Basilsila E Ta Azal By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 2 July 2024

Basilsila E Ta Azal By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Basilsila E Ta Azal By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Basilsila E Ta Azal By Zeenia Sharjeel Complete Novel  

Novel Name:Basilsila E Ta Azal

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لو

رات کے بارہ بجے کا وقت تھا سنسان سڑک پر پانچ سے دس منٹ بعد کسی گاڑی گزرنے کی آواز آتی۔۔۔۔ وہ ہاتھ بعد کسی اندیشے کے تحت پیچھے مڑ کر ایک نظر ڈال لیتی۔۔۔ پرانے اور بد رنگ کپڑے،، پیر میں موجود گھسی ہوئی چپل سے اس کی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا یقیناً وہ کسی کے گھر میں کام کرنے والی نوکرانی تھی جو گدے میں ایک بچے کو تھامے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار لیے بھاگنے کے انداز میں تیزی سے آگے قدم بڑھائے چلی جا رہی تھی۔ ۔۔۔۔ اس کی نظر راستے میں ایک ٹیلیفون بوتھ پر پڑی اس نے اپنے پاس موجود مطلوبہ نمبر پر فون ملایا 

"صاب ام کام کرچکی ہے، بچہ امارے پاس ہے وعدے کے مطابق انعام تیار رکھو ام بچہ لے کر آتی ہے" 

اپنی بات مکمل کر کے وہ ٹیلی فون بوتھ سے نکل کر دوبارہ بچے کو گود میں لیے اپنی منزل پر پہنچنا چاہ رہی تھی مگر شاید آج منزل پر پہنچنا اس کے نصیب میں نہیں تھا کیوکہ جو اس کے پیچھے تیز رفتار سے ٹرک آ رہا تھا اس کا ڈرائیور نشے میں تھا جو اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے 

ٹرک سے ٹکرانے کے باعث بچہ اچھل کر سامنے کچرے کے ڈھیر پر گر پڑا مگر وہ کام کرنے والی گناہ کا کام کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی   

****

درد سے اس کا پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا وہ بیڈ پر گٹری کی مانند لیٹی ہوئی رو رہی تھی خاموشی میں اس کے رونے کی آواز اس کی تکلیف کو بیان کر رہی تھی۔۔۔ اتنے میں بیڈروم کا دروازہ کھلا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مڑ کر آنے والے کو دیکھتی مگر اور کون ہو سکتا تھا بھلا اس کے شوہر کے سوا 

"کیا ہوا زیادہ درد ہو رہا ہے دکھاؤ ذرا" وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا ساتھ ہی اسکی شرٹ کی زپ کھولی۔۔۔۔ اسکی کمر جا بجا لال نشانات سے بھری ہوئی تھی 

"کون سا تمہیں مار کر مجھے خوشی ہوتی ہے آخر ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہو جو میرا ہاتھ اٹھے"

وہ نرمی سے بولتا ہوا اس کی کمر پر موجود نشانات پر نرمی سے اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔ رونا اب سسکیوں میں بدل چکا تھا کیوکہ اب وہ اپنے شوہر کے ہونٹوں کا لمس ان نشانات پر محسوس کر رہی تھی جس سے اسے راحت کی بجائے مزید تکلیف ہو رہی تھی،،، مگر وہ چاہ کر بھی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔۔۔ کیوکہ وہ اس کا انجام جانتی تھی

"تمہیں اپنے بھیا کو ہمارے بیڈروم کی باتیں نہیں بتانی چاہیے تھی جان، میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔۔۔ جانتی ہو اس بات کا مطلب تم نے اسے میرے بارے میں بتا کر آج مجھے ہی بے لباس کر دیا یہ اسی بات کی ایک چھوٹی سی سزا ہے تاکہ تم آئندہ احتیاط کرو"

وہ نشانات پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا اس سے مخاطب ہوا

"جانتی ہو نا تمہیں کتنا پیار کرتا ہوں میں۔۔۔ اس دنیا میں وہ تم ہی ہو جسے میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں، زندگی مانتا ہو تمہیں اپنی"

اب وہ اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر اپنی شرٹ اتار رہا تھا 

"آج نہیں پلیز۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے"

شوہر کی طلب کو سمجھتے ہوئے بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا،، اس سے پہلے وہ اپنی بات پر پچھتاتی اس کی ریشمی زلفیں،، محبت لوٹانے والے شوہر کی مٹھی میں تھی

"زور سے بولو مجھے آواز نہیں آئی"

وہ مٹھی میں اس کے بالوں کو جکڑے ہوئے نرمی سے پوچھ رہا تھا

"نہیں کچھ نہیں" اسے دوبارہ رونا آنے لگا۔۔۔ وہ رونے کے درمیان بولی

"شاباش اب چپ ہو جاؤ تمھارا رونا مجھے پریشان کر رہا ہے"

وہ اس کے بالوں کو چھوڑ کر اس کے آنسو پونچھتا ہوا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر،، اس کی گردن پر جھگ چکا تھا۔۔۔

وہ اس کی بات مانتے ہوئے اپنے آپ کو رونے سے باز رکھ رہی تھی مگر اس کے باوجود اپنی سسکیوں کو نہیں روک پا رہی تھی کمرہ ایک دفعہ پھر اس کی سسکیوں کی آواز سے گونج اٹھا مگر اسکی سسکیاں سننے والا اس کا شوہر اپنی ضرورت پوری کرنے میں مگن تھا 

****

تقریباً رات کے دو بجے کا وقت تھا جب ناصر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا گلی میں اندھیرے اور سناٹے کے باعث کتوں کی بھونکنے کی آواز ماحول کو مزید بھیانک بنا رہی تھی مگر وہ ان سب کا عادی تھا اس لیے بناء کسی خوف کے چلتا چلا جا رہا تھا

ویسے بھی آج دو دن کے بعد ایک اچھا 'شکار' اس کے ہاتھ لگا تھا اس لئے اس کے ہاتھ میں موجود تھیلی کھانے پینے کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ اب وہ دو دن بغیر کسی کا پرس مارے آرام سے بیٹھ کر کھا پی سکتا تھا،،،، کل ہی اس محلے کا گٹر بھر چکا تھا اور گندا پانی گٹر سے ابل کر باہر آچکا تھا،، گندے پانی سے بچ کر پھیلانگتا ہوا وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ رہا تھا 

جیسے ہی وہ گھر کے قریب آیا کتوں کے بھونکنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ اسے کسی بچے کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی سامنے کچرے کے ڈھیر پر جب اس کی نظر پڑی تو ایک چار ماہ کا بچہ کچرے کے ملبے کے اوپر اپنے گدے سمیت پڑا ہوا بلک بلک کر رو رہا تھا 

"لوگ بھی حرام کر کے اپنا گند کچرے پر پھینک جاتے ہیں" وہ سوچتا ہوا اس بچے کو نظرانداز کرکے جانے لگا مگر سامنے سے تین چار کتوں کو اکھٹا دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا یہ کتے اس بچے کو بری طرح بھنبھوڑ کر رکھ دیں گے نہ جانے کس احساس کے تحت اس نے گدے میں موجود اس بچے کو گدے سمیت اٹھا لیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا 

****

"آگیا تو،، تجھے کچھ احساس ہے کب سے بھوکی مر رہی میں"

نسرین دروازہ کھولنے کے ساتھ ہی اس پر شروع ہو چکی تھی 

"اور یہ کس کو اٹھا لایا ہے تو"

اب اس نے گدے میں موجود بچے کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ناصر سے کہا 

"اری چپ بھی ہوجا اندر تو آنے دے اور اسکو پکڑ۔۔۔ بتاتا ہوں سب"

ناصر جھنجھلا کر بولا اور بچہ نسرین کو تھمایا نسرین نے بچے کو دیکھا تو کپڑوں سے وہ کسی اچھے گھرانے کا بچہ محسوس ہورہا تھا شاید بھوک کی وجہ سے وہ بری طرح رو رہا تھا نسرین نے تھیلی میں موجود کھانے پینے کی چیزوں میں سے دودھ کی تھیلی نکالی۔۔۔۔۔ اپنے گھر کی دیوار کے پار برابر میں شبو سے منے کی فیڈر تھوڑی دیر کے لئے مانگی 

"اب بتا کہاں سے لایا ہے اس بچی کو"

دودھ پلا کر جب نسرین نے اس کو واش کرانے کے غرض سے ڈائپر اتارا تو اسے معلوم ہوا وہ بچی ہے 

"یہ لڑکی ہے خیر جو بھی ہو،، صبح یتیم خانے میں دے آؤں گا۔۔۔ کچرے کے ڈھیر میں روتی ہوئی ملی تھی تو لے کر آگیا۔۔۔ جا اب میرے لیے کچھ کھانے کو لے آ" 

ناصر نے سوتی ہوئی بچی کو دیکھ کر نسرین کو مخاطب کیا۔۔۔ بچی اب دودھ پی کر سو چکی تھی

ناصر اور نسرین دونوں ہی اس پسماندہ علاقے میں رہنے والے میاں بیوی تھے۔۔۔ ناصر ایک سست، کام چور قسم کا انسان تھا جس سے محنت مزدوری نہیں ہوتی تھی پیٹ پالنے کے لیے چھوٹی موٹی چوری چکاری سے کام چلا لیتا تھا جس سے نسرین کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوکہ اس کے نشیئ باپ نے اپنا بوجھ اتارنے کے لئے نسرین کو ناصر کے ساتھ بیاہ دیا تھا۔۔۔ باپ کے گھر میں آٹھ بہن بھائیوں کو دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے میئسر ہوتی تھی اس لئے نسرین بھی فاقوں میں پلی بڑھی تھی شوہر بھی ایسا ملا تھا تو اسے کوئی رنج نہیں تھا۔۔۔ بس دوسرے بچوں کو دیکھ کر ایک ہوک سی دل میں اٹھتی کے کاش اس کے بھی کوئی اولاد ہوتی۔۔۔ جیسے اس کی ماں آٹھ بچے پیدا کرکے اولاد جیسی نعمت سے مالامال تھی مگر شادی کے دس سال گزرنے کے بعد بھی ناصر اور نسرین دونوں ہی اولاد سے محروم تھے۔۔۔ سوتی ہوئی بچی پر نسرین نے نظر ڈالی 

"میں اس کو یتیم خانے میں نہیں دینے والی،،، یہ میں تجھے بتا دیتی ہوں اسے تو میں پالوں گی" 

بچی کا ماتھا چوم کر وہ اونگھتے ہوئے ناصر سے بولی 

****

"کون رہتا ہے بھائی اس گھر میں جو اتنے برے طریقے سے چیخ رہا ہے" 

جنرل اسٹور پر راشن لیتے ہوئے گاہک نے دکاندار کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔ یہ اسی پسماندہ علاقے کا دوسرا گھر تھا جہاں سے روز معمول کے مطابق چیخنے چلانے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھی

"یہ افتخار احمد کا گھر ہے اس محلے کا سب سے مشہور گھر،، یہاں تو ہر دوسرے دن لڑائیوں کی آوازیں آتی ہیں شاید آپ نئے آئے ہو اس محلے میں آئستہ آئستہ عادی ہو جاؤ گے" 

دکاندار نے راشن سے بھرا ہوا شاپر گاہک کو تھماتے ہوئے کہا گاہک ایک نظر اس گھر پر ڈال کر اپنے راستے ہولیا جہاں سے پچھلے آدھے گھنٹے سے ایک عورت اور مرد کی چیخنے کی آواز سنائی دے رہی تھی

"روز روز آلو کی سبزی کیوں بنا لیتی ہے تو،، تنگ آگیا ہوں میں روز روز اس آلو سے سر پھوڑتے ہوئے"

افتخار اب کھانے کی پلیٹ کچن کے دروازے پر مارتے ہوئے زور سے چیخا

"اگر روز آلو منہ میں نہیں چلتے تو گوشت لا کر دیا کرو نا۔ ۔۔ اپنی بوٹیاں تو کاٹ کر، پکا کر تمہارا پیٹ بھرنے سے رہی"

فائزہ بھی اس کی طرح چیختے ہوئے افتخار سے بولنے لگی اور نیچے پڑی ہوئی پلیٹ کو اٹھا کر صبح ناشتے کے سنے ہوئے برتنوں میں پٹخ کر کچن سے نکل آئی۔۔۔ اسے یہ دو سوٹ سلائی کے آج بھی مکمل کرنے تھے،، اس لئے وہ افتخار کے کپڑے نہیں دھو سکی تھی جسکی وجہ سے افتخار زور زور سے چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔ خیر یہ تو معمول کی بات تھی فائزہ جب اسکے سارے کام کر دیتی وہ تب بھی کوئی نہ کوئی موضوع اٹھا کر اس سے لڑتا۔۔۔۔ فائزہ اس بات کی عادی تھی  اس وقت گھر کی صفائی بھی نہیں ہوسکی ویسے بھی یہ دو کمروں کا سیلن زدہ اور بوسیدہ مکان،،، اس کی صفائی ستھرائی دو دن کے بعد ہی ہوتی تھی

"پچھلے ہفتے گوشت لاکر تو دیا تھا کونسی دعوت میں اڑا دیا تو نے،، یقیناً اپنی اس بھوکی بہن کے گھر بھجوا دیا ہوگا چوری چھپے"

افتخار بلند آواز میں چیختا ہوا اب اس کی بہن کو بھی اپنی لڑائی میں گھسیٹ رہا تھا

"شرم کرو افتخار جب تم جوئے میں اپنی آدھی تنخواہ ہار کر آ جاتے ہو تو وہی میری بھوکی بہن تمہمارے گھر پر راشن ڈلواتی ہے،، میں بھلا کیا اس کے گھر میں تمہاری چند بوٹیاں چوری چھپے دونگی۔۔۔۔ یہ جو دو سنپولے پیدا کر کے میری سینے پر ڈالے ہیں نہ تم نے ان کا پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے مجھے تمہارے ساتھ"

فائزہ اپنی بہن کا نام سن کر ثوبی اور کاشی کو کوسنے لگی ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے پیار نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ ایک انہی کی وجہ سے تو وہ اس شخص کے ساتھ گزارا کر رہی تھی۔۔۔ مگر جب افتخار اپنی لڑائی میں اس کے گھر والوں کو گھسیٹا تو وہ بھی پھر کسی کا لحاظ نہیں کرتی

"جواب دے گی آگے سے مجھے"

افتخار کا زور دار تھپر ایک لمحے کے لئے فائزہ کا منہ بند کر گیا 

"ذلیل انسان ہاتھ کیوں اٹھایا تم نے مجھ پر"

فائزہ نے زور سے چیختے ہوئے افتخار سے کہا 

"زبان چلائے گی،، گالی دی گی تو مجھے"

اب وہ لاتوں اور مکّوں سے فائزہ کو مارتا ہوا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا 

****

"ثوبی کاشی کیسے ہو تم دونوں"

یہ گورنمنٹ اسکول کا کچا میدان تھا جہاں دھول آڑاتے ہوئے بچے کھیل رہے تھے وہی قریب چبوترے پر لنچ بریک ٹائم میں وہ دونوں بھائی گھر سے لائے ہوئے اپنا ٹفن نکال کر پراٹھا کھا رہے تھے تبھی سیرت ان کے پاس آئی

"میں ٹھیک ہوں لیکن میں اپنا پراٹھا تمہیں ہرگز نہیں دوں گا"

کاشی نے سنجیدگی سے پراٹھا کھاتے ہوئے سیرت کی بات کا جواب دیا جس پر اس نے برا سا منہ بنایا 

"تم سے بات کون کر رہا ہے دن بدن اونٹ  کی طرح لمبے ہوتے جا رہے ہو اور تمیز نام کو نہیں"

وہ اپنی چھوٹی سی ناک سکھیڑتی ہوئی کاشان کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔ معصوم وہ صرف شکل سے تھی عادتاً  تو وہ ایک دم کاٹ کھانے کو دوڑ جائے  

"دن بدن تمہارے بھی پر نکلتے جا رہے ہیں،، ناصر کے نقش قدم پر چل کر ہمارے محلے کا نام روشن کروں تم" کاشان نے اس کو ایسے انداز میں دیکھ کر کہا جیسے وہ اس کے سارے کارناموں سے باخبر ہوں 

"خبردار جو تم نے آبا کو کچھ کہا تو ورنہ میں لحاظ نہیں کرونگی اس پتھر سے تمہارا سر پھاڑ دوں گی" سیرت نے اسے دھمکی دی جس پر کاشان ہنسا

"تم ذرا یہ پتھر اٹھا کر تو دیکھو پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں" کاشان نے بغیر لحاظ کے اسے بولا تبھی سیرت پتھر اٹھانے کو آگے بڑھی مگر ثوبان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا 

"کیا ہوگیا ہے سیرت فوراً غصہ آجاتا ہے تمہیں۔۔۔ آو میرا پراٹھا کھالو"

ازلی رحمدلی کے باعث ثوبان نے بیچ بچاؤ کرایا کیوکہ وہ اپنے جنگجو بھائی سے بھی واقف تھا اور ناصر کی اس افلاطون بیٹی سے بھی

"تمہیں معلوم ہے ثوبی میں نے اور اماں نے کل رات سے کچھ بھی نہیں کھایا،، اب آبا کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملتا تو اس میں میرا یا اماں کا کیا قصور"

سیرت روتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی کاشان سے اس کی نوٹنکی برداشت نہیں ہوئی اس لیے وہ وہاں سے اٹھ کر اپنا ٹفن لے کر چلا گیا۔۔۔ وہ اس تین گھنٹے کی فلم سے اچھی طرح واقف تھا شکل سے وہ جتنی معصوم لگتی تھی اندر سے وہ اتنی ہی میسنی تھی

"اچھا رونا بند کرو کہہ تو رہا ہوں تم میرا پراٹھا کھالو" ثوبان نے اپنا ٹفن سیرت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا 

"مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے ایسے، تم کیا کھاؤ گے آؤ مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس محبت بڑھتی ہے"

وہ معصومیت سے کہتے ہوئے اکثر ثوبان کو یہی جملہ چپکا جاتی تھی اور اس کے حصے کا آدھے سے زیادہ کھا جاتی تھی 

"بھوک نہیں ہے مجھے تم کھالو" ثوبان جھوٹ کا سہارا لیتا ہوا سیرت کے معصوم چہرے سے نظریں ہٹا کر میدان میں کھیلنے والے بچوں کو دیکھنے لگا 

13سالہ ثوبان اور کاشان جوکہ ایک ساتھ دنیا میں آئے، 8ویں جماعت کے طالبعلم تھے جبکہ 8 سالہ سیرت تیسری جماعت میں پڑھتی تھی مگر ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے وہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اس محلے میں سارا نچلا (لور) کلاس طبقہ بستا تھا مگر ناصر اپنی چوری چکاری کی وجہ سے جبکہ افتخار کا گھر لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے مشہور تھا

"دے دیا تم نے اپنے حصے کا پراٹھا اس سیرت کو"

چھٹی کے وقت پیدل گھر جاتے ہوئے کاشان ثوبان سے پوچھنے لگا


"بیچاری وہ رات سے بھوکی تھی کاشی،، ناصر نے بہت خود غرضی سے کام لیا جو اسے یتیم خانے نہیں داخل کرایا۔۔۔ وہاں رہ کر اسے دو وقت کی روٹی تو میئسر ہو جاتی" ثوبان نے اظہار خیال کیا۔۔۔ سیرت کے ساتھ سارا محلہ بھی اس بات سے واقف تھا کہ ناصر اور نسرین نے سیرت کو کچرے دان سے اٹھا کر پالا ہے


"میں تمہاری دوسری بات سے اتفاق کر سکتا ہوں، مگر پہلی بات سے ہرگز نہیں۔۔۔۔ وہ بیچاری بلکل نہیں ہے ایک نمبر کی جھوٹی ہے اور چورنی بھی"

کاشان نے پتھر اٹھا کر سامنے سے آتے پاگل کتے کو مارا تاکہ وہ دونوں گلی آسانی سے پار کر کے گھر جا سکیں


"بری بات کاشی بےشک اسے بیچاری مت کہو مگر چوری اور جھوٹی بھی مت کہو"

ثوبان کو کاشان کا سیرت کو یوں مخاطب کرنا بالکل اچھا نہیں لگا،، اچھا تو اسے اپنے باپ کا انداز بھی نہیں لگتا تھا جس طرح سے وہ اس کی ماں کو مخاطب کرتا تھا مگر اپنے باپ کے سامنے آواز اٹھانے کا مطلب ماں کے ساتھ ساتھ اپنی شامت بھی لانا تھا


"جھوٹی اور چورنی اس لیے کہا ہے کہ کل شام میں نے خود ناصر کے ہاتھ میں مرغی دیکھی جسے وہ اٹھائے گھر جا رہا تھا اور رات کو تازہ بھنی ہوئی کڑھائی کی خوشبو ان کے گھر سے آ رہی تھی مرغی چور کہیں کا،، معلوم نہیں کس کے گھر سے مرغی چرا کر لایا تھا۔۔۔۔ اور وہ تمہیں کہہ رہی تھی کہ میں کل رات سے بھوکی ہو۔۔۔۔ ایک نمبر کی فنکار ہے دیکھ لینا بڑی ہو کے ناصر سے بھی چار ہاتھ آگے نکلے گی میری مانو تو اسے دور رہو۔۔۔ روزانہ ہی مسکینوں جیسی شکل بنا کر کسی نہ کسی لنچ اڑا لیتی ہے"

کاشان نے سیرت کے اور بھی کارنامے ثوبان کو سنائیں تاکہ اپنے بھائی کی آنکھیں کھول سکے


"ہاں مجھے معلوم ہے وہ بریک میں کسی نہ کسی کا لنچ اس کے ساتھ کر رہی ہوتی ہے بلکہ تین دن پہلے اس نے سر یاسر سے بھی پیسے ادھار مانگے تاکہ وہ اسکول کی کتابیں خرید سکے" ثوبان افسوس سے کاشان کو بتانے لگا


"ہاہاہا یعنی سر یاسر کو بھی الو بنایا اچھا ہی ہوا، کچھ دن پہلے انھوں نے مجھے مرغا بنایا تھا کمر اکڑ کر رہ گئی تھی،، انہیں تو بلکل سہی لوٹا۔۔۔۔ بالشت بھر کی یہ لڑکی ہے اور کام دیکھو اس کے۔۔ بڑی ہو کر تو یہ بہت بڑی چیز نکلنے والی ہے"

کاشان نے مزے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا جو ثوبان کو پسند نہیں آیا


"کاشی تمیز سے بات کرو وہ لڑکی ہے اور کسی لڑکی کو اس طرح نہیں کہنا چاہیے"

اپنے پورے گھر میں ایک ثوبان ہی تھا جو مزاج کا ٹھنڈا تھا اپنے گھر کے افراد کے برعکس


"تم افتخار احمد کے بیٹے سے یہ توقع کر رہے ہو کہ وہ تمیز سے بات کرے۔۔۔ وہ بھی عورت ذات سے"

کاشان تلخی سے ہنسا


"یہی سمجھ لو، افتخار احمد کا بیٹا اس کے دوسرے بیٹے کو عورت کی عزت کرنا سکھا رہا ہے،،، ویسے کل تم نے مبین کو کیوں مارا۔۔۔ اگر وہ گھر آکر ابو یا امی سے شکایت کر دیتا تو" ثوبان نے اپنے غضیلے بھائی سے وجہ جاننی چاہی کچھ بھی تھا فائزہ کے ساتھ ساتھ وہ کاشان سے بھی بہت محبت کرتا تھا


"اپنے کام سے کام نہیں رکھتا مبین اس لئے پٹا مجھ سے،، کل آ کر کہہ رہا تھا اپنے ماں باپ سے بولو ہلکی آواز میں لڑا کریں کان دکھتے ہیں دونوں کے چیخنے کی آوازوں سے،، تبھی اس کے کان کے نیچے رکھ کر دیا"

کاشان ثوبان کو اپنا کارنامہ فخریہ انداز میں بتانے لگا


"صحیح تو کہہ رہا ہے وہ اور کس کے گھر سے اس طرح لڑنے مارنے پیٹنے کی آوازیں آتی ہیں بھلا"

ثوبان نے افسردگی سے کہا جس کا جواب کاشان کے پاس بھی موجود نہیں تھا باتیں کرتے کرتے وہ دونوں اسکول سے گھر پہنچے جہاں سوجھے ہوئے منہ کے ساتھ فائزہ نے اپنے دونوں بیٹوں کا استقبال کیا دونوں ہی فائزہ کی شکل دیکھ کر سمجھ گئے کہ آج پھر ابو نے ان کی ماں کو مارا پیٹا ہے اگثر ایسا ہی ہوتا تھا اور یہ وہ وقت ہوتا تھا جب وہ تینوں بلا وجہ میں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہوتے تھے


ثوبان نے اسکول کا بستہ رکھ کر سب سے پہلے اپنا اور کاشی کا پلنگ جھاڑا پھر کچن میں جا کر صبح کے سنے ہوئے برتن دھونے لگا برتن دھونے کے بعد ایک پلیٹ میں آلو کی بھجیا نکال کر چنگیر سے روٹیاں لیتا ہوا وہ کاشی اور فائزہ کے پاس آیا۔۔۔۔۔ کاشان افتخار پر آیا ہوا اپنا غصہ ضبط کئے ہوئے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا ساتھ ہی فائزہ خاموش سلائی مشین پر کپڑے سی رہی تھی۔۔۔۔ ثوبان نے کاشان کو کھانے کے لئے بلایا تو وہ سر جھٹکتا ہوا ثوبان اور فائزہ کے پاس آیا ثوبان اور کاشان کھانا کھانے لگے کبھی ایک نوالہ کاشان فائزہ کے منہ میں ڈالتا تو کبھی ثوبان۔۔۔۔ فائزہ اپنی آنکھوں سے نمی چھپاتی ہوئی چپ کر کے نوالے چبانے کے ساتھ اپنے کام میں مشغول تھی


****


"غلام بخش یسریٰ کہاں ہے"

بہروز نے گھر آتے ہی گھر کے ملازم سے اپنی بیوی کے بارے میں پوچھا جو کہ شام کے وقت گھر کے لان میں اسے اپنا استقبال کیے ہوئے نظر آتی تھی


"بیگم صاحبہ تو آج صبح سے ہی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی صاحب جی" غلام بخش نے بہروز کو بتایا


"ٹھیک ہے میں دیکھ لیتا ہوں اور رنعم آگئی اسکول سے" اب بہروز نے اپنی چھ سالہ بیٹی کے بارے میں دریافت کیا


"رنعم بٹیا تو دوپہر میں ہی آ گئی تھی شاہدہ نے سے کھانا کھلا کر سلا دیا تھا۔ ۔۔ اب بٹیا کے ٹیوٹر آئے ہیں وہ پڑھ رہی ہے۔ ۔۔ کیا آپ کے لئے چائے بنواو صاحب"

غلام بخش نے بہروز کو تفصیل سے اگاہ کیا


"ہاں شاہدہ سے کہہ کر شام کی چائے بنواؤ میں اور یسریٰ تھوڑی دیر آتے ہیں"

بہروز غلام بخش کو کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھتا اپنے روم میں چلا گیا جہاں یسریٰ کھڑکی کے پاس کھڑی ہوئی باہر نہ جانے کس کو دیکھ رہی تھی بہروز اندر داخل ہوا تو اس نے گردن موڑ کر بہروز کو دیکھا پھر دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی بہروز سبز انکھوں میں گہری اداسی دیکھ کر سمجھ گیا یہ کیفیت آج پھر اس واقعے کی وجہ سے ہوئی ہے ہر چھ مہینے سال بعد ایک دن ایسا ضرور آتا جو یسریٰ اس کیفیت میں گھِر کر اپنے شوہر، بیٹی اور گھر سے،، بلکہ دنیا سے بیگانے ہوکے اپنی ذات میں مگن ہو جاتی۔۔۔۔ وہ سارا دن چپ رہتی کسی سے کوئی بات نہیں کرتی نہ ہی رنعم پر توجہ دیتی۔۔۔ سارا وقت اپنے کمرے میں موجود رہتی۔۔۔۔ بہروز اپنے سر سے پولیس کیپ اتار کر ٹیبل پر رکھتا ہوا اس کے پاس آیا


"یسریٰ آج میں بہت تھکا ہوا ہو بزی دن گزرا کافی،، چائے کی شدید طلب ہو رہی ہے چلو باہر، میں شاہدہ سے چائے کا کہہ کر آیا ہوں" بہروز نے اس کو کندھوں سے تھام کر اپنائیت سے کہا۔۔۔ وہ اسے کمرے سے نکالنا چاہتا تھا تاکہ اس کا ذہن کھلے آٹھ سالوں سے وہ یہی کام کرتا آ رہا تھا جب جب یسریٰ کی اس طرح کی کیفیت ہوتی تو وہ یسریٰ پر توجہ دے کر اور ٹائم دے کر اسے اس کیفیت سے باہر نکالتا


"مجھے بہت تھکن فیل ہو رہی ہے بہروز،، سوچیں ہیں جو دماغ سے نکلتی ہی نہیں وہ سب یاد نہ کرو پھر بھی دماغ کے کسی کونے سے سوچیں خود باہر نکل آتی ہیں اور مجھے پچھتاوے میں گھیرنے لگتی ہیں کیوں اس رات میں اتنی گہری نیند سوگئی کہ صبح میری دنیا ہی ویران ہو گئی"

یسریٰ بہروز کے کندھے پر اپنا سر ٹکائے اس سے اپنے دور بیان کر رہی تھی۔۔۔۔ وہی تو تھا اس کے دکھ سکھ کا ساتھی اس کا شوہر جو اس کے دکھ کو سمجھتا تھا۔۔۔ دکھ اس واقعہ کا بہروز کو بھی بہت تھا مگر وہ یسریٰ کی حالت دیکھتے ہوئے اپنا دکھ بھول کر یسریٰ کو حوصلہ دیتا


"مت ہلکان کیا کروں خود کو بھی اور مجھے بھی۔۔۔ رنعم کو دیکھو،، مجھے دیکھو، ہم دونوں کو بھی تو تمہاری ضرورت ہے پلیز خود کو سنبھالو،، قدرت کے فیصلوں سے نہیں لڑا جا سکتا چلو شاباش آج باہر چلتے ہیں۔۔۔۔ رنعم کا بھی موڈ ہو رہا تھا آؤٹنگ کا بہت دنوں سے تم دونوں کو کہیں لے کر بھی نہیں گیا آج ڈنر بھی باہر کریں گے"

بہروز نے اسے بہلانے کے غرض سے پروگرام بنا لیا جبکہ آج اسے ایک بہت امپورٹنٹ کیس کے سلسے میں کہیں جانا تھا جب سے اس کا عہدہ بڑھا تھا۔۔۔ وہ ڈی۔ایس۔پی کی پوسٹ پر فائز ہوا تھا تب سے اس کے اوپر ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی تھی،،، اپنی مصروفیت کے باعث وہ رنعم اور یسریٰ کو ٹائم نہیں دے پا رہا تھا مگر آج اسے اپنی مصروفیت چھوڑ کر اپنی بیوی اور بیٹی کے لیے ٹائم نکالنا تھا


****


آخر وہ کیوں اتنی دی مول تھی کے ہر کوئی اسے چھوڑ کر چلا جاتا تھا آج اس کے باپ کو مرے ہوئے تیسرا دن تھا وہ بھی اس کو اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا افسردگی سے اس نے سوچتے ہوئے اپنا سر دوبارہ گھٹنوں میں ٹکا دیا۔ ۔۔۔


برابر والے فلیٹ سے آ کر فاطمہ کا بیٹا اسے چاولوں سے بھری پلیٹ دے گیا تھا مگر اس کی بھوک کو مرے ہوئے تین دن ہو چکے تھے کیوکہ آب کھلانے والا کوئی موجود نہیں تھا باہر کا دروازہ کھولا تو اس نے سر اٹھا کر آنے والے کو دیکھا


"دروازہ ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا، لاک کیوں نہیں کیا"

آنے والے کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ بات کا آغاز کیسے کرے مگر کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا اس لیے دروازہ لاک نہ کرنے کا پوچھ بیٹھا


"یہاں کون آئے گا کوئی چور تو آنے سے رہا،، ہے ہی کیا اس فلیٹ میں چرانے کو"

اس نے تلخی سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر کہا معلوم نہیں وہ ہر بار کیوں اس کے سامنے آجاتا تھا


"ابھی معلوم ہوا تہمارے آبا کا،، مجھے افسوس ہے کہ میں آ نہیں سکا"

آنے والے نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر کہا شاید تھوڑی دیر پہلے کافی رو چکی تھی


"تم ابھی بھی کیوں آئے ہو، کر لیا نہ افسوس اب جاؤ یہاں سے"

وہ تلخی سے کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی مگر آنے والے نے اس کی بات کا برا مانے بغیر اسے اپنے گلے سے لگا لیا، گلے لگنے کی دیر تھی وہ اب دوبارہ اس کے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگ گئی۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے اس کا سر تھپتھپا کر دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد ڈالے وہ اسے دلاسا دینے لگا کافی دیر رونے کے بعد جب اسے تھوڑا صبر آیا تو وہ اس سے الگ ہوئی


"اپنے گھر سے کیوں واپس آ گئی تھی"

وہ اب نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا


"کیا کرتی وہاں رہ کر،، بچا ہی کیا تھا وہاں"

اس نے پلنگ پر بیٹھ کر جواب دیا


"میں تمہیں لینے آیا ہوں،، آب میرے ساتھ میرے گھر چلو"

آنے والے نے اسے دیکھ کر کہا


"کون سا گھر میرا گھر یہی ہے اور میں یہی رہو گی۔ ۔۔ تمہارے ساتھ میں کہیں نہیں جانے والی"

اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا


"بیوی کا اصلی گھر اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چلنے والی ہو میرے گھر"

آنے والے نے اپنا اور اس کا رشتہ واضح کرتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا


"شوہر۔۔۔ مجھے جب اپنے شوہر کی ضرورت تھی، تو میرے شوہر کو میری رتی برابر پروا نہیں تھی"

اس نے طنزیہ مسکراتے ہوئے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر کہا


"تمہیں اندازہ ہے تمہارے وہاں سے جانے کے بعد بابا کو کتنا صدمہ پہنچا کل رات میں انہیں ہسپٹل سے واپس گھر لے کر آیا ہوں پیرالائیز ہیں وہ تین دن سے،،، میں کتنا پریشان تھا تم اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی"

وہ اس کے طنزیہ لہجے کو اگنور کرتا ہوا اپنی صفائی دینے لگا جسے سن کر وہ ایک پل کے لیے چپ ہو گئی


"جب میرا باپ مر رہا تھا تو مجھے تمہاری ضرورت تھی مگر تم اپنے بابا کو دیکھتے ہوئے بیوی کو تو کیا، پوری دنیا کو بھلائے ہوئے تھے"

اس نے ایک دفعہ پھر سامنے کھڑے شخص پر طنز کیا


"غلط بات مت کرو مجھے اس وقت تمہارے ابا کی ڈیتھ کا علم نہیں تھا،، نہ ہی تم نے مجھے ایسا کچھ بتایا"

اب کی بار اس کی طنزیہ گفتگو سن کر اسے بھی غصہ آنے لگا جبھی وہ بولا


"تو تم نے کونسی میری کالز ریسیو کی ویسے میرا میسج تو پڑھا ہوگا خیر یہ تو اب فضول کی باتیں ہیں۔۔۔ اب تم مجھے صرف اس بات کا جواب دو،، تمہیں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا ہے یا بیوی کے ساتھ کیوکہ یہ تو طے ہے میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانے والی"

وہ کھڑی ہو کر اس کے مقابل آ کر بولی سامنے کھڑا شخص اسے حیرانی سے دیکھنے لگا


"کیا فضول بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا"

اب اسے اپنی بیوی پر غصہ آنے لگا


"آپشنز تمہارے پاس موجود ہیں چوائس تمہاری ہے تمہیں اپنی بیوی یا ماں باپ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا"

وہ کندھے اچکا کر بولی


"میں اپنی فیملی کو نہ کسی کے پیچھے اگنور کرسکتا ہوں نہ چھوڑ سکتا ہوں اور تم بھی اب اسی فیملی کا حصہ ہوں اس لیے یہ بچکانہ اور بے وقوفانہ باتیں مجھ سے نہیں کرو اور چپ کر کے میرے ساتھ ابھی اور اسی وقت چلو"

ساری نرمی کو ایک طرف رکھ کر اس نے اپنی بیوی کا بازو پکڑا جسے اس کی بیوی نے فوراً جھٹک دیا


"میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والی اور تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے"

اس نے بھی سخت لہجے میں کہا سامنے کھڑے شخص نے غصہ کنٹرول کرکے اپنے لب بھینچے


"وہ میرے ماں باپ ہیں،، نہ میں انہیں چھوڑ سکتا ہوں نہ تمہیں اور رہی بات زبردستی کی تو بیوی ہو تم میری حق رکھتا ہوں تم پر سیدھی شرافت سے میرے ساتھ چلو مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرنا" وہ اس کو وارن کرتا ہوا اس کا بازو تھامے باہر نکلنے لگا مقابل کا رونا مزاحمت کرنا سب کچھ اگنور کرتا ہوا اسے گاڑی میں بٹھا کر گاڑی اسٹارٹ کر دی

"افتخار واپس کرو یہ پیسے ثوبی اور کاشی کی پڑھائی کے لئے جمع کیے ہیں میں نے"

فائزہ نے چیختے ہوئے افتخار سے کہا۔۔۔ گھر سے باہر نکلتا ہوا افتخار فائزہ کی آواز پر واپس آیا


"کون سا وہ ڈاکٹر یا انجینئر کی اولاد بنیں گے سالے،،، جو تو ان پر پیسہ لگا کر رہی ہے،،، تجھے مجھے کچھ نہیں ملنے والا جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا دونوں نے۔۔۔ اب ان دونوں سے کہہ دے کہ بستہ پھینک کر کام دھندہ شروع کریں تاکہ گھر میں چار پیسے آئیں"

فائزہ نے سلائی کرکے پیسے چھپا کر رکھے تھے مگر بدقسمتی سے وہ آج افتخار کے ہاتھ لگ گئے فائزہ کو معلوم تھا کہ وہ اس کی محنت کی کمائی اپنے جوئے میں اڑائے گا


"ان کو میں پڑھا لکھا اسی لئے رہی ہو وہ کم سے کم تمھاری طرح جانور نہ نکل سکیں،، شرم آنی چاہیے بیوی کی کمائی کو جّوئے میں اڑاؤ گے اور اپنی اولاد کو بھی کام دھندے سے اس لئے لگانے کی بات کر رہے ہو تاکہ تم خود آرام سے بیٹھ کر جوا کھیل سکوں لعنت ہے تم جیسے باپ اور شوہر پر"

فائزہ بے بس تھی اس سے اپنا پیسہ تو واپس نہیں لے سکتی تھی اس لیے غصے میں اسے برا بھلا کہنے لگی اور افتخار کو آج پھر فائزہ پر ہاتھ اٹھانے کا بہانہ مل گیا


"کیا بول رہی ہے تو لعنت بھیج رہی ہے تو مجھ پر، تیرے ماں باپ پر لعنت، پورے خاندان پر لعنت، منحوس عورت میری زندگی خراب کردی تو نے"

فائزہ فرش سے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر افتخار مسلسل لاتوں سے مار مار کر اس کی کوشش ناکام بنا رہا تھا اتنے میں ثوبان اور کاشان جو کہ اسکول سے گھر آ رہے تھے باہر سے ہی مار پیٹ کی آوازیں سن کر دونوں بھاگتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوئے


"ابو چھوڑو اسے" کاشان نے لپک کر باپ کو پکڑا۔۔۔ ثوبان فوراً ماں کی طرف ڈھال بن کر اس سے لپٹ گیا تاکہ مزید کوئی لات اس کی ماں کو نہ لگ سکے


"چھوڑ مجھے کاشی آج اس ڈائن کو مار ہی دوں گا"

افتخار کاشان سے اپنا آپ چھوڑ آتا ہوا دوبارہ فائزہ کی طرف بڑھا مگر کاشان نے افتخار کے پاس آ کر اس کا گریبان پکڑا اور اسے پیچھے دھکا دیا


"میں کہہ رہا ہوں اب ہاتھ نہیں اٹھانا امی پر"

کاشان نے غصے میں چیخ کر کہا اور افتخار جو کہ اس کے دھکے سے پیچھے جا گرا تھا تب ہی اس کی دھمکی دینے پر اٹھ کر اس کے پاس آیا


"تو ہوتا کون ہے مجھ سے کہنے والا، مارے گا مجھے؟ قد کیا نکال لیا سالے تو نے اپنے باپ کو دھکا دے رہا ہے" افتخار فائزہ کو چھوڑ کر کاشان کی طرف لپکا۔۔۔۔ کاشان کی شامت آتے دیکھ کر ثوبان فائزہ کو چھوڑ کر فوراً بیچ میں آ گیا


"ابو اس کو کچھ مت کہو وہ آئندہ کچھ نہیں بولے گا" ثوبان افتخار کے پاس آکر التجائی انداز میں بولا فائزہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے نیچے لیٹی ہوئی درد سے کراہ رہی تھی


"تو پیچھے ہٹ ثوبی"

افتخار ثوبان کو دھکا دیتا ہوا کاشان کے پاس آیا


"اب بول کیا بول رہا تھا تو"

وہ غصے میں کاشان سے پوچھنے لگا جیسے ہی وہ کچھ بولے افتخار نے سوچا ہوا تھا وہ ایسے خوب مارے گا افتخار کی پوچھنے کی دیر تھی کاشان نے دوبارہ افتخار کا گریبان پکڑا اور اسی دیوار کے ساتھ لگا دیا


"اب تم نے امی پر ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا"

غصے میں سرخ آنکھوں سے دیکھتا ہوا عہ افتخار کا گریبان پکڑ کر سنجیدگی سے بولا اس کے انداز پر ایک لمحہ افتخار بھی چپ کر کے اسے دیکھتا رہ گیا ثوبان چپ کر کے اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔۔۔ کاشان افتخار کا گریبان چھوڑ کر اسے گھورتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر بعد افتخار بھی ثوبان اور روتی ہوئی فائزہ کو دیکھ کر باہر نکل گیا جبکہ ثوبان آگے بڑھ کر فائزہ کا سر اپنی گود میں رکھ کر اسے چپ کرانے لگا


****


"سیرت میں تمہارے لئے کھانا لایا ہوں تھوڑا سا کھانا کھا لو"

آج صبح ہی نسرین کا انتقال ہوگیا تھا دو دن پہلے اسے معمولی سے بخار چڑھا آج صبح اسے خون کی بڑی سی الٹی ہوئی اس کے بعد زندگی نے اسے مہلت نہ دی اور وہ دنیا چھوڑ گئی محلے والوں نے مل کر ہی اس کے کفن دفن کا انتظام کیا ناصر سر پکڑے گھر سے باہر چند آدمیوں کے ساتھ بیٹھا تھا جب کہ سیرت خالی خالی آنکھوں سے محلے والوں کو دیکھ رہی تھی صبح سے شام ہوئی تو سب اپنے اپنے گھر ہو لیے۔۔۔ اس وقت سیرت گھر میں اکیلی تھی تب ثوبان اس کے لیے کھانا لے کر آیا


"ثوبی کیا اب اماں کبھی واپس نہیں آئے گی"

صبح سے ہی اس کے پیٹ میں کھانے کا ایک دانہ بھی نہیں گیا تھا مگر اسے بھوک کی کوئی ایسی طلب بھی نہیں تھی اسے معلوم تھا کہ وہ ناصر اور نسرین کی سگی اولاد نہیں ہے۔۔۔ ناصر نے اسے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا ہے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ چوری کرنا بری بات ہے اسکول میں یہی سب تو پڑھایا جاتا تھا پر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ناصر چوری کرکے اس کا پیٹ بھرتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم تھا اگر ناصر ایسا نہ کریں تو فاقوں سے مر جائے


"ہر انسان کو ایک نہ ایک دن جانا ہوتا ہے مگر تمہیں زندہ رہنے کے لیے کھانا کھانا پڑے گا"

وہ کھانے کی پلیٹ کو فرش پر رکھ کر اس کے برابر میں بیٹھتا ہوا بولا


"کون تھے میرے ماں باپ جو مجھے یوں کچرا سمجھ کر پھینک گئے، دیکھنا اگر وہ مجھے ملیں گے نہ میں اپنے ساتھ کی ہوئی ساری زیادتیوں کا ایک ایک کر کے بدلہ ان سے لو گے"

اس وقت آٹھ سالہ سیرت اپنی عمر سے بہت زیادہ بڑی لگ رہی تھی ویسے بھی وہ دونوں جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہاں کے بچے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے اپنی عمر سے پہلے ہی بڑے اور عقلمند ہو جاتے تھے


"ان سے نمٹنے کے لیے بھی تمہیں زندہ رہنا پڑے گا اور زندہ رہنے کے لیے کھانا کھانا پڑے گا"

ثوبان نے کھانے کی پلیٹ اس کی طرف کسکھائی


"آج پھر تم اپنے حصے کا کھانا میرے لے آئے"

سیرت کو اس کے گھر کے حالات کا بھی بخوبی اندازہ تھا اس لیے وہ ثوبان کو دیکھتے ہوئے بولی


"ہاں کیوکہ مجھے معلوم تھا آج تم سچی مچی بھوکی ہوگی"

ثوبان نے اس کو سنجیدگی سے دیکھ کر کہا،، غم میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔۔۔ آج پورے دن میں وہ پہلی دفعہ مسکرائی تھی اور اس کی معصوم سی مسکراہٹ دیکھ کر ثوبان نظریں چرآ گیا کیوکہ اسے معلوم تھا وہ آفت کی پرکالہ ہے، کہیں کوئی اس کے دل کی بات جان لے تو اس کی شامت ہی آجائے گی


"تمہاری امی بھی آج صبح آئی تھی، کیا کل پھر تمہارے ابو نے اسے مارا تھا،، اچھا خاصہ منہ سوجھا ہوا تھا آخر اتنا پٹ کیسے لیتی ہے تمہاری ماں، ہاتھ کیو نہیں توڑ دیتی وہ تمہارے ابو کے"

آج صبح محلے کی خواتین کے ساتھ فائزہ بھی سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ نسرین کے انتقال کی خبر سن کر آ گئی تھی جسے دیکھ کر سیرت اور دلی طور پر افسوس ہوا


"کیا کرے وہ بیچاری تمہاری جیسی ہمت نہیں ہے اس میں"

ثوبان روٹی کا نوالہ توڑ کر دال میں بھی بھگویا اور اس کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا جسے سیرت نے اپنے ہاتھوں سے تھام پر اپنے منہ میں رکھا


"اس میں ہمت نہیں تو کیا تم نے بھی ہمت نہیں ہے جو تم اپنے باپ کے ہاتھ توڑ سکوں"

سیرت نے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا


"تم مجھے میرے باپ کے ہاتھ توڑنے کے لئے کہہ رہی ہوں"

ثوبان نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو سیرت نے اس کے منہ میں نوالہ ٹھسا


"ہاتھ توڑ نہیں سکتے ہاتھ روک تو سکتے ہو"

سیرت نے سر جھٹک کر کہا اور پھر خود کھانا کھانے لگی ثوبان چپ کر کے اسے دیکھتا رہا


"شکل کیا دیکھ رہے ہو اب صبح تمہاری امی تمہیں ناشتہ دے گی ابھی تھوڑا بہت اسی میں سے کھالو ویسے بھی ساتھ کھانے سے محبت بڑھتی ہے"

وہ بولتی ہوئی دوبارہ کھانا کھانے لگی اس کی بات پر ثوبان نے مسکراہٹ چھپائی اور اسی کے ساتھ کھانا کھانے لگا


****


"بابا میری برتھ ڈے پر مجھے باربی ڈول والا کیک چاہیے"

6 سالہ رنعم نے پاس بیٹھے بہروز سے فرمائش کی


"اوکے میری جان جیسے بابا کی گڑیا ڈیمانڈ کرے گی بابا ویسے ہی اس کا برتھڈے کیک ارڈر کریں گے"

بہروز نے اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے کہا


"اپنی لاڈلی سے یہ بھی پوچھیں کہ ٹیچر اسکول میں کچھ پوچھتی ہیں تو اس کی آواز کیوں نہیں نکلتی، آج ہی پیرنٹس میٹنگ میں اس کی ٹیچر اس کے بارے میں بتا رہی تھیں یہ انکے پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیتی"

یسریٰ نے چائے کا کپ بہروز کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا


"مگر میں نے ٹیچر سے تو کہا تھا کہ میں ان کے کان میں آئستہ سے بتا دیتی ہوں تو وہ مجھے گھورنے لگی اب حسن مجھے مسکرا کر دیکھ رہا ہوتا ہے تو مجھ سے ٹیچر کی کوئسٹن کا آنسر نہیں دیا جاتا

رنعم نے اپنی سبز آنکھوں میں معصومیت سمائے ہوئے بہروز کو بتایا جس پر بہروز کے ساتھ ساتھ دوسرا بھی ہنس دی


"چلو ایسا تو نہیں ہے نا کہ میری بیٹی کو کچھ آتا نہیں ہے بس وہ صرف اپنی ٹیچر کو چپکے سے کان میں بتانا چاہتی ہیں تاکہ حسن نے سن لے"

بہروز نے رنعم کی سائڈ لیتے ہوئے کہا


"حسن سن ملے گا تو کون سی قیامت آ جائے گی کیا دوسرے بچے بھی ٹیچر کے کان میں کوئیسٹن کا آنسر دے رہے ہوتے ہیں"

یسریٰ نے رنعم کو دیکھ کر پوچھا


"یار تمہیں معلوم ہے میری بیٹی شائے ہے تھوڑی سی اس لئے اپنی ٹیچر کو الگ سے سنانا چاہتی ہے"

بہروز نے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے چائے کا کپ منہ سے لگایا


"بہروز اب آپ بلاوجہ کی اس کی سائڈ مت لیں اس طرح اس میں کونفیڈینس کی کمی آئے گی"

یسریٰ بھی بولنے کے بعد چائے پینے لگی


"اوکے مما آپ ناراض مت ہو اب آئندہ میں ایسا نہیں کروں گی رنعم نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا


"دیکھا میری بیٹی جیسی کسی کے پاس بیٹی نہیں ہوگی، اس عمر میں بچے کتنے ضدی ہوتے ہیں اور ایک میری بیٹی ہے ایک دفعہ میں بات سمجھ جاتی ہے" بہروز نے پیار بھری نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا تو یسریٰ بھی مسکرا دی اس میں واقعی کوئی شک نہیں تھا رنعم دوسرے بچوں کی بانسبت بالکل سیدھی سادی اور جلد بات مان جانے والی بچی تھی

"فیاض (فائزہ کا بہنوئی) کیوں آیا تھا میرے گھر پر"

جب سے کاشان نے افتخار کا گریبان پکڑ کر اسے دھمکایا تھا تب سے وہ فائزہ کے منہ زرا کم ہی لگتا تھا بلکہ زیادہ تر اب وہ گھر سے باہر رہنے لگا تھا دو دو دن بعد اس کا گھر آنا ہوتا تھا مگر اس کی فکر نہ فائزہ کو تھی نہ ثوبان اور کاشان کو کیوکہ اس کے گھر میں نہ ہونے سے کم از کم گھر میں سکون ہوتا تھا


اس وقت کاشان اور ثوبان اسکول گئے ہوئے تھی تبھی افتخار گھر میں آیا اور اپنے گھر سے نکلتے ہوئے فیاض کو دیکھ کر فائزہ سے اس کے آنے کا سبب پوچھنے لگا


"خیر خیریت معلوم کرنے آیا تھا"

فائزہ نے اس کو سرسری سے جواب دیا تاکہ دوسری کسی بات کو لے کر دوبارہ جھگڑا شروع نہ ہو جائے جبکہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس کو کھری کھری سنائے آج مہینے کی 15تاریخ ہو گئی تھی مگر ابھی تک افتخار نے گھر میں راشن اور خرچے کے پیسے نہیں دیے تھے۔۔۔۔ وہ کپڑوں کی سلائی کر کے چھوٹا موٹا سامان ثوبان یا کاشان سے منگوا لیتی،،، بہن سے اپنا دل کا بوجھ ہلکا کیا تو فائزہ کی بہن نے اسے پریشان دیکھ کر تھوڑا بہت راشن گھر میں ڈلوا دیا تاکہ بچے اور فائدہ بھوکا نہ رہے اور ایسا پہلی بار بھی نہیں ہوا تھا جب اس کے بہنوئی نے مدد نہ کی ہو۔۔۔۔ اکثر افتخار لڑائی جھگڑوں میں اس کے گھر والوں کو کھینچتا تو فائزہ بھی اپنے بہنوئی کی مدد کا طعنہ ضرور دیتی


"بڑی خیر خیریت معلوم ہورہی ہے بڑی خاطر داریاں ہورہی ہیں"

افتخار نے شربت کا خالی گلاس اٹھا کر اس پر طنز کیا


"کوئی مہمان گھر میں آتا ہے تو اس کی تواضع کی جاتی ہے سوکھے منہ مہمانوں کو کون بھیجتا ہے،، گلاس دو تاکہ دھو کر رکھو پھر ایک جوڑا بھی سینا ہے مجھے"

فائزہ نے تحمل سے بات کرتے ہوئے اسے گلاس لینا چاہتا


"ہاں ہاں تو، تو بڑی مہمان نواز ہے ہر آنے والے کا دل خوش کرتی ہے چل آج اپنے شوہر کا بھی دل خوش کر دے" افتخار نے فائزہ کا دوپٹہ اتار کر اسے چارپائی پر دھکا دیتے ہوئے کہا


"یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم، تمہیں شرم آنی چاہیے اپنی بیوی پر ایسا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے،، اپنی ساری تنخواہ تو جوئے اور نشے میں اڑا کر آرہے ہو بیوی اور بچوں کی پروا نہیں وہ جیئے یا مریں۔ ۔۔۔ راشن ڈلوانے آیا تھا وہ تاکہ ہمارا کچھ بھلا ہو جائے اور تم اتنی گری ہوئی بات کر رہے ہو تف ہے تمہارے جیسے انسان پر"

فائزہ چیختے ہوئے اٹھنے لگی اور اپنا دوپٹہ اس سے لینا چاہا


"چل نہ غصہ تھوک،، اب جیسے مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے تیرا اور فیاض کا چکر،، مدد کی آڑ میں وہ کیا کیا وصولتا ہوگا تجھ سے بدلے میں، میں کونسا برا مان رہا ہوں بس یہی کہہ رہا ہوں آج مجھے بھی خوش کر دے جیسے روز روز اپنے یار کو خوش کرتی ہے"

افتخار نے اس کا دوپٹہ نیچے پھینکا اور دوبارہ فائزہ کو تخت پر دھکا دیتے ہوئے اس پر جھکا


"پیچھے ہٹ جاؤ افتخار کرائیت آتی ہے مجھے تم جیسے مرد سے مار ڈالوں گی نہیں تو میں تمہیں"

افتخار فائزہ کے اوپرجھکا ہوا تھا فائدہ مسلسل چیختی ہوئی اسے پیچھے ہٹا رہی تھی اسے افتخار کی سوچ سے گھن آ رہی تھی اور اب افتخار سے بھی کھینچا تانی میں وہ اسکی قمیص پھاڑ چکا تھا۔۔۔ جب فائزہ کو کچھ نہیں سوجھا تو سامنے میز پر موجود اسٹیل کا گلاس فائزہ نے ہاتھ بڑھا کر اٹھایا اور پوری قوت سے افتخار کے سر پر مارا


"آآآآ افتخار درد سے بلبلاتا ہوا پیچھے ہٹا اور فائزہ کے منہ پر تھپڑوں کی بارش شروع کردی


"کمینی، الو کی پٹھی شوہر سے کرائیت آرہی ہے اور غیر مردوں کے ساتھ لیٹتے ہوئے کرائیت نہیں آتی تجھے" افتخار اب اسے مسلسل گالیاں دیتا ہوا مار رہا تھا


"کمینے، الو کے پٹھے تم ہو جو اپنی پاکبازی بیوی پر الزام لگا رہے ہو، نہیں رہوں گی اب میں تمہارے ساتھ مر جاؤ تم کہیں جاکر"

فائزہ اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی چارپائی سے اتر کر روتی ہوئی اپنا دوپٹہ گلے میں ڈالا ویسے ہی افتخار نے پیچھے سے آ کر دوپٹہ سے اس کا گلا گھوٹنا شروع کر دیا


"چھلتر باز عورت، خود گندے کام کرتی ہے اور مجھے گالی دیتی ہے تجھے نہیں رہنا میرے ساتھ، تو مجھے بھی نہیں رکھنا تجھے اپنے گھر میں"

وہ مسلسل اس کا گلا دوپٹے کی مدد سے پوری قوت سے گھوٹتا ہوا بولا


فائزہ کا ہاتھ پاوں چلانا کچھ کام نہیں آیا وہ مسلسل گلے سے عجیب سی آوازیں نکال کر اپنے بچاؤ کے لئے افتخار کا منہ اور بال نوچ رہی تھی مگر افتخار پر بھی ایک جنون طاری تھا تکلیف سے اب فائزہ کی آنکھیں باہر آنے لگی آنکھوں سے پانی کے بعد اب اس کے منہ سے اور ناک سے خون نکلنا شروع ہوگیا ہاتھوں میں موجود حرکت کی تیزی، کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئی اور گردن ایک طرف لڑھک گئی


****


"ثوبی کاشی جلدی اپنے گھر جاؤ تمہارا باپ تمہاری ماں کو بری طرح مار رہا ہے پڑوس والے نے تو پولیس کو فون کرکے بلا لیا ہے"

ثوبان اور کاشان جو کہ اسکول سے گھر لوٹ رہے تھے بھاگتی ہوئی سیرت ان کے پاس آئی اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ان دونوں کو بتانے لگی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہو پائی تھی کہ ثوبان اور کاشان نے گھر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا ان کے گھر کے آگے کافی رش لگا ہوا تھا


"بیٹا اندر نہیں جاؤ تم دونوں"

شاید کسی محلے کے آدمی نے ان دونوں کو کہا مگر وہ دونوں ہی گھر کے اندر داخل ہوئے زمین پیروں کے نیچے سے نکلنے کو تھی فائزہ کا بے جان وجود صحن کے بیچوں بیچ پڑا ہوا تھا اس کے کپڑے پھٹے ہوئے اور بال بکھرے ہوئے تھے ناک اور منہ سے نکلتا ہوا خون خشک ہوگیا تھا اور آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے پاس دیوار سے لگا ہوا افتخار بیٹھا مسلسل خوفزدہ نظروں سے فائزہ کو دیکھ رہا تھا


"امی"

وہ دونوں آگے بڑھ کر فائزہ کے بےجان وجوہ سے لپٹ کر رونے لگے۔۔۔ ثوبان نے روتے ہوئے آگے بڑھ کر چارپائی سے چادر اتار کر فائزہ کے نیم عریاں بدن پر ڈالی جب کہ کاشان آنکھوں میں غصہ لیے افتخار کو دیکھ رہا تھا


"نہیں میں نے نہیں مارا اسے،، یہ بدکردار تھی تیرے خالو سے چکر تھا اسکا"

کاشان کو ہاتھ میں ڈنڈا اٹھائے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر افتخار گھبراتا ہوا اس سے کہنے لگا


"میں نے کہا تھا نہ اگلی بار امی پر ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں مار دوں گا تم نے جان سے ہی مار دیا میری ماں کو"

کاشان ڈنڈے سے ایک کے بعد ایک ضربیں اپنے باپ کے سر پر لگاتا ہوا رو رہا تھا ثوبان جو کہ فائزہ سے لپٹا ہوا رو رہا تھا اس نے کاشان کے پاس آکر اسے روکنے کی بہت کوشش کی مگر آج اس پر بھی اپنے باپ کی طرح ایک جنون طاری تھا لگا تار پوری قوت سے ٨ سے ١٠ ضربیں ڈنڈے سے کاشان نے افتخار کے سر پر لگائی۔۔۔۔ گھر میں جب پولیس داخل ہوئی تو اس نے کاشان کو پیچھے ہٹایا


ایمبولینس کو فون کرکے بلایا گیا فائزہ کا مردہ وجود اور افتخار کا نیم مردہ وجود ایمبولنس میں ڈال کر اسپتال پہنچایا گیا جبکہ پولیس کاشان کو اپنے ساتھ لے گئی ثوبان روتا ہوا گھر میں تنہا رہ گیا


****


"ثوبی بریانی لائی ہو چلو دونوں مل کر کھاتے ہیں مل بانٹ کر کھانے سے محبت بڑھتی ہے"

سیرت ثوبان کے پاس آکر بولی آج پورا ایک ماہ گزر گیا تھا اس دلخراش واقعے کو گزرے ہوئے اس دن مسلسل سر پر ضربیں لگنے کی وجہ سے ایمبولینس میں ہسپتال جاتے ہوئے افتخار راستے میں دم توڑ گیا تھا جس کی وجہ سے کاشان پر قتل کا مقدمہ دائر ہو گیا مگر بچہ ہونے کی وجہ سے اور حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے اسے 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی اس طرح اس روز ثوبان نے اپنے ماں باپ کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کو بھی کھو دیا تھا۔۔۔ فائزہ کے انتقال پر محلے والوں کو بھی افسوس تھا اسی ہمدردی کی بناء پر چند دن تک کوئی نہ کوئی ثوبان کو ایک وقت کا کھانا دے جاتا مگر کب تک۔۔۔۔ اب اسے ہی کچھ ہمت کرنی تھی،،، پڑھائی اس کی ختم ہوگئی تھی مالک مکان کی کی ہمدردی اور رحمدلی کے باعث دو کمروں کا بوسیدہ مکان سر چھپانے کے لئے میئسر تھا مگر پیٹ کرنے کے لیے وہ کبھی کسی شاپ پر چند گھنٹے کے لئے بیٹھ جاتا تو ایک وقت دیہاڑی لگا کر اپنا پیٹ بھر لیتا زندگی اس کی پہلے ہی آسان نہیں تھی مگر اب گزارا اور بھی مشکل ہو گیا تھا


"کس کو بیوقوف بنا کر لوٹا ہے جو یہ بریانی لائی ہو۔۔۔ سیرت باز آجاؤ، لڑکی ہو تم۔۔۔ الٹا کسی دن لینے کے دینے پڑ گئے تو پچھتاؤ گی"

ثوبان تلخ ہوتا ہوا بولا وہ اتنا بڑا نہ تھا مگر سمجھ بوجھ رکھنے لگا تھا اس لیے سیرت کو سمجھاتے ہوئے بولا


"ایک تو میں تمہارے لئے کھانا لائی ہوں اوپر سے تم مجھے باتیں سنا رہے ہو اور یاد رکھنا سیرت صرف صورت سے معصوم ہے پچھتانے والی ہرگز نہیں، یقین نہیں آتا تو پنگا لے کر دیکھو تمہیں بھی مزہ چکھادو گی"

چھوٹی سی سیرت نے اپنی بڑی بڑی براون آنکھیں گھما کر بولی، ثوبان نے اس کی بات پر سر جھٹکا۔۔۔ وہ دو دن پہلے ہی کسی لڑکے کی ناک توڑ کر خون نکال چکی تھی جس نے ناصر اور اسے چور کہا تھا،،، وہ سیرت کی خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھا اسے معلوم تھا وہ سچ بول رہی ہے


"کس کو ماموں بنا کر بریانی لائی ہو" ثوبان نے سیرت کو دیکھتے ہوئے پوچھا

ایک سخت دن گزارنے کے بعد جب سیرت اس کے پاس آتی تھی تو یہ وہ لمحہ ہوتا تھا تب وہ اپنی تلخیوں سے جان چھڑا کر اسے باتیں کرتا تھا مگر وہ بھی روز نہیں آتی تھی آج بھی وہ دو دن بعد اس کے گھر آئی تھی


"بریانی والا بےوقوف تھا میری معصوم شکل پر چلا گیا زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اسے الو بنانے میں مجھے لگتا ہے زیادہ دن اس کا کاروبار نہیں چلے گا ٹھپ ہو جائے گا،، خیر چھوڑو یہ بتاؤ کاشی سے ملاقات ہوئی تمہاری"

سیرت کچن سے دو پلیٹ میں بریانی لے کر آئی ایک پلیٹ ثوبان کے سامنے رکھتے ہوئے دوسری پلیٹ سے کھاتے ہوئے وہ پوچھنے لگی


"انسپیکٹر بہت لالچی ہے پیسے لیے بناء ملاقات نہیں کرواتا"

ایک دفعہ پھر اسے پچھتاوے نے ان گھیرا


"کل اسکول سے چھٹی کر کے میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں ابھی تو کھانا کھاؤ"

سیرت نے خود بھی بریانی سے انصاف کرتے ہوئے ثوبان سے کہا۔۔۔۔ جب کہ وہ اپنے سامنے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھنے لگا جو کہ پوری اماں بنے اسے تسلی دے رہی تھی


"تمہارے جانے سے بہتر ہے کہ میں خود بھی نہ جاؤ، پولیس والے کس قسم کے ہوتے ہیں یہ تمہیں نہیں معلوم۔۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اسکول جاؤ اور اچھے کام سیکھو"

وہ اس کو اچھے کاموں کا مشورہ دیتے ہوئے خود اس کی چوری کی لائی بریانی کھانے لگا شاید بھوک ایسی چیز ہی ہوتی ہے


"مرضی ہے تمہاری بھئی"

وہ کندھے اچکا کر بولی ثوبان نے اس کو دیکھا اور خود بھی چپ کر کے کھانے میں مصروف ہوگیا

"کیا سوچ رہی ہو" بہروز جو بیڈ کے گراؤن سے ٹیک لگائے کافی دیر سے کیس اسٹڈی کر رہا تھا یسریٰ کو دیکھ کر پوچھنے لگا جو بیڈ پر لیٹے ہوئےمسلسل چھت کو گھور رہی تھی


"سوچ رہی ہوں کبھی کبھی آپ کو بھی کمی محسوس ہوتی ہوگی، بیٹا نہیں دے سکی میں آپ کو"

یسریٰ نے نظروں کا زاویہ بدلے بغیر بہروز سے کہا رنعم کی پیدائش کے بعد کچھ اندرونی پیچیدگیوں وہ دوبارہ کنسیو نہیں کر سکی


"کیا اس طرح کی باتیں سوچتی ہوں یسریٰ، میں نے تم سے کبھی شکوہ کیا یہ طعنہ دیا پھر کیوں اسطرح کا خیال آیا تمہارے دل میں"

بہروز فائل بند کرتا ہوا اسے دیکھ کر پوچھنے لگا


"آپ نے کبھی طعنہ نہیں دیا، نہ شکوہ کیا مگر آپ نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کو کبھی ایسا خیال نہیں آیا"

یسریٰ اب بہرروز کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی


"دیکھو یسریٰ ہر کام میں اوپر والے کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے چلو اگر بیٹے کے بارے میں میرے دل میں کبھی خیال بھی آیا تو میں یہ سوچ کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں صاحبِ اولاد رکھا، بیٹا نہیں ہے تو کیا ہوا، اولاد جیسی نعمت سے محروم تو نہیں ہے نا ہم دونوں۔۔۔ تم بھی یہ سب باتیں سوچنا چھوڑ دو اور رنعم پر دھیان دیا کرو بس"

وہ یسریٰ کا ہاتھ تھامے اسے پیار سے سمجھا جانے لگا


"رنعم پر ہی رہتا ہے میرا دھیان،،، کہیں اسے بھی کوئی انعم کی طرح"

سبز انکھوں میں خوف لیے یسریٰ نے پوری بات بولی بھی نہیں تھی بہروز نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا


"خدانخواستہ کیسی باتیں نکال رہی ہو منہ سے،،، ہماری کل کائنات رنعم ہی تو ہے اس کے بارے میں ایسی باتیں مت سوچو"

بہروز کے بولنے پر یسریٰ چپ ہوگئی وہ جانتی تھی بیٹی کھونے کا جتنا اسے غم تھا اتنا بہروز کو بھی ہے مگر وہ مرد تھا برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ۔۔۔


چند سالوں پہلے بہروز نے نامی گرامی شخصیت کو اکسپوز کیا تھا،،، جس پر کیس بھی چلا مگر پاور کی بنیاد پر وہ باعزت بری ہوگیا بعد میں جس کا خمیادہ بیٹی کی صورت بہروز کو بھکدنہ پڑا


****


یہ جیل میں cکیٹیگری کا بیرک تھا جہاں ١۵ قیدیوں کے رہنے کی جگہ تھی مگر وہاں پر ٢۵ قیدیوں کے گدے لائن سے بچھیں ہوئے تھے۔۔۔ پنکھے وہاں پر موجود تھے مگر آٹھ آٹھ گھنٹے لائٹ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، نہ پینے کے لئے ٹھنڈا صاف پانی میسر تھا


دو وقت کے کھانے کے نام پر پانی ملی پتلی دال اور تین روٹیاں دی جاتی ان تین روٹیوں کو محدود دال کے ساتھ کسی بھی طرح کھانا ہوتا کیونکہ دال صرف ایک دفعہ ملتی،، اتوار کے دن گوشت یا کوئی اچھی چیز دی جاتی


کاشان کو جیل میں وقت گزارتے ہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا جس میں صرف مشکل سے دو بار ثوبان اسے ملنے آسکا تھا وہ کاشان کی ہمت بڑھاتا اور اسے تسلی دیتا کہ وہ اسے جلد کسی نہ کسی طرح یہاں سے نکال لے گا مگر کاشان کو اندازہ تھا وہ صرف اسے تسلی دے رہا ہے لہذا وہ آرام سے یہاں ١۴ سال گزارنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔۔۔ کاشان کو دوسرے دن ہی افتخار کی موت کا معلوم ہوگیا مگر اسے اس بات کا کوئی دکھ یا پچھتاوا نہیں تھا یہاں پر اس کی کسی سے کوئی خاص دوستی نہیں تھی وہ زیادہ تر خاموش بیٹھا رہتا یا مشقت کیے ہوئے پیسوں سے جیل میں موجود لائبریری میں کوئی کتاب پڑھ لیتا


"اوئے وہاں کیا بیٹھا ہے یہاں پر آ" کاشان اپنے بستر پر چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا تب اسے بابو بشیر نے مخاطب کیا کاشان چپ کر کے اسے دیکھنے لگا بابو بشیر دو دن پہلے ہی قتل کے الزام میں جیل آیا تھا کیوکہ یہ بچوں کی جیل تھی اور یہاں زیادہ تر دس اٙٹھارہ سال کی عمر کے بچے موجود تھے مگر بابو بشیر بیس سال کا نیا مجرم بنا تھا اور اپنی عمر اور قتل کا روعب وہ یہاں پر ہر دوسرے قیدی پر جما کر کبھی کسی سے اپنے ہاتھ پاؤں دبوا رہا ہوتا یا لائن میں لگوا کر کسی سے اپنے لیے کھانا منگوا رہا ہوتا


"کیا دیکھ رہا ہے آنکھیں پھاڑ کے، تجھے ہی بول رہا ہوں"

کاشان کے دیکھنے پر وہ روعب دار آواز میں ایک دفعہ پھر بولا


"تجھے کام ہے نا مجھ سے، تو تو یہاں آ"

کاشان کے بولنے پر وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا


"ابے کس کو بول رہا ہے تو اور کیا بول رہا ہے"

بابو بشیر چلتا ہوا کاشان کے پاس آیا


"میں بات کو ایک دفعہ بولنے کا عادی ہوں تو اپنے کان صاف کر،، پھر آکر مجھ سے بات کرنا" کاشان نڈر انداز میں اس سے مخاطب ہوا


"کان تو میں اپنے بعد میں صاف کروں گا، پہلے تیری طبیعت صاف کردو"

بولنے کے ساتھ ہی بابو بشیر چلتا ہوا کاشان کے پاس آیا اور جھک کر کاشان کو اٹھانا چاہا مگر کاشان نے اس کے منہ پر لات ماری جس سے وہ دور جاگرا،، اس کے بعد دونوں ہی ایک دوسرے پر بری طرح گتھم گھتہ ہوئے جب تک دو حوالدار نے حوالات کے اندر آکر ان دونوں کو چھڑوایا تب تک وہ دونوں ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ چکے تھے دونوں کے ہی منہ سے خون نکل رہا تھا۔۔۔ حوالدار نے دونوں کو سزا کے طور پر لاٹھیوں سے بری طرح مارا


****


"ارے رکو تم اپنے بھائی سے ملنے کے سلسلے میں یہاں آئے ہو نا اور ملے بغیر جا رہے ہو"

کانسٹیبل نے سینٹرل جیل سے نکلتے ہوئے ثوبان سے پوچھا


"انسپیکٹر کو ملاقات کروانے کے لیے جتنے پیسے چاہیے تھے اتنے نہیں ہیں میرے پاس۔۔۔ مہربانی کر کے آپ یہ کھانا میرے بھائی کو دے دیں گے"

ثوبان نے اس کونسٹیبل کو مجبوری بتاتے ہوئے ایک ٹفن اس کی طرف بڑھاتے ہوئے درخواست کی


اسے معلوم تھا کہ یہاں کھانے میں پانی کی طرح پتلی دال دی جاتی وہ خود بھی کوئی بہت زبردست سا کھانا نہیں لایا تھا مگر ایسا ضرورت ہے جو کہ ایک وقت کاشان اچھے سے کھالے پچھلی دفعہ بھی وہ جو کھانا کاشان کے لئے لایا تھا انسپیکٹر نے اس سے ٹفن لے کر اسے چلتا کر دیا تھا یہ کہہ کر کہ یہ کھانا تمہارے بھائی تک پہنچا دیا جائے گا


"تم ابھی تھوڑی دیر صبر کرو ہمارے بڑے صاحب آتے ہوں گے، ان کو اپنا مسئلہ بتاو،، وہ بھلے آدمی ہے تمہاری مدد کریں گے"

وہ کونسٹیبل بھی ثوبان کو بھلا آدمی محسوس ہوا جبھی اس کی بات مان کر ثوبان بڑے صاحب کا انتظار کرنے لگا


****


"سر پلیز میری ایک بات سننے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا،،، میں آپ ہی کا انتظار کر رہا ہوں یہاں پر دو گھنٹے سے بیٹھ کر"

بہروز کا آفیشلی کام سے سینٹرل جیل میں آنا ہوا تھا کام نمٹا کر جب وہ واپس جانے لگا تو ثوبان اس کے پاس آیا اور بہت معذبانہ انداز میں گزارش کرنے لگا


"بولو کیا بات کرنی ہے تمہیں"

بہروز نے اپنے سامنے کھڑے 13سالہ بچے کو دیکھا،، عام کپڑے اس کی غربت کی نشاندہی ضرور کر رہے تھے مگر بات کرنے کے انداز سے وہ پڑھا لکھا اور تمیزدار لگ رہا تھا


"سر میں یہاں اپنے بھائی سے ملاقات کرنے آیا ہوں مگر سب انسپکٹر علیم کو جتنی رقم درکار ہے ملاقات کرانے کے لیے،، اتنے پیسے میرے پاس موجود نہیں ہیں، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں مجھے میرے بھائی سے ملاقات کروا دیں"

ثوبان نے بہت امید بھرے لہجے میں بہروز کے آگے اپنی مدعا بیان کی


"انسپیکٹر علیم کو بولو ڈی ایس پی بہروز نے کہا ہے اس بچے کو اس کے بھائی سے ملاقات کروائی جائے بغیر کسی خرچہ پانی کے"

گیٹ پر کھڑے سپاہی سے بہروز مخاطب ہوا


"مہربانی ہے سر آپ کی بہت بہت شکریہ"

ثوبان نے عاجزانہ انداز اپناتے ہوئے بہروز سے کہا


"تم اپنے بھائی سے ملاقات کرکے آؤ میں تمہارا گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں" بہروز کو اس بچے کے اخلاق نے متاثر کیا تو وہ مسکراتا ہوا ثوبان سے بولا


"جی سر میں دس منٹ میں آتا ہوں" ثوبان ہاتھ میں ٹفن لئے خوش ہوکر کاشی سے ملنے گیا


****


"گاڑی میں بیٹھو بہروز صاحب انتظار کر رہے ہیں"

ثوبان کاشی سے مل کر آیا تو گاڑی کا ڈرائیور اس کے پاس آ کر بولا ثوبان گاڑی میں بیٹھ گیا جہاں پہلے سے ہی بہروز بیٹھا ہوا تھا


"مل لیے اپنے بھائی سے"

ثوبان کے بیٹھتے ہی بہروز نے اس سے پوچھا


"جی سر اللہ کے کرم سے آپ کی مہربانی سے میں مل لیا اپنے بھائی سے"

ثوبان نے مسکرا کر کہا وہ آج خوش تھا بہت دنوں بعد کاشی کو دیکھا تھا اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا اس کو تھمایا معلوم نہیں دو دفعہ کھانا سے بھجوایا تھا وہ ملا بھی تھا یا نہیں،،، کل اس نے دو وقت دہاڑی لگا کر کچھ پیسے جمع کیے تھے ان پیسوں میں سے آدھے اس نے کاشی کو دیے کیوکہ جیل میں ہی کینٹین موجود تھی جہاں پیسوں سے تھوڑا ڈھنگ کا کھانا کھایا جاسکتا تھا یا لائبریری میں پیسے دے کر تین گھنٹے کے لیے کتاب لے کر پڑھ سکتے تھے یقینا وہ پیسے کاشی کے کام آتے


"کتنا بڑا ہے تمہارا بھائی، کس جرم میں جیل گیا ہے وہ"

بہروز نے اس پہلے ایڈریس معلوم کر کے گاڑی اس کے گھر کی طرف مڑوائی،، پھر اس کے بھائی کے متعلق پوچھنے لگا ثوبان نے تھوڑا ہچکچا کر اپنی پوری کہانی بہروز کو سنائی


کیسے اس کا باپ جوئے کی لت میں گھر میں پیسے نہیں دیتا لڑتا جھگڑتا۔۔۔۔ کیسے کاشی نے اس کے باپ کو مارا ثوبان کی کہانی سن کر بہروز کو اس پر ہی نہیں کاشان پر بھی ترس آیا


"یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے"

بہروز نے اس کی کہانی سننے کے دوران ہی اس کے ہاتھ دیکھے تھے جہاں ہتھیلیوں پر جابجا چھالے بنے ہوئے تھے


"یہ تو کل میں نے وزن دار بوریاں زیادہ اٹھالی تھی جس سے ہاتھوں پر چھالے بن گئے" ثوبان نے اپنے ہاتھ چھپاتے ہوئے بہروز کو بتایا


"کیوں کیا تم نے یہ کام، پڑھائی نہیں کرتے اب"

بہروز کو دکھ ہوا


"زندہ رہنے کے لیے کھانا ضروری ہوتا ہے پڑھائی کروں گا تو کماؤں گا کب اور اگر کچھ کماؤں گا نہیں تو کھاؤں گا کیسے جیونگا کیسے۔۔۔۔ بے بسی کے باوجود خودکشی بھی نہیں کرسکتا کیوکہ وہ بھی حرام ہے"

ثوبان نے تلخ ہنسی ہنستے ہوئے کہا گاڑی اس کے محلے میں رکی


"جاو ثوبان تمہیں جو بھی ضروری چیزیں لینی ہے اپنے گھر سے وہ لے آؤ میں یہاں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں" بہروز نے کچھ سوچتے ہوئے ثوبان سے کہا


"مگر سر آپ مجھے کہاں لے کر جا رہی ہے اور کیوں"

ثوبان نے بہروز کی بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا


"میں تمہیں اپنے گھر لے کر جا رہا ہوں آج سے تم میرے پاس رہو گے اور وہی پڑھو گے اور اس کیوں کا فل الحال میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں۔۔۔ تم ضروری سامان لے آؤ میں یہاں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں"


بہروز کو خود بھی اندازہ نہیں ہوا آخر کیوں اسے اس بچے پر ترس آیا اور ہمدردی محسوس ہوئی اس نے فیصلہ کرلیا وہ اسے اپنے گھر میں رہنے کے لئے جگہ دے گا اور پڑھا لکھا آئے گا

دوسری طرف ثوبان بھی حیرت زدہ ہوکر گاڑی سے اترا اور اپنے گھر گیا گھر میں تھا ہی کیا جو وہ لے کر آتا اپنے کورس کی کتابیں چند کپڑے فائزہ کی تصویر اٹھا کر اس نے گھر کو تالا لگایا بے ساختہ اس کی نگاہ سیرت کے گھر کے دروازے پر پڑی دروازہ بند تھا


"کاش سیرت اس وقت گھر پر موجود ہوتی اس کو بتا ہی دیتا ہے"

وہ سوچتا ہوا گاڑی کی طرف چل دیا ثوبان کو چند منٹ لگے یہ فیصلہ کرنے میں کہ اسے بہروز کی بات ماننا چاہیے بہروز اسے اچھا اور نیک صفت انسان لگا اس طرح وہ اس کے گھر پر چھوٹے موٹے کام کر کے اپنی پڑھائی مکمل کرے تو کیا حرج ہے شاید اپنے بھائی سے بھی ہر ماہ ملاقات ہوجائے سیرت سے پھر کبھی آکر مل لوں گا یہ سوچتے ہوئے ثوبان کار کے اندر بیٹھ گیا

"کون ہے یہ بچہ بہروز"

یسریٰ جو ہر شام کی طرح بہروز کا چائے پر ویٹ کر رہی تھی بہروز کے ساتھ ایک لڑکے کو آتا دیکھ کر پوچھ بیٹھی


"یسریٰ یہ ثوبان ہے اور ثوبان یہ میری وائف ہے"

تعارف کروانے پر ثوبان نے یسریٰ کو دیکھ کر سلام کیا تو اس نے سر ہلا کر اس کا جواب دیا


"غلام بخش گیسٹ روم میں ثوبان کا سامان رکھ دو۔۔۔ آج سے یہ وہی رہے گا،، جاو ثوبان اپنا روم دیکھ لو پھر رات میں کھانے پر ملتے ہیں"

غلام بخش کو کہہ کر بہروز نے ثوبان کو مخاطب کیا۔۔۔ ثوبان اثبات میں سر ہلا کر غلام بخش کے ساتھ چلا گیا


"آپ بتا کیوں نہیں رہے بہروز کون ہے یہ لڑکا"

یسریٰ کو تجسس میں دیکھ کر بہروز نے ثوبان کی پوری داستان اسے سنائی جسے سن کر یسریٰ کو بھی دلی طور پر دکھ ہوا


"بیچارہ کتنا کچھ فیس کیا ہوگا اس نے اور اس کے بھائی نے"

یسریٰ کو بھی بہروز کی زبانی اس کی کہانی سن کر ثوبان اور کاشان پر ترس آیا


"ہاں دنیا میں پتہ نہیں ایسے کتنے اور مجبور لوگ ہیں جن کی زندگیاں، تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔۔۔ مگر معلوم نہیں کیوں اس بچے کی آنکھوں میں مجھے سچائی لگی بہت معصوم اور شریف ہے یہ بچہ دل نہیں چاہا اس کی حقیقت جاننے کے بعد اسے چھوڑ کر آجاؤ،،، اس لیے اپنے ساتھ لے آیا تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں میرے فیصلے سے"

بہروز نے یسریٰ کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"آپ کے کسی فیصلے سے پر مجھے کبھی اعتراض ہوا ہے بھلا۔۔۔ بہت اچھا کیا آپ نے جو ثوبان کو یہاں لے آئے"

یسریٰ نے مسکرا کر بہروز سے کہا پھر اس کے لئے چائے بنانے لگی


****


"بابا آج ریان کی پارٹی میں میجک شو والے انکل بھی آئے تھے جو اپنی آستین سے پیجن نکال رہے تھے"

رنعم تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے کلاس فیلو کے گھر سے آئی تھی اور کھانے کی میز پر پوری رواداد بہروز کو سنا رہی تھی جو کہ بہروز بڑی دل جمی سے سن رہا تھا اس نے ثوبان کو روم سے آتا دیکھا


"آجاو ثوبان کھانا لگنے والا ہے"

بہروز نے اسے کھانے کی ٹیبل پر بلایا تو رنعم کا نان اسٹاپ چلتا ہوا منہ ایک دم بند ہوگیا


"آو ثوبان یہاں بیٹھو کیا پسند ہے تمہیں کھانے میں

یسریٰ نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنائیت سے کہا


"میں آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کیسے کھا سکتا ہوں میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں" ثوبان نے فرش کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ کیوکہ ثوبان کو اپنی حیثیت کا اندازہ تھا جو اسے اس گھر میں رہتے ہوئے ساری عمر یاد رکھنی تھی


"نیچے فرش پر کیوں بیٹھو گے تم، گھر کے فرد ہو یہاں ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ"

بہروز نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا تو ثوبان چپ کر کے کرسی پر بیٹھ گیا ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی چھوٹی سی بچی کو دیکھا جو اسے سبز آنکھوں والی کوئی گڑیا لگی،،، وہ بھی ثوبان کو دیکھے جا رہی تھی ثوبان نے فوراً آنکھیں جھکالی


"بابا یہ کون ہے"

رنعم جو کہ بڑے غور سے ثوبان کو دیکھ رہی تھی بہروز کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"بیٹا یہ آپ کا بھائی ہے آج سے ہمارے ساتھ رہے گا" بہروز پیار سے رنعم کو سمجھانے لگا


"نہیں آنٹی بس،، میں بعد میں اور لے لوں گا۔۔۔ رزق ہے ضائع ہوگا"

یسریٰ ثوبان کی پلیٹ میں چاول نکال رہی تھی ثوبان کی بات پر بے ساختہ مسکرا دی


"چلو ٹھیک ہے آج سے یہیں رہنا ہے تو شرمانے کی ضرورت نہیں ہے خود سے لے لینا جو بھی کھانا ہو"

یسریٰ کے کہنے پر وہ ہلکا سا مسکرایا


"یہ آنٹی نہیں مما ہیں، جب تم میرے بھائی ہو اور اس گھر میں رہو گے تو یہ آنٹی کیسے ہوگئی۔۔۔ یہ مما ہیں اور یہ بابا"

رنعم نے اپنی عقل کے مطابق ثوبان کو سمجھانا چاہتا جس پر وہ بہروز اور یسریٰ کو دیکھنے لگا کہیں انہیں برا ہی نہ لگ جائے مگر وہ دونوں رنعم کی بات پر مسکرا رہے تھے تو اسے حیرت ہوئی


"ویسے آئیڈیا برا نہیں ہے ثوبان تم مجھے اور یوسریٰ کو بابا مما کہو گے تو ہمیں اچھا لگے گا کیوں یسریٰ"

بہروز نے مسکرا کر ثوبان سے کہہ کر بیوی سے رائے لینی چاہیے جس پر یسریٰ نے مسکرا کر پاس بیٹھے ثوبان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تو ثوبان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے


"میری اتنی حیثیت نہیں ہے آپ دونوں کو مما بابا کہو، میں اس گھر میں جو بھی کام ہوگا کر لیا کروں گا بس میں اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتا ہو تاکہ اپنے بھائی کے لیے کچھ کر سکو"

ثوبان نے آنکھوں میں نمی کو صاف کر کے کہا تو یسریٰ بھی افسردہ ہوگئی


"ثوبان آئندہ کبھی اپنی حیثیت کے بارے میں بات مت کرنا تم اپنی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہو ہم دونوں تمہیں بیٹے کی جگہ دے رہے ہیں"

بہروز نے سنجیدگی سے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"آپ تو بہت اچھے ہیں میرے ابو سے تو لاکھ درجے اچھے"

ثوبان کو مزید رونا آنے لگا تو بہروز چپ ہوگیا


"ماں تو ماں ہوتی ہے ثوبان، اس کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا مگر میں کوشش کروں گی تمہیں ماں کی کمی کبھی محسوس نہ ہو"

یسریٰ نے پانی کا گلاس ثوبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے تشکر بھری نظروں کے ساتھ ثوبان نے تھام لیا


"میری سمجھ میں نہیں آرہا ہم سب لوگ کھانا کیوں نہیں کھا رہے ہیں" رنعم نے سبز آنکھوں میں حیرت سمائے معصومیت سے پوچھا تو بہروز اور یسریٰ ہنس دیے وہی ثوبان نے مسکرا کر رنعم کو دیکھا اسے دیکھ کر ثوبان کو سیرت یاد آنے لگی


****


"تم دوبارہ اتنی جلدی کیسے آ گئے ثوبی"

کاشان نے ثوبان کو دیکھ کر حیرت سے پوچھا کیوکہ کل ہی تو وہ اس سے مل کر گیا تھا اب تو ایک ماہ بعد ان دونوں کو ملنا نصیب ہونا تھا


"اچھا وقت آتے معلوم نہیں ہوتا کل میرے ساتھ بھی ایسا ہوا کاشی، وہ جو میں نے تمہیں بہروز صاحب کا بتایا تھا نہ، جن کی وجہ سے ہم دونوں کی ملاقات ہوئی وہ کل مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے تھے۔۔۔ تمہیں معلوم ہے انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنا کر گھر میں رکھا ہے۔۔۔ بہت اچھا برتاؤ کیا ہے انہوں نے اور ان کی بیوی نے،،، بہت اچھی طبیعت کے مالک ہیں دونوں اور رنعم بھی بہت اچھی ہے معصوم سی"

ثوبان خوشی خوشی کاشان کو سب بتانے لگا


"اتنی نوازشوں کے پیچھے کہیں کوئی وجہ تو نہیں اور اب سیرت کا کیا ہوگا" کاشان نے اس کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا


"کاشی کسی کی خلوص اور نیت پر ایسے شک نہیں کرتے وہ دونوں میاں بیوی واقعی بہت اچھے ہیں اور سیرت کہاں سے بیچ میں آگئی"

ثوبان حیرت سے اس سے پوچھا


"نہیں وہ تم کہہ رہے تھے رنعم اچھی ہے تبھی میں نے کہا"

کاشی کی نظروں سے بھلا اپنے بھائی کی پسندیدگی کیسے چھپ سکتی تھی اس لیے بولا


"دماغ خراب تو نہیں ہوگیا تمہارا،، رنعم تو بالکل بہنوں کی طرح لگی مجھے اور سیرت میری بہت اچھی دوست ہے"

ثوبان سٹپٹاتا ہوا اپنی صفائی دینے لگا اسے معلوم تھا کاشی چار آنکھیں رکھتا ہے


"چلو میں مان لیتا ہوں تمہاری بات، شکر ہے تم نے صرف رنعم کو ہی بہن بولا۔۔۔ یہ بتاؤ کھانے میں کیا لائے ہو"

کاشان نے اس کے ہاتھ میں ٹفن دیکھتے ہوئے پوچھا


"ہاں یسریٰ آنٹی میرا مطلب ہے مما نے تمہارے لیے کھانا بھیجا ہے گھر کب بنا ہوا، اب روز تمہیں ڈرائیور کھانا دے جائے گا میں تم سے ہر ہفتے ملنے آؤں گا مگر ابھی مجھے جلدی جانا ہے اپنے اور تمہارے لئے کتابیں خریدنی ہیں۔۔۔۔ کاشی میں نے بابا سے بات کی ہے تم یہاں رہ کر بھی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتے ہو اور ایکزامز بھی دے سکتے ہو بس اسے میری خواہش سمجھو انکار مت کرنا،،، یہاں رہ کر تم پڑھو۔ ۔۔ میں چاہتا ہوں کہ جب تم اس چار دیواری سے باہر نکلوں تو ایک اچھے شہری کی طرح زندگی گزارو"

ثوبان کاشان کو بہت پیار سے سمجھا رہا تھا


"اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھ لوں گا یہاں رہ کر اور کرو گا بھی کیا،، تمہیں نئے ماں باپ مبارک ہو،،،بس تم ہر ہفتے مجھ سے ملنے آ جایا کرو میرے لیے اس دنیا میں یہی واحد رشتہ بچا ہے اور اپنی مما کو میری طرف سے شکریہ ادا کرنا" کاشان نے ٹفن لیتے ہوئے کہا


****


"خالہ ثوبی دوبارہ آیا، کچھ معلوم ہوا اس کے بارے میں" سیرت نے ثوبان کے گھر کے برابر والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر بڑی امید سے پوچھا


"اری باولی ہوئی ہے جو روزانہ پوچھنے آ جاتی ہے بتایا تو تھا بڑی سی کار میں بیٹھ کر آیا تھا، گھر پر تالا لگا کر چلا گیا جو بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جاتے ہیں وہ بھلا واپس آئیں گے اس گندے محلے میں"

خالہ نے بیزاری سے کہتے ہوئے دروازہ بند کر دیا سیرت اپنا سا منہ لے کر جانے لگی۔۔۔ ہفتہ بھر ہو گیا تھا اسی ثوبان کا معلوم کرتے ہوئے مگر بس اسے یہی معلوم ہوا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ بڑی سی کار میں بیٹھ کر چلا گیا ہے مگر وہ کہاں گیا ہے اس سے سب ہی لاعلم تھے


"تم بڑی سی کار میں بیٹھ کر گئے ہوں تو اس سیرت کو بھول گئے ہو نا،،، اب کبھی زندگی میں دوبارہ ملو گے تو سیرت تمہاری صورت پہچاننے سے انکار کر دے گی تم دیکھنا"

سیرت ثوبان کے گھر کا بند دروازہ دیکھ کر دل میں ثوبان سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔

آج ہی اسے اور ناصر کو یہ گھر چھوڑ کر جانا تھا کرایہ دار کو چار ماہ سے ناصر کرایہ نہیں دے پا رہا تھا اس وجہ سے اس نے انہیں گھر سے نکال دیا سیرت افسردگی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دی تاکہ ناصر کے ساتھ نئی منزل پر روانہ ہو سکے


****


"بھیا آپ بزی تو نہیں ہیں"

ثوبان یونیورسٹی کے اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا تب رنعم نے اس کے روم میں آکر پوچھا


"تھوڑا بزی تو ہوں، مگر اپنی پیاری سی بہن کے لیے وقت نکال سکتا ہوں بتاؤ کیا بات ہے"

ثوبان نے بک بند کرتے ہوئے کہا ان پانچ سالوں میں ثوبان کی شخصیت کافی نکھار آگیا تھا


"یہ پرابلم سولو نہیں ہو رہی تھی مگر یاد آیا کل تو آپ کا ٹیسٹ ہے نہ آپ پڑھیں میں فرینڈ سے ہیلپ لے لوں گی اسکول میں"

رنعم نے مسکراتے ہوئے کہا


"کیوں لے لوں گی اپنی فرینڈ سے ہیلپ، بھائی کے ہوتے ہوئے دکھاؤ کونسی پرابلم ہے جو سولو نہیں ہورہی"

ثوبان کے کہنے پر رنعم نے اس کی طرف بک بڑھائی اور ثوبان کے پاس ہی بیٹھ گئی


"اس پروبلم میں کیا پروبلم ہے یار،، یہ دیکھو ہوگئی سولو اب اس کو سمجھو"

ثوبان نے ناصرف پانچ منٹ میں مسلئہ حل کردیا بلکہ رنعم کو سمجھا بھی دیا


"اف ایک گھنٹے سے بلاوجہ خوار ہو رہی تھی پہلے ہی آپ کے پاس آ جاتی باقی کے پرابلمس میں خود آسانی سے سولو کرلو گی"

رنعم خوش ہوتے ہوئے کتاب اٹھانے لگی تو ثوبان نے اس کی کتاب پر ہاتھ رکھ دیا


"اللہ نہ کرے میری بہن کی زندگی میں کبھی کوئی پروبلم آئے لیکن اگر خدانہخواستہ کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو وعدہ کرو سب سے پہلے اپنے بھائی کو بتاؤں گی"

ثوبان نے رنعم کو دیکھتے ہوئے کہا تو رنعم ہنس دی


"جس کا آپ جیسا کیئرنگ بھائی ہو،، اس کی لائف میں بھلا کیا پروبلم آ سکتی ہے۔۔۔ بنا ٹینشن کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری کریں شاہدہ سے کہہ کر ابھی کافی بھیجواتی ہوں آپ کے لیے"

رنعم کو ثوبان سے بہت محبت تھی کیوکہ وہ اس کے ہر مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکال دیتا تھا


"خوش رہو"

ثوبان کے کہنے پر رنعم بکس اٹھاتی ہوئی باہر نکل گئی


ان پانچ سالوں میں وہ اسے کاشی کی طرح عزیز ہوگئی تھی۔۔۔ رنعم نے ثوبان کو بھائی بولا ہی نہیں بلکہ دل سے مانا بھی تھا اپنی ہر چھوٹی بڑی بات خوشی یا پروبلم وہ سب ثوبان سے شیئر کرتی اس کا خیال رکھتی


ان پانچ سالوں میں ثوبان کی حیثیت گھر کے ایک فرد کی بجائے،، گھر کے ایک اہم فرد کی سی ہو گئی تھی۔۔۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ہو یا بڑے سے بڑا فیصلہ یا کوئی بھی مشورہ کرنا ہو اس میں ثوبان کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی بہروز اور یسریٰ نے حقیقتاً ثوبان کو اپنا بیٹا مانا تھا ثوبان کو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ شروع سے ہی اس فیملی کا حصہ ہو۔ ۔۔۔ ثوبان نے بھی ان تینوں کی محبتوں کا حق بہروز اور یسریٰ کا بیٹا بن کر جبکہ رنعم کا بھائی بن کر ادا کیا تھا۔۔۔ بہروز اپنے بڑھتے ہوئے عہدے کے باعث اب پہلے سے زیادہ مصروف ہوگیا تھا اس وجہ سے آئستہ آئستہ ثوبان نے بہروز کی ساری ذمہ داری خود ہی سنبھال لی تھی۔۔۔۔


اب کبھی ڈیڑھ دو سال بعد جب کبھی یسریٰ کو ڈپریشن ہوتا تو بہروز کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ یسریٰ کو باتوں سے بہلاتا اسکی کیئر کرتا۔۔۔ ثوبان یسریٰ کا ماں کی طرح خیال رکھتا سارا دن اس کے پاس رہتا گھر کے پاس بنے پارک میں اسے لے جاتا۔۔۔۔ کبھی ڈاکٹر کے پاس جانا ہو یا رنعم کے ایڈمیشن کا مسئلہ ہو یا اسے کسی دوست کے جانا ہو گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے کام وہ بناء کسی کے کہیںے خود ہی خوش اسلوبی سے انجام دیتا۔۔۔ وہ بہروز اور یسریٰ کے جاننے والوں اور دوستوں میں ان کے بیٹے کی حیثیت سے جانا جاتا


ان پانچ سالوں میں کوئی بھی ایسا ہفتہ نہیں آیا جب وہ کاشی سے ملنے نہیں گیا ہوں۔۔۔ اس کی بکس کپڑوں کا خیال ہتہ کہ روز کھانے کا خیال رکھتا۔۔۔۔ ثوبان بہروز کو اپنا آئیڈیل مانتا تھا اس لیے وہ آگے زندگی میں بہروز کی طرح ایک ایماندار پولیس افسر بننا چاہتا تھا۔۔۔ بہروز کی وجہ سے نہ صرف اس کی زندگی سنوری تھی بلکہ کاشان کو بھی جیل میں رہتے ہوئے کافی چیزوں کی سہولت تھی وہ بہروز کی کوششوں سے ہی وہی جیل میں پڑھ رہا تھا


****


"کاشی چھوڑ اسے مر جائے گا وہ۔۔۔ جلدی کوئی پولیس کو بلاؤ کاشی اور بختاور میں ہاتھا پائی ہوگئی ہے"

"کاشی چھوڑ اسے وہ مر جائے گا"

آذر پورا زور لگا کر کاشان کو پکڑتا ہوا پیچھے ہٹا رہا تھا مگر کاشان بختاور کی گردن چھوڑنے کو تیار نہیں تھا وہ اس کو مار مار کر لہولہان کر چکا تھا۔۔۔ آخر آزر کی کوشش رنگ لائی اور وہ کاشان کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوا مگر پیچھے ہٹتے ہوئے بھی کاشان بختاور کے پیٹ میں لات رسید کرنا نہیں بولا


"کیا کر رہا ہے تو، ہوا کیا ہے آخر مجھے بتا"

آذر اس کو وہاں سے دور لے جاکر پوچھنے لگا


"میری ماں کو گالی دی ہے اس نے" دیوار پر مکہ جڑھ کر اسکا غصہ کنٹرول نہیں ہوا تو واپس بختاور کے پاس جانے لگا


"رک جا کاشی نہیں تو سزا کے طور پر اندھیری کوٹھری میں رات گزارنے پڑے گی اور کون سا اس سالے کے گالی دینے سے تیری ماں کو گالی چپک گئی"

آزر اس کو ایک دفعہ پھر پکڑ کر پیچھے دھکیلتا ہوا بولا۔۔۔ اب کاشان آسمان کو دیکھتا ہوا لمبے لمبے سانس لینے لگا تاکہ اس کے غصے میں کمی آجائے


"وہ سالا چمپو 3 بٹہ 4 (چرس بیچنے) کے چکر میں اندر آیا ہے اسے تیرے غصے کا علم نہیں ہوگا اس لیے بھڑ گیا ہوگا تجھ سے، چل وہاں بیری کے درخت کے نیچے اسد کاڑھے کے پاس یہاں پولیس آگئی نہ تو لاٹھی سے تواضع ہوگی تیری"

آزر اس کو وہاں سے لے جانے لگا تو کاشان نے اس کا ہاتھ جھٹکا


"مجھے نہیں جانا اس اندھے کاڑھے کے پاس، شکل سے ہی عجیب آدمی لگتا ہے پڑھنا ہے مجھے اپنا"

کاشان نے ازر کو ٹالتے ہوئے کہا ویسے بھی ایک دو قیدیوں کے علاوہ۔۔۔ جو مجبوری میں یا بے قصور ہوتے ہوئے بھی یہاں پر سزا کاٹ رہے تھے وہ ان کے علاوہ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا


"ارے میرے چیتے تجھے کون سا منسٹر بننا ہے پڑھ لکھ کر، چل نہ تھوڑی دیر کے لئے بعد میں پڑھ لینا"

آزر اس کو بہلاتا ہوا وہاں سے لے گیا وہ دونوں بیری کے درخت کے قریب پہنچے جہاں پر اسد کاڈھا ایک آنکھ سے محروم بیٹھا ہوا تھا وہاں دو اور قیدی بھی اس کے ساتھ موجود تھے


"آو بھئی کاشی تم تو بیٹھتے ہی نہیں ہمارے پاس"

اسد کاڑھا کاشان کو دیکھتا ہوا بولا


"میں ابھی بھی نہیں آرہا تھا آزر لے کر آیا ہے مجھے" کاشان نے احسان کرکے بیٹھتے ہوئے جواب دیا جس پر اسد کاڑھا ہنسا


"بھئ یہی تو انداز پسند ہے تمہارا کہ بندہ کسی کو منہ ہی نہ لگائے"

وہ کاشان کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا


"منہ نہ لگانے والی کوئی بات نہیں ہے یہ میرے پڑھنے کا وقت ہوتا ہے"

کاشان نے اب تحمل سے جواب دیا


"اور بھئ شیدے تو بتا کس جرم میں اندر آیا ہے"

اب اسد کاڑھے نے پاس بیٹھے دھان پان سے شیدے سے پوچھا جو کہ دو دن پہلے ہی جیل میں آیا تھا


"قتل کے کیس میں" شیدے نے ایسے فخر سے بتایا جیسے ابھی اسے ایوارڈ دیا جائے گا


"ہاہاہا تو بھی کسی کا قتل کر سکتا ہے یقین نہیں آرہا بھئی،، تجھے تو خود ایک پھونک مارنے کی دیر ہے کہیں پڑا ہوا ہوگا۔۔۔ خیر کس کا قتل کر دیا تو نے"

اسد کاڑھے نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا سب ہی اسد کاڑھے کی بات پر ہنسے لگے


"بے حیائی بے شرمی دیکھ کر بھی جب مرد کی غیرت نہ جاگے تو اس کی مردانگی پر لعنت۔۔۔۔ اپنی بیوی کو مارا ہے میں نے اس کا گلا کاٹ کر"

شیدے کی بات پر سب کی ہنسی بند ہوگئی


"کیوں قتل کیا تم نے اپنی بیوی کو" کاشان نے تیوری چڑھا کر ایک دم اس سے پوچھا اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کے سامنے شیدا نہیں افتخار احمد بیٹھا ہے


"بدچلن تھی سالی، محلے کے آدمی سے چکر تھا میرے پیچھے رنگ رلیاں بنا رہی تھی اپنے عاشق کے ساتھ،،، ان گنہگار آنکھوں نے دونوں کو ایک ساتھ دیکھا۔۔۔ وہ خنزیر تو بچ کر نکل گیا مگر اس ناگن کو میں نے نہیں چھوڑا"

شیدے کی بات سن کر وہ چاروں ایک پل کے لیے خاموش ہو گئے اس کے بعد اسد کاڑھے نے اس خاموشی کو اپنی آواز سے توڑا


"یہ عورت ذات ہوتی ہی بے وفا ہے بھائی میرے،،، اس کی شروع سے ہی لگامیں کھینچ کر نہ رکھو تو یہ اوقات دکھا جاتی ہے"

اسد کاڑھے نے شیدے سے ہمدردی کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا


"میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا عورت کو زندگی میں مرد پیار رتبہ اور مقام دے تو وہ ہمیشہ مرد کی وفادار رہتی ہے،، عورت تو بچوں کے نام پر سمجھوتہ کر کے جواری مرد سے بھی نبھا کر لیتی ہے۔۔۔ تمہیں پہلے اپنی بیوی سے بات کر لینی چاہیے تھی" کاشان اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے آخر میں شیدے کو مخاطب کیا


"وہ اپنے یار کے ساتھ بے لباس تھی بات کرنے کی کہاں گنجائش بجتی ہے ان گنہگار آنکھوں نے وہ منظر دیکھا" شیدے نے غصے میں کہا تو کاشان چپ ہوگیا


"دیکھ کاشی تو ہر جگہ اپنی امی کو رکھ کر نہیں سوچا کر،، ہر جگہ حالات مختلف ہوتے ہیں اور رہی بات عورت ذات کے بے وفا ہونے کی، بھئی میں تو اسد بھائی کی بات سے سو فیصد متفق ہوں جب تک اس کی لگامیں کھینچ کر نہ رکھو وہ کبھی بھی سیدھی نہیں ہوگی۔۔۔ بھلا ٹیڑھی پسلی سے بنی ہوئی شے نرمی سے سیدھی ہوئی ہے سختی تو برتنی پڑتی ہے"

آزر جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا اس نے باتوں میں حصہ لیتے ہوئے ان تینوں کو دیکھکر کہا


"ہاں بھئی عورت ذات پر اعتبار کر کے دیکھ لو، سالی منہ کالا کروا دیتی ہے بچپن سے اپنی بہن کو پالا پوسا جوان کیا، اماں ابا کی مخالف جا کر اسے پڑھایا لکھایا اپنے عاشق کے ساتھ بھاگنے والی تھی،، کیا کرتا بہن سے محبت تھی اس لئے اس کتے کو قتل کر دیا میں نے اور یقین مانو ذرا پچھتاوا نہیں اپنے کیے پر" چوتھے بندے نے بھی گفتگو میں حصہ لیا


"ان سب باتوں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے بے شک عورت پیار کرنے، چاہے جانے والی شے ہے مگر کچھ چیزوں پر اس کی حدود متعین کر دو۔۔۔ اس کو چاہوں سراہوں،،، مگر جہاں وہ غلطی کرے اس پر سختی کر کے اس بات کا احساس دلاؤ کہ یہ کام غلط ہے۔۔۔ شروع سے ہی اگر عورت کو قابو میں نہ رکھا جائے تو پھر مرد کا شیدے جیسا حال ہوتا ہے"

اسد کاڑھا ان تینوں کو سبق پڑھا رہا تھا باقی تین کی طرح کاشان بھی کر کے اس کی بات سن رہا تھا


****


(14 saal bad)


وہ فٹ پاتھ پر کھڑی دور سے ہی ان بوتیک کا جائزہ لے رہی تھی جو روڈ کراس کر کے ترتیب سے بنے ہوئے تھے


23 سال کی عمر میں وہ اپنی عمر سے زیادہ ہوشیار تھی مگر یہ وہ خوبی نہیں تھی جس سے لوگ متوجہ ہوتے کیوکہ ہر کوئی اس کی شکل دیکھ کر اسے معصوم سمجھتا اور بچپن سے لے کر آج تک وہ اس شکل کا ہی فائدہ اٹھاتی آرہی تھی۔۔۔ کوئی بھی مرد اگر ایک بار اس کو دیکھ لیتا پلٹ کر دوبارہ ضرور دیکھتا وجہ اسکی خوبصورتی نہیں بلکہ چہرے پر چھائی معصومیت تھی اور وہ اسی چیز کو خاطر میں لاکر معصوم لوگوں کو بے وقوف بناتی تھی


جس بوتیک میں سب سے زیادہ رش تھا سیرت اسی میں چلی گئی رش سیل کی وجہ سے لگا ہوا تھا اور خواتین وہاں ایسے گھسی ہوئی تھی جیسے وہاں کپڑے مفت مل رہی ہو سیرت کو بھی کچھ نئے کپڑوں کی ضرورت تھی اس لئے اس نے مفت کپڑے لینے کا پروگرام بنایا۔۔۔۔ پیسے تو وہ اپنے بہت سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر خرچ کرتی تھی کیوکہ وہ پیسے اس نے بہت محنت سے کمائے نہیں چرائے ہوتے تھے


بوتیک میں اینٹر ہوتے ہیں چلر کی ٹھنڈک نے اس کے زہن پر خوشگوار اثرات چھوڑے اب دماغ کو ٹھنڈا رکھے اسے اپنا کام انجام دینا تھا کاونٹر پر بیگ رکھو کر ترتیب سے ہینگ ہوئے ڈریسز میں سے اس نے اپنے لئے چار ڈویس منتخب کیے ان کے پرائز ٹیگ پر اس کی نظر پڑی تو سیرت کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔ سیرت ڈریسز کو لے کر ڈریسنگ روم میں ٹرائے کرنے کی نیت سے گئی ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کرکے اس نے آبائے میں سے چھوٹا سا چاقو نکالا جو ہمہ وقت وہ اپنے ساتھ رکھتی تھی۔۔ چاقو کی مدد سے اس نے سارے ڈریسز کے پرائز ٹیگ ارام سے نکالے کیوکہ پرائز ٹیگ میں ایک چپ موجود تھی اگر وہ یہ سارے ڈریسز پرائز ٹیگ سمیت، بوتیک سے لےکر،، بغیر پےمنٹ کئے بائر نکلتی تو الارم بج جاتا۔۔۔ سارے ٹیگ نکال کر اس نے ڈریسنگ روم میں ایک کونے میں رکھے سارے ڈریسز پہن کر عبایا پہنا اور چہرے پر بیزاریت لائے جیسے کچھ پسند نہ آیا ہوں اپنا بیگ لیے بوتیک سے باہر نکل گئی


****


"ارے میری بٹیا آگئی،، کچھ کھانے کے لئے لائی ہے اپنے ابا کے لیے"

یہ ایک کمرے کے فلیٹ تھا اس چھوٹے سے کمرے میں پردہ ڈال کر آدھا حصہ سیرت نے اپنا بنایا ہوا تھا


"ابا سانس لینے دو ذرا۔۔۔ حلیم لے کر آئی ہوں زیادہ نکال کر ضائع مت کرنا پیسے خرچ کیے ہیں اس پر"

حلیم کی تھیلی ناصر کو پکڑاتے ہوئے وہ اپنے پورشن میں آگئی


"ہاں ہاں بڑی محنت سے کمائے تھے پیسے،، جیسے مجھے پتہ نہیں۔۔۔۔ یہ بتا تیرے لئے نکالو"

ناصر وہی سے ہانک لگا کر سیرت سے پوچھنے لگا


"بھوک نہیں ہے فل الحال یہ بتاؤ، مالک مکان کو کرایہ دے دیا تم نے"

عبایا اتارنے کے بعد اب وہ ایک ایک کر کے ساری شرٹ اتارتے ہوئے پردے کے پیچھے سے ناصر پوچھنے لگی۔ ۔۔ کل ہی تو اس نے عورت کو بے وقوف بنا کر اس سے پیسے بٹورے تھے تاکہ گھر کا کرایہ دے سکے


"ہاں دے دیا اس نامراد کو کرایہ مگر وہ کہہ رہا تھا، یہ پچھلے دو مہینے کا کرایہ ہے اس مہینے کا کرایہ ابھی باقی ہے۔۔۔ اسے میں نے فل الحال ٹال دیا یہ بتا رزلٹ کب آرہا ہے تیرا۔۔۔۔ کہیں چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈ لے،، اب میری ہڈیوں میں اتنی سکت نہیں جو میں کماؤں"

ناصر نے حلیم کھاتے ہوئے پردے کو دیکھتے ہوئے سیرت کو مخاطب کیا سیرت نے اسی سال پرائیویٹ بی-اس کا ایگزام دیا تھا۔۔۔ توقع تو نہیں تھی کہ کلیئر ہو جائے مگر امید پر دنیا قائم ہے اسی محاورے پر عمل کرتے ہوئے وہ لگے بندھے انداز میں پڑھائی کر لیتی تھی


"ابا یہ تو لطیفہ ہوگیا تم نے بھلا کب کما کر کھلایا مجھے یا اماں کو۔۔۔ یہ تمہاری ہڈیاں محنت کرتے کرتے نہیں چوری کرتے کرتے گھسی ہیں،، شکر کرو کسی کے ہاتھے نہیں چڑھے ورنہ ان ہڈیوں سے ہی محروم ہوجاتے۔۔۔ اور تم سے کہہ کون رہا ہے پریشان ہونے کو،، ننھی سی سیرت کو پال کر تم نے بڑا کر دیا اب تم سیرت کی ذمہ داری ہو۔۔۔ اپنا اور تمہارا پیٹ اب سیرت چاہے دو نمبری کر کے بھرے یا ایمانداری سے کما کر تم اس کی فکر نہیں کرو"

سیرت عام سے حلیئے میں پردے کے پیچھے سے نکل کر ناصر کے سامنے بیٹھتی ہوئی بولی


"کمانے کا اس لیے بول رہا ہوں تجھے، لڑکی ذات ہے الٹے سیدھے کاموں میں الٹے سیدھے لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔۔۔ آگے تو خود سمجھ دار ہو گئی ہے۔۔۔ اب مجھے ضرورت نہیں تجھے سمجھانے کی"

ناصر ایک باپ کی طرف فکر کرتا سیرت کو سمجھانے لگا


"اب سیدھے سیدھے طریقے سے ٹیوشن پڑھانے گئی تھی نا ایک بچے کو مگر اس کے باپ نے مجھے معصوم سمجھ کر الٹا سیدھا کرنے کی کوشش کی۔۔۔ جوتیوں سے تواضع کر کے نکلی تھی اس دن اس کے باپ کی اور سیدھے سیدھے طریقے سے جاب کر کے دیکھی تو تھی وہاں پر بھی الٹے سیدھے لوگوں کو دیکھ کر چلتی بنی سیرت۔۔۔۔ یہ سیدھے سیدھے کام مجبور اور تن تنہا لڑکی کو راس نہیں آتے۔۔۔ اب تم نے سیدھے سیدھے سے حلیم پیٹ میں اتار لیا تو دوا بھی کھا لینا اپنی۔۔۔۔ میں ذرا آرام کر لو،، بائی گاڈ شاپنگ کر کے آئی ہو بہت گرمی ہے آج باہر"

سیرت نے پلیٹ اٹھا کر چھوٹے سے کچن میں رکھتے ہوئے کہا


"لڑکی ذات ہے تو، جوان ہوگئی ہے۔۔۔ اس طرح ہیرا پھیری کے کام کرے گی تو کون بیاھے گا تجھے"

ناصر کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی بات کرتے کرتے یا زیادہ چلتے چلتے اس کا سانس اکھڑنے لگتا۔۔۔۔ اس لیے اب اسے سیرت کی فکر ہونے لگی تھی


"ہاہاہا ابا آج تم بات بات پر کامیڈی کر رہے ہو،، مجھ جیسی لڑکی کو ویسے بھی کوئی نہیں بیاھے گا جس کے ماں باپ کا، آگے پیچھے کا کچھ معلوم نہ ہو۔۔۔ ہیرا پھیری کروں یا نہ کروں اس سے تھوڑی کوئی فرق پڑتا ہے،، مجھ جیسی لڑکیوں سے کون شادی کرتا ہے بھلا۔۔۔ اس لئے خود بھی ٹینشن فری ہوکے سو جاؤ۔۔۔ پانچ بجے لائیٹ جائے گی تو یہ موا پنکھا بھی بند ہو جائے گا"

سیرت ناصر کا جھریوں زدہ فکر مند چہرہ دیکھ کر بولتی ہوئی اپنے پلنگ پر لیٹ گئی

"کاشی کل پھر جھگڑا کیا تم نے کسی قیدی سے" ثوبان کاشان سے ملنے آیا تو اس سے پوچھنے لگا


"بتا دیا تمہیں اس سالے حوالدار نے... یار کوئی شیرا نام کا نیا قیدی آیا تھا بلاوجہ ہی اکسا رہا تھا کہ میں اسے لگاؤ،، بس میٹر شارٹ ہوا تو جبڑا توڑ دیا۔۔۔ مگر سمجھو یہ خواہش اسی کی تھی"

کاشان کی بات سن کر ثوبان ملامت بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا


"کیا لینگویج ہے یہ کاشی۔۔۔۔ سالے، میٹر شارٹ، مار داڑھ۔ ۔۔ کیا ہے یہ سب ہاں حلیہ دیکھو اپنا، یہ پونی، جنگلیوں کی طرح اگی ہوئی شیو،،،، کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ تم پڑھے لکھے ہو، ڈگری ہے تمہارے پاس"

ثوبان اس کے گریبان کے بٹن بند کرتا ہوا بولا


"ایس۔پی ثوبان احمد تم ایک جیل کے قیدی سے کیا توقع کر رہے ہو کہ میں آپ جناب کرتا ہوا سر جھکا کر ہر آنے جانے والے کو آداب پیش کرو۔۔۔۔ یہ جیل ہے اور میرے ارد گرد ایسے ہی لوگ بستے ہیں"

کاشان نے تلخی سے اس کو کہا


"میں نے اپیل کی تھی کہ کمشنر صاحب سے کے تمہیں B کیٹگری میں رکھا جائے مگر تمہارے آئے دن کے پھڈے مارپیٹ اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے انہیں تمہیں یہی رکھنا مناسب لگا۔۔۔۔۔ کاشی پلیز میری بات غور سے سنو صرف چند دن رہ گئے ہے تمہاری اس قید کو، اس کے بعد تم رہاہ ہو جاؤ گے پلیز یہ چند دن میری خاطر تحمل سے گزار لو"

ثوبان منت بھرے لہجے میں کاشان کو سمجھانے لگا


"14 سال جیل میں گزارنے کے بعد اب باہر کی دنیا کی کوئی چاہ نہیں رہی ہے مجھے۔۔۔ یہی چار دیواری گھر سا لگتی ہے مجھے تو اب"

کاشان نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے سوچا جب اس نے پہلی رات جیل میں گزاری تھی کتنا ڈرا ہوا تھا وہ اور کتنا رویا تھا فائزہ اور ثوبی اس کو کتنا یاد آئے تھے


"دوبارہ شروع کردی تم نے اپنی فضول باتیں میں پاگل نظر آ رہا ہوں تمہیں جو باہر تمہارا نکلنے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ تمہیں معلوم ہے مجھے اس دن کا کتنا انتظار ہے کہ جب تم اس قید خانے سے آزادی حاصل کر کے باہر نکلو گے"

ثوبان اسے مزید باتیں سناتا مگر اس کا موبائل بج اٹھا


"ہاں رنعم بولو" ثوبان نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا کہ کاشی میدان میں موجود دوسرے قیدیوں کو دیکھنے لگا مگر اسے ثوبان کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کم از کم اس کا بھائی ایک فیملی کے ساتھ فیملی والے ماحول میں اچھی زندگی گزار رہا تھا۔۔۔ بہروز سے بھی اس کی تین سے چار دفعہ ملاقات ہوئی تھی جبکہ یسریٰ اور رنعم کا نام وہ اکثر ثوبان کے منہ سنتا،،،،جسے لیتے ہوئے ثوبان کے لہجے میں عزت پیار اپنائیت ہوتی


"پریشان مت ہو مشکل سے 15 منٹ میں پہنچتا ہوں تمہارے پاس"

ثوبان کال کاٹ کر جانے کے لیے تیار ہو گیا


"کیا ہوا سب خیریت ہے"

ثوبان کے چہرے پر فکرمندی دیکھ کر کاشان نے اس سے پوچھا


"ہاں یار یونیورسٹی میں کوئی جھگڑا وغیرہ ہوگیا ہے رنعم گھبرا رہی ہے،، میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا"

ثوبان کاشی سے گلے ملتا ہوا وہاں سے چلا گیا


****


"اوہو ہمارے گھر تو بڑے بڑے لوگ تشریف لائے ہیں آج" ثوبان کے ساتھ رنعم یونیورسٹی سے گھر میں داخل ہوئی تو سامنے صوفے پر یسریٰ کے ساتھ بیٹھے عاشر کو دیکھ کر کہنے لگی رنعم کو دیکھ کر عاشر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی


"کیسی ہو رنعم اور ثوبان تم کیسے ہو" عاشر رنعم کے خیریت پوچھ کر ثوبان کی طرف بڑھا


"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ بڑے دنوں بعد چکر لگایا ہے اور آنی کیسی ہیں" ثوبان نے گلے مل کر فرح کے بارے میں پوچھا


"امی بھی ٹھیک ہے تم سب کو سلام بول رہی تھی،، تم لوگ تو چکر ہی نہیں لگاتے ابھی میں خالہ سے یہی شکوہ کر رہا تھا" عاشر نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا دی


"بس یار جب سے ڈیوٹی جوائن کی ہے بہت ٹف پروٹین ہوگئی ہے اور رنعم کی بھی یونیورسٹی اسٹارٹ ہو گئی ہے۔۔۔ مما سے میں نے کہا تھا کہ آنی کے پاس تھوڑی دن کے لیے چلے جائیں مگر سچ تو یہ ہے مما کے بغیر ہمارا بھی کا گزارا زرا مشکل ہے"

ثونان نے یسریٰ کے برابر میں بیٹھے ہوئے مجبوری بتائی


"آپ سب لوگ بیٹھے میں فریش ہو کر آتی ہوں"

رنعم سب کو باتیں کرتے چھوڑ کر اپنے روم میں آ گئی


"تم دونوں بیٹھو میں کھانا لگواتی ہو تب تک رنعم بھی آجائے گی"

یسریٰ نے اٹھتے ہوئے کہا


"مما دوپہر کا کھانے کھایا تو لیٹ ہوجاو گا میں رنعم کو چھوڑنے آیا تھا عاشر سے بات کر کےتھوڑی دیر میں نکلوں گا"

ثوبان نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے کہا، اس ٹائم وہ گھر پر کم ہی ہوتا تھا


"چپ کر کے بیٹھو، خود تو صحت کا خیال نہیں ہے تمہیں اپنی دن بدن کمزور ہوتے جا رہے ہو" یوسریٰ کے جھڑکے پر ثوبان کے ساتھ ساتھ عاشر بھی ہنسنے لگا۔۔۔ وہ اچھا خاصا ورزشی جسم کا مالک یسریٰ کو ہر وقت کمزور لگتا تھا،، اب کچھ بھی ہو جاتا یسریٰ ثوبان کو کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دیتی اس لیے وہ ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا


"اور سناؤ تمہاری جاب کا کیا بنا" ثوبان نے عاشر سے پوچھا


"اسی کے بارے میں بتانے آیا ہوں بلکہ منہ میٹھا کرانے آیا ہوں جس کمپنی میں جاب کے لئے اپلائی کیا تھا کل وہی سے کال آئی تھی"

عاشر نے خوش ہوکر ثوبان کو بتایا


"زبردست یار یہ تو واقعی خوشی کی بات ہے بہت بہت مبارک ہو"

ثوبان نے خوش ہو کر مبارک باد دی


"خالی خولی مٹھائی سے کام نہیں چلنے والا اب آپ کو مجھے اور بھیا کو ٹریٹ دینی ہوگی" رنعم واپس آکر سنگل صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی


"چلو پھر آج رات کا ڈنر میری طرف سے کیا یاد کرو گے تم دونوں"

عاشر نے دریا دلی سے ان دونوں کو دیکھ کر کہا


"عاشر ثوبان کھانا لگ گیا ہے رنعم جلدی آؤ تم بھی، یسریٰ کی آواز پر وہ تینوں اٹھ کر ٹیبل پر پہنچے


عاشر یسریٰ کی بہن فرح کا بیٹا تھا یسریٰ کی بہن فرح حیدرآباد میں رہائش پذیر تھی اس لیے کافی دن ہو جاتے ملے ہوئے،، زیادہ تر فون پر دونوں کی بات چیت ہوتی جبکہ عاشر چند سال پہلے پڑھائی کے سلسلے میں یسریٰ کے پاس آکر کا رکا تھا۔۔۔ اس کی اور ثوبان کی تبھی سے کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی وہ ثوبان سے تین سال چھوٹا تھا مگر دونوں کی اچھی نیچر کے باعث دوستی میں عمر کا فرق آڑے نہیں آیا۔۔۔۔ عاشر کی پرسنلٹی درمیانے قد اور سنوالی رنگت کے باعث ثوبان کے مقابلے میں دب جاتی مگر اس کمی کو عاشر کا اخلاق اور بلند کردار پورا کردیتا


****


"کیا میں اندر آ جاؤ"

ڈنر کے بعد ثوبان بہروز سے اپنا ایک کیس ڈسکس کر رہا تھا تب رنعم نے دروازے سے جھانک کر اجازت مانگی،،، بہروز دو ماہ پہلے ہی ریٹائر ہوا تھا فارغ بیٹھنا اس کی نیچر میں شامل نہیں تھا اسی لیے اس نے اپنے دوست کے ساتھ پارٹنر شپ کی بنیاد پر کار کا شوروم کھولا تھا


"آ جاؤ میرا بیٹا" بہروز نے اجازت دیتے ہوئے کہا تو رنعم مسکرا کر اندر آئی


"بابا وہ میری فرینڈ ہے نا شانزہ۔۔۔۔ جو حیدرآباد سے یہاں پڑھنے آئی تھی،، وہی جو ہوسٹل میں رہتی ہے اس کے بھائی کی شادی ہے باقی ساری فرینڈز بھی جا رہی ہیں میں بھی حیدرآباد چلی جاؤ،، بھیا نے تو کہا ہے بابا آرام سے پرمیشن دے دیں گے"

رنعم کے آخری جملے پر ثوبان نے اسے گھور کر دیکھا کیوکہ اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا بلکے اسے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ کس کی شادی ہے


"رنعم ثوبان کا نام لے کر پرمیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے،، میں جانتا ہوں اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہوگا اور اکیلے حیدرآباد اتنی دور جانے کی اجازت میں تمہیں بالکل نہیں دوں گا"

بہروز کے صاف انکار کرنے پر اب وہ التجائی نظروں سے ثوبان کو دیکھنے لگی آنکھوں ہی آنکھوں میں منت کرنے پر ثوبان نے لمبا سانس کھینچ کر بہروز کو مخاطب کیا


"بابا ٹھیک ہے،، رنعم کی ساری دوستیں جارہی ہیں اجازت دے دیں اس کو صرف دو دن کی بات ہے"

ثوبان نے سوچا ایک فنکشن تو اسے اٹینڈ کرنا نہیں ہوگا اس لیے دو دن اپنی طرف سے کہہ دیا


"بھیا دو نہیں چار دن"

بہروز کی کچھ بولنے سے پہلے رنعم جھٹ سے بولی جس پر ثوبان نے باقاعدہ اس کو گھور کر دیکھا وہ دوبارہ معصوم شکل بنا کر ثوبان کو دیکھنے لگی


"دیکھ لو تم خود ہی تمہاری بہن چار دن گھر سے باہر رہنے کی فرمائش کر رہی ہے"

بہروز ثوبان کو دیکھ کر کہنے لگا


"آپ فکر نہیں کریں اسے حیدرآباد میں چھوڑ کر آؤں گا اور واپسی پر بھی یہ مجھے ٹائم بتا دے گی تو میں ہی اسے لینے پہنچ جاو گا"

ثوبان نے بہروز کو اطمینان دلایا تو رنعم بھی خوش ہوگئی،،، بہروز کے بعد اب ثوبان کی بھی جاب ایسی تھی وہ لوگ رنعم کو کہیں اکیلے باہر آنے جانے نہیں دیتے تھے


"ٹھیک ہے مگر میں یسریٰ کو راضی نہیں کروں گا" بہروز نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"مما کی ٹینشن نہیں ہے انہیں بھی بھیا راضی کریں گے،،، جیسے آپ کو کیا ہے"

رنعم نے بہروز کے گلے میں لاڈ سے بازوں ڈالتے ہوئے کہا کہا تو ثوبان اور بہروز دونوں ہی اس کی بات پر مسکرا دیئے


****


"تو آخر آپ نے اجازت دے ہی دی رنعم کو"

بہروز سونے کے لئے بیڈ پر لیٹا تو برابر میں بیٹھی یسریٰ نے اس کو دیکھ کر کہا


"یسریٰ اسے میں نے ثوبان کے چھوڑنے اور واپس لانے پر اجازت دی ہے اور ثوبان تم سے بھی تو پرمیشن لینے آیا تھا تمہیں ٹینشن تھی تو منع کردیتی"

بہروز نے یسریٰ کی طبیعت کو مدنظر رکھ کر جواب دیا اسے معلوم تھا رنعم کو جانا ہے اب چار دن تک وہ پریشان رہے گی۔۔۔۔ ایسے ہی ثوبان اپنی ڈیوٹی کے باعث کبھی کبھی رات کو گھر نہیں آتا تو وہ پوری رات جاگتی رہتی۔۔۔۔ چاہے ثوبان کتنا ہی بزی کیوں نہ ہو دو منٹ کی کال کرکے وہ یسری کو اپنی خیریت ضرور بتاتا تاکہ یسریٰ کو اطمینان ہو سکے


"کتنی تیز ہوگئی ہے رنعم اسے معلوم ہے ہم دونوں پرمیشن نہیں دیں گے،،، جبھی ثوبان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی"

یسریٰ بھی رنعم کو سمجھتے ہوئے بہروز کو بتانے لگی


"تیز نہیں ہے ابھی بہت سیدھی ہے میری بیٹی، تم نے اب اگر اجازت دے دی ہے تو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں"

بہروز نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا


"بہروز میں کافی دن سے ایک بات سوچ رہی ہوں سوچا آپ سے شیئر کر لوں کیوں نہ رنعم اور ثوبان کی شادی کر دیں" یسریٰ کی بات سن کر بہروز اٹھ کر بیٹھ گیا


"کیا سوچ کر تم نے یہ بات کی ہے وہ دونوں بہن بھائی سمجھتے ہیں ایک دوسرے کو،،، آخر تمہارے ذہن میں ایسی بات آئی بھی کیسے"

بہروز نے حیرت سے یسریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا


"بہن بھائی سمجھتے ہیں مگر بہن بھائی ہیں تو نہیں، ثوبان ہمارے بیٹوں کی طرح ہے بہروز بلکہ بیٹا ہی تو ہے وہ ہمارا۔۔۔ ہمارے سامنے پلا بڑا ہے اس سے زیادہ اچھا رنعم کے لئے کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا اور رنعم ایک ہی تو بیٹی ہے ہمارے پاس ان دونوں کی شادی ہو جانے سے ہماری بیٹی بھی ہمارے پاس رہے گی"

یسریٰ نے اپنے دل کی ساری بات شیئر کری جو کافی دن سے وہ سوچ رہی تھی


"یسریٰ میں اپنے بچوں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہوں،، رنعم کا مجھے اچھی طرح اندازہ ہے وہ اس بات پر بہت ہرٹ ہوگی بلکہ ثوبان بھی یقیناً ہرٹ ہوگا۔۔۔ الٹا اس کے دماغ اور دل میں یہ بات نہ آجائے کہ ہم نے اسے اپنے اسی مفاد کے لیے پالا ہے مجھے تمہاری بات سے بالکل اتفاق نہیں ہے"

بہروز نے یسریٰ کے سامنے اپنا نظریہ پیش کیا


"چلیں ٹھیک ہیں میں اپنے طور پر ثوبان سے اس کی رائے لے کر دیکھتی ہوں ایک دفعہ بغیر کوئی اپنی مرضی مسلط کیے اگر وہ ایگری ہوتا ہے تو رنعم سے بات کروں گی"

یسریٰ جیسے تیار بیٹھی تھی،، اس کی بات سن کر بہروز نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ سونے کے لئے لیٹ گیا

کاشی کی آنکھ اپنے برابر والے گدے پر بیٹھے ہوئے مدثر کو رونے کی آواز کھلی دو دن پہلے وہ قتل کے جرم میں جیل آیا تھا اور وقفے وقفے سے کاشان اسے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا کاشان اٹھ کر اس کے لئے پانی لینے گیا


"پی لو"

اسٹیل کا گلاس اسے تھماتے ہوئے کہا مدثر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا


"کیا تمہیں اپنے قتل کرنے پر پچھتاوا ہے" کاشان نے اس کے رونے کی وجہ جانی چاہی


"بہت زیادہ اور اب ساری زندگی شاید پچھتاوے میں ہی رہنا ہے مجھے"

مدثر نے دیوار سے سر ٹیک کر کہا


"کس کو قتل کیا ہے تم نے"

کاشان کو اس لئے ہمدردی کے ساتھ تجس ہو رہا تھا کہ بہت کم لوگوں کو اس نے یہاں پر آکے پشیمان دیکھا تھا


"اپنی بیوی کو جس سے میں بہت پیار کرتا تھا"

مدثر نے اپنے اوپر ملامت کرتے ہوئے بتایا


"جب کسی کو پیار کیا جاتا ہے تو اس کی جان کیسے لی جاسکتی ہے"

کاشان نے الجھتے ہوئے اس سے سوال کیا


"غصہ حرام چیز ہے اس سے، انسان اپنے آپ کو ہی تباہ و برباد کر لیتا ہے،،، غصے میں انسان سے وہ عمل سرزد ہوجاتا ہے جس کا اس نے سوچا نہ ہو۔۔۔ مگر جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا"

مدثر کے چہرے پر اب بھی پچھتاوا تھا۔۔۔ اس نے گلاس کو دیکھ کر کاشان سے کہا


"اس سے تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو پیار یا پھر شادی نہیں کرنی چاہیئے کیوکہ غصہ تو ہر انسان کو آتا ہے"

کاشان نے کندھے اچکا کر کہا


"نہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو غصے میں بھی اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ بعد میں پچھتانا پڑے"

مدثر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا


"کاشی آٹھ گیا ہے تو، چل یہاں پر آجا دو دن بعد تو تجھے چلے جانا ہے"

آزر نیند سے اٹھتا ہوا کاشان کو دیکھ کر بولا تو وہ آزر کے پاس آگیا تین سال پہلے ہی اس کی آزر سے دوستی ہوئی تھی


"مدثر کے پاس بیٹھا تھا اس کی داستان سن رہا تھا، پچھتا رہا ہے وہ جرم کرکے"

کاشان آزر کو بتانے لگا


"پاگل ہے سالا مار پیٹ لیتا بیوی کو۔۔۔ یہ کس نے کہا تھا کہ قتل ہی کر دے،، رونے دے بےوقوف کو۔۔۔۔ تو بتا پرسوں آزاد ہوجائے گا۔۔۔ کیا ارادہ ہے باہر جاکر" آزر نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا


"کرنے کو کیا ہے یار یہاں رہتے ہوئے پڑھ لیا ہے،، باہر نکل کر نوکری ڈھونڈ لوں گا کاشان نے سوچا ہوا پلان بتایا


"اور پھر اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر شادی اور پھر بچے" ازر نے اس کا جملہ مکمل کیا جس پر وہ دونوں ہی ہنسے


"مجرم کو کون اپنی بیٹی دینا پسند کرتا ہے میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا" کاشان نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا


"کیوں نہیں پسند کرسکتا بھئی،، تو پڑھا لکھا ہے ماشاءاللہ قد کاٹھ کا شکل صورت کا اچھا ہے۔۔۔ جب نوکری کرے گا اور شریف لوگوں کی طرح زندگی گزارے گا تو کوئی بھی آسانی سے تجھے اپنی بیٹی دے دے گا بلکہ یہ بتاؤ اگر تجھے باہر نکل کر کوئی لڑکی پسند آگئی تو"

آزر نے انکھوں میں شرارت لیے اس سے پوچھا


"خار ہے مجھے اس مخلوق سے بچپن سے ہی، شادی کی الگ بات ہے مگر خود سے پسند آ جانا ناممکن۔۔۔ ویسے بھی جیسی لڑکی اس دل کو بھائے گی وہ آج کل کے دور میں نہیں پائی جاتی۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو ناشتہ لینے چلتے ہیں ورنہ لائن لمبی ہو جائے گی"

کاشان بات ختم کرتے ہوئے اٹھا تو ازر بھی اٹھ گیا


****


"اکیلے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے وہاں پر اپنی فرینڈز کے ساتھ ہی رہنا اور زیادہ کسی اجنبی سے بات مت کرنا ثوبان کار ڈرائیو کرنے کے ساتھ ساتھ برابر میں بیٹھی رنعم کو مستقل نصیحتیں کرتا جا رہا تھا


"اف بھیا آپ بھی مما بابا کی طرف سبق پڑھائے جا رہے ہیں، یہ سب باتیں مما بابا مجھے صبح پہلے ہی بھول چکے ہیں"

رنعم نے مصنوعی ناراضگی سے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"رنعم مما بالکل بھی ایگری نہیں تمہیں اتنے دنوں کے لئے اتنی دور بھیجنے کے لیے، مجھے اندازہ ہے میرے بولنے پر انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے اس لیے اب تم مجھے اپنی 24گھنٹے کی اپڈیٹ دیتی رہنا

ثوبان نے ایک نظر سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر کہا پھر کار ڈرائیو کرنے لگا


"معلوم نہیں بچپن سے ہی مجھ پر اتنی پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں،،، یہاں نہیں جاؤ، وہاں نہیں جاؤ یہاں ڈرائیور کے ساتھ جاؤ، اس سے بات نہیں کرو اس طرح بات نہیں کرو۔۔۔ مما بھی کتنی سختی برتنے لگی ہے مجھ پر"

رنعم نے افسوس کرتے ہوئے ثوبان سے کہا


"ان سب کے پیچھے کیا وجوہات ہیں کیا تمہیں علم نہیں اسکا،، یہ سب سختی کے طور پر نہیں احتیاط کے طور پر کیا جاتا ہے۔۔۔ مما اپنی ایک بیٹی کھو چکی ہیں اس لئے سب تمہارے لئے احتیاط برتتے ہیں کتنی مشکلوں سے تو وہ نارمل لائف کی طرف آئی ہیں"

ثوبان سے ان کے گھر کی کوئی بھی بات ڈھکی چھپی نہیں تھی۔۔۔ وہ ابھی بھی رنعم کو بہت پیار سے سمجھا رہا تھا تاکہ وہ کسی سے بدظن نہ ہو


"کتنا اچھا ہوتا نہ بھائی کے آپی بھی ہمارے ساتھ ہوتی۔۔۔ میں یہی سوچتی ہوں اللہ نے مجھے ماں باپ کے ساتھ بھائی کے رشتے سے نوازہ لیکن بہن کے ہوتے ہوئے بھی،، وہ پاس نہیں"

رنعم حسرت سے بول رہی تھی، اپنی دوستوں کی بہنوں کو دیکھ کر اس کا بھی دل چاہتا کہ کاش اس کی بہن بھی اس کے پاس موجود ہوتی


"بس دعا یہ کرو انعم جہاں بھی کہیں ہوں ساتھ خیریت کے ہو اور مما کے سامنے ایسی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں،،، ورنہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی"

ثوبان نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے کہا مگر سامنے دور سے عبائے میں کوئی لڑکی ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگ رہی تھی۔۔۔ کوئی مرد ہوتا تو رنعم کی موجودگی میں وہ کبھی بھی کار نہیں روکتا مگر یہاں پر ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کسی لڑکی کو اگنور کر کے چلے جانا مناسب نہیں لگا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہوگا بچاری کے ساتھ یہ سوچ کر ثوبان اس کے پاس گاڑی روکی


"ایکسکیوز می کیا مجھے"

اس نے ثوبان کو جیسے ہی دیکھا آدھا جملہ منہ میں ہی کہیں رہ گیا یوں اچانک 14 سال بعد وہ اس کے سامنے آجائے گا،، یہ سیرت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا جبکہ دوسری طرف ثوبان کا بھی حال اس سے مختلف نہ تھا وہ بنا پلک جھپکائے اسی کو دیکھ رہا تھا


"سسٹر آپ کچھ کہنا چاہ رہی ہیں؟ کیا کوئی پرابلم ہے" ثوبان اور اس لڑکی کو چپ دیکھ کر رنعم بولی تو وہ دونوں ہی ہوش کی دنیا میں واپس آئے


"نہیں وہ مجھے دراصل ہائی وے تک لفٹ چاہیے تھی مگر اٹس اوکے میں چلی جاؤں گی"

اپنی دھڑکنوں کو اور خود کو نارمل کرتے ہوئے سیرت ایک دم بولی


"ایسے کیسے جاؤں گی"

ثوبان بے ساختہ بولا


"وہ میرا مطلب ہے آپ اتنی دور کیسے جائیں گی پلیز کار میں آ کر بیٹھ جائیں میں آپ کو آگے تک چھوڑ دیتا ہوں"

رنعم کی موجودگی کا احساس کر کے وہ ایک دم سمبھل کر بولا اسے معلوم تھا کہ یہ سیرت ہے اور یقیناً وہ بھی اس کو پہچان گئی ہوگی مگر وہ اس سے اس طرح اجنبی رویہ کیوں رکھ رہی ہے آخر۔۔۔۔


"چھوڑ دینا آپکی پرانی عادت ہے اور لفٹ آپ پہلے ہی کرا چکے ہیں، شاید اب میرے لئے جگہ نہیں بچی تھینکس"

سیرت نے سرسری نظر سے برابر میں بیٹھی خوبصورت سی لڑکی کو دیکھ کر کہا۔۔۔ اس لڑکی کو دیکھ کر اسے اپنے اندر کچھ ٹوٹا سا محسوس ہوا،،، وہ دوبارہ جانے لگی ثوبان گاڑی کا دروازہ کھول کر تیزی سے باہر نکلا


"ایکسکیوز می پلیز آپ ایک سیکنڈ میری بات سنیں"

ثوبان کے لہجے میں بے قراری محسوس کر کے سیرت کے قدم رکے وہ مڑ کر چلتی ہوئی اس کے پاس آئی ثوبان دوبارہ اس کو غور سے دیکھنے لگا،،، وہ اس کو کیسے بھول سکتا تھا یہ چہرہ تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا


"ایک سیکنڈ ہوچکا ہے مسٹر،، آپ نے مجھے کچھ کہنے کے لئے روکا ہے یا گھورنے کے لیے"

سیرت سنجیدگی سے ثوبان کو دیکھ کر بولی


"گھورنے کے لیے" غائب دماغی میں اسے معلوم ہی نہیں وہ کیا بول گیا مگر سیرت کے گھورنے پر وہ دوبارہ ہوش میں آیا


"سوری میرا مطلب تھا آپ اتنی دور تک کیسے جائے گیں سڑک کافی سنسان ہے آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں پلیز"

پلیز کہتے ہوئے ثوبان کے لہجے میں ایسی التجا کی تھی جس کی سیرت چاہ کر بھی انکار نہیں کر سکی چپ کر کے گاڑی کی طرف بڑھی،،، ثوبان نے جلدی سے کار کے پیچھے کا دروازہ اس کی لیے کھولا۔۔۔ رنعم تھوڑا کنفیوز ہو کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اسے محسوس ہوا جیسے وہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں


"سسٹر آپ کمفرٹیبل ہے یا یہ سامان میں آگے رکھ لو"

رنعم نے مڑکر سیرت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


"اس کی ضرورت نہیں شکریہ"

سیرت نے رنعم کو اسمائل دے کر کہا ساتھ ہی اس کی نظر کار کے مرر پر پڑی،، جس میں دو آنکھیں ابھی تک اس کو دیکھنے میں مصروف تھی سیرت کے مرر میں دیکھنے پر ثوبان نے کار اسٹارٹ کردی مگر بار بار وہ مرر سے سیرت پر نظر ڈالتا


"کیا نام ہے آپ کا" رنعم کے سیرت سے سوال پوچھنے پر ثوبان خوش ہوا اب وہ بے قراری سا مرر میں دیکھ رہا تھا اور اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا سیرت نے ایک نظر مرر میں ثوبان کو دیکھا


"نیہا"

سیرت نے مسکرا کر رنعم کو جواب دیا ثوبان نے جھٹکے سے کار موڑی وہ دونوں ہی ایک دم ڈسبیلنس ہوئی،، رنعم نے اپنے آپ کو بیلنس میں رکھنے کے لئے ثوبان کے شولڈر کا سہارا لیا۔۔۔ سیرت رنعم کا نازک سا ہاتھ ثوبان کے شولڈر پر دیکھ کر نظروں کا زاویہ بدل گئی


"سوری آئی تھنک روڈ کچی ہے اس لیے"

ثوبان معذرت کرتا ہوا بولا


"میرا نام رنعم ہے اور یہ اسمارٹ اور ڈیشنگ سے میرے ڈرائیور،، ان کا نام ثوبان احمد ہے" رنعم نے مسکرا کر ثوبان کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔ ایک زخمی مسکراہٹ سیرت کے لبوں پر آئی اب وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی گاڑی میں ایک دم خاموشی چھا گئی جسے دوبارہ رنعم کی آواز نے توڑا


"نہیا مائیڈ نہیں کریں تو یہ بیگ کے پاس باکس رکھا ہے وہ دے دیں گی"

رنعم کے کہنے پر سیرت کی نظر بیگ کے پاس رکھے بوکس پر گئی جس میں شاید کچھ کھانے کی چیز رکھی تھی


"شیور"

سیرت نے باکس رنعم کو تھمایا اس باکس میں سے رنعم نے سینڈوچ نکالے


"یہ لیجئے نیہا"

رنعم نے اس کی طرف سینڈ وچ بڑھاتے ہوئے کہا


"نہیں شکریہ" سیرت میں ہچکچاتے ہوئے رنعم کو دیکھ کر بولا


"لے لیجئے میم مل بانٹ کر کھانے سے محبت بڑھتی ہے" ثوبان کے بولنے پر سیرت نے مرر سے ثوبان کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا سیرت کو جیسے کچھ یاد آیا


"میری باتیں تمہیں یاد رہ گئی ہیں مگر شاید تم مجھے بھول گئے ہو" سیرت نے سینڈوچ کی بائٹ لیتے ہوئے سوچا


"آپ ڈرائیونگ کرتے ہوئے کیسے کھائے گے جناب،، چلیں پہلے میں آپ کو کھلا دیتی ہو"

رنعم نے خود ہی مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا اور سینڈوچ ثوبان کی طرف بڑھایا ثوبان نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے بائٹ لیا، یہ منظر دیکھتے ہی سیرت کو اپنا نوالہ حلق میں اٹکتا ہوا محسوس ہوا جس سے اسے زوردار قسم کا پھندہ لگا


"ارے آپ کو کیا ہوگیا"

سیرت کے کھانسنے پر رنعم نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہی ثوبان نے بریک لگا کر کار روکی۔۔۔ اپنے پاس رکھی ہوئی بوتل جلدی سے سیرت کی طرف بڑھائی جسے سیرت نے ایک شکایتی نظر ثوبان پر ڈال کر اس کے ہاتھ سے لی اور اس میں سے پانی پینے لگی۔۔۔ سیرت کی آنکھوں میں ناراضگی کا تاثر ابھی بھی ثوبان کو الجھا رہا تھا


"یہی سے پیٹرول ڈلوالیتا ہوں"

ثوبان نے رنعم سے بول کر ایک نظر مرر سے سیرت کو دیکھا ثوبان کی نظروں سے سیرت کی انکھوں میں آئی نمی نہیں چھپ سکی تھی


"میں ذرا یعشل سے پوچھ لو کہاں تک پہنچے وہ لوگ" رنعم اپنا موبائل لے کر کار سے اتر گئی اور کال ملانے لگا سیرت نے رنعم کا جائزہ لیا۔ ۔۔ جینز کے اوپر لونگ کرتے میں وہ خوبصورت سی لڑکی تھی شاید عمر میں اس سے ٢ یا ٣ سال چھوٹی۔۔۔۔


رنعم کے اترنے پر اس سے پہلے ثوبان اس سے بات کا آغاز کرتا،، سیرت نے کار کا دروازہ کھولا اور کار سے اتر گئی


"کہاں جا رہی ہیں آپ"

اس کو جاتا ہوا دیکھ کر ثوبان بھی کار سے باہر نکلا اور اس کے راستے میں آتا ہوا پوچھنے لگا


"یہاں سے خود چلی جاو گی میں۔ ۔۔۔ جتنی آپ نے لفٹ کرادی ہے اس کا شکریہ"

سیرت بولتی ہوئی وہاں سے جانے لگے


"سیرت میری بات سنو"

ثوبان اس کو جاتا دیکھ کر بولا مگر وہ رکی نہیں ثوبان آگے بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑا


"میں نے تم سے کچھ کہا ہے"

سیرت کو دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولنے لگا، کتنے سالوں بعد آج وہ اس سے ملی تھی اور جب سے ملی تھی وہ اس کی جان ہی نکالے جارہی تھی


"مگر میں سیرت نہیں، نہیا نام ہے میرا"

سیرت نے اپنا ہاتھ چھوڑاتے ہوئے کہا


"تم دنیا کو بیوقوف بنا سکتی ہوں مگر مجھے نہیں"

ثوبان اس کو دیکھ کر جتاتا ہوا بولا


"لڑکی سے بات کرنے کا اچھا بہانہ ڈھونڈا ہے آپ نے"

سیرت اس سے بات کرتے ہوئے آس پاس دیکھ رہی تھی وہ اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی


"کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا، کس بات پر خفا ہو پلیز ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں"

ثوبان نے نرمی سے بولتے ہوئے دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑنا چاہتا


"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ سمجھ میں نہیں آرہی۔۔۔ اب ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ تو چماٹ پڑے گا میرے ہاتھ سے"

سیرت نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور غصہ کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی جبکہ ثوبان اسے حیرت سے جاتا دیکھتا رہ گیا

وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظر ٹکائے سیرت کی آئی ڈی سرچ کر رہا تھا یہ کام اس نے آج پہلی دفعہ نہیں کیا تھا جب اسے سیرت کی شدت سے یاد آتی وہ کبھی فیس بک پر اس کا نام سے آئی ڈی سرچ کرتا یہ کبھی پرانے محلے میں جا کر اسکو ڈھونڈتا


"کیا کوئی ضروری کام کر رہے ہو"

یسریٰ نے ثوبان کے روم میں آکر پوچھا


نہیں تو، بس ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی رنعم سے بات کی ہے خیریت سے ہے وہ" یسریٰ روم میں آئی تو لگے ہاتھ ثوبان نے رنعم کی خیریت بھی اسے بتا دی اور لیب ٹاپ بند کرکے ایک سائڈ رکھا


"ہاں شام میں میری اور بہروز کی بات ہوگئی تھی اس سے، تمہیں اندازہ ہے نہ اسے صرف میں نے تمہارے ہی کہنے پر جانے دیا ہے ورنہ ایک کو کھونے کے بعد اب اتنا حوصلہ نہیں بچا کے میں دوسری کو خود سے دور بھیج سکوں"

یسریٰ اداسی سے بولی


"رنعم کہیں نہیں جائے گی مما، ہمیشہ آپ کے پاس رہے گی جو ہو چکا ہے اس کو خدا کے مصلحت سمجھیں اور آپ پلیز ایسے اداس مت ہوا کریں"

اس سے پہلے یسریٰ پر وہی کیفیت طاری ہوتی ثوبان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنائیت سے کہا تو وہ اس کو دیکھ کر مسکرا دی


"تمہیں معلوم ہے ثوبان تمہارے آنے سے پہلے میں کبھی کبھی سوچتی تھی اللہ نے ہمیں کیو بیٹے سے محروم رکھا ہے، بہروز ہمیشہ مجھے سمجھاتے تھے کہ اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی مگر اللہ پاک نے ہمیں تمہاری صورت بیٹا ہی نہیں بہت پیارا تحفہ دیا ہے۔۔۔ اگر میری سگی اولاد ہوتی ہے وہ بھی شاید اتنا خیال نہیں رکھتی جتنا تم نے میرا خیال رکھا ہے مجھے سنبھالا ہے"

یسریٰ مسکراتی ہوئی ثوبان سے کہنے لگی


"بیشک اللہ کی ذات غفورالرحیم ہے اس نے مجھے سے اگر میرے والدین لئے تو ان دونوں کی صورت والدین کا نعم البدل عطا کیا،، آپ نے اور بابا نے ہمیشہ مجھے سگی اولاد کی طرح پالا کبھی کوئی فرق نہیں کیامجھ میں اور رنعم میں،، اللہ کی ذات کے بعد میں ساری زندگی آپ دونوں کا شکر گزار رہوں گا"

ثوبان نے عقیدت سے یسریٰ کا دونوں ہاتھ آنکھوں پر لگاتے ہوئے کہا


"شکر گزاری کی کیا بات ہے تم بیٹے ہو ہم دونوں کے، ہم نے تمہیں بیٹا کہا تو تم نے بیٹے ہونے کا ثبوت دیا،،،پھر ہمہیں بھی بیٹے کی طرح پرورش بھی کرنی تھی۔۔۔۔ مگر اب میرا بیٹا جوان ہو گیا ہے ماشاء اللہ سے شادی کی عمر ہوگئی تم بتاؤ اپنے لیے کوئی لڑکی دیکھی تم نے" یسریٰ نے آنکھوں میں شرارت کے لئے اس سے پوچھا تو ثوبان یسریٰ کو دیکھنے لگا


"یہ کونسا ٹاپک شروع کردیا آپ نے" یسریٰ کی بات پر اس کے دماغ میں سیرت کا چہرہ لہرایا آج صبح ہی تو دیکھا تھا اس بیوقوف کو، جو غصے میں بنا کچھ بتائے تن فن کرتی ہوئی چلی گئی اب پتہ نہیں کہاں کہاں ڈھونڈتا پڑے گا اسے


"کیو کیا ساری زندگی ایسے ہی رہنا ہے شادی نہیں کرنی،، کوئی لڑکی ہے نظر میں جو تمہیں پسند ہے تو جلدی سے بتاو"

یسریٰ مصنوئی گھوری دے کر مسکراتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی


"اف مما آپ کو یوں اچانک میری شادی کی پڑ گئی فلحال نہ کوئی لڑکی ہے اور نہ ہی آپ کے بیٹے کو شادی کی جلدی ہے"

ثوبان بھلا سیرت کے بارے میں یسریٰ سے کیا شیئر کرتا ہے ابھی تو اسے یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں رہتی ہے،،، اس لیے فی الحال اس ٹاپک کو ختم کرتا ہوا بولا


"مگر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اپنی اولاد کا گھر بستا ہوا دیکھو اور ایک لڑکی کا سوچا بھی ہے میں نے تمہارے لئے"

یسری کی بات پر ثوبان کی ہنسی تھم گئی


"کون ہے کس کا سوچا ہے"

اب اسے پچھتاؤ ہونے لگا اس نے سیرت کو ایسی ہی کیوں جانے دیا


"دیکھو ثوبان میں اس وقت تم سے جو بھی بات کرو گی ویسے صرف میرے دل میں خیال آیا ہے یہ مت سمجھنا کی یہ میری کوئی بہت بڑی خواہش ہے۔۔۔ ہر ماں کے لئے بیٹے کی خوشی اہمیت رکھتی ہے ویسے ہی میری نظر میں تمہاری خوشی اور مرضی کی اہمیت ہے کسی دباؤ میں آکر بالکل جواب نہیں دینا پلیز،، میں نے سوچا اگر تمہاری اور رنعم کی"

یسریٰ نے تہمید باندھ کر بات شروع کی مگر بیچ میں ہی ثوبان، یسریٰ کی بات کو سمجھ کر تڑپ اٹھا


"مما پلیز آگے کچھ مت بھولیے گا، آپ نے ایسی بات آخر سوچی بھی کیسے، آپ مجھے ابھی بولیں میں اپنا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گا ایک دفعہ اف نہیں کروں گا،، مگر اب ایسی بات بات دوبارہ مت کیجئے گا پلیز،،، جس طرح میں نے آپ کو اور بابا کو ماں باپ کا درجہ دیا ہے رنعم بالکل اسی طرح میرے لیے میری چھوٹی بہن ہے میں مر کر بھی کبھی اس کے بارے میں ایسی بات نہیں سوچ سکتا"

ثوبان اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھ گیا شاید وہ یسریٰ کی بات پر پریشان ہو گیا تھا یسریٰ نے اسکو پریشان دیکھ کر گلے لگایا


"اچھا سوری معاف کر دو اپنی مما کو بس مجھے لگا تم سے زیادہ اچھا انسان رنعم کے لیے کوئی ہو ہی نہیں سکتا اس لیے بول دیا،، بہروز بھی راضی نہیں تھے اس بات پر تو،، یہ خیال سے میرے ہی دل میں آیا سوری پلیز"

ثوبان کو اس طرح پریشان دیکھ کر یسریٰ اب شرمندہ ہونے لگی


"یوں بار بار سوری کہہ کر،، مجھے گناہگار مت کریں آپ۔۔۔۔ رنعم میری بہن ہے میں پرامس کرتا ہوں اس کے لئے ایک پرفیکٹ انسان تلاش کروں گا جو ہر لحاظ سے اس کے قابل ہوں مگر آپ دوبارہ ایسا مت سوچیے گا پلیز" ثوبان نے یسریٰ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا


"نہیں سوچ رہی بابا ایسا اب اس طرح پریشان مت ہوں اور تم نے کہا ہے تو مجھے پورا بھروسہ ہے رنعم کے لئے تم جو بھی کوئی ڈھونڈو گے وہ پرفیکٹ ہی ہوگا تمہاری طرح مگر ابھی بھی میرا پوائنٹ اپنی جگہ ہے مجھے رنعم سے پہلے اس گھر میں تمہارے لئے بیوی اور اپنے لئے بہو چاہیے جلدی جلدی تلاش کرو اپنے لیے ورنہ پھر میں ڈھونگی اور آب ریسٹ کرو شاباش"

یسریٰ بولتے ہوئے اس کے روم سے نکل گئی


لیپ ٹاپ کو بے دلی سے اٹھا کر سائیڈ میں رکھتا ہوا وہ بیڈ پر لیٹ گیا ایک بار پھر وہ سیرت کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔ بہروز جب اسے اپنے ساتھ یہاں لے کر آیا تھا اس کے ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ اپنے پرانے محلے گیا تھا مگر بدقسمتی سے ناصر کے گھر دوسرے لوگ شفٹ ہو چکے تھے جو کہ ناصر اور سیرت کے پتے سے لاعلم تھے وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا سیرت کے بارے میں سوچتے ہوئے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے معلوم نہیں ہوا


****


سیرت دیوار سے ٹنگے آئینے میں کافی دیر سے اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی اور ثوبان کے برابر میں بیٹھی ہوئی لڑکی سے اپنا موازنہ کر رہی تھی۔۔۔ وہ لڑکی شاید نہیں یقینا اس سے زیادہ خوبصورت تھی کتنی صاف اور اجلی رنگت تھی اس کی۔۔۔۔ سیرت نے ایک بار پھر اپنے آپ کو غور سے دیکھا بچپن میں تو اسکا بھی رنگ کافی گوراچٹا تھا جس کی وجہ سے نسرین اسے ہر وقت نظر کا کالا ٹیکا لگائے رکھتی تھی مگر اب وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس کے گورے رنگ میں ہلکی سی سنولاہٹ شامل ہوگئی تھی مگر جو اسیی بھی نمایاں نہیں کہ اسے سانولا کہا جاسکے رنگ اسکا ابھی بھی صاف تھا مگر وہ رنعم سے اپنا موازنہ کرنے لگی


"شاید اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا نہیں ہرا۔۔۔ ہاں ہرے رنگ کی تھی اس کی آنکھیں" سیرت نے اپنی براؤن آنکھوں کو دیکھ کر سوچا


"اور بال،،، نہیں بال تو میرے زیادہ اچھے اور لمبے ہیں" سیرت نے چٹیاں کھول کر اپنے کاندھوں پر بالوں کو ڈالتے ہوئے دیکھا


"اور ہائیٹ بھی میری ہی اچھی ہے اس کے مقابلے میں"

سیرت نے خوش ہوتے ہوئے اپنی پانچ فٹ چھ انچ ہائٹ کو دیکھ کر سوچا اور اسے تھوڑا اطمینان ہوا اور چہرے پر مسکراہٹ آئی


"مگر ہائیٹ اچھی ہونے سے یا بال لمبے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ثوبان تو اس کے پاس ہے"

یہ سوچ آتے ہی سیرت کا دل بجھنے لگا


"اچھا ہی ہوا جو بناء کچھ بولے اس سے آگئی معلوم نہیں اب دوبارہ کبھی ملاقات ہوگی بھی کہ نہیں"

وہ اپنے پلنگ پر لیٹتے ہوئے دوبارہ ثوبان کے بارے میں سوچنے لگی


****


14 سال بعد آج وہ کھلی فضا میں سانس لے رہا تھا اور اس کو رہائی نصیب ہوئی تھی


"کیسا فیل ہو رہا ہے ثوبان اسے لینے آیا تھا ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنے برابر میں بیٹھے کاشان سے پوچھنے لگا


"کچھ عجیب،، کچھ نیا نیا کافی کچھ بدل گیا ہے"

کاشان کھڑکی سے باہر مناظر دیکھ کر کہنے لگا


14 سال کا عرصہ بھی تو کافی ہوتا ہے"

ثوبان کی بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا


"کہاں جا رہے ہیں ہم"

بلکے الٹا اس سے پوچھنے لگا


"بتایا تو تھا تمہیں تھوڑی دیر پہلے،، گھر پر مما بابا ویٹ کر رہے ہیں تمہارا" کار ڈرائیو کرتے ہوئے ثوبان نے ایک نظر کاشان پر ڈال کر بولا


"ثوبی میں نے بھی تمہیں بتایا تھا تم اس فیملی کے ساتھ رہے ہو اس فیملی کا حصہ بن کر مگر میں ان لوگوں میں ایڈجسٹ نہیں کر پاؤں گا، میں نے تمہیں بولا تھا ایک یا دو کمرے کا مکان میرے لیے رینٹ پر لے لینا میں جاب کر کے اپنا گزر بسر کر لوں گا"

کاشی سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر بولا


"کاشی مما بابا تم سے ملنے کے لیے ایکسائٹڈ ہیں،، تمہارے لئے روم سیٹ کرایا ہے مما نے،، ان کے خلوص اور محبتوں کا ایسے جواب دو گے تم" ثوبان نے خفا ہوتے ہوئے کہا، چودہ سال میں کوئی ایسا دن نہیں گیا تھا جب ڈرائیور کے ہاتھ جیل میں کھانا نہیں بھجوایا تھا اور یہ ذمہ داری یسریٰ نے اپنے سر لی ہوئی تھی جیل میں رہتے ہوئے بھی اسے ہر چیز مہیا کی جاتی یہ سب احسانات ہی تو تھے ثوبان کی فیملی کے اس پر،،، ثوبان کی بات سن کر وہ تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا


"ایکسائٹڈ تو تم ایسے کہ رہے ہو جیسے میں جیل سے نہیں بلکہ حج ادا کر کے آرہا ہوں، اچھا اب زیادہ منہ بنانے کی ضرورت نہیں جب تک کہیں ڈھنگ کی جاب نہیں مل جاتی تب تک تمہاری فیملی کے ساتھ رہو گا لیکن جاب کے بعد میں الگ رہنا پسند کروں گا تب تم ناراض نہیں ہوں گے"

کاشان نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا،،، شکر ہے کل ہی اس نے اپنے بڑھے ہوئے بال کٹوا کر شیو بنالی تھی اب اس کا حلیہ بھی انسانوں والا لگ رہا تھا


"یہ تمہاری فیملی تمہاری فیملی کیا لگا رکھا ہے،، تم الگ ہو مجھ سے؟ بھائی ہو تم میرے،، تم تو شاید اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ آج میں کتنا خوش ہوں"

ثوبان نے گھر کے آگے کار روکتے ہوئے کہا


"اچھا اب زیادہ ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہارا گھر ہے۔۔۔۔ ویسے کافی اچھا اور بڑا ہے"

کاشان نے بہروز کا گھر دیکھتے ہوئے کہا بچپن میں جب وہ بڑے گھروں کو باہر سے دیکھتا تھا تب وہ سوچ رہا تھا کہ کاش اندر جا کر بھی وہ اس گھر کو دیکھےے


"اندر سے دیکھو گے تو اور بھی اچھا لگے گا"

ثوبان نے کار سے نکلتے ہوئے کہا تو کاشان بھی کار سے اترا گیا


"ثوبان اسکو گھر کے اندر لے کر آیا تو بہروز اور یوسریٰ اس سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے پہلے سے ہی اس کو جانتے ہو۔۔۔۔ کہیں سے بھی کاشان کو ان میں دکھاوا یا مغروریت نظر نہیں آئی نہ ہی انہوں نے اس کے ماضی یا جیل کے متعلق کوئی بھی بات پوچھی،،، کاشان کو وہ دونوں میاں بیوی اچھے لگے


"میں نے ثوبان سے پوچھ کر ہی سب چیزیں تمہاری پسند کی بنوائی ہیں سب چیزیں ٹیسٹ کرنا"

کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے یسریٰ نے کاشان سے کہا


"شکریہ آنٹی آپ نے تو کافی تکلیف کر لیا"

کاشان نے جھجگتے ہوئے کہا جبکہ ثوبان تو بلکل بنا تکلف ریلکس انداز میں کھانا کھا رہا تھا۔۔۔۔ بہروز بھی کھانے کے دوران کاشان سے چھوٹی موٹی باتیں پوچھ لیتا جس سے ان دونوں میاں بیوی سے کاشان کی اجنبیت جاتی رہی


****


"کیسا لگا تمہیں اپنا بیڈ روم یہ سب مما نے تمہارے لئے سیٹ کروایا ہے"

ثوبان نے پوچھنے کے ساتھ ساتھ ہی اسے بتایا


"یہ سوال ہی تمہارا عجیب ہے یہ بیڈروم بھلا اس انسان کو کیسا لگ سگتا ہے جو 14سال مشقت بھری زندگی گزار کر آیا ہوں۔۔۔۔ جیل میں تو صاف باتھ روم میئسر نہیں تھے اور اسطرح کے بیڈروم کا تو تصور ہی کیا جاسکتا تھا"

کاشان کو اپنے بچپن کا دو کمرے کا بوسیدہ اور سیلن زدہ مکان یاد آیا


"کاشی جو گزر گیا ہے وہ سب بھول کر نئی زندگی کا آغاز کرو، اپنی آگے کی زندگی کو اپنے لیے آسان بناؤ۔۔۔۔ ابھی فی الحال ریسٹ کرو یہاں سے اوپر والا بیڈ روم میرا ہے مگر میں اسٹیڈی روم میں ہوں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہہ دینا"

ثوبان بولتا ہوا اس کے بیڈ روم سے نکل گیا

کافی دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد کاشان کو نیند نہیں آئی تو وہ روم سے نکل کر ثوبان کو تلاش کرنے لگا


"کاشی کیا ہوا یہاں کیا کر رہے ہو"

ثوبان اپنے لیے کافی بناکر کچن سے دوبارہ اسٹیڈی کا رخ کر رہا تھا کاشان کو اپنے کمرے سے باہر دیکھ کر پوچھنے لگا


"یار شاید اکیلے سونے کی عادت نہیں رہی اس لیے بےچینی ہورہی ہے" کاشان سر کھجاتے ہوئے کہنے لگا


"اچھا ایسا ہے یہاں سے اوپر جاؤ لیفٹ سائیڈ کا سیکنڈ روم میرا ہے، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں" ثوبان نے مسکراتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا تو کاشان سیڑھیوں پر چڑھتا ہوا اس کے روم میں داخل ہوا


"ثوبی کا روم بھی اچھا ہے مگر تھوڑا الگ ٹچ لگ رہا ہے"

وائٹ اور پنک کلر کے کومبینیشن کے فرنیچر کو دیکھتے ہوئے کاشان سوچتا ہوا روم کا جائزہ لینے لگا ابھی کاشان روم کا جائزہ لینے میں مصروف تھا اچانک واش روم کا دروازہ کھلا،،، ایک لڑکی بالوں کو ٹاول سر رگڑ کر کچھ گنگناتی ہوئی باہر نکلی۔۔۔ اس سے پہلے وہ اسے دیکھ کر چیخ مارتی کاشان تیزی سے لپک کر اس کی طرف بڑھا اور اپنا سخت ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کے منہ بند کر دیا۔۔۔ جیل میں مشعقت کے کام کر کر کے اس کے ہاتھوں میں نرمی نام کی چیز باقی نہیں رہی تھی بلکے ہاتھ ملانے والا بھی اس کے ہاتھوں کی سختی کو باآسانی محسوس کر سکتا تھا


"کون ہو تم"

کاشان نے ہری آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا جہاں ڈھیڑ سارا خوف ہلکورے لے رہا تھا


"کیا پوچھ رہا ہوں میں سنائی نہیں دے رہا"

کاشان آنکھیں دکھاتا ہوں اسے دوبارہ دریافت کرنے لگا، اس لڑکی نے اپنی انگلی کے اشارے سے کاشان کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا جو کہ کاشان نے اس کے ہونٹوں پر رکھا ہوا تھا اب بھلا منہ بند ہو تو کیسے اور کیا بتاتی کہ کون ہے وہ، کاشان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو آئستہ سے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تو رنعم نے لمبا سانس خارج کیا


وہ یقیناً رنعم تھی کیوکہ اسکی بہروز اور یسریٰ سے تو ملاقات ہوگئی تھی بس ایک وہی رہ گئی تھی۔۔۔۔ ثوبان نے بتایا تھا کہ وہ بہت معصوم ہے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ خوبصورت بھی ہے وہ اسے معصوم کے ساتھ خوبصورت بھی لگی وہ اس کے سہمے ہوئے روپ کو دیکھ کر سوچنے لگا


"آاآ۔۔۔پ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہے ہیں"

رنعم نے گھبرا کے پوچھا بھلا کون ہو سکتا ہے یہ شخص جو اس کو دیکھے نہیں بلکہ گھورے جا رہا تھا رنعم نے اسکو دیکھتے ہوئے پوچھا


"ثوبی کے روم میں کیا کر رہی ہو تم"

کاشان اس کی بات کو اگنور کرتا ہوا الٹا اس سے سوال پوچھنے لگا بات وہ اس سے ایسے کر رہا تھا جیسے پہلے سے جانتا ہو


"یہ بھیا کا نہیں میرا روم ہے، بھیا کا اپوزڈ سائیڈ کا سیکنڈ والا روم ہے"

رنعم کے جواب پر کاشان کو دوسری بار پھر اپنی غلطی کا احساس ہوا شاید وہ غلط روم میں داخل ہوگیا تھا


"سوری، میں ثوبی کا روم سمجھ کر غلطی سے یہاں آ گیا تھا، مگر تم بھی سوتے ہوئے روم کا دروازہ لاکڈ کرلینا شاور لیتے ہوئے شاید بھول گئی تھی"

جانے سے پہلے وہ اسے اس کی غلطی کا احساس دلانا نہیں بھولا جس پر رنعم اس کو دیکھتی رہ گئی


تھوڑی دیر پہلے ہی وہ حیدرآباد سے فرینڈز کے ساتھ سفر کر کے اچانک گھر آئی تھی اور اس طرح آنے پر ثوبان سے ڈھیر ساری ڈانٹ بھی سنی تھی کہ جب وہ اسے صبح لینے آنے والا تھا تو اسے بتائے بغیر رات کو اس طرح آنے کی کیا ضرورت تھی تھکن کی وجہ سے وہ شاور لینے گئی شاور لے کر نکلی تو اس کا اس عجیب و غریب مخلوق سے ٹکراؤ ہوگیا


"سنیں آپ بھیا کے بھائی ہیں نہ جو جیل سے۔۔۔۔

ثوبان کی کافی زیادہ مشابہت اس میں آ رہی تھی تبھی وہ فوراً بولی مگر آدھی بات منہ سے نکال کر چپ ہو گئی کاشان اس کی بات سن کر رکا دروازے سے پلٹ کر واپس اس کے قریب آیا۔۔۔ اس کے مزید قریب آنے سے رنعم دو قدم پیچھے ہوئی اور دیوار سے لگ گئی


"ہاں میں ثوبی کا وہی بھائی ہوں جو اپنے باپ کے قتل کے جرم میں 14 سال کی سزا جیل سے کاٹ کر آرہا ہوں اور کچھ"

کاشان رنعم کے بالکل قریب آ کر آنکھوں میں سنجیدگی لیے اسے گھورتا ہوا بولا۔۔۔ تو رنعم نے فوراً نفی میں سر ہلایا


"کاشان تنقیدی نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر روم سے باہر نکل گیا تو رنعم کا رکا ہوا سانس بحال ہوا


"آففف کیسا فولادی ہاتھ تھا ان کا۔۔۔۔ یقیناً جیل میں خوب چکییاں پسی ہوگئں بےچارے نے"

رنعم نے خود کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہا


"اور بھیا سے تو یکسر مختلف ہے،، بھیّا تو کتنے سوئیٹ سے ہیں اور یہ خود نیم چڑھا کریلہ ٹائپ شخصیت"

رنعم سوچتی ہوئی آئینے کی طرف مڑی۔۔۔ تو اس کی نظر اپنے نائٹ ڈریز کے اوپر کے کھلے ہوئے دو بٹن پر پڑی جلدی سے اس نے دونوں بٹن بند کیے اب اسے کاشان کا یوں روم سے جاتے وقت اپنے اوپر تنقیدی نظروں کا مطلب سمجھ میں آیا وہ شرمندہ ہونے لگی۔۔۔ سونے کے لئے بیڈ پر لیٹی تو ایک بار پھر اسے کاشان کی بات یاد آئی وہ اٹھ کر اپنے روم کا دروازہ لاک کرنے لگی


****


"جب ثوبان نے کہا تھا کہ وہ تمہیں آج صبح لینے آئے گا تو یوں رات گئے منہ اٹھا کر بغیر کسی کو بتائے،، آنے کی کیا ضرورت تھی"

یسریٰ نے صبح ناشتے کی ٹیبل پر سب کے سامنے رنعم کی کلاس لینا شروع کردی جس پر رنعم شرمندہ ہوکر سر جھکائے بیٹھی تھی


"یسریٰ میں اس کو سمجھا چکا ہوں اب وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی"

بہروز کاشان کی موجودگی کے خیال سے رنعم کی روہانسی شکل کو دیکھتا ہوا بولا


"آئندہ ایسی نوبت آئے گی ہی نہیں اب تم اپنی کسی فرینڈ کی شادی میں نہیں جاو گی سنا تم نے"

یسریٰ نے ڈپٹتے ہوئے رنعم کو کہا رنعم کا منہ مزید پلیٹ میں جھگ گیا۔۔۔ کاشان ایک سرسری نظر رنعم کے شرمندہ جھکے ہوئے سر پر ڈال کر دوبارہ اپنا ناشتہ کرنے میں مگن ہوگیا


"کم ان مما رنعم کو میں نے ہی کہا تھا آجاؤ اپنی فرینڈز کے ساتھ، اس نے مجھ سے ٹیکس کر پوچھا تھا"

برابر میں بیٹھے ہوئے ثوبان نے رنعم کے ٹیبل پر رکھے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ دلاسہ دینے کی کوشش تھی کہ وہ اب یسریٰ کی ڈانٹ سے رو ہی نہ دے ننھا سا تو دل تھا اسکا


"تم بھی نہ ذرا اس کی سائیڈ لینا بند کرو،، سر چڑھا لیا ہے تم نے اسے۔۔۔ اگر خدا نہخاستہ راستے میں کوئی اونچ نیچ ہوجاتی تو کیا کرتے ہم"

یسریٰ نے اب گھورتے ہوئے ثوبان کی کلاس لی


"یسریٰ ریلیکس ہوکر ناشتہ کرو رنعم اب گھر آگئی ہے بس اب ختم کرو بات کو"

بہروز نے دوبارہ یسریٰ کو ٹوکا اور شوروم جانے کے لیے نکل گیا جبکہ یسریٰ چپ کر کے ناشتہ کرنے لگی


"رنعم کریم چھٹی پر گیا ہوا ہے جلدی سے ریڈی ہو کر آؤ تمہیں یونیورسٹی ڈراپ کر دو اور کاشی ناشتہ کر کے ذرا باہر آؤ۔۔۔ مما ناشتے کے بعد میڈیسن یاد سے لے لیے گا،، شام میں جلدی آؤں گا،، ڈاکٹر کے پاس اپوائنمنٹ ہے آپ کا"

ثوبان کہتا ہوا ہال سے باہر نکل گیا جبکہ رنعم اپنے کمرے میں جانے لگی کاشان نے دوبارہ اس کے اوپر نظر ڈالی جینز کے اوپر شارٹ کرتا پہنے ہوئے، وہ اسے کل کے مقابلے میں اس وقت بجھی بجھی لگی،،، کل جو وہ رات کو نہا کر نکلی تھی تو فریش فریش لگ رہی تھی مگر شاید ابھی تازہ تازہ عزت افزائی وہ بھی کسی اجنبی کے سامنے یہی وجہ ہوسکتی ہے اس اداسی کی۔۔۔۔ کاشان نے سوچتے ہوئے چائے کا سپ لیا


"آپ سے تو مجھے اب ڈر لگ رہا ہے کل تو آپ کافی پولائٹ لگ رہی تھی"

کاشان نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو وہ ہلکے سے مسکرا دی


"ڈرنے کی ضرورت نہیں، غصہ مجھے کم ہی آتا ہے۔۔۔ بیٹی کی ماں ہوں تھوڑی سختی برتنی پڑتی ہے اور رنعم کون سے بڑی ہے اسی لیے بولا تاکہ آئندہ خیال رکھے وہ"

یسریٰ نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہوئے کہا


"یہ تو بجا فرمایا آپ نے،، اوکے ثوبان کی بات سن کر آتا ہوں"

کاشان اٹھتا ہوا بولا


****


"آؤ کاشی یہ میری طرف سے تمہارے لئے گفٹ ہے"

کاشان باہر نکل کر ثوبان کے پاس آیا تو ثوبان نے زیرو میٹر کی کار کی طرف اشارہ کیا اور مسکرا کر کیچین کاشان کی طرف بڑھائی


"کل تم نے سیل فون بھی دیا تھا اس کی کیا ضرورت ہے اور کون سا مجھے ڈرائیونگ آتی ہے"

کاشان نے ہاتھ بڑھائے بغیر گاڑی کی چابی کو دیکھ کر کہا


"موبائل تو میں نے رنعم کے لیے لینا تھا اس سے پرامس کیا ہوا تھا تو سوچا تمہارے لیے بھی لے لو اور رہی بات ڈرائیونگ کی تو جب کار ہاتھ میں ہوگی تو ڈرائیونگ بھی آ ہی جائے گی اور مجھے پورا یقین ہے تم بہت جلد سیکھ لو گے۔۔۔۔ یاد ہے رشید کی بائیک پیچھے میدان میں تم اور میں چلاتے تھے اور بائیک چلانا تم مجھ سے پہلے سیکھ گئے تھے اور بہت اچھی چلاتے تھے"

ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چابی کو اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا


دور سے رنعم ہاتھ میں بکس اور شولڈر پر بیگ لئے جینس اور اوپر کرتے میں مبلوس ان دونوں کی طرف آتی دکھائی دی


"چودہ سال میں کافی کچھ بدل گیا ہے دنیا جتنی حسین ہوگئی ہے، لوگ اتنے ماڈرن اور بے پردہ بھی"

کاشان نے دور سے آتی رنعم کو دیکھ کر تبصرہ کیا


"بے پردگی کی کیا بات ہے، رنعم کونسی بڑی ہے بچی ہے وہ ابھی"

کاشان کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے ثوبان نے نارمل سے انداز میں اپنی راۓ دی


"غلط، جوان ہے تمہاری بہن۔۔۔ وہ کسی بھی اینگل سے بچی نہیں ہے"

کاشان انکھوں کو سکھیڑتا ہوا اب بھی رنعم کو دیکھتا ہوا بولا اس کی بات سن کر ثوبان کو غصہ آیا


"کاشی اپنی زبان نظر اور دماغ ان تینوں چیزوں کو درست رکھو اور یاد رکھنا میں رنعم کو بہن کہتا ہی نہیں دل سے مانتا ہوں،،، اس لئے آئندہ اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر بات کرنا"

ثوبان کی پیشانی پر اچھے خاصے بل واضح ہوچکے تھے جنہیں دیکھ کر کاشان ہلکے سے مسکرایا


"باہر کس کس کا منہ اور آنکھیں بند کروں گے یقین جانو باہر کوئی تمہاری بہن کو بہن کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا اسلیئے گھر کے مرد کو خود محتاط ہونا چاہیے"

کاشان نے تحمل سے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"چلیں بھیا میں آگئی ہوں"

رنعم نے ثوبان کے پاس آکر اسے مخاطب کیا


"جاو رنعم اسکارف لے کر آؤ"

ثوبان نے رنعم کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا رنعم کو دیر ہو رہی تھی مگر جتنا سیریس ہوکر ثوبان نے کہا تھا رنعم ایک نظر کاشان پر ڈال کر،، جو اسے ہی دیکھ رہا تھا بغیر کچھ بولے اسکارف لینے چلی گئی


****


"ایکسکیوزمی کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں" عبائے میں ایک معصوم سی لڑکی جو کافی دیر سے فٹ پاتھ پر کھڑی ہوئی تھی کار میں موجود لڑکا اس کو دیکھ کر بولا


"جی دراصل میں اپنا موبائل اور پیسے گھر بھول گئی ہو اب سمجھ میں نہیں آرہا گھر کیسے جاؤ"

لڑکی نے پریشان ہو کر کار میں موجود لڑکے کو بتایا


"آئیے میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں" لڑکے نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی


"بہت بہت شکریہ، اب تو دنیا میں بہت ہی کم نیک صفت لوگ بچے ہیں جو دوسرے کے کام آئے"


لڑکی نے مشکور بھری نگاہوں سے اس کو دیکھ کر کہا اور کار کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور اپنا ایڈریس بتانے لگی


"بائے دا وے کیا نام ہے آپ کا"

لڑکے نے اس کا نام جاننا چاہا


"معصومہ"

لڑکی نے مسکرا کر اپنا نام بتایا


"نام تو بالکل آپ سے میچ ہوتا ہوا ہے ویسے مجھے وسیع کہتے ہیں"

لڑکے نے اپنا تعارف کرایا۔۔۔۔ باتوں کے دوران وہ معصومہ کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جانے لگا


"ہم شاید غلط آ گئے ہیں،، میں نے یہ ایڈریس نہیں بتایا تھا آپ کو"

گاڑی ایک سنسان علاقے میں رکی جہاں پر دور کہیں کنسٹرکشن ہو رہی تھی


"نہیں ہم بالکل ٹھیک آئے ہیں،، وہ کیا ہے نا معصومہ آج کل کا دور بہت خراب ہے اور لڑکی کو آپ جتنا معصوم بھی نہیں ہونا چاہیے"

وسیع کی آنکھ میں شیطانیت اتری تو معصومہ نے ابھی بھی اسے معصومیت سے دیکھا


"کیا مطلب، میں آپ کی بات سمجھی نہیں"

معصومہ نے معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے کہا


"سب مطلب سمجھا دوں گا مگر پہلے اپنا مطلب پورا کر لو"

وسیع نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے اوپر جھکنے کی کوشش کی تو معصومہ نے چاقو کی نوک اس کے پیٹ میں چبھوئی

وہ اب بھی معصومیت سے مسکرا کر وسیع کو دیکھ رہی تھی وسیع پیچھے ہو کر واپس شرافت سے اپنی سیٹ پر بیٹھا


"یہ کیا کر رہی ہیں آپ بہن جی، چاقو کو نیچے کریں پلیز"

وسیع نے اسے باتوں میں لگا کر اس کے ہاتھ سے چاقو پکڑنا چاہا تو معصومہ نے چاقو سے اس کے ہاتھ پر وار کیا


"آآآآ کیا چاہیے تمہیں"

وسع نے اپنے زخمی ہاتھ کو دیکھ کر پوچھا


"اب آئے نہ تم مطلب کی بات پر، چلو جلدی سے اپنا والٹ سیل فون نکالو کوئی بھی ہوشیاری کیے بغیر،،، ورنہ اب کے یہ چاقو تمہارے پیٹ میں گھسیڑ دو گی"

معصومہ ابھی بھی مسکراتے ہوئے معصومیت سے کہہ رہی تھی


"تم صرف نام کی معصوم ہو"

وسیع نے والٹ اور سیل فون معصومہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جس سے معصومہ نے دوسرے ہاتھ میں تھام کر عبائے میں کہیں چھپا لیا اب اس نے عبائے میں سے کوئی چیز نکالی مگر مھٹی بند ہونے کی وجہ سے وسیع کو وہ چیز نظر نہیں آئی


"مگر تم مجھے شکل سے ہی پکےّ خبیث لگے تھے"

بند مٹھی اس کے منہ کے سامنے کھول کر پھونک ماری تو لال مرچوں کا پاڈر وسیع کی آنکھوں اور منہ میں گیا جس سے وہ بری طرح تڑپ اٹھا۔۔۔۔ مچلتا ہوا وہ اسے گالیاں دے رہا تھا معصومہ جلدی سے کار سے اتر کر کہاں غائب ہوگئی وسیع کو اندازہ نہیں ہوسکا

"آج بن موسم مینہ برسنے سے کئی دنوں کی گرمی کا زور ٹوٹا کاشان کو یہ موسم بچپن سے ہی اچھا نہیں لگتا تھا کیوکہ بارش ہونے کے بعد سب سے پہلے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ شروع ہو جاتا اس کے بعد اس محلے کے گلیوں میں کئی دنوں تک پانی کھڑا رہتا جو کہ چند دن بعد کیچڑ میں تبدیل ہوجاتا جس سے بدبو الگ اٹھتی اور گندگی الگ ہوتی۔۔۔۔۔ فائزہ سلائی کی وجہ سے گھر کی صفائی پر زیادہ توجہ نہیں دیتی تھی مگر کاشان کو پھیلاوے اور بے ترتیبی سے چڑ ہوتی وہ کبھی کبھی فائزہ سے بھی اس بات کو لےکر ناراض ہوتا اور اسے صفائی کے لئے بولتا مگر جب اسی بات کو لے کر افتخار فائزہ پر ہاتھ اٹھاتا تو ثوبان اور کاشان دونوں ہی چپ کر کے گھر کی صفائی کرتے


"یار رنعم کیا کر رہی ہو پورا بھیگاو گی کیا مجھے" ثوبان کی آواز پر کاشان بچپن کی یادوں سے نکلتا ہوا اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا یہ کھڑکی گھر کے لان میں کھلتی تھی جہاں اسے رنعم ثوبان کا ہاتھ کھینچتی ہوئی ثوبان کو لان میں لاتی ہوئی نظر آئی


"کیا بھیا اتنا مزہ آ رہا ہے بالکل ہی بور ہوتے جارہے ہیں آپ تو"

رنعم کی چہکتی ہوئی آواز پر کاشان کی نظر رنعم پر گئی۔۔۔ وہ بارش کو بالکل بچوں کی طرح انجوائے کر رہی تھی اور اب ثوبان بھی پوری طرح بھیگ چکا تھا وہ اور رنعم لان میں کھڑے کسی بات پر ہنس رہے تھے کاشان کھڑکی میں کھڑا ان دونوں کو دیکھ کر سگریٹ پینے لگا۔۔۔۔ رنعم نے دونوں ہاتھوں کا کٹورہ بنا کر بارش کا پانی جمع کیا اور بات کرتے ہوئے ثوبان کے منہ پر پھینکا جس پر ثوبان نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی،،، اس کی مسکراہٹ دیکھ کر کاشان کے لب بھی بےساختہ مسکرائے


"انسان بن جاؤ تم، چلو اندر بیمار پڑ جاؤں گی ورنہ" ثوبان کہتا ہوا اب خود اندر جانے لگا


"بھیا آپ بور ہونے کے ساتھ ساتھ بوڑھے بھی ہوگئے ہیں مگر ابھی میرا بارش میں مزید انجوائے کرنے کا ارادہ ہے"

وہ بولنے کے ساتھ کیچر سے اپنے بالوں کو آزاد کرچکی تھی


"ہاں جب تک مما یہاں آ کر تمہاری شامت نہیں لائے گیں، تم سدھرنے والی نہیں ہو"

ثوبان نے جاتے جاتے اسے ڈرایا


"اگر مما کو آپ نے یہاں آنے سے نہیں روکا تو میں آپ سے سچی والا ناراض ہو جاؤ گی"

رنعم نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا تو ثوبان ہنستا ہوا اندر چلے گیا ہے


رنعم مسکرانے لگی اسے یقین تھا ناراض ہونے والی دھمکی ہمیشہ کارآمد ہوتی ہے اب اسے یسریٰ کا خوف نہیں تھا وہ آرام سے دیر تک بارش میں انجوئے کر سکتی ہے۔ ۔۔۔۔


کاشان ابھی بھی سگریٹ پیتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا،، وہ آنکھیں بند کیے چہرہ آسمان کی طرف کر کے دونوں ہاتھ کھولے آئستہ آئستہ گول گھوم کر دنیا بھلائے اپنے آپ میں مگن تھی اور کاشان اس کو دیکھنے میں۔۔۔۔ آج سے پہلے کاشان کو بارش کبھی اتنی اچھی نہیں لگی آج اسے یہ موسم اتنا برا بھی نہیں لگ رہا تھا وہ مہبوت سا کھڑکی میں کھڑا رنعم کو دیکھے گیا


"رنعم"

زیرلب اس نے رنعم کا نام پکارا۔۔۔۔ اس کا دل نئے انداز میں دھڑکا۔۔۔۔


"یہ بتا اگر باہر نکل کر تجھے کوئی لڑکی پسند آگئی تو"

اچانک اسے جیل میں آزر کی بات یاد آئی


"میں بھی کیا سوچنے لگ گیا"

کاشان نے اپنی سوچوں کو جھٹکا

اس کی نظر سامنے والے گھر کی بالکونی پر پڑی جہاں تین لڑکے آنکھوں میں دلچسپی لیے رنعم کو دیکھ رہے تھے وہ لڑکے زیادہ بڑے بھی نہیں تھے انیس یا بیس سال کے لڑکے ہوگیں،، انہیں دیکھ کر کاشان کے ماتھے پر اچانک لاتعداد شکنوں کا جال سج گیا۔۔۔۔


اب اس نے رنعم کی ڈریسنگ پر غور کیا رنعم نے کیپری پر ٹاپ پہنا ہوا تھا جو بارش میں پورا بھیگ کر اس کے بدن سے چپک چکا تھا،، جس سے اس کے جسمانی خدوخال واضح ہو رہے تھے اور کیپری کی وجہ سے آدھی پنڈلیاں بھی نظر آرہی تھی۔۔۔ کاشان نے سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں مسل کر لان کا رخ کیا


کاشان پر نظر پڑتے ہی وہ تینوں لڑکے بالکونی سے غائب ہوگئے۔۔۔۔ رنعم اب لان میں موجود پھولوں اور پودوں کا جائزہ لے رہی تھی کاشان نے لان سے چند قدم دور کھڑے ہوکر رنعم کو مخاطب کیا


"اندر آو فوراً"

کاشان کی آواز پر رنعم نے مڑ کر اسے دیکھا جو اسے گھورتے ہوئے بول رہا تھا


"آپ نے مجھ سے کچھ کہا"

بھلا انہیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے میرے یہاں موجود ہونے سے۔۔۔۔ رنعم نے یہی سوچ کر اس سے پوچھا


"یہاں تمہیں اور کون دیکھ رہا ہے اپنے سوا"

پہلے سے زیادہ سخت لہجے میں طنز کیا گیا تو رنعم کو حیرت ہوئی


"مگر کیوں"

وہ جرح کرنے والے انداز میں بولی تو کاشان نے اسے غصے میں گھورا


"ابھی وہاں آکر بتاو کیوں"

وہ اب بھی آنکھیں دکھائے رنعم سے پوچھ رہا تھا تو رنعم چپ کر کے اندر چلے گئی


****


کاشان آفس کی بلڈنگ کے باہر کھڑا آفس کا جائزہ لینے لگا یہی ایڈریس تھا جہاں ثوبان نے اس کو شکیب الریحان کے پاس جاب کے سلسلے میں بھیجا تھا۔۔۔۔ شام میں اس نے ڈرائیونگ کی کلاس بھی لی ہوئی تھی اور ثوبان کے کہنے کے مطابق وہ واقعی جلد ڈرائیونگ سیٹ گیا۔۔۔۔ بہروز نے اسے اپنے شو روم میں مینیجر کی جاب کی آفر کی ژتھی مگر اس نے سہولت سے انکار کر دیا یا شاید اندر کہیں اس کے دل میں یہی بات تھی جتنا احسان وہ ان دونوں میاں بیوی کالے چکا ہے اتنا کافی ہے جبکہ ثوبان کا تو ان دونوں کے ساتھ الگ معاملہ تھا۔۔۔ ہر انداز سے ثوبان اسی فیملی کا حصہ لگتا تھا


"ایکسکیوزمی میم مجھے شکیب الریحان صاحب سے ملنا ہے چار بجے کا اپوائنمنٹ ہے میرا"

باہر بیٹھی پی۔اے کو کاشان نے مخاطب کر کے کہا


"آپ کاشان احمد ہیں؟ سر شکیب کچھ ذاتی مصروفیات کی بنا پر آج نہیں آسکے مگر انکی بیٹی مس مایا تھوڑی دیر میں تشریف لارہی ہیں جب تک آپ کا انٹرویو ہمارے مینجر فیصل لے لیتے ہیں آپ اندر تشریف لے جائے"

پی۔اے نے پروفیشنل مسکراہٹ کے ساتھ کاشان کو جواب دیا تو کاشان سرہلا کر روم کے اندر چلا گیا


"السلام علیکم سر" کاشان نے اندر داخل ہو کر سلام کیا سامنے 30 سالہ شخص فیصل چیئر پر برجمان تھا جس نے سر ہلا کر اس کے سلام کا جواب دیا اور کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا


"ہاں تو کاشان احمد اس سے پہلے کہ کہاں جاب کی آپ نے۔۔ کوئی ایکسپیرینس ہے آپ کو"

فیصل نے کاشان کی فائل دیکھتے ہوئے سوال کیا پھر ایک نظر کاشان کو دیکھ کر ہنسا


"او سوری میں تو بھول گیا، تم نے تو جیل میں رہ کر ایجوکیشن کمپلیٹ کی ہے تمہارے پاس بھلا کس چیز کا ایکسپرینس ہوگا"

فیصل نے ہنستے ہوئے اس کا مذاق اڑایا


"قتل کا ایکسپیرینس ہے مجھے"

کاشان نے چہرے پر سنجیدہ تاثرات رکھتے ہوئے کہا تو فیصل کی مسکراہٹ غائب ہوئی


"ویسے ثوبان سے ملا ہوں میں اچھا انسان ہے وہ اعلیٰ عہدے پر فائز بھی۔ ۔۔ شرمندہ ہوتا ہوگا تمہارے بارے میں کسی کو بتاتے ہوئے بچارا"

فیصل نے ثوبان سے ہمدردی کی آڑ میں دوبارہ اس کی ذات کو نشانہ بنایا


"نہیں وہ بالکل شرمندہ نہیں ہوتا جس وجہ سے وہ شرمندہ ہوتا تھا،،، وہ وجہ میں نے ہمیشہ کے لئے ختم کردی جس کے سبب میں جیل گیا،، یقین مانو مجھے دوسرا قتل کرتے ہوئے بھی بالکل شرمندگی نہیں ہوگی"

کاشان کے تاثرات بالکل سنجیدہ تھے وہ آنکھیں سکھڑے فیصل کو دیکھ کر بول رہا تھا اچانک آفس کے روم کا دروازہ کھلا اور ایک نسوانی وجود اندر آیا جسے مڑ کر کاشان نے دیکھا


"آو مایا تمہارا ہی ویٹ کر رہا تھا، یہ ہے کاشان جس کے بارے میں انکل نے بتایا تھا اب تم خود ہی دیکھ لو کس سیٹ کا چارج اسے دینا ہے"

فیصل نے مایا کو دیکھ کر کاشان کے بارے میں ایسے تبصرہ کیا جائے اس کی نظر میں، وہ پیون کی سیٹ کے بھی اہلیت نہیں رکھتا۔۔۔۔ مایا نے کاشان کو دیکھا،،،، وہ بھی تنقیدی نگاہ سے اسی کو دیکھ رہا تھا وہ ڈریسنگ کے لحاظ سے کافی ماڈرن جب کے باڈی لینگوج کے حساب سے کافی بولڈ لگی


'ہائے آئی ایم مایا"

مایا نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ملانے کے غرض سے کاشان کی طرف بڑھا کر اپنا تعارف کرایا


"کاشان احمد"

کاشان نے اس کے ہاتھ پر سرسری نگاہ ڈال کر مایا کو دیکھتے ہوئے کہا مایا نے خفت سے ہاتھ نیچے کر لیا کاشان کو اس طرح خود سے فری ہونے والی بےباک لڑکیاں ذرا پسند نہیں تھی اور مایا کا پہلا امپریشن اس پر اچھا نہیں پڑا اس لیے وہ یہاں آکر بدمزہ ہوا اور بدمزہ تو وہ یہاں فیصل کی شکل دیکھ کر بھی ہوا تھا جو اپنے آپ کو توپ ٹائپ کوئی چیز سمجھ رہا تھا


"ثوبان نے مجھے شکیب صاحب کے پاس بھیجا تھا اب وہ یہاں نہیں ہے تو یقیناً میرا ٹائم ضائع ہوا خیر چلتا ہوں" کاشان نے چیئر سے اٹھتے ہوئے کہا


"ڈیڈ آفس کم ہی آتے ہیں زیادہ تر یہاں کام میں ہی دیکھتی ہوں۔۔۔ ہمہیں آپ کے قیمتی وقت کا بھی احساس ہے، آپ کل سے آفس جوائن کر لیے گا،،، آفس کے متعلق خاص معلومات اور ضروری باتیں آپ کو فیصل سمجھا دیں گے" مایا نے اپنی چیئر پر بیٹھتے ہوئے کاشان سے کہا تو سر ہلا کر دروازے سے باہر نکل گیا


"ٹشن دیکھو ہیرو کے ایسا لگ رہا ہے حوالات سے نہیں لندن سے آرہا ہو جیسے ایڈیٹ۔۔۔ ذرا اچھا نہیں لگا مجھے"

فیصل نے کاشان کے باہر نکلتے ہی جل کر تبصرہ کیا


"پر مجھے اچھا لگا" مایا نے چیئر پر جھولتے ہوئے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں سے ابھی کاشان باہر گیا تھا


****


"شوگر کافی بڑھی ہوئی ہے بابا آپ کی، احتیاط کیا کریں" کھانے سے فارغ ہوکر ثوبان،، یسریٰ اور بہروز کے پاس

بیڈ روم میں آیا تو اس نے بہروز کی رپورٹ دیکھتے ہوئے کہا


"ارے یار میں کون سا میٹھا کھاتا ہوں جو احتیاط کرو، یہ چھوڑو تمہاری مما نے تمہیں کچھ دکھانا تھا"

بہروز نے یسریٰ کو اشارہ کیا تو وہ اٹھ کر دراز میں سے کچھ نکالنے لگی چند لڑکیوں کی تصویریں لاکر اس بے ثوبان کے ہاتھ میں تھمائی


"یہ کیا ہے مما" ثوبان نے تعجب سے یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو بہروزہ یسریٰ دونوں ہی ہنس دیے


"لڑکیوں کی تصویریں ہیں بدھوں اگر کوئی تمہاری نظر میں نہیں ہے تو ان میں سے دیکھ کر مجھے بتاؤ۔۔۔ سب ہی خوبصورت اور ویل ایجوکیٹڈ، ہائی سوسائٹی سے موو کرتی ہیں اور تمھارے ساتھ میچ کریں گی"

یسریٰ نے آکسائیڈ ہوکر ثوبان کو بتایا


"مما آپ کن چکروں میں پڑ گئی ہیں،، میں ابھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور ان میں سے تو کسی سے نہیں اور سب سے امپورٹنٹ بات رنعم سے پہلے تو میں شادی کرنے والا ہرگز نہیں ہو، آپ دونوں پہلے اس کا سوچیں"

ثوبان نے اپنے اوپر سے لٹکی ہوئی تلوار کو فی الحال ہٹایا۔۔۔ مگر یہ سچ بھی تھا وہ چاہتا تھا پہلے رنعم اپنے گھر کی ہو جائے


"بات تمہاری بھی ٹھیک ہے مگر اس کے لئے کوئی نظر میں بھی تو ہو"

بہروز نے ثوبان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا


"میری نظر میں ہے ایک،، اگر آپ دونوں کو مناسب لگے تو سوچیے گا"

ثوبان نے کچھ سوچتے ہوئے ان دونوں کو دیکھا


"بھلا ایسا کون ہے" یسریٰ کے ذہن میں کاشان کا خیال آیا مگر بنا ظاہر کیے اس نے ثوبان سے پوچھا


"عاشر۔۔۔ عاشر کیسا رہے گا اپنی رنعم کے ساتھ"

ثوبان ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا


"عاشر"

یسریٰ نے حیرت سے ثوبان کو دیکھا


"ہاں اس کی طرف تو میرا دھیان نہیں گیا اچھا بچہ ہے وہ بھی"

بہروز نے تھوڑی دیر بعد اپنی رائے کا اظہار کیا مگر اتفاق سے وہ بھی ثوبان کے منہ سے عاشر کا نام ایکپٹ نہیں کر رہا تھا


"کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو بالکل ہی سیریز ہوگئے ہیں۔۔ مانا عشر اچھا ہے مگر رنعم کے ساتھ وہ کہاں سوٹ کرے گا

یسریٰ کو جیسے کہ بہروز اور ثوبان دونوں ہی کی بات پسند نہیں آئی۔۔۔ انعم اس کے پاس تھی نہیں ایک طرح سے رنعم اس کی اکلوتی بیٹی تھی وہ ہر لحاظ سے اس کے لئے پرفیکٹ انسان سوچتی تھی،، جو رنعم کے ساتھ کھڑا ہو کر بھی اچھا لگے


"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مما،، آخر کیا برائی ہے اس میں، اس کا اخلاق کردار سب ہی ہماری نظروں میں ہے۔۔۔ وہ تو آپ کا بھانجا ہے اور آپ کو عزیز"

ثوبان کو یسریٰ کی سوچ پر حیرت ہوئی وہ سمجھ گیا یقیناً ساری خاصیت ہونے کے باوجود عاشر اچھی ہائٹ اور رنگ سے مار کھا گیا ہے یقیناً یہی وجہ ہوگی جو یسریٰ بتانے سے جھجک رہی ہے مگر ثوبان کے سامنے اس چیز سے زیادہ اہمیت عاشر کے دل کی تھی وہ ایک اچھے دل کا انسان کا سب سے بڑھ کر ثوبان نے عاشر کی نظروں میں رنعم کے لیے پسندیدگی بھی دیکھی تھی۔۔۔ ثوبان نے بھائی ہونے کے ناطے رنعم کا بھلا ہی چاہا تھا


"برائی تو ان چند دنوں میں مجھے کاشان میں بھی نظر نہیں آئی ویسے، اس کے بارے میں کیوں نہیں خیال آیا تمہیں رنعم کے لیے۔۔۔۔ کاشان بھی سوٹ کرے گا ویسے رنعم کے ساتھ"

یسریٰ کی بات پر ثوبان کے ساتھ ساتھ بہروز بھی چونکا


"کاشی"

ثوبان بڑبڑایا


"یسریٰ"

بہروز نے حیرت سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے اس کا نام پکارا


"کیو کیا برائی ہے اس میں،، پڑھا لکھا ہے خوش اخلاق ہے،، خوش شکل ہے،، کردار بھی ہماری نظروں میں ہے اسکا، اسٹیبل نہیں ہے تو کیا ہوا،، جو کچھ ہمارا ہے وہ کس کے کام آئے گا آگے،، رنعم کے اور ثوبان کے"

یسریٰ کی بات پر بہروز چپ ہوگیا


"مما کاشی میرا بھائی ہے اور رنعم میری بہن، یہ دونوں ہی مجھے بہت عزیز ہیں مگر ان دونوں کی نیچر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے"

اگر ثوبان صرف کاشی کے متعلق سوچتا تو کاشان کے لیے اس سے بہتر آپشن کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا تھا مگر اس نے سچے دل سے کھرا جواب دیا


"یسریٰ ثوبان رنعم سے پیار کرتا ہے وہ اس کے لیے بہتر سوچے گا،، اس نے کچھ سوچ کر ہی عاشر کا نام لیا ہوگا کاشان کا نہیں"

بہروز ثوبان کے سامنے اس سے زیادہ واضح لفاظوں میں یسریٰ کو نہیں سمجھا سکتا


"میں جانتی ہوں ثوبان رنعم سے ہی نہیں ہم دونوں سے بھی پیار کرتا ہے،،، آپ دونوں کے ہی اگر دل میں یہ بات ہے کہ کاشان جیل سے آیا ہے تو پلیز وہ اپنی سزا مکمل کر کے آگیا ہے آخر اسے بھی نئی زندگی شروع کرنے کا حق ہے"

یسریٰ نے دوبارہ نیا جواز پیش کیا جس پر وہ دونوں ایک بار پھر چپ ہوگئے


"چلو ٹھیک ہے رنعم کی کون سی عمر نکلی جارہی ہے۔۔۔ ابھی پڑھ رہی ہے وہ میرے خیال میں ابھی بچوں کے ذہنوں میں ایسی بات ڈالنی بھی نہیں چاہیے۔۔۔ میں چاہوں گا یہ بات ہم تینوں کے درمیان رہے اس کمرے تک،، جب وقت ہوگا تو دیکھا جائے گا کیا بہتر رہے گا"

بہروز نے اس وقت کے لیے ٹاپک کو کلوز کرتے ہوئے کہا ثوبان اٹھ کر اپنے روم میں آ گیا


****


رنعم یشعل سے موبائل پر بات کرتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی،،، آج وہ یونیورسٹی کے لیے لیٹ ہو گئی تھی آخر کی تین رہ گئی تھی اچانک رنعم کا پیر سلپ ہوا۔۔۔ اس سے پہلے وہ بری طرح گرتی،،،، عجلت میں سیڑھیاں چڑھتا کاشان جو کہ کسی ضروری کام سے ثوبان کے روم میں جا رہا تھا۔۔۔ رنعم اس سے ٹکرا گئی۔۔۔۔ اس افتاد کے لیے کاشان تیار نہیں تھا۔۔۔ رنعم کو گرنے سے بچانے کے لیے اپنا ایک ہاتھ اس کے گرد لپیٹ کر دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیا تاکہ خود کو بھی گرنے سے بچا سکے۔۔۔۔۔ مگر مسئلہ یہاں حل نہیں ہوا گرنے سے بچانے کے چکر میں رنعم کے سر کاشان کے سینے سے بری طرح ٹکرایا جب وہ دونوں سنمبل گئے تو رنعم نے اپنا سر اس کے سینے سے ہٹانا چاہا مگر رنعم کے بال کاشان کی شرٹ کے بٹن میں پھنس چکے تھے۔۔۔ رنعم نے مدد طلب نظروں سے ذرا سا سر اٹھا کر کاشان کو دیکھا تو گہری نظروں سے اس کے چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔


وہ مکمل حسن رکھنے والی لڑکی تھی جس کا کوئی بھی دیوانہ ہو سکتا تھا پھر بھلا کاشان احمد کیسے بچ سکتا تھا،،،، ویسے تو یہ سبز آنکھیں آہستہ آہستہ اپنا کام دکھا رہی تھی مگر آج ان کے وار سے وہ نہیں بچ سکا تھا


"پلیز میری ہیلپ کریں ناں"

رنعم اپنے بال شرٹ کے بٹن سے نکالنے کے چکر میں اور گھبراہٹ میں مزید الجھا چکی تھی،، اس لئے جب خود کچھ نہیں کر پائی تو بےبس ہوکر کاشان سے کہنے لگی وہ بس خاموش ہوکر اسے دیکھے جا رہا تھا،،، رنعم کے بولنے پر کاشان نے اس کے بالوں کو بینڈ سے آزاد کیا پھر آہستہ سے اس کے بال اپنے شرٹ کے بٹن سے نکالے جب کہ کاشان کو ایسا کرنے کا دل ذرا نہیں چاہ رہا تھا کیوکہ ایسا کرنے کے بعد وہ یہ چہرہ دوبارہ اتنے قریب سے نہیں دیکھ پاتا،،، ابھی تو اس کا دل بھرا بھی نہیں تھا


"تھینکس"

جیسے ہی اس کے بال آزاد ہوئے وہ بنا کاشان کو دیکھے تھینکس بولتی ہوئی باہر نکل گئی جبکہ کاشان مڑکر آنکھیں سکھیڑ کر اسے باہر جاتا ہوا دیکھتا رہا


کاشان کو اس گھر میں رہتے ہوئے ایک ماہ ہوگیا تھا بہروز اور یسریٰ سے وہ کافی حد تک بات چیت کر لیتا تھا مگر رنعم سے اس کی کوئی خاص بات چیت نہیں تھی۔۔۔ جب وہ غلطی سے اس کے روم میں آیا تھا یا تو رنعم اس کی باتوں سے ڈر گئی تھی یا پھر شاید وہ کسی اجنبی سے فری نہیں ہوتی تھی اور یہ دونوں ہی باتیں کاشان کو پسند آئی تھی مگر جو بات اسے پسند نہیں آئی تھی وہ سوچتے ہوئے اس کے ماتھے پر شکن آئی مگر وہ کوئی ایسی مسلے کی بات بھی نہیں تھی اور دوسرا کاشان کو بھی سمجھانے کے بہت سے طریقے آتے تھے

"کیا مجھے اپنے احساسات ثوبان سے شیئر کرنے چاہیے" کاشان سوچتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا

"ارے بھائی جب کچھ اتا پتہ نہیں ہے تمہیں،، تو اس لڑکی کا رپورٹ میں کیا درج کرو"

ثوبان پولیس اسٹیشن پہنچا تو انسپرکٹر کسی شخص سے مغز ماری کر رہا تھا


"کیا مسئلہ ہے ان کا جواد"

ثوبان نے انسپکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


"سر میں آپ کو خود بتاتا ہوں،،، کل میں ہائی وے کے راستے سے اپنی کار میں گزر رہا تھا ایک لڑکی عبائے میں دیکھی،، جو مجھے پریشان لگ رہی تھی میں نے مدد کرنے کے لئے اس کو لفٹ دی مگر اس نے چاقو نکال کر مجھ سے میرا والڈ لے لیا اور جب میں نے گاڑی سے اتر کر پکڑنا چاہا تو مٹھی میں مٹی بھر کے میری آنکھوں میں ڈال کر کہا فرار ہو گئی مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوا کہاں گئی"

آنے والا شخص، ثوبان کو اپنی دکھ بھری داستان سنا رہا تھا مگر ثوبان کا دماغ کہیں اور ہی چلا گیا بے ساختہ اس کے منہ سے سیرت نکلا


"جی سر کیا کہا آپ نے سیرت،، نہیں معصومہ تھا اس کا نام۔۔۔۔ اس نے مجھے خود بتایا اپنا نام،، نام اس کی شکل سے میل کھاتا تھا جبکہ وہ خود چورنی تھی سالی"

اس شخص نے آخری جملہ غصے میں کہا


"تمیز سے بات کرو کسی لڑکی کے بارے میں بات کر رہے ہو تم،،، شرم آنی چاہیے تمہیں"

ثوبان نے ماتھے پر شکنیں ڈالتے ہوئے اس کو جھڑکا


"ارے سر اس نے مجھے پورا لوٹ لیا شکر ہے یہ تن پر یہ کپڑے چھوڑ گئی اور آپ کہہ رہے ہیں میں تمیز سے بات کرو"

اس شخص کو مزید غصہ آنے لگا


"حلیہ بتاؤ اس کا کیسا تھا،، آئی مین قد رنگ وغیرہ"

ثوبان نے جواد سے سب نوٹ کرنے کے لئے کہا جبکہ وہ خود غور سے اس شخص کی بات سننے لگا


"رنگ صاف تھا قد تقریباً پانچ فٹ چھ انچ کالے بال عبائے سے جھانک رہے تھے آنکھوں کا کلر براؤن تھا شکل اتنی معصوم کہ بندہ دیکھتے ہیں اس کی ہر بات پر اعتبار کر لے جب کہ فگر بڑا ٹائٹ تھا"

ثوبان نے دوبارہ ناگوار نظر اس شخص پر ڈالی تو وہ چپ ہو گیا


"جبھی تم مفت کا مال سمجھ کر چلتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ لڑکی چالو نکلی" جواد نے ہنستے ہوئے اس شخص کو کہا


"کیا کرتی پھر رہی ہوں سیرت تم،، اف میرے خدا، اب کہاں تلاش کروں میں تمہیں"

ثوبان دل میں سوچتا ہوا اس کے لیے فکر مند ہوگیاا


****


آج کاشان کو فرسٹ سیلری ملی تھی تو وہ ثوبان کے ساتھ ساتھ بہروز، یسریٰ اور رنعم کے لئے بھی اپنی سیلری سے کچھ گفٹ لینے کا ارادہ رکھتا تھا اسی چکر میں وہ اس وقت شاپنگ مال کا چکر کاٹ رہا تھا ایک شاپ پر کاشان کی نظر ایک ڈیکوریشن پیس پر پڑی جس میں انڈے کے شیپ کے ایک پرل کے اندر خوبصورت سی ڈول بیٹھی ہوئی تھی اسے یہ گفٹ رنعم کے لئے پسند آیا وہ خود بھی تو ڈول جیسی تھی ڈیکوریشن پیس کو دیکھ کر کاشان نے مسکرا کر سوچا۔۔۔۔ ابھی وہ ڈیکوریشن پیس دیکھ ہی ریا تھا تب اسے کچھ محسوس ہوا،، کاشان نے اچانک پیچھے مڑ کر اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا جس کا ہاتھ اس کی بیک پاکٹ کی طرف بڑھتا ہوا اس نے محسوس کر لیا تھا۔ ۔۔۔ لڑکی کاشان کے ہاتھ پکڑنے پر ڈری مگر دوسرے ہی لمحے وہ اس کو پہچان گئی


"ہہہہم تو استادوں سے استادی کرنے چلی تھی"

پہچان تو اسے کاشان بھی گیا تھا تبھی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر محظوظ ہوتا ہوا بولا


"دماغ خراب نہیں ہو گیا تمہارا، میں بھلا کیو استادی کرنے لگی، ویسے جیل سے کب چھوٹے تم"

سیرت بچپن کی طرح ناک چھڑاتے ہوئے بولی جیسے وہ اتنے سالوں بعد نہیں بلکہ روز ہی ملتا رہا ہوں


"استادی کرتی بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا پیسے، کریڈٹ کارڈ میں والٹ میں نہیں رکھتا ہوں اور یہ والٹ تو رکھا ہی میں نے چوروں کو دھوکا دینے کے لئے ہے"

اتنے سال بعد وہ ملا تو اس کو شرمندہ کر رہا تھا سیرت کا دل چاہا مکہ مار کے اسکا منہ توڑ دے اور اس کی بتیسی باہر نکال دے۔۔۔ وہ دونوں بھائی ہی اس لائق نہیں تھے کے ان سے اچھے طریقے سے بات کی جائے۔۔۔ اس لئے دانت پیستی ہوئی وہ وہاں سے جانے لگی


"او ہیلو ایسے کیسے جا رہی ہوں ایڈریس یا فون نمبر تو دیتی جاو"

کاشان نے اس کو جاتا دیکھا تو اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا سیرت وہی رک گئی اور اس کی طرف رخ کیا


"اگر اب تم نے میرا پیچھا کیا یا مجھ سے بات کی تو چیخ چیخ کر یہاں سب لوگوں کو جمع کرلوں گی اور اتنے جوتے پڑ واو گی کہ لڑکی چھیڑنے کے جرم میں دوبارہ اندر ہو جاؤ گے" سیرت نے سیریس ہوکر اس کو وارن کیا


"ہاہاہا میں اور تمہیں چھیڑو گا،، معاف کرنا سیرت بی بی جیل میں رہ کر بھی میرے اتنے برے دن نہیں آئے۔۔۔ مجھے تو اپنے بھائی کے ٹیسٹ اور چوائس پر افسوس ہوتا ہے،،، اسی غریب کا بھلا کرنے کے لئے موبائل نمبر مانگا تھا گڈ بائے"

جانے سے پہلے کاشان اس کو اچھی طرح تپانا نہیں بھولا


"کمینہ کہیں کا اتنے سال جیل میں رہا پھر بھی انسان نہیں بن سکا"

سیرت منی ہی منہ میں بڑبڑائی اور اپنے گھر کی طرف چل دی


****


"اف ابا بھی پتہ نہیں کہاں تفریح کرنے نکل پڑتے ہیں" سیرت فلیٹ کے اندر داخل ہوئی ناصر کو موجود نہ پا کر اپنے آپ سے بولنے لگی گلاس میں پانی نکال کر ابھی پانی کے دو گھونٹ حلق میں اتارے ہی تھے دروازہ بج اٹھا۔ ۔۔۔ سیرت نے دروازہ کھولا تو اس کا منہ بھی حیرت سے کھل اٹھا


"ہٹو بھئی راستہ دو"

کاشان نے اندر آتے ہوئے کہا


"تم میرا پیچھا کرتے ہوئے میرے گھر تک آگئے کس خوشی میں"

سیرت نے کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کاشان سے سوال کیا


"گھر آئے مہمان سے ایسے بات کی جاتی ہے ہم تو بچپن کے دوست ہیں"

کاشان نے اس ایک کمرے کے فلیٹ کا جائزہ لینے کے بعد،،، سامنے چھوٹے سے کچن میں اسے ٹوکری نظر آئی جس میں سے سیب اٹھا کر سیرت سے بولا


"سیب واپس رکھو یہ میں ابا کے لئے لائی تھی"

سیرت نے بغیر لحاظ کیے اس سے بولا, بالکل اسی طرح جیسے وہ بچپن میں اس کا لحاظ نہیں کرتا تھا


"یقیناً یہ بھی کسی ٹھیلے سے چھپر کر کے لائی ہوگی یا اپنی اس معصوم شکل سے سیب والے کو الو بنایا ہوگا۔۔۔ چوری کا مال کھا کر ناصر کی صحت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا"

کاشان نے کمرے میں موجود اکلوتی مرمت شدہ کرسی پر بیٹھ کر سیب کی بائٹ لیتے ہوئے کہا


"یہ میں پیسوں سے خرید کر لائی ہوں اور ابا کا عزت سے نام لو"

سیرت شہادت کی انگلی اٹھاکر اسے وارن کرتی بولی،، سیرت کو اس سے مل کر رتی برابر خوشی نہیں ہوئی کیوکہ وہ بڑا ہو کر بچپن سے زیادہ بڑا ذلیل بن گیا تھا


"ناصر نے کون سے عزت والے کام کیے ہیں جو اس کا عزت سے نام لو"

کاشان نے بظاہر سنجیدگی سے بولا مگر انداز اس کا صاف مذاق اڑانے والا تھا


"عزت کے کام بےشک نہیں کیے مگر تمہاری طرح حوالات کی ہوا بھی نہیں کھائی کبھی،،، سیب کھا لیا ناں، چلو نکلو میرے فلیٹ سے فٹافٹ"

سیرت نے بھی بغیر لحاظ کے اس کی عزت افزائی کرنا اپنا فرض سمجھا


"بچپن میں کافی بدتمیز ہوا کرتی تھی تم،، اب بدتمیز کے ساتھ ساتھ کافی منہ پھٹ بھی ہوگئی ہو۔۔۔۔ افسوس ہورہا ہے مجھے ثوبی کی قسمت پر" کاشان نے مصنوئی انداز میں افسوس کرتے ہوئے کہا


"ہاہاہا شاید جیل سے چھوٹنے کے بعد تم اپنے بھائی سے نہیں ملے ہو ورنہ کبھی ایسا نہیں بولتے۔۔۔۔ کسی خوبصورت میم کو پٹایا ہے اس نے،،، بڑی سی مہنگی گاڑی میں لیے گھومتا ہے اس کو"

ایک ماہ پہلے والا منظر سیرت کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ کلس کر بولنے لگی


"یہ میرے سیدھے سادے، بھولے بھالے بھائی کر سراسر الزام ہے وہ ایسا ہرگز نہیں"

کاشان کو لگا کہ سیرت کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔ ثوبان نے اسے سیرت سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا تھا اور وہ بتاتے ہوئے کافی افسردہ بھی لگ رہا تھا،،، تبھی کاشان سیرت کے گھر تک پہنچا تاکہ اس کا ایڈریس معلوم کر سکے


"سیدھا سادہ بھولا بھالا وہ بچپن میں تھا اب نہیں،، میں نے اسے خود ہری آنکھوں والی لڑکی کے ساتھ دیکھا اور اب زیادہ میرا دماغ نہ کھاؤ،،، تم دونوں بھائی اس لائق ہی نہیں ہوں کہ تم دونوں سے بات کی جائے"

سیرت نے تپ کر کہا


"اوہو تو تم نے اسے میری ڈول کے ساتھ دیکھا ہے،، خیر شکل سے تم پہلے ہی مار کھائی ہوئی تھی آج تمہاری عقل کا بھی پتہ چل گیا۔۔۔۔ ثوبی خود تمہیں سمجھا لے گا"

کاشان بولتا ہوا دوسرا سیب اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا


"مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کیا بکواس کر کے چلا گیا یہ"

سیرت نے کہتے ہوئے دروازہ بند کیا

کاشان آفس سے گھر پہنچا تو گھر میں کافی چہل پہل دکھائی دے رہی تھی۔ ڈرائنگ روم سے ہنسنے کی آوازوں پر وہ متوجہ ہوا،،، یسریٰ، ثوبان اور رنعم کے ساتھ دو نئے چہرے اور بھی موجود تھے


"کاشان آو تمہیں فرح باجی سے ملواتی ہوئی"

یسریٰ کی نظر کاشان پر پڑی تو، یسریٰ نے اسے ڈرائنگ روم میں آنے کو کہا۔۔۔ کاشان کو ناچار ہی وہاں آنا پڑا


"یہ ہے کاشان فرح باجی ثوبان کا بھائی، جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا اور کاشان یہ میری بڑی بہن ہیں فرح باجی"

یسریٰ کے تعارف کرانے پر کاشان اس کی بہن سے اچھے طریقے سے ملا


"کاشان یہ عاشر ہے آنی کا بیٹا"

ثوبان نے کاشان سے عاشر کا تعارف کرایا تو کاشان کے چہرے پر ایک دم سنجیدگی آئی عاشر نے مسکرا کر اس کے آگے ہاتھ بڑھایا


"ثوبان سے کافی ذکر سنا ہے تمہارا" عاشر نے خوش اخلاقی سے کہا،، تو کاشان چہرے پر بغیر مسکراہٹ لآئے اس سے ہاتھ ملایا


"اچھا ثوبی نے تمہارا کوئی خاص ذکر نہیں کیا مجھ سے"

عاشر اس کے ہاتھ کی سختی،، اس کے آنکھوں میں بھی صاف محسوس کر گیا مگر کچھ بولا نہیں


"ایکسکیوز می آتا ہوں تھوڑی دیر میں"

کاشان کہتا ہوا اپنے روم میں آگیا اسے فرح یا عاشر کا آنا برا نہیں لگا بلکہ رنعم کا عاشر کے برابر میں بیٹھنا ہنس کر اس کے ہاتھ پر تالی مار کر بات کرنا برا لگا تبھی اس کا موڈ خراب ہوگیا۔۔۔ ابھی بھی کاشان کو اپنے روم میں عاشر کے قصے سنانے اور رنعم کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی جو اسے برداشت نہیں ہوئی وہ اپنے روم سے نکل کر دوبارہ ڈرائنگ روم میں آیا


"رنعم تمہاری فرینڈ کی کال آئی ہے لینڈ لائن پر"

ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑے ہوکر کاشان نے رنعم کو مخاطب کیا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔ رنعم نے چونک کر کاشان کو جاتا دیکھا کیوکہ کاشان نے اسے پہلی دفعہ ہی کسی دوسرے کے سامنے مخاطب کیا تھا بڑے فرینک انداز میں


"ابھی آئی"

رنعم عاشر اور ثوبان کو کہہ کر ڈرائنگ روم سے نکل کر ہال میں آئی۔۔۔۔ اوپر جاتی سیڑھیوں کے پاس فون اسٹینڈ پر فون کا ریسیور اٹھا


"ہیلو"

رنعم نے فون کا ریسیور کان سے لگا کر کہا تو پیچھے سے کاشان نے آکر ریسیور اس کے ہاتھ سے لے کر واپس کریڈل کر رکھا اور اس کا بازو تھام کر سیڑھیاں چڑھنے لگا


"یہ کیا کر رہے ہیں آپ،،، کیا ہوگیا آپ کو چھوڑیں میرا بازو"

کاشان کے اس عمل پر رنعم کو حیرت ہوئی مگر کاشان ایسا پوز کر رہا تھا جیسے اسے رنعم کی آواز نہیں آ رہی ہو وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا جس کی وجہ سے رنعم بھی اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور تھی۔۔۔ وہ کاشان کے ہاتھوں کی سختی اپنے بازو پر محسوس کر سکتی تھی رنعم کو اس کے بیڈ روم میں لاکر اس کا بازو چھوڑا اور بیڈروم کا دروازہ بند کر کے اور اس کے قریب آنے لگا


"یہ کیا بدتمیزی ہے میں بھیا کو بولو گی"

رنعم نے اپنا سرخ بازو دیکھتے ہوئے کاشان کو ثوبان کا نام لے کر دھمکی دی


"پیپر کب سے اسٹارٹ ہیں تمہارے"

اس کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ رنعم سے اپنی بات کا جواب طلب کرنے لگا۔۔۔ کاشان کے مزید قریب آنے سے وہ دیوار سے جا لگی اور جلدی سے بولی


"نیکسٹ ویک"

رنعم کے دیوار سے لگنے پر کاشان نے دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکا کر اس کے فرار کا راستہ بند کیا


"اب تم مجھے باہر ہنستی ہوئی یا باتیں کرتی ہوئی نظر نہ آؤ۔۔۔ اپنے روم میں رہ کر پیپر کی تیاری کرو"

آنکھوں میں سختی اور چہرے پر سنجیدگی لیے وہ رنعم کو بولنے لگا۔۔۔۔ وہ خاموش کر کے حیرت سے اسے دیکھے گئی


"سمجھ میں آرہی ہے تمہیں میری بات یا مزید سمجھاؤ"

رنعم کے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر کاشان اپنا چہرہ اس چہرے کے قریب لاکر پوچھنے لگا۔۔۔ تو رنعم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ کاشان نے سرسری نظر اس کی سرخ بازو پر ڈالی جہاں اس کے انگلیوں کے نشانات موجود تھے اور روم سے نکل گیا


رنعم اس کے رویے پر حیران رہ گئی ساتھ ہی اسے غصہ آنے لگا آخر وہ شخص ہوتا کون ہے اس پر روعب جمانے والا وہ اب آنی کے جانے کے بعد ثوبان سے اس کی شکایت کرنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر ازلی بزدلی کی وجہ سے وہ اس وقت اپنے روم سے باہر نہیں نکلی۔۔۔۔


ڈنر کے وقت بھی یسریٰ اس کو روم میں بلانے آئی تو بکس بند کر کے وہ ڈائننگ ٹیبل پر آئی،،

سب اپنی اپنی کرسیوں پر برجمان تھے۔۔۔ کاشان کے سامنے والی کرسی خالی تھی وہ چپ کر کے اس پر بیٹھ گئی


"یہ کیا ہم تمہارے گھر تم سے ملنے آئے ہیں تم اپنے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی"

فرح نے رنعم کو دیکھ کر شکوہ کیا


"نہیں آنی ایسی بات نہیں ہے پیپر ہونے والے ہیں تو پڑھ رہی تھی"

رنعم کے جواب پر کاشان نے سر اٹھائے بغیر آنکھیں اٹھا کر رنعم کو دیکھا تو وہ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی


"چلو پڑھ پڑھ کر تھک گئی ہو گی،،،، کیا ارادہ ہے باہر جاکر آئسکریم کھاتے ہیں"

عاشر نے مسکرا کر رنعم کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو بےساختہ رنعم کی نظریں کاشان کی طرف اٹھی وہ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا


"نہیں عاشر بھائی آج واقعی تھک گئی ہو موڈ نہیں ہو رہا پھر کبھی سہی" رنعم نے زبردستی کا مسکرا کر عاشر کو کہا تو ثوبان اور عاشر حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


"رنعم یہ تم ہی ہو نہ یا کوئی ہے، بھئی آج کا دن تو اس تاریخ کے سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا ‏رنعم نے آئسکریم کھانے سے انکار کردیا"

عاشر کے بولنے پر کاشان کے علاوہ سب ہی ہنس دیئے


"اس بات کا مطلب میری بہن واقعی تھک گئی ہے"

ثوبان نے بھی ٹکڑا لگایا


"او ہو پریشان مت کرو اب اسے تم دونوں مل کر"

فرح نے عاشر اور ثوبان کو ٹوکا


****


"یسریٰ تم ایک جوان بیٹی کی ماں ہوں مگر پھر بھی عقل تمہیں چھو کر نہیں گزری، تم کیسے ایک جوان جہاں لڑکے کو اپنے گھر میں رکھ سکتی ہو" فرح نے آج کاشان کو دیکھا تو اپنی بہن کو عقل دلانے کی کوشش کی


"باجی وہ ثوبان کا بھائی ہے اس لحاظ سے کوئی غیر نہیں ہے،،، اگر اس کا کردار مشکوک ہوتا یہ وہ ایسا ویسا ہوتا ہے تو ثوبان خود ہی اسے یہاں پر کبھی لانے پر راضی نہیں ہوتا"

یسریٰ نے رسانیت سے بہن کو سمجھایا


"وہ تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی ثوبان کی طرح نہیں لگتا مجھے"

فرح نے یسریٰ کو اپنی رائے دی


"میرے ثوبان کی طرح تو کوئی ہو بھی نہیں سکتا،،،، آخر کو بیٹا جو ہے وہ میرا"

یسریٰ نے مسکرا کر کہا تو فرح بھی مسکرا دی


"اس میں کوئی شک نہیں بہت پیارا بچہ ہے،،، لگتا ہی نہیں تمہاری اولاد نہیں۔۔ بلکل سگی اولاد لگتا ہے بہروز اور تمہاری خیر میں آج تم سے یہاں رنعم کے بارے میں بات کرنے آئی ہوں اور اس بات میں اپنے بھائی صاحب کی مرضی سمجھو اور عاشر کی تو بہت زیادہ۔۔۔۔ یسریٰ میں چاہتی ہوں کہ رنعم کو عاشر کی دلہن بنا کر اپنے گھر لے جاؤ"

فرح نے یہاں پر اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا


"باجی رنعم کے لئے فی الحال ایسا کچھ سوچا نہیں میں نے یا بہروز نے، ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے"

یسریٰ نے ٹالنے کے انداز میں کہا وہ اپنے بہنوئی کی نیچر کو بھی اچھی طرح جانتی تھی اور دوسرا وہ اپنی بیٹی کے لیے ہر لحاظ سے پرفٹکٹ انسان چاہتی تھی


"چلو جب بھی کبھی ایسا سوچو تو عاشر کو اپنے دماغ میں رکھنا"

فرح کی بات پر وہ خاموش ہو گئی


****


"ابھی تک جاگ رہے ہو سوئے نہیں"

کاشان ثوبان کے روم میں اس سے بات کرنے کی غرض سے آیا تو وہ اسے روم کے ٹیرس پر کھڑا دیکھائی دیا کاشان چلتا ہوا وہی آگیا


"نیند نہیں آرہی تھی یار"

ثوبان نے تاروں کو دیکھ کر جواب دیا


"نیند نہیں آ رہی تھی تو یقیناً کسی کی یاد آرہی ہوگی اور جس کی یاد میں تم یہاں کھڑے ہوکر تارے گن رہے ہو،، اس کا ایڈریس مجھے معلوم ہے مگر کیا ہے نہ ایک چھوٹا سا کام تمہیں بھی میرا کرنا ہوگا"

کاشان کے بولنے کی دیر تھی ثوبان نے اس کی طرف مڑ کر بے ساختہ اس کو شانوں سے پکڑاا


"سیرت سے ملے ہو تم کاشی،،، کیسی ہے وہ اور کہاں ہے پلیز جلدی بتاؤ"

کتنا پریشان تھا وہ جب سے اس نے سیرت کے بارے میں سنا تھا وہ یہی سوچ رہا تھا آخر کہاں ڈھونڈیں اسے


"دھیرج میرے بھائی آرام سے، یار تم تو مجھ سے بھی زیادہ بے قرار نکلے"

کاشان نے اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا پھر اپنی اور سیرت کی کل والی ملاقات کے بارے میں ثوبان کو بتایا اور ساتھ ہی اس کا ایڈریس بھی دیا


"مگر ابھی بھی سوچ لو، پہلے وہ غرانے والی بلی تھی اور اب تو پنجے بھی رکھتی ہے" کاشان نے مسکراتے ہوئے ثوبان کو آگاہ کیا۔۔۔۔ ثوبان آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرنے لگا کہ اسے سیرت کے بارے میں علم ہوا


"تمہیں نہیں معلوم کاشی، وہ کتنی بیوقوف ہے پتہ نہیں کیا کیا کرتی پھر رہی ہے"

ثوبان نے تاسف سے کہتے ہوئے نفی میں سر ہلایا


"مجھے تو یہ سب بچپن سے معلوم تھا میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ ناصر کی بیٹی ایک دن بہت آگے جائے گی"

کاشان نے ہنستے ہوئے پاکٹ سے سگریٹ نکالی اور لائٹر نکال کر سگریٹ سلگانے لگا


"چھوڑی نہیں تم نے سگریٹ پینا اچھی عادت نہیں ہے یہ کاشی"

ثوبان نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا


"عادتیں اچھی ہو یا بری انہیں جاتے جاتے وقت تو لگتا ہے"

کاشان چاند کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا


"اچھا تم بتاؤ کیا کہہ رہے تھے تھوڑی دیر پہلے، کون سا کام پڑ گیا ہے تمہیں، کسی چیز کی ضرورت ہے یا کچھ چاہیے"

ثوبان نے کاشان کی طرف دیکھ کر پوچھا کاشان ابھی بھی چاند کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ سگریٹ کا دھواں منہ سے خارج کرتا ہوا بولا


"ہاں رنعم چاہیے مجھے،،، شادی کرنا چاہتا ہوں میں اس سے"

کاشان نے فوراً اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا جس پر ثوبان بالکل ہی چپ ہوگیا


"اچھی لگنے لگی ہے وہ مجھے ثوبی، بالکل اس چاند کی طرح،،، اس کی چمک مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔۔۔ میرے دل کے ہر کونے کو روشن کردیا ہے اس چمک نے۔۔۔۔ مگر وہ اس چاند کی طرح مجھ سے کوسوں دور بھی ہے"

کاشان چاند کو دیکھ کر باتیں کر رہا تھا جبکہ ثوبان اس کو دیکھے جارہا تھا


"میں جانتا ہوں آنٹی انکل کبھی ایسے شخص، جس کا ماضی تاریک ہو،،، اسے اپنی بیٹی نہیں دینا چاہیں گے۔۔۔۔ بھلا ایسے شخص کو کون اپنی بیٹی دینا چاہیے گا جو قتل کے جرم میں جیل کاٹ کر آیا ہوں۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی میں کیا کرو ثوبی،،، جانے انجانے میں میرا دل اس چاند کو پانے کی خواہش پر بیٹھا ہے اور مجھے لگتا ہے یہ خواہش میری تم پوری کر سکتے ہوں پلیز میری بات کو آنٹی انکل کے بیٹے کی طرح نہیں میرے بھائی بن کر سوچنا آرام سے"

سیگریٹ کا ٹکڑا پھینکتا ہوا وہ ثوبان کے کندھے پر اپنے سخت ہاتھوں کا دباؤ ڈال کر وہاں سے چلا گیا


اب ثوبان دوبارہ اکیلا کھڑا اس چاند کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کا بھائی اسے سیرت کے مسئلے سے نکال کر،،، اسے دوسری الجھن میں الجھایا گیا

وہ رنعم کی خواہش کرتا ہوا ثوبان کو بالکل چھوٹا سا بچہ لگا


"کیا مجھے کاشی کی بات ماننی چاہیے،،، مما تو راضی ہوجائے گیں۔۔۔ کیا بابا راضی ہوگے؟ ؟؟

ثوبان سوچنے لگا


"اور رنعم،،، وہ ایڈجسٹ کر پائے گی کاشی کی نیچر کے ساتھ"

ثوبان یہ سب باتیں سوچ کر مزید الجھ گیا

"بابا پلیز مما سے کہہ دیں نا کہ وہ مان جائیں،، باقی بھی تو ساری فرینڈز جارہی ہے کون سا میں دوسرے شہر جا رہی ہوں"

کاشان صبح ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو رنعم بہروز سے کہیں جانے کی ضد کر رہی تھی وہ سب کو سلام کرتا ہوا رنعم پر سرسری نظر ڈال کر ناشتے کے لیے چیئر پر بیٹھ گیا


"رنعم بابا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،، کریم نے پرسوں کی چھٹی مانگی ہے، بابا رات میں کار ڈرائیو نہیں کرسکتے اور میری کل اور پرسوں نائنٹ ہے۔۔۔ویسے بھی تمہارے سیمسٹرز ہیں اگلے ہفتے سے، دوستوں کی منگنیاں اٹینڈ کرنا چھوڑو اور پڑھائی پر توجہ دو"

ثوبان نے رنعم کو بہروز سے ضد کرتا دیکھ کر اسے سنجیدگی سے ٹوکا وہ شاذ و نادر ہی رنعم کی کوئی بات ٹالتا تھا مگر جو بات منع کر دیتا تھا اس کا مطلب تھا کہ اب اس کام کا رنعم بالکل نہ سوچے۔۔۔۔ رنعم کو لگا اب وہی یشعل کی منگنی میں نہیں جا پائے گی اس لیے منہ لٹکا کر چپ کر کے ناشتہ کرنے لگی


"اگر کوئی مسئلہ ہے تو میں چھوڑ دیتا ہوں رنعم کو،، پرسوں میں فری ہوگا"

رنعم کی اتری ہوئی شکل دیکھ کر کاشان نے چائے کا کپ تھامے اپنی بات مکمل کی اور چائے کا گھونٹ بھرا۔۔۔ رنعم سمیت سب سر اٹھا کر اس کو دیکھنے لگے


"ارے نہیں بیٹا تمہیں پریشان ہونے کی ضررورت نہیں ہے رنعم کے تو آئے دن کہیں نہ کہیں کہ پروگرام بنتے ہیں اور ویسے بھی ثوبان ٹھیک کہہ رہا ہے اس کے سمسٹر بھی اسٹارٹ ہونے والے ہیں"

بہروز نے سہولت سے منع کرتے ہوئے کہا


"خیر پریشان ہونے کی تو کوئی بات نہیں ہے۔ ۔۔ ثوبی نے اپنی اور آپ کی نہ جانے کی وجہ بتائی میں فری تھا تو اس لیے جانے کی پیشکش کر دی"

کاشان نے کندھے اچکا کر کہا اور دوبارہ ناشتہ کرنے لگا


"ٹھیک ہے کاشان اگر تمہیں کوئی پرابلم نہیں ہے تو پھر رنعم کو چھوڑ آنا اور لے کے بھی آ جانا،،، تم بھی تو گھر کے فرد ہو"

یسریٰ کے بولنے پر ثوبان اور بہروز یسریٰ کو دیکھنے لگے جبکہ رنعم نے زور سے چہکتے ہوئے یسریٰ کو دیکھ کر تھینکس کہا پھر اس کی نظر کاشان پر پڑی وہ اس کے خوش ہونے پر اسکو اسمائل دیتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔ کاشان کے دیکھنے پر رنعم کے لب سکھڑے اور دوبارہ اپنا ناشتہ کرنے لگی۔۔۔۔


کل آنی کے آنے پر کتنی بدتمیزی سے وہ اسے بیڈروم میں لے گیا تھا کتنی زور سے اسکا بازو پکڑا تھا اپنے ہتھوڑے کے ماند سخت ہاتھوں سے اور کس طرح اس کو ڈرا رہا تھا۔۔۔۔


رنعم کی نظر میں وہ صرف ثوبان سے شکل میں مشابہت رکھتا،، نیچر تو اس کی باکل جلادو جیسی تھی۔۔۔۔ اوپر سے غصے وہ اسے دیکھتا بھی ایسے کھا جانے والی نظروں سے تھا جیسے سالم ہی نگل لے گا۔۔۔۔ جو بھی تھا وہ اس کے بھیا جیسا بالکل نہیں تھا


"کاشی رنعم کو بہت احتیاط سے چھوڑ کر آنا اور لے کر آنا آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں، خیال رکھنا اس کا"

ثوبان کاشان کو دیکھ کر کہنے لگا تو کاشان سر ہلا کر آفس کے لئے نکل گیا


****


"اور مسٹر کاشان کیسے ہیں آپ۔۔۔۔۔ کوئی پروبلم تو نہیں آپ کو کسی طرح کی آفس میں

مایا 15 دن کے بعد اپنی مدد کے پاس سے پاکستان واپس لوٹی تھی اور یہ پندرہ دن کاشان آفس میں بڑا ریلیکس تھا کیوکہ اسے مایا بالکل بھی پسند نہیں تھی اور کسی سے تو نہیں مگر کاشان نے نوٹ کیا تھا وہ اس سے کافی فری ہو کر بات کرتی تھی اس لیے وہ اسے عجیب چپکو ٹائپ لڑکی لگتی۔۔۔ اس کے برخلاف اس کے والد شکیب صاحب اچھے نیک انسان تھے،، جنہوں نے اسے اپنے آفس میں اس کا کام دیکھتے ہوئے اسے مینیجر کا عہدے فائز کیا اور ساتھ ہی پرکشش سیلری بھی اس کو پے کر رہے تھے۔۔۔۔ مایا کو وہ بہت حد تک شکیب صاحب کی وجہ سے برداشت کر رہا تھا


"نو میم مجھے کوئی پرابلم نہیں اور پرابلم ہوگی بھی تو میں اپنی پرابلم خود سولو کرنے کا عادی ہوں،، آپ ٹینشن نہیں لیں یہ کچھ اہم پوائنٹس ہیں انہیں دیکھ لیں کل کی میٹنگ میں اس کو ڈسکس کیا جا سکتا ہے"

کاشان نے بے کار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فائل اس کے سامنے بڑھاتے ہوئے کہا اور کام کی بات کی


"جی یہ تو میں دیکھ لیتی ہوں مگر آپ پہلے مجھے یہ بتائے آج شام میں آپ بزی تو نہیں"

مایا نے فائل ایک ادا سے تھام کر سائڈ پر رکھی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی کہنی ٹیبل پر ٹکا کر ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہوئے بولی


"پوائنٹز کی ڈسکشن زیادہ ضروری تھی،، اگر آپ وہ مجھ سے ڈسکس کر لی تھی کہ وہ زیادہ اچھا ہوتا،، خیر آفس ٹائم کے بعد میں کہیں نہیں جاتا"

کاشان نے بےزاریت شو کرتے ہوئے اسے جواب دیا اور اسکا یو بیزار ہونا بھی مایا کو پسند آیا


"یہ آفس کی باتیں، میٹنگ کی باتیں تو ہوتی رہیں گیں۔ ۔۔ مجھے آپ سے کچھ دوسری باتیں کرنی ہے،،، آج آپ میرے ساتھ ڈنر کر رہے ہیں ہوٹل میں بک کر لیتی ہو"

مایا نے کونفیڈنس سے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا


"بات اگر آفس کے کام سے ریلیٹڈ ہے تو آپ آفس آرز میں ہی کرلیں ورنہ فالتو کی باتوں کے لیے تو میرے پاس وقت نہیں ہے اور رہی بات ہوٹل کے ڈنر کی تو اس کے لئے معذرت کیوکہ ہوٹلنگ مجھے خاص پسند نہیں"

اس کی بڑھتی ہوئی جرات کو دیکھ کر کاشان نے دو ٹوک انکار کر کے بات ختم کردی اور روم سے نکل گیا


"دکھا لو نخرے کاشان احمد آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے"

مایا اسے باہر جاتا دیکھ کر سوچتی ہوئی مسکرا دی


****


وہ ساری کلاسز اٹینڈ کر کے چند منٹ پہلے ہی فری ہوئی تھی تب اس کا موبائل بجا


"اووو کریم کتنی جلدی آ گیا ہے"

رنعم نے بیگ سے موبائل نکالتے ہوئے سوچا مگر اننون نمبر کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئی کون ہو سکتا ہے


"رنعم بائر آو جلدی" کال ریسیو کرتے ہی ہیلو بولنے سے پہلے رنعم کو اپنے کانوں میں آواز سنائی دی


"کون بول رہا ہے" رنعم نے ناسمجھی سے پوچھا


"کاشان بات کر رہا ہوں تمہاری یونیورسٹی کے باہر تمہارا ویٹ کر رہا ہوں جلدی آؤ"

کاشان نے کہہ کر کال کاٹ دی


آج مایا کی وجہ سے اس کا موڈ خراب ہورہا تھا مگر رنعم کا خیال آتے ہی اس کی یاد بھی آئی،،، کریم سے یونیورسٹی کی ٹائمنگ اور رنعم کا نمبر لے کر کریم کو منع کرتا ہوا وہ خود رنعم کی یونیورسٹی اس کو لینے پہنچ گیا۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں اسے رنعم یونیورسٹی کے گیٹ سے نکلتی ہوئی نظر آئی،،، ریڈ کلر کی شارٹ قمیض کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ گلے میں ڈالے،، وائٹ ٹراؤزر پہنی وہ اسے اپنی طرف آتی دکھائی دی


"تھوڑی دیر میں کریم آتا ہوگا مجھے لینے کے لیے"

کاشان نے کار کا دروازہ کھولا تو اس نے کھڑکی سے جھاگتے ہوئے کہا


"وہ نہیں آئے گا اسے میں منع کر چکا ہوں کار میں بیٹھو" کاشان نے رنعم کو دیکھتے ہوئے جواب دیا


"مگر اسے آپ نے کیوں منع کیا"

رنعم نے حیرت سے پوچھا


"ساری باتیں اس گرمی میں تمہیں یہی کھڑے ہو کر پوچھنی ہیں کار میں بیٹھو"

کاشان نے دوبارہ سنجیدگی سے بولا بلکہ آرڈر دیا

رنعم تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کار میں بیٹھ گئی۔۔۔ ویسے بھی یعشل کی انگیجمنٹ میں اسی کے ساتھ جانا تھا،، آج صبح ہی تو سب کے منع کرنے پر اس نے یہ عنایت رنعم پر کی تھی۔۔۔۔


رنعم کے بیٹھتے ہی کاشان نے کار اسٹارٹ کر دی، کار میں مکمل خاموشی تھی کاشان نے ڈرائیونگ کے درمیان رنعم پر نظر ڈالی وہ ہاتھ میں موجود ٹشو کو بار بار انگلی میں رول کر رہی تھی کاشان سمجھ گیا شاید وہ نروس ہو رہی ہے


"پر ایسے تو کام نہیں چلے گا"

کاشان نے سوچا پھر کچھ خیال آنے پر اس نے کار گھر سے دوسرے سائڈ پر موڑی


"ہم یہاں کیو آئے ہیں"

آئسکریم پارلر کے پاس گاڑی روکی تو رنعم نے پریشان ہوکر کاشان سے پوچھا


"لوگ یہاں کیوں آتے ہیں چلو اترو گاڑی سے"

کاشان بولنے کے ساتھ ہی خود بھی کار کا دروازہ کھول کر اتر گیا ناچار رنعم کو بھی کار سے اترنا پڑا


یہ شخص اسے عجیب ہی لگتا تھا جب بھی اس سے ٹکراو ہوتا تھا ہمیشہ روعب جماتا تھا۔۔۔۔ ہنس کر بات تو وہ صرف باقی گھر والوں سے کرتا تھا۔۔۔۔۔ معلوم نہیں میں نے کیا بگاڑا ہے اس کا،، کاش اچھی شکل اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا اخلاق بھی اچھا ہوتا تو بھلا کیا ہو جاتا۔۔۔ رنعم کار سے اترنے کے بعد اس کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی


"آپ نہیں کھائیں گے ایسکریم"

اپنے سامنے آئس کریم کا باول دیکھ کر رنعم نے جھجھکتے ہوئے کاشان سے پوچھا جو کہ اسی کو دیکھ رہا تھا


"آئس کریم مجھے کچھ خاص پسند نہیں ہے، تم بتاؤ آئسکریم کے علاوہ تمہیں اور کیا کیا پسند ہے"

اجنبیت کی دیوار گرانے کے غرض سے کاشان نے اس سے سوال کیا


"مجھے بارش میں بھیگنا پسند ہے، موویز دیکھنا پسند ہے، سنگنگ، مما کے ہاتھ کا چاومن، بھیا کے ساتھ بیٹمنٹن کھیلنا اور لونگ ڈرائیو،،، فرینڈ کے ساتھ آؤٹنگ شوپنگ وغیرہ وغیرہ اور آپ کو کیا پسند ہے"

شاید دوستی کا آغاز ان میں ہو چکا تھا اس لیے رنعم نے آئس کریم کھاتے ہوئے اس سے پوچھا


"مجھے یہ تمہاری آنکھوں کا کلر پسند ہے"

کاشان کے سنجیدگی سے بولنے پر رنعم کا منہ میں جاتا ہوا چمچا وہی رک گیا وہ چپ کر کے اسے دیکھنے لگی


"کیا ہوا"

کاشان نے دوبارہ اس کو نروس دیکھ کر سوال کیا


"گھر چلیں"

رنعم نے گھبرا کر کہا


"ہہممم چلتے ہیں آئس کریم کھاؤ پہلے اپنی"

کاشان نرمی سے اس کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔ اس وقت رنعم کو رہ رہ کر کاشان کے نرم لہجے اور خود سے باتیں کرنے پر حیرت ہو رہی تھی


"اب نہیں کھائی جائے گی"

رنعم نے ٹیبل کو گھورتے ہوئے بولا


"اب کیوں نہیں کھائی جائے گی،،، اب ایسا کیا ہوگیا ہے"

وہ اس کی کیفیت سے لطف اٹھاتا ہوا بولا


"مما ویٹ کر رہی ہوگی مجھے مما کے پاس جانا ہے"

رنعم اس کی باتوں اور دیکھنے کا انداز سے کنفیوز ہونے لگی


"اور شادی کے بعد کیا ہوگا مما کو کیا جہیز میں لے کر جاؤ گی"

کاشان اس کو دیکھتا ہوا نرمی سے پوچھ رہا تھا


"آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں مجھ سے"

رنعم نے اپنی ہتھیلیوں میں آئی نمی کو ٹشو میں جزب کرتے ہوئے کہا


"کیوں تمہیں ایسی باتیں اچھی نہیں لگ رہی"

کاشان نے مسکراہٹ چھپا کر اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو رنعم نے بغیر اسے دیکھے نفی میں سر ہلایا


"اچھا تو پھر بتاؤ کیسی باتیں کرو تم سے"

کاشان کی بات پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا کاشان کو لگا اور وہ اس سے اور کچھ بولے گا تو وہ یہی بیٹھ کر رونا شروع کر دے گی


"چلو ایسی ویسی باتیں چھوڑو کام کی بات سنو ایک ماہ ہے تمہارے پاس یا تو کوکنگ کی کلاس لے لو یا گھر میں کوک سے کھانا بنانا سیکھ لو"

کاشان کی بات پر رنعم نے نظریں اٹھا کر کاشان کو دیکھا


"مگر کیوں"

سبز آنکھوں میں حیرت سمائے اس نے پوچھا


"اس لئے کہ مجھے گھر کا بنا ہوا کھانا پسند ہے"

کاشان کہنے کے ساتھ ہی اٹھا تو رنعم بھی اٹھ کے اس کے پیچھے چل دی اور اس کی بات پر غور کرنے لگی


"روح افزاہ راحتِ جان۔۔۔ بہت زور و سے پیاس لگی ہے"

وہ دونوں آئسکریم پارلر سے باہر نکلے دو لڑکے وہی کھڑے رنعم کو دیکھ کر ہانکنے لگے وہ یقیناً رنعم کے لال کپڑوں کو دیکھ کر اس پر فقرہ کس رہے تھے کاشان کو غصہ آنے لگا


"جاؤ کار میں بیٹھو"

کاشان نے رنعم کو کار کی چابی دیتے ہوئے کہا۔۔۔ رنعم نے اس کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے، چپ کر کے اس کے ہاتھ سے چابی لی اور وہاں سے چلی گئی اس کے جانے کے بعد کاشان ان لڑکوں کے پاس آیا اور آنے کے ساتھ ہی فقرہ کسنے والے لڑکے کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا۔۔۔ لڑکا بالکل جھینگر سا تھا جبھی ایک تھپڑ میں نیچے گر گیا


"کچھ تشفی ہوئی یا اور بجھاو تیری پیاس"

راہ چلتے آدمی نے کاشان کو پکڑا کاشان اپنا آپ چھڑا کر اسے پوچھنے لگا وہ لڑکا معافی مانگتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا۔۔۔۔


کاشان آ کر گاڑی میں بیٹھا اور کار اسٹارٹ کر دی،،،: گھر آنے تک رنعم نے کن انکھیوں سے دو بار کاشان کو دیکھا اس کے چہرے پر سخت تاثرات چھائے ہوئے تھے جسے دیکھ کر رنعم نے اسے مخاطب کرنے کی ہمت نہیں کی۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے والی نرمی اب سنجیدگی میں حائل ہو گئی تھی


"اگر وہ اچھے سے بات کرے تو شاید اتنا برا بھی نہیں لگے"

رنعم کن انکھیوں سے اس کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی

گھر کے پاس گار رکی تو رنعم کار سے اتر گئی

"ہاتھ چھوڑو میرا، ورنہ الٹے ہاتھ کا منہ پر دوں گی"

سیرت کانسٹیبل سے کہتے ہوئے اس سے ہاتھ چھڑا کر خود پولیس اسٹیشن کے اندر داخل ہوئی،،، جہاں ثوبان اسے دیکھ کر حیران ہوا وہی سیرت ثوبان کو پولیس یونیفارم میں دیکھکر ڈبل حیران ہوئی


"یہ دیکھیں سر، آج کل کی لڑکیاں۔۔۔۔ مردوں سے برابری کرنے کے چکر میں اب مردوں کی طرف پاکٹ مارنے لگی ہیں"

کانسٹیبل نے ثوبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


"بکواس کر رہا تھا وہ آدمی، اس کا والٹ نیچے گرا ہوا تھا میں نے اسے اٹھا کر دینے کی کوشش کی اس نے مجھ پر چوری کا الزام لگا کر تمہیں بتا دیا" ثوبان کو دیکھ کر وہ بغیر شرمندہ ہوئے ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہوئے کانسٹبل سے بولی


"او بی بی جتنے پیسوں کا تم آٹا خرید کر کھاتی ہو،، اتنے کا میں بھی کھاتا ہوں۔۔۔ بیوقوف سمجھا ہوا ہے کیا،، ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری" کونسٹیبل نے سیرت کو دیکھ کر کہا


"اگر اب تم نے مجھے چور کہا تو میں مکہ مار کر تمہاری ناک توڑ دوں گی"

سیرت غصہ کر کے تپتے ہوئے بولی۔۔۔ کیوکہ وہ کونسٹیبل اسے ثوبان کے سامنے بار بار چور کہہ رہا تھا


"تمیز سے بات کرو یہ پولیس اسٹیشن ہے کوئی پہلوان کا اکھاڑا نہیں اور تم پولیس اسٹیشن کے اندر ایک پولیس والے سے بدتمیزی کر رہی ہوں"

سیرت کے بولنے پر ثوبان تیز آواز میں سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ ثوبان کو غصے میں دیکھ کر سیرت اور کانسٹیبل دونوں ہی چپ ہوگئے


"سر کیا کرنا ہے اس لڑکی کا"

کانسٹیبل نے گلہ کھنگارتے ہوئے ثوبان سے پوچھا


"ڈیوٹی پر جاو اپنی"

کانسٹیبل پر سخت نگاہ ڈال کر ثوبان نے اسے مخاطب کیا وہ ثوبان کو سلوٹ مارتا ہوا وہاں سے چلا گیا


"چلو"

ثوبان نے سیرت کو دیکھ کر اتنا ہی کہا اور خود پولیس اسٹیشن سے باہر نکل گیا۔۔۔ سیرت کو بھی اس کے پیچھے باہر آنا پڑا


"کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے"

گاڑی کی طرف بڑھتا دیکھ کر سیرت نے ثوبان کو مخاطب کیا


"سیرت اپنا منہ بند رکھو اور گاڑی میں چپ کر کے بیٹھو"

وہ کاشان کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پچھلے دو دن سے لگاتار جا رہا تھا مگر اسے وہاں پر تالا لگا مل رہا تھا۔۔۔ برابر والوں سے پوچھنے پر ان باپ بیٹی کا کوئی اتا پتہ یا آنے جانے کا ٹائم مقرر نہیں تھا مگر آج سیرت کو پولیس اسٹیشن میں دیکھ کر اسے شدید غصہ آیا


"میں سیرت نہیں ہوں بتایا تو تھا اس دن،، سمجھ میں نہیں آتا تمہیں"

سیرت کو 14 سال پہلے اس کے یوں اچانک بتائے بغیر جانے پر غصہ تو تھا ہی اسے رنعم کے ساتھ دیکھکر مزید غصہ آیا اور تین دن پہلے کاشان اس کے گھر آیا تھا یقیناً اس نے اپنے بھائی کو بتایا ہوگا سیرت کا،، مگر وہ اسے دیکھنے تک نہیں آیا تو بھلا سیرت کو کیا ضرورت تھی اسے پہچاننے کی


"تو تم سیرت نہیں ہوں"

ثوبان نے اپنی طرف کا کار کا دروازہ بند کر کے سیرت کے پاس آکر پوچھا


"تو کیا اب اسٹیمپ پیپر پر لکھ کے دو" سیرت نے بول کر سر جھٹکا


"تو ٹھیک ہے آج چوری کے جرم میں حوالات کی ہوا کھا کر دیکھو پھر" ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اندر لے جانے لگا


"ثوبی کیا کر رہے ہو چھوڑ میرا ہاتھ،، پاگل تو نہیں ہو گئے ہو"

سیرت اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی


"اب انکار کرو کہ سیرت نہیں ہو"

سیرت کا ہاتھ چھوڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا


"ہاں ہوں تو پھر" سیرت نے اترا کر بولا تو ثوبان نے اپنی آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں


"کار میں بیٹھو" ثوبان نے بولتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی سیرت بھی آکر کار میں بیٹھ گئی۔۔۔ کار سیرت کے فلیٹ کے آگے آکر رکی۔۔۔ سیرت دروازہ کھول کر اتری اور فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنے لگی ثوبان نے بھی اس کی پیروی کی


"اب بتاؤ اتنے سالوں بعد ملی ہوں،، کس بات پر خفا ہو" فلیٹ کے اندر داخل ہو کر ثوبان نے اس سے نرم لہجے میں دریافت کیا تھوڑی دیر پہلے آنے والا غصہ اب کہیں غائب ہوگیا تھا


"وجہ بھی میں ہی بتاؤں،،، تمہیں کچھ نہیں معلوم" ناراضگی اب کہاں رہی تھی پھر بھی شکوہ کرتی نظروں سے سیرت نے اسے دیکھ کر کہا


"بتائے بغیر وہاں سے نہیں گیا تھا سیرت،، اس دن تم اپنے گھر پر موجود نہیں تھی اور نہ تمہارے آبا۔۔۔۔ ایک ہفتے بعد واپس آیا تھا۔۔۔ صرف تمہارے لیے،، تب تک تم لوگ بھی گھر چھوڑ کر جا چکے تھے"

وہ اب نرمی سے وجہ بتانے لگا جس پر ثوبان کو لگا وہ ناراض ہوگی


" 14 سال بعد تم مجھے دکھے ہو، وہ بھی کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔ میں پوچھتی ہوں کون ہے وہ ہری آنکھوں والی حسینہ جس کے ہاتھوں سے تم بڑے مزے سینڈوچ ٹھونس رہے تھے"

اس کے نرمی سے وضاحت دینے پر سیرت کو اور بھی شدید غصہ آیا۔۔۔ شاید اسے غصہ ہی اسی بات پر آیا تھا اس لیے وہ اس کا گریبان پکڑ کر پوچھنے لگی جس پر ثوبان کو ہنسی آگئی


"وہ رنعم ہے یار بہن جیسی بلکہ بہن ہی ہے وہ میری"

سیرت کا یہ جلنے والا روپ ثوبان کو مزہ دے گیا


"پکا،، صرف بہن ہے" سیرت اب بھی مشکوک نظروں سے اسے دیکھ کر کنفرم کر رہی تھی


"پکا تمہارے سر کی قسم"

ثوبان نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا کر،، اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا


"کوئی ضرورت نہیں ہے میرے سر کی قسم کھانے کی پتہ چلا کل میں ہی مر جاؤں"

سیرت نے اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا تو ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑا


"اتنی بے اعتباری آگئی 14 سال میں" ثوبان اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے شکوہ کرنے لگا


"کاشی یہاں پر تین دن پہلے آیا تھا۔۔۔ کیا اس نے میرے بارے میں نہیں بتایا تمہیں"

سیرت نے ثوبان سے اپنا ہاتھ چڑھاتے ہوئے کہا


"میں دو دن سے مسلسل چکر لگا رہا ہوں گھر میں تم ٹکتی ہی کب ہو اور یہ کیا کرتی پھر رہی ہو سیرت تم"

ثوبان نے دوبارہ وضاحت دینے کے بعد اس سے شکوہ کیا


"کیا۔۔۔ کیا کرتی پھر رہی ہو جھوٹ بول رہا تھا وہ موٹا کانسٹیبل"

سیرت صاف مگر گئی


"سیرت پلیز کم از کم تم مجھ سے جھوٹ نہ بولو اور اگر میں نے اب تمہیں کوئی الٹے سیدھے کام کرتے ہوئے دیکھا نہ"

ثوبان نے اس کو وارن کرنا چاہا مگر اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے سیرت نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے کردیے


"ہتھکڑی لگاو گے نہ تم۔۔۔ پولیس والے جو بن گئے ہو" سیرت کے بولنے پر ثوبان نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔۔۔۔


اس سے پہلے وہ کچھ کہتا فلیٹ کا دروازہ کھلا ناصر اندر آیا۔۔۔ ثوبان نے فوراً اس کے ہاتھ چھوڑے اور سیرت ایک دم پیچھے ہوئی


"صاحب میری بچی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ شکل دیکھو اس کی چور لگتی ہے کہیں سے،، بہت معصوم ہے میری بچی۔۔ ہم بہت غریب لوگ ہیں سفید پوش"

ناصر نے اپنے گھر پولیس کو دیکھ کر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر رونا شروع کردیا وہی سیرت ہے اپنا سر پکر لیا اور ثوبان تاسف سے نفی میں سر ہلا کر سیرت کے ابا کے ڈرامے دیکھنے لگا


"ابا۔۔۔ ابا چپ ہو جاؤ یہ ثوبی ہے اپنا۔ ۔۔۔ وہی پرانے محلے والا ثوبی،، کاشی کا بھائی" سیرت نے ناصر کے پاس آکر اس کو آنکھیں دکھا کر چپ کرانا چاہا


"ہاں یاد آیا ثوبی،، جوان ہو گیا ہے ماشااللہ اور پولیس بھی بن گیا۔۔۔ یہاں کیوں لے آئی اس کو"

ناصر نے مسکرا کر مگر آخری جملہ سیرت کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا جس پر سیرت ناصر کو آنکھیں دکھا کر زبردستی مسکرائی


"بیٹھو تم ابا کے ساتھ چائے بنا کر لاتی ہوں"

وہ مسکرا کر ثوبان سے بولی اور کچن میں چلی گئی


ثوبان وہی کرسی پر ناصر کے ساتھ بیٹھ گیا ناصر سے باتیں کرنے لگا۔۔۔ اس نے سیرت اور ناصر دونوں کو بہروز اور یسریٰ کے بارے میں بتایا


****


"آنٹی رنعم کو بھیج دیں باہر،،، میں کار میں اس کا ویٹ کر رہا ہوں"

کاشان نے یسریٰ کو اپنے روم میں آتا دیکھا تو بولا


"ہاں میں تمہیں یہی بتانے آئی تھی یشعل نے پالر سے آتے ہوئے رنعم کو پک کر لیا ہے، بس اب تمہیں اسے لینے جانا ہوگا"

یسریٰ نے مسکراتے ہوئے کاشان کو بتایا مگر یسریٰ کی بات سن کر کاشان کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے جسے وہ فوراً چھپا گیا


"مگر آپ نے اسے اجازت کیوں دی میں چھوڑ آتا۔۔۔ ثوبی نے مجھے احتیاط سے اسے لے جانے اور واپس لانے کے لئے کہا تھا"

کاشان نے سنجیدگی سے بولا تو یسریٰ مسکرا دی۔ ۔۔ اسے کاشان کا یوں رنعم کی فکر کرنا اچھا لگا


"دراصل یعشل ہی رنعم کی ایسی اسکی فرینڈ ہے جس کے بھروسے میں رنعم کو بھیج دیتی ہو اور کسی کے ساتھ الاو نہیں کرتی۔۔۔۔ اب تم اسے احتیاط سے گھر لے آنا"

یسریٰ کے کہنے پر کاشان نے سر ہلایا یسریٰ کے روم سے جانے کے بعد کاشان بھی لب بھینچ کر کمرے سے باہر نکل گیا

****


"باہر آو فوراً"

یعشل کے گھر کے باہر گاڑی روکے کاشان نے موبائل پر کال ملا کر رنعم کو کہا


"مگر مجھے تو ابھی ایک گھنٹہ ہوا ہے یہاں آئے ہوئے"

رنعم نے اپنے موبائل پر کاشان کی کال دیکھی تو سوچ میں پڑ گئی کال ریسیو کی تو اس کی بات سن کر آئستہ آواز میں احتجاجاً بولی


"سنائی نہیں دے رہا تمہیں کیا کہہ رہا ہوں،،، فوراً باہر آو اس وقت"

کاشان نے اسے ڈانٹ کر کہا اور کال کاٹ دی۔۔۔۔


تھوڑی دیر بعد اسے گھر کے گیٹ سے رنعم باہر آتی دکھائی دی،، وہ بےخود سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔ اپنی آنکھوں کے ہم رنگ کپڑوں میں میں وہ کوئی اپسرہ معلوم ہو رہی تھی کاشان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔۔۔ وہ بجھی بجھی سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔ کاشان کی نظریں بھٹک کر اس کے گہرے گلے اور سلیس سے چھلکتے بازوؤں پر پڑی


"دوپٹہ صحیح سے لو اور فوراً گاڑی میں بیٹھو"

کاشان نے اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے کہا


"مگر ابھی تو فنگشن اسٹارٹ ہوا ہے"

رنعم نے کاشان کے تاثرات دیکھ کر منمناتے ہوئے کہا


"کیا بول رہی ہوں ذرا پھر سے بولو"

کاشان نے نازک سے بازو کو سختی سے پکڑتے ہوئے استفاسر کیا،،، جس پر رنعم نے حیرت سے اس کو دیکھا کاشان کے سخت ہاتھوں کی انگلیاں،، اپنے ملائم سے بازو میں گڑتی محسوس ہوئی تو رنعم کو رونا آنے لگا وہ چپ کر کے گاڑی میں بیٹھ گئی


"دوپٹہ کھول کے لو بازو ڈھکو اپنے"

کاشان خود بھی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے،، اس کے گلے میں پڑے دوپٹے پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے گویا ہوا،، کاشان کی نظریں دودھیا بازو پر پڑے اپنے انگلیوں کے نشانات پر گئی،،، مگر وہ اس وقت ترس کھانے کے موڈ میں ذرا نہیں تھا۔۔۔


رنعم نے پورا دوپٹہ کھول کر اپنے بازوؤں کو ڈھکا اور آنکھوں میں آئی نمی صاف کی


"بال باندھو اپنے اور لپ اسٹک بھی صاف کرو"

کاشان کی آواز پر رنعم نے ایک بار پھر شکوہ بھری نظر اس پر ڈالی، جس سے کاشان پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس کی طرف ٹشو بڑھایا۔۔۔۔ رنعم چپ کر کے ٹشو تھام کر اپنے ہونٹوں پر رگڑنے لگی اور بالوں کا جوڑا بنالیا


جوڑا بناتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھی اتنی انسٹرکشن تو کبھی بابا اور بھیا نے بھی نہیں لگائی تھی۔۔۔۔ کاشان نے کار اسٹارٹ کردی تو رنعم کو مزید رونا آنے لگا


"کس بات پر رونا آرہا ہے تمہیں، ایسا کیا بول دیا ہے میں نے۔۔۔ اس طرح کے کپڑے بندہ گھر میں پہن لے،،، اچھا لگے گا ہر کوئی نظر بھر بھر کے دیکھے۔۔۔ مجھے تو اس طرح بالکل اچھا نہیں لگے گا"

کاشان کار ڈرائیو کرتے ہوئے اسے روتا دیکھ کر سنجیدگی سے بولا


"فنگشنز میں ایسی ہی ڈریسنگ کی جاتی ہے۔۔۔ بال کھولتی ہیں لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں" رنعم نے ہمت جمع کر کے اپنے حق میں بولنا چاہا


"ہاں مگر ابھی تم فنگشن میں نہیں میرے سامنے ہوں۔۔۔ اس لیے بال بنوانے اور یہ لپ اسٹک چھٹانے کو بولا"

کاشان نے ڈرائیونگ کرتے سرسری نگاہ اس کی روئی ہوئی آنکھوں پر ڈالی بال بندھوانے اور لپ اسٹک چھٹوانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔ دل اب بھی اس کے لیے بےایمان ہوا جارہا تھا تو کاشان نے لمبی سانس کھینچی


"میں آپ کے سامنے میک اپ نہیں کرسکتی یا بال نہیں کھول سکتی۔۔۔۔ مجھے تو اس بات کا مطلب نہیں سمجھ آیا"

رنعم کو رہ رہ کر فنکشن اٹینڈ نہ کرنے کا ملال ہو رہا تھا پھر کاشان کے نرم پڑنے پر وہ مزید ہمت کر کے بولی


"ابھی کے ابھی سارے مطلب سمجھانے والے نہیں ہیں، آگے جاکر اکھٹے ایک ہی بار میں سمجھا دوں گا سارے مطلب"

اب کی بار وہ رنعم کو دیکھنے سے گریز کر کے سامنے ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا


"نہیں مجھے تو ابھی جاننا ہے اس بات کا مطلب،،، آپ بتائے مجھے"

رنعم کی بات پر کاشان نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا رنعم کو لگا جیسے وہ مسکراہٹ چھپا گیا ہو۔۔۔۔ رنعم مزید جھنجھلائی


"اگر ابھی مطلب سمجانے بیٹھ گیا نا۔ ۔۔۔ تو یہی کار میں بے ہوش ہوجانا ہے تمہیں"

سنجیدگی سے بولنے کے باوجود اس کی آنکھیں مسکرا رہی تھی۔ ۔۔۔۔ رنعم کلس کے رہ گئی


"کھانا کھایا تم نے" کاشان نے رنعم کے خیال کے غرض سے پوچھا


"ایسا موقع آپ نے آنے ہی کب دیا" دوبارہ رنعم کی زبان سے شکوہ پھسلا،، تو کاشان نے کار کا رخ ریسٹورنٹ کی طرف کیا۔۔۔ رنعم نے حیرت سے اس دھوپ چھاؤں کے مزاج جیسے شخص کو دیکھا


"کار سے اترو کھانا خود یہاں پر چل کر نہیں آئے گا"

کاشان نے کار پارک کی رنعم کی نظریں اپنے اوپر محسوس کر کے بولا


ریسٹورینٹ میں آکر کاشان نے کیبن بک کرایا اور کھانا ارڈر کیا


"جب تمہارا پروگرام میرے ساتھ جانے کا تھا تو تم اپنی دوست کے ساتھ کیوں گئی"

اب وہ دوبارہ سنجیدگی سے رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"تو آپ اس لیے مجھے وہاں سے لے کر آ گئے کیوکہ میں آپ کے ساتھ نہیں گئی"

رنعم نے حیرت سے اس سے دریافت کیا


"گڈ تم تو کافی ہوشیار ہوتی جارہی ہو"

سگریٹ سلگاتے ہوئے کاشان نے اس کو داد طلب نظروں سے دیکھا تو اور رنعم اس کو حیرت سے دیکھے گئی


"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ"

رنعم نے ابھی بھی حیرانگی سے اس کو دیکھ کر پوچھا


"کیسا کر رہا ہوں وہ تمہارے ساتھ"

وہ اب گہری نظروں سے اس کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔۔۔ رنعم اس کی آنکھوں کی تپش سے اپنی نظریں جھکا گئی


"یہی جو کر رہے ہیں یہ سب ٹھیک نہیں ہے"

رنعم نے گھبرا کر میز کی سطح کو گھورتے ہوئے کہا


"یہ الزام ہے مجھ پر، میں تم سے پورے پانچ قدم کے فاصلے پر بیٹھا ہوں اور اتنی دور سے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا"

سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا وہ مسلسل گہری نظروں سے دیکھ کر رنعم کو نروس کرنے پر تلا تھا


اتنے میں ویٹر کھانا لے کر آیا کاشان کو کچھ خاص بھوک نہیں تھی مگر رنعم کے ساتھ دینے کے لیے کھانا کھانے لگا تاکہ اب وہ بھی ریلیکس ہو کر کھانا کھا لے۔۔۔۔ ابھی کھانے کا دوران ہوا تھا


رنعم کی آنکھ میں کچھ چھبن کا احساس ہوا،،، آنکھ کو زور سے مسلنے پر اسے جلن ہونے لگی۔۔۔


ٹیبل پر بلیک پیپر کھلا ہوا رکھا تھا شاید فین کی ہوا سے وہ اسکی آنکھ میں چلا گیا


"ادھر دکھاو کیا ہوا"

رنعم کو آنکھ بری طرح مسلتا دیکھ کر، کاشان کھانا چھوڑ کر اس کے پاس آیا اور اسے کھڑا کر کے چہرہ اوپر اٹھا کر،، اس کی آنکھ کو اپنی انگلی کے پور سے اونچی کر کے دیکھنے لگا


"کچھ چلا گیا ہے شاید جل رہا ہے بہت"

رنعم کے بولنے پر کاشان ٹشو پیپر سے آنکھ کی سائڈ صاف کرنے لگا جو کہ ریڈ ہو چکی تھی


"کیا ابھی بھی جل رہا ہے"

وہ آہستہ آہستہ سے آنکھ میں پھونک مار کر رنعم سے پوچھنے لگا


"نہیں اب ٹھیک ہے، آپ پیچھے ہٹیں پلیز"

رنعم کے گھبرا کر بولنے پر کاشان کو احساس ہوا کہ وہ اس کے بےحد قریب کھڑا تھا۔۔۔ کیبن میں اتنی اسپیس موجود نہیں تھی کے رنعم خود پیچھے ہوتی۔۔۔۔ جب اس کی بات کا کاشان نے نوٹس نہیں لیا تو رنعم نے کاشان کی سینے پر اپنے دونوں نازک ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنا چاہا


کاشان نے ٹس سے مس ہوئے بغیر اس کی دونوں نازک ہاتھ اپنے سخت ہاتھوں میں تھام کر نیچے کیے اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اونچا کیا


"کاشان پلیز"

رنعم کی ہارٹ بیٹ جو اس کے قریب آنے سے پہلے ہی بڑھی ہوئی تھی مزید اس کی جرات پر رنعم کو لگا اس کا دل ابھی کے ابھی بند ہوجائے


"ایک دفعہ پھر میرا نام لو"

رنم کا چہرہ اپنے چہرے سے اور بھی قریب کر کے وہ اس کے منہ سے اپنا نام سننے کی خواہش کر رہا تھا


"کاشان مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ سے" اس کی قربت کو دیکھ کر رنعم کی حالت غیر ہونے لگی


"مجھے بھی"

وہ اس کے ہونٹوں پر جھگنے والا تھا رنعم نے چہرے کا رخ دوسری سمت کیا رنعم کے کان کے جھمکے نے کاشان کے چہرے کو چھوا۔۔۔ اور کاشان نے اپنے ہونٹوں نے اس کے جھمکے کو۔۔۔۔


سحر آمیز لمحے کو موبائل کی بیل نے توڑا تو کاشان سحر سے آزاد ہوا۔۔ پیچھے ہٹ کر پاکٹ سے اپنا موبائل نکالا اور کال رسیو کی


"جی آنٹی وہی کے لیے نکلا ہوں، بس آدھے گھنٹے میں رنعم کو لے کر گھر آتا ہوں"

یسریٰ سے بات کر کے کال رکھی۔۔۔ رنعم ابھی بھی ویسی کی ویسی سن کھڑی تھی۔۔۔۔ ایک بار دوبارہ کاشان اس کے پاس آیا اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتا ہوا اسے دیکھ کر بولا


"چلو گھر چلتے ہیں آنٹی ویٹ کر رہی ہیں ہمارا"

رنعم پر بھرپور نظر ڈال کر وہ کیبن سے باہر نکل گیا اور رنعم اپنے آپ کو نارمل کرتی ہوئی اس کے پیچھے آئی


کار میں مکمل خاموشی تھی رنعم اپنے دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھے نظر جھکائے بیٹھی تھی کاشان ڈرائیو کرتے ہوئے ایک نظر اس پر ڈال لیتا۔۔۔ خاموشی جب طول پکڑنے لگی تب کاشان نے لمبا سانس کھینچ کر رنعم کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔اب وہ ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ تھامے ڈرائیونگ کر رہا تھا


"اسے بے شک تم میری خود غرضی سمجھ لو یا پھر من مانی کہ میں نے تم سے تمہاری مرضی نہیں جانی۔۔۔ اور تم سے پوچھے بغیر تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔ رنعم ثوبی نے تم سے ہمارے بچپن کے بارے میں تو ذکر کیا ہوگا،،، ہمارا دونوں کا پورا بچپن ہی محرومیوں میں گزرا ہے۔۔۔ جس کا اثر ثوبی نے شاید اتنا نہیں لیا ہو یا پھر یوں کہہ لو کہ وہ شروع سے ہی ٹھنڈے مزاج کا بہت آسان سا انسان ہے۔ ۔۔ مگر جس ماحول میں ہم دونوں پلے بڑھے تھے اس کا اثر لیتے ہوئے میرے اندر سختی سی آگئی ہے یا شاید میں شروع سے ہی تھوڑا پیچیدہ بندہ ہوں،،، غصہ جلد آجاتا ہے مجھے۔۔۔ بچپن کی محرومیوں اور جیل کے ماحول نے میرے اندر تلخی پیدا کر دی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے میں ان تلخ یادوں اور باتوں کو بھول سکتا ہوں۔۔۔۔ کیا تم میری ان تلخیوں کو دور کرنے میں میری مدد کرو گی،،، پرامس کرتا ہوں پوری ایمانداری کے ساتھ تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے خوش رکھنے کی کوشش کروں گا۔۔۔۔ میری زندگی میں جو بھی خلاہ رہ گیا ہے اس خلاہ کو صرف تمہاری موجودگی پُر کر سکتی ہے۔۔۔ کیا میں تم سے امید رکھوں کے تم میرا ساتھ دو گی"

کاشان نرم لہجے میں اس کا ہاتھ تھامے اس سے پوچھ رہا تھا


اس وقت وہ رنعم کو اک الگ ہی انسان لگا۔ ۔۔۔ معلوم نہیں کیو مگر رنعم کا دل نہیں چاہا وہ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑائے۔۔،۔۔ اس نے اپنے سخت ہاتھوں سے بہت نرمی سے رنعم کا ہاتھ تھاما ہوا تھا،،، رنعم اس کو دیکھ کر مسکرا دی یہ مسکراہٹ یقیناً اس کی آمادگی تھی اس لیے کاشان بھی مسکرا دیا

ہفتے بھر کی ٹف روٹین کے بعد آج وہ گھر میں ریلکس سب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔ شہر میں جگہ جگہ آپریشن کی وجہ سے پورا ہفتہ ثوبان کا بزی گزرا جس کی وجہ سے گھر بھی اس کا رات کو لیٹ آنا ہوتا۔۔۔۔ سیرت سے بھی اس کی دو ہی دفعہ بات ہوئی تھی جس میں اس نے ناصر کی طبیعت خرابی کا ذکر کیا تھا۔۔۔ ہفتے بھر کی ٹف ڈیوٹی کے بعد آج اسے چھٹی کا دن نصیب ہوا تھا دوپہر کا وقت تھا اور اتوار کے دن کی وجہ سے بہروز کاشان اور رنعم بھی گھر میں موجود تھے۔۔۔۔ رنعم یعشل کی انگیجمنٹ کے بعد اپنے سیمسٹرز میں بزی ہو گئی تھی اس دن کیبن والے واقعے کے بعد تین دن تک تو وہ کاشان کے سامنے بھی نہیں آئی تھی دوسرا پیپرز کی وجہ سے کھانا بیڈروم میں منگوا لیتی مگر بہروز کے کہنے پر کہ کھانا سب کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ وہ اپنے روم سے نکلتی مگر کاشان کے سامنے پاکر اس کی نظر جھک جاتی


"میڈیسن رکھ لی آپ نے اپنی ساری،، کب تک واپسی کریں گی"

دوپہر کے کھانے کے دوران ثوبان یسریٰ سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ فرح بہت دنوں سے یوسریٰ کو بلا رہی تھی تو یوسریٰ کا حیدرآباد جانے کا پروگرام بن گیا


"سب کچھ رکھ لیا ہے میں نے، بس تم اپنے بابا کا خیال رکھنا واپسی انشاء اللہ تین سے چار دن میں کرلوں گی" یسریٰ نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"کیسے جائیں گیں آنٹی۔۔۔۔ میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں" کاشان نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو یسریٰ مسکرا دی


"نہیں بیٹا میں ڈرائیور کے ساتھ آسانی سے چلی جاؤں گی، ثوبان کو بھی میں نے منع کیا ہے اتنی ٹف ڈیوٹی کے بعد وہ کہاں ڈرائیونگ کرے گا تم بھی چھٹی کا دن گھر میں انجوائے کرو اور یہ پلیٹ کیوں خالی ہے سہی سے کھانا نکالو۔۔۔۔ ارے بہروز آپ یہ قورمہ تو ٹیسٹ کریں آج آپ کی صاحبزادی نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے" یسریٰ نے کاشان کو جواب دے کر بہروز کو مخاطب کیا۔۔۔ بے ساختہ کاشان کی نگاہ رنعم کی طرف اٹھی۔۔۔ رنعم نے جلدی سے اپنی نگاہ پلیٹ کی طرف جھگالی اور کھانا کھانے لگی یہ منظر ثوبان کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہ سکا


"ارے واہ میری بیٹی نے کھانا بنایا ہے لاؤں مجھے دو" بہروز نے خوش ہوتے ہوئے یسریٰ سے ڈش لی بہروز کے بعد کاشان اپنی پلیٹ میں قورمہ نکالا


"کاشی مجھے بھی دو، فرسٹ ٹائم میری بہن نے کوئی چیز بنائی ہے پتہ تو چلے کیسا بنا ہے" ثوبان نے کاشان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سب نے کھانا اچھے ماحول میں کھایا۔۔۔۔


اتنے میں ثوبان کے موبائل پر سیرت کی کال آئی وہ ایکسکیوز کرتا ہوا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا


"ہاں سیرت کیسی ہو تم،، آج شام میں تمہاری طرف چکر لگاتا ہوں"

ثوبان نے کال ریسیو کرتے ہوئے سیرت سے کہا


"ثوبی شام میں نہیں پلیز تم ابھی آ جاؤ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں انہیں اسپتال لے کر آئی ہو"

سیرت آواز سے ثوبان کو کافی پریشان لگ رہی تھی


"ٹھیک ہے پریشان مت ہوں میں پہنچ رہا ہوں"

ثوبان کال کاٹ کر اندر آیا اور ایمرجنسی کا کہہ کر کار کی کیز اٹھاتا ہوا باہر نکل گیا


****


"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں آ گیا ہوں کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹرز"

ثوبان سیرت کے بتائے ہوئے گورنمنٹ اسپتال میں پہنچا تو سیرت اسے باہر کوریڈور میں ہی مل گئی


"دونوں کیڈنیز فیل ہوچکی ہیں باقی ڈاکٹر ڈائلیسس کے لئے بول رہے ہیں۔۔۔ ثوبی ابا ٹھیک تو ہوجائیں گے نا" سیرت اسے بہت مایوس اور پریشان لگی وہ ثوبان کو دیکھ کر امید سے پوچھنے لگی


"فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو جائے گا میں ہوں نہ تمہارے ساتھ چلو انکل کے پاس روم میں چلتے ہیں"

ثوبان اسے تسلی دیتا ہوں اس کے ساتھ روم میں پہنچا۔۔۔ یہ جرنل وارڈ تھا جہاں پر چند مریضوں کے دومیان ایک بیڈ پر ناصر لیٹا ہوا تھا


"ثوبی تم آگئے بیٹا میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا"

ثوبان کو دیکھ کر ناصر کے چہرے پر رونق آئی


"آپ پریشان مت ہوں انکل انشاءاللہ بہت جلد صحت یاب ہوجائیں گے" ثوبان نے ناصر کو تسلی دیتے ہوئے کہا


"صحت یاب نہیں بھی ہوا تو کیا ہوا بیٹا۔۔۔۔ زندگی کس سے وفا کرتی ہے پریشان تو میں اپنی اس جھلی کی وجہ سے ہے۔ ۔۔۔ میرے بعد اس پگلی کا کوئی نہیں رہے گا اکیلی رہ جائے گی یہ"

ناصر نے سیرت کو دیکھتے ہوئے کہا جو بیڈ کے پاس آنکھوں میں آنسو لیے کھڑی تھی۔۔۔۔ اس سے پہلے تو ثوبان نے صرف اسے جھوٹی موڈ کے آنسو بہاتے دیکھا تھا


"آپ ایسی ناامیدی کی باتیں کیوں کررہے ہیں ڈائلیسس تو اب عام سی بات ہوگئی ہے اور آپ سیرت کی بالکل فکر نہیں کریں"

ثوبان ایک نظر سامنے کھڑی سیرت کو دیکھتے ہوئے ناصر سے کہا


"بیٹی کا باپ ہو فکر تو ہوگی۔۔۔۔ ثوبی بیٹا تم میری سیرت سے نکاح کرلو"

ناصر کی بات پر وہ دونوں ایک دم چونکے


"ابا کیسی بات کر رہے ہو تم،،، کہاں جارہے ہو تم،، سیرت تمہیں کہیں نہیں جانے دے گی اور اب ثوبی سے کوئی الٹی سیدھی بات مت کرنا"

ناصر کا یوں ایک دم ثوبان کے سامنے نکاح کا بولنا سیرت کو ثوبان سے محبت کے باوجود اپنا آپ بے مول لگا وہ تڑپ ہی اٹھی


"تو چپ کر میں تجھ سے بات نہیں کر رہا ثوبی سے بات کر رہا ہوں بولو بیٹا آج ہی میری بیٹی سے نکاح کرو گے میری آنکھوں کے سامنے اسے ایک باپ کی آخری خواہش سمجھو"

ناصر کے لہجے میں ایک بے بس باپ کی فریاد تھی۔۔۔۔ ثوبان ناصر کی بات سے کشمکش میں پڑگیا وہ سیرت سے ہی شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر یوں اس طرح یسریٰ اور بہروز کے بغیر وہ کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا لیتا وہ اس کے ماں باپ کی جگہ ہی تو تھے۔۔۔ انہیں کتنا شاک لگتا اور اتنے کم ٹائم میں وہ بہروز کو کیا کہہ کر بلاتا یسریٰ تو شاید اب تک حیدرآباد کے لیے نکل گئی ہو


"سوچ کیا کر رہے ہو بیٹا،،، میری بیٹی روکھی سوکھی کھا کر تمہارے ساتھ گزارا کرلے گی میں تہمارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں"

ثوبان کو خاموش دیکھ کر ناصر دوبارہ بولا تو ثوبان اپنی سوچوں سے آزاد ہوا


"یہ کیا کر رہے ہو انکل آپ۔۔۔۔ میں تیار ہوں سیرت سے نکاح کرنے کے لئے آپ پلیز ایسے نہیں کریں"

وہ ناصر کے دونوں ہاتھ تھام کر بولا


سیرت روتی ہوئی وارڈ سے باہر نکل گئی ثوبان بھی اٹھ کر اس کے پیچھے آیا وہ کوریڈور میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی


"ثوبی تم اس وقت یہاں سے جاو،،، ابا کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے میں انہیں دیکھ لوں گی"

سیرت نے آنسو صاف کرتے ہوئے ثوبان سے کہا


"کیوں کیا کوئی اور پسند ہے تمہیں" ثوبان نے دونوں ہاتھ باندھ کر نرم لہجے میں اس سے دریافت کیا جس پر سیرت تپ گئی۔۔۔ وہ اتنا انجان بھی نہیں تھا جو اس کی پسند سے واقف نہ ہو


"میری چھوڑو اپنی کہو،، ابا کے مجبور کرنے پر اتنا بڑا قدم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم یہاں سے جاو میں ابو کو سمجھا دوں گی"

سیرت نے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"تو سیرت بی بی میں تم سے نکاح تمہارے ابا کے مجبور کرنے پر کر رہا ہوں۔۔۔۔ بچپن سے لے کر آج تک تم نے اتنا ہی جانا ہے مجھے"

ثوبان نے سنجیدگی سے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"جہاں پسنددیدگی ہو وہاں سوچنے کے لیے وہ وقت نہیں لگایا جاتا فٹ سے فیصلہ کر لیا جاتا ہے"

سیرت نے تھوڑی دیر پہلے اسے ناصر کے سامنے چپ رہنے پر طنز کرتے ہوئے کہا


"سیرت خدا کو مانو یار،،، میری فیملی ہے اتنا بڑا فیصلہ،،، وہ لوگ یہاں موجود نہیں ہیں اس وقت۔۔۔ مگر میں ابھی انہیں کچھ بتانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں یوں اچانک۔۔۔ پر تم نہیں سمجھو گی یہ بات،،، بیکار ہے تمہیں بولنا۔۔۔ جاؤ انکل کے پاس بیٹھو نکاح خواں کا ارینج کرنا ہے مجھے"

سیرت سے کہتا ہوا موبائل کان پر لگاتا وہاں سے نکل گیا


****


کاشان کو اس نے بیس منٹ کے اندر بغیر کسی کو بتائے اسپتال کا نام بتایا اور وہاں آنے کے لیے کہا اپنے تین سے چار دوستوں کو بھی بلایا اسپتال کے قریب مسجد میں نکاح پڑھایا گیا یوں ثوبان اور سیرت ایک مضبوط رشتے کے بندھن میں بندھ گئے چند گھنٹے پہلے جس کا دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا


"اب آگے کیا سوچا ہے تم نے"

نکاح کی رسم ادا کرنے کے بعد ثوبان سب دوستوں سے فارغ ہوا تو کاشان نے اس سے پوچھا


"جو کچھ ہوا اس طرح میرے پلان میں تو نہیں تھا۔۔۔ن گھر میں باقی سب کے لیے کسی شاک سے کم نہیں ہو گی یہ بات مگر پہلے مما پاپا کو اعتبار میں لوں گا ان کی ناراضگی دور کر کے تبھی سیرت کو وہاں لے کر جاؤں گا"

ثوبان نے کاشان کو دیکھتے ہوئے بتایا


"ہاں یہی مناسب ہے۔۔۔۔ مگر تم ابھی سیرت شیریٹن ہوٹل لے کر جا رہے ہو،،، وہاں میں نے اپنے نام سے تم دونوں کے لیے روم بک کروایا ہے اسے میری طرف سے نکاح کا تحفہ سمجھو"

کاشان نے اپنا کارنامہ بتایا جس پر ثوبان نے اس کو گھور کر دیکھا یقیناً اسی وجہ سے وہ آج نکاح کے وقت لیٹ پہنچا تھا


"دماغ صحیح ہے تمہارا صرف نکاح ہوا ہے اور وہ ڈسٹرب ہے اپنے ابا کو لے کر "

ثوبان نے آنکھیں دکھا کر سنجیدگی سے کہا


"جبھی تو کہہ رہا ہوں ڈسٹرب ہے اسے ریلیکس کرو۔۔۔۔ آگے کا کیا پلان ہے یہ بس شیئر کرو خود بھی تھوڑے پرسکون ماحول میں رہو"

کاشان نے مسجد سے نکلتے ہوئے ثوبان سے کہا


"اور گھر میں کیا کہو گے ثوبان کہاں ہے"

ثوبان اس کی بات پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے بولا


"اس سے پہلے کیا تمہاری نائٹ ڈیوٹی نہیں لگی"

کاشان کی بات پر ثوبان کو مسکراہٹ آئی


"ایک اور بات ویسے تو تمہاری بیگم ایک خونخوار بلی ہے لیکن آج وہ یقیناً بھیگی بلی بنی ہوگی اور تم اس بات کا مکمل فائدہ اٹھانا۔۔۔ن اسے دیکھ کر پگھل مت جانا تھوڑا روعب شوب دکھانا تاکہ آئندہ زندگی میں بھی وہ تمہاری جی حضوری کرتی رہے"

کاشان اپنی طرف سے ثوبان کو مخلصانہ مشورہ دیا


"نہایت ہی کوئی بیہودہ قسم کے فلاسفی ہے تمہاری۔۔۔ اور تمہارے خیالات جان کر اب مجھے رنعم کے لئے بھی سوچ سمجھ کر آگے بات کرنا پڑے گی"

ثوبان نے اسے گڑے تیورں سے اسے گھورا تو کاشان ایکدم سٹپٹایا


"اب یہ رنعم بیچ میں کہاں سے آگئی سیرت اور رنعم دونوں کی نیچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔ میرا کیا ہے نہ مانو میری بات آگے مستقبل مستقبل میں خود ہی پچھتاو گے،، میں نے تو مشورہ دے کر بھائی ہونے کا فرض نبھایا اب اس پر عمل کرنا نہ کرنا تمہارے اوپر ہے اور یاد دلا دوں رنعم کے پیپرز ختم ہونے والے ہیں چلتا ہوں" کاشان بول کر کار میں بیٹھ گیا جبکہ ثوبان سر جھٹک کر اسپتال میں ناصر اور سیرت کے پاس پہنچا۔۔۔


دو گھنٹے بعد ناصر کا ڈائیلائسس ہوا اس کے بعد ثوبان نے ناصر کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کروایا اور ایک کیئرٹیکر ناصر کی نگہداشت کے لئے مقرر کیا جب وہ ہسپتال سے سیرت کو لے کر نکلا تو رات ہو چکی تھی


****


"کیا ہو رہا ہے اس وقت"

رنعم اس وقت کچن میں موجود اپنے لئے کافی بنا رہی تھی تب اچانک کاشان نے قریب آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔ کیوکہ کاشان کے سامنے رنعم کی پشت تھی اس لئے کاشان کے بولنے پر رنعم ڈر گئی اور بری طرح اچھلی پڑی


"اف آپ نے تو ڈرا کر ہی رکھ دیا مجھے"

رنعم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اور وہ سہمی سہمی کاشان کو اپنے دل کے قریب محسوس ہوئی


"میں نے نوٹ کیا ہے تم شرمانے کے ساتھ ساتھ ڈرتی بہت ہو مجھ سے"

شیلف پر موجود رنعم کا کافی کا کپ تھام کر وہ سامنے چیئر پر بیٹھتا ہوا بولا اور کافی کا سپ لیا


"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے،، میں کیوں ڈروں گی آپ سے"

رنعم نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے بولا مگر سچ تو یہی تو وہ واقعی اس کی روعب دار شخصیت کے آگے سہم سی جاتی تھی۔۔۔۔۔ رنعم کی بات سن کر کاشان کے چہرے کے تاثرات ایکدم بدلے


"تو تم نہیں ڈرتی ہوں مجھ سے" کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ کر سامنے پڑی چھریوں میں سے سب سے بڑی چھری اٹھا کر وہ اس سے پوچھتا ہوا رنعم کے قریب آیا۔۔۔۔ اس وقت کاشان کے چہرے کے تاثرات بالکل پتھریلے تھے جنھیں دیکھ کر رنعم کی ہنسی تھم گئی


"یہ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ کاشان"

کاشان کو ہاتھ میں چھری پکڑے اپنی طرف آتا دیکھ کر رنعم کا چہرہ خوف سے فق ہوگیا وہ کچن کی دیوار سے جا لگی


"شششش"

کاشان نے چھری کو اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اسے چپ رہنے کے لئے بولا رنعم خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی


"کاشان نہیں پلیز"

کاشان کے چہرے پر سخت تاثرات دیکھ کر رنعم نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جیسے ہی کاشان نے فضا میں ہاتھ اٹھا کر چھری کو تھرچا کرتے ہوئے رنعم پر وار کیا ویسے ہی رنعم کے حلق سے ایک دلخراش چیخ نکلی۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرا چھپا کر اپنی آنے والی موت کا انتظار کرنے لگی

"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے،، میں کیوں ڈروں گی آپ سے"

رنعم نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے بولا مگر سچ تو یہی تو وہ واقعی اس کی روعب دار شخصیت کے آگے سے سہم سی جاتی تھی۔۔۔۔۔ رنعم کی بات سن کر کاشان کے چہرے کے تاثرات بدلے


"تو تم نہیں ڈرتی ہوں مجھ سے" کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ کر سامنے پڑی چھریوں میں سے سب سے بڑی چھری اٹھا کر وہ اس سے پوچھتا ہوا رنعم کے قریب آیا۔۔۔۔ اس وقت کاشان کے چہرے کے تاثرات بالکل پتھریلے تھے جنھیں دیکھ کر رنعم کی ہنسی تھم گئی


"یہ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ کاشان"

کاشان کو ہاتھ میں چھری پکڑے اپنی طرف آتا دیکھ کر رنعم کا چہرہ خوف سے فق ہوگیا وہ دیوار سے جا لگی


"شششش"

کاشان نے چھری کو اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اسے چپ رہنے کے لئے بولا رنعم خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگی


"کاشان نہیں پلیز"

کاشان کے چہرے پر سخت تاثرات دیکھ کر رنعم نے ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جیسے ہی کاشان نے فضا میں ہاتھ اٹھا کر چھری کو تھرچا کرتے ہوئے رنعم پر وار کیا ویسے ہی رنعم کے حلق سے ایک دلخراش چیخ نکلی۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرا چھپا کر اپنی آنے والی موت کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔


مگر چند پل گزرنے کے بعد جب اس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو بےساختہ اس کی نظر فرش پر موٹی تازی دو حصوں میں کٹی ہوئی چھپکلی پر پڑی۔۔۔ اس سے پہلے بلند چیخ دوبارہ اس کا گلا پھاڑ کر نکلتی کاشان نے چھری نیچے پھینک کر ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا


"مانا کے اس وقت گھر میں انکل کے سوا کوئی نہیں ہے اور انکل بھی یقیناً سو رہے ہوں گے مگر تمہاری چیخیں سن کر پڑوس والے یہاں آ سکتے ہیں"

کاشان اس کا منہ بند کرتا ہوا جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا اور آہستہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔۔۔۔ رنعم فوراً اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی گھر سے باہر لان میں چلی آئی کاشان بھی کافی کا مگ تھامے اس کی پیچھے آ گیا


"آئندہ ایسا فضول قسم کا مذاق میرے ساتھ مت کرئے گا اگر مجھے ہاٹ اٹیک ہو جاتا تو"

رنعم نے اس کو اپنے پیچھے لان میں آتا دیکھ کر بولی


"مجھے نہیں معلوم تھا تم اتنی بہادر ہوں،، میں تو سمجھا کہ دوسری لڑکیوں کی طرح چھپکلی دیکھ کر تمہاری بھی جان جاتی ہوگی قسم سے میں تو تمہاری چھپکلی سے جان بچا رہا تھا"

رنعم کی جان نکال کر وہ مزے سے کافی پیتے ہوئے بولا


رنعم اس کو غصے میں گھور کر دیکھنے لگی سبز آنکھوں میں اب خوف کی جگہ غصہ ہلکورے لے رہا تھا۔۔۔ وہ رنعم کو خوفزدہ کر کے اس کا ڈر اور کافی دونوں بٹے مزے سے انجوائے کر رہا تھا


"غصہ آ رہا ہے۔۔۔۔ چلو آج چھوٹ ہے تم پر،،، تم مجھ پر غصہ کر سکتی ہو کیوکہ آج میں بہت خوش ہوں برا نہیں مانوں گا۔۔۔ بعد میں تو تمہیں یہ موقع ملے نہ ملے شاید"

کاشان کافی کا خالی مگ لان میں موجود ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا


"کس بات کی خوشی ہے آپ کو"

رنعم اپنا غصہ بھول کر اس کی خوشی کی وجہ پوچھنے لگی کیوکہ رنعم نے اسے اپنے سامنے کم ہی کسی بات پر خوش دیکھا تھا


"کیوکہ سیرت کے شوہر کو آج اس کے بچپن کی محبت مل گئی"

کاشان نے رنعم کو دیکھ کر جواب دیا اور اس کی کنفیوز شکل دیکھ کر مسکرایا


"معلوم ہے یہ بات تو تمہارے سر پر سے گزر گئی ہوگی، ایک اور بھی وجہ ہے جس پر میں خوش ہو تم وہ وجہ پوچھو مجھ سے"

کاشان نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے چئیر پر بٹھا کر خود بھی سامنے والی چیئر پر بیٹھ کر بولنے لگا


"تو آپ بتائیے دوسری وجہ کیا ہے" رنعم نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو کاشان نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی تھام لیا


"آج دوپہر میں تم نے کھانا اس وجہ سے بنایا تھا ناں کہ اس دن آئسکریم پالر میں، میں نے تم سے کہا تھا"

کاشان کی بات رنعم کا دل زور سے دھڑکا وہ بے ساختہ اپنی نظر نیچے جھکا گئی


"شکر ہے شادی کے بعد کسی خانسامہ کا انتظام نہیں کرنا پڑے گا اور دوسرا تم بہت اچھی بیوی ثابت ہونے والی ہو جو شوہر کی ہر بات مانے"

کاشان اس کے شرمائے گھبرائے روپ کو دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا


"بھیا نہیں آئے ابھی تک کافی دیر ہو گئی ہے"

رنعم نے گھبرا کر موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا


"آج تمہارا بھیا اپنی نائٹ ڈیوٹی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر رہا ہوگا"

کاشان نے اس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا وہ ابھی بھی اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا


"کیا میں اس وقت تم سے کچھ اور بھی طلب کر سکتا ہوں"

کاشان اس کے ہاتھوں کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے لو دیتی نگاہوں اسے دیکھ کر کہنے لگا


"کل میرا پیپر ہے مجھے چلنا چاہیے"

رنعم نے جھجھکتے ہوئے کاشان کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ رات کے پہر تنہائی میں وہ اسکی بات کا مفہوم اور طلب کو سمجھتے ہوئے وہاں سے جانے لگی


"ایک منٹ رکو۔۔۔۔ اس وقت میں تم سے کوئی ایسی چیز طلب نہیں کرتا جس کی وجہ سے تمہیں یوں اٹھ کر جانا پڑے۔۔۔۔ اپنی حدود کا اچھی طرح اندازہ ہے مجھے اور یہ وضاحت میں اس لیے رے ہوں کہ آئندہ کبھی بھی تم میرے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاو یہ پہلی دفعہ تھا اس لئے کچھ نہیں کہہ رہا ہوں"

کاشان کرسی پر بیٹھا ہوا سنجیدگی سے اس کو بولنے لگا رنعم اس کی بات سن کر دوبارہ جانے لگی


"ابھی بات مکمل نہیں ہوئی ہے میری"

کاشان کی آواز پر اس کے قدم دوبارہ روکے رنعم نے مڑ کر کاشان کو دیکھا


"کل میں کھانے میں آلو قیمہ کھاو گا جو تم میرے لیے اپنے ہاتھ سے بناؤں گی"

کاشان کی فرمائش پر رنعم نے منہ کھول کر حیرت سے کاشان کو دیکھا


"کل تو میرا پیپر ہے"

رنعم کے منہ سے بے ساختہ نکلا مگر کاشان کی آنکھوں میں سنجیدگی دیکھ کر وہ خود ہی بول پڑی


"تو کیا ہوا پیپر تو کل صبح ہے،، کھانا تو آپ نے رات میں کھانا ہے شام میں بنا لوں گی کوئی مسئلہ نہیں گڈ نائٹ"

وہ خود سے ہی کہتی ہوئی تیز قدموں سے گھر کے چلی گئی


****


"ثوبی بابا کی فکر ہو رہی ہے، تمہیں یوں مجھ کو لے کر نہیں آنا چاہیے تھا" سیرت نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"یار یہ فرسٹ ٹائم ڈائلیسس ہے ان کا۔۔۔۔ اتنی جلدی ہوش میں نہیں آئے گے ہلکی ہلکی غنودگی رہے گی اور کیئر ٹیکر موجود ہے وہاں پر،، میں نے اسے اپنا نمبر دے دیا ہے اگر کوئی بھی پرابلم ہوئی تو وہ کال کرے گا مجھے۔۔۔ تم صبح سے ہی ہاسپیٹل میں موجود ہوں تھوڑا ریلیکس ہو جاؤ صبح چھوڑ دوں گا تمھیں انکل کے پاس"

ثوبان ڈرائیونگ کے دوران سیرت کو مطمئن کرتے ہوئے بولا


"یہاں کیوں آئے ہیں ہم"

ثوبان نے ہوٹل کے اندر کار پارک کی تو سیرت نے اس کو دیکھ کر پوچھا


"پہلے اترو تو پھر بتاتا ہوں"

ثوبان نے خود کار سے اترتے ہوئے کہا سیرت کار سے اتری تو اپنے کیجول سے ڈریس کا جائزہ لیتے ہوۓ جھجھک کر ثوبان کو دیکھنے لگی


"اچھی لگ رہی ہو تم آؤ"

اسکی جھجھک محسوس کر کے ثوبان اس کا ہاتھ تھام اور ہوٹل کے اندر چلا گیا ریسیپشن پر کاشان کا نام لیا تو لڑکے نے غور سے ان دونوں کو دیکھا اور بوکے ثوبان کو پکڑ کر شادی کی مبارکباد دی جب وہ دونوں ہوٹل کے روم میں پہنچے دو بیڈ پر گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھی


"اف میرے خدا وہاں ابا اسپتال میں نوجود ہیں اور اس بدتمیز انسان کو اپنی لگی ہوئی ہے"

سیرت نے سوچتے ہوئے ثوبان کو گھورا


"یہ سب میرا آئیڈیا نہیں ہے کاشی نے روم بک کروایا ہے نکاح کے گفٹ کے طور پر یہ سب بھی لازمی اسی نے کروایا ہوگا"

ثوبان نے سیرت کی گھوری کو دیکھ کر فوراً وضاحت دیتے ہوئے کہا


"وہ بچپن سے ہی بدتمیز اور منہ پھٹ ہے اس کا تو مجھے اندازہ تھا لیکن آج میں تمہارے بھائی کی ایک اور خوبی سے متعارف ہوئی ہو،،، ایک نمبر کا چھچھورا بھی ہے یہ کاشی"

سیرت نے جھینپ مٹاتے ہوئے کہا تو ثوبان ہنسنے لگا


"ویسے مجھے اس کا گفٹ اور آئیڈیا اتنا برا بھی نہیں لگا، کیا خیال ہے"

ثوبان نے سیرت کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کرتے ہوئے پوچھا


"تمہیں اپنے بھائی کی طرح کوئی بھی چھچھورا پن دکھانے کی ضرورت نہیں ہے"

سیرت اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر گھورتی ہوئی بولی تو ثوبان مسکرا دیا


"وقت، موقع محل، رشتہ دیکھ کر تو بندہ رومانٹک ہو سکتا ہے۔۔۔ اب اس کو چھچھور پن کا نام مت دو پلیز"

ثوبان نے اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی پہلی مہر سجائی تو سیرت ایک دم بدک کر پیچھے ہوئی


"ثوبی تم پٹو گے مجھ سے"

سیرت نے اسے گھورتے ہوئے پیچھے دھکیلا شاید اس کی زندگی میں ایسا پہلی دفعہ ہی ہوا تھا جو وہ یوں کسی چیز سے گھبرائی تھی


ثوبان اس کے بلش کرتے چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگا اور روم میں ہی کھانے کا آرڈر دیا کیوکہ ان دونوں نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا۔۔۔۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ثوبان نے سب سے پہلے بہروز کو کال کرکے اپنے رات گھر نہ آنے کا بتایا اس کے بعد اس نے ہی یسریٰ کو حیدرآباد کال کر کی اور اس کی خیریت پوچھی۔۔۔ اسپتال میں موجود کیئرٹیکر کو کال کرکے ناصر کی صورتحال پوچھی۔۔۔۔ سیرت صوفے پر بیٹھی اس کی ساری گفتگو سن رہی تھی فارغ ہوکر وہ سیرت کے پاس آیا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی اس کے برابر میں بیٹھا۔۔۔ وہ اسے زندگی میں پہلی بار نروس لگی ثوبان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما


"اپنے دل میں کبھی بھی یہ خیال مت لانا کہ میں نے مجبوری میں،، تمہارے ابا کی خواہش پر یا کسی دباؤ میں آکر تمہیں اپنی زندگی میں شامل کیا ہے۔۔۔ سیرت میرے جذبات لفظوں کے محتاج نہیں ہیں،، میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ کی خواہش کی ہے شریک حیات کے تصور میں تمہارا ہی چہرہ میری نظروں میں گھومتا تھا اور آج میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرکے بہت خوش اور مطمئن ہوں مگر معلوم نہیں تمہیں اس بات کا اندازہ ہو یا نہ ہو،، کہ میں جس فیملی کے ساتھ رہتا ہوں ان دونوں نے مجھے اپنی سگی اولاد کی طرح پیار کیا ہے اور یوں اچانک میرے نکاح کی خبر سن کر ہو سکتا ہے ان کی فیلینگز ہرٹ ہو اور میں مما بابا کو بالکل بھی ہرٹ نہیں کرنا چاہتا کیوکہ وہ دونوں میرے لئے والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔۔ مجھے تھوڑا ٹائم چاہیے ہوگا ان دونوں کو ہمارے رشتے کے بارے میں،،، ساری سچویشن کے بارے میں بتانے کے لیے،،، تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو،، جب تک یہ ساری حقیقت میں اپنی فیملی کو بتا کر تمہیں بیوی کے طور پر اپنے گھر میں نہیں لے جاتا تب تک میں تم سے اپنا حق طلب نہیں کروں گا کیا تم میری پروبلم سمجھتے ہو مجھے تھوڑا سا ٹائم دو گی"

ثوبان سیرت کو ساری باتیں سمجھاتے ہوئے اس سے سوال پوچھ رہا تھا


"کیا تمہاری فیملی مجھے ایکسیپٹ کرے گی"

سیرت نے اسے دیکھ کر اپنا خدشہ ظاہر کیا۔۔۔ وہ ثوبان سے ملی تھی تب اس نے ثوبان کی باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا وہ فیملی ثوبان کے لیے معنیٰ رکھتی ہے اسی لئے اب نکاح کے بعد سیرت کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا پتہ نہیں اس کی فیملی کا رویہ کیا ہو۔۔۔۔ اس کی بات سن کر ثوبان مسکرایا


"جب انہیں میں بتاؤں گا کہ تم میری پسند ہو تو وہ تمہیں کھلے دل سے قبول کریں گے" ثوبان نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں پر لگاتے ہوئے کہا


بیڈ پر لیٹنے کے بعد سیرت کا سر اپنے سینے پر رکھا سیرت اس سے یسریٰ اور رنعم کے متعلق پوچھنے لگی ثوبان اسے باتیں بتانے لگا مگر تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہو جیسے سیرت سو چکی ہے جب اس نے سیرت کا سر تکیہ پر رکھا تو وہ بے سود سو رہی تھی سارا دن اسپتال میں رہنے سے،، تھکن کی وجہ سے شاید وہ فوراً سوگئی۔۔۔ ثوبان نے اس کی پیشانی کو لبوں سے چھوا اور لائٹ آف کر کے خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا

"سیرت اٹھو صبح ہوگئی ہے"

ثوبان کے تیسری بار پکارنے پر جب وہ نہیں اٹھی تو ثوبان نے اس کے ہونٹوں پر جھک کر اپنے ہونٹ رکھے جس سے ایک سیکنڈ لگا سیرت کو اپنی آنکھیں کھولنے میں۔۔۔۔ بلکہ اپنی آنکھیں کھولتے ہی اس نے ثوبان کو پیچھے دھکیلا


"کیا فضول حرکت ہے ثوبی"

سیرت کی انکھوں سے نیند رخصت ہوچکی تھی اب وہ ثوبان سے گھورتے ہوئے پوچھ رہی تھی


"اچھا مجھے ایسا لگا کہ تم اسی حرکت کے انتظار میں اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔ سوچا آج اپنے دن کا آغاز میں تھوڑا رومانٹک طریقے سے کر لیا جائے"

ثوبان شرارت سے بولتا ہوا اس کے قریب آیا


"پرے ہٹو شکل سے کتنے سیدھے اور بھولے لگتے اور حرکتیں دیکھو اپنی"

ایسا روپ اس نے ثوبان کا پہلی دفعہ ہی تو دیکھا تھا جو اس کے لیے بالکل نیا تھا، اس کو ایک بار پھر پیچھے کرتی ہوئی وہ واش روم میں چلی گئی،،، واپس آئی تو ثوبان اپنے موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا اس پر ایک نظر ڈال کر سیرت آئینے کے سامنے اپنے بال سنوارنے لگی ثوبان چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے دونوں شانے تھام کر بولا


"چلو جلدی سے تیاری پکڑو، بہت سارے کام ہیں پہلے تمہارے فلیٹ سے ضروری چیزیں لیں گیں۔۔۔۔ اپنے دوست سے میں نے فلیٹ کے سلسلے میں بات کی ہے تمہیں اور انکل کو وہاں شفٹ کروں گا اور پھر گھر جاؤں گا"

اس کے کندھے پر اپنی تھوڑی ٹکاتے ہوئے وہ اپنا پروگرام سیرت کو بتانے لگا


"دوسرے فلیٹ کی کیا ضرورت ہے میں اور ابا بھی تو فلیٹ میں ہی رہ رہے ہیں،،، کوئی ضرورت نہیں ہے شفٹنگ کی" سیرت کو اس کا آئیڈیا خاص پسند نہیں آیا وہ آئینے میں سے ثوبان کو دیکھتے ہوئے بولی


"ضرورت کیوں نہیں ہے تم اب میری ذمہ داری ہو اس فلیٹ کا ماحول زیادہ اچھا نہیں ہے،، اس لیے وہاں رہنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور رضوان (کیئر ٹیکر) انکل کے ساتھ ہی رہے گا اس لئے الگ روم کی ضرورت ہوگی۔۔۔ روزانہ شام کو میں چکر لگا لیا کروں گا کچھ دنوں کی بات ہے تب تک مما بابا سے بھی بات کر لوں گا"

ثوبان سیرت کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا وہ چپ ہو کر ثوبان کو دیکھنے لگی


"اتنی فرصت سے ابھی نہیں پھر کبھی دیکھ لینا،، جب میں بھی فری ہو بلکہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے"

ثوبان اس کی پیشانی پر اپنی پیشانی کے ٹچ کرتے ہوئے بولا دروازہ ناک ہوا تو ثوبان نے روم کا دروازہ کھولا


ثوبان کے آرڈر کرنے پر ناشتہ روم میں ہی آ گیا تھا جو ان دونوں نے کیا اور وہاں سے نکل گئے


****


وہ دونوں سیرت کے فلیٹ پہنچے فلیٹ میں استعمال کرنے کی کوئی ضروری چیز نہیں تھی سیرت الماری سے اپنے اور ناصر کے چند جوڑے نکال کر بیگ میں ڈالنے لگی جبکہ ثوبان وہی پلنگ پر بیٹھ گیا غیر ارادی طور پر الماری میں رکھی ہوئی ننھی سی گلابی فراک پر ثوبان کی نظر پڑی ایک گوندہ سا ذہن میں لپکا


"یہ کیا ہے سیرت" وہ بے اختیار اٹھ کر الماری کے پاس آیا اور فراک ہاتھوں میں لئے غور سے دیکھتے ہوئے بولا


"معلوم نہیں کیوں ابا نے میرے ان کپڑوں کو ابھی تک سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے،،، انہی کپڑوں اور اس گدے میں، مجھ گناہ کی پوٹ کو کوئی کچرے کے ڈھیر میں پھینک گیا تھا۔۔۔ فضول ہی ہیں یہ دونوں چیزیں میرے لیے انہیں پھینک دو"

سیرت نے ثوبان سے کہتے ہوئے بیگ میں کپڑے ترتیب سے کپڑے رکھنے شروع کیے اور بیگ کی زپ بند کی مگر ثوبان کا دماغ کہیں اور ہی تھا


جو تصویر یسریٰ نے انعم کی ثوبان کو دکھائی تھی یسریٰ کے کہنے کے مطابق یہ اسی دن کی تصویر ہے جب نوکرانی انعم کو اسکے گھر سے لے کر غائب ہوئی تھی


"کتنی دیر لگے گی تمہیں"

کمرے میں موجود شاپر میں چھوٹا سا گدا اور فراک ڈال کر، ثوبان نے سیرت سے پوچھا۔۔۔ وہ اب الماری کی ڈراز سے کچھ فائل وغیرہ نکالتے ہوئے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ رہی تھی


"دس منٹ تو دو مجھے،،، میرے کچھ ضروری ڈاکومنٹ ہیں انہیں رکھ لو" وہ مصروف انداز میں بولی


"ٹھیک ہے میں باہر میں ویٹ کر رہا ہوں تمہارا"

ثوبان کے بولنے پر سیرت نے سر ہلایا وہ سیرت کا بیگ اور شاپر لیے باہر نکل گیا کار میں پہنچ کر وہ دوبارہ سوچ میں پڑگیا


معلوم نہیں اس میں کتنی سچائی ہے اگر واقعی سیرت مما بابا کی بیٹی انعم ہے تو کتنا حیرت ناک انکشاف ہوگا۔۔۔۔


وہ دل میں سوچتا ہوا سیرت کا ویٹ کرنے لگا تھوڑی دیر میں وہ آگئی تو ثوبان نے کار اسٹارٹ کر دی


ناصر کو اسپتال سے لے کر اس نے سیرت اور ناصر کو اپنے دوست کے فلیٹ میں چھوڑا یہ فلیٹ اچھے علاقے میں تھا۔۔۔۔ تین کمروں کا یہ فلیٹ ان باپ بیٹی کے لیے کافی تھا اس کے بعد وہ پولیس سٹیشن آ گیا باقی کے کاموں میں پھنسا رہا مگر دماغ بار بار گاڑی میں رکھی فراک میں اٹکا رہا


****


رات کے کھانے کی ٹیبل پر وہ چاروں موجود تھے ارے واہ بھئی لگتا ہے میری بیٹی کوکنگ کا شوق چڑھا ہوا ہے بہروز نے قیمہ پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا تو رنعم نے مسکرا دی


"رنم پیپرز کب ختم ہو رہے ہیں تمہارے" ثوبان نے کھانا نکالتے ہوئے اس سے پوچھا


"جی بھیئا اسی فرائیڈے کو لاسٹ پیپر ہے"

رنعم نے چاول اپنی پلیٹ میں نکالیتے ہوئے ثوبان کو جواب دیا


"دیکھ لیں بابا پیپرز اب ختم ہو جائیں گے اور رنعم اب کھانا بھی بنانا سیکھ گئی ہے۔۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے اب کچھ سوچنا پڑے گا اسکے لیے ہمیں"

ثوبان نے شرارت سے رنعم کو دیکھ کر بہروز کو مخاطب کیا بہروز مسکرانے لگا


"بھیا ایسی باتیں مت کریں ورنہ میں یہاں سے چلی جاؤ گی"

رنعم نے نظریں جھگاتے ہوئے ثوبان سے کہا کیوکہ دو آنکھیں اور بھی اسی کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھی


"چپ کر کے بیٹھ کر کھانا کھاو اور اگلی دفعہ نمک پر ہلکا ہاتھ رکھنا۔۔۔ بابا آپ زیادہ مت کھائیے گا بی پی ہائی ہو جائے گا" ثوبان نے بہروز کو منع کیا کیوکہ نمک اچھا خاصا تیز ہوگیا تھا مگر رنعم نہ فیل کرے ثوبان نے اس کے ہاتھ کا بنا ہوا قیمہ تھوڑا سا نکالا جبکہ کاشان نے کسی دوسری چیز کو ہاتھ نہیں لگایا صرف رنعم کے ہاتھ کا بنا ہوا قیمہ کھایا۔۔۔


کھانے کے بعد کاشان بہروز سے اپنی جاب کے متعلق باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ ثوبان بھی صوفے پر بیٹھا ہوا تھا تب رنعم ان تینوں کے لیے چائے بنا کر لائی اور سرو کی


"بابا میرے پیپرز ختم جائیں گے تو پھر میں آنی کے گھر جاؤں گی ایک ہفتے کے لیے"

رنعم نے بہروز کو مخاطب کیا


"ٹھیک ہے میرا بیٹا چلی جانا"

بہروز کی اجازت پر رنعم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی مگر کاشان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے


"تھینک یو"

رنعم ٹرے رکھنے کے لیے کچن میں چلی گئی


"چینی کم میں شاید"

کاشان بولتا ہوا کچن میں گیا ثوبان بہروز سے باتیں کرنے لگا


****


رنعم ٹرے رکھ کر جانے کے لئے مڑی تو کاشان کچن میں داخل ہوا


"آپ۔۔۔۔ کچھ چاہیے تھا کیا"

رنعم نے کاشان کو دیکھ کر مخاطب کیا وہ چائے کا کپ تھامے چلتا ہوا اس کے قریب آیا


"آنٹی کل پرسوں واپس آجائیں گی تو پھر تمہیں جانے کی کیا ضرورت ہے"

رنعم کی بات کو اگنور کرتے ہوئے وہ اس سے بولا


"مما کے آنے سے کیا ہوتا ہے آنی کے پاس تو میں ہر سال روکنے کے لیے جاتی ہوں۔۔۔ وہ ہر سال ویٹ کرتی ہیں میرا"

رنعم نے مسکرا کر کاشان کو بتایا


"لیکن اب تم نہیں جاؤں گی"

کاشان کے سنجیدگی سے کہنے پر رنعم کی مسکراہٹ بھی تھم گئی


"مگر کاشان میری ایک ہی تو خالہ ہیں اور میں تو ہر سال ہی۔۔۔۔

ابھی رنعم کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کاشان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹا


آااا

گرما گرم چائے کے گرنے سے رنعم بری طرح چیخی اس نے پتلے سے اسٹیپ والی سلیپر پہنی ہوئی تھی اس لئے اس کے پاؤں زیادہ متاثر ہوئے


"کیا ہوا"

ثوبان اور بہروز رنعم کی آواز سن کر کچن میں آ گئے


"غلطی سے میرے ہاتھ سے کپ چھوٹ گیا رنعم کے پاؤں پر چائے گر گئی"

کاشان نے ان دونوں کو دیکھ کر جواب دیا جب کہ جلن کی وجہ سے رنعم نے رونا شروع کردیا ثوبان آگے بڑھ کر کندھوں کے گرد ہاتھ پھیلائے رنعم کو چپ کرانے لگا


"کاشی تمہیں دیکھنا تو چاہیئے تھا ایسے کیسے چھوٹ گیا کپ تمہارے ہاتھ سے سرخ ہو گئے اس کے پاؤں بری طرح" ثوبان کاشان پر برہم ہوتا ہوا بولا وہ ابھی بھی رنعم کو بچوں کی طرح چپ کرا رہا تھا


"چلو اس نے کون سے جان بوجھ کر گرایا ہے غلطی سے گرا ہے کپ۔ ۔۔۔۔یہاں آو رنعم بابا کے پاس"

بہروز نے کاشان کو چپ دیکھ کر رنعم کے آنسو صاف کیے مگر رنعم بہروز کے گلے لگ کر پھر رونے لگی


"آئی ایم سوری" کاشان نے بہروز کو دیکھتے ہوئے کہا


"کوئی بات نہیں میری بیٹی بہت بہادر ہے"

بہروز رنعم کو بہلاتے ہوئے کہنے لگا


"چلو شاباش اب اپنے روم میں جاگ کر سو جاؤں۔۔۔ ثوبان تم پرانی البم کو پوچھ رہے تھے وہ یسریٰ نے اسٹیڈی روم میں رکھی ہے" بہروز رنعم کو روم میں جانے کا کہہ کر ثوبان کی بات کا جواب دینے لگا جس پر ثوبان اثبات میں سر ہلا کر اسٹڈی روم میں چلا گیا تاکہ اپنی کنفیوزن دور کر سکے


****


کاشان اپنے روم میں ٹہلنے لگا پندرہ بیس منٹ گزرنے کے بعد وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا رنعم کے روم میں پہنچا اور دروازہ ہلکے سے ناک کیا رنعم کی آواز پر دروازہ کھول کر بیڈ روم میں داخل ہوا اور دروازہ بند کیا رنعم جو کہ اپنے بیڈ پر سونے کے غرض سے لیٹی ہوئی تھی کاشان کو دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئی کاشان چلتا ہوا بیڈ پر اس کے پاس آیا اور بیٹھ گیا


اس کے بیٹھنے پر رنعم نے اپنے پاؤں مزید سمیٹے مگر کاشان نے اس کے پاؤں پکڑ کر اپنی گود میں رکھے اور پاکٹ سے آئینٹمینٹ نکال کر اس کے پاوں پر لگانے لگا یہی عمل اس نے دوسرے پاؤں پر بھی دہرایا۔۔۔۔۔ رنعم اس کو دیکھنے لگی معلوم نہیں کیوں مگر اسے ایسا لگا جیسے کاشان نے کپ غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر۔۔۔۔


"تم دیکھنے میں ہی نہیں واقعی نازک سی ڈول ہو۔۔۔۔ چائے اتنی گرم بھی نہیں تھی جو جلن برداشت نہ ہو مگر پھر بھی سوری"

کاشان رنعم کو دیکھ کر کہنے لگا


"اتنی گرم نہیں تھی کیا مطلب آپ نے جان بوجھ کر چائے میرے پاوں پر گرائی تھی"

رنعم نے حیرت سے اسے دیکھ کر پوچھا یعنی جو وہ سوچ رہی تھی بالکل ٹھیک سوچ رہی تھی


"تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں نے جان بوجھ کر تم پر چائے گراو گا"

کاشان مزید اس کے قریب سرک کر پوچھنے لگا


"نہیں میرا وہ کہنے کا مطلب نہیں تھا"

کاشان کو سنجیدگی سے اپنے اوپر نظر جمائے اور قریب دیکھ کر وہ پیچھے بیڈ کے کراون سے ٹیک لگاتی ہوئی جلدی سے بولی


"مجھے نہیں معلوم تھا کہ کوئی لڑکی خوبصورت ہونے کے ساتھ اتنی معصوم بھی ہو سکتی ہے، میں نے اپنے لیے ایسی ہی لڑکی کی چاہ کی تھی۔۔۔۔ کسی بھی چیز کی عادت ہو جانا کوئی اچھی علامت نہیں ہے اور میں تمہارا ایڈک ہوتا جا رہا ہوں۔۔۔ اب تم خود بتاؤ پورے ایک ہفتے تم میری آنکھوں سے اوجھل رہوگی تو میرا کیا ہوگا۔۔۔ اس وجہ سے تمہیں جانے کے لیے منع کر رہا تھا تمہیں آنی کے گھر جانا ہے۔۔۔ چلو ایسا کرتے ہیں تمہارے لاسٹ پیپر میں ابھی کافی دن کا گیپ ہے،،، کل ہم دونوں انٹی کو لینے چلتے ہیں تم اپنی آنی سے بھی مل لینا اور واپسی پر ہم آنٹی کو بھی لے آئیں گے میں انکل سے اجازت لے لیتا ہوں"

رنعم کی سبز آنکھیں میں اداسی دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی کاشان نے رنعم کو اس کی آنی سے ملانے کا سوچا مگر وہ خود اس کے ساتھ جائے گا یہ زیادہ اچھا ہوگا۔۔۔ اس کا پروگرام سن کر رنعم خوش ہوگئی اور اسکو خوش دیکھ کر کاشان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی


"سو جاؤ اب میں انکل سے بات کر لیتا ہوں"

کاشان نے اسے شانوں سے تھام کر بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا اور خود اس کے بیڈروم کا دروازہ بند کر کے نکلا


سامنے سے سیڑھیاں چڑھ کر آتے ثوبان نے کاشان کو رنعم کے کمرے سے نکلتے دیکھا تو وہ ایک دم چونکاا

"تم کیا کر رہے تھے اس وقت رنعم کے روم میں"

کاشان کو رنعم کے روم سے نکلتا ہوا دیکھ کر ثوبان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے جو اس نے چھپائے بغیر کاشان سے پوچھا


"میں کیا کروں گا بھلا میں تو دیکھنے آیا تھا اس کے پاوں زیادہ تو نہیں جلے"

کاشان نے نارمل انداز اپناتے ہوئے ثوبان کو جواب دیا


"میرے روم میں آؤ" ثوبان کہتا ہوا روم میں چلا گیا کاشان نے لمبی سانس کھینچ کر اس کی پیروی کی


"دیکھو کاشی میں نے ابھی تک مما بابا سے تمہارے متعلق بات نہیں کی،، جب تک میں کوئی بھی بات نہ کرلوں تب تک تم ان خرافات سے گریز کرو"

ثوبان نے اس کو سنجیدگی سے سمجھایا صحیح بات تو یہ تھی کہ اسے یوں رات گئے کاشان کا رنعم کے روم میں جانا اچھا نہیں لگا


"اف ایسا کیا کر دیا میں نے،، تمہیں بتایا تو تھا پسند کرتا ہوں میں اسے، اس کا رونا دیکھا نہیں گیا اس لئے دیکھنے چلا آیا اور تم بات کرو گے کب۔۔۔ میرے خیال میں اب تک تمہیں آنٹی انکل سے بات کر لینی چاہیے"

کاشان نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"کاشی پلیز یار یہاں میں اپنی پریشانی میں الجھ کے رہ گیا ہوں،، تمہیں اپنی پڑی ہے"

کاشان کی بات سن کر ثوبان چڑ کر بولا


"اگر اتنے ہی پریشان ہو رہے ہے تو پھر نکاح کرنے کی ضرورت کیا تھی،،، یہ تو نکاح کرنے سے پہلے سوچنا تھا۔۔۔ ناصر نے تو فل ڈرامہ کر کے اس شیر کی خالہ کو تمہیں سونپ دیا اور دیکھو اسے کچھ ہو ابھی نہیں"

کاشان نے آرام سے چیئر پر بیٹھے ہوئے تبصرہ کیا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر ثوبان نے اسے بری طرح گھورا


"شرم کرو کاشی،، تم سمجھ رہے ہو کہ سیرت کے ابا نے ڈرامہ کیا ہے اور کیا تم انتظار کر رہے تھے کہ نکاح ہوتے ہی وہ بے ضرر انسان اللہ کو پیارا ہو جائے۔۔۔ آئندہ سیرت کو الٹے سیدھے نام سے مخاطب نہیں کرنا،، مجھے اسے نکاح کر کے کوئی پریشانی یا پچھتاوا نہیں ہو رہا ہے کوئی اور بات ہے جس کی وجہ سے میں الجھا ہوا ہوں مگر تم نہیں سمجھو گے جاو اپنے روم میں ریسٹ کرو"

ثوبان نے کاشان کو ڈپٹتے ہوئے کہا اور خود بھی بیڈ پر بیٹھ گیا


"اب تمہیں پریشانیوں میں الجھا ہوا چھوڑ کر تو میں ریسٹ کرنے سے رہا،،، چلو بتاؤ کیا پریشانی ہے جس نے تمہیں الجھا دیا ہے"

چیئر سے اٹھ کر وہ ثوبان کے برابر میں بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا اور سگریٹ سلگانے لگا


"یار تم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ سیرت کے اصلی ماں باپ کون ہیں"

ثوبان نے جس طرح کاشان کو دیکھ کر کہاں وہ بھی سب اس کو غور سے دیکھنے لگا


"اب یہ مت کہہ دینا کہ بہروز انکل اور یسریٰ آنٹی اس کے اصلی ماں باپ ہیں"

کاشان نے سگریٹ پیتے ہوئے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"بالکل ایسا ہی ہے" ثوبان ٹہرے ٹہرے لہجے میں بولا کاشان حیرت سے اسے دیکھنے لگا


"اور تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا"

کاشان کو بھی سن کر حیرت ہوئی پھر ثوبان نے آج صبح والا واقعہ اس کو بتایا


"یعنیٰ تمہاری بیگم کے سگے اماں ابا تمہارے مما بابا۔۔۔ اور تمہاری بیگم میری ہونے والی بیگم کی سگی بہن۔۔۔ دلچسپ سین ہوگیا یہ تو"

سگریٹ پینے کے ساتھ جتنی سنجیدگی سے کاشان نے پورا جملہ ادا کیا،، اپنے آخری جملے پر خود ہی ہنس پڑا ثوبان چپ کر کے اسے دیکھتا رہا


"تم اتنا سیریس کیوں ہو رہے ہو یار،، یہ تو اچھی بات ہے انٹی انکل کتنے خوش ہوگے جب ان کی بچھڑی ہوئی بیٹی اتنے برسوں بعد ان کو ملے گی تو"

کاشان نے اس کو ریلیکس کرنا چاہا


"مما بابا کے لیے واقعی یہ خوشی کی خبر ہے کاشی، مگر تم سیرت کو تو بچپن سے جانتے ہو میں سیرت کے بارے میں سوچ رہا ہوں،، اس خبر پر وہ کیسا رد عمل کا اظہار کریں گی یہی سوچ رہا ہوں میں"

ثوبان نے سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا


"اب تم کچھ زیادہ ہی سوچ رہے ہو۔۔۔ آنا تو اسے اسی گھر میں ہے چاہے ماں باپ کو ایکسیپٹ کر کے آئے یا تمہارے رشتے آئے پھر اس میں پریشانی والی کیا ہے۔۔۔ اچھا سنو وہ کل میں یسریٰ آنٹی کو لینے چلا جاؤں گا اور رنعم بھی مل لے گی اپنی آنی سے انکل سے تم اجازت لو گے یا پھر میں لے لو"

کاشان نے لگے ہاتھوں ثوبان کو بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھا


"رنعم کو ساتھ لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے،، وہ روکنے جائے گی تو ہفتے بعد"

ثوبان نے اس کو دیکھ کر کہا


"نہیں اس کا پروگرام چینج ہوگیا ہے پھر میں نے سوچا کہ آنٹی کو میں ہی لے آتا ہوں اور رنعم کو بھی ساتھ لے جاو تاکہ وہ فرح آنٹی سے مل لے"

کاشان نے نارمل انداز میں کہا تو ثوبان اسے دیکھنے لگا


"وہ تو ہر سال چھٹیاں گزارنے جاتی ہے آنی کے پاس اور تھوڑی دیر پہلے تو اس نے بابا سے اجازت لی تھی اتنی جلدی سے اس کا ارادہ کیوں بدل گیا"

ثوبان کی بات پر کاشان نے اس کو گھور کر دیکھا


"ثوبی تم کیا پولیس والے بن کر مجھ سے جرح کرنے لگ گئے ہو اب اس کا کیوں ارادہ بدل گیا یہ تم خود اپنی بہن سے پوچھ لینا"

کاشان کہتا ہوں اس کے روم سے جانے لگا


"کاشی رنعم بہت نازوں سے پلی بڑھی ہے مما چاہے کتنی ہی سختی کیوں نہ برت لیں اس کے ساتھ مگر اس کی چھوٹی سی تکلیف پر وہ تڑپ اٹھتی ہیں۔۔۔۔ بابا میں رنعم کی جان بستی ہے اور ان چودہ سالوں میں، وہ مجھے بہت عزیز ہوگئی ہے۔۔۔ آگے اس کا بہت خیال رکھنا ہوگا تمہیں"

ثوبان کی بات سن کر کاشان کے باہر جاتے قدم تھمے وہ پلٹ کر ثوبان کو دیکھنے لگا


"اس کی تم فکر نہیں کرو ڈول ہے وہ میری"

بے ساختہ کاشان کی زبان سے پھسلہ جس پر ثوبان نے اس کو گھورا


"اوہ سوری میں بھول گیا تھا کسی بھائی کے سامنے اس کی بہن کو ایسا نہیں کہنا چاہیے،، ریسٹ کرو تم بھی" کاشان کہتا ہوا روم سے نکل گیا


****


"ان سب چیزوں کی کیا ضرورت تھی بھلا"

دوسرے دن شام میں ثوبان سیرت کے پاس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو بڑے بڑے شاپر موجود تھے یقیناً وہ گھر کے لئے گروسری کا سامان لایا تھا تو سیرت نے اس کو دیکھ کر کہا


"یہ سب ہی ضرورت کی چیزیں ہیں۔۔۔ یہ بتاؤ انکل کی طبیعت کیسی ہے"

سارا سامان ٹیبل پر رکھتے ہوئے ثوبان نے سیرت سے پوچھا


"ابا کی ماشااللہ کل کے مقابلے میں کافی بہتر طعبیت ہے تم بیٹھو ابا کے پاس میں چائے لاتی ہوں"

سیرت بولتی ہوئی کچن میں چلی گئی ثوبان ناصر کے روم میں آیا اس کی خیریت دریافت کی،، ثوبان کو ناصر کی طبعیت کل کے مقابلے میں بہتر لگی مگر عمر کا تقاضہ تھا اب پہلے جیسی پھرتی اس میں نہیں رہی تھی وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا ثوبان نے جو کئیر ٹیکر اس کے لئے ارینج کیا تھا وہ اپنی ڈیوٹی دے کر رات کو چلا جاتا یہ فلیٹ بھی ثوبان کے دوست کا ہی تھا جس میں پہلے سے فرنیچر موجود تھا اس لئے ثوبان کے کہنے پر سیرت صرف اپنے اور ناصر کے کپڑے پرانے فلیٹ سے لائی تھی


"تم اب رات کا کھانا کھا کر جانا"

سیرت ثوبان کے لیے چائے لے کر روم میں آئی تو آئستہ آواز میں اس سے کہنے لگی کیوکہ ناصر چند منٹ پہلے دوبارہ غنودگی میں چلا گیا تھا


"نہیں تم انکل کے لیے کچھ لائٹ سا کھانا بنا دو،،، ہم دونوں کھانا باہر ہی کھالے گیں تم ریڈی ہو جاؤ ہم تھوڑی دیر میں باہر جا رہے ہیں۔۔۔ تم اپنے لیے کچھ ڈریسسز اور جو بھی ضرورت کی چیزیں ہو وہ لے لینا"

ثوبان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اپنا پلان بتایا تو سیرت اس کے سامنے بیٹھ گئی


"ثوبی فضول خرچی کی کیا ضرورت ہے میرے پاس ساری چیزیں موجود ہیں"

سیرت نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے جواب دیا تو ثوبان نے اس کا ہاتھ تھاما


"فضول خرچی کی کیا بات ہے یہ تو تمہارا حق ہے، بیوی ہو تم میری تمھاری ساری ضرورتوں کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے"

ثوبان سیرت کو دیکھ کر کہنے لگا تو سیرت آئستہ سے مسکرا دی۔۔۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی یقیناً اس نے ایک اچھے انسان کا انتخاب کیا ہے


"ایک بات پوچھوں سیرت تم سے"

ثوبان نے چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھ کر اب سیرت کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں تھاما تو سیرت سے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی


"فرض کرو اگر تمہیں تمہارے ریئل پیرنٹس کا معلوم ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم کسی حادثے کے سبب ان سے بچھڑی ہو۔۔۔ تمہیں وہ اب بھی یاد کرتے ہیں تو تم کیا چاہو گی"

ثوبان نے غور سے سیرت کو دیکھ کر سوال کیا


"اگر مجھے میرے اصلی ماں باپ کا معلوم ہوجاتا ہے تو میرے لیے یہ نارمل سی بات ہوگی۔۔۔ نہ ہی مجھے اس بات سے کوئی خوشی ہوگی نہ ہی غم کیوکہ ان کے لئے میرے اندر کوئی بھی فیلنگسز نہیں ہیں۔۔۔۔۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تب سے مجھے معلوم تھا کہ ابا نے مجھے کچرے سے اٹھایا ہے مگر اماں ابا نے مجھے پالا، بالکل اسی طرح میری پرورش کی جیسے وہ اپنی سگی اولاد کی کرتے۔۔۔۔ اس لیے مجھے کبھی ایسا خیال نہیں آیا کہ کیو مجھے میرے ماں باپ کچرے کی نظر کر گئے۔۔۔ اگر کبھی آگے زندگی میں مجھ سے میرے ماں باپ کا سامنا ہوا بھی تو میرے دل میں کبھی ان کے لیے ٹھاٹھیں مارتی محبت جنم نہیں لے پائے گی،، اگر وہ مجھے یاد کرتے بھی ہوگیں تو میں انہیں یہ مشورہ دوں گی جیسے 22 سال آپ نے میرے بغیر گزار دیئے ویسے ہی اپنی باقی زندگی بھی گزار دیں کیوکہ اب اس دنیا میں میرے لئے جو بھی کچھ ہے وہ صرف یہی انسان ہے"

سیرت نے آنکھیں بند کیے ناصر کی طرف اشارہ کر کے کہا اس کی بات سن کر ثوبان چپ ہوگیا


"اب اس طرح خاموش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ابا کے ساتھ ساتھ تم بھی میری زندگی سے منسلک ہوگئے ہو اس لئے میرے لیے معنی رکھتے ہو خیر تم بیٹھو میں چینج کر کے آتی ہوں" ثوبان کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ دوسرے روم میں چلی گئی


*****


بہروز کی اجازت پر کاشان اور رنعم یسریٰ کو لینے کے لئے بائی روڈ حیدرآباد کے لیے نکلے،،، راستے بھر کاشان ڈرائیونگ کے دوران رنعم سے چھوٹی موٹی باتیں کرتا رہا کاشان کے سنگ یوں سفر کرنا اور اس کا یوں باتیں کرنا رنعم کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔ وہ اتنا زیادہ ریزرو نیچر کا بھی نہیں تھا، جتنا لگتا تھا۔۔۔ بس جن لوگوں سے اسکی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہو جاتی وہ ان سے ہی فرینگ ہوتا۔۔۔۔ ڈرائیونگ کے دوران رنعم کی آنکھ لگ گئی تو کاشان نے اس کے آرام کے خیال سے میوزک بند کر دیا۔۔۔ کچی روڈ پر بھی وہ بہت احتیاط سے ڈرائیونگ کر رہا تھا تاکہ رنعم کی نیند ڈسٹرب نہ ہو۔۔۔۔ رنعم نیند میں بھی اسکی کیئر کرنا محسوس کر رہی تھی کل رات غلطی سے یقیناً اس کے ہاتھ سے کپ چھوٹا ہوگا بھلا وہ جان بوجھ کر اسے کیوں تکلیف پہنچائے گا۔۔۔ کچی نیند میں یہ سوچتے سوچتے وہ پوری طرح نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔ جب وہ دونوں فرح کے گھر پہنچے تو ان دونوں کو اکھٹا دیکھ کر جہاں یسریٰ خوش ہوئی وہی فرح کو ان دونوں کا ایک ساتھ یوں آنا کچھ اچھا نہیں لگا


ثوبان کی تو الگ بات تھی مگر یہ ثوبان کا بھائی فرح کو کچھ خاص پسند نہیں آیا مگر وہ پہلی دفعہ اس کے گھر آیا تھا اس لیے مسکرا کر ملتے ہوئے مہمان نوازی کے تقاضے پورے کیے۔۔۔ عاشر بھی کاشان سے اچھے طریقے سے ملا مگر وہ عاشر سے سرسری انداز میں بات چیت کر رہا تھا جسے رنعم نے تھوڑا فیل کیا

"رنعم تمہیں آنی کی یاد آرہی تھی نہ جاؤ ان سے باتیں کرو اور کھانے میں ان کی ہیلپ کرو"

رنعم عاشر کی باتوں کا جواب دینے لگی تو کاشان نے نارمل سے انداز میں رنعم کو دیکھ کر کہا رنعم مسکرا کر وہاں سے اٹھ گئی کیوکہ بے شک کاشان کا انداز نارمل تھا مگر آنکھوں وارننگ کرتی ہوئی

رات کے دس بجے وہ لوگ واپسی کے لیے نکلے واپسی کا سفر بھی اچھا گزرا مگر اب رنعم پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور زیادہ تر خاموشی تھی یسریٰ اور کاشان کی باتیں سن رہی تھی البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کاشان گاڑی کے شیشے سے نظر ڈال کر رنعم کو دیکھ کر اسمائل دے دیتا

"اُف میں اتنی دیر تک سوگیا تم نے اٹھایا بھی نہیں مجھے"

آج ہفتے بعد ناصر کا دوسرا ڈائیلائسس تھا ڈیوٹی کے بعد ثوبان،، سیرت اور ناصر کو اسپتال لے گیا۔۔۔ وہاں سے فارغ ہوکر ان دونوں کو گھر چھوڑا۔۔۔۔ خود واپس اپنے گھر جانے کا ارادہ کیا مگر سیرت کی ضد کے باعث "کھانا یہی کھا کر جاو" اسے رکنا پڑا کیوکہ کل اس کی اور کاشان کی برتھ ڈے تھی۔،۔۔۔ کل وہ چاہ کر بھی ٹائم نہیں نکال پاتا کہ سیرت کے پاس چکر لگائے۔۔۔۔ کھانے کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی اسے خبر ہی نہیں ہوئی۔۔۔۔ سیرت کے جگانے پر اس کی آنکھ کھلی تو مغرب کا وقت ہو رہا تھا


"اچھی گہری نیند سو رہے تھے اس لیے اچھا نہیں لگا اٹھانا" سیرت نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر کہا


"میں سو رہا تھا مگر تم کیا کر رہی تھی"

وہ سیرت کو خود سے قریب کر پوچھنے لگا


"تمہیں دیکھ رہی تھی"

سیرت نے مسکرا کر جواب دیا اسے اندازہ نکاح کے بعد ثوبان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ اپنا گھر اور اب وہ ڈیلی یہاں پر بھی وہ چکر لگاتا تھا


"تم بس دور دور سے ہی دیکھتی رہا کرو"

ثوبان سیرت سے کہتا ہوا اس کی گردن پر جھکا


"ثوبی یہ کیا بدتمیزی ہے پیچھے ہٹو"

اسکے ہونٹوں کو اپنی شہ رگ پر محسوس کر کے سیرت نے اسے پیچھے ہٹانا چاہتا مگر شاید وہ پیچھے ہٹنے کے موڈ میں نہیں تھا اسے بانہوں میں لے کر بیڈ پر آیا


"ثوبی تم ہوش میں ہو کہ نہیں"

ثوبان کے دوبارہ جھکنے پر وہ اس کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بولی


"اس وقت بالکل موڈ نہیں ہے میرا ہوش میں رہنے کا چپ کر کے مجھے اپنی سستی اتارنے دو"

وہ سیرت کے ہاتھ اپنے سینے سے ہٹاتا ہوا بولا


"یہ سستی اتارنے کا تم نے کونسا بہودہ طریقہ نکالا ہے اب تمہیں کبھی کھانے پر نہیں روکوں گی"

وہ اپنی سستی اتارنے میں مگن تھا اور سیرت مسلسل بولنے میں


"مجھے تو لگتا ہے ڈارلنگ تم نے کھانے میں کچھ ملا دیا تھا اب بھگتو"

اس سے پہلے سیرت اس الزام پر کچھ بولتی ہو نرمی سے اس کا منہ بند کر چکا تھا


"اری سیرت"

چند منٹ کی خاموشی کو ناصر کی آواز نے توڑا تو ثوبان پیچھے ہٹ کر بیڈ سے اٹھا


"آئی ابا"

سیرت لڑکھڑاتی آواز میں کہا اور سرخ چہرہ لئے ثوبان کو دیکھنے لگی مگر وہ مسکراتا ہوا اسی کو دے رہا تھا


"چائے تھوڑی ٹھنڈی ہوگئی ہے، سستی بھگانے کے چکر میں"

ثوبان سر کجاتا ہوا سیرت کو دیکھ کر بولا


"چپ کر کے ٹھنڈی چائے پیو ورنہ یہ کپ تمہارے سر پر توڑ دوگی"

وہ دوپٹہ درست کرتی ہوئی روم سے باہر نکلی ثوبان بھی چائے گا کپ لیے ناصر کے روم میں چلا گیا


****


کاشان آفس میں موجود لیپ ٹاپ پر بڑے انہماک سے اپنا کام کر رہا تھا تب مایا خود اس کے روم میں آکر اس سے کسی ضروری فائل کا پوچھنے لگی جس کا کاشان سرسری انداز میں جواب دیا اور دوبارہ اپنے کام میں بزی ہو گیا تو مایا اسکی چیئر کے پیچھے جا کر نیچے جھکتی ہوئی لیپ ٹاپ کی اسکرین دیکھنے لگی


"آخر ایسا کون سا ضروری کام ہے جو آپ نے مایا پر ایک نظر ڈالنا ضروری نہیں سمجھا"

مایا کاشان کے کان میں سرگوشی کرتی ہوئی بولی تو کاشان کی تیزی سے کی بورڈ پر چلتی ہوئی انگلیاں روک گئی


"آپ کو اگر اپنی مطلوبہ فائل نہیں مل رہی تو میں ریاض سے کہہ کر آپ کے روم میں بھجوا دیتا ہوں"

کاشان نے ابھی بھی اس کے اوپر نظر ڈالنا گوارا نہیں کی وہ اسکرین کو ہی دیکھ کر بولنے لگا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا مایا اس کا انداز دیکھ کر مسکرائی


"تو آپ مجھے اپنے روم سے نکلنے کے لیے بول رہے ہیں" مایا گھوم کر چیئر پر اس کے سامنے بیٹھ کر پوچھنے لگی


"ماشاءاللہ سے کافی باشعور خاتون ہیں آپ"

کاشان کے دوبارہ طنز پر وہ ڈھیٹ بن کر مسکرائی۔۔۔ یونہی باتوں ہی باتوں میں کاشان اس کی عزت افزائی کرتا رہتا اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک نوکری سے فارغ ہو چکا ہوتا مگر وہ کاشان کے لیے کوئی ایکشن نہیں لیتی تھی۔۔۔۔ اور یہ بات کاشان کو بھی نہیں سمجھ میں آتی ہے کہ ہفتے دس کے دن بعد مایا کو کیا دورہ پڑتا کہ وہ کاشان کو زچ کرنے پر اتر آتی۔۔۔ پھر کاشان کے ردعمل پر مسکراتی ہے


"حامد گروپ اف انڈسٹریز کے آنر سے آج ہماری میٹنگ ہے سوچا میں خود آپ کو آگاہ کر دو، چار بجے ریڈی رہیے گا" اب کے مایا کی بات پر کاشان نے اس کو دیکھا


"مگر شکیب صاحب تو ان کے ساتھ کسی بھی ڈیلنگ کے لیے منع کرچکے ہیں پھر اس میٹنگ کا مقصد"

کاشان نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا تو مایا نے اسمائل دی


"ڈیلینگ کے لیے منع کیا ہے مگر ان کی آفر سننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے اس میں ہماری کمپنی کا مفاد ہو"

مایا کے کہنے پر کاشان نے سر ہلا دیا


"ٹھیک ہے میں چار بجے ریڈی رہوگا" کاشان اس کو بولتا ہوا دوبارہ لیپ ٹاپ میں بزی ہوگیا۔۔۔۔ مایا اس کے روم سے چلی گئی


آج اس کی اور ثوبان کی برتھ ڈے کا دن تھا یسریٰ نے اسے صبح ہی وش کر دیا تھا اور گھر جلدی آنے کو کہا تھا یقیناً یسریٰ نے ان دونوں کے لیے کچھ اسپیشل ارینجمنٹ کیا تھا مگر اب اس کو گھر جلدی جانا ممکن نہیں لگ رہا تھا اس لیے وہ یسریٰ کو ٹیکسٹ میں اپنے گھر لیٹ آنے کا بتانے لگا


واٹس اپ پر رنعم کے میسج پر اس کی نظر پڑی تو کاشان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی،،، رات میں رنعم نے میسج پر اسے وش کیا تھا جس کے رپلائی میں کاشان نے اسے تھینکس کا میسج کیا۔۔۔۔ صبح کاشان کی آنکھ کھلی تو رنعم کا دوبارہ میسج آیا ہوا تھا جس میں برتھ ڈے سے ریلیٹڈ پوئٹری رنعم نے اس کو سینڈ کی تھی جس پر کاشان نے اسکو اسمائیلی اموجی سینڈ کیا


جب وہ آفس پہنچا تو دو تین میسجز مزید رنعم کے واٹس اپ پر شو ہو رہے تھے جس میں بیسٹ ویشیز اور آج کے دن کی مبارک بات تھی،، جس کو پڑھ کر کاشان نے اسے ہارٹ سینڈ کیا


اس کے بعد رنعم نے اسے کیک کی پیکچر کے ساتھ بہت سارے بالون سینڈ کئے جس پر کاشان نے اسے اسمائل کے ساتھ "مائی ڈول" لکھ کر سینڈ کیا۔۔۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے میسج ٹون پر کاشان نے دوبارہ رنعم کا میسج دیکھا اور لمبا سانس کھینچ کر اس نے میسج چیک کیا جس میں برتھ ڈے کارڈ تھا کاشان نے ڈھیر سارے کس والے ایموجی رنعم کو سینڈ کر دیے اور جب سے ہی اس کے میسجز پر بریک لگا ہوا تھا۔۔۔۔ کاشان نے مسکراتے ہوئے موبائل ٹیبل پر رکھ دیا


****


"تمہارا بھی کوئی جواب نہیں ہے رنعم کوئی برتھ ڈے والے دن ہی برتھ ڈے کا گفٹ لیتا ہے۔۔۔ پورے تین گھنٹے خوار کر کے تمہیں یہ شرٹ اور پرفیوم پسند آیا ہے"

یشعل نے چیئر پر بیٹھ کر اپنے اور رنعم کے لئے آئس کریم کا آرڈر کرتے ہوئے رنعم سے کہا


"یار بھیا کی چوائس کا تو مجھے معلوم ہے ان کے لیے تو میں گفٹ کب کا لے چکی تھی مگر کاشان کو فرسٹ ٹائم گفٹ دے رہی ہوں اس لیے کنفیوز تھی۔۔۔۔ پیپر کی وجہ سے میرا گفٹ لینے کے لیے پہلے نکلنا نہیں ہوا"

رنعم نے آج صبح ہی یسریٰ سے منت کر کے یشعل کے ساتھ کاشان کے لئے گفٹ لینے کا پروگرام بنایا اور کافی دیر بعد اسے ایک شرٹ اور پرفیوم کاشان کے لیے پسند آئی یعشل اور وہ اس وقت گفٹ خرید کر ہوٹل میں بیٹھی ہوئی تھی


"پورے تین گھنٹے کا وقت لگا کر رنعم بی بی نے کاشان صاحب کے شانِ شیان کچھ پسند کیا ہے یعنی دال میں کچھ کالا ہے پکا والا"

یعشل نے رنعم کو دیکھتے ہوئے شرارتاً کہا


"پاگل ہوگئی ہو کیا ایسی کوئی بات نہیں ہے،، بھیا کے بھائی ہیں وہ ہماری فیملی کا حصہ۔۔۔ جبھی سوچ سمجھ کر گفٹ لینا تھا"

رنعم کی بودی سی وضاحت یعشل کو ہضم کرنا مشکل ہوئی


"مگر مجھے لگتا ہے تم بھیا کے بھائی کو،، بھیا نہیں سائیاں سمجھتی ہوں جبھی تمہارے منہ سے کاشان کے لیے بھیا نکلنا تھوڑا مشکل ہو رہا ہے۔۔۔۔ رنعم اب کم از کم مجھ سے تو مت شرماؤ بتا بھی دو کیا بات ہے"

یعشل نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو رنعم کے چہرے پر کئی رنگ ایک ساتھ آئے


"معلوم نہیں ہوا دل کب کیسے ان کی طرف مائل ہو گیا۔۔۔۔ تھوڑے اکڑو ٹائپ انسان ہیں مگر دل کے برے نہیں،،، اچھا لگتا ہے ان کے ساتھ وقت گزارنا"

رنعم نے مسکراتے ہوئے یشعل کے ساتھ اپنی فیلنگسز شئیر کی


اچانک رنعم کی نظر ایک خوبصورت اور ماڈرن سی لڑکی پر پڑی جو کہ اس سے تین سیٹ چھوڑ کر کسی آدمی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی معلوم نہیں کیوں رنعم کو لگا جیسے وہ کاشان ہو۔۔۔۔ الجھن دور کرنے کے لیے رنعم اٹھی اور اس کے ٹیبل کی طرف بڑھی


****


مایا اسے میٹنگ کا کہہ کر ہوٹل میں لے آئی تھی۔۔۔۔۔ کاشان بار بار گھڑی دیکھنے میں مصروف تھا


"کتنے بجے میٹنگ کا ٹائم دیا تھا آپ نے" کاشان نے چہرے پر بیزاری لائے تیسری دفعہ پوچھا ویسے ہی ویٹر ایک کیک لے کر آیا اور ٹیبل پر رکھا جس پر مایا نے مسکرا کر اسے دیکھا


"مینی مینی ہیپی ریٹرنز آف دی ڈے کاشان"

مایا کینڈلز جلاتی ہوئے بولی جس پر کاشان نے غصے سے لب بھینچے اب وہ اس کا پلان سمجھا یقیناً یہاں پر کوئی میٹنگ نہیں تھی وہ جھوٹ بول کر اسے یہاں لے کر آئی تھی کاشان کا دل چاہا کہ اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دے


"یہ کیا فضول قسم کی حرکت ہے مس مایا،، اس بے ہودگی کی وجہ سے آپ مجھے یہاں لائی ہیں"

کاشان نے تیز لہجے میں اس سے دریافت کیا


"اسے فضول حرکت نہیں کہتے کاشان سرپرائز برتھ ڈے وش کرنا کہتے ہیں۔۔۔ فرینڈ میں تو اس طرح چلتا ہے اور میں تمہیں فرینڈ سے کچھ زیادہ سمجھتی ہو،،، اس کا تو تمہیں اب تک اندازہ ہوگیا ہوگا"

مایا نے اس کی بات کا برا مانے بغیر اپنی محبت کا اعتراف کیا جس پر کاشان کو مزید خار چڑھی


"سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں آپ کا فرینڈ نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اس طرح کے سرپرائز پسند ہیں۔۔۔ آپ سر شکیب کی بیٹی ہیں اس لحاظ سے میں آپ کا احترام کرتا ہوں آئندہ کوئی ایسی دوسری حرکت کر کے میرے سامنے اپنا امیج مزید خراب مت کریئے گا"

کاشان نے سوچا آج اس کی طبیعت اچھی طرح صاف کر ہی دےے


"واٹ ڈو یو مین مزید امیج مت خراب کرئیے گا،،، اگر محبت میں پہل لڑکی کردے تو اس میں امیج کہاں سے آگیا"

مایا کو شاید کاشان کی بات بری لگی جبھی وہ بولی


"میں ان مردوں میں سے ہرگز نہیں ہوں،، جو سامنے بجھی ہوئی عورتوں کی محبت پر سرشار ہو"

کاشان کے الفاظ اور انداز پر مایا بری طرح سلگی


"کیا۔۔۔۔ تم نے مجھے بچھی ہوئی عورت کہا،،، تمہاری ہمت کیسے ہوئی مایا کو اس طرح مخاطب کرنے کی۔۔۔ آخر تم میں غرور کس بات کا ہے،، کس بات پر اتنا اکڑتے ہو۔۔۔۔۔ آخر کون ہے وہ جس کے پیچھے تم مایا کو نظر انداز کر رہے ہو۔۔۔ مقابلہ کرسکتی ہے کوئی میرے آگے،، کیا نہیں ہے میرے پاس دولت اسٹیٹس حسن۔۔۔ ارے خوش نصیب ہو تم جو مایا نے تمہیں اپنے لئے چنا"

وہ ابھی بھی کاشان کو مزید کچھ کہتی مگر کاشان کی نظر سامنے رنعم پر پڑی


"رنعم"

وہ چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا تو مایا بھی چپ ہو کر اس لڑکی کو دیکھنے لگی جس کے لیے کاشان ایکدم کھڑا ہوکر اس کی طرف بڑھا


رنعم نے ایک نظر اس ماڈرن لڑکی پر،، پھر ٹیبل پر رکھے کیک اور کاشان پر ڈالی چپ کر کے کاشان کی بات سنے بغیر ہوٹل سے باہر نکل گئی جبکہ کاشان مایا پر قہر بھری نظر ڈال کر رنعم کے پیچھے باہر نکلا


"اوہ تو یہ بات ہے ساری"

مآیا نے رنعم کے پیچھے کاشان کو جاتے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگی


"تمہیں آواز نہیں آرہی ہے میری کب سے پکار رہا ہوں میں"

رنعم ہوٹل سے باہر جاکر رکی تو کاشان نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر باروعب لہجے میں اسے مخاطب کیا


"مما ویٹ کر رہی ہوں گیں گھر جانا ہے مجھے جلدی۔۔۔ آپ کو اٹھ کر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ کریں آپ"

وہ اسے دیکھے بغیر سامنے گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے بولی وہ الگ بات تھی آنکھیں اس کی سرخ ہورہی تھی جیسے ابھی وہ رو دے گی


"او تو یہ دکھ میری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے پر ہے،، اندر چلو میرے ساتھ"

اس طرح شکوہ کرتے ہوئے وہ کاشان کو وہ اور بھی کیوٹ لگی۔۔۔۔ کاشان نے اس کے آگے ہاتھ بڑھا کر کہا


"نہ ہی مجھے کوئی دکھ ہے اور نہ ہی مجھے واپس جانا اور نہ ہی مجھے آپ کی کوئی وضاحت چاہیے"

رنعم کو اس وقت اس سے ذرا ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا بلکہ الٹا اپنے اوپر رونا آنے لگا


"تو تمہیں وضاحت دے کون رہا ہے،، اندر چلو میرے ساتھ آج کسی اور کو کچھ باور کرانا ہے"

کاشان اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے جانے لگا سامنے سے آتے جاتے لوگ شاید جوان مرد کا یوں ایک نازک سی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کا انداز محبت بھرا لگ رہا ہوں۔۔۔۔ مگر کاشان کے ہاتھ کی سختی رنعم اچھی طرح محسوس کرسکتی تھی


سامنے سے یعشل رنعم کا ہینڈ بیگ اور گفٹ پیک جو کہ شاپر میں موجود تھا لے کر باہر آ رہی تھی،،، کاشان نے اس کو دیکھ کر بھی رنعم کا ہاتھ نہیں چھوڑا


"تم اکیلے کہاں چلی گئی تھی اپنا سامان چھوڑ کر گھر نہیں چلنا کیا واپس" یعشل نے کاشان کو سلام کر کے رنعم کو مخاطب کیا اور بیگ اور شاپر اسے تھمایا تو کاشان نے رنعم کا ہاتھ چھوڑا


"میں بھی گھر کے لئے ہی نکل رہا ہوں رنعم کو ساتھ ہی لے جاؤں گا"

رنعم کی بجائے کاشان نے ہلکی سی اسمائل کے ساتھ یعشل کو جواب دیا جس پر یہ یعشل نے کندھے اچکا کر اوکے کہا اور خدا حافظ کہہ کر اپنی کار کی طرف چلی گئی


کاشان نے دوبارہ رنعم کا ہاتھ پکڑا اور اسے ہوٹل کے اندر لے کر آیا جہاں مایا موجود تھی شاید وہ بھی اپنا بیگ کاندھے پر لٹکائے خراب موڈ کے ساتھ گھر کے لئے نکلنے والی تھی جبھی اسے سامنے سے کاشان اسی لڑکی کے ساتھ اندر آتا دکھائی دیا۔۔۔ ان دونوں کو ہاتھ تھامے اپنی طرف آتا دیکھ کر مایا اپنا غصہ ضبط کرنے لگی


"ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھ سے پوچھ رہی تھی آخر کون ہے وہ لڑکی جس کے پیچھے میں آپ کو نظر انداز کرتا ہوں۔۔۔۔ اس سے ملیں یہ ہے رنعم۔۔۔۔ جس کے آگے مجھے اور کوئی دوسری لڑکی اچھی ہی نہیں لگتی،،، آپ نے اپنے پاس موجود چیزوں کے بارے میں مجھے بتایا حسن، دولت، عزت، نام بے شک آپ ان چیزوں کی مالک ہیں مگر دو ایسی چیزیں رنعم کے پاس ہیں جس سے آپ محروم ہیں جاننا چاہیے گی آپ، وہ کیا چیزیں ہیں"

کاشان نے مایا کو دیکھ کر سوال پوچھا جس پر وہ چپ کھڑی غصے میں ان دونوں کو گھور رہی تھی جبکہ رنعم کنفیوز کھڑی کبھی مایا کو تو کبھی کاشان کو دیکھنے لگی


"میم اس کی آنکھوں میں شرم ہے جو کہ میں نے آج تک کبھی آپ کی آنکھوں میں نہیں دیکھی اور دوسری چیز اس کے پاس کاشان احمد ہے اور میری نظر میں آپ کا اور اس کا کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا"

کاشان مایا کو کہتا ہوئے دوبارہ رنعم کا ہاتھ تھامے اسے وہاں سے باہر لے گئے جبکہ مایا ان دونوں کو جاتا دیکھتی رہی


****


"میں ان مردوں میں سے نہیں ہو جو جگہ جگہ منہ مارتا پھروں۔۔۔۔ جو ایک بار دل میں بس گیا وہ ہمیشہ کے لیے بس گیا،، یہ وضاحت اب میں زندگی میں دوبارہ کبھی تمہیں نہیں دوں گا"

ڈرائیونگ کے دوران کاشان نے رنعم کو دیکھتے ہوئے کہا پھر ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی رنعم نے ایک دو مرتبہ گردن موڑ کر اسے دیکھا اس سے بات کرنی چاہی مگر وہ بالکل خاموش ڈرائیونگ کر رہا تھا تو رنعم نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔۔۔۔


شام میں چائے پر یسریٰ نے اچھا خاصا ارینجمنٹ کیا ہوا تھا سب گھر کے فرد تھے جن کے درمیان کاشان اور ثوبان نے کیک کاٹا رات کا کھانا معمول سے تھوڑا لیٹ کھایا گیا اس کے بعد بہروز، ثوبان اور کاشان روز کی طرح باتوں کے درمیان چائے پی رہے تھے جبکہ یسریٰ اور رنعم اپنے اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں


رنعم کو بار بار آج مایا کے سامنے کاشان کے کہے ہوئے الفاظ یاد آ رہے تھے جس سے وہ اندر تک سرشار ہو گئی تھی،، بیڈروم کا دروازہ آہستہ سے ناک ہوا تو اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا ابھی بارہ بجنے میں دس منٹ تھے عموما اس وقت سب اپنے روم میں موجود ہوتے تھے رنعم نے دروازہ کھولا تو سامنے کاشان کو موجود پایا پیچھے ہٹ کر کاشان کو اندر آنے کا راستہ دیا کاشان نے روم میں آکر دروازہ بند کیا


"آج تم نے کھانے میں کوئی ڈش نہیں بنائی اپنے ہاتھوں سے"

کاشان نے رنعم کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا جس پر رنعم چونکی یعنی 15 دنوں میں وہ اس کے ہاتھ سے بنے کھانے کے ذائقے کو اس حد تک پہچاننے لگ گیا تھا


"آج مما نے کچن میں جانے ہی نہیں دیا نہ ہی کک کو کچھ بنانے دیا بلکہ آج انہوں نے اسپیشلی خود آپ کے اور بھیا کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا بنایا"

رنعم آئستہ آواز میں اسے بتانے لگی


"جبکہ آج میرا اسپیشل ڈے تھا اس لحاظ سے تو تمہیں کھانا بنانا چاہیے تھا، خیر آج کی معافی ہے مگر اب ڈیلی میرے لیے کھانا تم بناؤں گی۔۔۔ چاہے کہیں بھی جانا ہو کوئی بھی گیسٹ آئے یا کچھ بھی ہو"

وہ رنعم کو دیکھتا ہوا بولا


"آپ کو اچھے لگتے ہیں میرے ہاتھ کے کھانے"

رنعم نے خوش ہو کر کاشان سے پوچھا


"اب میں نے ایسا بھی کچھ نہیں کہا"

کاشان کے جملے پر رنعم نے اپنے لبوں کو سکھیڑا۔۔۔ وہ اب بھی دلچسپ نظروں سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے اسی کو دیکھ رہا تھا


"کیا ہوا اپنی تعریف سن کر آج تمہارا دل نہیں بھرا کہو تو پھر سے شروع ہو جاؤ"

وہ یقیناً آج دوپہر کی بات کا ذکر کر رہا تھا


"اب میں نے ایسا بھی خوش نہیں کہا"

رنعم نے اس کو دیکھ کر بولا تو کاشان مسکرایا


"ویسے تم مجھے آج صبح سے موبائل پر 20 بار وش کرچکی ہوں ایک بار فیس ٹو فیس وش کرو تاکہ میں ٹھیک سے تھینکس بول سکو"

کاشان بولنے کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے لبوں تک لے گیا،،، رنعم کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوا وہ بار بار اسے وش کر کے اپنی شامت خود لاچکی تھی۔۔۔۔


"کاشان پلیز"

رنعم نے جیسے ہی اپنا ہاتھ کاشان کے ہاتھ سے چھڑایا،، مگر دوسرے ہی لمحے رنعم کے بال اس کی مٹھی میں قید تھے


"کہا تھا نہ میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ مت چھڑانا"

رنعم کے بال اپنے ہاتھ کی مٹھی میں جکڑے وہ رنعم کا چہرہ اونچا کرتا ہوا بولا


رنعم اب بری طرح ڈر گئی تھی مگر کاشان کا غصہ دیکھ کر اس میں کچھ بولنے کی سکت نہیں تھی۔۔۔۔ اب وہ رنعم کا چہرہ اپنے چہرے سے مزید قریب کر کے اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی پھیر رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے رنعم کے ریشمی بال مٹھی میں ابھی تک جکھڑے ہوئے تھے۔۔۔ جب وہ اپنے ہونٹ رنعم کے ہونٹوں کے قریب لایا تو رنعم نے آنکھیں بند کرلی لفظ بے شک اس کے احتجاج نہیں کر رہے تھے مگر انکھوں نے برس کر احتجاج کرنا شروع کردیا


"پرانا اور کامیاب ہتھیار"

رنعم کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر دیکھ کر اس نے اپنا ارادہ ملتوی کیا۔۔۔ انگلی کے پور سے اس کے آنسو صاف کر کے روم سے نکلتا ہوا باہر چلا گیا

دوسرے دن آفس جا کر کاشان نے اپنا ریزکنیشن لیٹر مایا کی ٹیبل پر رکھا جس پر مایا نے سوالیہ نظروں سے کاشان کو دیکھا


"میں اب یہاں پر مزید جاب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا"

کاشان کو لگ رہا تھا کل وہ جو کچھ وہ مایا کے سامنے بول چکا ہے آپنی انسلٹ کا بدلہ لینے کے لیے وہ اسے جاب سے نکال دے گی۔۔۔۔ مایا کے جاب سے نکالنے سے پہلے کاشان نے خود یہ جاب چھوڑنے کا ارادہ کیا


"آفس کی پالیسی اور رولز کے تحت آپ کو جاب چھوڑنے سے کم از کم 6 منتھس پہلے انفارم کرنا چاہیے تاکہ اس سیٹ کے لئے کسی دوسرے قابل بندے کو رکھا جاسکے اس لئے آپ کا یہ لیٹر فی الحال ایکسپٹ نہیں کیا جائے گا"

مایا نے کاشان کو دیکھتے ہوئے آفس کے رولز یاد دلائے


"مگر میں اس ماحول میں جاب نہیں کر سکتا"

کاشان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے کہا


"آپ یہاں پر آرام سے اپنی جاب کنٹینیو کریں اب آپ کو کسی طرح کا کوئی پرابلم نہیں ہوگا مسٹر کاشان"

مایا نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا


مایا کا رویہ کاشان کی سمجھ سے بالاتر تھا وہ لمبا سانس کھینچ کر اس کے روم سے باہر نکل گیا


****


اس وقت ثوبان پولیس اسٹیشن میں موجود ہے جب اس کا موبائل بجا۔۔۔۔۔ رنعم کا نمبر دیکھ کر اس نے کال ریسیو کی


"بھیا مما کو معلوم نہیں کیا ہو گیا وہ بات نہیں کر رہی ہے آپ پلیز گھر آجائیں"

کال ریسیو کرتے ہی ثوبان کے ہیلو بولنے سے پہلے رنعم نے روتے ہوئے کہا


"پریشان مت ہو،، میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں"

رنعم کی بات سن کر وہ خود پریشان ہو گیا مگر رنعم کو تسلی دیتے ہیں کہا ساتھ ہی فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور مشکل سے 15 منٹ لگا کر وہ گھر پہنچا۔۔۔


گھر پر بہروز کی گاڑی کھڑی تھی یقیناً وہ بھی شوروم سے گھر آ گیا تھا ثوبان سیڑھیاں چڑھتا ہوا بہروز اور یسریٰ کے بیڈروم میں داخل ہوا تو وہ خالی تھا،، اپنے روم کا دروازہ کھولا تو وہاں پر یسریٰ اس کے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جبکہ بہروز اور رنعم اس کے پاس بیٹھے تھے


"مما کیا ہوگیا ہے آپ کو"

ثوبان روم میں داخل ہوتے ہوئے یسریٰ سے پوچھنے لگا وہ خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی


"رنعم نے فون کرکے مجھے بتایا تھا کہ یسریٰ تمھارے بیڈ روم میں بیہوش ہوگئی ہے۔۔۔ ابھی تمہارے آنے سے پانچ منٹ پہلے میں پہنچا ہوں تو یہ کچھ بول نہیں رہی ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی منع کر رہی ہے"

بہروز نے ثوبان کو تفصیل بتائی


"کیا ہوا ہے مما آپ مجھے بتائے"

ثوبان بیڈ پر یسریٰ کے برابر میں بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا


"تمہیں کب معلوم ہوا۔۔۔ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ معلوم ہے نا میں کتنا تڑپتی رہی ہو اس کے لیے"

یسریٰ نے ثوبان کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا جبکہ بہروز اور رنعم خاموش ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ثوبان سمجھ چکا تھا اس کی وارڈروب میں یقیناً سیرت کے بچپن کے کپڑے وہ دیکھ چکی ہے، ثوبان کو اس کی حالت کی وجہ سمجھ میں آگئی


"مجھے بھی چند دن پہلے ہی معلوم ہوا ہے میں بتانے ہی والا تھا آپ کو اس کے بارے میں،، چلیں آپ پریشان مت ہو بابا اور رنعم بھی پریشان ہو رہے ہیں" ثوبان نے یسریٰ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا


"ثوبان کیا انعم کے بارے میں تمہیں کچھ معلوم ہوا ہے، پلیز بتاؤ مجھے کہاں ہے میری بیٹی کیسی ہے وہ"

بہروز نے بے قرار ہوتے ہوئے ثوبان سے پوچھا


"جی بابا اس دن البم میں نے اسی وجہ سے مانگی تھی"

ثوبان نے بہروز کو بتایا بہروز سر اوپر کرکے آنکھیں بند کیے خدا کا شکر ادا کرنے لگا جبکہ رنعم حیرت سے ان تینوں کی باتیں سن رہی تھی


23 سال صبر کرلیا ثوبان،، مجھے میری بچی سے ملا دو پلیز اسے میرے پاس لے آؤ"

یِسریٰ ایک بار پھر رونے لگی


"مما میں اسے لے کر آؤں گا آپ کے پاس، پلیز تھوڑا صبر کر لیں،، جہاں اتنا صبر کیا ہے"

ثوبان یسریٰ کو نرمی سے سمجھانے لگا کیوکہ سیرت کو تو کچھ علم ہی نہیں تھا یہاں اسے کیسے اچانک اس کے سگے ماں باپ کے سامنے لے آتا جبکہ وہ اس کے خیالات سے بھی آگاہ تھا


"جب کل ہی لانا ہے تو آج کیوں نہیں، ثوبان تم مجھے بتاؤ کہاں ہے وہ اس وقت میں خود لے آتا ہوں اپنی انعم کو، میں نے خدا کی مصلحت سمجھ کر اس پر صبر کرلیا تھا مگر آج اتنے سالوں بعد اپنی اولاد کے بارے میں پتہ لگا تم بتاؤ کل تک کیسے صبر کروں بیٹا۔۔۔ تم سمجھنے کی کوشش کرو ہم دونوں کی کیفیت" بہروز نے ثوبان کو منت بھرے لہجے میں کہا تو ثوبان نے ہتھیار ڈال دیئے


"آپ دونوں پریشان مت ہوں میں لے آتا ہوں اسے تھوڑی دیر میں"

ثوبان اٹھتا ہوا رنعم کے پاس آیا


"خیال رکھنا مما بابا کا میں آرہا ہوں تھوڑی دیر میں"

وہ رنعم سے کہتا ہوا باہر نکل گیا


****


بہروز اور یسریٰ کی بے چینی اور بے قراری کو دیکھ کر وہ گھر سے سیرت کو لینے کے لئے نکل گیا مگر اب وہ سیرت کے پاس پہنچ کر عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا تھا کہ کیا کہے۔۔۔۔۔ گھر میں بہروز اور یسریٰ کو شاک میں دیکھ کر وہ اپنے نکاح کی بات دبا گیا فی الحال یہی شاک ان دونوں کے لیے حیران کن تھا کہ انہیں 23 سال بعد ان کی اپنی اولاد مل گئی جس کی امید کب کی چھوڑ چکے تھے اپنے سیرت سے نکاح کی بات بتا کر بھلا وہ انہیں شاک پر شاک کیسے دیتا اس لئے نکاح کی بات اس نے بعد میں کبھی بتانے کا ارادہ کیا


"میں ٹھیک تو لگ رہی ہو نا ثوبی" سیرت کی آواز پر وہ اپنے خیالات سے باہر نکلا۔۔۔۔ لیمن کلر کی شرٹ اور وائٹ ٹراؤزر میں وہ سامنے کھڑی بہت پیاری لگ رہی تھی


سیرت کے پاس آکر اس نے سیرت سے یہی کہا کہ وہ آج اسے اپنے مما بابا سے ملوانے کا ارادہ رکھتا ہے تو سیرت چینج کرنے چلے گئی اب وہ اس کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی


"بہت پیاری لگ رہی ہو"

ثوبان نے اس کے قریب اگر اس کا چہرہ تھام کر بولا


"مگر جب سے تم آئے ہو کچھ چپ سے لگ رہے ہو بھلا اس طرح بھی تعریف کی جاتی ہے جیسے تم کر رہے ہو"

سیرت نے اس کا کھویا کھویا اندازہ آنے کے ساتھ ہی نوٹ کر لیا


"بہت پیاری لگ رہی ہو اب ٹھیک ہے" سیرت کے شکوہ کرنے پر وہ اس کی پیشانی کو چوم کر اسے بانہوں میں لیتے ہوئے بولا


"تم بھی نہ ثوبی، اچھا بتاؤ تمہارے مما بابا کو میں اچھی لگو گی نا"

ثوبان کی تعریف کرنے پر سیرت جھینپ گئی مگر پھر اس نے کنفیوز ہو کر اپنے دل میں آیا ہوا سوال کیا


"تم انہیں کبھی بری لگ ہی نہیں سکتی شرطیہ کہہ سکتا ہو چلیں اب"

ثوبان نے مسکراتے ہوئے کہا اور سیرت کو اپنے ساتھ لئے گھر کے لئے روانہ ہوا


****


کاشان آفس سے گھر پہنچا تو گھر میں عجیب صورت حال دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا کہ کچھ گڑبڑ ہے جب بہروز نے بتایا کہ ثوبان انعم کو لینے گیا ہے تو اسے معاملہ سمجھ میں آیا وہ بھی فریش ہونے کے بعد ہال میں ان تینوں کے ساتھ ثوبان اور سیرت کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ثوبان سیرت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا سیرت کو دیکھ کر یسریٰ اور بہروز ایک ساتھ ہی صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف بڑھے یسریٰ نے آگے بڑھ کر فوراً سیرت کو اپنے گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔ بار بار اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے چومنے لگی بہروز بھی آنکھوں میں آنسو لیے سیرت کو دیکھ رہا تھا ثوبان نے آگے بڑھ کر بہروز کو سہارا دیا


سیر جو پہلے ہی ثوبان کے مما بابا سے فرسٹ ٹائم ملنے کی وجہ سے کنفیوز تھی اب وہ حیرت زدہ ہوکر ثوبان کو دیکھ رہی تھی


"میرے مما بابا حقیقت میں تمہارے سگے مما بابا ہیں"

ثوبان نے حیرت میں ڈوبی ہوئی سیرت کو دیکھ کر مخاطب کیا اس انکشاف پر وہ ثوبان کو دیکھنے لگی


"میری انعم، میری بیٹی"

بہروز نے روتے ہوئے اسے گلے لگانا چاہا ویسے ہی سیرت، بہروز کے ہاتھ جھٹک کر اس سے دور ہوئی۔۔۔۔ ہال میں موجود تمام افراد اس کی حرکت پر ساکت رہ گئے


"سیرت میری بات سنو"

سب سے پہلے ثوبان نے آگے بڑھ کر سیرت کو سمجھانا چاہا


"یہ کیا مذاق ہے ثوبی تم یہاں مجھے اپنے مما بابا سے ملوانے لائے تھے نا۔۔۔۔ یہ سب کیا تماشہ ہے پھر"

سیرت غصے میں ثوبان سے پوچھ رہی تھی


"میں تمہیں سب بتاؤں گا لیکن پہلے تم آرام سے بیٹھ کر میری بات سنو" ثوبان نے تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔۔ سیرت نے اس کا بھی ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔ بہروز اور یسریٰ کے ساتھ رنعم بھی حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی اور وہ سیرت کو پہچان بھی گئی تھی جبکہ کاشان کے ماتھے پر سیرت کے ری ایکشن پر اچھے خاصے بل سجے ہوئے تھے


"کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ثوبی تمہیں معلوم ہے نفرت ہے مجھے ان لوگوں سے۔۔۔۔ جو مجھے کچرہ سمجھ کر کچرے کے ڈھیر کی نظر کر کے چلے گئے،،، تو پھر مجھے ان لوگوں سے ملوانے کا کیا مقصد جبکہ میری زندگی میں ان لوگوں کے لیے نہ کوئی جگہ ہے، نہ ہی کوئی اہمیت۔۔۔۔ میں اب زندگی میں ان لوگوں کو دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی ہوں"

سیرت سخت لہجہ اختیار کرتی ہوئی باری باری سب پر ایک نظر ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ سیرت کے الفاظوں سے وہاں کھڑے تمام افراد کو سانپ سونگھ گیا ثوبان نے سیرت کے پیچھے جانا چاہا جیسے ہی وہ باہر نکالا


"بہروز"

ثوبان کو اپنے پیچھے سے یسریٰ کے چیخنے کی آواز آئی ثوبان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بہروز زمین پر گرا ہوا تھا


یسریٰ انعم کو بھولے اب بہروز کو دیکھ کر چلا رہی تھی جبکہ کاشان اور رنعم دوڑ کر بہروز کے پاس پہنچے


"بابا کیا ہوا آپ کو" ثوبان بھاگتا ہوا آیا اور بہروز کو سہارا دے کر اٹھانے لگا۔۔۔۔ بہروز سیدھے ہاتھ کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ کرنے لگا جہاں سے تھوڑی دیر پہلے سیرت گئی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے وہ اس وقت اک بےبس باپ ہو رہا تھا


ثوبی دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہسپتال چلو فوراً"

کاشان نے بہروز کی حالت دیکھ کر تشویش سے کہا یسریٰ اور رنعم دونوں ہی رو رہی تھی ثوبان نے سر ہلا کر بہروز کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا


"جاو ڈرائیور سے کہو کار نکالے جلدی"

کاشان نے رنعم کو بولا تو وہ روتی ہوئے باہر نکل گئی جبکہ کاشان ثوبان کے ساتھ مل کر بہروز کو اٹھانے لگا کیوکہ بہروز ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے بھی اپنا وزن چھوڑ چکا تھا


****


سیرت روتی ہوئے گھر پہنچی اسے یقین تھا ثوبان اس کے پیچھے فلیٹ میں ضرور آئے گا مگر اس کا انتظار رائیگاں گیا، اسے اب ثوبان کے اوپر بھی غصہ آنے لگا وہ جانتا تھا اسے کوئی انسیت یا محبت پیدا نہیں ہوگی اپنے ماں باپ کو دیکھ کر یہ سب سے فلموں میں ہوتا ہے بچھڑے ہوئے برسوں بعد مل کر گلے لگ گئے اور خوشحال زندگی گزارنے لگے۔۔۔۔ مگر وہ اپنی سوچ ثوبان پر ظاہر کر چکی تھی پھر بھلا کیا ضرورت تھی ثوبان کو اس کے ماں باپ سے ملانے کی سیرت میں سوچتے ہوئے سر جھٹکا۔۔۔۔۔


"تو کیا ثوبان کو نکاح ہونے سے پہلے یہ علم تھا میں ان لوگوں کی بچھڑی ہوئی بیٹی ہوں"

یہ سوچ دماغ میں آتے ہی اسے ثوبان پر نئے سرے سے غصہ آنے لگا


"آپی میں کل تین بجے تک یہاں آجاؤ گا۔۔۔صبح تو آپ انکل کو ڈائیلائسس کے لئے لے کر جاۓ گیں، تین بجے تک اسپتال سے فارغ ہوکر آ جائیں نا"

رضوان (کیئر ٹیکر) نے جاتے جاتے سیرت سے کہا تو اس نے اپنی سوچوں میں گم سر اثبات میں ہلا دیا اور رضوان کے جانے کے بعد فلیٹ کا دروازہ لاک کر کے ناصر کے پاس آگئی


"تو چپ کیوں ہے،، کیا ہوا تجھے"

سیرت ناصر کے روم میں آ کر کرسی پر بیٹھی تو ناصر نے اسے دیکھ کر پوچھا جب سے ناصر کے ڈائلیسسز شروع ہوگئے تھے وہ زیادہ تر ہے اپنے بستر پر لیٹا رہتا۔۔۔ کچھ نقاہت اور عمر کا تقاضہ تھا وہ سارا دن خاموش رہتا۔۔۔ سیرت ہی سارا دن اسے مخاطب کر کے کچھ نہ کچھ بات کرتی رہتی


"ابا آج ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ بولنے کے لیے بچا ہی نہیں۔۔۔ ساری باتیں ختم ہو گئی ہیں" سیرت نے اپنے سامنے ٹیبل پر رکھی ساری دواؤں کو ترتیب سے رکھتے ہوئے جواب دیا


"جھگڑا تو نہیں کر کے بیٹھی ہے تو ثوبی سے کہیں" ناصر نے بیڈ پر لیٹے ہوئے سیرت کی طرف دیکھ کر اپنا خیال ظاہر کیا


"میں کیا لڑوں گی ابا اس سے۔۔۔۔ آج تو جھگڑے والی بات اس نے شروع کردی"

سیرت نے اداس لہجے میں کہا اور گھڑی میں ٹائم دیکھا گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی،،، نہ وہ خود آیا نہ اس نے سیرت کو فون کیا سیرت کا دل مزید اداس ہونے لگا


"دیکھ سیرت میری بات غور سے سن،، اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں،، میں کبھی بھی اس دنیا سے رخصت ہو سکتا ہوں تو اب ثوبی کی ہر بات مانا کر،، شوہر ہے وہ تیرا میرے بعد تجھے اس کے ساتھ گزارا کرنا ہے۔۔۔ ٹھنڈے مزاج کا بچہ ہے وہ، اپنے باپ سے بالکل مختلف تو جھگڑالوں عورتوں کی طرح اس کے ساتھ رویہ مت رکھنا"

ناصر سیرت کو دیکھتا ہوا اسے نصیحت کرنے لگا


وہ سیرت کا ثوبان سے نکاح کر اندر سے مطمئن تھا۔۔۔۔ ثوبان روز ہی اس کے پاس چکر لگاتا اس کی خیر خیریت پوچھنا تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا ناصر خوش تھا کہ سیرت اس کی زندگی میں ہی اپنے گھر کی ہوگئی تھی


"ابا ایک تو تم یہ مرنے کی باتیں مجھ سے پچھلے دو سال سے کیے جا رہے ہو،، ابھی اگلے دس سالوں تک کہیں نہیں جانے والے تم۔۔۔۔ خدارا مت کیا کرو میرے سامنے ایسی باتیں اور سب سمجھتی ہے سیرت تمھارے اس معصوم بچے کو،، نہیں کرنے لگی میں کوئی جھگڑا اس سے۔۔۔ دوا کھالی ناں تم نے رات کی سو جاؤ اب، میں بھی سونے لگی ہوں صبح تمہارے ڈائیلائسس کے لئے جانا ہے۔۔۔ ذرا اس بچے کو بھی یاد دلادو جاکر"

سیرت میں جھنجھلاتے ہوئے کہا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کس بات پر، کس کو لے کر غصہ کرے۔۔ ناصر کے ورم کی لائٹ بند کر کے وہ اپنے روم میں آگئی اور ثوبان کا نمبر ملانے لگی


جو بھی تھا وہ ثوبان کے ماں باپ بھی تھے اور وہ ان لوگوں کے سامنے اس طرح بدتمیزی کر کے آئی تھی یقیناً ثوبان کو اس پر غصہ ہوگا۔۔۔ یہ سوچ کر وہ کال ملانے لگی مگر تین دفعہ کال ملانے پر بیل جاتی رہی ہے ثوبان نے کال ریسیو نہیں کی۔۔۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا وہ کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو اس کی کال ضرور ریسیو کرتا بے شک دو سیکنڈ کے لیے ہی بات کرے وہ سوچتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی

ثوبان کاشان نے ایک دوسرے کی مدد سے بہروز کو کار میں بٹھایا ثوبان بہروز کے برابر میں بیٹھا تو ڈرائیور نے فوراً کار اسٹارٹ کردی جبکہ دوسری کار میں کاشان یسریٰ اور رنعم کو لیے ثوبان کی کار کو فالو کرتے ہوئے اسپتال پہنچا


ہسپتال پہنچ کر بہروز کو فوری ٹریٹمنٹ دیا گیا مگر تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے انہیں یہ بری خبر سنائی کے بہروز کی لیفٹ سائیڈ باڈی پارٹ پیرالائز ہو چکا ہے اس خبر کے سنتے ہی یسریٰ اور رنعم نے بری طرح رونا شروع کردیا۔۔۔۔۔ ثوبان رویا تو نہیں مگر وہ بالکل چپ ہوگیا اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا سیرت کو اپنے گھر لے جانا اتنا بڑے دھچکے کا سبب بنے گا وہ بھی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھا ہوا تھا،، کاشان ہی تھا جو یسریٰ کو تسلی دے رہا تھا چپ کرا رہا اور ڈاکٹرز کے پاس چکر لگا رہا تھا


"سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے کاشی"

بہروز کو آدھے گھنٹے پہلے پرائیویٹ روم میں شفٹ کیا گیا اس کا ادھا دھڑ مفلوج ہو چکا تھا اس کو اس حالت میں دیکھ کر یسریٰ اور رنعم نے اک بار پھر رونا شروع کردیا ثوبان اپنے آنسو صاف کرتا ہوا روم سے باہر نکلا تو کاشان اس کے پیچھے گیا، وہ ویٹنگ روم میں آکر چیئر پر بیٹھ کر کاشان سے کہنے لگا


"بیوقوفو جیسی باتیں مت کرو ثوبی جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے، تمہیں اس وقت اپنے آپ کو الزام دینے کی بجائے وہاں جا کر آنٹی اور رنعم کو سنبھالنا ہوگا اپنی فیملی مانتے ہو ناں انہیں، تو جاو ان کا حوصلہ بڑھاؤ جاکر۔۔۔ تم ہی ہمت ہار کے بیٹھ جاؤ گے تو ان لوگوں کو کون دیکھے گا" کاشان کی ہمت باندھنے پر وہ اٹھکر کر روم میں آیا یسریٰ، رنعم کو گلے لگایا اور بہروز کو بھی یقین دلایا کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ یسریٰ کو یقین دلایا تھوڑا مشکل وقت ہے مگر سب ٹھیک ہو جائے گا اس کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس کا بیٹا اور رنعم کا بھائی موجود ہے۔۔۔۔ ثوبان نے خود کو بھی سمجھایا کہ اسے اپنے آپ کو مضبوط رکھنا ہے اپنی فیملی کے لیے۔۔۔۔ اس کے موبائل پر بار بار سیرت کی کال آ رہی تھی مگر وہ ابھی اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا سیرت نے یسریٰ اور بہروز کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے بیشک وہ اپنے ماں باپ کا نہیں مگر اس کی مما بابا کا سوچ کر خیال کر لیتی۔۔۔۔ ثوبان نے سوچتے ہوئے سر جھٹکا اور کاشان کو مخاطب کیا


"تم ایسا کرو مما اور رنعم کو گھر لے جاؤ،، میں آج یہی بابا کے پاس رکھوں گا۔۔۔ تم گھر میں مما اور رنعم کا خیال رکھنا"

ثوبان نے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے دس بج رہے تھے یسریٰ جتنی دیر تک یہاں پر رہتی اس کی حالت خراب ہوتی ثوبان اس کو اس کی بھی فکر ہونے لگی جبھی وہ کاشان سے بولا


"میرے خیال میں تمہیں بھی ریسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ تم رنعم اور آنٹی کو لے کر گھر جاؤں،،، اسپتال میں میں رک جاتا ہوں" کاشان نے اس کی حالت کو دیکھ کر مشورہ دیا اسے پانچ ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا ان کے گھر میں رہتے ہوئے وہ بھی یسریٰ اور بہروز کی دل سے عزت کرتا تھا کیوکہ وہ دونوں ہی اس کے ساتھ شروع دن سے اچھے تھے اور رہی رنعم کی بات وہ تو اب اس کے دل میں بستی تھی۔۔۔۔ آج اسے کتنی بار اپنے سامنے روتا ہوا دیکھ کر، وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا وہ چاہ کر بھی اس کے آنسو صاف نہیں کر سکتا تھا


"کاشی میں بابا کے بنا گھر نہیں جاؤں گا ان کو لے کر ہی گھر آؤں گا اب۔۔۔۔ تم مما اور رنعم کا خیال رکھنا مما کو سونے سے پہلے اینٹی ڈپریشن کی ٹیبلٹ دے دینا" ثوبان کے لہجے سے کاشان کو لگا کہ اب وہ اس کی بات نہیں مانے گا۔۔۔ اس لئے وہ یسری اور رنعم کو اپنے ساتھ لے کر گھر چلا گیا

اس نے راستے سے کھانا پیک کرایا۔ ۔۔۔ دونوں کو اپنے سامنے کھانا کھلا کر یسریٰ کو میڈیسن دے کر۔۔۔۔ رنعم کو یسریٰ کے پاس سونے کا کہہ کر وہ خود اپنے روم میں آ گیا


****


"سوری میم ہم پیشنٹ کو بچا نہیں سکے"

ڈاکٹر نے جب یہ خبر سیرت کو سنائی تو وہ بے یقینی سے ڈاکٹر کو دیکھتی رہی پھر وہی کرسی پر بیٹھ زور زور سے رونے لگی


آج صبح ہی وہ ثوبان کا انتظار کرکے خود ہی ناصر کو ہسپتال ڈائلیسس کے لئے لے آئی تھی یہ ناصر کا تیسرا ڈائلیسس تھا جو اس کی زندگی کا آخری ڈائلیسس ثابت ہوگا یہ سیرت کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا


ڈائلیسس کے تھوڑی دیر بعد ناصر غنودگی میں چلا گیا۔۔۔۔ ڈاکٹر نے چیک کیا اور سیرت کو آگاہ کیا کہ ناصر کوما میں جا چکا ہے۔۔۔ اس نے پریشان ہو کر دو سے تین مرتبہ ثوبان کو کال ملائی میسج سینڈ کیا آئی نیڈ یو مگر دوسری طرف شاید لمبی ناراضگی کا پلان تھا اس لیے کوئی رسپونس نہیں آیا


تھوڑی دیر پہلے ہی کوما میں ناصر کا دل بند ہوا اور وہ دنیا سے تعلق ختم کر کے چلا گیا سیرت کو بس اتنا ہوش تھا کہ اس کے موبائل پر رضوان (کیئر ٹیکر) کی کال آئی تھی شاید وہ گھر پہنچ چکا تھا تب سیرت نے روتے ہوئے اسے ناصر کے انتقال کا بتایا


رضوان شریف لڑکا تھا اور وہ جانتا تھا کہ سیرت اپنے باپ کے ساتھ اکیلی رہتی ہے اس لیے اسپتال پہنچ گیا ڈیڈ باڈی کو اسپتال سے غسل کے لئے جانا اور پھر تدفین سب مراحل اسی نے طے کیے سیرت اپنے فلیٹ میں آنے کے بعد بس آنسو بہاتی رہی اسے ہوش ہی کہا تھا،،، دل بس اس بات پر دکھ رہا تھا آج وہ دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی کتنی عجیب بات تھی کل اسے دنیا میں لانے والے ماں باپ کا علم ہوا اور آج اسے پالنے والا باپ اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گیا


اس وقت رات کے نو بج رہے تھے تب اس نے بیگ میں اپنے چند جوڑے ڈالے فلیٹ کی چابی پڑوس کو دے کر وہ اپنے پرانے ٹھکانے پر چلی آئی۔۔۔۔۔ مالک مکان نے ناصر کی موت کی خبر سن کر ترس کھا کر اسے دوبارہ رہنے کی اجازت دے دی


****


"یسریٰ تم نے ایک کال کر کے بتانا ضروری نہیں سمجھا بہروز کے بارے میں کہ ہسپتال میں داخل ہے۔۔۔۔ وہ تو ثوبان نے عاشر کو کل رات میسج کیا تب معلوم ہوا ہمیں کہ کیا قیامت گزر گئی ہے تمہارے اوپر"

فرح آج صبح دس بجے عاشر کے ہمراہ کراچی پہنچی تھی


"باجی مجھے تو خود اپنا ہوش نہیں تھا معلوم ہی نہیں کل کیسے اتنا بڑا طوفان آگیا"

یسریٰ نے دوبارہ سے فرح کو کل والی روداد سنائی


"اب کہاں پر ہے انعم"

فرح نے حیرت سے یسریٰ سے پوچھا


"دوبارہ چلی گئی ہم سے دور۔۔۔ اب معلوم نہیں لوٹ کر آئے گی کہ نہیں"

یسریٰ کو آج دوہرے دکھ نے گھیرا تھا تو وہ رونے لگی


"پریشان مت ہو اللہ سب بہتر کرے گا" فرح نے اسے گلے لگا کر تسلی دی۔۔۔۔


ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ عاشر کے ساتھ اسپتال سے یسریٰ کے پاس گھر آئی تھی۔۔۔۔


شام تک ڈاکٹر بہروز کی چھٹی کر دیتے اس لیے ثوبان نے کاشان کو منع کردیا کہ وہ یوسریٰ اور رنعم کو یہاں پر مت لے کر آئے۔۔۔۔ شام تک اسے بہروز کو لے کر گھر آ جانا تھا،،، اب گھر پر ہی اسکی اچھی کئیر اور فزیوتھراپی کام آئے گی جس سے وہ جلد ریکور کرلے گا


کاشان یسریٰ اور رنعم کو لے کر تو نہیں آیا مگر تھوڑی دیر آفس کا چکر لگا کر خود اسپتال ثوبان کے پاس آگیا دو گھنٹے بعد ہی ثوبان نے اسے گھر جانے کا کہہ دیا کیوکہ وہ اپنی کنپٹی ہر تھوڑی دیر بعد دبا رہا تھا جس سے ثوبان کو محسوس ہوا اس کے سر میں درد ہو رہا ہے یا وہ بھی تھکا ہوا ہے ثوبان کے دو سے تین بار بولنے پر کاشان ہسپتال سے گھر روانہ ہوا کیوکہ اسپتال کی فارمیلٹیز پوری کر کے تھوڑی دیر بعد ثوبان کو بہروز کے ساتھ گھر ہی آنا تھا


****


کاشان نے گیٹ سے گھر کے اندر کار داخل کی تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا موڈ اچھا خاصا خراب ہو چکا تھا۔۔۔۔ ثوبان سے باتوں میں اسے علم ہو چکا تھا کہ عاشر اور فرہ آئے ہوئے ہیں اور اسپتال میں بھی بہروز سے مل کر گئے تھے کاشان کا ماتھا جبھی ٹھنکا عاشر پہلے دن سے ہی اسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا اس کی آنکھوں میں رنعم کے لیے خاص چمک کاشان کی آنکھوں سے چھپی نہیں رہ سکی تھی جبھی وہ اسے بری طرح چھبتا تھا۔ ۔۔۔ ایک تو ویسے ہی دوپہر سے اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا دوسرے گر کے لان میں عاشر اور رنعم کو ایک ساتھ کھڑے دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا کار سے اتر کر وہ ان دونوں کے پاس پہنچا


****


"یقین کرو جس طرح تم انکل کی کل کی کنڈیشن بتا رہی ہوں،،،، اس کے مقابلے میں، وہ آج کافی بہتر لگ رہے تھے تھوڑی دیر بعد ثوبان انکل کو لے کر آ جائے گا تو تم خود دیکھ لینا تمہیں یقین ہوجائے گا"

رنعم جو بہروز کی وجہ سے پریشان تھی عاشر اسے تسلی دیتے ہوئے بولا بے ساختہ اس کی نظر رنعم کی سفید بازوؤں پر گئی جامنی رنگ کی سلیو لیز قمیز میں اس کے سفید بازو نمایاں ہورہے تھے عاشر کے دل میں خیال آیا۔۔۔۔ معلوم نہیں میری پرسنیلٹی کو دیکھتے ہوئے رنعم میرے لیے ہاں کرے گی کہ نہیں۔۔۔۔


کیوکہ گھر میں غفران (عاشر کا باپ) فرح سے یہ ذکر کر چکا تھا کہ وہ اپنی بہن سے رنعم کے رشتے کی بات کر کے آئے۔۔۔۔۔ فرح اور عاشر بھی ایسا چاہتے تھے کہ رنعم ان کے گھر آئے مگر یہ وقت اس بات کے لیے کچھ مناسب نہیں تھا اس لیے عاشر نے فرح کو ایسا کوئی بھی ذکر کرنے سے منع کردیا


ایسا نہیں تھا کہ عاشر نے پہلی دفعہ رنعم کی اسطرح ڈریسنگ میں دیکھا تھا یا اس کو ہمیشہ ایسے ہی دیکھتا ایا ہو۔۔۔۔۔ آج بس اک خیال کے تحت اس کی نظر رنعم کے بازو پر پڑی جو کہ اس نے فوراً ہٹا بھی لی مگر ان دونوں کے پاس آتے کاشان سے اس کی نظر چھپ نہیں سکی


"تمہیں میں نے کہا تھا طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری، ریسٹ کرو پھر کیوں باہر نکلی تم اپنے روم سے۔۔۔ جاو فوراً روم میں" کاشان نے قریب آتے ہی عاشر کو نظر انداز کر کے تھوڑے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے رنعم کو مخاطب کیا جس پر وہ دونوں ہی حیرت زدہ رہ گئے


"ریلیکس وہ انکل کی وجہ سے پریشان ہے،، ٹمپریچر اس کا تھوڑی دیر پہلے ہی اتر چکا ہے"

عاشر کو یوں کاشان کا آرڈر دینا اچھا نہیں لگا پھر بھی وہ کاشان کا لحاظ کر کے اسے تحمل سے بتانے لگا


"تمہیں میں نے فون پر انکل کی کنڈیشن بتائی تھی نہ کہ وہ ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔ اگر ٹھیک نہیں ہوتے ڈاکٹر ان کی چھٹی کیوں کرتے،،، اب تم بچی نہیں ہو جو ہر کوئی تمہیں بہلاتا رہے۔۔۔ اپنے روم میں جاؤ اور ریسٹ کرو"

وہ اب بھی عاشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے رنعم کے ساتھ سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا


رنعم کو کاشان کے اس طرح بات کرنے سے افسوس ہو رہا تھا کل سے کاشان اس کی اور مما کی کتنی کیئر کر رہا تھا صبح جب اسے ہلکا سا بخار محسوس ہوا تو کاشان اسے اپنے سامنے ناشتہ کرنے کے بعد میڈیسن دی اور جب وہ آفس گیا تو آفس سے بھی فون کر کے یسریٰ اور اس کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔ اس سے نرمی سے بات کرتا رہا اور اسے یقین دلاتا رہا کہ تمہارے بابا بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے مگر اب سامنے آکر جس طرح عاشر کے سامنے اسے ڈانٹ رہا تھا تو رنعم کو اسے دیکھ کر رونا آنے لگا


"رنعم اب بچی نہیں ہے کاشان، جو تم اس سے یوں ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہو" عاشر کو کاشان کا یوں رنعم کا ڈانٹنا اچھا نہیں لگا اس لیے وہ بول اٹھا اس کے بولنے پر کاشان نے اب رخ عاشر کی طرف کیا


"یہ اب واقعی بچی نہیں ہے جو ہر کوئی اسے پیار سے بہلاتا رہے"

کاشان نے عاشر کو دیکھ کر جتانے والے انداز میں اسے باور کرایا۔۔۔۔ کاشان کی بات سن کر وہ دونوں ہی حیرت سے کاشان کو دیکھنے لگے


"کیا مطلب ہے تمہارا کاشان اپنے الفاظ پر غور کرو اور اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھو"

عاشر نے سنجیدگی سے اسے وارن کیا جبکہ رنعم تو اچھی خاصی شرمندہ ہو گئی تھی اور اس نئی صورتحال پر اور گھبرا بھی گئی تھی


"مجھے اپنی زبان پر کنٹرول رکھنے سے زیادہ ضروری ہے کہ تم اپنی آنکھوں پر کنٹرول کرو اور میرا مطلب تم اچھی طرح سمجھ گئے ہو گے"

کاشان کے بولنے پر عاشر ایک لمحے کے لئے چپ ہو گیا مگر اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کاشان دوبارہ رنعم کی طرف مڑا


"سنائی نہیں دے رہا تمہیں روم میں جاؤ اپنے"

اب کی بار کاشان تقریباً چیخ کر بولا


رنعم اس کے چیخنے پر ایک منٹ لگائے کیے بغیر بھاگتی ہوئی اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے کاشان عاشر کو گھورتا ہوا گھر کے اندر چلا گیا جبکہ عشر لب بھینچے اسے دیکھ کر سوچنے لگا کہ وہ امی کو کہہ کر رشتے کی بات ڈال کر ہی اب واپس جائے گا

"رعنم روتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آئی اور بیڈ پر لیٹ کر رونے لگی۔۔۔ دو سے تین منٹ ہی گزرے تھے جو اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور کاشان کمرے کے اندر داخل ہوا کمرے کا دروازہ بند کر دے وہ بیڈ پر اس کے قریب آیا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا


"میری ایک دفعہ کی بات تمہارے بھیجے میں نہیں اترتی، جب میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے روم میں جاؤ تو کیوں کھڑی تھی وہاں پر۔۔۔۔ آئندہ اگر تم نے ایک دفعہ کی کہی میری بات نہیں مانی تو دیکھنا پھر میں کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ"

کاشان کے ہاتھوں اور لہجے کی سختی وہ اندر تک محسوس کر کے سسک اٹھی


"آپ میرے ساتھ اس طرح کیسے۔۔۔۔"

رنعم نے اپنا پورا جملہ مکمل بھی نہیں کہ کاشان نے اس کا بازو چھوڑ کر وہی ہاتھ اس کی گردن پر رکھا


"خاموش،،، جب میں بات کر رہا ہوں تمہاری آواز بالکل نہیں نکلنی چاہیے" ایک ہاتھ سے گردن پکڑتا ہوا دوسرے ہاتھ اسکی کمر کے باندھ باندھ کر وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔۔۔۔ رنعم اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے اس کی شرٹ جکڑے ہوئے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی


"سمجھ میں آ رہی ہے میری بات"

گردن پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر اس نے رنعم سے پوچھا تو خوف کی شدت سے رنعم کی سبز آنکھوں سے آنسو روا ہوئے اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا تو کاشان نے اس کی گردن سے اپنا ہاتھ ہٹایا رنعم نے بھی اسکی شرٹ چھوڑی اور آنسو صاف کرکے شکوہ کناں نظر اس پر ڈالی،،، کاشان نے اس کی کمر سے ہاتھ ہٹایا تو رنعم پیچھے ہٹی


"بہت نازک سی ڈول ہو تم ذرا سی سختی برداشت نہیں فوراً انسو نکل آئے تمھارے"

وہ نرمی سے کہتا ہوا رنعم کے بازو پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگا ابھی وہ کاشان کی رویہ ہے جی بھر کے حیران بھی نہیں ہو پائی تھی تو کاشان کے دوسرا عمل اسے مزید پریشان کر گیا


"آپ پلیز اس طرح مت کریں"

رنعم کو دوبارہ رونا آنے لگا وہ التجائی انداز اختیار کرتے ہوئے اس سے بولی


"کیسے نہیں کرو" کاشان رنعم کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھتا ہوا اس کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ سے ہلکا سا دباؤ ڈالتا ہوا پوچھنے لگا رنعم سے آگے کچھ بولا نہیں گیا وہ خاموش نظروں سے اس کے ہاتھوں کو دیکھنے لگی اب کاشان نے اس کے دونوں شانوں کو تھاما ہوا تھا


"کیوں اچھا نہیں لگ رہا تمہیں میرا چھونا۔۔۔۔۔ جب عاشر تمہارے بازوں کو نظر بھر بھر کے دیکھ رہا تھا تب تمہیں اعتراض کیوں نہیں ہوا"

کاشان نے اسے شانوں سے پکڑ کر پیچھے بیڈ کر دھکا دیتے ہوئے بولا رنعم اس کے الزام پر تڑپ اٹھی


"عاشر بھائی ایسے نہیں۔۔۔۔


"ششش بالکل خاموش۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا کہا میں نے،، جب میں بات کر رہا ہوں تمہاری آواز نہیں نکلنی چاہیے"

وہ اپنی اور عاشر کی صفائی کاشان کو دینا چاہتی تھی تب کاشان بیڈ پر اپنا ایک گھٹنا ٹکائے رنعم کے دائیں بائیں جانب اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھتا ہوا بولا۔ ۔۔۔ کاشان کے اس انداز پر رنعم کی زبان تالو سے چپک گئی۔۔۔

رنعم کی سبز آنکھیں خوف لیے کاشان کو دیکھ رہی تھی اور وہ اسے غصے میں گھور رہا تھا


رنعم کا سارا خون خوف سے خشک ہونے لگا تب وہ اپنی دو انگلیوں سے کنپٹی کو دباتا ہوا بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا سہمے ہوئے وجود پر ایک نظر ڈال کر اس کے کمرے سے نکل گیا


****


کاشان رنعم کے روم سے باہر نکلا تو یسریٰ اور فرح اسے اپنے بیڈروم سے نکلتی ہوئی دکھائی دی


"کاشان آفس سے کب آئے تم"

یسریٰ کاشان کو رنعم کے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگی


"دس منٹ پہلے ہی آیا ہوں۔۔۔۔ سوچا رنعم کی طبیعت پوچھ لو،،، ہلکا سا بخار تھا اسے،، ابھی ڈوس دی ہے تھوڑی دیر میں سیٹ ہو جائے گی۔۔۔ آپ بتائیں آپ کی طبیعت کیسی ہے"

فرح کو سلام کر کے اب وہ یسریٰ کا حال احوال پوچھنے لگا


"اب میری طعبیت کافی بہتر ہے ثوبان کا فون آیا تھا کہہ رہا تھا ایک گھنٹے بعد بہروز کو لے کر آنے والا ہے۔۔۔ نیچے والا روم سیٹ کروا دوں بہروز کے لیے"

یسریٰ پریشان ہوتی ہوئی اسے بتانے لگی


"ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ثوبی،،، چند دن لگے گیں انکل کی کنڈیشن کو اسٹیبل ہونے میں تب تک آپ اور انکل نیچے روم میں شفٹ ہو جائیں،، پرابلم کیا ہے اس میں ۔۔۔۔۔ آپ بالکل فکر نہیں کریں ماشاءاللہ انکل کی ول پاور اچھی ہے وہ جلدی ریکور کرلیں گے"

کاشان یسریٰ کو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا


"تم اور ثوبان نہیں ہوتے تو معلوم نہیں کیا ہوتا ہمارا"

یسریٰ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی،، کل سے وہ کاشان کو بھی بھاگ دوڑ کرتا ہوا دیکھ رہی تھی


"کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہی ہیں آنٹی آپ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف آپ ہم دونوں کو اپنا بیٹا کہتی ہیں اور پھر گھر کے ممبرز ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا بھلا گھر کے باہر سے تو کوئی آنے سے رہا" کاشان مسکراتا ہوا یسریٰ سے کہنے لگا آخری بات پر اس نے سرسری نگاہ فرح پر ڈالی جسے فرح نے اچھی طرح محسوس کی


"سر کیوں دبا رہے ہو بار بار اس طرح، طبیعت ٹھیک ہے تمہاری"

کاشان کو انگلی سے کنپٹی دباتے ہوئے دیکھ کر یسریٰ نے فکر مندی سے پوچھا


"دوپہر سے ہی ہلکا سا پین ہو رہا ہے خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ جائیں آپ انکل کے لئے روم سیٹ کروا دیں" کاشان بولتا ہوا سیڑھیوں سے اترنے لگا


"تم اپنے روم میں جاؤ میں چائے بجھواتی ہوں تھوڑی دیر ریسٹ کرلو۔ ۔۔۔ ثوبان اور بہروز آجائے گیں تو تمہیں بلوا لوگی"

یسریٰ کے کہنے پر وہ یسریٰ کو اسمائل دیتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا


"کافی تیز لگتا ہے مجھے یہ لڑکا"

کاشان کے جاتے ہی فرح نے اپنا اظہار خیال پیش کیا


"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ باجی، بالکل سگی اولادوں کی طرح کل سے خیال رکھا ہے دونوں نے بہروز کا بھی اور اس گھر کا بھی۔۔۔۔ ثوبان تو چلو ہمارے ساتھ رہا ہے اس کا پریشان ہونا، اس طرح فکر کرنا سمجھ میں آتا ہے مگر کاشان کو تو چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔ ۔۔۔ کل شام سے ہی گھن چکر بنا ہوا ہے،، کبھی گھر میں، تو کبھی اسپتال میں، تو کبھی آفس میں۔۔۔ میرے دل میں ثوبان کی طرح جگہ بنانے لگا ہے کاشان بھی"

فرح کی بات سن کر یسریٰ نے اسے جواب دیا تو وہ چپ ہوگئی


"مجھ سے عاشر نے بھی کہا تھا خالہ اور رنعم اکیلا محسوس نہ کریں میں چند دنوں کی افس سے چھٹیاں لے کر ان کے پاس رک جاتا ہوں اور ہاں یاد آیا بہروز بھائی کا شوروم تو اب جانا نہیں ہوگا۔۔۔۔ تو میں عاشر کو کہوں گی تم چھٹیاں لے کر یہی رک جاؤ اور شوروم دیکھ لیا کرو"

فرح نے اپنی طرف سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بہن سے کہا


"نہیں باجی میں بھلا کیوں اکیلا محسوس کرنے لگی ثوبان ہے تو میرے پاس،، دیکھیں ابھی تک گھر میں قدم نہیں رکھا کیوکہ اس کے بابا جو موجود نہیں گھر پر اور اب کاشان بھی تو ہے۔۔۔ عاشر کی ابھی نئی جاب ہے اس طرح چھٹیاں کرنے سے اس کی پروگریس پر اچھا اثر نہیں پڑے گا شوروم کا کیا ہے وہ تو ثوبان یا کاشان میں سے کوئی بھی چکر لگا لے گا،،، عاشر کو آپ کوئی تکلیف نہیں دیجئے گا ورنہ غفران بھائی ناراض ہوں گے"

یسریٰ نے سہولت سے جواب دیا اور نیچے اتر کر بہروز کا اور اپنے روم سیٹ کروانے لگی


*****


تھوڑی دیر بعد ثوبان بہروز کو اپنے ساتھ گھر لے آیا عاشر کی مدد سے اسے نیچے بیڈ روم میں بیڈ پر بٹھایا یسریٰ اور رنعم کے رونے سے ماحول میں ایک دم افسردگی چھا گئی فرح یسریٰ کو چپ کرانے لگی جبکہ ثوبان رنعم کو پیار سے سمجھانے لگا کہ بابا جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔۔ رنعم بیڈ پر بہروز کے برابر میں ہی بیٹھ گئی فرح اور عاشر ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ثوبان یسریٰ کے برابر میں آگر یسریٰ کے پاس بیٹھا اب وہ یسریٰ کا ہاتھ تھامے اس کی طبیعت پوچھ رہا تھا


کاشان بھی اپنے روم سے آیا اور بہروز کی طبیعت پوچھ کر سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔ دو سے تین منٹ بعد اس کی نظر رنعم پر اٹھتی مگر جلد ہی وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیتا جب کہ رنعم نے اس کو بالکل ہی نظرانداز کیا ہوا تھا وہ بہروز سے چپکی ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔۔ فالج زدہ باپ کا وجود بھی اسے اپنی مضبوط ڈھال محسوس ہو رہا تھا


رنعم نے اس وقت ڈریس چینج کر کے فل سلیوز پہنی ہوئی تھی یہ بات کاشان کے ساتھ ساتھ عاشر نے بھی نوٹ کی جس پر عاشر بلاوجہ ہی شرمندہ ہونے لگا۔ ۔۔۔ کاشان رنعم کے گریز کو محسوس کر چکا تھا وہ نظر اٹھا کے اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی یہ بات اسے اچھی نہیں لگی


"اب انعم واپس نہیں آئے گی"

تھوڑی دیر بعد بہروز کی لڑکھڑاتی آواز کمرے میں گونجی وہ ثوبان سے مخاطب تھا اور اس کی آنکھوں میں نمی تھی بہروز کی بات پر یسریٰ ایک بار پھر رونے لگی


"صبر کر لیں بہروز اس پر جیسے میں نے اپنے دل پر بھاری سل رکھا ہے،،، ویسے اب آپ بھی پتھر رکھ لیں"

وہ ثوبان کے بولنے سے پہلے روتی ہوئی کہنے لگی


ثوبان اٹھ کر بہروز کے قریب آ کر بیٹھا اور اس کا بےجان ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما


"انعم واپس اس گھر میں دوبارہ آئے گی۔۔۔ اسے میں لے کر آؤں گا آپ کے پاس مگر آپ پہلے وعدہ کریں اس طرح پریشان نہیں ہوں گے"

ثوبان بہروز کی آنکھوں میں آئی نم کو اپنی انگلی کے پوروں سے صاف کرتا ہوا بولا


"کیا انعم واقعی ہمارے پاس آ جائے گی وہ یہیں رہے گی ہمارے پاس"

یسریٰ نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے پوچھا تیئس سال بعد وہ اپنی جوان بیٹی کو دیکھ کر جتنا خوش ہوئی تھی۔۔۔ اس کا رویہ دیکھ کر اتنا ہی مایوس ہو چکی تھی


"مما اسے اسی گھر میں آنا ہے کیوکہ یہ اس کا بھی گھر ہے میں اسے کل ہی لے آؤں گا مگر آپ اس طرح روئے گیں تو آپ کو دیکھ کر بابا بھی پریشان ہوگے اور آپ دونوں کو میں اس طرح بالکل نہیں دیکھ سکتا" ثوبان بیڈ سے اٹھ کر دوبارہ یسریٰ کے پاس آ کر بولا


"اب نہیں روتی،،، جاو فریش ہو کر آو کھانا لگواتی ہوں" یسریٰ نے اپنی آنکھیں صاف کر کے ثوبان کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا دو دن سے وہ اسپتال میں مستقل بہروز کے پاس رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ منہ دے نہیں بول رہا تھا مگر حالت سے وہ اس کی تھکن کا اندازہ لگا سکتی تھی


****


بہروز کو یسریٰ کھانا کھلا چکی تھی کھانے کی میز پر بہروز کے علاوہ سب ہی موجود تھے کاشان نے پلیٹ میں تھوڑا سا پلاو نکالا مگر وہ رنعم کے ہاتھ کا بنا ہوا نہیں تھا اس نے دوسری ڈش میں سے آلو گوشت نکالا اس کا بھی ذائقہ جدا تھا ایک نوالہ کے بعد اس نے سامنے رکھی بیف چلی ٹیسٹ کی اور کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا


"کیا ہوا کھانا کیوں نہیں کھا رہے"

کاشان کے اس طرح اٹھنے پر یسریٰ نے اسے دیکھ کر پوچھا


"سر درد کی وجہ سے شاید کھانے کا ٹیسٹ معلوم نہیں ہو رہا پلیز آپ لوگ کھانا کھائیں"

وہ کہتا ہوا رنعم پر سنجیدہ نظر ڈال کر اپنے روم میں چلا گیا اس کے جانے کے بعد رنعم نے اپنی پلیٹ میں جھکا ہوا سر اٹھایا


آج اس نے بھی تو رنعم کو ہرٹ کیا تھا اس لئے رنعم نے اس کے لئے کھانا نہیں بنایا


****


"کیا کر رہی ہیں آپ"

کھانے کے بعد رنعم کچن میں آئی تو یسریٰ کو بریڈ کی پیس پلیٹ میں نکالتے دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی


"کاشان نے کھانا نہیں کھایا،،، بھوکا لیٹا ہوا ہے اپنے روم میں۔۔۔ سر بھی درد کر رہا ہے اس کا کافی دیر سے،، سینڈوچ بنا رہی ہوں اس کے لئے ورنہ وہ ایسے ہی سو جائے گا"

یسریٰ بریڈ کے پیس کے کنارے،، چھری سے کاٹتے ہوئے رنعم کو بتانے لگی


"کاش میں اس بیچارے کی حرکتیں آپ کو بتا سکتی" رنعم سوچ کر ہی رہ گئی اور فریج میں سے انڈا، چیز، کیبچ اور مایونیز نکالنے لگی


"بھیا بلا رہے ہیں آپ کو، بابا کی میڈیسن کا چارٹ سمجھ لیں جاکر۔۔۔۔ لائیں یہ میں بنا دیتی ہوں"

انڈا بوائل کرنے رکھ کر وہ پلیٹ یسریٰ سے لیتے ہوئی بولی


"اچھا سنو،،، سینڈوچز کے ساتھ چائے اور پینکیلر بھی لیتی جانا کاشان کے لئے" یسریٰ مصروف انداز میں ٹشو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی اسے تلقین کر کے بولی اور اپنے روم میں چلی گئی رنعم خاموشی سے سینڈوچ بنانے لگی

"کون ہے"

دروازہ ناک کرنے پر بیڈ پر لیٹے ہوئے کاشان نے منہ سے تکیہ ہٹا کر زور سے پوچھا


رنعم بغیر جواب دیئے ہاتھ میں ٹرے تھامے دروازہ کھول کر اندر آ گئی مگر جب سامنے لیٹے ہوئے کاشان پر نظر پڑی تو اس کے قدم وہی تھم گئے اور نظریں جھگ گئی کیوکہ وہ بغیر شرٹ کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا


کاشان نے اپنے سامنے ہاتھ میں ٹرے تھامے رنعم کو دیکھا،، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بیڈ پر پڑی شرٹ پہننے لگا،، بٹن لگاتے ہوئے مستقل رنعم کو دیکھ رہا تھا جو نیچے سر کیے مجرموں کی طرح کھڑی تھی


"کیا صبح تک ایسی ہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے"

شرٹ پہننے کے بعد وہ رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔ کاشان کی آواز پر رنعم نے اپنا سر اٹھایا،، وہ اسی کا گہری نگاہوں سے جائزہ لینے میں مصروف تھا۔۔۔۔ رنعم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر بیڈ تک آئی


"آپ نے کھانا نہیں کھایا اس لئے سینڈوچ لے کر آئی کھالیے گا"

رنعم سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھ کر جانے لگی


"ابھی میں نے واپس جانے کے لئے تو نہیں کہا"

تبھی کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا


"مجھے نیند آرہی ہے سونا ہے میں نے"

رنعم نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا مگر لہجے میں ناراضگی لیے وہ اس سے کہنے لگی


"جب تک کھا نہیں لیتا تب تک بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ مجھ سے اکیلے بیٹھ کر نہیں کھایا جائے گا"

کاشان کا لہجہ کسی بھی قسم کی سختی سے عاری تھا جبکہ اس کی آنکھوں سرخ ہو رہی تھی شاید سر درد کی وجہ سے یا نیند کی وجہ سے رنعم سمجھ نہیں پائی۔۔۔۔ وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ گئی اس کو بیٹھتا دیکھ کر کاشان سینڈوچ کھانے لگا


"یہ تم نے بنائے ہیں اپنے ہاتھوں سے میرے لیے"

وہ سینڈوچ کھاتا ہوا چاہت بھری سے رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"مما کے کہنے پر بنائے ہیں انہیں ایسا لگا آپ کو بھوکا نہیں سونا چاہیے" رنعم نے اپنے لہجے میں ناراضگی برقرار رکھتے ہوئے کہا جس پر کاشان سر نیچے جھکا کر مسکرایا


"ناراض ہو"

پلیٹ سائڈ میں رکھ کر وہ دوبارہ رنعم کا ہاتھ تھام کر، اس کی آنکھوں میں جھانگتا ہوا پوچھنے لگا


"آپ کو کیا فرق پڑتا ہے میری ناراضگی سے، ابھی غصہ کر کے زور زبردستی سے منا لیں گے آپ"

رنعم نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا


"ایک تمہی سے تو فرق پڑنے لگا ہے،،،،، غصہ زبردستی کر کے کیوں مناؤں گا بھلا کچھ کام پیار محبت سے بھی کیے جاتے ہیں،،، ان میں زور زبردستی تھوڑی چلتی ہے"

کاشان نے بولتے ہوئے اچانک اپنا سر رنعم کی گود میں رکھا


"کاشان"

رنعم یوں اچانک آنے والی آفتاد پر ایک دم بوکھلا گئی


"کیا مسئلہ ہے اب"

کاشان تیوری پر بل چڑھا کر بولا


"پلیز"

رنعم نے بے بس ہو کر بولا تو کاشان نے بیڈ پر پڑا ہوا تکیہ اٹھا کر اسکی گود میں رکھا اور دوبارہ اپنا سر اس پر رکھ لیا


"تمہاری گود میں سر نہیں رکھا ہوا ہے اب تو ٹھیک ہے ناں یا ابھی بھی مما کے پاس جانا ہے"

رنعم کو جھجھکنا نوٹ کر کے کاشان اس سے پوچھنے لگا


"پین کلر لے کر چائے پی لیں،، درد ٹھیک ہو جائے گا"

رنعم کی نظریں بھٹک کر اس کی شرٹ کے کھلے بٹن پر پڑی جہاں سے اس کے سینے کے بال جھانک رہے تھے رنعم نے فوراً اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر دوسری جانب دیکھا


"چائے پینے کا موڈ نہیں ہو رہا اور پین کلر فائدہ نہیں دے گی، تم سر دباو میرا، شاید آفاقہ ہوجائے"

کاشان رنعم کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ رنعم نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اس کی کشادہ پیشانی پر رکھا اور سر دبانے لگی۔۔۔۔۔ سر دبانے کے دوران رنعم کاشان کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی تو کاشان نے اس کا دوسرا ہاتھ اپنے سخت ہاتھ میں تھام کر نرمی سے اپنے سینے پر رکھا


"کیا دیکھ رہی ہو اتنے غور سے"

وہ رنعم کا دیکھنا نوٹ کر کے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا


"دیکھ نہیں رہی تھی سوچ رہی تھی،، کیا بعد میں بھی آپ اسی طرح غصہ کیا کریں گے مجھ پر"

رنعم نے سر دباتے ہوئے اس سے پوچھا


"جان بوجھ کر تو نہیں کرتا نہ غصہ آجاتا ہے بس۔۔۔۔ تم وہ کام کیا ہی مت کرو جن سے مجھے غصہ آئے"

ایک ہاتھ سے رنعم کا ہاتھ تھام کر اپنے سینے پر رکھے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس کے گلے میں پڑے ہوئے بال شیپ پینڈنٹ کو چھیڑتا ہوا بولا


"ویسے بھی شادی کے بعد چانس ہیں کے میرا غصہ کم ہو جائے اور شاید تم اسی طرح بیٹھ کر مجھ سے پوچھ رہی ہو۔۔۔۔ کیا آپ ہر وقت مجھے اسی طرح پیار کرتے رہے گیں"

کاشان کے بولنے کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر رنعم ایک دم بلش کر گئی بدن کا سارا خون جیسے اس کے چہرے پر آگیا ہوں


"درد بہتر ہوا آپ کا"

اس کو پٹری سے اترتا ہوا دیکھ کر رنعم پوچھنے لگی


"نہیں اچھا لگ رہا ہے تمہارا اس طرح سر دبانا اور دباؤ۔۔۔ بلکہ یہ تصور کرو کہ یہ سر نہیں میرا گلا ہے۔۔۔ ان نازک ہاتھوں میں خودبخود تیزی اور سختی آجائے گی" کاشان نے بولنے کے ساتھ ہی چہرے پر آنے والی ہنسی چھپائی تو رنعم نے اس کو گھور کر دیکھا


"آپ ایسا سوچتے ہیں میرے بارے میں کہ میں آپ کا گلا دبانے کا تصور کرتی ہوں"

رنعم نے دوبارہ ناراض ہوتے ہوئے اس سے پوچھا کاشان نے دوبارہ اس کے گلے میں پڑے پینڈنٹ کو اپنی طرف کھینچا جس سے رنعم کا ہلکا سا سر جھکا


"پھر آج بتا ہی دو کہ کیا سوچتی ہو میرے بارے میں،، شاید سر کا درد خود ہی بھاگ جائے" لو دیتی آنکھوں سے دیکھ کر وہ رنعم سے پوچھنے لگا اس کی بات سن کر رنعم اپنی نظریں جھکا گئی


"کاشان مما کو دیکھ کر آتی ہوں" رنعم اس کی نظروں سے گھبرا کر بولی


"کیا شادی کے بعد بھی جب میں رومانٹک ہوا کروں گا تمہیں ایسے ہی آنٹی کی یاد آیا کرے گی"

کاشان نے جتنی سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا اتنا سنجیدہ وہ ہرگز نہیں لگ رہا تھا


"آپ اس وقت ایسی باتیں مت کریں پلیز"

رنعم کو نروس دیکھ کر اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر کے وہ آنکھیں بند کیے لیٹ گیا۔۔۔۔ بیس منٹ بعد رنعم کو احساس ہوا کہ وہ سو چکا ہے تب رنعم نے اس کا سر تکیے پر رکھا اور کمرے کی لائٹ بند کر کے کمرے سے باہر چلی گئی


*****


ثوبان آج تین دن کے بعد پولیس اسٹیشن آیا تھا بہروز کی بیماری کو لے کر اس نے ساری چیزوں کو ہی ایک طرف رکھ دیا تھا۔ ۔۔۔


آج وہ صبح سے ہی سیرت کو کال ملا رہا تھا مگر اس کا نمبر مسلسل بند جارہا تھا


"کیا مصیبت ہے" اس نے جھنجھلا کر فون رکھا۔۔۔۔ ہاتھ میں پہنی گھڑی میں ٹائم دیکھا تو چھ بج رہے تھے گاڑی کی چابی اور سیل فون اٹھا کر سیرت کے پاس فلیٹ میں پہنچا


اس کا ارادہ تھا وہ ناصر کو ہوسپٹل میں شفٹ کرا کر۔۔۔ سیرت کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے گا کیوکہ بہروز سے وہ وعدہ کر چکا تھا اور اس کی بات وہ ٹال نہیں سکتا تھا۔۔۔ دو دن سے وہ سیرت کی کال نہیں اٹھا رہا تھا پرسوں اس نے میسج بھی کیا تھا جو ثوبان نے پڑھ کر بھی کوئی رسپونس نہیں دیا


وہ جانتا تھا اس دن ناصر کا ڈائیلائسس تھا سیرت کے ساتھ ناصر کو لے کر اسے اسپتال جانا تھا اسی وجہ سے سیرت نے اس کو میسج کیا ہوگا مگر اس وقت بہروز کو بھی ثوبان کی ضرورت تھی اور بہروز وہ شخص تھا جس نے ثوبان کو تب سنبھالا جب ثوبان کو واقعی کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔۔۔۔ اس وجہ سے وہ اس وقت دنیا کو نظر انداز کر سکتا تھا مگر بہروز کو کسی دوسرے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ تین دن تک بہروز کو ایک پل کے لئے چھوڑ کر گھر بھی نہیں گیا


ثوبان نے فلیٹ میں کار پارک کی، کار سے اتر کر فلیٹ کے دروازے پر پہنچا کافی دیر تک بیل بجانے کے بعد جب سیرت نے دروازہ نہیں کھولا اس کا موبائل آف دیکھ کر ثوبان کو نئے سرے سے پریشانی نے آ گھیرا


برابر والوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک خاتون نکلی جنھوں نے ثوبان کو ناصر کا انتقال کے بارے میں بتایا اور فلیٹ کی چابی ثوبان کو تھمادی


ناصر کی موت کی خبر سن کر اسے حیرت کا جھٹکا تو لگا ہی دلی طور پر افسوس بھی ہوا۔۔۔۔ یہ تو اس کے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کے پیچھے اتنا کچھ ہوگیا ہوگا۔۔۔۔


اب اسے رہ رہ کر سیرت کا خیال آنے لگا نہ جانے اس نے کیسے اپنے آپ کو سنبھالا ہوگا۔۔۔ کیسے اتنا سب کچھ خود اکیلے کیا ہوگا۔۔۔ وہ اسے اس طرح چھوڑ کر کہاں چلے گئی یقیناً اپنے پرانے فلیٹ میں۔۔


ثوبان خود سے سوال کر کے خود ہی جواب دیا اور اپنی کار کی طرف بڑھا


"اور اگر وہ وہاں بھی نہیں ہوئی تو۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی اسے ہوا میں آکسیجن کم ہوتی محسوس ہوئی جیسے اب اس کا سانس بند ہو جائے گا


"ایک دفعہ پھر سے نہیں کھو سکتا اسے"

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے تیزی سے کار فلیٹ سے باہر نکالی اب وہ جلد سے جلد سیرت کے پاس پہنچنا چاہتا تھا


"اسے واقعی میری کتنی ضرورت ہوگی"

یہ سوچتے ہوئے اسے ایک بار پھر افسوس ہونے لگا ثوبان نے کار کی اسپیڈ مزید بڑھا دی


****


"بہروز، یسریٰ میں تم دونوں سے کچھ بات کرنے آئی ہو" تھوڑی دیر پہلے ہی بہروز کو یسریٰ نے چینج کر آیا تھا تب بھی فرح ان کے بیڈروم میں آ کر کہنے لگی


"ہاں جی آئیے ناں۔۔۔ کیا بات ہے"

یسریٰ نے فرح کو دیکھتے ہوئے پوچھا فرح بہروز کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔ آج صبح ہی عاشر کے کہنے پر وہ یہ بات ان دونوں سے کرنے آئی تھی اس نے بات کا آغاز کیا


"ویسے تو نہ ہی یہ وقت ہے نہ ہی موقع پلیز تم دونوں میری بات کو غلط معنوں میں مت لینا۔۔۔ میں رنعم کو اپنے عاشر کے لئے مانگنا چاہتی ہوں"

فرح کی بات پر یسریٰ نے بہروز کو دیکھا جبکہ بہروز فرح کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا


"دیکھو زندگی موت کا کبھی بھی کسی کا بھی بھروسہ نہیں ہوتا۔۔۔۔ معلوم نہیں آج میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں کل کو اس دنیا میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔۔۔۔۔۔ اب بیٹھے بٹھائے بہروز کے لئے کس نے ایسا سوچا تھا کہ وہ اس طرح بستر سے لگ جائے گا۔۔۔ انشاءاللہ،، اللہ پاک تمہیں جلد صحت یاب کرے سچے دل سے تمہارے لئے دعا گو ہوں،، مگر بہروز کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کی خوشیاں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں۔۔۔۔۔ کون سا اب ہمارے بچے،، بچے رہے ہیں۔۔۔ بالغ اور باشعور ہو چلے ہیں،،، ان کے بالغ ہونے پر والدین کے لئے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں" فرح نے بہروز کو دیکھتے ہوئے کہا تو بہروز کی آنکھیں بھرنے لگی جب سے وہ پیرالائیسس ہوا تھا تب سے شاید اس کا دل بھی کمزور ہو گیا تھا


"باجی یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہی ہیں۔۔۔ یہ واقعی نہ ہی کوئی موقع ہے اور نہ ہی وقت ان باتوں کا اور بہروز کو کچھ نہیں ہوا ہے وہ ٹھیک ہو جائیں گے انشاءاللہ"

یسریٰ نے فرح کو جواب دیا


"با۔۔۔۔جی ٹھ۔۔یک بو۔۔ل ری ہیں"

بہروز نے یسریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا وہ تھوڑا اٹک کر بولنے لگا تھا کیوکہ ابھی اسے بولنے میں دقت ہوتی تھی


"یسریٰ میں تمہاری بہن ہو، مجھے یا میری بات کو تم غلط معینوںٰ میں مت لو۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو کل ہی ثوبان نے کہا ہے کہ وہ انعم کو تمہارے پاس لے آئے گا،، تم دونوں ایک بیٹی کے نہیں، دو بیٹیوں کے ماں باپ ہو۔۔۔۔ سمجھو دو بیٹیوں کی ذمہ داری ہے تم دونوں پر اور رنعم کو تو میں نے بچپن سے ہی عاشر کے لئے سوچا ہوا تھا۔۔۔ سب سے بڑی بات مجھے غفران نے بولا ہے کے رشتے کی بات کرکے آنا۔۔۔۔ پھر بھی کوئی زور زبردستی نہیں ہے ماں باپ ہو تم رنعم کے اس لئے سوچ سمجھ کر،، رنعم کی مرضی جان کر،، ثوبان سے مشورہ کر کے جو بھی تم دونوں کا فیصلہ ہو مجھے فون پر آگاہ کردینا۔۔۔ میں اور عاشر آج شام کو ہی نکل رہے ہیں اور کبھی تم دونوں اپنے آپ کو تنہا تصور نہیں کرنا"

فرح بڑے سبھاو سے بات کرتے ہوئے ان دونوں کے لیے سوچوں کے نئے در کھول کر خود انکے کمرے سے چلی گئی


یسریٰ کو فرح کی بات پسند نہیں آئی اور جب اسے معلوم ہوا کہ ایسا غفران بھائی کی خواہش ہے تو اس کے پیچھے اس مطلب کو بھی اچھی طرح سمجھ گئی


چند دن پہلے جب وہ فرح کی طرف رہنے کے لئے گئی تھی کیسے غفران بھائی طنزیہ گفتگو کر رہے تھے بہروز کے پاس پیسے، جائیداد اور شوروم کا بار بار پوچھ رہے تھے اپنی غریبی اور تنگدستی کا رونا رو رہے تھے ۔۔۔۔


غفران فطرتاً ناشکرا انسان تھا اس کی عادت سے نہ صرف گھر والے بلکہ پورا خاندان بھی واقف تھا یسریٰ نے سر جھٹک کر سوچا


عاشر یسریٰ کا بھانجا تھا مگر اس نے رنعم کے ساتھ عاشر کا بالکل نہیں سوچا تھا جبکہ دوسری طرف فرح کی باتیں سن کر بہروز ایسا سوچنے لگا


****


آخر وہ کیوں اتنی دی مول تھی کے ہر کوئی اسے چھوڑ کر چلا جاتا تھا آج اس کے باپ کو مرے ہوئے تیسرا دن تھا وہ بھی اسے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا افسردگی سے سیرت نے سوچتے ہوئے اپنا سر دوبارہ گھٹنوں میں ٹکا دیا۔ ۔۔۔


برابر والے فلیٹ سے آ کر فاطمہ کا بیٹا اسے چاولوں سے بھری پلیٹ دے گیا تھا مگر سیرت کی بھوک کو مرے ہوئے تین بھی دن ہو چکے تھے کیوکہ آب کھلانے والا کوئی موجود نہیں تھا باہر کا دروازہ کھولا تو سیرت نے سر اٹھا کر آنے والے کو دیکھا۔۔۔۔ ثوبان نے سیرت کو وہاں دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی


"دروازہ ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا، لاک کیوں نہیں کیا"

ثوبان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ بات کا آغاز کیسے کرے مگر کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا اس لیے دروازہ لاک نہ کرنے کا پوچھ بیٹھا


"یہاں کون آئے گا کوئی چور تو آنے سے رہا،، ہے ہی کیا اس فلیٹ میں چرانے کو"

سیرت نے تلخی سے ثوبان کو دیکھ کر کہا معلوم نہیں وہ ہر بار کیوں اس کے سامنے آجاتا تھا


"ابھی معلوم ہوا تہمارے آبا کا،، مجھے افسوس ہے کہ میں آ نہیں سکا"

ثوبان نے سیرت کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر کہا شاید تھوڑی دیر پہلے کافی رو چکی تھی


"تم ابھی بھی کیوں آئے ہو، کر لیا نہ افسوس اب جاؤ یہاں سے"

سیرت تلخی سے کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی مگر ثوبان نے اس کی بات کا برا مانے بغیر اسے اپنے گلے سے لگا لیا، گلے لگنے کی دیر تھی سیرت اب دوبارہ ثوبان کے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگ گئی۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے اس کا سر تھپتھپا کر دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹے ثوبان اسے دلاسا دینے لگا کافی دیر رونے کے بعد جب سیرت کو تھوڑا صبر آیا تو وہ ثوبان سے الگ ہوئی


"اپنے گھر سے کیوں واپس آ گئی تھی"

ثوبان اب نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا


"کیا کرتی وہاں رہ کر،، بچا ہی کیا تھا وہاں"

سیرت نے پلنگ پر بیٹھ کر جواب دیا


"میں تمہیں لینے آیا ہوں،، آب میرے ساتھ میرے گھر چلو"

ثوبان نے اسے دیکھ کر کہا


"کون سا گھر میرا گھر یہی ہے اور میں یہی رہو گی۔ ۔۔ تمہارے ساتھ میں کہیں نہیں جانے والی"

سیرت نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا


"بیوی کا اصلی گھر اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چلنے والی ہو میرے گھر"

ثوبان نے اسے اپنا اور اس کا رشتہ واضح کراتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا


"شوہر۔۔۔ مجھے جب اپنے شوہر کی ضرورت تھی، تو میرے شوہر کو میری رتی برابر پروا نہیں تھی"

سیرت نے طنزیہ مسکراتے ہوئے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"تمہیں اندازہ ہے تمہارے وہاں سے جانے کے بعد بابا کو کتنا صدمہ پہنچا کل رات میں انہیں ہسپٹل سے واپس گھر لے کر آیا ہوں پیرالائیز ہیں وہ تین دن سے،،، میں کتنا پریشان تھا تم اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی"

ثوبان اس کے طنزیہ لہجے کو اگنور کرتا ہوا اپنی صفائی دینے لگا جسے سن کر سیرت ایک پل کے لیے چپ ہو گئی


"جب میرا باپ مر رہا تھا تو مجھے تمہاری ضرورت تھی مگر تم اپنے بابا کو دیکھتے ہوئے بیوی کو تو کیا، پوری دنیا کو بھلائے ہوئے تھے"

اس نے ایک دفعہ پھر ثوبان پر طنز کیا


"غلط بات مت کرو مجھے اس وقت تمہارے ابا کی ڈیتھ کا علم نہیں تھا،، نہ ہی تم نے مجھے ایسا کچھ بتایا"

اب کی بار سیرت کی طنزیہ گفتگو سن کر ثوبان کو بھی غصہ آنے لگا جبھی وہ بولا


"تو تم نے کونسی میری کالز ریسیو کی، ویسے میرا میسج تو پڑھا ہوگا۔۔۔ خیر یہ تو اب فضول کی باتیں ہیں۔۔۔ اب تم مجھے صرف اس بات کا جواب دو،، تمہیں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا ہے یا بیوی کے ساتھ کیوکہ یہ تو طے ہے میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانے والی"

سیرت کھڑی ہو کر اس کے مقابل آ کر بولی ثوبان اسے حیرانی سے دیکھنے لگا


"کیا فضول بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا"

اب اسے سیرت پر غصہ آنے لگا


"آپشنز تمہارے پاس موجود ہیں چوائس تمہاری ہے۔۔۔ تمہیں اپنی بیوی یا ماں باپ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا"

سیرت کندھے اچکا کر بولی

"میں اپنی فیملی کو نہ کسی کے پیچھے اگنور کرسکتا ہوں نہ چھوڑ سکتا ہوں اور تم بھی اب اسی فیملی کا حصہ ہوں اس لیے یہ بچکانہ اور بے وقوفانہ باتیں مجھ سے نہیں کرو اور چپ کر کے میرے ساتھ ابھی اور اسی وقت چلو"

ساری نرمی کو ایک طرف رکھ کر ثوبان نے اپنی سیرت کا بازو پکڑا جسے سیرت نے فوراً جھٹک دیا

"میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والی اور تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے"

سیرت نے بھی سخت لہجے میں کہا ثوبان نے غصہ کنٹرول کرکے اپنے لب بھینچے

"وہ میرے ماں باپ ہیں،، نہ میں انہیں چھوڑ سکتا ہوں نہ تمہیں اور رہی بات زبردستی کی تو بیوی ہو تم میری حق رکھتا ہوں تم پر،، سیدھی شرافت سے میرے ساتھ چلو مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرنا"

ثوبان اس کو وارن کرتا ہوا اس کا بازو تھامے باہر نکلنے لگا سیرت کا رونا مزاحمت کرنا سب کچھ اگنور کرتا ہوا اسے گاڑی میں بٹھا کر ثوبان نے گاڑی اسٹارٹ کر دی

"میں امید کروں گا کہ اب کی بار تمہارے الفاظ مما بابا یا رنعم کے لیے دکھ یا دل آزاری کا سبب نہیں بنے۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم انہیں اپنے ماں باپ کے طور پر قبول نہیں کر سکتی مگر تمہیں ان سب کو میری فیملی کے طور پر ایکسیپٹ کرنا ہوگا اور مجھے امید ہے تم مجھے مایوس ہرگز نہیں کروں گی"

ثوبان نے کار پارک کرتے ہوئے سیرت کو دیکھ کر کہا


آج اس نے اپنی طبیعت کے برخلاف جاکر سیرت کو غصے میں زبردستی اپنے ساتھ گھر لے کر آیا تھا،،، اگر وہ آج ایسا نہیں کرتا تو پھر سیرت اس کے ساتھ کبھی بھی چلنے کو تیار نہیں ہوتی اور ڈرائیونگ کے دوران ہی اس نے سیرت کو یہ ساری حقیقت بتادی کہ وہ کس طرح بہروز اور یسریٰ سے جدا ہوئی مگر سیرت کی خاموشی سے وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ اس بات کو کس حد تک سمجھ پائی ہے کہ اس سارے واقعے میں یسریٰ اور بہروز کی کہیں کوئی غلطی نہیں


ثوبان نے اپنی بات مکمل کر کے گاڑی سے باہر نکل کر سیرت کی طرف کا دروازہ کھولا تو سیرت ثوبان کو دیکھنے لگی۔۔۔ ثوبان نے آگے بڑھ کر سیرت کا ہاتھ پکڑ کر اسے کار سے باہر نکالا تو وہ ثوبان کا ہاتھ جھٹک کر خود گھر کے اندر جانے لگی،، ثوبان اسے کچھ کہے بغیر اپنا سر نفی میں ہلا کر اس کے پیچھے گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔۔۔


اپنے روم کی کھڑکی سے سگریٹ پیتے ہوئے کاشان نے یہ منظر دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی


"واہ کیا بات ہے۔۔۔۔ سیرت بی بی کے کارنامے دیکھو اور انکی آکڑ دیکھو۔۔۔۔ اور ایک ہمارے بھائی صاحب ہیں ان کا عہدہ دیکھو اور ان کی حالت دیکھو۔۔۔۔ کچھ نہیں بن سکتا ثوبی تمہارا"

کاشان نے خود سے باتیں کرتے ہوئے سگریٹ کا ٹکڑا کھڑکی سے باہر پھینکا کھڑکی کے پردے برابر کرتا ہوا اپنے روم سے نکل کر ثوبان کے پاس چلا گیا


****


"تم آگئی واپس میری جان،،، اب کہیں نہیں جانا دیکھو تمہارے بابا، تمھارا دوبارہ جانا برداشت نہیں کر سکے اور کیا حالت ہوگئی ان کی۔۔۔ اگر اب کی بار تم ہمہیں چھوڑ کر گئی تو میرا دل بند ہو جائے گا"

یسریٰ سیرت کو گلے سے لگا کر روتے ہوئے اسے کہنے لگی سیرت چپ کر کے کھڑی رہی اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا تو ثوبان نے یسریٰ کو شانوں سے تھام کر سیرت سے الگ کیا


"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ مما، میرا اور رنعم کا بھی کچھ خیال کریں،،، رہی آپ کی ان صاحبزادی کی بات تو اب یہ ہمیشہ آپ کے پاس رہے گی اس کی آپ فکر نہیں کریں"

یسریٰ کو بہلاتے ہوئے اس نے سیرت کو دیکھ کر کہا ثوبان کی بات پر سیرت بھی اسے دیکھنے لگی


"آپی"

رنعم اپنے روم سے نکل کر ہال میں آئی وہاں سیرت کو دیکھ کر اس کے پاس جا کر رکی۔۔۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی،،، جب وہ دونوں ایک دوسرے سے پہلی دفعہ ہائی وے پر ملی تھیں تب ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی خبر نہیں تھی کہ ان دونوں کا آپس میں کتنا گہرا رشتہ ہے۔۔۔ سیرت رنعم کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔۔۔


یقیناً پچھلی بار کا رویہ تھا،، جو رنعم کو اس کے قریب آنے سے روک رہا تھا مگر سیرت کے اسمائل دینے پر رنعم آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی یسریٰ کے مقابلے میں سیرت رنعم سے خوش ہو کر ملی۔،۔۔ اس کو نہیں معلوم تھا یہ خوبصورت سی لڑکی اس کی سگی بہن ہے


"آو سیرت بابا اپنے روم میں تمہارا ویٹ کر رہے ہوں گے ان سے مل لو"

ثوبان نے سیرت کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ثوبان کے پیچھے چلی گئی ہے یسریٰ اور رنعم بھی اسکے ساتھ ہی روم میں پہنچی


سیرت بہروز کے پاس بیٹھی ہوئی تھی بہروز اسے دیکھ کر مسلسل روئے جا رہا تھا اپنی بیماری کے باعث وہ کافی حساس ہو گیا تھا


"بابا آپ نے پرومس کیا تھا انعم کے آنے کے بعد آپ بالکل نہیں روئیں گے"

ثوبان نے بہروز کو دیکھ کر اس کا پرومس یاد دلایا


"می۔۔ خو۔۔۔ش ہو می۔۔۔۔ری بیٹی وا۔ ۔۔پس آگئی ہے"

بہروز اٹک اٹک کر بولنے لگا


"مما آنی نظر نہیں آرہی ہیں"

ثوبان بیڈ پر ریلیکس انداز میں بیٹھتے ہوئے یسریٰ سے پوچھنے لگا


"آدھے گھنٹے پہلے عاشر اور باجی نکلے ہیں واپس اپنے گھر کے لئے"

یسری نے صوفے پر بیٹھے ہوئے ثوبان کو جواب دیا


"بھیا چائے لیکر آؤ آپ کے لئے یا کھانے کے بعد ہی پیئے گے" بہروز ثوبان اور کاشان تینوں کو کھانے کے بعد چائے پینے کی عادت تھی۔۔۔ کبھی کبھار آفس سے آنے کے بعد بھی ثوبان چائے پی لیتا تھا اس لئے رنعم ثوبان سے پوچھنے لگی


"نہیں یار ابھی موڈ نہیں ہے کاشی آفس سے آگیا"

ثوبان رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"جی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئے ہیں اپنے روم میں ہوگیں شاید"

رنعم نے ثوبان کو کاشان کے بارے میں بتایا


سیرت بہروز کے پاس بیٹھی ہوئی ان سب کی گفتگو سن رہی تھی۔۔۔ ثوبان اسے اس گھر میں اس فیملی کا ہی حصہ لگا۔۔۔ معلوم نہیں اب وہ ان سب میں ایڈجیسٹ ہو پائے گی کہ نہیں

سیرت ان لوگوں کو دیکھ کر سوچنے لگی


"رنعم ایسا کرو سیرت کو اس کا روم دکھادو۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں فریش ہو کر آتا ہوں جب تک فیزیوتھراپسٹ بھی آ جائے گا"

ثوبان نے سیرت کو چپ چاپ بیٹھا ہوا دیکھ کر رنعم کو بولا اور خود بھی اپنے روم میں چلا گیا


"آئیے آپی آپ کو آپ کا روم دکھادو"

رنعم بولتی ہوئی اسے اپنے ساتھ لے گئی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے برابر والے بیڈروم میں لے آئی


سیرت نے ایک نظر بیڈروم کا جائزہ لیا جو کافی اچھا ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔ اتنے بڑے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود وہ بچپن سے کتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترستی رہی تھی اور کتنی چیزوں سے محروم رہی تھی سیرت نے تلخی سے سوچتے ہوئے اپنا سر جھٹکا


"برابر والا بیڈ روم میرا ہے آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بلا جھجک مجھ سے کہہ سکتی ہیں" رنعم نے مسکرا کر کہا تو سیرت نے اثبات میں سر ہلایا رنعم اس کے بیڈروم سے چلی گئی


****


"زہے نصیب سیرت بی بی آج اپنے گھر آ ہی گئی"

ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی دروازہ دوبارہ ناک ہوا سیرت نے دروازہ کھولا تو سامنے کاشان کھڑا مسکراتا ہوا اسے دیکھ کر بولا


اسے دیکھ کر سیرت کا منہ حلق تک کڑوا ہوگیا وہ اس کی بات کا بغیر جواب دیے اپنے روم میں آکر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ کاشان چلتا ہوا آیا اور صوفے پر اس کے سامنے بیٹھا


"ناصر کا، آئی مین تمہارے والد محترم کا معلوم ہوا بہت افسوس ہوا سن کر" کاشان بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے تعزیت کرنے لگا مگر اس نے کبھی اتنی سنجیدگی سے سیرت سے بات نہیں کی تھی اس لئے سیرت کو اس کا یہ اندازہ ہضم نہیں ہوا سیرت نے اس کو گھور کر دیکھا


"ایسے کیوں گھور رہی ہوں واقعی افسوس کرنے آیا ہوں تمہارے ابا کا" اس کو گھورتے دیکھ کر کاشان نے سنجیدگی سے کہا


"تمہیں دیکھ کر تو میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ثوبان کو میرے نصیب میں لکھا ہے اور وہ تم جیسا ہرگز نہیں ہے"

سیرت نے خار کھانے والی نظروں سے دیکھ کر اس سے کہا اسے لگا کہ وہ اس کے ابا کی تعزیت کرنے کے بجائے اسے تپانے آیا ہے


"قسم سے یار ہم دونوں کی مزاج ایک جیسے نہیں ہیں مگر سوچ بالکل ایک جیسی ہے تمہیں دیکھ کر میں بھی خدا کا لاگھ لاکھ دفعہ شکر ادا کرتا ہوں کہ رنعم تم جیسی ہرگز نہیں ہے"

کاشان نے مسکراتے ہوئے سیرت سے کہا مگر وہ الگ بات تھی یہ مسکراہٹ دل جلانے والی تھی


"بتایا تھا مجھے ثوبی نے تمہاری پسند کے بارے میں۔۔۔ کہاں رنعم اتنی نازک سی، معصوم سی اور کہا تم۔۔۔ پورے کے پورے لفنگے،،، پیر دھو دھو کے پینے چاہیے تمہیں تو اس کے، اگر وہ تم سے شادی کے لیے راضی ہوگئی تو"

سیرت نے بھی اس کو تپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر وہ بڑا ہی ڈھیٹ ثابت ہورہا تھا اس کی بات سن کر تپنے کی بجائے مسلسل ڈھیٹوں کی طرح مسکرائے جارہا تھا


"سیرت بی بی تمہاری معصوم سی نازک سی بہن،، تمہارے اس لفنگے دیور کے قبضے میں سمجھو۔۔۔۔ شادی کے لئے تو اس کے اچھے بھی راضی ہوں گے اور رہی بات پیر دھو دھو کے پینے کی۔۔۔ جس دن تم نے ثوبی کے پیر دھو کے پی لیے اس دن یہ کوشش میں بھی کر کے دیکھ لوں گا چلو پھر ڈنر پر ملاقات ہوتی ہے" کاشان بولتا ہوا سیرت کے روم سے جانے لگا سیرت اس کو دیکھ کر دانت پیس کر رہ گئی


"اور ہاں بری عادتیں ہے ذرا دیر سے ہی جاتی ہیں،، یہاں زرا اپنے اوپر کنٹرول رکھنا کوئی چیز ادھر سے ادھر ہوئی تو تم ہی نظروں میں آؤں گی کیونکہ گھر کی نئی فرد تم ہی ہو"

کاشان جاتے جاتے اسے سلگانا نہیں بھولا سیرت نے اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر بیڈ سے تکیہ اٹھا کر کھینچ کر اسے مارا مگر تب تک وہ روم سے جا چکا تھا


"خبیث کہیں کا۔۔۔ اسے بھی جھیلنا پڑے گا اب"

سیرت میں تپتے ہوئے سوچا


****


کھانے کی میز پر سب ہی موجود تھے سوائے ثوبان کے سیرت باری باری سب کا جائزہ لینے لگی مگر سمجھ نہیں آیا کس سے پوچھے


"وہ 5 منٹ بعد آئے گا انکل کو کھانا کھلا رہا ہے تم اسٹارٹ کرو"

کاشان اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے بولا جس پر سیرت بلاوجہ شرمندہ ہونے لگی


"دوپہر کو تمہارے بابا کو میں کھانا کھلا دیتی ہوں مگر ثوبان اگر گھر جلدی آجائے تو بہروز اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں"

یسریٰ سیرت کو بتانے لگی جس پر اس نے سر ہلایا


"آپ کی بھیا سے کافی اچھی فرینڈشپ لگتی ہے" رنعم نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے سیرت سے پوچھا مگر اس کے کچھ بولنے سے پہلے کاشان بول پڑا


"ایسی ویسی دونوں ہی میں بچپن سے کافی انڈر اسٹنڈنگ ہے"

کاشان کے بولنے پر سیرت نے اس کو گھور کر دیکھا یسریٰ بھی کاشان کی بات پر سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی


"میرا مطلب ہے کہ ہم تینوں میں ہی کافی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے بچپن سے، ایک ہی اسکول میں پڑھے ہیں ایک ہی محلے میں رہے ہیں اس وجہ سے"

اب کے کاشان یسریٰ کو دیکھتے ہوئے تھوڑا سنبھل کر بولا معلوم نہیں اب ثوبی کب اپنے اور سیرت کے رشتے کی حقیقت سے سب کو آگاہ کرتا ہے کاشان نے سوچا


"رنعم کھانا کھاتے ہوئے ثوبان اور سیرت کے بارے میں سوچنے لگی ہائی وے پر لفٹ دیتے ہوئے ثوبان کا انداز اور سیرت کا گریز پھر ثوبان کا سیرت کو گھر لانا یہ سب کچھ اسے فرینڈشپ سے زیادہ لگا


"بھیا اور آپی۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو کچھ برا بھی نہیں۔۔۔ آف کیا سوچنے لگی میں شاید ایسا کچھ ہوہی نہیں رنعم نے اپنی بات کی خود ہی نفی کی اور کھانا کھانے میں مصروف ہوگئی


"آپ نے کھانا شروع نہیں کیا"

ثوبان نے کرسی پر بیٹھے ہوئے یسریٰ سے کہا جب کہ سب کھانا شروع کر چکے تھے


"تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی آجاو شاباش"

یسریٰ نے کھانے کی ڈش اس کی طرف بڑھائی تو ثوبان اپنی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگا


سیرت کن انکھیوں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی


"تمہارے لیے اچھی بیٹی بننے سے زیادہ ضروری ہے اچھی بہو بننا"

اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے اسے کاشان کی ہلکی سی سرگوشی سنائی دی سیرت نے سر اٹھا کر کاشان کو دیکھا تو وہ اسے کھانے سے انصاف کرتا ہوا نظر آیا


"ثوبان اگر کل تم فری ہو بیٹا تو سیرت کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ جو بھی اپنے لیے ضرورت کی چیزیں سمجھے گی وہ لے لیں گی"

یسریٰ کے بولنے پر سیرت نے اسے دیکھا


"میرے پاس ضرورت کی چیزیں پہلے سے موجود ہیں اس تکلف کی ضرورت نہیں میں کل اپنے فلیٹ سے لے آؤں گی ساری چزیں" سیرت نے روکھے پھیکے لہجے میں یسریٰ کو دیکھ کر جواب دیا

اس کا لہجہ کسی نے نوٹ کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر ثوبان نے نوٹ کیا جو اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا


"مما ٹھیک کہہ رہی ہے بالکل،، مگر کل میرا شیڈیول تھوڑا بزی رہے گا۔۔۔۔ بابا کو چیک اپ کے لیے لے کر جانا ہے اور شوروم کیا بھی چکر لگانہ ہے۔۔۔ کاشی اگر تم فری ہو تو سیرت اور رنعم دونوں کو لے کر چلے جانا اپنے ساتھ"

ثوبان نے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا


"نو پروبلم لے جاؤں گا۔۔۔ تم یہ بریانی ٹیسٹ کرو مزے کی بنی ہے"

کاشان نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر رنعم نے اسمائل دے کر سر نیچے جھکا لیا


****


نئی جگہ پر لیٹنے کی وجہ سے اسے نیند نہیں آ رہی تھی یا شاید آج دوپہر میں وہ زیادہ سوگئی تھی اس وجہ سے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی


وہ اپنے روم سے نکل کر گھر میں بنے ہوئے لان میں آگئی لان میں موجود جھولا دیکھکر سیرت اس پر بیٹھ گئی۔۔۔ گھر میں سناٹے کو دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے سب اپنے روم میں سوگئے ہوگیں اور ثوبان وہ تو اسے گھر لا کر ہی بھول گیا تھا سیرت جھولے پر بیٹھی ہوئی سوچنے لگی


"کیا ہوا نیند نہیں آ رہی کیا"

کاشان کی آواز پر چونک کر سیرت نے اسے دیکھا کاشان کو دیکھ کر دوسری بار سیرت کا منہ کڑوا ہوا


"مجھے دیکھ کر تمہاری اتنی سڑی ہوئی شکل کیسے بن جاتی ہے آخر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کڑوا بادام منہ میں چبا لیا ہو تم نے"

کاشان اس کے پاس آ کر پوچھنے لگا


"تم اتنی رات گئے تک کیوں جاگ ریے ہو الّووں کی طرح" سیرت نے اس کی بات کو اگنور کر کے اسکے جاگنے کی وجہ پوچھی


"اُلّو کے علاوہ عاشق بھی راتوں کو جاگتے ہیں،، ویسے تم کیوں چمکادڑ کی طرح درخت کی بجائے اس جھولے پر لٹکی ہوئی ہو اس وقت"

کاشان مسکراتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو سیرت نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا


"کوئی کام تھا یا ایسے ہی میرا دماغ کھانے آئے ہو"

سیرت نے تپ کر اس سے پوچھا


"یار ضروری ہے ہم دونوں ہر وقت لڑتے رہے، ، چلو آج سے دوستی کر لیتے ہیں تم بھابھی تو بن چکی ہو میری،، چند دنوں بعد سالی آدھی گھر والی بھی بن جاو گی پھر کیا خیال ہے"

کاشان نے سیرت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو سیرت نے اس سے ہاتھ ملایا


"یہ تمہارا ہاتھ ہے یا ہتھوڑا لگتا ہے جیل میں رہ کر کافی پتھر توڑے ہیں تم نے۔۔۔ شکر ہے دل ابھی تک پتھر نہیں ہوا"

سیرت نے اس کے ہاتھوں کی سختی کو محسوس کر کے تبصرہ کیا جس پر کاشانہ ہنسا


"دل بھی پتھر ہو گیا تھا مگر اب قطرہ قطرہ اس پر موم گرتی رہتی ہے" کاشان نے مسکرا کر کہا


"اچھا تو اس دن ڈول تم رنعم کو کہہ رہے تھے لگتا ہے زیادہ ہی پسند آگئی ہے"

سیرت نے مسکراتے ہوئے پوچھا


"زیادہ نہیں بہت زیادہ"

کاشان سیگریٹ سلگاتے ہوئے بولا


"چھی تم نے سگریٹ پینا بھی اسٹارٹ کردی ویسے تم سے توقع رکھی جا سکتی ہے گٹکا، پان، مین پوری کچھ بھی استعمال کر سکتے ہو"

سیرت کے بولنے کے اسٹائل پر کاشان پھر ہنسا


"گٹکا، مین پوری، پان واہ کیا بات ہے ساری الٹی سیدھی چیزوں کے نام پتہ ہے تمہیں"

کاشان نے سگریٹ پیتے ہوئے داد دینے والی نظروں سی سیرت کو دیکھا


"میں تمہاری ڈول کی طرح کوئی برگر بچی تھوڑی ہوں۔۔۔ چھوٹی سی عمر میں دنیا دیکھی ہے سیرت نے"

سیرت نے آبرو اچکا کر کہا


"برگر بچی"

کاشان دوبارہ ہنسا


"اور وہ برگر بچی اپنے ٹیررس میں کھڑی کافی دیر سے ہم دونوں کو گھور رہی ہے"

کاشان نے سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے سیرت کو دیکھ کر کہا


سیرت نے نا محسوس ہونے والے انداز سے رنعم کو دیکھا جو واقعی ٹیرس میں کھڑی آنکھوں میں الجھن سمائے ہوئے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ سیرت نے کاشان کو دیکھا تو دونوں مسکرانے لگے

ڈریسر کے سامنے کھڑے ہو کر رنعم گلوس لگاتے ہوئے اپنا جائزہ لینے لگی آئیز بلو جینز کے اوپر بےبی پنک کلر کا ٹاپ جس کی سلیویز ہالف سے بھی تھوڑی لمبی تھی یقیناً اب کاشان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا وہ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے سوچنے لگی


سیرت کے ساتھ شاپنگ مال جانے کے لیے وہ اپنی تیاری مکمل کر چکی تھی اپنا موبائل ہینڈ بیگ میں ڈالتے ہوئے روم سے باہر نکل کر سڑھیاں اترنے لگی کاشان ہال میں ہی موجود اس کا اور سیرت کا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے گھر آیا تھا


رنعم کو سیڑھیاں اترتا دیکھ کر کاشان نے اس کی ڈریسنگ کا جائزہ لیا اس کا ٹاپ جو کہ صرف کمر کو ہی کور کر رہا تھا کاشان کا موڈ خراب ہوا


"واپس جاؤ اور فوراً چینج کر کے آؤ"

اس نے دماغ کو ٹھنڈا اور لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے رنعم کو مخاطب کیا


"مگر اس کی سلیوز تو۔۔۔۔۔"

کاشان کے آنکھیں دکھانے پر رنعم کے منہ سے نکلنے والا جملہ آدھا منہ میں ہی رہ گیا


"آپ ایسا کریں آپی کوئی لے جائیں اپنے ساتھ"

رنعم نے بنا ڈرے، برا مناتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کل رات میں وہ سیرت سے کیسے ہنس کر بات کر رہا تھا جبکہ اس کو تو صرف وہ آنکھیں دکھاتا رہتا تھا


"کاشان ٹھیک ہے رہا ہے رنعم جاو اور ڈریس چینج کر کے آو"

کچن سے اپنے روم میں جاتی ہوئی یسریٰ نے رنعم کو کہا۔۔۔ وہ کچن میں اس وقت بہروز کے لیے یخنی بنا رہی تھی یقیناً ان دونوں کی گفتگو سن چکی تھی کاشان بھی یسریٰ کے سامنے رنعم کا لحاظ کر گیا تھا ورنہ جیسے رنعم نے کاشان کے آگے جواب دیا تھا اس کی شامت لازمی آنی تھی۔۔۔ رنمم منہ بناتی ہوئی اوپر چلے گئی جبکہ یسریٰ مسکراتی ہوئی کاشان کو دیکھنے لگی


"ایسی ڈریسنگ ویسے مجھے بھی خاص پسند نہیں ہے مگر یہاں ہماری سوسائٹی میں لڑکیاں آج کل ایسی ہی ڈریسنگ میں نظر آتی ہیں"

یسریٰ کی بات پر کاشان کیا کہتا یسریٰ کو اسمائل دے کر خاموش ہوگیا۔۔۔ یسریٰ اب اپنے روم میں جا چکی تھی


تھوڑی دیر بعد رنعم اسے مختلف ڈریس میں نیچے اترتی نظر آئی۔۔۔ لائٹ براون شرٹ پر بلیک ٹائٹ، بلیک ہی کلر کا اسٹول اس نے گلے میں ڈالا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ شرٹ اتنی تنگ اور باریک تھی کہ جسم کے سارے خدوخال دور سے نمایاں ہو کاشان غصہ میں لب بھینچ کر رنعم کی طرف بڑھا۔۔۔ آخر کی دو سیڑھیاں بچی تھی کاشان نے رنعم کا بازو پکڑا واپس اسے بیڈ روم میں لے جانے لگا


"اب کیا مسلہ ہوگیا کاشان"

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے رنعم نے اس سے پوچھا جس کا کاشان نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اسے بیڈ روم میں لا کر ایک جھٹکے سے بیڈ پر گرایا اور اس کا وارڈروب کھول کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ جو اسے مناسب ڈریس لگا ہینگر سے نکال کر رنعم پر اچھالا


"دس منٹ کے اندر چینج کر کے نیچے آؤ"

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا روم سے نکلنے لگا


"کیا برائی ہے اس ڈریس میں دوسری لڑکیاں بھی تو ایسی ڈریسنگ کرتی ہیں"

رنعم نے اس کے سامنے دوبارہ منہ کھولنے کی ہمت کر لی۔۔۔ کاشان جو روم سے باہر نکل رہا تھا دوبارہ رنعم کے پاس آیا۔۔۔۔ اپنی طرف آتا دیکھ کر رنعم فوراً دو قدم پیچھے ہوئی


"تمہارے اس ڈریس میں کوئی مسئلہ نہیں سوائے اس کے کہ اس کے اندر کی ڈریسنگ کا کلر میں باآسانی دو قدم کے فاصلے سے بھی دیکھ کر بتا سکتا ہوں"

کاشان رنعم کے قریب آتا بولا اس کی بات سن کر رنعم نے نظریں چرا کر اپنی نظروں کا زاویہ دوسری طرف کر لیا مگر کاشان نے اپنے ہاتھ سے اس کا چہرہ کا رخ دوبارہ اپنی طرف کیا


"نظریں کیو پھیر لی تم نے میری بات پر، جواب دو۔۔۔ اس طرح کے کپڑے پہن کر جب تم میرے ساتھ چلو گی اور دوسرے لوگ تمہیں دیکھے گے۔۔۔ تو اس وقت میں اپنی آنکھوں کا زاویہ ِاِدھر اُدھر نہیں کرسکتا اور رہی دوسری لڑکیوں کی بات تو کوئی کچھ بھی پہنے مگر تم یہ بےہودہ قسم کے کپڑے نہیں پہنو گی۔ ۔۔۔ میں ان بےغیرت مردوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی عزت کو فیشن کے نام پر شو پیس بنا کر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تم نے کل بھی ٹاپ پہنا ہوا تھا میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ تم گھر میں موجود تھی،،، میں باہر نکل کر تمہیں برقع یا چادر لینے کا نہیں کہہ رہا مگر تم ایسی ڈریسنگ کرو گی تو مجھے برا بھی لگے گا اور غصہ بھی آئے گا"

وہ رنعم کو گھورتا ہوا بولا اور واپس جانے کے لئے مڑا


"بھّیا نے تو کبھی اعتراض نہیں کیا"

رنعم نے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا مگر اس کی بربراہٹ اتنی واضح تھی کہ کاشان نے آرام سے سن لیا


"کیوکہ تمہارا بھیا الو کا پٹھا ہے اور کچھ"

کاشان نے دوبارہ پلٹ کر اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے غصے میں کہا۔۔۔ رنعم کو اس طرح کاشان کا ثوبان کے بارے میں بات کرنا سخت ناگوار گزرا۔۔۔ اس سے پہلے وہ احتجاجاً کچھ بولتی کاشان نے زور سے اس کا منہ پکڑا


"کچھ زیادہ ہی زبان نہیں چل رہی ہے آج تمہاری۔۔۔ اب اگر آگے سے تم نے ایک لفظ نکلا ناں تو اپنے حشر کی تم خود ذمہ دار ہوگی۔۔۔ دس منٹ کے اندر چینج کرکے باہر آو فوراً"

کاشان نے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ ہٹا کر پیچھے کیا تو رنعم کو اپنے جبڑے دکھتے ہوئے محسوس ہوئے


"اور جب تم باہر آؤ گی تمہارا منہ بالکل بنا ہوا نہیں دیکھو میں"

کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر وہ ایک بار پھر رنعم کو باور کرانا نہیں بھولا


ڈریس چینج کر کے جب رنعم باہر آئی تو سیرت اور کاشان کار کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔ رنعم پر ایک نظر ڈال کر گلاسز لگاتے ہوئے کاشان ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا


"آگے آپ بیٹھ جائے آپی"

سیرت کار کے پیچھے کا ڈور کھولنے لگی تو رنعم نے مسکرا کر کہا سیرت کاندھے اچکا کر آگے بیٹھ گئی


****


"تم ثوبی کا پیسہ شاپنگ کرکے حلال کرو جب تک میں تمہاری نازک سی بہن کے ساتھ مال کا ایک چکر لگا کر آتا ہوں"

سیرت کاشان اور رنعم تینوں اس وقت شاپنگ مال میں موجود تھے۔۔۔ سیرت اپنے لیے ڈریس دیکھ رہی تھی تبھی کاشان اس کے پاس آ کر بولا۔۔۔ رنعم کا اس وقت منہ تو نہیں بنا ہوا تھا مگر کاشان کو معلوم تھا اس کی ڈول اس سے ناراض ہے


"ہہہمم تو یعنی پٹانے کا کام اب تک جاری رکھا ہوا ہے۔۔۔ کتنے فیصد کامیابی کے چانز ہیں ویسے"

سیرت ایک ڈریس کو دیکھتی ہوئی مصروف انداز میں پوچھنے لگی


"پٹنے پٹانے کے مراحل تو کب طے ہو چکے ہیں۔۔۔ میں ثوبی تھوڑی ہوں جو بچپن سے ٹرائی کرتے کرتے جوانی میں آکر نکاح کرو۔۔۔ بہت جلد تمہیں اپنی سالی بنانے والا ہو"

کاشان کی بات پر سیرت نے اس کو مسکرا کر دیکھا


"میں سوچ رہی ہوں تم بچپن میں زیادہ خبیث تھے یا اب زیادہ خبیث ہو گئے ہو"

کاشان سیرت کی بات پر ہنسنے لگا


"یہ خبیثوں والی فیلینگ تم سے بات کرتے ہوئے خود آجاتی ہے ویسے تم یقین نہیں کرو گی میں تھوڑا بہت ڈیسنٹ بھی ہو"

کاشان کی بات پر سیرت مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگی


****


"کچھ پسند آیا تمہیں"

رنعم جیولری شاپ پر جیولری کے آئٹمز دیکھ رہی تھی تب کاشان نے اس کی پشت پر کھڑے ہو کر اس سے پوچھا


"اپنے لئے نہیں آپی کے لئے پسند کر رہی ہو آیئررنگ،، انہیں گفٹ کرنے کا سوچ رہی ہوں"

رنعم نے خوبصورت سے آیئر رنگز کو دیکھتے ہوئے کاشان سے بولا۔۔۔ کاشان نے اس کے ہاتھ سے آئیر رنگز واپس رکھے اور اسکا رخ اپنی طرف کیا


"اب تم مجھے خود ہی بتا دو ایسا کیا کرو کہ تمہاری ناراضگی دور ہو جائے"

وہ رنعم کو دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں اس سے پوچھنے لگا


"آئندہ آپ بھیا کے لیے ایسے الفاظ استعمال مت کریئے گا کاشان پلیز"

رنعم نے شکوہ کرتے ہوئے کاشان کو بولا


"ارے نہیں بول رہا تمہارے بھیا کو کچھ بھی۔۔۔۔ قسم سے تم سچ میں برگر بچی ہو"

کاشان نے اپنی مسکراہٹ چھپا کر رنعم کی ناک کھینچتے ہوئے کہا


"کیا، وہ کیا ہوتا ہے"

رنعم اپنی ناراضگی بھلائے کاشان سے پوچھنے لگی


"کچھ نہیں ہوتا ہے چھوڑو اسے، یہ دیکھو میں نے یہ اپنی پسند سے خریدی ہے تمہارے لیے اچھی لگے گی تمہاری نوز پر"

کاشان نے اپنی مٹھی کھولی تو اس کی ہتھیلی پر چھوٹی سی نوزپن موجود تھی


"مگر یہ میں نہیں پہن سکتی۔۔۔ اس کے لئے تو ناک چھدانی پڑے گی"

رنعم نے کنفیوز ہو کر اپنی ناک کو چھوتے ہوئے کہا


"تو اس میں پرابلم کیا ہے یہ کام بھی ابھی کروا لیتے ہیں چلو میرے ساتھ"

کاشان جیسے تیار کھڑا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا


"رکیئے کاشان میں ناک نہیں چھدا سکتی"

رنعم نے اس کے ساتھ چلتے چلتے اچانک بولا تو کاشان رکا


"کیوں"

رنعم کو دیکھتا ہوا وہ اس کا ہاتھ پکڑے حیرت سے پوچھنے لگا ہوا


"درد ہوگا کافی"

رنعم نے گھبراتے ہوئے بولا۔۔۔ جس پر کاشان اسے مزید حیرت سے دیکھنے لگا


"مستقبل میں تم کاشان احمد کی بیوی بننے والی ہو۔۔۔ اور اس کے لیے تمہیں اپنے اس ننھے سے دل کو مضبوط کرنا پڑے گا ورنہ میری شدتیں کیسے برداشت کر پاؤ گی"

وہ رنعم کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تو رنعم اپنی نظریں نیچے جھکا گئی۔۔۔


کاشان اس کا ہاتھ پکڑے اسے جیولری شاپ پر لے آیا مگر وہاں ناک چھیدنے والا لڑکا تھا رنعم کرسی پر بیٹھ گئی اس لڑکے نے پین سے اس کی ناک پر گول نشان بنایا کاشان کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ لڑکا اب باریک چاندی کا تار لے کر رنعم کے پاس آیا تو رنعم نے رونے والی شکل بنا کر کاشان کو دیکھا


"ایک منٹ یہ تار مجھے دو"

کاشان نے اس لڑکے سے تار مانگا اور اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا کیونکہ اب آگے کا کام وہ سمجھ گیا تھا


"کاشان آپ کیا کرنے لگے ہیں"

رنعم نے روہانسی انداز میں کاشان سے پوچھا


"خاموش ہوکر بیٹھی رہو"

کاشان نے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا


"کاششان"

کاشان نے جب باریک تار رنعم کی ناک کے پار کیا تو وہ کاشان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر چیخ اٹھی


"ریلیکس دیکھو، چھید گئی تمہاری ناک"

کاشان اپنے کارنامے پر خوش ہوتا ہوا بولا مگر رنعم کا اچھا خاصا منہ بن چکا تھا بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے رنعم کاشان کو دیکھ کر سوچ رہی تھی جبکہ وہ اپنی مسکراہٹ چھپائے اس کا ہاتھ پکڑ کر شاپ سے باہر نکل گیا


****


کہاں رہ گئے تھے تم دونوں ثوبان کی کال آرہی ہے میرے پاس"

سیرت نے دور سے آتے کاشان کو دیکھ کر پوچھا


"کہیں نہیں گئے تھے یار، میں نے سوچا مستقبل میں ہونے والی بیوی کے نقیل ابھی سے ڈال دو۔۔۔ تمہارا اور ثوبی کا نکاح ایمرجنسی میں ہوا ورنہ اس کو بھی یہی مشورہ دیتا۔۔ بیوی کو قابو میں رکھنے کا نسخہ نمبر ١٨٦

کاشان کی بات سن کر سیرت ہے اس کے پیچھے آئستہ قدموں سے چل کر آتی رنعم کو آتے دیکھا جس کے ناک میں بالی موجود تھی۔۔۔۔ کاشان نے جتنی سنجیدگی سے بات کی تھی سیرت کے لئے ہنسی چھپانا مشکل ہوگئی


"تم کسی دن بری طرح پٹوگے مجھ سے"

وہ ایک زوردار دھموکڑا کاشان کے کمر پر جڑتی ہوئی بولی


"سوٹ کررہی ہے بالی تم پر بہت"

رنعم قریب آئی تو سیرت نے مسکرا کر رنعم سے کہا رنعم نے ہلکی سی اسمائل دی۔ ۔۔۔


اچانک رنعم کی نظر ایک اسٹال پر پڑی


"ارے آپی وہ دیکھیں شاہنہ پامسٹ یہاں پر موجود ہیں۔۔۔۔ آج کل یہ پاکستان میں موجود ہوتی ہیں ان کا بتایا ہوا %99 سچ ہوتا ہے کل یعشل نے مجھے ان کے بارے میں بتایا تھا چلے ہم لوگ بھی ان کو اپنا ہاتھ دکھا کر فیوچر جانتے ہیں"

رنعم نے ایکسائیٹڈ ہوکر سیرت سے کہا


"دماغ صحیح ہے تمہارا،، گناہ ہوتا ہے یہ اور فضول لوگوں کا کام ہے ہاتھ دیکھنا اور دکھانا" سیرت کے کچھ بولنے سے پہلے کاشان رنعم کو دیکھ کر بولا تو وہ چپ ہوگئی


"ارے کاشی کے بچے تم کیوں اتنا سیریس ہو رہے ہو۔۔۔ ہم نے کونسا یقین کرنا ہے۔۔۔ ہم تو صرف انجوائے منٹ کے لیے ہاتھ دکھا رہے ہیں۔۔۔۔ چلو چلتے ہیں مزا آئے گا"

سیرت نے دوستانہ انداز میں کاشان کو دعوت دی


"شرافت سے گھر چلو،، کارٹونز جیسے شوق ہے تم دونوں بہنوں کے"

کاشان نے سنجیدگی سے ان دونوں کو دیکھ کے جھڑکا


"اوئے یہ ہیرو نا تم اس کے سامنے بنا کرو جو تمہیں ہیرو سمجھتا ہے۔۔۔ چلنا ہے تو شرافت سے چلو نہیں تو یہی ویٹ کرو ہم آرہے ہیں تھوڑی دیر میں"

سیرت نے بولنے کے ساتھ ہی رنعم کا ہاتھ پکڑا اور اسٹال کی طرف بڑھنے لگی


کاشان بھی اب ان دونوں کو اکیلے کیسے جانے دیتا اس لئے ان دونوں کے پیچھے چل پڑا


"آئندہ ثوبی سے کہوں گا اپنے پیس کو اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کر آؤ۔۔۔ وہ زیادہ اچھی شاپنگ کرائے گا تمہیں"

رنعم اپنے موبائل پر آنے والی کال پر مصروف تھی تب کاشان نے سیرت سے کہا


"ارے جاو یہاں سے تم اور تمہارا بھائی،، تم دونوں نے سیرت کو ہلکا لیا ہوا ہے"

سیرت نے اکڑتے ہوئے کاشان کو دیکھ کر کہا


"سیرت بی بی تم نے ثوبی کو بہت ہلکا لیا ہوا ہے،، جس دن اس نے اپنا رنگ دکھایا نہ لگ پتہ جائے گا۔۔۔ بھائی ہے وہ میرا اچھی طرح جانتا ہوں میں اسے"

کاشان نے اسے ڈرانے کی کوشش کی جس کا سیرت پر خاص اثر نہیں ہوا


وہ تینوں اسٹال کے اندر داخل ہوئے جہاں پر اس وقت اتنا رش نہیں تھا۔۔۔ وہاں ایک 45 سالہ خاتون بیٹھی ہوئی تھی


"ہم تینوں کو آپ سے اپنا فیچر جاننا ہے"

سیرت نے مسکراتے ہوئے سامنے بیٹھی شاہینہ کو مخاطب کیا۔۔۔۔ کاشان نے سیرت کو گھور کر دیکھا


سیرت نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے شاہینہ تھام کر مسکرائی


"دیکھو میں پہلے ہی بتا دیتی ہوں جو میں بتاؤں گی وہ ضروری نہیں کہ پتھر پر لکیر ہو ہاں مگر میرا بتایا ہوا زیادہ تر سچ ہوتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں تو کیا بتاؤں میں تمہارے بارے میں۔۔۔ شکل سے تو تم بہت معصوم ہو مگر کارنامے تمہارے۔۔۔۔

شاہینہ نے ابھی اس کا ہاتھ دیکھ کر اتنا ہی بولا ویسے ہی سیرت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا


"شاہینہ جی مجھے اپنا پاسٹ معلوم ہے۔۔ میں فیوچر جاننے میں دلچسپی رکھتی ہوں"

سیرت اس کو دیکھ کر مسکرائی اسے ڈر تھا کہیں وہ رنعم کے سامنے کچھ الٹا سیدھا نہ بول دے اس کی بات سن کر شاہینہ بھی مسکرائی


"چلو پھر بتاؤ کیا جاننا چاہتی ہوں"

شاہینہ نے اس سے پوچھا


"یہی کہ آگے کی لائف کیسی رہے گی"

سیرت نے مسکرا کر پوچھا


"ہہمم پہلے کافی ٹف لائف گزار چکی ہو تم مگر لکیریں دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آگے کی زندگی تمہارے لیے کافی سہل ہے مگر اس کو سہل بنانے کے لئے تمہیں خود بھی کوشش کرنی پڑے گی ایک چھوٹا سا امتحان بھی آئے گا کسی پیاری سی چیز کو کھونے کا۔۔۔ مگر فکر کرنے کی بات نہیں ہے آگے سب کچھ ہوگا۔۔۔ صرف تمہارے ہی ہاتھ میں ہے اپنی اگے زندگی کو مزید آسان بنانا"

شائینہ کی بات سن کر وہ کندھے اچکا کر رہ گئی


"پلیز مجھے بھی میرے بارے میں بتائے"

رنعم نے اپنا ہاتھ شاہینہ کے آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ شاہینہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے غور سے دیکھنے لگی


"ہاں تو بھئی تم نے کافی لاڈ پیار میں اب تک کی زندگی بسر کی ہے۔۔۔ شادی کے بعد"

شاہینہ نے خاموش ہوکر دوبارہ رنعم کو دیکھا کاشان اور سیرت بھی شاہینہ کو ہی دیکھ رہے تھے


"شادی کے بعد ایک اچھی سی لائف تمہاری منتظر ہے اور یہ شادی تمہاری پسند کی ہوگی مگر خوبصورت لڑکی حالات کو دیکھتے ہوئے تمہیں مضبوط رہ کر ثابت قدم رہنا پڑے گا"

شائینہ نے رنعم کو دیکھ کر کہا مگر اسے لگا جیسے وہ بات بدل کی ہے یا کچھ چھپا گئی ہے


"ہو گیا تم دونوں کا اب چلو گھر"

کاشان جو کافی دیر سے چہرے پر بیزاری لائے شائینہ کی گفتگو سن رہا تھا سیرت اور رنعم کو دیکھ کر بولا


"میں تمہارا ہاتھ پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہوں"

شاہینہ نے کاشان کو دیکھ کر بولا


"مگر مجھے اپنا ہاتھ پڑوانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں"

کاشان نے شائینہ کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا


"میں فیس ریڈنگ بھی جانتی ہوں کاشی۔۔۔ کیا تم ایک کہانی سننا پسند کروگے"

شاہینہ اس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی


"ایک ریاست کا مغرور شہزادہ جوکہ اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے غصے کی وجہ سے بھی کافی مشہور تھا۔۔۔ اس کی پیدائش پر اس کے ماں باپ بہت خوش تھے مگر ایک جوشتی نے اس شہزادے کے بارے میں اس کے والدین کو بچپن میں ہی بتایا کہ ان کے بیٹے کے ہاتھوں کی لکیروں میں ایک قتل لکھا ہے"

شاہینہ کے بولنے پر کاشان ہنسا


"آج سے چودہ سال پہلے میں اپنے باپ کا قتل کر چکا ہوں"

کاشان کی بات پر شاہینہ کے چہرے پر پر اسرار مسکراہٹ آئی ساتھ ہی وہ کاشان کے پاس آکر کاشان کا ہاتھ دیکھنے لگی


"تم سمجھے نہیں کاشی میری بات کو۔۔ اس شہزادے کے ہاتھ میں ایک قتل لکھا تھا مگر جہاں تک میں دیکھ رہی ہوں تمہارے ہاتھوں کی لکیروں میں دو قتل لکھے ہیں"

شاہینہ نے کاشان کو دیکھتے ہوئے بولا اس کی بات سن کر کاشان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہی سیرت کے چہرے پر پریشانی کے جبکہ رنعم کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہوئے

کاشان نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا


"چلو تم دونوں"

وہ شائینہ کو گھورتا ہوا سیرت اور رنعم سے مخاطب ہوا

"یار اس کی باتوں کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی ہم نے تو صرف انجوائے منٹ کے لئے اپنا ہاتھ دکھایا تھا" سیرت نے خاموش چلتے ہوئے کاشان اور سہمی ہوئی رنعم کو دیکھ کر کہا


"اس بات کو تو تم دونوں بہنوں کو چاہیے اپنی عقل میں بٹھاؤ۔۔۔۔ یہ صرف لوگوں کو بیوقوف بنانے اور پیسے بٹورنے کے ذریعے ہیں،،، دل تو چاہ رہا تھا دوسرا قتل اس عورت کا ہی کردو"

کاشان کے بولنے پر رنعم نے بے ساختہ اس کو دیکھا


"اللہ نہ کرے کاشان آپ ایسی بدفعلیں منہ سے نہیں نکالیں کوئی بھی وقت قبولیت کا ہو سکتا ہے"

رنعم نے بے ساختہ کہا


"تم ڈر گئی ہو کیا یا تمہیں اس عورت کی بات سچ لگ رہی ہے کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں ایسا کر سکتا ہوں"

کاشان کے قدم رکے وہ رنعم کے سامنے آ کر اس سے پوچھنے لگا، سیرت ان دونوں کو دیکھنے لگی


"میرا ویسا تو مطلب نہیں تھا میں ایسا تو کچھ نہیں کہہ رہی کاشان"

رنعم نے کاشان کو وضاحت دینی چاہیے


"اوہو تم دونوں راستے میں کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو،، میں نے کہا نہ ہم نے صرف انٹرٹینمنٹ کے لئے ہاتھ دکھایا تھا۔۔۔ غیب کا علم تو صرف اللہ کو ہوتا ہے اس لیے یہ باتیں بے معنی ہیں۔۔۔ ہم تینوں میں سے ان باتوں کو کوئی دوبارہ ڈسکس نہیں کرے گا،، چلو اب چلتے ہیں کافی دیر بھی ہوگئی ہے"

سیرت نے ان دونوں کو سیریز دیکھ کر بیچ میں مداخلت کی تو کاشان شاپنگ بیگز ہاتھ میں پکڑے آگے چلنے لگا جبکہ سیرت اور رنعم باتیں کرتی ہوئی اس کے پیچھے آ رہی تھی


اچانک ایک لڑکا سامنے سے آیا جو جان بوجھ کر سیرت سے ٹکرایا


"آندھے ہو کیا دکھائی نہیں دیتا" سیرت کی آواز پر کاشان نے مڑ کر دیکھا


"واقعی اندھا ہو ورنہ تم سے نہیں اس سے ٹکراتا"

اس لڑکے نے خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنعم کو دیکھ کر کہا جس پر سیرت نے اسے تھپڑ مارنا چاہا مگر اس لڑکے نے سیرت کا ہاتھ پکڑ لیا کاشان ان دونوں سے چند قدم آگے چل رہا تھا تبھی وہ لڑکا اکیلی لڑکیوں کو دیکھ کر مزید بدتمیزی پر اتر آیا


کاشان جو غصے میں اس لڑکے کی طرف آ رہا تھا،، اس لڑکے نے جونہی سیرت کے ہاتھ پکڑا کاشان نے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگز پھینکے اس لڑکے کو گریبان پکڑ اس کے منہ پر مکّوں کی تعبڑ توڑ بارش کر دی۔۔۔۔ اس لڑکے کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر کاشان اسے مارتا ہی چلا گیا


"آپی آپ روکیے کاشان کو پلیز"

رنعم کاشان کا غصے دیکھ کر ڈر ہی گئی تھی وہ گھبرا کر سیرت سے کہنے لگی


"رک جاؤ تھوڑی دیر بعد روکوں گی۔۔ اس لڑکے کو ضرورت ہے پٹنے کی"

سیرت نارمل سے انداز میں بولی اور اس لڑکے درگت کاشان کے ہاتھوں سے بنتے ہوئے دیکھنے لگی


مگر جب وہ لڑکا نیچے گر گیا اور کاشان نے اسے تب بھی پیٹنا نہیں چھوڑا تو سیرت نے آگے بڑھ کر کاشان کو روکنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی ایک تو آدمی بیچ میں آگئے اور بیچ بچاؤ کروایا۔۔۔ سیرت کاشان کو بازو سے تھام کر گاڑی تک لائی


"تمہیں کیا چلنے کی دعوت دینی پڑے گی یا گود میں اٹھا کے لانا پڑے گا" کاشان نے پیچھے مڑ کر ڈری سہمی رنعم کو دیکھتے ہوئے کہا وہ فوراً تیز قدموں سے چلتی ہوئی ان دونوں کی طرف آئی اور سیرت کو اشارے سے کار میں آگے بیٹھنے کے لئے کہا کیونکہ اس وقت اسے کاشان کے غصے سے ڈر محسوس ہو رہا تھا


گھر پہنچ کر کاشان اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔ سیرت اور رنعم میں سے کسی نے واپسی پر ہونے والی بدمزگی یا پالمسٹ والی بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا البتہ یسریٰ نے رنعم کی ناک میں بالی دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا کیوکہ جب وہ اسے ناک چھدانے کا کہتی تو رنعم انکار کر دیتی


****


"تمہاری یہ ہیرو گیری آج کچھ زیادہ ہی نہیں ہوگئی" کاشان اپنے روم کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا سگریٹ پی رہا تھا تب سیرت اس کے روم میں آتی ہوئی بولی۔۔۔۔ کاشان سیرت کی آواز پر مڑا ایک نظر اس کو دیکھا اور دوبارہ اپنی سگریٹ پینے میں مشغول ہو گیا


"دکھاؤ اپنا ہاتھ جذباتی انسان"

سیرت نے اس کا چھلا ہوا ہاتھ پکڑا اس لڑکے کو مسلسل مارنے کے باعث اس کا اپنا ہاتھ بھی چھل گیا تھا


"ایسا کچھ بھی نہیں ہوا حالات میں اس سے زیادہ لوگوں کو پیٹا ہے اور پولیس کی لاٹھیاں کھائی ہیں"

وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر سنجیدگی سے بولنے لگا۔۔۔ اس لڑکے والی بات کو لے کر شاید اس کا موڈ اب تک خراب تھا


"لاتعداد پولیس کی لاٹھیوں کھائی ہیں" سیرت نے بھاری آواز نکال کر اس کی نقل اتاری


"بڑا ہی کوئی نیک کام کیا ہے جو یوں فخر سے بتا رہے ہو۔۔۔ چلو مانا ایسی سچویشن میں انسان کو غصہ آجاتا ہے اور وہ لنگور بھی ڈیزرو کرتا تھا صحیح ٹھکائی لگائی ہے اس کی تم نے مگر ایسا تھوڑی ہوتا ہے کہ انسان اپنا سلف کنٹرول ہی کو دے"

سیرت دوبارہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں موجود ٹیوب اس کے چھلے ہوئے ہاتھ پر لگاتے ہوئے بولی


"تو کیا کرتا پھر وہ تم سے بدتمیزی کر رہا تھا میں کھڑا دیکھتا رہتا"

دوبارہ ہاتھ چھوڑ کر وہ سگریٹ کا کش لگاتا ہوا بولا


"یہ کب کہہ رہی ہوں میں،، بس یہی تو سمجھا رہی ہوں، اتنا غصہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے معلوم ہے ناں رنعم کتنا ڈر گئی تھی اس وقت"

سیرت کی بات پر اس نے ایک نظر سیرت کو دیکھا اور دوبارہ سگریٹ پینے لگا


"اچھی باتیں ہے اسے ڈر کر ہی رہنا چاہیے ویسے بھی مجھے منہ زور اور زبان چلانے والی عورتیں پسند نہیں"

سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے اس نے سیرت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا


"اووو تو یوں کہو تمہیں ڈرنے والی اور دبنے والی بیوی چاہیے"

سیرت کو اس کی سوچ پر افسوس ہوا


"سب کی اپنی اپنی چوائس ہوتی ہے" سیرت کی بات پر کاشان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا


"یعنی اپنی بہن کو ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہے مجھے" سیرت نے کاشان کو دیکھتے ہوئے بولا


"کوشش کر کے دیکھ لو اسے اپنے رنگ میں ڈھالنے کا ہنر میں خوب جانتا ہوں"

اب کے کاشان نے اپنے چہرے پر آئی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا


"کاشی پٹو گے تم مجھ سے واقعی کسی دن"

سیرت جانتی تھی وہ سب مذاق میں کہہ رہا ہے ورنہ اس کی باتوں میں اور آنکھوں میں رنعم کے لئے چھلکتی ہوئی چاہت وہ صاف محسوس کر سکتی تھی


"ویسے کاشی تم نے صحیح اس لنگور کی چھترول کی ہے۔۔۔۔ قسم سے اب تو وہ اپنی بیوی کو چھیڑتے ہوئے بھی سو بار سوچے گا" سیرت اپنی بات کہہ کر خود ہی زور سے ہنس دی کاشان بھی اس کی بات پر ہنسنے لگا


تب ہی بیڈروم کا دروازہ جو پہلے سے آدھا کھلا ہوا تھا، رنعم پورا کھول کر اندر آئی ان دونوں کو ایک ساتھ ہنستا دیکھ کر اس کی نظر کاشان کے ہاتھ پر گئی جس پر سیرت آئینمینٹ لگا چکی تھی کیونکہ سیرت کے ہاتھ میں ٹیوب بھی وہ دیکھ چکی تھی۔۔۔ اپنے ہاتھ میں تھامی ٹیوب وہ چھپا گئی


"اوکے چلتی ہوں میں"

سیرت کاشان کو کہتی ہوئی رنعم کو اسمائل دے کر روم سے نکل گئی


کاشان رنعم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ نوٹ کر چکا تھا رنعم بھی کچھ کہے بغیر روم سے جانے لگی


"وہی رکو، دروازہ بند کرو اور واپس روم میں آؤ"

رنعم نے کمرے سے جانے کے لئے پر تولے، تو اپنے عقب سے کاشان کی آنے والی آواز پر اسے روکنا پڑا۔۔۔ وہ بیڈروم کا دروازہ بند کر کے کاشان کے پاس آئی۔ ۔۔۔


"اب بولو کیا کہنے آئی تھی"

رنعم کا بازو تھام کر اسے صوفے پر بیٹھا کر، خود کونے میں رکھی چیئر کو رنعم کے سامنے رکھ کر،، اس پر بیٹھتا ہوا کاشان اس سے پوچھنے لگا


"آج آپ کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا تو یہ آئینٹمینٹ دینے آئی مگر آپی مجھ سے پہلے ہی آپ کے زخموں پر مرہم رکھ چکی ہے اس لیے واپس جا رہی تھی"

رنعم نظریں جھکائے اسے اپنے آنے کی وضاحت دے رہی تھی اور کاشان اس کی ناک میں سجے چاندی کا تار غور سے دیکھ رہا تھا جس کا آج ہی اسکے چہرے پر اضافہ ہوا تھا اور یہ چینج سامنے بیٹھے کاشان کو کافی اچھا لگ رہا تھا


"اتنی بے اعتباری آخر کیو ہے تمہیں،، اس دن ہوٹل میں مایا کو دیکھ کر بھی تم نے اوور ری ایکٹ کیا تھا۔۔۔ آج سیرت کو دیکھ کر بھی تم شک و شبہات میں گِھر رہی ہو۔۔۔ لگتا ہے اب تمہیں اعتبار دلانا ہی پڑے گا"

بولنے کے ساتھ ہی کاشان نے رنعم کی ناک میں ڈلا تار آئستہ سے کھینچا۔۔۔ جس پر رنعم کی ہلکی سی چیخ کے ساتھ ننھی سی خون کی اک بوند بھی ناک سے نکل آئی


"یہ کون سا طریقہ ہے اعتبار دلانے کا"

اپنی ناک پر ہاتھ رکھ کر وہ ایک دم کھڑی ہوئی۔۔۔ اس کو اٹھتا دیکھ کر کاشان بھی اٹھا اور رنعم کا ہاتھ ناک سے ہٹایا


"یہ اعتبار دلانے کی کوشش نہیں بلکہ تمہارے فضول سے شک کرنے کی سزا ہے اعتبار تو میں اب دلانے لگا ہو"

رنعم کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ اس کے گلابی ہونٹوں کو دیکھ کر بولا


"کاشان آپ کیا کرنے لگے ہیں"

رنعم نے گھبرائے ہوئے انداز میں اپنے دھڑکتے دل کے ساتھ کاشان سے پوچھا


"وہی کرنے لگا ہوں جو اس وقت تم سوچ رہی ہو"

اب اس کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگلی ٹکا کر اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اسے مزید خود سے قریب کر کے بولا


"پلیز ایسا نہیں کریں"

رنعم نے احتجاجاً کہا اس وقت وہ کاشان کی سانسوں میں بسی سگریٹ کی اسمیل محسوس کر سکتی تھی وہ کاشان کے اتنے قریب آنے پر بری طرح گھبرا گئی


"کیوں،، تمہیں اچھا نہیں لگے گا"

وہ رنعم کا چہرہ اونچا کیے،، قریب سے اسکا چہرہ کو غور سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا رنعم نے نفی میں سر ہلایا


"میرا پیار کرنا تمہیں اچھا نہیں لگے گا"

کاشان اپنا انگوٹھا رنعم کے ہونٹوں کے پر پھیرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"شادی سے پہلے آپ کو اس طرح کرنا اچھا لگے گا"

رنعم نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا۔۔۔ کاشان کے ہونٹ رنعم کے ہونٹوں کے اتنے نزدیک تھے کے رنعم کو بولتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہو رہا تھا


رنعم کی بات سن کر کاشان چند منٹ تک غور سے اس کو دیکھتا رہا۔۔۔۔ پھر اپنے روم میں اس کو چھوڑ کر باہر چلا گیا


رنعم نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو کاشان کے روم میں تنہا پایا اپنی سانسوں کو بحال کرتی ہوئی رنعم اس کے روم کا دروازہ کھول کر باہر جانے لگی تو اپنے سامنے یسریٰ کو کھڑا پایا۔۔۔۔ جو شاید کسی کام سے کاشان کے روم میں آ رہی تھی


"تم کاشان کی روم میں کیا کر رہی ہو" رنعم کو کاشان کے روم سے نکلتا دیکھ کر یسریٰ نے چونک کر پوچھا


"انہی کو دیکھنے آئی تھی مگر وہ روم میں موجود نہیں ہیں"

یسریٰ کے اس طرح دیکھنے اور سوال کرنے پر رنعم کو گھبراہٹ ہونے لگی جبکہ ایسا پہلی دفع نہیں ہوا تھا


یسریٰ اسے اکثر کاشان کو بلانے کے لئے روم میں بھیج دیا کرتی کاشان کا روم بھی شاہدہ سے اکثر رنعم ہی صاف کراتی تھی


"ٹھیک ہے بیڈروم میں جاو بہروز پوچھ رہے ہیں تمھیں"

یسریٰ نے رنعم کو دیکھتے ہوئے کہا وہ سر ہلا کر روم سے چلی گئی


نوٹ تو یسریٰ چند دن پہلے سے کر چکی تھی رنعم کا روز کھانا بنانا اور کاشان کا صرف اسی کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانا۔۔۔ اکثر کاشان کا رنعم کو دیکھنا اور رنعم کا نظریں جھکا لینا یہ سب کچھ یسریٰ کی نظر سے چھپا ہوا نہیں تھا یسریٰ کچھ سوچتی اپنے روم میں چلی آئی


****


"افتخار چھوڑ دو مجھے"

فائزہ افتخار کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے ہوئے تکلیف سے بولی


"نہیں چھوڑوں گا آج میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا" افتخار پوری قوت سے فائزہ کا گلا دباتے ہوئے بولا


"ابو امی کو چھوڑ دو،، ورنہ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا"

13سالہ کاشان اپنے سیلن زدہ گھر کے کمرے میں موجود، بند دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتا۔۔۔۔تو کبھی کھڑکی کی جالی پکڑ کر افتخار کو دھمکی دیتا کیونکہ افتخار صحن میں کھڑا فائزہ کا گلا دبا رہا تھا اور فائزہ تکلیف سے تڑپ رہی تھی


"ابو مت مارو اسے" 13سالہ کاشان روتے ہوئے دوبارہ اپنے بے رحم باپ کو منع کرنے لگا


"کاشان نہیں پلیز۔۔۔ چھوڑیں میرا گلا" فائزہ کی شکل اچانک رنعم کی شکل میں تبدیل ہو چکی تھی وہ روتی ہوئی کاشان سے التجا کر رہی تھی


"بولو اب یہ بےہودہ کپڑے پہن کر باہر نکلو گی"

افتخار کی بجائے 27سالہ کاشان رنعم کا گلا اپنے سخت ہاتھوں سے دبوچتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا

ان دونوں کو دیکھ کر 13سالہ کاشان جھٹکے سے کھڑکی کی جالی کو چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہوا۔۔۔۔


وہی منظر ایک دم بدل گیا اب 13سالہ کاشان کے سامنے جیل میں ایک آدمی اپنے گھٹنوں میں سر دیے رو رہا تھا 13 سالہ کاشان کو اس سے ہمدردی محسوس ہوئی وہ گلاس میں پانی لیتا ہوا اس آدمی کے پاس آیا


"تم کیوں رو رہے ہو کس جرم میں اندر آئے ہو"

کاشان نے پانی کا گلاس اس آدمی کے سامنے بڑھاتے ہوئے پوچھا


"میں نے اپنی بیوی کو مار ڈالا ہے جس سے میں بہت زیادہ پیار کرتا تھا"

روتے ہوئے اس آدمی نے بولنے کے ساتھ اپنا سر اٹھایا۔۔۔۔۔ 13سالہ کاشان کے ہاتھ سے ایک دم پانی کا گلاس چھوٹا وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا


"مار ڈالا میں نے اپنی رنعم کو" 27سالہ کاشان روتے ہوئے 13 سالہ کاشان کو بولنے لگا


"رنم"

کاشان رنعم کے نام کو پکار کر ایک دم چیخ اٹھا۔۔۔۔ ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے سائیڈ پر رکھا لیمپ جلایا تو کمرے میں روشنی ہوئی۔۔۔ اے۔سی کی ٹھنڈک میں بھی اس کا پورا وجود پسینے سے شرابور ہو چکا تھا،،، وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا اسے محسوس ہوا جیسے ہوا میں اچانک آکسیجن ختم ہوگئی ہو۔۔۔ بیڈ سے نیچے اتر کر کاشان نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی کھولی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا کاشان نے اپنی آنکھیں بند کرلی اس کی آنکھوں کے سامنے رنعم کا چہرا آیا


رنعم کی دونوں سبز آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے جبکہ ہونٹ کے بائیں جانب خون نکل رہا تھا کاشان نے فوراً آنکھیں کھولیں اس کی ہارٹ بیٹ ایک بار پھر سے تیز رفتار میں چلنے لگی اسے لگا جیسے اب وہ کھبی اپنی آنکھیں بند نہیں کر پائے گا ےے


"رنعم"

کاشان کے ہونٹ ہلے وہ اپنے بیڈ روم سے نکل کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا رنعم کے بیڈ روم میں پہنچا وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا


دروازے کا ہینڈل گھمانے پر دروازہ کھل گیا رنعم اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی گہری نیند میں سو رہی تھی نائیٹ-بلب کی روشنی میں وہ اس کا چہرہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا کاشان نے اسے محسوس کرنے کے لئے یا اپنے آپ کو اطمینان دلانے کے لئے اپنی انگلیوں کے پوروں سے رنعم کا ماتھا چھوا۔۔۔۔ کسی احساس کے تحت رنعم کی آنکھ کھلی اپنے اوپر جھکے ہوئے وجود کو دیکھ کر بے ساختہ رنعم کے منہ سے چیخ نکالنے والی تھی مگر کاشان نے اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا


"میں ہوں کاشان" کاشان نے دوسرے ہاتھ سے لیمپ جلایا تو رنعم کو اس کا چہرہ واضح نظر آیا اب رنعم کی آنکھوں میں خوف کا عنصر کم حیرت کا عنصر زیادہ تھا آہستہ سے کاشان نے اس کے ہونٹوں سے اپنا ہاتھ ہٹایا


"آپ اس ٹائم یہاں پر کیا کر رہے ہیں" رنعم نے گھڑی میں نظر ڈالی رات کے دو بج رہے تھے اس کے اٹھ کر بیٹھنے پر کاشان پیچھے سرکا


"تمہیں دیکھنے کو دل چاہ رہا تھا اس لیے آگیا"

کاشان بغور اس کا چہرہ دیکھ کر بولا وہ چاہ کر بھی اپنا بھیانک خواب اسے شیئر نہیں کر سکا


"آپ ٹھیک ہے نا کیا ہوا آپ کو"

رنعم کو وہ اپنے آپ میں نہیں لگا اس کے پیشانی پر پسینے کی بوندیں بھی نمایاں تھی جنہیں رنعم نے اپنی انگلیوں سے چھونا چاہا


"کچھ کہنا چاہتا ہوں تم سے"

کاشان نے اپنی پیشانی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پر رکھا وہ رنعم کو دیکھتا ہوا بولا


رنعم چپ رہی جیسے اس کی بولنے کی منتظر ہو تبھی کاشان نے اپنی پیشانی رنعم کی پیشانی سے ٹکرائی اور اپنی آنکھیں بند کرتا ہوا بولا


"ثوبی کے علاوہ ایک تم ہی میری زندگی میں وہ ہستی موجود ہو،، جسے میں نے چاہا ہے۔۔۔ میں بہت پیار کرتا ہوں رنعم تم سے،،، تمہیں خود سے دور کرنے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی کہیں نہیں جانے دوں گا ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا"

کاشان آنکھیں بند کیے رنعم کی پیشانی سے اپنی پیشانی جوڑے بولتا جا رہا تھا


رنعم نے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما کاشان اپنی آنکھیں کھولیں


"ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں آپ،، کیا ہوا ہے، مجھے بتائیں"

رنعم نے فکرمندی سے کاشان سے پوچھا


کاشان نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر بیڈ پر لٹایا اور بیڈ پر رکھی چادر اس کو اڑائی


"سو جاؤ گڈ نائٹ"

کاشان اس کے بالوں میں ہاتھ پھرتا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا تو رنعم کاشان کا رویہکے بارے میں سوچنے لگی جو اسے بالکل سمجھ میں نہیں آیا


اپنے بیڈ روم میں آکر کاشان بیڈ پر لیٹا ہوا چھت کو گھورنے رہا آدھے سے پون گھنٹے بعد وہ دوبارہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا

ثوبان، بہروز اور یسریٰ کے روم سے نکل کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے روم میں جانے لگا۔۔۔۔ اس کی نظر سیرت کے روم کے دروازے پر پڑی،،، سیرت کو یہاں لانے کے بعد وہ اسے دیکھنا تو دور،، ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔ اسے اچھی طرح اس بات کا احساس تھا


شروع سے ثوبان کی عادت میں شامل تھا سونے سے پہلے وہ یسریٰ اور بہروز کے روم میں بیٹھ کر ان سے تھوڑی دیر باتیں کرتا۔۔۔۔ بہت دفعہ کوشش کرنے کے باوجود وہ بہروز اور یسریٰ کو اپنے اور سیرت کے نکاح کے متعلق بتا نہیں پایا ویسے تو اسے اندازہ تھا کہ یسریٰ اور بہروز کے لئے یہ خبر تکلیف کا باعث ہرگز نہیں بنے گی یقیناً وہ دونوں خوش ہوں گے مگر پھر بھی ایک جھجھک سی آڑے آجاتی یا تو یہ وجہ تھی کہ سیرت ان کی سگی اولاد تھی یا پھر وہ اپنے اس طرح کو خفیہ نکاح کے بارے میں بتا کر بہروز اور یسریٰ کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔ وہ بہروز کی طبیعت کو مدنظر رکھ کر کوئی رسک بھی نہیں لے سکتا تھا اس لیے فی الحال اس نے چند دنوں کے لیے خاموش رہنے میں عافیت جانی


سیرت کے روم کے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا وہ وارڈروب میں سر دیے ہوئے کھڑی تھی


ثوبان نے روم میں داخل ہوکر دروازہ لاک کیا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا


"تو آخرکار تم نے اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے نکال ہی لئے میرے لئے"

سیرت نے دروازہ لاک کرنے کی آواز پر مڑ کر دیکھا ثوبان کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر اس پر طنز کا تیر چلایا۔۔۔ سیرت کا طنز بھرا انداز دیکھ کر ثوبان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ اس کے پاس آیا


"چند لمحے نہیں چندا،، اپنی پوری زندگی تمہارے نام کر چکا ہے ثوبان احمد،،، سارے گلے شکوے کرلینا آج"

وہ سیرت کو بانہوں میں لیتے ہوئے کہنے لگا


"زیادہ میرے سامنے یہاں کمرے میں آکر ڈائیلاگ مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ وہاں سب کے سامنے تو ایک نظر دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور یہاں کمرے میں آ کر چپکے جارہے ہو دور ہٹو"

وہ اس کی بانہوں کے حصار کو توڑ کر خود کو آزاد کراتی ہوئی گویا ہوئی


"یعنیٰ تم چاہتی ہو کہ میں سب کے سامنے تم سے چپکو۔۔۔ رومینٹک میں اکیلے میں ہوسکتا ہو تمہارے ساتھ،،، اس معاملے میں، میں تھوڑا پرائیوٹ پرسن ہو"

ثوبان نے آنکھوں میں شرارت لیے اس کی بات کا جواب دیا


"فضول کی باتیں مت کرو۔۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا،، تم تو مجھے یہاں لاکر بھول ہی گئے ہو" سیرت نے اس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا


"بھولا کہاں ہو یار،، تم خود دیکھ تو رہی ہو۔۔۔ گھر میں دو دن سے کتنا لیٹ آنا ہوتا ہے۔۔۔۔ ایک کیس میں پھنسا ہوا تھا،، پھر شوروم کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس وقت بابا کو سب سے زیادہ میری ضرورت ہے"

وہ سیرت کو دونوں بازوں سے تھام کر اسے بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا


"وہی تو کہہ رہی ہوں ان سب نے میں کہاں ہوں"

ثوبان سیرت کو بیڈ پر بٹھا کر خود اس کے بیڈ پر لیٹ گیا سیرت کی بات سن کر اس نے سیرت کا ہاتھ اپنے دل پر رکھا


"یہاں ہو تم، ابھی سے نہیں بہت پہلے سے یقین نہیں آتا تو آکر چیک کرو"

وہ سیرت کا سر اپنے سینے پر رکھتا ہوا بولا


"ایس پی ثوبان احمد باتوں کے تو آپ پورے فنکار ہیں" سیرت نے اس کے سینے پر اپنی تھوڑی ٹکاتی ہوئی بولی جس پر وہ سیرت کے ساتھ خود بھی مسکرا دیا


"فنکاری تو مجھے ایک دو چیزوں میں اور بھی آتی ہے"

وہ اسکو بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر جھکتا ہوا بولا


"مسٹر فنکار یہ والی فنکاریاں اس وقت تک نہیں چلے گی جب تک آپ اپنی بیوی کے روپ میں مجھے اپنے مما بابا کے سامنے متعارف نہیں کروا دیتے"

سیرت اس کا ارادہ بھانپتی ہوئی اسے پیچھے کرتے ہوئے بولی


"کیا اس وقت تھوڑا سا بھی ترس نہیں کھاؤں گی مجھ پر"

ثوبان نے بہت معصوم سی شکل بنا کر اس سے پوچھا


"اس وقت میں نے تم پر ترس ہی کھایا ہوا ہے جبھی تم بیڈ پر لیٹے ہوئے ہو،، نہیں تو ابھی تک تمہیں دھکا دے کر نیچے گرا دیتی"

سیرت نے اتراتے ہوئے کہا جس پر ثوبان نے اسے گھور کر دیکھا وہ اب بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوگئی


"شرافت سے دوبارہ اپنی جگہ پر واپس آجاو"

ثوبان اس کو بیڈ کے پاس کھڑا دیکھ کر بولا وہ خود ابھی بھی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا


"اور تمہیں ایسا کیوں لگ رہا کہ میں تمہاری بات مانو گی"

سیرت بیڈ کے قریب کھڑی اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اس سے پوچھنے لگی


"کیوکہ بیوی ہوں تم میری"

ثوبان نے جتاتی ہوئی نظروں سے سیرت کو دیکھ کر کہا


"بیوی نہیں ایس پی ثوبان احمد۔۔۔۔ منکوحہ ہوں میں آپ کی،، اس لیے زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ سیدھی شرافت سے اپنے کمرے کا راستہ ناپئے"

سیرت کے بولنے کی دیر تھی مگر اگلے ہی لمحے ثوبان کے کھنچنے پر وہ بیڈ پر تھی


"ثوبی"

سیرت کو بیڈ پر گرا کر جیسے ہی ثوبان اس پر جھکا سیرت نے زور سے اس کا نام پکارا


"کیا کر رہی ہو یار رنعم کے کمرے میں آواز جائے گی"

ثوبان سیرت کا منہ بند کرتا ہوا سریز انداز میں گھورتا ہوا بولا


"اچھا ہے ناں تمہاری بہن کو بھی معلوم ہو اس کا بھیا برابر والے کمرے میں کیا چھچھور پن کر رہا ہے"

سیرت ثوبان کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹاتی ہوئی بولی


"چھچھور پن پر اگر آگیا ناں،، دو دن تک چھپتی پھیروں گی مجھ سے"

لو دیتی نظروں سے وہ سیرت کو دیکھتا ہوا بولا اور ثوبان کے اس انداز میں دیکھنے سے اور اس کی بات پر سیرت کے چہرے پر سرخی آگئی


"کاشی بالکل ٹھیک کہتا ہے۔۔۔ تمہیں واقعی ہلکا نہیں لینا چاہئیے بہت پہنچی ہوئی شے ہو تم"

اپنی جھینپ مٹاتے ہوئے سیرت بولنے لگی جبکہ ثوبان اس کے فیس ایکسپریشن کو دیکھ کر انجوائے کرنے لگا


"یہ کاشی کی اچھی بات ہے کہ وہ تمہیں وقفے وقفے سے عقلمندی کی باتیں سمجھاتا رہتا ہے۔۔۔۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کو واقعی ہلکا نہیں لینا چاہیے جبکہ ہمارے ساتھ تو پولیس اور چور والا بھی حساب کتاب ہے۔۔۔ اس لحاظ سے تو تمہیں مجھے بالکل بھی ہلکا نہیں لینا چاہیے"

وہ بولتا ہوا سیرت کی گردن پر جھکا


"ثوبی ہٹو بھی اب، جاو اپنے کمرے میں"

اسکی چھوٹی چھوٹی جسارتیں سیرت کے ہوش اڑا رہی تھی۔۔۔۔ تبھی سیرت اس کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی


"جب تک اپنی سستی نہیں اتار لو گا میں یہاں سے جانے والا نہیں اور اگر اب تم نے بیچ میں مداخلت کی تو تمہیں بھی اٹھا کر اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جاو گا اسلیے چپ کر کے لیٹی رہو"

ثوبان کی دھمکی پر وہ واقعی چپ کر گئ


****


"اتنا خاموش کیوں رہنے لگے ہیں آپ بہروز۔۔۔ کیا سوچتے رہتے ہیں ہر وقت"

یسریٰ نے بہروز کو دیکھ کر سوال کیا اگر کوئی اس سے بات کر لیتا تو وہ اس کا جواب دے دیتا ورنہ سارا دن خاموش رہتا۔۔۔ ثوبان اسے ویئل چیئر کی مدد سے کمرے سے باہر لے جاتا اور تھوڑی دیر کے لیے لان میں بٹھا دیتا خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ جاتا،۔۔۔۔۔ ورنہ وہ اپنا ادھا بے جان وجود لئے بیڈ پر لیٹا رہتا۔۔۔ رنعم اس کے پاس آکر بیٹھ کر باتیں کر لیتی ثوبان کا تو روٹین تھا وہ پولیس اسٹیشن سے آنے کے بعد اس کے پاس بیٹھا تھا سارا دن کی روادات اس کو سناتا رات کا کھانا کھلا کر ہلکی پھلکی باتیں کر کے اپنے روم میں جاتا۔۔۔ کاشان بھی آفس سے آنے کے بعد پندرہ بیس منٹ اس کے پاس بیٹھ کر اس کی خیر خیریت پوچھتا


البتہ بہروز سیرت کو یسریٰ سے کہہ کر بلواتا تو سیرت لگے بندھے انداز میں اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی۔ یسریٰ اور بہروز کو معلوم نہیں تھا ثوبان کیا کہہ کر سیرت کو ان کے پاس لایا تھا مگر یہ بات وہ دونوں جانتے تھے کہ سیرت کے دل میں ان دونوں کے لیے غم و غصہ موجود ہے،، وہ دونوں سیرت کو خود سے مخاطب کرتے،،، تو وہ جواب دیتی۔۔۔ سب لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بس رات کا کھانا کھاتی تھوڑی بہت بات چیت رنعم کے ساتھ یا کاشان سے کر لیتی


بہروز اور یسریٰ اکثر اسے خود سے مخاطب کرتے تو وہ باتوں کا جواب دیتی۔۔۔۔ بہروز اور یسریٰ اسی بات کا شکر ادا کرتے کم از کم ان کی بچھڑی ہوئی بیٹی جس کے ملنے کی وہ امید کھو چکے تھے وہ ان کے پاس موجود تھی۔۔۔ ان کی نظروں کے سامنے تھی اس لئے اس کے رویے پر دل کو ٹھیس تو لگتی مگر زیادہ سوچتے نہیں


شروع میں جب یسریٰ نے اسے انعم کہہ کر مخاطب کیا تب اس نے یسریٰ کو اس نام سے پکارنے سے منع کردیا اور خاص کر کہا کہ اس کا نام سیرت ہے لہذا اسے سیرت کہہ کر پکارا جائے


"میں آپ سے پوچھ رہی ہوں بہروز کیا سوچ رہے ہیں"

کوئی جواب نہ پا کر ایک بار پھر یسریٰ نہ اپنا ہاتھ بہروز کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے پوچھا وہ چونک کر یسریٰ کو دیکھنے لگا


"میں دونوں بیٹیوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں"

بہروز نے یسریٰ کو دیکھ کر جواب دیا اب وہ زیادہ اٹک اٹک کر نہیں بولتا تھا الفاظ بھی اسکے پہلے کی بانسبت سمجھ میں آ جاتے تھے


"کیا سوچ رہے ہیں آپ اپنی دونوں بیٹیوں کے بارے میں مجھ سے شیئر نہیں کریں گے"

یسریٰ نے مسکرا کر اس سے پوچھا


"تم سے اور ثوبان سے بات کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق بلکہ ثوبان سے ذکر کیا تھا میں نے کل۔۔۔ فرح باجی نے ٹھیک کہا ہے ہمارے اوپر ایک نہیں دو بیٹیوں کی ذمہ داری ہے۔۔۔ سیرت تو ہمہیں ابھی ملی ہے ابھی اس کو دیکھ کر دل نہیں بھرا مگر رنعم کے بارے میں ہمہیں سوچنا چاہیے، اس کے مستقبل کے متعلق" بہروز کے بولنے پر یسریٰ سمجھ گئی وہ یقیناً رنعم کی شادی کے لئے فکر مند ہے


"کن باتوں کو سوچنے لگے ہیں بہروز بچیاں ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ ان کی شادی کے متعلق سوچا جائے اور رنعم تو سیرت سے بھی دو سال چھوٹی ہے۔۔۔ آپ ٹھیک ہوجائیں ہم پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے اپنی بیٹیوں کے بارے میں"

یسریٰ نے بہروز کے چہرے پر فکرمندی کے گہرے بادل منڈلاتے دیکھ کر اسے تسلی دی


"رنعم پانچ ماہ بعد پورے 21 سال کی ہوجائے گی،،، شادی کی یہی عمر ہوتی ہے میں اپنی زندگی میں اپنی دونوں بیٹیوں کے گھر بستے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ثوبان کا کیا ہے،، لڑکا ہے اس کی فکر نہیں اور سیرت تو ابھی آئی ہے ہمارے پاس اس لئے اسے کچھ وقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہو۔۔۔ بے شک وہ ناراض ہے مگر دل کو ڈھارس رہتی ہے کہ میری بڑی بیٹی میرے پاس آ گئی ہے اور رنعم کے لیے کیوں دیر کریں جب گھر کا ہی لڑکا موجود ہے"

بہروز نے اپنی بات یسریٰ کو سمجھانے کی کوشش کی


"گھر کا لڑکا کس کے متعلق بات کر رہے ہیں آپ"

یسریٰ نے چونکتے ہوئے بہروز سے پوچھا


"باجی نے اس دن عاشر کے لیے کہا تھا تم بھول گئی۔۔۔ اپنی رنعم کے لئے ٹھیک رہے گا باجی کو فون کر کے، ، انہیں میرے خیالات کے بارے میں آگاہ کردینا"

بہروز کی بات پر جہاں یسریٰ چونکی وہی دروازے پر کھڑی رنعم کو، بہروز کی بات سن کر زوردار جھٹکا لگا


وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی بجائے کاشان کے کمرے میں پہنچی اور رونے لگی کاشان تھوڑی دیر پہلے آفس سے آیا تھا وہ ابھی چینج کر کے نکلا تھا۔۔۔ اپنے روم میں رنعم کو روتا ہوا دیکھ کر اس کے پاس آیا


"کیا ہوا رنعم" کاشان اس کے رونے کی وجہ جاننے لگا اسے لگا شاید بہروز کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے،،، اس لئے جواب نہ پا کر وہ روم سے باہر جانے لگا


"بابا ٹھیک ہے کاشان"

اس کو روم سے جاتا دیکھ کر رنعم نے رونے کے درمیان کہا


"تو پھر مجھے وجہ بتاؤں گی یا پھر اس طرح روتی رہوں گی"

کاشان نے سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر پوچھا


"کاشان بابا میرے رشتے کے متعلق مما سے بات کر رہے تھے اور وہ کہیں اور میرا رشتہ۔۔۔۔"

رنعم نے روتے ہوئے کاشان کو دیکھ کر کہا تو کاشان کو رنعم کے رونے کی وجہ سمجھ میں آئی ساتھ ہی اس کی پیشانی پر چند لکیریں نمودار ہوئی


"ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ میں ایسا کچھ ہونے ہی نہیں دوں گا ریلیکس"

کاشان نے قریب آ کر رنعم کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا


"کاشی"

ثوبان کے زور سے پکارنے پر ان دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ دروازے پر ثوبان کھڑا ان دونوں کو غصے میں گھور رہا تھا


"بھیا"

رنعم نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر بےساختہ کہا


"اپنے روم میں جاؤ رنعم"

ثوبان نے رنعم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مگر اس کی نظریں کاشان پر جمی ہوئی تھی۔۔۔ کاشان بھی اب غصے میں ثوبان کو ہی دیکھ رہا تھا ثوبان کے بولنے کے ساتھ ہی رنعم جلدی سے وہاں سے چلی گئی


"کیا چل رہا تھا یہاں پر کاشی"

ثوبان نے سختی سے کاشان سے دریافت کیا


"اس گھر میں کیا چل رہا ہے ثوبی۔۔۔۔ میں نے تمہیں رنعم کے متعلق اپنی پسند سے آگاہ کردیا تھا،، اب سے نہیں بلکہ دو مہینے پہلے سے پھر آنٹی انکل اس کے لیے کسی دوسرے کا کیسے سوچ سکتے ہیں" کاشان نے غصے میں ثوبان سے سوال کیا


"وہ اس کے ماں باپ ہیں،، اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور میرے بات کرنے سے پہلے آنی رنعم کے لیے عاشر کا رشتہ ڈال گئی تھی۔۔۔ بابا نے مجھے کل ہی بتایا"

کاشان کو غصے میں دیکھ کر ثوبان اسے تحمل سے سمجھانے لگا جبکہ کاشان کو عاشر کا نام سن کر آگ ہی لگ گئی اس نے پاس پڑا ہوا گلدان پوری قوت سے دیوار پر مارا جوکہ چھناکے سے ٹوٹ گیا


"یہ کیا حرکت ہے کاشی،، تمہاری انہی فضول حرکتوں اور غصے کو دیکھتے ہوئے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں"

ثوبان اس کو غصے میں دیکھ کر سنجیدگی سے بولا


"اس عاشر کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ رنعم کے متعلق رشتہ کا سوچے" کاشان کو یہ سوچ ہی کھولانے لگی


"جیسے تمہاری ہمت ہوئی"

ثوبان نے اس کے سینے پر اپنی انگلی سے زور ڈالتے ہوئے کہا


"صرف تم ہی رنعم کو پسند نہیں کرسکتے،،، تمہاری اجارہ داری نہیں چلے گی اس پر۔۔۔ کوئی اور بھی رنعم کے مطابق سوچ سکتا ہے، اس کو پسند کرسکتا ہے اور مما بابا کو جو سہی لگے گا اپنی بیٹی کے لیے، وہ اسی کو چنے گے"

ثوبان کو جب سے کاشان نے اپنی رنعم کی پسندیدگی کے متعلق شیئر کیا وہ پوچھتا ہی تو گیا تھا ایسا نہیں تھا کہ کاشان سے پیار نہیں کرتا تھا مگر وہ اپنے بھائی کی نیچر سے بھی واقف تھا۔۔۔ کاشان کو غصے میں آپے سے باہر آنے میں دیر نہیں لگتی تھی اور دوسری طرف رنعم کے ٹھنڈے مزاج اور سافٹ نیچر سے بھی واقف تھا


"ثوبی تم جانتے ہو نا میں نے بچپن سے ہی بہت کم چیزوں کی خواہش کی ہے" کاشان بے بسی سے ثوبان کو دیکھ کر بولا


"جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں جب تمہاری من پسند چیز تمہیں نہیں ملتی تھی تو تم اس کو کسی دوسرے کا بھی نہیں رہنے دیتے تھے جیسے منّے کی سائیکل۔۔۔ جب ابو نے تمہیں ویسی سائیکل خرید کر نہیں دلائی تو تم نے اس کے پاس بھی وہ سائیکل رہنے نہیں بلکہ توڑ دی" ثوبان نے اس کو بچپن کا واقعہ یاد کرایا۔۔۔۔۔ ثوبان کی بات پر کاشان نے لمبا سانس کھینچا


"جب میں چھوٹا تھا ثوبی مگر تب میں اور اب میں بہت فرق ہے۔۔۔ اب میں اتنی ہمت رکھتا ہوکہ اپنی من پسند چیز کو خود حاصل کر سکوں"

کاشان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا اور کمرے سے جانے کیلئے مڑنا چاہا مگر ثوبان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا


"تو اب تم کیا کرو گے رنعم کو حاصل کرنے کے لیے، ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے"

ثوبان نے دونوں ہاتھ باندھ کر اس سے پوچھا


"دیکھو ثوبی میں اپنی زندگی کا ایک حصہ چار دیواری کی نظر کر کے باہر آیا ہوں،، تمہیں معلوم ہے نہ ہمارا بچپن صرف محرومیوں میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترستے ہوئے گزرا ہے۔۔۔۔ جیل سے باہر آنے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ کوئی اس حد تک مجھے اچھا لگ سکتا ہے،،، میں نے تمہیں بھائی سمجھ کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔ اب تم بتاؤ کیا میرا حق نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی من پسند ساتھی کے ساتھ گزار سکو۔۔۔۔ کیا میرا حق نہیں ہے خوشیوں پر" کاشان نے ثوبان سے سوال کیا


"کاشی رنعم کا اور تمہارا مزاج بہت مختلف ہے تم دونوں میں انڈراسٹینڈنگ کیسے ہوگی جبکہ۔۔۔" ثوبان اس کے کندھے تھام کر اسے سمجھانے لگا کاشان اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹائے


"رنعم کا جو مزاج ہے،، جو اس کی نیچر ہے،، اسی طرح کی لڑکی پسند ہے مجھے اور اگر تم میرے متعلق آنٹی انکل سے بات نہیں کر سکتے تو یہ کام میں خود کر لوں گا"

کاشان نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"اس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ میں تم دونوں کی باتیں سن چکی ہوں"

یسریٰ کی آواز پر وہ دونوں چونکے دروازے پر دونوں کی نظر بےساختہ پڑی تو وہاں پر یسریٰ کو موجود پایا۔۔۔ باتیں کرتے ہوئے ان دونوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یسریٰ وہاں کب سے کھڑی ہوئی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی


"ثوبان جب تم فری ہو جاؤ تو اپنے بابا کی بات سن لینا بلا رہے تھے وہ تمہیں"

یسریٰ ثوبان سے کہتی ہوئی روم سے باہر نکل گئی

"کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہو"

سیرت نے چائے کا مگ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ثوبان سے پوچھا۔۔۔ اس نے سیرت کو میسج پر اپنے روم میں چائے لانے کا کہا تھا


"ہاں کاشی نے مجھے واقعی پریشان کر کے رکھ دیا ہے"

ابھی وہ بہروز کے پاس اس کے بیڈ روم میں بہروز کی بات سننے کے لیے گیا تھا مگر اس کو سوتا ہوا دیکھ کر اپنے بیڈ روم میں آگیا


"یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے بچپن سے ہی اس کی حرکتیں حیران اور پریشان کرنے والی ہیں۔۔۔۔ بھائی ہو کر بھی تم اپنے بھائی کی عادتوں کو نہیں سمجھتے"

سیرت نے بات کو مذاق کا رنگ دیا جس پر ثوبان نے سنجیدگی سے دیکھا


"اچھا بتاؤ کیا ہوا ہے کیا کردیا اب کاشی نے"

ثوبان کو سیریز دیکھ کر سیرت نے اس سے پوچھا اور اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی


"بتایا تو تھا تمہیں رنعم کو پسند کرتا ہے اور اب اس سے شادی کی ضد لگائے بیٹھا ہے"

ثوبان صوفے کے پیچھے اپنا سر ٹیکتے ہوئے سیرت کو بولا


"ثوبی عجیب بات کرتے ہو تم بھی، کاشی رنعم کو پسند کرتا ہے تو شادی بھی اسی سے کرے گا،، ٹائم پاس کے لئے تو پسند نہیں کیا ہوگا کاشی نے اسے اور وقت گزاری کرنے والا اس کا مزاج ہے بھی نہیں۔۔۔۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے"

سیرت کو ثوبان کا پریشان ہونا بے مقصد لگا


"ان دونوں کے مزاج میں اور نیچر میں بہت فرق ہے سیرت،، تم تو بچپن سے جانتی ہو کاشی کو، اس کے مزاج کو، کس طرح بات بات پر اس کو غصہ آ جاتا ہے۔۔۔ غصے میں اسکے ری ایکشن سے کیا تم واقف نہیں ہوں،، کس طرح بچپن میں اسکول کے، محلے کے بچوں سے لڑتا جھگڑتا تھا ہر وقت،،، آئے دن اس کی شکایتیں آتی رہتی تھی۔۔۔۔ رنعم کیسے ایڈجسٹ کر پائے گی یار اس کے ساتھ وہ تو بہت سیدھی ہے"

ثوبان نے اصل وجہ بتائی جو اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی


"میں کاشی کو بچپن سے جانتی ہوں ثوبی،،، اس کے غصے والے مزاج سے بھی واقف ہوں،، بچپن سے اس کے غصے کی وجہ تمہارے گھر کا ماحول رہا ہے اور باہر یا اسکول میں بھی کسی سے وہ تب لڑتا جھگڑتا تھا جب کوئی تمہارے ابو امی کے لڑائی جھگڑوں کو لے کر باتیں کرتا تھا یا پھر مذاق اڑاتا تھا۔۔۔ اس طرح کی باتوں پر تو انسان کو غصہ آیا ہی جاتا ہے اور رہی بات کاشی یا رنعم کے مزاج کی تو ثوبی، تمہیں نہیں لگتا تمہارے بھائی کے ساتھ کوئی نرم طعبیت اور دھیمے مزاج والی لڑکی کی زندگی گزار سکتی ہے۔۔۔ تم خود کاشی کی نیچر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سوچو"

سیرت کی بات پر ثوبان نے صوفے سر اٹھا کر سیرت کو غور سے دیکھا


"تو کیا یہ رنعم کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، وہ تو ہمیشہ اس کے غصے کے آگے دب کر رہے گی"

ثوبان نے سیرت کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا


"زیادتی کیوں ہوگی بھلا ابھی تم نے خود ہی کہا کاشی رنعم کو پسند کرتا ہے، پاگل ہے کیا وہ جو رنعم پر بلاوجہ غصہ کرے گا۔۔۔ کاشی کو یہاں پر رہتے ہوئے پانچ ماہ ہوگئے ہیں ان 5 مہینوں میں اسے تم نے کتنی بار غصے میں لڑتے جھگڑتے دیکھا۔۔۔ اب جبکہ وہ اپنی سزا کاٹ پر آرہا ہے تمہیں اسے کیا ایک اچھا انسان بنانے میں ایک اچھا شہری بنانے میں اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ آگے کی اپنی لائف اچھی گزار سکے۔۔۔ رنعم کو کاشی پسند کرتا ہے یہ سب سے بڑا جواز ہے ان دونوں کی انڈرسٹینڈنگ کا۔۔۔ تم نے تو بلاوجہ میں وہم پالے ہوئے ہیں ثوبی،،، اور رنعم بھی تو اس کو پسند کرتی ہے کیا وہ کسی دوسرے سے نباہ کرے گی"

سیرت کی بات سن کر ثوبان نے حیران ہو کر سیرت کو دیکھا


"اس میں بھی اتنا زیادہ حیران ہونے والی کیا بات ہے بہن کہتے ہو اسے۔۔۔ کاشی کو دیکھ کر رنعم کے چہرے پر آئی رونق اس کی آنکھوں سے چھلکتی پسندیدگی کو دیکھ کر تمہیں اندازہ نہیں ہوا کہ وہ بھی کاشی کو پسند کرتی ہے"

ثوبان کی حیرت کو دیکھ کر سیرت نے اس کو جواب دیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا


"مجھے معلوم ہے تمہیں کاشی اور رنعم دونوں ہی بہت عزیز ہے اس لئے ان دونوں کی خوشی کو مدنظر رکھ کر تم ان کے لیے مما بابا سے بات کرو اور اپنے آپ کو بھی ریلیکس کرو"

سیرت نے مسکرا کر اسے مشورہ دیا جس سے ثوبان مزید سوچوں میں پڑ گیا اور اب وہ کاشی اور رنعم کی شادی سے متعلق مثبت پہلووں کو سوچنے لگا


سیرت صوفے پر ثوبان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اس کے برابر میں بیٹھی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ بجا


رنعم کے اندر آنے پر سیرت نے ثوبان کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور تھوڑا دور ہو کر بیٹھی


"بھیا مجھے آپ سے بات کرنی ہے"

رنعم نے ثوبان کو دیکھ کر کہا رونے کی وجہ سے اس کی سبز آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں


"میں تمہاری چائے گرم کر کے لاتی ہوں"

سیرت نے رنعم کی آنکھوں کو دیکھنے کے بعد ثوبان کو مخاطب کیا اور چائے کا مگ لے کر روم سے باہر نکل گئی


"میں نے آپ کا دل دکھایا ہے ناں۔۔۔ آئی ایم سوری"

اب سیرت کی جگہ رنعم صوفے پر آکر بیٹھی ثوبان کا ہاتھ تھامے بولنے لگی


"تمہیں معلوم ہے میں نے اور بابا نے ہمیشہ تم پر ٹرسٹ کیا ہے"

ثوبان کا لہجہ اس کے ناراض ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا جس پر رنعم کو مزید رونا آنے لگا


"میں نے آپکے یا بابا کے ٹرسٹ کو کبھی نہیں توڑا۔۔۔۔ نہ پہل میری طرف سے ہوئی"

رنعم نے ثوبان سے نظریں ملائے بغیر سر جھکاتے ہوئے کہا


"اگر ایسی بات ہے تو پھر ٹھیک ہے،، اب تم بابا کی خواہش کا احترام کرو"

ثوبان کی بات پر تڑپ کر رنعم نے اس کو دیکھا


"بھیا میں نے آپ کا اعتبار نہیں توڑا،،، نہ ہی کوئی ایسی بات ہونے دی جس سے آپ کا سر جھکے مگر پلیز میرا اتنا بڑا امتحان مت لیں میں کاشان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ۔۔۔۔

رنعم نفی میں سر ہلا کر رونے لگی اور ثوبان خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا


"تمہیں کاشی کی نیچر کا اندازہ ہے ایڈجسٹ کر پاو گی اس کے ساتھ"

ثوبان رنعم کو غور سے دیکھ کر پوچھنے لگا


"مجھے نہیں معلوم کہ میں کاشان کے ساتھ ایڈجسٹ کر پاو گی یا نہیں مگر مجھے لگتا ہے میں اور کسی کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پاو گی۔۔۔۔ میں مر جاو گی بھیا"

رنعم اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی


"کیا بکواس ہے یہ، آئندہ ایسی فضول بات میں تمہارے منہ سے نہ سنو"

ثوبان اسکے دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹا کر اسے گلے لگاتے ہوئے بولا


سیرت چائے کا مگ ہاتھ میں لیے اندر آئی تو ایک جذباتی سین اس کا منتظر تھا۔۔۔۔ ثوبان نے اسے اشارے سے رنعم کو چپ کرانے کے لیے کہا


"ارے لڑکی ابھی تھوڑی ہم تمہاری کاشی سے شادی کر رہے ہیں جو تم یوں بھائی کے گلے لگ کر رو رہی ہو"

سیرت نے رنعم کو اپنے گلے لگاتے بولا ثوبان سیرت کو گھور کر رہ گیا جس کا سیرت نے ہمیشہ کی طرح کوئی نوٹس نہیں لیا


"چلو آنسو صاف کرو اپنے۔۔۔۔ اب میں تمہیں کاشی کو رولانے کے ١٠١ ٹوٹکے بتاو گی۔۔۔۔۔ بس میرا نام نہ ڈبونا،،، کاشی کو اچھی طرح بتا دینا کہ کس کی بہن ہو تم"

سیرت رنعم کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتی ہوئی اس کو بہلا کر بولنے لگی۔۔۔۔ ثوبان مسکراہٹ چھپائے چائے کا مگ ہاتھ میں لیے ٹیرس میں چلا گیا اسے سیرت پر بھروسہ تھا کہ وہ رنعم کو اچھی طرح بہلالے گی


****


"اس طرح کیسے آفس جارہے ہو ناشتہ کر کے جاو"

صبح ناشتے کی ٹیبل پر ثوبان سیرت رنعم اور یسریٰ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کاشان اپنے روم سے نکلا سرسری نظر سب پر ڈالتا ہوا آفس جانے کے لیے باہر نکلنے لگا تبھی یسریٰ کی آواز پر اسکے قدم رکے


"آج جلدی آفس پہنچنا ہے آنٹی ناشتے کے چکر میں دیر ہو جائے گی"

کل رات والا واقعہ کاشان کے زہن میں آیا تو اس نے یسریٰ سے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا


"جوس پینے میں کتنا ٹائم لگتا ہے آجاو شاباش"

یسریٰ کے دوسری بار کہنے پر کاشان اسے انکار نہیں کر سکا قدم اٹھاتا ہوا ٹیبل کے پاس آیا اور کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا


"ثوبان ذرا جوس کا جگ پکڑاو"

اتفاق سے جوس کر جگ ثوبان کے قریب رکھا ہوا تھا یسریٰ نے اسے جگ پکڑانے کا کہا۔۔۔۔ ثوبان نے جب جگ اٹھا کر کاشان کی طرف بڑھایا تو کاشان نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔ وہ شاید کل والی بات کو لے کر ثوبان سے اب تک خفا تھا


"جوس نہیں چائے دے دیجئے مجھے"

ثوبان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو اگنور کر کے وہ یسریٰ سے کہنے لگا


کاشان کے اس طرح بولنے پر جہاں ثوبان کو جگ واپس رکھتے ہوئے ہنسی آئی وہی سیرت اور یسریٰ نے بھی اپنے چہرے پر آئی مسکراہٹ جلدی سے چھپالی۔۔۔ بس رنعم کاشان کو سنجیدگی سے دیکھنے لگی


یسریٰ نے کاشان کو چائے سے بھرا کپ تھمایا جو وہ خاموش کر کے پینے لگا


شاید ایسے زندگی میں پہلی بار ہوا تھا جو یوں کاشان ثوبان سے ناراض ہوا تھا۔۔۔۔ ثوبان ناشتہ کرتا ہوا سوچنے لگا


"اوکے میں یونیورسٹی کے لیے نکلتی ہو"

ڈرائیور کی موبائل پر کال آنے پر رنعم نے سب کو مخاطب کیا اور خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گئی


کاشان بھی چائے کا کپ خالی کر کے یسریٰ کو خدا حافظ کر کے باہر نکلا


"کاشان ایک منٹ رکیے مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے کل بھیا نے۔۔۔۔"

کاشان کو باہر آتا دیکھ کر رنعم اس کی طرف آئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ کاشان کا دل ثوبان سے خراب ہو


"اس دن میں نے بالکل ٹھیک کہا تھا تمہارا بھیا واقعی الو کا پٹھا ہے"

کاشان جو رنعم کی بات سننے کے لئے مڑا مگر ثوبان کا نام سن کر رنعم کی بات کو کاٹتے ہوئے غصے میں بولا اور کار میں بیٹھ کر آفس کے لیے نکل گیا


****


"بابا آپ نے بلایا تھا"

ثوبان نے بہروز کے روم میں آتے ہوئے کہا


کل بہروز جلدی سوگیا تھا اس لیے ثوبان کی اس سے بات نہیں کر سکی۔ ۔۔ثوبان تھوڑی دیر پہلے ہی پولیس اسٹیشن سے گھر واپس آیا تھا فریش ہو کر سیدھا بہروز کے روم میں آگیا۔۔۔ یسریٰ بھی وہی موجود تھیں


"رنعم کے بارے میں بات کرنے کے لیے بلایا تھا"

بہروز کی آواز پر بے ساختہ ثوبان کی نظریں یسریٰ پر پڑی وہ بھی ثوبان کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ کل کاشی کے روم سے جانے کے بعد ثوبان اور یسریٰ کے درمیان اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی


"آپ بات کریں میں سن رہا ہوں"

ثوبان نے بہروز کو دیکھتے ہوئے کہا


"بیٹا پرسوں میں نے تمہیں فرا باجی کے متعلق بتایا تھا انہوں نے عاشر کے لیے رنعم کی بات کی ہے۔۔۔ بہت پہلے سے ہم تینوں کے درمیان جب یہ بات ہوئی تھی تب تم نے خود سے عاشر کا نام لیا تھا۔۔۔۔ اب میں سوچ رہا ہو جلد ہی رنعم کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ اور عاشر یقیناً رنعم کے لیے اچھی چوائس ثابت ہوگا۔۔۔ رنعم کے بھائی ہونے کے ناطے میں تم سے مشورہ کر رہا ہوں تمہیں اعتراض تو نہیں" بہروز نے ٹہر ٹہر کر اپنی بات مکمل کی


"ماں ہونے کے ناطے مجھے اعتراض ہے اس رشتے پر۔۔۔ بہروز معاف کیجیے گا مگر میں عاشر اور رنعم کے رشتے پر بالکل مطمئن نہیں ہو اور یہ بات میں نے تب بھی کہی تھی جب ہم تینوں کے درمیان پہلے بھی بات ہوئی تھی"

یسریٰ نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے بولا


"یسریٰ میں رنعم کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اگر تمہیں عاشر پر اعتراض ہے تو پھر ایسا کون ہے تمہاری نظر میں،، جس پر تم مطمئن ہوں اور جو رنعم کو خوش رکھے آگے کی زندگی میں"

ثوبان پر سے نظریں ہٹا کر بہروز نے اب یسریٰ سے سوال کیا


"وہی بہروز جس کا میں نے ایک بار پہلے بھی نام لیا تھا کاشان۔۔۔ وہ رنعم کے لیے موضوع لگا مجھے،،، ہر لحاظ سے۔۔۔ وہ رنعم کو پسند کرتا ہے۔۔۔ اس بات کا اندازہ تو مجھے تھا مگر کل یقین ہوگیا اور جب وہ رنعم کو پسند کرتا ہے تو یقیناً اسے خوش بھی رکھے گا اور رنعم اس کے ساتھ خوش رہے گی کیونکہ یہ پسند یکطرفہ ہرگز نہیں ہے مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے۔۔۔ جنم دیا ہے میں نے رنعم کو،،ماں ہوں میں اسکی۔۔۔ اس کا چہرہ پڑھ سکتی ہوں"

یسریٰ نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا


"مما آپ کو عاشر پر کیوں اعتراض ہے" ثوبان نے کچھ سوچتے ہوئے یسریٰ سے سوال کیا


"ایک ماں اپنی اولاد کے لیے ہر لحاظ سے پرفیکٹ انسان پسند کرتی ہے۔۔۔ میں تمہارے لیے بھی ایسی لڑکی چاہو گی جو ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہو،، تمہارے ساتھ جچے۔۔۔۔ اس کی ایجوکیشن، اس کا فیملی بیک گراونٹ میں ہر چیز دیکھنا چاہو گی۔۔۔۔ کاشان عاشر کے مقابلے رنعم کے ساتھ سوٹ کرے گا،،، مگر بات صرف ظاہری خوبصورتی کی نہیں ہے مجھے غفران بھائی کی باتیں بھی عجیب لگتی ہیں۔۔۔ ان کی لالچی فطرت سے تم بھی واقف ہوں۔۔۔ وہ ابھی بھی اپنے منہ سے شوروم کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔ انہیں بہروز کی طعبیت سے زیادہ یا رنعم کے رشتے کے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ اب شوروم کو کون دیکھے گا۔۔۔۔ جائیداد کا حصہ پہلے ہی بچوں میں تقسیم ہو جانا چاہیے،، اس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں وہ۔۔۔۔ اب بھلا آنکھوں دیکھی مکھی کون نگل سکتا ہے"

یسریٰ کی بات پر بہروز چپ ہو گیا کیونکہ غفران ایسی ہی نیچر کا مالک کا تھا۔۔۔۔ بہروز کو دیکھنے وہ اس کے پاس تو آیا نہیں۔۔۔۔ فون کر کے طبیعت معلوم کی تو بار بار یہی مشورہ دیا کہ بچوں کو ان کا حصہ ابھی سے دے دو آگے تمہاری زندگی کتنی ہے اس کا بھروسا نہیں۔۔۔۔


"مما مجھے آپ لوگوں کی دعائیں اور محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے میرے لیے ہر سب سے زیادہ قیمتی آپ دونوں کی ذات ہے"

ثوبان ان دونوں کو دیکھ کر کہنے لگا


"میں جانتی ہوں ثوبان۔۔۔ مگر میں پھر بھی یہی سمجھتی ہو کہ لالچی فطرت انسان کے گھر اپنی بیٹی دی جائے جس کا شادی سے پہلے ہی منہ کھلا ہوا ہو اس کا بھلا بعد میں کیا حال ہوگا۔۔۔ خیر میں تو اس رشتے سے ذرا بھی خوش نہیں ہو بہروز" یسریٰ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا


"اور مسز حامد نے مجھے رنعم کے تین چار رشتے بتائے تھے جو ہر لحاظ سے رنعم کے لئے مناسب ہیں۔۔۔۔ مگر میں پھر بھی ان پر کاشان کو ترجیح دو گی"

یسریٰ نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا


"ٹھیک ہے کاشان اور رنعم کی اگر خوشی اور مرضی شامل ہے تو پھر بات ہی ختم ہوجاتی ہے میں اسی مہینے کے آخر میں میں ان دونوں کی شادی کر دینا چاہتا ہو،، کیا خیال ہے"

بہروز نے ان دونوں کو دیکھ کر پوچھا


"اب ایسی بھی کیا جلدی ہے بہروز بیس دن میں بھلا شادی کی جاتی ہے۔۔ کتنے انتظامات ہوتے ہیں" بہروز کی بات سن کر یسریٰ ایک دم بوکھلا گئی۔۔۔ وہی ثوبان بھی چونکا

"سب ہو جاتا ہے بیس دن کم نہیں ہوتے تم اور ثوبان مل کر سب ارینجمنٹ دیکھ لینا۔۔۔ ساتھ ہی سب رشتے داروں کو بھی کاشان اور رنعم کے رشتے سے آگاہ کردینا"

بہروز کی بات سن کر ثوبان اٹھ کھڑا ہوا اس کا ارادہ اپنے جذباتی بھائی کے پاس جاکر اسے خوشخبری سنانے کا تھا جو کل سے ہی منہ لٹکائے اس سے سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا

کاشان کے ساتھ رنعم کی شادی کا ذکر گھر میں ہوا تو گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں گھر کا ہر فرد ہی کاشان اور رنعم کی شادی سے خوش تھا


ثوبان نے بھی اپنے تمام تر وہم اور خدشات کو پسِ پشت ڈال کر شادی کے انتظامات کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی کیوکہ اب سب کچھ اسی کو دیکھنا تھا البتہ جب یہ خبر فرح کو معلوم ہوئی تو اس نے یسریٰ سے فون پر تھوڑی بہت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شکوہ کیا مگر یسریٰ نے اسے یہ کہہ کر سمجھایا کہ بچوں کی مرضی اور خوشی کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے جس پر فرح یہ کہہ کر چپ ہو گئی کہ وہ رنعم کو کافی سیدھا سمجھتی تھی مگر اس کے باوجود فرح فطرتاً اپنے شوہر جیسی نہیں تھی اس نے بہروز کو مبارکباد دی اور رنعم کو دعا دی کہ وہ کاشان کے ساتھ خوش رہے


جبکہ غفران نے برا مناتے ہوئے مبارکباد تو دور کی بات۔۔۔ ان لوگوں سے صاف کہہ دیا کہ عاشر کا رشتہ نہ کر کے آپ نے ہماری انسلٹ کی۔۔۔ غفران شادی میں شرکت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا


دوسری طرف عاشر کو اپنے ریجکٹ ہونے کا دلی قلق ہوا مگر وہ ایک جذباتی انسان نہیں پریکٹیکل انسان تھا اس لئے تمام گھر والوں کو خوش دلی سے مبارکباد دی اور شادی نے آنے کا وعدہ کیا


***


"ثوبان آپ کے لیے بارات کے دن کا ڈریس لے کر آیا ہے کہہ رہا تھا بابا کو دکھا دیئے گا اگر پسند نہیں آئے تو پرابلم نہیں وہ دوسرا لے آئے گا۔۔۔ مارکیٹ کے چکر تو اب روز ہی لگ رہے ہیں"

یسریٰ نے روم میں آتے ہوئے بہروز سے کہا


"ثوبان کی لائی ہوئی چیز مجھے پسند نہیں آئے ایسا ہو سکتا ہے بھلا،، وہ خود کیوں نہیں آیا آج میرے پاس"

بہروز نے لاکر سے جیولری نکالتی ہوئی یسریٰ سے پوچھا


"رنعم کو لے کر گیا ہے فرنیچر سلیکٹ کرنے کے لئے اس وجہ سے نہیں آ سکا آپ کے پاس،، کہہ رہا تھا لیٹ ہو جائے گا تو میں آپکو کو کھانا کھلا دو۔۔۔ سارا کام ہی اس پر پڑ گیا ہے ابھی"

یسریٰ نے جیولری کے ڈبے بیڈ پر رکھتے ہوئے مصروف انداز میں بہروز کو بتایا


"اور کاشان وہ کہاں پر ہے وہ بھی آج نظر نہیں آیا"

بہروز نے یسریٰ سے پوچھا اس کی بات پر یسریٰ نے سر اٹھا کر بہروز کو دیکھا


"کاشان کی تو مجھے منتطق ہی نہیں سمجھ میں آئی اچھا بھلا ہمارا اتنا بڑا گھر ہے۔۔۔ اگر اپنا روم پسند نہیں ہے کوئی دوسرا روم اپنے اور رنعم کے لیے دیکھ لیتا۔۔۔ بلاوجہ میں فلیٹ لے لیا اب اس میں شفٹ ہو رہا ہے"

کل کھانے کے بعد جب رنعم کے علاوہ سب ہی ہال میں موجود تھے تب کاشان نے شادی کے بعد اپنا فلیٹ میں شفٹ ہونے کا بتایا اور یہ بھی کہ آج ہی وہ فلیٹ پسند کر کے آ گیا ہے۔۔۔۔ اس خبر پر یسریٰ بالکل خوش نہیں تھی


"تم بھی عیجیب بات کرتی ہو،، مجھے تو اس میں کوئی برائی نہیں لگی بلکہ خوشی ہوئی اس کی سوچ پر۔۔۔ غفران کی لالچی طبیعت کی وجہ سے اپنی بیٹی وہاں نہیں دی اب ہونے والا داماد کی خودداری کو سرہانے کی بجائے اس پر منہ بنا رہی ہو"

بہروز نے یسریٰ کو سمجھاتے ہوئے کہا


"بس رنعم آنکھوں کے سامنے رہتی تو دل کو سکون رہتا خیر 15 منٹ کی ڈرائیو پر ہی فلیٹ ہے کاشان کا زیادہ دور بھی نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شکر ہے اس بات پر اسے آپ نے چپ کروا دیا ورنہ وہ تو شاید فرنیچر وغیرہ لینے کا بھی ارادہ نہیں رکھتا تھا بھلا ہم یہ سب کہاں لے کر جائے گے ہمارے بچوں کا ہی تو ہے سب"

یسریٰ نے سر جھٹکا کر کہا بہروز مسکرا دیا


"یہ زیور کیوں نکال کر بیٹھ گئی ہو" بہروز نے یسریٰ کو اب زیور کے ساتھ سر کھپاتے دیکھا، تو بول اٹھا۔۔۔ سہی معنوں میں وہ آج خوش لگ رہا تھا ان اس لئے خود سے ہی بار بار مخاطب کر رہا تھا


"آج کل اتنی ہیوی جیولری کا کہاں فیشن ہے سوچ رہی ہوں اس بھاری سیٹ کے بدلے رنعم کے لیے تین دن چھوٹے سیٹ بنوا دو اور دو ڈائمنڈ کے سیٹ تو موجود ہیں ہی۔۔۔ برات والے دن کا بس ہیوی سیٹ کا ارڈر دے دیا ہے۔۔۔۔ یہ دیکھیں میں نے بارہ چوڑیاں سیرت کے لئے رکھی ہیں اور یہ نورتن کے جھمکے،، میں منہ دکھائی میں ثوبان کی بیوی کو دوں گی"

یسریٰ بہروز کو ایک ایک چیز دکھا کر بتانے لگی


"چند دنوں بعد رنعم اپنے گھر کی ہوجائے گی تو ہمہیں سیرت کا بھی سوچنا پڑے گا۔۔۔۔ وہ پھر دوبارہ اپنے گھر چلی جائے گی"

بہروز کی بات پر یسریٰ مسکرانے لگی


"سیرت آپ کو یا مجھے کہیں چھوڑ کر نہیں جائے گی بے فکر رہے۔۔ چلیں آپ کے فیزیوتھراپسٹ کے آنے کا ٹائم ہوگیا ہے"

یسریٰ ساری چیزیں سائڈ پر رکھتی ہوئی بہروز سے کہنے لگی


****


"اتنے دن سے کہاں چھپی پھر رہی ہو مجھ سے" یونیورسٹی سے آنے کے بعد رنعم کچن میں اپنے لیے کھانا نکال رہی تھی تبھی عقب سے کاشان کی آواز سنائی دی رنعم نے مڑ کر دیکھا تو وہ بالکل اس کے قریب کھڑا تھا


"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے، یہی تو ہوتی ہو سب کے سامنے"

رنعم کاشان کو ایک نظر دیکھکر پلکیں جھگاتی ہوئی بولی


"سب کے سامنے، مگر میرے سامنے نہیں۔۔۔ کیا وجہ ہے اس کی"

وہ رنعم کے چہرے پر آئے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔۔ جب سے ان دونوں کی شادی کا ذکر گھر میں چلا تھا تب سے رنعم نے گھر کے اس حصے میں جانا کم کر دیا تھا جہاں کاشان کی موجودگی کے امکان زیادہ ہوتے۔۔۔ کھانے کے وقت زیادہ تر ان دونوں کا سامنا ہوتا اس میں بھی کاشان نظر اٹھا کر رنعم کو دیکھ لیتا مگر رنعم سر جھکا کر کھانا کھا رہی ہوتی اس کی وجہ یقیناٗ فطری جھجھک اور شرم وحیاء تھی۔۔۔۔ کاشان جانتا تھا مگر اس وقت رنعم کا اپنے قریب اس طرح پلکیں جھکائے کھڑے ہونا،،، یہ منظر اسے دلفریب لگا اس کی بات کا جواب دئیے بغیر وہ یونہی چپ کھڑی رہی تب کاشان نے اسے دوبارہ مخاطب کیا


"تم خوش ہو"

کاشان رنعم کا ہاتھ تھامے پوچھ رہا تھا اس وقت رنعم کے دھڑکنوں کی رفتار نارمل سے کہیں زیادہ ہو چکی تھی اس نے اثبات میں سر ہلایا


"اور آپ"

رنعم نے نظر اٹھا کر کاشان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا


"میں اتنا خوش ہوں کہ دل چاہتا ہے اس خوشی کا عملی طور پر اظہار تمہارے سامنے کرو مگر مجھے یقین ہے میرے اس طرح کرنے سے تم یہی کچن میں بے ہوش ہو جاؤ گی"

اپنی مسکراہٹ چھپائے کاشان نے رنعم کو دیکھ کر کہا اسکی بات سن کر ایک بار پھر رنعم اپنی پلکیں جھکا لیں۔۔۔ اس کا ہاتھ جو کاشان کے ہاتھ میں تھا کاشان اس میں لرزش صاف محسوس کر سکتا تھا،، کاشان کو اس کی شائے نیچر پسند تھی


"مما بتا رہی تھیں ہم شادی کے بعد یہاں نہیں رہیں گے سب کے ساتھ،، مطلب آپ نے فلیٹ لیا ہے"

رنعم نے جھجھکتے ہوئے پوچھا


"اففف یعنیٰ تمہیں شادی کے بعد بھی مما کے پاس رہنا ہے تھوڑا رحم کرو یار میرے اوپر"

کاشان نے حیرت سے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا


"کاشان میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی"

رنعم نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا


"لیا ہے فلیٹ اور اس کی دو وجہ ہیں پہلی یہ کہ مجھے گھر داماد بن کر رہنا پسند نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ مجھے اپنے اور تمہارے درمیان کوئی تیسرا نہیں چاہیے۔۔۔ پرائیویسی چاہتا ہوں میں"

وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اپنی انگلی رنعم کی تھوڑی کے نیچے رکھ کر، اسکا چہرہ اونچا کرتے ہوئے بولا


"آہم آہم کیا میں اندر آ جاؤ،، اگر تم دونوں کو برا نہ لگے تو"

سیرت نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے مسکرا کر پوچھا


"برا لگے بھی تو تمہیں کون سا فرق پڑنا ہے۔۔۔۔ اندر تو تم آ چکی ہوں"

سیرت کی آواز پر کاشان رنعم کے پاس سے دور ہٹا جبکہ رنعم شرمندہ ہوگئی۔۔۔ سیرت مسکراتے ہوئے اندر آئی


"قسم سے کاشی تمہیں یوں مجنوں والے اسٹائل میں دیکھ کر عجیب سا لگ رہا ہے۔۔۔ کاشان احمد جس کے سر پر ہر وقت غصہ سوار رہتا ہو،، وہ رومینٹک بھی ہوسکتا ہے یقین نہیں آرہا"

سیرت کاشان کو چھیڑتے ہوئے بولی مگر ازلی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کاشان کو اس کی باتیں چھو کر بھی نہیں گزری مگر رنعم پانی پانی ہو گئی


"کیوں رومانٹک ہونے کا ٹھیکہ صرف تمہارے مجنوں نے لیا ہوا ہے"

کاشان نے سیریس ہو کر سیرت سے پوچھا جس پر رنعم نے چونک کر جبکہ سیرت میں گھور کر کاشان کو دیکھا


"شرم کرو بدتمیز انسان"

سیرت کو ہرگز توقع نہیں تھی وہ یوں رنعم کے سامنے اپنا کھول دے گا جبکہ اس سے ہر بات کی توقع لگائی جا سکتی تھی


"فی الحال تو شرمانے کے دن کسی اور کے ہیں"

سیرت سے کہتا ہوا رنعم پر ایک نظر ڈال کر وہ کچن سے چلا گیا۔۔۔۔ رنعم اب مشکوک نظروں سے سیرت کو دیکھنے لگی


"پاگل ہے یہ کچھ بھی بولتا رہتا ہے اس کی باتوں کو زیادہ سیریس نہیں لیا کرو"

رنعم کے گھررنے پر سیرت اس کو بولی اور خود بھی کچن سے چلی گئی


****


"کیسی ہو"

ثوبان تھوڑی دیر پہلے ہی پولیس اسٹیشن سے گھر آیا تھا،،، بہروز کی خیر خیریت پوچھ کر وہ روم میں آیا تو اس کے پیچھے سیرت آگئی


"میں ٹھیک ہوں مگر شاید تم کافی بزی ہو گئے ہو دو دن سے"

سیرت نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا تو ثوبان مسکرایا۔۔۔ ڈھیر سارے کام ہونے کی وجہ سے وہ دو دن سے اس کے پاس رات میں نہیں آرہا تھا


"یار شادی کا گھر ہے ڈھیر سارے ارینجمنٹ ہیں مجھے ہی دیکھنا ہے سب۔۔۔ ایک طرف بھائی ہے تو دوسری طرف بہن"

ثوبان نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے اس اپنی ذمہ داریوں کا بتایا


"اور ایک طرف بیوی بھی ہے اس کے بھی کچھ حقوق و فرائض ہوتے ہیں" سیرت اس کو دیکھ کر شکوہ کرنے لگی


"میں تو حقوق و فرائض ادا کرنا چاہتا ہوں ہر دفعہ تم ہی روک دیتی ہو"

سیرت کو بانہوں میں لیتے ہوئے وہ ذو معنی انداز میں بولا


"ہر وقت شروع مت ہوجایا کرو ثوبی۔۔۔ مجھے برات کے فنکشن کا ڈریس لینا ہے اور وہ دلانے کے لئے تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چل رہے ہو"

سیرت نے اسے پیچھے کرتے ہوئے اپنا کام بتایا


"برات کے دن کا ڈریس مما لے کر آئی تو تھیں تمہارے لئے"

ثوبان نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا


"ہاں مگر مجھے وہ خاص پسند نہیں آیا تو میں نے انہیں واپس کردیا اور انہیں بتا دیا کہ میں ثوبی کے ساتھ جا کر لے لوں گی"

سیرت نے نراٹھے پن سے اسے اپنا کارنامہ بتایا


"سیرت مما کا دل رکھنے کے لئے ان سے لے لیتی تمہارے لئے اتنا پسند کر کے لے کر آئی تھی۔۔۔ بے شک نہ پہنتی مگر انہیں واپس تو نہ کرتی

ثوبان نے اسے افسوس سے دیکھتے ہوئے کہا


"ہر ایک کا دل کا خیال بس میں ہی یہاں پر رکھو اور میرے دل کا کیا ہے۔۔۔۔ تم بھی تو بس اپنے گھر والوں کا سوچتے ہو ہر وقت،، ان سب کے آگے تو، میں تمہیں نظر ہی نہیں آتی"

سیرت نے برا مناتے ہوئے کہا اس کا موڈ اچانک خراب ہوچکا تھا


"کس کے دل کا خیال رکھا ہے تم نے سیرت۔۔۔ ابھی مما کو ڈریس واپس کرنے کا کارنامہ تم نے خود مجھے بتایا۔۔۔ میں جب شاپنگ کے لئے مما اور رنعم کو لے کر جا رہا تھا،،، رنعم تم سے بھی پوچھنے آئی تھی تو تم نے ان لوگوں کے ساتھ جانے سے کیوں انکار کردیا"

ثوبان بھی ماتھے پر شکنیں لیے اس سے شکوہ کیا


"تم رنعم کو اکیلے فرنیچر سلیکٹ کرنے کے لئے لے کر گئے،، مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا پھر میں کیوں پورے ٹبر کے ساتھ شاپنگ کرنے جاتی اس لیے منع کردیا میں نے"

سیرت بغیر لحاظ کیے ثوبان سے بولی


"شادی رنعم کی ہو رہی ہے فرنیچر اس کو یوز کرنا ہے تو میں اپنے ساتھ اسی کو لے کر جاو گا۔۔۔۔ اگر تمہیں بھی ساتھ چلنا تھا تو چلتی،، منع کس نے کیا تھا مگر میرا نہیں خیال کہ رنعم کے فرنیچر کے لئے خاص طور پر تمہیں چلنے کا انویٹیشن دیا جاتا اور جنھیں تم ٹبر کہہ رہی ہو وہ تمہاری ماں اور بہن ہے اس لیے آئندہ کچھ بھی بولتے ہوئے لینگویج سوچ سمجھ کر یوز کرنا"

ثوبان نے سنجیدگی سے اور سخت لہجے میں سیرت کو باور کرایا جس پر سیرت کو مزید پتنگے لگے


"بھاڑ میں جاؤ تم اور سب لوگ۔۔۔ اب میں کبھی تم سے شاپنگ کا نہیں کہو گی اور کیوکہ میرے پاس بارات کے ایوینٹ کا ڈریس نہیں ہے اس لیے میں بارات میں شرکت بھی نہیں کروں گی"

سیرت منہ بنا کر اسے دھمکاتی ہوئی روم سے نکل گئی ثوبان اس کی باتوں پر سر جھٹک کر رہ گیا


"بھیا آپی کو کیا ہوا ہے"

رنعم نے ثوبان کے روم میں آکر اس سے پوچھا کیوکہ رنعم چائے لے کر ثوبان کے روم میں آ رہی تھی تو سیرت نن فن کرتی ہوئی اس کے روم سے نکل رہی تھی


"نئی بات نہیں ہے،، اکثر اسی طرح اسے بچپن سے ہی جن چڑھ جاتے ہیں۔۔۔ تھوڑی دیر میں خود ہی سیٹ ہو جائے گی۔۔۔ تم ایسا کرو مما سے کہہ کر بابا کا کھانا ریڈی کروا دو انہیں کھانا کھلا کر،،، مجھے سیرت کے ساتھ باہر جانا ہے اس کی ایک دو چیزیں رہ گئی تھی" ثوبان چائے کا کپ رنعم سے لے کر سپ لیتے ہوئے اس سے بولا


رنعم اچھا کہتی ہوئی روم سے باہر نکل گئی


****


موڈ ٹھیک کرو سیرت اپنا،،، ایسی کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہے جس کا ایشو بنا کر اس طرح منہ بنایا جائے" ڈرائیونگ کے دوران ثوبان نے سیرت کا ہاتھ تھاما تو سیرت نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تب ہی بھی ثوبان سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ اس کو منا کر۔۔۔ سوری کہہ کر برات کے لئے اسکو ڈریس دلانے لے جا رہا تھا


موڈ صرف میرا ہی تمہارا بھی خراب ہے منہ صرف میرا ہی نہیں تھوڑی دیر پہلے تمہارا بھی بنا ہوا تھا مجھے لگتا ہے میری تو کوئی ویلیو ہی نہیں ہے" سیرت نے اس کو دیکھتے ہوئے دوبارہ شکوہ کیا۔۔۔ جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی اسے یہی لگتا تھا کہ ثوبان صرف گھر والوں کو ہی ٹائم دیتا ہے۔۔۔ وہ اسے یہاں لاکر بھول گیا ہے


"دوبارہ فضول باتیں شروع کرنے کیا مطلب،،، سیرت تمہاری ویلیو نہیں ہوتی تو اتنی تھکن کے باوجود تمہیں یہاں لے کر نہیں آتا"

وہ آج شام میں گھر لوٹا تو کافی تھکا ہوا تھا۔۔۔ آج اس کا گھر میں ریسٹ کرنے کا ارادہ تھا مگر سیرت کی ناراضگی کو خاطر میں لاتے ہوئے وہ اسکو ڈریس دلانے کے لئے لے کر آگیا


"بہت بہت شکریہ آپ کا ایس پی ثوبان احمد جو آپ نے مجھ ناچیز کی خاطر،، اپنی تھکن کو نظر انداز کرتے ہوئے مجھے یہاں لے کر آئے۔۔۔ بندی اس احسان کا بدلہ واقعی نہیں چکا سکتی"

اس کے تازہ تازہ طنز پر ثوبان کھل کر ہنسا


"ایس پی ثوبان احمد اس ناچیز بندی سے آج رات کو، اس احسان کا بدلا لینے کا اور اپنی تھکن اتارنے کا پورا ارادہ رکھتا ہے"

وہ ڈرائیونگ کے دوران سیرت کی طرف دیکھتا ہوا کہنے لگا اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر سیرت بلش کر گئی


"چھچھورپن کے مظاہرے ذرا کم کیا کرو، سامنے دیکھ کر کار چلاؤ کہیں ٹکرا ہی نہ دینا"

ثوبان کی نظروں سے کنفیوز ہو کر سیرت نے جھینپتے ہوئے کہا جبکہ ثوبان مسکرا کر سامنے دیکھنے لگا


ایک بوتیک میں جاکر سیرت نے دس سے پندرہ ڈریس ٹرائے کیے مگر ثوبان ہر ڈریس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتا۔۔۔ کافی دیر بعد ثوبان کو ایک ڈریس صرف "صحیح" لگا جسے سیرت نے پہلی فرصت میں خرید لیا

آج مایوں کی تقریب گھر کے لان میں ہی منعقد کی گئی تھی گھر کے سبھی لوگ مختلف کاموں میں مصروف نظر آرہے تھے۔۔۔ ثوبان کے انسسٹ کرنے پر سیرت نے بھی مختلف کاموں میں حصہ لیا ہوا تھا


ویسے بھی اس کی بہن کی شادی تھی وہ کاشان اور رنعم کی شادی پر خوش تھی بے شک ماں باپ سے ناراض ہو مگر چند دنوں میں ہی رنعم اسے عزیز ہو گئی تھی


نکاح کی تقریب دوپہر میں ہی انجام دے دی گئی تھی۔۔۔ اب شام کا وقت تھا لہذا مہمانوں کی آمد و رفت شروع ہو چکی تھی


"سیرت بیٹا ذرا رنعم کو دیکھ کر آؤ تیار ہوگئی ہے تو اسے باہر لے آؤ۔۔۔ کاشان پتہ نہیں کیوں نہیں آیا ابھی تک"

یسریٰ نے عجلت میں سیرت سے کہا


"رنعم کو میں دیکھ لیتی ہوں بلکہ مہمان بھی آگئے ہیں تھوڑی دیر بعد ہی اس سے باہر لے آؤں گی اور کاشان اپنے فلیٹ سے نکل چکا ہے پہنچنے ہی والا ہوگا۔۔۔ ابھی فون کیا تھا میں نے اسے" سیرت نے ابٹن اور مہندی سے سجے تھال کچن میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کاشان ہفتے پہلے ہی اپنے فلیٹ میں شفٹ ہو چکا تھا تھا،، رات کے کھانے کے ٹائم پر وہ یہاں سب کے پاس آ جاتا کیوکہ اس کا فلیٹ زیادہ دور نہیں تھا،، دو ایک دفعہ وہ نہیں آ سکا تو رنعم نے کھانا بنا کر شاہدہ کے بیٹے کے ہاتھ اسے بھجوا دیا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھ سے کاشان کے لیے کھانے بنا بنا کر اب کھانا بنانے میں پرفیکٹ ہوچکی تھی اور کاشان اس کے ہاتھ کے بنے کھانے کھا کھا کر، وہی کھانے کا عادی


****


"مانا کے کاشی تمہارا شوہر بن چکا ہے مگر آج اس کے دل پر بجلیاں گرانے کا سامان پیدا مت کرو ورنہ وہ کل تک کنٹرول نہیں کر پائے گا"

سیرت نے رنعم کے کمرے میں آ کر اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھ کر جملہ پاس کیا جس پر رنعم جھینپ گئی۔۔۔۔ یلو اور پرپل کلر کے کمبینیشن کے لہنگے میں،، پھولوں کے زیور پہنے وہ کوئی ناز کسی گڑیا لگ رہی تھی میک اپ کے نام پر نیچر شیڈ کا گلوز لگایا ہوا تھا


"آپی آپ ایسی باتیں کر کے مجھے ڈرا رہی ہیں"

رنعم نے نروس ہوتے ہوئے سیرت سے کہا


"اف پاگل لڑکی اس میں ڈرنے والی کونسی بات ہے اگر تم ابھی سے ڈر جاو گی تو ساری زندگی ڈرتی ہی رہو گی عورت کا حسن ہی اس کا ہتھیار ہوتا ہے۔۔۔ تم اس ہتھیار سے مالامال ہو اور دوسرا پلس پوائنٹ تمہارے پاس یہ ہے کہ تمہارا شوہر پہلے سے ہی تمہارے حسن کے اگے مکمل گھائل ہے۔۔۔۔ اب میری بات غور سے سنو کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے،،، اپنی اداؤں سے اسے مجبور کر دینا کہ کل وہ تمہارے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے صرف دو باتیں اس کی ماننا مگر دس باتیں اپنی منوانا۔۔۔ اگر پہلی رات کو تم اپنی منوانے میں کامیاب ہو گئی تو سمجھو زندگی بھر کے لیے وہ تمہاری مانے گا۔۔۔ سمجھ میں آ رہی ہے میری بات"

سیرت بڑے بوڑھوں کی طرح رنعم کو سمجھانے میں مصروف ہو گئی اور رنعم ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے میں


"آپی سب کچھ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔۔۔ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہیں"

رنعم نے اس کی باتوں سے مزید نروس ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔ جس پر سیرت نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا


"آف رنعم تم کتنی بدھو ہو،، دیکھو اب میں تمہیں آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں"

سیرت نے تحمل سے اس کو دوبارہ سمجھانا چاہا


"یہ کیا الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہی ہو تم، میری معصوم اور بھولی بھالی بیوی کو"

کاشان نے روم کا دروازہ جو کہ پہلے سے ہی ذرا سا کھلا ہوا تھا پورا کھول کر سیرت سے کہا


"تم یہاں کیا کر رہے ہو"

سیرت نے حیرت سے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جو کہ اب پورا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا۔۔۔۔ دوسری طرف رنعم کاشان کو اپنے سامنے دیکھ کر اور سیرت کی باتوں پر مزید گھبرا گئی یقیناً وہ سب باتیں کاشان سن چکا تھا


"ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں بائے دا وے کیا مشورہ دے رہی تھی تم اسے،،، دو باتیں مانو دس باتیں اپنی منواؤں تو سیرت بی بی یہاں ایسا کوئی سین نہیں ہونے والا،۔۔۔ بے شک میری بیوی حسن کی دولت سے مالا مال ہے مگر کاشان احمد پر اب تک کوئی قابض ہو، یہ ناممکن ہے۔۔۔ کاشی تو صرف منوانا جانتا ہے یقین نہیں آتا تمہیں پرسوں اندازہ ہو جائے گا کون چاروں خانے چت ہوتا ہے"

کاشان نے دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہوئے سیرت سے کہا


"جانتی ہوں تمہیں تم ہی قابض ہوگے "جن" جو ٹہرے،،، وہ بھی بے ہودہ قسم کے"

سیرت نے اس کی مسکراہٹ پر تپ کر کہا


"مانا کہ ہم پہلے سے تجربے کار نہیں اس میدان میں نئے اترے ہیں مگر فتح پر پورا یقین ہے پرسوں بیشک اپنی بہن سے پوچھ لینا کس نے کس کے آگے گھٹنے ٹیکے"

وہ آنکھ مارتا ہوا دوبارہ سیرت سے بولا۔۔۔۔ رنعم ان دونوں کی گفتگو سن کر شرمندہ ہوئے جا رہی تھی جبکہ سیرت اپنے سامنے کھڑے بے ہودہ دیور کی بےہودگیاں دیکھ کر گرھتی جا رہی تھی


"تم یہاں کیا کرنے آئے ہو چلو نکلو۔۔۔ گھٹنے کل ٹکوانا ابھی مہمانوں سے گھر بھرا ہوا ہے"

سیرت سے کوئی بات نہیں بنی تو وہ بگڑتی ہوئی بولی


"اب جو میں کرنے آیا ہوں وہ تمہارے سامنے تو کرنے سے رہا تھوڑی دیر اپنی بیوی سے بات کرنا چاہتا ہوں پلیز مہربانی کر کے آپ دروازہ بند کر کے یہاں سے چلی جائے شاید ہم بھی ایسے موقعے پر کبھی نہ کبھی آپ کے کام آہی جائے"

کاشان بڑے مودبانہ انداز میں سیرت سے مخاطب ہوا تو وہ ایک نظر گھبرائی رنعم کو دیکھ کر افسوس میں سر ہلا کر چلی گئی اور دل ہی دل رنعم کو مخاطب کیا


"اللہ ہی حافظ ہے تمہارا رنعم بی بی"


"یہ نہیں پوچھوں گا کیسی ہو بلکہ میں خود دیکھنے آیا ہوں کہ آج تو کیسی لگ رہی ہوں"

سیرت کے جانے کے بعد کاشان رنعم کو خود سے قریب کر کے مخاطب ہوا


"کوئی آجائے گا کاشان"

رنعم کو اپنی دھڑکن مزید تیز ہوتی لگی تو وہ گھبرا کر بولی


"تمہارا سیرت کے فضول مشوروں پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ تو نہیں ہے نہ بے شک اس نے سو فیصد سچ کہا ہے کہ تمہارا شوہر تمہارے حسن کا پہلے سے ہی گھائل ہے مگر میں نے بھی یہ غلط نہیں کہا کہ منواوں گا اپنی ہی"

کاشان نے اسے باور کرانے بعد ساتھ اپنے ہونٹ رنعم کے ہونوں پر رکھ کر مزید باور کرایا۔۔۔ رنعم کو اب اپنی دھڑکنوں کی رفتار سست لگی اس نے زور سے آنکھیں بند کیں۔۔۔ کاشان اسے اپنی بانہوں میں لے کر سہارا نہیں دیتا تو یقیناً وہ زمین پر گر چکی ہوتی


"مسز کل آپ اپنے اس نازک سے دل کو تھوڑا مضبوط کر کے میرے پاس آئیے گا کیوکہ کل فرار کا کوئی راستہ کام نہیں آنے والا"

کاشان رنعم کے نازک سے سراپے کو بانہوں میں لیے رنعم کے کان میں کہتا ہوا اسے صوفے پر بیٹھا کر باہر نکل گیا اور رنعم کو لگا کے وہ اسے اچھا خاصا ڈرا کر چلا گیا


****


سیرت رنعم کی روم سے نکل کر باہر جانے لگی۔۔۔ باہر سے گھر میں آتی یسریٰ اسے راستے میں مل گئی


"ابھی تک رنعم کو لے کر نہیں آئی بیٹا،، اب تو سارے گیسٹ پہنچ چکے ہیں"

یسریٰ کی نظر سیرت پر پڑی تو وہ اسکو دیکھ کر پوچھنے لگی


"جی مما میں بس رنعم کو لے کر آرہی ہوں۔۔۔ آپ کس کام سے اندر آ رہی ہیں" سیرت نے یسریٰ سے پوچھا وہ آج شام سے ہی کافی مصروف دیکھ رہی تھی


"ثوبان کو بلانے جا رہی تھی وہ ابھی چینج کرنے گیا تھا مگر اس کے فرینڈز وغیرہ آ گئے ہیں اس کا پوچھ رہے ہیں۔۔۔ ایسا کرو تم ثوبان کو کہو فٹافٹ باہر آجائے اور رنعم کو بھی لیتی آنا تاکہ رسم شروع کریں"

سیرت سے کہتے ہوئے یسریٰ کی نظر سامنے سے آتی مسز حمید پر پڑی جو اسی کی طرف آ رہی ہوتی


"ارے یسریٰ بہت بہت مبارک ہو بھئی اور یہ آپ کی بڑی بیٹی ہے نا"

مسز حمید جو یسریٰ کی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ رشتے بھی کرواتی تھی سیرت کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"جی یہ میری بڑی بیٹی ہے"

یسریٰ نے مسکراتے ہوئے سیرت کو پیار بھری نظروں سے دیکھ کر مسز حمید کو جواب دیا سیرت نے مسکرا کر سامنے کھڑی مسز حمید کو سلام کیا


"بہت پیاری ہے یہ تو ماشاءاللہ آپ نے اس کے لئے کچھ سوچ رکھا ہے"

مسز حمید نے سیرت کو دیکھتے ہوئے یسریٰ سے پوچھنے لگی ان کی بات سن کر سیرت کے مسکراتے لب ایک دم سکھڑ گئے


"اس میں کوئی شک نہیں میری بیٹی واقعی بہت پیاری ہے مگر یہ اتنے سالوں بعد ہمہیں ملی ہے ہم اتنی جلدی سے اپنے پاس سے جانے نہیں دیں گے"

یسریٰ نے مسکراتے ہوئے سیرت کا ہاتھ تھام کر مسز حمید کو کہا وہ تینو ہی مسکرا دی


"مما میں رنعم کو لے کر آتی ہوں" سیرت یسریٰ کو کہہ کر وہاں سے جانے لگی


"بیٹا ثوبان کو بھی بولو جلدی آجائے" یسریٰ کی بات سن کر سیرت نے سر ہلایا اور وہاں سے جانے کے لیے مڑی تبھی مسز حمید کی آواز سیرت کے کانوں میں پڑی


"وہ جو ثوبان کے لیے میں نے آپ کو لڑکیوں کی تصویریں دی تھی ان میں سے کوئی لڑکی پسند آئی آپ کو"

مسز حمید اب یسریٰ سے پوچھ رہی تھی


"دیکھیں میں نے آپ کو بتایا تھا نہ میرا ایک ہی بیٹا ہے،، اسکے لئے مجھے ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکی چاہیے دونوں لڑکیاں ماشاءاللہ بہت پیاری تھی مگر ثوبان نے سی ایس ایس کیا ہے اس لحاظ سے میں اس کے لئے خوبصورت لڑکی کے ساتھ ساتھ یہ چاہو گی کہ لڑکی کی کوالیفکیشن بھی اچھی ہو اور دوسری بات سے کہ بیک گراونٹ اچھا ہو ہر کوئی آجکل یہی دیکھتا ہے،، آپ سمجھ رہی ہیں نہ میری بات"

یسریٰ کی بات سن کر سیرت کا دل بجھ گیا وہ گھر کے اندر جانے لگی


ایک مہینے پہلے ہی اس کا بی ایس کا رزلٹ آیا تھا جس میں اس کا ایک پیپر رہ گیا تھا اور اس کا بیک گراؤنڈ بےشک اچھا ہو مگر اس کی پرورش دو لور کلاس انسان نے کی تھی


"ثوبی کے لیے شاید مما کو میرا خیال بھی نہ آئے"

سیرت دل ہی دل میں سوچتی ہوئی ثوبان کے روم میں جانے لگی


****


"کون"

دروازہ کھٹکھٹانے پر ثوبان نے مصروف انداز میں پوچھا


"مما بلا رہی ہے تمہیں۔۔۔ فرینڈز آگئے ہیں سارے تمہارے" ثوبان وارڈروب کھولے کھڑا تھا تبھی سیرت اس کے روم میں آتی ہوئی بولی


"جلدی سے میرا موبائل چارجر سے نکالو اور میری واچ پکڑاو مجھے"

وہ سیرت کی طرف دیکھے بغیر اس سے کہنے لگا۔۔۔۔ سیرت بے دلی سے اس کا موبائل اور واچ لے کر اس کے پاس آئی


"یہ لو"

سیرت کی آواز پر وہ پلٹا سیرت اسے دونوں چیزیں پکڑا کر وہاں سے جانے لگی تبھی ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔ سیرت نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ آنکھوں میں پیار سمائے اسی کو دیکھ رہا تھا


"دور سے میں نے غور ہی نہیں کیا۔۔۔ تم اتنی پیاری لگ رہی ہو،،، میرے قریب قریب رہا کرو"

ثوبان نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے کہا سیرت سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی اور طنزیہ ہنسی


"اب دور سے ہی دیکھنے کی عادت ڈالو کیوکہ مما تمہارے لئے کوئی پرفیکٹ لڑکی ڈھونڈ رہی ہے"

سیرت کی شکایت کرتی نظروں کو دیکھ کر ثوبان ہنس دیا


"یار میں ایک اچھے بیٹے کے ساتھ ساتھ اچھا شوہر بھی ثابت ہونے والا ہو۔۔ مما کا حکم تو سر آنکھوں پر مگر تمہارا بھی اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ ویسے بھی دو شادیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے"

ثوبان نے بانہوں کے گھیرے کو مزید سخت کیا۔۔۔۔ سیرت کو لگا وہ اسے تسلی دے گا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا مگر ثوبان کی بات سن کر سیرت نے اس کو دھکا دیا


"بہت شوق ہو رہا دوسری شادی کرنے کا"

سیرت اس کا گریبان پکڑ کے خونخوار نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی


"کیا کر رہی ہو یار ساری پریس خراب کروں گی"

ثوبان سیرت کو مصنوعی گھوری سے نوازتا ہوا بولا اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹائے


"بھاڑ میں جاؤ تم ثوبان احمد اور شوق سے مما کی پسند سے کرو شادی مگر سیرت سے بھی اچھی امید مت رکھنا۔۔۔ گلا دبا کر جان لے لو گے ڈائن کی"

سیرت اسے دھماکے ہوئے بولی اور اس کی آنکھوں میں نمی آگئ


"بس اتنی ہی برداشت ہے۔۔۔ مذاق کر رہا تھا یار یہاں دیکھو میری طرف،، مما ایسا کچھ نہیں کرنے والی اور یہ مما کا بیٹا پورا کا پورا تمہارا ہے۔۔۔ کاشی اور رنعم کی شادی سے فارغ ہوجائے اس کے بعد مما بابا کو سب بتا دوں گا"

ثوبان اس کا چہرہ تھامتے ہوئے بولا اور اس کی پیشانی پر لب رکھے


"نیچے چلو سب گیسٹ آگئے ہیں" سیرت اپنا موڈ ٹھیک کرتی ہوئی بولی


"چلو"

ثوبان اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روم سے لے کر نکل گیا

آج برات کا دن تھا آج کی تقریب کے لیے ثوبان نے ہوٹل بک کرایا تھا۔۔۔۔ بہروز اور یسریٰ فرح عاشر کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے تھے کیوکہ گیسٹ آنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔ ثوبان اپنے روم میں تیار ہو رہا تھا اس کا ارادہ سیرت کے ساتھ رنعم کو لے کر ہوٹل پہنچنا تھا،، آج شام سے ہی کاشان بھی وہی پر موجود تھا وہ بھی یہی سے ہوٹل پہنچنے کا ارادہ رکھتا تھا


"یہ دیکھو ثوبی مما پھولوں کے گجرے سے بھرا تھال جلدی میں یہی بھول گئی ہیں"

سیرت ہاتھ میں تھال اٹھائے ثوبان کے کمرے میں آ کر کہنے لگی۔۔۔۔ آج اس نے ثوبان کا دلایا ہوا لال کلیوں کا فراک پہنا ہوا تھا جو کہ کافی ہیوی تھا مگر اس پر لائٹ سے میک اپ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی


"کوئی بات نہیں میں غلام بخش سے کہہ کر کار میں رکھوا دیتا ہوں تم ذرا یہاں آؤ میرے پاس"

ثوبان خود بھی تیار ہو چکا تھا وہ سیرت کے حسین سے سراپے پر گہری نظر ڈالتا ہوا بولا


"ثوبی انسان بن جاو رنعم کو لے کر ہمہیں ہوٹل پہنچنا ہے"

سیرت اس کی پر شوخ نظروں کو دیکھ کر کہتی ہوئی روم سے جانے لگی۔۔ ثوبان نے اس کو روم سے باہر جاتا دیکھ کر فوراً اس کا ہاتھ کھینچا اور خود سے قریب کیا سیرت کے ہاتھ میں موجود تھال نیچے گر پڑا


"یہ کیا کیا تم نے ثوبی۔۔۔۔ پورا تھال گرا دیا معلوم ہے کتنی بری علامت ہوتی ہے اس طرح تھال کا گرنا"

سیرت اس کو گھور کر کہتی ہوئی پھول اور گجرے سمیٹنے لگی


"یہ کونسی دقیانوسی باتیں شروع کر دی تم نے"

وہ بھی اس کی مدد کرتا ہوا بولا


"میں نے سنا ہے ایسے تھال گرنے سے شادی شدہ جوڑے پر بری نظر لگ جاتی ہے"

سیرت نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"اللہ نہ کرے جو کاشی اور رنعم پر کسی کی بری نظر نہ لگے فضول قسم کی بکواس ہے یہ سب۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا"

ثوبان پیشانی پر شکن لائے بولا اور سیرت کے ہاتھ تھال لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا


"کبھی تو اپنے میرے بارے میں بھی سوچ لیا کرو۔۔۔۔ میں نے ان دونوں کی بات نہیں کی ہے،، کپل ہم دونوں بھی ہیں"

سیرت بولتی ہوئی جانے لگی ایک بار پھر ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر خود سے قریب کیا


"ہم دونوں کے رشتے کو لے کر بھی آئندہ ایسی بات نہیں کرنا، میں اپنے اور تمہارے رشتے پر کبھی کسی کی بری نظر نہیں لگنے دوں گا"

ثوبان اس کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا جس پر سیرت مسکرا دی


"چلو جلدی سے رنعم کا میسج آیا ہے وہ ویٹ کر رہی ہے ہمارا"

سیرت بولتی ہوئی روم سے باہر جانے لگی تبھی ثوبان نے اس کے گرد اپنے ہاتھ باندھے


"پہلے مجھے جی بھر کے دیکھ لینے دو،، تمہیں معلوم ہے نا بعد میں بزی ہو جاؤں گا موقع نہیں ملے گا"

ثوبان نے کہنے کے ساتھ اپنے ہونٹ اس کے ماتھے پر رکھے


"تم میرا سارا میک اپ خراب کر دو گے"

سیرت نے اس کو گھورتے ہوئے کہا


"کوشش کرو گا زیادہ خراب نہ ہو اور اگر خراب ہوگیا تو پانچ منٹ دو گا صحیح کرکے کار میں آجانا"

وہ بولنے کے بعد اب اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا


"آہم آہم۔۔۔۔۔ یار مانا تم دونوں میاں بیوی ہو مگر روم کا دروازہ تو بند کرنا چاہیے،، اب آنے والا تو اپنی آنکھیں بند کرنے سے رہا"

کاشان کی آواز پر ثوبان ایک دم سیرت سے دور ہٹا۔۔۔ وہی سیرت بھی شرمندہ ہوگئی جبکہ وہ ان دونوں کو شرمندہ دیکھ کر مسکراتا ہوا روم میں داخل ہوگا۔۔۔ لائٹ گولڈن شیروانی جس پر نفاست سے مہرون کلر کا کام ہوا تھا۔۔۔ اس میں کاشان کی شخصیت خوب جچ رہی تھی


"پاگل ہوگئے ہو کیا اس کی آنکھ کا کاجل پھیل گیا تو وہ دیکھ رہا تھا" ثوبان اپنے آپ کو نارمل کرتا ہوا کاشان کو وضاحت دینے لگا


"چلو اگر تم کہتے ہو تو میں مان لیتا ہوں۔۔۔ ویسے اچھا انداز ہے کاجل چیک کرنے کا میں کار میں تم دونوں کا ویٹ کر رہا ہوں،، تم دوسری آنکھ کا کاجل بھی دیکھ کر باہر آجانا"

کاشان خباست سے ہنس کر بولتا ہوا باہر نکل گیا جبکہ ثوبان اپنا سر کھجانے لگا


"یہ سچی میں بہت زیادہ خبیث نکلا ہے بڑا ہوکر"

سیرت نے جتنی سنجیدگی سے کہا ثوبان نے اتنی زور کا قہقہہ لگایا اور کار کی کیز اور موبائل کو پاکٹ میں رکھتا ہوا سیرت کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا


****


وہ لوگ ہوٹل پہنچ چکے تھے رنعم کو لاکر کاشان کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔۔ آج صحیح معنوں میں کاشان اس کے حسن کو دیکھ کر چاروں خانے چت ہو چکا تھا۔۔۔ دلہن بن کر رنعم پر ایک الگ ہی روپ آیا تھا ریڈ اور گرین کلر کے کمبینیشن کے برائیڈل ڈریس میں وہ کسی اور جہاں کی اپسر معلوم ہورہی تھی


"رنعم تم اتنی پیاری لگ رہی ہو لگتا ہے آج کاشان بھائی کی خیر نہیں"

یشعل نے اسٹیج پر اکر رنعم کے کان میں سرگوشی کی


"تمہاری سہیلی دوسرا جملہ غلط بول گئی ہے آج کاشان کی نہیں مسز کاشان کی خیر نہیں"

یعشل کے اسٹیج سے جانے کے بعد کاشان سامنے دیکھتا ہوں برابر میں بیٹھی رنعم سے بولنے لگا۔۔۔ رنعم نے ہاتھ میں موجود کلچ کو مضبوطی سے تھام لیا


تھوڑی دیر بعد کاشان اسٹیج سے اٹھ کر اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا


رنعم اسٹیج پر اکیلی بیٹھی تھی تبھی مایا اس کے پاس آئی


"بہت بہت مبارک ہو تمہیں، آخرکار تم کاشان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔۔۔ حسن چیز ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کا دیوانہ ہو جاتا ہے چلو دیکھتے ہیں تمہارے حسن کا جادو اپنے شوہر کب تک چلتا ہے"

مایا مسکراتے ہوئے اسے کہہ کر اسٹیج سے نیچے اتر گئی

جبکہ مایا کی بات سن کر رنعم کا دل عجیب سا ہوگیا


****


تقریب اپنے عُروج پر تھی۔۔۔ غفران نے بھی لگے باندھے انداز میں بارات میں شرکت کر کے بہروز اور یسریٰ کو مبارکباد دی اور ایک کونے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔۔۔ فرح بھی شوہر کی موجودگی کا احساس کر کے غفران کے پاس آئی


"یہ لال رنگ کے کپڑوں والی لڑکی بہروز اور یسریٰ کی بڑی بیٹی ہے"

غفران نے دور کھڑی سیرت کو دیکھ کر فرح سے پوچھا جس پر فرح نے سر ہلایا


"اپنی شکل کے برعکس کافی نک چڑی لگ رہی ہے۔۔۔ ابھی یسریٰ نے تعارف کروایا تھا۔۔۔ مجھے تو لگ رہا ہے یسریٰ اور بہروز کو بھی زیادہ گھاس نہیں ڈالتی ہے" غفران نے فرح کے سامنے تبصرہ کیا


"ایسی بات نہیں ہے نیا ماحول ہے ایڈجسٹ کرنے میں ٹائم لگتا ہے معصوم سی ہے۔۔۔۔ بس زیادہ بات نہیں کرتی" فرح نے اپنی بھانجی کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا جس نے اسے بھی کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی تھی


"خیر شادی کے ہنگامے ختم ہو تو ایک بار پھر تم عاشر کے لیے یسریٰ سے بات کرنا"

غفران اصل بات پر آتا ہوا بولا


"میں سمجھی نہیں غفران آپ کی بات"

فرح نے نا سمجھی سے بولا


"اس میں سمجھنے والی کونسی بات ہے اپنے عاشر کے لیے سیرت کے رشتے کی بات کرنی ہے۔۔۔ اس میں عاشر کا ہی فائدہ ہے،،، بھئی جیسے کہ بہروز نے رنعم کی شادی پر خرچا کیا ہے اسے ہر چیز دی ہے ویسے ہی اپنی بڑی بیٹی کو بھی دے گا۔۔۔ میں نے سنا ہے دلہے کو سلامی میں کار بھی دی ہے۔۔۔دیکھ لو بھئی اس میں عاشر کو ہی فائدہ پہنچے گا اور اب یسریٰ انکار بھی نہیں کرے گی دوسری دفعہ بھلا بہن کو کون انکار کرتا ہے۔۔۔ تم عاشر کے رشتے کے لئے یسریٰ سے بات کر کے ہی واپس گھر آنا"

غفران نے اپنی بیوی کو سمجھاتے ہوئے کہا جس پر فرح فی الحال چپ ہی رہی اسے معلوم تھا عاشر رنعم کو پسند کرتا تھا۔۔۔ سیرت کے لیے وہ تیار نہیں ہوگا اور یہ بات وہ اپنے شوہر کو سمجھا کر فی الحال اس کا موڈ نہیں خراب کرنا چاہتی تھی اس لئے خاموشی میں ہی عافیت جانی


****


بیس منٹ پہلے ہی فرح اور سیرت اسے کاشان کے بیڈ روم میں بٹھا کر روم سے گئی تھی۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور آخر کار وہ وقت آ گیا جب کاشان اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر روم کے اندر آیا دروازہ لاک کیا


اب رنعم کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگ گئی۔۔۔۔ کاشان بیڈ پر بیٹھی ہوئی رنعم کو دیکھ کر چلتا ہوا اس کے پاس آ کر بیٹھا اور اس کا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسے گرمائش فراہم کرتا ہوا بولا


"بے شک تمہارا حسن یہ ہنر جانتا ہے کہ کیسے اپنے آپ منوایا جائے، مگر مجھے تمہارے حسن کے ساتھ ساتھ تمہاری نیچر نے اپنی طرف اٹریکٹ کیا۔۔۔ کبھی بھی ایک حد سے زیادہ بے باک اور بولڈ لڑکی مجھے پسند نہیں جو اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑھنے کے لئے یا اپنا آپ منوانے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے چکر میں مردوں سے مقابلے پر اتر آتی ہیں۔۔۔ اسلام میں بھی عورت کے مقابلے مرد کا درجہ بلند رکھا ہے لیکن آج کل کی لڑکیاں اس چیز کو بھول چکی ہیں مگر جب میں نے تمہیں دیکھا تو مجھے لگا میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا ہوں"

کاشان اس کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے اپنی پسند کی وجہ بتا رہا تھا


"اور اگر میری نیچر ایسی نہیں ہوتی تو یقیناً آج یہاں میری جگہ پر کوئی اور ہوتی"

رنعم نے جرات کر کے دل میں اٹھتا ہوا سوال ہچکچاتے ہوئے کاشان سے پوچھا،، تو وہ اس کی بات پر مسکرایا


"ایسی بات نہیں ہے تھوڑی دیر پہلے میں نے کہا تمہارا حسن یہ ہنر جانتا ہے کیسے اپنا آپ منوایا جائے۔۔۔ کاشان احمد کو تم نے تسخیر کرلیا ہے اسی وجہ سے تم یہاں پر موجود ہو۔۔۔ اگر تمہاری نیچر میری طبیعت سے میل نہ کھاتی تو اور اس کے باوجود میرا دل تم پر آجاتا تو میری جان، کاشی یہ فن رکھتا ہے کہ کیسے اپنی بیوی کو اپنے رنگ میں رنگے۔۔۔۔ اس کے سارے رنگ اتار کر اپنے رنگ چڑھا دینا کاشان اچھی طرح سے جانتا ہے۔۔۔ مگر آج رات میں تم پر صرف اپنی محبت کا رنگ چھڑانے کا ارادہ رکھتا ہوں" کاشان رنعم کا ہاتھ تھامے کھڑا ہوا اور اپنا دوسرا ہاتھ، اس کے دوسرے ہاتھ کی طرف بڑھایا جیسے تھوڑی جھجھک کے بعد رنعم نے تھاما تو کاشان نے اس کو سہارا دے کر کھڑا کیا۔۔۔ کاشان کے آخری جملے سے رنعم کے ہاتھ آہستہ آہستہ کانپ رہے تھے جس کو کاشان بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ وہ رنعم کا ہاتھ تھامے اسے ڈریسر کے پاس لے کر آیا اس کا ہاتھ چھوڑ کر، ڈریسر کی دراز سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی جس میں ایک خوبصورت سی ڈائمنڈ کی لونگ موجود تھی


کاشان نے وہ ڈائمنڈ کی نوز پن رنعم کو پہنائی اور رنعم کا چہرہ اوپر کر کے اس کے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی۔۔۔ جس پر رنعم کی دھڑکنیں ایک بار پھر بے ترتیب ہونے لگی۔۔۔۔


باری باری اس کا سارا زیور اتارنے کے بعد کاشان نے وارڈروب سے نائٹ ڈریس نکال کر رنعم کو تھمایا


"جاؤ چینج کرکے آؤ"

کاشان اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔ جوکہ یقیناً نائٹ ڈریس کو دیکھ کر سرخ ہوچکا تھا۔۔۔ رنعم نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر کاشان کے ہاتھوں نائٹ ڈریس لیا تو کاشان اس کا دوسرا ہاتھ تھامے مہندی کے خوبصورت نقش و نگار دیکھنے لگا


"تمہارے ہاتھ میں لگی مہندی کا رنگ زیادہ گہرا ہے یا میری محبت کا اس کا اندازہ تمہیں بخوبی صبح تک ہو جائے گا"

وہ اس کی ہتھیلی کو چومتے ہوئے کہنے لگا


****


اتنا چھوٹا اور کھلا نائٹ ڈریس۔۔۔ وہ کہیں سے بھی اس قابل نہیں تھا کہ اس کو پہن کر روم سے باہر جایا جائے رنعم نے چوتھی بار دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر واپس ہٹایا،،، رنعم کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا تو نائٹ ڈریس کو کس طرح گھٹنوں سے کھینچ کر نیچے تک لایا جائے کندھوں پر موجود باریک اسٹیپ کو کس طرح پھیلا کر وہ بازوں کو ڈھانکے۔۔۔ رنعم نے بیچارگی سے سوچا اور دل کو تھوڑا مضبوط کر کے اپنی آنکھیں بند کرتی ہوئی دروازے کا ہینڈل گھمایا


بیڈ روم کے اندر داخل ہونے کے ساتھ ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ روم میں پہلے سے ہی اندھیرا تھا بیڈ پر کاشان بیٹھا ہوا اسموکنگ کر رہا تھا وہ بھی ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں موجود تھا یقیناً جتنی دیر رنعم نے بیڈ روم میں آنے میں لگائی اس نے بھی اپنا ڈریس چینج کر لیا تھا


لیمپ کی مدہم روشنی کمرے کے ماحول خوابناک بنارہی تھی رنعم چلتی ہوئی بیڈ کے مخالف سائڈ پر آئی اور چپ کر کے بیڈ پر بیٹھ گئی


اس کے ہاتھ پاؤں یخ ہو رہے تھے مگر اس کی وجہ اے۔سی کولنگ ہرگز نہیں تھی۔۔۔ کاشان اس کا گھبرانا جھجھکنا نوٹ کر رہا تھا وہ سگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر رنعم کے پاس آیا


"ریلیکس میری جان میں محرم ہوں تمہارا"

وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتا ہوا کہنے لگا۔۔۔ رنعم کاشان کی بات پر خود کو ریلیکس تو کیا کرتی مزید نروس ہونے لگی


You are my doll


وہ اپنے ہاتھ کی انگلیاں رنعم کے چہرے پر پھیرتا ہوا کہنے لگا


I want to play game with you


اس نے انوکھی فرمائش کے بعد رنعم کی شہ رگ پر اپنے ہونٹ رکھے

رنعم اس کی سانسوں کی گرمائش اپنی گردن پر محسوس کر کے خود میں سمٹنے لگی اور احتجاجاً کاشان کی شرٹ شولڈر سے پکڑ لی


I will feel bad if you refuse to do so


وہ اپنی شرٹ سے رنعم کے ہاتھ ہٹاتا ہوا کہنے لگا۔۔۔


آگے کی مزید پیش و رفت پر رنعم نے مضبوط سے بیڈ شیٹ کو مٹھی میں جکڑ لیا۔۔۔۔ اتنی ہی نرمی سے کاشان نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر اسے ریلیکس کیا۔۔ اس کا شرمانا جھجھکنا اور خود میں سمٹنا دیکھ کر کاشان نے لیمپ کی مدہم روشنی کو بھی بند کردیا


اب وہ اپنے انداز میں نرمی لائے ہوئے اپنی ڈول پر محبت کی بارش کر رہا تھا

سیرت آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی اپنی جیولری اتار رہی تھی جب موبائل کی میسج ٹون نے اس کی توجہ اپنی طرف مندمل کی.... ثوبان کا open the door پڑھ کر وہ بیڈ سے دوپٹہ اٹھاتی ہوئی دروازہ کھولنے گئی


"کیا کوئی کام تھا" ثوبان نے اندر آکر دروازہ لاک کیا تو سیرت نے اسے دیکھ کر پوچھا


"کیوں بنا کام کے میں اپنی بیوی کے پاس نہیں آ سکتا"

ثوبان سیرت کو بولتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی تھک چکا تھا تھا


"کبھی اس طرح میسج کر کے نہیں آئے اس لئے پوچھا"

سیرت بیڈ پر اس کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی


"گھر پر مہمان موجود ہیں اس لئے احتیاطاً میسج کیا تھا... تم بتاؤ کیا کر رہی تھی"

ثوبان اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی چوڑیوں کو چھیڑتا ہوا بولا


"بس ڈریس چینح کرنے لگی تھی۔۔۔ تم تھک گئے ہو چائے بناؤ تمہارے لیے"

سیرت ثوبان کے خیال سے بولی اور اس کا جواب سنے بغیر روم سے باہر چلی گئی


آج صبح سے ہی وہ گھن چکر بنا ہوا تھا بہروز کے بیمار ہونے، بیڈ سے لگنے پر رنعم کی شادی کے سارے کاموں کی ذمہ داری اس پر جو آ گئی تھی... سب اپنے اپنے روم میں تھے سیرت نے کچن میں جا کر ثوبان کے لئے چائے بنائی اور اپنے روم میں آ گئی۔۔۔ ثوبان ابھی تک اسی زاویہ میں لیٹا ہوا تھا شاید سیرت کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔


سیرت نے چائے کا کپ اس کے سرہانے رکھا تو ثوبان اٹھ کر بیٹھا... اب کی بار سیرت نے دروازہ لاک کر کے احتیاط سے کام لیا اور ثوبان کے پاس آکر بیٹھی


"اس طرح کب تک احتیاط سے کام لوں گے ثوبی۔۔۔ میرے خیال میں اب تمہیں مما بابا کو میرے اور اپنے بارے میں بتا دینا چاہیے"

آج ہوٹل میں بھی ایک آنٹی باقاعدہ اس کا انٹرویو لے رہی تھی۔۔۔۔ سیرت اس انٹرویو کا مطلب خوب سمجھ گئی اور غفران خالو،، وہ کیسے گھور رہے تھے اسے آنی کے شوہر تو ذرا پسند نہیں آئے تھے


"یار عجیب بات کرتی ہو تم بھی دیکھ تو رہی ہو۔۔۔ آج رنعم اور کاشی کی شادی ہوئی ہے ابھی فوری طور پر کیسے بتا سکتا ہوں اتنی بڑی بات۔۔۔ تمہیں بتایا تو ہے کہ بہت جلد بات کروں گا مما بابا سے ہمارے رشتے کے بارے میں مناسب وقت دیکھ کر"

ثوبان اپنی بات مکمل کر کے چائے پینے لگا


"تم یوں ہی بیٹھ کر مناسب وقت کا انتظار کرو وہاں تمہاری مما کی دوست مسز شعبلی میرا انٹرویو لیتی ہوئی میری کوالیفیکیشن پوچھ رہی تھی اور یہ کہ مجھے کوکنگ آتی ہے کہ نہیں"

سیرت نے ثوبان کے آرام پر جل کر کہا


"واٹ۔۔۔ مگر ان کی ٹینشن نہیں لو انہیں تو چار سال ہوگئے ہیں اپنے بیٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈتے ہوئے اور تماشے کرتے ہوئے۔۔۔۔ شادی کے بغیر ہی بوڑھا ہو جائے گا وہ تو"

سیرت کی بات سن کر پہلے ثوبان کی پیشانی پر ناگوار لکیریں ابھری پھر سیرت کو اطمینان دلانے کے غرض سے اس کو بتانے لگا


"چلو ان کی تو تمہیں کوئی ٹینشن نہیں لیکن کل کو کوئی اور سوالی بن کر آ گیا تو پھر" سیرت نے سنجیدگی سے ثوبان سے پوچھا


"یار سیرت کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو۔۔۔۔ میں یہاں پر تمہارے پاس خود کو ریلیکس کرنے آیا ہوں اور تم ہو کہ ٹینشن والی باتیں شروع کر رہی ہو۔۔۔ میری جان ایسا کچھ نہیں ہوگا،، میں ایسا کچھ ہونے نہیں دوں گا میرا یقین کرو"

ثوبان چائے کا خالی کپ سائڈ پر رکھتے ہوئے سیرت سے بولا


"ٹھیک ہے تم خود کو ریلیکس کرو اب میں تمہیں ٹینشن نہیں دوں گی"

سیرت بولتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کر جانے لگی تبھی ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا


"اب کہاں جا رہی ہو"

ثوبان نے سیرت کو غور سے دیکھ کر پوچھا ریڈ کلر کے ڈریس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی سارا وقت تو اس کو دیکھ نہیں پایا ابھی اسے فرصت ملی تھی تبھی وہ اس کے بیڈروم میں آیا


"چینج کر کے آتی ہوں"

سیرت اپنے آپ کو نارمل رکھتے ہوئے بولی


"ابھی نہیں تھوڑی دیر ایسے ہی بیٹھی ہوں میرے پاس"

ثوبان کے التجائی انداز پر وہ دوبارہ ثوبان کے پاس بیٹھ گئی تھوڑی دیر تک ثوبان لیٹے ہوئے اس سے باتیں کرتا رہا تھکن کے باعث ثوبان کی وہی آنکھ لگ گئی،، سیرت نے اپنا ڈریس چینج کیا۔۔۔ سوتے ہوئے ثوبان کو اٹھانا اچھا نہیں لگا اس لئے لائٹ آف کر کے وہ خود بھی ثوبان کے برابر میں سونے کے لئے لیٹ گئی


****


صبح سات بجے ثوبان کی آنکھ کھولی اپنے برابر میں سیرت کو سوتا دیکھ کر اسے حیرت ہوئی اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ سیرت سے باتیں کرتے کرتے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔ وہ سیرت کو سوتا چھوڑ کر اس کے روم سے نکلا۔۔۔ صبح کا وقت تھا اس لیے سب ہی اپنے اپنے روم میں سو رہے تھے۔۔۔ بالوں کو ہاتھ سے سنوارتا ہوا وہ اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا


مگر کچن سے نکلتی ہوئی یسریٰ کی سیڑھیوں سے اوپر سیرت کے روم کا دروازہ کھولنے پر نظر پڑی۔۔۔ سیرت کے روم سے ثوبان کو اپنے روم میں جاتا دیکھ کر وہ بری طرح چونکی


وہ بہروز کے لئے ناشتہ بنانے کے غرض سے کچن میں آئی تھی تاکہ صبح کی دوا بہروز کو دے سکے مگر یہ منظر دیکھ کر وہ گہری سوچ میں پڑگئی


ثوبان اتنے سالوں سے اس کے پاس رہ رہا تھا وہ اس کی نیچر سے اچھی طرح واقف تھی یسریٰ نے ہمیشہ اپنے اور رنعم کے لیے،، یہ دوسری عورتوں کے لئے اس کی نظر میں اور انداز میں احترام دیکھا تھا۔۔۔۔ پھر وہ کس طرح سیرت کے روم میں جا سکتا ہے وہ بھی اتنی صبح۔ ۔۔


شاید وہ سیرت کو پسند کرتا ہو

یسریٰ کے دل میں خیال آیا اگر ایسا تھا بھی تو،،، یہ کوئی مضائقہ نہیں وہ ثوبان کی پسند کو ہی ترجیح دیتی مگر پسند اپنی جگہ، پھر بھی اسے اتنی صبح ثوبان کا سیرت کے کمرے سے نکلنا اسے عجیب لگا


****


رنعم کی آنکھ کھلی اس نے سائڈ پر گردن موڑ کر گھڑی میں ٹائم دیکھا صبح کے آٹھ بج رہے تھے اس کا پور پور رات کی نچھاور کردہ کاشان کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ وہ باتھ لینے کے غرض سے واش روم جانے کی نیت سے اٹھی تب ہی کاشان نے اس کا سر دوبارہ اپنے سینے پر رکھ کر لیٹایا


"کیوں اٹھ گئی ہوں اتنی جلدی سو جاؤ تھوڑی دیر"

کاشان نے بند آنکھوں کے ساتھ نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اس سے بولا


"آپی اور بھیا آتے ہو گے۔۔۔ آپ بھی اٹھ جائے"

رنعم کاشان کو دیکھے بغیر آہستہ سے بولی


"نہیں آئے گا تمہارا بھیا اتنی جلدی۔۔۔ میں نے اس کو کل رات ہی بول دیا تھا صبح جلدی آکر ہمہیں ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں آرام سے آنا"

کاشان نے بند آنکھوں کے ساتھ رنعم کو اپنا کارنامہ بتایا جس پر وہ کاشان کے سینے سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی


"آپ نے بھیا کو ایسے بول دیا وہ کیا سوچ رہے ہوں گے ہمارے بارے میں"

رنعم نے سبز آنکھوں حیرانی سمائے ناراضگی سے بولا۔۔۔جس پر کاشان نے اپنی آنکھیں کھولیں


"جو تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں سوچ رہا ہوگا۔۔۔ اور ویسے بھی تمہارا بھیا، میرا بھی بھائی لگتا ہے اس لیے زیادہ فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جادوگرنی"

کاشان اس کے گلابی گالوں پر انگلیاں پھیرتا ہوا بولا


"جادوگرنی۔۔۔ آپ میرے لیے ایسا لفظ بول رہے ہیں کاشان"

رنعم کو کاشان کے منہ سے اپنے لیے ایسا الفاظ سن کر افسوس ہوا


"تو اور کیا بولو آئستہ آئستہ اپنا جادو تو چلاتی آئی ہو اب تک۔۔۔۔ اور کل رات تو اپنے حسن کا ایسا جال بجھایا کاشی کو تو اپنا ہی ہوش نہیں رہا"

وہ خمار بھری آواز میں بولتا ہوا رنعم کو لٹا کر اس پر جھکا۔۔۔۔ مگر اگلے ہی پل رنعم کا موبائل بج اٹھا جس پر کاشان نے ناگواری سے اسکے موبائل کو گھورا اور اٹھ کر بیٹھا۔۔۔ رنعم کاشان کے موڈ خراب ہونے پر معذرت بھری نظریں کاشان پر ڈال کر کال ریسیو کرنے لگی


"ہیلو کون"

گھبرائٹ میں رنعم موبائل پر نام دیکھنے کے باوجود سیرت سے بےوقوفی کا سوال کر بیٹھی


"کون کی بچی ایک رات میں ہی اپنی آپی کو بھول گئی ہو۔۔۔ آرہی ہو تھوڑی دیر میں پھر اچھی طرح بتاتی ہو کون"

رنعم کی آواز سن کر سیرت نان اسٹاپ شروع ہوگئی جبکہ دوسری طرف کاشان۔۔۔ اور اس افتاد پر رنعم بوکھلا گئی


"آپی آپ نے کیوں فون کیا"

کاشان کو خود پر جھکتا دیکھ کر رنعم گھبراتی ہوئی سیرت سے پوچھنے لگی


"چیک کر رہی تھی تم جاگی ہوئی ہو یا سوئی ہوئی ہو اور کیا کر رہی ہو اس وقت"

سیرت اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی


"اس وقت کیا کر رہی ہو میں۔۔۔۔۔ آپی میں اس وقت۔۔۔ نہیں پلیز صبر"

کاشان نے کھینچ کر رنعم کو بیڈ پر لٹایا تو بےساختہ رنعم کے منہ سے نکلا


"ہییییں۔۔۔۔ کیا بول رہی ہو بہن،،، عقل تو ٹھکانے پر ہے تمھاری"

سیرت نے پہلے اپنے موبائل کو گھورا پھر حیرت سے وہ رنعم کو بولی


"نہیں"

کاشان رنعم کی گردن پر جھکا تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا یہ لفظ وہ کاشان کو بولنا چاہ رہی تھی جس کا کاشان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور سیرت دوبارہ موبائل کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگی


"کییییا۔۔۔۔ کل تک تو تم نارمل تھی رنعم،،، یہ صبح صبح کیا ہوگیا تمہیں۔۔۔۔ کہیں وہ بھوت تو نہیں جاگا ہوا"

سیرت فکر مندی سے پوچھنے لگی مگر آخری بات اس نے شرارت سے پوچھی


"ایسا ہی ہے"

رنعم نے کوڈ ورڈ میں بتانا چاہا۔۔۔۔ کاشان کی بڑھتی ہوئی جسارتوں پر رنعم کا سانس ہی روکنے لگا وہ گردن کے اشارے سے بار بار کاشان کو منع کر ہی تھی جبکہ وہ اشارے سے اسے فون رکھنے کا کہتا۔۔۔ مگر سیرت اگلی بات شروع کر دیتی اور کاشان کوئی ایسی شرارت جس پر رنعم مزید بوکھلا جاتی


"کیا کر رہا ہے وہ جن اس وقت"

سیرت مزے سے رنعم سے پوچھنے لگی


"وہ۔۔۔۔ وہی۔۔۔ نہیں نہیں میرا مطلب ہے۔۔۔ پلیز کوئی تو سمجھو میری بات کو"

رنعم نے آخری جملہ جھنجھلا کر دونوں کو بولا


جس پر ایک طرف سیرت تو دوسری طرف کاشان دونوں اسٹاپ ہوگئے۔۔۔۔۔ کاشان نے رنعم کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے موبائل اس کے ہاتھ سے لیا


"کیا مسئلہ ہے بھئی تمہارے ساتھ،،، کیوں پکائے جا رہی ہے صبح صبح ہم دونوں کو"

اب کاشان سیریز ہوکر سیرت سے پوچھنے لگا


"میں تو اپنی بہن سے بات کر رہی تھی۔۔۔ تم کیو جاگ رہے ہو اور کیا کر رہے ہو سو جاؤ ایک طرف پڑ کر"

کاشان کی آواز سن کر سیرت نے اسے نراٹھے پن سے کہا


"تمہاری بہن میری بیوی ہے اور میں اپنی بیوی کے آنکھوں کا کاجل چیک کر رہا ہوں کہیں پھیلا تو نہیں اور کچھ جاننا ہے تمہیں"

کاشان اس سے سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"نہیں"

سیرت کو کل رات والا اپنا ثوبان کا سین یاد آیا تو بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا


"تو تم جاگ کیوں رہی ہو ایک طرف پڑ کر سو جاؤ"

کاشان اسی کے انداز میں بولتا ہوں لائین ڈسکنکٹ کر گیا


"سارا وقت برباد کر دیا تمہاری بہن نے"

کاشان دوبارہ رنعم کے گلابی گالوں کو دیکھ کر بولنے لگا جوکہ تھوڑی دیر پہلے شرم و حیا سے سرخ ہو چکے تھے


"کاشان میں فریش ہوجاتی ہو ڈریسز بھی تو رکھنے ہیں بیگ میں"

رنعم بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی


"ڈریسز کس خوشی میں رکھنے ہیں بیگ میں"

کاشان اب سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"وہ ہمارے ہاں رسم ہوتی ہے ولیمے کے بعد لڑکی میکے میں رکتی ہے۔۔۔ ہمارا ولیمہ آج ہی ہے تو اس لئے سوچا بیگ ابھی سے پیک کرلو"

رنعم کاشان کی نظروں سے ہچکچاتے ہوئے اسے بتانے لگی


"فضول کی رسمیں ہیں یہ سب۔۔۔ ابھی ثوبی آئے گا تو، تم صرف دو گھنٹے کے لئے جا رہی ہوں اپنے گھر۔۔۔ آنٹی انکل سے مل کر واپس آ جانا اور میرے ساتھ پیکنگ کروانا کیوکہ آج ہمارا ولیمہ ہے اور کل دوپہر کو ہماری فلائٹ ہے دبئی کی، ہنی مون ٹرپ کے لیے نکلنا ہے۔۔۔۔ بعد میں مجھے آفس کی طرف سے چھٹیاں نہیں ملیں گی"

کاشان نے کھڑے ہوکر نرمی سے اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے اپنا پروگرام بتایا جس پر رنعم سرہلا کر خاموش ہو گئی


****


"اور سنائیں باجی کیسی ہیں آپ اور غفران بھائی کیسے ہیں"

یسریٰ تھوڑی دیر پہلے ہی بہروز کو کھانا کھلا کر فارغ ہوا تھا تو فرح کی کال آگئی


"میں اور تمہارے بھائی ٹھیک ہے تم سناؤ شادی کی تھکن اتری"

فرح نے یسریٰ سے پوچھا


"دس دن گزر چکے ہیں ماشاءاللہ سے کاشان اور رنعم کی شادی ہوئے تھکن تو کیا سارے گھر کے کام بھی معمول پر آگئے ہیں"

یسریٰ نے مسکرا کر جواب دیا


"رنعم کیسی ہے ابھی تک آئی نہیں واپس۔۔۔ میں نے ایک دفعہ کال کی تھی اسے،، اس نے ریسیو نہیں کی دوبارہ یہ سوچ کر نہیں کہ نئی شادی ہوئی ہے ڈسٹرب نہ ہو وہ اور کاشان"

فرح نے یسریٰ کو بتایا


"ڈسٹرب کیوں ہوگی ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ گھوم پھر رہی ہوگی اس کی کال رسیو نہیں کر سکی ہوگی۔۔۔ میری تو کل رات کو ہی بات ہوئی ہے وہ دونوں آج شام واپس آرہے ہیں" یسریٰ نے فرح کو آگاہ کیا


"چلو اچھی بات ہے اللہ خوش رکھے دونوں کو۔۔۔ دراصل مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی اس لیے میں نے کال کی"

فرح کام کی بات پر آتی ہوئی بولی


"جی باجی بولیے کونسی ضروری بات ہے"

یسریٰ سامنے رکھی ہوئی چیز پر بیٹھتی ہوئی بولی


"دیکھو یسریٰ عاشر کے لئے شروع سے ہی میں نے رنعم کا سوچا تھا۔۔۔۔ تم سے ذکر اسلیے نہیں کیا کہ دونوں چھوٹے بچے ہیں۔۔۔۔ بڑے ہو کر ان کی کیا رجحانات ہو۔۔۔ خیر اب رنعم اپنے گھر کی ہو گئی ہے تو یہ گلہ ہی فضول ہے دراصل اب میں چاہتی ہوں بلکہ سمجھو یہ غفران کی خواہش ہے میں تم سے سیرت کے لیے عاشر کی بات کرو۔۔۔ دیکھو یسریٰ رنعم کی باری میں تمہیں جو مناسب لگا وہ کیا مگر اس دفعہ مجھے مایوس مت کرنا پلیز کیونکہ یہ بات غفران نے مجھ سے کی ہے اور تم ان کی نیچر کو بخوبی جانتی ہو"

فرح کی بات پر یسریٰ کے کندھوں پر دوبارہ بوجھ ان گرا۔۔۔ وہ فلحال چپ ہوگئی ہاں ہو کر کے ادھر ادھر کی بات کرنے لگی


فون رکھنے کے بعد ایک دفعہ پھر اسے وہ منظر یاد آیا جب ثوبان صبح کے وقت سیرت کے کمرے سے نکل رہا تھا یسریٰ ایک بار پھر الجھ گئی اور گہری سوچ میں پڑ گئی

کاشان نے بیڈ پر ڈھکی ہوئی سفید چادر اتار کر جھاڑی تو فضا میں مٹی تحلیل ہوئی


"اُف کتنی گرد مٹی ہورہی ہے پورے گھر میں"

رنعم نے اپنے چہرے کے آگے دوپٹہ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ وہ لوگ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے فلیٹ میں پہنچے تھے


"دس دن فلیٹ بند رہا ہے،،، چادر جھاڑنے پر مٹی ہی نکلنی تھی پھول کی پتیاں تو نکلنے سے رہی"

کاشان نے رنعم کو دیکھ کر کہا تو کاشان کو گھورنے لگی


"میں نے آپ سے کہا بھی تھا ایئرپورٹ سے ڈائریکٹ مما بابا کے پاس چلتے ہیں ان سے مل بھی لیتے اور آج اسٹے بھی کر لیتے کل میں شاہدہ کو لے کر آتی پورے فلیٹ کی صفائی کروا لیتی"

رنعم نے پریشان ہو کر کہا اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ بیٹھے کہاں پھر ثوبان نے بھی فون کر کے کاشان کو بولا تھا وہ اسے اور رنعم کو ایئرپورٹ لینے آ جاتا ہے مما بابا بھی رنعم کو مس کر رہے ہیں مگر کاشان نے سہولت سے انکار کرتے ہوئے ثوبان کو کل آنے کا بول دیا کہ ہم دونوں سب سے کل ملنے آئے گیں


"کل ملنے چلیں گے آنٹی انکل سے رنعم۔۔۔ صفائی کیا ہے مل کر کر لیتے ہیں،،، کوئی تمہارے گھر جتنا بڑا گھر تو نہیں ہے چار روم سے آدھے گھنٹے میں صفائی ہو جائے گی" کاشان نے اس کی پریشان شکل دیکھ کر اس کو آسان سا حل بتایا مگر کاشان کی بات پر رنعم کو جھٹکا لگا


"صفائی اور ہم دونوں۔،۔۔۔ کیسے کریں گے کاشان،،،، ہم دونوں پورے گھر کی صفائی۔۔۔ کتنی ڈسٹ ہے یہاں پر ہر جگہ"

رنعم نے رونی صورت بنائی۔ ۔۔۔


کاشان تو فلائٹ کے دوران سوتا ہوا آیا تھا مگر اسے تو سفر کی اتنی تھکن تھی اور اوپر سے صفائی کا سن کر اس کی روح فنا ہونے لگی


"میری جان یہ ہم دونوں کا گھر ہے۔۔۔ اسے ہم دونوں کو ہی مل کر جنت بنانا ہے۔۔۔ اب باتوں میں وقت ضائع مت کرو جاؤ ڈسٹنگ کا کپڑا لے کر آؤ اور بیڈ روم اور ڈرائنگ روم کو میں چمکا دیتا ہوں باقی دو کمرے تم دیکھ لو"

کاشان اسے پیار سے بھلاتے ہوئے کہا اور آستین کے بٹن کھول کر کف فولڈ کرنے لگا

رنعم اس کی بات سن کر مرے مرے قدموں سے ڈسٹنگ کا کپڑا اور جھاڑو لینے چلے گٙئی


ولیمہ کے دوسرے دن ہی کاشان اور رنعم دنوں ہنی مون کے لیے دبئی روانہ ہوگئے تھے یہ دس دن رنعم کی زندگی کے حسین ترین دن تھے ان دس دنوں میں کاشان نے اسے اپنے ہر انداز ہر عمل سے بتایا کہ وہ اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔۔۔ اتنے دن گھر سے دور رہ کر بھی رنعم نے گھر والوں کو زیادہ مس نہیں کیا وجہ کاشان کی محبت کا اثر تھا۔۔۔ وہ رنعم کی بچوں کی طرح کیئر کر رہا تھا اس کے پہننے اوڑھنے سے لے کر کھانے پینے کا خیال رکھنا بالکل ایسے جیسے وہ اس کے لئے بہت قیمتی انمول ہوں۔۔۔ اوپر سے کاشان کا محبت لوٹانے والا انداز رنعم کو بالکل اندازہ نہیں تھا وہ رومینٹک ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا کیئرنگ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔ ان دس دنوں میں کاشان کے رویے ہر عمل نے اس کو کوئی اونچی شے بنا کر آسمان پر بیٹھا دیا تھا اسے اپنے آپ پر غرور آنے لگا تھا اور اپنے انتخاب پر فخر محسوس ہونے لگا تھا


اگر وہ شادی کے بعد آنی کے گھر عاشر کے ساتھ ہوتی تو اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنی لکّی ہے۔۔۔۔ ان دس دنوں میں اس نے کاشان کی سنگت میں یہ بات 10 بار سوچی


کاشان کے کہنے کے مطابق صفائی آدھے گھنٹے میں ہو جاتی مگر رنعم کو دو گھنٹے لگ گئے گھر کو چمکانے میں جب رنعم نے صفائی شروع کی تو اسے اچھا نہیں لگا کاشان جھاڑ پوچھ کرتا ہوا۔۔۔۔ کاشان کو منع کر کے خود صفائی میں جت گئی مگر کاشان نے اوپر اوپر کے بہت سارے کام نمٹادیے


جب رنعم پورے گھر کی صفائی کر کے فارغ ہوئی تب تک کاشان بیڈ کور چینج کر کے اپنے اور رنعم کے سارے کپڑے بیگ سے نکال کر وارڈروب میں ترتیب سے رکھ چکا تھا


"تم شاور لے لو جب تک میں باہر سے کھانا پیک کروا کر لاتا ہوں"

کاشان نے رنعم کے چہرے پر تھکن کے آثار دیکھ کر اس کے گال تھپتھپاتا ہوا بولا


"مگر مجھے یاد ہے آپ نے کہا تھا جتنی ہوٹلنگ کرنی ہے یہاں کر لو جس دن ہم گھر پہنچیں گے ایک بار بھی باہر کا کھانا نہیں کھاؤں گا"

رنعم نے تین دن پہلے والی کاشان کی کہی بات دہرائی تو کاشان مسکرایا


"کھانا ان چیزوں میں سے نہیں ہے کہ تمہاری تھکن کو دیکھ کر اس پر کمپرومائز نہیں کیا جا سکے۔۔۔ شاور لے لو میں دس منٹ میں آتا ہوں"

کاشان کار کی کیز اٹھا کر باہر چلا گیا جبکہ رنعم نے اپنے لیے لون کا سلیولیس سوٹ پہننے کے لیے نکالا کیوکہ اس سال گرمی کچھ زیادہ ہی پڑ گئی تھی اس نے زیادہ تر کپڑے سلیولیس بنائے تھے جب تک رنعم شاور لے کر باہر نکلی کاشان ٹیبل پر کھانا لگایا چکا تھا۔۔۔ رنعم کو اس کا یہ روپ دیکھ کر ہنسی آنے لگی


"میں آجاتی تو نکال لیتی کھانا"

ان دس دنوں میں رنعم کا کافی حد تک جھجھکنا شرمانا کم ہو گیا تھا یہ سب بھی کاشان کی محبتوں کا ہی اعجاز تھا


"ایک ہی بات ہے آجاو شروع کرو"

کاشان ایسکریم کا پیکٹ فریج میں رکھتا ہوا بولا


کھانے کے برتن واش کرنے کے بعد جب رنعم بیڈ پر آئی تو کاشان لائٹ بند کر کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔ رنعم برابر میں آکے خود بھی لیٹ گئی۔۔۔ اپنے بیڈ روم میں آکر بیڈ پر لیٹنے کے بعد اسے مزید تھکن کا احساس نے آ گھیرا ایک تو سفر کی تھکن،،، اوپر سے گھر آنے کے بات پورے گھر کی صفائی


آج وہ واقعی تھک گئی تھی اسکی کاشان کی طرف پشت تھی،،، آنکھیں بند کئے وہ یہی سوچ رہی تھی وہ صبح دیر تک سوتی رہے گی تب رنعم کا نازک وجود کاشان نے اپنے مضبوط بازوں کے گھیرے میں لے لیا


"مائی ڈول"

کاشان نے رنعم کے کان میں سرگوشی کرنے کے بعد کمر پر بکھرے اس کے بالوں کو ہٹائے،،، اس کے شانوں پر اپنے ہونٹ جما کر اسے مزید خود میں سمیٹنے لگا


"کاشان پلیز آج نہیں، میں بہت تھک گئی ہوں"

رنعم نے جو اپنے شوہر کا ارادہ بھانپا تو اس کے بازوں کا حصار توڑتی ہوئی بیچارگی سے بولی۔۔۔ اسے خود روکنا اچھا نہیں لگا مگر اس کا شوہر اس کی مجبوری سمجھ جآئے گا۔۔۔ یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی جس پر برا بنایا جائے مگر رنعم کی خوش فہمی تب شاک میں بدلی جب کاشان نے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"کس کے آگے انکار کر رہی ہو تم۔۔۔۔ معلوم ہے تمہیں شوہر کے حقوق اور اس کے احکامات"

وہ رنعم کے بال مٹھی میں جکڑے، سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے غصے میں رنعم سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ شادی کے بعد رنعم کاشان کو پہلی دفعہ اس روپ میں دیکھ کر سہم گئی وہ خوف کے مارے اسے یہ تک نہ بول سکی کہ اس نے کتنی زور سے اس کے بالوں کو جکڑا ہوا ہے جو اسے تکلیف دے رہے ہیں


"جواب دو، کیا بول رہا ہوں میں"

کاشان بالوں کو جھٹکا دے کر زور سے چیخا تو رنعم کانپ گئی


"سس۔۔۔۔ سوری میں تھک گئی تھی آج"

رنعم نے کانپتی آواز کے ساتھ اپنی صفائی پیش کی وہ تو سمجھ رہی تھی۔۔۔ ان دس دنوں میں اس نے کھبی کاشان کو منع نہیں کیا وہ سمجھی اس کا شوہر اس کی تھکن کا احساس کرتے ہوئے اس کی بات سمجھے گا مگر شاید وہ اس بات کو اپنی توہین اور انا کا مسئلہ سمجھ بیٹھا تھا


"تھوڑی دیر پہلے کیا بولا تھا میں نے،،، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر میں کمپرومائز نہیں کر سکتا تب سمجھ میں نہیں آیا تمہیں"

کاشان چیختا ہوا بولا اور بولنے کے ساتھ وہ اس کی شرٹ پھاڑ چکا تھا


"کاش۔۔۔۔ کاشان سو۔۔ری"

یہ کونسا روپ تھا کاشان کا،، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ کر خوف سے بولی


"بیوی ہو تم میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہو جو تم مجھے یوں نخرے دکھاؤ آئندہ کبھی میرے ہاتھ جھٹکے یا مجھے انکار کیا تو میں تمہارا وہ حشر کرو گا جو تمہاری سوچ ہوگی"

وہ رنعم کو تنبہی کرتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ کر اس پر جھکا


رنعم کو اس کی دسترس میں دس دنوں والی نرمی کے آثار کہیں بھی محسوس نہیں ہوئے۔۔۔۔ بلکہ اسکا ہر عمل ہر انداز سختی اور جنونیت اختیار کئے ہوئے تھا۔۔۔۔ رنعم نے دو بار اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر خود کو چیخنے سے باز رکھا۔۔۔ جب کاشان کا جنون ختم ہوا تو وہ اٹھا۔۔۔ رنعم نے کانپتے ہاتھوں سے چادر سے خود کو ڈھکا۔۔۔۔ ملامت بھری نظر اس نے کاشان پر ڈالی


شاید اس کے اندر کی آگ اب تلک نہیں بجھی تھی تبھی اس نے اٹھ کر ٹیبل پر رکھی ہوئی بوتل سے منہ لگایا غٹاغٹ پانی پیا۔۔۔ ٹراؤزر پہنے بغیر شرٹ کے وہ کاشان کا چوڑا سینہ دیکھنے لگی،،، اس کے سینے پر موجود بال، رنعم کو مردانگی کی علامت لگتے تھے مگر آج اپنی بیوی کو یوں بےبس کر کے اس نے کونسی مردانگی کی مثال قائم کی تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھی


بیڈ سے نیچے آدھی لٹکی ہوئی اپنی پھٹی شرٹ اٹھانے کے لئے رنعم نے آگے ہاتھ بڑھایا تو کاشان نے فوراً قریب آکر رنعم سے اس کی شرٹ جھپٹی اور دور اچھال کر پھینکی


"ابھی میں نے اجازت دی ہے تمہیں"

وہ اب بھی غصہ میں رنعم کو گھورتا ہوا پوچھ رہا تھا شاید پانی بھی اس کے اندر کی آگ اور غصے کو ٹھنڈا نہیں کر پایا


ایک بار دوبارہ وہ بیڈ پر رنعم کے قریب آیا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکھڑ کردوبارہ وہ رنعم پر جھکا۔۔۔۔ رنعم نے اپنے دونوں ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست کیے اور آنکھیں بند کر لی


****


"فرصت مل گئی تمہیں"

رنعم کی شادی کی وجہ سے ثوبان نے چھٹی لی ہوئی تھی اب ڈیوٹی جوائن کرنے کے بعد وہ کافی لیٹ گھر آ رہا تھا۔۔۔ بہروز بھی اس کی ڈیوٹی اور ٹف شیڈیول کو سمجھتے ہوئے اس سے کھانا کھانے کی ضد نہیں کرتا یسریٰ کے ہاتھ سے کھالیتا۔۔۔۔ رات کو جب ثوبان یسریٰ اور بہروز کے پاس عادت کے مطابق بات کرنے کے غرض سے تھوڑی دیر بیٹھا جیسے ہمیشہ بیٹھتا آیا ہے۔۔۔ بہروز اور یسریٰ دونوں ہی اسے آرام کرنے کا کہتے کیوکہ سارا دن وہ ڈیوٹی کے بعد گھر لیٹ آتا


آج چار دن بعد وہ بہروز اور یسریٰ کے سونے کے بعد سیرت کے پاس آیا تو ثوبان کو دیکھ کر سیرت نے طنزیہ بولا


"فرصت کہاں ہے یار ان دنوں،، تم دیکھ تو رہی ہوں کتنا لیٹ گھر آ رہا ہوں پھر بھی اس طرح بات کر رہی ہو"

ثوبان پہلے ہی تھکا ہوا تھا سیرت کا طنز کرنا اسے اچھا نہیں لگا


"فرصت نہیں ہے پھر بھی روٹین کے مطابق روز مما بابا کی خدمت میں تم بلاناغہ حاضر ہوتے ہو"

مما بابا لفظ پر زور دیتے ہوئے سیرت نے سر جھٹک کر کہا


"اوہ تو جلن تمہیں اس بات کی ہے۔۔۔ویسے فارغ تو تم بھی ہر وقت رہتی ہو یوں اپنے روم میں پڑے پڑے تمہارا دل نہیں بھرتا،،، تم بھی کبھی بابا کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرو مما کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹا لیا کرو"

اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے ثوبان نے اس کو مشورہ دیا جس پر سیرت مزید تپ گئی


"اوووو تو تمہارے کان بھرے گئے ہیں جبھی تم آج یہاں آئے ہو"

سیرت نے ہنستے ہوئے کہا


"شٹ آپ سیرت، مما بابا کے لیے میں تمہارے منہ سے کوئی الٹی سیدھی بات نہیں سنوں گا۔۔۔ ان دونوں کو میرے کان بھرنے کی کیا ضرورت ہے میرے پاس آنکھیں موجود نہیں ہے کیا۔۔۔۔ مجھے دکھ نہیں رہا ہوتا تمہارا بی ہیویئر۔۔۔۔ اگر میں کچھ بولتا نہیں ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں نوٹ نہیں کرتا۔۔۔ کچھ چھپا ہوا نہیں ہے میری نظروں سے۔۔۔۔ اور مما بابا تمہارے متعلق،،، یعنیٰ اپنی بیٹی کے متعلق میرے کان بھرے گے"

ثوبان کو سیرت کی بات پر غصہ آیا جس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے سیرت سے کہا


"مجھے تو کہیں سے نہیں لگتا کہ میں ان کی بیٹی ہوں بلکہ ان کے بیٹے تم ضرور لگتے ہو۔۔۔ انہیں میری نہ پہلے ضرورت تھی،، نہ اب ہے پتا نہیں کیوں لے کر آئے ہو تو مجھے اس گھر میں"

سیرت نے بھی اپنا غصہ دبانے کے بجائے اس کا برملا اظہار کیا


"تم نے کبھی بیٹیوں کی طرح ان سے رویہ رکھا ہے کبھی ان کے پاس بیٹھتی ہوں دو گھڑی۔۔۔۔ کبھی خود سے ان کے لئے ٹائم نکالا ہے۔۔۔۔ کبھی جاکر ان کے پاس بیٹھو ان کے سینے سے لگو تو تمہیں معلوم ہو کتنا ترستے ہیں وہ تمہارے لیے اب تک۔۔۔۔ سیرت تم نے خود ایک نامعلوم سی گرہز کی لکیر انکے اور اپنے بیچ میں کھینچ دی ہے۔۔۔ نہ تم اس لکیر کو خود پار کرتی ہو نہ انہیں کرنے دیتی ہو۔۔۔۔ اور اس پر بھی تم ان سے شکوہ کر رہی ہوں حیرت ہوتی ہے مجھے تم پر"

ثوبان کی بات سن کر فی الحال وہ چپ ہو گئی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بولی

"کمرے سے باہر تم جا رہے ہو یا میں چلی جاؤ"

سیرت نے سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر پوچھا تو ثوبان افسوس بھری نظر اس پر ڈال کر اس کے کمرے سے چلا گیا

رنعم کی آنکھ صبح الارم کی آواز سے کھلی،، الارم بند کر کے وہ بیڈ سے اٹھتی ہوئی آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے وجود کو دیکھنے لگی اس کے ہاتھوں اور بازوں پر کاشان کی انگلیوں کے نشانات ابھی تک موجود تھے بے ساختہ اس نے اپنے نچلے کٹے ہوئے ہونٹ پر انگلی پھیری


کل رات اس کا شوہر کس بری طریقے سے اس کی ذات کو روند چکا تھا رات والا منظر یاد کر کے رنعم کی آنکھیں بھیگی۔۔۔۔ ہونٹوں پر سے وہ اپنے انگلی کو گردن تک اور پھر اس کے بعد سینے تک لائی جہاں پر جا بجا اس کے شوہر کی حیوانیت اور جنونیت کے نشانات موجود تھے۔۔۔


نیوز میں یا اخبارات میں جب وہ اس طرح کی خبریں دیکھتی اور پڑھتی تو وہ ایسے مردوں کے بارے میں یہی سوچتی ان کو کس پلڑے میں تولا جائے انسانیت کہ یا حیوانیت کہ۔۔۔۔ گردن موڑ کر اس نے سوئے ہوئے کاشان پر افسوس بھری نظر ڈالی،، جو اس کی ذات پر فتح کا جشن بنا کر گہری پُر سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔۔ شادی کے بعد آج گیارویں دن اس کے محبت کرنے والے شوہر نے اسے عرش پر سے اچانک زمین پر لا پٹخا تھا۔۔۔۔ کل رات اپنا غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد اسی نے رنعم کو وارڈروب سے کمیز نکال کر دی جو رنعم نے خاموشی سے پہن لی اس کے بعد کاشان دوسری طرف پیٹھ کر کے سو گیا


رنعم دوبارہ کل رات والا منظر سوچنے کے بعد گہری سانس لے کر واش روم گئی۔۔۔ واپس آنے کے بعد اس نے دیکھا کاشان ابھی تک سو رہا تھا


آج اسے اپنی ڈیوٹی جوائن کرنا تھی مگر رنعم کو اس وقت کاشان کو اٹھانے یا مخاطب کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔ الارم سیٹ کر کے اسے سائڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ کچن میں ناشتہ بنانے کے غرض سے چلی آئی۔۔۔ ناشتہ ٹرے میں سیٹ کر کے وہ ٹیبل پر آئی تب تک کاشان ڈریس اپ ہو کر ٹیبل پر آ چکا تھا


کاشان نے فریش موڈ کے ساتھ اسمائل دے کر رنعم کو دیکھا مگر رنعم نے اسے دیکھے بناء کیٹل سے کپ میں چائے نکال کر کاشان کے سامنے رکھی کاشان چیئر پر بیٹھا رنعم اسی کے پاس کھڑی ٹرے سے باقی چیزیں نکال رہی تھی


"تم ناشتہ نہیں کروں گی"

میز پر صرف اپنا ناشتہ دیکھ کر کاشان نے رنعم کا ہاتھ تھام کر اسے مخاطب کیا۔۔۔۔ اس وقت اس کے لہجے میں کل رات والا غصہ کہیں موجود نہیں تھا


"موڈ نہیں ہو رہا میرا"

وہ آملیٹ کی پلیٹ کاشان کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگی،، کاشان نے اس کا ہاتھ چھوڑا تو رنعم بریڈ پر بٹر لگانے لگی۔۔۔ کاشان نے دوبارہ اسے دیکھا وہ اپنے کام میں مصروف نظر آئی کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا


"موڈ ٹھیک کرو یار اپنا،،، اب جو ہو گیا سو ہو گیا"

وہ ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے چہرہ تھامتے ہوئے بولا


"جو ہوگیا سو ہوگیا مطلب۔۔۔۔ کاشان میں آپ کی بیوی ہو"

رنعم کو کاشان کے اس طرح بولنے پر اور زیادہ دکھ ہوا،،، مطلب یہ اس کی نظر میں ایک معمولی سی بات تھی رنعم نے کاشان کو احساس دلاتے ہوئے اپنا اس سے رشتہ بتایا


"رنعم یہی تو، تم بیوی ہو میری۔۔۔۔ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے اپنا منہ گھر سے باہر اِدھر اُدھر ماروں"

کاشان اس کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے اپنی بات سمجھانے لگا


"پھر بھی آپ کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔ کل رات کو آپ نے کتنی بری طریقے سے۔۔۔۔۔"

کاشان کا سیریس موڈ دیکھ کر وہ اتنا ہی بول پائی،،، بات مکمل کیے بغیر ہی اس کے ہونٹ لرزے


"تم نے خود کل رات کو کیا، کیا تھا میرے ہاتھ پیچھے ہٹائے۔۔۔ مجھے خود سے دور کیا،،، مجھے منع کیا"

کاشان نے ابھی بھی سنجیدگی سے بولا۔۔۔ اس کی نظر رنعم کے ہونٹ اور گردن کے نشانات پر پڑی جو کل رات اس کے ساتھ ہونے والی زبردستی کو بیان کر رہے تھے


"صحیح ہے میں نے زندگی کا ایک حصہ جیل میں گزارا ہے مگر میرا معیار پھر بھی اتنا گرا ہوا نہیں ہے کہ میں اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی کال گرل کے پاس جاوں یا اپنی ضرورت پورا کرنے کے لیے کسی کو گھر لے کر آو۔۔۔۔

رنعم میں نے تم سے جائز بندھن باندھا ہے،،، مجھے جب ضرورت ہوگی تو میں تمہارے پاس ہی آؤں گا"

وہ رنعم کی آنکھوں میں اپنے لیے ناراضگی دیکھ کر دوبارہ بولا


"ٹھیک ہے کاشان مگر پلیز اب کبھی بھی آپ میرے ساتھ کل رات والا سلوک مت کریے گا"

رنعم کو بولتے ہوئے رونا آنے لگا


"تو پھر تم بھی آگے سے مجھے منع مت کرنا۔۔۔ غصہ آ گیا تھا مجھے کل رات جب تم نے میرے ہاتھ پیچھے کیے،،، اب یوں رو کر مجھے گلٹی فیل کرانے کی ضرورت نہیں ہے جاو شاباش اپنے لیے بھی ناشتہ لے کر آؤ میں اکیلے ناشتہ نہیں کروں گا"

کاشان نرم لہجے میں بولنے لگا رنعم اپنے آنسو صاف کر کے اٹھی اور کچن سے اپنا ناشتہ لے کر آ گئی۔۔۔۔ ان دونوں نے ناشتہ کیا کاشان آفس جانے لگا تب رنعم سے چھوڑنے دروازے تک آئی


"اسمائل دو مجھے دیکھ کر۔۔۔۔ ورنہ افس میں سارا دن مجھے تمہاری روتی ہوئی شکل یاد آئیگی"

کاشان نے رنعم کو دیکھ کر کہا تو وہ ہلکے سے مسکرا دی


"ڈول ہو تم میری اور میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں"

رنعم کے اسمائل دینے پر کاشان نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کہا


"دروازہ صحیح سے لاک کرو اور جاکر ریسٹ کرو۔۔۔ شام کو جلدی آنے کی کوشش کروں گا پھر تمہاری طرف چلیں گے"

کاشان پیار سے اس کے گال تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا


رنعم دروازہ لاک کر کے واپس آئی برتن ٹیبل سے اٹھا کر کچن میں رکھے اور اپنے بیڈ روم میں آکر بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔


کاشان گلٹ تھے مگر ایک دفعہ بھی انہوں نے اپنے رویے کی معافی نہیں مانگی۔۔۔۔ کیا واقعی صرف غلطی میری تھی مجھے اس طرح انہیں روکنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کے نشانات پر انگلیاں پھیرتے ہوئے سوچنے لگی پھر سر جھٹک کر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی


****


"کیا ہوا اتنی خاموش کیوں ہو کوئی بات ہوئی ہے کیا"

بہروز نے یسریٰ کو کافی دیر سے خاموش دیکھا تو پوچھ بیٹھا وہ کل سے ہی چپ تھی


"بہروز مجھے باجی کا بھی سمجھ میں نہیں آتا آخر انہوں نے کیا سوچ کر عاشر کے لئے سیرت کا بولا۔۔۔ جب میں نے ایک بیٹی کو دینے سے منع کردیا تو دوسری کیوں دوگی۔۔۔۔ دوبارہ انہیں ایسی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی اب بھلا سیرت کو عاشر کے لئے مانگنے کی کیا ضرورت تھی"

یسریٰ نے پریشان ہوکر اپنی الجھن بہروز سے شیئر کی


"ظاہری بات ہے ہم جوان بیٹیوں کے ماں باپ ہیں رشتے تو آئیں گے۔۔۔ پریشان ہونے والی کیا بات ہے تمہیں مناسب نہیں لگ رہا تو منع کردو"

بہروز نے لیٹے ہوئے اسے پروبلم کا سلوشن بتایا


"آپ جتنی آسانی سے مسئلے کا حل بتا رہے ہیں نا اتنا آسان نہیں ہے منع کرنا۔۔۔ وہ میری بہن ہیں"

یسریٰ نے مزید پریشان ہوکر منہ بنایا


"اگر منع کرنا آسان نہیں ہے تو نہیں کرو منع،،، عاشر برا لڑکا نہیں ہے مجھے پسند ہے"

ؑبہروز ایک دفعہ پھر بولا جس پر یسریٰ اسے دیکھتی رہ گئی


"رنعم اور سیرت کے مزاج میں کافی فرق ہے بہروز آپ کو لگ رہا ہے وہ اتنی آسانی سے مانے گی"

یسریٰ نے بہروز کو دیکھ کر بولا


"ایسی کونسی بات ہے جو میں آسانی سے نہیں مانوں گی ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو"

کل رات ہونے والی تلخی کے بعد صبح ناشتے کی ٹیبل پر وہ موجود نہیں تھی مگر شام کے وقت سیرت اپنے کمرے سے باہر نکلی بہروز اور یسریٰ کے روم میں آنے لگی،،، اپنے نام سن کر وہ یسریٰ سے پوچھ بیٹھی


"میری بیٹی آئی ہے میرے پاس یہاں آ کر بیٹھو میرے پاس"

بہروز کے بولنے پر سیرت اس کے پاس آئی بہروز نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا،، جس پر سیرت نے اس کی مدد کی اور اسے بیڈ پر بٹھایا


"کیسی طبیعت ہے آپ کی"

وہ خود بھی بہروز کے قریب بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی


"ٹھیک ہوں بیٹا اور اب تو اور بھی زیادہ فریش محسوس کر رہا ہوں میری بیٹی جو میرے پاس آئی ہے" بہروز خوشی سے سیرت کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ مسکرا دی۔۔۔۔ شاید آج وہ ہفتے بعد ہی بہروز کی روم میں آئی تھی


"کچھ کام تھا بیٹا" یسریٰ نے سیرت کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"کچھ خاص کام نہیں تھا آپ بتائے میرے آنے سے پہلے کیا ذکر ہو رہا تھا۔۔۔ کیا باتیں کر رہے تھے آپ دونوں"

سیرت کے پوچھنے پر بہروز اور یسریٰ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے


"دراصل تمہاری آنی فرح باجی نے تمہارے لیے عاشر کا رشتہ بھیجا ہے مگر تم فکر نہیں کرو۔۔۔ کوئی بھی فیصلہ تمہاری مرضی کے بغیر نہیں ہوگا۔۔۔ ظاہری بات ہے زندگی تو تم نے گزارنی ہے"

یسریٰ نے اصل بات کے ساتھ ساتھ اس کی مرضی کو بھی اہمیت دینے کا اس لئے کہا کہیں وہ برا ہی نہ مان جائے یسریٰ کو معلوم تھا اور وہ انکار ہی کرے گی کیوکہ ثوبان اور وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے


"یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں میری مرضی پوچھی ہے آپ کو جو بہتر لگتا ہے وہ کریں اور عاشر برا لڑکا نہیں ہے"

سیرت کی بات بر خلافِ توقع تھی دونوں میاں بیوی حیرت سے منہ کھولے سیرت کو دیکھنے لگے جبکہ یسریٰ کو تو دوہرا جھٹکا لگا تھا یعنی ثوبان یک طرفہ ہی۔۔۔ یسریٰ مزید الجھ گئی


"اس میں اتنا حیران زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اب دونوں پیرنٹس ہیں میرے۔۔۔۔ میرے لیے فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔ یہ باتیں تو ہوتی رہے گی،،، آج شام کو کاشان اور رنعم گھر پر آ رہے ہیں مینو بتا دیں مجھے،،، کاشان کے لئے کوفتے بنانے ہیں مجھے پسند ہیں اس کو"

سیرت نے مسکرا کر کہا آج یقیناً سیرت کا دونوں میاں بیوی کو حیران کرنے کا پلان تھا


"میں بھی بس کچن میں جانا ہی والی تھی اچھا ہے تم میری ہیلپ کردوں گی۔۔۔ کاشان کو شاہدہ کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے"

یسریٰ سارے خیالات جھٹک کر سیرت کی بات پر خوش ہوتے ہوئے بولی۔۔۔ مگر اسے سیرت کی خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے ثوبان کی خوشی بھی عزیز تھی اخر کو اس کا ایک ہی بیٹا تھا اب اسے ہی کچھ کرنا تھا


ابھی وہ تینوں باتیں ہی کر رہے تھے ثوبان بھی بہروز اور یسریٰ کے روم میں آ گیا وہ یونیفارم میں مبلوس تھا مطلب سیدھا انہی کے پاس آیا تھا وہاں سیرت اور کو بہروز اور یسریٰ کے بیڈ روم میں دیکھ کر اس کی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑا


چند منٹ گزرنے کے بعد سیرت یسریٰ سے تھوڑی دیر بعد کچن میں آنے کا کہہ کر اپنے بیڈروم میں چلی گئی تاکہ رات کے ڈریس بھی پریس کر سکے ثوبان بھی چینج کرنے کا کہہ کر اٹھا اور وہاں سے چلا گیا مگر پہلے اسے اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو منانا تو جو یقینناً اس سے کل رات والی بات پر ناراض تھی اور اسے مسلسل اگنور کر رہی تھی


****


"ایسا کرو آج بلیک کلر کا ڈریس پہن لو"

سیرت وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی تبھی ثوبان روم کا دروازہ بند کرتا ہوا اس کے پیچھے آیا۔۔۔ سیرت نے خاموشی سے ایک نظر اس کو دیکھا اور آج کے دن کے لئے پیک کلر کا ڈریس نکال کر وارڈروب کا دروازہ بند کیا۔۔۔۔ اس کی اس حرکت پر ثوبان نے مسکرا کر اسے دیکھا


"ویسے تم پیک کلر کے ڈریس میری پوری پنکی لگو گی"

ثوبان وارڈروب کے ساتھ اسکو لگا کر اس کا راستہ بند کرتا ہوا بولا


"ہوگئی کامیڈی اب مجھے پریس کرنے دو"

سیرت بغیر ہنسے اس کو دیکھ کر کہنے لگی


"کامیڈی تو ہوگئی مگر ابھی اپنی بیوی کو منانا تو باقی ہے"

ثوبان نے بولنے کے ساتھ ہی اپنا چہرہ قریب کر کے سیرت کے گال پر آہستہ سے اپنے ہونٹ رکھے


"اب تمہاری باری"

وہ پیار بھری نظروں سے سیرت کو مسکرا کر دیکھتا ہوا بولا جبکہ سیرت ابھی بھی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ثوبان کے بولنے پر سیرت اس کے گال کے قریب اپنے ہونٹ لائی جس پر ثوبان نے اسمائل دی مگر جب ہلکی سی چپت اس کے گال پر سیرت نے نرم انگلیوں سے رسید کی تو وہ سیرت کو گھورنے لگا


"شرم آنی چاہیے تمہیں اپنے شوہر پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے" ثوبان نے افسوس سے کہتے ہوئے اسے شرم دلانے کی کوشش کی


"شرم آنی چاہیے تمہیں اپنی بیوی پر غصہ کرتے ہوئے" سیرت ابھی بھی سنجیدگی سے اس کو بولی


"تلافی بھی تو کر رہا ہوں نا"

ثوبان نے دوبارہ اس کے دوسرے گال کو آئستہ سے اپنے ہونٹوں سے چھوا

ویسے ہی سیرت نے دوبارہ ثوبان کے دوسرے گال پر ہلکی سی چپت رسید کی


"اوئے اب ہاتھ لگایا ناں دیکھنا پھر کیا کروں گا تمہارے ساتھ"

ثوبان نے گھور کر سیرت کو ڈرانا چاہا


"تم نے سیرت کو بہت ہلکا لیا ہوا ہے ثوبان احمد۔۔۔ سیرت نے بڑے بڑوں کو سیدھا کیا ہے"

سیرت اس سے پہلے مُکا اس کے پیٹ میں جڑتی ثوبان نے اس کی کلائی پکڑ کر ہاتھ پیچھے کی طرف موڑا


"نہیں میری جان تم نے ثوبان احمد کو بہت ہلکا لیا ہوا ہے اب دیکھنا تمہارا ثوبی تمہارے ساتھ کیا کرتا ہے"

ثوبان نے اس کا نازک وجود اپنے کندھے پر ڈال کر اس کو بیڈ پر لٹایا اور خود اس کے اوپر جھک گیا


"پیچھے ہٹو ثوبی ورنہ تم بہت پچھتانے والے ہو" سیرت اپنی کلائی اس کے ہاتھ سے چھڑاتی ہوئی اسے دھمکانے لگی


"میں پچھتانے کے لیے تیار ہوں مگر اپنی سستی اتارنے کے بعد"

وہ اسے دوبارہ کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر اپنی پر اتر آیا۔۔۔ اور کافی دیر تک اپنی چلائی


"میری چائے میں چینی کم ڈالنا آج کچھ زیادہ ہی میٹھا ہو گیا ہے"

تھوڑی دیر بعد ثوبان بیڈ سے اٹھا سیرت کا سرخ چہرہ دیکھ کر آنکھ مارتا ہوا بولا


"اب قریب آکر دکھانا۔۔۔ میں تمہاری سستی اچھی طرح اتارو گی"

سیرت اپنا جوڑا باندھ کر اتنا دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی ثوبان سے کہنے لگی


"اگر مجھے چیلنج کر رہی ہو تو آج رات دروازہ لاک کرکے مت سونا"

وہ سیرت کو کہتا ہوا مسکرا کر اس کے روم سے باہر نکل گیا


****


رنعم نے آج میکے جانے کے لیے ریڈ کلر کا ڈریس سلکیٹ کیا تھا وجہ یہ تھی کہ اس ڈریس کا گلا کولر شیپ میں بنا ہوا تھا جو اوپر تک بند تھا اور اسکی سلیوز لونگ تھی


اسطرح اس کے ہاتھ اور گردن کے نشانات باآسانی چھپ گئے تھے۔۔۔ جیولری کے نام پر اس نے کانوں میں چھوٹی چھوٹی جھمکے پہنے ہوئے تھے جبکہ ڈائمنڈ کی ننھی سی نوز پن ہمہ وقت شادی کے بعد اس کی ناک میں ڈلی رہتی۔۔۔۔ سرخ لپ اسٹک لگا کر اس نے اپنے بال کھول لیے۔۔۔۔ اب آئینے میں کھڑی وہ اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی جبکہ کاشان بیڈ پر لیٹ کر اس کی تیاری دیکھ رہا تھا


"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں کچھ اوور لگ رہا ہے کیا"

رنعم نے پیچھے بیڈ پر لیٹے ہوئے کاشان کو دیکھ کر پوچھا


"یہ آئینہ تمہیں صیح نہیں بتا پائے گا کہ تم کیسی لگ رہی ہو میری آنکھوں میں جھانک لیا کرو تمہیں خود معلوم ہو جائے گا"

وہ رنعم کے پاس آکر اسے بانہوں میں لے لیتا ہوا بولا


"آپ کو میں کب کب اچھی لگتی ہو کاشان"

رنعم نے کاشان کے سینے پر اپنا سر ٹکانے کے ساتھ اسکے دل پر اپنی انگلی سے اپنے نام کا پہلا ورڈ لکھتے ہوئے پوچھا


"تم میرے دل کو نہ ہی کبھی بری لگی ہو اور نہ ہی کبھی لگ سکتی ہو میرے دل پر تمہارے نام کا پہلا حرف نہیں بلکہ پورا نام لکھا ہوا"

وہ اپنے سینے پر سے اس کی انگلی اٹھا کر چومتا ہوا بولا


"جب آپ کو مجھ پر غصہ آتا ہے تب۔۔۔۔ کیا میں آپ کو تب بھی اچھی لگتی ہوں"

رنعم نے سر اٹھا کر کاشان کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"غصہ آنے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا۔۔۔ کہ جس کو ہم محبت کریں وہ ہمہیں برا لگنے لگے۔۔۔ اوروں کے ساتھ شاید ایسا ہوتا ہوگا مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ تم مجھے تب بھی بہت اچھی لگتی ہو"

کاشان اس کی کمر سے اپنے ہاتھ ہٹا کر اس کا چہرہ تھام کر کہنے لگا جس پر رنعم ہلکے سے مسکرا دی کاشان رنعم کو غور سے دیکھنے لگا


"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں"

رنعم کاشان کو دیکھ کر پوچھنے لگے


"میں جب تم پر غصہ کرتا ہوں مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہیں اچھا لگتا ہوں کہ برا۔۔۔۔ لیکن اگر تمہیں برا بھی لگو تو بے شک مجھ سے ناراض ہو جانا مجھ پر غصہ کر لینا مگر پلیز کبھی مجھ سے نفرت نہیں کرنا"

کاشان رنعم کی آنکھوں میں جھانک کر سنجیدگی سے کہنے لگا


"عورت کی محبت کو آپ نے کیا سمجھا ہے کاشان۔۔۔۔ وہ جسے ایک بار اپنے دل میں بسا لے اس سے نفرت نہیں کر سکتی اور محبت تو میں نے بھی آپ سے کی ہے"

رنعم کے اقرار پر کاشان نے مسکراتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھے اور پیچھے ہوا


"سب کے گفٹس رکھ لیے تم نے"

اب وہ ڈریسر کے آگے کھڑا ہوکر ہیئر برش سے اپنے بال بناتے ہوئے رنعم سے پوچھ رہا تھا،، دبئی سے ان دونوں نے تھوڑی بہت سب کے لئے شاپنگ کی تھی


"جی وہ تو میں نے شام میں ہی رکھ لیے تھے"

رنعم اسے تیار دیکھ کر روم سے نکلنے لگی تبھی کاشان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے جانے سے روکا


"ایک بات اور کوئی بھی ہم دونوں کو یا پھر تمہیں آج روکنے کے لیے بولے گا تو تم میری طرف دیکھے بغیر رکنے سے منع کر دوگی انڈر اسٹینڈ"

کاشان رنعم کا بازو پکڑے اسے نرمی سے سمجھانے لگا


"کاشان میں شادی کے بعد کہا اب تک مما بابا کے گھر رکی ہو"

رنعم کا پورا ارادہ تھا کہ وہ آج اپنے گھر پر رکے اس لیے آئستہ سے بولی


"میری جان بیس سال سے تم اپنے مما بابا کے گھر پر ہی تھی۔۔۔ میرے خیال میں بیس سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے"

کاشان نے مسکراتے ہوئے رنعم سے کہا رنعم کا بازو ابھی بھی کاشان کے ہاتھ میں تھا


"پر کاشان اتنے دن ہوگئے ہیں"

رنعم نے کاشان کا اچھا موڈ دیکھ کر دوبارہ بولنا چاہا


"رنعم اب بحث نہیں"

کاشان کے لہجے میں ابھی بھی نرمی تھی مگر اس کے ہاتھ کی سختی نے رنعم کو آگے کچھ بھی کہنے سے باز رکھا


"جی"

رنعم اتنا ہی بول سکی اور کاشان نے اس کا بازو چھوڑ دیا


"گڈ، سارے دروازے کھڑکیاں چیک کر کے باہر آجاؤ"

کاشان اپنے ہاتھوں کی دو انگلیوں سے اس کا گال چھوتا ہوا گفٹ والے شاپرز لے کر باہر نکل گیا


صبح کی طرح رنعم کا دل ایک دفعہ پھر اداس ہونے لگا۔۔۔۔ مگر اسے ابھی اپنی فیملی سے ملنا تھا خوش ہوکر تاکہ وہ سب اس کو خوش دیکھ کر مطمئن ہو جائیں اس لیے اپنے آپ کو نارمل کرتی ہوئی وہ گھر سے باہر نکل گئی


****


"واہ بھئی آنٹی یہ کوفتے تو یقیناً آپ نے بنائے ہوگے" کاشان نے کھانے کی میز پر یسریٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


"نہیں یہ کوفتے میری پیاری سی بڑی بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے تمہارے لئے خاص کر بنائے ہیں"

یسریٰ نے مسکرا کر سیرت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کاشان نے ابرو اچکا کر سیرت کو دیکھا


"لوگ تو بھئی بڑی ویلیو شیلیو دینے لگ گئے ہیں اب۔ ۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا بہنوئی بن کر ہم اتنے اہم ہو جائیں گے"

کاشان نے ہمیشہ کی طرح سیرت کو چھیڑتے ہوئے کہا


"زیادہ عرش پر چڑھنے کی ضرورت نہیں ہے نیچے آجائے زرا۔۔۔۔ شادی کے بعد پہلی دفعہ تم دونوں گھر آئے ہو تبھی میں نے تم دونوں کی فیورٹ ڈش بنائی ہے۔۔۔ رنعم تمہیں چاومن پسند ہے نا"

سیرت نے کاشان کو ٹکا سا جواب دیکھ کر چاومن کا باول رنعم کی طرف بڑھایا جو اس نے تھینک یو کہہ کر تھام لیا


"اور میرے لیے کیا بنایا ہے اپنے ہاتھوں سے"

سیرت کے برابر میں بیٹھے ثوبان نے، بالکل آہستہ سے سیرت کے کان میں پوچھا۔۔۔۔ تو سیرت نے مرچوں کے سالن سے بھرا ہوا بول، ثوبان کو تھما دیا۔۔۔


"آج میٹھا زیادہ ہوگیا تھا اب اس سے کام چلاو" سیرت نے ثوبان کو دیکھ کر کہا اس کی بات سن کر ثوبان نے افسوس بھری نظر سیرت پر ڈالی وہی ان کے سامنے بیٹھے کاشان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری


"مرچ تو اس کے پاس پہلے سے موجود ہے"

کاشان نے مرچوں کے سالن کو دیکھ کر سیرت سے کہا کاشان کی بات سن کر ثوبان نے اس کو آنکھیں دکھائی


"کیا مطلب بیٹا"

یسریٰ نے کاشان کو دیکھ کر پوچھا سب کے ساتھ رنعم بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی


"آنٹی میرا کہنے کا مطلب ہے کھانے میں نمک مرچ بالکل پرفیکٹ ہے کوفتے بہت ٹیسٹی بنائے ہیں سیرت نے اور جب لڑکی کے ہاتھ میں ذائقہ آجائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس کی شادی فوراً کر دینی چاہیے"

میز کے نیچے سے ثوبان کا کاشان کو پاؤں مارنا بھی کام نہیں آیا۔۔۔۔ اور ثوبان کی آنکھوں کی طرف وہ پہلے سے ہی نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ کاشان نے سوچا ثوبان تو اپنے منہ سے کچھ بولے گا نہیں کیوں نہ میں ان دونوں کی نیّا پار لگا دو اس لیے وہ یسریٰ کی طرف دیکھ کر بولا


"ویسے تو تمہارے انکل اور میرا ارادہ تھا کہ اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ وقت گزاریں مگر باہر سے اچھا رشتہ آیا ہے سیرت کے لیے"

یسریٰ نے ایک نظر ثوبان کو غور سے دیکھ کر کاشان کی طرف رخ کر کے اسے بتاتا


یسریٰ کے بولنے کی دیر تھی زوردار قسم کا پھندہ ثوبان کو لگا اس کے وجہ سے وہ زور سے کھانسنے لگا۔۔۔۔ رنعم نے جلدی سے پانی کا بھرا گلاس ثوبان کی طرف بڑھایا سب اس وقت ثوبان کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ۔۔۔ کاشان کو ثوبان کا پھندہ لگنا تو سمجھ میں آیا مگر اس وقت اسے سیرت کی پراسرار مسکراہٹ کچھ عجیب سی لگی

رنعم کو گھر کے کام کرنے کی عادت نہیں تھی کھانا بھی اس نے کاشان کے کہنے پر بنانا سیکھا تھا مگر یہ جھاڑ پونچھ والے کام میں اسے کافی وقت لگ جاتا تھا۔۔۔۔ کاشان نے اسے کہا تھا وہ جلد کسی میڈ کا انتظام کر دے گا مگر وہ خود اتنی چھٹیوں کے بعد آفس گیا تھا اس لئے اس کا گھر لیٹ آنا ہو رہا تھا اور جب وہ ایک بزی دن گزار کر گھر آتا تو رنعم مروتاً اس سے میڈ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتی۔۔۔ تین دن ہو گئے تھے اسے گھر کی خود صفائی کرتے ہوئے


شادی سے پہلے جب کاشان فلیٹ میں شفٹ ہوا تھا تب اس نے کام کرنے کے لئے ایک لڑکا رکھا تھا مگر شادی کے بعد وہ رنعم کو نظر نہیں آیا۔۔۔ آج صبح کاشان کے آفس جانے کے بعد اسے نیند نہیں آئی تو وہ صبح ہی گھر کی صفائی سے فارغ ہو گئی۔۔۔۔ اتفاق سے گھر میں گروسری کا ضروری سامان بھی موجود نہیں تھا۔ ۔۔۔


معلوم نہیں آج کاشان کب تک آفس سے گھر واپس آئے گے

رنعم نے سوچتے ہوئے خود گروسری کرنے کا پلان بنایا وقت بھی کافی تھا۔۔۔ اور مارٹ بھی زیادہ دور نہیں تھا اس کے اپارٹمنٹ کے سامنے والے روڈ پر دس قدم کے فاصلے پر ہی مارٹ موجودہ تھا


دن کے 12 بج رہے تھے وہ ٹیکسی سے قریبی مارٹ میں اتری اس نے گھر کی کافی اشیاء خریدی وہ فرسٹ ٹائم یہ کام کر رہی تھی اسے بڑا مزا آیا دو گھنٹے کیسے گزر گئے اسے معلوم ہی نہیں ہوا سب چیزیں خرید کر وہ گھر آئی سارا سامان اپنی جگہ پر پہنچا کر وہ شاور لینے چلی گئی۔۔۔ ابھی وہ بال ڈرائر ہی کر رہی تھی کہ گھر کی بیل بجی


"ارے واہ آج تو جلدی گھر آ گئے آپ"

دروازہ کھولنے پر اسے کاشان کا چہرہ نظر آیا تو رنعم نے مسکرا کر کہا


"اپنی ڈول کی یاد جو آرہی تھی اس لیے آگیا"

وہ فریش فریش سی اپنی بیوی کو بانہوں میں لیتے ہوئے بولا


"شکر ہے تین دن بعد آپ کو خیال تو آیا،، ورنہ روز رات کے نو بج رہے تھے گھر آتے آتے"

رنعم کاشان کے سینے پر اپنا سر رکھ کر شکوہ کرنے لگی


"خیال تو ہر لمحہ آتا ہے میری جان،، مگر یہ آفس والے بہت ظالم ہے سمجھتے نہیں ہیں نئے شادی شدہ آدمی کو رات گئے تک آفس میں نہیں بٹھانا چاہیے"

کاشان رنعم کو بانہوں میں اٹھائے بیڈ روم میں لاتا ہوا بولا


"اف،،، میرا وہ مطلب تھوڑی تھا"

رنعم شرمندہ ہوتے ہوئے بولی


"مگر میرا وہی مطلب تھا"

کاشان رنعم کو بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتا ہوا بولا مگر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ رنعم کو دیکھنے لگا


"کچھ چہولے پر رکھا ہے تم نے"

کسی چیز کے جلنے کی خوشبو آئی تو کاشان رنعم کو دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا


"ہلکی آنچ پر چائے رکھی تھی اپنے لیے"

رنعم سہمے ہوئے انداز میں بتانے لگی

جب سے اس نے کاشان کا جارحانہ انداز دیکھا تھا تب سے رنعم ایسے موقع پر کچھ بھی کہنے سے ڈرتی تھی


"جاو پھر چائے لے کر آو۔۔۔۔ اب تم سے رات کو نبھٹو گا،،، تین دن بہت عیش کر لی تم نے"

کاشان بیڈ سے اٹھتا ہوا معنی خیزی سے بولا۔۔۔ رنعم نظریں جھکائے خود بھی بیڈ سے اٹھ گئی اور کچن میں جانے لگی


"یار چائے کے ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھی لے کر آجاؤ،، آج دوپہر کو لنچ نہیں کیا میں نے"

کاشان وارڈروب سے کپڑے نکالتا ہوا رنعم سے بولا تو وہ سر ہلا کر کچن میں آگئی


فرج سے فروزن پیکٹ نکالے جو وہ آج ہی وہ خرید کر لائی تھی۔۔۔۔ شامی کباب اور نگٹس تل کر وہ چائے سمیٹ ٹیبل پر لے کر آئی اور کاشان کو وہی سے آواز دی


"اتنی جلدی یہ سب کچھ بنا لیا زبردست"

وہ چینج کرچکا تھا،،، کرسی پر بیٹھا ہوا بولا


"ابھی اتنی ماہر بھی نہیں ہوئی ہے آپ کی بیوی یہ سب باہر کا سامان ہے"

رنعم نے پلیٹ میں کباب اور نگٹس نکال کاشان کے سامنے رکھتے ہوئے ہوئے اسے مزے سے بتایا


"باہر سے کون لایا یہ سب"

کاشان نے ماتھے پر بل سجائے رنعم کو دیکھ کر پوچھا


"آج صبح گھر کی صفائی سے جلدی فارغ ہو گئی تھی تو سوچا کیوں نہ گروسری کرنے جایا جائے فرسٹ ٹائم میں نے اس طرح گھر کا سامان لیا ہے کاشان اتنا مزہ آیا یہ سب کر کے"

وہ دونوں کپز میں چائے نکال کر مگن انداز میں کاشان کو بتائے جا رہی تھی بغیر یہ دیکھے کہ اس کی باتوں سے کاشان کے چہرے پر غصے کے کتنے رنگ آ چکے ہیں۔۔۔ رنعم کی زبان تالو سے جب چپکی جب کاشان نے چائے سے بھرا کپ ایک کے بعد ایک اٹھا کر دیوار پر دے مارے چھناکے کی آواز سے نہ صرف کپ ٹوٹے بلکہ کاشان کے ردعمل سے رنعم سہم کر پیچھے ہوگئی


اس کے بعد ایک ایک کر کے کاشان نے ٹیبل پر ساری پلیٹز چیزوں سمیت اٹھا کر زمین پر پٹخنا شروع کی رنعم خوف کے مارے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھتی ہوئی دیوار سے جا چپکی


ساری چیزیں تہس نہس کرنے کے بعد جب رنعم نے کاشان کو اپنی طرف آتا دیکھا تو وہ مزید خوف سے کانپ گئی اور آہستہ آہستہ قدموں سے دیوار سے جڑی پیچھے ہٹنے لگی مگر تین قدم میں کاشان فاصلہ طے کر کے اس کے قریب آیا


"کس سے پوچھ کر گھر سے باہر قدم نکالا تم نے"

بالوں کو مٹھی میں جکڑے اب وہ رنعم کا چہرہ اوپر کیے،،، غصے میں اس سے سوال کر رہا تھا


"کاشان وہ۔۔۔۔ وہ گھر میں چیزیں ختم ہو گئی تھی۔۔۔ اس لئے میں نے سوچا"

رنعم اس کو غصہ میں دیکھ کر بری طرح کانپتی ہوئی اپنی صفائی دینے لگی


"کس کی اجازت سے"

کاشان نے دوبارہ چیخ کر پوچھا رنعم کو رونا آنے لگا


"سوری میں پوچھنا بھول گئی تھی" کاشان کو جواب دیتے ہوئے وہ باقاعدہ رونے لگ گئی


"پیسے کہاں سے آئے"

کاشان نے اس کے بالوں مٹھی میں دبائے، مزید اس کی گردن کو پیچھا کرتا ہوا ایک اور سوال کیا


"آپ نے جو پاکٹ منی دی تھی مجھے"

رنعم کو خوف آنے لگا اس کی گردن ہی نہ ٹوٹ جائے وہ کاشان کی شرٹ مٹھی میں دبائے ہوئے بولی


"مارٹ کیسے گئی" وہ غصے رنعم سے سے ایک کے بعد ایک سوال کر رہا تھا


"ٹیکسی میں کاشان پلیز مجھے درد ہو رہا ہے"

رنعم نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔۔۔ جیسے آج ہی اس کی زندگی کا آخری دن ہو


"کسی غیر مرد کے ساتھ ٹیکسی میں اکیلی کیسے بیٹھی تم۔۔۔معلوم نہیں تمہیں آدمی کس طرح کے ہوتے ہیں"

جھٹکے سے وہ اس کے بالوں چھوڑ کر،، اس سے پہلے رنعم کا سر دیوار پر لگتا۔۔۔ اب اس کا منہ پکڑ چکا تھا


"وہ ٹیکسی والا شریف تھا،،، بوڑھا تھا پلیز کاشان سوری"

کاشان کے فولادی ہاتھوں کی انگلیاں اس کے گالوں میں بری طرح دھنس رہی تھی۔۔۔۔ جن کو اپنے ہاتھوں کی مدد سے ہٹا کر وہ بہت مشکل سے بول پا رہی تھی


کاشان نے اسکا منہ چھوڑا تو وہ پیچھے دیوار سے جا لگی۔۔۔۔ کاشان نے زور سے دو دفعہ اپنے ہاتھ دیوار پر مارے،،، برابر میں دیوار سے لگی رنعم نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔۔ اسے خوف تھا کہ کاشان کا بھاری ہاتھ کہیں اس کے منہ پر ہی نہ پڑ جاہے۔۔۔۔ ویسے بھی جس طرح کاشان نے اس کا منہ پکڑا تھا اس کے جبڑے ابھی بھی دکھ رہے تھے


کاشان ایک دو ڈیکوریشن پیس توڑ کر اپنا مزید اپنا غصہ نکالتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا اور رنعم اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے نیچے بیٹھتی چلی گئی


****


پورے ڈائننگ ہال میں کانچ بکھرا پڑا تھا۔۔۔ وہ روتی ہوئی خود بھی اپنے آپ کو کانچ کی طرح بکھرتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔۔۔ کاشان کے گھر سے نکلنے کے بعد جلدی سے اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور بالوں کا جوڑا بنایا


کاشان کے ساتھ رہتے ہوئے ان پندرہ دنوں میں اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے گھر میں بے ترتیبی پسند نہیں ہے یہ بات کاشان نے باتوں ہی باتوں میں اسے دو تین بار باور کرائی تھی۔۔۔۔ اس لیے اپنی قسمت پر ماتم کرنے کی بجائے شاپر میں سارا کانچ جمع کرنے کے بعد کمرے کو سمیٹنے میں لگ گئی


رنعم کو ڈر تھا کہ کاشان گھر واپس آگیا اور بکھرا ہوا لانچ دیکھ کر اسے کہیں دوبارہ غصہ نہ آ جائے پورا لانچ سمیٹ کر جب وہ بیڈ روم میں داخل ہوئی تو اس کے موبائل پر فرح کی کال آرہی تھی مگر وہ اس وقت بات کیسے کر سکتی کال کاٹ کر وہ واش روم چلی گئی تاکہ اپنا منہ دھو سکے اس کے بعد اسے رات کے لیے کھانا بنانا تھا

****


ایک گھنٹے کے بعد جب کاشان گھر واپس آیا تو ڈائننگ ہال سمٹا ہوا تھا۔۔۔ کاشان بیڈروم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو بیڈ پر رنعم سمٹی ہوئی بیٹھی تھی کاشان کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک دفعہ پھر خوف کے آثار نمایاں ہوئے


"یہاں آؤ"

بیڈروم کا دروازہ بند کر کے،،، وہی کھڑے کھڑے اس نے رنعم کو ارڈر دیا


"کاشان آئی ایم سوری میں آئندہ کبھی باہر نہیں نکلو گی آپ کی پرمیشن کے بغیر پلیز مجھے کچھ مت کیجئے گا۔۔۔ میں سمجھی تھی آپ کو خوشی ہوگی میرے گھر داری کی طرف توجہ دینے پر"

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے منہ میں جو جو آیا خوف کے مارے بولتی ہوئی کاشان کے پاس آ رہی تھی۔۔۔ رنعم کو دیکھ کر کاشان کو صاف محسوس ہورہا تھا وہ بری طرح سہم چکی ہے،،، جب رنعم کاشان کے سامنے آ کر رکی تو کاشان نے آگے بڑھ کر اسے اپنے گلے لگایا۔۔۔ کاشان کے سینے سے لگنے کے بعد رنعم نے ایک بار پھر رونا شروع کردیا تھوڑی دیر پہلے والا کاشان کا غصہ ختم ہوچکا تھا وہ اب رنعم کے گرد اپنے ہاتھ لپیٹے اسے نرمی سے بانہوں میں لے چپ کرا رہا تھا


"اگر کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے بولنا چاہیے تھا نا میں کوئی غیر ذمہ دار انسان یار لاپروا شخص تو نہیں ہوں۔۔۔۔ تمہیں کیا لگا میں سب چیزیں تمہیں نہیں لاکر دیتا۔۔۔۔ تم سے شادی میں نے اس لیے تو نہیں کی ہے کہ تمہیں فاقوں میں مار دوں اور اگر تمہیں خود جانے کا دل تو مجھے بول دیتی میں لے کر چلا جاتا،،، یوں اکیلے باہر جانا کہاں ٹھیک ہے۔۔۔۔ کوئی بچی تو نہیں ہونا تم،،، کس طرح کی نظروں سے باہر کی لڑکیوں اور عورتوں کو دیکھا جاتا ہے،، اور وہ پیسے بھی میں نے تمہیں اس لیے تو نہیں دیے تم گھر کا سودا سلف لاتی۔۔۔ اب چپ ہو جاؤ اور آئندہ ایسی حرکت مت کرنا"

وہ رنعم کو اپنے سینے سے الگ کر کے اس کے آنسوں صاف کرتا ہوا بولا


"کھانا تو نہیں بنایا ہوگا رات کا"

وہ اب بھی اس سے نرمی سے سوال کر رہا تھا


"بنا لیا تھا میں لے کر آتی ہوں"

اب رنعم اسے کیا بتاتی کہ کتنا ڈرنے لگی تھی وہ اس کے غصے سے


کچن میں آکر وہ مائیکرو ویو اوون میں کھانا گرم کرتی ہوئی کاشان کے مزاج اور غصے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ کھانا کھانے تک کاشان اس کو بہلانے میں کامیاب ہوگیا تھا اور رات کو سونے سے پہلے وہ اسے یہ بتانا نہیں بھولا کہ وہ اس پر جتنا بھی غصہ کرلے مگر اس سے کہیں زیادہ پیار کرتا ہے


****


"جلدی سو گئے بابا آج"

رات کے کھانے کے بعد ثوبان ہر روز کی طرح بہروز کے پاس آیا تو اسے سوتا دیکھ کر یسریٰ سے پوچھنے لگا


"ہاں دوپہر میں کم نیند لی تھی اس لیے سو گئے۔۔۔ تم تین دن سے گھر کتنا لیٹا آرہے ہو ثوبان"

یسریٰ نے اس کا خیال کرتے ہوئے پوچھا


"شوروم میں جو مینجر رکھا تھا اسے چیٹینگ کرنے پر نکال دیا ہے اس لیے وہاں کا بھی چکر لگا رہا ہوں تین دن سے۔۔۔۔ بابا دوائی وقت پر لے رہے ہیں ناں"

وہ سامنے ٹیبل پر دوائی چیک کرتے ہوئے پوچھنے لگا


"ٹھیک سے لے رہے ہیں میں خود دے دیتی ہوں اپنے ہاتھ سے۔۔۔ تم اپنی فکریں کم کرو ذرا،،، اور کاشان کو کہہ دو کہ شوروم وہ دیکھ لیا کرے تمہاری تو ویسے بھی ٹف جاب ہے"

یسریٰ کو احساس تھا کہ اس کے اوپر گھر کی باہر کی ساری ذمہ داریاں ہیں اس لیے وہ اس کا احساس کر کے بولی


"میری فکر کرنے کے لئے آپ اور بابا موجود ہیں تو۔۔۔ کاشان سے کہا تھا میں نے اپنی جاب کی بجائے شوروم دیکھ لیا کرے مگر اس نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔۔۔۔ اشتہار دیا ہے میں نے جلدی کسی مینیجر کا انتظام ہو جائے گا"

وہ یسریٰ کا ہاتھ عقیدت سے تھامے اسے بتانے لگا۔۔۔۔ پھر چپ ہو کر اسے دیکھنے لگا جیسے کچھ کہنا چاہ رہا مگر بول نہیں پا رہا


"کچھ کہنا چاہتے ہو یا پوچھنا چاہتے ہو تو بول دو بیٹا"

بیشک یسریٰ نے اسے جنم نہیں دیا تھا مگر 14 سالوں میں بیٹا ہی سمجھا تھا جبھی اس کی نظروں سے اس کے چہرے سے جانچ لیا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے


"آپ اس دن کاشی اور رنعم کے آنے پر آپ بتا رہی تھی کہ سیرت کا رشتہ آیا ہے"

وہ اب بھی یسریٰ کا ہاتھ تھاما ہوا ہے۔۔۔۔ یسریٰ کو اب اس کے پوچھنے پر یقین ہوگیا اس کا شک بلکل ٹھیک تھا۔۔۔ وہ سیرت کو یقیناً پسند کرتا ہے مگر سیرت نے تو اس رشتے کے لیے حامی بھری تھی۔۔۔ یوسریٰ نے اپنا ہاتھ چھڑا کر اس کا چہرہ تھاما


"پسند ہے تمہیں سیرت،، ثوبان یہ مت سوچنا وہ میری بیٹی ہے،،، میں اپنی بیٹی کا تم سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔ بلکے میں اپنے بیٹے سے اسکی پسند پوچھ رہی ہوں"

یسریٰ اس کی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے فوراً بولی


"پہلے بتائیں رشتہ کس نے بھیجا ہے"

تین دن سے وہ یسریٰ سے یہ بات پوچھنا چاہ رہا تھا کیوکہ سیرت سے اس نے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا،، آج اس نے ہمت کر کے یسریٰ سے پوچھ لیا


"فرح باجی نے بھیجا ہے اس کا رشتہ عاشر کے لیے،، مگر مجھے اپنی بہن اور بیٹی سے پہلے تمہاری خوشی عزیز ہے۔۔۔ اس لیے بے فکر ہو جاؤ آپ کہیں نہیں جانے دوگی سیرت کو"

یسریٰ نے مسکراتے ہوئے اس کو دیکھ کر کہا


"بیٹی"

ثوبان نے لفظ بیٹی پر الجھ کر یسریٰ کو دیکھنے لگا


"ہاں یہ بات میں نے سیرت کو بتائی کہ تمہاری آنی نے تمہارے لیے رشتہ بھیجا ہے تو اس نے بناء اعتراض کے فیصلہ میرے اور تمھارے بابا کے اوپر چھوڑ دیا"

یسریٰ نے اپنی بیٹی کی سعادت مندی کے بارے میں ثوبان کو خوش ہوکر بتایا


"آپ بھی اب ریسٹ کریں بابا صبح جلدی اٹھ جائیں گے تو آپ کو بھی اٹھنا ہوگا"

وہ یسریٰ کو کہتا ہوا ایک نظر سوئے ہوئے بہروز پر ڈال کر اپنے روم میں جانے کے لیے کھڑا ہوا مگر اس سے پہلے اس کا ارادہ سیرت کے پاس جانے کا تھا


"ارے ہاں ثوبان کل فرح باجی نے رنعم اور کاشان کی دعوت کی ہے اور ہم سب کو بھی بلایا ہے۔۔۔ رنعم کی تو بات ہو گئی ہے باجی سے،،، میں تمہارے بابا کی وجہ سے بھلا کیسے جا سکتی ہوں تم سیرت کو لے کر کل چلے جانا۔۔۔۔ کاشان اور رنعم بھی وہاں پر موجود ہوں گے" یسریٰ کی بات پر ثوبان سر ہلا کر اس کے روم سے نکل گیا


*****


"اچھا ہوا تم آگئے میں کنفیوز ہو رہی تھی کہ ان دونوں ڈریسز کو لے کر ذرا بتاؤ کل آنی کے گھر یہ والا ڈریس پہن کر جاؤں گی پھر یہ والا"

سیرت نے دونوں ڈریس ہینگر سمیت ثوبان کے سامنے لہراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی


"بہت زیادہ دل چاہ ہے آنی کے گھر جانے کا دونوں ڈریسز کو ہاتھ میں لے کر ایک سائیڈ پر رکھتا ہوا وہ بولا


"تمہیں ہی شکوہ ہوتا ہے کہ میں ریزرو ہو کر رہتی ہوں۔۔۔ آپ جانے کے لیے ڈریس کا پوچھ رہی ہوں تو بھی تمہیں برا لگ رہا ہے" سیرت اس کے چہرے کے زاویہ دیکھ کر بولی


"ڈریس کا مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہوں یہ لو موبائل عاشر سے پوچھ لو اسے کون سے کلر پسند ہے"

ثوبان نے اپنا موبائل نکال کر سیرت کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے کہا


"آوووو تو یہ بات ہے"

سیرت نے بمشکل اپنی ہنسی چھپائی جو اس سے چھپائی نہیں جا رہی تھی اور ثوبان کا موبائل لے کر دوبارہ اس کی پاکٹ میں ڈالا


"کیوں کی تم نے یہ حرکت"

ثوبان کو اس وقت سیرت کی ہنسی ضبط کرنا زہر لگ رہا تھا وہ ابھی بھی سیرت کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"اف تمہیں تو میری ہر بات ہی بری لگ رہی ہے ثوبی۔۔۔ آخر اعتراض کیا ہے تمہیں"

شاید وہ اس کو مزید تپانے کے موڈ میں تھی یا اس کو ایسا کرنے میں مزا آ رہا تھا


"مجھے آنی کے بھیجے گئے رشتے پر تمہارے اعتراض نہ کرنے پر اعتراض ہے۔۔۔۔ تمہیں میری پوزیشن معلوم ہے ہر وقت کسی نہ کسی کام میں الجھا رہتا ہوں تم پھر بھی مجھے سمجھنے کی وجہ میرے لئے پریشانیاں پیدا کر رہی ہو"

ثوبان نے اسے شرم دلانی چاہی


"یہ پوزیشن تو اب تمہاری ساری زندگی رہنی ہے اور نہ ہی کام ختم ہونے ہیں تمہارے کھبی۔۔۔۔ اصل بات تو یہ کہ تم سے اپنے مما بابا کے سامنے منہ کھولا ہی نہیں جائے گا۔۔۔ تم ان کے سامنے اپنے اور میرے رشتے کی حقیقت بتانے کی ہمت رکھتے ہی نہیں ہو۔۔۔ اگر مجھے ذرا بھی احساس ہوتا ہے ثوبی کہ تم اتنی کم ہمتی کا مظاہرہ کرو گے تو میں تم سے کبھی نکاح نہیں کرتی"

سیرت نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے غصے میں کہا


"شٹ اپ سیرت، تم میرے گریز کو کم ہمتی کا نام دو اور اس گریز کی اصل وجہ یہی ہے کہ تم مما بابا کی سگی اولاد ہوں۔۔۔ مجھ سے نکاح نہیں کرتی بس ساری زندگی لوگوں کو بے وقوف بناتی"

ثوبان کو سیرت کی بات پر اس سے زیادہ غصہ آنے لگا تبھی وہ طنز کر بیٹھا جو سیرت کو بری طرح چبھا


"ہاں بناتی لوگوں کو بیوقوف اور کر لیتی اپنا خود کا گزارا جیسے تیسے بھی،،، تمہارے ہاتھوں بے وقوف بننے سے تو یہی بہتر تھا"

سیرت نے چیخ کر کہا


"آواز نیچی رکھو سیرت، اب کمرے سے باہر تمہاری آواز نہیں جانی چاہیے" ثوبان نے غصے میں اسے وارن کرتے ہوئے کہا


"نہیں تو کیا کرو گے تم،، کچھ نہیں کر سکتے تم،، اس روز روز کے ڈرامے کو آج یہی ختم کرو طلاق دو مجھے تاکہ یہ قصہ آج ہی ختم ہو"

سیرت نے مزید بلند آواز میں کہا


"طلاق چاہیے تمہیں اس سے بہتر ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے مار ڈالو" ثوبان نے سختی سے اس کا بازو پکڑ کر کہا سیرت کے مزید چیخنے پر ثوبان کو بھی غصہ آنے لگا


"اور کر بھی کیا سکتے ہو تم۔۔۔ آخر کو تمہارے باپ نے بھی تو یہی کیا تھا اپنی بیوی کے ساتھ"

سیرت طنزیہ ہنسی مگر اس کے الفاظ نے تیزاب کے چھینٹو کا کام کیا جس پر ثوبان تڑپ ہی اٹھا


"سیرت"

ثوبان زور سے چیخا اس کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا اس سے پہلے وہ سیرت کے منہ پر نشان چھوڑتا بیڈروم کا دروازہ کھلا


"ثوبان"

سیرت کے کمرے سے باہر آتی چیخوں کی آواز پر جب یسریٰ کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے سیرت اور ثوبان کو قریب کھڑے دیکھا،، ثوبان کا ہاتھ ہوا میں بلند دیکھ کر یسریٰ نے بے یقینی سے ثوبان کو پکارا۔۔۔ دوسری طرف ثوبان یسریٰ کو بیڈروم میں آتا دیکھ کر ایک دم شرمندہ ہوگیا


"مما میری بات سنیں"

ثوبان سیرت کو چھوڑ کر یسریٰ کے پاس آیا مگر وہ چپ کر کے سیڑھیاں اترتی ہوئی اپنے بیڈروم میں چلی گئی اور اندر سے اپنا دروازہ لاک کر لیا


ثوبان اپنے کمرے میں آیا اور اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ کر بیٹھ گیا اس کا دل اندر سے پشیماں تھا معلوم نہیں یسریٰ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی


"آئی ایم سوری، غصے میں بھی مجھے ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا" سیرت کو جب اپنے لفظوں کی سختی کا احساس ہوا تو وہ ثوبان کے پاس اس کے روم میں آئی۔۔۔ اس کو یوں سر تھامے بیٹھا دیکھ کر سیرت کو مزید افسوس ہوا۔۔۔۔ سیرت کی آواز سن کر ثوبان نے اپنا سر اٹھایا،،،ضبط سے ثوبان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی


"آئی ایم سوری ثوبی"

سیرت نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے دوبارہ کہا۔۔۔ ثوبان لب بھینچ کر جھٹکے سے اٹھا سیرت کا بازو پکڑ کر اسے اپنے روم سے باہر نکالتا ہوا بولا


"جب تک مما کا دل صاف نہیں ہوجاتا تم اپنی شکل مت دکھانا مجھے"

سیرت کے منہ پر دروازہ بند ہوا تو وہ ہک دھک ثوبان کا رویہ دیکھتی رہ گئی اور چپ کر کے اپنے بیڈروم میں چلی آئی

صبح سیرت کی آنکھ کھلی اس نے سائڈ پر رکھے اپنے موبائل میں ٹائم دیکھا صبح کے آٹھ بج رہے تھے یعنی ثوبی ابھی گھر پر ہوگا سیرت سوچتے ہوئے اپنے کمرے سے نکل کر ثوبان کے پاس جانے لگی


"جب تک مما کا دل صاف نہیں ہوجاتا تم شکل مت دکھانا مجھے"

اسے کل والے ثوبان کے لفظ یاد آئے بے ساختہ اس کے قدم وہی تھم گئے


"اف کتنی بری طرح ناراض ہو گیا ہے کیسے مناؤں اب اس بدتمیز انسان کو"

وہ ناخن چباتے ہوئے سوچنے لگی


"ایسے ہی سوچتی رہو گی تو اس کے پولیس اسٹیشن جانے کا وقت ہوجائے گا"

سیرت نے ناخن چبانا بند کر کے وارڈروب کھولی،، ثوبان کی پسند کے رنگ کا بلیک ڈریس نکالا اور چینج کرنے چلی گئی


****


فریش ہو کر اپنے روم سے باہر نکلی تو شاہدہ ثوبان کا یونیفارم ہاتھ میں پکڑے، ثوبان کے کمرے سے بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل رہی تھی


"کیا ہوا تمہارے بھی منہ پر بارہ بجے ہوئے ہیں خیریت تو ہے"

سیرت نے شاہدہ کی شکل دیکھتے ہوئے کہا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہوئی صاف نظر آرہی تھی


"وہ جی بڑے مہینوں بعد آج ثوبان صاحب غصے میں نظر آرہے ہیں نا۔۔۔۔ وہ جب سے یہاں پر آئے ہیں میں نے انہیں صرف 2 بار غصے میں دیکھا ہے۔۔۔ ایک بار تب جب رنعم بی بی روتی ہوئی گھر آئی تھی اور انہیں معلوم ہوا تھا کہ رنعم بی بی کی اکیڈمی کے کسی لڑکے نے ان سے بدتمیزی کی ہے، تب وہ بہت غصے میں اس لڑکے کے گھر گئے تھے۔۔۔۔ اور دوسری بار تب جب بڑے صاحب (بہروز) کے دوست یہاں پر ہمارے ہی گھر میں آ کر بڑے صاحب سے لڑائی کرتے ہوئے انہیں برا بھلا کہہ رہے تھے۔۔۔ تب پہلی دفعہ میں نے ثوبان صاحب کو بڑے صاحب کے دوست پر چیختے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ اور آج کتنے مہینوں بعد صبح صبح ہی غلام بخش کی شامت آگئی ہے ویسے تو وہ ہم سے بڑی نرمی سے بات کرتے ہیں،،، کبھی نوکروں والا سلوک بھی نہیں کیا مگر آج لگ رہا ہے کوئی بات ہوگئی ہے صبح صبح"

شاہدہ نے ایک سانس میں سیرت کو کھڑے کھڑے پوری کہانی سنائی اور پھر سانس لی


"جانتی ہو میں تمہارے صاحب کے غصے کو بالکل سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ یہ یونیفارم کہاں لے کر جا رہی ہوں"

سیرت نے شاہدہ کے ہاتھ میں پکڑا ثوبان کا یونیفارم دیکھ کر پوچھا


"وہ جی کل اس پر استری مارنا بھول گئی تھی"

شاہدہ نے تھوک نگلتے ہوئے اپنی غلطی بھی بتائی


"لاو مجھے دو یہ یونیفارم میں آئرن کر دیتی ہوں۔۔۔ جاو ناشتے کے لیے چائے کا پانی رکھو پراٹھوں کے لئے تازہ آٹا گوندھو"

سیرت نے شاہدہ کے ہاتھ سے یونیفارم لے کر اسے ہدایت دی شاہدہ سر ہلا کر چلی گئی


سیرت ثوبان کا یونیفارم آئرن کر کے اس کے کمرے میں آئی تو وہ کل رات والے کیجیول حلیے میں کمرے میں ٹہلتا ہوا شاید اپنے یونیفارم کا انتظار کر رہا تھا مگر سیرت کو کمرے میں آتا دیکھ کر اسکے چہرے کے زاویے یکسر بدلے نرمی کی بجائے اس کے چہرے پر سختی آگئی


"تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے میرا یونیفارم لے کر میرے کمرے میں آؤ، یہ کام کرنے کے لئے میں نے شاہدہ سے کہا تھا تم سے نہیں"

ثوبان نے اپنا یونیفارم سیرت کے ہاتھ سے چھینتے ہوئے کہا


"اف ارام سے بھئی کتنی محنت سے آئرن کیا ہے۔۔۔تمہاری بیوی میں ہوں یا شاہدہ سے نکاح کیا ہے تم نے"

سیرت نے معصومیت سے ثوبان سے پوچھا۔۔۔۔ 45 سالہ شاہدہ کے بارے میں اپنے سے نکاح کی بات سن کر وہ مزید تپا


"اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھا کرو سیرت"

ثوبان انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا ہوا بولا


"واہ میرے ایس۔پی آج لگ رہے ہو صحیح کے دبنگ پولیس والے"

سیرت اس کے غصیلے انداز پر اسے چھیڑتے ہوئے بولی


"ہوگیا تمہارا۔۔۔ اب جاو میرے کمرے سے چینج کرنا ہے مجھے"

ثوبان نے کرخت لہجے میں کہا


"اچھا نہ اب اتنا زیادہ تو غصہ مت دکھاؤ جلدی سے نیچے آ جاؤ،، ناشتہ بنا رہی ہوں تمہارے لیے"

ثوبان کا لہجہ اس کو اس لئے فیل ہوا کہ پہلے کبھی ثوبان نے اس طرح بات نہیں کی تھی مگر سیرت اس کے لہجے کو اگنور کرتی بولی


"تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے میرے لیے ناشتہ بنانے کی"

ثوبان نے کہنے کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کیا اور اپنے کمرے کل دروازہ بند کیا۔۔۔۔ شاید وہاں سے زیادہ ہی ہرٹ کر چکی تھی سیرت سیڑھیاں اتر کر کچن میں جاتے ہوئے سوچنے لگی


ناشتے میں سیرت میں تہہ دار پراٹھے بنائے بالکل ویسے ہی جیسے فائزہ ثوبان اور کاشان دونوں کو اسکول کے لنچ میں بنا کر دیتی تھی اور ثوبان کے پسندیدہ پیاز والا آملیٹ ناشتہ بنا کر ٹرالی میں ساری چیزیں رکھتی ہوئی وہ ہال میں آئی تو اسے ثوبان سیڑھیاں اترتا ہوا نظر آیا


"آو ثوبی دونوں دونوں مل بانٹ کر ناشتہ کرتے ہیں اس سے محبت بڑھتی ہے"

سیرت نے مسکراتے ہوئے ثوبان کو دیکھ کر کہا


"میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ کہ میرے لیے ناشتہ بنانا"

ثوبان سیرت سے کہتا ہوا باہر جانے لگا


"ناشتہ نہیں کرنا تو پھر اپنا یونیفارم اتارو"

سیرت اس کا راستہ روکتے ہوئے بولی کیوکہ اب اس کو غصہ آنے لگا اتنے نخرے اس نے کبھی پہلے زندگی میں نہیں دکھائے تھے


"کیا بےہودگی ہے۔۔۔ منہ کھولنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرو کیا بول رہی ہو"

ثوبان اس کی بات سن کر اپنے ماتھے پر ناگوار شکنیں لاتا ہوا بولا


"بس تمہارے دماغ میں تو ایک ہی بات آتی ہے میرے کہنے کا مطلب تھا۔۔۔۔ جب میرے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ نہیں کرنا تو یہ کپڑے بھی تمہارے میں نے آئرن کیے تھے اتارو انہیں بھی"

اپنے لفظوں پر غور کرنے کے بعد سیرت بغیر شرمندہ ہوئے بولی اور آگے بڑھ کر ثوبان کا کالر اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔ ثوبان اس کے ہاتھ جھٹک کر باہر نکل گیا


****


آج چھٹی کا دن تھا کاشان گھر پر ہی موجود تھا رنعم کو گھر کے کام میں لگے دیکھ کر۔۔۔۔ رنعم کے نہیں نہیں کرنے کے باوجود اس نے رنعم کی کافی ہیلپ کرائی۔۔۔۔ اپنے فلیٹ کے برابر والے غفار صاحب سے کاشان نے ان کے گھر کی میڈ کے بارے میں بات کی


"تمہارے لیے گڈ نیوز یہ ہے کہ میڈ کا ارینج ہوگیا ہے مگر ساتھ ہی بیڈ نیوز یہ ہے کہ وہ آج سے نہیں تین دن کے بعد آئے گی چھٹیوں پر گئی ہوئی ہے"

رنعم کے ہاتھ سے آئرن لے کر وہ خود اپنی شرٹ پریس کرتا ہوا بولا


"شکر خدا کا،،، یہ تو واقعی گڈ نیوز ہے میرے لئے"

رنعم نے خوش ہوکر بے ساختہ کہا مگر کاشان کے دیکھنے پر دانتوں تلے زبان دبالی


"میرا وہ مطلب نہیں تھا اپنے گھر کے کام کرنا تو بہت اچھی بات ہوتی ہے"

رنعم نے مسکراتے ہوئے بات بنائی تو کاشان بھی اس کو دیکھ کر مسکرایا


"مجھے معلوم ہے رنعم۔۔۔۔ تم نے یہ کام کبھی اپنے گھر پر نہیں کیے ہوں گے،،، آفس سے لیٹ آنے کی وجہ سے میں بھی فوری طور پر میڈ کا انتظام نہیں کر سکا۔۔۔۔ پھر بھی تم نے بنا شکوہ کیے اتنے دنوں تک گھر کی صفائی کی۔۔۔ میں شاید اچھا شوہر ثابت نہ ہوں مگر تم ایک اچھی بیوی ہو"

کاشان اپنے کپڑے آئرن کرتا ہوا رنعم سے بولا اور رنعم خاموشی سے کاشان کو دیکھتی رہی۔۔۔۔ رنعم کے دیکھنے پر کاشان اس کو دیکھ کر مسکرایا


"کیا ہوا کیا سوچنے لگی"

اب کاشان دوسری شرٹ آئرن کرتا ہوا رنعم سے پوچھنے لگا وہ اچھی بیوی اسے کیا بتاتی کہ کبھی کھبی اس کا شوہر اپنی بیوی کا دل کتنا دکھاتا ہے


"کچھ نہیں سوچ رہی،،، یہ کپڑے آپ کیوں پریس کر رہے ہیں،، آفس کی شرٹ ہیں ساری، لائے میں آئرن کردو"

رنعم نے اس کے ہاتھ سے شرٹ لینی چاہی


"رہنے دو میں جلدی کر دوں گا جاو تم شاور لے لو"

کاشان مصروف انداز میں اپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولا تو رنعم شاور لینے چلی گئی


واپس آئی تو کاشان دیوار سے چپکی ایل ای ڈی پو کرکٹ دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔ آج اسے آنی کے گھر جانا تھا۔۔۔ کل رات سونے سے پہلے رنعم نے کاشان کا اچھا موڈ دیکھ کر۔۔۔ اسے فرح کے گھر ڈنر کا بتایا،،، جس پر کاشان آسانی سے ایگری کر گیا


رنعم نے سونے سے پہلے فرح کو اپنے آنے کا ڈن کیا۔۔۔ وہ خوش تھی کیوکہ شادی کے بعد پہلی بار آنی کے گھر جا رہی تھی کپڑے اور جیولری اس نے پہلے ہی سلیکٹ کر لیے تھے


"کاشان آپ آنی کے گھر کونسا ڈریس پہن کر جائیں گے"

رنعم نے برش سے اپنے بالوں کو سلجھاتے ہوئے پوچھا


"بتاتا ہوں"

کاشان بولتا ہوا دوبارہ میچ دیکھنے میں مگن ہو گیا۔۔۔ دو گھنٹے کاشان کو کرکٹ دیکھتے ہوئے


"آخر آپ بتا کیوں نہیں دیتے پچھلے دو گھنٹے سے بار بار پوچھے جا رہی ہو"

رنعم نے ضبط کرتے ہوئے چوتھی دفعہ کاشان سے پوچھا


"کیا پوچھ رہی ہو میری جان"

میچ اب بور ہو چکا تھا اس لیے ریموٹ سے پاور آف کرتا ہوا وہ رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"یہی کہ آنی کے گھر کونسا ڈریس پہن کر جائیں گے"

رنعم بالوں کا جوڑا بنا کر بیڈ پر کاشان کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی


"ایسی باتیں کر کے بور مت کرو۔۔۔ محبت بھری باتیں کرو تاکہ میری چھٹی کا دن اچھا گزرے"

وہ رنعم کا جوڑا کھول کر اسے بیڈ پر لٹاتا ہوا بولا


"میں اس وجہ سے بول رہی تھی راستہ کافی دور ہے جلدی گھر سے نکلیں گے تبھی وہاں سے جلدی واپسی کریں گے"

وہ کاشان کو پیچھے ہٹانے کے جرات تو نہیں کر سکی یونہی لیٹے ہوئے آہستہ سے بولی


"آج تو باہر نکلنے کا بالکل موڈ نہیں ہو رہا کسی اور دن کا پروگرام رکھ لو" کاشان اس کے بالوں کی لٹ اپنی انگلی پر رول کرتا ہوا بولا


"کیسی باتیں کر رہے ہیں کاشان،، آپ کے ایگری کرنے پر ہی تو آنی کو ہم دونوں کی آنے کا بول چکی ہو۔۔۔ وہاں سب ہمارا ویٹ کر رہے ہوں گے"

رنعم نے بہت پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا


"تو اب بھی میں ہی بول رہا ہوں،،، میرے بولنے پر ان سے فون کر کے معذرت کر لینا"

رنعم کو بولنے کے بعد اب وہ اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا


"اگر آپ کو وہاں جانے کا موڈ نہیں تھا تو آپ کو رات کو نہیں بولنا چاہیے تھا کاشان۔۔۔ انہوں نے ہمارے لیے کتنا ارینج کرلیا ہوگا" رنعم کو اس طرح فون کر کے منع کرنا عجیب لگ رہا تھا اس لئے وہ برا مناتے ہوئے بولی


مگر اب اس کی بات کا کاشان بھی برا مان گیا تھا جبھی وہ اٹھ کر بیٹھا


"میں تمہیں الو کا پٹھا لگ رہا ہوں جو چھٹی کا دن بھی ڈرائیونگ کی نظر کر دو،، جب کہہ رہا ہوں کہ کسی اور دن چلے گے تو اب آگے سے کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے"

وہ زور دار آواز میں رنعم سے بولا تو رنعم اٹھ کر روم سے باہر جانے لگی


"کہاں جا رہی ہو" کاشان اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا


"آنی سے فون پر معذرت کرنے۔۔۔۔ انھیں بتانے کے لئے آپ کا انویٹیشن ہم نے قبول کیا،، بناء کسی ریژن کے اب ہم آپ کے گھر نہیں آ رہے کیوکہ آج ہمارا موڈ نہیں لہذا اس کو اپنی انسلٹ سمجھئے گا اور آپ آئندہ ہمہیں بلانے کی کوئی ضرورت نہیں"

رنعم کا بات کرتے کرتے گلا روندھنے لگا وہ کاشان کو جواب دیتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ کاشان نے پاس پڑا ریموٹ کھینچ کر دیوار پر مارا اور بیڈ پر لیٹ گیا


****


وہ بیس منٹ سے ڈرائنگ روم میں صوفے پر دونوں پاوں اونچے کیے بیٹھی یہی سوچ رہی تھی اینڈ وقت پر آنی کو کیا بہانہ بنا کر انکار کرو۔۔۔ تین دفعہ اس نے اپنا موبائل ہاتھ میں لیا اور پھر صوفے پر رکھ دیا جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو اسے رونا لگا


"کیا مصیبت پڑی ہے تمہیں،، میں ابھی مرا نہیں ہوں جو یوں سوگ منانے بیٹھ گئی ہو یہاں آکر"

کاشان ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑا ہوا اس کو ڈانٹنے لگا جس پر رنعم کو مزید رونا آیا وہ حیرانگی سے کاشان کو دیکھنے لگی


"کیا۔۔۔۔۔ ہاں بس یہ ٹسوے بہا بہا کر دکھاؤ مجھے،،، میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو بیوی کے آنسو دیکھ کر پگھل جاؤ۔۔۔۔ صرف میرے ایک دفعہ کے کہنے پر تم اپنی آنی کے گھر سے نہیں اٹھی تو پھر دیکھنا۔۔۔ اب یوں دیدے نکال کر گھورنا بند کرو اور 15 منٹ کے اندر تیار ہو فوراً"

کاشان رنعم کو بولتا ہوا ڈرائنگ روم سے چلا گیا۔۔۔۔ رنعم نے کھڑی میں ٹائم دیکھا اسے واقعی 15 منٹ کے اندر جلدی جلدی تیاری کرنی تھی اس لئے وہ فوراً اٹھ کر چینج کرنے چلی گئی


****


رات کے دس بج رہے تھے جب ثوبان کا واپس گھر آنا ہوا گھر میں داخل ہوتے ہی یسریٰ پر اس کی نظر پڑی۔۔۔۔ صبح بھی یسریٰ کے بیڈروم کا دروازہ بند دیکھ کر دل میں افسوس لیے ثوبان یسریٰ اور بہروز سے ملے بخیر پولیس اسٹیشن کے لیے نکل گیا


"مما پلیز آپ میری بات سن لیں"

ابھی ابھی یسریٰ موبائل پر فرح سے آج ڈنر پر نہ آنے کی معذرت کر کے بیٹھی تھی


تبعی ثوبان اسے دکھائی دیا۔۔۔۔ یسریٰ اس کے لئے کھانا گرم کرنے کے غرض سے کچن میں جانے لگی کیوکہ شاہدہ اب اپنے کواٹر میں چلی گئی تھی تبعی ثوبان کی آواز پر اسے روکنا پڑا وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ ثوبان چلتا ہوا یسریٰ کے پاس آیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ کر ثوبان نے یسریٰ کا ہاتھ تھاما


"مما آئی ایم سوری مجھے معلوم ہے میری وجہ سے اور میرے عمل سے کل آپ کا بہت دل دکھا ہوگا۔۔۔۔ آپ میری پوری بات سن لیں پھر بے شک جو سزا چاہے دے دیئے گا میں آپ کے آگے اف نہیں کروں گا۔۔۔۔ سیرت مجھے بچپن سے ہی اچھی لگتی تھی آپ کے اور بابا کے پاس، آنے کے بعد میرا اس سے کوئی کونٹیکٹ نہیں رہا وہ کھو گئی تھی مجھ سے۔۔۔ مگر شاید اللہ کو اسے آپ سے اور بابا سے ملانا تھا،، چند ماہ پہلے وہ مجھے دوبارہ ملی اس کے ابا جنھوں نے اسے پالا ہے وہ بہت بیمار تھے ان کے کہنے پر بہت زیادہ اسرار پر میں نے سیرت سے نکاح کیا مگر اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ آپ دونوں کی سگی بیٹی ہے۔۔۔۔ وہ وقت اور سچویشن ایسی تھی کے میں آپ کو یا بابا کو نکاح کے بارے میں بتا نہیں سکا یا شاید اندر سے ڈر تھا کہ آپ انکار نہ کر دیں۔۔۔۔ میں کسی دوسری لڑکی کے ساتھ اپنی لائف نہیں گزار سکتا اس لیے میں نے سیرت سے نکاح کرلیا۔۔۔۔ اس بات کا ملال مجھے ساری زندگی رہے گا کہ میں نے اپنے نکاح سے اپنے ماں باپ کو لاعلم رکھا ان سے چھپ کر نکاح کیا۔۔۔ مجھے معاف کر دیں مما میں نے آپ کے اور بابا کے بغیر یہ سٹیپ اٹھایا۔۔۔۔ نکاح کے بعد مجھے معلوم ہوا سیرت آپ کی اور بابا کی کھوئی ہوئی بیٹی ہے۔۔۔۔ بعد میں بابا کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میں اندر سے ڈرتا تھا کہ یہ خبر کہیں ان کو ہڑٹ نہ کرے۔۔۔ آپ کو یا بابا کو میری طرف سے دکھ پہنچے گا تو میں سکون میں نہیں رہوں گا،،، آپ مجھ سے کل سے بات نہیں کر رہی ہیں میں سکون میں نہیں ہوں پلیز آپ دونوں مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا میں کسی بھی قیمت پر آپ دونوں کو کھونا نہیں چاہتا نہ آپ دونوں کی آنکھوں میں یا دل میں اپنے لیے ناراضگی دیکھ سکتا ہوں"

ثوبان اپنا سر یسریٰ کے گھٹنے پر رکھ کر ملول انداز میں اس سے بول رہا تھا اور یسریٰ آنکھوں سے آنسو اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی لیے


"جب میں رنعم کے لیے تمہارا سوچ سکتی ہو تو سیرت کے لئے کیوں انکار کرتی مجھے تو بتا دیتے بیٹا۔۔۔ مجھے کیوں اس بات سے دکھ ہوتا اتنے دن تک تم نے اپنے دل پر بوجھ رکھا"

یسریٰ کے لہجے میں کہیں ناراضگی کا عنصر شامل نہیں تھا یہ آنسو بھی شاید تشکر کے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے دل میں اپنے ماں باپ کے لیے اونچا مقام رکھتا ہے ان کے دل دکھانے سے ناراضگی سے ڈرتا ہے


"یہی سوچ کر آپ کو بتانے سے ہچکچاتا تھا کہیں آپ یہ نہ سوچیں کہ میری بڑی بیٹی پر نگاہ رکھی ہوئی تھی ثوبان نے"

ثوبان کے بولنے پر یسریٰ کو ہنسی آگئی


"پاگل"

اس نے ثوبان کے سر پر چپت لگائی تو ثوبان نے اس کی گود سے سر اٹھایا


"آپ واقعی ناراض نہیں ہے مجھ سے"

وہ دوبارہ یسریٰ کے ہاتھوں کو تھام کر پوچھنے لگا


"نہ میں ناراض ہو ناں نہ تمہارے بابا ناراض ہوں گے اس بات کو لے کر صرف باجی کو منانا مشکل ہو گا مگر میں منا لوں گی"

وہ ثوبان کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہنے لگی تو ثوبان یسریٰ کے دونوں ہاتھ ہونٹوں سے لگا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ یسریٰ مسکرا کر ثوبان کو دیکھنے لگی ثوبان کے ہر انداز میں عقیدت، عزت، محبت اور اپنائیت کو دیکھ کر اپنے اور بہروز کے اوپر فخر کرنے لگی


"کہاں جارہے ہو یہیی بیٹھو کھانا لے کر آتی ہوں تمہارے لیے"

یسریٰ نے اس کو جاتا ہوا دیکھا تو فوراً بولی اور خود بھی صوفے سے اٹھی


"بابا کے پاس جا رہا ہوں صبح بھی نہیں دیکھا تھا انہیں،، وہی کھانا لے آئیں"

ثوبان یسریٰ سے کہتا ہوں اب بہرروز کے بیڈ روم میں چلا گیا

کل وہ اپنی آنی کے گھر ایک اچھا دن گزار کر واپس گھر آئی تھی،، کل کاشان رنعم کو اس کی آنی کے گھر لے گیا۔۔۔ فرح،، رنعم اور کاشان سے مل کر بہت خوش ہوئی عاشر بھی ان دونوں سے بہت اچھے طریقے سے ملا جبکہ غفران خالو کاشان سے ہاتھ ملا کر اور رنعم کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں بیٹھ کر لاتعلق ہوگئے فرح اور عاشر ہی رنعم اور کاشان سے باتیں کرتے رہے رنعم نے نوٹ کیا کاشان فرح سے تو بات کر رہا تھا مگر عاشر کی صرف باتوں کا جواب دے رہا تھا رنعم کو یہ بات کافی فیل ہوئی تھوڑی دیر بعد جب فرح کسی کام سے ڈرائینگ روم سے باہر گئی تو،،، رنعم بھی کاشان کے دیکھنے یا بولنے سے پہلے فرح کے پیچھے روم سے نکل گئی۔۔۔ شاید رنعم آئستہ آئستہ اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھنے لگی تھی


کھانا اچھے ماحول میں میں کھا کر کاشان اور رنعم اپنے گھر کے لیے نکل گئے۔۔۔۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بجے مگر رنعم نے اس بات کا شکر ادا کیا کہ کاشان کا موڈ وہاں پر بھی اور واپسی پر بھی اچھا رہا صبح آفس بھی وہ اچھے موڈ میں گیا۔۔۔۔ کاشان کے آفس جانے کے بعد رنعم معمول کے مطابق سونے کے لئے لیٹ گئی ابھی وہ تھوڑی دیر پہلے ہی سو کر اٹھی تھی اور گھر کی صفائی کر رہی تھی


"اف کیا مسئلہ ہے"

جھاڑو دیتے ہوئے میز سے رنعم کا پاؤں ٹکرایا تو وہ چڑتے ہوئے بولی۔۔۔ رنعم کا موبائل بجا تو اس نے جھاڑو پٹخ کر یسریٰ کی کال ریسیو کی


"اور بتاؤ کیا کر رہی تھی اس وقت"

سلام دعا حال احوال کے بعد یسریٰ نے رنعم سے پوچھا


"کاشان کے آفس جانے کے بعد سو گئی تھی،، آج کافی لیٹ اٹھنا ہوا۔۔۔ بس ابھی گھر کی صفائی میں لگی ہوئی ہو"

رنعم نے سامنے دیوار پر لٹکی گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا جو کہ دو بجا رہی تھی


"ابھی تک میڈ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔۔۔ کیسے صفائی کر رہی ہو تم خود سے،،، تمہیں تو کبھی گھر کی صفائی کرنے کی عادت نہیں رہی رنعم"

یسریٰ کو ایک دم بیٹی کی فکر ہوئی


"عادت تو واقعی نہیں ہے مما مگر گھر بھی تو صاف رکھنا ہے،، کاشان کو بالکل پھیلاوا پسند نہیں ہے۔۔۔ سامنے والے فلیٹ کی فیملی سے کاشان نے بات کی ہے۔۔۔ کوئی میڈ کام کرتی ہے مگر وہ چھٹیوں پر گئی ہے کاشان نے بتایا کہ وہ پرسوں آ جائے گی"

یسریٰ کو فکر مند دیکھ کر رنعم نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا


"چلو میں شاہدہ سے کہتی ہوں وہ تمہارے فلیٹ میں آکر کام کردے گی اور جب تک کوئی کام میڈ ارینج نہیں جاتی وہی کام کرلے گی۔۔۔ تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جھاڑ پونچھ کر کے اپنی اسکن کا بیڑہ غرک کرنے کی"

یسریٰ نے منٹوں میں اس کے مسئلے کا حل نکالا تو رنعم ریلکس ہوگئی


"یہ بتاؤ تم گھر کا چکر کب لگا رہی ہو شادی کے بعد تو تم ایک دفعہ بھی رکنے نہیں آئی رنعم"

یسریٰ کی بات سن کر رنعم ایک دم چپ ہو گئی


"مما رکنے کا تو تھوڑا مشکل ہے۔۔۔ کاشان کو آفس جانے کا مسئلہ ہوگا انہیں صبح کے لیے جگانا بریک فاسٹ کے لیے مسلہ ہوگا۔۔۔ وہ تو خود سے کبھی نہیں منع نہیں کریں گے مگر مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ میری وجہ سے انہیں کوئی پرابلم ہو"

رنعم نے سہولت سے بات بناتے ہوئے کہا


"تو یہاں پر کاشان کے روکنے پر پابندی ہے کیا۔۔۔ تم دونوں ہی نیکسٹ ویک اینڈ پر رکنے آجاو۔ ۔۔۔ بلکہ میں خود کاشان سے رکنے کا کہہ دو گی۔۔۔ اب تم جاو فریش ہو کر اچھی سی تیار ہو،، شوہر کے آنے پر سر جھاڑ منہ پھاڑ نہیں گھومتے۔۔۔۔ جب تم کاشان کو فریش نظر آؤں گی تو وہ اپنے سارے دن کی تھکن بھول جائے گا۔۔۔ اور گھر کی صفائی کی بھی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے بس میں ابھی شاہدہ کو بھیجتی ہوں"

یسریٰ سے بات کرنے کے بعد رنعم جھاڑو وہی چھوڑ کر کھانا بنانے چلے گئی


کھانا بنانے کے بعد وہ ریلیکس ہو کر ٹی وی دیکھنے لگی کام کی اسے کوئی ٹینشن نہیں تھی کیوکہ تھوڑی دیر بعد شاہدہ آجاتی ایک گھنٹے بعد جب گھر کی بیل بجی تو اپنے سامنے نوید (شاہدہ کے بیٹے) کے بیٹے کو دیکھا


"تم۔۔۔ اماں کہاں ہے تمہاری"

رنعم نے 12 سالہ نوید سے شاہدہ کے بارے میں پوچھا۔۔۔وہ اکثر شاہدہ کے ساتھ ان کے گھر پر بھی آتا تھا اور چھوٹے موٹے کام نبھٹا دیتا تھا


"باجی اماں کو تو ابا نے بلا لیا تھا۔۔۔ اماں نے مجھے کہا کے جا کر باجی کے گھر کی صفائی کر آو"


"چلو اب جلدی جلدی ہاتھ چلا کر کام نبھٹاو"

رنعم نوید کو کام سمجھا کر خود شاور لینے چلی گئی کیوکہ کاشان کے آنے کا وقت ہوگیا تھا


جب تک وہ شاور لے کر نکلی نوید نے گھر کی صفائی کرلی


"واہ بھئی تم نے تو بہت ہی کوئیک سروس دکھائی۔۔۔۔ ایسا کرنا کل بھی تم ہی آجانا مگر بارہ بجے تک۔۔۔ یہ بتاؤ کھانا کھایا تم نے"

رنعم نے اپنی حساس طبیعت کی مد نظر نوید کا خیال کرتے ہوئے پوچھا


"جی باجی کھانا تو میں گھر سے کھا کے آگیا تھا"

نوید کے جواب پر اس نے فریج سے فریش جوس نکالا اور گلاس میں بھر کر اسے تھما دیا


آج گرمی بھی کافی تھی بچہ بیچارہ صفائی کرتے ہوئے پسینے پسینے ہو گیا تھا


گرمی کے باعث رنعم نے بھی سلیولیس شڑٹ پہنی ہوئی تھی جس کا دوپٹہ عادت کے مطابق گلے میں ڈال کر وہ شام کی چائے کا ارینج کر رہی تھی کیوکہ پانچ بچ چکے تھے اور کاشان کے آنے کا وقت ہو گیا تھا ابھی وہ چائے کا پانی رکھ کر چولہا جلانے والی تھی تب ڈور بیل بجی نوید نے خالی گلاس ٹیبل پر رکھ کر دروازہ کھولا۔۔۔


کاشان مسکراتا ہوا اندر آیا مگر نوید کی اپنے فلیٹ میں موجودگی دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہوا


"تم یہاں کیا کر رہے ہو"

نوید کے سلام کے جواب میں کاشان اس سے پوچھنے لگا


"باجی نے بلایا تھا صفائی کرنے کے لئے" نوید نے جواب دیا تو کاشان کو غصہ آنے لگا اتنے میں رنعم لانچ میں داخل ہوئی


"آپ آگئے آفس سے، فریش ہو جائیں میں چائے لے کر آتی ہوں"

رنعم نے مسکراتے ہوئے کاشان سے کہا کاشان ناگوار نظروں سے اس کو دیکھا اور پھر نوید سے بولا


"صفائی کرلی تم نے اب جاؤ"

کاشان کا لہجہ دیکھ کر رنعم کے لب سکھڑ گئے اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ کاشان کا موڈ ٹھیک نہیں


"نوید تم جاو کل 12 بجے تک آ جانا"

رنعم نے جلدی سے بولا تو کاشان نے اسے گھور کر دیکھا


"کل یا اب کھبی یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے جاو یہاں سے"

کاشان نے ڈپٹتے ہوئے نوید سے کہا تو وہ خاموش کر کے چلا گیا


"کیا ہوگیا ہے کاشان آپ کو"

رنعم نے حیرت سے اس کے خراب موڈ کی وجہ جاننی چاہی۔۔۔۔ کاشان چلتا ہوا رنعم کے پاس آیا رنعم کا بازو پکڑ کر اس کو بیڈروم میں لے گیا اور بیڈ پر پھینکا


"کاشان"۔

رنعم اس کے ردعمل پر حیرت زدہ ہوگئی


"کیوں بلایا تم نے نوید کو"

کاشان نے چیخ کر پوچھا رنعم اب اس کو غصے میں دیکھ کر ڈر گئی


"مما کا فون آیا تھا انہوں نے کہا جب تک میڈ کا ارینج نہیں ہوجائے تب تک شاہدہ صفائی کر جائے گی شاہدہ نے نوید کو بھیج دیا"

رنعم کاشان کو ساری بات بتاتی ہوئی بیڈ پر اٹھ کر بیٹھی۔۔۔ کاشان نے اسے دوبارہ دھکا دے کر بیڈ پر لٹا دیا


"یعنی تم آنٹی کو فون پر اپنے دکھڑے روتی ہوں کہ کاشان کے گھر مجھے کام کرنا پڑتا ہے"

کاشان بیڈ کے پاس رنعم کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے غصے میں پوچھنے لگا


"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ بہت غلط سمجھ رہے ہیں مجھے کاشان۔۔۔ میں ایسا کیوں کروں گی بھلا،، بات کرتے ہوئے ویسے ہی ذکر نکلا تو مما نے کہا وہ شاہدہ کو بھیج دیں گی"

کاشان کے دوبارہ بیڈ پر دھکا دینے کی وجہ سے وہ اٹھی نہیں یونہی لیٹے ہوئے اپنی صفائی دینے لگی


"اوکے چلو مان لیتا ہوں ذرا مجھے اپنی روزمرہ کی روٹین بتاؤ میرے آفس جانے کے بعد تم کیا کیا کرتی ہو"

کاشان یونہی کھڑے ہوکر اسے استفاسر کرنے لگا


"کاشان سوری"

رنعم کو اپنی غلطی سمجھ میں نہیں آئی مگر پھر بھی وہ کاشان کو غصے میں دیکھ کر معافی مانگنے لگی


"جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو مجھے"

وہ چیخ کر کہتا ہوں اس سیگریٹ سلگانے لگا


"آپ کے جانے کے بعد سو جاتی ہوں 12 بجے اٹھنے کے بعد گھر کی صفائی سے فارغ ہو کر کھانا چڑھاتی ہو۔۔۔ اس کے بعد شاور لے کر ٹی وی دیکھ لیتی ہو یا موبائل پر یشعل سے بات کر لیتی ہوں۔۔ پانچ بجے آپ کے آنے کے ٹائم پر شام کی چائے کی تیاری کرتی ہو"

رنعم بتاتے ہوئے ایسے شرمندہ ہو رہی تھی جیسے اپنی غلطیاں بتا رہی ہو کاشان سگریٹ پیتا ہوا غور سے اس کی ساری روٹین سن رہا تھا

"تم بارہ بجے گھر کی صفائی اسٹارٹ کرتی ہوں مطلب میرے جانے کے بعد تم بارہ بجے سو کر اٹھتی ہوں گڈ،، چار کمروں کی صفائی کتنی دیر میں ہو جاتی ہوگی"

وہ رنعم سے پوچھنے لگا

"ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں"

رنعم نے روہانسی لہجے میں کہا

"یعنی تم دو بجے تک صفائی سے فری ہو کر کھانا بناتی ہوں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ کھانا بنانے میں لگتا ہوگا۔۔ اس کے بعد سارے کا سارا ٹائم تمہارا اپنا ہوتا ہے"

کاشان سگریٹ پیتا ہوا ٹہلتا ہوا بول رہا تھا رنعم اب باقاعدہ رونے لگی کاشان اس کے پاس آیا اور بازو سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا

"پورے دن میں 3 گھنٹے تمہاری محنت صرف ہوتی ہے منع کیوں نہیں کیا تم نے آنٹی کو جب انہوں نے شاہدہ کی آفر کی۔۔۔ جبکہ صرف دو دن بعد میڈ یہاں کام کرنے آ جاتی"

وہ سختی سے اس کا بازو پکڑ کر سنجیدگی سے رنعم سے پوچھنے لگا

"کاشان مجھے بالکل عادت نہیں ہے اس لیے تھوڑا مشکل لگتا ہے مگر میں کر لو گی صفائی پلیز آپ کو غص نہیں کریں"

وہ کاشان کے غصے کا اندازہ اپنے بازو پر اس کی گرفت سے خوب لگا سکتی تھی کاشان کو غصے میں دیکھ کر رنعم کی جان نکلنے لگی


"یہ بھی مان لیتا ہوں نازک سی ڈول ہو تو مشکل ہوتا ہو گا تمھارے لیے روز اتنی محنت کرنا یہ بتاؤ نوید کے سامنے تم بغیر آستین کے کپڑے کیوں پہنا کر آئی اب وہ رنعم کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کر چکا تھا


رنعم کے وارڈروب میں اس کے سارے کپڑے تقریبا سلیو لیس تھے۔۔۔ اسے شادی سے پہلے بھی عادت سلیو لیس ڈریس پہننے کی۔۔۔ شادی کے بعد اس نے گرمی کے وجہ سے سلیولیس ڈریس بنائے جس پر کاشان اسے بول چکا تھا یہ ڈریسنگ وہ صرف گھر میں اس کے سامنے کر سکتی ہے باہر سلیو لیس پہننے کی ضرورت نہیں


"کا۔۔۔ کاشا۔۔۔ن وہ تو بچ۔۔۔ بچہ ہے"

رنعم نے ہکلاتے ہوئے کہا کیوکہ اب وہ دوبارہ سے وہ سیگرٹ جالاتا ہوا اس سیگریٹ والے ہاتھ سے رنعم کا دوسرا بازو پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔ رنعم کو ڈر تھا کہ کہیں سگریٹ اس کے ہاتھ پر نہ لگ جائے وہ سگریٹ کو دیکھتی ہوئی کاشان سے بولی


"بارہ سال کی عمر کا لڑکا بچہ نہیں ہوتا جب میں 13 سال کی عمر میں قتل کے جرم میں جیل گیا تھا تو بارہ سال کی عمر کا بچہ پہلے سی جیل میں موجود تھا ریپ کیا تھا اس نے اپنے سے چھوٹے دس سال کے لڑکے کا"

کاشان نے بتاتے ہوۓ سگریٹ اس کے بازو پر رکھی جس پر رنعم کی زور سے چیخیں نکل گئی

"کیا کر رہی ہو بیٹا" سیرت کچن میں موجود تھی یسریٰ آ کر اس سے پوچھنے لگی


"بابا کو میرے ہاتھوں سوپ پسند آیا تھا جو میں نے ان کے لئے پرسوں بنایا تھا وہی بنا رہی ہوں ان کے لئے"

پرسوں والے تماشے کے بعد اور کل صبح ثوبان کے جانے کے بعد وہ اپنا کمرہ بند کر کے بیٹھی رہی یسریٰ دو بار اس کے پاس آئی مگر سیرت میں دروازہ نہیں کھولا ابھی تھوڑی دیر پہلے جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اپنے روم سے نکل کر بہروز کے پاس بیٹھ گئی باتوں ہی باتوں میں اسے اندازہ ہوگیا بہروز اور یسریٰ کو ثوبان نکاح کے بارے میں بتا چکا ہے


"میں اور تمہارے بابا سوچ رہے ہیں ایک بڑی سی پارٹی ارینج کریں جس میں ہم سب کو تمہارے اور ثوبان کے نکاح سے آگاہ کردیں گے اور وہ ایک طرح سے ولیمے کی دعوت ہوگی" یسریٰ نے مسکرا کر بہروز کا آئیڈیا سیرت کو بتایا جس پر سیرت نظر جھکا گئی


"شاک تو بہت لگا ہوگا آپ کو اور بابا کو یہ خبر سن کر،، خاص کر آپ کو،،، آپ کو تو ثوبی کے لئے کوئی بہت ہی حسین ایجوکیٹڈ ویل آف لڑکی چاہیے تھی جو کہ کسی طرح اس سے کم نہیں لگے"

سیرت نے نظریں اٹھا کر یسریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا اس کی بات سن کر مسکرا کے چہرے کی مسکراہٹ تھم گئی


"تم خود کو حسین ایجوکیٹڈ اور ویل آف نہیں سمجھتی۔۔۔ یہ ساری خوبیاں تم میں بھی تو ہیں اور سب سے بڑھ کر تم میری پہلی اولاد ہو میری بیٹی،،، جنم دیا ہے میں نے تمہیں۔۔۔ ایسا لگتا رہا ہے تمہیں، ،، کہ مجھے یا تمہارے بابا کو شاک لگا ہوگا ارے ہم دونوں بہت خوش ہیں تمہارے لیے کہ اب تم ہمیشہ ہمارے پاس رہوں گی آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔ بیٹا اپنے بابا اور میری خوشی کا تو تم اندازہ ہی نہیں لگا سکتی پلیز سیرت اپنے دل سے ساری بدگمانی نکال دو۔۔۔ میں اور بہروز پیار کرتے ہیں تم سے"

یسریٰ نے سیرت کو یقین دلاتے ہوئے گلے سے لگا لیا وہ چپ ہی رہی۔۔۔ یہ نہیں تھا کہ وہ یسریٰ اور بہروز سے بدتمیزی کرتی ہو یا ان کی بات نہیں مانتی ہو بس وہ چاہ کر بھی ان سے مکس نہیں ہو پاتی اور ان دونوں کے بیچ اور اپنے بیچ ایک فاصلہ رکھے ہوئی تھی


"کیا ہو رہا ہے لیڈیز کس بات پر کچن میں کھڑے ہوکر اتنا ایموشنل ہوا جا رہا ہے"

ثوبان پولیس اسٹیشن سے ابھی آیا تھا یسریٰ کی آواز پر کچن میں آیا تو یسریٰ اور سیرت کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"تمہارے بابا اور میں فنکشن رکھنے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔ جس کو سیدھا سیدھا تمہارا اور سیرت کا ولیمہ کہا جا سکتا ہے۔،۔ بہروز مشورہ کریں گے تم سے بھی"

یسریٰ نے سیرت سے الگ ہوکر ثوبان کو بتایا


"مشورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے آپ کا اور بابا کا حکم ہمیشہ کی طرح سر آنکھوں پر بس یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے گا میں داماد ہرگز نہیں بننے والا آپ دونوں کا،، ہمیشہ بیٹا ہی بن کر رہوں گا۔۔۔ بے شک آپ دونوں اپنی بیٹی کو بہو سمجھ لینا"

ثوبان یوسریٰ کے کندھے پر تھوڑی ٹکائے اپنے سامنے کھڑی سیرت کو دیکھتا ہوا کہنے لگا جو کہ ثوبان کو نظر انداز کیے سوپ کے باول کو ٹرے میں رکھ رہی تھی شاید اب وہ ثوبان سے ناراض ہو گئی تھی ثوبان کو فیل ہوا


"تم میرے اور بہروز کے بیٹے ہی ہو۔۔۔۔ یہ بات تم نہ بھی بولو تو مجھے معلوم ہے۔۔۔ تم کبھی داماد بن ہی نہیں سکتے ہمیشہ بیٹے ہی بن کر رہو گے تمہاری وجہ سے ہی تو سیرت ہم دونوں کی زندگی میں واپس آئی ہے"

یسریٰ نے پیار سے ثوبان کا گال تھپتھپایا جو کہ یسریٰ کے کندھے کے قریب تھا


"اگر ایسی بات ہے تو پھر اجازت دیں اپنے بیٹا کو کہ وہ آپ کی پیاری سی بہو کو ڈنر کرانے آج باہر لے جائے"

ثوبان ابھی سیرت کا چہرہ دیکھتے ہو یسریٰ سے بات کر رہا تھا


"میں آج بزی ہو میرا موڈ نہیں ہے ڈنر کا"

یسریٰ کے کچھ بولنے سے پہلے سیرت بولتی ہوئی سوپ کی ٹرے لے کر کچن سے باہر نکل گئی یسریٰ گردن موڑ کر ثوبان کو دیکھنے لگی تو وہ سر کھجانے لگا


"آپ ٹینشن مت لیں۔۔۔ تھوڑا غصہ دکھائے گی ایک دو باتیں سنائے گی،،، تین چار بار نخرے دکھانے کے بعد آخر میں مان جائے گی،، پٹالو گا میں اُسے"

ثوبان کے ایسے بولنے پر یسریٰ کو ہنسی آگئی ثوبان کے گال پر ہلکی سی چپت رسید کر کے وہ کچن سے نکل گئی۔۔۔ ثوبان بھی ہنستا ہوا بہروز کے روم میں چلا گیا


****


رنعم بیڈ پر لیٹی ہوئی سسکیاں لے رہی تھی کافی دیر سے رونے کے بعد اب آنسو خشک ہو چکے تھے کاشان نے بہت بے دردی سے اس کے بازو پر سگریٹ داغی تھی


اس کے بازو پر جلنے کا نشان واضح نظر آرہا تھا وہ رنعم کو زخم دے کر اب دوسرے روم میں چلا گیا تھا جبکہ رنعم کا وجود دو گھنٹے سے رونے کے بعد اب سسکیاں لے رہا تھا


جبھی بیڈروم کا دروازہ کھلا اور کاشان روم میں داخل ہوا رنعم تیزی سے بیڈ سے اٹھی اور وارڈروب کی طرف جا کر اپنے لئے لمبی آستین کا ڈریس نکالنے لگی


وہ ڈریس لے کر واش روم کی طرف جانے لگی تبھی کاشان نے اس کا راستہ روکا اس کے ہاتھ سے ڈریس لے کر واپس وارڈروب میں رکھا رنعم کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ڈریسر کے پاس لایا ڈریسر کے پاس موجود چھوٹے سے اسٹول پر رنعم کو بٹھایا۔۔۔ اب وہ اس کی پشت پر کھڑا ہو کر اس کے بال برش کر رہا تھا


"جب میرا باپ میری ماں کو مارتا تھا وہ مار مار کر ان کے ہاتھ سُجھا دیتا تھا، امی کو اتنی تکلیف ہوتی کہ دو دن تک وہ ہاتھ اٹھا کے خود سے پانی پینے کے قابل بھی نہیں رہتی تھی تب میں اسی طرح امی کے بال بناتا تھا"

وہ رنعم کے بالوں میں چٹیا بناتا ہوا بولا کاشان کی باتیں سن کے رنعم کو ڈر لگنے لگا وہ خوفزدہ نظروں سے کاشان کو دیکھنے لگی


"تب میں اور ثوبی سارے گھر کا کام کرتے امی کو کھانا بھی ہم دونوں اپنے ہاتھ سے کھلاتے تھے۔۔۔۔ میرا باپ بہت ظالم تھا رنعم، وہ صرف امی کو مارنے کے وجہ ڈھونڈتا تھا۔۔۔۔ موقع تلاش کرتا تھا کہ امی پر ہاتھ اٹھائے"

کاشان نے رنعم کو کھڑا کر کے اس کا رخ اپنی طرف کیا رنعم کو اس کی باتوں سے گھبراہٹ ہونے لگی


"مجھے اچھا نہیں لگا آج یہ سب کر کے تمہیں تکلیف دے کر میں بہت بے سکونی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ تکلیف ہو رہی ہے مجھے بھی تمہیں تکلیف پہنچا کر شاید پیار کرتا ہوں تم سے ڈول ہو تم میری، اس لیے"

کاشان رنعم کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بول رہا تھا رنعم کو ایک بار پھر رونا آنے لگا


"میں افتخار احمد نہیں ہوں جو تمہیں مار پیٹ کر، تکلیف دے کر خود کو پرسکون کرو۔۔۔ تم بہت معصوم ہو رنعم تمہیں باہر کی دنیا کا،، ان مردوں کی سوچ کا اندازہ نہیں ہے۔۔۔ ان کی گھٹیا سوچ اور گندی نظروں کو تم نہیں سمجھ سکتی۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ایسے مردوں کے ساتھ جیل میں گزارا ہے،، چاہے چھوٹا بچہ ہو یا آدمی سب عورت کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ تم اس چیز کے لئے مجھے ظالم کہنا چاہتی ہو تو کہو مگر میں تم پر کسی کی بھی بری نظر برداشت نہیں کر سکتا،، اس لڑکے نے آج تمہارا بازو دیکھا ہوگا کیا کیا خیالات اس کے دماغ میں آئے ہوں گے،،، یہ سوچ کر میرے دماغ کی نسیں پھٹ رہی ہیں پلیز تم اسے میری خود غرضی کہہ لو یا پھر تنگ نظری میں کسی کی بھی بری نظر تمہاری طرف اٹھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ عزت ہو تم میری اور اپنی عزت پر میں کمپرومائز ہرگز نہیں کر سکتا۔۔۔۔ رنعم تم مجھے افتخار احمد مت سمجھنا میں نفرت کرتا ہوں اپنے باپ سے،، میں نے تمہارا ہاتھ جلانے کا بہانہ نہیں ڈھونڈا یا کوئی موقع تلاش نہیں کیا کہ تمہیں تکلیف دو،، بس تمہیں نوید کے سامنے اس طرح بغیر آستین کے کپڑے اور گلے میں دوپٹہ ڈالے دیکھ کر مجھے غصے آ گیا جو تمہارے لیے تکلیف کا سبب بنا،، مگر اب مجھے بھی تکلیف ہو رہی ہے تمہیں تکلیف دے کر پلیز مجھے معاف کر دو"

کاشان کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے جیسے اس کا بھی بازو بری طرح جلا ہوں جیسے وہ بھی تکلیف سے گزر رہا ہو کاشان اپنی آنکھوں میں نمی لیے رنعم کے وجود کو اپنی بانہوں میں لیے رنعم سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔ رنعم کا دل چاہا وہ اس سے پوچھے اگر سارے ہی مرد گھٹیا اور گندی نظروں کے مالک ہوتے ہیں تو کاشان احمد تم میرے باپ اور اپنے بھائی کو ترازو کے کس پلڑے میں رکھتے ہو۔۔۔۔ رنعم کا دل چاہا وہ اسے بتائے کہ وہ جس ماحول میں پلی بڑھی ہے اس نے اپنے اردگرد مردوں کی نظروں میں احترام دیکھا ہے اس کا باپ بھائی کزن خالو سبھی اس کو، اس کی ماں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے مرد ہیں یہاں تک کہ اس کے نوکر بھی۔۔۔ وہ چاہ کر بھی اپنے شوہر کو یہ نہیں بول سکی کہ جیل کی چھاپ نے تمہارے دماغ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔۔۔ رنعم کو لگا کاشان آج اسے زخم دے کر شرمندہ ہے اور کہیں اندر سے کاشان کو یہ ڈر بھی ہے کہ اس کی بیوی اسے، اس کے باپ جیسا ظالم نہ سمجھ لے جس سے وہ نفرت کرتا ہے مگر وہ یہ سب کچھ سوچ سکتی تھی بولنے کی غلطی دوبارہ نہیں کرسکتی تھی کیوکہ اسے اپنے بازو پر ابھی بھی جلن ہو رہی تھی اور وہ کچھ بھی کاشان کے سامنے بول کر دوبارہ کوئی رسک نہیں لے سکتی تھی


"آو کھانا میں ٹیبل پر لگا چکا ہوں کھانا کھاتے ہیں اپنے سے الگ کر کے کاشان اس کو بولتا ہوا اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل پر لے گیا رنعم کو کھانا بھی اس نے اپنے ہاتھ سے کھلایا اس کے بعد اس کے لئے فریزر سے آئسکریم نکالی جو اس وقت رنعم کا کھانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا مگر وہ انکار کرے بغیر چپ کر کے کاشان کے ہاتھوں سے کھاتی گٙئی


جب رنعم کھانے کے بعد ٹیبل سے جھوٹے برتن اٹھانے لگی تب بھی کاشان نے اس کو منع کردیا اور بیڈ روم میں جا کر لیٹنے کو کہا وہ خود ہی برتنوں واش کر کے رنعم کے پاس آیا۔۔۔ رنعم کے برابر میں لیٹ کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھا


"آفس جانے سے پہلے میڈ کا ارینج کر کے جاؤ گا تھوڑی دیر پہلے واچ مین سے بات کی تھی میں نے وہ صبح ہی میڈ کو بھیج دے گا۔۔۔ مجھ سے کھبی نفرت مت کرنا رنعم،، میں برداشت نہیں کر پاو گا۔۔۔ ثوبی اور تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے مجھے پیار کرنے والا امی مجھے بہت پیار کرتی تھیں وہ بھی دور چلی گئی"

کاشان رنعم کا بازو نرمی سے سہلاتا ہوا اس سے بات کرتے کرتے کہیں کھو گیا لیمپ کی مدھم روشنی میں رنعم سر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھنے لگی


آج کاشان نے پہلی بار فائزہ کا ذکر اس سے کیا تھا۔۔۔۔ اور آج پہلی بار ہی رنعم کو فائزہ سے ہمدردی کے ساتھ اس پر دکھ بھی ہو رہا تھا نہ جانے وہ کیسے اتنی مار برداشت کرتی ہوگی۔۔۔۔


رنعم چاہتی تھی اس کا شوہر اپنے دل میں دبا غم غصہ غبار سب نکال کر ہلکا پھلکا ہو جائے۔۔۔ رنعم کو وہ دن آج بھی یاد تھا جب فائزہ کی پہلی برسی تھی اور 14 سالہ ثوبان اپنے کمرے میں فائزہ کو یاد کر کے رو رہا تھا اس وقت یسریٰ نے اس کو گلے سے لگایا تھا اور یقین دلایا تھا کہ وہ اسے ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی۔۔۔۔ رنعم نے اکثر ثوبان کو یسریٰ سے فائزہ کا ذکر کرتے سنا ثوبان کو جب بھی ماں کی یاد آتی تو وہ یسریٰ سے اس کا ذکر کرتا۔۔۔ رنعم نے چاہا اسی طرح کاشان بھی اس سے فائزہ کا ذکر کرے اپنے دل پر رکھا ہوا بوجھ اس سے شیئر کرے


"آپ کو بہت پیار تھا نا کاشان اپنی امی سے"

کاشان رنعم کی بات پر چونک کر اسے دیکھنے لگا


"اپنی ماں سے کون بچہ پیار نہیں کرتا۔۔۔ جب میں کبھی کبھی کسی بات پر غصہ ہوتا ہو یا بہت زیادہ ہرٹ ہوتا ہوں آج بھی امی میں میرے خواب میں آتی ہیں مجھے پیار کرتی ہیں۔۔۔۔ میرا سر اپنی گود میں رکھ کر مجھ سے باتیں کرتی ہیں"

کاشان رنعم کی ناک پر موجود ڈائمنڈ کی چمکتی ہوئی لونگ کو دیکھتا ہوا اسے بتانے لگا


"پتہ ہے میری امی کے پاس زیور کے نام پر ایک لونگ ہی موجود تھی جو ان کی ناک میں ہمیشہ موجود رہتی۔۔۔ آدھا زیور تو میرے باپ نے بیچ دیا تھا تاکہ وہ اپنے جوّے میں ہاری ہوئی رقم لوٹا سکے اور آدھا زیور خود امی نے میری اور ثوبی کی پڑھائی کے لیے بیچ دیا تھا"

کاشان رنعم کی ناک میں موجود ننھی سی لونگ کو چھوتے ہوئے اسے بتانے لگا رنعم بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی


"تمہیں معلوم ہے رنعم میری امی نے شادی کے بعد بہت تکلیف میں زندگی گزاری۔۔۔۔ میرے باپ نے انہیں کبھی بھی خوشی نہیں دی اور میری ماں نے اس انسان سے صرف ہم دونوں بھائیوں کی وجہ سے سمجھوتا کیا اور دیکھو ظالم نے کیا کیا ہمیشہ کے لئے چھین لیا ہم سے ہماری ماں کو"

کاشان کی باتیں سن کر رنعم کو اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگی۔۔۔۔ رنعم نے اپنا سر کاشان کے سینے سے ہٹا کر تکیے پر رکھا تو کاشان اس کے سینے پر اپنا سر رکھ کے لیٹ گیا رنعم اس کے بالوں میں آپنی انگلیاں پھیرنے لگی


"مجھے معلوم ہے میں کبھی کبھی تم سے بہت زیادہ مس بی ہیو کر جاتا ہوں۔۔۔ تمہارا دل دکھا دیتا ہوں اپنے رویے سے۔۔۔ تمہیں میری باتیں بہت ہرٹ بھی کرتی ہوگی مگر یہ سب کچھ میں جان بوجھ کر نہیں کرتا۔۔۔ غصے میں کر جاتا ہو ایسا بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے مجھے۔۔۔۔ رنعم میں تم سے پیار کرتا ہو،، ہمیشہ تمہیں اپنے پاس ریکھنا چاہتا ہوں تم مجھے معاف کردیا کرو پلیز"

کاشان اس کے سینے پر اپنا سر رکھے ہوئے آنکھیں بند کرکے بولے جارہا تھا اور رنعم اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی


"کاشان پلیز دوبارہ میرے ساتھ اس طرح مت کریے گا۔۔۔ مجھے آج بہت تکلیف ہوئی تھی"

رنعم کے بولنے پر اس نے سر اٹھا کر رنعم کو دیکھا


"سوری"

شرمندہ ہوکر وہ رنعم کا چہرہ اور بازوں چومنے لگا کاشان نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی غصہ نہیں کرے گا کل اس کو اس کے مما بابا اسے بھی ملوانے لے کر جائے گا اپنے پیار کی یقین دہانی کروا کر اسے بانہوں میں لیتا ہوا نیند کی وادیوں میں اتر گیا


مگر رنعم کو معلوم تھا وہ اس وقت شرمندہ ہے اپنی غلطی پر پچھتا رہا ہے۔۔۔۔ اتنے سالوں کا اپنے اندر غصہ بھرے ہوئے وہ اتنی جلدی نارمل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ رنعم کو لگا جیسے اس کے لیے امتحان کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے وہ سوتے ہوئے کاشان کو دیکھنے لگی۔۔۔

"میں اپنے پیار سے آپکے اندر موجود محرمیوں سے پنپتے ہوئے اس غصے کو باہر نکال دوں گی کاشان۔۔۔۔ مگر پلیز آپ مجھ پر اعتبار کرنا مت چھوڑیے گا"

رنعم کاشان کا چہرہ دیکھ کر سوچنے لگے اور ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بند کردی

"کل ڈنر پر جانے سے انکار کیوں کر دیا تم نے"

ثوبان موقع پاتے ہی سیرت کے بیڈروم میں داخل ہوا ورنہ وہ کل سے اس کو مکمل نظرانداز کر رہی تھی بلکہ ثوبان اس سے اکیلے بات کر سکے، ایسا موقع ہی نہیں رہی تھی


"بتایا تو تھا موڈ نہیں تھا باہر جانے کا۔۔۔۔۔ پیچھے ہٹو باہر جانا ہے مجھے" سیرت نے سیریز ہو کر ثوبان سے کہا جو اچانک ہی کسی جن کی طرح اس کے کمرے میں نمودار ہو گیا تھا اور اس کا راستہ روکے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا


"باہر بعد میں جانا پہلے میری بات کا جواب دو، کل رات کو اپنا روم کیو لاک کیا تھا تم نے اور موبائل پر کال کیو نہیں رسیو کر رہی تھی میری"

وہ اب بھی نرم نظروں کے حصار میں لیے سیرت سے نرمی سے پوچھ رہا تھا


"میں نے اپنا روم کا دروازہ اس لیے لاک کیا ہوا تھا تاکہ تم اندر نہیں آ سکوں اور کال میں تمہاری اس لیے نہیں ریسیو کر رہی تھی تا کہ میں تمہاری آواز نہیں سن سکوں اور میں ایسا کیوں کر رہی تھی اس کی وجہ تم بخوبی جانتے ہو، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہٹو میرے راستے سے"

سیرت کے لہجے میں سنجیدگی ہنوز برقرار اب کی بار بولنے کے ساتھ سیرت میں ثوبان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا جو دروازے کے پاس اس کا راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا مگر ثوبان نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں پر رکھے


"کیا بہت زیادہ ناراض ہو"

اب ثوبان اسے بانہوں میں لئے پوچھ رہا تھا


"اپنا غصہ دیکھا تھا تم نے پہلی دفعہ کتنا برا سلوک کیا تم نے میرے ساتھ،، میرے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ بھی نہیں کیا کتنے پیار سے تمہارے لیے بنایا تھا کتنا دکھ ہوا مجھے اس کا اندازہ ہے تمہیں"

سیرت اس کی بانہوں میں اسی کو شرمندہ کر رہی تھی مگر وہ اب زیادہ دیر تک اس سے ناراضگی برقرار نہیں رکھ سکتی تھی بالکل اسی طرح جسطرح ثوبان اسے زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتا تھا


"اندازہ ہے مجھے جبھی تو کل سے منانا چاہ رہا تھا اور تمہارے ہاتھوں سے بنا ہوا ناشتہ نہ کرنے کا پچھتاوہ تو مجھے سارے دن ہوتا رہا کتنی بار کوشش کی بات کرنے کی مگر تم ہاتھ ہی نہیں آرہی تھی کل۔۔۔ اچھا اب معاف کر دو نا"

وہ اس کو بانہوں میں لیے لاڈ اٹھانے والے انداز میں کہنے لگا


"ہاتھ پکڑ کر تم نے مجھے اپنے روم سے نکالا تھا"

دوسری طرف سیرت اپنے لاڈ اٹھوانے کے لیے تیار بیٹھی تھی


"چلو پھر آج بانہوں میں اٹھا کر تمہیں اپنے روم میں لے جاتا ہوں"

ثوبان نے بولنے کے ساتھ ہی عملی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس پر سیرت نے اس کے پاؤں پر زور سے اپنا پاؤں مارا۔۔۔ ثوبان گھور کر اسے دیکھنے لگا


"زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں ہے اب میں اتنی آسانی سے تو ہرگز نہیں جاؤں گی"

سیرت نے اسے اترانے سے منع کیا، خود اتراتے ہوئے بولی


"ٹھیک ہے پھر میں آج تمہیں لے کر نہیں جاؤں گا،، دھڑلے سے ہمارے ولیمے والے دن سب کے سامنے لے کر جاؤ گا اپنے بیڈ روم میں اور جب لے کر جاو گا تب تمہارے کوئی بھی داؤں بیچ کام نہیں آئیں گے"

ثوبان چیلنج کرتا ہوں اسے دیکھ کر کہنے لگا جس پر سیرت نے اس کو ابرو اچکا کر دیکھا


"اور ابھی کیا ارادے ہیں آپ کے،، راستہ چھوڑنا پسند کریں گے آپ میرا یا یونہی دیوار بن کر کھڑے رہنے کا ارادہ ہے"

سیرت معصومیت سے اس سے پوچھنے لگی اور ثوبان تو جیسے اس کی اسی معصومیت پر ہر دفعہ مر مٹتا تھا


"اپنے ارادوں کا تو میں تمہیں تب بتاؤں گا جب تم میرے بیڈروم میں آؤں گی فی الحال یہ جان لو کہ میرے ارادے ذرا سے بھی نیک نہیں ہیں"

ثوبان اسے خود سے قریب کر کے معنی خیزی سے بولا


"ثوبی میں نوٹ کر رہی ہو تم دن بہ دن کافی بدتمیز ہوتے جا رہے ہو"

ثوبان کی بات پر سیرت نے اپنی مسکراہٹ چھپا کر اسے ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا


"جبکے صحیح والی بدتمیزی تو میں نے ابھی تک شروع بھی نہیں کی"

بولنے کے ساتھ ہی وہ جھک کر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا


"بےشرم پیچھے ہٹو دروازہ کھلا ہے اس دن کی طرح کہیں مما نہ آجائے۔۔۔۔ اپنے نیک بیٹے کو اس روپ میں دیکھ کر وہ بلاوجہ ہی شرمندہ ہی ہو جائیں گی"

سیرت ثوبان کو بولتے ہوئے پیچھے ہٹانے لگی اور خود باہر جانے لگی


"فل الحال مما یہاں پر نہیں آرہی ہیں بلکہ ہم دونوں باہر جارہے ہیں۔۔۔۔ جلدی سے ریڈی ہو جاؤ فنکشن کے حساب سے ڈریس لینا ہے تمہارے لیے،، مما بابا کو میں بتا چکا ہوں"

وہ سیرت کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا


****


سیرت کے کافی منع کرنے کے باوجود ثوبان نے اس کے لئے کافی ہیوی میکسی لی۔۔۔۔۔ اس کا کہنا تھا کوئی مزاق بات نہیں ہے ہمارے ولیمے کا فنگشن ہے۔۔۔ اس کے جیولری شاپ سے رنعم اور سیرت دونوں کے لئے ایک جیسے بریسلیٹ لے کر وہ دونوں کار میں بیٹھے ثوبان ابھی کار ڈرائیو کر رہا تھا سیرت اچانک چیخی


"ثوبی کار روکو جلدی سے"

سیرت کے چیخنے پر ثوبان نے فوراً کار کو بریک لگایا


"کیا ہو گیا سب خیریت ہے"

ثوبان نے اپنی گاڑی کے پاس آس پاس نظر دوڑائی پھر دماغ میں اپنا ریوالور جو کہ اس نے سیٹ کے نیچے رکھا ہوا تھا اس کو نکالنے کا سوچتے ہوئے بولا


"ہاں وہ پانی پوری والا پیچھے رہ گیا مجھے وہ کھانی ہے" سیرت نے معصومیت سے بولا جس پر ثوبان نے اسے غصے میں گھورا


"سیرت دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تمہارا،، پریشان کر کے رکھ دیا تم نے مجھے۔۔۔ خاموش کر کے بیٹھو اب"

ثوبان اس کو ڈانٹتا ہوا دوبارہ کار اسٹارٹ کرنے لگا


"اپنی بیوی کی تم ایک ننھی سی خواہش پوری نہیں کرسکتے،، بدتمیز قسم کے شوہر ہو تم اب دیکھنا تمہارے ارادے کیسے کامیاب ہونے دیتی ہو میں۔۔۔ سارے ارمانوں پر بالٹی بھر بھر کے پانی نہ ڈالو تو نام بدل دینا میرا"

سیرت نے ثوبان کو دھمکاتے ہوئے کہا


"سیرت میں تمہیں اچھے سے ہوٹل میں ڈنر کرانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور تم ٹھلیے کی پانی پوری کے لئے مجھ سے ناراض ہو رہی ہو" ثوبان نے اس کی ناراض صورت دیکھتے ہوئے افسوس سے کہا


"میرا دل نہیں چاہ رہا ہے بڑے بڑے ہوٹلز کے پھیکے پھیکے کھانے کھانے کا اور اگر تمہیں مجھ سے ذرا سی بھی محبت ہے تو فوراً گاڑی پیچھے لو"

ثوبان نے تاسف سے سیرت کو دیکھا اور گاڑی واپس پیچھے موڑی


"اب مجھے اندازہ ہو رہا ہے کاشی بالکل ٹھیک کہتا ہے تمہاری لگامیں مجھے نکاح کے دن ہی کھینچنی چاہیے تھی"

ثوبان کو افسوس ہوا اس کی بیوی اس کی محبت کا اندازہ اس کے پانی پوری کھلانے سے لگا رہی تھی


"اچھا تو وہ بدتمیز انسان تمہارے کان بھرتا ہے میرے خلاف،، ابھی رنعم سے اس کی لگامیں کھینچواتی ہو۔۔۔ کل ہی رنعم کو فون کرکے بتاؤں گی کہ اپنے شوہر کا جینا حرام تم نے کیسے کرنا ہے"

سیرت کی بات پر ثوبان ہنسنے لگا


"میری بہن بہت سیدھی ہے وہ تمہاری باتوں میں نہیں آئے گی۔۔۔ مگر تمھاری باتیں سن کر تو اب مجھے خود پر ترس آ رہا ہے تھوڑا تھوڑا"

ثوبان اپنی مسکراہٹ چھپا کر سیرت کو دیکھتے ہوئے بولا


"ارے بے فکر رہو ڈرو نہیں مجھ سے تمہارا جینا حرام تھوڑی کروں گی میں۔۔۔ تم تو میرے بہت پیارے سے شوہر ہو"

ثوبان نے پانی پوری والے کے پاس اپنی کار روکی تو سیرت نے آنکھوں میں شرارت لیے اسے بولا ثوبان نے مسکراتے ہوئے سر نفی میں ہلایا


"بھائی ذرا جلدی سے دو پلیٹ پانی پوری کی بنا دو" کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے ثوبان نے پانی پوری والے سے کہا کافی عرصے بعد وہ یوں آج اپنی بیوی کی بددولت پانی پوری کھائے گا ثوبان سوچنے لگا


"دو پلیٹ کیوں کہا تم نے اس سے۔۔۔ کیا تم نہیں کھاؤ گے" سیرت نے معصومیت سے ثوبان کو دیکھ کر پوچھا تو ثوبان نے اسے ناسمجھی سے دیکھا


"تمہارا مطلب ہے تم دو پلیٹ پانی پوری کھاو گی"

ثوبان نے آنکھیں نکال کر سیرت سے پوچھا


"ثوبی یہ آنکھیں نکالنا بند کرو اور جلدی سے تیسری پلیٹ کا بھی بولو۔۔۔ میں چاہے تم سے کتنی ہی محبت کرو مگر پانی پوری بالکل نہیں شیئر کرنے والی"

سیرت نے گردن اکھڑا کر کہا۔۔۔ ثوبان افسوس سے اپنی خود غرض بیوی کو دیکھنے لگا اور اپنے لیے پانی پوری کا بولا


"او بھائی ذرا ایک پلیٹ چنے چاٹ بناؤ مرچے ڈالتے ہوئے تکلف مت کرنا"

دو پلیٹ پانی پوری کھانے کے بعد سیرت نے ہانک لگاتے ہوئے کہا جس پر ثوبان غش کھا کر رہ گیا


"سیرت خدارا چٹورپن سے باز آجاؤ ابھی کھانا بھی کھاؤ گی تو کہیں تمہاری طبیعت ہی نہ خراب ہو جائے"

ثوبان نے اس کا خیال کرتے ہوئے اسے مشورہ دیا


"ایس۔پی صاحب میں نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا اور اب میرا کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تم مما بابا کے ساتھ کھانا کھا لینا"

وہ چاٹ کی پلیٹ سے انصاف کرتے ہوئے بولی ثوبان نے ایک دفعہ پھر نفی میں اپنی گردن ہلائی


جب بل دینے کی باری آئی اور ثوبان نے اپنا والٹ نکالا سیرت ایک بار پھر بولی


"او بھائی کس سے پیسے مانگ رہے ہو پولیس والے کبھی پیسے دے کر کھاتے ہیں کچھ۔ ۔۔۔ ثوبی اپنا والٹ اندر رکھو اپنا کارڈ دیکھاو اسے"

سیرت نے اماں بن کر مشورہ دیا جس پر ثوبان شرمندہ ہوا


"سیرت اپنا منہ بند رکھو اب،، کسی بھی سامنے کچھ بھی بولتی ہو تم"

ثوبان نے اسکی اسے گھورتے ہوئے ٹوکا اور کار اسٹارٹ کردی


"میں تو تمہارے بھلے کی بات کر رہی تھی اور میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ تم کبھی ترقی نہیں کر پاؤ گے"

سیرت نے کندھے اچکا کر کہا ثوبان نے کار میں موجود ایف ایم ان کر دیا۔۔۔۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے یقین تھا کہ سیرت اب سارے راستے اسے اس کی جاب سے متعلق آوٹ پٹانگ مشورے دیتی رہے گی


****


"کاشان آپ کو معلوم ہے بھئیا اور آپی کا پہلے سے نکاح ہوا تھا"

وہ دونوں تھوڑی دیر پہلے ہی یسریٰ اور بہروز کے پاس سے ہو کر اپنے گھر آئے تھے۔۔۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ ثوبان اور سیرت باہر نکلے ہوئے ہیں۔۔۔کاشان بہروز کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا جبکے رنعم اٹھ کر یسریٰ کے پاس کچن میں آگئی۔۔۔ یسریٰ کو اندازہ تھا کہ کاشان کو شاہدہ کے ہاتھ کا کھانا نہیں پسند۔۔۔ وہ اس لیے کاشان کے لیے کڑھائی بنا رہی تھی یسریٰ نے ہی رنعم کو نکاح والی بات بتائی۔۔۔ بغیر تین دن پہلے والی بدمزگی والے واقعے کےے


"ہاں میری جان ان دونوں کے نکاح میں ایک گواہ تمہارا شوہر بھی تھا"

کاشان ابھی چینج کرکے بیڈ پر لیٹا تھا۔۔۔ رنعم کا ہاتھ کھینچ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے اس کی معلومات میں اضافہ کرنے لگا


"مطلب آپ کو معلوم تھا آپی اور بھیا پہلے سے ہنسبینڈ اور وائف ہیں۔۔۔ آپ نے مجھے بھی نہیں بتایا"

رنعم نے شکوہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا


"یار ایمرجنسی میں ہوا تھا ان کا نکاح،، اس وقت سچویشن ایسی تھی ثوبی نے کہا وہ خود بعد میں بتائے گا اب تم اپنے بھیا سے ناراض ہونا اس بات کو لے کر"

کاشان نے اس کے بالوں سے کلپ نکال کر سائڈ پر رکھا۔۔۔ اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے بولا


"میں کیوں ناراض ہونے لگی اپنے بھیا سے،، مجھے تو حیرت کے ساتھ ساتھ بہت خوشی ہورہی ہے یہ سن کر۔۔۔ کتنے پیارے لگے گے بھیا اور آپی ہسبنڈ اور وائف کے روپ میں"

رنعم نے خوش ہوتے ہوئے کاشان سے کہا تو وہ مسکرایا


"انکل بتا رہے تھے کہ اس سیٹرڈے کو فنکشن رکھا ہے۔۔۔ اب اپنے بھیا اور آپی کو چھوڑو اپنے ہسبنڈ پر غور کرو"

بولنے کے ساتھ ہی وہ رنعم کے گلے میں موجود گولڈ کی چین اتارنے لگا اسے معلوم تھا یہ اسے ڈسٹرب کرے گی


"میں سوچ رہی ہوں کاشان،، بھیا اور آپی کے لئے گفٹ لیا جائے"

کاشان اس کی گردن پر جھکنے لگا تبھی رنعم اکسائٹڈ ہوکر بولی


"میرے دماغ میں آیا تھا کل تیار رہنا آفس سے آنے کے بعد چلتے ہیں دونوں کے لئے گفٹ لینے" کاشان بولتا ہوا دوبارہ اس کی گردن پر جھک چکا تھا


"میں بھی فنکشن کے حساب سے نیو ڈریس لوگی اپنی شادی کا کوئی بھی ڈریس نہیں پہنوگی"

رنعم کے بولنے پر کاشان نے سر اٹھایا اور سنجیدگی سے اسے دیکھا


"تمہیں ضروری ہے اس وقت یہ والی باتیں کرنا"

وہ سنجیدہ ہوکر رنعم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا


"آپ بتائیں پھر یہ والی باتیں میں کب کرو"

رنعم نظریں جھکا کر اس کے سینے پر اپنی ہاتھ کی انگلی سے R بناتے ہوئے پوچھنے لگی


"کل میں آفس سے ایک گھنٹے پہلے چھٹی لے کر آؤں گا تب تم یہ والی باتیں کر لینا مگر اس وقت مجھے میری ڈول چاہیے اس لیے اب کوئی فضول بات نہیں"

کاشان نے اس کا جواب سننے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے


****


"ارے کاشی کیسا ہے تو"

کاشان رنعم کو لے کر سیرت اور ثوبان کے لیے گفٹ لے کر جیولری شاپ سے نکل رہا تھا تبھی اسے اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی کاشان نے مڑ کر دیکھا تو شیرا اس کے سامنے کھڑا تھا کاشان کو مخاطب کرنے کے بعد اب وہ رنعم کو غور سے دیکھ رہا تھا


"جاو کار میں جا کر بیٹھو"

شیرا کے رنعم کو دیکھنے پر کاشان کے ماتھے پر ناگوار بل پڑے اس نے رنعم کو مخاطب کیا رنعم تیزی سے چلتی ہوئی کار میں بیٹھ گئی


"بولو کیو روکا ہے مجھے"

رنعم کے جانے کے بعد کاشان نے شیرا سے پوچھا


"تیرا حال چال پوچھنے کے لئے روکا ہے، دوست ہے تو میرا۔۔ جیل سے رہاح ہوکر گیا مل کر بھی نہیں گیا۔۔۔ اور سنا لگتا ہے شادی وادی کرلی"

شیرا اس وقت بڑے دوستانہ لہجے میں کاشان سے بات کر رہا تھا جبکہ جیل میں اسکی اور کاشان کی دو سے تین بار ہاتھا پائی ہو چکی تھی


"ایک منٹ اپنا جملہ درست کرلو ہم دونوں کبھی دوست نہیں رہے اور نہ کبھی دوست ہو سکتے ہیں اس لئے میں رہاح ہوکر گیا تو کیوں نہیں مل کر گیا اور اب کیا کر رہا ہوں،،، شادی کی ہے یا نہیں ہے ان سب باتوں سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے اور اگر آئندہ کبھی ہمارا سامنا ہو تو مجھے مخاطب کرنے کی ضرورت نہیں"

کاشان اس کو جواب دے کر وہاں سے چلا گیا


جیل میں کاشان کو اس سے چڑ تھی وہ ایک لڑکی کے ریپ کے کیس میں جیل کے اندر آیا تھا۔۔۔ عورتوں کے متعلق گھٹیا قسم کی باتیں کرنا چرس کا نشہ کرنا خراب طبیعت کا مالک تھا وہ،، دو دفعہ کاشان سے وہ خود ہی الجھا اور اس بات پر کاشان نے اس کو بری طرح مارا تھا اتنا کہ اس کے منہ سے خون نکال دیا


کاشان کے منہ سے ٹکا سا جواب سن کر شیرا اس کو ہنس کر دیکھتا رہا۔۔۔ کاشان جب تھوڑی دور کھڑی اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھا تو شیرا رنعم اور گاڑی کو غور سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ دو مہینے پہلے ہی وہ جیل سے باہر نکلا تھا۔۔۔ اور خوش قسمتی سے ایک پولیٹیشن کا گارڈ بھی لگ گیا تھا


****


"دوپٹہ ٹھیک سے لو رنعم"

کاشان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا اور فوراً کار اسٹارٹ کردی۔۔۔ رنعم نے اپنے دوپٹے کو دیکھا تو اس کے بازو ڈھکے ہوئے تھے مگر کاشان کے موڈ کو دیکھ کر جو اس آدمی سے مل کر اچانک خراب ہوگیا تھا۔۔۔ وہ ایک دفعہ پھر اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی


"کاشان آپ سے ایک بات پوچھو اگر آپ مائینڈ نہیں کرے تو"

چند منٹ بعد رنعم نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کاشان کو دیکھ کے کہا


"ہہم بولو"

کاشان رنعم کو دیکھے بغیر ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا


"میں سوچ رہی تھی کے عبایا لے لو"

رنعم کی بات پر کاشان نے ایک نظر رنعم کو دیکھا


"میرے کہنے کا مطلب ہے اچھا لگتا ہے۔۔۔ یونیورسٹی میں نے کافی لڑکیوں کو دیکھا ہے۔ ۔۔ فیشن میں بھی ہے،، سوٹ کرے گا نہ مجھ پر"

رنعم نے جلدی سے بات بنائی اور ساتھ ہی اس کی رائے بھی جاننی چاہیی


"ضرورت نہیں ہے اس کی،، دوپٹے سے اپنے آپ کو اچھی طرح کور کر لیا کرو بس اتنا ہی کافی ہے"

ڈرائیو کرتے ہوئے کاشان نے ایک ہاتھ سے اس کے گلے کی طرف سے دوپٹہ اوپر کرتے ہوئے کہا تو رنعم خاموش ہوگئی۔۔۔ کاشان نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک نظر رنعم پر ڈالی تو وہ سر جھکائے اپنے ناخنوں کو دیکھ رہی تھی


"اچھا بتاؤ ریسٹورینٹ میں ڈنر کرنا ہے یا پیک کرا لو"

کاشان نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا


"نہیں آپ کار گھر کی طرف لے لیں کل ہی ایک نئی ریسپی نوٹ کی تھی آج ٹرائے کرتی ہوں"

رنعم نے کاشان کو دیکھ کر کہا تو کاشان نے اس کو دیکھ کر اسمائل دی اور کار کا رخ اپنے فلیٹ کی طرف کیا


تھوڑی ہی دیر گزری تھی انہیں گھر آئے ہوئے ایک دفعہ پھر بیل بجی۔۔۔ کاشان لیپ ٹاپ سائڈ میں رکھتا ہوا ایک نظر کچن میں رنعم پر ڈال کر دروازہ کھولنے لگا

"آکر اپنے بھیا سے مل لو"

رنعم کچن میں کھانا بنانے کے غرض سے موجود تھی تب اس نے کاشان کی آواز پر مڑ کر دیکھا


"بھیا آئے ہیں"

ثوبان کا ذکر سن کر رنعم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تو کاشان اسمائل دے کر واپس ڈرائنگ روم میں چلا گیا


"بھیا کیسے ہیں آپ۔۔۔ کتنی بڑی بات آپ نے مجھ سے چھپائی ہے اب بتائے ہو جاؤ آپ سے ناراض سچی والا"

رنعم نے ڈرائنگ روم میں آنے کے ساتھ ہی بولنا شروع کیا تو ثوبان اور کاشان دونوں ہی مسکرائے


"نہ سچی والا ناراض ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جھوٹ والا۔۔۔ تمہاری ناراضگی میں بالکل افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔ ہاں اتنی اہم بات اپنی بہن سے چھپائی اس کے لئے کان پکڑ کر سوری کر سکتا ہوں"

ثوبان نے بولنے کے ساتھ ہی اپنے کان پکڑے رنعم نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ کانوں سے ہٹائے


"میں بہت خوش ہوں آپ کے اور آپی کے لئے"

رنعم نے مسکرا کر کہا۔۔۔ ثوبان نے اس کا سر سینے سے لگا کر تھپتھپایا


"مجھے معلوم ہے جتنی میری بہن خود خوبصورت ہے اتنا ہی اس کا دل بھی خوبصورت ہے" ثوبان صوفے پر بیٹھا اور رنعم کو اپنے ساتھ ہی بیٹھایا


"کل کہاں گئے ہوئے تھے اپنی بیگم کو لے کر"

کاشان ان کے سامنے صوفے پر بیٹھا اور گفتگو میں حصہ لیا


"یار وہی جو خواتین کا اہم مسئلہ اور شوہر کا اہم فریضہ۔۔۔۔ شاپنگ"

ثوبان کے بولنے پر کاشان اور رنعم دونوں مسکرا دیئے ثوبان اپنی پاکٹ سے ایک بریسلیٹ نکال کر رنعم کے ہاتھ میں پہنانے لگا


"یہ کس خوشی میں ہے بھیا"

رنعم نے خوبصورت سے گولڈ کے بریسلیٹ کو اپنی سی نازک کلائی میں دیکھ کر ثوبان سے پوچھا


"اچھا لگا تھا مجھے، تو سیرت اور تمہارے لئے لے لیا"

ثوبان نے رنعم کو بریسلیٹ پہناتے ہوئے جواب دیا


"یہ واقعی بہت خوبصورت ہے دیکھیے کاشان"

ثوبان کے بریسلٹ پہنانے کے بعد رنعم نے ستائشی نظروں سے دیکھ کر کہا ساتھ ہی وہ کاشان کے پاس اٹھ کر گئی تاکہ اسے بھی بریسلیٹ دکھا سکے۔۔۔۔ رنعم نے اپنی کلائی آگے بڑھائی مگر کاشان کے دیکھنے سے پہلے ہی بریسلیٹ اس کے ہاتھ سے نیچے فرش پر گر گیا۔۔۔ جسے کاشان نے اٹھایا


"بریسلیٹ تو واقعی خوبصورت ہے لیکن اس کے نگ میں دراڈ پڑگئی"

کاشان نے بریسلیٹ کو دیکھتے ہوئے کہا


"کہاں پر دکھائیں"

رنعم کے بولنے پر کاشان نے اس کے ہاتھ میں بریسلیٹ دیا


"اووو یہ میرے ہاتھ سے گر گیا شاید اس وجہ سے"

رنعم کو افسوس ہونے لگا


"کوئی بات نہیں میں اسی ڈیزائن کا دوسرا لے لوں گا"

ثوبان نے رنعم کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا اور اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا


"ارے نہیں یہ ریپیر ہو جائے گا،، رنعم تم یہ بریسلیٹ مجھے صبح دے دینا آفس جاتے ہوئے"

کاشان نے رنعم کو دیکھ کر کہا تو اس نے اسمائل دے کر اثبات میں سر ہلایا اور ثوبان کے پاس جاکر بیٹھ گئی


"اور یہ ایک ڈریس بھی مجھے تمہارے لیے پسند آیا تھا"

ثوبان نے ٹیبل پر رکھا شاپر رنعم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا


"تم تو یار ٹپیکل بھائی بن گئے ہو جو بہن کے گھر خالی ہاتھ نہیں آتے۔۔۔ اب میں اپنے بھائی کو مس کر رہا ہو"

کاشان نے ثوبان کو دیکھ کر چھیڑتے ہوئے بولا


"زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میری زندگی میں تمہاری کیا اہمیت ہے یہ تم اچھی طرح جانتے ہو"

ثوبان کی بات پر کاشان ہنسا رنعم نے مسکرا کر شاپر میں موجود ڈریس نکال کر دیکھا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ ایک دم تھم گئی۔۔۔ ڈریس بہت خوبصورت تھا مگر اس کی آستینے غائب تھی بے ساختہ اس کی نظریں کاشان کے چہرے پر گئی جو آنکھیں سکھیڑے ڈریس کو ہی دیکھ رہا تھا


"کیا ہوا پسند نہیں آیا تمہیں"

ثوبان نے رنعم کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا


"نہیں بھیا یہ تو بہت اچھا ہے بلکہ میں تو آج ہی شاپنگ کر کے آ رہی ہوں کاشان کے ساتھ۔۔۔ اپنے لیے ایسا ہی میں نے ایک ڈریس لیا ہے"

رنعم نے مسکرا کر بات بناتے ہوئے ثوبان کو بتایا


"تو کیا ہوا وہ پھر کبھی پہن لینا،، یہ ثوبی تمہارے لئے اتنے پیار سے لے کر آیا ہے اسکے ریسیپشن پر تم یہی پہننا"

ثوبان کے کچھ بولنے سے پہلے کاشان رنعم کو دیکھ کر بول پڑا رنعم کاشان کو دیکھنے لگی


"ارے یار کچھ بھی پہن لینا اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔ سیرت اور مما کے لیے پسند آیا تو رنعم کے لیے بھی پسند آگیا مجھے۔۔۔۔ تم دونوں یہ بتاؤ روکنے کیوں نہیں آرہے ہو گھر پر اور رنعم خاص کر تمہیں بابا کتنا مس کر رہے ہیں"

ثوبان نے بات ختم کر کے نیا موضوع چھیڑ دیا اور رنعم اسی سے بچنا چاہ رہی تھی


"یار میرا تو مشکل ہے پھر کبھی آ جاؤں گا ایسا کرو آج رنعم کو لے جاؤ اگر اس کا موڈ ہے تو کاشان کی بات پر رنعم کو رونا ہی آنے لگا اس نے افسوس بھری نگاہ کاشان پر ڈالی اور ثوبان کی طرف دیکھ کر بولنے لگی


"بھیا آج تو ممکن نہیں ہے انشاءاللہ پھر کبھی چکر لگاؤں گی"

رنعم نے معذرت خواہانہ لہجے میں ثوبان کو دیکھتے ہوئے بولا


"اور میں آج مائینڈ بنا کر آیا تھا کہ تم دونوں کو اپنے ساتھ لے کر جاؤنگا" ثوبان نے رنعم کو دیکھتے ہوئے کہا اور اپنے آنے کا اصل مقصد بتایا پر نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگی


"ارے یار یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔۔ رنعم اپنے بھیا کو ایسے ہی گھر بیچنے کا ارادہ ہے کھانا بناؤ جاکر آج ثوبی ہمارے ساتھ ڈنر کرے گا"

کاشان موضوع بدلا رنعم کچن میں چلی گئی


بے دلی سے اس نے فریزر سے چکن نکالا اور یخنیٰ چڑھانے لگی تب ہی کاشان کچن میں آیا


"کیا بنا رہی ہو،، میری ڈول کو کچھ میری ہیلپ چاہیے"

وہ رنعم کی پشت پر کھڑا ہو کر رنعم کے گرد ہاتھ باندھ کر پیار سے پوچھنے لگا


"یخنی پلاؤ جلدی بن جائے گا وہی بنا لیتی ہو ساتھ میں اسٹیکز اور کباب فرائی کر لیتی ہو۔۔۔۔ کاشان آپ بھیا کے سامنے ایسی باتیں کیوں کر رہے تھے جو میرے لئے امتحان کا باعث بنے"

رنعم نہ چاہتے ہوئے بھی کاشان سے شکوہ کر بیٹھی کیوکہ اس کا دل اچانک اداس ہو گیا تھا


"کیا کہہ دیا یار میں نے ایسا"

کاشان اس کا چہہرہ اپنے سامنے کیے حیرت سے پوچھنے لگا


"آپ بھیا کے سامنے کہہ رہے تھے کہ میں ان کا لایا ہوا ڈریس پہنوں جب کے آپ نے خود۔۔۔۔۔"

رنعم نے اپنی بات ادھوری چھوڑی اس کے ہاتھ پر سگریٹ کا نشان ابھی بھی موجود تھا اور وہ اس دن کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی


"تو میری جان اس میں پرابلم کیا ہے اس ڈریس میں سلیوز لگوالینا تم نے دوسرے کپڑوں میں بھی تو سلیوز لگوائی ہیں"

کاشان اس کی اداسی محسوس کر کے بانہوں میں لیتا ہوا بولا


"آپ نے میرے رکنے کا کیوں بولا بھیا کے سامنے"

رنم کاشان کے سینے پر سر رکھے اس کے دل پر اپنی انگلی سے R بناتی ہوئی بولی۔۔۔۔ کاشا نے اسے خود سے الگ کیا اور اس کا چہرہ تھاما


"تمہارا دل چاہ رہا ہے آنٹی انکل کے پاس جانے کا"

کاشان کے انداز میں نرمی دیکھ کر رنعم نے اثبات میں سر ہلایا


"تو پھر آج ثوبی کے ساتھ چلی جاؤں مگر کل میرے آفس کے ٹائم پر آنے سے پہلے واپس اپنے گھر آ جانا۔۔۔۔ جیسے تمہارا بھئیا تمہاری ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتا ایسے ہی تمہارا شوہر تم سے دوری نہیں افورڈ کر سکتا"

کاشان نے یونہی اس کا چہرہ تھام کر کہا تو رنعم مسکرا دی


"آئی لو یو"

رنعم کے اظہار پر کاشان نے مسکراتے ہوئے اپنے ہونٹ رنعم کے ماتھے پر رکھے


"میں تم سے تھوڑا سا زیادہ"

وہ رنعم کو بولتا ہوا واپس ڈرائینگ روم میں چلا گیا


رنعم مسکراتے ہوئے جلدی ڈنر کی تیاری کرنے لگی تھوڑی دیر پہلے چھائی ہوئی افسردگی اب غائب ہو چکی تھی کیوکہ آج وہ کتنے دنوں بعد اپنے مما بابا کے پاس رکھنے جا رہی تھی


****


ثوبان کے ساتھ رنعم گھر میں داخل ہوئی تو وہاں پر عاشر بھی موجود تھا وہاں پر عاشر موجودگی پر رنعم نے شکر ادا کیا کہ کاشان یہاں پر موجود نہیں۔۔۔ بہروز اور یسریٰ رنعم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے سیرت بھی اس سے بہت خوشدلی سے ملی


رات کے بارہ بجے تک ثوبان، عاشر، سیرت اور رنعم ہال میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اس کے بعد رنعم بہروز اور یسریٰ کے پاس آگئی


"اب ثوبان اور سیرت کے فنگشن والے دن واپسی پر کاشان اور تم یہی رکنا۔ ۔۔ میں نے کاشان سے بھی کہہ دیا ہے۔۔۔ آج سب موجود ہیں صرف تمہاری کمی محسوس ہو رہی تھی"

یسریٰ کے کہنے پر رنعم ایک دم چونکی


"آپ کی کب بات ہوئی کاشان سے"

رنعم یسریٰ سے پوچھنے لگی


"یہی کوئی دس سوا دس بجے جب تم چاروں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے،، میں نے سوچا میں اپنے داماد سے بات کرلو"

یسریٰ کی بات پر رنعم نے بے ساختہ گھڑی میں ٹائم دیکھا


"اوہ ایک بجنے والا ہے اب۔۔۔ آپ دونوں سو جائیں میں بھی سوتی ہو کافی دیر ہو گئی آج"

رنعم نے صوفے سے اٹھتے ہوئے شب بخیر کہا اور روم سے نکل گئی


"وہ اپنے کمرے میں آئی،،، ٹیبل پر رکھا اس نے اپنا موبائل اٹھایا جس پر کاشان کی 30 مسڈ کالز شو ہورہی تھی رنعم نے جلدی سے کاشان کو کال ملائی


"کہاں پر موجود تھی تم"

بیل کے جاتے ہی فون اٹھا لیا گیا مگر کاشان کی آواز اس کے غصے کا پتہ دے رہی تھی


"کاشان میں مما بابا کے پاس بیٹھی تھی اور اپنا موبائل بیڈروم میں ہی بھول گئی تھی۔۔۔ ابھی آپ کی اتنی ساری کالز دیکھی آپ ٹھیک ہے ناں"

رنعم نے ایک سانس میں وضاحت دینے کے ساتھ کاشان سے پوچھا


"باقی سب کہاں پر ہے"

وہ اب بھی غصے میں رنعم سے پوچھ رہا تھا


"سب اپنے اپنے رومز میں موجود ہیں کاشان،، کیا ہوگیا آپ کو"

اس طرح وضاحت دیتے ہوئے اسے اپنی ذات کتنی ہلکی لگ رہی تھی


"ابھی اور اسی وقت تیار ہو جاؤ میں لینے آ رہا ہوں تمہیں،،، کوئی فالتو بات اس وقت مجھ سے مت کرنا"

کاشان نے کہنے کے ساتھ ہی کال کاٹ دی


رنعم اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رو پڑی۔۔۔دروازے کی دستک پر رنعم نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے اور دروازہ کھولنے گئی


"سو تو نہیں گئی تھی۔۔۔ میں نے سوچا آج تم پہلی دفعہ رک۔۔۔۔ رنعم کیا ہوا تمہیں تم روئی ہو کیا"

سیرت دروازہ کھلتے ہی نان اسٹاپ بولنا شروع ہوگئی مگر رنعم کی سرخ آنکھیں دیکھ کر اپنی بات بھول گئی اور غور سے اس کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"نہیں آپی وہ تو سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے بس"

رنعم دو انگلیاں سے سر دبا کر بولی


"یہاں دیکھو میری طرف سر میں تو تمہارے بالکل درد نہیں ہو رہا ہے اتنا مجھے معلوم ہے چلو جلدی سے بتاؤ کیا ہوا ہے"

سیرت اس کے گال پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر بولی


"کچھ نہیں ہوا آپی سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ سونے کی کوشش کر رہی تھی،،، درد کی وجہ سے نیند نہیں آرہی"

رنعم بے بسی سے مسکراتے ہوئے بولی


"اچھا رکو میں پین کلر لاتی ہو وہ کھا لینا آرام آجائے گا" سیرت کہتے ہوئے جانے لگی


"پین کلر میں نے لی تھی دراصل اس بیڈ روم میں سونے کی عادت نہیں رہی نا۔۔۔ تو بے چینی بھی ہو رہی ہے اب سو نہیں پاو گی تو مزید درد ہوگا اس وجہ سے میں نے کاشان کو بلا لیا ہے"

رنعم نے بات بناتے ہوئے کہا


"تم پاگل تو نہیں ہو جو اتنی رات کو بلا لیا اُسے اور اس طرح رات میں جاؤ گی تو گھر میں سب کیا سوچیں گے"

سیرت نے اس کو دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا


"کچھ نہیں ہوگا میں صبح مما کو کال کر کے بتا دوں گی۔۔ آپ بھی میری وجہ سے پریشان مت ہو"

رنعم میں بال بنا کر دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے سیرت سے کہا


"رنعم سب ٹھیک ہے نا تم کچھ چھپا تو نہیں رہی"

سیرت نے جانچتی ہوئی نظروں سے اس کو دیکھ کر دوبارہ پوچھا تو رنعم مسکرا دی


"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں آپ سے کچھ چھپاؤں گی بڑی بہن ہے آپ میری،، سب ٹھیک ہے"

رنعم نے سیرت کے گلے لگتے ہوئے کہا


"چلو تم کہہ رہی ہوں تو سب ٹھیک ہوگا"

سیرت نے اس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا رنعم کا موبائل بیچنے لگا


"چلو میں بھی اس کاشی کے بچے سے مل لیتی ہوں" سیرت نے اس کے موبائل پر نظر ڈالتے ہوئے کہا


"نہیں آپی آپ ریسٹ کریں گھر پہنچنے کے بعد آپ کو کال کرو گی اوکے بائے"

رنعم بولنے کے ساتھ ہی اپنا بیگ لے کر روم سے باہر نکل گئی سیرت ایک دفعہ پھر اس کے رویے پر غور کرنے لگی


****


"وہاں پر عاشر موجود تھا یہ بات تم نے مجھے کال کر کے کیوں نہیں بتائی"

کار میں تو ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی مگر گھر آنے کے ساتھ ہی کاشان رنعم سے باز پرس پر اتر آیا


"اگر عاشر بھائی وہاں پر موجود تھے۔۔۔ تو یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں تھی جو میں آپ کو فون کر کے بتاتی"

رنعم کے بولنے کی دیر تھی کاشان نے لب بینچ کر اس کا منہ پکڑا


"زبان چلاؤں گی تم میرے آگے،، بولو"

کاشان اس کا جبڑا دبائے اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ رنعم نے اس کا ہاتھ ہٹا کر اپنا منہ چھڑانا چاہا مگر ناکام ہونے کی صورت میں اپنی کوشش ترک کر دی۔۔۔۔ کاشان نے اس کا منہ جھٹکے سے چھوڑا تو وہ روم کے دروازے سے جا لگی


"نہیں چلاتی آپ کے آگے زبان،، آج بھی آپ اپنے غصے کا نشانہ بنائے مجھے،، جیسے شروع سے بناتے آئے ہیں مگر اس کے بعد کاشان، پلیز مجھ سے ایکسکیوز مت کریے گا مجھے منائیے گا مت"

بولنے کے ساتھ ہی رنعم کی سبز آنکھیں برسنا شروع ہوگئی


"عاشر کی آنکھوں میں اگر تم اپنے لیے محبت دیکھتی، تو تمہیں میری فیلنگز سمجھ میں آتی۔۔۔ کتنا برا لگتا ہے مجھے اس کا دیکھنا تمہاری طرف"

کاشان کا بس نہیں چلا تو اس نے کہتے ہوئے زور سے دروازے پر ہاتھ مارا


"آپ نے میری آنکھوں میں کس کے لیے محبت دیکھی ہے کاشان،، اپنے لیے یا عاشر بھائی کے لیے،، آج اس بات کا جواب دیں مجھے۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ آپ سے محبت کی ہے تو پھر آپ آخر کیوں اتنی انسکیور ہیں"

رنعم کاشان کے غصے کی پروا کئے بناء اس کا چہرہ اپنے نازک ہاتھوں میں تھام کر روتے ہوئے اس سے سوال کرنے لگی


"اس طرح کا رویہ مت اختیار کیا کریں کاشان،، مجھے دکھ پہنچتا ہے،، تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ میں آپ کو کس طرح سمجھاؤ"

رنعم اب روتے ہوئے کاشان کے سینے سے لگ کر اپنی انگلی سے اس کے دل پر R بنا کر مٹانے لگی کاشان خاموش کھڑا تھا اپنے سینے سے لگی رنعم کی باتیں سنتا ہوا اسکی انگلیوں کی حرکت دیکھ رہا تھا


"مجھے آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے کبھی نفرت مت کرنا۔۔۔ مگر آپ تو میرا اعتبار کیا کریں کاشان۔۔۔۔ ہمارے رشتے میں اعتبار ہوگا ناں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔ میں کیسے آپ کو اپنا اعتبار دلاو،، پلیز مجھ پر اعتبار کریں"

رنعم روتے ہوئے بے بسی میں اپنی مٹھی بند کر کے نازک ہاتھ سے مُکہ بنا کر کاشان کے سینے پر مارنے لگی


کاشان نے اپنا ایک ہاتھ رنعم کی کمر کے گرد حائل کر کے اپنے دوسرے ہاتھ سے رنعم کی کلائی کو تھاما اور اپنے ہونٹوں سے لگایا۔۔۔۔


اسے اٹھا کر بیڈ پر بٹھایا جگ میں سے پانی نکال کر گلاس رنعم کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ رنعم نے دو گھونٹ پانی پی کر گلاس سائڈ پر رکھا


"سوجاو"

وہ رنعم کو بیڈ پر لٹاتا ہوا خود اپنا سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر اٹھا کر دوسرے روم میں چلا گیا


*****


رات کا آخری پہر تھا جب رنعم کی بے چینی سے آنکھ کھلی۔۔۔۔ کاشان اسے بیڈ پر لٹا کر خود دوسرے روم میں چلا گیا تھا معلوم نہیں رنعم کی کب آنکھ لگی۔۔۔۔ کب کاشان واپس اپنے روم میں آیا اس کے برابر میں لیٹا،، اسے خبر نہیں تھی


رنعم نے کاشان پر ایک نظر ڈالی تو وہ بے خبر سو رہا تھا۔۔۔ روم کا اے۔سی بند تھا رنعم نے کھڑکی کھولی۔۔۔۔ تیز بارش برس رہی تھی رنعم نے دوبارہ کاشان کو دیکھا وہ اب بھی گہری نیند سویا ہوا تھا


معلوم نہیں رنعم کے دل میں کیا سمائی وہ فلیٹ سے نکل کر اپنے فلیٹ کی اوپر چھت پر چلی گئی بارش زوروں سے برس رہی تھی رنعم رات کے پہر چھت پر اکیلی تھی بادل بہت زور سے گرجا مگر شادی کے دو ماہ کے اندر شاید وہ اتنی بہادر ہوگئی تھی کہ اسے بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے اب ڈر نہیں لگتا تھا شاید اسے کاشان کے غصے کے علاوہ آب کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا


اگر کاشان کو معلوم ہوگیا کہ میں یوں بارش میں اکیلی چھت پر موجود بھیگ رہی ہو تو۔۔۔۔


کاشان کے ساتھ ہے رہتے اس کا غصہ برداشت کرتے وہ شاید ڈھیٹ ہوگئی تھی یا عادی۔۔۔


رنعم نے سوچتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ کھولے آنکھیں بند کر کے چہرہ اوپر کئے وہ آئستہ سے کا گول گوم رہی تھی تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے اوپر کسی نظریں محسوس کی بھلا اس وقت کون ہو سکتا تھا رنعم نے سوچتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے کاشان کو کھڑا پایا وہ خاموشی سے اسی کو دیکھ رہا تھا


رنعم کو چند ماہ پہلے والا منظر دماغ میں آیا کاشان نے اس کے اوپر کس طرح غصہ کیا تھا بارش میں بھیگنے پر۔۔۔

کاشان رنعم کو دیکھ کر اس کی طرف چلتا ہوا آیا رنعم کو لگا اب وہ اس پر غصہ ہوگا


کاشان نے ہاتھ کا کٹورہ بنایا بارش کا پانی جمع کر کے چھپاک سے رنعم کے منہ پر مارا جیسے وہ ثوبان کے منہ پر مارتی تھی رنعم نے حیرت سے کاشان کو دیکھا۔۔۔ کاشان مسکرا کر اسے بانہوں میں چھپا لیا


"میری ڈول کا گزارا نہیں ہوتا بارش میں بھیگے بناء"


رنعم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا کاشان کے چہرے پر اس وقت غصے کا شائبہ تک نہ تھا رنعم میں دوبارہ سے اس کے سینے پر ٹکا دیا اور انکھیں بند کرلی

سیرت اور ثوبان آج صحیح معنوں میں محفل کی جان بنے ہوئے تھے۔۔۔ دونوں کی ہی جوڑی بہت پیاری لگ رہی تھی سب مہمانوں نے بہروز اور یسریٰ کے ساتھ ثوبان اور سیرت کو بھی مبارکباد دی


فرح بہن تھی اس لیے بات کو سمجھتے ہوئے یسریٰ کی خوشی کی خاطر آج اس کی خوشی میں شریک ہوگئی،، بغیر دل میں کوئی شکوہ لیے اس نے بہروز اور یسریٰ کو مبارکباد دی مگر غفران نے کافی ناراضگی کا اظہار کیا اور فنکشن میں شرکت نہ کر کے یہ ظاہر کیا کہ وہ ان سے ناراض ہے جبکہ عاشر آفس کے کام سے آؤٹ آف سٹی گیا ہوا تھا ابھی وہ سفر میں تھا گھر پہنتے پہنتے بھی اسے تین سے چار گھنٹے لگ جاتے اس نے ثوبان کو فون کر کے مبارکباد دی


"چلو بھئی آج میرے بھائی کے پیسے تو وصول ہوئے اور بیوٹیشن آنٹی کی محنت نظر آرہی ہے ان کی بدولت اج تمہاری بھی کچھ شکل نکل کر آئی"

کاشان نے سیرت کے پاس آکر اس کی اپنے انداز میں تعریف کی


"میری شکل کو چھوڑو یہ بتاؤ تین دن پہلے تمہارا کیوں تھوبڑا کیو سوجھا ہوا تھا۔۔۔۔ جو بیچاری میری بہن کو رات کو ہی واپس لے گئے"

سیرت نے سوچا لگے ہاتھوں کاشان کے بھی کان کھینچ کر اس کی خبر لے


"یار مجھ معصوم کا تھوبڑا کس بات پر سوجھنا ہے بس اپنی بیوی کی اچانک یاد آئی تو اسے لینے آ گیا۔۔۔ ویسے تمہیں یہ کس نے کہا کہ میرا تھوبڑا سوجھا ہوا تھا"

کاشان نے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھتے ہوئے سیرت سے پوچھا


"بس اب رنعم بےچاری کی شامت مت لے آنا۔۔۔ میں بچپن سے تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں اور مسٹر کاشان ہم نے رنعم کو تمہارے ساتھ رخصت کر کے اس سے اپنا تعلق توڑا نہیں ہے اس لیے شرافت سے ہمارے پاس اسے خود سے ہفتے میں ایک آدھ بار چھوڑ جایا کرو بے شک خود بھی اپنا بسترا لے کر یہاں پر آجاؤ کیوکہ شاید اب تمہیں ہمارے گھر نیند نہیں آتی"

سیرت نے مذاق مذاق میں کاشان کو سنا دی کیوکہ اس دن رنعم کو دیکھ کر وہ صاف محسوس کر سکتی تھی لازمی کاشان اسے زبردستی لینے آیا تھا


"اف کتنا بول رہی ہو یار تم،، ایسے موقع پر پٹر پٹر کرتی لڑکیاں زہر لگتی کچھ باتوں میں تمہیں میری بیوی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اب اپنی چونچ بند کرکے ذرا میرے بھائی صاحب کے پاس چلی جاؤ کب سے دور کھڑا ہوا بےچارہ یہی دیکھ کر آہیں بھر رہا ہے" کاشان کے بولنے پر سیرت مسکراتی ہوئی ثوبان کے پاس چلی آئی


"اب تک کتنے لوگ بتا چکے ہیں کہ تم بہت حسین لگ رہی ہو"

ثوبان نے ستائشی نظروں سے سیرت کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا


"تقریباً یہاں پر موجود سارے ہی لوگ ہی بات بتا چکے ہیں ایک تمہارے علاوہ"

سیرت میں بہت اسٹائل سے اسے جتایا


"تم کتنی حسین لگ رہی ہوں یہ بات میں تمھیں یہاں سب کے سامنے نہیں بتا سکتا کیوکہ یہ بات میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں ایک پرائیویٹ پرسن اس لیے میں پرائیویٹ میں بتاؤں گا کہ تم کتنی حسین لگ رہی ہو"

ثوبان نے والہانہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جبکہ سیرت اس کی بات سن نظریں جھکا کر مسکرادی


کاشان کی نظروں نے رنعم کو ڈھونڈنا شروع کیا وہ اسے بہروز کے پاس بیٹھی ہوئی نظر آئی


مگر اس سے پہلے وہ یسریٰٰ کے پاس آیا اس کے برابر میں صوفے پر بیٹھ کر ہاتھ تھام کر اس سے باتیں کرنے لگا


رنعم بہروز کے پاس بیٹھی ہوئی یسریٰ اور کاشان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ وہ سب سے ملنے کے بعد بہروز کے پاس ہی آ کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ دور سے کاشان جس طرح یوسریٰ کا ہاتھ تھامے اس سے باتیں کر رہا تھا کوئی بھی دور سے دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ ساس اور داماد میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے۔۔۔۔ کاشان کی بہروز اور یسریٰ سے اچھی انڈراسٹینڈنگ تو تھی مگر رنعم کو معلوم تھا اس وقت اس کا شوہر یوسریٰ کا ہاتھ تھامے،، ان لوگوں کے گھر نہ روکنے کا کوئی جواز پیش کر رہا تھا۔۔۔ یہ بات وہ رنعم کو اپنے گھر سے بول کر آیا تھا جس پر رنعم خاموش ہوگئی


****


تقریب اب اختتام پر پہنچی تھی رنعم اور کاشان دونوں ہی بینکوئیٹ سے باہر نکلے۔۔۔ رنعم کی نظر اچانک دور کھڑی کار کے پاس ایک آدمی پر پڑی وہ فوراً اپنا چہرہ چھپانے کی غرض سے اپنی کار میں بیٹھ گیا مگر رنعم اسے پہچان چکی تھی یہ وہی آدمی تھا جو کاشان اور اسے تین دن پہلے دکھا تھا اور اس کو دیکھ کر کاشان کا موڈ اچھا خاصہ خراب ہوگیا تھا۔۔۔۔ رنعم نے ایک نظر کاشان پر ڈالی۔۔۔ وہ موبائل پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا موبائل پر بات کرتے کرتے ہی اس نے کار کا دروازہ کھولا رنعم کار میں بیٹھ گئی۔۔۔۔ وہ اب سوچ میں پڑ گئی کہ کاشان کو یہ بات بتائے کہ نہیں مگر وہ آج بہت خوش تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ کاشان کا بھی موڈ خراب ہو اس لیے اس نے اسے کچھ بھی بتانے کا ارادہ ترک کر دیا


"تین دن پہلے جب میں تمہیں گھر واپس لے کر گیا تھا تم نے سیرت سے کچھ ذکر کیا تھا ہمارے متعلق"

کاشان ڈرائیونگ کرتے ہوئے نارمل انداز میں رنعم سے پوچھنے لگا


"نہیں کاشان میں نے تو نہیں یہی کہا آپی سے کے میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔ کیا آپی نے آپ سے کچھ کہا"

رنعم نے کاشان کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"ایسا کچھ نہیں کہا سیرت نے، میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا"

کاشان نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے رنعم کو جواب دیا


"کاشان بس آپ مجھ پر اعتبار کیا کریں۔۔۔۔ اور پلیز مجھ سے ناراض مت ہوا کریں نہ ہی غصہ کیا کریں"

رنعم نے اسٹیرنگ کو پکڑے کاشان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا


"پاگل نہیں ہوں میں جو بلاوجہ میں تم پر غصہ کرو یا ناراض ہو مگر میری ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھنا رنعم جو باتیں ہم دونوں کے بیچ میں ہیں،، ہمارے بیڈ روم کی باتیں۔۔۔ وہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہنی چاہیے اگر کبھی بھی کوئی بات میں نے کسی دوسرے کے منہ سے سنی یا کوئی بات باہر نکلی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا بس یہ بات تم یاد رکھنا"

کاشان نے اپنی بات مکمل کر کے اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں پے لگایا رنعم اثبات میں سر ہلا کر چپ ہو گئی


کاشان ڈرائیونگ کرنے لگا رنعم کی کھڑکی سے باہر شیشے پر نظر پڑی تو اسے وہی گرے کار دکھائی دی جس میں وہ شخص بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔ رنعم نے بےساختہ گردن موڑ کر پیچھے دیکھا کار ایک دم دوسری گلی میں مڑ گئی


"کیا ہوا کیا دیکھ رہی ہو کاشان نے اس کو چونکتے اور پیچھے مرنے کا نوٹس لیتے ہوئے پوچھا


"وہ مجھے ایسا لگا جیسے کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے" رنعم نے ڈرتے ہوئے آدھی بات بتائی اس کی بات سن کر کاشان چونکا اور سائیڈ مرر سے روڈ پر دیکھنے لگا


کوئی نہیں ہے وہم ہے تمہارا۔۔۔ ہمارا پیچھا کون کرے گا" کاشان کی بات سن کر رنعم نہ خاموشی اختیار کرلی وہ دونوں اپنے فلیٹ پہنچ گئے


"کتنے پیارے لگ رہے تھے نہ آج بھیا اور آپی"

رنعم ڈریسر کے سامنے اپنی جیولری اتارتے ہوئے کاشان سے پوچھنے لگے وہ ابھی ابھی چینج کر کے آیا تھا اس کی بات سن کر مسکرایا


"ان دونوں کو کپل کی صورت میں ایک ساتھ کھڑا دیکھ کر،، مجھے ہم دونوں کی برات کا دن یاد آگیا۔۔۔۔ چلو آج تھوڑا سا اس دن کو یاد کر لیتے ہیں

کاشان نے وارڈروب سے رنعم کو نائٹ ڈریس نکال کر دیا


"کاشان آپ بھی ناں۔ ۔۔۔

رنعم نے آنکھیں جھکا کر نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا دیتے ہوئے نائٹ ڈریس کاشان کے ہاتھ سے لیا۔۔۔۔ کاشان نے رنعم کو اسمائل دے کر دیکھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح اس کی بڑھتی ہوئی شدتوں سے اسی طرح شرما جاتی تھی


****


"ثوبی تمہیں معلوم ہے نہ موتیے کے پھول کی خوشبو بچپن سے ہی میرے دماغ پر چڑھ جاتی ہے۔۔۔۔ اور تم نے پورا کمرہ ان پھولوں سے بھر دیا"

یہ دنیا کی پہلی دلہن تھی۔۔۔۔ جس نے اپنے دولہا کے کمرے میں اینٹری دیتے ہی شکوے شروع کر دیے۔۔۔۔ دوسری طرف ثوبان، جسے اپنے کمرے میں سیرت کی موجودگی کا احساس ہی سر شار کر گیا تھا۔۔۔ مگر سیرت کو دلہن کے روپ میں شکوہ کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت کا اظہار کرنے لگا


"آج تھوڑا بہت شرما لو اور اگر نہیں آرہی تو کم ازکم ایکٹنگ ہی کر لو"

وہ مسکراتا ہوا منہ پھلائی سیرت کے قریب آتا ہوا بولا


"یہ خوشبو میرے دماغ پر چڑھ رہی ہے اور تم مجھ سے شرمانے کی بات کر رہے ہو ایسے میں تو مجھ سے سچی میں نہیں شرمایا جائے گا"

سیرت نے آنکھیں گول کھماتے ہوئے ثوبان کو دیکھا۔۔۔ ثوبان نے اس کے انداز پر مسکرا اسے بانہوں میں لے لیا


"اور اگر آج میں تمہیں شرمانے پر مجبور کر دوں تو"

ثوبان سیرت کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگلی رکھ کر اس کا چہرہ اونچا کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔


"ثوبی اگر تم نے زیادہ بدتمیزی کی ناں۔۔۔۔۔ ثوبان کی بات سن کر سیرت کا دل زور سے دھڑکا مگر اس کی بات مکمل بھی نہیں ہو پائی کے ثوبان نے اپنی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھ دی


"آج تو میری ساری بدتمیزیاں شرافت سے برداشت کرنی ہے تمہیں۔۔۔ اگر ذرا بھی ہوشیاری دکھائی نا،،، تو یاد رکھنا۔۔۔ قانون کا محافظ ہو۔۔۔ پوری پوری قانونی کاروائی کر ڈالوں گا"

ثوبان کے کہنے کے انداز پر نہ چاہتے ہوئے بھی سیرت کو ہنسی آگئی


"جتنے تم شکل سے شریف لگتے ہو ناں اتنے ہی بدمعاش ہوں"

وہ سیرت کو بازوں میں اٹھا کر بیڈ پر لایا تو سیرت نے اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا


"شریف سے شریف شوہر بیوی کے سامنے بدمعاش ثابت ہوتا ہے پھر تم ایک پولیس والے شرافت کی تواقع رکھ رہی ہو"

وہ سیرت کے اوپر جھکتے ہوئے بولا


اپنی تمام تر شددتیں سیرت پر لٹاتے ہوئے ثوبان نے واقعی سیرت کو شرمانے پر مجبور کر دیا۔۔۔ ثوبان کی ایک کے بعد ایک بڑھتی ہوئی جسارتوں پر سیرت نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے تک سیرت کے دماغ پر موتیے کی خوشبو سوار تھی۔ ۔۔۔ اب اس کے دل اور دماغ کے ساتھ ساتھ حواسوں پر بھی صرف ثوبان قابض تھا


****


دروازے پر زور زور سے دستک کی آواز پر ثوبان نے لیمپ کی مدہم روشنی میں الار پیس پر نظر ڈالی۔۔۔ اس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے


"ثوبان جلدی سے دروازہ کھولو پلیز" یسریٰ کی پریشان آواز پر ثوبان تیزی سے اٹھا۔۔۔ ثوبان کے اٹھنے پر برابر میں لیٹی ہوئی سیرت کی بھی آنکھ کھل گئی

"مما کیا ہوا ہے سب خیریت ہے"

دروازہ کھولتے ہی روتی ہوئی یسریٰ کو تھام کر ثوبان نے پوچھا


"ثوبان معلوم نہیں بہروز کو کیا ہوگیا ہے میری بات کا جواب نہیں دے رہے ہیں"

یسریٰ نے روتے ہوئے ثوبان سے کہا۔۔۔ سیرت بھی یسریٰ کے پاس پہنچ چکی تھی۔۔۔۔ ثوبان یسریٰ کی بات سنتے ہی کوئی جواب دیئے بغیر تیزی سے سیڑیاں اترتا ہوا بہروز کے بیڈ روم میں پہنچا وہ دونوں بھی ثوبان کے پیچھے آئیں


"بابا اٹھیں دیکھیں مما پریشان ہو رہی ہیں"

ثوبان نے بہروز کا ٹھنڈا ہاتھ تھام کر پکارا مگر وہ بے سود۔۔۔ اس نے بہروز کی نبس چیک کی


"ثوبان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز بہروز سے کہو وہ انکھیں کھول لیں" یسریٰ رونے لگی تو سیرت میں اسے گلے لگا لیا


"کہاں جارہے ہو" ثوبان کو روم سے جاتا دیکھ کر سیرت نے اس سے سوال کیا


"ڈرائیور سے کار نکالنے کا کہتا ہوں۔۔۔ اسپتال جانا ہوگا تم مما کو دوسرے کمرے میں لے جاؤ"

ثوبان کی ضبط سے سرخ آنکھیں سیرت کو بہت کچھ سمجھانے لگی مگر وہ دل کو مضبوط کر کے ثوبان کی بات مانتے ہوئے یسریٰ کو وہاں سے لی گئی جبکہ ثوبان دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا اس کا شک غلط ثابت ہو بہروز کا بستر سے لگا کمزور وجود بھی، اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا


****


"رنعم اٹھو شاباش"

کاشان کی آواز پر رنعم کی آنکھ کھلی


"آپ نے تو رات میں کہا تھا کہ صبح لیٹ آفس جانا ہے پھر بھی کیوں اٹھا لیا ابھی سے"

رنعم نے سامنے دیوار پر لگی وال کلاک میں ٹائم دیکھا تو صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے


"جاو جلدی سے فریش ہو کر آؤ" کاشان نے اس کی بات کا کوئی جواب دیئے بغیر دوسرا آرڈر دیا اور خود روم سے باہر نکل گیا۔۔۔ رنعم آنکھیں زبردستی کھولتے ہوئے واش روم میں گئی کیوکہ رات کو بھی کافی دیر سے سونا ہوا تھا۔۔۔ جب وہ کچن میں آئی تو کاشان ناشتہ ٹیبل پر رکھ رہا تھا


"میں بنا لیتی ناشتہ آپ نے کیوں بنایا" رنعم نے اس کو دیکھ کر پوچھا


"ایک ہی بات ہے آو ناشتہ کریں"

کاشان نے اسے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی دوسری کرسی پر بیٹھ گیا


"آپ کیوں نہیں ناشتہ کر رہے ہیں" رنعم نے اسے خالی چائے پیتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگی


"موڈ نہیں ہو رہا بعد میں کر لوں گا تم صحیح سے ناشتہ کرو"

کاشان کے جواب پر وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی روزانہ کے برعکس کاشان خاموش تھا اس لئے رنعم نے بھی زیادہ بات نہیں کی


"یہ کپڑے کیوں نکال رہے ہیں میرے" رنعم برتن واش کر کے آئی تو کاشان کو وارڈروب سے ڈریس نکالتے دیکھ کر پوچھنے لگی


"جاو چینج کر کے آؤ پھر بتاتا ہوں" کاشان نے سنجیدگی سے کہا اب رنعم کو اس کے رویے سے پریشانی ہونے لگی


"کیا بات ہے کاشان آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں"

رنعم نے کاشان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا


"چینج کر لو پھر ہمہیں تمہارے گھر جانا ہے۔۔۔ انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ ثوبی نے تھوڑی دیر پہلے فون کر کے بتایا ہے"

رنعم کی آنکھوں میں تشویش اور پریشانی دیکھ کر کاشان نرم لہجے میں اس سے بولا رنعم اپنا موبائل اٹھانے کے ارادے سے آگے بڑھی کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑا


"ہم چل رہے نہ رنعم،، جو جلدی چینج کر کے آو"

کاشان کے دوبارہ بولنے پر وہ کاشان کو دیکھتے ہوئے ڈریس چینج کرنے چلی گئی۔۔۔ واپس آئی تو کاشان کسی سے کال پر بات کر رہا تھا رنعم کو دیکھ کر کال کاٹی اور گاڑی کی چابی اور موبائل لے کر باہر نکلا


صبح کے وقت اپنے گھر کے سامنے گاڑیاں اور چہل پہل دیکھ کر رنعم نے نہ سمجھنے والے انداز سے کاشان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا


"رنعم انکل ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں آج صبح ہی انکی۔۔۔"

کاشان نے اپنی بات مکمل کئے بناء رنعم کو تھاما کیوکہ وہ خود ہی ہوش وخروش سے بیگانہ ہو گئی تھی


****


"بتاؤ کل ہی بیٹی کی شادی کی بہروز بھائی نے اور آج ہی صبح دل کے بند ہونے سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔۔۔ ثوبان اور اپنی بیٹی کی شادی راس نہیں آئی انہیں"

ہال میں سبھی خواتین بیٹھی تھی ایک خاتون نے سیرت کو دیکھ کر تبصرہ کیا۔۔۔ آواز اتنی بھی آہستہ نہ تھی جو سیرت نہ سن سکے مگر وہ دوسرے لوگوں کو اور موقع دیکھ کر وہ خاموش رہی جبکہ کاشان جو کسی کام کے غرض سے وہاں آیا تھا ان خاتون کی بات وہ بھی سو چکا تھا


"آنٹی میرا خیال ہے سپارہ آپ نے پڑھنا نہیں ہے اور انکل کی ڈیتھ کا افسوس آپ کر ہی چکی ہیں۔۔۔ اب بچتا ہے کھانا،،، تو اس میں ابھی کافی ٹائم ہے۔۔۔ میرے خیال میں آپ کو گھر جانا چاہیئے بریانی آپ کے گھر غلام بخش پہنچا دے گا"

کاشان کی بات پر چند خواتین نے کاشان کو دیکھا اور ان خاتون کا اچھا خاصا منہ بن گیا جن کو کاشان نے مشورہ دیا تھا۔۔۔ انہیں یسریٰ کا یہ بدتمیز سا داماد پہلے بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔ وہ کاشان کو گھورتی ہوئی باہر نکل گئی


"بیٹا یہ کیا طریقہ ہے گھر آئے مہمان سے بات کرنے کا۔۔۔ وہ یسریٰ کی دوست ہے ہمارے غم میں شریک ہونے آئی تھی"

فرح نے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا آج صبح ہی وہ دوبارہ واپس آئی تھی


"غم میں کہاں شریک ہونے آئی تھیں،، وہ تو مزید ہمارا غم بڑھانے آئی تھیں۔۔۔ کتنی دیر سے فضول تبصرہ کر کے ٹائم پاس کر رہی تھیں۔۔۔۔ ان کا یہاں سے جانا ہی بہتر تھا۔۔۔ یسریٰ آنٹی کہاں پر ہے نظر نہیں آرہی" کاشان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرح سے یسریٰ کے بارے میں پوچھا


"دو منٹ پہلے ہی اسے بیڈ روم میں لٹا کر آئی ہو۔۔۔ تھوڑی دیر ریسٹ کرلے گی تو اچھا ہے ورنہ اس کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔۔۔ تم سب بہروز کو چھوڑ کر آ گئے"

فرح نے روہانسی انداز میں کاشان سے پوچھا وہ لوگ ابھی قبرستان سے واپس آئے تھے


"جی۔۔۔۔ آنٹی آپکو صبر سے کام لیتے ہوئے یسریٰ آنٹی کو سنبھلنا ہوگا۔۔۔ رنعم کہاں پر ہے"

فرح کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کاشان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی رنعم کا پوچھا


وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا کیوکہ بہروز کا چہرہ دیکھ کر یسریٰ کے ساتھ ساتھ رنعم کی بھی حالت بگڑ گئی تھی۔۔۔۔ سیرت خود روتے ہوئے رنعم کو سنبھال رہی تھی جبکہ فرح نے یسریٰ کو سنبھالا ہوا تھا ثوبان کی بھی حالت ان سے مختلف نہیں تھی مگر وہ اس وقت ضبط کیے ہر ایک سے مل رہا تھا۔۔۔ بہروز پر مٹی ڈالتے ہوئے وہ بہت رویا تھا اسے کاشان اور عاشر نے چپ کرایا


"اپنے بیڈ روم میں ہیں تم لوگوں کے جانے کے بعد حالت خراب ہوگئی تھی۔۔۔ اس کو سکون کا انجکشن دیا ہے سو رہی ہے ابھی"

فرح بتاتے ہوئے ایک دفعہ پھر افسردہ ہونے لگی کاشان چپ کر کے وہاں سے چلا گیا


****


"تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے ثوبی پلیز تھوڑا سا کھانا کھا لو"

سب لوگوں کو فارغ کر کے سیرت کھانے کی ٹرے بیڈروم میں ہی لے آئی ثوبان آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیڈ پر لیٹا تھا۔۔۔۔ سیرت نے دوپہر میں ہی شاہدہ سے کہہ کر اپنے بیڈ روم سے سارے پھول ہٹانے کا کہا تھا


ثوبان جب قبرستان سے واپس آیا تھا، تو یسریٰ ثوبان گلے لگ کر بہت روئی تھی یسریٰ کو چپ کراتے ثوبان کو بھی رونا آگیا اور ان دونوں کو اس طرح روتا دیکھ کر باقی سب کی آنکھ بھی اشکبار ہوگئی تھیں


کاشان اور فرح نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو چپ کرایا۔۔۔ افسوس کرنے والے مہمان تو سارے واپس چلے گئے تھے غفران اور عاشر بھی حیدرآباد کے لیے نکل گئے تھے فرح یسریٰ کے پاس رک گئی تھی۔۔۔ فی الحال کاشان اور رنعم بھی وہی موجود تھے


رات کا کھانا یسریٰ رنعم کو زبردستی تھوڑا بہت کھلایا مگر ثوبان اپنے بیڈ روم میں چلا آیا تھا


سیرت ثوبان کو صبح سے ہی لوگوں کے درمیان میں خاموش بیٹھا دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس وقت رات کے نو بج چکے تھے اور سب اپنے بیڈ روم میں موجود تھے کیوکہ سب ہی صبح کے جاگے ہوئے تھے۔۔۔ سیرت کو ثوبان کی فکر ہونے لگی


"ثوبی کیا سوگئے"

کوئی جواب نہ پاکر سیرت دوبارہ بولی


"دل نہیں چاہ رہا کھانا کھانے کا ایک کپ چائے بنا دو مجھے"

سیرت کے دوسری بار بولنے پر ثوبان اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا


"خالی پیٹ تو ہرگز چائے پینے نہیں دوگی،،، چلو اٹھو جلدی سے"

ٹرے سائڈ پر رکھ کر سیرت اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولی ثوبان سرخ آنکھیں لیے اسی کو دیکھ رہا تھا


"آج میں دوسری بار یتیم ہوگیا سیرت" ثوبان اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپاتا ہوا بولا۔۔۔ سیرت نے ثوبان کے چہرے سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور آنسو صاف کیے اس کا سر اپنے کندھے پر رکھا


"جس دن میرے سگے باپ کا انتقال ہوا تھا،،،، امی اور کاشی کے غم میں وہ دکھ کہیں دب گیا تھا۔۔۔ مگر آج لگ ہے جیسے کوئی قیمتی چیز مجھ سے دور چلی گئی ہو۔۔۔۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتی سیرت، بابا میرے لئے کیا معنیٰ رکھتے تھے۔۔۔ ان کے نہ ہونے سے میں خود کو کتنا تنہا محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ مما کو اکیلے کیسے سنبھلوں گا میں، وہ کتنی بری طرح ٹوٹ چکی ہیں"

ثوبان سیرت کے کندھے سے لگا ہوا اس سے اپنا دکھ بیان کر رہا تھا


"ثوبی تمہارے ساتھ ساتھ میں بھی تو اپنا دوسری بار باپ کھویا ہے پلیز اپنے آپ کو سنبھالو۔۔۔ تمہیں سب کو سنبھالنا ہے،،، تمھیں ہمت سے کام لینا ہے"

سیرت خود بھی روتے ہوئے اس کی ہمت باندھنے لگی


تھوڑا بہت ثوبان کو کھانا کھلا کر اس کے لئے چائے بنانے چلی گئی

****


بہروز کے انتقال کو آج پورے 15دن گزر چکے تھے آہستہ آہستہ سب کی زندگی معمول پر آنے لگی تھی فرح سوئم کر کے واپس چلی گئی تھی کیوکہ غفران اور عاشر وہاں پر اکیلے تھے جبکہ دو دن روکنے کے بعد کاشان بھی اپنے فلیٹ میں واپس آگیا تھا مگر رنعم کو اس نے ثوبان کے کہنے پر یسریٰ کے پاس ہی چھوڑا ہوا تھا۔۔۔ ڈیلی رات کو دو گھنٹے کے لئے وہ چکر لگا لیتا تھا مگر آج دوپہر میں اس نے آفس سے ہی رنعم کو تیار رہنے کا کہا تھا وہ آج رنعم کو باہر ڈنر کے بعد واپس اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ بات بھی اس نے آج رنعم کو فون پر بتا دی تھی۔۔۔ اس لیے رنعم نے کاشان کے آنے سے پہلے ہی اپنی پوری تیاری مکمل کر لی تھی۔۔۔۔ اس کا تیار ہونے کا دل نہیں چاہ رہا تھا مگر کاشان کے لیے اس نے لائٹ لیمن کلر کے ایمرائڈری ہوئے ڈریس پر چھوٹے سے ائیر رنگز اور ثوبان کا دیا ہوا بریسلیٹ پہن لیا


"ہفتے بھر سے نوٹ کر رہا ہوں بہت ویک ہوگئی ہو تم۔۔۔ اپنے اوپر دھیان دو خوش رہو۔۔۔ مجھے میری ڈول پہلے جیسی چاہیے"

باہر سے ڈنر کے بعد وہ رنعم کو لے کر لونگ ڈرائیو پر نکل گیا تاکہ اس کی طبیعت بہل سکے اب وہ دونوں اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے تب کاشان نے ڈرائیونگ کے دوران رنعم کو دیکھتے ہوئے بولا


"مجھے بابا کی بہت یاد آتی ہے کاشان وہ کیوں اتنی جلدی چلے گئے ہمہیں چھوڑ کر"

رنعم کے لہجے میں افسردگی اور آنکھوں میں اداسی محسوس کر کے کاشان نے ڈرائیونگ کے دوران رنعم کا ہاتھ تھاما


"اپنے کو جانے سے دل تو اداس ہوتا ہے اور جنھیں ہم پیار کرتے ہیں وہ چلیں جائے تب جینا بھی مشکل لگتا ہے۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں انکل واقعی نیک صفت انسان تھے مگر تمہیں آنٹی کے لیے ثوبان سیرت اور مجھے دیکھ کر خوش رہنا ہوگا۔۔۔ خود کو سنبھالنا ہوگا،، میں تمہارا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔ اپنی امی کو کھو کر مجھے ایسا لگا جیسے دنیا ختم ہو گئی ہو مگر میں ثوبان کو اور ثوبان مجھے دیکھ کر جیتا تھا۔۔۔ ہمہیں دوسروں کے لئے جینا پڑتا ہے۔۔۔ جو ہمیں پیار کرتے ہو،،، جن کو ہم پیار کرتے ہیں"

کاشان رنعم کو پیار سے سمجھا رہا تھا اچانک کار بند ہوگئی


"اس کو کیا ہوگیا روکو میں چیک کر کے آتا ہوں"

دو بار کار اسٹارٹ کرنے کے بعد جب کار نہیں چلی تو کاشان نیچے اتر کر کار کا بونٹ کھولتا ہوا چیک کرنے لگا


"کار کا انجن گرم ہو گیا ہے یہاں پانی بھی موجود نہیں ہے۔۔۔ دس منٹ کے فاصلے پر پمپ موجود ہے میں وہاں سے ابھی آتا ہوں تم کار میں بیٹھی رہنا"

کاشان اس کو سمجھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا


رنعم کاشان کا ویٹ کر رہی تھی رات کے گیارہ بجے کا ٹائم تھا اور روڈ سنسان تھا رنعم دل ہی دل میں کاشان کے جلدی واپس آنے کی دعا کرنے لگی تبھی کسی نے کار کا شیشہ بچایا رنعم نے اس کی طرف دیکھا


یہ وہی شخص تھا جو چند دن پہلے ان کی کار کا پیچھا کر رہا تھا رنعم نے خوف کے مارے جلدی سے کاشان کو کال ملانے کی غرض سے موبائل نکالا مگر اس سے پہلے زوردار پتھر سے کار کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا

"ثوبی آ بھی جاو اب، کھانا لگا چکی ہوں میں"

سیرت نے دوسری بار ثوبان کو آواز دی تو وہ سیڑھیوں سے اترا ہوا نظر آیا


اس سیرت نے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا تھا اس نے رنعم اور کاشان کو بھی روکنا چاہا مگر ان کا پروگرام ڈنر کا پروگرام تھا


"مما کہاں پر ہیں" ثوبان چیئر پر بیٹھتا ہوا یسریٰ کی خالی چیئر کو دیکھتے ہوئے سیرت سے پوچھنے لگا


"وہ کہہ رہی تھی ان کا دل نہیں چاہ رہا تھا کھانا کھانے کا لیٹ کھائے گی"

سیرت نے خود بھی چیئر پر بیٹھے ہوئے ثوبان کو بتایا


"اس وقت نو تو بج رہے ہیں اور کتنا لیٹ کھائے گی"

ثوبان نے سیرت کو دیکھتے ہوئے کہا


"کیا ہوگیا ثوبی اس وقت ان کا موڈ نہیں ہوگا"

سیرت میں حیرت سے دیکھتے ہو ثوبان سے کہا


"بات انکے موڈ کی نہیں ہے بات ان کی میڈیسن کی ہے۔۔۔ جو کھانے کے بعد ان کو لازمی دینی پڑتی ہے ورنہ ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔۔۔۔ اور جس فیس سے وہ گزر رہی ہے نہ ان کا موڈ کبھی بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ پہلے تو بابا تھے ان کی کیئر کرلیتے تھے انہیں میڈیسن کا یاد دلا دیتے تھے۔ ۔۔۔ ابھی تک رنعم موجود تھی مگر اب یہ ہماری ذمہ داری ہے"

وہ سیرت کو رسانیت سے سمجھتا ہوا چیئر سے اٹھا


"ارے اگر ایک بندہ کھانا نہیں کھانا چاہتا تو اسے زبردستی کھینچ کر نہیں لاو گی ناں اور اب تم کیو اٹھ گئے ہو"

سیرت میں جھنجھنملاتے ہوئے ثوبان کو کہا


"سیرت زبردستی سے تو کوئی کام ہوتا بھی نہیں ہے۔۔۔ تھوڑا تحمل برداشت اور پیار کی ضرورت پڑتی ہے،، تم بہلا کر لے آتی مما کو آخر وہ بھی تو ہم سب کا کتنا خیال رکھتی ہیں خیر میں انہیں لے کر آتا ہوں"

سیرت ثوبان کو یسریٰ کے روم میں جاتا دیکھ کر خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھی رہی


"ثوبان کبھی کبھی تم ضد کرنے لگ جاتے ہو،، میں نے سیرت سے کہا تو تھا میرا دل نہیں چاہ رہا بھوک نہیں لگ رہی ہے اس وقت"

ثوبان یوسریٰ کو کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لا رہا تھا اور یسریٰ چلتے ہوئے مسلسل بول رہی تھی


"کھانے کا تو میرا بھی خاص موڈ نہیں ہے مگر میں بھی تو آپ کی اور سیرت کی خاطر بیٹھا ہوں نہ کھانا کھانے کے لئے۔۔۔ اب آپ بھی ہم دونوں کی خاطر تھوڑا سا کھا لیں"

ثوبان چیئر کھینچ کر یسریٰ کو بٹھانے کے بعد خود بھی اس کے برابر میں چیئر پر بیٹھا سیرت نے گھور کر ثوبان کو دیکھا یعنی آج اس نے ثوبان کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا بنایا تھا اور ثوبان کا موڈ نہیں تھا


"دیکھ کیا رہی ہو یار،، کھانا تو سرو کرو مجھے اور مما کو"

ثوبان نے سیرت کے گھومنے کا نوٹس لیا اور مگر اسے نارمل سے انداز میں کہنے لگا


"ارے نہیں میں خود ہی نکال لیتی ہوں" یسریٰ نے سیرت کو دیکھتے ہوئے کہا اسے محسوس ہوا جیسے وہ کچھ خاموش ہے


"آپ رہنے دیں ثوبی نے مجھ سے کہا ہے تو میں نکال رہی ہوں"

سیرت سنجیدگی سے کہتی ہوئی یسریٰ کی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی


"مما سیرت صحیح کہہ رہی ہے بلکے آپ کو چاہیے اپنی ساری ذمہ داریاں اپنی بہو کو دے دیں اور خود اس جھولے پر بیٹھ کر ارڈر چلائے"

ثوبان نے مسکراتے ہوۓ یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو وہ بھی مسکرا دی جبکہ سیرت کو اس وقت ثوبان کا مذاق اچھا نہیں لگا


*****


کاشان جب واپس آیا کار میں رنعم کو نہ پا کر وہ حیرت زدہ تو ہوا مگر کار کا شیشہ ٹوٹا ہوا دیکھ کر وہ اچھا خاصا پریشان بھی ہو گیا۔۔۔۔رنعم کو تین سے چار بار پکار کر اس نے رنعم کے موبائل پر کال کی تین سے چار بیلز کے بعد کال ریسیو کر لی گئی


"رنعم کہاں ہو تم" کاشان نے پریشان ہوکر بےساختہ پوچھا


"میرے پاس ہے تیری بیوی"

مردانہ آواز سن کر کاشان کا دماغ ایک دم گھوما


"کون بات کر رہا ہے"

کاشان نے غصے میں چیخ کر اس شخص سے پوچھا


"کاشی مجھے نہیں پہچانا تو نے،،، چل میں آج تجھ سے اپنا ایسا تعارف کراو گا کہ اگر تو بھولنا بھی چاہے گا تو بھلا نہیں پائے گا مجھے"

وہ خباثت سے ہنستا ہوا بولا اس کی مکروہ ہنسی کی آواز پر کاشان کو ایک پل لگا اسے پہچاننے میں


"شیرا اگر تو نے میری بیوی کو چھوا بھی ناں۔۔۔۔ تو، تو سوچ بھی نہیں سکتا میں تیرے ساتھ کیا کروں گا۔۔۔ اگر مرد ہے نا تو یہاں میرے سامنے آ ایک بار"

کاشان سے آپ اپنا غصہ کنٹرول نہیں ہورہا تھا اس لیے وہ زور سے چیختا ہوا بولا

یہ سوچ کر اس کا دماغ غصے سے پھٹا جا رہا تھا اس کی بیوی، اس کی عزت ایک گھٹیا قسم کے انسان کے پاس ہے جو کہ غلطی سے انسانوں کی فہرست میں شامل تھا


"نہ میرے شیر اتنا غصہ مت کر۔۔۔ شیرا میرا نام ہے اور شیر کی طرح تو مجھ پر دھاڑ رہا ہے۔۔۔ دیکھ میں نے تیری بیوی کو ابھی تک ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے مگر تجھے معلوم ہے ناں عورت میری کمزوری ہے اور اگر وہ خوبصورت بھی ہو تو ہاہاہا۔۔۔۔ خیر تیرے اوپر میرے کچھ پچھلے حساب بھی نکلتے ہیں ایسا کر اگر تو مرد کا بچہ ہے تو میرے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ جا اور آ کر اپنی بیوی کو بچا لے اگر بچا سکتا ہے تو۔۔۔۔ صرف ٢٠ منٹ ہیں تیرے پاس،، اسے زیادہ دیر میں نہیں رکوں گا"

شیرا ایڈرس بتا کر کال کاٹ چکا تھا۔۔۔ کاشان نے بڑی سی گالی بک کر ہاتھ میں موجود پانی کی بوتل کو کار کے انجن میں ڈالا اور کار اسٹارٹ کری


****


ڈرائیونگ کے دوران کاشان کی آنکھوں کے سامنے بار بار رنعم کا چہرہ گھوم رہا تھا معلوم نہیں اس کی کیا حالت ہوگی،،، کتنا ڈرتی ہے وہ اس وقت وہ کتنی خوفزدہ ہوگی۔۔۔ کاشان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شیرا اس کے سامنے آئے اور وہ شیرا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے


کاشان نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اب دوبارہ زندگی میں دوسرا قتل بھی کر سکتا ہے مگر آج اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شیرا کو زندہ نہیں چھوڑے گا کیوکہ بہت بڑی جرات کر چکا تھا وہ رنعم کو اٹھا کر


کاشان 15 منٹ کے اندر شیرا کی بتائی گئی جگہ پر موجود تھا کیوکہ اس کی عزت اور جان دونوں ہی آج داؤ پر لگی ہوئی تھی


کاشان نے اپنے سامنے کھنڈر عمارت کو دیکھا یہ کوئی پرانی کیمیکل کی فیکٹری تھی جو کہ کئی سالوں سے بند پڑی ہوئی تھی کاشان فیکٹری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا بدبو کا بھپکا اس کی ناک سے ٹکرایا۔۔۔


وہاں پر بہت ساری خالی اور بھری ہوئی ہر سائز کی شیشیاں جگہ جگہ موجود تھیں۔ ۔۔۔۔ ایک سائڈ پر بڑے بڑے ڈرم اور ٹوٹا ہوا سامان کا ڈھیر لگا ہوا تھا جبکہ درمیان میں بڑا سا ٹیبل موجود تھا جس پر مختلف سامان اور زنگ شدہ آلات بکھرے پڑے تھے جبکہ دوسری طرف ٹوٹی ہوئی کرسی اور لکڑیوں کا ڈھیر ملبے کی صورت پڑا ہوا تھا


"شیرا"

فیکٹری کے اندر داخل ہوتے ہی کاشان نے چیخ کر شیرا کو آواز دی۔۔۔۔ مگر کوئی بھاری چیز زور سے اس کی کمر پر آ لگی جسے کاشان کا توازن برقرار نہیں رہا اور وہ اوندھے منہ گرا۔۔۔ لوہے کا موٹا سا روڈ ہاتھ میں تھامے شیرا دروازے کی آڑھ سے نکل کر کاشان کے سامنے آیا


"بڑا ہی جی دار آدمی ہے تو، تو کاشی جو یوں مرنے کے لیے میرے پاس آگیا"

شیرا کاشان کے قریب آکر ہنستا ہوا بولا۔۔۔ کاشان نے دونوں ہاتھ زمین پر جما کر پر کر اٹھنے کی کوشش کی مگر شیرا نے بھاری بوٹ سمیت اپنا پاؤں زور سے کاشان کی کمر پر مارا جس سے کاشان کا منہ فرش پر لگا


"میری بیوی کو چھوڑ دے شیرا ورنہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا"

کاشان نے شیرا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ لوہے کا راڈ اس نے دوبارہ کاشان کی کمر پر مارا جس پر کاشان کے منہ سے چیخ نکلی شیرا زور زور سے ہنسنے لگا


"کاشان"

کہیں اندر سے کاشان کو رنعم کی آواز سنائی دی وہ روتی ہوئی کاشان کو پکار رہی تھی۔۔۔


"تجھے مجھ سے خار ہے اپنا بدلہ مجھ سے لے مرد بن کر۔۔۔۔ اسے چھوڑ دے۔۔۔۔ ورنہ شیرا میں تیرا بہت برا حشر کروں گا" کاشان نے بے بسی سے لب بھینچ کر شیرا کو مخاطب کیا رنعم کی رونے کی آواز پر وہ اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا


"نہ بچے،، ایسی حالت میں بڑے بڑے ڈائیلاگ سوٹ نہیں کرتے ہیں۔۔۔ آج تو اپنی بیوی کا حشر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے گا مگر اس سے پہلے میں تجھ سے اپنا پرانا حساب چکالو"

شیرا نے کاشان کو کہتے ہوئے اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔ اور ہاتھ میں موجود روڈ سے اب کے اس کے بازو پر وار کیا جس سے کاشان ایک بار پھر چار قدم پیچھے گر پڑا۔۔۔


شیرا روڈ ہاتھ میں لیے دوبارہ اسے مارنے کے ارادے سے کاشان کے پاس پہنچا۔۔۔ کاشان کی نظر وہی پر نیچے بڑی سی کانچ کی بوتل پر پڑی جس میں کوئی محلول موجود تھا،،، اس سے پہلے شیرا کاشان کو ایک اور ضرب لگاتا۔۔۔ کاشان نے وہ بوتل اٹھا کر پوری شدت سے کھینچ کر شیر کو دے ماری جو کہ شیرا کے سر پر جا کر ٹوٹی بوتل میں موجود پرانے کیمیکل سے شیرا کے منہ پر جلن ہونے لگی جس سے وہ چیخا اور روڈ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی وہ دونوں ہاتھ اپنے منہ پر ملتا ہوا چیخنے لگا۔۔۔


کاشان اپنی پوری ہمت جمع کر کے اٹھا شیر کے ہاتھوں سے گرا ہوا لوہے کا روڈ اٹھا کر اس نے شیرا کو مارنا شروع کر دیا۔۔۔ شیرا کو سمبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ روڈ سے اسے رضائی کی روئی کی طرح دھوندتا رہا


جب شیرا مار کھا کھا کر ادھ موا ہوگیا تو کاشان نے ملبے میں سے کرسی اٹھائی۔۔۔۔ شیرا کے فرش پر گرے ہوئے ناپاک وجود کو گھسیٹ کر اٹھاتا ہوا اسے کرسی پر بٹھایا اور ٹیبل پر پڑی ہوئی رسی سے اسے مضبوطی سے باندھنا شروع کیا


شیرا درد سے کرا رہا تھا

اس کو مار مار کر کاشان کا خود بھی سانس پھول گیا تھا وہ خود لمبے لمبے سانس لینے لگا


"رنعم"

دو سے تین منٹ بعد کاشان رنعم کو پکارتا ہوا اس کمرے میں موجود تھا جہاں سے رنعم کی آواز آئی تھی


کمرے میں ڈھیر سارے ملبے اور کچرے کے ساتھ ہی رنعم آنکھیں بند کیے پڑی تھی اسکے ہاتھ اسی کے دوپٹے سے پیچھے کر کے باندھے ہوئے تھے۔۔۔ کمرے میں موجود تیز کیمیکل کی بدبو سے شاید وہ بےہوش ہو چکی تھی


"رنعم"

کاشان اس کا نام پکارتا ہوا بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور اس کے ہاتھ کھولے


"آنکھیں کھولو رنعم تم ٹھیک ہو ناں"

کاشان رنعم کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا رنعم نے ہلکی سی آنکھیں کھولی


"کاشان"

رنعم نے کاشان کو اپنے قریب دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا وہی کاشان نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے سکون کا سانس لیا اسے صحیح سلامت دیکھ کر کاشان کی جان میں جان آئی


رنعم نے کاشان کے سر پر لگی چوٹ کے نشان کو اپنی انگلیوں سے چھونے کی کوشش کی


"میں ٹھیک ہوں جان اٹھو یہاں سے"

کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور اس کو اٹھنے میں سہارا دیا نیچے پڑا ہوا اس کا دوپٹہ رنعم کو پہنا کر اس کے گرد ہاتھ حائل کر کے اسے باہر لے آیا


شیرا رسیوں سے بندھا ہوا درد سے کرا رہا تھا۔۔۔۔ وہ کاشان سے ہونے والی دھلائی سے ادھ موا ہو کر نیم وا آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھنے لگا


"کاشان پلیز جلدی چلیں یہاں سے"

رنعم نے کاشان کی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑ کر شیرا کو دیکھتے ہوئے ڈر کر کہا


"ایک منٹ میری جان اس کمینے نے آج کمینگی کی انتہا کر کے اپنی شامت خود بلائی ہے اسے زندہ چھوڑ کر تو میں اب ہرگز نہیں جاؤں گا"

کاشان نے رنعم کا ہاتھ اپنی شرٹ سے ہٹا کر شیرا کے موقع پر مُکہ جڑتے ہوئے کہا


"دیکھ کاشی مجھے چھوڑ دے میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں"

شیرا نے کاشان کی بات سن کر خود کو رسیوں سے آزاد کرنا چاہا


"شیرا تو گٹر کا وہ گندا کاکروچ ہے جو صرف دنیا میں آکر گندگی پھیلا سکتا ہے۔۔۔ تیرے زندہ رہنے سے معلوم نہیں کتنی لڑکیوں کو اپنی عزت سے ہاتھ دھونے پڑے اور مجھے یقین ہے تیرے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا"

کاشان محلول کی بھری سے ہوئی بوتلیں ایک ایک کر کے اٹھا کر اس کے پاس لاتا ہوا بولنے لگا


"کاشان اس کو چھوڑ دیں پلیز۔۔۔ ہم پولیس کو انفارم کر دیتے ہیں۔۔۔ آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لیں"

شیرا کے ساتھ ساتھ رنعم کو بھی اب اس کے ردعمل پر ڈر لگنے لگا۔۔۔ نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا


"جاؤ جا کر باہر کار میں بیٹھو"

کاشان رنعم کے پاس آکر آرڈر دینے والے انداز میں بولا


"کاشان ایک سیکنڈ آپ صرف میری بات تحمل سے"

رنعم نے اسے سمجھانا چاہا


"کار میں جاؤ"

اب کے وہ رنعم پر دھاڑتا ہوا بولا۔۔۔ رنعم کا کچھ بھی بولنا یا ضد کرنا بےکار ہی نہیں الٹا اپنی شامت بلانے کے برابر تھا اس لیے افسوس بھری نظر اس نے شیرا پر ڈالی۔۔۔۔ جس کی حالت پٹ پٹ کر کتوں سے بھی بدتر ہوچکی تھی رنعم وہاں سے باہر نکل گئی


"کاشی دیکھ مجھے معاف کردے میں نے تیری بیوی کو کچھ نہیں کیا"

وہ کاشان کے خطرناک کے تیوروں کو دیکھ کر گویا ہوا


"کچھ کیا نہیں مگر سوچا تو تھا ناں تو نے"

کاشان نے بولنے کے ساتھ ایک بوتل اٹھا کر اس کے منہ پر دے ماری جس سے شیرا کے منہ سے چیخ نکل گئی


"تجھے شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے میں اپنی بیوی کو لے کر کتنا حساس ہوں۔۔۔۔ انہی ہاتھوں سے پکڑ کر لایا ہوگا ناں تو اسے"

ایک چھوٹی سی بوتل جس میں ایسڈ (تیزاب) موجود تھا۔۔۔ کاشان نے شیرا کے رسیوں سے بندھے ہاتھ پر گرایا۔۔۔۔ جس سے وہ دیوانہ وار چیخنے لگا


وہ تکلیف کی شدت سے شاید بے ہوش ہونے لگا تھا کاشان نے اس کے بال مٹھی میں جکڑ کر اس کا سر اونچا کیا


"شیرا اگر میں چاہتا تو یہ تیزاب تیرے منہ کے اندر بھی انڈیل سکتا تھا مگر میں چاہتا ہوں تو سسک سسک کر مرنے سے پہلے یہ سوچتا رہے کہ تو نے پنگا کس سے لیا تھا"

کاشان نے ایک شیشے کی بوتل جو کیمیکل سے بھری ہوئی تھی اس کے منہ کے اندر انڈیلنا شروع کردی شیرا کی آنکھیں تکلیف کے مارے سرخ ہو چکی تھی اور وہ نفی میں بار بار سر ہلا رہا تھا جبکہ کاشان تحمل سے ایک ہاتھ سے اس کے بال مٹھی میں دبوچے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بوتل میں موجود محلول اس کے منہ سے پیٹ کے ذریعہ اتار رہا تھا خالی بوتل فرش پر پھینک کر وہ شیرا پر حقارت بھری نظر ڈال کر فیکٹری سے باہر نکل گیا


"رنعم کیا ہوا رو کیو رہی ہو،،، تم ٹھیک ہو نا"

کاشان فیکٹری سے باہر نکل کر کار کے پاس آیا تو رنعم کار کے پاس کھڑی ہوئی رو رہی تھی


"کاشان آپ۔۔۔۔ آپ نے اسے مار"

شاید خوف کے مارے رنعم سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا اس لیے وہ کاشان کے گلے لگ کر رونے لگی


"بری آنکھ سے دیکھا تھا اس نے تمہاری طرف۔۔۔۔ اسی بات کی سزا دے کر آرہا ہوں اسے۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوا، بالکل ریلکس ہو جاؤ "

کاشان اسے بانہوں میں لیے کر اس کا ڈر کم کرنے کی کوشش کرنے لگا


"میں یہاں پر رکھنا نہیں چاہتی،، آپ پلیز جلدی سے چلیں کاشان"

وہ ابھی بھی سہمی ہوئی فیکٹری کے دروازے کو دیکھتے ہوئے کاشان سے بولی


"چلو"

کاشان نے اس کو کار میں بٹھایا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار اسٹارٹ کر دی


****


ثوبان بیڈ روم میں آیا تو سیرت پاوں سے لے کر سر تک چادر تانے ہوئے لیٹی تھی۔۔۔ ثوبان نے بیڈ کے دوسری سائیڈ پر لیٹنے کے بعد سیرت کے اوپر سے چادر کھینچیی


"کیا تکلیف ہے تمہیں، مجھے سونے دینا ہے یا نہیں" سیرت ایک دم تیار بیٹھی تھی ثوبان کے چادر کھینچتے ہی اس پر چڑھ دوڑی


"جب آج رات میرا سونے کا پروگرام نہیں ہے تو تم کیسے سو پاوں گی"

وہ سیرت کو اپنی طرف کھینچتا ہوا اس پر جھکا


ثوبی اس وقت میرا موڈ فل آف ہے۔۔۔ دور ہٹو میرے پاس سے"

سیرت اس کو پیچھے ہٹانے لگی ثوبان نے اس کے دونوں ہاتھ قابو کر لیے


"تو اپنا موڈ آن کرو ناں یار ورنہ میرا موڈ آف ہو جائے گا"

ثوبان بولنے کے ساتھ ہی نرمی سے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے اور سیرت کو مسکرا کر دیکھا


"ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بڑی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جارہا تھا سیرت کو"

سیرت نے اپنا موڈ آف ہونے کی وجہ بتائی تو ثوبان پیچھے ہوا


"دیکھو سیرت تمہیں میری باتوں کا برا نہیں لگنا چاہیے۔۔۔ وہ تو میں تمہیں اب بھی کہو گا کہ تھوڑی بہت ذمےداریوں کو سمجھو۔۔۔۔ مما جس غم سے گزر رہی ہیں انہیں نارمل ہونے میں تھوڑا ٹائم لگے گا۔۔۔ تب تک تمہیں اور مجھے ان کو ٹائم دینا ہوگا پلیز میرے ساتھ مل کر اس معاملے میں تعاون کرو"

ثوبان ابھی بھی اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولا


"یار مما کو میرے تم سے "تم" کہہ کر بھی بات کرنے پر اعتراض ہوتا ہے پرسوں مجھے سمجھانے لگی کہ ثوبان سے اس طرح بات نہیں کیا کرو۔۔۔میں تو تم سے اسی طرح بات کرتی ہوں بچپن سے،،، مجھے تو عادت نہیں آپ جناب کرنے کی"

سیرت کی بات سن کر ثوبان ہنسنے لگا


"ویسے مما کچھ غلط تو نہیں بول رہی تھی"

ثوبان نے مسکراتے ہوئے سیرت سے کہا سیرت نے فوراً اس کو آنکھیں دکھائی


"اچھا نا یار اس طرح آنکھیں پھاڑ کر مت دیکھو۔۔۔ کیا ہر وقت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہو۔۔۔ مجھے اس بات سے کوئی ایشو نہیں تم مجھے آپ کہو یا تم کہو۔۔۔۔ لیکن اگر مما ایسا بول رہی ہیں تو تم ان کے سامنے۔۔۔ ان کی بات رکھنے کے لئے آپ کہہ لیا کرو اسے سے کون سے تمہاری عزت گھٹ جائے گی۔۔۔۔ مما کو خوشی ہوگی تم نے ان کی بات کا احترام کیا اور ویلیو دی۔ ۔۔۔۔ بھلے ہی بیڈ روم میں تم کہہ لیا کرو۔ ۔۔۔ اب تو موڈ آن کرو نا یار"

آخری بات وہ بہت بے چارگی سے بولا تو سیرت کو اس کی بات پر ہنسی آگئی


"بس سستی اتارنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے تمہارا"

سیرت ثوبان کے گلے میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر مسکراہٹ دبائے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔


"آج میں سستی نہیں پوری تھکن اتارنے کا ارادہ رکھتا ہوں"

ثوبان سیرت کی کمر کے گرد ہاتھ حائل کر کے اسے بیڈ پر لٹاتا ہوا اس پر جھکا


****


"کاشان آپ کو تو چوٹ لگی ہے ایک منٹ رکیں"

گھر آکر کاشان نے بیڈ روم میں شرٹ چینج کرنے کی غرض سے اتاری تو پیچھے سے اس کی ِپیٹھ کا حصہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ رنعم نے اس کے ہاتھ سے شرٹ لی اور آئینمنٹ لینے کے لیے جانے لگی۔۔۔ تبھی کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑا


"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میری جان،،، اس سے زیادہ بڑی بڑی چوٹیں کھائی ہیں۔۔۔ یہ معمولی چوٹ تمہارے شوہر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی"

وہ رنعم کے ہاتھ سے شرٹ لے کر اچھالتا ہوا اس کو گود میں اٹھا کر بیڈ پر آیا


"معلوم ہے بہت سالوں بعد آج مجھے بہت خوف محسوس ہوا۔۔۔ میں سچ میں ڈر گیا تھا کہیں تمہیں کھو نہ دوں"

کاشان بولتے ہوئے اس کا چہرہ چومنے لگا جیسے اس کے ہونے کا احساس خود میں محسوس کر رہا ہوں


"آج میں بھی بہت ڈر گئی تھی کاشان۔۔۔ اگر آپ وہاں پر نہیں پہنچتے تو وہ میرے ساتھ۔۔۔۔

رنعم کے چہرے پر ایک دم خوف کے آثار نمایاں ہوئے


"ششش آگے کچھ بھی نہیں بولنا۔۔۔ میرے ہوتے ہوۓ میری ڈول کو کوئی کچھ نہیں کر سکتا"

کاشان نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے کہا


"کاشان آپ کو کب ایسا لگا کہ آپ کو مجھ سے شادی کر لینی چاہیے"

رنعم اس کے دل پر اپنی انگلی سے R بناتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی


"جس دن تمھارے بال میری شرٹ میں الجھ گئے تھے۔۔۔ اس دن میں بھی الجھ کر رہ گیا تھا بار بار دل اکسا رہا تھا تم سے پیار کرنے کو،،، اور جب پیار ہوگیا تو شادی تو کرنی تھی پھر"

کاشان رنعم کو بتاتے ہوئے اس کی گردن پر جھک چکا تھا


"کاشان آپ نے اس کو مار کر جرم کیا ہے۔۔۔ قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا"

رنعم کا دماغ ایک دفعہ پھر بھٹک کر دوبارہ چند گھنٹے گزرے ہوئے واقعے پر چلا گیا جس پر کاشان نے سر اٹھا کر اسے سنجیدگی سے دیکھا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما

"بھول جاو رنعم اس واقعے کو برا خواب سمجھ کر، یہ ہم دونوں کے درمیان کی بات ہے اور ہمارے بیچ میں ہی رہنی چاہیے۔۔۔۔ بلکہ آئندہ یہ ذکر میں تمھارے منہ سے دوبارہ نہ سنو"

کاشان اس کا چہرہ تھامے سنجیدگی سے اسے بولنے لگا۔۔۔ بولنے سے زیادہ اس کے انداز میں وارننگ تھی جس پر رنعم نے سر ہلایا۔۔۔۔ کاشان سونے کے لئے لیٹ گیا جبکہ رنعم کروٹ موڑ کر ایک بار پھر اس واقعے کو سوچنے لگی بھلا یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں کی جو برا خواب سمجھ کر اسے بھولا دیتی

"کیا کر رہی ہیں مما"

ثوبان گھر آیا تو یسریٰ کے روم میں داخل ہوا وہ بہروز کی تصویر پر ہاتھ میں لیے اسے دیکھ رہی تھی ثوبان کی آواز پر چونکی


"کچھ نہیں تمہارے بابا سے باتیں کر رہی تھی، تم کب آئے"

یسریٰ نے مسکرا کر تصویر ایک سائڈ پر رکھ کر ثوبان سے پوچھا


"بالکل ابھی آیا ہوں بابا سے کیا باتیں کررہی تھی آپ" ثوبان یسریٰ کے پاس صوفے پر بیٹھ کر اس کے کندھے کے گرد ہاتھ رکھتا ہو اس سے پوچھنے لگا


"یہی شکوہ کر رہی تھی بہروز سے کہ مجھے ساری زندگی بے وقوف بناتے رہے جھوٹ بولتے تھے کہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں اور ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے اور دیکھو اپنی اولادوں کی خوشیاں دیکھ کر مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے یہ کون سی محبت ہے بھلا"

یسریٰ ثوبان کے کندھے پر سر رکھ کر اس سے بولنے لگی


"بابا نے سب سے زیادہ آپ ہی کو چاہا تھا مما، اس کے بعد ہمارا نمبر آتا ہے۔۔۔ اکثر ہلکے پھلکے بخار بھی وہ فوراً مجھ سے کہتے تھے میرے بعد اپنی مما کا خیال رکھنا اور اپنی طبیعت خرابی میں بھی تو انکو آپ ہی کا احساس رہتا تھا"

ثوبان کے منہ سے بہروز کا ذکر سن کر کندھے سے لگی یسریٰ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے


"بس میری سیرت کی اور رنعم کی خوشیاں دیکھ کر۔۔۔ ہمہیں اپنی زندگی میں مطمئن دیکھ کر انہوں نے فوراً ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلی"

بہروز کے ذکر سے ثوبان کے لہجے میں افسردگی شامل ہونے لگی


"تمہارے بابا کی مجھے بہت یاد آتی ہے ثوبان"

یسریٰ نے ثوبان کے کندھے سے سر اٹھا کر اس کو دیکھتے ہوئے کہا


"تو آپ مجھ سے یا سیرت سے بابا کی ذکر کر لیا کریں مگر یوں مت رویا کریں مجھے تکلیف ہوتی ہے"

ثوبان یسریٰ کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا


"اچھا یہ بتائیں کہ سیرت کہاں پر ہے،، آج کہیں باہر ڈنر کرنے کا پروگرم رکھ لیتے ہیں ایک گھنٹے بعد نکلیں گے اور نیکسٹ ویک ہم تینوں آنی کی طرف چکر لگا لیں گے کافی دن ہوگئے ہیں ان سے ملے ہوئے"

ثوبان نے یسریٰ کو اداس دیکھ کر پروگرام بنا لیا۔۔۔ ثوبان نے سوچا اسطرح وہ اپنے کمرے میں تنہا رہے گی تو مزید اس کی طبیعت خراب ہوگی اسلیے ثوبان کو یسریٰ کی فکر ہونے لگی


****


"کب آئے تم معلوم ہے آج میرا دن کتنا بور گزرا کیا بتاو" ثوبان بیڈروم میں داخل ہوا تو میگزین دیکھتی ہوئی سیرت اس کو دیکھ کر بولنے لگی


"سیرت اگر اتنی ہی بوریت کا شکار ہوتی ہو تو تھوڑی دیر مما کے پاس بیٹھ جایا کرو وہ بھی اکیلی بور ہوتی ہیں" ثوبان نے نارمل سے انداز میں صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارتے ہوئے اسے مشورہ دیا


"یہ بھی صحیح ہے میں تم سے اپنی بوریت کا ذکر کر رہی ہوں اور تم مما کی بوریت کا ذکر کر رہے ہو۔۔۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں صبح سے دوپہر کو ان کے پاس ہی تھی اور آج تو میں نے ان کو خود ہی میڈیسن بھی دی"

سیرت میگزین سائڈ پر رکھتے ہوئے منہ بنا کر بتایا


"سیرت مما نے مجھ سے تمہارے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔۔۔ تم نے اپنی بوریت کا بولا تو میں نے تمہیں مشورہ دے دیا۔۔۔ بلو شرٹ کہاں ہے میری صبح میں کہہ کر گیا تھا پریس کروا دینا"

ثوبان وارڈروب میں اپنی شرٹ تلاش کرتے ہوئے بولا


"یہ شاہدہ ناں بہت کام چور ہے۔۔۔ ابھی پوچھتی ہو اس سے"

سیرت ثوبان سے بولتے ہوئے روم سے باہر جانے لگی تو ثوبان نے اس کا بازو پکڑا


"سیرت شاہدہ اس گھر میں کافی عرصے سے کام کرتی ہے اور مما بابا نوکروں کے ساتھ کبھی مس بی ہیو نہیں کرتے پلیز تم بھی تھوڑا سا خیال کیا کرو یار تم نے کل اسے کتنی باتیں سنائی"

ثوبان اس کو پیار سے سمجھانے لگا


"تو پھر تم شاہدہ سے خود پوچھ لو میری تو ہر بات پر ٹوکتے ہو مجھے"

سیرت ثوبان سے اپنا بازو چھڑاتی ہوئی بولی


"میں کیوں پوچھو شاہدہ سے۔۔۔ بیوی تم ہو میری۔۔۔۔ بیوی کا فرض ہوتا ہے اپنے شوہر کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔۔۔۔۔ میں بس یہی کہہ رہا ہو لہجے میں نرمی لا کر بات کیا کرو"

ثوبان نے ابھی بھی تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو سیرت چپ ہوگئی۔۔۔۔۔ اسے ثوبان کی یہی بات اچھی لگتی تھی کہ وہ دوسرے مردوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر چیخ و پکار شروع نہیں کر دیتا تھا۔۔۔


"اچھا دو منٹ رک جاو میں خود پریس کرکے لا رہی ہو"

سیرت بولتے ہوئے روم سے باہر جانے لگی نکال تو ثوبان نے اس کا ہاتھ تھاما


"رہنے دو میں کوئی اور شرٹ پہن لیتا ہوں تم جلدی سے تیار ہو رہا آج میں مما اور تم رات کا ڈنر باہر کریں گے"

ثوبان اسے اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا


"جی نہیں آج بھی میں نے تمہارے لئے خود اپنے ہاتھوں سے تمہاری پسند کا کھانا بنایا ہے وہ بھی اتنی محنت سے"

سیرت نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تو ثوبان نے اس کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہونٹ رکھ خود سے قریب کیا


"یار مما سے بول چکا ہوں ڈنر کا، تم نے اپنے ہاتھوں سے میرے لیے کھانا بنایا ہے تو وہ میں وہی کھانا کل کھا لوں گا پلیز ابھی میری بات مان لو"

ثوبان کے اتنے پیار سے بات کرنے پر سیرت مسکرا دی


"اوکے میں تیار ہوتی ہوں پھر"

ثوبان کو سیرت کی یہی بات پسند تھی وہ کسی بھی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بناتی تھی اور فوراً مان جاتی تھی


****


رنعم شام میں شاور لے کر نکلی بیڈروم کی کھڑکی سے اس نے باہر جھانکا تو موسم ابر آلود ہو رہا تھا


"اف لگتا ہے بارش ہو جائے گی تھوڑی دیر میں"

رنعم سوچتی ہوں جلدی سے ٹیرس میں گئی


آج صبح ہی اس نے نوراں(ملازمہ) سے ہفتے بھر کے میلے کپڑے دھلواۓ تھے اگر بارش میں وہ بھیگ جاتے تو دوسری بار ساری محنت اس کو کرنی پڑتی کیوکہ نوراں نے پہلے ہی اسے اپنے کل کی چھٹی سے آگاہ کر دیا تھا


ٹیرس میں پہنچ کر وہ جلدی جلدی سے رسی پر موجود ٹنگے ہوئے کپڑے اتارنے لگی خود وہ شاور لے کر نکلی تھی گیلے بال اس کی کمر کو چھو رہے تھے۔۔۔ جن کو اس نے ابھی تک ڈرائے نہیں کیا تھا وجہ یہ تھی کہ بارش سے پہلے وہ ٹیرس میں موجود کپڑے روم میں لاکر وارڈروب میں رکھنا چاہتی تھی


جلدی جلدی میں اس نے دوپٹے کا بھی دھیان نہیں دیا۔۔۔ وہ اپنا دوپٹہ بھی بیڈ روم میں چھوڑ کر آ گئی تھی کیوکہ اس کا سارا دھیان بادل کی طرف تھا۔۔۔ ہاتھ جلدی جلدی چلاتی ہوئی وہ رسی پر موجود کپڑے اتارنے میں مصروف تھی


****


"یار ٹاپ فلور پر دیکھ کیا فٹ بندی ہے"

کاشان کار پارکنگ میں کار پارک کر کے کار سے باہر نکلا تو اسے چار قدم دور دو لڑکوں میں سے ایک کی آواز سنائی دی


"بندی ٹائٹ ہے مگر افسوس ہے کہ میرڈ ہے ورنہ میں نے سوچا تھا کہیں سے اس کا موبائل نمبر معلوم کیا جائے"

دوسرے لڑکے نے اپنے دوست سے تبصرہ کیا۔۔۔ کاشان ان لڑکوں کی پشت پر کھڑا تھا اس لیے وہ کاشان کو نہیں دیکھ سکے مگر کاشان نے اپنے فلیٹ کے ٹیرس پر نظر اٹھا کے دیکھا جہاں رنعم بغیر دوپٹے کے کھلے بالوں کے ساتھ رسیوں پر سے دھلے ہوئے کپڑے اتارنے میں مصروف تھی۔۔۔ رنعم کو بغیر دوپٹے اور گہرے گلے میں دیکھ کر کاشان کا خون کھولنے لگا،، وہ بالکل لاپرواہی کے انداز میں بس اپنے کام میں مصروف تھی


"میرڈ ہے تو کیا ہوا کونسا ہمہیں شادی کرنی ہے فگر چیک کر کتنا ٹائٹ ہے۔۔۔ موبائل نمبر معلوم کر ہی لیتے ہیں تھوڑے دن انجوائے کر لیں گے"

پہلے لڑکے نے اپنے دوست سے کہا کاشان کا غصے میں خود پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا


وہ ان دونوں لڑکوں کی گھونسوں اور مّکوں سے تواضع کرنے کے بعد گھر پہنچا جب تک بارش بھی اسٹارٹ ہو چکی تھی


****


رنعم نے ابھی سارے کپڑے وارڈروب میں ترتیب سے رکھے ہی تھے گھر کی بیل بجی۔۔۔ بیڈ پر رکھا دوپٹہ، اٹھا کر اپنے گلے میں ڈالتے ہوئے وہ دروازہ کھولنے لگی کاشان کے آنے کا ٹائم تھا اسے معلوم تھا کاشان ہی ہوگا


"آج چائے رکھنے میں لیٹ ہوگئی ہو آپ چینج کرلیں میں جلدی سے چائے رکھتی ہوں"

دروازہ کھولتے ہی رنعم نے کاشان کو دیکھ کر بولنا شروع کر دیا۔۔۔


کاشان نے فلیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی زور دار تھپڑ رنعم کے منہ پر دے مارا۔۔۔ جس کی شاید رنعم کو توقع نہیں تھی وہ لڑکھڑاتی ہوئی دور جا گری۔۔۔۔ تھپڑ سے جہاں رنعم کا بندھا ہوا جوڑا کھل گیا وہی کاشان کے ہاتھ کی ریسٹ واچ بھی اتر کر دور جاگری ایک پل کے لئے رنعم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا


سر اوپر کے رنعم نے بے یقینی سے کاشان کو دیکھا کاشان لب بھینچتا ہوا اسی کو گھور رہا تھا۔۔۔ رنعم کے دیکھنے پر وہ تیزی سے اس قریب آیا


"مجھے الو کا پٹھا سمجھ کے رکھا ہے تم نے۔۔۔۔ غیر مردوں کے سامنے بغیر دوپٹے کے آنے میں کوئی جھجھک نہیں اور شوہر کے سامنے دوپٹہ لے کر ڈرامہ کرنا یاد آتا ہے"

وہ رنعم کے بالوں کو مٹھی میں جگڑ کر اسے اٹھاتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اس کا دوپٹہ گلے سے کھینچ کر دور پھینکا۔۔۔۔ کاشان کی گرجدار آواز کے ساتھ بادل بھی زور سے گرجا


"کیا کہہ رہے ہیں آپ کا۔ ۔۔۔۔شان"

رنعم نے روتے ہوئے خوفزدہ ہوکر کاشان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ۔۔۔ کاشان نے رنعم کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اسے بیڈروم میں لاکر بیڈ پر پھینکا اور خود روم سے باہر نکل گیا


رنعم بیڈ پر اوندھے منہ رونے لگی باہر بارش اپنے زوروں پر برس رہی تھی تب رنعم کو دروازے بند کرنے کی آواز آئی۔۔۔ قریب قدموں کی آواز پر رنعم نے سر اٹھا کر کاشان کو دیکھا مگر اس کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر رنعم کی آنکھیں خوف پھٹی کی پھٹی رہ گئی بادل ایک بار پھر زور سے گرجا


"کاش۔۔۔ان یہ آ۔۔۔پ کک کیا"

خوف کے مارے رنعم کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے کاشان بیڈ پر چڑھ کر اس کے بےحد قریب بیٹھا


"ایک ماہ پہلے تمہیں معلوم ہے میں نے تمہارے بازو پر سگریٹ کیو لگائی تھی۔۔۔ کیوکہ تم بغیر آستین کے کپڑے پہن کر نوید کے سامنے آئی تھی جوکہ صرف 12 سال کا تھا اور آج تم بغیر دوپٹے کے ٹیرس میں گئی۔۔۔ 22 سال کے لڑکے تھے وہ۔ ۔۔۔تمہیں معلوم ہے وہ لڑکے تمہارا گہرا گلا دیکھ کر تمہارے بارے میں کیا جملے بول رہے تھے"

کاشان چھری کو تھرچا پکڑ کر آہستہ سے چھری کی نوک رنعم کے چہرے پر پھیرتا ہوا گردن تک لایا رنعم اپنی سانسیں روکے بالکل پتھر کی بنی ہوئی تھی۔۔۔ اگر وہ ذرا بھی ہلتی تو چھری اس کو زخمی کر سکتی تھی


"روز رات کو تمہارے حسن کو سراہانہ نہیں بھولتا۔۔۔ اپنے لفظوں سے، ہونٹوں سے، آنکھوں سے، ہر عمل سے تمہاری تعریف کرتا ہوں۔۔۔۔ کون سی کمی رہ جاتی ہے میری سرہانے میں جو تم یوں بغیر دوپٹے کے گہرا گلا پہنے اپنی نمائش کرنے ٹیرس میں آئی تھی۔۔۔ جواب دو"

کاشان اب چھری کی نوک کو سیدھا کر کے۔۔۔ رنعم کے سینے پر رکھتا ہوا بولا۔۔۔ اس کے ردعمل سے رنعم کی جان نکلنے لگی


"کاشان قسم لےلیں میرا مقصد باہر ٹنگے ہوئے کپڑوں کو اتارنا تھا ورنہ وہ بارش میں خراب ہوجاتے مجھے جلدی میں دوپٹے کا دھیان نہیں رہا پلیز مجھے ماریئے گا مت"

رنعم روتی ہوئی اسے صفائی دینے کے ساتھ اپنی کانپتی ہوئی انگلی سے کاشان کے سینے پر R بنانے لگی۔۔۔۔ اسے اس وقت کاشان سے بےپناہ خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ کاشان اس پر اعتبار کرے


"تمہیں کیا لگ رہا ہے کہ میں تمہیں مار دوں گا۔۔۔۔ تمہیں مار سکتا ہوں بھلا؟ ؟؟ میں ایسا نہیں کرو گا۔۔۔ میں ایسا کر ہی نہیں سکتا"

کاشان نے چھری کو دور پھینکتے ہوئے کہا


"مگر میں کیا کروں بتاؤ ان لڑکوں کی باتیں میری یہاں یہاں۔۔۔۔ یہاں چبھ رہی ہیں"

کاشان اپنے سینے سے رنعم کی انگلی پکڑ کر اپنے پیشانی پر زور سے مارتا ہوا بولا رنعم کو مزید رونا آنے لگا۔۔۔۔ وہ ایک نظر رنعم کے سرخ گال پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا


****


رنعم اب بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی رو رو کر اس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھی۔۔۔۔ باہر بھی برسات بند ہو چکی تھی۔۔۔۔ تین گھنٹے گزر چکے تھے اسے نہیں معلوم تھا کہ کاشان دوسرے کمرے میں کیا کر رہا ہے


وہ خوف کے مارے بیڈ سے اٹھی تک نہیں تھی چھری وہی بیڈ روم میں پڑی تھی جسے رنعم ہر تھوڑی دیر بعد خوفزہ نظروں سے دیکھتی


جیسے ہی کاشان دوبارہ بیڈروم میں آیا۔۔۔ رنعم نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلی اور کاشان پر یہ تاثر چھوڑا کہ وہ سو رہی ہے


کاشان چلتا ہوا ہے رنعم کے پاس آیا بیڈ پر اس کے قریب آ کر بیٹھا۔۔۔ کاشان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھا جس سے اس نے رنعم کو تھپڑ مارا تھا۔۔۔ اس کی انگلیوں میں ہلکی ہلکی سنسناہٹ کا احساس ابھی تک موجود تھا۔۔۔ تو پھر رنعم کے گال کا کیا حشر ہوا ہوگا۔۔۔ کاشان نے رنعم کے چہرے پر آئے بالوں کو ہٹا کر اس کا گال دیکھا۔ ۔۔۔ اب اس کے گال پر سرخی کی بجائے سوجن تھی شاید زوردار تھپڑ کھانے کے بعد وہ بری طرح فرش پر گری تھی اس وجہ سے اس کا گال سوجھ چکا تھا اور نیچے والا ہونٹ بھی پھٹا ہوا تھا۔۔۔ شاید کاشان کے ہاتھ میں موجود ریسٹ واچ۔۔۔ رنعم کے ہونٹ کو زخمی کر گئی تھی


کاشان نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے اس کے گال کو چھوا،،، اب وہ اس کے ہونٹ کے زخم کو چھو کر محسوس کر رہا تھا۔۔۔ آج رنعم نے اس کے پسند کا کھانا بنایا تھا اور اس وقت کاشان رنعم کو کھانے کے لیے ہی بلانے آیا تھا۔۔۔۔ کاشان کو معلوم تھا،، رنعم اس وقت جاگ رہی ہے،،، وہ اس کو دیکھ کر سوتی ہوئی بن گئی تھی


کاشان کچھ کہے بغیر بیڈ سے اٹھا کمرے کی لائٹ بند کر کے اپنی سائڈ پر آکر بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور اسموکنگ کرنے لگا


رنعم کو معلوم نہیں وہ کب تک سگریٹ پھونکتا رہا شاید اس نے بھی رات کا کھانا نہیں کھایا تھا رنعم نیند کی ایکٹنگ کرتے کرتے سچ میں نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔ نیند میں بھی اپنے گال پر کاشان کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر سکتی تھی پھر بھی اس کی آنکھ نیند سے یا خوف سے نہیں کھلی

"کیا رپورٹ ہے جواد معلوم ہوا کچھ شیرا کے بارے میں۔۔۔ کس نے اس کی یہ حالت کی اور اسے ہوش آیا کہ نہیں"

ثوبان نے انسپکٹر جواد سے شیرا کے متعلق تفصیلات معلوم کرنی چاہئی۔۔۔ کیوکہ شیرا ایک پولیٹیشن کا خاص آدمی تھا،،، اور اس پولیٹیشن کا دوسری بار ثوبان کے پاس فون آیا تھا


ایک ہفتے پہلے دو آدمی اسے زخمی حالت میں اسپتال پہنچا گئے تھے،، فوری ٹریٹمینٹ سے اس کی جان تو بچ گئی تھی مگر کیمیکل پیٹ میں جانے سے اندر سے اس کی آنتیں گل گئی تھی۔۔۔ وہ اسپتال میں بے ہوش پڑا ہوا تھا اور اس کی جان کو ابھی بھی خطرہ لاحق تھا


"سر ڈاکٹرز کے مطابق،، ابھی شیرا مکمل ہوش و حواس میں نہیں ہے۔ ۔۔۔ اس وجہ سے اس کا بیان نہیں لیا جاسکتا۔۔۔۔۔ اور آپ کے کہنے پر کل ایک دفعہ پھر موقع واردات کی جگہ کی یعنیٰ پوری فیکٹری کی تلاشی دوبارہ لی گئی۔۔۔ مگر ثبوت کے طور پر جو چیز سامنے آئی اس کو دیکھ کر بہت زیادہ حیرت ہوئی"

ثوبان جواد کی بات غور سے سن رہا تھا اس کی آخری بات پر ثوبان نے سوالیہ نظروں سے جواد کو دیکھا


"سر شیرا کی اس حالت کی ذمہ دار کوئی لڑکی ہے"

جواد نے ثوبان کو بتایا


"ایک لڑکی۔۔۔ اور وہ شیرا جیسے لمبے چوڑے آدمی کی یہ حالت کرے گی۔۔۔ کیا ہوگیا جواد تمہیں"

ثوبان نے چڑتے ہوئے کہا


"اس فیکٹری کی دوبارہ تلاشی لینے پر ہمہیں یہ بریسلٹ ملا"

جواد اتنے پلاسٹک کے بیگ میں موجود بریسلیٹ ثوبان کے سامنے ٹیبل پر رکھا۔۔۔ بریسلیٹ کو دیکھ کر ثوبان ایک دم چونکا۔۔۔ اس نے جواد کو جانے کا اشارہ کیا اور پلاسٹک کا بیگ اٹھا کر غور سے بریسلیٹ دیکھنے لگا۔۔۔ کیا یہ بریسلیٹ رنعم کا ہے یا پھر یہ ایک محض اتفاق ہے،،، وہ بریسلیٹ کے چٹخے ہوئے نگ کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔ ۔۔ ہفتے پہلے جب کاشان رنعم کو لینے آیا تھا تو شاید اس نے کہیں باہر ڈنر کا ذکر کیا تھا۔۔۔ اور شیرا کو بھی اسی رات زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔۔۔۔ ثوبان سوچ میں پڑ گیا۔۔۔مگر تین دن پہلے ہی تو کاشی اور رنعم مما اور سیرت سے مل کر گئے تھے


کیا ایسی کوئی بات ہے جو کاشی اور رنعم دونوں ہی مجھ سے چھپا رہے ہیں۔۔۔۔ کیا اس رات ان دونوں کے ساتھ کوئی حادثہ۔۔۔۔ رنعم ٹھیک تو ہے۔ ۔۔۔


ایک کے بعد ایک سوال ثوبان کے دماغ میں آرہے تھے۔۔۔ آخری سوال پر اس نے فوراً رنعم کا نمبر ملایا جو کہ دوسری بیل پر اٹھا لیا گیا


"رنعم تم ٹھیک تو ہو ناں"

بے ساختہ ثوبان کے منہ سے نکلا


"آپ اس طرح کیوں پوچھ رہے ہیں بھیا" رنعم نے اپنے سوجھے ہوئے گال کو چھوتے ہوئے پوچھا


"پرسوں تم اور کاشی گھر آئے تھے تو میری ملاقات نہیں ہو پائی تھی ناں تم دونوں سے۔ ۔۔۔۔ اور بتاؤ ہفتے پہلے باہر ڈنر کیسا رہا تم لوگوں کا"

ثوبان بات بناتے ہوئے اصل موقف پر آیا


"اس دن کا ڈنر کیسے بھول سکتی ہو وہ تو یادگار ڈنر تھا"

رنعم نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا


"رنعم تم ٹھیک ہونا بیٹا"

رنعم کا انداز نوٹ کر کے ثوبان کو اس کی فکر ہونے لگی۔۔۔ گاڑی کی چابی تھام کر وہ چیئر سے اٹھا۔۔۔ اب وہ رنعم کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا تھا


"جی۔۔۔۔ جی بھیا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ بتائیں مما اور آپی کیسی ہیں"

رنعم ثوبان کے فکر مندانہ انداز پر ایک دم ہوش میں آئی۔۔۔ کہیں ثوبان پریشانی میں یہی نہ آجائے اور وہ یہ بالکل نہیں چاہتی تھی اس لیے اپنی آواز کو بشاش کرتی ہوئی بولی


"سب ٹھیک ہے۔۔۔ اچھا سنو وہ جو بریسلیٹ کا اسٹون ٹوٹ گیا تھا، میں نے جیولر سے بات کرلی ہے۔۔۔ تم وہ بریسلیٹ مجھے دے دینا میں ریپیئر کروا دوں گا"

ثوبان نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے رنعم سے بولا


"بھیا آئی ایم سوری مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے وہ بریسلیٹ مجھ سے کہیں کھو گیا ہے۔۔۔ مجھے معاف کردیں میں آپ کے دیئے ہوئے گفٹ کی حفاظت نہیں کر پائی"

اس دن جب رنعم کاشان کے ساتھ گھر پہنچی تھی تب اس کے ہاتھ میں بریسلیٹ موجود نہیں تھا اسے افسوس ہوا کہ وہ بریسلیٹ اس سے کہیں کھو گیا


"پگلی معافی کیوں مانگ رہی ہوں ایسے دس بریسلیٹ میں اپنی بہن کے اوپر سے وار کر پھینک دوں۔۔۔ اچھا سنو چائے کا پانی رکھو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں تمہارے پاس"

ثوبان نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے رنعم سے کہا


"نہیں بھیا نہیں پلیز آپ آج مت آئیے گا۔۔۔ میرا مطلب ہے میں تو خود ابھی یعشل کے گھر جانے کے لیے تیار ہورہی ہو۔۔۔ بس نکلنے ہی والی ہو"

ثوبان کی بات سن کر رنعم نے ایک دم اسے منع کردیا۔۔۔ ڈریسر کے آگے آکر اپنا سوجھا ہوا گال دیکھا جلدی سے بہانہ بھی گڑ دیا


"اووو چلو کوئی بات نہیں۔۔۔۔ میں یہاں سے گزر رہا ہے تو سوچا تم سے ملتا چلوں۔۔۔۔ چلو پھر کبھی ملیں گے۔۔ دھیان سے جانا یعشل کی طرف"

ثوبان نے اسے احتیاط برتنے کی تلقین کرتے ہوئے خدا حافظ کہہ کر کال کاٹی


مگر اس کا رخ کاشان کے فلیٹ کی طرف تھا۔۔۔ رنعم کی بات سے ثوبان کو مزید اندازہ ہوگیا کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔۔۔ رنعم کا کھویا کھویا انداز، معنی خیز باتیں اور سب سے بڑی بات وہ اس طرح ثوبان کو گھر آنے سے کبھی منع نہیں کر سکتی تھی بے شک اسے یعشل کے گھر جانا بھی ہو تب بھی نہیں۔۔۔ اب جلدی سے ثوبان کو رنعم کے پاس پہنچنا تھا تاکہ وہ اس سے مل کر اصل بات کی تہہ تک پہنچ سکے


****


"بھیا کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں۔۔۔ انہوں نے فیل تو کیا ہوگا میرا اس طرح بولنا، لیکن اگر وہ یہاں آ جاتے اور میرا چہرہ دیکھ لیتے تو انہیں زیادہ دکھ ہوتا۔۔۔ اچھا ہی ہوا جو منع کردیا رنعم آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر افسردگی سے سوچنے لگی


آج صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو کاشان آفس جا چکا تھا۔۔۔ اسے جگائے بغیر جب وہ ڈائنگ ہال میں آئی تو دیکھا۔۔۔ تھرمس میں چائے موجود تھی ناشتہ ڈھکا ہوا ٹیبل پر موجود تھا جو کاشان اس کے کرنے کے لئے رکھ کر گیا تھا


کل شام سے اس نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔۔۔ رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔۔ رنعم نے تھرمس سے اپنے لئے چائے نکال کر ایک بریڈ کا پیس حلق سے اتارا اور گھونٹ گھونٹ چائے پینے لگی۔۔۔ چائے کے ساتھ ساتھ وہ کل رات والی تلخی بھی اپنے اندر اتارنے لگی


ناشتے سے فارغ ہوکر اس نے گھر کی صفائی کا ارادہ کیا مگر اتفاق سے منع کرنے کے باوجود نوراں اس وقت آگئی۔۔۔ وہ کام کرتے ہوئے بار بار رنعم کا سوجھا ہوا گال دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے رنعم سے اس کے گال پر نشان کے بارے میں پوچھا۔۔۔ رنعم نے "گر گئی تھی" کہہ کر ٹال دیا


کام سے فارغ ہو کر جانے سے پہلے نوراں نے رنعم کو اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا۔۔۔ اس کی بیٹی کا گال بھی ایسے ہی سوجھا ہوا تھا،، مگر وہ گری نہیں تھی بلکہ اس کے شوہر نے اسے مارا تھا۔۔۔ نوراں کی بات سن کر رنعم کا دل مزید بجھ گیا۔۔۔ اس کا دل کاشان کی طرف سے بدظن ہونے لگا


"یہ میں کیا سوچنے لگی ہو کاشان پیار بھی تو کرتے ہیں مجھ سے۔۔۔ رنعم نے فوراً اپنے دل کو سمجھایا اور کاشان کے اور اپنے سارے پیار بھرے لمحات یاد کرنے لگی


****


تھپڑ سے جیسے ہی رنعم فرش پر نیچے گری۔۔۔ کاشان نے وہ منظر یاد کر کے اپنی مٹھی زور سے ٹیبل پر ماری۔۔۔ جب جب اسے کل والا منظر یاد آرہا تھا وہ اپنے ہاتھ کو اسی طرح سزا دے رہا تھا معلوم نہیں کس طرح اس کا ہاتھ اتنی زور سے رنعم پر اٹھا۔۔۔ وہ آفس میں بیٹھا ہوا سوچنے لگا


"کیا ہوا کاشان آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں"

مایا نے اس کے روم میں آکر پوچھا جس پر کاشان چونک کر اسے دیکھنے لگا


"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ بتائیں۔۔۔ کوئی کام تھا کیا"

کاشان نے مایا کو دیکھ کر پوچھا


"کل ہونے والی میٹنگ کے حوالے سے کچھ ڈسکشن کرنی تھی۔۔۔ آئی تھینک میں تھوڑی دیر بعد آتی ہو"

مایا روم سے جانے کے لیے مڑی


"نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ہم ڈسکس کر لیتے ہیں آپ بیٹھیں"

کاشان نے مایا کو کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بیٹھ گئی


اس دن کاشان کی باتیں سننے کے بعد مایا نے واقعی کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کی تھی جو کاشان کو اریٹیٹ کرتی۔۔۔۔ اب وہ کاشان سے صرف آفس کے کام سے ریلیٹڈ بات کرتی جس سے کاشان کو لگ رہا تھا کہ وہ واقعی سدھر گئی ہے


"ایکسیلنٹ۔۔۔ اب سب کچھ کلیئر ہے،،، مجھے امید ہے کل کا پروجیکٹ ہمہیں ہی ملے گا"

ڈسکشن کرنے کے بعد مایا نے خوش ہوتے ہوئے کہا جس پر کاشان اسمائل دے کر ہاتھ میں بندھی ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھنے لگا۔۔۔ افس آورز ختم ہوچکے تھے


"ٹھیک ہے میم اب اجازت دیجئے انشاءاللہ کل میٹنگ کے وقت ملاقات ہوگی"

کاشان نے چیئر سے اٹھتے ہوئے کہا


اسے رنعم کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی۔۔۔ رات کو بھی وہ اپنے رویے کی تلافی نہیں کر سکا تھا۔۔۔صبح بھی وہ رنعم کو جگائے بغیر چلا گیا تھا مگر اب اسے اپنی بیوی کو منانا تھا۔۔۔۔ اسے اپنی محبت کا یقین دلانا تھا


آفس سے نکل کر اس نے کار فلاور شاپ پر روکی ریڈ روزز کا بوکے لے کر اس میں سوری کا چھوٹا سا کارڈ ڈالا اب وہ جیولری شاپ پر موجود تھا۔ ۔۔ کافی دنوں سے اس نے رنعم کوئی گفٹ نہیں دیا تھا اسے رنعم کے لئے رینگ پسند آئی جو اس نے فوراً پرچیز کرلی۔۔۔ آئس کریم شاپ سے رنعم کا من پسند فلیور پیک کروا کر وہ تمام چیزیں لیتا ہوا اپنے فلیٹ کی طرف جانے لگا


****


رنعم شاور لے کر نکلی تو آئینے میں اپنے گال کا جائزہ لینے لگی۔۔آج صبح کی بانسبت سوجھن تھوڑی کم تھی مگر ابھی بھی دیکھ کر واضح ہو رہا تھا جیسے کوئی چوٹ لگی ہو۔۔۔ اچھا ہی ہوا جو بھیا کو منع کردیا ویسے بھی کاشان کے آنے کا ٹائم ہے


رنعم نے گھڑی میں ٹائم دیکھا اپنے گیلے بالوں کو ڈرائر کی مدد سے خشک کرکے جوڑا بنایا اتنے میں ڈور بیل بجی فولڈ دوپٹے کو کھولنے کے بعد اچھی طرح اوڑھتی ہوئی وہ دروازہ کھولنے چلی گئی


"بھیا آپ"

رنعم نے میں دروازہ کھولنے پر کاشان کی توقع کی تھی مگر سامنے ثوبان کو کھڑا دیکھ کر وہ شاک رہ گئی پھر زبردستی مسکرائی


"کیا ہوا بھیا کو اندر آنے کا نہیں کہو گی"

ثوبان اس کو حیرت زدہ دیکھکر خود اندر آتا ہوا بولا۔۔۔ تو رنعم نے سائڈ میں ہوکر راستہ دیا


"کاشی کہاں پر ہے آیا نہیں ابھی تک"

ثوبان ڈرائنگ روم کی طرف جاتا ہوا رنعم سے پوچھنے لگا


"بس وہ بھی آتے ہوں گے۔۔۔ میں پانی لے کر آتی ہوں آپ کے لئے"

رنعم کچن میں جانے کے لیے مڑی۔۔۔ تبھی ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑا


"چہرے پر کیا ہوا ہے تمہارے"

ثوبان رنعم کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا وہ جب سے آیا تو اس کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا رنعم کی گھبراہٹ،،، زبردستی کا مسکرانا،، اپنی پریشانی چھپانا ہے یقیناً اس کے پیچھے کوئی بڑی بات تھی


"یہ تو میں گر گئی تھی کل،،، اس لیے چہرہ سوجھ گیا"

وہ ثوبان سی نظریں ملائے بغیر بولی


"رنعم یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔ میں بےوقوف نہیں ہوں۔۔۔ مجھے بالکل سچ بتاؤ کیا ہوا ہے" ثوبان اس کے چہرہ کا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔۔۔ ایسے نشان تو وہ بچپن سے فائزہ کے منہ پر دیکھتا آیا تھا اس کا دل اندر سے انجانے خوف سے ڈرنے لگا


"بھیا کیا ہوگیا آپ کو میں آپ سے جھوٹ بولوگی کیا"

رنعم کا دل ہی تو بھر آیا تھا،،،، ثوبان اس کو جس طرح دیکھ کر پوچھ رہا تھا مگر وہ لہجہ نارمل رکھتے ہوئی بولی


"گر کر چوٹ لگنے میں اور تپھڑ کے نشان میں فرق ہوتا ہے رنعم۔۔۔ کاشی نے ہاتھ اٹھایا ہے تم پر"

ثوبان جس مقصد کے لئے آیا تھا وہ رنعم کا سوجھا ہوا گال دیکھ کر سب بھول چکا تھا مگر اب وہ دعا کر رہا تھا کہ رنعم سچ بول دے اور یہ بھی کہ یہ تکلیف رنعم کو کاشی نے نہ دی ہو" رنعم آخر کب تک ضبط کرتی


"بھیا"

ثوبان کے گلے لگ کر وہ بری طرح رو پڑی اور رنعم کا رونا ثوبان کو بہت کچھ سمجھا گیا ثوبان دونوں ہاتھوں سے اسے تھامے خاموش کھڑا رہا۔ ۔۔ رنعم کو اس طرح روتا دیکھ کر اس کا دل تڑپ گیا تھا اتنے میں ڈور بیل بجی


"بھئا آپ میری بات سنیں پلیز"

بیل کی آواز پر ثوبان دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا وہی رنعم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا


"ہاتھ چھوڑو میرا"

ضبط سے ثوبان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔۔ وہ بولنے کے ساتھ رنعم سے ہاتھ چھڑا کر لانچ میں آیا اور فلیٹ کا دروازہ کھولا


"ثوبی تم کب آئے"

دروازہ کھولنے پر رنعم کی بجائے کاشان نے ثوبان کا چہرہ دیکھا۔۔۔ ایک ہاتھ میں بوکے اور دوسری چیزیں تھام کر کاشان گھر کے اندر داخل ہوا


"رنعم کہاں ہے"

ثوبان کی طرف سے جواب نہ پا کر کاشان نے دوسرا سوال کیا اور ائیسکریم کا جار ٹیبل پر رکھا۔۔۔ کوئی بھی جواب دینے کے بجائے ثوبان نے زوردار تھپڑ کاشان کے منہ پر دے مارا جس سے کاشان کے ہاتھ میں موجود بوکے نیچے گرا اور سرخ پھول فرش پر بکھر گئے


"بھیا پلیز آپ کو خدا کا واسطہ ہے آپ ایسا مت کریں"

رنعم جو کہ ڈرائنگ روم میں موجود تھی ان دونوں کی گفتگو سن کر، تھپڑ کی آواز پر لانچ میں آئی اور ثوبان کا بازو پکڑتے ہوئے رونے لگی جبکہ کاشان نے اتنی ہی بے یقینی سے ثوبان کو دیکھا ثوبان اسے غصے میں گھور رہا تھا


"ہمت کیسے ہوئی تمہاری اس معصوم پر ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔ آخر کیا سوچ کر تم نے اس کو اتنی بے دردی سے مارا ہے"

ثوبان رنعم کا رونا اگنور کرتا ہوا غصے میں کاشان کی طرف بڑھنے لگا مگر رنعم نے اس کا بازو مغبوطی سے تھام لیا


"دیکھو ثوبی تم بولکل غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ غلطی اس کی تھی تب میرا ہاتھ اٹھا۔۔۔ یہ بات الگ ہے اسے کافی زور سے لگی ہے جس کا مجھے احساس ہے"

کاشان ثوبان سے کہتا ہوا رنعم کے پاس آیا اس کا رخ اپنی طرف کیا


"اور تم۔۔۔۔ تم نے فوراً اپنے بھیا کو بتا دیا انتظار تو کر لیتی تھوڑا۔۔۔ ایکسکیوز کرنے ہی والا تھا میں تم سے" کاشان نرمی سے رنعم کے گال پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اس سے شکوہ کرنے لگا جس پر ثوبان نے کاشان کا ہاتھ رنعم کے گال سے دور جھٹکا اور کاشان کا گریبان پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"اس کو چھوڑو مجھ سے بات کرو، یہاں مجھے دیکھ کر اور بتاؤ ایسا کیا کیا تھا اس نے جس پر تم نے جانور بننے میں دیر نہیں کی"

ثوبان کو کاشان کی شکل دیکھ کر مزید غصہ آرہا تھا


"یہ ہم دونوں ہسبنڈ وائف کے بیچ کی بات ہے اور میں اس وقت اپنی بیوی سے بات کر رہا ہوں"

کاشان نے ثوبان کا ہاتھ سے اپنا گریبان ہٹا کر اسے گھورتے ہوئے کہا


"ہسبینڈ وائف کے بیچ کی بات ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کاشی کے تم جانور بن جاو اور بیچ میں کوئی نہ بولے۔۔۔ اس کا باپ مرا ہے لیکن بھائی ابھی زندہ ہے،، چلو رنعم میرے ساتھ"

ثوبان رنعم کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانے لگا


"ثوبی بات کا بتنگڑ مت بناؤ،، میں اس سے ایکسکیوز کرنے والا تھا وہ کہیں نہیں جائے گی تمہارے ساتھ"

کاشان نے آگے بڑھ کر رنعم کا ہاتھ ثوبان کے ہاتھ سے چھڑایا۔۔۔ رنعم اپنا دل تھام کبھی ثوبان کو تو کبھی کاشان کو دیکھ رہی تھی


"رنعم کو میں ابھی اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں اور اب تم دوبارہ میرا راستہ نہیں روکو گے" ثوبان نے تنبہی کرتے ہوئے کاشان سے کہا۔۔۔ کاشان غصے سے ضبط کرتا ہوا ثوبان کو دیکھنے لگا


"چلو رنعم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ گھر چلو"

اس نے رنعم کو دیکھ کر کہا


"بھیا میں ٹھیک ہوں، کاشان ٹھیک کہ رہے تھے غلطی میری تھی،، آپ مجھے اس حالت میں لے کر جاۓ گی تو بات بڑھے گی۔۔۔ مما، آپی بھی پریشان ہوگیں مجھے یوں آپ کے ساتھ آتا دیکھ کر میں بالکل ٹھیک ہوں آپ جائیں پلیز"

رنعم نظر جھکا کر ثوبان سے بولی


"رنعم تم میرے ساتھ گھر چل رہی ہو ابھی اور اسی وقت"

ثوبان نے دوبارہ زور دیتے ہوئے رنعم سے کہا


"بھیا پلیز"

رنعم ثوبان کے آگے ہاتھ جوڑ کر رونے لگی ثوبان چپ ہوگیا وہ کاشان کی طرف مڑا


"اسے ہم نے بہت نازوں سے پالا ہے کاشی، اگر آئندہ تم اس کی آنکھ میں آنسو لانے کا سبب بنے تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ چاہے اس کی غلطی ہو تب بھی تم اسے کچھ نہیں کہو گے۔۔۔ جتنی میں تم سے محبت کرتا ہوں ناں اس سے ذیادہ اس سے محبت کرتا ہوں اور اس سے محبت کا تو تم نے بھی دعویٰ کیا ہے ناں تو اپنی محبت کا ثبوت دو،،، جہالت کا نہیں۔۔ اس کا خیال رکھنا اور دوبارہ یہ بات مجھے دہرانی نہ پڑے"

ثوبان کاشان کو وارن کرتا ہوا دوبارہ رنعم کی طرف پلٹا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتا ہوا اسے گلے سے لگایا


"جب میں انٹرن شپ کا پیپر دے رہا تھا اور تم سے ایک پرابلم سولو نہیں ہو رہی تھی، جو میں نے تمہیں سمجھائی تھی یاد ہے نا میں نے تم سے ایک وعدہ لیا تھا"

ثوبان رنعم سے پوچھنے لگا رنعم ثوبان کو دیکھ کر مسکرا دی اور اثبات میں سر ہلایا


"ابھی میں جا رہا ہوں،، رات میں فون کروں گا پھر تفصیل سے بات کریں گے اور کل دوپہر کو میں یہاں پر دوبارہ آو گا۔۔۔ اپنا خیال رکھنا"

ثوبان رنعم کو گال تھپتھپاتا ہوا۔۔ کاشان پر ایک سنجیدہ نگاہ ڈال کر گھر سے باہر نکلنے لگا کچھ یاد آنے پر وہ دوبارہ مڑا


"اور ہاں ایک بات یاد رکھنا کاشی، میری بات کان کھول کے سن لو آئندہ اگر تم نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو میں بغیر کسی سے پوچھ گچھ کیے تمہیں لاک اپ کر دوں گا۔۔۔ تمہارے بے رحمانہ سلوک سے شیرا ابھی زندہ ہے مگر اس نے ہوش میں آنے کے بعد اگر بیان میں تمہارا نام لیا ناں تب بھی تم اس جرم کی سزا کاٹنے کے لیے تیار رہنا"

ثوبان کاشان کو بولتا ہوں اس کے فلیٹ سے نکل گیا


وہ رنعم کی باتوں سے اندازہ تو لگا سکتا تھا کہ کسی حادثے کے بناء پر ہی شیرا اور کاشان میں لڑائی ہوئی ہوگی رنعم کا بریسلیٹ وہاں پر موجود تھا مگر رنعم اتنے توانا مرد پر تشدد کرنے سے رہی یقیناً شیرا کے ساتھ جو بھی کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کاشان ہوگا

ثوبان شیرا سے متعلق جو کچھ کہہ کر گیا تھا اس کی بات سن کر رنعم تو شاک ہوگئی تھی جبکہ کاشان نے بہت بے یقینی سے رنعم کو دیکھا۔۔۔۔ ثوبان کے فلیٹ سے جانے کے بعد کاشان نے فلیٹ کا دروازہ لاک کیا اور رنعم کے پاس آیا


"تم نے ثوبی کو شیرا والے واقعے کے بارے میں بھی بتا دیا جبکہ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ یہ بات ہم دونوں کی بیچ میں رہنی چاہیے"

اگر ثوبان جانے سے پہلے شیرا کے متعلق کچھ بھی نہیں بولتا تو یقیناً کاشان رنعم سے اپنے سلوک کی معافی مانگتا مگر اب وہ اپنی نرمی کو بھول کر دوبارہ سے رنعم کو غصے میں دیکھتا ہوا بولا


"نہیں۔۔۔۔ نہیں کاشان بھیا کو بھلا میں کیوں بتاؤں گی،، مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب بھیا کو کیسے معلوم ہوا"

کاشان کے چہرے کے خطرناک تیور دیکھ کر رنعم سہم گئی اور اسے اپنا یقین دلانے لگی


"اسے کیسے معلوم ہوئی یہ بات۔۔۔ یہ بات تو ہم دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں جانتا تھا"

اب وہ رنعم کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر رنعم سے پوچھنے لگا


"کاشان میں سچ بول رہی مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب بھیا کو کیسے معلوم ہوا آپ مجھ پر اعتبار کریں پلیز"

وہ کاشان کی مٹھی سے اپنے بال آزاد کرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولنے لگی


"نہیں تم سچ نہیں بول رہی ہوں اور نہ ہی مجھے اب تم پر اعتبار ہے۔۔۔۔ یہ ثوبی کا بزی ٹائم ہوتا ہے وہ بیوقوف نہیں ہے جو اس وقت تمہارے پاس آئے۔۔۔ تم نے خود ثوبی کو کال کر کے یہاں پر بلایا پھر اسے شیرا کے متعلق بتایا اور اپنا یہ سوجھا ہوا چہرا دکھا کر اسے کل رات والی بات بھی بتائی"

رنعم کے بال چھڑانے کی کوشش میں اس نے مزید سختی سے اس کے بالوں کو دبوچا اور جھٹکا دیتے ہوئے کہا


"تم پر اعتبار کرو میں۔۔۔ تمہاری عزت بچائی تھی میں نے اس لٹیرے سے۔۔۔ اگر میں اسے نہ مارتا تو جانتی ہو تمہارے ساتھ وہ کیا سلوک کرتا۔۔۔ گھن آنے لگتی تمہیں اپنے اس وجود سے۔۔۔۔ چلو مان لیا ثوبی کا پروفیشن ایسا ہے شیرا کا کیس اس کے سامنے آیا۔۔۔ مگر وہ اتنے وثوق سے کہہ کر گیا ہے کہ اس کا ذمہ دار میں ہو جبکہ دوسری طرف اس نے یہ بھی کہا کہ شیرا ابھی ہوش میں نہیں نہ اس کا بیان لیا گیا ہے۔۔۔ یہ بات تو تمہارے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا۔۔۔ معلوم نہیں تمہیں اس کے اندر ایمانداری کا کتنا بڑا کیڑا ہے۔۔۔ شیرا کے منہ کھولتے ہی وہ سب سے پہلے مجھے لاک اپ کرے گا"

آج اسے رنعم پر بےپناہ غصہ آرہا تھا وہ دانت پیستا ہوا بولا اور رنعم کو دھکا دیا وہ فرش پر جا گری


"کاشان اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو پھر میرا اعتبار کرے۔۔۔ اگر آپ نے آج مجھ پر اعتبار نہیں کیا نہ تو آئندہ میں آپ کو کبھی بھی اپنا یقین نہیں دلاو گی۔۔۔ میں سچ بول رہی ہوں"

رنعم نے بے بسی روتے ہوئے آخری جملہ چیخ کر کہا


"نہیں۔۔۔ تم سے سچ نہیں بول رہی،،، سچ تم اب بولو گی"

کاشان نے اپنی بیلٹ نکالتے ہوئے کہا


"کاش۔۔۔۔شان"

رنعم فرش پر گری پوری آنکھیں کھولے اسے خوف سے دیکھنے لگی


کاشان فرش پر گرے سرخ پھولوں کو جوتوں سے روندتا ہوا بیلٹ کر ایک سرا اپنے ہاتھ پر فولڈ کر کے رنعم کے پاس آیا۔۔۔۔ رنعم خوف کے مارے اٹھ بھی نہیں سکی وہ فرش پر بیٹھے پیچھے سرکنے لگی


جب پہلی بیلٹ رنعم کی ٹانگوں پر لگی تو اسکی چیخ نکل گئی


"کاشان نہیں پلیز" رنعم نے روتے ہوئے چیخ کر بولی اور اور ہمت کر کے اٹھی بیڈروم کی طرف بھاگ کر بیڈروم کا دروازہ بند کرنے لگی مگر دروازہ بند کرنے سے پہلے کاشان بیڈ روم کے اندر آیا اور بیڈروم کا دروازہ بند کر دیا


****


ثوبان گھر پہنچا تو اس کا دل بہت اداس تھا۔۔۔۔ زندگی میں پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ اس نے کاشان پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔ کاشان اس کا ایک ہی بھائی تھا جو اسے اپنی جان سے بھی پیارا تھا اسکو مار کر ثوبان کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی مگر وہ کرتا بھی کیا


کاشان نے کتنی بری طرح سے رنعم کو مارا تھا،،، رنعم کا چہرہ دیکھ کر ثوبان کا دل تڑپ گیا اٹھا تھا۔۔۔۔ رنعم کتنی معصوم تھی جب وہ اس کے گلے لگ کر روئی تو خود ثوبان کو مرد ہو کر رونا آگیا۔۔۔۔ اس وقت وہ کس طرح اپنے آنسو ضبط کیے ہوئے تھا۔۔۔۔ مگر کاشان کو دیکھ کر وہ اپنا ضبط کھو گیا


اس کا پیارا بھائی جو اسے سب سے زیادہ پیارا تھا وہ کیا بن رہا تھا،،،، کیا بن گیا تھا۔۔۔۔

ثوبان تو شیرا کے کیس کے متعلق رنعم سے پوچھ گچھ کرنے آیا تھا مگر اسے کیا معلوم تھا ایک دوسری کہانی وہاں پر کھلی ہوئی ہے۔۔۔۔ اگر رنعم اس کے ساتھ آجاتی تو یسریٰ لازمی اسے دیکھ کر پریشان ہوتی۔۔۔۔ اور کاشان نے جیسے رنعم سے اس کا ہاتھ چھڑایا،،، اس وقت ثوبان نے کاشان کی آنکھوں میں ایک خوف دیکھا جیسے ثوبان اس سے اس کی کوئی قیمتی چیز لے جارہا ہو۔۔۔ اسے رنعم، کاشی، یسریٰ سب کا خیال رکھنا تھا بلکے یہی تو کرتا آیا تھا وہ


گھر اگر وہ حسبِ معمول یسریٰ کے پاس تھوڑی دیر کے لیے بیٹھا۔۔ اس کا حال احوال پوچھنے کے بعد غائب دماغی میں اس کی باتیں سنتا رہا اور اس کی باتوں کا ہاں ہوں میں جواب دیتا رہا مگر تھوڑی دیر میں یسریٰ کو شاہدہ نے آکر بتایا کہ اس کی دوست ڈاکٹر فاطمہ اس سے ملنے آئی ہے ثوبان اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں آگیا


کل رات ہی اس نے غلام بخش اور شاہدہ کو بلا کر ان دونوں سے کہا تھا کہ وہ اوپر سے نیچے والے بیڈروم میں شفٹ ہونا چاہتا ہے۔۔۔ لہذا سیرت کے ساتھ وہ دونوں سارا سامان نیچے لے آئیں۔۔۔ ثوبان جب نیچے پورشن میں اپنے بیڈ روم میں پہنچا تو سیرت کا اچھا خاصا منہ بنا ہوا تھا آج سیرت نے بھی اسے کافی کالز کی تھی مگر پہلے شیرا کے کیس کے متعلق الجھ کر وہ اس کی کالز نہیں ریسیو کر سکا۔۔۔ اس کے بعد وہ کاشان کی طرف چلا گیا اس لیے اپنا موبائل ہی سائلینٹ کردیا


"سوری یار آج کافی بزی تھا اس لیے کال ریسیو نہیں کی تمہاری کیوں کال کر رہی تھی سب خیریت ہے"

ثوبان سیرت کو پوچھتا ہوا صوفے پر ریلکس انداز میں بیٹھ گیا اور اپنا سر پیچھے ٹیک لیا


"تم بزی کب نہیں ہوتے ثوبی، کوئی نئی بات کرو۔۔۔ میری کال تو کیا تم تو مجھے ہی اگنور کیے ہوئے ہو"

سیرت انتظار میں ہی بیٹھی تھی کہ ثوبان کچھ بولے اور وہ اس کو سنائے اس کی بات سن کر ثوبان صوفے پر سیدھا ہو کر بیٹھا


"سیرت میری بات غور سے سنو پہلی بات تو یہ کہ بیکار کی باتوں پر میرے ساتھ اس وقت بحث نہیں کرنا۔۔۔ اگر کوئی ضروری بات ہے تو ڈسکس کرو،، میں تمہیں ٹائم نہیں دیتا ہوں اور ہر وقت بزی رہتا ہوں یہ رونا چھوڑ دو اب،،،، بیوی ہو تم میری کوئی منگیتر نہیں ہو جو ہر وقت ٹائم نہ دینے کا شکوہ کر رہی ہوتی ہو۔۔۔ بچی تو نہیں ہو ناں یار تم جو تمہیں احساس نہیں۔۔۔ کبھی تو احساس کر لیا کرو اگلے بندے کا۔۔۔۔ وہ باہر سے تھکا ہوا آیا ہے یا اسے کیا ٹینشن ہے۔۔۔ وہ کس پریشانی میں الجھا ہے۔۔۔ ہر وقت تمہیں اپنی پڑی رہتی ہے"

ثوبان کا موڈ آج پہلے ہی آف تھا اوپر سے سیرت کے طنز پر اس کا دماغ ہی گھوم گیا اس نے غصہ کے باوجود اپنی آواز کو نیچے رکھا تاکہ روم سے باہر نہ جائے


"خیر بیوی بنانے کے بعد بیوی اور اس کی باتیں بے کار ہی لگتی ہیں،،، ان باتوں کو چھوڑو مگر اپنے باہر کے مسئلے باہر ہی چھوڑ کر گھر میں آیا کرو اور کام کی بات یہ ہے کہ تم نے غلام بخش اور شاہدہ ان دونوں کو کیو بولا کہ سب سامان وہ نیچے بیڈ روم میں سیٹ کردیں۔۔۔۔ اوپر کیا مسئلہ تھا"

سیرت اب اس کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اسے پوچھنے لگی کیوکہ چند دن پہلے ہی اس نے سارے بیڈروم کی سیٹنگ اپنی مرضی سے چینج کی تھی آج دوپہر جب وہ کچن میں مصروف تھی تب اسے معلوم ہوا کہ یسریٰ کی اجازت شاہدہ اور غلام بخش نے، یسریٰ کی نگرانی میں اس کا اور ثوبان کا سارا سامان نیچے بیڈروم میں شفٹ کردیا اسی وجہ سے وہ ثوبان کو کال کر رہی تھی مگر وہ اس کی کال ریسیو کرنا ضروری ہی نہیں سمجھ رہا تھا


"مما یہاں پر سارا دن اکیلی رہتی ہے ان کی تنہائی کے احساس سے نیچے شفٹ ہونے کا سوچا میں نے۔۔۔ اس میں کوئی ایسے مسئلہ والی بات نہیں ہے جو تم یوں پریشان ہو رہی ہو"

ثوبان صوفے سے اٹھتا ہوا سیرت کے پاس آیا اسے جواب دے کر اپنے کپڑے وارڈروب سے نکالتے لگا۔۔۔ سیرت کچھ بولے بغیر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ ثوبان نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا


"تم جیسے مرد کو جسے صرف بیوی کے علاوہ سارے جہاں کا خیال ہو،، شادی نہیں کرنی چاہیے"

سیرت ثوبان کو دیکھتے ہوئے بولی


"میرے خیال میں ایک لڑکی کو صرف اپنے شوہر کا ہی نہیں اس کی فیملی کا بھی احساس کرنا چاہیے۔۔۔۔ تبھی وہ اچھی بیوی بن کر اپنے شوہر کے دل پر حکومت کرسکتی ہے کیوکہ تم نے تو اپنی ماں کو، ماں سمجھنا نہیں ہے لہذا اب تم مما کا خیال میری ماں سمجھ کر رکھو اور میں اس معاملے میں تم سے لاپرواہی کی امید نہیں کروں گا۔۔۔۔ سیرت میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی من پسند بیوی کے آنے کے بعد اپنے دوسرے رشتوں کو فراموش کر دو،،، اگر تم سے یہ توقع کرتی ہو کہ میں تمہارے آگے پیچھے گھومتا رہو تو یہ تمہاری سوچ غلط ہے۔۔۔۔ تم سے محبت کرنے کے باوجود میں باقی کسی کو اگنور نہیں کرو گا۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ یہ بات تم آج ہی سمجھ جاو۔ ۔۔۔ ۔ مجھے دوبارہ نہیں سمجھانا پڑے"

ثوبان نے اس کو اچھی طرح باور کرایا۔۔۔۔ سیرت نے ساری بات اس کی خاموش ہوکر سنی اور ثوبان کے چپ ہونے پر اس نے ثوبان کے سینے پر مٹھی بند کر کے مکے مارنا شروع کر دیئے


"تم اچھے نہیں ہو ثوبی،، تم بالکل بھی اچھے نہیں ہو،، میرے بچپن والے ثوبی تو تم ہرگز نہیں ہو"

سیرت غصے میں کہتی ہوئی اس کے سینے پر اپنے نازک ہاتھ سے مکے برسا رہی تھی۔۔۔۔ ثوبان اس کی دونوں کلائیاں پکڑی اور اسے پیچھے صوفے پر بٹھایا خود اپنے کپڑے ہاتھ میں لیے وہ بیڈروم سے باہر جانے لگا


"کہاں جارہے ہو" سیرت بولتی ہوئی دوبارہ اس کے سامنے آئی۔۔۔ ثوبان کو سمجھ نہیں آیا آخر وہ اتنی چڑچڑی کس بات پر ہو رہی ہے


"میں تھوڑی دیر ریلیکس رہنا چاہتا ہوں اور تمہارے یہاں ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے روم سے باہر جا رہا ہوں"

ثوبان سیرت کو دیکھ کر بولا


"تمہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے تم یہی بیٹھو۔۔۔ اور آرام سے بیٹھ کر اپنے سارے مسئلوں کا حل تلاش کرو۔۔۔۔ جب ان مسئلوں کے حل مل جائے تو پھر اپنے لیے نئی نئی فکریں ڈھونڈو اور پھر دوبارہ سوچو کہ ان فکروں کے لئے اب کیا کرنا چاہیے بس یہی سب کچھ کرتے رہو۔۔۔۔ روم سے میں ہی چلی جاتی ہو"

سیرت روم کا دروازہ زور سے بند کرتی ہوئی بیڈروم سے باہر چلی گئی

ثوبان نے سر جھٹکا اور اپنے کپڑے صوفے پر رکھتے ہوئے خود یونیفارم میں ہی بیڈ پر انکھیں بند کر کے لیٹ گیا


مگر دس سے پندرہ منٹ گزرے تب شاہدہ نے آکر اسے بتایا سیرت بی بی باہر اچانک بےہوش ہو چکی ہیں۔۔۔ ثوبان ایک دم بیڈ اٹھا اپنی ساری پریشانیوں کو ایک طرف رکھتا ہوا بیڈ روم سے نکل کر وہ سیرت کے پاس پہنچا

لاونچ کے فرش پر سرخ پھولوں کی پتیاں مسلی ہوئی پھڑی تھی جنہیں بے دردی سے قدموں تلے روندا گیا تھا وہ لاؤنچ میں کرسی پر بیٹھا مسلسل ایک گھنٹے سے اسموکنگ کر رہا تھا۔۔۔ سگریٹ کے بیشتر ٹکڑے ایش ٹرے باہر نکل کر گرے ہوئے تھے


اسموکنگ کرتے ہوئے 2 گھنٹے پہلے والا واقعہ یاد کرنے لگا ایسا پہلی بار ہوا تھا جو ثوبان کا ہاتھ اس پر اٹھا تھا۔۔۔ ثوبان کے اس عمل سے اسے کتنی تکلیف ہوئی تھی کتنی محبت کرتا تھا وہ اپنے بھائی سے۔۔۔ ثوبان کی نظروں میں اپنے لئے اجنبیت اور غصہ دیکھ کر آج اسے کتنی تکلیف ہوئی تھی


دوسری طرف رنعم اس کی بیوی جسے چند مہینوں میں ہی وہ اپنی کمزوری ماننے لگا تھا۔۔۔ جو اس کے دل پر اپنے نام کا پہلا حرف لکھ کر ہمیشہ اسے بتاتی کہ وہ صرف اسی کی ہے۔۔۔ پیار تو وہ اسے بے پناہ کرتا تھا مگر اب آئستہ آئستہ اس اعتبار بھی کرنے لگا تھا لیکن آج اس کی بیوی نے کیا، کیا۔۔۔ ساری کی ساری بات ثوبان کو بتا دی


اس نے شیر کو کس لیے مارا تھا صرف اسی وجہ سے کہ وہ اس کی بیوی کو اٹھا کر لے گیا تھا۔۔۔ اگر کاشان اسے زندہ چھوڑ دیتا تو یہ حرکت وہ دوبارہ کرتا اور کاشان دوبارہ رنعم کے لیے کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتا تھا


آج کاشان کو لگا رنعم نے ثوبان کو سب کچھ بتا کر اس کا اعتبار توڑا ہے نہ صرف اس کا اعتبار توڑا بلکہ اس کے اور ثوبان کے رشتے میں بھی دارڑ ڈال دی ہے۔۔۔ اسی بات کی کاشان نے اس کو سزا دی تھی شاید یہ ضروری ہوگیا تھا تاکہ اس کی بیوی آئندہ زندگی میں ایسی غلطی دوبارہ نہ کرے


اسے جیل میں اسد کاڑھے کی بات یاد آئی ٹھیک ہی کہتا تھا وہ عورت کی لگامیں کھینچ کر رکھنی چاہیے،، اسے پیار بھی کرنا چاہیے مگر اس کی غلطی پر اسے سزا بھی دینی چاہیے


کاشان ہاتھ میں موجود سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتا ہوا اٹھا لاونچ میں موجود ساری پھولوں کی پتیوں کو ڈسٹ بن کی نظر کرتا ہوا وہ آئینمینٹ نکالنے لگا


جب رنعم کاشان سے ڈرتی ہوئی بیڈروم کی طرف بھاگی تھی تب کاشان نے بیڈ روم میں آکر اسے بیڈ پر دھکا دیا وہ بیڈ پر اوندھے منہ گری۔۔۔۔ اسے سیدھا ہونے کی مہلت دیے بغیر کاشان نے اس کی کمر پر بیلٹ ماری اور غصے میں بیلٹ وہی پھینک کر بیڈروم سے باہر چلا گیا


آئینٹمینٹ نکال کر کاشان نے اپنی پاکٹ میں رکھی ہوئی گولڈ کی رینگ جیب سے نکالی دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور اپنے بیڈروم کا رخ کیا


*****


درد سے رنعم کا پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا وہ بیڈ پر گٹری کی مانند لیٹی ہوئی رو رہی تھی خاموشی میں رنعم کے رونے کی آواز اس کی تکلیف کو بیان کر رہی تھی۔۔۔


اتنے میں بیڈروم کا دروازہ کھلا رنعم میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مڑ کر آنے والے کو دیکھتی مگر اور کون ہو سکتا تھا بھلا کاشان کے سوا


"کیا ہوا زیادہ درد ہو رہا ہے دکھاؤ ذرا"

کاشان بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا ساتھ ہی رنعم کی شرٹ کی زپ کھولی۔۔۔۔ اسکی کمر جا بجا لال نشانات سے بھری ہوئی تھی


"کون سا تمہیں مار کر مجھے خوشی ہوتی ہے آخر ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہو جو میرا ہاتھ اٹھے"

کاشان نرمی سے بولتا ہوا اس کی کمر پر موجود نشانات پر نرمی سے اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔ رونا اب سسکیوں میں بدل چکا تھا کیوکہ اب رنعم کاشان کے ہونٹوں کا لمس ان نشانات پر محسوس کر رہی تھی جس سے اسے راحت کی بجائے مزید تکلیف ہو رہی تھی،،، مگر وہ چاہ کر بھی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔۔۔ کیوکہ وہ اس کا انجام جانتی تھی


"تمہیں ثوبی کو ہمارے بیڈروم کی باتیں نہیں بتانی چاہیے تھی جان، میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔۔۔ جانتی ہو اس بات کا مطلب۔۔۔ تم نے آج میرے بارے میں ثوبی کو بتا کر مجھے ہی اس کے سامنے بے لباس کر دیا،،، یہ اسی بات کی ایک چھوٹی سی سزا ہے تاکہ تم آئندہ احتیاط کرو"

کاشان نشانات پر آئینٹمینٹ لگاتا ہوا رنعم سے مخاطب ہوا


"جانتی ہو ناں تمہیں کتنا پیار کرتا ہوں میں۔۔۔ اس دنیا میں وہ تم ہی ہو جسے میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں، زندگی مانتا ہو تمہیں اپنی"

کاشان رنعم کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا اپنی شرٹ اتارنے لگا


"کاشان آج نہیں پلیز۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے"

کاشان کی طلب کو سمجھتے ہوئے بے ساختہ رنعم کے منہ سے نکلا،، اس سے پہلے وہ اپنی بات پر پچھتاتی اس کی ریشمی زلفیں،، کاشان کی مٹھی میں تھی


"زور سے بولو مجھے آواز نہیں آئی"

کاشان مٹھی میں رنعم کے بالوں کو جکڑے ہوئے نرمی سے پوچھنے لگا


"نہیں۔۔۔ کچھ نہیں"

رنعم کو دوبارہ رونا آنے لگا۔۔۔ وہ رونے کے درمیان بولی


"شاباش اب چپ ہو جاؤ تمھارا رونا مجھے پریشان کر رہا ہے"

کاشان اس کے بالوں کو چھوڑ کر اس کے آنسو پونچھتا ہوا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر،، اس کی گردن پر جھگ چکا تھا۔۔۔


رنعم اس کی بات مانتے ہوئے اپنے آپ کو رونے سے باز رکھ رہی تھی مگر اس کے باوجود اپنی سسکیوں کو نہیں روک پا رہی تھی کمرہ ایک دفعہ پھر اس کی سسکیوں کی آواز سے گونج اٹھا مگر اسکی سسکیاں سننے والا اس کا شوہر اپنی ضرورت پوری کرنے میں مگن تھا


****


تھوڑی دیر پہلے ہی یسریٰ نے اسے زبردستی دودھ سے بھرا ہوا گلاس پلایا تھا جو سیرت نے بہت زیادہ نخرے دکھا کر اور منہ بنا کر ختم کیا تھا۔۔۔۔


ڈاکٹر فاطمہ نے اس کی ون ویک پریگنینسی بتائی تھی۔۔۔ اور آرلی پریگننسی کی وجہ سے بیڈ ریسٹ کے ساتھ بہت زیادہ احتیاط بھی بتائی تھی۔۔۔۔ یسریٰ نے خوشخبری سناتے ہوئے ثوبان کو گلے لگایا تو ثوبان نے یسریٰ کے چہرے پر کافی دنوں بعد خوشی دیکھی تھی۔۔ اس کے ہر عمل،، ہر انداز،، بات کرنے کے طریقے سے خوشی جھلک رہی تھی۔۔۔۔ اور خود ثوبان،، وہ کتنا زیادہ خوش تھا یہ خبر اس کے لئے بہت زیادہ معنی رکھتی تھی۔۔۔ اس نے جب سیرت کا چہرہ دیکھا تو اسے اپنی بیوی پر بہت پیار آیا۔۔۔ کتنا قیمتی اور انمول تحفہ کو اسے دینے والی تھی۔۔۔۔ ثوبان کی محبت لٹاتی نظروں کو دیکھ کر،،، سیرت نے مسکرا کر اپنی پلکیں جھکالی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے والی تلخ کلامی کا اثر ان کے درمیان،، اب کہیں ضائع ہوگیا تھا


یسری دودھ کا خالی گلاس لے کر اس کے بیڈ روم سے نکلی تو ثوبان بیڈ روم کے اندر داخل ہوا


سیرت اس کو دیکھ کر ایک بار پھر مسکرائی۔۔۔ ثوبان مسکراتا ہوا بیڈ پر اس کے قریب آیا


"آئی لو یو"

ثوبان جھک کر اس کی پیشانی کو چومتا ہوا بولا


"کیسا فیل کر رہے ہو"

سیرت نے اس کے چہرے سے چھلکتی ہوئی خوشی کو دیکھ کر اس سے سوال کیا


"اپنے آپ کو بہت لکّی فیل کر رہا ہوں یار۔۔۔۔ یہ میری زندگی کے خوبصورت لمحوں میں سے ایک لمحہ ہے۔۔۔ ویسے بہت چلاک ہو تم۔۔۔۔ اپنی طرف متوجہ کرنے کا بہترین طریقہ ڈھونڈا ہے تم نے"

وہ اس کے نرم و ملائم گالوں پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوا محبت سے سیرت کو دیکھ کر بولا تو سیرت مسکرا دی


"ایس۔پی ثوبان احمد اب آپ سے آپ کا سارا ٹائم مانگنے والا آنے والا ہے"

سیرت کے بولنے پر ثوبان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر چوما


"آنے والا نہیں،،، آنے والی۔۔۔ مجھے تو پیاری سی بیٹی چاہیے۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے میری زندگی میں چار عورتیں بہت زیادہ اہم رہی ہیں جنھیں میں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ پیار کیا ہے۔۔۔۔ پہلی میری ماں جنہوں نے مجھے جنم دیا۔۔۔ دوسری مما جنہوں نے امی کے جانے کے بعد بھی کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میری ماں اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔ تیسری رنعم جس نے ہمیشہ مجھے بھائیوں کی طرح چاہا بھائیوں والا مان دیا،،، ہمیشہ خیال رکھا اور چوتھی"

سیرت لیٹی ہوئی مزے ثوبان کی بات سن رہی تھی مگر چوتھے نمبر کی باری آنے پر ثوبان تکیے پر اپنی کہنی ٹکا کر سیرت کے برابر میں لیٹتا ہوا مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا


"بتاؤ نا وہ چھوتھی ہستی کون ہے جو تمہیں پیاری ہے"

سیرت نے اس کو خاموش دیکھ کر بے قراری سے پوچھا سیرت کو معلوم تھا وہ اور کوئی نہیں ہے۔۔۔ ثوبان اسی کا نام لے گا مگر اپنا نام اسے ثوبان کے منہ سے سننے کا دل چاہنے لگا


"کرسٹین اسٹیورٹ۔۔۔بہت پسند ہے مجھے بلکے یوں سمجھو عشق ہے مجھے اس سے۔۔۔ ٹاپ کلاس ایکٹریس ہے میری نظر میں وہ"

ثوبان کی بات سن کر سیرت نے خونخوار نظروں سے ثوبان کو گھورا۔۔۔ جو اپنا نام سننے کی توقع کر رہی تھی اس کا شوہر کسی ہالی ووڈ کی چھچھوری کے قصیدے پڑھ رہا تھا


"بھاڑ میں جاو ثوبی۔۔۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے"

سیرت تپتی ہوئی اس کے پاس سے اٹھنے لگی تو ثوبان نے اس کو بانہوں میں بھر کر واپس لیٹا دیا


"چھیڑ رہا تھا یار تمہیں"

ثوبان نے اس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا


"بس اسی کام کے لئے تو رہ گئی ہو میں۔۔۔ ہر وقت چھیڑتے رہا کرو۔۔۔ کیا تھا اگر میرا نام بھی لے لیتے"

سیرت گھورتے ہوئے ثوبان کو دیکھنے لگی


"چھیڑنے والا کام اگر میں باہر کروں گا تو پھر تمہیں پرابلم ہوگی۔۔۔ چوتھا اور کون ہو سکتا ہے تمہارے علاوہ،،، تم ہی تو تھی جس سے میں اپنی ہر پریشانی شیئر کرتا تھا۔۔ جس نے مجھے میرے برے حالات میں بھی نہیں چھوڑا۔۔۔ تمہیں یاد ہے وہ دن جس دن تم بریانی لے کر آئی تھی۔۔۔ اس دن میں سارے دن کا بھوکا تھا"

ثوبان اس سے باتیں کرتے کرتے اپنے بچپن میں کھو گیا


"ہاہاہا وہ تو میں کسی کو بیوقوف بنانا کر لے کر آئی تھی لیکن آج بریانی میں نے تمہارے لئے اپنے ہاتھ سے بنائی تھی"

سیرت نے اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے اسے بتایا


"فاطمہ آنٹی بتا رہی تھی کہ تم کافی ویک ہو اپنے ڈائٹ پر دھیان دو۔ ۔۔ ہمارے بےبی کے لیے۔۔۔ مجھے ہیلدی بےبی کے ساتھ اس کی مما بھی بالکل فٹ چاہیے"

ثوبان اس کو بانہوں میں لئے کیئرینگ انداز میں بولا


"اب باری ہے رنعم کی۔۔۔ دیکھتے ہیں وہ گڈ نیوز کب سناتی ہے"

سیرت کے بولنے پر ثوبان کا دماغ بھٹک کر دوبارہ کاشان اور رنعم کی طرف چلا گیا وہ اپنی خوشی میں تھوڑی دیر کے لیے رنعم کے آنسو بھول گیا تھا


"انشاءاللہ جب اللہ پاک کو مناسب لگے"

ثوبان نے اپنا موبائل اٹھا کر رنم کا نمبر ملانے لگا تاکہ اس کی خیریت پوچھ لے


"بس اب اس موبائل میں مگن ہو جانا ادھر رکھو موبائل؛ اور مجھ سے باتیں کرو"

سیرت نے اس کا موبائل ہاتھ سے لیتے ہوئے اپنے پاس رکھا۔۔۔ ثوبان بھی کچھ کہے بغیر اپنی توجہ دوبارہ سیرت کی طرف مندمل کرنے لگا اور سوچا کہ وہ دوپہر میں رنعم کے پاس جائے گا


*****


اپنی طبیعت ڈل اور چال میں سستی محسوس کرنے کے باوجود رنعم نے اپنے کپڑے وارڈروب سے نکال کر بیگ میں ڈالنا شروع کیے۔۔۔ کل شام ثوبان کے جانے کے بعد جو کاشان نے اس کے ساتھ کیا۔۔۔ اس سے رنعم کی روح تک کانپ گئی تھی


کتنی بے دردی سے وہ اس کو بیلٹ سے مار رہا تھا۔۔۔ اپنے غصے کے آگے شاید اسے رنعم سے محبت بھول جاتی تھی یا غصہ اس کی محبت پر حاوی ہو جاتا تھا اور اس کے بعد کیا کیا۔۔۔ اپنی ضرورت کو تلافی کا نام دے کر وہ اس کی ذات کو روندھتا گیا۔۔۔


رنعم نے بیگ میں اپنے کپڑے رکھنے کے بعد ساری ضرورت کی چیزیں بیگ میں ڈالنا شروع کی وہ دوبارہ رات والا واقعہ سوچنے لگی


"آئندہ میں کبھی بھی ہم دونوں کی باتیں کسی دوسرے کے منہ سے نہ سنو۔۔۔۔ ورنہ محبت کے ساتھ ساتھ تم میرے غصے سے بھی واقف ہو"

رنعم پر چادر ڈال کر خود شرٹ پہنتے ہوئے وہ رنعم سے کہنے لگا۔۔۔۔ رنعم کی سسکیاں اب تھم گئی تھی


رنعم نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کل رات والی کاشان کی وارننگ کے بارے میں سوچا


"جاؤ شاباش شاور لےکر آو جب تک میں کھانا لگاتا ہوں" شرٹ پہننے کے بعد کاشان بیڈ سے اٹھتا ہوا بولا تو رنعم بھی بیڈ سے اٹھنے کی ہمت کرنے لگی


"جب میں واپس آؤں تو مجھے میری ڈول ہنستی مسکراتی چائیے" رنعم کے بیڈ سے اٹھنے پر وہ رنعم کے قریب آکر اسکا چہرہ تھامے اسے نرمی سے کہتا ہوا روم سے باہر نکل گیا اور رنعم دونوں ہاتھوں سے اپنے ہونٹوں کو دبائے رونا روکنے لگی وہ اپنے نڈھال سے وجود کو واش روم لے کر چلی گئی


ایک دفعہ پھر کل رات والا منظر رنعم کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔ اس نے سارے گھر کے کھڑکیاں اور دروازے بند کیے اور اپنا بیگ لے کر لانچ میں آگئی اچانک اس کی نظر اپنے ہاتھ میں موجود رینگ پر پڑی ذہن ایک دفعہ پھر کل رات والے منظر میں گم ہونے لگا


"آنکھیں اتنی ریڈ کیوں ہو رہی ہے تمہاری۔۔۔ باتھ لیتے ہوئے روتی رہی ہو ناں تم"

رنعم جب واش روم سے نکلی تو کاشان کو بیڈ روم میں موجود پایا وہ اس کی آنکھوں کی سرخی کو دیکھ کر سوال اٹھانے لگا


"کاشان مجھے درد ہو رہا تھا"

رنعم نے بتاتے ہوئے مسکرانا چاہا کیوکہ اسے اپنی ڈول روتے ہوئے نہیں مسکراتے ہوئے چاہیے تھی مگر رنعم سے مسکرایا نہیں گیا۔۔۔ رنعم کی بات سن کر کاشان اس کے پاس آیا اور رنعم کو اپنے سینے سے لگایا


"یہ آخری دفعہ تھا رنعم۔۔۔۔ میں اس سے زیادہ سخت سزا تمہیں نہیں دے سکتا،، ڈول ہو تم میری مگر یہ سب ہمارے بیچ آخری دفعہ ہوا ہوں،، یہ کوشش تمہیں کرنی ہے۔۔۔ مجھے ایسا کر کے بالکل اچھا نہیں لگا۔۔۔۔ اس لیے اب تم کوشش کرنا ہمارے بیچ کی باتیں ہمارے بیچ میں ہی رہے۔۔۔ چلو بالوں کو برش کرو اپنے" کاشان اس کی سبز آنکھوں کو چومتے ہوئے کہنے لگا جو کہ رونے کی وجہ سے ریڈ ہو رہی تھی


رنعم اپنے بالوں پر برش پھیرنے لگی ڈریسر پر رکھا ہوا پرفیوم اٹھا کر کاشان رنعم پر چھڑکنے لگا اور گلوس اٹھا کر اس کے ہاتھوں میں تھمایا۔۔۔ رنعم بالوں کو برش کرنے کے بعد اپنے ہونٹوں پر گلوس لگانے لگی


"یہاں دیکھو اور اسمائل دو مجھے"

کاشان نے اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے کہا تو رنعم کوشش کر کے بہت دقت سے مسکرائی کاشان اسکی انگلی پکڑ کر اپنے سینے پر R لکھنے لگا اس کو اسمائل دے کر دوبارہ اپنے سینے سے لگایا


"میں تم پر اعتبار کرنا چاہتا ہو رنعم،، اسلیے کے میں تم سے بہت محبت کرتا ہو۔۔۔ مجھے معلوم ہے ابھی ہمارے بیچ کچھ ٹھیک نہیں چل رہا،،، مگر جب تم مجھے سمجھو گی۔۔۔ مجھے اپنا اعتبار دو گی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔۔ میں ثوبی کو بھی منالو گا مجھے معلوم ہے بھائی ہے وہ میرا،،، مجھ سے زیادہ وہ مجھے پیار کرتا ہے۔۔۔ ناراض تھوڑی رہ سکتا ہے مجھ سے زیادہ دیر تک۔۔۔۔ میرے پاس تم دونوں ہی تو ہو ناں جان،،، اور تم تو میری زندگی ہو تمہاری آنکھوں میں اپنی محبت اور تمہیں اپنے قریب دیکھ کر ہی تو جیتا ہو میں،،، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا،،، میں سب کچھ ٹھیک کردو گا۔۔۔ ثوبی کو بھی منالو گا تمہیں بھی ہمیشہ ایسے ہی اپنے سینے سے لگا کر رکھو گا۔۔۔ چلو ڈنر ریڈی ہے ڈنر کرنے بعد یا تو لونگ ڈرائیو پر چلے گے یا کوئی اچھی سی مووی دیکھیں گے جو تم کہو گی وہ کریں گے۔۔۔۔ اب اپنی ڈول کے ساتھ کچھ زبردستی نہیں، ،،، جب تم ایگری ہو تمہارا موڈ ہو تب۔ ۔۔۔ اوکے"

کاشان بولنے کے ساتھ اسے بیڈروم سے لے گیا


کھانا کھانے کے بعد کاشان نے اس کو رینگ پہنائی جو کہ وہ آج ہی اس کے لیے خرید کر لایا تھا،،، کھانا کھانے سے لے کر سونے تک وہ اپنی ڈول کو مختلف طریقوں سے اپنے پیار کا احساس دلانے لگا جس پر رنعم کو اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا تھی


ایک بار پھر رنعم حال میں واپس آئی ہاتھ کی انگلی میں موجود رینگ اتار کر اس نے ٹیبل پر رکھی اور گھر اور وارڈروب کی چابیاں بھی۔۔ ایک نظر پورے گھر کو دیکھ کر اس نے اپنا بیگ اٹھایا۔۔۔ کاشان کے ساتھ ساتھ اسے اس گھر سے بھی محبت تھی مگر جیسے محبت ہونے کے باوجود وہ اب کاشان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی بالکل اسی طرح اس گھر کی عادت ہونے کے باوجود وہ اس گھر میں بھی نہیں رہ سکتی تھی رنعم نے انکھوں میں آئے آنسووں کو بےدردی سے پونچھا


اسے صرف کاشان سے اعتبار چاہیے تھا مگر کل رات کاشان نے ہاتھ اٹھا کر اس پر ثابت کردیا کہ وہ اس پر اعتبار نہیں کرتا۔۔۔ اور رنعم اب اسے دوبارہ سے اعتبار نہیں دلا سکتی تھی کیوکہ کاشان ہر بار اس پر ہاتھ اٹھاتا اور پھر زبردستی اس کا احساس کیے بناء۔۔۔۔ رنعم اپنا بیگ اٹھا کر گھر سے باہر نکل گئی

"مما پلیز مجھ سے یہ سب نہیں کھایا جائے گا"

سیرت نے منہ بناتے ہوئے یسریٰ کو کہا


"سیرت فاطمہ نے تمہیں پراپر ڈائٹ کا چارٹ بنا کر دیا ہے اپنا خیال نہیں رکھو گی تو بچے کا خیال کیسے رکھو گی"

یسریٰ اس کو سمجھاتے ہوئے کھانا کھلانے لگی سیرت بےبسی سے منہ بناتے ہوئے کھانے کھانے لگی


"ثوبان نے کتنے بجے کا ٹائم دیا تھا"

یسری نے سیرت سے پوچھا۔۔۔ صبح ناشتے کی ٹیبل پر یسریٰ نے ثوبان سے کہا تھا کہ سیرت کو کسی اچھی سی گائنی کے پاس لے جائے


"دو بجے کا ٹائم دیا تھا بس آتا ہی ہوگا ثوبی"

سیرت کھانا کھاتے ہوئے بولی


"یہ آتا ہی ہوگا کیا ہے۔۔۔ بیٹا شوہر ہے ثوبان تمہارا،، شوہر کو اس طرح مخاطب نہیں کرتے۔۔۔ میں نے کھبی تمھارے بابا سے تم یا تو سے بات نہیں کی اور رنعم کو دیکھ لو وہ بھی کاشان کو آپ کہہ کر مخاطب کرتی ہے"

یسریٰ نے سیرت کو دیکھ کر ایک دفعہ پہلے سمجھائی ہوئی بات کو دوبارہ سمجھایا۔۔۔ سیرت کے چہرے کے تاثرات بدلے اس سے پہلے وہ یسریٰ کو کچھ کہتی


"ارے رنعم۔۔۔۔ میری چھوٹی بیٹی یوں اچانک آگئی اپنی مما کے پاس "

یسریٰ رنعم کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر بولی۔۔۔۔ سیرت بھی اسے دیکھ کر خوش ہوگئی اور کھانا چھوڑ کر ٹیبل سے اٹھ کر رنعم کے پاس آئی۔۔۔۔ رنعم خاموشی سے چلتی ہوئی ان دونوں کے پاس آئی۔۔۔۔ پیچھے غلام بخش رنعم کا سوٹ کیس لے کر گھر کے اندر آیا۔۔۔ یسریٰ نے رنعم کا اترا ہوا چہرہ دیکھا پھر سوٹ کیس کو


"کیا ہوا سب خیریت تو ہے اتنا بڑا بیگ۔۔۔۔ کاشان کہیں گیا ہوا ہے آفس کے کام سے کیا"

یسریٰ رنعم کو دیکھ کر پوچھنے لگی مگر اس کے چہرے کے تاثرات سے گماں ہورہا تھا بات کچھ اور ہے


"بول کیوں نہیں رہی رنعم مما کیا پوچھ رہی ہیں سب ٹھیک ہے نا"

سیرت نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا


"رنعم۔۔۔ میری جان یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔۔ تم ٹھیک ہونا بیٹا"

یسریٰ رنعم کے قریب آکر اس کا چہرہ تھامتے ہوئی فکرمندی سے بولی


"مما"

رنعم سے آگے کچھ نہیں بولا گیا وہ بس یسریٰ کے گلے لگ کر رونے لگی جس پر سیرت اور یسریٰ دونوں ہی پریشان ہوگئی


"رنعم بول کیوں نہیں رہی ہوں کچھ۔۔۔ کاشی کہاں پر ہے اور تم اس وقت کیسے آگئی ہو۔۔۔ کیوں پریشان کر رہی ہوں ہمہیں"

رنعم کے زاروقطار رونے پر جہاں یسریٰ پریشان ہوئی وہی سیرت تیز آواز میں رنعم سے پوچھنے لگی مگر رنعم نے رونا نہیں چھوڑا


"رنعم"

ثوبان کی آواز پر ان تینوں نے مڑ کر ثوبان کو دیکھا۔ ۔۔ ثوبان اس وقت سیرت کو اسپتال لے کر جانے کے لیے گھر آیا تھا۔۔۔ رنعم کو یسریٰ کے گلے لگ کر روتا ہوا دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا


"بھیا"

رنعم نے ثوبان کو دیکھا اور چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی


"رنعم یہاں دیکھو میری طرف اور مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے"

کل تو اسے لگا تھا کہ کاشان رنعم سے مس بی ہیو کر کے پچھتا رہا ہے اس وجہ سے وہ رنعم کو اپنے ساتھ نہیں لایا تھا مگر آج رنعم کے آنسو کچھ اور ہی بیان کر رہے تھے


"بھیا میں اب کاشان کے ساتھ نہیں رہ سکتی"

رنعم رونے کے درمیان بولی جس پر سیرت اور یسریٰ شاک سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ رنعم چونکہ ثوبان کے گلے لگی ہوئی تھی اس کی پشت سیرت کی طرف تھی بالوں کا اونچا جوڑا بندھا ہونے کی وجہ سے بار بار سرخ نشان ہلکا سا اس کے کندھے کے سائڈ پر نظر آ رہا تھا۔۔۔ رنعم کی بات سن کر سیرت کا دماغ کہیں اور چلا گیا


"یہاں آؤ میرے ساتھ روم میں"

ثوبان کہ کچھ بولنے سے پہلے سیرت بول پڑی اور رنعم کا ہاتھ پکڑ کر اسے روم کے اندر لاکر فوراً دروازہ بند کیا باہر یسریٰ ثوبان کو دیکھنے لگی مگر اس وقت وہ یسریٰ کو تسلی بھی نہیں دے سکا کہ سب ٹھیک ہے اس کا دل اندر سے خود بے چین ہو رہا تھا


"رنعم یہاں میری طرف دیکھ کر مجھے بتاؤ کیا کیا ہے کاشی نے"

سیرت اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ کر پوچھنے لگی


"آپی وہ کاشان نے مجھے۔۔۔۔"

رنعم کو روتے ہوئے سمجھ میں نہیں آیا کہ سیرت کو کیا بتائے اور اب یسریٰ کو کیا بتائے گی


"یہاں بیٹھوں"

سیرت نے اسے کمرے میں موجود کرسی پر بٹھایا ساتھ ہی اس کی شرٹ کی زپ کھولی رنعم کی کمر پر لال نشانات دیکھ کر سیرت نے بے ساختہ اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا


"رنعم یہ کاشی نہیں کیا ہے"

وہ بے یقینی سے رنعم کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی دروازے پر دستک کی آواز پر سیرت نے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے ثوبان سوالیہ نظروں سیرت کو دیکھ رہا تھا


"ثوبی کاشی نے بہت بری طرح رنعم کو مارا ہے اس کی کمر پر نشانات۔۔۔۔"

سیرت کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے جس پر ثوبان بےیقینی سے سیرت کو اور پھر کرسی پر بیٹھی رنعم کو دیکھنے لگا


"اس کی ہمت کیسے ہوئی اب میں اس کو نہیں چھوڑوں گا"

ثوبان غصے میں کہتا ہوں واپس مڑ کر جانے لگا مگر پیچھے کھڑی یسریٰ کو دیکھ کر ٹھٹکا۔۔۔ یسریٰ بالکل سن کھڑی تھی اس کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا وہ سیرت کی باتیں سن چکی ہے ثوبان یسریٰ کو دیکھ کر گھر سے باہر نکلنے لگا مگر اگلے ہی لمحے سے واپس آنا پڑا کیوکہ یسریٰ بےہوش ہوکر ہوش وحواس کھو چکی تھی


****



آج آفس میں میٹنگ کے دوران اس کا ذہن بار بار رنعم اور اپنے رشتے کو لے کر فکر مند ہو رہا تھا۔۔۔ وہ غصے میں رنعم کے ساتھ اب کی بار کچھ زیادہ ہی زیادتی کر گیا تھا۔۔ کل رات رنعم کے ساتھ بد سلوکی کرنے کے بعد وہ اندر سے گلٹی فیل کر رہا تھا


کاشان نے سوچا اسے رنعم اور اپنے رشتے کو کچھ زیادہ ٹائم اور توجہ دینا چاہیے۔۔۔ وہ کل آفس سے چھٹیاں اپلائی کر کے ہفتے دس دن کے لیے رنعم کو کہیں دور لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا،،، جہاں وہ صرف اپنی ڈول کو ٹائم دے سکے۔۔۔ اب وہ باقاعدگی سے فیملی پلان کرنے کا بھی سوچ رہا تھا۔۔۔۔ ایسا ضروی تھا رنعم اور اپنے رشتے کی مضبوطی کے لیے۔۔۔۔ کاشان سوچتا ہوا آفس سے باہر نکلا


اسے گھر پہنچنا تھا،،، رنعم کی مرضی کی جگہ پر وہ اس کے ساتھ کچھ دن اسپینڈ کرے گا۔۔۔۔ اپنے ہنی مون پریڈ کی طرح،،، وہ ان دنوں کو یاد گار بنائے۔۔۔ اب اسے اپنے غصے کو بھی کنٹرول کرنا تھا۔۔۔۔ جو اس کے رشتے کو کمزور کر رہا۔۔۔۔ وہ اپنے رنعم کے ساتھ جڑے رشتے میں مضبوطی چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ رنعم سے اپنے ہر برے رویہ کی تلافی بہت اچھی طرح مانگنا چاہتا تھا اور اسے یقین تھا رنعم ہر دفعہ کی طرح اس کی سوری ایکسپٹ کرلے گی وہ اس ڈول تھی اس سے پیار کرتی تھی


وہ ثوبان کو بھی شیرا سے متعلق اس دن والے واقعے کے بارے میں سب کچھ سچ بتانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ جوکہ عام حالات میں وہ کھبی بھی نہ بتاتا۔ ۔۔۔ مگر اسے ثوبان کا بھی دل صاف کرنا تھا۔۔۔ اسے یقین تھا دو سے تین دن میں سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا


"کاشان"

کاشان اپنی کار کی طرف بڑھا وہ گھر جانے کے لیے کار میں بیٹھ ہی رہا تھا تب اسے اپنے پیچھے سے مایا کی آواز سنائی دی وہ مڑا


"کانگریٹس میم یہ پروجیکٹ ہماری کمپنی کو مل گیا" مایا کاشان کے پاس آئی اس کے کچھ بولنے سے پہلے کاشان بول پڑا


"کاشان اسی بات کے لئے تو میں آپ کو تھینکس کہنے آئی تھی یہ سب آپ کی محنت کا نتیجہ ہے آپ کی محنت کے بغیر اتنی بڑی کامیابی ناممکن تھی"

مایا نے مسکرا کر کاشان کو دیکھا وہ اسے ہر لحاظ سے پرفیکٹ مرد لگتا تھا کاش وہ اس کا ہوتا مایا کو خیال آیا


"تھینکس کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے بس اپنے حصے کا کام کیا ہے اور محنت کی ہے۔۔۔۔ جس کی سیلری آپ مجھے پے کرتی ہیں"

کاشان مایا کو بولتے ہوئے اپنے ہاتھ میں باندھی ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھنے لگا اس سے پہلے مایا کچھ بولتی اچانک پولیس آفس کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوئی جس پر کاشان اور مایا دونوں چونکے


"چلو بھئی کاشی ہمارے ساتھ۔۔۔ تمہارے گرفتاری کا آرڈر آئے ہیں،،، آج رات پھر سے حوالات کے مزے لو،، کچھ پرانے دن کی یادیں تازہ کرو"

انسپیکٹر جواد نے کاشان کے پاس آ کر بولا جس پر مایا اور کاشان ایک بار پھر چونکے


"کیا مذاق ہے یہ،، تمیز سے بات کرو ذرا۔۔۔ کس کے آرڈرز ہیں"

کاشان بگڑتے تیوروں کے ساتھ جواد سے بولا


"بیٹا پولیس کسی کے ساتھ مذاق نہیں کرتی۔۔۔اور ظاہری بات ہے ارڈرز بھی اسی کے ہونگے جو تمہارے کارناموں سے باخبر ہوگا۔۔۔۔ خاور ہتھکڑی لاو بھئی کاشی صاحب کے لیے"

انسپیکٹر جواد جو کہ پہلے سے ہی کاشان کو جانتا حوالدار کو مخاطب کرکے بولا


"دیکھیں آپ انکو اس طرح آریسٹ نہیں کرسکتے ہیں۔۔۔ یہ ثوبان احمد کے بھائی ہیں،، آپ کو ساری بات پہلے ان سے کنفرم کرنی چاہیے"

کاشان کے لئے حوالدار ہتھکڑی لینے گیا تو مایا ایک دم بول اٹھی


"دیکھیے میڈم جی آپ ہمیں مت سکھائے،،، پولیس کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔۔۔ ہم ایس۔پی ثوبان احمد کے کہنے پر ہی ان کو آریسٹ کر رہے ہیں"

انسپکٹر جواد کی بات سن کر ایک بار پھر مایا اور کاشان چونکے


"لے چلو بھئی کاشی صاحب کو"

انسپیکٹر بولتا ہوا آگے چلا گیا اور مایا منہ کھولے دیکھتی رہ گئی


*****


"ہاں جواد بولو"

2 گھنٹے پہلے ڈاکٹر یسریٰ کو ڈپریشن کا انجکشن دے کر گیا تھا وہ ثوبان کے سامنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی تبھی ثوبان کا موبائل بجا


"سر آپ نے کاشان کو گرفتار کرنے کے لیے کہا تھا وہ اس وقت لاکڈ اپ میں ہے اب آپ آگے حکم کریں"

جواد نے ثوبان کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔۔۔ سیرت کے منہ سے جب ثوبان نے کاشان کا رنعم سے سلوک سنا تو اس کا خون کھول اٹھا۔۔۔ اسے کاشان پر شدید غصہ تھا اور اس غصے میں وہ گھر سے باہر نکل کر کاشان کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر یسریٰ کی طبیعت بگڑنے کی وجہ سے وہ کاشان کے پاس تو نہیں جا سکا۔۔۔ فی الحال اس نے جواد سے کہہ کر اسے لاک اپ میں ڈلوا دیا


"ہاں اسے ابھی لوک اپ میں ہی رہنے دو۔۔۔ میں رات تک چکر لگاتا ہوں اور اس شیرا کی کیا خبر ہے"

ثوبان نے جواد سے پوچھا


"سر شیرا کو بھی آج شام میں ہوش آگیا تھا مگر وہ اپنے بیان میں یہی کہہ رہا ہے۔۔۔ جس نے اسے مارا ہے۔۔۔ نقاب ہونے کی وجہ سے وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا"

جواد کے بتانے پر ثوبان الجھ سا گیا مگر ذہن کے کسی کونے میں اسے اطمینان بھی ہوا۔۔۔ وہ کتنا ہی کاشان پر غصہ کر لیتا تھا مگر اندر اسے کہیں یہ ڈر تھا شیرا اگر کاشان کا نام لے لیتا تو کاشان بہت لمبے کیس میں اندر پھنس سکتا تھا کیوکہ شیرا عام بندہ نہیں وہ پولیٹیشن کا خاص بندہ تھا


"ٹھیک ہے شیرا سے کہو پولیس اسٹیشن میں آکر حاضری دے ایس پی ثوبان احمد کے پاس"

ثوبان نے جواد کو ایک دو باتوں کی اور ہدایت دے کر موبائل رکھتے ہوئے دوبارہ صوفے کے پیچھے سر ٹیک کر آنکھیں بند کرلی


تھوڑی دیر بعد سیرت چلتی ہوئی ثوبان کے پاس آئی اس کے قدموں کی چاپ پر ثوبان نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سیرت کو دیکھا۔۔۔ سیرت کی آنکھیں دیکھ لگ رہا تھا جیسے وہ تھوڑی دیر پہلے روئی ہو


"کیا ہوا تمہیں"

ثوبان سیرت کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا


"ثوبی کاشی ایسا کیسے کر سکتا ہے رنعم کے ساتھ،، وہ تو پیار کرتا تھا نا رنعم سے"

سیرت دوبارہ آنکھوں میں دوبارہ آنسو لاتے ہوئے سیرت ثوبان سے پوچھنے لگی


وہ ابھی رنعم کے بیڈ روم میں اس کے پاس ہی موجود تھی۔۔۔ سیرت نے بہروز کی قسمیں دے دے کر رنعم سے سب کچھ پوچھا تھا وہ رنعم کو ریسٹ کا بول کر اب ثوبان کے پاس آئی تھی


"سیرت تمہیں اندازہ نہیں ہے آج کاشی نے مجھے بہت بڑا دکھ دیا ہے۔۔۔ یقین مانو میں کبھی بھی حق میں نہیں تھا اس شادی کے۔۔۔۔ اندر سے ایک ڈر ایک خدشہ لگا رہتا تھا۔۔۔ جب کاشی نے پہلی دفعہ میرے سامنے رنعم کی خواہش کی ناں وہ بالکل مجھے ایک معصوم بچہ لگا جسے اپنا من پسند کھلونا چاہیے اور دیکھو رنعم کو کوئی کھلونا ہی سمجھ بیٹھا۔۔۔۔ اس کی اس خواہش کو میں ٹالتا رہا۔۔۔۔ لیکن سب کی خوشی کے آگے میں چپ ہوگیا اور رنعم کی خوشی دیکھتے ہوئے بےبس بھی۔۔۔۔ دیکھو آج کاشی نے مجھے سب کے سامنے کتنا ذلیل کرا دیا،، میں مما سے، رنعم سے، تم سے۔۔۔ کسی سے نظریں نہیں ملا پا رہا ہوں"

ثوبان نے آنکھیں جھپکتے ہوئے آنکھوں میں آئی نمی کو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا


"آپ ایسے مت بولیے بھیا آپ کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔ نظروں تو میں نہیں ملا پاؤ گی کسی سے،، آپ تو میری خوشی دیکھ کر راضی ہوئے تھے۔۔۔ آپ نے ہمیشہ اچھا بھائی ہونے کا ثبوت دیا،، بس آپ مجھے معاف کر دیں"

رنعم روم کے اندر، ثوبان کے پاس آتی ہوئی بولی ثوبان نے اسے گلے لگا لیا وہ رونے لگی


"رووں مت رنعم میرا دل تو کر رہا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ" ثوبان نے رنعم کو خود سے الگ کیا شاید انکی آوازوں سے سوئی ہوئی یسریٰ جاگ گئی تھی


"ثوبان یہاں آو میرے پاس"

یسریٰ کی آواز پر ثوبان یسریٰ کے پاس آیا ضبط سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا


"جی مما بولیے" یسریٰ نے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا تو ثوبان اس کے قریب بیٹھا


"کاشان کو یہاں بلاو میں اس سے پوچھنا چاہتی ہوں رنعم کی غلطیاں۔۔۔۔ اس نے رنعم پر ہاتھ اٹھایا اس کو مارا۔۔۔ کیا وجہ تھی یہ میں اسی کے منہ سے جاننا چاہوں گی" یسریٰ کے بولنے پر ثوبان ایک دفعہ پھر نظریں جھکا گیا


"مما مجھے معاف کردیں رنعم کی جو حالت"

ثوبان نے یسریٰ کے سامنے ہاتھ جوڑے تبھی یسریٰ نے اس کے ہاتھوں کو تھاما


"تم میرے بیٹے ہو اور رنعم کے بھائی،، تم کیوں معافی مانگ رہے ہو،، کسی دوسرے کے کیے کی۔۔۔ معافی وہ یہاں پر آکر مانگے گا اگر وہ غلطی پر ہے تو۔۔۔ تم اسے یہاں بلاو"

یسریٰ اپنے آنسو ضبط کرتی ہوئی بولی رنعم اور سیرت سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور ان دونوں کی آنکھیں نم تھی


"مما جو اس نے رنعم کے ساتھ کیا ہے وہ معافی کے لائق نہیں ہے۔۔۔ اب اسے اس کی سزا ملنی چاہیے اور وہ سزا میں اس کو دوں گا۔۔۔ وہ یہاں پر اس لیے نہیں آ سکتا کیوکہ اسے شام کو ہی میں نے اریسٹ کروا دیا ہے۔۔۔ لاک اپ میں موجود ہے وہ اس وقت"

ثوبان کے انکشاف پر کمرے میں موجود یسریٰ سیرت اور رنعم تینوں کو سانپ سونگھ گیا


"بھیا یہ دیکھیں۔۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ پلیز کاشان کے ساتھ اسطرح مت کریں انہیں جو بھی سزا دینی ہے دے لیں مگر پلیز لاک اپ نہیں کریں انہیں"

رنعم باقاعدہ ثوبان کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی جو بھی تھا اسے ثوبان کے منہ سے کاشان کے بارے میں سن کر اچھا نہیں لگا تھا


"رنعم ہٹو میرے سامنے سے اور جاو اپنے کمرے میں۔۔۔ اس نے جو کرنا تھا وہ کر چکا ہے اب جو میرا دل چاہے گا وہ میں کروں گا" ثوبان رنعم کے ہاتھ نیچے کرتا ہوا بولا

"ثوبی مگر کاشی تمہارا بھائی ہے تم اس سے پیار"

سیرت کے کچھ بولنے سے پہلے ثوبان نے ہاتھ کے اشارے سے سیرت کو کچھ بھی بولنے سے باز رکھا

"تم بھی بیڈ روم میں جاؤ ڈاکٹر نے تمہیں ریسٹ کا بولا ہے"

ثوبان کہتا ہوا روم سے باہر نکل گیا

"دیکھیے میں آپ کو پچھلے بیس منٹ سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ہم نے ایس۔پی ثوبان احمد کے آرڈرز کو فالو کرتے ہوئے کاشان کو حراست میں لیا ہے وہ ایک ذمہ دار آفیسر ہیں، اچھی پوسٹ پر فائز ہیں وہ بناء کسی وجہ کے ہمہیں اس طرح آریسٹ آرڈر نہیں دے سکتے"

انسپیکٹر جواد کافی دیر سے اپنے سامنے بیٹھے وکیل کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ کاشان کی ضمانت کے لیے آیا تھا


"تو میں بھی آپ سے کاشان احمد کا جرم پوچھ رہا ہوں آخر کس جرم کی سزا کے بناء پر،، میرا کلائنٹ پچھلے 5 گھنٹے سے جیل میں سڑ رہا ہے۔۔۔ دیکھیئے انسپیکٹر جواد قانون آپ بھی پڑے ہوئے ہیں اور قانون کے قوانین سے میں بھی لاعلم نہیں۔۔۔ آپ بغیر کسی جرم کے عام شہری کو اس طرح لاک اپ میں بند نہیں کر سکتے یا تو آپ میری ابھی اور اسی وقت ثوبان احمد سے بات کرائے یا پھر میں آپ کی کمیشنر حشمت اللہ صاحب سے بات کراتا ہوں"

اب کے وکیل نے ذرا سختی سے جواد کو دھمکی دی


"خاور سر ثوبان نے فون اٹھایا"

جواد نے کانسٹیبل سے پوچھا جو کہ پچھلے دس منٹ سے ثوبان کا نمبر ٹرائی کر رہا تھا مگر دوسری طرف بیلز جا رہی تھی


"نہیں سر کافی دیر سے ٹرائی کر رہا ہوں مگر بیلز جا رہی ہیں"

کانسٹیبل نے جواد کو جواب دیا


"جاؤ کاشی کو لے کر آؤ"

ثوبان فون نہیں اٹھا رہا تھا اور دوسری طرف جواد کے پاس ارڈر پرچے کی صورت موجود نہیں تھے وکیل کی کمیشنر کی دھمکی کام کر گئی اس لیے جواد نے فوراً کانسٹیبل سے کاشی کو لانے کے لئے کہا۔۔۔ کاشان باہر آیا اور خونخوار نظروں سے جواد کو دیکھنے لگا


وکیل نے اپنا تعارف کروایا اور بیل کے پیپرز پر کاشان کے سائن لیے۔۔۔ بیل والے کا نام دیکھ کر کاشان چونکا۔۔۔ اپنا والٹ اور موبائل پولیس کی تحویل سے لے کر والٹ میں اپنے پیسے چیک کرتا ہوا وہ باہر نکلا


****


"رنعم"

بیل بجانے پر جب رنعم نے دروازہ نہیں کھولا تو کاشان چابی کی مدد سے دروازہ کھولتا ہوا اندر آیا اور رنعم کو پکارا


رنعم کی پکار کے ساتھ اس نے سارے کمرے چیک کیے مگر رنعم گھر پر موجود نہیں تھی ڈائننگ ہال میں آ کر بے ساختہ اس کی نظر ٹیبل پر پڑی وہاں پر گھر کی چابیوں کے ساتھ رنعم کی رینگ رکھی ہوئی تھی کاشان کو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا


پہلے وہ سمجھا کہ اسے شیرا کے چکر میں ثوبان نے انسپکٹر کو اریسٹ کرنے کے آرڈر دیئے ہیں۔۔۔۔ جواد سے دو بار اپنا جرم پوچھنے پر بھی اس نے اتنا کہا کہ تمہیں اپنا جرم خود معلوم ہے


گھر میں رنعم کی غیر موجودگی اور اس کی پہنائی ہوئی رینگ کی ٹیبل پر موجودگی کاشان کو کافی کچھ سمجھا گئی


"رنعم"

رینگ کو مٹھی میں دبوچے وہ دانت پیستا ہوا بولا۔۔۔ گھڑی اس وقت رات کا ایک بجا رہی تھی اس نے اپنے موبائل سے رنعم کا نمبر ملایا مگر اس کا نمبر سوئچ آف تھا کاشان نے ٹیبل پر زور سے مُکا مارا

کاشان نے سیرت کا نمبر ٹرائی کیا جو کہ دوسری بیل پر اٹھا لیا گیا


"کاشی تم"

سیرت نے حیرت سے پوچھا کیوکہ ثوبان نے بتایا تھا کہ وہ لاک اپ ہے پھر وہ فون کیسے کر سکتا ہے


"رنعم کہاں ہے سیرت"

کاشان نے اس کی آواز سن کر پہلا سوال کیا


"کیوں ہاتھ میں کھجلی ہو رہی ہے کوئی پٹنے والا موجود نہیں ہے تمہارے پاس"

کاشان نے رنعم کا نام لیا تو سیرت کو بہت کچھ یاد آیا وہ تلخی سے بولی دوسری طرف کاشان سارا معاملہ سمجھ گیا اسے رنعم پر بہت غصہ آیا


"اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھ کر بات کرو"

کاشان آج پہلے ہی غصے میں تھا سیرت کا یوں بولنا اسے مزید غصہ دلا گیا


"تم اپنے ہاتھ کنٹرول میں نہیں رکھو اور مجھے زبان کو کنٹرول میں رکھنے کا کہہ رہے ہو"

سیرت نے طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا


"میں تمہارا ثوبی کی وجہ سے لحاظ کررہا ہو سیرت۔۔۔۔ میں رنعم کو لینے آ رہا ہوں۔۔۔ اس سے کہو ریڈی ہو جائے"

کاشان نے سیرت سے زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اب اسے جو بھی کچھ پوچھنا تھا اپنی بیوی سے پوچھنا تھا


"مگر میرا دل نہیں چاہ رہا کہ میں ثوبی کی وجہ سے تمہارا لحاظ کر اور غلطی سے بھی یہاں آنے کی کوشش مت کرنا کاشی،،، اگر تم اپنا گھر بستا ہوا دیکھنا چاہتے ہو تو۔۔۔ کیوکہ رنعم کا بھائی اس وقت بہت غصے میں ہے کہیں وہ کھڑے کھڑے تم سے اسے طلاق ہی دلوا دے"

سیرت نے استزائیہ ہنستے ہوئے کہا اور اپنے برابر میں سوئے ہوئے ثوبان کو دیکھا


"تم مجھے ثوبی کا نام لے کر ڈرا نہیں سکتی ہو،، رنعم بیوی ہے میری۔۔۔ میں اس پر حق رکھتا ہوں کسی کے کہنے سے اگر میں اسے طلاق دوں گا تو یہ بھول ہے تم سب کی۔۔۔ سارے اختیارات رکھتا ہو اس پر"

اس نے سیرت کی خوش فہمی کو دور کرنا چاہا


"اختیارات کا ہی تو غلط استعمال کر بیٹھے ہو تم کاشی،، اگر حق رکھتے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرو۔۔۔۔ ہم نے اسے تمہارے نکاح میں بیوی بنا کر دیا تھا اور تم نے اسے زرخرید غلام سمجھ لیا۔۔۔ شرم نہیں آئی تمہیں اس معصوم پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے"

سیرت اب اپنے اندر بھرا ہوا غصہ کاشان پر باتوں کی صورت نکالنے لگی


"اور کیا کیا بکواس کی ہے اس نے میرے متعلق"

کاشان کو سیرت کی باتیں شرمندگی دلانے کی بجائے مزید غصہ دلانے لگی


"تم نے جو جو گل کھلائے ہیں ناں وہ سب میں نے اس سے پوچھا ہے۔۔۔ تمہاری ساری کارستانیوں سے واقف ہوں میں۔۔۔ بیوی پر ہاتھ اٹھانا اسے ڈرانا دھمکانا۔۔۔ کہاں کی مردانگی ہے یہ کاشی"

سیرت اس سے غصے میں پوچھنے لگی


"بس تمہارے سامنے وہ مظلومیت کا رونا رو کر وہ مظلوم بن گئی۔۔۔ میں نے اسے ڈرایا دھمکایا مارا۔۔ یہ سب میں نے کیوں کیا۔۔۔ اس نے یہ نہیں بتایا تمہیں"

کاشان سیرت سے غصے میں بولنے لگا


"اگر رنعم بغیر آستین کے کپڑے پہنتی ہے۔۔۔۔ تو وہ شادی سے پہلے بھی پہنتی تھی کیا اس وقت تمہارے پاس آنکھیں موجود نہیں تھی۔۔۔۔ اگر اتنی ہی اس کی ڈریسنگ بری لگتی ہے تو پھر کر لیتے ناں کسی برقع والی سے شادی۔۔۔۔ تم نے سگریٹ سے اس کا ہاتھ جلا دیا،،، ویسے تو بڑا پیار کرتے ہو تمہیں ترس نہیں آیا اس کا ہاتھ جلاتے ہوئے۔۔۔ اگر باہر لڑکے کچھ بول رہے ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گھر آکر بیوی کو مارنا شروع کر دو۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ دوپٹہ نہ ہو تو لڑکے بکواس کر رہے ہو،، بغیرت لڑکے تو عبایا پہننے والی اور نقاب کرنے والی لڑکیوں کو بھی چھوڑتے ان پر بھی جملے کس رہے ہوتے ہیں تو کیا مطلب ہے اس بات کا بندہ ان لڑکیوں کو بھی مارنا شروع کردے جو اپنا چہرہ چھپاتی ہیں۔۔۔۔ کاشی ایک مرد کی مردانگی کا اندازہ اس بات سے ہرگز نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ عورت پر روعب میں ڈرا دھمکا کر رکھے،، نہ ہی اللہ نے مرد کا بلند درجہ اس لیے رکھا ہے کہ وہ اس کا غلط استعمال کرے۔۔۔ یہ تم جیسے مرد ہیں جو عورت کو پیر کی جوتی سمجھتے ہیں وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں تمہیں پیدا کرنے والی بھی ایک عورت ہے"

سیرت جب بولتے بولتے تھک گئی تو کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف کاشان موبائل ہاتھ میں پکڑا کافی دیر تک ویسے ہی بیٹھا رہا


*****


"آج تو کوئی بہت ہی خاص دن ہے جو آپ مجھ سے ملنے اسپیشلی میرے گھر پر آئے ہیں"

تھوڑی دیر پہلے مایا کو اس کی نوکرانی نے خبر دی کہ کوئی کاشان صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ اتفاق سے مایا کی نوکرانی شاہدہ(یسریٰ کی نوکرانی) کی بہن تھی جس سے مایا کو سن گن پڑی کہ کاشان کی بیوی روتی ہوئی ثوبان کے پاس آگئی۔۔۔ کاشان کی امد کی خبر سنتے ہی مایا ڈرائنگ روم میں پہنچی تو وہاں پر کاشان کو اپنا منتظر پایا


"میرے لیے تو یہ دن کو خاص اسپیشل نہیں،، خیر میں اسپیشلی آپ سے اس وجہ سے ملنے آیا ہوں کیوکہ آپ آج آفس نہیں آئی اور میرے یہاں پر آنے کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے میری بیل کرائی

کاشان نے مایا کو اپنے آنے کا مقصد بتایا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا


"کاشان کیا میں آپ سے پوچھ سکتی ہوں کہ ثوبان نے آپ کے ساتھ ایسا کیوں کیا"

اس کو جاتا ہوا دیکھ کر مایا نے اسے مخاطب کیا


"نہیں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے میرا مطلب ہے یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے"

کاشان ایک دم سنمبھل کر بولتا ہوا مایا کو دیکھنے لگا


"اگر آپس کا معاملہ ہے تو یقیناً آپ کی وائف بھی انولو ہوگی اس معاملے میں۔۔۔ کہیں اس کے کچھ کہنے پر تو ثوبان نے۔۔۔ میرا مطلب ہے"

مایا نے اپنا دماغ لڑاتے ہوئے کاشان کو دیکھ کر بات ادھوری چھوڑی


"میم میں نے پہلے ہی بتایا ہے آپ کو کہ میں اپنے پرسنل ایشوز کسی دوسرے سے ڈسکس نہیں کرتا۔۔۔ اپنے یہاں آنے کا مقصد میں آپ کو بتا چکا ہوں اب آپ اجازت دیں"

کاشان مایا کو دیکھتا ہوا بولا اور واپس جانے لگا تبھی مایا نے اس کا بازو پکڑا


"ایک منٹ کاشان میری بات سنئیے"

کاشان نے ایک نظر اپنے بازو پر مایا کا ہاتھ دیکھا


"اب بولیے"

وہ اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتا ہوا بولا


"مجھے نہیں معلوم کاشان آپ کا اور آپ کی وائف کا ایک دوسرے سے کیسا ریلیشن ہے مگر جہاں تک مجھے علم ہے آپ کی وائف اس وقت ثوبان کے گھر پر موجود ہے۔۔ آئی ڈونٹ نو ایسی کیا بات ہوئی جس کی وجہ سے ثوبان نے آپ کو اریسٹ کیا یقیناً رنعم کے کہنے پر ہی اس نے ایسا کیا ہوگا کیا آپ ایسی وائف ڈیزرو کرتے ہیں جو ٹپیکل عورتوں کی طرح میکے میں جاکر بیٹھ جائے اور اپنے شوہر کی برائیاں کرے،، اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا روئے اور ایک کی چار لگائے آپ کی وائف ایک آپر کلاس فیملی سے بی لانگ کرنے کے باوجود مجھے اک ٹیپیکل سوچ رکھنے والی لڑکی لگتی ہے مجھے پوری ہمدردی ہے آپ سے"

مایا کی پوری بکواس وہ ضبط کر کے خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔ مایا کے چپ کرنے پر وہ بولا


"آپ نے میری برین واشنگ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کیا میم رنعم میری بیوی ہے کسی تھرڈ پرسن کے باتوں میں آکر میرے دل میں اس کے لیے بدگمنانی نہیں آسکتی یہ آپ نے ٹھیک کہا کہ وہ ایک آپر کلاس فیملی سے بی لانگ کرنے کے باوجود ویسی نہیں ہے بلکہ ایک سادہ سی لڑکی ہے جو شوہر کی ہر بات ماننے سے لے کر اپنے آپ کو شوہر کی پسند میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔ آج کل کے دور میں واقعی کوئی لڑکی اتنی سیدھی نہیں ہوسکتی جتنی میری بیوی۔۔۔۔ اور اسے یہی بات دوسری سب لڑکیوں سے منفرد بناتی ہے۔۔۔ اس نے اپنے گھر والوں کو کیا بتایا کیا نہیں یا ایک کی چار لگائی ان سب باتوں کی فکر کرنے کی یا پھر مجھ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں،، ہر دوسرے میاں بیوی کی طرح میرا میری بیوی کا ہیلدی ریلیشن ہے اور میں یہاں سے ثوبان کے پاس ہی جا رہا ہوں اپنی وائف کو لینے کے لئے"

کاشان کی باتیں سن کر مایا کا چہرہ ایک دم تاریک ہوگیا اسے اپنی ساری محنت بےکار لگی اسے تو لگتا تھا چند مہینوں کے بعد کاشان کا اپنی بیوی کے حسن سے اور میرڈ لائف سے دل بھر جائے گا اور وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی مگر ابھی بھی اسے اپنی دال گلنا مشکل لگ رہی تھی۔۔۔ کاشان ایک بار پھر جانے لگا مایا اس کے سامنے آئی


"کاشان آج مجھے بتا کر جاو رنعم میں آخر ایسا کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔۔۔ خوبصورت میں بھی ہو،، تمہیں وہ سب کچھ میں بھی دے سکتی ہوں جو تمہاری بیوی کے پاس ہے"

مایا نے بولنے کے ساتھ ہی اپنے شرٹ کے بٹن کھولے کاشان نے غصے میں اس کو دیکھا اور زور دار تھپڑ مایا کے منہ پر رسید کیا۔۔۔ جس سے وہ ساتھ والے صوفے پر گری


"بات صرف خوبصورتی کی نہیں ہے مایا، رنعم میں خوبصورتی کے علاوہ شرم و حیا بھی موجود ہے جو تمہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔۔۔۔ تم نے ایک دفعہ پہلے بھی اپنا اور رنعم کا موازنہ کیا تھا۔۔۔ آج میں تمہیں اپنی سوچ اور تمہاری اوقات بتاتا ہوں۔۔۔ میری نظر میں تم ایک کال گرل سے بھی زیادہ گری ہوئی لڑکی ہوں۔۔۔ جس پر میں دیکھنا تو دور کی بات تھوکنا بھی گوارا نہیں کرتا تم جیسی تھرڈ کلاس عورتیں ہوتی ہیں جو کہ دوسری عورتوں کا گھر برباد کرتی ہیں۔۔۔ تم نے شاید مجھے دوسرے کی مردوں کی کیٹگری میں لے لیا ہے جو گھر میں بیوی موجود ہونے کے بعد آفس میں دوسری عورتوں سے چکر چلا رہے ہوتے ہیں یا اپنا دل بہلا رہے ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے ہر عورت کریکٹر لیس نہیں ہوتی ویسے ہر مرد بھی کریکٹر لیس نہیں ہوتا مگر میری تازہ رائے تمہارے بارے میں یہ ہے کہ تم ایک گھٹیا کسی کی اہنچھی لڑکی ہو اور تمہاری جیسی لڑکیوں کی وجہ سے باپ بھائی شوہر غیرت کے نام پر اپنی بیوی بہن بیٹی کا قتل کر دیتے ہیں،، تف ہے تمہارے جیسی لڑکی پر"

کاشان اس کو بولتا ہوا اس کے گھر سے نکل گیا مایا اپنے سرخ گال پر ہاتھ رکھے یہ سوچ رہی تھی کہ کاشان اسے آج کون سا آئینہ دیکھا گیا

رات کو ثوبان یسریٰ کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا بیڈ کر لیٹنے کے چند منٹ بعد ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔ جب سیرت روم میں آئی تو اس نے ثوبان کو سوتا ہوا دیکھا۔۔۔ سیرت کو اس پر ترس آنے لگا،،، کل ہی تو ان دونوں کو کتنی بڑی خوشی کی خبر ملی تھی۔۔۔ ثوبان اور وہ کتنے خوش تھے مگر آج یوں رنعم کی حالت دیکھ کر ثوبان کے ساتھ ساتھ سیرت کا بھی دل اداس ہونے لگا۔۔۔ سیرت نے آگے بڑھ کر اے۔ سی آن کیا اور کمرے کی لائٹ آف کی ثوبان کا موبائل سائلینٹ کیا اور خود بھی اس کے برابر میں لیٹ گئی


****


ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ثوبان کو معلوم ہوا تھا کہ کاشان بیل پر لاک اپ سے چھوٹ گیا ہے۔۔۔ یہ خبر اس نے ناشتے کی ٹیبل پر یسریٰ کو تب بتائی جب اس نے ثوبان سے اسرار کیا کہ وہ کاشان کو چھوڑ دے۔۔۔ اس کے خیال میں گھر کے معاملات کو گھر کی حد تک رکھنا مناسب تھا اسطرح سے اشتہار لگانا صرف جگ ہنسائی کا سبب بنتا


اس وقت چاروں کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہے تھے رنعم کو ثوبان خود ناشتے کی ٹیبل پر لے کر آیا کیوکہ اس کا ناشتے کا موڈ نہیں ہورہا تھا وہ اسے اپنے پاس بٹھا کر ناشتہ کروا رہا تھا اور بار بار سیرت کو بھی صحیح سے ناشتہ کرنے کا کہہ رہا تھا کیوکہ کھانے پینے میں وہ شروع سے ہی نخرے دکھاتی تھی،،، اس وقت بھی ثوبان کے تیسری بار ٹوکنے پر وہ منہ بنا کر دودھ سے بھرے گلاس کے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی تھی جبکہ ثوبان کی خالی پلیٹ میں یسریٰ کچھ نہ کچھ ڈال رہی تھی اور اسے بھی ناشتہ کرنے کا کہہ رہی تھی


ثوبان کو گھر میں سب کا خیال رکھتے دیکھ کر یسریٰ کو ثوبان کا خیال رکھنا پڑتا وہ اس کی صحت کی فکر کرنے لگتی ویسے بھی اب گھر میں ایک وہی مرد تھا۔۔۔ ان لوگوں کے سر پر،،، اس وجہ سے یسریٰ کی اور بھی زیادہ ثوبان کی طرف سے فکر مند رہتی۔۔۔ ثوبان یسریٰ کو اپنے لیے ہلکان اور پریشان دیکھ کر جلد گھر آنے کی کوشش کرتا۔۔۔ شو روم کا بھی اس نے کافی دنوں سے چکر نہیں لگایا تھا


"سیرت چار بجے ریڈی رہنا ڈاکٹر سے اپوائنمنٹ لیا ہے تمہارا اور رنعم ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد یشعل کو یہاں پر بلا لینا اور اب اپنی اسٹیڈیز دوبارہ سے کنٹینیو کرو،، گھر میں بیکار بیٹھے رہنے سے یہی بہتر ہے"

ثوبان اس وقت یونیفارم میں موجود تھا ناشتہ کرنے کے بعد وہ پولیس اسٹیشن جانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اس سے پہلے وہ سیرت اور رنعم سے مخاطب ہوا


اس کی بات سن کر سیرت نے تابعداری سے سر ہلایا جبکہ رنعم سوچنے لگ گئی اب وہ چاہ کر بھی اسٹڈیز کمپلیٹ نہیں کر سکتی تھی اس نے شادی کے بعد کاشان سے اپنی اسٹڈیز کا ذکر کیا تھا مگر اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ جب تک پڑھ سکتی ہے جب تک کنسیف نہیں کر لیتی کیوکہ بچے کے آنے کے بعد اسے پورا ٹائم بچے کو ہی دینا ہوگا۔۔۔ اس کا بچہ دوسروں کے ہاتھوں پلے یا اس کے لیے گورنس کا انتظام کیا جائے یہ بات کاشان کو پسند نہیں تھی۔۔۔ اس لیے رنعم نے میں کچھ کنسیو کرنے سے پہلے ہی یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا تھا،،، اور رنعم کے یوں اسٹیڈیز چھوڑنے پر تھوڑا سا ثوبان نے اعتراض بھی کیا تھا جبکہ دوسری طرف کاشان نے کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا


ابھی وہ لوگ ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ کاشان ہال میں آتا ہوا دکھائی دیا


"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں پر آنے کی"

ثوبان کی جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے کاشان پر نظر پڑی وہ پچھڑے ہوئے شیر کی طرح اس پر جھپٹا اس کے پاس پہنچ کر ایک زوردار مُکا کاشان کے گال پر جڑ دیا مگر دوسری بار مُکا مارنے پر کاشان نے زور سے اس کا ہاتھ پکڑا


"دوبارہ یہ غلطی مت کرنا ثوبی، ورنہ اب کی بار میرا بھی ہاتھ اٹھ جائے گا"

کاشان اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے غصے میں بولا یسریٰ، رنعم، سیرت تینوں شاک کی کیفیت میں کھڑی دونوں بھائیوں کو لڑتا ہوا دیکھ رہی تھی


"ابھی اور اسی وقت اس گھر سے نکل جاؤ تم"

ثوبان نے شہادت کی انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا


"میں یہاں اپنی بیوی کو لینے آیا ہوں رنعم چلو میرے ساتھ"

کاشان ثوبان کو بولتا ہوا اب رنعم سے مخاطب ہوا۔۔۔ وہ سانس روکے کھڑی تھی


"اس کی طرف غلطی سے بھی آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا کاشی۔۔۔ وہ اب تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی"

ثوبان نے اسے سختی سے وارن کیا


"بیوی ہے یہ میری دیکھتا ہوں کیسے نہیں جائے گی"

کاشان ثوبان کو گھورتا ہوا بولا اور رنعم کی طرف بڑھا وہی ثوبان نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔ کاشان نے ہاتھ کی مٹھی کا مُکا بنایا اس سے پہلے وہ ثوبان کے منہ پر مارتا۔۔۔ یسریٰ بول اٹھی


"رکو کاشان،،، خبردار جو تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔ یوں بات بات پر ہاتھ اٹھانا کوئی فخر کا کام نہیں۔۔۔۔ ثوبان تم بھی ہاتھ چھوڑو اس کا۔۔۔ کاشان یہاں آ کر بیٹھو بات کرنی ہے مجھے تم سے"

یسریٰ کے کہنے پر ثوبان نے کاشان کا ہاتھ چھوڑا کاشان ماتھے پر شکنیں لائے ثوبان کو غصے میں دیکھا اسے ثوبان پر اور بھی غصہ تھا ایک تو کل وہ اسکی وجہ سے پانچ گھنٹے لاک اپ میں بند رہا اور اب اسے صاف لگ رہا تھا وہ رنعم کو اس کے ساتھ جانے نہیں دے گا۔۔۔


"میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا ہوں آنٹی، رنعم کو لینے آیا ہوں آپ بولئیے جو آپ کو بولنا ہے میں آپ کی بات سن رہا ہوں"

کاشان کے لہجے میں بھلے ہی سنجیدگی تھی مگر احترام بھی شامل تھا کچھ بھی تھا وہ یسریٰ کا لحاظ کرتا تھا اور عزت بھی مگر یسریٰ کو مخاطب کرنے کے بعد اس نے رنعم پر سخت نگاہ ضرور ڈالی آخر کیسے وہ اپنے سارے کپڑے ساتھ لاکر اسکو اور اس کے گھر چھوڑ سکتی تھی کاشان کو رنعم پر بہت غصہ تھا مگر فی الحال وہ اسے اس وقت اپنے ساتھ لے جانے کے ارادے سے آیا


"ایسی باتیں کھڑے ہو کر نہیں کی جاتی صوفے پر بیٹھو اور ثوبان تم بھی یہاں بیٹھو"

یسریٰ نے ان دونوں کو صوفے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ کاشان صوفے پر بیٹھا،،، کڑے تیوروں کے ساتھ ثوبان بھی سر جھٹک کر یسریٰ کی بات ماننے پر مجبور تھا تبھی آکر وہ بھی صوفے پر بیٹھا۔۔۔ یسریٰ نے رنعم کو اشارے سے بلایا۔ ۔۔۔ سیرت اور رنعم دونوں آکر بیٹھ گئی


"غلام بخش اور شاہدہ تم دونوں اپنے کوارٹر میں جاو جب کوئی کام ہوگا تو بلا لیا جائے گا" یسریٰ نے گھر کے نوکروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


"کیا مقصد ہے تمہارا اس طرح بنا اجازت کے اپنا سب سامان لے کر یہاں پر آنے کا"

کاشان رنعم کو گھورتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ رنعم کے ساتھ ساتھ سیرت کو بھی اس ڈھٹائی پر حیرت ہوئی اور ثوبان کو غصہ آیا جبھی وہ بول اٹھا


"تمہیں اس کا سب سامان لے کر یہاں پر آنے کا مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا،، اس سے مت پوچھو میں سمجھا دیتا ہوں تمہیں اس بات کا مطلب،، نہیں رہنا چاہتی اب وہ تمہارے ساتھ"

ثوبان اسکو دیکھ کر تیز لہجے میں بولا


"ثوبان ایک منٹ بیٹا مجھے اس سے بات کرنے دو۔۔۔۔ اور کاشان تم رنعم سے کوئی بھی بات بعد میں پوچھنا پہلے تم میری بات کا جواب دو"

چند منٹ کی خاموشی کے بعد یسریٰ دوبارہ بولی


"کاشان تم نے رنعم کے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔۔ میں نے یہ بات رنعم سے ابھی تک نہیں پوچھی بلکہ میں تم سے پوچھنا چاہو گی آخر اس نے ایسی کون سی غلطی کی تھی جس کی وجہ سے تم نے اتنی بےدردی سے اس کو مارا کہ اس کی بہن وہ نشان دے کر رو پڑی۔۔۔ میں تو ماں ہوں شاید دیکھ بھی نہ پاؤ ان نشانات کو۔۔۔ کاشان بتاؤ مجھے اس کا کیا جرم تھا"

یسریٰ نے بات کرتے ہوئے بہت حد تک اپنے آپ کو رونے سے روکا مگر سامنے بیٹھے ہوئے کاشان کو آج پہلی دفعہ یسریٰ کے سامنے شرمندگی ہوئی


"آنٹی میں رنعم کے ساتھ ایسے نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر میں غصے میں اپنے آپ پر قابو نہیں کر پایا کیوکہ اس نے میرے منع کرنے کے باوجود ثوبان سے ہماری باتیں شیئر کی۔۔۔ میں نے اسے بہت پیار سے سمجھایا تھا کہ یہ باتیں ہم دونوں کے درمیان رہنی چاہیے"

کاشان نے بولنا شروع کیا مگر ثوبان نے اسے وہی ٹوکا


"شیرا کے متعلق اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔ رنعم کا بریسلیٹ وہاں پر پایا گیا۔۔۔۔ تو میں نے اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ شیرا کی حالت کی ذمہ دار تم ہو"

ثوبان نے ان تینوں کا لحاظ کرتے ہوئے، کاشان کو کوئی سخت الفاظ کہنے سے اپنے آپ کو باز رکھا


رنعم نے کل رات ہی ثوبان کو،، پرسوں والے دن ثوبان کے جانے کے بعد کی بات بتائی کہ کس وجہ سے کاشان نے اسے بیلٹ سے مارا۔۔ اس سے آگے کی بات تو وہ سیرت کو بھی نہیں بتا پائی تھی اور ثوبان رنعم کی بات سن کر اپنا سر تھام کر بیٹھ گیا تھا


اس وقت ثوبان کے منہ سے یہ انکشاف سن کر کہ رنعم نے شیرا کے متعلق اسے کچھ نہیں بتایا کاشان ہکا بکا رہ گیا یعنی اس نے رنعم کی غلطی نہ ہونے کے باوجود اسے کتنی بری طرح اس بات کی سزا دی۔۔۔ کاشان نے بے ساختہ رنعم کی طرف دیکھا وہ سبز آنکھوں میں ہزار شکوے لیے کاشان کو ہی دیکھ رہی تھی کاشان رنعم سے نظریں چرا گیا


"سوری مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا اس بات کا۔۔۔ یہ بات میرے اور رنعم کے بیچ میں تھی، مجھے لگا ثوبی کو اگر یہ بات معلوم ہے تو یقیناً اسے رنعم نے بتائی ہوگی"

کاشان اپنی نظریں نیچے جھکائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگا


"اور تم نے اس کے بدلے میری بیٹی کو جانوروں کی طرح پیٹنا شروع کر دیا کاشان،،، تمہارا دل نہیں دکھا اس پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔۔۔ میں نے رنعم سے تمہاری شادی یہ سمجھ کر کی تھی کہ تم رنعم کو پسند کرتے ہو تو اس کی قدر بھی کرو گے۔۔۔ اسے اپنے نام کے ساتھ ساتھ عزت بھی دوگے۔۔۔ آج مجھے سمجھ میں آرہا ہے لوگ کیوں بیٹیوں کے پیدا ہونے سے خوف کھاتے ہیں،، انہیں بیٹی کے پیدا ہونے کا ڈر نہیں ہوتا بلکہ ان کے برے نصیب سے خوف آتا ہے"

یسریٰ اب اپنے آپ کو رونے سے روک نہیں پائی۔۔۔ یسریٰ کے ساتھ ساتھ سیرت اور رنعم کی آنکھیں بھی اشکبار تھی ثوبان اپنے آپ کو ضبط کیے بیٹھا تھا جب کہ کاشان کا سر مزید جھگ گیا


"کاشان جب پرسوں تم نے رنعم کو مارا ہوگا اس نے تمہیں اپنی بے گناہی کے بارے بتایا تو ہوگا ناں۔۔۔۔ تمہیں اس پر ذرا یقین نہیں آیا،، وہ بیوی ہے تمہاری تمہیں اپنی بیوی پر اعتبار نہیں۔۔۔ میرے خیال میں اگر کوئی بھی شخص تمہیں آ کر یہ کہہ دے کہ فلاں انسان کے ساتھ تمہاری بیوی کو میں نے دیکھا ہے۔۔۔ تم تو رنعم سے کچھ بھی پوچھے بغیر اسے مار ڈالو گے"

یسریٰ کے بولنے پر کاشان تڑپ اٹھا اس نے ایک دم سے نظریں اٹھا کر یسریٰ کا آنسو سے تر چہرہ دیکھا


"آنٹی پلیز۔۔۔ اس طرح مت بولیں میں اپنے کیے پر آج واقعی شرمندہ ہوں،، میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔ آئندہ کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا" کاشان اٹھ کر یسریٰ کے پاس آتا ہوا بولا تو یسریٰ اس کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی


"کاشان میں نے کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ہمیشہ کوشش کی کہ میری ذات سے بھی کسی دوسرے سے تکلیف نہ پہنچے لیکن پھر بھی میری بیٹی کی قسمت۔۔۔ اگر میں تم سے سہی بات کرو میرا دل اندر سے بالکل نہیں چاہ رہا کہ میں اس وقت تمہیں معاف کر دو لیکن اگر تمہیں رنعم معاف معاف کرتی ہے تو بے شک اسے لے جاؤ اپنے ساتھ" یسریٰ کاشان کو بولتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ کاشان نے لمبا سانس کھینچ کر رنعم کو دیکھا،،، وہ اپنا سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ کاشان نے اس کی طرف قدم بڑھایا ویسے ہی ثوبان صوفے سے اٹھا


"ایک منٹ ثوبی مجھے رنعم سے بات کرنی ہے"

کاشان نے اسے سخت تیورں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ سیرت نے ثوبان کو آنکھوں کے اشارے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا،۔۔۔ کاشان رنعم کے پاس آیا اور اسے کندھوں سے تھام کر اٹھایا


"آیم سوری میں نے غصے میں آکر کافی زیادتی کی ہے تمہارے ساتھ بلکہ اکثر کر جاتا ہوں،،، مجھے اس وقت تمہاری بات سننی چاہیے تھی تم پر اعتبار کرنا چاہیے تھا۔۔ میں واقعی بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ رنعم پلیز اپنے گھر چلو میں تمہیں لینے آیا ہوں،،، آئندہ آگے سے کوئی بات ایسی نہیں ہوگی بس تم اس وقت میرے ساتھ چلو پلیز"

کاشان رنعم کو کندھوں سے تھاما ہوا نرم لہجے میں بول رہا تھا،، کاشان کی بات سن کر بے اختیار رنعم نے ثوبان کی طرف دیکھا جو چہرے پر غصہ اثار لیے کاشان کو گھور رہا تھا۔۔۔ رنعم کو ثوبان کی طرف دیکھنے پر کاشان نے رنعم کے گال پر ہاتھ رکھ کر اس کے چہرے کا رخ دوبارہ اپنی طرف کیا


"نہیں اس کی طرف مت دیکھو،، یہاں مجھے دیکھو پلیز۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے نا مجھ سے تمہارے بغیر نہیں رہا جائے گا اسی وجہ سے تو میں تمہیں یہاں نہیں رکنے دیتا،،،، مجھے اچھا لگتا ہے اپنے گھر میں اپنی بیوی کی موجودگی کا احساس،،،، کل سے یہاں رکی ہوئی ہو تم، بس اتنا کافی ہے۔۔۔۔ اگر تمہیں ناراض بھی رہنا ہے تو بےشک ناراض رہو مگر ابھی میرے ساتھ گھر چلو پلیز"

کاشان لہجے میں نرمی لائے رنعم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ چلنے کا اسرار کرنے لگا


"وہ اب تمہارے ساتھ کہی بھی نہیں جائے گی کاشی اس کا ہاتھ چھوڑ دو"

ثوبان کاشان کو دیکھتے ہوئے بولا


"تم اس کے اور میرے معاملے میں کچھ مت بولو ثوبی۔۔۔ میں تمھیں کافی دیر سے برداشت کر رہا ہوں لیکن اب تم میری بیوی اور میرے بیچ میں کچھ بھی بولے تو میں برداشت نہیں کروں گا۔۔۔ چلو رنعم"

کاشان ثوبان کو خونخوار نظروں سے دیکھتا ہوا بولا اور رنعم کا ہاتھ کھینچ کر لے جانے لگا۔ ۔۔۔مگر جب رنعم اپنی جگہ سے نہیں ہلی تو کاشان نے پلٹ کر رنعم کو دیکھا


"میں آپ کے ساتھ اب واپس نہیں جانا چاہتی کاشان آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں"

رنعم کاشان کو دیکھ کر بولنے لگی کاشان نے حیرت سے رنعم کو دیکھا


"سنائی نہیں دے رہا وہ کیا بول رہی ہے چھوڑو اس کا ہاتھ" ثوبان کاشان کے قریب آکر کاشان کے ہاتھ سے رنعم کا ہاتھ چھڑاتا ہوا بولا


"تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے تم جان بوجھ کر اسے میرے ساتھ نہیں بھیج رہے۔۔۔ تمہیں اس کے لیے میری فیلنگز کا اندازہ ہے پھر بھی تم ایسا کر رہے ہو میرے ساتھ"

کاشان ثوبان کا گریبان پکڑ کر غصے میں چیختا ہوا بولا تو ثوبان نے بھی اس کا گریبان پکڑ لیا


"بھیا پلیز چھوڑ دیجئے،،، کاشان نہیں پلیز"

رنعم ان دونوں کے غصے کو دیکھ کر گھبرا گئی وہ ثوبان کا بازو تھامے مسلسل روتے ہوئے اسے پیچھے ہٹاتی ہوئی بولنے لگی۔۔۔ دوسری طرف سیرت بھی اٹھ کر ان دونوں کے قریب آئی


"کاشی چھوڑ دو ثوبی کو،، رنعم نہیں جانا چاہتی تمہارے ساتھ تمہیں سمجھ نہیں آرہا"

سیرت نے کاشان کے ہاتھ پکڑ کر ثوبان کے گریبان سے ہٹانے چاہے۔۔۔ شور شرابے کی آواز سن کر یسریٰ بھی اپنے کمرے سے باہر نکل گئی اور ہال میں موجود منظر دیکھ کر وہ بھی ان کی طرف بڑھی


"ہاں جان بوجھ کر کر رہا ہوں، میں تم جیسے حیوان کے حوالے اب اپنی بہن نہیں کروں گا" ثوبان چیختا ہوا بولا اس کی بات سن کر کاشان کو مزید غصہ آیا اس نے اپنے ہاتھ سیرت کے ہاتھوں سے چھڑانے کے چکر میں بےدھیانی میں اسے پیچھے دھکا دیا۔۔۔۔


اب وہ ثوبان پر ہاتھ اٹھانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اس سے پہلے سیرت کی زوردار چیخ نے نہ صرف اسے پیچھے پلٹنے پر مجبور کیا بلکہ ثوبان اور رنعم کے ساتھ یسریٰ بھی سیرت کی طرف بڑھی

"سیرت کیا ہوا تم ٹھیک ہو"

ثوبان اسے سہارا دے کر اٹھاتا ہوا بولا اور صوفے پر بٹھایا


کاشان ان تینوں کو حیرت سے دیکھنے لگا، پھر سیرت کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر وہ سمجھ نہیں سکا کہ اسے ہوا کیا ہے... سیرت کے ہاتھ اس نے غصے میں جھٹکے تھے جس کی وجہ سے وہ گر پڑی تھی مگر اس کے گرنے پر سب لوگ اس طرح کیوں جمع ہوگئے کاشان کو سمجھ میں نہیں آیا


"سیرت کیا ہوا تمہیں"

کاشان سیرت کی طرف بڑھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ وہی ثوبان نے سیرت کے پاس سے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑا


"اس کو اگر تمہاری وجہ سے کچھ بھی ہوا ناں کاشی،،، میں تمہیں معاف نہیں کروں گا کبھی بھی یہ تم یاد رکھنا"

ثوبان کاشان کا گریبان پکڑتا ہوا کہنے لگا اور دوبارہ سیرت کو یسریٰ کے کہنے پر اٹھا کر اپنے روم میں لے جانے لگا


"رنعم سیرت کو کیا ہوا ہے"

کاشان اب رنعم کا بازو پکڑ کر اس سے پوچھ رہا تھا


"آپ چلے جائے کاشان، خدارا یہاں سے چلیں جائے اس وقت"

رنعم اپنا بازو چھڑا کر چیختی ہوئی بولی کاشان نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر یسریٰ کو۔۔۔۔ یسریٰ اس کو بہت ملامت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کاشان اس سے نظریں چرا گیا۔۔۔ وہ اس وقت رنعم کو لینے آیا تھا مگر اسے لیے بغیر ہی گھر سے باہر نکل گیا


کاشان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد سیرت کی طبیعت سنبھلی تو سب نے شکر ادا کیا


سیرت اپنے روم میں تھی ثوبان پولیس اسٹیشن جانے کے بجائے سیرت کا سر اپنی گود میں رکھے بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔ سیرت اسے دو سے تین بار یقین دلا چکی تھی کہ وہ ٹھیک ہے مگر معلوم نہیں وہ کس ڈر سے اسے اپنے قریب سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔ جب ثوبان کو محسوس ہوا کہ سیرت سوچکی ہے تب وہ اس کے سر کے نیچے تکیہ لگاتا ہوا روم کی لائٹ بند کر کے پولیس اسٹیشن چلا گیا


****


"سلام سر آپ نے یاد کیا مجھے"

ثوبان پولیس اسٹیشن میں موجود تھا سر جھکائے وہ کسی فائل پر کچھ لکھ رہا تھا تب شیرا نے اسے مخاطب کیا


"وعلیکم السلام بیٹھو"

ثوبان فائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے شیرا کو دیکھا اس کا چہرہ کافی بگڑ چکا تھا اور ہاتھوں کی کھال گلی ہوئی جگہ جگہ سے چربی چھلک رہی تھی۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر ثوبان سوچ میں پڑ گیا کہ وہ کاشان کو کس طرح ٹھیک کرے


"کیا کہا تھا تم نے اپنے بیان میں جس نے تمہیں مارا،، تم اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے"

ثوبان شیرا کو دیکھ کر پوچھنے لگا


"سر اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس وجہ سے میں اس کو پہچان نہیں پایا"

شیرا نے ایک بار پھر ثوبان کو بتایا ثوبان میز کی سطح پر کہنی ٹکا کر اس کی بات غور سے سننے لگا


"تم جیسے لمبے تڑنگے آدمی کو کوئی کتے کی طرح دھو کر چلا گیا اور تم اس سے پٹتے رہے یہاں تک کہ اس کے چہرے سے نقاب ہٹانے کی بھی کوشش نہیں کی تم نے۔۔۔ بے وقوف کسی اور کو بناؤ شیرا" ثوبان اس کو دیکھتا ہوا غصے میں بولا


"سر ویسے آپ کو کیا لگتا ہے کوئی مجھے آکر کتوں کی طرح دھو کر چلا گیا،، پھر بھی میں اس کا نام چھپا رہا ہوں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔۔ کہی ایسا تو نہیں کہ میں اسے خود کتے کی موت مارنا چاہتا ہوں"

شیرا اپنا داڑھی سے بھرا گال کجھاتا ہوا ثوبان کو دیکھ کر بولا۔۔۔ وہی ثوبان نے کس کر اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور شیرا کا گریبان پکڑ کر اس کو اپنے سامنے کھڑا کیا


"اگر تم نے میرے بھائی کی طرف یا میرے گھر کے کسی بھی فرد کی طرف بری نظر سے دیکھا بھی ناں شیرا۔۔۔ تو میں تمہیں اتنی اذیت بھری موت دوں گا کہ تمہاری آنے والی سات نسلیں توبہ کریں گی۔۔۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے،، اس سے پہلے کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت الٹا سولی پر لٹکا دوں"

ثوبان نے اسے گریبان سے پکڑ کر وارننگ دیتا ہوا زور سے دروازے کی طرف دھکا دیا وہ ثوبان کو گھورتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ ثوبان کو سوچ سوچ کر غصہ آ رہا تھا اس نے رنعم کو اٹھایا تھا۔۔۔ ابھی وہ غصے میں سوچ ہی رہا تھا اس کے موبائل پر یسریٰ کی کال آئی۔۔۔ یسریٰ کی بات سن کر ثوبان فوراً اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا وہاں سے نکل گیا


****


"سر میں یہاں اب پر جاب نہیں کر سکتا۔۔ میرا ریزکنیشن لیٹر آپ کو تھوڑی دیر تک مل جائے گا"

کاشان کو لگا اب اسے سے یہ جاب چھوڑ دینی چاہیے اس کو مایا کے ساتھ اپنے سلوک پر پچھتاوا ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ اس عورت کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس لیے کاشان نے دوسرے دن آفس میں آتے ہی شکیب الریحان کو اپنی جاب چھوڑنے کے بارے میں انفارم کیا


"رکو کاشان تمہیں جاب چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے تم جس وجہ سے جاب چھوڑ رہے ہو۔۔۔ وہ وجہ اب ہمیشہ کے لیے اپنی مدر کے پاس جا چکی ہے" شکیب الریحان نے کاشان کو دیکھ کر کہا کاشان نے غور سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا یعنی مایا کے باپ کو معلوم تھا کہ وہ مایا کی وجہ سے جاب چھوڑ رہا ہے یہ پھر کل والے واقعہ کا اسے بھی علم تھا۔۔۔ کاشان نے الجھتے ہوئے سوچا


"اگر تم سوچ رہے ہو مجھے ساری بات کا علم ہے تو یہ بات تم صحیح سوچ رہے ہو۔۔۔۔ کاشان میرے گھر کے نوکر بہت وفادار ہیں میرے۔۔۔۔ میری گھر میں غیر موجودگی کے باوجود وہ مجھے ہونے والے سب واقعات بتا دیتے ہیں۔۔۔ اولاد اگر اچھی نکلے تو والدین کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے مگر وہی اولاد خاص کر کے بیٹی مایا جیسی نکلے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔۔۔ تم اپنی جاب سے مخلص ہوں ایک رسپونسبل پرسن ہو،،، تو میں ہرگز نہیں چاہؤں گا کہ تم یہ جاب چھوڑو۔۔۔ باقی جو بھی تمہارا فیصلہ ہو تم بتا دینا"

شکیب صاحب نے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا کاشان ان کی بات سن کر روم سے باہر نکل گیا


ویسے بھی اسے مایا سے پرابلم تھی اپنی جاب سے نہیں۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے اپنی ماں کے پاس چلی گئی تھی کم از کم اس کی شکل نہیں دیکھ دیکھنی پڑے گی۔۔۔ کاشان نے چیئر پر بیٹھے ہوئے سوچا اور اپنا موبائل نکال کر رنعم کا نمبر ملایا مگر توقع کے مطابق نمبر بند تھا


آج تین دن ہو گئے تھے رنعم کو اس کے گھر سے گئے ہوئے۔۔ کاشان اسے بہت مس کر رہا تھا اور کاشان کو جب سے معلوم ہوا تھا کہ رنعم نے شیرا سے متعلق ثوبان کو کچھ بھی نہیں بتایا تب سے وہ اپنے عمل پر اور زیادہ شرمندہ تھا اس نے غصے میں آکر رنعم کے ساتھ بد سلوکی کی وہ بہت پچھتا رہا تھا۔۔۔ معلوم نہیں اسے غصے میں کیا ہو جاتا تھا مگر کیسے بھی ہو وہ رنعم کو بہت پیار سے منالے گا کاشان کو یقین تھا اس کی ڈول مان جائے گی یہی سوچتے ہوئے اس نے لینڈ لائن پر کال کی تاکہ رنعم سے بات کر سکے تھی کسی بھی صورت اسے اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا یسریٰ نے تو اسے اجازت دے دی تھی رنعم کو بھی وہ منا لیتا مگر اصل مسئلہ ثوبان پیدا کر رہا تھا اور ایسا زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ کاشان کو اپنے بھائی پر غصہ آ رہا تھا


"ہیلو کون بات کر رہا ہے"

کاشان کو شاہدہ کی آواز سنائی دی


****


دھکہ لگنے کی وجہ سے اسے تھوڑی دیر کے لیے درد محسوس ہوا مگر یسریٰ کے پوچھنے پر اور ثوبان کے اسرار کہ ڈاکٹر کے پاس چلو۔۔۔ اس نے کہا کہ وہ ٹھیک ہے سیرت کو واقعی اپنی طبیعت ٹھیک لگی


یسریٰ کے کہنے پر وہ لیٹ گئی ثوبان بھی اس کو سوتا دیکھ کر گھر سے نکل گیا مگر رات میں تکلیف سے اس کی آنکھ کھلی اس نے رنعم کا نام لے کر اسے زور زور سے پکارا۔۔۔ رنعم اور یسریٰ دونوں ہی اس کی آواز سن کر سیرت کے پاس آئی۔۔۔ سیرت کو تکلیف سے روتا ہوا دیکھ کر یسریٰ نے فوراً ڈرائیور سے کار نکالنے کو کہا


ہسپتال پہنچ کر الٹراساؤنڈ کرانے کے بعد سیرت کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے گائنی نے ابارشن کا مشورہ دیا تب یسریٰ نے ثوبان کو کال کر کے بلایا


اسپتال سے واپسی پر صبح کے پانچ بج گئے سیرت سارے راستے روتی ہوئی آئی۔۔۔۔ رنعم، ثوبان اور سیرت کو دیکھ کر اور بھی افسردہ ہو گئی


ثوبان خود بھی خاموش تھا مگر سیرت کو روتا ہوا دیکھ کر اسے چپ کرا رہا۔۔۔ تبھی ان کے بیڈروم میں یسریٰ آئی ثوبان یسریٰ کو دیکھ کر روم سے باہر نکل گیا


"سیرت بس کرو بیٹا اس طرح مت رو،،، ثوبان کتنا پریشان ہو رہا ہے تمہیں اس طرح روتا ہوا دیکھ کر،، میں مانتی ہو تمہارا بہت بڑا نقصان ہوا ہے مگر نقصان ثوبان نے بھی تو برداشت کیا ہے ناں۔۔۔۔ میں ماں ہوں میں جان سکتی ہوں تمہارا دکھ مگر اب اسطرح رو کر خود کو مزید ہلکان مت کرو تمہاری طبیعت خراب ہوگی"

یسریٰ اسکو پیار کرتے ہوئے سمجھانے لگی


"آپ ہی تو سمجھ سکتی ہیں میرے دکھ،،، آپ نے بھی تو اپنی پہلی اولاد کو کھویا تھا میری طرح۔۔۔ مما مجھے آج آپ کا دکھ سمجھ میں آرہا ہے آج میں جان پائی آپ کتنا تڑپی ہوگیں میرے لیے"

سیرت جب یسریٰ کے گلے لگ کر روئی تو اس کے رونے میں مزید شدت آگئی یسریٰ کو بھی رونا آگیا


"شش چپ ہوجاو میری جان۔۔۔ اللہ پاک نے مجھے میری بیٹی واپس دے دی،،،، اب وہ تمہیں اور ثوبان کو بھی دوبارہ بہت جلد خوشی سے نوازے گا۔۔۔ اس کنڈیشن میں بالکل نہیں روتے آنکھوں پر زور پڑتا ہے اب بالکل خاموش ہو جاؤ" یسریٰ اس کو بہلاتے ہوئے پیار سے سمجھانے لگی اور اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگی

ثوبان جب روم میں واپس آیا تو یسریٰ اٹھ کر اس کے پاس آئی


"ناشتہ میں روم میں ہی بھیج رہی ہوں۔۔۔۔ سیرت کو بھی کرانا اور تم خود بھی کرنا۔۔۔ ماں کی دعاؤں میں بہت اثر ہوتا ہے میری دعا ہے اللہ تم دونوں کو بہت جلد دوبارہ خوشی نصیب کرے"

یسریٰ ثوبان کے گال پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دینے لگی ثوبان نے یسریٰ کا ہاتھ عقیدت سے ہونٹوں پر لگایا


"رنعم اور آپ بھی کچھ کھالیں رنعم نے رات کا بھی کھانا نہیں کھایا تھا اور اب آپ بھی ریسٹ کریں"

ثوبان نے یسریٰ کو دیکھ کر کہا تو وہ سر ہلا کر اس کے روم سے چلی گئی


تھوڑی دیر میں شاہدہ ان دونوں کا ناشتہ لے کر آئی۔۔۔ جو ثوبان نے سیرت کو زبردستی کرایا۔۔ اب وہ سیرت کا سر اپنے سینے پر رکھ کر لیٹا ہوا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا


"ثوبی ابھی تو میں نے اسے محسوس کرنے شروع نہیں کیا تھا۔۔۔ اتنا کم عرصہ تھا میری خوشیوں کا"

سیرت کے بولنے پر ثوبان کے ہاتھ تھم گئے اس نے سیرت کا چہرہ اونچا کیا اور سیرت کی پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا


"جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔ تم رو مت ورنہ تمہاری طبیعت خراب ہوگی"

ثوبان اس کو بولتا ہوا اس کا سر تھپتھپانے لگا دوائیوں کے زیراثر وہ ثوبان کے سینے پر سر رکھے جلد سوگئی۔۔۔ مگر ثوبان کافی دیر تک جاگتا رہا

****


شاہدہ نے اسے فون پر بتایا تھا کہ ثوبان اور یسریٰ سیرت کو اسپتال سے گھر لے کر آئے ہیں تب کاشان ایک بار پھر سوچ میں پڑگیا سوچ میں پڑگیا سیرت کو ایسا کیا ہوا ہے وہ کچھ سوچ کر اپنی کار کی چابی اٹھاتا ہوا آفس سے نکل گیا


****


"سب کہاں پر ہے اس وقت"

کچن سے باہر نکلتی ہوئی شاہدہ کو دیکھ کر کاشان نے اس سے پوچھا


"وہ جی سب اپنے اپنے کمرے میں سو رہے ہیں"

شاہدہ نے کاشان کو دیکھتے ہوئے بتایا


"سیرت کی طبیعت کیسی ہے کیا ہوا تھا اسے"

کاشان شاہدہ سے پوچھنے لگا


"وہ جی رات کو تو میں اپنے کواٹر میں چلی گئی تھی۔۔۔ ڈرائیور ہی بتا رہا تھا کہ وہ رات میں سیرت بی بی کو اسپتال لے کر گیا تھا"

شاہدہ کاشان کو بتانے لگی


"رنعم کہاں پر ہے"

کاشان نے شاہدہ کی لاعلمی کو دیکھ کر اس سے مزید سوالات کا ارادہ ترک کیا


"وہ بھی اس وقت اپنے کمرے میں ہیں کیا ان کو بلاو"

شاہدہ ہے پھر کاشان سے پوچھا


"نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں"

کاشان شاہدہ کو بولتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا اور رنعم کے کمرے کا دروازہ کھولا تو کمرے میں اندھیرا ہو رہا تھا


کمرے میں داخل ہو کر دروازہ واپس بند کر کے اس نے کھڑکی سے پردے ہٹائے جس سے چھن کر روشنی کمرے میں آئی رنعم اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی گہری نیند سو رہی تھی


کل رات اس گھر میں کوئی بھی فرد نہیں سو سکا تھا بےشک وہ یسریٰ اور سیرت کے ساتھ اسپتال نہیں گئی تھی مگر بار بار یسریٰ کو فون کر کے وہ سیرت کے بارے میں پوچھے جا رہی تھی۔۔۔ اس کے لیے اپنا ہی دکھ کم نہیں تھا تو معلوم ہوا کہ ثوبان اور سیرت بھی آنے والی خوشی سے محروم ہوگئے ہیں۔۔۔ وہ ان کے اسپتال سے گھر آنے کے بعد ان دونوں کے گلے لگ کر روئی۔۔۔۔ اندر کہیں اسے کاشان کے غصے میں کیے جانے والے ردعمل پر افسوس بھی ہوا


کاشان چلتا ہوا رنعم کے پاس آیا اور بیڈ پر بیٹھا۔۔۔۔ مدھم روشنی میں وہ رنعم کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔۔۔ وہ سے محبت کرنے کے باوجود ہر بار غصہ میں اسے تکلیف دینے کا سبب بنتا ہے


وہ اپنی انگلی سے رنعم کے دل پر اپنے نام کی اسپیلنگ لکھنے لگا۔۔۔۔ نیند میں رنعم کو عجیب سا احساس ہوا تو ایک جھٹکے سے اسکی آنکھیں کھلی


اس نے کاشان کو اپنے بالکل قریب بیٹھے پایا۔۔۔ وہ غور سے اس کو دیکھنے لگی اسے سمجھ میں نہیں آیا وہ خواب میں کاشان کو دیکھ رہی ہے کہ حقیقت میں


"مائی ڈول"

کاشان اس کی کیفیت سمجھتے ہوئے رنعم کو اپنا احساس دلانے کے لئے اس کے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔۔ اپنی سانسوں میں سگریٹ کی اسمیل محسوس کر کے اور خود پر کاشان کے دباؤ کے احساس سے اس کا ذہن بیدار ہوا۔۔۔


"پیچھے ہٹ جائے کاشان"

رنعم اس کو جھٹکے سے دور کر کے خود اپنا رخ دوسری طرف کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔ مگر اتنے قریب ہونے کے بعد وہ شاید رنعم کی سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ۔۔ جبھی وہ رنعم کی گردن پہ جھکتا ہوا دیوانہ وار اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا


"کاشان پلیز چھوڑ دیں مجھے ورنہ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی"

رنعم کے مزاحمت کرنے پر جب اس نے رنعم کے ہاتھ پکڑے تب رنعم بے بسی سے چیخ اٹھی۔۔۔ کاشان اس کے اوپر سے اٹھا۔۔۔۔ رنعم نے بیڈ سے اتر کر جلدی سے لائٹ کھولی کمرہ ایک دم روشنی میں نہا گیا


"رنعم پلیز میری بات سنو جان۔۔۔۔ آئی سویئر اور آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ سب غلط فہمی میں ہوا تھا،،، میں سمجھا تھا تم نے ثوبی کو بتایا ہے۔۔۔ میں اپنی غلطی ایکسیپٹ کرتا ہوں اگر تم نے اسے بتایا بھی ہوتا، ،، تب بھی مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ رنعم آیم سوری مجھ سے غلطی ہوگئی،، آخری بار۔۔۔ صرف آخری بار مجھے معاف کردو میں یقین دلاتا ہوں آگے سے آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا"

کاشان اسے اپنے رویے کی وضاحت دیتے ہوئے اس کے قریب آ کر اسے منانا چاہا


"نہیں کاشان ہر بار ایسا ہی ہوگا،، ہر بار آپ ہمیشہ میرے ساتھ ایسا سلوک کریں گے اور یوں ہی مجھ سے تلافی کیا کریں گے مگر اب نہیں،،، اب بہت ہوگیا۔۔۔۔ میں یہ سلوک ساری زندگی برداشت نہیں کر سکتی"

رنعم نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔کاشان نے محسوس کیا وہ اس سے بری طرح خفا تھی مگر وہ آج اسے اپنے ساتھ لے جائے گا کاشان نے سوچا اور اسکو بازوں سے تھامتا ہوا بولا


"تمہیں معلوم ہے ناں میں تم سے دوری برداشت نہیں کر سکتا وہ سب کچھ میرے غصے کا ری ایکشن تھا میں خود پر کنٹرول کھو بیٹھا تھا۔۔۔۔ یہ بتاو کیا صرف ہر وقت غصہ ہی کرتا ہوں تم پر،، پیار نہیں کرتا کیا تم سے۔۔۔ میں کل رات کو سوچ رہا تھا بہت زیادہ غلط کر چکا ہوں اپنے غصے میں تمہارے ساتھ،،، میں خود پر کنٹرول کروں گا اب تمہیں کبھی بھی ہرٹ نہیں کروں گا پلیز جان، آج میرے ساتھ ہمارے گھر چلو تم ڈول ہو ناں میری"

کاشان نے اسے بچوں کی طرح بہلاتے ہوئے اپنی بانہوں میں لینا چاہا وہی رنعم میں جھٹک کر اس کے ہاتھ پیچھے کیے اور اس سے دور ہوئی


"کاشان مت کہا کریں مجھے ڈول، نہیں ہوں میں کوئی ڈول۔۔۔ انسان ہوں میں۔۔۔۔ مجھے ڈول کہہ کہہ کر آپ نے مجھے ڈول سمجھ لیا۔۔ میرے ساتھ ڈول جیسا بی ہیو کرنا شروع کردیا آپ نے۔۔۔ جب آپ کا دل چاہا آپ نے ڈول سے اپنا دل بہلا لیا،،، جب آپ کا دل چاہا ہے آپ نے ڈول کو توڑ دیا"

رنعم اس کو دیکھتے ہوئے بولی وہ چپ کر کے رنعم کو دیکھنے لگا


"ارے میں جیتی جاگتی انسان ہوں مجھے درد ہوتا ہے۔۔۔۔ معلوم ہے آپ کو کتنی تکلیف ہوتی ہے جب اگلے بندے سے کہا جائے اسمائل دو اور اس بندے کا اندر سے دل پھٹ رہا ہو۔۔۔ اس وقت مسکرانا کتنا مشکل لگتا ہے"

رنعم سانس لینے کے لیے رکی تو اس کی سبز آنکھوں میں نمی آنے لگی۔۔۔ کاشان ابھی بھی چپ کر کے اسے سن رہا تھا


"کاشان جب آپ مجھے مارتے ہیں نا یا پھر زبردستی میرے ساتھ۔۔۔۔ بہت تکلیف ہوتی ہے مجھے،، میں خود کو اپنی ہی نظروں میں گرا ہوا تصور کرتی ہوں۔۔۔۔ اپنے آپ سے مجھے نظریں ملاتے ہوئے شرم آتی ہے۔۔۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں نا آپ کو مجھ سے پیار ہے۔۔۔ میں مانتی ہوں آپ سچ کہتے ہوگے۔۔ آپ کرتے ہیں مجھ سے پیار لیکن ایک بار،، صرف ایک بار مجھے سچے دل سے بتائیے گا۔۔۔ کیا میں صرف آپ کا پیار ڈیزرو کرتی ہوں عزت ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔ کاشان میں کوئی بدکردار لڑکی تو نہیں تھی،،، نہ ہی آپ کے ساتھ بھاگ کر شادی کی تھی میں نے،، آپ خود ہی تو بڑھے تھے ناں میری طرف میں نے تو محبت میں پہل نہیں کی تھی تو پھر آخر کیوں کروں میں آپ کا رویہ برداشت"

رنعم نے بولتے ہوئے رونا شروع کردیا کاشان نے اسے چپ کرانے کے لئے اس کے پاس آنا چاہا مگر رنعم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اسے روک دیا


"آپ کہتے ہیں نا کہ آپ افتخار احمد جیسے نہیں ہیں آپ کو نفرت ہے اپنے باپ سے مگر کاشان مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہ کر دوسری فائزہ بن جاؤں گی"

رنعم اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی


"رنعم"

کاشان نے آنکھوں میں نمی لیے اسے پکارا وہ تڑپ ہی اٹھا کر رنعم کے اس طرح بولنے پر


"آپ کی مار سے نہیں مگر آپ کا رویہ مجھے مار ڈالے گا،، میں بہت بزدل ہو کاشان،،، مجھ میں حوصلہ نہیں ہے دوسری فائزہ بننے کا"

رنعم نے اپنی سبز آنکھوں سے آنسو صاف کیے رونے کے باعث اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگی کاشان کی آنکھوں میں نمی تھی جس کی وجہ سے اسے رنعم کا چہرہ دھندلا نظر آنے لگا


آج رنعم کے اس طرح بولنے پر اسے احساس ہوا وہ اپنے سامنے کھڑی اپنی بیوی،،، جس سے وہ بہت پیار کرتا ہے۔۔۔ اسے بری طرح توڑ چکا ہے۔۔۔ اس کا بہت زیادہ دل دکھا چکا ہے۔۔۔ رنعم چلتی ہوئی اس کے قریب آئی


"میں نے آپ سے کہا تھا ناں کاشان کہ عورت جسے اپنے دل میں ایک بار بسالے۔۔۔ وہ اس سے نفرت نہیں کر سکتی"

رنعم اپنی شہادت کی انگلی سے کاشان کے دل پر R لکھنے لگی


"آپ کا اتنا برا سلوک بھی میرے دل میں آپ کی محبت کم نہیں کر سکا مگر اس کے باوجود میں آپ کے ساتھ رہنے سے ڈرتی ہوں۔۔۔ محبت ہونے کے باوجود میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی"

اب رنعم اس کے دل پر لکھے گئے R پر اپنی انگلی سے کراس بناتی ہوئی بولی۔۔۔ کاشان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے


"رنعم نہیں پلیز"

وہ کراس بناتی ہوئی انگلی کو پکڑ کر ایک دم تڑپتا ہوا بولا


"چلیں جائیں آپ یہاں سے"

رنعم نے اپنے دونوں ہاتھ کاشان کے سینے پر رکھ کر اسے دھکا دیا اور اپنا رخ دوسری طرف موڑ لیا


"آپ کو پسند نہیں ہے نا کہ کوئی مجھے دیکھے۔ ۔۔۔ میں اپنی ساری زندگی اس کمرے میں آپ کے نام پر گزار دوں گی مگر میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی"

کاشان اس کی پشت کو دیکھتا ہوا اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگا ویسے ہی کمرے کا دروازہ کھلا


"تم رنعم کے کمرے میں کیا کر رہے ہو کیوں آئے ہو دوبارہ یہاں پر۔۔۔ ایک دفعہ کی بات تمہیں سمجھ میں نہیں آتی ہے"

ثوبان کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا کاشان کے سامنے آکر اس کو گھورتا ہوا بولا


"ثوبی اس کو کہو نا کہ یہ مجھے معاف کردے دیکھو یہ مجھے معاف نہیں کر رہی ہے۔۔۔ یہ میری بات نہیں مان رہی ہے اسے کہو پلیز میرے ساتھ چلے میں کیسے رہوں گا اس کے بغیر"

وہ ثوبان کی بات کو یکسر نظر انداز کر کے خود ثوبان سے بچوں کی طرح ضد کرنے لگا


"رنعم اب تمہارے ساتھ کہی نہیں جائے گی کاشی اور آئندہ تمہیں اس کے کمرے میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس گھر میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم دشمن ہو ہم سب کی خوشیوں کے تم نے اسے، سیرت کو، ماما کو، مجھے ہم سب کو تکلیف دی ہے قاتل ہو تو میری اولاد کے۔۔۔ بہت اچھا ہوتا جو تمہیں 14 سال کی قید کی بجائے سزائے موت ہو گئی ہوتی کم ازکم ہماری زندگیاں پرسکون ہوتی نکل جاؤ اس گھر سے" ثوبان نے کاشان کا بازو پکڑ کر اسے کمرے سے باہر نکالتے ہوئے کہا


کاشان سکتے کی کیفیت میں ثوبان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ رنعم کے بعد اب ثوبان کے الفاظ اس کے دل میں کسی تیر کی طرح پیوست ہونے لگے


"میں آپکے ساتھ رہتے دوسری فائزہ بن جاو گی۔ ۔۔۔ تم قاتل ہو میرے بچے کے"

ان دو جملوں کی تکرار اس کے دماغ میں چلتی رہی وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا

فائزہ بیڈ روم کے دروازے کے پاس کھڑی ہوئی کاشان کو دیکھ رہی تھی وہ نیچے فرش پر بیٹھا ہوا اور اپنا سر بیڈ پر رکھے سو رہا تھا


"کاشی۔۔۔۔ کاشی"

فائزہ چلتی ہوئی کاشان کے پاس آئی بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ گئی اور کاشان کو پکڑنے لگی کاشان آنکھیں کھول کر فائزہ کو دیکھا تو اس کو دیکھ کر مسکرائی


"سو گیا تھا میرا بیٹا، ایسے کیوں سو رہے ہو بیڈ پر صحیح سے لیٹو"

وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولی


"امی آپ اتنے دنوں سے کہاں تھی کتنے دنوں بعد میرے پاس آئی ہیں"

کاشان نے اٹھ کر فائزہ کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں پر لگایا


"ہر وقت تو نہیں آ سکتی نہ بیٹا۔۔۔ بس آج روح میں بےچینی محسوس ہوئی تو لگا جیسے میرا بیٹا مجھے یاد کر رہا ہے۔۔۔ پھر آگئی تمہارے پاس"

فائزہ نے مسکراتے ہوئے کاشان سے کہا اور اشارے سے اپنے پاس بلایا۔۔۔ کاشان نے فائزہ کے قریب سرک کر فرش پر بیٹھے ہوئے اپنا سر فائزہ کی گود میں رکھ لیا


"سب نے مجھے چھوڑ دیا ہے امی ثوبی نے رنعم نے۔۔۔۔ ان دونوں نے مجھ سے تعلق ختم کر لیا بلکے نفرت کرنے لگے ہیں وہ دونوں مجھ سے۔۔۔ میں اکیلا ہو گیا ہوں بالکل اکیلا"

کاشان فائزہ کی گود میں سر رکھ کر اسے بتانے لگا


"ثوبی بھائی ہے تمہارا،،، بھائی کا بھائی سے کبھی تعلق ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔ خونی رشتہ ہے تم دونوں کے بیچ،،، ثوبی تم سے نفرت کر ہی نہیں سکتا بلکہ وہ میرا بیٹا کسی سے بھی نفرت نہیں کر سکتا اور تم سے تو وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہے۔۔۔ بس اس کا دل دکھا ہوا ہے اس لیے خفا ہے تم سے"

فائزہ کاشان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سے بتانے لگی


"امی میں نے اس کی خوشی اس سے چھین لی اس کی اولاد کو مار ڈالا اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ میں اپنے بھائی کی خوشیوں کا قاتل ہو،، اس کی اولاد کا قاتل میں۔۔۔ وہ مجھے کبھی بھی معاف نہیں کرے گا"

کاشان کی آنکھوں سے اشک رواں ہو کر فائزہ کے آنچل میں جذب ہونے لگے


"وہ سب عمل تم سے جان بوجھ کر نہیں ہوا انجانے میں ہوا مگر اس کا محرک غصہ تھا۔۔۔ جبھی میں تم سے ہر بار یہی کہتی ہوں اپنے غصے کو قابو میں کرو،، اس میں صرف انسان نقصان اٹھاتا ہے۔۔۔ اپنا دل چھوٹا مت کرو ثوبی سے جاکر ایک دفعہ معافی مانگو وہ تمہیں معاف کر دے گا"

فائزہ اسے نرمی سے سمجھانے لگی


"وہ معاف نہیں کرے گا مجھے معلوم ہے"

کاشان فائزہ کی گود میں سر رکھے اس سے بولا


"وہ معاف بھی کرے گا اور تمہاری محبت میں دوڑہ چلا آئے گا جب خون جوش مارے گا"

فائزہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی


"امی اس نے بھی مجھے چھوڑ دیا،، میں نے اسے بتایا تھا۔۔۔ اسے معلوم ہے کہ میرے پاس کوئی بھی نہیں ہے پھر بھی وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔۔ میرے اس گھر کو چھوڑ کر چلی گئی"

کاشان فائزہ کی گود میں لیٹے ہوئے سائڈ ٹیبل پر رکھی رنعم کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا


"تو وہ کیوں رہتی تمہارے ساتھ۔۔۔۔ تم نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ"

فائزہ بھی رنعم کی تصویر کو دیکھتی ہوئی کاشان سے پوچھنے لگی


"وہ کہتی ہے اسے مجھ سے محبت ہے میں اسے منانے گیا تھا۔۔ اسے لینے گیا تھا۔۔۔ وہ پھر بھی نہیں آئی میرے ساتھ"

کاشان فائزہ کی گود میں لیٹا ہوا شکوہ کرتے ہوئے بولا


"کیوں آتی وہ تمہارے ساتھ محبت کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت تذلیل برداشت کرے۔۔۔ تمہیں بھی اس سے محبت تھی ناں،،، تو بیٹا اس کی قدر کرنی چاہیے تھی۔۔۔ عورتوں تو محبت میں سب کچھ قربان کر دیتی ہے اپنی ہستی تک مٹا دیتی ہے۔۔۔۔ مگر بدلے میں صرف محبت کی توقع نہیں کرتی اسے عزت اور مان بھی چاہیے ہوتا ہے اپنے شوہر سے۔۔۔۔ مرد جب عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے نہ تو عورت کے دل میں اپنا مقام اور اپنی عزت کھو دیتا ہے۔۔۔ تم نے اس معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی کی۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔ تم نے ساری زندگی اپنی ماں کو، اپنے باپ کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا پھر بھی تم نے وہی راستہ اختیار کرلیا جس پر تمہارا باپ چلا۔۔۔۔ جبکہ تم نے اس راستے پر چلنے کا انجام بھی دیکھا کاشی۔۔۔ اپنے باپ سے نفرت کرنے کے باوجود تم اس کے نقش قدم پر چلے۔۔۔ اس معصوم نے تو اپنے آپ کو تمھارے رنگ میں ڈھالنا چاہتا تھا نا وہ سلوک کی مستحق نہیں تھی جو تم نے اس کے ساتھ کیا۔۔۔۔ کیا یہ بڑی بات نہیں ہے تمہاری اتنی بدسلوکی کے باوجود وہ تم سے ابھی بھی محبت کرتی ہے۔۔۔ اس کی قدر کرو جا کر اسے دوبارہ معافی مانگو اپنے بھائی سے معافی مانگو اور سب سے پہلے سچے دل سے اللہ سے معافی مانگو جب اللہ معاف کرے گا تو اس کے بندے خودبخود معاف کریں گے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا"

فائزہ کاشان کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے سمجھا رہی تھی اور کاشان آنکھیں بند کر کے فائزہ کی بات غور سے سن رہا تھا


****


"کیا کر رہی ہو سیرت"

سیرت کچن میں موجود کسی برتن میں پانی ابال رہی تھی تبھی یسریٰ نے آکر اس سے پوچھا


"ایک نسخہ نوٹ کیا تھا کافی لوگوں کو افاقہ بھی ہوا اس سے۔۔۔۔ آپ کے لیے تیار کر رہی ہو شوگر کنٹرول میں رہتی ہے اس سے" سیرت کام میں مگن یسریٰ کو بتانے لگی


"میری جان اس کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ تمہاری خود طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر نے ٹو ویکز کا بیڈ ریسٹ کہا ہے تمہیں"

یسریٰ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی


"ٹو ویکز ہوگئے ہیں مما اتنے دنوں تک میں ریسٹ کر بھی نہیں سکتی۔۔۔ اچھا بتائے آنی کا کیا پروگرام ہے کب لگا رہی ہیں وہ چکر" سیرت نے یسریٰ کو دیکھ کر پوچھا


جب سے اس کا ایبارشن ہوا تھا تب سے وہ یسریٰ سے بہت زیادہ اٹیچ ہوگئی تھی۔۔۔ ثوبان کے کہے بغیر یسریٰ کی میڈیسن سے لے کر ہر ضرورت کا خیال رکھتی۔۔۔ رات کے کھانے کے بعد ثوبان کو تو شروع سے ہی عادت تھی بہروز اور یسریٰ کے پاس بیٹھنے کی مگر اب سیرت بھی ثوبان کے ساتھ یسریٰ کے پاس بیٹھ جاتی۔۔۔ اپنی اولاد کو کھونے کے بعد ہی اسے ماں کی تڑپ کا احساس ہوا تھا


"نہیں غفران بھائی نے منع کر دیا ہے انہیں۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی پھر کبھی چکر لگاؤں گی۔۔۔ اور اچھا ہی ہوا ایک طرح سے۔۔۔ رنعم یہاں پر موجود ہے اسکی بجھی ہوئی صورت دیکھ کر دس سوالات ذہن میں آتے اور میں نہیں چاہتی کہ گھر کی کوئی بھی بات باہر نکلے"

یسریٰ سیرت کو کہنے لگی


"دونوں ساس بہو مل کر یہ کونسی کھچڑی پکا رہی ہیں آخر"

ثوبان نے گھر میں داخل ہو کر کچن کا رخ کرتے ہوئے شرارتاً کہا۔۔۔ اس کی بات سن کر یسریٰ اور سیرت دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ آئی


"ثوبان ہر وقت مت چھیڑا کرو اسے۔۔۔ جتنی میں تمہاری مما ہو اتنی اس کی بھی ہو،، جیسے تم میرے داماد نہیں ہو سکتے ویسے وہ بھی میری بہو نہیں ہوسکتی تم دونوں بیٹا اور بیٹی ہو میرے"

یسریٰ ثوبان کی شرارت سمجھتے ہوئے اسے آنکھیں دکھا کر بولی


"یہ بات تو ماننا پڑے گی۔۔۔ مما ویسے آپ نے نوٹ کر رہی ہیں آپ کی بیٹی چند دنوں سے کچھ عقلمند عقلمند ٹائپ خاتون بن گئی ہے"

وہ ابھی بھی آنکھوں میں شرارت لئے سیرت کو چھیڑنے سے باز نہیں آیا


"میری بیٹی شروع سے ہی عقلمند ہے تو میں اس کی خوبی آج معلوم ہوئی ہے۔۔۔ سیرت میں رنعم کو بلاکر لاتی ہوں شاہدہ سے کہو چائے بنالے شام کی"

یسریٰ سیرت کو بولتی ہوئی ثوبان کے گال پر پیار سے چپت لگاتی ہوئی کچن سے نکل گئی اب ثوبان مسکرا کر سیرت کو دیکھ رہا تھا


"کیا بول رہے تھے مما کے سامنے اب ذرا پھر سے بولو"

سیرت ثوبان کے پاس آکر اس کا گریبان پکڑتے ہوئے بولی تو ثوبان نے اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حاہل کیے


"میں کیا بول رہا تھا مما بول رہی تھیں کہ مجھے تمہاری خوبیاں آج معلوم ہوئی ہے۔۔۔ جبکہ مما کو تو اندازہ ہی نہیں میں ان کی بیٹی کی کون کون سی خوبیوں سے لاعلم ہوں"

سیرت کو بانہوں میں لے لیتے ہوئے ثوبان سنجیدگی سے کہنے لگا۔۔۔ سیرت نے اپنی مسکراہٹ کنٹرول میں کی اور ثوبان کے گال پر ایک چپت لگائی


"سدھر جاو ثوبی"

وہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ ثوبان کو دیکھ کر بولی۔۔۔ ثوبان نے اب بھی سنجیدگی سے اپنے دوسرے گال پر انگلی رکھی۔۔۔ اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے سیرت نے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیے


"اب جاؤ یہاں سے"

سیرت ثوبان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔

ثوبان مسکراتا ہوا اپنے گال سے لپ اسٹک کا نشان صاف کرتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا


****


"کیا سوچ رہی ہو مما کہاں چلے گئیں" سیرت یسریٰ کے روم میں بیٹھی ہوئی تھی تب ثوبان اس کے پاس آتا ہوا پوچھنے لگا


"آنی کی کال آگئی تھی ان سے بات کرنے گئی ہیں۔۔۔۔ ثوبی دو ہفتے ہوگئے ہیں،، کاشی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔ نہ ہی اس کو دیکھا"

سیرت نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے پوچھا ثوبان کی نیچر تھی وہ شروع سے سب کا خیال رکھتا تھا۔۔۔ سیرت کو حیرت ہوئی وہ اپنے سگے بھائی کو کیسے فراموش کر سکتا ہے


"اس نے جو ہمارے ساتھ کیا،، خاص کر تمہارے ساتھ۔۔۔ تم اب بھی اس کو یاد کر رہی ہوں معاف کر سکتی ہو اسے"

ثوبان نے سنجیدگی سے سیرت کو دیکھ کر پوچھا


"اس نے جو بھی کچھ کیا میرے ساتھ، انجانے میں کیا۔۔ اگر جان بوجھ کر کرتا تو میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھتی مگر اسے تو کچھ علم ہی نہیں تھا ثوبی"

سیرت نے ثوبان کو دیکھ کر نرمی سے کہا۔۔۔ اس نے بچپن سے ہی ان دونوں بھائیوں کے بیچ ایک دوسرے کے لیے صرف محبت دیکھی تھی۔۔۔ 2 ہفتے پہلے اس طرح ایک دوسرے سے لڑتا ہوا دیکھ کر سیرت کو دلی طور پر افسوس ہو رہا تھا


"میں اسے اپنی اولاد کے لیے معاف کر سکتا ہوں سیرت مگر رنعم کے لئے نہیں۔۔ اس نے بہت غلط کیا ہے رنعم کے ساتھ،، میرا دل دکھایا ہے اس نے۔۔۔ اس پر غصہ ہونے کے باوجود میں اسے اپنے دل سے نہیں نکال سکتا، کیا کرو ایک ہی بھائی میرا اسے لاپروا تو ہرگز نہیں ہو سکتا برابر والے فلیٹ میں شفیق صاحب رہتے ہیں ان سے اس نالائق کی خیریت لیتا رہتا ہوں،،، ہم سب کو دکھ دے کر اب پشیمان ہو کر اکیلا جو ہو گیا ہے مگر اچھا ہے اسے ایسے ہی اپنے رشتوں کا احساس ہوگا اور قدر بھی ہوگی"

ثوبان کے بولنے پر سیرت نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا یسریٰ بھی کمرے کے اندر داخل ہوئی وہ ثوبان کی باتیں سن چکی تھی


"مجھے فکر ہوتی ہے ثوبان، رنعم کی اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی ہے نہ ہمارے ساتھ بیٹھتی ہے نہ باتیں کرتی ہے۔۔ بس ہر وہ اپنے کمرے میں موجود رہتی ہے اس کو دیکھ کر میرا دل دکھتا ہے۔۔۔ تم کاشان بھلاو اس سے بات کرو"

یسریٰ نے ثوبان کے برابر میں بیٹھ کر اس کو دیکھتے ہوئے کہا پہلے تو اپنی ساری فکریں بہروز سے شیئر کر لیتی تھی۔۔۔ اب ثوبان تھا اس کے پاس،،، اس لیے اسی سے اپنا غم ہلکا کرنے لگی


"آپ کیوں فکر کرتی ہے رنعم کی،، میں ہوں نا اس کا بھائی اس کی فکر کرنے کے لیے۔۔۔۔ آپ اسکی فکر کرنا چھوڑ دیں میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔۔۔ بس اپنے آپ کو ریلیکس رکھا کریں اور ہمارے لئے دعا کیا کریں"

ثوبان نے یسریٰ کا ہاتھ تھام کر اسے کہا وہ خاموش ہوگئی


****


ان دو ہفتوں میں اس کی زندگی کی طرح اس کا خود کا بھی روٹین اپ سیٹ ہوگیا تھا۔۔۔ اسے 12 دن ہوگئے تھے سائکیٹرس کے پاس انگر تھراپی کے لیے جاتے ہوئے۔۔۔۔ ریلکس کرنے کی دواوں سے اس پر اکثر نیند کا غلبہ چھایا رہتا۔۔۔۔ بارہ دن میں تین مرتبہ اس کی آفس کی چھٹی ہو چکی تھی۔۔۔ صبح آفس، شام میں سائکیٹرس وہی سے کسی ہوٹل میں کھانا کھا کر کسی پارک کی بینچ پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنا اور رات گئے تک گھر لوٹ کر آنا ان چند دنوں میں اس کا یہی روٹین ہوگیا تھا اس وقت آفس سے ڈرائیو کر کے وہ سیدھا گھر آ گیا تھا۔۔۔ ایک نظر اس نے اپنے بیڈ روم میں بےترتیب اور بکھری چیزوں پر نظر ڈالی۔۔۔ اپنا دماغ بالکل سن محسوس کر کے وہ آفس ڈریس میں ہی بغیر شوز اتارے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ سائڈ ٹیبل سے رنعم کی تصویر اٹھا کر سینے پر رکھتے ہوئے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے خبر نہیں ہوئی

"کاشی۔۔۔۔ کاشی"

کاشان کو محسوس ہو جیسے کہیں دور سے کوئی اسے پکار رہا ہوں

"رنعم"

بند آنکھوں کے ساتھ نیند میں کاشان بولا اور آنکھیں کھول دی

کل ہی اس نے ثوبان سے کاشان کا ذکر کیا تھا اور آج صبح اسے جو خبر پتہ چلی تھی تو سیرت نے فوراً کاشان سے ملنے کا ارادہ باندھا وہ کاشان کے گھر پہنچی تو اسے حیرت ہوئی فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا


سیرت اندر داخل ہوئی سارے کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا ہر کمرے کی لائٹ آن کرتی ہوئی اس نے تمام کمروں کا جائزہ لیا پورا گھر بے ترتیب پڑا ہوا تھا جہاں تک وہ بچپن سے کاشان کو جانتی تھی اسے پھیلاؤ اور بے ترتیبی ذرا پسند نہیں تھی جبکہ لاونچ میں کرسیوں پر میلے کپڑے اور ٹاول اخبارارت بکھرے پڑے تھے ۔۔۔۔ کچن میں پانی کی خالی بوتلیں،، جھوٹے برتن، کپز میں آدھی بچی ہوئی چائے۔۔۔۔ سیرت کو افسوس ہوا وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بیڈروم میں داخل ہوئی۔۔۔ بیڈروم میں جب داخل ہوکر جب کاشان پر اس کی نظر پڑی تو اسے اور بھی زیادہ افسوس ہوا


وہ بیڈ پر آڑھا تھرچا سو رہا تھا سیرت کو وہ چند دنوں میں تھوڑا کمزور بھی لگا۔۔۔ بڑھی ہوئی شیو، ،، آنکھوں کے گرد ہلکے چہرے پر چھائی بے رونقی سیرت افسوس سے دیکھتے ہوئے اس کے قریب آئی


"کاشی۔۔۔۔ کاشی"

سیرت نے اس کو آواز دی


"رنعم"

کاشان نے نیند میں بولا تو سیرت نے لمبی سانس خارج کی


"میں رنعم نہیں ہوں سیرت ہو آنکھیں تو کھولو"

سیرت نے اس کا بازو ہلایا کاشان نے آنکھیں کھولیں


"سیرت تم یہاں پر"

کاشان نے لیٹے ہوئے اس کو دیکھ کر پوچھا پھر اس کے حواس تھوڑے بحال ہوئے تو اٹھ کر بیٹھا


"تم سے ملنے آئی تھی یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا"

سیرت نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اس کے برابر میں بیٹھی


"وہ چلی گئی ہے ناں تو کچھ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ ثوبی بھی مجھ سے ناراض ہے اور تم۔۔۔ تمہارا بھی تو کتنا نقصان کر چکا ہو میں۔۔۔۔ تم سے تمہاری خوشی چھین لی،، مجھے معاف کردو سیرت میں نے ایسا نہیں چاہتا تھا،،، تمہارے ساتھ ایسا میں ہرگز نہیں کر سکتا۔۔۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ بھی ایسا نہیں کر سکتا میں بہت برا ہو"

کاشان نے ملامتی انداز میں اس سے بولا سیرت کو افسوس ہونے لگا۔۔۔ وہ رنعم اور ثوبان کی جدائی میں بالکل ٹوٹ سا گیا تھا


"تم برے نہیں ہو کاشی۔۔۔ تم کسی کے ساتھ برا نہیں کرنا چاہتے مگر پھر بھی تم سے برا ہو جاتا ہے۔۔۔ غصے میں آکر اپنے رویے اور عمل سے دوسرے کو تکلیف دے جاتے ہو۔۔۔ پہلی اولاد کی خوشی ہی الگ ہوتی ہے بہت انوکھا سا احساس ہوتا ہے۔۔۔ خاص کر عورت کے لیے،، جب وہ ماں بننے جا رہی ہوتی ہے۔۔۔ شاید میری خوشی کی مدت ہی اتنی تھی،، تم انجانے میں مجھ سے میری اولاد چھیننے کا سبب بنے۔۔۔ مگر اس طرح کر کے تم نے میرے دل میں میری ماں کی قدر ڈال دی۔۔۔ تبھی میں نے اپنی مما کی تڑپ کو سمجھا۔۔۔ جو اولاد ابھی دنیا میں آئی بھی نہیں تھی اس کو ختم ہوتا دیکھ کر میں کتنا روئی۔۔ تبھی مجھے احساس ہوا۔۔۔ مما بابا سے تو میں چار ماہ کی بچھڑی تھی وہ دونوں کتنا تڑپے ہوگے میرے لیے۔۔۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں کاشی،، ایک لڑکی اس سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتی جو اس کی عزت کا نگہباں ہو"

سیرت نے کاشان کو دیکھ کر کہا کاشان کو ایک بھولا بسرا منظر یاد آیا وہ سیرت کو دیکھنے لگا


"تمہیں یاد ہے کاشی آج سے پندرہ سال پہلے جب میں آٹھ سال کی تھی۔۔۔ کس طرح اس جانور نما انسان کی آنکھوں میں ہوس ٹپک رہی تھی۔۔۔ تم نے اس کے سر پر پتھر مار کر مجھے بچایا تھا اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ میں رہے گی،،، میں نے یہ بات واقعی کبھی کسی سے شیئر نہیں کی یہاں تک کہ ثوبی سے بھی نہیں۔۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری عزت کا سوال تھا مگر دوسری وجہ یہ تھی کہ تم نے مجھ سے وعدہ لیا تھا۔۔۔ لوگوں نے مشہور کیا ہوا ہے کہ عورت پیٹ کی ہلکی ہوتی ہے اگر عورت اتنی ہی پیٹ کی ہلکی ہوتی تو بہت سے مرد سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ ہو۔۔۔ عورتیں تو اپنے سینے میں کتنے راز دفن کر کے خود بھی دفن ہو جاتی ہیں۔۔۔ کاشی تمہیں رنعم پر اعتبار کرنا چاہیے تھا اس نے کبھی بھی ہمہیں کچھ نہیں بتایا تم نے جو بھی اس کے ساتھ کیا اس نے کبھی بھی ہم سے شیئر نہیں کیا۔۔۔ اس نے تم سے محبت کی، محبت نبھانے کی کوشش بھی کی مگر وہ انسان ہے کب تک بے رحمانہ رویہ برداشت کرتی"

سیرت اس کو شرمندہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی مگر کاشان نے اپنا سر جھکا لیا


"میں نے اپنے رویے سے اس کا دل دکھایا ہے اسے بہت ہرٹ کیا ہے اب اس کے دور جانے سے مجھے احساس ہوگیا ہے۔۔۔ سیرت میں اس کو کھونے سے ڈرتا ہوں،، میں پرامس کرتا ہوں آئندہ کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کروں گا جو اس کے لئے ثوبی کے کے لیے یا کسی اور کے لئے دل آزاری کا باعث بنے۔۔۔ وہ آجائے گی نہ دوبارہ میرے پاس"

کاشان بہت امید سے پوچھنے لگا


"تمیں معلوم ہے آج میں تمہیں کیا نیوز دینے آئی ہو"

سیرت نے کاشان سے سوال کیا


"ثوبی ٹھیک ہے"

کاشان اس سے پوچھنے لگا


"ہاں وہ ٹھیک ہے۔۔۔ میں بس تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ تم ایک معاملے میں ثوبی سے پہلے نمبر لے گئے ہو"

سیرت نے پراسرار ہنسی ہنستے ہوئے کہا


"پہلیاں مت بجھاو،، جو بھی بولنا ہے جلدی بولو"

کاشان نے چڑتے ہوئے کہا سیرت بیڈ پر سے اٹھ کر کاشان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی تاکہ اسے دینے والی خبر سے اس کے فیس ایکسپریشن صیح سے دیکھ سکے


"تمہیں معلوم ہے کاشی،، تم بابا بننے والے ہو"

سیرت نے راز دارانہ طریقے سے اسے بتایا


"اچھا بابا بننے والا ہوں"

وہ بے خیالی میں بولتا ہوا ایک دم سے چونکا


"کیا بابا بننے والا ہوں۔۔۔ تمہارا مطلب مییں بابا بننے والا ہوں یعنی کے رنعم پریگنینٹ اومائی گاڈ"

پہلے حیرت بعد میں ایکسائٹمنٹ اب وہ خوشی سے خود ہی مسکرا دیا۔۔۔ سیرت اس کے فیس ایکسپریشنز کو دیکھ کر خود بھی ہنس دی۔۔۔ اب وہ خود بھی سیرت کے ساتھ ہنسنے لگا۔۔۔ جیسے یہ خبر اس کو نئے سرے سے توانا کر گئی ہو


"تمھیں معلوم ہے اس سے اچھی خبر تو تم نے مجھے زندگی میں کبھی نہیں دی۔۔۔ تمہیں اندازہ نہیں سیرت میری خوشی کا،، میں خوش ہوں۔۔۔ سچی بہت خوش"

کاشان اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتا ہوا بولا


"رنعم کیسی ہو۔۔۔ وہ ٹھیک ہے ناں،، وہ بھی خوش ہے ناں۔۔۔ خوش کیوں نہیں ہوگی مجھے معلوم ہے وہ بہت خوش ہوگی،، تم اس کا بہت خیال رکھنا،، خاص کر اس کے کھانے پینے کا دھیان رکھنا"

کاشان دوبارہ نم انکھوں کے ساتھ مسکراتا ہوا سیرت کو بول رہا تھا۔۔۔ اس کا بہت شدت سے دل چاہا کہ اس وقت رنعم اس کے سامنے ہوتی۔۔۔۔ اس نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ جب اسے یہ خوشی کی خبر ملے گی تب تک رنعم اور اس کے رشتے میں اتنی دوریاں آجائے گی


"آج صبح ہی ہمہیں معلوم ہوا اور دیکھو میں نے اپنی دوستی کا فرض نبھایا تمہیں بتانے فوراً آگئی"

سیرت نے فخریہ انداز اپناتے ہوئے کہا


"تھینکیو"

کاشان نے مشکور نظروں سے سیرت کو دیکھتے ہوئے کہا


"اتنی اچھی خبر سنائی ہے میں نے تمہیں،، جاؤ جا کر اپنا حلیہ درست کرو جب تک میں تمہارے گھر کا حلیہ درست کرتی ہو"

سیرت کاشان کو بولتی ہوئی اور تیزی سے ہاتھ چلاتی ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگی۔۔۔ کافی حد تک پھیلا ہوا گھر سمیٹ کر اب وہ کچن کی حالت درست کرتی ہوئی کھانا بنانے لگی۔ ۔۔۔ کاشان شاور لے کر جب کچن میں آیا تو ایسے کاموں میں مگن دیکھا


"دو ہفتوں میں ہی تم نے گھر کتنا گندا کردیا کاشی،، اس طرح تم کبھی بھی نہیں رہتے تھے اب میں نے گھر کو تھوڑا بہت رہنے کے قابل کردیا ہے۔۔۔ کل نوید کو بھیج دوں گی وہ آکر صفائی کر جائے گا"

سیرت کی زبان اور ہاتھ دونوں چل رہے تھے۔۔ وہ اپنا اور کاشان کا پلیٹ میں کھانا نکالتی ہوئی بولی۔۔۔ کاشان چیئر کھسکا کر بیٹھ گیا کتنے دنوں بعد وہ گھر کا بنا ہوا کھانا کھا رہا تھا


"پھر کیا سوچا ہے تم نے کب رنعم کو لینے آ رہے ہو"

کھانے کے دوران سیرت نے کاشان سے پوچھا وہ کھانے سے ہاتھ روک کر سیرت کو دیکھنے لگا


"وہ آجائے گی ناں میرے ساتھ۔۔۔ کیا وہ مجھے معاف کر چکی ہے"

کاشان بےقراری سے سیرت کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا


"اب تو آنے کا جواز بھی بن گیا ہے،،، آنا تو پڑے گا اسے مگر تمہیں پہلے تمہیں اس سے معافی مانگنی چاہیے اور پرامس بھی کرنا ہوگا کاشی کہ آئندہ تم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاو گے جس سے نقصان اب تمہارا اور رنعم کے ساتھ ساتھ تمہارے آنے والے بچے کا بھی ہو"

سیرت کاشان کو دیکھتے ہوئے سمجھانے لگی


"تمہیں معلوم ہے ان چند دنوں میں رنعم اپنی عادت کے برخلاف کتنی چڑچڑی ہوگئی ہے۔۔۔۔ مجھ سے، ثوبی سے یہاں تک کہ مما سے بھی بات نہیں کرتی نہ ہمارے پاس آ کر بیٹھتی ہے،،، ثوبی اسے خوش رکھنے کے چکر میں، مما اسے کھانا کھلانے کی فکر میں ہلکان ہوتی رہتی ہیں مگر بس وہ ایک خول میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔۔ اپنے آپ کو اس نے اپنے کمرے میں بند کر لیا ہے۔۔۔ کھانے کے لئے بھی اسے میں یا ثوبی بہلا کر یا زبردستی باہر نکال کر لاتے ہیں۔۔۔ شاید اندر سے وہ تمہیں اور اپنے اس گھر کو مس کر رہی ہے مجھے ایسا لگتا ہے"

کاشان غور سے سیرت کی باتیں سن رہا تھا اس کی باتیں سن کر کاشان کو دکھ بھی ہوا وہ آنکھیں بند کیے بے بسی سے سوچنے لگا وہ کیا کچھ کر چکا ہے اپنے ساتھ، اپنی بیوی کے ساتھ۔۔۔ آنکھیں کھول کر وہ سیرت سے گویا ہوا


"سیرت تم اور ثوبی اس کا بہت خیال رکھنا میں رنعم کو بہت مس کر رہا ہوں،، اپنا گھر مجھے گھر نہیں لگتا کیوکہ اس میں رنعم موجود نہیں ہے مگر اب میں اسکو تب لینے آو گا جب میں خود کو اس قابل کرلو اور خود کو اس کے لائق بنالو۔۔۔ اپنے غصے کو کنٹرول کر لو۔۔۔ میں اپنے رویے سے، اپنے اور اس کے بیچ قائم کردہ رشتے کو کافی کمزور کر چکا ہوں۔۔۔ اب سب کچھ مجھے ہی ٹھیک کرنا ہے۔۔۔ اتنی زیادہ دوری تو میں خود بھی اپنی بیوی سے برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ میں اسے بہت جلد لینے آوں گا مگر تب تک تم اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا"

کاشان سیرت کو دیکھتا ہوا بولا اتنے میں سیرت کا ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل بجا۔۔۔ سیرت نے ثوبان کی کال ریسیو کی


"تم کاشی کے فلیٹ میں کیا کر رہی ہو"

سیرت کا میسج ابھی ثوبان نے پڑھا کر جو کہ 2 گھنٹے پہلے آیا تھا۔۔ وہ نارمل لہجے میں سیرت سے پوچھ رہا تھا


"ملنے آئی تھی اس سے"

سیرت نے کاشان کو دیکھتے ہوئے ثوبان کو بتایا کاشان اسے ہی دیکھ رہا تھا


"اوکے نیچے آجاو میں ویٹ کر رہا ہوں تمہارا کار میں"

ثوبان سیرت سے بولا


"اوکے میں آتی ہوں" سیرت نے کال کاٹ کر موبائل ٹیبل پر رکھا اور کرسی سے اٹھ کر اپنا بیگ اٹھانے لگی


"ثوبی آیا ہے تمہیں لینے،، تم اسے یہاں پر آنے کا کہتی نا"

کاشان سیرت کو اٹھتا ہوا دیکھ کر خود بھی چیئر سے اٹھتا ہوا بولا


"سب کچھ آئستہ آئستہ ہی ٹھیک ہوگا کاشی۔۔۔ تم کھانا کھا لینا اور اپنا خیال رکھنا"

سیرت کاشان کو کہتی ہوئی اپنا بیگ لے کر دروازے سے باہر نکل گئی


کاشان دوبارہ کھانا کھانے بیٹھا کھانا کھاتے ہوئے اس کی نظر ٹیبل پر رکھے سیرت کے موبائل پر گئی۔۔۔ وہ بے دھیانی میں اپنا موبائل یہی چھوڑ گئی تھی۔۔۔ کاشان نے اس کا موبائل اٹھایا اور اس کے موبائل پر ثوبان کا نمبر ڈائل کیا مگر اتنے میں اس کے گھر کا دروازہ کھلا،،، کوئی اندر آیا


موبائل پر بیل جا رہی تھی مگر کاشان کا دماغ گھر کے اندر داخل ہوتے شیرا کی طرف گیا


"کیوں آئے ہو تو میرے گھر پر"

کاشان نے موبائل ٹیبل پر رکھ کر شیرا سے پوچھا ویسے تو کاشان اپنے غصے کو کافی حد تک کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا مگر شیرا کو دیکھ کر اسے غصہ آنے لگا مگر پھر بھی اس نے اپنے ہاتھوں کو قابو میں رکھ کر منہ سے بات کی


"کاشی تو نے مار مار کر میری شکل بگاڑ دی مجھے کتنے برے طریقے سے مارا تو نے اور ابھی بھی تو مجھ سے یہ پوچھ رہا ہے کہ میں آج یہاں پر کیوں آیا ہوں"

شیرا نے پسٹل نکالتے ہوئے کاشان کو دیکھا


"مجھے ایک ہی گولی مارنا اور وہ بھی یہاں کیوکہ اگر میں بچ گیا تو پھر تو نہیں بچ پائے گا" کاشان اپنی پیشانی پر انگلی رکھتا ہوا بولا


"پاگل سمجھا ہوا ہے تو نے مجھے، ایک گولی مار کر تجھے میں اتنی آسان موت دوں گا۔۔۔ میں آج تجھے تڑپا تڑپا کر مارو گا تاکہ تو اپنی موت کا صحیح طریقے سے مزا لے"

شیرا نے بولنے کے ساتھ ہی پہلا فائر اس کی ٹانگ پر کیا جس سے کاشان نیچے گھٹنے کے بل گرا،،، وہ کرسی کا سہارا لیتے ہوئے وہ دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگر سینے پر لگنے والی گولی سے اس کی چیخ نکلی،،، وہ فرش پر گرا۔۔۔ فرش اس کے خون سے رنگنا شروع ہوگیا۔۔۔ تیسری گولی شیرا نے اس کی کمر پر ماری اور اس کے فلیٹ سے نکل گیا

کاشان فرش پر گرا ہوا بری طرح تڑپ رہا تھا تکلیف کی شدت سے اس کے منہ سے کراہ نکل رہی تھی اور آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھی۔۔۔ اسے رنعم کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔۔۔ وہ کراہتے ہوئے زور سے آنکھیں جھپکنے لگا پھر اسے ثوبان نظر آیا اب اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی،، اس کا سانس اُکھڑنے لگا۔۔۔ اس نے زور سے سانس لینے کی کوشش کی۔۔۔ اب وہ اپنے سامنے فائزہ کو دیکھ رہا تھا جو اسے اپنے پاس بلا رہی تھی دھڑکنوں کی رفتار آہستہ آہستہ معدھم ہونے لگی۔۔۔ اسے لگا جیسے ان تینوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔۔۔آج اس کا دل بھی اس کا ساتھ چھوڑ دے گا۔۔۔ اس کا دماغ تاریکی میں جانے لگا اور آنکھیں بند ہونے لگی


****


"کیسا ہے کاشی"

سیرت کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ثوبان نے سیرت سے پوچھا


"خود اوپر آ کر دیکھ لیںتے تو معلوم ہوجاتا کیسا ہے"

سیرت کے بولنے پر ثوبان نے افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالی اور کار سٹارٹ کردی


"ثوبی اب یہ ناراضگی ختم کرو اپنے بھائی سے۔۔۔ وہ بہت اکیلا ہو چکا ہے، اسے اس وقت تمہاری اور رنعم کی ضرورت ہے۔۔۔ اور اب تو رنعم کی گڈ نیوز سے ناراضگی کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں"

سیرت ڈرائیونگ کرتے ہوئے ثوبان کو دیکھ کر اسے سمجھانے لگی


"کہیں تم نے یہ بات کاشی تو شیئر نہیں کہ رنعم ایکسپیکٹڈ ہے"

ثوبان سنجیدگی سے سیرت کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا


"اس میں چھپانے والی کیا بات ہے بھلا اور میں گٙئی کس لیے تھی۔۔۔ وہ باپ بننے والا ہے اور اتنی بڑی خوشی کی خبر اس نہیں بتاتی"

سیرت نے حیرت سے ثوبان کو دیکھتے ہوئے کہا


"سیرت تمہیں یہ بات ابھی اسے فلالحال نہیں بتانی چاہیے تھی"

ثوبان نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے اپنا سر جھٹکا


"آخر تم سوچ کر کیا بیٹھے ہو ثوبی"

سیرت نے اس کو دیکھ کر پوچھا


"سائکیٹرک کے پاس جا رہا ہے اینگر تھراپی کے لیے،،، تمھیں تو اسے یہ بولنا چاہیے تھا کہ ہم رنعم کو خلع دلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔ ذرا معلوم تو ہوتا،، اس اینگر تھراپی کا کوئی فائدہ بھی ہو رہا ہے یا نہیں،، کتنا کنٹرول کر پایا ہے اپنے غصے کو"

ثوبان نے تلخی سے کہا


"یعنی تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اسے وہاں جاکر مینٹلی ٹارچر کرتی"

سیرت نے برا مانتے ہوئے کہا


"اس نے ہم سب کو مینٹلی ٹارچر کیا ہے۔۔۔ اور اب خود سائکیٹرک کے پاس جاکر سیشن کروا رہا ہے اپنے"

ثوبان نے غصے میں کہا


"ثوبی مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں غصہ کس بات پر آرہا ہے آخر۔۔۔ اس کے سائکیٹرک کے پاس جانے سے یا پھر یہ کہ تمہیں اپنے بھائی سے محبت ہی نہیں رہی ہے"

اب کہ سیرت بھی اس پر غصہ کرتی ہوئی بولی


"بالکل ٹھیک کہا اس سے محبت نہیں رہی ہے سب کچھ ختم کر چکا ہے وہ اپنے ہاتھوں سے"

ثوبان کی بات کا سیرت جواب دیتی اس سے پہلے ثوبان کا موبائل بجا


"تمہارے نمبر سے کال آرہی ہے کہاں ہے تمہارا موبائل"

ثوبان نے اپنا موبائل دیکھتے ہوئے کہا اور سیرت کے کچھ بولنے سے پہلے کال ریسیو کی


"کاشی۔۔۔۔ کون ہے وہاں پر۔۔۔۔ اے کون ہو تم،،، ہاتھ مت لگانا میرے بھائی کو"

ثوبان نے موبائل کان پر لگاتے ہوئے زور سے چیختے ہوئے ایک ہاتھ سے گاڑی دوبارہ ٹرن کی


"ثوبی کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ،، کاشی کیا بات کر رہا ہے"

ثوبان کو سیرت کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی وہ بس تیزی سے کار ڈرائیو کر رہا تھا وہ کاشان کے پاس پہنچنا چاہتا تھا


"کاشی"

گولی کی آواز پر ثوبان دوبارہ زور سے چیخا۔۔۔۔ دوسری گولی پر ثوبان نے کار فلیٹ کے باہر روکی۔۔۔ سیرت خود بھی پریشان ہو کر ثوبان کو دیکھنے لگی۔۔۔ ثوبان تیزی سے کار سے نکل کر بھاگا۔۔۔۔ سیرت بھی بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے جانے لگی اس کا دل گھبرانے لگا۔۔۔ ثوبان تیزی سے لفٹ کا انتظار کئے بناء سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر پہنچا جبکہ لفٹ سے شیرا نکل کر فلیٹ سے باہر چلا گیا


"کاشی۔۔۔ کاشی آنکھیں کھولو دیکھو میں آگیا ہوں"

ثوبان کاشان کا خون میں لت پت وجود کو گلے سے لگاتے ہوئے چیخ کر بولا


سیرت جب تک اس کے پیچھے پہنچی وہ اندر کا منظر دیکھ کر چیخ مار کر وہی دروازے پر جم گئی۔۔۔۔ ثوبان نے کاشان کا بے جان ہوتا وجود اٹھایا تو وہ خود گرنے لگا مگر اسے گرنا نہیں اسے اس وقت بہت ہمت اور حوصلے سے کام لینا تھا اور اپنے بھائی کی زندگی بچانی تھی


وہ ایمبولینس کا انتظار کئے بناء کاشان کو اپنی گاڑی تک لایا ثوبان کے کپڑے خود بھی کاشان کر خون میں رنگ چکے تھے۔۔۔ اب اسے کاشان کو لے کر اسپتال جانا تھا

"تھوڑی دیر پہلے میں نے تم سے جھوٹ کہا تھا کہ مجھے اس سے محبت نہیں رہی، میرا ایک ہی بھائی ہے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے وہ۔۔۔۔ میں بھلا اس سے محبت کرنا کیسے چھوڑ سکتا ہوں"

آپریشن تھیٹر کے باہر ثوبان بیٹھا روتے ہوئے سیرت سے بولنے لگا،،، سیرت نے اپنے آنسو صاف کر کے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا


"اس سے کچھ نہیں ہوگا ثوبی"

سیرت کو کاشان کی حالت کے پیش نظر اپنی بات کو گھوکلی لگی مگر اسے ثوبان کو ایسے ہی بولنا تھا اتنے میں ثوبان کا موبائل بجا


"ہاں جواد بتاؤ کیا خبر ہے شیرا کی" ثوبان اپنے آنسو پوچھتے ہوئے۔۔۔ کوریڈور میں آکر جواد سے پوچھنے لگا


"ٹھیک ہے مگر اسے لاک اپ مت کرنا۔۔۔ ٹارچر سیل لے جاو اسے۔۔۔ کوشش کرنا میرے آنے تک اس میں چند سانسیں باقی رہے"

ثوبان جواد سے بات کر کے دوبارہ سیرت کے پاس آیا وہ آپریشن تھیٹر کی لال بتی کو دیکھ رہی تھی جہاں ڈاکٹر کاشان کو لگنے والی گولیاں نکال رہے تھے


"سیرت ٹیکسی کرکے گھر چلی جاؤ" ثوبان سیرت کو دیکھتا ہوا بولا ثوبان کی آواز پر سیرت نے لال بتی سے نظر ہٹا کر ثوبان کو دیکھا


"میں تم دونوں کو چھوڑ کر چلی جاو اس حال میں۔۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتی مجھے دوبارہ جانے کا مت بولنا"

سیرت ثوبان کو دیکھ کر خفا ہوتی بولی


"سیرت بحث مت کرو، ابھی تھوڑی دیر گزرے کی میرے ساتھ ساتھ تمہاری بھی غیر موجودگی پر مما پریشان ہو جائیں گی وہ کالز کریں گیں،،، تو میں اس وقت ایسی کنڈیشن میں نہیں ہوں کہ ان سے بات کر سکو یا انہیں کچھ بتا سکو یا پھر انہیں اور رنعم کو سنبھال سکو پلیز مجھے سمجھنے کی کوشش کرو اس وقت"

ثوبان نے اس کو دیکھ کر کہا تو سیرت کو ثوبان پر ترس آنے لگا اتنی دیر میں ڈاکٹر اپریشن تھیٹر سے باہر نکلا۔۔۔ ثوبان اور سیرت کی توجہ ڈاکٹر کی طرف گئی اس سے پہلے ڈاکٹر ان کی طرف آتا وہ دونوں بھاگ کر ڈاکٹر کی پاس پہنچے


"ہم نے پیشنٹ کی باڈی سے بولڈز نکال دی ہیں۔۔۔ خون بہت زیادہ بہہ چکا ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی اچھی خبر نہیں دی جاسکتی۔۔۔ صرف تھوڑی بہت اچھی خبر یہ ہے کہ سینے پر لگنے والی گولی زیادہ اندر تک نہیں گئی تھی۔۔ پھر بھی اگلے چوبیس گھنٹے پیشنٹ کے لئے بہت اہم ہیں۔۔۔۔ ان 24 گھنٹوں کے اندر اگر پیشنٹ کو ہوش آ جائے تو ہی وہ سروائو کرسکتا ہے آدر وائس۔۔۔۔ آپ دعا کریں ان کے لیے" ڈاکٹر تسلی کے انداز میں ثوبان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ ثوبان کرسی پر ڈھے سا گیا اور سیرت نے ایک بار پھر رونا شروع کردیا


"سیرت پلیز جاو یہاں سے میری بات مان لو"

ثوبان دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے اس سے کہنے لگا


****


"کس سے بات ہو رہی تھی اتنی دیر سے"

رنعم پچھلے آدھے گھنٹے سے کال پر مصروف تھی کاشان نے ڈرائنگ روم میں آکر اسکے موبائل پر کال ڈسکنکٹ کرتے ہوئے پوچھا


"کاشان میں کال رکھنے ہی والی تھی۔۔۔ ایک یعشل ہی تو ہے میری دوست اور کسے بات کروں گی"

رنعم نے کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا اور صوفے سے اٹھی


"تمہیں معلوم ہے ناں اس وقت مجھے میری ڈول چاہیے ہوتی ہے بس"

کاشان اسے گود میں اٹھاتا ہوا بیڈروم میں لے جانے لگا


"آپ کی ڈول تو ہر وقت آپ کے پاس ہی ہوتی ہے۔۔۔ یعشل نے مجھے گڈ نیوز سنانے کے لیے فون کیا تھا خالہ بننے والی ہے وہ"

رنعم نے کاشان کو یعشل کے کال کرنے کی وجہ بتائی


"وہی جن کی پچھلے مہینے شادی ہوئی تھی"

کاشان کی بات پر رنعم نے اثبات میں سر ہلایا


"کتنی کوئیک سروس ہے،، ہم کو ان سے ہی سبق لینا چاہیے،، ویسے ہماری شادی کو دو ماہ ہوگئے ہیں تمہارا کیا خیال ہے اب۔ ۔۔ ویسے اس بارے میں ہمیں بھی سیریس ہوکر سوچنا چاہیے"

وہ رنعم کو بیڈ پر لٹاتا ہوا اس سے کہنے لگا


"اور کتنا سیریس ہونا چاہیے کاشان کیسی باتیں کر رہے ہیں"

رنعم نے جھینپتے ہوئے کاشان کو کہا۔۔۔ کاشان نے رنعم کے برابر میں لیٹ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا


"ایسے تھوڑی نہ جھولی میں پھل آکر گرتا ہے صبح شام محنت کرنی ہوتی ہے"

کاشان اب رنعم کے فیس ایکسپریشن انجوائے کر رہا تھا جو اس کی بات سے ایک دم چینج ہوگئے تھے


"صبح شام کیا ہوگیا آپ کو"

رنعم نے گھبراتے ہوئے کاشان کو دیکھا


"کیا آپ کو سچ میں ابھی بےبی چاہیے"

کاشان کے مسلسل دیکھنے پر رنعم سیریس ہوکر کاشان کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی


"تو کیا بڑھاپے میں لے کر آئے گے ہم اپنا بےبی"

وہ رنعم کا گال سہلاتا ہوا الٹا اس سے سوال کرنے لگا۔۔ اس کی بات سن کر رنعم نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر اپنی آنکھیں جھکائی۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر کاشان کو ہنسی آئی مگر وہ اپنی ہنسی چھپاتا ہوا بولا


"اے سنو تمہیں معلوم ہے مجھے کتنے بچے چاہیے" کاشان نے اسے مزید تنگ کرنے کا پروگرام بنایا اس کی بات سن کر رنعم نے سوالیہ نظروں سے کاشان کی طرف دیکھا وہ اس کے برابر میں لیٹا ہوا رنعم کے پیٹ پر اپنی انگلی سے پانچ کا فگر بنانے لگا جس طرح رنعم کی پوری آنکھیں کھل گئی۔۔۔ مگر پھر کچھ سوچنے کی ایکٹنگ کرتا ہوا کاشان نے پانچ پر کراس بنایا اور پھر اس کے پیٹ پر آٹھ نمبر لکھا


"ہاں یہ صحیح ہے آئی تھینک۔۔۔ مجھے تم سے اپنے لیے آٹھ بچے چاہیے"

کاشان خود ہی فیصلہ کن انداز اختیار کرتا ہوا بولا جس پر رنعم نے رحم طلب نظروں سے اسے دیکھا


"کاشان کیا آپ کو واقعی آٹھ بچے چاہیے"

رنعم نے اٹکے ہوئے اس سے پوچھا


"کیوں کم ہیں" کاشان اس کے بالوں کی لٹو کو کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا


"نہیں بہت زیادہ ہیں آج کل کے دور میں اتنے بچے کون پیدا کرتا ہے بھلا" رنعم نے اس کو سنجیدہ ہو کر سمجھانے کی کوشش کی


"یار ایک دو تو سب ہی پیدا کرتے ہیں،، ہمہیں تو سب سے کچھ ڈیفرنٹ کرنا چاہیے نا۔۔۔ کونسا میں کرکٹ ٹیم بنانے کی بات کر رہا ہوں" کاشان اب سیریس انداز میں رنعم کو سمجھانے لگا


"مگر آٹھ بچے کیسے آئیں گے"

رنعم کو اب واقعی ٹینشن ہونے لگی


"سمپل ایک سال میں دو کا پیکج بنا لیتے ہیں،،،مطلب ہر سال میرے اور ثوبی کی طرح ٹوئینز۔۔۔ چار سال میں فارغ"

رنعم کے کانوں میں کاشان کی آواز گونجنے لگی اشک ایک بار پھر اسکی آنکھوں سے رواں ہوئے


آج ہی اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ پریگنٹ ہے یہ خبر اگر وہ نارمل حالات میں سنتی تو یقیناً وہ بہت خوش ہوتی جبکہ اس وقت اسے نہ خوشی کا احساس تھا نہ غم کا


"اچھا نہیں کیا آپ نے کاشان میرے ساتھ،،، آپ دیکھ لیے گا میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی،،، آپ چاہے کتنا ہی سوری بولیں،،، کتنی ہی تلافی کرلیں مگر میں آپ کو نہیں بخشنے والی اب"

رنعم روتے ہوئے خود سے باتیں کرنے لگی


****


"میں کب سے کالز کر رہی ہوں تمہیں سیرت، کہاں چلی گئی تھی تم اور ثوبان بھی میری کالز نہیں اٹھا رہا میں کب سے پریشان ہو رہی تھی"

سیرت کو اپنے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ کر کچن سے نکلتی ہوئی یسریٰ اس کے پاس آکر بولی


"سیرت یہ تمہارے کپڑوں پر خون کیسا ہے۔۔ ثوبان کہاں پر ہے بتاؤ جلدی مجھے۔۔۔ سیرت خاموش کیوں ہو بولو کچھ، ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا"

یسریٰ سیرت کے کپڑوں پر لگا ہوا خون دیکھ کر پریشان ہوگئی اور اسے جھنجھوڑنا شروع کر دیا تبھی سیرت ہوش میں آئی


"ثوبی ٹھیک ہے مما مگر آپ کاشی کے لیے دعا کریں۔۔۔ 24 گھنٹے کا ٹائم دیا ہے ڈاکٹرز نے۔۔۔ اگر ان 24گھنٹوں میں اسے ہوش نہیں آیا تو۔۔۔۔"

سیرت روتی ہوئی یسریٰ کو بتانے لگی


"کیا بول رہی ہوں سیرت مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔ کیا ہوا کاشان کو"

یسریٰ اب بھی پریشانی کے عالم میں سیرت کو دیکھ کر پوچھنے لگی


"تین۔۔۔ مما تین گولیاں لگی ہیں کاشی کو"

سیرت نے یسریٰ کے گلے لگ کر روتے ہوئے اسے بتایا۔۔۔ یسریٰ شاک کے مارے کچھ بول نہیں پائی مگر رنعم جوکہ یسریٰ کی تیز آواز سن کر اپنے کمرے سے باہر آ رہی تھی سیرت کی آخری بات سن کر بھاگتی ہوئی سیرت کے پاس آئی


"کاشان کہاں پر ہیں آپی۔۔۔ مجھے بتائیں کہاں پر ہے کاشان"

رنعم تقریباً چیختی ہوئی بولی۔۔۔ سیرت نے اسے گلے لگانا چاہا مگر اس نے سیرت کے ہاتھ جھٹکے


"مجھے لے کر چلیں ابھی اور اسی وقت ان کے پاس"

رنعم اب روتی ہوئی سیرت کو بولنے لگی


"صحیح بول رہی ہے رنعم،، سیرت ہمہیں اسپتال لے چلو،، میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے"

یسریٰ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا


"پر مما اسطرح آپ کی طبیعت خراب ہوگی۔۔۔ رنعم کی بھی کنڈیشن ایسی نہیں ہے بس آپ لوگ دعا کریں"


"کیسی باتیں کر رہی ہوں سیرت تم۔۔ کچھ نہیں ہوتا میری طبیعت کو۔۔۔ اس وقت میرا ثوبان وہاں اکیلا ہے۔۔۔ کتنے سالوں سے وہ مجھے ہر موقع پر سنبھلتا آیا ہے۔۔۔ آج اسے میری ضرورت ہے اور میں گھر بیٹھ جاؤ ایسا ممکن نہیں"

یسریٰ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی اسے اس وقت ہمت دکھانی تھی۔۔۔۔ کاشان کی زندگی کی دعا کے ساتھ ساتھ اسے اپنے بیٹے کو گلے لگا کر اس کی ہمت بھی بڑھانی تھی


"آپی دیر نہیں کریں پلیز جلدی چلیں"

رنعم روتے ہوئے کہنے لگی سیرت نے یسریٰ کو دیکھا جو کہ ڈرائیور سے کار نکالنے کا کہہ رہی تھی۔۔ سیرت جلدی سے اپنے روم سے ثوبان کی ایک شرٹ لے کر یسریٰ اور رنعم کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی


****


یہ جگہ آبادی سے دور ایک سیف ہاؤس تھا جہاں اس وقت ثوبان موجود تھا


آدھے گھنٹے پہلے کاشان کا ہارٹ پراپر ورک نہیں کر رہا تھا۔۔ اس کی دھڑکنوں کی رفتار سست ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹرز اسے دوبارہ ٹریٹمنٹ دینے لگے۔۔۔ ثوبان سے کاشان کی تکلیف نہیں دیکھی جا رہی تھی۔۔۔ اس وجہ سے وہ بھائی کا قرض چکانے یہاں آگیا


"کسی کو شک تو نہیں ہوا کہ اسے پولیس نے پکڑا ہے"

ثوبان نے اپنے پیچھے آتے جواد سے پوچھا


"نہیں سر سب سول ڈریس میں موجود تھے بہت صفائی سے کام کیا گیا ہے اور آپ کے کہنے کے مطابق اس نے اتنی سانسیں چھوڑی ہیں کہ وہ اپنی موت کو اچھی طرح محسوس کر سکے"

جواد ثوبان کے پیچھے چلتا ہوا اسے بتانے لگا۔۔۔ ثوبان ایک بند دروازے کے آگے رکا،،،جواد نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ثوبان کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ جہاں شیرا کو زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اس کی حالت اس وقت قابل رحم تھی۔۔۔۔ اس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا کہ وہ کافی تکلیف برداشت کر چکا ہے اور اب ثوبان کو دیکھ کر شیرا کو اندازہ ہوگیا ابھی اسے کافی کچھ برداشت کرنا ہے


"میں نے۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں"

شیرا نڈھال ہوتا ہوا ثوبان کو دیکھ کر ایک دم بول پڑا


"میں نے تم سے کہا تھا شیرا کہ میرے گھر کے کسی بھی فرد کو بری نظر سے دیکھا بھی تو میں تمہیں اتنی درد ناک موت دوں گا کہ تمہاری روح تک تڑپ جائے گی شاید تم نے میری وارننگ کو اس وقت اتنا سیریس نہیں لیا تھا"

ثوبان نے کمرے میں موجود ٹیبل پر سے ایک تھیلی جس میں سفید رنگ کا سفوف موجود تھا اٹھا کر شیرا کے منہ میں بھرنا شروع کردیا


"تمہیں معلوم ہے اس وقت میرا بھائی زندگی اور موت کے بیچ کھڑا ہے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔ کیا تم اس کی تکلیف محسوس کرنا چاہوں گے شیرا" ثوبان نے اب جواد کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے شیرا کو مخاطب کیا۔۔۔ شیرا منہ بھرے ہوئے پاوڈر کی وجہ سے بری طرح کھانس رہا تھا۔۔۔ جواد نے لوڈڈ ریوالور نکال کر ثوبان کے ہاتھ میں تھمائی۔۔۔۔ شیرا خوفزدہ نظروں سے ثوبان کو دیکھتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا


ثوبان نے باری باری اس کی دونوں ٹانگوں پر اور پھر دونوں بازوؤں پر فائر کیے اس کے بعد دو گولیاں اس کے سینے میں اتارتا ہوا خالی ریوالور دوبارہ جواد کو تھما دیا


"آگے کا کام معلوم ہے"

ثوبان شیرا کے مردہ وجود کو دیکھتا ہوا جواد سے پوچھنے لگا


"سر آپ اس کی فکر نہیں کریں میں سب دیکھ لوں گا اور اس کی رپورٹ بھی تیار کر دوں گا"

ثوبان جواد کی بات سن کر کمرے سے باہر نکل گیا اسے اطمینان تھا جواد سب دیکھ لے گا


آج اس نے پہلی دفعہ اپنے اصولوں کے خلاف جا کر ایسا قدم اٹھایا تھا صرف کاشان کے لیے مگر ثوبان کو اسکا پچھتاوہ ہرگز نہیں تھا اسے معلوم تھا شیرا صرف کاشان کا ہی قصور وار نہیں ہے بلکہ کتنے ہی بے گناہ مرد اور عورت اس کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔۔۔ یہ ملک کے ان ناسوروں میں سے تھا جس کا ختم ہو جانا ہی بہتر تھا کیوکہ جیل سے وہ ایک بار پھر سفارش کے بنا پر چھوٹ جاتا


****


"کاشان پلیز اپنی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھیں پلیز"

رنعم بیڈ پر آنکھیں بند کئے کاشان کو لیٹا دیکھ کر روتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ مختلف نلکیاں اور ٹیوبز اس کے جسم میں لگی ہوئی تھی۔۔۔ وہ کبھی کاشان کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے اسے دیکھ رہی تھی تو کبھی اس مشین کو جس میں ایک لمبی لائن کے بعد آڑھی تھرچی لائنز بننے لگ جاتی۔۔۔۔ رنعم کا دل بری طرح دکھ رہا تھا کاشان کو اس حالت میں دیکھ کر،، ڈاکٹر نے پیشنٹ کی وائف سن کر اسے اندر آنا آلاؤ کیا تھا


"آپ ہمیشہ میرے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں،، مجھے دکھ دے کر،، تکلیف میں دیکھ کر سکون ملتا ہے آپ کو۔۔۔ اس وقت بھی اتنے سکون سے لیٹے ہیں یہ جانے بناء کے مجھے اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہے آپ کو اس حال میں دیکھ کر۔۔۔ آپ کو شاید میری کنڈیشن کی بھی خبر نہیں کہ میں کس عمل سے گزر رہی ہو پھر بھی مجھے پریشان کر رہے ہیں آپ۔۔۔ کاشان آپ بہت بہت برے ہیں بہت برے"

وہ اپنی کپکپاتی انگلی سے کاشان کے دل پر R لکھتے ہوئے اس سے شکوہ کر رہی تھی۔۔۔ تبھی اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا رنعم نے پلٹ کر دیکھا تو ثوبان کھڑا تھا


"بھیا کاشان کو بولے نا، وہ اٹھ جائے اس طرح مت کریں ہمارے ساتھ"

رنعم اب ثوبان کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولنے لگی۔۔۔ رنعم کے آنسو ثوبان کی شرٹ بھگو رہے تھے جبکہ ثوبان کے آنسو رنعم کے بالوں میں جذب ہونے لگے


"ہم اتنے دنوں تک اس سے ناراض رہے ہیں نا۔۔۔ بس اسی کا بدلہ لے رہا ہے ہم سے یہ بدتمیز انسان۔۔۔۔ تم پریشان مت ہو ایک دفعہ اسے اٹھنے دو پھر ہم دونوں مل کر اس کی اچھی سی کلاس لیں گے" ثوبان خود روتا ہوا رنعم کو تسلی دینے لگا


ڈاکٹر نے اشارے سے اسے باہر جانے کے لیے کہا وہ رنعم کو اپنے ساتھ لیے وہاں سے چلا گیا۔۔۔ وہ ابھی چند منٹ پہلے ہی دوبارہ ہاسپٹل پہنچا تھا وہاں سیرت کی دوبارہ موجودگی پر خفا ہونے لگا۔۔۔ سیرت نے اسے ساری سچویشن بتائی۔۔۔ اور صاف شرٹ دی،، ثوبان نے یسریٰ اور رنعم کا پوچھا۔۔۔۔ سیرت نے بتایا یسریٰ نماز ادا کر رہی ہے جبکہ رنعم آئی سی یو کے اندر کاشان کے پاس موجود ہے جبھی وہ آئی سی یو میں جا کر رنعم کو باہر لے آیا


اتنے میں یسریٰ بھی نماز سے فارغ ہوکر وہاں آ گئی ثوبان کو گلے لگایا


"ٹھیک ہو جائے گا کاشان،، میرا دل کہہ رہا ہے میری اس کے لیے دعائیں رد نہیں ہوگی۔۔۔ تم بالکل فکر نہیں کرو کچھ نہیں ہوگا اسے سب ٹھیک ہو جائے گا"

یسریٰ خود ہمت سے کام لیتے ہوئے ثوبان کو گلے لگا کر اسے تسلی دے رہی تھی


"جی مما اسے ٹھیک ہونا ہی ہوگا۔۔۔ وہ میرے ساتھ ہی تو دنیا میں آیا تھا ایسے کیسے مجھے اکیلا چھوڑ کر جا سکتا ہے۔۔ اگر اس نے مجھے چھوڑا نہ میں زندگی بھر اسے معاف نہیں کروں گا"

آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ یسریٰ ثوبان کی ہمت باندھ کر اسے حوصلہ دے رہی تھی اور ثوبان کی آنکھیں نم تھی


رات کو ثوبان نے ان تینوں کو ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دیا


"کاشی پلیز یار مجھے چھوڑ کر مت جانا میں اکیلا رہ جاؤں گا۔۔۔ رنعم کا سوچو وہ کتنا رو رہی تھی تمہیں دیکھ کر۔۔۔ تمہیں سیرت نے بتایا تھا نا وہ کس حال سے ہے۔۔۔ میں اور رنعم بہت پیار کرتے ہیں یار تم سے۔۔۔ ہم دونوں کو ضرورت ہے تمہاری بلکے ہم سے بھی زیادہ اب تمہارے بچے کو تمہاری ضرورت ہوگی۔۔۔ پلیز یار ایک بار آنکھیں کھول لو" ثوبان رات کے پہر آئی سی یو میں کاشان کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔۔۔ ثوبان کا چہرہ ایک بار پھر اشکبار تھا جبھی کاشان کی انگلیوں میں ہلکی سی جنبش محسوس ہوئی۔۔۔۔ کاشان نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں تو ثوبان اپنے آنسو صاف کر کے مسکراتا ہوا ڈاکٹرز کو بلانے گیا


تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز نے ثوبان کو خوشی کی نوید سنائی کہ پیشنٹ کی زندگی اب خطرے سے باہر ہے یہ خبر سنتے ہی ثوبان نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔ اب اسے سب سے پہلے خدا کے حضور شکر کا سجدہ کرنا تھا اور رنعم کو خوشخبری سنانی تھی

دوسرے دن صبح اسپتال میں سیرت اور یسریٰ اس سے ملنے کے لیے آئی۔۔۔ فرح اور عاشر بھی یہ خبر سن کر صبح ہی اسپتال پہنچے۔۔۔ آج پہلی دفعہ کاشان نے عاشر سے سہی سے بات کی۔۔۔ سب کے جانے کے بعد کاشان ایک بار پھر یسریٰ سے معافی مانگی۔۔۔ یسریٰ نے خوش دلی سے سچے دل کے ساتھ اسے معاف کردیا


آج تین دن کے بعد ثوبان کاشان کو گھر لے آیا تھا وہ ساری ناراضگی بھلائے کاشان پر توجہ دے رہا تھا اسے ایک پل کے لیے نہیں چھوڑتا۔۔۔ ضروری کام کی جواد کو انسٹرکشن دے کر اس نے مزید دو دن کی چھٹی لے لی تھی اور وہ دو دن سے کاشان کے ہی روم میں سورہا تھا


یسریٰ اور سیرت کاشان کے پاس آکر بیٹھتی اس کے کھانا کھانے کا دوا کا خیال رکھتی۔۔۔۔ سب نے اس کو معاف کردیا تھا سب پہلے کی طرح ہوچکا تھا مگر جس کا اسے سب سے زیادہ انتظار تھا،،،، اس کے ہوش میں آنے کے بعد وہ ایک دفعہ بھی اس کے پاس نہیں آئی تھی


****


رنعم پردے کی آڑھ سے باہر لان میں کاشان کو دیکھ رہی تھی،، ثوبان تھوڑی دیر پہلے اسے لان میں لے کر آیا تھا اس وقت وہ دونوں بھائی لان کی چیئر پر برجمان تھے۔۔۔۔ کاشان کے ہوش میں آتے ہی ثوبان نے سب سے پہلے یہ خبر رنعم کو سنائی تھی اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کتنا روئی تھی مگر یسریٰ کے لاکھ کہنے کے باوجود اسپتال نہیں گئی گھر میں بھی کاشان کو آئے دو دن ہوچکے تھے اور یسریٰ اسے سمجھائے جا رہی تھی کہ سب پرانی باتوں کو بھول جاؤ اور اپنے آنے والے بچے کی خاطر کاشان کو معاف کر دو مگر یسریٰ کو ثوبان نے منع کردیا ثوبان کا کہنا تھا کہ رنعم کو کوئی بھی اس بات کے لئے زبردستی نہیں کرے


"یوں چھپ چھپ کر پردے کی آڑھ سے کس کو تاڑا جارہا ہے"

سیرت کی آواز پر رنعم نے ایک دم چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا سیرت مسکراتی ہوئی کافی کے دو مگ ہاتھ میں تھامے رنعم کے روم میں آئی


"میں کس کو دیکھوں گی بھلا اپنے بھیا کو ہی دیکھ رہی تھی" رنعم نے اپنا کافی کا مگ سیرت کے ہاتھ سے لیتے ہوئے جواب دیا


"یہ بھیا کو بھلا کون یوں چھپ چھپ کر دیکھتا ہے"

سیرت نے معنیٰ خیزی سے رنعم کو دیکھ کر پوچھا


"ظاہری بات ہے آپی بھیا اس وقت اکیلے نہیں ہیں اور وہ جن کے ساتھ وہاں موجود ہے میں نہیں چاہتی وہ بلاوجہ میں کسی خوش فہمی کا شکار ہو"

رنعم کافی کا سپ لے کر سیرت کو وضاحت دینے لگی رنعم ابھی بھی لان میں ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ سیرت صاف محسوس کر سکتی تھی کہ وہ ابھی بھی کاشان کو ہی دیکھ رہی ہے۔۔۔ سیرت کے چہرے پر مسکراہٹ آئی


"ویسے رنعم،،، یہ ثوبی پر کمیز شلوار کتنا سوٹ کرتا ہے نا"

سیرت بھی کھڑکی سے باہر لان میں دیکھتے ہوئے بولی


"صحیح کہہ رہی ہیں آپ وہ اچھے لگتے ہیں کمیز شلوار میں"

رنعم کی نظریں ابھی بھی کاشان پر مرکوز تھی۔۔ سیرت کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی


"اور میں نے ایک بات اور بھی نوٹ کی ہے،، ویسے تو کاشی اور ثوبی کی کافی زیادہ ایک دوسرے سے شکلیں ملتی ہے مگر جو بات ثوبی کی پرسنالٹی میں ہے وہ وہ بات کاشی میں نہیں میرا مطلب ہے۔۔ ثوبی کی پرسنلٹی کے آگے کاشی کی پرسنلٹی ذرا دبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ تم نے بھی نوٹ کیا ہوگا ہے نا"

سیرت اپنی مسکراہٹ چھپائے ایک دم سیریس ہو کر ان دونوں کی پرسنالٹی کو ایک دوسرے سے کمپیئر کرتی ہوئی بولی


"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپی بے شک بھیا کی ہائٹ اچھی ہے مگر آپ نوٹ کریں کاشان کی ہائٹ بھیا سے تھوڑی زیادہ نکلتی ہوئی ہے۔۔۔ اور بال بھی زیادہ سلکی ہیں۔۔۔ آپ نے کبھی کاشان کی آنکھوں کو غور سے نہیں دیکھا ہوگا۔۔۔ ان کے فیس پر سب سے زیادہ اٹریکٹ تو انکی آنکھیں کرتی ہیں۔۔۔ جبکہ کاشان کے مقابلے بھیا کی آنکھیں چھوٹی ہیں۔۔۔۔ ہاں کلر کہہ سکتے ہیں کہ کاشان کے مقابلے میں بھیا کا فیئر ہے مگر اس میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے،،، انیس بیس ہی ہوگا اور ویسے بھی مردوں پر اتنا زیادہ فیئر کمپلیکشن عجیب لگتا ہے اور اس وقت غور کریں آپ زرا کاشان کی شیو کتنی بڑھ گئی ہے آج کل میں،، مگر بالکل بری نہیں لگ رہی کتنی سوٹ کر رہی ہے ان پر"

رنعم روانی سے بولتی ہوئی سیرت کو بتانے لگی اسکی نظرہں ابھی بھی کھڑکی سے باہر لان میں کاشان پر ٹکی ہوئی تھی


"وہ تو میں اچھی طرح دیکھ رہی ہوں اور غور بھی کر رہی ہو"

سیرت مسکراتی ہوئی رنعم کو دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ رنعم نے ایک دم سیرت کو دیکھا۔۔۔ وہ چپ ہو گئی اور تھوڑی شرمندہ بھی


"پگلی کہیں کی،، جب اتنا ہی اچھا لگتا ہے،، اپنے بھیا کا بھائی تو پھر خفا کس بات پر ہو اس سے"

سیرت اب پیار سے اس کے گال کھینچتے ہوئے بولی


"آپی پلیز اب آپ مما کی طرح مت شروع ہو جائیے گا"

رنعم کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔۔ سیرت اس کے پاس آ کر برابر میں بیٹھ گئی


"تمہیں معلوم ہے کاشی بہت چاہتا ہے تمہیں"

سیرت رنعم کو بتانے لگے


"معلوم ہے مجھے مگر جب غصہ آ جائے تو انہیں پیار یاد نہیں رہتا صرف زبردستی کرنا ہے یا پھر رھونس جمانا یاد رہتا ہے اور ہرٹ کرنا یاد رہتا ہے"

رنعم نے اپنے ناخنوں کی نیل پالش کھرچتے ہوئے بولی


"ایک بات بتاؤ مجھے رنعم تمہاری ارینج میرج تو نہیں ہوئی نا کاشی کے ساتھ اور نہ ہی ایسا تھا کہ تمہیں اس کی نیچر کی پہلے سے خبر نہیں تھی۔۔۔ جب اس نے تم سے اظہار کیا ہوگا تم نے کیا سوچ کر اسے ہاں بولا۔ ۔۔ کیا تم اس وقت اس کے غصے سے واقف نہیں تھی،، میں نے تمہاری شادی سے پہلے دو بار نوٹ کیا کاشی کی آنکھیں دیکھ کر تم نے اپنے آپ کو اس کام کرنے سے روکا جو کاشی کو ناپسند تھا۔۔۔ یہ سب کچھ جاننے کے بعد تم نے شادی کی اس سے۔۔۔۔ میں مانتی ہوں اس نے غلط بی ہیو آپنایا تم سے شادی کے بعد مگر اس کے لیے تم نے بالکل صحیح اسٹیپ لیا جو چھوڑ کر آگئی۔۔۔ تمہاری دوری نے اسے تمہاری قدر دلائی جس سے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر اب تو وہ ٹھیک ہوگیا ہے،، شرمندہ بھی ہے اپنے کیے پر۔۔۔ تو اب تمہیں بھی نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے مما بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں گھر ایسے نہیں بسائے جاتے تھوڑا سا جھکنا پڑتا ہے رشتہ کو کھونے سے تو یہی بہتر ہے اور اپنے بھیا کی باتوں پر دھیان مت دیا کرو تمہارا بھیا پاگل ہے۔۔۔ اس لیے اگر کاشی جب بھی معذرت کرے تو شرافت سے مان جانا"

سیرت اپنا بڑی بہن ہونے کا فرض نبھا کر کافی کے دونوں خالی مگ لے کر اس کے روم سے چلی گئی


****


"کب سے میسج کر رہا ہوں یار کہ روم میں آ جاؤ اب مما کی محبت میں سونا بھی ان کے پاس شروع کر دو گی کیا"

سیرت کے کمرے میں آتے ہی ثوبان بیڈ پر لیٹا ہوا اس سے بولا


وہ ایک گھنٹے پہلے ہی یسریٰ کے پاس سے اٹھ کر اپنے روم میں آیا تھا اور سرسری انداز میں سیرت کو بھی روم میں چلنے کا کہا تھا مگر وہ سنی ان سنی کر کے وہی بیٹھی رہی۔۔۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ دس میسج سیرت کے موبائل پر کر کے اسے کمرے میں آنے کا بول چکا تھا اور وہ ابھی بھی یسریٰ کے بھیجنے پر اپنے روم میں آئی تھی


"اگر سونا شروع بھی کردو تو کیا۔۔۔ تم بس گھسو کاشی میں"

سیرت ایک دم تنک کر بولی۔۔ جس پر ثوبان کو ہنسی آئی وہ بیڈ سے اٹھ کر چلتا ہوا سیرت کے پاس آیا اور اسے بانہوں میں لیا


"یہ غلط بات ہے تم سے اجازت لے کر دو دن کاشی کے پاس اس لئے اس کے روم میں سویا کیوکہ ابھی اسے میری ضرورت ہے دوسرا اس کا اور رنعم کا معاملہ بیچ میں اٹکا ہوا ہے"

ثوبان اس کو بول کر بہلاتا بیڈ پر لایا


"تو ان کا معاملہ بیچ میں جب تک اٹکا رہے گا جب تک تم ان کے بیچ سے نہیں نکلو گے۔۔۔ قسم سے ثوبی، تم تو کاشی سے چپک کر ہی رہ گئے ہو۔۔۔ وہ اپنی بیوی کو منائے بھی تو کیسے،، تم ہر وقت اس کے روم میں ہوتے ہو"

سیرت گھورتے ہوئے ثوبان کو بولی


"ہاہاہا وہ پورا فنکار ہے مجھے پورا یقین ہے کل جب میں پولیس اسٹیشن سے واپس گھر آؤں گا تو تم مجھے یہ نیوز دے رہی ہوگی کہ ان دونوں کے بیچ میں سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے"

ثوبان بیڈ پر لیٹ کر، سیرت کو اپنے سے قریب کر کے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا ہوئے بولا


"اللہ کرے ایسے ہی ہو،، مما کو بھی فکر لگی رہتی ہے رنعم کی طرف سے۔۔۔۔ کتنی بار مما نے اسے کہا جاو شوہر ہے تمہارا مگر نہیں۔۔۔ دیکھو آج میں نے سمجھایا عقل میں بات بیٹھتی بھی ہے کہ نہیں"

سیرت کی بات پر ثوبان نے سیرت کا ہاتھ اپنے سینے سے اٹھا کر ہونٹوں پر لگایا


"سب ٹھیک ہو جائے گا وہ منالے گا رنعم کو۔۔۔ بس اب ان دونوں کی باتیں چھوڑو اور مجھے یہ بتاؤ تمہیں بےبی چاہیے کہ نہیں"

وہ اب سیرت کو بیڈ پر لٹا کر اسکے اوپر جھکتا ہوا پوچھنے لگا


"ثوبی تم نے بھی نہ کوئی بےہودگی میں ڈگری لی ہوئی ہے بس ایسے ہی شروع ہو جاتے ہو"

سیرت نے اس کے گال پر چپت لگاتے ہوئے کہا


"بس اس وقت مجھے یہ ڈگری کام میں لانے دو۔۔۔ ورنہ جتنا وقت اب تم مما کے روم سے یہاں آئے میں لگاتی ہو۔۔۔ اس طرح انوشے کے آنے میں دیر ہوجانی ہے"

ثوبان باری باری اس کے دونوں گالوں کو چومتے ہوئے کہنے لگا


"اب یہ انوشے کون ہے"

سیرت نے حیرت کا اظہار کیا


"ہماری بیٹی"

ثوبان اپنی بات مکمل کر کے دوبارہ اسے بولنے کا موقع دیے بغیر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے


****


"رنعم بی بی"

رنعم اپنے بیڈ پر لیٹی موبائل میں مدر کیئر سینٹر کی سائڈ کھولے مختلف ٹپ پڑھنے میں مگن تھی تبھی شاہدہ اس کے روم میں آئی


"ہاں بولو کیا ہوا" رنعم نے موبائل سے نظر اٹھائے بغیر شاہدہ سے پوچھا


"وہ جی کاشی صاحب کہہ رہی ہیں کھانا نہیں کھاؤ گا"

شاہدہ کی بات سن رنعم نے موبائل سے نظر اٹھا کر شاہدہ کو دیکھا


"تو میں کیا کروں" رنعم دوبارہ موبائل پر نظریں جماتے ہوئے بولی


"وہ جی مجھ سے بول رہے ہیں اپنی رنعم بی بی کو جا کر بتاؤ کاشی صاحب نے نہ رات کا کھانا کھایا،،، نہ صبح کا ناشتہ کیا اور ابھی بھی کھانے سے انکار کردیا۔۔۔ وہ جی صاف میرے منہ پر بول رہے ہیں اتنا بدذائقہ کھانا وہ بالکل نہیں کھا سکتے"

شاہدہ اب مسکین شکل بناتے ہوئے بولی


"صاف جھوٹ،، کل رات کو مما نے خود ان کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا بنایا۔۔۔ جو بھیا نے انہیں کھلایا۔۔۔ صبح ناشتے کے خالی برتن آپی ان کے کمرے سے باہر لے کر نکلی یعنی وہ صبح ناشتہ بھی کر چکے ہیں"

رنعم اپنا موبائل بیڈ پر رکھتی ہوئی بولی


"وہ تو جی مجھے بھی معلوم ہے یہ سب، مگر جو جو انہوں نے بول کر بھیجا کہ میں آپ کو جا کر بولو،،، میں تو وہی بتا رہی ہوں آپ کو۔۔۔۔ قسم سے رنعم بی بی کتنے نخرے دکھاتے ہیں آپ کے شوہر،،، آپ کی جگہ میں ہوتی ناں ڈنڈے سے اچھی طرح تواضع کر چکی ہوتی"

شاہدہ کی بات سن کر رنعم نے گھور کر اس کو دیکھا اور بیڈ سے اٹھ کر کچن میں چلی آئی جلدی جلدی کاشان کے لیے ویجیٹیبل سوپ تیار کیا اور شاہدہ کے ہاتھ میں تھما کر خود رات کا کھانا کاشان کے لئے تیار کرنے لگی۔۔۔ دو دن سے یسریٰ یا پھر سیرت میں سے کوئی اس کے لیے کھانا بنا رہی تھی کیوکہ وہ شاہدہ کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں کرتا تھا اور اس وقت یسریٰ کی دوست آئی ہوئی تھی اور سیرت اپنے روم میں شاید سو رہی تھی۔۔۔ رنعم یخنی چڑھا رہی تھی تبھی شاہدہ دوبارہ سوپ سے بھرا بول واپس لے کر آئی رنعم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا


"وہ جی کاشی صاحب کہہ رہے ہیں یہ سوپ جس نے بنایا ہے میں اسی کے ہاتھ سے پیو گا"

شاہدہ نے دانت نکالتے ہوئے رنعم کو بولا مگر رنعم کے سیریس ہو کر دیکھنے پر اس نے اپنے دانت اندر کر لئے


"چلو دوبارہ سوپ لے کر"

رنعم بولتی ہوئی کچن سے نکلی اب اس کا رخ کاشان کے روم کی طرف تھا

*****


"شاہدہ سوپ لے جا کر ٹیبل پر رکھو"

رنعم دروازے پر کھڑی شاہدہ کو بولنے لگی۔۔۔۔ کاشان اس وقت رنعم کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ رنعم کے اس کو دیکھنے پر وہ مسکرایا


دؤاں کے زیر اثر کل رات بھی اس پر نیند کا غلبہ طاری تھا مگر وہ نیند میں بھی رنعم کی خوشبو اپنے اس پاس بکھری ہوئی صاف محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ اسکے سیدھے کندھے سے تھوڑا نیچے،، گولی کے زخم پر،، رنعم کے ہونٹوں کا لمس،، اسے نیند بھی راحت بخش رہا تھا اور جب رنعم اپنی انگلی سے اس کے دل پر R لکھ رہی تھی،، اس چیز کو تو اس نے معلوم نہیں کتنے دنوں تک مس کیا تھا۔۔۔ رنعم کا اس کے سینے پر R بنانا اسے نیند میں بھی تقویت فراہم کر رہا تھا۔۔۔۔ صبح اٹھ کر کاشان سوچنے لگا وہ سب خواب تھا یا پھر حقیقت۔۔۔۔ مگر رنعم کے گلے کی چین اپنے بیڈ پر پڑی دیکھ کر وہ مسکرا اٹھا


"آپ کو سوپ پینا ہے یا پھر بھوکا رہنا ہے"

کاشان کو مسکراتا دیکھ کر وہ اس سے پوچھنے لگی


"اف کورس پینا ہے میری جان۔۔۔۔ بھوک لگ رہی ہے مجھے۔۔۔ اب بھلا میں خود کیسے پی سکتا ہوں۔۔۔۔ جب تم اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے میرے لیے سوپ بنا سکتی ہو تو ان ہی پیارے پیارے ہاتھوں سے مجھے یہ سوپ پلا بھی دو"

کاشان شاہدہ کی موجوگی کا لحاظ کیے بناء ڈھٹائی سے بولا۔۔۔۔ جس پر رنعم سے زیادہ خود شاہدہ شرماگئی


"بچے نہیں ہیں آپ،، جو میں اپنے ہاتھوں سے آپ کو سوپ پلاو۔۔۔ اگر زیادہ ہی اپنے لاڈ آٹھوانے کا دل چاہ رہا ہے تو شاہدہ پلا دے گی آپکو یہ سوپ"

رنعم اس کو گھورتی ہوئی روم سے جانے لگی


"سنو اپنی یہ چین لیتی جاؤ۔۔۔ رات میں جب تم سب کے سونے کے بعد،،، چوری چھپے میرے کمرے میں اگر میرے سینے کے زخم کا قریب سے معائنہ کر رہی تھی۔۔۔ تب یہ وہی گر گئی تھی میرے پاس"

کاشان اپنی شرٹ کی پاکٹ سے چین نکال کر رنعم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔۔۔ رنعم کا بے ساختہ ہاتھ اپنی گردن پر پڑا جہاں چین موجود نہیں تھی۔۔۔ اور شاہدہ اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا کر باقاعدہ ہنسنے لگی۔۔


"آف کاشان اس وقت جاگ رہے تھے اور میں۔۔۔ توبہ ہے"

وہ کاشان اور شاہدہ کو گھورتی ہوئی روم سے باہر نکلنے لگی


"ایک اور بات سنتی جاو جان"

کاشان کی آواز پر رنعم کے قدموں وہی رکے مگر وہ مڑی نہیں


"شوہر محرم ہوتا ہے بہت قریبی تعلق ہوتا ہے میاں بیوی کا آپس میں۔۔۔ اس لیے اگر اسے دیکھنے کا دل چاہے تو کھڑکی سے چھپ چھپ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں"

کاشان کی بات پر رنعم نے پلٹ کر اسے دیکھا تو وہ رنعم کو دیکھ کر ہی مسکرا رہا تھا شاہدہ بھی ہنسنے لگی رنعم چپ کر کے اس کے کمرے سے نکل گئی


"میں سوپ پلا دو آپ کو کاشی صاحب"

رنعم کے جانے کے شاہدہ مسکراتے ہوۓ کاشان سے پوچھنے لگی جس پر کاشان نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا


"زیادہ میری اماں بننے کی ضرورت نہیں ہے جاو جاکر اپنی رنعم بی بی کو بولو،، سارا سوپ کاشی صاحب کے کپڑوں پر گر گیا ہے اکر انہیں چینج کرائے"

کاشان نے گھورتے ہوئے شاہدہ کو ارڈر دیا


"مگر سوپ تو میز پر رکھا ہوا ہے" شاہدہ کاشان کی دماغی حالت پر شبہ کرتی ہوئی بولی


"جتنا بولا ہے اتنا کرو"

کاشان اس کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا اور شاہدہ منہ بنا کر وہاں سے چلی گئی


رنعم جب دوبارہ کمرے میں آئی تو کاشان کی شرٹ آدھے سے زیادہ سوپ سے خراب ہو چکی تھی۔۔۔ اسے معلوم تھا یہ سب کاشان نے جان بوجھ کر کیا ہے۔۔ رنعم نے گھورتے ہوئے اسے دیکھا وہ کندھے اچکا کر اسے دیکھنے لگا


"اب شاہدہ سے میں یہ والے لاڈ تو نہیں اٹھوا سکتا ناں۔۔۔ شاباش اچھے بچوں کی طرح میرے پاس آو اور میری شرٹ چینج کرو"

وہ نرمی سے رنعم کو دیکھتا ہوا بولا اور رنعم ضبط کرکے رہ گئی


"شاہدہ جلدی سے یہ سوپ کے برتن لے کر جاو اور جاتے جاتے کمرے کا دروازہ بند کرنا مت بھولنا"

رنعم وارڈروب سے کاشان کے لیے دوسری شرٹ نکال رہی تھی۔۔ کاشان تیز آواز میں شاہدہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔۔۔ شاہدہ جو کہ دوسرے کمرے میں تھی کاشان کی آواز پر اپنے دانتوں کی نمائش کرتی ہوئی سوپ کا بول لے گئی اور دروازہ بند کر کے چلی گئی


"چلیں شرٹ اتاریں اپنی"

رنعم صاف محسوس کر سکتی تھی کہ کاشان اپنے چہرے پر آئی مسکراہٹ چھپا رہا ہے


"تم قریب آکر اتار دو،، میرے دوبارہ خود سے کوئی کام کرنے سے پھر کچھ غلط نہ ہو جائے"

وہ رنعم کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔۔ کتنے دنوں بعد آج وہ نظر آئی تھی کاشان کا دل چاہا وہ اسے مزید قریب سے دیکھے۔۔۔ رنعم شرٹ ہاتھ میں تھامے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر کاشان کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔۔۔ کاشان اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا رنعم بالکل سیریس ہو کر نظریں نیچے جھکائے شرٹ کے بٹن کھولنے میں مصروف تھی۔۔۔ کاشان نے اپنا الٹا ہاتھ آگے بڑھا کر رنعم کے گلے سے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھا،،، رنعم نے نظریں اٹھا کر کاشان کو دیکھا


"ڈسٹرب کر رہا ہے یہ دوپٹہ اس وقت"

کاشان رنعم کو دیکھ کر بولنے لگا پھر ایک دم سنبھلا


"میرا مطلب ہے تمہیں دوپٹہ ڈسٹرب کرے گا ناں شرٹ پہناتے ہوئے"

کاشان مسکراتا ہوا بولا رنعم اب کھڑی ہو کر آرام سے اس کی شرٹ اتارنے لگی۔۔۔ مگر سیدھے ہاتھ پر پٹی بندھے کاشان کے سینے پر اس کی نظر پڑی تو بے ساختہ رنعم اس کے زخم کو چھو کر دیکھنے لگی


"پریشان مت ہو میری جان،، میں اب بالکل ٹھیک ہوں"

کاشان اس کی دلی کیفیت کو سمجھتا ہوا رنعم کو دیکھ کر بولا تو وہ ہوش میں آئی


"جانتی ہو،، بھیا اکثر بتاتے ہیں اور خود میرا اپنا بھی تین مہینے کا تجربہ ہے، کافی ڈھیٹ ہے آپ"

رنعم کے اس طرح بولنے پر کاشان مسکرایا۔۔۔ وہ اسے شرٹ پہنچائے بغیر واشروم چلی گئی،، واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک برتن تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا اسپنج کو پانی میں ڈبو کر اس کو نچوڑتی ہوئی،،، وہ کاشان کے بازو صاف کرنے لگی۔۔۔۔ اسپنج کی ہی مدد سے بہت احتیاط سے اب وہ کاشان کا سینہ صاف کر رہی تھی۔۔ کاشان خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا پھر اسے کچھ یاد آیا


"مسز کاشان مجھے بےبی گرل دینے والی ہیں یا بے بی بوائے"

وہ رنعم کے پیٹ پر ہاتھ رکھے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ کاشان کی بات پر رنعم کا ہاتھ وہی تھم گیا۔۔۔ اسپنج کو برتن میں ڈال کر اب وہ ٹشو سے اپنے ہاتھ صاف کرتی ہوئی بولی


"میں تو بیٹے کی دعا کرتی ہوں"

رنعم کی بات سن کر کاشان مسکرایا


"چاہے بیٹا ہو یا بیٹی ماں باپ کو تو اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے۔۔۔ میں بہت خوش ہوں ہم دونوں کے بیچ اس نئے اضافے سے"

کاشان کی آنکھوں میں سچے خوشی کے رنگ چھلک رہے تھے رنعم اس کو احتیاط سے شرٹ پہناتے ہوئے بولی


"نہیں ہمارا بیٹا ہی ہونا چاہیے،، اگر مکافات عمل کے طور پر،، آپ کا کیا ہماری بیٹی کی طرف لوٹا تو اسے ہم دونوں کو ہی تکلیف ہوگی"

رنعم شرٹ کے بٹن بند کرتی ہوئی بولی تبھی کاشان نے زور سے رنعم کا بازو پکڑا جس پر رنعم نے کاشان کی طرف دیکھا۔۔۔ کاشان کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے جیسے رنعم کی بات سے اسے تکلیف ہوئی ہو


"ایسا کرو کچن سے ابھی چھری لے کر آؤ اور ایک ہی بار میرے دل میں اتار دو۔۔۔ یوں پل پل کی اذیت سے اب یہی بہتر ہے"

کاشان نے اس کا بازو چھوڑا اور اسے بیڈ پر اپنے قریب بٹھایا


"رنعم کیا تم سب کچھ بھلا کر میرے ساتھ ایک نئی شروعات نہیں کر سکتی۔۔ پلیز یار اپنے دل سے بدگمانی نکال دو۔۔۔ میں تمہیں پیار کے ساتھ اعتبار بھی دوں گا تم صرف ایک بار یقین کر کے دیکھ لو مجھ پر،، پلیز ایک موقع دو ہم اپنے آنے والے بچے کے ساتھ ایک نئی شروعات کرے گے میں وعدہ کرتا ہوں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا ایک اچھا شوہر ایک اچھا باپ بننے کی۔۔۔ پلیز ایک بار مجھ پر یقین کرلو"

کاشان اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے اسے التجا کرنے لگا رنعم کا دل چاہا ایک بار دوبارہ اس پر یقین کر کے دیکھے،، خود کے لیے اور اپنے بچے کے لیے۔۔۔ اس نے کاشان کے سینے پر اپنا سر رکھا


"تھینک یو"

کاشان نے رنعم کی پیشانی پر اپنے لب رکھکر آنکھیں موند لی


****


9 ماہ بعد


آج وہ بہت خوش تھا کیوکہ ثوبان نے تھوڑی دیر پہلے اسے خبر سنائی تھی کہ اس کے گھر میں ایک ننھی پری آئی ہے۔۔۔ کاشان بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر بے حد خوش تھا اب اسے ایئرپورٹ سے ڈائریکٹ ہاسپٹل پہنچنے کی جلدی تھی۔۔۔ آفس کے کام کے سلسلے میں تین دن پہلے وہ دوسرے شہر گیا تھا۔۔ب رنعم کی ڈیلیوری میں ایک ہفتہ باقی تھا اس لیے وہ رنعم کو ثوبان کے پاس چھوڑ کر چلا گیا تھا مگر کل آدھی رات رنعم کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی جس کے سبب اس کو ہسپتال لے جانا پڑا آج صبح ہی اس نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا۔۔۔ ہسپتال کے پاس ٹیکسی رکی،، کاشان چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہسپتال کے اندر جانے لگا جہاں اس کی بیوی بیٹی اور ڈھیر ساری خوشیاں اس کی منتظر تھی


"کیا میرے جانے کا ویٹ کر رہی تھی میرے جاتے ہی ہماری بیٹی کو دنیا میں لے کر آگئی"

روم میں آنے کے بعد اس نے احتیاط سے رنعم کو بانہوں میں لیتے ہوئے کہا


ان نو مہینوں میں کاشان نے رنعم کو صرف یہ پوچھ پوچھ کر تنک کیا ہوا تھا کہ ہمارا بےبی دنیا میں کب آئے گا۔۔۔ رنعم کے چار ماہ کمپلیٹ ہوئے تو اس نے بچے کی ساری شاپنگ کمپلیٹ کرلی،،، چھٹے ماہ اس نے اپنے بچے کو روم سیٹ کروا دیا اب اس کا ایک ایک دن انتظار کرنا مشکل تھا


"کاشان آپ بھی نا۔۔۔ اتنے دنوں سے صبر نہیں ہو رہا تھا اور اب جبکہ ایک ہفتے پہلے آپ کی بیٹی دنیا میں آگئی ہے تو ایسے کہہ رہے ہیں"


رنعم نے کاشان کو دیکھتے ہوئے کا کاشان نے مسکرا کر اس کے سر پر اپنے ہونٹ رکھے


"مذاق کر رہا تھا، بہت خوش ہوں میں آج۔۔۔ سب کہاں پر ہیں اور میری بیٹی کہاں پر ہے"

کاشان نے خالی جھولے کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"بھیا اور آپی نرسری گئے ہیں انکیپیٹر سے ہماری بیٹی کو لینے۔۔۔ مما کو تھوڑی دیر کے لئے گھر بھیجا ہے وہ رات سے ہی یہاں پر تھی"

رنعم کی بات سن کر کاشان نے دوبارہ اسے بیڈ پر لٹایا۔ ۔۔ کاشان کی نظر رنعم کے سوجھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جس پر ڈرپ لگی ہوئی تھی


"ویسے تو میرا اٹھ بچوں آپ کا پکا ارادہ تھا مگر تمہاری تکلیف کا احساس کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں میرے لئے میری ایک بیٹی ہی کافی ہے"

وہ رنعم کیا ہاتھ چومنے کے لئے نیچے جھکا تب ہی روم کا دروازہ کھلا ثوبان اور سیرت اندر داخل ہوئے۔۔۔ کاشان ان دونوں کو دیکھ کر سیدھا ہوا


"بس موقع نہ چھوڑا کرو تم کوئی"

سیرت کی زبان پھسلی مگر ثوبان کے گھورنے پر وہ چپ ہوگئی


"غلط موقعے پر تم ہمیشہ ان ٹپکتی ہو ظالم سماج بن کر"

اور کاشان نے کہا چپ رہنا سیکھا تھا وہ ثوبان کے گلے لگتے ہوئے سیرت سے بولا


اب وہ سیرت سے مبارکباد وصول کرنے کے بعد اپنی بیٹی کو سیرت کی گود میں سے لے کر،،، اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا


"کیوٹ ہے نا"

سیرت نے کاشان کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"بہت زیادہ ماشاءاللہ"

کاشان اپنی بیٹی کا ماتھا چومتا ہوا بولا


"شکر ہے میری بہن پر چلی گئی اپنے باپ پر نہیں جبھی کیوٹ ہے"

سیرت نے مسکراتے ہوئے کہا ثوبان اور رنعم بھی مسکرا دیے


"اسی لیے میں دن رات دعا کرتا ہوں میرا آنے والا بھتیجا اپنی ماں کی بجائے اپنے باپ پر جائے تبھی وہ کیوٹ بچوں کی لسٹ میں شامل ہوسکتا ہے" کاشان شرارت سے سیرت کو دیکھ کر کہا جس پر سیرت نے کاشان کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔ ثوبان اور رنعم ایک بار پھر ہنس دئے


سیرت کی پریگنینسی کو 6 ماہ ہوچکے تھے اور سیرت نے اپنی جلد باز طبعیت کی وجہ سے فوراً آلٹا ساونڈ میں بے بی بوائے کا معلوم بھی کر لیا تھا


"یار یہ اتنی چھوٹی کیوں ہے بڑی کب ہوگی"

کاشان اپنی بیٹی کو گود میں لے کر رنعم کے پاس بیٹھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ اس کی بات سن کر رنعم کاشان کو حیرت سے دیکھنے لگی جب کسی سیرت نے اپنا سر پکڑ لیا


"تم کیا چاہتے ہو یہ تین گھنٹے کی پیدا ہوئی بچی ابھی تمہاری گود سے نکل کر بھاگنے لگ جائے"

سیرت کی بات پر سب ہنستی ہے


"ویسے ثوبی تم کاشی کی بیٹی کے ماموں بننا چاہو گے یا تایا"

سیرت نے ثوبان کو دیکھتے ہوئے پوچھا


"یار ویسے تو اگر کوئی ماموں بنا جائے تو اچھا نہیں لگتا مگر میں اپنی انوشے کے لئے ماموں بننے کو تیار ہوں" ثوبان نے کاشان کی گود سے بچی کو لیتے ہوئے اس کا نام بھی منتخب کر لیا اب ثوبان انوشے کو گود میں لیے سیرت کے پاس بیٹھا ہوا تھا سیرت اور ثوبان دونوں بچی سے باتیں کر رہے تھے۔۔ جبکہ کاشان مسکراتا ہوا ثوبان اور اپنی بیٹی انوشے کو دیکھ رہا تھا کاشان کو معلوم تھا بےشک اس کا بھائی اس کی بیٹی کا ماموں بن جائے مگر وہ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے

"اتنا انمول تحفہ دینے کے لیے شکریہ"

کاشان رنعم کے کندھے کے گرد اپنے بازو حاہل کرتے ہوئے سرگوشی سے بولا

"پیار کے ساتھ ساتھ اعتبار دینے کے لیے بھی شکریہ"

رنعم نے آئستہ سے کہتے ہوئے کاشان کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا

ختم شدہ 


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Basilsila E Ta Azal Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Basilsala E Ta Azal written by Zeenia Sharjeel .Basilsila E Ta Azal by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages