Matam Sang E Shehnai Ke By Preesha Mahnoor Khan Complete Short Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 11 June 2024

Matam Sang E Shehnai Ke By Preesha Mahnoor Khan Complete Short Story Novel

Matam Sang E Shehnai Ke  By Preesha Mahnoor Khan  Complete Short Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Readin...

Matam Sang E Shehnai Ke By Preesha Mahnoor Khan Complete Novel 

Novel Name:Matam Sang E Shehnai Ke 

Writer Name: Preesha  Mahnoor khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔


روشنیوں میں نہایا گھر ماتم کی تاریکی میں کھو گیا تھا۔لوگ چیخنے رونے اور دلاسے دینے کے بعد چلے گۓ تھے۔

اب گھر کے مکین تھے گھر تھا اور تکلیف دہ یادیں تھیں۔

اور یادوں سے بڑی تکلیف دہ شائد اس دنیا میں کوئ نہیں۔یادیں اچھی ہوں یا بری بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ یادیں ہوتیں ہیں۔ہمارا ماضی ہمارا گزرا زمانہ۔

ماما سنبھالیں خود کو۔۔۔سہیل کے اپنے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔درد تھا کہ اندر سے کھا جاۓ جا رہا تھا اس کو۔پھر بھر بھی وہ ماں کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھا ان کو تسلیاں دے رہا تھا۔

کیسے کیسے کروں میں حوصلہ میری پھول سی بچیاں۔۔کہتے ہوۓ وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں دے کر رو پڑیں۔ان کے آنسو دل دہلا دینے والے تھے۔ان کا غم دیکھنے والوں کی آنکھوں سے بہتا تھا۔۔

آخر سہیل کی بھی ہمت ختم ہو گئ اور ماں کے قدموں میں بیٹھ کر رو دیا۔۔دونوں ماں بیٹے کے آنسوؤں نے ہچکیوں کا روپ لیا۔اس سنسان ماتم زدہ گھر میں میں دونوں کی آنسوؤں بھری ہلکی ہلکی ہچکیاں گونج رہیں تھیں۔

کچھ یادیں پرانی چپکے سے ذہن کے دریچے پر ابھریں۔۔

کبھی کبھی ہمارا حال اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی میں جینا پسند کرتے ہیں۔۔

وہ بھی ماضی کی خوبصورت یادوں میں کھوتا چلا گیا۔۔

جہاں ان کی فیملی مکمل تھی نٹ کھٹ سی تین بہنیں ماں اور وہ مگر اب سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔۔

وقت بہت بےرحم ہوتا ہے۔اندر سے توڑتا ہے چھیتڑے کر دیتا ہے  انسان کے ۔اتنے حصوں میں تقسیم کرتا ہے کہ جڑنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں پھر بھی مکمل جڑ نہیں پاتا انسان۔ وقت رحم نہیں کرتا ۔۔۔

ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔۔۔

___________________________

ممی ممی ناشتہ دے دو یونیورسٹی لیٹ ہو رہی ہوں۔۔رانیہ بیگ چیئر پر رکھتی کچن میں کام کرتی ماں کی طرف منہ موڑ کے زور سے بولی۔

ابھی لائ میرا بچہ۔۔۔وہ لاڈ سے کہتی ناشتے کی ٹرے لے کر کچن سے باہر آئیں۔۔۔

جلدی کریں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔آلو کا پراٹھا پلیٹ میں رکھتے وہ بےصبری سے بولی۔۔۔

آرام سے بیٹا۔۔

ماما بہت ضروری پریزینٹیشن ہے جلدی پہنچنا ہے۔۔۔جلدی جلدی نوالے لیتی وہ ساتھ ساتھ بتانے لگی۔۔

صیح صیح۔۔وہ مسکراتے ہوۓ اسے دیکھنے ۔۔پنک لانگ شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے گلے میں مفر کے سٹائل میں پنک دوپٹہ ڈالے بالوں مانگ نکال کر دونوں اطراف میں پھیلاۓ وہ معصوم پری لگ رہی تھی۔۔۔

ماما ماما وانیہ کو دیکھیں تنگ کر رہی ہے۔۔۔آنیہ بھاگتی ہوئ آکر ماں کے پیچھے چھپ گئ۔۔

مما آج مت بچائیں اسے آج میں  اس کو کچا چبا ڈالوں گی۔۔۔وانیہ ماں کے پیچھے چھپی آنیہ کی طرف بڑھی۔۔۔

کیوں لڑ رہی ہیں میری اینگری بڑڈز ۔۔۔ سہیل آفس جانے کے لیئے تیار تھا۔ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر مسکرا اٹھا۔۔

بھیا دیکھیں ناں اسے میری پرفیوم توڑ دی جو آپ دبئ سے لاۓ تھے۔۔۔رونی صورت بناتے ہوۓ وہ سہیل کے گلے لگ گئ۔۔۔

کوئ نہیں میں اپنی اینگری برڈذ کے لیئے نیو منگوا دوں گا۔۔سہیل اس کا سر تھپک کر بولا۔۔

بھائ ان دونوں کا چلتا رہے گا میں چلتی ہوں۔۔۔رانیہ مسکراتے ہوۓ اٹھی اور اللّہ خافظ کہتی ہوئ چلی گئ۔۔۔

تو دیکھنا تیرا وہ فراک  ماسی فقیراں کو دے دوں گی اپنی بیٹی کی شادی پر پہنیں گی وہ۔۔۔وانیہ زبان چراتے ہوۓ بولی۔۔۔

ہاہاہا کیا مذاق کرتی ہو وانیہ ۔۔۔آنیہ نے قہقہہ لگایا تو سہیل اور ماما بھی مسکرا اٹھیں۔۔۔

ان کی نوک جھوک میں ناشتہ ہوا۔۔وہ دونوں کالج چلی گئیں۔۔سہیل بھائ آفس چلے گۓ۔۔ماما ماسی فقیراں کے ساتھ مل کر گھر کے کام سنبھالنے لگیں۔۔۔

___________________________

صائم بھائ پلیز جانے دیں ۔۔صائم ریان کے پیچھے پیچھے سارے گھر میں گھوم رہا تھا۔اسے دوستوں کے ساتھ مضافاتی علاقہ جات میں جانے کی اجازت چاہیئے تھی۔۔

نو مینس نو بیٹا جانی ۔۔ریان ڈائینگ ٹیبل سے سیب اٹھا کر کھاتا باہر کی طرف بڑھا۔۔

بھائ پلیز ساڑھے پانچ فٹ سے ذیادہ کا ہو گیا ہوں۔اب تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔وہ بھاگتا ہوا اس کے پیچھے ہی باہر نکلا۔۔آج صائم کو ہر حال میں اجازت چاہئیے ہی تھی۔

اچھا. . . . . .  اچھا کو لمبا کر کے بولتے ریان نے مڑ کر سر سے پیر تک اس کا جائزہ لیا۔۔ہممم واقعی ساڑھے پانچ فٹ سے ذیادہ ہو گۓ ہو۔۔

ہے نا بھائ اب چلا جاؤں۔۔صائم خوشی سے بولا شائد اسے لگا اجازت مل گئ ہے۔۔

جب میری عمر کے ہو گے تب جانا بنا اجازت ابھی نہیں۔۔ریان نے تیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوۓ اسے مزید تپا دیا تھا۔۔

بھائ۔۔صائم نے بچوں کی طرح پاؤں پٹخے تھے۔۔ریان نے اس کی حرکت کو نوٹ کیا اور جاندار قہقہہ لگایا۔۔

بابا سے پوچھ لو۔۔ریان نے اسے کہہ کر ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا۔۔ڈرائیور سر ہلاتا ہوا گاڑی کی طرف بھاگا۔۔

بھائ آپ دونوں باپ بیٹا مجھے اریٹیٹ کرتے ہو۔ایک کہتا ہے اس سے پوچھو،دوسرا کہتا ہے اس سے پوچھو۔بتا دیں میں آپ کا کچھ نہیں لگتا۔۔آخری خربے کے طور پر اس کے پاس ایموشنل بلیک میلنگ تھی۔ریان کے لیئے اس کا یہ پینترا پرانا ہو گیا تھا۔۔مسکراتے ہوۓ وہ گاڑی کی طرف بڑھا جہاں ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔

میں بتا رہا ہوں بھائ مجھے جانے دیں ورنہ۔۔تیز تیز چلتے ریان کے پیچھے چلتا ہوا وہ گاڑی تک پہنچا۔۔

ورنہ ۔۔۔ریان نے چلتے چلتے ایک دم مڑ کر اسے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔۔

ممم میں آپ کا لیپ ٹاپ یہ ڈرائیور انکل کے بیٹے کو دے دوں گا۔۔ریان کے ایک دم مڑنے پر وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔اوپر سے ریان کے سرد لہجے نے سارا اعتماد پل میں ہوا کیا تھا۔۔

اوکے۔۔ریان بےپرواہی سے کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔ڈرائیور نے دوڑ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کر کے مین ڈور سے باہر نکالی۔

پیچھے کھڑا صائم  بےبسی سے مٹھیاں بھینچتا رہ گیا۔۔اپنی کوئ مرضی نہیں یار یہ کیا بات ہوئ۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا پاکٹ سے موبائیل نکال کر دوستوں کو منع کرتا ہوا وہ اندر کی طرف بڑھ گیا۔

__________________________

شوکت قریشی ایک کامیاب بزنس مین تھے۔وہ بزنس ورلڈ کے جانے مانے نام تھے۔ان کی فیملی ایک خوشحال فیملی تھی۔۔

شوکت قریشی کے دو بیٹے تھے صائم قریشی اور ریان قریشی جبکہ ایک بیٹی کرشمہ قریشی تھی۔۔ان کی بیوی گھریلو عورت تھیں۔

ریان قریشی ایک سنجیدہ اور بردبار لڑکا تھا۔۔اپنے باپ کے ساتھ مل کر اس نے سارا بزنس سنبھال لیا تھا۔۔۔

صائم ایک شریر اور زندگی کو کھل کر جینے والا لڑکا تھا۔۔ہر وقت دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا گیمز یہی زندگی تھی اس کی۔

____________________________

کامران ہمدانی ایک کامیاب وکیل تھے۔ ملک کے جانے مانے وکیلوں میں ان کا نام شامل ہوتا تھا۔۔۔

ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کی ڈیتھ ہو گئ تھی ۔۔۔

کامران ہمدانی کا ایک بیٹا سہیل ہمدانی تھا جو اپنے باپ کی طرح ہی ملک کا نامور وکیل تھا۔۔۔

تین بیٹیاں تھیں بڑی بیٹی رانیہ ہمدانی جو ایم۔اے اکنامکس کی سٹوڈنٹ تھی۔۔پھر وانیہ اور آنیہ تھی جن میں ایک ایک سال کا فرق تھا۔مگر لگتی جڑواں تھیں ۔ دونوں ایک ہی کلاس میں تھی۔۔کالج سٹوڈنٹس تھیں دونوں۔۔

ان کی ماں ہاؤس وائف تھیں۔۔

____________________________

یار آج کی پریزینٹیشن  تیاری خوب ہے میری۔۔اس کے بعد پزا کھانے جائیں گے۔۔۔رانیہ مسکراتے ہوۓ کلاکیس کی طرف بڑھی۔۔

تمہیں پتہ ہے۔۔۔

کیا۔۔۔رانیہ اس کے سرگوشیانہ انداذ پر حیران ہوئ۔۔۔

ہمارے نیو پروفیسر آۓ ہیں۔۔دیکھا نہیں پر سنا ہے بہت سخت ہیں وہ۔۔۔۔۔

اچھا دیکھیں گے ابھی تو کلاس میں چلو۔۔۔رانیہ اپنی دوست کو تقریباً گھسیٹتی ہوئ کلاس کی طر بڑھی۔۔۔

وہ دونوں کلاس میں پہنچی  پانچ منٹ باقی تھے ابھی کلاس کی طرف پروفیسر ابھی تک نہیں آۓ تھے۔۔۔۔

وہ دونوں اپنی سیٹس سنبھالتی ہوئ بیٹھ گئیں۔۔۔رانیہ نوٹ پیڈ پر جھکی equation سولو کرنے میں مصروف تھی کہ کلاس میں پروفیسر کے آنے کا شور اٹھا۔۔۔

سب کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہو گئ مگر 

باقی کے سٹوڈنٹس کی طرح اس کا بھی منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔وہ ایک پرکشش شخصیت والا انسان تھا دیکھنے میں کالج بواۓ لگتا تھا۔بلیک پینٹ کے اوپر وائٹ شرٹ پہنی تھی جس پر واضح خروف میں سرح اور سبز روشنائ سے خان لکھا ہوا تھا۔شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے ،بالوں کو ڈیسنٹ سا سٹائل دیئے وہ شہزادوں کی آن بان رکھتا تھا۔

پروفیسر نے شاید ان کے تاثرات بانپ لیئے تھے اس لیئے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔سب بیٹھ گۓ۔۔۔۔۔

اس نے آرام سے گلا کھنکارا۔۔ہونٹوں پر سٹوڈنٹس کے ری۔ایشن پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔

آہم آہم۔۔میں ریحان مصطفی خان۔۔آپ کا نیا پروفیسر۔۔میں آپ کو اکنامکس پڑھاؤں گا ۔پہلے اسلام آباد میں پڑھاتا تھا اب یہاں پوسٹنگ ہو گئ ہے۔۔۔اس نے سٹوڈنٹس کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مطمئن نہ تھے۔۔۔اس نے ایک نظر سب پر ڈالی سب منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔ریخان نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی۔

مگر سر آپ کی ایج تو اتنی نہیں ہے ۔۔کیا آپ پیدا ہوتے ہی سکول چلے گۓ تھے یا پیدا ہی سکول میں ہوۓ تھے۔۔۔معصومانہ انداذ میں رانیہ نے سوال کیا۔۔وہ ٹھٹھکا خیرانی سے اس معصوم سی لڑکی کو دیکھا۔پنک لانگ شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے گلے میں مفر کے سٹائل میں پنک دوپٹہ ڈالے بالوں مانگ نکال کر دونوں اطراف میں پھیلاۓ وہ معصوم پری لگ رہی تھی۔۔ریخان اپنی مسکراہٹ چھپا گیا۔۔

آپ کا نام۔۔۔پروفیسر ریحان نے اسےگہری نظروں سے دیکھا۔۔وہ معصومانہ سے انداذ میں سوال کرتی اسے بہت اچھی لگی تھی۔

سر ایم رانیہ ہمدانی۔۔وہ ایک دم کھڑی ہو گئ۔۔۔

بیٹھ جائیے مس رانیہ ہمدانی۔۔وہ اس کے انداذ پر دل ہی دل میں مسکرایا۔۔وہ منہ بناتی ہوئ بیٹھ گئ۔۔۔

تو آپ کو میری ایج کنفیوز کر رہی ہے ۔اس نے باری باری سب کی طرف دیکھا۔سٹوڈنٹس نے ایک ساتھ گردن ہاں میں ہِلائ۔میری عمر اڑتیس سال ہے۔۔

واؤ سر آپ کتنے فٹ ہیں پھر بھی۔۔ایک لڑکی امپریس ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔

تو اب سب اپنا انٹروڈکشن کروائیے پھر کل سے کلاس سٹارٹ کریں گے۔۔۔۔۔پروفیسر ریحان ہولے سے بولا۔۔نرمی سے بولنا اس کی شحصیت تھی۔۔وہ بولتا تھا تو اگلا مجسم ہو جاتا تھا بلاشبہ وہ ساخر شخصیت کا مالک تھا۔

اس کے کہتے ہی سب سٹوڈنٹس باری باری کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروانے لگے۔وہ دلچسبی سے سب کو سن رہا تھا مگر اس کی دیھان ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر تعارف کروانے والے کو غور سے دیکھتی ہوئ وانیہ پر تھا۔

____________________________

یہ ہے معروف بزنس مین شوکت قریشی کا گھر۔جہاں اتوار منایا جا رہا تھا۔آج گھر کے سب مکین گھر پر تھے ۔ایسے میں مسز شوکت قریشی کو ایک ہی حیال آتا تھا اپنے ہینڈسم سے ریان قریشی کی شای کا۔۔

شادی کر لو بچے۔۔ریان کی اماں ہر اتوار کی طرح پھر شروع ہو چکی تھیں۔ہر اتوار ریان کے آگے شادی کر لو شادی کر لو کی تسبیخ پڑھنا ان کی شائد عادت ہو گئ تھی۔

ماما میری پیاری ماما۔۔جب مجھے لگے گا میں شادی کے لیئے پرفیکٹ ہوں کمفرٹیبل ہوں تو کر لوں گا۔۔۔وہ ہمیشہ کی طرح ٹال گیا تھا۔اور یہ تھا ریان قریشی کا معمول کا جملہ ۔جسے کبھی کبھی خذف کر کے کانوں کو لپیٹ دیتا کہ کچھ سنائ نہ دے۔اور سنتا تو ایک کان سے دوسرے سے نکال دیتا۔

ماما بھائ نے نہیں کرنی میری کرا دو مجھے کوئ اعتراض نہیں۔۔صائم  کچن ٹیبل سے سیب اٹھا کر چھلانگ مار کر صوفے پر ماں کے برابر آ بیٹھا۔

چپ کر شرارتی۔۔۔اس کی ماما نے ہولے سے اس کے سر پر چپت لگائ۔۔۔۔۔

ماما یہ جو آپ کا صائم عرف لاڈلا عرف شرارتی ہے ناں اس نے زندگی کو کبھی سیرئیس نہیں لینا ہر بات مذاق ہے ۔۔تین سال سے گریجوئیشن میں پڑا ہوا ہے اس کے ساتھ کے ایم۔اے بھی کر گۓ۔۔۔ریان نے طنز کیا تو صائم کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئ۔۔۔۔۔۔

اف سارا موڈ عارت کر دیا چلتا ہوں۔۔۔دو تین سیب اور کیلے ہاتھوں میں اٹھاۓ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔۔

مگر آپ کی غلط فہمی دور کردوں مسٹر بھیا قریشی۔۔اس نے ایسے منہ بنایا کہ صائم اور مسزقریشی مسکرا اٹھے۔۔باہر سے آتے مسٹر قریشی کی بےساحتہ ہنسی نکل گئ۔۔ہاتھ میں پکڑی انرجی ڈرنک سینٹرل ٹیبل پر رکھتے وہ مسز قریشی کے برابر میں براجمان ہو گۓ۔

کہ میرا کوئ قصور نہیں سارا قصور کالج والوں کا ہے وہ مجھے پاس ہی نہیں کر رہے دراصل وہ چاہتے ہیں کہ یہ ہینڈسم لڑکا کبھی بھی ان کا کالج چھوڑ کر نہ جاۓ۔کیونکہ پھر کالج میں لڑکیاں ایڈمشن نہیں لیں گی اور کالج کا نقصان ہو جاۓ گا۔۔ریان کی جگہ کچن سے نکلتی کرشمہ نے اس کا جملہ اچک کر باقی کا مکمل کیا۔۔

کرشمہ کی بچی نقل کرتی ہو بھائ کی۔صائم نے مصنوعی غصے والی شکل بنائ۔

نقل نہیں بھیا تین سالوں میں اتنی بار دہرا چکے ہو یہ بات کے میرے میاں مٹھو کو بھی یاد ہو گئ ہے۔۔کیوں مٹھو۔۔صائم کے شانے پر بیٹھے مٹھو کی طرف کرشمہ نے اشارہ کیا۔۔تو وہ ہاں میری کرشمہ ہاں میری کرشمہ کی رٹ لگاتا اس کے کندھے پر آ بیٹھا۔۔

میں بتا رہا ہوں بابا سڑک سے لاۓ ہو آپ مجھے تب ہی آپ کی یہ دونوں اولادیں مجھے اتنی باتیں سناتی ہیں۔۔وہ کہتا ہوا وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر رونی صورت بنانے لگا۔۔قریب تھا کہ دو تین مصنوعی آنسو نِکل ہی آتے۔

ایک دم ٹھیک کہہ رہے ہو میں بزنس کا ماسٹر مائینڈ کرشمہ گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر اور تم چھی چھی۔۔بہت افسوس ہوتا ہے۔۔۔ریان نے اسے مزید چرایا۔۔

بابا میں بتا رہا ہوں آپ کو پنکھے پر رسی ڈال کر۔۔۔

خودکشی کر لو گے۔۔۔کرشمہ نے پھر سے اس کا جملہ پکڑا۔

پنکھے پر رسی ڈال کر سارے گھر کے پنکھے ایک ایک کر کے اتار کر کباریئے کو بیچ دوں گا۔پھر سڑتے رہنا گرمی میں پہلے تو صرف مجھ سے جل رہے ہو جل ککڑو۔۔اس کی بات پر سب کا جاندار قہقہہ بلند ہوا۔

اس نے منہ بنا کر سب کو یوں ہنستے دیکھا پھر سر کجھاتا ہوا چھلانگ لگا کر مسٹرقریشی کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ہی ہنسنے لگا۔زندگی قریشی ولا میں دوڑتی تھی۔

____________________________

بھیا۔۔آپ کو پتہ ہے ہمارے نۓ پروفیسر آۓ ہیں اتنے ینگ ہیں اتنی ذیشنگ پرسنالٹی ہے انیس بیس کے لگتے ہیں۔۔۔

کیا اپیا پاگل ہو انیس بیس کے پروفیسر کیسے لگ گۓ۔۔۔آنیہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔۔

ارے بات تو پوری سنو چھٹکی۔۔۔

عمر ان کی اڑتیس ہے بھیا پر لگتے نہیں ہیں۔۔۔

تو بیٹاجانی آج کل ہر بندہ خود کو فِٹ رکھتا ہے اور اڑتیس کوئ اتنی ذیادہ ایج بھی نہیں ہے اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو۔۔۔بھیا فائلوں پر جھکے کسی کیس پر کام کر رہے تھے۔۔۔

اچھا نہ بھیا اپیا بور کر رہی ہیں آئسکریم کھانے چلتے ہیں۔۔۔آنیہ اور وانیہ بھیا کا بازو پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔۔

میں تو لے چلوں میری اینگری برڈذ مگر اتھارٹی کی پرمیشن کون لے گا۔۔سہیل نے کن اکھیوں سے کچن میں کام کرتی ماں کو دیکھا۔۔۔

چھپ کر جاتے ہیں بھیا ایڈونچر ہو جاۓ گا مزہ آۓ گا۔۔یہ پلان وانیہ کا تھا جس پر تینوں نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

ہاں بھیا موصوفہ کی عقل شریف چیک کریں چھپ کر چلتے ہیں۔۔واہ چلے بھی جائیں واپسی پر نصرت فتخ علی خان کی روح جو گھسی ہو گی مسزہمدانی میں تو قوالی کون سنے گا۔۔۔آنیہ نے چباچبا کر کہا ساتھ وہ وانیہ کو ایسے دیکھ رہی تھی کہ ابھی سالم نگل جاۓ گی۔۔۔

لاحول ولا قوۃ ماں کو نصرت فتح علی حان کہہ رہی ہو۔۔۔بھیا نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔

ویسے صیح کہہ رہی ہو۔۔۔بھیا مسکراۓ پھر سب کا جاندار قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔۔۔

لطیفہ مجھے بھی سنا دو۔۔۔سلاد کی پلیٹ کچن ٹیبل پر رکھتیں مسز قریشی ان کی ہنسی سن کر باہر آ گئیں۔

ماما آئسکریم کھانے چلیں ہم۔۔رانیہ نے معصوم شکل بنائ۔۔ہاۓ مر نہ جاۓ کوئ اس معصومیت پر۔آنیہ نے دل ہی دل میں اپنی بہن کی معصومیت بھری ایکٹنگ کو داد دی۔

کیا آئسکریم کھانے اس وقت۔۔ماما اونچا بولیں تو سب چپ ہو گۓ۔۔

قفیراں بی۔۔!؛سنا آئسکریم کھانے جانا ہے۔۔وہ منہ کچن کی طرف کر کے بولیں جہاں فقیراں بی پلاؤ کو دم دے رہی تھیں۔۔۔

جی رحشندہ بٹیا سنا پھر۔۔فقیراں بی نے کچن سے سر نکال کر پوچھا۔۔

پھر چلتے ہیں سب۔۔برنر بند کر کے آ جائیے چلو کریو۔۔۔ماما نے کہا تو سب کے بے جان پڑتے چہروں پر ہنسی دوڑ گئ۔

تھوڑی دیر میں پھر سہیل ،رانیہ،آنیہ،وانیہ،ماما،فقیراں بی سب آئسکریم کھانے نکل گۓ۔۔۔

____________________________________________________________________________

رات کی تاریکی ایک عجیب سا تاثر پیش کرتی ہے مگر لاہور کی سڑکوں پر رات کے ایک بجے بھی زندگی رواں دواں تھی۔دوکانوں اور ہوٹلوں پر جلتی بجتی روشنیاں،آتی جاتی گاڑیوں کی آواز ماحول کو پررونق کر رہی تھیں۔

ہاں میں ٹھیک ہوں پھپھو ۔جو آپ کو پسند آئ تھی وہی ڈریس لی ہے آپ کے لیئے۔۔شاپنگ مال کے سامنے گاڑی کے ساتھ کھڑا وہ فون پر بات کرتے ہوۓ شاپنگ مال کے ساتھ بنے آئس کریم پارلر میں آتے رنگ برنگے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔

جی جی سب صیح ہو گیا۔۔گاڑی کا دروازہ کھولتا وہ ایک ٹانگ اندر اور ایک ٹانگ باہر رکھ کر بیٹھ گیا۔تبھی کسی کی جانی پہچانی سی آواز اس کے کانوں نے سنی۔اس نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔تبھی اس کی نظر آئس کریم پارلر کے سامنے غصے سے لال چہرہ لیئے اس لڑکی پر پڑی۔۔وہ پہچان گیا۔وہی یونیورسٹی والی لڑکی تھی جو الٹے سیدھے سوالات کر رہی تھی۔۔۔

اف بھیا پتہ نہیں کس تالاب کے مگرمچھوں سے دوستی ہے اس کی ہر بات پر مگرمچھ کے آنسو بہنے کو تیار ہوتے ہیں۔۔وہ سامنے کھڑی چھوٹی لڑکی کو ڈانٹ رہی تھی۔۔

میری شرٹ پر آئس کریم پھینک دی اففف۔۔وہ بہت غصے میں تھی بولتے ہوۓ اس کی چھوٹی سی ناک پھول جاتی تھی۔بڑی بڑی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہو جاتیں تھیں۔رانیہ نے وائٹ قیمض کے ساتھ وائٹ پٹیالہ اور گلے میں سرح دوپٹہ مفلر کے سٹائل میں ڈال رکھا تھا۔شرٹ پر آئس کریم کا بڑا سا داغ پڑ گیا تھا۔جسے گلے میں پڑے دوپٹے کو پھیلا کر چھپانے کی کوشش کی گئ تھی۔۔ریحان پر بےخودی سی چھا گئ۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔

کیا ہوا ریخان۔وہ اتنا کھو گیا تھا کہ بھول گیا کہ پھپھو کال پر ہیں۔۔

کچھ نہیں پھپھو چلیں گھر پہنچ کر کال کرتا ہوں۔جلدی میں اس نے کال ڈسکنیکٹ کی اور نظروں کا زاویہ سامنے کھڑی اس پری پیکر کی طرف موڑا۔۔وہ ابھی تک غصے میں تھی البتہ غصے کی سرخی جو تھوڑی دیر پہلے چہرے پر پھیلی ہوئ تھی اب چہرے سے غائب ہو گئ تھی ۔

بھائ میں بتا رہی ہوں اب یہ دونوں لڑی تو میں نے کسی بند گاڑی کے آگے دھکا دے دینا ہے انہیں یا پھر سوکھے تالاب میں پھینک دینا ہے۔شرارت دونوں کرتی ہیں الزام ایک دوسرے کو دے کر بچ نکلتی ہیں۔۔۔

اس کی بات پر سہیل نے بےساحتہ قہقہہ لگایا۔۔ریحان کی بھی ہنسی چھوٹی تھی۔۔اس پل اس پیاری سی معصوم لڑکی پر بےانتہا پیار آیا تھا اور اپنے اندر اٹھتے ایموشن اسے ازخود حیران کر رہے تھے۔

بھیا اپیا کتنی حطرناک ہو گئ ہیں کہیں یہ کیچب کھا کر مرغی نہ بن جائیں۔۔آنیہ اور وانیہ کو پھر سے شرارت سوجھی دونوں بیک وقت بولیں تھیں۔مگر رانیہ کی خونخوار نظروں سے گھبرا کر سہیل کے پیچھے چھپ گئیں تھیں۔

رخشندہ بھیگم اور فقیراں بی ان کی نوک جھوک کے ساتھ مسکراتے ہوۓ آئس کریم انجواۓ کر رہی تھیں۔۔تھوڑے فاصلے پر گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا ریحان رانیہ کا غصے بھرا معصوم لہجہ انجواۓ کر رہا تھا۔

بھیا۔۔رانیہ تیزی سے سہیل کے پیچھے کھڑی وانیہ اور رانیہ کی طرف بڑھی۔سہیل نے رانیہ کے دونوں ہاتھ پکڑے تو آنیہ اور وانیہ تیزی سے سہیل کے پیچھے سے نکل کر بھاگ گئیں۔

ریحان گیا تھا اپنی پھپھو کا جوڑا لینے پورے ہوش و حواس میں مگر واپس بےخود سا آیا تھا۔جوڑا لینے کے راستے میں اسے اپنا آسمان کی وسعتوں میں بنا جوڑا ٹکرا گیا تھا۔

وہ پھپھو کو جوڑا تو لے آیا مگر دل وہیں آئس کریم پارلر میں غصے سے سرخ ہوتے چہرے والی پری پیکر کے پاس چھوڑ آیا تھا۔ 

____________________________

آنے والے دنوں میں رانیہ کی پروفیسر ریحان سے اچھی حاصی دوستی ہو گئ۔۔

ریحان ایک ویل مینرڈ اور اچھا انسان تھا۔اس کی شخصیت مسحور کن تھی۔جو اس سے بات کرتا دوسری دفعہ بھی کرنا چاہتا تھا۔بلاشبہ وہ ایک اچھا دوست تھا اسے دوستی اور محبت دونوں نبھانے آتے تھے۔

سہیل بھی متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکا تھا۔اس کی ریحان سے بہت اچھی دوستی ہو گئ تھی۔اتنی اچھی کہ اپنی پیاری سی بہن رانیہ کے لیئے اسے سہیل ہر لخاظ سے پرفیکٹ لگا تھا۔سہیل نے جانا کوئ اس کی بہن کو خوش رکھ سکتا ہے تو وہ ریحان کے علاوہ کوئ نہیں ہو سکتا۔

اور پھر ایک دن سب کی باہم رضامندی سے دونوں کی منگنی کر دی گئ۔رانیہ خوش تھی جبکہ ریحان کی خوشی کی تو کوئ انتہا نہ تھی خوشیوں کا کوئ پیمانہ ریحان کی خوشی کو اس وقت ماپ نہ پاتا۔

شادی رانیہ کا ایم۔اے حتم ہونے کے بعد طے کی گئ۔۔

مگر جہاں حوشیاں ہوتی ہے دکھ وہیں ڈیرہ ڈالتے ہیں جہاں زندگی رقص کرتی ہے وہاں موت جھومتی نظر آتی ہے۔۔۔

____________________________

کچن سے آتی خوشبو نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔وہ سیدھی کچن میں داخل ہوئ تھی۔۔

واہ ممی سواد ہے آپ کے ہاتھ میں ماننا پڑے گا۔پتیلے سے ڈھکن ہٹا کر  کھانے کی خوشبو کہ اپنے اندر اتارتی وہ خوشی سے بولی۔

بیٹا آپ فریش ہو جاؤ تب تک آنی اور وانی بھی آتی ہوں گی سب مل کر لنچ کرتے ہیں۔۔

 جی ممی میں فریش ہوتی ہوں پلیز جلدی سے کھانا لگا دیں بہت بھوک لگی ہے۔۔پیٹ پکڑ کر شرارت سے کہتی اپنا بیگ اٹھا کر وہ کچن سے نِکل آئ۔۔

روم میں داخل ہوتے ہی بیگ بیڈ پر پھینکتے ،دوپٹہ گلے سے کھینچ کر صوفے پر ڈالتے وہ واش روم میں فریش ہونے گھس گئ تھی۔۔

افف اتنی ٹھنڈ ہے ۔شاور کھولتے ہی وہ کپکپا گئ تھی۔گیزر نہیں لگایا آج ماما نے۔خود کلامی کرتی ہوئ  وہ گیزر آن کرنے لگی۔۔تبھی مین سوئچ میں شارٹ سڑکٹ ہوا۔۔وہ پانی پر کھڑی تھی جیسے ہی اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ رکھا اسے جھٹکا لگا۔۔۔

بجلی اسے اپنی پکڑ میں لے چکی تھی۔۔اس نے چلانا چاہا مگر خلق سے آواز نہ نکلی۔۔

"اے انسان تم جان لو موت برخق ہے اور اس کی پکڑ بہت مظبوط،جب موت اپنے مظبوط پنجے گاڑتی ھے تو زندگی جینے کی ساری دعائیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔اے انسان موت آنی ہے ۔ہر شے فانی ہے،تم تیار رہو کسی بھی وقت کسی بھی پل جب تم پر خوشی غالب ہو اور تم جھوم رہے ہو جب شہنائ بج رہی ہو تب تب موت آتی ہے دکھ بارشوں کی صورت تم پر برستا ہے "

موت کو ایک سویا پنچھی سمجھو اور تم جان لو جب جب شہنائ کی آواز گونجتی ہے تو یہ سویا پنچھی جاگ جاتا ہے"

اس نے بہت ہاتھ پیر مارے مگر سب بےسود گیا۔۔موت نے اسے اپنی پکڑ میں لیا۔۔فرشتہ اجل اس کی روح سفید پروں میں لیئے آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔۔

اس کا جسم بےجان پڑا تھا فرش پر۔۔۔۔

آج احتتام ہوا۔۔

زندگی کا

اور زندگی کا احتتام تو لازم ہے

مگر یہ احتتام بہت حطرناک ہے۔۔

اور روحوں کی اصل جگہ

وہ وسیع آسمان ہے 

جہاں سے بھیجا گیا تھا

وہیں لوٹ کر جانا ہے۔

______________________________________________

 ہمدانی ہاؤس کے مکینوں پر آسمان آ گرا تھا۔۔وہ گھر جو ہنستا تھا اس کی درودیوار تک قہقے لگاتی تھیں وہاں اداسی رقص کر رہی تھی۔۔۔

رانیہ ہمدانی زندگی کا رنگ زندگی کی ترجمان مر چکی تھی۔۔

کوئ سہیل ہمدانی سے پوچھتا دکھ کیا ہوتا ہے۔۔؟کوئ اس ماں کا کلیجہ دیکھتا جو جوان اولاد کی ڈولی کا حواب سجاۓ تابوت سجا رہی تھی۔۔کوئ ان بہنوں کا درد سمجھتا جنہیں رانیہ کے بغیر حوف آتا تھا۔؟؟اور کوئ تو اس شحص کا دکھ جان پاتا جس کے گھر اس کی من پسند دو مہینے بعد دلہن بن کر اترنے والی تھی۔۔؟؟وہ اڑتیس سالہ میچوڑ شحص تابوت سے لگا پھوٹ پھوٹ کر رو دہا تھا۔۔۔

محبت کو پاگل پن کہنے والے آج پاگل پن دیکھ رہے تھے۔زندگی تب مشکل نہیں لگتی جب آپ تکلیف میں ہوتے ہو زندگی کی سانسیں آپ پر تب تنگ ہوتی ہیں جب دل کے مکین دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔

سو فیصد میں سے دس فیصد لوگ محبت کرتے ہیں۔اور ان دس فیصد میں سے پانچ فیصد مستقل مزاج ہوتے ہیں جو جیتے ہیں تو سانسوں پر محبوب کے نام کی تسبیخ کرتے اور مرتے ہیں تو سانسیں محبت کو دان کر کے آنے والے پانچ فیصد لوگوں کی محبت کو سانس دے جاتے ہیں۔

ریحان مصطفی خان۔ایک مسحور کن شحصیت کا مالک ،محبت ہوتی ہے کی مجسم تصویر تھا۔وہ ایک بادشاہوں سا مرد تھا جو محبت کے بچھڑ جانے پر بھکاریوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکا تھا۔

ہر آنکھ اشک بار تھی اس جواں سالہ موت پر۔ریحان کا دکھ،سہیل کی اذیت،رخشندہ ہمدانی کا چھلنی چھلنی کلیجہ،أنیہ اور وانیہ کی چیخیں ہر ذی روح کو تڑپ تڑپ کر رونے پر مجبور کر رہی تھیں۔

آخر وہ وقت بھی آیا رانیہ کو لے جایا گیا۔۔وہ جسے سرح جوڑے میں بیجھنا تھا وہ سفید کفن میں رحصت ہوئ۔۔۔

مسزہمدانی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئیں تھیں۔۔اور وانیہ اور آنیہ انہیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی وہ ماں کو سنبھالیں یا جاتی ہوئ بہن کو روکیں۔۔۔وہ روکنا چاہتی تھیں اپنی بہن کو اپنی زندگی کو مگر جانے والوں کو روکنا ناممکنات میں شامل تھا شامل رہا ہے۔۔

کون جانتا ہے دکھ ان ماؤں کے

جو جوان اولادوں کی 

ڈولی کا خواب سجاۓ

تابوت سے لپٹ لپٹ کر

رو رہی ہوتی ہیں۔

اور کون جانتا ہے دکھ ان بھائیوں کے

جو بہنوں کو بچوں کی طرح

لاڈوں میں پال کر

زندگی بنا کر

سرخ جوڑے میں رخصتی 

کے سپنے بُنتے ہیں

اور پھر کانپتے ہاتھوں سے

سفید کفن پہنانا پڑتا ہے

اور کون جانتا ہے دکھ ان بہنوں کے

جو بڑی بہنوں کو ماں

کا روپ جانتی ہیں،مانتی ہیں

جو بڑی بہن کے بازو پر 

سر رکھ کر

خواب و خرگوش کے مزے لیتی ہیں

وہی بہن پھر منوں مِٹی تلے جا سوتی ہے

اور آخر کون جان سکتا ہے دکھ

اس ایک شخص کا

جو سو میں سے دس ہے

دس میں سے پانچ ھے

جو اپنے جوڑے کا انتظار کرتا ہے

پھر آسمانوں کے مالک سے مانگتا ہے

جو اپنی محبت کو اپنی دلہن

بنانا چاہتا ہے

اور پھر وہ سب چھوڑ کر

مٹی کے ڈھیر میں جا سوتی ہے

ارے۔۔!! کون۔۔؟؟؟

جانتا ہے دکھ ان سب لوگوں کا

جو مل کر بچھڑ جاتے ہیں۔

____________________________________________________________________________

اور ایک خاص بات بتاؤں

وقت کی تو سنو!!

یہ ظالم ہے بہت

بےرحم ہے بہت

مگر اس سے بڑا مرہم کوئ نہیں

جو ماضی کے زخموں پر لگایا جاۓ

وقت دوا ہے 

ہر اس درد کی

جب وہ بےرحم بن جاتا ہے

اور حوشیوں کے درخت

زندگی سے اکھاڑ پھینکتا ہے

وقت چکر ہے

وقت جابر ہے

وقت بےانصاف ہے

مگر تم جان لو

وقت سے بڑا رحم دل 

بھی کوئ نہیں

وقت سے بڑا انصاف

کا رکھوالہ کوئ نہیں

وقت سے ذیادہ

رحم دل کوئ نہیں۔

دو سال بعد___

وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر ہی جاتا ہے رو کر نہیں تو ہنس کر ،ہنس کر نہ سہی تو رو کر۔اور یہ ہی حاصیت ہے وقت کی یہ نہ غم میں رکتا ہے نہ خوشی میں کسی کے ہاں ڈیرے ڈالتا ہے۔

منٹ گھنٹوں میں،گھنٹے دنوں میں،دن مہینوں میں،مہینے سالوں میں کٹ گۓ۔اور اس گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ بھاری تھا اذیت ناک تھا درد ناک تھا۔

ہمدانی ہاؤس پچھلے دو سال سے ویران پڑا تھا۔۔کوئ ہنستا تھا نہ بولتا تھا۔۔رانیہ جاتے ہوۓ زبانیں خوشیاں قہقہے سب لے گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمدانی ہاؤس نے چپ سہیلی سے دوستی گاڑ لی تھی اتنی گہری دوستی کہ سکوت پل بھر کو نہ ٹوٹتا تھا اگر ذرا آواز پیدا ہوئ اور سہیلی رحصت۔۔۔

وانیہ اور رانیہ نے ہر ممکن کوشش کی اپنی ماں کو زندگی کی طرف لے آنے کی اپنے بھائ کو ہنسانے کی۔۔۔اپنی ماں کو دیمک کی طرح چاٹتے غم سے نکالنے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہیں تھیں۔

اور کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں۔

بہت مشکلوں سے وہ پہلے جیسا تو نہیں مگر کچھ سنبھال گئیں تھی اپنے بھائ اور ماں کو۔۔۔

ہمدانی ہاؤس کو پہلے جیسا نہیں کر سکتیں تھیں مگر زندہ مکاں کو وہ قبرستاں بننے سے روک سکتی تھیں۔اور وہ قبرستاں جیسے ویراں پڑے اپنے گھر کو رونق سے بھر دینا چاہتی تھیں۔اور وہ کر رہیں تھیں۔

اور وہ کامیاب ٹھہریں تھیں۔

____________________________

زمانے کو جان لینا چاہیئے

محبت سِراب نہیں ہے

محبت دھوکہ نہیں ہے

محبت ایک جذبہ ھے

وہ جذبہ جو ہر ایک

ذہن کی پیداوار ہے

محبت ذہنوں میں نشونما پاتی ہے

اور ہوتے ہوتے دل تک پہنچ جاتی ہے

اپنے من پسند شحص کا زندگی سے نکل جانا ایک جیتے جاگتے انسان کی موت ہوتی ہے. . .  

لوگ محبت کو ناسمجھی سے تعبیر کرتے ہیں غلط کرتے ہیں. . .  محبت صرف لاپرواہ کو ہی نہیں ستاتی محبت کا مر جانا ایک اچھے حاصے میچورڈ شخص کو بھی خون کے آنسو رلاتا ہے. . . . .

کچھ لوگ محبت کو دھوکے سے تعبیر کرتے ہیں۔غلط نہیں بہت غلط کرتے ہیں۔

جو محبت کو بکواس کہتے ہیں خدا کی قسم بکواس کرتے ہیں۔  

ریحان مصطفی ایک میچوڑ اور سمجھدار شحص. .  مگر محبت لے ڈوبی۔۔

جب محبت اپنے پر پھیلاتی ہے ناں تو ساری عقل ختم ہو جاتی ہے. . .  محبت عقل سے بھی آگے کے جہان کا سفر ہے جہاں خودی نہیں صرف بےخودی ہی بےخودی ہے. . .  

وہ بھی اسی جہاں چل پڑا تھا. . .  

اس کی بھپھو لندن میں رہتی تھیں.اسے بھی ساتھ لندن لے گئیں تھیں . . .  رانیہ کی موت نے اس کی حالت اپنی حراب کر دی وہ اچھا حاصا سمجھدار شحص آدھا مر گیا تھا۔محبت اور عقل دو ایسی چیزیں ہیں جنہیں زندگی کا راستہ طے کرنے کے درمیان چننا پڑتا ہے اور آپ یہ آپ پر ہوتا ہے آپ کیا چنتے ہو۔  . .  

مگر محبت عقل کو کھا جاتی ہے محبت ذات سے "میں" ختم کر کے کائنات کی تلاش میں لگا دیتی ہے. . . .  

وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا ۔وہ حساس تھا بہت حساس وہ ٹوٹ چکا تھا اسے سنبھلنے میں وقت لگنا تھا۔اس کی حساسیت سے لوگ اسے پاگل سمجھ بیٹھے۔کوئ اس سے بھی پوچھتا جب زندہ رہنے کے باوجود سانس لینا دشوار ہو جاۓ تو دماغ کی تاریں ہِل جاتی ہیں . . . .  

پھپھو نے اسے اسائلم میں ایڈمٹ کروا دیا. . .  وہ پاگل نہیں تھا وہ دیوانہ تھا. .    

دیوانگی ایسا روگ ہے جس سے دنیادار ناواقف ہیں. . .  .  

وہ پاگل نہیں تھا وہ دیوانہ تھا. . . وہ روگ ذدہ تھا وہ جوگی تھا۔ وہ عشق زدہ تھا۔وہ پاگل نہیں تھا۔ 

محبت روگ ہے سائیاں

محبت روگ ہے سائیاں۔

____________________________

آنیہ اور وانیہ دونوں یونی تک پہنچ گئیں تھیں۔۔ایم۔اے اکنامکس ان کی بہن کا خواب جسے وہ پورا کرنا چاہتی تھیں مگر کچھ خوابوں کی قسمت میں پر نامکمل کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔۔۔

وانیہ کافی حد تک سمجھدار ہو گئ تھی اس نے خود کو بدل لیا تھا اب وہ بھائ اور ماں کو تنگ نہیں کرتی تھی۔وہی چکریہ وقت کا چکر۔ایسے چکر چلاتا ہے وقت کہ عقل خود آ جاتی ہے۔۔البتہ آنیہ ویسی ہی تھی نٹ کھٹ سی مگر بہت سمجھدار ہو گئ تھی۔۔

آنیہ میں اسائمنٹ سبمٹ کروا کر آتی ہوں تو دھیان رکھنا اپنا۔۔وہ اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں کھڑیں تھیں۔۔وانیہ اسے تلقین کرتی جانے لگی۔۔۔

آ ہاں رکھ لو گی رکھ لو گی تم جاؤ۔۔۔وہ لاپراوہی سے بولتی نظریں اِدھراُدھر گھما کر سٹوڈنٹس کو دیکھنے لگی۔کچھ گھاس پر بیٹھے پڑھائ میں مصروف تھے کچھ محبت کی مستیوں میں مست تھے۔بےزاری سے آنکھیں گھماتی وہ پاس پڑے بینچ پر بیٹھ کر موبائل میں لگ گی۔تبھی اسے کسی کی آواز سنائ دی۔کوئ اسے مخاطب کر رہا تھا۔

سنو تم آئ تھنک نیو ہو یونی میں تو تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ ایڈمشن فارم جمع سینئر کرواتے ہیں اور ساتھ پانچ ہزار کا نوٹ بھی دیا جاتا ہے۔۔۔ایک لڑکا اپنی ٹولی کے ساتھ اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔۔آنیہ نے نظریں اٹھا کر سر تا پیر اس لڑکے کا جائزہ لیا۔

سیاہ پینٹ پر پیلی شرٹ پہنے براؤن جیکٹ کو کمر کے ساتھ باندھے ، ماتھے تک آتے سلکی سیاہ بالوں اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا وہ لڑکا کافی ہینڈسم تھا۔

ایکسرے ختم ہو گیا ہو تو ایڈمیشن فارم اور ٹِپ کی بات کریں۔خود کو اتنی غور سے دیکھنے پر لڑکے نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں تو آنیہ نے نظروں کا زاویہ موڑا اور پھر سے سر موبائل پر جھکا دیا۔

تو دو ایڈمشن فارم اور پیسے۔۔آنیہ نے کمال لاپرواہی سے موبائل پر تیز تیز انگلیاں چلاتے ہوۓ کہا تو سامنے کھڑا لڑکا اور اس کے دوست خیران ہوۓ۔

ایسے کیوں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو دو پیسے۔۔۔ان کی نظریں خود پر محسوس کر کے آنیہ نے موبائل بیگ میں ڈالا اور کمر پر ہاتھ رکھ کر ان سے دو دو ہاتھ کرنے کو کھڑی ہو گئ۔

محترمہ آپ نے سنا نہیں میں نے سینئر کہا۔۔اس ہینڈسم لڑکے نے اپنی بات دہرائ۔

پہلی بات تم وہی ہو نہ. . . . .  وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی۔۔۔صائم قریشی جو گریجویشن میں چارسال فیل ہوا ہے اور یونی  آ کر بھی ایک سمسٹر میں دو دو چکر لگا رہا ہے۔.  

تو تمہیں بتا دوں مسٹر ریان قریشی ایم۔اے کی سٹوڈنٹ ہوں ریگنگ کرنے کی سوچنا بھی مت۔۔ورنہ میری مہربانی سے دو چار سال اور ایک ہی سمسٹر میں نکالنے پڑے گے۔۔۔۔وہ غصے سے لال ہوتے چہرے کے ساتھ کہتی اپنا بیگ اٹھاۓ آگے بڑھ گئ جبکہ صائم کا منہ ابھی تک کھلا ہوا تھا۔

اور ہاں..!! وہ جاتے جاتے پلٹی۔۔بچ کر رہنا مجھ سے بہت خطرناک ہوں میں۔۔۔وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتی تیز تیز چلتی وہاں سے نکل گئ۔اور صائم قریشی خیران پریشان کہ وہ سب کو بےوقوف بناتا تھا اور یہ لڑکی اسے ہی ہری جھنڈی دکھا گئ۔۔۔

ہاہاہا. . .  ویسےکیا بستی کی ہے لڑکی نے تیری مزا آ گیا۔۔۔اسکا دوست ہنستا چلا گیا۔۔۔

. . .  بوتھا توڑ دوں گا چپ کر۔۔۔ایک دھموکہ اسے کی کمر میں رسید کرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا. . . . . . . . .  

____________________________

آج اتوار تھا اور اتوار کا دن سٹوڈنٹس کے لیئے آکسیجن سیلینڈر جیسا ہے یہ وہ دن ہے جب سب سٹوڈنٹس کھل کر سانس لیتے ہیں ۔جی بھر کر سوتے ہیں۔من مانیاں کرتے ہیں۔سٹوڈنٹس کا انڈیپینڈنٹ ڈے ہے سنڈے۔۔

یہی حال ہمدانی ہاؤس میں بھی تھا۔آج سنڈے تھا رخشندہ ہمدانی کچن میں گھسی ہوئ تھیں۔سہیل ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا احبار کی تازہ سرخیاں پڑھ رہا تھا۔آنیہ اور وانیہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہیں تھیں۔

 گیارہ بجے وہ دونوں اٹھی. . . .  فریش ہو کر باہر آئ تو خیران رہ گئیں۔  

باہر پکنک کا سارا سامان تیار رکھا تھا۔۔۔فقیراں بی کھانا پیک کر رہی تھیں۔۔۔بھیا فروٹس باسکٹ میں ڈال رہے تھے. . . .  ماما ان دونوں کے لیئے ناشتہ بنا رہی تھیں. . . . .  

واہ بھیا ہم گھومنے جا رہے ہیں. . . .آنیہ دوڑ کر سہیل کے گلے لگ گئ۔ 

جی میرا بیٹا آپ دونوں ناشتہ کر کے ریڈی ہو جاؤ پھر چلتے ہیں. سب فریش فریش ہو جائیں گے۔۔آنیہ کے سر پر بھوسہ دے کر سہیل فروٹ باسکٹ اٹھاتا باہر نکل گیا۔  

اماں ناستہ دے دو ریڈی ہونا ہے پھر۔۔دونوں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتی کچن کی طرف منہ کر کے زور سے بولیں۔۔

آۓ ہاۓ کیوں مجھ بوڑھی جان کی جان نکالنے پر تلی ہو۔پیک ہوا کھانا اٹھاۓ باہر جاتی فقیراں بی ان کے پاس سے گزریں تھیں۔۔وہ دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔

ان کے لیئے ناشتہ لاتی رخشندہ بھیگم نے بہت غور سے اپنی بیٹیوں کو دیکھا۔دل کو سکون ملا تھا۔وہ مسکرا اٹھیں۔

بہت دنوں بعد ہمدانی ہاؤس میں قہقہہ گونجا تھا کوئ دل سے مسکرایا تھا۔

آج ہمدانی ہاؤس کی رونق پھر سے شروع ہوئ تھی۔  

____________________________

کدھر کی تیاریاں ہے لوگو. . .  وہ ابھی ابھی جاگا تھا نائٹ سوٹ میں ہی ملبوس وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیا. . .اپنی ماں اور بہن کو زور و شور سے تیاریوں میں مصروف دیکھ کر وہ چونکا۔۔ 

سی سائیڈ. . .  کرشمہ خوشی سے بولی. . . .  

اے لو جی کھدیا پہاڑ تے نکلیا چوہا. ن. . سی سائیڈ کا سنتے اس کی پھیلی مسکراہٹ سمٹ گئ تھی۔وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔  

تم انسان کب بنو گے. . . .  لاؤنج کے صوفے پر لیپ ٹاپ میں جھکا ریان اس کی طرف دیکھتے اونچی آواز میں بولا۔۔

اس جنم میں تو ممکن نہیں ہے مسٹر بھیا قریشی۔وہ آواز بدل کر ایکٹنگ کرنے لگا تھا۔

چلو باتیں کم کرو کبھی چپ رہا کرو۔۔مسٹر قریشی نے اس کی طرف دیکھا۔اور جاؤ تیار ہو جاؤ۔

ہر کوئ مجھے خاموش ہی کرواتا رہتا ہے۔۔صدمے خاموش کر دیتے ہیں. . .  دعا کریں صدمہ ہی لگ جاۓ. .  پھر خاموش ہو جاؤں گا ایسا کہ آپ لوگوں کی جان ہوا ہونے لگے گی. . . .  وہ بتا رہا وہ جو سب کو اذیت دینے والا تھا. . .  

اللہ نہ کرے جب بھی بولنا فالتو ہی بولنا. .  مسزقریشی تو دہل کر رہ گئیں. . .  

آپ پریشان نہ ہوں ماما جس انسان کو اس کا باربارفیل ہونا صدمہ نہیں پہنچا رہا اسے دنیا کی کوئ طاقت صدمہ نہیں پہنچا سکتی۔۔۔کرشمہ نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑا۔۔

ماما پہلی فرصت میں اس بلا کو تو رحصت کریں۔۔۔وہ جل بھن گیا تھا اسکی بات پر. . .  

اورسنیں گے پاپا. . . . .  منہ صائم کی طرف موڑے اونچی آواز میں باپ کو مخاطب کیا تھا۔یہ اشارہ تھا وہ صائم کا کوئ بانڈہ پھوڑنے والی ہے۔.  

موصوف خود کو اتنا ذیادہ عقل مند سمجھتے ہیں کہ کل یونی میں ایم۔اے کی لڑکی کی ریگنگ کرنے کی کوشش کی۔۔۔وہ پلٹا اسے آنکھیں۔۔دکھائ مگر وہ چپ نہ ہوئ دل ہی دل میں عادل کو خوب کوسا جس نے فوراً سے بات پہنچا دی تھی. . . . . . . .  

پھر. ۔۔لیپ ٹاپ پر چلتی ریان کی انگلیاں ٹھہری۔وہ اور مسٹرقریشی ایک ساتھ بولے۔

لڑکی بولی مجھ سے جونیئر ہو یہ ریگنگ کا چکر کہیں اور چلانا ورنہ بہت حطرناک ہوں میں یہ نہ ہو ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک سمسٹر میں چار سال لگانے پڑ جائیں۔۔۔اس کے آنکھیں نکالنے کا بھی کرشمہ پر کوئ اثر نہ ہوا.ساری بات باپ اور بھائ کو بتا کر چڑانے والی مسکراہٹ صائم کی طرف اچھالی۔صائم نے خونخوار نظروں سے کرشمہ کو دیکھا۔ .  

واہ دل خوش کر دیا لڑکی نے. . .  مسٹرقریشی اور صائم مسکراۓ. . . . . . .  

کرشمہ کی بچی تو ہوئ ضائع آج میرے ہاتھوں. . .  وہ سیڑھیاں پھلانگتا کرشمہ کے پیچھے بھاگا جو پہلے ہی اس کے تیور جان کر رفو چکر ہو گئ تھی. . . . .  

مسٹرقریشی صائم اور مسز قریشی ان کی نوک جھوک پرمسکرا اٹھے.

____________________________________________________________________________

زندگی جس گھر میں دوڑتی تھی پھر ایک وقت ایسا آیا زندگی اس گھر میں چلنا بھی بھول گئ تھی اب پھر سے سب زندگی اس گھر میں دھیرے دھیرے داخل ہو رہی تھی۔۔

صیح کہتے ہیں زندگی کسی کے جانے سے کہاں رکتی ہے جینا پڑتا ہے پہلے مجبوری میں پھر خود کے لیئے۔۔

وہ سب بھی جینا شروع کر رہے تھے۔زندگی راس آ رہی تھی ان کو۔۔خوشیاں مسکراہٹیں رونقیں ہمدانی ہاؤس میں لوٹ رہیں تھیں۔۔

یادیں عذاب ہوتی ہیں۔انہیں یادوں سے بچنے وہ کراچی شفٹ ہو گۓ تھے مگر مکان بدلنے سے دل کے مکینوں کی یادیں ختم نہیں ہو جاتیں۔

آج سنڈے منانے وہ سب see side پر پہنچ چکے تھے۔ایک دوسرے کے سنگ وہ کھل کر مسکرا رہے تھے۔۔

ان کی فیملی مکمل تو نہیں تھیں مگر اس ادھوری فیملی کو بھی انہوں نے رونق بخشنی تھی۔۔

آنیہ وانیہ سہیل سب نے ان یادگار لمحوں کو کیمرے میں قید کر لیا۔۔

اچھلتے کودتے ناچتے گاتے سب اب تھک گۓ تھے۔رخشندہ ہمدانی وانیہ،فقیراں بی،سہیل سب مل کر کھانا لگانے لگے۔۔

آنیہ چپکے سے وہاں سے کھسک لی وہ صبح سے ہنس رہی تھی کھیل رہی تھی بےپرواہی دکھا رہی تھی۔مگر اندر سے وہ بہت حساس ہو رہی تھی۔رانیہ کے ساتھ بِتاۓ پل وہ بھول نہیں سکتی تھی۔

وہ آہستہ آہستہ سمندر کی لہروں کے تعاقب میں چلنے لگی۔اداس ویران سی۔۔

____________________________

قریشی فیملی بھی see side پر پہنچ چکی تھی کچھ دیر پہلے ہی ۔۔ سب اپنے اپنے کیمرے پکڑے گھوم ہے تھے. . . .سمندر کی کناروں کو چھوتی لہروں کی تصاویر بنانا صائم کو ہمیشہ سے ہی اچھا لگتا تھا۔  

صائم سمندر کی خوبصورت تصاویر کمیرے میں قید کرتا آگے بڑھا. . . . . . . . .  اس کے کیمرے نے کلک کیا ایک تصویر کھنچی گئ. .  بےدھیانی میں. . . 

اس نے غور سے کیمرے میں دیکھا. . .  وہ اورنج گھٹنوں تک آتی فراق پہنے بلیو پٹیالہ بلیو جینز کی جیکٹ پہنے . .  بیٹھی ریت پرکچھ لکھ رہی تھی جو سمندر کی لہریں باربار مٹا دیتی تھیں. .  ہوا کے ساتھ اس کے اڑتے بال. . .  صائم کو اس وقت وہ کوئ اپسرا لگی تھی. . . . . . . . .  

صائم نے کیمرہ گلے میں ڈالا اور اس کے پاس پہنچا. . .  وہ باربار لکھ رہی تھی باوجود سمندر کے مٹانے کے. . . . . . .  

سمندر کے کنارے لکھے نام سمندر اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے. . .  وہ اس کے سامنے آ بیٹھا تھا. . .  

آنیہ نے نظر اٹھا کر دیکھا اور یہی لمحہ تھا لاابالی سا صائم ان آنکھوں میں اپنا سب کچھ ہارگیا. .  ان آنکھوں میں آنسو تھے بہت سے آنسو.  جو گال سے ہوتے ہوۓ اس نام پر گرے جسے مٹانے سمندر کی لہریں پہنچنے کو تھیں۔۔وہاں اجلے خروف میں رانیہ لکھا تھا. . .  

تم. .  آنیہ نے آرام سے کہا وہ جو اس کی ذات کا خاصہ نہ تھا وہ خیران ہوا اس کے ری ایکشن پر. . . . . . .  کسی اور  وقت صائم اسے ایسے نظر آتا تو وہ کچا کھا جاتی مگر اس پل وہ بکھری ہوئ تھی۔اس میں لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔۔

ہاں میں ایڈمشن کے پیسے دینے آیا تھا۔۔۔وہ ہولے سے بولا تو وہ ہنس پڑی.   سات رنگوں سے بھی روشن ہنسی لگی تھی اس کی . . . . . . . .  

تمہارا نام رانیہ ہے. . .  

نہیں. . .  اپنے آنسوؤں کو رگڑتے ہوۓ نفی میں گردن ہلائ. . . . . . . . . . .  

تم نے رانیہ لکھا تھا. . . .  

میری بہن تھیں . . . . . .  

تھیں. . . . . . 

ہاں دو سال پہلے ڈیتھ ہو گئ ان کی. .  آنکھ کا بھیگا گوشا صاف کیا. .  صائم کو اس کی تکلیف اپنے دل پر محسوس ہوئ. . . . . .  

آنیہ بچے آؤ کھانا کھا لو. . .  سہیل اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ادھر آیا. . . . . . .  

جی آئ بھیا. . .  وہ اٹھ کھڑی ہوئ. .  سہیل نے سوالیہ انداذ سے صائم کی طرف دیکھا. . . . . .  

بھائ یہ وہی لڑکا ہے بتایا تھا میں نے آپ کو ریگنگ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو. . . .  سہیل کی سوالیہ نظریں محسوس کر کے آنیہ نے اس کا تعارف کروایا. . . .  

اواچھا تو یہ ہے وہ جو میری آنیہ سے پنگا لے رہا تھا. . .  سہیل نے مسکراتے ہوۓ مصافحے کے لیئے ہاتھ آگے کیا. . . . .  

سہیل ہمدانی. . . . .  

صائم قریشی. . . . .  

وہ مسٹر شوکت قریشی کے بیٹے. . .  

جی آپ جانتے ہیں. . . . .  

ہاں ان ہی کے کیسز پر کام کر رہا ہوں آج کل کمپنی والے. . . .  

او اچھا پھر تو جوائن کریں ہمیں. . ڈیڈ کو خوشی ہو گی آپ سے مل کر. . . .  

ضرور واۓ ناٹ سب آۓ ہوۓ ہیں. . . . .  

جی. . .  

چلو پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں ھم نے دسترخوان سجا لیا ہے. . . . . . . . . .  

کیوں نہیں سہیل بھائ ضرور. . . .چلیں موم ڈیڈ ادھر ہیں۔۔وہ ہاتھ سے اشارہ کرتے بولا اور آگے بڑھ گیا۔اس کے پیچھے پیچھے چلتے سہیل اور آنیہ قریشی فیملی کے پاس پہنچے . . . .  

اسلام علیکم قریشی صاحب۔۔سہیل خوشدلی سے ان سے ملا۔۔

وعلیکم اسلام تم یہاں۔۔۔۔

جی بہنوں اور ماں کو گھمانے لایا ہے ۔۔اور یہ میری چھوٹی اینگری برڈ آنیہ. . . . .  سہیل مسکراتے ہوۓ تعارف کروایا۔ 

ایک منٹ کیا بتایا آنیہ. . .  صائم یہ وہی ہے نا جس نے بینڈ بجائ تھی  تمہاری. . . . . .  کرشمہ نے صائم کو چرانے کی کوشش کی مگر خلافِ معمول وہ مسکرا دیا. . . .

جی یہی ہے میری وہ اینگری برڈ۔۔سہیل نے ایک نظر کرشمہ پر ڈالی اور مسکراتے ہوۓ سر جھٹک دیا۔۔

ماشاءاللہ بہت پیاری ہے۔۔۔مسزقریشی واری صدقے جانے لگی. . . . . انہیں وہ معصوم سی سرخ آنکھوں والی آنیہ بہت اچھی لگی تھی اور صائم کے پھیلتے ہونٹ بھی وہ دیکھ رہیں تھیں۔ 

چلیں ہمیں جوائن کریں بہت مزے کا کھانا بناتی ہے میری ماما اور فقیراں بی. . . .  

کیوں نہیں برخودار کھانا ہم نہیں چھوڑتے.  کیوں صائم. .  مسٹرقریشی نے صائم کی طرف دیکھا. . .  

چلیں پھر۔سب آگے پیچھے دسترخوان کی طرف جانے لگے۔ 

تھوڑی دیر میں وہ سب ایک دسترخوان پر کھانا کھا رہے تھے. . . . . .  مسزہمدانی کو کرشمہ سہیل کے لیئے بہت پسند ائ تھی اور مسزقریشی کو وانیہ ریان  کے لیئے. . . . . . .  

ہنستے مسکراتے کھانا کھایا گیا. . . . . . . . .  

____________________________

____________________________

یہ مسلمہ خقیقت ہے

شہنائ حصہ ہے

دکھوں کا

موت کا

مگر یہ شہنائ خوشی ہے

زندگی کا پیغام بھی ہے

جب جب شہنائ بجتی ہے

زندگی ہولے ہولے رقص کرتی ہے۔

تین ماہ بعد. . . .  

ہمدانی ہاؤس میں آج پھر شہنائ گونجی تھی. . . . .  پورے گھر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا. . . . .  

آج سہیل ہمدانی کی شادی تھی کرشمہ قریشی سے. . .  . .  

ہمدانی ہاؤس والوں کی خوشی دیدنی تھی مگر آنکھ اشک بار بھی تھی. . .  رانیہ کی کمی رلا رہی تھی. . . . .  

سہیل تیار ہو کر آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا. . . .  

بھیا بہت بہت مبارک ہو. . . .  اس کے پیچھے عکس ابھرا. . .  

رانی میری جان. . .  سہیل کی آواز بھرا گئ. . . . .  

بھیا خوش ہوں بہت میں آپ کے لیئے. . . .  وہ مسکرائ اور نظروں سے اوجھل ہو گئ. . . .  

رانی رانیہ. .  !!وہ اسے آوازیں دینے لگا. .  اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا. . .  . . . . .  

جب آپ کا کوئ بہت پیارا چلا جاتا ہے. .  تو آپ کو بھرم ہونے لگتا ہے جیسے وہ آپ کے پاس ہے خوشی غمی کو محسوس کر رہا ہے. . . . . . . . .  

____________________________

مسزہمدانی الماری میں سے زیور نکال کر بیڈ پر بیٹھ گئیں. . . .  زیوروں پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ وہ رو پڑیں تھیں. . . .   

ماما ماما یہ والا سیٹ میرا ہے بھیا کی شادی پر پہنوں گی. . .  .  کیا جھمکے ہیں اس کے ساتھ پری لگوں گی میں پری. . . . . .  سیٹ میں سے جھمکا اٹھاتے رانیہ مسکرانے لگی. . . . . .  

ہاں پہن لینا میری بیٹی ویسے بھی حور ہے. . .  .  وہ مسکرا کر اس پری چہرہ کو دیکھے گئیں. . . .  

پر ماما. .  ایک دم وہ اداس ہوئ. . . .  مجھے جانا ہے. . .  جانا ہے. . . .  وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئ. . . . . .  .  

رانیہ رانیہ کدھر ہو میرا بچہ. . . .  وہ اسے آوازیں دیتی ہوئ باہر نکل آئیں. .  

ماما آپیا نہیں ہیں سنبھالیں خود کو. . . .  ان کی آواز سن کر آنیہ اور وانیہ باہر چلی آئیں. . . . .  

بھیا پلیز ماما کو سنبھالیں تھوڑی دیر میں بارات جانی ہے. . . .   

سہیل وانیہ آنیہ مسزہمدانی سب رو رہے تھے. . . . .  

____________________________

شادی بحیروعافیت انجام پائ. اس بار کی شہنائ ہمدانی ہاؤس کے لییئے زندگی کا پیغام تھی۔دکھوں کی وجہ شہنائ تھی تو آج خوشیوں کی وجہ بھی شہنائ تھے. . . . . . . 

دوسال پہلے جس شہنائ کی گونج موت تھی اب وہی شہنائ زندگی تھی۔ 

ہمدانی ہاؤس میں خوشیاں پھر سے لوٹ آئیں تھیں. . . . .  نٹ کھٹ سی کرشمہ نے نے گھر بھر کو سنبھال لیا تھا. . . . . .  

مسزہمدانی بھی کافی حد تک سنبھل گئیں تھیں. .  دھیان بٹا دیا تھا کرشمہ نے اردگرد کی ایکٹویٹیز میں. . .وہ تھی ہی نٹ کھٹ سی ۔رشتوں کو سمجھنے والی نبھانے والی۔سہیل اتنی اچھی جیون ساتھی ملنے پر بہت خوش تھا۔ . . .  

آنیہ اور وانیہ بھی بہت عرصے بعد کھل کر مسکرائ تھیں. . . . .  

زندگی معمول پر آ گئ تھی اور ہمدانی ہاؤس خوشیوں کا گہوارہ بن گیا تھا. . . . . . .  

____________________________

سنو آنیہ. . . .  وہ پھولی سانس کے ساتھ اس کے پاس پہنچا. . . . . .  

کتنا بھاگتی ہو یہ ٹانگیں ہیں کہ ٹائر. . . .  گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا. . . . اشارہ اس کی ٹانگوں کی طرف تھا. .  .   

کیوں جی مسٹرقریشی. . . .  اس نے منہ بنایا. . . . . 

وہ ایک بات کرنی تھی. . .  وہ جھجھکا . . .  

کیا ہوا لارا اتنا شرما رہا ہے دال میں کچھ کالا ہے. . .  اس نے مسکراہٹ دبائ اپنی. . . . .  

ہاں بات ہی ایسی ہے. . . . .  

کیسی بات ہے. . . .  

وہ رات ڈنر پر ملنا پھر بتاؤں گا. .  . . .  وہ کہہ کر بھاگ گیا. .  اور تمہیں لینے آؤں گا تیار رہنا. . . وہ مسکراہٹ دباتا ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا. . . .  

وہ اسے جاتا دیکھتی رہی اور بےاختیار مسکرا اٹھی. . . .  دلکش مسکراہٹ. .

صائم کا ساتھ اسے مسکراہٹ دیتا تھا زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ۔

____________________________________________________________________________

وانی بچے۔۔وانیہ اپنی ماں سے سر پر تیل لگوا رہی تھی ۔جب انہوں نے اسے پکارا۔۔

جی ماما. . . .  وہ آرام سے گویا ہوئ۔ 

بیٹا ریان کیسا لگتا ہے تجھے. . .  . .  انہوں نے نہایت غیرمتوقع سوال کیا وہ چونکی..  

مطلب ماما. . . .  وہ بال چھڑوا کر رخ موڑے حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔  

وہ مسزقریشی نے ریان کے رشتے کی بات کی ہے. تمہارے لیئے. .  سہیل نے کہا تم سے پوچھ کر جواب دوں. . . .  

جیسے آپ لوگوں کی مرضی ماما. . . .  وہ سر جھکا کر بیٹھ گئ. . .  مسزہمدانی اس کی اس ادا پر مسکرا اٹھیں. . . .  

اور جلدی جلدی تیل لگانے لگیں کہ سہیل اور کرشمہ کو بتا کر مسزقریشی کو ہاں کہہ دیں. . . . . . . . .  

وہ اپنی بیٹیوں کی خوشیوں میں ایک پل کی تاخیر نہ چاہتی تھیں۔وہ ان دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی تھیں ہمیشہ بہت بہت۔۔

____________________________

آنیہ سنو ناں. . . .  وانی مسکراتے ھوۓ اس کے پاس بیٹھ گئ. . موبائل پر لگی آنیہ نے نظر اٹھا کر حیرانی سے اسے دیکھا. . .   . . .  

آج کوئ شرمانے کا عالمی دن ہے جس کو دیکھو وہی شرما رہا ہے. . . .  اس کے سرخ پڑتے چہرے پر آنیہ شرارت کی۔ . . . .  

کیوں اور کون شرما رہا تھا. .؟؟ . .  وہ چونکی. . . . .  

مسٹر صائم قریشی بھی شرما شرما کر قیامتیں ڈھا رہے تھے. . . . .  

اچھا وہ کس خوشی میں شرما رہا تھا. . . . . .  

وہ تو مل کر پتہ لگے گا بلایا ہے آج اس نے. . . .  تم بتاؤ کیوں لال ٹماٹر بنی ہوئ ہو. . . . . . .  

وہ ریان کا رشتہ آیا ہے میرے لیئے. . . . . .  

واہ جی کیا چھکا مارا ہے میڈم نے. . . . .  

چل دفعہ ہو میرا کوئ ارادہ تھا نہیں. . .  اب اتنا ہینڈسم بندہ ایسے ہی مل رہا ہے تو انکار تو نہیں کر سکتی تھی. . . .  

واہ دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں ہاں ہاں. . . .  وہ اسے گدگدی کرنے لگی. . . .  دونوں کے قہقہے ہمدانی ہاؤس کی درودیوار نے سنے قسمت نے اذن جدائ لکھا. .  اور روپڑی.   

____________________________

بھابھی میں ذرا باہر جا رہی ہوں. . .  ماما کو سنبھال لینا آپ. . . .  وہ کرشمہ کے سر پر کھڑی تھی. . .  

کہاں کی تیاری میں ہیں فوجیں. ہانڈی میں چمچہ ہلاتی کرشمہ نے چونک کر اسے دیکھا۔۔. . . . . .  

بھابھی وہ صائم نے بلایا. . وہ تھوڑا ہچکچائ تھی۔۔  

اوہ ہو مطلب دونوں میری ہی بھابھیاں ہو. . . .  کرشمہ نے چھیڑا. . . .  

بھابھی. . .  وہ مصنوغی خفگی دکھاتی باہر چلی گئ جہاں صائم اس کا انتظار کر رہا تھا. . . . . .  

____________________________

کیوں بلایا ہے فٹافٹ بتاؤ. . وہ باہر آئ تو گیٹ سے تھوڑے فاصلے پر صائم کی گاڑی کھڑی تھی۔.  وہ جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھی اور فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئ۔انداذ اجلت والا تھا۔. . . .  

رکو تو صیح طوفان کہیں کی. . ہمیشہ جلدی میں رہتی ہو۔۔اس کے بیٹھتے ہی سیم نے گاڑی سٹارٹ کی اور سڑک پر ڈال دی۔۔

جا کہاں رہے ہیں ہم۔۔وہ جنجھلا گئ تھی۔۔

تمہیں کڈنیپ کر کے لے جا رہا ہوں اور کچھ۔۔صائم نے اسے مزید تاؤ دلایا۔۔

ہاہاہا آنیہ ہمدانی کو کڈنیپ کرنا خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔۔ناک سے مکھی اڑانے والے انداذ میں کہتے وہ گاڑی کے باہر دیکھنے لگی۔۔صائم مسکرا اٹھا ۔صائم کو اس کی یہ خوداعتمادی بہت اچھی لگتی تھی۔۔

باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا۔آدھا گھنٹہ بعد وہ ایک ہوٹل کے سامنے کھڑے تھے. . .  آنیہ نے ناسمجھی سے پہلے ہوٹل اور پھر اسے دیکھا. .  

چلو تو صیح بتاتا ہوں. . . .  اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتا وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس کی طرف کا دروازہ کھول کر ہاتھ پھیلایا۔جسے آنیہ نی مسکراتے ہوۓ تھام لیا۔. .  

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہ ہوٹل کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گۓ۔ 

اندر پہنچ کر وہ اسے لیئے ایک ٹیبل پر پہنچا جو پہلے سے ریزرو کی گئ تھی. . . .  

سٹوبری کیک لال پھول عرض پوری ٹیبل لال رنگ سے سجائ گئ تھی. .  لال رنگ پسندیدہ رنگ تھا آنیہ کا. . .ٹیبل کے درمیان میں سرخ گلاب کی پتیوں سے بہت خوبصورتی سے آنیہ کا نام لکھا تھا۔۔ . . . .  

یہ سب کیا ہے صائم. . . .  وہ حیرت اور حوشی کے ملے جلے تاثر کے ساتھ بولی۔.  

Will you merry me. . .  وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا. .  اس کے ہاتھ میں ایک سفید ہیرے کی چمکتی ہوئ ایک رِنگ تھی. . .  .  وہ منہ پر ہاتھ رکھے حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی. . .   اتنے رومینٹک پرپوزل کی توقع نہیں تھی اسے صائم سے. . . . . .  

بتاؤ ناں گھٹنا دکھ گیا ہے. . . . .  اس کے دیکھنے پر وہ معصومیت سے بولا تو وہ کھکھلا اٹھی۔سات رنگوں کے ملاپ سی دلکش مسکراہٹ۔۔  

تم کبھی نہیں سدھر سکتے. . .آنیہ نے ایک دھموکہ اس کے کندھے پر مارا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔صائم نے اسے انگوٹھی پہنائ اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔.  

تو پھر بھیا اور وانی کی شادی کے ساتھ اپنی بھی فکس سمجھو. . . . . . .  دونوں نے قہقہہ لگایا. .  جاندار خوشی سے بھرپور. . . .  

____________________________

وقت گزرا. . .  صائم کی محبت دن بدن بڑھتی چلی گئ. . .  ریان بھی خوش تھا. . .   

وانیہ اور آنیہ نے شاندار نمبروں کے ساتھ ایم۔اے کمپلیٹ کیا تھا۔۔ 

قریشی ہاؤس اور ہمدانی ہاؤس میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں. .ایک بار پھر سے شہنائ گونجنے والی تھی۔ . . . .  

صائم اور آنیہ کی خوشی کی کوئ انتہا نہ تھی. . .  .  

آج مایوں تھا ان کا خوشیوں کا سماں بندھا ہوا تھا ہر طرف. . .  روشنیاں چار سو پھیلی ہوئ تھیں. . . .  

آنیہ تیار ہو رہی تھی جب اس کا موبائل بجا. . . . .  نمبر صائم کا تھا وہ بےاختیار مسکرا اٹھی. . .  

ہیلو. .  موبائل کو کان اور کندھے کے درمیان رکھتی وہ چوڑیاں پہننے لگی۔ . .  

یاد ہے نا تیار ہو کر پکچر بھیجنی ہے مجھے. . . . .  

ہاں یاد ہے بیجھتی ہوں کال تو بند کرو. . . .  وہ مسکرائ. .  

اچھا سنو. . .  صائم مسکراتے ہوۓ بولا. . .  آئ لو یو. . . .  

اوکے سن لیا باۓ. . .  جلدی سے اس نے کال بند کی اور مسکراتے ہوۓ تیار ہونے لگی. . . . . .  

____________________________

وہ کچن میں پانی پینے آئ تھی جب وہاں کسی کی موجودگی نوٹ کر کے پلٹی. . . .  

آپ مجھے ڈرا کر رکھ دیا. . .  ریان کو دیکھ کر اس نے اطمینان کا سانس لیا. . . .  

حیریت کیسے آۓ آپ. . .  وانیہ اس کی طرف مڑی. . .  

یہ ماما نے نکاح اور مہندی کے کپڑے بیجھے ہیں چیک کر لو. . .  اس نے دو شاپرز اس کی طرف بڑھاۓ. . . . . . .  

شکریہ. . . .  وہ مسکرائ. . .  

سنو. . .  

جی. . . . .  

آج بہت اچھی لگ رھی تھی تم. . . . . .  

سچی آپ نے نوٹ کیا مجھے لگا نہیں تھا. . . . .  

سوری میں تھوڑا بورنگ سا بندہ ہوں. . . . .  

کوئ بات نہیں میں یوں چٹکیوں میں آپ کو رومینٹک کر دوں گی. . . . . .  

اوہ اچھا  over confident ہو. . . . . . . . .  

نہیں. . .  my skills. . . .  

چلیں جی دیکھ لیں گے. . . .  ابھی چلتا ہوں. . . . 

بھابھی سے نہیں ملیں گے. . . . .  

لیٹ ہو رہا ہوں کل نکاح پر ملیں گے. تم سے مل لیا آج کے لییئے یہی بہت ذیادہ ہے میرے لیئے. . .  وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا. . . .  

سنیں. . . . . 

. . .  ہوں. . .  آواز پر پلٹا. . .

آپ بھی رج کے سونڑے لگ رہے تھے. . . .  

اچھا شکریہ. . . . مسکراتے ہوۓ کہہ کر وہ باہر چلا گیا. . . . .  

____________________________

آج نکاح تھا دونوں کا. . . .  سفید میکسی پر سرح دوپٹہ پہنے. . .  وہ بہت حوبصورت لگ رہی تھیں. . . . . . .  

قریشی فیملی پہنچ گئ تھی. . .  نکاح کی رسم شروع کی گئ. . . . . . . .  نکاح کے بعد چاروں کو ساتھ بٹھایا گیا. . .  چاروں اتنے سج رہے تھے کہ دیکھنے والے حیران تھے. . . . . .  

کچھ لوگ دیدے پھاڑ پھاڑ کر نظر لگانے کو تھے. . .  اور نظریں پتھر پھوڑتی ہیں. .  وہ تو پھر معصوم سے چار دیوانے تھے. . . . 

نکاح کی رسم دن کو ہوئ شام میں مہندی کا فنکشن رکھا گیا تھا. . . . . . .  نکاح کے بعد سب مہندی کی تیاریوں میں مصروف ہو گۓ تھے. . . . .  

____________________________

وانی. . . . . .  

کیا ہوا. . . . . .  

وہ مہندی کی ڈریس فٹنگ کے لیئے دی تھی لائ ہی نہیں. . . . .  

کیا ابھی تک منگوائ نہیں. . . . .  

بھول گئ ناں چل خود لے کر آتے ہیں. . . . 

بہت ہی غیر ذمہ دار ہو تم کیا بنے گا. . . .  تمہارا. . . . .  

تم فکر نہ کرو میری فکر کرنے کو میرے ہسبنڈ ہیں. . . . . .  

ہاہاہا بلی آسمان پر جا پہنچی. . . . . . . .  

چل چپ کر اور چل. . . .  

دونوں آگے پیچھے نکلیں.باہر نکلیں۔۔

____________________________________________________________________________

قریشی ہاؤس میں گہماگہمی تھی۔شادی کی خوشی ہر شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔

مسز قریشی کو اور کیا چاہیئے تھا ان کی خواہش تھی ریان شادی کر لے تو ریان شادی کر رہا تھا بہت خوش بھی تھا وہ۔۔

صائم کے تو انداذ ہی نرالے تھے۔وہ اتنا خوش تھا کہ بیان سے باہر ہے۔۔

صائم نے اپنے کمرے کی ڈیکوریشن خود کی تھی ایسی ڈیکوریشن کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے۔۔

کیوں اتنے اتاولے ہو رہے ہو. . . . ریان صائم سے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ دیکھ کر حیراں رہ گیا۔بےپرواہ سا صائم اتنی اچھی ڈیکوریشن بھی کر سکتا ہے یقین کرنا ذرا مشکل تھا۔ .  

آپ جیسا بورنگ تو ہوں نہیں اور دوسری بات لومیرج ہے میری اتنا تو بنتا ہے برو. .وہ مسلسل مسکرا رہا تھا . . .  

واہ یار صائم کیا کمرہ تیار کیا ہے آنیہ دیکھ کر دیکھتی ہی رہے گی۔۔ریان نے کھلے دل سے تعریف کی اور سراہتی نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا

بیڈ پر سرخ خوبصورت پھولوں والی بیڈ شیٹ بچھائ ہوئ تھی جس میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سفید پھول اسے اور خوبصورت بنا رہے تھے۔بیڈ کے عین اوپر دیوار پر نکاح کی تصویر فریم کروا کر لگائ گئ تھی. . . . تصویر میں آنیہ سفید میکسی کے ساتھ سرخ دوپٹہ سر پر پہنے صائم کی کسی بات پر ہنستے ہوۓ منہ پر ہاتھ رکھے سر صائم کے کندھے پر ٹکایا ہوا تھا اور صائم بہت غور سے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔

بلاشبہ وہ تصویر وقت کی حسین ترین تصویر تھی۔

سائیڈ ٹیبل پر یونی میں کھینچی گئ آنیہ اور صائم کی خوبصورت تصاویر تھیں۔  

دروازے سے اندر داخل ہوتے سامنے جو دیوار نظر آتی تھی اس پر جب آنیہ کو ڈگری ملی تھی تب کا دیوار کے سائز کا فوٹو فریم تھا۔.  

 پورا کمرہ جگمگ جگمگ کے ساتھ آنیہ آنیہ بھی کر رہا تھا۔۔ 

____________________________

نہیں جاؤ گی تم دونوں. . .  ماما نے صاف انکار کر دیا. . . .  

ممی پانچ منٹ کی بات ہے آ جائیں گے. . . . . .  وہ منت سماجت پر اتر آئیں. . . . . . . . .  

تمہارا بھائ بھی نہیں ہے اور کوئ گاڑی بھی نہیں ہے گھر میں اس وقت کیسے جاؤ گی. . . . . . .  

ممی رکشے سے یوں گۓ یوں آۓ. . . .  آنیہ وانیہ کا واتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بھاگی. . . .  مسزہمدانی مسکرا کر رہ گئیں۔

____________________________

اماں کا فون تھا آنیہ کہہ رہی ہیں جلدی پہنچو دونوں۔دو لڑکیاں پیلا جوڑا پہنے ہاتھ مہندی سے بھرے ہوۓ تھے،سفید پاؤں ہلکے پیلے اور سبز رنگ کے کھسوں میں مقید تھے۔پاؤں پر مہندی سے بنے بیل بوٹے پاؤں کی مزید خوبصورت کر رہے تھے۔

دونوں رکشے میں سوار تھیں۔

اب پنکھ تو ہیں نہیں جو اڑ کر پہنچ جائیں آ رہے ہیں۔آنیہ بیزاری سے رکشے سے باہر کے دوڑتے منظر کو دیکھنے لگی۔سڑک پرگاڑیاں آ جا رہیں تھیں۔باقی دنوں کی نسبت ٹریفک قدرے کم تھا۔۔

تم نہ دیتی اتنے دور مہندی کا سوٹ تو نہ آنا پڑتا مجھ مایوں کی دلہن کو ۔۔وانیہ آنیہ کی طرف مڑ کر بولی جو بےپرواہی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔تنگ آ کر وانیہ بھی سامنےدیکھنے لگی۔۔

تبھی وہ چونکی۔ایک تیز رفتار ٹرک اس طرف آ رہا تھا۔دیکھنے میں پاگل ہاتھی معلوم ہوتا تھا۔۔

بھائ دیکھ ککک. . . . .  وانیہ کی بات منہ میں ہی رہ گئ۔تیز رفتار ٹرک بہت زور سے آ کر رکشے سے ٹکرایا.  تھا۔۔

رکشہ الٹا ہو کر بہت دور جا گِرا تھا۔آنیہ جو باہر کے منظر سے مخظوظ ہو رہی تھی۔ٹرک کی ٹکر سے وہ رکشے میں سے گھلاٹیاں مارتی ہوئ دور جا گِری۔سر سے بےتحاشہ خون بہنے لگا۔۔ہاتھ میں پڑی شگن کی چوڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔مایوں کا جوڑا لال ہو گیا تھا۔

جبکہ رکشہ بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔وانیہ کی حالت آنیہ سے ذیادہ حراب تھی۔اس کے پورے وجود سے خون کی ندی بہہ رہی تھی۔۔

سڑک پر چاروں طرف خون ہی خون تھا۔۔مایوں بیٹھی دلہنیں نزع کی حالت میں تھی۔

ہاتھوں پر لگی مہندی کے سرح رنگ کو خون کے سرخ رنگ نے چھپا دیا تھا۔۔۔

دور کہیں قسمت کی آواز گونجی تھی۔۔

جب جب شہنائ بجتی ہے موت ساتھ ہی آتی ہے۔۔

____________________________

بھیا یہ نیکلس دیکھیں آنیہ کو دوں گا کیسا ہے۔۔صائم نے ایک خوبصورت نیکلس ریان کی طرف بڑھایا۔۔

بہت خوبصورت ہے. . ریان نے اس کی چوائس کو داد طلب نظروں سے دیکھا تھا۔۔

اور یہ. . . ایک محمل کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھی جب کہ الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ تھے۔اس کے سینے میں درد کی ایک شدید ٹیس اٹھی۔وہ آہ کر کے رہ گیا تھا۔۔ 

کیا ہوا ٹھیک ہو صائم تم۔۔ریان نے بڑھ کر اسے تھاما۔۔ . .  

جی بھیا بس دل میں اچانک درد کی ٹیس اٹھی پتہ نھیں کیوں۔۔صائم کا چہرہ بتا رہا تھا وہ درد اب بھی سینے میں موجود ہے۔تاثرات درد بھرے تھے.  ۔۔۔.  

چلو تمہیں ہسپتال لے کر چلتا ہوں۔۔ریان پریشان ہو گیا تھا۔۔.  

اب ہارٹ پیشنٹ تو نہیں ہوں میں. . . . .  اس نے ٹالا مگر اسے ایک دم سے گبھراہٹ محسوس ہوئ. .  دل تیز تیز دھڑکنے لگا. . . . . . . . . . .  اس نے بےاختیار دل پر ہاتھ رکھا. . .  وہ سینے کو مسلنے لگا جیسے بہت گھٹن ہو رہی ہو. . . . . . .

صائم تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔ریان نے اسے صوفے پر بٹھا کر پانی کا گلاس تھمایا۔۔تم یہ پیو میں ماما کو بلاتا ہوں۔۔ریان کمرے سے باہر بھاگا۔۔

صائم کے دل کا درد بڑھ رہا تھا۔۔ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔۔وہ بےبسی سے سینے کو ایک ہاتھ سے مسل رہا تھا۔۔

اور سو میں سے دس محبت کرتے ہیں اور پانچ عشق زدہ ہوتے ہیں۔وہ عشق کے ان پانچ لوگوں میں عشق زدہ ٹھہرا تھا۔۔  

____________________________

سڑک پر لوگوں کی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔سب تماشائ تماشہ دیکھ رہے تھے کوئ آگے بڑھ کر ان دونوں کو ہسپتال لے جانے کی زحمت نہیں کر رہا تھا۔

زمانہ بےحس ہو رہا ہے

سینوں میں دھڑکتے

لوتھروں کو

دل کی جگہ

پتھر کے نام سے

جانا جانے لگا تھا۔

بےحسی عروج پر تھی۔

پولیس اور ایمبولنس وہاں پہنچ چکی تھی. . . . .  پیلے جوڑے میں ملبوس دو لڑکیاں سڑک پر بےسُدھ پڑیں تھیں. .چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ . .  

ٹوٹی چوڑیاں سڑک پر بکھر چکی تھیں. .  واقعی نظریں پتھر پھوڑ دیتی ہیں.. . . .  

انہیں ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا. . . .  

کیا ہوا لڑکیاں ٹھیک ہیں. . .  ڈاکٹر روم سے باہر نکل تو انسپکٹر نے پوچھا. . . . .  

ایک لڑکی کی موت تو وہیں ہو گئ تھی. . . .  ایک کی سانسیں چل رہی ہیں. .  مگر نہیں لگتا ذیادہ چلیں گی. . .  وہ کچھ کہہ رہی ہے. . . . .  ڈاکٹر ماسک اتارتے ہوۓ بولا. . . . . . . .  

بھیا. .  ماما. .  اور صائم. . . بس یہی الفاظ اس کے اٹکتی سانسوں کے درمیان منہ سے نکل رہے ہیں۔

ہم ان کے گھر والوں کو انفارم کرتے ہیں.لگتا ہے کسی شادی پر جا رہی تھیں یا اپنی شادی تھی ان کی. . . .  حلیے سے ایسا ہی لگ رہا ہے . .  کیا ہم اس لڑکی سے مل لیں. . . . .  

جی ضرور. . . . .  

انسپکٹر آئ۔سی۔یو میں داخل ہوا. . .  سامنے پڑی لڑکی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں. . . . .  مگر اس کے لب ہل رہے تھے. . . . .  

صائم کو کک کال کال کرو. . .  وہ ہکلائ. . . . .  

نمبر. . . . .  

اس نے اٹکتے ہوۓ نمبر بولا. . . .  

دو تین بیل پر کال پک کر دی گئ. . . . .  

ہیلو صائم قریشی سپیکنگ. . .سینے کی بڑھتی گھٹن کی وجہ سے کمرے کے چکر کاٹ رہا تھا . . . . . . .  

فوراً سے سٹی ہسپتال پہنچے دو لڑکیوں کا بہت شدید ایکسیڈینٹ ہوا ہے. . .  ایک نے آپ کا نمبر دیا ہے آپ آ جائیں. . . . .  

کیا ایکسیڈنٹ. . .  ریان کی سانسیں اکھڑی۔۔ میں پہنچتا ہوں. . . .  دل میں درد کی وجہ جان کر دل ساکن ہو گیا تھا۔۔

ممم میری بات کراؤ صص صائم سے. . . . . .  آنیہ بمشکل بولی. . . . . . .  

انسپکٹر نے فون اس کی کان سے لگایا. . . .  

صائم۔۔. . .  صائم اس کی آواز سن سکتا تھا جس میں درد تھا. تکلیف تھی بہت کچھ تھا۔۔. . .  

جج جارہی ہوں صص صائم. .  سب ادھورا رہ گیا سب کچھ. . . . .  

نہیں صائم کی جان کچھ نہیں ہو گا میں آ رہا ہوں. . .تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا کچھ نہیں ۔۔بازو سے آنسو پونجتا وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا۔۔ . .  

کوئ فائدہ نہیں . .میرا وقت آ گیا ہے۔ہر ذی روح کو لوٹ جانا ہے جہاں سے وہ آئ ہے . . .  آئ لو صائم. . .  وہ ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ پائ تھی کہ آخری ہچکی گونجی ۔اجل کا فرشتہ اس نئ نویلی دلہن کو لیئے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کر گیا۔۔ . . .   

آنیہ. . . .  وہ گلا پھاڑ کر چلاتے ہوۓ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔ .  

کیا ہوا صائم ۔ سب ٹھیک ہے. . . . .  ریان اور باقی سب بھی اس کی آواز سن کر وہاں پہنچے. . . .  

ببھائ وو وہ. . . . .  وہ بول نہیں پا رہا تھا. .اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی الفاظ گلے میں رندھ گۓ تھے۔۔ . .  

کیا ہوا بتاؤ نا. . .ریان بھی پریشان ہوا اس کی حالت پر۔۔ .  

وہ آنیہ اور وانیہ کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے. . .  بھائ  ہسپتال چلو. . . .  اس کی بات پر آسمان سب کے سروں پر آن گرا. . . سب ساکت ہو گۓ تھے۔۔. .  

چلو چلو جج جلدی چلو۔۔ریان کا دل زور سے دھڑکا۔اس کی آنکھوں کے سامنے مسکراتی ہوئ وانیہ کا چہرہ گھوما تھا۔۔اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔شائد درد

سب بھاگے بھاگے ہسپتال پہنچے. . . . .  سہیل کو بھی انفارم کر دیا گیا. . . .  وہ فقیراں بی ،کرشمہ.  مسزہمدانی سب پہنچ گۓ. . . . . .  

کک کیا ہوا ڈاکٹر وہ ٹھیک ہیں نا. صائم کے آنسوؤں نے اسے پورا بھگو دیا تھا۔۔. . . . . . .  

ایک لڑکی  وہیں موقع پر دم توڑ گئ تھی اور دوسری تھوڑی دیر پہلے مر گئ. . . . .  

ڈاکٹر کے الفاظ تھے کہ پگھلا سیسا

سب ڈھے گۓ. . . .  صائم تو صدمے کی کیفیت میں تھا. . .  اس نے جانا جان جلے جانے سے تکلیف دہ جان سے ذیادہ پیارے شخص کا چلے جانا ہے. . . . . . .وہ زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رو دیا۔۔ .  

مسزہمدانی پھوٹ پھوٹ کر رو دیں. . . .  ابھی تو ان کی رانیہ گئ تھی اور اب آنیہ اور وانیہ بھی. . . . . . .  

ریان  رو پڑا تھا اس کی وانیہ اس کی بیوی اس کی محرم مر چکی تھی ۔. . . .  سب لوگ رو رہے تھے ہسپتال کا سٹاف ڈاکٹر سبھی. . . .  وہ جو رحصتی سے ایک دن پہلے دکھ دے گئیں تھی وہ بھرنے والے نہ تھے. . . . .  

صائم کی حالت خراب ہو رہی تھی روتے روتے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا. . . . . .  اس کا چیک اپ کیا گیا. . .  وہ گہرے صدمے میں چلا گیا تھا. . .وہ کومہ میں چلا گیا تھا کیونکہ وہ عشق زدہ تھا۔۔ . . . 

آج پھر دو سال پرانی کہانی دہرائ گئ تھی۔آج پھر شہنائ کے ساتھ ماتم ہوا تھا۔

خوشی شادیانے جب جب

بجتے ہیں۔

تب تب موت خوشیاں

کھانے آتی 

قسمت روتی ہے

اپنے پر پھیلاتی ہے

اور پھر،پھر

فرشتہ اجل اپنا جلوہ دکھاتا ہے

جسموں سے روحوں کو لے جاتا ہے

ایک گہرا زحم دے جاتا ہے

جس کی بھرپائ وقت کرتا ہے

کیونکہ وقت سے بڑا

چکریہ کوئ نہیں

مگر کھرنڈ رہ جاتے ہیں

آج پھر سے ہوا

ماتم سنگ شہنائ کے. . . . . . . . . 

____________________________

ان کو کفن دفن کے لیئے گھر لایا گیا. . . .  وہ گھر جو کچھ پل پہلے شہنائ کی گونج میں تھا وہاں سے ماتم کی آوازیں بلند ہوئیں. . . . . . . . روشنیوں کو اتارا گیا ڈیکوریشن کی توڑ پھوڑ کرتے سہیل رو رہا تھا وہ مظبوط مرد اپنی بہنوں کے مر جانے پر ٹوٹ کر رو دیا تھا. . .  

سب کی حالت خراب تھی .  مسزہمدانی سکتے میں تھیں. . . . .  

کچھ لوگوں کے دل کتنے بےحس ہوتے ہیں دو دو جوان دلہنیں شادی کے دو مر گئیں تھیں مگر احساس کی جگہ لوگ لوٹ مار میں لگے ہوۓ تھے۔

گھر لڑکیوں کے جہیز سے بھرا ہوا تھا وہ بھائ کی لاڈلیاں تھیں۔وہ مر چکیں تھیں۔

لوگ جہیز کا سامان چپکے چپکے لے جا رہے تھے جس کے ہاتھ جو لگا وہ اپنا خق سمجھتے ہوۓ لے گیا۔یوں جیسے مالِ غنیمنت ہو ۔سونا چاندی برتن کپڑا کچھ نہیں چھوڑا تھا لوٹنے والوں نے۔۔

دنیا دوغلے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔چہرے پر آنسو لے کر غم میں شامل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر پیٹھ پر کاری وار کرتے ہیں۔۔ 

انسانیت چند لوگوں تک محدود ہو گئ ھے باقی مانندہ لوگ اس احساس سے عاری ہیں۔۔ 

____________________________

مر گئ تھی زندگی میرے

وجود میں ہی کہیں

تین سال بعد______

ہمدانی ہاؤس سے خوشیاں کوسوں دور ہو گئ تھیں۔۔ایک ویرانی سی چھائ تھی۔بیٹیوں کی ناگہانی موت کا صدمہ لیئے مسزہمدانی بھی منوں مٹی تلے جا سوئیں تھیں۔۔

بہت عرصے بعد ہمدانی ہاؤس میں پھر سے خوشیوں کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔

سہیل کی دو جڑواں بیٹیاں ہوئ تھیں جن کا نام آنیہ اور رانیہ رکھا تھا. . وہ اپنی شہزادیوں سی بہنوں کو کہاں بھول پایا تھا  

ریان کی بھی شادی ہو گئ تھی اس کی بیوی ایک وفاشعار اور خوش مزاج لڑکی تھی. . .  ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ریان نے وانیہ رکھا تھا. . . . . .  

وانیہ کو وہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا تھا. . .  چند منٹ کا نکاح تھا ان کا مگر ہمیشہ یاد رہنے والا رشتہ تھا. . وہ صائم قریشی کی محبت تھی اس کی محرم تھی۔۔ .  

اور صائم قریشی. ایک عشق زدہ شخص. . . .  

وہ دنیا جہان سے بیگانہ ہو گیا تھا. . . .  اس کی محبت عشق بن چکی تھی . . . .  

ڈیڑھ سال پہلے وہ کومہ سے باہر آیا تھا. .  چپ چاپ بیٹھا آنیہ کی تصاویر دیکھتا رہتا جو ابھی بھی اس کے کمرے میں رنگ بکھیر رہیں تھیں. . . . .اس نے کمرے کی ڈیکوریشن کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیا تھا اس کا کمرہ آج بھی آنیہ آنیہ کر رہا تھا۔۔

وہ گھنٹوں بیٹھا آنیہ کی دیوارگیر تصویر کو دیکھتا رہتا تھا۔باتیں کرتا اور پھر رو پڑتا تھا۔۔  

ایک سال لگا تھا اسے سنبھالنے میں۔گھر والوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی اسے زندگی کی طرف لانے کی اور وہ آ بھی گیا تھا مگر اس کی زندگی رنگوں سے کوسوں دور تھی۔وہ بلیک اینڈ وائٹ ویران زندگی گزارنا چاہتا تھا۔۔. .  

اس نے کہا تھا وہ ایسا چپ ہو گا ایک دن کے سب ترسیں گے اور سچ ہوئ اس کی بات سب ترس رہے تھے. اس کی نٹ کھٹ سی باتوں کے لیئے شرارتوں کے لیئے مگر وہ باتیں وہ قہقہے گزرا زمانہ ہوا تھا۔۔  

وہ سنبھل چکا تھا مگر زندگی نۓسرے سے شروع نہیں کرنا چاہتا تھا. . .  وہ کہتا کہ شادی اک بار ہونی تھی ہو گئ بس آنیہ کے بعدکوئ نہیں. . .  

وہ زندگی کو صرف یادوں کی دنیا میں رہ کر جینا چاہتا تھا مگر یہ زندگی ہے جہاں قدم ڈگمگا کر بندہ گِرنے لگتا ہے تو ہمسفر کی ضرورپ پڑتی ہے۔۔

جانے والوں کو دل سے نہیں نکالا جا سکتا مگر زندگی ایک لاحاصل کے سہارے بھی نہیں جئ جا سکتی۔۔

ہاں فی الوقت زندگی اس کے وجود میں ہی مر گئ تھی جسے دوبار زندہ کرنے میں وقت لگنا تھا۔۔

____________________________

تیرے بعد اس قدر اکیلے ہو گۓ ہیں

یہ جو اک لفظ ہے نا "ہم"مجھے اب اچھا نہیں لگتا۔۔

لال رنگ کی گاڑی ایک قبرستان کے پاس رکی. . .  لال رنگ اس کی آنی کو پسند تھا اور صائم  نے اس کی ہر پسند کو خود پر لاگو کر لیا. . .وہ رنگوں سے روٹھ گیا تھا مگر لال رنگ اسے آج بھی بہت پسند تھا۔۔ . . . . . .  

گاڑی سے اتر کر وہ  قبرستان میں داخل ہوا. .قبرستان میں ہو کا عالم تھا ۔ویرانی ہی ویرانی تھی۔۔

ایسے لوگ بھی دفن ہیں ان قبروں میں جو زندگی خدا بن کر جیتے ہیں۔

کچھ ایسے لوگ جنہیں تنہا رہنے سے بھی حوف آتا ہو اور اب وہ اس ویران قبرستان میں اکیلے ایک قبر میں پڑے تھے۔

ایسے لوگ بھی دفن ہوتے ہیں جو کسی کی سانسیں چلنے کیوجہ ہوتے ہیں۔جو جینے کا آسرا ھوتے ہیں اور پھر مر جاتے ھیں۔

قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں امیر غریب،کال گورا،موٹا پتلا، سب ایک ہی جگہ پر بغیر کسی مخالفت کے ہوتے ہیں۔۔

 وہ قبروں کے پاس سے گزرتے ہوۓ ایک ایک قبر کا کتبہ پڑھا رہا تھا۔۔ایسے ہی پڑھتے پڑھتے وہ ایک قطار میں بنی قبروں کے پاس پہنچا۔۔وہیں وہ ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا۔۔سر جھکا کرقبر پر رکھ دیا۔آنکھوں سے بےشمار آنسو نکلے تھے۔۔آنکھیں غم اور آنسوؤں کی شدت سے لال ہو رہیں تھیں۔۔ 

جھکا سر اٹھا  کر کتبے پر ہاتھ  پھیرنے لگا. . .  کتبے پر آنیہ صائم قریشی لکھا ہوا تھا. . . .  اک آنسو آنکھ سے بہتا ہوا قبر پر جا گِرا۔۔  

تمہیں پتہ ہے ایم۔اے میں گولڈمیڈل ملا مجھے. .  تمہاری خواہش تھی نہ میں ٹاپ کروں اور میں پاگل فیل ہی ہوتا رہتا تھا. . . .  وہ رو رہا تھا آنسو آنکھوں سے نکلتے ہوۓ شرٹ کو بھگو رہے تھے۔۔

ہم بھی کتنے عجیب لوگ ہیں کوئ مر جاتا ہے تو اس کی خواہشیں جن کو بےپرواہی کی بھول بھلیا میں چھوڑ دیتے ہیں شدت سے یاد آنے لگتی ہیں۔اور پھر ہم سرتوڑ کوشش کر کے ان خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔۔مگر کیوں۔؟؟خواہش کرنے والا تو جا چکا ہوتا ہے۔۔۔

ہم اتنی ہی اہمیت زندہ انسان کو دیں تو شائد کچھ پل وہ اور جی لے۔۔

آنیہ کی قبر کے ساتھ وانیہ اس کے ساتھ رانیہ اور مسٹرہمدانی کی قبر تھی. .  .   قطار بنی ہوئ تھی ایک ہی خاندان کے چار لوگوں کی قبریں تھیں۔ہنستی کھیلتی فیملی کے چار زندگی کو جینے والے ایک ساتھ نیند کی آغوش میں تھے۔۔. . . . . . . 

آنیہ لوگ پوچھتے ہیں اتنا بھی کیا درد. . . .  یار وہ محبت کریں تو جانیں یہ جو محبوب کی جدائ کا درد ہوتا ہے ناں تمام دردوں پر بھاری ہوتا ہے. . .بازوؤں کو قبر کے دھانے پر رکھ کر اس نے اوپر اپنا سر رکھا۔. . . .   

وہ روز آنیہ سے بات کرنے آتا تھا اور گھنٹوں لگا رہتا. .  وہاں کوئ آتا تو دیوانہ سمجھ لیتا تھا اسے. . . وہ ہر شے سے بےپرواہ ذیادہ وقت وہیں گزارتا تھا۔۔

لوگ پوچھتے ایسا بھی کیا درد کے وہ ہر وقت ایک تڑپ اور اذیت کا شکار رہتا. . . .  مگر لوگ کہاں سمجھیں گے دیوانے کے درد کو. . . . . . .

____________________________________________________________________________

ایک سال بعد۔۔۔

میم وہ پیشنٹ اب ٹھیک ہیں بلکل ۔۔آپ نے ان کو مشکل گھڑی سے نکالنے کے لیئے بہت مخنت کی ہے۔۔وہ آپ سے ملنا چاہتا ھے۔۔وہ وارڈ میں کھڑی مریض چیک کر رہی تھی جب ڈاکٹر ایلف انہیں آگاہ کرنے لگی۔۔

وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔۔میں نہ سائیکیٹرسٹ ہوں نہ کوئ نجومی۔۔وہ مصروف سے انداذ میں بولی تھی۔۔صاف لگ رہا تھا وہ بات کو ٹال رہی ہے۔۔

پھر بھی ڈاکٹر ردا آپکو اس سے ملنا چاہیئے آپ کو اچھا لگے گا۔۔ڈاکٹر ایلف سلیس انگلش میں کہتی دوسرے وارڈ کے پیشنٹس کی طرف بڑھ گئیں۔۔

مریض کو چیک کر کے کچھ ضروری ہدایات کرتی اسٹیتھوسکوپ گلے میں لٹکاۓ وہ وارڈ سے نکل آئ تھی۔۔

اس کا دل بضد تھا اس دیوانے سے ملنے کو۔وہ چھ سال سے اسائیلم میں تھا اور ردا نے پورے تین سال اس پرمحنت کی تھی۔اسے زندگی کی طرف لائ تھی۔۔وہ کوئ نفسیات کی ڈاکٹر نہیں تھی۔پھر بھی وہ نفسیات اور اس کے علاج کو سمجھ لیتی تھی۔۔

اور اس معاملے میں تو وہ خود کو بےبس محسوس کرتی تھی۔وہ خودبخود کھنچی چلی جاتی تھی اس کے پاس۔۔

ابھی بھی بےبسی سے مٹھیاں بھینچتے وہ گاڑی کی چابی اٹھاۓ ہسپتال سےنکل آئ تھی۔۔

گاڑی سٹارٹ کر کے اس نے سڑک پر ڈالی۔رخ اسائیلم کی طرف تھا۔۔

اسائیلم پہنچ کر اسنے گاڑی روکی اور نیچے اتری۔سامنے لگے بورڈ پر اجلے خروف میں اسائیلم لکھا تھا۔

اردگِرد ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے وہ گھٹنوں تک آتے لانگ کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر داخل ہوئ۔۔

اسائیلم کا عملہ اس سے واقف تھا۔سبھی آتے جاتے مسکرا کر اسے دیکھ کر گزر جاتے تھے جواب میں وہ سر کو ہلکا سا خم دیتی تھی۔۔

راہداری سے گزرتی وہ ایک کمرے میں پہنچی جہاں وہ پچھلے تین سالوں سے لگاتار آ رہی تھی۔۔جس کا نتیجہ تھا کہ مریض عشق صحت یاب ہو رہا تھا۔۔

کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے سفید جینز پر سفید شرٹ پہنے جس کے اوپر سبز اور سرخ روشنائ سے خان لکھا ہوا تھا ایک ہینڈسم سا آدمی کھڑا تھا۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا اور سامنے ردا کو پا کر دھیمے سے مسکرایا۔۔

آپ آ گئیں ڈاکٹر میں بس نکل ہی رہا تھا۔۔وہ فریش لگ رہا تھا مگر اس کی مسکراہٹ چھ سال کی مسافت میں بہت اداس ہو گئ تھی۔۔

مجھے تو آخر یہیں آنا تھا۔۔ردا کی بات پر وہ چونک کر مڑا۔۔مطلب آپنے بلایا تھا۔۔گڑبڑا کر جلدی سے ردا نے بات سنبھالی۔۔

ہمم شکریہ ادا کرنا تھا آپکا۔۔وہ پھر سے مسکرایا تھا۔۔لگتا تھا وہ زبردستی مسکراہٹ کو ہونٹوں سے جدا نہیں ھونے دے رہا۔۔

آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ریحان مصطفی خان۔۔وہ اپنے سامنے کھڑے خود سے کئیں سال بڑے شخص کو دل کا حال بیان کر رہی تھی جس کے لئیے اس نے بڑی ہمت جمع کی تھی۔۔

شکریہ۔۔وہ جان کر بھی انجان بنا۔۔

شادی کریں گے مجھ سے۔۔سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھ کر ردا نے اسے پرپوز کر ڈالا۔۔ریحان تو حیرانی سے اسے دیکھے گیا۔

ایج کیا ہے تمہاری۔۔ریحان نے بیگ زمین پر رکھا اب وہ پوری طرح سے اس کی بات پر توجہ دے رہا تھا۔۔

ستائیس سال۔۔دس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔

میری 43 سال۔۔وہ اسے خقیت دکھانا چاہتا تھا۔۔

تو محبت اس قید سے آزاد ہے۔۔اس کا مؤقف خاظر تھا۔۔

پر میں مخبت کی قید میں ہوں۔میری مینٹلی کنڈیشن صیح ہو گئ ہے مگر دل چھ سال پیچھے ہی اٹکا ہوا ہے۔۔

آپ کو رونے کے لیئے کسی کندھے کی ضرورت پڑے گی تو میرا کندھا خاضر ہو گا۔۔وہ بضد تھی۔۔

اپنے احسان کا بدلہ چاہتی ہو۔۔

نہیں بس یہ بتا رہی ہوں جس شے کو آپ ترسے ہو کسی دوسرے کو مت ترساؤ پھر چاہے وہ مخبت ہو یا کچھ اور۔۔۔

میں محبت نہیں کر سکوں گا۔۔فیصلہ سنایا گیا۔۔۔

محبت میں کر لوں گی۔۔جواب فوراً آیا۔۔

مخبت کے بعد محبت ممکن نہیں۔۔

ناممکن بھی نہیں۔۔وہ جوابات کے ساتھ خاضر تھی ۔

مجھے سوچنے کے لیئے وقت چاہیئے۔۔اس کی محبت کے آگے وہ ہارنے لگا ۔۔

آپ کو ٹائم دیا میں نے۔۔وہ ہولے سے مسکرائ جانتی تھی وہ مان چکا ہے۔۔

____________________________________________________________________________

صائم آج بڑے دنوں بعد یونی آیا تھا۔۔ڈگری لینے کے بعد بھی وہ اکثر یہاں آتا تھا۔۔

یونی کے تمام سٹوڈنٹس پروفیسرز اس سے واقف تھے کبھی کبھا وہ بھی بلا لیتے تھے کوئ کلاس لینے کے لیئے کسی کو فلسفہ سمجھانے کے لیئے۔

اور کمال کی بات اس دنیا بھر کے نالائق کو عشق نے محنتی بنا کر ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔۔

یونی میں معمول کی گہماگہمی تھی۔۔آتے جاتے ستوڈنٹس ۔ٹولیاں بنا کر جگہ جگہ بیٹھے تھے سٹوڈنٹس۔۔

صائم کو آج پروفیسر راج نے بلایا تھا جو کہ اردو کے ٹیچر تھے۔صائم عشق زدہ تھا تو اس سے یہی کچھ پوچھا جاتا تھا۔۔

آج اس نے مخبت کے تین پہر جو رات سے متشابہہ رکھتے ہیں بتاۓ تھے۔۔

کلاس لینے کے بعد وہ گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جب ایک آواز نے اس کے قدم منجمند کر دیئے تھے اور مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔

شٹ اپ ریگنگ کرنے کی سوچنا بھی مت ورنہ میری سینڈل ہو گی اور سینڈل کے نیچے ہو گا تمھارا سر۔۔وہ ہاتھ نچا نچا کر مقابل کے چھکے چھڑوا رہی تھی۔۔

صائم دلچسبی سے اسے دیکھے گیا۔۔آنیہ کے بعد پہلا چہرہ تھا جسے دیکھ کر اسے دلچسبی محسوس ہوئ۔ہونٹ خودبخود مسکراۓ تھے۔۔

صائم کو لگا وہ حال سے ماضی میں چلا گیا ہے۔سامنے کھڑی لڑکی میں اسے آنیہ دکھی تھی جس نے صائم کے صیح چھکے چھڑاوۓ تھے۔۔

اور پنگہ مت لینا مجھ سے ورنہ دیکھ لوں گی۔آنیہ درانی نام ہے میرا۔۔انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ ایک لڑکے کو زور سے دھکا دے کر سامنے سے ہٹاتی بیالوجی کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئ۔۔۔نظروں سے اوجھل ہو جانے تک صائم نے اس کی پشت کو مسکراتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔

سنو۔۔!! پھرکچھ سوچتے ہوۓ اس نے لڑکوں کی اس ٹولی سے جسے ابھی وہ بےعزت کر کے گئ تھی بلوایا۔۔

جی سر۔۔

یہ میرا کارڈ ہے اس لڑکی کو دے دینا۔۔کہہ کر گلاسز پہنتا وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔۔

مگر سر وہ کچا کھا جاۓ گی۔۔لڑکا اس کی زبان کے جوہر دیکھ چکا تھا تبھی ڈر گیا تھا۔۔

کچھ نہیں ہو گا تم یہ کارڈ دے دینا۔۔لڑکے کو خوصلہ دیتے وہ گاڑی سٹارٹ کر کے زن سے بھگا لے گیا۔۔

زندگی کہیں بھی نہیں رکتی۔۔اکثر زندگی میں ہم ان مراحل سے گزرتے ہیں جب لگ رہا ہو زندگی ختم ہو رہی ہے تو وہیں سے زندگی شروع ہوتی ہے۔۔

کسی کا جانا دل کی دنیا ہلا کر رکھ دیتا ہے مگر زندگی جینی پڑتی ہے پھر بھی اور زندگی جینے کے لیئے ہمسفر کی ضرورت رہتی ہے۔۔

ختم شد۔

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Matam Sang E Shehnai ke Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Matam Sang E Shehnai Ke written by  Preesha Mahnoor Khan  . Matam Sang E Shehnai Ke by Preesha Mahnoor Khan   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages