Tere Bin Jeena Munkin Nahi Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 29 June 2024

Tere Bin Jeena Munkin Nahi Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic Novel

Tere Bin Jeena Munkin Nahi Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic  Novel 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Bin Jeena Munkin Nahi By Humna Tanveer Complete novel 


Novel Name: Tere Bin Jeena Munkin Nahi 

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس تحریر کے دو عنوان ہیں

ایک اللہ پر یقین...

دوسرا ماں باپ کی نافرمانی...

وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی برات کا لہنگا دیکھ رہی تھی جب آفاق دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگی...

ناک کر کے نہیں آ سکتے تھے...

سوری آپی....

وہ سر کھجاتے ہوۓ بولا...

ویسے آپ چلی جائیں گیں تو میں بہت مس کروں گا آپ کو.... بولتے بولتے وہ اداس ہو گیا..

مس تو میں بھی بہت کروں گی تمہیں لیکن تم ایسا کرنا مجھ سے ملنے آتے رہنا... وہ حل نکالتے ہوۓ بولی...

وہ مسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلانے لگا..

لیکن نور مسکرا نہ سکی....

آپی یہ لہنگا میں پہن کر دیکھوں؟؟؟

آفاق تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نہ ؟؟؟ نور ہنستے ہوۓ بولی..

بس یہی سمائل چائیے تھے مجھے... وہ معصومیت سے بولا....

اچھا یہ بتاؤ خالہ بھی آئیں ہیں کیا؟؟؟

جی بلکل نیچے بیٹھی ہیں....

آؤ پھر نیچے چلتے ہیں.... وہ اٹھتی ہوئ بولی... آفاق بھی اس کے پیچھے چل دیا...

سیڑھیاں اترتے ہی خالہ نے اسے دیکھ لیا اور مسکرانے لگی...

نور ان سے مل کے ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئ...

شادی کی تیاری ہو گئ ساری نور؟؟؟ نور جو اپنے خیالوں میں گم تھی اسے براہ راست مخاطب کیا...

جی بس آپ کی کمی تھی وہ بھی پوری ہو گئ لیکن خالہ مہندی کا ڈریس میں آپ کے ساتھ جا کر لاؤں گی.... وہ ناراض ناراض سی بولی...

بلکل اب تو آ گئ ہوں نہ باقی ساری شاپنگ مل کر کریں گے... وہ نور کا منہ تھپتھپاتی ہوئیں بولیں...

نور اٹھی اور لاؤنج سے ملحقہ کچن میں چلی گئ.... اس کی ماما اور خالہ آپس میں گفتگو کرنے لگیں...

نور چاےُ بنانے لگی...

آپی آپ کو پتہ ہے وہ جو ہمارے کھڑوس ہیں نہ؟؟؟

وہی دوبئی والے نہ.... نور ناک چڑھاتی ہوئ بولی...


جی جی وہی...

کیا ہوا ان کو؟؟؟ نور نے بادل نخواستہ پوچھا..

وہ کہتے میں نور کی شادی میں نہیں آؤں گا...

کیوں؟؟؟ نور تو صدمے میں چلی گئ....

کہتے نور خود آےُ گی کارڈ دینے پھر آؤں گا...

لیکن میں کیسے دوبئی جاؤں ان کو کارڈ دینے.....

نور مایوسی سے بولی...

آفاق کی ہنسی نکل گئ....

تم مجھے بیوقوف بنا رہے تھے نہ...چمٹا اٹھا کر اس کے سامنے کیا...

میں نے تو تھوڑا سا مذاق کیا آپ نے سیرئس ہی لے لیا...

وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنستے ہوۓ بولا...

یار وہ اتنے کھڑوس ہیں پھر بھی آپ چاہتی ہو کہ وہ آئیں آپ کی شادی میں؟؟؟

جیسے بھی ہیں میرے فسٹ کزن ہیں مجھے اچھا نہیں لگے گا اگر اس کی جگہ کوئ اور بھی ہمارا کزن شرکت نہ کرے تو...

وہ ایسی ہی تھی معصوم سی سب کو اپنی طرح معصوم اور اچھا سمجھنے والی چاہے جیسا بھی رویہ کیوں نہ ہو....


اگر انہوں نے آپ کے دولہے کو بھگا دیا پھر؟؟ آفاق اسے ڈرانے لگا..

اب اتنی بھی بات نہیں تم نہ فضول میں میری برین واشنگ مت کیا کرو میں خالہ سے شکایت کر دوں گی... منہ بنا کر کہتی ٹرے لیے باہر آ گئ...


نہیں باجی وہ آےُ گا یہ تو آفاق یونہی سب کو کہتا رہتا ہے.. مام میں یونہی تو نہیں کہتا انہوں نے خود تو کہا تھا کہ میں بہت مصروف ہوں....

آفاق باہر آتے ہی شروع ہو گیا....

جب وہ آجاےُ گا نہ پھر دیکھنا تمہارے کان کھینچے گا... وہ اسے گھورتی ہوئیں بولیں...

بلکہ ایک منٹ باجی میں ابھی کال کرتی ہوں اسے آپ کے سامنے...

کہ کر وہ فون ملانے لگیں...پہلی بیل پر ہی ریسیو کر لیا...

جی مام؟؟

جی مام کے بچے تمہیں میں نے کہا تھا کہ آج مجھے تم یہاں نظر آؤ...وہ چہرے پر خفگی لاتے ہوۓ بولیں...

یار مام ایکچوئیلی یو نو کام میں بزی بہت ہوں...

اب بس جلدی سے اپنی سیٹ بک کرواؤ اور یہاں آؤ...

اوکے دو دن تک کانفرم ناؤ ہیپی؟؟؟

اووکے ہم ویٹ کر رہے ہیں..

دین میں بعد میں بات کرتا ہوں

فون کان سے ہٹا کر اس نے میرا کے کندھے سے بازو ہٹا کر اسے اپنے سامنے کیا...

بےبی آئ ہیو ٹو گو.....

بٹ واےُ...

آئ ٹولڈ یو آباؤٹ مائ کزن ویڈنگ... وہ شانے اچکاتے ہوۓ بولا....

آئ مس یو... وہ اس کے کندھے پر سر رکھتی ہوئ بولی...

مس یو ٹو.....

*********

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن نور کا دل مطمئن نہ تھا نہ جانے کیوں ایک انجانہ خوف اسے اپنے قبضے میں لیے ہوۓ تھا جس سے وہ نکل نہیں پا رہی تھی...

نماز پڑھ کر آج بھی وہ کتنی ہی دیر بیٹھی دعا مانگتی رہی اور جب دل پرسکون ہو گیا تو ہاتھ پھیرتی اٹھ گئ...

جاےُ نماز رکھا تو فون وائبریٹ کرتا دکھائ دیا.. مسیجز کی بھرمار تھی... یااللہ اتنے سارے میسجز.... دیکھ کر اسے شاک لگا تو ساتھ میں ڈر بھی لگا...

ڈرتے ڈرتے وہ میسج ٹائپ کرنے لگی...

جی کوئ کام تھا آپ کو؟؟؟

میں کب سے تمہیں میسج کر رہا ہوں کس کے ساتھ لگی تھی؟؟؟

جی وہ میں تو نماز پڑھ رہی تھی.... نور کے ہاتھ کانپ رہے تھے...

کال پر بات کرو مجھ سے....

نور پریشانی سے موبائل کو تکنے لگی کہ اب کیا کرے پہلے ہی کئ بار وہ انکار کر چکی تھی اور آج پھر سے وہ شروع ہو گیا...

وہ بیڈ پر بیٹھی تھی اٹھ کر سامنے دروازہ بند کیا...بیڈ کے بائیں جانب جو کھڑکیاں تھیں انہیں بھی بند کر دیا

کانپتے ہاتھوں سے کال ریسیو کی....

جی؟؟؟

میں جب بھی تمہیں میسج یا کال کروں تم مجھے ہمیشہ اگنور کرتی ہو یا پھر دھڑلے سے انکار کر دیتی ہو آخر سمجھتی کیا ہو خود کو..احمد کی غصے سے بھری آواز ابھری اور نور وہیں سہم گئ....

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں ہمت کر کے بولنا شروع کیا....

وہ وہ میں نے آپ کو پہلے......

بھی تو بتایا تھا نہ...رک رک کر بات پوری کی..

مجھے تمہاری وہ فلاسفی بلکل سمجھ نہیں آتی.. مقابل ابھی تک غصے میں تھا...

جی اب تو بس کچھ ہی دن رہ گۓ ہیں شادی میں پھر کر لیجیے گا جو.......

کیا کیا کہا تم نے؟؟؟

وہ نور کی بات کاٹ کر بولا تو وہ وہیں خاموش ہو گئ... خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی... ہاتھ اس کے ڈھنڈے پڑ گئے... پھر سے ہمت مجتمع کی اور بولنا شروع کیا....

آپ نکاح کر لیتے تو میں کبھی انکار نہ کرتی بات کرنے سے پلیز میری بات سمجھیں... نور نے اب باقائدہ رونا شروع کر دیا تھا.....

تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے.... کہ کر اس نے کھٹاک سے فون بند کر دیا....

نور کے آنسو اسکرین پر گرنے لگے....

یااللہ میں کیا کروں کیسے انہیں سمجھاؤں اب تو چند ہی دن باقی ہیں پھر وہ کیوں بار بار مجھے ایسے کہ رہے ہیں... نور کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئ....

آپ جانتے ہیں میں ایسا اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ منگنی ہو جانے سے وہ میرے محرم تو نہیں بن گۓ نہ پھر میں کیسے ان کے ساتھ باتیں کرنے لگ جاؤں جب کہ میں جانتی ہوں کہ یہ باتیں کس نہج تک پہنچ جاتی ہیں....

نور روتی ہوئ لیٹ گئ اور کب اس پر نیند مہربان ہوئ اسے پتہ بھی نہ چلا....

*********

نور نے ایم-اے اسلامیات کیا تھا اور اب اس کی شادی احمد سے ہونے جا رہی تھی وہ چونکہ دین کے کافی قریب تھی اس لیے گناہ کا خیال کرتی لیکن احمد کے نزدیک ان باتوں کی کوئ اہمیت نہ تھی سو اسے ہمیشہ یہی لگتا کہ نور کسی اور ساتھ مصروف رہتی ہے اس لیے اسے وقت نہیں دیتی...

نور اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہے...

صفدر جو کہ نور کے والد ہیں وہ اپنا ایک شوروم سنبھالے ہوۓ ہیں اور ان کی بیوی سعدیہ ہاؤس وائف ہیں....

صفدر کی دو بہنیں ہیں جو کہ اپنے سسرال میں خوش باش ہیں .....دونوں کی دو دو بیٹیاں ہیں..

سعدیہ کی ایک بہن اور دو بھائ ہیں....

بہن کے دو بیٹے ,بڑے بھائ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی جبکہ چھوٹے بھائ کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے..

*********

شایان تم نے قسم کھائ ہے کہ مجھے سب کے سامنے ذلیل کروانا ہے... وہ غم و غصے کی حالت میں چلائیں...

مام میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر میں نہیں آؤں گا تو کیا اس کی رخصتی نہیں ہو گی یا پھر اس کا نکاح میں نے پڑھانا ہے جو میری موجودگی لازم ہے.... وہ تنگ آ کر بولا...

بیٹا جن کے باپ نہیں ہوتے نہ ان کے بڑے بیٹے ہی اپنی ماں کے ساتھ چلتے ہیں لیکن تم چلنا تو دور میرے ساتھ بھی نہیں ہو... ان کی آنکھوں سے دو موتی چھلک پڑے...

فائن لیکن پلز آپ روئیں مت میں کل ہی آ جاؤں گا...

اب میں دوبارہ کوئ بہانہ نہ سنوں... وہ آنکھیں صاف کرتی ہوئیں بولیں...

ایک بار ڈن کر دیا تو مطلب اووکے ہے کہ کر اس نے کال کٹ کر دی... وہ ویڈیو کال پر بات کر رہے تھے....

پتہ نہیں یہ لڑکا کس پر گیا ہے... وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں... اس وقت وہ نور کے سامنے والے کمرے میں تھیں جسے وہ لوگ گیسٹ روم کے طور پر استعمال کرتے....


یہ ایک چھوٹا مگر نفاست سے آراستہ گھر تھا.نیچے لاؤنج کے دائیں جانب کچن تھا اور بائیں جانب پردے لگا کر ڈرائینگ روم کو الگ کیا گیا تھا...

لاؤنج کے سامنے ہی ایک کمرہ تھا جس کے ساتھ ہی سیڑھیاں جا رہی تھیں... اوپر دو کمرے تھے جن کے بیچ میں ڈائینگ ڈیبل رکھا تھا جہاں اکثر نور بیٹھ کر پڑھائ کیا کرتی....

*********

نور کچن میں کھڑی تھی جب آفاق وہاں آیا...

آپ کو پتہ وہ آ گۓ....

کون؟؟؟

سوچیں زرا...

اووہ وہ کھڑوس...

نور کے پیچھے وہ آ کر کھڑا ہو گیا اور آفاق کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا...

اب ان کا دماغ کام کر گیا ہے جو آ گۓ ہیں... نور ناک چڑھاتی بولی... آفاق نے نور کو آنکھوں سے اشارہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سمجھ نہ سکی...

ارے بھائ آپ؟؟؟

آفاق زور سے بولا....

نور کے تو طوطے اڑ گۓ...

آفاق وہاں سے غائب ہو گیا...

نور نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو وہ کڑے تیور لیے اسے گھورتا ہوا بولا...

کیا کہا تم نے کھڑوس ہوں میں ہمممم....

نہ نہ نہیں وہ تو وہ تو میں....

نور کا رنگ اڑ گیا اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ جلاد پیچھے ہی کھڑا ہے...

کیا نہیں نہیں لگا رکھی ہے اب بولتی بند ہو گئ پہلے تو بہت بول رہی تھی...

نور ہاتھ مسلتی سوچنے لگی کہ اب کیا بولے...

جی ماما آئ میں کہ کر وہ بھاگ گئ.....

جب کہ اسے ماما نے آواز دی ہی نہیں تھی...

شایان مسکرانے لگا...عجیب ہے یہ لڑکی بھی.. سب سے زیادہ وہی تھی جو شایان سے ڈرتی تھی...وہ پانی پی کر ڈرائینگ روم میں آ گیا جہاں سب بیٹھے محو گفتگو تھے...


شایان کے پاپا کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ خود اب بزنس کے سلسلے میں دوبئی ہوتا جہاں میرا کے ساتھ وہ ریلیشن میں تھا اسی کے ساتھ اس نے شادی کرنی ہے.... See less

مریم تمہیں لگتا ہے کہ حسن ٹھیک لڑکا ہے میرا مطلب وہ تھوڑا فلڑی سا نہیں لگتا...

پتہ نہیں یار لیکن وہ ہے بہت ہینڈسم...

مریم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ....

اتنے میں حسن سامنے سے آتا دکھائ دیا...

کیسی ہو مریم؟؟؟

وہ ہمیشہ صرف اسے ہی مخاطب کرتا...

میں بلکل فٹ...

مریم کی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ وہ خود چل کر اس کے پاس آتا ہے...

فاطمہ وہاں سے نکل گئ کہ اب اس کا کوئ کام نہیں تھا....

یار تمہیں پتہ ہے میں نے تمہیں کتنا مس کیا جب تم آف پر تھیں..بہت بور ہوا میں... حسن منہ بناتے ہوۓ بولا

مریم کے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئ....

کیوں پوری یونی میں میرے علاوہ اور کوئ نہیں ہے....

وہ دونوں واک کرنے لگے ساتھ ساتھ...

یونی تو بھری پڑی ہے لیکن تم جیسی کوئ نہیں...

حسن ایک بات تو بتاؤ؟؟؟

پوچھو....

تمہارے گھر میں مکھن ہوتا ہے؟؟

پتہ نہیں شاید ہو بھی اور نہ بھی ہو... وہ لاعلمی سے شانے اچکاتے ہوۓ بولا....

لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو....

تم اتنا لگاتے ہو نہ اسی لیے پوچھا...

حسن ہنسنے لگا....

یہ تو تم پر منحصر کرتا کہ تم کس نظر سے دیکھتی ہو میرے خیالات تو بہت نیک ہیں تمہیں لے کر....

مریم کو لگ رہا تھا اس وقت وہ دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی ہے...

خیر چھوڑو ٹائم ہونے والا ہے گھر جانے کا...

تم ہمیشہ ایسے ہی ٹال جاتی ہو؟؟ وہ شکوہ کرتے ہوۓ بولا..

مریم کے بڑھتے قدم تھم گۓ...

مڑ کر اسے دیکھا اور گویا ہوئ...

اب ضرور سوچ کر بتاؤں گی... مسکرا کر کہتی باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی...

دو مہینے سے وہ دونوں ساتھ تھے لیکن مریم نے ابھی تک اسے کوئ جواب نہیں دیا تھا...

اب تو مریم بھی اسے پسند کرنے لگی تھی لیکن حسن کو لے کر یونی میں کچھ افواہیں تھیں جو اسے روک رہیں تھیں لیکن آخر کب تک.....

********

تم؟؟؟

گیٹ پر آفاق کو دیکھ کر مریم کو حیرت ہوئ....

جی ہاں میں ہی ہوں....

آج تمہیں کہاں سے یاد آ گئ...

میں تو تمہیں ہی یاد کرتا ہوں لیکن تم تو شاید بھول ہی گئ ہو...

وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ چکے تھے....

مریم الجھ کر رہ گئ ایک طرف حسن تھا تو دوسری طرف آفاق...

آفاق کی رنگت درمیانہ تھی اس وقت وہ آنکھوں پر سن گلاسز لگاےُ,بال سیٹ کیے, ہلکی ہلکی شیو میں جاذب نظر لگ رہا تھا اس کا رنگ بہت گورا نہیں تھا لیکن اس میں کشش بہت تھی جو سب کو دیکھنے پر مجبور کر دیتی

آئ برو اس کے ایسے معلوم ہوتے جیسے پارلر سے بنوا کر آیا ہو لیکن اس کے قدرتی ہی ایسے تھے...

مریم اسے گاڑی چلاتے ہوےُ دیکھ رہی تھی... وہ خود اس وقت جینز پر گھٹنوں تک آتی شرٹ میں ملبوس تھی.. ہلکا ہلکا میک اپ ساتھ میں پنک لپ اسٹک اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھی بال کھول رکھے تھے...

کیا سوچ رہی ہو؟؟؟

آفاق نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائ..

کہاں لے جا رہے ہو؟؟؟

نور آپی کی طرف مام کہ رہیں تھیں کہ تمہیں لے آؤ کیونکہ تم تو عید کے چاند کی طرح سال بعد ہی شکل دکھاتی ہو... آفاق شکوہ کرنے لگا.....

مریم ہنسنے لگی.....

ہاں تو روز آ جاؤں تو تم تو مجھے نظر ہی لگا دو گے..

میری نظر تو تمہیں کبھی نہیں لگ سکتی..

مریم خاموشی سے باہر دیکھنے لگی....

نور کے نام پر ہی اس کا موڈ خراب ہو گیا تھا...

گھر پہنچتے ہی وہ دونوں ڈرائینگ روم میں آ گۓ جہاں سب بیٹھے تھے...

سب سے مل کر وہ ایک کونے میں بیٹھ گئ...

یار ایسا کرتے ہیں شام میں سب آئسکریم کھانے چلتے ہیں ویسے بھی شایان بھائ روز روز تو نہیں آتے نہ... آفاق شروع ہو گیا اور شایان اسے گھورنے لگا...

ہاں شایان چلے جاؤ سب کے ساتھ بلکہ ایسا کرو آفاق جا کر حنا کو بھی لے آؤ...

نادیہ جو کہ ان کی امی ہیں بولیں

ڈونٹ وری مام شام تک میں سب کو جمع کر لوں گا...

بٹ میں کہیں نہیں جا رہا.... شایان بولا...

یہ کیا بات ہوئ شایان بھائ......

مریم کی بات بیچ میں رہ گئ جب شایان نے اسے گھورا...

خالہ اس کو کیا کھلایا تھا بچپن میں جو ایسے رہتا ہے ہمیشہ... نور ان کے کان میں سر گوشی کرنے لگی جو کہ شایان نے بھی سن لی...

خالہ مسکرانے لگیں...

بھائ پلیز منع مت کریں نہ.... آفاق اب منت پر اتر آیا...

ایک بار کہ دیا نہ جسے جانا ہے جاےُ میں نے تو نہیں روکا آپ سب کو... لاپرواہی سے شانے اچکاتا باہر نکل گیا...

نور ناک چڑھاتی بولنے لگی...

ویسے نہ اس کو تو کسی مووی میں روول دے دینا چائیے جلاد قسم کے بادشاہ کا...

نور کی بات پر سب ہنسنے لگے اور وہ جو اپنا موبائل اٹھانے آیا تھا نور کو غصے سے دیکھتا واپس چلا گیا...

نور نے اسے دیکھ کر دانتوں تلے زبان دی....

اف یہ کہاں سے آ گیا...

********

شام میں باقی کزن بھی آ گۓ اور شایان کے علاوہ باقی سب چلے گۓ....

نور نے واپس آ کر ٹیرس کا رخ کیا جہاں شایان محو گفتگو تھا...

تم بھی میرے ساتھ ہی آ جاتی یہاں بلکل بور ہو رہا ہوں میں...

نور کے قدم شایان کی آواز پر جم گۓ....

میں کیا کرتی تمہاری فیملی میں آ کر کسی کو جانتی بھی نہیں ہوں...

خیر چلو چھوڑو میں کوشش کروں گا کہ جلدی آ جاؤ....

اووکے تو جب تم آؤ گے سب سے پہلے ہم کہیں آؤٹنگ پر چلیں گے...

ڈن سوئیٹ ہارٹ جہاں بولو گی چلیں گے....


ہوں اس کے ساتھ جہاں بولو گی اور ہم لوگوں کے ساتھ ایک آئسکریم کھانے نہیں آیا... نور پیر پٹختی آگے آ گئ....

شایان نے کال بند کر دی....

تم میری باتیں سن رہیں تھیں ہممم ....وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا...

میں کیوں بھلا تمہاری باتیں سنو....

اچھے سے جانتا ہوں اور پہلے تو زرا مجھے دوپہر کا حساب دو تم....

کون سا حساب... نور کو یاد آیا تو اس کے پسینے چھوٹ گۓ.

یہ میرے بارے میں سب سے زیادہ الٹی سیدھی باتیں تم ہی بولتی ہو رائٹ....

وہ گھوم کے نور کے سامنے آ گیا اور اس کا راستہ روک لیا...

میں کیوں کچھ بھی بولوں گی....

نور کو سمجھ نہ آےُ کہ اب کیا کرے....

میں پہلے بھی تمہیں وارن کر چکا ہوں یہ لاسٹ وارنگ ہے ورنہ یہاں سے نیچے پھینک دوں گا اگر کوئ الٹی سیدھی بات کی تو... وہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ بولا....

یااللہ یہ تو مجھے اوپر ہی پہنچا دے گا... نور دل میں سوچنے لگی...

سمجھی کہ نہیں....

ہاں ہاں سمجھ گئ... کہ کر نور نے واپسی کا رخ کیا....

توبہ توبہ کیسا انسان ہے اتنی سے بات پر مرنے مارنے پر اتر آیا... نور بڑبڑاتی ہوئ اپنے کمرے میں آ گئ.... جہاں مریم اور دوسری کزنز بیٹھیں تھیں....

********

یونی آتے ہی حسن اس کے سامنے آ گیا...

کیا؟؟

کچھ بھی نہیں... وہ مسکراتے ہوۓ بولا...

پھر میرا راستہ چھوڑو...

آج دل نہیں کر رہا کلاس لینے کو...

تمہارا نہیں کر رہا بٹ میں نے تو جانا ہے نہ... مریم لاپرواہی سے بولی

کہتی ہوئ وہ اس کے ساتھ سے نکل گئ کہ اس کی کلائ حسن کی گرفت میں آ گئ اور اسے رکنا پڑا....

میں اکیلا کیا کروں گا...

باقی لڑکیوں کو تاڑو... مریم مسکراتے ہوۓ بولی...

یہ کام صرف تمہارے لیے ہے باقی اس لسٹ میں شامل نہیں....

اچھا میرا ہاتھ تو چھوڑو نہیں جاتی میں بھی کلاس لینے...

حسن نے مسکراتے ہوۓ اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس کے مقابل کھڑا ہو گیا...

کل مجھے جواب کیوں نہیں دیا... وہ خفگی سے بولا..

بزی تھی میں... مریم نے بات ہوا میں اڑائ...

واہ اور میں سارا دن تمہارا ورد کر رہا تھا...

ایسی باتیں کہاں سے ڈھونڈ کر لاتے ہو.... مریم ہنستے ہوۓ بولی

اس میں صرف تمہارا ہی قصور ہے جب سے دیکھا ہے بس اس کے بعد سے نہ کچھ نظر آتا ہی نہ ہی سمجھ بس تم یاد ہو باقی سب بھول گیا ہوں...

وہ جذبوں سے چور لہجے میں بول رہا تھا اور مریم بے بس ہو رہی تھی.....

بس اتنا زیادہ مت بولا کرو...

کیوں؟؟؟

بس ایسے ہی... کہ کر وہ کینٹین میں چلی گئ..

مریم بیٹھی ہی تھی کہ آفاق کی کال آنے لگی وہ حسن سے ایکسکیوز کرتی سائیڈ پر آ گئ....

ہاں بولو آفاق؟؟

میں انٹرویو کے لیے جا رہا ہوں دعا کرنا مل جاےُ جاب.... وہ ڈرائیو کرتے ہوۓ بات کر رہا تھا...

میں دعا کروں گی تمہیں ضرور مل جاےُ گی جاب... کہ کر اس نے بنا کچھ سنے فون بند کر دیا...

مریم کو یہ سب عجیب لگ رہا تھا وہ دو کشتیوں کی مسافر بن گئ تھی اور اکثر ایسے لوگ ڈوب جاتے ہیں پھر نہ وہ اِدھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے....

وہ جتنا سوچتی اتنا الجھتی جاتی...

مریم کیفے جانے کی بجاےُ فاطمہ کو ڈھونڈنے نکل پڑی جیسے ہی وہ نظر آئ اس کا بازو پکڑ کر سائیڈ پر لے آئ....

یار مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟؟؟

کیا ہو گیا ایسا؟؟؟

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کس کا انتخاب کروں حسن کو یا پھر آفاق کو... وہ بہت کنفیوز ہو گئ تھی...

مریم تمہارا دل جس کے حق میں بولے اسی کا انتخاب کرو....

یار میرا تو دل کرتا ہے حسن ہو میرا لائف پارٹنر....

تو پھر تم فیصلہ کر لو تمہیں کس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنی ہے جس کا دل توڑنا ہے ابھی توڑ دو بعد میں زیادہ تکلیف ہو گی....

مریم سوچتی ہوئ چلنے لگی اسے آفاق کے لیے برا لگ رہا تھا جب اسے پتہ چلے گا تو کیا گزرے گی اس پر اف.....

مریم نے جھرجھری لی اور گھر فون کرنے لگی اس سب کو اب گھر بیٹھ کر ہی سوچوں گی....

********

نور آپی یہاں کیوں بیٹھی ہیں اکیلی؟؟

آفاق انٹرویو دے کر آیا تو نور گیٹ کے سامنے بنی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی جس کے پیچھے دروازہ تھا جہاں سے گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں...

آفاق میں سوچ رہی تھی کہ جس طرح ناولز کے ہیرو ہوتے ہیں ہمیں بھی ویسے کیوں نہیں ملتے؟؟

پھر سے کوئ بات ہوئ ہے کیا؟؟

نور اثبات میں سر ہلانے لگی... اس کے چہرے سے اداسی چھلک رہی تھی...

اب کیا ہوا بتائیں مجھے...

کچھ نہیں وہی ہمیشہ والی بات مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی... نور فرش پر انگلی چلاتے ہوۓ بول رہی تھی...

آپی اگر انہوں نے کوئ مسئلہ کھڑا کر دیا پھر آپ کو ڈر نہیں لگتا؟؟؟

مجھے بہت ڈر لگتا ہے آفاق لیکن مجھے ان سے زیادہ اللہ سے ڈر لگتا ہے اس لیے میں مطمئن ہو جاتی ہوں کہ میں بندوں سے پہلے اللہ کو رکھتی ہوں اس کی بات پہلے مانتی ہوں اور مجھے اللہ پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ میرے ساتھ نہ تو کچھ غلط ہونے دے گا نہ ہی کوئ ناانصافی کرے گا...

آفاق اس کی باتوں پر مسکرانے لگا...

کیا ہوا؟؟

بس آپ کی یہی باتیں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں...

نور اداس اداس سی لگ رہی تھی...

نور آپی آپ کو پتہ ہے شایان بھائ نے کہا ہے کہ آپ کی دودھ پلائ کی رسم وہ کریں گے...

آفاق یا تو تہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر شایان کا... نور ہنستے ہوۓ بولے..

بس ایسے ہی رہا کریں...

نور سمجھ گئ تھی کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کہا ہے.... مسکراتی ہوئ اٹھ کر زینے چڑھنے لگی.... کل اس کی مہندی تھی نور سوچنے بیٹھ گئ....

**********

نور پیلا جوڑا پہنے سٹیج پر بیٹھی تھی میک اپ سے عاری چہرے پر اس وقت معصومیت طاری تھی وہ بہت حسین نہیں تھی لیکن جاذب نظر تھی... باری باری آ کر سب اسے مہندی لگا رہے تھے لیکن ایک شایان تھا جو سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں کھڑا تھا اردگرد سے بےنیاز کبھی وہ سٹیج پر موجود لوگوں کی جانب دیکھتا تو کبھی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو... اس کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمایاں تھے....

لڑکے والے بھی رسم کر کے جا چکے تھے نور کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے... شایان کی گاہے بگاہے نظر نور پر اٹھ رہی تھی... اسے شدید چڑ تھی آنسوؤں سے... شایان سر جھٹکتا وہاں سے نکل گیا...

********

شایان نے ٹاہ کی آواز سے دروازہ زور سے بند کیا.....

نور جو برات کا جوڑا پہنے بیڈ پر بیٹھی تھی سہم گئ وہ تو پہلے ہی شایان کے غصے سے خوف کھاتی تھی اور اب تو مزید اس کے عتاب کا نشانہ بننے جا رہی تھی... وہ سر جھکاےُ بیٹھی رہی...

شایان چہرے پر ڈھیروں سختی لیے اس کی جانب آیا اور اس کا بازو پکڑ کے بولنے لگا...

میرے بیڈ پر کیا کر رہی ہو تم ہاں؟؟؟

شایان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ نور کی آنکھیں چھلکنے لگیں...

اووہ پلیز میرے سامنے یہ رونے دھونے کا ڈرامہ مت کرنا مجھے شدید کوفت ہوتی ہے ان آنسوؤں سے سو میرے سامنے یہ حربے استعمال کرنے کا کؤئ فائدہ نہیں...

شایان لیکن....

ایک لفظ نہیں ورنہ بہت برا پیش آؤں گا میں وہ اسے بیڈ سے اٹھاتے ہوۓ بولا....

آئیندہ میرے بیڈ پر نظر آئ نہ تو پھر دیکھنا کیا کرتا ہوں میں شایان نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا .....

نور نے بیڈ کو تھام لیا ورنہ گر جاتی...

میں کہاں سوؤں گی... نور ہولے سے منمنائ...

وہ کاؤچ نظر آ رہا ہے نہ چپ چاپ سو جاؤ وہاں...

نور بے بسی سے اسے دیکھنے لگی...

شایان نے غصے سے مٹھیاں بھینج لیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا نور کو اٹھا کر کہیں پھینک آتا جو اس پر کسی عذاب کی مانند نازل ہوئ تھی...

نور ہچکیاں لیتی واش روم کی جانب چلنے لگی...

شایان نے ناٹ کھینچ کر اتار پھینکی اور شرٹ کے اوپر کے بٹن کھولے...

کب بورڈ سے سے اپنے کپڑے نکالنے لگا... اسی دوران نور واش روم سے نکل کر آئ اور خاموشی سے کاؤچ پر بیٹھ گئ...

اس پر بے حد روپ آیا تھا اس وقت وہ ڈارک پرپل کلر کی پلین شلوار قمیص میں ملبوس تھی.. تھوڑے تھوڑے بال جوڑے سے باہر نکل آےُ تھی.... نور آنسو پونچھتی ایک نظر شایان پر ڈال کر لیٹ گئ اور آنکھیں بند کر لیں...

شایان ہنکار بھرتا واش روم میں چلا گیا...

شایان شاید سو چکا تھا لیکن نور کی آنکھوں سے نیند تو کوسوں دور تھی...

کہاں وہ احمد کی بیوی بننے جا رہی تھی اور اب شایان کی بن چکی تھی اور اس زندگی کا جو نمونہ شایان نے آج پیش کیا تھا اس سے یہ تو اندازہ ہو ہی گیا کہ بلاشبہ آگے کی زندگی تکلیف دہ ہو گی...

یااللہ میں نہیں جانتی کہ آپ نے میرے لیے کیا سوچا ہے میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ میرے لیے جو بھی کریں گے وہ میرے حق میں بہتر ہو گا میں خود کو آپ کے سپرد کرتی ہوں جیسے آپ چاہیں گے میں ویسے ہی کروں گی آپ کی رضا میں راضی ہو جاؤں گی بس آپ مجھے ہمت دینا یہ سب برداشت کرنے کی....

پہلے جو بے چینی نور کو اپنے گھیرے میں لیے ہوۓ تھی اب اس کی جگہ سکون نے لے لی تھی وہ مطمئن ہو چکی تھی کیونکہ وہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر چکی تھی اسے اللہ پر یقین ہے کہ وہ اسے مایوس نہیں لوٹائیں گے اس کے برعکس جو لوگ خود اپنے معاملوں میں الجھتے رہتے ہیں وہ ہمیشہ جھنجھلاہٹ, پریشانی, اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں اگر وہ اپنے معاملے اللہ پر چھوڑ دیں تو پرسکون ہو جائیں گے اس بھروسہ پر کہ اللہ ان کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا اس کے لیے آپ کو اللہ پر پختہ یقین رکھنا ہو گا جو ڈگمگانا نہیں چائیے چاہے حالات جیسے بھی آ جائیں وہ جو خدا اوپر بیٹھا ہے نہ وہ سب سنبھال لے گا....

جو اپنے معملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں پرسکون رہتے ہیں..

*********

آفاق کہاں ہو تم؟؟؟ مریم نے ٹیکسٹ کیا...

یار میں تھوڑا بزی ہوں... آفاق نے عجلت میں صرف اتنا ہی کہا....

تم کہاں بزی ہو؟؟؟ مریم کو حیرت ہوئ...

یار میں نور آپی کے کام سے آیا ہوں ان کے گھر سامان لینے...

مریم نے تلملا کر فون بیگ میں پھینک دیا...

میں خود تمہیں میسج کر رہی ہوں نہ اسی لیے ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہو ہر وقت نور نور بس اسی کی تسبیح کرتا رہتا ہے اب تو وہ گھر ہی آ گئ ہے پتہ نہیں کیا حال ہو گا دوسری طرف حسن ہے جو میرے ایک میسج کو ترستا ہے اور تم سے کئ درجے اچھا ہے... وہ خود سے گفتگو کرنے لگی..

کچھ سوچ کر وہ حسن کی تلاش میں نکل گئ بلاآخر اسے وہ نظر آ ہی گیا...

حسن نے مریم کو دیکھتے ہی ایک نرم سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی...

حسن تم چل سکتے ہو مجھے کچھ بات کرنی ہے...

بلکل جان تم کہو تو میں کہیں بھی چل پڑوں گا البتہ شرط یہ ہے کہ تم بھی ساتھ ہو... کہتے ساتھ ہی وہ کھڑا ہو گیا اور ہاتھ سے مریم کو چلنے کا اشارہ کیا...

مریم اس کے ہمراہ قدم اٹھانے لگی...

کیا ہوا تم پریشان لگ رہی ہو؟؟؟ حسن اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتا ہوا بولا...

نہیں ایسی کوئ بات نہیں دراصل میں آج تمہیں جواب دینے آئ ہوں... مریم سپاٹ سا چہرہ لیے بول رہی تھی...

حسن کے دل کو خدشہ ہوا اس کا چہرہ دیکھ کر

پھر جلدی بتاؤ نا.... حسن بےصبری سے بولا

میری طرف سے.... مریم نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں خوف تھا...

بولو نہ یار....

ہاں ہے... کہتے ہوۓ وہ مسکرانے لگی....

اف شکر تم نے تو مجھے ڈرا دیا تھا... حسن کا اٹکا ہوا سانس بحال ہوا....

تو مطلب اب تم پر صرف میرا حق ہے رائٹ...

مریم اثبات میں سر ہلانے لگی....

تو پھر تم کبھی مجھے نہیں روکو گی اپنا حق جتانے سے....

مطلب؟؟ مریم ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی...

مطلب یہ جانو کہ تم صرف میری ہو اور میرے علاوہ تمہارے آس پاس میں کسی کو برداشت نہیں کر سکتا اس لیے تم میری بات مانا کرو گی...

اتنے شدت پسند ہو مجھے لے کر...

حسن دو قدم آگے آیا....

بلکل ان فیکٹ اس سے بھی زیادہ میرا بس چلے تو تمہیں سب سے چھپا کر رکھ لو کوئ دیکھ بھی نہ سکے میرے سوا.... وہ مریم کے چہرے پر آئ لٹ کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ بولا...

ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں مریم نے مسکراتے ہوۓ کہا... اور حسن کے ساتھ چلنے لگی...

*********

نور نے آنکھیں کھولیں تو کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پائ جو کہ بند کھڑکی سے چھن کرتی اندر آ رہی تھی... نور نے پاؤں سلیپر میں ڈالے اور بال سمیٹتی اٹھ گئ... نور اب شش وپنج میں مبتلا تھا کہ لائٹ آن کرے یا نہیں....

اووہ شٹ آج تو نماز بھی نہیں پڑھی... نور نے ماتھے پر ہاتھ مارا...

نور آگے بڑھی اور شایان کو دیکھا جو بے خبر سو رہا تھا... نور اسے غور سے دیکھنے لگی...

سوتے ہوۓ کتنے معصوم لگ رہے ہیں اور اصل میں تو ڈیول ہیں... نور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی اچانک سے اس کا پاؤں سلپ ہوا تو وہ شایان پر جا گری....

وہ جو بے خبر سو رہا تھا اس اچانک افتاد پر جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اور نور کو خود پر دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا....

تمیز نام کی کوئ چیز ہے تم میں... وہ حلق کے بل چلایا...

نور جلدی سے پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئ...

اس کی آواز سے ہی وہ کانپنے لگی تھی...

یہ کیا بیہودہ حرکت تھی ہممم... وہ کھڑا ہو کر کڑے تیوروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا...

وہ میں میں.... نور سوچنے لگی کہ اب کیا عذر پیش کرے....

وہ میں کیا لگا رکھی ہے ویسے تو تم اتنا بولتی ہو میں کچھ پوچھوں تو گونگی بن جاتی ہو یہ سب ڈرامے میرے سامنے نہیں چلیں گے سمجھیں...

وہ دونوں ہاتھوں سے نور کے بازو پکڑے بول رہا تھا اور نور کو لگ رہا تھا شایان کی انگلیاں اس کی بازو میں پیوست ہو جائیں گیں...

سوری آئیندہ خیال رکھوں گی.... نور ہمت مجتمع کرتی ہوئ بولی...

اور ایک بات یاد رکھنا تم نہ تو میری بیوی ہو اور نہ ہی بننے کی کوشش کرنا شکر کرو تمہیں اس کمرے میں رہنے کی اجازت دے رہا ہوں اس سے زیادہ کی توقع مت رکھنا... جھٹکے سے اسے چھوڑتا واش روم میں چلا گیا...

نور اپنے بازو سہلانے لگی...

کتنا ظالم تھا وہ شخص جو کہ اس کا محرم تھا لیکن وہ تو اسے بیوی ہونے کا درجہ بھی نہیں دے رہا تھا... نور بیڈ پر ہی بیٹھ گئ... آنسو باڑ توڑ کر ایک بار پھر سے نکل آےُ...

پتہ نہیں شایان اس رشتے کا کیا ہو گا... نور سوچتی ہوئ اپنے کپڑے نکالنے لگی....

*********

نور آپی آپ نے جو سامان کہا تھا وہ میں لے آیا ہوں جیسے ہی نور اور شایان ڈائینگ ٹیبل پر آ کر بیٹھے آفاق بولنے لگا...


نور نے اثبات میں سر ہلا دیا...

ڈائینگ ٹیبل پر اس وقت نور کی خالہ آفاق اور اس کی چچازاد دو کزنز بیٹھیں تھیں...

جو فرصت سے نور کا جائزہ لے رہیں تھیں...

نور ان کی نظروں سے پزل ہو رہی تھی... اس نے شایان کی جانب دیکھا جو خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا نور نے بھی اپنی نظریں پلیٹ پر مرکوز کر لیں...

ان کا گھر کسی حویلی کی مانند تھا تھا لیکن بنا ماڈرن انداز میں تھا...

شایان کی فیملی کے ساتھ ان کے چچا کی فیملی بھی رہتی جن کی صرف دو بیٹیاں تھیں مہرین اور سمرین...

مہرین شایان کی ہم عمر اور سمرین سے پانچ سال بڑی تھی...

شایان نے ناشتے سے ہاتھ اٹھایا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے... سب جانتے تھے کہ ان کی شادی کن حالات میں ہوئ ہے اس لیے کسی نے بھی اسے بلانے کی زحمت نہ کی...

شایان کی چچی بھی آکر بیٹھ گئیں...

البتہ نور سب کو جانتی تھی اور بہت بار آ چکی تھی یہاں لیکن آج اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا مانو پہلی بار اس گھر میں قدم رکھا ہو... آفاق نے اٹھتے ہوۓ نور کو مخاطب کیا....

ہاں بولو؟؟ نور جو اپنے خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی اسے پتہ نہیں چلا کہ آفاق نے کیا بولا ہے...

میں کہ رہا ہوں کہ آپ فری ہو کر گارڈن میں آ جانا میں آپ کا ویٹ کر رہا ہوں...


شایان بے مقصد سڑکوں پر گاڑی چلا رہا تھا وہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھا ایک دم سے اتنی بڑی تبدیلی وہ بھی اس کی اجازت کے بغیر اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی نور میرا دل تو کر رہا ہوں تمہیں کسی دوسرے ملک پھینک آؤ اچھی بھلی لائف چل رہی تھی ڈسٹرب کر کے رکھ دیا ہے میڈم نے... شایان تلملاتے ہوۓ بولا رہا تھا...

گاڑی اس نے سائیڈ پر روکی اور سر سٹیرنگ پر ٹکا دیا...

وہ ریلیف چاہتا تھا اس سب سے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا...

عین اسی وقت اس کا فون رنگ کرنے لگا شایان نے نظر اسکرین پر ڈالی تو مِیرا کا نام جگمگا رہا تھا..

شایان نے بے دلی سے کال اٹینڈ کی...

یار تم کہاں غائب ہو کل رات بھی تم نے بات نہیں کی پتہ ہے میں کتنی پریشان ہو رہی تھی.... چھوٹتے ہی مِیرا شروع ہو گئ

مِیرا میں کوئ چھوٹا بچہ نہیں ہوں جو تم پریشان ہو رہی تھی ظاہر ہے مصروف تھا اسی لیے نہیں کی بات... شایان تلخی سے بولا

مِیرا نے لب بھینچ لیے

اچھا تم ٹھیک ہو؟؟؟

مجھے کیا ہونا ہے بتاؤ زرا میں کیا بارڈر پر ہوں جو مج پر خطرہ لاحق ہے عجیب بچگانہ سوال کر رہی ہو... شایان تنگ آکر بولا

شایان آخر تمہیں ہوا کیا ہے اتنے روڈ کیوں ہو رہے ہو؟؟؟

مِیرا فلحال میں بات نہیں کرنا چاہتا بعد میں کروں گا... شایان نے بنا کچھ سنے فون بند کر دیا...

پاگل کر دیا ہے سب نے... اس نے غصے سے فون ڈیش بورڈ پر پھینک دیا.....

*********

نور اٹھ کر باہر آ گئ جہاں آفاق اس کا منتظر تھا نور اس کے ساتھ گھاس پر بیٹھ گئ...

نور آپ کو کیا لگتا ہے آپ اس رشتے کو نبھا لو گی؟؟؟ آفاق سیدھا مدعے پر آیا

میں نہی جانتی آفاق لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جس نے مجھے اس رشتے میں باندھا ہے وہ مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا

لوگ ہوتے ہیں جو چھوڑ دیتے ہیں اللہ نہیں چھوڑتا

پھر چاہے حالات کیسے بھی ہوں...

ہم تو صرف اسی سے پیار کرتے ہیں جو اچھا ہوتا ہے لیکن وہ تو برے انسان سے بھی محبت کرتا ہے انہیں بے سہارا نہیں چھوڑتا تو مجھے بھی نہیں چھوڑے گا... نور پر اعتماد سی بول رہی تھی

آفاق اس کی باتوں پر مسکرا دیا

معلوم ہے نور مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں انہی کے اثر کے باعث میں نے لڑکیوں کو تاڑنا چھوڑ دیا ہے.... آفاق اسے آنکھ مارتا ہوا بولا

نور مسکرانے لگی

چلو کچھ تو اچھا کیا

ویسے پھر بھی سوچنے کی بات ہے آپ کا کیا بنے گا میرے جلاد جیسے بھائ کے ساتھ... آفاق سوچتے ہوۓ بولا

بلکل کہ تو تم ٹھیک رہے ہو مجھے تو نہ وہ کسی ملک کے ظالم جابر بادشادہ کے مانند لگتے ہیں جو اپنی رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں... نور مزے سے بول رہی تھی

شایان جو گاڑی گیٹ کے باہر چھوڑ کر اندر آ رہا تھا ان دونوں کی آوازیں سن کر رک گیا

ان دونوں کی پورچ کی جانب پشت تھی اسی لیے انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب شایان آیا.. نور کی بات پر شایان کے غصے کو مزید ہوا ملی...

نور اوپر کمرے میں آؤ... زور سے بول کر اندر کی جانب قدم بڑھا دئیے

نور گھبرا کر اسے جاتا دیکھنے لگی

ہمیشہ تمہاری وجہ سے ڈانٹ پڑتی ہے مجھے... نور مبہ بناتی ہوئ اٹھ گئ....

اس کے پیچھے آفاق کا قہقہ بلند ہوا


نور ڈری ڈری سی کمرے میں آئ شایان چکر لگا رہا تھا نور کو دیکھتے ہی رک گیا

مس نور تمہیں میری بات سمجھ میں بلکل نہیں آتی نہ می تو چائینیز میں بات کرتا ہوں ہیں نہ؟؟؟

نور نے تھوک نگلا...

شایان نے نور کا ہاتھ پکڑا اور ٹیبل پر پڑے باکس کو کھولا

نور کی ہلکی سی چیخ برآمد ہوئ

شایان یہ یہ کیا...

نور اس کے پیچھے چھپنے لگی

شایان نے اس کا ہاتھ آگے کیا اور باکس میں موجود چوہوں کے قریب کر دیا

شایان پلیز یہ مت کریں میں مر جاؤں گی... دیکھ کر ہی نور کی جان نکل رہی تھی اور شایان اس کی ہاتھ اندر ڈال رہا تھا

میں جانتا ہوں تم ایسے باز نہیں آؤں گی تمہارا یہی علاج ہے... شایان اس کی کلائ زور سے پکڑتے ہوۓ بولا

نور کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ

نہیں پلیز پکا آئیندہ کچھ نہیں بولوں گی...

شایان نے ہھر سے اس کا ہاتھ آگے کیا

شایان نہ کریں نہ پلیز... نور باقائدہ رونے لگی

شایان نے باکس بند کر دیا

نور ناراض ناراض سی اس کی جانب دیکھنے لگی

سمجھ لو یہ صرف ٹریلر تھا اگر دوبارہ کچھ سنا پھر کوئ وارنگ نہیں ملی گی... نور کی نازک سی کلائ ابھی تک اس کی مضبوط گرفت میں تھی...

شایان اس کی کلائ چھوڑتا ہوا باہر نکل گیا

نور اپنی کلائ دیکھنے لگی جو سرخ ہو گئ تھی....

فرعون کہیں کے... نور منہ میں بڑبڑائ

*********

ولیمہ کے فنکشن میں زیادہ مہمانوں کو مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ وقت بہت کم تھا اور کام بہت زیادہ...

نوت نے سکن کلر کی میسکی پہن رکھی تھی آج بھی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کچ پارلر والی کے ہاتھوں کا کمال تھا شایان سارا وقت اکھڑا اکھڑا سا رہا نہ کسی سے بات کی نہ کسی کو جواب دیا آیا بھی وہ کافی لیٹ تھا See less

شایان فنکشن کے دوران ضبط کا دامن تھامے رہا اور گھر آتے ہی نور پر برس پڑا....

زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے میری تم نے...

نور دم سادھے اسے دیکھنے لگی....

ایسی شکل بنا کر دیکھ رہی ہو جیسے سارا قصور ہی میرا ہو...

لیکن شایان میرا کیا قصور ہے؟؟؟ نور ہولے سے بولی...

تمہارا یہ قصور ہے کہ بنا میری اجازت کے میری زندگی میں داخل ہو گئ ہو ناؤ گیٹ لاسٹ... شایان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے کمرے سے نکال دیا...

شایان میں ایسے کہاں جاؤں گی پلیز دروازہ کھول دیں.... نور روتے ہوۓ آہستہ سے دروازے پر دستک دیتے ہوۓ بولی....

لیکن شایان کی کوئ آواز نہ آئ...

وہ ابھی برائیڈل ڈریس میں ہی ملبوس تھی... آس پاس دیکھتی وہ خالہ کے کمرے کی جانب چل دی...

پہلی دستک پر ہی خالہ نے دروازہ کھول دیا... نور کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ناک سرخ ہو رہی تھی...

کیا ہو گیا میری بچی کو؟؟؟ خالہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئیں...

نور ان کے ہمراہ اندر آ گئ....

جاؤ پہلے چینج کرو پھر بات کرنا شاباش... وہ اس کی کمر پر تھپکی دیتی ہوئیں بولیں....

نور چینج کر کے آئ تو ابھی بھی آنسو پہلے کی طرح ہی رواں دواں تھے...

اب مجھے بتاؤ شایان نے کچھ کہا ہے کیا....

انہوں نے کمرے سے نکال دیا...

یااللہ میں اس لڑکے کا کیا کروں... نور میری جان وہ کچھ وقت سے اکیلا رہتا آیا ہے اسی لیے ایک دم سے تمہارا اس کی زندگی میں آنا پھر اس کی بیوی بن کر اسے وقت لگے گا قبول کرنے میں.....

خالہ وہ اتنے تلخ کیوں ہیں پہلے تو اتنے نہیں ہوتے تھے....

جب سے اس کے پاپا کی ڈیتھ ہوئ ہے اس کے بعد سے ہی وہ ایسا ہو گیا ہے بہت اٹیچ تھا وہ اپنے پاپا سے بس اسی وجہ سے سب سے اکھڑا اکھڑا رہتا ہے....

میں کیا کروں خالہ؟؟؟ نور بے بسی سے انہیں دیکھنے لگی...

تم اسے سمیٹ لو نور اگر مِیرا سے اس کی شادی ہو گئ تو وہ ہم سب سے کٹ جاےُ گا اب تمہیں اسے سنبھالنا ہے وہ دل کا برا نہیں ہے لیکن ایک خول چڑھا رکھا ہے اس نے اپنے گرد جس کے اندر وہ کسی کو داخل نہیں ہونے دیتا تمہیں وہ خول توڑ کر اسے آزاد کرنا ہے واپس پہلے جیسا بنا دو اسے سمجھ رہی ہو نہ....

نور دور خلاؤں میں دیکھ رہی تھی... انہیں لگا شاید وہ متوجہ نہیں.... جی خالہ میں سمجھ گئ ہوں...

مجھے انہیں کسی شرط پر نہیں کھونا....

بلکل اور میں تمہادی مدد کروں گی بس تم ہمت سے کام لینا... وہ نور کو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولیں... نور مسکرانے لگی...

نور سونے کے لیے لیٹ گئ اور یاد کرنے لگی کہ شایان ہر وقت اپنے پاپا کے ساتھ رہتا تھا پھر یہ تو ہونا ہی تھا یوں اچانک ان کی موت نے شایان کو سب سے الگ کر دیا لیکن شایان میں آپ کو اس طرح سے نہیں رہنے دوں گی آپ پھر سے پہلے جیسے بن جائیں گے...

میں کل سے سوچ رہی تھی کہ کیوں اللہ نے مجھے حماد کی بجاےُ آپ کی بیوی بنا دیا اور وجہ اب مجھے پتہ چلی ہے شاید آپ کا صحیح ہونا میرے ہی ہاتھوں لکھا ہے اسی لیے مجھے آپ کی بیوی کا مقام دیا گیا....

نور شایان کا سوچ کر دکھی ہو گئ کتنا مشکل ہوتا ہو گا ان کے لیے اپنے پاپا کے بغیر رہنا...

دو آنسو نور کی آنکھ سے چھلک پڑے....

لیکن شایان آپ زندگی میں واپس آئیں گے پہلے جیسے ہو جائیں گے اور میرا اب یہی مقصد ہے... نور سوچتی ہوئ مسکرانے لگی اور الارم لگا کر آنکھیں بند کر لیں....

نور فجر کی نماز پڑھ کر باہر آ گئ اور شایان کے کمرے کی جانب قدم بڑھانے لگی اب اس کا ڈر قدرے کم ہو گیا تھا....

دروازہ مقفل دیکھ کر اسے مایوسی ہوئ آج بھی شایان نماز کے لیے نہیں اٹھے...

نور گارڈن میں جا کر بیٹھ گئ اور انتظار کرنے لگی..

کافی دیر بعد

نور اٹھ کر کچن میں گئ اور چاےُ بنانے لگی

چاےُ لے کر وہ کمرے کی جانب چلنے لگی تو دیکھا کہ دروازہ بند نہیں ہے... نور خوشی خوشی کمرے میں چلی گئ....

مِیرا تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آتی کیا جب کہا ہے کہ ابھی نہیں آ سکتا تو مطلب نہیں آ سکتا پھر فضول میں بحث کرنے کا کیا مطلب....

نور جیسے ہی چوکھٹ میں آئ شایان کی غصے سے بھری آواز سنائ دی وہ کھڑکی کی جانب منہ کیے کھڑا تھا اور نور کے سامنے اس کی پشت تھی....

مِیرا میں اس وقت تمہاری بکواس سننے کے موڈ میں نہیں ہوں سو جب تمہیں میری بات سمجھ میں آ جاےُ پھر کال کرنا....کہ کر اس نے فون بیڈ پر پھینک دیا...

میرے ہی پیچھے پڑ گۓ ہیں سب.... منہ میں بڑبڑانے لگا...

نور ڈرتی ڈرتی آگے بڑھی اور بولی....

شایان وہ میں چاےُ لائ تھی...

وہ شایان کے پیچھے کھڑی ہو گئ...

شایان جو پہلے ہی طیش میں تھا نور کی آواز نے جلتی پر تیل کا کام کیا....

شایان مڑا اور ہاتھ مار کر کپ پھینک دیا...

نور کی ہلکی سی سِی نکلی چاےُ اس کے ہاتھ پر بھی گر گئ تھی....

نور نے آنسو ضبط کیے..

تم سب کو میری بکواس سمجھ میں کیوں نہیں آتی اکیلا چھوڑ دو مجھے کن الفاظ میں سمجھاؤں میں...

نور نے ہاتھ پیچھے کر لیا اور خاموشی سے کاؤچ پر بیٹھ گئ... شایان لمبے لمبے ڈگ بھرتا چینج کرنے چلا گیا....

اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی زندگی دوسرے کنڑول کر رہے ہر چیز الٹی ہوتی جا رہی تھی اس کی مرضی کے خلاف...

نور کے آنسو باڑ توڑ کر باہر نکل آےُ...

نور اپنے جلے ہوۓ ہاتھ کو دیکھنے لگی...

آنسو صاف کر کے وہ اٹھی اور ہاتھ پر دوائ لگانے لگی لیکن چونکہ دائیاں ہاتھ تھا اس سے لگائ نہیں جا رہی تھی دوسرا جلن اتنی زیادہ تھی کہ وہ بار بار ہاتھ پیچھے کر لیتی...

نور کو پتہ ہی نہیں چلا کہ شایان اسے دیکھ رہا ہے...

کیا ہوا ہے یہاں؟؟؟

شایان نظر کی گلاسز لگاتا اس کا سرخ ہاتھ دیکھنے لگا....

کچھ نہیں بس وہ.... نور نے بات ادھوری چھوڑ کر ہاتھ پہچھے کر لیا...

تم پھر سے رو رہی ہو نہ اور دکھاؤ مجھے اپنا ہاتھ... شایان اس کے ساتھ کاؤچ پر بیٹھتا ہوا بولا...

لیکن نور نے کوئ حرکت نہ کی...

نور؟؟؟ شایان زور سے بولا...

نور نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کر دیا...

تمہارے ہاتھ پر گری تھی چاےُ شایان اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا....

جی...

تو سائیڈ پر نہیں ہو سکتی تھی... شایان اسے گھورنے لگا....

آپ مجھے بتا دیتے نہ پہلے ہی کہ آپ نے چاےُ گرانی ہے تو میں سائیڈ پر ہو جاتی...

شایان نفی میں سر ہلاتا ٹیوب لگانے لگا...

نور بغور اس کا جائزہ لینے لگی...

گیلے بال ماتھے پر گرے ہوۓ تھے,بڑھی ہوئ شیو,جگمگاتا ہوا رنگ,ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس اس وقت وہ سیدھا دل میں اتر رہا تھا.....

اب مام کو مت بتا دینا یہ سب....

جی...

ورنہ وہ کہیں گیں کہ میں تم پر تشدد کر رہا ہوں... کہتا ہوا کھڑا ہو گیا...

نور چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی...

کیا سوچ رہے ہیں آپ؟؟؟

یہی کہ جب نیچے جائیں گے تو سب کو تمہارے ہاتھ کا علم ہو جاےُ گا...

پھر کیا کریں گے اب... نور سوچتے ہوۓ بولی...

ایسا کرتے ہیں روم میں ہی ناشتہ کر لیتے ہیں تم آج باہر مت نکلنا...

جی ٹھیک....

شایان آپ مجھے کھلائیں گے.....نور مسرور سی پوچھنے لگی اسے یہ جلاد قسم کا انسان اچھا لگنے لگا تھا....

میں کیوں کھلاؤ تم......

کہتے کہتے شایان خاموش ہو گیا...

ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع میں مام کو یہیں بلا لیتا ہوں.... کہتا ہوا شایان کمرے سے باہر نکل گیا....

کیا ہو جاتا اگر کھلا دیتے تو...نور منہ بنا کر بیٹھ گئ....

*********

یار مریم کہیں چلتے ہیں باہر...

لیکن حسن...

گھر میں ٹائم تو میں بتا چکی ہوں... مریم پریشانی سے بولی...

کوئ بات نہیں تم کہ دینا آج کام تھا اسی لیے دیر ہو گئ...

پر حسن کہیں جا کر کیا کرنا یہاں بھی تو ہم ساتھ ہی ہوتے ہیں...

ساتھ تو ہوتے ہیں پر اکیلے نہیں میں چاہتا ہوں کچھ وقت ہم گزاریں صرف تم اور میں تیسرا کوئ بھی نہیں...

مریم مسکرانے لگی...

اچھا چلو ٹھیک ہے لیکن چلنا کہاں ہے....

تم چلو لے کر جانا میرا کام ہے...

مریم بیگ اٹھاتی اس کے ساتھ چلنے لگی...


یار ریسٹورنٹ میں تو کوئ دیکھ بھی سکتا ہے.. مریم پریشانی سے بولی...

ڈرنٹ وری جانو ہماری پرسنل بکنگ ہے وہاں کوئ نہیں آےُ گا....

آڈر دینے کے بعد حسن اسے دیکھنے لگا....

ایسے کیا دیکھ رہے ہو...

یہی کہ ہماری آنے والی زندگی کتنی خوبصورت ہو گی تمہاری ہمراہی میں...

لیکن حسن میں نے تمہیں بتایا تھا نہ کہ میری فیملی اجازت نہیں دے گی... مریم اداسی سے بولی...

تم فکر مت کرو میں ہر چیز فکس کر لوں گا تم بس مسکراتی رہا کرو ایسے اچھی نہیں لگتی... حسن اس کے ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولا...

مریم نے مسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلا دیا....

********

شایان میری بات اب غور سے سن لو تم اگر آئیندہ تم نے نور کو تکلیف دی تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا....

اوووہ پلیز ماما آپ تو ایسے کہ رہی ہیں جیسے میں اس پر چھریاں چلانے والا ہوں...

شایان اثر لیے بغیر بولا....

اور ایک بات تمہارا ہر کام نور کرے گی خبردار اگر تم نے اسے ڈانٹا...

میں کوئ بچہ نہیں ہوں جو وہ میرے کام کرے گی میں خود کر سکتا ہوں سو پلیز مجھے نہیں ضرورت اس کی...

کس طرح سے بات کر رہے ہو تم شایان... انہیں تلکیف ہوئ اس کے اس انداز پر...

مجھے بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ میرا بیٹا ایسا ہے میری کیا عزت رہ جاےُ گی سب کے سامنے جسے اتنے مان کے ساتھ لے کر آئ اس کے ساتھ ایسا سلوک.....

ماما پلیز مجھے نہیں پسند اپنی لائف میں کسی کی بھی دخل اندازی پھر کیوں مجھے فورس کر رہیں ہیں آپ... شایان تھوڑا کمزور پڑا...

بیٹا وہ کسی نہیں ہے تمہاری بیوی ہے یہ اس کا فرض بھی ہے اور حق بھی...

میں نہیں سمجھتا ایسا کچھ...

ٹھیک ہے پھر دوبارہ مجھ سے بات مت کرنا جا سکتے ہو تم اپنے کمرے میں اب... وہ منہ موڑتی ہوئیں بولیں آنکھوں میں نمی آ گئ....

شایان بے بس ہو گیا...

اووکے فائن کچھ نہیں کہتا میں اسے اب خوش ہیں؟؟؟

میں تمہیں فورس نہیں کر رہی جو کرنا ہے کرو....

یار اب مان تو لی ہے نہ آپ کی بات چھوڑیں یہ ناراضگی...وہ ان کا منہ اپنی جانب کرتے ہوۓ بولا...

پہلے بتاؤ کانفرم...

جی کانفرم... کہتے ہوۓ وہ باہر نکل گیا.....

سب کو دوسروں کی پڑی ہے میری تو پرواہ ہی نہیں ہے کسی کو...

مِیرا کی کال آنے لگی تو شایان نے سیل فون ہی آف کر دیا اور گھر سے باہر نکل گیا....

********

مریم آج اتنا لیٹ کیوں ہو گئیں؟؟؟

وہ ماما مجھے اسائمنٹ بنانی تھی تو فرینڈز کے ساتھ بیٹھ کر وہی بنا رہی تھی....

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ مجھے پہلے بتا دیتیں کم سے کم ٹینشن تو نہ ہوتی...

سوری ماما آئیندہ خیال رکھوں گی... کہتی ہوئ وہ اپنے کمرے کی جانب چل دی...

سچ میں یہ کوئ مشکل تو نہیں تھا اتنی آسانی سے ماما مان گئیں حسن.... مریم اسے کال کر کے بتانے لگی...

میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا تم ہی گھبرا رہیں تھیں....

پھر تو ہم کبھی بھی کہیں بھی جا سکتے ہیں.. مریم پرجوش سی بول رہی تھی...

جانو جہاں تم کہو گی ہم وہاں جائیں گے...

حسن تم مجھے کبھی چھوڑو گے تو نہیں نہ؟؟؟ مریم نے دل میں موجود خدشے کا اظہار کیا...

اپنی جان کو کوئ چھوڑ سکتا ہے کیا؟؟

مریم میں ساری دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں بشمول اپنی فیملی لیکن تمہیں نہیں تم میرا سب کچھ ہوں... حسن آہستہ آہستہ بول رہا تھا اور مریم کو لگ رہا تھا یہی سب سے حسین دنیا ہے...

مجھے یقین ہے تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گے....

نہیں میں ہمیشہ ایسا نہیں رہو گا...

لیکن کیوں؟؟ مریم روہانسی ہو گئ...

کیونکہ وقت کے ساتھ میرا پیار تمہارے لیے بڑھتا جاےُ گا سو زندگی اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گی...

مریم نے لمبا سانس لیا...

شکر تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی...

دو تین گھنٹے مزید ان کی باتیں چلتی رہیں...

********

آج ایک ہفتہ ہو گیا تھا شایان اپنے چچا کے ساتھ آفس جا رہا تھا... اس کے تمام کام نور کر رہی تھی اور شایان ضبط کا دامن تھامے ہوۓ تھا...

نور نماز پڑھ کر فارغ ہوئ تو شایان کے لیے کپڑے نکالنے لگی جو کہ جاکنگ پر گیا ہوا تھا..پھر وہ بیڈ پر بیٹھ گئ....

نور کو اچھا نہیں لگتا تھا جب شایان اس کے سامنے مِیرا سے بات کرتا... نور سر جھٹک کر اٹھ گئ کہ سامنے سے آتے شایان سے ٹکرا گئ..آنکھوں کی جگہ بٹن فٹ کرواےُ ہیں کیا... شایان ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ بولا...

سوری مجھے نظر نہیں آیا....

تو زرا اپنی آنکھیں کھلی رکھا کریں...

شایان آپ ہمیشہ ایسے ہی بولتے ہیں کیا... نور روہانسی ہو گئ...

جی ایسے ہی بولتا ہوں اسی لیے تمہاری بھلائ اسی میں ہے کہ جہاں سے آئ ہو نہ وہیں واپس چلی جاؤ مزید میری زندگی خراب مت کرو...

شایان مجھے درد ہو رہا ہے... نور منمنائ..

شایان نے اس کا بازو دبوچ رکھا تھا...

اس کا بازو اپنی گرفت سے آزاد کرتا سائیڈ پر ہو گیا... نور سر جھکاتی باہر نکل گئ....


کیا ہوا آپ کو؟؟؟ آفاق کچن میں آیا تو نور اپنا بازو سہلا رہی تھی...

کچھ نہیں...

آپ کی آواز نے باقی روداد بھی سنا دی ہے سو جو رہ گیا وہ آپ بتائیں... وہ شیلف پر چڑھ کر بیٹھ گیا...

بس ایسے ہی کہ کر وہ شایان کے لیے ناشتہ بنانے لگی...

آپ پہلی ایسی دلہن ہیں جو اتنی جلدی کچن میں گھس گئیں ہیں..

مجھے اچھا لگتا ہے کام کرتے رہنا ورنہ بور ہو جاتی..

اب تو بتا دیں... آفاق بےچارگی سے بولا...

نور مسکرانے لگی...

تم نہیں چھوڑو گے نہ...

بلکل بھی نہیں بیسٹی کہتی ہیں نہ تو پھر بتائیں جلدی...

تمہیں معلوم تو ہے اپنے ظالم بھائ کا...

اووہ آپ کے سر تاج... آفاق ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گیا...

تم بتاؤ حاب نہیں ملی؟؟

یار آپ کو پتہ ہے انہوں نے مجھے کیا کہا جب لاسٹ انٹرویو دینے گیا تھا...

کیا؟؟ نور کام روک کر اسے دیکھنے لگی...

وہ کہتے اپنی بیسٹی کو ساتھ لے کر آؤ پھر جاب دیں گے... آفاق بلکل سئیریس انداز میں بولا.

مذاق مت کرو... نور نے سر جھٹکا....

لیں آپ کو میری شکل سے لگ رہا ہے کہ میں مذاق کر رہا ہوں...

نور نے پھر سے اسے دیکھا... اور نفی میں سر ہلانے لگی...

میں تو خود حیران پریشان سا اسے دیکھنے لگا..

اچھا چلو کوئ نہیں میں تمہارے ساتھ چلو گی ٹھیک ہے...

پھر تو انہوں نے مجھے آفس کے اندر بھی نہیں آنے دینا... آفاق قہقہ لگاتے ہوۓ بولا...

آپ کو بیوقوف بنانا دنیا کا سب سے آسان ترین کام ہے... آفاق کے قہقہے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور نور اسے غصے سے گھورنے لگی...

تم ہو ہی بدتمیز....

آفاق ہنستا ہوا باہر نکل گیا نور بھی ہنسنے لگی....

وہ ایسا ہی تھا اپنے ساتھ اسے بھی ہنسا دیتا.. نور تمہیں ماما بلا رہی ہیں... مہرین کچن میں داخل ہوتے ہوۓ بولی...

خیریت چچی کو کوئ کام ہے کیا؟؟؟

پتہ نہیں تم خود جا کر معلوم کر لو... وہ کندھے اچکاتی ہوۓ بولی...

اچھا بس دو منٹ شایان کا ناشتہ بن جاےُ پھر جاتی ہوں... وہ سر ہلاتی باہر نکل گئ..... 

مریم کیفے میں کھڑی تھی جب حسن آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا...

یہ کیا بدتمیزی ہے حسن چھوڑو میرا ہاتھ...

مریم غصے سے بولی...لیکن مقابل پر کوئ اثر نہ ہوا اور اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر ہی اس کی کلائ آزاد کی...

مریم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا...

حسن نے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش کی...

حسن نے آگے بڑھ کر فاصلے کم کیے مریم دو قدم پیچھے کو ہوئ...

حسن نے اس کی پشت پر اپنے بازو حمائل کر کے اسے اپنے ساتھ لگا لیا...

مریم اس چیز کے لیے تیار نہ تھی...

لیو می حسن... مریم اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی...

جب تک تم مجھے معاف نہیں کر دیتی میں نہیں چھوڑوں گا...

مریم کی آنکھیں برسنا شروع ہو گئیں...

بہت برے ہو تم نہیں کرنا مجھے معاف... مریم اس کے سینے پر سر رکھے بولنے لگی...

سوری یار مجھے ایمرجنسی گاؤں جانا پڑا وہاں سگنل بھی نہیں تھے پھر کیسے تمہیں آگاہ کرتا....

جھوٹ بول رہے ہو تم....

تمہاری قسم ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں... اب تو معاف کر دو پہلے چھ مہینے سے تم مجھے جواب نہیں دے رہیں تھیں اور اب دیا تو ناراض ہو گئ ہو...

پہلے پرامس کرو آئیندہ ایسا نہیں کرو گے... مریم سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوۓ بولی...

پرامس...

اووکے... مریم مسکراتی ہوئ بولی...

حسن نے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا..

چلو پھر اسی خوشی میں آج ایک اچھی سی ڈیٹ پر چلتے ہیں...

ٹھیک ہے... مریم فوراً مان گئ...

اسے عادت ہو گئ تھی کہ حسن اس کے آگے پیچھے گھومتا رہے وہ بھی تو پچھلے چھ ماہ سے اس کے پیچھے پڑا تھا دن رات اسے تنگ کرتا رہتا اب مریم کو اسی چیز کی عادت پڑ گئ کہ دو دن وہ غائب ہوا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ساری دنیا ہی خاموش ہو گئ ہو...

وہ سوچتی ہوئ اسے دیکھنے لگی...

ماما کو اس نے پہلے ہی ٹیکسٹ کر دیا کہ آج لیٹ آےُ گی...

راستے میں آفاق کا میسج آیا...

مریم نے بےدلی سے میسج پڑھا...

مریم اگر تم یونی ہو تو میں آ جاؤں تمہیں پک کرنے؟؟؟

مریم نے اگنور کیا جب سے وہ حسن کے ساتھ تھی وہ یہی کر رہی تھی یا تو اسے جواب ہی نہ دیتی یا پھر مختصر سا جواب دے کر بات ختم کر دیتی....


آفاق کافی دیر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا لیکن مایوسی ہوئ....

********

جیسے ہی شایان نیچے اترتا دکھائ دیا نور چچی سے معذرت کرتی کچن میں آ گئ اور ڈائینگ ٹیبل پر اس کا ناشتہ لگانے لگی...

وہ مغرور سے انداز میں بیٹھ گیا... نور سائیڈ پر کھڑی ہو گئ... آفاق,مہرین اور سمرین بھی بیٹھیں تھیں ٹیبل پر...

جیسے ہی شایان نے پہلا لقمہ لیا اس کے چہرہ پر غصے کی لکیریں ابھریں...

شایان نے پلیٹ اٹھا کر پھینکی...

نور ڈر کر پیچھے ہو گئ...

یہ کیا بنایا ہے تم نے؟؟؟ اگر بنانا نہیں آتا تو کس نے کہا ہے یہ ذمہ داری لینے کو... شایان پانی پی کر اس پر برسنے لگا....

مہ مہ میں نے تو بلکل ٹھیک بنایا تھا...

اچھا تو تمہارا مطلب ہے میرا دماغ خراب ہے یا پھر میں جھوٹ بول رہا ہوں...وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے سامنے کھڑے ہو کر اسفتسار کرنے لگا....

نور ہاتھ مسلنے لگی...

پہ پتہ نہیں شایان لیکن....

کیا ہو گیا ہے یہاں اتنا شور کیوں مچا رہے ہو؟؟

خالہ کی بات سے نور کی بات ادھوری رہ گئ....

جی آئیں زرا اپنی بہو کا بنایا ناشتہ کر کے دیکھیں نمک ایسے ڈالا ہے کہ زہر کو بھی مات دے جاےُ اگر نہیں کرنا چاہتی تو مت کرے اس طرح کا میرے سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں دس نوکر رکھ سکتا ہوں میں اس کام کے لیے..ہنکار بھرتا ہوا نکل گیا....

نور نے اب باقائدہ رونا شروع کر دیا...

نور میری جان چپ کر جاؤ تمہیں پتہ تو ہے نہ وہ غصے کا تیز ہے...

لیکن خالہ میں نے سچ میں ٹھیک بنایا تھا ہر چیز مناسب ہی ڈالی تھی... اچھا چلو اٹھو میں دیکھتی ہوں...

انہوں نے دوسرا انڈہ دیکھا تو وہ بھی ویسا ہی تھا جیسا شایان کہ کر گیا...

نور تم خود دیکھو شایان جھوٹ نہیں بول رہا تھا... خالہ حیران ہوتی گویا ہوئیں...

نور نے ٹیسٹ کیا تو ششدہ رہ گئ...

لیکن میں نے تو...

میں جانتی ہوں تم نے ایسا نہیں کیا لیکن تم اس کی فکر مت کرو ٹھیک ہو جاےُ گا وہ... خالہ اس کا منہ تھپتھپاتی چلی گئیں...

اور نور حیران سی پلیٹ کو دیکھنے لگی...

مہرین اس تماشے کا مزہ لے رہی تھی میں بھی دیکھتی ہوں نور تم کتنے دن اس گھر میں ٹکتی ہوں شایان دو دن میں تمہیں دھکے مار کر باہر نکالے گا... وہ سوچتی ہوئ مسکرانے لگی...

چہ چہ چہ... آفاق بولتے ہوۓ نفی میں سر ہلانے لگا...

آپ کو کیا لگا تھا میرا وہ فولادی بھائ اس نمک سے اوپر پہنچ جاےُ گا...

نور حیران ہوتی اسے دیکھنے لگی...

مجھ سے مشورہ مانگ لیتی کم سے کم کامیاب تو ہو جاتیں وہ جلاد ہیں آپ کو چائیے تھا ہتھوڑے برساتیں ان پر.... آفاق مسکراتے ہوۓ بولا...

اور اگر ابھی میں نے یہ سب ریکارڈ کر کے انہیں سنا دیا نہ تو تمہاری شکل نظر نہیں آ ےُ گی یہاں... نور مسکراتی ہوئ سامان سمیٹنے لگی...

*********

شایان آفس میں بیٹھا تھا جب اس کا فون رنگ کرنے لگا... اس نے ایک نظر فون پر ڈالی اور سپیکر پر لگا دیا....

شایان آئم سوری....

مِیرا کی آواز ابھری...

اس کی آواز سنتے ہی شایان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئ.....

اٹس اووکے سویٹ ہارٹ...

یہ بتاؤ تم اب واپس نہیں آؤ گے؟؟؟ مِیرا کی آواز سے اداسی چھلک رہی تھی...

یو آر مِسینگ می؟؟؟

آف کورس...

اووکے پھر دو یا تین دن تک میں تمہارے پاس ہوں گا...

یو آر ناٹ کیڈینگ رائٹ...

آف کورس ناٹ آئم سئیرس...

لو یو بس تم جلدی سے آ جاؤ مجھ سے ویٹ نہیں ہو رہا...

لو یو ٹو... اس کے علاوہ کوئ اور حکم... شایان تابعداری سے بولا...

جی نہیں بس تم آ جاؤ اور کچھ نہیں چائیے مجھے...

ٹھیک ہے میری جان ابھی میں زرا میٹینگ کی تیاری میں بزی ہوں فری ہو کر تم سے بات کروں گا...کہ کر اس نے فون رکھ دیا... ایک سکون سا تھا جو شایان کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہوا...

**********

مریم جلدی سے فریش ہو جاؤ پھر پھوپھو کی طرف چلنا ہے...

مریم کے گھر میں قدم رکھتے ہی ماما بول پڑیں...

کون سی پھوپھو؟؟ مریم بےزاری سے بولی....

چھوٹی پھوپھو...

مطلب آفاق کے گھر.... ایمان نے اس کے کان میں سرگوشی کی...

مریم جی اچھا کہتی آگے بڑھ گئ اس کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمایاں تھے...

ایمان حیران ہوئ کہ وہ آج کچھ بولے بنا ہی چل دی ورنہ تو آفاق کے ذکر پر اسے کچھ نہ کچھ بول کر جاتی ہے....

ایمان مریم کی چھوٹی بہن ہے....

*********

مریم تمہیں پتہ ہے سب بہت یاد کرتے ہیں تمہیں... نادیہ پیار بھرے لہجے میں بولیں...

خاص کر آفاق... نور نے لقہ دیا...

سب مسکرانے لگی.... لیکن مریم کے چہرے پر بےزاریت طاری تھی...

اس نے جواب میں کچھ بھی نہ کہا تو نور کو تشویش ہوئ...

مریم تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟؟؟

بس تھکاوٹ ہے نور آپی آج یونی سے بھی لیٹ آئ تھی نہ...

اووہ سہی اگر تم آرام کرنا چاہو تو روم میں چلی جاؤ... نور نے آفر کی...

نہیں میں ٹھیک ہوں... مریم نے منہ بناتے ہوۓ کہا...

ایک تو اسے نور ویسے بھی پسند نہیں تھی اور اب یہاں بھی اسے جھیلنا پڑ رہا تھا.....

ان کے جانے کے کچھ دیر بعد شایان آفس سے آ گیا... نور لاؤنج میں ہی بیٹھی تھی خالہ کے ساتھ اسے دیکھتے ہی کھڑی ہوگئ....

آج آپ جلدی آ گۓ...

واپس چلا جاؤ یا پھر تم سے اجازت لیتا پہلے.. وہ تنک کر بولا

نہیں میں تو بس یونہی کہ رہی تھی نور اس سے کوٹ لیتی ہوئ بولی...

کبھی تو منہ سیدھا کر لیا کرو کیا کہتی ہے وہ تمہیں....

اس کے بیٹھتے ہی مام بولنے لگیں...

میری زندگی کا سکون برباد کر دیا ہے اور آپ کہتی ہیں کیا کہتی ہے وہ مجھے خیر اس بحث کو یہیں چھوڑ دیں تو بہتر ہے... شایان سر صوفے پر گراتا ہوا بولا...

نور جا چکی تھی وہاں سے...

تم ٹھیک ہو شایان...

جی بس تھک گیا ہوں...

میں نور سے کہتی ہوں تمہیں میڈیسنس لا دے گرم دودھ کے ساتھ.....

شایان نے کوئ جواب نہیں دیا مطلب اس کی جانب سے اجازت ہے...

نور نیچے آئ تو خالہ کے کہنے کے مطابق اس کے لیے دودھ گرم کر کے لے آئ...

اس وقت وہ دونوں اکیلے تھے...

شایان یہ لے لیں... نور آہستہ سے بولی...

شایان نے آنکھیں کھولیں اور اس کے ہاتھ سے میڈینس لے لی...

شایان؟؟؟ نور نے ڈرتے ڈرتے اسے آواز دی...

بولو....

وہ کل آپ مجھے امی کی طرف لے جائیں گے؟؟

میں نہیں جا سکتا ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا......

لیکن شایان آپ بھی ساتھ آتے تو...

تمہیں اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے کیا یہ کافی نہیں جو اب اپنے سر پر بٹھا لو... شایان کڑے تیوروں سے بولا...

نور نے سر جھکا لیا....

میں نے تو اسی لیے کہا کہ پہلی بار میں جا رہی ہوں تو آپ بھی ساتھ آ جاتے تو امی ابو کو اچھا لگتا....

میں نے رشتہ نہیں مانگا تھا تمہارا ان سے خود میرے ساتھ باندھا ہے انہوں نے تو اب مجھ سے کوئ توقع مت رکھنا اور اتنا فضول ٹائم نہیں ہے میرے پاس کہ تمہارے کام کرتا پھروں... کہ کر شایان چلا گیا اور زینے چڑھنے لگا....

نور بے بسی سے اسے دیکھنے لگی....

کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟؟

آفاق اس کے سامنے براجمان ہوتے ہوۓ بولا...

کچھ نہیں تم بتاؤ کہاں سے آ رہے ہو؟؟؟

مریم آئ تھی؟؟؟

نور مسکرانے لگی جو میں نے پوچھا ہے اس کا جواب نہیں دیا اپنے مطلب کی بات جاننا چاہتے ہو بس...

آفاق سر کھجانے لگا...

جی ہاں وہ آئ تھی لیکن تم کیوں غائب تھے آج...

آفاق سوچ میں پڑ گیا...

نور نے اس کے سامنے چٹکی بجائ تو وہ اپنی سوچوں سے باہر نکلا...

حیرت ہے مجھے جب میں نے مریم سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ نہیں آ رہی پھر مجھے منع کرنے کے بعد وہ کیسے آ گئ؟؟؟

اس نے ایسا کہا تمہیں؟؟؟

جی اسی لیے میں دوست کی طرف چلا گیا تھا...

ویسے آفاق مجھے بھی مریم کچھ چینج لگ رہی تھی بلکل چپ سی...

بدلاؤں تو مجھے بھی نظر آ رہے ہیں لیکن وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی آپ کو پتہ ہے وہ مجھے کچھ ٹائم سے بلکل اگنور کر رہی ہے...

نور حیرانی سے اسے دیکھنے لگی...

تو تم اس سے فیس ٹو فیس بات کرو...

یار ملاقات ہو تو پھر نہ....

نور کے بولنے سے پہلے ہی آفاق کا فون رنگ کرنے لگا اور وہ اٹھ کر کچن میں آ گئ....


ہیلو جی کس دن کی فلائٹ مل سکتی ہے...

ٹھیک دو دن بعد اووکے کانفرم کر دیں...

فون بند کر کے شایان نے بیڈ سے ٹیک لگا لی.... فائنلی میں اپنی لائف میں واپس جاؤں گا... وہ ایک لمبی آہ بھر کر بولا...

مِیرا کو اس نے ٹیکسٹ کر کے اپنی فلائٹ سے آگاہ کر دیا....

نور کمرے میں آ کر کب بورڈ کھول کر کھڑی ہوگئ...

نور میرے کپڑے نکال دو...

خیریت اس ٹائم؟؟؟ نور کو حیرانی ہوئ...

کیونکہ وہ آفس سے آ کر کم ہی کسی اور جگہ کا رخ کرتا تھا...

ہاں کچھ کام ہے مجھے...

جی اچھا.....

شایان بس دو منٹ میں پریس کر دوں...

شایان نے اثبات میں سر ہلا دیا...

خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی

جسے نور سمجھنے سے قاصر تھی...

نور نے شایان کی شرٹ سٹینڈ پر ہی رہنے دی اور مہرین کے کہنے پر کچن میں آ گئ جہاں سمرین میکرونی بنا رہی تھی...

اسے سمجھا کر واپس اوپر آ گئ اور بنا شرٹ دیکھے روم میں لے آئ...

یہ لیں شایان...

شایان نے جب شرٹ کو دیکھا تو اس کے ماتھے پر بل آ گۓ...

نور آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے تم مجھے بتا دو آج... شایان ضبط کرتے ہوۓ بولا...

جی؟؟؟ نور ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی...

جب تمہار دل ہی نہیں کرتا میرے کام کرنے کو تو پھر سب کے سامنے ڈرامے کیوں کرتی ہو ہاں.... شایان اس کے سامنے آتے ہوۓ بولا...

اب کیا کر دیا ایسا میں نے جو آپ یوں کہ رہے ہیں؟؟

یہ دیکھو شایان نے شرٹ اس کے سامنے کی جس کے آگے اور پیچھے استری کا نشان بنا ہوا تھا اور شرٹ جل چکی تھی...

نور کی آنکھیں کھل گئیں....

شایان میں نے نہیں کیا یہ....

اووہ پلیز اب تم میرے سامنے معصوم مت بنو کیا ملتا ہے یہ سب کر کے بتاؤ...

شایان میں نے کچھ بھی....

نور کی بات ادھوری رہ گئ اور اس نے رونا شروع کر دیا...

شٹ اپ نور میرے سامنے رویا مت کرو ہزار بار بتا چکا ہوں...

لیکن نور کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئ...

شایان نے مٹھیاں بھینج لیں...

نور دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے... شایان اسے دروازے کی طرف دھکیلتے ہوۓ بولا...

نور روتی ہوئ باہر نکل گئ....

شایان کو پھر سے وہی سب یاد آنے لگا تھا.. اس نے گلاسز اتار کر پھینک دیں اور بال مٹھیوں میں جکڑ لیے.....

کیوں بار بار مجھے وہ سب یاد دلاتی ہو نور...

شایان اِدھر سے اُدھر چکر لگانے لگا نور اس کے موڈ کا بیڑا غرق کر چکی تھی....

**********

نور کمرے میں آئ تو شایان غائب تھا اس کی آنکھیں میں سوجن ہو گئ تھی وہ متواتر ایک گھنٹہ روتی رہی ناک بھی لال ہوئ پڑی تھی...نور نے بیڈ خالی دیکھا تو جا کر لیٹ گئ...

کتنے دن ہو گۓ تھے اس نے بیڈ پر سو کر بھی نہیں دیکھا تھا... آج تو میں ہی سوؤں گی یہاں... نور منہ بناتی ہوئ بولی اور آنکھیں بند کر لیں...

رات گۓ شایان کمرے میں آیا...

کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی کچھ نائٹ بلب کی اور کچھ چاند کی...

شایان نے غور سے دیکھا تو نور اسے بیڈ پر دکھائ دی....

اووہ تو میڈم آج بیڈ پر براجمان ہیں وہ بھی میری اجازت کے بغیر...

شایان نے لائٹس آن کیں اور نور کے سر پر جا کر کھڑا ہو گیا....

پانی کا جگ اٹھایا اور نور کے منہ پر گرا دیا...

نور ہڑبڑا کر اٹھ گئ....

اور شایان کو سامنے دیکھ کر چہرے پر خفگی در آئ...

کیا تھا یہ؟؟؟ نور ہاتھ سے اپنا منہ صاف کرتی ہوئ بولی...

کس کی اجازت سے تم یہاں سو رہی تھی پہلے یہ تو بتاؤ مجھے...

میرا دل کر رہا تھا اسی لیے سو گئ... نور منہ بسورتی ہوئ بولی...

شایان اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تو نور فوراً آگے کھسک گئ...

وہ اپنی گھڑی اتارنے لگا اور نور گھٹنوں پر چہرہ رکھے سو سو کرنے لگی...

شایان پاؤں سیدھے کر کے بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا...

میں نے کسی کو مار نہیں دیا جو تم اس طرح سے سوگ منا رہی ہو... وہ تنک کر بولا...

مارنے سے کم بھی نہیں تھا یہ...

نور اسی پوزیشن میں بولی...

مجھے کیا... شایان نے کہ کر شانے اچکاےُ....

شایان آپ ایسے کیوں ہیں؟؟

نور نے اس کی جانب دیکھتے ہوۓ سوال دغا...

کیسا؟؟

اتنے سخت...

ایسا ہی ہوں میں... شایان نے مختصر سا جواب دیا...

پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے پھر اب کیوں؟؟؟

نور اپنے کام سے کام رکھا کرو تمہیں کوئ ضرورت نہیں ہے میری تفتیش کرنے کی....

میں تفتیش تو نہیں کررہی بس یونہی پوچھا.....

تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم میری زندگی میں دخل اندازی مت کرو میں نے تمہیں اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہے اسی کو غنیمت جانو مجھ پر ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں....

نور خاموش ہو گئ...

اور ہاں ایک بات مزید میں تمہیں باور کرانا چاہتا ہوں...

کیا؟؟؟ نور آہستہ سے بولی...

یہی کہ کبھی خود کو میری بیوی مت سمجھنا اور نہ ہی مجھ سے کسی فرض کی ادائیگی کی توقع رکھنا...

نور کو لگا وہ زہر اگل رہا ہے... وہ بے بسی سے اسے دیکھنے لگی...

تم بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ میں مِیرا سے پیار کرتا ہوں اور اسی کو اپنی بیوی بنانا چاہتا ہوں تمہاری جگہ کہیں بھی نہیں ہے سو بہتر ہو گا تم یہ دماغ میں بٹھا لو کہ زیادہ دن تمہیں یہاں نہیں رہنا عنقریب میں تمہیں طلاق دے دوں گا کیونکہ مِیرا یہ برداشت نہیں کرے گی تو تم اس رشتے کو نبھانے کا کبھی سوچنا بھی مت....

اس کے سامنے بیٹھا شخص تو اس سے ہر حق ہی چھین چکا تھا اس کی اہمیت کچھ بھی نہیں اس کی اس گھر میں جگہ نہیں تھی تو پھر وہ یہاں کر ہی کیا رہی تھی... نور سوچتی ہوئ اٹھی اور کاؤچ پر آ کر بیٹھ گئ...

شایان لاپرواہی سے شانے اچکاتا لیٹ گیا...

لیکن نور کی نیند تو اڑ چکی تھی... آنسو موتیوں کی صورت میں نکلنا شروع ہو گۓ....

وہ تو سوچ رہی تھی کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جاےُ گا لیکن شایان تو سرے سے ہی اس رشتے کو ماننے سے انکاری تھا اس کے نزدیک تو یہ شادی شادی ہی نہیں تھی... نور اٹھی جا کر وضو کیا اور جاےُ نماز بچھا کر بیٹھ گئ....

وہ خاموش تھی لیکن جس ذات کے سامنے وہ بیٹھی تھی وہ اس کی خاموشی سن رہا تھا اس کا دل بول رہا تھا اور اللہ اس کی صدا سن رہا تھا...

میں کیا کروں اللہ پاک مجھے تو لگ رہا ہے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں آگے کچھ بھی دکھائ نہیں دے رہا وہ مجھے اپنے کمرے میں جگہ نہیں دینا چاہتے تو دل میں کیسے دیں گے وہ بھی اس صورت میں کہ وہ کسی اور سے پیار کرتے ہیں اب میں کہاں جاؤں مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا.... نور آہستہ آہستہ بولتی سجدے میں گر گئ اور کب نیند کی وادی میں اتر گئ اسے علم ہی نہ ہوا...

*********

مریم آج بھی لیکچر بنک کر کے حسن کے ساتھ بیٹھی تھی...

یار تم کب بات کرو گی اپنے گھر... حسن اکتاہٹ کا شکار ہوا پڑا تھا...

حسن تم جانتے ہو سب سے بڑا مسئلہ وہ آفاق ہے جس کے باعث میں ڈرتی ہوں بات کرتے ہوۓ...

لیکن ایسے کب تک چلے گا مریم...

تم بتاؤ تم نے اپنے گھر بات کی؟؟؟

میرے گھر والے مسئلہ نہیں وہ میری مرضی کے خلاف نہیں جائیں گے تم بس اپنے گھر والوں کو سنبھالو...

ہممم اب بات کرنی ہی پڑے گی... مریم پُرسوچ انداز میں بولی.....

*********

نور کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی جب شایان کی آواز سنائ دی....

اف اب پتہ نہیں کیا کر دیا ہے میں نے... نور منہ میں بڑبڑاتی ہوئ باہر کی جانب چلنے لگی...

جی.... دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے پوچھا.

تم نے میرے فون کو ہاتھ کیسے لگایا؟؟؟

میں نے کب؟؟؟

اور یہاں جن بھوت رہتے ہیں نہ جو میں مان لوں کہ یہ کام انہی کا کیا ہے...

لیکن میں نے کیا کیا ہے؟؟؟

میرے فون سے مِیرا کو تم نے میسج نہیں کیا..

نہیں... نور نے صاف انکار کیا...

شایان اسے کڑے تیوروں سے دیکھنے لگا....

نور مجھ سے جھوٹ مت بولا کرو....

شایان میں کیوں جھوٹ بولوں گی آخر....

کل رات میں نے تمہیں وہ سب کہا اسی لیے...

میرے مائنڈ میں بھی نہیں تھا تو میں کروں گی کیوں اس وجہ سے.... نور سینے پر بازو لپیٹے پوچھنے لگی...

پیچھے سے آفاق ہنستا ہوا آیا....

بھائ پلیز میری معصوم سی بھابھی کو مت ڈانٹیں....

تو جہاں سے آیا ہے نہ وہیں واپس چلا جا... شایان انگلی کے اشارے سے بولا..

آپ ایسے نور کو ڈانٹ نہیں سکتے....

اچھا اب میں تجھ سے اجازت لوں گا میری بیوی میں جو مرضی کرو....

ٹھیک ہے میں نے کب منع کیا کچھ کرنے سے لیکن ابھی میری موجودگی نہایت اہم ہے... آفاق مسکراہٹ روکتے ہوۓ بولا...

اور نور تو شایان کے الفاظ میری بیوی پر ہی اٹک گئ....

وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی...

ایک منٹ آفاق یہ تمہاری حرکت تو نہیں؟؟؟شایان کو اندیشہ ہوا...

آفاق کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ رینگ گئ اور سر اثبات میں ہلانے لگی....

مائ گاڈ... شایان ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا...

تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے کیا کہا ہے مِیرا کو...

جی بلکل میں نے کہا کہ

مِیرا تم چڑیل,بھوتنی ایک نمبر کی چپکو ہو آئیندہ مجھ سے دور رہنا....

آفاق مزے سے دہرانے لگا....

اور شایان کا دل کیا کہ یا تو اس کا سر پھوڑ دے یا پھر اپنا...

نور خاموشی سے نیچے چلی گئ...

آفاق کسی دن تو میرے ہاتھ سے پٹے گا تیری وجہ سے اسے سنا دی میں نے... شایان کو بلاوجہ نور پر غصہ نکالنے کا افسوس ہونے لگا......

آفاق نے وہاں سے نکلنے میں ہی اپنی عافیت جانی.....

نور اس کا ناشتہ لگا رہی تھی جب وہ نیچے آ کر بیٹھا...

سوری... جلدی سے بولا...

سوری بول رہے ہیں یا پتھر پھینک رہے ہیں ایسے کون بولتا ہے سوری.... نور منہ بناتی ہوئ بولی...

اب اگر تم چاہتی ہو کہ میں پھول وُول لے کر آؤں تمہارے قدموں میں گر جاؤ تو ایسا کبھی نہیں ہو گا...

نور اس کی بات پر مسکرانے لگی...

ایک دن ایسا ہی ہو گا جیسے آج آپ نے مجھے اپنی بیوی کہا ایک دن یہ بھی ضرور کریں گے نور دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوئ...

تیار ہو جانا تمہیں چھوڑ دوں گا... شایان ناشتہ کرتے ہوۓ بولا...

کہاں؟؟؟

جہنم میں جانا پسند کرو گی؟؟ شایان تنک کر بولا جبکہ نور مسکرانے لگی...

تمہارے گھر اور کہاں....

اووہ اچھا ٹھیک ہے میں بس دو منٹ میں آئ.. نور کہتی ہوئ چلی گئ...


شایان گاڑی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا جب وہ چادر صحیح کرتی دکھائ دی... شایان کو تھوڑی سی حیرت ہوئ...

گاڑی میں جانا تھا پھر چادر کی کیا ضرورت؟؟

نور کے بیٹھتے ہی شایان پوچھنے لگا...

وہ مجھے عادت ہے پہلے بھی ہمیشہ لیتی تھی چاہے گاڑی میں جاتی یا پھر پیدل...


جو عورت سر ڈھانپی ہے وہ اللہ کی امان میں رہتی ہے

حیا بڑی دولت ہے اور جو عورت اسے سنبھال کر رکھتی ہے کبھی کنگال نہیں ہوتی نہ حسن کے معاملے نہ عزت کے معاملے میں....


شایان نے اثبات میں سر ہلا دیا...

آپ اندر نہیں آئیں گے؟؟؟

نور نے اترنے سے پہلے اسے دیکھتے ہوۓ پوچھا.....

مجھے کام ہے تم....

شایان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی

نور سر ہلاتی اندر چلی گئ...

کتنے دنوں بعد وہ اس دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی... نور کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں... گیٹ تو کھلا تھا مگر اندر کا دروازہ بند تھا...

نور نے بیل دی...

امی... انہیں دیکھتی ہی نور ان سے لپٹ گئ...

میری بچی کتنے دن ہو گے شکل تک نہیں دکھائ اپنی... وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی ہوئیں اندر لے آئیں...

ابو کو دیکھتے ہی نور ان کے سینے سے لگ گئ..

ہماری بیٹی آئ ہے؟؟

نور ان کے ساتھ بیٹھ گئ...

میں نے آپ دونوں کو بہت مس کیا... نور ابو کے ساتھ بیٹھی ہوئ بولی...

پھر بھی اتنے دن بعد آئ ہو... وہ شکوہ کرنے لگیں...

اچھا یہ بتاؤ شایان کا رویہ ٹھیک ہے تمہارے ساتھ اور باقی سب گھر والوں کا...

جی جی امی سب بہت اچھے ہیں...

اچھے تو ہیں لیکن جن حالات میں یہ شادی ہوئ تو میں نے سوچا....

بس آپ چھوڑیں اس سب کو میں خوش ہوں یہ کافی نہیں... نور مسکراتی ہوئ بولی...

شایان کے ساتھ آئ ہو؟؟؟

جی ابو...

باہر سے ہی چلا گیا؟؟؟

جی ان کو کام تھا اسی لیے چلے گۓ.....

کہ رہے تھے لینے آؤ گا پھر بیٹھوں گا...

سہی... وہ سوچتے ہوۓ بولیں....

نور تم خوش ہو نہ؟؟ وہ ماں تھیں ان کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا...

امی اب لکھ کر دوں پھر یقین کریں گیں....نور منہ بسورتی ہوئ بولی...

بس بھئ بیگم باقی باتیں بعد میں کر لینا ہماری بیٹی کو کچھ کھلانا نہیں ہے...

جی جی میں ابھی کچھ بنا کر لاتی ہوں... کہتی ہوئیں وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئیں... نور ابو کے ساتھ محو گفتگو ہو گئ...

*********

نور شام میں اوپر اپنے کمرے میں آگئ اور بیڈ پر ڈھیر ہو گئ...

کتنا مشکل ہوتا ہے نہ اپنوں سے دکھ چھپانا

بلکل سہی کہتے ہیں بیٹیاں بہت سمجھدار ہوتی ہیں جب چھوٹی ہوتی ہیں تو زرا سی تکلیف پر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں اور بعد میں بڑی سے بڑی اذیت کو بھی سینے میں چھپا لیتی ہیں اپنی سسکیاں کسی کو نہیں سننے دیتیں تمام دکھ اپنے دل میں دفن کرنا شروع کر دیتی ہیں نہایت ہی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جس دل درد سے پھٹ رہا ہوں لیکن چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ رکھنی ہو....

نور بھی اسی حال میں تھی....

میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی اس طرح رنگ بدلے گی کہ آسمان سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دے گی سارے خواب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گۓ تھے اور اب یہ کرچیاں آنکھوں کو زخمی کر رہیں ہیں....

آنسو باڑ توڑ کر نکل آےُ تھے اور نور کے چہرے کو بھگو رہے تھے...

نور اٹھی جا کر وضو کیا اور جاےُ نماز بچھا کر کھڑی ہو گئ....

*********

دو دن بعد:

شایان کسی کو بتاےُ بغیر دبئی چلا گیا اور وہاں پہنچنے کے بعد آفاق کو کال کر کے انفارم کر دیا کہ میں دبئی واپس آ گیا ہوں...

آفاق کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا....

بھائ آپ کیا کہ رہے ہیں آپ کو کچھ اندازہ ہے؟؟؟

تم مام کو بتا دینا اور میں جانتا ہوں آفاق کہ میں کیا کر رہا ہو...

آپ کو کسی کا بھی خیال نہیں ہے نہ آپ کے جانے سے کتنے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوں گیں سوچا ہے آپ نے.... آفاق کا بس نہیں چل رہا تھا اسے فون سے باہر نکال لے...

آفاق تو پرسکون رہ اور باقی سب کو بھی رکھ مجھے کچھ کام ہے اسی لیے آیا ہوں باقی بات بعد میں کرتا ہوں.... شایان نے عجلت میں کہتے ہوۓ فون رکھ دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی جانب چل دیا...

آفاق فون کو گھور کر رہ گیا...

********


نور کو جب شایان کے واپس جانے کا علم ہوا تو وہ واپس نہیں گئ...

تین دن ہو گۓ تھے لیکن شایان نے اسے ایک میسج تک کرنے کی زحمت نہیں کی.. نور اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھی شایان اسے باور کروا چکا تھا تو پھر اب اسے تکلیف کیوں ہو رہی تھی...

وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی فون کی اسکرین اس کے آنسوؤں سے بار بار دھندلا رہی تھی.... شایان آن لائن تھا لیکن نور کو تو اس نے اتنا حق بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اس سے بات ہی کر لے...

نور نے موبائل بیڈ پر پھینکا اور خود تکیے پر سر گرا کر رونے لگی...

کیسا شخص تھا وہ جو اسے اپنے نام سے منسوب کر کے چلا گیا تھا...

اس سے اچھا تو یہی ہوتا شایان آپ یہیں رہتے چاہے مجھ پر غصہ کرتے لیکن یوں بیچ میں چھوڑ کر تو نہ جاتے....

نور نے پھر سے موبائل اٹھایا اور میسج ٹائپ کرنے لگی ہاتھ اس کے کانپ رہے تھے دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے سینڈ کیا اور انتظار کرنے لگی...

ہاں کوئ کام ہے؟؟؟

ایک لمحے کی تاخیر کے بعد اس کا جواب موصول ہوا...

نور کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہوا لیکن دیکھتے ہی مایوسی ہوئ...

نہیں...بے دلی سے لکھ کر بھیجا...

اووکے...

اگر آپ اتنا ہی پوچھ لیتے کہ کیسی ہو تو کون سا طوفان آ جاتا...

نور بےدردی سے آنسو صاف کرتی باہر نکل آئ...

*********

اف شایان میں بہت خوش ہوں تمہیں اپنے سامنے پا کر... مِیرا اس کے گلے لگتی ہوئ بولی.میں بھی... شایان نے مختصر سا جواب دیا....

تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟؟ سب ٹھیک ہے؟؟

مِیرا بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیتی ہوئ بولی...

بس ایسے ہی... شایان نے کندھے اچکاےُ.... اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے اور مِیرا کا ردعمل کیا ہو گا....

مِیرا آئ وانٹ ٹو ٹیل یو سم تھنگ....

بلکل بولو...

مِیرا اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوۓ بولی....

مِیرا میری شادی ہو گئ ہے...

واٹ... شایان کی بات پر مِیرا ششدہ رہ گئ...

شایان مجھ سے اس طرح سے مذاق مت کرو آئ ڈونٹ لائک...

میں سنجیدہ ہوں... شایان سپاٹ سے انداز میں بولا...

کیا بکواس ہے یہ تم نے تو کہا تھا شادی اٹینڈ کرنے جا رہے ہو لیکن تم تو اپنی شادی میں شرکت کرنے گۓ تھے رائٹ اور مجھے جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے شایان...مِیرا تو پھٹ پڑی...

ریلیکس... شایان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا...

شایان میں کیسے ریلیکس ہو سکتی ہوں تمہارے لیے یہ معمولی سی بات ہے کیا.... دو موتی مِیرا کی گال پر لڑھک آےُ...

میں جانتا ہوں یہ معمولی بات نہیں ہے لیکن تم مجھے موقع تو دو وضاحت کرنے کا... شایان اس کے آنسو صاف کرتے ہوےُ بولا...

سب تو کر آےُ ہو اب وضاحت کی ضرورت نہیں میں ہی پاگل تھی جو پچھلے دو سالوں سے اپنے دن رات تمہارے نام کیے ہوۓ تھی اور تم مجھے دھوکہ دے رہے تھے محبت کسی سے اور شادی کسی سے گریٹ شایان مصطفیٰ....

مِیرا کہ کر مڑ گئ....

لیکن اس کی کلائ شایان کی گرفت میں آ چکی تھی....

لیو می شایان... مِیرا کی آواز رندھی ہوئ تھی وہ شایان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ اس کی عادات سے اچھے سے واقف تھی...

شایان نے اسے پیچھے سے ہگ کر لیا...

مائ لو آپ ایسے نہیں جا سکتیں یو ہیو ٹو لسن می...

مزید ایک لفظ سننے کی سکت نہیں ہے مجھ میں آج تم مجھے اپنی شادی کی خوشخبری سنا رہے ہو کل واپس آؤ گے تو بچوں کی سناؤ گے...

وہ تو تم سناؤ گی نہ...

شایان اس کے کان میں سر گوشی کرنے لگا....

مِیرا کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا....

اس وقت ایک نہایت ہی سنجیدہ موضوع زیر بحث ہے سو آپ اپنے فیوچر کی پلاننگ بعد میں کریں...

اب چپ کر کے میری ساری کہانی سنو گی اور درمیان میں ٹوکنا مت ورنہ پھر میں یونہی واپس پاکستان چلا جاؤ گا پھر رہنا ہر چیز سے لاعلم...

ٹھیک ہے میں نہیں بولوں گی لیکن تم واپس نہیں جاؤ گے... مِیرا کو لگا شایان نے اس کی جان نکالنے کی بات کر دی...

سنو پھر ہوا یوں:-


نور برائیڈل روم میں بیٹھی تھی جب ایمان گھبرائ گھبرائ سی اندر آئ....

کیا ہوا؟؟؟ نور نے کسی انجانے خوف کے تحت پوچھا...

نور آپی باہر کچھ بھی ٹھیک نہیں... وہ روہانسی ہو گئ...

کیا ہو گیا مجھے کچھ بتاؤ گی...

جیسے نکاح کے لیے مولوی آیا ایمان نے لفظ بہ لفظ دہرانا شروع کیا....

صفدر صاحب یہ نکاح ایک ہی شرط پر ہو گا...

کسی شرط؟؟ ان کے ماتھے پر پریشانی کی لکیریں ابھریں...

آپ اپنا گھر, کاروبار اور ایک عدد پراڈو میرے بیٹے کے نام ابھی کریں تو ہم آپ کی بیٹی کو اپنی بہو بنائیں گے ورنہ ہم بارات واپس لے جائیں گے...

لیکن پہلے تو آپ نے کوئ شرط نہیں رکھی تھی پھر اب یہ سب؟؟؟

ہماری مرضی ہم لڑکے والے ہیں کچھ بھی ڈیمانڈ رکھ سکتے ہیں... احمد کے والد لاپرواہی سے بولے...

لیکن سب کچھ آپ کو دے دیں تو ہم کہاں جائیں گے؟؟؟ وہ پریشانی کے عالم میں بولے...

بھئ ہمیں اس سب سے کوئ واسطہ نہیں آپ سڑک پر جائیں یا پھر دارالامان میں ہماری مانگ پوری ہو گی تو دلہن سسرال جاےُ گی ورنہ واپس میکے میں... وہ قطعیت سے بولے... دیکھیں آپ کچھ خیال کریں سب مہمان کی آمد ہو چکی ہیں ہر چیز تیار ہے ایسے میں بارات کا واپس جانا میری بچی پر بلاوجہ ہی سوال اٹھیں گے میں گاڑی اور گھر دے دیتا ہوں لیکن کاروبار رہنے دیں کل کو ہم نے دوسروے رشتہ داروں سے ملنا ہے کیسے کریں گے سب....

میں کچھ نہیں جانتا سب آپ کے سامنے ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں...

بھائ صاحب آپ لعنت ڈالیں ایسے لوگوں پر ہم نور کا سودا نہیں کر رہے بیاہ کر رہے ہیں اور کون سے عیب ہیں اس میں جو اس طرح کی شرطوں کی تکمیل کریں ہم....سعدیہ کے چھوٹے بھائ نے مداخلت کی...

ارے آپ کی بھانجی جیسی آوارہ لڑکی میں نے کہیں دیکھی نہیں ہے یہ تو اعلیٰ ظرفی سمجھیں کہ میں اسے قبول کر رہا ہو... اب کی بار احمد نے جواب دیا...

کیا بکواس کر رہے ہو تمہیں اندازہ بھی ہے میری بیٹی کی تربیت کس انداز میں ہوئ ہے جو یوں اس پر کیچڑ اچھال رہے ہو... صفدر تو طیش میں آ گۓ...

اچھے سے جانتا ہوں اس بے غیرت کو سارا دن ساری رات نا جانے کتنے عاشقوں کے ساتھ مصروف رہتی ہے مجھے جیسے کسی چیز کا علم نہیں زرا نظر بھی رکھیں اپنی اولاد پر جو گل چھڑے اڑاتی پھر رہی ہے....

صفدر کے تھپڑ نے احمد کا منہ بند کیا...

دفع ہو جاؤ نہیں دینی مجھے تم جیسے گھٹیا انسان کو اپنی بیٹی...

احمد بل کھاتا کھڑا ہوا اور بارات کو واپس لے گیا... صفدر صاحب صوفے پر ڈھے گۓ.....

سر ہاتھوں میں تھام لیا کیا سوچا تھا اور کیا ہو رہا تھا ان کی پاک بچی کی کتنی الزامات کی بھرمار وہ کر گیا تھا...

بھائ صاحب آپ کہیں تو مجیب سے نکاح پڑھوا دیں نور کا....

تم جانتے ہو نہ کہ نور اور مجیب میں بارہ سال کا فرق ہے یہ مناسب جوڑ نہیں بنتا وہ بچہ ہے ابھی اور نور جوان ہے... وہ حیرت سے انہیں تکتے ہوۓ بولے...

اب بھائ صاحب گھر کی عزت گھر میں رہ جاےُ تو اچھا ہے نہ....

مجھی خوشی ہے کہ تم نے میرا اتنا ساتھ دیا میرے لیے یہی بہت ہے...

یقین مانیں اگر اللہ نے اور بیٹے دئیے ہوتے تو کبھی پیچھے نہ رہتا.. صفدر آنکھ صاف کرتے ان کے گلے لگ گۓ....


شایان میری بات سنو زرا....

جی مام؟؟؟

وہ جو لاپرواہ سا بنا کھڑا تھا نادیہ کی آواز پر چونکا...

وہ اسے سائیڈ پر لے آئیں...

شایان بارات واپس جا چکی ہے

تو؟؟ شایان نے شانے اچکاےُ...

بیٹا اب اگر نور گھر واپس جاےُ گی تو دوبارہ اس کی شادی بہت بڑا مسئلہ بن جاےُ گی اور طرح طرح کی الزام تراشی...

ایک منٹ آپ صاف بات کریں.... شایان نے ان کی بات کاٹ کر کہا...

بیٹا تم نور سے نکاح کر لو...

واٹ؟؟؟ شایان کی آنکھیں کھل گئیں...

سئیرئسلی مام آپ مطلب مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا بولوں آپ کو... شایان حیران سا اپنی ماں جو تکنے لگا...

بیٹا ابھی وقت کی ضرورت یہی ہے اور میں تو چاہتی تھی کہ نور سے تمہاری شادی ہو....

پلیز مام آپ اچھے سے جانتی ہیں میں مِیرا سے محبت کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا یہ نور وور کو سائیڈ پر رکھیں آپ... شایان ماتھے پر تیور ڈالتے ہوۓ بولا...

ٹھیک ہے لیکن پہلے تو میں نے تمہیں نہیں کہا نا اب میں اپنی بچی کو ایسے حال میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی....

ماموں کر لیں تین تین بیٹے ہیں ان کے آپ ہی کیوں مجھے قربانی کا بکرا بنانا چاہتی ہیں مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا جو بھی ہوتا رہے اس کے ساتھ... کہ کر شایان نے منہ موڑ لیا...

وہ بے بسی سے اسے دیکھنے لگیں...

ٹھیک ہے پھر شایان آج سے تمہاری ماں بھی مر گئ اب دوبارہ مجھ سے بات مت کرنا نہ پاکستان آنے کی ضرورت ہے وہیں رہنا ساری زندگی....کہ کر وہ آنسو صاف کرتی مڑ گئیں..

شایان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں...

عجیب مصیب آن پڑی ہے اس سے بہتر تو ہوتا میں آتا ہی نہ اس کی شادی میں کم سے کم میرے ساتھ تو نہ باندھا جاتا اسے... شایان ٹیبل کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا مام کے پیچھے چل دیا...

ٹھیک ہے میں راضی ہو مگر آئیندہ ایسی بات آپ کے منہ سے نہ نکلے... شایان ناراض ناراض سا کہنے لگا...

وہ مسکراتی ہوئیں اثبات میں سر ہلانے لگیں...

وہ اٹھیں اور اپنی بہن کے ہمراہ کھڑیں ہو گئیں..

نادیہ تم بھائ صاحب سے کہو کہ نور کا نکاح شایان سے کر دیں...

لیکن شایان راضی ہو گا؟؟؟ حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات سے انہیں دیکھنے لگیں...

میں نے بات کر لی ہے تم فکر مت کرو بس جلدی سے اب نکاح شروع کرواؤ مہمان جا رہے ہیں...

عجلت میں ان دونوں کا نکاح کروایا گیا..

نور تو سکتے میں آگئ تھی اور جب شایان کا نام سنا تو دومنٹ تو کچھ بول ہی نہ پائ خالہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا.. نور کی آنکھوں سے آنسو ان کے ہاتھ پر جا گرا اور اس نے قبول ہے بولا....


اس طرح اسے میرے ساتھ باندھا گیا...شایان ایک سرد آہ بھر کر بولا...

مِیرا توجہ سے ایک ایک لفظ سن رہی تھی شایان خاموش ہوا تو مِیرا کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی...

آئم سوری شایان میں نے تمہیں غلط سمجھا... آنسو باڑ توڑ کر نکل ہی آےُ جنہیں روکنے کی کوشش میں مِیرا ہلکان ہو رہی تھی...

ڈونٹ کراےُ ڈئیر... شایان اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے اپنے انگوٹھے کی پوروں سے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا.....

تم مجھے بہت عزیز ہو میں تمہیں دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا...

شایان اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا...

مِیرا کے چہرے پر اب اداسی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی...

اور شایان کے چوڑے سینے میں سمٹ گئ شایان نے بھی بازوؤں کا احاطہ بنا لیا اس کے گرد.

*********

مریم آج تمہارے لیے ایک زبرست سرپرائز ہے...

ایسا کیا ہے بتاؤ؟؟ مریم پرجوش سی بولی...

یہ تو جب تم رات میں تشریف لاؤ گی تب ہی معلوم ہو گا..

پلیز ابھی بتا دو نہ...مریم منہ بناتے ہوۓ بولی.تھوڑا سا ویٹ کر لو جانو... حسن اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوۓ بولا..

اچھا چلو یہ بتاؤ کوئ مسئلہ تو درپیش نہیں؟؟؟

نہیں میں مینیج کر لو گو تم فکر مت کرو تمہارے لیے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں...

مریم کا انگ انگ اس کا نام لیتا تھا 

وہ پوری طرح سے اس کے پیار میں رنگ چکی تھی دن رات اگر اسے کچھ یاد تھا تو صرف حسن باقی دنیا وہ بھلا بیٹھی تھی وہ تھا بھی ایسا ہی شہزادیوں کی طرح اسے ٹریٹ کرتا وہ خود کو کسی ریاست کی ملکہ تصور کرنے لگی تھی ہمسفر چاہنے والا ہو تو سفر مزید خوبصورت ہو جاتا ہے.....

*********

ماما آج مجھے رات میں باہر جانا ہے....مریم نے گھر آتے ہے انہیں آگاہ کیا....

خیریت یونی سے بھی تم لیٹ آئ ہو.....انہیں پریشانی نے آن گھیرا...

جی وہ ہم سب فرینڈز نے جانا ہے بور ہو گۓ ہیں ایک ہی روٹین سے تھوڑا سا مائنڈ فریش ہو جاےُ گا...

اچھا ٹھیک ہے ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا...

اووکے ماما... وہ جھومتی ہوئ اپنے کمرے کی طرف چل دی...

مریم نے اپنا پسندیدہ سوٹ نکالا اور چینج کرنے چلی گئ...

اس نے ریڈ کلر کی میکسی پہنی تھی جو اس کے رنگ کو مزید نکھار رہی تھی سٹیپ میں کٹے بالوں کو سٹریٹ کر کے کھول رکھے تھے, نفاست سے میک اپ کیا اور ریڈ لپ اسٹک لگاےُ وہ قیامت لگ رہی تھی ایک آخر نظر خود پر ڈالتے ہوۓ وہ سوچنے لگی....

آج تو حسن تمہاری خیر نہیں... اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا دی اور شوز پہن کر ٹائم دیکھنے لگی....

ریسٹورنٹ کے باہر گاڑی رکی تو مریم ڈرائیور کو ہدایات دینے لگی...

تم گھر چلے جاؤ واپس میں اپنی دوستوں کے ساتھ آ جاؤں گی اور ماما کو میں خود بول دوں گی تمہیں ضرورت نہیں ٹھیک ہے...

جی بی بی جی...

سر ہلاتی مریم باہر نکل گئ...

جیسے ہی ڈرائیور نظروں سے اوجھل ہوا مریم متلاشی نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی...

کتنی ہی نظریں مریم پر مرکوز تھیں لیکن وہ صرف ایک ہی نظر کی منتظر تھی اور بلاآخر اسے وہ نظر آ ہی گیا...

بلیک پینٹ شرٹ پہنے آنکھوں پر گاگلز لگاےُ وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاےُ کھڑا دلنشین لگ رہا تھا... مریم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس پہنچی اور چہرے پر ناراضگی سجاےُ گویا ہوئ...

کہاں تھے میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی.....

سوری اپنی جانو کو ویٹ کروانے کے لیے حسن کان پکڑے بول رہا تھا...

مریم نے مسکراتے اس کے ہاتھ ہٹاےُ...

چلیں میڈم؟؟

مریم اثبات میں سر ہلاتی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ...

حسن کی نظریں ڈرائیونگ کے دوران بار بار مریم پر اٹھ رہیں تھیں..

حسن روڈ سامنے ہے یہاں نہیں...

لیکن میری دنیا تو یہیں ہے نہ...

یار دیکھ کر چلاؤ کہیں ایکسیڈینٹ نہ ہو جاےُ.....

حسن کے اچانک بریک لگانے پر مریم ڈر گئ...

فکر مت کرو میں خود کو تو موت کے منہ میں ڈال سکتا ہوں لیکن تم پر ایک آنچ بھی نہیں آنے دوں گا...

مریم نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور سر نفی میں ہلانے لگی...

یہ تھا سرپرائز؟؟؟ وہ خفا خفا سی بولی...

بس دو منٹ... کہ کر حسن اس کی آنکھوں پر پٹی باندھنے لگا...

یہ کیا...

شش... بس میرے ساتھ چلتی جاؤ...

حسن اس کا ہاتھ تھامے چلنے لگا...

یہ ایک ہوٹل تھا جہاں کے ایک روم میں حسن نے بکنگ کروائ تھی...

جیسے ہی وہ روم میں پہنچے حسن نے اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹائ...

مریم نے تھوڑی تھوڑی سی آنکھیں کھول کر دیکھا... پورا کمرہ لائٹ ریڈ لائٹ میں نہایا ہوا تھا چاروں طرف پھول ہی پھول تھے اور بیڈ پر ہارٹ بنا ہوا تھا... مریم مبہوت سی اس جگہ کو دیکھنے لگی....

حسن نے اس کا ہاتھ پکڑا اور صوفے پر بٹھا دیا... خود ٹیبل کے سامنے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا... ٹیبل کو بھی پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا...

حسن بے پھونک ماری اور ٹیبل سے پتیاں اڑ گئیں جن کے نیچے ایک ڈائمنڈ کی رنگ جگمگا رہی تھی...

مریم کو خواب کی سی کیفیت لگ رہی تھی...

حسن نے اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا...

مریم نے اس کی ہتھیلی پر اپنا نرم و نازک ہاتھ رکھ دیا اور حسن نے اسے رنگ پہنا دی...

مریم کی آنکھوں میں نمی آ گئ...

آ ہاں... یہ سب نہیں آج... حسن اس کی آنکھیں صاف کرتا ہوا بولا...

حسن تم نے آج ثابت کر دیا کہ میرا فیصلہ غلط نہیں تھا تم اتنا پیار کرتے ہو کیا مجھ سے؟؟؟

اس سے بھی زیادہ مجھے اتنا علم نہیں محبت کا ورنہ اس سے اچھے انداز میں اظہار کرتا یہ تو ادنی سی کوشش کی ہے...

حسن یک ٹک مریم کو تکنے لگا...

بس کرو مجھے تمہاری نظریں کنفیوز کر رہیں ہیں... مریم شرماتی ہوئ بولی....

میں کیا کروں تم ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئ ہو تو پھر میرا زخمی ہونا تو طے ہے.....

اچھا آؤ میں ان لمحوں کو قید کرنا چاہتا ہوں مریم اس کے ساتھ کھڑی ہوگئ حسن نے اس کے گرد اپنی بازو حمائل کی اور اپنے فون میں پکس بنانے لگا...

مریم بیڈ پر جا کر بیٹھ گئ حسن بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا...

مریم میں چاہتا ہوں جتنی جلدی ہو سکے تم میرے پاس آ جاؤ... حسن کے لہجے میں بے قراری تھی...

اچھا اور اگر میں کہوں کہ تمہیں بہت انتظار کرنا پڑے گا پھر....

پھر تمہیں سب سے چھپا کر لے جاؤ گا کہیں دور جہاں ہم دونوں کے سوا کوئ بھی نہ ہو...

اگر کوئ تیسرا آ گیا ہمارے بیچ پھر؟؟؟ مریم کو ڈر تھا کہیں اس کی خوشوں کو بری نظر نہ لگ جاےُ...

ایسا ممکن نہیں ہے تم میرے لازمی و ملزم ہو چکی ہوں جب تم نہیں ہوتیں تو مجھے لگتا ہے میں سانس نہیں لے رہا میرا وجود بے جان ہو جاتا ہے تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے بس ایسا ہی سمجھ لو تمہارے بغیر تو میں ایک پل بھی نہیں رہ سکتا تو پھر کسی تیسرے کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا...

مریم مسرور سی اسے سن رہی تھی جیسے دنیا کی سب سے خوبصورت آواز ہو اسے لگ رہا تھا وہ کوئ گیت سنا رہا ہے اسے جو سیدھا اس کے دل میں اتر رہا تھا....

میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہمارے بیچ کبھی کوئ فاصلہ کوئ ہجر نہ آےُ میرے سینے میں دھڑکن کی جگہ تم دھڑکتے ہو حسن....

مریم ہولے ہولے بول رہی تھی اور حسن کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہیں تھیں... ان دونوں کے بیچ فاصلے نہ ہونے کے برابر تھا حسن نے آگے بڑھ کر اس فاصلے کو بھی سمیٹ دیا...

مریم کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں جب حسن کے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے ہونٹ اس کے پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر رکھ دئیے...

مریم کی آنکھیں پھیل گئیں اس کو اس چیز کی توقع نہ تھی لیکن اس نے حسن کو نہ روکا پانچ منٹ بعد حسن نے اس کے ہونٹوں کو آزاد کیا... مریم کا سانس اکھڑ گیا تھا....

وہ خفگی سے حسن کو گھورنے لگی...

حسن نے اسے گلاس تھماتے ہوۓ اس کے کان میں سرگوشی کی...

سوری... مریم نے مسکراتے ہوۓ گلاس ہونٹوں سے لگا لیا...

یار میرا دل نہیں کر رہا کہ تم واپس جاؤ...حسن اداسی سے بولا...

میں زیادہ دور تو نہیں جاؤں گی صبح ملیں گے نہ یونی میں.. مریم اس کا منہ اوپر کرتے ہوۓ بولی...

تمہیں میری کوئ بات بری تو نہیں لگی....

نہیں تم نے ہی کہا تھا کہ مجھ پر صرف تمہارا حق ہے تو میں نے تمہیں تمہارا حق استعمال کرنے سے منع نہیں کیا...

کہتے ہوۓ مریم کھڑی ہو گئ...

چلیں اب لیٹ ہو رہا ہے...

حسن منہ بناتا کھڑا ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا...

گاڑی مریم کے گھر کے باہر روک کر حسن اسے دیکھنے لگا...

مت جاؤ اس کی کلائ پکڑتے ہوۓ بولا...

صرف رات کی بات ہے... مریم اس کا منہ تھپتھپاتی ہوئ بولی...

پہلے پرامس کرو مجھ سے باتیں کرتی رہو گی سوؤ گی نہیں...

اووکے بابا نہیں سوتی خوش...

حسن کے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر مریم کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوۓ بولا...

لو یو...

لو یو ٹو... مریم اس کی پشت پر بازو لپیٹتے ہوۓ بولی...

اب جاؤں... حسن اس سے الگ نہیں ہوا تو مریم دوبارہ بولی...

ٹھیک ہے جاؤ...وہ مسکراتے ہوۓ بولا...

مریم باہر نکل گئ اور گیٹ سے اندر غائب ہو گئ...

حسن بالوں میں ہاتھ پھیرتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا....


یہ رومانس نہیں ہے بلکہ آج کی گھٹیا حقیقت ہے آج کل کے نوجوان اپنے ماں باپ کو جھوٹ بول کر دھوکہ دے کر بڑے فخر سے اپنی نام نہاد ڈیٹ پر جاتے ہیں تو ایک نظر سب دیکھ لیں کہ ان ڈیٹس پر کیا ہوتا ہے ابھی تو میں نے زیادہ نہیں لکھا اس پر کہ مجھ سے وہ سب لکھا نہیں جا رہا تھا جو کچھ لڑکے لڑکیاں کرتے ہیں لیکن آپ انداز کر سکتے ہیں.. سب سے زیادہ یونی اور کالج جانے والی لڑکیاں پائ جاتیں ہیں ڈیٹس پر اور یہ سب صرف بند کمرے میں نہیں پارک میں بھی ہوتا ہے صبح کے وقت کلاسزز بنک کر کے یہ کپلز پارک کا رخ کرتے ہیں کہ صبح میں تو ریسٹورنٹ اوپن نہیں ہوتے.... حیرت کی بات یہ ہے کہ لڑکیاں آرام سے انہیں اجازت دے دیتیں ہیں اور پر جوش سی ہو کر اپنی دوستوں کو بتاتی ہیں کہ میں ڈیٹ پر گئ تھی اور ماں باپ بیچارے بے خبری میں مارے جاتے ہیں وہ اپنے بچوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو یہی بچے اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور وہ تو سمجھتے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں پیار کا مطلب یہ نہیں ہوتا جو آج کل ہو رہا ہے

پیار تو ایسا ہو کہ محبوب سامنے ہو اور آپ میں نظر بھر کر دیکھنے کی ہمت نہ ہو..

ایک سوال میرا ان سے ہے جو ڈیٹ پر جاتے ہیں کہ اگر آپ لوگ ٹھیک کرتے ہیں تو اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر جائیں انہیں بتائیں کہ کیا ہوتا ہے ڈیٹ پر پھر دیکھیں وہ آپ کو روکتے ہیں یا جانے دیتے ہیں....

دوسری بات اگر ڈیٹس پر جانے والے سچے ہیں تو پھر سرے عام جایا کریں چھپ کر نہیں کیونکہ گناہ اور غلط کام ہمیشہ چھپ کر اور اندھیرے میں ہوتا ہے اور نیک, اچھا کام سب کے سامنے سینہ تان کر کیا جاتا ہے

دیکھا ہے آپ نے سمگلر ہمیشہ خود کو چھپا کر رکھتا ہے ظاہر نہیں ہونے دیتا اپنی سرگرمیاں اور خود کو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے اس کے بر عکس جو لوگ انسانیت کے لیے کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ سب کے بیچ میں رہتے ہیں لوگ انہیں بھی جانتے ہیں اور ان کے کام کو بھی جیسے ایدھی خدارا غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھیں اللہ نے ہمیں سمجھ دی تاکہ صحیح غلط میں فرق کر سکیں اسے استعمال کریں خود کو اپنی ذات کو کھلونا مت بنائیں آپ کسی کی امانت ہیں جس کو اللہ نے آپ کے لیے چنا ہے کم سے کم اس کی امانت میں خیانت مت کریں.... والدین آپ کے دشمن نہیں ہیں غلط چیز سے ہی منع کرتے ہیں...

ایک بات سب ایسے نہیں ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں اور ان کو دیکھ کر دوسرے بھی ان جیسے بنتے جا رہے ہیں

مجھے حیرت ہوتی ہے جب لڑکیاں کہتی ہیں کہ اس نے میرے ساتھ ایسا کیا ویسا کیا خود مظلوم بن جاتی ہیں جب کہ وہ مظلوم نہیں ہیں میرے مطابق لڑکا کسی لڑکی کی اجازت کے بغیر اس سے بات بھی نہیں کر سکتا تو پھر ان کے ساتھ کچھ کرنے کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا جو ریلیشن میں ہوتی ہیں یہ آپ ہی ہیں جو انہیں اجازت دیتیں ہیں پھر جب کچھ غلط ہو جاتا ہے تو روتی ہیں لیکن یہی اگر آپ پہلے سوچ لیں تو ایسی نوبت ہی نہ آےُ

ہمارا معاشرہ تباہی کہ طرف جا رہا ہے زرا ریسٹورینٹس کا رخ کر کے دیکھیں سٹڈی ٹائمینگز میں آپ لوگ دنگ رہ جائیں گے یہ دیکھ کر کے یہ معاشرہ مسلمانوں کا ہے بے حد افسوس ہے مجھے کہ ہماری نوجوان نسل غلط راہ پر چل رہی ہے....

مریم ٹائم دیکھو زرا.... مریم نے جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا ماما کی کڑک آواز اس کے کانوں میں پڑی.....

ماما کیا ہو گیا اتنا بھی کوئ ٹائم نہیں ہوا.... مریم بدتمیزی سے بولی....

تمہیں جانے کی پرمیشن دی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم رات کے بارہ بجے واپس آؤ تمہارے پاپا دس دفعہ پوچھ چکے ہیں تمہارا اور فون تو میڈم نے دیکھنے کے لیے رکھا ہے کال تو اٹئنڈ نہیں کرنی ہوتی... بولتے بولتے ان کی آواز قدرے اونچی ہو گئ...

ماما ایسی کوئ آفت تو نہیں آ گئ جو آپ مجھ پر یوں چلا رہی ہیں... مریم تنک کر بولی...

تمہیں اندازہ ہے کہ تم کس طرح مجھ سے بات کر رہی ہو؟؟ انہیں دکھ ہوا مریم کے ایسے رویے سے...

تو آپ بھی تو بنا بات کے ایشو بنا رہی ہیں فرینڈز کے ساتھ ہی تھی کوئ آوارہ گردی نہیں کر رہی تھی جو آپ یوں ہائپر ہو رہیں ہیں... نور کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار نمایاں تھے...

شرم کر لو تھوڑی سی بولنے سے پہلے سوچ بھی لیا کرو...

واٹ ایور...کہ کر مریم رکی نہیں اپنے کمرے میں جا کر کھٹاک کی آواز سے دروازہ بند کر دیا...

انہیں مریم کی حرکتیں کچھ مشکوک لگ رہیں تھیں پہلے تو اس نے ایسے کبھی نہیں کیا تھا وہ کافی بدل گئ تھی یا پھر ان کا خیال تھا ایسا.... وہ سر جھٹکتی اپنے کمرے میں چلی گئیں...


مریم اپنے بیڈ پر ڈھے گئ اور رونے لگی... کسی سے بھی میری خوشیاں برداشت نہیں ہوتیں اتنا اچھا موڈ تھا سارا خراب کر دیا...وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب حسن کی کال آنے لگی اور وہ خود پر بیتی اسے سنانے لگی...

********

نور واپس نہیں آؤ گی اب؟؟؟

آفاق اس کے سامنے بیٹھ کر پوچھنے لگا...

جب شایان ہی چلے گۓ تو پھر میں وہاں جانے کا کیا مقصد اب... نور اداسی سے بولی..

نور آپ مجھے سمجھاتی ہو اور اب خود مایوس ہو گئ ہو....

میں مایوس نہیں ہوئ.. نور فوراً سے بولی..

پھر آپ کا یقین کیوں ڈگمگا رہا ہے آپ تو کہتی تھی نہ کہ مجھے اللہ پر پورا بھروسہ ہے اب کہاں گیا وہ سب وہ باتیں؟؟

مجھے سب یاد ہے...

پھر اس طرح سے ہار کیوں مان لی ہے آپ نے؟؟

شایان جانے سے پہلے مجھے ہر چیز سمجھا چکے ہیں اب میں کچھ نہیں کر سکتی...

نور آپ اتنی آسانی سے ہار نہیں مان سکتی نو.آفاق نفی میں سر ہلاتے ہوےُ بولا...

نور خاموش ہو گئ...

آپ کو کیا لگتا ہے کہ اللہ پاک اگر آپ کو یہاں تک لاےُ ہیں تو آپ کو واپس لوٹا دیں گے نہیں آپ کو آگے بڑھنا ہے رکنا نہیں ہے....

لیکن شایان واپس کیسے آئیں گے؟؟

وہ بھی آ جائیں گے پہلے خود کو تو تیار کرو... نور سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلانے لگی...

اچھا تم بتاؤ مریم سے بات ہوئ؟؟؟

کہاں یار پتہ نہیں اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے بس میرا اندیشہ درست ثابت نہ ہو باقی کوئ بھی وجہ ہو فرق نہیں پڑتا...

کیسا اندیشہ؟؟؟ نور کو بھی پریشانی ہونے لگی...

چھوڑیں مکمل تحقیق کرنے دیں پھر آپ کو یہ ڈاکومینٹری فراہم کروں گا... آفاق مسکراتے ہوۓ بولا...

نور بھی مسکرانے لگی...

ایسا کرو تم بیٹھو میں کچھ لے کر آتی ہوں... شکر ہے خیال آ گیا ورنہ میں نے ماما کو جا کر آپ کی شکایت لگانی تھی کہ بھوکا ہی واپس بھیج دیا مجھے... آفاق منہ پھلاتے ہوۓ بولا...

نور ہنستی ہوئ باہر نکل گئ..

********

شایان تمہاری وجہ سے نور واپس نہیں آ رہی.. آج ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا

مام میں نے تو اسے منع نہیں کیا نہ کہ وہ واپس نہ آےُ... شایان تنک کر بولا

جب تم ہی چلے گۓ تو وہ یہاں آ کر کیا کرے گی....

اوووہ پلیز پہلے تو ساری زندگی وہ میرے ساتھ رہتی تھی نہ...

شایان تمہیں ایک چھوٹی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی...

فائن وہ آ جاےُ گی یہاں اور کچھ؟؟؟

شایان اس روز روز کے ڈرامے سے تنگ آ گیا تھا جہاں زندگی تھوڑی پرسکون ہوتی وہاں پھر سے کوئ مسئلہ نکل آتا...

انہوں نے افسوس سے سر ہلاتے ہوےُ کال بند کر دی...

شایان تم اسے طلاق کیوں نہیں دے دیتے...

مِیرا پلیز اب اس وقت تم شروع مت ہو جانا...

مِیرا خاموش ہو گئ...

اس وقت وہ دونوں شایان کے آفس میں بیٹھے تھے... شایان چئیر کی پشت پر سر ٹکا کر سوچنے لگا...

********

مریم آج تم اپنی ماما سے بات کرو گی ڈن؟؟؟

ٹھیک ہے لیکن مجھے معلوم ہے انکار ہی کریں گیں...

تم پوچھ کر تو دیکھو ہو سکتا ہے مان جائیں تمہاری خوشی کے لیے...

مریم سوچتی ہوئ اثبات میں سر ہلانے لگی...


ایک ہفتہ گزر چکا تھا لیکن مریم بات نہ کر سکی آج ہمت مجتع کر کے ماما کے پاس آئ...

ہاں بولو کیا بات کرنی تھی تمہیں؟؟؟ وہ شقفت بھرے لہجے میں بولیں...

وہ ماما مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا...

جی میری جان میں سن رہی ہوں بولو آپ... وہ کپڑے تہ کرتی ہوئیں بولیں...

ماما میں اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی ہو اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہو... مریم نے جلدی جلدی کہا...

وہ شاک کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگیں...

مریم تم اپنے حواسوں میں تو ہو نہ تمہیں اس بات کا علم بھی ہے جو بول رہی ہو؟؟؟

جی ماما مجھے معلوم ہے سب...

پھر تم سے اس بیوقوفی کی توقع مجھے نہیں تھی...

آپ ایک بار مل کر تو دیکھیں اس سے... مریم نے اپنی بات پر زور دینا چاہا...

تم اچھے سے جانتی ہو کہ میری طرف سے انکار ہی ہو گا پھر کیوں ان کاموں میں الجھ رہی ہو جو کام تمہاری عقل سے باہر ہے نہ اسے کرنے کی کوشش بھی مت کرو... وہ سختی سے گویا ہوئیں...

لیکن ماما...

اور خبردار اگر تم نے اس سے رابطہ رکھنے کی کوشش کی تو میں تمہارے پاپا سے بات کروں گی بہتر ہو گا خود ہی سمجھ جاؤ... وہ تنبیہ کرتی ہوئیں بولیں...

مریم مایوسی سے واپس آ گئ اس کی توقع کے عین مطابق ہوا تھا...

لیکن میں تو حسن سے ہی شادی کروں گی دیکھتی ہوں مجھے کون روکتا ہے...

مریم سوچتی ہوئ حسن کو کال کرنے لگی....

*********

نور نماز پڑھ کر اٹھی تو اس کا فون رنگ کرنے لگا... نمبر دیکھ کر نور ششدہ رہ گئ...

ہیلو!! جی؟؟؟

نور؟؟

جی میں ہی بول رہی ہوں...

نور میری ایک بات مانو گی... شایان دھیمے لہجے میں بول رہا تھا...

جی بولیں... نور تابعداری سے بولی

پلیز گھر چلی جاؤ مام کو تمہاری ضرورت ہے.. شایان لفظوں کو جوڑتا ہوا بولا...

ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں... نور آہستہ سے بولی

تھینک یو نور...

ویلکم... کہ کر نور خاموش ہو گئ...

شایان نے خدا حافظ کہ کر فون کاٹ دیا اور نور فون کو گھورنے لگی...

نہ کچھ پوچھا بس اپنا حکم جاری کر کے فون بند کر دیا...نور تلخی سے مسکرائ اور اٹھ کر اپنا سامان پیک کرنے لگی.... 

مریم کس سے بات کر رہی ہو؟؟

مریم لاؤنج میں بیٹھی اپنے فون میں محو گفتگو تھی جب ماما کی غصے سے بھرپور آواز پر وہ چونکی...

چہرے پر ناگواریت سجاےُ مریم ڈھٹائ سے بولی..

حسن سے...

ماما اس کے اس انداز پر ششدہ رہ گئیں...

میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس لڑکے سے کوئ رابطہ نہیں رکھنا تم میرے تنبیہ کرنے کے باوجود اس سے رابطے میں ہو... وہ ضبط کرتی ہوئیں بولیں

میری زندگی ہے میں جو مرضی کروں آپ کیوں میری خوشیوں کی دشمن بن گئیں ہیں اور ویسے بھی میں نے بھی آپ کو کہ دیا تھا کہ میں اسے کسی شرط پر بھی نہیں چھوڑوں گی...

مریم ان کے مقابل کھڑی ہوتی ہوئ بولی...

وہ شاک کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگیں...

مریم تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں تم پر سختی کروں...

تو میری بھی یہ بات آپ کہیں لکھ کر رکھ لیں کہ میں شادی کروں گی تو صرف حسن سے آفاق میں مجھے کوئ دلچسپی نہیں... وہ قطعیت سے بولی

ان کی آوازیں خاصی بلند ہوتی جا رہیں تھیں.....

مطلب تم ایسے باز نہیں آؤ گی... ماما اس کا بازو جھنجھوڑتی ہوئیں بولیں...

ان کی آوازوں کے باعث پاپا کے لاؤنج میں بڑھتے قدم وہیں تھم گۓ....

آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟؟؟ وہ بلند آواز میں گویا ہوۓ...

پاپا دیکھیں زرا ماما مجھے کس طرح ڈانٹ رہیں ہیں... مریم انہیں دیکھتی ہی ان کے سینے سے جا لگی...

بیگم گھر کا کیا ماحول بنا رکھا ہے آپ نے؟؟؟

یہ آپ اپنی لاڈلی سے پوچھیں جو نا جانے کسے پسند کیے بیٹھی ہے اور اب اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے...

مریم کیا سن رہا ہوں میں؟؟؟ وہ اسے اپنے سامنے کرتے ہوۓ حیران ہوتے نرمی سے گویا ہوۓ....

پاپا مجھے آفاق نہیں پسند میں حسن کو پسند کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنی ہے مجھے اور پلیز اب آپ بھی میرے مخالف مت بن جائیے گا...

انہیں توقع نہیں تھی کہ مریم اس طرح ان کے سامنے یہ سب بولے گی...

بہتر ہو گا کہ آپ اپنی ماما کی بات مان لو کیونکہ آپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی سو خاموشی سے اس لڑکے کو اپنے دل اور دماغ دونوں سے نکال دیں میں دوبارہ اس انسان کے متعلق کچھ نہ سنو مریم ورنہ آپ جانتی ہیں مجھے اور اگر میں نے گھر کا ماحول اس طرح سے دیکھا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا اگر آپ کو پیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحیح غلط کا فرق نہیں سکھانا یہ لاسٹ وارنگ ہے یاد رکھنا... وہ سختی سے ڈپٹتے ہوۓ بولے...

مریم کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں وہ روتی ہوئ اپنے کمرے میں بھاگ گئ اور ماما سر تھام کر بیٹھ گئیں...

آپ فکر مت کریں اب سدھر جاےُ گی بچی ہے ناسمجھ اچھے برے کی پہچان نہیں اسی لیے اس طرح سے کر رہی...

کیسے فکر نہ کروں میں اس کی آنکھوں میں ضد دیکھی ہے کہیں وہ کچھ غلط نہ کر جاےُ...

کچھ نہیں کرے گی آپ اسے پیار سے سمجھائیں اس طرح سے بحث کریں گی تو وہ مزید مخالفت کرے گی میں بھی دوبارہ سمجھاؤں گا سمجھ جاےُ گی...

آپ خود بتائیں کیا ہم اس کے لیے غلط سوچ رہے ہیں اس کے بھلے کے لیے ہی کہ رہے ہیں نہ اور وہ خود اپنی دشمن بن گئ ہے...

یہ عمر ہی ایسی ہے سمجھ ہوتی نہیں ہے اتنی اور خود فیصلے لینے لگ جاتے ہیں بچے خیر آپ پریشان نہ ہوں... وہ انہیں حوصلہ دیتے اپنے کمرے میں چلے گۓ.....

*********

نور دو ہفتے بعد اس گھر کی دہلیز پر دوبارہ قدم رکھ رہی تھی اس وقت نہ وہ خوش تھی نہ ہی دکھی وہ خود اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی... نور گیٹ پھلانگ کر اندر آ گئ اور پورچ سے چلتی ہوئ لاؤنج میں آ گئ....

نور میری بچی آ گئ.... خالہ اسے دیکھتیں ہی خوشی سے نحال ہو گئیں آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا....

کیسی ہیں آپ خالہ؟؟؟

نور نے زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوۓ کہا...

اب بلکل ٹھیک ہو گئیں ہوں تم جو واپس آ گئ ہو... وہ نور کا منہ تھپتھپاتیں ہوئیں بولیں...

نور سب کے ساتھ لاؤنج میں ہی بیٹھ گئ اور حال احوال دریافت کرنے لگی...

نور بہت افسوس ہوا تمہارا شوہر شادی کے پہلے ہفتے ہی تمہیں چھوڑ کر چلا گیا... مہرین چہرے پر ہمدردی لاتے ہوۓ بولی...

نور نے ہمممم کہنے پر اکتفا کیا....

ویسے نور تمہیں تو مطلع کیا ہی ہو گا نہ اس نے؟؟؟ وہ نور کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگی..

چاچی نے اسے کہنی مار کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا...

ہاں بتایا تھا مجھے شایان نے...نور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہوئ بولی...

مہرین خاموش ہو گئ...

خالہ آفاق نظر نہیں آ رہا کہاں ہے؟؟؟

نور متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھتی ہوئ بولی...

جاب پر گیا ہے سب سے زیادہ اسے ہی خوشی ہو گی تمہارے آنے کی... خالہ مسکراتی ہوئیں کہنے لگیں

اووہ ماشاءاللہ جاب مل گئ اسے... نور خوشی سے استفسار کرنے لگی...

ہاں دو دن پہلے سے سٹارٹ کی ہے....

نور اثبات میں سر ہلانے لگی...

اچھا خالہ میں زرا اوپر جا رہی ہوں نماز کا ٹائم ہو رہا ہے... نور اپنا بیگ اٹھاتی ہوئ بولی..

ہاں ٹھیک ہے جاؤ...

نور جلدی جلدی زینے چڑھنے لگی...

مہرین کی بات نے اس کے دل پر کاری ضرب لگائ تھی سب کے سامنے تو وہ آنسو پیتی رہی لیکن جیسے ہی کمرے کا دروازہ بند کیا آنسو باڑ توڑ کر باہر نکل آےُ... نور دروازہ کے ساتھ ٹیک لگا کر ہی بیٹھ گئ.....

اس ایک انسان نے اسے کتنی تکلیف دی تھی یہ تو صرف وہی جانتی تھی اپنا نام دے کر بھی واپس چھین لیا تھا اور اب وہ بیچ میں پھنس گئ تھی... نور ہاتھوں میں چہرہ چھپاےُ کتنی ہی دیر روتی رہی پھر نماز کا خیال آیا تو فوراً اٹھ گئ....

نماز پڑھ کر وہ کمرے کی ایک ایک چیز کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگی سب کچھ ویسے ہی تھا جیسے شایان نے سیٹ کیا تھا ایک بھی چیز اپنی جگہ سے نہ ہلی تھی...

نور اس کی تصویر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گئ... شایان آپ کی ایک پکار پر میں یہاں آ گئ پتہ نہیں کیوں آپ کو انکار کرنا میرے بس میں نہیں تھا پہلی بار آپ نے مجھ سے کچھ مانگا تھا کیسے انکار کر دیتی میں... شایان کی تصویر پر آنسو گرنے لگے... پتہ نہیں میرے نصیب میں کیا لکھا ہے لیکن جو بھی ہو گا مجھے دل سے منظور ہو گا اب بس مجھے انتظار کرنا ہے کہ زندگی کون سی کروٹ لیتی ہے... نور پرسکون سی ہو کر لیٹ گئ...

اب میں آپ کے بیڈ پر سو سکتی ہوں... نور مسکراتی ہوئ شایان سے مخاطب ہوئ اور آنکھیں بند کر لیں....

*********

مریم آخر تم مجھ سے کترا کیوں رہی ہو؟؟ آفاق جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا...

ایسی تو کوئ بات نہیں ہے... مریم اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئ بولی...

پھر تم مجھ سے گریز کیوں برت رہی ہو؟؟؟

آفاق تم کیا سننا چاہتے ہو مجھ سے؟؟؟ مریم اپنی ٹون میں آ گئ...

جو تمہارے دماغ میں ہے... وہ بھی آج تمام سوالوں کے جواب لے کر جانا چاہتا تھا...

تو سن لو میں ہماری منگنی ختم کر رہی ہوں...کہ کر مریم رکی نہیں اتراتی ہوئ نکل گئ...

آفاق شاک کے عالم میں تھا اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا....

نہیں مجھے لگتا ہے مریم مجھ سے ناراض ہے اسی لیے اس طرح سے کہا...آفاق خود کو جھوٹی تسلی دیتا گاڑی میں بیٹھ گیا....

کوئ بات نہیں مریم میں تمہاری ساری ناراضگی دور کر دوں گا.... آفاق سوچتے ہوۓ خود سے مخاطب ہوا اور گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی....

او ہو آج تو بڑے بڑے لوگ آےُ ہیں نور کو گارڈن میں دیکھتے ہوۓ آفاق نے ہانک لگائ...

تم تو مجھ سے بات مت کرو نہ... نور منہ پھلاتی ہوئ بولی...

اچھا پھر ان جانوروں سے کروں...

آفاق گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بلی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا...

چنگ چونگ چونجچ....

نور ہنسنے لگی...

یہ چائینیز نہیں ہے...

آپ کو کیا اسے سمجھ آ جاےُ گی... آفاق سر ہلاتے ہوےُ بولا...

ویسے تم نہ ایک نمبر کے کنجوس ہو مجھے جاب کی ہوا تک نہیں لگنے دی کہیں ٹریٹ نہ دینی پڑ جاےُ...

جتنی آپ ہیں نہ ہوا لگنے سے ہی اڑ جانا تھا آپ نے بعد میں آپ کو پکڑنے کے لیے خوار ہوتا...

آفاق قہقہ لگاتے ہوۓ بولا...

نور نے ہاتھ میں پکڑا رسالہ اس کے منہ پر دے مارا...

اوؤی ماما... آفاق سر کھجاتے ہوۓ بولا...

بھابھی ڈائن ہوتی ہے آج یقین آ گیا...

نور ہنسنے لگی...

اب تم بات کو گول مت کرو اور چپ کر کے میری ٹریٹ کی تیاری کرو....

تیاری تو ایسے جیسے آپ نے گھوڑی چڑھنا ہے.....

توبہ ہے آفاق کیا کھا کر آےُ ہو؟؟؟ نور ماتھے پر تیور ڈالتی ہوئ بولی...

بیسٹی ابھی گرلز کالج کے باہر سے آ رہا ہوں... آفاق اسے آنکھ مارتے ہوۓ بولا...

ہاااا لڑکیاں کھا کر آےُ ہو....

آپ نہ ویسے بدھو ہی رہیں گیں... آفاق چئیر پر بیٹھتے ہوۓ بولا...

تو تم کون سا سیدھی طرح بات کر لیتے ہو... نور منہ بناتی ہوئ بولی...

آپ کی دیورانی ڈھونڈنے گیا تھا....آفاق دوسری جانب دیکھتے ہوۓ بولا...

وہ تو مل چکی ہے اب اور کیا کرنی ہے؟؟

نور یار کچھ کرو مریم کو یہاں لاؤ مجھے اس سے بات کرنی ہے... آفاق بولا تو اس کی آواز بھرائ ہوئ تھی

آفاق کیا ہوا ہے؟؟؟ نور بھی پریشان ہو گئ...

وہ کہتی ہے یہ منگنی ختم کر رہی ہوں میں... دو موتی آفاق کی آنکھوں سے ٹپک پڑے جو نور سے مخفی نہ رہ سکے.....

آفاق نے ٹیبل پر پاؤں رکھے اور سر گھٹنوں پر رکھ لیا تاکہ نور اس کے آنسو نہ دیکھ سکے....

آفاق مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے....

کچھ بھی نہیں ہوا نور....بس اس ک کو لے آؤ...آفاق سے بولنا دوبھر ہوگیا.....

نور کی آنکھوں میں بھی نمی جمع ہونے لگی....

نور وہ آجاےُ گی نہ یہاں؟؟؟ آفاق نے منہ اٹھا کر اسے دیکھا تو نور سے اسے دیکھنا مشکل ہو گیا...

اس کی آنکھیں ایسی معلوم ہوتی جیسی جل رہی ہوں نور کو لگ رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں سرخ انگارہ بنی ہوئیں تھیں...

آفاق یہ سب کیا ہے؟؟ نور آہستہ سے بولی...

اتنے وقت کا ضبط شاید آج ٹوٹ گیا... وہ بکھر گیا تھا اور نور بے بسی سے اسے دیکھنے لگی...

تم فکر مت کرو مریم یہاں آ جاےُ گی میں لاؤں گی اسے یہاں پھر ہم دونوں اسے سامنے بٹھا کر آرام سے بات کریں گے...

پکا نہ؟؟؟ آفاق کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا...

ہاں پکا... کہتے کہتے نور کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں...

آفاق سر جھکاےُ اندر کی جانب چل دیا...

*********

حسن تم اپنے پیرنٹس کو لے کر کب آؤ گے؟؟ مریم اس کے کندھے پر سر رکھے بولنے لگی... آج وہ فریش نہیں تھی آنکھیں بھی سوجھی ہوئیں تھی رونے کے باعث....

یار تم جب بولو میں لے آؤ لیکن مسئلہ تو تمہارے پیرنٹس ہیں نہ....

تم بھیج دو دیکھا جاےُ گا...

دیکھو مریم میں نہیں چاہتا کہ اس طرح میرے گھر والے آئیں کہ بعد میں تمہارے ماما پاپا ان کی انسلٹ کر دیں پھر میرے گھر بھی مسئلے شروع ہو جائیں گے...

حسن اسے سمجھانے لگا...

ہمممم تم ٹھیک کہ رہے ہو...

تم نے کیا سوچا ہے کس طرح مانیں گے وہ؟؟ حسن سوچتے ہوۓ بولے... اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے....

پتہ نہیں بس یہ جو آفاق نام کی مصیبت ہے نہ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث مجھے تو لگتا ہے وہ کبھی نہیں مانیں گے... مریم مایوسی سے بولی...

مریم ایسے تو ایک دن میں تمہیں کھو دوں گا اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو..... 

نہیں حسن ایسا کچھ نہیں ہو گا ہمارے ہاتھ میں بچھڑنے کی کوئ لکیر نہیں...

اور اگر ہوئ بھی تو میں بدل دوں گا میں باقی عاشقوں کی طرح ساری زندگی تمہارے فراق نہیں گزاروں گا تمہیں چھیننا پڑا تو لے جاؤ گا سب سے چھین کر ہم اپنی دنیا بسا لیں گے....

تم ٹھیک کہ رہے ہو حسن جنہیں میری خوشی کی پرواہ نہیں میں ان کے لیے اپنے پیار کی قربانی کیوں دوں میں اپنی ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں...

بلکل ایسا ہی ہو گا... حسن اسے تسلی دیتے ہوۓ بولا...

مریم؟؟؟ وہ کافی دیر خاموش رہی تو حسن نے اسے پکارا...

ہاں؟؟

مریم اگر تمہارے گھر والوں نے کوئ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو ہم بھاگ کر نکاح کر لیں گے اس کے بعد تو وہ مجبور ہو جائیں گے اس رشتے کو ماننے پر...

ہاں تم ٹھیک کہ رہے ہو پھر ناچار انہیں قبول کرنا ہی پڑے گا...

تم ہر حال میں میرا ساتھ دو گی؟؟ حسن کے دل میں خوف تھا جس کے تحت اس نے پوچھا...

بلکل میں تمہارا ہی ساتھ دوں گی پھر چاہے کچھ بھی ہو جاےُ...

بس پھر ٹھیک ہے اگر تمہارے گھر والے کوئ زبردستی کریں تو تم مجھے بتانا...

مریم نے ہمممم کہنے پر اکتفا کیا...

********

رمضان کا آغاز ہو چکا تھا نور عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئ تو نا جانے کتنی ہی دیر بیٹھی دعا مانگتی رہی... شایان کا خیال اسے بار بار آتا تھا لیکن وہ اس بات سے انجان تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اب بھی جاےُ نماز سے اٹھ کر وہ موبائل لے کر بیٹھ گئ اور شایان کے میسج کو بار بار پڑھنے لگی...

نور تم میری غیرموجودگی میں سب کا خیال رکھنا...

ایسا کیوں کہا انہوں نے کیوں ان کو لگا کہ میں سب کو سنبھال لوں گی... نور اس وقت سے الجھتی جا رہی تھی پھر اپنے دماغ کو تمام سوچوں سے آزاد کرواتی باہر نکل آئ اور زینے اترنے لگی...

آفاق صوفے پر بیٹھا کوئ مووی دیکھنے میں مصروف تھا...

نور چہرے پر خفگی لیے اس کے پاس آئ...

یہ کیا ہے؟؟؟موبائل اپنی جانب موڑتی ہوئ بولی...

آم ہے کھائیں گی؟؟ آفاق مسکراہٹ روکتے ہوۓ بولا...

تمہاری زبان نہ بہت چلنے لگی ہے...

یار کیا ہو گیا ایسا مووی تو دیکھ رہا ہوں ایسے گھورنے لگ گئیں ہیں... آفاق منہ بناتا ہوا بولا

تم نے روزہ رکھا ہے؟؟؟

آپ نے سحری نیند میں کی تھی؟؟؟ آفاق کو شبہ ہوا..

روزہ رکھا ہے تو پھر مووی کیوں دیکھ رہے ہو؟؟

ٹائم پاس بھی تو کرنا ہے نہ یار...

ٹائم پاس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں..

جیسے کہ؟؟ آفاق فوراً سے بولا...

اس کو بند کرو پہلے..

یہ لیں کر دی اب بتائیں... آفاق بند کرتا موبائل سائیڈ پر رکھ کر بولا..

دیکھو آفاق تم نے روزہ رکھا ہے نہ کس لیے؟؟

تاکہ اللہ راضی ہو جاےُ...

لیکن مجھے بتاؤ اس طرح سے اللہ راضی ہو گا؟؟ تم تو شیطان کو راضی کر رہے ہو....

آپ کا اشارہ مووی کی جانب ہے؟؟ آفاق موبائل کی طرف انگلی کرتے ہوۓ بولا...

ہاں.. تمہیں پتہ ہے اللہ کو ہمارے صرف بھوکے پیاسے رہنے سے کوئ مطلب نہیں ہے یہ مہینہ ہمارے ہی فائدے کے لیے ہے اور روزے کی حالت میں کوئ بھی اچھا کام کریں گے تو زیادہ ثواب ملے گا اور اللہ خوش ہو گا پھر ہم سے راضی ہو گا یہ سب کام کرنے سے تو تم نیک کام کرتے کرتے گناہ بھی کرتے جا رہے ہو مجھے بتاؤ تمہارا روزہ کس کام کا پھر جب تم نے اللہ کو یاد ہی نہیں کیا اس کا ذکر ہی نہیں کیا...

اچھا پھر بتائیں میں کیا کروں؟؟؟

تم قرآن پڑھو یا پھر تسبیح کر لو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھو یہ مہینہ برکتوں کا,مغفرت کا ہے اس ایک مہینے کو تو اچھے سے نبھا لو اس میں تو اللہ کو راضی کر لو...

اور پتہ ہے اللہ کو راضی کرنا بہت آسان ہے...

وہ کیسے ہم تو دن بھر اتنے گناہ کرتے ہیں؟؟؟

لیکن وہ پھر بھی ہمیں معاف کر دیتا ہے تمہیں پتہ ہے اللہ کہتا ہے میرے بندے بس ایک بار سچے دل سے توبہ کر لے میں معاف کر دوں گا ایک بار اللہ کی طرف رجوع کر کے دیکھو وہ تو ہمیشہ بیٹھا ہوتا ہے ہمارے لیے ہم اتنے گناہ کرتے ہیں لیکن وہ پھر بھی ہمیں نوازتا ہے تو پھر کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس کے حکم کی تعمیل کریں...

آپ تہجد پڑھتی ہیں؟؟؟ آفاق نے سوچتے ہوۓ پوچھا...

ہاں...

آپ کو پتہ ہے میں سحری تک جاگتا رہتا ہوں لیکن موویز دیکھتا ہوں کوئ اچھا کام نہیں کرتا... بولتے بولتے آفاق نے سر جھکا لیا..

آفاق زندگی ختم نہیں ہوئ تم آج سے آغاز کر لو جو وقت گزر گیا اس پر افسوس کرتے مزید وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہم اسے بدل نہیں سکتے لیکن اپنے حال اور مستقبل کو تو بہتر بنا سکتے ہیں نہ..

بلکل... آفاق مسکراتے ہوۓ بولا...

ویسے آپ کو لیکچرار ہونا چائیے تھا سامنے والے کو چاروں شانے چت کر دیتی ہیں...

لیکن تمہارے تو چار شانے نہیں ہیں... نور اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئ بولی...

لو جی اب بندہ مثال بھی نہ دے... آفاق منہ بناتا سلیپر پہننے لگا... نور اٹھ کر کچن میں آ گئ اور افطاری کی تیاری کرنے لگی...

آفاق وضو کر کے قرآن پڑھنے بیٹھ گیا

********

مریم آپ گھر میں کسی سے بات کیوں نہیں کر رہیں؟؟؟ پاپا اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولے جو اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی...

مجھے نہیں بات کرنی کسی سے بھی... مریم منہ بناتی ہوئ بولی...

پھر کیا ہمیشہ ایسے ہی ناراض رہیں گیں؟؟ وہ نرمی سے بول رہے تھے...

جب تک ماما اور آپ مان نہیں جاتے... مریم بیڈ پر انگلی چلاتی ہوئ بولی...

بیٹا ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں جو آپ کے لیے اچھا ہے وہی کر رہے ہیں آپ بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرو اور یہ ضد چھوڑ دو...

پاپا یہ ضد نہیں ہے میرا پیار ہے میں کیسے دستبردار ہو جاؤں اس سے قطعاً نہیں..

نور آپ ہمیں مجبور کر رہیں ہیں کہ ہم کوئ سخت قدم اٹھائیں...

کیا کر لیں گے آپ اس آفاق کے ساتھ زبردستی باندھ دیں گے جیسے نور کو باندھا شایان بھائ کے ساتھ...

ان کے تھپڑ نے مریم کا منہ بند کیا... مریم ششدہ سی انہیں تکنے لگی جنہوں نے کبھی ہاتھ تک نہ لگایا تھا آج کتنی بے دردی سے اسے تھپڑ مار دیا...

حد سے زیادہ بد تمیز اور خودسر ہوتی جا رہی ہو تم میرے ہی لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے تمہیں اور اب تم پڑھائ چھوڑ کر گھر بیٹھو میں بات کرتا ہوں نادیہ سے تمہاری شادی کی... وہ غصے میں چلاتے ہوۓ باہر نکل گۓ...

دروازہ کھلا ہوا تھا مریم نے باہر دیکھا تو فاطمہ اس کی سب سے چھوٹی بہن کھڑی اسے دیکھ رہی تھی...

ایسے کیا دیکھ رہی ہو دروازہ بند کرو اور جاؤ یہاں سے... مریم حلق کے بل چلائ

فاطمہ سہم کر بھاگ گئ وہاں سے...

مریم نے اٹھ کر دروازہ لاک کیا اور بیڈ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی...

********

شایان بے فکری کے دن گزار رہا تھا مِیرا کی ہمراہی میں وہ یہاں آ کر خاصا پر سکون ہو گیا تھا...

شایان تم کب طلاق دو گے نور کو؟؟؟ مِیرا کو بس یہ ایک ہی ٹینشن تھی...

سوئیٹ ہارٹ بہت جلد دے دوں گا اور تم اس کی فکر مت کرو میں نور کو سمجھا کر آیا تھا اس لیے وہ کوئ امید نہیں لگاےُ گی مجھ سے.. شایان اسے کافی تھماتے ہوۓ بولا...

ویسے ایک بات تو ہے ؟؟؟ مِیرا مسکراتی ہوئ بولی...

کیا؟؟ شایان نے کافی سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا...

جب تم میرے لیے کافی بناتے ہو تب لگتا ہے میں دنیا کی خوش نصیب لڑکی ہوں جس کے لیے تمہارے جیسا مرد بھی جھک جاتا ہے...

شایان مسکراتے ہوۓ اس کے پاس آیا اور ایک بازو اس کے کندھے پر حمائل کرتے ہوۓ بولا...

میری جان تم نے مجھے سنھالا ہے

پھر بھلا میں اپنی جان کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتا...

یہ بتاؤ شادی کے بعد بھی ایسے ہی رہو گے یا بدل جاؤ گے؟؟؟

پھر تو تمہیں خود ہی میرا ہر کام کرنا پڑے گا ماسی کی طرح... شایان اس کی لمبی ناک دباتا ہوا بولا...

جی نہیں ہم ملازم رکھ لیں گے مجھے کیا ضرورت ہے کام کرنے کی...

بلکل تمہاری حیثیت کسی ملکہ سے کم نہیں جو میرے دل پر براجمان ہے اور ایسے ہی رکھوں گا میں تمہیں اپنی پلکوں پر بٹھا کر... شایان اس کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوۓ بولا...

مِیرا کے گال خوشی سے دمکنے لگے گورے رنگ پر گلابی گال,بالوں کو بلونڈ کلر میں ڈائ کیا, بڑی بڑی آنکھیں جن پر پلکوں کی گھنی باڑ رہتی شایان کو کانچ کی گڑیا لگتی تھی جو ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جاےُ....

اچھا میں چلتا ہوں اب تمہارے ساتھ تو پتہ ہی نہیں چلتا وقت کا... شایان مسکراتے ہوۓ اس کا منہ تھپتھپاتے ہوۓ بولا...

مِیرا اسے باہر تک چھوڑنے آئ اور مسکراتی ہوئ ہاتھ ہلانے لگی...

********

مریم کی یونی بند کروا دی گئ وہ گھر میں ہی رہتی لیکن ابھی اس کی شادی کی بات شروع نہ کی گئ کہ وہ صرف اسے ڈرانے کے لیے کہا تاکہ وہ باز آ جاےُ لیکن اس پر تو محبت کا بھوت سوار تھا جس کے علاوہ اسے نہ کچھ دکھائ دے رہا تھا نہ ہی سوجھائ دے رہا تھا..

رمضان کا دوسرا عشرہ چل رہا تھا لیکن مریم کو کوئ ہوش نہ تھا نہ وہ روزے رکھ رہی تھی بس سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی...

آج ان سب کی افطاری نادیہ کے گھر تھی مریم کسی منصوبے کے تحت جانے پر رضامند ہو گئ....

سارا وقت مریم خاموش رہی نور اور آفاق کے علاوہ باقی سب نے بھی اس چیز کو محسوس کیا...

مریم تم ٹھیک تو ہو نہ چہرہ اترا ہوا ہے؟؟؟ نادیہ فکرمندی سے بولیں...

جی وہ بس....

دراصل رمضان ہے نہ تو کمزوری کے باعث ایسا ہے اس کے علاوہ تو ٹھیک ہے... مریم کی ماما اس کی بات کاٹ کر بولیں مبادہ کہیں کچھ الٹا سیدھا ہی نہ بول دے...

مریم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ...

مریم آ جاؤ باہر چلتے ہیں... نور اٹھتی ہوئ مریم کو بھی بلانے لگی...

مریم سر ہلاتی اس کے ساتھ آ گئ لیکن وہ باہر جانے کی بجاےُ گھر کی پچھلی سائیڈ پر آ گۓ تاکہ ان کی آوازیں گھر کے اندر نہ جا سکیں...

آفاق مریم کا منتظر تھا نور ان دونوں کو اکیلا چھوڑ کے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئ...

رات مکمل طور پر اپنے پر پھیلا چکی تھی... نور آسمان پر دیکھنے لگی جہاں ستارے چاند کا احاطہ کیے ہوۓ تھے شایان بھی اس کے لیے چاند کی مانند ہی تھا اتنا ہی دور اور اتنا ہی خاموش...

آس پاس درختوں سے خنکی سی محسوس ہو رہی تھی نور نے لمبی سانس لی اور خود کو پرسکون رکھا درخت, پھول پتے ہر چیز خاموش تھی نور کا دل بھی ایسے ہی خاموش تھا نور نے جوتا اتارا اور ننگے پاؤں گھاس پر رکھ لیے....


مریم تم اس دن مذاق کر رہی تھی نہ؟؟؟ آفاق بے یقینی میں کیفیت میں پوچھ رہا تھا...

بلکل بھی نہیں... مریم اکڑ کر کھڑی ہوئ تھی...

لیکن اچانک ایسا کیا ہو گیا جو تم منگنی ہی توڑ دینا چاہتی ہو...

توڑ نہیں دینا چاہتی توڑ چکی ہوں اور یہ رہی تمہاری رنگ... مریم نفی میں سر ہلاتی اس کے ہاتھ پر رنگ رکھتے ہوۓ بولے...

آفاق کا سر نفی میں ہل رہا تھا...

مریم تم ایسا نہیں کر سکتی...

میں کچھ بھی کر سکتی ہوں اور ویسے بھی تم مجھے ڈیذرو نہیں کرتے....

آفاق سر جھکاےُ اسے سن رہا تھا...

تمہارا میرا کیا مقابلہ بھلا... مریم اتراتی ہوئ بولی...

صحیح کہ رہی ہو تم... وہ آہستہ سے بولا

آئیندہ کے بعد مجھ سے رابطہ کرنے کی یا مجھے تنگ کرنے کی کوشش مت کرنا سمجھے.. مریم بس نہیں چل رہا تھا یہی چلانا شروع کر دیتی...

تمہاری وجہ سے میری زندگی تہس نہس ہو رہی ہے آفاق میرا دل چاہتا ہے تمہیں کہیں دور پھینک دوں تاکہ میرے مسئلے حل ہو جائیں... مریم دانت پیستی ہوئ بولی...

آفاق آنکھوں میں بے پناہ حیرت لیے اسے دیکھنے لگا

اور مریم تن فن کرتی اندر کی جانب چل دی...

مریم....جب نور کے سامنے سے گزری تو وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی...

آفاق گھٹنوں کے بل بیٹھا چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ ہوا تھا...

نور جلدی سے اس کے پاس آئ...

آفاق کیا ہوا؟؟؟

نور نے ڈرتے ڈرتے پوچھا...

نور میں اس کے قابل نہیں بلکل سہی کہا اس نے نہیں اس کے قابل... آفاق روتے ہوۓ بول رہا تھا...

آفاق میری بات سنو...

نور میری وجہ سے اس کی زندگی تباہ ہو رہی ہے کتنا برا ہو نہ میں نور... آفاق سر زمین پر رکھے زور زور سے بولنے لگا...

آفاق پلیز تم سنبھالو خود کو میں سمجھاؤں گی مریم کو...

آفاق اٹھا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا سر نفی میں ہلاتا باہر کی جانب بڑھنے لگا...

آفاق میری بات تو سنو... نور اس کے پیچھے لپکی لیکن وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا... نور آنکھوں میں نمی لیے بے بسی سے اسے دیکھنے لگی....

دس منٹ بعد مریم کی فیملی بھی چلی گئ نور قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں آ گئ ....

پتہ نہیں آفاق کہاں گیا ہو گا...نور کو اس کی فکر ستا رہی تھی... نور بار بار اس کا فون ٹرائ کر رہی تھی لیکن ناٹ ریچایبل جا رہا تھا...

اف آفاق پاگل ہو تم بلکل.... نور نے فون بیڈ پر پھینک دیا اور کھڑکی میں آ کر کھڑی ہو گئ...

ایک بار پھر سے شایان کا خیال امڈ آیا اس کی خوشبو ابھی تک کمرے میں بسی تھی.... نور کاؤچ کو تکنے لگی...

کس طرح یہاں اس کے ساتھ بیٹھا اس کے ہاتھ پر دوائ لگا رہا تھا... ایک موتی نور کی گال پر لڑھک آیا جسے صاف کرتی وہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئ....

********

حسن میں نے ساری تیاری کر لی ہے... مریم ویڈیو کال پر حسن سے بات کر رہی تھی...

مریم تمہیں کوئ بھی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہے بس اپنا آئ ڈی کارڈ اور فون لیتی آنا.. لیکن پھر بھی حسن مشکل وقت آنے کا کوئ علم نہیں ہوتا میں نے زیور بھی اٹھا لیا ہے کچھ اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لیا ہے....

ٹھیک ہے جیسے تمہیں ٹھیک لگے... حسن نے ہتھیار ڈالتے ہوۓ کہا...

مریم پرسکون سی اسے دیکھنے لگی...

ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟

دیکھ رہی ہوں کہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہم ایک ہو جائیں گے...

بلکل مجھے تو اس وقت کا کب سے انتظار ہے سمجھ نہیں آ رہی یہ رات کیسے گزرے گی.. حسن کھڑکی کو دیکھتے ہوۓ بولا...

مریم مسکرانے لگی...

مریم تم دیکھنا میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دوں گا تمہیں کبھی بھی اپنے اس فیصلے پر افسوس نہیں ہو گا اور نہ ہی پچھتانا پڑے گا.. حسن اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور وہ مبہوت سی بس اسے تکے جا رہی تھی...

آئ لو یو حسن... کافی دیر بعد وہ بولی..

لو یو ٹو میری جان... حسن مسکراتے ہوۓ بولا 

مریم سحری کے وقت جاگ رہی تھی لیکن وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی وہ سب کے سو جانے کا انتظار کرنے لگی...

دو گھنٹے بعد وہ اپنا ہینڈ بیگ پکڑے کمرے سے باہر نکلی اور دبے پاؤں چلنے لگی...

چوکیدار کو اس نے کسی کام سے بھیج دیا اور حسن جو کہ اس کا منتظر بیٹھا تھا گاڑی میں جیسے ہی مریم نے گھر سے باہر قدم رکھا وہ گاڑی گیٹ کے سامنے لے آیا اور مریم پھرتی سے گاڑی میں بیٹھ گئ مبادہ کوئ دیکھ نہ لے سر اور منہ اس نے چادر سے چھپا رکھا تھا وہ چادر جو اس نے کبھی عزت بچانے کے لیے نہیں لی تھی آج اپنے مفاد کے لیے مریم نے اس چادر سے خود کو ڈھانپا...حسن نے گاڑی سٹارٹ کی اور چند ہی منٹوں میں وہ دونوں کافی دور نکل آےُ گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی.... حسن نے ایک جگہ گاڑی روکی یہ کوئ سنسان ویران سی جگہ تھی...

مریم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

حسن نے اسے خود سے قریب کر کے سینے سے لگا لیا... مریم نے آنکھیں بند کر لیں... بس کچھ ہی دیر میں ہم دونوں کا نکاح ہو جاےُ گا... حسن اس سے الگ ہوتے ہوۓ بولا...

تم نے سب تیار کر رکھا ہے؟؟؟ مریم کو اسی بات کی فکر تھی...

بلکل ہر چیز تیار ہے صرف ہم دونوں کا انتظار ہے...

حسن اس کے بلکل پاس تھا اتنا کہ فاصلہ صرف ایک دو انچ کا ہی ہو گا... حسن اس کے چہرے پر جھکا... مریم نے منہ نیچے کر لیا... تھوڑی دیر انتظار کر لو... مریم آہستہ سے بولی جب تم ہو ہی میری تو پھر جلدی یا دیر سے کیا فرق پڑتا ہے...

حسن نے اس کی کمر پر ہاتھ ڈال کر اسے اپنے پاس کیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے....

مریم کو اس کا اس طرح سے کرنا اچھا نہیں لگا تو جیسے ہی اس نے مریم کو چھوڑا وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئ...

حسن مسکراتے ہوۓ گاڑی چلانے لگا....


جو لوگ اس گناہ میں ملوث ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چھپ کر یہ سب کریں گے تو کسی کو معلوم نہیں ہو گا بے شک کسی کو معلوم نہیں ہو گا لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے نہ اس ذات سے تو کچھ بھی مخفی نہیں حیرت کی بات ہے لوگوں کا ڈر ہے اور اللہ کا نہیں...

غیر مسلم تو مانتے ہی نہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی دوبارہ زندگی ملے اسی لیے وہ تو اس دنیا کو ہی سب سمجھ کر جو دل میں آتا کرتے ہیں لیکن ہم مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز کا حساب ہو گا دوبارہ سے زندہ کیا جاےُ گا پھر بھی ہم ایسے جیتے ہیں جیسے کبھی مرنا ہی نہیں ہے اور ایسے مر جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں انسان اور دنیا کی ہر چیز فانی ہے سب کو زوال ہے سواےُ اللہ کی ذات کے وہ ہمیشہ رہے گا اور ہم اسی کو بھلاےُ بیٹھے ہیں جس کے حضور ہم نے ایک دن پیش ہونا ہے اپنے کیے کا حساب دینے کے لیے....

کچھ لوگ سمجھتے ہیں شاید ہم کبھی پکڑ میں نہیں آئیں گے

ایک بات میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ اس دنیا میں تو آپ بچ جائیں گے یہ سب کر کے لیکن قیامت والے دن کیا کریں گے اس دن کہاں جا کر چھپیں گے اس دن تو ہر راہ مسدود ہو جاےُ گی پھر کیا کریں گے؟؟؟

سب کچھ جانتے ہوےُ بھی آنکھیں بند رکھتے ہیں کہ وہ چیز دیکھنا ہی نہیں چاہتے شاید یہاں تو کوئ سزا نہیں ملے لیکن سوچا ہے اس سب کی جو سزا وہاں ملے گی اسے کیسے برداشت کریں گے

یہاں زرا سا ہاتھ جل جاےُ تو سارا گھر سر پر اٹھا لیتے چیونٹی کاٹ جاےُ تو دیر تک تکلیف کا احساس رہتا ہے

کبھی سوچا ہے دوزخ کی آگ کو بچھو, سانپ ان کو کیسے برداشت کریں گے جن کی تکلیف اور اذیت ہماری سوچ سے بھی باہر ہے آج تو ہم منہ موڑ لیتے ہیں آنکھیں پھیر لیتے ہیں اس چیز کو سوچنا نہیں چاہتے لیکن وہاں کیا کریں گے وہاں تو کوئ فرار کی راہ نہیں ہو گی ہم خود اپنے آپ کو عذاب کے مستحق بنا رہے ہیں

جو لوگ اس طرح کے یا پھر کسی بھی اور طرح کے گناہ میں ملوث رہنا چاہتے ہیں وہ ایسا کریں

اللہ کی زمین چھوڑ کر کسی اور جگہ جا کر کریں جو اللہ کی بادشاہت میں نہ آ تی ہو اگر ایسا نہیں کر سکتے تو گناہ کرنا چھوڑ دیں

دوسری بات اللہ کا رزق کھانا چھوڑ دیں اگر نہیں چھوڑ سکتے تو پھر گناہ کرنا چھوڑ دیں

تیسری بات اللہ سے چھپ کر گناہ کریں جہاں اللہ نہ دیکھ سکے اگر ایسا نہیں کر سکتے تو گناہ کرنا بھی چھوڑ دیں

اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر اللہ کی نافرمانی کر سکتے ہیں؟؟؟ حیرت ہے رزق اس کا, کائنات اس کی, بادشاہت اس کی پھر بھی نافرمانی بھی اسی کی؟؟؟؟

بات یہ ہے کہ سب لوگ دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو کہ چند روز کی ہے اور جہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کی فکر نہیں کرتے اس کی تیاری نہیں کرتے...

کچھ لوگوں کی دنیا میں ہی پکڑ ہو جاتی ہے اور میرے نزدیک وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ کم از کم وہ توبہ تو کر لیتے ہیں اللہ کو ناراض کر کے اس دنیا سے تو نہیں جاتے اور جن لوگوں کو اللہ ڈھیل دیتا ہے وہ آخرت میں حساب دیں گے....

دوسری بات یہ کہ ہم غیر مسلم کو فالو کر رہے ہیں

ہمارا لباس ہماری سوچ سب کچھ ہم ان کو کاپی کر رہے ہیں جو وہ کر رہے ہیں ہم بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ان کا تو دین نہیں ہے لیکن ہمارا تو ہے اور ہم اپنے دین کو پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں بھلاتے جا رہے ہیں آزاد خیالی, براڈ مائنڈد اس چیز نے ہمیں تباہ کر دیا ہے اور سب اسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں صحیح ہے یا غلط ہم سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے بس اس دنیا کی رنگینوں میں گم ہو گۓ ہیں....

قرآن پاک کی سورۃ الاعراف آیت نمبر 14

ترجمہ:-

بولامجھے فرصت دے اس دن تک کہ لوگ اٹھاےُ جائیں...(شیطان یہ بولا رہا ہے جب عرش سے نکالا گیا)

فرمایا تجھے مہلت ہے

تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستے پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا

پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اور ان کے پیچھے اور ان کے داہنے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پاےُ گا

فرمایا یہاں سے نکل جا رد کیا گیا راندہ ہوا ضرور جو ان میں سے تیرے کہے پر چلا میں تم سے جہنم بھر دوں گا...

شیطان کی مراد تھی کہ بنی آدم کے دل میں وسوسے ڈالوں اور انہیں باطل کی طرف مائل کروں گناہوں کی رغبت دلاؤں تیری اطاعت اور عبادت سے روکوں اور گمراہی میں ڈالوں....

اب زرا دیکھا جاےُ تو ہم کیا کر رہے ہیں اللہ کے حکم کے بجاےُ شیطان کے کہے پر چل رہے ہیں

یہ سنگین گناہ میں آتے ہیں جن کی پاداش ہماری نوجوان نسل بہت تیزی سے کر رہی ہے بحیثیت مسلمان ہمیں یہ سب نہیں کرنا چائیے لیکن نا جانے لوگ کیوں نہیں سوچتے نہ مرد نہ ہی عورت یہاں دونوں قصوروار ہیں

اگر آپ نیکی نہیں کر سکتے تو گناہ بھی مت کریں اگر نیکیوں میں اضافہ نہیں کر سکتے تو گناہوں میں بھی اضافہ مت کریں ہماری اپنی آخرت برباد ہو گی کسی اور کا تو کچھ نہیں جاےُ گا روز محشر تنہا ہوں گے ہم پھر یہ نہیں آئیں گے آپ کے پاس کوئ رشتہ ساتھ نہ ہو گا تو بہتر نہیں ہم اس دنیا کے لیے کچھ کریں جو ہمیشہ رہے گی اس عارضی دنیا کے پیچھے مت بھاگیں سواےُ پچھتاؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا......


شہر سے دور ایک فارم ہاؤس پر جا کر اس نے گاڑی روکی....

میری جان ناراض ہے؟؟؟

حسن اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا...

تمہیں معلوم ہے... مریم اس کی جانب متوجہ ہوتی ہوئ بولی...

کم آن یار ایسا بھی کیا کر دیا میں نے جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو...

پھر بھی حسن....

میں چاہوں تو بنا نکاح کیے کچھ بھی کر سکتا ہوں تمہارے ساتھ... حسن اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا....

پہلی بار مریم کو لگا کہ وہ کتنی بڑی غلطی سرزد کر چکی ہے...

حسن؟؟؟ مریم گھبرا گئ....

ڈونٹ وری ایسا کچھ نہیں کروں گا میں اگر مجھے یہی سب کرنا ہوتا تو بہت بار مجھے موقع ملا تھا...حسن سر جھٹکتے ہوۓ بولا...

آئم سوری میرا وہ مطلب نہیں تھا....

جو بھی مطلب تھا مجھے تو تم نے یہی فیل کروایا ہے نہ کیا میں نے کبھی تمہیں تمہاری مرضی کے بغیر ہاتھ بھی لگایا ہے... حسن اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوۓ بولا...

نہیں... مریم آہستہ سے بولی

پھر اس چیز کی ضرورت نہیں تھی... کہتے ہوۓ حسن گاڑی سے باہر نکل گیا....

مریم سے جلدی سے باہر نکلی...

پلیز حسن معاف کر دو نہ اب سے تم ہی میرا سب کچھ ہو میں کبھی تمہیں کسی چیز کے لیے منع نہیں کروں گی آئ پرامس... مریم اس کا ہاتھ پکڑے بول رہی تھی...

جس کے لیے سب کو چھوڑ کر آئ تھی اب اسے کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی...

ٹھیک ہے چلو.... حسن اسے اپنے ساتھ لگاۓ چلنے لگا... مریم اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے لگی....

کافی چلنے کے بعد ایک حویلی نظر آئ... جیسے ہی وہ دونوں اندر داخل ہوےُ تو ایک مولوی اور دو شخص وہاں بیٹھے تھے...

چلتے ہوۓ چادر مریم کے سر سے ڈھلک گئ تھی جسے اس نے اب درست کیا...

حسن اور مریم دونوں ایک صوفے پر بیٹھ گےُ اور حسن نے نکاح شروع کروانے کا اشارہ کیا...

چند منٹوں میں وہ مریم حسن بن چکی تھی...

مریم ایسا کرو یہاں سے سیدھا جاؤ اور دائیں جانب جو پہلا کمرہ ہے اندر چلی جانا میں آتا ہوں ابھی...

مریم سر ہلاتی اٹھ گئ...

مریم نے کمرے کا دروازہ کھول تو اندر ایک بیڈ اور ڈریسنگ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا.. کھڑکیوں پر پردے گرے ہوۓ تھے... مریم بیگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئ...

اس وقت اس کا دماغ کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھا نا جانے میں نے ٹھیک کیا ہے یا نہیں مریم کو ایک بے چینی گھیرے ہوۓ تھے...دروازہ کھلا تو مریم نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو حسن کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا...

مریم کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئ...حسن اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا...

تو جی مسز حسن کیسا محسوس کر رہیں ہیں آپ... حسن نے بات کا آغاز کیا...

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے میری دنیا مل گی ہے... مریم اس کے کندھے پر سر رکھتی ہوئ بولی...

ویل مجھے بھی سیم ایسی ہی فیلینگ آ رہی ہے کہ آج سب مل گیا ہے حسن نے اس کی کلائ پکڑی اور اس میں دو سونے کے کنگن پہنا دئیے.. مریم مسکراتی ہوئ انہیں دیکھنے لگی... تھینک یو مائ ہزبینڈ.... مریم مسرور سی بولی

اچھا مریم میں ابھی زرا کام سے جا رہا ہوں تم ڈرنا مت کچھ دیر میں آ جاؤں گا...

مریم کو لگا وہ اس کی سانسیں بھی ساتھ لے جا رہا ہے.. حسن کھڑا ہو گیا....

لیکن کہاں اور کیا کام؟؟؟

میری جان یہاں رہنا ہے تو کچھ سامان بھی تو چائیے نہ بس وہی لینے جا رہا تم فکر مت کرو میں جلدی آ جاؤں گا....

مریم اثبات میں سر ہلانے لگی....

حسن اس کے گال پر بوسہ دیتا باہر نکل گیا اور فون کان سے لگا لیا...

ہاں بس میں نکل رہا ہوں....

مریم نے یہی آخری الفاظ سنے اس کے...

مریم نے اپنا سیل فون بند کر دیا اور جو فون حسن نے اسے راستے میں دیا تھا وہ نکال کر بیٹھ گئ....

صبح سے دوپہر ہو گئ لیکن حسن واپس نہ آیا مریم کو تشویش ہونے لگی اس نے حسن کا نمبر ملایا لیکن یہاں سگنل کا شاید کچھ مسئلہ تھا جس کے باعث کال نہیں مل رہی تھی... مریم نے فون رکھا اور پردے ہٹا کر باہر دیکھنے لگی...

********

مریم کے گھر میں ہل چل مچی ہوئ تھی صبح سے پاپا اسے پاگلوں کی طرح یہاں سے وہاں ڈھونڈ رہے تھے لیکن انہیں مایوسی ہو رہی تھی اب بھی وہ پچھلے دو گھنٹے سے ڈرائیور کر رہے تھے تھکے ہارے گھر پہنچے اور صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گۓ...

کچھ پتا چلا مریم کا؟؟؟

ماما امید بھری نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئیں استفسار کرنے لگیں...

ان کے چہرے پر صدیوں کی تھکن تھی ایک ہی دن میں وہ بوڑھے نظر آنے لگے تھے...

نفی میں سر ہلانے لگے...

یااللہ یہ لڑکی ہمیں کیا دن دکھا رہی ہے... ماما صبح سے رو رو کر بے حال ہو گئیں تھیں اور اب پھر سے آنسو بہانے لگیں...

ایک ایک جگہ جہاں توقع تھی کہ وہ مل جاےُ گی دیکھا لیکن اس کا تو نام و نشان ہی نہیں ہے نہ جانے کہاں جا کر بیٹھ گئ ہے... وہ مایوسی سے بول رہے تھے

اب ہم کیا کریں گے کیا بولیں گے سب کو ابھی تک کو کسی کو علم نہیں ہوا لیکن یہ بات چھپ نہیں سکتی... وہ پریشانی کے عالم میں گویا ہوئیں...

کیا کہنا ہے بیگم اب تو بس زمانے کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرنی ہیں...

یقین نہیں آتا یہ وہی اولاد ہے جس نے مجھے پہلی بار باپ بننے کی خوشی دی تھی سب سے زیادہ اسے پیار دیا ہر لاڈ اس کا اٹھایا ہر خواہش پوری کی اور آج وہی ہمیں یہ دن دکھا رہی ہے... آنسو ان کے چہرے کو بھگو رہے تھے.. اس سے تو اچھا ہم بے اولاد رہتے کم از کم رسوائ تو ہمارا مقدر نہ بنتی... ماما نفی میں سر ہلاتی ہوئیں بولیں...

بیگم ایک بات اب آپ یاد رکھ لیں اگر کبھی وہ اس گھر کی دہلیز پر آئ تو آپ اسے دروازے سے ہی باہر کر دیں کوئ ضرورت نہیں ہے ایسی نافرمان اولاد کی اب اس کی اس گھر میں اور ہمارے دل میں کوئ جگہ باقی نہیں مر چکی ہے ہمارے لیے وہ... بولتے بولتے انہوں نے اپنا ہاتھ دل پر رکھ لیا... تکلیف کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے...

کیا ہوا آپ کو؟؟؟

ان کی آنکھی بند ہو رہیں تھیں...

مجیب جلدی یہاں آؤ مجیب... وہ زور زور سے بیٹے کو آواز دینے لگیں...

کیا ہوا ماما؟؟؟ وہ ہانپتا ہوا آیا...

تمہارے پاپا کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے جلدی سے گاڑی نکالو ہاسپٹل لے کر چلیں ان کو... وہ تیز رفتاری سے بولنے لگیں...

ایمان اور فاطمہ بھی سہمی ہوئیں وہیں کھڑیں تھیں...

مجیب اور ڈرائیور انہیں باہر لے گۓ...

آپ دونوں گھر پر ہی رہنا میں نے ملازمہ کو بول دیا ہے وہ آپ کے پاس ہی رہے گی اور گھر سے باہر بلکل نہیں نکلنا اووکے... وہ ان دونوں کو ہدایات دیتیں باہر نکل گئ...

ہاسٹل پہنچتے ہی انہیں آئ-سی-یو میں لے گۓ.....

انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا... مجیب نے باقی رشتہ داروں کو بھی فون کر دیا چونکہ وہ چھوٹا تھا یہ سب سنبھال نہیں پاتا...

کچھ ہی دیر میں سعدیہ اور نادیہ بھی ان کے پاس موجود تھیں...

وہ تو بس روےُ جا رہیں تھیں ایک مریم کا دکھ کم تھا جو ایک اور مل گیا...

ایک ہی دن میں ان کے گھر قیامت ٹوٹ گئ تھی...

بھابھی آپ پریشان نہ ہوں اللہ سب بہتر کرے گا...نادیہ انہیں تسلی دیتی ہوئیں بولیں...

کیسے پریشان نہ ہوں وہ اندر زندگی اور موت کے بیچ لڑ رہے ہیں... آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے بولتے بولتے وہ بے ہوش ہو گئیں... انہیں روم میں لے کر گۓ اور ڈاکڑ چیک کرنے لگے...

نور کے علاوہ سب لا علم تھے کہ ہارٹ اٹیک کے پیچھے وجہ کیا ہے مجیب اسے بتا چکا تھا پہلے ہی مریم کے بارے میں اور اسے دیر نہیں لگی تھی یہ سمجھنے میں کہ مریم کے فرار ہونے کے باعث ہی ماموں کو اٹیک ہوا ہے...

نور آفاق کہاں ہے؟؟؟ خالہ نے نور کو فون کر کے دریافت کیا؟؟؟

خالہ مجھے خود بھی نہیں معلوم وہ کل رات سے غائب ہے نہ جانے کہاں گیا ہے... نور پریشانی کے عالم میں بولی...

اچھا تم کوشش کرتی رہنا اس سے رابطہ ہو جاےُ کیونکہ اس کا یہاں ہونا لازم ہے...

جی خالہ میں دوبارہ دیکھتی ہوں... کہ کر نور نے فون بند کر دیا اور آفاق کو کرنے لگی لیکن مایوسی ہوئ ہزاروں ٹیکسٹ وہ کر چکی تھی لیکن اس کی جانب سے مکمل خاموشی تھی...نور ڈرائیور کے ہمراہ ہاسپٹل پہنچی...

خالہ آپ گھر چلی جائیں میں یہاں ممانی کے ساتھ ہوں... نور نے پہنچتے ہی خالہ کو گھر جانے کی تاکید کی...

لیکن نور... انہوں نے احتجاج کرنا چاہا...

آپ پریشان نہ ہوں بڑے ماموں بھی ہیں میں سنبھال لوں گی...

وہ سمجھتی ہوئیں اثبات میں سر ہلانے لگیں.. نور نے سر پر دوپٹہ لے رکھا تھا...

ان کے جاتے ہی نور نے مجیب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائ...

مجیب مجھے بتاؤ زرا کب اور کیسے ہوا یہ سب؟؟ نور رازداری سے پوچھنے لگی...

نور آپی وہ صبح کے کسی پہر نکلی گھر سے لیکن ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں ہوا اور کہاں گئ وہ کوئ نہیں جانتا...

وہ سر جھکاےُ بول رہا تھا...

تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جاےُ گا ڈاکڑ بتا رہے تھے کہ اب ماموں کی طبیعت قدرے بہتر ہے...

جی نور آپی..

اچھا یہ بتاؤ مریم نے کوئ بات کی تھی گھر میں جانے سے پہلے اپنے جانے کے متعلق؟؟؟

نہیں اسی لیے تو ہم بے خبری میں مارے گۓ وہ بلکل نارمل تھی اگر وہ ہمیں کوئ دھمکی دیتی تو یقیناً ہم کوئ سد باب ضرور کرتے لیکن اس نے تو موقع ہی نہیں دیا...

نور نے سمجھ کر اثبات میں سر ہلا دیا...

ممانی کو بھی ہوش آ چکا تھا لیکن انہیں روم میں ہی رہنے کی ہدایات دی چونکہ صبح سے نہ انہیں نے پانی کا گھونٹ لیا اور نہ ہی روٹی کا ٹکڑا کھایا.... 

پورے خاندان میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ مریم گھر چھوڑ کر بھاگ گئ ہے...

ممانی کی تو نظریں اٹھ ہی نہیں رہیں تھیں کسی کے سامنے شرمندگی ہی شرمندگی تھی..

ممانی آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں جس نے یہ آزمائش دی ہے وہ اس سے لڑنے کی ہمت بھی دے گا...

نور میری بچی کہاں سے لاؤ میں ہمت وہ دکھ ہی ایسا دے کر گئ ہے کہ ساری زندگی بھی کم ہو گی اسے بھرنے میں مجھ میں تو اتنی ہمت ہی نہیں رہی کہ کسی کی بات سن سکوں خدا جانے کیسے یہ سب برداشت کریں گے... آنسو متواتر نکل رہے تھے...

پلیز آپ روئیں مت اللہ کسی کو بھی اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا... نور کی اپنی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں...

نور گھر واپس آ گئ تو خالہ ہاسپٹل چلی گئیں نور فریش ہو کر پورچ کی سیڑھیوں میں بیٹھ گئ...

وہ شایان کو آگاہ کرنے کا سوچ رہی تھی جب آفاق لڑکھڑاتا ہوا اندر آتا دکھائ دیا...

نور کی آنکھیں پھیل گئیں وہ اٹھ کر آگے آئ...

آفاق کیا ہوا تمہیں؟؟؟ نور چلائ...

لیکن وہ تو شاید ہوش میں نہیں تھا بار بار آنکھیں کھولے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا...

نور کو عجیب سی بُو آرہی تھی...

تم نے شراب پی ہے ؟؟؟

نور ماتھے پر تیور ڈالتے ہوۓ بولی...

نور پلیز جا کر مریم کو لے آؤ پلیز میں مر جاؤ گا اس کے بغیر... آفاق بولتا ہوا وہیں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا...

میں میں کیسے یہ مان لو نہ نہیں... وہ نفی میں سر ہلاتا بولنے لگا...

نور کے آنسو اس کے چہرے کو بھگونے لگے...

چاچو.... نور نے چلا کر آواز دی...

چاچو پلیز باہر آئیں...

کیا ہوا نور خیر تو ہے؟؟؟ وہ بھاگتے ہوۓ باہر آےُ...

چاچو یہ آفاق کی حالت دیکھیں..نور کی بھرائ ہوئ آواز ابھری...

چاچو نے فوراً آفاق کو سہارا دیا اور اندر لے گۓ.....

نور منہ پر ہاتھ رکھے خود کو رونے سے باز رکھنے لگی...

لیکن آنسوؤں پر کس کا زور چلتا ہے وہ تو سارے بند توڑ کر نکل ہی آتے ہیں...

نور نے خود کو کمپوز کیا اور شایان کو کال کرنے لگی...

شایان آفس میں تھا لیکن مِیرا بھی اس کے ساتھ تھی وہ سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کرے..

لیکن نور نے پہلے تو کبھی کال نہیں کی کوئ مسئلہ ہی ہو گا سوچ کر شایان نے اٹینڈ کر لی..ہاں نور بولو... نور کہنے پر کام کرتی مِیرا چونکی اور سر اٹھا کر شایان کو اجنبی نظروں سے دیکھنے لگی...

شایان آپ پلیز واپس آ جائیں...

نور کچھ ہوا ہے کیا؟؟؟

شایان میں کچھ نہیں سنبھال سکتی آپ بس واپس آئیں اور سب کو سنبھالیں مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے... ضبط کے باوجود نور رو دی...

نور ریلیکس مجھے بتاؤ تو سہی...

شایان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر مِیرا کو بھی تشویش ہونے لگی...

شایان ماموں کو اٹیک ہوا ہے آفاق شراب پی کر آیا ہے گھر میں کیسے اسے سنبھالوں میں نہیں جانتی آپ پلیز آ جائیں...

اچھا ٹھیک ہے تم فکر نہیں کرو میں پہلی فلائٹ لے کر آتا ہوں تب تک تم نے مام اور آفاق کا خیال رکھنا ہے اووکے..

ٹھیک ہے... نور ہولے سے بولی...

شایان نے فون بند کیا اور اپنی فائلز سمیٹنے لگا..

مِیرا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا...

ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟ شایان مصروف سے انداز میں بولا...

تم کہیں نہیں جا رہے شایان...

مِیرا یہ وقت کسی بھی فضول سی ضد کا نہیں ہے سو پلیز میری ٹینشنز کو بڑھاؤ مت...

تم اس نور کے کہنے پر جا رہے ہو کبھی نہیں شایان اگر تم گۓ تو مجھے کھو دو گے ہمیشہ کے لیے...

شایان کے کام کرتے ہاتھ رک گۓ...آنکھوں میں بے پناہ حیرت لیے وہ اسے دیکھنے لگا...

مِیرا تمہارا دماغ تو درست ہے نہ میرے بھائ کو میری ضرورت ہے میں کیسے یہاں سکون سے بیٹھا رہو... شایان ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا...

مِیرا ڈر گئ...

میں کچھ نہیں جانتی لیکن تم اس نور کے کہنے پر نہیں جاؤ گے اور تم اسے طلاق کیوں نہیں دے رہے ارادہ بدل لیا ہے کیا... مِیرا اسے جانچتی نظروں سے دیکھنے لگی...

اووہ شٹ اپ مِیرا میرے پاس تمہارے فضول سوالوں کے جواب نہیں ہیں نہ ہی وقت ہے...

کہ کر شایان باہر نکل گیا...

مِیرا کلس کر رہ گئ...

********

دوپہر سے رات ہو گئ لیکن حسن کا کچھ معلوم نہیں وہ کہاں تھا...

مریم صبح سے جو آنسو ضبط کیے بیٹھی تھی اب اس کا صبر جواب دے گیا بیس چکر وہ باہر کے لگا چکی تھی اب بھی کھڑکی سے دیکھ کر بیڈ پر آ کر ڈھیر ہو گئ...

حسن کہاں چلے گۓ ہو تم پلیز واپس آجاؤ

میں نے تمام سہاروں کو ٹھکرا کر ایک سہارے کا انتخاب کیا اب وہی سہارا کہیں مجھے بے سہارا نہ کر دے...جیسے جیسے وقت بیت رہا تھا مریم کا دل ڈوبتا جا رہا تھا....

*********

دو دن بعد:

ماموں کو ڈسچارج کر دیا گیا اور سب ان کے ساتھ ان کے گھر چلے گۓ لیکن مریم نے انہیں کسی سے نظریں ملانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا...

ماموں اپنے کمرے میں تھے ان کے پاس مرد حضرات بیٹھے تھے اور خواتین لاؤنج میں...

بھئ ایسی بھی کیا آفت آ پڑی تھی مریم کو جو یوں منہ اٹھاےُ گھر ہی چھوڑ کر چلی گئ.......

بڑی ممانی منہ بناےُ بولنے لگیں...

بس بھابھی کیا کہ سکتے ہیں بچوں کے دماغ میں لوگ الٹا سیدھا ڈال دیتے ہیں... مریم کی ماما ضبط کرتی ہوئیں بولیں نظریں ان کی جھکیں ہوئیں تھی...

لیکن تمہاری تربیت تو ایسی نہ تھی کہ بچی یہ حرکت کر جاےُ... وہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگیں...

نادیہ نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دی...

میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں وہ بہانہ بناتی اٹھ گئیں.... سب سے زیادہ شرمندہ تو وہ نادیہ سے تھیں اور وہی انہیں تسلی دے رہیں تھیں...

وہ کچن میں آ گئیں اور منہ پر ہاتھ رکھے رونے لگیں...

مریم کی وجہ سے آج ان کی تربیت پر سوال اٹھ رہے تھے انہوں نے تو کبھی اس کو یہ سب نہیں سکھایا کہ ماں باپ کی عزت اچھال کر چلی جانا وہ تو ہمیشہ اسے سمجھاتی تھیں کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا لڑکی کی بھی اور ماں باپ کی بھی پھر کیسے وہ آج ان کو سب کے سامنے رسوا کر کے چلی گئ...

اچانک سے انہیں مریم کا خیال آیا نا جانے کس حال میں ہو گی..

یااللہ میری بچی اور اس کی عزت کی حفاظت کرنا یہ زمانہ بہت بے رحم ہے اور وہ ابھی نادان ہے اس کی خطا معاف کر دے.... بےاختیار ان کے لبوں سے دعا جاری ہو گئ کیا کرتیں ماں تھیں اتنا سخت دل نہیں کر سکتیں تھیں لیکن اولاد ان کا خیال نہیں کرتی...

وہ واپس آئیں تو لاؤنج میں ہنوز خاموشی تھی کچھ دیر بعد سب اٹھ کر چلے گۓ اور انہوں بے سکون کا سانس لیا اب انہیں جتنا ہو سکے لوگوں کے سامنے نہیں جانا تھا کس کس کو جواب دیتی کس کس کا منہ بند کرواتیں لوگ تو چپ نہیں کرتے...

وہ کمرے میں آئیں...

کہاں تھیں آپ بیگم؟؟؟

انہیں دیکھتے ہی وہ استفسار کرنے لگے...

جی وہ کچن میں تھی میں... وہ نظریں چراتیں ہوئیں بولیں جو کہ ان کے رونے کی چغلی کھا رہیں تھیں...

مجھ سے بھی چھپائیں گیں؟؟؟ شریک حیات تھے وہ جان گۓ....

نہیں بس یونہی....وہ ان کے سرہانے بیٹھتی ہوئیں بولیں...

آپ فکر مت کریں اللہ ہمت دے گا ہمیں اس سب سے نکلنے کی اس ذات پر بھروسہ رکھیں.. مریم کے لیے تو میرے پاس الفاظ ہی ختم ہو گۓ ہیں جتنی محبت میں نے اسے دی اس نے مجھے اتنی ہی تکلیف دی شاید مجھ سے ہی کوئ کوتاہی ہو گئ ہو گی جو یہ سب ہوا...

آپ خود کو کیوں قصوروار ٹھہرا رہے ہیں وہ ہمارے پیار کے قابل ہی نہیں تھی اسی لیے تو اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا ہمارے بارے میں ایک شخص کی محبت کے لیے باقی سب کی محبت کو ٹھکرا گئ

کیا گزرے گی ہم پر کیا جواب دیں گے ہم دنیا کو کچھ بھی نہیں سوچا اس نے صرف اپنی نام نہاد محبت دیکھی اور ہر چیز کو ٹھوکر مار کر چلی گئ....

بس چھوڑیں بیگم وہ چلی گئ تو بس اب اس کا ذکر بھی نہیں ہو گا اس گھر میں اور ہاں ایمان اور فاطمہ پر آپ نے زیادہ توجہ دینی ہے کہیں وہ بھی بہن کے راستے پر نہ چل پڑیں میں نے قبول کر لیا ہے کہ اللہ نے ہمیں صرف دو بیٹیاں ہی دیں ہیں...

ان کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی کیسے وہ مان لیتی کہ ان کی صرف دو ہی بیٹیاں ہیں...

وہ سر ہلاتی اٹھیں اور لائٹ آف کر دی....

**********

شایان نے گھر میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلے آفاق کے کمرے کا رخ کیا...

وہ بیڈ پر نیم دراز تھا...

آفاق...شایان اسے پکارتا ہوا آگے بڑھا...

آفاق کی آنکھیں سرخی مائل, چہرہ اترا ہوا, آنکھوں کی سوجن ساری داستان خود بیان کر رہی تھی...

شایان کو تکلیف ہوئ اسے اس حال میں دیکھ کر...

بھائ... شایان نے اسے گلے لگایا تو آنسو جو منجمد ہو گۓ تھے پھر سے بہنے لگے...

یہ کیا حال بنا رکھا ہے تو نے آفاق؟؟ شاید اسے گھورتے ہوۓ بولا...

بھائ یہ دیکھو وہ چلی گئ مجھے چھوڑ کر... بولتے ہوۓ دو آنسو اس کے گال پر لڑھک آےُ

آفاق کے ہاتھ میں ایک لیٹر تھا جو کہ شاید اسی کے لیے تھا...

شایان نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا اور جیب میں ڈال لیا...

کچھ بھی ہو اب تو اس حال میں نہیں رہے گا سمجھا... شایان اسے ڈپٹپتے ہوۓ بولا....

میں کوشش کروں گا بھائ اتنا آسان نہیں ہے یہ سب... کہ کر آفاق نے منہ موڑ لیا...

شایان اسے دکھ سے دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا...

اس کے قدم اب اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے...

شایان نے دروازہ کھولا تو نور نے چہرہ موڑ کر دیکھا شایان کو دیکھ کر ایک اطمینان سا اس کر اندر اترا....

وہ کب بورڈ بند کرتی اس کے ساتھ بیڈ پر آ کر بیٹھ گئ...

شایان آپ آپ ٹھیک ہیں؟؟ نور نے ڈرتے ہوۓ پوچھا..

ہاں میں تو ٹھیک ہوں لیکن شاید باقی سب نہیں.. شایان کے لہجے میں بےبسی ہی بےبسی تھی...

نور مجھے سب بتاؤ مریم کے بارے میں... شایان اس کی جانب رخ موڑتے ہوۓ بولا..

جو جو باتیں نور کے علم میں تھیں وہ اس نے شایان کے گوش گزار کر دیں...

شایان افسوس سے نفی میں سر ہلانے لگا...

اس کا کچھ معلوم ہے اس وقت کہاں ہے؟؟؟

نہیں پہلے ماموں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن اٹیک کے بعد انہوں نے منع کر دیا باقی سب کو بھی ویسے بھی شایان ڈھونڈنا ان کو جاتا ہے جو کھو جائیں ان کو نہیں جو خود چھوڑ کر چلے جائیں...

شایان سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلانے لگا... مجھ سے زیادہ تو آفاق تم سے اٹیچ ہے مجھ سے بہتر طریقے سے تم اسے ہینڈل کر سکتی ہو....شایان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا...

نور نے نظریں جھکا لیں اور بولنے لگی...

وہ تو ٹھیک ہے جس طرح وہ ڈرنک کر کے آیا ایسی کنڈیشن میں تو آپ کا ہونا لازم ہے نہ...

ہمممم اگر تم چاہو تو بیڈ پر سو سکتی ہو اس طرف... شایان اشارہ کرتے ہوۓ بولا...

جی ٹھیک....

کہ کر نور باہر نکل گئ...

شایان فریش ہونے چلا گیا واپس آیا تو نور کافی لیے کھڑی تھی...

تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ مجھے اس کی ضرورت ہے... شایان مسکراتے ہوۓ بولا...

نور سے بات کرتے ہوۓ وہ آج پہلی بار مسکرایا تھا... نور کو وہ ایسا ہی اچھا لگ رہا تھا مسکراتا ہوا..

شایان نے اس کے سامنے ہاتھ لہرایا...

جی مجھے لگا آپ تھک گۓ ہوں گے اسی لیے.. شایان ٹھیک کہتا بیڈ پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا. نور بیڈ کے دوسری جانب جا کر لیٹ گئ..

*********

ناشتہ کرتے ہوۓ شایان کو لیٹر یاد آیا...

وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا..

اس کو کیا ہو گیا؟؟؟ خالہ بولیں..

معلوم نہیں شاید کوئ کام یاد آ گیا ہو....

نور نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوۓ کہا... 


شایان نے پڑھنا شروع کیا...


آفاق میرے گھر سے جانے کی سب سے بڑی وجہ تم ہی ہو کیونکہ اگر تم میرے راستے کا پتھر نہ بنتے تو ماما پاپا رضامند ہو جاتے اور مجھے یہ قدم نہ اٹھانا پڑتا لیکن مجھے یہ کرنا پڑا کیونکہ میں اپنی محبت کی قربانی نہیں دے سکتی اور اگر میں تم سے شادی کر بھی لیتی تو کبھی خوش نہ رہتی تم تو ہمیشہ نور کے پیچھے رہتے ہو مجھ سے زیادہ تمہیں نور کی فکر ہوتی ہے مجھ سے زیادہ اہمیت تمہارے نزدیک نور کی ہے تو میں ایک ایسے انسان سے شادی کر کے اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی ویسے بھی تم میرے قابل نہیں ہو سو میرے جانے کے بعد آپ سب مجھے برا بھلا کہنے کے بجاےُ آفاق سے پوچھ لینا کہ اس کی نوبت کیوں آئ اگر تم نور کو بیچ میں نہ لاتے تو شاید میں تم سے دور نہ ہوتی نہ ہی ہمارا رشتہ ختم ہوتا لیکن اس نور نے سب کچھ بگاڑ دیا اب تم اس نور کے ساتھ ہی رہو.....


مریم....

شایان شش و پنچ میں مبتلا ہو گیا کیا سچ میں مریم ٹھیک کہ رہی ہے وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھڑا ہوا نور تمہیں تو میں نہیں بخشوں گا...

شایان کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہو گیا...

تمہاری وجہ سے میرا بھائ اس حال میں ہے اب تم دیکھتی جاؤ...

شایان یہی سب سوچ رہا تھا جب نور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئ...

شایان اسے کڑے تیوروں سے دیکھنے لگا...

نور وہیں سہم گئ...

نور اگر اپنی خیریت چاہتی ہو نہ تو ابھی اپنی شکل غائب کر لو یہاں سے... شایان ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا...

نور ہاتھ مسلتی باہر نکل گئ...

ان کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا رات اتنی نرمی سے بات کر رہے تھے اور اب بھی وہی کھڑوس والے موڈ میں آ گۓ... نور جھرجھری لیتی زینے اترنے لگی...

شایان مِیرا کو کال کرنے لگا لیکن اس نے اٹینڈ کہ کی جب سے اس نے مِیرا کا میسج دیکھا تھا تب سے اس کا دل ڈوب رہا تھا...

مِیرا پک اپ دی کال... شایان دیوار پر مکہ رسید کرتا ہوا بولا... چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار نمایاں تھے...

شایان پھر سے اس کا میسج پڑھنے لگا...

مبارک ہو تمہیں شایان مِیرا کو اپنی زندگی سے نکالنے کے لیے اب دوبارہ تم مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا کیونکہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ اگر تم نور کے کہنے پر گۓ ییا سے تو ہمارا رشتہ ختم سمجھنا اور تم نے وہاں جا کر اس بات کی تصدیق کر دی کہ ہمارے بیچ اب کچھ بھی نہیں....

نو مِیرا... شایان بڑبڑایا

شایان اٹھا اور ڈریسنگ ٹیبل کی ایک ایک چیز اٹھا کر پھینکنے لگا...

وہ رو نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے نفرت تھی آنسوؤں سے...

نور شور سن کر اندر آئ...

شایان کیا ہوا؟؟

میں نے تمہیں کہا تھا میرے سامنے مت آنا... وہ ہذیانی انداز میں چلایا

لیکن یہ سب.... نور نیچے گرے کانچ دیکھتی ہوئ بولی...

شایان آپ کا ہاتھ...

اس کے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا لیکن وہاں پرواہ ہی کسے تھی...

نور آگے بڑھی...

خبردار اگر تم نے مزید ایک بھی قدم بڑھایا تو..نور کے قدم وہیں تھم گۓ...

شایان پلیز.... نور کو خوف بھی محسوس ہو رہا تھا لیکن اسے اس حال میں دیکھنا بھی گوارا نہ تھا اس کے لیے...

ایک کام کرو... شایان پرفیوم رکھتا ہوا بولا...

جی بتائیں.. ۔

ننگے پاؤں چل کر آؤ میرے پاس...

نور اس کی بات پر ششدہ رہ گئ...

شایان سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھنے لگا...

بس اتنی ہی ہمت تھی... شایان پھر سے گویا ہوا...

نور زمین پر منتشر کانچ کے ٹکڑوں کو دیکھنے لگی...

ٹھیک ہے میں آتی ہوں... نور نے ہمت مجتمع کرتے ہوۓ کہا...

آئم ویٹنگ...

نور نے سلیپر اتاری اور کانچ پر پہلا قدم رکھا.. اس کے لبوں سے ہلکی سی سِی نکلی...

دو آنسو نیچے زمین پر جا گرے...

نور بڑے بڑے قدم اٹھاتی اس تک پہنچی...

فرش پر اس کے خون کے نشان رہ گۓ...

وہ بیڈ کے کنارے پر ٹک گئ اور اس کے ہاتھ سے خون صاف کرنے لگی...

شایان غور سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا...

نور کیا تم پاگل ہو؟؟

نور نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا...

اگر میں تمہیں کہوں کہ ٹیرس سے کود جاؤ تو کیا تم ایسا بھی کر لو گی؟؟؟

شاید... نور نے مختصر سا جواب دیا

اب تمہیں ڈاکڑ کے پاس کیسے لے کر جاؤں؟؟

شایان پرسوچ انداز میں اس کے پاؤں کو دیکھنے لگا...

میں ٹھیک ہوں... نور آہستہ سے بولی

فضول مت بولو جانتا ہوں ٹھیک ہو یا نہیں... شایان سر جھٹکتا ہوا بولا...

پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکالتا فون ملانے لگا... نور اس کو دیکھنے لگی...

خدا جانے میں کیسے چل پڑی ان کے ایک بار کہنے پر کیوں مجھ سے ان کی تکلیف نہیں دیکھی گئ اور اپنی تکلیف بھول گئ....

شایان نے اس کی جانب دیکھا تو نور نے نظریں جھکا لیں...

کچھ دیر میں ڈاکڑ آ گیا تو نور کے پاؤں سے کانچ نکال کر بینڈج کر کے چلا گیا...

تقریبا پانچ یا چھ کانچ اس کے پاؤں میں پیوست ہوۓ ہوں گے...

*********

ایک مہینہ ہو گیا تھا مریم کو گۓ لیکن آفاق کو لگتا تھا کہ کل کی ہی تو بات ہے...

وہ بلکل خاموش ہو گیا تھا مریم نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا ہمیشہ اپنے کمرے میں مقید رہتا نہ کسی سے ملتا نہ بات کرتا بس تنہائیوں کو اپنا ساتھی بنا لیا تھا اس نے...

نور آفاق کا کھانا لے کر کمرے میں آئ تو اندر گھپ اندھیرا تھا کوئ بھی روشنی نہ تھی... نور نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا اور کمرہ روشنی میں نہا گیا...

آفاق نے آنکھیں کھول کر نور کو دیکھا...

آفاق یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے؟؟ نور خفگی سے بولی

اور کیا کروں؟؟ آفاق مایوسی سے بولا

آفس جاؤ واپس سے اپنی روٹین پر...

نور میری لیے وقت منجمد ہو گیا ہے میں وہیں کھڑا ہوں جہاں وہ مجھے چھوڑ کر گئ تھی

آفاق کسی کے جانے سے زندگی نہیں رکتی

لیکن میری رک گئ ہے

تم نے خود روکی ہے

تم سب کے ساتھ بیٹھا کرو آفس جاؤ جیسے پہلے رہتے تھے ویسے ہی..

پھر مریم واپس آ جاےُ گی؟؟

نور بے بسی سے اسے دیکھنے لگی...

آفاق مریم...

مریم سب کچھ تھی میری لیے... آفاق اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا...

میں اس سے زیادہ بات اسی لیے نہیں کرتا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں نفس انسان کو بہکاتا ہے اور جیسا آپ نے کہا تھا کہ باتیں جس نہج تک پہنچ جاتی ہیں وہ غلط ہے...

آفاق جب تمہیں اس بات کی سمجھ ہے تو پھر تمہیں یہ کیوں سمجھ نہیں آ رہا...

نور وہ کیسے مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہے کیسے میں کیسے مان لو نور بتاؤ مجھے یہ جو دل ہے نہ وہ دل پر انگلی رکھے بولنے لگا نا کچھ سنتا ہے نا سمجھتا ہے بس مریم تھی تو وہی چائیے وہ نہیں تو پھر میں بھی نہیں میں تو اس انتظار میں ہوں کہ کب ان سانسوں کا سلسلہ ٹوٹے گا اور مجھے سکون ملے گا.. وہ دیوانہ وار بول رہا تھا

آفاق صبر کرنا سیکھو اگر اللہ نے تم سے وہ چھین لیا ہے جسے تم کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تو اس بات پر مطمئن ہو جاؤ کہ اس نے تمہیں وہ عطا کرنی ہو گی جو تمہارے لیے بہتر ہے اللہ ستر ماوؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ماں اپنے بچے کے ساتھ کچھ غلط نہیں کرتی تو پھر وہ ذات کیسے ہمارے ساتھ غلط کر سکتی ہے یہ انسان ہے جو اس کی حکمت کو سمجھ نہیں سکتا ہر چیز کے پیچھے اس کی کوئ نہ کوئ مصلحت ہوتی ہے ہمیں صرف صبر کا دامن تھامے رکھنا ہوتا ہے اس کے بعد وہ ہوتا ہے جو آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا...

لیکن نور...

اگر وہ تمہارے حق میں بہتر ہوتی تو ضرور عطا کی جاتی لیکن اگر نہیں عطا کی گئ تو مطلب تمہارے لیے اس سے بہتر کو منتخب کیا گیا ہے اللہ بہتر نہیں بہترین عطا کرتا ہے...

آپ کی بات ٹھیک ہے نور لیکن میں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں؟؟

بس تم یہ بات سمجھ لو آفاق کہ اسی میں تمہاری بھلائ ہے اللہ کی رضا میں راضی ہو جاؤ سب ٹھیک ہو جاےُ گا...نور مسکراتی ہوئ باہر نکل گئ..

وہ پچھلے ایک ہفتے سے اسے سمجھا رہی تھی لیکن وہ ایک ہی جگہ پر رک گیا تھا وہ خود آگے نہیں بڑھنا چاہتا تھا...

نور آنکھ کا گوشتہ صاف کرتی کمرے میں گئ تو شایان مضطرب سا چکر کاٹ رہا تھا...

نور نے ڈرتے ڈرتے دروازہ بند کیا...

میں نے تمہیں کیا بکواس کی تھی؟؟؟ نور کو دیکھتے ہی وہ بھڑک اٹھا...

نور نے تھوک نگلا...

کیا؟؟؟ آہستہ سے بولی...

میں نے بولا تھا کہ میری فائلز کو ہاتھ مت لگانا پھر تم نے میری اجازت کے بغیر چاچو کو کیوں دیں فائلز... شایان چلایا...

نور سہم کر دو قدم پیچھے ہٹی...

شایان قدم اٹھاتا اس کے سر پر آ گیا...

وہ وہ شایان...

ڈر کے مارے نور کا سانس سوکھ گیا....

کیا وہ؟؟؟

شایان دروازے پر ہاتھ مارتا ہوا بولا...

نور کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو گۓ آنکھیں اس نے جھکا رکھی تھیں...

جیسے ہی شایان نے اس کی کلائ پکڑی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ گئیں...

نور کی کلائ اور شایان کا ہاتھ دونوں زخمی ہو گۓ لیکن اسے غصے میں کچھ دکھائ نہیں دے رہا تھا...

تم نے قصد کر رکھا ہے کہ مجھے ہر طرح سے پریشان کرنا ہے...

نور نفی میں سر ہلانے لگی سر جھکا ہوا تھا البتہ آنسو ابھی بھی بہ رہے تھے اور نور کے چہرے کو بھگو رہے تھے...

جب سے تم میری زندگی میں آئ ہو ہر چیز خراب ہوتی جا رہی ہے سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا ہے تم نے... شایان کی گرفت اس کی کلائ پر مزید سخت ہو گئ....

نور نے نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا...

نہ جانے کیا تھا نور کی آنکھوں میں کہ شایان نے اس کی کلائ آزاد کی اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا... بالوں میں ہاتھ پھیرتا کمرے سے باہر نکل گیا...

نور اپنی کلائ دیکھنے لگی جہاں اس کی انگلیوں کے نشان رہ گۓ تھے..

شایان کا خون بھی نور کے ہاتھ پر لگا تھا...

نور فسٹ ایڈ باکس اٹھاتی بیڈ پر بیٹھ گئ...

شایان ہمارا خون تو ایک ہو گیا ہے لیکن نا جانے ہم کبھی ایک ہو پائیں گے یا نہیں... نور اذیت سے سوچتی ہوئ زخم صاف کرنے لگی...

********

شایان بڑے ماموں کے بیٹے کی شادی ہے میں تو نہیں جا سکتی اس لیے تم اور نور جاؤ گے..

واٹ؟؟ شایان کے ماتھے پر لکریں ابھریں...

اس میں اتنا حیران ہونے کی تو ضرورت نہیں.. وہ نارمل سے انداز میں بولیں...

اس وقت لاؤنج میں آفاق, شایان, نور اور خالہ بیٹھیں تھیں...

آفاق اب اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا لیکن کم ہی بات کرتا...

مام میں نہیں جا سکتا سوری... شایان مصروف سے انداز میں بولا...

شایان... خفگی سے بولیں...

مام کیا ضروری ہے؟؟ شایان نے ہتھیار ڈالتے ہوۓ کہا...

جی ہاں اب دوسرے شہر ہے ورنہ میں خود شرکت کر لیتی کم از کم تمہاری منتیں تو نہ کرنی پڑتیں...

اووکے فائن ہم چلے جائیں گے...

کل صبح نکل جانا پھر...

ٹھیک ہے... نور جا کر پیکنگ کر لو... شایان نے لیپ ٹاپ پر نظریں جماتے ہوۓ کہا...

نور سر ہلاتی اٹھ گئ....

*********

شایان اور نور سب سے آخر میں پہنچے تھے... ماموں اور ممانی نے اچھی مہمان نوازی کی...

نور گھر میں سب ٹھیک تھے؟؟؟ ممانی نے پوچھا..

جی الحمدللہ سب ٹھیک تھے خالہ آپ کو سلام کہ رہی تھی...

انہوں نے سلام کا جواب دیا اور پھر سے گفتگو کا سلسلہ جوڑا...

آفاق کا کیا حال ہے اب سنا تھا ڈیپریشن کا شکار ہے....

جی لیکن اب ٹھیک ہے وہ بلکل... نور جلدی سے بولی...

چھوٹی ممانی اور کچھ دوسرے رشہ دار بھی وہیں بیٹھے تھے...

آفاق وہی ہے نہ جس کی مریم کے ساتھ نسبت طے تھی وہ جو گھر سے بھاگ گئ... وہاں موجود خواتین میں سے ایک نہ حصہ ڈالا...

ہاں ہاں وہی ہے کمبخت ماں باپ پر کیچڑ اچھال کر چلی گئ نا جانے کس کے ساتھ منہ کالا کر کے...

توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے آج کل کے بچوں میں تو کوئ شرم کوئ حیا ہی نہیں رہی بھلا یہ شریفوں کی بچیوں کے کام تو نہیں ہوتے نہ.....

نور خاموشی سے ان کی باتیں سننے لگی کہ اس کے سوا کوئ چارہ بھی نہیں تھا..... 

وہ بے بس تھی مریم نے قدم ہی ایسا اٹھایا تھا کہ وہ کسی کو کچھ نہیں کہ سکتی تھی دوسری جانب مریم کی ماما سر جھکاےُ بیٹھیں تھیں ان کی آنکھوں میں آنسو جمع ہو رہے تھے جنہیں نکلنے سے وہ روک رہیں تھیں... ان کے پاس کوئ جواب نہیں تھا ان کی باتوں کا نہ ہی وہ دنیا کا منہ بند کر سکتیں تھیں سو خاموشی سے ضبط کرنے لگیں کہ ان کی اولاد اب یہی ان کے نصیب میں لکھ گئ تھی...

ویسے کچھ معلوم ہوا گئ کہاں ہے؟؟

کیا خبر بھئ اپنے یار کے ساتھ بھاگی ہے کون جانے کدھر گئ...

شرم ہی نہ آئ منگیتر کے ہوتے ہوۓ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئ اور بھی نا جانے کتنے لڑکوں کو پیچھے لگایا ہو خوبصورت تو تھی ہی...

یہ جو ایسی لڑکیاں ہوتیں ہیں نہ وہ یونیورسٹی پڑھنے نہیں بلکہ لڑکوں کے ساتھ عشق لڑانے جاتی ہیں کوئ کردار ہی نہیں ہوتا ان کا....

بس کر دیں میری مریم ایسی نہیں ہے... وہ تھک گئیں تھیں اپنی بیٹی کے بارے میں ایسی ایسی باتیں سن کر...

بہن ہم کچھ غلط تو نہیں کہ رہے جو حقیقت ہے وہی بیان کر رہے تم بتا دو کہاں ہم نے غلط بیانی کی ہے...

تم بھی میری بات سن لو اپنی بیٹی کو ان کی بیٹیوں سے دور ہی رکھنا خدا جانے وہ بھی اپنی بہن جیسی ہوں اور تمہاری بچی کا بھی دماغ خراب کر دیں... وہ بڑی ممانی کو مخاطب کرتیں ہوئیں بولیں....

جی آپا میں احتیاط کروں گی...

نور ممانی کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئ....

ممانی چھوڑیں آپ جتنا ان کے ساتھ بحث کریں گیں یہ اور زیادہ بولیں گیں لوگوں کو مزہ آتا ہے دوسروں کی تکلیف کا مذاق بناتے ہوۓ یہ دنیا ہی ایسی ہو گئ ہے آپ دفع کریں ایسے لوگوں کو دنیا بے حس ہو چکی ہے کسی کے دکھ میں شریک ہونے کی بجاےُ ان کے دکھوں کا مذاق بناتے ہیں مزید تکلیف دیتے ہیں یہ سوچے بنا کہ دوسرے انسان پر کیا گزرے گی جو پہلے اپنے دکھوں سے لڑ رہا ہے....

نور اسی لیے ہم نے کہیں بھی آنا جانا بند کر دیا ہے مریم نے کسی کے سامنے منہ اٹھانے لائق نہیں چھوڑا ہمیں... وہ نور کے گلے لگ کر رونے لگیں...

صبر کریں اس کے علاوہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے...

*********

نور نے لائٹ پنک کلر کا سوٹ زیب تن کیا ساتھ میں لائٹ سا میک اپ...

اس ہلکی سی تیاری سے بھی وہ دیکھنے والے کو دیکھتے رہنے پر مجبور کر رہی تھی...

لیکن شایان کو کوئ فرق نہیں پڑا اس نے تو ایک نظر بھی ڈالنی ضروری نہ سمجھی...

فنکشن سے واپس آ کر وہ دونوں گیسٹ روم میں آ گۓ جو ان دونوں کو دیا گیا تھا....

نور شایان سے آگے تھے جب اس کا پاؤں نیچے گرے چارجر کے باعث سلپ ہوا لیکن اسے سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی شایان نے اسے تھام لیا...

پہلی بار نور اس کے اتنی قریب آئ تھی نور کی ہارٹ بیٹ تیز ہو گئ...

شایان اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں کھو گیا بلاشبہ وہ حسین لگ رہی تھی لیکن پھر جیسے ہی ہوش میں آیا فوراً سے سیدھا ہوا اور نور کو کھڑا کر کے اس کی کمر سے ہاتھ ہٹایا...

نور کا اٹکا ہوا سانس بحال ہوا...

دیکھ کر نہیں چل سکتیں؟؟ شایان ماتھے پر تیور ڈالے بولنے لگا...

سوری... نور آہستہ سے کہتی آگے بڑھ گئ

اب جب سونے کا وقت ہوا تو شایان بیڈ کو دیکھنے لگا اس کا بیڈ تو فل سائز کا تھا جس پر وہ دونوں آرام سے سو جاتے تھے لیکن اس بیڈ کا سائز چھوٹا تھا...

اب کیسے سوئیں گے؟؟؟ نور اس کی پریشانی سمجھتے ہوۓ بولی...

تم زمین پر سو جاؤ...شایان نچلا لب دباےُ مسکراہٹ روکتے ہوۓ بولا...

شایان... نور صدمے سے بولی

اتنی سردی میں زمین پر نہیں سو سکتی نہ ہی صوفے پر... وہ روہانسی ہو گئ...

اچھا ٹھیک ہے اب یہاں بارش برسانا مت شروع ہو جانا...

شایان نے اپنا تکیہ بیچ میں رکھ دیا یہ باؤنڈری لائن ہے اگر تم وہاں سے یہاں آئ تو پھر دیکھنا خیر نہیں تمہاری...

شایان اب نیند میں ہو ہی سکتا ہے... نور منمنائ

تم آئ نہ تو میں نے تمہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا ہے پھر سونا سردی میں بلینکٹ کے بغیر ہی..

شایان آپ کتنے ظالم ہیں...

شکر کرو یہ کم بولا ہے میں نے اس سے بڑی سزا دے سکتا ہوں... شایان اسے گھورتے ہوۓ بولا

نور منہ بناےُ اسے دیکھنے لگی...

آپ سچ میں ایسا کر دیں گے؟؟ نور نے تصدیق کرنا چاہی...

تمہیں اگر شک ہے تو آؤ کر کے دکھاتا ہوں...

نہ نہ نہیں میں تو ایسے ہی ہوچھ رہی تھی... نور مضبوطی سے لحاف پکڑتے ہوۓ بولی...

شایان مسکراتے ہوۓ لیٹ گیا اور لائٹ آف کر دی...

کچھ ہی دیر میں نور ہوش سے بیگانہ ہو گئ لیکن شایان کو تکیے کے بغیر نیند نہیں آ رہی تھی... نائٹ بلب کی روشنی میں اس نے نور کے چہرے کو دیکھا جہاں بلا کی معصومیت طاری تھی چند لمحے یونہی گزر گۓ آج شایان کو یہ پاگل سی لڑکی اچھی لگ رہی تھی... اس نے تکیہ اٹھا لیا کیونکہ نور اپنی جگہ پر تھی اور سر رکھ کر لیٹ گیا....

شایان کی آنکھ کھلی تو اسے اپنے سینے پر سانسوں کا گمان ہوا

اس نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو نور کا سر اس کے سینے پر تھا اور شایان کا بازو نور کے گرد...

نور؟؟؟ شایان بل کھاتا ہوا بولا... نور ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گئ...

تم میری وارنگ بھول گئیں تھیں رات والی ہمممم... شایان پیشانی پر تیور ڈالتے ہوۓ بولا

لیکن میں تو اپنی جگہ پر ہوں اور آپ... کہ کر نور خاموش ہو گئ...

شایان نے دیکھا تو وہ نور کی سائیڈ پر تھا... نور کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ..

شایان شرٹ کے اوپر والے بٹن بند کرتا واش روم میں گھس گیا...

بارات میں شایان غائب تھا نور اسے ڈھونڈتی رہی لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چلا رات میں جب نور چینج کر کے بیٹھ گئ تو اس کی کمرے میں آمد ہوئ...

شایان آپ کہاں تھے؟؟

تم کیوں پوچھ رہی ہو جہاں بھی جاؤ میں... شایان ناک سے مکھی اڑاتے ہوۓ بولا...

نہیں بس ایسے ہی کہ کر نور خاموش ہو گئ...

اگلے دن پھر سے شایان غائب تھا لیکن ولیمہ کے وقت پر وہ واپس آگیا...

خالہ کی تاکید کے مطابق آج شایان نور کے ساتھ ساتھ ہی تھا...

نور کو اچھا لگ رہا تھا اس کا یوں ساتھ ہونا... شایان کو شرات سوجھی نور چینج کرنے کے لیے واش روم میں جا رہی تھی جب اس نے نور کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا...

جی؟؟ نور حیران ہوتی بولی

شایان اس کے قریب آیا نور دو قدم پیچھے ہوئ شایان نے پھر سے فاصلہ مٹا دیا نور اب پیچھے ہوئ تو دیوار سے ٹکرا گئ...

شایان اس کے عین سامنے کھڑا تھا...

شایان اب تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا... نور آہستہ سے بولی

نور کے بال اس کے چہرے پر آرہے تھے...

شایان نے ہاتھ بڑھایا تو نور ڈر گئ اسے لگا شاید وہ تھپڑ مارنے لگا ہے...

شایان کو اس پر ترس آیا...

شایان نے اس کے بال کان کے پیچھے کر دئیے... یہ بتاؤ اتنا تیار کیوں ہوئ ہو؟؟؟ شایان اس کے چہرے پر نظریں جماےُ ہوۓ بولا...

نور کو اس کا اتنا قریب آنا کنفیوز کر رہا تھا..

وہ وہ میں... نور اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئ بولنے لگی

شایان آپ تھوڑا پیچھے ہو جائیں... نور نے ہمت کر کے کہا...

ایسا میں تمہیں کھا تو نہیں جاؤں گا....

پلیز... نور منمنائ

شایان کا فون رنگ کرنے لگا تو وہ مسکراتا ہوا پیچھے ہوا....

نور شکر ادا کرتی واش روم چلی گئ....

ہاں مِیرا بولو...

شایان تم سچ میں مجھے چھوڑ دو گے؟؟؟

دیکھو مِیرا میں نے تمہیں ساری بات سمجھائ ہے کہ میں فلحال اپنی فیملی کو چھوڑ کر نہیں آ سکتا اس لیے تم پاکستان آ جاؤ اب تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتی کیا....

شایان لیکن نور....

مِیرا میں تمہیں پہلے بھی کہ چکا ہوں اور اب پھر سے کہ رہا ہوں کہ اگر تم یہ رشتہ ختم کر چکی ہوں تو یہ بات یاد رکھنا اگر میں نے تم سے تعلق توڑا نہ تو تم ساری زندگی بھی میرے سامنے روتی رہو گی نہ میں واپس نہیں آؤں گا اس لیے سوچ لو... شایان ٹانگ پر ٹانگ چڑھاےُ آرام سے بیٹھ گیا...

نہیں نہیں شایان میں آ جاتی ہوں پاکستان لیکن تم مجھے مت چھوڑنا...

گڈ گرل

کہ کر شایان مسکرانے لگا...

کب آ ؤ گی اب یہ بتاؤ...

جب تم کہو...

پہلی جو بھی فلائٹ ملتی ہے آ جاؤ مس کر رہا ہوں تمہیں...

مِیرا کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئ...

اووکے ڈئیر...

جلدی آنا میں بے صبری سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں...

یار مام کی کال آ رہی ہے بعد میں کرتا ہوں تم سے بات... کہ کر شایان نے فون بند کر دیا اور ماما سے بات کرنے لگا...

*********

بیگم آئیندہ کسی بھی تقریب میں آپ شرکت مت کیجیے گا میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا..

مریم کے ماما پاپا کچھ دیر پہلے ہی گھر پہنچے تھے وہ لوگ نور اور شایان کے ساتھ ہی نکل آےُ تھے...

آپ اسی لیے کہ رہے ہیں نہ تاکہ میں دکھی نہ ہوں...

بہت سمجھدار ہیں آپ... وہ مسکراتے ہوۓ بولے..

لیکن آپ جائیں گے تو آپ کو بھی تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا نہ...

سو تو ہے لیکن خواتین مردوں کی نسبت زیادہ باتیں بناتی ہیں ویسے بھی آگے سے کوشش کروں گا کہ نہ ہی جائیں تو بہتر ہے....

آپ کو کبھی مریم کی یاد نہیں آئ؟؟؟؟

اس کا تو نام بھی مت لیں...

لیکن پھر بھی.. وہ روہانسی ہو گئ...

جن یادوں سے تکلیف ہو انہیں سوچا نہیں کرتے...

آپ کیسے سب سنبھال رہے ہیں مجھے تو حیرت ہوتی ہے...

وہ اللہ ہے نہ اب تک ہمت دے رہا ہے اور آگے بھی دے گا آپ بس بچیوں کے ساتھ رہا کریں اور زیادہ سے زیادہ سمجھایا کریں انہیں صحیح غلط میں فرق بتائیں...

آپ کو کیا لگتا ہے میں نے مریم کو نہیں سکھایا تھا یہ سب؟؟ وہ تڑپ اٹھیں

میں جانتا ہوں لیکن کیا کروں اب مزید ہمت نہیں ہے نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ لوگ ہماری پرورش پر سوال اٹھائیں...

وہ آنکھیں صاف کرتیں باہر نکل گئ...


یہاں وہ لڑکیاں جو گھر سے بھاگ جاتی ہیں زرا ایک نظر دیکھ لیں کہ وہ اپنے پیچھے کیا چھوڑ جاتی ہیں ماں باپ جو ساری زندگی ہمارے لیے قربان کر دیتے ہیں ہمارے لیے کیا کچھ نہیں کرتے دن رات ہمارے نام کر دیتے ہیں ان کی عزت اچھال کر انہیں تکلیف دے کر کتنی آسانی سے چلی جاتی ہیں انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ زندہ بھی رہ سکیں گے یا نہیں ایک محبت باقی سب محبتوں پر حاوی ہو جاتی ہے وہ جو پیدا ہونے سے لے کر جوان ہونے تک بے لوث بے غرض محبت کرتے رہے ان کی محبت کی کوئ اہمیت نہیں آج وہ دشمن لگتے ہیں جبکہ ماں باپ کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہ سکتے وہ تو ہمیشہ ان کی بھلائ کے لیے سوچتے ہیں لیکن اولاد سمجھتی ہے وہ شاید ان کی خوشیاں نہیں چاہتے کتنے افسوس کی بات ہے نہ جو لڑکیاں ایسا کر چکی ہیں یا کرنے کا سوچ رہے ہیں انسے درخواست ہے کہ یہ حرکت کبھی مت کریں انہیں زمانے کے سامنے ذلیل و رسوا مت کریں ان کی زندگی کو سزا مت بنائیں کہ انہیں آپ کی پیدائش پر افسوس ہونے لگے......

********

نور...

نور...

کہاں ہے نور؟؟؟شایان چلاتا ہوا نیچے آیا اور مہرین سے پوچھنے لگا..

شاید کچن میں ہو... مہرین نے مختصر سا جواب دیا...

نور جلدی سے خالہ کے کمرے سے نکل کر آئ.. جی؟؟؟

جی کی بچی یہ کیا کِیا ہے تم نے؟؟؟ شایان غصے سے دیکھتا لیپ ٹاپ سامنے کرتا ہوا بولا.. خالہ اور چاچی بھی آ گئیں...

شایان آرام سے بول لو بیٹا ایسی کیا بات ہو گئ ہے... خالہ آتی ہی اسے بولنے لگیں

آپ زرا اپنی لاڈلی سے پوچھیں کہ یہ سب کیا ہے؟؟؟

خالہ نے سوالیہ نظروں سے نور کی جانب دیکھا

نور نے لاعلمی سے کندھے اچکاےُ

میرا لیپ ٹاپ میڈم نے دھو دیا ہے سئیرئسلی نور تمہارے پاس دماغ نہیں ہے یقیناً... شایان دانت پیستے ہوےُ بولا

لیکن میں نے تو نہیں کیا...

شٹ اپ ایک تو کام خراب کر دیتی ہو پھر جھوٹ بولتی ہو...

شایان میں کیوں کروں گی ایسا... نور نے احتجاج کرنا چاہا...

مام لسن یہ لاسٹ غلطی تھی اس کی اور اب اگر اس کے بعد کوئ غلطی ہوئ تو یہ اس گھر سے باہر ہو گی... کہ کر وہ واک آؤٹ کر گیا.....

مہرین دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی..

نور صوفے پر بیٹھ کر رونے لگی...

خالہ میں نے نہیں کیا...

میں جانتی ہوں میری بچی... خالہ اسے اپنے ساتھ لگاتی ہوئیں بولیں...

کیا مجھے اتنی سمجھ نہیں ہے کہ لیپ ٹاپ رکھنا ہے یا دھونا ہے شایان نے مجھے بولا تھا کہ لیپ ٹاپ رکھ آؤ اور میں رکھ کر آپ کے پاس آ گئ... نور روتی ہوئ ساری وارداد بتانے لگی...

اچھا چلو چپ میں بات کروں گی اس سے فکر مت کرو تم... خالہ اسے چپ کرواتیں ہوئیں بولیں...

**********

گھر سے باہر نکلتے ہی مِیرا کی کال آنے لگی... ہاں مِیرا بولو...

جانی میں آ چکی ہوں اب تم مجھے ریسیو کرنے آ جاؤ... مِیرا پرجوش سی بولی...

اووکے بیس منٹ میں پہنچ جاؤں گا کہ کر شایان نے فون بند کر دیا نور نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا...

ہر غلط کام یہی لڑکی کرتی ہے شایان کڑھتے ہوۓ سوچنے لگا...

شایان میری رہائش کہاں ہو گی؟؟؟

مِیرا فکرمندی سے بولی...

ڈرنٹ وری میرے گھر میں ہی رہنا ہے تمہیں...

مِیرا پرسکون سی ہو کر شایان کو دیکھنے لگی جو اس وقت سن گلاسز لگاےُ اپنی تمام تر بارعب شخصیت سمیت دل میں اتر رہا تھا...

گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے شایان مِیرا کا ہاتھ تھامے اندر کی جانب قدم بڑھانے لگا....

مِیرا کو دیکھ کر سب ششدہ رہ گۓ...

نور کے لیے یہ شکل انجانی تھی چونکہ اس نے صرف مِیرا کا ذکر سنا تھا کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن جس طرح شایان اسے لایا تھا وہ سمجھ گئ کہ یہی مِیرا ہو گی...

ٹائٹ جینز پر ٹی شرٹ پہنے, آنکھوں پر سن گلاسز لگاےُ, بلونڈ کلر کے بال کھول رکھے تھے رنگ روپ بھی بلا کا تھا بلاشبہ کسی کا بھی دل اس پر آ سکتا تھا شایان کے پہلو میں کھڑی تھی وہ دونوں پرفکیٹ کپل کی عکاسی کر رہے تھے نور خود کا موازنہ کرتی ہوئ سر جھٹکنے لگی بھلا اس کا کیا مقابلہ ان دونوں سے...

مِیرا آگے بڑھ کر سب سے ملی بشمول نور... سب بیٹھ گۓ تو نور نے کچن کا رخ کیا آفاق سمجھ چکا تھا نور پر اس وقت کیا بیت رہی ہو گی....

**********

دیکھیں سر پلیز مجھے اس جاب کی بہت ضرورت ہے ایک چانس تو دیں آپ مجھے پلیز سر میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی...

وہ دروازہ ہے آپ جا سکتیں ہیں ایک بار آپ کو انفارم کر دیا گیا ہے کہ آپ اس جاب کے لیے ایلیجیبل نہیں ہیں تو پھر کیوں ضد کر رہیں ہیں...

پلیز سر آئ نیڈ اٹ بیڈلی پلیز ریکویسٹ ہی سمجھ لیں...

جی سیکیورٹی کو بھیجیں اندر... انہوں نے فون ملا کر کہا...

رہنے دیں میں چلی جاتی ہوں... وہ آنسو صاف کرتی اس انسان کی بے حسی پر ماتم کرتی نکل گئ...

آج بھی اسے ناکامی ہی ملی تھی...

وہ سرد آہ بھرتی پیدل چلنے لگی...

*********

شایان میں تمہارے روم میں رہوں گی نور کو تم گیسٹ روم میں شفٹ کر دو....

شایان کے ماتھے پر حیرانی کی لکیری ابھریں...مِیرا آر یو آؤٹ آف سینسیز؟؟؟

تمہیں معلوم بھی ہے تم کیا بول رہی ہو...

مِیرا شایان کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی...

اس میں ایسی کیا برائ ہے ہم دبئی میں بھی تو اکثر و بیشتر ایک ہی روم میں ایڈجسٹ کر لیتے تھے تو پھر یہاں کیوں نہیں؟؟؟ مِیرا منہ بناتے ہوۓ بولی...

ڈئیر وہ دوبئی تھا اور یہ پاکستان میں میرا گھر ہے یہاں ہم دونوں اکیلے نہیں ہیں سب فیملی میمبر بھی ہیں...

لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ نور تمہارے ساتھ تمہارے روم میں رہے...

مِیرا میں تمہاری اس طرح کی بے جا ضد پوری نہیں کر سکتا تمہیں گیسٹ روم میں رہنا ہے سو بنا کوئ چوں چرا کیے تم وہاں رہو گی... 

مِیرا اس کا ہاتھ جھٹکتی پیچھے کو ہو کر بیٹھ گئ... وہ دونوں صوفے پر آمنے سامنے بیٹھے تھے...

نور آتی جاتی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی لیکن اس کے پاس کوئ حق نہیں تھا تو وہ کیسے اعتراض کر سکتی تھی سو خاموشی سے اپنے کام میں مصروف ہو گئ...

نور؟؟ شایان نے اسے آواز دی

جی..نور کچن سے باہر آتی ہوئ بولی

ایک کپ کافی تو بنا دو مجھ سے کام نہیں ہو رہا... وہ لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا...

جی اچھا... کہ کر نور مڑنے ہی لگی تھی جب مِیرا کی آواز اس کے کانوں میں پڑی...

نور مجھے بھی مل سکتی ہے کیا؟؟ وہ اپنی نرم سی آواز میں بولی...

شیور... ساتھ ہی نور کچن میں چلی گئ...

مِیرا کو اچھا نہیں لگا تھا شایان کا اسے یوں بلانا ناجانے روم میں کیا کرتے ہوں گے مِیرا منہ بسورتی سوچنے لگی...

*********

نور آخر آپ کیوں بلاوجہ یہ تکلیف برداشت کر رہیں ہیں دو لگا دیتیں بھائ کے.... آفاق تلملاتا ہوا بولا

نور مسکراتی ہوئ گویا ہوئ

آفاق تمہیں معلوم ہے اس درد میں بھی سکون ہے کیونکہ یہ شایان کا دیا ہوا ہے وہ مجھے محبت تو نہیں دے سکتے چلو درد ہی سہی کچھ تو دیتے ہیں

نور کوئ شک نہیں پاگل ہو بلکل...

ہو سکتا ہے لیکن اب یہاں آ کر واپس جانا میرے لیے ناممکن سا ہو گیا ہے... نور دور خلاؤں میں دیکھتی ہوئ بول رہی تھی

اتنی محبت کرتی ہیں بھائ سے؟؟

محبت؟؟ نور نے زیر لب دہرایا

کبھی کی نہیں اس لیے محبت کے معنی میں نہیں جانتی میں تو بس اتنا جانتی ہوں میرے اللہ نے انہیں میرا ہمسفر منتخب کیا ہے تو میرا جینا مرنا انہی کے لیے ہے اب اللہ کے بھروسے ہی میں اس گھر میں شایان کے ہمراہ اب تک ہوں ورنہ شاید کب کی جا چکی ہوتی..یار آپ ان کو سنا دیا کریں... آفاق الجھا الجھا سا بولا

آفاق وہ میرے مجازی خدا ہیں میں کیسے ان کو سنا سکتی ہوں؟؟ نور حیرت سے اسے تکنے لگی

تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یہ سب کرتے رہیں... وہ منہ بناتے ہوۓ بولا

وہ جو کرتے ہیں یہ ان کا حساب ہے جو وہ خود دیں گے میرا جو فرض ہے میں وہ کروں گی...

میں یہ نہیں کہتا اس رشتے کو مت نبھائیں لیکن زرا انہیں بھی لگام ڈالیں زیادہ ہی اچھلتے ہیں... آفاق شرارت سے بولا

شایان آپ.... نور ششدہ سی آفاق کی جانب دیکھتی ہوئ بولی

آفاق ہونق زدہ رہ گیا

بھائ میرے پیچھے... شٹ... اس نے آنکھیں بند کر لیں

نور ہنسنے لگی...

آفاق نے پہلے نور کو پھر چہرہ موڑ کے اپنی پشت پر دیکھا تو وہاں کسی انسان کا وجود نہیں تھا

اچھا تو اب آپ بھی مذاق کریں گیں؟؟

تو کیا صرف تمہی کر سکتے ہو دیور جی... نور مزے سے بولی

آفاق کو حیرت ہوتی تھی نور کی ہمت اور برداشت پر.... وہ اٹھ کر اندر چل دیا اور نور گھاس پر پاؤں رکھ کر بیٹھ گئ جو اوس کے باعث ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی نور نے ہتھیلی پھیلا کر اس ہلکی پھوار کو جمع کرنے کی کوشش کی اور اپنی اس کوشش پر خود ہی مسکرا دی سورج کی کرنیں نکلنا شروع ہو رہیں تھیں وہ دوپٹہ چہرے کے گرد لیے معصومیت اور پاکیزگی کا پیکر لگ رہی تھی..ایسی محبت کرتی تھی وہ بے غرض,بے لوث

جس میں نہ بدلے کی چاہ تھی نہ طلب

اس کا ساتھ ہی زندگی بخش تھا


*********

ایمان اور فاطمہ پر سختی ہو گئ تھی مجیب خود دونوں بہنوں کو چھوڑنے اور لینے جاتا... انہیں کسی دشتہ دار یا دوست کے گھر جانے کی اجازت نہیں تھی صرف نادیہ کے گھر وہ چلی جاتیں وہ بھی اگر آفاق خود لینے آ جاےُ ورنہ نہیں.. ایمان سے موبائل واپس لے لیا گیا ماما ہر وقت دونوں کے ساتھ رہتی انہیں سمجھاتی رہتی کہ بیٹا ماں باپ کبھی اپنی اولاد کے لیے برا نہیں سوچتے آپ دونوں نے ماما پاپا کی فرمانبرداری کرنی ہے...

فاطمہ اکثر پوچھتی ماما مریم آپی کہاں چلی گئ ہیں؟؟

بیٹا وہ پڑھنے کے لیے ملک سے باہر گئیں ہیں...

تو وہ فون کیوں نہیں کرتیں ہمیں؟؟؟ وہ کافی چھوٹی تھی ابھی ان باتوں کی اسے سمجھ نہیں تھی اسی لیے مریم کے متعلق گھر میں کوئ بات نہ ہوتی تاکہ اس کے دماغ پر کوئ غلط اثر نہ پڑے...

یہاں پر آ کر ماما خاموش ہو جاتی اور ایمان کو اشارہ کرتیں کہ وہ اسے مصروف کر دے کسی کام میں..

ان سب کی زندگی بس گھر تک محدود تھی کسی کے یہاں وہ اس لیے نہیں جاتے کہ ان کی کڑوی کسیلی باتیں کیسے برداشت کریں مریم کے جانے کا دکھ کم تو نہیں جو دنیا مزید اسے کریدنے لگ جاتی ہے...

جو لوگ احساس کرنے والے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں بے حس لوگ انہیں بھی نہیں بخشتے اچھے لوگوں کو کون جینے دیتا ہے یہاں اللہ نے انسان بناےُ تاکہ وہ ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوں لیکن ہم تو اس چیز کے مخالف چل رہے ہیں ان کا ساتھ دینا تو دور ہم ان کی تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں خدا کے لیے بولنے سے پہلے ایک بار سوچ لیا کریں سامنے والے کے سینے میں بھی دل ہے پتھر نہیں جو دکھتا نہیں...

آج کل دنیا میں لوگ تو بہت ہیں لیکن انسان بہت کم..

انسان تو وہی ہے نہ جس کے دل میں احساس ہو جو دوسروں کے کام آےُ نہ کہ ان کے راستے کا پتھر بن جاےُ.....

*********

وہ تنہا چلتی ہوئ جا رہی تھی جب اسے آواز سنائ دی...

اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان مسکراتا ہوا کچھ بول رہا تھا....

وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی

اس نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو وہ انسان ابھی بھی اس کا تعاقب کر رہا تھا...

ارے بات تو سنیں میڈم.... وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا

وہ کرنٹ کھا کر دور ہوئ

اس کو پسینہ آنے لگا.... یااللہ اب میں کیا کروں سوچتے ہوۓ وہ مزید تیزی سے قدم اٹھانے لگی...

کچھ فاصلے پر بھیڑ تھی وہ بھی اسی بھیڑ میں گم ہو کر ایک گلی میں نکل آئ...

اس معاشرے میں ایک عورت تنہا نہیں رہ سکتی آج یقین آ گیا کیوں ہمیں اتنا تحفظ حاصل نہیں کہ ہم بے خوف و خطر گھر سے نکل سکیں یہاں تو چند قدم کا فاصلہ بھی ایک مشکل سفر بن جاتا ہے...

آنسو بہنا شروع ہو گۓ...

وہ آس پاس تفتیشی نظروں سے آس پاس دیکھتی اپنے گھر کو چل دی.....

*********

جب سے مِیرا آئ تھی شایان نور سے بات ہی نہیں کرتا تھا.. کرتا تو پہلے بھی نہیں تھا لیکن اب تو گھر آنے کے بعد سارا وقت مِیرا کو دیتا.. نور خالہ کے کمرے میں بیٹھی تھی...

خالہ میرے یہاں رہنے کی میعاد ختم ہو چکی ہے...

نور میری جان تم پریشان کیوں ہوتی ہو میں مِیرا جیسی لڑکی کو کبھی اپنے گھر کی بہو نہیں بناؤں گی اس کا لباس دیکھا ہے نہ تم نے مجھے شرم آتی ہے اسے دیکھ کر لیکن اسے تو کوئ پرواہ ہی نہیں...

خالہ یہ باتیں اہمیت کی حامل نہیں بات تو یہیں ختم ہو جاتی ہے کہ وہ شایان کی محبت ہے اور میں زبردستی باندھی گئ ہوں...

تم نے ہار مان لی نور؟؟

اپنے شوہر کو پلیٹ میں سجا کر اسے پیش کر دو گی؟؟؟

نہیں خالہ...

تو پھر یہاں تک آ کر پیچھے کیوں ہٹ رہی ہو اللہ نے تم دونوں کا رشتہ جوڑا ہے جسے شایان یا کوئ اور نہیں توڑ سکتا جب تک اللہ کی رضا اس میں شامل نہ ہو...

میں جانتی ہوں لیکن جب سے مِیرا آئ ہے نہ یہاں رہنے کا دل نہیں کر رہا...

ٹھیک ہے پھر اگر تم جانا چاہتی ہو تو میں نہیں روکوں گی لیکن یہ یاد رکھنا اب اگر تم چلی گئ نہ تو دوبارہ شایان تک جانے والا ہر راستہ بند ہو جاےُ گا...

نور سوچتی ہوئ بولنے لگی

ٹھیک ہے خالہ میں نہیں جاؤں گی جب تک مجھ میں ہمت ہے میں اپنی جنگ لڑوں گی..

بلکل میری بچی... خالہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئیں بولیں...

پتہ ہے نور جب بھی باجی کا فون آتا ہے خفا ہوتی ہیں کہ نور کو آنے ہی نہیں دیتے...

نور مسکرانے لگی...

خالہ نماز کا ٹائم ہو گیا ہے میں چلتی ہوں...نور گھڑی دیکھتی ہوئ اٹھ گئ...

**********

اللہ کرے آج جاب مل جاےُ... وہ سارا راستہ دعائیں کرتی ہوئ آفس پہنچی...

پہلے تو گھنٹہ اس نے انتظار کیا اور جب وہ انٹرویو دینے گئ تو اسے یہاں آنے پر افسوس ہونے لگا...

اس کے اندر داخل ہوتے ہی وہ سر سے لے کر پاؤں تک اس کا جائزہ لینے لگا..

وہ خوبصورت تھی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے سامنے آ گیا...

وہ تھوک نگلتی دو قدم پیچھے ہٹی...

جاب چائیے؟؟

جی..

وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے اس کا ہاتھ پکڑنے لگا...

یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟؟

اس نے اپنا ہاتھ آزاد کروایا باس کی گرفت سے.....

میری پرسنل سیکٹری کی جاب بھی ہے وہ تمہیں مل سکتی ہے... بولتے بولتے وہ اس کے چہرے پر آےُ بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ بولا..

ایسی گھٹیا جاب نہیں چائیے مجھے

ضرورت مند ضرور ہوں لیکن بے غیرت نہیں..

وہ اسے پرے دھکیلتی دروازہ کھول کر باہر نکل گئ... آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے روانہ ہو گۓ...

یااللہ یہ دنیا کتنی گھٹیا اور ظالم ہے انسان کی شکل میں بھیڑیے چھپے ہیں... وہ بار بار اپنا ہاتھ رگڑ رہی تھی جہاں سے اس نے پکڑا تھا.. آج بھی وہ مایوسی سے واپس چل دی...

*********

چند ہی دنوں میں مِیرا سب کے ساتھ گھل مل گئ تھی آج بھی وہ سب کے ساتھ بیٹھی خوش گیپیوں میں مصروف تھی اور نور کچن میں مصروف تھی...

آج چاچی کے میکے والے آےُ ہوۓ تھے...

نور سب سے مل کر کچن میں لگی ہوئ تھی اور مِیرا داد وصول کرنے میں مصروف تھی...

کھانا ڈائینینگ ٹیبل پر لگانے کے بعد چاچی کی بھابھی بولیں...

بھئ نور تو کسی سے ملتی ہی نہیں ہے جب سے آےُ ہیں کچن میں ہی ہے جب ملازم ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کام کرنے کی اور مِیرا کو دیکھو سب کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہی ہے جبکہ نور اپنی ہو کر کسی کو بلانا گوارا نہیں کرتی.. یہ بات سب نے محسوس کی...

نور نے آتے ہی معذرت کی سب سے جیسے ہی وہ شایان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے لگی مِیرا جلدی سے وہاں بیٹھ گئ...

نور کے اندر کچھ ٹوٹا...

نور کے ساتھ ساتھ آفاق کو بھی برا لگا لیکن اس نے تو نا بولنے کی قسم کھا رکھی تھی نور کو اس حال میں دیکھ کر اسے تکلیف ہوئ.....

نہیں نور میں آپ کو اس حال میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا جب آپ نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا تو اب میرا بھی فرض بنتا ہے... آفاق دل میں سوچنے لگا...

نور دوسری کرسی پر بیٹھ گئ...

نور کا دل بجھ گیا وہ کسی سے بات نہیں کر رہی تھی اور مِیرا اپنے نمبر بنانے میں لگی تھی....

نور آپ کا دماغ خراب ہے کیا؟؟؟ آفاق کی غصے سے بھرپور آواز آئ...

نور نے حیرت سے اسے دیکھا...

آپ اس گھر کی ماسی نہیں ہیں سمجھیں آپ...

وہ مصنوعی خفگی سے بولا... نور ہنسنے لگی تو آفاق بھی ہنس دیا...

اب آپ یہ کام چھوڑ کر دو کپ کافی کے بنائیں اور میرے ساتھ چلیں...

واہ آج میرا دیور بھی رعب ڈال رہا ہے تمہارے بھائ کم ہیں کیا... نور شرارت سے بولی

جی میں نے سوچا جو کمی بیشی ان سے رہ گئ وہ میں پوری کر دو... شایان کچن کے دروازے کے وسط میں کھڑا دونوں کو سن رہا تھا...

اچھا جی تو یہاں دیور اور بھابھی مل کر بھائ کی برائیاں کر رہے ہیں... شایان نے بھی حصہ ڈالا

نور کا سانس تو وہیں رک گیا یہ ہمیشہ غلط ٹائم پر ہی کیوں آتے ہیں... دل ہی دل میں کوسنے لگی

بلکل بہت دن ہو گۓ آپ کو کسی لقب سے نہیں نوازا نہ آپ کی بیگم کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا آفاق کی بات پر شایان ہنسنے لگا...

نور کو وہ دونوں یوں ہسنتے ہوۓ اچھے لگ رہے تھے...

آفاق تم میرے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ؟؟ نور خفگی سے بولی..

وہ کہتے ہیں نہ بیچ کی بلی میں وہ ہوں..

تم بلی نہیں بلے ہو... نور ہنستی ہوئ بولی

شایان بھی ہنس رہا تھا...

آپ کو پتہ ہے بھائ ابھی نور کہ رہی تھی کہ دیکھنا تمہارے جلاد بھائ آئیں گے اور کافی کا آڈر دے کر چلے جائیں گے...

نور تم ابھی بھی ان القابات سے مجھے نوازتی ہو؟؟؟شایان اسے گھورتے ہوۓ بولا

نہیں شایان یہ جھوٹا ہے ایک نمبر کا... نور نے آفاق کو کپ مارا جسے اس نے مہارت سے کیچ کر لیا...

شایان ہنسنے لگا...

نور ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی آج پہلی بار وہ غصہ نہیں ہوا تھا..

یار آفاق ویسے راز کی بات ہے یہ دنیا کی واحد ہے جس پر سب سے زیادہ میری دہشت ہے.. شایان آہستہ آہستہ بولنے لگا...

آفاق کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ...

بتاتا ہوں میں ابھی بھابھی کو...

چل بتا بعد میں سارے کام بھی پھر بھابھی سے ہی کروانا... شایان اس کی کمر پر دھپ لگاتا ہوا بولا... آفاق نے منہ بنا لیا..

کافی مل جاےُ گی آج کی تاریخ میں یا پھر اگلی صدی کا انتظار کرنا پڑے گا... شایان نور کے سامنے شیلف پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا...

نور ہڑبڑا گئ...

بس یہ ہو گئ... نور اسے مگ تھماتی ہوئ بولی.....

شایان مسکراتا ہوا باہر نکل گیا...

نور کے لیے تو اتنا ہی بہت تھا وہ شایان کی پشت کو دیکھنے لگی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا... آفاق بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا...

بس کرو بی بی ...آفاق اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوےُ بولا... نور ہنستی ہوئ اس کے ساتھ باہر نکل آئ... مِیرا جو باہر کھڑی ان سب کی تکرار سن رہی تھی کلس کر رہ گئ...

نور اور آفاق گارڈن میں بیٹھ گۓ...

ہاں بولو .. نور سپ لیتی ہوئ بولی

ایسے نہ بولیں پیار ہو جاےُ گا... آفاق شرماتے ہوۓ بولا..

ایک تمہارے لگ جاےُ نہ تو سارا پیار نکل جاےُ گا..نور ہنستے ہوۓ بولی...

پتہ ہے نور میرا تو دل چاہتا ہے یہ جو مِیرا ہے نہ؟؟؟ وہ سرگوشی کرنے لگا...

ہاں تو؟؟ نور بھی اسی کے انداز میں بولیں

لونگی ڈانس والے گانے میں شاہ رخ خان کی لونگی میں ڈال کر اسے دوبئی کے کسی بیچ پر پھینک آؤ... آفاق منہ بناتے ہوۓ بولا

اس کی بات پر نور کے بے اختیار قہقہے بلند ہوےُ...

آفاق تمہارا کوئ بھروسہ بھی نہیں ہے... نور منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئ بولی...

مجھے تو ڈائن لگتی ہے...

توبہ آفاق کیا کیا سوچتے رہتے ہو تم...

نور آپ کو پتہ ہے وہ بہت شاطر ہے... آفاق سنجیدگی سے بولا

مطلب؟؟

مطلب آپ بیوقوف ہیں...

نور برا مان گئ...

وہ سب کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے ہوۓ ہے تاکہ سب اسے اچھا بولیں اور آپ کو برا..

وہ جانتی ہے پاکستانی فیملیز میں ایسا ہی ہوتا ہے ممبرز کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں تو آپ کامیاب ہیں اور وہ آپ کو کچن میں مصروف رکھ کر خود کو اچھا شو کروا رہی ہے .

کھانا بنانے کے لیے مِیرا نے آپ کو بولا تھا نہ؟؟

ہاں.. نور نے سر ہلاتے ہوےُ کہا

تو آپ کو اتنی سمجھ نہیں ہے کیا وہ آپ کی جگہ لینے کی کوشش کر رہی ہے بھائ کو تو وہ پہلے سے اپنے ہاتھ میں لیے ہوۓ ہے اب فیملی کو بھی لے رہی ہے...

لیکن آفاق اس نے مجھے کہا تھا کہ میرے ہاتھ کا کھانا بہت ٹیسٹی ہے...

پاگل ہیں آپ وہ آپ کو بدھو بنا رہی ہے دوبئی کی اعلی سے اعلی جگہ سے وہ کھا چکی ہے آپ کا کھانا ہی اسے پسند آنا تھا... آفاق نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا

اپنی جگہ اسے مت دیں آپ صرف بھائ کا کام کرتی ہیں تو صرف ان کا ہی کریں باقی پورے گھر کا نہیں اس کے لیے ملازم ہیں سمجھی آپ.....آفاق اسے ڈپٹتے ہوۓ بولا...

اچھا دادا جی سمجھ گئ... نور مسکراتی ہوئ بولی تو آفاق بھی مسکرا دیا..

ویسے مجھے لگتا ہے آج تم زندہ ہوۓ ہو..

بلکل میں اپنی بیسٹی کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا...

اچھا میں چلتی ہوں ٹائم دیکھو کتنا ہو گیا ہے.....

نور موبائل اس کے سامنے کرتی اٹھ گئ..

آفاق نے اووکے کا سائن دکھایا...

نور کمرے میں آئ تو مِیرا شایان کے ساتھ چپکی بیٹھی تھی...

نور کو دیکھ کر ہی مِیرا کا حلق کڑوا ہو گیا....

نور ابھی ہم بزی ہیں تم بعد میں آ جانا..مِیرا مسکراتی ہوئ بولی

نور شایان کو دیکھنے لگی..

مِیرا ایسا کرو کافی لیٹ ہو گیا ہے سو تم اپنے روم میں چلی جاؤ باقی کام صبح دیکھ لیں گے...

لیکن شایان...مِیرا نے مخالفت کرنی چاہی

مِیرا میں تھک گیا ہے کوئ بحث نہیں...شایان لیپ ٹاپ بند کرتے ہوۓ بولا

نور خاموش کھڑی ان دونوں کو سن رہی تھی.....

مِیرا پیر پٹختی منہ بناتی ہوئ باہر نکل گئ..

نور نماز پڑھنے کھڑی ہو گئ...

شایان اسے ہی دیکھ رہا تھا... نور دعا مانگ کر آئ تو شایان نے گفتگو کا آغاز کیا...

نور تم نماز کیوں پڑھتی ہو؟؟ شایان الجھا الجھا لگ رہا تھا

میں نماز اس لیے پڑھتی ہوں کیونکہ اللہ نے ہم پر فرض کی ہے...

لیکن اور بھی تو بہت سے کام فرض ہیں وہ سب کیوں نہیں کرتی؟؟؟

میں کوشش کرتی ہوں کہ سب ہی کروں..

تمہیں یہاں میرے علاوہ کوئ نہیں دیکھ رہا پھر چاہے نہ بھی پڑھو...

شایان آپ کا کیا مطلب ہے میں دکھاوے کے لیے پڑھتی ہو؟؟ نور کو صدمہ لگا

شاید.. شایان نے کندھے اچکاےُ

اب ضروری تو نہیں مجھ سے سارے کام نہیں ہوتے تو میں یہ بھی چھوڑ دو اس طرح سے تو انسان کچھ بھی اچھا نہ کرے...

شایان خاموش ہو گیا...

نور کی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہونے لگا

نور کو اس کی بات نے تکلیف دی تھی...

آپ بھی تو پڑھتے ہیں... نور پھر سے بولی

ہاں جب کبھی وقت مل جاےُ تو پڑھ لیتا ہوں لیکن تمہاری طرح نہیں ساری باقائدگی سے.....

شایان کے لہجے میں ندامت تھی...

نور سر جھٹکتی لیٹ گئ...

شایان کو بھی محسوس ہوا شاید اسے وہ نہیں بولنا چائیے تھا لیکن اب تو کہ دیا کیا کر سکتا ہوں اب میں... شایان کندھے اچکاتا لائٹ آف کرنے لگا....

********

انکل پلیز مجھے ادھار دے دیں میں آپ کو واپس کر دوں گی...وہ منت کرنے لگی

نہ بہن پہلے ہی تم کافی ادھار لے چکی ہو جس کی واپسی کی اب کوئ امید دکھائ نہیں دے رہی تو میں مزید کیوں دوں.... وہ قطعیت سے بولے

پلیز پہلے بھی تو آپ سے ہی سارا سامان لیتی ہوں مجھے بس جاب مل جاےُ آپ کا جتنا قرض ہے سب سے پہلے لوٹا دوں گی...

نہ بی بی مجھے خواب مت دکھاؤ اور میرا وقت ضائع مت کرو چلتی بنو یہاں سے... وہ باہر کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولا

جب پیٹ خالی ہو اور جیب میں ٹھیلہ نہ ہو تو بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہو جاتا انسان..

انسان تکلیف میں ہو تو خدا بہت یاد آتا ہے...

یااللہ میں کیسے سنبھالوں چیزوں کو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور صبح سے بھوکی پیاسی جاب کے لیے خوار ہو رہی ہوں...

غربت بھی کتنی بری چیز ہے اچھے اچھوں کو رولا دیتی ہے...

وہ مایوسی سے واپس گھر آ گئ...

اس ایک کمرے پر مشتمل چھوٹے سے گھر کے ایک چولہے کے نام پر بنے کچن میں کھانے کو کچھ بھی نہ تھا...

اس نے آٹا گوندھا اور روٹی پکالی اور ایک پیاز لے کر بیٹھ گئ...

دیکھ کر ہی اس کی آنکھیں چھلکنے لگی

مرتی کیا نہ کرتی کھانا پڑا....

آنکھیں بند کیے کھانے لگی اب پیٹ تو بھرنا ہی تھا سو کچھ اچھا تو ملنے سے رہا جو تھا اسی میں گزارا کرنے لگی...

زندگی سے نہیں زندگی کی تلخیوں سے ڈر لگتا ہے

جو آپ کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں مجھے بھی ایسی ہی تلخیوں نے توڑا ہے کاش زندگی پھولوں کی سیج ہوتے لیکن ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ کانٹے بھی ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں

لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے میرے حصے میں صرف کانٹے آےُ ہیں....وہ طنزیہ مسکرانے لگی....

********

ماما میرا ایک دوست بتا رہا تھا اس نے مریم کو دیکھا ہے.. مجیب آہستہ سے بول رہا تھا..

وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں پھر گویا ہوئیں..

تمہیں پتہ ہے نہ تمہارے پاپا نے سختی سے منع کیا ہے..

جی جی اسی لیے تو آپ سے شئیر کر رہا ہوں..

کون سے دوست نے دیکھا ہے اور کہاں کیسی ہے وہ؟؟؟

ایک ہی سانس میں کئ سوال کر ڈالے..

ریلیکس ماما...

کراچی میں جو رہتا ہے نہ اس نے دیکھا ہے بتا رہا تھا کسی مال میں نظر آئ تھی دیکھنے میں تو ٹھیک ہی لگ رہی تھی...

مجیب کی بات سے ان کے دل کو ڈھارس ملی.. مجھے لگتا ہے ماما وہ ہمارے بغیر بہت خوش ہے.. اس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا... بس بیٹا اس نے اپنی خوشی کا انتخاب کیا میں یا تم کیا کہ سکتے ہیں وہ خوش ہے تو پھر اللہ اسے خوش ہی رکھے...

مجیب نے اداسی سے چہرہ جھکا لیا...

اور یہ بات کسی سے مت کرنا ٹھیک ہے نہ... وہ اسے تنبیہ کرتی ہوئی اٹھ گئیں..

جی ٹھیک ہے...

یار مریم کاش تم نہ جاتی کتنا انجواےُ کرتے تھے ہم سب اور اب تو گھر میں ہمیشہ ایسا لگتا ہے سوگ منا رہے ہیں کوئ کسی سے بات ہی نہیں کرتا ہنسی مذاق تو بہت دور کی بات ہے...وہ دور خلاء میں دیکھتے ہوۓ سوچنے لگا.. کس طرح ایک انسان کی زندگی سے باقی سب انسانوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے لیکن انسان اپنی خوشی کے لیے اتنا خودغرض بن جاتا ہے کہ باقی سب کی خوشی کی کوئ اہمیت ہی نہیں رہتی... مریم نے بھی خود غرضی کا مظاہرہ کیا تھا اپنی خوشیاں پانے کے لیے باقی سب کی خوشیوں کی قربانی دے دی....

********

آفاق مرے مرے قدم اٹھاتا اپنے کمرے میں آیا اور مریم سے جڑی تمام چیزیں بشمول اپنی اور مریم کی منگنی کی انگوٹھی زمین پر رکھ کر گھورنے لگا...

لائٹر نکالا اور ہر چیز کو آگ لگا دی ایسی ہی ایک آگ اس کے دل میں بھی بھڑک رہی تھی جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی...

یہ لو مریم آج تم سے جڑی ہر یاد ہر چیز جلا دی میں نے بڑھ گیا میں بھی آگے جیسے تم بڑھ گئ لیکن تم آگے نہیں بڑھی تم تو سب کو کچل کر گئ ہو اب سے آفاق کسی مریم کو نہیں جانتا نہ ہی میرے دل میں تمہارے لیے کوئ جگہ باقی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا مریم ایک دن تم آؤ گی میرے پاس لیکن تب میں پہلے جیسا نہیں رہوں گی تم نے مجھے ٹھکرایا تھا میری محبت کو دیکھنا خدا تمہیں دکھاےُ گا.... آفاق آنسو صاف کرتے ہوۓ اٹھ گیا

*********

نور آئم سوری... شایان نور کے سامنے آتے ہوۓ بولا...

کس لیے سوری؟؟ نور انجان بنی

رات کے لیے مجھے وہ نہیں بولنا چائیے تھے... نور اثبات میں سر ہلا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئ..

تم صبح سے مجھ سے کترا رہی ہو کیوں؟؟ اب بھی سارے گھر میں ڈھونڈ کر یہاں آیا ہوں...

شایان آپ نے بات ہی ایسی کی تھی کہ مجھ سے آپ کے سامنے نہیں آیا گیا کافی ٹائم ہو گیا ہے ہمیں ساتھ رہتے ہوۓ آپ مجھے اتنا بھی نہیں جان سکے افسوس ہے... نور افسوس سے سر ہلاتی ہوئ بولی

سوری کر تو دیا ہے اب کیا کروں میں؟؟؟

ایک بات مان سکتے ہیں آپ؟؟؟

بولو اگر ہو سکا تو ضرور..

مِیرا کو ہوٹل میں ٹھہرا دیں...

تم جیلیس ہو رہی ہو جب کہ تم اچھے سے....

میں سب جانتی ہوں لیکن چونکہ آپ نے کل اس سے شادی کرنی ہے تو اس طرح اس کا یہاں رہنا مناسب نہیں آپ جانتے ہیں یہ پاکستان ہے یہاں لوگ اس طرح سے نہیں سوچتے جس طرح سے باہر کے ممالک میں لوگ سوچتے ہیں...

نور کی بات میں دم تھا اس کا یہاں رہنا معیوب لگتا تھا..

ٹھیک ہے اگر میں یہ بات مان لو تو مطلب تم میری وہ بات بھول جاؤ گی...

جی... نور سنجیدگی سے بولی

فائن پھر دیکھ لینا... شایان اس کا منہ تھپتھپاتے ہوۓ باہر نکل گیا جیسے کہ وہ مِیرا کا تھپتھپاتا تھا...

مِیرا جو شایان کے پیچھے آ رہی تھی اسے ایسے کرتا دیکھ کر جل گئ...

دن بہ دن ان کی نزدیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں اب مجھے کچھ بڑا کرنا ہو گا اس سے پہلے کہ یہ نور شایان کو مجھ سے دور لے جاےُ...

مِیرا کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ آ گئ...

ویل نور اب تم بچ کر دکھانا مجھ سے...وہ سوچتی ہوئ اپنے کمرے کی جانب چل دی...

*********

بھائ ہم کہیں باہر کیوں نہیں جاتے؟؟ فاطمہ شکایت کرتی ہوئ بولی...

کیونکہ گڑیا باہر کے لوگ ٹھیک نہیں ہوتے اس لیے ہم باہر نہیں جاتے...

لیکن جب مریم آپی گھر ہوتی تھیں تب تو جاتے تھے...

تب کی بات اور تھی آپ مجھے یہ بتاؤ آئسکریم کھاؤ گئ ؟؟؟

مجیب بات بدلتے ہوۓ بولا

لیکن میری فیورٹ... وہ پر جوش سی بولی

اووکے پھر میں ابھی لے کر آتا ہوں... مجیب اس کے گال پر بوسہ دیتا کھڑا ہو گیا...

کتنا مشکل تھا اس کے سوالوں کے جواب دینا یہ تو وہی جانتا تھا اسی لیے وہ ہمیشہ فاطمہ سے کتراتا کہ اس کو جواب دینا ہر بار اس کے بس میں نہیں ہوتا....

********

اووہ تو آج میڑ بھی کاٹ دیا آپ لوگوں نے؟؟؟

وہ گھر پہنچی کو واپڈا والے میڑ اتارنے میں مصروف تھے...

تین ماہ کا بل ہے جب دو گی تب ہی میڑ بھی لگے گا

لیکن میں نے کہا تھا کہ اگلے ماہ دے دو گی...

یہ گورنمٹ کے ادارے ہیں ہمارے ذاتی نہیں جو آپ کی مجبوریاں سنیں.... وہ سر جھٹکتے چلے گۓ....

چلو اچھا ہوا ایک خرچہ کم ہو گیا ویسے بھی مجھے کیا کرنا تھا بجلی سے... وہ سوچتی ہوئ کمرے میں آ کر لیٹ گئ اور سو گئ...

رات کے کسی پہر اسے گرمی کا احساس ہوا آنکھیں کھولیں تو خود کو پسینے سے شرابور پایا ہاتھ پر مچھر کے کاٹنے کے نشان موجود تھے وہ کھڑکی کے آگے کیے اہنی بازو دیکھنے لگی...

اف کوئ ایک مصیبت ہو تو...

وہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئ

اور رجسٹر اٹھا کر ہوا لینے لگی

نیند تو اب کوسوں دور تھی

یہ سب ناقابل برداشت تھا ناجانے غریب مسکین لوگ کیسے زندہ رہتے ہیں اس حال میں... وہ دکھ سے سوچنے لگی

ان کی تکلیف کا اسے احساس ہو رہا تھا دل میں ایک ٹیس سی اٹھی اور چہرہ گھٹنوں پر رکھے رونے لگی

آج کل اس کے علاوہ اس کے پاس کوئ کام نہ تھا فراغت میں یہی کام وہ کثرت سے کر رہی تھی...

*********

شایان تم نے میرا وہ نیکلس تو نہیں لیا؟؟؟

مِیرا اس کے سامنے آتی پوچھنے لگی..

کون سا؟؟ شایان لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوۓ بولا

یار جو تم نے مجھے دیا تھا وہی میری

برتھ ڈے پر...

نہیں میں کیوں لوں گا... شایان یاد کرتے ہوۓ بولا

پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے میں صبح سے ڈھونڈ رہی ہوں لیکن مل نہیں رہا... مِیرا پریشانی کے عالم میں گویا ہوئ...

یہیں کہیں ہو گا مل جاےُ گا فکر مت کرو...

حد ہے شایان میں کیسے فکر نہ کروں تم نے مجھے گفٹ دیا تھا...وہ اس پر بگڑی

تو پھر تمہیں سنبھال کر رکھنا چائیے تھا...وہ نظریں ہنوز اسکرین پر جماےُ ہوۓ بولا

خالہ بھی بیٹھی ان کو سن رہیں تھیں بظاہر لاپرواہ دکھائ دے رہیں تھیں..

شایان؟؟؟ مِیرا نے اسکرین بند کرتے ہوۓ کہا

شایان اسے دیکھنے لگا

میں تم سے اپنی پریشانی شئیر کر رہی ہو اور تمہارے پاس سننے کے لیے بھی وقت نہیں...

سن تو رہا ہوں کافی دیر سے... شایان مسکراتے ہوۓ بولا

مجھے ڈھونڈ کر دو آئ ڈرنٹ نو... مِیرا سینے پر بازو لپیٹتی ہوئ بولی

اچھا آؤ میں خود دیکھتا ہوں... شایان ہتھیار ڈالتے ہوۓ بولا

ان دونوں نے مل کر دو بار کمرہ میں تلاش کیا لیکن مایوسی ہوئ

اب شایان کو بھی فکر ہونے لگی آخر ڈائمنڈ کا نیکلس تھا ایسے کیسے غائب ہو سکتا ہے...

مِیرا تمہیں یاد ہے لاسٹ ٹائم کہاں رکھا تھا؟؟؟

شایان کل میں نے پہنا تھا اس کے بعد اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ دیا لیکن اب صبح سے نہیں مل رہا...

شایان نیچے آیا اور ماما سے ڈسکس کرنے لگا.. بیٹا گھر سے کہاں جا سکتا ہے...

مام ہم نے دو بار کمرے کی تلاشی لی ہے لیکن نہیں ملا اب مجبوراً سب کے کمرے کی تلاشی لینی پڑے گی...

شایان کیا کہ رہے ہو تم؟؟؟ وہ حیران ہوئیں

مام وہ کوئ عام سا نیکلس نہیں تھا ورنہ میں چھوڑ دیتا ڈائمنڈ کا ہے اور سب سے بڑی بات مِیرا کو میں نے گفٹ کیا تھا..

نور... شایان نور کو آواز دینے لگا

کیا کام ہے نور سے؟؟ وہ اس کے تیور بھانپنے کی کوشش کرنے لگیں...

یار نور ایک کافی کا کپ تو لا دو... شایان ان کی بات نظرانداز کرتا ہوا بولا... اسے لگا معمول کے مطابق نور کچن میں ہو گی

بیٹا وہ اپنے گھر گئ ہے...

کب گئ ؟؟ صبح تو یہیں تھی...

دوپہر میں گئ ہے آفاق کے ساتھ...

ٹھیک...

مِیرا ایک کام کرو میرے لیے کافی تو بنا دو اس وقت روز نور بنا کر دیتی ہے عادت سی ہو گئ ہے...

خالہ اس کی بات پر مسکرانے لگی کہ چلو نور کی کمی تو محسوس ہوئ اسے...

شایان یہاں میرا نیکلس نہیں مل رہا اور تمہیں کافی کی پڑی ہے میں نہیں بنا سکتی... مِیرا نور کے ذکر سے ہی جل گئ تھی اب شایان کے حکم پر بل کھاتی ہوئ بیٹھ گئ...

شایان نفی میں سر ہلاتا ملازم کو آواز دینے لگا...

کافی پینے کے بعد شایان نے طریقے سے چاچو سے بات کی اور سب کے کمرے کی تلاشی شروع کی...

ابتداء مہرین کے کمرے سے ہوئ اور اختتام مام کے کمرے تک لیکن نیکلس نہ ملا...

شایان الجھ کر بیٹھ گیا جب مِیرا بولی...

شایان اب صرف تمہارا کمرہ رہ گیا ہے....

کیا مطلب ہے تمہارا مِیرا میں نے چوری کیا ہے؟؟ شایان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا...

تمہارے ساتھ تمہاری بیوی بھی رہتی ہے جب باقی گھر کے افراد کے روم چیک کیے تو اس کا کرنے میں کیا حرج ہے...

مِیرا کی بات پر نور کے بڑھتے قدم وہیں تھم گۓ...

کیا مطلب ہے تمہارا مِیرا؟؟ نور زور سے بولی

میرا تو کوئ مطلب نہیں ہے اگر تم سچی ہو تو تلاشی دینے میں کیوں ہچکچا رہی ہو؟؟ مِیرا اس کی جانب رخ موڑتی ہوئ بولی

ٹھیک سے شایان آپ لے لیں تلاشی مجھے کوئ اعتراض نہیں...

سارا کمرہ اچھے سے دیکھا لیکن نہیں ملا...

پھر سے سب لاؤنج میں کھڑے ہو گۓ اب آفاق اور نور کا بھی اضافہ ہو چکا تھا

شایان نور کا بیگ... مِیرا اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کی جانب اشارہ کرتی ہوئ بولی...

یہ لو اچھے سے تسلی کر لو... نور نے بیگ آگے کرتے ہوۓ کہا...

سب خاموش کھڑے تھے شایان بیگ سے ساری چیزیں نکال کر باہر رکھتا جا رہا تھا...

شایان کے چہرے کے تاثرات بدلے

اب کی بار جب اس نے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں نیکلس تھا...

سارے ششدہ رہ گۓ...

نور کی آنکھیں پھیل گئیں

شایان میں نہیں جانتی یہ کیسے آیا... نور کو یاد آیا جیسے وہ بیگ گھر سے لے کر گئ تھی ویسے ہی واپس لے آئ تھی اس نے تو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا...

شایان افسوس سے نفی میں سر ہلانے لگا...

نور تم سے یہ توقع نہیں تھی...

شایان میں سچ بول رہی ہوں مجھے نہیں معلوم یہ کیسے میرے بیگ میں آ گیا... بولتے بولتے نور کے آنسو روانہ ہو گۓ...

نور یہ بیگ تمہارا ہے؟؟

نور نے اثبات میں سر ہلایا

اگر تم نے نہیں رکھا تو پھر کیسے تمہارے بیگ سے نکل آیا...

شایان میں نہیں جانتی...نور کے آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے...

شایان تم اتنے ٹائم سے ایک ایسی لڑکی کے ساتھ رہ رہے تھے...

مِیرا ناک چڑھاتی ہوئ بولی

تم چپ رہو یہ میرا اور میرے شوہر کے بیچ کا مسئلہ ہے... نور نے اسے جواب دیا

اور جو نیکلس تم نے چوری کیا ہے وہ میرا ہے..مِیرا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا...

شایان اس نے جیلیس ہو کر میرا نیکلس چوری کیا ہو گا کیونکہ تم نے مجھے گفٹ دیا اور اس کو نہیں...

شایان یہ جھوٹی ہے مجھ پر الزام لگا رہی یہ تو یہی چاہتی ہے کہ آپ مجھ سے منتفر ہو جائیں چال باز ہے یہ اسی کا کام ہو گا یہ بھی...

شایان کے تھپڑ سے نور کے باقی الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گۓ...

نور منہ پر ہاتھ رکھے حیران ہوتی اسے دیکھنے لگی...

مِیرا جھوٹ نہیں بول سکتی میں جانتا ہوں ایک تو تم نے اس کا نیکلس اٹھا لیا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے بجاےُ اسے جھوٹی کہ رہی ہو... لاؤنج میں صرف شایان کی آواز گونج رہی تھی... سب خاموش کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے

نور کی اداس آنکھوں میں سوال تھے خشک ہونٹوں پر شکوے تھے لیکن وہ خاموش رہی جب اس انسان کو یقین ہی نہیں تھا تو کچھ بھی کہنا فضول تھا...

نور خاموشی سے پچھلے گارڈن کی جانب چل دی...

خالہ بھی کچھ نہ کہ سکیں کہ نیکلس نور کے بیگ سے برآمد ہوا تھا البتہ انہیں یقین تھا کہ یہ کام نور کا نہیں ہے کوئ ہے جو اسے تنگ کر رہا ہے...

آفاق نور کے پیچھے چل دیا...

نور یار بات تو سنو...

نور اندھا دھند چلتی جا رہی تھی آنسوؤں سے سامنے کا منظر بھی دھندلاتا جا رہا تھا...

آفاق میں ابھی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں... نور ایک طرف جا کر بیٹھ گئ... آفاق بھی ہانپتا ہوا اس کے ساتھ بیٹھ گیا...

نور میں جانتا ہوں آپ نے نہیں کیا وہ...

آفاق جس انسان کو یقین کرنا چائیے اس نے تو سب کے سامنے میری تذلیل کر دی یہ تھپڑ مجھے تھپڑ نہیں خود پر گالی محسوس ہو رہی ہے... نور زادوقطار رو رہی تھی

آفاق کو مِیرا اور شایان دونوں پر غصہ آنے لگا....

آفاق اٹھ کر وہاں سے چلا گیا...

نور گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گئ...

اللہ نے جس کو اس کا محافظ بنایا تھا جب وہی اس کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا تو پھر باقی سب کی حمایت کا کیا فائدہ...

شایان آپ بے شک مجھ سے محبت نہ کریں لیکن مجھ پر اعتبار تو کر سکتے تھے نہ. 

میں آپ کے لیے انجان تو نہیں ہوں بیوی سے پہلے کزن بھی ہوں لیکن آپ نے تو میری لاج بھی نہ رکھی اور یوں سب کے سامنے....

نور کی ہچکی بندھ گئ...

اللہ پاک پلیز مجھے ہمت دیں تاکہ میں یہ سب برداشت کر سکوں لیکن آپ کے بندے تو ایسے آزماتے ہیں کہ مات یقینی ہے میری...

نور کو ایک آیت یاد آئ...


ان اللہ مع الصابرین..

بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے...


پڑھتے ہی نور کا دل پر سکون سا ہو گیا...

میں کروں گی صبر اللہ پاک ہر دکھ برداشت کروں گی ایک لفظ بھی نہیں بولوں گی اور مجھے پورا یقین ہے ایک دن مجھے صلہ بھی ضرور ملے گا اور اگر اس دنیا میں نہیں مل سکا تو آخرت میں مل جاےُ گا بے شک اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے....

آفاق نے شایان کے کمرے کا رخ کیا...

بھائ کیا تھا یہ سب؟؟؟ وہ حلق کے بل چلایا

آفاق اگر تم اس کے حمایتی بن کر آےُ ہو تو واپس چلے جاؤ..

ہاں میں واپس چلا جاؤ اور آپ کے جو دل میں آےُ وہ آپ کریں آپ کو کیا لگتا ہے مجھے کسی بات کا علم نہی مجھ سے کچھ بھی مخفی نہیں ہے جو کچھ آپ آج تک کرتے آےُ ہیں لیکن آج تو حد ہی کر دی مطلب کوئ پوچھنے والا ہی نہیں ہے آپ کو....

آفاق اس کے بیگ سے نکلا تھا میں کیا کرتا...

مائ فٹ بیگ سے نکلا تھا بیگ میں کوئ رکھ بھی سکتا ہے تھوڑا سا دماغ استعمال کر لیتے تو یہ حرکت نہ کرتے...

کیا مطلب ہے تمہارا؟؟ شایان اسے گھورتے ہوۓ بولا

مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا آپ کے گھورنے سے لیکن آپ کو کوئ حق نہیں پہنچتا تھا کہ نور کو تھپڑ ماریں جب آپ انہیں اپنی بیوی تسلیم نہیں کرتے تو پھر کس حق سے ان پر ہاتھ اٹھایا آپ نے بتائیں مجھے...

آفاق میں کسی بھی چیز کے لیے تمہارے سامنے جوابدہ نہیں ہوں وہ غلط تھی سو میں نے کیا...

کیسے غلط تھی اگر آپ مِیرا کی گارنٹی دیتے ہیں تو میں نور کی گارنٹی دیتا ہوں وہ ایسا کر ہی نہیں سکتی آپ نے تو کزن ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا کیا آپ نہیں جانتے اسے لیکن نہیں آپ کو تو مِیرا کے سوا کچھ دکھائ ہی نہیں دیتا باقی دنیا جاےُ بھاڑ میں جو بیوی سے اسے سب کے سامنے ذلیل کر دیا کیونکہ اسی لیے تو اسے گھر میں رکھا ہے اول روز سے یہی تو کرتے آ رہے ہیں آپ...

آفاق غصے سے بولتا ہوا باہر نکل گیا...

شایان لاجواب ہو گیا کیونکہ آفاق کی بات اسے کہیں نہ کہیں ٹھیک لگ رہی تھی اسے بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا نور کو تھپڑ مارنا اور اب آفاق کے یہ سب کہنے کے بعد اسے پچھتاوا ہونے لگا...

شایان نور کا انتظار کرنے لگا کیونکہ اسے خود بلانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی...

شایان نے ٹائم دیکھا ایک بج گیا لیکن نور نہ آئ وہ صوفے پر بیٹھ کر پھر سے نور کی راہ تکنے لگا...

*********

گزشتہ صبح نو بجے:

آج پھر سے وہ پر امید ہو کر جاب کے لیے نکل پڑی... پچھلے ایک ماہ سے وہ روز جاب کی تلاش میں نکلتی اور مایوس ہو کر لوٹ آتی... پلیز اللہ پاک آج مجھے جاب مل جاےُ ورنہ بہت مشکل ہو جاےُ گی... وہ دعائیں مانگتی ہوئ آفس کے اندر داخل ہوئ...

تیسرے نمبر پر وہ اندر کیبن میں گئ

صد شکر کہ آج کوئ عمر رسیدہ آدمی تھا

اس شخص کو دیکھ کر اسے ڈھارس ملی...

وہ پر اعتماد سی چلتی ہوئ آگے آئ اور ان کے اشارے پر چئیر پر بیٹھ گئ...

جی تو مریم...

جی... مریم گھبرائ ہوئ بولی اگر یہ بھی جاب نہ ملی پھر..

آپ کے پاس صرف میڑک کی سند ہے اس کے علاوہ آپ نے مینشن تو کیا ہے لیکن انٹر کی سند بھی لازمی ہے... وہ فائل سے نظریں ہٹاتے ہوۓ بولے...

پلیز سر مجھے اس جاب کی بہت ضرورت ہے.. مریم نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے

یہ سب نہیں کریں آپ میری بیٹی جیسی ہیں یہ بتائیں کہ آپ کو کیوں اشد ضرورت ہے جاب کی؟؟؟

سر میرے پاس کوئ ذریعہ نہیں ہے پیٹ بھرنے کے لیے... مریم کا سر خود بخود ندامت سے جھک گیا..

آپ شادی شدہ ہیں یا؟؟؟ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی..

جی سر...

تو آپ کے ہزینڈ کہاں ہیں وہ کیوں نہیں کرتے کوئ جاب آپ کو کیوں دھکے کھانے کے لیے بھیج دیا ہے...

مریم نے آنسو اپنے اندر اتارے

سر میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اسی لیے مجھے جاب کی ضرورت پیش آئ...

تو آپ کے گھر والے کوئ تو ہو گا ماں باپ بھائ...

جن رشتوں کا وہ قتل کر کے آئ تھی اب کیسے ان کے در پر چلی جاتی...

کوئ بھی نہیں ہے... ضبط کے باوجود دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے...

سوری بیٹا آپ روئیں مت اور سمجھیں آپ کو جاب مل گئ..ٹیشو مریم کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولے...

سیرئیسلی سر... مریم کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا...

جی کل سے آپ جوائن کر سکتی ہیں..

تھینک یو سو مچ سر میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی...

ارے نہیں تھینکس کی کوئ بات نہیں میں جانتا ہوں اس بڑے شہر میں انسان کم اور درندے زیادہ ہیں اسی لیے میں نہیں چاہتا آپ غلط ہاتھوں میں پڑ جائیں لیکن آپ کو دل لگا کر کام کرنا ہو گا ورنہ....

نہیں نہیں میں بہت اچھے سے سارا کام کروں گی جیسے آپ بولیں گے... مریم فٹ سے بولی

آفس سے نکلتے ہی وہ آسمان کو دیکھتے ہوۓ شکر ادا کرنے لگی آنسو لڑی کی صورت میں بہنا شروع ہو گۓ جو وہ کافی دیر سے روک رہی تھی...

تھینک یو اللہ پاک اگر آج مجھے یہ جاب نہ ملتی تو پتہ نہیں کیا ہوتا...

وہ چلتی چلتی سمندر پر آ گئ...

صحیح کہتے ہیں ماں باپ کو دکھ دے کر اولاد کبھی خوش نہیں رہ سکتی

اور میں تو انہیں جیتے جی مار آئ تھی پھر کیسے توقع کر رہی تھی کہ میری زندگی پھولوں کی سیج ہو گی جب کہ حقیقت میں تو زندگی کانٹوں کی سیج ہے جہاں بار بار آپ کے پاؤں زخمی ہوتے ہیں لیکن آپ رک نہیں سکتے چلتے رہنا ہوتا ہے چاہے آپ کی رضامندی ہو چاہے نہ ہو...

مریم نے کرب سے آنکھیں میچ لیں کوئ ایک تکلیف ہو تو جس پر ماتم کرے اسے کے پاس تو دکھوں کے انبار لگے تھے کیا سوچا تھا اس نے اور زندگی نے کیا رنگ دکھاےُ تھی کہ وہ خود بھی ششدہ رہ گئ زندگی کی حقیقت تلخ نہیں بہت تلخ ہوتی ہے جو انسان اسے جان لیتا ہے پھر وہ جینا نہیں چاہتا مریم بھی مرنا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی نہیں کر سکتی تھی ایسا...

ایک دکھ کو کم کرتی تو دوسرا زور پکڑ لیتا اس نے تو سب کچھ ہی کھو دیا تھا ہر رشتہ ہر محبت آج وہ خالی ہاتھ کھڑی تھی زندگی کے ہاتھ نہیں ہوتے لیکن بعض اوقات ایسے تھپڑ لگاتی ہے کہ ساری عمر اس کا نشان باقی رہتا ہے..

جب یہاں بھی اندر کا اضطراب جوں کا توں برقرار رہا تو واپسی کے لیے قدم بڑھانے لگی..

*********

شایان کی آنکھ کھلی تو کمرے میں خود کو اکیلا پایا مطلب نور ابھی تک نہیں آئ...

وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھا گلاسز لگاےُ اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا...

مام کے کمرے میں جاؤ یا پھر نیچے... وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگا

اگر مام کے ساتھ ہوتی تو یقیناً مام نے اسے بھیج دینا تھا روم میں پہلے گارڈن میں چیک کرتا ہوں...

سوچتے ہوۓ شایان بنا چاپ پیدا کیے زینے اترنے لگا...

گھر کی لائٹس آف تھی کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی روشنی جل رہی تھی شایان موبائل کی ٹارچ آن کر کے چلنے لگا...

جب پچھلے گارڈن میں پہنچا تو حیران رہ گیا نور گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھی...

نور... شایان اسے آواز دیتا اس کی جانب بڑھا.. لیکن نور نے کوئ حرکت نہ کی... شایان نے اس کا سر اٹھایا تو وہ اس کی بازو میں جھول گئ... شٹ اتنی سردی میں یہ کب سے یہیں بیٹھی ہے...

نور دیوار سے سہارے لیے بیٹھی تھی اسی لیے جیسے شایان نے اسے ہلایا وہ اس پر آ گئ...

نور کا جسم برف کی مانند سرد پڑ چکا تھا... شایان نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور کمرے کی جانب چلنے لگا...

اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے.. شایان نے نور کو بیڈ پر لٹایا اور اس کا منہ تھپتھپانے لگا...

نور اٹھو نور...

لیکن وہ بے حس و حرکت لیٹی رہی...

شایان اس کے ہاتھ مسلنے لگا کمرے میں ہیٹر بھی چلا دیا لیکن وہ ہوش میں نہ آئ...

شایان نے اپنے ایک دوست کو فون کیا جو کہ ڈاکڑ ہے

پلیز یار جلدی آ جا گھر ابھی میری وائف ٹھیک نہیں...

اووکے جلدی کرنا...

شایان عجلت میں فون کرتا دوبارہ اس کے سرہانے بیٹھ گیا...

نور کا چہرہ,ہونٹ,ناخن نیلے پڑ چکے تھے...شایان فکر مندی سے اسے دیکھنے لگا...

مام... شایان کے دماغ میں جھماکا ہوا

لیکن نور کو تنہا چھوڑ جاؤ؟؟ وہ پر سوچ انداز میں نور کو دیکھتے ہوۓ بولا

دو منٹ لگے گے... شایان اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کرتا باہر نکل گیا...

اگلے پانچ منٹ میں ماما بھی اس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں....

نور میری بچی آنکھیں کھولو..

لیکن نور پر تو شاید کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا.....

پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی اس نے کوئ حرکت نہ کی...

ایک طرف ماما اور دوسری طرف شایان نور کے ہاتھ تھام کر بیٹھ گۓ اور مسلنے لگے...

شایان تم نے کیا حال کر دیا ہے اس بچی کا...

خالہ آنسوؤں کو روکتی ہوئیں بولیں

مام مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ گارڈن میں بیٹھی ہے ان فیکٹ میں تو اسی کا انتظار کر رہا تھا...

بس کر دو شایان آج جو تم نے کیا وہی بہت تھا...

شایان نے ندامت سے سر جھکا لیا...

عین اسی وقت شایان کا فون رنگ کرنے لگا... ہاں بول؟؟؟

پہنچ گیا ہے میں آتا ہوں نیچے بس دو منٹ...

ماما نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو بیڈ سے اٹھ رہا تھا...

ڈاکڑ کو بلایا نور کو چیک کرنے کے لیے...

کہتے ساتھ ہی وہ کمرے سے نکل گیا...

شایان ڈاکڑ کے ہمراہ کمرے میں واپس آیا اور وہ نور کو چیک کرنے لگا...

کچھ دیر میں نور کو ہوش آ گیا لیکن نقاہت کے باعث اس کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں

ڈرنے کی بات نہیں سردی لگ گئ ہے انہیں خیال رکھیں ان کا... کچھ ویکنیس ہے میں میڈیسنس بتا دیتا ہوں کچھ روز دیں انشاءاللہ ٹھیک ہو جائیں گیں...

خالہ نور کو کھانا کھلانے بیٹھ گئیں اور شایان ڈاکڑ کو چھوڑنے چلا گیا...

نور کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی شایان ریلنگ پر ہاتھ رکھے کھڑا ہو گیا...

شایان کیا ہوا اتنی رات کو یہ سب کیا ہے؟؟

مِیرا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئ بولی

کچھ نہیں نور کی طبیعت بگڑ گئ تھی... شایان اس کا ہاتھ ہٹاتا سپاٹ سا چہرہ لیے بولا...

شایان کے ہاتھ ہٹانے پر مِیرا کلس کر رہ گئ...

وہ شایان کو نور کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر لاتے ہوۓ بھی دیکھ چکی تھی جب وہ مہرین کے کمرے سے نکل رہی تھی... مِیرا جل بھن کر اپنے کمرے میں چلی گئ...

دروازہ بند ہونے کی آواز پر شایان نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو مام کھڑی تھیں...

کیسی ہے وہ اب؟؟

ٹھیک ہے اب میں نے کھانا کھلا کر سلا دیا ہے.. وہ خفا خفا سی بولی. 

شایان مجھے تم سے بات کرنی ہے... وہ کہتی ہوئیں اپنی کمرے کی جانب چلنے لگیں...

ابھی؟؟؟ شایان کو حیرت ہوئ

جی ابھی تشریف لائیں گے آپ یا مِیرا کی اجازت چائیے اس کے لیے بھی... شایان شرمندہ ہوتا ان کے پیچھے چل دیا....

شایان آج تمہاری اس حرکت نے جتنی تکلیف دی ہے نہ الفاظ نہیں ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے...

مام میں جانتا ہوں...

کیا جانتے ہو تم نور کو سب کے سامنے ذلیل کرنا بس یہی آتا ہے نہ تمہیں تم جو کچھ کرتے آےُ ہم سب خاموش رہے ہم تمہاری کسی بھی حرکت سے انجان نہیں تھے لیکن یہی سوچا کہ تھوڑا وقت لگے گا سمجھ جاؤ گے لیکن آج تو تم نے ہر حد ہی پار کر دی تمہیں کیا لگتا ہے اس کے ماں باپ اتنے لاچار ہیں کہ یوں اپنی بیٹی پر ظلم برداشت کریں گے انہیں اگر علم ہوتا وہ تو پہلے دن ہی لے جاتے اسے... شایان کا سر جھکا ہوا تھا...

ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ نور سے محبت کرو لیکن اس کی قدر اور عزت تو کرو جس کی وہ حقدار ہے جب اس کا شوہر ہی اس کی عزت نہیں کرے گا تو باقی دنیا کیا سلوک کرے گی اس کے ساتھ تمہیں معلوم ہے شایان کہ عورت چاہتی ہے کہ اسے محبت ملے یا نہ ملے لیکن عزت ضرور ملے اور جو مرد عزت نہیں سے سکتا نہ وہ کبھی محبت بھی نہیں دے سکتا کتنے ماہ ہو گۓ ہیں تمہاری شادی کو اس نے تمہاری ہر بات مانی کسی تکلیف پر اف تک نہیں کی اور تم اس کے بدلے میں کیا دے رہو ہو اسے یہ سب... بولتے بولتے ان کا سانس پھول گیا...

شایان نے گلاس ان کی جانب بڑھایا لیکن انہوں نے ہاتھ سے پرے کر دیا...

اور ایک بات اپنے دماغ میں فکس کر لو اگر تم نے نور کو طلاق دی تو تمہارے لیے اس گھر کے اور ہمارے دل کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے بعد میں مت کہنا کہ مجھے کسی نے بتایا نہیں اب تم جا سکتے ہو... وہ منہ موڑتی ہوئیں بولیں کہ اب مزید بات نہیں کرنا چاہتیں...

شایان خاموشی سے باہر نکل گیا اور اپنے کمرے میں آ گیا...

نور دنیا و مافیا سے بےخبر سو رہی تھی... شایان اس کے سرہانے بیٹھ گیا...

ایک ہی دن میں وہ کمزور لگنے لگی تھی مام صحیح کہ رہیں تھیں تم میری ہر پکار پر لبیک کہتی رہی اور میں اپنا حق سمجھ کر تمہیں بےعزت کرتا رہا کبھی سب کے سامنے تو کبھی بند کمرے میں اور تم چپ چاپ سہتی رہی کیوں نور؟؟؟ شایان آہستہ آواز میں بول رہا تھا جو بامشکل اسے خود کو سنائ دے رہی تھی..

نور کی روشن پیشانی پر آےُ بالوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے پیچھے کیا... اس ہلکی سی روشنی میں بھی نور کا صبیح چہرہ صاف نظر آ رہا تھا جو اس وقت مرجھایا ہوا تھا... شایان گلاسز اتار کر سائیڈ پر رکھتے ہوۓ بیڈ کے دوسری جانب آ کر لیٹ گیا جتنا وہ نور کے بارے میں سوچتا اتنا ہی الجھ جاتا...شایان بازو پر سر رکھے چھت کو گھورنے لگا اور کب نیند اس پر مہربان ہوئ اسے خود بھی معلوم نہ ہوا.

صبح شایان کی آنکھ کھلی تو نور کو اپنے پہلو میں پایا

شایان نے چہرہ نور کی جانب موڑ کر اسے دیکھا تو نور کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ تھی شایان دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا اسی وقت دروازہ ناک ہوا تو شایان کا تسلسل ٹوٹا..

شایان نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے آفاق کھڑا تھا... نور کی طبیعت کیسی ہے؟؟ آفاق کے بولنے پر نور کی نیند ٹوٹ گئ... شایان نے چہرہ موڑ کر نور کو دیکھا جو اب بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکی تھی...

خود ہی پوچھ لو...شایان اسے راستہ دیتا پیچھے ہوا...

نور کیا ہوا آپ کو؟؟ آفاق پریشانی سے بولا

کچھ بھی نہیں ہوا تم فکر مت کرو آج میچ کا بولا تھا تو ہو گا....

لیں آپ کو میچ کی ٹینشن ہے؟؟؟

بلکل کیونکہ پھر تم سے بھاری بھرکم ٹریٹ بھی تو وصولنی ہے نہ...

خود کو زرا آئینے میں دیکھیں ایک بار چیونٹی مارنے کی حالت نہیں ہے اور گیند ماریں گیں... آفاق اس کا مذاق بناتے ہوۓ بولا...

نور نے کشن اس کے مارا

دیکھ لینا میں ہی جیتوں گی...

اچھااااا وہ اچھا کو لمبا کرتا کمرے سے باہر نکل گیا...

نور سر جھکا کر بیٹھ گئ...

نور میں مِیرا کو آج یہاں سے بھیج رہا ہوں... شایان نے بات کا آغاز کیا

میں نے آپ پر زبردستی تو نہیں کی تھی یہ تو آپ پر ہی منحصر کرتا ہے کہ آپ کو کیا ٹھیک لگتا ہے اور آپ کیا کرتیں ہیں...

نور اسے دیکھنے سے اجتناب برت رہی تھی...

شایان خاموش ہو گیا

وہ نور کو سوری کرنا چاہتا تھا لیکن ایسے نہیں جتنی اسے تکلیف ہوئ تھی ایک چھوٹا سا سوری اس کا مداوا نہیں کر سکتا وہ سوچتا ہوا فریش ہونے چلا گیا...

*********

پاپا کیا میں اپنی دوست کے گھر جا سکتی ہوں؟؟ ایمان امید بھری نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئ بولی

بیٹا آپ ایسا کریں اپنی فرینڈز کو یہاں بلا لیں.. وہ نرمی سے بولے

جی ٹھیک... ایمان کہتی ہوئ کھڑی ہو گئ جواب توقع کے عین مطابق آیا تھا

مریم تم بھاڑ میں جاؤ کبھی خوش نہ رہنا ہماری زندگی عذاب بنا کر خود مزے کر رہی ہو تمہاری وجہ سے مجھ پر پابندیاں لگائ جا رہی ہیں نہ کہیں جا سکتے ہیں بس گھر میں قید ہو کر رہ گۓ ہیں کسی کے کیے کی سزا مل کسی اور کو رہی ہے...ایمان مریم کو کوستی ہوئ اپنے کمرے میں آ گئ...

*********

تین ماہ قبل:

مریم بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی تھی جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئ وہ کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئ اور سامنے نظر آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کے دل کو سکون ملا.....

مریم بھاگ کر اس کے سینے سے لگ گئ...

حسن تمہیں معلوم ہے صبح سے میں کتنی بار مر چکی ہوں...

آئم رئیلی سوری جان ہماری فیملی میں ڈیتھ ہو گئ تھی جس کے باعث مجھے آنے میں تاخیر ہو گئ میں تمہیں اطلاع دینا چاہتا تھا لیکن شاید سگنل کے مسئلے کی وجہ سے بات نہیں ہو سکی... حسن اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوےُ آہستہ آہستہ بول رہا تھا اور مریم کے بے چین دل کو قرار مل رہا تھا..

اب کبھی مت جانا مجھے چھوڑ کر... مریم منہ بناتی ہوئ بولی

کبھی بھی نہیں... حسن نے کہتے ہوۓ مریم کے بالوں پر بوسہ دیا

اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر لے آیا

تمہیں معلوم ہے مریم صبح سے میری آنکھیں اس چہرے کو دیکھنے کے لیے ترس رہیں تھیں مجھے لگ رہا تھا کوئ منظر دکھائ نہیں دے رہا مجھے یہ آنکھیں صرف تمہیں ہی دیکھنے کی خواہاں تھیں اور اب میں اطمینان سے تمہارا دیدار کر سکتا ہوں... مریم سر جھکاےُ مسکرانے لگی...

حسن بے اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا مریم نے سر اس کے کندھے پر رکھ کر خود کو اس کے سپرد کر دیا....

*********

مِیرا تمہارے لیے میں نے ایک الگ گھر کا بندوبست کر دیا ہے آج تم وہاں شفٹ ہو جاؤ گی.. شایان نے ناشتہ کرتے ہوۓ مِیرا کو مطلع کیا...

واٹ؟؟؟ مِیرا کو حیرت کا جھٹکا لگا

لیکن یہاں کیا مسئلہ ہے شایان میں کمفرٹیبل ہوں یہاں... مِیرا کو اپنے باقی کے پلانز پر پانی پھرتا ہوا دکھائ دیا

تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں یہ پاکستان ہے اور یہاں اس چیز کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اسی لیے میں نے تمہارے لیے الگ گھر کا انتظام کر دیا ہے...

لیکن شایان...

مِیرا نو مور آگیو ناؤ اٹس فائنل... شایان اس کی بات کاٹتے ہوۓ ہاتھ اٹھا کر بولا

تم اپنا سامان پیک کر کے لے آؤ میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا..

مِیرا منہ بناتی سامان لینے چلی گئ...

کچھ ہی دیر میں وہ اپنے بیگ لیے لاؤنج میں موجود تھی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے...

وہ دونوں باہر کی جانب قدم بڑھا رہے تھے جب شایان مڑا

اور ملازم کو مخاطب کیا...

مام کو یاد کروا دینا کہ نور کو ناشتہ خود کروائیں اور میڈیسنس بھی...

ٹھیک ہے سر... وہ تابعداری سے سر کو خم دیتے ہوۓ بولا..

مِیرا نور کے نام پر جل گئ چہرے پر ناگواریت کے آثار نمایاں تھے آفاق اوپر کھڑا مسکرانے لگا اسے دیکھ کر سو فائنلی نور آپ نے اب چڑیل کو باہر نکال ہی پھینکا گریٹ... وہ مسکراتے ہوۓ داد دینے لگا...

*********

آفاق جانتا تھا کہ میرا کی رہائش کہاں ہے سو اس نے گاڑی اسی راستے پر ڈال دی...

گھر پہنچ کر بیل دی تو چند منٹوں میں ملازمہ نے آ کر دروازہ کھول دیا اور آفاق اندر چل دیا...

زرا اپنی میڈم کو بلاؤ... آفاق نے ملازمہ کو مخاطب کیا

وہ سر ہلاتی چلی گئ اور جب واپس آئ تو مِیرا اس کے ہمراہ تھی..

مِیرا چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ چلتی آ رہی تھی آفاق کو بیٹھنے کا اشارہ کیا

میں ایسے ہی ٹھیک ہوں بس کچھ بات کرنے آیا تھا..

ہاں بولو کیا بوت کرنی ہے

تم جانتی ہوں کہ تمہیں اس گھر میں کیوں منتقل کیا گیا ہے؟؟

ہاں شایان نے بتایا تھا کہ وہاں میرا رہنا مناسب نہیں...

لیکن یہ نہیں جانتی کہ کس کے کہنے پر تمہیں یہاں بھیجا گیا..

کیا مطلب؟؟ مِیرا الجھی

مطلب یہ کہ نور نے کہا تھا ایسا کرنے کو اور شایان بھائ نے ان کی بات مان کر تمہیں اس گھر سے اس گھر میں بھیج دیا...

جھوٹ بول رہے ہو تم....وہ ماتھے پر بل ڈالتی ہوئ بولی

مجھے کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی

مِیرا نفی میں سر ہلانے لگی..

مِیرا یہ بات تم جتنی جلدی سمجھ لو گی تمہارے لیے بہتر ہے کہ نور اس گھر سے اور بھائ کی زندگی سے کبھی نہیں جاےُ گی اگر کوئ جاےُ گی تو وہ تم ہو سو بہتر ہے کہ تم پہلے ہی چلی جاؤ بعد میں بےعزت ہو کر جانے سے... آفاق نارمل سے انداز میں بول رہا تھا

لیکن مِیرا کو اس کی باتیں طیش دلا رہیں تھیں

میں یہاں تمہیں یہی کہنے آیا ہوں کہ دؤبئی واپس چلی جاؤ اپنی زندگی کسی اور کے ساتھ سیٹ کرو... کہ کر آفاق رکا نہیں مسکراتا ہوا مڑ گیا

تم خود بھی تو ایک ناکام عاشق ہو مجھے کیا کہو گے اپنا حال تو دیکھو پہلے... آفاق کے قدم تھم گۓ وہیں..

خود کو زرا ایک بار دیکھو تو تمہیں بھی پتہ چلے...

کیا پتہ چلے؟؟ آفاق اس کی جانب مڑتے ہوۓ بولا

کہ کتنی تکلیف ہوتی ہے جب کی آپ کی جگہ کسی اور کو دے دی جاےُ جب آپ کو ٹھکرا دیا جاےُ کیا گزرتی ہے دل پر تم سے بہتر تو کوئ نہیں سمجھ سکتا نہ...

میرا مسئلہ میرا ہے تمہارا نہیں... آفاق کو اچھا نہیں لگا..

کیا نام تھا اس کا ہاں مریم دیکھنے میں تو معصوم سی لگتی ہے لیکن کارنامہ تو بہت بڑا سر انجام دیا ویسے یہ بتاؤ تمہیں کوئ خبر ہے اس کی اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے وہ...

آفاق وہیں سے الٹے پاؤں واپس مڑ گیا...

مِیرا تلخی سے مسکرانے لگی

اب تمہیں پتہ چلے گا جب کوئ آ کر زخم کو کریدتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے اور شایان تمہیں تو میں کبھی معاف نہیں کروں گی اس نور کے کہنے پر مجھے وہاں سے نکالا تاکہ تمہارے پرائیویسی خراب نہ ہو...مِیرا بل کھاتی ہوئ کمرے میں چلی گئ...

*********

آفاق,مجیب, نور, ایمان, فاطمہ, مہرین, سمرین سب میچ کھیلنے میں مصروف تھے جب شایان نے گھر میں قدم رکھا

وہ لوگ گارڈن میں خوب ہل غلا کر رہے تھے

نادیہ اور چاچی بھی کرسی سنبھالے فیصلے کر رہیں تھیں...

شایان کی نظر نور پر پڑی تو اس کے قدم وہیں تھم گۓ...

کیپری کے ساتھ گھٹنوں تک آتی شارٹ شرٹ پہنے, بال جوڑے میں قید کر کے کیپ پہن رکھی تھی وہ بیٹ پکڑے کھڑی تھی اور آفاق گیند ہاتھ میں لیے کھڑا اسے گھور رہا تھا

شایان دلچسپی سے دیکھتا سائیڈ پر بیٹھ گیا

سب لوگ کھیل میں مگن تھے کہ کسی کو بھی اس کی آمد کی خبر نہ ہوئ

آفاق نے گیند ڈالا

نور نے ہٹ کیا جو سیدھا آفاق کے ہاتھ میں گیا لیکن وہ نیچے گر گیا اب معلوم نہیں گیند زمیں پر لگا یا نہیں....

آؤٹ آؤٹ کا شور ہونے لگا

نور منہ بناتی آگے آئ

کوئ آؤٹ نہیں ہوا گیند نیچے لگی ہے

آفاق بھی اس کے مقابل آ گیا

جی نہیں زمین کو ٹچ بھی نہیں ہوئ

تم جھوٹ بول رہے ہو میں نے دیکھا ہے

یار کوئ بیٹ لو نور سے... آفاق اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ بولا

نور نے اپنی گرفت مضبوط کر لی آفاق چیٹر سوچنا بھی مت

یار مام یہ تو بے ایمانی کے رہیں ہیں...

جی نہیں خالہ آپ بتائیں میں آؤٹ نہیں ہوئ تو پھر کیوں نہ کھیلوں

یار بیٹ لو... آفاق اپنی بات پر قائم رہا

میں تو نہیں دے رہی... نور بھی اڑ گئ

سب ہنس رہے تھے شایان سمیت

پندرہ سے بیس منٹ دونوں بحث کرتے رہے...

نور ہنس رہی تھی آفاق بھی...

شایان کو جیلیسی ہونے لگی

وہ کھڑا ہوا اور نور کو آواز دی

جی؟؟؟ نور بیٹ چھوڑتی اس کی جانب متوجہ ہوئ

بس کھیل یہی ختم کرو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں روم میں چلو...

شایان نے کہتے ہوۓ قدم اندر کی جانب بڑھا دئیے

نور منہ بناتی اس کے پیچھے چل دی....

*********

آج مریم کی جاب کا پہلا دن تھا وہ خوشی خوشی تیار ہو کر نکلی...

وہ باس کے آفس کے باہر بیٹھی تھی اور اس کا کام اپوائنمینٹس کا دھیان رکھنا اور میٹینگ کی ڈیٹیل دینا شامل تھا...

وہاں کا سٹاف بھی اچھا تھا مریم کو بس ایمانداری سے کام کرنا تھا تاکہ انہیں کوئ شکایت نہ ملے...

آپ کون ہیں؟؟؟

ایک ہینڈسم سا نوجوان اس سے پوچھنے لگا...

جی میں سر کی سیکٹری ہوں... مریم کھڑی ہو کر بولی

پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تمہیں سچ بتاؤ

حد ہے میں جھوٹ کیوں بولوں گی...مریم منہ بناتی ہوئ بولی۔ 

میں پہلے کانفرم کرتا ہوں پھر یہاں پر بیٹھنا..

مطلب یہاں پر کوئ یونہی آ کر بیٹھ سکتا ہے کیا عجیب شخص ہیں آپ...

وہ مسکراتا ہوا اندر چلا گیا...

مریم وہیں کھڑی رہی کچھ دیر بعد وہ باہر نکلا اور بولا

جی آپ بیٹھ سکتی ہیں میں نے ڈیڈ سے پوچھ لیا ہے...

ڈیڈ کہنے پر مریم کی آنکھیں بڑی ہو گئیں...

سوری سر مجھے نہیں پتہ تھا... مریم فوراً معذرت کرنے لگی کہیں باہر نہ نکال دے...

کوئ بات نہیں لیکن آگے سے خیال رکھیں.. مسکرا کر کہتے ہوۓ چلا گیا...

مریم شکر کرنے لگی

********

نور کے لیے آفاق خود پر ضبط کیے ہوےُ تھا ورنہ مریم کے نام پر آفاق پھر سے منتشر ہو گیا تھا وہ جو خود کو جوڑ کر بیٹھا تھا آج پھر سے بکھر گیا

کھیل ختم ہوتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو گیا لائٹس اس نے آف کر دیں اور لائٹر پکڑ کر بیٹھ گیا کبھی چلاتا تو کبھی بند کرتا اندھیرے میں اچانک سے سرخ روشنی ابھری اس کے چہرے کو روشن کرتی اور پھر بجھ جاتی

آج جی چاہتا ہے میں بےاختیار ہنستا جاؤں اور وہ میرے سامنے بے بسی کی حالت میں روتی رہے مجھ سے معافیاں بھی مانگے پر میں اس کو معاف نہ کرو مریم تم نے جو میرے ساتھ کیا میں چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتا لیکن افسوس تو اس بات کا ہے میں تمہیں بھی نہیں بھلا سکتا

جتنا تمہیں بھولتا ہوں تم اتنی یاد آتی ہوں کیسے مان لو جسے بیوی بنانے کا خواب دیکھا تھا جس کے سنگ ساری زندگی کی خوشیاں جوڑی تھیں وہی مجھے تنہا چھوڑ کر چلی گئ میں نے تمہیں اپنے دل میں دفن کر لیا تھا لیکن مِیرا نے اچھا نہیں کیا وہ لائٹر آن کیے آگ کو دیکھنے لگا اس کا دل بھی یونہی جل رہا تھا جانے والے تو چلے جاتے ہیں یہ سوچے بنا کہ ان کے بغیر ہم کیا کریں گے...

تمہاری یادوں نے مجھے جلا کر خاکستر کر دیا ہے لیکن کہتے ہیں نہ راکھ میں بھی کہیں چنگاری دبی ہوتی ہے وہی چنگاری مجھے بار بار جلاتی ہے

یہ عشق کی آگ بہت ظالم ہے دیکھو کیسے مجھے تڑپاتی ہے

آفاق نے لائٹر پھینک دیا اب کمرے میں صرف اس کی سسکیاں سنائ دے رہیں تھیں...

*********

نور بلکل خاموش ہو گئ تھی شایان سے بھی کوئ بات نہ کرتی بس چپ چاپ اپنے کام میں مصروف رہتی شایان اس بدلاؤ کو محسوس کر رہا تھا پھر وہ مِیرا کی وجہ سے بھی پریشان تھا جو اسے بنا بتاےُ دوبئی چلی گئ تھی...

نور میری گلاسز تو صاف کر دو... شایان نے ہاتھ میں پکڑی گلاسز اس کی جانب کرتے ہوۓ کہا نور نے اس کے ہاتھ سے لے لیں اور ٹیشو سے صاف کرنے لگی...

نور کو اس کی گلاسز بہت پسند تھی اور جب شایان لگاتا تھا تو اور بھی زیادہ اچھی لگتیں اس پر بہت ججتی تھیں...

شایان آپ چینج نہیں کرتے انہیں؟؟ نور اسے دیتی ہوئ پوچھ بیٹھی...

نہیں... شایان نے مختصر سا جواب دیا

کیوں... بے اختیار نور کے منہ سے نکل گیا

وہ ڈرتی ہوئ شایان کو دیکھنے لگی کہیں غصے میں آ کر ڈانٹنے نہ لگ جاےُ...

کیونکہ مجھے چینج پسند نہیں میں جیسا ہوں ویسا ہی رہتا ہوں خود کو بدلتا نہیں ہوں... شایان مسکراتے ہوۓ بول رہا تھا

نور ٹھیک کہتی باہر نکل گئ...

مِیرا نے کال اٹینڈ کر ہی لی وہ ویڈیو کال پر تھی اور شایان کی آنکھیں پھیل گئیں سامنے کا منظر دیکھ کر

مِیرا انتہائ گھٹیا لباس میں بیچ پر تھی اور صرف یہی نہیں وہ کسی اور کے حصار میں کھڑی تھی اس انسان کو شایان اچھے سے جانتا تھا...

مِیرا یو بلڈی.... شایان ضبط کرتے ہوۓ خاموش ہو گیا

ریلیکس بے بی جب تم نور کے ساتھ رہتے تھے میں نے کچھ نہیں کہا تو پھر اب جب کہ میرا تم سے کوئ لنک نہیں کیسے مجھے کچھ بھی کہ سکتے ہو؟؟

مِیرا تم اتنی گھٹیا ہو گی مجھے معلوم نہیں تھا اگر پہلے جان جاتا تو تمہیں ٹھوکر مار کر پھینکتا... شایان کا بس نہیں چل رہا تھا اسکرین سے مِیرا کو باہر نکال لے

ہاں تمہاری وجہ سے مجھے پینٹ شرٹ پر اکتفا کرنا پڑتا تھا کیونکہ تم ٹھرے مشرقی مرد چھوٹی سوچ کے مالک سمی نے مجھ پر کوئ پابندی نہیں لگائ

میں جیسے چاہوں رہ سکتی ہوں آزادی سے... مِیرا مسکراتی ہوئ بول رہی تھی... شایان کو شرم آ رہی تھی اسے اس طرح دیکھتے ہوۓ وہ اس کی جانب دیکھنے سے گریز برت رہا تھا

اور تم سمی تمہیں تو موقع مل گیا میری چیز لینے کا بہت شوق ہے نہ میری اترن لینے کا تو ایسا کرو میرے کپڑے بھی تم ہی رکھ لو جو چیز میں یوز نہیں کرتا اب سب لے لو...

شایان کے اترن کہنے پر مِیرا اور سمی دونوں کو لگ گئ...

تم کچھ بھی کہو اب یہ تو میری ہوئ... سمی مِیرا کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اسے اپنے قریب کرتے ہوۓ بولا...

تم دونوں جیسے گھٹیا انسان ایک دوسرے کے ساتھ ہی اچھے لگ سکتے ہو اینڈ یو نو واٹ مِیرا تمہاری اوقات ہی نہیں تھی میری بیوی بننے کی دیٹس واےُ یو آر دئیر ناٹ ہئیر...

کہ کر شایان نے کال بند کر دی اور بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا...

شایان نفی میں سر ہلا رہا تھا اسے اپنی سماعت اور بینائ پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ اس نے ابھی دیکھا وہ سچ نہیں ہو سکتا..

شایان کی آنکھوں سے آنسو نکلا جسے آنسوؤں سے نفرت تھی آج اس کی آنکھیں بھی برس پڑیں...

شایان نے مٹھیاں بھینچ رکھیں تھیں...

وہ بے بس تھا اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا کیسے اتنا سب ہو گیا اور وہ بے خبر رہا...

نو مِیرا... شایان زور سے بولا

پلیز کم بیک میں نہیں دیکھ سکتا تمہیں کسی اور ساتھ نو....

شایان نے بےدردی سے آنسو صاف کیے اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا....

*********

مریم آج پھر سے سمندر پر آ گئ جب اندر کی بے چینی حد سے بڑھ جاتی تو وہ یہاں آ جاتی وہ پانی میں چلتی جا رہی تھی کتنے لوگ تھے جن کا اس نے دل توڑا تھا جنہیں اذیت پہنچائ تھی تو آج وہ خود بھی اذیت میں تھی ایک پل سکون کا میسر نہیں تھا اسے

مریم مرنا چاہتی تھی لیکن موت بھی اس پر مہربان نہ تھی لہریں آتیں اور اسے بھگو کر چلی جاتیں وہ کافی آگے آ گئ تھی مریم کا آدھا جسم پانی میں تھا ایک دم سے اسے خیال آیا اس ننھی جان کا جو ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آئ اس کا کیا قصور ہے جو میں اس کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دو اور اس کی قاتل بن جاؤں.. مریم کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گۓ...

لیکن میں کیا کروں اتنا کچھ کرنے کے بعد مجھ میں ہمت نہیں کہ مزید زندہ رہ سکوں مجھے یہ زندگی کسی سزا کی مانند لگتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی ایک نہ ختم ہونے والے سفر کی مانند جس میں آپ کے پاؤں بھی تھک جائیں تو آپ رک نہیں سکتے لیکن اس سفر میں تو مریم کے پاؤں کے ساتھ ساتھ دل بھی تھک چکا تھا...

آفاق شاید مجھے تمہاری بدعا لگی ہے پلیز ایک بدعا میری موت کی بھی کر دو آج مجھے اندازہ ہو رہا ہے تمہاری محبت کیا تھی جسے میں سمجھ نہ سکی... وہ واپس آ کر کنارے پر بیٹھ گئ جہاں لہریں صرف اس کے پاؤں کو چھو کر واپس چلی جاتیں...

اس کا دل بھی اس سمندر کی طرح خاموش تھا جس میں لہریں ارتعاش پیدا کرتیں اور جب یہ لہریں اٹھیں تو پھر تباہی مچاتیں اور مریم کے اندر یہ تباہی آےُ دن آتی...

رات اتر رہی تھی سورج کب کا اپنی منزل کو پہنچ کر غروب ہو چکا تھا اسے بھی واپس جانا تھا کیونکہ یہاں کے حالات ایسے تھے کہ وہ تن و تنہا نہیں رہ سکتی تھی

*********

رات میں نور عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی جب شایان مضطرب سا کمرے میں آیا..

وہ بکھرا بکھرا سا لگ رہا تھا رف سا حلیہ... نور کو حیرت ہوئ وہ تو ہمیشہ ہر چیز پرفیکٹ رکھنے کا عادی ہے تو پھر آج اس طرح کیوں...

وہ ابھی جاےُ نماز پر ہی بیٹھی تھی جب شایان اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا...

نور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا...

شایان آپ ٹھیک ہیں؟؟؟

نہیں نور میں ٹھیک نہیں ہوں...

کیا ہوا شایان آپ کو؟؟؟ نور کو فکر ہوئ اسے اس طرح دیکھ کر...

نور مجھے معاف کر دو میں نے بہت بار تمہارا دل دکھایا شاید اسی کی سزا مجھے ملی ہے پلیز تم دعا کرو گی تو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی... وہ ویوانہ وار بول رہا تھا آنسو ٹپ ٹپ اس کے گال پر گر رہے تھے...

نور ششدہ سی اس کی یہ حالت دیکھ رہی تھی..

پلیز شایان آپ معافی مت مانگیں نور اس کے ہاتھ نیچے کرتی ہوئ بولی

میں نے کبھی آپ کے لیے برا نہیں چاہا یقین کریں میں جھوٹ نہیں بول رہی...

نور کے دل میں ٹیس سی اٹھ رہی تھی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا شایان کو اس حال میں دیکھے گی...

نور اس نے مجھے چھوڑ دیا... شایان چہرہ جھکاےُ بول رہا تھا

چھوڑ کر چلی گئ کسی اور پاس بس یہی محبت تھی کیا اس کی اتنی سی وفا جب کہ میں تو پھنس چکا تھا تمہارے اور اس کے بیچ میں میری مجبوری تھی لیکن میں نے پھر بھی تمہارے ساتھ اپنا رشتہ آگے نہیں بڑھایا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر بہت خوش ہے اس کے ساتھ....

نور کو وہ ٹوٹا ہوا اچھا نہیں لگ رہا تھا اس وقت اس کا روم روم سامع بنا اسے سن رہا تھا...

شایان اسے سب بتانے لگا کیسے وہ اس کی زندگی میں آئ کتنی محبت وہ دونوں کرتے تھے لیکن اب سب ختم ہو گیا....

وہ اس کے سامنے بیٹھا محبت کی روداد سنا رہا تھا اور وہ توجہ سے اس کا ایک ایک لفظ سن رہی تھی سامع تو وہ تھی لیکن اس داستاں میں وہ نہیں تھی یہ کتنا تکلیف دہ تھا نور ہی جانتی تھی...

نور میں نے ان دو سالوں میں جتنی محبت اس سے کی ہے میں بیان نہیں کر سکتا لیکن مجھے حیرت ہے کوئ انسان اتنی جلدی کیسے بدل سکتا ہے مان لیا کہ اسے مجھ سے محبت نہیں تھی لیکن دوستی تو تھی نہ لیکن اس نے تو ایسے راستہ بدلا جیسے مجھے جانتی ہی نہ ہو نور میری کوئ اہمیت ہی نہیں ہے اس کی نظر میں اب اس کے لیے سب کچھ سمی ہی ہے ورنہ وہ کبھی بھی اس طرح ویڈیو کال پر نہ آتی...شایان آہستہ آہستہ بول رہا تھا آنسو ابھی بھی اس کی کہانی کا ساتھ دے رہے تھے...

پاپا کی ڈیتھ کے بعد آج میں رویا ہوں وہ بھی تمہارے سامنے میں نہیں جانتا میں نے کیوں تم سے شئیر کیا...شایان کا چہرہ ابھی بھی جھکا ہوا تھا اسی لیے وہ نور کے آنسو نہیں دیکھ سکا...

دکھ بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے شایان کے بھی دل کو کافی حد تک سکون مل گیا تھا کیونکہ اس نے صحیح انسان کے سامنے خود کو رکھا تھا

انسان ایک بند کتاب کی مانند ہے اسے سب کے سامنے پیش مت کریں پڑھنے کے لیے صرف اس انسان کے سامنے رکھیں جو آپ کو سمجھ سکے آپ کو ہمت دے سکے نہ کہ ان کے سامنے جو آپ کے پیٹ پیچھے آپ کا مذاق بنائیں...

شایان کے ہاتھ ابھی تک نور کے ہاتھوں میں تھے شایان کے آنسو ہاتھ پر گر رہے تھے جو نور کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے.شایان وہیں اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور بولا

نور تم دعا کرو گی نہ میرے لیے اللہ پاک مِیرا کو مجھے واپس دے دیں نور میں اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا میرے لیے وہ ناگزیر ہے پلیز تم مانگوں گی نہ میرے لیے دعا؟؟شایان بچوں کی طرح بول رہا تھا

نور نے اثبات میں سر ہلا دیا...

کچھ ہی پل گزرے ہوں گے کہ شایان ہوش سے بیگانہ نیند کی وادی میں اتر گیا...

نور شایان کے چہرے کو دیکھنے لگی جہاں دکھ کے آثار نمایاں تھے...

اللہ پاک آپ نے مجھے کتنا حوصلہ دیا ہے اس کا اندازہ تو مجھے آج ہوا ہے میرا دل کٹ رہا تھا جب شایان مجھے سب بتا رہے تھے لیکن مجھے اپنے لیے نہیں شایان کے لیے دعا کرنی ہے کیونکہ انہوں نے مجھ پر بھروسہ کر کے اپنا دکھ بیان کیا اب میں کیسے انہیں ناامید کر دو. لیکن مجھے اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے میں جانتی ہوں کہ شایان مِیرا سے محبت کرتے ہیں See less

سب کچھ جانتے ہوےُ پھر میرا دل کیوں تڑپ رہا ہے اپنی نظروں کے سامنے اپنے شوہر کو روتے دیکھنا وہ بھی کسی اور عورت کے لیے آسان نہیں ہوتا دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن نہیں میں کمزور نہیں پڑوں گی نہ ہی مطلبی بنوں گی میرے لیے شایان آپ کی خوشی میری خوشی سے زیادہ عزیز ہے میں خود جاؤں گی مِیرا کے پاس بھیک بھی مانگنی پڑی تو مانگوں گی لیکن آپ کو اس حال میں نہیں رہنے دوں گی...

شایان کے بال اس کی چوڑی پیشانی پر منتشر تھے نور کے دل نے چھوٹی سی خواہش ظاہر کی کہ وہ اس کے نرم و ملائم بالوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کرے...

نور نے ہاتھ بڑھایا اور شایان کی پیشانی سے بال ہٹا دئیے...

نور مسکرانے لگی...

وہ سو نہیں سکتی تھی کیونکہ شایان پر سکون سا سو رہا تھا اگر وہ یہاں سے اٹھتی تو شایان جاگ جاتا...

پوری رات نور اس کے چہرے کو تکتی رہی...

*********

ماما مریم کے بارے میں میں نے اس دوست کو معلومات اکھٹی کرنے کو بولا تھا...

پھر کیا معلوم ہوا مجیب میری بچی ٹھیک ہے نہ؟؟؟

جی ماما وہ ٹھیک ہے لیکن بہت مشکل ہے بڑا شہر ہے اور نا جانے وہ کہاں رہائش پذیر ہے...

اس نے کوشش کی مریم کو ڈھونڈنے کی لیکن مایوسی ہوئ...

ماما کا چہرہ بجھ گیا

پتہ نہیں کس حال میں ہو گی...

آپ بس دعا کیا کریں ماما مجھے جیسے ہی کچھ معلوم ہو گا میں آپ کو اطلاع دے دوں گا میں خود بھی چاہتا ہوں کہ وہ واپس آ جاےُ اگر وہ اس انسان کے ساتھ خوش نہیں ہے تو ورنہ وہ اپنی زندگی جس انداز میں گزار رہی ہے گزارے مجھے کوئ اعتراض نہیں...

میرا بیٹا ماشاءاللہ اتنا سمجھدار ہو گیا ہے.. وہ اس کی پیشانی چومتی ہوئیں بولیں

بس ماما جب سے پاپا نے بہنوں کی ذمہ داری دی ہے نہ تب سے ہر چیز سمجھ آنے لگی ہے...

اللہ تمہیں کامیاب کرے یہ بتاؤ تیاری کیسی ہے ایگزام کی؟؟؟

بہت اچھی ہے آپ کو مایوس نہیں کروں گا.. وہ مسکراتے ہوۓ بولا..

اچھا میں زرا فاطمہ کو دیکھ لوں کافی ٹائم سے لان میں کھیل رہی ہے... کہتی ہوئیں وہ اٹھ گئیں...

*********

شایان کی آنکھ کھلی تو سامنے نور کا چہرہ نظر آیا...

شایان حیرت سے اٹھتا ہوا اسے دیکھنے لگا...

تم سوئ نہیں؟؟؟

نور نے نفی میں سر ہلایا...

او سو سوری نور مجھے پتہ ہی نہیں چلا میں کب سو گیا...

کوئ بات نہیں شایان...

کیسے کوئ بات نہیں... شایان کی آنکھیں پھیل گئیں

تم جگا دیتیں...

آپ اتنے معصوم لگ رہے تھے کہ میرا دل نہیں کیا جگانے کا...

مطلب ویسے میں بدمعاش ہوں؟؟ شایان اسے گھورتے ہوۓ بولا...

نہیں میں نے ایسا کب کہا...

اچھا اب چپ کر کے سو جاؤ... شایان اس کی بازو پکڑتے ہوۓ بیڈ پر لے آیا

پہلے آپ کو ناشتہ دے دوں پھر سو جاؤں گی... خبردار اگر تم نے پاؤں نیچے رکھا تو... شایان غصے سے بولا

نور وہیں ٹھر گئ...

ناشتہ کوئ بھی بنا دے گا تم آرام کرو اب... شایان پردے آگے کرتے ہوۓ بولا...

نور پیار بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی جس کی پشت نور کی جانب تھی...

شایان رات کی نسبت قدرے سنبھل چکا تھا..

کچھ چائیے تمہیں؟؟ نور کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوۓ پوچھنے لگا...

نہیں کہ کر نور نے آنکھیں بند کر لیں...

آنسو دینے سے زیادہ آنسو صاف کرنے والا دل کے قریب ہوتا ہے

*********

ماما میرا اتنا شاندار رزلٹ آیا ہے اب اس خوشی میں ہم سب باہر چلیں گے... ایمان خوشی سے نحال ہوتی بولنے لگی...

بیٹا آپ جانتی ہیں نہ آپ کے پاپا گھر سے نکلنے سے منع کرتے ہیں پھر آپ وہی ضد کیوں کرتی ہیں..

ماما میں روز روز تو نہیں کہتی نہ آج خوشی کا دن ہے اسی لیے سیلیبریٹ کرنا چاہتی ہوں مریم کے جانے کے بعد تو آپ لوگوں نے گھر کو مردہ خانہ بنا لیا ہے کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا گھر میں ایمان آنسو صاف کرتی اپنے کمرے کی جانب چلنے لگی

ایمان میری بات سنو بیٹا... وہ اسے آوازیں دیتی رہیں لیکن وہ سنی ان سنی کرتی چلی گئ...

ماما اگر آپ اس طرح سے کریں گیں تو وہ باغی ہو جاےُ گی آپ لوگوں سے منتفر ہو جاےُ گی کم از کم فیملی کے ساتھ تو انہیں باہر جانے کی اجازت دیں اس طرح سے قید کریں گے تو وہ اڑان بھرنا کا سوچے گی اور ایمان چھوٹی نہیں ہے اسے سمجھ آتی ہے کہ ہم کیوں ان دونوں پر پابندی لگاتے ہیں آپ زرا پاپا سے بات کریں اور آج ہم سب باہر چلیں گے.تم تو جانتے ہو جب سے مریم گئ ہے مانو گھر کی خوشیاں بھی ساتھ لے گئ... وہ مایوسی سے بولیں

ماما خوشیوں کو ہم نے خود دور کیا ہے ایمان نے سہی کہا ہم ابھی تک مریم کے جانے کا سوگ منا رہے ہیں مریم کی وجہ سے ان کی خوشیوں کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں اس میں ان کا کیا قصور جو قصور وار تھی اس کی یاد میں آپ آنسو بہاتی ہیں وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر خوشی کو خود پر حرام کر لیں وہ بچیاں ہیں ابھی ان کی عمر ایسے کیسز دیکھنے کی نہیں ہے جو انہیں اس چیز کے ساتھ سٹک کر دیں اس طرح ان کے دماغ پر برا اثر پڑے گا انہیں تھوڑی سپیس دیں اور تھوڑی سی آزادی بھی جہاں جانا ہو گا میں دونوں کے ساتھ رہوں گا لیکن انہیں قیدی مت بنائیں.... مجیب چہرے پر خفگی طاری کیے بولا

ٹھیک کہ رہے ہو میں بات کرتی ہوں تمہارے پاپا سے... وہ مطمئن سے انداز میں اٹھتیں ہوئیں بولیں...

*********

خالہ میں سوچ رہی ہوں کہ دوبئی گھوم آؤ... نور رک رک کر بول رہی تھی

لو اس میں سوچنے والی کیا بات ہے تمہارا جب دل کرے شایان کے ساتھ گھوم پھر آنا ویسے بھی میں تو خود چاہتی ہوں تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو تاکہ ایک دوسرے کو سمجھ سکو...

نور شرمندہ شرمندہ سی تھی کیونکہ اسے نادیہ سے جھوٹ بولنا پڑ رہا تھا ان سے چھپا کر وہ اتنا بڑا قدم لینے جا رہی تھی...

نادیہ اٹھ کر چلیں گئیں...

میں نے سوچ لیا ہے تو اب ایسا کروں گی بھی ضرور شایان میں آپ کو آپ کی خوشیاں ضرور لوٹاؤں گی جو میرے باعث کھو گئیں ہیں... نور پر عزم سے سوچنے لگی

اور میں

ایک ہلکی سی ٹیس اٹھی

میرا ہو جاےُ گا کچھ بھی لیکن بس شایان خوش رہیں پہلے کی طرح... نور خود کو نظرانداز کرتی ہوئ اپنے آپ کو بہلانے لگی

**********

آفاق اور شایان گرلز کالج کے باہر کھڑے تھے...

بھائ دیکھیں زرا لڑکیاں تو ایسے نکل رہی ہیں جیسے فِنائل ڈالنے کے بعد کیڑے نکلتے ہیں... آفاق شرارتی مسکراہٹ لیے بولا

شایان نے قہقہ لگاتے ہوۓ اس کی کمر میں دھپ لگائ...

سدھر جا... گرلز کالج سے لڑکیاں نہیں تو کیا لڑکے نکلیں گے...

بگڑا تو اب ہوں اتنے سالوں سے سدھرا ہی ہوا تھا... آفاق منہ بناتے ہوۓ بولا

آفاق تمہارا شادی کا ارادہ کیا ہے؟؟

آفاق کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا پہلے والی شوخی کہیں غائب ہو گئ...

کیا ہوا خاموش کیوں ہو گیا...

دونوں نے اس وقت سن گلاسز لگا رکھے تھے...

بھائ جس منزل تک جانا ہی نہیں تو پھر اس کا راستہ بھی کیوں پوچھنا... آفاق کہتے ہوےُ دوسری جانب دیکھنے لگا

یہ کیا بات ہوئ تم شادی کرو گے ہی نہیں کیا؟؟ شایان حیران ہوتا اسے گھورنے لگا

جی میں شادی نہیں کروں گا کبھی نہیں...

تم ساری زندگی جوگی بن کر گزارنا چاہتے ہو؟؟

کس نے کہا میں جوگی بن رہا ہوں بس میں وہ مقام کسی اور کو نہیں دے سکتا...

یار کوشش کر کے دیکھو مام کی تو حسرت ہی رہ جاےُ گی دھوم دھام سے اپنے بیٹوں کی شادی کرنے کی

بھائ شادی کرنے کو میں کر ہی لو لیکن میں اس لڑکی کے ساتھ غلط نہیں کرنا چاہتا میں اس کا حق نہیں مارنا چاہتا اس بے قصور کی زندگی کیوں خراب کروں دل میں کوئ اور ہو اور نظروں کے سامنے کوئ اور یہ منافقت مجھ سے نہیں ہو گی... وہ قطعیت سے بولا

شایان بھی اس کی بات سے اتفاق کرتا تھا اسی لیے خاموش ہونا بہتر سمجھا

یار مجیب کو کال کر کے پوچھ ایمان آج کالج آئ بھی ہے یا نہیں... شایان نے اپنا شک دور کرنے کے لیے کہا

آفاق سر ہلاتا مجیب کا نمبر ملانے لگا...

ہیلو مجیب یار وہ ایمان آج کالج نہیں آئ ہم ویٹ کر رہے تھے اس کا؟؟

اووہ اچھا ٹھیک مبارک ہو...

چلو میں گھر چکر لگا لیتا ہوں کوئ مسئلہ نہیں...

کہ کر اسنے فون رکھ دیا اور شایان اس کے گفتگو کے انداز سے ہی بھانپ گیا کہ وہ نہیں آئ اسی لیے گاڑی میں بیٹھ گیا...

اس کا آج رزلٹ تھا اسی لیے نہیں آئ...

گھر لے چلیں پھر میں شام میں چلا جاؤں گا ان کی طرف...

شایان اثبات میں سر ہلاتا گاڑی ریورس کرنے لگا...

*********

شاہ حیات جو کہ مریم کے باس ہیں ان کا ایک ہی بیٹا ہے ازمیر جو اکثروبیشتر ان کے ساتھ آفس میں کام کرتا پچس چھبس سال کا خوش شکل نوجوان ہے

زیادہ تر شاہ صاحب خود ہی سنبھال رہے تھے کیونکہ ان کے پاس تجربہ تھا اور ازمیر کو ابھی سیکھنے کی ضرورت تھی ان کی بیوی کا انتقال ازمیر کے بچین میں ہی ہو گیا تھا یوں انہوں نے اکیلے اس کی پرورش کی....

*********

دیکھنے میں تو آپ محنتی لگ رہیں ہیں... ازمیر اس کے سامنے ٹیبل سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا

جی سر آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی..

سوچ لیں...وہ بغور مریم دیکھتے ہوۓ بولا

جی جی میں آپ کی امیدوں پر پوری اتروں گی.. چلیں یہ تو وقت بتاےُ گا کہ آپ کتنی فرمانبردار ثابت ہوتیں ہیں.. وہ معنی خیزی سے کہتا کیبن میں چلا گیا...

مریم کو اس کی نظریں کچھ عجیب سی معلوم ہوتیں

یوں دیکھتا ہے جیسے بندے کے اندر کیا چل رہا وہ بھی معلوم کر لے گا... مریم الجھن کا شکار ہو گئ...

*********

رات میں شایان, نور, نادیہ اور آفاق چھوٹے ماموں کی فیملی کے ساتھ ڈنر کرنے گۓ یہ ڈنر ایمان کی کامیابی پر رکھا گیا...

ایمان کے چہرے سے مسکراہٹ جا ہی نہیں رہی تھی وہ بہت خوش تھی تھینک یو سو مچ ماما...وہ ماں کے گلے لگتی ہوئ بولی

وہ پرسکون سی مسکرا دیں..

ویلکم میری جان اب تو آپ کو شکایت نہیں ہے نہ؟؟

بلکل بھی نہیں... ایمان مسکراتی ہوئ بولی

سب بے فکر ہو کر باتیں کر رہے تھے شایان نور کے ساتھ بیٹھا تھا صرف وہی تھا جو فکر مند دکھای دے رہا تھا نور اس بات کا نوٹس لے چکی تھی اور اب گھر جانے کی منتظر تھی تاکہ شایان سے وجہ معلوم کر سکے....

گھر پہنچتے ہی شایان مام کے ساتھ ان کے کمرے میں چلا گیا..

جی مام؟؟

شایان ان کے بولنے کا منتظر تھا

تم نے بات کی آفاق سے؟؟ وہ مدعے پر آئیں

جی کی تھی لیکن توقع کے عین مطابق اس کا جواب تھا

کیا؟؟ جاننے کے باوجود وہ پوچھ بیٹھیں

وہی جو میں نے کہا تھا آپ سے..

وہ اداس ہو گئیں

آپ فکر مت کریں اسے کچھ وقت دیں سنبھلنے کا اور خود کو سنبھالنے کا اتنی جلدی وہ کبھی راضی نہیں ہو گا اور اگر زبردستی کی تو خوش نہیں رہ سکے گا اس کے ساتھ ساتھ کسی اور کی بھی زندگی خراب کرنے سے بہتر سے کچھ وقت انتظار کیا جاےُ چیزیں ٹھیک ہونے تک..

وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں

ایک اور بات شایان... وہ جانے لگا تو نادیہ بولیں

جی بولیں

بیٹا میاں بیوی جو ہوتے ہیں نہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں اس لیے اپنا دکھ کسی باہر والے سے بانٹنے کے بجاےُ اپنی بیوی سے بانٹو وہ سب سے اچھی ہم راز ثابت ہوتی ہے اس جیسی وفاداری تمہیں دنیا میں نہیں ملے گی میری باتوں پر غور کرنا

جیسے ہی شایان کمرے میں آیا نور اس کے پیچھے پڑ گئ...

شایان کیا کوئ مسئلہ ہے؟؟؟

نہیں تمہیں کس نے کہا؟؟؟

بس مجھے ایسا لگا... نور مایوسی سے سر جھکاتی ہوئ بولی

میں آفاق کی وجہ سے پریشان تھا

کیا ہوا اسے وہ ٹھیک ہے؟؟ نور کے انداز سے فکر واضح تھی

ٹھیک ہے وہ تو دراصل مام چاہ رہیں تھیں کہ وہ شادی کر لے لیکن ابھی وہ رضامند نہیں ہے.....

اووہ تو یہ بات تھی ہاں وہ فلحال شادی نہیں کرے گا خالہ سے کہنا اسے مجبور مت کریں ساری زندگی کا سوال ہے...

بلکل میں نے بھی یہی کہا ہے

اس طرح اس بے چاری کی بھی زندگی برباد ہو گی جب آفاق اسے وہ توجہ نہیں دے پاےُ گا جس کی وہ حقدار ہے...

شایان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئ...

کیا ہوا؟؟ نور اسے مسکراتے ہوۓ دیکھ کر بولی

میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری سوچ میری سوچ سے کافی ملتی ہے ورنہ میں تو تمہیں بدھو سمجھتا تھا...

شایان میں بدھو تو نہیں ہوں... نور برا مان گئ

ہاہاہاہا چلو اب تو دور ہو گئ نہ غلط فہمی...

شایان کو کچھ دیر پہلے کی گئ مام کی بات یاد آ گئ...

نور؟؟ وہ پر سوچ انداز میں بولا

جی؟؟

میں سوچ رہا تھا اپنا بزنس یہاں شفٹ کر لوں.

لیکن کیوں؟؟

نور میں نے آفس جا کر مِیرا کو کال کی تم

یقین نہیں کرو گی میں دو گھنٹے اس کی منتیں کرتا رہا معافیاں مانگیں لیکن اس لڑکی پر کسی بات کا کوئ اثر نہیں ہوا...

نور کے چہرے پر دکھ نے احاطہ کر لیا

اگر اسے مجھ سے محبت ہوتی تو یوں مجھے چھوڑ کر کسی اور کا ہاتھ تھامنا اتنا آسان نہ ہوتا اس کے لیے اب جب کہ وہ فیصلہ کر چکی ہے تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے میرا اس سے کوئ تعلق نہیں نہ ہی میں کسی مِیرا کو جانتا ہوں... شایان کے لب ہل رہے تھے اور نور کی نظر اس کی آنکھوں پر جمی تھی جہاں تکلیف کے آثار نمایاں تھے نور سمجھ چکی تھی کہ وہ دل سے ایسا نہیں چاہتا لیکن اب چارہ بھی کوئ نہیں تھا اس کے سواےُ...

شایان آپ ٹھیک ہے؟؟؟ شایان خاموش ہوا تو نور بولی

ہاں نور میں بلکل ٹھیک ہوں... شایان نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن مسکرا نہ سکا

کافی پئیے گے؟؟؟ نور کھڑی ہوتی ہوئ بولی

تمہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ مجھے ضرورت ہے؟؟؟ شایان حیران ہوتا اسے دیکھنے لگا...

نور مسکراتی ہوئ باہر نکل گئ

*********

آئیں میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں؟؟ ازمیر نے آفر کی

نہیں میں خود چلی جاؤں گی تھینکس..

مریم سر جھکا کر چلنے لگی

ارے میں تو اسی لیے کہ رہا ہوں کہ آپ اکیلی ہیں اور آج لیٹ ہو گیا آفس میں تو آپ کا یوں تنہا جانا مناسب نہیں خوبصورت ہیں, جوان بھی آپ سمجھ رہیں ہیں نہ...

مریم ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی

آپ کی پیش کش میرے لیے ہی کیوں باقی سٹاف بھی تو ہے؟؟

بلکل سہی فرمایا آپ نے بہت سا سٹاف ہے لیکن میں نے آپ کی پروفائل چیک کی تھی اسی وجہ سے آپ کو بولا... وہ باقائدہ مریم کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا

دیکھیں میں مینیج کر لوں گی آپ پریشان مت ہوں... مریم کی ہتھیلیوں پر پسینہ آنے لگا

چلیں ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی... کہتے ساتھ ہی وہ اپنی گاڑی کی جانب مڑ گیا

مریم تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی آج اس کی رفتار معمول سے زیادہ تھی...

وہ روڈ کراس کرنے کے لیے کھڑی تھی جب ایک بائیک اس کے سامنے رکی اور مریم کا پرس چھین کر زن سے آگے نکل گئ...

مریم ان کے پیچھے لپکی....

میرا پرس رکو....

لیکن وہ نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے...

مریم آنکھوں میں پانی لیے اس سمت دیکھنے لگی آج ہی اس نے باس سے بات کر کے ایڈوانس میں کچھ رقم لی تھی اور اب وہ پھر سے خالی ہاتھ تھی

یااللہ یہ کیسی آزمائش ہے اگر صرف میری بات ہوتی تو میں اسی میں اکتفا کر لیتی لیکن یہ جو جان مجھ میں پل رہی ہے اسے کیسے بھوکا رہنے دو... آنسو ٹپ ٹپ اس کے گال کو بھگونے لگے وہ اردگرد سے بیگانہ اپنی سوچ میں گم تھی... 

ازمیر کی گاڑی مریم کے پاس سے گزری تو اس کی نظر مریم پر پڑی اس نے گاڑی ریورس کی.. لیکن مریم کو تو شاید خود کی بھی ہوش نہ تھی وہ ابھی تک صدمے میں تھی جب کھانے کو ایک لقمہ نہ ہو اور پیٹ خالی ہو تو انسان اسی طرح ہو جاتا ہے آج مجھے ان غریبوں کا احساس ہو رہا ہے جو سارا دن کام کرنے کے بعد بھی اپنے بچوں یا بیوی کے لیے گھر میں کچھ نہیں لے جاتے کیا گزرتی ہے ان پر کوئ مجھ سے پوچھ کر دیکھے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور آپ اف بھی نہیں کر سکتے

یہ دنیا اتنی ظالم ہے شادی بیاہ, تقریبات میں کڑوروں روپے کا ضیاع کر دے گی لیکن کسی غریب کو دیتے ہوۓ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے کاروبار نقصان میں چلے جاتے ہیں خود غریب ہو جاتے ہیں

آج کل کے انسان کے پاس گھر تو بہت بڑا ہے لیکن دل بہت چھوٹا کسی کو دینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتے لیکن کسی سے لینے کے لیے سب سے پہلے موجود ہوتے حیرت کی بات ہے نہ ہم مرنے والے انسان کے نام پر دیگیں چڑھا دیتے ہیں لیکن زندہ انسان کو ایک وقت کا کھانا نہیں کھلا سکتے انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ایسا مذہب تو نہیں ہے ہمارا جہاں انسانیت ہی نہ ہوں جانوروں کو پالتے ہیں اور انسانوں کو دھتکارتے ہیں صرف اسی لیے کیونکہ وہ غریب ہیں اگر غریب ہیں تو اسکا کیا مطلب ہے کہ وہ انسان نہیں انہیں جینے کا حق نہیں.... آنسو متواتر اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے...

مریم؟؟؟

مریم کو مردانہ آواز سمیت اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا گمان ہوا...

وہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئ لیکن ازمیر کو دیکھ کر کچھ سنبھل گئ

کیا ہوا آپ اس حال میں یہاں کیا کر رہیں ہیں؟؟ وہ پریشانی سے گویا ہوا

وہ میرا میرا بیگ لے گۓ... مریم سے الفاظ نہیں بن رہے تھے

کون کہاں ہیں؟؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ بولا

چلے گۓ... مریم مایوسی سے بولی

آپ کا کوئ ضروری سامان تھا بیگ میں؟؟

جی میری پے تھی جو آج ہی سر نے مجھے دی تھی...

اچھا آپ ایسا کریں گاڑی میں بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں...

مریم کو پہلے ہی افسوس ہو رہا تھا اس کے ساتھ نہ جانے پر اب مزید نقصان کی وہ حامل نہ تھی اسی لیے چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئ....

آپ مجھے ایڈریس بتا دیں... وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوۓ بولا

مریم نے اسے راستہ سمجھا دیا

آپ ایسا کریں پہلے میرے گھر چلیں اور کچھ کھا لیں پھر میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں گا میرا گھر آپ کے گھر سے پہلے آتا ہے...

مریم خاموشی سے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی...

ازمیر نے اس کی خاموشی کو مثبت جواب سمجھا اور اپنے گھر لے گیا...

مریم اس بڑے سے بنگلے کو دیکھنے لگی جس کے پورچ میں ابھی ابھی ازمیر نے گاڑی روکی.. مریم خاموشی سے اس کی تقلید کرنے لگی وہ مریم کو ڈرائینگ روم میں لے آیا مریم ڈرائینگ روم کا جائزہ لینے لگی بہترین قسم کے صوفے کمرے کے وسط میں چھوٹا سا فانوس اعلی قسم کے قالین,پردے ہر چیز اپنی قیمت خود بیان کر رہی تھی کبھی وہ بھی اسی طرح شان و شوکت سے رہتی تھی اور آج اس حال میں سچ کہتے ہیں وقت کا کسی کو معلوم نہیں ہوتا وہ بھی خدا کی پکڑ میں آ گئ تو ہر چیز کی قدر ہو رہی تھی....

وقت, انسان اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے...

ازمیر نے ملازم کو کھانے کا حکم دیا اور خود مریم کے سامنے بیٹھ گیا...

آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں آئ مین فیملی کے ساتھ کیوں نہیں...

جن کا کوئ نہیں ہوتا وہ تنہا ہی ہوتے ہیں..

سٹرینج بلکل اکیلی ہیں آپ...

ملازم نے کھانا ٹیبل پر رکھ دیا

شروع کریں... وہ ہاتھ کے اشارے سے بولا

واش روم کہاں ہے؟؟

یہاں... وہ بائیں جانب موجود دروازے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ بولا

مریم اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے چلی گئ...

کھانا کھاتے ہوۓ بار بار اس کی آنکھوں میں نمی جمع ہو رہی تھی

کتنا وقت بیت گیا اس نے اچھا کھانا دیکھا تک نہیں تھا آج اسے خدا کی دی گئ نعمتوں کی قدر آ رہی تھی جنہیں وہ بےدریغ ضائع کرتی تھی اب ایک ایک چیز کو ترس رہی تھی چیز ہو یا انسان قدر نہ کرو تو چھن ہی جاتی ہے اور کھونے کے بعد ہی قدر آتی ہے....

شکریہ آپ کا بہت اور اب آپ مجھے چھوڑ آئیں گھر... مریم ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتی ہوئ بولی

وہ مریم کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا

یہ لڑکی کبھی خوبصورت سی اپنا خیال رکھنے والی لگتی تو کبھی زمانے کی گردش میں پسنے والی مظلوم نا جانے کون سے راز وہ اپنے اندر دباےُ بیٹھی تھی..

وہ سوچتے ہوۓ کھڑا ہوا...

یہ رکھ لیں آپ... وہ کچھ پیسے مریم کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولا

نہیں میں یہ نہیں لے سکتی... مریم نفی میں سر ہلاتی ہوئ بولی

میں آپ پر احسان نہیں کر رہا بس ایک دوست سمجھ کر مدد کر رہا ہوں آپ بھی ایک دوست کی حیثیت سے رکھ لیں...

نہیں آپ نے پہلے ہی میری بہت مدد کی ہے اور میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں اس کے لیے لیکن یہ میں نہیں رکھ سکتی.. وہ قطعیت سے بولی

ابھی میں اتنی بھی لاچار یا مجبور نہیں ہوئ کہ اس طرح سے پیسے لوں کسی سے نہیں میری عزت نفس یہ گوارا نہیں کرتی... مریم خود سے سرگوشیاں کرنے لگی..

آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں میں تو اس لیے....

پلیز سر میں نہیں لے سکتی اگر آپ مجھے ڈراپ نہیں کرنا چاہتے تو بتا دیں میں خود چلی جاؤں گی... وہ سردمہری سے بولی

نہیں نہیں ایسا نہیں ہے آئیں... وہ پیسے والٹ میں واپس رکھتے ہوۓ بولا

*********

چند دن یونہی گزر گۓ نور آفاق کے ساتھ بیٹھی تھی..

آفاق میں کیا سوچ رہی ہوں کہ...

مجھے کیا پتہ کیا سوچ رہی ہو؟؟؟ آفاق مسکراہٹ دباتے ہوۓ بولا

نور خفگی سے اسے دیکھنے لگی

پہلی پوری بات تو سن لو..

اچھا جی سنائیں... آفاق کشن گود میں رکھتے ہوۓ بولا

شایان مِیرا کی وجہ سے کافی ڈسٹرب رہتے ہیں...

تو؟؟ آفاق فوراً بولا

تو یہ کہ میں سوچ رہی تھی مِیرا سے بات کر کے دیکھوں... نور چور نظروں سے اسے دیکھتی ہوئ بولی

یہ جو آپ سوچ رہیں ہیں نہ بند کر دیں ایسا سوچنا خبردار اگر آپ نے اس چڑیل کو بھائ کی زندگی میں واپس لانے کی کوشش کی تو..

لیکن...

لیکن ویکن کچھ نہیں آپ پاگل ہو گئ ہو کیا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جا رہی ہو... آفاق کو حیرت ہو رہی تھی..

شایان میرے لیے خود سے پہلے ہیں...

چپ کر کے اپنے کمرے میں چلی جاؤ ورنہ مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا...

نور منہ بناتی اٹھ گئ

*********

کیا ہوا آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟؟؟

بیگم میں ایمان کو لے کر پریشان ہوں...

خیریت؟؟؟ انہیں تشویش ہوئ

تمہیں وہ سیالکوٹ والے بھائ صاحب یاد ہیں نہ؟؟؟

جی جی جنہوں نے ایمان کو مانگا تھا اپنے بیٹے کے لیے...

انہوں نے اب انکار کر دیا ہے... وہ اداسی سے بولے

لیکن کیوں بھلا یہ کیا بات ہوئ اتنے سال سے ان کی بیگم تنگ کر رہیں تھیں کہ منگنی کرو اور اب انکار کر دیا....

مریم کی وجہ سے وہ کہتے جس گھر کی ایک بیٹی ایسی ہے اس گھر کی باقی بیٹیاں نا جانے کیسی ہوں گی...

خدا جانے یہ آزمائش کب اپنے انجام کو پہنچے گی... وہ آرزدگی سے بولیں...

مجھے تو لگتا ہے ہمیں ختم کر کے ہی دم لے گی نا جانے کون سی کوتاہی مجھ سے سرزد ہو گئ جس کی اتنی بھیانک سزا مل رہی ہے... وہ آنسوؤں کو روکتے ہوۓ بولے

صحیح کہ رہے ہیں آپ مریم ہمارے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش بن گئ ہے کبھی سوچا نہ تھا کہ جسے اتنے نازوں سے پالا ہے وہ یہ دن دکھاےُ گی اولاد کے دکھ بہت گہرے ہوتے ہیں جنہیں بھرنے کے لیے ساری زندگی بھی کم پڑ جاتی....

خیر چھوڑیں اللہ مالک ہے آخر ایمان کا جوڑ تو بنایا ہی ہو گا نہ اس ذات نے تو وسیلہ بھی بنا دے گا آپ فکر مت کریں... وہ انہیں تو تسلی دے رہے تھے لیکن خود اپنے دل کو نہیں تسلی دے پاےُ... 

ماما میں نے فلائٹ کانفرم کروا لی ہے دوبئی کے لیے...

شایان تم پھر سے جا رہے ہو؟؟؟ انہیں شاک لگا

جی لیکن اب صرف کچھ وقت کے لیے سب کچھ وائنڈ اپ کرنا ہے زیادہ وقت نہیں لگاؤں گا...

اور بیٹا نور؟؟؟

جی وہ بھی میرے ساتھ جاےُ گی آپ فکر نہیں کریں مجھے قدر ہے نور کی...شایان نارمل انداز میں بول رہا تھا

مجھے خوشی ہے شایان دیر سے ہی سہی تمہیں نور کی قدر تو آ گئ...

جی ماما وہ بیوی نہ سہی لیکن ایک بہترین ساتھی ضرور ثابت ہوئ ہے پھر میں بے سوچا کہ وہ ٹھکراےُ جانے کی حقدار نہیں کم از کم عزت تو اسے ملنی چائیے...

نادیہ نے شایان کی پیشانی چومی...

اچھا میں چلتا ہوں پھر ابھی پیکنگ بھی کرنی ہے... شایان اٹھتے ہوۓ گویا ہوا

نور؟؟ شایان کمرے میں آتا ہی متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھتے ہوۓ بولا

واش روم کا دروازہ بند تھا شایان صوفے پر بیٹھ گیا...

نور باہر نکل کر اس کے ساتھ بیٹھ گئ

نور پیکنگ کر دو میں دوبئی جا رہا ہوں...

نور کے دل میں ٹیس اٹھی چاہتی تو وہ بھی یہی تھی لیکن وہ بھی اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی...

جی اچھا ابھی کر دوں؟؟؟

ہاں ابھی کر دو... شایان سے نور کے چہرے کی اداسی چھپ نہ سکی

پوچھو گی نہیں کون کون جا رہا ہے؟؟؟

نور کب بورڈ کھول کر کھڑی تھی..

جب جانتی ہوں کہ آپ نے جانا ہے پھر پوچھنے کا کیا مطلب... نور سنجیدگی سے بولی

مطلب تم میرے کپڑے پہنو گی؟؟؟

بیگ میں کپڑے رکھتے نور کے ہاتھ رک گۓ... نور نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا جو مسکرا رہا تھا

تم بھی میرے ساتھ جاؤ گی... شایان چلتا ہوا اس کے سامنے آ رکا

نور ششدہ سی آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھنے لگی...

آپ مذاق کر رہے ہیں نہ؟؟؟ وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی

بلکل بھی نہیں اچھا چلو یہ ٹکٹس دیکھ لو... وہ نور کے ہاتھ میں ٹکٹس پکڑاتے ہوۓ بولا

نور کے الفاظ دم توڑ گۓ وہ بولنا چاہتی تھی لیکن بول نہیں پائ...

اب یہ رونے کا سین بعد میں کرنا ابھی جلدی سے پیکنگ کر لو اس کے بعد خالہ سے ملنے بھی جانا ہے ورنہ کہیں گی نور کو ملنے بھی نہیں دیا ہم سے... شایان بولتا ہوا صوفے پر جا بیٹھا.....

نور کو اس کا کئیرنگ انداز بہت اچھا لگا وہ پلک جھپکے بنا اسے دیکھنے لگی

شایان آپ بولتے ہوۓ کتنے اچھے لگتے ہیں نہ... نور آہستہ سے بولی...

سوری میں نے سنا نہیں... شایان موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوۓ بولا..

کچھ نہیں... نور نفی میں سر ہلاتی اپنے کام میں لگ گئ....

شایان اپنا درد چھپانے میں ماہر تھا اس کے چہرے سے کوئ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس کے اندر کیا ہل چل ہو رہی ہے...

نور نے شایان کو دیکھا تو وہ اپنی آنکھ کا گوشہ صاف کر رہا تھا اس سے پہلے کہ شایان نور کو دیکھتا نور نے اپنی نظروں کا زوایہ بدل لیا... شایان میں آپ کو آپ کی خوشیاں لوٹا کر رہوں گی پھر چاہے مجھے اپنا گھر کیوں نہ اجاڑنا پڑے...

دو گھنٹے بعد وہ دونوں نور کے گھر بیٹھے تھے....

بھئ یہ اچانک کیسے پروگرام بن گیا؟؟؟ صفدر صاحب شایان کی جانب دیکھتے ہوۓ بولے

ماما کہتی ہیں کہ پاکستان آؤ اور بزنس دوبئی بلاتا ہے اسی لیے اب پیک اپ کرنے جا رہا ہوں تو سوچا نور کو بھی ساتھ لے جاؤ...

نور امی کے ساتھ محو گفتگو تھی

یہ تو بہت اچھی بات ہے ویسے بھی پردیس کتنا ہی کیوں نہ اچھا ہو اپنے ملک والی بات نہیں ہوتی..

جی یہ تو بجا فرمایا آپ نے بس اسی لیے یہاں شفٹ کرنے کا سوچ لیا...

بیگم کھانا لگائیں بچے آئیں ہیں آپ کی تو برائیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں...

نور اور شایان مسکرانے لگے...

وہ خفگی سے انہیں دیکھتی ہوئیں بولیں

برائیاں تو نہیں کر رہے ہم بس آپ حسد کرتے ہیں کہ نور کو مجھ سے زیادہ لگاؤ ہے...

کہتی ہوئ کچن میں چلی گئیں...

ہماری ابھی تک اس بات پر لڑائ ہوتی ہے کہ نور میرے زیادہ قریب ہے... وہ آنکھ مارتے ہوۓ بولے

شایان نے مسکرانے پر اکتفا کیا

شایان نے نور کو اشارہ کیا اور وہ سمجھ گئ..

امی کھانا مت لائیں ہم ڈنر کر کے نکلے تھے... نور کچن میں جاتی ہوئ بولی...

لو بھلا ایسے کیسے جانے دیں تمہیں...

تو کھانے سے کیا ہو جاےُ گا ویسے بھی شایان ڈائٹ کا بہت خیال رکھتے ہیں...

لیکن... انہوں نے احتجاج کرنا چاہا

ہم بس ملنے آےُ ہیں کھان پھر کبھی کھا لیں گے

اچھا بھئ نہیں کھلاتی کھانا بس... وہ ہاتھ اٹھاتی ہوئیں بولیں

نور کبھی تم نے سوچا تھا کہ شایان تمہارا ہمسفر بنے گا جسے تم نے ہزاروں لقب سے نوازا تھا...

نور کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئ

واقعی میں امی میں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ مسٹر کھڑوس میرے سرتاج بنیں گے

وہ بھی نور کے ساتھ مسکرانے لگیں...

*********

ایک ہفتہ گزر چکا تھا انہیں دوبئی آےُ لیکن نور ابھی تک مِیرا سے کانٹیکٹ نہیں کر سکی تھی وہ ہر وقت اسی پریشانی میں مبتلا رہتی اگر اسے موقع ملا تھا تو وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی..

پلیز اللہ پاک مجھے مِیرا سے ملوا دیں ورنہ میں کبھی خود سے نظریں نہیں ملا سکوں گی میں اتنی خودغرض نہیں ہوں کہ اپنی خوشیوں کے واسطے شایان کی خوشیوں کی قربانی دے دوں...

نور شایان کا لیپ ٹاپ چیک کرنے لگی لیکن اسے تو پاسورڈ ہی معلوم نہیں تھا... نور مایوس ہو کر بیٹھ گئ...

*********

ازمیر مریم کے آگے پیچھے رہتا اور مریم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیوں اس کی مدد کرتا ہے لیکن مریم اسے نظر انداز کرتی جس حد تک ممکن ہوتا...

آج پھر سے آفس سے نکلتے ہوےُ وہ مریم کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا...

مریم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی...

ڈنر پر چلیں گیں میرے ساتھ؟؟؟

سوری...کہ کر مریم سائیڈ سے نکل گئ...

ارے میں کوئ ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں... وہ مریم کے ساتھ چلنے لگا

اور میں اچھے سے جانتی ہوں جو کچھ ڈیٹس پر ہوتا ہے بچی نہیں ہوں میں... مریم تڑخ کر بولی

لگتا ہے آپ جا چکی ہیں پہلے ڈیٹ پر...

مریم رک کر اسے کڑے تیوروں سے دیکھنے لگی...

میرا مطلب وہ نہیں تھا

وہ پھر سے چلنے لگی

دیکھیں آپ مجھے جانتی ہیں میں ایک

عزت دار فیملی سے ہوں آپ کی عزت کو خراب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا...

اتنی صاف گوئ پر مریم حیران رہ گئ

اگر آپ کو اپنا ٹائم پاس کرنا ہے تو کسی ایسی لڑکی سے رابطہ کریں جو اس کام میں انٹرسٹڈ ہو مجھے اس سب میں کوئ دلچسپی نہیں سو پلیز میرا راستہ مت روکا کریں آپ... مریم اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئ بولی

پلیز آپ یہ سب مت کریں میں آئیندہ سے خیال رکھوں گا لیکن جب بھی آپ کو کوئ مدد درکار ہو تو آپ سب سے پہلے مجھے یاد کریں گیں...

جی شکریہ...

کہ کر مریم سبک رفتاری سے چلنے لگی

راستے میں وہ ایک دکان پر اپنے لیے ناشتے لینے چلی گئ...

پیسے پکڑتے ہوۓ دکاندار نے مریم کا ہاتھ بھی پکڑ لیا...

اس وقت دکان میں اور کوئ گاہک یا ملازم نہیں تھا

وہ کمینگی نظروں سے مریم کو دیکھ کر ہنس رہا تھا

مریم اپنا ہاتھ چھڑواتی شاپر اس کے منہ پر مار کر باہر بھاگ گئ...

گھر پہنچ کر مریم نے دروازہ بند کیا اور کمرے کو بھی لاک لگا لیا

وہ روتی ہوئ بار بار اپنا ہاتھ رگڑ رہی تھی اسے لگ رہا تھا اس کا ہاتھ ابھی تک اس آدمی کی گرفت میں ہے

مریم بار بار صابن سے اپنا ہاتھ دھونے لگی نا جانے کون سی گندگی تھی جو وہ صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی مریم کو اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی تھی

صابن ختم ہو گیا لیکن وہ غلاظت جوں کی توں برقرار تھی... مریم بے بسی سے زمین پر بیٹھ گئ

اسے آفاق یاد آنے لگا جو اکثر مریم کو کہتا کہ وہ نور کی طرح گھر سے نکلتے ہوےُ سر پر دوپٹہ لیا کرے...

آفاق تم کتنے دقیانوسی ہو نہ میں نہیں لے سکتی یہ دوپٹہ وغیرہ... مریم ناک منہ چڑھاےُ بولی

سمجھ تو اسے اب آیا تھا کہ سر ڈھانپنے سے عورت اللہ کی امان میں رہتی ہے سر اس لیے ڈھانپا جاتا ہے تاکہ اپنی عزت کی حفاظت کی جاےُ...

ہاےُ لیکن افسوس ساری باتیں بعد میں ہی کیوں سمجھ آتی ہیں جب وقت ہوتا ہے تب انسان اتراتا پھرتا ہے اور جب وقت نکل جاتا ہے پھر بس پچھتاتا ہے....

انسان نصحیت سے نہیں ٹھوکر سے جب دل پر چوٹ لگتی ہے پھر سمجھتا ہے کیونکہ جو سبق دنیا سکھاتی ہے وہ ہمیشہ یاد رہتا ہے

ساری زندگی پڑھنے میں گزار دیتے ہیں لیکن جو سبق زمانہ سکھاتا ہے تو کسی کتاب میں موجود نہیں جسے دوسرے الفاظ میں تجربہ کہتے ہیں

**********

نور تمہاری امی کا فون ہے بات کر لو...

شایان اپنا فون نور کو تھماتے ہوۓ بولا اور خود باہر چلا گیا

نور نے کال بند کی تو اس کے دماغ میں جھماکا ہوا وہ جلدی سے کانٹیکٹ لسٹ چیک کرنے لگی اور عین توقع کے مطابق مِیرا کا نمبر اسے مل گیا...

نور باہر دیکھتی جلدی سے اپنے موبائل میں نمبر سیو کرنے لگی

نور اٹھ کر باہر گئ اور شایان کو اس کا موبائل واپس کر دیا...

شایان نے مسکراتے ہوۓ پکڑ لیا

نور تمہیں مجھ سے شکایت تو نہیں کہ میں نے تمہیں گھر میں قید کر دیا ہے؟؟ نور جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ شایان کی آواز نے اس کے قدم روک دئیے

نہیں شایان میں جانتی ہوں آپ کام کے سلسلے میں آےُ ہیں اس لیے مجھے کوئ شکایت نہیں.....

میں کوشش کر رہا ہوں کہ جلد از جلد اپنا کام ختم کر کے تمہیں گھمانے کے لیے لے جاؤں لیکن میری غیر موجودگی میں کافی چیزیں خراب ہو چکی ہیں جس کے باعث میں کام میں پھنس گیا ہوں...

کوئ بات نہیں شایان آپ اطمینان سے اپنا کام کریں مجھے کوئ مسئلہ نہیں ہے...

نور کی بات پر شایان مسکرانے لگا

اللہ نے مجھے ایسی صابر بیوی دی ہے شایان دل میں سوچتا ہوا حیران ہونے لگا...

نور واپس کمرے میں چلی گئ...

*********

شایان جیسے ہی آفس کے لیے گھر سے نکلا نور دروازہ بند کرتی کمرے میں آ گئ اور مِیرا کا نمبر ڈائل کرنے لگی...

نور کے ہاتھ کپکپا رہے تھے

بیل جا رہی تھی لیکن مِیرا نے اٹینڈ نہ کی شاید انجان نمبر کی وجہ سے پک نہ کر رہی ہو نور نے پھر سے دھڑکتے دل کے ساتھ نمبر ملایا.....

تیسری بیل پر مِیرا نے فون اٹھا لیا...

ہیلو؟؟

سپیکر پر میِرا کی آواز ابھری...

مِیرا میں نور بات کر رہی ہوں... نور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئ بولی...

اوووہ تو اپنے شوہر کے ساتھ تم بھی آئ ہو گریٹ...

مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے...

لیکن میں تم سے بات کرنے کی روادار نہیں...

پلیز مِیرا مجھے شایان کے متعق بات کرنی ہے..

شایان کے متعلق کیا؟؟؟ مِیرا سیدھی ہوئ

میں مل کر تم سے بات کرنا چاہتی ہوں تم بتاؤ...

نور سوچ سوچ کر بول رہی تھی

ہمممم ٹھیک ہے پھر جگہ میں تمہیں بتا دیتی ہوں تم کل پہنچ جانا جو بات کرنی ہو گی دیکھیں گے...

کہ کر مِیرا نے کھٹاک سے فون بند کر دیا..

نور کی دھڑکن معمول سے تیز ہو گئ بلاشبہ وہ جو کرنے جا رہی تھی بہت بڑی قربانی تھی اور شاید ہی کسی میں اتنا حوصلہ ہو ایسا کرنے کا بہرحال اب جب کہ میں ارادہ کر چکی ہوں تو اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گی.. نور نے اکثر شایان کو راتوں کو اٹھ کر روتے ہوۓ دیکھا تھا اور اسے دیکھ کر نور کا بھی دل بھر آتا وہ کسی سے کہتا نہیں تھا لیکن اس کی تکلیف بہت زیادہ تھی جسے وہ سب سے چھپا کر رکھتا شایان آپ کی یہ تکلیف اب میں ختم کر دوں گی مجھے خوشی ہے میں کسی کام تو آئ آپ کے....

ورنہ یہ دکھ مجھے سکون سے نہیں رہنے دے گا کہ آپ کی زندگی میں بربادی کی وجہ میں ہوں... نور آنکھ کا گوشہ صاف کرتی ہوئ بولی..

**********

مریم کو شاہ صاحب نے طلب کیا تو وہ ڈرتی ہوئ اندر گئ...

جی سر؟؟ مریم ہاتھ مسلتی ہوئ بولی

آپ کو یہاں کوئ مسئلہ تو نہیں ہے؟؟

نو سر...

اچھے سے سوچ کر بتائیں کوئ سٹاف ممبر کی جانب سے شکایت یا کچھ بھی آپ کھل کر مجھ سے بات کر سکتیں ہیں...

سر الحمدللہ آپ کا آفس اور سٹاف سب بہت اچھا ہے اور مجھے کوئ مسئلہ نہیں ہے... مریم پرسکون ہوتی بولنے لگی

ازمیر مجھے بتا رہا تھا کہ ایک دو بار اس نے آپ کو گھر ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی پہلی بار تو آپ نے قبول کر لی لیکن بعد میں آپ نے ٹھکرا دی دیکھو بیٹا چاہے ازمیر میرا بیٹا ہے مجھے اس پر بھروسہ تو ہے لیکن پھر بھی میں آپ کو محتاط رہنے کی ہدایت دوں گا جیسا کہ آپ جانتی ہو رہتا تو وہ بھی اس دنیا میں ہی ہے اور آپ بھی جانتی ہو کہ آج کل کیا ہو رہا ہے کہتے ہیں

مرد چاہے ستر سال کا ہو چاہے بیس سال کا ہمیشہ بےاعتبار ہی ہوتا ہے کیونکہ آخر کو ہے تو مرد نہ...

آپ کو کوئ بھی دقت ہو آپ مجھے بتائیں میں بذات خود اس مسئلے کو حل نہیں کروں گا کسی کے ذریعے کرواؤں گا آپ کو مخفی رکھ کر تاکہ آپ میری جانب سے بدگمان نہ ہوں آپ مجھے اپنے والد کی طرح سمجھ سکتی ہیں.. وہ شفقت بھرے لہجے میں بول رہے تھے...

مریم کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا...

تھینک یو سر میں ضرور آپ سے ڈسکس کروں گی اگر کوئ پرابلم ہوئ تو...مریم مسکراتی ہوئ بولی

گڈ آپ جا سکتی ہیں اب...

مریم سر ہلاتی باہر نکل گئ...

سچ کہتے ہیں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتے آج بھی دنیا میں اچھے لوگ ہیں جنہیں خوف خدا ہے سب ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ اچھے انسان بھی ہوتے ہیں....

مریم سوچتی ہوئ اپنے کام میں مصروف ہو گئ....

********

شایان آج آپ نے آفس نہیں جانا؟؟ نور کو فکر ہونے لگی

جانا ہے لیکن خیریت؟؟

نہیں آج لیٹ ہو گۓ ہیں نہ آپ...

ہاں رات کافی دیر تک کام کرتا رہا تھا اسی لیے.. شایان جمائ لیتے ہوۓ بولا

نور اثبات میں سر ہلاتی کچن میں چلی گئ...

آج اس نے میِرا سے ملنے جانا تھا اور شایان ابھی تک گھر میں ہی تھا...

آدھ گھنٹے بعد شایان آفس کے لیے نکل گیا...

دس منٹ بعد نور بھی گھر سے نکل آئ اس کا اندازہ تھا اتنے وقت میں وہ گھر سے دور جا چکا ہو گا لیکن جیسے ہی نور کیب میں بیٹھنے لگی شایان نے اسے دیکھ لیا وہ اپنا والٹ بھول گیا تھا اور وہی لینے واپس آ رہا تھا...

نور مجھے بنا بتاےُ کہاں جا رہی ہے؟؟؟شایان کی پیشانی پر حیرت کی لکریں ابھریں...

وہ نور کو آواز دینے کا ارادہ ترک کرتے ہوۓ سوچنے لگا

آخر وہ جا کہاں رہی ہے پیچھا کر کے دیکھتا ہوں شایان نے گاڑی اس کیب کے پیچھے لگا دی..

نور مِیرا کے بتاےُ ہوۓ ایڈریس پر پہنچی...

عجیب سی جگہ تھی آس پاس جنگل تھا شاید وہ ایک بوسیدہ سا ٹوٹا پھوٹا گھر تھا...

نور کھانستی ہوئ اندر گئ کافی دھول تھی نور ہاتھ سے مٹی ہٹاتی ہوئ چلنے لگی...

مِیرا؟؟؟ نور نے زور سے آواز دی

آ جاؤ بےبی میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں...

چند قدم مزید بڑھاےُ اور سامنے مِیرا کھڑی نظر آئ...

شرٹ جو کہ پیٹ سے اوپر تھی ساتھ میں جینز پہن رکھی تھی جو جگہ جگہ سے پھٹی تھی جیسا کہ آج کل فیشن ہے...

نور کے چہرے پر ناگواریت آ گئ اسے دیکھ کر.. وہ مغرور انداز میں کھڑی تھی نور کو سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی....

نور نے بیلو کلر کی شلوار قمیص پہن رکھی تھی اور سر پر دوپٹہ لے رکھا تھا...

حیرت ہے ویسے شایان کا ٹیسٹ تو ایسا نہیں

پھر ناجانے کیوں تمہیں اپنے ساتھ رکھے ہوۓ ہے...

مِیرا ناک چڑھاتی ہوئ بولی

نور کے اطمینان میں کوئ فرق نہ آیا...

نور کے پیچھے پیچھے شایان بھی وہاں پہنچ گیا لیکن وہ چھپ کر ان دونوں کے بیچ ہونے والی گفتگو سننے لگا

ویسے کیا بات کرنی تھی تمہیں مجھ سے...

مِیرا تم پلیز شایان کی لائف میں واپس آ جاؤ شایان صرف تم سے پیار کرتے ہیں اور بہت زیادہ کرتے ہیں...

مجھے فرق نہیں پڑتا نہ ہی مجھے یقین ہے...

پلیز میرا یقین کرو شایان کی خوشی تم ہو میں شایان کی خوشیوں کی بھیک مانگتی ہوں پلیز ان کے پاس واپس آجاؤ...

شایان ششدہ سا یہ سب دیکھ رہا تھا..

سٹرینج ایسی بیوی پہلی بار دیکھی ہے جو اپنے ہاتھوں سے ہی اپنا شوہر کسی دوسری عورت کو سونپ رہی ہے تم جانتی بھی ہو کیا بول رہی ہو... مِیرا کو یقین نہیں آ رہا تھا اپنی نظروں پر

میں اپنی خوشی پر شایان کی خوشی کو فوقیت دوں گی میرے لیے شایان میری ذات سے پہلے ہیں مجھے کچھ بھی کرنا پڑا تو میں کروں گی...

لیکن مجھے اب اس انسان میں کوئ دلچسپی نہیں پھر میں کیوں مانوں تمہاری بات... مِیرا کندھے اچکاتی ہوئ بولی


پلیز تم جو بھی کہو میں کروں گی لیکن پلیز شایان کو مت چھوڑو تم ان کی زندگی میں واپس آ جاؤ گی تو وہ پہلے کی طرح ہو جائیں گے...

کیا کر سکتی ہو تم شایان کے لیے؟؟؟ مِیرا اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئ بولی

کچھ بھی جو تم بولو... نور بے خوف ہو کر بولی

جان دے سکتی ہو اپنی کیونکہ جب تک تم زندہ رہو گی مجھے تسلی نہیں ہو گی شایان نے اتنا وقت تمہارے ساتھ گزارا ہے اگر اس کا دل میری محبت سے منکر ہو گیا پھر وہ تو تمہیں تلاشے گا....

دے سکتی ہوں... نور نے بس اتنا ہی کہا

ویل مزے کی سٹوری ہے شوہر کسی کے لیے مر رہا ہے تو بیوی اس کے لیے تم....

مِیرا حیران ہوتی پیچھے دیکھنے لگی...

نور نے پیچھے چہرہ موڑ کر دیکھا

شایان تم یہاں کیسے آےُ...

شایان... نور نے زیر لب دہرایا

شایان نکل کر سامنے آ گیا

بلکل میں... نور حیرت و خوف کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھنے لگی...

اسی وقت باہر سے گولیاں چلنے کی آواز آئ..

یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟ مِیرا کی آواز سنائ دی

تم بتاؤ کسے بلایا ہے تم نے؟؟؟ شایان مِیرا کا بازو دبوچتے ہوۓ بولا

جنگلی انسان چھوڑو مجھے میں تو خود نہیں جانتی... مِیرا اپنی بازو چھڑواتی ہوئ بولی

نور تم یہاں آؤ...

نور جو گولیوں کی آواز سے سہمی کھڑی تھی شایان کے پکارنے پر اس کی جانب چلنے لگی... مِیرا اس گھر کا کوئ پچھلا دروازہ ہے؟؟؟

ہاں ہاں ہے چلو... مِیرا تیزی سے قدم بڑھانے لگی.. شایان نور کا ہاتھ پکڑے اس کی پیروی کرنے لگا...

تینوں جنگل میں نکل آےُ اور بھاگنے لگے...

وہ لوگ کافی دور نکل آےُ کہ انہیں سڑک نظر آنے لگی... نور رک کر ہانپنے لگی...

شایان میں.... میں اور نہیں بھاگ سکتی

نور بھاگنا پڑے گا ورنہ وہ لوگ یہاں پہنچ جائیں گے...

شایان نے نور کا ہاتھ پکڑا اور چلنے لگا مِیرا پھرتی سے بھاگ رہی تھی اسے اپنی جان کے لالے پڑ رہے تھے...

آؤچ.. نور کی چینخ نکلی...

کیا ہوا؟؟؟ شایان نے اسے مڑ کر دیکھا

شایان میرا پاؤں... نور درد سے کراہنے لگی

تم یہاں بیٹھو...

نور ایک پتھر پر بیٹھ گئ اور شایان اس کا پاؤں پکڑ کر دیکھنے لگا

شایان آپ رہنے دیں آپ جائیں میں بعد میں آ جاؤں گی...نور اپنا پاؤں اس کے ہاتھ سے پیچھے کرتی ہوئ بولی

تم پاگل ہو کیا میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ورنہ خود بھی یہیں تمہارے ساتھ رہوں گا...

شایان نور کے پاؤں سے کانٹا نکالنے لگا

نور کے چہرے پر تکلیف کے آثار ابھرنے لگے دوپٹہ اس کا بھاگتے ہوۓ کہیں گر گیا تھا..

نور کے بال ٹیل پونی میں سے باہر نکل کر چہرے پر آ رہے تھے آنکھوں میں نمکین پانی جمع تھا شایان کی نظر نور پر پڑی تو ایک پل کو نظر ہٹانا بھول گیا آج اسے نور سے حیسن کوئ چہرہ نہیں لگ رہا تھا مِیرا کا بھی نہیں...

کیا ہوا شایان؟؟ نور خوف اور تکلیف کے زیر اثر بولی

کچھ نہیں شایان مسکراتے ہوۓ نیچے دیکھنے لگا جیب سے رومال نکال کر نور کے پاؤں پر باندھ دیا اور کھڑا ہو گیا...

اب؟؟؟ نور اسے دیکھتے ہوۓ بولی

شایان لب کاٹتے ہوۓ نور پر جھکا اور اسے اپنی بازوؤں میں اٹھا لیا

شایان یہ کیا... نور اس حرکت پر حیران رہ گئ

یہ کہ آپ میری بیوی ہیں سو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں...شایان چلتے ہوۓ بولنے لگا

لیکن شایان آپ تھک جائیں گے مجھے اتار دیں نیچے میں خود چلتی ہوں...

جی نہیں اب تو ایسے ہی جاؤں گا میں... نور شایان کے بدلے بدلے انداز پر حیران تھی

نور کے ہارٹ نے بیٹ مس کی شایان کے اتنے قریب اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا...

نور اسے دیکھنے لگی

نور ایک کام کرو...

جی؟؟؟

میری گلاسز زرا اوپر کرو گر جاےُ گی...

نور نے ہاتھ بڑھا کر اس کی عینک اوپر کر دی..

شایان مسکرانے لگا اسے دیکھ کر نور بھی مسکرانے لگی...

آپ تھک گۓ ہوں گے شایان....

کافی دور آنے کے بعد نور پھر سے بولی

ویسے آج معلوم ہوا کیسے بیوی بوجھ لگتی ہے اف کم کھایا کرو موٹی... شایان شرارت سے مسکراتے ہوۓ بولا

نور برا مان گئ

میں بے تو آپ کو بولا تھا کہ مت اٹھائیں لیکن آپ اپنی مرضی سے یہ بوجھ اٹھاےُ ہوۓ ہیں.. نور منہ بناتی ہوئ بولی

شایان مسکرانے لگا

سڑک پر پہنچ کر شایان نے نور کو اتارا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہو گیا

شاید یہاں سے لفٹ مل جاےُ لیکن جیسا یہ علاقہ ہے چانسزز کم ہیں... شایان اِدھر اُدھر دیکھتے ہوۓ بولا

اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا لیکن انہیں کوئ گاڑی نظر نہ آئ..

مجھے لگ رہا ہے آج رات یہاں جانوروں کے ساتھ ہی سونا پڑے گا شیر لوری سناےُ گا ہمیں.. شایان اسے ڈراتے ہوۓ بولا

نور تھوک نگلتی ہوئ بولی

شایان یہاں پر جانور بھی ہوتے ہیں کیا؟؟

بلکل اور بہت خوفناک قسم کے...

شایان اب ڈرائیں تو مت مجھے تو آپ سے اتنا ڈر لگتا ہے ساتھ میں آپ ان کو بھی ملا لیں.. نور کی بات پر شایان کے قہقہے بلند ہوےُ

آؤ اس درخت کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں... شایان سامنے والے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا

نور اس کا ہاتھ تھامے چلنے لگی

نور کو یہ احساس بہت اچھا لگ رہا تھا کہ شایان اس کی پرواہ کر رہا ہے اسے اپنے ساتھ رکھ رہا ہے

وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ گۓ درخت کی اوٹ میں...

آسمان ستاروں سے بھر چکا تھا رات پوری طرح اپنے پر پھیلا چکی تھی...

ہوا چلتی تو پتوں میں سر سراہٹ پیدا ہوتی وہ دونوں خاموش تھے صرف ہوا کے چلنے سے خاموشی میں ارتعاش پیدا ہو رہا تھا نور کے بال اڑ کے اس کے چہرے پر آ رہے تھے

وہ دونوں اس سیاہ رات کا حصہ لگ رہے تھے بلکل خاموش ایک دوسرے سے دور...

نور کی نظریں آسمان پر تھیں آج کا چاند بہت باریک تھا شاید چاند کی پہلی تاریخ میں سے کوئ تاریخ تھی...

نور نے شایان کی نظریں خود پر محسوس کیں تو اس کی جانب دیکھنے لگی

شایان مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہا تھا

آپ کو کچھ چائیے؟؟؟

تم گھر میں بیٹھی ہو کیا اگر چائیے بھی تو کیسے دو گی... شایان مسکراہٹ روکتے ہوۓ بولا

یہ تو ہے... نور سمجھتی ہوئ بولی

شکر ہے ورنہ مجھے لگا تھا ایک گھنٹہ لگا کر سمجھانا پڑے گا

میں بدھو نہیں ہوں... نور ناک چڑھاتی ہوئ بولی

اچھا پھر کیا ہو... شایان کو اس کی باتیں لطف دے رہیں تھیں

نور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی....

**********

مریم آفس میں بے ہوش ہو گئ..

اس کی ایک کولیگ اسے ہوش میں لائ...

تم ٹھیک ہو؟؟

ہاں بہتر ہوں...مریم کا سر ابھی تک چکرا رہا تھا آج اس نے ناشتہ نہیں کیا تھا اسی وجہ سے بے ہوش ہو گئ...

وہاں سے گزرتے ہوۓ ازمیر کی نظر مریم پر پڑی جو سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی...

کیا ہو رہا ہے یہاں؟؟؟ وہ رعب سے بولا

وہ سر مریم بے ہوش ہو گئ تھی تو میں صرف مدد کر رہی تھی... وہ گھبراتی ہوئ جلدی جلدی وضاحت کرنے لگی...

ٹھیک ہے تم جا کر اپنا کام کرو اور مریم کی طرف متوجہ ہوا

آپ ٹھیک ہیں؟؟ مریم نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا

نقاہت کے باعث بار بار اس کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں...

مجھے ابھی چھٹی مل سکتی ہے کیا؟؟؟ مریم کا سانس پھول رہا تھا

آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں... وہ مریم کی بات نظر انداز کرتے ہوۓ بولا

جی میری طبیعت ٹھیک نہیں صبح سے... مریم آنکھیں کھولے رکھنے کی کوشش کرتی ہوئ بولی

آپ ایسا کریں میرے ساتھ ڈاکڑ کے پاس چلیں....

نہیں میں گھر جا کر آرام کر لوں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی.... مریم کو ڈاکڑ کی فیس کی فکر تھی

آپ چلیں میرے ساتھ... وہ مریم کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا

مریم لڑکھڑاتی ہوئ چل رہی تھی اگر وہ ٹھیک ہوتی تو اسے اپنا ہاتھ نہ پکڑنے دیتی لیکن آج اسے سہارے کی ضرورت تھی...

ازمیر اسے ایک لیڈی ڈاکڑ کے کلینک لے گیا...

چیک اپ کے بعد ڈاکڑ ازمیر کے سامنے بیٹھ گئیں...

آپ کی وائف بہت کمزور ہیں ان کی ڈائٹ کا خیال رکھیں اس طرح بعد میں مسئلہ ہو گا.. ازمیر ناسمجھی کے عالم میں ڈاکڑ کو سن رہا تھا...

بعد میں مطلب؟؟؟

آپ کو معلوم نہیں آپ کی وائف پریگنینٹ ہیں...

جی جی معلوم ہے... ازمیر نے جھوٹ بولا

جی تو ان کے کھانے پینے کا خیال کریں میں نے ڈرپ لگا دی ہے بہتر ہیں اب وہ یہ کچھ میڈیسنس ہیں جو انہیں لینی ہیں آپ لے جا سکتے ہیں انہیں...

ازمیر پیسے دیتا کھڑا ہو گیا

شک تو اسے تھا ہی لیکن آج ڈاکڑ نے تصدیق بھی کر دی...

ازمیر پر سوچ انداز میں گاڑی چلا رہا تھا...

تھینک یو سر... مریم تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھتی ہوئ بولی

ازمیر کچھ نہیں بولا

مریم ایک بات بتاؤ؟؟ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ بولا

جی سر؟؟ مریم اس کی جانب متوجہ ہوئ

تم شادی شدہ ہو؟؟؟

میرے شوہر کی ڈیتھ ہو گئ ہے...

مریم خود کو سنبھالتی ہوئ بولی

اووہ افسوس ہوا سن کر

لیکن شاید تمہاری شادی کو زیادہ وقت نہیں ہوا...

جی دو ماہ بعد وہ اس دنیا سے چلے گۓ تھے...

ٹھیک... کہ کر اس نے مریم کے گھر کے باہر گاڑی روکی

ایک بات مریم؟؟

جی سر بولیں...

میں نے پہلے بھی کہا تھا اب پھر سے کہ رہا ہوں تم بلا جھجک مجھ سے کوئ بھی ہیلپ لے سکتی ہو یا پھر کچھ بھی شئیر کر سکتی ہو مجھے اپنا دوست سمجھو...

وہ مریم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا..

مریم نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکال لیا...

ٹھیک ہے سر... کہ کر وہ باہر نکل گئ...

نا جانے کیوں مجھے یہ انسان صحیح نہیں لگتا مریم کو ہمیشہ ہی وہ کھٹکتا تھا اس کی نظریں عجیب سی ہیں...

کہتے ہیں عورت کو اللہ نے تیسری آنکھ دی ہوتی ہے جس سے اسے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ سامنے والا انسان اسے کس نظر سے دیکھ رہا ہے....

مریم سر جھٹکتی بیٹھ گئ ڈرپ کے بعد اس کی طبیعت قدرے بہتر تھی

ازمیر نے کھانا بھی لے کر دیا تھا مریم کھانا کھا اللہ کا شکر ادا کرنے لگی اور سو گئ..

*********

مام میں کراچی جا رہا ہوں...آفاق بیگ ہاتھ میں پکڑے بولا

خیریت بیٹا..

جی وہ ہیڈ آفس میں میٹینگ ہے بس وہی اٹینڈ کرنے جا رہا ہوں

اچھا کب تک واپسی ہے؟؟؟

یہی کوئ دو چار دن میں

صحیح... اللہ کی امان میں رہو..

وہ آفاق کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئیں بولیں

آفاق نے دروازے کی جانب قدم بڑھا دئیے 

آفاق صبح سویرے اٹھا اور تیار ہو کر ہوٹل کے لیے نکل گیا...

پہلی دستک پر ہی مریم نے دروازہ کھول دیا رات کی نسبت اب وہ قدرے بہتر لگ رہی تھی... مریم نے اس کے لیے راستہ چھوڑا اور اس کے پیچھے دروازہ بند کر دیا...

کیسی ہو اب؟؟؟ آفاق کو اپنی آواز کسی گہرے کنواں سے آتی محسوس ہوئ

ٹھیک ہوں اور تم؟؟؟

تمہارے سامنے ہوں...

مریم خاموش ہو گئ

کچھ پل خاموشی کی نظر ہوۓ

آفاق نے اس خاموشی کو توڑا...

تم جاب کیوں کر رہی ہوں اور وہ حسن کہاں ہے؟؟؟ آفاق سپاٹ سے انداز میں بولا

مریم کے زخم پھر سے ہرے ہوگۓ جن پر مرہم کبھی رکھا ہی نہیں تھا وہ مندمل کیسے ہوتے..

مریم کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ باب یہی تھا جہاں سے اس کی زندگی جہنم بن گئ...

کیا بتاؤں میں تمہیں آفاق پھر کہیں تم یہ نہ کہ دو کہ میں ہمدردی لینے کی کوشش کر رہی ہوں...

تمہیں لگتا ہے میں ایسا بولو گا؟؟ آفاق کو حیرانی ہوئ

نہیں...

پھر بولو ہر ایک بات مجھے سب جاننا ہے تم اس حال میں کیوں ہو کیا ہوا تمہارے ساتھ سب کچھ بتاؤ...

مریم آنسو صاف کرتی بولنے لگی

میں نے شادی کر لی تھی حسن سے پھر جب صبح میں اٹھی

چھ ماہ قبل:

حسن شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا..

مریم کی آنکھ کھلی تو اسے دیکھنے لگی...

میری جان اٹھ گئ؟؟ حسن محبت پاش نظروں سے دیکھتا ہوا بولا

ہاں... مریم نے مختصر سا جواب دیا

حسن اس کے سامنے بیٹھ گیا

میں کام سے جا رہا ہوں تم پریشان مت ہونا... حسن مریم کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوۓ بولا

نہیں حسن تم کہیں نہیں جاؤ گے ہماری شادی ہوئ ہے میں تمہارے لیے سب کو چھوڑ کر آئ ہوں اور تمہیں باقی دنیا کی پڑی ہے.... مریم اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئ بولی

کون سی شادی؟؟ حسن انجان بنا

مریم ششدہ سی رہ گئ

اور میں تمہیں گن پوائنٹ پر تو نہیں لایا اپنی مرضی سے آئ ہو تم میرے پاس..

مریم الجھتی ہوئ اسے دیکھنے لگی

کیا مطلب ہے ان بے تکی باتوں کا...

تو تم نے اس نکاح کو سچ سمجھ لیا... حسن قہقہے لگانے لگا

بیوقوف لڑکی تو وہ میں نے تمہارا دل رکھنے کے لیے کیا تھا وہ مولوی نہیں میرا دوست تھا تاکہ تم اس کے بعد خود کو مجھے سونپ دو.. حسن اس کے چہرے پر آئ لٹ کو پیچھے کرتے ہوۓ بولا

کیا بکواس ہے یہ تم مذاق کر رہے ہو نہ میرے ساتھ؟؟ مریم اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئ بولی

مذاق تو کل کیا تھا بس میرا مطلب پورا ہو گیا تو مذاق بھی ختم...

مریم کا سر نفی میں ہل رہا تھا لیکن لب خاموش تھے

ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟

پلیز کہ دو یہ سب جھوٹ ہے .....

نو بے بی اب تو میں سچ بول رہا ہوں تم یقین کیوں نہیں کر رہی مجھے جو چائیے تھا وہ مل گیا اگر زبردستی کرتا تو تم کیس کر دیتی میری بدنامی ہوتی لیکن جس طرح تم آئ ہو اس کے بعد کیس کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا...

مریم ششدہ سی اسے دیکھ رہی تھی جسے اس نے سر کا تاج بنایا تھا اسی نے اس کے سر سے عزت کی چادر اتار پھینکی تھی عورت اس کے بغیر کنگال ہو جاتی ہے وہ بھی لٹ چکی تھی لیکن دل ابھی بھی ماننے پر تیار نہ تھا... حسن یہ سب... مریم کے آنسوؤں نے باقی بات ادھوری رہنے دی

اف میری جان تمہیں یاد ہے میں چھ ماہ سے تمہارے آگے پیچھے گھوم رہا تھا لیکن تم مغرور بنی مجھے گھاس بھی نہیں ڈالتی تھی نا جانے کتنی بار مجھے ٹھکرایا میں نے تبھی سوچ لیا تھا کہ ایک دن تمہیں اپنے پاؤں میں گراؤں گا اس دن تم مجھ سے بھیک مانگو گی اور دیکھو زرا خود کو آج تم گڑگڑاؤ گی کہ میں تم سے شادی کر لوں اور میں تمہیں ٹھوکر مار کر چلا جاؤں گا ویسے بھی تم چیز بھی ایسی ہو کہ ہر کوئ پانا چاہے میری قسمت اچھی نکلی کہ میں پہلا انسان ہوں تم تک رسائ پانے والا...

لیکن تم تو مجھ سے پیار کرتے ہو نہ؟؟

پیار مائ مٹ ایک ایسی لڑکی سے پیار جو کسی کی منگیتر ہے تمہاری عقل بھی اتنی ناقص تھی یہ بھی نہ سمجھ سکی کہ کبھی بھی کوئ مرد کسی ایسی عورت کا انتخاب نہیں کرتا جو کسی دوسرے مرد سے منسوب ہو میری عقل پر پتھر نہیں پڑے تھے جو تم جیسی آوارہ لڑکی کو اپنے گھر کی عزت بناتا.. مریم کو یہ گالی کسی تمانچے کی طرح لگی...

میں ایسی نہیں ہوں...

اچھا تو پھر کیسی ہو میری خاطر اپنے ماں باپ کی عزت اچھال کر آ گئ جنہوں نے اب تک تمہیں پیار دیا پال کر یہاں تک لاےُ کل کو کسی اور مرد کی خاطر تم مجھے بھی چھوڑ جاؤ گی..

نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا...

تم جیسی لڑکیاں اعتبار کے قابل نہیں پھر میں کیوں یقین کروں تمہارا تم تو ہر انسان کے ساتھ چل پڑو گی جو تمہیں پسند آےُ گا...

نہیں... مریم کو تکلیف ہو رہی تھی اس کی باتوں سے

تم ایک گھٹیا بدکردار لڑکی ہو مریم یاد رکھنا میری بات...

حسن....مریم آنسوؤں سے تر چہرہ لیے بولی

ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے بتاؤ میرے کہنے پر ڈیٹس پر کیوں آتی تھی ماں باپ سے جھوٹ بول کر اور میرا جہاں دل کرتا میں تمہیں ٹچ کرتا لیکن تم مجھے روکتی نہیں تھی جبکہ روک سکتی تھی یہی سب تم میرے ساتھ بھی کر سکتی ہو مجھے دھوکہ دے کر مجھ سے جھوٹ بول کر نا جانے کس کس کے ساتھ کیا کیا کرتی پھرو میں تو بےخبر ہی مارا جاؤں گا نہ....

پلیز بس کر دو... مریم کا ضبط جواب دے گیا

آئینہ دکھا رہا ہوں تو برداشت نہیں ہو رہا تم سے ہاں... وہ مریم کا چہرہ اوپر کرتے ہوۓ بولا

حسن میں کہاں جاؤ گی پلیز یہ مت کرو میرے ساتھ مجھے اپنا نام تو دے دو...

جہاں مرضی جاؤ دنیا بہت بڑی ہے اور رہی بات نام کی تو کسی بھی انسان سے کہنا تمہیں مل جاےُ گا یہ تو کوئ مسئلہ نہیں ہے...

حسن میرا دل بند ہو جاےُ گا

اتنی جلدی نہیں ہوتا اب یہ رونا دھونا کسی نئے عاشق کے سامنے کرنا یہاں سے چلتی بنو... مریم حیران ہوتی اسے دیکھنے لگی کس طرح اس نے رنگ بدلا تھا مریم تو بے یقینی کی کیفیت میں تھی ابھی تک

وہ اپنے منہ سے ہر چیز کا اعتراف کر رہا تھا لیکن دل پھر بھی ماننے سے انکاری ہو رہا تھا

ایسے مت دیکھو مجھے کوئ فرق نہیں پڑنے والا

حسن پلیز....

او پلیز مجھے کوئ فضول بکواس نہیں سننی اس لیے اپنا سامان اٹھاؤ اور نکلو یہاں سے...

مریم بے دلی سے اپنا بیگ اٹھانے لگی

ایک کام کر سکتا ہوں میں تمہارے لیے...

کیا؟؟ مریم بنا مڑے بولی

تمہیں اسٹیشن پر چھوڑ سکتا ہوں کیونکہ گھر تو تم جاؤ گی نہیں...

ٹھیک ہے... چونکہ مریم نہیں جانتی تھی وہ کہاں ہے اس لیے حامی بھر لی

بدلے میں کچھ ملے گا...

سب کچھ تو لے چکے ہو اب کیا باقی ہے میرے پاس جو لینا چاہتے ہو... مریم حلق کے بل چلائ

حسن کندھے اچکاتا باہر چل دیا...

حسن تمہیں مجھ پر ترس بھی نہیں آ رہا؟؟ مریم اسے دیکھنے لگی..

وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا نظریں ہنوز سڑک پر جماےُ بولا

بلکل بھی نہیں...

آہ... مریم سرد آہ بھر کر رہ گئ

یقین نہیں آرہا یہ تم ہو....

اچھے سے دیکھ لو تاکہ جب اگلی بار ملیں تو پہچاننے میں دقت نہ ہو

حسن چاہے تو مجھے اپنے گھر میں ملازمہ رکھ لو لیکن مجھ سے نکاح کر لو میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی ایک لفظ بھی نہیں لیکن پلیز یہ مت کرو میرے ساتھ مجھے اور میری محبت کو سب کے سامنے رسوا مت کرو..


میرا دماغ خراب نہیں ہوا جو اتنی خوبصورت ملازمہ لے کر جاؤ گھر ایک منٹ میں سب سمجھ جائیں گے....

پھر کوئ اور حل نکال لو لیکن حسن...

یار بس کرو میں تنگ آ گیا ہوں تمہاری باتوں سے اب اگر تم نے مزید ایک لفظ بھی بولا تو یہیں اتار دوں گا پھر جانا اکیلی تم....

مریم نے کرب سے آنکھیں میچ لیں

اس وقت وہ بے حس ہو چکا تھا

اپنی حوس مٹانے کے لیے اس نے مریم کی قربانی دی واہ ایسی محبت تھی تمہاری...

مریم دل میں سوچتی ہوئ تلخی سے مسکرائ....

جاؤ تمہاری منزل تمہارا انتظار کر رہی ہے...

حسن اسٹیشن کے سامنے گاڑی روکتے ہوۓ بولا

اور ہاں کچھ پیسے تمہارے بیگ میں رکھ دئیے تھے میں نے میری طرف سے تحفہ سمجھ لینا.. حسن اس کا منہ تھپتھپاتے ہوۓ بولا

مریم نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور باہر نکل گئ...

ٹرین کا وقت معلوم کیا

دو گھنٹے بعد ایک ٹرین آنی ہے جو کراچی جاتی ہے...

مریم ٹکٹ لے کر بیٹھ گئ اب تو اس کے پاس وقت ہی وقت تھا...

سٹیشن اس وقت زرا سنسان پڑا تھا اکا دکا لوگ دکھائ دے رہے تھے کچھ پڑے سو رہے تھے مریم خاموش نگاہوں سے پٹری کو دیکھنے لگی ہوا کے جھونکے اس کے بال منتشر کرنے لگے مریم میں اتنی سکت بھی نہ رہی تھی کہ ان بالوں کو پیچھے کر لے

چہرے پر بے بسی سجاےُ وہ تاحد نظر ویران جگہ کو دیکھ رہی تھی

وہ بھی تو ایسے ہی ویران ہو گئ تھی اس کی دنیا بھی اجڑ گئ تھی اور آخرت بھی کیسا تمانچہ مارا زندگی نے اس کے منہ پر کہ وہ لڑکھڑائ اور ایسے گڑھے میں پھسلی کہ ساری زندگی بھی کوشش کرتی تو باہر نہ نکل پاتی.. آنسو لڑی کی صورت میں پھر سے بہنے لگے

ماما پاپا...

پلیز مجھے معاف کر دیں میں تو آپ کے پاس بھی نہیں آ سکتی نا جانے میں کیسے اس کے پیار میں اتنی اندھی ہو گئ کہ اپنی بربادی بھی نہ دیکھ سکی ہاےُ اب میں کیسے زندہ رہوں گی پلیز مجھے لے جائیں آ کر مجھے ڈھونڈ لیں پاپا آپ کی مریم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں اس بے غیرت انسان سے... مریم کا چہرہ سرخ ہو گیا دل تو کر رہا تھا حسن کو جان سے مار دے کتنے آرام سے اس نے کہ دیا کہ محبت نہیں تھی محبت نہیں تھی تو پھر کیا تھا وہ سب... وہ ہاتھوں میں چہرے چھپاےُ رونے لگے

مریم کے آس پاس کوئ نہ تھا اسی لیے وہ خود کلامی کر رہی تھی

حسن تم مر جاؤ برباد ہو جاؤ اللہ تم سے بدلہ لے جو تم نے میرا اور میری محبت کا مذاق بنایا ہے تمہیں اللہ پوچھے دھوکے باز انسان...

یااللہ میں کہاں جاؤں نہ عزت رہی ہے نہ سر پر چھت میں تو لٹ گئ سب کچھ چھین لیا اس نے میرا نہ کوئ رشتہ ہے نہ کوئ دوست ایسے دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے مجھے زندگی نے.....

مجھے نہیں معلوم تھا کہ محبت کرنے کی اتنی بڑی سزا ملتی ہے وہ کیسے کر سکتا ہے میرے ساتھ ایسا... مریم کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا میں نہیں مانتی ایسا نہیں ہو سکتا وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا نہیں... مریم نفی میں سر ہلاتی ہوئ بول رہی تھی

لیکن مریم غلطی تمہاری ہی ہے

میری؟ میری کیسے غلطی ہو سکتی ہے

تم نے اپنے ماما پاپا کو تکلیف دی انہیں روتا چھوڑ آئ ہو ان کی عزت کی دھجیاں اڑا کر تم نے کیا سوچا کہ تم معتبر ٹھرائ جاؤ گی...

مریم خاموش ہو گئ

یہ محبت نہیں ہوتی محبت جسم سے نہیں روح سے کی جاتی ہے محبت تو یہ ہوتی ہے کہ محبوب سامنے ہو اور آپ اسے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ کہیں وہ بدنام نہ ہو جاےُ


ادب پہلا قرینہ ہے

عشق کے قرینوں میں

عاشق کبھی اپنے محبوب کو رسوا نہیں کرتا تم کیسے کہ سکتی ہو کہ یہ محبت تھی وہ تمہارے پاس آتا تم اسے اجازت دیتی تھی ورنہ کسی مرد میں اتنی مجال نہیں کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس سے بات بھی کر سکے.. آج مریم خاموش تھی اور اس کا ضمیر اسے آئینہ دکھا رہا تھا اس کی نام نہاد محبت کا جس ضمیر کو وہ آج تک سلاتی آئ تھی...

مجھے پہلے کیوں نہیں یہ سب نظر آیا... مسلسل رونے کے باعث مریم کی آنکھوں میں سوجن ہو گئ, چہرہ مرجھایا ہوا تھا اسے معلوم ہی نہ ہوا کب دو گھنٹے بیت گۓ اور ٹرین آ گئ... مریم مرے مرے قدم اٹھاتی ٹرین میں جا بیٹھی اصل سفر تو شاید اب شروع ہوا تھا... See less

مریم کے ساتھ ساتھ آفاق بھی رو رہا تھا...

آفاق مجھے تو چاروں جانب سے شکست ہوئ تھی نہ فیملی رہی نہ محبت میں تو خالی ہاتھ رہ گئ کنگال ہو گئ میں... اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ میں خود ذمہ دار ہوں اپنی اس حالت کی اگر تبھی عقل استعمال کرتی اور وہ قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار منفی پہلو پر نظر ثانی کر لیتی تو شاید زمانے کی ٹھوکریں میرا مقدر نہ بنتیں.....

آفاق کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کی داستان پر افسوس کرے یا ہمدردی...

پھر میں کراچی آ گئ جو زیور میں گھر سے لائ تھی اسے بیچ کر یہاں ایک چھوٹا سا گھر لے لیا سب سے لو ایریا میں آفاق اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے پاس کیا تھا پاپا نے دنیا کی ہر نعمت مجھے دی اور میں ان سب کو ٹھکرا کر چلی گئ...

کچھ پیسے جو حسن نے دئیے اور کچھ گھر خریدنے کے بعد جو رقم میری پاس بچ گئ اس پر میں اپنا گزر بسر کرنے لگی اور تم یقین نہیں کرو گے آفاق میں نے ایسے بھی دن دیکھے ہیں جب جیب میں ایک ٹھیلہ نہیں تھا اور پیٹ خالی تھا میں اپنی زندگی کا یہ وقت کبھی نہیں بھول سکتی شاید یہ بھلاےُ جانے کے قابل بھی نہیں ہے تمہیں معلوم ہے آج مجھے اللہ کی دی ہوئ ہر چیز کی قدر آ گئ ہے پھر چاہے وہ رزق ہو یا رشتے...

مریم خاموش ہو گئ...

جتنی تکلیف اس نے برداشت کی تھی اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ کم تھے...

مریم میں جانتا ہوں تم نے جو کیا وہ غلط نہیں بہت غلط تھا لیکن جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا وہ حد سے زیادہ برا تھا شاید تم اتنی تکلیفوں کی مستحق نہ تھیں جتنی تمہیں ملی ہیں

نہیں آفاق مجھے شاید ضرورت تھی اس سب کی ورنہ میں کبھی نا سمجھ پاتی اپنی غلطیوں کو کبھی نہ دیکھ پاتی مجھے افسوس نہیں ہے نہ ہی میں افسوس کر سکتی ہوں کیونکہ اس کی وجہ میں خود ہوں میری کم عقلی ہے... آفاق کو دیکھ کر مریم کو لگ رہا تھا سخت دھوپ میں گھنا سایہ مل گیا ہو...

مریم تم واپس چلو میرے ساتھ گھر...

نہیں آفاق تم پاگل ہو کیا میں نے تمہیں اسی لیے سب نہیں بتایا کہ تم مجھے واپس لے جاؤ میں وہاں موجود ایک ایک انسان کی گناہگار ہوں ماما پاپا کے بعد تمہاری سب سے بڑی مجرم ہوں میں مجھ سے ایسا رویہ مت رکھو مجھے سزا دو اپنے دل کی بھڑاس نکالو....

آفاق نفی میں سر ہلانے لگا

مریم مجھے لگا تھا میں تم سے نفرت کرنے لگا ہوں لیکن آج مجھے تم سے دوبارہ محبت ہو گئ ہے...

مریم حیرت سے اسے تکنے لگی

آخر کس مٹی کا بنا تھا وہ شخص جو اتنا سب ہونے کے باوجود اس کے ساتھ کھڑا تھا...

تمہیں تو مجھ جیسی لڑکی کو ٹھوکر مار کر جانا چائیے

اگر اس کا علم نہ ہوتا تو شاید ایسا ہی کرتا لیکن اب ممکن نہیں تمہیں اس حال میں چھوڑ کر جانا...

آفاق تم سمجھ نہیں رہے میں واپس نہیں جا سکتی حسن نے مجھے کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا

مریم تم یہاں تنہا سروائیو نہیں کر سکتی...

میں تنہا نہیں ہوں میرے ساتھ ہے کوئ...

کون؟؟؟

مریم اِدھر اُدھر دیکھنے لگی

میں گھر جا کر تمہیں اپنی رپورٹس دکھا دوں گی پھر تمہیں معلوم ہو جاےُ گا....

اوووہ.... آفاق سمجھ گیا

کوئ فرق نہیں پڑتا تم بس واپس چل رہی ہو تو مطلب فائنل ہے... آفاق حتمی انداز میں بولا

آفاق میں اپنی زندگی شروع کر چکی ہوں واپسی کے دروازے تاحیات مجھ پر بند ہیں مجھے کسی آزمائش میں مت ڈالو میں برداشت نہیں کر سکوں گی... مریم چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ زادوقطار رونے لگی...

آفاق نے اسے رونے دیا تاکہ اس کا دل ہلکا ہو جاےُ اس کی اپنی آنکھیں بھی برس رہیں تھیں

خوبصورت چہروں کے پیچھے نہیں سچی محبت کے پیچھے بھاگیں

چہرے تو بہت مل جائیں گے لیکن محبت نہیں ملے گی...

*********

جیسے ہی مِیرا نے شوٹ ہم بولا نور شایان کے سامنے آ گئ پہلی گولی اس کے پیٹ میں لگی اور دوسری بازو کے آر پار ہو گئ.....

شایان شاک کی کیفیت میں نور کو دیکھنے لگا جو لڑکھڑا رہی تھی شایان گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور نور کے چہرے کے نیچے اپنی بازو رکھ دی...

نور... شایان اس کا منہ تھپتھپانے لگا

مِیرا افسوس سے دیکھنے لگی کہ نشانہ چوک گیا

نور اپنی آنکھیں کھولے رکھنا بند نہیں کرنا...

شایان اسے ہوش میں رکھنے کی کوشش کرنے لگا

لیکن نور کی آنکھیں بار بار بند ہو رہیں تھیں..

چند ہی منٹوں میں نور خون میں نہا گئ...

شایان کو اپنی بے بسی پر غصہ آرہا تھا

اس سے پہلے کہ مِیرا دوبارہ شوٹ کرنے کا بولتی ان کے سامنے ایک گاڑی آ رکی...

مِیرا ڈر گئ اور ان لوگوں کے ساتھ بھاگ دوڑی....

وہ شایان کا دوست تھا...

شایان کیا ہوا؟؟ وہ گھبراتے ہوۓ پوچھنے لگا... یار ابھی کچھ مت پوچھ بس جلدی سے ہاسپٹل چل... کہتے ہوۓ شایان نے نور کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی اور نور کی آنکھیں بند ہو گئیں...

شایان نے اسے اٹھا کر گاڑی میں لٹایا اور دوست کو فل سپیڈ پر ڈرائیو کرنے کی ہدایت دی...

نو نور تم ایسے نہیں جا سکتی...شایان کی آنکھوں سے آنسو نکل کر نور کے چہرے پر گرے لیکن وہ تو دنیا جہان سے بے خبر تھی... پلیز ڈرائیو فاسٹ... شایان فکر مندی سے بولا

*********

ابھی تم کچھ دن یہاں ہوٹل میں رہو جب تک میں کراچی میں ہوں اور تمہیں کوئ ضرورت نہیں ہے ایسی گھٹیا جگہ پر جاب کرنے کی اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے...

آفاق کہتے ہوۓ کھڑا ہو گیا

ایک اور بات...

مریم نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا

تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئ تو مجھے فون کر لینا اپنا نمبر میں لکھ کر جا رہا ہوں اور اگر تم نے مجھے نہیں بتایا تو میں ناراض ہو جاؤں گا تم سے...

مریم آنکھوں میں نمی لیے اثبات میں سر ہلانے لگا...

آفاق دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا

مریم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا اب کیا کرے وہ واپس نہیں جا سکتی تھی لیکن دل تو چاہتا تھا واپس جانے کو ماما,پاپا,مجیب,ایمان,فاطمہ سب کتنے یاد آتے تھے یہ تو وہی جانتی تھی پتہ نہیں زندگی مجھے موقع دے گی بھی یا نہیں آپ لوگوں کو دوبارہ دیکھنے کا...

یااللہ پلیز میرے لیے آسانی کر دیں میں مزید تکلیف برداشت نہیں کر سکتی مجھ میں ہمت نہیں رہی اب... آفاق نے سہی کہا تھا اس معاشرے میں عورت مرد کے سہارے کے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ مجھے کوئ سہارا دے کوئ پاگل ہی ہو گا جو مجھے پناہ دے گا...

حسن کاش تم ایسا نہ کرتے مجھے نفرت محسوس ہوتی ہے تم سے...مریم حقارت سے سوچنے لگی

تمہیں کبھی میری یاد نہیں آئ آتی بھی کیوں؟

محبت اور وقت گزاری میں فرق ہوتا ہے تمہارا ساتھ میرے لیے ایک اثاثہ تھا اور میں فقط تمہارا ٹائم پاس دل بہلانے کا ایک کھلونا.. سچ میں دنیا نے بنت حوا کو کھلونا ہی سمجھ رکھا ہے تبھی تو جس کا دل چاہتا ہے ان کی عزت سے کھیل جاتا ہے یہ ہمارے مردوں کی گندی ذہنیت ہے جس کے باعث بنت حوا اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں آخر کب تک عورت کو کھلونا بنا کر رکھا جاےُ گا کیا ان کی زندگی انمول نہیں انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح پیروں میں روند دیا جاتا ہے پاؤں کی دھول بنا کر رکھتے ہیں جب جی چاہا اڑا دیا

اے مورخ! وہ بھی انسان ہیں انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے زمانے کے سامنے رسوا کر کے انہیں موت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہو ابن آدم نہ تو جی سکتی ہیں نہ مر سکتی ہیں گھٹ گھٹ کر جینے کے لیے چھوڑ دیتے ہو اس سے تو بہتر ہے ایک اور گناہ کے مرتکب ہو جایا کرو اور انہیں موت کی نیند سلا دیا کرو کیونکہ مار تو انہیں دیتے ہی ہو بس یہ سانسوں کا کھیل ہے اسے بھی ختم کر دیا کرو شاید ان کی کچھ اذیت ہی کم ہو جاےُ

حیرت کی بات ہے زمانہ جتنا پڑھا لکھا ہوتا جا رہا ہے یہ مرد اتنے ہی جاہل بنتے جا رہے ہیں انہیں اس بات سے بھی خوف نہیں آتا کہ ہماری بھی ماں بہنیں گھر میں موجود ہیں لیکن جب دماغ میں ہی گند بھرا ہو تو اچھا کس طرح سے سوچ سکتے ہیں

سٹوڈنٹس اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں کیا فائدہ ایسے علم کا جب انہیں عورتوں کی عزت کرنا ہی نہ سکھایا جب انہیں یہ نہ بتایا کہ بیٹا کسی کی بہن بیٹی پر بری نظر مت رکھنا... میں کہتی ہوں لعنت ہے ایسے مردوں پر شرم سے ڈوب مرنا چائیے انہیں لیکن وہ زیادہ خوش نہ ہوں اس دنیا میں تو قانون نہیں ہے یہاں کی عدالت سے بچ جائیں گے لیکن اللہ کی عدالت سے انہیں کوئ نہیں بچا سکے گا اس دن یہ روئیں گے تب ہو گا حساب بے شک اللہ بہتر حساب کرنے والا ہے....

*********

ہاسپٹل کے باہر نور کو سٹریچر پر لٹایا گیا تو شایان اس کا ہاتھ تھامے اندر چلنے لگا

آنسوؤں کے باعث نور کا چہرہ بار بار دھندلاتا جا رہا تھا وہ شاک سا اس کے ساتھ چل رہا تھا

نور کا خون کافی ضائع ہو چکا تھا اسے

آئ-سی-یو میں لے گے...

یہ پولیس کیس تھا لیکن شایان نے کسی بڑے سرجن کو کہ کر علاج شروع کروایا..

شایان فکرمند سا باہر بیٹھا تھا

اگر نور کو کچھ ہو گیا تو میں ساری زندگی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا پلیز اللہ پاک نور کو کچھ نہ ہو...

آج شایان کے آنسو نور کے لیے نکل رہے تھے

ملجگا سا حال بنا ہوا تھا شایان کے بکھرے بال, بڑھی شیو, آنکھیں سرخ, دھول سے اٹے کپڑے اور لبوں پر صرف نور کا نام تھا...

شایان کو لگا وہ نور کو نہیں بلکہ اپنی رندگی کو کھو رہا ہے جو ریت کی مانند اس کے ہاتھ سے پھسلتی جا رہی تھی...

نہیں نور ابھی تو ہمیں بہت سی خوشیاں ایک دوسرے کی سنگت میں دیکھنی ہیں یہاں آ کر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی میں پھر سے کسی کو کھونے کا متحمل نہیں وہ بھی ایسی انسان کو جو مجھ سے بے حد محبت کرتی ہے..وہ نفی میں سر ہلاتا خود کلامی کر رہا تھا

دو گھنٹے کی سرجری کے بعد ڈاکڑز باہر نکلے...

شایان اٹھ کر ان کے پاس گیا...

ڈونٹ وری شی از آؤٹ آف ڈینجر.... ڈاکڑ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا اور اپنے کیبن میں چلا گیا...

شایان نے نرس کو روکا

کیا میں اپنی وائف سے مل سکتا ہوں؟؟؟

انہیں روم میں شفٹ کر دیں اس کے بعد...

شایان اثبات میں سر ہلاتا باہر نکل آیا اس کے قدم دم بخود مسجد کی جانب اٹھ رہے تھے...

شایان وضو کر کے نماز پڑھنے لگا اس کے آنسو پاؤں پر گر رہے تھے نا جانے کس بات پر اس کا دل رو رہا تھا... نماز پڑھ کر وہ سجدے میں گر گیا اور زادوقطار رونے لگا ایک عرصہ ہو گیا تھا اسے خدا سے دور آےُ اس نے دعا مانگنا چھوڑ دیا تھا اللہ سے بھروسہ اٹھ گیا تھا لیکن آج وہ اسی در پر آیا تھا وجہ جاننے سے وہ خود قاصر تھا نور تمہاری نمازیں تمہارا یقین فاتح ہوا اور مجھے دیکھو میں شکست کھا کر بھی جیت گیا کیا مجھ سے زیادہ کوئ خوش نصیب ہو سکتا ہے شایان کو خود پر رشک آ رہا تھا... وہ کئ گھنٹے اسی حالت میں رہا کبھی اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تو کبھی نور کی صحت یابی کی دعا کرتا شایان نے دو نفل شکرانے کے ادا کیے اللہ نے نور کی جان بخشی کر دی تھی اس کے لیے یہ عنایت بہت اہمیت کی حامل تھی...

نمازی اسے دیکھ کر پریشان ہو گۓ مولوی صاحب شایان کے پاس آےُ....

بیٹا تم ٹھیک ہو؟؟

شایان نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھا

جی... بس اتنا ہی بول پایا

بیٹا جو یہاں روتا ہے نہ اسے قسمت پر رونا نہیں پڑتا... وہ مسکراتے ہوۓ بولے

بہت اچھی بات ہے تم دنیا کی بجاےُ اللہ کے سامنے رو رہے ہو کیونکہ اللہ ہی حقدار ہے کہ دل کا حال اسی سے بیان کیا جاےُ معلوم ہے وہ تو شہ رگ سے بھی زیادی قریب سے سب دیکھتا جانتا ہے لیکن پھر بھی جب بندہ اس سے کہتا ہے تو وہ سنتا ہے کیونکہ وہی سامع ہے اور وہ سننا چاہتا ہے وہ تو کہتا ہے کہ اے بندے مجھ سے کہ یہ تو ہماری کم عقلی ہے جو ہم ایسے سہاروں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو ہمیں فائدہ نہیں دے سکتا اور اللہ کا سہارا نہیں لیتے جس کے ہاتھ میں ہر چیز ہے

شایان خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا...

دل کی باتیں چپکے چپکے اللہ سے کر لیا کرو کبھی سکون کی تلاش میں نہیں نکلو گے...

شایان اثبات میں سر ہلانے لگا...

اسے نور کا خیال آیا...

شکریہ مولوی صاحب میں چلتا ہوں...

وہ مصافحہ کرتا باہر نکل گیا...

دل کے داغ دھل چکے تھے شایان پر سکون سا نور کے کمرے میں آیا...

نرس اسے سوپ پلا رہی تھی...

دروازہ کھلنے کی آواز پر نور نے چہرہ موڑ کر دیکھا اور شایان کو دیکھتی مسکرانے لگی......

شایان نرم مسکراہٹ لیے اس کے پاس آیا

کیسی ہو نور؟؟

ٹھیک ہوں میں... نور اسے دیکھتی ہوئ بولی

جھوٹ بول رہی ہو نہ...

نور حیران ہوئ

نہیں...

خود کو دیکھو زرا کہاں سے ٹھیک لگ رہی ہو مام کو معلوم ہوا تو مجھے گھر سے باہر نکال دیں گی...

شایان کی بات پر نور مسکرانے لگی

پہلے جیسی بھی ہو جاؤں گی...

نرس باہر چلی گئ

شایان نے نور کا ہاتھ پکڑلیا

نور پلیز مجھے معاف کر دو... آنسو پھر سے بہنے لگے

شایان آپ معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟؟؟ نور ششدہ سی اسے دیکھنے لگی

کیونکہ میں نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے میرے باعث بہت دکھ تم نے برداشت کیے اور میں سوچے بنا وہ سب کرتا رہا پلیز مجھے معاف کر دو.... شایان نے نور کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے

شایان مجھے آپ سے کوئ شکایت نہیں ہے آپ پلیز مجھ سے معافی مت مانگیں بس دوبارہ کبھی وہ سب مت کیجیے گا.....نور مسکراتی ہوئ بولی

لیکن کیوں؟؟؟

بس میں نہیں جانتی... نور نے لاعلمی ظاہر کی

اب زرا مجھے یہ بتاؤ تمہیں مِیرا کے پاس جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟؟ شایان خفگی سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا

آپ خوش نہیں تھے اور آپ کو اس حال میں دیکھنا میرے بس میں نہیں تھا اسی لیے میں نے وہ فیصلہ کیا لیکن سب خراب ہو گیا...

ایک لگاؤ گا خراب ہو گیا... شایان غصے سے زیرلب بڑبڑاتے ہوۓ بولا

ابھی بھی لگائیں لگے؟؟؟ نور منمنائ

نہیں اب وہ سب نہیں کروں گا اب کچھ اور کروں گا...

کچھ اور مطلب؟؟؟

تم بدھو ہی رہو گی

تمہیں انداز بھی ہے مِیرا کے اس وقت دو لڑکوں کے ساتھ افئیر چل رہے ہیں اور تم اسے میرے ساتھ باندھنے چلی تھی...

نور حیران ہوئ

مجھے تو علم ہی نہیں تھا

اب تو علم ہو گیا نہ..

بس اب کوئ بات نہیں...

کیوں؟؟

ویسے نور مجھے ہنسنی آ رہی ہے سوچ کر کہ تمہارا کیا بنے گا... شایان مسکراتے ہوۓ بولا

کیا مطلب؟؟؟ نور ناسمجھی سے اسے دیکھتی ہوئ بولی

شایان نے دونوں ہاتھوں میں نور کا چہرہ تھاما اس کے چہرے پر جھکا اور اس کی روشن پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے

نور کے ہارٹ نے ایک بیٹ مس کی

جب تم میرا یہ روپ دیکھو گی... شایان شرارتی مسکراہٹ لیے بولا

نور بلش کرنی لگی

ایک بات بولو...

شایان اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولا

بولیں...

یہ جگہ تو ایسی نہیں ہے لیکن میں پھر بھی کہنا چاہتا ہوں تم میرے لیے ناگزیر ہو ان چند گھنٹوں میں مجھے لگا میں نے خود کو کھو دیا ہے میں نہیں جانتا کب ہوا یہ سب لیکن میں خوش ہوں نور کہ اللہ نے مجھے تم جیسی بیوی دی میں موم بتی لے کر بھی دوبئی کی سڑکوں پر ڈھونڈو گا نہ تم جیسی آدھی بھی نہیں ملے گی... شایان مسکراتے ہوۓ کہنے لگا

نور مسرور سی مسکرانے لگی..

ایک بات بتاؤ تم نے مجھے گولی کیوں نہیں لگنی دی...

شایان میں اپنے سامنے آپ کو موت کے منہ میں نہیں ڈال سکتی تھی میں خود تو موت کو گلے لگا سکتی ہوں لیکن آپ کو کچھ نہیں ہونے دے سکتی....

اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے؟؟؟ شایان کو خود پر رشک آنے لگا

اگر اسے پیار کہتے ہیں تو ہاں میں آپ سے بے تحاشا پیار کرتی ہوں اتنا کہ تم بن جینا ممکن نہیں...

آئ لو یو نور.... شایان نور کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا

نور کے سنگ مر مر جیسے ہاتھ ابھی تک شایان کے ہاتھ میں تھے

شایان مجھے لگ رہا ہے آپ میں کسی اور کی روح آ گئ ہے... نور شرارت سے بولی

ابھی تم بیگم جی آپ ٹھیک ہو جائیں پھر پتہ چلے گا... شایان اس کی ناک دباتے ہوۓ بولا

اب یہ بتاؤ مام کو کیا بولو اگر انہیں سب بتایا تو میرا تو گھر میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا جاےُ گا...

کوئ بات نہیں آپ کی اینٹری میں کروا دوں گی.. نور مسکراتی ہوئ بولی

اچھا ایسا کرو تم آرام کرو میں ابھی آتا ہوں میڈیسنس وغیرہ لینی ہیں...

تھوڑی سی نرمی بھی لے آئیے گا... نور شرارت سے بولی

آہاں تمہیں تو بولنا آ گیا ہے بھیگی بلی... شایان لقمہ دیتے ہوۓ باہر نکل گیا...

نور نے سکون سے آنکھیں بند کر لیں...

*********

آفاق بار بار نور کا نمبر ٹرائ کر رہا تھا لیکن ناکامی ہو رہی تھی..... 

شایان آن لائن تھا آفاق نے اسے کال کی...

چند منٹ بعد شایان نے ریسیو کیا...

ہاں بول آفاق؟؟ وہ عجلت میں بولا

یار نور آن لائن کیوں نہیں ہو رہی کل سے؟؟آفاق الجھا الجھا سا بولا

خیریت تجھے کوئ کام تھا؟؟ شایان اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوۓ بولا

جی تھا کچھ کام زرا میری بات کروا دیں نور سے

ابھی تو نور بزی ہے بعد میں کر لینا بات... شایان نے بہانہ بنایا

یہ نور نے کہا ہے؟؟ آفاق حیران ہوتا ہوا بولا

شایان سوچ میں پڑ گیا

آفاق میں تجھے ٹھیک بیس منٹ بعد کال بیک کرتا ہوں اووکے...

اووکے میں ویٹ کر رہا ہوں... کہ کر آفاق نے مایوسی سے فون بند کر دیا

یار نور آپ کی ہیلپ چائیے میں شدید الجھن کا شکار ہوں نا آگے جا سکتا ہوں نا پیچھے...

آفاق نے بال مٹھیوں میں جکڑ لیے...

مریم کے نہ ہونے پر تو صبر کر لیا تھا لیکن اب سامنے آنے پر کیسے دل کو سمجھاؤں یہ تو کچھ بھی سننے کو تیار نہیں...

آفاق بے مقصد سڑکوں پر گھوم رہا تھا دماغ میں اس کے مریم چل رہی تھی دل میں تو وہ پہلے سے ہی بسی تھی...

آفاق جیبوں میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا...


نور آفاق آپ سے بات کرنا چاہتا ہے... شایان متفکر سا نور کے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولا

لائیں دیں فون میں کر لیتی ہوں بات... نور نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتے ہوۓ کہا

اسے سب بتانا پڑے گا...

نور اسے گھورنے لگی

تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں اس سے چھپاؤ گی؟؟

اچھا اگر میں کہوں پھر بھی نہیں...

نور نے خاموش ہو کر سر جھکا لیا

شایان مسکراتے ہوۓ آفاق کو کال کرنے لگا


فون کی رنگ آفاق کو اس کی سوچوں سے باہر لائ...

نور میں ابھی آتا ہوں آپ بات کرو... شایان کہتے ہوۓ باہر نکل گیا...

کیسے ہو آفاق؟؟؟

جیسے ہی آفاق کی نظر نور پر پڑی وہ ششدہ رہ گیا...

نور؟؟

ہاں...

کیا ہوا آپ کو آپ ہاسپٹل میں کیا کر رہی ہو اور یہ آپ کی بازو؟؟؟ آفاق نے ایک ہی سانس میں کئ سوال کر ڈالے

کچھ نہیں ہوا تم بتاؤ کام تھا کوئ؟؟

پہلے مجھے بتائیں پھر میں اپنی بات کروں گا.. آفاق بضد ہوا

نور نے اسے ساری بات بتائ...

آفاق پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا

نور آپ کی عقل کہاں گئ تھی مجھے یقین نہیں آ رہا آپ کی بات پر...

اچھا نہ بس پہلے ہی شایان نے اچھی کی ہے اب تم بھی شروع مت ہو جاؤ...

یہ بتاؤ آپ ٹھیک ہو یا پھر مجھے بہلانے کی کوشش کر رہی؟؟

جب باقی سب سچ بتا دیا پھر یہ کیوں جھوٹ بولوں گی... نور خفگی سے بولی

اچھا پھر سنو...

آفاق گلا کھنکارتا ہوا بولا

مجھے مریم مل گئ ہے...

آفاق نے گویا بم پھوڑا تھا...

نور کی آنکھوں میں بے پناہ حیرت تھی...

سئیرئسلی؟؟

جی...

کیسی ہے وہ اور کہاں ملی تمہیں؟؟

اب ٹھیک ہے کراچی آیا ہوا ہوں میں...

آفاق نے نور کو مختصر ساری بات بتا دی...

نور کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو گۓ...

نور یاد رہے یہ بات صرف ہم دونوں کے بیچ رہے آپ کے شوہر کو بھی علم نہ ہو...

ٹھیک ہے میں نہیں بتاؤ گی لیکن یہ سب آفاق مجھے دکھ ہو رہا ہے...

میری بھی یہی کنڈیشن ہے کل سے اسی لیے تو آپ کو کال کر رہا تھا تاکہ مشورہ کر سکوں...

تم کیا چاہتے ہو آفاق؟؟ نور نے دو ٹوک بات کی

نور میرا دل اسے چھوڑنے پر راضی نہیں اور دماغ اپنانے پر اب میں دل اور دماغ کی جنگ میں پھنس گیا ہوں...

میری بات سنو آفاق تم دماغ کو ہزاروں حقائق دکھا کر دلیلیں دے کر سمجھا سکتے ہو لیکن دل کو نہیں...

سہی کہ رہی ہیں آپ میرا دل بھی اسے اس حال میں چھوڑنے پر راضی نہیں..

پھر کیا کرو گے؟؟

سوچ رہا ہوں نکاح کر لوں اس سے؟؟؟

تم اسے وہ عزت دے پاؤ گے جس کی وہ حقدار ہے؟؟؟

شاید... آفاق سوچتے ہوۓ بولا

جلد بازی میں کبھی فیصلہ نہیں لینا چائیے ورنہ ساری زندگی پچھتانا پڑتا ہے...

تم مریم کو ہی دیکھ لو کہاں سے کہاں آ گئ ہے وہ...

آپ ٹھیک کہ رہی ہو...

ایک اور بات تم مریم سے وہی بات کرو جو تم بعد میں پوری بھی کر سکو یہ نہ ہو کہ ابھی تم بڑے بڑے عہدوپیمان کر لو کہ میں تمہیں ہاتھ کا چھالہ بنا کر رکھوں گا یا سر آنکھوں پر بٹھاؤں گا اور بعد میں تم پورا نہ کر پاؤ تم اسے وہی امید دلاؤ جو تم پوری کر سکو آفاق ہمیں کوئ حق نہیں پہنچتا کسی کی زندگی خراب کرنے کا ابھی تم تھوڑا وقت لو اس بارے میں اچھے سے سوچو اپنے فیصلے پر بھی نظر ثانی کرو کیونکہ یہ جو تمہیں اتنا آسان نظر آ رہا ہے نہ اصل میں ہے نہیں...

ٹھیک ہے نور میں کچھ دن کراچی میں ہی ہوں دوبارہ سے سوچوں گا ہر چیز کو آپ بتاؤ واپس کب آؤ گی؟؟

شایان بتا رہے تھے کہ ڈاکڑ نے بیڈ ریسٹ کا بولا ہے تو ابھی تو نہیں آ سکتے کچھ ٹائم لگے گا...

آفاق میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں... نور باہر دیکھتی ہوئ کال بند کرنے لگی....

غالباً شایان کسی سے بحث کر رہا تھا...

شایان؟؟ نور نے اسے آواز دی

شایان اس کی آواز سنتا اندر آیا

کیا ہوا نور؟؟ وہ فکر مندی سے بولا

باہر کون ہے؟؟

کوئ نہیں تم ریسٹ کرو... شایان اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوےُ بولا

اسی لمحے مِیرا دروازہ کھول کر اندر آئ..

گیٹ آؤٹ مِیرا... شایان انگلی اٹھاتے ہوۓ غصے سے بولا

شایان پلیز صرف دو منٹ...

میں نے تمہیں ابھی کیا کہا تھا...

نور نے شایان کا ہاتھ پکڑ کر اسے مِیرا کی جانب جانے سے روک دیا...

شایان نور کو دیکھنے لگا..

کیا کہنا ہے تمہیں؟؟؟ نور مِیرا سے مخاطب ہوئ

نور مجھے صرف دو منٹ بات کرنی ہے تم سے.. ٹھیک ہے بولو دو منٹ ہیں تمہارے پاس...

نور... شایان نے اسے روکنا چاہا

شایان سننے میں کیا حرج ہے...

آئم سوری نور میں اندھی ہو گئ تھی میری وجہ سے تمہارے ساتھ یہ سب ہو گیا... مِیرا دکھی ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگی...

اور کچھ؟؟ مِیرا کے خاموش ہوتے ہی نور گویا ہوئ

مجھے بس معافی چائیے تم سے میں تم دونوں کی زندگی سے دور چلی جاؤں گی لیکن اب کے لیے معاف کر دو... وہ ہاتھ جوڑے بول رہی تھی

ٹھیک ہے معاف کیا میں نے تمہیں اب تم جا سکتی ہو... نور نے دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا

مِیرا چپ چاپ باہر نکل گئ...

مائ فٹ اس نور سے معافی مانگنی پڑی خیر اب یہ خطرہ تو ٹل گیا... مِیرا سوچتی ہوئ چلنے لگی

نور تم پاگل ہو وہ صرف خود کو بچانے کے لیے کر رہی تھی تاکہ اس کا فیوچر,کیرئیر خراب نہ ہو وہ جانتی ہے میں اس پر کیس کر دوں گا اسی لیے...

اچھا بس چھوڑیں وہ چلی گئ نہ دفع کریں... نور مسکراتی ہوئ بولی

ہممم پھر تمہیں پکڑو؟؟؟ شایان بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ بولا

میں نے ایسا تو نہیں کہا... نور نے ہڑبڑا گئ

لیکن مجھے تو یہی سمجھ میں آیا ہے..

شایان اس کے چہرے پر آےُ بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ بولا

شایان اس کے بے حد قریب تھا نور لب کاٹنے لگی...

شایان مجھے ڈسچارج کب کریں گے؟؟

جب کہو گی... شایان مسکراتے ہوۓ بولا

جتنا بیوقوف آپ مجھے سمجھتے ہیں اتنی میں ہوں نہیں...

اچھا اس سے کم بھی نہیں ہو..

شایان...

جی میری جان؟؟ شایان جذبوں سے چور ہو کر بولا

نور کو سمجھ نہ آےُ کیسے اسے کہے کہ تھوڑا دور ہو کر بیٹھے

وہ انگلیاں مڑوڑنے لگی شایان کو اس پر ترس آ گیا اور فاصلہ بڑھا دیا

نور کا سانس بحال ہوا..

شایان اسے میڈیسنس دینے لگا

شایان بہت کڑوی ہے... نور منہ بناتی ہوئ بولی

اچھا میں ڈاکڑ سے کہتا ہوں کہ میٹھی دوائ دے..

آپ کے کہنے پر چینج کر دیں گے؟؟

بلکل... شایان اعتماد سے بولا

پھر آپ چینج کروا لیں...

شایان کا قہقہ بلند ہوا

نور منہ پھلاےُ اسے دیکھنے لگی

نور مجھے لگتا ہے تمہارے لیے تھوڑی سی سمجھ کراےُ پر لانی پڑے گی... شایان پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنستے ہوۓ بولا

نور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگی

نور کو وہ ہنستے ہوۓ بہت اچھا لگ رہا تھا

آپ بھی تو مجھے بیوقوف بناتے رہتے ہیں...

اچھا اب چپ کر کے کھاؤ یہ ورنہ میٹھی تو نہیں مزید کڑوی لے آؤ گا...

ایسے تو میں آپ کو جلاد نہیں کہتی... نور جلتی بھنتی ہوئ دوائ کھانے لگی

ٹھیک ہو جاؤ پھر تم سے دو دو ہاتھ کروں گا.. شایان وارن کرتا واش روم میں چلا گیا..

نور مسکرانے لگی...

*********

نور کو ایک ہفتے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ڈاکڑ نے تین ماہ کا بیڈ ریسٹ بولا

شایان نے بات گول مول کر کے مام کو بتا دی تھی..

نور میگزین لیے بیٹھی تھی جب شایان کھانا لیے کمرے میں آیا

نور کے دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی تھی شایان اس کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا نور کی آنکھوں میں نمی جمع ہونے لگی...

کیا ہوا مرچ تیز ہے کیا؟؟؟ شایان پانی کا گلاس آگے کرتے ہوۓ بولا...

نور نفی میں سر ہلانے لگی...

پھر؟؟؟

شایان کو اپنے لیے فکر مند دیکھ کر نور کا دل بھر آیا...

بس مجھ سے اور نہیں کھایا جاےُ گا... نور کی آواز بھرائ ہوئ تھی

لیکن ابھی تو کھانا شروع ہی کیا ہے... شایان کو حیرت ہوئ

بس دل نہیں کر رہا...

اچھا کوئ بات نہیں بعد میں کھا لینا جب دل کرے...

شایان نے ٹرے اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دی اور نور کے پاس آکر بیٹھ گیا

آپ نے بھی تو نہیں کھایا...

میں بعد میں کھا لوں گا

نور نیچے منہ کیے بیڈ پر انگلیاں چلانے لگی

نور تمہیں معلوم ہے مجھے تمہارے بال بہت اچھے لگتے ہیں سیاہ سلکی بال... شایان اس کے بال سہلاتے ہوۓ بولا

مجھے بھی آپ کے بال بہت پسند ہیں نرم نرم سے... نور پرجوش سی بولی

تمہیں کیسے پتہ کہ میرے بال نرم ہیں؟؟ شایان تفتیشی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا

وہ وہ میں... نور سوچ میں پڑ گئ کہ کیا بولے

اس کا مطلب تم میری چیکنگ کرتی ہو ہاں... شایان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا وہ جو بے دھیان بیٹھی تھی اس کی طرف کھینچی چلی گئ...

نور کے بال اس کے چہرے پر بکھر گے

شایان نے ہاتھ بڑھا کر نور کے چہرے سے اس کے بال ہٹاےُ...

نور اس کے لمس پر لرز گئ شایان کی قربت اسے کنفیوز کر دیتی...

نور کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں...

شایان آپ شاپنگ کرنے گۓ تھے نہ... نور کو یاد آیا تو جلدی جلدی بولی

بلکل تمہیں تو دکھانا ہی بھول گیا شایان اس سے دور ہوتا بیڈ سے اتر گیا...

نور اپنے منتشر بال سمیٹنے لگی..

شایان یہ آپ میرے لیے لاےُ ہیں؟؟؟

نور کی آنکھوں میں حیرت تھی

نہیں اپنے لیے لایا ہوں کیسی لگے لگی؟؟ شایان ٹی شرٹ اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا

نور ہنسنے لگی

لیکن میں نے کبھی اس طرح کی ڈریسنگ نہیں کی...

نہیں کی تو اب کر لینا نو پرابلم.. شایان نے ناک سے مکھی اڑائ

لیکن مجھے عجیب لگے گا

اف کچھ عجیب نہیں لگتا گھر میں ہم دونوں کے علاوہ کوئ بھی نہیں پھر کیا مسئلہ ہے...

اب اگر پہلے علم ہوتا تو پاکستان سے ہی زیادہ لے کر آتی.. نور منہ بناےُ بڑبڑانے لگی

شایان مسکراتے ہوۓ کب بورڈ میں رکھنے لگا..

نور ایک بات تو بتاؤ...شایان اسے دیکھتا ہوا بولا

جی پوچھیں؟؟؟

تم مجھ پر کبھی غصہ کیوں نہیں ہوئ اور میری اتنی زیادتیوں کے باؤجود میرے ساتھ رہی تمہیں تو گھر چھوڑ کر چلی جانا چائیے تھا لیکن تم وہیں رہی میرے ساتھ ایسا کیوں؟؟؟ شایان اپنی الجھن ظاہر کرتے ہوۓ بولا

پہلی بات تو یہ کہ اگر میں آپ پر غصہ کرتی تو آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیتی آپ مجھ سے مزید چڑنے لگتے ضد میں آ جاتے کیونکہ آپ کسی اور سے محبت کرتے تھے تب آپ کو میرے وجود سے کوئ سروکار نہیں تھا اور مجھے اپنا گھر بنانا تھا توڑنا نہیں...

دوسری بات اگر میں گھر چھوڑ کر چلی جاتی تو کبھی آپ کے دل میں اپنی جگہ نہ بنا پاتی یہاں تو لوگ آپ کے موجود ہونے کے باوجود آپ کی جگہ لے لیتے ہیں تو پھر اگر میں اپنی جگہ خالہ چھوڑ دیتی تو پھر کوئ دوسری یقیناً آتی میری جگہ لینے کے لیے جیسے کہ مِیرا ....

عورت کو کبھی اپنا گھر اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چائیے کیو کہ دوسری عورتیں تو تاک میں ہوتیں ہیں ہمارے جاتے ہی وہ ہماری جگہ پر قبضہ جمالیتی ہیں حالات کیسے بھی ہوں ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اپنا گھر چھوڑ کر کبھی مت جائیں... *******

آفاق تم تو وہاں دل لگا کر ہی بیٹھ گۓ ہو واپس آنے کا ارادہ نہیں کیا؟؟؟ نادیہ خفگی سے بولیں

وہ مام میرا دل کر رہا تھا کچھ دن گھوم پھر لوں تھوڑا چینج آ جاتا ہے

تمہاری بات تو ٹھیک ہے لیکن ابھی شایان اور نور بھی نہیں ہیں گھر اسی لیے میں کہ رہی تھی...

میں کوشش کروں گا کہ جلدی آ جاؤں... آفاق نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن مسکرا نہ سکا

ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم ایزی رہو.. 

چاہے جتنی بھی ناراضگی تھی لیکن وہ ان کے جگر کا ٹکڑا تھی...

جو کرنا ہے باہر جا کر کرو یہ گھر اب تمہارا نہیں...

ٹھیک ہے پھر آج یہ کہانی یہی ختم ہو گی... مریم آنسو صاف کرتی ان کے قدموں سے اٹھی اور کچن میں چلی گئ...

ماما فکر مند ہو گئیں...

کیا کر رہے ہیں روک لیں اسے...

مریم چھری ہاتھ پر رکھے باہر آئ

پاپا اپنی مریم کو معاف کر دینا میں جیتے جی تو معافی نہیں لے سکی شاید مرنے کے بعد مجھے مل جاےُ....

اللہ پاک مجھے معاف کر دینا میں اپنی وجہ سے اس جان کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہوں.. مریم آنکھیں بند کیے سوچ رہی تھی آنسو اس کی آنکھوں سے برآمد ہوۓ...

مریم نے زور دیا تو خون کی ایک بوند ماربل کے فرش پر گری...

انہوں نے آگے بڑھ کر مریم کے ہاتھ سے چھری پھینک دی...

مریم نے آنکھیں کھولیں تو پاپا آنکھوں میں نمی لیے اس کے مقابل کھڑے تھے...

انہوں نے مریم کو سینے سے لگا لیا...

مریم دل کھول کر روئ کتنی ہی بار معافی مانگتی رہی...

انہیں دیکھ کر باقی سب بھی رونے لگے...

کتنا تڑپایا ہے مریم تم نے جانتی ہوں؟؟؟ پاپا خفگی سے اسے دیکھتے ہوۓ بولے

پاپا میں بھی ایک ایک لمحہ تڑپی ہوں آپ سب کے لیے میرا خدا جانتا ہے میں جھوٹ نہیں بول رہی...

مجھے یقین ہے اپنی مریم پر... وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے

مریم کو ساتھ لیے صوفے پر آ کر بیٹھ گۓ...

مریم نے انہیں اپنی ساری روداد سنائ حسن کی زیادتی اور اپنے بچے کی بات وہ گول کر گئ....

مریم کی درد بھری کہانی نے سب کی آنکھیں اشک بار کردیں...

آفاق راضی ہے تم سے نکاح کرنے کے لیے؟؟؟ مریم خاموش ہوئ تو ماما نے پوچھا

جی ماما... مریم شرمندگی سے بولی

اچھا آؤ تم کمرے میں چل کر آرام کر لو پھر صبح بات کرتے ہیں...

پاپا آپ ناراض تو نہیں؟؟؟ مریم جاتی ہوئ مڑ کر بولی

نہیں میرا بیٹا میں ناراض نہیں ہوں آپ سے آپ کو آپ کے کیے کی سزا مل گئ ہے اب اگر مزید دی تو زیادتی ہو گی آپ کے ساتھ...

مریم اثبات میں سر ہلاتی اندر چل دی...

*********

مریم ایمان کے سامنے بیٹھی تھی...

ابھی بھی ناراض ہو مجھ سے؟؟ کافی وقت گزرنے کے بعد مریم بولی

مریم تم جو کر کے گئ تھی نہ اور جو کچھ ہم نے سہا ہے یا تو اللہ جانتا ہے یا پھر ہم جہنم بنا دی ہماری زندگی تم نے.. ایمان اسے دیکھتی ہوئ بولی

معافی مانگ تو رہی ہوں...

تمہاری معافی سے کیا سب پہلے جیسا ہو جاےُ گا میرا رشتہ جہاں طے تھا وہاں واپس سے طے ہو جاےُ گا نہیں نہ تو پھر ایسی معافی کا کوئ فائدہ نہیں...ایمان تکلیف سے بولی

مریم نے کرب سے اسے دیکھا

مت دیکھو مجھے ایسے ہر جرم کی معافی نہیں ہوتی جیسے ہر زخم مندمل نہیں ہوتا وقت زخم نہیں بھرتا بس ہم اس زخم یا تکلیف کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں کچھ تکلیفیں بہت اذیت ناک ہوتیں ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتے نہیں معاف کر سکتی میں تمہیں سمجھی... ایمان چلاتی ہوئ باہر نکل گئ

مریم مایوسی سے باہر دیکھنے لگی

بلکل ہر چیز ٹھیک نہیں ہوتی بہت سے رشتے اور بہت سے لوگ دور ہو جاتے ہیں اتنے کہ پھر ہماری معافی بھی انہیں واپس نہیں لا سکتی....

*********

دو دن بعد آفاق اور مریم کا نکاح کیا گیا...

نکاح سادگی سے کیا گیا صرف فیملی کے لوگ مدعو تھے...


نور ساڑھی پہنے آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی...

بلاشبہ وہ سیاہ ساڑھی میں قیامت ڈھا رہی تھی نور کے منع کرنے کے باوجود نادیہ نے اسے بھی بیوٹیشن سے تیار کروایا...

شایان کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا آیا تو نور پر نظر پڑتے ہی مبہوت سا رہ گیا وہ نور کے سامنے کھڑا ہو گیا اور فرصت سے اس کا ایک ایک نقش دیکھنے لگا

گھنی پلکیں کپکپا رہیں تھیں نور نے پلکوں کی باڑ اٹھا کر شایان کی آنکھوں میں دیکھا تو شایان پلک جھپکنا ہی بھول گیا

سیاہ ساڑھی میں اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا بال جوڑے میں قید کیے

پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر ریڈ لپ اسٹک لگاےُ وہ کسی اور ہی دنیا کی لگ رہی تھی

نور میرا دل کر رہا ہے آج تمہاری بھی رخصتی کروا لوں... شایان اس کی کمر پر بازو حمائل کرتے ہوۓ بولا

نور مقناطیسی کشش کی طرح اس کی پاس کھینچی آئ...

آپ کے گھر میں ہی ہوں تو پھر رخصتی کیسی؟؟ نور حیران ہوتی پوچھنے لگی

بس ایسے ہی تم لگ ہی ایسی رہی ہو کہ شادی کرنے کا دل کر رہا ہے تم سے پہلے تو جب ہوئ تب تو چیزیں سہی نہیں تھیں...

دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا جسے آفاق نے دھاڑ کی آواز سے پورا کھول دیا...

نور گھبرا گئ لیکن شایان نے اسے اپنی گرفت سے آزاد نہ کیا

بھائ اینڈ بھابھی جی اگر رومینس کرنے کی پریکٹس تمام ہو گئ ہو تو نیچے تشریف لے آئیں مام کا فرمان ہے یہ.... آفاق مسکراہٹ ضبط کرتے ہوۓ بولا

تو کباب میں ہڈی بن جا شودے...

شایان اسے کشن مارتے ہوۓ بولا جسے اس نے مہارت سے کیچ کر لیا

شایان مجھے تو چھوڑ دیں... نور منمنائ

بھئ چھوڑ دیں اب کیا بچی کی جان لو گی... آفاق نے لقمہ دیا

اس کی تو پتہ نہیں لیکن تیری ضرور لوں گا.. شایان خطرناک تیور لیے بولا

آفاق قہقہ لگاتے ہوۓ چلا گیا

نور شایان کو خفگی سے دیکھنے لگی

ایسے کیوں دیکھ رہی ہو بیوی ہو میری ڈرتا نہیں ہوں میں کسی سے... شایان اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولا

نور مسکراتی ہوئ اس میں سمٹ گئ...

اب اس سے پہلے کہ خالہ آجائیں مجھے جانے دیں..

ایسے نہیں جانا دوں گا...

پھر کیسے؟؟؟ نور حیران ہوئ

اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا شایان اس کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر نکل آیا اور زینے اترنے لگا.....

سب کی نظریں ان دونوں پر ٹک گئیں جو آہستہ آہستہ آ رہے تھے کچھ رشک کر رہے تھے تو کچھ حسد...

نکاح کے بعد مریم اور آفاق کو بٹھایا گیا...

پہلے اسی کو چھوڑ کر کسی کے ساتھ بھاگ گئ تھی اور اب واپس آ کر اسی کے ساتھ نکاح کر رہی ہے لوگوں نے تو شرم ہی بیچ کر کھا لی ہے نا جانے کیا کیا گل کھلا کر آئ ہو گی... بڑی ممانی طنز کرنے سے باز نہ آئیں...

دیکھیں بھابھی اللہ نے ان دونوں کا جوڑ لکھا تھا اب حالات جیسے بھی ہوۓ ہمارا اختیار نہیں دوسری بات یہ اللہ کے کام ہیں اس میں آپ یا میں دخل نہیں دی سکتیں ویسے بھی جب ہمیں کوئ اعتراض نہیں ہے تو پھر کسی اور کو بھی نہیں ہونا چائیے... نادیہ کی بات پر وہ خاموش ہو گئیں...

لیکن مریم کے کان میں ان کی بات پہنچ گئ تھی... ابھی تو اسی یہی باتیں برداشت کرنی تھیں اور نہ جانے کتنے برس تک یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی..... آفاق نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دی... مریم مسکرانے لگی...

جب اللہ نے ہمسفر اچھا دیا ہے تو پھر یہ سفر بھی اچھا ہی گزر جاےُ گا مریم اللہ کے احسان پر مطمئن سی ہو گئ....

*********

آٹھ ماہ بعد:

مریم آنکھیں موندیں بیڈ پر لیٹی تھی اور باقی سب بھی اسی کمرے میں موجود تھے...

جیسے ہی نرس بےبی کو اندر لے کر آئ آفاق بول پڑا...

سب سے پہلے میں دیکھوں گا...

جی نہیں میں اس کا بڑا پاپا ہوں تو پہلے میں دیکھوں گا... آفاق کو شایان نے جواب دیا

نہیں بھئ نہیں میں اس کی دادی ہوں تو پہلے میں دیکھوں گی....

مریم اور نور مسکراتی ہوئیں انہیں بحث کرتے دیکھ رہیں تھیں...

ایسا کرتے ہیں مریم سے پوچھتے ہیں...نور اونچی آواز میں بولی

ہاں یہ ٹھیک ہے سب رضامند ہو گۓ...

یہ گھر میں آنے والا پہلا بچہ تھا جس کا سب کو بے حد انتظار تھا اور پرجوش بھی تھے کہ پہلی بار گھر میں کسی بچے کی کھلکاریاں سننے کو ملیں گیں....

سب سے پہلے پھوپھو کو دیکھنے دیں ان کا حق پہلے ہے... مریم آہستہ سے بولی

لاؤ بھئ دو ہماری گڑیا کو... خالہ نرس سے لیتی ہوئیں بولیں...

ماشاءاللہ مریم بلکل تم پر گئ ہے ہو بہ ہو... نادیہ اس کی نظر اتارتی ہوئیں بولیں..

آفاق نے اسے گود میں اٹھایا تو آنکھوں میں نمی آ گئ وہ بلکل مریم کی کاپی تھی آفاق اس کے منہ پر بوسہ دینے لگا

آفاق کو لگا تھا شاید وہ اس بچے کو اپنا نہ سکے یا وہ پیار نہ دے سکے جو اس کا حق ہے لیکن یہ معصوم سی گڑیا اس کے دل کو بھا گئ تھی وہ مبہوت سا اس ننھی سی جان کو دیکھ رہا تھا دنیا کی سب سے بڑی خوشی ملی تھی اسے وہ بھی بیٹی کا باپ بننے کی آفاق خوشی سے نحال ہو گیا....

اسے لگ رہا تھا یہ اسی کی بیٹی ہے اللہ نے آفاق کا دل کشادہ کر دیا اور اس نے کھلے دل سے اسے اپنی بیٹی ہونے کا درجہ دیا

آفاق ہمیں بھی موقع دے دو... نور خفگی سے بولی

شایان نے سب سے آخر میں پکڑا اسے...

یار آفاق دیکھو یہ تو بلکل گلابو لگ رہی تھی پانچ منٹ تک اسے دیھنے کے بعد شایان بولا...

گلابی ہونٹ,گلابی گال... شایان مسکراتے ہوۓ بول رہا تھا

مام یہ دیکھیں پھر آپ کہتیں ہیں یہ لڑکیوں کو نہیں دیکھتے... آفاق نے نمی صاف کرتے ہوۓ ہانک لگائ

بھئ یہ تو ہماری ڈول ہے اسے تو دیکھے گے ہی اور ہماری بیگم بھی غصہ نہیں ہوں گی اس پر... شایان اس کے روئ جیسے گال کھینچتے ہوۓ بولا

مجھ بد بخت کی بیٹی کو اتنا پیار ملے گا مجھے معلوم ہی نہیں تھا بے شک اللہ نے مجھے میری اوقات سے زیادہ نوازا ہے میں اس سب کے قابل نہ تھی لیکن پھر بھی مجھ پر اتنی عنایات کی گئیں


مریم کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو گۓ

یااللہ میں تیرا جتنا شکر ادا کرو کم ہے تو نے مجھے سنبھال لیا... مریم کا دل بھر آیا

بھائ ذرا مجھے ایلفی لا کر دیں... آفاق سنجیدگی سے بولا

یہاں کیا کام ؟؟

میں مریم کی آنکھوں میں ڈالوں تاکہ جہاں سے آنسو نکلتے ہیں وہاں سے راستہ ہی بند ہو جاےُ... آفاق کی بات پر سب مسکرانے لگے

اچھا جی تو ہماری ڈول کا نام ہو گا... آفاق پر سوچ انداز میں اسے اٹھاتے ہوۓ بولا

یار بول بھی دو اتنا سسپینس کیوں کرئیٹ کر رہے ہو... شایان بے صبری سے بولا

مرال... وہ پیار سے مرال کو دیکھتے ہوۓ بولا

ایم سے مریم ایم سے مرال ہے نہ زبردست...

بلکل... نادیہ نے اس کی تائید کی...

نادیہ, شایان,نور اور آفاق کو اس بات کا علم تھا کہ یہ بیٹی آفاق کی نہیں ہے باقی

رشتہ داروں کو انہوں نے یہی کہا کہ مرال وقت سے پہلے پیدا ہوئ ہے جب کہ وہ اپنے صحیح وقت پر پیدا ہوئ تھی...

شایان چلتا ہوا نور کے پیچھے کھڑا ہو گیا...

ایک دن سب ایسے ہی ہمارے بےبی کو دیکھ رہے ہوں گی...

نور کے گال سرخ ہو گۓ.... اس نے شرماتے ہوۓ سر جھکا لیا اور آہستہ سے انشاءاللہ بولا


کچھ ہی دیر میں نور کے ماما اور پاپا بھی آ گۓ

پاپا نے مرال کو گود میں اٹھایا

بیگم دیکھیں بلکل ایسا لگ رہا ہے پچس سال پیچھے چلا گیا ہوں جب مریم کو پہلی بار دیکھا تھا بلکل ایسی ہی تھی

وہ بلکل مریم کی کاربن کاپی تھی صرف اس کے بال بھورے تھے اور مریم کے سیاہ اور وہ تھوڑی صحت مند تھی مرال کے برعکس مریم کمزور تھی...

اس عرصے میں مریم سر تا پیر بدل چکی تھی پینٹ شرٹ پہننا اس نے چھوڑ دیا نماز باقائدگی سے پڑھتی فضول خرچی نہیں کرتی یہاں تک کہ کبھی کبھی آفاق اسے کنجوس کہ دیتا

آفاق میں نے جو حالات دیکھے ہیں نہ اس کے بعد مجھے ہر چیز کی قدر آ گئ ہے اب چیزوں کا بے دریغ ضیاع میں نہیں کر سکتی یہ اللہ کی نعمتیں ہیں جتنی ضرورت ہو اتنی ہی لیں ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے جب ختم ہو جاےُ گی دوبارہ لے لیں گے.... اور آفاق اس کی باتوں پر مسکرا دیتا وہ اسی رنگ میں ڈھل چکی تھی جس رنگ میں آفاق اسے دیکھنا چاہتا تھا اور شاید یہ اس واقعے کے بنا ممکن نہ ہوتا...

*********

دو ماہ بعد:

شایان اور آفاق ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تھے اور نور کھانا لگا رہی تھی

شایان نے کھانا شروع کیا...

واہ واہ آفاق میرا دل کر رہا ہے جس نے یہ کھانا

بنایا ہے اس کے ہاتھ چوم لوں... شایان نور کی جانب شرارت سے دیکھتے ہوۓ بولا

مریم ملازمہ کو بلانا بھائ نے اس کے ہاتھ چومنے ہیں... آفاق ہنستے ہوۓ بولا

امممم ہمممم سارا مزہ کر کرا کر دیا تو نے آفاق....

شایان منہ بناتے ہوۓ بولا... نور بھی اس کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھ کر مسکرانے لگی...

کھا کر سب لاؤنج میں بیٹھ گۓ....

مرال آپ مجھے بولیں گیں بڑی ماما... نور پیار سے بولی

اور مجھے بڑے پاپا... شایان نے بھی حصہ ڈالا

اور مجھے چاچو.... آفاق نے لقمہ دیا

شایان نے اس کی کمر پر دھپ لگائ

یار ماما پاپا آپ دونوں بن گۓ تو میں نے سوچا ہم چاچو چاچی بن جاتے ہیں کیوں مریم؟؟؟ آفاق اسے بھی شامل کرتے ہوۓ بولا

جی نہیں مجھے تو یہ ماما ہی بلاےُ گی اور آپ کو پاپا...مریم مسرور سی بولی

شایان اور آفاق اکثر مرال کو لے کر جھگڑتے رہتے اب بھی وہ دونوں شروع ہو گۓ...

مرال کو میں باہر لے کر جاؤں گا.... شایان نور سے اسے لیتے ہوۓ بولا

نہیں بھائ میں جاؤں گا

دیکھ آفاق میں بڑا ہوں اس لیے میرا حق زیادہ ہے سو تو کل لے جانا آج میں لے جاؤں گا...

مام یہ کیا بات ہوئ بھائ ہمیشہ یونہی کہ کر مرال کو لے جاتے ہیں... آفاق منہ بناتے ہوۓ بولا شایان تم بڑے ہو اس لیے دل بڑا کرو اور اسے لے جانے دو شاباش...نادیہ اسے پیار سے سمجھانے لگیں...

جی نہیں کہ کر شایان باہر چل دیا...

آفاق جل کر رہ گیا

آپ کے بچے ہوں گے نہ دیکھنا پھر آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گا...

وہ بعد کی بات ہے تب دیکھی جاےُ گی... کہ کر شایان باہر نکل گیا...

بھابھی مجھے آپ سے بات کرنی ہے...

آؤ کمرے میں چل کر کرتے ہیں شایان تو اب گھنٹہ گزار کر ہی آئیں گے... نور اس کے ساتھ چلتی ہوئ اپنے کمرے میں آ گئ...

بھابھی میں چاہتی ہوں مرال کی تربیت آپ کریں جیسی آپ نیک اور اچھی ہیں ۔ 

میری بیٹی کو بھی اپنے جیسی بنانا میں نہیں چاہتی وہ اپنی ماں جیسی بنے جس کا کوئ کردار ہی نہیں ہے.... بولتے بولتے مریم کے آنسو چھلک پڑے

اسے میری جیسی مت بننے دیجیے گا بھابھی پلیز.... مریم نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے...

مریم پاگل ہو کیا ایسا نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہوں یہ بات الگ ہے کہ میں بھی اسے وقت دیا کروں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم خود کو یوں کہو .....

نور اسے گلے لگاتی ہوئ ڈپٹنے لگی... مریم پر سکون سی مسکرا دی...

وہ دونوں باہر نکلیں تو نادیہ خفگی سے انہیں دیکھنے لگیں....

کیا ہوا خالہ؟ نور آنکھوں میں حیرت لیے بولی

تم دونوں کو تو سمجھ ہے تھوڑی سی اپنے شوہر کو بھی دے دو نیچے دیکھو زرا ایک مرال کے لیے سائیکل لے آیا ہے تو دوسرا کار بتاؤ بھلا اتنی سی بچی کہاں یہ چیزیں چلا سکتی ہے...

نور اور مریم بیک وقت مسکرائیں...

اف خالہ جان آپ کو معلوم تو ہے گھر میں فسٹ بے بی آیا ہے اسی لیے سب بہت پر جوش ہیں شایان کا بس چلے تو آج ہی اسے ڈاکڑ بنا دیں...

نور کی بات پر نادیہ اور مریم دونوں مسکرانے لگیں...

میں آتی ہوں شایان آ گۓ ہیں واپس... نور فکر سے کہتی ہوئ زینے اترنے لگی..

شایان اسے دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا اور ہاتھ پکڑ کر پچھلے گارڈن میں لے آیا...

شایان خیریت تو ہے آپ کو... نور ماتھے پر تیور ڈالتی ہوئ بولی

وہ کیا ہے نہ بیگم صاحبہ اب آپ کے بغیر دل ہی نہیں لگتا شایان نور کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا...

اچھا جی پھر آپ گھر میں ہی رہا کریں میری ہیلپ کروایا کریں.... نور اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی ہوئ بولی

میرا بس چلے تو آفس لنچ کے ساتھ تمہیں بھی پیک کر کے لے جاؤں...

نور مسکراتی ہوئ اسے دیکھنے لگی

شایان نے گلاسز اتار کر رکھ دیں

آپ تھک گۓ ہیں؟؟ نور پریشانی سے بولی

نہیں مجھے تمہارے پاس سکون ملتا ہے اسی لیے تمہارے پاس آرام کرتا ہوں... شایان نے نور کے نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور ان پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے....

شایان ؟؟ نور نے کافی دیر بعد اسے مخاطب کیا

جی میری جان... شایان کے اس انداز پر نور کنفیوز ہو جاتی

بولیں بھی اب... وہ آنکھیں بند کیے ہوۓ تھا

آپ سے میں نے کچھ کہا تھا

کیا کہا تھا میری جان نے؟؟ شایان سمجھ چکا تھا جان بوجھ کر انجان بننے لگا

آپ بھول گۓ... نور اداسی سے بولی

جی میں بھول گیا مجھے یاد کروا دیتیں نہ...

مجھ سے بات مت کریں آپ جائیں اب آپ کو روم میں بھی نہیں آنے دوں گی... نور خفا ہو گئ...

شایان اٹھ کے اس کے سامنے بیٹھ گیا گلاسز لگا کر بولنے لگا

میری جان آپ کو پتہ ہے نہ مجھے آپ کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہتا تو یاد دہانی کروا دیتیں... شایان کی بات سے نور کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ آ گئ

دو دن بعد ہماری فلائٹ ہے.... شایان اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا

سچی...

مچی... شایان اسی کے انداز میں بولا

تھینک یو... نور اس کے کندھے پر سر رکھتی ہوئ بولی

ایسا ہو سکتا تھا کہ میں بھول جاتا مار نہیں کھانی تھی مجھے...

اچھا جی تو میں آپ کو مارتی ہوں...

بلکل تشدد کرتی ہو ہاےُ اب میں کسے اپنا دکھ سناؤں... شایان دہائ دیتے ہوۓ بولا

شایان آپ کتنے بڑے ڈرامے باز ہیں نہ... نور اس کی بازو پر چٹکی کاٹتی ہوئ بولی

یہ دیکھو میں میڈیا کو بلاتا ہوں کیسے شوہر کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے...

خاموش فضا میں نور کے قہقہے گونجنے لگے... پیڑ پودے سب خاموشی سے انہیں سن رہے تھے رات کا یہ منظر مزید حسین ہو گیا تھا... دونوں گھاس پر لیٹ گۓ اور چاند کو دیکھنے لگے...

معلوم ہے شایان مجھے آپ اس چاند کی طرح لگتے تھے اور اپنا آپ ستاروں کی مانند لگتا جو آپ کے قریب رہ کر بھی آپ سے بہت دور کبھی کبھی مجھے لگتا تھا میں ان ستاروں کی طرح کبھی آپ تک رسائ حاصل نہیں کر سکوں گی ہمیشہ ایسے ہی بس دور دور سے آپ کی چاہ میں ساری زندگی گزار دوں گی...

اور اب کیا لگتا ہے آپ کو؟؟؟

اب مجھے لگتا ہے کہ میرا وہ سفر تمام ہوا مجھے آپ مل گۓ تو ایسا معلوم ہوتا ہے ساری دنیا مل گئ ہو ایک انسان میں مجھے میری ساری کائنات نظر آتی ہے اور میں خوش ہوں کہ یہ میری کائنات ہے جس پر صرف اور صرف میرا حق ہے...

یہ شایان کی محبت تھی جس نے نور کو اعتماد بخشا تھا اور نور کی محبت نے شایان کو بدل دیا تھا.....

معلوم ہے نور مجھے یہ آسمان بہت خالی خالی لگتا ہے..

کیوں ؟؟؟ نور کو حیرت ہوئ

کیونکہ چاند تو اتر کر میرے آنگن کی زینت بن گیا ہے...

نور نے مسکرانے پر اکتفا کیا...


چاچو کی فیملی اسلام آباد شفٹ ہو گئ تھی کیونکہ انہوں نے وہاں اہنا بزنس شروع کر لیا تھا پہلے تو وہ شایان کے پاپا کا بزنس سنبھال رہے تھے لیکن چونکہ شایان واپس آ گیا تھا اسی لیے اس نے کنڑول واپس لے لیا ان سے....

**********

مریم آفاق کے ساتھ باہر کھانا کھانے گئ...

آفاق بل دے کر اٹھنے لگا تو اس کی نظر مریم پر پڑی جو مرال کو اٹھاےُ پتھر کی بنی تھی..

مریم کیا ہوا؟؟ آفاق اس کا شانہ ہلاتے ہوۓ بولا

مریم خاموش رہی

آفاق نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تو سمجھ گیا کہ یہی شخص حسن ہے...

تم ٹھیک ہو مریم ؟؟؟

ہاں میں ٹھیک ہوں.... ایک لمحہ لگا تھا اور مریم پھر سے ایک سال پیچھے چلی گئ تھی.. حسن سر تا پیر تک مریم کا جائزہ لیتا اپنی گرل فرینڈ کو سنبھالتا ہوا باہر نکل گیا...

کچھ لوگوں کو اس دنیا میں سزا نہیں ملتی اللہ انہیں چھوٹ دیتا ہے کیونکہ ان کا حساب آخرت والے دن طے ہے اسی لیے وہ دنیا میں ایک سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں یہی ان کی دنیا میں سزا ہے کیونکہ جو اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے تو ایسے لوگوں کو تو توبہ کا بھی موقع نہیں ملتا اصل زندگی تو آخرت کی ہے جب وہی خراب کر لی تو پھر کچھ بھی ہاتھ نہیں آےُ گا نہ ہی وہاں معافی ملے گی

مریم نے سر پر اچھے سے دوپٹہ لے رکھا تھا..

آج واک کرتے ہوۓ جاتے ہیں... باہر نکلتے ہی آفاق بولا

لیکن آفاق واک کرتے ہوۓ تو تھک جائیں گے مرال بھی سو گئ ہے...

لاؤ مجھے پکڑا دو مرال کو... آفاق اس سے لیتے ہوۓ بولا

مرال کو آفاق نے کندھے سے لگا لیا اور دوسرے ہاتھ سے مریم کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا

دونوں خاموش تھے راستے بھی خاموش تھے لیکن ان کے بیچ خاموشی بول رہی تھی جسے دونوں بخوبی سمجھ رہے تھے

آفاق مجھ سے کوئ گلہ تو نہیں؟؟؟ مریم نے ڈرتے ہوۓ پوچھا

تم نے موقع ہی نہیں دیا کوئ شکایت کا...

وہ دونوں واپس گاڑی کے پاس آگۓ...

آفاق نے مرال کو پیچھے لٹایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی...

آفاق کیا ہمیشہ ایسے ہی پیار کرتے رہو گے؟؟ مریم کی آواز بھیگ گئ

بلکل تمہیں کیا لگتا ہے میں بدل جاؤں گا کبھی نہیں... آفاق اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے بولا

اور ہاں میں تمہیں ہمیشہ ایسے پیار نہیں کروں گا...

آفاق کی بات پر مریم کا دل ڈر کے مارے دبک کر پہلو میں بیٹھ گیا

میں اس سے زیادہ پیار کروں گا

کہتے ہوۓ آفاق نے مریم کی بے داغ پیشانی پر بوسہ دیا اور مریم اس کے سینے سے لگ گئ... آفاق نے اس کے گرد بازو حمائل کر کے خود میں سمیٹ لیا....

*********

شایان اور نور حج پر جا رہے تھے پورا گھر مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا....

مریم اِدھر سے اُدھر بھاگ رہی تھی

حیرت ہے ان لوگوں نے خدا جانے کیوں اپنے بیٹے کے لیے بھگوڑی لڑکی کا انتخاب کیا.. وہاں موجود خواتین نے اپنا پسندیدہ کام شروع کیا

سہی کہ رہی ہو ایسی لڑکی کو تو آس پاس بھی بھٹکنے نہ دیں اور انہوں نے بہو بنا لیا حیرت ہے بھئ حیرت ہے.....

مریم ان کے پیچھے آ کر بیٹھی ہی تھی کہ یہ سب سن کر اس کا دل بجھ گیا وہ آنسو پیتی اپنے کمرے میں چل دی... دروازہ بند کر کے مریم دل کھول کر روئ

خدا تو معاف کر دیتا ہے لیکن بندہ نہیں کرتا..

مریم تم نے خود اپنی مرضی سے اس راہ کا انتخاب کیا تھا پھر اب کیوں روتی ہو... آج پھر سے اس کا ضمیر اسے چپ کروا گیا...

بلکل جب میں نے یہ سب خود اپنے نصیب میں لکھا ہے پھر مجھے یہ زیب نہیں دیتا لیکن کیا کروں اللہ پاک میں بھی تو انسان ہو میرا بھی دل دکھتا ہے لیکن شاید لوگ تو مجھے انسان سمجھتے ہی نہیں ہیں جب میرا ان سے کوئ تعلق ہی نہیں ہے پھر انہیں کیا اختیار ہے میری زندگی میں دخل دینے کا آخر وہ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن دوسروں کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں بھولتے کم سے کم اس چیز کا ہی خیال کر لیں ایک نیک کام کے لیے مبارکباد آپ دینے آےُ ہیں تو کیا اس طرح کی باتیں زیب دیتیں ہیں میں گناہگار ہوں تو وہ لوگ بھی تو گناہگار ہیں کسی کا دل دکھانا خدا کو کتنا ناپسند ہے کیا یہ نہیں جانتے لوگ دوسروں کے معملات کی پوری خبر رکھتے ہیں اور جس بات سے خبردار ہونا چائیے اس سے لاعلم رہتے ہیں لیکن کوئ نہیں اللہ پاک آپ نے مجھے اتنے اچھے رشتے عطا کیے ہیں کہ میں ان لوگوں کی پرواہ نہیں کروں گی میرا کام ان رشتوں کو خوش رکھنا ہے جو مجھ سے جڑے ہیں ان سے وفا کرنی ہے بس یہ سب تو میں جانتی ہوں میرے قبر میں جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہو گا... مریم بے دردی سے آنسو صاف کرتی ہوئ کھڑی ہو گئ اور خود کو سیٹ کرنے لگی..

بس میری بیٹی کے نصیب اچھے کرنا اسے کوئ دکھ نہ ملے یااللہ وہ سر اٹھا کر جی سکے

میں نہیں چاہتی کہ اپنی ماں کی وجہ سے لوگ اس کا بھی جینا محال کر دیں...

*********

نور منہ اندھیرے شایان کا ہاتھ تھامے حرم میں داخل ہوئ...

جونہی کعبے پر نظر پڑی دونوں ہی دنیا بھول کر اسی میں کھو گۓ

کتنے ہی لمحے یونہی بیت گۓ وہ دونوں ایک دوسرے سے بھی بیگانہ ہو گۓ اگر یاد تھا تو صرف نظروں کے سامنے کعبہ...

نور جیسے ہی اس ٹرانس سے باہر نکلی اس کے لبوں سے دعا نکلی

یاللہ ہماری جھولی اولاد کی نعمت سے بھر دینا... ایک موتی نور کے گال پر آ گرا..

یہ اب تک کی بہترین صبح تھی

سنگ مر مر کے فرش پر چلتے ہوۓ لگ رہا تھا یہ اس دنیا کا حصہ نہیں ہے... شایان نے نور کا ہاتھ چھوڑا اور فرش پر بیٹھ گیا نور اس سے کچھ فاصلے پر اس کے پیچھے بیٹھ گئ.

بے اختیار ہی اس کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو گۓ اللہ کی عنایتیں یاد آنے لگیں.

اللہ پاک میرا آپ پر یقین کئ گنا بڑھ گیا ہے آپ نے یہ رشتہ جوڑا اور میں نے قبول کیا آپ نے مجھے آزمایا اور میں صرف اس یقین کے سہارے آگے بڑھتی رہی کہ میرا رب میرے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا میرے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہونے دے گا اور الحمداللہ آپ نے مجھے سرخرو کیا اگر شایان کو میرا محرم بنایا تو ان کے دل میں میرے لیے محبت بھی ڈال دی آج میرے یقین کی جیت ہوئ ہے میرا بھروسہ جیت گیا آپ نے مجھے خالی نہیں لوٹایا مجھے مایوس نہیں کیا

میں تو آپ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے محبت بھی ایسی کہ مجھے خود بھی رشک آنے لگتا ہے بے شک جن کی امیدیں اللہ سے جڑی ہوں وہ کبھی ناامید نہیں ہوتے

انسان سے مدد مانگو تو دو صورتیں ہیں اگر مل جاےُ تو احسان اور نہ ملے تو ندامت

جب کہ اللہ سے مدد مانگنے کا فائدہ ہے

مل جاےُ تو عطا نہ ملے تو بہتری

کیونکہ وہ ذات ہمارے ساتھ نہ کچھ برا کرے گی نہ ہی ہونے دے دی...ہر چیز کے پیچھے کوئ نہ کوئ وجہ ضرور ہوتی ہے بات صرف اتنی ہے کہ صبر کا دامن تھامے انتظار کریں ایک دن سب سمجھ آجاےُ گا اور اس دن زبان پر شکر کے سوا کچھ نہ ہوا گا ضرورت ہے تو صرف اس پاک ذات پر بھروسہ کرنے کی اپنا آپ سونپنے کی بس ایک بار خود کو اللہ کی رضا پر راضی کر لو اس کے بعد وہ ہو گا وہ جو تیری چاہ ہے

نور شکرانے کے نفل ادا کرنے لگی..

شایان کافی دیر خاموش بیٹھا کعبے کو دیکھتا رہا آج ایک عورت مجھے یہاں لے آئ ہے اور میں کعبے کی کشش سے باہر نہیں نکل پا رہا.....

شایان کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا..

یااللہ میں نے آپ سے ایک عورت کو مانگا بے جس سے میں نے بہت محبت کی آپ کے سامنے گڑگڑا رویا لیکن آپ نے مجھے وہ عورت نہ دے اور اس کے بدلے جو عورت مجھے ملی وہ لاکھوں نہیں کڑوروں میں ایک ہے مجھے لگتا تھا میں مِیرا سے محبت کرتا ہوں لیکن محبت کرنا تو مجھے نور نے سکھائ اور آج میں نور سے بے تحاشا مبحت کرتا ہوں اتنی کی اب مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کبھی مِیرا سے محبت کی ہو گی.....

آپ نے مجھے وہ نہیں دی جو میری چاہ تھی آپ نے مجھے وہ دی جو آپ کی چاہ تھی اور بے شک آپ کا انتخاب لا جواب ہے آپ نے مجھے بہتر نہیں نوازا بلکہ بہترین سے نوازا ہے......

انسان بیوقوف ہے نہیں جانتا کہ کون سی چیز میرے حق میں بہتر ہے اور کون سی نہیں لیکن اللہ سب جانتا ہے اس لیے وہ ہمیں وہ چیز نہیں دیتا جو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں وہ چیز دیتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہے اور الحمداللہ آج مجھے اس بات پر یقین آ گیا ہے میرے لیے نور کا انتخاب ہی بہترین ہے دیر سے سہی لیکن سمجھ میں آ گیا یااللہ آج میرے پاس سب ہے لیکن اولاد کی نعمت سے ہم محروم ہیں ڈاکڑ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نعمت نہیں مل سکتی لیکن مجھے یقین ہے اللہ ہماری جھولی کو بھر دے گا ہمیں خالی ہاتھ نہیں لوٹاےُ گا یااللہ میں بھی باقی سب کی طرح خودغرض ہوں اپنے مطلب کے لیے آیا ہوں لیکن بس مجھے آپ معاف کر دینا میری کوتاہیوں کے لیے میری یہی کوشش ہے کہ میں اپنی ہر غلطی کا ازالہ کر کے نور کو وہ سب بھلا دو جو تکلیفیں میں نے اسے دیں...

شایان اردگرد سے بےخبر اپنے خالق حقیقی سے محو گفتگو تھا...

اس نے دعا مانگ کر ہاتھ منہ پر پھیرا اور پیچھے نور کو دیکھا تو وہ غائب تھی...

شایان ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا...

حرم لوگوں سے بھرا ہوا تھا...

نور کہاں چلی گئ... شایان پریشانی سے سوچنے لگا

وہ اِدھر اُدھر تیزی سے نظریں گھما رہا تھا جب سامنے سے وہ مسکراتی ہوئ دکھائ دی شایان کی بے قرار دھڑکنوں کو قرار مل گیا...

نور کہاں چلی گئیں تھیں تم؟؟ شایان خفگی سے بولا

وہ میں پانی لینے گئ تھی... نور بوتل دکھاتی ہوئ بولی

پتہ ہے میں کتنا پریشان ہو گیا تھا...

سوری آئیندہ خیال رکھوں گی...

تمہیں پتہ ہے نہ تم میری سانسوں کا حصہ ہو تمہارے بغیر میں جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا میری دھڑکنیں تمہارے دم سے چل رہیں ہیں تم ہو تو میں ہو تم نہیں تو میں بھی نہیں سیدھی سی بات ہے نور

تم بن جینا ممکن نہیں

تم بن جینا ممکن نہیں

نور نے مسکرا کر سر اس کے شانے پر رکھ دیا...

ختم شد. ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tere Bin Jeena Munkin Nahi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tere Bin Jeena Munkin Nahi  written by Hamna Tanveer . Tere Bin Jeena Munkin Nahi  by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages