Woh Munkar E Ishq By Kinza hayat Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 6 June 2024

Woh Munkar E Ishq By Kinza hayat Complete Short Story Novel

Woh Munkar E Ishq By Kinza hayat Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readinga...

Woh Munkar E Ishq By Kinza Hayat Complete Novel Story

Novel Name: Woh Munkar E Ishq  

Writer Name:  Kinza Hayat

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


'' اُٹھ بھی جاؤ سورج سر پہ نکل آیا ہے''۔ شائستہ بیگم نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ '' ہائیں ؟؟؟ کہاں ہے ؟؟ کہاں ہے؟؟ حورین اپنے بال جھاڑتی ہونّقوں کی طرح بیڈ پر اچھلنے لگی۔ '' ارے بیوقوف لڑکی تمہارے سر پہ نہیں آسمان کے سر پہ''۔ شائستہ بیگم نے بیٹی کی حرکت پہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا حورین کی نیند کا تو پتہ ہی تھا۔ '' ارے چاچی بیگم یہ کیوں صبح صبح پاگل بندریا کی طرح بال پکڑے چھلانگیں کھا رہی ہے؟؟ کمرے سے گزرتا عارش دانت نکالے عادت کے مطابق اسکی کلاس لینے آپہنچا۔ '' بس اسی کی کمی تھی۔۔۔۔ یہی۔۔ یہی انسلٹ کروانا ہوتی ہے بس آپ نے وہ بھی اس آگ کے گولے کے سامنے''۔ حورین بھوکی شیرنی کی طرح عارش کی طرف لپکی۔ '' ارے میں نے کیا کِیا؟؟ شائستہ بیگم نے عارش کو بچاتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہا۔ ''آپ ٹھیک سے نہیں جگا سکتی تھیں مجھے اور تم ۔۔۔ تم کیا ہر وقت میری جاسوسی میں لگے رہتے ہو چلو جاؤ یہاں سے صبح صبح موڈ خراب کر دیا''۔ حورین کا غصّہ عروج پہ پہنچ چکا تھا۔ '' ارے ارے ریلیکس  یار تم تو خوامخواہ غصّہ ہو رہی ہو میں تو مزاق کرہا تھا یار''۔ عارش نے صفائی پیش کرتے ہوئے جان بچانی چاہی۔ '' صبح صبح غصّہ نہیں ہوتے میری جان ورنہ سارا دن برا گزرتا ہے، چلو شاباش فریش ہو کر جلدی سے آجاؤ باہر ناشتہ لگا ہے''۔ شائستہ بیگم بھی اسکا غصّہ کم کرنے کو آگے بڑھیں۔ ''ہونہہ۔۔۔'' وہ منہ بناتی بناتی واش روم کی طرف چل دی تو عارش اور شائستہ نے بھی شکر ادا کرتے باہر کا رخ کیا۔ 

  ٭٭٭٭٭٭٭

'' حورین کو دیکھنے کتنے بجے آنا ہے انہوں نے؟؟ غضنفر صاحب نے بریڈ پر جام لگاتی شائستہ بیگم سے پوچھا۔ ''حورین کو دیکھنے آرہا ہے کوئی؟؟ شائستہ بیگم جواب دیتی اس سے پہلے ہی ثانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ ''جی بھابھی کل رات ہی کال آئی تھی بس ابھی آپکو بتانے ہی لگی تھی۔ سوچا ناشتے کی ٹیبل پر ہی سب کو بتا دوں گی''۔ شائستہ بیگم نے تفصیل بتاتے کہا۔ '' گڈ مارننگ بابا جانی، گڈ مارننگ چاچو ، چاچی ''۔ حورین نے ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے عادتاً باآواز بلند کہا۔ ''آگئی میری پرنسِز'' غضنفر صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ '' جی بابا جانی''۔ حورین نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ '' بھئی تیار ہو جائیں آپی۔۔۔ آپکو حلال کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے''۔ اشعر نے اسے چھڑتے ہوئے اطلاع پہنچائی۔ ''کیا مطلب؟؟ حورین نے نا سمجھی سے پوچھا۔ '' اشعر تم تو نا بس فضول ہی بولا کرو ''۔ ثانیہ بیگم نے اپنے بیٹے کو ڈپٹا۔ ''میں نے کیا کردیا''۔ اشعر نے مظلوم شکل بناتے ہوئے احتجاج کیا۔ ''چپ بیٹھو ''۔ ثانیہ بیگم نے گھورتے ہوئے اشارہ کیا۔ ''کچھ لوگ آرہے ہیں تمہارے رشتے کے لئے بس اسی کا بتا رہا ہے اشعر''۔ شائستہ بیگم نے شفقت بھرے لہجے میں تفصیل بتائی۔ '' امّی بیگم لیکن۔۔۔۔ بابا جانی ابھی تو میری اسٹڈیذ چل رہی ہیں اتنی جلدی کیا ہے؟؟؟ حورین نے رخ غضنفر صاحب کی جانب موڑ برا سا منہ بناتے کہا۔ ''ابھی ناشتہ تو کرلو بعد میں ڈسکس کرلیں گے یہ سب''۔ ضیافت صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ '' آپ لوگ ہی کریں ناشتہ میں لیٹ ہو رہی ہوں کالج سے بائے۔۔''۔ حورین اپنا بیگ اٹھاتی باہر کی طرف چل دی۔ '' ارے سنو تو۔۔۔۔۔ یہ لڑکی بھی نہ کچھ نہیں کھاتی''۔ شائستہ بیگم نے پریشانی سے کہا جبکہ اشعر بھی حورین کے پیچھے ہولیا۔ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟ ڈرائیور کہا ہے؟؟ عارش کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیکھ حورین نے تب کر پوچھا۔ '' اطلاعاً عرض ہے کہ ڈرائیور ایک ہفتے کی چھٹی پر ہے''۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے اشعر نے اسے یہ منحوس خبر سنائی۔ ''افف۔۔۔۔ کیا عزاب ہے، اور تم پیچھے نہیں بیٹھ سکتے تھے ''۔ حورین نے اشعر کو گھورا۔ '' بیٹھ جاؤ اب یار سب لیٹ ہو رہے ہیں''۔ عارش نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ '' ہونہہ۔۔۔''۔ حورین بھی منہ بناتی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ '' اشعر تم نے کبھی کسی بندریا کو بال پکڑے بیڈ پر چھلانگیں لگاتے دیکھا ہے''۔ عارش نے اشعر کو مخاطب کرتے ہوئے نظریں بیک مرر پر پرکوز کرتے حوریں کی صبح والی حرکت یاد دلائی۔ ''گاڑی تیز چلاؤ میں لیٹ ہو رہی ہوں''۔ حورین کی آنکھیں غصّہ سے لال تھی۔ '' چلا ہی رہا ہوں ''۔ عارش نے ہنسی دباتے کہا۔ '' گڈ اور چلاؤ وہ بھی خاموشی سے ورنہ چاچو کو ایک میسیج جائے گا تمہاری فضول خرچی کی لسٹ کا پھر بھگتنا خود''۔ حورین اطمینان سے کہتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ '' اس چیز کا مزاق نہیں چل رہا حور، تم ایسا نہیں کرو گی''۔ اب کی بار تپنے کی باری عارش کی تھی۔ '' تو ذرا تمیز اور خاموشی سے ڈرائیو کرو''۔ حورین نے آنکھوں پہ گلاسز سجاتے حکم جھاڑا۔ دونوں کی نوک جھوک سے محضوض ہوتے اشعر کے تو دانت ایسے باہر نکلے ہوئے تھے جیسے کسی نے اسے سزا دے رکھی ہو۔ '' اترو نیچے آگیا تمہارا کالج''۔ عارش نے حورین کو اتار کر جان چھڑائی تو اسکی سانس میں سانس آیا۔

سرونگ ٹرالی سجاتی شائستہ بیگم کے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔ '' لوگ تو بہت اچھے لگ رہے ہیں''۔ ثانیہ بیگم مسکراتے ہوئے شائستہ بیگم سے گویا ہوئیں۔ '' جی بھابھی لڑکا بھی اچھا ہے سب سے بڑی بات اپنا بزنس سیٹ ہے اسکا''۔ شائستہ بیگم نے جلدی میں تبصرہ کرتے کہا۔ '' اچھا جلدی کریں، اور یہ حورین تیار ہوئی کہ نہیں؟؟ میں دیکھ کر آتی ہوں''۔ ثانیہ بیگم پوچھتی خود ہی حورین کے کمرے میں چل دی۔ '' یہ کیا پہن لیا؟؟ کمرے میں داخل ہوتے ہی ثانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ ''کیا ہو گیا چاچی، ٹھیک نہیں ہے کیا؟؟ اشعر اور عارش نے مشورہ دیا یہ پہننے کا''۔ حورین نے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بتایا۔ ''ارے جینز شرٹ کون پہنتا ہے ایسے موقعے پر پاگل لڑکی؟ اشعر اور عارش کی تو میں بعد میں خبر لونگی تم جاؤ جلدی سے یہ ڈریس چینج کر کے آؤ''۔ ثانیہ بیگم نے اسکے وارڈروب سے شلوار قمیض کا ڈیسینٹ سا جوڑا اسے تھمایا۔ "میں جا رہی ہوں پانچ منٹ میں آ جاؤ''۔ ثانیہ بیگم جلدی میں کہتی چلی گئی۔ '' تم لوگوں سے تو بعد میں نمٹوں گی''۔ حورین پیر پٹختی بدلے کی منصوبہ بندی کرتی تیار ہونے لگی۔ ''ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری حور چلو شاباش ٹرالی لے کے آجاؤ ڈرائینگ روم میں''۔ حورین کو کچن میں اینٹر ہوتا دیکھ شائستہ بیگم اسکی نظر اتارتی پیار سے کہتی باہر نکل گئیں۔ '' السلام و علیکم ''۔ نروس سی حورین ٹرالی گھسیٹتی سب کو سلام کرتی روم میں اینٹر ہو چکی تھی۔ '' ماشاءاللہ آئیے بیٹا کیسی ہیں آپ؟ صوفے پہ بیٹھی عمر رسیدہ لیکن ہیوی میک اپ کے ساتھ فل فیشن میں لپٹی خاتون نے اسے پیار کرتے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ '' بھئی ہمیں تو آپکی بیٹی بہت پسند آئی ہے ہماری طرف سے ہاں ہے بس آپ بھی جلدی سے ہاں کر دیں''۔ ساتھ ہی بیٹھی ڈیسینٹ سی خاتون جو دکھنے میں لڑکے کی ماں لگ رہی تھی مٹھاس بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔ ''ارے اتنی جلدی کیسے''۔ شائستہ بیگم نے گھبراہٹ اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ غضنفر صاحب کی طرف دیکھا۔ ''ہم اور کچھ نہیں سنیں گے بس بھائی صاحب ہمیں جواب چاہئے بس ابھی وہ بھی ہاں میں''۔ لڑکے کے ساتھ بیٹھے شخص جو دکھنے میں لڑکے کے ابا لگ رہے تھے پر جوش ہوکر کہنے لگے۔ ''اب آپ اتنا کہہ رہے ہیں تو ہماری طرف سے بھی ہاں ہے''۔ غضنفر صاحب نے بھی فیصلہ سنا دیا تھا۔ ''لیجئے منہ میٹھا کریں''۔ سب لوگ منہ میٹھا کرنے لگے جبکہ حورین نے کن اکھیوں سے لڑکے کو دیکھا جس سے ابھی ابھی اسکا رشتہ طے ہوا تھا جسے دیکھتے ہی اسکے پیروں تلے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی حورین کی سٹی گم ہو چکی تھی اور مارے خوف کے اسکی آنکھیں پھیل گئی تھی۔'' ہمدان آفندی''۔ بے ساختہ حورین کے منہ سے اسکا نام نکلا جو فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

''تڑاخ''وہ بلا خوف و خطر زنّاٹے دار تھپڑ اسے رسید کر چکی تھی وہ بھی پورے کالج کے سامنے ۔ '' ہاؤ ڈئیریو''۔ شعلہ بار نظروں سے گھورتے ہمدان آفندی نے غصّہ سے مٹھی بھینچتے کہا۔ '' ہاؤ ڈئیریو؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی ہاں''۔ پر تیش لہجے میں کہتی حورین کی آنکھیں بھی غصّہ کی شدت سے سرخ ہو رہی تھی اسکا بس چلتا تو سامنے کھڑے شخص کو تین چار تھپڑ اور جڑ دیتی۔  '' یہ تم نے اچھا نہیں کیا  مس حورین غضنفر''۔ وہ دانت پیستا انگلی اسکی طرف کرتے کہہ رہا تھا۔ '' ہاں واقعی اچھا نہیں کیا تم جیسوں کا دماغ تو جوتوں سے ٹھیک کرنا چاہئے تمہں تو میں تھپڑ مارنے کے لئے بھی چھونا پسند نہ کروں میرے سارے ہاتھ گندے ہو گئے ''۔ حورین ازلی لاپروائی سے کہتی اپنے ہاتھ رگڑ کر صاف کرنے لگی۔ ''تمہیں تو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ یاد رکھو گی''۔ وہ قہرآلود نظر اسپے ڈالتا ہاتھ میں پکڑے نوٹس مٹھی میں دبوچتا جا چکا تھا۔ '' کن سوچوں میں بیٹھی ہیں دلہن صاحبہ؟؟ عارش نے اسکے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ ہوش میں آئی تھی۔ '' یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ یہ پورے ایک سال بعد کہاں سے آگیا؟؟ حورین دل میں سوچتی فکر مند ہو رہی تھی۔ '' ہیلو''۔ عارش نے اس بار زور سے چٹکی کاٹی تو حورین ہوش میں آئی۔۔ ''آؤچ۔۔۔دماغ ٹھیک ہے تمہارا پاگل انسان''۔ حوریں نے جل بھن کر عارش کو گھورا۔ '' میرا تو ٹھیک ہے تم ہی حسن کی دیوی بنی ابھی سے کسی کی سوچوں میں گم بیٹھی ہو''۔ عارش نے دانت نکالتے اسے چھیڑا۔ '' عارش۔۔۔ میں۔۔۔وہ۔۔ '' حورین کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے کہے پریشانی اسکے لہجے سے صاف جھلک رہی تھی۔ '' شاباش ہکلانے کے دورے بھی پڑنے لگ گئے گڈ گڈ''۔ عارش تھا باز کیسے رہتا اسے تنگ کرنے سے۔ '' دفع ہو۔۔ میں یہاں اتنی پریشان بیٹھی ہوں اور تم''۔ حورین جھنجھلا کہ رہ گئی۔ '' کیا ہوا پریشان کیوں ہے ہماری بندریا''۔ عارش نے سنجیدگی سے کہا۔ '' بات ہی ایسی ہے عالی قدر آگ کے گولے''۔ حورین نے بھی سنجیدگی سے لیکن تنزیہ جواب دیا۔ '' اچھا بتاؤ کیا بات ہے''۔ اب کی بار معاملے کی سنگینی کو سمجھتے عارش سچ میں سنجیدہ ہوا تھا۔ '' عارش۔۔۔ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی پلیز مجھے اس شخص سے بچا لو کسی طرح''۔ حورین نے التجاء کرتے ہوئے کہا۔ '' ہیں؟؟؟ کیوں آخر ریزن کیا ہے اچھا بھلا تو ہے ہمدان اور فیملی بھی اچھی ہے کوئی معقول وجہ بھی تو ہو''۔ عارش اسکی بات پہ حیران ہوا تھا۔ '' کہیں پھر سے تو میری محبت کا بھوت نہیں سوار ہو گیا تمہارے دماغ پہ''۔ عارش نے حورین کے دل پہ چوٹ کی۔ ''عارش۔۔۔'' حورین نے اسے غصے سے گھورا۔ '' ایک بار تم سے بھیک مانگی تھی غلطی ہو گئی تھی مجھ سے بار بار تم جیسے کم ظرف انسان سے بھیک مانگنے والی نہیں ہوں میں وہ بھی اپنی محبت کی لہٰذا اس خوش فہمی سے باہر نکل آؤ''۔ حورین نم ہوتی آنکھوں کو قا بو کرتی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی جبکہ اس بار عارش کے دل میں پھانس سی چبھی تھی۔ '' ہمدان سے کیا مسئلہ ہے پھر تمہیں؟؟ عارش سیدھا مدعے پہ آیا۔ '' وہ کالج میں لاسٹ ائیر اسکے ساتھ چھوٹا سا پنگا ہو گیا تھا، وہ مجھے دھمکی دے کر گیا تھا کہ مجھسے ایسے نہیں چھوڑے گا میں تو سب بھول گئی تھی لیکن اچانک سال بعد وہ ایسے واپس آگیا اور میرا رشتہ بھی ہوگیا اس سے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے عارش''۔ حورین تفصیل بتاتی روہانسی ہو گئی تھی۔ '' اچھا تو یہ بات ہے لیکن پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے؟ ایسی باتیں چھپانے کی نہیں ہوتی حور''۔ عارش نے اسے ڈپٹا ہی تو تھا۔'' اچھا اب ذیادہ میرے ابا بننے کی ضرورت نہیں ہے مسئلہ کا حل بتاؤ''۔ حورین نے اسکی ڈانٹ پہ کان نا دھرتے ہوئے کہا۔ '' ہممم۔۔۔۔ سوچتے ہیں کچھ''۔ عارش نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجاتے کہا۔ 

ہیلو ہمدان''۔ عارش نے کچھ سوچتے ہوئے ہمدان کو کال ملائی تھی اور اب وہ بالکونی میں کھڑا اسکی آواز سن رہا تھا۔ '' ہیلو۔۔۔ ہوز دیئر''۔ ہمدان لیپ ٹاپ پر تیزی سے کچھ ٹائپ کرتے پوچھ رہا تھا۔ '' عارش ہیئر''۔ عارش نے دوستانہ انداز میں اپنا تعارف کروایا۔ '' اوو۔۔۔ عارش کیسے ہو یار''۔ ہمدان بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔ '' میں ٹھیک ہوں کیا کر رہے ہو میں سوچ رہا تھا ڈنر ساتھ کرتے آج''۔ عارش نے بے تکلفی سے کہا۔ ''وائی ناٹ۔۔۔ اس سے اچھا کیا ہوگا حور کے بارے میں بھی جاننے کا موقع مل جائے گا''۔ ہمدان کے حورین کو حور کہنے پہ عارش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ ''حور بھی ہوگی نا ساتھ''۔ ہمدان کی پر جوش آواز عارش کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ '' نہیں حور کا کیا کام بھلا۔۔۔ آئی مین میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا اکیلے میں اس لیئے''۔ عارش کا جملہ ادھورا رہ گیا تھا۔ '' اوہ ۔۔۔ اٹس اوکے تم پلیس اور ٹائم ٹیکسٹ کردو میں آجاؤں گا''۔ ہمدان نے اسے خوشنما انداز میں جواب دیا اور ساتھ ہی کال کٹ کردی۔ وہ دسمبر کی ایک سرد اور خوبصورت شام لان سے اٹھتی گلاب اور موتیے کی خوشبو حورین کی سانسوں کو معتر کر رہی تھی کبھی وہ کسی پھول کی خوشبو فیل کرتی کبھی کسی کی، اتنی سردی حورین سے برداشت نہ ہوتی تھی لیکن جانے آج اسے سردی فیِل ہی نہیں ہو رہی تھی وہ تو آج جیسے دنیا جہان سے بیگانی ہو رہی تھی عارش کب سے بالکونی میں کھڑا اسکی ہر ہر ادا نوٹ کر رہا تھا۔ کمر سے نیچے جاتے کھلے سلکی بالوں میں گلاب کا پھول توڑ کر سجاتی وہ واقعی کوئی حور لگ رہی تھی۔ وہ کب سے یونہی مسکراتے ہوئے پھولوں کو دیکھتی لطف اندوز ہو رہی تھی تبھی جانے کب عارش اسکے عین پیچھے آن کھڑا ہوا تھا، عارش خود بھی نہیں جانتا تھا اسے کونسی قّوت یہاں کھینچ لائی تھی۔ حورین اندر جانے کو پلٹی ہی تھی کہ عارش سے اسکی ٹکر ہوئی وہ اسکے سینے سے جا لگی تھی۔ جہاں حورین بوکھلا کر پیچھے ہٹی تھی وہیں عارش کو بھی  ہوش آیا تھا۔ '' تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو''۔ حورین نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ '' میں۔۔۔۔ وہ میں تو بس یہاں سے گزر رہا تھا''۔ عارش نے  بات بنائی۔ '' گزر رہے تھے یا ۔۔۔۔۔'' حورین نے نظریں چراتے کہا۔ عارش نے اسکی ادا پہ اسے غور سے دیکھا حورین کی آنکھوں میں آج اسے الگ ہی چمک محسوس ہوئی، لبوں پرخوبصورت مسکان مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ '' یا کا کیا مطلب؟؟ تم کب سے باتیں ادھوری چھوڑنے لگ گئی''۔ '' میرا مطلب ہے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے کیا ورنہ گزرتے ہوئے تمہارا رخ دوسری طرف ہونا چاہیے تھا''۔ حورین نے اسکی آنکھوں میں کچھ جانچنا چاہا تھا۔ '' لگتا ہے بندریا کا دماغی توازن الٹ چکا ہے وہ بھی پوری طرح ''۔ عارش نے قہقہہ لگاتے اسکا مزاق اڑایا ۔ '' تمہیں کیسے پتہ''۔ حورین بھی ہنس رہی تھی اب تو عارش کو یقین ہو چکا تھا کہ اسکا دماغ پلٹ چکا ہے۔ '' خدا کا واسطہ ڈرا کیوں رہی ہو نہ کوئی تنز نہ غصہ خیر تو ہے''۔ عارش کو تشویش  ہوئی۔ '' بس ایسے ہی ''۔ حورین نے شرماتے ہوئے کہا جس پہ عارش اچانک ٹھٹھکا تھا۔ '' حور۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو یار''۔ عارش کو حور کا یوں شرمانا زہر اور عجیب لگا تھا۔ '' عارش میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں''۔ حورین نے نظریں جھکائے اسی خوبصورت مسکان کے ساتھ کہا۔ '' ہاں ہاں کہو ''۔ عارش اسکی بات جاننے کے لئے بے چین ہوا۔ '' عارش میں۔۔۔۔'' وہ پل بھر کو رکی۔ '' عارش مجھے کسی سے محبت ہو گئی ہے، اور پتہ ہے کب سے؟ بلکہ مجھے تو خود ہی نہیں پتہ کب اور کیسے لیکن میرا دل کرتا ہے میں ہر پل اسے دیکھوں اسے محسوس کروں، میں۔۔۔ میں اپنی ساری لائف اسکے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں''۔ وہ ایکسائیٹڈ ہوتی عارش کو بتا رہی تھی۔ '' عارش میرا دل کرتا ہے میں اسکا ہاتھ تھام کر جھومتی رہوں''۔ وہ بچوں کی طرح کہتی گھوم رہی تھی بلیک کلر کا لانگ فروک اور چوڑی دار پہنے بالوں میں سرخ گلاب سجائے وہ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اسکا دیوانہ ہو سکتا تھا۔ '' عارش اور تمہیں پتہ ہے۔۔'' حورین خوشی سے کہے جا رہی تھی۔ '' حور۔۔۔ مجھجے کس لئے بتا رہی ہو یہ سب''۔ عارش تپا ہی تو تھا کسی اور کی محبت کا اقرار وہ اسکے سامنے دھڑلے سے کر رہی تھی۔ '' ارے تمہیں نہ بتاؤں تو کسے بتاؤں آفٹر آل تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو اور۔۔۔۔'' حور کی زبان کو اچانک سے بریک لگی تھی اور ایک پر شوق نگاہ عارش پر ڈالی۔ ''اور۔۔۔؟؟؟ عارش نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا حورین نے ایک دم عارش کا ہاتھ تھام لیا تھا عارش اسکی حرکت پر جیسے سکتے میں چلا گیا۔'' عارش۔۔۔ تم ہی تو ہو میری محبت میری دیوانگی۔۔۔۔ میرا سب کچھ''۔ وہ دل میں بے شمار ارمان لئے اسی دلفریب مسکان کے ساتھ اسے کہہ رہی تھی جبکہ عارش حیران ہوتا جیسے کہیں کھو گیا تھا اتنی دیر تک عارش کو خاموش دیکھ حورین کا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا۔ '' عارش۔۔۔ آئی لو یو''۔ حورین کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ایک جھٹکے سے عارش نے اسکا ہاتھ جھٹک کرا سے خود سے دور کیا تھا تھا۔ '' تم واقعی میں پاگل ہو چکی ہو''۔ عارش حقارت بھری نظر سے اسے گھورتا کہہ رہا تھا۔''عارش ۔۔۔'' وہ حیران کھڑی اسے یک ٹک دیکھے گئی۔ '' تم نے محبت کرلی مجھ سے واؤ۔۔۔ بہت احسان کردیا ہیں نہ؟ تم جیسی بد تمیز، بد دماغ اور مغرور لڑکی کی طرف میں دیکھنا بھی نہ پسند کروں ''۔ عارش نے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے کہا تھا۔ حورین کے چہرے سے مسکان غائب ہو چکی تھی، سردی سے برف ہوتے سرخ گال اب بری طرح آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ '' عارش۔۔۔۔  میری۔۔۔۔ بات تو سنو''۔ حورین نے بھیگی آواز میں کچھ کہنا چاہا۔ '' جسٹ شٹ اَپ۔۔۔ جو لڑکی یہاں کھڑی میرا ہاتھ پکڑ کر بے شرمی سے اظہا رِ محبت کر رہی ہے کالج میں تو پتہ نہیں کیا کیا گل کھلاتی ہوگی''۔ عارش غصے سی لال آنکھوں سے اسے گھورتا اسکے کردار پہ بات لے گیا تھا۔ '' عارش۔۔۔ میرے بارے میں اتنی گھٹیا سوچ تمہارے دماغ میں آئی بھی کیسے''۔ اب کی بار حورین چلا اٹھی تھی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ '' ہاہاہا۔۔۔ تو اور کیا کہوں تم جیسی بے شرم لڑکی کو''۔ وہ قہقہہ لگاتے تنزیہ اسے کہہ رہا تھا۔ اسکے الفاظ حورین پہ پتھر کی طرح برسے تھے اسے لگا جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں دھکا دے دیا ہو۔ ''تم جیسی لڑکی میری محبت کے قابل ہو ہی نہیں سکتی نفرت ہو رہی ہے مجھے آج تم سے''۔ عارش کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھی۔ '' بکواس بند کرو اپنی سمجھے ۔۔۔ ''۔ حورین پوری شدت سے چلا ئی تھی جبکہ آواز رندھی ہوئی تھی۔ '' نفرت۔۔۔ تم جیسا شخص تو کسی لڑکی کے پیار کے  بھی قابل نہیں۔۔۔ مسٹرعارش ضیافت علی مجھے تم جیسے گھٹیا انسان سے اس وقت نفرت بھی نہیں ہو رہی میری نفرت کے بھی قابل نہیں تم سمجھے کسی قابل نہیں تم''۔ وہ چلاتے ہوئے کہتی آنکھیں رگڑتی اندر بھاگی تھی جبکہ عارش وہیں سن کھڑا حور کے الفاظ سوچتا رہ گیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

''عارش بھائی''۔ اشعر، عارش کو پکارتا اسکے روم میں چلا آیا وہ جو بالکونی میں کھڑا بیتا ماضی یاد کر رہا تھا نم آنکھوں کو صاف کرتا اندر آگیا۔ '' ہاں بولو اشعر''۔ اسنے بیڈ پہ بیٹھتے کہا۔ '' حورین آپی کہہ رہی ہیں آپ نے ڈنر پہ جانا ہے نہ تیار ہوگئے؟؟ اشعر نے اسکے حلیے پہ نگاہ دوڑاتے کہا۔ ''ہاں بس ہونے لگا تھا ریڈی''۔ عارش جواب دیتا وارڈروب سے شرٹ نکالنے لگا۔ '' حورین آپی نے کہا ہے اس آگ کے گولے کو کہہ دو لیٹ نہ ہو ٹائم سے پہلے ہی چلا جائے''۔ اشعر نے آگ کے گولے پر زور دیتے ہوئے دانت نکالتے ہوئے حورین کا پیغام پہنچایا۔ '' تمہاری بتیسی ذیادہ نہیں باہر آرہی لگتا ہے توڑنی پڑے گی''۔ عارش نے اسے خونخوار نظروں سے گھوری عنایت فرمائی۔ '' ارے آپ تو برا ہی مان گئے جا رہا ہوں میں آگ کے گولے''۔ اشعر اسے دانت نکالے چڑاتا باہر کی طرف دوڑا۔ '' رک بتاؤں تجھے''۔ عارش بھی اسکے پیچھے بھاگتا ہوا لاؤنج میں آگیا۔ '' ارے آپی ، مما۔۔۔ بچاؤ''۔ صوفے کے ارد گرد گھومتا اشعر دانت نکالے مدد کی اپیل کرتا لان کی طرف بھاگا۔ '' بچ کے کہا جائے گا آج تو خبر لیتا ہوں تیری ''۔ عارش بھی اسکے پیچھے پیچھے تھا غصے میں لان کی طرف لپکتا سامنے سے آتی حورین اسے دکھائی نہ دی اور انکی زور دار ٹکر ہوگئی۔ '' اندھے ہو گئے ہو یا  جان بوجھ کے گھٹیا حرکتیں ہو رہی ہیں''۔ حورین اپنا ماتھا دباتی غصے سے اسے گھور رہی تھی جبکہ عارش بس اسکے جملے پہ اسے حیرت سے دیکھے گیا۔ '' سوری۔۔'' عارش کہتا تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ '' شکر ہے یار آگئے ہو میں تو سمجھا تھا مجھے انوائیٹ کر کے خود بھول گئے''۔ ہمدان نے عارش سے مصافحہ کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے شکوہ کیا۔ عارش نے اسے ایک پل کو غور سے دیکھا تھا خوبصورت پرسنیلٹی کا مالک یہ وجیہہ شخص واقعی حور کے قابل تھا۔ '' بس یار ٹریفک کا تو پتہ ہی ہے تمہیں اور سناؤ کیسے ہو''۔ عارش نے پوچھا۔ '' بہت خوش''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد عارش نے مدعے پر آنے کا سوچتے ہی بات کردی۔ '' ہمدان تم حورین کو پسند تو کرتے ہو نہ؟؟ عارش کے سوال پر ہمدان پل بھر کو چونکا۔ ''سچ پوچھو تو حورین میری ماما ،اور بابا کی چوائس ہے لیکن حورین کو دیکھنے کے بعد میرا دل مجبور ہوگیا ہے آئی ایم لکی''۔ ہمدان نے اپنے دل کا حال بتایا اسکے آخری جملے نے عارش کے دل پہ چوٹ کی۔ '' یس یو آر۔۔۔ حورین نے بتایا تھا اسکے کالج میں چھوٹا سا مس ہیپ ہو گیا تھا وہ اسکے کئے بہت شرمندہ ہے''۔ عارش نے اس سے اگلوانے کو بات بنائی۔ '' حورین کے ساتھ اسکے کالج میں؟؟ ہمدان نے نا سمجھی میں پوچھا۔ '' ایسا کچھ نہیں ہوا کیا؟ عارش نے اسے حیرت سے دیکھا۔ '' نہیں مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں ایوین حوریں کو فرسٹ ٹائم میں نے اسی دن دیکھا تھا جس دن ہم پروپوزل لائے تھے تبھی اپنا دل ہار بیٹھا تھا''۔ ہمدان نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔ دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

''مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا اتنی جلدی سب کیسے ہوگا''۔  شائستہ بیگم نے سب کو چائے سرو کرتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔ ''اتنے کم دن رہ گئے ہیں کیسے ہوں گے سارے انتظامات میں تو خود پریشان ہوں''۔ غضنفر علی بھی متفکر تھے۔ '' سب ہو جائے گا غضنفر بھائی آپ اتنے فکر مند نہ ہوں''۔ ضیافت علی نے چائے کا کپ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے انہیں تسلی دی۔ ''حورین نے الگ خود کو  کمرے میں بند کر رکھا ہے سب سے بہت ناراض ہے بھلا اتنی جلدی بھی کیا تھی بھائی صاحب کم از اسٹڈیز کمپلیٹ ہونے تک کا وقت ہی لے لیتے''۔ ثانیہ بیگم نے ماتھے پہ بل ڈالے شکوہ کیا۔ '' لو جی تم پھر سے شروع ہو جاؤ پچھلے دس دنوں میں دس ہزار بار یہ بات دہرا چکی ہو، پہلے ہی بھائی بھابھی فکرمند ہیں''۔ ضیافت علی نے مسکراتے ہوئے بیگم سے کہا۔ '' کہہ تو ٹھیک رہی ہیں بھابھی اتنی جلدی کیسے اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے گی میری حور''۔ شائستہ بیگم مزید متفکر ہوئیں۔ ''ارے بھابھی وہ کوئی بیک ورڈ فیملی تو ہے نہیں کہ جاتے ہی حورین پر گھر کے کام کاج کی ذمہ داری ڈال دیں گے''۔ ضیافت علی نے انہیں تسلی دینے کو کہا جبکہ دل تو اپنا بھی پریشان تھا گھر کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے حورین چاچو، چاچی کی بھی جان تھی۔ ہمدان سے ملاقات کے بعد عارش کو تسلی ہو گئی تھی کہ ہمدان کو کچھ یاد نہیں ہے اور حورین ایسے ہی ڈر رہی ہے جبکہ حورین کا خوف جوں کا توں تھا ادھر عارش سے ملاقات کے اگلے ہی دن ہمدان کی فیملی شادی کی ڈیٹ فکس کر کے جا چکے تھے حوریں کا احتجاج کسی کام نہ آیا مجبوراً اسے سب کے فیصلے کے آگے سر خم کرنا پڑا۔ عارش نے اسپیشلائیزیشن کے لئے لندن مین اپلائی کر رکھا تھا اور اسکے جانے کا پروانہ اسے مل چکا تھا۔ حورین کی شادی کے اگلے دن اسنے روانہ ہونا تھا۔ شادی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی آج حورین نے شادی کا جوڑا لینے جانا تھا وہ روم میں ریڈی ہو کر بیٹھی ہمدان کی مما کا انتظار کر رہی تھی جب شائستہ بیگم نے اسکا روم ناک کیا۔ '' آگئیں ہمدان کی مما؟؟ اسنے شائستہ بیگم کو دیکھ کر اٹھتے ہوئے کہا۔ '' نہیں بیٹا ہمدان کی مما تمہارا بوتیک میں ہی ویٹ کر رہی ہیں ہمدان آیا ہے لینے جلدی سے آجاؤ''، شائستہ بیگم مسکراتے ہوئے کہتی جانے کو مڑ ی تھیں۔ '' مما لیکن ہمدان کیوں''۔ حورین نے گھبراتے ہوئے کہا۔ '' ارے میری بچی ہونے والا شوہر ہے تمہارا اور گھبراؤ نہیں اچھا لڑکا ہے اسی لئے اجازت دی ہے آجاؤ چلو''، وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی باہر لے آئی تھیں۔ '' السلام و علیکم''۔ حورین کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہمدان اسے سلام کرتے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ '' وعلیکم السلام'' حورین نے اسکی نظروں کو خود پر محسوس کر کے نظریں جھکائے جواب دیا۔ '' خیال سے جانا ''۔ جاتے ہوئے شائستہ بیگم نے تاکید کی۔ وہ باہر آئی تو ہمدان چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا۔ وہ جولیمن اینڈ آف وائیٹ شلوار کمیز کے ساتھ ٹی پنک دوپٹہ سر پہ ٹکائے ہاف کیچ بالوں میں سے آزاد ہوتی لٹوں کو کان کے پیچھے سرکاتی گھبراتی ہوئی چلی آرہی تھی اسے یوں کھڑا دیکھ حیران ہوئی  پھر جلدی سے کار میں بیٹھ گئی تھی جبکہ ہمدان نے حورین کے سراپے کو آج بہت غور اور محبت سے دیکھا تھا۔ شاپنگ کے دوران بھی ہمدان کی نظریں حورین کو کنفیوز کرتی رہی تھی شاپنگ کے بعد ہمدان کی مما تو فوراً گھر چلی گئی تھیں جبکہ ہمدان اسکے لاکھ انکار کے باوجود ڈنر پر لے آیا تھا۔ '' اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو حور''۔ ہمدان نے اسے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔ '' نہ۔۔ نہیں تو میں تو نہیں گھبرا رہی''۔ حور نے کامپتے ہاتھوں کو گود میں رکھ کر خود کو نارمل کرتے کہا کھانا آتے ہی دونوں کھانا کھانے لگے حوریں چاہتی تھی جلد از جلد گھر چلی جائے۔ ''تمہارے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں خاص کر یہ رائیٹ والا''۔ ہمدان نظریں اسکے ہاتھوں پہ جمائے شرارت سے کہہ رہا تھا۔ '' جی۔۔ یہ والا کیوں ؟؟ حورین کو اسکی بات پر حیرت ہوئی۔ '' اس لئے کیونکہ اس پر یہ جو کالا تل ہے یہ اس ہاتھ کو اور پر کشش بنا رہا ہے''۔ ہمدان کے انداز پہ حورین نے جھیمپتے ہوئے ہاتھ گود میں رکھ لئے۔ اس کی اس ادا پہ ہمدان قہقہہ لگا کہ ہنس دیا۔ '' بھلا کوئی ہاتھوں کی تعریف بھی کرتا ہے اور کچھ خوبصورت نہیں کیا ہونہہ۔۔۔۔'' وہ دل ہی دل میں سوچتی منہ بنا کہ رہ گئی۔ 

(باقی آئندہ): کنزِحیات

قسط نمبر:3

''ہیلو ہمدان''۔ عارش نے کچھ سوچتے ہوئے ہمدان کو کال ملائی تھی اور اب وہ بالکونی میں کھڑا اسکی آواز سن رہا تھا۔ '' ہیلو۔۔۔ ہوز دیئر''۔ ہمدان لیپ ٹاپ پر تیزی سے کچھ ٹائپ کرتے پوچھ رہا تھا۔ '' عارش ہیئر''۔ عارش نے دوستانہ انداز میں اپنا تعارف کروایا۔ '' اوو۔۔۔ عارش کیسے ہو یار''۔ ہمدان بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔ '' میں ٹھیک ہوں کیا کر رہے ہو میں سوچ رہا تھا ڈنر ساتھ کرتے آج''۔ عارش نے بے تکلفی سے کہا۔ ''وائی ناٹ۔۔۔ اس سے اچھا کیا ہوگا حور کے بارے میں بھی جاننے کا موقع مل جائے گا''۔ ہمدان کے حورین کو حور کہنے پہ عارش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ ''حور بھی ہوگی نا ساتھ''۔ ہمدان کی پر جوش آواز عارش کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ '' نہیں حور کا کیا کام بھلا۔۔۔ آئی مین میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا اکیلے میں اس لیئے''۔ عارش کا جملہ ادھورا رہ گیا تھا۔ '' اوہ ۔۔۔ اٹس اوکے تم پلیس اور ٹائم ٹیکسٹ کردو میں آجاؤں گا''۔ ہمدان نے اسے خوشنما انداز میں جواب دیا اور ساتھ ہی کال کٹ کردی۔ وہ دسمبر کی ایک سرد اور خوبصورت شام تھی لان سے اٹھتی گلاب اور موتیے کی خوشبو حورین کی سانسوں کو معتر کر رہی تھی کبھی وہ کسی پھول کی خوشبو فیل کرتی کبھی کسی کی، اتنی سردی حورین سے برداشت نہ ہوتی تھی لیکن جانے آج اسے سردی فیِل ہی نہیں ہو رہی تھی وہ تو آج جیسے دنیا جہان سے بیگانی ہو رہی تھی عارش کب سے بالکونی میں کھڑا اسکی ہر ہر ادا نوٹ کر رہا تھا۔ کمر سے نیچے جاتے کھلے سلکی بالوں میں گلاب کا پھول توڑ کر سجاتی وہ واقعی کوئی حور لگ رہی تھی۔ وہ کب سے یونہی مسکراتے ہوئے پھولوں کو دیکھتی لطف اندوز ہو رہی تھی تبھی جانے کب عارش اسکے عین پیچھے آن کھڑا ہوا تھا، عارش خود بھی نہیں جانتا تھا اسے کونسی قّوت یہاں کھینچ لائی تھی۔ حورین اندر جانے کو پلٹی ہی تھی کہ عارش سے اسکی ٹکر ہوئی وہ اسکے سینے سے جا لگی تھی۔ جہاں حورین بوکھلا کر پیچھے ہٹی تھی وہیں عارش کو بھی  ہوش آیا تھا۔ '' تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو''۔ حورین نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ '' میں۔۔۔۔ وہ میں تو بس یہاں سے گزر رہا تھا''۔ عارش نے  بات بنائی۔ '' گزر رہے تھے یا ۔۔۔۔۔'' حورین نے نظریں چراتے کہا۔ عارش نے اسکی ادا پہ اسے غور سے دیکھا حورین کی آنکھوں میں آج اسے الگ ہی چمک محسوس ہوئی، لبوں پرخوبصورت مسکان مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ '' یا کا کیا مطلب؟؟ تم کب سے باتیں ادھوری چھوڑنے لگ گئی''۔ '' میرا مطلب ہے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے کیا ورنہ گزرتے ہوئے تمہارا رخ دوسری طرف ہونا چاہیے تھا''۔ حورین نے اسکی آنکھوں میں کچھ جانچنا چاہا تھا۔ '' لگتا ہے بندریا کا دماغی توازن الٹ چکا ہے وہ بھی پوری طرح ''۔ عارش نے قہقہہ لگاتے اسکا مزاق اڑایا ۔ '' تمہیں کیسے پتہ''۔ حورین بھی ہنس رہی تھی اب تو عارش کو یقین ہو چکا تھا کہ اسکا دماغ پلٹ چکا ہے۔ '' خدا کا واسطہ ڈرا کیوں رہی ہو نہ کوئی تنز نہ غصہ خیر تو ہے''۔ عارش کو تشویش  ہوئی۔ '' بس ایسے ہی ''۔ حورین نے شرماتے ہوئے کہا جس پہ عارش اچانک ٹھٹھکا تھا۔ '' حور۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو یار''۔ عارش کو حور کا یوں شرمانا زہر اور عجیب لگا تھا۔ '' عارش میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں''۔ حورین نے نظریں جھکائے اسی خوبصورت مسکان کے ساتھ کہا۔ '' ہاں ہاں کہو ''۔ عارش اسکی بات جاننے کے لئے بے چین ہوا۔ '' عارش میں۔۔۔۔'' وہ پل بھر کو رکی۔ '' عارش مجھے کسی سے محبت ہو گئی ہے، اور پتہ ہے کب سے؟ بلکہ مجھے تو خود ہی نہیں پتہ کب اور کیسے لیکن میرا دل کرتا ہے میں ہر پل اسے دیکھوں اسے محسوس کروں، میں۔۔۔ میں اپنی ساری لائف اسکے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں''۔ وہ ایکسائیٹڈ ہوتی عارش کو بتا رہی تھی۔ '' عارش میرا دل کرتا ہے میں اسکا ہاتھ تھام کر جھومتی رہوں''۔ وہ بچوں کی طرح کہتی گھوم رہی تھی بلیک کلر کا لانگ فروک اور چوڑی دار پہنے بالوں میں سرخ گلاب سجائے وہ اتنی دلکش لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اسکا دیوانہ ہو سکتا تھا۔ '' عارش اور تمہیں پتہ ہے۔۔'' حورین خوشی سے کہے جا رہی تھی۔ '' حور۔۔۔ مجھجے کس لئے بتا رہی ہو یہ سب''۔ عارش تپا ہی تو تھا کسی اور کی محبت کا اقرار وہ اسکے سامنے دھڑلے سے کر رہی تھی۔ '' ارے تمہیں نہ بتاؤں تو کسے بتاؤں آفٹر آل تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو اور۔۔۔۔'' حور کی زبان کو اچانک سے بریک لگی تھی اور ایک پر شوق نگاہ عارش پر ڈالی۔ ''اور۔۔۔؟؟؟ عارش نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا حورین نے ایک دم عارش کا ہاتھ تھام لیا تھا عارش اسکی حرکت پر جیسے سکتے میں چلا گیا۔'' عارش۔۔۔ تم ہی تو ہو میری محبت میری دیوانگی۔۔۔۔ میرا سب کچھ''۔ وہ دل میں بے شمار ارمان لئے اسی دلفریب مسکان کے ساتھ اسے کہہ رہی تھی جبکہ عارش حیران ہوتا جیسے کہیں کھو گیا تھا اتنی دیر تک عارش کو خاموش دیکھ حورین کا دل زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا۔ '' عارش۔۔۔ آئی لو یو''۔ حورین کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ ایک جھٹکے سے عارش نے اسکا ہاتھ جھٹک کرا سے خود سے دور کیا تھا۔ '' تم واقعی میں پاگل ہو چکی ہو''۔ عارش حقارت بھری نظر سے اسے گھورتا کہہ رہا تھا۔''عارش ۔۔۔'' وہ حیران کھڑی اسے یک ٹک دیکھے گئی۔ '' تم نے محبت کرلی مجھ سے واؤ۔۔۔ بہت احسان کردیا ہیں نہ؟ تم جیسی بد تمیز، بد دماغ اور مغرور لڑکی کی طرف میں دیکھنا بھی نہ پسند کروں ''۔ عارش نے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے کہا تھا۔ حورین کے چہرے سے مسکان غائب ہو چکی تھی، سردی سے برف ہوتے سرخ گال اب بری طرح آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ '' عارش۔۔۔۔  میری۔۔۔۔ بات تو سنو''۔ حورین نے بھیگی آواز میں التجا کی۔ '' جسٹ شٹ اَپ۔۔۔ جو لڑکی یہاں کھڑی میرا ہاتھ پکڑ کر بے شرمی سے اظہا رِ محبت کر رہی ہے کالج میں تو پتہ نہیں کیا کیا گل کھلاتی ہوگی''۔ عارش غصے سی لال آنکھوں سے اسے گھورتا اسکے کردار پہ بات لے گیا تھا۔ '' عارش۔۔۔ میرے بارے میں اتنی گھٹیا سوچ تمہارے دماغ میں آئی بھی کیسے''۔ اب کی بار حورین چلا اٹھی تھی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ '' ہاہاہا۔۔۔ تو اور کیا کہوں تم جیسی بے شرم لڑکی کو''۔ وہ قہقہہ لگاتے تنزیہ اسے کہہ رہا تھا۔ اسکے الفاظ حورین پہ پتھر کی طرح برسے تھے اسے لگا جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں دھکا دے دیا ہو۔ ''تم جیسی لڑکی میری محبت کے قابل ہو ہی نہیں سکتی نفرت ہو رہی ہے مجھے آج تم سے''۔ عارش کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھی۔ '' بکواس بند کرو اپنی سمجھے ۔۔۔ ''۔ حورین پوری شدت سے چلا ئی تھی جبکہ آواز رندھی ہوئی تھی۔ '' نفرت۔۔۔ تم جیسا شخص تو کسی لڑکی کے پیار کے  بھی قابل نہیں۔۔۔ مسٹرعارش ضیافت علی مجھے تم جیسے گھٹیا انسان سے اس وقت نفرت بھی نہیں ہو رہی میری نفرت کے بھی قابل نہیں تم سمجھے کسی قابل نہیں تم''۔ وہ چلاتے ہوئے اپنی یہ تذلیل کبھی نہ بھولنے کا عہد کرتی بے دردی سے آنکھیں رگڑتی اندر بھاگی تھی جبکہ عارش وہیں سن کھڑا حور کے الفاظ سوچتا رہ گیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

''عارش بھائی''۔ اشعر، عارش کو پکارتا اسکے روم میں چلا آیا وہ جو بالکونی میں کھڑا بیتا ماضی یاد کر رہا تھا نم آنکھوں کو صاف کرتا اندر آگیا۔ '' ہاں بولو اشعر''۔ اسنے بیڈ پہ بیٹھتے کہا۔ '' حورین آپی کہہ رہی ہیں آپ نے ڈنر پہ جانا ہے نہ تیار ہوگئے؟؟ اشعر نے اسکے حلیے پہ نگاہ دوڑاتے کہا۔ ''ہاں بس ہونے لگا تھا ریڈی''۔ عارش جواب دیتا وارڈروب سے شرٹ نکالنے لگا۔ '' حورین آپی نے کہا ہے اس آگ کے گولے کو کہہ دو لیٹ نہ ہو ٹائم سے پہلے ہی چلا جائے''۔ اشعر نے آگ کے گولے پر زور دیتے ہوئے دانت نکالتے ہوئے حورین کا پیغام پہنچایا۔ '' تمہاری بتیسی ذیادہ نہیں باہر آرہی لگتا ہے توڑنی پڑے گی''۔ عارش نے اسے خونخوار نظروں سے گھوری عنایت فرمائی۔ '' ارے آپ تو برا ہی مان گئے جا رہا ہوں میں آگ کے گولے''۔ اشعر اسے دانت نکالے چڑاتا باہر کی طرف دوڑا۔ '' رک بتاؤں تجھے''۔ عارش بھی اسکے پیچھے بھاگتا ہوا لاؤنج میں آگیا۔ '' ارے آپی ، مما۔۔۔ بچاؤ''۔ صوفے کے ارد گرد گھومتا اشعر دانت نکالے مدد کی اپیل کرتا لان کی طرف بھاگا۔ '' بچ کے کہا جائے گا آج تو خبر لیتا ہوں تیری ''۔ عارش بھی اسکے پیچھے پیچھے تھا غصے میں لان کی طرف لپکتا سامنے سے آتی حورین اسے دکھائی نہ دی اور انکی زور دار ٹکر ہوگئی۔ '' اندھے ہو گئے ہو یا  جان بوجھ کے گھٹیا حرکتیں ہو رہی ہیں''۔ حورین اپنا ماتھا دباتی غصے سے اسے گھور رہی تھی جبکہ عارش بس اسکے جملے پہ اسے حیرت سے دیکھے گیا۔ '' سوری۔۔'' عارش کہتا تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ '' شکر ہے یار آگئے ہو میں تو سمجھا تھا مجھے انوائیٹ کر کے خود بھول گئے''۔ ہمدان نے عارش سے مصافحہ کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے شکوہ کیا۔ عارش نے اسے ایک پل کو غور سے دیکھا تھا خوبصورت پرسنیلٹی کا مالک یہ وجیہہ شخص واقعی حور کے قابل تھا۔ '' بس یار ٹریفک کا تو پتہ ہی ہے تمہیں اور سناؤ کیسے ہو''۔ عارش نے پوچھا۔ '' بہت خوش''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد عارش نے مدعے پر آنے کا سوچتے ہی بات کردی۔ '' ہمدان تم حورین کو پسند تو کرتے ہو نہ؟؟ عارش کے سوال پر ہمدان پل بھر کو چونکا۔ ''سچ پوچھو تو حورین میری ماما ،اور بابا کی چوائس ہے لیکن حورین کو دیکھنے کے بعد میرا دل مجبور ہوگیا ہے آئی ایم لکی''۔ ہمدان نے اپنے دل کا حال بتایا اسکے آخری جملے نے عارش کے دل پہ چوٹ کی۔ '' یس یو آر۔۔۔ حورین نے بتایا تھا اسکے کالج میں چھوٹا سا مس ہیپ ہو گیا تھا وہ اسکے کئے بہت شرمندہ ہے''۔ عارش نے اس سے اگلوانے کو بات بنائی۔ '' حورین کے ساتھ اسکے کالج میں؟؟ ہمدان نے نا سمجھی میں پوچھا۔ '' ایسا کچھ نہیں ہوا کیا؟ عارش نے اسے حیرت سے دیکھا۔ '' نہیں مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں ایوین حوریں کو فرسٹ ٹائم میں نے اسی دن دیکھا تھا جس دن ہم پروپوزل لائے تھے تبھی اپنا دل ہار بیٹھا تھا''۔ ہمدان نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔ دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

''مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا اتنی جلدی سب کیسے ہوگا''۔  شائستہ بیگم نے سب کو چائے سرو کرتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔ ''اتنے کم دن رہ گئے ہیں کیسے ہوں گے سارے انتظامات میں تو خود پریشان ہوں''۔ غضنفر علی بھی متفکر تھے۔ '' سب ہو جائے گا غضنفر بھائی آپ اتنے فکر مند نہ ہوں''۔ ضیافت علی نے چائے کا کپ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے انہیں تسلی دی۔ ''حورین نے الگ خود کو  کمرے میں بند کر رکھا ہے سب سے بہت ناراض ہے بھلا اتنی جلدی بھی کیا تھی بھائی صاحب کم از اسٹڈیز کمپلیٹ ہونے تک کا وقت ہی لے لیتے''۔ ثانیہ بیگم نے ماتھے پہ بل ڈالے شکوہ کیا۔ '' لو جی تم پھر سے شروع ہو جاؤ پچھلے دس دنوں میں دس ہزار بار یہ بات دہرا چکی ہو، پہلے ہی بھائی بھابھی فکرمند ہیں''۔ ضیافت علی نے مسکراتے ہوئے بیگم سے کہا۔ '' کہہ تو ٹھیک رہی ہیں بھابھی اتنی جلدی کیسے اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے گی میری حور''۔ شائستہ بیگم مزید متفکر ہوئیں۔ ''ارے بھابھی وہ کوئی بیک ورڈ فیملی تو ہے نہیں کہ جاتے ہی حورین پر گھر کے کام کاج کی ذمہ داری ڈال دیں گے''۔ ضیافت علی نے انہیں تسلی دینے کو کہا جبکہ دل تو اپنا بھی پریشان تھا گھر کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے حورین چاچو، چاچی کی بھی جان تھی۔ ہمدان سے ملاقات کے بعد عارش کو تسلی ہو گئی تھی کہ ہمدان کو کچھ یاد نہیں ہے اور حورین ایسے ہی ڈر رہی ہے جبکہ حورین کا خوف جوں کا توں تھا ادھر عارش سے ملاقات کے اگلے ہی دن ہمدان کی فیملی شادی کی ڈیٹ فکس کر کے جا چکے تھے حوریں کا احتجاج کسی کام نہ آیا مجبوراً اسے سب کے فیصلے کے آگے سر خم کرنا پڑا۔ عارش نے اسپیشلائیزیشن کے لئے لندن مین اپلائی کر رکھا تھا اور اسکے جانے کا پروانہ اسے مل چکا تھا۔ حورین کی شادی کے اگلے دن اسنے روانہ ہونا تھا۔ شادی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی آج حورین نے شادی کا جوڑا لینے جانا تھا وہ روم میں ریڈی ہو کر بیٹھی ہمدان کی مما کا انتظار کر رہی تھی جب شائستہ بیگم نے اسکا روم ناک کیا۔ '' آگئیں ہمدان کی مما؟؟ اسنے شائستہ بیگم کو دیکھ کر اٹھتے ہوئے کہا۔ '' نہیں بیٹا ہمدان کی مما تمہارا بوتیک میں ہی ویٹ کر رہی ہیں ہمدان آیا ہے لینے جلدی سے آجاؤ''، شائستہ بیگم مسکراتے ہوئے کہتی جانے کو مڑ ی تھیں۔ '' مما لیکن ہمدان کیوں''۔ حورین نے گھبراتے ہوئے کہا۔ '' ارے میری بچی ہونے والا شوہر ہے تمہارا اور گھبراؤ نہیں اچھا لڑکا ہے اسی لئے اجازت دی ہے آجاؤ چلو''، وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی باہر لے آئی تھیں۔ '' السلام و علیکم''۔ حورین کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہمدان اسے سلام کرتے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ '' وعلیکم السلام'' حورین نے اسکی نظروں کو خود پر محسوس کر کے نظریں جھکائے جواب دیا۔ '' خیال سے جانا ''۔ جاتے ہوئے شائستہ بیگم نے تاکید کی۔ وہ باہر آئی تو ہمدان چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا۔ وہ جولیمن اینڈ آف وائیٹ شلوار کمیز کے ساتھ ٹی پنک دوپٹہ سر پہ ٹکائے ہاف کیچ بالوں میں سے آزاد ہوتی لٹوں کو کان کے پیچھے سرکاتی گھبراتی ہوئی چلی آرہی تھی اسے یوں کھڑا دیکھ حیران ہوئی  پھر جلدی سے کار میں بیٹھ گئی تھی جبکہ ہمدان نے حورین کے سراپے کو آج بہت غور اور محبت سے دیکھا تھا۔ شاپنگ کے دوران بھی ہمدان کی نظریں حورین کو کنفیوز کرتی رہی تھی شاپنگ کے بعد ہمدان کی مما تو فوراً گھر چلی گئی تھیں جبکہ ہمدان اسکے لاکھ انکار کے باوجود ڈنر پر لے آیا تھا۔ '' اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو حور''۔ ہمدان نے اسے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔ '' نہ۔۔ نہیں تو میں تو نہیں گھبرا رہی''۔ حور نے کامپتے ہاتھوں کو گود میں رکھ کر خود کو نارمل کرتے کہا کھانا آتے ہی دونوں کھانا کھانے لگے حوریں چاہتی تھی جلد از جلد گھر چلی جائے۔ ''تمہارے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں خاص کر یہ رائیٹ والا''۔ ہمدان نظریں اسکے ہاتھوں پہ جمائے شرارت سے کہہ رہا تھا۔ '' جی۔۔ یہ والا کیوں ؟؟ حورین کو اسکی بات پر حیرت ہوئی۔ '' اس لئے کیونکہ اس پر یہ جو کالا تل ہے یہ اس ہاتھ کو اور پر کشش بنا رہا ہے''۔ ہمدان کے انداز پہ حورین نے جھیمپتے ہوئے ہاتھ گود میں رکھ لئے۔ اس کی اس ادا پہ ہمدان قہقہہ لگا کہ ہنس دیا۔ '' بھلا کوئی ہاتھوں کی تعریف بھی کرتا ہے اور کچھ خوبصورت نہیں کیا ہونہہ۔۔۔۔'' وہ دل ہی دل میں سوچتی منہ بنا کہ رہ گئی۔ 

حورین شاپنگ سے لوٹی تو عارش لان میں ہی ٹہلتا اسکا انتظار کر رہا تھا۔ '' اتنا ٹائم کیوں لگ گیا ایسا کیا لینے لگ گئی تھی''۔ عارش نے ٹٹولتی نظروں سے پوچھا۔ '' ایک بات بتاؤ تم نے میری چوکیداری کب سے شروع کردی ہے میں جب جاؤں جب آؤں تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہئے''۔ حوریں نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا اور اندر کی طرف جانے لگی۔ '' حور مجھے کچھ بات کرنی ہے''۔ عارش کے لہجے سے بے بسی صاف جھلک رہی تھی۔ ''ہاہاہا۔۔۔۔ مجھ سے بات کرنی ہے واہ۔۔۔۔''۔ حورین نے قہقہہ لگایا جیسے عارش نے کوئی جوک سنایا ہو۔ '' مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی  تمہیں سمجھنے میں اسکا انداذہ مجھے اب ہوا ہے''۔ عارش کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ ''غلطی؟؟؟؟ خیر تو ہے لگتا ہے آج کچھ زیادہ مزاق کے موڈ میں ہو آگ کے گولے ''۔ حورین نے لاپروائی سے کہا۔ ''حور ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا میں۔۔۔۔ میں سب ٹھیک کردونگا میں نے کیسے اتنا غلط سمجھا تمہیں اس دن۔۔۔۔ میں بھی تم سے۔۔۔ میں بھی تم سے اپنی محبت کا اقرار کرنے آیا تھا۔۔۔ لیکن جب تم نے خود سے کہا تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا میں کیسے اتنا اوور ری اکٹ کر گیا''۔ وہ جیسے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔ ''ہاہاہا مسٹر عارش آپکا دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کیسے مجھ جیسی ''گھٹیا '' لڑکی سے محبت کر سکتے ہیں؟؟؟؟ حورین نے لفظ چبا چبا کے گھٹیا پر زور دیتے کہا۔ '' حور میں بہت شرمندہ ہوں پلیز مجھے ایک موقعہ دے دو''۔ عارش نے التجا کی۔ '' تم وہی ہو نہ جو کل میری محبت کا منکر تھا آج کیسے مجھ سے محبت ہو گئی؟؟؟ اچھی طرح سمجھتی ہوں تمہں میری شادی کیا ہو رہی ہے تمہیں آگ لگ گئی تم تو ابھی بھی خوش فہمی میں ہو گے کی میں تم سے محبت کرتی ہوں  ہونہہہ۔۔۔۔ محبت  میں بہت خوش ہوں  ہمدان کے ساتھ آج تم نے یہ بکواس کردی ہے دوبارہ مجھ سے ایسی فضول بات کی تواچھا نہیں ہوگا''۔ حورین اسے غصے سے گھورتی کہہ رہی تھی۔ '' حور میں نے ہر پل تم سے محبت کی ہے پلیز ایسا مت کرو میں بہت شرمندہ ہوں میں نے تمہارے ساتھ جو کیا اسکے بعد سے خود کو کوستا ہوں دن رات''۔ عارش افسردگی سے کہہ رہا تھا جیسے اگر حورین نہ مانی تو اسکا دم گھٹ جائے گا۔ '' اچھا واقعی۔۔ تم نے جتنی تکلیف مجھے دی ہے نا تم سوچ بھی نہیں سکتے شکل گم کرو اب اپنی''۔ حورین غصے سے کہتی اندر کی جانب بڑھ چکی تھی جب کہ عارش اسی جگہ اسی طرح دل شکستہ  کھڑا تھا جہاں سال پہلے تھا بس فرق یہ تھا کہ اس روز دل عارش نے توڑا تھا اور آج حورین حساب برابر کر گئی تھی۔ سب کو جلدی میں شاپنگ دکھاتے تھک گئی ہوں کا بہانہ کرتی حورین اپنے روم میں آگئی تھی۔ '' غلطی۔۔۔ ہونہہہ۔۔ احساس ہوگیا عارش۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا پتہ کتنا روئی تھی۔۔ کتنا تڑپی تھی تمہاری محبت کی التجا کس دل سے کی تھی تم سے۔۔۔ کتنے دن لگے تھے ہمت کرنے میں تمہارے یوں بے دردی سے دھتکارے جانے کے بعد خود کو سمبھالنے میں۔۔۔ میں نے کس آس سے تمہارے سامنے اپنے دل کا حال رکھا تھا اور تم نے۔۔۔ تم نے کیا کچھ نہ کہا، ہاں میں نے پہل کردی تھی تو ہم کوئی غیر تو نہ تھے کتنی خوش تھی اس دن میں اپنا سمجھ کر تم سے کہہ دیا اور تم نے یوں ایک پل میں مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ایسے بیگانہ کردیا جیسے مجھے جانتے تک نہ تھے۔ میں نے تم جیسے انسان سے کیسے محبت کرلی تھی۔۔۔۔ بھاڑ میں جاؤ اب تم ''۔ ہاتھ میں پہنا بریسلیٹ اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پہ ذور سے پھینکتے وہ خود سے باتیں کر رہی تھی غصہ سے آنسوندی کی طرح  بہے جا رہے تھے۔ '' ارے ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری بچی کسی کی نظر نہ لگے''۔ شائستہ بیگم حورین کے ہال پہنچتے ہی دیکھ نظر اتارنے لگی تھیں۔ وہ رچ ریڈ اینڈ گولڈ امبرائیڈڈ لہنگے پہ رچ ریڈ پیپلم میں نفاست سے دوپٹہ سر پہ ٹکائے بہت خوبصورت دلہن لگ رہی تھی۔ اس دن کہ بعد سے عارش اور حورین کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی عارش اسکی نظروں سے چھپتا رہا تھا۔ بارات آچکی تھی۔۔۔ ہمدان بھی دولہے کے روپ میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا حورین نے کن اکھیوں سے ہمدان کی وجاہت کو سراہا تھا جبکہ ایک خوف اس کے دل میں اب بھی موجود تھا۔ بارات کا فنکشن بہت اچھے سے گزر گیا تھا۔ حورین اور ہمدان کی جوڑی کو ہر شخص نے رشک بھری نگاہ سے سراہا تھا عارش ان میں سب سے آگے تھا۔ '' بیٹا اب آپ ریلیکس ہو جائیں میں بھی اپنے روم میں چلتی ہوں''۔ ہمدان کی مما کہتی روم سے نکل گئیں کچھ ہی دیر بعد ہمدان روم میں داخل ہو چکا تھا اسے روم میں اینٹر ہوتا دیکھ حورین کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھی۔ '' ہمدان  چلتا ہوا حورین کے بالکل سامنے آبیٹھا تھا۔ '' یو نو حور میں نے آج سے پہلے اتنی خوبصورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی''۔ ہمدان کا انداز ایسا تھا جیسے اپنی قسمت پے رشک کر رہا ہو حورین کی نظریں شرم سے مزید جھکی تھیں۔ ''اور پتہ ہے اتنے خوبصورت ہاتھ  دنیا میں شاید کسی کے بھی نہیں''۔ ہمدان نے محبت سے حورین کا دایاں ہات

ھ تھامتے ہوئے کہا۔ حورین کو اسکی یہ بات عجیب لگی۔ ''پوچھو گی نہیں کیوں؟؟ ہمدان پھر گویا ہوا احورین کو لگا جیسے کسی نے سر پہ بم گرایا ہو۔ '' کیوں؟؟ حورین نے بالآخر ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ '' کیوںکہ اس ہاتھ  سےمجھے زندگی میں پہلی بار کسی کا تھپڑ پڑا ہے ''۔ ہمدان نے حورین کے ہاتھ پہ گرفت مزید سخت کرتے ہوئے کہا۔ انداز کاٹ کھانے والا تھا۔ '' ج۔۔۔جی۔۔۔۔'' حورین نے ہمدان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ '' جی۔۔۔ اسی ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا نا مس حورین غضنفر؟؟ وہ چہرے پہ تنزیہ مسکراہٹ سجائے پوچھ رہا تھا۔ '' آپ نے تو عارش سے کہا تھا کہ آپکو۔۔۔ آپکو یاد نہیں۔۔۔ مجھے معاف کردیں پلیز''۔ حورین حیرت کے مارے روہانسی ہوکر التجا کر رہی تھی۔ '' ارے ارے تم تو رونے لگی، تھپڑ مارتے ہوئے کیوں نہیں سوچا؟؟  کاش انجام سوچ لیتی تو آج ایسا نہ ہوتا چلو بتاؤ کیوں مارا تھا تھپڑ وہ بھی پورے کالج کے سامنے''۔ ہمدان بالکل نارمل انداز میں پوچھ رہا تھا۔ ''وہ مجھ سے غلطی۔۔۔'' حورین کی آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے اس سے صرف اتنا ہی کہا گیا۔ '' میں نے کہا تھا نہ حوریں غضنفر یہ تم نے اچھا نہیں کیا، اب تمہیں پتہ چلے گا کہ تھپڑ کیسے مارا جاتا ہے وہ بھی بلا وجہ''۔ ہمدان کی بات پہ حورین کا تو جیسے سانس ہی رک گیا تھا۔  ہمدان کا اٹھا ہاتھ دیکھ کر آنکھیں بند کئے وہ چلا رہی تھی۔ '' نہیں۔۔۔ پلیز نہیں۔۔۔۔۔''

ہمدان کا اٹھا ہاتھ دیکھ کر حورین کی تو جان ہی نکل گئی تھی۔۔۔۔ آنکھیں میچے ہاتھ چہرے کے آگے کئے وہ  خوف سے روتے ہوئے چلا رہی تھی۔ '' نہیں پلیز نہیں۔۔۔۔'' اسکی یہ حالت دیکھ جہاں ہمدان کو راحت کا احساس ہوا تھا وہیں اسکی ہنسی بھی چھوٹ گئی وہ اپنا ہاتھ حورین کے ہاتھ پہ تالی بجانے کے انداز میں مارتا قہقہہ لگاتا ہنسے جا رہا تھا۔ ''ہاہاہا۔۔۔۔۔ حور ڈئیر کیا ہوا''۔ ہمدان کے قہقہے مزید بلند ہوتے جا رہے تھے جبکہ حور مارے خوف کے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔ ''یہ ایسے کیوں بیہیو کر رہے ہیں یا اللہ کیا ہونے والا ہے میری ساتھ''۔ حورین دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتی ٹسمے بہانے میں مصروف تھی۔ جبکہ اب امان کو اسکی حالت دیکھ کہ شاید اس پہ ترس آہی گیا تھا۔ '' ہر ہاتھ کسی کے گال پہ بجنے کے لئے نہیں اٹھتا مائی ڈئیر وائفی''۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتا ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔ حورین کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ وہ اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا۔ ''یہ خوبصورت ہاتھ نہ اٹھتا تو شاید تمہیں حاصل کرنے کی چاہ بھی میرے دل میں نہ جاگتی''۔ ہمدان نے حورین کی ہتھیلی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ حورین نا سمجھی کی حالت میں اسے دیکھنے لگی۔ ''ارے میری حور جیسی وائیفی۔۔۔۔ میں ان بے غیرت مردوں میں سے نہیں جو عورت پر ہاتھ اٹھا کر بدلہ لینے کو کارنامہ سمجھتے ہیں، بس ایک چھوٹا سا شکوہ ہے حور آخر میری غلطی کیا تھی؟ بندہ پوچھ ہی لیتا ہے پہلے کہ مسٹر مجھے ہیروئن کی طرح تھپڑ مارنے کا بہت شوق ہے کس وجہ سے ماروں''۔ ہمدان اسکی انگلیوں کو چھیڑتا ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اسکے اس انداز پہ حور کہ چہرے پہ بھی اب ہنسی بکھری تھی دل چاہا تھا اس لمحے وہ ہمدان پہ جان نچھاور کر دے۔ ''پتہ بھی ہے تمہیں کتنی آوازیں لگائی تھی میں نے، جب تم نے نہیں سنا تو مجبوراً تمہیں روکنے کہ لئے ہاتھ پکڑنا پڑا''۔ حورین اب بھی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ''لیکن مجھے کیوں روکنا چاہتے تھے آپ؟؟ نظروں میں حیرت اور بے پناہ محبت لئے وہ پوچھ رہی تھی۔ '' ہائے۔۔۔۔ اب اس ادا اور قاتل نظروں کے وار کرتی پوچھو گی تو بندہ یہیں فوت ہوجائے گا''۔ ہمدان نے اسکو مزید قریب کرتے شرارت سے کہا۔ '' کیسی فضول بات کی ہے ہمدان ''۔ حور کے منہ سے بے ساختہ نکلا وہ اسے گھور کر رہ گئی۔ '' اچھا سوری ایسے تو نہ دیکھو اب''۔ ہمدان کان پکڑتے کہہ رہا تھا۔ '' تمہیں یاد ہے اس دن تم کچھ بھول گئی یا تم سے کچھ گر گیا تھا؟؟ ہمدان کے پوچھنے پر حورین دماغ پہ ذور ڈال کہ سوچنے لگی۔ '' نوٹس۔۔۔۔ میرے نوٹس ایگزامز میں دو دن رہتے تھے اور میرے نوٹس''۔ حورین نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا شرمندگی کے مارے اسکی نظریں خود ہی جھک گئی تھیں۔ '' جی ہاں مسز حورین ہمدان آفندی میں آپکو وہی نوٹس  دینے آیا تھا جو آپ کوریڈور میں غلطی سے گرا آئی تھیں''۔ ہمدان نے تفصیل بتائی۔ '' افف خدایا آئی ایم سوری ہمدان مجھے سچ میں پتہ نہیں تھا میں ڈر گئی تھی کبھی کسی نے ایسی حرکت نہیں کی تو۔۔۔۔ سوری''۔ حورین شرمندگی سے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھی۔ '' ہئے تم سے کسی نے کہا ہے سوری کرنے کو ہاں؟؟ بیوقوف لڑکی اس دن مجھے تمہارے تھپڑ کی وجہ سے تم سے عشق ہو گیا تھا میرے دل نے ضد لگا لی تھی کہ بس یہی بندی جچے کی ہمدان آفندی کے ساتھ جو اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے''۔ ہمدان اسکی پیشانی کو چومتا فخر سے کہہ رہا تھا۔ '' حورین کا چہرہ شرم سے لال ہوا اور دل ایک دم سے مطمئن۔ '' ہمیشہ ایسے ہی اپنی حفاظت کرنا مسز حورین ہمدان آفندی''۔ اسکے گال کو چھیڑ کر کہتے وہ حورین کو گلے لگا ئے اسے محسوس کر رہا تھا حورین کی آنکھوں سے  آللہ کا شکر ادا کرتے آنسو بہہ کر ہمدان کے سینے میں جزب ہو رہے تھے۔ رات کی خوبصورت چمک، چاند اور جھلملاتے تارے دونوں کی محبت کے گواہ بن گئے تھے۔

 ٭٭٭٭٭٭٭

عارش اپنی پیکنگ میں مصروف تھا ثانیہ بیگم رو رو کے اپنا برا حال کر چکی تھیں۔ '' ابھی تو حورین کو رخصت کیا ہے اب تم بھی جا رہے ہو میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر''۔ ثانیہ بیگم کے آنسو عارش کے دل پہ گر رہے تھے آسان تو اسکے لئے بھی نہ تھا فیملی کے بغیر کبھی شہر سے باہر تک تو گیا نہیں تھا پھر یہ تو پردیس جانے کی بات تھی در حقیقت تو اسنے یہ فیصلہ حورین کو بھلانے کے لئے کیا تھا۔ '' مما پلیز اگر آپ ایسے کریں گی تو میں کیسے جا سکوں گا''۔ عارش ماں کو گلے سے لگاتا کہہ رہا تھا اسکی اپنی آنکھیں چھلک گئی تھیں۔ '' ٹھیک تو کہہ رہی ہیں ہم سے مشورہ کئے بغیر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کر کیسے لیا''۔ شائستہ بیگم بھی افسردہ تھیں۔ '' ضرور حورین کو بتایا ہوگا اس نے لیکن حورین کو دیکھیں اتنی پکی تھی بھنک تک نہ لگنے دی''۔ غضنفر صاحب الگ صدمے میں تھے۔ تین ہی تو بچے تھے گھر میں ان سے ہی گھر کی رونق تھی حورین کے جانے سے پہلے ہی گھر ویران ہو گیا تھا اور اب عارش۔ '' چاچو پلیز سمجھیں نا فیوچر بنانے کے لئے یہ ضروری تھا پھر دو سال کی ہی تو بات ہے وقت پر لگاتا اڑ جائے گا''۔ عارش نے سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ '' تم پیکنگ کرو بیٹا پریشان نہ ہو بھابھی آپ بھی ہمت کریں ایسے رو رو کر بیٹے کو رخصت کریں گی تو بچے کا دل بھی پریشان رہے گا''۔ شائستہ بیگم نے ہی دل کڑا کر کے سب کو سمجھایا ۔ '' عارش بھائی آپ چلے جائیں گے تو میں آگ کا گولا کسے کہوں گا''۔ اشعر نے معصومیت سے کہا تو سب کے چہرے پہ ہنسی آگئی۔ '' ادھر آ تجھے بتاتا ہوں''۔ عارش اسکے پیچھے دوڑا۔ اشعر تھوڑا آگے جا کر خود ہی رک گیا اور عارش کے گلے لگ کے رونے لگا۔ '' عارش بھائی آپ نہ جائیں پلیز مجھے آپکی بہت یاد آئے گی''۔ اشعر چھوٹے بچے کی طرح رو رہا تھا۔ '' ارے تم حور۔۔۔ حورین کی طرف چلے جایا کرنا دو سال کی ہی بات ہے چپ کرو بس چلو اندر''۔ عارش اشعر کو خاموش کراتا اندر کی طرف چل دیا اس لمحے اسے حورین کی یاد شدت سے آئی تھی اور وہ تو جانتی تک نہ تھی کہ عارش لندن جا رہا ہے۔ '' تم حورین کے ولیمے کے نیکسٹ ڈے کا بھی پلین کر سکتے تھے ویسے''۔ ضیافت علی نے عارش کو ڈپٹا۔ ''ہاں اور کیا اب لوگ الگ ہزار سوال کریں گے''۔ ثانیہ بیگم بھی خفا ہوئیں۔ '' ارے یار لوگوں کی ٹینشن چھوڑٰیں اب تو فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے چار بجے نکلنا ہے میں نے''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' اچھا ابھی تو تین گھنٹے ہیں ہم حورین آپی کو بلا لیتے ہیں''۔ اشعر نے اپنا آئیڈیا پیش کرتے توپوں کا رخ اپنی جانب کیا۔ '' لو انکی سن لو بالکل ہی کوئی عقل سے پیدل اولاد ملی ہے ہمیں''۔ ضیافت صاحب نے اشعر کو گھوری سے نوازتے کہا۔ '' ٹھیک کہہ رہے ہیں ایک نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ لندن جانے کا فیصلہ کر لیا اور دوسرے موصوف کو عقل ہی نہیں کہ بہن ابھی چند گھنٹے پہلے رخصت ہو کہ اپنے سسرال گئی ہے بلا لیتے ہیں''۔ ثانیہ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے اشعر کی کلاس لیتےعارش کو بھی کوسا۔ '' بھئی میں نے ایسا کیا کہہ دیا''۔ اشعر نے اضلی لاپرائی سے کہا۔ ''تم تینوں میں صرف میری حورین ہی عقل مند تھی بس ''۔ ثانیہ بیگم نے فخریہ کہا۔ '' اچھا بس کرو اب جلدی سب سمیٹو تم''۔ ضیافت علی نے حکم صادر کیا تو عارش تیزی سے ہاتھ چلاتا پیکنگ مکمل کرنے لگا۔

٭٭٭٭٭٭

'' حور اٹھ جاؤ نماز کا وقت نکل جائے گا''۔ حورین کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے ہمدان اسے پیار سے کہتا جگا رہا تھا۔ ہمدان کے محبت بھرے انداز نے حور کو فوراً اٹھنے پہ مجبور کردیا تھا نماز کی پابند تو وہ تھی ہی لیکن یہ جان کر کہ ہمدان بھی نماز کا پابند ہے اسکا دل مطمئن ہوا تھا دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے وہ نماز کے لئے اٹھ چکی تھی۔ ہمدان مسجد سے نماز پڑھ کے لوٹا تو حورین بالکونی میں جائے نماز پہ بیٹھی سورۃِ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا اسکی سانسوں کو معتر کر رہی تھی حورین کو شروع سے ہے بالکونی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر فجر پڑھ کر سکون ملتا تھا۔ ہمدان بھی چپکے سے حورین کی خوبصورت آواز میں تلاوت سننے اسکے پاس ہی آ بیٹھا ۔ حورین جب تلاوت کر چکی تو اسنے مسکرا کر ہمدان کو دیکھا جو اسی کو پر شوق نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ '' ایسے کیا دیکھ رہے ہیں''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے پوچھا نماز کی طرح دوپٹہ اوڑھے وہ بہت پاکیزہ لگ رہی تھی۔ '' دیکھ نہیں رہا اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ اسنے مجھے تم جیسی بیوی سے نوازا میں ہمیشہ سوچتا تھا اگر مجھے کوئی ایسی لڑکی مل گئی جو اللہ کی عبادت سے دور ہوئی تو میں کیا کرونگا تھینک یو حور تم نے مجھے دینا کا خوش قسمت انسان بنا دیا اللہ نے مجھے میری حور دنیا میں ہی عطا کردی''۔ ہمدان محبت اسے ساتھ لگاتا کہہ رہا تھا کتنی حسین شروعات تھی انکی زندگی کی۔

عارش کے جاتے ہی گھر میں خاموشی نے ڈیرا ڈال لیا تھا سب کے دل میں اداسی نے اپنا بسیرا کررکھا تھا۔ حورین کے لئے ناشتہ لے جانے کی تیاری بھی انتہائی خاموشی میں کی گئی سب کو یہی لگ رہا تھا کہ حورین عارش کے اس فیصلے سے آگاہ تھی اور پھر بھی اس نے سب سے اتنی بڑی بات چھپائی۔ '' حورین بیٹا جلدی سے ریڈی ہو کر نیچے آجائیں آپکی فیملی آچکی ہے''۔ مما ناک کرتی کہہ رہی تھیں۔ حورین نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ '' جی آنٹی میں ریڈی ہوں بس ہمدان چینج کرلیں دو منٹ میں آئی''۔ خوبصورت مسکان سجائے وہ کہہ رہی تھی۔ ہمدان کی مما کو اپنی بہو پہ بے حد پیار آرہا تھا۔ ہمدان کی فرمائش پہ حورین نے ٹی پنک فراک پہنہ تھا جسکے گلے اور سلیوز پر گولڈ کلر میں دبقہ کا کام نفاست سے کیا ہوا تھا۔ کھلے بالوں کے ساتھ کانوں میں جھولتے جھمکے اور شانوں پر سلیقے سے لیا دوپٹہ ساتھ ہی ہمدان کی محبت کا رنگ حورین کو آج حد سے زیادہ خوبصورت بنا گیا تھا شوہر کی سچی محبت حاصل ہو تو ہر بیوی اتنی ہی دلکش اور خوبصورت لگتی جتنی حورین لگ رہی تھی۔ '' بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ''۔ ہمدان کی مما نے پیار سے کہتے حورین کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ واش روم سے نکلتے ہمدان کی شوخ نظریں خود ہر محسوس کرتے ہی حورین مارے حیا کے جھیمپ گئی۔ '' اچھا جلدی سے آجائیں سب آپ دونو کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں''۔ ہمدان کی مما کہتی جا چکی تھی۔ نیچے لاؤنج میں بیٹھے سب لوگ آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھے ہمدان کے گھر سے تمام گیسٹ جا چکے تھے بس اسکی پھپھو اور انکی بیٹی فبیہہ رک گئے تھے۔ '' شکر ہے آپی آگئیں''۔ ہمدان اور حورین کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ اشعر نے کھڑے ہوتے ہوئے خوشی سے کہا۔ جبکہ پاس بیٹھی فبیہہ نے حورین کو نفرت بھری نگاہ سے نوازا تھا۔ '' کیسی ہے میری بیٹی''۔ غضنفر صاحب نے حورین کو گلے  لگاتے ہوئے پیار سے کہا۔ '' میں ٹھیک ہوں بابا''۔ حورین نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا سب سے ملنے کے بعد حورین ہمدان کے ساتھ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ فبیہہ اس سے پہلے ہمدان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ حورین اسکی یہ حرکت دیکھ کر پل بھر کو ٹھٹھکی اورہمدان کو دیکھ کر رہ گئی ہمدان الگ شاک میں تھا لیکن حورین اگنور کرتی اپنی مما کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ '' چاچی عارش نہیں آیا''۔ حورین نے متلاشی نظروں سے لاؤنج کا جا ئزہ لیتے کہا۔ ''یہ عارش کون ہے جسکا آپکو اتنی بے صبری سے انتظار تھا''۔ اس سے پہلے کہ  ثانیہ بیگم کوئی جواب دیتی فبیہہ نے  تنزیہ کہتے ٹانگ اڑائی۔ '' دماغ ٹھیک ہے یہ کس انداز میں بات کی ہے تم نے تمیز بھول آئی ہو کہیں؟؟ ہمدان کا پارا اچانک سے ہائی ہوا تھا۔ '' وہ میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا''۔ ہمدان کے بدلتے تیور دیکھ وہ ہڑبڑا گئی۔'' بھابھی ہیں تمہاری سمجھ آئی آئندہ یہ انداز میں نے سنا تو انجام خود دیکھو گی مما ناشتہ لگوائیں اور خیال رہے ٹیبل پر آؤٹ سائیڈرز الاؤڈ نہیں ہیں سو ہماری فیملی کہ علاوا مجھے کوئی نہ دکھے''۔ ہمدان دو ٹوک انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ '' حور چلو ہم ڈائیننگ روم ہی چلتے ہیں بلکہ سب وہیں چل کر باتیں کرتے ہیں کیا خیال ہے بابا''۔ ہمدان پیار سے حورین کا ہاتھ تھامتے مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا، اپنی بیٹی کے لئے ہمدان کی محبت دیکھ کر غضنفر صاحب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں اور دل اللہ کے شکر سے مسرور ہوا۔ '' چلیں بھائی صاحب''۔ ہمدان کے پاپا بھی فبیہہ کو گھورتے اٹھ گئے تھے۔ '' فبیہہ اور شاہین کا ناشتہ انکے روم میں بھجوا دیں''۔ ولی آفندی بھی پھر ہمدان کے پاپا تھے اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ یہ لڑکی کیا کرنا چاہتی ہے جبھی ملازمہ کو حکم دیتے ڈائیننگ ہال میں چل دئیے کچھ دیر پہلے جو ماحول کچھ کشیدہ ہوا تھا اب نارمل ہو چکا تھا۔ '' آپی عارش بھائی لندن چلے گئے''۔ اشعر نے سنجیدگی سے بتاتے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔ '' کیا۔۔۔۔۔۔۔ کب؟؟ اچانک کس لئے؟؟ حورین سن کر شاکڈ تھی۔ '' تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے تمہیں پتہ ہی نہ ہو''۔ ثانیہ بیگم نے شکوہ کیا۔ '' نہیں چاچی مجھے پتہ ہوتا تو کم از کم اسے سمجھاتی کہ ولیمہ تو اٹینڈ کر کے جائے''۔ حورین نے حیرت سے کہا۔ '' واقعی نہیں پتہ تمہیں ہمیں لگا تم سب جانتی ہو ہم تو خفا بھی تھے تم سے اسی وجہ سے''۔ شائستہ بیگم نے شرمندگی سے کہا۔ '' ارےمجھے۔۔'' '' مجھے پتہ تھا مما عارش نے حورین اور آپ سب کو بتانے سے منا کیا تھا میں مجبور تھا بتا نہیں سکا''۔ ہمدان نے حورین کی بات کاٹتے ہوئے تفصیل بتائی۔ '' بیٹا تم اسے سمجھاتے بھلا ہم کیسے رہیں گے اسکے بغیروہ تو خود کبھی دور نہیں رہا ہم سے''۔ ثانیہ بیگم پھر سے آبدیدہ ہو گئی تھیں۔ '' پھر بھی بتانا تو چاہئے تھا اس آگ کے گولے کو''۔ حورین بری طرح تپی تھی۔اسکے انداذ پہ ہمدان سمیت سب کو ہنسی آگئی تھی۔ '' شرم کریں آپیا ب تو شادی ہو گئی ہے آپکی اب تو بخش دیں عارش بھائی کو''۔ اشعر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔'' بھئی شادی ہونے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ انسان جینا ہی چھوڑ دے حور پہ تو ویسے بھی ایسی ہی اچھی لگتی ہے''۔ ہمدان نے پیار سے کہتی اپنی حور کی سائیڈ لی۔ ''ہاں تم بھی بس کردو اسکا چمچہ بننا''۔ حورین نے بھی تنک کرکہتے اشعر کو چڑایا۔ سب ہنسنے لگے خوشگوار ماحول میں ناشتہ ہوا اور وہاں پردیس میں عارش تنہا رہ گیا تھا۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭

ولیمہ کا فنکشن بھی بہت اچھے سے گزر گیا تھا حورین وائیٹ فیری ٹیل فراک میں بہت حسین لگ رہی تھی سر پہ ٹکے وائیٹ دوپٹہ کے ساتھ گردن اور کانوں میں نفیس سا ڈائمینڈ سیٹ بھی حورین کے آگے ماند پڑ رہا تھا۔ فنکشن کے دوران ہی حورین فبیہہ کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ وہ کن نظروں سے ہمدان کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن تسلی اس بات کی تھی کہ ہمدان نے اسے نظر اٹھا کہ دیکھنا تک گوارا نہ کیا تھا وہ تو اپنی حور کے حسن میں کھویا ہوا تھا۔ دن گزتے جا رہے تھے اور حورین کے لئے بڑا انکشاف ہوا تھا کہ فبیہہ ہمدان کے گھر میں ہی رہتی ہے۔ حورین کی مما کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی تبھی غضنفر صاحب نے اسے کال کر کے گھر آنے کا کہا تھا۔ '' ہمدان مما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ جلدی آجائیں پلیز''۔ حورین کی آواز سے فکر صاف جھلک رہی تھی۔ '' حور ڈئیر ابھی تو بہت امپورٹینٹ میٹنگ اسٹارٹ ہونے والی ہے تم ایسا کرو ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ میں واپسی پر پک کرلوں گا ہاں''۔ ہمدان اپنی مجبوری سے آگاہ کرتے اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ '' اٹس او کے لیکن ہمدان میں مما کے پاس ہی رک جاؤں آج پلیز؟؟ حورین کو پتہ تھا وہ اسکے بغیر رہ نہیں سکتا لیکن پھر بھی ہمت کر کہ پوچھ ہی لیا۔ '' ہائے کیوں میری جان لینے پہ تلی ہو سارہ دن آفس رہو اور رات کو بھی تمہیں نہیں دیکھوں گا تو جان نکل جائے گی میری''۔ وہ بے چین ہوا تھا۔ ''ہمدان پھر آپ نے فضول بات کی جائیں اب تو میں پو را ہفتہ نہیں آؤں گی واپس''۔ وہ منہ پھلائے خفگی سے بولی۔ '' ایسے کیسے میں اٹھا کہ لے آؤں  گا وہ بھی سب کہ سامنے آخر کو اکلوتی بیوی ہو میری''۔ ہمدان نے اسے چھیڑتے ہوئے دھمکی چڑھائی۔ '' اچھا آج رک جاؤ جسٹ مما کی وجہ سے اجازت دے رہا ہوں ''۔ ہمدان نے جتاتے ہوئے کہا۔ '' لو یو ہمدان''۔ حورین خوشی سے کہہ کر کال کٹ کرتی تیار ہونے لگی۔ ہمدان آفس سے لیٹ گھر آیا تھا چائے پینے کا سوچ کر اسنے کچن کا رخ کرلیا۔ کچن میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر فبیہہ پر پڑی جو پانی پی رہی تھی۔ '' ہائے ہمدان کیسے ہو آج کل تو نظر ہی نہیں آتے گھر میں خیر تو ہے''۔ فبیہہ بڑی خوش نظر آرہی تھی ظاہر ہے آج حورین گھر جو نہیں تھی۔ '' ہئے فیب میں ٹھیک ہوں ''۔ ہمدان نے خود کو نارمل رکھتے مختصراً جواب دیا۔ ''آئی نو مائی ڈئیر میرے ساتھ تم نے ٹھیک ہی ہونا ہے''۔ فبیہہ نے مکروہ مسکراہٹ سجائے اسکے قریب ہوتے کہا۔ '' فیب بکواس بند کرو اپنی اور ذرا دور ہٹو''۔ وہ اسے غصے سے کہتا خود ہی پیچھے کو ہوا۔ چائے کپ میں ڈالنے کے لئے کپ رکھا ہی تھا کہ فبیہہ ذبردستی اسکے سینے سے جا لگی ہمدان کی کمر کچن کے دروازے کی طرف تھی جبکہ فبیہہ کا رخ دروازے کی طرف یہ سب شیطانی فبیہہ نے اتنی جلدی میں کی کہ ہمدان کچھ سمجھ ہی نہ سکا اسنے ذور سے دھکا دیتے فیب کو خود سے دور کیا'' ہاؤ ڈئیر یو''۔ وہ دھاڑا تھا ابھی اسنے کچھ اور کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ سامنے کھڑی حورین کو دیکھ کہ ایک دم اسکا سانس رک گیا جو حیران کھڑی اپنے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی '' اوہ بیوی کو دیکھ کہ مجھے چھوڑ دیا اور پچھلے آدھے گھنٹے سے جو مجھسے چپکے ہوئے تھے وہ کیا تھا''۔ فبیہہ  حورین کو دیکھتے ہی اپنی اوقات دکھانے لگی وہ بے شرموں کی طرح آگ لگانے میں مصروف تھی۔ '' تڑاخ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ذوردار تھپڑ کی آواز کچن سمیت پورے ہال میں گونجی تھی۔ ہمدان اسے دیکھ کہ رہ گیا تھا۔

حورین کے ذوردار تھپڑ نے اسکا گال سن کر دیا تھا۔ '' حورین۔۔۔۔ میری بیٹی کو ہاتھ لگانے کی تمہاری جرات کیسے ہوئی''۔ شاہین  جو ولی آفندی اور سحر کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئے تھے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ جو اپنے گال پہ ہاتھ رکھے شاکڈ کھڑی تھی اپنی ماں کی آواز سن کر فبیہہ کو اور شہہ ملی وہ مظلومیت کی دیوی بنی کھڑی ہوگئی۔'' دیکھ رہے ہیں بھائی اپنی بہو کی بدتمیزی''۔ شاہین بیگم خونخوار نظروں سے حورین کو گھورتی کہہ رہی تھی۔ '' یہی تھپڑ اگر آپ نے اپنی بیٹی کو لگایا ہوتا تو حورین کو اسے تمیز سکھانے کی ضرورت نہ پڑتی''۔ ہمدان کی آواز دھیمی تھی لیکن لہجہ سخت وہ بھلا کیسے حورین کا ساتھ نہ دیتا اس نے بیوی ہونے کی حیثٰیت سے بالکل ٹھیک کیا تھا ایسے لوگوں کو اگر وقت پر انکی اوقات دکھا دی جائے تو آگے کے لئے شطانی کرنے کے تمام در بند ہو جاتے ہیں اور خاص کر اگر شوہر ساتھ دے تو انکا خوبصورت گھرانہ ایسی سازشوں سے بچ سکتا ہے ایسا ہی حورین اور ہمدان نے کیا تھا۔ '' یہ اپنی بیٹی سے کیوں نہیں پوچھتی آپ؟؟ حورین نے فبیہہ کی طرف دیکھتے کہا۔ '' تمیز سکھائیں اسے پھپھو، اور بابا آج اور ابھی یہ لوگ ہمارے گھر سے جا رہے ہیں اگر یہ نہیں گئے تو میں حورین کو لے کر چلا جاؤں گا ''۔ ہمدان اپنا فیصلہ سناتا کچن سے نکل چکا تھا۔ چائے وہیں شیلف پر رکھی رہ گئی تھی۔ '' کیا کہہ رہے ہو تم ہوش میں تو ہو؟؟؟ چار دن کی آئی لڑکی نے ایسا کیا بھڑکا دیا کہ ہم سے اتنے متنفر ہو رہے ہو''۔ شاہین سے اتنی بے عزتی کہاں برداشت ہونی تھی۔ '' یہ دیکھ لیں پھپھو خود سمجھ آجائے گا''۔ حورین اپنا مابائل شاہین کہ سامنے کرتی کہہ رہی تھی۔ جسکی اسکرین پر کچھ دیر پہلے کی ویڈیو چل رہی تھی جو فبیہہ کے ارادے بھامپ کر حورین نے چھپ کر بنائی تھی اسمیں صاف نظر آرہا تھا کہ حورین کا ہاتھ کس وجہ سے اٹھا تھا۔ ویڈیو دیکھتے ہی شاہین کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔ '' ماما یہ۔۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔ م۔۔ میں نے کچھ نہیں''۔ ''تڑاخ ''۔۔۔۔۔۔ابھی اسکی بات بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ ایک اور تھپڑ اسکے گال پہ پڑ چکا تھا۔'' ماما۔۔۔ '' وہ حیرت سے ماں کو دیکھے گئی۔ '' شٹ اپ۔۔۔ کہاں کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں؟؟ تمہیں شرم نہیں آئی اتنی گری ہوئی حرکت کرتے ہوئے، شرم آرہی ہے تمہیں اپنی اولاد کہتے ہوئے بھی''۔ وہ واقعی اپنی بیٹی کی حرکت پہ بہت شرمندہ تھی۔ '' بھائی مجھے معاف کردیں حورین بچے آپ بھی مجھے معاف کردیں پتہ نہیں میں غصے میں کیا کچھ کہہ گئی''۔ شاہیں نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ '' پھپھو یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں چھوٹوں سے معافی نہیں مانگا کرتے اور بعض اوقات کمی تربیت میں نہیں ہوتی انسان کی نیچر کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے بگڑنے میں''۔ حورین انہیں صوفے پر بٹھاتی کہہ رہی تھی۔ '' ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیٹا لیکن افسوس میں اپنی ہی اولاد کو سمجھ نہ سکی''۔ وہ افسردہ ہوئیں۔ '' بھائی آپ ہماری ٹکٹس کروادیں ہم کل ہی واپس امریکہ جا رہے ہیں''۔ شاہین بھی اپنا فہصلہ سنا چکی تھیں۔ فبیہہ سب کے بیچ شرمسار سی کھڑی تھی، بدلے کی آگ اس کے دل میں ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

عارش لندن آتو گیا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ حورین کی محبت جو سالوں سے اسکے دل میں گھر کئے بیٹھی تھی اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ سارہ دن مصروف رہنے کے باوجود بھی حورین اسکے حواسوں پربری طرح سوار رہتی اور یہ احساس تو اسے اب ہوا تھا کہ یہاں آنے کے بعد حورین کیلئے اسکی محبت میں مزید شدت آگئی ہے۔ '' کیا کردیا ہے تم نے حور، کیوں کیا میرے ساتھ ایسا معافی مانگ تو رہا تھا غلطی ہو گئی تھی اتنی بڑی سزا ۔۔ اتنی بڑی سزا کیوں دی اپنا نام کسی اور کے ساتھ کیسے منسوب کر سکتی ہو تم حور، تمہیں تو عارش کا ہونا تھا''۔ وہ خود سے باتیں کرتا حور نامہ پھر سے دہرا رہا تھا یہ اسکا روز کا مشغلہ تھا نیند ویسے بھی حور نے ا س سے چھین لی تھی۔ '' حور تم نے میرا جینا حرام کر کے رکھ دیا ہے''۔ عارش اسکی تصویر دیکھتا کہہ رہا تھا۔ وہاں اسکی دوستی ذیشان سے ہو گئی تھی جو اسکا رومیٹ بھی تھا۔ شان ور عارش کا ذیادہ وقت ساتھ ہی گزرتا۔ ماہا جوکہ انکی کلاس فیلو تھی عارش کی خاموش طبیعت اسے کچھ خاص پسند نہ تھی۔ '' یہ کتنا عجیب انسان ہے پتہ نہیں کہاں کھویا رہتا ہے''۔ وہ عفرا سے کہہ رہی تھی۔ '' عجیب کیا ہے اسمیں بھئی؟؟ اچھا بھلا ڈیشنگ بندہ ہے کاش''۔ عفرا جو پہلے دن سے ہی اسکی دیوانی تھی اسے حسرت بھری نگاہ سے تکتے کہہ رہی تھی۔ '' فضول باتیں نہ کیا کرو عفرا''۔ ماہا کو اسکی یہ عادت بالکل پسند نہ تھی۔ '' چلو چل کہ پوچھیں تو یہ ہے ہی ایسا یا اپنا امیج بنانے کے لئے ڈرامے کرتا ہے''۔ ماہا کو عارش کی پرسرار طبیعت کو جاننے کی بےچینی تھی۔ '' ہیلو'' وہ اب عارش کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ '' ہائے'' جواب شان کی طرف سے آیا تھا جس پہ ماہا جی بھر کہ بد مزہ ہوئی تھی جبکہ عارش نے اسکی موجودگی کو ایسے نظر انداز کیا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو۔ شان سے تو تھوڑی بہت بات چیت ہو جایا کرتی تھی لیکن عارش سے بات کرنے کی اسکی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ '' ہیلو عارش''۔ ماہا نے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑہایا۔ عارش نے سر اٹھا کہ اسے سرسری سا دیکھا۔ '' ہیلو''۔ کہتا پھر سے کتاب میں جھانکنے لگ گیا۔ ماہا کا دل چاہا اسے ایک جھامپڑ رسید کرے اتنا بھی کیا ایٹیٹیوڈ بھلا۔ '' یہ اتنا رووڈ بیہیو کرنے کی کوئی خاص وجہ''۔ ماہا بری طرح تپی تھی۔ '' مجھ سے مخاطب ہیں آپ؟؟ عارش نے اپنے کام میں مصروف رہتے پوچھا۔ ''جی بالکل آپ ہی کوئی بڑے ایٹیٹیوڈ بوائے بنے بیٹھے ہیں یہاں''۔ ماہا نے چڑ کر کہا۔ '' پہلی بات تو یہ کہ میں آپکو جانتا تک نہیں ، دوسری بات آپکو جاننے مجھے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے، اور تیسری بات آئندہ براہِ مہربانی اس طرح مجھ سے فری ہونے کی کوشش مت کیجئے گا''۔ وہ تحمل سے کہتا جانے لگا۔ '' سمجھتے کیا ہو تم خود کو ہاں''۔ ماہا کو اپنی اس عزت افزائی پہ آگ ہی لگ گئی تھی وہ دانت پیسے کہہ رہی تھی۔ '' وہی جو مجھے خود کو سمجھنا چاہئے''۔ وہ اسکی جانب دیکھے بغیر کہتا وہاں سے جا چکا تھا۔ '' ہاہہہ بلڈی ایروگینٹ ''۔ ماہا بھی تن فن کرتی کیفے ٹیریا کی جانب چل دی تھی۔ '' تو ٹھیک ہے بھئی بندی صرف ہائے ہیلو ہی کرنا چاہ رہی تھی کرلیتا تیرا کیا جاتا تھا''۔ شان اسے کوس رہا تھا۔'' تمہیں اتنا شوق ہے تو تم کرلو ہائے ہیلو''۔ عارش اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورتا کہہ رہا تھا۔ ''یار پاگل ہے تو تواتنی خوبصورت لڑکی خود چل کر تیرے پاس آئی تھی، تو نے وہ نہیں سنا کہ آتی ہوئی لکشمی کو ٹھکرایا نہیں کرتے''۔ شان اپنے ہی انداز میں ہنستا ہوا کہہ رہا تھا۔ '' اپنے گھر میں بہن ہو تو ایسی باتین زیب نہیں دیتی''۔ عارش کا لہجہ اس بار تھوڑا سخت تھا جو شان کو شرمندہ کرگیا تھا۔ 

 ٭٭٭٭٭٭

عارش بظاہر اپنی اسپیشلائیزیشن میں مصروف تھا عارش کی فیملی اسے بے حد مس کرتی حورین ہمدان کی محبت سے بھرپور زندگی گزار رہی تھی اب تو ننھے مہمان کی آمد کی خبر نے ہمدان اور حورین دونوں کی فیملیز کی زندگی میں نیا رنگ بھر دیا تھا۔ جہاں ہمدان اللہ کا شکرگزار تھا وہیں حورین بھی اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی۔ فبیہہ اور اسکی ماما کو کسی وجہ سے کچھ دن مزید ہمدان کے گھر ہی رکنا پڑ گیا تھا اور آج انہوں نے بالآخر روانہ ہونا تھا۔ حورین ٹیرس پہ کھڑی تھی جب فبیہہ ناک کرتی اسکے روم میں آگئی ۔ '' تم یہاں''۔ حورین کو اسے یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی یہ پہلی بار تھا جب فبیہہ حورین کے کمرے میں آئی تھی۔ ہمدان اسے کمرے میں کہیں دکھائی نہ دیا تھا۔ '' وہ حورین آئی ایم سوری مجھ سے پتہ نہیں یہ سب کیسے ہوگیا''۔ فبیہہ حورین کو دیکھتے سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ '' اٹس اوکے۔۔۔ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا یہ اچھی بات ہے''۔ حورین نے کھلے دل سے اسے معاف کردیا تھا۔ '' ہاں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے جبھی میں اپنی غلطی سدھارنے آئی ہوں''۔  فبیہہ کے لہجے اور انداز میں حورین کو وہی مکروہ شیطانی ارادے نظر آئے حورین کمرے کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ فبیہہ نے اسے وہیں روک لیا۔ '' اتنی بھی کیا جلدی ہے حورین ذرا مجھے غلطی پوری طرح سدھارنے تو دو''۔ اسکے لیجے میں شیطانیت بھری تھی۔ '' فبیہہ یہ۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو چھڑو مجھے''۔ حورین ایک دم خوفزدہ  ہو کہ خود کو اسکی گرفت سے چھڑانے لگی۔ '' آج کہ بعد ہمدان صرف میرا ہوگا بائے ڈئیر حورین''۔ وہ اسے چلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ حورین کی آنکھوں میں خوف تھا''حور میں تمہارے بغیر جینے کا ساچ بھی نہیں سکتا'' ہمدان کے الفاظ بے ساختہ اسے یاد آئے  ہمدان سے جدائی اسکے ساتھ جڑی ننھی جان کی سانسیں ایک پل میں سب سوچتے حورین کی آنکھیں خوف سے بھیگ گئی تھی'' حور'' ہمدان کی آواز اسکی سماعتوں میں گونجی تھی اور  وہ اسے ٹیرس سے دھکا دے چکی تھی۔'' نن۔۔۔نہی۔۔نہیںںںںں ہمدان''۔ واشروم سے فریش ہو کر نکلتا ہمدان حورین کی گھبرائی آواز پہ ٹیرس کی طرف لپکا لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

ہمدان کے دماغ میں ٹیرس کا جو منظر گھوم رہا تھا وہ بہت خطرناک تھا۔ '' یا اللہ خیر ہو''۔ ہمدان ٹیرس کی طرف بھاگا جہاں فبیہہ ایک بار تو حورین کو دھکا دینے میں ناکام ہو چکی تھی اور اب وہ دوسری بار اپنی پوری قوت کے ساتھ حورین کو دھکا دینے آگے بڑھی تھی جیسے ہی فبیہہ نے حورین کو دھکا دینا چاہا ہمدان نے برق رفتاری سے آگے بڑھ کر حورین کو اپنی طرف کھینچا اور نتیجے میں فبیہہ جو پوری جان لگا کر حورین سے جان چھڑانے کے خواب سجائے اسے دھکا دے رہی تھی نہ سمبھلتے ہوئے خود ٹیرس سے نیچے جا گری۔ حورین خوف ذدہ سی ہمدان کے سینے پہ سر رکھے روئے جا رہی تھی جبکہ ہمدان فبیہہ کی حرکت پہ حیران کھڑا تھا۔ '' ہمدان ف۔۔۔ فبیہہ''۔ اچانک حورین کو ہوش آیا تو وہ بے یقینی کی کیفیت میں ٹیرس کی طرف لپکی۔ '' ہمدان کا دماغ بھی اس وقت جاگا جو حورین کو کھودینے کے خوف سے سن ہو چکا تھا۔ ٹیرس سے دونوں نے نیچے دیکھا تو فبیہہ بے سُدھ سی پڑی تھی خون بہے جا رہا تھا۔ فبیہہ نے جو گڑھا حورین کے لئے کھودا تھا وہ اسی میں خود جا گری تھی۔ ہمدان اور حورین جلدی سے نیچے کی جانب دوڑے، تب تک وہاں سرونٹس بھی جمع ہوچکے تھے حورین جلدی سے ایمبیولینس کو کال کرتی لان تک آئی تھی۔ شاہین بیگم اور سحر کو بھی سرونٹس نے اطلاع پہنچا دی تھی سب حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔ شاہین بیگم کبھی اوپر ٹیرس کی جانب دیکھتی کبھی اپنی بیٹی کو جسکی سانسیں ابھی چل رہی تھیں۔ '' کیا بگاڑا تھا میری بیٹی نے تمہارا مجھے پتہ ہے تم نے دھکا دیا ہے میری بیٹی کو ٹیرس سے، جا تو رہے تھے ہم یہاں سے''۔ وہ حورین کو کوستی آگے بڑھی تھیں۔ '' پھپھو بہتر ہے ہوش میں رہ کر بات کریں اور کون کس کو گرا رہا تھا یہ اپنی بیٹی سے پوچھئے گا''۔ شاہین کو حورین کی طرف بڑھتا دیکھ ہمدان حورین کے سامنے آکھڑا ہوا تھا وہ خونخوار نظروں سے دیکھتا انہیں وارن کر رہا تھا شاہین بییگم نے کچھ کہنے کو لب کھولے جبھی ایمبولینس آگئی۔ ''شاہین میں بھی ساتھ چلتی ہوں تمہارے''۔ سحر نے شاہین کو ایمبیولینس میں بیٹھتے دیکھ کر کہا۔ '' اس احسان کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ دعا کریں میری بچی کو کچھ نہ ہو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا'' غصے سے کہتی وہ فبیہہ کو لے کر ہاسپٹل جا چکی تھی۔ '' ہمدان یہ کیا ہو رہا ہے اس گھر میں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا''۔ سحر پریشان سی اپنے بیٹے کو دیکھ کر پوچھ رہی تھی۔ '' مما فبیہہ بالکل پاگل ہو چکی ہے اسنے حور اور میرے اس معصوم بچے کی جان لینے کی کوشش کی ہے جو ابھی اس دنیا میں آیا تک نہیں اگر میں حور کے پاس نہ پہنچتا تو وہ اسے۔۔۔ '' ہمدان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئےاسکی آنکھیں نم تھی حور کو پیار بھری نگاہ سے دیکھتے ہمدان نے مظبوطی سے اسکا ہاتھ تھام لیا جیسے اگر ہاتھ چھوٹ گیا تو مر جائے گا۔ ''مما فبیہہ میرے روم میں آئی تھی اسنے کہا اس سے غلظی ہو گئی ہے اسے سدھارنے آئی ہے ہمدان کو روم میں نا پا کر اسے لگا ہوگا ہمدان روم میں نہیں ہیں جبھی اسنے مجھے ٹیرس سے دھکا دینے کی کوشش کی میں کسی طرح اسکے حسار سے نکل گئی لیکن اس پر تو شاید کوئی جنون سوار تھا اسنے دوبارہ دھکا دینے کی کوشش کی تو ہمدان نے مجھے بچا لیا اور وہ۔۔۔ وہ نیچے گر گئی، مما اسے کچھ نہیں ہوگا نا؟؟ اسنے سحر کو تفصیل بتاتے ہوئے پوچھا۔ حورین کو فبیہہ کے لئے افسوس ہو رہا تھا جو بھی تھا حورین کا دل اتنا سخت نہیں تھا۔ '' کچھ نہیں ہوگا اسے حور اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسنے میری حور کے ساتھ جو کرنے کی کوشش کی ہے اسکا حساب اسے چکانا ہوگا''۔ ہمدان کی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں۔ '' یہ لڑکی اتنی گر جائے گی مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا یہ وہی فیب ہے''۔ سحر نے افسردگی سے کہا۔ '' مما آپ ہاسپٹل جائیں پھپھو جتنا بھی کہیں آپ نے وہیں رہنا ہے خیال رہے فیب کہیں غائب نہیں ہونی چاہئے''۔ ہمدان مما سے کہتا حور کو روم میں لے آیا تھا سحر بھی ہاسپٹل نکل گئیں۔ 

٭٭٭٭٭٭٭

''مجھ سے سوال کرنے کی تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی'' وہ اسکی کلائی پہ گرفت مظبوط کرتے دھاڑا تھا آنکھوں میں جیسے خون اترا تھا۔ '' ہمددان''۔ حورین اسکی دھاڑ پر کانپ کر رہ گئی بے یقینی کی کیفیت میں اس سے صرف اتنا ہی کہا گیا۔ '' آئندہ مجھ سے سوال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا اور خبردار فبیہہ کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالا تو تمہاری یہ خوبصورت زبان کچھ کہنے کے لائق نہیں رہے گی''۔ وہ غصے سے کہتا اسے بیڈ پہ دھکا دیتا روم سے نکل گیا جبکہ حورین ہمدان کا یہ نیا روپ دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی آنسو تھے کہ تواتر سے بہے جا رہے تھے۔ '' حور''۔ عارش اسے ذور سے پکارتا اٹھ بیٹھا تھا۔ چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ ''یہ کیسا خواب تھا حور ٹھیک تو ہے، کہیں ہمدان اسکے ساتھ ۔۔۔ نہیں نہیں حور ٹھیک ہوگی ''۔ وہ خود کو تسلی دیتا موبائل پہ حور کا نمبر ڈائل کر چکا تھا۔ '' حور کیسی ہو''۔ عارش نے کال اٹینڈ ہوتے ہی پوچھا۔ '' حور بالکل ٹھیک ہے عارش اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟؟ دوسری جانب ہمدان کو پا کر عارش کو اور تشویش ہوئی۔ '' کچھ نہیں بس حورین کی یاد آرہی تھی تو سوچا بات کرلوں حورین کہا ہے؟؟ عارش نے جانچتے انداز میں پوچھا۔ '' حور سو۔۔۔۔" '' کس کی کال ہے ہمدان''۔ ہمدان ابھی جواب دینے کو تھا کہ حور کی آواز عارش کے کانوں میں پڑی۔ '' لیں جی جاگ گئی حور لو بات کرو''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے موبائل حورین کو پکڑایا '' ہیلو ''۔ حور کی آواز سے عارش کے دل کو اندر تک تسکین پہنچی تھی وہ جو کل اسکے عشق کی منتظر تھی آج منکرِ عشق ہو گئی تھی ہاں اسکی آواز سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہمدان کے ساتھ خوش، اسکے عشق میں مطمئن ہے۔ '' کیسی ہو حور''۔ عارش چاہتا تھا وہ آج بھی اسے اسی طرح اپنا حال بتائے جیسے پہلے بتایا کرتی تھی لڑتی جھگڑتی لیکن اسے ہر بات بتاتی اسی حور سے بات کرنے کی تڑپ دل میں جاگ اٹھی تھی۔  '' میں ٹھیک ہوں عارش تم کیسے ہو؟ حورین کی آواز میں آج رونما ہوئے واقعی کی وجہ سے ذرا سی پریشانی شامل تھی۔ '' میں بہت خوش ''۔ عارش نے اپنا درد چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ '' ہمم۔۔۔ پتہ چل رہا ہے جتنے خوش ہو''۔ حورین نے نارمل رہتے ہوئے کہا لیکن عارش کو لگا جیسے حور نے اسکے دل پہ چوٹ کی ہو۔ '' تنز کر رہی ہو؟؟ عارش پوچھے بنا نا رہ سکا۔ '' میں بھلا کیوں کرنے لگی تنز؟؟ خیر سناؤ وہاں کوئی گوری تو نہیں سیٹ کرلی ہاں جسکی خبر گھر میں پہنچانے کے لئے آگ کے گولے کو میری ہیلپ چاہیے''۔ حورین نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا ہمدان کو اسکے اس انداز پہ ہنسی آگئی جبکہ عارش بری طرح چڑا تھا۔ '' کیا فارغ جوک مارا ہے، میرے دل کی صرف ایک ہی دشمنِ جاں ہے اور اسے تم بہت اچھی طرح جانتی ہو''۔ عارش نے شرارتی مسکراہٹ سجائے اسے چھیڑتے کہا۔ '' شٹ اپ عارش فضول ہانکنے کی ضرورت نہیں ہے ذیادہ اچھا''۔ حور کو اسکی بات پر کرنٹ ہی تو لگا تھا۔ ''ہاہاہا۔۔۔ میں نے ایسا کیا کہہ دیا یار اچھا سوری مزاق کر رہا تھا''۔ عارش نے قہقہہ لگاتے اسکے بگڑتے تیور دیکھ کہ بات بنائی۔ '' آپ پلیز دفع ہو جائیں بائے ہونہہ''۔ حورین اسکی کلاس لیتی منہ بسورتی کال کٹ کر چکی تھی۔ '' حور''۔ عارش کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ '' بیوقوف لڑکی کیا کردیا میرے ساتھ تم نے''۔ وہ موبائل اسکرین کو تکتا کہہ رہا تھا۔ حورین سے بات کر کے اسے بہت سکون ملا تھا مسکراہٹ اسکے چہرے پہ ایلفی کی طرح چپک گئی تھی۔ ناشتے پہ فبیہہ کی طرف سے کی گئی کارروائی سے اشعر اسے آگاہ کر چکا تھا جبھی عارش نے حورین کی فکر میں ایسا خواب دیکھا تھا۔ خود تو وہ ایک بار حور کا دل توڑ چکا تھا لیکن کوئی اور حور کا دل دکھائے یہ اسے کسی صورت قبول نہیں تھا۔ حور سے بات کر کہ اسے اب تسلی ہو گئی تھی کہ ہمدان اسے کبھی دکھی نہیں کر سکتا۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

 '' پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے''۔ نرس نے آکر بتایا تو شاہین اور سحر کی سانس میں سانس آئی ۔ فبیہہ کی ٹانگ فریکچرہو گئی تھی اور سر پہ چوٹ آئی تھی کچھ خراشیں چہرے اور بازو پر آئی تھیں۔ خون کافی بہہ گیا تھا لیکن اب اسکی حالت خطرے سے باہر تھی۔ سحرساری تفصیل شاہین کو بتا چکی تھی لیکن وہ ماں تھی جب تک اپنی بیٹی کے منہ سے سچ نر سن لیتی اسے یقین کہاں آنا تھا۔ '' کیسی ہے میری بیٹی ''۔ شاہین بیگم نے روتے ہوئے اسکے ماتھے پہ پیار کرتے پوچھا۔ '' اب کی بار فبیہہ نے شرمندگی سے رخ موڑ لیا تھا۔ '' مما میں اس پیار کے قابل نہیں ہوں''۔ فبیہہ نے روتے ہوئے کہا وہ واقعی شرمندہ تھی۔ ''فبیہہ بی بی کون ہے؟؟ شاہین نے بیچھے مڑ کر دیکھا تو لیڈی پولیس آفیسر روم میں داخل ہوتے پوچھ رہی تھی۔ '' ج۔۔جی۔۔ میری بیٹی ہے فبیہہ کیوں پوچھ رہی ہیں اسکا''۔ شاہین کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔ ''انکے خلاف ایف آئی آر فائل ہوئی ہے''۔ پولیس آفیسر کے جملے پہ جہاں شاہین حیران ہوئی تھی وہیں فبیہہ کی ریڑھ کی ہڈی تک سن ہو گئی تھی۔ سحر خاموش کھڑی سب دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھیں ہمدان اسے ایسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ 

"سحریہ کیا کہہ رہے ہیں ہمدان ایسا نہیں کرسکتا''۔ شاہین پھٹی پھٹی آنکھوں سے سحر کو دیکھتی حیرت اور خوف سے کہہ رہی تھی۔ '' یہ تو ہونا تھا شاہین فبیہہ نے چھوٹی حرکت نہیں کی اس بار ہمدان اسے کسی صورت معاف نہیں کرے گا''۔ جواب ولی آفندی کی طرف سے دیا گیا تھا جو کہ کمرے میں داخل ہو تے شاہین کی بات سن چکے تھے۔ '' جو لوگ دوسروں کی خوشیوں کے دشمن بنے پھرتے ہیں ایسے لوگوں کا انجام اس سے بھی دردناک اور اذیت ناک ہونا چاہئے''۔ ولی آفندی غصے سے گویا ہوئے۔ '' بھائی آپ تو ایسا نا کہیں پلیز ہمدان کو سمجھائیں میری بیٹی اس حالت میں نہیں ہے میں ہاتھ جوڑتی ہوں آپکے سامنے''۔ شاہین روتے ہوئے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ ''آپ لوگوں کی بات چیت ہو گئی ہو تو آپ لوگ کمرے سے جا سکتے ہیں ہم انکو اریسٹ کر کے لے جا رہے ہیں طبی معائنہ کے بعد کسی گورنمنٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ کردیا جائے گا انہیں''۔ پولیس آفیسر سختی سے کہتی ساتھیوں کو اشارہ کرتی انہیں باہر نکال چکی تھی۔ '' بھائی ترس نہیں آرہا آپکو میری بچی پر میری حالت پر؟؟ شاہین روتے ہوئے بولی۔ '' ترس مظلوم پہ کھایا جاتا ہے نا کہ ظالم پر''۔ ولی آفندی درشتگی سے کہتے وہاں سے جا چکے تھے جبکہ سحر شاہین کو سہارا دیتی سمبھال رہی تھی۔ 

 ٭٭٭٭٭٭٭

''پاپا۔۔۔ میں آپ شے نلاش''۔(پاپا میں آپ سے ںاراض) ہمدان کی گود میں بیٹھی ننھی میرب موٹی موٹی آنکھیں مٹکاتی ہمدان کو نخرے دکھا رہی تھی۔ '' ارے میری ڈول مجھ سے کس لئے ناراض ہے بھئی؟؟ ہمدان نے میرب کے گال پہ پیار کرتے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ''آپ اتانے شالے دن لگا ڈئےاول کل میلا بلڈے ہے اول آپ نے مجھے چھوپنگ بھی نئی کلائی''۔ ( آپ نے اتنے سارے دن لگا دئے اور کل میرا برتھ ڈے ہے اور آپ نے مجھے شاپنگ بھی نہیں کروائی)۔ میرب اپنی اسی ادا سے آنکھیں مٹکاتی شکایتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ '' ہاہاہا ۔۔۔۔ تو یہ بات ہے بالکل اپنی مما پہ گئی ہیں آپ پتہ ہے؟؟ وہ قہقہہ لگاتے حورین کو آنکھ مارتے کہہ رہا تھاحورین بھی اسکی اس بات پہ مسکرا دی۔ '' پتہ ہے''۔ میرب مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی مما اور پاپا دونوں ہی میرب کے فیورٹ تھے اور مما جیسی ہونے پہ توویسے ہی اسے فخر تھا۔'' شاپنگ پر شام کو چلنا ہے نا میری ڈول پھر بہت ساری شاپنگ کریں گے''۔ ہمدان نے پیار سے کہا تو میرب  ننھے ہاتھ سے ہمدان کے ہاتھ پرتالی مار کر ہنستی ہوئی دادو کو بتانے بھاگ گئی۔ '' ہائے شوہر تھکا ہارا گھر لوٹا ہے پر مجال ہے کہ نظرِ کرم ہی ڈال دیں معصوم پہ''۔ ہمدان حورین کا ہاتھ پکڑتا شوخ لہجے میں بولا۔ '' اتنا خیال تھا تو کیا ضرورت تھی اتنے دن لگانے کی مجھے نہیں بات کرنی جائیں آپ  یہاں سے''۔ حورین بھی ہاتھ جھٹکتی ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی جہاں ہمدان حورین اور میرب کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا وہیں حورین کا بھی یہی حال تھا۔ '' لو جی پہلے بیٹی کو منایا پورا گھنٹہ لگا کہ اب بیگم صاحبہ کو مناؤ''۔ ہمدان نے مظلوم شکل بناتے کہا '' اچھا اب زیادہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں میں نے بہت مس کیا اسپیشلی آپ کے ساتھ لان میں بیٹھ کر چائے پینا''۔ حورین نے پیار جتاتے کیا۔ '' لو بھلا اس میں کیا بات ہے ابھی چل کر چائے پیتے ہیں لان میں''۔ وہ حورین کا ہاتھ تھامے روم سے نکل کر میڈ کو جائے کا کہتا لان میں چل دیا ۔ ہمدان آج ہی پیرس سے میٹنگ اٹیند کر کے گھر پہنچا تھا میرب کی پیدائش کے بعد ہمدان پہلی بار اتنے دن کے لئے کہیں گیا تھا۔ میرب کی پیدائش کو دو سال ہونے والے تھے فبیہہ سے جان چھوٹنے کے بعد  ہمدان اور حورین کی زندگی بہت پر سکون ہو گئی تھی پھر میرب کی پیدائش نے انکی زندگی میں  نئے رنگ بھر دئے تھے۔ میرب مما پاپا کے ساتھ ہی دادا اور دادو کی بھی جان تھی، اسکی کلکاریوں سے گھر میں رونق لگی رہتی۔ شائستہ بیگم ، ثانیہ بیگم غضنفر صاحب ،ضیافت صاحب سب کو ہی میرب حور کی طرح عزیز تھی۔ سب ہی میرب کا برتھ دے سیلیبریٹ کرنے کے لئے ایکسائیٹڈ تھے۔

''ارے یہ فلاورز یہاں سیٹ کرنے ہیں پلر کے پاس اور وہ بلیو بیلونز وہاں لگانے ہیں''۔ اشعر ڈیکوریٹرز کو انسٹرکشن دیتا کہہ رہا تھا۔ '' ہاں بھئی تیاری کہاں تک پہنچی پانچ بجنے والے ہیں آٹھ بجے کیک کٹ ہونا ہے پتہ ہے نا؟؟ شائستہ بیگم پر جوش ہوتی پوچھ رہی تھی۔ '' جی جی چاچی بیگم سب ہو جائے گا ٹائم پر فکر ہی نہ کریں''۔ اشعر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میرب کے برتھ ڈے کی تیاری ذور شور سے جاری تھی۔ سب ہی اپنی ڈول کا برتھ ڈے اسپیشل بنانے کے لئے کام میں لگے ہوئے تھے۔ '' مما مدے یہ دلیش جلدی پنا دیں''۔ میرب اپنا اسنو وائیٹ اسٹائل فروک اٹھائے پھر سے حورین کے سامنے کھڑی تھی یہ صبح سے اسکا بیسواں چکر تھا۔ ''اف میرب میری جان اگر میں آپکو ابھی یہ فروک پہنا دوں گی تو کیک کٹ کرنے تک میری فیری کا فروک گندا ہو جائے گا نا پھر میرب کی پکس کیسے اچھی آئیں گی ہاں''۔ حورین نے اسے پیار سے سمجھایا۔ '' اوہ مما یہ ٹو میں نے شوچا ای نئیں''۔ میرب ماتھے پہ ہاتھ مارتی آنکھیں مٹکاتی کہہ رہی تھی اسکے انداذ پہ حورین نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ '' ماشاءاللہ میرب آپ بہت کیوٹ ہو''۔ حورین کو اپنی چھوٹی سی ڈول پہ بے پناہ پیار آرہا تھا۔ '' کیوٹ تو میری ڈول بھی کم نہیں ہے ویسے''۔ ہمدان کی آواز پہ حورین نے دلکش مسکراہٹ سجائے پلٹ کر اسے دیکھا۔ '' بہت باتیں بنانی آتی ہیں آپکو ریڈی ہوجائیں آپ جلدی سے''۔ حورین اسے کہتی روم سے نکل گئی۔ '' دیکھا کتنی ظالم ہیں آپکی مما''۔ ہمدان میرب کے گال پہ کس کرتے کہہ رہا تھا۔ '' جالم مما ابھی دادو کو بتا کل آئی''۔ میرب ایکسائیٹڈ ہوتی جالم مما کا ورد کرتی دادو کو بتانے بھاگ گئی۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

(چھ ماہ پہلے)

عارش کے اگزامز سر پہ تھے سو وہ اپنی تیاری میں بری طرح مصروف ہو گیا تھا۔ ماہا اور عارش کے درمیان اس دن کے بعد سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی لیکن عارش شان سے ماہا کے بارے میں سنتا رہتا تھا ماہا اسے اچھی لڑکی لگی تھی۔ ماہا بھی اندر ہی اندر عارش کی محبت میں گرفتار ہوچکی تھی۔ وہ عارش کو چپکے چپکے دیکھتی رہتی پتہ نہیں ایسی کونسی کشش تھی عارش میں جو ماہا کو اپنی طرف کھینچتی چلی گئی ماہا اس کے سامنے بے بس ہوگئی تھی۔ جس دن اسے نہ دیکھتی دن گزارنا اسے محال لگتا۔ ایگزامز کا لاسٹ ڈے آن پہنچا تھا۔ ماہا بھی کسی فیصلے پر پہنچ کر عارش کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ انکی یونیورسٹی کا لان تھا سرد موسم، مہکتے پھول اور سامنے کھڑی ماہا ایک پل تو عارش کو حورین کی یاد نے آگھیرا اگلے ہی پل اسنے سر جھٹک کر ماہا کو حیرت سے دیکھا۔ '' یس کوئی کام ہے؟؟ عارش نے بیزاری سے پوچھا۔ '' مجھے بات کرنی ہے تم سے''۔ ماہا نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہا۔ '' اوکے جلدی کہو''۔ وہ جان چھڑانے والے انداز میں کہتا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ '' عارش آئی لو یو۔۔۔'' ماہا نے آگے بڑھ کر عارش کا ہاتھ تھامتے کہا۔ عارش کو تو یک دم جیسے کرنٹ لگا تھا۔ '' واٹ؟؟؟عارش ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتا حیرت سے اسے دیکھے گیا۔ عارش کے یوں ہاتھ چھڑانے پہ ماہا کو اپنی حرکت پر شرمندگی ہو رہی تھی۔ '' آئی۔۔۔ آئی ایم سوری عارش لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا اگر میں تم سے آج نہ کہتی تو شاید ہی کبھی سکون سے رہ سکتی میں سچ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں اور بہت ہمت کر کے تم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے پلیز میری فیلنگز کو ہرٹ مت کرنا پلیز''۔ وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی کہے جا رہی تھی۔ عارش کی آنکھوں میں پھر سے وہ منظر گھوم گیا تھا جہاں حورین اسکا ہاتھ تھامے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی کتنی ہمت جٹائی ہوگی اس نے، پہل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسکا اندازہ تو عارش کو بھی تھا آخر اتنی بڑی سزا جو بھگتی تھی اسنے اسکو یاد آیا کیسے حورین کی فیلنگز ہرٹ کر کے اسنے اسے آنسو دئے تھے کیسے اسے ہمیشہ کے لئے کھودیا تھا اسنے حورین کو۔ وہ روتی ہوئی آنکھیں آج بھی اسکے دل اور دماغ میں نقش تھی۔ ماہا عارش کے جواب کی منتظر کھڑی تھی۔ '' بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں ہم؟؟ عارش نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا تو ماہا کی بھی سانس بحال ہوئی۔ '' کیوں نہیں''۔ ماہا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ دونوں پاس ہی رکھے بینچ پر بیٹھ چکے تھے۔ کچھ دیر سرد ہوا کے جھونکوں میں خاموشی انکے ساتھ رہی پھر عارش نے ہی سکوت توڑا۔ '' کیا جانتی ہو میرے بارے میں؟؟ عارش اسکی طرف دیکھے بغیر اس سے مخاطب ہوا۔ '' ذیادہ کچھ نہیں جانتی لیکن جاننا چاہتی ہوں، بس  اتنا جانتی ہوں کہ تم ایک اچھے انسان ہو اور مجھے محبت ہے تم سے ''۔ ماہا اسکی طرف دیکھتے کہہ رہی تھی۔ '' لیکن مجھے کسی اور سے محبت ہے''۔ عارش نے نرمی سے کہا لیکن ماہا کا دل کسی چھناکے سے ٹوٹا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ '' جان سکتی ہوں کس سے؟؟ وہ بھیگی آنکھوں سے دیکھتی اس سے پوچھ رہی تھی۔ ''حور۔۔ حور سے میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں لیکن۔۔۔''۔ عارش نے سرد آہ بھری۔ ''لیکن؟؟ ماہا نے اسے خاموش بیٹھے دیکھ پوچھا اسے بیچینی ہو رہی تھی۔ '' لیکن وہ کسی اور کی ہو چکی ہے۔ میرے عشق سے منکر ہو کر کسی اور کے عشق میں کھو گئی ہے''۔ عارش کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔ ''اسے قدر نہیں ہوگی تمہاری بہت سیلفیش ہوگی ورنہ ایسا نا کرتی''۔ ماہا حورین کو کوسنے لگی۔ '' شٹ اپ۔۔۔ اسکے بارے میں ایسی بکواس میں کسی کی نہیں سنتا اور مجھے ایسے لوگ نہیں پسند جو پوری بات جانے بغیر اپنی رائے دینے بیٹھ جاتے ہیں''۔ اب کی بار عارش کا لہجہ سخت تھا آنکھوں میں سرخی صاٖ ف واضح تھی۔ '' سوری''۔ ماہا نے اپنی جلد بازی پر شرمندہ ہوتے کہا ۔ '' اسنے بھی ایسے ہی ایک روز میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی محبت کا اظہار کیا تھا، اور میں ۔۔۔ میں نے اسے ہرٹ کیا میری انا کو یہ برا لگا کہ میں کب سے اسے اپنے عشق کی انتہا نہیں بتا سکا اور وہ لڑکی ہو کر میرے سامنے کھڑی ہنستی آنکھوں سے میرا ہاتھ تھامے مجھے کہہ رہی ہے کہ محبت ہے تم سے۔۔۔۔ اتنا۔۔۔اتنا کم ظرف نکلا کہ ایک پل میں اپنی سالوں کی محبت کا منکرِعشق بن بیٹھا یہ بھی نہیں سوچا کہ اسکا کتنا دل دکھا ہوگا۔۔۔ کتنا روئی تھی وہ، مجھے معاف نہیں کیا آج تک اس نے۔ تمہیں پتہ ہے جب اسکی شادی ہونے لگی تو۔۔۔ تو میں نے اس سے اپنے پیار کی بھیک مانگی کتنا تڑپا تھا گڑگڑایا بھی میں لیکن وہ بہت آگے جا چکی تھی میری نفرت میں مجھ سے نفرت کی حد یہ تھی کہ اس نے مجھے غلطی سدھارنے کا ایک موقعہ تک نہیں دیا اور اچھا ہی کیا اسنے میں یہی ڈیزرو کرتا تھا میں ایسی ہی نفرت کے لائق ہوں''۔ عارش کی آنکھیں نم تھیں آواز بھیگی ہوئی یہ پہلی بار تھی کہ عارش نے کسی کو اپنے دل کا حال بتایا تھا۔ '' ماہا جانتا ہوں تم ایک اچھی لڑکی ہو لیکن میں حور کے علاوہ کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر میں تمہاری محبت قبول کر بھی لوں تو بھی اسکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا کیا تم ایسے انسان کے ساتھ  اپنی ساری زندگی گزار سکتی ہو جس کے دل میں تمہارے لئے کچھ بھی نہ ہو بولو؟؟ عارش ماہا کی آنکھوں میں دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ ماہا جو اسکی باتیں سن کر حیران بیٹھی تھی عارش کے سوال پہ چونکی۔ '' میری محبت تمہیں مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کردے گی عارش''۔ ماہا پر عزم انداز میں بولی۔ '' وہ کہتی ہے کہ بہت خوش ہے اپنی لائف میں دیکھتے ہیں چل کر اگر میں اسے قائل نا کر سکا تو میں تمہارا''۔ عارش نے ماہا کو دو ٹوک انداز میں کہا۔ ماہا حیرت سے اسے دیکھے گئی۔''تم نے ابھی کہا کہ وہ کسی اور کی ہو چکی ہے پھر تم کس امید سے یہ کہہ رہے ہو عارش؟؟ ماہا نے بے یقینی سے پوچھا۔ '' میں تمہیں کسی بات کا جواب دہ نہیں میں نے جو کہا اس کا جواب دو ورنہ تم جا سکتی ہو''۔ عارش نے  سرد لہجے میں کہا۔ '' اچھا تو میری ایک شرط ہے تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی پاکستان میں تمہارے نام کے ساتھ جاؤں گی''۔ ماہا نے اپنا مطالبہ سنایا۔ '' کیوں اپنی زندگی برباد کرنا چاہتی ہو ماہا''۔ عارش حیرت سے اسے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ '' قبول ہے تو بولو''۔ وہ اسکا سوال نظر انداز کرتی بولی۔ '' ٹھیک ہے''۔ عارش نے اسکے سامنے ہار مان لی تھی۔

 ٭٭٭٭٭٭

گیسٹ آنا شروع ہو گئے تھے میرب بھی ڈول بنی سب کی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔میرب کے دائیں بائیں ہمدان اور حورین کھڑے کیک کٹ کرنے کی تیاری میں تھے، بلیک سوٹ میں ملبوس ہمدان ہمیشہ کی طرح ڈیشنگ لگ رہا تھا اور بلیک ساڑھی کے ساتھ نفیس سا ڈائمنڈ سیٹ ساتھ ہی خوبصورت جُوڑے میں بالوں کو قید کئے حورین دونوں کی جوڑی آج تو قیامت ڈھا رہی تھی۔ ابھی کیک کٹ ہونے ہی لگا تھا کہ اچانک ہال کی لائٹ آف ہو گئی۔ '' یہ کیا ہوااشعر دیکھوذرا''۔ حورین نے ساتھ کھڑے اشعر سے کہا۔ ابھی اشعر جانے ہی لگا تھا کہ لائٹس دوبارا آن ہو گئی اور لائٹس آن ہوتے ہی سامنے کا منظر سب کو حیران کر گیا۔ ''عارش۔۔۔'' حورین کے منہ سے بے ساختہ نکلا عارش حورین کے بالکل سامنے ٹیبل کی دوسری طرف کھڑا تھا۔ '' میرے بغیر کیک کٹ کرنے کا ارادہ تھا حور''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' عارش میرا بچہ''۔ ثانیہ بیگم نے آکر عارش کو گلے سے لگا لیا سب عارش سے ملنے لگے جبکہ حورین کی نظریں عارش کے ساتھ کھڑی لڑکی پر رک گئیں جو مسلسل حورین کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔ حورین کو اسکی نظریں عجیب لگیں۔ ''ہمیشہ کی طرح اٹینشن سیکر ہی رہنا برتھ ڈے ہمدان اور میری بیٹی کا ہے اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کردیا ہونہہ آگ کے گولے''۔ حورین ، ماہا کی نظروں کو نظر انداذ کرتی عارش کی خبر لینے لگی اسمیں بھی وہ عارش کو یہ جتانا نہ بھولی کہ وہ ہمدان کی ہے۔ '' عارش بدلنے والی چیز نہیں ہے تم تو جانتی ہو اچھی طرح''۔ عارش نے آنکھ مارتے حورین سے کہا۔ حورین کو عارش کا انداذ کچھ مشکوک لگا۔ '' ہممم ڈرامے کرنا نہیں چھوڑے تم نے ''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' بیڈ انکل آپ تو میلی بل ڈے تھلاب کل نے کچ نے انوائٹ کیا؟؟؟ میرب کا پارا ہائے ہو چکا تھا اپنی ماٹی موٹی آنکھیں گھماتی وہ عارش کو ڈانٹ رہی تھی سب اسکی بات پر قہقہہ لگا کر ہنس دئے۔ ''ہئے ڈول آپ تو بالکل اپنی مما پر گئی ہو''۔ عارش نے پیار سے کہا۔ '' چلو پلیز اب کیک کرنے دیں آپ سب لوگ ویٹ کر رہے ہیں ''۔ حورین نے کہا تو سب اپنی پوزیشن سمبھال کر کیک کٹ کروانے لگے۔ کیک کٹ ہو نے کے بعد سب گیسٹ ڈنر کرنے لگے۔ '' کیا؟؟؟ بیوی ہے تمہاری؟؟ تمہارا دماغ خراب ہے ایسے کیسے شادی کر لی ہم کیا تمہیں منہ کرتے؟؟ عارش کی بات پر ثانیہ بیگم بری طرح تپی تھی۔ '' امی اسکا کوئی نہیں ہے دنیا میں واپسی آنا تھا اور سب اتنا اچانک ہوا کہ بتا ہی نہیں سکا''۔ عارش نے صفائی پیش کی۔ '' ہے تو پیاری۔۔ لیکن تمہیں کم از کم ہمیں بتانا چاہئے تھا۔۔۔ خیر بھابھی آپ دل چھوٹا نا کریں ہم یہاں دھوم دھام سے دوبارہ ا سکی شادی کریں گے''۔ شائستہ بیگم نے خوشی سے کہا تو ثانیہ بیگم بھی خوش ہو گئیں۔ ''ماہا امی کے ساتھ ہی بیٹھو میں آتا ہوں''۔ عارش ماہا کو امی کے ساتھ بٹھاتا حورین کی طرف چل دیا جو ہمدان کے ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑی گیسٹز کو الوداع کہہ رہی تھی۔ '' مجھے انداذہ نہیں تھا کوئی ساڑھی میں اتنا بھی حسین لگ سکتا ہے''۔ عارش نے حورین کے سامنے کھڑے ہوتے کہا۔ '' مجھے بھی انداذہ نہیں تھا کہ کوئی اتنا بھی جھوٹا ہو سکتا ہے''۔ حورین کو ہمدان کے سامنے عارش کی تعریف بالکل پسند نہ آئی تو اس نے بات بدلی۔ '' کیا مطلب؟؟ عارش نے نا سمجھی سے کہا۔ '' مطلب یہ کہ اتنے چُھپے رستم ہو یہ لڑکی کون ہے ؟؟ خبر ہی نہیں ہونے دی کسی کو''۔ حورین نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ماہا کی نظرین مسلسل عارش اور حورین پر ٹکی تھیں۔ '' بیوی ہے میری ماہا''۔ عارش نے کہتے ہی حورین کے چہرے پہ کچھ کھوجنا چاہا۔ '' کیا؟؟؟ حورین کی نظریں بے اختیار ہی ماہا کی طرف گھومیں جو ابھی تک اسے ہی دیکھ رہی تھی حورین  کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ماہا نے اچانک گھبرا کر نظریں چرائی۔ '' واؤ۔۔ فائینلی آپ کو بھی کوئی آپ جیسی مل ہی گئی''۔ حورین نے ہنستے ہوئے کہا اسے واقعی خوشی ہوئی تھی۔ '' میرے جیسی تو خیر مجھے تب تک نہیں مل سکتی جب تک وہ خود میری نہ ہونا چاہے''۔ عارش نے معنی خیز نظروں سے حورین کو دیکھتے کہا تو حورین کی ہنسی کو ایک دم بریک لگی۔ ہمدان نے حورین کی یہ حرکت بہت غور سے نوٹ کی۔ '' ہمدان میرب کو سلانے کا ٹائم ہو گیا ہے جلدی سے گیسٹس کو بائے بائے کریں نا پلیز''۔ حورین ہمدان کا ہاتھ تھامتے سر اسکے کندھے سے ٹکاتی کسی معصوم بچی کی طرح بولی ہمدان کو اس پہ جی بھر کر پیار آیا۔ ''اوکے ڈئیر وائیفی''۔ ہمدان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جبکہ عارش کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ عارش کی بات کا جواب حورین نے اس ادا سے دیا تھا کہ عارش کا روم روم جل اٹھا تھا۔ عارش حورین کا یہ انداذ دیکھ واپس ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔ 

   ٭٭٭٭٭٭

گھر واپس لوٹ کر بھی عارش کو ایک پل چین نہ آیا تھا حورین کو حاصل کرنے کی خواہش جانے کیوں اچانک سے ذور پکڑ گئی تھی اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ حورین کسی اور کے ساتھ اتنی خوش کیسے ہے؟؟ یا یہ شیطان تھا جو میاں بیوی کو خوش دیکھ ان میں کسی طرح سے جھگڑے کروانا چاہتا تھا ، شیطان کی تو سب سے بڑی خواہش ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ محبت کرنے والے میا ں بیوی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کروا کر جدائی کروائے۔ ماہا الگ حورین سے حسد کا شکار ہو رہی تھی کہ اسکے شوہر کی توجہ کا مرکز حورین ہی رہی اور حورین ماہا کی توقع سے ذیادہ خوبصورت تھی اسلئے بھی ماہا عارش کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ادھر ہمدان کو بھی عارش کے روّیے نے پریشان کردیا تھا۔ '' حور۔۔۔۔ '' ہمدان نے پیار سے حور کو پکارا جو ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں سمیٹ کر ڈراز میں رکھ رہی تھی۔ '' جی۔۔'' حورین نے کام میں مگن رہتے ہوئے جواب دیا لیکن ہمدان کے حور کہنے پہ جو مسکان اسکے چہرے پہ بکھری تھی اس سے ہمدان بھی مسکراتے ہوئے محذوز ہو رہا تھا۔ '' عارش کا رویہ کچھ عجیب نہیں تھا آج؟؟ ہمدان کے پوچھنے پہ حورین نے پلٹ کر ہمدان کو دیکھا اب وہ اسکے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تھی۔ '' عجیب کیسے؟؟ حورین نے انجان بنتے کہا۔ '' پتہ نہیں۔۔۔ کچھ عجیب ہی باتیں کر رہا تھا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگا''۔ ہمدان نے اپنے دل کی بات کی۔ '' ہمدان۔۔ آپکو مجھ پہ بھروسہ ہے نہ؟؟ حورین ہمدان کا ہاتھ تھامے پر امید لہجے میں پوچھ رہی تھی عارش کے رویے نے حورین کو بھی ڈرا دیا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ آخر کیا کرنا چاہتا ہے لیکن اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ اسکے ارادے ٹھیک نہیں۔ '' یہ کیسا سوال ہوا بھلا۔ خود سے ذیادہ بھروسہ ہے تم پہ میری حور''۔ ہمدان نے پیارسے اسکا ہاتھ سہلاتے کہا۔ ''میں کبھی آپکا بھروسہ نہیں توڑوں گی لیکن اگر آپکو کبھی ایسی کوئی غلط فہمی ہو تو پلیز مجھ سے ایک بار ضرور پوچھنا کیونکہ شیطان وسوسے ڈال کر گھر تباہ کرنے میں دیر نہیں کرتا اور میں تو آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی''۔ حورین کی آنکھیں نم ہوئی تھیں آواز بھیگ گئی تھی وہ نیچے دیکھے کہے جا رہی تھی۔ '' ارے یہ کیا تم رو رہی ہو پلیز ایسے مت رویا کرو تمہارے آنسو میرے دل پہ گرتے ہیں حور''۔ وہ حورین کو روتا دیکھ تڑپ اٹھا تھا۔ '' سوری۔۔۔ دل بھر آیا پتہ نہیں کیوں۔ چلیں اب جلدی سے اپنے ہاتھ کی کافی پلائیں ورنہ میں پھر سے رو دوں گی''۔ وہ اسے حکم جھاڑتی نم آنکھوں سے مسکراتے کہہ رہی تھی۔ '' جو حکم میری حور کا''۔ ہمدان نے سر جھکاتے کہا تو حورین ہنسنے لگی۔ 

عارش اور ماہا کا ولیمہ دھوم دھام سے کردیا گیا تھا۔ ثانیہ بیگم، شائستہ بیگم ضیافت علی،غضنفر صاحب سمیت سب ہی نے ماہا کو کھلے دل سے قبول کر لیا تھا۔ سب ہی اسکا بہت خیا ل رکھتے کہ اسکا آگے پیچھے کوئی نہ تھا بچپن میں ہی اسکی فیملی کار ایکسیڈینٹ میں چل بسی تھی جسکے بعد اسکی نانی نے اسے پالا تھا لیکن تین سال پہلے نانی بھی اسے دنیا میں  اکیلا چھوڑ گئی تھیں، یہ سب ڈیٹیل شان بہت بار عارش کو بتا چکا تھا یہی وجہ تھی کہ عارش ماہا کو اس روز انکار نہ کر سکا کہ حورین کا دل توڑ کر وہ پہلے ہی عزاب میں تھا اگر ماہا کا دل بھی توڑ دیتا تو اللہ کو کیا منہ دکھاتا۔ '' کب سے تمہیں کہہ رہی ہوں میری حورین سے بات کروا دو میرا موبائل خراب کیا ہوا نہ کسی کو فرصت ہے کہ اسے سیٹ کرو ادے نہ ہی نیا فون دلانے کے لئے وقت''۔ ثانیہ بیگم غصے میں اشعر کی کلاس لے رہی تھیں۔ '' اوہ سوری بھول گیا تھا۔۔۔ میرب کے لئے لان میں جھولا سیٹ کر رہا تھا نا''۔ اشعر نے ماں کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے میرب کا سہارا لیا۔ '' اچھا ہو گیا سیٹ؟؟ خیال سے لگوانا کہیں میری ڈول گر نہ جائے''۔ ثانیہ بیگم نے خوشی سے پوچھتے ہوئے ساتھ ہی تاکید کی۔ '' جی سیٹ ہوگیا ہے اچھا یہ لیں بات کریں حورین آپی سے''۔ اشعر نے جواب دیتے ہوئے مابائل ماں کی طرف بڑہایا۔ ''بھابھی حوین کی ساری فیورٹ ڈشز تیار ہیں بس اب آپ اسکے لئے لبِ شیریں بنا آئیں جا کے اس نے خاص فرمائش کی ہے''۔ شائستہ بیگم نے کچن سے نکلتے ہی کہا۔ '' ہاں بس میں جلدی سے جاتی ہوں جب سے شادی ہوئی ہے میری بچی پہلی بار رکنے آرہی ہے اب تو چار پانچ دن روک لیں گے بس اسے''۔ ثانیہ بیگم اپنے منصوبے بنانے لگیں۔ '' جی جی بھابھی کیوں نہیں میں نے اسکا روم بھی سیٹ کردیا ہے''۔ شائستہ بیگم بھی پر جوش تھیں۔ '' مما کوئی گیسٹ آرہا ہے کیا؟؟ ماہا سب کی تیاریاں دیکھ کر پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔ '' ارے نہیں گیسٹ نہیں حورین آرہی ہے، جب سے شادی ہوئی ہے ایک بار بھی رکنے نہیں آئی آج پہلی بار آرہی ہے تو بس اسی کی تیاریاں چل رہی ہیں''۔ ثانیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے تفصیل بتائی۔ '' اچھا۔۔۔'' ماہا کو حورین کی آمد کا سن کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی۔ '' ضرور عارش کی وجہ سے رکنے آرہی ہے ورنہ پہلے کبھی کیوں نہیں آئی''۔ ماہا کڑہتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ '' ارے لو آگئی میری پرینسز''۔ غضنفر صاحب اور ضیافت علی آج گھر پہ ہی تھے حورین کو ہال میں داخل ہوتا دیکھ خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے میرب تو بھاگ کے اپنی نانو کی گودی میں جا بیٹھی۔ ''کیسی ہے میری پرینسز؟؟ غضنفر صاحب نے اسے گلے سے لگاتے پوچھا۔ '' ہمیشہ کی طرح پیاری''۔ حورین نے اپنے انداز میں چہک کر کہا۔ سب سے ملنے کے بعد باتوں کا دور شروع ہوا۔ ماہا کو بھی بے دلی سے مسکرا کر ملنا پڑا حورین نے صاف محسوس کیا تھا کہ حورین کی موجودگی میں ماہا انسیکیور فیل کرتی ہے یہ آج کی بات نہ تھی، جب بھی کہیں حورین موجود ہوتی ماہا کی عجیب نظریں حورین کے ہی تعاقب میں رہتی۔ '' ہمدان کیوں نہیں آیا ساتھ؟ شائستہ بیگم نے پوچھا۔ '' ہمدان مینٹنگ کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری گئے ہیں جبھی یہاں آنے کی پرمیشن ملی ہے ورنہ آپ کو تو پتہ ہی ہے میرب کے بغیر نیند نہیں آتی انہیں مجھے بھی اسی لئے نہیں آنے دیتے''۔ حورین نے جواب دیا۔ '' میرب کے بغیر یا میرب کی مما کے بغیر''۔ اشعر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ '' ہممم لگتا ہے عارش کی کمپنی میں رہ رہے ہو آج کل اسی لئے چھچھورا پن پھوٹ پھوٹ کے نکل رہا ہے''۔ حورین نے اشعر کو گھوری مارتے کہا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی ظاہر ہے سب ہی جانتے تھے ہمدان کا دل حورین کے بغیر نہیں لگتا تھا اور حورین میڈم صاف بہانا بنا رہی تھی حورین کا چہرہ سب کوہنستا دیکھ شرم سے سرخ ہوگیا تھا ۔ ''ہاہاہا۔۔۔ ہمدان بھائی کو نیند نہیں آتی آپی کے بغیر'' اشعر نے قہقہہ لگاتے کہا۔ '' ویری فنی۔۔۔۔ یہ عارش کہاں ہے ویسے نظر نہیں آ رہا''۔ حورین کے منہ سے عارش کا نام سن کر ماہا کا دل ایسے دھڑکا جیسے حورین عارش کو اس سے پل میں چھین لے گی۔ '' عارش کو دیکھ کے آپ نے کیا کرنا ہے  آپ اس سے ملنے آئی ہیں یا گھر والوں سے؟؟ ماہا کی ذبان سے بے ساختہ نکلا انداز تنزیہ تھا۔ ماہا کی بات پر یک دم ہال میں سناٹا چھا گیا سب حیرت سے ماہا کو دیکھنے لگے حورین کو الگ حیرت کا جھٹکا لگا اگلے ہی پل استہزائیہ مسکراہٹ حورین کے لبوں پر پھیل گئی جو ماہا کو کافی کچھ جتا گئی تھی۔ '' ماہا یہ کس انداذ میں بات کررہی ہو تم حورین سے؟؟ ثانیہ بیگم کا لہجہ سخت تھا۔ '' رہنے دیں چاچی۔۔۔۔ عارش کی بیوی ہے بات بھی اسی انداذ سے کرے گی مجھے برا نہیں لگا''۔ حورین نے مسکراتے ہوئے کہا نظریں ماہا پر تھیں جو کہ اپنی بات پر شرمندہ بیٹھی تھی حیرت تو اسے حورین کے پر سکون انداذ پہ ہو رہی تھی۔ جبکہ ہال میں داخل ہوتا عارش ماہا اور حورین کی گفتگو سن کر وہیں رک گیا تھا۔ اسے ماہا سے اس حرکت کی امید بالکل نہ تھی۔ '' ''السلام و علیکم'' عارش نے ہال میں آتے ہی سب کو سلام کیا۔ '' ارے واہ آج تو ہماری قسمت بہت اچھی ہے بڑے بڑے لوگ آئے ہوئے ہیں''۔ عارش نے آتے ہی حورین کو چھیڑتے کہا۔ '' مما یہ وہی بیڈ انتل ہیں نا جنو نے میلی بلڈے کھلاب کی تھی آئی دونت لائک دچ انتل''۔ میرب اپنی موٹی آنکھیں گھماتی ماں سے پوچھ رہی تھی۔  میرب کی بات پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا تھا۔'' جی ڈول یہ وہی بیڈ انکل ہیں اینڈ آئی ڈونٹ لائیک ہم ٹو۔۔۔۔۔ بالکہ آئی ہیٹ ہم''۔ حورین بظاہر مسکراتے ہوئے میرب کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی لیکن اصل میں سنا عارش اور ماہا کو رہی تھی۔ حورین کی بات پر سب پھر سے ہنسے تھے جبکہ عارش بری طرح تپا تھا اسنے ماہا کو غصے سے گھورا۔ '' میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر باتیں کریں گے۔ ماہا میرا ڈریس نکال دو چل کر''۔ عارش ماہا کو بلاتا اوپر کی طرف چل دیا ماہا بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔ '' کیا سمجھتی ہو تم خود کو ہاں؟؟ تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی حورین سے ایسے بات کرنے کی؟؟؟ ماہا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اسے کندھوں سے پکڑے دھاڑا تھا۔ '' وہ۔۔۔ آئی ایم سوری عا۔۔'' ماہا کی بات ادھوری تھی کہ عارش پھر سے دھاڑا۔ '' شٹ اپ۔۔۔۔ کیا کہا تھا تم نے تمہاری محبت مجھے حورین کو بھولنے پر مجبور کردے گی؟؟؟ تمہاری محبت مجھے صرف حورین کی نظروں میں مزید گرا سکتی ہے لیکن میرے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی سمجھی تم؟؟ عارش آپے سے باہر ہوا تھا وہ ماہا کو بیڈ پہ دھکا دیتے اپنا سر پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ '' کیا سوچے گی وہ میرے بارے میں کہ میں نے اسکی محبت کی جو تذلیل کی تھی اسکی داستانیں ہر ایرے غیرے کو سنا رکھی ہیں؟؟ میں کیا سمجھا تھا تمہیں اور تم کیا ہو ماہا؟؟ عارش نے بے بسی سے ماہا کو دیکھا۔ ''سوری عارش پلیز آئیندہ ایسا کچھ نہیں کروں گی جس سے تمہارا دل دکھے''۔ ماہا کے چہرے پہ عارش کو کھونے کا خوف صاف نظر آرہا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔ '' میرا دل نہیں حورین کا دل نہ دکھے تمہاری وجہ سے کبھی بھی سمجھی؟؟ عارش نے انگلی کا اشارہ اسکی طرف کرتے کہا۔ '' سمجھ گئی''۔ ماہا آنسو صاف کرتی بولی۔ '' حلیہ ٹھیک کرو اپنا اور نیچے چلو''۔ وہ اسے حکم جھاڑتا چینج کرنے چل دیا۔ 

  ٭٭٭٭٭٭٭

آج حورین کو یہاں تین دن ہو گئے تھے، ہمدان کو ابھی واپس آنے میں دو دن تھے۔ دن میں دس بار تو ہمدان حورین اور میرب کو دیکھنے کے لئے کال کرتا کہ اسکی جان جو دونوں میں اٹکی تھی۔ میرب اپنی نانو کے ساتھ سو گئی تھی تو حورین چہل قدمی کرنے لان میں آگئی۔ لان میں لگے پھول حورین کو بہت پسند تھے شادی سے پہلے اسکا ذیادہ وقت انہی پھولوں کے ساتھ گزرتا انکا خیال رکھتے، ان سے باتیں کرتے، حورین پھولوں کی خوشبو محسوس کرتی ہمدان کی سوچوں میں گم تھی کہ جانے کب عارش اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔ عارش کو سامنے کھڑا پا کر حورین گھبرا کر تھوڑا پیچھے ہوئی۔ '' تم یہاں کیا کر رہے ہو اس وقت؟؟ حورین نے عارش سے پوچھا۔ '' جو تم کر رہی ہووہی کر رہا ہوں''۔ عارش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ بالکونی میں کھڑی ماہا دونوں کو ساتھ کھڑا دیکھ کسمسا کر رہ گئی اور لان کی طرف بھاگی کہ چھپ کر انکی باتیں سن سکے۔ '' میں تو ہمدان کو یاد کر رہی ہوں ''۔ حورین نے تنزیہ کہا۔ '' ہمدان کا نام ہر بات میں لینا ضروی ہے کیا''۔ عارش بری طرح تپا تھا۔ '' ہاں ضروری ہے جیسے سانس لینا ضروری ہوتا ہے ویسے ہی اسکا نام لینا بھی ضروری ہے عشق کرتی ہوں ان سے سچا عشق''۔ حورین اسکی آنکھوں میں جھانکتی اعتماد سے کہہ رہی تھی۔ '' جھوٹ عشق تو تم مجھ سے کرتی تھی ''۔ عارش نے غصے سے کہا۔ '' ہاہاہا۔۔۔ تم نے خود ہی اپنی بات کا جواب دے دیا'' کرتی تھی''۔۔۔۔'' حورین اپنے آخری جملہ پر ذور دیتی تنزیہ ہنسی۔ '' میں جانتا ہوں تم صرف مجھے دکھانے کے لئے یہ سب ڈھونگ کر تی ہو حقیقت میں تم ہمدان سے محبت نہیں کرتی حور''۔ وہ جیسے خود کو تسلی دینا چاہتا تھا۔''پہلی بات تو یہ کہ میرا نام حورین ہے تو دوبارہ حور نا سنوں دوسری بات یہ کہ عشق ہوا تھا کسی زمانے میں لیکن پھر تم ہی نے احساس دلایا کہ تم قابل نہیں تھے اسکے، پھر نفرت ہوگئی تم سے لیکن اب۔۔۔۔ اب تو وہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہمدان کی حور کو انکی محبت کے سوا کچھ یاد ہی نہیں''۔ حورین نے جتاتے ہوئے کہا۔ ''تم سمجھ نہیں رہی تم تم چھوڑ دو ہمدان کو ہم شادی کرلیں گے تم تم طلاق۔۔۔'' عارش دیوانوں کی طرح کہتے حورین کا ہاتھ تھامنے لگا۔ '' تڑاخ۔۔۔۔۔'' ذوردار تھپڑ عارش کے منہ پے پڑا تھا۔'' کیا بکواس کی تم نے؟؟ اتنے گر گئے ہو تم؟؟ تم نے سوچی بھی کیسے اتنی گھٹیا بات''۔ حورین اسے تھپڑ رسید کرتی غصے سے دھاڑی تھی۔'' ماہا کو دیکھا ہے تم نے اسکی نظریں دیکھی ہیں ہاں؟؟ وہ چلائی تھی۔ '' وہ مجھے ایسے دیکھتی ہے جیسے میں نے اس سے کچھ چھین لیا ہو، مجھ سے اتنی ان سیکیور کیوں ہے پتا ہے؟؟ کوئی بھی عورت یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسکے شوہر کے دل میں کسی اور کی محبت ہو کتنے دل توڑو گے تم کتنے؟؟ تمہیں صرف تم ہی نظر آتے ہو دنیا میں دوسروں کی فیلنگز انکی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتی تمہارے لئے؟؟ وہ اس سے پوچھ رہی تھی اور عارش ابھی تک حورین کے ری ایکشن پہ شاکڈ کھڑا تھا۔ '' حورین میں۔۔۔ '' عارش نے کچھ کہنے کو لب کھولے۔ '' تم کوئی محبت نہیں کرتے مجھ سے تم نے بس ضد لگا لی ہے کہ مجھے خوش نہیں رہنے دو گے، اگر مجھ سے محبت ہوتی تو یوں میری رسوائی کے منصوبے نہ بناتے میری عزت کا خیال رکھتے اور ماہا سے شادی کی ہامی تم کسی صورت نہ بھرتے۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے عارش سراب کے پیچھے بھاگنا بند کرو اس سے پہلے کے ماہا کی محبت کو بھی کھو دو کیونکہ ہمدان سے مجھے صرف میری موت ہی مجھے دور کر سکتی ہے''۔ حورین اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہی تھی وہ دل سے چاہتی تھی ماہا کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو اور عارش بھی اپنی زندگی میں خوش رہے۔ عارش بے یقینی سے حورین کو دیکھ ریا تھا۔ ماہا بھی حورین کی باتیں سن کر اپنے رویے پر شرمندہ کھڑی تھی۔ تبھی حورین کا موبائل بجا کوئی انجان نمبر تھا جسے کچھ سوچتے ہوئے حورین نے اٹینڈ کرلیا۔ '' ہیلو'' حورین نے کال اٹینڈ کرتے ہی کہا۔ '' ہیلو جی مسز ہمدان؟؟ دوسری طرف کسی کی گھبرائی ہوئی آواز تھی۔ '' جی آپ کون؟؟ حورین نے پوچھا۔ ''ہمدان سر کا کار ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے انکی کنڈیشن بہت سیریس ہے آپ پلیز جلدی سے اس ایڈریس پہ پہنچیں''۔ کہتے ہی کال منقطع کردی گئی تھی۔ '' ک۔۔کیا۔۔ ہمدان''۔ حورین ایک پل تو شاکڈ رہ گئی۔ اگلے ہی پل اسکے موبائل پہ ایڈریس موصول ہوا تو وہ ہوش میں آئی۔ '' ڈرائیور گاڑی نکالو جلدی''۔ وہ جلدی میں ڈرائیور کو آواز لگاتی گاڑی کی طرف بھاگی چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ '' کیاہوا حو'' عارش نے پوچھنا چاہا۔ '' تم۔۔۔ اپنی منحوسیت کا سایہ مجھ سے اور ہمدان سے دور رکھو اور خبردار میرا نام مت لینا دوبارہ ماہا کو سوار کرو خود پر اسے اسکے حق دو جاؤ یہاں سے''۔ وہ انگلی اسکی طرف کئے روتے ہوئے غصے سے کہتی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ عارش وہیں شرمسار کھڑا تھا۔ ''یہ کیا کیا میں نے میں کیسے اتنا گھٹیا ہو گیا کیسے سوچ لیا میں نے یہ سب حور شادی شدہ ہے جانتے ہوئے بھی اسکی زندگی برباد کرنے کی کوشش کی''۔ وہ خود کو کوس رہا تھا کہ ماہا نے آکر اسکا ہاتھ تھام لیا جس پہ عارش نے گرفت اور مضبوط کردی۔ ''آئی ایم سوری ماہا۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ ایک نئی شروعات کے لئے تیار ہو؟؟ عارش نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔ '' کیوں نہیں اگر حورین ہم دونوں کو معاف کردے تو ہم بھی پر سکون شروعات کر سکتے ہیں۔ میں نے حورین کو بہت غلط سمجھا اور وہ وہ تو بہت اچھی ہے دل کی اتنی صاف ''۔ ماہا شرمندگی سے آنسو بہا رہی تھی۔ عارش نے اسے سینے سے لگا لیا تو ماہا نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ 

 ٭٭٭٭٭٭

''جلدی چلیں کریم بابا'' حورین فکرمندی سے کہہ رہی تھی آواز بھیگی ہوئی تھی وہ مسلسل ہمدان کا نمبر ڈائل کر رہی تھی جو پاورڈ آف آ رہا تھا۔ حورین کی سانس رکنے لگی تھی۔ '' یا اللہ میرے ہمدان کی حفاظت کرنا''۔وہ دل میں دعائیں کرتی ڈرائیور کو جلدی جلدی کی تلقین بھی کر رہی تھی۔ '' پہنچ گئے بیٹا بس''۔ ڈرائیور نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ '' کریم بابا یہ کہاں لے آئے ہیں آپ یہ ہاسپٹل تھوڑی ہے''۔ حورین نے فکرمندی سے کہا۔اتنے میں کسی نے کھڑکی پہ ناک کیا۔ '' میم جلدی چلیں سر کی کنڈیشن سیریس ہے بہت''۔ حورین نے اس شخص کی بات سنتے ہی گاڑی کا گیٹ کھولا اور اس شخص کے ساتھ چل دی۔ آنسو بہے جا رہے تھے وہ شخص بھاگتا ہوا اندر جا رہا تھا حورین بھی دیوانہ وار اسکے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی دنیا سے بیگانی وہ جلد سے جلد ہمدان کے پاس پہنچنا چاہتی تھی۔ ایک روم کے باہر پہنچ کر وہ شخص رک گیا اور حورین سے کہا کہ سر اندر ہیں آپ اندر چلی جائیں۔ جیسے ہی حورین اندر داخل ہوئی تو گھبرا گئی روم کی لائٹس آف تھیں۔ حورین کو اچانک عجیب خوف کے احساس نے آن گھیرا، اسے لگا کچھ غلط ہونے والا ہے۔ '' ہمددان۔۔'' حورین نے کامپتی آواز سے پکارا۔ '' یس مائی ڈئیر وائیفی''۔ ہمدان کی آواز کے ساتھ ہی روم کی لائٹس آن ہوئی تھی۔ روم میں ہر جگہ پھولوں سے سجاوٹ کی ہوئی تھی اور جہاں حورین کھڑی تھی اسکے قدموں سے لے کر ہمدان تک جانے کے لئے پھولوں سے رستہ بنایا گیا تھا۔ '' ہیپی ویڈنگ اینیورسری حور''۔ ہمدان نے پیار سے کہہ کر بانہیں کھول لی حور پھولوں سے بنے راستے پہ بھاگتی ہوئی ہمدان کے گلے جا لگی۔ '' جان نکال لی تھی میری ایسا مزاق کون کرتا ہے''۔ حورین نے ہچکیوں سے روتے ہوئے ہمدان کے سینے پہ مکہ مارا۔ '' آہ۔۔۔ ظالم حور ''۔ ہمدان نے ایکٹینگ کرتے ہوئے سینے پہ ہاتھ رکھا جیسے بہت ذور سے مکا لگا ہو۔ '' یہاں پہنچنے سے پہلے اگر میں مر جاتی تو''۔ حورین نے غصے میں بھیگی آنکھوں سے گھورتے کہا۔ '' ششش کیسے کہہ لیتی ہو تم اللہ نا کرے تمہیں کچھ ہو یار''۔ ہمدان کے دل کو کچھ ہوا تھا جبھی حورین کے ہونٹون پہ انگلی رکھ کے اسے خاموش کروایا۔ '' میری کیا حالت ہو رہی تھی پتہ ہے''۔ حورین کو واقعی ہمدان کی اس حرکت پر بہت غصہ آرہا تھا۔ '' اچھا سوری  نا پرامس پھر کبھی ایسا نہیں ہوگا میں تو بس سرپرائز دینا چاہتا تھا اپنی حور کو''۔ ہمدان نے  شرارتی انداز میں کہتے ہوئے حورین کے آنسو صاف کئے۔ ''اتنی محبت کرتی ہو کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگی چلی آئی ''۔ ہمدان نے اسکے گال پہ آئی لٹ کو چھیڑتے ہوئے محبت سے پوچھا ۔ '' زندگی ہیں آپ میری میرا سب کچھ کیسے نا آتی''۔ حورین پھر سے روہانسی ہو گئی تھی۔ '' میری جان اب رونا نہیں ہے بس اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اسنے ہمیں بے شمار خوشیاں جینے کا موقع دیا''۔ ہمدان نے اسے گلے لگاتے کہا۔ '' ہاں اور اللہ کا شکرکریں کہ میں نے آتے ہی آپکے منہ پے مکا رسید نہیں کیا''۔ حورین نے ہنستے ہوئے کہا تو ہمدان بھی ہنسنے لگا۔ '' بہت خطرناک لڑکی ہو بھئی تمہارا تھپڑ آج تک یاد ہے''۔ ہمدان نے ہنستے ہوئے حورین کو چھیڑا۔ '' سوری بھول جائیں نا وہ تھپڑ''۔ حورین شرمندہ ہوئی۔ '' اچھا ایک شرط پہ بھولوں گا''۔ ہمدان نے کچھ سوچتے ہوئے شرارت سے کہا۔ '' کس شرط پہ؟؟ حورین نےسر اٹھا کے ہمدان کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔ ''آج  تم مجھے اللہ کا شکر اد ا کرنے کا موقعہ دو کہ انہوں نے ہمیں کیوٹ سے بیٹے سے نوازا''۔ ہمدان حورین کو دیکھتا شوخ لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ''ہمدان آپ نا۔۔۔'' ہمدان کی بات پر حورین نے جھیمپ کر ہمدان کے سینے میں منہ چھپا لیا۔ ہر چیز خوبصورت تھی صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ،سچی محبت اور یقین کی بدولت۔

ختم شد

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wo Munkar E Ishq Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Munkar E Ishq written by  Kinza Hayat . Munkar E Ishq by Kinza Hayat is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages