Mujhe Tera Har Zulm Qabool By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 13 June 2024

Mujhe Tera Har Zulm Qabool By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel

Mujhe Tera Har Zulm Qabool By Suhaira Awais Romantic Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mujhe Tera Har Zulm Qabool By Suhaira Awais Complete Romatic Novel 


Novel Name: Mujhe Tera Har Zulm Qabool 

Writer Name:  Suhaira

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

یہ کیسا خواب ہے؟؟

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ۔۔۔

 جیسے میں اپنے گھر میں نہیں  ہوں،،

اور یہ میری آنکھیں کیوں نہیں کھل رہیں۔۔

نایاب ابھی تک ہلکی ہلکی غنودگی کی حالت میں تھی،،

اب وہ اپنی بوجھل طبیعیت اور بھاری سر کے ساتھ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔

اسے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔

جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔

جسم تھا کہ نقاہت اور کمزوری سے چور تھا۔۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا تو وہ ایک انتہائی غیر شناسا جگہ پر موجود تھی۔

وہ کمرہ جہاں وہ تھی،،

 وہ انتہائی چھوٹا تھا،،

وہ اس کا موازنہ دراصل اپنے گھر کے کمروں سے کر رہی تھی،،

اس کمرے میں ایک کننگ سائز بیڈ ،،

اس کے دائیں جانب دو قدم کے فاصلے پر ایک ٹو سٹر صوفہ،،

اور بائیں جانب ایک ہاتھ کے فاصلے پر دیوار میں ہی نصب شدہ چھت تک کی الماری تھی،،

اور بیڈ کے بالکل سامنے،،

تقریباً ایک فٹ کے فاصلے پر سامنے دروازہ تھا جو غالباً  اٹیچ باتھ کا تھا۔

کمرے کی دیواروں پر pale green

کلر کے وال پیپر کمرے میں موجود چارکول گرے کلر کی الماری اور فرنیچر یعنی صوفے اور بیڈ کے ساتھ خوبصورت امتزاج پیش کر رہا تھا۔

×××××××××××××

نایاب نے خود کو اس انجان جگہ میں موجود پا کر اپنے ذہن پر زور ڈالا کہ آخر وہ یہاں کب اور کیسے پہنچی۔

پھر اسے یاد آیا کہ وہ تو اپنے دوست حماد کی برتھ ڈے پارٹی میں جانے کے  لیے گھر سے نکلی تھی۔

وہ وائٹ کلر کی سلیولیس نیٹ کی lace  ٹاپ ، ڈارک بلو جینز کے ساتھ پہنے،،

ڈارک میک اپ کیے تیار ہوئی تھی۔

اور اس کے بعد وہ راستے میں ایک مال میں جانے کے لیے گ

رکی تھی۔۔۔۔

اور وہاں سے حماد کے لیے برینڈڈ پرفیوم  اور ایک انتہائی مہنگی ٹی شرٹ گفٹ کے طور پر خرید کر پیک کروا کر مال سے نکلی تھی،،

اور کار اسٹارٹ کر کے restaurant کی طرف بڑھی تھی ،،

جہاں حماد کی برتھ ڈے کی پارٹی ہونی تھی،،

اور جب وہ راستے میں تھی تو اچانک اس کی کار پنکچر ہوئی،،

وہ دیکھنے کے لیے باہر نکلی تو کسی نے پیچھے سے آکر اس کے منہ پر رومال رکھا تھا اور اس کے بعد اب وہ یہاں اس روم میں اس بیڈ پر ترچھی ہوکر پڑی تھی۔

××××××××

اب اس کا دماغ اچھی طرح بیدار ہو گیا تھا،،

""اسے کڈنیپ کیا گیا تھا،،""

جیسے ہی یہ بات اس کی سمجھ میں آئی وہ بری طرح کانپ گئی،،

اوپر سے وہ جتنی بولڈ، بے باک اور کانفیڈینٹ دکھتی تھی۔۔۔۔

 اندر سے وہ اتنی ہی ڈرپوک اور کمزور تھی،،

ہر انسان کی طرح یا شاید باقی لوگوں سے کہیں زیادہ اسے موت سے خوف آتا تھا۔

وہ نازوں میں پلی امیر باپ کی بگڑی اولاد، ذرا سی چوٹ پر ہی اس کا کلیجہ منہ کو آجاتا تھا۔

اسے لگا کہ اسے تاوان کے لیے اغواہ کیا۔۔۔ گیا ہے،،

اور ساتھ میں اس نے سوچا کہ اکثر اغواہ کار تاوان وصول کرنے کے بعد بھی قتل کر دیا کرتے ہیں،،،

اور یہ سوچتے ہی اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔۔

وہ اپنی مری مری،، لرزتی ہوئی آواز میں اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود چیخنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے "ہیلپ ہیلپ" چلا رہی تھی۔

وہ بہت مشکل سے چلتی ہوئی دروازے تک آئی جو شاید باہر سے ہی لاک تھا،،

اس نے ہمت کر کے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔

"پلیز مجھے باہر نکالو،،، پلیز مجھے باہر نکالو!!!" وہ اب نسبتاً تیز آواز میں شور مچا رہی تھی،،

 اور مسلسل دروازہ بھی پیٹ رہی تھی۔

اسے ایسے روتے ، چیختے  ، چلاتے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا،،

وہ وہیں ابھی تک کھڑی دروازہ پیٹ رہی تھی کہ اسے تیزی سے لاک کھلنے کی آواز آئی۔۔۔

اور وہ یکدم ذرا سائیڈ پر ہو کر پیچھے ہوئی،،

اگر وہ فوراً ایسا نہ کرتی تو یقیناً وہ دروازہ اس کے منہ پر ایسے لگنا تھا کہ اسکی شکل بگڑ جاتی،،

×××××××

سامنے کھڑے غصے سے پاگل ہوتے شخص کو دیکھ کر اس کی ہوائیاں اڑ گئیں۔

"روحان بھائ۔۔۔آپ۔۔۔؟؟" نایاب کے آنسو اب تھم چکے چکے تھے،، 

خوف تو اسے ابھی بھی آرہا تھا،،

 بلکہ پہلے سے بڑھ گیا تھا لیکن اس خوف کی نوعیت اب بدل چکی تھی۔

نایاب کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی،،،

روحان کی سرخ پڑتی آنکھوں میں ٹھہرا غیظ  اور تکلیف،،، 

نایاب کی تشویش میں اضافہ کر رہے تھے۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی یا سوچتی،،

روحان نے اس کے نرم و نازک  سفید بازوؤں میں اپنی انگلیاں سختی سے پیوست کرتے ہوئے دیوار کی طرف لا کر پٹخا،،

نایاب ڈر سے کانپتی ہوئی رحم طلب نظروں سے روحان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

جبکہ روحان کے چہرے پر رقم نفرت، غصب اور انتقام کے تاثرات نایاب کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر رہے تھے،،

 کہ آج کے دن اس پر کوئی رحم نہیں ہونے والا۔

مگر پھر بھی کسی موہوم امید کے تحت نایاب اس کے سامنے گڑگڑائی،،

"خدارا مجھے جانے دیں۔۔ ررروحان بھائی۔۔!!"😪

"خبر دار جو تم نے مجھے بھائی کہا۔۔۔"😠😠

روحان نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکا منہ پکڑ کر اس کے جبڑوں پر اپنی گرفت سخت کر کے اپنی بھاری آواز میں  دھاڑا۔

"تم جیسی غلیظ لڑکی میری بہن نہیں ہو سکتی،،،

اور تم نے جو اپنے غلاظت بھرے وجود میں موجود غلیظ دماغ سے بنے گھٹیا منصوبوں کے ذریعے بدنامی کی گندی کیچڑ میرے کردار پر اچھالی ہے نا۔۔ 

اس کا انجام اب تم ساری زندگی بھگتو گی۔۔۔!!"

روحان کا یہ کہنا تھا کہ  نایاب کی روح تک اس کی دھمکی سے دہل گئی،،

"آپ ککک۔۔ کیا کرنے والے ہیں؟"

نایاب نے لڑکھڑاتی آواز میں ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

"وہی جو تم نے کیا ہے،،

میں تمہیں کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گا،،

تمہارے لگائے گئے جھوٹے الزامات کو سچ میں تبدیل کروں گا،،

اور جیسے تم نے مجھے میری ساری فیملی کے سامنے گندا کیا ویسے ہی تمہیں تمہاری ساری فیملی کے سامنے گندا کروں گا ،،" روحان چنگھاڑا،،

جبکہ نایاب کو تو بس اب دنیا اندھیر ہوتی نظر آئی۔

"دیکھیں پلیز ،، مجھے معاف کر دیں ،،

I'm really sorry..

I apologise..

Please forgive me...

میں سب کو سچ بتادوں گی،،

میں آپ کی پوزیشن clear کر دوں گی،،

Please let me go..!!

نایاب بری طرح کانپ رہی تھی اور التجائیں کر رہی تھی،،

لیکن سامنے کھڑے شخص پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔۔

اور ہونا بھی نہیں تھا۔۔

 اور وہ ہنوز اسے اپنی نفرت ٹپکاتی آنکھوں  سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

وہ اس کے بے حد قریب کھڑا تھا ،،

اتنا کہ اس کی گرم دہکتی سانسیں نایاب کو اپنے ٹھنڈے پڑتے چہرے پر آگ کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

" تم کہیں نہیں جا سکتی فی الحال،،

سکون سے یہیں بیٹھی رہو،،

اور انتظار کرو میرا،،

تمہیں تڑپانے کا لائف ٹائم permit چائیے مجھے،،

تم سے نکاح کر کے ۔۔ میں تمہیں ایسا سبق سکھاؤں گا کے تم لمحہ لمحہ کسی بے قصور پر لگائے گئے الزام کی سزا اب ساری زندگی بھگتو گی۔۔

میں تمہاری ہر خواہش، ہر پسند کو روند کر تمہیں سزا دوں گا،،

جس تحقیر اور ذلت سے میں گزرا ہوں ۔۔ تمہیں بھی گزرنا ہوگا ۔۔

اپنی اس منحوس شکل کو دھو کر آؤ،،

آئیندہ اس پر مجھے ذرا سا بھی میک اپ نظر آیا تو تمہارے لیے بہت برا ہوگا،،

پتہ نہیں کس کس کو لبھانے کے لیے اپنے آپ کو ایسے تیار کرتی ہو۔۔!!" ۔۔

وہ انتہائی حقارت سے اسے یہ سب کہتے ہوئے،، ایک جھٹکے سے اس کے بازو چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

اور ساتھ میں ہی دروازہ پھر سے لاک کر دیا۔

×××××××××

اب وہ  وہیں گرتی ہوئی زمین پر بیٹھی اپنے مستقبل کا سوچ کر رو رہی تھی،،

کہ نجانے اس کے ساتھ کیا ہوگا،،

اب وہ سہی سے پچھتا رہی تھی کہ آخر اس نے روحان سے پنگا لیا ہی کیوں!!

اور شادی۔۔ تو وہ اپنے بوائے فرینڈ حماد سے کرنا چاہتی تھی ۔۔جس کے کہنے پر ہی نایاب نے وہ کیا کہ جس کی وجہ سے وہ آج اس حالت میں تھی،، اس بات سے انجان کہ اس کا بوائے فرینڈ صرف اس کے ساتھ ٹائم پاس کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس مشکل کے لمحے میں بھی اس نے الله کو ایک دفع نہیں پکارا،،

اس کے گھر اور سوسائٹی کا کلچر ایسا ہی تھا،، دین اور دین کے احکامات سے بہت دور،، اللّٰه کی یاد سے بہت دور۔۔

خیر اب جو اس کے ساتھ ہو نے جا رہا تھا اس سے رہائی کے لیے پہلا اور آخری سہارا صرف الله کا اور ابھی وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ اس کا مشکل کشا ، اس کا رب،، اس کا اللّٰه ، اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہے۔

ابھی اسے اپنا تعلق اپنے رب سے جوڑ نے کے لیے بہت وقت باقی تھا،،

💔💔💔💔💔

ابھی اسے اپنا تعلق اپنے رب سے جوڑ نے کے لیے بہت وقت باقی تھا،،

💔💔💔💔💔

تھوڑی دیر بعد دروازہ ان لاک ہونے کی آواز پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی،،

روحان اندر داخل ہوا،،

وہ ابھی تک یہ امید کر رہی تھی کہ شاید وہ اسے بخش دے گا،،

وہ اپنی ایک آخری فریاد،،

ایک آخری التجاء کرنے کے لیے اس کے قدموں میں گر گئ،،

وہ اس کے پیر پکڑ کر اس سے درخواستیں کرنے لگی کہ وہ اسے بخش دے،،

اسے چھوڑ دے،،

اسے جانے دے،،

یوں بھی جو لوگ الله کہ ہاں سجدوں سے انکار کرتے ہیں،، 

اس کے احکامات کا مذاق بناتے ہیں وہ پھر ساری دُنیا کے سامنے مذاق بن جاتے ہیں،،

اور ساری دُنیا کے سامنے بھی نہیں تو کم سے کم ایسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ،،،

 وہ بالکل فالتو اور سستے ہو جاتے ہیں،،

"چھوڑو میرے پیر،، اور دفع ہوکے یہ برائیڈل ڈریس پہن کر آؤ،" 

روحان نے ایک ہاتھ سے اس کا بازو پکڑ کر اس کے ہاتھ اپنے پیروں سے ہٹائے اور حقارت سے خود سے الگ کر کے دور پھینکا

 اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ میں موجود  ڈریس اس کے سامنے پھینکا اور غصے سے پھنکارتا ہوا باہر چلا گیا،،

اس بار اس نے ڈور لاک نہیں کیا۔

××××××××

جب وہ واپس روم آیا تو وہ اس کی ہر ہدایت پر عمل کیے ،، 

وہاں صوفے پر بیٹھی،، 

اپنے ہاتھوں میں چہرہ گرائے اپنی بری قسمت کو رو رہی تھی،،

اس کے ڈریس کا دوپٹہ ویسے ہی نیچے زمین پر دھرا تھا،،

شاید میں پہلی مرتبہ اس نے فل سلیوز والا ڈریس پہنا تھا،،

ورنہ اس لبرل لڑکی کی واڈروب میں کوئی ڈریس ، کوئی ٹاپ یا کوئی ٹی شرٹ ایسی نہیں تھی کہ جس کی سلیوز فل ہوں،،

روحان نے دوپٹہ یوں نیچے پڑا دیکھ کر اس کی طرف زور سے پھینکا،،

وہ بھاری کام والا دوپٹہ تھا،، اور جس طرح اس نے پھینکا تھا وہ اس کے چہرے کے آگے موجود ہاتھوں پر زور سے لگا اور ہاتھ پر ہلکی سی دو خراشیں آگئیں،،

نایاب نے سٹپٹا کر چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو وہ ظالم سامنے کھڑا،،

اپنی قہر زدہ نظریں اس پر ہی گاڑھے ہوئے تھا،،،

وہ اس کے غصیلے چہرے پر اپنے لیے آیا حکم سمجھتے ہوئے وہ دوپٹہ پہن کر اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی،،

اس کے لیے اس قدر مکمل اور با حیا لباس کسی گالی سے کم نہیں تھا،،

وہ اسے اپنی تضحیک و تحقیقر سمجھ رہی تھی،،

روحان اس کے قریب آیا اور اس کی کلائی وحشیانہ انداز میں پکڑ کر باہر آیا جہاں نکاح خواں اور اس کے چند دوست بطور گواہ موجود تھے،،

×××××

نکاح ہو چکا تھا اور سب مہمان بھی جا چکے تھے،،

اب وہ اپنے اس اپارٹمنٹ میں نایاب پر اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے آزاد تھا،،

وہ اسے واپس اپنے انتہائی وحشیانہ انداز میں بازو پکڑ کر کمرے میں لے کر گیا اور درندگی کی ساری حدیں پار کر کے بہت سی پکچرز بھی بنا چکا تھا،،

پھر اسے واپس وہ  ڈریس چینج کر کے وہ ڈریس پہننے کو بولا جو وہ گھر سے پہن کر آئی تھی،،

وہ چینج کر کر آئی تو اس کے بازوؤں پر چھپے روحان کے نوچنے کے نشان اس پر کی گئی درندگی کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔

روحان نے اسے اس کی گاڑی کی چابی تھمائی اور اس کی گاڑی تک چھوڑنے کے لیے ساتھ آیا۔۔ 

"اگر تم نے کسی کو اس نکاح یا میرے متعلق کچھ کہا تو تمہاری ساری پکچرز انٹرنیٹ پر اپلوڈ کردوں گا ، پھر تم اپنی فیملی کے سامنے تو کیا ساری دنیا میں مذاق بن کر رہ جاؤ گی۔"

اس نے سختی سے اپنے نکاح کو راز رکھنے کی تلقین کی،،

وہ جانے لگا تو،، نایاب نے اسے پکارا۔۔۔۔"روحان"

اس نے غصے سے پھٹنے والی آنکھیں لیے اس کی طرف دیکھا،،

 "کیا مسئلہ ہے؟؟" اس نے اپنے لہجے کو حتی المقدور سخت رکھا۔

"پلیز مجھے اپنی جیکٹ دے دیں،،

اس حالت میں میں ایسے نئی جا سکتی،،"

اس نے اپنی دکھ، تکلیف، احساس تحقیر سے آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

روحان نے اس کی بات سمجھتے ہوئے اپنی jacket اس کے حوالے کی،،

کئی گھنٹوں سے اسے اپنی حقارت اور انتقام کا نشانہ بنانے والے شخص نے نجانے کیوں اس بار اس کے صرف ایک دفعہ کہنے پر ہی اسے اپنی جیکٹ تھما دی۔

شاید جن آنسوؤں کی وہ کافی دیر سے وہ وجہ بنا ہوا تھا اب وہ اس سے دیکھے نہیں گئے،،

ہاں،، اس کے دل کو ہی تو کچھ ہوا جو اس نے فوراً اس کی بات مان لی تھی،

وہ ویسے بھی فطرتاً اتنا سفاک نہیں تھا ۔۔ 

بس نایاب کی اس انتہائی گری ہوئی حرکت نے اسے اشتعال دلایا تھا۔

وہ اس سے اپنا بہت حد تک بدلہ لے چکا تھا،، 

یا شاید اس کے جرم سے زیادہ ہی سزا دے چکا تھا لیکن اب بھی اسے لگتا تھا کہ اس کا انتقام      تو شروع ہوا ہے،،

اس لیے اس نے اپنے دل میں نایاب کے لیے  کوئی نرم جزبہ پنپنے نہ دیا۔

پر اس کے کچھ کرنے یا نا کرنے سے کیا ہوگا۔۔

اسے جب بھی محبت ہونی ہوگی ہو جائے گی اور ہو کر رہے گی،،

××××××××××

نایاب اپنے گھر گئی تو حسب توقع و معمول ، کوئی بھی اس کے رات دو بجے گھر واپس آنے کی باز پرس کرنے والا نہیں تھا،

مام ڈیڈ اپنے روم میں سو رہے تھے،،

بڑی بہن "سیما" اسکی married تھی اور آؤٹ آف سٹی  رہتی تھی اور اس سے پانچ سال چھوٹا بھائی دانیال۔۔ وہ اپنے روم میں اپنی کسی gf  کے ساتھ ویڈیو کال میں مشغول تھا۔

سو۔۔ وہ چپ چاپ اپنے روم میں گئی ،، شاور لیا،،

اور آکر بیڈ پر لیٹ گئی،،

اس نے اپنی camisole  نما شرٹ سے جھلکتے بازوؤں کو چھو کر اپنے آج کے گزرے دن کی یاد تازہ کرنے لگی،،  

آنسو تھے کہ اپنی بدقسمتی پر آنکھوں میں ٹھہرنے سے قاصر تھے سو بہ نکلے،،

اتنی تذلیل ، ظلم اور بدتمیزی اس کی آج تک کسی نے کہی تھی،،

اس نے سوچا تو یہ تھا کہ وہ روحان کی ایک ایک حرکت کے متعلق اپنے مام ڈیڈ کو بتائے گی،،

لیکن اس کی دھمکی کا سوچ کر وہ کانپ کر رہ گئی اس نے اپنی سوچ وہیں ملتوی کر دی۔

اسے آج اپنے وجود تک سے کراہت محسوس ہو رہی تھی،،

اسے اس کا لباس زہر لگ رہا تھا،،۔۔

اسے آج پتہ چلا تھا کہ بے لباس ہونے کی ذلت کیا ہوتی ہے!!

پہلی مرتبہ اسے اپنے لباس کے نامعقول اور واحیات ہونے کا احساس ہوا۔

وہ جلد ہی شرم و حیا جیسے احساسات سے شناسائی حاصل کرنے والی تھی،،

 پر ابھی تو وہ اپنے اوپر آئی مصیبت کے متعلق سوچ سوچ کر تڑپ رہی تھی،،۔۔

وہ جتنا شدت سے رو سکتی تھی رو دی۔۔

وہ انتہائی مایوس تھی ،، کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ الله نے ہر مشکل کے ساتھ آسانی رکھی ہے۔

اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ الله کی رحمتوں کے سامنے اس کے گناہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

لیکن اب تک تو اسے یہ احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ گناہگار ہے، نافرمان ہے اپنے رب کی،، وہ اس کے احکام کو مذاق سمجھتی رہی تھی،، مگر اب آگہی کا وقت بہت نزدیک تھا۔

💔💔💔💔💔

لیکن اب تک تو اسے یہ احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ گناہگار ہے، نافرمان ہے اپنے رب کی،، وہ اس کے احکام کو مذاق سمجھتی رہی تھی،، مگر اب آگہی کا وقت بہت نزدیک تھا۔

💔💔

 یہ اس کی اب تک کی زندگی کی سب سے بھیانک اور تکلیف دہ رات تھی۔

 اور  جیسے تیسے رو دھو کر گزر چکی تھی،،

آخر رات کب کسی کے لیے رکتی ہے،،

اس نے تو دن کی روشنی میں سب راز فاش کرنے ہوتے ہیں،،

بہر حال،، وہ آج اپنے معمول سے ذرا دیر میں اٹھی تھی،،

وقت تقریباً دوپہر کے ایک بجے کا تھا،،

وہ دو مہینے پہلے ہی یونیورسٹی سے گریجویشن کر چکی تھی تب سے ہی اس کی روٹین صبح گیارہ بجے اٹھنے کی تھی،،

مگر آج اسکی روٹین ذرا ڈسٹرب ہو گئی تھی،،

ڈسٹرب تو اس کی زندگی میں اب بہت کچھ ہو چکا تھا،،

بلکہ اس کی آئندہ کی زندگی، خواب، مستقل ،، الغرض سب کچھ ہی نا قابل تلافی ، حد تک ڈسٹرب ہوا تھا۔

تو پھر یہ معمولی سی روٹین ڈسٹربینس اس کے لیے بھلا کیا معنی رکھتی،،

وہ فریش ہونے واشروم میں گئی تو سنک کے پاس نصب آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر اس کے لیے یہ یقین کرنے مشکل ہو رہا تھا کہ یہ وہی ہے،،

کل کے بعد آج اس نے اپنی شکل اور حلیے کو اچھی طرح نوٹ کیا تھا۔

اس کے باب کٹ سٹائل میں کٹے ہوئے چھوٹے بال اب کہیں سے سٹائلش نہیں لگ رہے تھے۔

وہ اتنے چھوٹے تھے کہ اس کی بمشکل گردن بھی نہیں ڈھانپ سکے،،

 اور اس کی tight شرٹ میں سے اس کے جھلکتے بازو اور کندھوں کا آدھے سے زیادہ حصہ اس پر بیتی درندگی کا قصہ بخوبی بیان کر رہے تھے،،

اب اس کے لیے ایک نئی مشکل تھی کہ وہ ان نشانات کو چھپائے کیسے۔۔!!

کیونکہ رات میں تو جیسے تیسے اس نے cover کر لیا تھا لیکن اب اس کے پاس،، اس کے summer ڈریس کولیکشن میں کوئی سلیوز اور چھوٹے گلے والا ڈریس نہیں تھا اور نہ ہی کو اسٹولر یا سکارف وغیرہ کہ جس کی مدد سے وہ اپنا آپ چھپا سکتی،، 

وہ مردانہ ، کھلی اور بڑی جیکٹ بھی وہ دن کے وقت استعمال کرنے سے قاصر تھی،،

لیکن مرتی کیا نا کرتی کے مصداق اسنے اپنی  loose  سی کوئی ہاف سلیوز  والی Cobalt بلو کلر کی ٹاپ ڈارک ریڈ کلر کے اسٹریٹ پینٹ ٹراؤزر کے ساتھ،  ڈھونڈ کر پہنی،، وہ ٹاپ اس وقت اسے بہت بڑی غنیمت لگ رہی تھی،، اور انتہائی مجبوری کے تحت روحان کی جیکٹ پہنے ،، بغیر ناشتے کے ،، صرف اپنا والٹ اور کار کی کیز اٹھائے،، گھر سے باہر نکل آئی،،

اس کی مام گھر پر نہیں تھیں، غالباً اپنی کسی دوست کے ہاں لنچ پر انوائیٹڈ تھیں ، ڈیڈ ابھی تک آفس میں تھے اور دانیال جو کہ ایف-ایس-سی پری انجینئرنگ کے فرسٹ ائیر میں تھا،، وہ بھی ابھی تک کالج میں تھا،، اس لیے وہ ہر ممکنہ حد تک سب کے سوال و جواب سے بچ گئی۔

××××××××

وہ اپنی کار میں بیٹھی اور اسٹارٹ کر کے مال کی طرف نکل گئی،،

اسے یاد آیا کہ اس کی کار کا ٹائر تو کل پنکچر ہوا تھا، ۔ پر شاید وہ روحان نے ٹھیک کروادیا تھا،،

اسی لیے تو وہ رات میں بھی اپنی گاڑی پر ہی واپس گھر آئی تھی۔

اور اس کے ساتھ پھر سے بیتے دن کی تمام سفاکیت بھی اس ذہن اور شعور پر تازہ ہو گئی اور بے بسی کے چند آنسو اس کے نرم گالوں پر اپنا رستہ بنانے لگے،،

🍃🍃🍃💔💔💔💔

اس بار اس نے ethnic ڈریسز خریدے،،

اس نے سب کے سب بین گلے والے stitched کُرتے ہی لیے تھے جیسے اس کی بہن عموماً پہنتی تھی،،، اور ساتھ میں تین ، چار سٹولز بھی اپنی شاپنگ کارٹ میں ایڈ کیے۔

ان میں سے ایک  کُرتا تو اس نے ٹرائنگ روم میں ہی جا کر چینج کر لیا تھا اور اب وہ سکون سے مال سے باہر نکلی۔

سچ ہے کہ جب ہم اپنے رب کے احکامات سے روگردانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ ہمیں اس کے کہے پر مجبوراً چلنا پڑتا ہے۔

اس نے شاپنگ بیگز کار کی بیک سیٹ پر رکھے اور ایک  بیگ سے ایک سٹول نکال کر،، اسے اپنے گلے کے ارد گرد رسی کی طرح سکیڑ کر مفلر کی طرح لپیٹ لیا۔

وہ کار اسٹارٹ کر کے نکلی ہی تھی اور میں روڈ پر تھی،،

اس وقت سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ تھی کیوں کہ سکول، کالجز اور دفاتر وغیرہ کی چھٹی کا وقت تھا۔

ٹریفک سگنل ریڈ تھا اس لیے اس نے کار روکی ہوئی تھی تبھی اس کا فون رنگ ہوا۔

اس نے دیکھا تو حماد کالنگ لکھا آرہا تھا۔

اس نے فون ریسیو کیا،،

حماد اس سے ناراض تھا کہ وہ اس کی برتھ ڈے پارٹی میں شامل نہیں ہوئی، اور وہ ناراضگی مصنوعی تھی بالکل نایاب کے ساتھ اس کے تعلق کی طرح۔

نایاب اس سے سوری کر رہی تھی،، 

پر وہ نہیں مان رہا تھا اور جھوٹی ناراضگی جتا رہا تھا،، اس کی ان سب جھوٹی ڈرامے بازیوں کا  کا نایاب کو قطعاً علم نہیں تھا۔

بہر حال سگنل گرین ہو چکا تھا،، 

وہ جلد از جلد فون رکھنا چاہتی تھی،،

 کیونکہ فون سننے کے ساتھ ساتھ اسے ڈرائیونگ میں مشکل سے ہوتی تھی،

اس لیے اس نے کہا کہ "ابھی میں روڈ پر ہوں کار ڈرائیور کر رہی ہوں تم میکڈونلڈز پہنچو، وہاں بات ہوگی، میں ویٹ کر رہی ہوں۔"

"اوکے"حماد نے جواب دیا اور ساتھ میں فون بھی آف کر دیا،

اب نایاب پوری توجہ سے ڈرائیو کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ذہن بار بار بھٹک کر کل والے واقعے کی طرف جا رہا تھا،،

وہ ریلیکس ہونا چاہتی تھی اور اکثر  اس کا حماد سے بات کرکے دل بہل جایا کرتا تھا،،

ویسے دیکھا جائے تو نایاب کی طرف سے بھی اس کے حماد کے ساتھ کے تعلق کی نوعیت زیادہ گہری نہیں تھی لیکن پھر بھی نایاب اس کے ساتھ sincere  تھی،،

لیکن اب اس کے کسی بھی تعلق کی اس کے اور روحان کے مابین رشتے کے سامنے کوئی وقعت نہیں تھی۔

😩😒😒⚡⚡

وہ ریسٹورنٹ پہنچ کر ایک کارنر سائڈ ٹیبل پر بیٹھی

حماد کا انتظار کر رہی تھی،،

اس نے ایک سانس اندر کھینچ کر خود کو relax   کرنے کی کوشش کی۔

اور مسکراہٹ کے ساتھ حماد کو  Hi  بول کر ویلکم کیا۔

حماد اس کی یہ نئی look   دیکھ کر شاکڈ تھا پر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ شاید نایاب کوئی نیا گیٹ اپ ٹرائ کرنے کا ایڈوینچر کر رہی ہو،،

آج نایاب  نے  اس ڈیشنگ پرسنیلٹی والے حماد کی طرف حسرت سے دیکھا کہ کبھی جس کے ساتھ اس نے اپنے دل ہی دل میں پوری زندگی پلین کر رکھی تھی اب وہ اس کا کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔

دونوں نے اپنی اپنی پسند کا لنچ آرڈر کیا،، اور باتوں میں مشغول

💔💔💔

حماد نے اس سے کل پارٹی میں شامل نہ ہونے کی وجہ پوچھیں تو روحان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ کل والا سارا واقعہ حماد کو بتا چکی تھی،

آخر وہ اس سے چھپاتی  بھی کیوں!!! 

حماد کی وجہ سے تو یہ مصیبت گلے پڑی تھی،،

وہ دونوں آمنے سامنے ٹوسٹر صوفوں پر بیٹھے تھے کہ جب وہ اپنی کل والی روداد سنا رہی تھی،،

آخر کو جب اس کا ضبط ٹوٹا تو وہ رونے لگی،،

 "حماد۔۔!! پلیز مجھے اس عذاب سے بچالو۔۔!!" وہ روتے ہوئے کہ رہی تھی،،

حماد اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا،، اور اسے سینے سے لگا کر تسلی دینے لگا کہ "چپ کر جاؤ،، شاباش۔۔ رونا نہیں،، میں کچھ کرتا ہوں تمہارے لیے،،" اب یہ کون جانے کہ حماد کی ساری ہمدردی show off تھی،،

وہ خود اس سے بریک اپ کرنا چاہتا تھا اور اب شکر کر رہا تھا کہ اس کی جان چھوٹ گئی نایاب سے،،

گریجویٹ تو وہ بھی ہوچکا تھا اور اب اپنے بابا کا بزنس سنبھالنے والا تھا،، 

اوپر سے اس کی ممی نے اس کی کزن کے ساتھ بات بھی فکس کر رکھی تھی،، عنقریب اسکی انگیجمنٹ بھی ہونے والی تھی،،  

نایاب اس بات سے بے خبر کے روحان بھی وہیں موجود ہے اور کافی دیر سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے،، ابھی تک اس کے سینے سے لگی آنسو بہا رہی تھی،،

روحان دراصل سائیڈ بزنس کے طور پراپرٹی کا بزنس کرتا تھا اور اسی سلسلے میں وہاں اپنے کلائنٹ میٹنگ کے لیے موجود تھا،،

ویسے تو اسکا،، اسکے ماموں کے ساتھ پارٹنرشپ پر ایک بہت بڑا شاپنگ مال بھی تھا لیکن پراپرٹی ڈیلنگ اس کا ذاتی شوق تھا،، اور وہ اسے بھی اپنا پروفیشن بنائے زندگی گزار رہا تھا،،

🍃🍃🍃🍃🍃

کلائنٹ کے جانے کے بعد وہ غصے میں اپنی جگہ سے اٹھا اور نایاب کی طرف بڑھا،،

اس نے ان کی ہلکی پھلکی گفتگو،، کم فاصلے اور اپنے ایکٹیو کانوں کی وجہ سن لی تھی،،

جسکی وجہ سے اس کا طیش مزید بڑھ گیا،،

اب حماد اور نایاب اس کی طرف متوجہ تھے اور وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے کیوں کہ وہ اچانک ان کے سامنے آکر دھپ سے بیٹھ گیا،،

اس کی انگارہ ہوتی آنکھیں نایاب کو اندر تک خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ 

حماد نے تو روحان کے تیور دیکھ کر وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی تو روحان بھی اس کے پیچھے لپک گیا،،

جبکہ نایاب کی تو اپنی جگہ سے ہلنے کی ہمت ہی نہیں تھی،،😬

😬😬😵😩

جبکہ نایاب کی تو اپنی جگہ سے ہلنے کی ہمت ہی نہیں تھی،،😬

😬😬😵😩

حماد نے روحان کی پیچھا کرنے والی حرکت اگنور کی اور جلدی جلدی ریسٹورنٹ سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف گیا۔

حماد نے اپنی کار کا دروازہ کھولا تھا کہ روحان جو ساتھ ہی تھا،، 

اس نے حماد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا،،

حماد تھوڑا گڑبڑا گیا،،

 روحان کی خوف سے بھری نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں لیکن وہ پھر بھی خود کو کمپوز کرتا اس کی طرف متوجہ ہوا،،

"جی مسٹر۔۔!! آپ کے اس طرح روکنے کی وجہ جان سکتا ہوں؟؟" حماد نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے پورے اعتماد سے پوچھا۔

"ہاں بالکل جان سکتے ہو وجہ ،، میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے روکا ہے کہ اب نایاب میری بیوی ہے،، 

جیسا کہ تم جان چکے ہووو۔۔۔!!

اب اگر اس کے قریب نظر آئے تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ پہچانے نہیں جاؤ گے،،

اور ویسے بھی کچھ حساب کتاب تو ابھی تم سے بھی لینا ہے۔۔۔ آخر نایاب کو میرے خلاف تم نے بھڑکایا تھا۔" روحان نے اپنی گھمبیر آواز میں لفظ چبا چبا کر بولتے ہوئے اسے سخت تنبیہ کی۔

حماد کو بھی اب اس کے اس طرح دھمکانے پر غصہ آگیا تھا،،،

"میں نہیں بلکہ یہ تمہاری "پاکباز" بیوی بار بار میرے پاس آتی ہے،، اس کو سنبھالو۔۔!!،،

مجھے بھی ضرورت نہیں اس بے ہودہ اور بے حیا لڑکی سے تعلق رکھنے کی،،

اور ویسے بھی نیکسٹ Saturday  کو میری کزن سے میری انگیجمنٹ ہونی ہے،،

تم دونوں بھی انوائٹڈ ہو،، ضرور آنا،،"

حماد نے بھی تڑک کر ان سے تھوڑا فاصلے پر کھڑی نایاب کی طرف اشارہ کر کے طنز کرتے ہوئے کہا جو ہمت کر کے وہاں تک آئی تھی کیونکہ اس کی گاڑی بھی وہیں حماد کی کار کے ساتھ ہی پارکڈ تھی،،

اس نے اچھی طرح سے نایاب کو اس کی حقیقی           اوقات یاد دلائی،، 

نایاب کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک رنگ گیا،، 

اس نے اس بات کو خاطر میں لائے بغیر کہ روحان کیسی کھولتی آنکھوں سے اس کا ایکس رے کررہا ہے،، انتہائی شاک کی حالت میں حماد کی طرف دیکھا۔۔

ایک لمحہ نہیں لگا تھا اسے بدلنے میں،،

کیسے اس نے ایک ہی آن میں اس کے کردار کی دھجیاں اڑا دیں تھیں،،

ابھی وہ اندر کتنی تسلیاں اور دلاسے دے رہا تھا،،

نایاب اپنی دنیا میں تب واپس آئی جب حماد وہاں سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کر تیزی سے گاڑی بھگاتا فرار ہوچکا تھا،، اور روحان نے اس کے  قریب آکر ایک زور دار تھپیڑ اسے رسید کیا۔

اور اور اس کے ہاتھ سے اس کی گاڑی کی کیز لے کر، فرنٹ ڈور کھولا اور اسے دھکا دے کر بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

اس نے فون نکال کر اپنے گھر کے ڈرائیور کو اس ریسٹورنٹ سے اس کی کار واپس گھر لے جانے کا آرڈر دیا جس کے پاس اس کی کار کی ایک ایکسٹرا key   ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

اب وہ کار اسٹارٹ کر کے اپنے اسی چھوٹے سے پانچ مرلے پر مشتمل خفیہ فلیٹ کی طرف روانہ ہوا،،

اس کا غصہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا جسے وہ بہت مشکل سے کنٹرول کیے اپنی توجہ صرف اور صرف ڈرائیونگ پر مبذول کیے ہوئے تھا۔

دراصل اس فلیٹ کے متعلق اس کے گھر والوں میں سے نایاب کے علاؤہ کسی کو نہیں پتہ تھا۔

نایاب کار میں بیٹھی، اپنی گود میں اپنی نظریں گاڑھے ، مسلسل رو رہی تھی،،

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کہاں جائے اور کیا کرے۔۔!!

جیسے ایک دم ہی اس پر دنیا تنگ کر دی گئی تھی،،

اتنی جلدی ایک کے بعد ایک ذلت اس کا مقدر بنتی جارہی تھی،،

اس نے کبھی یہ گمان بھی نہ کیا تھا کہ اس کی زندگی اتنی میں  دشواریاں پیدا ہو جائیں گی،،

"بے حیا،، بے ہودہ" یہ الفاظ بار بار اس کی سماعتوں میں بازگشت کر رہے تھے،،

نجانے اب روحان بھی اس کا کیا حشر کرنے والا تھا،،

😵😵😵😵

اب نایاب اس کے فلیٹ کے بیڈ روم میں موجود تھی جہاں روحان اسے پٹخ کر گیا تھا اور باہر سے ڈور لاک کر کے گیا تھا،،

اسے وہاں بیٹھے دو گھنٹے ہو چکے تھے،،

ان دو گھنٹوں میں اس نے اپنے متعلق، اپنی زندگی کے متعلق، پہلی دفعہ سنجیدگی سے سوچا اور اپنا تجزیہ کیا کہ آخر اس نے آج تک اپنے ساتھ کیا کیا،،

اور اس کے ساتھ یہ سب ہوگیا رہا ہے،،

وہ لوگ جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ اس سے محبت کرتے ہیں،، 

وہی اس کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہے تھے،، یہ تو اسے چاہنے والوں کا حال تھا اور باقی دنیا اس کے متعلق کیسے کیسے گمان رکھتی ہو گی!!!

جو لوگ اس کے منہ پر اس کی بے باک، ماڈرن ڈریسنگ اور گیٹ اپ کی تعریفیں کرتے تھے اور اس کے بولڈ ہونے کو سراہتے تھے وہ در حقیقت اسے بے ہودہ اور بے حیا سمجھتے ہیں،،

لاشعوری طور پر اس کا طرزِ زندگی دوسرے لوگوں سے ملنے والے ستائشی الفاظ پر dependent  تھا،،

وہ ایک طرح سے دوسروں کو ایمپریس کرنے لیے،، اور اپنے جیسی دو ٹکے کی لبرل لڑکیوں کی تعریفیں بٹورنے کے لیے اپنے دین کے دائرے سے کہیں دور نکل کر زندگی گزار رہی تھی۔

اس کی اب تک کی پڑھی گئی، سکول کے نصابوں میں شامل اسلامیات کی کتابوں کے اسباق وہیں رہ گئے تھے،،

جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی زندگی کو بہتر اور اپنے وجود کو خدا کے ہاں معتبر بنا سکتی تھی،، ان تعلیمات کو بس امتحانات کی تیاری کے لیے استعمال کیا اور اس سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی۔

اور پھر بے اختیار، اسے سورۃ النساء کی آیت 112 کا ترجمہ یاد آیا جو اس نے کسی مضمون میں qoute  کرنے کے لیے یاد کیا تھا:

""اور اگر کوئی شخص کسی غلطی یا گناہ کا مرتکب ہو ، پھر اس کا الزام کسی بے گناہ کے ذمے لگا دے ، تو وہ بڑا بھاری بہتان اور کھلا گناہ اپنے اوپر لاد لیتا ہے ۔""

ہاں اس نے یہی تو کیا تھا،،

اپنا الزام انتہائی بڑھا چڑھا کر روحان پر ڈالا تھا،،

اف۔۔ تو اسے اس جرم کی سزا مل رہی تھی۔۔۔!!

اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی،،

پر اسے ذرا سکون بھی ملا تھا کہ کم سے کم اس کے جرم کی اچھی طرح نشاندہی ہو گئی،، 

اب اسے اپنے جرم کا ازالہ کرکے،،

اس مصیبت سے رہائی کی کوئی راہ ڈھونڈنی تھی،،

پر ابھی بہت وقت تھا۔۔ ازالوں اور رہائی کے راستوں کا اس پر آشکار ہونے ابھی بہت دیر تھی،،

بھلا راز اتنی آسانی سے کہاں کھلتے ہیں،،

اسے اس اپنے پسندیدہ پہناوے یا لباس کے نامعقول اور غیر شرعی ہونے،،

 اس آیت کے مفہوم کی یاد دہانی کرنے۔۔۔

 اور اس کے ساتھ منسلک لوگوں کے خلوص کے متعلق باخبر ہونے کے لیے کل سے لے آج تک ..!!،،

 ایک نا ختم ہونے والی ذلت آمیز اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کیونکہ راز آسانی سے نہیں کھلتے،، 

کیونکہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے سہنا پڑتا ہے،،،

 اپنے وجود کو گناہوں کی گندگی سے آزاد کرنے کے لیے آزمائشوں کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے،،

______××××_____

وہ ویسے ہی بیڈ کراؤن کے ساتھ کمر لگائے،، اپنے گھٹنوں پر سر رکھے،، سسکیاں لے رہی تھی کہ روحان روم میں داخل ہوا،،

اب وہ کافی پر سکون دکھائی دے رہا تھا، غالباً اب اس کا غصہ ختم ہو گیا تھا،،۔۔

شاید وہ خود کو کول ڈاؤن کر نے کی غرض سے اپنے گھر چلا گیا تھا کیونکہ اگر وہ اس وقت تھوڑی دیر بھی نایاب کے پاس رکتا تو ممکن تھا کہ وہ اس کا گلا ہی دبا دیتا،،

اور اوپر سے اس کی ماما کی کال بھی آرہی تھی کیونکہ اس نے دو دن سے ماما کو اپنی شکل نہیں دکھائی تھی،

 وہ ان  دو دنوں میں اپنے گھر  صرف اپنی میٹنگ کے لیے تیار ہونے کی غرض سے گیا تھا اور ماما سے بات نہیں کر سکتا تھا تو اس لیے اس کی ماما اسے لنچ پر بلا رہی تھیں،،

اور ویسے بھی ریسٹورنٹ میں تو اس نے صرف جوس ہی پیا تھا۔

اس لیے اس نے نایاب کی کار بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں پارک کی جہاں اس کا فلیٹ موجود تھا اور خود Uber سے کار بک کروا کر اس میں گھر گیا۔

روحان اس کے قریب بیڈ پر آکر بیٹھ گیا،،

اور مسلسل اس روتی ہوئی نایاب کی طرف دیکھ رہا تھا،، جو اب تقریباً سیدھی ہو کر بیٹھی تھی،،

"سنو۔۔!" روحان نے بالکل انسانوں والے طریقے سے ،، نرم لہجے میں نایاب کو پکارا۔۔

نایاب اس کے نرم لہجے پر ششدر رہ گئی،

اس نے روحان کی طرف دیکھا تو وہ اپنی مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا،،

نایاب اس کے رویے کی اس اچانک تبدیلی پر حیرت   زدہ  تھی کہ روحان کی اگلی بات نے اسے ایک دفع پھر ذلیل و حقیر کردیا،۔۔

نایاب اس کے رویے کی اس اچانک تبدیلی پر حیرت   زدہ  تھی کہ روحان کی اگلی بات نے اسے ایک دفع پھر ذلیل و حقیر کردیا،۔۔

💔💔🔥

"دیکھ لی تم نے اپنی اہمیّت، اپنی وقعت،،  اس شخص کی نظروں میں،، اس شخص کے دل میں جس ہاتھوں تم آج بھی بے وقوف بن رہی تھیں، کل بھی وہ تمہارے ساتھ یہی کر رہا تھا،، دیکھ لیا تم نے۔۔۔ اس شخص کا خلوص۔۔؟؟؟" روحان نے اسے پھر سے وہی بات دہرائی۔۔ جسے سوچ سوچ کر وہ بری طرح تڑپ رہی تھی۔

"جانتی ہو اب مجھے تم پر غصہ نہیں آرہا ،،

تم اس قدر قابلِ رحم حالت میں ہو کہ اس لمحے میں میں تمہیں مزید ذلیل نہیں کرنا چاہتا،،

لیکن مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔ 

جس کا مجھے سچ سچ جواب چاہیے اور تم مجھے پوری بات بتاؤ گی." وہ اس کے دونوں ہاتھ نرمی سے اپنی ہتھیلیوں میں چھپائے ، آرام سے پوچھ رہا تھا،

اسے وہ پہلے والا روحان لگا،، جو اس کو ہمیشہ سے عزت اور اہمیت دیتا آیا تھا،، بس پہلے وہ اسے بہنوں والی محبت اور احترام دیتا تھا جسے نایاب کبھی سمجھ ہی نہیں پائی اور اب وہ اپنی بیوی کی حیثیت سے اسے اچھے سے ٹریٹ کر رہا تھا۔

وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے جواب کا منتظر تھا،، "بولو۔۔ سچ سچ بتاؤ گی ہر بات مجھے۔۔؟"

"جی۔۔ پوچھیں!!" نایاب نے اپنے بھیگے لہجے میں آہستہ سے جواب دیا،،

"اچھا۔۔ پھر مجھے بتاؤ کہ جب میں نے حماد کو تم سے گلے ملتے اور اسے تمہارے گال پر کس کرتے دیکھا تھا، تمہارے گھر پر،،

 اس نیو ائیر پارٹی میں جس میں تم نے مجھے بھی انوایٹ کیا تھا،، 

اور بعد میں پھر میں نے تمہیں اس سے دور رہنے کی وارننگ بھی دی تھی تو تم نے حماد کو جا کر کیا کہا تھا..؟؟

 اور اس نے بدلے میں تمہیں کیا بولا تھا؟؟؟"

 روحان نے اپنے لہجے کو بمشکل نرم اور غصے سے دور رکھتے ہوئے پوچھا،،،۔ 

اس نے نایاب کے ہاتھ اب بھی ویسے ہی اپنی ڈھیلی سی گرفت میں لیے ہوئے تھے۔

⁦❤️⁩💔⁦❤️⁩

"وہ میں نے بس نیکسٹ ڈے جا کر اس کو بولا کہ میرے ایک کزن ہیں،،

 انہوں نے مجھے تم سے دور رہنے کو بولا۔۔ 

وہ بول رہے تھے کہ تم اچھے لڑکے نہیں ہو،،

 اور یہ کہ میں نے بھی انہیں کھری کھری سنا دی کہ ان کی تمہارے بارے میں کچھ غلط کہنے کی ہمت کیسے ہوئی۔۔!!

اور یہ کہ ان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے،،

اس کے علاوہ میں نے یہ بھی بولا کہ میں اپنا بھلا برا اچھے سے پہچانتی ہوں،،

ان کو میرے معاملے میں کوئی انڑرسٹ نہیں رکھنا چاہیے،،۔۔" یہ کہتے ہوئے نایاب کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔۔اس نے اپنی بات بھی بہت مشکل سے مکمل کی اور اب وہ مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی،، 

وہ شرمندہ تھی۔۔

بے تحاشا شرمندہ۔۔۔

اپنے کہے الفاظ دہرا کر،،

 صحیح معنوں میں اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہو رہا تھا،،

اب تک جو روحان نے بدلے کے طور پر اس کے ساتھ کیا اسے لگا کہ وہ اس کی مستحق ہے۔۔

اسے اب اپنی لاسٹ farewell  پارٹی کے آغاز میں تلاوت کی گئی کسی سورت کا ترجمہ جو اکثر تقاریب میں تلاوت کے بعد عموماً کیا جاتا ہے۔۔وہ بھی یاد آیا۔۔:

"اور جو شخص ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لے تواس پر کوئی الزام نہیں۔"(سورۃ الشوریٰ ۔آیت نمر 41)

اب تو اسے واقعی اپنا آپ سزا کا مستحق لگ رہا،،

اب وہ اپنے آپ کو مظلوم کی بجائے مجرم محسوس کر رہی تھی،،

اور یہ تکلیف با آسانی اس کے چہرے پر پڑھی جا سکتی تھی۔

روحان کو اسے یوں دیکھ کر بہت ترس آیا،،

اس لمحے وہ اپنا بدلہ۔۔۔بھول گیا،،

اس نے بے اختیار، اس سسکتی ہوئی نایاب کو اپنے سینے سے لگایا۔۔کہ جیسے وہ اس کی تکلیف سمجھ سکتا ہو۔۔!! وہ اتنا سنگدل تھا بھی نہیں۔۔ بس اس سے اپنے اوپر لگا الزام برداشت نہیں ہوا تھا۔

نایاب بھی اس کے سینے سے لگی اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کر رہی تھی،

اس کے آنسوؤں میں مزید تیزی آئی تھی،،

وہ بس اتنا کہ پائی۔۔"روحان آئم سوری۔۔ میں نے آپ کو غلط سمجھا تھا۔" اور روحان کے سوال کا جواب ادھورا رہ گیا۔۔

"مجھے تمہارے سوری کی ضرورت نہیں۔۔نایاب۔۔!!میں تمہیں کسی صورت معاف نہیں کر سکتا۔۔۔ بس تم شکر کرو کہ فی الحال میرے قہر سے بچی ہوئی ہو اور میرے تحفظ میں ہو۔۔ اور میں تمہاری بات سن رہا ہوں۔۔ تمہیں تمہاری تکلیف، تمہارا غم share  کرنے کا موقع دے رہا ہوں۔۔ اس کو غنیمت سمجھو اور مجھے آگے بات بتاؤ کہ حماد نے تم سے کیا کہا تھا۔۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم اکیلی قصوروار نہیں ہو۔۔ وہ خبیث انسان بھی اچھی خاصی سزا کا مستحق ہے۔۔"

روحان نے اپنا حصار نایاب کے گرد مضبوط کرتے ہوئے سرد لہجے میں کہا،،

کتنا عجیب تھا نا وہ۔۔

زخم دینے والا اور بیک وقت مرحم لگانے والا۔۔

وہ جو تھا۔۔ جیسا تھا پر نایاب نے اس کے وجود سے فی الوقت اپنے لیے تحفظ اور پروا محسوس کی،،

وہ اسے پہلے جیسا پروٹیکٹیو اور  sensitive  سا روحان لگا۔۔ جس نے ہمیشہ اس کی حفاظت کی تھی،،

 مگر اس بات کی سمجھ اسے پہلے نہیں تھی،،

وہ آج سے پہلے یہ جان ہی نہیں پائی کہ وہ روحان ہی تو تھا جس نے قدم قدم پر اس کی حفاظت کی تھی،،

کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اسے کبھی چھیڑنے یا تنگ کرنے کی،،

اگر کوئی غلطی سے کر بھی لیتا۔۔اور پھر اگر روحان کو پتہ چل جاتا تو اس شخص کی خیر نہیں ہوتی تھی۔۔ 

یہ سب کچھ وہ اس کے لیے،، اسے بتائے بغیر کرتا آیا تھا،،

شاید وہ اسے اچھی لگتی تھی۔۔وہ جیسی بھی تھی۔۔روحان کو پسند تھی،، ہاں البتہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔۔

اور اس کی وہ پسندیدگی بھی نایاب نے حماد کی باتوں میں آکر نفرت میں بدل دی،،

اس کی فیملی کے بعد شاید وہ دنیا میں واحد انسان تھا جو اسے اس کی تمام تر خامیوں کے باوجود برا نہیں سمجھتا تھا،،،

اور اپنی پسندیدگی کی بنیاد پر وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا بٹ نایاب اسے "بھائی، بھائی" کہتی تھی۔۔اور دونوں کے مزاج میں بھی بے حد فرق تھا ۔۔۔ سو اس نے اپنی پسندیدگی والی فیلنگز کو بھاڑ میں بھیج کر  یہ زندگی میں شامل کرنے والا پلین کینسل کردیا،،

لیکن قدرت نے شاید اس کو ہی اس کی قسمت میں لکھا تھا۔۔ اس لیے وہ زبردستی اس کی اور اپنی مرضی کے بر خلاف اسکی بیوی بن گئی،،

جسے کبھی روحان نے پورے مان سے اپنی لائف پارٹنر بنانے کی خواہش کی اور پھر وہ خواہش ترک کردی،،

وہی اس کی زندگی میں اس کے اندر ہر پل بھڑکتی نفرت کی وجہ بن گئی،، اور اسی نفرت کے صلے میں انتہائی تذلیل اور ذلت کے ساتھ اس کی زوجیت میں آئی۔

یہ سب تقدیر کا لکھا تھا۔۔

یہ ایسے ہی ہونا لکھا تھا،،

🍃🍃🍃🍃

🍃

"اچھا اب رونا بند کرو اور مجھے بتاؤ کہ اس نے بدلے میں تمہیں کیا بولا تھا؟؟؟"

روحان نے تحمل سے اپنا سوال دہرایا۔۔

"حماد نے مجھ سے آپ کا پورا نام پوچھا،،

تو میں نے بتایا  "روحان بہروز"

پھر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا،،

میں نے اس کو کہا کہ اچھا۔۔ چھوڑو یہ ٹاپک ،، 

میں تو بس تم سے ویسے ہی share کر رہی تھی،،

بس اب یہ بات ختم ہو چکی ہے۔۔

پر حماد نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔۔

وہ کہنے لگا کہ نہیں dear بات ختم  نہیں ہوئی۔۔

بات ابھی شروع ہوئی ہے۔۔

لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم میرے ساتھ کتنی sincere  ہو۔۔؟؟

اور ہماری اس فرینڈشپ یا اس ریلیشن کو لے کر کتنا سیریس ہو۔۔؟؟

اور میرے لیے کیا کچھ کر سکتی ہو۔۔؟؟

میں اس کی بات پر حیران ہو کر پوچھا کہ آخر وہ یہ سب کیوں پوچھ رہا ہے۔۔؟؟

 اور وہ اچھی طرح جانتا ہے میری sincerity  اور اس کی میری لائف میں ایمپورٹینس کو۔۔!!

 تو پھر ان سارے سوالات کا مقصد۔۔؟؟

پھر اس نے مجھے انتہائی سنجیدگی سے ٹوکا کہ میں بات گھمانے کی بجائے۔۔ صرف اور صرف اس کی بات کا جواب دوں۔۔

سو۔۔ میں نے بول دیا کہ میں اس کے ساتھ سو فی صد  sincere ہوں۔۔ ا

ور وہ جو کہے گا کرنے کے لیے تیار ہوں.. سوائے اپنی عزت کھونے اور کسی کی جان لینے یا اپنی جان دینے کے۔۔

وہ میری طرف مسکرا کر دیکھنے لگا۔۔اس نے پیار سے میرا گال تھپتھپایا۔ 

اس کی شکل دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس کے ذہن میں کوئی خاص بات چل رہی ہے،،

پھر شاید اس کے فادر کی کال آگئی تھی ۔۔۔  اس لیے اس نے مجھے "باقی باتیں شام کو کریں گے"  گے"  گے"  گے"  گے"  گے"  گے"  گے" کہ کر گڈ بائے کہا۔۔ اور چلا گیا۔

روحان ایک جذب کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔اس کی بات سن رہا تھا،،

اس وقت اسے وہ سچ بولتی نایاب بہت بھلی لگی،،

جو بھی تھا۔۔ وہ اسے ہر لفظ سچا سنا رہی تھی،، 

نجانے کس آس پر۔۔!!

یوں بھی اس کی زندگی کا واحد جھوٹ۔۔۔ وہی روحان پر لگایا گیا الزام تھا۔۔

اس کے علاؤہ شاید ہی کبھی اس نے جھوٹ بولا ہو۔۔

کیونکہ اپنے آپ کو کانفیڈینٹ منوانے کے چکر میں۔۔وہ کبھی سچ کہنے سے نہیں گھبرائی۔۔

اور جھوٹ بولنے کی کبھی اسے کوئی خاص ضرورت بھی نہیں پیش آئی۔

اب نایاب کے آنسو تھم گئے تھے اور وہ روحان سے الگ ہو کر۔۔ویسے ہی بیڈ پر بیٹھی تھی،،

"اچھا۔۔ تو پھر اس نے تمہیں کال کی؟؟"

"جی۔۔"

"وہ کہ رہا تھا کہ اب وہ جو کچھ کہنے والا ہے۔۔ میں غور سے سنوں اور اس پر عمل کروں،،

اور اگر میں نے اس کی بات نہ مانی تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا،،

میں نے تجسّس سے اس سے پوچھا کہ آخر مجھے کیا کرنا ہوگا۔۔؟؟

اس نے کہا کہ"مجھے لگتا ہے تمہارا کزن مجھ سے جیلس ہے،،

 اس لیے وہ تمہیں مجھ سے دور رہنے کا کہ رہا تھا،،

 اور ہو سکتا ہے۔۔ 

کہ وہ تمہارے مام ڈیڈ سے جھوٹی سچی شکایتیں لگائے،، 

میں تمہیں کچھ پکچرز بھیج رہا ہوں اس کی۔۔ 

تم نے بس وہ جا کر اس کے پیرنٹس اور اپنے پیرنٹس کو دیکھانی ہیں۔۔"

میں نے پوچھا کہ "کیسی پکچرز اور کس لیے دکھانی ہیں،اور اگر انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھا تو میں پکچرز کے متعلق کیا کہوں گی؟؟"

تو وہ کہنے لگا ،،" وہ میں نے فوٹوشاپ کے ذریعے اس کی کچھ پکس ایڈٹ کی ہیں،،

 ذرا سی غیر اخلاقی پکچرز ہیں،،

 تم نے بس کہنا ہے کہ یہ پکچرز  تمہیں تمہاری کسی سہیلی نے فارورڈ کی ہے،،

اور اگر وہ تمہارے میرے متعلق کوئی بات کرے تو تم الزام لگا دینا کہ اس نے تمہارے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی اور اب خود کو بچانے کے لیے  تمہارے بارے میں غلط باتیں پھیلا رہا ہے،، 

اور تم یہ بھی کہنا کہ تم صرف میری دوست ہو،،

 اسکے علاؤہ میرا تمہارا کوئی دوسرا ریلیشن نہیں۔""

پھر میں نے پوچھا " اچھا یہ سب تو ٹھیک ہے،، لیکن تم یہ سب کیوں کروانا چاہ رہے ہو؟؟"

"میری جان!! تم نہیں سمجھ سکتی یہ بات ۔۔ بس یہ سمجھ لو کہ میں نے ایک پرانا حساب وصول کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ میں تم پر یا تمہارے کریکٹر پر کوئی بات نہیں لانا چاہتا۔۔ اس لیے تمہیں خود کو سیف رکھنے کے لیے یہ ڈراما کرنا پڑے گا۔۔"

یہ کہ کر اس نے مجھے گڈ بائے کہا اور پھر چار دن بعد میں نے موقع پا کر یہ سب کیا۔۔

🍃🍃🍃🍃

نایاب نے اپنی بات  ختم کی تو اسے روحان ایک بار پھر مشتعل دکھائی دیا،،

اب تھوڑی دیر پہلے والے نرم تاثرات غائب تھے۔۔

اب وہ پھر سے اسے  غصے میں کھولتا ہوا۔۔

خوفزدہ کرنے والا روحان لگا۔۔

اس کے آنکھوں کی رگیں سرخ ہو کر ابھر رہی تھیں۔۔

اب نایاب اپنی شامت کا انتظار کرنے لگی۔۔

پر پتہ نہیں اس کی کونسی  نیکی کام آئی تھی کہ روحان نے اس کی کار کی چابی اپنی جیب سے نکال کر اس کی طرف اچھالتے ہوئے اسے فوراً وہاں سے اپنی شکل گم کرنے کا حکم دیا۔

جس پر  نایاب نے بغیر ایک لمحے کی بھی دیر کئے۔۔ عمل کیا اور جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی،،

اس واقعے کے بعد روحان عجیب سا،، 

نفسیاتی سا ہو گیا تھا،،

اس لیے بار بار اتنے شدید موڈ swings کا شکار ہو جاتا تھا،،

اب اسے بھی حماد کی عقل ٹھکانے لگانے کی پلینگ کر نی تھی،،

 🍃🍃🍃🍃

نایاب نے گھر پہنچتے ہی سکون کی سانس لی۔۔

اور جلدی سے اپنے شاپنگ بیگز کار سے نکال کر اپنے روم کی طرف بھاگی،،

ذرا سی فریش ہو کر اور اپنا حلیہ درست کر کے اس نے اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہی،

اب وہ اپنے بیڈ پر اپنی ٹانگیں پھیلائے ۔۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے خود کو پر سکون کرنا چاہتی تھی۔

اسے گھر لوٹے تقریباً ایک گھنٹہ ہو چکا تھا،،

اتنے میں اس کی مام روم میں داخل ہوئیں،،

جنہوں نے تقریباً نایاب سے ملتی جلتی ہی ڈریسنگ کی ہوئی تھی،،

اپنے بالوں کو جوڑے میں بند کیے شارٹ سا ڈارک  کرتا اور ٹخنوں سے ایک فٹ اوپر تک کی کیپری پہنے وہ فیشن کے تمام تقاضوں کو پورا کر رہی تھیں۔

"ارے بیٹا کہاں گم تھیں۔۔؟؟ 

دو دنوں سے چہرہ بھی نہیں دکھایا،، 

تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔؟؟ 

تھوڑی مرجھائی مرجھائی لگ رہی ہو..؟؟"

انہوں نے اس کے چہرے کو بھانتے ہوئے انتہائی پیار اور محبت سے پوچھا،،

"نہیں مام آپ کو وہم ہو رہا ہے،، ایسا کچھ نہیں بس مجھے تھوڑی سی بھوک لگی ہے،،(کیوں کہ لنچ تو اس کا ادھورا رہ گیا تھا) آپ میڈ ڈے کہ دیں کہ کھانا لاتے اور میں کچھ ریسٹ کرنا چاہتی ہوں،،" 

نایاب نے بھی اتنے ہی پیار سے اپنی مام کا سوال ٹالا۔

"ٹھیک ہے ۔۔ میں میڈ کو بولتی ہوں،، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ طبیعت تمہاری ٹھیک نہیں،، اپنا حلیہ تو دیکھو۔۔ بتاؤ یہ سب کیسا چینج ہے اور یہ شاپنگ کب کی تم نے؟؟"

اس کی مام نے ہنستے ہوئے استفسار کیا،،

"بس آج ہی کی ہے شاپنگ،، سوچا کہ کچھ ڈیفرنٹ گیٹ اپ ٹرائے کر کے دیکھتی ہوں،، آپ جلدی سے کھانا لائیں نا میرے لیے اور آج میں نے آپ کے ہاتھ سے کھانا ہے۔۔ اوکے ؟؟" نایاب نے ضدی بچوں کے سے لہجے میں کہا۔

"اوکے۔۔ میری جان۔۔۔ تم بھی کیا یاد رکھو گی.. کس سخی ماں سے پالا پڑا ہے۔۔😁" اس کی مام شرارت سے کہتی باہر چلی گئیں۔

🍃🍃🍃🍃🍃

دس منٹ بعد وہ ہاتھ میں ٹرے لیے روم میں آئیں،، 

تو نایاب اپنی جگہ پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی،،

مام نے ٹرے اپنے اور اسے کے درمیان بیڈ پر رکھی،

 روٹی اور چکن وائٹ کڑاہی کا نوالہ  بنا کر،، 

نایاب کے منھ کی طرف لے کر گئیں،،

اس کے دیکتےاور سرخ ہوتے چہرے کی تپش انہیں اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی،،

تو انہوں نے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے ماتھے پر،،

پھر گالوں پر،، 

اور پھر وہ اس کا اسٹولر ہٹا کر گردن بھی چیک کرنے والی تھیں کہ نایاب نے ان کا ہاتھ پکڑا۔۔اور ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ مام یہ آپ کیسے کھانا کھلا رہی ہیں؟؟

اس کی مام نے اس کا اعتراض اور ناراضگی رد کرتے ہوئے انتہائی پریشانی سے پوچھا۔۔۔"'یہ۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟" 

"بری طرح۔۔ آگ کی طرح دہک رہی ہو۔۔""

"بتاؤ"

"'یہ۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟" 

"بری طرح۔۔ آگ کی طرح دہک رہی ہو۔۔""

"بتاؤ"۔۔

"مام کچھ نہیں۔۔ ہلکا سا بخار ہوگا۔۔بس!!

اب پلیز مجھے کھانا کھانے دیں۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔"اس نے ناگواری سے کہا۔

"نہیں ۔۔ تم یہ چھوڑو۔۔میں کچھ لائٹ سی چیز لاتی ہوں،، کھانے کے لیے،،"انہوں نے اس کے سامنے سے ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا اور باہر چلی گئیں۔

تھوڑی دیر بعد وہ بریڈ اور مینگو جوس لیے روم میں آئیں تو۔۔

نایاب کی الٹیوں کی آواز آرہی تھی،،

 وہ واش روم میں سنک پر جھکی ۔۔ پے در پے الٹیاں کر ہی تھی،،

مام اس کی آواز سن کر ۔۔ بریڈ اور جوس وہاں اس کے روم میں پڑے ڈریسنگ ٹیبل کی شیلف پر رکھ کر اندر گئیں،،

وہ اس کے ہاتھ منہ دھلوا کر باہر کا رہی تھیں کہ وہ بے ہوش ہو گئی،،

اس کی مام بوکھلا کر رہ گئیں،،

گھر پر ڈیڈ اور دانیال تو تھے نہیں،،

اور اس کی مام کو کار ڈرائیو نہیں کرنا آتی اور اوپر سے انہوں نے کوئی ڈرائیور بھی نہیں رکھا ہوا،،

پچھلے ڈرائیور کو ان کے ہاں نوکری چھوڑے چھ دن ہوئے تھے اور ابھی تک کوئی نیا ڈرائیور انہوں نے hire نہیں کیا۔

اس کی مام کو اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ اسے وہیں چھوڑ کر اپنے گھر کے عین سامنے موجود روحان کے گھر کی طرف گئیں،،

روحان انہیں کار پورچ میں ہی مل گیا تھا،،

وہ اپنی کار سے نکل کر اندر جانے لگا تھا کہ اپنی حواس باختہ سی ممانی جان کے آواز دینے پر رکا،،

"کیا ہوا آنٹی؟؟ آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہیں؟؟" اس نے ذرا سے خدشے والے لہجے میں پوچھا۔۔

اسے لگا کہ شاید نایاب نے انہیں کچھ بتایا ہے،،

"وہ۔۔وہ بیٹا۔۔ نایاب کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔۔!! اچانک بےہوش ہوگئی،، 

گھر پر اس وقت کوئی ہے نہیں۔۔

تتت تم اسے ہاسپٹل لے چلو۔۔" وہ پریشانی سے روتے ہوئے کہ رہی تھیں،،

روحان نے اپنی کار واپس باہر نکالی۔۔

اور جلدی سے نایاب کو لینے اس کے گھر میں داخل ہوا۔۔

وہ ایک دم بہت پریشان ہو گیا تھا،،

اس نے اسے گود میں اٹھایا۔۔اور باہر لے جانے لگا۔۔

مام نے اسے روک کر نایاب کے گلے کے گرد لپٹے اسٹولر کو ہٹانا چاہا،،

کیونکہ وہ اس کے گلے میں پھنس رہا تھا،،

انہوں نے آگے بڑھ کر وہ ہٹایا تو گلے پر ہلکے ہلکے سے زخم تھے۔۔ غالباً bites کے نشانات تھے،،

انہیں یہ دیکھ کر شاک لگا کہ آخر یہ اسے کیا ہوا۔۔

روحان کی نظر بھی ان زخموں پر پڑی تو اسے خود پر غصہ آیا،،

کہ آخر اسے کیا ضرورت تھی۔۔!! اتنی درندگی کا مظاہرہ کرنے کی،،

پر اب بھلا کیا ہو سکتا تھا۔۔!!

اور اب یہ سب سوچنے کا  وقت بھی نہیں تھا اس کے پاس،،

نایاب کے دہکتے جسم کی تپش۔۔روحان کو اپنے سینے اور بازوؤں پر محسوس ہو رہی تھی،،

وہ بہت تیز کار ڈرائیو کرتا ہوا،، ہاسپٹل پہنچا۔۔

اس نے وہاں پہنچتے ہی نایاب کے ڈیڈ کو اور دانیال کو کال کی تو دانیال نے یہ کہ کر آنے سے صاف انکار کر دیا کہ "میں بزی ہوں پارٹی میں،،"

اور اس کے ڈیڈ کا تو نایاب کے ہاسپٹل  میں ہونے کا سن کر ہی دل بیٹھا جا رہا تھا،،

وہ فوراً  آنا چاہتے تھے لیکن میٹنگ میں پھنسے ہوئے تھے۔۔

سو انہوں نے روحان کو اور اپنی بیگم کو،، نایاب کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی اور جلد از جلد میٹنگ سے فارغ ہونے کی کوشش کرنے لگے،،

نایاب کو ہوش آچکا تھا،،

وہ ہاسپٹل کے ایک پرائیویٹ روم میں تھی،،

طبیعت میں ابھی تک کوئی بہتری نہیں آئی تھی،،

اس نے اپنی نڈھال سی آواز سی آواز میں اپنی مام سے پانی طلب کیا ،

مام نے اسے ہوش میں آتا دیکھ کر احساس تشکر سے بھرپور سانس لیا،

اور لپک کر گلاس میں منرل واٹر کی بوتل سے پانی انڈیل کر،،

خود ہی اسے پلانے لگیں،،

وہ جب پانی پی چکی تو وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی رہیں،،

"بیٹا میں تم سے ایک بات پوچھوں؟؟" انہوں نے تشویش سے پوچھا۔

" بیٹا۔۔ سچ سچ بتانا کہ تمہارے ساتھ کیا ہو ہے؟" وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے ۔۔ کرب سے پوچھ رہی تھیں،، 

جتنی بھی آزاد خیال سہی لیکن ماں تھیں،،  

بیٹی پر ٹوٹتی آفت  بھلا ان کی آنکھوں سے سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھی،

وہ دل سے اپنی اولاد کی پرواہ بھی کرتی تھیں، مگر جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے۔۔ انہوں نے اپنی اولاد سے توجہ ہٹالی،، ان کو انڈیپنڈنٹ کرنے کے چکر میں،،

انہیں آزادی دینے کے چکر میں۔۔ وہ بالکل ہی اپنی اولاد سے بے خبر ہو گئیں تھیں،،

جو بھی تھا،، وہ اپنی بیٹی کے فرائض سے کوتاہی برت چکی تھیں،،

 انہوں نے اچھی ماں ہونے کا ثبوت نہیں دیا،،

کبھی غلط سہی کا فرق واضح نہیں کیا،،

کبھی اپنی اولاد کو وقت نہیں دیا،،

نایاب تو خیر ان کی اس بے توجہی سے اتنا نہیں بگڑی تھی۔۔ لیکن دانیال۔۔ وہ اب بری طرح بگڑ گیا تھا،،

اور ساتھ ہی نایاب کی زندگی بھی تباہ ہو کر رہ گئی،،

انہوں نے اپنا سوال دہرایا۔۔ تو نایاب ان کے ساتھ لپٹ کر رونے لگی،،

"مام۔۔ آپ کی بیٹی بہت مشکل میں ہے۔۔" وہ تکلیف کی شدت سے بس اتنا ہی بول پائی تھی،،

مام جو کب سے ضبط کر کے بیٹھی تھیں۔۔

ان کا ضبط بھی ٹوٹا،،

آنسو ان کی آنکھوں کی قید سے فرار ہونے لگے،

"بیٹا۔۔ بتاؤ کون ہے وہ کمینا۔۔ ذلیل۔۔ اور خبیث انسان۔۔جس نے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیا،،" انہوں نے انتہائی نفرت سے تصور میں اس شخص کی چمڑی ادھیڑتے ہوئے کہا،،

"مام،، وہ جو کوئی بھی ہے۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے!!.. بس اب میں وہ نایاب نہیں رہی۔۔ اور پلیز آپ اس شخص کو گالیاں مت دیں۔۔ ایسا کرنے سے جو ہوچکا۔۔ وہ بدل تو نہیں سکتا نا!!" نایاب نے مایوسی سے جواب دیا،،

پر ایک بات تھی۔۔جس پر وہ غور نہیں کر پائی۔۔ کہ وہ انجانے میں روحان کی سائیڈ لینے لگی تھی،،

وہ اس کے خلاف کوئی لفظ سننا نہیں چاہتی تھی،،

"پر بیٹا۔۔ اس نے تمہارے ساتھ اتنا برا کیا اور تم ہو کہ۔۔ مجھے اسے گالیاں دینے سے روک رہی ہو،، میرا بس چلے تو ابھی اس شخص کو تمہارے سامنے ہی گولیوں سے بھون دوں۔۔" 

"مام پلیز۔۔ اب آپ اس شخص کو کچھ نہیں کہیں گی۔۔آپ ایسا سمجھ لیں کہ اس سب میں میرا قصور ہے۔۔۔ مجھے میرے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔۔"

"نہیں بیٹا۔۔ یہ کیا بول رہی ہو۔۔؟؟ تم نے بھلا ایسا کیا کیا ہے۔۔ ایسے کون سے گناہ کیے ہیں جو یہ سب کہ رہی ہو؟؟۔۔کہیں تم نے اپنی مرضی سے تو یہ سب نہیں کیا؟؟"

"سر سے لے کر پاؤں تک۔۔ میں گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہوں،، آپ کہ رہی ہیں کہ کونسے گناہ۔۔ اور میرے پاس آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں۔۔ آپ کو جو سمجھنا ہے۔۔ جو اخذ کرنا ہے کر لیں۔۔ پر پلیز پلیز۔۔ مجھ سے کچھ نہ کہیں۔۔" نایاب اب ان کے سامنے ہاتھ جوڑے التجائیں کر رہی تھی۔۔

"مطلب یہ سب تم نے اپنی مرضی سے ہی کیا ہے؟؟" مام اب دبی دبی آواز میں غرّا رہی تھیں۔

نایاب پھر سے بری پھنسی تھی۔۔

نہ سچ بتانے کی اجازت۔۔ نہ ہی جھوٹ کہنے کہ ہمت۔۔ بلکہ جھوٹ بولنا تو اب بے فائدہ تھا۔

"مام ۔۔ آپ یہی سمجھ لیں۔۔"

اس نے نظریں جھکا کر۔۔ یہ الزام اپنے اوپر لے لیا۔۔ اب بتاتی بھی تو کیا بتاتی۔۔۔

اب بھلا اسے کیا فرق پڑنا تھا،،

جو ذلت اس کے نصیب میں تھی وہ تو مل کر رہنی تھی۔۔

مام نے چٹاخ سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔۔

"بے شرم لڑکی۔۔ اس لیے تمہیں میں نے اتنی آزادی دی۔۔ کہ بعد میں منہ کالا کرواتی پھرو۔۔ اب تمہیں میرے گھر آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ کہیں بھی دفع ہو جاؤ پر میرے گھر مت آنا۔۔" مام نے سارے لحاظ بھول کر،،

اس کی بیماری خاطر میں لائے بغیر۔۔ اس کو بہت بری طرح ذلیل کیا،،

روحان جو ہاتھ میں فروٹس اور میڈیسن کے شاپر پکڑے روم میں داخل ہوا تھا،،

وہ یہ سب دیکھ کر۔۔ جلدی سے شاپرز وہاں پڑی چھوٹی سی میز پر رکھ کر۔۔ایک دم اپنی ممانی کی طرف لپکا۔۔ اور دوسرے تھپڑ کے لیے انکا بڑھتا ہوا ہاتھ روکا۔۔

اور تقریباً چلایا۔۔ کہ۔۔ یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟؟

وہ بیمار ہے۔۔!!

نایاب جو دوسرا تھپڑ کھانے کے لیے ۔۔ اپنی آنکھیں میچے  تیار بیٹھی تھی۔۔ وہ روحان کی آواز پر اچھل کر رہ گئی۔۔

وہ حیران ہو کر روحان کو دیکھ رہی تھی۔۔

اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ وہاں موجود ہوگا۔۔

اسے دیکھ کر اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی تھی۔۔

نہ جانے اس کی زندگی مزید کیا امتحان لینے والی تھی۔۔

پر اسے اب صبر کرنا تھا۔۔ 

اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔۔۔

اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔۔۔

"تم چھوڑو میرا ہاتھ۔۔ اس بے حیا لڑکی کو آج میں سبق سکھا کر رہوں گی۔۔"

"آنٹی یہ ہاسپٹل ہے۔۔ یہاں آپ ایسی حرکتیں نہیں کر سکتیں۔۔ ویسے بھی ایک دو گھنٹے تک اس کو ڈسچارج کردیا جائے گا۔۔ 

آپ ریلیکس کریں۔۔ گھر چل کر آرام سے بات کر لیجیے گا۔۔"

"گھر۔۔۔؟؟ میرے گھر۔۔۔؟؟ میرے گھر میں تو یہ کسی صورت قدم نہیں رکھ سکتی۔۔ اس سے کہو جس کے ساتھ یہ سب کر کے آئی ہے ۔۔ اسی کے پاس دفع ہو جائے۔۔"

یہ کہتے ہوئے وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ روحان کے ہاتھ سے چھڑا کر۔۔ جو اس نے روکنے کی غرض سے پکڑا ہوا تھا۔۔ وہاں سے چلی گئیں۔۔

نایاب اب بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔۔

روحان اس کے پاس بیٹھا، اسے چپ کرانے کی کوششیں کر رہا تھا،

اس نے نایاب کے آنسو صاف کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے تو نایاب نے بری طرح جھٹک کر۔۔اپنے چہرے سے دور کیے۔۔

"چلیں جائیں آپ بھی یہاں سے۔۔

مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔

میری تکلیف مزید مت بڑھائیں۔۔

اتنا بڑا تو نہیں تھا میرا جرم۔۔

کیا کیا تھا میں نے۔۔؟؟

ہاں۔۔؟؟

بتائیں۔۔؟؟

صرف جا کر وہ پکچرز آپ کے پیرنٹس کو دکھا دیں اور بس کہ دیا کہ آپ کے بیٹے نے ایک تو میرے ساتھ زبردستی کی کوشش کی اور اوپر سے مجھ پر الزام لگارہا ہے کہ میرے غلط لڑکوں سے تعلقات ہیں۔۔

بس میرے ایک جھوٹ کی۔۔ اتنی بڑی سزا۔۔

آخر کیوں۔۔؟؟

سب کچھ چھین لیا آپ نے مجھ سے۔۔"

وہ اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ گرائے ۔۔ بلک بلک کر رو رہی تھی،،

"اوہ۔۔۔ یہ چھوٹی سی بات ہے؟؟

تم نے مبالغہ آرائی کر کے۔۔ میری نیک نیتی کو مجھ پر ہی الزام لگا کر ۔۔ مجھے میرے پیرنٹس۔۔ میری آپی کے سامنے جو رسوا کیا ہے۔۔ اس کا کیا؟؟

جانتی ہو۔۔ بابا آج تک مجھ سے خفا ہیں۔۔اور بات بھی نہیں کرتے۔۔ آپی اس دن کے بعد میری موجودگی میں گھر نہیں آئیں۔۔نہ ہی میری بھانجی۔۔ میری جان۔۔ کو میرے پاس آنے دیتی ہیں۔۔

وہ تو میں نے ماما کو۔۔اتنی منتیں۔۔کر کر کے اپنی بے گناہی کا یقین دلایا۔۔

میرے لیے یہ سب ہوا تو چھوٹی سی بات ہے۔۔

اور تمہارے لیے یہ تکلیف بن گئی۔۔

نایاب اب تم ایسا کیسے سوچ سکتی ہو۔۔

اب تو تم اسی تکلیف سے گزر رہی ہو جس سے میں گزرا۔۔ اور اب بھی تمہیں اس تکلیف کا احساس نہیں۔۔

کتنی ظالم ہو تم۔۔!!

اس کے ایسے ظالم کہنے پر نایاب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

"روحان۔۔۔ اب آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا مجھے مزید قصور وار ٹھہرانے کا۔۔ آپ میر کیے کی سزا مجھے دے چکے ہیں۔۔اور مزید بھی دے رہیں ہیں۔۔اب آپ مظلوم نہیں رہے۔۔ سمجھے آپ۔۔؟؟" 

نایاب کا تو بری طرح پارہ ہائی تھا۔۔

اور اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع بھی مل گیا تھا،،

اب وہ کہیں سے کل والی ۔۔ ڈری سہمی نایاب نہیں لگ رہی تھی۔۔۔

وہ روحان کو آئینہ دکھانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔ کہ وہ اکیلا مظلوم نہیں ہے۔۔ اور جو کچھ وہ کر رہا ہے۔۔ اور کر چکا ہے ۔۔ اس کے بعد خود کو مظلوم کہلوانے کی کوشش بھی مت کریں۔۔۔

روحان کے پاس کہنے کو اب کچھ نہیں تھا۔۔ 

لیکن نایاب۔۔ اس نے تو آج ہر وہ لفظ کہنے کی قسم کھائی ہوئی تھی،، 

جس سے وہ اپنی تکلیف بیان کر سکے۔۔

 اپنی بھڑاس نکال سکے۔۔

"آپ کا بھی صرف مجھ پر ہی زور چلتا ہے۔۔ اس حماد کے بچے کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟؟؟

بلکہ قسم سے کسی طرح اسے میرے سامنے لے آئیں۔۔ 

میں اسے تین، چار تھپڑ لگا کر۔۔ اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہتی ہوں۔۔

Please!! Provide me only one chance..

پلیز میری!! میری یہ حسرت پوری کر دیں۔۔

اس کے بعد آپ جو کہیں گے۔۔۔

جیسا کہیں گے۔۔

میں مانوں گی۔۔

مجھ پر اپنا غصہ نکالیں۔۔ مجھے ٹارچر کریں۔۔ یا کچھ بھی کریں گے۔۔ تو میں کوئی شکوہ نہیں کروں گی۔"

وہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے۔۔

عاجزی کی انتہا پر پہنچ کر۔۔ گڑگڑانے لگی۔۔

وہ ہذیانی سی ہو کر اپنے الفاظ دہرائے جا رہی تھی۔۔

جیسے اسے اندر ہی اندر یقین تھا کہ سامنے بیٹھا وہ شخص۔۔۔ اس کی سنے گا۔۔۔

وہ  کسی عجیب احساس کے تحت۔۔ اپنے لیے سہارا تلاشتی۔۔ تحفظ ڈھونڈتی۔۔ روحان کے سینے سے لپٹ گئی۔۔

وہ جتنی شدت سے آنسو بہا سکتی تھی۔۔ اس نے بہائے۔۔

اس نے اپنے دل کا سارا بوجھ ہلکا کیا۔۔

روحان نے اسے یہ سب کرنے سے نہیں روکا۔۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس وقت اس کے تنکا تنکا ہوتے وجود کو اپنی بے رخی کی ہواؤں سے اڑا کر بکھیر دے۔۔

اس نے بھی اس کے گرد اپنا حصار مضبوط کر کے۔۔

اسے، اس کے ساتھ۔۔اس کے قریب ہونے کا احساس دلایا۔۔۔

مگر اب بھی وہ مکمل طور پر اسے معاف کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۔

وہ چاہ کر بھی اس کی وہ خطا معاف نہیں کر پا رہا تھا،

بھلا انسانوں میں اتنا ظرف ہوتا بھی کہاں ہے۔۔ کہ وہ کسی سے درگزر کر سکیں۔۔

یہ تو بس اللّٰه ہے۔۔ جو ہمارے ایک آنسو پر ۔۔ ساری زندگی کی خطائیں معاف کر دیا کرتا ہے۔۔

وہی تو ہے۔۔ جو ایک دفعہ پکارنے پر ہمارا ہر غم سن لیتا ہے۔۔

ہر تکلیف کا مداوا کرتا ہے۔۔

بعض اوقات وہ تکلیف میں مبتلا ہی اس لیے کرتا ہے تاکہ ہم اسے یاد کریں۔۔

اس کی طرف لوٹیں۔۔

اسے پکاریں۔۔

کبھی کبھی ہماری تکالیف ہمارے اوپر اس کی نافرمانیوں کے عذاب کی صورت مسلط ہوتی ہیں۔۔۔

اور کبھی کبھی یہ آزمائشیں۔۔ ہمارے لیے زندگی کو بہتر بنانے۔۔ ہمارے وجود سے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنے اور بہت سے اچھے سبق دینے کے لیے آتی ہیں۔۔

نایاب کی زندگی میں بھی یہ آزمائش شاید اس لیے ہی آئی تھی تاکہ وہ اپنا لائف سٹائل بدل سکے۔۔

وہ بھی اللّٰه کو اتنی ہی عزیز تھی جتنا کہ کوئی اور۔۔

اور اس دنیا کے انسانوں اور اس کے مظالم کی اللّٰه کی بادشاہت کے آگے بھلا کیا اوقات۔۔

اور ویسے بھی وہ رحمان بھلا کسی جان پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ بھی کب ڈالتا ہے۔۔

_____×××××_____

جب وہ اچھی طرح اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر چکی تو۔۔اس نے خود کو روحان سے علیحدہ کیا۔۔

روحان بھی اسے بغیر کچھ کہے روم سے باہر نکلا۔۔

اب نایاب کی طبیعت بھی سنبھل چکی تھی۔۔

وہ ڈاکٹر سے بات کرے اور ڈسچارج فارمیلیٹیز  پوری کر کے۔۔۔ نایاب کو چلنے کو کہا۔۔

اس نے نایاب کو سہارا دے کر اٹھنے میں مدد کی۔۔ اور اس کا ہاتھ تھامے کار تک لایا۔۔

اس کے اندر بھی ایک بہت بڑی کشمکش چل رہی تھی،،

وہ جس لڑکی پر بار بار نفرت جتانے کی کوشش کرتا۔۔

وہی لڑکی۔۔ اور اس لڑکی کے درد۔۔ اسے بے چین کر دیتے۔۔

وہ خود ہی اس کے غم کا۔۔ اس کی مصیبتوں کا سبب ہوتے ہوئے بھی ۔۔ اسے درد دینے ہوئے بھی۔۔ اذیت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔

بہت مشکل سے گزر رہا تھا وہ۔۔ کیونکہ دل و دماغ کے درمیان چھڑی جنگ بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔۔

وہ کار میں بیٹھ کر کار ڈرائیو کرنے لگا۔۔

نایاب اس کے بائیں جانب فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔۔

بالکل ساکت نگاہیں۔۔ سامنے سڑک پر مرکوز کیے اپنے لیے۔۔ اپنی مصیبتوں سے رہائی کا راستہ ڈھونڈنے کی سعی کر رہی تھی۔۔

بے دھیانی میں وہ مسلسل۔۔ کچھ دیر پہلے۔۔ ہاسپٹل میں ہوئے واقعات کے متعلق سوچے جا رہی تھی۔۔

کار میں چھائے سرد پن کو نایاب نے اپنی آواز سے ختم کیا۔۔

"آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں؟؟"

"تمہارے گھر ۔۔ اور کہاں۔۔؟؟" اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

"میرے گھر۔۔؟؟ میرا گھر بھلا کونسا ہے..؟؟ وہ تو مام کا گھر ہے۔۔ جہاں میرا داخلہ اب ممنوع ہو چکا ہے۔۔ آپ مجھے کیوں وہاں لے کر جا رہے ہیں۔۔؟؟ مام نے اب تک ڈیڈ کو سب کچھ بتا دیا ہوگا۔۔ میں بھلا کیسے وہاں جا سکتی ہوں؟؟؟" اس نے دبی دبی سسکیاں لیتے ہوئے،،

گھٹتی ہوئی آواز میں کہا۔

"پاگل مت بنو نایاب۔۔ وہ تمہارا گھر بھی ہے۔۔ وہ تو آنٹی نے غصے میں وہ سب کہ دیا۔۔ ورنہ دل سے کبھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتیں۔۔ اور تم خود کو پر سکون رکھو۔۔ ابھی تمہاری طبیعت صرف بہتر ہوئی ہے۔۔ تم مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی۔۔ سو ۔۔ اس لیے ایسی باتیں کر کے خود کو پریشان مت کرو۔۔" روحان نے سختی سے اسے جھڑکا۔۔

وہ ایک بار پھر سے خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔۔

کچھ دیر بعد اس کی طبیعت پھر سے خراب ہونے لگی۔۔

اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔۔

"روحان پلیز گاڑی روکو۔۔ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔ مجھے کچھ دیر تازہ ہوا میں سانس لینا ہے۔۔"

اس نے نڈھال سی آواز میں کہا۔۔

شاید اسے متلاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔۔

شاید اسے متلاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔۔

روحان نے تھوڑا آگے جا کر زرا کم رش والی جگہ پر۔۔ روڈ کے ایک طرف کار روکی۔

نایاب فوراً کار کا ڈور unlock کر کے باہر نکلی۔۔

اب وہ کھلی ہوا میں تھوڑا بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔

شکر تھا کہ اسے الٹی نہیں آئی۔۔

بخار ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا تھا۔۔ سو اس لیے اسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد متلی ہورہی تھی۔۔ جیسا کہ عام طور پر بخار کی حالت میں ہوا کرتا ہے۔۔

"پانی۔۔!!" اس نے پیاس محسوس ہونے پر پانی طلب کیا۔۔

روحان دوڑ کر کار میں سے ہی پانی کی bottle لایا۔۔

اس نے غٹاغٹ ایک سانس میں بہت سا پانی پیا۔۔

تھوڑی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد روحان نے پوچھا "چلیں..؟؟" تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

روحان اپنی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔

اس کے ڈور کا رخ روڈ کی اس طرف تھا جہاں سے ۔۔۔ کافی دیر کے بعد ایک آدھی گاڑی نہایت تیز رفتاری سے گزرتی۔۔

اب بھی ایک گاڑی ایسی ہی تیز رفتاری سے وہاں سے گزری۔۔ 

روحان اس کار کو دیکھ نہیں سکا کیونکہ اس تیز رفتار کار کی طرف روحان کی پیٹھ تھی۔۔

اس کار کو  نایاب وہیں اپنی سائیڈ پر موجود کار کے دروازے۔۔ جسے اس نے اپنے بیٹھنے کے لیے کھولا ہی تھا،، کے پاس کھڑی دور سے آتا دیکھ رہی تھی۔۔

اور پھر اس کا دھیان روحان کی بے دھیانی کی طرف گیا۔۔

اس نے وہیں سے گلا پھاڑ کر روحان کو پکارا ۔۔۔۔۔

اور نجانے اس کے ناتواں اور بیمار وجود میں اتنی طاقت۔۔اتنی پھرتی کہاں سے آئی کہ وہ ایک دم اپنی جگہ سے پٹی اور دوڑ کر روحان تک گئی۔۔۔ 

اور اس نے ایک دم لپک کر اپنی پوری طاقت سے روحان کو اپنی طرف کھینچا۔۔ 

یہ ساری چند لمحوں کی کارروائی تھی۔۔

اگر نایاب اس لمحے اپنی حاضر دماغی سے فائدہ نہ اٹھاتی۔۔ تو یقیناً وہ کار روحان کچل ہی دیتی ۔۔۔

کیونکہ روڈ پر رات کے اندھیرے اور کار کی ہیڈ لائٹس آف ہونے کی وجہ سے کوئی دور سے آتی  انکی موجودگی بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔

×××==×××==×××

روحان کو اس طرح زور سے کھینچنے پر ۔۔۔ اس کا بیلنس لوز  ہوا اور وہ دھڑام نیچے۔۔

وہاں روڈ کی سائیڈ پر جگہ کچی تھی۔۔ ورنہ اسکی بھی کوئی ٹھیک ٹھاک injury  ہو سکتی تھی۔۔

 روحان کا بھاری وجود اس کے اوپر تھا۔۔ اسے تو کچھ سیکنڈز کے لیے سمجھ ہی نہیں آئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔۔

نایاب نے اپنے گھٹتی ہوئی سانسوں کے ساتھ اسے خود سے دور ہٹانے کی کوشش کی۔۔ تو روحان ہوش میں آیا۔۔ وہ اپنی کونی کا سہارا لے کر اٹھنے لگا۔۔۔۔

نایاب نے ذرا سی حرکت کر کے ۔۔ اٹھنے کی سعی کی۔۔ وہ زمین سے تو اٹھ چکی تھی۔۔ مگر اب بھی وہیں بیٹھی تھی۔۔

جبکہ کے روحان کھڑا ہوکر اپنی بلو ڈریس شرٹ کی،، ہاتھ کے ایک چوتھائی حصے تک چڑھی ہوئی آستینیں جھاڑ رہا تھا۔۔

اس نے آستینیں جھاڑ کر۔۔

 اپنا ہاتھ نایاب کی طرف بڑھایا تو۔۔ 

نایاب اس کا تھام کر۔۔

 اپنا سارا زور اس کی ہتھیلی پر ڈالتے اٹھی۔۔

اس کا سارا کرتا۔۔ مٹی مٹی ہو گیا تھا۔۔

اور پچھلی طرف سے کندھے میں درد ہو گیا تھا۔۔

اب وہ اپنے کپڑے جھاڑ رہی تھی۔۔ اور روحان عجیب سی کیفیت میں گِھرا۔۔ اسے مسلسل دیکھ رہا تھا۔۔

نایاب نے اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے۔۔ اس کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔۔

اس نے عام سے لہجے میں۔۔

 اس کی نظروں سے پزل ہوتے ہوئے۔۔اس سے سوال کیا۔۔"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔ میرے سر پر سینگ اگ آئے ہیں یا میرے دانت vampires کی طرح باہر نکلے ہوئے ہیں۔۔؟؟"

اس نے غصے سے پوچھا۔۔ کیونکہ اسے روحان کی۔۔ اس قدر لاپروائی اور بے دھیانی پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔ اگر اسے کچھ ہو جاتا تو۔۔۔؟؟

ہاں ابھی۔۔ بھی اس بے وقوف سی نایاب کے دل میں اس کے لیے ایسے ہی جذبات تھے۔۔ بلکہ یہ جذبات ابھی ہی تو پیدا ہوئے تھے۔۔

ابھی ہی تو وہ اسے کھونے سے ڈرنے لگی تھی۔۔

اس شخص کو کھونے سے۔۔۔ جو ابھی پوری طرح اس کا ہوا ہی نہیں۔۔ 

نایاب اس طرح غصہ کرتی ہوئی ایک تو اسے بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔ اور دوسرا۔۔ روحان کو سینگوں اور دانتوں والی بات بھی۔۔ اتنی funny لگی۔۔کہ اس کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا تھا۔۔

وہ تھوڑی دیر پہلے ہوئے واقعے کو فراموش کیے بری طرح ہنس رہا تھا ۔۔۔

 یہ بات نایاب کو اور بھی زیادہ  تپا رہی تھی۔۔۔۔

ایک طرف روحان نے اس کی زندگی مشکل میں ڈالی ہوئی تھی۔۔اوپر سے اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے والا تھا کہ بچ گیا۔۔

اور اب دانت ایسے نکال رہا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔

"کیا مسئلہ ہے؟؟ اب دانت کیوں پھاڑ رہے ہیں؟؟"

"کچھ نہیں محترمہ۔۔!! میرے خیال سے۔۔ اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔"

روحان نے نایاب کو چڑتا ہوا دیکھ کر۔۔ اپنی ہنسی دبائی۔۔ 

اور اب دھیان سے ادھر اُدھر دیکھ کر۔۔اپنی سیٹ تک گیا۔۔ اور کار اسٹارٹ کی۔۔

نایاب بھی اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی سیٹ بیلٹ لگا رہی تھی۔۔ اور ساتھ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی۔۔

انداز۔۔ روحان کو۔۔ کھری کھری سنانے والا تھا۔۔

"اگر تم ذرا اونچا بولو گی۔۔ تو شاید میں بھی۔۔اپنی تعریفیں سن سکوں گا۔۔!" روحان نے ایک نظر شرارت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔

"ہاں۔۔ سن لیں۔۔ آپ ہی کی تعریفیں کر رہی تھی۔۔ وہ میں کہ رہی تھی۔۔کہ۔۔ آپ کو الزامات کے بدلے لینا تو خوب آتا ہے۔۔ آپ کی جان بچائی ہے۔۔ آگے سے ایک تھینکس بھی۔۔ نہیں بولا۔۔میں ہی پاگل ہوں جو خواہ مخواہ میں نے اپنا کندھا بھی دکھا دیا۔۔" وہ اپنا کندھا ایک ہاتھ سے سہلاتے ہوئے۔۔اچھی طرح سے ناراض ہوکر بول رہی تھی۔۔

روحان کو اس کے ایسے روٹھنے پر بے تحاشا پیار آیا۔۔

ان دونوں کی زندگیاں بہت تیز بدلاؤ کا شکار تھیں۔۔۔

"اوہ ہاں۔۔!! یہ  تو میں بھول ہی گیا۔۔ تمہارا یوں ایک دم ۔۔اتنے جنونی انداز میں چیخنا اور میری طرف بڑھنا۔۔ مجھے بچانا۔۔ یہ سب آخر تم نے کیوں کیا۔۔؟؟ " اس نے تھینکس کی بجائے۔۔ نایاب سے ہی سوال کر ڈالا۔۔بہت بے مروت تھا وہ۔۔

"مجھے نہیں پتہ۔۔ وہ سب میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ وہ خود بخود مجھ سے ہو گیا۔۔" نایاب بھی اب اپنے اوپر تھوڑا سا حیران ہوئی تھی۔۔ لیکن اس نے بالکل نارمل۔۔ اور بے تاثر ہو کر جواب دیا۔۔۔

اس کا ذہن اب پھر سے اپنی مشکلات کے گرد گھومنے لگا تھا۔۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی۔۔ وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔۔ اپنی مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ پوچھ رہی تھی۔۔ جس کا جواب اسے مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔۔

روحان کی آواز نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔ 

"ویسے میں تو سوچ رہا تھا کہ تم میرے مرنے کی دعائیں کرتی رہی ہوگی۔۔ بٹ یو ہیو saved مائی لائف۔۔،، میں تمہیں تھینکس نہیں بولوں گا۔۔ کیونکہ شاید میرا یہ تھینکس تمہارے اس احسان کے سامنے بہت چھوٹا ہے۔۔" ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ نایاب نے اس کی بات کاٹی۔۔

"دعا۔۔؟؟ دعا تو میں نے کبھی اپنے لیے نہیں کی۔۔ ہاں۔۔ میں کب سے سوچ رہی تھی۔۔ کہ میں کیسے اپنی مصیبتوں سے نجات حاصل کروں۔۔ مجھے دعا مانگی چاہیے۔۔ وہ اللّٰه تو سب کی سنتا ہے۔۔ اور میں نے اس کی کبھی نہیں سنی۔۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی میں نے اسے یاد نہیں کیا۔۔۔ اُف!! کیسی لڑکی ہوں میں۔۔ میں نے اللّٰه کو یاد نہیں کیا۔۔ اگر میں اللّٰه سے دعا کرتی اور اپنے مسئلے ڈسکس کرتی۔۔ تو وہ میری بات اچھے سے سنتا اور مجھے بے حیا اور بدکردار بھی نہ کہتا۔۔ اوہ خدایا۔۔ میں کیوں یہ بات نہیں سمجھ سکی۔۔"" وہ ایک عجیب سے، سرشار لہجے میں۔۔ لڑی کی طرح مسلسل آنسو بہاتی خود سے کہ رہی تھی۔۔

اسے ایک عجیب سی خوشی مل رہی تھی۔۔ 

کہ آخر اسے وہ راز مل گیا تھا۔۔ وہ راستہ مل گیا تھا۔۔ جس پر چل کر وہ اپنی زندگی کا کھویا سکون واپس حاصل کر سکتی تھی۔۔ ہاں اسے دعا مانگنی تھی۔۔ اسے اللّٰه کو پکارنا تھا۔۔

وہ اپنے آپ سے اس طرح باتیں کرتی ہوئی۔۔ روحان کو پاگل لگ رہی تھی۔۔

اس نے کار ذرا سی سلو کر کے۔۔نایاب کی طرف دیکھا۔۔

  "Are you okay??"

اس نے پریشانی سے پوچھا۔۔

نایاب نے اس کی تشویش سمجھتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے۔۔ اور خود کو نارمل کرنے لگی۔۔

"ہاں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ مجھے بھلا کیا ہونا ہے؟؟" اس نے الٹا اسی سے سوال کیا۔۔

روحان کو تو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔۔پر وہ کچھ بولا نہیں۔۔

×××××

وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے۔۔ روحان بھی اپنے گھر جانے کی بجائے۔۔ اسے چھوڑنے کے لیے اس کے ساتھ۔۔ اس کے گھر آیا۔۔

اس کی مام وہیں صوفے پر بیٹھیں۔۔اپنا سر پکڑے۔۔ اس ڈیڈ کے ساتھ لاؤنج میں موجود تھی۔۔

نایاب کو لاؤنج کے دروازے سے اندر داخل ہوتا دیکھ کر ان کا غصہ ابلنے لگا۔۔

وہ سرعت سے اپنی جگہ سے اٹھیں۔۔ اور نایاب کو زور دار تھپڑ رسید کر نے کے لیے۔۔اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا۔۔۔

وہ سرعت سے اپنی جگہ سے اٹھیں۔۔ اور نایاب کو زور دار تھپڑ رسید کر نے کے لیے۔۔اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا۔۔

روحان نے پھر سے ان کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ۔۔ نایاب کے چہرے تک پہنچنے سے روکا۔

"یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔؟؟ کوئی بات کیے بنا۔۔ فضول میں ہاتھ اٹھا رہی ہیں۔۔" روحان نے بہت افسوس سے اپنی ممانی کی طرف دیکھ کر کہا۔

نایاب کو اس بار کوئی حیرت نہیں ہوئی۔۔

اسے اندر ہی اندر یہ یقین تھا۔۔

 کہ وہ اسے مزید ذلیل نہیں ہونے دے گا۔۔ 

نجانے کیوں۔۔!!

اس پر اعتبار کرنے لگی تھی۔

روحان کے روکنے پر نایاب کی مام کا غصہ ایک دم اور بڑھ گیا۔۔

"روحان۔۔!! یہ وہی ہے نا؟؟ جس نے تمہیں تمہارے خاندان کے سامنے ذلیل کیا تھا۔۔۔؟؟ تو تم کیوں اسکی اتنی طرف داری کر رہے ہو۔۔ کہیں تم دونوں ہی تو آپس میں نہیں ملے ہوئے۔۔؟؟" مام نے اپنی ایک آنکھ کی ابرو اچکاتے ہوئے۔۔ انتہائی زہریلا طنز کیا۔

"پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرے ساتھ جو کچھ بھی کرتی ہے۔۔ اور میں اسے کے لیے جو کچھ بھی کرتا رہوں۔۔ یہ میرا اور اس کا مسئلہ ہے۔۔آپ کو ہمارے پرسنل معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔"

"اور دوسرا یہ کہ میں اپنے ماما، بابا کو یہاں ہی بلا لیتا ہوں۔۔ میں نے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔۔اصل میں کچھ باتیں کلئیر کرنی ہیں۔۔ جن کا جاننا سب کے لیے بہت ضروری ہے۔۔"

"میں انہیں بلا کر لاتا ہوں۔۔ تب تک آپ نایاب کو ٹچ بھی نہیں کریں گی۔۔" روحان سختی سے تنبیہ کرتا ہوا واپس دروازے کی طرف بڑھا۔

 مام انتہائی طیش کے عالم میں۔۔ نایاب کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

نایاب اب بہت گھبرا رہی تھی۔۔ اور دل میں بار بار "حسبی اللّٰه، حسبی اللّٰه"(میرے لیے اللّٰه کافی ہے) پکار رہی تھی۔

پتہ نہیں کہاں سے یہ لفظ اس کے ذہن میں آگیا۔۔ اور وہ بار بار اپنی بے ربط سانسوں۔۔ تیزی سے دھڑکتے  دل۔۔ کو انہی الفاظ سے سہارا دے رہی تھی۔

اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی یہ لفظ۔۔اپنی زبان سے ادا نہیں کیے۔۔ شاید اس نے یہ الفاظ کہیں سنے تھے۔۔ 

پھر بھی اس لمحے۔۔ اس کی لاشعوری قوتیں۔۔اسے بار بار اسے انہی الفاظ کو پکارنے پر مجبور کر رہی تھیں۔۔

اور جب انسان یہ یقین کر لیتا ہے کہ اس کے لیے اللّٰه کافی ہے۔۔ تو نہ ہی کسی کا کوئی خوف رہتا ہے اور نہ ہی اسے کسی اور سہارے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔

تھوڑی دیر میں روحان اپنی ماما کے ساتھ دوبارہ وہاں موجود تھا۔۔

اس کے بابا بھی روحان کے بابا بھی ان دو دونوں ماں بیٹے کے آنے کے پانچ منٹ بعد آئے۔۔

ان کا موڈ بھی بہت سنجیدہ اور سخت تھا۔

نایاب کی مام ابھی تک تلملائی ہوئی تھیں۔۔ جب کہ اس کے ڈیڈ خاموشی سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔۔ان دراصل عادت تھی کہ وہ مکمل معاملہ جانے بغیر react نہیں کرتے تھے۔۔ سو اس لیے نایاب اب تک  ان کے قہر اور غصے سے بچی ہوئی تھی۔

سب کے سب لوگ اب روحان کا منہ تک رہے تھے۔۔

وہ اس کی بات شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

"اب بکو بھی۔۔!! جو کہنے کے لیے سب کو اکھٹا کیا ہے۔۔"نایاب کی مام نے بہت بے ہودہ لہجے میں روحان کو مخاطب کیا ۔۔۔ وہ غصے سے بھری بیٹھی تھیں۔

"نایاب۔۔!!" روحان  نے ایک سخت نگاہ  نایاب کی مام پر ڈالتے ہوئے نایاب کو مخاطب کیا۔

"جی۔۔!!" نایاب نے سہم کر جواب دیا۔

"بتاؤ ان سب کو اس الزام کے متعلق۔۔ جو تم نے مجھ پر لگایا تھا۔!!" اس نے تلخی سے اسے آرڈر دیا۔

نایاب جو یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید وہ اس کی مام کی غلط فہمی کو لے کر کوئی بات کرے گا۔۔  اسے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔۔یا اپنا اور اس کا نکاح ڈیکلیئر کرے گا۔۔۔ 

اسے روحان کی بات سن کر دھچکا سا لگا۔۔

یعنی وہ شخص صرف اور صرف اپنے متعلق سوچ رہا تھا۔۔ 

اس کے لیے صرف اس کی اپنی ذات معنی رکھتی تھی۔۔

اور وہ اس سے یہ امید لگا کر بیٹھی تھی کہ شاید وہ اس کے حق میں کوئی بات کرے گا۔۔ مگر اس کے لیے اہمیت تھی تو فقط اس کی اپنی ذات کی۔۔نایاب اچھی خاصی بدگمان ہو گئی تھی۔۔

"آج نہیں تو کل۔۔ سب کو سچ پتہ چلنا تھا۔۔ پھر ابھی کیوں نہیں۔۔ غلطی کی ہے تو بھگتنا بھی ہو گا۔۔" نایاب کا ضمیر اس کے ذہن پر ایسی سوچیں مسلط کر رہا تھا۔۔

پر اب بھلا وہ کیا کر سکتی تھی۔۔

سو اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے تمام معاملہ سب کے گوش گزار کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ اپنے اندر بہت سی ہمت اور حوصلہ جمع کرتے ہوئے۔۔ اپنا تمام کیا دھرا سب کو بتانے لگی۔۔

اس نے تفصیلاً۔۔پوری بات بتائی کہ اس کا حماد کے ساتھ دوستی کے علاوہ bf,gf ریلیشن تھا۔۔

 پتہ نہیں کیوں پر روحان نے یہ کہ کر کہ "وہ اچھا لڑکا نہیں ہے"۔۔ 

مجھے اس سے دور رہنے اور دوستی ختم کرنے کا کہا۔۔

 میں نے یہ بات جب حماد کو بتائی تو اس نے مجھے ایموشنل کر کے۔۔

 روحان سے اپنے کوئی پرانا بدلہ لینے میں میری ہیلپ مانگی۔۔

 اور جب اس دن  وہ اس کے مام ڈیڈ کے پاس۔۔ 

حماد کے ساتھ میرے ریلیشن کو ختم کرنے اور مجھے اس سے دور رکھنے کی  بات کرنے آیا تھا۔۔

 تو میں نے حماد کی دی ہوئی وہ گندی پکچرز۔۔جو دیکھنے میں روحان کی ہی لگ رہی تھیں اور بالکل فیک تھیں۔۔ edited  تھیں ،، اس کے کہنے پر وہ آپ سب کو لا کر دکھائیں۔۔

اور وہ میرے ساتھ زبردستی کرتے والا الزام بھی جھوٹا تھا۔۔

انہوں نے اس وقت تک میرے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔

نایاب نے بہت مشکل سے۔۔ سسکیاں بھرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔۔

اور وہ ایک مرتبہ پھر۔۔ بہت شرمندگی کا سامنا کررہی تھی۔۔

اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کسی سے نظریں ملا پائے۔۔

سب اس پر اپنی اپنی قہر آلود نظریں گاڑھے ہوئے تھے۔۔

اس کی مام ڈیڈ کا سر بھی شرم سے جھکا ہوا تھا۔۔

روحان کے ڈیڈ بھی اپنے بیٹے پر اعتبار نہ کرنے کے جرم میں الگ شرمندہ تھے۔۔

جبکہ نایاب کی پھوپھو یعنی روحان کی ماما۔۔

بپھری ہوئی نایاب کی طرف دوڑیں۔۔ اور زور سے اسے گریباں سے  کھینچ کر۔۔اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔

"میرا بیٹا ہی ملا تھا تمہیں الزام لگانے کے لیے۔۔

بے غیرت لڑکی۔۔!! شرم نہیں آئی تمہیں۔۔ اتنا غلیظ الزام لگاتے ہوئے۔۔؟؟ ہاں۔۔ بولو؟؟" روحان کی ماما بری طرح چلا رہی تھیں۔۔

کوئی انہیں چپ کروانے اور روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھا سوائے روحان کے۔۔

روحان بھی عجیب تھا۔۔

خود ہی اس پر اٹھنے والے طوفان کی وجہ بنتا تھا اور خود ہی اپنے لائے طوفان کو قابو کرنے کے لیے آگے بڑھتا۔

روحان اپنی ماما کا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔جس سے انہوں نے اب نایاب کا گریبان پکڑا تھا۔۔۔

نایاب کو روحان کے اس دوغلے رویے پر بہت غصہ آیا۔۔

"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ۔۔ یہ کیوں ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔۔ کیوں روک رہے ہیں پھوپھو کو۔۔!! مارنے دیں انہیں مجھے۔۔ آپ یہی سب تو چاہتے ہیں۔۔ پھر کیوں انہیں روک رہے ہیں۔۔!!" 

نایاب اپنی پوری قوت سے چیخ رہی تھی۔۔۔۔

ایک دم اس کے اتنے شدید ری ایکشن سے خوفزدہ ہوتے ہوئے۔۔ اس کی پھو پھو اس سے دور ہٹ گئیں۔۔

نایاب ان کی طرف لپکی۔۔ اور ان کے دونوں ہاتھ جکڑ کر اپنے گریبان تک لائی۔۔

"ماریں مجھے آپ۔۔ ماریں۔۔ میرا حق بنتا ہے اس ذلت پر۔۔" وہ بہت تڑپے ہوئے انداز میں کہنے لگی۔۔

نایاب کی مام ایک دفع پھر اس کی طرف لپکیں اور اس کا گلا دبوچ لیا۔۔

"سہی کہ رہی ہو تم۔۔ تمہارے جیسی اولاد کو تو بندہ زندہ دفن کر دے۔۔" 

روحان کو اب معاملے کی سنگینی کا احساس ہو رہا تھا۔

 اسے اس دفع ۔۔ اس کی مام سے اسے چھڑانے میں بہت مشکل ہوئی۔۔کیونکہ انہوں نے سختی سے اس کا گلا دبوچا ہوا تھا۔

روحان نے ایک جھٹکے سے اپنی ساس صاحبہ کو اپنی بیوی سے دور کیا۔

اور اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔ 

""خبردار جو اسے اب کسی نے ہاتھ لگایا۔۔ میری بیوی ہے یہ۔۔ میں اس کو اس کے کیے کی سزا۔۔ اس کے جرم سے بڑھ کر دے چکا ہوں۔۔ اور اب اس کے ساتھ کوئی زیادتی برداشت نہیں کروں گا۔"" روحان کو آخر اس پر ترس آ ہی گیا تھا۔۔

  اس لیے اس نے سب کو سچ بتادیا۔۔۔

 شاید وہ تک چکا تھا اس لڑکی کو تکلیف دیتے دیتے۔۔

 جس میں اس کی سانسیں بستی

شاید وہ تھک چکا تھا اس لڑکی کو تکلیف دیتے دیتے۔۔

 جس میں اس کی سانسیں بستی تھیں۔۔

وہاں سب کے سروں پر ایک اور بم پھوٹا۔۔۔

"بیوی؟؟"

"یہ کب سے تمہاری بیوی ہو گئی۔۔؟؟"  روحان کی ماما کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔

"ہاں یہ میری بیوی ہے۔۔ میرے نکاح میں ہے۔۔ 

اور سب یہ سن لیں۔۔!! 

کہ یہ نکاح میں نے زبردستی۔۔کیا ہے۔۔

اس میں نایاب کی کوئی مرضی نہیں تھی۔۔

 اب جس کو کوئی بات کرنی ہو وہ مجھ سے کرے۔۔نایاب کو تنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ سب کو۔۔!!" روحان نے سختی سے سب کو خبردار کیا۔

"اگر آپ سب کو میری بات ہضم ہو جائے تو مجھے بتا دیجیۓ گا۔۔ میں پورے استحقاق کے ساتھ اسے رخصت کر کے لے جاؤں گا۔۔ اور تب تک یہ یہیں رہے گی۔۔!!"

اس نے ایک اور فرمان جاری کیا۔

نایاب اب روحان کے بالکل ساتھ۔۔ زمین پر اپنی نظریں گاڑھے۔۔کھڑی۔۔اب تک مسلسل اپنے ہونٹ کاٹتے آنسو روکنے کی ناکام کوششیں کرتی روئے جا رہی تھی۔۔

وہ بالکل۔۔۔روحان سے اپنے لیے کسی بھی قسم کی سپورٹ کی امید کھو چکی تھی۔۔ اب اسے اس کے الفاظ سے بہت سہارا ملا تھا۔۔

"یہ تم لوگوں نے آپس میں کیا کھچڑی بنائی ہے۔۔؟؟

اگر دونوں نے شادی ہی کرنی تھی تو بتادیتے۔۔ ہم لوگوں نے کیا منع کرنا تھا۔۔؟؟" نایاب کے ڈیڈ تذبذب کا شکار تھے۔

"ماموں کوئی ڈراما نہیں ہے یہ۔۔

بلکہ حقیقت ہے یہ ۔۔۔

دراصل ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا۔۔ یہ تو ہمارا نصیب تھا۔۔

میں چاہتا تو یہ سب آپ  لوگوں کو بتائے بغیر ایک نارمل زندگی شروع کردیتا۔۔مجھے اب نایاب سے کوئی گلا بھی نہیں۔۔

لیکن میں بس آپ لوگوں کے اعتبار کا لیول جاننا چاہتا تھا۔۔

ایک میرے بابا اور آپی ہیں کہ انہوں نے کسی تیسرے کی باتوں میں آکر مجھ پر یقین نہیں کیا  اور دوسری آنٹی جنہیں اپنی بیٹی کے کردار پر شک ہے۔۔!!

کیسے والدین ہیں آپ لوگ۔۔! اپنی تربیت پر بھروسہ نہیں۔۔

بھروسہ ہوگا بھی کیسے۔۔!!

آپ لوگوں نے ہماری تربیت کی ہوتی تو بھروسہ ہوتا۔۔!!

جب آپ لوگوں کا کام تھا کہ ہمیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں۔۔۔ تب ہر وقت کی سوشل گیدرنگز میں آپ لوگوں نے اپنے بچوں کی تربیت کو اگنور کیا۔۔ اور آج۔۔ہم پر ہی بے حیائی۔۔اور بدکرداری کے الزام لگا رہے ہیں۔۔!!"  روحان نے بڑی ڈھٹائی سے۔۔ سب بڑوں کو آئینہ دکھایا۔۔ اور ان کی کوتاہیوں کی ان پر خوب نشاندھی کی۔۔

"اور بہت بہت شکر ہے اللّٰه کا کہ آپ لوگوں نے ہماری تربیت خود نہیں کی۔۔ ورنہ ہم سچ مچ میں وہی ہوتے ۔۔ جس کا آپ لوگ ہمیں مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔۔" 

روحان نے ایک اور تلخ حقیقت وہاں بیٹھے سبھی نفوس کی سماعتوں کی نظر کی۔

اس کے اس قدر گستاخ رویے پر سب مشتعل ہو گئے۔۔

روحان کے ڈیڈ نے تو اٹھ کر ایک بعد ایک کر کر کے پانچ تھپڑ اسے رسید کیے۔۔

"ذلیل انسان۔۔ اپنے ماں باپ کے متعلق ہی اتنی گھٹیا باتیں کر رہے ہو۔۔؟؟ ساری زندگی ہماری دولت کے بل بوتے پر عیش کر کر کے اب ہماری تربیت پر انگلی اٹھا رہے ہو۔۔ دفع ہو جاؤ کہیں تمہیں میرے گھر میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ اور نہ ہی اس بے غیرت لڑکی کی میرے گھر میں کوئی جگہ ہے۔۔" روحان کے بابا کا بلڈ پریشر بھی ہائی ہو گیا تھا۔۔

"ہاں تو مجھے بھی آپ کی دولت کی کوئی ہوس نہیں۔۔ آج سے میری ذمہ داری ختم۔۔ آپ کے شاپنگ مال کو سنبھالنے کی۔۔۔رکھیں اپنی حرام سود سے کمائی ہوئی دولت اپنے پاس۔۔اور نہ ہی میں اتنا گیا گزرا ہوں کے حرام کے لالچ میں آ جاؤں گا" روحان نے بھی بدتمیزی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔۔ وہ بھی اپنا ایک ہاتھ اپنے گال پر رکھ کر اسے سہلاتے ہوئے غصے سے پھنکار رہا تھا۔

اصل میں روحان کی نیچر اس کے پیرنٹس سے بالکل مختلف تھی۔۔ وہ پہلے ہی کافی دنوں سے اپنے بابا کو، اکیلے میں اس حرام دولت سے دستبردار ہونے کا بولا تھا۔۔ جس پر اس کے بابا اس سے خائف تھے۔۔ اور اسلیے ہی نایاب کے لگائے الزام کو اچھال کر۔۔ بڑھا چڑھا کر۔۔ الٹا اسی سے ناراض ہو کر بیٹھے تھے۔۔

روحان کو اپنے بابا کی یہ حرکت کافی ڈسٹرب کر رہی تھی۔۔ اور یہ بات اب روحان کو سمجھ آئی تھی کہ اس نے دراصل اپنے بابا کا غصہ نایاب پر اتارا تھا۔۔

وہ اپنی اصل بے چینی اب جان گیا تھا۔۔

اور اس کا دل اچھا خاصہ ٹھنڈا ہو گیا تھا۔۔

"بیٹا تم یہ اپنے بابا سے کیسے بات کر رہے ہو؟؟ کون پڑھا رہا ہے تمہیں یہ پٹیاں..؟؟ " روحان کی ماما اپنے ماتھے پر بل چڑھائے سخت لہجے میں اسے ڈانٹ رہی تھیں۔

"ماما میں بچہ نہیں ہوں جو مجھے حلال حرام کا فرق نہیں پتہ ہوگا۔۔!! 

پتہ تو آپ سب کو ہے۔۔ 

پر سب نے الو کی طرح اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔۔ آپ۔۔ بابا۔۔ ماموں اور آنٹی سب ایک جیسے ہیں۔۔

 سب نے  اپنی اولاد کی پرورش حرام مال سے کی۔۔

 دیکھا ہے آپ نے دانیال کو۔۔ 

وہ بچارا کس قدر بھٹک گیا ہے۔۔

آپی اور سیما باجی کونسا پارسا ہیں۔۔ 

دونوں کی شادیاں ہو گئیں پر ابھی تک غیر مردوں سے تعریفیں سننے کے لیے ترستی ہیں۔۔

اور آپی کو دیکھیں۔۔ مجھ سے ناراض ہو کر دکھا رہی ہیں۔۔

ماما ہم سب یہاں ایک سے ہیں۔۔ کوئی کسی سے کم نہیں۔۔!! 

سب برابر کے قصوروار ہیں۔۔

کوئی دوسرے کو گھٹیا اور کم تر کہنے کا حق نہیں رکھتا۔۔ 

دیکھیں جو سب کچھ میں نے کہا وہ بلاشبہ غلط نہیں تھا لیکن میں اپنے تلخ لہجے اور بد تمیزی کے لیے معافی چاہتا ہوں۔"اس نے اپنی بات کو سمیٹنا چاہا۔

"خوب کہی تم نے بیٹا۔۔ ہمیں اس قدر بے عزت کر کے۔۔ 

اچھی طرح ذلیل کر کے اب معذرت کر رہے ہو۔" نایاب کے ڈیڈ بھی ایک کڑوی نظر روحان پر ڈال کر بولے۔

ماحول میں تناؤ بہت بڑھ چکا تھا۔

نایاب کے لیے اپنی ناساز طبیعت کی وجہ سے وہاں مزید کھڑا رہنا مشکل ہو رہا تھا۔

 روحان نے اس کی مشکل بھانپتے ہوئے اسے اپنے روم میں جاکر آرام کرنے کو بولا۔

وہ بے چاروں کی طرح چپ چاپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے روم کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ مام کی آواز نے اس کے قدم روکے۔

"یہ تمہاری بیوی ہے نا۔۔ اس منحوس کو اپنے ساتھ ہی لے جاؤ۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اسے یہاں رہنے کی۔۔" 

"یہ اس کا میکہ ہے۔۔ اور جب تک میں اسے نہیں لے کر جاتا۔۔ تب تک یہ یہیں رہے گی۔۔!!" روحان نے ضد سے کہا۔۔ اور خود ہی ہاتھ پکڑ کر اسے اس کے روم تک لے گیا۔

وہ اسے روم میں چھوڑ کر لاؤنج تک آیا تو اس کے ماما بابا وہاں موجود نہیں تھے۔۔لیکن نایاب کے پیرنٹس ابھی تک منہ بنائے اور اپنا سر پکڑے وہیں براجمان تھے ۔۔۔ روحان کو وہاں سے گزرتا دیکھ کر ایک قہر زدہ نظر اس پر ڈالی۔۔

نایاب کے ڈیڈ تو اب وہاں سے اٹھ کر روم میں آچکے تھے اور فریش ہونے کے بعد بیڈ پر اپنے نائٹ سوٹ میں ملبوس۔۔ لیٹے ہوئے روحان کے کہے لفظوں پر غور کر رہے تھے۔۔ نیند تو شاید آج رات انہیں آنی نہیں تھی۔

نیند تو بلکہ نہ روحان کے ماما بابا کو آنی تھی اور نہ ہی نایاب کی مام کو آرہی تھی۔

اس لیے تو تھوڑی دیر بعد جب روحان دوبارا نایاب کے گھر اپنا حلیہ تبدیل کیے،، مطلب لوز سا ٹراؤزر اور ہاف سلیوز والی ٹی شرٹ پہنے آیا تو اس کی ساسو ماں ابھی بھی وہاں براجمان تھیں اور نجانے کیا سوچ رہی تھیں۔۔

اس کو واپس آتا دیکھ کر ان کے ماتھے پر شدید بل آگئے۔۔

"یہ تم دوبارا یہاں کیا کرنے آئے ہوں۔۔!!" انہوں نے روحان کو اچھی طرح اپنی نظروں سے scan کرتے ہوئے پوچھا۔

"آنٹی۔۔!! آپ اپنے چہیتے داماد کی خاطر مدارت کرنے کی بجائے، اس کے، اپنے سسرال آنے پر ہی سوال کر رہی ہیں۔۔ ویری بیڈ۔۔!!" روحان نے بالکل بچہ بنتے ہوئے۔۔ ہلکے پھلکے لہجے سے کہا اور انہیں مزید جلایا۔

تھوڑی دیر پہلے ہونے والے تماشے کے آثار اس کے لہجے میں کہیں نہ تھے۔۔

"تمہاری خاطر مدارت۔۔!! میرا دل چاہ رہا ہے کہ۔۔ میں اپنا جوتا اتار کر تمہیں خوب پیٹوں۔۔ !! دفع ہو جاؤ میرے گھر میں سے۔۔" نایاب کی مام غرائیں۔۔

روحان کو اب ان کے غصے پر ہنسی آ رہی تھی۔

"دیکھیں۔۔ میں نے کہا نا کہ یہ میرا سسرال ہے۔۔!! میں تو نہیں دفع ہونے والا یہاں سے کیوں کے میری بیوی یہاں پر ہے۔۔۔ اور اگر آپ کا مجھے مارنے کا دل کر رہا ہے۔۔تو۔۔ موسٹ ویلکم۔۔ اب تو میں آپ کا بیٹا ہوں۔۔ مار سکتیں ہیں آپ۔۔" روحان نے بھرپور سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔۔

اس کی ٹون تو بالکل ہی بدل گئی تھی۔۔

نایاب کی مام اسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھیں۔۔

"آنٹی۔۔۔" اس نے بہت پیار سے انہیں مخاطب کیا۔

"اب کیا مسئلہ ہے۔۔؟" انہوں نے بہت خفگی پلس بیزاری سے کہا۔

"وہ میں کہ رہا تھا کہ ائم سوری۔۔ میرے ہر اس رویے  اور بات کے لیے جس سے میں نے آپ کو ہرٹ کیا۔۔ آپ انکل سے بھی میری طرف سے معذرت کر لیجئے گا۔۔ بلکہ آج سے آپ دونوں میرے بھی مام ڈیڈ ہیں۔۔۔ دیکھیں آنٹی۔۔ میں بھی انسان ہوں۔۔۔ اب کچھ خامیاں اور خرابیاں تو مجھ میں ہوں گی نا۔۔ بس آپ اپنا بیٹا سمجھ کر مجھے معاف کر دیں۔۔ میرا مقصد آپ سب کا دل دکھانا نہیں تھا۔۔ وہ سب مجھ سے بلا ارادہ ہو گیا۔۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا۔۔ کہ ہمارے پاس ہمیشہ سے اللّٰه کا دیا بہت کچھ ہے۔۔۔ انسان کی مختصر سی زندگی ہے۔۔ کیوں نہ ہم لوگ حرام ذریعہ معاش کو چھوڑ کر صرف حلال کا کھائیں۔۔ یہ بات میں ماما بابا کو بھی سمجھا کر آیا ہوں۔۔ وہ ابھی تو ناراض ہیں مجھ سے۔۔ لیکن مجھے یقین ہے وہ مان جائیں گے۔۔ جیسے آپ مان گئی ہیں۔۔" اس نے بہت احترام سے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر۔۔ ان کے پر اپنی رائے سے متفق ہونے کے تاثرات پڑھ کر مسکراتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔

اور انہیں وہیں چھوڑ کر نایاب کے روم کی طرف بڑھ گیا۔

اس کی حرکت پر نایاب کی مام کے چہرے پر بھی مسکراہٹ ۔۔۔ چھا گئی۔۔ اور وہ بھی سر جھٹکتے اپنے روم کی طرف چلی گئیں۔۔

 یقیناً اب ان سب کے طرز زندگی نے بدلنا تھا۔۔۔ 

وقت نے ان سب کو موقع دیا تھا بدلنے کا۔۔

××××××

وہ نایاب کے روم میں آیا تو وہ اب کالے رنگ کی قمیض پہنے۔۔ اپنا اسٹولر عجیب و غریب انداز میں لپیٹے۔۔ غالباً اس نے نماز پڑھنے کے لئے وہ اوڑھا تھا اور اسے صحیح سے لینا نہیں آیا تھا۔۔ اپنی قمیض کے بازو اوپر تک گیلے کیے ۔۔۔ اپنے پلازو کو بھی آدھے فٹ تک بھگوئے۔۔ نماز کی تیاری میں لگی ہوئی تھی۔

وہ اپنی الماری سے کوئی بیڈ شیٹ نکال کر۔۔ اسے اَن فولڈ کرکے اور پھر جائے نماز جتنے سائز میں ری فولڈ کر کے زمین پر بچھا رہی تھی۔۔

کیونکہ جائے نماز تو ان کے گھر میں تھا ہی نہیں۔ 

روحان جب روم میں آیا تو اس نے اسکا حلیہ وہی بیڈ شیٹ زمین پر بچھاتے وقت نوٹ کیا۔

اسے نایاب کو ایسے دیکھ کر بری طرح ہنسی آئی۔۔

اس کی ہنسی کی آواز سن کر ہی نایاب نے دروازے کی طرف دیکھا اور وہ بری طرح اچھلی۔۔

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟"

"میں بس دیکھنے آیا تھا کہ میری بیگم محترمہ کی طبیعت کیسی ہے۔۔!!" اس نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا۔

"اوہ۔۔ اچھا۔۔ کچھ زیادہ ہی خیال نہیں آرہا آپ کو میرا۔۔؟؟" نایاب نے طنز کیا۔

"اب تمہارا خیال نہ کروں تو بھلا کس کا کروں۔۔" اس نے شرارت سے کہا۔۔

"اپنے پیرنٹس کا کریں۔۔ جن کے ساتھ آپ نے اتنی بدتمیزی کی ہے۔۔" اسے روحان کا ان سے بدتمیزی کرنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔

"ہاں۔۔ یہ بات تو درست کہی تم نے۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔۔ لیکن کوئی نہیں اب ان کا خیال کر نے کے لئے۔۔ ان کی بہو آ چکی ہے۔۔ سو میری جگہ وہ یہ سب کر لے گی۔۔ " اس نے نایاب کے قریب آکر کہا۔

"ویسے تم یہ کیا کرنے لگی تھیں؟؟" اس نے نایاب کا اسٹولر کھول کر سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

"نماز پڑھنے لگی تھی۔"

"تمہیں آتی ہے نماز پڑھنا۔۔؟؟"

"مجھے طریقہ یاد ہے لیکن نماز میں پڑھی جانے والی چیزیں نہیں۔۔آج تو بس مجھے جو یاد ہے وہ پڑھوں گی۔۔ لیکن میں آئندہ اس کو سیکھ کر صحیح سے پڑھا کروں گی۔۔" وہ بہت معصومیت سے بتا رہی تھی۔

"اچھا یہ بتاؤ حماد  کا کیا کرنا ہے۔۔"

روحان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نایاب نے اس کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر۔۔ اپنا سر جھکا کر اس قصے کو بھولنے کی درخواست کی۔

"روحان۔۔!! میں نہیں چاہتی کہ اب مزید اس طرح کے جھگڑوں میں پڑوں۔۔۔ میں انتقام بھی نہیں لینا چاہتی۔۔ میں اپنا معاملہ اللّٰه پر چھوڑ چکی ہوں۔۔ اپ بھی اب یہ سب بھول جائیں۔۔ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ گناہوں کا بوجھ کتنا بھاری اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔ میں اپنے اوپر کی گئی ہر زیادتی۔۔ ہر کسی کو معاف کرتی ہوں۔۔ تاکہ مجھے بھی میرے گناہوں کی معافی مل سکے۔۔آگے آپ  کی مرضی۔۔" نایاب نے بہت گہرے لہجے میں کہا۔

روحان نے بہت پیار سے اس بدلی ہوئی نایاب کو دیکھا۔۔

وہ واقعی نایاب تھی۔۔ بہت نایاب۔۔ بالکل اپنے نام کی طرح۔۔

"اچھا چلو۔۔ اب بہت رات ہوگئی ہے۔۔ میں چلتا ہوں۔۔۔ تم اپنی نماز پڑھو۔۔!! اور سنو۔۔!! میں جلد ہی ماما بابا کو منا لوں گا۔۔ پھر ان شااللہ تمہیں بینڈ باجوں کے ساتھ اپنی دلہن بنا کر لے کے جاؤں گا۔۔" روحان نے نایاب کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔

اور اللّٰه حافظ کہتا روم سے چلا گیا۔

نایاب نماز پڑھ کر۔۔ بڑی مگن ہو کر۔۔اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔۔ آنکھیں بند کر کے اپنی زندگی کے آسان ہونے۔۔اور اس سے منسلک ہر شخص کی بھلائی اور عافیت کی دعائیں مانگ رہی تھی۔۔ اور ساتھ ہی اللّٰه کا بہت شکر بھی ادا کر رہی تھی۔۔ کہ اسے وہ سب مل گیا تھا۔۔ جس کی اسے ضرورت تھی۔۔ اسے راہنمائی۔۔ ہدایت۔۔ روحان جیسے سچے انسان کا ساتھ۔۔ اور دنیا کی ہر خوشی ملنے والی تھی۔

اسے خود کو اللّٰه سے جوڑنے کا راستہ مل گیا تھا۔

وہ بہت خوش نصیب تھی۔۔ 

تھوڑی سی مشکل کے عوض اس نے بہت کچھ  پالیا تھا۔


ختم شُد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mujhe Tera Har Zulm Qabool Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mujhe Tera Har Zulm Qabool written by Suhaira Awais. Mujhe Tera Har Zulm Qabool by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages