمل جانتی تھی اگر آہان کی آنکھ کھل گئی تو اُس کی خیر نہیں. وہ ابھی اِسی شش و پنج میں مبتلا تھی لیکن مزید اِس پوزیشن میں رہتے اُس نے شرم سے ہی بے ہوش ہوجانا تھا اِس لیے آرام سے اُس کا بازو اپنے اُوپر سے ہٹانا چاہا تھا.

جاناں سونے دو تنگ مت کرو.

آہان نے اُس کی حرکت پر ٹوکتے کروٹ بدلتے اِشمل کو اپنے مزید قریب کرتے اُس کی گردن میں چہرا چھپایا تھا.

اِشمل نے اُس کے اِس عمل پر شرم سے دوھرے ہوتے اُس کی حصار سے نکلنا چاہا تھا. لیکن آہان ابھی چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا. اِشمل نے ایک نظر اپنے گرد لپٹے اُس کے کسرتی بازوؤں کو دیکھا تھا. اُسے آج آہان کی بانہوں میں رہنا بُرا نہیں لگ رہا تھا بلکہ ایک سکون سا محسوس ہورہا تھا. اُس نے آہان کو سمجھنے میں غلطی کر دی تھی. وہ واقعی ایک خوبصورت دل کا مالک اور اُس سے بے انتہا محبت کرتا تھا. جس طرح وہ کل اُس کی خاطر آگ میں کودا تھا وہ یاد آتے ہی اِشمل کو اُس کے ساتھ اپنے پچھلے رویہ پر جی بھر کر پچھتاوا ہو رہا تھا. اور ساتھ اپنے دل میں اُس کے لیے پروان چڑھتے جذبوں کا بھی شدت سے احساس ہوا تھا. کیونکہ وہ خود بھی تو اُسے خطرے میں دیکھ کر برداشت نہیں کر پائی تھی.

اِشمل کو اِسی پوزیشن میں لیٹے آدھا گھنٹا گزر چکا تھا. جب اِشمل نے ایک بار پھر اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی تھی. آہان کی گرم سانسوں سے اُسے اپنی گردن جلتی محسوس ہوئی تھی.

جاناں مطلب تم پورا ارادہ کر چکی ہو مجھے سونے نہیں دینا.

آہان کی اُس کی ہلکے ہلکے جھٹکوں سے آنکھ کھل چکی تھی. اُس کے رُخسار کا بوسہ لیتے وہ خمار بھرے لہجے میں بولا.

تم سو جاؤ لیکن مجھے تو جانے دو بارہ بج چکے ہیں.

اِشمل اُس کے تیور سے گھبرا کر بولی.

تمہارے بغیر نیند کہاں آنی ہے.

آہان اُس کے چہرے پر بکھری بالوں کی لِٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے بولا. اور اُس کے سُرخ چہرے پر جھکنے ہی والا تھا جب دروازے پر ہونے والی دستک پر دونوں اُس طرف متوجہ ہوئے تھے.

سر نیچے عارفین صاحب آئے ہیں.

آہان کے پوچھنے پر ملازمہ باہر سے ہی جواب دیتی پلٹ گئی تھی.

یار اِس کو بھی ابھی ہی آنا تھا.

آہان بدمزہ سا ہوتے بولا. کیونکہ اِشمل اُس کی بانہوں سے نکلنے میں کامیاب ہوتی واش روم کی طرف بڑھ گئی تھی.

ڈئیر وائف زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے. اِس فرار کا بدلہ میں رات کو سود سمیت لوں گا.

آہان کی پیار بھری دھمکی سنتے اِشمل کی دھڑکنے منتشر ہوئی تھیں. اِس شخص کی تھوڑی سی قربت برداشت نہیں ہوتی تھی. اور اُس کی شدتوں کا سوچ اِشمل کے ابھی سے ہی پسینے چھوٹ چکے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

آہان فریش ہوکر نیچے جاچکا تھا جب اِشمل بھی ملازمہ کو ناشتے کی ہدایت دیتی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی. عارفین اُسے اندر آتے دیکھ سلام دیتے احتراماً اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا. اِشمل خوشدلی سے اُس کے سلام کا جواب دیتے آہان سے کچھ فاصلے پر صوفے پر آبیٹھی تھی.

عارفین آہان کے غصے سے اچھی طرح واقف تھا اِس لیے وہ اِشمل کے سامنے ہی اُس سے بات کرنے آیا تھا تاکہ کیا پتا وہ کچھ کنٹرول میں رہے. لیکن اُسے کہیں نہ کہیں اُمید بھی تھی کہ آہان اُس کے جذبات سمجھے گا. اِسی بنا پر وہ آج یہاں موجود تھا.

"آہان میں یہاں تم سے ایک بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں. جو تمہاری مدد کے بغیر شاید ممکن نہ ہوسکے. پہلے آرام سے میری بات سننا اور اُس کے بعد کوئی بھی فیصلہ کرنا."

عارفین کے اتنے سنجیدہ انداز پر آہان مکمل طرح سے اُس کی طرف متوجہ ہوا تھا. جس طرح عارفین یہاں خاص طور پر اُس سے بات کرنے آیا تھا آہان کو معاملہ کافی سیریس لگا تھا. آہان کے اشارے پر عارفین دھیمے لہجے میں اُسے اپنی حنا کے لیے پسندیدگی سے لے کر ہاجرہ اور سفیہ بیگم کے اِس رشتے سے انکار اور حنا کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ سب بتاتا چلا گیا تھا.

اُس کی بات سنتے آہان کو اپنے گھروالوں پر بے انتہا غصہ آیا تھا جہاں اتنا کچھ چل رہا تھا اور اُسے کچھ بھی بتانے کے بجائے اُلٹا اُس سے چھپایا جا رہا تھا.

"عارفین تمہیں یہ بات مجھے بہت پہلے ہی بتا دینی چاہئے تھی تو اتنی پریشانی فیس کرنی ہی نہ پڑتی لیکن تم فکر مت کرو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اگر حنا کی بھی اِس رشتے میں رضا.مندی شامل ہوئی تو میں تم لوگوں کا ساتھ ضرور دوں گا."

آہان کی بات سن عارفین بے حد خوش ہوا تھا وہ اتنا تو جانتا تھا کہ آہان اب کسی بھی صورت یہ ممکن کرکے ہی رہے گا. اُس نے یہاں آنے کا فیصلہ کرکے غلط نہیں کیا تھا.

اِشمل کو عارفین حنا جیسی معصوم اور بےضرر سی لڑکی کے لیے بہت اچھا لگا تھا. اور آہان کا اِس بات پر مثبت ری ایکشن دیکھ اِشمل کے دل میں اُس کا مقام مزید بڑھ گیا تھا. جس نے اِس طرح عارفین سے یہ بات سن کر اُسے انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اپنی بہن کی خوشی کو ترجیح دینے کا سوچا تھا.

عارفین اب نکلنا چاہتا تھا لیکن اُن دونوں کے بھرپور اسرار پر ناشتے کے لیے رُک گیا تھا.

اُس کے جانے کے بعد آہان نے حفصہ کو کال ملائی تھی. اور اُس نے حفصہ سے جو بات پوچھی تھی اُسے سنتے حفصہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی.

"حفصہ میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے."

آہان اُس کی خاموشی ہر زرا تیز لہجے میں بولا.

"بھائی وہ ای.."

حفصہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے.

"مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بلکل بھی مت کرنا."

اُس کے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر آہان اُس کی بات کاٹتے ہوئے بولا.

"جی بھائی یہ سب سچ ہے. میں نہیں جانتی آپ کو کیسے پتا چلا لیکن پلیز بھائی اِس سب میں حنا کی کوئی غلطی نہیں ہے."

آہان کے غصے کی وجہ سے حفصہ ڈرتے ڈرتے بولی. جب آہان نے بنا کچھ کہے فون کاٹ دیا تھا. اُسے کم از کم حفصہ سے تو اِس بات کی اُمید نہیں تھی کہ وہ بھی اُس سے اتنی بڑی بات چھپائے گی. اُس کا اچھا بھلا خوشگوار موڈ بُری طرح غارت ہوچکا تھا. آج اُس کی تھوڑی دیر تک بہت امپورٹنٹ میٹنگ تھی اِس لیے ابھی آفس کے لیے نکلنا تھا. وہ چینج کرنے کی غرض سے بیڈروم کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ملازمہ ہاتھ میں باکس لیے اندر داخل ہوئی تھی. اور اِشمل کے اشارے پر بیڈ پہ رکھتی باہر نکل گئی تھی. ابھی تھوڑی دیر پہلے اُسے آہان کا میسج ملا تھا. آج رات اُنہیں کسی پارٹی میں جانا تھا اور آہان نے اُس پارٹی میں پہننے کے لیے اُس کو ڈریس بھیجوایا تھا.

اِشمل صوفے سے اُٹھتی بیڈ پر رکھے باکس کی طرف بڑھی تھی. پیکنگ کھولتے اندر موجود بلیک کلر کی ساڑھی دیکھ کر اُس کا دماغ گھوم گیا تھا. اُس نے کبھی ساڑھی نہیں باندھی تھی. اور نہ ہی اُسے باندھنی آتی تھی. اُس نے موبائل اُٹھاتے آہان سے بات کرنی چاہی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر کہ آہان نے پہلی دفعہ اُس سے اپنی پسند کا ڈریس پہنے کی فرمائش کی تھی. اُسے انکار کرنا بھی مناسب نہیں لگا تھا.

آہان کو کافی دنوں سے سب دوست اور خاص کر تانیہ اُس کی شادی کی خوشی میں پارٹی کا کہہ رہے تھے لیکن وہ اِشمل کے رویے کی وجہ سے مسلسل انکاری تھا. لیکن آج اُن کی ضد پر ہار مانتے اُس نے ہامی بھرلی تھی. اور کچھ دنوں سے اُسے اِشمل کے رویے میں بھی کافی بہتری محسوس ہورہی تھی. جو آہان کے لیے بہت خوشی کا باعث تھی. آٹھ بجے کے قریب میٹنگ ختم ہوتے ہی وہ آفس سے نکل آیا تھا.

گھر پہنچ کر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا سامنے کا منظر دیکھ اُس کے ہوش اُڑ چکے تھے.

اِشمل بلیک کلر کی ساڑھی میں ملبوس آہان کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرچکی تھی. بلیک کلر میں اُس کی دودھیا رنگت مزید دھمک رہی تھی. لمبے گھنے بال کمر پر بکھرے ہوئے تھے. ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھے وہ جھک کر اپنے نازک سے پاؤں کو سینڈل میں مقید کرنے کی کوشش کررہی تھی. جب جھکے ہونے کی وجہ سے بال بار بار پھسل کر چہرے پر آجانے کی وجہ سے اُسے ڈسٹرب کررہے تھے. آہان بے خود سا آگے بڑھا اور اُس کے پاس پہنچتے نیچے جھک کر اُس کے ہاتھ سے سٹریپس لیتے اُنہیں باندھنے لگا تھا. اِشمل اُس کو اِس طرح اچانک دیکھ جلدی سے سیدھی ہوئی تھی اور اپنا پاؤں پیچھے کھینچنا چاہا تھا لیکن آہان نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا تھا. اُس کے ہاتھ پیچھے کرتے ہی اِشمل فوراً وہاں سے اُٹھی تھی. جب آہان نے کھڑے ہوتے اُس کا بازو اپنی قید میں لیا تھا. اِشمل کی کمر میں بازو لپیٹتے آہان نے اُسے اپنے بے حد قریب کیا تھا. اِشمل ساڑھی میں ویسے ہی کمفرٹیبل فیل نہیں کررہی تھی اوپر سے آہان کی حرکت پر مزید خود میں سمٹی تھی.

اِشمل کے گلابی پھولے پھولے گال اور شہد آگیں ہونٹ ہمیشہ سے آہان کی کمزوری رہے تھے اُسے اپنی طرف کھینچتے تھے. اور آج تو وہ مکمل ہتھیاروں سے لیس تھی. وہ کیسے نہ بہکتا. وہ بھول چکا تھا کہ اُنہوں نے کسی پارٹی میں جانا ہے یاد تھا تو بس اتنا کہ اُس کی زندگی اُس کی محبت اُس کی بانہوں میں تھی. آہان نے جھک کر اِشمل کے رُخسار پر اپنا شدت بھرا لمس بخشا تھا. اُس کے ہونٹوں کے ساتھ مونچھوں کی چُھبن پر اِشمل اُس کے حصار میں کسمسائی تھی. جب دوسرے گال پر بھی ویسا ہی لمس محسوس ہوتے دل کی دھڑکنیں بُری طرح سے منتشر ہوئی تھیں.

آہان....ہم ہمیں پارٹی میں جانا ہے.

اِشمل اُس کو مزید بہکتے دیکھ لڑکھڑآتے بولی.

کونسی پارٹی جاناں.

آہان کی نظریں اب ریڈ لیپسٹک سے سجے اُس کے نرم ہونٹوں پر تھیں.

آہان نہیں پلیز میری لیپسٹک.

اِس سے پہلے کے وہ اُن پر جھکتا اِشمل نے جلدی سے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر ایسا کرنے سے باز رکھا تھا.

جاناں اِن کی خوبصورتی کو ویسے بھی اِس مصنوعی آرائش کی ضرورت نہیں.

آہان اُس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹاتے معنی خیزی سے بولتے اُس کے ہونٹوں پر اپنے دھکتے لب رکھ چکا تھا. اُس کی شدتوں پر بےحال ہوتے اِشمل نے گر جانے کے ڈر سے جلدی سے اُس کے کالر کو مٹھی میں جکڑا تھا. اُس کی ٹانگیں بُری طرح کانپ رہی تھیں لیکن آہان ابھی اُسے آزاد کرنے کو تیار نہیں تھا. اور اُسے مزید قریب کرتے سہارا دیا تھا. کافی دیر بعد خود کو سیراب کرتے آہان پیچھے ہٹا تھا. اِشمل نے اُس کے سینے پر سر رکھے بہت مشکل سے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی.

جاناں یہ تو صرف آغاز ہے. ابھی سے اتنا گھبرا رہی ہو ابھی تو جو تم نے اتنے دن مجھے تڑپایا ہے. اُن دنوں کی بےتابیوں کا حساب بھی دینا ہے.

آہان کی گھمبیر سرگوشیوں پر اِشمل کانپ کررہ گئی تھی. جب کافی دیر بعد اپنی سانسوں کو اعتدال پر لاتے آہان کے سینے سے سر اُتارتے اِشمل نے اُسے اپنی ساری تیاری برباد کرنے پر گھورا تھا. لیکن زیادہ دیر اُس کی جذبے لوٹاتی آنکھوں میں نہ دیکھ پائی تھی.

آہان اُس کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل کافی نروس تھی کیونکہ پہلے کبھی بھی اِس طرح کی پارٹیز میں شرکت نہیں کی تھی لیکن آہان جس طرح اُسے ڈیل کررہا تھا وہ کافی حد تک نارمل ہوچکی تھی.

پارٹی میں آہان کے بزنس پاٹنرز کے علاوہ اُس کے بہت سارے فرینڈز بھی موجود تھے. جن میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل تھے. سب نے اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور اُن کے کپل کو بے حد سراہا تھا.

آہان کی بیسٹ فرینڈ تانیہ بھی اِشمل کو بہت محبت سے ملی تھی. جس پر اِشمل کافی حیران بھی تھی کیونکہ اُس کے خیال میں تو یہ آہان کی گرل فرینڈ تھی.

" آہان اور میری دوستی بہت پُرانی ہے. میں بہت اچھے سے سمجھتی ہوں آہان کو. بظاہر وہ جتنا پراؤڈی, ضدی اور غصے والا ہے. اندر سے وہ اُس سے کہیں زیادہ پیارا انسان ہے. شاید آپ کو میری بات بُری لگے لیکن آہان کے ساتھ رہتے میں چاہنے کے باوجود بھی اُس جیسے شاندار انسان سے محبت کرنے سے نہ روک پائی خود کو لیکن آہان کا رویہ ہمیشہ میرے ساتھ ایک اچھے دوست جیسا ہی رہا. اور جیسے ہی اُسے میرے جذبات کا پتا چلا اُس نے بہت ہی نرمی اور بغیر میری دِل آزاری کے سمجھایا کہ وہ مجھے اپنی ایک اچھی دوست سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا. وقتی طور پر تو میں بہت ہرٹ ہوئی لیکن پھر بہت جلد خود کو سنبھال لیا کیونکہ میں اپنے اتنے اچھے دوست کو کھونا نہیں چاہتی تھی. جس نے میرے ہر اچھے بُرے وقت میں میرا ساتھ دیا.

اُس دن ہاسپٹل میں آہان نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا. آج تک کبھی کسی کے ذکر پر بھی آہان کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں دیکھی میں نے. جو آپ کے ذکر پر اُس کی آنکھوں میں در آئی تھی. میں سمجھ چکی تھی کہ آہان کے دل تک کسی کی رسائی ہوچکی ہے. آہان آپ سے بے انتہا محبت کرتا ہے. ہمیشہ اُس کی قدر کیجئے گا کیونکہ ایسے لوگ کچھ ہی قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں.

اور ہاں ایک آخری بات اُس دن آپ نے مجھے اور آہان کو جس طرح دیکھا. وہ ویسا نہیں تھا جیسا آپ نے سمجھا تھا. "

اُس دن اِشمل کی آنکھوں میں موجود ناگواری دیکھ اور آج بھی اِشمل کو خود سے کھنچا کھنچا محسوس کرتے.تانیہ نے آہان کی ایک مخلص دوست ہونے کا ثبوت دیتے اِشمل کو سب کلیئر کردیا تھا. جب تانیہ کی بات سنتے اِشمل کے دل میں آہان کے لیے موجود آخری پھانس بھی نکل چکی تھی.

"تم کس ٹائم سے میری بیوی کو کونسی پٹیا پڑھا رہی ہو."

آہان اُن دونوں کے قریب آتا تانیہ کو گھورتے بولا.

"زیادہ نہیں بس تمہاری گذشتہ تیس چالیس گرل فرینڈ کا ہی بتارہی تھی اِشمل کو."

تانیہ بھی اُسے چھیڑتے مسکراتے ہوئے بولی. اِشمل بھی اُس کی بات پر ہولے سے مسکرائی تھی.

"خدا کو مانو یار پہلے ہی اتنی مشکل سے صلہ ہوئی ہے. تم پھر سے لڑائی کروانا چاہتی ہو."

آہان اِشمل کو محبت پاش نظروں سے دیکھتا ہوا بولا.

"ہاہاہا تو اور کیا پہلی بار آہان رضا میر کی کوئی کمزوری ہاتھ آئی ہے."

تانیہ کے جواب پر آہان مسکرا کر رہ گیا تھا.

اِشمل کو وہاں سب سے مل کر بہت اچھا لگا تھا. اور سب سے زیادہ اچھا آہان کی اپنے لیے حد سے زیادہ عزت اور پیار بھرا کیئرنگ انداز دیکھ کر لگا تھا. بہت اچھا وقت گزار کر وہ رات گئے واپس لوٹے تھے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان واش روم سے فریش ہوکر نکلا تو اِشمل ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی جیولری اُتار رہی تھی. آہان کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کانوں کی طرف بڑھتے اِشمل کے ہاتھ کانپے تھے. اُس کی گھبراہٹ محسوس کرتے آہان کے لب ہولے سے مسکرائے تھے.

اِشمل کو بازو سے تھامتے آہان نے اُسے اپنے مقابل کھڑا کیا تھا. اور اُس کے کانوں کو جھمکوں کے بوجھ سے آزاد کرتے لبوں سے چھوا تھا.

"اِشمل تم میری زندگی ہو میری روح کا حصہ ہو. تمہیں پہلی نظر دیکھ کر ہی میں اپنا دل ہار چکا تھا. میں جانتا ہوں میری ضد اور جنون نے تمہیں بہت ہرٹ کیا لیکن میں نے تمہیں اپنانے کے لیے جو قدم اُٹھایا مجھے اُس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے. کیونکہ تمہیں اپنی زندگی میں لانے کے لیے اگر اِس سے بھی زیادہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑتا تو میں ضرور اُٹھاتا. تم نے مجھے اپنے ساتھ ایسا باندھ دیا ہے کہ میں کسی اور طرف دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہا. تمہارے پاس ہونے سے مجھے جو سکون ملتا ہے. وہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں حاصل کر پایا."

آہان نے کندھے سے اُس کے بال ہٹاتے لب رکھ چکا تھا. اُس کے اِس بے باک عمل پر اِشمل نے زور سے آنکھیں میچی تھیں.

" میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں. بے حد, بے پناہ, بے شمار جسے شاید میں الفاظ میں کبھی بیان نہ کر پاؤں لیکن آگے کی زندگی میں تمہیں خود ہی اپنے لیے میرے جنون دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ تم میرے لیے کیا ہو.

تم میرے دل کا سکون ہو. اور یہ سکون میں اب کبھی نہیں کھونا چاہتا. تمہارے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں. تم وعدہ کرو مجھ سے کبھی بھی زندگی کے کسی موڑ پر مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی اور ہمیشہ مجھ پر بھروسہ کرو گی میرا یقین کرو گی."

آہان کے اتنے خوبصورت اظہار پر اِشمل نے خوشی سے نم ہوتی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھتے اثبات میں سر ہلایا تھا. اور سر اُس کے کشادہ سینے پر دھر دیا تھا. آہان اُس کی اِس خودسپردگی کے انداز پر محبت سے اُسے بانہوں میں بھرتے بیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا.

اِشمل آہان کے ہر لفظ پر ایمان لے آئی تھی. اُس شخص نے اِشمل پر اپنا جائز حق رکھنے کے باوجود کبھی بھی اُسے زبردستی تعلق بنانے کی کوشش نہیں کی تھی. جس سے اُس کی نفس کی مظبوطی ظاہر ہوتی تھی. ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اِشمل کے دل میں آہان کے لیے محبت اور عزت میں مزید اضافہ ہورہا تھا.

اِشمل کو نرمی سے بیڈ پر لیٹاتے وہ اُس پر جھکتے اُس کے چہرے اور گردن پر اپنی محبت کے پھول کھلاتا چلا گیا تھا.

اِشمل نے اُس کی حُدتیں اور شدتیں سہتے بےحال ہوتے اُسے بازو سے تھاما تھا.

آہان...

نہایت دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے کچھ کہنا چاہا تھا.

جب آہان لائٹ آف کرتے اُس کے ہاتھوں کو پکڑ کر تکیے سے لگاتے ساڑھی کا پلو گرا چکا تھا. اُس کی گھنی زلفوں میں چہرا چھپائے آہان اپنی بےتابیوں کی داستان بیان کرتا چلا گیا تھا.

اُس رات آہان نے اُسے اپنی محبت اور والہانہ چاہت میں اِس قدر بھگویا تھا کہ اِشمل کو خود پر فخر ہونے لگا تھا.

خود کو مکمل طور پر اُس کے حوالے کرتے اِشمل اُس کے سینے میں چہرا چھپائے آنکھیں میچ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

صبح آنکھ کھولتے ہی آہان نے آسودگی سے بانہوں میں سوئی اپنی زندگی کو دیکھا تھا. سوئے ہونے کے باوجود بھی اِشمل کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مُسکان تھی. آہان نے محبت سے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا. آہان کے لمس اور پرتپش نظروں کا احساس تھا جو اِشمل نے کسمساتے آنکھیں کھول دی تھیں.

صبح بخیر زندگی...

آہان اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھتے بولا تھا جب اِشمل اُس کی بات کا جواب دیتے اُس کی پرشوق نظروں سے گھبراتے چہرا جھکا لیا تھا.

آہان اُس کی ادا پر ایک بار پھر بہکتے اُس پر جھکا تھا.

آہان پلیز....

اِشمل اپنے چہرے پر اُس کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے سُرخ ہوتے بولی.

"جاناں تمہارے لیے اپنے جذبات پر بندھ باندھنا بہت مشکل ہوگیا ہے. تم نے مجھ جیسے شخص کو اپنے سحر میں جکڑ کر بے بس کرکے رکھ دیا ہے. اب میرے لیے خود پر کنٹرول رکھنا بہت مشکل ہے."

آہان کی نظریں اِشمل کے ایک ایک نقش کو چھوتیں اُسے بہکنے پر مجبور کر رہی تھیں.

آہان نے اُس کے گردن سے بال سمیٹتے اُس کی شفاف گردن کو چھوا تھا.

اِشمل ابھی اُس کی رات والی شدتوں پر ہی نہ سنبھلی تھی جب اُس کو ایک بار پھر رات والے موڈ میں آتے دیکھ جلدی سے اُس کے حصار سے نکلتے بیڈ سے اُٹھی تھی. جب آہان اُس کی پُھرتی دیکھ قہقہ لگا کر رہ گیا تھا.

"میری ظالم ڈاکٹر."

اُس کی طرف دیکھتے آہان ہولے سے بڑبڑایا تھا.

"ویسے ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا میں."

آہان کے اتنے سنجیدہ انداز پر اِشمل نے رُک کر سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

"کونسی بات."

نظریں آہان کے مسکراتے چہرے پر تھیں.

"جاناں تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ میٹھی ہو."

آہان اُس کی طرف دیکھتے بےباکی سے بولا. جب اِشمل اُس کی بات کا مفہوم سمجھتی شرم سے لال ہوتی واش روم میں گھس چکی تھی. اپنے پیچھے اُسے آہان کا زوردار قہقہ سنائی دیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بیٹا کیا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی. جو تم دونوں اتنے ناراض ہوگئے. دو مہینے ہوگئے میں تم لوگوں کی شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں."

ہاجرہ بیگم اِشمل کا ہاتھ پکڑتے بولیں.

دو مہینے ہوگئے تھے اُن لوگوں کو گاؤں سے آئے اور یہاں آکر وہ آپس کے مسئلوں میں ایسے اُلجھے تھے کہ دوبارہ گاؤں جا ہی نہ پائے تھے. جس کو ہاجرہ بیگم اُن کی ناراضگی سمجھتے اُن کو منانے شہر آگئی تھیں. وہ بےشک ہر معاملے میں جتنی بھی سخت خاتون تھیں. لیکن آہان کے معاملے میں اُن کا دل عام ماؤں کی طرح موم جیسا نرم تھا. اُس کی خاطر وہ کچھ بھی کرسکتی تھیں. اِسی وجہ سے آج تک اُس کا ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کرنے میں ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا تھا. اُس دن آہان کی آنکھوں میں اِشمل کے لیے محبت کے جذبات دیکھ کر وہ اِشمل کو دل سے قبول کرچکی تھیں. ویسے بھی اِشمل اُنہیں آج کل کی لڑکیوں کی نسبت کافی سادہ مزاج کی لگی تھی. اُنہیں بعد میں احساس ہوگیا تھا کہ حنا اور حفصہ کا غصہ اِشمل پر نکال کر اُنہوں نے ٹھیک نہیں کیا تھا.

"نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں ماں سے بھلا کیسی ناراضگی. وہ کچھ مصروفیات ایسی ہوگئی تھیں. کہ گاؤں کا چکر نہیں لگاپائے لیکن اب انشاءﷲ ضرور آئیں گے."

اِشمل اُن کے محبت بھرے لہجے پر شرمندگی سے بولی تھی. جبکہ آہان خاموشی سے بیٹھا اُن دونوں کی باتیں ملاحظہ کر رہا تھا.

"تو ٹھیک ہے پھر آج ہی چلو تم لوگ میرے ساتھ گاؤں."

اِشمل کی بات سنتے ہاجرہ بیگم فوراً بولیں.

"نہیں آج نہیں آسکتے کل صبح میری ایک بہت امپورٹنٹ ڈیلنگ ہے. پرسوں آجائیں گے وہاں."

آہان نے سپاٹ سے لہجے میں اُنہیں جواب دیا تھا. کیونکہ وہ حویلی کے سب لوگوں سے ہی خفا تھا. عارفین کی بات کے بعد گاؤں جانے کا ارادہ تو وہ ویسے بھی کرچکا تھا.

"تمہاری میٹنگ ہے بیٹا. لیکن اِشمل تو میر ساتھ چل سکتی ہے نا. "

ہاجرہ بیگم کسی بھی طرح آہان کو آنے کے لیے راضی کرنا چاہتی تھیں. اُن کی بات پر اِشمل نے آہان کی طرف دیکھا تھا جو اُس کے جانے کے حق میں نہیں تھا. اب ہی تو اُن کے درمیان سب ٹھیک ہوا تھا وہ اِشمل کو ایک دن تو کیا ایک منٹ کے لیے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتا تھا.

"بولو بیٹا آؤ گی نا میرے ساتھ."

اِشمل بےچاری دونوں ماں بیٹے کے درمیان بُری پھنسی تھی. لیکن ہاجرہ بیگم کہ اتنے مان بھرے انداز پر اُسے اُن کو انکار کرنا اچھا نہیں لگا تھا.

"جی آنٹی میں چلوں گی آپ کے ساتھ."

اُس کی بات سن کر ہاجرہ بیگم بہت خوش ہوئی تھیں. آہان انکار کرنے ہی والا تھا جب اِشمل کے اشارے پر ناراضگی بھری نظروں سے اُسے دیکھتا وہاں سے اُٹھ گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"آہان ہاجرہ آنٹی کتنی محبت سے ہمیں لینے آئی ہیں اب اِس طرح انکار کرنا اچھا تو نہیں لگتا نا. اور ایک دن کی تو بات ہے تم نے بھی تو کل آجانا ہےنا."

اِشمل کمرے میں داخل ہوکر آہان کا خراب موڈ دیکھ کر بولی.

"تو میں نے منع کیا تمہیں جاؤ تم."

آہان سنجیدہ انداز میں کہتے ٹائی لگانے لگا.

"لیکن مجھے تو کچھ لوگ ناراض لگ رہے ہیں."

اِشمل اُس کی ٹائی ہاتھ میں لیتی بولی.

"تمہیں کونسا پرواہ ہے لوگوں کی ناراضگی کی."

آہان کو اِشمل کا یہ انداز اچھا لگ رہا تھا اِس لیے جان بوجھ کر اُسے مزید تنگ کرتے بولا.

"آہان رضا میر مجھے پرواہ نہیں ہوگی تو اور کسے ہوگی."

اِشمل نے ٹائی کی ناٹ لگاتے اُسے گھورا تھا.

"اوکے تو پھر مناؤ مجھے."

اِشمل کے پلٹنے پر آہان اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر قریب کرتے بولا.

"کل مناؤ گی نا ابھی جانے دیں. آنٹی میرا ویٹ کررہی ہیں."

اِشمل نے اُس کے تیور دیکھ حصار سے نکلنے کی کوشش کی تھی.

"چلی جانا. لیکن پہلے اُن کے بیٹے کو تو راضی کر لو."

آہان اُس کے بالوں سے کیچڑ نکالتے اُس کی گھنی زلفوں میں چہرا چھپا چکا تھا.

"آہان اب تم کچھ زیادہ فری ہورہے ہو."

اِشمل ہمیشہ ایسے ہی آہان کی شدتوں سے حواس باختہ ہوجاتی تھی.

"جاناں تم سے فری ہونے کا مکمل حق رکھتا ہوں میں."

آہان اُسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا.

"ویسے ایک بات کی مجھے بلکل سمجھ نہیں آتی تمہاری."

آہان کی بات پر اپنے بال سمیٹتی اِشمل نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا.

"یہ سب کے سامنے مجھے اتنی عزت آپ کہہ کر پُکارنا اور روم میں ایسا انداز."

آہان کی بات پر اِشمل کھلکھلائی تھی.

"وہ ماما کا سختی سے آڈر تھا کہ شوہر کو عزت دے کر آپ کہہ کر بلانا چاہئے. اِس لیے سب کے سامنے عزت سے بلاتی ہوں. اور اکیلے میں تو پھر.."

اِشمل اُس کی طرف دیکھتے شرارتی انداز میں بات ادھوری چھوڑتی دروازے کی طرف بڑھی.

"اِشمل بات پوری کرکے جاؤ ورنہ میں گاؤں جانے نہیں دوں گا تمہیں."

اِشمل کو باہر جاتے دیکھ آہان مصنوعی دھمکی دیتے بولا لیکن آگے پراوہ کسے تھی اِشمل اُس کو اپنی طرف آتا دیکھ روم سے باہر بھاگی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"ہاہاہاہا اِس دفعہ جو پلیننگ ہم نے کی ہے آہان رضا میر کچھ نہیں کرسکے گا. ایک بار پھر مجھے بے عزت کرکے اُس نے ٹھیک نہیں کیا. اور اُس کی وہ بیوی بہت اُچھل رہی تھی نا اپنے شوہر کے بل بوتے پر ایسا سبق سیکھاؤ گا کہ یاد رکھے گی ساری زندگی."

ملک حسیب نفرت سے لبریز لہجے میں بولا.

"ایک نہیں دو دو جھٹکے لگنے والے ہیں آہان رضا میر کو بہت غیرت مند بنتا پھرتا ہے نا. اب دیکھنا تم کیسے اُس کی بہن میری بات مان کر اُس کی عزت کو دو کوڑی کا کرے گی."

ملک ذیشان کے انداز میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی جو صرف آہان رضا میر کو ختم کرکے ہی بجھنی تھی.

"بھائی جو بھی ہوجائے مجھے اُس کی بیوی ہر قیمت پر چاہئے میں اُس لڑکی کا غرور مٹی میں ملانا چاہتا ہوں. بہت دعوے سے ذکر کر رہی تھی نا اپنی محبت کا اُس محبت کو اپنی بدلے کی آگ میں جلتے دیکھناچاہتا ہوں. "

ملک حسیب کا اُس دن ہاسپٹل والے واقعے کے بعد سے غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اُس کا دل چاہ رہا تھا. وہ اُن دونوں کا اتنا بُرا حال کرے کے اُس کے اندر لگی آگ ٹھنڈی ہوجائے.

"ایسا ہی ہوگا بہت جلد. بہت ہوگیا آہان رضا میر کا اب ہماری باری ہے."

ملک ذیشان اپنی پلیننگ کا سوچتے شیطانیت سے مسکرایا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل ہاجرہ بیگم کے ساتھ مغرب کے قریب حویلی پہنچی تھی. سب بہت ہی محبت سے ملے تھے. لیکن حنا کا بجھا بجھا چہرا دیکھ اِشمل کو اُس کی فکر ہوئی تھی. اُس ٹائم سب کی موجودگی میں وہ اُس سے کوئی بات نہیں کرپائی تھی لیکن صبح تفصیل سے حنا سے بات کرنے کا ارادہ کرچکی تھی.

"بھابھی کیا بھیا بہت غصے میں ہیں."

حفصہ اِشمل کی طرف دیکھتے پریشانی سے بولی تھی. کیونکہ آہان نے کال کاٹنے کے بعد اُس سے ایک بار بھی بات نہیں کی تھی.

"ہاں غصہ تو بہت ہے آہان کو لیکن پریشان نہ ہو کل آنا ہے نا. منا لینا پھر."

اِشمل اُس کی پریشان صورت دیکھ مسکرا کر بولی.

"بھیا کو منانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے. وہ کسی سے اتنی جلدی ناراض ہوتے نہیں لیکن اگر ہوجائیں تو پھر راضی بہت مشکل سے ہوتے."

حفصہ اُس کی معلومات میں اضافہ کرتے بولی.

"حنا نظر نہیں آرہی کہاں ہے وہ."

اِشمل کو ناشتے کے ٹیبل پر بھی حنا نظر نہیں آئی تھی.

"اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی شاید اِس لیے نماز پڑھ کر دوبارہ سوگئی. ویسے پہلے کبھی اتنی دیر تک سوئی نہیں وہ."

حفصہ اِشمل کو جواب دیتے کچھ سوچتے بولی.

" چلو پھر چل کر اُس کے کمرے میں دیکھ لیتے ہیں کہیں زیادہ طبیعت خراب نہ ہو اُس کی."

اِشمل کے کہنے پر حفصہ بھی اُس کی بات پر سرہلاتے حنا کے روم کی طرف بڑھی تھیں. لیکن کمرے میں قدم رکھتے ہی جو منظر اُنہوں نے دیکھا تھا اُنہیں لگا حویلی کی چھت اُن کے سر پر آگری ہو..

حنا بیڈ کے ساتھ نیچے گری ہوئی تھی اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی.

ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر وہ دونوں بھاگتے ہوئے حنا کے پاس پہنچی تھیں. بہت مشکل سے اُسے اُٹھا کر بیڈ پر لاتے اِشمل کے کہنے پر حفصہ جلدی سے باہر کی طرف بڑھی تھی. حنا کہ بیڈ پر رکھا دوایوں کا باکس دیکھ کر اِشمل سمجھ گئی تھی کہ حنا بہت بڑی بے وقوفی کر چکی ہے.

گاؤں کے ہاسپٹل سے ڈاکٹر اور نرس کے ساتھ باقی ضروری میڈیکل ایکوپمنٹ منگوائے گئے تھے. کیونکہ حنا کی شہر لے جانے والی حالت نہیں تھی.

تھوڑی ہی دیر میں حویلی میں سب کو پتا چل چکا تھا کہ حنا نے خود کشی کی کوشش کی ہے. سب لوگ ہی شاک میں ہونے کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی حیرت ذدہ تھے کہ آخر حنا نے اتنا بڑا قدم کیوں اُٹھایا. حنا سے کسی کو بھی اِس بات کی اُمید نہیں تھی. حفصہ اور عاصمہ بیگم کا رو رو کر بُرا حال تھا. ہاجرہ بیگم نے آہان کو بھی اطلاع کردی تھی کہ آکر اپنی لاڈلی بہن کے کارنامے دیکھے.

اِشمل کی بہت کوشش سے کافی دیر بعد جاکر کہیں حنا کی حالت خطرے سے باہر ہوئی تھی.

"حنا تم نے یہ کیا حرکت کی ہے. تم نے ایک بار بھی میرے اور امی کے بارے میں نہیں سوچا. اور بھیا اُن کو کیسا لگے گا تمہاری اِس حرکت کا سن کر."

حفصہ نے حنا کو ہوش میں آتے دیکھ روتے ہوئے پوچھا.

لیکن حنا ابھی خود کو کسی سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں سمجھ رہی تھی.

ملک ذیشان کی روز کی فون کالز نے اُسے ذہنی طور پر اتنا ٹارچر کردیا تھا کہ خود کو ختم کرنے کے علاوہ اُسے اور کوئی حل سمجھ ہی نہیں آیا تھا.

" اوکے مت بتاؤ مجھے کچھ. ابھی آہان بھائی تھوری دیر میں پہنچ رہے ہیں وہ خود ہی تم سے سب پوچھ لیں گے."

حفصہ کی بات پر حنا نے بھیگی آنکھیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا.

"حفصہ اب بس کرو پہلے ہی اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے. تم اُسے مزید پریشان مت کرو. جاؤ یہاں سے آرام کرنے دو اب اُسے."

اِشمل نے حنا کی حالت دیکھتے حفصہ کو باہر جانے کا کہا تھا. جس پر حفصہ خاموشی سے وہاں سے نکل گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان نے جیسے ہی حویلی میں قدم رکھا بغیر کسی سے سلام دعا کیے سیدھا حنا کے کمرے کی طرف بڑھا تھا. اُس کو اتنے غصے میں جاتے دیکھ ہاجرہ بیگم اور باقی سب بھی اُس طرف آئے تھے.

اِشمل جو حنا کو دوا دے کر ہٹی تھی زور سے دروازہ کھلنے کی آواز پر اُدھر متوجہ ہوئی. حنا بھی آہان کو اندر آتا دیکھ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھتی سیدھی ہوئی. لیکن آہان نے اُس سے کوئی بھی بات پوچھے بغیر ایک زور دار تھپڑ اُس کی گال پر رسید کیا تھا. حنا اوندھے منہ بیڈ پر جاگری تھی.

آہان یہ آپ کیا کررہے ہیں. اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے.

سب اچھے سے واقف تھے آہان کے غصے سے اِس لیے خاموشی سے اپنی اپنی جگہ کھڑے رہے تھے. لیکن حنا کی حالت کے مدنظر اِشمل خاموش نہیں رہ پائی تھی.

اِشمل تم نہیں جانتی یہ خبر سن کر میری کیا حالت ہوئی ہے. اگر اِس بے وقوف لڑکی کو کچھ ہوجاتا تو. بہت افسوس ہورہا ہے مجھے خود پر کہ میری لاڈلی بہن نے اپنی پریشانی مجھ سے ڈسکس کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ختم کرنا بہتر سمجھا. اِسے مجھ پر اتنا بھروسہ نہیں تھا کہ مجھ سے ایک بار ہی اپنی پرابلم شیئر کرتی."

آہان غصے, پریشانی اور دکھ کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بولا.

"بھیا پلیز مجھے معاف کر دیں. میں جانتی ہوں میں نے بہت غلط کیا. لیکن مجھے اور کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا. آپ نہیں جانتے میری زندگی میں آپ کا کیا مقام ہے میں کسی صورت آپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی."

حنا بیڈ پر سرجھکا کر بیٹھی روتے ہوئے بولی. جب آہان سمیت باقی سب بھی اُس کی بات پر چونکے.

"کیا مطلب ہے تمہاری اِس بات کا."

آہان کڑے تیوروں سے اُسے گھورتے ہوئے بولا. جب حنا اپنے ہی کہے الفاظ پر گڑبڑائی تھی. اُس کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے.

حنا ایک سیکنڈ کے اندر بولو. تمہاری اِس حرکت کی اصل وجہ کیا ہے اور اگر مزید کوئی جھوٹ بولنے کی کوشش کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا."

آہان کی سرد آواز پر حنا نے کانپتے ہاتھوں سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا. اور ایک نظر کمرے میں موجود تمام نفوس پر ڈالی تھی.

"ملک ذیشان مجھے کچھ ٹائم سے فون کرکے دھمکیاں دے رہا ہے. وہ کہتا ہے میں ...کہ میں کسی کو بھی بتائے بغیر حویلی سے فرار ہوکر اُس کے پاس چلی جاؤ اور اگر میں نے آپ کو یا کسی کو بھی بتایا تو وہ آپ کو جان سے مار دے گا. اِس لیے مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اِس لیے میں نے خود کو ہی ختم کرنا چاہا."

حنا کی بات سن کر آہان کے علاوہ وہاں موجود تمام افراد کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا.

"اُس بے غیرت شخص کی اتنی ہمت میری بہن کو ٹارچر کرے گا. پچھلی بار تو بچ گیا تھا لیکن اِس بار زندہ نہیں چھوڑوں گا میں اُسے."

آہان کا دل چاہا تھا اُن دونوں بھائیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کے آگے ڈال دے. وہ حنا کی مزید کوئی بات سنے بغیر باہر کی طرف بڑھا تھا.

"آہان رُکو اِس طرح کرنے سے نقصان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا."

سب سے پہلے ہاجرہ بیگم ہی ہوش میں آتیں آہان کے پیچھے بھاگی تھیں.

"آہان رُک جاؤ. "

حسنین رضا میر کے سامنے آتے بولے.

"بابا آپ کے اِس صُلہ صفائی والے طریقوں نے ہی اُنہیں اتنا سر پر چڑھا دیا ہے. کہ وہ اب اِس حد تک پہنچ چکے ہیں."

آہان اُن کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا.

"میں جانتا ہوں آہان مجھے اِس معاملے میں اتنی لاپرواہی نہیں برتنی چاہئے تھی. لیکن اب بھی کچھ نہیں بگڑا اُن کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے. لیکن اب یہ جو تم کرنے جارہے ہو وہ غلط ہے وہ لوگ یہی تو چاہتے ہیں کہ ہم جذبات میں آکر کوئی ایسا قدم اُٹھائیں."

حسنین صاحب اُس کو اِس طرح ملکوں کے ڈیرے پر نہیں جانے دینا چاہتے تھے. ہاجرہ بیگم بھی پاس کھڑی مسلسل روئے جارہی تھیں. وہ اپنے بیٹے کو کھونے کی ہمت نہیں رکھتی تھیں. اور جانتی تھیں اگر آہان اِس طرح وہاں گیا تو وہ لوگ اُسے نقصان پہنچا سکتے تھے.

"آہان بھائی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں. ایک دفعہ ٹھنڈے دماغ سے سوچوں. تم اُن کے گھٹیا پلیننگ کا شکار کیوں ہورہے ہو. "

فرقان صاحب نے بھی آگے بڑھتے اُس کے غصے کو کم کرنا چاہا تھا.

باقی سب پریشانی کے عالم میں خاموش کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے. کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ آہان اِس طرح وہاں جائے. لیکن آہان کا غصہ دیکھ اُس کا رُکنا ناممکن ہی لگ رہا تھا.

"میں جوش میں ہوش بھلانے والوں میں سے نہیں ہوں چچا جان. اور مجھے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے. لیکن اُن دونوں بھائیوں کو تو میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا."

آہان اُن لوگوں سے بازو چھوڑواتے باہر کی طرف بڑھا تھا.

یہ سب خاموشی سے دیکھتی اِشمل کو لگا تھا کہ بڑے اُسے روک لیں گے لیکن آہان اِس وقت ایک زخمی شیر سے کم نہیں لگ رہا تھا. آہان کے خطرے کی طرف بڑھتے قدم دیکھ اِشمل خود کو نہ روک پائی تھی اور بھاگتے قدموں سے آہان کے پیچھے گئی تھی.

آہان رُک جائیں پلیز آپ غلط کر رہے ہیں.آرام سے بیٹھ کر مسئلے کا کوئی اور حل بھی نکالاجاسکتا ہے.

آہان ہال کے دروازے سے باہر قدم رکھنے ہی والا تھا جب اِشمل نے اُس کے پاس پہنچتے اُس کو بازو سے تھاما تھا.

آہان نے بنا اِشمل کی طرف دیکھتے اُس کے بازو کو ہاتھ سے پیچھے جھٹکا تھا. جس پر جان بوجھ کر آہان کو روکنے کے لیے اِشمل پاس پڑی ٹیبل پر جاگری تھی. اُس کا ماتھا ٹیبل کے کونے سے ٹکراتے بُری طرح زخمی ہوا تھا. اِشمل کی چیخ پر آہان فوراً پلٹا تھا. اور اِشمل کے سر سے نکلتے خون کو دیکھ بےتابی سے اُس کی طرف بڑھا تھا. سب سمجھ چکے تھے کہ اِشمل نے آہان کو روکنے کے لیے جان بوجھ کر ٹیبل سے سر ٹکرایا ہے. آہان کو پلٹتا دیکھ خوش ہونے کے ساتھ ساتھ اِشمل کا اتنا خون بہتا دیکھ سب فکرمندی سے اُس کی طرف بڑھے تھے. جو آہان کو اپنے قریب آتا دیکھ اِشمل پرسکون انداز میں مسکراتی اپنے حواس کھو چکی تھی. آہان اپنے آپ کو اِشمل کی حالت کا ذمہ دار سمجھتا خود کو لعنت ملامت کرتا اُسے بانہوں میں اُٹھائے کمرے کی طرف بڑھا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"آہان تم پرامس کرو اِس طرح غصے میں وہاں نہیں جاؤ گے."

اِشمل ہوش میں آتے اپنے درد کی پرواہ کیے بغیر اپنے قریب بیٹھے آہان کی طرف دیکھتے بولی.

" تم سب پاگل ہوچکے ہو یا مجھے کوئی کمزور سا ڈرپوک انسان سمجھ رکھا ہے جو میری خاطر خود کو تکلیف دے رہی ہو. تم نے صرف مجھے روکنے کے لیے خود کو جان بوجھ کر زخمی کیا نا."

آہان جانتا تھا اُس نے اِشمل کو اتنے زور سے نہیں جھٹکا تھا کہ وہ اِس طرح گر جاتی.

"ہاں تو اور کیا کرتی آہان رضا میر تم جس طرح سے جارہے تھے آرام سے دیکھتی رہتی. تمہیں اپنی زندگی کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن ہمیں ہے. غصے میں تم اتنے پاگل ہوجاتے ہو کہ کسی بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں رہتی. جانتی ہوں تم اکیلے بھی جا کر اُن دونوں کو ختم کر دیتے لیکن اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں بھی مرجاتی."

اِشمل آنسوؤں کے درمیان اُس کی طرف دیکھتے غصے سے چلائی تھی. جب اتنی سیریس سچویشن میں بھی اِشمل کا اتنا خوبصورت اظہار سن کر ایک دلکش مسکراہٹ آہان کے لبوں پر کھیل گئی تھی.

"اوکے جاناں وعدہ کرتا ہوں تم سے آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا. اب پلیز تم رو نہیں اور تھوڑی دیر آرام کرو. میں زرا ایک بہت ضروری کام کرکے آتا ہوں."

آہان اُس کی پیشانی پر لب رکھتا اُسے تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"ماں میں کسی قسم کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا. آپ صرف مجھے اتنا بتائیں کہ آپ دونوں میرے ساتھ سفیہ پھوپھو کے گھر آرہے ہیں یا نہیں."

آہان اُن کی طرف دیکھتے دوٹوک انداز میں بولا.

حسنین رضا میر تو ویسے ہی بہت شرمندہ تھے آج تک اپنی بیٹیوں سے خود کو غافل رکھا تھا جس کا نتیجہ آج دیکھ رہے تھے. اگر حنا کو کچھ ہوجاتا تو وہ خود کو کبھی معاف نہ کرپاتے.

آہان کی بات پر سر اثبات میں ہلاتے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے.

ہاجرہ بیگم کے دل میں آج پہلی بار حنا کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی تھی. جس نے آہان پر کوئی آنچ آنے کے ڈر سے اپنے آپ کو ختم کرنا چاہا تھا. اور یہ بات تو وہ سوچ کر ہی کانپ اُٹھتی تھیں کہ آہان اگر واقعی چلا جاتا تو کتنی بڑی انہونی ہوسکتی تھی. وہ اِشمل کی آہان کو روکنے کے لیے کی گئی کوشش پر دل سے اُس کی شکر گزار تھیں.

"اگر آپ دونوں نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مجھے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے. میں چلوں گی آپ لوگوں کے ساتھ."

اُن کی بات پر آہان ساتھ آنے کا کہتے آہان باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.

آہان اُن دونوں کے ساتھ ساتھ عاصمہ بیگم کو بھی لے کر سفیہ بیگم کے گھر پہنچا تھا. سفیہ بیگم ہاجرہ بیگم کے منہ سے حنا اور عارفین کے رشتے کی بات سن کر حیران رہ گئی تھیں. حویلی میں جو کچھ ہوا تھا اُس کی خبر اُنہیں مل چکی تھی. لیکن ہاجرہ بیگم کی ایسی کایا پلٹ پر اُن کے لیے یقین کرنا کافی مشکل تھا. جو سب سے زیادہ اِس رشتے کے خلاف تھیں آج وہی خود اُس کو جوڑنے کی بات کر رہی تھیں. سفیہ بیگم کے ہزبینڈ کو تو ویسے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اور عارفین کی مرضی جان کر وہ اِس رشتے سے خوش تھے. سب کو راضی دیکھ سفیہ بیگم کے پاس انکار کی کوئی وجہ ہی نہیں بچی تھی وہ ہمیشہ ہاجرہ بیگم کی باتوں میں آکر اُن سے بُرا سلوک کرتی آئیں تھیں. اور آج جب وہی اِس بات کے حق میں تھیں. تو اُن کے نہ ماننے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا.

عارفین سب کے اتنی جلدی مان جانے پر بے انتہا خوش تھا. آہان جلدی سے اِس طرف سے فارغ ہوکر ملکوں سے نبٹنا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے کل ہی نکاح رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ایک ہفتے بعد شادی کی ڈیٹ فائنل کی گئی تھی. سب کو اتنی جلدی پر بہت اعتراض ہوا تھا لیکن آہان نے بہت مشکلوں سے سب کی رضامندی حاصل کر ہی لی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"حنا کا کہنا ہے کہ وہ اُس وقت تک اِس نکاح کے لیے رضامندی نہیں دے گی جب تک آپ اُسے اُس کی حرکت پر معاف نہیں کر دیتے."

حفصہ کی بات سنتے آہان نے طویل سانس ہوا میں خارج کیا تھا.

"آہان اب پلیز معاف کر دیں بچاری کو. رو رو کے ہلکان ہورہی ہے وہ. اور مجھے پورا یقین ہے جب تک آپ اُس سے بات نہیں کریں گے وہ نکاح کے لیے ہاں نہیں کرے گی. کیونکہ آپ کی بہن ماشاءﷲ سے ضد میں آپ پر ہی گئی ہے."

اِشمل آہان کی طرف دیکھتے آخری بات شرارتی انداز میں بولی. جس پر آہان نے اُسے بھرپور گھوری سے نوازا تھا. حفصہ نے بھی اِشمل کی بات پر اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی.

"حنا کیا مسئلہ ہے. لگتا ہے ایک تھپڑ کھا کر تمہارا دماغ جگہ پر نہیں آیا. جو اِس طرح ضد لگا کر بیٹھی ہو."

آہان حنا کے روم میں داخل ہوتا بولا

"بھیا پلیز جتنے چاہے تھپڑ مار لیں. ڈانٹ لیں لیکن یوں ناراض نہ ہوں."

حنا آنسو بھری آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی.

آہان سے حنا کی یہ حالت نہیں دیکھی گئی تھی. وہ تو ہمیشہ اپنی بہنوں کو خوش دیکھنا چاہتا تھا. اُن کی خاطر کسی سے بھی لڑ جانے کے لیے تیار تھا. پھر اب کیسے یہ سب برداشت کرسکتا تھا.

"حنا میری گڑیا کل تمہاری حرکت کے بارے میں سن کر جس طرح میں یہاں پہنچا ہوں تمہیں بتا بھی نہیں سکتا. اگر کوئی انہونی ہوجاتی تو.

کیا تمہیں مجھ پر اتنا بھی ٹرسٹ نہیں تھا کہ ایک بار بھی مجھے بتانے کے بجائے یہ حرام فعل کرنا زیادہ مناسب لگا.

اور عارفین والی بات سب کو معلوم تھی صرف مجھے ہی نہیں تم جانتی ہو میں اُن مردوں میں سے نہیں ہوں جو خود تو اپنی پسند کو اہمیت دے لیکن بہن بیٹیوں سے یہ حق چھین لے اور اِن باتوں کو انا کا مسئلہ بنائے. اگر ایک بار بھی میرے سامنے اِس بات کا ذکر کر دیتی تو کبھی اتنی تکلیف برداشت نہ کرنی پڑتی."

آہان کی بات سن کر حنا کے گلٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا. واقعی وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا. اُس نے ہمیشہ ہر بات میں اُن کی خوشی کو ترجیح دی تھی. ہاجرہ بیگم کی اتنی مخالفت کے باوجود بھی اُنہیں عزیز رکھا تھا.

"ایم سوری بھائی آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا."

حنا آنسوؤں کے درمیان شرمندگی سے کہتی آہان کے سینے سے آلگی تھی.

"بس بہت رو لیا. اب دوبارہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں. ہر طرح کے خدشات کو اپنے دل سے نکال دو کسی کی جرأت نہیں ہے. میرے ہوتے تمہارا بال بھی بیکا کرسکے.

عارفین بہت اچھا انسان ہے مجھے پورا یقین ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا. اب مجھے تم صرف ہنستی مسکراتی نظر آؤ. اُس جنگلی بلی حفصہ کی طرح."

آہان نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے محبت سے بولا تھا. جب اُس کی آخری بات پر آنسو صاف کرتی حنا مسکرا دی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بھابھی کچھ لوگوں کی تو آج مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی."

حفصہ نے اِشمل کی طرف دیکھ کر حنا کو چھیڑا تھا.

"ایسی کوئی بات نہیں ہے بدتمیز."

حنا نے اُس کے بازو پر چٹکی کاٹی تھی. جس نے کب سے اُس کے ناک میں دم کر رکھا تھا.

دوپہر کے وقت حنا اور عارفین کا نکاح ہوچکا تھا. جو بات اُن دونوں کو ناممکن لگ رہی تھی آہان کی وجہ سے اتنی آسانی سے ہوگئی تھی. سب ہی بہت خوش تھے. سفیہ بیگم اور ہاجرہ بیگم نے زندگی میں پہلی بار حنا سے محبت سے بات کی تھی جس پر وہ کافی شاک میں بھی تھی. اِشمل اور حفصہ تو نکاح کے بعد اُن دونوں کی ملاقات کروانے کے موڈ میں تھیں.

جس کے لیے حنا کسی صورت تیار نہیں تھی. بہت مشکل سے اُن کی منت سماجت کرکے اِس عمل سے باز رکھا تھا. وہ شرماتے ہوئے اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ وہ دونوں اُسے چھیڑنے سے خود کو روک نہیں پارہی تھیں.

"ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی یہ محبت ہوئی کب اور کیسے. کیونکہ عارفین صاحب تو ہماری حنا سے بھی زیادہ شرمیلے ہیں."

اِشمل کا لہجہ بھی کافی شرارتی تھا.

"بھابھی آپ بھی اِس کے ساتھ شامل ہوگئی ہیں."

حنا منہ بناتے بولی.

"میں بتاتی ہوں آپ کو بھابھی. اِن کی محبت کی کہانی کافی کمپلیکیٹڈ ہے. آج تک کبھی ڈھنگ سے بات نہیں کی اِنہوں نے. بس نظروں ہی نظروں میں محبت ہوئی. وہیں سے اظہار ہوا اور پھر ظالم سماج کے ڈر سے وہیں سے انکار بھی ہوگیا."

حفصہ نے قہقہ لگاتے کہا جس میں اِشمل نے بھی اُس کا پورا ساتھ دیا تھا.

"مجھے بات ہی نہیں کرنی آپ لوگوں سے."

حنا نے نارضگی سے کہتے چہرا دوسری طرف موڑا تھا.

"حفصہ بس اب بلکل تنگ نہیں کرنا حنا کو."

اِشمل نے حفصہ کو گھورا.

"کچھ عارفین بھائی کے لیے بھی بچا کر رکھو یار."

اپنا ساتھ دینے پر حنا مسکرائی لیکن اِشمل کی اگلی بات پر خفگی سے پھر سے چہرا موڑ گئی تھی.

ابھی وہ لوگ مزید اُسے تنگ کرتیں کہ ملازمہ گھبرائی سی اندر داخل ہوئی تھی.

ملازمہ کی بات اُن کے ہوش اُڑانے کے لیے کافی تھی. جب اِشمل کے پیچھے جلدی سے وہ دونوں بھی باہر کی جانب بڑھی تھیں.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان کی گاڑی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا. جس کے پیچھے ملک حسیب کا ہاتھ تھا. حنا کے نکاح کا سن کر ملک ذیشان پاگل ہورہا تھا. آج تک کبھی اُس کا شکار اُس سے نہ بچ پایا تھا. اُسے لگا تھا حنا بھی باقی لڑکیوں کی طرح اُس کے ہاتھوں بلیک میل ہوجائے گی کیونکہ حویلی تک پہنچ کر حنا کو اُٹھانا اُن کے لیے ناممکن تھا یہی ایک طریقہ تھا اُسے بلیک میل کرکے حویلی سے بھاگنے پر مجبور کر دیں اور آہان رضا میر کا غرور مٹی میں ملا دیں لیکن اپنی چال خود پر ہی اُلٹتے دیکھ اُنہوں نے آہان پر حملہ کیا تھا.

"آہان کو کچھ نہیں ہوا وہ بلکل ٹھیک ہے آپ لوگ پریشان مت ہوں. ڈرائیور اور ایک گارڈ زخمی ہوئے ہیں جنہیں شہر پہنچا دیا گیا ہے."

حسنین صاحب اُن سب کو تسلی دیتے بولے.

"آہان اگر ٹھیک ہے تو وہ حویلی کیوں نہیں آرہا. ہم جب تک اُسے دیکھ نہ لیں ہمیں سکون کیسے آئے گا."

ہاجرہ بیگم کو جب سے پتا چلا تھا اُن کے آنسو ہی نہیں رُک رہے تھے اور باقی سب کا بھی یہی حال تھا.

"میں نے اُسے بہت کہا ہے لیکن اُس کا کہنا ہے جب تک اُن لوگوں کو اُن کے انجام تک نہیں پہنچا دیتا حویلی نہیں لوٹوں گا. اور اُس نے سختی سے منع کیا ہے کہ کوئی بھی حویلی سے باہر نہ نکلے."

فرقان صاحب کی بات سنتے اِشمل کا دل زور سے دھڑکا تھا. وہ آہان کا وہ جلالی رُوپ دیکھ چکی تھی جس میں اُس دن حسیب کو سامنے دیکھ کر وہ آیا تھا.

اُسے ڈر تھا کہ کہیں آہان کے جذباتی پن سے اُسے ہی نہ کوئی نقصان پہنچے. اِشمل کتنی بار اُس کا فون ٹرائی کر چکی تھی لیکن اُس کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں آرہا تھا. اِشمل کو اب پریشانی کے ساتھ ساتھ آہان پر غصہ بھی آرہا تھا.

ساری رات آنکھوں میں گزر گئی تھی لیکن آہان کی فکر میں کسی کو نیند نہیں آئی تھی. ہر ایک کے دل اور زبان سے صرف اُس کی سلامتی کی دعائیں ہی نکل رہی تھیں.

ہاجرہ بیگم نے تو رو رو کر اپنی طبیعت بھی خراب کر لی تھی.

اِشمل کے ساتھ حنا اور حفصہ بھی اُن کی خدمت میں لگی ہوئی تھیں.

ہاجرہ بیگم نجانے کتنی بار عاصمہ بیگم, حنا اور حفصہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ چکی تھیں. وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کے گناہوں کی سزا اُن کے بیٹے کو ملے. ہاجرہ بیگم کی بات سن کر وہ لوگ تڑپ اُٹھی تھیں. آہان کے لیے تو وہ مرکر بھی بُرا نہیں سوچ سکتی تھیں. اُن تینوں نے اُنہیں کھلے دل سے معاف کر دیا تھا. اِشمل اُن سب کو ایک ہوتا دیکھ بہت خوش ہوئی تھی. آہان بھی تو یہی چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"کون ہو تم لوگ کیوں لائے ہو مجھے یہاں پر."

ملک ذیشان بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ چِلا رہا تھا. اُسے ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا. پاس کھڑے دو ہٹے کٹے آدمی بلکل خاموش تھے جیسے اُنہیں کچھ بھی بولنے کی اجازت نہ ہو.

ملک ذیشان کو بلکل سمجھ نہیں آرہا تھا وہ یہاں پہنچا کیسے وہ تو اپنے ڈیرے پر سویا تھا.

جہاں اُس کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا تو پھر اُسے وہاں سے اُٹھا کر لانے کی ہمت کس نے کی تھی.

کون تھا ایسا مائی کا لال جسے اپنی زندگی پیاری نہیں تھی.

جب اچانک اُس کے دماغ میں آہان رضا میر کا خیال آیا تھا.

ابھی وہ مزید کچھ سوچتا جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی. اُس کی نظریں اندر وارد ہونے والے شخص پر تھیں. لیکن جیسے ہی سامنے والے کا چہرا واضح ہوا ملک ذیشان کے رنگت متغیر ہوئی تھی.

آہان کے قریب آتے دیکھ اُسے اپنی موت بھی قریب آتی نظر آرہی تھی.

"کیا ہوا.....اوہ ہو یہ کیا دیکھ رہا ہوں میں ملک ذیشان ڈر رہا ہے. لیکن جہاں تک میں نے سنا ہے ملک ذیشان تو کسی سے نہیں ڈرتا."

آہان اُس کے ہوائیاں اُڑاتے چہرے کی طرف دیکھتا استہزایہ انداز میں ہنسا تھا.

"تم یہ ٹھیک نہیں کررہے. میرا بھائی تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو چھوڑے گا نہیں."

ملک ذیشان نے اُسے دھمکانا چاہا تھا. جب آہان کا ایک زور دار تھپڑ اُس کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا.

"اپنی گندی زبان سے میرے گھروالوں کا نام بھی مت لینا. اور تمہارے اُس بے غیرت بھائی کو بھی دیکھ لوں گا میں."

آہان غصے سے دھارا تھا. اُس کے اشارے پر پاس کھڑے آدمی نے ہاتھ میں پکڑی لوہے کی راڈ اُس کے بازو پر دے ماری تھی. جسے برداشت نہ کرتے ملک ذیشان درد سے بلبلا اُٹھا تھا.

"اُس دن اپنی دونوں ٹانگوں سے ہاتھ دھو کر مجھے لگا تھا تمہیں کچھ عقل آگئی ہوگی.

لیکن نہیں تم جیسے بے ضمیر لوگ دوسروں پر ظلم کرنے کے اتنے عادی ہوجاتے ہو کہ خود کو فرعون سمجھ بیٹھتے ہو اور یہ بھول جاتے ہو کہ برائی کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہی ہوتا ہے."

آہان کی بات پر درد سے تڑپتے ملک ذیشان نے خوفزدہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

" چھوڑ دو مجھے میں آئندہ کبھی تمہارے گاؤں کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا. معاف کر دو مجھے."

وہ آہان کے آگے گڑگڑیا تھا.

اُس کی آنکھوں کے سامنے اُن تمام لوگوں کے چہرے گھوم رہے تھے. جن پر اُس نے ظلم کے پہاڑ ڈھائے تھے. اُن کی بے بسی اور لاچاری کا فائدہ اُٹھایا تھا.

نجانے کتنے ہی غریب مِزاروں سے اُن کا واحد سرمایہ اُن کی عزت چھینی تھی. وہ بھی تو اُس کے سامنے ایسے ہی گِڑ گڑائے تھے. لیکن اُس نے کسی کی فریاد نہیں سُنی تھی. پھر اُسکی کیسے سنی جاتی.

"میں تمہیں اِس قابل چھوڑوں گا تب تم کچھ کر پاؤ گے نا."

آہان نے ہاتھ میں پکڑی گرم سلاخ سے اُس کے دائیں بازو پر ضرب لگائی تھی.

پورا کمرا ملک ذیشان کی چیخوں سے گونج اُٹھا تھا.

"رحم کرو مجھ پر. آئندہ کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاؤں گا."

آہان کو اپنے دوسرے بازو کی طرف بڑھتے دیکھ وہ روتے ہوئے بولا.

"رحم تم ایک ایسا انسان بتا دو جس پر رحم کرکے تم نے اُسے بخشا ہو. تمہارے گاؤں کا کوئی ایک شخص تمہارے شر سے محفوظ نہیں.میں ایک بار تم ہر رحم کرنے کی غلطی کر چکا ہوں لیکن اب دوبارہ میں ویسی غلطی نہیں کرنا چاہتا. کیونکہ تم جیسے لوگ کبھی اپنی فطرت نہیں بدل سکتے."

آہان کے اگلے وار سے اُس کا دوسرا بازو بھی ناکارا ہوچکا تھا. ابھی وہ اِس درد سے نہ سنبھلا تھا کہ دوسرے آدمی کو تیز دھار آلہ لیے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تھا.

"تمہیں اتنی آسان موت دے کر میں اُن مظلوموں کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا جن پر نجانے تم نے کتنے ظلم ڈھائے ہیں.

بلکہ تمہیں ہمیشہ کے لیے زندہ لاش بنا کر رکھ دوں گا. تاکہ تمہاری آنے والی نسلیں بھی تمہارے انجام سے سبق سیکھیں."

"اور ہاں"

آہان جاتے جاتے پلٹا تھا. اِسی زبان سے ٹارچر کیا تھا نا میری بہن کے ساتھ ساتھ نجانے کتنی بہن بیٹیوں کو. کتنے مزے کی بات ہے نا اگر اِسے ہی ختم کردیا جائے."

آہان نفرت بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا اپنے آدمی کو اشارہ کرتا وہاں سے نکل آیا تھا.

پیچھے سے اُسے ملک ذیشان کی دلدوز چیخوں کی آوازیں سنائی دی تھیں.

آہان کے آدمیوں نے اُس کی زبان کاٹ دی تھی.

آہان نے اُسے جان سے نہیں مارا تھا بلکہ ہاتھوں اور زبان سے معذور کرکے اپنے آدمیوں کو اُسے دوبارہ وہیں چھوڑ کر آنے کا حکم دیا تھا جہاں سے اُسے لایا گیا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل کل سے آہان کو کال کر کر کے ہلکان ہوچکی تھی. لیکن اُس کا فون مسلسل بند جارہا تھا.

"انتہا کا کھڑوس شخص ہے یہ اتنا بھی خیال نہیں آرہا گھر میں سب کتنے پریشان ہو رہے ہیں ایک بار کال ہی کرکے اپنی خیریت بتا دوں."

اِشمل نے روم میں چکر کاٹتے فکرمندی سے سوچا تھا.

خداناخواستہ ملک حسیب کے اُس حملے میں آہان کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا جو نہ وہ گھر آرہا ہے نہ ہی فون اُٹھا رہا ہے. یا ﷲ جی پلیز آہان کو کچھ نہیں ہونا چاہئے."

وہ اپنی ہی سوچوں میں ناجانے کب تک اُلجھی رہتی جب موبائل کی آواز پر جلدی سے اُس کی طرف بڑھی تھی.

سکرین پر جگمگاتا انجان نمبر دیکھ کر کسی خیال کے تحت فون اٹینڈ کیا تھا.

"جی فرمائیں کون بات کر رہی ہیں."

کسی عورت کی آواز سنتے اِشمل نے اُس سے پوچھا.

"ڈاکٹر اِشمل میں نرس بتول بات کررہی ہوں. آپ کی مدد کی ضرورت ہی پلیز. ابھی ابھی ہاسپٹل میں ایک زخمی بچے کو لایا گیا ہے اُس کی حالت بہت خراب ہے. ڈاکٹر زیبا بھی گاؤں میں نہیں ہیں. آپ جلدی سے آجائیں اگر زرا سی بھی دیر ہوئی تو یہ بچا مر جائے گا. "

بتول کی گھبرائی آواز سن کر اِشمل اُسی وقت ہاسپٹل کے لیے اُٹھی تھی لیکن پھر آہان کی حویلی سے نہ نکلنے والی ہدایت پر اُس کے قدم ڈھیلے پڑے تھے.

"بتول لیکن میں.."

"ڈاکٹر صاحبہ پلیز انکار مت کیجئے گا. "

اِشمل کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بتول اُس کی بات کاٹتے فوراً بولی. جیسے اُسے یقین ہو کہ اِشمل انکار ہی کرنے والی ہے.

"اوکے تم فکر مت کرو میں ابھی پہنچتی ہوں وہاں."

اِشمل نے کال کاٹتے ایک بار پھر آہان کا نمبر ڈائل کیا تھا. لیکن پہلے کی طرح کوئی رسپانس نہیں ملا تھا.

اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے. لیکن ایسے ڈر کر اپنی جان کی خاطر کسی اور کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی اور نہ ہی اپنے پیشے سے بد دیانتی کرسکتی تھی.

ایک فیصلہ کرتے وہ باہر کی طرف بڑھی تھی. سب لوگ شاید اُوپر ہاجرہ بیگم کے کمرے میں موجود تھیں. اِس لیے نیچے ہال خالی تھا. اِشمل پاس سے گزرتی ملازمہ کو ہاجرہ بیگم کو انفارم کرنے کا کہتے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا حکم دیا تھا.

اِس سے پہلے کے گھروالوں کو اُس کے جانے کی اطلاع ملتی یا کوئی نیچے آکر اُسے روکتا وہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل چکی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان جانتا تھا گھر میں سب بہت پریشان ہوں گے اِس لیے ملک حسیب کا کام تمام کرنے سے پہلے گھر جانے کا ارادہ کرتے ڈرائیور کو گاڑی حویلی کی طرف موڑنے کا حکم دیا تھا.

وہ جانتا تھا اُس پر حملے کا سن کر سب بہت فکرمند ہوں گے. کل بھی ملک ذیشان والے معاملے کی وجہ سے وہ گھر نہیں جا پایا تھا.

آہان نے جیسے ہی حویلی میں قدم رکھا آگے سے ملنے والی خبر نے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی. اِشمل محفوظ نہیں تھی.

"آپ سب لوگ گھر میں موجود تھے کسی نے بھی اُسے روکا نہیں. "

آہان غصے سے سب کی طرف دیکھتا دہاڑا تھا. اور کسی کی بھی کوئی صفائی سنے بغیر اُلٹے پاؤں حویلی سے واپس بھاگا تھا.

گھروالوں میں سے کسی کا بھی باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا خاص کرکے اِشمل کا تو بلکل نہیں. آہان کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا.

ہاجرہ بیگم اور باقی سب ملازمہ کی اطلاع پر جیسے ہی نیچے آئے. اِشمل وہاں سے نکل چکی تھی. اُنہوں نے اُسی وقت حسنین اور فرقان رضا میر کو فون کرکے ڈیرے سے بلوایا تھا. گارڈ سے اِشمل کے ساتھ جانے والے ڈرائیور کا نمبر لے کر اُسے کال کی گئی تھی لیکن وہ اُس کا نمبر بند دیکھ سب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا.

اُن کے آنے کے کچھ دیر بعد آہان بھی وہاں پہنچا تھا.

آہان سمجھ چکا تھا کہ ملک حسیب پاگلوں کی طرح اپنے بھائی کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے اِشمل کو اِس طرح ٹریپ کرکے بلانا بھی ضرور اُسی کی کوئی چال ہوگی.

"یہ کس کی نظر لگ گئی میرے گھر کو ایک مصیبت ختم نہیں ہورہی جو دوسری آجاتی.

یاﷲ میرے بیٹے اور بہو کو اپنی حفاظت میں رکھنا. اُنہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنا."

ہاجرہ بیگم روتے ہوئے وہیں صوفے پر گری تھیں.

وہ خود کو ہمیشہ ایک مظبوط اور سخت دل خاتون کہتی آئیں تھیں. جنہیں کبھی کسی کی کوئی پرواہ نہیں رہی تھی. ہمیشہ غرور سے سر اُٹھا کر رہتی تھیں. لیکن آج اُن کے اندر کی ممتا نے اُن کا سارا غرور ختم کردیا تھا. اُنہیں آج عاصمہ بیگم کے درد کا احساس ہورہا تھا جن کی اولاد کو وہ ہمیشہ سے تکلیف ہی دیتی آئی تھیں.

اِشمل حویلی سے نکل تو آئی تھی لیکن اُس کا دل بہت گھبرا رہا تھا. آہان سے بھی بات نہ ہوپائی تھی اور نہ ہی گھر والوں میں سے کسی کو بتا کر آئی تھی.

گاڑی ابھی ہاسپٹل سے کچھ فاصلے پر تھی. جب اِشمل کو ہاسپٹل کے دوسرے رُخ پر کچھ گاڑیاں کھڑی نظر آئیں.

"ڈرائیور ایک منٹ گاڑی یہیں پر روک دو."

اِشمل کی بات سنتے ڈرائیور نے فوراً گاڑی روکی تھی. اُن میں سے ایک گاڑی پر نظر پڑتے اِشمل کو یاد آیا تھا کہ اُس دن ملک حسیب جب ہاسپٹل میں اُس سے ملنے آیا تھا تو یہی گاڑی تھی اُس کے پاس.

"یہ تو ملک حسیب کی گاڑی ہے."

اِشمل کی بات پر ڈرائیور نے بھی اُس طرف غور کیا تھا.

"کہیں مجھے یہاں کسی سازش کے تحت تو نہیں بلایا گیا. لیکن بتول ایسا کیوں کرے گی. کیا پتا واقعی وہ سچ بول رہی ہو اور اُس بچے کی جان خطرے میں ہو. یاخدا میں کیا کروں."

اِشمل عجیب کشمکش میں مبتلا ہوچکی تھی کیونکہ کال پر بات کرتے بتول کی آواز کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی. وہ سمجھ نہیں پارہی تھی وہ گھبراہٹ بچے کی حالت دیکھ کر تھی یا اُس کا کوئی اور ریزن تھا.

اِشمل نے جلدی سے اپنے پرس میں ہاتھ ڈال کر موبائل ڈھونڈنا چاہا تھا.

"اوہ شِٹ موبائل تو لگتا ہے روم میں ہی رہ گیا ہے."

اِشمل کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا.

"بھائی آپ کے پاس موبائل ہوگا."

اِشمل نے ایک اُمید کے تحت پوچھا تھا لیکن ڈرائیور کا جواب سن کر وہ بھی جاتی رہی تھی. جس کے مطابق کل ہی اُس کا موبائل گِر کر ٹوٹ گیا تھا.

"بی بی جی اب کیا کرنا ہے. میرے خیال میں واپس چلنا چاہئے اگر یہ گاڑیاں واقعی ملک حسیب کی ہوئیں تو آگے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے."

ڈرائیور نے اُس کی پریشان صورت دیکھ مشورہ دیا تھا.

"نہیں ہمیں پورا یقین بھی تو نہیں ہے نا کہ یہ گاڑی ملک حسیب کی ہی ہے. اگر بتول کی بات سچ ہوئی اور اُس بچے کی جان خطرے میں ہوئی تو."

ڈرائیور کی بات کے جواب میں اِشمل فکرمندی سے بولی.

"آپ ایک کام کریں ہاسپٹل کے مین گیٹ کے بجائے. گاڑی پیچھے رہائشی کواٹرز کی طرف موڑ دیں."

اِشمل نے کچھ سوچتے ڈرائیور کو ہدایت دی تھی. جس پر عمل کرتے اُس نے گاڑی کو ریورس کرتے دائیں طرف موڑ دیا تھا. پچھلی سائیڈ ہر بہت سارے درخت تھے جن کے پیچھے گاڑی باآسانی چھپ سکتی تھی.

اِشمل کچھ دن یہاں رہی تھی اِس لیے اِس پچھلے راستے سے واقف تھی.

آہان نے حالات کو دیکھتے ہوئے سب گاڑیوں میں ایمرجنسی صورتحال کے لیے ایک ایک پستول رکھوایا تھا. اِشمل کو گاڑی سے نکلتا دیکھ ڈرائیور سیٹ کے نیچے سے پستول نکالتا اُس کے پیچھے بڑھا تھا.

حسنین رضا میر سخت مزاج کے ہونے کے باوجود اپنے ملازموں کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے. یہی وجہ تھی کہ اُن کے ملازم اُن کے بہت وفادار تھے. اِسی لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وہ اِشمل کے ساتھ جانا مناسب سمجھا تھا.

اِشمل پچھلے گیٹ سے اندر داخل ہوئی اور احتیاط سے اندر کی طرف بڑھ رہی تھی. جب اُس کی نظر کواٹرز کے سامنے بنے چھوٹے سے صحن میں پڑی کُٹی ہوئی لال مرچوں پر پڑی.

نجانے کس بات کے زیرِ اثر اِشمل نے آگے بڑھ کر اُنہیں کافی مقدار میں اپنے دوپٹے میں بھر لیا تھا.

دبے پاؤں ہاسپٹل کے کوریڈور سے گزرتے ڈرائیور کے ساتھ آگے بڑھی تھی. جب فرنٹ والے کمرے سے اُنہیں رونے کی آواز سنائی دی تھی.

کسی گڑبڑ کو محسوس کرتے اِشمل نے جھک کر آگے ہوتے کھڑکی سے اندر کی طرف جھانکا تھا. سامنے نظر آتے منظر کو دیکھ اُس کے ہوش ہی اُڑ گئے تھے.

ملک حسیب اپنے آدمیوں کے ساتھ اندر موجود تھا. جنہوں نے بتول اور اُس کے دونوں بچوں پر گن تان رکھی تھی. بتول اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے روتے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی.

"کہا ہے تمہاری وہ ڈاکٹر ابھی تک نہیں پہنچی. کہیں تم نے کوئی ہوشیاری تو نہیں کی."

ملک حسیب بتول کو بالوں سے پکڑ کر اُس کا سر اُوپر کرتا چلایا تھا.

"رحم کریں ملک صاحب. میں نے اُنہیں آپ کے سامنے فون کیا ہے. کوئی ہوشیاری نہیں کی. چھوڑ دیں میرے بچوں کو خدا کا واسطہ آپ کو ہم بے قصور ہیں."

بتول سسکتے ہوئے بولی.

"اب تم کمی کمین مجھ سے ایسے زبان چلاؤ گے. بہت پَر نکل آئے نا تمہارے اپنے اُن حویلی والوں کی وجہ سے ابھی بتاتا ہوں میں تمہیں."

ملک حسیب بتول کو دیوار کی طرف زور سے دھکا دیتا اُس کی چودہ سالہ بیٹی کی طرف بڑھا تھا.

"کافی خوبصورت ہے تمہاری بیٹی. ڈری سہمی بچی کے گال پر ہاتھ پھیڑتے وہ بتول کی طرف دیکھتے مکروہ ہنسی ہنسا تھا.

"نہیں میری بیٹی کو کچھ مت کرنا. اُس معصوم کا کیا قصور ہے. نہیں چھوڑ دو اُسے."

اُس کی غلیظ نظریں اپنی معصوم بچی پر پڑتے دیکھ وہ تڑپ کر آگے بڑھی تھی.جب ملک حسیب کے آدمیوں نے اُسے وہیں دبوچ لیا تھا.

اِس سے پہلے کے وہ اُس بچی کی ساتھ کو نازیبا حرکت کرتا کب سے یہ سب دیکھتے خود پر کنٹرول کھوتے اِشمل نے آگے بڑھنا چاہا تھا.

لیکن اچانک چلنے والی گولی سے اُس کے قدم وہیں تھم گئے تھے. گولی سیدھی ملک حسیب کے بازو میں جا لگی تھی. اِشمل نے چہرا موڑ کر اپنے ساتھ کھڑے ڈرائیور کی طرف دیکھا تھا. جو ملک حسیب پر پستول تانے کھڑا تھا.

وہ اپنی گاؤں کی بچی کے ساتھ آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا.

ملک حسیب سمیت اُس کے آدمی بھی اِس اچانک آنے والی افتاد پر سمنبھلتے باہر کی طرف بڑھے تھے.

اور اگلے پانچ منٹ میں وہ دونوں اُن لوگوں کے قبضے میں آچکے تھے.

"تو آخر آگئی تم. کہاں ہے تمہارا وہ شوہر جس کے نام پر اُس دن بہت اُچھل رہی تھی."

ملک حسیب اِشمل کی طرف ہوس بھری انتقامی نظروں سے دیکھتا آگے بڑھا تھا.

اِس سے پہلے کے آہان اور اُس کے آدمی یہاں پہنچتے ملک حسیب کا ارادہ وہاں سے نکلنے کا تھا. اِشمل کو اپنے قبضے میں دیکھ وہ گولی کا درد بھی بھول چکا تھا. کیونکہ اپنے تصور میں وہ کچھ ہی دیر میں آہان رضا میر کو تڑپتے ہوئے دیکھ رہا تھا.

"میں آج بھی تمہارے سامنے بنا ڈرے کھڑی ہوں. کیونکہ تم جیسے بزدل انسان کے لیے آہان رضا میر کی بیوی ہی کافی ہے."

اِشمل کی بات پر ملک حسیب نے غصے بھری نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

"تمہارے اُس حرامی شوہر نے میرے بھائی کو اُٹھوالیا ہے. اب میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ وہ تمہاری شکل بھی پہچان نہیں پائے گا."

ملک حسیب اِشمل کو پکڑنے اُس کی طرف بڑھا ہی تھا. جب اِشمل نے دوپٹے میں لپیٹی سُرخ مرچوں سے مٹھی بھر کر ملک حسیب کے منہ پر اُچھالی تھی.

اِس سے پہلے کے اُس کے آدمی حرکت میں آتے اِشمل نے اُن پر بھی مِرچوں سے حملہ کردیا تھا. وہ سب چہرے پر ہاتھ رکھے کراہ رہے تھے. مرچیں اتنی زہریلی تھیں. کہ اِشمل کو بھی اپنے چہرے اور آنکھوں میں جلن محسوس ہونے لگی تھی.

"کیا ہوا میرا حشر بگاڑنے والے تھے نا تم. اب تو اپنی شکل دیکھنے کے قابل نہیں رہے."

اِشمل اُن کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی بتول کو باہر نکلنے کا اشارہ کرتی آگے بڑھی تھی.

ملک حسیب اتنی جلدی اُسے اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہتا تھا.

"پیچھا کروں اُس کا سب جلدی یہاں سے بھاگنے نہ پائے وہ. اگر وہ نکل گئی تو میں تم لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں."

ملک حسیب کپڑے سے آنکھیں پونچھتا اپنے آدمیوں پر چلاتے باہر کی طرف بھاگا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان نے حویلی سے نکلتے ہی گاؤں سے باہر جانے والے تینوں راستوں پر اپنے آدمیوں کو پھیل جانے کا حکم دیا تھا.

ملک حسیب کو تو وہ کسی صورت بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا لیکن اِشمل کی فکر میں اُس کا دل پاگل ہورہا تھا اور ساتھ ساتھ پر اُس پر بے پناہ غصہ بھی آرہا تھا. جس نے اتنی بڑی بے وقوفی کرکے خود کو خطرے میں ڈال دیا تھا.

حسنین رضا میر کی اطلاع پر پولیس بھی وہاں پہنچنے ہی والی تھی.

آہان جلد از جلد وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ ابھی ابھی اُسے اپنے ایک آدمی سے ہاسپٹل میں گولی چلنے کی خبر ملی تھی. جس بات نے اُس کی بے چینی میں مزید اضافہ کردیا تھا.

ہوا کے دوش پر گاڑی چلاتے وہ وہاں پہنچا تھا. ابھی وہ ہاسپٹل سے کچھ فاصلے پر ہی تھا جب اُسے ہاسپٹل کے گیٹ سے نرس اور ڈرائیور کے ساتھ اِشمل باہر نکلتے دیکھائی دی تھی.

اِشمل کو صحیح سلامت دیکھ آہان کے بے قرار دل کو جیسے قرار سا آگیا تھا.

آہان فوراً گاڑی سے باہر نکلا تھا لیکن تب ہی اُس کی نظر گیٹ کے پاس کھڑے ملک حسیب پر پڑی تھی جس نے ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے دوسرے ہاتھ سے لڑکھڑاتے انداز میں اِشمل پر پستول تانہ تھا.

آہان نے ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر اُس کے بازو پر گولی چلائی تھی. پستول اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گِرا تھا. آہان ملک حسیب کی طرف بھاگتے ہوئے اُس پر جھپٹا تھا.

گولی کی آواز پر اِشمل اور باقی سب نے خوف سے رُک کر پیچھے دیکھا تھا. لیکن ملک حسیب کو آہان کے رحموں کرم پر دیکھ اُن سب کے چہروں پر سکون سا پھیل گیا تھا. کیونکہ اُس کے سارے آدمیوں کو آہان کے آدمی اپنے قبضے میں لے چکے تھے.

آہان بُری طرح ملک حسیب کو پیٹ رہا تھا. جس کی وجہ سے وہ پورا لہوں لہان ہوچکا تھا. اِس بار اِشمل بھی آہان کو روکنے آگے نہیں بڑھی تھی بلکہ ملک حسیب کی ایسی درگت ہوتے دیکھ اطمینان سے اپنی جگہ کھڑی تھی. اور نہ ہی باقی کسی نے ایسا کچھ کرنا چاہا تھا. ملک حسیب نے اُن سب گاؤں والوں کی زندگی عذاب بنا رکھی تھی.

سب کے لیے اُس کا ایسا انجام دلی سکون کا باعث تھا. آہان کے تشدد سے وہ مرنے کے قریب تھا جب پولیس نے وہاں پہنچ کر بہت مشکل سے اُسے آہان سے آزاد کروایا تھا. ملک حسیب کی حالت دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی جو دھمکی وہ تھوڑی دیر پہلے اِشمل کو دے رہا تھا وہ اُسی پر ہی اُلٹ چکی تھی.

انسان گناہ کرتے کرتے اُوپر بیٹھے پروردگار کو بھول جاتا ہے. لیکن جب اُوپر والا اپنی رسی کھینچتا ہے تو طاقت کے نشے میں چور انسان جو سمجھتا ہے وہ کبھی زوال پزیر نہیں ہوسکتا بے بس ہوکر رہ جاتا ہے.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


ملک حسیب کو پولیس کے حوالے کرتا آہان اِشمل کی طرف بڑھا تھا.

"اِشمل تم ٹھیک ہو."

اُس پر بے حد غصے کے باوجود آہان اِشمل کو بازو سے تھامتے فکرمندی سے بولا. جس کا اِشمل نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا تھا.

" تم جانتی ہو تمہاری یہ بے وقوفی تمہارے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی. اگر میں ابھی ٹائم پر نہ پہنچتا تو. یہ بات دماغ میں آتے ہی میرا دل چاہ رہا ہے پتا نہیں کیا کر دوں. اگر تمہیں زرا سی بھی خراش آتی تو میں ساری دنیا کو آگ لگا دیتا.

لیکن اِشمل تم نے جو خود کو نقصان میں ڈال کر غلطی کی ہے. اُس کے لیے میں تمہیں بلکل معاف نہیں کروں گا."

اِشمل کے بلکل ٹھیک ہونے کی تسلی کرتے اپنے غصے ہر قابو نہ پاتے آہان اُس پر چلایا تھا.

اگر اُسے ایک منٹ کی بھی دیر ہوجاتی تو اِشمل کی جان بھی جا سکتی تھی یہ بات اُسے اتنا پاگل کر رہی تھی کہ اِردگرد کا دھیان کیے بغیر وہ اپنا ضبط کھوتا پہلی بار اِشمل پر چلایا تھا.

اِشمل جانتی تھی آہان اُس کی وجہ سے بہت فکرمند ہے لیکن آہان کا سب کے سامنے اِس طرح چلانا اُسے بہت بُرا لگا تھا.

اُس کی کسی بھی بات کا جواب دیے بغیر اِشمل نے ناراضگی بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا. جن کو نظر انداز کرتے آہان اُس کا ہاتھ پکڑتے گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا.

اُن کو گاڑی کی طرف جاتے دیکھ بتول جلدی سے بھاگ کر اُن کے پاس آئی تھی.

"مجھے معاف کردیں بی بی جی اپنی خودغرضی میں. میں نے آپ کی جان خطرے میں ڈال دی لیکن آپ بہت بڑے اور نیک دل کی مالک ہیں آپ آرام سے وہاں سے نکل سکتی تھیں.

لیکن آپ نے میری مدد کی. بی بی جی بہت بہت شکریہ آپ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی. اگر آپ وقت پر نہ پہنچتی تو یہ درندہ پتا نہیں میری بیٹی کے ساتھ کیا کرتا."

بتول کی بات پر آہان کی غصے سے اِشمل کی کلائی پر گرفت مزید مظبوط ہوئی تھی جس پر بتول کو تسلی دیتے اِشمل نے کن اکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا تھا.

جو سُرخ آنکھوں سے اُسے گھور رہا تھا.

"نہیں تم نے غلط نہیں کیا. تمہاری جگہ وہاں جو بھی ہوتا یہی کرتا. تمہیں شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے."

نرمی سے اُسے کہتے اِشمل آہان کے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی.

آہان کا ارادہ بھی پہلے بتول کی حرکت پر اُسے سبق سیکھانے کا تھا. مگر اُس کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر خاموش ہی رہا تھا.

لیکن اُس کی بات سن کر اِشمل پر غصے میں مزید اضافہ ہوچکا تھا. جس نے جان بوجھ کر خود کو خطرے میں ڈالا تھا.

سارے راستے اُن دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی. آہان اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا. اور اِشمل نے اتنے غصے میں دیکھ کر اُسے چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا تھا. غصہ تو اُسے بھی آہان پر تھا. جس نے اُس کی اتنی کالز کی جواب میں اُسے ایک بار بھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا وہ بھی تو ایسے ہی فکرمند تھی نا اُس کے لیے.

لیکن یہ بھی مانتی تھی کہ اُس کی اپنی غلطی آہان کی غلطی سے کہیں بڑی تھی.

آہان اِشمل کو حویلی میں چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا.

گھر میں سب اُن دونوں کے خیر خیریت پر واپس آجانے پر بہت خوش تھے.

حسنین رضا میر نے اتنی بڑی مصیبت ٹل جانے کی وجہ سے سب کا صدقہ خیرات کیا تھا. بہت سارے بکرے ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کیے گئے تھے.

ہاجرہ بیگم بہت خوش تھیں اور ﷲ کے حضور اپنے پچھلے گناہوں پر معافی مانگتے آئندہ کبھی بھی دوسروں کو خود سے کمتر سمجھنے سے توبہ کرلی تھی. اُن کا رویہ گھر میں سب سے بہت اچھا ہوچکا تھا.


حویلی میں حنا اور عارفین کی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں. اور سب لوگ اُس میں زور و شور سے حصہ لے رہے تھے. کیونکہ دن کم تھے اور کام زیادہ تھا. اِشمل بلکل بڑی بہو کی طرح ہر کام میں پیش پیش تھی.

آہان اُسے چھوڑنے کے بعد گھر واپس نہیں آیا تھا. بلکہ وہیں سے شہر کے لیے نکل گیا تھا. اُس کی واپسی مہندی والے دن صبح ہوئی تھی. اِشمل کا آہان پر اب پارہ کچھ زیادہ ہی چڑھ چکا تھا جس نے ایک بار بھی اُسے فون کرنے کی زحمت نہیں تھی.

اِس لیے آہان کے آنے کا سن کر وہ ایک بار بھی اُس کے سامنے نہیں گئی تھی. آہان اُسے کتنی بار بلوا چکا تھا لیکن اِشمل بھی مکمل طور پر اُسے اگنور کرتے اپنے کام میں مصروف تھی.

گھر میں باقی سب بھی دونوں کی ناراضگی نوٹ کرچکے تھے. لیکن آہان کے معاملے میں کوئی بھی بول کر اپنا بینڈ نہیں بجوانا چاہتا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


"بھابھی آپ نے تیار نہیں ہونا جلدی کریں نا."

حفصہ کمرے میں داخل ہوتے اِشمل کو ابھی ایسے ہی بیٹھا دیکھ عجلت میں بولی.

حنا کو تیار کرنے بھی بس بیوٹیشن پہنچنے والی تھیں.

"ہوتی ہوں تیار یار ابھی تو بہت ٹائم ہے."

اِشمل نے بے دلی سے جواب دیا.

وہ آہان کے ہوتے کمرے میں بلکل نہیں جانا چاہتی تھی. اِس لیے اُس کے تیار ہوکر نکلنے کا ویٹ کررہی تھی. ایک ملازمہ کو اُس نے اِس کام پر لگا رکھا تھا.

"بھابھی اتنے دنوں سے ایک بات آپ سے کرنی تھی. سمجھ نہیں آرہا کیسے کروں آپ سے لیکن آج آہان بھائی کی بات سن کر مجھے لگا آپ کو اِس بارے میں علم تو ضرور ہونا چاہئے."

حفصہ حد درجہ سنجیدہ انداز میں کہتی اِشمل کے پاس صوفے پر آبیٹھی.

اِشمل کے ساتھ ساتھ حنا نے بھی چونک کر اُس کے اتنے سنجیدہ انداز کی طرف دیکھا تھا.

"کیا بات ہے حفصہ سب ٹھیک ہے. ایسا کیا کہا آہان نے."

اِشمل نے کبھی اُسے اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا. اور آہان کی ایسی کیا بات تھی.

"وہ اُس دن میں نے ہاجرہ امی کو بابا سے آہان بھائی کی دوسری شادی کروانے کے بارے میں بات کرتے سنا تھا. آپ کو شاید علم نہیں اِس بات کا لیکن جیسے ہر خاندان کی اپنی روایات ہوتی ہیں. ویسے ہی ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ مرد کو ہر حال میں دو شادیاں کرنی ہوتی ہیں.

دادا جان نے بھی دو شادیاں کی. بابا اور فرقان چچا کی مثال تو آپ کے سامنے ہے. ویسے ہی آہان بھائی کو بھی دوسری شادی کرنی ہوگی."

حفصہ نے ایک پل ٹھہر کر اِشمل کا دھواں ہوتا چہرا دیکھا تھا. حنا کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کی دھمکی دیتی حفصہ ہمت کرکے پھر بولی تھی.

"پہلے تو بھیا اِس بات کے حق میں نہیں تھے لیکن آج صبح ہی اُن کے حویلی واپس آنے کے بعد میں نے اُنہیں ہاجرہ امی سے بات کرتے سنا. جس میں وہ بسمہ سے دوسری شادی پر رضامندی دے رہے تھے."

حفصہ کی بات ختم ہوتے ہی مشکل سے خود پر کنٹرول کھوتے اِشمل غصے سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی. یہ بات سن کر اُس کے اندر جیسے آگ لگ چکی تھی.

" آہان رضا میر میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں."

اِشمل بنا حفصہ کے ایکسپریشنز پر غور کیے جلدی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی.

جب اندر آتی ملازمہ نے اُسے آہان کے بلانے کا بتایا تھا. جس کا کوئی بھی جواب دیے بغیر اِشمل اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی.

"بدتمیز حفصہ یہ کیا بکواس کی تم نے بھابھی سے. کب ایسی کوئی روایت ہے ہمارے خاندان میں. اور آہان بھائی بھابھی سے کتنا پیار کرتے ایسی کوئی بات ہوتی بھی تو اُنہوں نے نہیں ماننی تھی."

حنا حفصہ کی کلاس لیتے بولی. کیونکہ اِشمل جتنے غصے میں گئی تھی اُسے تو ڈر ہی لگ رہا تھا.

"تو اور کیا کرتی. ایک دوسرے سے کتنا پیار کرتے دونوں. اور ایک دوسرے سے ناراض الگ الگ بلکل بھی اچھے نہیں لگ رہے. بھیا بے چارے صبح سے بھابھی کو کتنی بار بلا چکے لیکن بھابھی اُن کے ہاتھ لگنے کو تیار ہی نہیں. میں نے تو بس اپنے بھیا کی مدد کرنے کی کوششں کی ہے."

حفصہ ہنستے ہوئے بولی.

"اور اگر جو اِس بات سے صُلہ ہونے کے بجائے بات اور بگڑ گئی تو دونوں ہی غصے والے ہیں. مجھے تو بہت ٹینشن ہورہی. تمہیں اتنی بڑی بات بھابھی کو نہیں کہنی چاہئے تھی."

حنا کو اُن دونوں کی بہت فکر ہورہی تھی آہان کے غصے سے تو وہ واقف ہی تھی اور اِشمل بھی ابھی بہت غصے میں گئی تھی.

"تمہیں تو بس ٹینشن لینے کا بہانہ چاہئے. یقین رکھو مجھ پر کچھ نہیں ہوگا."

حفصہ کی بات پر حنا اُسے گھور کررہ گئی تھی.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


اِشمل جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے آہان رضا میر پر نظر پڑی تھی.

بلیک کُرتا شلوار میں اُس کی مردانہ وجاہت مزید نمایاں ہو رہی تھی. دروازے کھلنے کی آواز پر آہان نے پلٹ کر اُس کی سمت دیکھا تھا. جب اِشمل غصے سے اُس کی طرف بڑھی تھی.

"آہان رضا میر کیا سمجھتے ہو تم خود کو. جب جو دل میں آئے گا کرو گے. کسی کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے تمہیں."

اِشمل آہان کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر اُس کو گریبان سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے چلائی تھی.

"غصہ مجھے تم پر کرنا چاہئے. اور اپنی اتنی بڑی غلطی ماننے کے بجائے اُلٹا تم مجھ پر غصہ کر رہی ہو."

اتنے دنوں بعد اِشمل کو سامنے دیکھ آہان کا مزاج کافی خوشگوار ہوچکا تھا. لیکن اِشمل کے اِس انداز پر حیرت سے اُسے دیکھا تھا.

جو اُس کے بے حد قریب کھڑے اُس کے کالر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچے اُسے گھور رہی تھی.

آہان ناراضگی کے باوجود بھی اُس کی حرکت پر ہولے سے مسکرایا تھا. کیونکہ اگر اِشمل کی جگہ کوئی اور یہ حرکت کرتا تو اب تک اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوتا.

"تو اور کیا تمہاری دوسری شادی کا سُن کر تمہیں پھولوں کے ہار پہناؤں."

اِشمل کی بات پر آہان نے اچھنبے سے اُس کی طرف دیکھا.

"کس نے کہی یہ بات تم سے."

آہان نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر قریب کرتے پوچھا. جب اِشمل کی پوری بات سنتے حفصہ کی شرارت پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا.

"بات تو سچ ہے یہ میں کیا کروں. خاندان کی روایت سے انکار تو نہیں کرسکتا. "

آہان سنجیدہ انداز میں اُس کی طرف دیکھتا دنیا کا جیسے سب سے بے بس انسان معلوم ہورہا تھا.

"میں تمہارے ساتھ ساتھ اُس چڑیل کا بھی قتل کر دوں گی. اگر تم نے ایسا کچھ سوچا بھی تو."

اِشمل اُس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت پر غور کرتے بغیر چلائی تھی.

"تم صرف میرے ہو تم پر صرف اور صرف میرا حق ہے. خبردار جو کسی کو بھی میرا حق دینے کے بارے میں سوچا. اِس بار میں کہہ رہی ہوں آہان رضا میر مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا."

بات کرتے اِشمل کی آنکھوں سے کئی آنسو بہہ نکلے تھے. جن کو دیکھ آہان کا دل بے چین ہوا تھا.

"میں مذاق کررہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے. اور حفصہ نے بھی صرف تمہیں میرے پاس بھیجنے کے لیے ایسا کہا ہوگا. میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا. تمہارے علاوہ میری زندگی میں کسی کی کوئی گنجائش نہیں. میری جان میری محبت کو بس اتنا ہی سمجھی ہو کیا."

آہان اُسے اپنے سینے میں بھینچتا بھرپور جذبات کے ساتھ بولا. جب اُس کی بات سنتے اِشمل کے اندر تک سکون اُتر گیا تھا.

"میں نے اُس دن تمہیں بہت کالز کی تھیں لیکن تم نے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا. میں اتنی پریشان تھی. سب کے سامنے مجھ پر غصہ بھی کیا اور پھر اتنے دن دور رہے ایک بار بھی بات نہیں کی."

اِشمل نے اُس کے سینے پر سر رکھے سارے قصور گِنوائے تھے.

"تمہارا حویلی سے باہر ہونے کا سن کر میرا خود پر سے کنٹرول ختم ہوچکا تھا. وہ گھٹیا شخص تمہیں نقصان پہنچا سکتا تھا. اِس لیے اُس وقت سب کے سامنے تمہیں ڈانٹ دیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوں.

اور جہاں تک رہی اتنے دن دور رہنے کی بات تو وہ میں جلدی جلدی اپنے تمام اہم کام نبٹا کر آیا ہوں تا کہ حنا اور عارفین کی شادی کے بعد ہم آرام سے اپنے ہنی مون پر جا سکیں."

آہان کی بات سنتے اُس کی آخری بات ہر شرم سُرخ ہوتے اِشمل اُس کے سینے سے سر ہٹاتے پیچھے ہٹی تھی.

"مجھے دیر ہورہی ہے. ابھی تیار بھی ہونا ہے."

اِشمل دوبارہ اپنی کلائی آہان کے قبضے میں دیکھ کر دھیرے سے بولی.

"جاناں اپنی شادی پر تو میں تمہیں مہندی اور بارات کی دلہن کے رُوپ میں محسوس نہیں کرپایا تھا. لیکن اپنا حق تو میں کسی صورت نہیں چھوڑتا. اِس لیے آج اور کل میرا حق سود سمیت دینے کے لیے تیار رہنا. الماری چیک کر لو تمہارے لیے کچھ موجود ہے وہاں."

اُس کی گال پر اپنے جذبات کی شدت بخشتے وہ کمرے سے نکل گیا تھا. لیکن اُس کی بات پر اِشمل کے دل میں ہلچل سی مچ چکی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

"واؤ بھابھی کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں آپ."

اِشمل کو حنا کے روم میں داخل ہوتا دیکھ حفصہ چہکتے ہوئے بولی.

"واؤ کی کچھ لگتی. شرم نہیں آتی زرا بھی تمہیں."

اِشمل کے گھورنے پر حفصہ ڈھیٹ بن کر مسکرائی تھی.

"آپ کے چہرے کی شادابی سے لگ رہا صُلہ ہوچکی ہے. ماشاءﷲ بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ."

محبت سے اِشمل کے جگمگاتے رُوپ کی طرف دیکھتے وہ بولی.

اِشمل آہان کے لائے ہوئے خوبصورت سے ییلو اور اورنج کلر کنٹراسٹ کے لانگ فراک میں پھولوں کا زیور پہنے بے حد حسین لگ رہی تھی.

"نہیں بھئ آج تو سب سے زیادہ ہماری حنا غضب ڈھا رہی ہیں."

اِشمل پیار سے حنا کے سجے سنورے شرمیلے رُوپ کی طرف دیکھتے بولی.

جو ییلو اور گرین شرارے میں ملبوس ہلکے سے میک اپ سر پر دوپٹہ لیے مہندی کی دلہن کے رُوپ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی.

تھوڑی ہی دیر میں اِشمل اور حنا اُسے تھام کر نیچے لے آئی تھیں. حنا کو اِس طرح سب کی نگاہوں کا مرکز بننا بہت کنفیوز کررہا تھا. جب اِشمل نے اُس کا ہاتھ تھام کر حوصلہ دیتے سٹیج پر بیٹھے عارفین کے ساتھ بیٹھایا تھا. آج تو عارفین کی چُھب بھی نرالی تھی.

آہان کی نظریں تو اِشمل کے حسین رُوپ میں اٹک کر رہ گئی تھیں. جو اُسے سب کے سامنے ہی بہکنے پر مجبور کررہا تھا.

حنا کو تسلی دیتے اِشمل اب خود ہی آہان کی بولتی نظروں سے کنفیوز ہوچکی تھی.

ہاجرہ بیگم کے کسی کام سے ملازمہ کو ہدایت دینے وہ اندر کی طرف بڑھی تھی. ابھی وہ راہداری سے گزر رہی تھی. جب کسی نے اُسے بازو سے پکڑ کر قدرے تاریک کونے کی طرف کھینچا تھا.

اِس سے پہلے کے اِشمل لی چیخ نکلتی آہان نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا.

آہان کے ایسا کرنے سے اِشمل کی آنکھیں باہر کو نکلی تھیں.

"کیا ہوا."

آہان نے حیرت سے اُس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹاتے پوچھا.

"آہان یہ کیا طریقہ ہوا میری لپ سٹک خراب ہوگئی ہوئی تو."

اِشمل کے منہ بسورنے پر آہان مسکرایا تھا.

"وہ تو میں ویسے بھی خراب کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں."

آہان معنی حیزی سے کہتا اُس پر جھکا تھا.

"نہیں آہان پلیز."

اِشمل نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھے اُسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی تھی. لیکن آہان اُس کے دونوں ہاتھ گرفت میں لیتے پیچھے موجود دیوار کے ساتھ ٹکا چکا تھا.

آہان نے جھک کر اُس سے اُٹھتی مہندی اور موتیے کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں بسایا تھا. اور اُس کی ماتھے پر سجی بندیا پر ہونٹ رکھ دیے تھے.

"آہان آپ کیا کررہے ہیں ملازم سب اندر ہی ہیں کوئی بھی اِس طرف آسکتا ہے."

اِشمل ہمیشہ کی طرح اُس کے جذبات کی شدت سے گھبراتے ہوئے بولی.

"تو چلو پھر بیڈ روم میں چلتے ہیں."

آہان شرارتی انداز میں کہتے اُسے اُٹھانے جھکا تھا. جب اِشمل دھیرے سے چلائی تھی کیونکہ آہان سے کوئی بعید نہیں تھی وہ واقعی اُسے سب کے سامنے اُٹھا کر بیڈ روم میں لے جاتا.


"جاناں ابھی کے لیے تو چھوڑ رہا ہوں لیکن کل رات کسی

قسم کی کوئی مہلت نہیں ملنے والی."

اِشمل کے ہونٹوں کو ہلکے سے چھوتے گھمبیر سرگوشی میں اُسے باور کرواتے آہان وہاں سے نکل گیا تھا.

اِشمل دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو نارمل کرتے چہرے پر پیاری سی مُسکان سجائے اندر کی طرف بڑھ گئی تھی.

وہ بہت خوش تھی اور دل سے اپنے رب کی شکر گزار تھی جس نے اتنی محبت اور عزت کرنے والے شوہر سے اُس کو نوازا تھا. آہان رضا میر کے بغیر اب وہ جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی.

¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

بارات کا فنکشن بھی خیرو آفیت سے انجام پاچکا تھا. اِشمل کے گھروالوں نے بھی بارات میں شرکت کی تھی. اسما بیگم اور سلمان صاحب اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں خوش اور آباد دیکھ کر مطمیئن ہوچکے تھے.

حنا پر دلہن بن کر بہت رُوپ آیا تھا لیکن عارفین بھی کچھ کم نہیں لگ رہا تھا.

حنا کو تھوڑی ہی دیر پہلے حفصہ اور اِشمل باقی کزنز کے ساتھ عارفین کے روم میں بیٹھا کر گئی تھیں. حنا کا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا.

اُسے ابھی انتظار کرتے تھوڑا سا ٹائم ہی گزرا تھا جب دروازہ کھول کر عارفین اندر داخل ہوا تھا. حنا ویسے ہی سرجھکائے بیٹھی رہی تھی.

عارفین بیڈ پر اُس کے سامنے آبیٹھا تھا. عارفین کو قریب دیکھ حنا کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا. اُس کے ہاتھ پسینے سے بلکل گیلے ہوچکے تھے.

عارفین اُس کی گھبراہٹ محسوس کرکے ہولے سے مسکرایا تھا.

حنا ریڈ کلر کے لہنگے میں بے انتہا حسین لگ رہی تھی. اُس کی شرماتے و گھبراتے انداز نے اُس کے حسن میں مزید اضافہ کر رہے تھے. اِس لڑکی کی اُس نے بچپن سے خواہش کی تھی.

اپنی ماں کا برتاؤ دیکھ کر تو اُسے اپنی یہ خواہش پوری ہوتی ناممکن ہی لگی تھی. لیکن جب جذبے سچے ہوں تو منزل مل ہی جاتی ہے.

عارفین نے ہاتھ بڑھا کر حنا کا کانپتا ہاتھ تھاما تھا.

"حنا میں جانتا ہوں تم نے اپنی زندگی میں بہت دکھ اور محرومیاں دیکھی ہیں. لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آنے والی زندگی میں اِن سب چیزوں کو تمہارے قریب بھی نہیں آنے دوں گا.

پہلے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تھا کیونکہ اُس وقت تمہارے معاملے میں بولنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا تھا. مگر اب آنے والی زندگی میں ایسا بلکل نہیں ہوگا. تم زندگی کے ہر قدم پر مجھے اپنے ساتھ پاؤ گی."

عارفین کے دل میں اپنا مقام دیکھ کر حنا کے دل میں اِس رشتے کے حوالے سے موجود خدشات جاتے رہے تھے.


حنا نے نگاہیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا تھا. لیکن اُس کی جذبے لُٹاتی آنکھوں میں دیکھنا اُس کے بس کی بات نہیں تھی.

"تم میری اولین چاہت ہو. یہ دل ہمیشہ تمہارے لیے دھڑکا ہے. اور جب تک سانسیں ہیں. یہ تمہارے لیے ہی دھڑکتا رہے گا."

عارفین حنا کو قریب کرتے محبت سے بولا.

اُس کے عمل پر حنا کی دھڑکنے سپیڈ پکڑ چکا تھا.

"یار میں ہی کب سے بولی جا رہا ہوں. تم بھی کچھ بولو. میرے کان تمہارے اظہار کے منتظر ہیں."

عارفین کی محبت بھری سرگوشی پر حنا نے شرماتے ہوئے اُس کے سینے میں سر چھپا لیا تھا.

اُس کی معصوم حرکت پر عارفین دل سے مسکرایا تھا. کیونکہ جانتا تھا حنا کبھی بھی زبان سے اپنی محبت کا اقرار نہیں کرے گی.

عارفین اُس کے گرد حصار کھینچتے اُسے اپنی محبت کی حسین وادی میں لے جاچکا تھا.


¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤


آہان ڈرائنگ روم میں بیٹھا حسنین رضا میر اور باقی سب کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا. جب اُس کی نظر ڈرائنگ روم کے باہر سے گزرتی اِشمل پر پڑی تھی.

بارات میں اپنے ہوش رُبا حُسن کے ساتھ اُس نے آہان کو اچھا خاصہ گھائل کیا تھا.

ابھی تو اُس کو اِشمل کو ٹھیک سے دیکھنے کا موقع بھی نہیں مل پایا تھا. لیکن اِس وقت اُس کو چینج کرکے بلکل سادہ حلیے میں دیکھ آہان کو بہت بُرا فیل ہوا تھا.

دل ہی دل میں اِشمل سے اُس کی اِس گستاخی کا بدلہ لینے کا سوچتے آہان مسکرا کر واپس سب کے ساتھ باتوں میں شامل ہوچکا تھا.

کافی دیر بعد سب کے اُٹھنے کے ساتھ وہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا. لیکن خالی کمرہ دیکھ آہان کی کشادہ پیشانی پر سلوٹیں نمایہ ہوئی تھیں.

کل رات اِشمل کے اسرار پر اُس نے اُسے حنا کے روم میں سونے کی پرمیشن دے دی تھی لیکن لگتا تھا اُس کی بیوی کچھ زیادہ ہی فری ہوگئی تھی.

آہان ابھی اِشمل کو بلانے پلٹا ہی تھا جب اُس کی نظر ٹیرس سے آتی روشنی پر پڑی تھی. جیسے ہی اُس نے ٹیرس میں قدم رکھا سامنے کا منظر دیکھ مبہوت رہ گیا تھا.

ریڈ اور وائٹ گلاب سے بہت خوبصورت ڈیکوریشن کی گئی تھی. پورے ٹیرس پر چھوٹے چھوٹے بہت سارے خوبصورت دیے روشن کیے گئے تھے. جو اندھیرے میں بہت ہی دلکش منظر پیش کررہے تھے.

اُن سب پر سے ہوتے آہان کی نظریں ایک منظر پر جم چکی تھیں. جہاں ٹیرس کے بلکل سینٹر میں پھولوں سے سجے تخت پر اِشمل اُس کے لائے ریڈ لہنگے میں سجی سنوری چہرے پر گھوگھنٹ کیے بیٹھی تھی.

آہان اتنے خوبصورت سرپرائز پر دل سے مسکرایا تھا. پچھلے دنوں اُسے اندازہ ہوچکا تھا کہ اِشمل اُس سے ویسی ہی محبت کرنے لگی ہے جیسی اُس نے خواہش کی تھی.

لیکن آج اُس کے اِس دلفریب اظہار پر آہان کا دل خوشی سے جھوم اُٹھا تھا.

وہ مدہوش سی چال چلتے آگے بڑھا تھا. اِشمل کے بے حد قریب بیٹھتے آہان نے اُس کا گھوگھنٹ اُلٹ دیا تھا.

لیکن اِشمل کے بے پناہ حُسن پر نظر پڑتے ہی وہ خود کو بہکنے سے نہ روک پایا تھا.

سولہ سنگھار کیے وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کے سامنے تھی.آہان کی نظر اُس کی ناک میں پہنی نازک سی نتھ میں اٹک کر رہ گئی تھی.

اُس نے ہاتھ بڑھا کر محبت سے اُس کی نتھ کو چھوا تھا. اِشمل اُس کے لمس پر کسمسا کر رہ گئی تھی. آہان کی جذبے لُٹاتی نظروں پر وہ خود میں سمٹی تھی.

" میری زندگی میں آنے اور اِسے رونق بخشنے کا بہت بہت شکریہ میری جان.

آج جو سرپرائز دیا ہے تم نے اِس کا شکریہ میں لفظوں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے ادا کروں گا. اور آج ریڈ لباس پہن کر تو تم نے میرے جذبات کو مزید بھڑکا دیا ہے. اب میری شدتیں برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ میری جان."

آہان کہتے ساتھ اُس کی نتھ کھولتا اِشمل کے چہرے پر جھکا تھا. آہان کے لیے اب اپنے جذبات پر بند باندھنا بہت مشکل ہورہا تھا.

اُس کے چہرے اور گردن پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتے آہان اپنی بانہوں میں اُسے نرمی سے بھرے اندر کی طرف بڑھ گیا تھا.

آج حویلی کا ہر شخص اپنی جگہ خوش اور مطمئن تھا.کیونکہ دکھ اور مصیبتوں کے بادل چھٹ چکےتھے اور اُنہیں خوش حال اور خوش و خرم زندگی کی نوید مل چکی تھی.

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mera Dil Pukary Tujhe Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mera Dil Pukary Tujhe written by  Farwa Khalid Mera Dil Pukary Tujhe   by Farwa Khalid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages