Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya By Preesha Mahnoor Khan Complete Short Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 11 June 2024

Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya By Preesha Mahnoor Khan Complete Short Romantic Novel

Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya By Preesha Mahnoor Khan Complete Short Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readin...

Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya By Mahnoor Khan Complete Novel 

Novel Name:Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya

Writer Name: Preesha  Mahnoor khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


ہمارے پرکھوں کو کیا خبر تھی

کہ ان کی نسلیں اداس ہونگی

ادھیڑ عمری میں مرنے والوں کو کیا پتہ تھا

کہ ان کے لوگوں کی زندگی میں

جوان عمری ناپید ہوگی

سمے کو بہنے سے کام ہوگا

بڑھاپا محو کلام ہوگا

ہر ایک چہرے میں راز ہوگا

حواس خمسہ کی بدحواسی

بس ایک وحشت کا ساز ہوگا

زمیں کے اندر آرام گاہوں میں

سونے والے مصوروں کو کہاں خبر تھی

کہ بعد ان کے تمام منظر، سبھی تصور  

ادھورے ہونگے

دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی  

دراز عمری عذاب ہوگی

رات پوری طرح سے کائنات پر اتر چکی تھی لیکن چاند آسمان پر ناپید تھا۔ یہ دسمبر کے دن تھے۔ آسمان دن رات بادلوں سے ڈھکا رہتا تھا یا برستا رہتا تھا اور وہ دن بھر کی تھکی ہاری اپنے بستر پر لیٹی کمرے کی کھلی کھڑکی سے اس تاریک آسمان کو دیکھے جاتی۔ وہ تاریکی جو عرصہ ہوا اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔ وہ تاریکی جو اب اس کی ذات تھی۔ سیاہ سے بھی سیاہ۔ فقط سیاہ۔

اس نے اٹھ کر کھڑکی بند کی اور کڑوٹ پر کروٹ بدلنے لگی مگر ان گزرے ماہ و سال کی طرح نیند أج بھی کہیں منہ چھپائے بیٹھی تھی۔ وہ کروٹ کے بل بائیں طرف مڑی تو نظر سامنے صوفے پر سیدھا لیٹے ہائثم پر پڑی۔ اس نے آنکھوں پر بازو رکھا ہوا تھا لیکن پاؤں کا ہلتا انگوٹھا بتا رہا تھا کہ وہ جاگ رہا ہے اور نیند تو نوید ہاؤس کے مکینوں سے پچھلے دو سال سے روٹھی پڑی تھی۔ 

اس نے پھر سے کروٹ بدلی تو نظر سامنے دیوار پر لگے کیلینڈر پر پڑی۔ آج چھبیس تاریح تھی یعنی کہ دسمبر کی چھبیس۔ ارحم کی برسی کو ایک دن رہتا تھا یعنی کہ سارے سال کی ذلت کا امتحان ایک دن ہونا تھا اور وہ دن ارحم نوید کی برسی کا ہوتا تھا۔

کیلنڈر کے ساتھ دیوار پر ارحم اور ہائثم کی دیوار گیر تصویر نصب تھی جو ہائثم کے لیئے تو ایک یاد تھی لیکن حیا کے لیئے تکلیف کا باعث تھی۔

” دیکھو ارحم! تمہاری محبت بھلا کی طاقت ور تھی کہ تم جا کر بھی نہیں گئے۔ تم میری زندگی میں ایسا باب بن ٹھہر گئے ہو جسے نہ زندگی کی کتاب سے پھاڑ سکتی ہوں اور نہ مٹا سکتی ہوں “ اس کا دل سرگوشیوں میں جانے کیا کیا کہتا رہا تھا۔ ارحم سے شکوے کرتا رہا تھا جو محبت کر کے اس پر عذاب نازل کر گیا تھا۔ محبت دعا ہوتی ہے مگر ارحم کی محبت اس کے لیئے بدعا تھی ، سزا تھی اور عذاب تھی۔

اس نے پھر سے گردن موڑ کر صوفے پر لیٹے ہائثم کو دیکھا جو ایک بازو ابھی آنکھوں پر رکھے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے سینے کو ہلکا ہلکا مسل رہا تھا جیسے اس کی سانس رک رہی ہو اور سانس رکی ہی تو تھی۔ ہائثم نوید کی جان بستی تھی ارحم نوید میں۔ نوید سجاد کے مر جانے کے بعد ارحم نوید نے ہائثم نوید کو بھائی سے ذیادہ باپ بن کر پالا تھا۔ وہ جینے کی واحد وجہ تھا ہائثم نوید اور اپنی ماں کے لیئے اور وہ وجہ ختم ہوئے دو سال ہونے کو آئے تھے۔

نیند ک پری جب اس پر مہربان نہ ہوئی تو وہ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹہ گئی۔ نظریں اسی تصویر پر تھیں جس میں وہ دونوں بھائی مسکرا رہے تھے۔ خوس تھے اور وہ تصویر زندگی سے بھرپور تھی۔

اسے ان دو سالوں میں ہر روز اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے ہر دن خود کو کوسا کہ اچھا ہوتا اگر وہ کبھی پاکستان آئی ہی نہ ہوتی لیکن بابا کی ایموشنل بلیک میلنگ کی وجہ چلی آئی تھی۔

” ہائثم مجھے پیاس لگی ہے “ اس نے لیٹے ہوئے ہائثم کی طرف دیکھا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اکیلے ڈرتی تھی ہاں یہ تھا کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی ہائثم پر دھونس جماتی تھی اور بدلے میں وہ چپ رہتا تھا اور اس کی آنکھیں سب بول دیتی تھیں۔ نفرت کی ہر ایک کہانی۔

ہائثم نے بازو آنکھوں سے ہٹایا اور بنا اس کی طرف دیکھے اثبات میں سر ہلاتا باہر نکل گیا۔ اس نے ہائثم کو جاتے ہوئے دیکھا جو کل ہی نوکری سے واپس آیا تھا۔ اس کی نوکری اسلام آباد میں تھی اور وہ اب بس ارحم کی برسی پر آیا کرتا تھا۔ ماں کی یاد آتی تو فون پر بات کر لیتا کا ایک دو ہفتے کے لیئے بلا لیتا اور باقی بچی حیا تو وہ کسی گنتی میں نہیں تھی۔ وہ اپنی ماں کی طرح اسے ذلیل نہیں کرتا تھا لیکن وہ اسے عزت بھی نہیں دیتا تھا جو کہ بطورِ کزن وہ اسے پہلے دیا کرتا تھا۔ تب جب وہ حیا کا بیسٹ فرینڈ ہوا کرتا تھا اور حیا اس سے ہر بات شیئر کر لیتی تھی۔ وہ حیا سے عمر میں دو سال چھوٹا تھا لیکن ایک اچھا دوست تھا اور وہ دوستی جب زبردستی کے رشتے میں بندھی تو نفرت بن گئی۔

اس نے پانی لا کر حیا کو دیا اور خود واپس صوفے پر لیٹ گیا۔ حیا بھی پانی پی کر چپ چاپ لیٹ گئی تھی اور ساری رات کروٹیں بدلتے ہی گزرنی تھیں۔

               ★★★★★★★★★★★

ملنا تھا اتفاق اور بچھڑنا نصیب تھا

وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا

پھر میں اس کو دیکھنے کو ترستا ہی رہ گیا محسن

ارے جس شخص کی ہتھیلی پر میرا نصیب تھا

گھر کا سارا راشن ختم تھا اور کل ارحم کی برسی بھی تھی۔ برسی کے لیئے سارے لوازمات ہائثم نے ہی لانے تھے مگر گھر کا سودا سلف وہی لاتی تھی۔ شائستہ بیگم(ہائثم اور ارحم کی ماں) گھر باہر کا کام اسی سے کرواتی تھیں۔ ہائثم گھر پر ہوتا نہیں تھا اور ارحم اب تھا نہیں۔ ذمہ داریاں حیا کے کندھوں پر تھیں۔

اسٹور سے سامان لے کر وہ اب ایک سبزی کی ریڑھی پر کھڑی سبزیاں پرکھ رہی تھی۔

شروع شروع میں وہ بازار آتی تو سامان خریدتے ، بھاؤ تاؤ کرتے رو پڑتی تھی۔ وہ جسے سبزیوں کے نام تک نہیں پتہ تھے اب قیمتیں بھی خفظ ہو گئی تھیں۔ وہ شروع سے ہی اچھا کھانے اور اچھا پہننے کی بہت شوقین تھی۔ انواع و اقسام کے کھانوں کا اس کی ٹیبل پر ڈھیڑ ہوتا تھا۔ باورچی وہ پرکھ کر رکھتی جو مٹن اور چکن کی ریسیپیز بنا سکے۔ اس کے ڈریسنگ سینس کی دنیا تعریف کرتی تھی۔

بڑی بڑی آنکھوں ، بھرے بھرے سرخ گالوں اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ والی حیا جہانگیر قصہ پارینہ ہو گئی تھی۔ کوئی پرانا جاننے والا دیکھتا تو یقین نہ کر پاتا کہ یہ وہی حیا ہے۔ حیا جہانگیر جس کی خوبصورتی اور اسٹائل کا معترف ایک جہاں تھا۔

اب تو آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے پڑ گئے تھے ، گال پچکنا شروع ہو گئے تھے ، ہونٹ سوکھ چکے تھے۔ اعلی ڈریسنگ سینس والی حیا جہانگیر اب سال کے گیارہ مہینے سفید کپڑوں میں ہوتی تھی۔ وہ سفید کپڑے جو اب بوسیدہ ہو کر پھٹنے کے قریب تھے۔ وہ بال جنہیں جن کا وہ ہر مہینے ٹریٹمنٹ کرواتی تھی اب عرصہ ہوا روکھے پھیکے ہو چکے تھے اور ہر وقت مظبوط چوٹی میں بندھے رہتے تھے۔

پریوں سی حیا جہانگیر اب عام سے گھرانے کی عام سی عورت تھی۔ وہ عورت جسے قاتلہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

وہ سبزی خرید کر فٹ پاتھ کے کنارے چلنے لگی۔ دونوں ہاتھوں میں سامان کے شاپرز تھے۔ سفید دوپٹہ مفلر کی طرح گلے میں پڑا ہوا تھا۔ وہ نظریں جھکائے پاؤں گھسیٹتے چل رہی تھی

 جب اس کے پاس سرخ رنگ کی کار آ کر رکی اور پھر کار سے تھری پیس سوٹ میں ، گاگلز پہنے ایک خوبرو سا مرد باہر نکلا اور اگلے سیکنڈ میں وہ اس کے روبرو تھا۔ حیا نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا اور سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وہ ٹھہر ہی تو گئی تھی۔ آنکھوں میں نمی سی تیری تھی۔

سامنے والے کی آنکھیں بھی شاید ڈبڈبائی تھیں۔ گاگلز اتار کر اس نے انگلیوں کی پوروں سے آنکھوں کے کنارے صاف کیئے تھے۔

آنکھیں میچتے حیا نے نمی کو اندر دھکیلا تھا۔ ہونٹ چباتے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ وہ اب دانستہ بھی اس شخص کو دیکھتی تو ریت کی مانند بکھر کر رہ جاتی۔ وہ شخص جسے اس آخری دن کے بعد آج پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ آخری دن جو رخصتی سے ایک دن پہلے کا تھا۔ وہ دن جس دن وہ رو پڑا تھا۔ وہ دن جب دونوں کی پانچ سالہ محبت کے راستے جدا ہوئے تھے۔

” کیسی ہو حیا! “ یہ رسمی سا سوال بس بات کا آغاز تھا ورنہ وہ جانتا تھا سامنے کھڑی لڑکی ٹھیک نہیں ہے۔

” اچھی ہوں “ اس نے لہجے کو مستحکم رکھنا چاہا تھا مگر ہائے افسوس ایک آنسو اس کے ضبط کی توہین کر گیا۔

” میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں “ اس نے سامان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ حیا نے فوراً سے ہاتھ پیچھے کئے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں خود نبھانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے کئے کی سزا خود بھگتنا چاہتی تھی۔

” میں تمہیں یاد کرتا ہوں حیا بہت یاد کرتا ہوں “ بدحالیاں اوڑھے اس شخص کی آواز میں اوس اترنے لگے تھے۔۔ وہ سر جھٹک کر مسکرائی۔ 

” اور مجھے اپنا ماضی یاد کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی “ اس نے سچ بولا تھا اگرچہ سچ تلوار تھا جو سننے والے کو کاٹ ڈالتا تھا۔

دونوں کے درمیان کتنی دیر تک خاموشی چھائی رہی تھی۔ اس خاموشی کو موٹرسائیکل کی بےہنگم آواز نے توڑا تھا۔ حیا نے رخ موڑ کر دیکھا۔ وہ موٹرسائیکل سوار ہائثم نوید تھا جس کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔ حیا نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔ اچھے دوست کو شوہر نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ وہ آپ کے ماضی سے واقف ہوتا ہے اور ایک شوہر بیوی کا ماضی فراموش نہیں کر سکتا۔

ہائثم نوید جانتا تھا حیا جہانگیر عمر سلطان سے محبت کرتی ہے اور آج دونوں کو یوں سرِ راہ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے دیکھ کر وہ غصے سے بل کھا کر رہ گیا تھا۔

عمر سلطان کو نظرانداذ کرتا اس نے بائیک سے اتر کر اس نے حیا سے شاپرز پکڑے اور بائیک پر رکھ دیئے۔ حیا پیچھے بیٹھی تو وہ بائیک بھگاتا ہوا لے گیا اور پیچھے کھڑا مسافر اسے جاتا دیکھتا رہا وہ مسافر جو ٹھکانے تلاش کر رہا تھا اور ٹھکانہ بھی حیا جہانگیر کی زندگی میں۔

               ★★★★★★★★★★★

موٹرسائیکل تیز رفتاری سے سڑک پر بھاگ رہی تھی اتنی تیز کہ اسے اپنے گلے سے اڑتے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑنا پڑا۔ بائیک سڑک سے ہوتی ہوئی کچی سڑک پر اتری اور پھر گلی میں داخل ہو کر آسمانی رنگ کے گیٹ کے سامنے رک گئی۔ حیا نے اتر کر شاپرز پکڑنے چاہے تو ہائثم نے سختی سے اسے اندر جانے کا کہہ دیا تو وہ اندر چلی گئی۔ ہائثم نے موٹرسائیکل گیٹ سے اندر کر کے گیٹ بند کیا اور سامان کے سارے شاپرز لا کر کچن میں رکھے۔ اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے اور شائستہ بیگم اس وقت سوئی ہوتی تھیں۔

وہ واپس سیدھا اپنے کمرے میں آیا جہاں حیا واش روم سے منہ دھو کر نکل رہی تھی۔ بیڈ پر پڑے دوپٹے سے اس نے اپنا منہ پونجا۔

” پھپھو سوئی ہوئی ہیں؟ تم نے ناشتہ نہیں کیا ہو گا۔ میں ناشتہ بناتی ہوں “ اس کے ہر انداذ سے بےنیازی جھلک رہی تھی جیسے کچھ دیر پہلے جو ہائثم نے اسے اس کے محبوب کے ساتھ دیکھا وہ کچھ معنی نہ رکھتا تھا۔

ہائثم نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے اپنے روبرو کیا تھا۔ حیا تو اس کی حرکت پر حیران ہوئی تھی کہ شادی کے ان دو سالوں میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ ضرورت سے ذیادہ اس سے بات کرتا ختیٰ کہ ہاتھ پکڑتا۔

” کیا کر رہا تھا وہ تمہارے ساتھ “ اس کے اندر کا مرد جاگا تھا وہ مرد جو ایک شوہر تھا جو کبھی حیا کا بہترین دوست تھا جو حیا کی محبت کی داستاں سے الف سے ے تک واقف تھا۔

” کیسے بات کر رہے ہو تم ہائثم “ حیا نے اپنے کلائی چھڑانی چاہی تھی مگر ہائثم کی گرفت مظبوط تھی۔ اس کی کوشش بس کوشش ہی رہ گئی۔

” وہ شخص اور تم ایک ساتھ کیونکر تھے؟ “ وہ دبا دبا سا چیخا تھا کہ وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جہاں سرگوشی بھی دوسرے کمرے تک جاتی تھی اور وہ اپنی ماں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

” تم کون ہوتے ہو مجھ سے یہ پوچھنے والے “ اب کے وہ بھی غرّائی تھی۔ ہائثم کی نگاہوں سے شعلے نکلنے لگے۔

” تمہارا شوہر ہوں حیا بی بی! “

” واؤ! ان دو سالوں میں مجھے تمہاری ماں نے اپنے لہجے اور تم نے اپنی آگ اگلتی آنکھوں سے مجھے فقط ایک ہی بات بتائی ہے کہ میں ایک قاتلہ ہوں۔ میں ارحم نوید کی قاتلہ ہوں ، میں اس گھر کی نوکرانی ہوں تو آج تمہیں یہ کیونکر یاد آیا کہ میں تمہاری بیوی ہوں۔ تمہیں یاد ہے میں تمہاری بیوی ہوں “ 

ہائثم کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔ اس نے بےاختیار نگاہیں چرائی تھیں۔ حیا نے اس کا گریبان پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

” اگر میں تمہاری بیوی ہوں تو مجھ پر وہ سوگ فرض کیوں کیا گیا ہے جو ایک بیوہ پر ہوتا ہے۔ میں اگر تمہاری بیوی ہوں تو میں ارحم کی بیوہ کی طرح دو سالوں سے سوگ میں کیوں ہوں۔ میں تمہاری بیوی ہو کر ایک بیوہ کی سی زندگی پچھلے دو سال سے گزار رہی ہوں۔ اگر میں تمہاری محرم ہوں تو ایک نامحرم کا سوگ مجھ پر کیونکر لازم ہے۔ میں اگر شادی شدہ ہوں تو میری زندگی سیاہ اور سفید میں کیونکر قید ہے “ اس کا گریبان پکڑتے وہ ان دو سالوں میں آج پہلی بار چیخی تھی۔ جو اس پر گزر رہی ہے وہ بولی تھی۔ 

” آپ پر یہ سوگ آپ کی غلطی کی پاداش میں آپ پر فرض کیا گیا ہے۔ آپ کے گناہ کی سزا ہے جو آپ کو سیاہ اور سفید کے چکر میں قید کر دیا گیا ہے۔ آپ نے بھائی کو نہ مارا ہوتا تو آج سب کی زندگی مختلف ہوتی “ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ وہ کیا کرتا وہ اپنے بھائی کو بھولتا ہی نہیں تھا۔ وہ بھائی جو کبھی باپ سا اچھا لگتا تھا اور کبھی دوست سچا لگتا تھا۔

” میں نے نہیں مارا ارحم کو تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔ مجھے کیوں ایک ایسی غلطی کی سزا دے رہے ہو جو میں نے نہیں کیا۔ میری زندگی اپنے مرے ہوئے بھائی کے بدلے کیوں تباہ کر رہے ہو تم “ وہ چلا اٹھی تھی اتنا تیز کہ شائستہ بیگم بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھیں۔

ہائثم صوفے پر ڈھے گیا تھا۔ حیا کی آنکھ سے ایک قطرہ فقط ایک قطرہ پانی نکلا تھا۔ وہ آج عمر سلطان کو دیکھ کر آئی تھی۔ وہ آج اپنے محبوب کو دیکھ کر آئی تھی وہ عمر سلطان جس سے پانچ سال بلاناغہ اس نے محبت کی تھی اور اس محبت کا رازدار ہائثم تھا۔ وہ ہر بات ہائثم کو بتاتی تھی۔ وہ ہر محبت نامہ ہائثم کو دکھاتی تھی اور آج وہ محبت اس سے چند قدم کے فاصلے پر بھی بڑی دوری پر تھی۔

” کیوں چلا رہی ہے یہ منحوس لڑکی “ شائستہ بیگم نہایت غصے سے کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ انہیں حیا کا بولنا ، چیخنا ختٰی کہ اس کی شکل سے بھی نفرت تھی۔ وہ جب بات کرتی تھیں تو حیا کے لیئے حقارت ہی حقارت ہوتی تھی۔

” کچھ نہیں ہوا اماں۔ چلیں اماں آپ “ ہائثم شائستہ بیگم کو لیئے باہر چلا گیا تھا اور اس کی نگاہیں پلٹ کر کمرے میں آویزاں اس فوٹو فریم تک گئیں۔ جس میں وہ تھا جس میں ارحم نوید تھا۔ وہ ارحم نوید جو مر کر اس کی زندگی عذاب کر گیا تھا۔

کہتے ہیں مرے ہوئے سے نفرت نہیں کرتے لیکن اس وقت اس پل حیا جہانگیر نے ارحم نوید سے شدت سے نفرت کی تھی۔

                 ★★★★★★★★★★★

اس کی آنکھیں صحرا تھیں تو چہرہ پتھریلا۔ جذبات ان دو سالوں میں اس کے اندر سے کہیں رخصت ہو گئے تھے اور یہ تب ہوا جب وہ رخصت ہو کر اس گھر میں آئی تھی۔ وہ دن جو لڑکیوں کے اندر زندگی جگاتا ہے اس دن زندگی اس کے وجود میں مر گئی تھی اور زندگی کو اس کے اندر مرے دو سال ہو گئے تھے۔ وہ الماری کے پٹ کھولے حالی حالی نظروں سے ان دو رنگوں کو دیکھ رہی تھی جن کے گرد پچھلے دو سال سے اس کی زندگی گھوم رہی تھی۔ وہ دو رنگ سیاہ اور سفید تھے۔ سفید رنگ جو اس کی زندگی کو بےرنگ کر کے اس پر مسلط کیا گیا تھا۔ سیاہ جو سوگ کی علامت تھا وہ سوگ جو کرنا اس پر فرض تھا۔

اس نے سیاہ لباس نکالا اور پہن لیا۔ بالوں کی چوٹی باندھ کر دوپٹے کو اچھے سے سر پر لیا اور ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے سیاہ رنگ کی ڈائری نکالی۔ اس کی زندگی میں موجود ہر شے اب سیاہ ہی تو تھی اور بقول ہائثم نوید کے وہ دل کی بھی سیاہ تھی۔

28-12-2016 ارحم نوید کی جدائی کا دن۔

دو سال گزر گئے تھے اس قیامت سے مشابہت رکھتے اس دن کو جو حیا کی زندگی میں بھی طوفان لایا تھا۔ اس نے پین نکالا اور آج کی تاریح نوٹ کی-28-12-2018

کمرے کا دروازہ کھلا۔ اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا کیونکہ جانتی تھی آنے والا ہائثم نوید ہے۔ وہ بھی سیاہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا کیونکہ آج سوگ کا دن تھا۔ نوید ہاؤس میں 28 دسمبر سوگ کا دن تھا کیونکہ اس دن ارحم نوید مرا تھا اور ساتھ حیا جہانگیر کی سانسیں بھی چھین گیا تھا۔ اس کا مجازی خدا جس کے ساتھ اسے دو سال پہلے بیاہا کیا گیا تھا لیکن اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی ہائثم نے اسے کبھی نظر اٹھا کر دیکھا ہو۔ وہ تو دو دن کی دلہن کو چھوڑ کر گیا ان دو سالوں میں دوسری بار آیا تھا اور حیا کو بھی دلچسبی نہیں تھی کہ وہ اسے دیکھتا ہے یا نہیں لیکن اپنی بےوقعتی پر تکلیف ہوتی تھی شدید تکلیف۔

” ہائثم اس کلموہی قاتلہ کو بول باہر دفع ہو “ یہ آواز ہائثم کی ماں کی تھی۔ حیا کے لیئے دنیا جہاں کی نفرت اس چھوٹے سے گھر کے مکینوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور کیونکر نہ ہوتی وہ قاتلہ تھی۔ اس گھر کے لاڈلے سپوت ارحم نوید کی۔

حیا نے ڈائری بند کر کے دراز میں ڈالی اور روٹین کے مطابق ذلیل ہونے باہر چلی گئی۔ ہائثم نے پلٹ کر اسے جاتا ہوا دیکھا لیکن ان آنکھوں میں دیکھنے جیسا کچھ نہیں تھا۔ ان آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ اگر بس میں ہوتا تو وہ حیا جہانگیر کا قتل کر ڈالتا۔ وہ حیا جہانگیر جو معاشرے میں حیا ہائثم نوید کہلاتی تھی۔

ہائثم نے انگلیوں کی پوروں سے بےاختیار کنپٹی کو سہلایا تھا۔ وہ خود شدید مشکل میں تھا۔ یہ جو ایک فیصلہ گلے کا طوق بن گیا تھا وہ یہ فیصلہ کبھی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ماں کے مجبور کرنے پر اس نے حیا سے شادی کر لی تھی اور وہ تب حیران ہوا تھا کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ماں حیا کو بہو بنانا چاہ رہی ہے لیکن نہیں وہ تو اسے تکلیف دینا چاہتی تھیں۔ وہ بہو نہیں نوکرانی چاہتی تھیں ایسی سوگ زدہ نوکرانی جسے وہ ہر پل اور پل پل اذیت دیں اور پہلی اذیت کی شروعات شادی سے تھی کیونکہ عمر سلطان اتنی پاور رکھتا تھا کہ وہ کچھ بھی کر کے حیا جہانگیر کو ارحم نوید کے مرڈر کیس سے باہر نکال دیتا اور پھر وہ اور حیا ایک اچھی زندگی جیتے جو کبھی بھی قابلِ قبول نہیں تھی۔

ہائثم چلتا ہوا فریم تک آیا۔ وہ فریم جس میں ماضی مسکراتا تھا  ، خوشی کی نوید سناتا تھا اور زندگی سے بھرپور گیت گاتا تھا۔

اور اس سکون بھرے ماضی میں پتھر تب پڑا تھا جب حیا جہانگیر پاکستان آئی تھی۔ وہ حیا جہانگیر جس سے ارحم نوید نے بےتخاشہ محبت کی تھی اتنی محبت کہ اس محبت نے پھر اس کی جان لے لی۔

” دیکھو بھائی کیا کیا ہو رہا ہے اور اس ہونے میں آپ کو ہونا چاہئیے تھا۔ وہ کہتی ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں سارا قصور اسی کا تو ہے۔ سارا قصور حیا جہانگیر کا ہے جس کی محبت نے ایک شخص کو مار دیا اور کل ایک شخص زندہ لاش بنا راستے میں کھڑا تھا اور بچا میں تو میں نے تو کبھی اسے حاصل کرنے کے لیئے تو اس سے محبت کی ہی نہیں تھی “ وہ تصویر پر ہاتھ پھیرتا سرگوشیاں کر رہا تھا وہ سرگوشیاں جو وہ دو سال سے اپنے مرے ہوئے بھائی سے کر رہا تھا۔ 

                 ★★★★★★★★★★★

ارحم نوید کی برسی کا دن گزر چکا تھا۔ اٹھائیس دسمبر گزر چکا تھا اور اب نیا سال آنے والا تھا۔ وہ نیا سال جو نوید ہاؤس کے مکینوں کے لیئے صرف دو سال پہلے تب آنے والا تھا جب ارحم نوید زندہ تھا۔ موجود تھا ان سب میں۔ اس چھوٹے سے گھر میں خوشیاں اچھلتی کودتی تھیں۔

نوید صاحب کی وفات تب ہوئی جب ارحم کالج میں تھا اور پھر باپ کے بعد اس پر ذمہ داریاں پڑ گئیں۔ ہائثم چھوٹا تھا۔ ابھی آٹھویں کلاس میں تھا وہ۔ ارحم نے کالج چھوڑ دیا اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے لگا جس سے وہ اپنا اور ماں کا پیٹ پال لیتا تھا۔ ساتھ ساتھ اس نے پڑھائی بھی جاری رکھی مگر ذمہ داریوں میں ڈوبے ہر انسان کی طرح معمولی نمبروں سے پاس ہوتا تھا اور پھر وقت کچھ اس پر مہربان ہوا تو اس کو گورنمنٹ جاب مل گئی۔

گھر کے حالات پہلے سے قدرے بہتر ہو گئے۔ پہلی تنخواہ پر گھر میں قرآن خوانی کروائی گئی۔ رشتہ داروں کو بلایا گیا اور وہیں پہلی بار حیا جہانگیر آئی۔ وہ ارحم کے ماموں کی بیٹی تھی جو عرصہ دراز سے ملک سے باہر مقیم تھے اور وہ پہلی بار کا آنا ارحم جہانگیر کے دل میں اٹک کر رہ گیا۔

حیا دوستانہ طبیعت کی مالک تھی برعکس اپنی چھوٹی بہن کشمالہ کے۔ بہت جلد وہ نوید ہاؤس کے مکینوں کے ساتھ اٹیچ ہو گئی اور سب سے ذیادہ دوستی اس کی ہائثم سے ہوئی تھی۔ ہائثم ان دنوں گریجوئیشن کر رہا تھا۔

وہ حیا کا بیسٹ فرینڈ بن گیا اور پھر حیا اسے اپنی محبت کی طویل داستانیں سنانے لگی۔ وہ داستاں جس میں ایک شہزادہ تھا عمر سلطان اور شہزادی تھی حیا جہانگیر۔ اپنی محبت کی داستاں سا پہلا صفحہ سناتے وہ بہت خوش تھی اور اس دن ہائثم نوید نے خود کو خوشفہمیوں کے جال سے باہر نکالا کہ حیا جہانگیر اس سے بھلا کیسے محبت کر سکتی ہے۔

کہاں عمر سلطان سا شہزادہ اور کہاں وہ ایک عام سا شخص۔

اس دن کے بعد ہائثم نوید نے حیا جہانگیر سے بس محبت کی اور بہت محبت کی لیکن کبھی اسے اپنانے کا نہ سوچا۔ وہ اس کے لیئے خوش تھا کہ وہ عمر سلطان کے ساتھ خوش ہے لیکن اس میں دراڑ تب پڑی جب ایک شام اس نے ارحم نوید کی ڈائری سے ایک تصویر نکالی۔ وہ تصویر جو حیا جہانگیر کی تھی اور اس وقت وہ بہت رویا تھا اتنا کہ جتنا وہ عمر سلطان کے وجود کا سن کر نہیں رویا تھا۔

اس کی جان بستی تھی ارحم میں اور ارحم کی اب حیا جہانگیر میں بسنے لگی تھی۔ وہ اس دن رویا کہ ایک دن اس کا بھائی یوں رو دے گا جب جانے کا کہ ایک عمر سلطان بھی ہے کہانی میں جس سے حیا جہانگیر پاگلوں کی طرح پیار کرتی ہے۔

حیا جہانگیر ایسی تھی کہ کسی کو بھی اس سے محبت ہو سکتی تھی لیکن حیا جہانگیر ایسی نہیں تھی کہ کسی بھی ارحم نوید یا ہائثم نوید کو مل جاتی۔

وہ حیا جہانگیر تھی جو عمر سلطان کے لیئے بنی تھی۔ حیا جہانگیر صرف عمر سلطان جیسے شہزادے کے نصیب میں تھی۔

اور پھر ایک دن وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیئے تھا جس کا سوچا نہیں تھا کہ وہ ہو گا۔ حیا جہانگیر کو پاکستان شفٹ ہوئے کوئی دو سال ہوئے تھے کہ اس کے باپ کی موت ہو گئی اور پھر فقط ایک سال بعد ارحم نوید مر گیا۔ وہ ارحم نوید جو نوید ہاؤس کے دو افراد کے جینے کی وجہ تھا۔ ہائثم جاب کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھا جب اسے یہ خبر ملی تھی اور کراچی آنے پر معلوم ہوا کہ ارحم نوید کی موت خادثاتی نہیں تھی۔ وہ ایک قتل تھا اور قاتلہ حیا جہانگیر تھی۔ سارے شواہد حیا جہانگیر کے خلاف تھے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ عمر سلطان نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا حیا کو بچانے کے لیئے اور قریب تھا کہ وہ حیا کو اس کیس سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیتا شائستہ بیگم نے صلح کر لی۔ وہ صلح جو قید کی شروعات تھی۔ وہ صلح جس کے دستخط ہائثم نوید اور حیا جہانگیر کے نکاخ کے دستخط کے ساتھ ہوئے تھے۔ 

باز.  پلٹ چکی تھی۔ عمر سلطان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا تھا کچھ نہیں بچا تھا۔ حیا جہانگیر ہائثم نوید کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔۔

                 ★★★★★★★★★★★

دسمبر جانے والا ہے 

چلو ایک کام کرتے ہیں 

پرانے باب بند کر کے 

نظر انداز کرتے ہیں 

نئے سپنے سبھی بُن کر 

اُلفت کے راستے چن کر 

وفا داری پہ جینے کی 

راہیں ہموار کرتے ہیں 

بھلا کر رنجشیں ساری 

مِٹا کر نفرتیں دِل سے معافی دے دلا کر اب 

دِل اپنے صاف کرتے ہیں 

جہاں پر ہوں سبھی مُخلص 

نہ ہو دِل کا کوئی مُفلس

اِک ایسی بستی اپنوں کی 

کہیں آباد کرتے ہیں 

جو غم دیتے نہ ہوں گہرے 

ہوں سانجھی سب وہاں ٹھہرے 

سب ایسے ہی مكینوں سے 

مکاں کی بات کرتے ہیں 

نہ دیکھا ہو زمانے میں 

نہ پڑھا ہو فسانے میں 

اب ایسے جنوری کا ہم 

سبھی آغاز کرتے ہیں

رات دس بجے کا وقت تھا۔ ہائثم اور شائستہ بیگم دونوں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے جب ٹی وی پر کسی نے خوبصورت انداذ میں یہ نظم پڑھی تھی۔ ہائثم نے کن اکھیوں سے چائے کے کپ اٹھاتی حیا کو دیکھا تھا جیسے وہ بھی پرانے سب نقش مٹانا چاہ رہا ہو لیکن یہ بس میں نہ ہو۔ وہ بھی ایک نئی جنوری کا آغاز کرنا چاہتا تھا اور یہ بس میں نہیں تھا کیونکہ اسی فیصد مردوں کی طرح وہ بیوی اور ماں میں سے ماں کو چنتا تھا اور اس بیوی کو کیسے کر چنتا جس پر قتل کا الزام تھا اور قتل بھی ایسا کہ اس قتل نے ہائثم نوید کو یتیم کر دیا تھا۔

کپ اٹھا کر جاتے ہوئے حیا نے اس کی طرف دیکھا کیونکہ وہ اتنی دیر سے اس کی نظریں خود پر جمی محسوس کر سکتی تھی اور اس پل حیا نے دیکھا کہ ایک نیا سال اپنی شریکِ حیات کے ساتھ گزارنے کی چاہ اس کی آنکھوں میں امڈ امڈ کر آ رہی تھی۔ کئی جگنو تھے جو جل کر اور پھر بجھ کر مر گئے تھے۔ ہائثم نے نگاہوں کا زاویہ بدلا کہ وہ جو دو سال سے ایک دوسرے کے ہو کر بھی ایک دوسرے کے نہیں تھے تو خدا کا فیصلہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ہیں ہی نہیں۔ قسمت لکھ چکی تھی حیا جہانگیر ہائثم نوید کو کبھی بھی نہیں ملے گی چاہے وہ اس کے نام پر ہو یا اس کی ہو۔

حیا کپ لیئے وہاں سے نکلی اور کچن میں کپ دھو کر وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ باہر لوگوں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ دنیا نیا سال منانے کو اتاولی ہو رہی تھی اور اس پر تو وہ گزرے سال ہی ٹھہر چکے تھے۔

وہ کارپٹ پر بیٹھ گئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سب سے آخری دراز کھول کر سیاہ رنگ کا ایک بیگ نکالا اور پھر اسے کھولنے لگی۔ بیگ سے سرخ رنگ کی ایک ڈائری نکلی تھی۔ سرخ رنگ اسے ہمیشہ سے بہت پسند تھا اتنا پسند کہ اس کی زندگی کی ہر شے میں سرخ کا دخل تھا لیکن ان دو سال میں وہ سرخ رنگ کو بھول بیٹھی تھی لیکن اس دن عمر سلطان کو سرخ رنگ کی کار میں دیکھ کر اسے ماضی کی لالی ضرور یاد آئی تھی۔ اسے یاد تھا عمر سلطان کو سرخ سے چڑ تھی لیکن وہ اس کے لیئے اپنی زندگی میں سرخ رنگ کو جگہ دینے لگا تھا۔ عمر سلطان کا لیپ ٹاپ سیاہ سے سرخ ہوا تھا ، اس کی بیڈ شیٹ فقط سرخ رنگ کی ہو گئی تھی اور پھر حیا کی فرمائش پر اس نے گاڑی بھی سرخ لے لی تھی خالانکہ اسے شدید چڑ تھی سرخ رنگ سے لیکن جب محبت ہوتی ہے تو محبوب کو پسند ہر شے پسند ہوتی ہے۔

حیا نے ڈائری کے کور پر ہاتھ پھیرا۔ یہ ڈائری اسے عمر نے دی تھی۔ عمر کہتا تھا حیا اس کی ماروی ہے۔ کہیں بہت پہلے جب ماروی عمر کو ٹھکرا گئی تھی تو محبت کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی اس لیئے محبت نے صرف محبت کے واسطے عمر ماروی کو پھر سے جنم دیا ہے اور اب کی بار عمر ماروی الگ نہیں ہوں گے لیکن محبت چاہے کتنی بھی بار جنم لے لے اس کی قسمت جدائی ہی ہے۔

اس نے ڈائری کھولی۔ ڈائری کے پہلے صفحے پر سرخ روشنائی سے حیا اور عمر لکھا تھا۔ اس کی آنکھ سے آنسو نکل کر عمر کے نام پر گرا تھا۔ اسے وہ تمام سال یاد آئے جن کی شروعات اس نے عمر کے ساتھ کی تھی۔ اس نے صفحہ پلٹا۔ اگلے صفحے پر دو سوکھے سرخ پھولوں سے محبت کی داستاں رقم تھی وہ داستاں جو قدیم تھی بہت قدیم۔ وہ فقط پھول نہیں تھے وہ عمر ماروی کی داستاں تھی۔ وہ محبت کی عجیب داستاں تھی جس کی قسمت ہر بار جدائی تھی فقط جدائی تھی۔

اس نے بھری بھری آنکھیں اٹھا کر دیوار پر آویزاں تصویر کو دیکھا۔ اسے لگا ارحم نوید مسکرا رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے حیا سلطان! تم مجھے نہیں ملی تو کیا ہوا تمہیں بھی تو عمر سلطان نہیں ملا۔

” تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ ارحم نوید۔ تمہیں مرنا نہیں چاہیئے تھا تمہیں جی کر مجھ سی تکلیف سہنی تھی۔ تمہیں بار بار جدائی کا کرب جھیلنا تھا “ اس کی آنکھوں سے بےشمار آنسو نکلے وہ آنسو جن پر وہ پچھلے دو سال سے بندھ باندھے بیٹھی تھی لیکن عمر سلطان کا سامنے آنا اس کے ضبط کو توڑ گیا تھا۔ اسے آج بھی محبت تھی اور بےتخاشہ محبت تھی عمر سلطان سے مگر افسوس قسمت جدائی تھی اور مقام کچھ ایسا تھا کہ اب ملن ہو جاتا تو وہ نِری رسوائی تھی۔

                  ★★★★★★★★★★★

آج نئے سال کا پہلا دن تھا۔ محلے سے بچوں کے پٹاخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ صبح فجر کی اٹھی کام میں لگی ہوئی تھی۔ سیاہ لباس دھو کر الماری میں اگلے دسمبر کے لیئے رکھ چکی تھی۔ سفید جوڑا پھر سے اس کے تن پر تھا وہ سفید جو کفن تھا۔ وہ سفید جوڑا جو پھندا تھا جو دو سال سے اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا مگر نہ مرنے دے رہا تھا نہ جینے دے رہا تھا۔

کچن سے فارغ ہو کر اس نے دھوپ پر پڑے سارے کپڑے اتار کر تہہ کئے اور ہائثم کے کپڑے استری کرنے کے لیئے سٹینڈ پر رکھے۔ وہ کل واپس جا رہا تھا۔

” اماں آپ نے اپنا بہت سا خیال رکھنا ہے کل میں جا رہا ہوں “ وہ شائستہ بیگم کی دوائیاں لے کر آیا تھا اور اب ان کو کھلانے کے بعد ہدایات جاری کر رہا تھا۔

” اپنے آفس کال کر کے ہفتہ دس دن اور چھٹیاں مانگ لو “ 

” کیوں اماں “

” تمہاری شادی کی تاریح طے کرنے جانا ہے اور پھر شادی بھی “ شائستہ بیگم کی بات پر ہائثم نے اچنبے سے اپنی ماں کو دیکھا۔ حیا کے شرٹ استری کرتے ہاتھ ایک سیکنڈ کو رکے تھے اور وہ پھر سے شرٹ پریس کرنے لگی۔ ہائثم نے نگاہ اٹھا کر حیا کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا تو گویا دو سال کا یہ رشتہ نام نہاد تھا تو نام نہاد ہی تھا۔ 

” ماں کیسی باتیں کر رہی ہو آپ میری شادی تو ہو چکی ہے “ چاہے حیا اس کے بھائی کی قاتلہ تھی اس کی ماں کے لیئے ایک بدلہ تھی لیکن بیوی تو تھی اس کی نا۔ حیا وہ لڑکی تھی جسے اس نے بہت شدت سے چاہا تھا۔ بہت محبت کی تھی۔

” یہ شادی نہیں سزا تھی اور سزا صرف اس قاتلہ کے لیئے ہے۔ تم میرے بیٹے ہو اور بیٹے کو سزا کی زندگی نہیں جینے دے سکتی “ شائستہ بیگم نے کہا۔

” چاہے جیسے بھی ہوئی ہو جن حالات میں بھی ہوئی ہو وہ میری بیوی ہے ماں۔ میں اس کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتا کیونکہ شرعاً اور قانوناً یہ جائز نہیں ہے “ اس نے پھر سے ٹال مٹول سے کام لینی چاہی تھی اور اس بات پر شرٹ ہینگ کرتی حیا مسکرائی تھی۔ وہ اس کا گریز سمجھ رہی تھی۔ شرٹ کو اسٹینڈ پر ہینگ کر کے وہ کمرے میں آئی۔

” مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ہائثم! میری طرف سے تمہیں اجازت ہے اور میں تحریری اجازت نامہ دینے کو بھی تیار ہوں “ شائستہ بیگم نے ہاتھ جھلا کر اسے دفع دور کیا تھا۔ ہائثم نے ہونٹ کاٹتے بےبسی سے حیا کو دیکھا اور پھر اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ یہ طے تھا فیصلہ ماں کو کرنا تھا ہمیشہ کی طرح لیکن وہ اس بار کے فیصلے پر کانپ اٹھا تھا۔ کچھ بھی تھا بس اتنا تھا کہ وہ حیا جہانگیر جس سے اس نے بےتخاشا محبت کی تھی وہ اس کی تھی اور چاہے حیا جہانگیر نے عمر سلطان سے بےتخاشہ محبت کی تھی لیکن وقت کچھ یوں تھا کہ اب صرف اور صرف ہائثم نوید اس کا تھا۔

                 ★★★★★★★★★★★

بےبس نگاہوں سے سارا دن حیا کو تکتا وہ اگلے دن ماں کے آگے سر جھکا کر اسلام آباد واپس چلا گیا تھا۔ شائستہ بیگم بیٹے کے اقرار پر خوشی سے پھولے نہ سماتی سیدھی اپنی نند کے گھر جا پہنچی تھیں۔ حیا کو تو کوئی اعتراض تھا ہی نہیں۔ وہ دیا کو جانتی تھی اور ایسا تھا کہ جب وہ پاکستان آئی تھی تو شائستہ پھپھو کے گھر میں یہ چھوٹی شرمائی لجائی سی لڑکی اسے بہت پسند آئی تھی اور گزرتے وقت کے ساتھ حیا نے اس کی آنکھوں میں امڈتے محبت کے ہزار رنگ بھی دیکھے اور ہائثم نوید کی بےزاری بھی دیکھی لیکن اب جب پھپھو نے کہا تو حیا کو لگا کسی کو تو محبت ملنی چاہییے۔ اب سب حالی ہاتھ رہ جائیں گے تو محبت پڑھائے گا کون۔

شائستہ بیگم رشتہ طے کر آئی تھیں اور اب پورے محلے میں مٹھائی بانٹنے کے بعد ریسیور کان سے لگائے کسی سہیلی کے ساتھ جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔

” ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم صائمہ! بس میں چاہتی ہوں میرا بیٹا خوش رہے اور منحوس لوگوں سے دور ہو رہے۔ منحوس کلموہی میرا ایک بیٹا تو کھا گئی دوسرا بھی ہڑپنے کے چکر میں ہے لیکن میں ایسا ہونے نہ دوں “ آواز کو جان بوجھ کر اونچا کرتے وہ اس کو تکلیف دینا چاہ رہی تھیں۔

پونچھا لگاتی حیا کے ہاتھ پل بھر کو رکے اور وہ مزید رگڑ رگڑ کر فرش صاف کرنے لگی۔ کبھی کبھی تو شائستہ بیگم کی باتوں پر اس کے کانوں سے دھواں نکل آتا تھا لیکن ایک شے تھی برداشت جو اسے ہر حال میں کرنا تھا۔

” ہاں اتنی سوہنی ہے میری دیا بیٹی اور اوپر سے کم عمر بھی ہے۔ میرے بیٹے کے ساتھ اچھی لگتی ہے “ ان کا نشانہ اب حیا کی عمر تھی جو بہت ذیادہ تو نہیں تھی لیکن ہائثم سے تو ذیادہ ہی تھی۔ ہونٹ کاٹتے اس نے پونچھا نچوڑ کر دیوار پر ڈالا اور پنکھا فل سپیڈ سے چلا دیا۔

” ارے منحوس عورت! تم چاہتی ہی یہی ہو میں مر جاؤں تا کہ اس گھر پر راج کر سکو “ جنوری کا مہینہ اور کڑک دھوپ میں بھی بھلا کی سردی۔ شائستہ بیگم کی بوڑھی ہڈیاں کانپ اٹھی تھیں۔ حیا زیرِ لب مسکرائی تھی مگر بولی کچھ نہیں اور نہ ہی پنکھا بند کیا۔ شائستہ بیگم نے ریسیور کریڈل پر رکھا اور تخت کے نیچے پڑا اپنا جوتا اٹھا کر تاک کر حیا کا مارا جو سیدھا حیا کی کمر میں لگا تھا۔ وہ کراہ کر رہ گئی کہ پھپھو کا آخری ہتھیار تشدد ہی ہوتا تھا۔ حیا نے آگے بڑھ کر پنکھا بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب شائستہ بیگم نے اسے پکارا۔

” اے لڑکی کہاں جا رہی ہے وہ جو کچن میں برتنوں کا ٹوکرا پڑا ہے وہ کون دھوئے گا “

” پھپھو پچھلی پگڈنڈی سے آنے والا پائپ ٹوٹ گیا ہے اس لیئے پانی نہیں آ رہا ٹینکی میں۔ تھوڑد سا پانی ٹھا فرش دھو دیا اب پانی آئے تو برتن دھو دوں گی “ حیا نے تفصیل سے بتایا اور جانتی تھی اب آگے سے شائستہ بیگم کا جواب کیا ہو گا اور حسبِ معمول انہوں نے کہا۔

” تو کیا ان ہٹے کٹے ہاتھوں سے میری قبر کھودو گی۔ جاؤ اوپر کھیتوں میں جو چشمہ ہے وہاں سے پانی لاؤ اور برتن دھو دو “ حیا ہونٹ کاٹتے سر اثبات میں ہلا کر رہ گئی اور کرتی بھی تو کیا کرتی۔ یہاں سے بھاگنے کو دل کرتا تھا لیکن بھاگتی تو جاتی کہاں۔ کشمالہ ساری دولت پر سانپ بن کر بیٹھی تھی اور کسی صورت حیا کی شکل میں مصیبت اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اور رہ گیا عمر سلطان تو وہ چاہ کر بھی اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اگر چلی جاتی تو سماج اسے جینے نہ دیتا۔ وہ سماج جو اسے پہلے ایک قاتلہ کہتا ہے پھر بدکردار عورت کہے گا۔

اس نے سفید دوپٹہ سٹینڈ سے اٹھا کر مفلر کی طرح گلے میں ڈالا اور پانی کی بالٹی اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھی جب پھر سے شائستہ بیگم کی آواز نے اس کے قدم روکے۔

” ساتھ جگ بھی لیتی جاؤ۔ چشمے کا پانی بڑا میٹھا ہے۔ میرا لال شربت پینے کو دل کر رہا ہے “ نئی فرمائش خاضر تھی۔ حیا نے کچن سے جگ لیا اور گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر کھیتوں میں سے چھوٹی سی پگڈنڈی سے چلنے لگی۔

اس کے ایک ہاتھ میں پانی کی بالٹی تھی اور دوسرے میں جگ۔ سر جھکا ہوا تھا اور نگاہیں وہ اپنے قدموں پر جمائے چل رہی تھی۔ اسے اس کا ماضی ہر وقت پریشان کرتا تھا جو بہت خوبصورت تھا اور جب وہ پہلی بار ہائثم کے گاؤں آئی تھی تو بڑا پسند آیا تھا اسے لیکن اب سمجھ آئی تھی وہ صرف پسند آنے کی حد تک تھا اگر اس جیسی شہروں کی باسی یہاں رہے تو بڑا برا ہے یہ گاؤں لیکن پھر بھی وہ دو سال سے یہاں رہ رہی تھی تو بس وہ بہت بےبس تھی اور اس کو وہ دن پھر سے یاد آیا جب عمر سلطان اس سے ٹکرایا تھا۔ جانے وہ کیونکر آیا تھا؟

حیالوں میں گم وہ چشمے پر پہنچ چکی تھی۔ یہ چشمہ کھیتوں کے بیچوں بیچ بنا ہوا تھا اور گاؤں والوں نے اس چشمے کے آس پاس کے حصے کو پختہ کر کے ایک صاف لوہے کا پائپ لگا دیا تھا جس سے شفاف پانی آتا تھا۔

اس نے بالٹی پائپ کے نیچے بھرنے کے لیئے رکھی اور خود ایک طرف پڑے پتھر پر بیٹھ گئی۔ آنسوؤں سے دھندلاتی آنکھوں کے سامنے ایک دھندلا سا منظر ابھرا۔ جب وہ دوسری بار یہاں آئی تھی۔

سرخ جینز کے ساتھ اس نے سرخ لانگ شرٹ پہن رکھی تھی اور سفید دوپٹہ مفلر کی طرح گلے میں لٹکایا ہوا تھا۔

” تمہارے چشمے کا پانی کتنا میٹھا ہے ارحم “ ہاتھوں کا پیالہ بنائے وہ چشمے کے پائپ سے پانی پی رہی تھی اور ارحم مسکراتے ہوئے اسے تک رہا تھا۔

” میرا چشمہ نہیں ہے گاؤں والوں کا چشمہ ہے “

” افف تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے میں اپنے نام کروانا چاہ رہی ہوں اسے “ اس نے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے تھے۔

” ایک بار کہہ دو دنیا تمہارے نام کر دوں “ وہ بڑبڑایا تھا اور اس کی بڑبڑاہٹ اتنی ضرور تھی کہ حیا نے سن لی تھی اور یہ نہیں تھا کہ وہ سن کر سمجھی نہیں تھی۔ وہ میچور تھی سب سمجھتی تھی اور سوچ لیا تھا وہ عمر سلطان کو سب سے ملوائے گی۔

” بھابھی! بھابھی!۔۔۔۔“

وہ یک دم ماضی سے باہر آئی تھی۔ کوئی اسے پکار رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا سامنے کاشان کھڑا تھا۔ وہ ہائثم کا دوست تھا اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کر دیتا تھا لیکن پھر شائستہ بیگم نے اسے سختی سے منع کر دیا۔ وہ ہر کام حیا سے لینا چاہتی تھیں تا کہ وہ اذیت میں جیئے اور تنگ آ کر خود کو خود ہی مار ڈالے۔

” آپ جائیں پانی میں گھر لے آؤں گا “ کاشان نے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔

” نہیں میں خود لے جاؤں گی ورنہ پھپھو پھر سے تمہیں ڈانٹیں گی “ اس نے اٹھ کر ایک ہاتھ سے بھری ہوئی بالٹی کا ہینڈل پکڑا اور دوسرے سے جگ اٹھایا۔

” میں صرف دروازے تک لے جاؤں گا اندر آپ لے جائیے گا۔ آنٹی جی کو پتہ ہی نہیں چلے گا “ وہ اس سے بالٹی اور جگ لے کر آگے بڑھ گیا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے پیچھے آنے لگی۔

گھر کے پاس پہنچ کر کاشان نے بالٹی اور جگ اسے پکڑایا جسے لے کر وہ اندر چلی گئی اور کاشان نے جیب سے موبائل نکال کر ہائثم کا نمبر ڈائل کیا۔ دوسری بیل پر کال پک کر لی گئی تو وہ فوراً بولا۔

” اس سے بہتر نہیں تھا تم انہیں جیل میں ہی رہنے دیتے۔ جو قید وہ یہاں کاٹ رہی ہیں وہی وہاں بھی کاٹتیں کم از کم اپنوں سے دکھ تو نہ ملتے انہیں “

” کیا ہوا ہے “ دوسری طرف وہ اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔

” یار محبت کرتا ہے تو ان سے تو پھر اتنی تکلیف میں کیوں رکھا ہوا ہے انہیں۔ خود سے پانی نہ پینے والی لڑکی آج اونچی پتھریلی پگڈنڈیوں سے دور چشموں سے پانی بھر رہی ہے تو کبھی بجلی کی لائن میں لگی بل بھر رہی ہیں تو کبھی سامان کے شاپرز بھر بھر کر لا رہی ہیں۔ کیا ہے تو اور کیا کر رہا ہے تو ان کے ساتھ “ کاشان پھٹ پڑا تھا۔ 

” میں کیا کروں یار۔ محبت اپنی جگہ لیکن میرے بھائی کی قاتلہ ہے وہ اور اگر میں تھوڑا مارجن رکھ بھی لوں تو ماں کے سامنے بےبس ہوں میں “ اس نے اپنی آنکھیں رگڑی تھیں۔ کل سے وہ دیا کا اسٹیٹس بار بار دیکھ رہا تھا جس میں بات پکی لکھا ہوا تھا اور یہ بات اسے اندر سے جلا رہی تھی۔

” تم بےبس نہیں ہو تم سمجھا سکتے ہو آنٹی جی کو اور سمجھاؤ انہیں حیا جہانگیر کے مر مر کے جینے اور پھر مر جانے سے ہائثم نوید واپس نہیں آئے گا۔ حیا جہانگیر مر گئی تو دیکھنا تم محسوس کرو گے ارحم نوید ایک بار پھر مر گیا ہے “

” تو بتا میں کیا کروں “ وہ شدید بےبس تھا۔

” یا پوری طرح سے اپنا یا پوری طرح سے چھوڑ دے۔ خود بھی جی اور انہیں بھی جینے دے۔ ارحم نوید نے محبت کو نہیں جیا تو وہ جو ارحم نوید کی محبت تھی اسے اس کی محبت جی لینے دے۔ اسے عمر سلطان کے پاس جانے دے “ کاشان کے الفاظ اس کا دل چیر گئے تھے کہ بھلا وہ ایسا کیسے کرتا۔ کیسے اپنی حیا کو کسی کو سونپ دیتا۔ اس نے موبائل ٹیبل پر رکھا کال چل تھی اور دوسری طرف سے کاشان ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا لیکن وہ تو کچھ سن ہی نہیں رہا تھا کیونکہ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا۔۔ 

کاشان ٹھیک کہتا تھا وہ اس سے محبت نہیں کرے گی کبھی نہیں کیونکہ وہ عمر سلطان کو نہیں بھلائے گی کبھی نہیں۔ وہ اسے کل کی طرح آج بھی بچہ سمجھتی تھی۔ وہ اس سے چھوٹا تھا۔ وہ اس کی دوست تھی اس پر دھونس جماتی تھی اور بچوں کی طرح لاڈ اٹھاتھی تھی کیونکہ وہ اس سے چھوٹا تھا اور عمروں کا فرق دلوں میں بڑا فرق ڈال دیتا ہے۔ وہ ایک بچے سے محبت نہیں کر سکتی تھی اور یہ بھی سچ تھا وہ محبت کی سلطنت ہائثم نوید کی تھی لیکن اس سلطنت کی ملکہ اس کی نہیں تھی۔ عشق اس کے لیئے بنا تھا مگر حیا جہانگیر اس کے لیئے نہیں بنی تھی۔

                  ★★★★★★★★★★★

جنوری کی ایک نئی سرد صبح طلوع ہوئی تھی۔ بےحد ٹھنڈی اور پرکشش۔ شائستہ بیگم اپنے تخت پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ وہ شائستہ بیگم کو ناشتہ دینے کے بعد صحن سے جھاڑو لگا رہی تھی کہ جب دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جھاڑو سائیڈ پر رکھا اور نلکے سے ہاتھ دھو کر سر پر باندھا دوپٹہ اتار کر مفلر کی طرح گلے میں لپیٹا اور دروازہ کھولا۔ سامنے کاشان کھڑا تھا اور اس کے چہرے کے تاثرات کچھ ایسے تھے جیسے کچھ کہنا چاہ رہا ہو کہہ نہ پا رہا ہو۔ دونوں ہاتھوں کو مسلسل ایک دوسرے میں مسلتے ہونٹ کاٹتے وہ کنفیوز تھا۔ حیا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ایک لمبا سانس خارج کر کے خود کو پرسکون کیا اور پھر گویا ہوا۔

” عمر سلطان آپ سے ملنا چاہتا ہے “ اب کاشان سی حالت حیا کی ہوئی تھی۔ اسے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ کاشان عمر سلطان کی بات کر رہا ہے کیونکہ ارحم نوید قتل کیس دوران جو نہیں جانتا تھا وہ بھی حیا جہانگیر اور عمر سلطان کی محبت سے واقف ھو گیا تھا۔ اسے حیرت اس بات پر ہوئی کہ عمر سلطان تو کافی دن پہلے اس سے ٹکرایا تھا تو وہ ابھی تک یہیں کیوں تھا اور اگر تھا تو وہ کیونکر آیا ہوا تھا؟

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کاشان سے کیا پوچھے۔

” یاد ہے عمر سلطان آپ کو؟ “ اس کے تاثرات سے لگا جیسے وہ پوچھنے کو ہو کہ کون عمر سلطان۔

” آج یاد آ گیا ہے ورنہ کل تک بھولے بیٹھی تھی۔ تم بتاؤ وہ یہاں کیا کر رہا ہے اور کیوں ملنا چاہتا ہے وہ مجھ سے “ وہ خود کو سنبھال چکی تھی اور یہ بھی مان چکی تھی اس کی قسمت میں محبت نہیں لکھی گئی تھی تو لازم تھا وہ محبت پانے کو رسوا نہ ہو۔

” سِرن کے کنارے والی زمینیں خرید لی ہیں انہوں نے۔ ٹوریسٹ پوائنٹ بنانا چاہتے ہیں وہ یہاں۔ اس لیئے رکے ہوئے ہیں اور آپ سے کیوں ملنا چاہتے شاید یہ سوال پوچھنے والا نہیں ہے۔ شاکلہ کی جھیل پر وہ شام کو آپ کا انتظار کریں گے۔ اگر دل مانے تو آ کر مل لیجئے گا “ وہ کہہ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی پلٹ گیا اور وہ وہیں دروازے میں کتنی ہی دیر کھڑی رہی جب شائستہ بیگم نے آواز کی تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔ دروازہ بند کر کے وہ اندر آئی اور سیدھا کمرے میں گھس گئی۔ جھاڑو آدھے میں ہی رہ گیا تھا۔ شائستہ بیگم نے حیرانی سے اسے دیکھا کہ ان دو سالوں کے درمیان وہ ہر کام کو مکمل کرنے لگ گئی تھی تو بھلا آج کچھ ادھورا رہ گیا تھا تو مطلب کچھ ادھورا تھا جو پھر سے لوٹ آیا تھا۔

                  ★★★★★★★★★★★

چمکتا سورج غروب ہوا تو چاند آسمان پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگانے لگا۔ ہائثم نوید کے گاؤں میں رات اتر رہی تھی اور اس اترتی رات میں کوئی تھا جو شاکلہ کے کنارے بیٹھا منتظر تھا کسی کا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں آئے گی۔ اس کی نگاہیں کبھی پانی تو کبھی شاکلہ کے اطراف میں سر سبز قطعوں پر جا ٹھہرتیں جو رات میں بھی بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔ شاکلہ کے کنارے لگے سن فلاورز خود کو حول میں بند کر چکے تھے۔ 

شام کا سرمئی اندھیرا سیاہ ہو چکا تھا لیکن وہ جس کا منتظر تھا اس نے آنا تھا اور نہ ہی وہ آئی۔ سردی کی شدت بڑھنے لگی تو وہ وہاں سے اٹھ گیا اور پتھر پر پرا اپنا جیکٹ اٹھا کر ایک کندھے پر ڈالا اور تھکے ماندے مسافر کی طرح واپس پلٹ گیا۔ اس کی چال می؟ واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔ اس کی امیدیں ٹوٹ چکی تھی اور دل میں ارمانوں کا جنازہ پڑا تھا تو بھلا وہ کیسے شان سے اکڑ کر چل پاتا۔

وہ اپنے فام ہاؤس پر پہنچ چکا تھا جس کی تعمیر پچھلے ایک سال سے جاری تھی لیکن مکمل نہیں ہوئی تھی اور اب وہ اسے مکمل کروانے آیا تھا تو دراصل وہ حیا کی قریب ہر گھڑی قریب رہنے آیا تھا۔

یخ ہوا تلے کئی ایکڑ پر پھیلی زمینوں کے درمیان بہت خوبصورت سا فام ہاؤس ایستادہ تھا۔ زیرِ تعمیر وہ فام ہاؤس ابھی صرف ایک دو بندوں کے رہنے کے قابل تھا۔ وہ چھوٹا سا فام ہاؤس شاکلہ کے کناروں سے ذرا فاصلے پر تھا اور اس کے آگے لگی سفید باڑ سے نکلتا لکڑی کا پل شاکلہ کے درمیان تک جاتا تھا اور وہاں کھڑے ہو کر قدرت کے حسن کو دیکھا جا سکتا تھا۔

لکڑی کی باڑ پر چھوٹا سا دروازہ موجود تھا۔ ذرا آگے گھاس کے قطعے پر ِاک کار پارک تھی۔۔ سرخ کار۔ وہ سرخ جو حیا کا رنگ تھا۔

وہ باڑ کا دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا اور سیدھا کمرے میں چلا گیا۔ یہ کمرہ شاکلہ میں اس کی رہائش تھی۔ اس نے جیکٹ اتار کر اسٹینڈ پر ڈالا اور جوتے اتار کر بیڈ پر اوندھے منہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ بند آنکھوں سے پانی کی لکیر نکل کر کنپٹی سے بہنے لگی۔ وہ اسی پوزیشن میں لیٹا تھا کہ پینٹ کی جیب میں رکھا موبائل فون زور سے چنگھاڑا۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ موبائل جیب سے نکالا۔ کشمالہ کالنگ لکھا آ رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے رگڑ کر چہرے کو صاف کیا اور آواز کو متوازن کرتے کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگایا۔

” تم ابھی تک شاکلہ کی ہواؤں میں ناکام محبت کی آہیں بھر رہے ہو “ دوسری طرف کشمالہ تھی۔ حیا جہانگیر کی بہن کشمالہ جہانگیر اور اس کی آواز سے لگ رہا تھا وہ شدید غصے میں ہے۔

” کشمالہ میرا بزنس پروجیکٹ ہے یہاں اسی کو مکمل کرنے آیا ہوں “ عمر سلطان کا لہجہ بھی مظبوط ہو چکا تھا۔ کچھ دیر پہلے والا ٹوٹا پھوٹا عمر سلطان کہیں چھپ گیا تھا۔

” عمر سلطان تمہیں حیا جہانگیر اب نہیں مل سکتی۔ کیوں اپنی زندگی برباد کر رہے ہو۔ بھول جاؤ اسے۔ تمہارے وہاں ہونے سے وہ بھی ڈسٹرب ہو گی۔ تم واپس آ جاؤ۔ پروجیکٹ کو یہاں سے بھی ہینڈل کر سکتے ہو تم “ کشمالہ تھوڑی نرم پڑی تھی۔

” میں یہاں حیا جہانگیر سے ملنے آیا ہوں نہ حیا جہانگیر کے لیئے آہیں بھر رہا ہوں اور جہاں تک پروجکٹ کی بات ہے تو یہ تم مجھے نہیں بتاؤ گی کہ میں کیا کروں یا نہ کروں۔ تم اپنے کام سے کام رکھو “ وہ فون بند کر چکا تھا۔ وہ کشمالہ کے ہر وقت کے لیکچر سن سکتا تھا نہ ہی ان لیکچرز سے اس کے دل میں موجود حیا کے لیئے دیوانگی کم ہو سکتی تھی سو بہتر تھا وہ کچھ کہتا اور نہ سنتا۔

کال ڈسکنکٹ ہو چکی تھی اور اب وال پیپر پر حیا جہانگیر کی تصویر نمایاں تھی۔ سرخ ہیئر بنیڈ سر پر باندھے لال گلاب کو ناک کے قریب کر کے سونگھتے اس کی تصویر اتنی دلکش تھی کہ اس کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں کہ وہ جتنی بھی دلکش تھی اس کی تو نہیں تھی اور یہ بات اسے حدرجہ رلاتی تھی۔

                  ★★★★★★★★★★★

آج جمعرات تھی اور ہر جمعرات نوید ہاؤس میں شام کو کچھ نہ کچھ ایسا بنتا تھا جس پر دعا کر کے اسے محلے میں بانٹا جاتا تھا۔ حیا نے آج حلوہ بنایا تھا جسے بانٹنے وہ اب گھر سے باہر نکلی تھی اور اب سارے محلے میں دینے کے بعد وہ کاشان کے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ کاشان کے گھر میں کاشان کے علاوہ اس کی ایک چھوٹی بہن اور ماں تھیں۔ اس نے حلوے کے پلیٹ کاشان کی ماں کو پکڑائی جب کاشان نے اس کے ہاتھ میں فون لا کر تھما دیا۔ حیا نے بدک کر کاشان کو دیکھا۔

” میرے پاس عمر سلطان کا کوئی پیغام لے کر مت آؤ کاشان! نہ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں اور نہ ہی بات کرنا چاہتی ہوں “ حیا نے غصے سے کہہ کر فون کاشان کی طرف بڑھایا تھا۔

” کال پر ہائثم ہے بھابھی! “ کاشان نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیریں کہ ہائثم سن چکا تھا اور اب اسے بخشنے والا نہیں تھا۔ حیا نے ایک نظر فون کی سکرین کو دیکھا جہاں " haism calling" لکھا آ رہا تھا۔ اس نے ایک تیز نظر کاشان پر ڈالی اور سائیڈ پر ہو کر فون کان سے لگایا۔

” کیسی ہیں آپ “ دوسری طرف موجود شخص کی آواز میں زمانوں کا درد تھا۔ حیا بےچین ہو کر رہ گئی۔

” ٹھیک ہو “ مختصر سا جواب دیا۔

” ماں نے میری شادی کی تاریخ طے کر دی؟ “ وہ پوچھ رہا تھا یا اپنی اذیت بیان کر رہا تھا۔

” ہاں تمہیں پتہ ہے دیا بہت خوش ہے۔ وہ تم سے بہت مخبت کرتی ہے “

” تم ماں کے ساتھ دیکھ لینا جس جس شے کی ضرورت ہو۔ میں پیسے بھجوا دوں گا “ وہ کہنا تو چاہتا تھا کہ میں خوش نہیں ہوں حیا اور میں تم سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ کہہ نہیں پایا تھا۔

” تم کب آ رہے ہو؟ “

” چھٹی کے لیئے درخواست دی ہے۔ جلد آؤں گا “ ہائثم نے کہا۔

” اچھا چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔ پھپھو انتظار کر رہی ہوں گی “ اس نے کہہ کر فون کاٹنا چاہا تھا کہ ہایثم گویا ہوا۔

” عمر سلطان ابھی تک وہی ہے “

” مجھے نہیں پتہ “

” جس سے محبت ہوتی ہے اس کا پتہ ہوتا ہے پھر وہ کہاں ہے “ ہائثم نے کہا۔

” میرے اندر تو ہر جذبہ اس دن اپنی موت آپ مر گیا جب مجھے بتایا گیا کہ میں نے ایک شخص کو مارا ہے اور اس شخص کی موت کے لیئے نوید ہاؤس جب مجھے عمر قید سنائی گئی تو محبت کے ساتھ ہر جذبہ اس دن مر گیا اور وہ سارے نام بھول گئے جن سے محبت تھی “ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اذیت بیان کرنے لگی تھی۔

” محبت اپنا انتقام تو لیتی ہے نا حیا “ وہ طنزاً گویا ہوا کہ تم نے محبت کو مارا تھا تو لازم تھا محبت بھی تمہارے لیئے مر جاتی۔

” میں نے ارحم نوید کو نہیں مارا۔ کتنی بار بتاؤں تمہیں “ وہ دبا دبا سا چیخی تھی۔

” مجھے تمہارے کہے پر یقین آ جائے لیکن پھر سوچتا ہوں اور کون ہے جو میرے بھائی کو مار دے کہ اس نے تو فقط تم سے محبت کی تھی “ وہ ان دو سالوں سے خود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ حیا نے غصے سے فون بند کیا اور کاشان کو پکڑاتے بنا حلوے کے برتن واپس لیئے تیز تیز وہاں سے نکلتی چلی گئی اور پیچھے سے کاشان کی ماں آوازیں کرتی رہ گئی۔۔

                  ★★★★★★★★★★★

وہ بجلی کی بِل بھرنے آئی تھی اور اب لائن میں لگی کھڑی تھی جب اس کے کندھے پر لٹکتے بیگ میں موبائل تھرایا۔ اس نے بیگ کھول کر موبائل نکالا۔ ہائثم کی کال تھی یقیناً اس نے شائستہ بیگم سے بات کرنے کو فون کیا تھا کیونکہ یہ موبائل شائستہ بیگم کا تھا جس میں کچھ خرابی ہو گئی تھی تو انہوں نے ٹھیک کروانے کے لیئے دیا تھا۔ وہ ابھی اسی شش و پنج میں تھی کہ کال اٹینڈ کرے یا نہ کرے کہ موبائل چپ ہو گیا اور اس کا نمبر بھی آ گیا۔ وہ بل بھر کر باہر نکلی تو موبائل ایک بار پھر تھرّانے لگا۔ اس نے کال ریسیو کر کے موبائل کان سے لگایا اور بولی۔

” ہیلو “

” حیا آپ۔ ماں کہاں ہیں؟ “ اس نے پوچھا۔

” موبائل خراب تھا بازار آئی تھی تو ابھی ٹھیک کروایا ہے “ حیا نے بتایا۔

” اچھا کیسی ہیں آپ “ 

” یہ پوچھنے کی فارمیلیٹی کیوں کرتے ہو جب جانتے ہو کہ میں ٹھیک نہیں ہوں “ وہ سڑک کے کنارے چلنے لگی۔

” کیا آپ فرق پڑ رہا ہے میری شادی سے “ وہ خوشفہم ہوا کہ وہ ابھی ہاں کہہ دے گی لیکن وہ بولی تو تمام خوش فہمیوں پر اوس ڈال دی۔

” نہیں “

” لیکن مجھے فرق پڑ رہا ہے حیا “ وہ اذیت بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا اور حیا جان چکی تھی جان کا دشمن جان بنا بیٹھا تھا اسے۔

” دیکھو ہائثم! میری زندگی قید سے قید تک کی کہانی ہے اور اس قید کو مجھے اکیلے ہی کاٹنا ہے۔ تم میرے اچھے دوست ہو میں نہیں چاہتی تمہاری زندگی میری وجہ سے برباد ہو “ حیا نے اسے سمجھانا چاہا۔

” آپ کے بغیر بھی تو زندگی برباد ہی ہے حیا “ یہ پہلا اظہار تھا جو دو سال کی نفرت کے بعد کیا گیا تھا جو دو سال کی اذیت کے بعد کیا گیا تھا۔ حیا نے گہری سانس لی اور سڑک کنارے لگے درخت کے نیچے جا بیٹھی۔

” محبت ایک بار ہی ہوتی ہے ہائثم اور میں اپنے حصے کی محبت کر چکی ہوں اور مجھ سے اس زندگی میں نہیں ہو گی “ اس کا لہجہ سمجھاتا ہوا تھا۔

” محبت میں کر لوں گا حیا “ اس نے التجا کی تھی۔

” حیا جہانگیر تمہارے لیئے نہیں بنائی گئی ہائثم نوید اس بات کو مان کیونکر نہیں لیتے۔ وہ جو ایک تم سے محبت کرتی ہے اس کی محبت کو زندگی دے دو۔ دیا کا دیا بجنے سے بچا لو۔ کسی ایک کو محبت راس آنی چاہیئے “

” تو وہ مجھ کو راس آ جائے تو محبت کا کیا جاتا ہے یار “ اذیت تھی اس کے لہجے میں۔

” میں ایک قاتلہ ہوں اور میری یہی غلامی کی زندگی ہے اور میں خوش ہوں کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ تم خوش رہو گے تو مجھے خوشی ہو گی۔ وہ جو نوید ہاؤس کا ایک مکین میری وجہ سے ہر خوشی سے محروم ہو کر مر گیا تو اب میں چاہتی ہوں کہ تم زندگی کی خوشیوں سی محروم نہ رہو “ حیا کو بس فکر تھی کہ اس کا دوست خوش رہے۔ وہ دوست جو اس کا شوہر تھا۔

” تمہیں مجھے بانٹ کر ذرا دکھ نہیں ہو گا “

” تم میرے ہوتے تو مجھے دکھ ہوتا۔ دوست کو بانٹنے سے کوئی دکھ نہیں ہوتا “ حیا نے کہا۔

” میں تو خود کو بٹا ہوا ہی سمجھوں گا یار اور یاد رکھنا بٹا ہوا مرد کانچ جیسی عورت کو پتھر میں ڈال دیتا ہے۔ یہ نہ وہ دیا جسے تم روشن رکھنا چاہتی وہ پتھر ہو جائے “ ہائے کیا اذیت تھی اس لہجے میں کہ محبت کاٹ رہی ہے اسے۔

” وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ انسان سب کچہ بھول جاتا ہے تم بھی بھول جاؤ گے “

” کیا آپ نے عمر سلطان کو بھلا دیا؟ “ سوال تھا یا پتھر اسے بڑی زور کا لگا تھا۔ اس کی آنکھ میں کچھ چبھا تھا شاید وہ عمر سلطان کی یاد تھی۔ گھبرا کر اس نے جلدی سے فون بند کر کے موبائل بیگ میں رکھا اور چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ کئی آنسو اس کی آنکھوں سے بہے تھے اور قریب تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی کہ اس کے پشت پر آہٹ ہوئی اور پھر کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ بدک کر پلٹی اور سامنے عمر سلطان کو کھڑے دیکھ کر پتھر ہوئی تھی۔

” دیکھو تم مجھے ہر جگہ دکھائی دیتی ہو “ کانچ ٹوٹ کر کیسے بکھرتا ہے کوئی اس وقت عمر سلطان کو دیکھتا تو جان جاتا۔ حیا فوراً سے کھڑی ہوئی اور جانے لگی تھی کہ عمر سلطان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

” سنو حیا! محبت کرنے والوں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے “ وہ التجا بھرا لہجہ تھا اور التجا بھی ایسی کہ دیکھنے سننے والے کلیجہ نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیتے۔

” مجھے جانے دو “ اپنی کلائی چھڑاتے وہ منمنائی تھی۔

” چلی ہی تو گئی ہو۔ میں تو بس ان فاصلوں کو ماپنے آیا ہوں جو تمہارے اور میرے درمیان حائل ہیں۔ ان کو فاصلوں کو ماپ پر ٹاپوں گا اور تمہیں اپنی دنیا میں لے جاؤں گا “ ہائے وہ لہجہ قربان ہونے جیسا تھا اور کون تھا جو اس لہجے پر قربان نہ جاتا۔

” تم کوئی ٹین ایجر لڑکے نہیں ہو جو یوں ضد بھری باتیں کر رہے ہو۔ ایک میچورڈ مرد ہو یہ باتیں تمہیں سوٹ نہیں کرتی اور وہ جو تمہارے اور میرے درمیاں فاصلے ہیں وہ اتنے ہیں کہ انہیں ماپا نہیں جا سکتا اگر ماپ بھی لو تو انہیں ٹاپتے تمہاری زندگی گزر جائے گی لیکن فاصلے ختم نہیں ہوں گے “ اپنی کلائی چھڑاتی وہ آگے بڑھی تھی جب عمر سلطان نے کچھ ایسا کہا کہ اس کے قدم زنجیر ہوئے۔

” فاصلوں کو ماپا نہیں جا سکتا تو کیا ہوا وہ جو ایک دیوار بنا فاصلہ ہے اسے راستے سے ہٹایا بھی تو جا سکتا ہے “ اس کا لہجہ پلوں میں بدلتا تھا اور اس گھڑی وہ بکھرے ہوئے عمر سلطان نے ضدی عمر سلطان بن گیا تھا جس کے لہجے اور آنکھوں کے مطلب سمجھتے حیا جی جان سے کانپی تھی اور وہی وہ پل تھا جب وہ پلٹی اور ایک زوردار تھپڑ عمر سلطان کے گال پر دے مارا۔

” وہ جو ایک میری وجہ سے مرا ہے بس وہی ایک مرا ہے اب کوئی اور میری وجہ سے نہیں مرے گا اور ہائثم نوید سے دور رہنا عمر سلطان! ورنہ خون پی جاؤں گی میں تمہارا اور ایک بات میری یاد رکھنا ارحم نوید کے مرنے پر حیا جہانگیر ہائثم نوید کو نہیں ملی اور ہائثم نوید مر گیا تو عمر سلطان کو پھر بھی حیا جہانگیر نہیں ملے گی “ وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتے تیز تیز واپک پلٹ چکی تھی اور وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے کتنی ہی دیر اس کے قدموں کے نشان دیکھتا رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ حیا جہانگیر اسے تھپڑ مار کر چلی گئی تھی۔ اس کے اندر دکھ ، تاسف اور جانے کیا کیا امڈنے لگا تھا جب جیب میں رکھا فون بج اٹھا۔

” تم لوٹ کر کب آؤ گے عمر سلطان “ اس نے فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف کشمالہ جہانگیر تھی۔ وہی ضدی لہجہ لیئے ہوئے۔

” شام کو نکل جاؤں گا شاکلہ سے۔ فاصلے ماپے نہیں جا سکتے “ اس نے دھیرے سے کہتے فون بند کیا اور اس پتھر پر بیٹھ گیا جہاں کچھ دیر پہلے حیا جہانگیر بیٹھی تھی۔ وہ حیا جہانگیر جو ماروی تھی اور فقط عمر سلطان کی ماروی تھی۔۔

                  ★★★★★★★★★★★

دو مہینے تیز رفتاری سے گزرے اور اتنی تیز رفتاری سے کہ ہائثم نوید کی شادی کا دن آ گیا۔ وہ جب سے چھٹی لے کر گاؤں آیا تھا مسلسل ٹال مٹول کر رہا تھا اور جس کے لیئے کر رہا تھا اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ہائثم نوید کی شادی ہو نہ ہو اسے حیا جہانگیر نہیں مل سکتی اور اس بات کو جان کر وہ اذیتوں میں ڈوب کر ابھرا ماں کے سامنے راضی گیا تھا۔

یہ مارچ کا مہینہ تھا۔ سردی کی شدت ابھی تک برقرار تھی اور اس سرد موسم کی ایک شام ہائثم نوید اور دیا جمشید کا نکاح ہو گیا وہ نکاح جس میں دیا جمشید خوش تھی ، شائستہ نوید خوش تھی ، حیا جہانگیر خوش تھی اور کوئی خوش نہیں تھا تو وہ ہائثم نوید تھا۔

شائستہ بیگم نے دل کے سارے ارمان نکالے تھے شادی پر۔ وہ بےانتہا خوش تھیں اور یہ خوشی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔ چھوٹا سا نوید ہاؤس کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ برآمدے میں برقی قمقمے لگے ہوئے تھے اور  ان سنہری قمقموں تلے دیا جمشید سُرخ لباس میں دمک رہی تھی ، وہ سرخ لباس جو حیا جہانگیر کا من پسند تھا لیکن ہمیشہ کی طرح وہ سفید سادہ لباس میں تھی لیکن خلافِ معمول بال کھول کر کندھوں پر بکھیرے ہوئے تھے۔ وہ سوگ میں تھی اور یہ سوگ ہر خوشی غمی میں اس پر فرض تھا۔

کئی رشتے داروں نے حیا کو دیکھا تو رُخ پھیر لیا۔۔ ارحم قتل کیس کے بعد وہ ان کے لیئے قابلِ نفرت ہو گئی تھی۔ کچھ رشتہ داروں نے تاسف سے اسے دیکھ کر سر جھٹکا جیسے افسوس کرنا چاہ رہے ہوں۔ اس نے بھاری دل اور مسکراتے لبوں کے ساتھ بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا اور برقی قمقموں تلے جگمگاتی دیا کی طرف بڑھی تھی کہ شائستہ بیگم کی آواز پر رک گئی۔

” منحوس عورتیں نئی نویلی دلہن کے پاس نہیں جاتیں اور اگر وہ قاتلہ ہو تو مزید دوری بنانے کی ضرورت ہے “ حیا کی گردن شرمندگی سے جھک گئی تھی اور وہیں کئی رشتہ دار کانوں میں سرگوشیاں کرتے پھسپسانے لگے تھے۔ اس کا اور دیا جمشید کا موزانہ کیا جانے لگا اور کسی بھی طرح وہ دیا جمشید سے بہتر ثابت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ سب کی رضامندی اور خوشی سے ہائثم کی زندگی میں شامل ہوئی تھی۔ کاش وہ بھی اتنی ہی عزت سے عمر سلطان کی زندگی میں داخل ہوسکتی اور کاش ارحم نوید نہ مرا ہوتا تو سب کچھ ممکن تھا۔

شائستہ بیگم اور سعدیہ خانم(دیا کی ماں) نے اسٹیج کی طرف بڑھتے نفرت سے اسے دیکھا۔ شائستہ بیگم کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود وہ چلی آئی تھی کہ وہ اپنے دوست کی شادی میں شرکت کرنا چاہتی تھی۔

صوفوں پر براجمان مہمان اسے گردنیں موڑ موڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اسکے رخسار گلابی ہوۓ۔۔ بمشکل مسکراتے ہوۓ وہ پیچھے ہٹ گئی۔۔ ہائثم نے نگاہوں کا زاویہ بدلے بغیر اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔ اس نے ایک جانب رکھا خالی صوفہ دیکھا اور پھر وہاں بیٹھ گئی۔ وہ قاتلہ تھی اور ایک قاتلہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی تھی۔۔ وہ پھر بھی مسکراتی رہی۔۔

یکا یک سب نے دیکھا کہ ہائثم اپنی دلہن کے پہلو سے اٹھا اور تیزی سے گھر سے نکلتا چلا گیا۔ کئی گردنوں نے مڑ کر ہائثم کو جاتے دیکھا اور شائستہ نوید اور سعدیہ خانم نے نفرت سے حیا کو دیکھا۔ دیا جمشید نے حیا جہانگیر کے روشن چہرے پر ایک نظر ڈالی اور سر جھکا دیا۔ کئی آنسو ٹپ ٹپ ہاتھوں پر گرنے لگے تھے۔

                  ★★★★★★★★★★★

مہمان آہستہ آہستہ جا چکے تھے اور نئی نویلی دلہن شائستہ بیگم کے تخت پر سر جھکائے بیٹھی اور شائستہ بیگم اور سعدیہ خانم چلے پیر کی بلی کی طرح پورے گھر میں گھوم رہی تھیں۔ ہائثم کو گئے تین گھنٹے ہو گئے تھے اور اس کا نمبر بھی بند جا رہا تھا۔ حیا ایک کونے میں سمٹی ہوئی بیٹھی تھی کہ سعدیہ خانم اور شائستہ بیگم کی نفرت بھری نگاہیں اسے اندر سے کاٹ رہی تھیں اور کبھی دیا جمشید کو دیکھ کر اس کا دل مٹھی میں آ جاتا تھا۔

کچھ وقت مزید گزرا تھا کہ دروازہ کھلا اور وہ واپس آ گیا۔ ماتھے پر بکھرے بال اور آنکھوں میں چمکتی نمی اس مسافر کی تکلیف کا پتہ دیتی تھی۔ شائستہ بیگم فوراً سے بیٹے کی طرف بڑھیں۔

” کہاں تھے میرے بچے ٹھیک ہو نا تم “ شائستہ بیگم نے کہا۔ دیا جمشید نے جھکی گردن اٹھا کر اسے دیکھا جو آج اس کا ہوا تھا لیکن وہ اس کا نہیں ہو سکتا تھا۔۔

” ٹھیک ہو ماں “ اس نے دھیما سا کہا اور خفظ ہو جانے تک حیا کے چہرے کو دیکھا۔ دیا نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا تو کئی آنسو اس کے گالوں پر بہہ گئے تھے۔ یہ دیکھتے شائستہ بیگم تیزی سے حیا کی طرف بڑھی تھیں۔

” کون سے جادو ہیں تمہارے پاس جادوگرنی۔ میرا ایک بیٹا کھا گئی دوسرا بھی مجنوں بنا پھر رہا ہے تمہارے لیئے “ وہ چیخی تھیں۔ حیا ڈر کر پیچھے ہوئے۔

” حیا کو کچھ مت کہیں ماں اس کا کوئی قصور نہیں ہے “ وہ پہلی بار ماں کے سامنے بولا تھا اور بولا تھی حیا جہانگیر کے لیئے تھا تو شائستہ بیگم کا بھڑکنا بنتا تھا۔

” آج بتا دو کس کا قصور ہے۔ اس کا نہیں ہے تو قصور کیا میرے ارحم کا تھا جو وہ مر گیا “ شائستہ بیگم رونے لگی تھیں۔

” ماں جیسے بھی مرا لیکن مر گیا آپ کا ارحم۔ اب آپ اور میں تڑپ تڑپ کر مر جائیں یا حیا کو تڑپا تڑپا کر مار دیں ارحم نوید واپس نہیں آئے گا۔ آپ چاہتی ہو حیا جہانگیر مر جائے لیکن حیا جہانگیر کے مر جانے سے ارحم نوید واپس نہیں آئے گا بلکہ ہائثم نوید بھی مر جائے گا “ شائستہ بیگم کی زبان کو بریک لگا تھا۔ سعدیہ خانم نے ناگواری سے حیا کو دیکھا تھا۔ دیا جمشید کی آنکھوں سے بہتی رم جھم میں تیزی آئی تھی اور حیا وہ تو گنگ رہ گئی تھی۔ اسے انداذہ ہو رہا تھا کہ وہ شاید ہائثم کو پسند آ گئی ہے لیکن محبت کی توقع وہ نہیں کرتی تھی۔

وہ ان سب کو ایسے ہی چھوڑتا تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا حیا بھی اس کے پیچھے ہی کمرے میں گئی تھی اور سرخ جوڑے میں ایک چاند سی لڑکی چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

” تم ٹھیک نہیں ہو ہائثم یہ لو پانی پیو “ حیا نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا تھا جسے اس نے کھینچ کر دیوار پر دے مارا۔ کمرے میں کانچ کے ٹکڑے بکھر کر رہ گئے۔

” ہاں نہیں ہوں میں ٹھیک اور اس کی وجہ تم ہو۔ میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ جو تم نے چاہا میں آباد ہو جاؤں تو سنو میں نے ایک اور لڑکی برباد کر دی “ وہ کنپٹی سہلاتا کرسی پر بیٹھ گیا اور قریب تھا کہ وہ رو پڑتا۔

” سب ٹھیک ہو جائے گا ہم دونوں اچھے دوست تو ہیں ناں اور ہمیشہ رہیں گے “ اس نے ہائثم کے کندھے پر ہاتھ رکھا جسے اس نے فوراً سے پہلے جھٹک دیا۔

” ارے نہیں چاہیئے تمہاری دوستی مجھے اور تم دوست بلکل بھی اچھی نہیں ہو اگر تم اچھی دوست ہوتی تو اتنے سالوں سے اپنے دوست کی آنکھوں میں پنپتے محبت کے ہزار رنگوں کو دیکھ لیتی لیکن تم نے تو کبھی یہ بھی نہیں پوچھا کہ سنو ہائثم تمہیں کسی سے محبت تو نہیں “

” تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ تمہیں اپنے باپ جیسے بھائی کی قاتلہ سے محبت ہے۔ کیا تمہیں حیا جہانگیر سے محبت ہے؟ “ اس نے سوال کیا تھا اور ہائثم کی سانسیں اس سوال پر رکی تھیں اور نگاہیں بس اس چہرے سے ہو ہو کر روئی تھیں۔

” ہاں مجھے تم سے محبت ہے اور بہت محبت ہے “ اس نے برملا اعتراف کیا تھا۔ حیا نے ایک گہری سانس لی۔

” وہ جو تمہارے اور میرے درمیان رشتہ ہے کیا تم اسے آگے بڑھانا چاہتے ہو؟ اگر چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تم جو چاہو گے وہی ہو گا “ وہ خلافِ توقع اتنے آرام سے بولی تھی کہ ہائثم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ حیا اس کی خاموشی سے مطلب اخذ کرتی دروازے کی طرف بڑھی اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ باہر کھڑی شائستہ بیگم اور سعدیہ خانم نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ دیا کسی ہارے ہوئے مسافر کی طرح لڑکھڑاتے قدموں سے اس کمرے کی طرف بڑھ گئی جسے آج کے دن سجایا گیا تھا اور صرف اس کے لیئے سجایا گیا تھا۔

حیا نے دروازہ بند کرنے کے بعد گلے میں ڈالا دوپٹہ اتار کر صوفے پر پھینکا اور کلپ میں لگے بال کھول دیئے۔ ہائثم حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ کیا کر رہی تھی یا کہہ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

” تمہارے اور میرے درمیان جو رشتہ ہے میں اسے آگے بڑھانے کو تیار ہوں اگر یوں تمہاری خوشی ہے تو میں انکار نہیں کروں گی “ اس کی بات ذرا ہائثم کے پلے پڑی تو اس نے بےاختیار اپنی کنپٹی سہلائی اور اٹھ کر صوفے پر پڑا اس کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے کندھوں پر ڈالا۔

” میری خوشی تمہاری خوشی میں ہے اور تمہاری خوشی میرے ساتھ میں نہیں ھے۔ میں نے تمہیں کبھی پانے کا سوچا ہی نہیں۔ تم چلی جاؤ یہاں سے۔ تم عمر سلطان کے پاس چلی جاؤ “ اسے کندھوں سے تھامے وہ کہہ رہا تھا اور وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔

” کیوں جاؤں میں؟ “

” کیونکہ تمہارے ہوتے ہوئے میں اپنے نئے رشتے میں آگے نہیں بڑھ پاؤں گا۔ تم جاؤ یہاں سے کچھ دن بعد بھول جاؤں گا تو دیا کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کروں گا پھر کبھی زندگی کے کسی موڑ پر ملے تو دوستوں کی طرح ملیں گے “ وہ اسے جانے کو کہہ رہا تھا۔ وہ ہر بات کو جانے دے کر اسے جانے کا کہہ رہا تھا۔ حیا نفی میں سر ہلاتی صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ یوں کیسے جا سکتی تھی اور اگر جانا بھی چاہتی تو شائستہ بیگم اسے جانے نہ دیتیں۔۔

                  ★★★★★★★★★★★

دوسری صبح نوید ہاؤس میں ایک اور بھونچال لائی تھی اور وہ بھونچال تھا کشمالہ جہانگیر۔ اس کی گاڑی جب نوید ہاؤس کے گیٹ پر رکی تو زوردار ہارن سے پورا محلہ دہل اٹھا تھا اور اسی زوردار غصے کے ساتھ وہ نوید ہاؤس میں داخل ہوئی تھی۔

دھوپ سینکتی سعدیہ خانم اور شائستہ بیگم نے اسے آتا دیکھا تو ناک منہ چڑھا لیا کہ کشمالہ جہانگیر  حیا جہانگیر سے بہت مختلف تھی۔ وہ کسی کا ادھار رکھتی تھی نہ لخاظ کرتی تھی۔

حیا بکھرے گھر کو سمیٹنے میں لگی ہوئی تھی جب اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی کہ اسے بھیجنے کے بعد وہ دو سال تک یہاں آئی نہیں تھی تو آج کیوں آئی تھی۔

” تمہیں کہا تھا میں نے حیا ان لوگوں پر ذیادہ مہربان نہ ہو غریب لوگ ظرف کے بھی غریب ہوتے ہیں “ شایستہ بیگم کی طرف وہ کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

” زبان سنبھالو لڑکی “ شائستہ بیگم بھی چیخی تھیں۔ ہائثم بھی کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔

” زبان سنبھال کر ہی تو رکھی ہوئی ہے ورنہ جو دو سال آپ نے میری بہن پر ظلم کییے ہیں میں ان کا ایسا منہ توڑ جواب دیتی کہ آپ یاد رکھتی کشمالہ جہانگیر بھی کوئی شے ہے “ وہ بھی اسی انداذ میں بولی تھی۔

” اور جو تمہاری بہن نے ظلم کیا اسے تم نے یاد نہیں رکھا۔ میرا کلیجہ چھلنی کیا ہے تمہاری بہن نے۔ میرے جگر کے ٹکڑے میرے بیٹے کو مارا ہے “ انہیں کشمالہ اپنی منہ پھٹ طبیعت کے باعث بلکل بھی پسند نہیں تھی اور آج تو وہ انہیں اور زہر لگ رہی تھی۔ کشمالہ نے مسکراتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر حیا کو ہاتھ سے پکڑ کر ان کے سامنے کر دیا۔

” یہ سامنے کھڑی ہے حیا جہانگیر آپ کے بیٹے کی قاتلہ۔ جان سے مار ڈالیں اسے اور پھر دیکھیں کیا آپ کا بیٹا لوٹ آیا ہے۔ کیا حیا جہانگیر کی موت سے ارحم۔نوید لوٹ آئے گا۔ نہیں آئے گا پھپھو ارحم نوید واپس نہیں آئے گا بلکہ اگر حیا جہانگیر مرے گی تو آپ کو پتہ چلے گا ارحم نوید اب پوری طرح سے مر گیا ہے اور یاد رکھئیے گا اس بار ہائثم نوید مرے گا۔ حیا جہانگیر کی موت آپ سے ایک اور بیٹا چھین لے گی۔ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا آپ کے “ وہ تھوڑا نرم پڑی تھی۔ شائستہ بیگم کا تو دل دہل گیا تھا اور ہایثم نے جانب کہ سچائی تو بس اسی ایک جملے میں ہے کہ حیا جہانگیر کے ساتھ ہائثم نوید بھی مر جائے گا۔

” کشمالہ کیوں آئی ہو تم یہاں۔ پلیز جاؤ یار “ حیا نے اسے کھینچا تھا مگر وہ ہاتھ چھڑا کر دیا کی طرف بڑھی اور سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔ سرخ لباس کی جگہ اب سادہ سا سوٹ تھا اور کندھوں پر شال اوڑھ رکھی تھی مگر آنسوؤں کے نقوش واضح تھے اور آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔

” تو تم ہو شائستہ نوید کی چہیتی اور نئی بہو۔ اپنی ساس کی طرح تم بھی تو نفرت بھر کر آئی ہو گی یہاں “

” محبت محبوب سے جڑی ہر شے سے محبت کرواتی ہے اور مجھے محبت ہے ہایثم نوید بےتخاشا محبت اور میں پھر ایک ایسی لڑکی سے نفرت کیسے کر سکتی ہوں جس سے میرا محبوب بےانتہا محبت کرتا ہے۔ میں تو ہائثم کی محبت کا ادب کرتی ہوں اور اس سے بھی ذیادہ حیا کا کرتی ہوں “ اس کا لہجہ کشمالہ کی توقعات سے یکسر محتلف تھا۔ حیا کو اپنا آپ مجرم لگا تھا اور ہائثم نگاہیں چرا کر رہ گیا تھا۔

” کچھ سیکھ لیں اپنی بہو سے پھپھو۔ چلیں خیر آپ سیکھتی رہئیے گا ابھی حیا پیکنگ کرو فٹافٹ۔ میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی “ کشمالہ کی بات پر شائستہ بیگم کی آنکھوں سے انگارے نکلنے لگے تھے۔ ہایثم نے نگاہیں جھکا دیں۔

” کیوں جائے گی یہ “ شایستہ بیگم نے کہا۔

” کیونکہ کوئی منتظر ہے اس کا۔ خوشیاں منتظر ہیں حیا جہانگیر کی “ وہ مسکرائی تھی۔ حیا کی آنکھوں کے سامنے عمر سلطان کا وجود گھوما۔

شائستہ بیگم نے رولا ڈال دیا اور پھر کشمالہ کی لاکھ کہنے پر بھی حیا جانے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔ اس نے کہا تھا وہ اس گھر سے جائے گی اور تب جب سب مان لیں گے کہ وہ قاتلہ نہیں ہے۔

                  ★★★★★★★★★★★

ختم شد۔

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya  written by Preesha Mahnoor Khan .Mein Ny Tera Naam Dil Rakh Diya by Preesha Mahnoor Khan   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages