Jaan E Sitamgar By Farwa Khalid Complete Romantic Novel Story
Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Rude Hero Based Romantic Novel Enjoy Reading.....
Jaan E Sitamgar By Farwa Khalid Complete Romantic Novel |
Writer Name: Farwa Khalid
Category: Complete Novel
آج موسم صبح سے کافی ابر آلود تھا۔۔۔۔ کالی گھٹاؤں نے آسمان کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔۔۔ تیز ہوا کے جھونکے سے ہر شے اپنے مدار میں جھوم رہی تھی۔۔۔۔تین بجے کا وقت تھا مگر سورج کے رُخِ روشن کے آگے اُٹھکلیاں کرتے بادلوں نے ہر سو اندھیرا پھیلا رکھا تھا۔۔۔۔ اردگرد دیکھ کر یہی معلوم ہورہا تھا جیسے رات کا منظر ہو۔۔۔۔۔۔
کسی بھی وقت یہ حسین بادل بارش کی صورت زمین پر زور و شور سے برس پڑنے کو تیار تھے۔۔۔ سب لوگ ہی موسم کے یہ خطرناک تیور دیکھ کر جلدی جلدی اپنا کام نبٹانے کی کوشش کررہے تھے۔۔۔۔ تاکہ ہر طرف ہوتے جل تھل اور ٹریفک میں پھنسنے سے پہلے ہی گھر پہنچ سکیں۔۔۔۔
مگر اُن سب میں ایک سر پھری لڑکی پریسا زینب بھی تھی۔۔۔۔۔ جو نہ صرف اِس موسم کی دیوانی تھی بلکہ اِس وقت بھی کام نبٹانے کے بجائے مزید بڑھانے کی پلاننگ کرچکی تھی۔۔۔۔
"پری رک جاؤ۔۔۔۔ پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔ دیکھو موسم کتنا خراب ہورہا ہے۔۔۔۔ چپ کرکے گھر چلو۔۔۔۔۔ "
فضہ تیز ہوا کے ساتھ اُڑ کر جاتے اپنے دوپٹے کو سنبھالنے میں ہلکان ہوتے ہوا کے دوش پر سوار پریسا زینب کے پیچھے جاتے بولی۔۔۔۔
"کیا یار۔۔۔ اتنے پیارے موسم کو بھلا خراب موسم کون کہتا ہے۔۔۔۔ اور میں کوئی لوفریاں مارنے نہیں جارہی۔۔۔۔ سفیان کا کل برتھ ڈے ہے۔۔۔۔ میں اُنہیں رات بارہ بجے سب سے پہلے وش کرکے ہمیشہ کی طرح سرپرائز دینا چاہتی ہوں۔۔۔۔ جس کے لیے مجھے کیک چاہیئے۔۔۔۔ ابھی وہی لینے جارہی ہوں۔۔۔۔ اِس لیے اب بنا کوئی فضول بات بولے چپ کرکے میرے ساتھ چلو۔۔۔۔۔"
پریسا پلٹ کر اپنی گول گول آنکھیں گھما کر اُسے گھورتی اُس کا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگی تھی۔۔۔۔۔۔
"لیکن پری جس بیکری سے تم کیک لینے کا کہہ رہی ہو۔۔۔ وہ تو شہر کے دوسرے کونے پر ہے۔۔۔ وہاں تک جاتے جاتے تو رات ہوجانی ہے۔۔۔۔ موسم خراب ہونے کی وجہ سے ویسے ہی ٹریفک جام ہوگا۔۔۔۔ تم کسی اور بیکری سے لے لو نا کیک۔۔۔۔ کیک تو کیک ہی ہوتا ہے نا۔۔۔ "
صدا کی ڈرپوک فضہ نے اُسے روکنا چاہا تھا۔۔۔۔ پریسا جس قدر بارش کی دیوانی تھی فضہ کی اُتنی ہی اِس موسم سے جان جاتی تھی۔۔۔۔۔۔
"نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ گل بہار بیکرز کے کیک جیسا کوئی کیک نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔ اور چاہے جتنی بارش بھی آجائے۔۔۔ میں ہر حال میں اپنا فیورٹ چاکلیٹ کیک تو لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔۔ "
پریسا اُس کا انکار خاطر میں لائے بغیر اُسے ساتھ کھینچتی یونی کے مین گیٹ کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ وہ بچپن سے لے کر اب تک گل بہار بیکرز کا کیک ہی کھاتی آئی تھی۔۔۔ وہاں کے آنر کے بیٹے گل شیر بھائی کے ہاتھ کا بنا چاکلیٹ کیک اُس کا موسٹ فیورٹ کیک تھا۔۔۔۔ اِس کیک کے علاوہ وہ کوئی دوسرا کیک نہیں کھاتی تھی۔۔۔۔
ایک بار گل شیر کے بیمار ہوجانے پر اُس نے پورا مہینہ کیک نہیں کھایا تھا۔۔۔۔ اُس کی زندگی کا واحد ایسا مہینہ جس میں اُس نے چاکلیٹ کیک نہ کھایا ہو۔۔۔ ورنہ وہ مہینے میں چار پانچ بار تو کیک ضرور کھاتی تھی۔۔۔۔
اُن کے یونی سے قدم باہر رکھتے ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ فضہ تو بھاگ کر گاڑی میں گھس گئی تھی۔۔۔۔ مگر پریسا باہر ہی کھڑی اپنا چہرا آسمان کی جانب کیے۔۔۔۔۔ بارش کے قطروں سے اپنا دودھیا چہرا مزید ترو تازہ کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔
اردگرد کے لوگ۔۔۔ بارش شروع ہوتی دیکھ جلدی جلدی اپنے ٹھیکانوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ اور ساتھ ہی حیرانی اور کچھ دلچسپی سے اُس پاگل سر پھری لڑکی کو بھی گھور رہے تھے۔۔۔۔ جو کریم کلر کے شارٹ فراک ٹراؤذر میں ملبوس، سوٹ کے ساتھ کے دوپٹے کو گلے میں لپیٹے، پیروں میں وائٹ کھسے پہنے، بے حد سیاہ سٹریٹ بالوں میں کیچر لگا کر کمر پر کھلا چھوڑے وہ ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے بارش میں بھیگتی کوئی آسمان سے اُتری پری معلوم ہوئی تھی۔۔۔ جس آس پاس کی دنیا کا کوئی ہوش تھا ہی نہیں۔۔۔۔ جس کے لیے اُس کی اپنی ذات ہی بہت اہم اور اُس کے لیے کافی تھی۔۔۔۔۔
زمین سے اُٹھتی گیلی مٹی کی مہک نے اُس کے تاثرات میں مزید خوشگواریت بھر دی تھی۔۔۔
"پری کی بچی۔۔۔۔ آنا نہیں ہے تم نے کیا؟؟؟"
فضہ کی آواز نے اُس کا سارا طلسم توڑ دیا تھا۔۔۔۔ پری نے اپنی گول گول دلنشین آنکھیں گھما کر اُسے گھورا تھا۔۔۔ مگر پھر دیر ہوجانے کا سوچ کر نا چاہتے ہوئے بھی اُسے اپنا پسندیدہ شغل ختم کرنا پڑا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بڑے بڑے درختوں سے سجے گھنے جنگل کے عین بیچ بنائے گئے اُس وسیع و عریض بنگلے کے بلیک ٹائیگرز پوری طرح چاقو چوبند کھڑے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔۔۔۔
اِس بنگلے کی سیکیورٹی اتنی سخت تھی کہ جنگل میں اگر بنگلے سے تیس کلو میٹر دور بھی کوئی انجان شخص داخل ہوتا تو فوراً بنگلے کے اندر ریڈ الرٹ جاری ہوجاتا تھا۔۔۔۔۔ اور نہ ہی کوئی فضائی طور پر اِس بنگلے کا دورہ کرسکتا تھا۔۔۔۔ بلیک ٹائیگرز میں موجود شاپ شوٹرز فورسز سے کی جانے والی ایسی کئی کوششوں کو ناکام بنا چکے تھے۔۔۔۔
جس کے بعد سے کسی نے بلیک بیسٹ کے ایریا میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کی تھی۔۔۔۔
"ابھی کچھ ہی دیر میں بلیک بیسٹ پہنچنے والے ہیں۔۔۔۔ "
بلیک ٹائیگر فورس کے کیپٹن جنید کی بات ابھی پوری ہی نہیں ہوئی تھی جب بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ ہی پہلے سے چلتی ہوا میں ہیلی کاپٹر کے پروں نے مزید طوفان مچا دیا تھا۔۔۔۔۔
بنگلے کے وسیع و عریض میدان میں ہیلی کاپٹر آن اُتر۔۔۔ جس کے کچھ سیکنڈز بعد ہی وہاں سے سیاہ ماسک پہنے سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس بلیک بیسٹ اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ باہر نکلا تھا۔۔۔۔
اُن تینوں نے ہی اپنے چہروں کو سیاہ ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔۔ وہ تینوں ہی سیاہ لباس میں ملبوس تھے۔۔۔۔ اُن تینوں کو دیکھ کر وہاں چاک و چوبند کھڑے اُن کی بلیک ٹائیگر فورس نے سر اُٹھا کر اُنہیں سلام کیا تھا۔۔۔
چوڑے سینے اور مضبوط کسرتی وجود کا مالک شاہ ویز سکندر ماتھے پر اُن گنت سلوٹیں ڈالے مُٹھیاں سختی سے بھینچے تیز قدموں سے چلتا بلیک ٹائیلوں سے سجی روش کے اُوپر چلتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ جس کے دونوں اطراف سیاہ گلاب کے پھول لگائے گئے تھے۔۔۔۔ صرف وہاں نہیں بنگلے میں ہر طرف صرف سیاہ گلاب کا ہی راج تھا۔۔۔۔ اِس کے علاوہ کسی کو بھی وہاں کوئی دوسرے کلر کا پھول لانے اور لگانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔۔
شاہ ویز کے دائیں جانب اُس کے جیسی ہی شاندار پرسنیلٹی کا مالک میر حازم اپنی مقناطیسی آنکھوں میں گہری سنجیدگی طاری کیے اُس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ شاہ ویز سکندر کے بائیں جانب نزاکت اور دلکشی کی چلتی پھرتی مورت مہروسہ کنول موجود تھی۔۔۔۔ جس کی ماسک سے جھانکتی کاجل سے لبریز سیاہ آنکھیں دیکھنے والوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں قتل کردینے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ آج تک اُس کا ہتھیار سے کیا بھی کوئی وار خالی نہیں گیا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے نشانے میں بہت ماہر تھی۔۔۔ آج تک اُس کا کوئی نشانہ کبھی مس نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
وہ تینوں تیز رفتاری سے چلتے بنگلے کی لمبی راہداری عبور کر کے سیڑھیاں چڑھتے اپنے بلیک روم میں داخل ہوئے تھے۔۔۔۔ جس میں داخل ہونے کے لیے اُن تینوں کے فنگر پرنٹس یوز ہوتے تھے۔۔۔۔ یا اُن کے الگ الگ پاسورڈز۔۔۔جو اُن میں ایک دوسرے کو بھی پتا نہیں تھے۔۔۔۔
اُن تینوں کے علاوہ کوئی اِس حساس کمرے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اُن کا سیکورٹی لاک توڑ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔
"شبیر چوہان کے کالے کرتوتوں میں ہر گزرتے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔ اب اُسے چین کی نیند سلانے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز سکندر نے دلکش مغرور نقوش سے سجے اپنے خوبرو چہرے سے ماسک اُتارتے ٹیبل پر پھینکتے لیپ ٹاپ آن کیا تھا۔۔۔۔ جہاں شبیر چوہان کے گھر کا پورا نقشہ موجود تھا۔۔۔۔ شبیر چوہان ایک بہت بڑا سیاست دان تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اُس کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی کہ وہ اُن تین بلیک سٹارز کی نگاہوں میں آچکا تھا۔۔۔۔۔
"مگر شبیر چوہان نے پچھلے ایک ہفتے سے گھر سے باہر قدم نہیں رکھا۔۔۔۔ اور اس کے گھر میں داخل ہونے کا مطلب ہے۔۔۔ خود کو پولیس کسٹڈی میں دے دینا۔۔۔۔۔"
مہروسہ ہمیشہ کی طرح لیٹسٹ اپڈیٹس سے آگاہ کیا تھا اُنہیں۔۔۔۔۔
"ہماری دھمکی بھجوانے کے بعد سے وہ اتنا خوفزدہ ہے۔۔۔۔ شبیر چوہان نے امریکہ سے سپیشل سیکیورٹی فورس بلائی ہے جس کے تحت وہ ہم سے بچنے کے لیے ملک سے باہر بھاگ جانا چاہتا ہے۔۔۔۔ مگر ہم نے اُس پر حملہ کرکے اُس کی امریکی سیکیورٹی ٹیم کی جو دھجیاں اُڑائی ہیں۔۔۔۔ اُس کے بعد سے وہ اپنے گھر میں قید ہوکر رہ گیا کے۔۔۔۔ مگر اب اُس کے مرنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔ اب ہم ماریں گے اُسے وہ بھی اُس کے گھر میں گھس کر۔۔۔"
حازم نے کرسی پر براجمان ہوتے مہروسہ کی پریشانی کم کی تھی۔۔۔
"لیکن میر سر شبیر چوہان کے گھر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔۔۔ وہاں سے بچ کر نکلنا ناممکن سی بات ہے۔۔۔۔"
مہروسہ اگر اِس پوری دنیا میں کسی کے لیے پریشان ہوتی تھی تو وہ دونوں تھے۔۔۔ جن کے لیے وہ اپنی جان بھی دینے کو تیار رہتی تھی۔۔۔۔۔ ورنہ اُن دونوں کے علاوہ تو وہ پوری دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتی تھی۔۔۔۔
"بالکل ممکن نہیں ہے۔۔۔۔ مگر شبیر چوہان کو مارنا بھی ان ناگزیر ہوچکا ہے۔۔۔۔ ہم ماریں گے تو ضرور اُسے۔۔۔۔ میں اور حازم جائیں گے۔۔۔ تم یہیں رہو گی۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات پر جہاں حازم پرسکون رہا تھا۔۔۔ وہیں مہروسہ جھٹکے سے شاہ ویز کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔
"مگر شاہ سر میں کیوں نہیں آسکتی۔۔۔۔۔ ہم نے ہمیشہ ہر مشن ایک ساتھ کیا ہے۔۔۔ "
مہروسہ کو کسی طور برداشت نہیں تھا کہ وہ خطرے میں رہیں۔۔۔ اور مہروسہ سکون سے یہاں بیٹھے۔۔۔ وہ تینوں ہی اچھے سے جانتے تھے کہ ملک کے تمام فورسز کے ادارے اُنہیں پکڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے بیٹھے تھے۔۔۔۔
"میں نے ایسا کب کہا کہ تم اِس مشن کا حصہ نہیں ہوگی۔۔۔۔ تمہارا کام اِس مشن میں سب سے زیادہ مشکل ہے۔۔۔۔ ہمارے پکڑے جانے کے بعد۔۔۔ ہمیں رہاع تمہی نے کروانا ہے۔۔۔۔۔ اگر تینوں اریسٹ ہوگئے تو بچانے کون آئے گا۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات پر مہروسہ نے اپنی رکی سانس بحال کرتے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ اور حازم کا مزاج ایک جیسا تھا۔۔۔ وہ اگر مشن کے ٹائم پر بہت سنجیدہ اور کام میں فوکس رہتے تھے۔۔۔۔ تو بعد میں لائف کو انجوائے بھی کرتے تھے۔۔۔ مگر شاہ ویز سکندر نے تو جیسے اپنا آپ پوری طرح اِس کام میں وقف کردیا تھا۔۔۔۔۔ وہ نہ تو کبھی اُن کے ساتھ کسی لنچ ڈنر میں شامل ہوتا تھا نہ کسی مشن کی کامیابی کی سلیبریشن پارٹی میں۔۔۔۔۔ سالوں بیت گئے تھے کسی نے اُسے ہنستا تو دور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اے ایس پی حبہ امتشال ایم این اے شبیر چوہان کی سیکورٹی پر کسی قسم کے کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔ آپ پانچ آفیسرز کی ٹیم اِسی لیے تیار کی ہے میں نے تاکہ کسی قسم کے خطرے کا نام و نشان نہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی فوراً آپ لوگ جاکر ایک بار اپنے طور پر سیکورٹی کے انتظامات چیک کرلیں۔۔۔۔ "
آئی جی صاحب اپنے مقابل کھڑے حبہ امتشال سمیت باقی پولیس آفیسرز کو بریفنگ دے رہے تھے۔۔۔ جب اُسی لمحے ٹیبل پر رکھا اُن کا فون زور و شور سے بج اُٹھا تھا۔۔۔۔۔
"کیا۔۔۔ جی سر میں ابھی اپنی ایک اور ٹیم بھیج رہا ہوں۔۔۔۔ ہم دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔۔"
فون پر دی جانے والی خبر سن کر آئی جی صاحب کے چہرے پر موجود پریشانی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔
"ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ شبیر چوہان کو ابھی کچھ دیر پہلے آج رات مارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔۔۔ پچھلی بار اُن لوگوں نے حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔۔ اور وہ اُس میں کامیاب رہے۔۔۔۔ مگر آج اُنہیں کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دینا۔۔۔۔۔"
آئی جی صاحب کی بات سن کر حوصلہ افزا جواب دے کر وہ سب سلوٹ کرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔۔
"جیسے اُس خبیث انسان کے کرتوت ہیں۔۔۔ اُس کا یوں کتے کی موت مرنا ہی بنتا ہے۔۔۔۔۔ میرا تو دل کررہا ہے سیکیورٹی کرنے کے بجائے گھر جاکر اپنی دو راتوں کے جگراتے کی نیند ہی پوری کر لوں۔۔۔ زرا جو اندازہ ہوتا کہ اِس فیلڈ میں آکر ایسے لوگوں کی حفاظت کرنی پڑے گی تو کبھی نہ آتا۔۔۔۔۔"
آفس سے باہر نکلتے ہی ایس پی عمار نے اُکتائے ہوئے لہجے میں اپنی بیزاری کا جواب دیا تھا۔۔۔
جس پر اُس کے ساتھ چلتی حبہ نے اُسے سخت نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔
"وہ ہمارے ایک بہت ہی معزز سیاست دان ہیں۔۔۔ ہم ایسے کیسے کسی بھی خبر پر یقین کرکے اُنہیں غلط کہہ سکتے ہیں۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ ایک نیک انسان ہوں۔۔۔۔؟؟ یہ ڈیوٹی جوائن کرتے ہم نے اِسے ایمانداری سے کرنے کا حلف اُٹھایا تھا۔۔۔۔ اگر آپ کو یاد ہوتو۔۔۔۔۔ "
حبہ اُسے کھڑی کھڑی سناتی اپنے سر پر کیپ درست کرتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
"اتنا بھی اندھا دھند ڈیوٹی کے پیچھے پاگل نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔ "
عمار ادارے کی سب سے قابل آفیسر حبہ امتشال کی یہ ایمانداری دیکھ بڑبڑاتے آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تھینکیو گل بھائی۔۔۔۔ ہمیشہ اتنے شارٹ نوٹس پر مجھے کیک بنا کر دینے کے لیے۔۔۔۔۔"
پریسا گل بہار بیکرز سے کیک لے کر نکلتی وہاں کے آنر گل شیر کا شکریہ ادا کرتے بولی۔۔۔۔ جنہوں نے چاہے کتنی بھی مصروفیت ہو۔۔۔۔ اُنہیں کیک بنا کر دینے سے انکار نہیں کیا تھا۔۔۔۔
"آلویز ویلکم گڑیا۔۔۔۔۔۔ "
گل شیر کو یہ چھوٹی سی لڑکی بہت اچھی لگتی تھی۔۔۔ جو ہمیشہ اتنے دور سے پورے لاہور کی بیکریز چھوڑ کر صرف اُس کے پاس آتی تھی۔۔۔۔۔
"اُف اللہ جی کتنی تیز بارش شروع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ اتنی تیز بارش میں بھلا گاڑی تک کیسے پہنچیں گے۔۔۔۔ تم یہ کیک تو ڈرائیور کو پکڑا دیتی۔۔۔۔ نہیں ہوتا تمہارے کیک کو کچھ۔۔۔۔۔۔۔"
فضہ بارش کی ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں خود پر پڑتے ہی اُسے کوسنا شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ بیکری کے قریب قریب کہیں بھی پارکنگ کے لیے جگہ نہیں تھی۔۔۔۔ اِس لیے اُن کی گاڑی قدرے فاصلے پر کھڑی تھی۔۔۔۔
"فضہ تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ یہ ننھے منھے قطرے تمہارا بھلا کیا بگاڑیں گے۔۔۔۔۔ چپ کرکے چلو نہیں پگھلتی تم۔۔۔۔۔ "
پریسا نے ابھی اتنا ہی کہا تھا جب بارش اچانک سے بہت تیز ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ اِس سے پہلے کے وہ چند قدم بھی آگے بڑھاتی جب دائیں جانب سے کوئی شخص بہت تیزی سے آتا اُسے سے بُری طرح ٹکرا گیا تھا۔۔۔۔۔
پریسا کے ہاتھ سے کیک چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔ کیک کی حالت دیکھ بے ساختہ پریسا کے ہونٹوں سے چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔ اِس سے پہلے کے وہ خود بھی توازن برقرار نہ رکھ پاتے سر کے بل ماربل کے جاگرتی مقابل نے اُس پر احسانِ عظیم کرتے اُس کا نازک ملائم ہاتھ اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسے گرنے سے بچایا تھا۔۔۔۔۔
"تم پاگل، اندھے تمہیں۔۔۔۔۔۔"
پریسا ابھی اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔ جب اُس شخص نے پلٹ کر قہر برساتی نگاہوں سے پریسا کو دیکھا تھا۔۔۔ اُس سیاہ لباس میں ملبوس نقاب پوش کی خود پر گڑھی سیاہ آنکھیں دیکھ پریسا خوف سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
اور رہی سہی کسر اُس کے اگلے عمل نے پوری کردی تھی۔۔۔۔ جب اُس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے افراد پر اندھا دھند فائرنگ کھولتے اُنہیں وہیں ڈھیر کردیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے خون میں لت پت زمین پر گرتی لاشوں کو دیکھا تھا۔۔۔۔ تیز بارش کی وجہ سے روڈ پر اکٹھا ہوتا پانی لال ہوچکا تھا۔۔۔۔
پریسا نے پہلی بار اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا کوئی خوفناک منظر دیکھا تھا۔۔۔۔ جسے برادشت نہ کر پاتے وہ اپنے حواس کھوتی بے ہوش ہوتے نیچے جاگری تھی۔۔۔۔
مگر اِس بار سامنے کھڑے شاہ ویز سکندر نے اُسے تھامنے کی غلطی بالکل بھی نہیں کی تھی۔۔۔۔۔
وہ اِس لڑکی کی اِس قدر نزاکت پر اُسے شعلہ بار نگاہوں سے گھورتا اُسی تیز رفتاری سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"جلدی جلدی ساری تیاری کر لو۔۔۔۔ ایس پی سر کسی بھی وقت پہنچ سکتے ہیں۔۔۔۔ "
انسپکٹر عاصم بینچ پر سست سے انداز میں بیٹھے اہلکاروں کو آگاہ کرتا اپنے کیبن کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
"کوئی نہیں ایس پی صاحب کونسا کوئی دوسرے سیارے سے آرہے ہیں۔۔۔۔ ہمارے جیسے ہی ہونگے نا۔۔۔۔ "
عاصم کو وہاں سے ہٹتے دیکھ وہ اہلکار واپس کرسیوں پر ڈھے گئے تھے۔۔۔ جب اُسی لمحے ایک درمیانی عمر کی عورت ایک چھوٹے سے بچے کو ساتھ لگائے۔۔۔ روتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
"یہ لو۔۔۔۔ پھر نازل ہوگئی نئی مصیبت۔۔۔۔۔"
اُن میں سے ایک اُکتائے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔۔
"صاحب جی۔۔۔۔۔ میری مدد کریں۔۔۔۔ میں بہت مجبور عورت ہوں۔۔۔ پہلے بھی دو بار آچکی ہوں۔۔۔۔ مگر میری رپورٹ درج نہیں کی گئی۔۔۔ پہلے ملک افضل کے آدمی صرف دھمکیاں دے رہے تھے۔۔۔ مگر اب تو اُنہوں نے ہماری دکان پر قبضہ جما کر ہمارا سارا سامان باہر پھینک دیا ہے۔۔۔۔۔ خدا کے لیے ہماری مدد کریں۔۔۔۔ میں اکیلی بیوہ عورت اُن لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔ "
وہ عورت ہاتھ جوڑے اُن کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔۔
"دیکھو مائی ہم تمہارا مسئلہ سمجھتے ہیں۔۔۔ مگر ملک افضل کی پہنچ سے تم اچھی طرح واقف ہو۔۔۔ اُس کے خلاف ایف آئی آر کٹوا کر تم اپنے لیے تو مزید مصیبت کھڑی کرو گی ہی سہی۔۔۔ اور ساتھ ہماری وردی بھی اُتروا دو گی۔۔۔۔۔ ہمیں تم سے ہمددری ہے مگر ہم اِس معاملے میں بہت مجبور ہیں۔۔۔۔ ہم تمہاری مدد کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔"
اُن میں سے ایک نے ویسے ہی بیٹھے بیٹھے اُس عورت کو دو ٹوک جواب دیا تھا۔۔۔۔
"اگر مدد نہیں کرسکتے۔۔۔ اور اتنے ہی مجبور ہو تو پولیس اسٹیشن میں کیا کررہے ہو۔۔۔۔ وردی اُتار کر گھر چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔"
پولیس اسٹیشن میں گونجتی گھمبیر بھاری غصے سے لبریز آواز پر وہ جھٹکے سے سیدھے ہوئے تھے۔۔۔۔ اُسی لمحے انسپکٹر عاصم بھی اپنے کیبن سے باہر آیا تھا۔۔۔۔
فل یونیفارم میں ملبوس کندھے اور سینے پر اپنی قابلیت کے بیجز سجائے ایس پی حمدان صدیقی اُن کے پیروں تمے سے زمین کھسکا گیا تھا۔۔۔۔
"سر وہ۔۔۔۔۔۔ "
اُن میں سے ایک نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر حمدان نے اب اُنہیں ایسا کوئی بھی موقع نہیں دیا تھا۔۔۔۔
"دو مہینوں کے کیے معطل کرتا ہوں میں تم لوگوں کو۔۔۔۔ تاکہ گھر میں سکون سے بیٹھ کر سوچو کہ تم لوگوں کو یہ وردی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے دی گئی ہیں۔۔۔ اُن کے سروں پر اپنی مجبوریوں کا بوجھ لادنے کے لیے نہیں۔۔۔۔۔"
حمدان نے اُنہیں زرا سی بھی مہلت دیئے بغیر سزا سنا دی تھی۔۔۔۔۔
"سر ہمیں۔۔۔۔ ایک موقع۔۔۔۔۔"
اِس نئے آفیسر نے ایک پل کے اندر اُن کی ساری سستی اور کاہلی دور کردی تھی۔۔۔۔
"دو مہینے بعد موقع ملے گا۔۔۔۔ اپنی وردی جمع کروا کر جاسکتے ہو تم لوگ یہاں سے۔۔۔۔۔ بی بی آپ آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔"
حمدان اُنہیں سخت لہجے میں وارن کرنے کے ساتھ ساتھ اُس خاتون کو نہایت ہی احترام سے اپنے ساتھ آنے کا کہتا اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
"شہباز ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ کیا ہوا ہے میری بچی کو۔۔۔۔ یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی۔۔۔۔۔ "
یاسمین بیگم پریسا کا سر اپنی گود میں رکھے فکرمندی سے بولی تھیں۔۔۔۔ فضہ نے وہاں پیش آیا سارا واقع سنا دیا تھا۔۔۔ جسے سن کر اور پریسا کی حالت دیکھ کر سب گھر والے پریشان ہوچکے تھے۔۔۔
سفیان اور شہباز صاحب بھی آفس سے ساری میٹنگز کینسل کرتے فوراً گھر پہنچے تھے۔۔۔۔
نور محل کے ہر فرد کی جان بستی تھی اپنی اِس نازک سی گڑیا میں۔۔۔ وہ بن ماں باپ کی بچی اُن سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔۔۔۔ اُس کے چچا شہباز آفندی جہاں اُسے باپ جیسی شفقت فراہم کرتے تھے وہیں۔۔۔ اُن کی بیگم یاسمین آفندی نے ہمیشہ اُسے ممتا کی چھاؤں تلے رکھا تھا۔۔۔۔
نور محل میں شہباز آفندی اپنے دو بھائیوں اور اُن کی فیملیز کے ساتھ وہاں رہتے تھے۔۔۔۔
شہباز آفندی کے دو بیٹے تھے بڑا کامران آفندی اور اُس سے چھوٹا سفیان آفندی۔۔۔ جس کا بچپن سے پریسا کے ساتھ رشتہ طے تھا۔۔۔ جس بات سے وہ دونوں باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو بہت پسند بھی کرتے تھے۔۔۔۔
جہاں پریسا سفیان کے معاملے میں بہت پوزیسو تھی۔۔۔ وہیں سفیان بھی اُس پر جان دیتا تھا۔۔۔ اُسکی چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری کرنا سفیان کی زندگی کا اہم مقصد بن چکا تھا۔۔۔۔
وہ اُس کی کوئی بھی بات رد نہیں کرتا تھا۔۔۔۔ چاہے خود کتنی بھی مشکل برداشت کرلے۔۔۔۔۔ شہباز آفندی کے بڑے بھائی اور پریسا کے فادر ظفر آفندی اکیس سال پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنی بیوی نگہت بیگم کے ساتھ دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔۔۔
تب پریسا کی کمر صرف دو سال تھی۔۔۔۔ اُس معصوم سی بچی کو یاسمین بیگم اور گھر کے باقی افراد نے بہت ہی محبت اور شفقت سے اُسے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔۔۔۔
شہباز آفندی سے چھوٹے شوکت آفندی تھے جن کی وائف ثمینہ بیگم اور دو اولادیں۔۔۔۔ ایک بیٹی فضہ اور بیٹا احد تھے۔۔۔۔ اُن سے چھوٹے عامر آفندی تھے۔۔۔۔ جن کی وائف سلمہ بیگم۔۔۔ اور تین اولادیں تھی۔۔۔ عمر، طلحہ اور فجر۔۔۔۔۔
جہاں گھر کے مردوں کا کام مختلف ملکوں میں پھیلا وسیع و عریض بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔ وہیں گھر کی تمام خواتین ہاؤس وائف تھیں۔۔۔۔ ہر طرح کی آزادی حاصل ہونے کے باوجود ایک بات کی اجازت اُن میں سے کسی کو نہیں تھی۔۔۔۔ اور وہ تھی جاب کرنے کی اجازت۔۔۔۔۔
نجانے ایسی کیا وجہ تھی کہ شہباز آفندی کو گھر کی عورتوں کا جاب کرنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی اپنے آفس میں اور نہ کسی اور جگہ۔۔۔۔
جس پر سب نے خاموشی سے سر جھکا دیا تھا۔۔۔۔
"زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔۔۔ بچی نے اُس وقت جو منظر دیکھا ہے۔۔۔۔ اُس سے خوفزدہ ہوکر گہرے صدمے میں چلی گئی ہے۔۔۔۔۔ لیکن ڈاکٹرز کا کہنا ہے۔۔۔ کچھ دیر میں ہوش میں آجائے گی۔۔۔۔ پری کے ہوش میں آنے کے بعد اُس سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔۔۔۔ جتنا ہوسکے اُسے ریلیکس رکھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔"
شہباز آفندی آنکھیں موندے یاسمین بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹی پری کے ماتھے پر پیار کرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔۔۔
"سفیان بیٹا آپ بھی جاکر ریسٹ کر لو۔۔۔۔ کافی تھک گئے ہوگے۔۔۔۔ پری کو جیسے ہی ہوش آتا ہے میں آپ کو انفارم کردوں گی۔۔۔۔۔"
یاسمین آفندی نے ایک جانب تھکے تھکے کھڑے سفیان کی جانب دیکھتے کہا تھا۔۔۔ جو آج صبح کی دبئی سے لوٹا تھا۔۔۔۔ اور زرا سا بھی آرام کیے بغیر آفس میں ہوتی کچھ اہم میٹنگز میں بزی رہا تھا۔۔۔۔
"نہیں ماما پری کو میں اِس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ جب تک پری کو ہوش نہیں آجاتا میں۔۔۔ یہیں رہوں گا۔۔۔۔۔ "
سفیان وہیں پریسا کے قریب چیئر رکھے بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔
جبکہ یاسمین پری کے لیے اُس کی اتنی محبت دیکھ دھیرے سے مسکرا دی تھیں۔۔۔ پریسا آفندی تھی ہی اتنی پیاری کہ کوئی بھی اُس سے پیار کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا۔۔۔۔
سفیان کتنے ہی لمحے یک ٹک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔۔ دودھیا رنگت، پرکشش نقوش، ستواں ناک۔۔۔ پنکھڑیوں سے گلابی نازک تراشیدہ لب، اور گول مٹول آنکھوں پر سایہ فگن گھنی لانبی پلکیں۔۔۔۔ اپنی بے پناہ خوبصورتی سے انجان وہ پیاری سی لڑکی بہت ہی صاف دل اور سادہ تھی۔۔۔۔ اُس میں بناوٹ نام کو نہیں تھی۔۔۔۔۔
یاسمین بیگم مسلسل اُس پر کچھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔۔۔۔ سفیان نجانے کتنے ہی لمحے اُسے ایسے ہی یک ٹک دیکھے جاتا جب پری نے کسمساتے آنکھیں نیم واں کی تھیں۔۔۔۔
"پری تم ٹھیک ہو۔۔۔۔"
سفیان فوراً اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
" بڑی ماما۔۔۔ سفیان وہ۔۔۔ وہاں وہ نقاب پوش۔۔۔ وہ خون۔۔۔۔ قتل۔۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔"
پریسا اُسی خوف کے زیرِ اثر بے ربط بولتی یاسمین آفندی کی گود میں منہ چھپا گئی تھی۔۔۔
"پری تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں جو تمہیں نقصان پہنچا سکے۔۔۔۔۔۔ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔۔ وہ جو بھی ہوا اُسے بھیانک خواب سمجھ کر بھول جاؤ۔۔۔۔ اور جس نے وہ سب کیا ہے میں اُسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"
سفیان اُس کا ہاتھ اپنی نرم گرفت میں تھامتا محبت پاش لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ جس پر پری کو اپنے دائیں ہاتھ پر بے اختیار اُس نقاب پوش قاتل کا وہ سخت ترین لمس محسوس ہوا تھا۔۔۔ جس نے اُسے ایسے پکڑا تھا جیسے اُس کے ہاتھ کی ہڈیاں توڑ دے گا۔۔۔۔
سفیان اور یاسمین بیگم کا پریشان چہرا دیکھ پریسا نے بہت مشکل سے خود کو کچھ حد تک نارمل کیا تھا۔۔۔
"بہت بُرا انسان تھا وہ۔۔۔ بہت بے دردی سے اُس نے اُن لوگوں کی زندگی چھین لی۔۔۔۔ بڑی ماما کوئی انسان بھلا اتنا ظالم بھی ہوسکتا ہے کیا۔۔۔ ؟؟؟"
پریسا کوشش کے باوجود اُس شخص کی سیاہ آنکھیں فراموش نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ جو اُسے اِس وقت بھی اپنے وجود میں گڑھی محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شبیر چوہان کے گھر پر ڈھیروں کے حساب سے جگہ جگہ پر سیکیورٹی گارڈز تعینات کیے گئے تھے۔۔۔۔ پولیس ، رینجرز اور بھی نجانے کون کون سی فورسز کو بلوا لیا گیا تھا۔۔۔۔ شبیر چوہان کو جب سے بلیک سٹارز کی جانب سے دھمکی ملی تھی۔۔۔
وہ مزید خوف اور ہڑبڑاہٹ کا شکار ہوچکا تھا۔۔۔۔ نجانے کتنے سیکیورٹی گارڈز چینج کیے گئے تھے۔۔۔ شبیر چوہان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح اپنے سر پر منڈلاتے اُن بلیک سٹارز سے خود کو کہیں چھپا لے۔۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب اُس کے گناہوں کا گھڑا بھر چکا تھا۔۔۔۔ اور بہت جلد وہ بلیک سٹارز اُس کے سر پر پہنچنے والے تھے۔۔۔۔۔
"بہت بڑا رسک لے رہے ہو۔۔۔۔ وہ لوگ اِن کاؤنٹر کرکے تم لوگوں کو مار بھی سکتے ہیں۔۔۔۔"
شبیر چوہان اور باہر موجود اُس کی سیکیورٹی پر تعینات آفیسرز کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔ کہ شبیر چوہان کی سیکیورٹی کا مین انچارج کوئی اور نہیں بلکہ شاہ ویز سکندر اور میر حازم سالار کا بہت گہرا دوست تھا۔۔۔۔ جس کی مدد سے اُنہیں شبیر چوہان کے بنگلے میں داخل ہونے میں پندرہ منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگا تھا۔۔۔۔۔
اِس وقت حماد اُن کے سامنے کھڑا اُنہیں متوقع خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
"جتنے بڑے بڑے خطروں سے ہم کھیل چکے ہیں۔۔۔ اُس کے آگے یہ رسک کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔ تمہارے اِس احسان کو کبھی نہیں بھولیں گے۔۔۔۔ زندگی رہی تو دوبارہ ملاقات ہوگی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔۔۔"
وہ دونوں اُس سے بغل گیر ہوتے ویٹر کے حلیے میں کھانے کی ٹرالی گھسیٹتے شبیر چوہان کے بیڈ روم کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔۔ حماد بھی اُن کے ساتھ ساتھ ہی تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر سیکیورٹی اہلکاروں نے اُنہیں نہیں روکا تھا۔۔۔ مگر دروازے تک پہنچتے ہی وہ شاہ ویز کے اشارے پر کال آجانے کا بہانہ کرتا سائیڈ پر ہوگیا تھا۔۔۔ شاہ ویز نہیں چاہتا تھا کہ اُن کے ساتھ ساتھ وہ بھی پھنس جائے۔۔۔۔
ٹرالی گھسیٹتے وہ دونوں اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔
جہاں شبیر چوہان اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھا کسی بھی طرح ملک سے فرار ہونے کا پلان ترتیب دے رہا تھا۔۔۔ اُنہیں اندر آتا دیکھ وہ جلدی سے خاموش ہوئے تھے۔۔۔
"یہ سب یہیں رکھو اور جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"
شبیر نے اُن دونوں کو سر سے پیر تک مشکوک نگاہوں سے دیکھتے وہاں سے جانے کو بولا تھا۔۔۔۔
جس پر وہ دونوں اُسی خاموشی کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔ مگر دروازہ کھول کر باہر جانے کے بجائے وہ اُسے اندر سے لاک کرتے واپس شبیر چوہان کی جانب پلٹے تھے۔۔۔۔
"کک کون ہو تت تم۔۔۔ تم لوگ۔۔۔۔"
شبیر چوہان تکیے کے نیچے رکھا اپنا پسٹل تلاشتے خوف کے مارے چیخ اُٹھا تھا۔۔۔۔ اُس کے ساتھ کھڑے اُس کے بھائی کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔۔
"ہم تو یہاں صرف تمہیں مارنے آئے تھے۔۔۔ مگر یہ بالکل بھی نہییں جانتے تھے کہ تمہارا یہ سیاہ کار بھائی بھی یہاں مل جائے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز اپنے چہرے سے ویٹر کا حلیہ تبدیل کرتا اپنے اصل روپ میں واپس آیا تھا۔۔۔
"تم۔۔۔۔ ؟؟؟"
شبیر نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب حازم کو اپنی جانب پیش قدمی کرتے دیکھ اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔۔۔۔
"وہیں جن کا اتنی شدت سے انتظار تھا تمہیں۔۔۔۔ "
حازم نے شبیر چوہان کی کنپٹی پر پسٹل کی نال رکھتے اُس کے سفید پڑتے چہرے کو استہزایہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔
"کک کیا بگاڑا ہے۔۔۔ میں نے تم لوگوں کا۔۔۔ کیوں مارنا چاہتے ہو تم لوگ مجھے۔۔۔۔۔ "
شبیر چوہان کو اِس وقت موت کا فرشتہ اپنے آس پاس منڈلاتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"ہمارا نہیں۔۔۔۔مگر ہماری اِس پاک سرزمین کا بہت کچھ بگاڑا ہے تم نے۔۔۔۔ جس کا حساب دینے کا وقت آگیا ہے ایم این اے صاحب۔۔۔۔"
شاہ ویز بھی اپنے پسٹل سے اَن دیکھی دھول صاف کرتا اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"چاہتے کیا ہو تم لوگ۔۔۔۔"
شبیر چوہان کو اُن کی سرد جامد نگاہوں سے خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔
"اپنے گناہوں کا اعتراف کر لو۔۔۔۔ کیا پتا تمہیں مارنے کا ہمارا پلان بدل جائے۔۔۔۔۔"
حازم نے پسٹل کی نال اُس کے سینے کے مقام پر پھیرتے اُسے بچ جانے کی راہ بتائی تھی۔۔۔۔
"میں تیار ہوں۔۔۔ مگر تم لوگ پھر مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے۔۔۔۔"
شبیر بنا ایک سیکنڈ کے لیے بھی سوچے جواب دے گیا تھا۔۔۔۔
جس کے ساتھ ہی حازم نے کیمرہ آن کرکے اُس کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔ شبیر چوہان جیسے جیسے اپنے کال دھندوں کا اعتراف کرتا گیا تھا۔۔۔ اُن دونوں کے چہرے کے کرخت تاثرات میں اضافہ ہوتا گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ بظاہر ملک کا معزز سیاسی لیڈر بنا اندر سے نجانے کن کن جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کررہا تھا۔۔۔ جن میں انسانوں کی اسمگلنگ جیسا گھناؤنا جرم بھی شامل تھا۔۔۔۔۔ اپنی جان بچانے کی خاطر وہ سب بتاتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ جسے شاہ ویز نے اپنے موبائل میں ریکارڈ کرکے مہروسہ کو سینڈ کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے تمہاری بات مان لی ہے۔۔۔۔ اب تم بھی اپنا وعدہ پورا کرو۔۔۔۔"
شبیر چوہان نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑتے اپنی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔۔۔
"تم دونوں کے پاس ایک منٹ کا وقت ہے۔۔۔۔ مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر کلمہ پڑھ لو۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات پر شبیر چوہان کی حالت مزید خراب ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس نے فرار ہونا چاہا تھا جب اُن دونوں کی گن سے نکلنے والی یکے بعد دیگر آٹھ گولیاں اُس کا کام تمام کر گئی تھیں۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ.... کوئی تو بچاؤ مجھے۔۔۔۔ پلیز مدد کرو میری۔۔۔۔۔ یہ غنڈے مجھے اغوا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔"
وہ لڑکی بکھرے بالوں اور انتہائی رف سے حلیے میں چیختی چلاتی اپنے پیچھے آتے تین افراد سے بچنے کے لیے سڑک پر آگے آگے دوڑ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کے ایک ہاتھ میں سفید رنگ کا پرس تھا۔۔۔ جسے وہ انتہائی مضبوطی سے تھامے اتنی تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔ کہ اُس کے پیچھے آپاتے وہ تینوں افراد اُس کی رفتار کا مقابلہ کر پانے میں ناکام ہوتے اب ہانپ رہے تھے۔۔۔۔
اُس لڑکی کی پھرتیاں عام لڑکیوں کی جیسی نہیں تھیں۔۔۔۔ کیونکہ وہ لڑکی مہروسہ کنول تھی۔۔۔ اپنے نام کی صرف ایک ہی۔۔ سب سے مختلف اور جدا۔۔۔۔
"کیا ہوا بیٹی۔۔۔۔؟؟؟ کون ہیں یہ لوگ۔۔۔۔"
وہاں موجود لوگ جلدی سے مہروسہ کے قریب آتے اُس سے پوچھنے لگے تھے۔۔۔
"یی یہ میرے پیچھے لگے ہیں۔۔۔ مجھے اغوا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے آنسو بہاتے اداکاری کے اگلے پچھلے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔۔۔۔ مہروسہ کے منہ سے ابھی اتنا ہی نکلنا تھا۔۔۔۔ جب وہ جذباتی پاکستانی عوام بنا پورا معاملہ سمجھے مہروسہ کے پیچھے آتے اُن تینوں سول کپڑوں میں ملبوس پولیس والوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔۔۔۔۔
مہروسہ آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتی اُن پولیس والوں کو وہاں پٹتا چھوڑ جلدی سے وہاں سے پلٹی تھی۔۔۔۔۔۔
اور لوگوں کی بھیڑ سے نکل کر وہاں سے بھاگنے کے ساتھ ساتھ بار بار پیچھے مُڑ کر بھی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جب اچانک سامنے موجود کسی چٹان جیسی جسامت کے مالک انسان سے بُری طرح ٹکرا گئی تھی۔۔۔۔۔
مہروسہ نے گھبرا کر نظریں اُٹھائی تھیں۔۔۔۔ اور پھر جیسے پلٹنا بھول گئی ہو۔۔۔۔۔
تیکھے نقوش، احمری لب، گالوں پر بنتے گڑھے، کنپٹی کی اُبھریں رگیں۔۔۔۔ اور پولیس یونیفارم میں ملبوس اونچا لمبا ورزشی سراپا۔۔۔۔۔
مہروسہ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اِس وقت وہ کس قدر خطرے میں تھی۔۔۔۔ کہیں سے بھی آتی اندھی گولی اُس کا کام تمام کرسکتی تھی۔۔۔۔ مگر اِس وقت وہ جیسے پل بھر کے لیے سب کچھ فراموش کر گئی تھی۔۔۔۔ سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں کھڑا وہ سحر انگیز شخصیت کا مالک شخص پورے ماحول کے ساتھ ساتھ اُس کے دل و دماغ پر بھی چھا گیا تھا۔۔۔۔
ہمیشہ اپنا کام میں حد درجہ سنجیدگی اور پوری توجہ سے کرنے والی مہروسہ اِس وقت خود بھی اپنی کیفیت سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔
پولیس والوں کی وردی تک سے شدید نفرت کرنے والی۔۔۔ اِس وقت اپنے سامنے کھڑے پولس والے کے آگے جیسے اپنا دل ہار گئی تھی۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی آخر اُسے ہوکیا گیا ہے۔۔۔۔ اِس شخص کے سامنے وہ پتھر کی کیوں ہوگئی ہے۔۔۔۔ قدم آگے کیوں نہیں بڑھا پارہی ہے۔۔۔۔
"مہرو میم نکلیں وہاں سے۔۔۔۔ آپ کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔۔۔۔ اِس پولیس والے کو آپ پر شک ہوچکا ہے۔۔۔ اگر اِس نے کچھ فاصلے پر پٹتے اپنے آدمیوں کو دیکھ لیا تو یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ اور اِس وقت ہم آپ کا بھی اریسٹ ہونا افورڈ نہیں کرسکتے۔۔۔۔"
اُس کے کان میں لگے آئیر پیس میں مسلسل جنید کے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔ جو اُسے وہاں سے بھاگ جانے کو کہہ تھا۔۔۔۔ مگر مہروسہ ایسے کھڑی تھی۔۔۔ جیسے وہاں پتھر کی مورت بن چکی ہو۔۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔؟؟؟"
ایس پی حمدان کی گھمبیر بھاری آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکراتی اُسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی تھی۔۔۔ لمحہ بھر کو تو اُسے کچھ یاد ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اپنے اردگرد سے آتی خطرے کی بو سونگھتی وہ ہاتھ میں پکڑے پرس پر گرفت مزید مضبوط کیے اُس کے آگے سے ہٹی تھی۔۔۔۔
مگر اُس کے دور جانے سے پہلے ہی حمدان اُس کی کلائی دبوچ کر اُسے اپنے سامنے کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس لڑکی کا فقیرنیوں جیسا حلیہ حمدان جیسے ٹرینڈ آفیسر کو مشکوک کرچکا تھا۔۔۔۔۔
"جانے دو صاحب مجھے۔۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے اُس کے ہاتھ سے کلائی چھڑوانے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔۔ وہ چاہتی تو ایک سیکنڈ میں خود کو آزاد کروا لیتی۔۔۔۔۔ مگر وہ سامنے کھڑے شخص پر حملہ نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔
"مہرو میم پلیز۔۔۔۔ فار گاڈ سیک۔۔۔۔ نکلیں وہاں سے۔۔۔۔ آپ میری بات نہیں سن رہیں اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔"
جنید چلا چلا کر زچ ہوتا آخر میں دوٹوک لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔ اِس سے پہلے کے مہروسہ اُسے روک پاتی۔۔۔۔ جنید نے جھاڑیوں کے پیچھے سے نکل کر حمدان کے پیروں کے قریب سموک گرنیٹ پھینک دیا تھا۔۔۔ جس کے پھٹتے ہی چاروں اور دھواں ہی دھواں پھیل گیا تھا۔۔۔۔
حمدان کی گرفت مہروسہ کی کلائی پر ڈھیلی پڑی تھی۔۔۔۔ اُسی لمحے آنکھوں پر گلاسز چڑھائے جنید بھاگ کر آتا مہروسہ کا ہاتھ تھامتا اپنے ساتھ کھینچ کر لے گیا تھا۔۔۔۔۔
حمدان کے گلے تک گیس گھس چکی تھی۔۔۔۔ اُس نے کھانس کھانس کر بے حال ہوتے پیچھے جانا چاہا تھا۔۔۔ مگر تب تک وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر نگاہوں سے اوجھل ہوچکے تھے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"مسٹر حماد آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔۔۔؟؟؟ آپ کو تو فل ٹائم شبیر سر کے ساتھ رہنے کو بولا گیا تھا نا۔۔۔۔"
حبہ جو دو گھنٹے کے اندر کو بیس بار شبیر کی سیکیورٹی چیک کر چکی تھی۔۔۔۔ حماد کو سیڑھیوں کے قریب کھڑے فون سنتے دیکھ اُس کی آنکھیں باہر کو اُبل پڑی تھیں۔۔۔۔
"وہ شبیر سر نے مجھے روم سے باہر رہنے کو کہا تھا۔۔۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کوئی اہم بات ڈسکس کررہے تھے۔۔۔ میں کافی ٹائم سے وہاں ہی تھا۔۔۔ ابھی فون سننے یہاں آیا ہوں۔۔۔۔ "
حماد نے اپنے تاثرات بالکل نارمل رکھتے یہاں موجود تمام آفیسرز میں سے حد درجہ ایماندار آفیسر حبہ امتشال کو جواب دیتے کہا تھا۔۔۔
"اور وہ جو ویٹر کھانا دینے گئے تھے وہ۔۔۔ واپس آگئے۔۔۔۔"
مُڑتے مُڑتے حبہ کو دوبارہ خیال آیا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔۔ میں ابھی وہیں دیکھنے۔۔۔۔۔"
حماد کے باقی الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے۔۔۔۔ جب اندرونی حصے سے لگاتار ہوتی فائرنگ نے اُن سب کے پیروں تلے سے زمین کھسکا گئی تھی۔۔۔۔
سب سے زیادہ قریب حبہ ہی تھی۔۔۔۔ وہی سب سے پہلے بھاگ کر تیز رفتاری سے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ کمرے کے در و دیوار اُس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئے تھے۔۔۔۔ آج اپنے کیرئیر میں پہلی بار وہ اپنے کسی فرض میں ناکام ٹھہری تھی۔۔۔
شبیر چوہان اور اُس کے بھائی کی خون میں لت پت پڑی لاشیں دیکھ حبہ نے مُڑ کر نفرت آمیز نگاہوں سے وہاں اپنے حلیے تبدل کیے کھڑے حازم اور شاہ ویز کو دیکھا تھا۔۔۔
اور اُسی لمحے غصے کی شدید لہر کے زیرِ اثر اُس نے بنا سوچے سمجھے اپنے پسٹل کو اَن لاک کرتے شاہ ویز سے آگے کھڑے حازم پر فائر کرنا چاہا تھا۔۔۔۔
جب بروقت ایس پی عمار نے اندر آتے اُس کے پسٹل کا رُخ دوسری جانب موڑ دیا تھا۔۔۔۔
"ہوش میں رہیں ایس پی حبہ۔۔۔۔ آپ اِن لوگوں کو مار کر کتنی بڑی مصیبت میں پھنس سکتی ہیں۔۔۔۔ اپنی جاب سے ہاتھ دھو سکتی ہیں۔۔۔ اِنہیں مارنے نہیں صرف گرفتار کرنے کی اجازت دی گئی ہے ہمیں۔۔۔۔"
عمار نے اُسے بہت مشکل سے قابو کرتے سمجھایا تھا۔۔۔ جبکہ اپنے چہرے پر دوسرے چہرے والا ماسک چڑھائے کھڑے حازم نے نہایت دلچسپی سے اُس لیڈی آفیسر کو دیکھا تھا۔۔۔ جو باقی کچھ سیکیورٹی اہلکار کی طرح اندر متوقع خطرے کو دیکھ کمرے میں آنے سے گھبرائی نہیں تھی۔۔۔۔ اور اب بھوکی شیرنی کی طرح اُن پر حملہ آور ہونے کو تیار تھی۔۔۔۔
اگر وہ دونوں چاہتے تو یہاں سے آرام سے نکل سکتے تھے۔۔۔ مگر وہ یہاں کھڑے کسی ایک بھی پولیس آفیسر اور اپنے ملک کے محافظوں کو زرا سی خراش نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔۔۔ اِس لیے اپنے ہتھیار وہیں پھینک دیئے تھے۔۔۔۔
"میں چھوڑوں گی نہیں تم غداروں کو۔۔۔ جو اِسی پاک سرزمین پر پل بڑھ کر اب اِسی کو بیچنے پر تلے ہوئے ہو۔۔۔۔۔۔۔"
حبہ کا بس نہیں چل رہا تھا اُن دونوں کی گردنیں اُڑا دے۔۔۔۔ وہ حازم کے قریب آتی اُس کے کندھے پر اپنے پسٹل کی پشت سے ایک زور دار وار کر گئی تھی۔۔۔۔ جو دو لوگوں کی جان لے کر مسلسل مسکراتا اُسے زہر سے بھی بُرا لگ رہا تھا۔۔۔۔
"خوشی ہوئی آپ کے ارادے جان کر۔۔۔ ویسے اب ہم بھی کچھ ایسے ہی نیک خیالات رکھتے ہیں۔۔۔۔"
حازم بنا اُس کی حرکت پر کوئی جوابی کارروائی کیے دھیرے سے اُس کے قریب جھک کر اُس کے وجود سے اُٹھتی مہک اپنی سانسوں میں اُتار گیا تھا۔۔۔۔
حبہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے بے تاثر نگاہوں سے حازم کو گھورتے نظریں پھیر لی تھیں۔۔۔۔
"خوشی ہوئی آپ کے ارادے جان کر۔۔۔ ویسے اب ہم بھی کچھ ایسے ہی نیک خیالات رکھتے ہیں۔۔۔۔"
حازم بنا اُس کی حرکت پر کوئی جوابی کارروائی کیے دھیرے سے اُس کے قریب جھک کر اُس کے وجود سے اُٹھتی مہک اپنی سانسوں میں اُتار گیا تھا۔۔۔۔
حبہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے بے تاثر نگاہوں سے حازم کو گھورتے نظریں پھیر لی تھیں۔۔۔۔
حبہ کے تن بدن میں نفرت کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا اِس شخص کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردے۔۔۔۔۔۔
"ارے ایس پی صاحبہ اتنے پیار سے دیکھ کر ہمارے صبر کو کیوں آزما رہی ہیں۔۔۔ جلدی سے ہتھکڑی لگا دیں۔۔۔ ایسے نہ میری اگلی کی جانے والی تخریب کاری آپ پر گراں گزرے۔۔۔۔۔۔"
حازم کو اُس کا غصے اور ضبط سے لال پڑتا چہرا بہت مزا دے رہا تھا۔۔۔۔ ہیزل گرین آنکھوں پر سایہ فگن گھنیری پلکیں، غصے سے پھولے سرخی مائل گال اور بے حد سُرخ ہوتا ناک، کٹاؤ دار گلابی ہونٹ۔۔۔ جنہیں وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کے لیے مسلسل اپنے موتیوں جیسے سفید دانتوں سے کاٹتی ظلم ڈھا رہی تھی۔۔۔۔ حازم کو اُس کا یہ عمل بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔ لیکن یہ اپنے پیشے سے بے حد مخلص لڑکی اُس کے دل کو کافی حد تک بھا گئی تھی۔۔۔۔
آج تک کسی کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔ میر حازم سالار کو زرا سی خراش بھی پہنچانے کی۔۔۔۔
مگر یہ لڑکی اُس پر وار کرنے کی گستاخی کرنے کے بعد بھی سر اُٹھائے زندہ سلامت اُس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔ جس کا ریزن ایک ہی ہوسکتا تھا۔۔۔ کہ کہیں نہ کہیں یہ لڑکی میر حازم سالار کے دل کو بھا گئی تھی۔۔۔۔
"میر۔۔۔ وہ پولیس والی ہے۔۔۔۔ کنٹرول کرو۔۔۔۔ جتنا غصہ تم اُسے دلا چکے ہو۔۔۔۔ تمہارا اِن کاؤنٹر کرنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگائے گی۔۔۔۔"
اِن پیار محبت جیسے جذبوں سے بالکل بے پرواہ شاہ ویز نے میر کی حرکتوں پر اُکتا کر اُسے ٹوکا تھا۔۔۔۔
"شاہ مجھے یہ بہت اچھی لگی ہے۔۔۔۔ کیا ہم جیل سے فرار ہوتے اِسے بھی ساتھ اُٹھا کر لے جاسکتے ہیں۔۔۔۔"
حازم کی نگاہیں فاصلے پر جاکر کھڑی ہوتی حبہ امتشال سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے شاہ ویز اُسے کوئی کرارہ سا جواب دیتا جب ایس پی عمار ہتھکڑیاں اُٹھائے اُن کے قریب آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"تم لوگ جو کوئی بھی ہو۔۔۔۔ چاہے جتنے بھی جرائم کرچکے ہو۔۔۔۔ مگر آج جو کام تم لوگوں نے کیا ہے۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔۔۔ تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف ہوچکے ہونگے۔۔۔۔۔۔"
ایس پی عمار اُن دونوں کے گھنی داڑھی والے چہروں کی جانب داد دیتی نظروں سے دیکھتا ہتھکڑیاں لگاتا پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اُس سے کچھ نہیں بولے تھے۔۔۔۔
اُن دونوں نے اپنے خوبرو چہروں پر ایسا ماسک لگا رکھا تھا۔۔۔ جو دیکھنے والوں کو اُن کا اصلی چہرا ہی لگتا تھا۔۔۔۔۔ لمبے بال اور عجیب سی اُلجھی ہوئی مونچھیں داڑھی۔۔۔۔۔ وہ اب تک ایسے کئی کارنامے سرانجام دے چکے تھے۔۔۔۔ مگر آج تک ایک بار بھی اپنا اصلی چہرا کسی کے سامنے نہیں آنے دیا تھا۔۔۔۔۔
"میری سٹڈی میں آرہے ہو تم۔۔۔۔ سارے کس بل نہ نکال دیئے تو میرا نام بھی ایس پی حبہ امتشال نہیں۔۔۔۔۔ اب آزادی کو زندگی بھر کے لیے بھول جانا۔۔۔۔۔۔"
حبہ اُس کے قریب آکر چیلنجنگ انداز میں اُسے گھورتے انسپکٹر کو اُسے ساتھ لانے کا اشارہ کر گئی تھی۔۔۔
"نام بہت پیارا ہے۔۔۔۔ مزید پیارا ہوجائے گا۔۔۔ اگر اِس نام کے آخر میں میرا نام جڑ جائے۔۔۔۔۔"
حازم ایک آنکھ دبا کر شوخی سے بولتا اُسے مزید پاگل کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس نے غصے سے اُبلتے دماغ کے ساتھ اپنا پسٹل نکالنا چاہا تھا۔۔۔ جب عمار نے آگے آتے اُسے تنبیہی نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔
"اپنے ہاتھوں سے اِس شخص کے سینے میں گولیاں نہ اُتاریں تو اپنی یہ جاب چھوڑ دوں گی۔۔۔۔۔۔"
حبہ نے دانت پیستے زبان سے بہت بڑے الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔۔۔ آنے والے وقت سے بے خبر کے یہ الفاظ اُس پر کتنے بھاری پڑنے والے تھے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم نے اُس شخص کا چہرا نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔کون تھا وہ۔۔۔۔؟؟؟ تمہارے تو بہت قریب آکر کھڑا ہوا تھا نا وہ۔۔۔۔۔"
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھی یونیورسٹی جارہی تھیں۔۔۔ جب فضہ نے پریسا کا بجھا بجھا چہرا دیکھ سوال کیا تھا۔۔۔۔۔
"نام مت لو۔۔۔۔ اُس درندے صفت انسان کو۔۔۔ بلکہ وہ تو انسان کہنے کے لائق بھی نہیں ہے۔۔۔ کس بے دردی سے اُس نے اُن لوگوں کو پل بھر میں ختم کردیا۔۔۔۔۔ کوئی بھلا اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ وہ مرنے والے بچارے کسی کے بیٹے، بھائی اور شوہر ہونگے۔۔۔۔ اُن کے لواحقین کی بدعائیں اُس شخص کو چین سے جینے نہیں دیں گی۔۔۔۔ اللہ پوچھے گا اُس سے۔۔۔۔۔ میرا کیک بھی خراب کردیا۔۔۔ اِس بات کے لیے تو میں اُس شخص کو زندگی بھر معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔"
پریسا وہ واقع دوبارہ یاد کرتے روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔۔ اُس کی طبیعت ابھی ٹھیک سے سنبھلی نہیں تھی۔۔۔۔ مگر آج ایک بہت امپورٹینٹ اسائنمنٹ سبمٹ کروانے کے لیے اُسے یونی جانا پڑ رہا تھا۔۔۔۔ سفیان نے اُسے بہت روکا بھی تھا مگر وہ اپنی پڑھائی کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔
"پری اب خدا کے لیے اُس کیک کو تو بھول جاؤ۔۔۔۔ ہم آج دوبارہ چلے جائیں گے کیک لینے کے لیے۔۔۔۔۔ "
فضہ اُس کا آنسوؤں بھرا چہرا دیکھ فکرمندی سے بولی تھی۔۔۔۔
"اوہ شٹ۔۔۔۔ نیشنل پارٹی کے راہنما شبیر چوہان کو رات کو بلیک سٹار گینگ نے قتل کردیا ہے۔۔۔۔۔ اور اُس گینگ کے دو لیڈرز کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔۔۔۔"
فضہ نے سوشل میڈیا پر چھائی خبر کو پڑھتے شاکی نگاہوں سے پریسا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جس کی حالت بھی کچھ اُس جیسی ہی تھی۔۔۔ شبیر چوہان شہباز آفندی کے قریبی دوست تھے۔۔۔ وہ لوگ بھی ایک دو پارٹیز میں اُن سے مل چکی تھیں۔۔۔۔۔
پری کو وہ بہت اچھے لگے تھے۔۔۔ مگر آج اُن کے بارے میں اتنی بُری خبر سن کر اُس کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔۔۔
"کتنے ظالم لوگ ہیں یہ۔۔۔۔؟؟؟ کیوں کرتے ہیں یہ۔۔۔ کیوں لوگوں کی زندگیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ اللہ پوچھے اِن سے۔۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کا دل چاہا تھا دنیا سے ایسے درندوں کو ختم کردے۔۔۔۔۔۔ جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیل جاتے تھے۔۔۔۔۔
"مانی بھائی جلدی چلائیں گاڑی۔۔۔۔ ہمیں یونی سے دیر ہورہی ہے۔۔۔۔۔"
فضہ نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے فکرمندی سے کہا تھا۔۔۔ اگر اسائنمنٹ سبمٹ کروانے کا ٹائم نکل جاتا تو اُن کے حد سے زیادہ وقت کے پابند سر نے اُن سے نہیں لینی تھی۔۔۔۔
کافی دیر سے اُن کی گاڑی ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔
"میڈم جی آگے پولیس کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔۔ جن میں وہی لوگ ہیں جنہوں نے شبیر چوہان کا مارا ہے۔۔۔۔ اُن کی پارٹی کے لوگ اور عوام اُن قاتلوں کو مارنا چاہتی ہے۔۔۔۔ قیدیوں والی گاڑیوں کو آگے نہیں جانے دیا جارہا ہے۔۔۔ اِس لیے راستے بلاک ہوا پڑا ہے۔۔۔ اب ہم نہ واپس پیچھے جاسکتے اور نہ ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہے۔۔۔۔ ہمیں کچھ گھنٹے تو یہیں انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔۔"
ڈرائیور کی بات سن کر اُن دونوں کے چہروں پر اسائنمنٹ میں فیل ہونے کی فکرمندی کے ساتھ ساتھ اُن قاتلوں کے لیے شدید نفرت چھا گئی تھی۔۔۔۔
"ْآپ لوگ باہر نہ نکلیں۔۔۔ باہر گولیاں بھی چل سکتی ہیں۔۔۔۔ خطرہ ہے بہت۔۔۔۔"
پری کو باہر نکلتا دیکھ ڈرائیور نے اُسے روکنا چاہا تھا۔۔۔۔
مگر وہ اَن سنی کرتی فائل اُٹھا کر فضہ کو بھی باہر آنے کا اشارہ کرتی گاڑی سے نکل آئی تھی۔۔۔
وہ اِس اسائنمنٹ میں کسی صورت فیل نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔ اِس لیے اُس رش زدہ ایریا سے نکل کر آگے ٹیکسی سے جانے کا ارادہ تھا۔۔۔۔
اور اگر موقع ملتا تو وہ اُن قاتلوں کے مکروہ چہرے دیکھنے کی خواہشمند بھی تھی۔۔۔۔۔۔
"وہاں بہت بھیڑ ہے لوگوں کی۔۔۔۔ ہم پھنس جائیں گے پری۔۔۔ آجاؤ واپس نہیں جاتے۔۔۔۔"
فضہ اتنے سارے مشتعل لوگوں کا بے قابو ہوتا ہجوم دیکھ گھبرا کر بولی۔۔۔۔۔
"تو تم چاہتی ہو اس بار سمسٹر میں ٹاپ کرنے کے بجائے میں فیل ہوجاؤں۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ ہم جائیں گے۔۔۔۔"
پریسا اُس کی کوئی بات بھی سنے بغیر اُس کا ہاتھ کھینچتی آگے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بظاہر دیکھنے میں یہی لگ رہا تھا کہ پولیس کی گاڑیوں کے اِردگرد موجود ہجوم شبیر چوہان کے جیالوں کا تھا۔۔۔ مگر اصل حقیقت اِس سے مختلف تھی۔۔۔۔ اُس ہجوم میں اکٹھی کی گئی بھیڑ بلیک ٹائیگر فورس کی تھی۔۔۔۔ جو کہ ایک پراپر پلان کے تحت کیا گیا تھا۔۔۔۔
تاکہ وہ یہیں سے حازم اور شاہ ویز کو فرار کروا سکیں۔۔۔۔
"ہمارے آدمی پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ایک جانب لگی جالی سے باہر کا منظر دیکھا تھا۔۔۔۔
"ہممہ اور بہت جلد ہم یہاں سے باہر ہونگے۔۔۔۔۔"
حازم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔۔ وہ اپنا یہ مشن بھی کامیابی سے ختم کرچکے تھے۔۔۔۔
وہ اِس وقت پولیس کی بکطل بند وین میں تھے۔۔۔۔ جس میں اُن کے پاس چار پولیس اہلکار بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔ جنہیں وہ نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔۔۔۔
لیکن اِس وقت فرار کے لیے اُنہوں نے اِن کا بندوبست کرنا تھا۔۔۔۔ چند سیکنڈز ہی گزرے تھے۔۔۔۔ جب کسی نے گاڑی کے لاک پر زور دار انداز میں ضرب لگائی تھی۔۔۔۔ اور ساتھ ہی شاہ ویز اور حازم کو کلو بھی دے دیا تھا۔۔۔۔۔
اُن دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے دونوں نے اُن پولیس اہلکاروں کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر اُن کی گردنوں پر حملہ آور ہوکر ایک مخصوص رگ دبا دی تھی۔۔۔۔ جس سے وہ بے ہوش ہوتے ایک جانب لڑھک گئے تھے۔۔۔۔۔
باہر موجود ہجوم میں اُن کی فورس کا کیپٹن جنید گاڑی کے لاک پر ضربیں لگاتا آخر کار لاک توڑنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔۔
اُس کے لاک کھولتے ہی شاہ ویز اور حازم گاڑی سے باہر نکل آئے تھے۔۔۔۔ کسی بھی پولیس اہلکار کو اُن پر گولی چلانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔ جس بات کا وہ لوگ بھرپور فائدہ اُٹھا رہے تھے۔۔۔۔۔
اُن دونوں نے یہاں سے الگ الگ ہوکر نکلنا تھا۔۔۔ مگر وہاں تیز رفتار سے آتی پولیس نفری کو دیکھ اُنہیں اپنا فرار خطرے میں پڑتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔
اُن کو باہر نکلتا دیکھ وہاں ٹریفک میں پھنسے لوگوں کا ہجوم اُمڈ آیا تھا۔۔۔۔ عجیب ہی کوئی دھکم پیل مچ گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے انتہائی پھرتی سے ایک جانب سے راستہ بناتے آگے بڑھنا چاہا تھا۔۔۔۔
جب اچانک نسوانی چیخ کے ساتھ ہی کوئی نازک وجود اُس کے سینے سے آن ٹکرایا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز جیسے لمبے چوڑے کسرتی وجود کے آگے وہ موم سی گڑیا آج پھر اُس دن کی طرح آنسوؤں میں بھیگی کھڑی تھی۔۔۔۔
پریسا جو فضہ کو لے کر اُس ہجوم کو چیرنے نکل تو آئی تھی۔۔۔۔ مگر راستہ میں آکر وہ بُری طرح پھنس گئی تھی۔۔۔۔ چاروں جانب سے ملنے والے دھکوں نے اُن کو گھما کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
فضہ کا ہاتھ کب اُس کے ہاتھ سے چھوٹا تھا اُسے پتا ہی نہیں چلا تھا۔۔۔۔ دھکوں کے بیچ پولیس وین کے قریب پہنچتے نجانے کس جانب سے اُڑتا ہوا پتھر اُس کے سر پر آن لگتا اُس کے سر کو بُری طرح زخمی کر گیا تھا۔۔۔۔
یہ پتھروں کا سلسلہ سنبھلا نہیں تھا۔۔۔ یکے بعد دیگر ہونے والی پتھروں کی برسات سے پریسا کو اپنی سانسیں رکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ اُسے محسوس ہوا تھا کہ وہ اب یہاں سے بچ کر نہیں نکل پائے گی۔۔۔
جب اچانک کسی کے مہربان مضبوط کشادہ سینے سے ٹکراتی وہ جیسے تپتی دھوپ سے گھنی چھاؤں میں آن ٹھہری تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کی سرد نگاہیں اُس کے زخمی ماتھے پر ٹک گئی تھیں۔۔۔ جہاں سے خون بہتا اب اُس کے دلنشین چہرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
اِس لڑکی کو پہچاننے میں اُسے ایک سیکنڈ نہیں لگا تھا۔۔۔ بنا دوپٹے کے اُس کے حصار میں کھڑی وہ لرزتی کانپتی لائٹ پنک کلر کے فراک میں کسی اپسرا سے کم معلوم نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔۔
سیاہ گھنے بالوں میں لگا کیچر نجانے کب ٹوٹ کر گر چکا تھا۔۔۔۔ اُس کی حسین زلفیں اُس کے نازک سراپے کی دلکشی کو چھپانے میں ناکام تھیں۔۔۔۔
اگر کوئی اور ہوتا تو اِس حسین پری کے وجود کی دلفریبی میں ڈوب جاتا۔۔۔ جس کی گول گول آنکھیں خوف سے مزید پھیل چکی تھیں۔۔۔ مگر اِس وقت پریسا آفندی جس کے حصار میں کھڑی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ شاویز سکندر تھا۔۔۔۔ جسے رنگوں سے نفرت تھی۔۔۔۔ جس کے نزدیک پیار محبت جیسے رشتے بالکل بے معنی تھے۔۔۔ جسے مسکرانا دنیا کا سب سے ناپسندیدہ عمل لگتا تھا۔۔۔۔ جو صرف لوگوں کو گولیوں سے اُڑانا جانتا تھا۔۔۔۔ جس کی زندگی اُس کے مشن سے لے کر اُس کے مشن پر ختم ہوتی تھی۔۔۔ جس کے سینے کے اندر دل نہیں بلکہ خون کا ایک لوتھرا تھا۔۔۔ جس میں احساس و جذبات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔۔۔۔۔
شاویز سکندر کو پریسا آفندی کا حسن زرا بھی متاثر نہیں کر پایا تھا۔۔۔ بلکہ اُسے اِس نازک لڑکی پر ہر دفع پہلے سے بڑھ کر غصہ آتا تھا۔۔۔ اُسے اول تو لڑکیاں پسند ہی نہیں تھیں۔۔۔ اور پریسا جیسی نازک کانچ کی گڑیا جیسی لڑکیوں سے تو شدید اُلجھن محسوس ہوتی تھی۔۔۔ جو حد درجہ ڈرپوک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا خیال رکھنا تک نہیں جانتی تھیں۔۔۔۔
شاہ ویز مُڑنے لگا تھا۔۔۔ جب پریسا نے نجانے کس احساس کے زیرِ اثر بنا اُس کی جانب دیکھے اُس کا بازو اپنے ملائم ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔۔۔۔
اُس کے لمس پر شاہ ویز سکندر کو کرنٹ سا چھو کر گزر گیا تھا۔۔۔ اُس نے آج تک کبھی کسی لڑکی کو اپنے زرا سے قریب بھی نہیں آنے دیا تھا۔۔۔۔
"پلیز میری ہیلپ کریں۔۔۔ ایسے مت جائیں۔۔۔ ورنہ میں مر جاؤں گی یہاں۔۔۔۔۔۔۔"
پریسا نے ہچکیوں کے درمیان اُسے روکنے کی کوشش کرتے جیسے ہی چہرا اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔ شاہ ویز کے داڑھی مونچھوں سے ڈھکے ماسک زدہ چہرے کو دیکھ وہ خوف کے مارے کانپ اُٹھی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کا چہرا اِس وقت اتنا ہی خوفناک دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کمزور دل کی مالک پریسا آفندی کے ہارٹ اٹیک ہونے کے اسی فیصد چانسز تھے۔۔۔۔۔
شاہ ویز نے ایک نظر اردگرد کے خراب ہوتے حالات پر ڈالی تھی۔۔۔۔ اگر یہ لڑکی اُس کے راستے میں نہ آئی ہوتی۔۔۔ تو اب تک وہ یہاں سے بہت دور نکل چکا ہوتا۔۔۔۔۔
شاہ ویز کی بالوں سے ڈھکی چوڑی پیشانی پر اَن گنت بل نمایاں ہوئے تھے۔۔۔۔ اُس نے ناگواری بھری نگاہوں سے پریسا کے بنا دوپٹے کے رعنائیاں بکھیرتے وجود کو گھورتے جلدی سے اپنی سیاہ جیکٹ اُتار کر اُس کی جانب بڑھا دی تھی۔۔۔۔۔
"اِسے پہن لو۔۔۔۔ اور آئندہ گھر سے کوئی ایسا کپڑا کرکے نکلو جو صرف فیشن کے لیے ہی کام نہ آئے بلکہ تمہاری عصمت کی حفاظت بھی کرسکے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے سرد ٹھٹھڑا دینے والی آواز میں اُسے وارن کرتے ایک جانب بھیڑ چیر کر قریب آتے جیند کو اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
"اِس لڑکی کو باحفاظت یہاں سے لے جاؤ۔۔۔ اور اپنے آدمیوں کو کہوں پلان یہیں روک کر یہاں سے ہٹ جائیں۔۔۔۔ عام شہریوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اِس دھکم پیل میں۔۔۔۔ اور اِن معصوم لوگوں کو ہمارے کسی عمل سے نقصان ہو یہ ہمارا مقصد کبھی نہیں رہا۔۔۔۔ میں واپس پولیس کسٹڈی میں جارہا ہوں۔۔۔۔ میرے اگلے حکم کا انتظار کرنا۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز جنید سے دھیمی آواز میں بات کرتا پریسا کو اُس کے حوالے کر گیا تھا۔۔۔۔ کوئی شاہ ویز سکندر سے ہیلپ مانگے اور شاہ ویز سکندر انکار کردے۔۔۔ ایسا ہونا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔ چاہے مدد مانگنے والا اُس کے دشمنوں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔
پریسا نے جنید کے ساتھ جاتے مڑ کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔ مگر وہ اب وہاں کہیں بھی نہیں تھا۔۔۔۔ پریسا کے دماغ میں اُس شخص کی عجیب و غریب سی شکل مگر اُس کی کھردرے لفظ سے مزین انتہائی سحر انگیز آواز جیسے فیڈ ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"رک جاؤ۔۔۔ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو گولی چلا دوں گی میں۔۔۔۔۔"
حازم جو شاہ ویز کی جانب سے ملنے والے آرڈر پر فرار ہونے کا ارادہ ترک کرتا واپس پولیس وین کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ جب اپنے دائیں جانب سے ایس پی حبہ امتشال کی دلفریب مترنم سی آواز نے اُس کے قدم روک دیئے تھے۔۔۔۔ وہ ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے جان بوجھ کر ہاتھ اُوپر کرتا اُس کی جانب مُڑا تھا۔۔۔۔ جیسے یہی ظاہر کررہا ہو کہ حبہ نے اُسے واقعی بھاگتے پکڑا ہو۔۔۔۔
"پہلی بار ایسی لڑکی دیکھی ہے۔۔۔ جس کی کوئی بھی بات گولی لفظ کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔"
حازم نے جلدی سے چند قدم آگے بڑھاتے ہاتھ بڑھا کر حبہ کے سر پر رکھ دیا تھا۔۔۔ حبہ جو اُس کی گستاخی پر غصے سے پاگل ہوتی گولی چلانے ہی والی تھی۔۔۔ جب اپنے سر کے قریب عین حازم کے ہاتھ والی جگہ پر بوتل ٹوٹنے پر وہ پل بھر کے لیے اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی۔۔۔
حازم نے اُس کے سر پر ہاتھ اُس کی طرف پھینکی گئی کانچ کی بوتل بچانے کے لیے رکھا تھا۔۔۔ جو اب حازم کے ہاتھ پر ٹوٹتی اُسے لہولہان کر گئی تھی۔۔۔۔۔
"یہ۔۔۔۔"
حبہ نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔
"ایس پی حبہ جلدی سے اِسے لے کر گاڑی کی جانب بڑھیں۔۔۔ حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوچکے ہیں۔۔۔ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔ جلدی سے نکلنا ہوگا۔۔۔۔"
عمار کی بات پر حبہ ایک سخت نگاہ حازم کے خون آلود ہاتھ پر ڈالتے اُس کے ساتھ آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
اُس کے نزدیک یہ بھی اِس شخص کی کوئی چال تھی۔۔۔ جو بہت سوچنے کے باوجود وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ایس پی حمدان صدیقی آپ کو میں نے یہاں ایک بہت اہم کیس سونپنے کے لیے بلایا ہے۔۔۔۔۔ ابھی ابھی کال موصول ہوئی ہے۔۔۔ کہ این پی پی کے سابقہ چیئرمین اشفاق بٹ کے پوتے کو بھی سکول سے واپسی پر اغوا کرلیا گیا ہے۔۔۔۔ پچھلے پانچ گھنٹوں کے اندر یہ تیسرا بچہ اغوا ہوا ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی ملک کی بڑی بڑی سیاسی شخصیت کی فیملیز سے۔۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے سر یہ کام بلیک سٹارز گینگ کے لوگ ہی کررہے ہیں۔۔۔۔ اپنے لیڈرز کو آزاد کروانے کے لیے۔۔۔۔۔ شبیر چوہان جیسی اتنی بڑی سیاسی جماعت کے قتل کے بعد ملک کے حالات ناقابلے یقین حد تک خراب ہوچکے ہیں۔۔۔۔ جنہیں ٹھیک کرنے کی زمہ داری میں آپ اور آپ کی ٹیم کو دے رہا ہوں۔۔۔۔ یہ سارا ایریا ہمارے انڈر آتا ہے۔۔۔۔۔ یہاں اب مزید کسی قسم کا نقصان نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ جو بھی لوگ بچوں کو اغوا کرنے کی یہ گھناؤنی حرکت کررہے ہیں بہت جلد اُنہیں گرفتار کرکے بچوں کو بازیاب کروانے کی کوشش کریں۔۔۔ مگر دھیان رکھیئے گا اُن بچوں کو زرا سی بھی خراش نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔۔۔"
اے آئی جی صاحب شہر کی خراب ہوتے حالات کو دیکھ شدید پریشانی کا شکار تھے۔۔۔ سیاسی شخصیت کا انوالو ہونے کی وجہ سے اُن پر پریشر مزید بڑھ چکا تھا۔۔۔۔
جس کا اُنہوں نے ایک ہی حل یہ نکالا تھا کہ اپنا سارا بوجھ ایس پی حمدان کے کندھوں پر ڈال دیا تھا۔۔۔ اِس بات پر یقین ہوتے ہوئے کہ ایس پی حمدان صدیقی ہر بار کی طرح اِس معاملے کو بھی سنبھال لے گا۔۔۔۔
اے آئی جی صاحب شہر کی خراب ہوتے حالات کو دیکھ شدید پریشانی کا شکار تھے۔۔۔ سیاسی شخصیت کا انوالو ہونے کی وجہ سے اُن پر پریشر مزید بڑھ چکا تھا۔۔۔۔
جس کا اُنہوں نے ایک ہی حل یہ نکالا تھا کہ اپنا سارا بوجھ ایس پی حمدان کے کندھوں پر ڈال دیا تھا۔۔۔ اِس بات پر یقین ہوتے ہوئے کہ ایس پی حمدان صدیقی ہر بار کی طرح اِس معاملے کو بھی سنبھال لے گا۔۔۔۔
"سر آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ میں اِس معاملے کو دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ سر جہاں تک میری انفارمیشن ہے بلیک سٹارز کے مین. لیڈرز تین افراد ہیں۔۔۔۔ جن میں دو اِس وقت گرفتار ہوچکے ہیں۔۔۔ اور تیسری کو کہ ایک لیڈی ہے۔۔۔ وہ اپنے ساتھیوں کو رہاع کروانے کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ یہ سب کررہی ہے۔۔۔۔ اگر یہ لڑکی ہمارے ہاتھ لگ جاتی ہے۔۔۔ تو بلیک سٹارز گینگ کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ کافی پاور میں آچکے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔ آئے دن اِن کا کوئی نہ کوئی گھناؤنا فعل سامنے آرہا ہے۔۔۔۔۔ اتنی بڑی سیاسی شخصیت کو پہلے دھمکانا اور پھر اتنی سخت سیکورٹی کے بیچ اُس کے گھر میں گھس کر اُسے جان سے مارنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔۔۔ اِن لوگوں کی پہنچ بہت زیادہ ہے۔۔۔ ملک کے بڑے بڑے علاقوں میں اِن کا نیٹ ورک پھیل چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آگے آنے والے وقتوں میں ہم پر بہت بھاری پڑ سکتا ہے۔۔۔۔
سر اگر اُن کی اُس تیسری گینگ لیڈر کو جان سے مارنے کا وارنٹ مل جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔ ورنہ یہ لوگ اِسی بات کا فائدہ اُٹھا کر ہر بار بہت قریب پہنچ کر ہمارے ہاتھوں سے بچ نکلتے ہیں۔۔۔۔۔"
حمدان کو اُس دن مظلوم فقیرنی بنی اُس لڑکی کا خیال آیا تھا۔۔۔ جس نے عورت ہونے کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے نہایت ہی ہوشیاری کے ساتھ عورت کارڈ پلے کرتے اُس کے پولیس اہلکاروں کا لوگوں سے پٹوا دیا تھا۔۔۔ جسے وہ لوگ پکڑنے ہی والے تھے۔۔۔ مگر ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ بلیک سٹارز گینگ کی لیڈر نہایت قریب آکر بچ نکلی تھی۔۔۔۔۔
"میں نے ابھی آئی جی صاحب سے بات کی ہے۔۔۔۔ مگر اُن کے مطابق بلیک سٹارز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ملک میں پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔ جسے ختم کرنے کے لیے اُن کے تینوں لیڈرز کا زندہ پکڑا جانا انتہائی ضروری ہے۔۔۔۔ تبھ ہی ہم پورے نیٹ ورک کو ختم کرسکتے ہیں۔۔۔۔ شبیر چوہان کو مارنے کے بعد وہ پولیس فورس پر حملہ کرکے آرام سے بچ نکل سکتے تھے۔۔۔ مگر اُنہوں نے خود کو پولیس کسٹڈی میں دے دیا۔۔۔۔ اُس کے بعد اُنہیں سنٹرل جیل کے جاتے ہوئے راستے میں جو کچھ ہوا وہ آرام سے فرار ہو سکتے تھے اُنہوں نے تب بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔ وہ عوام اور پولیس والوں کے اتنے خیر خواہ تو ہیں نہیں کہ وہاں پھیلتی بدنظمی اور زخمی ہوتے لوگوں کو دیکھ اُنہوں نے اپنے فرار ہونے کا ارادہ ختم کردیا ہو۔۔۔۔
اُن کا کوئی تو بہت بڑا پلان ہے اِس سب کے پیچھے۔۔۔۔ جو ہمیں اُن کی تیسری گینگ لیڈر کی گرفتاری کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ اپنی فورس کو تیار کریں۔۔۔ اور پورے ایریا پر ایمرجنسی نافذ کردیں۔۔۔ بنا چیکنگ کے کوئی گاڑی بھی اِس شہر سے نکل نہ پائے۔۔۔۔ "
اے آئی جی کی بات پر خاموشی سے سر ہلا کر اُنہیں سیلوٹ کرتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اب ساری زندگی اِسی جیل میں سڑو گے تم گھٹیا انسان۔۔۔ دوسروں کی جان لینے کا بہت شوق ہے نا تمہیں۔۔
اب تمہیں پتا چلے گا پل پل اذیت کی موت مرنا کیسا ہوتا ہے۔۔۔۔"
حبہ اُسے جیل میں ڈال کر لاک لگاتی اُس کی جانب نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتی زہر خند لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔
حازم کے ہاتھ سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا۔۔۔ جو ہاتھ اُس نے صرف اِس حد درجہ کھڑوس پولیس والی کو بچانے کے لیے زخمی کیا تھا۔۔۔۔
اُسے اور شاہ ویز کو الگ الگ جگہوں پر لے جایا گیا تھا۔۔۔ تاکہ اُن کے آدمیوں کی مزید تخریب کاریوں سے بچا جا سکے۔۔۔۔
"بہت ظالم لڑکی ہو ویسے۔۔۔۔ احسان مند ہونا تو دور کی بات انسانی ہمدردی جتاتے زخم پر مرہم تو لگا ہی سکتی تھی نا۔۔۔۔"
حازم نے اُس کے سخت لفظوں کا اثر لیے بغیر اپنے زخمی ہاتھ کو دیکھتے اُس سے ایسے شکوہ کیا تھا۔۔۔ جیسے وہ واقعی اُس کی محبوبہ ہو۔۔۔
حبہ اُس کے اِس دلبرانہ انداز پر جل بھن کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
"کاش میں اِس زخم پر نمک چھڑک کر تم جیسے ضمیر فروش لوگوں کو تکلیف اور اذیت کا مزا چھکا سکتی۔۔۔۔"
حبہ نے ایک نظر اُس کے خون آلود ہاتھ پر ڈال کر نفرت سے نظریں پھیری تھیں۔۔۔ جو جیل کی سلاخوں سے لگا بے باک نگاہوں سے اُسے سر سے پیر تک گھورے جارہا تھا۔۔۔
حبہ کا دل چاہا تھا۔۔۔ اُس کی آنکھیں نوچ لے۔۔۔
"نمک چھڑک تو رہی ہیں۔۔۔ میرے اِس زخمی دل پر۔۔۔ اور کتنا چھڑکیں گی۔۔۔۔۔ ویسے اگر ساری زندگی تم ایسے ہی یہاں کھڑا رہنے کا وعدہ کرو تو قسم سے میں پوری زندگی کے لیے اِس جیل میں سڑنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔"
حازم کی نگاہیں اُس کے گلابی گال پر چمکتے سیاہ تل پر ٹک گئی تھیں۔۔۔۔
"تم گھٹیا انسان۔۔۔۔ بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ یہ سب بول کر اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کررہے ہو۔۔۔ چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں۔۔۔۔۔"
حبہ غصے سے چلاتی اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔۔
"اِس چیختی چلاتی پولیس والی کو اب اپنے ساتھ بنگلے پر لے جانا ہی پڑے گا۔۔۔۔ اِس کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے۔۔۔۔۔۔"
حازم اُسے دور جاتے دیکھتا شوخی سے مسکرا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے چہرے پر کسی قسم کے خوف کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔۔ اُس نے ایک بہت باری سیاسی شخصیت کو مارا تھا۔۔۔۔ جس کی سزا پھانسی سے کم نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔۔
مگر اُسے مہروسہ اور اپنی فورس کے زورِ بازو پر پورا بھروسہ تھا۔۔۔۔ جو اُن دونوں کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ اِس جیل میں نہیں رہنے دینے والے تھے۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آخر کس کی نظر لگ گئی ہے میری پھول سی بچی کو۔۔۔۔۔ ہر بار کوئی نہ کوئی تکلیف آئے جارہی ہے۔۔۔۔ فضہ تم پری سے الگ کیوں ہوئی۔۔۔ اگر خدانخواستہ میری بچی کو کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔۔"
یاسمین بیگم ڈری سہمی پری کو گلے سے لگائے فضہ کو جھاڑتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
جنید نے شاہ ویز کے حکم کے مطابق پریسا کو باحفاظت اُس ہجوم سے نکال کر اُس کی مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔ جبکہ گھر والے سب پریسا کی حالت دیکھ شدید پریشانی کا شکار ہوئے تھے۔۔۔۔ ابھی وہ بچاری کل والے حادثے سے نہیں سنبھلی تھی۔۔۔ کہ آج پھر یہ سب ہوگیا تھا۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر اُس کے زخم کی بینڈیج کرکے گیا تھا۔۔۔ پری نے یاسمین بیگم کو منہ کردیا تھا کہ سفیان یا کسی اور کو اِس بارے میں بتا کر پریشان کرنے کی ضرروت نہیں ہے۔۔۔۔ وہ اب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔
"سب مجھے ہی ڈانٹے جارہے ہیں۔۔۔ کسی کو اندازہ ہے میں بھی اُسی بھیڑ سے اپنی جان بچا کر نکلی ہوں۔۔۔"
فضہ ہر جانے سے ملنے والی لتاڑ پر منہ پھلاتے خفگی کا اظہار کرتے بولی تھی۔۔۔۔
"آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہے۔۔۔۔ ملک می کتنا وبال مچا ہوا ہے۔۔۔۔۔ "
طلحہ اپنے روم سے باہر نکلتا ڈرائنگ روم کا ٹی وی آن کرتے بولا۔۔۔ جس پر وہ سب بھی ٹی وی کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔۔۔۔
مگر ٹی وی سکرین پر چلتی فوٹیج دیکھ پریسا کا خون خشک ہوا تھا۔۔۔۔۔
جو دو افراد شبیر چوہان کے قاتل کے رُوپ میں دیکھائے جارہے تھے۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک کو دیکھ پریسا کو ہوا میں آکسیجن کم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ خوف سے اُس کا چہرا پسینے سے بھر گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ شخص کوئی اور نہیں وہی تھا جس کے سینے سے لگی وہ اتنی دیر کھڑی رہی تھی۔۔۔۔۔
"ییی یہ کک کون ہے۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کے منہ سے بمشکل یہ الفاظ ادا ہوئے تھے۔۔۔۔۔
"یہ بلیک سٹارز گینگ کا مین لیڈر ہے۔۔۔ جسے بلیک بیسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔۔ نجانے کتنے لوگوں کو اب تک انتہائی بے دردی سے مار چکا ہے۔۔۔۔۔"
طلحہ نے سکرین پر نگاہیں گاڑے جواب دیا تھا۔۔۔ سب ٹی وی کی جانب متوجہ ہونے کی وجہ سے اُس کی خوف سے فق ہوتی رنگت نہیں دیکھ پائے تھے۔۔۔۔
ٹی وی سکرین پر بار بار اُنہیں لوگوں کو دیکھایا جارہا تھا۔۔۔۔ جب اچانک پریسا کی نظر اُس شخص کے دائیں ہاتھ کی پشت پر بنے نشان پر پڑی تھی۔۔۔۔ جس کے ساتھ ہی اُسے بہت کچھ یاد آگیا تھا۔۔۔۔
کل کا واقعہ اتنا پرانا نہیں تھا کہ وہ اِس ظالم شخص کو نہ بھول پاتی۔۔۔۔ اِسی ہاتھ سے اِس شخص نے اُسے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔۔۔۔ تو اِس کا مطلب وہ کل جس شخص سے ٹکرائی تھی وہ یہی تھا۔۔۔۔ مگر اُس کی آنکھیں تو بہت پیاری تھیں۔۔۔ اور آج جس شخص سے وہ ٹکرائی تھی وہ تو بہت بدصورت سا تھا۔۔۔۔۔۔
پریسا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
جب اچانک اُس کے زہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔۔۔۔
"تو اِس کا مطلب اِس نے پولیس کو دھوکا دینے کے لیے اپنا حلیہ تبدیل کررکھا ہے۔۔۔۔۔"
پریسا نے شاکی نگاہوں سے ٹی وی سکرین کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ کچھ بولنا چاہتی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہو پایا تھا۔۔۔۔
اُس ٹی وی سکرین ميں قید شخص کے خوف نے اُسے بُری طرح جکڑ لیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شہر میں آنے جانے والے ہر راستے پر ایس پی حمدان نے ناکہ بندی کروا دی تھی۔۔۔۔ کوئی بھی گاڑی بغیر چیکنگ کے نہیں آ جا سکتی تھی۔۔۔۔
"میم اب ہم اِن بچوں کو لے کر کیسے نکلیں گے یہاں سے۔۔۔۔ یہاں پر تو ہر راستے پر پولیس کی اسلحے سے لیس بھاری نفری موجود ہے۔۔۔۔۔ "
کیپٹن جنید روم میں داخل ہوتا پریشانی سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ جہاں مہروسہ باقی بچوں کے ساتھ ابھی کچھ دیر پہلے ہیلتھ منسٹر کے پانچ سال کے بیٹے کو اغوا کرکے لے آئی تھی۔۔۔۔ مگر اُس کمرے کا منظر دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اِن شاہانہ انداز میں بیٹھ کر چپس کھاتے اور کارٹون دیکھتے بچوں کو یہاں اغوا کرکے لایا گیا ہے۔۔۔۔۔
"آپی آپ بھی آئیں نا ہمارے ساتھ بیٹھ کر کارٹون دیکھیں۔۔۔۔۔"
مہروسہ جنید کی بات سننے اُٹھ کر اُس کے پاس جانے لگی تھی۔۔۔ جب منسٹر کے بیٹے حمزہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔۔۔۔ جبکہ جنید یہ منظر دیکھ اتنی ٹینشن میں بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کنول جیسی لڑکی اُس نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔ جو چٹکیوں میں دوسروں کے دلوں میں بنانا جانتی تھی۔۔۔ نجانے کیا جادو تھا اُس میں۔۔۔ کہ جس سے ملتی تھی۔۔۔ اُسے اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔۔۔۔۔
"ضرور میں دیکھوں گی آپ کے ساتھ۔۔۔ مگر ابھی ہم نے جو پلان بنایا ہے اُس کو بھی تو پورا کرنا ہے نا۔۔۔ ہم آپ کے ماما بابا کے ساتھ چور پولیس والا جو کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔۔ اُس کے لیے باہر تو جانا پڑے گا۔۔۔۔ آپ لوگ یہیں بیٹھیں میں ابھی آتی ہوں۔۔۔۔"
مہروسہ اُنہیں پیار کرتی جنید کے پاس آئی تھی۔۔۔
"جس طرح آپ اِن پر پیار جتا رہی ہیں۔۔۔ مجھے تو یہی ڈر ہے اِن بچوں نے اپنے ماں باپ کو پہچاننے سے ہی انکار کردینا ہے۔۔۔ پھر ایک نیا کیس بن جائے گا بلیک سٹارز گینگ پر ۔۔۔۔"
جنید کی بات پر مہروسہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔
"بہت پیارے بچے ہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتی اِن کے دماغوں پر اِس بات کا زرا سا بھی اثر ہو کہ اِنہیں اغوا کیا گیا ہے۔۔۔ ہر معصوم کچا زہن یہ اذیت برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔۔"
ماضی میں گزری اذیتیں کسی فلم کی طرح اُس کے دماغ زہن کے پردے پر اُبھر کر معدوم ہوئی تھیں۔۔۔۔
جنید کو اُس کی آنکھوں میں تیرتی اذیت دیکھ دکھ ہوا تھا۔۔۔۔
"کیا خبر ہے باہر کی۔۔۔۔۔ لگتا ہے اب ہمیں اپنا اگلا قدم اُٹھانا پڑے گا۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے فوراً خود کو نارمل کرتے پوچھا تھا۔۔۔
"ایس پی حمدان صدیقی اِس وقت پوری طرح ایکشن میں آچکے ہیں۔۔۔ پورے شہر کے ہر آنے جانے والے راستوں پر پولیس کا راج ہے۔۔۔۔۔ کوئی بلی کا بچہ بھی اُن کی اجازت کے بغیر شہر سے نہیں نکل سکتا۔۔۔۔۔"
جنید کی بات پر مہروسہ کے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔
"ویری نائس۔۔۔۔ تو مطلب اُس سٹریل مگر بے حد ہینڈسم پولیس والے سے پھر ملاقات ہونے والی ہے۔۔۔۔ اب تو مشن پورا کرنے میں اور بھی مزا آئے گا۔۔۔ مقابلہ تو ٹکر کا ہے۔۔۔۔"
چند لمحوں کے لیے مہروسہ کی نگاہوں میں اُس شخص کا تیکھے نقوش سے سجا خوبرو چہرا آن ٹھہرا تھا۔۔۔۔
"اگر پکڑے گئے تو۔۔۔۔ سنا ہے ایس پی حمدان صدیقی کو آج تک کبھی کسی کیس میں ناکامی حاصل نہیں ہوئی۔۔۔"
جنید نے اُسے متوقع خطرے سے آگاہ کرنا چاہا تھا۔۔۔۔
"وہ اِس لیے کیونکہ ایس پی حمدان صدیقی کی ہار صرف مہروسہ کنول کے ہاتھوں ہی لکھی ہوئی ہے۔۔۔۔"
مہروسہ کا کانفیڈنس لاجواب تھا۔۔۔۔ وہ آگے بڑھ کر منسٹر کے بیٹے حمزہ کو نہایت ہی پیار سے اپنا پلان سمجھاتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔
"واؤ۔۔۔۔۔ ہم بالکل ٹھیک وقت پر ٹھیک جگہ پہنچے ہیں۔۔۔ فیصل کو کہو اپنی ٹیم کے ساتھ پچھلی طرف بالکل تیار رہیں۔۔۔ میرے ساتھ چھوٹا بچا ہوگا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔۔"
مہروسہ جنید کو گاڑی ناکے سے زرا فاصلے پر روکنے کا کہتی پوری ہدایت دیتے باہر نکلی تھی۔۔۔ اُسے اطلاع ملی تھی کہ ایس پی حمدان اِس وقت اسی ناکے کے دورے پر ہے۔۔۔ اِس لیے وہ سیدھا اِدھر ہی آئی تھی۔۔۔۔
سامنے فل یونیفارم میں کھڑے ایس پی حمدان صدیقی کو دیکھ مہروسہ کی آنکھوں جگمگا اُٹھی تھیں۔۔۔۔
گاڑی فاصلے پر رکتی دیکھ حمدان کے پاس دور کھڑے کچھ پولیس والے اُن کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔ جیسے ہی مہروسہ گاڑی سے نکل کر حمزہ کو اُٹھائے بھاگی تھی۔۔۔۔ حمدان سمیت وہ سب بھی پسٹل اُٹھائے اُس کے پیچھے بھاگے تھے۔۔۔
"دیکھو لڑکی میں کہہ رہا ہوں رک جاؤ۔۔۔ ورنہ میں گولی چلا دوں گا۔۔۔۔۔"
ایس پی حمدان قریشی تیز قدموں سے چلتا اپنی ٹیم کے ساتھ مہروسہ کے پیچھے فوراً پہنچا تھا۔۔۔حمزہ کو وہ دیکھ چکے تھے۔۔۔ مگر مہروسہ جس طرح وہاں پہاڑی کے قریب پہنچتی کنارے پر جارکی تھی۔۔۔ احتیاط کے پیشِ نظر حمدان نے اپنے ساتھ ساتھ باقی ٹیم کو بھی آگے جانے سے منع کردیا تھا۔۔۔۔
"ایس پی صاحب کافی بھولا ہے توں۔۔۔ تجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ مہروسہ کو اپنی زندگی کی پرواہ ہوگی۔۔۔ توں مجھے گولی سے اُڑانے کی دھمکی دے یا آگ سے جھلسانے کی میں تیرے اِس منسٹر کے بیٹے کو تب تک آزاد نہیں کروں گی جب تک تم لوگ ہماری مانگیں پوری نہیں کردیتے۔۔۔۔ ہمارے لیڈر کو رہاع کردو۔۔۔ ہم بھی منسٹر کے بیٹے سمیت باقی سب بچوں کو بنا کوئی نقصان پہنچائے رہاع کردیں گے۔۔۔"
اُس اونچی چوٹی کے آخری سرے پر کھڑی مہروسہ پانچ سال کے بچے کو اپنے آگے کھڑا کیے اُس کی کنپٹی پر بندوق تانے ہوئے تھی۔۔۔
سیاہ بالوں کو جوڑے میں باندھ کر کس کر سیاہ سکارف میں لپیٹے، سیاہ نیوی بلو ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس، باریک سی نوز پن اور کاجل سے بھری سیاہ آنکھیں۔۔۔ یہ لڑکی اِس وقت پوری طرح ایک اغوا کار کا رُوپ اختیار کیے کسی قاتل حسینہ سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ جس نے صرف اپنے ساتھی کو چھڑوانے کے لیے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ملک کی بڑی بڑی سیاسی شخصیت کے بچوں کو اپنے قبضے میں لے کر۔۔۔ اُن تک یہ بات پھیلا دی تھی کہ اگر اُس کے ساتھی کو نہ چھوڑا گیا تو وہ اِن بچوں کو مار دے گی۔۔۔
سوشل میڈیا پر اِس خبر نے ہلچل مچا کر رکھ دی تھی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح یہ مشکل ترین کیس ایس پی حمدان قریشی کو سونپا گیا تھا۔۔۔ جو اپنی زہانت استعمال کرتا چند گھنٹوں میں ہی مہروسہ تک پہنچ تو گیا تھا۔۔۔
مگر مہروسہ کی لال آنکھیں اُسے بتا رہی تھیں کہ اِس لڑکی سے نبٹنا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔ جس کی آنکھوں میں مرنے کا زرا بھی ڈر نہیں تھا۔۔۔
وہ اپنی سیاہ آنکھیں اُس کی آنکھوں میں ڈالے اُسے چیلنجنگ انداز میں بولی۔۔۔
"بچے کا اِس سب میں کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔ اُسے چھوڑ دو۔۔۔"
حمدان مہروسہ کو باتوں میں الجھانے کی کوشش کرتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ مگر مہروسہ اُس کی وردی میں ملبوس رعب دار شخصیت پر فدا ہوتی اُس کی سمارٹنس پر ہولے سے مسکرا دی تھی۔۔۔۔
"کافی اچھے سے اپنی ڈیوٹی کرنا جانتے ہو ایس پی۔۔۔ مگر وہ کیا ہے نا۔۔۔ میں اپنے لیڈر سے بہت پیار کرتی ہوں۔۔۔ اُن کی خاطر اپنی جان بھی دے سکتی ہوں۔۔۔۔ اگر اِن بچوں کی سلامتی چاہتے ہو تو اگلے دو گھنٹوں کے اندر میرے دونوں لیڈرز کو چھوڑ دو۔۔۔ ورنہ دو گھنٹوں کے بعد ایک ایک کرکے اِن بچوں کی لاشیں ملنا شروع ہوجائیں گی۔۔۔۔ شروعات میں یہیں سے کررہی ہوں۔۔۔ اور ہاں زندگی رہی تو دوبارہ تم سے ملنے ضرور آؤ گی ایس پی۔۔۔۔ اِس دل کو بہت بھا گئے ہو تم۔۔۔۔"
مہروسہ ایس پی حمدان اور اُس کی ٹیم کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر آنکھ دبا کر حمدان کی جانب شوخی بھری آخری نگاہ ڈالتی بچے سمیت کھائی میں کود گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز سکندر کو حازم سے الگ دوسرے جگہ جیل میں قید کیا گیا تھا۔۔۔
جہاں اُس کی جیل کے باہر تین افراد اُس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔ بلیک سٹارز کتنی صفائی سے اپنا کام کر گزرتے تھے۔۔۔۔ کسی کو سمجھ تک نہیں لگتی تھی۔۔۔۔
اِس لیے اِس بار اُن پر پیرا سخت تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کی سرد نگاہیں اپنے ہاتھ پر لگے سُرخ خون پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ جس رنگ سے اُسے شدید نفرت تھی۔۔۔ وہ اِس رنگ کو اپنے آس پاس برداشت نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اُس نے شدید غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ کو زمین پر زور سے رگڑتے وہ سُرخ داغ ہٹانے چاہے تھے۔۔۔۔ مگر وہ داغ خشک ہوجانے کی وجہ سے ایسا کرنے سے نہیں ہٹے تھے۔۔۔۔
اُس نے جیل میں اردگرد پانی کی تلاش میں نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔۔۔ مگر ایک جانب خالی گھڑا اُلٹا پڑا ہونے کے سوا وہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔
شاہ ویز کی کشادہ پیشانی پر سلوٹوں کا جال نمایاں ہوا تھا۔۔۔۔
"پانی لاکر دو مجھے۔۔۔۔۔"
وہ اِس وقت جیل کی سلاخوں کے ساتھ کمر ٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔۔ سرد آواز میں اُس نے باہر کھڑے جیلر کو مخاطب کیا تھا۔۔۔۔ انداز ایسا تھا جیسے اپنے ملازم کو آرڈر دے رہا ہو۔۔۔۔۔
"تم لوگوں نے سنا نہیں میں نے کیا بولا ابھی۔۔۔۔"
اب کی بار وہ بھاری لہجے میں چبا چبا کر لفظ ادا کرتے بولا تھا۔۔۔۔
"ہمیں کوئی بھی چیز اندر دینے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ چاہے وہ کھانے پینے کی چیز ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔"
اُس کے پیچھے کھڑے جیلر نے اُسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔۔۔۔
جسے سنتے شاہ ویز سکندر نے سختی سے مُٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔ انکار سننا تو اُس نے آج تک سیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
آگے بڑھ کر اُس نے کچھ فاصلے پر پڑے پتھر کے چھوٹے سے ٹکڑے کو اُٹھاتے زور سے دیوار پر مارا تھا۔۔۔۔ جہاں پر لگ کر وہ سیدھا باہر کھڑے جیلر کے ماتھے سے جاٹکرایا تھا۔۔۔۔ بنا دیکھے شاہ ویز سکندر نے ایک دم نشانے پر وار کیا تھا۔۔۔۔۔
"ابھی اور اِسی وقت پانی لاکر دو۔۔۔ ورنہ تم لوگوں کے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر اُن کی جانب مُڑتا لال آنکھوں سے اُنہیں گھورتا بے حد خوفزدہ کرگیا تھا۔۔۔۔ بلیک بیسٹ کی دہشت سے یہاں کا آئی جی بھی کانپ اُٹھتا تھا۔۔ وہ تو پھر صرف ایک جیلر تھا۔۔۔۔۔
"ابھی اور اِسی وقت پانی لاکر دو۔۔۔ ورنہ تم لوگوں کے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر اُن کی جانب مُڑتا لال آنکھوں سے اُنہیں گھورتا بے حد خوفزدہ کرگیا تھا۔۔۔۔ بلیک بیسٹ کی دہشت سے یہاں کا آئی جی بھی کانپ اُٹھتا تھا۔۔ وہ تو پھر صرف ایک جیلر تھا۔۔۔۔۔
اُس کا عجیب سا خوفناک چہرا اور سُرخ آنکھیں دیکھ جیلر سمیت باقی سب بھی اپنی جگہ سہم اُٹھے تھے۔۔۔ اِس جگہ پر آکر آج تک کبھی کسی نے اِتنی اکڑ اور دہشت نہیں دیکھائی تھی ۔۔۔ جتنی یہ پھانسی کے قریب پہنچا شخص دیکھا رہا تھا۔۔۔۔
اُس کے چہرے پر موت کے خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔۔۔ اُس کے چہرے کے بگڑے زاویے بتا رہے تھے کہ اُسے یہ جیل کس قدر بُری لگی تھی۔۔۔ اور اُس کے رہنے کے شیانے شان بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
جیلر نے بھاگ کر آتے ایک مٹی کے پیالے میں اُسے پانی دیا تھا۔۔۔ جیلر جو یہی سمجھا تھا کہ یہ شخص پیاس کی وجہ سے ایسا کررہا ہے۔۔۔۔ اُسے پانی اپنے ہاتھ پر گرا کر ہاتھ کو رگڑتے دیکھ وہ جیلر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ اُس کا دل تو چاہا تھا جیل کے اندر جا کر اِس اُلٹی کھونپڑی والے مجرم کی بھی ویسے ہی دھلائی کرے جیسے وہ پہلے یہاں آئے مجرموں کے ساتھ سلوک کرتا تھا۔۔۔۔
مگر شاہ ویز سکندر کا کسرتی وجود دیکھ وہ یہ سب بس سوچ کر ہی رہ گیا تھا۔۔۔
اپنے ہاتھ سے خون کے لال دھبے مٹا کر شاہ کو سکون ملا تھا۔۔۔ اُس کی آنکھوں کی وحشت ناکی میں کچھ حد تک کمی آچکی تھی۔۔۔۔
اُسے پولیس کی حراست میں آئے پندرہ گھنٹے ہوچکے تھے۔۔۔ اب بس نو گھنٹے باقی تھے اُس کے یہاں سے رہاع ہونے کے۔۔۔۔۔۔
اُسے مہروسہ اور اپنے ساتھیوں پر پورا بھروسہ تھا۔۔۔۔ جن کی باہر سے دی جانے والی دھمکیوں کی وجہ سے ابھی تک نہ ہی اُس کا کسی قسم کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا تھا اور نہ ہی ابھی تک کوئی تفشتیشی افسر اُس کے پاس آیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ کے کھائی سے نیچے کودنے کے بعد ہی حمدان اپنی ٹیم کے ساتھ دوسرے راستے سے نیچے پہنچا تھا۔۔۔ مگر وہاں کسی بھی شے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔۔
"ڈیمڈ۔۔۔۔"
حمدان کا غصے سے بُرا حال تھا۔۔۔ اُس چھٹانک بھر کی لڑکی نے پورے ملک کی پولیس کو آگے لگا رکھا تھا۔۔۔ اور اُس کی اتنی کوششوں کے بعد بھی اُس کے ہاتھ تک نہیں آرہی تھی۔۔۔۔
سیاسی پارٹیز اور سوشل میڈیا پر لوگوں کا پریشر اُن پر بڑھتا جارہا تھا۔۔ ملک کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے نعرے لگانے والے سیاسی لیڈر اپنے بچوں کے اغوا ہوجانے پر پوری طرح بوکھلا چکے تھے۔۔۔ ہمیشہ غریبوں کے مرنے پر اور اُن پر آئے دن ہونے والے ظلم و ستم پر چند لفظی مذمت کرکے آگے بڑھ جانے والے لیڈر۔۔۔۔ آج اپنے بچوں کی تکلیف پر ملک تک کا سودا کرنے پر اُتر آئے تھے۔۔۔۔۔۔
اُنہوں نے بلیک سٹارز گینگ کا مطالبہ ماننے کا حکم بھی جاری کردیا تھا۔۔۔۔ مگر آئی جی صاحب اتنی جلدی اِس گینگ کے آگے سرنڈر کرنے کے حق میں نہیں تھے۔۔۔۔ اور اِس بار جو موقع اُن کے ہاتھ لگا تھا اُسے وہ کسی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتے تھے۔۔۔۔ بلیک سٹارز کی لیڈر نے اُنہیں چوبیس گھنٹوں کا وقت دیا تھا۔۔۔ حمدان ان آخری نو گھنٹوں میں بھی ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا۔۔۔۔
"وہ لڑکی اغوا کیے گئے بچے کے ساتھ اِسی ایریا میں کہیں چھپی ہے۔۔۔۔ رحمان چوک اور ایف بلاک کے درمیان جتنے بھی گھر ہیں لیڈیز پولیس اہلکاروں کو لے جاکر اُن سب گھروں میں چھاپا مارو۔۔۔۔ وہ لڑکی کسی قیمت پر یہاں سے بچ کر نہیں نکلنی چاہیئے۔۔۔۔"
حمدان وائرلیس پر سب کو آرڈر دیتا خود بھی وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میم وہ ایس پی حمدان کو شک ہوچکا ہے۔۔۔ کہ ہم یہیں اِسی علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔۔۔ اُس نے گھروں میں چھاپے مروانے شروع کر دیئے ہیں۔۔۔ وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔ اب کیا کریں گے ہم۔۔۔۔ سب بچے تو یہیں ہمارے پاس ہیں۔۔۔۔ ہمیں بچوں کو ایک ساتھ یہاں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔۔۔ اگر ہم بھی پکڑے گئے تو ہمارا گینگ سرے سے ختم ہوجائے گا۔۔۔۔"
جنید گھبرایا سا اندر داخل ہوتا مہروسہ کو اُن بچوں میں مصروف دیکھ خفگی سے بولا تھا۔۔۔ مہروسہ کو بچے بہت زیادہ پسند تھے۔۔۔ اور اِس وقت وہ متوقع خطرے سے بے پرواہ اُن اغوا کیے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
جنید کی بات پر اُس کے نقاب زدہ چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔ اپنی شناخت سامنے نہ لانے کی وجہ سے اُس نے بچوں کو اپنا چہرا نہیں دیکھایا تھا۔۔۔۔
"تم تو بہت زیادہ گھبرائے ہوئے ہو۔۔۔۔ پہلے یہ ٹھنڈا پانی پیوں اور اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرو۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے گلاس میں پانی اُنڈیلتے جنید کی جانب بڑھایا تھا۔۔۔۔ جس سے چند گھونٹ بھرنے کے بعد جنید نے واپس ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کا یہ پرسکون انداز۔۔۔ اُس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔۔۔۔
"ایس پی حمدان اپنی فورسز کا سب سے قابل اور زہین آفیسر ہے۔۔۔۔ خود کو اپنی زندگی کے اِس سب سے اہم کیس میں ہارتا کسی قیمت پر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ جس کی خاطر وہ ہاتھ پیر تو مارے گا ہی نا۔۔۔۔ مگر ایس پی حمدان صدیقی کو سمجھنا ہوگا کہ کبھی کبھی کچھ اچھا حاصل کرنے کے لیے۔۔۔۔ ایسی چھوٹی موٹی ہار تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔۔۔۔ تم فکر مت کرو۔۔۔۔ ہم بالکل سیف ہیں۔۔۔ اِن بچے آٹھ گھنٹوں میں وہ ہم تک نہیں پہنچ پائیں گے۔۔۔ "
مہروسہ اُسے تسلی دیتی ٹیبل پر رکھے موبائل کو اُٹھاتی ایک بہت مشہور نیوز چینل کو کال ملا چکی تھی۔۔۔۔
جنید کو اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے گینگ لیڈرز کے کام کرنے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آیا تھا۔۔۔
"بلیک سٹارز گینگ کی لیڈر بات کررہی ہوں۔۔۔۔ اپنی حکومت تک یہ بات پہنچا دو کہ میرے دیئے گئے وقت میں سے بہت کم ٹائم رہ گیا ہے۔۔۔۔ اگر میرا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ابھی صرف ایک بچے کی جان لی ہے۔۔۔۔ چند گھنٹوں بعد باقی کی لاشیں بھی اُن کے گھروں تک پہنچا دوں گی۔۔۔۔۔ ایک ویڈیو بھیج رہی ہوں۔۔۔۔ جن کو میری دھمکیوں پر یقین نہیں آرہا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔۔۔۔ "
مہروسہ نے بنا آگے سے کچھ سنیں کال کاٹتے ایک ویڈیو اُس نمبر پر سینڈ کرتے موبائل جنید کی جانب بڑھا دیا تھا۔۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے اُس نے کھیل کھیل میں حمزہ کی ایک ویڈیو بنا لی تھی۔۔۔ جس میں منسٹر کا بیٹا حمزہ سانس روکے فرش پر لیٹا رہا تھا۔۔۔۔ اُس کے کپڑوں پر مہروسہ نے پہلے ہی سُرخ سیاہی مل دی تھی۔۔۔۔
ویڈیو میں یہی لگ رہا تھا۔۔۔ کہ حمزہ کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔۔۔ مہروسہ کو یہ سب کرتے بہت بُرا لگا تھا۔۔۔۔ مگر اِس وقت یہ سب کرنے کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔
"وہ ہمیں ٹریس کروا سکتے ہیں۔۔۔"
جنید کو مہروسہ کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔۔۔
"میری بھیجی گئی ویڈیو دیکھنے کے بعد ایسا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔۔ "
مہروسہ کے مسکرا کر کہنے پر جنید نے جلدی سے موبائل اوپن کرتے وہ ویڈیو دیکھی۔۔۔ اور جھٹکے سے نظریں اُٹھا کر زندہ سلامت ہنستے کھیلتے حمزہ کو دیکھا تھا۔۔۔
"یہ سب کیسے کیا آپ نے۔۔۔ ؟؟"
جنید اپنی لیڈر کے کمالات دیکھ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔۔۔۔
"بس تم ہمیشہ مجھے انڈر اسٹیمیٹ کرتے ہو۔۔۔ دیکھ لو اب میرا کمال۔۔۔۔ ایس پی حمدان کا نمبر ملا کر دو مجھے۔۔۔۔"
مہروسہ کا اگلا حکم سن کر جنید کا سر ایک بار پھر چکرا گیا تھا۔۔۔ مگر اِس بار بنا کوئی سوال جواب کیے وہ حمدان کا نمبر ڈائل کرتا فون اُسے تھما گیا تھا۔۔۔۔ جو اُنہوں نے اِس مشن سے پہلے یہاں کے تمام آفیسرز کا پرسنل ڈیٹا اکٹھا کرکے حاصل کیا تھا۔۔۔۔
"ایس پی حمدان صدیقی سپیکنگ!....."
حمدان کی گھمبیر بھاری غصے سے لبریز آواز مہروسہ کی سماعتوں سے ٹکراتی اُس کی کاجل سے سجی جھیل سی آنکھوں کے دیپ روشن کر گئی تھی۔۔۔۔ وہ خود بھی سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔ آخر یہ شخص اُس کے دل کو اتنا کیوں بھا گیا تھا۔۔۔۔
کیوں اُس کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا انجانے ميں مہروسہ کنول جیسی لڑکی پر اپنا کنٹرول جما رہا تھا۔۔۔۔
"بلیک سٹارز گینگ کی لیڈر بات کررہی ہوں۔۔۔ "
مہروسہ کی دلکش مسکراتی سر بکھیرتی آواز حمدان صدیقی کو مزید انگاروں پر لو ٹا گئی تھی۔۔۔۔ اُس نے جلدی سے اپنے آدمی کو اشارہ کرتے اِس فون کال کی لوکیشن ٹریس کرنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
"میں جانتی ہوں مجھ تک پہنچنے کے لیے بہت بے چین ہیں آپ ایس پی صاحب۔۔۔۔۔ حال تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔۔ مگر اپنے دل پر پتھر رکھ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ ابھی یہ ملاقات ممکن نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔ لیکن وعدہ رہا آپ سے بہت جلد ملنے آؤں گی آپ کو۔۔۔۔۔ "
مہروسہ کی فضول ترین باتوں پر حمدان کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔۔۔ اگر کال ٹریس نہ کی جارہی ہوتی تو وہ کب کا یہ منحوس کال کاٹ چکا ہوتا۔۔۔۔
"جو تم کر رہی ہو۔۔۔ اُس کا انجام بہت بُرا ہوگا۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے عبرت ناک موت ماروں گا تمہیں میں۔۔۔۔ اب زیادہ دیر تک چھپ نہیں پاؤ گی تم مجھ سے۔۔۔"
حمدان کا بس نہیں چل رہا تھا موبائل فون کے اندر ہاتھ ڈال کر اُس کی گردن اپنے شکنجے میں دبوچ لے۔۔۔۔
"انجام کی پرواہ کسے ہے صاحب۔۔۔۔ ہاں آپ کی تھوڑی سی محبت کی طلب پیدا ہوگئی ہے اِس دل میں۔۔۔۔ جو حسرت بن کر مرتے دم تک ساتھ رہنے والی ہے۔۔۔۔"
مہروسہ نے ٹھنڈی آہیں بھرتے کہا تھا۔۔۔ وہ خود بھی دیکھ نہیں پائی تھی کہ یہ بات کرتے اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔۔
"تم نے یہی گھٹیا بکواس کرنے کے لیے کال کی تھی مجھے۔۔۔۔۔ "
حمدان کا ضبط جواب دے چکا تھا۔۔۔۔
"نہیں یہ بتانے کے لیے کے مجھے ڈھونڈنے کے لیے بچارے لوگوں کے گھروں کی تلاشی لینا اور اِس وقت میری کال ٹریس کروانا بند کردیں۔۔۔۔ اور مان لیں کے آپ اِس لڑکی کے ہاتھوں اپنا پہلا کیس ہار چکے ہیں۔۔۔ اور بہت جلد دل کی بازی بھی ہاریں گے۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔ "
مہروسہ دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اُس کا خون مزید جلاتی کال کاٹ گئی تھی۔۔۔۔ جب اُسی لمحے ایس ایچ او ندیم اُسے اپنے قریب آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔
"سر آئی جی صاحب کا آرڈر ہے کہ اِس ایریا سے سارے ناکے ختم کردیئے جائیں۔۔۔۔ اور اُنہوں نے بلیک سٹارز کے دونوں لیڈرز کو چھوڑنے کا بھی کہہ دیا ہے۔۔۔۔ اُس ظالم لڑکی نے اُس معصوم بچے کی جان لے لی ہے۔۔۔۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر پولیس والوں کو مزید رگیدا جارہا ہے۔۔۔۔ اور ہیلتھ منسٹر بھی تقریباً پاگل ہوچکا ہے۔۔۔ "
ایس ایچ او کی بات پر حمدان نے شدید طیش کے عالم میں موبائل سامنے رکھے بڑے سے پتھر پر دے مارا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"یہ لڑکی اب میرے ہاتھوں نہیں بچ پائے گی۔۔۔ اِس کی زندگی تباہ و برباد کرکے نہ رکھ دی تو میرا نام بھی ایس پی حمدان صدیقی نہیں۔۔۔۔"
حمدان راستے میں آئی ہر شے کو ٹھوکر سے اُڑاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ اُس معصوم بچے کی موت کا زمہ دار وہ خود کو سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔ کاش وہ اوپر سے دیئے گئے آرڈر کو فالو نہ کرتے اُس لڑکی کی کھونپڑی اُڑا دیتا تو اُس معصوم بچے کی جان بچ گئی ہوتی۔۔۔۔۔
ہر کیس میں کامیابی اور داد سمیٹنے والے ایس پی حمدان صدیقی کے لیے یہ ہار بہت بھاری ثابت ہورہی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"صاحب آپ کی ساتھی نے جو طوفان برپا کر رکھا ہے۔۔۔ اُس کو دیکھتے ہوئے اُوپر سے آرڈر آگیا ہے کہ آپ کو جیل سے آزاد کردیا جائے۔۔۔۔ مگر ہماری اے ایس پی صاحب ایسا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔۔۔ اُن کے مطابق آپ جیسے شر پسند مجرم کو کھلا چھوڑنا بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ آپ کو یہاں سے کسی ایسی جگہ غائب کردینا چاہتی ہیں۔۔۔ جہاں نہ آپ کے ساتھی پہنچ پائیں اور نہ پولیس۔۔۔۔۔۔ اے ایس پی صاحبہ کسی بھی وقت یہاں پہنچنے والی ہیں۔۔۔۔ میرے لیے کیا حکم ہے۔۔۔۔؟؟؟"
میر حازم جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا اُس اہلکار کی بات سن کر مسکرایا تھا۔۔۔
"ْآنے دو اُس اے ایس پی کو۔۔۔ نبٹ لیں گے اُس سے بھی۔۔۔۔۔ تم باہر جاؤ۔۔۔ گیٹ کے دائیں جانب سفید لباس اور گھنگھریالے بالوں والا ایک آدمی کھڑا ہوگا۔۔۔۔ اُسے کہو تیار رہے۔۔۔ "
میر کی بات پر وہ اہلکار بنا کوئی سوال کیے سر ہلاتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ اِس آدمی کی پہنچ بہت اُوپر تک تھی۔۔۔ اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود وہ بہت آسانی سے اپنے آدمیوں سے رابطہ کر پارہا تھا۔۔۔۔
اے ایس پی حبہ امتشال کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔۔ کہ پولیس یونیفارم میں ملبوس اُس کا اپنا اہلکار میر حازم سالار کے لیے کام کرتا تھا۔۔۔۔۔
ابھی اُس اہلکار کو گئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی۔۔۔ جب جیل کی سلاخوں کے ساتھ کمر ٹکائے کھڑے حازم کے نتھنوں سے انتہائی دلفریب خوشبو کا جھونکا ٹکرایا تھا۔۔۔۔ بنا دیکھے ہی وہ اِس خوشبو کی مالک کو پہچان گیا تھا۔۔۔۔
"زہے نصیب۔۔۔۔ اے ایس پی صاحب۔۔۔۔ تو آخر کار آپ کو ہماری یاد آہی گئی۔۔۔۔"
حازم فل یونیفارم میں ملبوس اے ایس پی حبہ امتشال کو سر سے پیر تک گہری نگاہوں سے گھورتا اُس کے پورے وجود میں ناگواری کی لہر دوڑا گیا تھا۔۔۔ حبہ کے پیچھے بندوقیں اُٹھائے دو اہلکار بھی موجود تھے۔۔۔ وہ جانتی تھی اِس جیسے مجرم سے اکیلے مقابلہ کرنا جذباتیت اور بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔
" اب جو میں تمہارے ساتھ کرنے جارہی ہوں۔۔۔ یاد تو تم مجھے ضرور کرو گے۔۔۔۔"
حبہ جیل کا لاک کھولتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جس کا لاک کھولتے اُس نے کیز اپنی پاکٹ میں ڈال لی تھیں۔۔۔۔
"قسم سے تم سے پہلے اتنی نازک پولیس والی کبھی نہیں دیکھی۔۔۔۔ "
حازم نے ہر بار کی طرح اب بھی اس کی بات کو نظرانداز کرتے اپنے مطلب کا جواب دیا تھا۔۔۔۔ جس پر حبہ نے غصے سے پاگل ہوتے اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگانی چاہی تھی۔۔۔۔ لیکن اُس سے پہلے ہی حازم اُس کی کلائی دبوچتا اُس کی پاکٹ سے پسٹل نکالتا اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
"خبردار!.. اگر کسی نے آگے آنے کی کوشش کی۔۔۔ تو تمہاری اِس آفیسر کی کھونپڑی اُڑانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا مجھے۔۔۔۔"
حازم کی دھمکی پر وہ اہلکار بھی ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔۔ جبکہ حبہ کا چہرا شدتِ ضبط سے سُرخ پڑ چکا تھا۔۔۔۔ وہ پوری کوشش کررہی تھی خود کو آزاد کروانے کی مگر اِس شخص کے ہاتھ میں گن موجود تھی۔۔۔ اور حبہ اِس شخص سے کسی بھی بات کی اُمید کر سکتی تھی۔۔۔
"اِس خوشبو کو بہت مس کروں گا۔۔۔ "
ہتھکڑی سے حبہ کے دونوں ہاتھ پیچھے کمر پر باندھے وہ اُس کے وجود سے اُٹھتی دلفریب مہک اپنی سانسوں میں اُتارنے لگا تھا۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے ابھی بھاگ جاؤ گے تو دوبارہ تم تک نہیں پہنچ پاؤں گی میں۔۔۔۔"
حبہ نے اُسے پیر سے ایک زوردار کک رسید کی تھی۔۔۔۔ جو میر کے فولادی وجود کا کچھ نہیں بگاڑ پائی تھی۔۔۔۔
میر اُسے ایسے ہی یرغمال بنائے گیٹ تک لے آیا تھا۔۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں گن دیکھ کوئی بھی قریب نہیں آپایا تھا۔۔۔۔
"نہیں اب اگلی بار میں تمہارے پاس نہیں تم میرے پاس آؤ گی۔۔۔۔ میرے بلاوے کا انتظار کرنا اے ایس پی حبہ امتشال۔۔۔۔۔"
میر وہاں موجود تھانے کے تمام اہلکاروں کے سامنے اُس کے اُوپر جھک کر اُس کی کنپٹی پر سے پسٹل ہٹا کر وہاں اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے لمحوں کے اندر گیٹ سے باہر اچانک بنتی بھیڑ میں گم ہوگیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یہ دہشت گرد تو وہی قاتل ہے۔۔۔ جس نے میرے سامنے ان بچارے لوگوں کو مارا تھا۔۔۔۔۔ نہیں میں یوں ڈر کر اور خاموش بیٹھ کر بہت غلط کروں گی۔۔۔۔ مجھے پولیس والوں کی مدد کرنی ہوگی۔۔۔۔۔ لیکن اگر وہ وہی شخص نہ ہوا کوئی اور ہوا تو۔۔۔۔۔ میں کیسے پتا لگاؤں کے یہ وہی ہے۔۔۔۔۔ کوئی ثبوت بھی تو۔۔۔۔۔"
پریسا اپنے روم میں ٹہلتی مسلسل تفتیش کا شکار تھی۔۔۔ اُسے کسی طور چین نہیں مل رہا تھا۔۔۔ اُسے شدید نفرت محسوس ہورہی تھی اُس شخص سے جسے لوگوں کی زندگیاں چھیننے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پولیس والوں تک یہ بات پہنچا کر اُن کی مدد کیسے کرے۔۔۔ جب اچانک اُسے گل بہار بیکرز کے باہر لگا سی سی ٹی وی کیمرہ یاد آیا تھا۔۔۔۔ جس کے ساتھ ہی اُس کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔۔۔۔
اِس وقت وہ بالکل بے خوف تھی کیونکہ وہ وہ عجیب و غریب شکل والا شخص ابھی پولیس کی حراست میں تھا۔۔۔ اِس لیے اب وہ اُس کے خلاف پولیس والوں کو مزید ثبوت دے کر اُسے زیادہ وقت تک اندر ہی قید رہنے دینے کی ایک کوشش تو کر ہی سکتی تھی۔۔۔
پریسا اپنا موبائل اُٹھاتی روم سے نکل آئی تھی۔۔۔ اِس وقت سب لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھے شام کی چائے پینے میں مصروف تھے۔۔۔۔ اُس کی خراب طبیعت کی وجہ سے کوئی اُسے جانے نہ دیتا اِس لیے وہ ڈرائینگ میں جھانکے بغیر ہی باہر باہر سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
اپنے ڈرائیور کو وہ پہلے ہی آرڈر دے چکی تھی۔۔۔۔۔
گل بہار بیکرز تک پہنچتے اُسے اچھا خاصہ ٹائم لگا گیا تھا۔۔۔۔ شام آہستہ آہستہ رات میں ڈھل رہی تھی۔۔۔۔
"گل بھائی آپ سے ایک بہت ضروری کام تھا۔۔۔۔"
پریسا اُنہیں کیک کے کاؤنٹر کے قریب کھڑا دیکھ اُن کے پاس آتے بولی تھی۔۔۔۔۔
"جی بیٹا بولیں۔۔۔۔"
گل شیر نے اُس کی پریشان صورت دیکھ اپنی مصروفیت ترک کرتے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"مجھے آپ کی بیکری کے باہر کی کل شام کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنی ہے۔۔۔۔ پلیز یہ امپورٹنٹ ہے۔۔۔ میری ہیلپ کردیں۔۔۔۔"
پریسا آس پاس موجود لوگوں کے خیال سے قدرے آہستہ آواز میں بولی تھی۔۔۔۔
"مجھے آپ کی مدد کرکے بہت خوشی ہوتی بیٹا۔۔۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ باہر جو کیمرہ لگا ہے وہ ایک ہفتے سے خراب ہے۔۔۔۔ اُس میں تو کوئی ریکارڈنگ ہو ہی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔"
گل شیر کی بات پر پریسا کے چہرے پر نااُمیدی پھیل گئی تھی۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر اُنہیں خدا حافظ کرتے وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔
"اب میں کیسے ثبوت اکٹھا کھڑوں گی اُس شخص کے خلاف۔۔۔۔۔۔"
پریسا زیرِ لب بڑبڑاتی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ جب کسی نے اُس کی کلائی اپنی فولادی گرفت میں سختی سے جکڑتے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔
"مجھے آپ کی مدد کرکے بہت خوشی ہوتی بیٹا۔۔۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ باہر جو کیمرہ لگا ہے وہ ایک ہفتے سے خراب ہے۔۔۔۔ اُس میں تو کوئی ریکارڈنگ ہو ہی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔"
گل شیر کی بات پر پریسا کے چہرے پر نااُمیدی پھیل گئی تھی۔۔۔ وہ اثبات میں سر ہلا کر اُنہیں خدا حافظ کرتے وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔
"اب میں کیسے ثبوت اکٹھے کروں گی اُس شخص کے خلاف۔۔۔۔۔۔"
پریسا زیرِ لب بڑبڑاتی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ جب کسی نے اُس کی کلائی اپنی فولادی گرفت میں سختی سے جکڑتے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔
پریسا نے چلانا چاہا تھا مگر مقابل نے اُس کے نازک لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ جماتے اُس کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کی سخت گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بے بسی کے احساس سے اُس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔۔۔۔۔ خوف کے عالم میں اُس کا دل بُری طرح لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ہر طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا جس کی وجہ سے اُس سنسان پڑی جگہ پر وہ کسی کی نظر میں نہیں آسکے تھے۔۔۔۔۔ وہ شخص اُسے یوں ہی اپنے ساتھ لگائے ایک تاریک گلی میں لے آیا تھا۔۔۔۔۔
پریسا کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ اِس شخص نے جس بے دردی سے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔۔ پریسا سانس نہ آنے کی وجہ سے اُس کی گرفت میں تڑپ رہی تھی۔۔۔۔ اُسے لگا تھا اب وہ مزید زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پائے گی۔۔۔۔
جب اُس پر نجانے کس احساس کے تحت ترس کھاتے اُس شخص نے اُس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹا دیا تھا۔۔۔۔۔
جس کے ساتھ ہی پریسا بُری طرح کھانستی اُسے خود سے دور دھکیلنے لگی تھی۔۔۔۔۔
"کک کون۔۔۔ کون ہو۔۔۔تم۔۔۔۔۔ "
پریسا کو بولنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ اُس شخص کا چہرا نہیں دیکھ پارہی تھی۔۔۔۔۔
"وہی جس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا چاہتی ہو تم۔۔۔۔۔ وہی ثبوت دینے آیا ہوں تمہیں۔۔۔۔"
پریسا جو اُس سے دور ہونے کے لیے مسلسل مزاحمت کررہی تھی۔۔۔۔۔ مقابل شخص کی آواز اور لب و لہجے پر وہ لمحے بھر کو بت بن چکی تھی۔۔۔۔۔ خوف کی شدید لہر اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔۔۔۔
یہ شخص تو جیل میں قیدر تھا۔۔۔۔ تو پھر یہ یہاں۔۔۔۔؟؟؟
پری کو اپنا سر بُری طرح چکراتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔۔ سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔ تم نے تو میرے خلاف ثبوت دینے تھے نا پولیس والوں کو۔۔۔۔۔ یہاں تک تم کس لیے آئی۔۔۔۔ مجھے دیکھنے کے لیے۔۔۔۔۔؟؟؟ تو آؤ دیکھو میرا چہرا۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے ایک جھٹکے سے اپنے بے حد قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔۔ اُس کی آہنی سخت گرفت اپنی نازک کمر پر محسوس کرتے پریسا درد سے بلبلا اُٹھی تھی۔۔۔۔ وہ کانچ سی نازک گڑیا اتنی سختی کی عادی کبھی نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اُس سے شاہ ویز کی تپیش زدہ چہرا جھلساتی گرم سانسیں اور ہڈیوں کو چٹخاتا لمس برداشت کرنا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔۔
شاہ ویز کے قریب کرنے پر اب وہ اُس کا چہرا دیکھ پارہی تھی۔۔۔۔ وہی بالوں اور داڑھی سے بھرا خوفناک چہرا۔۔۔۔۔ شاہ ویز نے جس طرح اُسے تھما رکھا تھا۔۔۔۔ وہ اپنا چہرا پیچھے نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔ مگر خوف کے عالم میں بُری طرح لرزتے اُس کی گول گول آنکھوں کی پتلیاں ناقابلے یقین حد تک پھیل گئی تھیں۔۔۔۔
مگر اگلے ہی لمحے اُسے پہلے سے زیادہ شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔۔
جب شاہ ویز نے اپنے چہرے سے نقاب کھینچ دیا تھا۔۔ جس کے بعد سامنے آنے والا اُس کا دلکش مغرور نقوش سے سجا خوبرو چہرا دیکھ پریسا کے گلابی ہونٹ حیرت سے واں ہوئے تھے۔۔۔۔۔
وی اِس وقت حیرت اور بے یقینی کی تصویر بنے آنکھیں پھاڑے اور ہونٹ واں کیے اتنی حسین لگ رہی تھی۔۔۔ اگر اِس وقت شاہ ویز سکندر کی جگہ اگر کوئی اور اُس کے اتنے قریب ہوتا تو اب تک اپنا دل ہار چکا ہوتا۔۔۔
مگر سامنے کھڑے احساس و جذبات سے عاری شخص کو نہ ہی اِس لڑکی کے حُسن میں کوئی انٹرسٹ تھا۔۔۔ اور نہ ہی اُس کے پاس محبت جیسے کسی بھی فضول کام کے لیے وقت تھا۔۔۔۔۔
اُس کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا۔۔۔ جسے پورا کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔۔۔۔
"آآآپ۔۔۔۔پپ۔۔۔ آپ۔۔۔ وہ۔۔۔۔"
پریسا نے بولنا چاہا تھا۔۔۔ مگر اُس کی لال وحشت ٹپاتی حسین آنکھوں سے خوف کھاتے وہ ہکلا کر رہ گئی تھی۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اِس شخص نے اُس کے سامنے اپنی شناخت کروائی ہی کیوں تھی۔۔۔۔
"اپنا چہرا اِس لیے دیکھایا ہے تمہیں۔۔۔۔ بہت جلد پتا چل جائے گا۔۔۔۔ لیکن اگر دوبارہ میرے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے کا خیال دل میں لایا تو وہ حال کروں گا تمہارا کہ تمہارے گھر والے پہنچان بھی نہیں پائیں گے تمہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کا جبڑا اپنی سخت گرفت میں جکڑ کر اُسے وارن کرتا وہاں سے پلٹا تھا۔۔۔۔
اُس کے ایک جھٹکے سے چھوڑنے کی وجہ سے پریسا کا سر زور سے پیچھے دیوار سے جا لگا تھا۔۔۔۔
"قاتل ہو تم۔۔۔۔ چار لوگوں کو مارا ہے تم نے۔۔۔۔۔ میں سب کو بتاؤں گی تمہاری اصلیت۔۔۔۔۔"
پریسا میں نجانے اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی۔۔۔۔ جبکہ اُس کے الفاظ پر شاہ ویز واپس مُڑا تھا۔۔۔۔
اُس کے سیاہ لباس میں ملبوس چوڑے وجود کے سامنے آجانے کی وجہ سے باہر روڈ سے آتی لائٹ کی مدھم روشنی بھی چھپ گئی تھی۔۔۔۔
" سوچ لو جو انسان چار قتل کر سکتا ہے۔۔۔۔ اُس کے لیے پانچواں قتل کرنا کونسا مشکل ہوگا۔۔۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔ تم آنے والے وقت کے لیے میرا بہت اہم مہرا ہو۔۔۔۔ اگر تم نے کسی کے آگے بھی منہ کھولنے کی کوشش کی تو تمہیں تمہاری دنیا سے اُٹھا کر اپنی دنیا میں لے جاؤں گا۔۔۔۔ جہاں اندھیروں میں سر پٹخنے کے سوا کچھ نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتا اُس کی ابھی مجتعم کی گئی ساری بہادری جھاگ کر گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کو اُس سے بے پناہ خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔ اِس شخص کی سیاہ آنکھیں جتنی خوبصورت تھیں۔۔۔ اُن کے رنگ اتنے ہی خوفناک تھے۔۔۔۔۔ جو کچھ وہ ابھی برداشت کرچکی تھی۔۔۔۔ یہ اُس جیسی نازک لڑکی کے لیے بہت زیادہ تھا۔۔۔۔ پریسا کا سر بُری طرح چکرایا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ لہرا کر وہیں زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جبکہ اُس کے ایک بار پھر بے ہوش ہوجانے پر شاہ ویز سکندر اِس لڑکی کی اِس قدر نزاکت پر غصے سے جھنجھنا اُٹھا تھا۔۔۔۔۔ ایک بار تو اُس کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کو اُس دن کی طرح یہیں پھینک جائے۔۔۔۔
مگر آگے آنے والے وقت میں یہ لڑکی اُس کے لیے بہت کارآمد ثابت ہونے والی تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اُسے ایسے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔
شاہ ویز آگے بڑھا تھا اور نہایت ہی ناگواری بھرے تاثرات کے ساتھ اُس کے خوشبوئیں بکھیرتے نازک وجود کو اپنی فولادی بانہوں میں اُٹھاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ایک اور مشن میں جیت کی مبارک ہو میرے دوست۔۔۔۔۔"
حازم روم میں داخل ہوتے شاہ ویز سے بغل گیر ہوتے بولا۔۔۔۔ جس پر شاہ ویز بھی اُسے جواباً اُسی گرمجوشی کے ساتھ اپنے سینے میں بھینچتے بولا۔۔۔
وہ جانتے تھے کہ اِس مشن میں اُن کو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔ مگر اُن کے بلند حوصلوں نے کبھی اُنہیں ناکامی کا منہ نہیں دیکھایا تھا۔۔۔۔
"اچھا جی میرے بغیر سیلیبریٹ کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔ کرلیں سوتیلا پن آپ دونوں مجھ سے۔۔۔۔۔"
مہروسہ کی چہکتی شکوے بھری آواز پر وہ دونوں اُس کی جانب پلٹے تھے۔۔۔
"ہماری کوئی بھی سیلیبریشن تمہارے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے اُسے اشارے سے اپنے پاس بلایا تھا۔۔۔۔ جس پر مہروسہ کا چہرا مزید کھل اُٹھا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سے ایسی تعریف کم ہی سننے کو ملتی تھی۔۔۔ مگر جب وہ کرتا تھا تو مہروسہ ایسے ہی خوش ہو جاتی تھی۔۔۔۔
"بالکل۔۔۔۔ اگر یہ تیسرا بلیک سٹار اپنی اُلٹی کھونپڑی نہ چلاتا تو اب تک وہ سرپھرے پولیس والے ہمیں اُوپر پہنچا چکے ہوتے۔۔۔۔ "
حازم کی بات پر جہاں مہروسہ کی آنکھوں کے سامنے ایس پی حمدان صدیقی کا غصے بھرا چہرا جگمگایا تھا۔۔۔ وہیں شاہ ویز اُسے تیز نگاہوں سے گھور کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
"ایسے مت دیکھے مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سے۔۔۔۔۔"
حازم نے خوفزدہ ہونے کی ایکٹنگ کی تھی۔۔۔
"اپنی عادتیں درست کرلو۔۔۔۔ وہ ایس پی کہیں کسی دن تمہاری ناکامی کا باعث نہ بن جائے۔۔۔۔ ہم جو کام کررہے ہیں۔۔۔ اُس میں دل کی سننے والا خود اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے تنبیہ کرنا نہیں بھولا تھا۔۔۔۔ اُس نے جو پسندیدگی حازم کی آنکھوں میں اُس لڑکی کے لیے دیکھی تھی۔۔۔ آج سے پہلے کبھی اُسے کسی لڑکی کے لیے ایسے بے خود ہوتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
"فکر مت کرو۔۔۔۔ معاملہ اتنا سیریس نہیں ہے۔۔۔۔۔ بس اُس ایس پی کو تنگ کرنے میں مزا آتا ہے۔۔۔۔۔ چھوڑو اِس بات کو۔۔۔۔ آج ہم اپنی کامیابی کو پوری طرح سیلیبریٹ کریں گے۔۔۔۔۔ جنید آج رات کی پارٹی کی تیاری کررہا ہے۔۔۔ تمہیں آنا ہوگا۔۔۔۔"
حازم فوراً بات ٹال گیا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ایس پی حبہ امتشال اور وہ بہت الگ دنیا کے باسی تھے۔۔۔۔ اُن کا ایک ہونا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔ اِس لیے اپنے تڑپتے دل کو تھپک تھپک کر سلاتے اُس نے اُس راہ پر نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔۔۔ جس کی کوئی منزل ہی نہیں تھی۔۔۔۔
پوری دنیا کے لیے وہ بلیک سٹارز انتہائی بُرے انسان تھے۔۔۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا اُنہوں نے اپنی خواہشات اور دل کے ارمانوں کا گلا کیسے گھونٹ رکھا تھا۔۔۔۔۔
"جب جانتے ہو کہ میرا جواب انکار ہی ہے۔۔۔ تو کیوں پوچھتے ہو ہر بار۔۔۔۔ اِن رونق میلوں سے وحشت ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں جواب دیتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے آج بھی یوں چلے جانے پر وہ دونوں ایک دوسرے کی جانب افسوس سے دیکھ کر رہ گئے تھے۔۔۔۔
"شاہ سر کس بارے میں بات کررہے تھے۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔
"ایس پی حبہ امتشال کے بارے میں۔۔۔۔۔"
حازم اُس کا نازک سراپا یاد کرتے ٹھنڈی سانس ہوا میں خارج کرتا پیچھے رکھے صوفے پر براجمان ہوا تھا۔۔۔
"کیا آپ کو پسند ہیں وہ۔۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ نے اشتیاق بھری نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔ مہروسہ شاہ ویز کی نسبت حازم سے آرام سے بات کرلیا کرتی تھی۔۔۔۔ حازم زیادہ تر اچھے موڈ میں ہی رہتا تھا۔۔۔ اُسے کم ہی کبھی غصہ آتا تھا۔۔۔ مگر جب آتا تھا تو وہ شاہ ویز کے سوا کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا۔۔۔۔
"بہت۔۔۔۔"
سیگریٹ ہونٹوں میں دباتے تصور میں وہ اُس کا لڑتا جھگڑتا روپ دیکھتا مسکرایا تھا۔۔۔۔
"تو اُٹھوا لیتے ہیں نا اُسے۔۔۔۔ آپ جیسے انسان کے ساتھ رہنے سے بھلا کون پاگل لڑکی انکار کرے گی۔۔۔۔۔"
مہروسہ کو اُس کا یہ مایوسی بھرا انداز پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی جیسے ہر مشکل سے مشکل مشن میں حازم پرعزم رہتا تھا۔۔۔ اپنی محبت حاصل کرنے کے معاملے میں بھی ایسے ہی رہتا۔۔۔۔
"ہاں آئیڈیا اچھا ہے۔۔۔۔ ایس پی حبہ امتشال کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ ایس پی حمدان صدیقی کو بھی اُٹھوا لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اُن دونوں کو بھی ایک دوسرے کی کمپنی مل جائے گی۔۔۔۔"
حازم سیگریٹ کا دھواں چھوڑتا اُس کی پچکانہ بات کا مذاق بنانے کے ساتھ ساتھ اُس پر حمدان کے حوالے سے چوٹ بھی کرگیا تھا۔۔۔۔
"آپ کو اُس جنید کے بچے نے سب بتا دیا۔۔۔۔؟؟؟ سر ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔"
مہروسہ دانت پیس کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ اور حازم کے سامنے یہ بات آنے پر الگ شرمندہ تھی۔۔۔۔
"اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو ہمارا یہ ہٹلر ہونے نہیں دے گا۔۔۔۔ شدید نفرت ہے اُسے اِن باتوں سے۔۔۔۔۔"
حازم تلخی سے مسکرایا تھا۔۔۔ جبکہ مہروسہ بھی گہری سانس بھرتی دھیرے سے سر ہلا گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر چاہے کتنا ہی سخت اور روڈ کیوں نہ ہوجائے اُن سے۔۔۔ اُن کے لیے سب سے پہلے وہی آتا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے ہرٹ کرکے اپنی خوشی حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"مجھے کچھ نہیں پتا۔۔۔ اگلے پندرہ گھنٹوں تک آفس سے مجھے کوئی کال نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔ "
حبہ نے ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے موبائل آف کرکے صوفے پر پھینکا تھا۔۔۔۔ اُس کا غصے سے لال پڑتا دیکھ نجمہ بیگم اور اُن کے دائیں جانب بیٹھی صبا نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
وہ اِس غصے اور فرسٹریشن کی وجہ بہت اچھی طرح جانتی تھی۔۔۔۔ وہ آج پورے دو دن بعد گھر واپس آئی تھی۔۔۔۔ لگاتار ڈیوٹی کرنے اور جواب میں خالی ہاتھ رہ جانے کی وجہ سے اُس کی تھکن کئی گنا بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"میرا بیٹا اتنے غصے میں کیوں ہے۔۔۔۔؟؟؟ حکومت نے جو بھی فیصلہ کیا اُن معصوم بچوں کی زندگی کے لیے ہی کیا۔۔۔۔۔ اگر اُن میں سے کسی بچے کو بھی کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔۔۔۔"
نجمہ بیگم اُس کے قریب آن بیٹھتیں اُس کا سر دباتے ہوئے بولیں۔۔۔ جو صوفے پر آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔۔۔
"تو پھر ہمیں کس لیے رکھا گیا ہے۔۔۔۔ ہم کررہے تھے نا کام۔۔۔۔ ایس پی ہمدان پہنچ چکے تھے اُن کی تیسری ساتھی تک۔۔۔۔ لاسٹ موومنٹ کر روک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ایسے ہی وہ ہمارے منہ پر ہنس کر جاتے ہیں۔۔۔۔ جیسے آج وہ خبیث انسان گیا ہے۔۔۔۔ کاش ایک بار دوبارہ وہ میری نظروں کے سامنے آجائے۔۔۔۔ اب کسی کا آرڈر نہیں سنوں گی۔۔۔۔ عین سینے میں گولی نہ اُتاری تو میرا نام بھی حبہ امتشال نہیں۔۔۔۔۔۔ "
حبہ مُٹھیاں بھینچتے ایسے بولی تھی جیسے اس وقت حازم اُس کے سامنے ہو۔۔۔۔
"آپی آپ کو اِن سے ڈر نہیں لگا۔۔۔۔۔ دیکھیں نا اِن کے فیسز کیسے عجیب سے ہیں۔۔۔۔"
صبا ٹی وی سکرین پر بار بار دیکھائے جاتے حازم اور شاہ ویز کے چہروں کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"سکن ماسک لگا رکھے ہیں اِنہوں نے۔۔۔۔ جنہیں اُتارنے تک کی اجازت نہیں دی گئی ہمیں۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے ہمارے اپنے آفیسرز اِن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔۔۔۔ جو اِنہیں ہاتھ تک لگانے کی اجازت نہیں دی گئ۔۔۔ ورنہ میرے ایک ہی ڈنڈے پر اِس شخص نے اپنے ساتھی کا نام اُگل دینا تھا۔۔۔۔۔۔۔"
حبہ کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔ نجمہ بیگم نے صبا کو مزید کچھ بھی بولنے سے منع کردیا تھا۔۔۔۔ حبہ فریش ہونے کی غرض سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ آفس سے چینج کرکے ہی نکلی تھی۔۔۔ مگر شدید تھکاوٹ کے باعث وہ اِس وقت شاور لینے کی غرض سے دوپٹہ اُتار کر بیڈ پر پھینکتی، شولڈر کٹ سلکی بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹتی کیچر میں مقید کر گئی تھی۔۔۔۔۔
جس کی وجہ سے اُس کی صراحی دار دودھیا گردن سے بالوں کا پردہ ہٹ گیا تھا۔۔۔۔ سلیوز کو کہنیوں تک فولڈ کرتے اُس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ اِس وقت اُس کے علاوہ بھی کوئی ہستی نہ صرف اُس کے کمرے میں موجود ہے بلکہ اُسے نہایت ہی پسندیدگی بھری نگاہوں سے گھورا بھی جارہا ہے۔۔۔
اچانک کسی غیر معمولی احساس کے تحت حبہ نے نگاہیں گھما کر پورے کمرے پر نظریں دوڑائی تھیں۔۔۔ مگر کسی کو نہ پاکر وہ سر جھٹکتی واش روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔
مگر جیسے ہی اُس نے واش روم کا دروازہ کھولا اپنے دھیان میں ہونے کی وجہ سے وہ واش روم سے برآمد ہوتے شخص کے چوڑے سینے سے بُری طرح ٹکرا گئی تھی۔۔۔
حبہ کا پیر سلپ ہوا تھا۔۔۔ جب مقابل نے بازو اُس کے گرد حمائل کرتے اُسے گرنے سے محفوظ رکھا تھا۔۔۔
لیکن ایسا صرف چند سیکنڈز کے لیے ہی ہوا تھا۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے حبہ اُس کے پیٹ میں زور دار گھونسہ رسید کرتی پھرتی سے اُس کے حصار سے نکلتی سائیڈ دراز میں رکھا اپنا پسٹل نکال کر سامنے کھڑے شخص پر تان گئی تھی۔۔۔
"کون ہو تم اور کیا کررہے ہو اِس وقت میرے گھر پر۔۔۔۔"
حبہ نے ٹریگر پر ہاتھ رکھتے اُس گھنگھریالے بالوں اور رف سے حلیے والے شخص کی عین کنپٹی پر نشانہ باندھ رکھا تھا۔۔۔
جو بنا خوفزدہ ہوئے دونوں ہاتھ سرینڈر کرنے کے انداز میں اُوپر اُٹھائے گہری نگاہوں سے اُس کی چمکتی گردن اور اُس میں لٹکتی چین کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ حبہ نے اُس کی نگاہیں محسوس کرتے اپنے بالوں سے کیچر نکال کر بال کھلے چھوڑ دیئے تھے۔۔۔ جنہوں نے آبشار کی طرح گردن کے گرد بکھرتے اُسے پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔۔۔
"آپی یہ کیا کررہی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟ نیچے کریں پسٹل۔۔۔ یہ بچارا پلمبر ہے کوئی چور نہیں۔۔۔۔ آپ کے واش روم کا نل خراب تھا۔۔۔ وہی ٹھیک کرنے کے لیے بلایا تھا میں نے۔۔۔"
صبا اندر داخل ہوتی سامنے کا منظر دیکھ ہول اُٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر حبہ نے سر سے پیر تک اپنی قاتلانہ نگاہوں سے اُس پلمبر کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔۔۔۔۔ جو اُسے بچارہ تو کہیں سے نہیں لگا تھا۔۔۔۔
وہ پسٹل نیچے رکھتی جلدی سے بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اوڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کی اِس احتیاط پر پلمبر کا رُوپ دھاڑے کھڑا میر حازم سالار کی آنکھیں مسکرا اُٹھی تھیں۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان بہت ہی خراب موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ آج زندگی میں پہلی بار اُس کی ہار ہوئی تھی۔۔۔ جو برداشت کرنا اُس کے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔
کیپ اور سٹک ہاتھ میں اُٹھائے وہ گاڑی سے نکل کر صدیقی ولا کے ڈرائینگ روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ مگر خلافِ معمول اندر چھائے اندھیرے کو دیکھ وہ حیرت کا شکار ہوا تھا۔۔۔۔ اگرچہ بارہ بجے کا وقت تھا۔۔۔ مگر پھر بھی صدیقی ولا کا ڈرائینگ ہمیشہ اُجالوں سے جگمگاتا ہی رہتا تھا۔۔۔۔
کوئی ملازم وغیرہ بھی اُسے دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔
حمدان نے ابھی پہلا قدم اندر بڑھایا ہی تھا۔۔۔ جب اچانک تالیوں کے شور کے ساتھ لائٹ آن ہوئی تھی۔۔۔۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ڈئیر حمدان۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔"
گھر کے سب لوگ ڈرائینگ روم میں اکٹھے ہوئے۔۔۔ ڈرائینگ روم کو غباروں اور پھولوں سے ڈیکوریٹ کیے خوشی سے جگمگاتے چہروں کے ساتھ اُسے وش کررہے تھے۔۔۔۔
اور اُن سب میں سب سے آگے تھی مریم۔۔۔۔۔ جس نے حمدان کے خراب موڈ کو ٹھیک کرنے کے لیے یہ سارا پلان کیا تھا۔۔۔۔
حمدان کے چہرے پر چھاتی مسکراہٹ کو دیکھ وہ اس میں کامیاب ہوتی دیکھائی بھی دے رہی تھی۔۔۔۔۔
حمدان نے ابھی پہلا قدم اندر بڑھایا ہی تھا۔۔۔ جب اچانک تالیوں کے شور کے ساتھ لائٹ آن ہوئی تھی۔۔۔۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ڈئیر حمدان۔۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔"
گھر کے سب لوگ ڈرائینگ روم میں اکٹھے ہوئے۔۔۔ ڈرائینگ روم کو غباروں اور پھولوں سے ڈیکوریٹ کیے خوشی سے جگمگاتے چہروں کے ساتھ اُسے وش کررہے تھے۔۔۔۔
اور اُن سب میں سب سے آگے تھی مریم۔۔۔۔۔ جس نے حمدان کے خراب موڈ کو ٹھیک کرنے کے لیے یہ سارا پلان کیا تھا۔۔۔۔
حمدان کے چہرے پر چھاتی مسکراہٹ کو دیکھ وہ اس میں کامیاب ہوتی دیکھائی بھی دے رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا تھا۔۔۔ جہاں اُس کی لائف کے سب سے خوبصورت لوگ اُس کے منتظر تھے۔۔۔۔
سب سے پہلے وہ اپنی ماما کشور بیگم سے ملتا اُن کی پیشانی چوم گیا تھا۔۔۔۔ باری باری سب سے وشز لیتے مریم کے مقابل آیا تھا۔۔۔ جو آنکھوں میں دنیا جہاں کی محبت لیے اُسے تکے جارہی تھی۔۔۔۔
"دنیا کے سب سے خوبصورت مرد کو دل کی اتھا گہرائیوں سے سالگرہ مبارک۔۔۔۔۔"
گلاب کی آدھ کھلی کلی حمدان کی جانب بڑھاتے مریم کی نظریں اُس کے خوبرو چہرے کا طواف کررہی تھیں۔۔۔۔
جنہیں محسوس کرتے وہ دھیرے سے مسکرا دیا تھا۔۔۔۔
"تم نہیں سدھرو گی۔۔۔۔ کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی۔۔۔۔۔ "
حمدان اُس کے ہاتھ سے پھول تھامتا باقی گھر والوں کے قریب آیا تھا۔۔۔۔ جو اب اُس کے کیک کاٹنے کے منتظر تھے۔۔۔۔۔
حمدان کو یہ سب بالکل بھی پسند نہیں تھا۔۔۔۔ مگر اپنے گھر والوں کی خوشی کی خاطر اُس نے انکار نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
کیک کاٹتے وہ سب کو کھلا کر فارغ ہوا ہے تھا۔۔۔۔ جب اُس کا پاکٹ میں موجود موبائل زور سے بج اُٹھا تھا۔۔۔۔ حمدان انجان نمبر دیکھ سائیڈ پر ہوتے کال ریسیو کر گیا تھا۔۔۔۔
"ایس پی حمدان سپیکنگ۔۔۔۔!"
حمدان کی گھمبیر بھاری آواز پر دوسری جانب موجود مہروسہ نے دلربانہ انداز میں آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔۔
"سالگرہ مبارک ہو۔۔۔۔ ایس پی صاحب۔۔۔۔۔ "
مہروسہ کی مترنم دھیمی انتہائی خوبصورت آواز پر حمدان کو کچھ ہی سیکنڈز لگے تھے پہچاننے میں۔۔۔۔۔
اُس نے دور کھڑے فہد کو اشارہ کرکے اپنے قریب بلایا تھا۔۔۔۔۔
"جی۔۔۔۔"
فہد نے کچھ بولنا چاہا تھا جب حمدان نے اُسے موبائل چپ رہنے کا اشارہ کرتے۔۔۔ اُس سے موبائل لے کر اُسے واپس بھیج دیا تھا۔۔۔۔
"بہت ظالم ہو ایس پی صاحب۔۔۔۔ دل کے معاملے میں اتنی سختی برتنا کہاں کا انصاف ہے بھلا۔۔۔۔۔"
مہروسہ اچھے سے سمجھ رہی تھی کہ حمدان اُس کی لوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔۔۔
"جتنے دن میری پہنچ سے دور ہو۔۔۔ اپنی خیر مناؤ۔۔۔ ورنہ جس دن میرے ہاتھ لگ گئی۔۔۔ اُس دن اپنی موت کے علاوہ کوئی لفظ تمہاری زبان پر نہیں آسکے گا۔۔۔۔۔ میری زندگی کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ انسان ہو تم۔۔۔۔۔ جس سے شدید نفرت اور گھن سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتا مجھے۔۔۔۔۔۔۔ اور تم جیسی ضمیر فروش بے شرم لڑکیوں پر حمدان صدیقی تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔۔۔ جو لڑکی ہر وقت غیر مردوں کے بیچ اُٹھتی بیٹھتی ہے۔۔۔ اُس کا بھلا کیا کردار اور کیا پاکیزگی ہوگی۔۔۔۔"
حمدان اپنے ایک ماتحت کو مہروسہ کا ایریا ٹریس کرنے کا میسیج کر چکا تھا۔۔۔۔ اِس لیے بات بڑھاتے اپنے اندر کا زہر اُس معصوم لڑکی پر برساتے وہ مہروسہ کنول کا دل کئی ٹکڑوں میں توڑ گیا تھا۔۔۔
"بنا کسی ہتھیار کے بھی بہت بُری طرح چھلنی کردیا ہے اِس دل کو صاحب۔۔۔۔ مگر کیا ہے نا۔۔۔ بہت محبت کرتا ہے یہ زخمی دل آپ سے۔۔۔ آپ کو تو میں اپنی باکرداری اور پاکیزگی کا ثبوت دینے کو بھی تیار ہوں۔۔۔۔۔ آپ ایک بار اپنے دل میں تھوڑی سی جگہ بنانے کی کوشش تو کریں۔۔۔۔"
اپنی گالوں پر بہہ آنے والے آنسو صاف کرتے مہروسہ بھرپور دیوانگی بھرے انداز میں بولتی حمدان کو مزید طیش دلا گئی تھی۔۔۔۔
وہ سمجھ چکا تھا اِس لڑکی نے ڈھٹائی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔۔۔۔ جو اُس کی سخت ترین باتوں میں صرف اپنی مرضی کے الفاظ چن لیتی تھی۔۔۔
مہروسہ کی لوکیشن ٹریس ہوچکی تھی۔۔۔۔ وہ اِس وقت زیادہ دور نہیں بلکہ اُس کے گھر سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر لوکیشن شو ہورہی تھی۔۔۔
حمدان گھر والوں سے معذرت کرتا جلدی سے وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔ اُس نے مہروسہ کی کال ابھی بھی نہیں کاٹی تھی۔۔۔۔ آج وہ اِس لڑکی کا کام تمام کرنے کا پورا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
صبا کی بات پر حبہ نے سر سے پیر تک اپنی قاتلانہ نگاہوں سے اُس پلمبر کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔۔۔۔۔ جو اُسے بچارہ تو کہیں سے نہیں لگا تھا۔۔۔۔ گھنگھریالے بالوں اور سانولی سی رنگت والا وہ ہٹا کٹا انسان۔۔۔۔ ایک معمولی پلمبر کی صورت میں اُس سے ہضم نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
وہ پسٹل نیچے رکھتی جلدی سے بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹہ اوڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کی اِس احتیاط پر پلمبر کا رُوپ دھاڑے کھڑے میر حازم سالار کی آنکھیں مسکرا اُٹھی تھیں۔۔۔۔۔
جو انجانے میں بھی اُس کی آنکھوں کی تپیش با آسانی پہچان چکی تھی۔۔۔
"نل ٹھیک ہوگیا پھر۔۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے سینے پر بازو باندھے تفتیشی نگاہوں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔ وہ اب اِس مشکوک پلمبر کو ٹھیک سے جانچے بغیر جانے دینے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔ اِس فیلڈ میں آنے اور بڑے لوگوں سے جان پہچان ہونے کی وجہ سے اُس کے گرد دشمنیوں کے جال بھی اچھے خاصے بنے گئے تھے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی ماں اور بہن کو کسی قسم کے رسک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔۔۔
"جی بی بی جی ہوگیا۔۔۔۔ "
حازم پوری طرح پلمبر کے کریکٹر میں تھا۔۔۔۔
"اچھا۔۔۔۔ صبا گیسٹ روم کے بھی نل اور شاور کا ایشو ہے نا۔۔۔۔ وہ ٹھیک نہیں کروایا تم نے۔۔۔۔"
حبہ نے سوالیہ نگاہوں سے صبا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"نن نہیں آپی۔۔۔۔ وہ تو بہت لمبا کام ہے۔۔۔ اور وہ شاور کھولنا ایک پلمبر کے بس کا کام تو کے بھی نہیں۔۔۔ لاسٹ ٹائم بھی اُسے چار لوگوں نے مل کے۔۔۔۔۔"
صبا ابھی مزید بھی بول رہی تھی۔۔۔۔ جب حبہ نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے خاموش کروا دیا تھا۔۔۔۔
"میں تم سے بہتر جانتی ہوں صبا۔۔۔ جاؤ جاکر کھانا لگواؤ۔۔۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔ "
حبہ ہمیشہ کی طرح چھوٹی بہن پر رعب جماتی پلمبر بنے حازم کو اپنے پیچھے آنے کا کہتی گیسٹ روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
حازم ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے خاموشی سے اُس کے پیچھے چل دیا تھا۔۔۔۔ وہ تو ویسے بھی اِس لڑکی کے ساتھ ٹائم گزارنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
"اِس کا شاور اور نل دونوں خراب ہیں۔۔۔۔ جاؤ ٹھیک کرو دونوں۔۔۔۔"
حبہ نے اّسے گھورتی نگاہوں سے دیکھتے آرڈر دیا تھا۔۔۔ جس پر بہت ہی مودبانہ انداز میں سر ہلاتا وہ اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ پہلے نہایت ہی پروفیشنل انداز میں اُس نے نل کھول کر ٹھیک کیا تھا۔۔۔۔ حبہ دروازے میں کھڑی اُس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔۔۔
نل کے وہ شاور کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔
"نل تو ہر کوئی ٹھیک کر لیتا ہے۔۔۔ اب دیکھتی ہوں تم کتنے بڑے پلمبر ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ دل ہی دل میں سوچتی چہرے پر استہزایہ مسکراہٹ لیے کھڑی اُسے گھور رہی تھی۔۔ جو اب یہ کام بھی بن کوئی گڑبڑ کیا نہایت ہی مہارت سے کررہا تھا۔۔۔۔ جسے دیکھ حبہ بدمزا سی ہوئی تھی۔۔۔ مطلب اِس پلمبر میں کوئی گڑبڑ نہیں تھی۔۔۔ وہ ایسے ہی اِس پر شک کرکے اپنا اتنا سارا وقت برباد کرچکی تھی۔۔۔
"بی بی جی۔۔۔۔ زرا یہ پیچ پکڑا دیجئے گا۔۔۔ نیچے گر گیا ہے۔۔۔۔ اگر میں نیچے جھکا تو شاور کھل جائے گا۔۔۔۔"
حبہ کو واپس پلٹتا دیکھ حازم کو شرارت سوجھی تھی۔۔۔جبکہ اُس کی بات اور پوزیشن کو دیکھتے حبہ بنا اُس کی چالاکی سمجھے اندر آتے جھک کر ایک جانب پڑا پیچ اُٹھانے لگی تھی۔۔۔۔
وہ جیسے ہی پیچ اُٹھا کر سیدھی ہوئی حازم نے شاور کے اُوپر سے ہاتھ ہٹا دیا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ ہی پانی فل سپیڈ سے اُن دونوں کے اُوپر گرتا دونوں کو ہی بھیگا گیا تھا۔۔۔ حبہ جو اِس افتاد کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔۔ اُس نے پیچھے ہونا چاہا تھا۔۔۔ مگر تب تک حازم اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔
لائٹ پرپل ڈریس میں ملبوس حبہ پوری طرح گیلی ہوچکی تھی۔۔۔ اُس کا بھیگا بھیگا دلنشین سراپا میر حازم سالار کو مزید اُس کا دیوانہ کرگیا تھا۔۔۔۔
وہیں اُس کی اِن حرکتوں پر حبہ نے سیخ پا ہوتے اُس پر حملہ آور ہونا چاہا تھا۔۔۔ مگر حازم اُس کا ارادہ بھانپتے اُس کی دنوں کلائیاں گرفت میں لیتے اُس کی کمر کے پیچھے باندھ گیا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا ایس پی صاحبہ پہچان نہیں پائیں مجھے۔۔۔۔ مجھے تو لگا تھا کچھ دن تک آپ کے خوابوں اور خیالوں میں میں ہی چھایا رہوں گا۔۔۔۔ مگر آپ تو کچھ زیادہ ہی بے وفا نکلیں۔۔۔۔"
حازم اُس کے بالوں کی گیلی لٹوں کو اپنی اُنگلی پر لپیٹتا اُن کی مہک اپنی سانسوں میں اُتارتے ہوئے بولا۔۔۔
حبہ نے جھٹکے سے نگاہیں اٹھا کر اُسے گھورا تھا۔۔۔۔ اُسے یہ پلمبر مشکوک تو لگا تھا مگر اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بلیک سٹارز کا لیڈر اُس کے گھر تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔
"بہت بڑی غلطی کردی ہے تم نے میرے گھر آکر۔۔۔۔ اب یہاں سے تم زندہ سلامت نہیں لوٹ پاؤ گے۔۔۔۔ "
حبہ اُس کی گرفت سے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی اُسے وارن کرتے بولی۔۔۔۔
جس کے جواب میں حازم مسکرائے بنا نہیں رہ سکا تھا۔۔۔۔
"اگر اتنی ہی یاد آرہی ہے میری تو کیا خیال ہے۔۔۔ ساتھ نہ لے جاؤں تمہیں اپنے۔۔۔ ویسے بھی تمہاری یہ خوشبو میرا نشہ بن چکی ہے۔۔۔ اِس کے بغیر سکون ہی نہیں مل رہا۔۔۔۔"
حازم سچے دل سے اِس بات کا اقرار کرتا۔۔۔ حبہ کی جانب جھکتا اُس کے کان کی لوح چوم گیا تھا۔۔۔۔
حبہ اُس کے لمس پر کرنٹ کھا کر دور اُچھلی تھی۔۔۔۔
اُس نے ایک زور دار کک حازم کے پیٹ میں رسید کرنی چاہی تھی مگر اُس کا ارادہ بھانپتے حازم اُس کی پشت اپنے سینے کے ساتھ ٹکاتے اُس کا رُخ دوسری جانب موڑ گیا تھا۔۔۔
"تم گھٹیا شخص۔۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں۔۔۔۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔۔ "
حبہ اُس کے مضبوط حصار میں پھڑپھڑانے کے سوا کچھ نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا میر حازم سالار ایس پی حبہ امتشال کو قابو کرنے کی پوری ٹریننگ لے کر آیا ہے۔۔۔۔۔
"ہمت تو اِس سے زیادہ بھی بہت کچھ کرنے کی ہے۔۔۔۔ مگر فلحال کروں گا نہیں۔۔۔۔ ویسے تمہاری گردن کافی خوبصورت ہے۔۔۔۔ مزید خوبصورت بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ اگر اِس پر سے تم یہ چین اُتار کر میرے نام کی پہن لو۔۔۔۔"
حازم ایک ہاتھ سے اُس کی چین کی ہک کھول چکا تھا۔۔۔ حبہ تو اُس کے اِس استحقاق بھرے انداز پر غصے سے پاگل ہو اُٹھی تھی۔۔۔۔ وہ خود کو آزاد کروانے کے لیے مسلسل ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔۔۔ مگر حازم نے اُسے اِس قدر نرمی اور مہارت سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ وہ کچھ کر ہی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔
حازم کے ہک کھولنے پر حبہ کی چین زمین پر جا گری تھی۔۔۔۔۔
"بہت غلط کررہے ہو تم۔۔۔۔ بہت بُرا انجام ہوگا تمہارا۔۔۔۔"
حبہ اُس کی انگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی چلائی تھی۔۔۔۔
"میں اُس ہر انجام کے لیے تیار ہوں۔۔۔ جو تمہارے ہاتھوں میرے لیے لکھا ہے۔۔۔۔ بشرط یہ کہ میرے آخری وقت میں بھی تم میرے پاس ہونی چاہیے ہو۔۔۔۔۔"
اُس کی گردن سے بال ہٹا کر حازم اُسے اپنی چین پہنانے لگا تھا۔۔۔ اُس کے جھکے ہونے کی وجہ سے اپنی گردن پر اُس کی سانسیں محسوس کرتی حبہ جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"میری شناخت جاننا چاہتی ہو تو اِس لاکٹ کو کھول کر دیکھ لینا۔۔۔ میرا نام لکھا ہے اِس میں۔۔۔ اور میری زندگی بھی اِسی میں قید ہے۔۔۔۔"
حازم اُس کا رُخ اپنی جانب موڑتا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔۔ اور جھک کر اُس کے سُرخ دہکتے گال پر چمکتے سیاہ تل پر اپنے ہونٹ رکھتا اُسے دیوار کے ساتھ لگا گیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اِس وقت پوری طرح بھیگ چکے تھے۔۔۔۔ حبہ اپنے حلیے کو دیکھتی شرم ، خفت اور غصے سے مرنے کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔
"ڈونٹ وری۔۔۔۔ میرے سامنے تم اِس طرح آسکتی ہو۔۔۔۔"
حازم اُس کے لال چہرے کو دیکھ کر آنکھ دباتا اُس کے دونوں اپنے رومال کی مدد سے وہاں لگے نل سے باندھ گیا تھا۔۔۔۔۔
اُس کے لفظوں میں اُلجھی حبہ اِس سے پہلے کے کچھ کر پاتی حازم جھک کر نیچے گری اُس کی چین اُٹھا کر اپنی پاکٹ میں رکھتا۔۔۔۔ واش روم کا دروازہ بند کرتا کمرے کے ساتھ ساتھ حبہ کے گھر سے بھی نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
کون تھا یہ شخص۔۔۔۔۔؟؟؟
حبہ کی چھٹی حس اُسے کچھ بہت غلط ہونے کا الارم دے رہی تھی۔۔۔۔ جلدی جلدی اپنی پاور استعمال کرتے۔۔۔ کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد وہ اپنی کلائیاں آزاد کرواتی باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔ مگر تب تک وہ وہاں سے بہت دور نکل چکا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سفیان۔۔۔۔ بڑی ماں۔۔۔۔ بابا بچا لیں پلیز۔۔۔ مدد کریں میری۔۔۔۔"
پریسا بُرے خواب کے زیرِ اثر نیند میں بڑبڑاتے گھبرا کر اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔
"پری کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا۔۔۔۔؟؟"
اُس کے روم میں داخل ہوتی انعم پریشان ہوتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
پریسا نہیں حیرت بھری نگاہوں سے کمرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ تو اُس سنسان جگہ پر، اُس بے رحم قاتل شخص کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔ پھر وہ یہاں۔۔۔ اپنے کمرے کیسے پہنچی تھی۔۔۔ کیا وہ واقعی ہی خواب دیکھ رہی تھی۔۔۔
"نن نہیں یہ خواب کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ مم میں خود تو گئی تھی یہاں سے۔۔۔۔۔۔ بھابھی میں یہاں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے انعم کو کیسے پوچھے اُس سے۔۔۔۔
"میں تمہیں ہی دیکھنے آئی تھی۔۔۔ شام سے خود کو کمرے میں بند کر رکھا ہے۔۔۔۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ بڑی ماما کہہ رہی ہیں آکر کھانا کھا لو۔۔۔۔ "
انعم تشویش بھرے انداز ميں اُس کے قریب بیٹھتے بولی۔۔۔۔
جس پر پری کا چہرا مزید خوف اور شرمندگی کے مارے لال ہوا تھا۔۔۔۔ تو اِس کا مطلب وہ اُسے یہاں اُس کے روم تک۔۔۔ بیڈ پر چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ اور باہر اتنی سیکیورٹی ہونے کے باوجود کسی پتا بھی نہیں چل پایا تھا۔۔۔۔ پریسا کا خوف کئی گنا بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُس انسانی شکل کے درندے کے کہے الفاظ پریسا کو بھلائے نہیں بھول رہے تھے۔۔۔۔
" سوچ لو جو انسان چار قتل کر سکتا ہے۔۔۔۔ اُس کے لیے پانچواں قتل کرنا کونسا مشکل ہوگا۔۔۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔ تم آنے والے وقت کے لیے میرا بہت اہم مہرا ہو۔۔۔۔ اگر تم نے کسی کے آگے بھی منہ کھولنے کی کوشش کی تو تمہیں تمہاری دنیا سے اُٹھا کر اپنی دنیا میں لے جاؤں گا۔۔۔۔ جہاں اندھیروں میں سر پٹخنے کے سوا کچھ نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔۔"
پریسا نے جھڑجھڑی سی لی تھی۔۔۔۔ اُسے اُس شخص کی وحشت ناک آنکھوں سے شدید خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ وہ دوبارہ اُس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
"جی بھابھی میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ آنکھ کب لگی پتا ہی نہیں چلا۔۔۔ اتنی دیر تک سوتی رہی۔۔۔۔ آپ چلیں میں بس ابھی فریش ہوکر آتی ہوں۔۔۔۔"
پریسا کی مسکرا کر کہنے پر انعم سر ہلاتی اُسے جلدی آنے کا کہتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔
پریسا نے جلدی سے سفیان کا نمبر ملایا تھا۔۔۔ جو دوسری بیل پر ہی اُٹھا لیا گیا تھا۔۔۔۔
"سفیان آپ کہاں ہیں اِس وقت۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔۔۔۔
"آفس سے گھر کے لیے نکل رہا ہوں۔۔۔۔ خیریت آج پرستان کی اِس پری نے ہمیں کیسے یاد کرلیا۔۔۔۔"
سفیان گاڑی میں بیٹھتا شوخ لہجے میں بولا۔۔۔
"مجھے ابھی بہت امپورٹنٹ بات کرنی ہے۔۔۔۔"
پری کے سیریس انداز پر سفیان پریشان ہوا تھا۔۔۔۔ کم ہی ایسا موقع ہوتا تھا کہ پریسا آفندی سیریس ہوتی تھی۔۔۔
"کیا ہوا پری سب ٹھیک ہے۔۔۔۔؟؟؟"
سفیان ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے کا کہتے فکرمندی سے بولا۔۔۔۔
"آپ بابا سے کہیں ہمارا نکاح کردیں۔۔۔۔۔ اِسی ویک۔۔۔۔"
پریسا کی بات پر سفیان کتنی ہی دیر شاک میں رہا تھا۔۔۔۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا یہ الفاظ پری نے ادا کیے تھے۔۔۔۔ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست تھے۔۔۔۔ مگر پری نے آج تک اُس کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔۔۔۔
آج اُس کا خود سے نکاح کے لیے کہنا سفیان کو ساتویں آسمان تک پہنچا گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم اب میرے ہاتھوں نہیں بچ پاؤ گی۔۔۔۔ بہت جلد تمہارا کھیل ختم کردوں گا میں۔۔۔۔"
حمدان گاڑی سے نیچے اُترتا اُس شاپ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جہاں اب بھی مہروسہ کی لوکیشن شو ہورہی تھی۔۔۔۔
"ایک بار محبت سے پکار کے تو دیکھو ایس پی۔۔۔ آپ کی یہ دیوانی سر کے بل چل کر آپ کے قدموں میں حاضر ہوجائے گی۔۔۔۔۔ "
مہروسہ دیوانگی بھری نگاہوں سے شاپ کے اندر کھڑی گلاس وال سے گاڑی سے اُتر کر قریب آتے حمدان صدیقی کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔۔۔ کہ کبھی وہ کسی انسان کو اتنی شدت سے چاہ سکتی ہے۔۔۔۔۔ کہ جسے ایک نظر دیکھ کر ہی دل کے سارے درد ماند پڑنے لگتے تھے۔۔۔۔ جس کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر اپنی اذیتیں اُن مضبوط بانہوں میں اُتارنے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر وہ بہت اچھے سے جانتی تھی۔۔۔ کہ اُس کی یہ خواہشیں لاحاصل ہی رہنے والی تھیں۔۔۔۔ ایس پی حمدان صدیقی نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔۔۔۔ وہ اُس پر ٹھوکنا بھی پسند نہ کرتا۔۔۔۔ قریب لانا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔
حمدان کو اندر داخل ہوتا دیکھ وہ الرٹ ہوتی کال کاٹ کر اپنی پاکٹ میں رکھ گئی تھی۔۔۔۔ شاپ میں اِس وقت کسٹمرز کے علاوہ شاپ کا مالک اور وہاں کے ایک میل ورکر کا حلیے بنائے مہروسہ کھڑی تھی۔۔۔
جس کے داڑھی اور مونچھوں والے سکنی ماسک سے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ لڑکا نہیں لڑکی ہے۔۔۔۔ حمدان کو شاپ کے اندر داخل ہوتا دیکھ اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
جس نے اندر آتے ہی شاپ کا دروازہ بند کردیا تھا۔۔۔۔
"چیک کرو اِس کے علاوہ اِس شاپ سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
حمدان کے اشارے پر پولیس اہلکار چاروں طرف پھیل چکے تھے۔۔۔۔ شاپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔۔۔۔ حمدان نے پوری شاپ پر نگاہ دوڑائی تھی۔۔۔ جہاں سہمے کھڑے لوگوں میں خواتین اور مرد موجود تھے۔۔۔ لڑکی اُن میں کوئی نہیں تھی۔۔۔۔
حمدان کو اندر داخل ہوتا دیکھ وہ الرٹ ہوتی کال کاٹ کر اپنی پاکٹ میں رکھ گئی تھی۔۔۔۔ شاپ میں اِس وقت کسٹمرز کے علاوہ شاپ کا مالک اور وہاں کے ایک میل ورکر کا حلیے بنائے مہروسہ کھڑی تھی۔۔۔
جس کے داڑھی اور مونچھوں والے سکنی ماسک سے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ لڑکا نہیں لڑکی ہے۔۔۔۔ حمدان کو شاپ کے اندر داخل ہوتا دیکھ اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
جس نے اندر آتے ہی شاپ کا دروازہ بند کردیا تھا۔۔۔۔
"چیک کرو اِس کے علاوہ اِس شاپ سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
حمدان کے اشارے پر پولیس اہلکار چاروں طرف پھیل چکے تھے۔۔۔۔ شاپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔۔۔۔ حمدان نے پوری شاپ پر نگاہ دوڑائی تھی۔۔۔ جہاں سہمے کھڑے لوگوں میں خواتین اور مرد موجود تھے۔۔۔ لڑکی اُن میں کوئی نہیں تھی۔۔۔۔
"سب لوگ اپنے موبائل نکال کر یہاں رکھ دیں۔۔۔ "
حمدان کے اشارے پر سب نے ہی جلدی جلدی موبائل نکال کر ٹیبل پر رکھ دیئے تھے۔۔۔۔
مہروسہ نے بھی بٹنوں والا موبائل نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ حمدان کی گہری نگاہیں لڑکے کے حلیے میں کھڑی مہروسہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ مہروسہ کو شدید گڑبڑ کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔۔ اُس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ایس پی حمدان کو چکما دینا اُس کے لیے بہت مشکل ہونے والا تھا۔۔۔۔
"کون ہے یہ۔۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے شاپ کے مالک کو اپنے قریب بلاتے مہروسہ کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
"سر یہ چھوٹو ہے۔۔۔ پچھلے پانچ سالوں سے میرے ساتھ اِس دوکان پر کام کررہا ہے۔۔۔۔۔"
شاپ کیپر نے مہروسہ کے سیکھائے الفاظ بولے تھے۔۔۔۔
"اِدھر آؤ۔۔۔۔۔۔"
حمدان نے اشارے سے اُسے اپنے پاس بلایا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کی دھڑکنیں بے قابو ہوئی جارہی تھیں۔۔۔ اگر حمدان کو اُس پر شک ہوچکا تھا تو اُس نے بہت ہی جلد پکڑے جانا تھا۔۔۔۔ وہ ایسے نجانے کتنے گیٹ اپ بدل چکی تھی۔۔۔ مگر اُس کا کانفیڈنس ہی ایسا ہوتا تھا کہ آج تک کسی کو زرا سا بھی شک نہیں ہو پایا تھا۔۔۔
مگر اِس وقت حمدان کے سامنے اُس کی حالت خراب ہوچکی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی کیفیت سمجھ ہی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔ جس طرح اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ اُس نے فوراً پکڑے جانا تھا۔۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
"یہاں کسی لڑکی کو دیکھا تم نے۔۔۔۔۔ دوکان کے آس پاس فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے۔۔۔۔۔"
حمدان کی ایکسرے کرتی نگاہیں اُس کا سر سے پیر تک جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔۔
مہروسہ نے اب کی بار بھی بنا کچھ بولے نفی میں گردن ہلا دی تھی۔۔۔
"سر یہ بول نہیں سکتا۔۔۔ پیدائشی معذور ہے۔۔۔۔۔"
شاپ کیپر کی بات پر حمدان نے اُسے واپس جانے کا بول دیا تھا۔۔ مہروسہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ واپس اپنے کاؤنٹر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
مگر حمدان کے تاثرات اُسے اتنا تو سمجھا گئے تھے۔۔۔ کہ حمدان کو اُس پر شک ہوچکا ہے۔۔۔۔۔
اب اُسے یہاں سے نکلنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔۔۔۔ حمدان ایک ایک کرکے باقی افراد کو باہر بھیج رہا تھا۔۔۔۔ وہ مہروسہ کو اُس دن کی طرح کسی کو یرغمال بنانے کا موقع نہیں دینے والا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کا دماغ بالکل ہی کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔۔۔ اُس کی نگاہیں حمدان صدیقی سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔ وہ یہاں سے نکلنے کے بارے میں کچھ سوچ کی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگا تم بھیس بدل کر مجھے بے وقوف بنا لو گی۔۔۔۔ ؟؟؟"
حمدان باقی پولیس اہلکاروں کو لوگوں کو وہاں سے لے جانے پر لگاتے خود مہروسہ کی جانب بڑھ تھا۔۔۔۔۔
"جب تک میں نہ چاہوں آپ مجھے نہیں پکڑ سکتے۔۔۔ نہ ہی آپ کا محکمہ آپ کو اِس کی اجازت دے گا۔۔۔۔"
اُس کے قریب آنے پر مہروسہ اُلٹے قدموں پیچھے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ اُس کے پاس گن تھی۔۔۔ مگر وہ حمدان پر گن تاننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
"تمہاری یہ غلط فہمی میں آج ہی دور کر دوں گا۔۔۔۔"
حمدان اُس کی کلائی مڑورتا اپنی جانب کھینچتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
اُس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ مہروسہ کو اپنی کلائی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
"آپ پلیز چھوڑ دیں مجھے۔۔۔ آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ میرے لوگ یہاں آس پاس ڈھیروں کی تعداد میں موجود ہیں۔۔۔ وہ میرے ساتھ یہ سلوک کرنے پر آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔۔۔۔"
مہروسہ نے اردگرد سے نکلتے اپنے آدمیوں کی جانب اُس کا دھیان دلوانا چاہا تھا۔۔۔۔ جو شاید پولیس یہاں پہنچ جانے کی اطلاع اب تک شاہ ویز اور حازم تک پہنچا چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اپنی جان کی زرا سی بھی پرواہ نہ کرنے والی مہروسہ کنول کا دل حمدان کی فکر میِں پاگل ہورہا تھا۔۔۔۔ حازم تو پھر اُس کی حمدان کے لیے پسندیدگی سے واقف تھا۔۔۔ لیکن اگر شاہ ویز یہاں پہنچ کر حمدان کا اُس کے ساتھ یہ سلوک دیکھ لیتا تو نجانے وہ کیا کر گزرتا۔۔۔۔ وہ اپنی نگاہوں کے سامنے حازم اور مہروسہ کو زرا سی چوٹ پہنچتے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کسی قیمت پر شاہ ویز اور حمدان کا ٹکراؤ نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ اُسے خود پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ وہ حمدان کے آنے سے پہلے شاپ سے نکلی کیوں نہیں تھی۔۔۔۔ حمدان کو ایک نظر قریب سے دیکھنے کی اب نجانے اُسے کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی۔۔۔۔
"تم کسے اور کس کی دھمکی دے رہی ہو۔۔۔۔۔ چاہے یہاں پر تمہارے سارے آدمی پہنچ جائیں۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑنے والا۔۔۔۔۔"
حمدان اُس کی کلائی تھام کر اُسے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹتے شاپ سے نکلتے بولا۔۔۔۔ اُس کی سرد نگاہیں اور پتھریلے تاثرات دیکھ مہروسہ کو وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت لگا تھا۔۔۔۔ اِس شخص کا ہر انداز ہی اُس کا دل لوٹ لیتا تھا۔۔۔۔
"کاش یہ الفاظ نفرت میں نہیں محبت میں ادا کیے ہوتے۔۔۔۔ تو اپنے آدمیوں کو یہی روکتے آپ کے ساتھ چل پڑتی۔۔۔۔"
مہروسہ دلربائی سے بولتی حمدان کو مزید طیش دلا گئی تھی۔۔۔۔ اُس کے چہرے پر ابھی بھی ماسک تھا۔۔۔ جو اتارنے کر اُس کے چہرا دیکھنے کا ٹائم نہیں تھا اِس وقت حمدان کے پاس۔۔۔۔
وہ اُسے جلد از جلد گاڑی میں ڈال کر وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ بلیک سٹارز کی پاور سے کسی صورت انکاری نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔ اردگرد بھاری تعداد میں پولیس نفری موجود تھی۔۔۔۔ مہروسہ کے بچ نکلنے کے کوئی چونسز نہیں تھے۔۔۔ اِس سے پہلے کے حمدان اُسے گاڑی میں ڈالتا۔۔۔ وہاں گونجتی شاہ ویز کی آواز پر حمدان کے ساتھ ساتھ مہروسہ بھی جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔۔۔
"ایس پی حمدان صدیقی۔۔۔ ہماری ساتھی کو چھوڑ دو۔۔۔ ورنہ تمہاری اِس منگیتر کو اُوپر پہنچانے میں ہمیں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز مریم کی کنپٹی پر گن رکھے حمدان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ منگیتر کے نام پر گم صم سی کھڑی حمدان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جو مریم پر نگاہیں ٹکائے اُس کی کلائی چھوڑ چکا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کی نظریں عام سی شکل و صورت والی مریم پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جو حمدان کے لیے اِس قدر اہم تھی کہ نفرت میں بھی تھاما گیا اُس کا ہاتھ چھوڑنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگا تھا اُسے۔۔۔
"خبردار! اگر اُسے زرا سی بھی خراش آئی تو میں تم لوگوں کی نسلیں برباد کردوں گا۔۔۔۔"
حمدان مریم کو گن پوائنٹ پر دیکھ بپھرے شیر کی طرح دھاڑا تھا۔۔۔۔
اُس کے تمام پولیس اہلکار گن پہلے ہی نیچے کرچکے تھے۔۔۔ مہروسہ خاموش نگاہوں سے یک ٹک حمدان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس کی نگاہیں مریم سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔۔
"مہر کم ہئیر۔۔۔۔۔ "
حازم مہروسہ کی کیفیت سمجھتا نرم لہجے میں اُسے مخاطب کرتے بولا تھا۔۔۔۔
"میرے اپنوں کو بیچ میں لاکر بہت غلط کیا ہے تم لوگوں نے۔۔۔۔ اگلے ساتھ دنوں کے اندر اندر تمہیں اپنی قید میں نہ لیا تو میرا نام بھی حمدان صدیقی نہیں۔۔۔۔ یاد رکھنا۔۔۔۔۔"
حمدان مہروسہ کو قریب آتے حازم کی جانب دھکیل گیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ جو اِس وقت اپنے آپے میں نہیں تھی۔۔۔۔ لڑکھڑا کر زمین بوس ہوجاتی اگر حازم جلدی سے آگے آتے بروقت اُسے تھام نہ لیتا۔۔۔۔
حازم اور مہروسہ کے قریب پہنچتے اور گاڑی میں بیٹھتے ہی شاہ ویز بھی مریم کو آزاد کرتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مہروسہ نے مُڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔۔ جہاں اُس کے ایس پی کی بانہوں میں وہ لڑکی سماتی مہروسہ کو جی جان سے جھلسا گئی تھی۔۔۔۔۔ مہروسہ نے سختی سے اپنی مُٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔
حازم اُس کے برابر والی سیٹ پر۔۔۔ جبکہ شاہ ویز جنید کے ساتھ فرنٹ پر بیٹھا تھا۔۔۔۔ مہروسہ نے حازم سے اشاروں میں شاہ ویز کے موڈ کے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔۔
"موصوف یہاں آنے سے پہلے آگ اُگل رہے تھے۔۔۔ جس محبت کی بھٹی میں جلنے سے وہ مجھے بچانا چاہتا تھا۔۔۔ اُسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم بھی اُسی کا شکار ہوجاؤ گی۔۔۔۔ بہت زیادہ غصے میں ہے۔۔۔۔ "
حازم کی بات پر مہروسہ نے ترچھی نگاہوں سے شاہ ویز کی پشت کو گھورا تھا۔۔۔ حمدان کی اپنے لیے اتنی نفرت دیکھ وہ پہلے ہی عجیب سی کیفیت کا شکار تھی۔۔۔ اور شاہ ویز کو بھی ناراض ہوتا دیکھ اُس کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"ایس پی صاحب آپ کو خود سے محبت کروانے پر مجبور نہ کردیا تو میرا نام بھی مہروسہ کنول نہیں۔۔۔۔ آپ کے دل و دماغ میں خیال ہوگا تو صرف میرا۔۔۔ چاہے آپ کی یہ منگیتر ہو یا کوئی اور کسی کو آپ کے نزدیک بھٹکنے بھی نہیں دوں گی۔۔۔۔۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جتنی شدید نفرت کرتے ہیں مجھ سے۔۔۔ اُس سے کہیں زیادہ محبت کریں گے آپ۔..."
مہروسہ دل ہی دل میں حمدان سے مخاطب ہوتی اپنے آپ سے عہد کر گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ماشاء اللہ میری گڑیا کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ ہر رنگ ہی ہماری پری کو بہت سوٹ کرتا ہے۔۔۔ مگر سُرخ رنگ تو جیسے پری کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔۔۔۔ میں پہلے اپنی بچی کی نظر اُتار لوں۔۔۔۔ "
یاسمیب بیگم کے ساتھ ساتھ ڈرائینگ میں بیٹھی تمام خواتین نے محبت اور ستائش بھری نگاہوں سے لال سوٹ میں ملبوس پری کو دیکھا تھا۔۔۔۔ جو نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
لمبے سیاہ بالوں کو کیچر میں مقید کرکے کمر پر کھلا چھوڑے، پنک لپ گلاس، گول مٹول بلی جیسی آنکھوں کو کاجل سے سجا کر مزید دوآتشہ کیے۔۔۔۔ وہ دیکھنے والوں کے دل اپنے پیروں تلے روندنے کو بالکل تیار تھی۔۔۔۔
چہرے پر آئی شریر لٹ کو بار بار نزاکت سے کانوں کے پیچھے اڑستے، دودھیا گداز پیروں میں سرخ رنگ کے کھسے پہنے وہ دھیمی چال چلتی یاسمین بیگم کے قریب آئی تھی۔۔۔۔۔
"شہباز آپ کے اور سفیان کے نکاح کی اناؤنسمنٹ کر چکے ہیں۔۔ ٹھیک دس دنوں بعد۔۔۔۔ نہایت ہی شاندار تقریب منعقد کی جائے گی۔۔۔ جو آج سے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔۔۔۔ وقت بہت کم ہے۔۔۔ آج سے ہی اعلٰی پیمانے پر تیاریوں کا آغاز شروع کیا جارہا ہے۔۔۔ آپ بھی آج دو ہفتے کے لیے چھٹیاں لے لیں۔۔۔ تاکہ اچھے سے اپنی تیاریاں پوری کرسکیں۔۔۔۔"
یاسمین بیگم اُس کی نظر اُتارتے محبت پاش لہجے میں بولی تھیں۔۔۔
"اوکے بڑی ماما۔۔۔ ابھی تو ہمیں نکلنا ہوگا۔۔۔ ہم لیٹ ہورہی ہیں۔۔۔۔"
پری اُن کی گال کا بوسہ لیتی باقی سب کو بھی خدا حافظ کرتی فضہ کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔۔۔
"ڈرائیور بھائی گاڑی زرا بینک کی طرح موڑیے گا مجھے کام ہے وہاں۔۔۔۔۔"
فضہ کی بات پر پری نے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔
"فضہ یونی سے دیر ہورہی ہے۔۔۔۔ واپسی پر بینک چلے جائیں گے نا۔۔۔۔"
پری آگے چھٹیاں لینا چاہتی تھی۔۔۔۔ اِس لیے وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی آج کی کلاسز بھی ضائع ہوجائیں۔۔۔۔۔
"واپسی پر بینک بند ہوجائے گا۔۔۔ تیس منٹ سے زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔۔۔ آئی پرامس۔۔۔۔"
فضہ کے ملتجی لہجے سے کہنے پر پریسا کو مانتے ہی بنی تھی۔۔۔۔
"جلدی کرو تم اب۔۔۔۔۔ تیس منٹ سے ایک منٹ بھی۔۔۔۔۔"
پری فضہ کے ساتھ ساتھ چلتی آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔ جب وہ پاس سے گزرتے کسی شخص سے بہت زور دار انداز میں ٹکرا گئی تھی۔۔۔ اگر فضہ اُسے سہارا نہ دیتی تو اُس نے بہت بُری طرح گرنا تھا۔۔۔۔
پری نے پلٹ کر اُس شخص کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسی وقت وہ بھی پیچھے مُڑا تھا۔۔۔۔ بلیک قیمض شلوار میں ملبوس اُس شخص نے بلیک ماسک لگا رکھا تھا۔۔۔ مگر اُس کی ماسک سے جھانکتی دلکش آنکھیں دیکھ پری اپنی جگہ پتھر کی ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ وہی تھا۔۔۔۔
"پری کیا ہوا ہے۔۔۔ ایسی پتلا کیوں بن گئی ہو۔۔۔۔ تم وہاں بیٹھو میں آتی ہوں۔۔۔۔"
فضہ اُس کا کندھا ہلا کر اپنی جانب متوجہ کرتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔
پری نے فضہ کی بات سن کر جیسے ہی پلٹ کر اُس جانب دیکھا تو وہاں شاہ ویز سکندر کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
پری فوراً اُس کے پیچھے گئی تھی مگر وہاں کہیں بھی اُس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔۔۔
"ایکسکیوزمی۔۔۔ ابھی دو منٹ پہلے یہاں آپ نے ایک بلیک قیمض شلوار والے شخص کو باہر جاتے دیکھا ہے کیا۔۔۔۔؟"
پریسا چاروں جانب نگاہیں دوڑانے کے بعد بینک کی انٹرنس پر کھڑے گارڈ کے پاس آئی تھی۔۔۔ یہ بینک کی مین برانچ تھی۔۔۔ جو کافی بڑی تھی اور ہر وقت یہاں لوگوں کا رش لگا رہتا تھا۔۔۔۔
اِس لیے اتنے لوگوں میں پری اُسے ڈھونڈ نہیں پائی تھی۔۔۔۔
"نہیں میڈم جی۔۔۔ پچھلے دس منٹ سے لوگ داخل ہی ہورہے ہیں۔۔۔ یہاں سے نکلا تو کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔"
گارڈ کی بات پر پری واپس اندر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
"مجھے ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی پکار پر پریسا جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔۔۔۔ خوف کے مارے اُس کی چیخ نکلتے نکلتے بچی تھی۔۔۔۔
یہ آگ اُگلتا لب و لہجہ وہ بھلا کیسے بھول سکتی تھی۔۔۔ سامنے کھڑا لال آنکھوں سے گھورتا شخص وہی تھا۔۔۔۔
پریسا آس پاس چلتے پھرتے گارڈز کے باوجود اُسے سامنے دیکھ خوف سے کانپ اُٹھی تھی۔۔۔
"مم میں ابھی گارڈز کو سب بتا دوں گی۔۔۔ وہ آپ کو۔۔۔۔"
پریسا کی باقی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی۔۔۔ جب بینک میں اسلحہ اُٹھائے اندر داخل ہوتے نقاب پوش افراد کے دیوار پر فائر کرنے پر وہ سہم کر شاہ ویز کے قریب ہو آئی تھی۔۔۔
انتہائی قریب سے آتی گولی کی آواز پر پریسا کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔
"بندوقیں نیچے پھینک دو۔۔۔ خبردار جو کسی نے ہلنے کی کوشش بھی کی تو۔۔۔۔۔ "
حازم کے اشارے پر سب گارڈز نے اپنی گنز زمین پر ڈال دی تھیں۔۔۔ بینک میں بہت زیادہ رش تھا۔۔۔ وہ کوئی بھی حرکت کرکے اپنی اور وہاں موجود افراد کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔۔۔
پریسا کو پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔ اُن لوگوں سے خوفزدہ ہوتی۔۔۔۔ وہ محفوظ پناہ حاصل کرنے کے لیے سامنے کھڑے شاہ ویز کے انتہائی قریب آچکی تھی۔۔۔۔
اُس کے وجود سے اُٹھتی دلفریب مہک نے پل بھر کے لیے ہی سہی مگر شاہ ویز سکندر کو بہت بُری طرح ڈسٹرب کردیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز نے اُسے کلائی سے تھام کر خود سے دور کیا تھا۔۔۔۔
"اِنہیں گارڈز کی دھمکی دے رہی تھی تم مجھے۔۔۔۔ ؟؟؟ پہلے اپنے ملک کا نظام تو ٹھیک کر لو تم لوگ۔۔۔ پھر اِن لوگوں پر اندھا اعتبار کرنا۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ دوبارہ اگر میرے خلاف کچھ بھی اُلٹی سیدھی حرکت کی تو میرے ساتھ میری دنیا میں آنے کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔ میں اپنے کہے سے مکرتا نہیں ہوں۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُسے اُس کی غلطی باور کرواتا اپنی پاکٹ سے گن نکال چکا تھا۔۔۔۔ جسے دیکھ پریسا کی گول گول آنکھوں کی پتلیاں پھیل کر مزید حسین ہوگئی تھیں۔۔۔۔
"اپنے منیجر کو بلاؤ۔۔۔ اور اِن لوگوں کے اکاونٹس پر جتنی بھی رقم ہے۔۔۔ ابھی اور اِسی وقت ہمارے حوالے کرو۔۔۔۔ ورنہ یہاں کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔۔۔۔"
حازم اور مہروسہ پہلے ہی باقی سب کو افراد کو ہاتھ اُوپر کروا کر ایک لائن میں نیچے بیٹھا چکے تھے۔۔۔۔
اُن کے آدمیوں نے باہر سے بینک کو پوری طرح سے گھیر رکھا تھا۔۔۔ شاہ ویز گن نکالتا بینک مینیجر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا آنکھیں پھاڑے اُس حد درجہ وجیہہ انسان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جو قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ لُٹیرا بھی تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"حبہ میں نے ایک جیولر سے بات کی ہے۔۔۔۔ اُسے ہر طرح کی جیولری کا بہت اچھے سے علم ہے۔۔۔۔ وہ تمہاری چین لاک کھولنے کے ساتھ ساتھ اُسے تمہارے گلے سے بھی اُتار دے گا۔۔۔۔۔"
اپنی بہت اچھی دوست حرا کی بات سن کر حبہ کا دل چاہا تھا ریسور اُس کے منہ پر پٹخ دے۔۔۔
"اچھا تو کیا اُس جیولر کے آگے میں اپنی گردن پیش کروں گی۔۔۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔۔۔۔ کوئی لیڈی جیولر ہے تو اُسے بھیجو ورنہ اپنے یہ نیک خیالات اپنے پاس محفوظ رکھو۔۔۔۔۔ "
حبہ تپ کر بولی تھی۔۔۔۔
"اوکے اوکے غصہ تو مت کرو۔۔۔۔ میں کرتی ہوں کچھ۔۔۔۔ ویسے یہ چین تمہاری گردن میں آئی کیسے۔۔۔۔ اگر تم نے خود بنوائی ہے تو پھر تمہیں اُس کا لاک کیسے نہیں پتا۔۔۔۔۔"
حرا کے سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔ جس کو دیکھتے حبہ نے بنا کوئی جواب دیئے فون کریڈل پر پٹخ دیا تھا۔۔۔
وہ کسی کو اِس بارے میں کچھ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔۔۔۔ اِس چین کو اگر توڑ دیا جاتا تو اُس کے اندر موجود نام اور معلومات نے ضائع ہوجانا تھا۔۔۔ جو کہ وہ کسی قیمت پر نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اس لاکٹ پر لگے پاسورڈ پر تیسری بار غلط ٹرائے کرنے سے بھی سارا ڈیٹا ضائع ہوجانا تھا۔۔۔ اِس لیے حبہ اِس چین کو اپنی گردن سے آزاد نہ کر پانے پر مجبور تھی۔۔۔۔
وہ لڑکی کون تھی۔۔۔۔؟؟؟ آپ اُس کو اریسٹ کرکے کیوں لے جارہے تھے۔۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان فل یونیفارم میں تیار باہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ جب مریم کی پکار پر وہ اُس کی جانب پلٹا تھا۔۔۔۔ جو اِس وقت خوبصورت پھولوں سے سجے لان میں واک کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے نیچے آنے کا انتظار بھی کررہی تھی۔۔۔۔۔
کل وہ حمدان کو عجلت میں جاتا دیکھ اُس کے پیچھے گئی تھی۔۔۔ جب شاہ ویز اور حازم کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
مگر اُن دونوں نے اُسے زرا بھی نقصان پہنچائے اور خوفزدہ کیے بغیر صرف حمدان کو دھمکی دی تھی۔۔۔۔
حمدان کل بہت زیادہ غصے میں تھا اِس لیے وہ کچھ پوچھ نہیں پائی تھی۔۔۔
"دہشت گرد ہے وہ۔۔۔۔۔ بلیک سٹارز نامی گینگ کی مین لیڈرز میں سے ایک ہے۔۔۔۔ ملک میں شر پھیلانے والے ہر بُرے فعل میں نمبر ون پر آتا ہے یہ گینگ۔۔۔۔۔ ہر بار یہ ایسے ہی چالیں چل کر پولیس والوں سے بچ نکلتے ہیں۔۔۔۔۔"
حمدان آنکھوں میں شدید نفرت لیے بول رہا تھا۔۔۔۔ اگر اُس پر ہوتا تو اب تک مہروسہ کو گولیوں سے بھون چکا ہوتا۔۔۔ اُسے نفرت تھی مہروسہ جیسی لڑکیوں سے۔۔۔۔ جو اپنی ذات کا وقار بھول جاتی تھیں۔۔۔۔۔
"مگر میں نے تو اُس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔۔۔۔ وہ بہت عجیب انداز میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں بہت معصوم اور پیاری سی تھیں۔۔۔۔۔ مجھے تو کہیں سے نہیں لگا کہ وہ ایک دہشت گرد ہے۔۔۔۔۔ "
مریم کے دماغ سے لڑکے کے گیٹ اپ میں ملبوس مہروسہ کی بھیگی آنکھیں نکل ہی نہیں پارہی تھیں۔۔۔۔ جو خطرے میں ہونے کے باوجود دیوانہ وار نگاہوں سے بس حمدان کو ہی گھور رہی تھی۔۔۔۔
حمدان نے شاید یہ سب نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ یا پھر وہ دیکھ کر بھی اگنور کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ لیکن مریم نے یہ سب دیکھا بھی تھا۔۔۔ اور اُس پر کافی سوچ و بچار بھی کر چکی تھی۔۔۔۔۔
"بس بہت ہوگیا۔۔۔ میں اب مزید اُس لڑکی کا ذکر نہ سنوں۔۔۔ وہ اتنی اہم بالکل بھی نہیں ہے کہ اُس کا ذکر کیا جائے۔۔۔۔۔ اور نہ ہی وہ اِس قابل ہے۔۔۔۔ مگر تم مجھ سے وعدہ کرو۔۔۔ کہ آئندہ کبھی بھی خود کو خطرے میں نہیں ڈالو گی۔۔۔ بنا گارڈز کے گھر سے نہیں نکلو گی۔۔۔ "
حمدان اُس کا ہاتھ تھام کر پرامس لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔
مریم نے نگاہیں اُٹھا کر حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ ہینڈسم اور ڈیشنگ بندہ صرف اُس کے لیے فکرمند ہوتا تھا۔۔۔۔۔ اُس کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا تھا۔۔۔۔ مریم کو اپنی قسمت پر ناز ہوا تھا۔۔۔۔
"پرامس آئندہ کبھی ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔"
مریم دھیرے سے مسکراتی پرامس کر گئی تھی۔۔۔۔
کچھ فاصلے پر کھڑی فرح نے بہت ناگواری سے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔۔۔
"حمدان مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔"
فرح حمدان کے ہاتھ میں موجود مریم کا ہاتھ نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
"میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔ جو بھی بات کرنی ہے شام میں کر لیجیئے گا۔۔۔۔۔"
حمدان بنا اُن کی جانب دیکھے واپس پلٹا تھا۔۔۔۔
"گھر کے ہر فرد کے پاس تمہارے لیے وقت ہے۔۔۔ سوائے میرے۔۔۔۔ اگر تم پانچ منٹ کے لیے میری بات سن لو گے۔۔۔ تو تمہارے پولیس ڈپارٹمنٹ میں کوئی طوفان پربا نہیں ہوجائے گا۔۔۔۔۔"
فرح کو حمدان کا ایک بار پھر خود کو نظر انداز کرکے یوں مُڑ جانا بہت تکلیف دے گیا تھا۔۔۔۔
مریم خاموش نظروں سے اُن دونوں بہن بھائیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ حمدان کے دل میں اپنی بہن کے لیے جتنی بدگمانیاں بھر چکی تھیں۔۔۔ اُن کا اتنی جلدی ختم ہونا آسان کام نہیں تھا۔۔۔۔
اور حمدان جیسے اُکھڑ مزاج شخص کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔
"جس کی میرے نزدیک جو اہمیت ہے۔۔۔ میں اُسے اُسی پر رکھتا ہوں۔۔۔۔ آپ کو جو بات کرنی ہے مجھے میسیج کردیجیئے گا۔۔۔ ٹائم ملا تو پڑھ لوں گا۔۔۔۔ "
حمدان بنا فرح کی جانب دیکھے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ فرح بھیگی آنکھوں سے اپنے بھائی کی بے رخی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ حمدان کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گارڈ نے دروازہ بند کردیا تھا۔۔۔۔
تین گاڑیوں کا قافلہ ایک قطار میں بڑے سے سیاہ گیٹ سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
"میرے بھائی کو مجھ سے چھین کر اچھا نہیں کیا تم نے۔۔۔ میری ایک ایک تکلیف اور آنسوؤں کا حساب دینا پڑے گا تمہیں۔۔۔۔"
فرح حمدان کے جانے کے بعد مریم کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔ جو کچھ دیر پہلے کا گزرا منظر شاید کافی انجوائے کررہی تھی۔۔۔۔
"میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔۔ آپ کا بھائی آپ کی اپنی وجہ سے نفرت کرتا ہے آپ سے۔۔۔۔ آپ ماضی میں جو کرچکی ہیں۔۔۔ اُسی کا نتیجہ ہے یہ۔۔۔۔ آپ اپنا الزام مجھ پر نہیں ڈال سکتیں۔۔۔۔ ویسے بھی آپ کو بھائی کانوں کا کچا آدمی بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ کہ کسی کی بھی سن لے۔۔۔ آپ نے جو کیا ہے وہ اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔۔۔ یہ شدید نفرت آپ کے بُرے کرموں کا پھل ہے۔۔۔۔"
مریم اُسے ٹکا سا جواب دیتی پلٹی تھی۔۔۔
"حمدان کے سامنے تو بہت معصوم بنتی ہو۔۔۔ کاش کے میرے بھائی کی آنکھوں پر چڑھا پردہ اُتر جائے اور اُسے پتا چل جائے کہ تم کس قدر کالے دل کی لڑکی ہو۔۔۔۔۔ تم میں احساسات اور جذبات نام کو نہیں ہیں۔۔۔ ان شاء اللہ ایک دن وہ وقت ضرور آئے گا۔۔۔ جب حمدان تمہیں ہاتھ پکڑ کر اپنی زندگی سے باہر پھینکے گا۔۔۔۔۔"
فرح کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کا گلا اپنے ہاتھوں سے دبا دے جو اُس کے بھائی کی زندگی خراب کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ کسی طور اُس کے بھائی کے قابل نہیں تھی نہ صورت میں اور نہ ہی سیرت میں۔۔۔۔۔
"ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔۔ محبت کرتے ہیں ہم ایک دوسرے سے۔۔۔۔۔ حمدان پوری دنیا کو چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔ مجھے نہیں۔۔۔۔۔ اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کی مثال تو آپ کے سامنے ہی ہے۔۔۔۔ آپ بھی مجھے زیادہ تنگ مت کریں۔۔۔ ایسا نہ ہو آپ کے باقی گھر والوں کی طرح آپ کا داخلہ بھی اِس گھر سے بند کروا دوں۔۔۔۔"
مریم اُس کی جانب استہزایہ مسکراہٹ اُچھالتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
"یا اللہ جی۔۔۔ کوئی تو ایسی لڑکی ہوگی۔۔۔ جو میرے بھائی کا دل بدل دے۔۔۔ جو اُسے اِس چڑیل کے اثر سے نکال لے۔۔۔۔ جو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے اُس کا دل نرم کردے۔۔۔۔ یہ لڑکی محبت نہیں کرتی میرے بھائی سے۔۔۔ اُسے استعمال کررہی ہے۔۔۔۔ ورنہ محبت تو ایسی خودغرض اور مطلبی نہیں ہوتی۔۔۔۔ وہ تو بے لوث ہوتی ہے۔۔۔ بے غرض۔۔۔۔ جس میں آپ محبوب کی خوشی کے سوا کچھ نہیں دیکھتے۔۔۔۔"
فرح بھیگی پلکیں اُٹھا کر اپنے رب سے فریاد کرتی۔۔۔ تھکے تھکے قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ وہ ایسے گھر میں بالکل بھی نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ جو منافقوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اپنے منیجر کو بلاؤ۔۔۔ اور اِن لوگوں کے اکاونٹس پر جتنی بھی رقم ہے۔۔۔ ابھی اور اِسی وقت ہمارے حوالے کرو۔۔۔۔ ورنہ یہاں کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔۔۔۔"
حازم اور مہروسہ پہلے ہی باقی سب کو افراد کو ہاتھ اُوپر کروا کر ایک لائن میں نیچے بیٹھا چکے تھے۔۔۔۔
اُن کے آدمیوں نے باہر سے بینک کو پوری طرح سے گھیر رکھا تھا۔۔۔ شاہ ویز گن نکالتا بینک مینیجر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا آنکھیں پھاڑے اُس حد درجہ وجیہہ انسان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ جو قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ لُٹیرا بھی تھا۔۔۔۔
"اِدھر آؤ۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے گن کے اشارے سے دیوار سے لگی کھڑی پریسا کو باقی لوگوں کی طرف بلایا تھا۔۔۔۔
"اِس وہاں الگ صوفے پر بیٹھا دو۔۔۔ ابھی چند منٹوں میں خوف کے مارے بے ہوش ہوجانا ہے اِس نے۔۔۔۔ "
شاہ ویز مہروسہ کے قریب سے گزرتا یہ الفاظ ادا کرتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ نے آنکھیں پھاڑے کچھ فاصلے پر کھڑے حازم کو دیکھا تھا۔۔۔ اُن کے گینگ کا بلیک بیسٹ شاہ ویز سکندر کسی لڑکی کے بارے میں بات کررہا تھا۔۔۔ اُس کے منہ سے آج تک اُنہوں نے کسی لڑکی کا ذکر نہیں سنا تھا۔۔۔۔ یہ پہلی بار تھا۔۔۔ جس پر اُن کا شاک ہونا بنتا تھا۔۔۔۔
دونوں کی ہی پرشوق نگاہیں۔۔۔ دیوار سے چپکی ڈری سہمی پریسا کی جانب اُٹھی تھیں۔۔۔ وہ سہمی کانپتی لرزتی ہرنی اُن کے بلیک بیسٹ کے ساتھ۔۔۔۔۔
مہروسہ کو چند سیکنڈ لگے تھے یہ جوڑی بنانے میں۔۔۔۔
"میر سر۔۔۔ یہ لڑکی۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے سوالیہ نگاہوں سے حازم کو دیکھا تھا۔۔۔۔
"شہباز آفندی کی بھتیجی پریسا آفندی ہے۔۔۔۔ کنٹرول رکھو۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔۔۔ رات شاہ نے جو تمہاری کلاس لگائی ہے لگتا ہے وہ بھول چکی ہو۔۔۔۔ اور اگر اِس وقت اُسے پتا چل گیا کہ تم کیا سوچ رہی ہو اُس کے بارے میں۔۔۔۔۔ تو سب سے پہلے اُس نے تمہارا بھیجہ ہی اُڑانا ہے۔۔۔۔۔"
حازم اُسے حقیقت کا رُخ دیکھاتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ مہروسہ جی بھر کر بدمزا ہوئی تھی۔۔۔۔ اگر یہ لڑکی شہباز آفندی کی بھتیجی تھی تو پھر اِس کا اور شاہ ویز کو ایک ساتھ سوچنا بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔۔
"مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنے مطلوبہ اکاؤنٹس سے پیسے نکلوا رہا تھا جب پریسا کی نم آلود آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔۔۔
"تمہیں مرنے کا بہت شوق ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز گن اُس کی جانب موڑتا دبی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔ پری کا چہرا بالکل زرد ہوچکا تھا۔۔۔۔
"میں نے آخر آپ کا بگاڑا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ آپ ہر بار مجھے ہی کیوں ڈراتے ہیں۔۔۔۔؟؟"
پریسا کا سر بُری طرح چکرا رہا تھا۔۔۔ اُسے کھڑا ہو پانا مشکل ہورہا تھا۔۔۔ سامنے کھڑے شخص کا خوف لمحہ با لمحہ اُس کے دل و دماغ پر قبضہ جما رہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سے انتہائی معصومیت سے یہ سوال پوچھتی وہ اِس وقت اُس دیو کے سامنے ایک نازک سی پری معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔ جو حراساں سی اُس کی قید سے آزادی چاہتی تھی۔۔۔۔
"بار بار تم میرے راستے میں آرہی ہو۔۔۔۔ اور میں ہر بار معاف نہیں کرتا۔۔۔۔ اور تمہیں تو اب کسی قیمت پر معافی نہیں ملی سکتی۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی نگاہیں اُس کے چہرے سے بار بار ٹکراتی نازک لٹوں پر تھیں۔۔۔۔ شاہ اُسے اپنی آگ اُگلتی نگاہوں سے گھورتا واپس پلٹنے ہی لگا تھا۔۔۔ جب اُن کی تاب نہ لا پاتے۔۔۔۔۔ پریسا شاہ ویز سکندر کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔۔۔۔
اُس کا سر شاہ ویز کے سینے سے آن لگا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز نے صرف ایک ہاتھ کا استعمال کرتے اُسے سنبھال رکھا تھا۔۔۔۔
"استغفراللہ یہ کیا منظر دیکھ لیا میں نے۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے آنکھیں ملتے بار بار سامنے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں شاہ ویز اُس لڑکی کو اپنی مضبوط بانہوں میں اُٹھائے ایک جانب بنے منیجر کے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
"یہ میری گنہگار آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔۔۔ شاہ سر اُس لڑکی کے ساتھ کیا کرنے۔۔۔۔۔"
جنید آنکھیں اور منہ پھاڑے مہروسہ کے قریب آتے بولا تھا۔۔۔
"شٹ اپ۔۔۔ شاہ سر کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے۔۔۔۔ اُن کے سب سے بڑے دشمن کی بھتیجی ہونے کے باوجود وہ اُس کی عزت پر آنچ تک نہیں آنے دیں گے۔۔۔ "
مہروسہ کے لہجے میں شاہ ویز کے لیے عقیدت تھی۔۔۔۔
"میں مذاق کررہا ہوں۔۔۔ جانتا ہوں وہ کتنے اچھے ہیں۔۔۔ آئیڈیل ہیں میرے۔۔۔ ایسے ہی تو ہر وقت اُن کے اور میر سر کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار نہیں رہتا۔۔۔۔"
جنید مسکرا کر کہتا لاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ جہاں اب اُن کے آدمی پیسے بیگز میں ڈال رہے تھے۔۔۔
شاہ ویز پریسا کو بانہوں میں اُٹھائے روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے باہر صوفے پر بھی لیٹا سکتا تھا۔۔۔ مگر نجانے کیوں۔۔۔۔ اتنے لوگوں کے سامنے اِس لڑکی کے بے ہوش وجود کو رکھنا اُسے ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔
جو خوبصورتی اور دلکشی میں بے مثال تھی۔۔۔۔ اُس کا یہ قیامت خیز حُسن غیر معمولی تھا۔۔۔ اور یہ لڑکی اکیلی اپنی حفاظت نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ اتنا اندازہ تو شاہ کو ہو ہی چکا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز اُسے صوفے پر لیٹا کر واپس پلٹا تھا۔۔۔ جب فرش پر گرے اُس کے شیفون کے دوپٹے کو دیکھ شاہ ویز کا دماغ خراب ہوا تھا۔۔۔۔ اِس لڑکی کو ٹھیک سے خود کو ڈھانپنا بھی نہیں آتا تھا۔۔۔۔
اُس کا غصہ اِس لڑکی پر کئی گنا بڑھ گیا تھا۔۔۔۔تمام مرد اُس کی طرح بے حس اور جذبات سے عاری نہیں ہوتے۔۔۔۔ کوئی بھی اِس لاپرواہ حسینہ سے فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔۔۔ شاہ نے نیچے سے دوپٹہ اُٹھا کر اُس کے چہرے پر پھینکتے۔۔۔ اپنے کندھوں کے گرد لپٹی شال سے پریسا کے نازک وجود کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔۔۔۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
شاہ ویز کے دل کے اندر کسی خانے میں اطمینان اُتر گیا تھا۔۔۔ جس سے وہ خود بھی انجان چہرے پر وہی کرخت تاثرات سجائے روم سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
باہر آکر روم کو لاک کرتے کی اپنی پاکٹ میں رکھتا وہ کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ باہر پولیس کی بھاری نفری پہنچ چکی تھی۔۔۔۔۔۔ اب اُسے سب سے پہلے اپنے آدمیوں کے ساتھ اِس لوٹے گئے پیسے کو بھی یہاں سے باہر بھیجنا تھا۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"واؤ آپی آپ نے کتنا پیارا لاکٹ پہن رکھا ہے۔۔۔۔ کیا آپ یہ مجھے دے سکتی ہیں۔۔۔۔"
صبا حبہ کے گلے میں سجے نہایت ہی خوبصورت لاکٹ کو دیکھ ستائشی لہجے میں بولی۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔ تم ہر وقت ٹی وی کے سامنے ہی چڑھ کر کیوں بیٹھی رہتی ہو۔۔۔ جاؤ جاکر پڑھ لو کچھ۔۔۔۔"
لاکٹ کو دیکھ حبہ کا موڈ مزید آف ہوچکا تھا۔۔۔۔ جس کا غصہ وہ صبا پر نکالتی اُسے وہاں سے بھیج چکی تھی۔۔۔
"کیا ہوا میری بیٹی کچھ دنوں سے کافی غصے میں رہنے لگی ہے۔۔۔۔؟؟ سب خیریت ہے نا۔۔۔۔"
نجمہ بیگم اُس کے قریب آکر بیٹھتی محبت سے پچکارتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ حبہ کا انداز آج کل اُنہیں کچھ زیادہ ہی چڑچڑا سا لگا تھا۔۔۔
"نہیں ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔"
حبہ اُن کی گود میں سر رکھتی تھکان زدہ لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
"ایس پی عمار کی والدہ آئیں تھیں صبح۔۔۔۔۔"
نجمہ بیگم کا لہجہ دھیما ہوا تھا۔۔۔
"اچھا۔۔۔۔ بہت نائس خاتون ہیں وہ۔۔۔۔ ویسے یوں اچانک آئی کیوں تھیں۔۔۔۔؟؟؟ عمار نے تو ایسا کوئی ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔؟؟"
حبہ اُن کی گود میں سر رکھ کر لیٹے لیٹے بولی تھی۔۔۔
"اُنہوں نے پہلے فون پر بات کی تھی۔۔۔ اُس کے بعد ہی آئیں ہیں۔۔۔ عمار کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے۔۔۔۔۔"
نجمہ بیگم کے الفاظ تھے یا کوئی بم جو سیدھا حبہ کے سر پر پھوٹا تھا۔۔۔۔
"ماما کیا جو میں نے سنا ہے۔۔۔ وہ سچ ہے۔۔۔؟؟؟"
حبہ اُٹھ کر بیٹھتی شاکی نگاہوں سے اُنہیں دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"حبہ اِس میں غلط کیا ہے۔۔۔ ایسا تو ایک دن ہونا ہی ہے نا۔۔۔۔۔۔ تم کب تک ایسے ہی۔۔۔۔؟؟؟"
نجمہ بیگم اُس کا ہاتھ نرمی سے تھامتے اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے بولیں۔۔۔
"ماما پلیز۔۔۔۔ آپ ایسا بول بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔ اگر آپ پر میں اتنی ہی بوجھ بن گئی ہوں تو بتا دیں کہیں اور رہ لوں گی میں۔۔۔ مگر اپنا نام کسی کے بھی ساتھ اِس حوالے سے اُٹھتا نہیں سن سکتی۔۔۔"
حبہ اپنا ہاتھ اُن کی گرفت سے نکالتی ہزیانی لہجے میں بولتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
"وہ مر چکا ہے۔۔۔۔ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔۔۔ خود کو کیوں اس دھوکے کا شکار کرکے اپنی زندگی برباد کررہی ہو۔۔۔۔ وہ مر چکا ہے۔۔۔ اور تمہارا اب اُس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔۔ جتنی جلدی ہوسکے اِس بات کو قبول کرلو۔۔"
نجمہ بیگم یہ الفاظ ادا کرتیں حبہ کو اِس وقت دنیا کی سب سے زیادہ سفاک ماں لگی تھیں۔۔۔۔
آج بہت عرصے بعد اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوا تھا۔۔۔ جنہیں بے دردی سے رگڑتی۔۔۔ وہ دھندلائی آنکھوں کے ساتھ روم میں جانے کے بجائے گھر سے ہی نکل گئی تھی۔۔۔۔
محکمے کی جانب سے ملی سپیشل سیکورٹی کو ساتھ لیے بغیر وہ خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتی گھر سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اِس وقت اِس قدر زہنی خلفشار کا شکار تھی۔۔۔ کہ طاق لگائے بیٹھے اپنے دشمنوں کو بھی فراموش کر گئی تھی۔۔۔۔ جو موقع کی تلاش میں ہی تھے۔۔۔۔ اور آج اتنے ٹائم بعد ایس پی حبہ امتشال کو اکیلا گھر سے نکلتے دیکھ اُنہیں موقع مل چکا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"پولیس والے اِس وقت ہم پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔۔۔ ہمارے پاس ڈیڑھ سو کے قریب لوگ ہیں۔۔۔ جن کی زندگیاں وہ خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔۔۔۔ تم اور مہروسہ اپنے تمام آدمیوں کے ساتھ پیسے لے کر نکلو گے۔۔۔ تاکہ اگر وہ لوگ پیچھے آنا بھی چاہیں تو کچھ نہ کرسکیں۔۔۔"
شاہ ویز کی بات سن کر حازم اور مہروسہ دونوں ہی انکاری ہوئے تھے۔۔۔۔
"ہم تمہیں یہاں اکیلا چھوڑ کر کسی قیمت پر نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔۔ "
حازم نے اُس کی پوری بات سنیں بغیر ہی انکار کردیا تھا۔۔ وہ کسی بھی قیمت پر کبھی بھی شاہ ویز کو اکیلا چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
"میر مجھ پر بھروسہ رکھو۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوگا مجھے۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کے بعد میں نکلوں گا۔۔۔۔ شہباز آفندی کی بھتیجی کو گن پوائنٹ پر لے کر۔۔۔۔ پریسا آفندی کو دیکھ کر شہباز آفندی کسی کو گولی نہیں چلانے دے گا کسی قیمت پر بھی نہیں۔۔۔۔ باہر بھیڑ میں موجود ہمارے آدمیوں سے خبر ملی ہے۔۔۔ کہ شہباز آفندی اور سفیان آفندی دونوں ہی پریسا آفندی اور اپنی دوسری بھتیجی کے اندر ہونے کا سن کر یہاں پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔۔ "
اُن دونوں کے نام لیتے وقت شاہ ویز کی آنکھوں میں شدید نفرت تھی۔۔۔ جسے دیکھ کر ایک پل کے لیے اُن دونوں کو بھی خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"تم پریسا آفندی کو اغوا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔۔۔۔"
حازم اُس کی بات مانتا اُس کا اگلا پلان سننا چاہتا تھا۔۔۔ جس کا جواب اثبات میں سر ہلا کردیتے شاہ ویز وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔
"میر مجھ پر بھروسہ رکھو۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوگا مجھے۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کے بعد میں نکلوں گا۔۔۔۔ شہباز آفندی کی بھتیجی کو گن پوائنٹ پر لے کر۔۔۔۔ پریسا آفندی کو دیکھ کر شہباز آفندی کسی کو گولی نہیں چلانے دے گا کسی قیمت پر بھی نہیں۔۔۔۔ باہر بھیڑ میں موجود ہمارے آدمیوں سے خبر ملی ہے۔۔۔ کہ شہباز آفندی اور سفیان آفندی دونوں ہی پریسا آفندی اور اپنی دوسری بھتیجی کے اندر ہونے کا سن کر یہاں پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔۔ "
اُن دونوں کے نام لیتے وقت شاہ ویز کی آنکھوں میں شدید نفرت تھی۔۔۔ جسے دیکھ کر ایک پل کے لیے اُن دونوں کو بھی خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"تم پریسا آفندی کو اغوا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔۔۔۔"
حازم اُس کی بات مانتا اُس کا اگلا پلان سننا چاہتا تھا۔۔۔ جس کا جواب اثبات میں سر ہلا کردیتے شاہ ویز وہاں سے کٹ گیا تھا۔۔۔۔
"سر آپ مانیں یا نہ مانیں۔۔۔ مگر مجھے لگتا ہے۔۔۔۔ کہ اُس معصوم سی لڑکی نے شاہ سر کے دل میں تھوڑی بہت جگہ تو بنا ہی لی ہے۔۔۔۔ اُن کا اُسے اُٹھا کر کے کر جانا۔۔۔۔ اُس کے بے ہوش ہونے کی فکر۔۔۔ ورنہ آج سے پہلے تو وہ کبھی کسی مشن میں کسی لڑکی کے قریب بھی نہیں بھٹکے۔۔۔۔"
مہروسہ خوشگوار حیرت کے ساتھ یہ الفاظ بولتی حازم کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔۔
مگر اِس وقت اُسے زیادہ فکر شاہ ویز کی تھی۔۔۔ جس نے بعد میں پولیس والوں کے سامنے سے اکیلے آنا تھا۔۔۔ اُس کے لیے اپنے گینگ کے ہر فرد کی لائف بہت اہم تھی۔۔۔ اِس لیے وہ کسی ایک بھی آدمی کو آخر میں اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد اُن کے سارے آدمی ایک ایک کرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔ جنید پہلے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ ساری رقم لے کر نکل چکا تھا۔۔۔۔
"نکلو تم لوگ بھی اب۔۔۔۔ اور یہاں قریب کہیں بھی رکنا مت۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُن دونوں کے قریب آتے بولا تھا۔۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔۔۔ تم اِن سب کے باس ہوسکتے ہو میرے نہیں۔۔۔۔ جب تک تم یہاں سے سیفلی نہیں نکل جاتے میں یہیں آس پاس ہی رہوں گا۔۔۔۔۔ میر حازم سالار جب تک زندہ ہے شاہ ویز سکندر کو زندگی کے کسی بھی موڑ پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔"
حازم اُس سے بغل گیر ہوتا فکرمندی سے بولا تھا۔۔۔۔
"اچھا اور میں بھی اِس گینگ کی لیڈر ہوں۔۔۔ مجھ پر ہمیشہ رعب جمائی رکھتے ہیں آپ لوگ۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے اپنی چھوٹی سی ناک بسورتے کہا تھا۔۔۔۔
"کیونکہ تم اِس گینگ کی جان ہو۔۔۔ ہمیں کچھ ہوجائے پھر بھی چلے گا۔۔۔ مگر تمہیں زرا سی خراش بھی آئی تو ہم دونوں ہر شے تہس نہس کردیں گے۔۔۔ تمہیں ہر معاملے میں سیف رکھنے کی یہی وجہ ہے۔۔۔۔۔ اب جاؤ تم لوگ۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے سر پر ہلکی سی چپت رسید کرتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔
"ہائے۔۔۔۔ شاہ سر کبھی کبھی تعریف کرتے ہیں۔۔۔ مگر جب کرتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔"
مہروسہ کا چہرا کھل اُٹھا تھا۔۔۔ وہ چہکتے ہوئے بولتی حازم کو کسی کی شدت سے یاد دلا گئی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی لال ہوتی آنکھوں کو سختی سے میچ کر اُن کی نمی کو اندر دھکیلتا مہروسہ کو ساتھ آنے کا کہتا۔۔۔۔ پچھلی طرف سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
ابھی بینک کا عملہ اور باقی تمام لوگ وہیں موجود تھے۔۔۔۔۔۔ جن سب پر شاہ ویز کے اکیلے رہ جانے کے باوجود دہشت طاری تھی۔۔۔۔ اُنہیں سب سے زیادہ ڈر اسی شخص سے لگ رہا تھا۔۔۔ جو ابھی بھی اُن کے سر پر سوار تھا۔۔۔۔ اُس کی وحشت ناک آنکھیں بتاتی تھیں۔۔۔۔ کہ وہ کسی کو بھی زرا سی مہلت دینے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔
اُن لوگوں کے نکلتے ہی وہ واپس اُسی روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جہاں اُس نے پریسا کو لاک کررکھا تھا۔۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہی اُس کے تاثرات مزید تن گئے تھے۔۔۔ اُس لڑکی کو ابھی تک ویسے ہی بے ہوش پڑا دیکھ شاہ ویز مُٹھیاں بھینچتا آگے بڑھا تھا۔۔۔
سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اُٹھاتے اُس نے پریسا کے ڈھکے چہرے سے اپنی شال اُتاری تھی۔۔۔۔ لمحے بھر کو شاہ ویز کا ہاتھ وہیں ساکت ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا آفندی کے حُسن کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔۔۔ مگر سوتے ہوئے اُس کے چہرے پر جو معصومیت چھائی ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے شاہ ویز سکندر جیسے پتھر دل اور بے حس انسان کو بھی کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی مگر ٹھٹھکنے پر مجبور ضرور کردیا تھا۔۔۔۔
آرزوں پر سایہ فگن گھنیری پلکیں، ایک دوسرے میں نرمی سے پیوست گلابی ہونٹ، سُرخی مائل پھولے پھولے صحت مند گال۔۔۔۔ اور ستوان گلابی ناک میں چمکتی نوز پن۔۔۔۔ سیاہ زلفوں نے اُس کے چہرے کے گرد پردہ بنا کر اُس کے نازک وجود کو بھی ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔۔
اگر یہاں کوئی اور شخص ہوتا تو وہ اس پری پیکر سے ایسا سلوک کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں جو شاہ ویز سکندر کرنے جارہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کو نہ کبھی حُسن و دلکشی میں کوئی انٹرسٹ رہا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اب تھا۔۔۔۔
اُس بنا زرا سا بھی لحاظ رکھے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس پریسا کے منہ کے اُوپر اُنڈیل دیا تھا۔۔۔۔۔۔
پریسا جو پہلے ہی اُس سے کافی خوفزدہ ہوکر بے ہوش ہوئی تھی۔۔۔۔ پانی کے زور دار تمانچے پر وہ ہڑبڑا کر چیخ مارتی اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔
جب عین سامنے بہت قریب کھڑے شاہ ویز سکندر کو دیکھ وہ بے دھیانی میں اُسی کی شال اپنے گرد مضبوطی سے پکڑے صوفے کی بیک سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
"کک۔۔۔ کک کیوں۔۔۔۔ کیوں۔۔۔ لائے ہیں۔۔۔ مجھے۔۔۔ یہاں۔۔۔؟؟؟ کک کیا۔۔۔۔ کک کرنےےے۔۔۔ ووالے۔۔۔ ہیں آپ۔۔۔ میرے ساتھ۔۔۔۔۔"
صوفے کے بالکل قریب زمین پر گرا اپنا دوپٹہ اور اپنے گرد لپٹی اُس کی خوشبو سے لبریز شال دیکھ پریسا کو اپنی دھڑکنیں رکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
گول گول آنکھوں سے آنسوؤں کی جھری رواں ہوچکی تھی۔۔۔۔
جبکہ اُس کی شکی نگاہوں اور بات کا مطلب جان کر شاہ ویز کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے۔۔۔۔
"سٹوپڈ گرل۔۔۔۔۔"
اِس سے پہلے کے وہ خوف سے دوبارہ بے ہوش ہوجاتی۔۔۔۔ شاہ نے اُسے کلائی سے تھام کر اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔ وہ بے جان گڑیا کی طرح اُس کی جانب کھینچی چلی گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کی چادر وہیں نیچے گر چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ لرزتی کانپتی اِس وقت بالکل اُس کے مقابل کھڑی تھی۔۔۔۔
"میرے بارے میں آئندہ ایسی فضول بات اپنے دماغ میں بھی مت لانا۔۔۔۔ مجھے تم میں یا دنیا کی کسی بھی عورت میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم اِس وقت پوری طرح سے میرے رحم و کرم پر ہو۔۔۔۔۔ تمہاری بہتری اِسی میں ہوگی۔۔۔ کہ جو میں کہوں وہ کرو۔۔۔۔ اگر زرا سی بھی اونچ نیچ کی۔۔۔ یا میری بات نہ مانی تو انجام کی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔۔ انڈرسٹینڈ۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنی سرخ وحشت ناک آنکھیں اُس کی ہرنی سی خوفزدہ آنکھوں میں گاڑھتے پوچھا تھا۔۔۔۔
اُس ظالم دیو کی قید میں کھڑی معصوم پری نے ٹرانس کی کیفیت میں سر ہلاتے اُس کی بات مان لی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم اور مہروسہ اپنا حلیہ بدل کر عام لوگوں کے روپ میں آچکے تھے۔۔۔۔ وہ رُوپ جو اُن کا اصلی رُوپ تھا۔۔۔ جس کے ساتھ وہ اکثر لوگوں کے بیچ موجود رہتے تھے۔۔۔۔ مگر کبھی کوئی انہیں پہچان نہیں پایا تھا۔۔۔۔
حازم مہروسہ کو وہیں بینک سے کچھ میٹر دور روڈ پر رکنے کا کہتا خود جنید لوگوں کے پیچھے گیا تھا۔۔۔ یہ تسلی کرنے کے وہ پیسے لے کر با حفاظت اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں یا کسی پولیس چوکی کا شکار ہوگئے ہیں۔۔۔۔ فون ٹریک ہونے کی وجہ سے وہ یا تو وائرلیس فون یوز کرتے تھے۔۔۔ یا پھر آپس میں رابطہ رکھتے ہی نہیں تھے۔۔۔۔ اُن کے ہر کام میں بہت زیادہ احتیاط برتی جاتی تھی۔۔۔۔
مہروسہ وہاں ٹائم پاس کرنے کے لیے ایک ریڑھی والے سے آئس کریم لے کر بینچ پر بیٹھی کھا کم رہی تھی۔۔۔ اور کھیل زیادہ رہی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل بہت زیادہ بے چین تھا۔۔۔ شاہ ویز ، حازم اور اپنی ٹیم کے لیے۔۔۔ جو تینوں ہی اِس وقت رسک پر تھے۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی اُس نے سیاہ لباس ہی پہن رکھا تھا۔۔۔ بلیک ہاؤس میں وہ سب سیاہ لباس ہی پہنتے تھے۔۔۔۔ رنگوں سے اُن سب کا ناطہ ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔ اُن میں سے کسی کو بھی بلیک کے علاوہ کوئی رنگ پسند نہیں تھا۔۔۔۔۔
اُس کی بڑی بڑی جھیل سی آنکھیں چاروں جانب گھوم رہی تھیں۔۔۔۔ کٹاؤ دار گلابی پنکھڑیاں مسلسل دانتوں کا ستم برداشت کرتے لال ہوچکے تھے۔۔۔۔ وہ جب بھی ٹینشن میں ہوتی تھی۔۔۔ ایسے ہی اپنے ہونٹوں کا حشر بگاڑ دیتی تھی۔۔۔۔
دونوں ہاتھوں کی مخروطی اُنگلیاں بھی الگ تشدد کے زیرِ اثر تھیں۔۔۔۔
سیاہ سکارف سے حجاب لیے نگاہیں چاروں اور گھماتی وہ بہت ہی منفرد اور پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
"اوہ شٹ۔۔۔۔"
اچانک اُس کی نظر روڈ پر بھاگ کر آتے ایک پانچ سال کے بچے پر پڑی تھی۔۔۔۔ جو بلی سے کھیلتے کھیلتے شاید روڈ پر نکل آیا تھا۔۔۔۔۔ مہروسہ نے فل سپیڈ میں اُس بچے کی جانب بڑھتی گاڑی کو دیکھا تھا۔۔۔ اور بنا اپنی جان کی پرواہ کیے۔۔۔۔ وہ راستے میں آئی ہر شے ہوا میں اُچھالتی فل سپیڈ میں اُس بچے کی جانب بھاگی تھی۔۔۔
جان بستی تھی اُس کی بچوں میں۔۔۔۔ پھر وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ایسی انہونی ہوتے کیسے دیکھ سکتی تھی۔۔۔
گاڑی کچھ فاصلے پر ہی تھی۔۔۔ جب مہروسہ نے بچے کے پاس پہنچ کر اُسے اُٹھاتے اپنی گود میں لیا تھا۔۔۔۔
گاڑی اُس کے بے حد قریب پہنچ چکی تھی۔۔
اِس سے پہلے کے وہ بچے کو دوسری جانب کھڑے لوگوں کی جانب اُچھال کر اُسے محفوظ کرتی کسی نے اُسے کندھے سے تھام کر اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔
خوشبو کے خوبصورت سے جھونکے کے ساتھ وہ بچے کے ساتھ سیدھی اُس مہربان شخص کے سینے میں آن سمائی تھی۔۔۔۔
جس نے اپنی لائف خطرے میں ڈال کر اُس کی جان بچائی تھی۔۔۔۔
نتھنوں سے ٹکراتی خوشبو کو محسوس کرتے مہروسہ جھٹکے سے اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔
مگر نگاہوں کے عین سامنے اپنے دل کے مکین کو کھڑا دیکھ مہروسہ کی آنکھوں کے دیپ جل اُٹھے تھے۔۔۔
بچہ اُس کی گرفت میں خوف کے مارے رو رہا تھا۔۔۔۔۔ جب اُس کی ماں بھاگتے ہوئے آتی اُسے اپنی آغوش میں لے گئی تھی۔۔۔۔
"آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ آپ نے میرے بچے کی جان بچا کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۔۔ اللہ آپ کے دل کی ہر جائز مراد پوری کرے۔۔۔ آپ دونوں کی زندگیوں میں خوشیاں اور محبتوں کی روشنیاں بھر دے۔۔۔۔ "
وہ عورت اُنہیں دعائیں دیتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔
"اُس گاڑی والے کو گرفتار کر لو۔۔۔۔"
حمدان وہاں پہنچتے پولیس والوں کو اشارہ کرتا مہروسہ کی جانب مُڑا تھا۔۔۔۔ جس کا بازو راستے میں کسی شے سے ٹکرانے کی وجہ سے بُری طرح لہولہان ہوچکا تھا۔۔۔۔
لیکن وہ تو ہر درد بھلائے۔۔۔۔ فل یونیفارم میں ملبوس ایس پی حمدان کو دیوانہ وار نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"آپ کو چوٹ لگی ہے۔۔۔۔ آئیں میں آپ کی بینڈیج کروا دوں۔۔۔۔"
حمدان اپنے مخصوص بے لچک انداز میں اُسے کہتے پلٹا تھا۔۔۔۔
مہروسہ تو اس شخص کی اِس مغرورانہ ادا پر ہی فدا ہوئی تھی۔۔۔۔
"نو سر تھینکیو۔۔۔۔ میں خود چلی جاؤں گی ڈاکٹر کے پاس۔۔۔۔"
مہروسہ کی نرم سی پرسوز آواز پر حمدان پلٹا تھا۔۔۔
اُسے لگا تھا کہ شاید یہ آواز پہلے اُس نے کہیں سنی ہے۔۔۔۔ مگر کہاں اِس وقت یہ سوچنے کا ٹائم نہیں تھا اُس کے پاس۔۔۔۔
"ہم آپ کو اِس وقت ایسے نہیں جانے دے سکتے۔۔۔۔ اُس بچے پر کسی گروہ کی جانب سے قاتلانہ حملہ کیا جارہا تھا۔۔۔ جس میں دخل اندازی دے کر۔۔۔ آپ اپنی جان خطرے میں ڈال چکی ہیں۔۔۔۔ اِس وقت آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔ تاکہ ہم آپ کی پروٹیکشن کا بندوبست کرسکیں۔۔۔۔"
حمدان اُسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُسے اپنے پیچھے آنے کا کہتا دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"تم ایسے ہی آؤ گی۔۔۔۔؟؟؟"
اُس کو اپنا چھوٹا سا دوپٹہ گلے میں ڈال کر پیچھے آتا دیکھ شاہ ویز کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔
"میں نے دوپٹہ کیا ہے۔۔؟"
پریسا کو یہ شخص سائیکو معلوم ہوا تھا۔۔۔۔ اُس کا دل تو چاہ رہا تھا اِس کی اُلٹی کھونپڑی پکڑ کر دیوار سے دے مارے۔۔۔ مگر وہ ایسا صرف سوچ ہی سکتی تھی۔۔۔۔
"باہر سینکڑوں کی تعداد میں کیمرے تم پر فوکس ہونگے۔۔۔ خود کو ڈھانپنا سیکھو۔۔۔ اپنی نمائش کروانا نہیں۔۔۔۔ وہ چادر اُٹھاؤ اور اچھے سے اوڑھو اُسے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز سد دروازے میں جما کھڑا اُس پر اپنا اگلا حکم صادر کرتے بولا۔۔۔۔
"میں کسی کی جھوٹی شے نہیں لیتی۔۔۔۔"
پریسا کو بچپن سے اب تک جتنا لاڈلا رکھا گیا تھا۔۔۔ اُس سے شاہ ویز سکندر کا رویہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔ آفندی ولا میں ہر کوئی چھوٹا بڑا اُس کے نخرے اُٹھاتا تھا۔۔۔۔ سب کو ہر وقت اِسی بات کا خیال رہتا تھا کہ کہیں کسی وجہ سے اُن کی لاڈلی گڑیا کا موڈ آف نہ ہو۔۔۔۔
اِس وقت بھی وہ منہ چڑھا کر کہتی یہ فراموش کر گئی تھی کہ سامنے آفندی ولا کا کوئی فرد نہیں بلکہ بلیک بیسٹ شاہ ویز سکندر کھڑا ہے۔۔۔۔
شاہ ویز ماتھے پر لاتعداد بل سجائے واپس پلٹا تھا۔۔۔ صوفے سے اپنی چادر اُٹھا کر پریسا کے گرد اوڑھتے اُس نے اُس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا پورے جسم کو ڈھانپ دیا تھا۔۔۔۔ پریسا کا ایک بال تک بھی باہر نہیں تھا۔۔۔
"جب تک میرے ساتھ ہو۔۔۔ ایسے ہی رہنا پڑے گا۔۔۔۔"
دھونس بھرے انداز میں کہہ کر اُس کا ہاتھ تھامتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ پری کو اُس کی گرفت میں اپنی اُنگلیاں چٹختی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
شاہ ویز نے شال اتنی سختی سے اُس کے گرد اوڑھی تھی کہ اُسے سانس لینے میں بھی دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔
"جاہل ، ایڈیٹ، گنوار، غنڈہ کہیں گا۔۔۔۔۔ ایسا بھی کیا پردہ کہ سانس ہی نہ آئے۔۔۔۔ بچاری دنیا کی سب سے مسکین اور مظلوم لڑکی ہوگی۔۔۔ جو اِس پاگل سنکی قاتل اور لُٹیرے کی قسمت میں لکھی ہوگی۔۔۔۔"
پریسا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی اُس انتہائی سفاک شخص کو کوسنت لگی تھی۔۔۔۔
"میں یہاں کاؤنٹر پر یہ بیگ رکھ رہا ہوں۔ وہ کیمرہ لگا کر گئے ہیں میرے آدمی۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں میں سے کسی نے زرا سی بھی ہلنے کی کوشش کی تو وہ بم پھٹ جائے گا۔۔۔ "
شاہ ویز ایک سیاہ بیگ کاؤنٹر پر رکھتا۔۔۔۔ اُن سب کو اچھا خاصہ خوفزدہ کرتا پری کا ہاتھ کھینچتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ اب اِن میں سے کوئی ہلے کا بھی نہیں۔۔۔۔
"میں باہر نکلنے لگا ہوں۔۔۔ اگر زرا سی بھی ہوشیاری دیکھانے کی کوشش کی تو جان سے جاؤ گی یاد رکھنا۔۔۔۔"
شاہ ویز کی شرائط پر اُس کے لیے بینک کے دروازے سے گاڑی تک کا راستہ صاف کردیا گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کو اپنے آگے کھڑا کرکے اُس کی کنپٹی پر پسٹل رکھتے وہ اللہ کا نام لیتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
باہر ڈھیروں کی تعداد میں موجود پولیس نفری، عام آدمی اور رپورٹرز کو دیکھ پریسا کی آنکھیں حیرت کے مارے پوری طرح سے کھل گئی تھیں۔۔
اِس ایک انسان نے اکیلے اتنے سارے لوگوں کو قابو کررکھا تھا۔۔۔۔
اتنے سارے لوگوں میں اُسے پولیس والوں کے بیچ کھڑے سفیان اور شہباز آفندی دیکھائے دیئے تھے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ کو پتا ہی نہیں چلا تھا بھیگتی آنکھوں کے ساتھ وہ اپنے درد ناک ماضی کی تکلیف دہ حقیقتوں میں اُلجھتی گھر سے بہت دور نکل آئی تھی۔۔۔۔
کتنی بار اُس کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔۔۔
بار بار نجمہ بیگم کے الفاظ اُس کے کانوں میں گونجتے اُس کا دل ٹکڑوں میں بانٹ دیتے تھے۔۔۔۔
اُس کا دل تو یہی چاہا تھا اپنے اندر کی تکلیف اور اضطراب کم کرنے کے لیے گاڑی کہیں ٹھوک کر خود کو ہی ختم کردے۔۔۔۔
وہ آبادی سے باہر سنسان جگہ پر پہنچ گئی تھی۔۔۔۔ جب اچانک اُسے احساس ہوا تھا کہ دو گاڑیاں مسلسل اُس کا پیچھا کررہی ہیں۔۔۔۔
"اوہ نو۔۔۔۔ میں اتنی بڑی بے وقوفی کیسے کرسکتی ہوں۔۔ یہ تو اُس کمینے شمشیر کے پالتو کتے ہیں۔۔۔۔"
حبہ سمجھ گئی تھی کہ اُسے اکیلا دیکھ کر یہ لوگ اُسے نقصان پہنچانے پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔
مگر حبہ کے چہرے پر خوف کا زرا سا بھی شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔۔ اُسے ایسے لوگوں کو اُن کی اوقات بتانا بہت اچھے سے آتا تھا۔۔ مگر اِس وقت اُس کی جو مینٹل کنڈیشن تھی وہ شاید اُسے کمزور کرسکتی تھی۔۔۔۔
شمشیر خان یہاں کے جانے مانے شرفاء میں سے ایک تھا۔۔۔۔ بہت بڑی جاگیردار کا اکلوتا مالک۔۔۔۔ اکثر اُس کے بنگلے پر مختلف لڑکیاں پائی جاتی تھیں۔۔۔ جنہیں وہ پیسے دے کر اپنے بیڈ کی زینت بناتا تھا۔۔۔۔
جس پر کبھی کوئی روک تھام نہیں کرسکا تھا۔۔۔
مگر اِس بار اُس کا کیا جانے والا جرم بہت بڑا تھا۔۔۔ اُس نے ایک غریب گھرانے کی شریف لڑکی کو زبردستی اپنے گھر بنگلے پر لے جاکر اُس کی عزت کو داغدار کیا تھا۔۔۔۔
ویسے تو اُس کی اِس درندگی پر بھی پردہ ڈال دیا جاتا۔۔۔ مگر وہ لڑکی جہاں رہتی تھی وہ ایریا ایس پی حبہ کے انڈر آتا تھا۔۔۔۔۔ جس کا منہ نہ تو رشوت دے کر بند کیا جاسکتا تھا۔۔۔ اور نہ اُسے ڈرا دھمکا کر اپنے عزم سے پیچھے ہٹایا جاسکتا تھا۔۔۔۔
اُس نے اُس لڑکی کے گھر والوں کو پوری پروٹیکشن دینے کے بعد نہ صرف شمشیر خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔۔۔۔ بلکہ یہ کیس کورٹ تک بھی پہنچا دیا تھا۔۔۔ شمشیر خان کی جانب سے مسلسل ملنے والی دھمکیوں کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔۔۔
اِسی لیے آج موقع ملتے ہی شمشیر خان کے آدمی اُس تک آن پہنچے تھے۔۔۔۔
اُن کی گاڑیوں نے حبہ کی گاڑی کو آگے پیچھے سے گھیر لیا تھا۔۔۔ حبہ کے باہر نکلتے ہی وہ بھی باہر نکل آئے تھے۔۔۔۔۔
اُس نے اُس لڑکی کے گھر والوں کو پوری پروٹیکشن دینے کے بعد نہ صرف شمشیر خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔۔۔۔ بلکہ یہ کیس کورٹ تک بھی پہنچا دیا تھا۔۔۔ شمشیر خان کی جانب سے مسلسل ملنے والی دھمکیوں کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔۔۔
اِسی لیے آج موقع ملتے ہی شمشیر خان کے آدمی اُس تک آن پہنچے تھے۔۔۔۔
اُن کی گاڑیوں نے حبہ کی گاڑی کو آگے پیچھے سے گھیر لیا تھا۔۔۔ حبہ کے باہر نکلتے ہی وہ بھی باہر نکل آئے تھے۔۔۔۔۔
حبہ بنا خوف کھائے باہر نکل آئی تھی۔۔۔
وہ سب ڈنڈے اور پسٹل اُٹھائے اُس کے اردگرد گھیرا بنائے آن کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ وہ ایس پی حبہ امتشال کو ہلکے میں نہیں لینا چاہتے تھے۔۔۔
"چچ چچ چچ۔۔۔۔ بچارا شمشیر خان خود کو بچانے کے لیے۔۔۔ کتنے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔۔۔ مگر افسوس وہ یہ سب کرکے بھی اِس بار نہیں بچ پائے گا۔۔۔۔۔"
حبہ سینے پر بازو باندھے اُن سب کو بے خوفی سے گھورتے بولی۔۔۔۔ وہ جس حال میں گھر سے نکلی تھی نہ موبائل اُٹھایا تھا اور نہ ہی اپنی گن۔۔۔۔۔
لیکن وہ اپنے چہرے پر ایسا کوئی بھی خوف ظاہر کرکے اُنہیں مزید شے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔
اِس وقت وہ سادہ سے آسمانی رنگ کے سوٹ میں بالوں کو جوڑے کی صورت میں قید کیے رونے کی وجہ سے لال ہوئی آنکھوں کے ساتھ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ وہ رف اور ٹف سی لڑکی اِس وقت بنا یونیفارم میں نازک سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔۔
کوئی ایک نظر میں دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نازک سی لڑکی دشمنوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والی ایک بہت ہی بہادر ایس پی تھی۔۔۔۔ جس نے اِس محکمے میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ کر اپنا ایک نام بنایا تھا۔۔۔۔
اکثر دشمن ایس پی حبہ امتشال کا نام سن کر کانپ اُٹھتے تھے۔۔۔ جیسا حال اِس وقت شمشیر خان کا تھا۔۔۔۔
خود کو فرعون سمجھنے والا حبہ امتشال کے سامنے بے بس ہوچکا تھا۔۔۔۔
"خان سائیں تو بچ جائیں گے۔۔۔ مگر تم اپنی خیر منا لو ایس پی اب ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔ جو عبرت ناک حالت ہم تمہاری کریں گے۔۔۔ اُسے دیکھنے کے بعد اُس لڑکی سمیت دنیا کی کوئی بھی لڑکی شمشیر خان کے آگے آواز نہیں اُٹھا پائے گی۔۔۔۔۔"
شمشیر خان کے آدمی نفرت آمیز نگاہوں سے حبہ کی جانب دیکھتے ایک ساتھ اُس کی طرف بڑھے تھے۔۔۔ حبہ نے ایک نظر اُن سب کو اور اُن کے ہتھیاروں کو دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ اکیلی لڑکی اُن بارہ ہتھیاروں سے لیس مردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔
وہ اِس وقت بالکل خالی ہاتھ تھی۔۔۔ ایسے میں اُن کا مقابلہ کرنا بے وقوفی سے کم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نظر اُس نے اُن سب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ روڈ کے قریب کچی جگہ پر کھڑی تھی۔ ایک سیکنڈ اُس نے سوچنے میں لگایا تھا اور اگلے ہی لمحے جھک کر دونوں مُٹھیاں مٹی سے بھرتے اُس نے سیدھی اُن لوگوں کی آنکھوں میں پھینک دی تھی۔۔۔۔۔
وہ سب اِس حرکت کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے وہ سب پیچھے ہوئے تھے۔۔۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے حبہ جنگل کی جانب بھاگ نکلی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا کو اپنے آگے کھڑا کرکے اُس کی کنپٹی پر پسٹل رکھتے وہ اللہ کا نام لیتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
باہر ڈھیروں کی تعداد میں موجود پولیس نفری، عام آدمی اور رپورٹرز کو دیکھ پریسا کی آنکھیں حیرت کے مارے پوری طرح سے کھل گئی تھیں۔۔
اِس ایک انسان نے اکیلے اتنے سارے لوگوں کو قابو کررکھا تھا۔۔۔۔
اتنے سارے لوگوں میں اُسے پولیس والوں کے بیچ کھڑے سفیان اور شہباز آفندی دیکھائے دیئے تھے۔۔۔۔
جنہیں دیکھ پریسا کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا فوراً اِس بے رحم شخص کی قید سے آزادی حاصل کرکے شہباز آفندی کے سینے میں سما جائے۔۔۔۔۔۔۔
"پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔ میں نے آخر کیا بگاڑا ہے آپ کا۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے بھیگتی آواز میں شاہ ویز سے فریاد کی تھی۔۔۔
"کوئی حرکت مت کرنا۔۔۔ انجام کی زمہ دار تم خود ہوگی۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنی پہلے کی کہی بات دوہرائی تھی۔۔۔ مگر اتنے سارے لوگوں کو دیکھ پریسا کا حوصلہ کافی بڑھ چکا تھا۔۔۔
یہ شخص اُسے اغوا کرکے لے جارہا تھا۔۔۔ جہاں اُس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔ اتنے سارے پولیس والوں کے بیچ بھلا یہ شخص کیسے اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔۔۔۔
اِسی سوچ کے ساتھ پریسا نے چاروں طرف نگاہیں گھماتے اپنی گردن پر جما اُس کا بازو پوری قوت سے ہٹانے کی کوشش کرتے بھاگنا چاہا تھا۔۔۔۔
"نو پری۔۔۔ ڈونٹ ڈو دس۔۔۔۔"
شہباز آفندی پریسا کو ایسی کوئی بھی بے وقوفی نہ کرنے دینے کی خاطر چلائے تھے۔۔۔ وہ جانتے تھے بلیک سٹارز کے لیے کسی کی جان لینا بہت عام سی بات تھی۔۔۔۔
وہیں شاہ ویز پریسا کو اپنی بات نہ مانتے دیکھ گن اُس کی کنپٹی پر سے ہٹاتا سفیان آفندی کے بازو پر فائر کرچکا تھا۔۔۔ اُس کا نشانہ اتنا پکا تھا کہ اتنے دور پولیس والوں کے بیچ کھڑے سفیان کے عین بازو میں گولی پیوست ہوتی شاہ ویز کے دل و دماغ کو ٹھنڈک بخش گئی تھی۔۔۔
جبکہ پریسا تو سفیان کا خون نکلتا دیکھ۔۔۔۔چلا اُٹھی تھی۔۔۔۔
"تم۔۔۔ تم نے سفیان کو کیوں مارا۔۔۔۔"
پریسا اُس کی گرفت سے نکلنے کے لیے مچلی تھی۔۔۔ مگر تب تک گاڑی کے قریب پہنچتا شاہ ویز اُسے گاڑی میں دھکیلتا۔۔۔ خود بھی گاڑی میں بیٹھتا اُن سب کے بیچ بینک کا پیسہ اور آفندی ولا کی سونے کی چڑیا پریسے آفندی کو بھی لے اُڑا تھا۔۔۔۔
"تم گھٹیا شخص تمہیں چھوڑوں گی نہیں میں۔۔۔ تم نے سفیان کو کیوں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔ کیونکہ سفیان اُس کے ناک پر کلوروفارم بھرا رومال رکھتا اُسے بے ہوش کرچکا تھا۔۔۔۔
اُسے معلوم تھا کہ اُس کا پیچھا کیا جارہا ہوگا۔۔۔۔ اِس لیے پریسا کے بے ہوش وجود کو بانہوں میں اُٹھائے راستے میں دو سے تین گاڑیاں تبدیل کرتا وہ اپنے بلیک ہاؤس آن پہنچا تھا۔۔۔۔
سیاہ گیٹ سے اندر کھڑے سیاہ وردیوں میں ملبوس گارڈز شاہ ویز سکندر کی بانہوں میں بے ہوش پڑی لڑکی کو دیکھ شدید دھچکے کا شکار ہوئے تھے۔۔۔ کیونکہ ایک تو اُس لڑکی نے پنک لباس پہن رکھا تھا۔۔۔ دوسرا وہ شاہ ویز سکندر کی پناہوں میں تھی۔۔۔۔ جہاں آج تک اُنہوں نے کسی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ فل سپیڈ میں بھاگتی درختوں کے بیچ سے راستہ بناتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔ وہ لوگ مسلسل اُس پر گولیاں برساتے اُس کے پیچھے جارہے تھے۔۔۔۔
بھاگتے بھاگتے اُس کی سانس پھول چکی تھی۔۔۔ وہ مسلسل چالیس منٹ سے فل سپیڈ میں بھاگتے وہ بُری طرح تھک چکی تھی۔۔۔۔ اُس کے پیر شل ہوچکے تھے۔۔۔۔ وہ نہ رک سکتی تھی اور نہ ہی مزید بھاگنے کی سکت بچی تھی۔۔۔۔
وہ اِس وقت اِس قدر زہنی ٹینشن کا شکار تھی کہ اُسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔۔۔۔
اُس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔۔۔ اِس وقت اُس کا سر بُری طرح چکرا رہا تھا۔۔۔ وہ کسی بھی وقت گر کر اِن لوگوں کے ہتھے چڑھ سکتی تھی۔۔۔
اِس سے پہلے کے وہ اپنے بچاؤ کے لیے کچھ سوچ پاتی۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ سامنے پڑا پتھر نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔ جس سے ٹکرانے کی وجہ سے وہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔
اور سیدھی کانٹوں اور پتھروں سے بھری زمین پر جاگرتی جب دو مہربان ہاتھوں نے عین وقت پر وہاں پہنچتے اُسے اپنی قیمتی متاع کی طرح اپنی بانہوں میں تھامتے اپنے مضبوط سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔
حبہ نے چکراتے سر کے ساتھ چہرا اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ جو کوئی بھی نقاب پوش شخص تھا اپنی گہری بھوری آنکھوں میں آگ کے بھڑکتے شعلے لیے اُن سب آدمیوں کو گھور رہا تھا۔۔۔
"کک کون۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے اُس کے سینے پر ہاتھ جماتے اُس کے سہارے کھڑے ہوتے سر اُٹھا کر حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی اُسے اپنا چہرا دیکھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔
"آپ کا محافظ میری جان۔۔۔۔ جو ہر وقت سایہ بن کر آپ کے ساتھ موجود رہتا ہے۔۔۔۔ "
حازم اُس کے ماتھے پر عقیدت سے بوسہ دیتے اُس کا زمین کو چھوتا دوپٹہ اُٹھاتا اُس کے گرد لپیٹ گیا تھا۔۔۔ اِس وقت وہ اُس کے پسند کے آسمانی رنگ میں ملبوس۔۔۔ آسمان سے اُتری کوئی پری معلوم ہوتی ہمیشہ کی طرح اُس کے دل و دماغ پر قیامت برپا کرگئی تھی۔۔۔۔
حازم اُسے ایک جانب گھنے بڑے سے مضبوط تنے کے ساتھ رکھے پتھر پر بیٹھاتا اُن لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر گیا تھا۔۔۔
جو اب درختوں میں سے راستہ بناتے اُن کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
"کہاں ہے وہ لڑکی۔۔۔۔۔؟؟؟ اُسے ہمارے حوالے کر دو۔۔۔ ورنہ اپنی جان سے جاؤ گے۔۔۔۔"
وہ لوگ حازم پر گن تانے اُسے دھمکاتے ہوئے بولے۔۔۔
جبکہ حازم تو پہلے ہی اُن پر شدید غصہ تھا۔۔۔ میر حازم سالار کو غصہ کم ہی آتا تھا مگر جب آتا تھا تو سامنے والے اُس سے پناہ مانگتے تھے۔۔۔۔ جیسے کچھ لمحوں بعد یہ سب لوگ مانگنے والے تھے۔۔۔ لیکن اِن لوگوں کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔ یہ نہ صرف حبہ کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔۔۔ بلکہ اِس وقت اُسے حازم کے سینے سے جدا کرنے کا باعث بھی بنے تھے۔۔۔ وہ کیسے معاف کردیتا اِن کی اتنی ساری غلطیاں۔۔۔۔۔
حازم نے اپنے دونوں پسٹل نکالتے اُن لوگوں کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر اُن پر فائر کھول چکا تھا۔۔۔ اُنہوں نے جوابی حملہ کیا تھا۔۔۔۔ جس سے بچاؤ کے لیے درخت کی اوٹ میں ہوتے وہ مسلسل اُن پر گولیاں چلا رہا تھا۔۔۔۔
اُسے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے اُن سب کا خاتمہ کرنے میں۔۔۔۔ کیونکہ حازم سالار جیسے ٹرینڈ بنے کا مقابلہ کر پانا اُن میں سے کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔۔
وہ اپنی گنز واپس رکھتا حبہ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
جو درخت کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔۔۔۔ حازم کو لگا تھا کہ وہ بے ہوش ہے۔۔۔۔ وہ جیسے ہی اُسے اُٹھانے کے لیے آگے بڑھا۔۔۔۔ حبہ نے فوراً آنکھیں کھولتے اُسے خود سے دور دھکیلا تھا۔۔
"دور رہو مجھ سے۔۔۔۔۔"
حبہ کے اِس دھکے کے لیے حازم بالکل بھی تیار نہیں تھا۔۔۔ وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
"ایکسمیوزمی۔۔۔۔ "
حازم نے اپنے مقابل آکر کھڑی ہوتی حبہ امتشال کو سوالیہ نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔ جس کے جواب میں حبہ نے اپنے چکراتے سر کو تھامتے اُسے زہر خند نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔
"کسی کو مارنا بہت آسان ہے نا تم لوگوں کے لیے۔۔۔۔ کیوں مارا اِن سب کو۔۔۔۔۔"
حبہ نے پیچھے لگے لاشوں کے ڈھیر کو دیکھتے حازم کا گریبان پکڑتے اُس سے انتہائی نفرت بھرے انداز میں سوال کیا تھا۔۔۔
جبکہ حازم کو اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا۔۔۔ اُسے پہلے ہی شدید غصہ آیا ہوا تھا۔۔ رہی سہی کسر حبہ نے پوری کردی تھی۔۔۔۔
وہ اُسکی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
"اگر میں وقت پر نہ پہنچتا تو یہ جن لوگوں کے لیے تمہارے دل میں اتنی ہمدردی جاگ رہی ہے نا۔۔۔ یہ اب تک تمہارا کام تمام کرچکے ہوتے۔۔۔۔۔ مگر تمہیں تو مجھ پر الزام لگانے اور مجھ سے لڑنے کے بہانے چاہیئے نا صرف۔۔۔ اگر اتنا کی شوق ہے نا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ آج کا پورا دن دیتا ہوں میں تمہیں۔۔۔ جتنا مرضی لڑنا ہے مجھ سے لڑو۔۔۔ الزام لگاؤ۔۔۔۔ کیونکہ آج کی رات ہم دونوں اِس جنگل میں ہی گزارنے والے ہیں۔۔۔۔ ایک پولیس والی اور ایک گینگسٹر۔۔۔۔۔"
حازم اُس کی گردن میں پہنی چین کو چھوتا اپنی حرکت اور الفاظ سے اُسے لال کرگیا تھا۔۔۔۔ اِس شخص کی دھمکی خالی خولی دھمکی نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔۔
حبہ نے اُس کے سینے پر دباؤ ڈالتے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔ مگر حازم اُس کی کوشش ناکام بناتا اُسے اپنے مزید قریب کر گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان ہاسپٹل جانے کے بجائے مہروسہ کو پولیس اسٹیشن لے آیا تھا۔۔۔ اور وہیں ڈاکٹر کو بلا کر اُس نے اپنی نگرانی میں مہروسہ کی بینڈیج کروائی تھی۔۔۔
اِس لڑکی نے اُس معصوم بچے کی جان بچا کر بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے خلافِ معمول حمدان کا رویہ اُس کے ساتھ بہت اچھا تھا۔۔۔۔
"یہ آپ انجکشن کیوں نکال رہے ہیں۔۔ مجھے معمولی سی چوٹ آئی ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ "
مہروسہ بینڈیج کے بعد ڈاکٹر کو انجکشن بھرتے دیکھ کمزور سی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔
بندوقوں اور گولیوں سے کھیلنے والی وہ لڑکی انجکشن سے کس قدر ڈرتی تھی یہ شاہ ویز اور حازم سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
وہ لڑکی گولی آرام سے کھا سکتی تھی۔۔۔ مگر انجکشن لگواتے اُس کی جان جاتی تھی۔۔۔
"لیکن آپ کو چوٹ لگی ہے۔۔۔۔ انفیکشن نہ ہوجائے اِس لیے انجکشن لگوانا ضروری ہے۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔ آپ بازو آگے کریں۔۔۔"
ڈاکٹر صاحب اُس کے قریب انجکشن لاتے اُس کا خوف کم کرتے بولے۔۔۔۔
"نہیں پلیز۔۔۔۔۔"
مہروسہ اِس وقت حمدان کے آفس میں موجود تھی۔۔۔ جہاں ڈاکٹر اور ایک لیڈی پولیس اہلکار موجود تھے۔۔۔ اُس کی پکار پر کھڑکی کے قریب کھڑے ہوکر فون سنتے حمدان نے بھی پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
بلیک سکارف کے ہالے میں اُس کی دودھیا رنگت دھمک رہی تھی۔۔۔۔ اُس کی گھنیری پلکوں کا رقص دل موہ لینے والا منظر پیش کررہا تھا۔۔۔۔
فون پر بولے جانے والے الفاظ حمدان صدیقی کے منہ ہی اٹک چکے تھے۔۔۔۔ وہ یک ٹک آنسوؤں سے بھرے اُن سیاہ کٹوروں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتی انجکشن لگوانے سے انکاری تھی۔۔۔۔ وہ اِس وقت اُسے کوئی چھوٹی سی معصوم بچی لگی تھی۔۔۔
اتنی سی بات پر بھلا کون روتا ہے۔۔۔۔ بے اختیاری میں حمدان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔۔ جس پر خود بھی حیران ہوتا وہ اگلے ہی لمحے سنجیدہ ہوتے اُن لوگوں کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟ آپ انجکشن کیوں نہیں لگوا رہیں۔۔۔؟؟"
حمدان اپنے ازلی اُکھڑ لہجے میں بولتا مہروسہ سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔۔
"یہ انجکشن لگوانے سے ڈر رہی ہیں۔۔۔۔ "
مہروسہ کا بازو تھامنے کی کوشش کرتی وہ پولیس اہلکار اُس کا مذاق بناتے بولی۔۔۔
"نن نہیں میں ڈر نہیں رہی۔۔۔۔۔ جب میں بالکل ٹھیک ہوں تو میں انجکشن کیوں لگواؤں۔۔۔"
مہروسہ کو گوارہ نہیں تھا کہ کوئی اُسے ڈرپوک کہے۔۔۔ پچھلی اتنی دیر سے وہ ڈاکٹر اور پولیس اہلکار عاصمہ سے منتیں کروا رہی تھی۔۔۔ اب وہ دونوں ہی تقریباً زچ ہوچکے تھے۔۔۔۔
"سر میں بہت کوشش کرچکا ہوں۔۔۔ مگر یہ تو بالکل مان ہی نہیں رہیں۔۔۔ مجھے ابھی بہت ارجنٹ جانا ہے۔۔۔۔ "
ڈاکٹر صاحب اب کافی مجبور نظر آرہے تھے۔۔۔۔
جس پر حمدان اُن کے ہاتھ سے انجکشن تھامتا عاصمہ کو اُنہیں باہر لے جانے کا اشارہ کرگیا تھا۔۔۔
"مجھے نہیں لگوانا۔۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کے ہاتھ میں انجکشن دیکھ کمزور سی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔
سیلوز کہنیوں تک فولڈ کیے۔۔۔ کشادہ پیشانی پر سلوٹوں کا جال بنے وہ اُس کی جانب گہری نگاہوں سے دیکھتا قریب آیا تھا۔۔۔۔
اُس کی نگاہوں اپنی نگاہوں میں گاڑھنے پر مہروسہ مبہوت سی اُس کی سحر انگیز شخصیت کو تکے گئی تھی۔۔۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ اِس وقت اپنے اصلی حلیے میں ہے۔۔۔۔ اُسے شدید چوٹ لگی ہے۔۔۔۔ اور سامنے کھڑے شخص کے ہاتھ میں انجکشن ہے۔۔۔۔
اُسے یاد تھی تو اپنے دل و دماغ پر سوار ہوتی ایس پی حمدان کی مسحور کن خوشبو۔۔۔۔ وہ اُس کے قریب آتا انجکشن لگانے کے لیے جھکا تھا۔۔۔
وہ گم صم سی بیٹھی۔۔۔۔ اپنی گھنیری پلکوں کی جھالر اُٹھائے حمدان صدیقی کے دل کے تار بُری طرح چھیڑ گئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ اُس کی قربت کے سحر میں اِس قدر جکڑی ہوئی تھی کہ اُسے اِس بات کی خبر بھی نہیں ہوسکی تھی کہ کب حمدان نے اُسے انجکشن لگایا ہے۔۔۔ اُسے درد کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔۔۔ حمدان اُس کے لال ہوتے دودھیا بازو سے نگاہیں چراتے فوراً پیچھے ہٹا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے حمدان کے بجتے موبائل نے مہروسہ کا سحر توڑا تھا۔۔۔ اُس نے جلدی سے اپنا بازو ڈھکا تھا۔۔۔۔
"ہاں بولو۔۔۔۔ "
حمدان نے اپنے ٹیبل کے قریب جاتے پلٹ کر مہروسہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ نگاہوں کے تصادم پر مہروسہ نے گڑبڑاتے فوراً نظریں پھیر لی تھیں۔۔۔۔
"سر آپ کا شک ٹھیک نکلا یہ لڑکی وہی ہے۔۔۔۔"
دوسری جانب سے بولے جانے والے الفاظ پر مہروسہ پر ٹکی حمدان کی آنکھوں میں وحشت اُتر آئی تھی۔۔۔۔
"سر آپ کا شک ٹھیک نکلا یہ لڑکی وہی ہے۔۔۔۔"
دوسری جانب سے بولے جانے والے الفاظ پر مہروسہ پر ٹکی حمدان کی آنکھوں میں وحشت اُتر آئی تھی۔۔۔۔
"مجھے شک کی بنیاد پر نہیں۔۔۔۔ پکے ثبوت چاہیں تاکہ میں اِس لڑکی کو اِس کی اصل جگہ پر پہنچا سکوں۔۔۔۔"
حمدان کے دبے دبے لہجے میں شعلوں کی سی لپک تھی۔۔۔
"سر اب تک جتنی بھی معلومات حاصل ہوئی ہے۔۔۔ اُس کے مطابق یہی وہ لڑکی ہے جو بلیک گینگ کی تیسری لیڈر اور حمدان سے بار بار آکر ٹکراتی تھی۔۔۔۔
مگر حمدان بنا ٹھوس ثبوت کے کوئی ایکشن نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔
"سر ہم سے جتنی جلدی ہو پارہا ہے۔۔۔۔ ہم کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔ مگر یہ لڑکی وہی ہے۔۔۔ آپ اِسے جانے مت دیجیے گا۔۔۔۔"
دوسری جانب بیٹھا ثاقب جانتا تھا کہ ایک ہار کے بعد اب بلیک سٹارز کو ہرانا حمدان صدیقی کے لیے کتنا ضروری ہوگیا تھا۔۔۔۔
"ہمم۔۔۔ وہ تو میں اب اِسے کبھی کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔۔۔ مگر فلحال ہمیں صرف اِس لڑکی تک نہیں اِس کے پورے گینگ تک پہنچنا ہے۔۔۔ جس میں اب ہماری مدد کرے گی یہ لڑکی۔۔۔"
حمدان زہرخند لہجے میں بولتا فون رکھ چکا تھا۔۔۔۔
"تھینکیو سو مچ سر۔۔۔۔ آپ نے میری اتنی مدد کی۔۔۔ مگر اب مجھے جانا ہوگا۔۔۔۔۔۔ "
مہروسہ شاہ ویز کی جانب سے ملتے میسیجز پر جلدی سے اُٹھی تھی۔۔۔۔
"آپ کہیں نہیں جاسکتی محترمہ۔۔۔۔"
مہروسہ جلدی جلدی بولتی دروازے کی جانب بڑھی ہی تھی۔۔۔۔ جب حمدان کی سرد آواز میں کہے جانے والے الفاظ پر اُس کے قدم زمین پر ہی جکڑے گئے تھے۔۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔۔۔ حمدان کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو مہروسہ کو چونکا گیا تھا۔۔۔ اُس کا چہرا بالکل زرد پڑا تھا۔۔۔ کہیں وہ اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے اپنے گینگ کو تو مصیبت میں نہیں جھونکنے والی تھی۔۔۔۔
"آپ اکیلے نہیں جاسکتیں۔۔۔۔ اُس بچے کی مدد کرکے آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔۔۔۔ آپ کو پولیس پروٹیکشن لینی ہوگی۔۔۔۔۔"
حمدان فوراً اپنا انداز بدلتا نرم لہجے میں مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کا دماغ اُس کے پل پل بدلتے رویے پر بالکل گھوم چکا تھا۔۔۔
"نن نہیں سر۔۔۔ مجھے کسی پروٹیکشن کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ اگر کہیں بھی کوئی پرابلم ہوئی تو میں آپ سے مدد مانگ لوں گی۔۔۔۔ "
مہروسہ نے بہت مشکل سے بات بنائی تھی۔۔۔۔ حمدان چلتا ہوا اُس کے قریب آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
"آریو شیور۔۔۔۔۔"
حمدان کی نگاہیں اُس کے گلابی معصوم چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔ سینے پر بازو باندھے کھڑا اُسے گھورتا مہروسہ کو اچھا خاصہ پزل کر گیا تھا۔۔۔۔
حمدان کو اِس وقت مہروسہ کو دیکھ کر بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو اُس سے اتنی بے باکی سے بات کرتی تھی۔۔۔۔
"جی سر۔۔۔ تھینکس۔۔۔۔"
مہروسہ پلٹی تھی جب اچانک زور کا چکر آجانے پر وہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔
حمدان نے فوراً قریب ہوتے اُس کے نازک وجود کو اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک اُسے ہوا کیا ہے۔۔۔۔ وہ اتنی کمزور تو کبھی نہیں تھی۔۔۔۔
حمدان کے مضبوط حصار کو پاکر وہ کچھ دیر کے لیے اپنے گھومتے سر کو تھامتی اُس کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے ایک نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے انجکشن کی جانب دیکھا تھا اور سینے سے لگی مہروسہ کا سر اُٹھاتے اُس کی بند ہوتی آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔۔۔
"کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔؟؟؟؟"
حمدان اُس کا چہرا تھامے اُس کی آنکھوں میں جھانکتا اُسے ہپنوٹائز کر گیا تھا۔۔۔ اُس کے انجکشن میں نشہ آور دوا ملائی تھی۔۔۔ جس نے اُس کے حواس سلب کرلیے تھے۔۔۔۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔۔۔
"مہروسہ کنول۔۔۔۔۔"
حمدان کے سوال پر مہروسہ کے لب آپ ہی آپ ہلے تھے۔۔۔
"بلیک سٹارز سے کیا تعلق ہے تمہارا۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کے بے جان ہوتے وجود کو پوری طرح اپنے کسرتی بازوؤں میں جکڑ رکھا تھا۔۔۔ وہ پوری طرح اُسی کے سہارے پر کھڑی تھی۔۔۔
"بہت گہرا۔۔۔۔"
ایک بار پھر اُس کے ہونٹ ہلے تھے۔۔۔
"بلیک سٹارز کے باقی دو گینگ لیڈرز کا کیا نام ہے۔۔۔۔"
حمدان کی نگاہیں بار بار اُس کے گلابی ناک میں پینی نتھلی سے ٹکراتیں اُس کے دل کے کسی گم نام کونے میں طوفان برپا کررہی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی ول پاور بہت سٹرانگ تھی۔۔۔۔ وہ حمدان کو کچھ بھی نہ بتانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔ لیکن الفاظ خود بخود ہی اُس کے ہونٹوں سے پھسل رہے تھے۔۔۔۔
لیکن جتنی محبت اور عقیدت اُس کے دل میں شاہ ویز سکندر اور حازم سالار کے لیے تھی۔۔۔ وہ مر سکتی تھی مگر اُن کے خلاف لاشعوری میں بھی نہیں جاسکتی تھی۔۔۔۔۔
حمدان کے اِس سوال کا جواب نہ دے پانے پر اُس کی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر بکھرے تھے۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتی حمدان کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔۔۔
"ڈیمٹ۔۔۔۔"
حمدان کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کو اُٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دے۔۔۔ جو اُس کی سوچ سے زیادہ شاطر نکلی تھی۔۔۔۔ مگر ابھی وہ اُسے پھینک نہیں سکتا تھا۔۔۔۔ یہ کام وہ اپنا مقصد پورا ہوجانے کے بعد کرنے والا تھا۔۔۔۔
اُسے یوں ہی بانہوں میں اُٹھاتا وہ اپنے آفس کے اندرونی روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اگر میں وقت پر نہ پہنچتا تو یہ جن لوگوں کے لیے تمہارے دل میں اتنی ہمدردی جاگ رہی ہے نا۔۔۔ یہ اب تک تمہارا کام تمام کرچکے ہوتے۔۔۔۔۔ مگر تمہیں تو مجھ پر الزام لگانے اور مجھ سے لڑنے کے بہانے چاہیئے نا صرف۔۔۔ اگر اتنا کی شوق ہے نا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ آج کا پورا دن دیتا ہوں میں تمہیں۔۔۔ جتنا مرضی لڑنا ہے مجھ سے لڑو۔۔۔ الزام لگاؤ۔۔۔۔ کیونکہ آج کی رات ہم دونوں اِس جنگل میں ہی گزارنے والے ہیں۔۔۔۔ ایک پولیس والی اور ایک گینگسٹر۔۔۔۔۔"
حازم اُس کی گردن میں پہنی چین کو چھوتا اپنی حرکت اور الفاظ سے اُسے لال کرگیا تھا۔۔۔۔ اِس شخص کی دھمکی خالی خولی دھمکی نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔۔
حبہ نے اُس کے سینے پر دباؤ ڈالتے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔ مگر حازم اُس کی کوشش ناکام بناتا اُسے اپنے مزید قریب کر گیا تھا۔۔۔
"تم میری سوچ سے بھی زیادہ گھٹیا انسان ہو۔۔۔۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو۔۔۔۔ دور رہو مجھ سے۔۔۔ اور یہاں سے جانے دو مجھے۔۔۔ ورنہ بہت بُرا ہوگا تمہارے لیے۔۔۔۔"
حبہ اُس کے سینے پر مکوں کی برسات کرنے کے بعد آخر میں زچ ہوتے چلائی تھی۔۔۔
"اب تک زندگی جتنا بُرا کرچکی ہے۔۔۔۔ اُس سے زیادہ بُرا کچھ نہیں ہوسکتا میرے لیے۔۔۔۔"
حازم اُس کے رخساروں کی نرماہٹوں کو اُنگلی کی پوروں سے چھوتا حبہ کا دل بُری طرح لرزا گیا تھا۔۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے اُس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔
"میں مطلب نہیں سمجھاتا۔۔۔ یہ کام تمہیں خود ہی کرنا پڑے گا۔۔۔۔ تمہارے پاؤں زخمی ہیں۔۔۔ اِن کانٹوں بھرے پتھریلے راستے پر چلنا بہت مشکل ہوگا۔۔۔۔"
حازم اُسے خود سے دور کرنے کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔
"جسٹ سٹے اوے۔۔۔۔ تم سمجھتے کیا ہو۔۔۔ میری جان بچا کر یہ سب حرکتیں کرو گے۔۔۔ اور میں تمہاری بات مان جاؤں گی۔۔۔۔۔ میں اِنہیں پتھریلی راستوں پر چل کر یہاں تک آئی ہوں۔۔۔۔ اور آگے بھی پہنچنے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔۔۔۔۔ تم جیسے قاتل اور گناہوں میں دھنسے شخص پر تھوکنا بھی پسند نہ کروں میں۔۔۔۔۔"
حبہ کا ضبط جواب دے چکا تھا۔۔۔
وہ اُسے خود سے دور دھکیلتی نفرت آمیز لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
اِس بات سے انجان کے اُس کے الفاظ نوکیلے خنجر کی طرح کس بے دردی سے مقابل کے سینے میں پیوست ہوئے تھے۔۔۔۔
حازم وہیں کھڑا اُسے خود سے دور جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ضبط کی شدت سے اُس کا آنکھیں لال انگارہ ہوچکی تھیں۔۔۔۔ اِس لڑکی کے قریب آنے کے لیے اپنے دل کو منانے میں اُسے نجانے کتنے سال لگ گئے تھے۔۔۔۔ مگر اِسی جگہ پر آکر وہ کمزور پڑ جاتا تھا۔۔۔
وہ اپنے سینے پر گولیاں کھانے کا حوصلہ تو رکھتا تھا مگر ایس پی حبہ امتشال کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ یہ نفرت اُس کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔۔۔۔ جس سے لڑنے کی ہمت نہیں تھی اُس میں۔۔۔۔۔
حازم اُس کے پیچھے جانے کے بجائے وہیں کچھ فاصلے پر لگے گھاس پر پتھر سے ٹیک لگاتا نیم دراز ہوچکا تھا۔۔۔۔ اُس کی بھینچی مُٹھیاں بتا رہی تھیں کہ اِس وقت وہ کس قدر اذیت میں ہے۔۔۔۔۔
کنپٹی کی رگیں باہر کو نکل آئی تھیں۔۔۔ دانتوں پر دانت چڑھائے وہ اضطراب کی کیفیت میں مسلسل ٹانگ ہلا رہا تھا۔۔۔ جب قریب آتی قدموں کی چاپ پر وہ اپنی جگہ ساکت ہوا تھا۔۔۔۔
حبہ اردگرد کا سارا ایریا چھان آئی تھی۔۔۔۔ مگر اُسے کہیں سے بھی باہر نکلنے کا راستہ دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔۔ وہ اگر پوری رات بھی کوشش کرتی رہتی تو یہاں سے نہ نکل پاتی۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شخص ہی اُسے یہاں سے باہر نکال سکتا تھا۔۔۔۔ اس لیے ناچار اُسے واپس آنا پڑا تھا۔۔۔
مگر حازم کے پاس پہنچتے اُس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔۔۔۔
حازم بے سدھ پڑا ہوا تھا جبکہ اُس کے دائیں جانب سر کے پاس ایک سیاہ رنگ کا چوڑا سا سانپ اپنے پھنک پھیلائے کھڑا دیکھ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ سانپ اُسے کاٹ چکا ہے یا نہیں۔۔۔۔
مگر وہ اِس شخص کو کسی قیمت پر مرنے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ ورنہ یہاں سے نکل پانا اُس کے لیے ناممکن ہوجاتا۔۔۔۔ حبہ آگے بڑھی تھی اور حازم کے قریب آتے اُس کی داہنی پاکٹ سے پسٹل نکالتے اُس سانپ کے عین سر پر نشانہ باندھتے اُسے ایک ہی وار میں مار گرایا تھا۔۔۔۔
درختوں کے قریب سے ایک موٹی سی سٹک نکال کر سانپ کو دور پھینکتے وہ واپس حازم کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
"یہ تو گولی کی آواز پر بھی ایسے ہی پڑا رہا ہے۔۔۔ کہیں اِس سانپ کے کاٹنے پر یہ مر تو نہیں گیا۔۔۔ اگر ایسا ہوگیا تو میں کیا کروں گی۔۔۔ واپس کیسے جاؤں گی۔۔۔۔"
حبہ پریشانی کے عالم میں اُس کے قریب بیٹھ کر بڑبڑاتی حازم کے ہونٹوں پر اُبھر کر معدوم ہوتی تلخی بھری مسکراہٹ نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
"سانپ نے پتا نہیں کہاں کاٹا ہوگا۔۔۔۔ اگر زہر پوری باڈی میں پھیل گیا تو۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے مزید قریب ہوتے اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر دیکھتے اُس کے ٹراؤذر کے بازو کو پیچھے کیا تھا۔۔۔ مگر اُس کے بازو پر ایسا کوئی نشان نہیں تھا۔۔۔۔
"دیکھو آنکھیں کھولو۔۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟ پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔"
حبہ اُسے مسلسل ہلا رہی تھی۔۔۔۔ نجانے کیوں اُس کا دل بُری طرح بے چین ہو اُٹھا تھا۔۔۔ اُس نے یہ فیلڈ جوائن کرنے کے بعد اب تک بہت سے لوگوں کو مرتے دیکھا تھا۔۔۔ مگر اس ہٹے کٹے صحت مند انسان کو یوں بے سدھ پڑے دیکھنا اُس سے برداشت نہیں ہوپایا تھا۔۔۔۔
اُس کی نبض چل رہی تھی۔۔۔ مگر وہ اُٹھ نہیں رہا تھا۔۔۔
اچانک کسی خیال کے تحت حبہ نے اُس کے نقاب سے ڈھکے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
اتنی ملاقاتوں کے باوجود اُس نے اِس شخص کا چہرا نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
وہ اُس کے مزید قریب ہوتی اُس کے چہرے پر لپٹا سیاہ سکارف ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھا چکی تھی۔۔۔ مگر اِس سے پہلے کہ وہ ایسا کر پاتی۔۔۔ حازم اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے اُوپر کھینچ چکا تھا۔۔۔۔ حبہ جو تقریباً اُس کے اُوپر ہی جھکی ہوئی تھی۔۔۔ سیدھی اُس کے کسرتی سینے پر آن گری تھی۔۔۔۔
"واٹ دا ہیل۔۔۔۔؟؟ یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے اُس کے سینے سے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔۔
مگر حازم اُس بن پانی کی طرح تڑپتی مچھلی کو پوری طاقت لگا کر قابو کرتا مسکراتی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگا تھا۔۔
"تم تو مجھ سے بھی زیادہ سنگدل اور بے رحم نکلی۔۔۔ میرے مرنے کی پرواہ نہیں ہے۔۔۔ مگر میرا چہرا دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔"
حازم اپنے سینے سے لگی اُس خونخوار جنگلی بلی کو دیکھتا مسکراتی آواز میں بولا تھا۔۔۔
آہستہ آہستہ اندھیرا چاروں اوور پھیل رہا تھا۔۔۔ جسے دیکھ حازم جتنا ریلیکس تھا۔۔۔ حبہ کی اُتنی ہی جان نکلی جارہی تھی۔۔۔۔۔
اُسے خود پر جی بھر کر غصہ آیا تھا۔۔۔ بھلا وہ ایسے ہی بنا کسی ہتھیار کے گھر سے کیوں نکل آئی تھی۔۔۔۔
"تم جیسے لوگوں کے لیے یہ عام بات ہوگی۔۔۔ مگر میرے لیے نہیں۔۔۔ دور رہو مجھ سے۔۔۔۔ تم جیسے بد کردار مردوں کو بہت اچھے سے سمجھتی ہوں میں۔۔۔۔ جو اِنہیں موقعوں کی تلاش۔۔۔۔۔"
حبہ کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔ جب حازم نے کروٹ بدلتے اُسے کی دونوں کلائیاں اپنی مضبوط گرفت میں جکڑتے اُس کی کمر گھاس سے ٹکاتے اُسے پوری طرح بے بس کیا تھا۔۔۔۔
حبہ کا نازک وجود اُس کے چوڑے وجود کے پیچھے چھپ سا گیا تھا۔۔۔۔
"مجھے موقع تلاش کرنے کی ضرورت کبھی نہیں ملی۔۔۔۔ اور تمہیں یہ بد کردار مرد جتنی مہلت دے چکا ہے۔۔۔ اُسی پر شکر ادا کرو۔۔۔۔ اگر میں اپنے دل کی سننے پر آگیا تو تمہارے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔۔"
حازم یہ الفاظ ادا کرتا جھکا تھا اور اُس کے گال کو لال کرتا اُس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر گیا تھا۔۔ اُس کے اِس شدت بھرے لمس پر حبہ نے آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص اُس کے ساتھ یہ حرکت کرگیا ہے۔۔۔۔
حازم اپنے دل کی منانی کرتا اب کافی پرسکون ہوچکا تھا۔۔۔۔۔
"تم گھٹیا شخص تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔۔۔"
حبہ اپنی جگہ سے اُٹھتی جھپٹنے کے انداز میں حازم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ اُسے ابھی تک اپنا دائیاں گال جلتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
حبہ نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارنا چاہا تھا۔۔۔ جسے حازم ہوا میں ہی تھام چکا تھا۔۔۔۔ حبہ نے مزید آگ بھگولا ہوتے دوسرا ہاتھ اُٹھایا تھا۔۔۔ جو اگلے ہی لمحے حازم کی گرفت میں آچکا تھا۔۔۔
"تم آخر چاہتے کیا ہو۔۔۔۔ کیوں پیچھے پڑے ہو میرے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ اُس کی گرفت میں بے بس محسوس کرتی چلائی تھی۔۔۔۔ اور حازم سالار تو اُس کے غصے سے لال پڑتے چہرے اور پھولے نتھنوں پر ہی فدا ہوا تھا۔۔۔۔ اِس سے پہلے کہ وہ دوبارہ بہک کر مزید کوئی گستاخی سرزد کرکے اِس جنگلی بلی کو مزید خونخوار بناتا۔۔۔۔ بہت مشکل سے اپنے منہ زور جذبوں پر بندھ باندھتا اُسے کی لال پڑتی کلائیوں کو اپنی گرفت سے آزاد کرگیا تھا۔۔۔
"میں جو چاہتا ہوں وہ شاید مجھے کبھی نہ مل پائے۔۔۔ مگر ابھی وہ کرتے ہیں جو تم چاہتی ہو۔۔۔ مجھے فالو کرتے میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔۔۔ اگر رات زیادہ گہری ہوگئی تو یہاں سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔۔"
حازم کے ایک دم بدلتے اجنبی رویے پر حبہ اُلجھی نگاہوں سے اُسے دیکھتی دل ہی دل میں اُس کے مان جانے پر اللہ کا شکر ادا کرتی اُس کے پیچھے چل دی تھی۔۔۔
آج جو حرکت اِس شخص نے اُس کے ساتھ کی تھی۔۔۔ وہ اب بہت جلد اس شخص کو اِس کے انجام تک پہنچانے کا عہد کرچکی تھی خود سے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سیاہ گیٹ سے اندر کھڑے سیاہ وردیوں میں ملبوس گارڈز شاہ ویز سکندر کی بانہوں میں بے ہوش پڑی لڑکی کو دیکھ شدید دھچکے کا شکار ہوئے تھے۔۔۔ کیونکہ ایک تو اُس لڑکی نے پنک لباس پہن رکھا تھا۔۔۔ دوسرا وہ شاہ ویز سکندر کی پناہوں میں تھی۔۔۔۔ جہاں آج تک اُنہوں نے کسی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔
شاہ ویز اُسے اُٹھائے ایک روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی اغوا شدہ انسان کو اتنے اچھے روم میں لایا گیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ اُس کا آفندی خاندان سے تعلق ہونا تو بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
شاہ ویز اُسے بیڈ پر لٹا کر واپس پلٹا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر اپنی چادر سے نکلے پریسا کے سیاہ بالوں پر پڑی تھی۔۔۔۔ پورے بلیک ہاؤس کی طرح اس کمرے کی ہر شے بھی سیاہی لیے ہوئے تھی۔۔۔ جس کے بیچوں بیچ پڑے سیاہ بیڈ لیٹی وہ پنک لباس میں ملبوس دوشیزہ اِس وقت نظر انداز کیے جانے کے قابل بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ اُس کا یہ بے پناہ حُسن اِس ماحول کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔
شاہ ویز ہونٹ بھینچتا بیڈ پر رکھا کمبل اُس اُوپر ڈالتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔ پریسا کے کمرے کے باہر اُس نے گارڈز نہیں بلکہ اپنی بلیک ٹائیگر فورس کی دو لیڈیز کو کھڑا کیا تھا۔۔۔ جن کی ڈیوٹی فل ٹائم پریسا آفندی کے اردگرد رہنے کی تھی۔۔۔
کیونکہ اِس کے بعد شاہ ویز سکندر اِس لڑکی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اُسے مہروسہ اور حازم کی ٹینشن بھی تھی جو اب تک نہیں پہنچے تھے۔۔۔
باہر لان میں آکر بیٹھتے وہ اپنی عادت کے مطابق سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا۔۔۔ چیئر پر بیٹھا وہ دونوں ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل پر رکھے ہوئے تھا۔۔۔ جب اچانک اُس کی نظر سامنے بنی سیاہ پتھروں کی روش پر کوئی شے چمکتی نظر آئی تھی۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں سرد تاثرات لیے اُس جانب بڑھا تھا۔۔۔ پریسا کو وہ اِسی راستے سے لایا تھا۔۔۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر کیا چیز ہے یہ۔۔۔۔ کیونکہ اُس کے بلیک ہاؤس میں اتنی چمکتی ہوئی کوئی شے موجود نہیں تھی۔۔۔
قریب پہنچتے شاہ ویز سکندر کی آنکھوں میں مزید وحشت دوڑ گئی تھی۔۔۔۔ وہ کچھ اور نہیں پریسا کے پیر سے گری پائل تھی۔۔۔ جو وہ پہلے بھی اُس کے پیر میں دیکھ چکا تھا۔۔۔۔
ایک لمحے کے لیے تو اُس کا دل چاہا تھا اِس پائل کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہاں سے باہر پھینک دے۔۔۔ مگر پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کوئی بات وہ سوچ پایا تھا مگر کر نہیں پایا تھا۔۔۔۔
اُس پائل کو مُٹھی میں دبوچتے وہ اُٹھا تھا جب سامنے سے اُسے حازم آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔
"کہاں تھے تم۔۔۔۔ اور مہرو کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ "
شاہ ویز نے بہت غور سے حازم کی لال ہوتی آنکھوں کو دیکھا تھا۔۔۔ اُسے سمجھنے میں ایک پل بھی نہیں لگا تھا کہ حازم کہاں سے آرہا ہے۔۔۔۔
"کیوں دے رہے ہو خود کو تکلیف۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُسے بے چین دیکھ خود بھی اذیت کا شکار ہوا تھا۔۔۔۔ مہروسہ اور حازم کی زرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا وہ۔۔۔۔
"میں ہارنا نہیں چاہتا۔۔۔ مگر مجھے لگ رہا ہے کہ میں ہار رہا ہوں۔۔۔ اُس کی نفرت برداشت نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔ "
حازم شاہ ویز کے ساتھ چلتا لان میں رکھی چیئرز پر آن بیٹھا تھا۔۔۔۔
"تو واپس لوٹ جاؤ اُس کی دنیا میں۔۔۔ "
شاہ ویز نے دل پر پتھر رکھتے یہ الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔ جس کے جواب میں حازم اذیت سے مسکرا دیا تھا۔۔۔۔ اُس کی یہ ہنسی شاہ ویز سکندر کا دل چیر گئی تھی۔۔۔
"مہرو نظر نہیں آرہی۔۔۔۔۔"
حازم نے بات بدلی تھی۔۔۔۔ جب اُسی لمحےجنید اُن کے قریب آیا تھا۔۔۔
"سر مہروسہ میم کا شام میں میسج ملا تھا۔۔۔ وہ اِس وقت ایس پی حمدان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔"
جنید کے سارا واقع کہہ سنانے پر اُن دونوں کی مُٹھیاں بھینچ گئی تھیں۔۔۔۔
"وہ ایس پی بہت شاطر ہے۔۔۔۔ مہروسہ کو لے کر ہمیں بلیک میل کرے گا۔۔۔۔"
جنید نے اپنی پریشانی ظاہر کی تھی۔۔۔
"وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔۔۔۔ اور نہ ہی ہماری مہرو اتنی کمزور ہے کہ اُس کے چنگل میں پھنسے گی۔۔۔"
شاہ ویز کے ساتھ ساتھ حازم بھی مہروسہ کے حوالے سے مطمئین تھے۔۔۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بلیک سٹارز کے کسی بھی گینگ لیڈر کو نقصان پہنچانے سے پہلے پولیس والوں کو ہزار ہار سوچنا پڑتا۔۔۔۔
"سر وہ لڑکی اُٹھ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ "
اقرا بھاگتے ہوئے اُن کے قریب آتی قدرے گھبرائے ہوئے انداز میں بولی تھی۔۔۔
"کسی سوئے ہوئے انسان کا جاگ جانا میرے خیال میں نارمل سی بات ہے۔۔۔۔"
حازم اُس کے گھبرائے بوکھلائے انداز پر طنز کرتے کہا تھا۔۔۔۔
"نہیں وہ بہت رو رہی ہیں۔۔۔ اور سر کو بلا رہی ہیں۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنے فیانسی کو بھی بہت یاد کررہی ہیں۔۔ جسے شاید سر نے گولی ماری ہے۔۔۔۔"
اقرا کے الفاظ پر شاہ ویز بنا کوئی ردعمل دیئے سکون سے بیٹھا رہا تھا۔۔۔ بس فیانسی کو یاد کرنے والی بات پر مُٹھیاں بھینچ گئی تھیں۔۔۔
"اُسے کہو مرگیا ہے اُس کا فیانسی۔۔۔۔ آج رات بیٹھ کر سوگ منا لے۔۔۔۔ اور آج کی تاریخ میں میرا مزید اُسے جھیلنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنے مخصوص اُکھڑ لہجے میں بولتے اگلا سیگریٹ سلگھا گیا تھا۔۔۔
"ویسے سفیان آفندی کو گولی مارنے کی کوئی خاص وجہ۔۔۔۔"
حازم نے اُس کی جانب کھوجتی نگاہوں سے دیکھتے سیگریٹ کا گہرا کش لیتے پوچھا تھا۔۔۔۔
"سب وجوہات سے واقف ہو تم۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔ جب پریسا کی پائل اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری تھی۔۔۔۔ وہاں کھڑی اقرا اور اُس کے پیچھے آتی ہما اور جنید نے آنکھیں پھاڑے پائل کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"سر یہ کس کی ہے۔۔۔۔؟؟"
اقرا کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔۔ مگر شاہ ویز کے غصے کے ڈر سے فوراً ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی تھی۔۔۔۔
"میری ہے۔۔۔۔۔۔؟؟"
حازم کی نظر پڑنے سے پہلے ہی شاہ ویز جھک کر پائل اُٹھاتا اُن تینوں کو سوالیہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ جس پر وہ دونوں ہی گڑبڑا گئی تھیں۔۔۔ جبکہ حازم ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ شاہ ویز کی مُٹھی میں دبی پائل وہ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔
"سر آپ یہ پہنتے ہیں۔۔۔؟؟"
شاہ ویز نے آج تک اُن سے کبھی کوئی مذاق نہیں کیا تھا اِس لیے وہ سب منہ اور آنکھیں پھاڑے شاہ ویز کو گھور رہے تھے۔۔۔۔
"ہاں میں پہنتا ہوں۔۔۔ کوئی پرابلم ہے کیا۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کی بات پر اُن سب نے ایک ساتھ نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔ جس پر شاہ ویز اُن سب کو آنکھیں دیکھاتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
"سر یہ کس کی ہے۔۔۔۔؟؟"
اقرا کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔۔ مگر شاہ ویز کے غصے کے ڈر سے فوراً ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی تھی۔۔۔۔
"میری ہے۔۔۔۔۔۔؟؟"
حازم کی نظر پڑنے سے پہلے ہی شاہ ویز جھک کر پائل اُٹھاتا اُن تینوں کو سوالیہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ جس پر وہ تینوں ہی گڑبڑا گئے تھے۔۔ جبکہ حازم ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ شاہ ویز کی مُٹھی میں دبی پائل وہ نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔
"سر آپ یہ پہنتے ہیں۔۔۔؟؟"
شاہ ویز نے آج تک اُن سے کبھی کوئی مذاق نہیں کیا تھا اِس لیے وہ سب منہ اور آنکھیں پھاڑے شاہ ویز کو گھور رہے تھے۔۔۔۔
"ہاں میں پہنتا ہوں۔۔۔ کوئی پرابلم ہے کیا۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کی بات پر اُن سب نے ایک ساتھ نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔ جس پر شاہ ویز اُن سب کو آنکھیں دیکھاتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے اپنے روم کی جانب بڑھ رہا تھا جب اُس کے کانوں میں نسوانی سسکیوں کی آواز گونجی تھی۔۔۔
قدم وہیں منجمند ہوتے چہرے پر کرختگی بکھیر گئے تھے۔۔۔۔۔ شاہ ویز مُٹھیاں بھینچتا اُس روم کی جانب پلٹا تھا۔۔۔۔ جہاں وہ محترمہ زور و شور سے رونے میں مصروف تھیں۔۔۔۔
اُسے رونے والے لوگوں سے سخت چڑ تھی۔۔۔ آنسو بہاتے لوگ اُسے بہت بُرے لگتے تھے۔۔۔ اور اِس لڑکی کی تو ویسے بھی اُسے کوئی بات پسند نہیں تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کے بھاری بوٹوں کی چاپ پر پری نے سہم کر چہرا اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔۔ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑے شاہ ویز سکندر کو دیکھ اُس کی سسکیوں کو خود بخود ہی بریک لگ گئی تھی۔۔۔
مگر کوشش کے باوجود آنکھوں سے وافر مقدار میں اُمڈ آنے والا سیلاب نہیں روک پائی تھی وہ۔۔۔۔
"کس بات کا ماتم منا رہی ہو تم۔۔۔۔؟؟؟ ابھی مرا نہیں ہے تمہارا وہ فیانسی۔۔۔۔ ابھی میں نے اُسے کچھ وقت کی مہلت دی ہے۔۔۔۔ یہ رونے دھونے کا ڈرامہ تب کرنا جب میری چلائی گولی اُس کے سینے کے آڑ پار ہوگی۔۔۔۔ "
شاہ ویز کے دھمکی آمیز انداز پر دیوار کے سہارے اُس سے سہمی کھڑی پریسا نے اپنی گول گول آنکھیں مزید چھوٹی کرتے اُسے گھورنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔۔
"اُنہوں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا۔۔۔۔ کیوں ایسے ہی بے قصور لوگوں کی جان لیتے پھرتے ہیں آپ۔۔۔ خدا کا زرا خوف نہیں ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا اُس کی یہ اکڑ اور مغرورانہ انداز میں دی جانے والی دھمکی برداشت نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ سفیان اور باقی گھر والوں نے بچپن سے لے کر اب تک اُسے بہت پیار دیا تھا۔۔۔ وہ بھلا پھر کیسے اُن کے بارے میں کچھ غلط سن پاتی۔۔۔ جو اُس کے لیے سب کچھ تھے۔۔۔۔
مگر وہیں شاہ ویز سکندر کو اُس کے یہ الفاظ اور انداز ہضم نہیں ہوپایا تھا۔۔۔۔ اُس نے لال ہوتی وحشت ناک آنکھوں سے پریسا کو گھورتے اُس کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔۔۔ اُسے اپنے قریب آتا دیکھ پریسا کی خوف کے مارے جان آدھی ہوئی تھی۔۔۔۔
"آج تک کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ شاہ ویز سکندر کا کچھ بگاڑ سکے۔۔۔۔ اور نہ ہی میرے سامنے کوئی یہ الفاظ ادا کرنے کی ہمت کر پایا ہے۔۔۔۔۔ میں تمہیں لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں۔۔۔ آئندہ میرے سامنے ایسی بکواس کی تو دوبارہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے قریب آتا اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتے بولا۔۔۔۔
پریسا نے ہرنی سی خوفزدہ آنکھیں اُس کے چہرے پر گاڑھ رکھی تھیں۔۔ یہ شخص جتنی خوفناک آنکھیں نکال کر دیکھنے والوں کی جان نکال دیتا تھا۔۔۔۔ بظاہر اُس سے کہیں زیادہ بہترین پرسنیلٹی کا مالک تھا۔۔۔۔ پریسا نے ہر وقت اُسے سیاہ لباس میں ہی دیکھا تھا۔۔۔
اِس وقت بھی وہ سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس سلیوز کو کہنیوں تک فولڈ کیے اپنی رعب دار پرسنیلٹی کے ساتھ اِس وقت ماحول پر پوری طرح چھایا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔ کسرتی مضبوط شانے، چوڑا سینہ، کشادہ پیشانی پر چھائی رہنے والی اَن گنت سلوٹیں، بھینچے جبڑے اور کنپٹی کی اُبھری رگیں۔۔۔۔
پریسا نے اِس شخص کو ہر وقت غصے سے دھاڑتے ہی دیکھا تھا۔۔۔ شاید اِس شخص کو نرمی سے بات کرنا یا ہنسنا مسکرانا آتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
"مجھے اغوا کیوں کیا؟؟؟"
پریسا کو بے اختیار اُس کی گھورتی آنکھوں سے گھبراہٹ ہوئی تھی۔۔۔۔
"کسی کو سبق سکھانے کے لیے۔۔۔۔"
شاہ ویز سگریٹ سلگھاتے پلٹا تھا۔۔۔۔
"تو اُنہیں اغوا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔ جو ایک کمزور لڑکی پر ہاتھ ڈالا۔۔۔۔۔"
پریسا اُس سے جتنا خوف کھاتی تھی زبان بھی اُسی سے چلاتی تھی۔۔۔۔
"کمزور۔۔۔ تو تم خود کو کمزور سمجھتی ہو۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کا مذاق بناتے طنز کیا تھا۔۔۔۔
"اُن لوگوں کو بھی اُن کے انجام تک بہت جلد پہنچاؤں گا۔۔۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی جانب آگ اُگلتی نگاہوں سے دیکھتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"مجھے کھانا کھانا ہے۔۔۔۔۔"
پریسا جس سے بھوک برداشت کرنا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کو باہر جاتا دیکھ جلدی سے بول اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
اُس کی اِس فرمائش پر شاہ ویز نے پلٹ کر اُسے جن نگاہوں سے گھورا تھا وہ سہم کر نگاہیں جھکا گئی تھی۔۔۔۔۔۔
پنک کلر کے خوبصورت سے ڈریس کا دوپٹہ شانوں پر پھیلائے، کیچر سے جھانکتے گلابی گالوں سے ٹکراتے بالوں کو بار بار کان کے پیچھے اڑستی وہ نازک سی دوشیزہ بلیک بیسٹ کا ضبط بُری طرح آزما رہی تھی۔۔۔۔
جو اپنے مزاج کے خلاف کسی کی بات سننا تک پسند نہیں کرتا تھا. وہ نجانے کیوں اِس لڑکی کے اوٹ پٹانگ سوالوں کے جواب دیئے جارہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کو اپنے اِس بنگلے میں بلیک کلر کے علاوہ کوئی کلر برداشت نہیں تھا۔۔۔۔ مگر یہ لڑکی بڑے دھڑلے سے یہ لباس پہنے ہوئے تھی۔۔۔۔
"وہ سامنے پڑا تو ہے۔۔۔ کھا لو۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کہتے واپس جانے لگا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ یہ بہت سپائسی ہے۔۔۔ ایک نوالے سے ہی میرا منہ جلنے لگ گیا تھا۔۔۔۔ مجھے یہ کھانا نہیں کھانا۔۔۔۔ کوئی اور بنوا کر دیں۔۔۔۔"
پریسا کی اِس فرمائش پر شاہ ویز کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔
یہ شخص جتنا اُسے خود سے ڈرانے، خود سے بدظن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔ وہ اتنا اُس کے ساتھ کمفرٹیبل ہورہی تھی۔۔۔۔
"دیکھو لڑکی یہ نہ تو تمہارا آفندی مینشن ہے اور نہ ہی کوئی فائیو سٹار ہوٹل۔۔۔۔ اِس لیے جو دیا ہے وہ چپ کرکے کھا کو یا پھر ایسے ہی رہو۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنے مخصوص سرد اور بے لچک انداز میں کہتے اُسے خاموش کروا دیا تھا۔۔۔۔ مگر ابھی اُس کی بات ختم ہوئی ہی تھی۔۔۔۔ کہ پریسا آنسو بہاتی وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے غصے سے مُٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔ آخر کیا تھی یہ لڑکی۔۔۔۔
"اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُس کے سر پر پہنچتا دھاڑا تھا۔۔۔ جو گود میں سر رکھے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے رونے کو تیار بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
"مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ اگر یہ اتنا سپائسی کھانا کھایا تو بے ہوش ہونا میں نے اور اگر نہ کھایا تا بھوک کی وجہ سے۔۔۔۔"
پریسا نے موٹے موٹے آنسو گراتے شاہ ویز سکندر کو زچ کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔ اُسے آنسو جتنے بُرے لگتے تھے یہ لڑکی اُتنا ہی آنسو بہانے کی شوقین تھی۔۔۔
"خیر بے ہوش تو تم بغیر کسی ریزن کے ہوسکتی ہو، یہ بتانے والی کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔۔۔"
وہ اُس پر ایک خونخوار نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کے جاتے ہی پریسا کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔ اُس جیسی زہین لڑکی چند ہی ملاقاتوں میں اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ یہ شخص اُسے مارنا تو نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اور یہ اگر کسی چیز سے ڈرتا تھا تو وہ ایموشنز تھے۔۔۔۔ اُسے اگر کسی بات سے کمزور کیا جا سکتا تھا تو وہ تھے جذبات اور احساسات۔۔۔۔ غصہ کرنے سے یہ شخص ڈبل غصہ کرتا تھا۔۔۔ مگر رونے دھونے سے وہ اور زیادہ چڑھتا تھا۔۔۔ اور یہی بات پریسا کو مزا دے گئی تھی۔۔۔۔
وہ اب اِسے اتنا زچ کرنے والی تھی کہ وہ خود ہی اُس سے جان چھڑوانے کے لیے اُسے واپس چھوڑ آتا۔۔
شاہ ویز کے جاتے ہی وہ آنسو صاف کرتی صوفے پر جاکر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ جس شاہانہ انداز میں اُسے وہاں رکھا گیا تھا۔۔۔۔ کسی اغوا شدہ انسان کو ایسا کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔۔۔۔
"غنڈہ موالی کہیں کا۔۔۔۔ بڑا آیا دھمکانے والا۔۔۔ اب تگنی کا ناچ نہ نچا دیا تو میرا نام بھی پریسا آفندی نہیں۔۔۔ "
پریسا شاہ ویز سکندر کا لال چہرا یاد کرتی مزے سے بولی تھی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ نے دکھتے سر کے ساتھ بمشکل آنکھیں کھولتے نیم تاریک کمرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ دمیانے سائز کا کمرہ جہاں صرف ضرورت کا سامان ہی موجود تھا کہ بیچوں بیچ رکھے بیڈ پر وہ کمبل میں لپٹی سو رہی تھی۔۔۔
اُس کے علاوہ کمرے میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ وہ اپنے اُوپر سے کمبل ہٹاتی ایک جھٹکے سے بیڈ سے اُترتی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
اُس کا حلیہ ابھی بھی بالکل ویسا ہی تھا جیسا بے ہوش ہونے سے پہلے تھا۔۔۔۔ مگر نیم تاریک کمرے میں وہ یہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی کہ باہر اِس وقت کیا ٹائم ہے۔۔۔۔
مگر روم کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے اُس کے چودہ طبق روشن ہوچکے تھے۔۔۔
وہ اتنی ٹائم تک بے ہوش رہی تھی۔۔۔ باہر دن پوری طرح سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
"میں اتنا ٹائم کیسے سوتی رہی۔۔۔۔ اور کل رات اچانک مجھے کیا ہوا تھا۔۔۔۔ میں کہاں ہوں اِس وقت۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ کا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا۔۔۔۔ کل وہ حمدان کے ساتھ تھی۔۔۔۔ اور اب یہاں۔۔۔ اِس طرح۔۔۔۔
"کہیں اُنہیں مجھ پر شک تو نہیں ہوگیا۔۔۔۔ رات کو ہوا کیا تھا۔۔۔ مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آرہا۔۔۔۔؟؟؟ لیکن اگر ایس پی صاحب کو مجھ پر زرا سا بھی شک پڑتا تو میں اِس وقت اِس شاہانہ فلیٹ میں نہیں اُن کے لاک اپ میں کھڑی ہوتی۔۔۔۔"
مہروسہ اردگرد کا جائزہ لیتی وہاں کسی زی روح کی متلاشی تھی۔۔۔ جب اچانک اُس کی سماعتوں میں کسی کی قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی۔۔۔
وہ جھٹکے سے پیچھے پلٹی تھی۔۔۔ جہاں ایک پولیس یونیفارم میں ملبوس لیڈی نظر آئی تھی اُسے۔۔۔۔
"میڈم آپ اُس گئیں۔۔۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے اب۔۔۔۔ آپ کل رات اچانک بے ہوش ہوگئی تھیں۔۔۔ آپ کا کوئی ایڈریس وغیرہ بھی نہیں تھا ہمارے پاس تو سر آپ کو یہاں لے آئے۔۔۔ آپ کی تنہائی کے خیال سے اُنہوں نے مجھے بھی بلوا لیا تھا۔۔۔ میں کل رات سے یہاں موجود ہوں۔۔۔۔"
حمدان کے ساتھ پوری رات اکیلے ہونے کے خیال سے مہروسہ کا رنگ فق پڑا تھا۔۔۔۔ جسے دیکھتے اُس پولیس لیڈی نے فوراً وضاحت دی تھی۔۔۔۔
"بہت شکریہ مگر اب مجھے جانا ہے۔۔۔ میرے گھر والے پریشان ہورہے ہونگے۔۔۔۔"
مہروسہ فوراً پلٹی تھی۔۔۔۔
"آئم سوری میم۔۔۔ مگر سر کی اجازت کے بغیر آپ نہیں جاسکتیں۔۔۔ وہ جیسے ہی اُٹھتے ہیں آپ اُن سے پوچھ کر چلی جائیئے گا۔۔۔۔۔"
وہ پولیس والی نہایت دھیمے لہجے میں بولتی مہروسہ کے قدم وہیں روک گئی تھی۔۔۔
"ایس پی صاحب کب اُٹھیں گے۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ دانت پیس کر بولی۔۔۔۔
"وہ چار بجے سوئے ہیں۔۔۔۔ ایک دو گھنٹوں تک اُٹھ جائیں گے۔۔۔۔ اتنی دیر میں میں آپ کے لیے ناشتہ بنوا دیتی ہوں۔۔۔۔"
وہ مہروسہ کو اپنے مخصوص نرم انداز میں جواب دیتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"میں کیا کروں کیسے نکلوں یہاں سے۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کو اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔
وہ جلدی سے آس پاس دیکھتی باہر والے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ جس لاک دیکھ وہ مزید کوفت کا شکار ہوئی تھی۔۔۔
"اب یہ کیز کہاں ہونگی۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ واپس پلٹتی جلدی سے ڈرائینگ روم میں دیکھنے لگی تھی۔۔۔ ڈرائینگ کے ساتھ ساتھ اُس نے اردگرد کے سارے کمرے چھان مارے تھے۔۔۔۔ مگر کیز کہیں نہیں ملی تھیں۔۔۔۔ اب صرف ایک حمدان کا روم بچا تھا جہاں اُس پولیس والی نے اُس کے سوئے ہونے کا بتایا تھا۔۔۔۔
مہروسہ وہاں کسی قیمت پر نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اُس کے پاس۔۔۔۔
گہری سانس ہوا میں خارج کرتے وہ دھیرے سے دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ زیرو پاور بلب کی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
بیڈ پر سوئے حمدان کو دیکھ اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔۔
اگر وہ جاگ جاتا تو۔۔۔۔؟؟؟
یہ سوچ کر ہی مہروسہ نے جھڑجھڑی سی لی تھی۔۔۔
اِس وقت یہاں سے نکلنا اُس کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھا۔۔۔۔
وہ دبے پیر چلتی حمدان کے بیڈ کے قریب آئی تھی۔۔۔۔ وہ بنا شرٹ کے اوندھے منہ سویا تکیہ سینے سے لپیٹے گہری نیند میں تھا۔۔۔۔ اُس کی جانب ایک نظر دیکھ کر ہی مہروسہ لال ہوئی تھی۔۔۔۔
فون پر اُس کے سامنے وہ جتنی دلیری اور بے باکی کا مظاہرہ کرتی تھی۔۔۔ اِس وقت اُس کے ساتھ ایک ہی کمرے میں تنہائی کے خیال سے ہی اُس کے پورے وجود میں لرزش شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔
دور دور تک اُسے کہیں بھی ٹیبل پر اور آس پاس کیز کا نام و نشان تک نظر نہیں آیا تھا۔۔۔
"اب میں کیا کروں گی۔۔۔ یا اللہ جی پلیز مدد کر دیں۔۔۔"
مہروسہ دل ہی دل میں اپنے رب کو یاد کرتی واپس پلٹ ہی رہی تھی۔۔
جب اُس کی نظر حمدان کے تکیے کے نیچے سے زرا سی دکھائی دیتی چابی پر پڑی تھی۔۔۔۔ اُس کا چہرا لمحے بھر کے لیے کھل اُٹھا تھا۔۔۔۔
مگر ایس پی حمدان کے قریب جانا مہروسہ کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔۔۔۔ اِس شخص کی خوشبو اُس کی کمزوری تھی۔۔۔
وہ خود میں ہمت مجتعم کرتی۔۔۔ دانتوں کو دانتوں پر چڑھائے خود کو مضبوط ظاہر کرتی اُس کے قریب گئی تھی۔۔۔۔ اور بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھتے اُس نے اپنا کپکپاتا ہاتھ بڑھا کر اُس کے تکیے کے نیچے پڑی چابی کو چھوا تھا۔۔۔۔ جو بنا کسی مزاحمت کے ایک ہلکے سے جھٹکے میں باہر آگئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کا چہرا اِس وقت حمدان کے بہت قریب تھا۔۔۔۔ مہروسہ نے لرزتی پلکیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ اور پھر جیسے نگاہیں پلٹنا بھول گئی تھیں۔۔۔۔
مغرور نقوش سوتے ہوئے بھی ایسے تنے ہوئے تھے جیسے خواب میں بھی وہ اُسے ہی دیکھ رہا ہو۔۔۔۔ کھڑی مغرور ناک پر غصہ نیند میں بھی سوار تھا۔۔۔۔
احمری لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔۔۔۔۔ اوندھے منہ سونے کی وجہ سے سیاہ بال کشادہ پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔ مہروسہ کتنے ہی لمحے سانسیں روکے اُسے دیکھتی رہی تھی۔۔۔۔
یہاں سے اُٹھنے کا اُس کا بالکل بھی دل نہیں چاہا تھا۔۔۔۔ مگر اِس شخص کے قریب اُس کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔ آنکھوں میں اُمڈ آتی نمی کو پیچھے دھکیلتی وہ جلدی سے اُس کے قریب سے اُٹھتی روم سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
اُس کے جاتے ہی حمدان نے آنکھیں کھولتے زہر خند نگاہوں سے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جہاں سے وہ ابھی کچھ دیر پہلے نکلی تھی۔۔۔
اِس بات سے انجان کے یہ کیز اُس نے خود نہیں ڈھونڈیں تھیں۔۔۔ بلکہ ایس پی حمدان نے جان بوجھ کر اُس کے سامنے پیش کی تھیں۔۔۔
"بہت شاطر بنتے ہو نا تم لوگ۔۔۔۔ اب میں تم لوگوں کے ساتھ تمہارے انداز میں ہی کھیل کھیلوں گا۔۔۔۔ اِس بار میرے وار سے بچ نکلنا ناممکن ہوگا تم لوگوں کے لیے۔۔۔۔ محبت کرتی ہونا تم مجھ سے۔۔۔ اِسی محبت کو تمہاری زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا بنا دوں گا میں۔۔۔ "
حمدان بیڈ سے اُٹھتا کھڑکی میں آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جہاں وہ اُسے تیز تیز قدموں سے روڈ کی جانب جاتی نظر آئی تھی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ بہت خراب موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ کل سے وہ ایسے ہی چڑچڑی ہوئی پڑی تھی۔۔۔ اُس بلیک سٹار کو پکڑنے میں ناکامی اور اُس سے ہونے والے ٹکراؤ نے اُسے اچھا خاصہ تپایا ہوا تھا۔۔۔۔
مگر آج وہ اپنی ایک خفیہ ٹیم تیار کرچکی تھی۔۔۔ جو اب حازم کے اُس کے قریب آتے ہی۔۔۔ اُسے گرفتار کرنے کے لیے فل ٹائم تیار تھی۔۔۔
اِس ٹیم نے پوری طرح اُس کے گھر کے اندر اور باہر پہرہ دینا تھا۔۔۔۔ اب کی بار وہ اُس شاطر انسان کو کسی قیمت پر بچ کر نکلنے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔
گھر کے ڈرائینگ روم میں قدم رکھتے ہی اتنی ساری خواتین کو وہاں بیٹھا دیکھ وہ ٹھٹھکی تھی۔۔۔۔ اُس نے اپنی ماما کو عورتوں میں مصروف دیکھ صبا کو اشارے سے قریب بلایا تھا۔۔۔
"یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔۔۔ یہ اتنی ساری عورتیں ہمارے گھر کیوں آئی ہوئی ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے سوالیہ نگاہوں سے صبا کو گھورا تھا۔۔۔
"وہ آج بھائی کی برسی ہے تو۔۔۔۔۔"
صبا کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے جب حبہ اُسے دور دھکیلتی غصے سے پاگل ہوتی نجمہ بیگم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
"ماما کیا ہے یہ سب۔۔۔۔؟؟؟ آپ ایک زندہ شخص کی برسی کیسے کرسکتی ہیں۔۔۔۔ ؟؟؟ "
حبہ بُری طرح روتی بنا وہاں بیٹھی عورتوں کا لحاظ کیے چلائی تھی۔۔۔
نجمہ بیگم کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ آج وہ جلدی گھر واپس آجائے گی۔۔۔۔۔
"حبہ میری جان۔۔۔۔ آپ روم میں جاؤ میں آپ سے۔۔۔۔"
نجمہ بیگم نے اُسے سنبھالنا چاہا تھا۔۔۔۔ جس کے دل پر گہری چوٹ آئی تھی یہ سب دیکھ کر۔۔۔۔
"میرا شوہر زندہ ہے ماما۔۔۔۔ کسی کے بھی کہہ دینے پر آپ بھلا کیسے یقین کرسکتی ہیں کہ وہ مرگئے ہیں۔۔۔ آپ لوگوں کو زرا سا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا۔۔ ایک زندہ انسان کے بارے میں یہ سب کہتے اور کرتے ہوئے۔۔۔۔؟؟؟ میں اِس سب کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔"
حبہ بُری طرح روتی اُن سے اپنا آپ چھڑواتی اپنے روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"حبہ میری جان۔۔۔۔ آپ روم میں جاؤ میں آپ سے۔۔۔۔"
نجمہ بیگم نے اُسے سنبھالنا چاہا تھا۔۔۔۔ جس کے دل پر گہری چوٹ آئی تھی یہ سب دیکھ کر۔۔۔۔
"میرا شوہر زندہ ہے ماما۔۔۔۔ کسی کے بھی کہہ دینے پر آپ بھلا کیسے یقین کرسکتی ہیں کہ وہ مرگئے ہیں۔۔۔ آپ لوگوں کو زرا سا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا۔۔ ایک زندہ انسان کے بارے میں یہ سب کہتے اور کرتے ہوئے۔۔۔۔؟؟؟ میں اِس سب کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔"
حبہ بُری طرح روتی اُن سے اپنا آپ چھڑواتی اپنے روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"کسی کو معاف نہیں کروں گی۔۔۔ آپ کو بھی نہیں۔۔۔۔"
حبہ بُری طرح روتی سسکتی اپنے روم کا دروازہ اندر سے لاک کر گئی تھی۔۔۔۔
بیڈ روم کی ساری چیزوں کو تہس نہس کرکے بھی اُسے سکون نہیں ملا تھا۔۔۔
"کیوں۔۔۔ کیوں میری زندگی میں ہی یہ درد لکھا گیا ہے۔۔۔ کیوں مجھے یہ جدائی کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔۔۔ کیوں واپس نہیں آجاتے آپ میرے پاس۔۔۔۔۔"
حبہ ہچکیوں سے روتی فریاد کرتی اپنی الماری کے سیف کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ جہاں اُس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے محفوظ کر رکھی تھی۔۔۔
پرپل کلر کے مخملی باکس سے ایک تصویر اور ریڈ لہنگے میں ملبوس ایک چھوٹی سی خوبصورت گڑیا کو باہر نکال کر سینے سے لگاتے وہ وہیں الماری سے ٹیک لگاتی نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
"پلیز واپس آجائیں۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ میرے پاس لوٹ آئیں۔۔۔ نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر۔۔۔۔۔"
حبہ کو اُسی طرح ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر روتے نجانے کتنے گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔۔
نجمہ بیگم اور صبا دروازہ ناک کرتے کرتے تھک ہار کر واپس لوٹ گئی تھیں۔۔۔ ایک ہی جگہ اتنی دیر بیٹھنے کی وجہ سے اُس کا پورا جسم سن ہوچکا تھا۔۔۔۔
بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہ غنودگی میں جارہی تھی جب اُسے اپنے آس پاس وہی جانی پہچانی خوشبو محسوس ہوئی تھی۔۔۔ جس کو صدیوں بعد بھی وہ بھلا نہیں پائی تھی۔۔۔
کچھ لمحوں بعد اُسے ایک مہربان لمس اپنے کندھوں اور بالوں میں محسوس ہوا تھا۔۔۔
بنا آنکھیں کھولے بھی وہ اِس لمس اور اِس شخص کی دلفریب مہکتی قربت کا پہچان گئی تھی۔۔۔ اُس نے آنکھیں کھولنی چاہی تھیں۔۔۔ وہ اپنے محبوب ترین شخص کا چہرا دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اُس شخص نے اُس کی آنکھوں پر اپنی مضبوط ہتھیلی جماتے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔۔۔۔۔
"میں کبھی کہیں دور گیا ہی نہیں تھا میری زندگی۔۔۔ ہمیشہ سے تمہارے ساتھ، تمہارے بہت پاس رہا ہوں۔۔۔۔ تم نے پہنچاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔۔ "
وہ اُسے بانہوں میں اُٹھا کر بیڈ پر لٹاتے اُس کے کانوں میں سرگوشی بھرے انداز میں بولتا اُسے اپنے ساتھ باندھنے لگا تھا۔۔۔۔
وہ مسمسرائز سی آنکھیں موندے اُسے سن رہی تھی۔۔۔ اُسے اپنے بے حد قریب محسوس کررہی تھی۔۔۔ جو اُس کے قریب نیم دراز اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا اُسے پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ گیا تھا۔۔۔۔
حبہ آنکھیں کھولنا چاہتی تھی۔۔۔ اُسے ہمیشہ کے لیے اپنے پاس روک لینا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس وقت کچھ بھی اُس کے اختیار میں نہیں رہا تھا۔۔۔ نیند کی وادیوں میں اُترتے اُس نے اپنے ماتھے پر شدت بھرا لمس محسوس کیا تھا۔۔۔۔ جس کے بعد وہ پوری طرح غنودگی میں جاچکی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم ٹھیک ہو۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز نے لان میں بیٹھے حازم اور مہروسہ کے قریب آتے مہروسہ کو مخاطب کیا تھا۔۔۔ جو اس وقت لان کے قدرے تاریک حصے میں بیٹھے اپنی ڈیلی کی روٹین کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ سونے سے پہلے یہ ایک گھنٹہ ضرور سپینڈ کرتے تھے۔۔
"جی سر میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ "
مہروسہ نے بشاشت سے جواب دیتے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی تھی۔۔۔
جس پر شاہ ویز نے طنزیہ نگاہوں سے اُن دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"تم لوگوں کو ابھی بھی لگتا ہے کہ میں تمہاری اِس بناوٹی مسکراہٹ سے دھوکا کھا جاؤں گا۔۔۔ میں بہت اچھے سے جانتا ہوں تم دونوں ہی ٹھیک نہیں ہو۔۔۔۔"
شاہ ویز اُن دونوں کی آنکھوں میں اذیت کی جھلک دیکھ اپنے سینے میں بھڑکتی آگ کو بجھانے کے لیے سیگریٹ سلگھاتا ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔۔۔
"محبت کا روگ بہت دردناک ہوتا ہے۔۔۔ اچھے بھلے انسان کو ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔۔۔ میرا رب تمہیں اِس روگ سے محفوظ رکھے۔۔۔ ہم دونوں تو پھر کنٹرول میں ہیں۔۔۔ کیونکہ اصل تباہی تو تب مچے گی جب شاہ ویز سکندر کو محبت میں درد برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔۔"
حازم اُس کی بات کے جواب میں اُسی کا مذاق اُڑاتا ماحول کو خوشگوار بناتے بولا۔۔۔
"بالکل ٹھیک کہا آپ نے میر سر۔۔۔۔ شاہ سر نے تو گن پوائنٹ پر اُس لڑکی سے نہ صرف اپنی محبت کا اظہار کروانا ہے۔۔۔ بلکہ اُٹھا کر یہاں لے بھی آنا ہے۔۔۔"
مہروسہ نے بھی شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ شاہ ویز کا چھیڑا تھا۔۔۔
"واٹ ربش۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ میرے نزدیک یہ محبت وحبت فضولیات سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔۔۔ "
شاہ ویز نے اُن کی باتوں کی سختی سے تردید کردی تھی۔۔۔۔ جب اُسی لمحے ایک ساتھ تینوں کی نظر سامنے والے دروازے سے چھپ چھپا کر نکلتی پریسا پر پڑی تھی۔۔۔۔ جو یہی سمجھ رہی تھی کہ اِس وقت وہاں لان میں کوئی گارڈ موجود ہے ہی نہیں۔۔۔۔ اور وہ آرام سے بھاگ سکتی ہے۔۔۔
جبکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اُن گارڈز کو بلیک سٹارز نے اپنی پروائیوسی کی خاطر ہٹایا تھا۔۔۔ اور اِس وقت وہ بلیک سٹارز کی آنکھوں کے سامنے اُن کی بلیک ہاؤس سے فرار ہونے کی گستاخی کررہی تھی۔۔۔
"ویسے کافی کیوٹ ہے یہ لڑکی۔۔۔۔"
مہروسہ نے پریسا کو پودوں کی اوٹ میں ہو کر گارڈز سے چھپتے دیکھ مسکراتے کہا تھا۔۔۔ مگر شاہ ویز کی گھوری پر اگلے ہی لمحے اُس کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔۔۔
"کیوٹ نہیں۔۔۔ ایک نمبر کی بے وقوف اور گدھی ہے۔۔۔۔ جسے بے ہوش ہونے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے فرار ہونے کا بھونڈا طریقہ دیکھ دانت پیستے بولا۔۔۔
"ویسے اِس لڑکی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جاننے لگے تم۔۔۔۔"
حازم کو شاہ ویز کا پریسا پر کچھ ایکسٹرا توجہ دینا ٹھٹکا رہا تھا۔۔۔
"دشمنوں کو ہرانے کے لیے پہلے اُن کی سب سے بڑی کمزوری دیکھی جاتی ہے۔۔۔۔ اور میرے دشمنوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ لڑکی ہے۔۔۔۔ اور میرا سب سے بڑا مہرا۔۔۔ "
شاہ ویز کی آنکھوں میں پریسا آفندی کے لیے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ حازم اور مہروسہ اپنی سوچ کی نفی ہونے پر افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے تھے۔۔۔
وہ اب یہ تو مان ہی چکے تھے۔۔۔ کہ اُن کا یہ ساتھی سینے میں دل نہیں پتھر لے کر گھومتا تھا۔۔۔۔ جو احساسات و جذبات سے بالکل نابلد تھا۔۔۔
شاہ ویز نے گارڈز کو کال کرکے ڈوگز کھولنے کا حکم دے دیا تھا۔۔۔۔
"وہ ڈر جائے گی۔۔۔۔ یا پھر بے ہوش بھی ہوجائے ڈوگز کو اپنے اتنے قریب سے دیکھ کر۔۔۔۔"
حازم نے اُسے پریسا کو ایسی سزا دینے سے باز رکھنا چاہا تھا۔۔
مگر وہ شاہ ویز ہی کیا جو کسی کی سن لے۔۔۔۔
گارڈز نے فوراً اُن ہٹے کٹے شیر کی سی جسامت رکھنے والے ڈوگز کو رہاع کردیا تھا۔۔۔۔ جو زور و شور سے بھونکتے پریسا کے سر آن ہوئے تھے۔۔۔۔
"اوہ نو۔۔۔۔۔ یی یہ کہاں سے آ آآ گئے۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔۔"
پریسا اُن ڈوگز کو دیکھ تھر تھر کانپتی اپنا فرار ہونا بھولتی اُُلٹے قدموں واپس بھاگی تھی۔۔۔۔ وہ اِس قدر خوفزدہ ہوچکی تھی کہ یہ تک فراموش کر گئی تھی کہ اُس کا دوپٹہ وہیں زمین بوس ہوچکا ہے۔۔۔۔
وہ چیخنے کے ساتھ اپنے بچاؤ کے لیے اندھا دھند بھاگتی جارہی تھی جب پیچھے مُڑ کر اُن کتوں کو دیکھنے کی کوشش کرتے وہ ایکدم سامنے سے آتے شاہ ویز سے بُری طرح ٹکراتی اُس کی بانہوں میں سما گئی تھی۔۔۔۔
"وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ ڈوگز۔۔۔۔ پپ پلیز مجھے بچا لیں۔۔۔۔"
پریسا خوف کے عالم میں تھرتھر کانپتی ہکلاتے ہوئے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتی چہرا شاہ ویز کے سینے میں چھپائے ہوئے تھی۔۔۔ جس پر شاہ ویز نے سختی سے اپنی مُٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔
وہ مزید چند سیکنڈز بھی اس لڑکی کو اپنے اتنے قریب برداشت نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔۔ اُس پریسا کو دونوں کندھوں سے تھام کر خود سے دور کرتے گارڈز کو ڈوگز کو واپس لیجانے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔۔
پریسا نے ایک نظر مُڑ کر شرافت سے واپس جاتے ڈوگز کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور پھر مُڑ کر شاہ ویز کی لال انگارہ آنکھوں کو۔۔۔۔ جس کا یہی مطلب تھا کہ وہ اُس کے فرار ہونے کے ارادے سے باخبر ہوچکا تھا۔۔۔۔
پریسا کو اُس کی سرد ٹھٹھرتی نگاہوں سے اپنی ریڑھ کی ہڈی سنسناتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے لرزتی پلکیں اُٹھا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا ہے تھا جن کی تاب نہ لاتے اگلے ہی لمحے وہ شاہ کی بانہوں میں لہرا گئی تھی۔۔۔۔۔
اِس لڑکی کی یہ حرکت شاہ ویز کو سر سے پیر تک سلگھا گئی تھی۔۔۔۔۔
پنک لباس میں رف سے حلیے میں، لمبے کھلے بال اُس کے بنا دوپٹے کے نازک وجود کو ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ ٹھنڈ کی وجہ سے لال ہوئی ستواں ناک میں پہنی نوز پن چاند کی روشنی میں جگمگاتی دیکھنے والوں کو اپنی دلفریبی میں گم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔۔
مگر سامنے کھڑے شخص کو اِن دلفریبیوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔۔۔۔ اُس کا دل تو چاہا تھا اِس لڑکی کو یہی پٹخ کر خود اندر چلا جائے۔۔۔۔
مگر نجانے کس احساس کے زیرِ اثر وہ ایسا سنگدلانہ عمل اِس لڑکی کے ساتھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔ ورنہ اُس کے بلیک ہاؤس سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کے لیے جو سزا اُس نے رکھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ تو سن کر ہی پریسا آفندی نے بے ہوش ہوجانا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز چہرے پر پتھریلے تاثرات سجائے اُسے بانہوں میں اُٹھاتا وہاں سے جانے کے لیے پلٹا ہی تھا۔۔۔ جب سامنے کھڑے حازم اور مہروسہ کو مسکراتے دیکھ اُس کی بھنویں مزید تن گئی تھیں۔۔۔۔
"واٹ۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز نے سوالیہ نگاہوں سے اُن دونوں کو گھورا تھا۔۔۔۔
"یہ لڑکی کتوں سے زیادہ تم سے ڈرتی ہے۔۔۔۔ کتوں کو دیکھ کر بے ہوش نہیں ہوئی۔۔۔ مگر تمہیں ایک نظر دیکھتے ہی اپنے حواس کھو بیٹھی ہے۔۔۔۔"
حازم اپنے ہونٹوں پر بے ساختہ اُمڈ آنے والی مسکراہٹ نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ کا انداز بھی کچھ ایسا ہی تھا۔۔۔۔
"شٹ اپ اینڈ سٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُنہیں وارننگ دیتی نگاہوں سے دیکھتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ جب حازم کی پکار پر اُسے ایک بار پھر رکنا پڑا تھا۔۔۔
"آج تک تمہارے دو دشمنوں نے تمہارے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ جسے کامیاب ہونے دینے سے پہلے ہی تم اُن کا نام و نشان اِس دنیا سے مٹا چکے ہو۔۔۔ مگر آج مجھے اپنی اِن گناہگار آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔۔۔۔ پہلی بار شاہ ویز سکندر نے اپنے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والی اپنی دشمن کو اپنی بانہوں میں اُٹھا رکھا ہے۔۔۔۔"
حازم پرمزا انداز میں یہ الفاظ کہہ کر اُسے مزید تپاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے جاتے ہی شاہ ویز نے غصے بھری نگاہوں سے اپنے گریبان کو مُٹھی میں دبوچے پریسا کے ہاتھ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ یہ بات پہلے کیوں نہیں دیکھ نوٹ کر پائی تھی۔۔۔
شاہ ویز خود کو ہی سرزنش کرتا اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ آنکھیں کھولتے ہی جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اُس نے متلاشی بے چین نگاہوں سے پورے کمرے کا ایک ایک کونا چھان مارا تھا۔۔۔ مگر وہاں اُسے کسی کا نام و نشان نہیں ملا تھا۔۔۔۔
"تو اِس کا مطلب رات کو جو کچھ بھی میں نے فیل کیا وہ صرف ایک خواب تھا۔۔۔۔ حقیقت نہیں۔۔۔۔ نن نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ میرے پاس تھے۔۔۔ میرے بہت قریب تھے۔۔۔ نہیں یہ خواب نہیں ہوسکتا۔۔۔۔"
حبہ بالوں کو مُٹھیوں میں بھینچتی ہزیانی انداز میں چلا اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
جب اچانک ایک بات کے خیال سے وہ وہیں منجمند سی ہوئی تھی۔۔۔ اُسے بہت اچھے سے یاد تھا کہ وہ روتے روتے الماری کے پاس زمین پر ہی بیٹھ گئی تھی۔۔۔ پھر وہ بیڈ پر کیسے پہنچی تھی۔۔۔
حبہ اپنے آنسو صاف کرتے جلدی سے الماری کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ مگر وہاں سیف کو لاک پڑا دیکھ اُسے گہرا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ اُس نے جلدی سے لاک کھولا تھا۔۔۔ جہاں اُس کی دونوں چیزیں بالکل محفوظ ویسے ہی پڑی تھیں۔۔۔ جیسے وہ رکھتی تھی۔۔۔ اِس کا مطلب صاف یہی تھا کہ وہ سب خواب تھا۔۔۔ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔ نہ تو کوئی اُس کے روم میں آیا تھا اور نہ اُس نے خود اپنا سیف کھول کر چیزیں باہر نکالی تھیں۔۔۔
حبہ گہرا سانس ہوا میں خارج کرتی واش روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ وہ خود کو اتنی جلدی کمزور نہیں پڑنے دے سکتی تھی۔۔۔
حبہ فل یونفیارم میں ملبوس گھر سے نکل آئی تھی۔۔۔ نجمہ بیگم اور صبا سے ناراضگی ظاہر کرتے اُس نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سر ایس پی حبہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔۔۔۔"
حمدان اپنے آفس میں بیٹھا کسی امپورٹنٹ کیس کی فائل کو ریڈ کررہا تھا۔۔۔ جب حبہ کے آنے کی اطلاع پر فوراً اُسے اندر بھیجنے کا حکم دے گیا تھا۔۔۔۔
"گڈ مارننگ ایس پی حمدان۔۔۔۔ "
حبہ اپنے مخصوص پروفیشنل انداز میں اُسے مخاطب کرتی اُس کے اشارے پر سامنے رکھی کرسی پر براجمان ہوئی تھی۔۔۔۔
"مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ ہم دونوں کبھی کسی کیس پر ایک ساتھ کام کریں گے۔۔۔۔"
حمدان اور حبہ اپنی ٹریننگ میں ایک ساتھ تھے۔۔۔ دونوں کو ہی جیتنے کی عادت تھی۔۔۔ اِسی وجہ سے دونوں کا مقابلہ ہمیشہ ٹکر کر رہا تھا۔۔۔ یہ فیلڈ جوائن کرنے کے بعد بھی دونوں کے نام رینکنگ میں اُوپر نیچے ہوتے رہتے تھے۔۔۔۔ دونوں ہی اپنے کام میں بہت ایماندار تھے۔۔۔۔۔
"مجھے بھی۔۔۔۔ مگر اب ہمیں جن لوگوں سے مقابلہ کرنا ہے اُس کے لیے ایک یونٹ بن کر ہمیں اُن کی یونیٹی توڑنی ہوگی۔۔۔ تب ہی ہم لوگ اپنے اُن دشمنوں کو نست و نابود کرسکتے ہیں۔۔۔۔ "
حبہ کے لہجے میں بلیک سٹارز کے لیے نفرت ہی نفرت تھی۔۔۔ جسے محسوس کرتے حمدان کو بہت خوشی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
"اُن تینوں کو کمزور تب ہی کیا جاسکتا ہے جب ہم اُن تینوں کو ایک دوسرے سے بدظن کردیں۔۔۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابھی ہم صرف ایک بلیک سٹار مہروسہ کنول کی شناخت کر پائے ہیں۔۔۔ باقی دونوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔۔۔۔ "
حمدان کی بات پر چائے اندر لاتے چھوٹو نے نگاہیں اُٹھا کر اُسے گھورا تھا۔۔۔
"میں اُن کے دوسرے ساتھی کے بہت قریب پہنچ چکی ہوں۔۔۔۔ بہت جلد اُس کی شناخت بھی کرلوں گی۔۔۔ مگر ہمیں کرنا کیا ہوگا۔۔۔۔۔"
حبہ نے سوالیہ نگاہوں سے حمدان کو دیکھتے اُس کا پلان سننا چاہا تھا۔۔۔
"اُن کو اُنہیں کے کھیل میں مات دینی ہوگی۔۔۔ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم قانونی دائرے میں رہ کر اُن کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔۔۔ مگر اُنہیں اُن کی اِس غلط فہمی کا بہت خوبصورت تحفہ دینا چاہتا ہوں۔۔۔ جو محبت کا کھیل وہ لوگ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔۔۔ اُس میں اُنہیں الجھا کر اُنہیں اپنے قدموں میں پٹخنا ہوگا۔۔۔۔"
حمدان کی بات ابھی مکمل نہیں ہو پائی تھی۔۔۔ جب وہاں چائے دینے کے لیے آئے کھڑے چھوٹو کے ہاتھ سے کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔۔۔۔
حمدان نے اِس ڈسٹربنس پر اُسے گھورتے باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ جس پر اُس نے باہر جانے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا تھا۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی حمدان نے اپنا سارا پلان حبہ کو بتایا تھا جس کے بغیر اُن لوگوں تک پہنچنے کا اُن کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔۔۔۔ حبہ نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد اثبات میں سرہلا دیا تھا۔۔۔۔ بلیک سٹارز اب تک اُن کے علاقوں میں بہت تباہی مچا چکے تھے۔۔۔۔
اب اُنہیں تباہ و برباد کرنے کا اصل وقت آچکا تھا۔۔۔۔
مگر اُن دونوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کا یہ پلان اب تک بلیک سٹارز تک پہنچ بھی چکا ہے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میر سر میں نے آپ کو اتنی سیریس بات بتائی ہے۔۔۔ اور آپ ہنس رہے ہیں۔۔۔۔۔"
مہروسہ حازم کے سپیکرز کے پردے پھاڑ کر باہر آتے قہقوں پر تپ کر بولی تھی۔۔۔۔ حازم کو جیسے ہی پتا چلا تھا کہ حبہ حمدان سے ملنے جارہی ہے۔۔۔ اس نے مہروسہ کو چائے والے کا بھیس اپنا کر حمدان کے آفس بھیجا تھا۔۔۔ جہاں سے اُنہیں جو بات سننے کو ملی تھی۔۔۔ اُسے سننے کے بعد حازم سے اپنے قہقہ روک پانا ناممکن ہوچکا تھا۔۔۔۔
"مہرو میں کیا کروں۔۔۔ تم نے بات ہی ایسی کہی ہے۔۔۔ ایس پی حبہ مجھے کمزور کرنے اور ہرانے کے لیے میرے ساتھ محبت کا ناٹک کرے گی۔۔۔۔ لگتا ہے اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھ کر اِن پولیس والوں کا دماغ خراب ہوچکا ہے۔۔۔۔ "
حازم مہروسہ کے چڑنے پر بمشکل سنجیدہ ہوتے بولا۔۔۔۔
"آپ جتنا مذاق بنا رہے ہیں اتنا سٹوپڈ پلان بھی نہیں ہے اُن کا۔۔۔"
بندوقوں اور گولیوں سے کھیلنے والی مہروسہ محبت کا کھیل کھیلنے سے حد درجہ خوفزدہ تھی۔۔۔ کیونکہ اُسے پورا یقین تھا کہ وہ ہار جائے گی ایس پی حمدان کے آگے۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں سٹوپڈ تو بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ آخر کو تمہارے ایس پی حمدان صاحب نے بنایا ہے۔۔۔۔ "
حازم کا سنجیدہ ہونے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔۔
مگر مہروسہ کی پریشانی نوٹ کرتے آخر اُسے سیریس ہونا پڑا تھا۔۔۔۔
"وہ لوگ جو کررہے ہیں اُنہیں کرنے دو۔۔۔۔ اور ہم وہ کریں گے جو ہم نے سوچا ہے۔۔۔۔ وہ لوگ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر ہم پر دوہری زمہ داری ہے۔۔۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اُنہیں بھی محفوظ رکھنا ہوگا۔۔۔ تبھی ہم اپنے مقصد میں پوری طرح کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔۔"
حازم کی بات پر مہروسہ کی پریشانی کچھ حد تک کم ہوئی تھی۔۔۔۔
"نہیں سٹوپڈ تو بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ آخر کو تمہارے ایس پی حمدان صاحب نے بنایا ہے۔۔۔۔ "
حازم کا سنجیدہ ہونے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔۔
مگر مہروسہ کی پریشانی نوٹ کرتے آخر اُسے سیریس ہونا پڑا تھا۔۔۔۔
"وہ لوگ جو کررہے ہیں اُنہیں کرنے دو۔۔۔۔ اور ہم وہ کریں گے جو ہم نے سوچا ہے۔۔۔۔ وہ لوگ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر ہم پر دوہری زمہ داری ہے۔۔۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اُنہیں بھی محفوظ رکھنا ہوگا۔۔۔ تبھی ہم اپنے مقصد میں پوری طرح کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔۔"
حازم کی بات پر مہروسہ کی پریشانی کچھ حد تک کم ہوئی تھی۔۔۔۔
"تو اب ہم کیا کریں۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ ہمیشہ ایس پی حمدان کے پاس سے آنے کے بعد کچھ ٹائم کے لیے اپنے حواسوں میں نہیں رہتی تھی۔۔۔
"وہی جو ہم کرنے والے تھے۔۔۔۔ آج اکبر سعید کے بنگلے پر ایک بہت اہم محفل سجے گی۔۔۔ بس اُسی کی ریکارڈنگ کرکے آخر میں اپنا کام کرکے نکل آنا ہے۔۔۔۔ بس اب وہاں یہ دونوں جینیئس ایس پیز نہ پہنچ جائیں۔۔۔۔"
حازم سنجیدگی سے اُسے اپنا پلان بتاتا آخر میں شرارتی لہجے میں بولا تھا۔۔۔
"وہ تو ضرور آئیں گے۔۔۔ وہ اب ہر اُس جگہ آئیں گے جہاں اُنہیں ہمارے آنے کی زرا سی بھی بھنک پڑ جائے۔۔۔"
مہروسہ دانت پیستے بولی تھی۔۔۔۔
"ڈونٹ وری کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔"
حازم اُسے واپس آنے کا کہتا فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ہماری پری نے اُن ظالموں کا آخر بگاڑا ہی کیا ہے۔۔۔ وہ اُس معصوم کو کیوں اپنے ساتھ اُٹھا کر کے گئے۔۔۔ دو دن گزر چکے ہیں۔۔۔ مگر آپ لوگ اتنی فورسز ہونے کے باوجود ابھی کچھ کر کیوں نہیں پارہے۔۔۔ میری بچی کی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔۔۔۔ اگر اُنہوں نے اُسے کچھ کردیا تو۔۔۔۔۔ نن نہیں پلیز آپ لوگ کچھ بھی کرکے میری پری کو ڈھونڈیں نا۔۔۔"
یاسمین بیگم کا رو رو کر بُرا حال تھا۔۔۔
پریسا کا یوں سب کے سامنے اغوا ہوجانا کوئی عام بات نہیں تھی۔۔۔ اُس سے بھی زیادہ خطرناک تھے وہ بلیک سٹارز جن کے پاس جانے والا آج تک کوئی بھی زندہ سلامت واپس نہیں آیا تھا۔۔۔۔
پچھلے دو دن سے آفندی ولا میں سوگ و غم کی فضا قائم تھی۔۔۔۔ کسی نے کچھ کھایا تک نہیں تھا۔۔ سفیان اور شہباز آفندی سمیت گھر کے تمام مرد ہی بھاگ بھاگ کر تھک گئے تھے۔۔۔ پی ایم تک کو اِس کیس میں انوالو کر چکے تھے۔۔۔۔۔
مگر کوئی اب تک پریسا کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔ بلیک سٹارز کا مطالبہ سننا تو دور کی بات وہ لوگ اُن سے رابطہ ہی نہیں کر پارہے تھے۔۔۔۔
بینک لوٹ کر وہ لوگ پہلے ہی شہباز آفندی سمیت بہت سارے امیر بزنس مین افراد کا دیوالیہ نکال چکے تھے۔۔۔ مگر اِس وقت شہباز آفندی کے لیے ضروری تھی تو صرف پریسا کی رہاعی۔۔۔ جس کے لیے وہ سر توڑ کوششیں کر چکے تھے۔۔۔ مگر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔
"ماما پلیز کول ڈاؤن۔۔۔۔ اِس طرح تو آپ اپنی طبیعت خراب کرلیں گی۔۔۔۔ پری کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ وہ لوگ اُس کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔۔۔۔ "
سفیان اپنی ماں کی خراب ہوتی حالت دیکھ فکرمندی سے اُن کے قریب آتے بولا۔۔۔
"میری بچی بہت معصوم ہے۔۔۔ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔۔ خدا کے لیے اُسے واپس لے آؤ۔۔۔"
یاسمین بیگم مسلسل روتے ایک ہی بات دوہرائے جارہی تھیں۔۔۔۔ گھر کی باقی خواتین کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔۔۔۔
اُن سب میں ایک فضہ ہی تھی جو گم صم سی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔۔۔ بینک میں جو کچھ بھی ہوا تھا اُس نے اپنی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔۔ جس میں اُسے اُن ڈاکووں کے انداز میں کہیں سے بھی ایسا نہیں لگا تھا کہ وہ پریسا کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے لے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اُس نے سب لوگوں کو آرڈر دیتے اُن کے لیڈر کے انداز میں پریسا کے لیے بہت فکر دیکھی تھی۔۔۔ جب پریسا بے ہوش ہوئی تھی۔۔۔ تو اُس شخص کا پریسا کے لیے بے اختیار انداز وہ چاہ کر بھی بھول نہیں پارہی تھی۔۔۔
اُسے معاملہ کچھ اور ہی لگا تھا۔۔۔ مگر سب کے بہت پوچھنے کے بعد بھی وہ باقی سب کو ایسا کچھ نہیں بتا پائی تھی۔۔۔۔
کیونکہ اُس کے لیے پریسا کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی اِس سب میں کوئی پریسا پر اُنگلی اُٹھائے۔۔۔۔
وہ بس دل ہی دل میں پریسا کے سہی سلامت لوٹنے کے لیے دعا گو تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں کہاں ہوں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے کسمساتے کمبل کو اپنی مُٹھیوں میں دبوچتے کروٹ بدلی تھی۔۔۔۔ رات کو جو حرکت اُس نے کی تھی۔۔۔ اور اُس کے بعد جو کچھ اُسے دیکھنا پڑا تھا۔۔۔ اُس کے خوفناک سپنے پوری رات اُسے خوفزدہ کرتے رہے تھے۔۔۔
"جہنم میں۔۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ مگر اِس کرخت آواز کے کانوں میں پڑتے ہی اُس نے لرزتی پلکیں اُٹھا کر بیڈ کے عین سامنے کھڑے شاہ ویز کو دیکھا تھا۔۔۔ اور کمبل کو مزید سختی سے اپنے گرد لپیٹ لیا تھا۔۔۔
شاہ ویز جن خون آشام نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ پریسا اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"تم ہزار کوششوں کرلو۔۔۔ مگر جب تک میں نہیں چاہوں گا۔۔۔۔ تمہارا یہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔۔۔ اور اگر دوبارہ ایسی حرکت کی تو خود اُٹھا کر تمہیں اُن بھوکے کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے قریب آکر دھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔
پریسا زرد ہوتی سہم کر بیڈ کراؤن سے جا لگی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کا یہ رُوپ ہمیشہ اُس کی جان نکال دیتا تھا۔۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کو باہر جاتا دیکھ پریسا کے لب ہولے سے ہلے تھے۔۔۔۔ جو سنتے شاہ ویز جھٹکے سے پلٹا تھا۔۔۔۔
"واٹ۔۔۔؟؟؟"
اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ اُس کے اتنے بُرے رویے کے بعد یہ لڑکی اُس سے سوری کیوں بول رہی تھی۔۔۔
"مجھ سے جو بھی غلطی سرذد ہوئی ہے۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردیں۔۔۔۔ مگر مجھے یہاں سے جانے دیں۔۔۔ پلیز۔۔۔ میرا یہاں دم گھٹ جائے گا۔۔۔۔ "
پریسا اپنا دوپٹہ اوڑھتی بیڈ سے اُترتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔ جو سیاہ پینٹ اور ہاف سلیوز بلیک ٹی شرٹ میں روشن پیشانی پر دنیا جہاں کے بل ڈالے، ہونٹ سختی سے بھینچے اُسے گھور رہا تھا۔۔۔۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال رکھے تھے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کے کسرتی کندھے اور بازو مزید نمایاں ہورہے تھے۔۔۔۔
اُسے ایک نظر دیکھ کر ہی پریسا جلدی سے نگاہیں موڑ گئی تھی۔۔۔چاہے یہ شخص اُسے کس قدر زہر ہی کیوں نہ لگتا ہو۔۔۔ مگر وہ یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتی تھی کہ وجاہت اور خوبصورتی میں اِس شخص کا کوئی ثانی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
"تو تم یہاں سے رہاعی چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُس کے قریب آنے پر چند قدم مزید آگے بڑھاتا درمیانی فاصلہ عبور کرتے اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔
"جج جی۔۔۔۔۔"
پریسا کو اُس کا یہ انداز سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔ اُس کے قریب آنے پر وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔
"یہ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے دور ہٹنے پر مزید قریب آیا تھا۔۔۔۔
وہ پچھلے دو دن سے اِسی گلابی جوڑے میں ملبوس تھی۔۔۔ مہروسہ نے اُسے ڈریس دیا تھا مگر اُس نے یہ کہہ کر اُسے وہ ڈریس واپس کردیا تھا کہ وہ سیاہ رنگ نہیں پہنتی۔۔۔ اُسے یہ رنگ بہت بُرا لگتا ہے۔۔۔۔
"کس صورت میں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا پیچھے ہوتے ہوتے دیوار سے جا لگی تھی۔۔۔۔ اُس نے گھبرا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اب دیوار پر اپنے مضبوط ہتھیلی جماتے اُسے کی جانب قدرے جھکا کھڑا تھا۔۔۔۔
"اُس گھر میں رہ کر میرے لیے کام کرنا ہوگا۔۔۔۔ سفیان اور شہباز آفندی کے خلاف جو کام میں کہوں گا وہ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی گول گول دلفریب آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے بولتا اُسے کچھ لمحوں کے لیے سن کرگیا تھا۔۔۔
"نن نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی۔۔۔۔ میں بابا کے خلاف کبھی کچھ نہیں کروں گی۔۔۔ اور سفیان۔۔۔ محبت ہیں وہ میری۔۔۔۔ اُن کے خلاف جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔"
پریسا اُسے خود سے دور دھکیلتی غصے سے بولی تھی۔۔۔ یہ شخص سوچ بھی کیسے سکتا تھا کہ وہ اِس کے گھناؤنے کام میں اِس کا ساتھ دے گی۔۔۔۔
اُس کے آخری الفاظ پر شاہ ویز اُسے لال خون ٹپکاتی نگاہوں سے دیکھتا بنا کچھ بولے جانے کے لیے پلٹا تھا۔۔۔
"کون ہو تم؟؟؟ اور کیا چاہتے ہو؟؟؟؟"
پریسا اُسے باہر جاتا دیکھ اُس کے راستے میں آتے ایڑیوں کے بل اونچا ہوتی اُس کا گریبان دونوں مُٹھیوں میں دبوچتی چلائی تھی۔۔۔۔
جبکہ اُس کی اپنے سامنے اتنی دیدہ دلیری شاہ ویز سکندر کو بھی آگ لگا گئی تھی۔۔۔۔ وہ ایک نظر اپنے گریبان پر ڈالتا ہاتھ بڑھا کر پریسا کے بال گدی سے اپنی مُٹھی میں دبوچ گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کو اُس سے ایسے کسی وحشیانہ عمل کی توقع نہیں تھی۔۔۔ وہ بالوں میں ہوتے درد سے بلبلاتی اُس کا گریبان چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
"پوری دنیا جانتی ہے میں کون ہوں۔۔۔۔ بلیک بیسٹ ہوں میں۔۔۔ جان پہلے نکالتا ہوں وجہ بعد میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ میرا مجرم کبھی مجھ سے بچ نہیں پایا۔۔۔۔ سفیان آفندی اور شہباز آفندی کی بربادی چاہتا ہوں میں۔۔۔۔ اگر میں چاہتا تو اب تک اُنہیں اُن کے انجام تک پہنچا چکا ہوتا۔۔۔ مگر میں تمہارے ہاتھوں اُن کی بربادی چاہتا ہوں۔۔۔۔ جو کہ میں کرکے رہوں گا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی گرفت اتنی سخت تھی کہ پریسا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
"دوبارہ میرے سامنے اپنے الفاظ کا چناؤ اور اپنے ہاتھوں کا استعمال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا۔۔۔۔ ورنہ اگلی بار کی سزا تم برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کا چہرا اپنے قریب لاتا اُس کی بھیگی آنکھوں میں جھانکتا وارننگ دیتے بولا تھا۔۔۔۔ قریب ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی سے محسوس کرسکتا تھا کہ یہ لڑکی اُس کے خوف سے کس بُری طرح لرز رہی ہے۔۔۔۔ چند لمحے اُس کے بھیگے خوشنما چہرے کو ایسے ہی گھورتا وہ اُس کے بال آزاد کرتا روم سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
پریسا وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا خوف کے مارے بُرا حال تھا۔۔۔ اِس شخص کے حوالے سے اُس کا خوف مزید کئی گنا بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی نفرت ٹپکاتی آنکھیں وہ چاہ کر بھی بھول نہیں پارہی تھی۔۔۔۔ آخر یہ شخص اُس کے خاندان والوں سے اتنی نفرت کیوں کرتا تھا۔۔۔۔۔
اور اِس نفرت میں ہتھیار کی طرح اُسے کیوں استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
"غنڈہ موالی کہیں کا۔۔۔۔ اللہ کرے مر جائے۔۔۔۔ جہاں جارہا ہے وہاں سے کبھی واپس نہ آئے۔۔۔ "
پریسا اپنے دکھتے بالوں کو سہلاتی روتے ہوئے بولی۔۔۔ آج تک کبھی کوئی اُس پر زور سے چلایا تک نہیں تھا۔۔۔ ایسے درد پہنچانا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اکبر سعید کے بنگلے پر سیکیورٹی کے پورے انتظامات کردیئے گئے تھے۔۔۔ بنگلے کی عمارت کے اندر قابلے اعتبار لوگوں کے سوا کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ پولیس والوں کو بھی نہیں۔۔۔۔
بلیک سٹارز نے جو تباہی مچا رکھی تھی۔۔۔ ایسے ہلکے ضمیر کے سیاست دان اپنے آدمیوں سے بھی خوف زدہ ہوچکے تھے۔۔۔۔
اُنہیں کسی پر بھی اعتبار نہیں تھا۔۔۔۔ حکومت سے کیے جانے والے اُن کے مطالبے پر اُن کی سیکورٹی مزید بڑھا دی گئی تھی۔۔۔۔۔
ایس پی حمدان اور ایس پی حبہ نے خود آگے بڑھ کر اُن کی سیکورٹی کی زمہ داری لینے کی حامی بھری تھی۔۔۔۔
وہ لوگ آج کسی بھی قیمت پر بلیک سٹارز کی کوششوں کو ناکام بنا کر اُنہیں گرفتار کرنے کے ارادے سے وہاں آئے تھے۔۔۔۔۔
"ایس پی حمدان میں نے سب کچھ چیک کرلیا ہے۔۔۔۔ عمارت کے اندر کوئی بھی مشکوک شخص موجود نہیں ہے۔۔۔۔ سب لوگ اکبر سعید صاحب کے خاص آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔"
حبہ ابھی مزید بول ہی رہی تھی جب اُس کا موبائل زور و شور سے بج اُٹھا تھا۔۔۔۔
"ایس پی صاحبہ آپ سب کچھ چیک کرچکی ہیں۔۔۔ مگر اِس بنگلے کا بیسمنٹ تو چیک ہی نہیں کرپائیں۔۔۔ "
دوسری جانب سے حازم کی گونجتی شوخ آواز پر حبہ جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔۔۔۔
جو بات اُس نے ابھی کہی تھی اُس کا جواب یہ شخص بھلا کہاں سے دے پارہا تھا۔۔۔۔۔ اُسے اپنے آس پاس حمدان کے سوا کوئی بھی دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔۔
"کیا بکواس کررہے ہو تم....؟؟؟"
حبہ دبی دبی آواز میں چلاتی ایک سائیڈ پر ہوئی تھی۔۔۔ کیونکہ اُسے سیڑھیوں سے اکبر سعید اپنے آدمیوں کے ساتھ نیچے آتے دیکھائی دیئے تھے۔۔۔۔
"بکواس نہیں حقیقت ہے۔۔۔۔ تمہارے اِس ایماندار سیاسی لیڈر نے بیسمنٹ میں دو سو کے قریب افراد کو قید کر رکھا ہے۔۔۔ جنہیں وہ آج اُوپر چلتی محفل کے دوران نیچلی راستے سے افغانستان سمگل کرنے والا ہے۔۔۔۔۔"
حازم نے نہایت ہی تحمل سے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ تم بکواس کررہے ہو۔۔۔۔۔"
حبہ کا بس نہیں چل رہا تھا فون میں سے ہاتھ ڈال کر اِس شخص کی گردن دبوچ لے۔۔۔۔۔
"میں جانتا ہوں تم میری بات پر کبھی یقین نہیں کرو گی۔۔۔۔ مگر ایک چھوٹی سی بات تو مان ہی سکتی ہو۔۔۔ خود سوچو اگر میں سچا ہوا تو دو سو لوگوں کی گنہگار ہوگی تم۔۔۔۔ ابھی جاؤ اپنے اُس ایماندار لیڈر کے پاس اور فون پر بات کرتے صرف اِس بنگلے کے بیسمنٹ کے کھلے ہونے اور اپنے پولیس والوں کو بھیجنے کی بات کرو۔۔۔۔ اگر بیسمنٹ میں کچھ نہ ہوا تو اکبر سعید کا ری ایکشن نارمل ہوگا۔۔۔ اور اگر جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہوا تو ری ایکشن نارمل کسی صورت نہیں ہوسکتا۔۔۔۔"
حازم کی بات سنتے حبہ ناچاہتے ہوئے بھی صرف اُن لوگوں کی خاطر آگے بڑھی تھی۔۔۔ اور اکبر سعید سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے حازم کے کہے الفاظ دوہرائے تھے۔۔۔
جسے سنتے ہی اکبر سعید ایسے اُچھلا تھا جیسے اُسے کرنٹ چھو گیا ہو۔۔۔۔
"کک کیا کہہ رہی ہو ایس پی۔۔۔۔ میری اجازت کے بغیر بیسمنٹ کیسے کھلوا سکتی ہو۔۔۔۔"
اکبر سعید حبہ کی جانب ایسے غصے سے بڑھا تھا جیسے اُسے ابھی کچا چبھا جائے گا۔۔۔۔ مگر راستے میں اچانک پاؤں کے نیچے کچھ آجانے پر وہ لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے بچا تھا۔۔۔۔
جبکہ حبہ تو ایسا ری ایکشن دیکھ شدید جھٹکے کے زیرِ اثر تھا۔۔۔ جس کا یہی مطلب تھا کہ اُس کا دشمن اُسے ٹھیک اطلاع دے گیا ہے۔۔۔۔۔
وہ فوراً اپنے پولیس اہلکاروں کو لیتی بیسمنٹ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ مگر وہاں داخل ہوتے اُس کا دماغ بالکل گھوم گیا تھا۔۔۔ بیسمنٹ تو بالکل خالی پڑا تھا۔۔۔ بالکل صاف و شفاف۔۔۔ جس کا یہی مطلب تھا کہ اُس نے اپنے دشمن کی بات پر یقین کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی۔۔۔
حمدان اُسے اکبر سعید کے آس پاس رہنے کا کہتا خود باہر کی سیکورٹی چیک کرنے گیا تھا۔۔۔ اور وہ بے وقوف بن کر یہاں نیچے آگئی تھی۔۔۔
حبہ کو خطرے کی بو محسوس ہوئی تھی۔۔۔ وہ فوراً اُوپر بھاگی تھی۔۔۔
"ایم این اے صاحب کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ سیڑھیوں کے قریب کھڑے ملازمین کے قریب پہنچتی چلا کر بولی۔۔۔
"کچھ دیر میں محفل شروع ہوجانی ہے۔۔۔ مہمان آنا شروع ہوچکے ہیں۔۔ وہ چینج کرنے اپنے کمرے میں گئے ہیں۔۔۔"
ملازمین کے بتانے پر حبہ شدید پریشانی کے عالم میں اُوپر روم کی جانب بھاگی تھی۔۔۔۔ وہ روم میں نہ جاکر اُس دن والی غلطی نہیں دوہرانا چاہتی تھی۔۔۔۔
دروازہ ہلکا سا ناک کرتے وہ اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں اکبر سعید کو صحیح سلامت کھڑا دیکھ اُس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔۔
"ایس پی صاحبہ اب روم میں آ ہی گئی ہیں تو ہماری تیاری میں ہی مدد کروا دیں۔۔۔۔"
وہ واپس پلٹنے ہی والی تھی۔۔۔ جب اکبر سعید کے ادا کیے جانے والے یہ الفاظ اُس کے قدم روک گئے تھے۔۔۔۔
"سر میں۔۔۔۔۔"
اُس نے سوالیہ نگاہوں سے اُس سفید داڑھی مونچھوں والے ادھیڑ عمر کے شخص کو گھورا تھا جو اِس وقت اُس کی جانب پیٹھ کیے کھڑا تھا۔۔۔۔۔ جس کی وہ بہت زیادہ عزت کرتی تھی۔۔۔۔۔
"جی آپ۔۔۔۔ وہ شال اور گھڑی پکڑا دیں مجھے۔۔۔۔ میں جھک نہیں سکتا۔۔۔ "
حبہ جو پہلی بات سن کر کافی غصے میں آچکی تھی۔۔۔ اُن کی اگلی بات پر نارمل ہوتی ٹیبل پر رکھی انتہائی قیمتی گھڑی اور شال اُٹھائے اُن کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
مگر جیسے ہی دونوں چیزیں اُس نے آگے بڑھائیں مقابل چیزیں لینے کے بجائے اُس کی کلائی دبوچ چکا تھا۔۔۔
"سر یہ کیا کررہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے شدید طیش میں آتے اُسے تھپڑ رسید کرنا ہی چاہا تھا۔۔۔ جب اُس کی دوسری ہتھیلی بھی اپنی گرفت میں جکڑ کر وہ شخص پلٹتا حبہ کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا۔۔۔۔
"ہائے کاش جو اتنی سعادت مندی سے آپ ہمارا بھی کوئی کام کردیں۔۔۔۔"
اُس کی دونوں کلائیاں دبوچ کر اپنے قریب کھینچتے حازم دلربانہ انداز میں بولتا حبہ کا تن بدن جلا کر خاک کرگیا تھا۔۔۔۔ اکبر سعید کی طرح سفید قمیض شلوار اور سیاہ واسکٹ پہنے۔۔۔ پیچھے سے حبہ کو وہ اکبر سعید ہی لگا تھا۔۔۔ حازم نے سر پر اُسی کی طرح سیاہ ٹوپی پہن رکھی تھی۔۔۔۔ مگر پلٹتے ہی اُس کا سیاہ نقاب زدہ چہرا سامنے آتے ہی حبہ کو زلزلوں کی نذر کر گیا تھا۔۔۔۔ یہ شخص پچھلے چند منٹوں سے اکبر سعید کی آواز میں بولتا اُسے بے وقوف بنا رہا تھا۔۔۔۔
اگر یہ شخص یہاں تھا تو اکبر سعید کہاں گیا تھا۔۔۔۔ اِس کا مطلب وہ اِس شخص سے ایک بار پھر ہار چکی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان باہر کی سیکورٹی چیک کرکے واپس اندر آیا تھا۔۔۔ جہاں اُسے حبہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔ وہ متلاشی نگاہوں سے چاروں جانب دیکھتا آگے بڑھا ہی تھا جب اُسے دائیں جانب سے ہیلز کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
بے اختیار وہ اُس طرف پلٹا تھا۔۔۔ جہاں سے اُسے سیاہ ساڑھی میں ایک درمیانی عمر کی عورت آتی دیکھائی تھی۔۔۔۔ اُس نے چہرے پر لباس کے ڈیزائن کا ماسک لگا رکھا تھا۔۔۔ میک اپ سے سجی آنکھوں پر نظر کی گلاسز لگارکھی تھیں۔۔۔۔ اُس کی جھڑیوں زدہ پیشانی اور جوڑے میں جکڑے سفیدی لیے بالوں سے حمدان اُس کی عمر کا اندازہ لگا پایا تھا۔۔۔
اُسے اپنی جانب آتا دیکھ حمدان وہیں رُک گیا تھا۔۔۔۔
حمدان باہر کی سیکورٹی چیک کرکے واپس اندر آیا تھا۔۔۔ جہاں اُسے حبہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔ وہ متلاشی نگاہوں سے چاروں جانب دیکھتا آگے بڑھا ہی تھا جب اُسے دائیں جانب سے ہیلز کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
بے اختیار وہ اُس طرف پلٹا تھا۔۔۔ جہاں سے اُسے سیاہ ساڑھی میں ایک درمیانی عمر کی عورت آتی دیکھائی تھی۔۔۔۔ اُس نے چہرے پر لباس کے ڈیزائن کا ماسک لگا رکھا تھا۔۔۔ میک اپ سے سجی آنکھوں پر نظر کی گلاسز لگارکھی تھیں۔۔۔۔ اُس کی جھڑیوں زدہ پیشانی اور جوڑے میں جکڑے سفیدی لیے بالوں سے حمدان اُس کی عمر کا اندازہ لگا پایا تھا۔۔۔
اُسے اپنی جانب آتا دیکھ حمدان وہیں رُک گیا تھا۔۔۔۔
"ایکسکیوزمی۔۔۔۔ میرا پرس باہر گاڑی میں رہ گیا ہے۔۔۔ کیا آپ مجھے لاکر دے سکتے ہیں۔۔۔۔"
وہ ایک ادا سے اپنی ساڑھی کا پلو سیٹ کرتی اُسے مخاطب کرتے بولی۔۔۔۔ اُس عورت کی بات سن کر حمدان کے ماتھے پر بل واضح ہوئے تھے۔۔۔ اُسے اِن سیاسی لیڈروں کی بالکل بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔ جو اُن لوگوں کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے تھے۔۔۔
مگر اِس وقت اُس نے خود اپنی مرضی سے اِن لوگوں کی سیکیورٹی کا بیڑا اُٹھایا تھا۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی اِن کے کمفرٹ کا خیال رکھنا تھا اُسے۔۔۔۔
"زبیر ادھر آؤ۔۔۔۔ اِن میڈم سے اِن کی گاڑی کا نمبر پوچھ کر اِن کے ڈرائیور سے اِن کا پرس لاکر دو۔۔۔۔"
حمدان فوراً اپنے ماتحت کو آواز دیتا اپنے مخصوص مغرورانہ انداز میں بولا تھا۔۔۔ اُس کے اِسی انداز کی ہی سامنے کھڑی لڑکی دیوانی تھی۔۔۔ اپنی گلاسز ٹھیک کرتے مہروسہ نے کن اکھیوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو اب فون کان سے لگاتا واپس مُڑا تھا۔۔۔۔
"نو۔۔۔۔ میرے پرس میں بہت امپورٹنٹ چیزیں ہیں۔۔۔ میں ایسے ہی کسی پر ٹرسٹ نہیں کر سکتی۔۔۔ پرس لینے تو آپ کو ہی جانا پڑے گا۔۔۔ مسٹر ایس پی۔۔۔۔"
مہروسہ اپنی ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے حمدان کا راستہ کاٹتی اُسے مزید تپا گئی تھی۔۔۔ مہروسہ کو کسی بھی صورت میں حمدان جو حبہ تک نہیں پہنچنے دینا تھا۔۔۔۔ جبکہ حمدان حبہ سے رابطہ نہ ہونے پر تشویش کا شکار تھا۔۔۔۔۔
"یہ میرا قابلت اعتبار آدمی ہے۔۔۔ آپ کا پرس بالکل سیلفی آپ تک پہنچا دے گا۔۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔"
حمدان بمشکل ضبط کرتے بولا تھا۔۔۔
"آپ کے لیے قابلے اعتبار ہے میرے لیے نہیں۔۔۔۔ میں ایسا کوئی رسک نہیں لے سکتی۔۔۔۔"
مہروسہ بضد تھی۔۔۔۔ دونوں بازو سینے پر باندھے وہ حمدان کے سامنے کھڑی اُس کا ضبط سے لال پڑتا چہرا دیکھ دل ہی دل میں مسکرا دی تھی۔۔۔۔ ہمیشہ یہ شخص اُسے تڑپاتا تھا۔۔۔ آج اِسے زچ کر کے اُسے بہت مزا آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"دیکھیں آپ۔۔ ۔۔"
حمدان کا ضبط بس اتنا ہی تھا۔۔۔۔ وہ شدید غصے کے عالم میں کچھ بولنے ہی والا تھا جب مہروسہ نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے وہیں روک دیا تھا۔۔۔
"آپ نہیں جانا چاہتے مت جائیں۔۔۔ میں خود ہی چلی جاتی ہوں۔۔۔ لیکن اگر باہر مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اُس کی زمہ داری آپ پر ہوگی۔۔۔۔"
مہروسہ اپنی ساڑھی کو پلو اپنے گرد مزید مضبوطی سے لپیٹتی ٹک ٹک کرتی مین گیٹ کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
حمدان کا دل چاہا تھا اِس پاگل عورت کا گلا دبا دے۔۔۔۔
سختی سے مُٹھیاں بھینچتا وہ اُس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔
"رکیں آپ۔۔۔۔۔ میں لے آتا ہوں آپ کا پرس۔۔۔۔"
حمدان اُسے وہیں رکنے کا کہتا۔۔۔ سرد تاثرات کے ساتھ باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
مہروسہ اُس کی چوڑی پشت کو دیکھتی دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔۔
مگر حمدان کو باہر گئے ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے۔۔۔ جب باہر سے ایک دم گولیوں کی پوچھاڑ شروع ہوچکی تھی۔۔۔ اندرونی حصے میں کھڑی مہروسہ کسی انہونی کے خیال سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"نن نو ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ وہ لوگ حمدان کو کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔"
مہروسہ اپنے اُوپر سے ساڑھی اُتار پھینتی اپنے حلیے میں واپس لوٹتی اپنی گنز نکالتی فوراً باہر کو بھاگی تھی۔۔۔۔ جب باہر آتے آگے کا منظر دیکھ اُس کے پاؤں زمین میں ہی جکڑے جاچکے تھے۔۔۔۔
باہر کسی نے بھی حمدان پر حملہ نہیں کیا تھا۔۔۔ بلکہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر حمدان نے خود کیا تھا۔۔۔۔ صرف اُس کی اصلیت سامنے لانے کے لیے۔۔۔۔
اُس کے چہرے پر اب بھی ماسک تھا۔۔۔۔ اُس نے واپس پلٹنا چاہا تھا۔۔۔ جب حمدان کے اشارے پر پولیس والے اُسے چاروں جانب سے گھیر چکے تھے۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگا۔۔۔ ہر بار تم لوگ ہمیں بے وقوف بنا کر نکل جاؤ گے۔۔۔ اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔۔۔۔ مس مہروسہ کنول تمہاری اِس آنکھ مچولی کا کھیل اب ختم ہوا۔۔۔ اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔"
حمدان بندوقوں میں گھری کھڑی مہروسہ کے قریب آتا اُسے نفرت آمیز نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔
مگر اُسے مہروسہ کی آنکھوں میں اِس مقام پر پہنچ کر بھی خوف کی زرا دی رمق بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔
حمدان اُس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔۔۔ مہروسہ اِس وقت سیاہ لباس میں ملبوس تھی۔۔۔۔ اُس نے اوپر لیا ساڑھی کا کپڑا آتے ہوئے اُتار پھینکا تھا۔۔۔۔ گلاسز بھی اُتر چکی تھیں۔۔۔۔ جس سے اُس کی میک اپ سے سجی قاتل نگاہیں حمدان کے سامنے آچکی تھیں۔۔۔۔
اُس نے ہاتھ بڑھا کر مہروسہ کے چہرے سے ماسک ہٹانا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر مہروسہ نے سر جھٹکتے چہرا فوراً نیچے کرلیا تھا۔۔۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی حمدان اِس سچویشن میں اُس کا چہرا دیکھے۔۔۔۔۔
مگر اُس کی اِس حرکت پر حمدان سختی سے اُس کی کلائی اپنی گرفت میں دبوچتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ جہاں پہلے ہی پوری ٹیم تیار کھڑی تھی۔۔۔ حمدان اب اُسے فرار ہونے کی زرا سی مہلت نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مہروسہ نے نگاہیں اُٹھا کر دائیں جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں کھڑے جنید نے ہاتھ سے اُس کی جانب وکٹری کا سائن بنا کر اُسے اپنی پہلی کامیابی پر مبارک باد دی تھی۔۔۔
مہروسہ نے مسکراتی نگاہوں سے سر ہلا کر اپنے ساتھ چلتے حمدان کو دیکھا تھا۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم۔۔۔ تم یہاں ہو تو اکبر سعید کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ تم نے اُنہیں بھی مار دیا کیا۔۔۔۔؟؟"
حبہ شاک کی کیفیت میں ایک دم سامنے کا بدلتا منظر دیکھتے بولی۔۔۔۔
"ارے۔۔۔ تم اتنا ظالم کیوں سمجھتی ہو مجھے۔۔۔ میں اتنا بُرا بھی نہیں ہوں۔۔۔۔"
حازم اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
"تم گھٹیا انسان۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔"
حبہ اُس کے پیٹ میں زور دار پنچ رسید کرتی اُس پر دھاڑی تھی۔۔۔۔
"تم کبھی نارمل رہ کر بات نہیں کرسکتی کیا۔۔۔۔؟؟؟"
حازم اُس کی ٹھوڑی کو چھوتا اُسے مزید آگ لگا گیا تھا۔۔۔
"تم لوگ آخر چاہتے کیا ہو۔۔۔ اکبر سعید تو اچھا انسان تھا نا۔۔۔ اُسے کیوں مار دیا۔۔۔۔ اُس کے ساتھ کیا دشمنی تھی تمہاری۔۔۔۔۔ اور اتنے دنوں سے اُس معصوم لڑکی کو کیوں اغوا کر رکھا ہے۔۔۔ کیا بگاڑا ہے اُس نے تمہارا۔۔۔۔ ؟؟؟"
حبہ اُس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے زہر خند لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"وہ کیا ہے نا کہ آج تک تمہارے کسی سوال کا ٹھیک سے جواب اِس کیے نہیں دے پاتا۔۔۔ کیونکہ مجھے صرف پیار اور نرمی کی زبان سمجھ آتی ہے۔۔۔ ایک بار پیار سے مخاطب کرکے تو دیکھو سب کچھ بتا دوں گا۔۔۔۔"
حازم نے ہاتھ بڑھا کر اُس کی چین کو باہر نکالا تھا۔۔۔ جو اُن نے اپنے گریبان کے اندر چھپا رکھی تھی۔۔۔۔
حبہ اب بنا مزاحمت کیے اُس کی گرفت میں خاموشی سے کھڑی اُسے غصیلی نگاہوں سے گھور رہی تھی۔۔۔۔ یہ شخص اُسے دنیا کا سب سے بڑا سائیکو معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔
جو کبھی کوئی سیدھی بات تو کر ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
"تم مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔۔؟؟؟ میری دل سے بد دعا ہے۔۔۔ کہ تم بلیک سٹارز نست و نابود ہوجاؤ۔۔۔۔ جیسے تم لوگ دوسروں کے گھر اُجاڑ رہے ہو۔۔۔ ویسا ہی حال تم لوگوں کے ساتھ بھی ہو۔۔۔۔"
حبہ اُس کی شرٹ سینے سے دونوں مُٹھیوں میں دبوچتی اُسے دل سے بد دعا دے گئی تھی۔۔۔۔ جس پر کچھ لمحے اُسے گہری نگاہوں سے دیکھتے حازم اُسے اپنے قری تر کر گیا تھا۔۔۔ اتنا کہ حبہ کو اُس کی گرم سانسوں سے اپنا چہرا جھلستا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"تمہاری دی گئی بد دعا بھی سر آنکھوں پر ایس پی صاحبہ۔۔۔ مگر کہیں ایسا نہ ہو میرے مرنے پر سب سے زیادہ آنسو بھی کہیں تم ہی بیٹھ کر نہ بہا رہی ہو۔۔۔ اور رہی بات گھر اُجڑنے کی۔۔۔ تو جن کے گھر ہوں ہی نہ اُنہیں اُجڑنے کا کیا ڈر۔۔۔۔۔ "
حازم اُس کے ماتھے پر لب رکھتے بولتا حبہ کو کچھ لمحے کے لیے مسمرائز کرگیا تھا۔۔۔۔ حبہ یک ٹک اُسے تکے گئی تھی۔۔۔۔
"کون ہو تم؟؟؟؟"
حبہ کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔
"اپنی شناخت بہت پہلے سے تمہارے گلے میں پہنا دی ہے۔۔۔۔۔ کھول کے دیکھ لو۔۔۔۔"
حازم کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جب اُسے اپنے سینے پر کوئی نوکیلی شے محسوس ہوئی تھی۔۔۔
حبہ اُسے باتوں میں لگا کر اُس کے سینے پر اپنی گن رکھ چکی تھی۔۔۔۔
"گن رکھی ہے تو گولی بھی چلا دو۔۔۔۔۔"
حازم اُس کے دلکش نقوش کو آنکھوں میں سجاتا دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔۔۔
"اکبر سعید کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ تم کیوں نقصان پہنچانا چاہتے ہو اُنہیں۔۔۔۔"
حبہ آنکھوں میں نفرت لیے اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔
"اکبر سعید بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔ ساتھ والے کمرے میں سکون کی نیند سو رہا ہے۔۔۔۔۔ ہم یہاں اُسے یا باقی آئے مہمانوں کو نقصان پہنچانے نہیں آئے تھے۔۔۔ بلکہ اپنے کسی بہت اہم مقصد سے آئے تھے۔۔۔ جو کہ اب پورا ہوچکا ہے۔۔۔۔۔ بلیک سٹارز کون ہیں۔۔۔؟ کہاں سے آئیں ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اِن سوالات کے جوابات تم لوگوں کو تب تک نہیں مل پائیں گے جب تک ہم خود نہیں چاہیں گے۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک سوال کا جواب اب تمہیں خود ہی ڈھونڈنا ہوگا۔۔۔ بلیک سٹارز نے اب تک کتنے گھر برباد کیے ہیں۔۔۔ کتنے مظلوموں پر ظلم کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ اور مجھے بہت انتظار رہے گا تمہارے اِس سوال کے جواب کا۔۔۔۔"
حازم اُسے کچھ بھی بتانے کے بجائے مزید اُلجھا چکا تھا۔۔۔
اُس نے سینے پر بندوق تو تان لی تھی۔۔۔ مگر وہ اس شخص کو مار نہیں سکتی تھی۔۔۔۔۔
"میں وعدہ کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔ تمہارے منہ سے تمہارا ایک ایک گناہ اگلوا کر اپنے ہاتھوں سے ماروں گی تمہیں۔۔۔۔"
حبہ گن پیچھے ہٹا چکی تھی۔۔۔۔
حازم نے اُسے اپنی گرفت سے آزاد ابھی بھی نہیں کیا تھا۔۔۔ مگر حبہ کے لیے یہ بات بھی سب سے زیادہ حیرت کی بات تھی کہ اِس درندے کی گرفت اُس کے لیے ہمیشہ بہت ہی نرم ہوا کرتی تھی۔۔۔
"میں بھی وعدہ کرتا ہوں۔۔۔ تم سے شادی کیے بغیر تو اِس دنیا سے رخصت نہیں ہونگا۔۔۔۔"
حبہ کے گال پر اپنے ہونٹوں کا نشان چھوڑتا وہ ہر بار کی طرح اِس بار بھی اُس کی دونوں کلائیاں اپنے سکارف سے باندھ چکا تھا۔۔۔۔
"آئی ول کل یو۔۔۔۔۔"
اُس کے لمس پر حبہ چلائی تھی۔۔۔۔
"بٹ آئی لو یو مائی لو۔۔۔۔۔"
حازم دور سے اُس کی جانب فلائنگ کس اُچھالتا کھڑکی سے باہر جمپ کر گیا تھا۔۔۔ کیونکہ اُسے جنید کا میسیج موصول ہوچکا تھا۔۔۔ اُن کے پلان کے مطابق مہروسہ ایس پی حمدان کی قید میں جاچکی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کا پورا گھر جل رہا تھا۔۔۔ وہ چلا رہا تھا۔۔۔ روک رہا تھا اُن لوگوں کو۔۔۔ مگر اُس کے ہاتھ پیر باندھ کر اُسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا تھا۔۔۔۔
وہ بے بسی سے اپنوں کو آگ میں زندہ جلتے دیکھتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
وہ رو رہا تھا چلا رہا تھا۔۔۔ مگر کوئی اُس پر رحم نہیں کھا رہا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کا سب کچھ خاک ہوگیا تھا۔۔۔ مگر وہ کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
سیاہ پردوں سے سجا وہ سیاہ کمرہ اِس وقت پوری طرح تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔ جس کے بیچوں بیچ پڑے بیڈ پر لیٹا وہ وجود آج پھر اپنی زندگی کے سب سے بھیانک خواب کے زیرِ اثر اذیت میں تھا۔۔۔۔
اُس کا پورا وجود پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔۔۔۔ تکیے پر سر ادِھر اُدھر مارتا وہ بیڈ شیٹ کو اپنی مُٹھیوں میں دبوچے ہوئے تھا۔۔۔۔ اُس کی بند آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ مت مارو انہیں۔۔۔۔ چھوڑ دو انہیں۔۔۔ مت جلاؤ۔۔۔ مت مارو۔۔۔۔۔ وہ جل رہے ہیں۔۔۔ کوئی تو بچاؤ اُنہیں۔۔۔۔"
وہ آنکھیں کھولتا زور سے دہاڑا تھا۔۔۔۔ اُس کی شیر کی سی للکاڑ روم کے باہر سے گزرتی پریسا آفندی کو خوف کے مارے لڑکھڑانے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔
"یی۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔؟؟ کون کس کو جلا رہا ہے۔۔۔؟؟ یہ شخص اِس طرح کیوں چلا رہا ہے۔۔۔۔"
پریسا تشویش زدہ سی آگے بڑھتی اُس کمرے کے سیاہ دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ وہ اپنی جگہ پتھر کی ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ بھیانک خواب سے ڈرا ہوا شخص کوئی اور نہیں اِس بلیک ہاؤس کا بلیک بیسٹ تھا۔۔۔۔
وہ پل بھر میں دوسروں کی گردنیں اُڑا دینے والا شاہ ویز سکندر تھا۔۔۔ جو اِس وقت انتہائی قابلے رحم حالت میں تھا۔۔۔۔
پریسا نجانے کس احساس کے تحت اُس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ بیڈ پر سر جھکائے بیٹھا وہ شخص اسے کہیں سے بھی بلیک بیسٹ نہیں لگا تھا۔۔۔
"آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اُس کے قریب جاتے کمزور سی آواز میں پوچھا تھا۔۔۔۔
اُس کی پکار پر شاہ ویز نے جھٹکے سے سر اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔ چند لمحے اُسے خالی خالی نگاہوں سے گھورتے وہ اُس کی کلائی اپنی گرفت میں لیتا اگلے ہی لمحے اُسے اپنی جانب کھینچتا اپنے حصار میں لے چکا تھا۔۔۔
پریسا اِس غیر متوقع عمل پر گھبرا گئی تھی۔۔۔
"تم وعدہ کرو کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی۔۔۔۔ نہیں رہ سکتا میں تمہارے بغیر۔۔۔۔۔ تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کتنی ضروری ہو تم میرے لیے۔۔۔۔"
پریسا کو اپنی متاعِ جاں کی طرح اپنے سینے میں بھینچے بولتا وہ اُسے ساکت کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے مضبوط لمس میں پھڑپھڑاتی وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی۔۔۔
یہ شخص کیا بول رہا تھا۔۔۔۔ کیا یہ سب اُس کے لیے تھا؟؟؟
نہیں وہ تو اُسے جانتی تک نہیں تھی۔۔۔ یہ شخص اُس کے لیے ایسا کیسے بول سکتا تھا۔۔۔۔
وہ خود کو اُس کی مضبوط گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ مگر وہ ایسا کرنے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔
"چھچ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے اِس جنونی لمس سے گھبرا گئی تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد جاکر اُس کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی۔۔ شاید وہ اِس وقت نیند میں ہی تھا۔۔۔ اور اب دوبارہ غنودگی میں جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے پریسا جلدی سے اُس کی گرفت سے نکلتی وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔
دروازے پر پہنچتے اُس نے پلٹ کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا.۔۔۔ جو اب تکیے پر سر رکھے بے سدھ پڑا تھا۔۔۔
جس شخص کے رعب و دبدے سے اِس بلیک ہاؤس کا ایک ایک فرد ڈرتا تھا۔۔۔ جس کی دہشت ملک کی نامور شخصیات سے لے کر عام شخص کے دل میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے تھی۔۔۔
اُس کا ایک رُوپ ایسا بھی ہوسکتا تھا پریسا کو یقین نہیں آیا تھا۔۔۔ دوسروں کو اذیت میں ڈالنے والا یہ شخص خود بھی اِس قدر اذیت کا شکار کیسے تھا۔۔۔۔؟؟؟
پریسا کا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا۔۔۔۔ اُسے بے اختیار خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔ اگر شاہ ویز سکندر کو پتا چل گیا کہ وہ اُسے رات کو اِس حال میں دیکھ چکی ہے تو وہ اُس کا کیا حشر کرے گا۔۔۔۔
پریسا خود کو جی بھر کر لعنت ملامت کرچکی تھی۔۔۔ کہ اُسے ضرورت ہی کیا تھی رحم کھا کر اُس شخص کے قریب جانے کی۔۔۔۔۔
اِن سب خیالات سے اُلجھتے اچانک پریسا کے کانوں میں شاہ ویز کے کہے الفاظ دوہرائے تھے۔۔۔۔
"کیا یہ وحشی انسان کسی سے محبت کرتا تھا۔۔۔ اور وہ لڑکی اِسے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔ یہ آخر کس کے بارے میں بات کررہا تھا۔۔۔۔۔ اِس کے چنگل سے بھلا کوئی لڑکی کیسے بچ کر جاسکتی ہے۔۔۔ اگر یہ اُس لڑکی سے محبت کرتا ہوتا تو اُسے زبردستی اپنے پاس بھی رکھ سکتا تھا۔۔۔۔ کہیں وہ لڑکی مر تو نہیں گئی۔۔۔ جس کی وجہ سے یہ اتنا پاگل درندہ بن چکا ہے۔۔۔۔"
پریسا کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ اِنہیں اُلٹی سیدھی سوچوں میں اُلجھتے کب اُس کی آنکھ لگی تھی اُسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آپ نے کل سے کھانا کیوں نہیں کھایا۔۔۔۔؟؟؟ اب یہ تو آپ کی پسند کا ہے نا۔۔۔"
اُس کے کمرے میں ناشتے کی ٹرے لے کر داخل ہوتی اقرا نے اُسے گم صم بیٹھے دیکھ پوچھا تھا۔۔۔۔
پریسا کو وہاں جو پروٹوکول مل رہا تھا۔۔۔ کبھی کبھی وہ اُس پر بھی حیران رہ جاتی تھی۔۔۔ اگر اِن لوگوں کی اُس سے اور اُس کے گھر والوں سے دشمنی تھی تو شاہ ویز کے علاوہ باقی سب کا اُس سے رویہ اتنا اچھا کیوں تھا۔۔۔
اُسے اُس کی پسند کی ہر شے کیوں مہیا کی جارہی تھی۔۔۔ جو بھی تھا مگر وہ اتنا تو جان گئی تھی کہ اُس بلیک بیسٹ کی مرضی کے سوا اِس بلیک ہاؤس میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔۔۔۔
"مجھے بھوک نہیں تھی۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے نارمل انداز میں جواب دیا تھا۔۔۔۔
اُس کا دل شاہ ویز کے خوف سے لرز رہا تھا۔۔۔۔
"ابھی تو بھوک لگی ہوگی نا۔۔۔ ابھی کھا لیں۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھوں آپ سے۔۔۔"
پریسا نے اقرا کے سوال پر چونک کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"جج جی پوچھیں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا بمشکل اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا تھا۔۔۔
"رات کو کہیں آپ شاہ سر کے کمرے میں تو نہیں گئی تھیں۔۔"
اقراء نے کھوجتی نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"نہیں تو۔۔۔ مجھے بھلا کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں اُس کے کمرے میں جاؤں گی۔۔۔۔"
پریسا نے فوراً انکار کیا تھا۔۔۔
"آپ یہ کیوں پوچھ رہیں ؟"
پریسا نے کپکپاتی اُنگلیوں کو مڑورتے سرسری سا سوال کیا تھا۔۔۔
"نہیں وہ سر کے روم میں جانے کی ہم میں سے کسی کو اجازت نہیں ہے۔۔۔ آپ نے دیکھا ہوگا اُن کا روم الگ ایریا میں سب سے الگ تھلگ ہے۔۔۔۔ رات کے وقت کوئی وہاں نہیں جاتا۔۔۔۔ سر کو لگ رہا ہے کہ کل رات کوئی اُن کے روم میں اُن کے پاس آیا ہے۔۔۔ مگر اُنہیں یاد نہیں وہ کون تھی۔۔۔۔۔ اگر اُنہیں یاد آگیا تو خیر نہیں اُس لڑکی کی۔۔"
اقراء نے آج پہلی بار اُس سے اتنی تفصیل سے بات کی تھی۔۔۔۔
"آپ یہ کیوں پوچھ رہیں ؟"
پریسا نے کپکپاتی اُنگلیوں کو مڑورتے سرسری سا سوال کیا تھا۔۔۔
"نہیں وہ سر کے روم میں جانے کی ہم میں سے کسی کو اجازت نہیں ہے۔۔۔ آپ نے دیکھا ہوگا اُن کا روم الگ ایریا میں سب سے الگ تھلگ ہے۔۔۔۔ رات کے وقت کوئی وہاں نہیں جاتا۔۔۔۔ سر کو لگ رہا ہے کہ کل رات کوئی اُن کے روم میں اُن کے پاس آیا ہے۔۔۔ مگر اُنہیں یاد نہیں وہ کون تھی۔۔۔۔۔ اگر اُنہیں یاد آگیا تو خیر نہیں اُس لڑکی کی۔۔"
اقراء نے آج پہلی بار اُس سے اتنی تفصیل سے بات کی تھی۔۔۔۔
اُس کی بات سن کر پریسا کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔۔۔
"واہ کافی حیرت کی بات ہے۔۔۔۔ یہاں کا بلیک بیسٹ بھی کسی سے دھوکا کھا گیا۔۔۔۔ ویسے تو وہ بہت بڑا بنا پھرتا ہے۔۔۔ ایسی بھی کیا نیند تھی اُس کی کے کوئی اُس کے روم میں آکر چلا گیا اور اُسے پتا بھی نہیں چلا کہ وہ کون تھا۔۔۔۔ "
پریسا اقراء کے منہ سے اصل بات اُگلوانا چاہتی تھی۔۔۔ رات کو شاہ ویز جس کیفیت کے زیرِ اثر تھا اُس کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
"رات کو کیا ہوا اِس بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتی ہاں اتنا جانتی ہوں کہ شاہ سر جیسا مضبوط اور باکردار انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔ اُنہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو اُس وقت سہارا دیا جب ہمارے اپنے بھی ہمیں دھتکار چکے تھے۔۔۔۔۔ شاہ سر کو نہ کبھی کوئی ہرا سکتا ہے۔۔۔ نہ توڑ سکتا ہے۔۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی قائم و دائم رہیں گے۔۔۔۔ جیسے آسمان پر سورج تن تنہا چمکتا ہے۔۔۔ ویسے ہی وہ ہم سب کے لیے زمین کا سورج ہیں۔۔۔۔ جو ہم سب کو اپنی روشنی مہیا کرکے ہماری زندگیوں میں اُجالے بخش رہے ہیں۔۔۔۔ "
اقراء کے لہجے میں شاہ ویز کے لیے عقیدت، محبت اور نجانے کیا کچھ تھا۔۔۔ پریسا نے نوٹ کیا تھا کہ شاہ ویز کے لوگ جب بھی اُس کا ذکر کرتے تھے۔۔۔ اُن سب کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آجاتی تھی۔۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟ ایسا کیا کیا ہے اُس شاہ سکندر نے تم لوگوں کے لیے۔۔۔۔ دوسروں کا مار کر ان سے اُن کی زندگیاں چھیننے والا۔۔۔ بھلا کسی کی زندگی میں روشنیاں کیسے بھر سکتا ہے۔۔۔۔۔ "
پریسا کو اقراء کی باتیں بہت عجیب لگی تھیں۔۔۔ وہ رات سے شاہ ویز کی حالت دیکھ پہلے ہی کشمکش کا شکار تھی۔۔۔۔ اب اُس کی الجھنیں مزید بڑھ گئی تھیں۔۔۔۔
"آپ اور آپ کی دنیا کے لوگ کبھی نہیں سمجھ سکو گے کہ بلیک بیسٹ آخر کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ مجھے آج کسی ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔ آپ یہ کھانا کھا لینا۔۔۔۔ شاہ سر کو ایسے نخروں سے سخت چڑ ہے۔۔۔۔ ایسے نہ ہو کوئی بڑی پنشمنٹ مل جائے آپ کو۔۔۔۔ ویسے آپ جتنی نازک سی ہیں۔۔۔ مجھے تو اب یہی لگتا ہے کہ شاہ سر بھی آپ کو کوئی پنشمنٹس دینے سے ڈرتے ہیں۔۔۔۔ "
اقراء آخر میں اُس کا مذاق بناتی روم سے نکل گئی تھی۔۔۔
جبکہ جاتے جاتے پریسا کو ایک نیا آئیڈیا دے گئی تھی۔۔۔۔
"تھینکیو اقراء۔۔۔۔۔ اب تو میں تمہارے اُس شاہ سر کو اتنا ستاؤں گی کہ خود ہی مجھے واپس میرے گھر چھوڑ آئے گا۔۔۔۔۔"
پریسا سامنے رکھی کھانے کی ٹرے کو سائیڈ پر کرتی باہر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
ایک روم میں بند رکھنے سے اُس کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے اب اُسے آزادی سے باہر گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔۔۔۔
"بات سنو۔۔۔۔۔ وہ بلیک بیسٹ کدھر ہے۔۔۔۔ مجھے بات کرنی ہے اُس سے۔۔۔۔۔"
پریسا سامنے گن اُٹھائے کھڑے گارڈ کے پاس آتے بولی۔۔۔
وہاں سب کے چہرے اتنے پتھریلے اور احساس سے عاری ہوتے تھے کہ پریسا کو اُن سے بات پوچھتے ہوئے بھی خوف آتا تھا۔۔۔
"ابھی باہر گئے ہیں کسی کام سے۔۔۔۔ رات تک واپس آئیں گے۔۔۔۔"
گارڈ اُسے جواب دیتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
"اب رات کو پتا نہیں کس ٹائم واپس آئے۔۔۔۔ رات تک کیسے بھوکی رہوں گی۔۔۔۔"
پریسا بُرا سا منہ بناتی وہیں لان میں پرے سنگی بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ اقراء نے کل ہی اُسے اُس کی پسند کا کریم کلر کا نہایت خوبصورت ڈریس لاکر دیا تھا۔۔۔ جس کے اُوپر گولڈن ایمبرائیڈری کی گئی تھی۔۔۔۔
شاور لینے کے بعد اُس نے بالوں کو خشک ہونے کے لیے کمر پر کھلا چھوڑ رکھا تھا۔۔۔۔
سیاہ پھولوں کے بیچ و بیچ بیٹھی وہ ایسے دکھ رہی تھی جیسے اِس وقت بلیک ہاؤس میں کوئی پری پرستان کا راستہ بھول کر آن نکلی ہو۔۔۔۔
اپنے گلابی ہونٹوں کو دانتوں سے کچلتی وہ سامنے سیاہ گلابوں کے بیچ گھرے نظر آتے شاہ ویز کے کمرے کو گھور رہی تھی۔۔۔۔
"آخر اِس انسان کا سچ ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟ اگر یہ اتنا بُرا ہوتا تو مجھے پوری دنیا کے سامنے اغوا کرکے لانے کے بعد ایسے شاہانہ طریقے سے بالکل بھی نہ رکھتا۔۔۔۔ مگر جو انسان دوسروں کو اتنی بے دردی سے مارتا ہے وہ بھلا ایک اچھا انسان کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ کہیں یہ لوگ میرے ساتھ یہ اچھا برتاؤ کرنے کا صرف ناٹک کررہے ہیں۔۔۔ تاکہ میں سفیان اور بڑے پاپا کے خلاف کام کرکے اِن کی مدد کرسکوں۔۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔ وہ اقراء بھی تو اُسی کی ساتھی ہے۔۔۔ جان بوجھ کر اُسی کے کہنے ہر میرے سامنے اُس کی تعریفیں کررہی تھی۔۔۔۔ نہیں مجھے اِن لوگوں کے جال میں نہیں پھنسنا۔۔۔۔ دوسروں کی زندگیاں چھین کر ان کے گھر اُجاڑنے والے ، بینک پر ڈاکا ڈال کر لوگوں کی حق حلال کی کمائی لوٹنے والے اور یوں مجھ جیسی لڑکیوں کو اغوا کرکے بدنام کرنے والے اچھے انسان نہیں ہوسکتے۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ مجھے اب یہاں سے صرف نکلنا نہیں ہے۔۔۔ بلکہ کوئی ایسے ثبوت اکٹھے کرکے لے جانے ہیں جس سے اِن لوگوں کو پکڑوا سکوں۔۔۔۔"
پریسا دل ہی دل میں خود سے عہد کرتی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کے روم کے آس پاس اِس وقت بھی کوئی موجود نہیں تھا۔۔۔ وہ وہاں جاکر آرام سے اُس کے خلاف کوئی بھی ثبوت ڈھونڈ سکتی تھی۔۔۔۔ اُس نے تو ویسے بھی رات کو لوٹنا تھا۔۔۔
پریسا نے وہاں پھولوں کے قریب جاکر خوشبو سونگتے کن اکھیوں سے اردگرد دیکھا تھا۔۔۔ وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ وہ ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر اندر گھس گئی تھی۔۔۔۔۔
اُس کی نگاہیں سب سے پہلے بیڈ کی جانب گئی تھیں۔۔۔ جس کی سیاہ بیڈ شیٹ اور سیاہ کمفرٹر نفاست سے سمیٹ کر رکھا گیا تھا۔۔۔ ہر شے اپنی جگہ پر ترتیب سے رکھی گئی تھی۔۔۔
اِس روم میں گزرا رات کا منظر یاد کرتے پریسا کا دل نجانے کس احساس کے ساتھ زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
وہ رات کو کچھ لمحے کے لیے ہی سہی مگر اُس وحشی کی بانہوں میں تھی۔۔۔ اور پہلی بار اُس شخص کے لمس میں سختی نہیں حد درجہ نرمی تھی۔۔۔۔ جو رات سے پریسا کا دل بے چین کیے دے رہی تھی۔۔۔ مگر وہ اِس بے چینی کی وجہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔۔
دبے قدموں چلتی وہ ابھی بیڈ کے قریب پہنچی ہی تھی۔۔۔ جب زور دار دھماکے کے ساتھ کسی نے روم کا دروازہ بند کیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اِس افتاد پر لرزتے وجود کے ساتھ پلٹ کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں بند دروازے کے آگے کھڑے شاہ ویز سکندر نے دیکھ پریسا کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان مہروسہ کو لے کر پولیس اسٹیشن نہیں گیا تھا۔۔۔ وہ پچھلی بار کی طرح اُس کے گینگ کا کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اُس نے مہروسہ کو ایک نہایت ہی خفیہ جگہ پر رکھا تھا۔۔۔۔۔
وہ مہروسہ کو وہاں باندھ کر ابھی اُسے اُس کے اصلی حلیے میں لانے ہی والا تھا۔۔۔ جب گھر سے آنے والی کال نے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھسکا دی تھی۔۔۔۔
مریم چھت سے گر گئی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کی حالت کافی سیریس تھی۔۔۔۔ حمدان اپنے مقابلے اعتبار پولیس اہلکاروں کو مہروسہ کی نگرانی کرنے کا کہتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔ اُس نے راستے میں حبہ کو بھی مہروسہ کے پاس پہنچنے کی اطلاع کردی تھی۔۔۔۔
اُس کے لیے اِس وقت سب سے اہم مریم کے پاس پہنچنا تھا۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ ہاسپٹل پہنچا۔۔ مریم کے سر پر چھوٹی سی پٹی بندھی دیکھ اور اُسے صحیح سلامت بیٹھ کر سوپ پیتے دیکھ حمدان کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا تھا۔۔۔۔
"تم تو بالکل ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟"
مریم جو حمدان کو اتنی پریشانی کی حالت میں وہاں آتا دیکھ پھولے نہیں سماں رہی تھی۔۔۔۔ اُس کے کرخت لہجے میں دھاڑنے پر اُس کے ہاتھ سے سوپ کا پیالہ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔۔۔۔
"ہاں وہ معمولی سی چوٹ آئی تھی۔۔۔۔ مگر میں آپ کو بہت مس کررہی تھی۔۔۔ اِس وجہ سے میں۔۔۔۔"
مریم مزید بول نہیں پائی تھی کیونکہ حمدان اُس کی فضول ترین بات بیچ میں ہی کاٹ چکا تھا۔۔۔۔
"واٹ ربش۔۔۔۔ تمہارا دماغ خراب ہوچکا ہے۔۔۔۔ میں وہاں اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر آیا ہوں۔۔۔ صرف تمہاری اِس فضولیات کے پیچھے۔۔۔۔ تمہاری اِس بے وقوفی کا تو میں تمہیں واپس آکر اچھے سے جواب دیتا ہوں۔۔۔۔"
حمدان سب گھر والوں کے سامنے اُس کی عقل ٹھکانے لگاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
فرح کی مسکراتی صورت دیکھ مریم کا رنگ بےعزتی کے مارے لال ہوا تھا۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میرا بھائی تم سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اور تمہارے ایک بار کہنے سے تمہاری چارپائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ جائے گا۔۔۔۔ بھول ہے تمہاری کہ یہ چال بازیاں حمدان کے آگے چل پائیں گی۔۔۔۔ اُس کے لیے تم محبت نہیں ایک زمہ داری ہو۔۔۔ جسے وہ اپنے گلے میں طوق کی طرح صرف باندھنے پر مجبور ہے۔۔۔۔۔"
فرح مریم اور اُس کے گھر والوں پر ایک استہزایہ نگاہ ڈالتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔ آج حمدان کا مریم کے ساتھ برتاؤ دیکھ وہ بہت زیادہ خوش تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سر ایک بہت بُری خبر ہے۔۔۔۔"
حمدان نے گاڑی میں بیٹھ کر انسپکٹر کو کال ملائی تھی۔۔۔ جنہیں وہ وہاں مہروسہ کے پاس چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔۔۔
"سر جس جگہ پر اُس لڑکی کو ہم نے بے ہوش کرکے باندھ رکھا تھا وہاں آگ لگ گئی ہے۔۔۔۔ کوئی شے نہیں بچی۔۔ سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ہے۔۔۔۔ اور وہ لڑکی بھی۔۔۔۔"
انسپکٹر کی بات سن کر حمدان نے گاڑی کو زور دار بریک لگائی تھی۔۔۔۔
"کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔۔۔؟؟؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ وہاں آگ کیسے لگ سکتی ہے۔۔۔۔ یہ اُن بلیک سٹارز کا ہی کیا دھڑا ہے۔۔۔۔ اُس لڑکی کو وہاں سے نکال کر انہوں نے یہ سب صرف ہمیں گمراہ کرنے کے لیے کیا ہے۔۔۔۔"
حمدان کسی طور اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔۔۔
"سر میں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ فل ٹائم یہاں موجود رہا ہوں۔۔۔ آگ لگنے سے پانچ منٹ پہلے میں اُس روم سے باہر آیا تھا۔۔۔ تب تک نہ تو کوئی وہاں آیا تھا نہ اُس لڑکی کو ہوش آیا تھا۔۔۔۔ پانچ منٹ کے اندر شاٹ سرکٹ ہونے کی وجہ سے ایسی آگ بھڑکی کے ہم اُس لڑکی کو بچا نہیں پائے۔۔۔ ابھی ریسکیو ٹیم کو وہاں سے ایک لڑکی کی جلی ہوئی لاش ملی ہے۔۔۔ جس کے چہرے کی شناخت نہیں رہی۔۔۔۔۔"
انسپکٹر کی بات سن کر حمدان کا دل چاہا تھا یہ گاڑی کہیں دے مارے یا پھر جاکر مریم کا گلا دبا دے۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ بلیک سٹارز کے نہایت قریب پہنچ کر واپس اُسی مقام پر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ فوراً وہاں پہنچا تھا مگر انسپکٹر نے اُسے جو بھی بتایا تھا وہ بالکل سچ تھا۔۔۔۔ وہ آگ کسی کی سازش نہیں بلکہ حادثاتی طور پر لگی تھی۔۔۔
"لگتا ہے قدرت بھی اِن بلیک سٹارز کے ساتھ ہے۔۔۔۔ ہر بار اِنہیں کی جیت کیسے ہوجاتی ہے۔۔۔۔؟؟؟".
حبہ حمدان کے پاس آن کھڑی ہوتی تھکے تھکے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔
"جیت نہیں آج ہمارے ساتھ ساتھ اُن کی بھی ہار ہوئی ہے۔۔۔۔ اُن کی تیسری گینگ لیڈر مر چکی ہے۔۔۔۔"
حمدان کی نگاہوں کے سامنے مہروسہ کا معصومیت بھرا چہرا جگمگاتا اُس کے اندر کہیں ایک چھوٹی سے پھانس چبھو گیا تھا۔۔۔۔
وہ لڑکی زندگی جلی تھی۔۔۔۔ کتنی بری گناہگار سہی مگر حمدان کسی پر بھی اُس کا جرم ثابت ہوئے بغیر اُسے اتنی بری سزا نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ جو اُس لڑکی کو مل چکی تھی۔۔۔۔۔۔
"اگر ایسا واقعی ہے تو وہ لوگ اب ملک میں مزید تباہی مچائیں گے۔۔۔۔ اور اگر اِس سب کی خبر اُوپر تک پہنچ گئی تو ہم دونوں کی الگ انکوائری بیٹھ جانی ہے۔۔۔۔"
حبہ خود بھی عجیب سے احساسات کا شکار ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ حمدان اُسے تسلی دیتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ بہت خراب موڈ کے ساتھ گھر لوٹی تھی۔۔۔۔ نجمہ بیگم اور صبا کے ساتھ اُس کی بات چیت بحال ہوچکی تھی۔۔۔
"ماما۔۔۔ صبا کہاں ہو آپ لوگ؟؟؟ "
گھر میں غیر معمولی خاموشی چھائی دیکھ حبہ کا دل بے چین ہوا تھا۔۔۔ وہ پورا گھر دیکھ آئی تھی مگر نہ کوئی ملازمین کہیں نظر آئے تھے۔۔۔ اور نہ ہی وہ دونوں۔۔۔۔
"کہاں ہیں یہ دونوں۔۔۔۔؟؟؟ اِس طرح گھر کھلا چھوڑ کر تو ماما کبھی کہیں نہیں گئیں۔۔۔۔"
حبہ کا جان حلق میں اٹک چکی تھی۔۔۔۔ وہ اُن دونوں کے نمبر ٹرائے کر چکی تھی۔۔۔ مگر مسلسل نمبر آف ہی جارہے تھے۔۔۔۔ حبہ کی تشویش مزید بڑھ چکی تھی۔۔۔۔
اُس کا شک سیدھا بلیک سٹارز کی جانب گیا تھا۔۔۔
"اگر یہ گھٹیا حرکت تمہاری ہے تو چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں۔۔۔۔"
حبہ تصور میں حازم سے مخاطب ہوتی نفرت آمیز لہجے میں بولی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے ڈرائینگ روم میں پڑا لینڈ لائن بج اُٹھا تھا۔۔۔۔ حبہ نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے جلدی سے ریسور اُٹھا کر کان سے لگایا تھا۔۔۔۔
"کیسا لگا ہمارا سرپرائز ایس پی صاحبہ۔۔۔۔؟؟؟ "
دوسری جانب سے انتہائی بھونڈے انداز میں سوال کیا گیا تھا۔۔۔
"کون ہو تم اور کیا بکواس کررہے ہو۔۔۔؟؟"
حبہ اپنے غصے پر قابو رکھتی بمشکل بول پائی تھی۔۔۔
"بکواس نہیں۔۔۔۔ بتا رہے ہیں کہ تمہاری ماں اور بہن اِس وقت ہماری مہمان ہیں۔۔۔۔ بہت پیار سے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اُنہیں۔۔۔۔"
دوسری جانب سے جو الفاظ ادا کیے گئے تھے حبہ کو لگا تھا کسی نے اُس کا دل مُٹھی میں جکڑ کر مسل دیا ہو۔۔۔ اُس ماما اور صبا ہی تو اُس کی زندگی تھیں۔۔۔ اِن دونوں کے بغیر بھلا کون تھا اُس کا۔۔۔۔
"کون ہو تم لوگ۔۔۔ اور تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ایسا کرنے کی۔۔۔ تم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کتنا عبرت ناک انجام ہونے والا ہے اب تم لوگوں کا۔۔۔۔ "
حبہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی جاکر اُن لوگوں کو گولیوں سے بھون دے۔۔۔۔
"شمشیر خان کو کیسے بھول سکتی ہو ایس پی۔۔۔۔ ؟؟؟ وہ دونوں اِس وقت شمشیر خان کے قبضے میں ہیں۔۔۔ اگر اُن کو صحیح سلامت اپنے پاس دیکھنا چاہتی ہو تو جاکر اُس لڑکی کے کیس سے شمشیر خان کو باعزت بری کروا دو۔۔۔۔ ورنہ چند دنوں کے اندر اِن دونوں کی لاشیں تمہارے گھر پہنچا دی جائیں گی۔۔۔۔ اور اپنے جن آفیسرز پر بھروسہ کرکے تم نے اپنے گھر کی سیکورٹی کروا رکھی تھی۔۔۔ وہ ہمارا نمک کھاتے ہیں۔۔۔۔ تو وفاداری بھی ہمارے ساتھ کریں گے۔۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہارے محکمے کا کون کون سا بندہ ہمارے ساتھ ملا ہوا ہے۔۔۔۔ اگر تم نے اپنے کمشنر کو اِس سب میں شامل کرکے کوئی مدد لینی چاہی تو یہ خبر ہم تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگائے گی۔۔۔۔۔۔ بس اتنا یاد رکھنا کے اُس کے بعد تم کبھی بھی اپنی ماں اور بہن کو زندہ نہیں دیکھ پاؤ گی۔۔۔۔"
اپنی بات ختم کرتے دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی تھی۔۔۔۔ حبہ سن سی اپنی جگہ کھڑی رہ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کے ہاتھ سے ریسور چھوٹ کر نیچے جاگرا تھا۔۔۔۔
"نن نہیں اُن دونوں کو کچھ نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔ مگر میں اُس بچاری لڑکی کا کیس واپس لے کر اُس کے ساتھ اتنی بری زیادتی کیسے کرسکتی ہوں۔۔۔۔ وہ تو میری اُمید پر ہی جی رہی ہے۔۔۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو وہ لڑکی خود کو ختم کردے گی۔۔۔۔ میں کیا کروں میرے رب۔۔۔۔ مجھے کوئی راستہ دیکھائیں۔۔۔ میں کسی کے ساتھ بھی کچھ غلط نہیں ہونے دے سکتی۔۔۔ لیکن اگر میں نے اُن لوگوں کی بات نہ مانی تو وہ ماما اور صبا کو نقصان پہنچائیں گے۔۔۔ "
حبہ اُن لوگوں کے بچھائے جال میں بُری طرح پھنس چکی تھی۔۔۔۔ اُسے کچھ دکھائی اور سجھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے اُس کے کانوں میں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ گونجی تھی۔۔۔
بھیگی آنکھیں صاف کرتے اُس نے گردن اُس جانب گھمائی تھی۔۔۔ جہاں کھڑے شخص کو دیکھ اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔
"تم۔۔۔؟؟؟"
حبہ زہر خند لہجے میں بولتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
فرح آج بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ حمدان کے ہاتھوں مریم کو بے عزت ہوتا دیکھ اُسے بہت مزا آیا تھا۔۔۔۔
مگر گھر میں پہلے سے ہی رونق لگی دیکھ وہ خوشگواریت بھرے انداز میں ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
"پھوپھو آپ۔۔۔۔۔"
فرح سامنے بیٹھی اپنی پھوپھو کو دیکھ خوشی سے چلا اُٹھی تھی۔۔۔۔ نسرین بیگم کے بازو واں کرتے ہی وہ اُن کے سینے میں جا سمائی تھی۔۔۔۔
نسرین بیگم اُن کی اکلوتی پھوپھو تھیں۔۔۔ اور بہت سال پہلے کچھ اختلافات کی وجہ سے وہ اُن سب سے لڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سارے تعلقات ختم کرتیں اپنے گاؤں میں جا بسی تھیں۔۔۔۔ یہاں اُن کا سسرال تھا۔۔۔۔
صدیقی صاحب نے اُنہیں منانے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ نہیں مانی تھیں۔۔۔۔ وہ اپنے بھائی اور اُن کے بچوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔۔۔ مگر اُس وقت اُن کا دل ایسا دکھا تھا کہ اتنے لمبے عرصے تک کوئی اُنہیں منا نہیں پایا تھا۔۔۔۔۔
آج اتنے سالوں بعد اُنہیں اپنے گھر دیکھ فرح کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔۔۔۔
"پھوپھو یہ پیاری سی لڑکی کون ہے۔۔۔۔؟؟؟"
فرح اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی کیوٹ سی لڑکی کو دیکھ پوچھنے لگی تھی۔۔۔
"یہ پیاری سی لڑکی اُجالا ہے۔۔۔۔ نسرین کی سب سے چھوٹی بیٹی۔۔۔۔ اور تمہاری لاڈلی۔۔۔ بھول گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟"
سمیہ بیگم بھی اپنی بہن جیسی نند کو اتنے ٹائم بعد دیکھ بے پناہ خوش تھیں۔۔۔۔
"ارے اُجالا کتنی بڑی اور مزید خوبصورت ہوگئی ہے۔۔۔ "
فرح اُجالا سے گلے ملتی خوشی سے چہکی تھی۔۔۔
آج اتنے سالوں بعد اُنہیں اپنے گھر دیکھ فرح کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔۔۔۔
"پھوپھو یہ پیاری سی لڑکی کون ہے۔۔۔۔؟؟؟"
فرح اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی کیوٹ سی لڑکی کو دیکھ پوچھنے لگی تھی۔۔۔
"یہ پیاری سی لڑکی اُجالا ہے۔۔۔۔ نسرین کی سب سے چھوٹی بیٹی۔۔۔۔ اور تمہاری لاڈلی۔۔۔ بھول گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟"
سمیہ بیگم بھی اپنی بہن جیسی نند کو اتنے ٹائم بعد دیکھ بے پناہ خوش تھیں۔۔۔۔
"ارے اُجالا کتنی بڑی اور مزید خوبصورت ہوگئی ہے۔۔۔ "
فرح اُجالا سے گلے ملتی خوشی سے چہکی تھی۔۔۔
"آپ بھی بہت حسین ہوگئی ہیں آپی۔۔۔۔"
اُجالا اپنے مخصوص دھیمے مترنم لہجے میں بولتی اُن سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔۔۔۔
فرح نے آج اتنے دنوں بعد اپنے گھر میں سب کو مسکراتا دیکھ دل ہی دل میں سب کی نظر اُتاری تھی۔۔۔ ورنہ اُس ایک حادثے کے بعد اُن کا آشیانہ بکھر کر رہ گیا تھا۔۔۔
اُس ایک شاطر لڑکی کی وجہ سے اُس نے اپنے دو بھائیوں کو کھویا تھا۔۔۔۔
نور اور زین کے کھلکھلاتے چہرے دیکھ اُسے اپنی پھوپھو اور اُجالا پر بہت پیار آیا تھا۔۔۔ جن کے آنے سے اُن کے گھر کے بوجھل ماحول میں کچھ کمی آئی تھی۔۔۔۔
"آپ لوگ باتیں کریں میں آج اپنے ہاتھوں سے آپ سب کے لیے کھانا بناؤں گی۔۔۔۔"
فرح اُن سب پر ایک مسکراتی نظر ڈالتی کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ جہاں ملازمین پہلے سے کام میں لگے ہوئے تھے۔۔۔
"آپی کیا میں بھی آپ کی مدد کروا سکتی ہوں۔۔۔۔"
کچھ دیر بعد فرح کو عقب سے اُجالا کی نرم سی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
"ہاں کیوں نہیں گڑیا آجاؤ۔۔۔۔۔"
فرح نے اُسے اشارے سے اندر بلایا تھا۔۔۔
"آپ کا گھر بہت پیارا ہے آپی۔۔۔۔۔ "
اُجالا نے اُن کے ساتھ پیاز کاٹنے میں مدد کرتے ستائشی نگاہوں سے کھڑکی سے باہر نظر آتے لان کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔ جہاں سرسبز لان کو بہت ہی خوبصورت پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔
"اور یہ پھول تو بہت ہی پیارے ہیں۔۔۔۔"
اُجالا کو وہ پھول بہت پسند آئے تھے۔۔۔۔
"ہاں یہ حمدان بھائی نے لگائے تھے۔۔۔۔۔"
یہ الفاظ ادا کرتے فرح کے ہاتھ ایک پل کے رکے تھے۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ خود کو نارمل کرتی واپس مصروف ہوگئی تھی۔۔۔
"وہ کہاں ہیں۔۔۔ ؟؟ گھر کے سب لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔۔۔ صرف اُن کو نہیں دیکھا ابھی۔۔۔۔"
اُجالا نے فرح کا انداز بہت غور سے نوٹ کیا تھا۔۔
"وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتے۔۔۔۔ "
فرح کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔۔ جس کا ریزن اُس نے پیاز کی کرواہٹ ہی ظاہر کرنا چاہتی تھی۔۔ مگر اُجالا کو ایسا بالکل بھی نہیں لگا تھا۔۔۔۔
"کیوں۔۔۔؟؟؟ کیوں نہیں رہتے۔۔۔۔؟؟؟ اِس گھر کے بڑے بیٹے ہیں وہ۔۔۔۔ اور اُن کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی نا۔۔۔ تو وہ علیحدہ کیوں رہتے ہیں۔۔۔؟؟"
اُجالا کو فرح کی بات سن کر شدید حیرت ہوئی تھی۔۔۔
"لمبی کہانی ہے پھر کسی فارغ وقت پر سناؤں گی۔۔۔ ابھی جلدی سے بریانی چڑھا لیتے ہیں۔۔۔ ایسا نہ ہو بھوک کی وجہ سے سب کچن میں ہی دھاوا بول دیں۔۔۔۔"
فرح اُس کی بات کو صفائی سے ٹالتی پر مزاح انداز میں کہتی اُٹھ گئی تھی۔۔۔
اُجالا نے نوٹ کیا تھا کہ حمدان کے ذکر پر گھر کے باقی افراد کا ری ایکشن بھی فرح جیسا ہی تھا۔۔۔ یہ سب لوگ اُس ایک شخص کو نجانے کتنا مس کرتے تھے۔۔۔ جو بے پرواہ اور سنگدل بنا اپنے اتنے پیارے لوگوں کو دکھ دے رہا تھا۔۔۔۔
اُجالا فرح کی بات پر مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتی اُس کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
زور دار دھماکے کے ساتھ کسی نے روم کا دروازہ بند کیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اِس افتاد پر لرزتے وجود کے ساتھ پلٹ کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں بند دروازے کے آگے کھڑے شاہ ویز سکندر نے دیکھ پریسا کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
پریسا کو لگا تھا اب وہ نہیں بچ پائے گی۔۔۔ یہ شخص اتنی بڑی گستاخی پر اُسے ایک پل کے لیے بھی زندہ نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔
"وووو ہہہ۔۔۔ وہ میں۔۔۔۔۔۔ "
پریسا بولنے کی کوشش میں ہکلا گئی تھی۔۔۔ اُس سے الفاظ ادا نہیں ہوپائے تھے۔۔۔
"کیا کررہی ہو میرے کمرے میں۔۔۔۔۔؟؟؟"
اُس کی جانب قہر برساتی نظروں سے دیکھتا وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ پریسا کو کمرے کے در و دیوار ہلتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
"کل رات تم آئی تھی یہاں۔۔۔۔؟؟؟"
ایک ایک قدم اُس کی جانب بڑھاتا وہ اُس کے نازک سراپے پر اپنی خونخوار نگاہیں گاڑھے ہوئے تھا۔۔۔۔
بار بار چہرے پر آگرتی سیاہ زلفوں کو پیچھے ہٹاتی وہ بالکل سفید پڑ چکی تھی۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔۔ وہ اِس وقت کریم کلر کے جوڑے میں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کے گلابی لرزتے ہونٹ کسی کا بھی ایمان ڈگمگانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔۔۔ مگر اُس کے قریب آتے شخص کے لیے جیسے یہ حُسن کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔
"مم میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"
شاہ ویز کو ایک دم اپنے سر پر آن پہنچتے دیکھ پریسا بمشکل اپنی صفائی میں کچھ بول پائی تھی۔۔۔۔
"خبردار جو اِس وقت تم بے ہوش ہوئی تو۔۔۔۔ یہیں گاڑھ دوں گا۔۔۔۔"
پریسا کو لڑکھڑاتا دیکھ شاہ ویز اُس کی کلائی دبوچ کر اُسے دیوار کی جانب دھکیلتا کرختگی سے بولا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات پر پریسا نے اُسے ایسے گھورا تھا جیسے اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔۔۔ وہ کونسا اپنی مرضی سے بے ہوش ہوتی تھی۔۔۔۔ اُس کا بہت دل چاہا تھا جواب دینے کو مگر اس شخص کی دہشت کے آگے اِس وقت اُس کی زبان کھل نہیں پائی تھی۔۔۔
وہ اُس کے بے حد قریب آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اُس کے وجود سے اُٹھتی دلفریب خوشبو پریسا کو اپنے حواسوں پر سوار ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس نے بے اختیار اپنی سانس روک لی تھی۔۔۔۔۔
"کیا کررہی تھی یہاں۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کی نگاہیں بار بار اُس کے چہرے کو چھوتی اُس کی حسین زلفوں میں اُلجھی تھیں۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے خود کو بھرپور سرزنش کرتا وہ فوراً نگاہیں چرا گیا تھا۔۔۔
یہ لڑکی سراپا حُسن تھی۔۔۔ اور وہ بلیک بیسٹ تھا۔۔۔ جو اِس محبت اور حُسن کے فریب میں پھنسنا سب سے احمقانہ عمل سمجھتا تھا۔۔۔۔
"کک کچھ نہیں۔۔۔۔ مم میں۔۔۔ وہ۔۔۔۔"
اُس کے سوشل سرکل میں ہر کوئی اُس کے کانفیڈنس کا دلداہ تھا۔۔۔ سب کو اُس کا کھل کر اور نڈر ہوکر بولنا بہت پسند تھا۔۔۔۔ وہ اپنی کالج لائف تک نیشنل لیول پر ڈیبیٹس کی چیمئین رہ چکی تھی۔۔۔۔
مگر اِس شخص کے سامنے اُس کے سارے میڈلز اور تعریفیں دھڑی کی دھڑی رہ جاتی تھیں۔۔۔ جس کے نڈر ہوکر بولنا تو دور۔۔۔ وہ ہکلا کر رہ جاتی تھی۔۔۔۔
"کیا وہ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ "
شاہ ویز نے بھنویں اُٹھاتے اپنی سیاہ آنکھوں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اُس کی دونوں کلائیاں اپنی آہنی گرفت میں قید کرتا اُس کی کمر پر موڑ گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے ایسا کرنے پر پریسا اُس کے مزید قریب آچکی تھی۔۔۔۔ جس کا ایک غصے میں اور دوسری ڈر کے مارے احساس نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
"میرے اِس بات کا جواب بالکل سچ سچ دینا۔۔۔ رات کو تم میرے کمرے میں آئی تھی۔۔۔ یا نہیں۔۔۔۔ ورنہ آج رات تم یہیں بندھی رہوں گی اِس اندھیرے کمرے میں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی گول گول آنکھوں میں جھانکتے دھمکی آمیز لہجے میِں بولا تھا۔۔۔۔
پریسا نے ایک نظر اُس کے پتھریلے تاثرات سے سجے مغرور نقوش کو دیکھا تھا۔۔۔ جہاں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
اور اگلے ہی لمحے خود کو بہادر ظاہر کرتی وہ نفی میں سر ہلا گئی تھی۔۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ میں یہاں کیوں آؤں گی۔۔۔۔۔ مجھے تو پتا بھی نہیں کہ یہ تمہارا کمرہ ہے۔۔۔۔ میں تو ابھی اقراء کو تلاش کرتی آئی تھی۔۔۔۔"
پریسا نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے انتہائی صفائی کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔۔۔۔۔ اندر سے اُس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اگر سچ بول دیتی تو اِس انا کے مارے شخص نے اُسے گولی مارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگانا تھا۔۔۔ شاید جس حالت میں پریسا اُسے دیکھ چکی تھی ویسی حالت میں وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں آیا تھا۔۔۔۔
اِسی وجہ سے وہ اب ایسے بپھرا شیر بنا پھر رہا تھا۔۔۔۔
"میں تمہاری بات پر یقین کررہا ہوں۔۔۔ لیکن اگر یہ جھوٹ ہوا تو تمہارے یہ حسین ہاتھ پیر توڑ کر اپنے کتوں کو کھلا دوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی کلائیاں جھٹکے سے آزاد کرتے اُسے خود سے دور دھکیل دیا تھا۔۔۔۔
"اِس نے ابھی میری تعریف کی۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا اپنی دودھیا ملائم کلائیوں کو ایک دم لال ہوا دیکھ درد سے بلبلاتی اُس کی بات پکڑنے دے باز نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ اُس کی بڑبڑاہٹ پر شاہ ویز نے اُسے گھورا کر دیکھا تھا۔۔۔ جس پر نفی میں سر ہلاتے اُس نے اُس کے قریب سے نکل جانا چاہا تھا۔۔۔۔
وہ جان بچ جانے پر اپنے رب کا شکر ادا کرتی تیز تیز قدموں سے چلتی دروازے تک پہنچی ہی تھی۔۔ جب دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے بہت بڑی جسامت کے مالک کتے کو دیکھ اُس کے منہ سے دلخراش چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔
بنا کچھ سوچے سمجھے وہ خوف کے عالم میں واپس بھاگتی موبائل پر مصروف ہوتے شاہ ویز سکندر کے سینے میں جا سمائی تھی۔۔۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ شاہ ویز کچھ سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔۔۔۔ اُس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا۔۔۔
اُس نے آگ اُگلتی نگاہوں سے پریسا کو گھورنا چاہا تھا۔۔۔ مگر وہ جس طرح اُس کے سینے سے شرٹ کو مُٹھی میں دبوچے دوسرا بازو اُس کی کمر کے گرد حمائل کیے وہ اُس کے ساتھ کسی مقناطیس کی طرح چمٹی شاہ ویز سکندر کی دھڑکنیں وہیں منجمند کر گئی تھی۔۔۔۔
پریسا کے پیچھے آتے کتے کی بھونکنے کی آوازیں اُس کی دھڑکنوں کے پیچھے دب گئی تھیں۔۔۔۔ اُسے خیال رہا تھا تو بس اپنے سینے سے لگے اُس لرزتے کانپتے نازک وجود کا۔۔۔۔
آج بہت عرصے بعد اُس کے سینے میں موجود پتھر میں اُسے کچھ ہلچل محسوس ہوئی تھی۔۔۔
لیکن اِس سے پہلے کہ اُس کا دل اِن دھڑکنوں کا عادی ہوتا۔۔۔۔ اور سینے پر محسوس ہوتا پریسا کی ہتھیلی کا نرم گرم لمس اپنا جادو پوری طرح چلا پاتا اندر داخل ہوتے جنید کی آواز نے سارا فسوں توڑ دیا تھا۔۔۔۔
"آئم سوری سر۔۔۔۔ یہ پتا نہیں کیوں رسی چھڑا کر سیدھا آپ سے ملنے بھاگ۔۔۔۔۔۔"
اپنے دھیان میں کتے کے پیچھے اندر آتا جنید سامنے کا منظر دیکھ اپنی جگہ سن ہوا تھا۔۔۔۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اِس وقت پریسا آفندی شدید خوف کے عالم میں جس شخص کے گلے لگی کھڑی تھی۔۔۔۔ وہ شاہ ویز سکندر ہی تھا۔۔۔ یا اُس کا وہم۔۔۔۔۔ اور اگر پریسا اُس بلیک بیسٹ کے قریب گئی بھی تھی تو اُسے باقی تمام لڑکیوں کی طرح بلیک بیسٹ نے خود سے دور کیوں نہیں جھٹکا تھا۔۔۔۔۔ مگر جنید اِس وقت بنا کچھ بولے کتے کی رسی تھام کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بھیگی آنکھیں صاف کرتے اُس نے گردن اُس جانب گھمائی تھی۔۔۔ جہاں کھڑے شخص کو دیکھ اُس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔
"تم۔۔۔؟؟؟"
حبہ زہر خند لہجے میں بولتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔
"تم میرے گھر میں کیا کررہے ہو؟؟؟؟"
حبہ اِس وقت اندر سے بہت کمزور پڑ چکی تھی۔۔۔ اُس میں کم از کم اِس وقت اِس شخص سے لڑنے کی ہمت بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
"ایس پی صاحبہ میری سوچ سے زیادہ بے مروت نکلی تم۔۔۔۔ گھر آئے مہمانوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔۔۔۔ ایسے منہ پھاڑ کر نہیں پوچھا جاتا۔۔۔۔"
سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس سلیوز کو کہنیوں تک فولڈ کیے۔۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی چہرے کو سیاہ نقاب میں چھپایا ہوئے تھا۔۔۔ مگر اب حبہ اُسے ایسے ہی پہچاننے کی عادی ہوچکی تھی۔۔۔۔
اِس لباس میں اُس کے کسرتی چوڑے کندھے اور سینہ نمایاں تھے۔۔۔۔ جسے دیکھ کر اُس کی ٹیم کے ہر فرد کو اُس کے ساتھ ہوتے تحفظ کا بھرپور احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔
مگر اِس وقت حبہ نے اُسے اُتنی ہی نفرت سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
وہ بنا حبہ کے کہے اُس کے برابر صوفے پر آن بیٹھا تھا۔۔۔
حبہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔
اِس شخص کی اِس بے باکی پر اُس کا دل چاہتا تھا اِس کی یہ نقاب سے جھانکتی دلکش نگاہیں نوچ لے۔۔۔۔
"دیکھو میں اِس وقت بہت زیادہ زہنی ٹینشن کا شکار ہوں۔۔۔۔ تمہاری جانب سے مزید کوئی بُری خبر افورڈ نہیں کرسکتی۔۔۔۔ پلیز مجھ پر رحم کھاؤ۔۔۔ اور چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔"
حبہ نم آنکھوں سے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتی میر حازم سالار کا دل چیر گئی تھی۔۔۔۔ جو اپنے سینے پر گولی تو آرام سے کھا سکتا تھا مگر اِن بھوری آنکھوں کو بھیگتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
حازم نے ہاتھ بڑھاتے اُس کے جڑے ہاتوں کو اپنی مُٹھی میں قید کرتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
حبہ اُس سے اِس حملے کی توقع نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔ سیدھی اُس کے چوڑے سینے پر آن گری تھی۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے وہ اِس افتاد پر سنبھل کر اُس سے دور ہوپاتی حازم اُسے اپنے مضبوط حصار میں قید کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔
"چھوڑے مجھے۔۔۔۔ یہ کیا بے ہودگی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟ "
حبہ اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتی چلا اُٹھی تھی۔۔۔۔
"آئی وہ کل یو۔۔۔ باسٹرڈ۔۔۔۔"
حبہ اُس کے سینے پر مکے برساتی مسلسل مزاحمت کررہی تھی۔۔۔ جبکہ حازم اُس کے بالوں سے اُٹھتی دلفریب مہک اپنی سانسوں میں اُتارتا اِس وقت اپنی زندگی کے سب سے پرسکون اور خوبصورت لمحوں کو انجوائے کررہا تھا۔۔۔
وہیں اُس کی گرفت میں قید اُس کی جنگلی بلی اُس کی گردن کو اپنے ناخنوں سے لہولہان کرچکی تھی۔۔۔
"یار ایس پی تم تو میری سوچ سے زیادہ ظالم ہو۔۔۔۔ باقی لڑکیاں میرے قریب آنے کے لیے مرتی ہیں اور ایک تم ہو کہ۔۔۔۔۔"
حازم اُس کے بالوں کی لٹ کھینچتا بات ادھوری چھوڑتا آنکھ دبا گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کی بات پر حبہ نے پہلے سے بھی کہیں زیادہ ناگواریت سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔
"وہ سب لڑکیاں تمہاری طرح بے غیرت ہونگی۔۔۔۔"
حبہ کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔ جب حازم نے اپنی بھاری ہتھیلی اُس کے ہونٹوں پر دباتے اُس کا چہرا اپنے قریب کیا تھا۔۔۔۔
"اتنی گستاخیاں مت کرو یار۔۔۔ بعد میں تمہارے لیے ہی مشکل ہوجائے گی۔۔۔۔ میں اتنا اچھا بھی نہیں ہوں۔۔۔۔ "
حازم کی آنکھوں میں اُس کے الفاظ پر غصہ تھا۔۔۔ مگر گرفت اور لفظوں میں ویسی ہی نرمی موجود تھی۔۔۔ جو حبہ کے قریب آتے حازم کے لمس میں در آتی تھی۔۔۔
اگر حبہ ایک بار بھی اِس شخص کا درندوں بھرا رُوپ دیکھ لیتی تو ایک پولیس آفیسر ہونے کے باوجود اُس سے خوف کھاتی۔۔۔۔۔
"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ کیوں ہر وقت میرے سائے کی طرح میرے اردگرد منڈلاتے رہتے ہو۔۔۔۔ یہ سب بہت غلط ہے۔۔۔۔ تم لوگوں کے لیے یہ سب جائز ہوگا۔۔۔ مگر میرے لیے نہیں۔۔۔۔ میں کسی کی منکوحہ ہوں۔۔۔ تم یوں میرے قریب نہیں آسکتے۔۔۔۔"
حبہ نے آخر کار زچ ہوتے اپنے لہجے کو بہت مشکل سے نرم کرتے اُسے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔ کیا پتا کوئی بات اِس شخص کی اُلٹی کھونپڑی میں بیٹھ جائے۔۔۔۔
"میری معلومات کے مطابق تمہارا شوہر مر چکا ہے۔۔۔ اور اگر نہیں بھی مرا تو اُس کے سامنے آنے پر میں اپنے ہاتھوں سے اُسے مار دوں گا۔۔۔ "
حازم اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ایسے بولا تھا جیسے معمول کی کوئی بات کررہا ہو۔۔۔۔
"تم۔۔۔۔۔"
حبہ نے اُس کے چہرے کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی حازم اُسے تھام گیا تھا۔۔۔۔
"میں یہاں تم سے لڑنے نہیں۔۔۔ تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔۔۔ مگر مجال ہے جو تم میری کوئی بات آرام سے سن لو۔۔۔۔"
حازم اُس کے ہاتھ کی نرماہٹیں محسوس کرتا اب کی بار نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔ وہ اب مزید ٹائم ویسٹ نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔
"کیسی مدد۔۔۔۔؟؟؟ اور تم میری مدد کیوں کرو گے۔۔۔ تم تو خود میرے دشمن ہو۔۔۔۔"
حبہ کی مزاحمت ابھی بھی جاری تھی۔۔۔۔ اُس کی بڑی بڑی جھیل سے آنکھیں جب آنکھوں میں مشکوکیت لیے اُسے دیکھتی تھیں۔۔۔ حازم کو اپنا دل اُن میں ڈوبتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔
"باقی لوگ دوستی کے ناطے مدد کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر میں دشمنی کے ناطے۔۔۔۔ بے شک اِسے اُدھار سمجھ کر آگے کسی موقع پر تم بِھی اُتار دینا۔۔۔۔"
حازم اُس کے سامنے خود کو اُس کا ہمدرر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اِس لیے سودا بازی کرتے بولا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"کیا ہوا خیریت۔۔۔۔؟؟؟ آپ نے مجھے اِس طرح اچانک یہاں کیوں بلایا۔۔۔۔۔؟؟؟"
جنید گھبرایا پریشان سا مہروسہ کے بلاوے پر پارک میں پہنچا تھا۔۔۔ دونوں نے ہی اپنے حلیے تبدیل کر رکھے تھے۔۔۔
"ایک بہت ضروری کام کے لیے۔۔۔۔۔ ایس پی حمدان اور باقی اداروں کی نظر میں بلیک سٹارز کی تیسری گینگ لیڈر جل کر مر چکی ہے۔۔۔۔ جو کہ اُنہیں کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔ تو اتنے بڑے نقصان کے بعد بلیک سٹارز اور اُن کی ٹائیگر فورس خاموشی سے تو بیٹھے گی نہیں۔۔۔۔ایس پی حمدان کو اِس بات کا حساب تو دینا ہی پڑے گا نا۔۔۔"
مہروسہ کی آنکھوں میں اک عجیب سی پراسرایت تھی۔۔۔۔
"تو آپ چاہتی ہیں میں ایس پی حمدان کو اِس غلطی پر اُوپر پہنچا دوں۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کی بات پر جنید نے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"شٹ اپ۔۔۔۔ دوبارہ ایسا سوچا بھی تو پہلے تمہیں اُوپر پہنچاؤں گی۔۔۔۔۔ "
جنید کی بات مہروسہ کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہوئی تھی۔۔۔ جنید اُس کے انداز پر مسکرائے بنا نہیں رہ سکا تھا۔۔۔۔
"کیا ہی بات ہے میرے تینوں گینگ لیڈرز کی۔۔۔ نفرت بھی شدت سے کرتے ہیں اور محبت بھی۔۔۔"
جنید شاہ ویز کے روم کا منظر تصور میں لاتا معنی خیزی سے بولو۔۔۔
"میرا اور میر سر کا تو ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تینوں سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ نے حیرت سے اُسے دیکھا تھا۔
"کچھ بھی نہیں مذاق کررہا تھا۔۔۔۔ مجھے شاہ سر کے ہاتھوں پٹنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔۔"
جنید نے آخری بات دل میں ہی بولی تھی۔۔۔۔
"آپ یہ بتائیں ایس پی ہمدان کے ساتھ کرنا کیا ہے۔۔۔۔"
جنید کو یہاں زیادہ دیر رکنا خطرے سے خالی نہیں لگا تھا۔۔۔۔
"اُنہیں کال کرکے۔۔۔۔ اُن کے بھائی اور بہن کو قتل کرنے کی دھمکی دینی ہے۔۔۔۔ اور پھر اُن کے چھوٹے بھائی زین پر قاتلانہ حملہ بھی کروانا ہے۔۔۔۔".
مہروسہ اپنے مخصوص کھردرے لہجے میں بولتی جنید کے سر پر بم پھوڑ گئی تھی۔۔۔
"آپ یہ بتائیں ایس پی ہمدان کے ساتھ کرنا کیا ہے۔۔۔۔"
جنید کو یہاں زیادہ دیر رکنا خطرے سے خالی نہیں لگا تھا۔۔۔۔
"اُنہیں کال کرکے۔۔۔۔ اُن کے بھائی اور بہن کو قتل کرنے کی دھمکی دینی ہے۔۔۔۔ اور پھر اُن کے چھوٹے بھائی زین پر قاتلانہ حملہ بھی کروانا ہے۔۔۔۔".
مہروسہ اپنے مخصوص کھردرے لہجے میں بولتی جنید کے سر پر بم پھوڑ گئی تھی۔۔۔
"کیا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ آپ ایس پی حمدان کے بھائی کو مروانا چاہتی ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
جنید کو گہرا شاک لگا تھا۔۔۔ اُسے کبھی اپنے لیڈرز کے دماغوں کی سمجھ نہیں آ پائی تھی۔۔۔۔ جو ہمیشہ کچھ الگ ہی سوچتے اور کرتے تھے۔۔۔۔
"قتل کرنے اور صرف ایک قاتلانہ حملہ کروانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اُسے قتل نہیں کرنا۔۔۔ صرف ایس پی حمدان کو دھمکانے کے لیے ایک چھوٹا سا حملہ کروانا ہے۔۔۔۔ وہ بھی اُن کے گھر کے باہر۔۔۔۔۔ اور یہ کام کرو گے تم۔۔۔۔۔ اب جلدی سے کال کرو۔۔۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔۔"
مہروسہ اُسے ساری بات سمجھاتی ہاتھ میں پکڑے موبائل کی جناب اشارہ کر گئی تھی۔۔۔۔
جنید اُلجھن بھرے دماغ کے ساتھ اُس کے کہنے پر کال ملا چکا تھا۔۔۔۔
"ہیلو ایس پی صاحب بلیک سٹار بات کررہا ہوں۔۔۔۔ ہماری گینگ لیڈر کو مروا کر تم نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔۔۔۔ اب تم ہمارے بدلے کے لیے تیار رہنا۔۔۔ بہت جلد تمہیں تمہارے بہت پیاروں کی لاشیں ہماری طرف سے تحفے میں ملنے والی ہیں۔۔۔ بلیک سٹارز سے اُلجھنے والے کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتے ہم۔۔۔۔ نسلیں برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔۔۔ جیسے اب تمہاری ہونے والی ہیں۔۔۔۔ اپنے بھائی کا جنازہ اُٹھانے کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔۔ "
جنید اپنے مخصوص کھردرے لہجے میں مہروسہ کا کہا لفظ با لفظ فالو کرتا حمدان کا جواب سننے سے پہلے ہی کال کاٹ چکا تھا۔۔۔۔
"ویلڈن۔۔۔۔۔ ایس پی صاحب نہ صرف کال کے ذریعے ہماری لوکیشن ٹریک کروا رہیں ہونگے۔۔۔ بلکہ بہت جلد یہاں پہنچ بھی سکتے ہیں۔۔۔۔ اِس سم کو یہیں دفن کرو۔۔۔ اور جلدی سے نکلو یہاں سے۔۔۔"
مہروسہ اُسے جلدی سے ہدایت دیتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔ جنید بھی اُس کی بات پر عمل کرتے اپنا کام پورا کرتا اگلے پانچ منٹ کے اندر اُس پارک سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
یہ پارک حمدان کے اُس گھر سے پانچ منٹ کی مسافت پر تھا جہاں اُس کے پیرنٹس اور بہن بھائی رہتے تھے۔۔۔۔
حمدان کی جان بستی تھی اپنے بھائی میں۔۔۔۔ اُس کے حوالے سے دھمکی دینے والے کو سبق سیکھانے حمدان اُسی وقت پولیس سٹیشن سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ ایس پی حمدان کو بہت اچھی طرح سے پہنچان گئی تھی۔۔۔۔ اِس لیے اب اُس سے چند قدم آگے ہی رہنے لگی تھی۔۔۔۔۔
اُس کے کہے کے مطابق حمدان اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچا تھا۔۔۔ مگر کر کچھ نہیں پایا تھا۔۔۔ کیونکہ اتنے بڑے پارک میں ایسے انسان کو ڈھونڈنا ناممکن سی بات تھی۔۔۔ جہاں ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ پائے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔
"اگر میرے بھائی کو زرا سی خراش بھی آئی تو تم لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔۔"
حمدان پارک سے نکلتا مُٹھیاں بھینچے بڑبڑایا تھا۔۔۔۔
اُس کے بابا نے اُس کے سامنے ایک ہی شرط رکھی ہوئی تھی کہ وہ اُس کی دی ہوئی سیکورٹی اِسی صورت لیں گے جب وہ اُن کے ساتھ اُن کے گھر میں رہے گا۔۔۔۔ مگر حمدان اُن لوگوں سے بات تک نہیں کرتا تھا۔۔۔
ساتھ رہنا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔۔۔
پہلے تو اُسے اُن کی سیکورٹی نہ لینے سے زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔۔۔۔
مگر اب وہ اپنے گھر والوں کو ایسے خطرے میں نہیں رہنے دے سکتا تھا۔۔۔۔
اُس نے اپنے ماتحت کا اپنے گھر کے باہر سخت سیکورٹی کا انتظام کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔۔ ابھی وہ ہدایت دیتا ہٹا ہی تھا۔۔۔۔ جب اُس کے کانوں میں فائرنگ کی آواز گونجتی اُس کے پیروں تلے سے زمین کھسکا گئی تھی۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ فائرنگ کی آواز اُسی ایریا سے سنائی دی گئی تھی۔۔۔۔ جہاں اُس کا گھر تھا۔۔۔۔
حمدان ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بنا گاڑی میں بیٹھتا فوراً اُس جانب نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اگر پریسا اُس بلیک بیسٹ کے قریب گئی بھی تھی تو اُسے باقی تمام لڑکیوں کی طرح بلیک بیسٹ نے خود سے دور کیوں نہیں جھٹکا تھا۔۔۔۔۔ مگر جنید اِس وقت بنا کچھ بولے کتے کی رسی تھام کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
جنید کے جاتے ہی شاہ ویز پریسا کے دونوں بازوؤں کو اپنی سخت گرفت میں جکڑتا خود سے دور دھکیل گیا تھا۔۔۔۔۔
اُس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ پریسا کو اُس کی اُنگلیاں اپنی جلد میں کھبتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
"دور رہو مجھ سے۔۔۔۔۔ اگر دوبارہ میرے اتنے قریب آنے کی کوشش کی تو گلا دبا دوں گا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے قہر برساتی نگاہوں سے دیکھتے اپنا موبائل اُٹھاتا وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ پریسا غصے سے اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
اُس کی نسوانی عزتِ نفس پر یہ وار بہت کاری ثابت ہوا تھا۔۔۔۔
"ایکسکیوزمی مسٹر وحشی۔۔۔۔۔۔ تم میں ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں جو میں تمہارے قریب آنے کی کوشش کروں گی۔۔۔۔۔ تمہارے جیسے اُس جنگلی کتے کی وجہ سے اچانک ہوا یہ سب۔۔۔۔۔"
پریسا غصے میں مزید بھی بولنا چاہتی تھی مگر شاہ ویز کی لال آنکھیں دیکھ وہ بمشکل اپنی زبان کو دانتوں تلے دے پائی تھی۔۔۔۔
"اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی بات ادھوری چھوڑتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔ اِس لڑکی کے سامنے زیادہ دیر کھڑے رہنا اُسے خطرے سے خالی نہیں لگا تھا۔۔۔۔ جو اِس وقت اپنے بکھرے حلیے اور حُسن سے لاپرواہ۔۔۔۔ بلیک بیسٹ کے لیے آفت بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ بلیک بیسٹ مجھ سے گھبرا رہا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کو اپنی اتنی بدتمیزی کے جواب میں اُس کا ایسے چلے جانا حیرت میں مبتلا کرگیا تھا۔۔۔۔
جس طرح وہ اُس سے نظریں چرا کر گیا تھا پریسا کے لیے یہ کوئی عام نہیں تھی۔۔۔۔ کیونکہ آج تک اُس نے اِن سیاہ آنکھوں سے صرف اُسے خوفزدہ ہی کیا تھا۔۔۔۔
یوں کترایا نہیں تھا۔۔۔۔
"اتنی آسانی سے تو میں بھی اپنا شکار نہیں چھوڑتی۔۔۔مسٹر بیسٹ۔۔۔۔"
پریسا آنکھوں میں شرارت بھرے جلدی سے اُس کے پیچھے لپکی تھی۔۔۔۔
"بات سنوں۔۔۔۔۔"
وہ غصے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا بہت دور نکل گیا تھا۔۔۔ پریسا کو تقریباً بھاگ کر اُس تک پہنچنا پڑا تھا۔۔۔۔
اُس نے پھولے سانس کے ساتھ اُسے پکارا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز کا دل چاہا تھا اِس لڑکی کو اُٹھا کر کہیں بہت دور پھینک آئے۔۔۔۔۔
وہ اُس کی بات اَن سنی کرتا رُکا نہیں تھا۔۔۔۔۔
وہ اُسی تیزی سے چل رہا تھا پریسا بھاگ کر اُس کے سامنے آتے اُس کا راستہ روک گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے خونخوار نگاہوں سے اُس سفید بلی کو اپنا راستہ کاٹتے دیکھا تھا۔۔۔۔ جو کب کیا بن جاتی تھی اُسے خود بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔
"تم یہ سب کرکے مجھے خود سے سختی کرنے پر محبور کررہی ہو۔۔۔۔۔"
شاہ ویز مُٹھیاں بھینچتے بمشکل خود پر ضبط کر پایا تھا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا یہ لڑکی اُس کا غضب ناک رُوپ برداشت نہیں کرپائی گی۔۔۔۔ اِس لیے وہ اِس کے سامنے ناچاہتے ہوئے بھی اپنا یہ نرم رویہ رکھنے پر مجبور تھا۔۔۔۔۔۔
اگر پریسا کو پتا چل جاتا کہ یہ اِس شخص کا ابھی نرم رویہ ہے تو اُس نے غش کھا کر یہیں گر پڑنا تھا۔۔۔۔
"دیکھو۔۔۔۔ تم نے بلا وجہ مجھے یہاں قید کررکھا ہے۔۔۔۔ مگر پلیز میری ایک بات تو مان ہی سکتے ہو نا۔۔۔۔ آج میرا برتھ ڈے ہے۔۔۔۔ تم رات کو واپس آتے میرے لیے میرا فیورٹ کیک لاسکتے ہو۔۔۔۔ بہت معمولی سی خواہش ہے۔۔۔ پلیز پوری کردو۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے سامنے اپنی گول گول آنکھیں پٹپٹاتی معصومیت کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بار کسی نے بلیک بیسٹ سے ایسی کوئی فرمائش کی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کو اُس کی فضول بات سن پر مزید آگ لگی تھی۔۔۔ یہ لڑکی بلاوجہ اُس کا ٹائم ویسٹ کررہی تھی۔۔۔۔
"جنید لے آئے گا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز مُٹھیاں بھینچتا اُس کی جانب دیکھنے سے پوری طرح گریز برتتا وہاں سے جانے لگا تھا۔۔۔ جب پریسا ایک بار پھر اُس کے سامنے آگئی تھی۔۔۔۔۔ شاہ ویز کے ایک دم رک جانے کی وجہ سے دونوں ٹکراتے بچے تھے۔۔۔۔۔
"میں تم سے کہہ رہی ہوں تو تم ہی لاؤ گے۔۔۔۔ اور وہ بھی گل بہار بیکرز سے گل شیر بھائی کے ہاتھوں کا بنا ہوا۔۔۔۔ اور اُن سے یہ کیک اُن کے سر پر کھڑے ہوکر بنوانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ "
پریسا کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے بالکل لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کا نظریں چرانا اُسے بہت مزا دے رہا تھا۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی یہ چیز آگے چل کر اُس پر کتنی بھاری پڑنے والی تھی۔۔۔۔۔
شاہ ویز کا غصہ اب حد پار کرچکا تھا۔۔۔۔
وہ آگے بڑھا تھا۔۔۔۔ اور پریسا کے کمر پر رکھے دونوں ہاتھوں کو مڑور کر لاک کرتا اُسے اپنے بہت قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
"تم۔۔۔ تمہاری یہ فضول سی ڈیمانڈز میرے نزدیک زرا سی اہمیت بھی نہیں رکھتے۔۔۔۔۔ تم جو کرنا چاہ رہی ہو اُس میں سب سے زیادہ نقصان تمہارا ہی ہوگا۔۔۔ اِس لیے اپنی یہ اوچھی حرکتیں بند کرو۔۔۔۔۔ اور دوبارہ میرے سامنے مت آنا۔۔۔۔ ورنہ نتائج کی زمہ دار تم ہوگی۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس دو دن کا وقت ہے۔۔۔۔ میں نے جو تمہیں آزاد کرنے کی شرط رکھی تھی اُس پر حامی بھرتی ہوتو ٹھیک۔۔۔۔ ورنہ تمہاری لاش کو آفندی مینشن بھجوانا میرے لیے مشکل کام بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کے وحشیانہ لمس سے پریسا کی کلائیاں بالکل لال ہوچکی تھیں۔۔۔۔۔ درد کے مارے اُس کی آنکھوں سے کئی آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔۔ کل اِس شخص کو اُس قابلے رحم حالت میں دیکھ کر پریسا کے دل میں جو نرمی پیدا ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ سب اب ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔ اُس کے دل میں بلیک بیسٹ کا خوف ایک بار پھر پوری طرح سے چھا گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ کچھ نہیں بولی تھی۔۔۔۔۔ وہ ایک دم شاہ ویز سکندر سے بلیک بیسٹ کے رُوپ میں آتے شخص کی جانب دیکھنے سے بھی گریزاں تھی۔۔۔۔۔
"اقراء۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے خود سے دور جھٹکتا زور سے دھاڑا تھا۔۔۔۔ پریسا اُس کے دھتکارنے پر لڑکھڑا کر زمین پر جاگری تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اُس کی کہنی بُری طرح چھل گئی تھی۔۔۔۔
"جی سر۔۔۔۔۔۔"
اقراء فوراً حاضر ہوئی تھی۔۔۔۔۔
"لے جاؤ اِسے۔۔۔۔ اور کال کوٹھڑی میں باندھ دو۔۔۔ مجھے اب یہ یہاں آزار پھرتی نظر نہ آئے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز بنا نیچے گری پریسا پر ایک بھی نگاہِ غلط ڈالے وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
اقراء نے بنا کچھ بولے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔ مگر اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ اچانک اتنا وحشی بنا کیوں تھا۔۔۔۔ پریسا کے صرف ایک کیک کی ڈیمانڈ پر تو وہ اتنے غصے میں نہیں آسکتا تھا۔۔۔۔
آخر ریزن کیا تھا اتنا غصہ کرنے کا۔۔۔۔ وہ بلا وجہ کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔۔۔۔ صرف قصور وار کو ہی اُس کی سزا سناتا تھا۔۔۔ تو پھر پریسا کس بات کی قصور وار تھی۔۔۔۔ کیا گناہ سرزد ہوا تھا اُس سے۔۔۔۔؟؟؟
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
اقراء نے آگے بڑھ کر پریسا کو تھاما تھا۔۔۔ جو ابھی تک وہیں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔ اُس کا پورا وجود شاہ ویز کے خوف سے کانپ رہا تھا۔۔۔۔
"بہت بُرا ہے یہ شخص۔۔۔۔ شدید نفرت کرتی ہوں میں اِس سے۔۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی اِسے۔۔۔۔ وحشی، غنڈہ، موالی کہیں کا۔۔۔۔"
پریسا ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھتی روتے ہوئے شاہ ویز کو جن القابات سے نواز رہی تھی۔۔۔ وہ سنتے اقراء بمشکل اپنی مسکراہٹ پوشیدہ رکھ پائی تھی۔۔۔
اُس کا زرا بھی دل نہیں چاہا تھا اِس پیاری سی لڑکی کو ایسی سخت سزا دینے کو۔۔۔۔ مگر اِس وقت اُسے صرف شاہ ویز کا آرڈر ہی فالو کرنا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"باقی لوگ دوستی کے ناطے مدد کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر میں دشمنی کے ناطے۔۔۔۔ بے شک اِسے اُدھار سمجھ کر آگے کسی موقع پر تم بِھی اُتار دینا۔۔۔۔"
حازم اُس کے سامنے خود کو اُس کا ہمدرر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اِس لیے سودا بازی کرتے بولا تھا۔۔۔۔
"تم کیا مدد کرسکتے ہو میری۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ لوگ چاہتے ہیں میں کیس واپس لے لوں۔۔۔ جو میں مر کر بھی نہیں کروں گی۔۔۔ لیکن اُن کو پرابلم مجھ سے ہے مارنا ہے تو مجھے ماریں۔۔۔ میری ماما اور بہن کو اُنہوں نے خراش بھی پہنچائی تو چھوڑوں گی نہیں میں اُنہیں۔۔۔۔"
حبہ کو اِس وقت کسی مضبوط ساتھ کی ضرورت تھی۔۔۔ جو حازم کے رُوپ میں اُسے ملا تھا۔۔۔۔ وہ اِس وقت کوشش کے باوجود اُس سے بے رُخی نہیں برت پائی تھی۔۔۔۔۔ نجانے کیوں دل اس شخص پر یقین کرنے کا خواہاں تھا۔۔۔۔
"شمشیر خان کو بہت اچھے سے جانتا ہوں میں۔۔۔ میری برادری کا آدمی ہے جانتا کیسے نہیں ہونگا میں۔۔۔۔ شریف وہ دنیا والوں کے لیے ہے۔۔۔ مگر ہم اُس کی اصلیت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔۔۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اُس نے تمہاری ماں اور بہن ہو کہاں رکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ میں وہاں تک پہنچنے میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔۔۔۔"
حازم کو اُس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
"تم کیوں کرنا چاہتے ہو میری مدد۔۔۔ وہ بھی اپنے سر دشمنی مول لے کر۔۔۔۔ ؟؟؟"
حبہ کو یہ بات بہت عجیب لگی تھی۔۔۔
"میں تمہاری مدد نہیں کررہا ہے۔۔۔ اپنی دشمنی نکال رہا ہوں اُس شخص سے۔۔۔ بہت پُرانا حساب رہتا ہے اُس سے۔۔۔ جو اب پورا ہوگا۔۔۔۔۔ اگر تم اپنی بہن اور ماں کو بچانے کے لیے اِس کیس سے پیچھے ہٹ گئی تو میرا حساب بھی ادھورا رہ جائے گا۔۔۔۔ اِس لیے میں یہ سب کررہا ہوں۔۔۔۔"
حازم نے جھوٹ کا سہارا لیتے اُس کے سامنے اپنی اچھائی نہیں آنے دی تھی۔۔۔۔۔
حبہ کچھ پل کھوجتی نگاہوں سے اُسے دیکھتی رہی تھی۔۔۔۔ اپنے دشمن پر یوں یقین کرنا اُس کے لیے مشکل تھا۔۔۔ مگر اِس وقت اُس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ تو کیا کرنا ہوگا ہمیں۔۔۔۔"
حبہ اُس کی مدد لینے پر راضی ہوچکی تھی۔۔۔ حازم اُس کی آنکھوں میں پر اسرار سی چمک دیکھ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔۔
اُس کی یہ جنگلی بلی کیا سوچتی تھی۔۔۔ اور اُس کے حوالے سے کیا ارادے رکھتی تھی حازم سے بہتر شاید اُسے کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
حازم اُسے پندرہ منٹ میں تیار ہوکر مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کا کہتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یا خدا۔۔۔۔ یہ فائرنگ کی آواز تو گھر کے باہر سے آرہی ہے۔۔۔۔ اور ابھی زین ہی باہر نکلا ہے۔۔۔۔۔"
فرح کی بات پر ڈرائنگ میں بیٹھے تمام افراد کے دل دہل اُٹھے تھے۔۔۔۔
سب فوراً باہر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔ سب سے پہلے صدیقی صاحب ہی باہر پہنچے تھے۔۔۔۔۔ زین کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی۔۔۔ مگر وہ بالکل محفوظ تھا۔۔۔۔
اور کافی خوفزدہ بھی۔۔۔۔۔
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟"
سمیعہ بیگم نے فوراً اُسے سینے سے لگاتے اُس کے صحیح سلامت ہونے کا یقین کیا تھا۔۔۔۔ لوگوں کو اُکٹھا ہوتے دیکھ حملہ آور بھاگ گئے تھے۔۔۔۔
جب پانچ منٹ بعد پولیس کی تین گاڑیاں سائرن بجاتی اُن کے پاس آن رکی تھیں۔۔۔۔جس میں سے بھاگ کر نکلتے حمدان کو دیکھ صدیقی ولا کا ہر فرد ساکت ہوا تھا۔۔۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حمدان آج اتنے عرصے بعد واپس اِس چوکھٹ پر لوٹا تھا۔۔۔۔
"زین تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟ آپ سب لوگ ٹھیک ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
ہمیشہ اُن سب کے سامنے سرد پن اور بے جسی برتنے والا ایس پی حمدان صدیقی اپنے گھر والوں پر آئی زرا سی آفت تڑپ اُٹھا تھا۔۔۔۔
اُس کا لال چہرا اور آنکھیں بتا رہی تھیں۔۔۔ کہ پارک سے گھر تک کا یہ پانچ منٹ کا راستہ اُس نے کس طرح طے کیا تھا۔۔۔۔
"ہمیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔ ہم بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔۔ اور اپنا خیال رکھنا بہت اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔۔ تم اپنی یہ سیکورٹی لے کر جاسکتے ہو۔۔۔ ہمیں اِس کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
صدیقی صاحب زین کو حمدان سے دور کرتے باقی سب کو اندر جانے کا اشارہ کرتے گیٹ کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
"بابا۔۔۔۔ آپ لوگوں کو اِس سیکورٹی کی ضرورت ہے۔۔۔۔"
حمدان جیسا اکڑو شخص اپنے باپ کے آگے نرم پڑتا بمشکل یہ الفاظ ادا کر پایا تھا۔۔۔۔
"ہمیں کسی سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہے ایس پی صاحب۔۔۔۔ ہمیں اپنے بیٹے کی ضرورت ہے۔۔۔ جو اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ رہنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔۔۔ "
صدیقی صاحب اُسے نروٹھے لہجے میں جواب دیتے اندر کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔۔ گیٹ بند کرتے اُجالا نے نگاہیں اُٹھا کر حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جس شخص کے لیے اپنے گھر کی دہلیز پار کرنا بھی بہت مشکل امر ثابت ہورہا تھا۔۔۔۔
اُس نے جان بوجھ کر دروازہ بند کرنے کے بجائے آدھ کھلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ جب اُسی لمحے حمدان کی نظر اُس پر پڑتی اُسے زلزلوں کی نذر کر گئی تھی۔۔۔۔۔
حمدان تیر کی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جس دہلیز کو کبھی نہ پار کرنے کی قدم کھا رکھی تھی اُس نے۔۔۔۔ اُجالا کو دیکھ وہ سب ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔
"تم۔۔۔ تم یہاں میرے گھر میں کیا کررہی ہو۔۔۔۔ تم زندہ۔۔۔ تم تو جل کر مر گئی تھی نا۔۔۔۔"
حمدان سب کے ساتھ اندر بڑھتی اُجالا کی کلائی دبوچ کر اُسے وہیں روکتا۔۔۔۔ اُجالا سمیت وہاں موجود تمام افراد کو ساکت کر گیا تھا۔۔۔۔
کسی کو اُمید نہیں تھی حمدان اندر آئے گا۔۔۔ مگر اندر آکر اُس نے جو الفاظ ادا کیے تھے اُس نے اُنہیں خوش ہونے کے ساتھ ساتھ مزید شاک کردیا تھا۔۔۔۔
حمدان تیر کی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جس دہلیز کو کبھی نہ پار کرنے کی قسم کھا رکھی تھی اُس نے۔۔۔۔ اُجالا کو دیکھ وہ سب ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔
"تم۔۔۔ تم یہاں میرے گھر میں کیا کررہی ہو۔۔۔۔ تم زندہ۔۔۔ تم تو جل کر مر گئی تھی نا۔۔۔۔"
حمدان سب کے ساتھ اندر بڑھتی اُجالا کی کلائی دبوچ کر اُسے وہیں روکتا۔۔۔۔ اُجالا سمیت وہاں موجود تمام افراد کو ساکت کر گیا تھا۔۔۔۔
کسی کو اُمید نہیں تھی حمدان اندر آئے گا۔۔۔ مگر اندر آکر اُس نے جو الفاظ ادا کیے تھے اُس نے اُنہیں خوش ہونے کے ساتھ ساتھ مزید شاک کردیا تھا۔۔۔۔
"حمدان بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟ یہ اُجالا ہے نسرین پھوپھو کی سب سے چھوٹی بیٹی۔۔۔ آپ اِسے ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟"
سب سے پہلے فرح کو ہی ہوش آیا تھا۔۔۔۔ وہ جلدی سے آتی حمدان کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے سہمی کھڑی اُجالا کی ڈھال بنی تھی۔۔۔۔۔
"تم چپ رہو۔۔۔ تم کچھ نہیں جانتی فرح۔۔۔ یہ لڑکی۔۔۔۔"
حمدان اُنہیں کچھ بھی بتانے کا ارادہ ترک کرتے اُجالا کا بازو تھامے اُسے باہر کے جانے لگا تھا۔۔۔۔
"یہ لڑکی میری بیٹی ہے ایس پی صاحب۔۔۔۔ اگر آپ کو ہمارا اِس گھر میں آنا اچھا نہیں لگا تو ہم ایسے ہی چلی جاتی ہیں۔۔۔ آپ کو یوں ہمیں بے عزت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔۔۔ فرح ہمارا سامان لا کردو۔۔۔ "
نسرین بیگم حمدان کے ہاتھ سے اُجالا کا بازو آزاد کرواتیں شکوہ کناں لہجے میں بولتیں فرح کو اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
"پھوپھو یہ لڑکی آپ کی بیٹی نہیں ہوسکتی یہ۔۔۔۔۔"
حمدان کا دماغ بالکل اُلٹ چکا تھا۔۔۔۔ آنسو بہاتی سامنے کھڑی لڑکی وہی تھی جس کی اُس کے آدمیوں نے بلیک سٹارز کی گینگ لیڈر ہونے کی تصدیق کی تھی۔۔۔۔
پھر یہ لڑکی اُس کی پھوپھو کی بیٹی کیسے ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔
حمدان نے ایک زہریلی نگاہ ڈری سہمی آنسو بہاتی اُجالا پر ڈالی تھی۔۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا یہ لڑکی اُس کے گھر تک پہنچ جائے گی۔۔۔
مگر یہ تو مر چکی تھی۔۔۔۔ پھر یہ کیسے یہاں۔۔۔۔؟؟؟ وہ بھی اُس کی پھوپھو زاد بن کر۔۔۔۔۔
حمدان کا دماغ پوری طرح اُلجھ چکا تھا۔۔۔۔۔
"اچھا۔۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیوں نہیں ہوسکتی یہ میری بیٹی۔۔۔۔ گزرے سالوں میں کتنی بار ملنے آئے ہو تم مجھے میرے گھر۔۔۔۔۔ جو جانتے ہو میرے بچوں کے بارے میں۔۔۔۔"
نسرین بیگم کو حمدان کا انداز بہت ہتھک آمیز لگا تھا۔۔۔۔
"یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔ آپ سب کو بے وقوف بنا رہی ہے۔۔۔۔۔"
حمدان نے بمشکل اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھتے اُنہیں سمجھانا چاہا تھا۔۔۔۔
"بس ایس پی صاحب بہت ہوگیا۔۔۔۔ یہ میرا گھر ہے۔۔۔ آپ کا تھانہ نہیں کہ آپ میری بچی کو یوں مجرم بنا کر اُس پر الزامات کی بوچھاڑ کردیں گے۔۔۔۔ اُجالا میری بھانجی ہے۔۔۔۔ اور مجھے بہت عزیز ہے۔۔۔۔ دو سال پہلے جب میں نسرین کے گھر گیا تھا تو میری طبیعت خراب ہونے پر اِسی بچی نے میری بھرپور خدمت کی تھی۔۔۔۔ اور تم اِسی بچی کو نجانے کیا کیا بولے جارہے ہو۔۔۔۔۔ اگر تمہیں ہمارے ساتھ نہیں رہنا تو مت رہو۔۔۔ مگر یہاں آکر یوں تماشے مت کرو۔۔۔ اُس لڑکی کے ساتھ رہ کر اُس جیسے ہی ہوگئے ہو۔۔۔ جس کے لیے کبھی بھی کسی پر بھی الزام لگا دینا عام سی بات ہے۔۔۔۔۔"
صدیقی صاحب نے آگے آتے اُجالا کو اپنے بازو کے حصار میں لیتے حمدان کی سخت نظروں سے بچایا تھا۔۔۔۔
پہلے پھوپھو اور اب اپنے بابا کے منہ سے اِس لڑکی کی گواہی سن کر حمدان نے ہونٹ بھینچ لیئے تھے۔۔۔۔
اُس نے ایک نظر سب پر ڈالی تھی۔۔۔ جو سب ہی اُجالا کے حمایتی بنے کھڑے تھے۔۔۔۔۔ اور اگلے کی لمحے وہ گہری سانس ہوا میں خارج کرتا خود کو ریلیکس کرگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سوری پھوپھو۔۔۔۔ لگتا ہے مجھے ہی کنفیوژن ہوگئی تھی۔۔۔ مگر آپ کو ہرٹ کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ آئم رئیلی سوری۔۔۔۔۔"
حمدان نسرین بیگم کو سینے سے لگاتا دل سے بولا تھا۔۔۔ ان کی کسی بھی معاملے میں کوئی غلطی نہیں تھی۔۔۔ وہ اُنہیں یا باقی گھر والوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
لیکن جس کی اتنی بے عزتی کی تھی۔۔۔ اُس کی جانب نگاہِ غلط ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا اُس نے۔۔۔۔
"بھائی میں نے بریانی بنائی ہے۔۔۔ پلیز کھا کر چلے جایئے گا۔۔۔۔۔"
حمدان کو واپس مُڑتا دیکھ فرح اُس کا بازو تھامتی منت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔ جس پر حمدان چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
اور سب کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُن سب کو اندر جاتا دیکھ اُجالا کے ہونٹوں پر ایک خوش کن مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اندر جو میں کہوں گا تم وہی کرو گی۔۔۔۔ اگر میری بات نہیں مانی تو تم اپنے ساتھ ساتھ اپنی فیملی کی زندگی بھی خطرے میں ڈال دو گی۔۔۔۔۔ "
حازم نے گاڑی شمشیر خان کے خفیہ بنگلے کی جانب بڑھاتے اپنے ساتھ بیٹھی حبہ کو وارن کیا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔۔۔ یہ جذباتی لڑکی کوئی جذباتی حرکت کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔
"اوکے۔۔۔ مگر تمہیں تو وہ لوگ جانتے ہیں۔۔۔ مجھے کیسے اندر جانے دیں گے وہ لوگ۔۔۔ وہ بھی ایسی حساس جگہ پر۔۔۔۔۔"
حبہ نے آخر دماغ میں کھلبلاتا سوال پوچھ ہی لیا تھا۔۔۔۔
"اُن میں سے کسی کی بھی اتنی ہمت نہیں کہ وہ میری بیوی کو میرے ساتھ جانے دے روک پائیں۔۔۔۔"
حازم فاسٹ ڈرائیونگ کرتا روڈ پر نگاہیں گاڑھے بولا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر پانی کی بوتل ہونٹوں سے لگائے بیٹھی حبہ کو زور کا اچھو لگا تھا۔۔۔۔۔
"کک کیا۔۔۔ کیا کہا تم نے ابھی۔۔۔ بیوی۔۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے بمشکل اپنی سانس بحال کرتے اُسے شاکی ہوکر دیکھا تھا۔۔۔۔
اُس کے ری ایکشن پر حازم کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔ جو چہرے پر ہنوز سیاہ لباس ہونے کی وجہ سے حبہ دیکھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔
"ایس پی صاحبہ وہاں آپ کو اپنی بیوی کی حیثیت سے انٹروڈیوس کرواؤں گا۔ تبھی وہ میرے ساتھ اندر جانے دیں گے۔۔۔۔ اور میرا ٹیسٹ ابھی اتنا خراب بالکل بھی نہیں ہوا کہ ایسی سڑیل جذبات سے آری لڑکی کو بیوی بناؤں۔۔۔۔۔۔"
حازم نے اُس کے آگے بات کلیئر کرتے اُس کی حیرت ختم کردی تھی۔۔۔۔ حبہ اپنی رکی ہوئی سانس بحال کرتے دوبارہ پانی پینے لگی تھی۔۔۔ ورنہ کچھ لمحے پہلے حازم کی گھمبیر بھاری لہجے میں کی جانے والی بات اُس کے جسم سے جان نچوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔
حبہ اِس وقت سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس۔۔۔ آنکھوں پر سن گلاسز اور چہرے پر ماسک لگائے ہوئے تھی۔۔۔ تاکہ شمشیر اور اُس کے آدمی ایس پی حبہ کو پہچان نہ پائیں۔۔۔۔۔۔ حازم اِس وقت بلیک پینٹ شرٹ میں چہرے پر اپنے مخصوص سٹائل میں رومال باندھ کر نقاب کیے ماحول پر چھایا ہوا لگ رہا تھا۔۔۔۔
اُس کے کسرتی چوڑے کندھے اور دراز قد اُس کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتا تھا۔۔۔۔۔
حازم کے مخصوص اشارے پر شمشیر خان کے آدمی نے گیٹ کھول کر اُنہیں اندر آنے دیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی سے اُتر کر ایک آدمی کی معیت میں وہ دونوں اندر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔ حازم نے حبہ کو بالکل اپنے ساتھ ساتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
حبہ اُس کا یہ پروٹیکٹو انداز نوٹ کیے بنا نہیں رہ پائی تھی۔۔۔۔ اُس کا دشمن بھلا اُس کی اتنی فکر کیسے کرسکتا تھا۔۔۔ کہ اُسے لیے اتنی خطرناک جگہ پر آن پہنچا تھا۔۔۔ اگر اِن لوگوں کو زرا سی بھی بھنک پر جاتی کہ وہ اُن کے ٹھکانے پر ایس پی حبہ کو لے آیا ہے تو اُنہوں نے اُسے ختم کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگانا تھا۔۔۔۔۔
حبہ کے زہن میں یہ گتھی ہت گزرتے لمحے کے ساتھ اُلجھتی جارہی تھی۔۔۔۔
"زہے نصیب۔۔۔۔ آج تو ہمارے آشیانہ کی رونق مزید بڑھ گئی ہے۔۔۔ "
شمشیر حازم کو دیکھتے ہی گرم جوشی سے ملا تھا۔ جبکہ حبہ مُٹھیاں بھینچ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا اِن کے ساتھ کیا کر ڈالے۔۔۔۔
"وعدہ کیا تھا تم سے۔۔۔۔ بہت جلد ملنے آؤں گا۔۔۔ اور تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ بلیک سٹارز اپنے وعدے کے کتنے پابند ہوتے ہیں۔۔۔۔۔"
حازم حبہ کے ساتھ صوفے پر براجمان ہوتا شمشیر کو معنی خیز سا جواب دے گیا تھا۔۔۔۔ جس کا مطلب سمجھے بغیر شمشیر خان قہقہ لگا گیا تھا۔۔۔
"آپ نے شادی کرلی اور بلایا بھی نہیں۔۔۔۔ کیسی ہیں بھابھی آپ۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کو شمشیر خان حازم کے سامنے کافی مہذب لگا تھا۔۔۔ جو بات اُسے کافی حیران کررہی تھی۔۔۔ اُسے تو لگا تھا کہ اِن بلیک سٹارز کی دہشت صرف عوام پر چھائی ہوئی تھی۔۔۔ مگر یہ تو انڈر ورلڈ کی دنیا کے بھی باپ لگ رہے تھے اُسے۔۔۔۔۔ اُسے ایک دم حازم سے خوف بھی محسوس ہوا تھا۔۔۔ کیا اُس نے اپنے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملا کر ٹھیک کیا تھا۔۔۔
بعد میں کہیں اِس شخص سے لیا گیا احسان اُس پر بھاری تو نہیں پڑنے والا تھا۔۔۔۔۔۔
"بلایا نہیں تھا اِسی لیے تو ملوانے لے آیا ہوں۔۔۔۔ "
حبہ کے جواب دینے سے پہلے ہی حازم بول پڑا تھا۔۔۔۔
"محفل سجنے کا وقت کتنے بجے کا ہے۔۔۔۔ "
حازم نے جان بوجھ کر خود پر تھکن کے آثار طاری کرتے پوچھا تھا۔۔۔۔
"ابھی تو دو گھنٹے باقی ہیں۔۔۔ آپ کے لیے بیڈ روم تیار کروا دیا ہے۔۔۔ آپ لوگ جاکر کچھ دیر آرام کرسکتے ہیں۔۔۔۔"
شمشیر خان نے فوراً میزبانی نبھائی تھی۔۔۔ آج پہلی بار بلیک سٹار خود چل کر اُس کے ٹھکانے پر آیا تھا۔۔ وہ نمبر بنانے کا اتنا اچھا موقع ضائع کیسے ہونے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
"بہت شکریہ جناب۔۔۔۔"
حازم اپنی مرضی کی بات سن کر خوش ہوا تھا۔۔۔
"ویسے آج کی محفل میں زونیا بھی آرہی ہے۔۔۔۔ سپیشلی آپ کا سن کر۔۔۔ پچھلے دو سالوں سے آپ سے ایک ملاقات کے لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔۔۔۔"
شمشیر اچانک یاد آنے پر بولتا حازم کو بد مزا کر گیا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ نے چونک کر مشکوک نگاہوں سے حازم کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔
اُسے حازم کی اُس دن کی لڑکیوں کے متعلق کہی بات یاد آگئی تھی۔۔۔۔۔
حازم شمشیر کی بات کا بنا کوئی جواب دیے حبہ کو لیے روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔ روم میں داخل ہوتے ہی خونخوار نگاہوں سے حازم کو گھورتی حبہ نے اُس کے سینے پر ایک زور دار پنچ رسید کرتے اُسے بند دروازے کی جانب دھکیل دیا تھا۔۔۔ حازم اِس وار کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔؟؟
دروازے سے چت کمر ٹکائے وہ سوالیہ نگاہوں سے اپنی خونخوار ہوتی جنگلی بلی کو گھورنے لگا تھا۔۔۔
جو ایک بار پھر بنجے جھاڑے اُس کی جانب بڑھتی اُسے کالر سے دبوچ گئی تھی۔۔۔۔
"تم نے مجھ سے جھوٹ بولا نا۔۔۔ یہ۔لوگ کس محفل کی بات کررہے ہیں۔۔۔ یہاں کونسی محفل سجنے والی ہے۔۔۔ اور یہ زونیا کون ہے۔۔۔۔ کتنی لڑکیوں کے ساتھ افیئرز ہیں تمہارے۔۔۔۔"
حبہ کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جھلس رہی ہے۔۔۔۔ یہ آگ کس چیز کی تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔۔
جبکہ حازم آنکھوں میں شوخی بھری چمک سجائے اُس کی کمر کے گرد دونوں بازو باندھے اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔۔
"تم جیلس ہورہی ہو کیا۔۔۔۔؟؟؟"
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں زرا رائتہ لے آؤں اندر سے۔۔۔۔ وہ فریج میں پڑا تھا لانا ہی بھول گئی۔۔۔۔۔"
فرح ڈائینگ ٹیبل پوری طرح سے ریڈی کرچکی تھی۔۔۔ رائتہ نہ دیکھ وہ جلدی سے اٹھی تھی۔۔۔ ٹیبل پر سب ہی آچکے تھے۔۔۔ سوائے حمدان کے۔۔۔۔ جو جب سے آیا تھا نسرین بیگم کے پاس ہی پانچ منٹ بیٹھا تھا۔۔۔ کسی اور سے اُس نے کوئی بات کرنا گوارہ نہیں کی تھی۔۔۔ اور اُس کے بعد فون پر ایسا بزی ہوا تھا کہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"آپی آپ رُکیں میں لے آتی ہوں۔۔۔"
اُجالا اُسے اشارے سے منع کرتی خود کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔
ابھی اُس نے کچن میں قدم رکھا ہی تھا۔۔۔۔ جب کسی نے اُسے بازو سے تھام کر اندر کھینچتے دروازے کو زور دار انداز میں بند کرتے اُس کی کمر بہت زور سے دروازے کے ساتھ ٹکاتے اُس پر پوری طرح حاوی ہوا تھا۔۔۔۔
اُجالا کے منہ سے چیخ نکلنے سے پہلے ہی وہ اُس پر اپنی بھاری ہتھیلی دبا چکا تھا۔۔۔۔۔
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی۔۔۔ میرے گھر میں گھس کر میرے گھر والوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلنے کی۔۔۔۔ اگر تمہیں لگتا ہے۔۔۔ مجھے بھی پوری دنیا کی طرح بے وقوف بنا لوگی۔۔۔۔ تو تمہاری سب سے بری بھول ہے۔۔۔ تمہارا اتنا بُرا حال کروں گا کہ خود کو پہچان بھی نہیں پاؤ گی۔۔۔"
حمدان اُس کی دونوں کلائیاں مڑور کر کمر پر باندھے۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے اُس کا جبڑہ دبوچے اُسے شعلے برساتی نگاہوں سے دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔
اُس کی اتنی سختی کے جواب میں اُجالا کی آنکھوں سے آنسو رفتار سے بہہ نکلے تھے۔۔۔۔۔
وہ اُس سے بازو آزاد کروانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی اُس کی اتنی قربت سے بری طرح لرز رہی تھی۔۔۔۔۔
حمدان نے اُس کا جبڑ اتنی زور سے دبوچ رکھا تھا کہ اُسے بولنا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔۔
حمدان بہت غور سے اُس کی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔۔۔۔ اگر اُس نے مہروسہ کا چہرا نہ دیکھا ہوتا تو اُجالا میں صورت کے سوا کوئی مشابہت نہیں لگی تھی اُسے۔۔۔۔۔۔۔
مہروسہ جیسی ٹرینڈ لڑکی کے لیے اِس گرفت سے آزاد ہونا مشکل نہیں تھا۔۔۔۔ مگر سامنے بے بسی اور تکلیف سے آنسو بہاتی لڑکی کوئی اور ہی لگی تھی اُسے۔۔۔ بلیک سٹارز کی گینگ لیڈر نہیں۔۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔ یہ نازک پنے کا ڈھونگ کرکے تم مجھے گمراہ کر لو گی۔۔۔"
حمدان نے دبی آواز میں غراتے اُس کا جبڑا آزاد کردیا تھا۔۔۔۔۔۔
اُجالا کا پورا چہرا بھیگ چکا تھا۔۔۔۔ کچھ دیر تک تو وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔
"آآآپپ۔۔۔۔ آپ کک کیا۔۔۔۔بب بول۔۔۔ ررر رہے ہی۔۔ ہیں۔۔۔ ؟؟؟ میں کیوں کروں گی ایسا کچھ۔۔۔ میں تو آپ کو جج۔۔۔ جانتی بھی ن نہیں ہوں۔۔۔ آج پہلی بار دیکھا آپ کو۔۔۔ میں تو یہاں آنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ ایگزیمز ختم ہونے کے بعد کچھ کورسز کرنے تھے۔۔۔ مگر مما نے وہ بھی نہیں کرنے دیئے۔۔۔۔ وہ یہاں لانا چاہتی تھیں۔۔۔ لیکن مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔۔۔ میں مما کو کہوں گی۔۔۔۔"
سسکیوں کے بیچ کمزور سی آواز میں بولتی وہ حمدان کو اُس کی کلائیاں آزاد کرنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔ بڑی بڑی جھیل سی دلکش آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔۔ لمبی خمدار گیلی پلکیں شبنم کے قطروں سے سجیں اِس وقت بہت دلکش منظر پیش کررہی تھیں۔۔۔۔ حمدان بے اختیار اِس حسین بلا سے دور ہوا تھا۔۔۔
جو بہت بری طرح چپک گئی تھی اُس سے۔۔۔۔ ہر بار ایک نئے روپ میں اُس کے سامنے آکر اُسے مزید اُلجھا دیتی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز رات ہونے سے پہلے ہی واپس لوٹ آیا تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔ نجانے کیا چیز اُسے واپس بلیک ہاؤس کھینچ لائی تھی۔۔۔۔ ورنہ آج تک کبھی بھی وہ اِس طرح بنا اپنا کام پورا کیے واپس نہیں لوٹا تھا۔۔۔۔
اپنے روم میں آکر چینج کرکے فریش ہوتے وہ باہر نکل آیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ اور حازم دونوں اِس وقت اپنے مشنز پر تھے۔۔۔ جن کی غیرموجودگی کی وجہ سے اُسے بلیک ہاؤس پر سناٹا سا چھایا معلوم ہوا تھا۔۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔۔۔"
شاہ ویز سیگریٹ سلگھا کر ہونٹوں میں دباتا اپنی پسندیدہ جگہ پر آن بیٹھا تھا۔۔۔ جہاں وہ مہروسہ اور حازم کے ساتھ بیٹھتا تھا۔۔۔ ایک دم تاریک جگہ۔۔۔۔ اُسے اندھیرا بہت پسند تھا۔۔۔۔
سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان کو گھورتے وہ سیگریٹ کا داھواں اپنے حلق میں اُتار رہا تھا جب اقراء نے آکر اُسے کی محویت توڑی تھی۔۔۔۔
"ہممم۔۔۔ کیا ہوا..؟؟؟"
شاہ ویز نے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"سر وہ۔۔۔ آپ کے کہنے پر پریسا کو کال کوٹھڑی میں بند کردیا تھا۔۔۔۔ اُس نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔ اور وہ اندھیرے سے بہت زیادہ ڈرتی ہے۔۔۔۔ پتا نہیں اب تک اُس کا کیا حال ہوچکا ہوگا۔۔۔۔۔"
اقراء کو معصوم سی پریسا بہت پیاری لگتی تھی۔۔۔ اُسے اُس کی بہت زیادہ فکر ستائے جارہی تھی۔۔۔۔۔ اِس لیے شاہ ویز کے غصے سے شدید خوفزدہ ہونے کے باوجود وہ اُس کے پاس پریسا کی سفارش لیے آن پہنچی تھی۔۔۔۔
"اوہ۔۔۔ اُسے تو میں بھول ہی گیا تھا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز لاپرواہی سے کہتا اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔ اُس کا یہ بھولپن اقراء ہضم نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کوئی بات بھول جائے ممکن نہیں تھا۔۔۔۔
"میں دیکھتا ہوں اُسے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز سیگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتا اُس جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
"کوئی تو گڑبڑ چل رہی ہے شاہ سر کے دماغ میں۔۔۔ یہ پریسا کے معاملے میں اتنا عجیب بی ہیو کیوں کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟"
اقراء شاہ ویز کی چوڑی پشت کو گھورتے پرسوچ انداز میں بولی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز لائٹ آن کرتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ اِس کمرے میں کوئی کھڑکی اور روشن دان نہیں تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ ایک لمحے کے لیے شاہ ویز سکندر کے چہرے پر بھی پریشانی نمایاں ہوئی تھی۔۔۔۔
پریسا کرسی پر رسیوں میں بندھی بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں شاہ ویز کو اپنی سنگدلی پر افسوس ہوا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے یہ احساس زائل بھی ہوچکا تھا۔۔۔۔
کیونکہ غلطی اِس لڑکی کی ہی تھی۔۔۔۔ جو بلیک بیسٹ سے ٹکرانے کی بے وقوفی کررہی تھی۔۔۔۔۔ وہ معاف نہیں کرتا تھا سزا دیتا تھا۔۔۔۔ جس کے زیرِ اثر اِس وقت پریسا آفندی تھی۔۔۔۔
جلدی سے رسیاں کھولتے شاہ ویز اُس کے برف کی طرح ٹھنڈے پڑتے وجود کو بانہوں میں اُٹھائے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُسے اُس کے روم میں لاکر بیڈ پر لٹاتے شاہ ویز نے کمفرٹر سے اُس کے ٹھنڈ سے سرد پڑتے وجود کو ڈھانپا تھا۔۔۔۔
سامنے کا منظر دیکھ ایک لمحے کے لیے شاہ ویز سکندر کے چہرے پر بھی پریشانی نمایاں ہوئی تھی۔۔۔۔
پریسا کرسی پر رسیوں میں بندھی بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں شاہ ویز کو اپنی سنگدلی پر افسوس ہوا تھا۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے یہ احساس زائل بھی ہوچکا تھا۔۔۔۔
کیونکہ غلطی اِس لڑکی کی ہی تھی۔۔۔۔ جو بلیک بیسٹ سے ٹکرانے کی بے وقوفی کررہی تھی۔۔۔۔۔ وہ معاف نہیں کرتا تھا سزا دیتا تھا۔۔۔۔ جس کے زیرِ اثر اِس وقت پریسا آفندی تھی۔۔۔۔
جلدی سے رسیاں کھولتے شاہ ویز اُس کے برف کی طرح ٹھنڈے پڑتے وجود کو بانہوں میں اُٹھائے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُسے اُس کے روم میں لاکر بیڈ پر لٹاتے شاہ ویز نے کمفرٹر سے اُس کے ٹھنڈ سے سرد پڑتے وجود کو ڈھانپا تھا۔۔۔۔
پریسا کے ہونٹ بالکل نیلے پڑ چکے تھے۔۔۔ شاہ ویز نے ہیٹر آن کرتے روم کا ٹمپریچر بڑھایا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹرز کی پوری ٹیم فل ٹائم بلیک ہاؤس میں بنائے گئے ہاسپٹل میں موجود رہتی تھی۔۔۔ شاہ ویز کی ایک کال پر فی میل ڈاکٹر فوراً پہنچ گئی تھی۔۔۔۔
"سر یہ بہت زیادہ بھوک،خوف اور ٹھنڈ کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں۔۔۔۔ کچھ دیر میں ہوش آجائے گا۔۔۔ یہ بہت نازک ہیں۔۔۔ اِس طرح کی سختیاں برداشت نہیں کرسکتیں۔۔۔ اگر زیادہ دیر یہ اُسی کنڈیشن میں رہتی تو اِن کی طبیعت زیادہ بگڑ سکتی تھی۔۔۔ "
ڈاکٹر آخر میں ڈرتے ڈرتے شاہ ویز کو اُس کا خیال رکھنے کا کہتی سامان لیتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے مُٹھیاں بھینچے آنکھیں موندے تکیے پر سر رکِے لیٹی پریسا کو دیکھا تھا۔۔۔ جس پر وہ زرا سی سختی بھی نہیں کرپارہا تھا۔۔۔۔۔
"اقراء کو بھیجو۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے سیگریٹ کی ڈبی دینے آئے ملازم کو کہا تھا۔۔۔ وہ اقراء کو یہاں بھیج کر خود اِس لڑکی سے دور جانا چاہتا تھا۔۔۔
"سر وہ تو جنید سر کے ساتھ باہر چلی گئی ہیں۔۔۔ کسی ضروری کام سے جانا تھا اُنہیں۔۔۔۔۔"
ملازم کے بتانے پر شاہ ویز کے نقوش مزید تن گئے تھے۔۔۔۔
"انعم کو بھیج دو۔۔۔۔"
شاہ ویز نے سیگریٹ سلگھاتے ایک بار پھر باہر کی جانب بڑھتے ملازم کو آواز دی تھی۔۔۔
"سر وہ بھی نہیں ہیں اِس وقت۔۔ اُنہیں صبح آپ نے خود بھیجا تھا شاید۔۔۔"
ملازم نے شاہ ویز کا لال پڑتا چہرا دیکھ ڈرتے ڈرتے کہا تھا۔۔۔ کہ کہیں شاہ ویز کا یہ شدید غصہ اُسی پر نہ نکل جائے۔۔۔۔
"واٹ دا ہیل۔۔۔۔ کہاں مر گئے ہیں سب ایک ساتھ۔۔۔ "
شاہ ویز نے ایک زور دار ٹھوکر ٹیبل پر رسید کرتے زچ ہوتے کہا تھا۔۔۔۔
وہ اِس جادوگرنی کے پاس زیادہ دیر رکنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔ جو اُسے اپنے سحر میں جکڑنا چاہتی تھی۔۔۔ جس کے قریب آتے شاہ ویز سکندر کا دل اُس سے بغاوت کرنے لگتا تھا۔۔۔
یہاں کسی مرد کو پریسا کا خیال رکھنے کے لیے چھوڑنا اُسے گوارہ نہیں تھا۔۔۔۔ اکیلا اِس حالت میِں چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔ اُس کا دماغ بالکل خراب ہوچکا تھا۔۔۔۔
ملازم اجازت ملتے ہی خاموشی سے نکل گیا تھا۔۔۔
مگر شاہ ویز کے زور دار ٹھوکر مارنے پر پریسا کسمسائی تھی۔۔۔۔ اُسے حرکت کرتا دیکھ شاہ ویز سکندر اپنا سیگریٹ ملازم کی لائی ایش ٹرے میں مسلتا بے اختیاری میں اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
آج تک کبھی اُس نے کسی کے لیے اپنا سیگریٹ یوں آدھا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ چاہے وہ بندہ مر ہی کیوں نہ رہا ہو۔۔۔۔ مگر اِس وقت جو حرکت بے دھیانی میں وہ کرگیا تھا۔۔۔ اِس پر اِس وقت وہ خود بھی دھیان نہیں دے پایا تھا۔
"آر یو اوکے۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے سر پر کھڑا ہوتا بلب کی روشنی میں دمکتے اُس کے حسین نقوش کو گھورتے اپنے مخصوص روڈ انداز میں پوچھنے لگا تھا۔۔۔۔
پریسا نے آنکھیں کھولتے اجنبی نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔ جو اُس سے کچھ فاصلے پر ہی آنکھوں میں شاید فکر کی ہلکی سی جھلک لیے اُس پر جھکا ہوا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے بہت غور سے نوٹ کیا کہ پریسا کی آنکھوں میں اجنبیت ناراضگی اور پھر غصے کے رنگ آن ٹھہرے تھے۔۔۔۔ شاہ ویز نے اُس کے ساتھ جو سلوک کیا تھا۔۔۔ اُس کے بعد وہ اِس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
پریسا نے بنا اُسے کوئی جواب دیئے اُس کی جانب سے اپنا چہرا پھیر دیا تھا۔۔۔۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کو اُس کا انداز سخت بُرا لگا تھا۔۔۔۔
"نہیں دے رہی جواب۔۔۔ کیا کرلو گے تم۔۔۔؟؟؟ دوبارہ قید کردو گے مجھے وہاں۔۔۔ کردو۔۔۔۔ نہیں ڈرتی میں تم سے۔۔۔"
پریسا کی طبیعت اب کافی بہتر ہوچکی تھی۔۔۔ ہیٹر لگا ہونے کی وجہ سے روم میں ٹھنڈ کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمفرٹر ہٹاتی بیڈ سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز خاموشی سے مُٹھیاں بھینچے اُس کے بکھرے حلیے کو دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔ اِس لڑکی کو خود کو ڈھانپنا بالکل بھی نہیں آتا تھا۔۔۔ شاہ ویز نے فوراً اُس کی جانب سے نظریں چراتے اپنے غصے پر قابو پایا تھا۔۔۔۔
یہ لڑکی جب بھی اُس کے قریب ہوتی تھی۔۔۔ اُس کا غصہ ایسے ہی سوا نیزے پر پہنچا ہوتا تھا۔۔۔۔
"میں کھانا بھجوا رہا ہوں۔۔۔ اگر اب بھی نہ کھایا تو مجھ دے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ کیونکہ میں تمہیں اتنی آسانی سے بالکل بھی مرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنا دوسرا سیگریٹ سلگھاتا باہر کی جانب جاتے بولا تھا۔۔۔۔ اگر اُسے اِس وقت پریسا نے نخرہ دکھایا تھا تو اُس نے بھی فوراً بتا دیا تھا کہ اُس میں بھی ایٹی ٹیوڈ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔۔۔۔
"تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔۔ تم اپنا یہ درندگی بھرا روپ دکھا کر مجھے ڈرا لو گے۔۔۔؟؟؟ میں اب نہیں ڈرنے والی تم سے۔۔۔۔ اور جب تک میری پسند کا بنا ہوا کیک میرے پاس نہیں آجاتا میں پانی تک کا گھونٹ بھی اپنے حلق سے نہیں نکالوں گی۔۔۔۔"
پریسا غصے سے اُس کے مقابل آتے چلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اُس نے پچھلے کچھ گھنٹے کس قدر اذیت میں گزارے تھے یہ وہی جانتی تھی۔۔۔ اُسے اندھیروں سے بہت ڈر لگتا تھا۔۔۔۔۔ اور یہاں بھی اُس کے بے ہوش ہونے کی وجہ بھوک اور ٹھنڈ سے زیادہ اندھیرے کا خوف تھا۔۔۔۔
پریسا کا انداز اُسے قطعی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں سرد پن لیے اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"تو تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز کی پتھریلی نگاہوں اور ٹھنڈے ٹھار لہجے پر وہ خوف سے کانپ گئی تھی۔۔۔ مگر اُس نے شاہ ویز کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔
اِس شخص سے اُسے کتنا ڈر لگتا تھا یہ وہ بیان نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ جو کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کرسکتا تھا۔۔۔۔
"تم نے ابھی میرا درندگی بھرا رُوپ دیکھا ہی کہاں ہے۔۔۔ جس دن دیکھو گی۔۔۔ تو سہہ نہیں پاؤ گی۔۔۔۔ اور یہ ساری بکواس کرکے تم اپنے لیے مشکلات کھڑی کررہی ہو۔۔۔۔ اب مزید اگر میرے بارے میں زرا سی بکواس بھی کی تو میں تمہاری زندگی مزید تنگ کردوں گا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے بات کے اختتام پر اُلٹے قدموں پیچھے جاتی پریسا کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
پریسا اپنی بچاؤ کی کوشش کرنے کے باوجود اُس کے سینے سے آن ٹکرائی تھی۔۔۔۔۔
"تم جانتی ہو اب تک کتنے قتل کرچکا ہوں میں۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کا جبڑا مُٹھی میں دبوچے اُس کا چہرا اپنے چہرے کے قریب کرتے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے کہا تھا۔۔۔۔
پریسا کو لگا تھا اِس انسان سے اُلجھ کر اُس نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔۔۔۔
"ننانوے۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے خود ہی جواب دیتے پریسا کے چودہ طبق روشن کردیئے تھے۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کی پتلیاں ناقابلے یقین حد تک واں ہوتیں شاہ ویز سکندر کو پل بھر کے لیے مبہوت کر دیا تھا۔۔۔۔۔
یہ لڑکی حُسن کا مجسمہ تھی۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اِس بات سے ہرگز انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔
"تو سوچو میں کتنا خطرناک انسان ہوں۔۔۔ اور کیا کچھ کرسکتا ہوں۔۔۔۔ "
شاہ ویز پریسا کی بولتی بند کروا چکا تھا۔۔۔
"جنید اگلے آدھے گھنٹے کے اندر گل بہار بیکرز سے گل شیر نامی شخص کو اُٹھا کر یہاں پہنچو۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات سن کر پریسا نے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"مجھے کیک نہیں کھانا۔۔۔۔ آپ پلیز گل بھائی کو کچھ مت کریں۔۔۔۔"
پریسا بمشکل بول پائی تھی۔۔۔۔۔ آفندی مینشن میں ہمیشہ اُس کی ہر فرمائش اور ضد مان لی جاتی تھی۔۔۔ مگر اُس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی کیک کی فرمائش اُسے اتنی مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔۔۔۔
شاہ ویز اُسے اپنی سخت گرفت سے آزاد کرتا خاموشی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آآآپپ۔۔۔۔ آپ کک کیا۔۔۔۔بب بول۔۔۔ ررر رہے ہی۔۔ ہیں۔۔۔ ؟؟؟ میں کیوں کروں گی ایسا کچھ۔۔۔ میں تو آپ کو جج۔۔۔ جانتی بھی ن نہیں ہوں۔۔۔ آج پہلی بار دیکھا آپ کو۔۔۔ میں تو یہاں آنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔ ایگزیمز ختم ہونے کے بعد کچھ کورسز کرنے تھے۔۔۔ مگر مما نے وہ بھی نہیں کرنے دیئے۔۔۔۔ وہ یہاں لانا چاہتی تھیں۔۔۔ لیکن مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔۔۔ میں مما کو کہوں گی۔۔۔۔"
سسکیوں کے بیچ کمزور سی آواز میں بولتی وہ حمدان کو اُس کی کلائیاں آزاد کرنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔ بڑی بڑی جھیل سی دلکش آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔۔۔۔ لمبی خمدار گیلی پلکیں شبنم کے قطروں سے سجیں اِس وقت بہت دلکش منظر پیش کررہی تھیں۔۔۔۔ حمدان بے اختیار اِس حسین بلا سے دور ہوا تھا۔۔۔
جو بہت بری طرح چپک گئی تھی اُس سے۔۔۔۔ ہر بار ایک نئے روپ میں اُس کے سامنے آکر اُسے مزید اُلجھا دیتی تھی۔۔۔۔
"تم یہ جو کررہی ہو۔۔۔ اِس کا انجام بہت بُرا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں اب اِسی گھر میں رہوں گا۔۔۔ اور چوبیس گھنٹے تم پر نظر رکھی جائے گی۔۔۔ اگر میرے گھر والوں کو زرا سا بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تمہارے اُس گینگ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دوں گا۔۔۔۔۔"
حمدان اُس سے دور ہوتا وارن کرنا نہیں بھولا تھا۔۔۔۔ اُجالا کی آنکھوں سے بہتے آنسو اُسے عجیب سے احساس سے دوچار کر گئے تھے۔۔۔۔
یہ ثابت کرنے کے لیے اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا کہ یہ لڑکی اُجالا نہیں بلکہ بلیک سٹار مہروسہ کنول ہے۔۔۔۔۔ جبکہ اِس لڑکی کے پاس اپنے اُجالا ہونے کے بہت سارے ثبوت تھے۔۔۔۔۔ جنہیں وہ جھٹلا نہیں پایا تھا۔۔۔۔
اُس کے اپنے گھر والے اُس کی کوئی بات سننے اور یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔۔۔
وہیں اُس کا دل ایک منٹ کے لیے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا یہ لڑکی مہروسہ نہیں اُجالا ہے۔۔۔۔ اُسے اِس لڑکی نے اپنے کھیل میں بُری طرح اُلجھا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔ اب مجبوراً اُسے اِسی گھر میں رہنا تھا۔۔۔ جہاں وہ آنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔
حمدان بنا کچھ کھائے گھر سے ہی نکل گیا تھا۔۔۔۔
گھر کے سب لوگ اُجالا اور نسرین بیگم سے حمدان کے بدترین رویے کی وجہ سے شرمندہ شرمندہ سے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ مگر اُجالا کی خوش مزاجی نے زیادہ دیر ایسا ماحول نہیں رہنے دیا تھا۔۔
"ویسے آپ کے یہ بھائی پیدائشی ایسے تھے۔۔۔ یا کسی وجہ سے اتنے سٹریل ہوئے ہیں۔۔۔۔ فرح کے ساتھ چائے پیتے اُجالا نے حمدان کی طرح منہ بنانے کی ایکٹنگ کرتے پوچھا۔۔۔
"شروع سے ہی کافی سیریس مزاج کے ہیں۔۔۔ اور پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد تو مزید سٹرکٹ ہوگئے ہیں۔۔۔۔ لیکن دل کے بہت اچھے ہیں۔۔۔ اپنوں کو زرا سا بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔ ابھی بس ناراض ہیں ہم سے اِسی لیے دور ہیں۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں۔۔۔ بہت جلد اُن کے دل سے یہ ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی۔۔۔۔ بس اُس چڑیل کا سایہ ہٹ جائے اُن کے اُوپر سے۔۔۔۔۔"
بات کے اختتام پر مریم کے ذکر پر فرح کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔۔۔
"کون۔۔۔۔ کس کی بات کررہی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟"
اُجالا اُس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی متجسس ہوئی تھی۔۔۔۔
"ایک منٹ ماما بلارہی ہیں میں آتی ہوں ابھی۔۔۔۔۔"
فرح سمیعہ بیگم کے بلاوے پر فوراً اُس جانب بھاگی تھی۔۔۔۔ جبکہ اُجالا ایک بار پھر بات ادھوری رہ جانے پر بدمزہ سی ہوئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم نے مجھ سے جھوٹ بولا نا۔۔۔ یہ۔لوگ کس محفل کی بات کررہے ہیں۔۔۔ یہاں کونسی محفل سجنے والی ہے۔۔۔ اور یہ زونیا کون ہے۔۔۔۔ کتنی لڑکیوں کے ساتھ افیئرز ہیں تمہارے۔۔۔۔"
حبہ کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ بھڑکتی آگ میں جھلس رہی ہے۔۔۔۔ یہ آگ کس چیز کی تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔۔
جبکہ حازم آنکھوں میں شوخی بھری چمک سجائے اُس کی کمر کے گرد دونوں بازو باندھے اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔۔
"تم جیلس ہورہی ہو کیا۔۔۔۔؟؟؟"
حازم اُس کی جانب شوخی سے دیکھتے بولا۔۔۔
جبکہ اُس کی ایک بار پھر کی جانے والی بے باک حرکت اور الفاظ حبہ کا غصہ مزید بڑھا گئے تھے۔۔۔۔
اُس کی گرفت حازم کے گریبان پر مزید سخت ہوئی تھی۔۔۔
"میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں ہے۔۔۔ تمہارا وہ ایک لڑکی پوچھے یا ہزاروں پوچھیں۔۔۔۔ مگر مجھے صرف یہ بتاؤ۔۔۔ یہ لوگ کس محفل کی بات کررہے تھے۔۔۔۔۔"
حبہ نے فوراً بات تبدیل کی تھی۔۔۔۔ اُسے کیا یہ شخص چاہے جتنی مرضی لڑکیوں سے افیئر رکھے۔۔۔۔
"کس کو کتنی پرواہ ہے وہ تو صاف نظر آرہا ہے ایس پی صاحبہ۔۔۔۔ ویسے آپ پولیس والی ہوکر ہم لوگوں کی محفلوں کے بارے میں نہیں جانتیں۔۔۔ حیرت کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔"
حازم کے معنی خیز انداز پر حبہ مزید مشکوک ہوئی تھی۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟ "
حبہ نے اُس کے گریبان کو اتنی سختی سے کھینچ رکھا تھا کہ حازم کی گردن بالکل لال ہوچکی تھی۔۔۔۔۔
"مطلب پولیس والی ہوکر ہماری شراب و شباب کی محفلوں سے انجان ہیں آپ۔۔۔۔ شمشیر خان اِسی محفل کی بات کررہا تھا۔۔۔ میرے یہاں آنے کی خوشی میں اُس نے یہ محفل رکھی ہے۔۔۔ "
حازم اپنی بات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے حبہ کے تاثرات دیکھ بہت مشکل سے اپنا قہقہ روک پایا تھا۔۔۔
"کیا مطلب تو اب مجھے وہ محفل بھی اٹینڈ کرنی پڑے گی۔۔۔۔ تم۔۔۔ تم یہ سب بھی کرتے ہو۔۔۔۔ دنیا کی ایسی کونسی بُری حصلت نہیں ہے جو تم نہیں رکھتے۔۔۔۔ تمہیں زرا شرم نہیں آتی یہ حرام کام کرتے ہوئے۔۔۔۔؟؟"
حبہ اُس سے دور ہوتی تیز نگاہوں سے اُسے گھورتے ہوئے بولی۔۔۔۔ جبکہ حازم اپنے کالر درست کرتا چہرے پر محظوظ کن مسکراہٹ سجائے کھڑکی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
"میں ایسی کوئی محفل نہ ہونے دوں گی اور نہ اٹینڈ کروں گی۔۔۔۔ "
حبہ کا ایس پی موڈ آن ہوچکا تھا۔۔۔۔ مگر حازم اِس وقت اُسے جواب دینے سے زیادہ باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔۔۔
"میں تم سے بات کررہی ہوں۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کو اپنا یوں اگنور کیا جانا بہت بُرا لگا تھا۔۔۔ وہ حازم کے قریب آتے کچھ بولنے ہی والی تھی۔۔۔ جب حازم ایک دم پلٹتا اُس کے منہ پر کلوروفارم بھرا رومال رکھ چکا تھا۔۔۔۔
حبہ نے بے یقینی بھری نظروں سے اُسے دیکھتے مزاحمت کرنی چاہی تھی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ حواس کھوتی حازم کی بانہوں میں لہرا گئی تھی۔۔۔۔
حازم اُسے بہت ہی نرمی اور احتیاط سے اپنی بانہوں میں اُٹھاتا بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اقراء پلیز مجھے اِس شخص کی حقیقت جاننی ہے۔۔۔ یہ بابا اور سفیان کا دشمن کیوں ہے۔۔۔ میں نے تو آج تک کبھی اُن کے منہ سے شاہ ویز سکندر کا نام تک نہیں سنا۔۔۔ اور جتنا پاور فل اور جلاد وہ ہے۔۔۔ اگر وہ بابا کو مارنے کا ارادہ رکھتا ہوتا تو کب کا اُنہیں ختم کرچکا۔۔۔۔ مگر وہ مجھے یوز کرکے بابا اور سفیان کے ساتھ بُرا کیوں کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے سچ جاننا ہے۔۔۔۔ اصل حقیقت ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟؟؟ اُس کا ایسا کرنے کے پیچھے کیا ریزن ہے۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے آج پورا ارادہ کرلیا تھا اقراء سے سب کچھ اگلوانے کا۔۔۔۔ اقراء کے علاوہ اُسے یہاں کوئی پسند نہیں تھا۔۔۔ باقی سب ہی اُسے احساس سے عاری چلتی پھرتی روبوٹ معلوم ہوتے تھے۔۔۔۔
"شاہ ویز سر کی حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا کے سب سے اچھے انسان ہیں۔۔۔۔ اُن جیسا پیار شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔ تم نے دیکھا ہے یہاں مجھ سمیت کتنے سارے لوگ موجود ہیں۔۔۔ جو سب شاہ سر اور میر سر کے انڈر کام کررہے ہیں۔۔۔ اور مجھ سمیت ہر فرد اُن کے لیے کسی بھی وقت اُن کی خاطر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔۔ ہمیشہ ہر جگہ دیکھا جاتا ہے کہ عورتوں کے لیے مردوں کے ساتھ کام کرن اتنا آسان نہیں رہتا۔ اور ایسا کام تو بالکل بھی نہیں۔۔۔ ۔ مگر یہاں ہمیں بہت ہی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔ کسی کی کبھی جرأت نہیں ہوئی کوئی غلط نگاہ ڈالنے کی۔۔۔ کیونکہ ہمارے لیڈرز بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔ ہم سب حق اور سچ کی راہ پر چل رہے ہیں۔۔۔ اِسی لیے ہمیشہ کامیابی نے ہمارے قدم چومے ہیں۔۔۔ اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔۔"
اقراء نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں جواب دیتے پریسا کو مزید اُلجھا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
"نہیں جو شخص کسی لڑکی کو بلاوجہ اغوا کرکے یوں قید کیے ہوئے ہے۔۔۔ وہ بھلا اچھا انسان کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"
پریسا شاہ ویز سکندر کی زرا سی بھی اچھائی ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔۔
"کیا پتا ایسا کرنے میں اُسی لڑکی کی کوئی بھلائی پوشیدہ ہو۔۔۔۔؟؟"
کمرے میں گونجتی مہروسہ کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح سیاہ لباس میں ملبوس سکارف سے اپنا سر اور بال ڈھکے وہ سنجیدہ تاثرات کے ساتھ اندر آئی تھی۔۔۔۔۔
"یہ گینگ لیڈر ہونے کے ساتھ جن بھی ہیں۔۔۔ کبھی بھی کہیں بھی حاضر ہوجاتے ہیں۔۔۔۔"
پریسا مہروسہ کو وہاں آتا دیکھ بدمزا ہوئی تھی۔۔۔۔
"کیا پتا ایسا کرنے میں اُسی لڑکی کی کوئی بھلائی پوشیدہ ہو۔۔۔۔؟؟"
کمرے میں گونجتی مہروسہ کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح سیاہ لباس میں ملبوس سکارف سے اپنا سر اور بال ڈھکے وہ سنجیدہ تاثرات کے ساتھ اندر آئی تھی۔۔۔۔۔
"یہ گینگ لیڈر ہونے کے ساتھ جن بھی ہیں۔۔۔ کبھی بھی کہیں بھی حاضر ہوجاتے ہیں۔۔۔۔"
پریسا مہروسہ کو وہاں آتا دیکھ بدمزا ہوئی تھی۔۔۔۔
"اور ناحق کسی کا قتل کرنے میں بھی کیا مقتول کی بھلائی پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔؟؟"
پریسا کو ہر ایک کا اُس شخص کی حمایت کرنا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"جی بالکل۔۔۔ بھلائی ہے اِس میں بھی۔۔۔ مگر ابھی آپ کو اِس کی سمجھ بالکل بھی نہیں آئے گی۔۔۔۔ آپ کا فائدہ اِسی میں ہے کہ شاہ سر جو کہہ رہے ہیں وہ مان جائیں۔۔
اُن کی اِس بات سے انکار کر کے ایسا نہ ہو بعد میں آپ کو بھی پچھتانا پڑے۔۔۔۔"
مہروسہ نے اُسے نرمی سے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔۔
"مہرو میم وہ سر کہہ رہے ہیں کہ پریسا جی کو باہر بھیج دیں۔۔۔ کیک بھی بن چکا ہے اور کوئی گل شیر نامی شخص اِن سے ملنا بھی چاہتا ہے۔۔۔۔"
انعم کی اطلاع پر مہروسہ نے اُسے باہر آنے کا کہا تھا۔۔۔ وہ شاہ ویز کی ضد سے کیک تو بالکل بھی نہیں کھانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر گل شیر سے ملنے کا سن کر وہ فوراً باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔ اُسے لگا تھا کہ گل شیر شاید اُس کی مدد کرپائے۔۔۔۔۔
"گل شیر بھائی آپ ٹھیک ہیں۔۔۔ آپ کو اِن لوگوں نے کوئی چوٹ تو نہیں پہنچائی نا۔۔۔۔؟؟"
پریسا روم میں داخل ہوتی سیدھی گل شیر کی جانب آئی تھی۔۔۔۔ بیک ہونے کی وجہ سے وہ پیچھے صوفے پر بیٹھے شاہ ویز سکندر کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
"نہیں گڑیا میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ میں یہاں کیک بنانے آیا تھا۔۔۔ مجھے بھلا کوئی کچھ کیوں کہے گا۔۔۔۔"
گل شیر اُس کے متفکر انداز پر نرمی سے بولا تھا۔۔۔
پریسا نے اُس کو مسکراتے دیکھ حیرت بھری نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں خوف یا پریشانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔۔
"آپ کیک بنانے اپنی مرضی سے تو نہیں آئے نا۔۔۔ وہ جلاد وحشی آپ کو زبردستی گن پوائنٹ پر اُٹھا کر لایا ہوگا نا جیسے مجھے لایا ہے۔۔۔ اور ضرور دھمکی بھی دی ہوگی۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ آپ کو جانے دیں گے اب۔۔۔؟؟ آپ اِن کی اصلیت کسی کو نہ بتا دیں۔۔ اِس لیے آپ کو نقصان تو نہیں پہنچائیں گے نا۔۔۔؟؟"
پریسا کو گل شیر کا اتنا بے فکر انداز چونکائے دے رہا تھا۔۔۔۔
"نہیں گڑیا مجھے یہاں اغوا کرکے نہیں میری مرضی سے لایا گیا ہے۔۔۔۔ اور اِن لوگوں نے مجھے کوئی دھمکی نہیں دی۔۔ میں بس ابھی جانے ہی والا تھا سوچا ایک بار تم سے مل لوں۔۔۔۔"
گل شیر کی بات پر پریسا نے اپنی گول گول آنکھیں گھما کر اُسے گھورا تھا۔۔۔ مگر ابھی اِس سب کا ٹائم نہیں تھا اُس کے پاس۔۔۔۔۔
"آپ میرا ایک کام کریں گے پلیز۔۔۔۔ بابا یا سفیان تک میرا پیغام پہنچا دیں گے۔۔۔۔ اُنہیں بتانا ہے کہ بلیک سٹارز کا سب سے بڑا گینگسٹر شاہ ویز سکندر ہے۔۔۔اور بہت نفرت کرتا ہے اُن دونوں سے۔۔۔۔۔ اُنہیں مارنا چاہتا ہے۔۔۔ آپ پلیز یہ سب اُنہیں بتا دیجیے گا۔۔۔۔۔"
پریسا گل شیر کی جانب ملتجی نگاہوں سے دیکھتی نان سٹاپ بولے جارہی تھی۔۔۔۔
گل شیر اُس سے زیادہ شاہ ویز سکندر کے ہر لمحے بدلتے تاثرات کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اب اِس بے وقوف لڑکی کی خیر نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔
"گل شیر صاحب باہر آپ کے جانے کی تیاری ہوچکی ہے۔۔۔ اب آپ جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔"
پریسا جو گل شیر کو مزید بھی شاہ ویز کے بارے میں بتانا چاہتی تھی اپنے عقب سے بہت ہی قریب سے آتی شاہ ویز سکندر کی آواز پر وہ کرنٹ کی طرح اُچھلتی جیسے ہی پلٹی۔۔۔ اپنے پیچھے بہت قریب کھڑے شاہ ویز سے ٹکرا گئی تھی۔۔۔۔
گل شیر اُنہیں خدا حافظ کرتا خاموشی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کا خون بالکل خشک ہوچکا تھا۔۔۔۔ سفید چہرے اور لرزتی پلکوں کے ساتھ وہ اپنے ہاتھوں کو بُری طرح مڑورتی اپنے خوف کو کم کرنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔
مگر دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ اُسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔۔۔۔ شاہ ویز کے نہایت قریب کھڑے اُس نے ایک ہی قدم بھی پیچھے نہیں بڑھایا تھا۔۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے کہ میرے بارے میں کچھ بھی اپنے اُس سوکولڈ باپ اور منگیتر کو بتاؤ گی تو مجِھے زرا سا بھی فرق پڑے گا۔۔۔۔ وہ لوگ میرا بال بھی بیکار نہیں کرسکتے۔۔۔۔ مگر میرا وعدہ ہے تم سے۔۔ اُن کا جینا حرام کردوں گا۔۔۔۔ کل تمہیں میں یہاں سے آزاد کردوں گا۔۔۔ اور تم واپس آفندی مینشن میں جاکر وہی کرو گی جو میں نے کہا ہے تم سے۔۔۔۔ زرا سی بھی ہوشیاری دیکھانے کی کوشش کی تو آفندی مینشن کے لوگوں کی ایک ایک کرکے لاشیں ملنا شروع ہوجائیں گی۔۔۔ یاد رکھنا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے زرد پڑتے چہرے پر اپنی تپیش زدہ نگاہیں گاڑھے وارن کررہا تھا۔۔۔۔۔
"میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہو۔۔۔ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا آج اُس سے دور نہیں ہوئی تھی۔۔۔ اُس کے عین سامنے کھڑے وہ اُس سے سوال کررہی تھی۔۔۔
وہ دونوں بہت قریب کھڑے تھے۔۔۔ شاہ ویز کی گرم سانسوں سے پریسا کو اپنا چہرا جھلستا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔ مگر اُس کی آنکھوں میں جھانکتی ایسے ہی کھڑی رہی تھی۔۔۔۔
اُس کے وجود سے اُٹھتی بھینی بھینی خوشبو شاہ ویز سکندر کو ایک بار پھر اپنی جانب مائل کررہی تھی۔۔۔ مگر وہ خود کو اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا بہت اچھے سے جانتا تھا۔۔۔۔
"درندہ ، جلاد اور وحشی انسان بھلا کوئی کام کسی مقصد کے لیے کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ وہ اپنی درندگی ہی دیکھائے گا نا۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک درندہ جو ہے۔۔۔۔ مجھ جیسے درندے اور وحشی میں نہ تو جذبات ہیں نہ احساسات۔۔۔۔ تو میرے سامنے رو دھو کر اور یوں احتجاج کرکے تم اپنا ہی نقصان کررہی ہو۔۔۔ میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُسے اُس کی باتوں کا بہت گہرائی سے جواب دیتا واپس جانے کو پلٹا تھا۔۔۔
جب اچانک اُس کی نظر ساتھ ٹیبل پر رکھے کیک پر پڑی تھی۔۔۔۔ وہ کیک کی جانب بڑھا تھا اور ہاتھ میں کیک کا چھوٹا سا ٹکرا اُٹھاتے پریسا کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"ہیپی برتھ ڈے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے پریسا کے سامنے کیک کرنے کے ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اُس کا منہ بھی خود ہی کھول دیا تھا۔۔۔۔ تھوڑا سا کیک پریسا کے منہ میں گیا تھا۔۔۔ باقی اُس کے ہونٹوں پر سارا لگ چکا تھا۔۔۔۔
پریسا جو پیچھے ہورہی تھی شاہ ویز کی حرکت پر وہیں رُک گئی تھی۔۔۔۔ وہ اُس کا جھوٹا کیک کھا رہا تھا۔۔۔۔
پریسا کی آنکھیں ایک بار پھر کھل چکی تھیں۔۔۔
اقراء نے تو اُسے یہی بتایا تھا کہ شاہ ویز نہ تو کسی کا جھوٹا کھاتا تھا اور میٹھا تو بالکل بھی نہیں کھاتا تھا۔۔۔۔ پھر اُس کی یہ حرکت۔۔۔۔
پریسا کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔۔۔ اُسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز بنا مزید کچھ بولے واپسی کے لیے پلٹا تھا۔۔۔۔ جب اچانک چھن کی آواز کے ساتھ اُس کی پاکٹ سے کچھ نکل کر زمین پر گرا تھا۔۔۔
پریسا نے جلدی سے آگے ہوکر دیکھنا چاہا تھا۔۔۔ مگر شاہ ویز اُس سے پہلے ہی اُس اپنی مُٹھی میں قید کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
"یہ تو کوئی جیولری تھی نا اِس کے پاس۔۔۔ کیا یہ کسی لڑکی سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔؟؟؟ کون ہوسکتی ہے وہ۔۔۔؟؟؟ مجھے اقراء سے پوچھنا ہوگا۔۔۔ کیا پتا وہ لڑکی اِن پاگل سنکی کا دماغ جگہ پر لگانے میں کوئی مدد کر سکے۔۔۔"
پریسا ٹشو لے کر اپنے ہونٹوں سے کیک صاف کرتی۔۔۔ شاہ ویز کی یہ حرکت فراموش کرتی اگلے مشن پر لگ چکی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم حبہ کو بے ہوش کرکے بیڈ پر لٹا کر روم کو ہر طرف سے اچھی طرح لاکر کرتا باہر نکل آیا تھا۔۔۔۔
کان میں اُس نے ایک ائیر پیس لگا رکھا تھا۔۔۔ جو اُس تک حبہ کے تکیے کے پاس لگے سپیکر سے اُس کی سانسوں کی آواز اُس تک پہنچا رہا تھا۔۔۔ تاکہ حازم کو پتا چل سکتا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ اور سو رہی ہے۔۔۔
چاروں جانب گارڈز نے ہر راستے کو گھیر رکھا تھا۔۔۔ حازم بہت اچھے سے جانتا تھا کہ حبہ کی ماں اور بہن کو کہاں رکھا گیا ہے۔۔۔۔ وہ سب سے پہلے اُن تک پہنچ کر باحفاظت اُنہیں یہاں سے نکالنا چاہتا تھا۔۔۔۔
حبہ کو ساتھ نہ لانے میں بھی اُس کہ سیکیورٹی تھی۔۔۔ وہ جانتا تھا جس طرف اِس وقت وہ بڑھ رہا ہے وہ جگہ خطرے سے خالی نہیں تھی۔۔۔۔ اُسے تو پھر شمشیر خان بلیک سٹارز کی دہشت کی وجہ سے چھوڑ دیتا۔۔۔ لیکن اگر اُنہیں حبہ کے یہاں ہونے کی زرا سی بھی بھنک پڑ جاتی تو اُنہوں نے حبہ کو نہیں چھوڑنا تھا۔۔۔
حازم کو اُس کے مخبری نے اطلاع دی تھی کہ شمشیر کو حبہ کے حوالے سے شک ہوچکا ہے۔۔۔۔ اس لیے حازم اُس کے حوالے سے اتنی احتیاط برت رہا تھا۔۔۔۔
حازم نے پہلے کوریڈور میں ٹہلتے تہہ خانے کے راستے کا اندازہ لگایا تھا۔۔۔ اور پھر سب سے نظر بچا کر وہ ٹیرس سے اُتر کر پائپوں سے اُتر کر تہہ خانے کے روشن دان تک آن پہنچا تھا۔۔۔۔
اپنی جیب سے اپنا خاص ہتھیار نکالتے اُس نے سب سے پہلے روشن داں کھولا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے تہہ خانے میں کسی گارڈ کو نہ پاکر وہ اندر اُتر گیا تھا۔۔۔
جہاں سکڑی سمٹی بیٹھی حبہ کی ماما اور چھوٹی بہن کو دیکھ حازم کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔
قدموں کی آواز پر دونوں گھبرا کر مزید ایک دوسرے میں سمٹ گئی تھیں۔۔۔۔
"آپ دونوں گھبرائیں نہیں۔۔۔ میں آپ کو نقصان پہنچانے نہیں۔۔ آپ کی مدد کرنے آیا ہوں۔۔۔۔"
حازم اُن کے قریب آکر بیٹھتا نرمی سے بولا تھا۔۔۔
مگر اُس کے باوجود اُن کا خوف کم نہیں کر پایا تھا۔۔۔
"آپ لوگ میرے ساتھ چلیں۔۔۔ میں آپ کو یہاں سے باحفاظت باہر نکال دوں گا۔۔۔۔"
حازم نے اُن دونوں کے خوفزدہ چہروں کو دیکھتے ایک بار پھر کہا تھا۔۔۔۔
"لیکن تم اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری مدد کرنے کیوں آئے ہو۔۔۔۔؟؟"
نجمہ بیگم نے مشکوک نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"کیونکہ جس میں میری جان بستی ہے۔۔۔ اُس کی جان آپ لوگوں میں قید ہے۔۔۔۔"
حازم یہ الفاظ دل میں ہی ادا کرکے رہ گیا تھا۔۔۔
"مجھے ایس پی حبہ نے بھیجا ہے۔۔۔ میں آپ کی مدد کرکے اپنی ڈیوٹی پوری کررہا ہوں۔۔۔ آپ جلدی سے چلیں میرے ساتھ۔۔۔ ایسے نہ ہو یہاں کوئی آجائے۔۔۔۔"
حازم اُنہیں بہت مشکل سے خود پر اعتبار کرواتا اُنہیں ساتھ لیے واپس اُسی راستے سے نکل آیا تھا۔۔۔۔
وہ جیسے ہی لان میں آئے تھے۔۔۔ حازم کے اشارے پر اُس کے آدمی نے پورے بنگلے کی لائٹ کا کنکشن کاٹ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر شے اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔۔۔ حازم اُن دونوں کا ہاتھ پکڑے گیٹ پر کھڑے اپنے آدمی کو اشارے سے گیٹ کا دروازہ کھولنے کا کہتا دونوں کو باہر موجود جنید کے پاس باحفاظت چھوڑتا واپس اندر آگیا تھا۔۔۔۔
شمشیر خان پر اُس کی نظر اُس وقت سے تھی جب اُس نے حبہ پر حملہ کیا تھا۔۔۔ شمشیر خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُس کے آس پاس کچھ آدمی بلیک سٹارز کے بھی کام کررہے تھے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان اپنی ایک امپورٹنٹ میٹنگ اٹینڈ کرتا اپنے دوسرے گھر جانے کے بجائے واپس صدیقی ولا لوٹ آیا تھا۔۔۔ اُسے اُجالا کی وجہ سے اپنے گھر والوں کی بہت ٹینشن تھی۔۔۔
زین پر پہلے حملہ ہوچکا تھا۔۔۔ وہ اب کسی اور کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔
حمدان جس طرح بنا کھانا کھائے چلا گیا تھا۔۔۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ حمدان اب دوبارہ واپس آئے گا۔۔۔ اِس لیے گیسٹ روم سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے فرح نے اُجالا کو آج رات کے لیے حمدان کے روم میں بھیج دیا تھا۔۔۔۔ جہاں بہت عرصے سے حمدان نے قدم نہیں رکھا تھا۔۔۔۔ مگر فرح پھر بھی نجانے کس اُمید پر ہر روز اُس کا روم صاف کرتی تھی۔۔۔۔
اُجالا حمدان کے بیڈ پر اُس کے کمفرٹر میں دبکی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حمدان واپس آجائے گا۔۔۔۔ حمدان روم میں داخل ہوتا زیرو پاور کی روشنی آن دیکھ حیران ہوا تھا۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اُس کی آمد کی اِس وقت اطلاع ملے۔۔۔ اِس لیے وہ بنا لائٹ آن کیے اپنے بیڈ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
پولیس اسٹیشن سے آتے وقت وہ چینج کرکے آیا تھا۔۔۔ آج کا دن اُس کے لیے جس قدر بُرا تھا۔۔۔ وہ بُری طرح تھک چکا تھا۔۔۔ اور اِس وقت گہری نیند سونا چاہتا تھا۔۔۔۔
اپنے دھیان میں وہ جہازی سائز بیڈ کے ایک کونے میں لحاف میں لپٹے وجود کو نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔۔
بیڈ پر لیٹتے اُس نے آنکھوں پر بازو رکھتے آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔۔
اُس کی آنکھ لگے ابھی تھوڑا ٹائم ہی گزرا تھا جب کروٹ بدلنے پر اُسے اپنے بہت قریب کوئی نرم گرم شے محسوس ہوئی تھی۔۔۔ حمدان نیند میں اُسے تکیہ سمجھتا اپنی عادت کے مطابق اپنے مزید قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ جو گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔۔۔ اپنے اُوپر محسوس ہوتے بھاری وزن۔۔۔ اور کچھ لمحے بعد کمر میں محسوس ہوتے کھنچاؤ پر اُس نے پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ اُس کا شرم سے ڈوب مرنے کو دل چاہا تھا۔۔۔۔
وہ اِس وقت ایس پی حمدان صدیقی کے بہت قریب اُس کی بانہوں میں تھی۔۔۔۔
مہروسہ نے حمدان کے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتے اُسے خود سے دور دھکیلا تھا۔۔۔۔ اُسی لمحے حمدان کی آنکھ بھی کھل چکی تھی۔۔۔۔ مہروسہ کو اپنے بے انتہا قریب۔۔۔ اپنی بانہوں میں دیکھ حمدان کے چہرے پر پہلے ناسمجھی، حیرانی اور پر شدید غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔
"تم میرے اتنے قریب میرے بیڈ پر کیا کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اتنی زور سے اُس کی کلائی دبوچی تھی کہ مہروسہ کو اپنی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ارے سر آپ یہاں۔۔۔ وہ شمشیر سر آپ کو بلا رہے ہیں وہاں۔۔۔ محفل بس شروع ہونے ہی والی ہی۔۔۔ بس آپ کو انتظار ہے۔۔۔۔"
حازم روم کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ جب شمشیر کا خاص آدمی اُس کے قریب آتے بولا تھا۔۔۔۔
حازم روم میں حبہ کے پاس جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر اِس وقت وہ انکار نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ اِس لیے مجبوراً اُس محفل میں جانا پڑا تھا۔۔۔ جس سے اُسے اور شاہ ویز کو سخت نفرت تھی۔۔۔۔
حبہ کے سامنے اُس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا۔۔۔ ورنہ سچ تو یہ تھا کہ اُنہوں نے آج تک ایسی کوئی محفل کبھی نہیں رکھی تھی۔۔۔۔
حازم کے شمشیر خان کے قریب گھاؤ تکیے پر بیٹھتے کی محفل کا آغاز کردیا گیا تھا۔۔۔۔ وہاں آئی رقصائیں۔۔۔ گانے کے ساتھ ہی تھڑکنا شروع کر چکی تھیں۔۔۔۔
مگر حازم نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر اُن کی جانب نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔
وہ تو بس خاموشی سے اپنے کانوں میں سنائی دیتی اپنی ّزندگی کی مدھم مدھم سانسیں سن رہا تھا۔۔۔۔
جب اچانک وہ رقصہ اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔ اُس نے جیسے ہی قریب آتے حازم کے گلے میں بانہیں ڈالیں حازم نے نگاہیں اُٹھا کر جس قہر بھرے انداز میں دیکھا تھا۔۔۔۔ فوراً ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے بغیر پیچھے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔
اُس عورت کو سمجھنے میں ایک لمحہ لگا تھا کہ یہ کیسے کردار کا کا انسان ہے۔۔۔۔
اچانک حازم کے کانوں میں آتی حبہ کی آواز بند ہوگئی تھی۔۔۔۔ جو بات حازم کو بے چین سا کر گئی تھی۔۔۔ وہ جانتا تھا اگر اُس کی جنگلی بلی ہوش میں آگئی تو اِس بنگلے کو ہلا کر رکھ دے گی۔۔۔ اِس لیے اُسے فوری طور پر حبہ کے پاس پہنچنا تھا۔۔۔۔ شمشیر کو کسی اہم فون کال کا کہتا وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔۔
وہ ابھی روم سے تھوڑے سے فاصلے پر ہی تھا جب اُسے زونیا اپنی جانب آتی دیکھائی دی تھی۔۔۔۔
حازم اُسے اِس وقت وہاں دیکھ جی بھر کر بدمزا ہوا تھا۔۔۔ جو بڑی نزاکت سے اپنی سیاہ ساڑھی کا پلو لہراتی والہانہ نگاہوں سے اُسے دیکھتی اُس کے قریب آرہی تھی۔۔۔۔
"کل ہی دربار پر جاکر سو لوگوں کو کھانا کھلا کر آپ سے ملاقات کی منت مانگی تھی۔۔۔ دیکھیں میری محبت کی طاقت آج آپ میرے سامنے کھڑے ہیں۔۔۔۔"
زونیا دیوانہ وار نگاہوں سے حازم کے نقاب میں چھپے چہرے کو نہارتے بولی۔۔۔۔ اُس نے حازم کو دیکھ رکھا تھا۔۔۔ یہ چہرا نہ دیکھانے والی احتیاط صرف حبہ کے لیے برتی گئی تھی۔۔۔۔
"تو اتنے سچے دل سے اپنے لیے ہدایت مانگ لیتی۔۔۔ تو تمہاری زندگی ہی سنور جاتی۔۔۔۔"
حازم ہمیشہ کی طرح اُسے سرد اور سپاٹ لہجے میں جواب دیتے بولا۔۔۔۔۔
اُس کا نرم اور محبت بھرا انداز صرف ایس پی حبہ کے لیے ہی ہوتا تھا۔۔۔۔
"کل ہی دربار پر جاکر سو لوگوں کو کھانا کھلا کر آپ سے ملاقات کی منت مانگی تھی۔۔۔ دیکھیں میری محبت کی طاقت آج آپ میرے سامنے کھڑے ہیں۔۔۔۔"
زونیا دیوانہ وار نگاہوں سے حازم کے نقاب میں چھپے چہرے کو نہارتے بولی۔۔۔۔ اُس نے حازم کو دیکھ رکھا تھا۔۔۔ یہ چہرا نہ دیکھانے والی احتیاط صرف حبہ کے لیے برتی گئی تھی۔۔۔۔
" اتنے سچے دل سے اپنے لیے ہدایت مانگ لیتی۔۔۔ تو تمہاری زندگی ہی سنور جاتی۔۔۔۔"
حازم ہمیشہ کی طرح اُسے سرد اور سپاٹ لہجے میں جواب دیتے بولا۔۔۔۔۔
اُس کا نرم اور محبت بھرا انداز صرف ایس پی حبہ کے لیے ہی ہوتا تھا۔۔۔۔ حازم نے دوبارہ روم کی جانب قدم بڑھائے تھے جب زونیا اُس کے مقابل آتے دوبارہ اُس کا راستہ کاٹ گئی تھی۔۔۔۔
"اتنے سنگدل مت بنیں میر جی۔۔۔۔۔ بہت تڑپا ہے یہ دل آپ کے لیے۔۔۔۔ "
زونیا کی آنکھوں میں نمی سی در آئی تھی۔۔۔۔ میر حازم سالار اُس کے لیے کیا تھا۔۔۔ کوئی اُس کے دل سے پوچھتا۔۔۔۔۔ اتنے سالوں سے وہ اِس شخص سے ایک ملاقات کرنے کے لیے خوار ہورہی تھی۔۔۔۔
"تم جانتی ہو سب پھر بھی ہر بار یہ فضول باتیں شروع کیوں کردیتی ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حازم اب کی بار اُسے کڑے تیوروں سے گھورتا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔۔
"میں یہ بھی جانتی ہوں۔۔۔ وہ آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ اور میں جان دیتی ہوں آپ پر۔۔۔۔ کیونکہ یہ جان آپ ہی کی تو دی ہوئی ہے۔۔۔۔"
زونیا اُس کے گلے میں بانہیں حمائل کرتے اُس کے قریب ہو آئی تھی۔۔۔۔ جب اُسی لمحے حبہ روم کا لاک توڑتی دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی۔۔۔۔
کسی لڑکی کو حازم کے ساتھ بالکل چپکا دیکھ اُس کے تن بدن میں ناگواری کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔ حازم کی اُس کی جانب بیک تھی۔۔ وہ حازم کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔ مگر وہ لڑکی آنکھوں میں چاہت کے دیپ جلائے جس طرح اُس کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔۔ حبہ یہ چیز نظر انداز نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
اِس شخص سے اُس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں یہ منظر دیکھ اُس کے دل میں ایک اَن دیکھی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔۔۔۔
"تم کیوں مجھے اپنے اُس عمل پر پچھتانے پر مجبور کررہی ہو۔۔۔ جو تمہاری جان بچا کر میں نے کیا ہے۔۔۔۔؟؟ تمہاری بہتری اِسی میں ہے کہ مجھ سے دور رہو۔۔۔۔"
حازم اُس کی بانہیں اپنے گلے سے نکالتا اُسے قہر بڑھی نگاہوں سے دیکھتا خود سے دور جھٹک گیا تھا۔۔۔۔۔
اُسے غصہ بہت کم آتا تھا۔۔۔ اور اِس وقت زونیا کی حرکتیں اُسے شدید غصہ دلا گئی تھیں۔۔۔۔
وہ جیسے ہی پلٹا تھا سامنے کھڑی حبہ کو دیکھ پل بھر کے لیے ساکت ہوا تھا۔۔۔ اُس کا ماسک میں چھپا چہرا بتا رہا تھا کہ وہ اِس وقت کس قدر تپی ہوئی ہے۔۔۔۔ مگر کم موڈ خراب اِس وقت حازم کا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
"تم باہر کیوں آئی۔۔۔۔؟؟؟"
حازم حبہ کے پاس آتے دبی دبی آواز میں غرایا تھا۔۔۔ زونیا دور کھڑی اُنہیں ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ حبہ کی نظریں بھی حازم سے ہٹتے زونیا پر گئی تھیں۔۔۔
"تاکہ تمہارا اصل چہرا دیکھ سکوں۔۔۔ جو ہر دوسری عورت کے ساتھ چپکنے اُن کی قربت حاصل کرنے اور ہوس کا بھوکا انسان ہے۔۔۔۔ تم جیسا بدکردار انسان میں نے۔۔۔۔۔۔"
حبہ مزید بھی بہت کچھ بول رہی تھی۔۔۔۔ جب حازم اُسے بازو سے کھینچتا روم میں داخل ہوکر۔۔۔ روم کا دروازہ زور دار آواز میں بند کرتا اُسے دروازے کے ساتھ لگاتا اُس پر جھکا تھا۔۔۔۔۔
"جو انسان اپنا جائز اور شرعی حق رکھنے کے باوجود اپنی عورت کو اُس کی مرضی کے بغیر چھو نہیں رہا۔۔۔ اپنا حق استعمال نہیں کر رہا۔۔۔ کیا اُسے بدکردار مرد کہتے ہیں۔۔۔۔ آج تک کیا بُرا کام کرتے دیکھا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔ بتاؤ مجھے۔۔۔۔ تمہارے جس سیاسی لیڈر کو مارا تھا نا اُس کی اصلیت تم بھی بہت اچھے سے جانتی ہو۔۔۔۔ جن غداروں اور نام نہاد معزز شہریوں کو تم لوگ پروٹوکول دیتے ہو۔۔۔ اُن کی حفاظت کے لیے اپنا خون پسینہ ضائع کرتے ہو۔۔ جانتے بوجھتے اُنہیں اُن کے جرموں کی سزا دینے کے بجائے اُن کی خدمتیں کرنے پر مجبور ہو۔۔۔۔ ہم اُنہیں حرام خوروں کا بوجھ اِس دنیا سے ختم کررہے ہیں۔۔۔۔ "
حازم شدید غصے میں خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاتا تھا۔۔۔ یہ اُس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔۔۔ اِس وقت بھی اُس کے ساتھ یہی ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے منہ سے ہی حبہ کے سامنے اپنی اصلیت بیان کرگیا تھا۔۔۔ مگر حبہ تو اُس کے پہلے جملے پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔ کس پر حق رکھتے ہو تم۔۔۔؟؟؟"
حبہ اُسے بیچ میں ہی ٹوکتی سوالیہ نگاہوں سے پوچھتے بولی۔۔۔۔
جس پر حازم کو بھی بریک لگی تھی۔۔۔ وہ غصے میں کیا غضب کرنے جا رہا تھا۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو کسی قیمت پر اپنی اصلیت نہیں بتا سکتا تھا۔۔۔۔
حازم دانتوں پر دانت چڑھائے مُٹھیاں سختی سے بھینچتا اُسے دور ہوا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں بالکل لال ہوچکی تھیں۔۔۔ اور کنپٹی کی رگیں باہر کو اُبھر آئی تھیں۔۔۔۔۔
اُس کے دور ہونے سے پہلے ہی حبہ اُس کے دونوں کالر واپس مُٹھیوں میں بھینچتی اپنے قریب کھینچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔۔"
حبہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتے سوال کررہی تھی۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی ہر وقت اُس کی ہر اُلٹی سیدھی بات برداشت کرنے والا۔۔۔ اِس وقت بہت مشکل کیفیت میں تھا۔۔۔۔۔
وہ اِس وقت حبہ کے قریب نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر وہ اُتنا ہی اُسے دور نہ جانے پر بضد تھی۔۔۔ جب آخر کار حازم بھی اپنی کیفیت سے ہار مانتا۔۔۔ اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے بے حد قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔۔ اُن دونوں کے درمیان انچ بھر کا فاصلہ بھی نہیں بچا تھا۔۔۔۔
"اپنی محبت پر حق رکھتا ہوں۔۔۔۔ جان سے زیادہ عزیز ہے وہ مجھے۔۔۔ اُس پر بُری نظر ڈالنے والوں کو کاٹ کر رکھنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔۔۔۔ "
حازم اُس کے چہرے سے ماسک سرکاتا بوجھل آواز میں بولتا حبہ کے اندر خطرے کی گھنٹی بجا گیا تھا۔۔۔ آج تک وہ جب بھی اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔ مذاق اور شوخی لیے اُس کا انداز چھیڑتا ہوا ہی ہوتا تھا۔۔۔
مگر آج یہ بہکا بہکا انداز۔۔۔
حبہ نے اُس سے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔۔
مگر حازم تو جیسے اِس وقت اتنے سالوں سے روٹھا اپنے دل کا قرار اِس لڑکی سے واپس چھیننا چاہتا تھا۔۔۔
"دور رہو تم۔۔۔۔۔"
حبہ نے اُسے دور دھکیلنا چاہا تھا۔۔۔ مگر حازم اُس کے ہونٹوں پر جھک کر اُنہیں ہلکے سے چھوتا حبہ کی جان نکال گیا تھا۔۔۔۔
حبہ کو اُس سے اتنی جرأت کی اُمید بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔ اُسے جیسے کرنٹ چھو کر گزر گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے دونوں ہاتھ حازم کی گرفت میں تھے۔۔۔ وہ مزاحمت نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔
وہ اگلے ہی لمحے حبہ کے دائیں کان پر جھکتا اُس کی لوح کو پوری طرح لال کرتا آنکھوں میں خمار بھرے اُسے کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔۔۔
"آئندہ مجھ سے میرے حق کے بارے میں کبھی سوال مت کرنا۔۔۔۔ اپنی محبت کے معاملے میں خود پر قابو کر پانا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔ "
اُس کے لال پڑتے گال کو چومتا وہ اُسے اپنے حصار سے آزاد کر گیا تھا۔۔۔۔ اُسے جب بھی غصہ آتا تھا اُس کی مدت دو تین دن تو ہوتی ہی تھی۔۔۔ مگر آج حیرت انگیز طور پر حبہ کی دلفریب قربت نے اُس پر کیسا اثر دیکھایا تھا کہ دس منٹ بھی نہیں لگے تھے اُس کا غصہ اُڑن چھو ہونے میں۔۔۔۔
حازم واپس پلٹتا اپنی ہی اِس بے یقینی کیفیت پر مسکرا دیا تھا۔۔۔ اگر اُس کے ساتھی یہ دیکھ لیتے تو صدمے سے نہ نکل پاتے۔۔۔۔۔
لیکن حازم کو حبہ سے دور چلے ابھی چند قدم ہی ہوئے تھے۔۔۔۔ جب فائرنگ کی آواز کے ساتھ ساتھ پولیس کے سائرن اردگرد بجنے شروع ہوچکے تھے۔۔۔۔
حازم جھٹکے سے واپس پلٹا تھا۔۔۔۔ جہاں اُس کی قربت اور گستاخیوں سے لال ہوئی حبہ آنکھوں میں نفرت لیے اُس پر پسٹل تانے کھڑی تھی۔۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگا۔۔۔۔؟؟ تم اہنے پاک صاف اور ایماندار ہونے کی کہانی سناؤ گے اور میں مان جاؤں گی۔۔۔۔ اُس دن تو چکما دے کر بھاگ نکلے تھے۔۔۔ آج کیا کرو گے۔۔۔ آج اگر یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تو میری فورسز کو کوئی بھی آدمی تمہیں گولی سے اُڑا دے گا۔۔۔۔ "
جو کچھ تھوڑی دیر پہلے اِس شخص نے اُس کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ اُس کی دھڑکنیں ابھی تک قابو میں نہیں آسکی تھیں۔۔۔۔ وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی اِس انسان کے قریب آنے سے اُس کا دل اتنی بُری طرح کیوں دھڑک رہا ہے۔۔۔۔ آخر کیوں اِس کی قربت اُس کے دل و دماغ پر اتنی اثر انداز ہورہی تھی۔۔۔۔
حازم وہی کھڑا والہانہ نگاہوں سے اپنی جنگلی بلی کو ایکشن میں آتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب دروازہ کھول کر چار پولیس والے اندر داخل ہوکر حبہ کے آس پاس آن کھڑے ہوتے ۔۔۔ حازم پر اپنے ہتھیار تان گئے تھے۔۔۔
جس کے ساتھ ہی حازم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم میرے اتنے قریب میرے بیڈ پر کیا کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اتنی زور سے اُس کی کلائی دبوچی تھی کہ مہروسہ کو اپنی ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
مہروسہ کو خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ ہوا کیا تھا۔۔۔۔ اُس کے پلان میں تو ایسا کچھ شامل ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
اِس انسان کی قربت اُسے کمزور کرتی تھی۔۔۔ اور وہ اپنے کام میں ناکام ہوسکتی تھی۔۔۔ اِس لیے اُس نے اب حمدان صدیقی سے دور رہنے کا فیصلہ ہی کیا تھا۔۔۔ مگر قسمت اُسے ایک بار پھر اُسے یہاں تک لے آئی تھی۔۔۔۔
"مم میں نہیں جانتی۔۔۔۔ مجھے تو فرح آپی نے یہاں بھیجا تھا۔۔۔۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ یہ آپ کا روم ہے۔۔۔۔"
مہروسہ نے اپنے کردار میں رہتے نہایت ہی خوفزدہ انداز میں اُس بپھرے شیر کو جواب دیا تھا۔۔۔۔
جو عنقریب اُس کا گلا دبانے کا ارادہ ہی رکھتا تھا۔۔۔۔
"آخر تم کیوں کررہی ہو یہ سب۔۔۔۔؟؟؟ میرے گھر والوں کے بیچ رہنے کا مقصد کیا ہے تمہارا۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان بہت بُری طرح پھنس چکا تھا۔۔۔ اُس کے گھر والے اُسے اِس لڑکی سے سختی برتنے نہیں دے رہے تھے۔۔۔ اور وہ اِس لڑکی کو یہاں رہنے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔
اِسے بس سلاخوں کے پیچھے ہی دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔
"مم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔"
وہ اُس کی بات پر آنکھوں میں آنسو بھرے منمنائی تھی۔۔۔ حمدان نے کچھ لمحے یک ٹک اُس کے دلکش نقوش کو گھورا تھا۔۔۔ جس کے چہرے کی معصومیت اور بھولپن ایسا ہی تھا کہ وہ واقعی کچھ نہیں جانتی۔۔۔ اور اُس سے زیادہ معصوم شاید پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔
"پلیز مجھے چھوڑیں۔۔۔ جانے دیں۔۔۔۔"
اُس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے مہروسہ کو لگ رہا تھا اُس کا دھڑک دھڑک کر پاگل ہوتا دل پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔۔۔۔
"چھوڑوں گا تو اب میں تمہیں کسی صورت نہیں۔۔۔۔ بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی تمہیں اِس دھوکے کی۔۔ "
حمدان اُسے کلائی سے تھام کر بیڈ سے نیچے کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کبھی اُس کے سامنے بنا دوپٹے کے نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ مگر اِس وقت دوپٹہ ہونا تو دور کی بات اُس کے کمر سے نیچے آتے لمبے گھنے بال چٹیا میں مقید حمدان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔۔۔۔
وہ سر تاپا قیامت سا حُسن رکھتی تھی۔۔۔ اِس بات سے حمدان صدیقی بھی انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔ مگر اُسے اِس لڑکی سے نفرت کے علاوہ کوئی جذبہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔
حمدان نے اُسے دروازہ کھولتے روم کے باہر اتنی زور سے دھکا دیا تھا کہ مہروسہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتی روم کے باہر سامنے لگی ریلنگ کے ساتھ ٹکرا گئی تھی۔۔۔
اُس کی پیشانی پر شدید چوٹ آئی تھی۔۔
بھل بھل پیشانی سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بنا حمدان اُس کے منہ پر دروازہ زور دار آواز میں بند کرگیا تھا۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر بے مول ہوئے تھے۔۔۔۔ جنہیں اگلے ہی لمحے رگڑتی وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔
اِس شخص کی جانب سے کیا ہر ستم اُسے قبول تھا۔۔۔۔ اور ویسے بھی زندگی میں اب تک جتنا درد اور تکلیف وہ سہہ چکی تھی۔۔۔ اُس کے آگے یہ چوٹ تو کچھ بھی نہیں تھیں۔۔۔۔
مگر اُس کی زندگی کی ایک ہی خواہش تھی اب کہ وہ مرنے سے پہلے بس ایک بار اِس شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔۔۔
جو کہ وہ جانتی تھی کبھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔ اُس کی یہ خواہش شاید ادھوری ہی رہ جانی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں میں درد کی گہری چادر چھائی ہوئی تھی۔۔۔ مگر چہرے پر اپنی مخصوص دلفریب مسکراہٹ لیے وہ وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"پری میری گڑیا آپ ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟ اُن لوگوں نے آپ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا۔۔۔ سفیان ڈاکٹر کو کال کرو وہ ابھی تک پہنچا کیوں نہیں۔۔۔"
یاسمین بیگم نجانے کتنی بار پریسا کا چہرا چوم چکی تھیں۔۔۔۔ رات کے دو بجے پریسا کو آفندی مینشن کے آگے کوئی گاڑی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔۔ پریسا اُس وقت بے ہوشی کی حالت میں تھی۔۔۔
مگر جیسے ہی اُسے ہوش آیا اُس نے اپنے پورے خاندان کو اپنے آس پاس پایا تھا۔۔۔ سامنے ہی سفیان اور شہباز آفندی آنکھوں میں گہرا تفکر لیے اُسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
پریسا کو ہوش میں آتے دیکھ سب کی چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔۔
"ماما میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اُن لوگوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔۔۔ مجھے اتنے ٹائم ایک اندھیرے روم میں قید رکھا۔۔۔ جہاں ایک ملازم آکر تینوں ٹائم کا کھانا دے جاتا تھا۔۔۔ اُس کے علاوہ نہ کوئی میرے روم میں آیا نہ مجھے کچھ کہا۔۔۔ "
پریسا نے اقراء کے رٹے رٹائے الفاظ بتائے تھے۔۔۔
"تم نے وہاں کسی کا چہرا دیکھا۔۔۔ اور کیا اُس ملازم کا حلیے بتا سکتی ہو تم۔۔۔۔؟؟"
سفیان پریسا کے قریب آکر اُس کا ہاتھ تھامتے فکرمندی سے بولا تھا۔۔۔۔
جب پریسا کی آنکھوں میں اُس وحشی کی شبییہ لہرائی تھی۔۔۔۔ جو دیکھنے میں جس قدر ہینڈسم اور پیارا تھا عادتوں اور حرکتوں میں اُتنا ہی جلاد تھا۔۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ وہ ملازم جب بھی آتا تھا تو اُس کا چہرا ڈھکا ہوتا تھا۔۔۔ مجھے وہاں بے ہوش کرکے لے جایا اور واپس لایا گیا ہے۔۔۔ میں کسی بھی چیز کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔۔"
پریسا نے بہت مشکل سے اور شاید پہلی بار اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولا تھا۔۔۔ کیونکہ یہاں اُس وحشی کے نہ ہوتے ہوئے بھی اُس نے اُسے اپنی دھمکیوں کے زیرِ اثر باندھ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"اوکے۔۔۔ اُن لوگوں کو تو ہم ڈھونڈ کر اُن کے انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔۔۔ لیکن اب کوئی بھی میری بیٹی سے مزید کوئی سوال نہیں کرے گا۔۔۔ دیکھوں بچاری کا چہرا کیسے تھکن اور کمزوری کی وجہ سے مرجھایا پڑا ہے۔۔۔۔ سب لوگ رش ختم کریں اور پری کو آرام کرنے دیں۔۔۔"
شہباز آفندی اُس کے قریب آکر اُس کا ماتھا چوم کر اُسے پیار کرتے باقی سب کو روم سے جانے کا بول گئے تھے۔۔۔
جبکہ پریسا اُن سب کے اتنے خلوص اور محبت پر مزید شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔
وہ بھلا اِن لوگوں کے خلاف کیسے جاسکتی تھی۔۔۔ وہ بھی شاہ ویز سکندر جیسے شخص کی وجہ سے۔۔۔۔
مگر اُس کی سفیان کو مار دینے کی دھمکی بار بار پریسا کے کانوں میں گونجتی اُس کے حلق خشک کر دیتی تھی۔۔۔۔
سب لوگ روم سے ایک ایک کرکے نکل چکے تھے۔۔۔ جب سفیان اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ اِن گزرے دنوں میں کس قیامت سے گزرا ہوں۔۔ کوئی ایک لمحہ سکون سے نہیں گزرا۔۔۔۔ آئندہ کبھی مجھ سے دور مت جانا۔۔۔ تمہارا بغیر نہیں رہ سکتا سفیان آفندی۔۔۔۔"
سفیان اُس کا نازک ہاتھ تھامے اُس سے اپنی محبت کا اظہار کرتے بولا تھا۔۔۔۔ جس پر پریسا کا دماغ ایک بار پھر شاہ ویز سکندر کی طرف پہنچ چکا تھا۔۔۔ جو ہر بار اُسے مارنے اور گلا دبانے کی دھمکی ہی دیتا رہتا تھا۔۔۔۔
پریسا نے ایکدم اُس کا خیال جھٹکا تھا۔۔۔ وہ بلیک ہاؤس سے تو آگئی تھی۔۔۔ مگر اُس بلیک بیسٹ کے حصار سے نہیں نکل پارہی تھی۔۔۔۔
"میں نے بھی آپ کو وہاں بہت یاد کیا بہت روئی ہوں۔۔۔۔ وہ بہت ظالم لوگ تھے۔۔۔۔ آپ کو گولی لگی تھی نا۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں اب۔۔۔۔"
پریسا نے اُس کے بازو کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم واپس آگئی ہو نا۔۔۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اور چند دنوں بعد ہونے والے ہمارے نکاح کے بعد تو مزید ٹھیک ہوجاؤں گا۔۔۔۔۔"
سفیان کے شوخی بھرے انداز پر پریسا نے فوراً اُس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروا لیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے دل کی کیفیت سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔ اُس کے سامنے اُس کا بچپن کا منگیتر بیٹھا تھا۔۔۔ جس سے کچھ دنوں میں اُس کا نکاح ہونے والا تھا۔۔۔ مگر اُس کے دل و دماغ پر بار بار اُس بلیک بیسٹ کا سایہ کیوں لہرا رہا تھا۔۔۔۔
کیوں بار بار اُس کا دھیان اُس وحشی کے جانب جارہا تھا۔۔۔ جس نے اُسے رُلانے، درد اور تکلیف دینے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔۔"تمہیں کیا لگا۔۔۔۔؟؟ تم اپنے پاک صاف اور ایماندار ہونے کی کہانی سناؤ گے اور میں مان جاؤں گی۔۔۔۔ اُس دن تو چکما دے کر بھاگ نکلے تھے۔۔۔ آج کیا کرو گے۔۔۔ آج اگر یہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تو میری فورسز کا کوئی بھی آدمی تمہیں گولی سے اُڑا دے گا۔۔۔۔ "
جو کچھ تھوڑی دیر پہلے اِس شخص نے اُس کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ اُس کی دھڑکنیں ابھی تک قابو میں نہیں آسکی تھیں۔۔۔۔ وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی اِس انسان کے قریب آنے سے اُس کا دل اتنی بُری طرح کیوں دھڑک رہا ہے۔۔۔۔ آخر کیوں اِس کی قربت اُس کے دل و دماغ پر اتنی اثر انداز ہورہی تھی۔۔۔۔ وہ اُسے کیوں نہیں روک پاتی تھی اپنے قریب آنے سے۔۔۔۔
حازم وہی کھڑا والہانہ نگاہوں سے اپنی جنگلی بلی کو ایکشن میں آتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب دروازہ کھول کر چار پولیس والے اندر داخل ہوکر حبہ کے آس پاس آن کھڑے ہوتے ۔۔۔ حازم پر اپنے ہتھیار تان گئے تھے۔۔۔
جس کے ساتھ ہی حازم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔۔۔
"تم اتنی بھولی کیسے ہوسکتی ہو ایس پی صاحبہ۔۔۔۔"
حازم مسکراتی والہانہ نگاہوں سے خود پر بندوق تانے کھڑی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس کی آنکھوں میں اُس کے لیے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔ اس بکواس کا۔۔۔۔۔"
حبہ نے دانت پر دانت چڑھائے خود کو بمشکل سامنے کھڑے شخص پر گولی چلانے سے روکا ہوا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے اُس کے دو پولیس اہلکار ہڑبڑاہٹ میں بھاگتے ہوئے اُس کے پاس آئے تھے۔۔۔۔
"میم ہم نے شمشیر خان اور اُس کے تمام آدمیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔۔۔ اور یہ پورا بنگلہ چھان مارا ہے۔۔۔ مگر آپ کی فیملی کا یہاں نام و نشان تک نہیں ہے۔۔۔۔۔"
پولیس والے کی بات سن کر حبہ نے شاکی نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"تمہاری فیملی میرے پاس میرے قبضے میں ہے۔۔۔۔ "
حازم کی بات سنتے حبہ کے دونوں ہاتھ اُس کے پہلو میں جاگرے تھے۔۔۔۔
"تم نے اتنا بڑا دھوکا دیا مجھے۔۔۔۔ تمہیں چھوڑوں گی نہیں میں۔۔۔۔"
حبہ زخمی شیرنی بنی اُس پر جھپٹ پڑی تھی۔۔۔ مگر حازم اُسے بنا کوئی موقع دیئے بغیر اُس کی دونوں کلائیوں سے دبوچ کر کمر کے پیچھے باندھتا اُسے پوری طرح اپنے قبضے میں لے گیا تھا۔۔۔۔
"دھوکا میں نے نہیں تم نے دیا ہے۔۔۔ اپنے اِن پولیس والوں کو بلا کر۔۔۔۔ مجھے گرفتار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔ جتنا تم سمجھ رہی ہو۔۔۔۔ اِس کام میں میں نے سب کچھ سیکھا ہے۔۔۔۔ سوائے اعتبار کرنے پے۔۔۔۔ تم پر جو تھوڑا بہت اعتبار کرنا شروع کیا تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے اب۔۔۔۔
اِن سب کو کہو اپنا کام ختم کرکے نکلیں یہاں سے۔۔۔۔ مگر تم یہیں رکو گی میرے ساتھ اِس بنگلے میں۔۔۔ جب تک میں جانے کو نہ کہوں۔۔۔۔"
حازم اُس کی ٹھوڑی مُٹھی میں دبوچے بولا تھا۔۔۔۔ حبہ نے بے یقینی سے اُس کا یہ سرد و سپاٹ انداز دیکھا تھا۔۔۔ آج تک اُس نے ہمیشہ اُس کی ہر بدتمیزی کا مسکرا کر ہی جواب دیا تھا۔۔۔۔
مگر دھوکا تو میر حازم سالار کو کسی قیمت پر پسند ہی نہیں تھا۔۔۔۔ وہ کیسے نہ غصہ کرتا۔۔۔۔۔
"تم ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔۔"
حبہ اُس کے خلوص کو بُری طرح ٹھکرا کر اُسی کی سزا میں تبدیل کر چکی تھی۔۔۔ مگر اب بھی اُسے اُمید تھی یہ شخص اُس کے ساتھ کچھ غلط نہیں کرسکتا۔۔۔۔
جب وہ بالکل بے بس ہوتی ہار ماننے والی تھی تب حازم سالار نے ہی اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے اُمید کی نئی کرن دیکھائی تھی۔۔۔ اُسے ہارنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔
مگر اُس نے کیا کیا تھا۔۔۔۔؟؟ اپنے ہمدرد کو ہی اپنا شکار بنا لیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا گہری نیند میں سورہی تھی۔۔۔ جب اچانک اُسے اپنے بہت قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔۔۔
اُس نے خوفزدہ ہوتے پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔
"تت تم یہاں۔۔۔ تم یہاں کیسے پہنچے۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا آنکھیں کھولتے ہی اپنے عین سامنے بیڈ پر بیٹھ کر سیگریٹ پیتے شاہ ویز سکندر کو گھورا تھا۔۔۔
جو اُس کے بیڈ کو بھی اپنی جاگیر سمجھے بیٹھا تھا۔۔۔
"تمہیں کیا لگا تھا۔۔۔ اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑوا لو گی۔۔۔۔ تم پر اب شاہ ویز سکندر کا سایہ پڑ چکا ہے۔۔۔ جس سے تم اب پوری زندگی چھٹکارا حاصل نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر اُس کے بنا دوپٹے کے ہوش ربا حُسن کو شوخ نگاہوں سے گھورتا اُس کے قریب ہوا تھا۔۔۔۔
"پپ پلیز ۔۔۔ یہ تم۔۔۔۔"
پریسا اُس کے قریب آنے پر پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔۔ اُس کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔
"شش۔۔۔۔"
پریسا کے ہونٹوں پر اُنگلی رکھتا وہ اُس پر جھکا تھا۔۔۔۔
اُسی لمحے پریسا کی انکھ کھل گئی تھی۔۔۔ اُس نے خوف سے زرد پڑتے چہرے کے ساتھ پورے کمرے پر نظر دوڑائی تھی۔۔۔ مگر اُس کے علاوہ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔۔۔
پریسا پوری طرح پسینے میں بھیگ چکی تھی۔۔۔
"کیا یہ صرف ایک خواب تھا۔۔۔ وہ وحشی یہاں نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے بیڈ سے اُٹھتے کھڑکی سے باہر جھانکا تھا۔۔۔
مگر وہاں بھی گارڈز کھڑے مستعدی سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔۔۔۔
پریسا نے لائٹ آن کرکے ایک ایک پردہ ہٹا کر۔۔۔ یہاں تک کہ بیڈ کے نیچے بھی دیکھا تھا۔۔۔ مگر وہ ہوتا تو اُسے نظر آتا۔۔۔۔
"تو کیا وہ میرے خواب میں آیا تھا۔۔۔ مگر وہ میرے خواب میں کیونکر کر آیا تھا۔۔۔۔ اور خواب بھی اِس قدر بے ہودہ۔۔۔۔۔۔ استغفراللہ۔۔۔ یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد میرا سفیان سے نکاح ہے۔۔ مجھے تو اُن کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔۔ پھر اِس فضول انسان کا خیال کیوں نہیں پیچھا چھوڑ رہا میرا۔۔۔۔"
پریسا بالوں کو مُٹھیوں میں جکڑے پریشانی سے بولی تھی۔۔۔۔ خواب میں جو کچھ بھی اُس نے دیکھا تھا وہ یاد کرتے اُس کا چہرا شرم اور خفت سے بالکل لال ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔
"تم سب سے بڑی ایڈیٹ ہو۔۔۔ اُس کے بارے میں اتنا سوچو گی تو خواب بھی اُسی کے آئیں گے نا۔۔۔ اور اُس بے ہودہ انسان کے حوالے سے خواب اچھے کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔"
اُس نے خوف سے جھڑجھڑی لیتے گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا۔۔۔۔۔
"یہ تو فجر کا ٹائم ہے۔۔۔ اور ماما تو یہی کہتی ہیں اِس ٹائم جو بھی خواب آئیں وہ سچ ہوتے ہیں۔۔۔۔ نن نہیں۔۔۔ خدا نہ کرے یہ خواب کبھی سچ ہو۔۔۔ "
پریسا کا پورا وجود اِس خیال سے ہی لرز اُٹھا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کے ساتھ گزرے پل ہی اُس کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھے۔۔۔ وہ اب آگے ایسا کبھی بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
نہ ہی اُس شخص کے سامنے کبھی جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں کیا کچھ کرسکتا ہوں۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ تمہارے پاس دس منٹ ہیں۔۔۔ اِن سب کو یہاں سے فارغ کرو۔۔۔ ورنہ یہ کام میں کروں گا۔۔۔۔۔"
حازم اُسے آزاد کرتا کھڑکی کی جانب مُڑتا سیگریٹ سلگھا کر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔۔
اُس نے جیسے ہی اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا۔۔۔ حبہ نے دبے پاؤں اُس کے قریب جانا چاہا تھا۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی حازم نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے وہیں روک دیا تھا۔۔۔۔
"یہ غلطی مت کرنا۔۔۔۔۔ میری صورت دیکھنا تمہاری مشکلات میں اضافہ کردے گا۔۔۔۔۔"
حازم کے بھاری گھمبیر لہجے اور اُوپر کو اُٹھی چوڑی ہتھیلی کو دیکھ حبہ کو ایک بار پھر گہرا شاک لگا تھا۔۔۔
وہ بنا آواز پیدا کیے اُس کے قریب جارہی تھی۔۔۔ پھر بھی وہ کیسے جان گیا تھا۔۔۔۔
حبہ کا دل بہت زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
مگر وہ خاموشی سے واپس پلٹ گئی تھی۔۔۔۔ اِس وقت یہ شخص اُسے کچھ بھی سننے یا ماننے کے موڈ میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔
اُس نے تمام پولیس اہلکاروں کو شمشیر خان اور اُس کے آدمیوں کو لے کر وہاں سے جانے کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔ اُس نے بہت کوشش کی تھی اُس لڑکی کو بھی گرفتار کروانے کی جسے اُس نے حازم کے گلے لگتے دیکھا تھا۔۔۔ مگر وہ شاید حازم کی طرح بہت چالاک تھی۔۔۔ پہلے ہی یہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
حبہ اُس کا کہا پورا کرتی واپس روم میں لوٹی تھی۔۔۔
"سب لوگ جا چکے ہیں۔۔۔۔ میں نے تمہاری بات مان لی ہے۔۔۔ اب تم بھی میری فیملی کو میرے حوالے کر دو۔۔۔۔"
حبہ نے اپنے اندر اُٹھتے غصے کے اُبال پر قابو پاتے نہایت تحمل سے اُسے کہا تھا۔۔۔۔
وہ بڑے شاہانہ انداز میں صوفے پر براجمان ٹیبل پر ٹانگیں رکھے بیٹھا تھا۔۔۔۔
حبہ کی بات پر نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم کوشش بھی کیوں کرتی ہو؟؟؟"
حازم نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔
"کس بات کی۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے ناسمجھی سے دیکھا تھا۔۔۔
"مجھے دھوکا دینے کی۔۔۔ اور مجھ سے ہوشیاری کرنے کی۔۔۔۔"
حازم اپنی جگہ سے اُٹھتا اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"میں نے اب ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"
حبہ اُسے کے بہت قریب آکر کھڑے ہونے پر اُلٹے قدموں پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔
"میں نے کچھ وقت کے لیے ہم دونوں کے درمیان تنہائی مانگی تھی۔۔۔۔"
حازم نے ہر قدم کے ساتھ درمیانی فاصلہ ختم کررہا تھا۔۔ مگر حبہ بھی اُلٹے قدم پیچھے کی جانب لیتی وہ فاصلہ بڑھا دیتی تھی۔۔۔
"میں نے مانی ہے تمہاری بات۔۔۔۔ سب لوگ جا چکے ہیں۔۔۔۔"
حبہ نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے جھوٹ بولا تھا۔۔۔۔
"آر یو شیور۔۔۔۔؟؟؟"
حازم نے کھڑکی کی جانب دیکھتے ایک بار پھر اُس سے سوال کیا تھا۔۔۔۔ جس کے ساتھ ہی حبہ کے چہرے کا رنگ بدلہ تھا۔۔۔۔
مگر پھر بھی اپنا کانفیڈنس قائم رکھتی وہ سر اثبات میں ہلا گئی تھی۔۔۔ جب اچانک پیچھے دیوار آجانے کی وجہ سے اُسے زور کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔
"یہ معصوم چہرا اتنا دھوکے باز کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟ کچھ پلوں کی وفاداری ہی تو مانگی تھی۔۔۔۔؟؟ وہ بھی نہیں دے پائی تم۔۔۔۔؟؟ اتنا بُرا بھی نہیں ہوں۔۔۔ اِس قربت کا سب سے بڑا حقدار ہوں۔۔۔ ایسا ظلم کیسے کر سکتی ہو تم مجھ پے۔۔۔۔؟؟"
حازم اُس کے گرد دیوار پر دونوں ہاتھ ٹکائے اُس پر حاوی ہوتا اُس کے کان کی لوح پر جھکتا اپنے اندر کا غصہ اُس پر لُٹاتا اُسے لال کرگیا تھا۔۔۔۔
حبہ نے سختی سے مُٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔۔۔
"کیا واقعی یہاں اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حازم نے ایک بار پھر پوچھا تھا۔۔۔ جس پر بھی حبہ کا جواب نفی میں تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے حازم نے زرا سا آگے ہوتے کھڑکی کے باہر ہاتھ بڑھا کر باہر کھڑے پولیس والے کو اندر کھینچ لیا تھا۔۔۔ وہ حبہ کا ٹینڈ کمانڈو تھا۔۔۔۔
مگر حازم سالار جیسے شخص کے سامنے اُس کی کوئی ٹریننگ کام نہیں آئی تھی۔۔۔ وہ پکڑا جاچکا تھا۔۔۔۔
اُس نے حازم پر گولی چلا دی تھی۔۔۔ مگر اُس سے بھی دوگنا زیرک نگاہ رکھنے والے بلیک سٹار نے اپنی پھرتی دیکھاتے نہ صرف اُس کا نشان ضائع کروا دیا تھا۔۔۔ بلکہ اُسے بنا کوئی نقصان پہنچائے اُس کی گردن کی مخصوص رگ دباتے اُسے بے ہوش کردیا تھا۔۔۔۔
حبہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کی فائٹنگ کی مہارتیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ یہ کوئی عام انسان نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ یہ شخص اُس کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ آگے تھا۔۔۔۔
اور جس بات نے حبہ کو سب سے زیادہ حیران کیا تھا وہ تھا حازم کا خود پر گولی چلانے والے شخص کو بنا کوئی نقصان پہنچائے چھوڑ دینا۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔؟؟؟ بتاؤ مجھے کون ہو تم۔۔۔؟؟"
حبہ اُسے ایک بار پھر کالر سے پکڑ چکی تھی۔۔۔۔ ایک نظر اُس کی مُٹھیوں میں جکڑے اپنے گریبان پر ڈالتے۔۔۔ حازم اُس کی کمر پر دونوں ہاتھوں کا دباؤ ڈالتا اُسے اپنے ساتھ لگاتے اُس کے بہت قریب چہرا لے آیا تھا۔۔۔
"میں کون ہوں۔؟؟ کیا ہوں۔۔۔؟؟ تمہارے گلے میں موجود لاکٹ میں سب کچھ موجود ہے۔۔۔۔ جو شاید میری طرح تمہارے لیے کوئی امپورٹنس نہیں رکھتا۔۔۔۔۔ اپنی سچائی اپنی زبان سے تو کبھی نہیں بتاؤں گا۔۔۔۔ تمہیں خود مجھے پہچاننا ہوگا۔۔۔ ڈھونڈنا ہوگا مجھے۔۔۔ اور وہ تم بنا کسی کی مدد کے بھی کرسکتی ہو۔۔۔ یہ لاکٹ صرف تمہارے ہاتھ سے ہی کھلے گا۔۔۔ ہر ایک کے آگے اپنی یہ حسین گردن پیش کرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں میرے آگے پیش کرنا چاہو تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔۔ تمہاری فیملی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔ اور ایسا کرنے کا سوچنے والوں کا بھی وہی حال ہوگا جو اب شمشیر خان کا ہونے والا ہے۔۔۔۔
وہ لوگ باحفاظت گھر پہنچ چکی ہیں۔۔۔ میری بات پر اندھا دھند یقین کرکے اپنی پوری فورسز کو یہاں سے بھیج کر اور یہ تنہائی بھرے لمحے بخشنے کے لیے شکریہ۔۔۔۔"
حازم اُسے کی گردن میں موجود لاکٹ کو ہونٹوں سے چھوتا اُسے وہیں ساکت چھوڑتا پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
"اپنے اِس بچارے کمانڈو کو بھی بعد میں اُٹھوا لینا۔۔۔"
حازم اُس بے ہوش پڑے شخص کی جانب اشارہ کرتے حبہ کو بانہوں میں اُٹھائے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"یہ کیا کررہے ہو تم۔۔۔ چھوڑوں مجھے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کا سکتہ ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ زور سے چلائی تھی۔
"میں تمہیں اس کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر تو جا نہیں سکتا۔۔۔۔ بے شک یہ بے ہوش ہے۔۔۔ مگر میری غیرت پھر بھی کسی صورت گوارہ نہیں کرتی۔۔۔۔ "
حازم اُس کے مکے گھونسے خوشدلی سے برداشت کرتا اُسے لیے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"واہ بھئی کیا تیاری ہے۔۔۔۔ سنا ہے اپنے ہونے والے اُن کے ساتھ لانگ ڈرائیو اور کینڈل لائٹ ڈنر پر جایا جارہا ہے۔۔۔۔"
پریسا سفیان کے بہت زیادہ اصرار پر اُس کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جارہی تھی۔۔۔ سفیان صبح سے اُس کا موڈ ٹھیک کرنے کے جتن کررہا تھا۔۔۔۔
مگر اب جاکر کہیں پریسا اُس کی بات ماننے پر راضی ہوئی تھی۔۔۔۔
"پیارا انسان ہمیشہ ہر رُوپ اور ڈریس میں پیارا ہی لگتا ہے۔۔۔۔۔"
یاسمین بیگم اُس کے پاس آتیں اُس کی نظر اُتار کر پیشانی چومتے بولیں۔۔۔ جو پرپل لانگ شرٹ ٹراؤزر اور کریم کلر کے دوپٹے میں اپنی دودھیا رنگت میں بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
"سفیان آفندی کی ہونے والی بیوی ہے۔۔۔ سب سے الگ تو لگے گی نا۔۔۔۔"
سفیان اُس کی جانب والہانہ نگاہوں سے دیکھتا اُس کا ہاتھ تھامے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ یاسمین بیگم نے بے اختیار دونوں کی نظر اُتاری تھی۔۔۔
پریسا نے محبت پاش نظروں سے سفیان اور باقی سب گھر والوں کو دیکھا تھا۔۔۔
اُسے یہی لگا تھا۔۔ کہ یہ معاشرہ اور اُس کے خاندان والے اُسے ایک اغوا شدہ لڑکی سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔۔۔ اُس پر الزام لگائیں گے۔۔۔ مگر یہاں سب کی نگاہوں میں اپنے لیے پہلے سے بھی زیادہ چاہت اور فکر دیکھ پریسا کے دل میں اُن سب کے لیے محبت مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے سفیان کو گاڑی شہر کی آبادی سے باہر لے جاتے دیکھ عام سے لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔ نجانے کیوں اُس کے دل میں ایک انجانہ سا خوف بیٹھ چکا تھا۔۔۔
شاہ ویز سکندر سے دوبارہ سامنا ہوجانے کا خوف۔۔۔۔
"وہاں جہاں ہم دونوں کے سوا کوئی نہ ہو۔۔۔ آج کی شام ہم دونوں فارم ہاؤس پر گزاریں گے۔۔۔۔ "
سفیان سے اُس کے دلکش سراپے سے نظریں ہٹا پانا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا اُسے گھورتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔۔۔
جب اچانک سامنے سے ایک گاڑی اُن کے سامنے آتی راستہ کاٹ گئی تھی۔۔۔۔ سفیان نے تصادم سے بچانے کے لیے بامشکل گاڑی کو بریک لگاتے وہاں روکا تھا۔۔۔۔
اُس گاڑی سے کسی کو نہ نکلتے دیکھ سفیان نے گاڑی ریورس کرنی چاہی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے گاڑی کے چاروں ٹائرز پر فائر کرتے گاڑی کو نکارہ کردیا گیا تھا۔۔۔۔
"یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔۔ سفیان پلیز کچھ کریں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔"
پریسا بُری طرح خوفزدہ ہوتی سفیان کا بازو تھام کر رو دی تھی۔۔۔۔
"کک کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ میں بابا کو کال کررہا ہوں۔۔۔ وہ سیکیورٹی بھیج دیں گے۔۔۔۔"
سفیان نے موبائل نکالتے کال ملانی چاہی تھی۔۔۔ جب گاڑی کی بونٹ پر ہونے والی فائرنگ سے گھبراتے موبائل اُس کے ہاتھ سے چھوٹتا گاڑی میں ہی نیچے جاگرا تھا۔۔۔۔
گاڑی سے نکل کر اُن نقاب پوش افراد کو اپنے قریب آتا دیکھ پریسا کی چیخیں پوری گاڑی میں گونج اُٹھی تھیں۔۔۔۔۔
وہ لوگ گاڑی کے قریب پہنچتے شیشہ بجاتے دروازہ کھولنے کا اشارہ کرنے لگے تھے۔۔۔
"پلیز دروازہ مت کھولیئے گا۔۔۔۔"
پریسا نے لاک کی جانب ہاتھ بڑھاتے سفیان کو روکا تھا۔۔۔
"پری اگر اُن کی بات نہ مانی تو وہ ہم پر گی چلا دیں گے۔۔۔۔۔۔"
سفیان کی حالت بھی اِس سچویشن سے کافی خراب ہوچکی تھی۔۔۔ پریسا تو پھر لڑکی تھی۔۔۔ وہ یہ سب پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔۔۔ اُس کی خوف سے جان نکل رہی تھی۔۔۔۔
سفیان کے دروازہ کھولتے ہی اُن نے سفیان کو کھینچ کر باہر نکالا تھا۔۔۔ اور پھر پریسا کو بھی ایسے ہی بے دردی سے باہر گھسیٹا تھا۔۔۔۔
پریسا جو یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ کارنامہ پھر سے بلیک سٹارز کا تھا۔۔۔ اُن کا خود سے رواں رکھے جانے والا سلوک دیکھ اُسے سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا تھا کہ یہ بلیک سٹارز نہیں تھے۔۔۔
جس کے ساتھ ہی اُس کا خوف کئی گنا بڑھ گیا تھا۔۔۔
"بتا دینا اپنے باپ کو۔۔۔ اُس کی یہ سونے کی چڑیا لے کر جارہے ہیں ہم۔۔۔ ہمیں ہمارے پیسے واپس کردے اور آکر چھڑا لے اِسے۔۔۔ تب تک ہم اِس حُسن کی پُڑیا سے لطف اندوز ہونگے۔۔۔"
وہ شخص انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتا پریسا کو اپنے ساتھ گھسیٹتا اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
جبکہ تین افراد سفیان پر گن تانے کھڑے تھے۔۔۔۔
جو اپنی جان جانے کے خوف سے ایک لفظ نہیں بول پایا تھا۔۔۔
"سفیان پلیز۔۔۔ بچائیں مجھے۔۔۔ پلیز۔۔۔ سفیان۔۔۔"
پریسا رو رہی تھی گڑگڑا رہی تھی۔۔۔ مگر سفیان بے بسی سے ساکت کھڑا اُسے اپنی نظروں سے دور جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
پریسا کا دوپٹہ سر کندھوں سے پھسل کر روڈ پر گر چکا تھا۔۔۔ جسے وہ لوگ پیروں تلے مسلتے آگے بڑھ آئے تھے۔۔۔
"یہ چڑیا تو میری سوچ سے بھی زیادہ حسین ہے۔۔۔ اِس کے ساتھ تو اور مزا آئے۔۔۔۔"
ابھی اُس شخص کی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔۔ جب دائیں جانب سے پڑنے والا تھپڑ اُس کا جبڑا ہلا گیا تھا۔۔۔۔
پریسا سمیت اُن سب نے پلٹ کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جہاں سیاہ لباس میں ملبوس،نقاب سے چہرا ڈھکے لال آنکھوں میں آگ کے شعلے برساتے اُن کو بھسم کردینے کی نگاہ سے دیکھتے بلیک بیسٹ کو کھڑا دیکھ کئی آنسو ٹوٹ کر پریسا کی آنکھوں سے گرے تھے۔۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔؟؟"
پریسا کو تھامے کھڑے شخص نے شاہ ویز کی جانب دیکھتے حیرت زدہ سا سوال کیا تھا۔۔۔
"تمہاری موت۔۔۔۔۔"
آگے بڑھ کر پریسا کا زمین پر گرا دوپٹہ اُٹھاتے اُس نے آگ اُگلتے لہجے میں جواب دیا تھا۔۔۔۔
"یہ چڑیا تو میری سوچ سے بھی زیادہ حسین ہے۔۔۔ اِس کے ساتھ تو اور مزا آئے۔۔۔۔"
ابھی اُس شخص کی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔۔ جب دائیں جانب سے پڑنے والا تھپڑ اُس کا جبڑا ہلا گیا تھا۔۔۔۔
پریسا سمیت اُن سب نے پلٹ کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جہاں سیاہ لباس میں ملبوس،نقاب سے چہرا ڈھکے لال آنکھوں میں آگ کے شعلے برساتے اُن کو بھسم کردینے کی نگاہ سے دیکھتے بلیک بیسٹ کو کھڑا دیکھ کئی آنسو ٹوٹ کر پریسا کی آنکھوں سے گرے تھے۔۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔؟؟"
پریسا کو تھامے کھڑے شخص نے شاہ ویز کی جانب دیکھتے حیرت زدہ سا سوال کیا تھا۔۔۔
"تمہاری موت۔۔۔۔۔"
آگے بڑھ کر پریسا کا زمین پر گرا دوپٹہ اُٹھاتے اُس نے آگ اُگلتے لہجے میں جواب دیا تھا۔۔۔۔
"تمہاری بہتری اِسی میں ہے کہ ہمارے معاملے میں مت پڑو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کو پریسا کا دوپٹہ اُٹھا اپنی جانب بڑھتے دیکھ اُس شخص نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا۔۔۔ اُس کے باقی سارے آدمی شاہ ویز پر گنز تان چکے تھے۔۔۔ جس کی شاہ ویز سکندر کو رتی بھر پرواہ نہیں تھی۔۔۔
وہ دس کے قریب لوگ تھے۔۔۔ جبکہ شاہ ویز بالکل اکیلا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ اکیلا بھی سب پر بھاری تھا۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں خوف کی رمق تک نہیں تھی۔۔۔
بس منجمند کردیتا سرد پن موجود تھا۔۔۔ جس سے پریسا کو اپنی ریڑھ کی ہڈی سنسناتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
"ہاتھ چھوڑو۔۔۔۔۔ شاہ ویز کی خون آشام نگاہیں اُس شخص کی گرفت میں قید پریسا کی دودھیا کلائی پر تھی۔۔۔۔ جو اُس کی سخت گرفت کی وجہ سے بالکل لال ہوچکی تھی۔۔۔۔
"نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔ نہ اِس لڑکی کو۔۔۔ اور نہ ہی اب تمہیں۔۔۔ آہہہہہ۔"
وہ شخص اپنے آدمیوں کو شاہ ویز پر حملہ آور ہونے کا اشارہ کرنے ہی لگا تھا۔۔۔ جب شاہ ویز نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں جیب سے خنجر نکالتے اُس شخص کا بازو ہی کاٹ دیا تھا۔۔۔۔۔
یہ خوفناک منظر دیکھتے پریسا کے منہ سے بے اختیار دلخراش چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ حواس کھوتی قریب آکر اُسے تھامتے شاہ ویز سکندر کی بانہوں میں لہرا گئی تھی۔۔۔۔۔
شاہ ویز نے ہونٹ بھینچتے غصے سے پریسا کو دیکھا تھا۔۔۔۔ جو ہمیشہ غلط ٹائم پر بے ہوش ہوجاتی تھی۔۔۔۔
اُسے اپنے ساتھ کھڑا کیے اُس کا سر نرمی کے ساتھ کندھے سے لگاتا وہ اُن لوگوں کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔ جو اب اُس پر فائرنگ کرنے سے بھی خوفزدہ ہوچکے تھے۔۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔ تم کوئی عام آدمی نہیں ہوسکتے۔۔ کیونکہ کوئی عام آدمی شفیق بھا کے آدمیوں پر ہتھیار اُٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔۔۔۔۔"
وہ شخص درد سے بلبلاتا فوارے کی طرح بہتے اپنے خون کو دیکھتا اپنے آدمیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتا شاہ ویز سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ وہ ایک وار میں ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ شخص بہت پاور فل ہے۔۔۔ اُن کے پچاس آدمی مزید بھی آگے تو اِس سے مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔۔۔ اُس کا کسرتی مضبوط وجود، روشن پیشانی اور سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی بے خوفی اور آگ اُن سب کو جلا کر بھسم کرنے کا جذبہ رکھتی تھی۔۔۔۔
" اپنے شفیق بھا سے پوچھنا کون ہوں میں۔۔۔۔ اُس نے ایک بار پھر بہت غلط جگہ وار کیا ہے۔۔۔۔ یہ لڑکی صرف میرس شکار ہے۔۔۔۔ اور اپنے شکار پر نظر رکھنے والوں کا میں وہیں حال کرتا ہوں جو چار سال پہلے تمہارے شفیق بھا کا کیا تھا۔۔۔۔ آج کے میرے وار کے بعد تم بھی ایک بازو کے ساتھ اپنے شفیق بھا کی طرح بن چکے ہو۔۔۔۔ میری طاقت کا اندازہ یہیں سے لگا لو۔۔۔ اور جاکر بتا دو اپنے بھا کو۔۔۔ اِس لڑکی پر بلیک بیسٹ کا سایہ ہے۔۔۔۔ اِس پر بُری نگاہ ڈالنے کا حق بھی میرا ہے اور اچھی بھی۔۔۔۔ اگر دوبارہ اِسے زرا سا بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو چار سال پہلے صرف ایک بازو کاٹا تھا۔۔۔۔ اب کی بار گردن گنوا بیٹھو گے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنی بات مکمل کرتے سفیان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں اب وہ موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کی آنکھوں میں استہزاء پھیل گیا تھا۔۔۔۔
اُس نے چہرا جھکا کر اپنے سینے سے چمٹی کھڑی پریسا آفندی کو دیکھا تھا۔۔۔ جس کا وجود بالکل سرد پڑ چکا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز اپنی جیکٹ اُتار کر اُس کے کپکپاتے وجود کے گرد لپیٹتے اُسے بانہوں میں اُٹھائے اُن لوگوں کو وہیں ہونق چھوڑتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
"اُستاد ہم نے اِسے اتنی آسانی سے جانے کیسے دیا۔۔۔۔ ہم تو آسانی سے اِس کا کام تمام کر سکتے تھے۔۔۔۔ یہ اکیلا اور ہم اتنے سارے۔۔۔ آس پاس جنگل میں بھی ہمارے ہی آدمی پھیلے ہوئے ہیں۔۔۔۔"
اُس شخص کے آدمی بے یقینی سے اپنے اُستاد کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ جو اپنے درد سے تڑپتا شاہ ویز سکندر کو دور جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"یہ کوئی عام آدمی نہیں ہے۔۔۔ بلیک بیسٹ ہے۔۔۔ شفیق بھا اِس کے آگے سر جھکاتا ہے۔۔۔۔ یہ اتنا طاقت ور ہے۔۔۔ ایک ہی لمحے میں شفیق بھا جیسے لوگوں کے اڈے برباد کردے۔۔۔ ہم تو پھر اِس کے آگے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔۔۔ بہت بڑی قسمت والی نکلی یہ لڑکی۔۔۔ کہ اِس پر شاہ ویز سکندر کا سایہ ہے۔۔ ورنہ جتنے خطرے اِس لڑکی کے گرد منڈلا رہے ہیں۔۔۔ اب تک کچھ نہ بچا ہوتا اِس کے پاس۔۔۔۔۔"
وہ شخص لمحہ با لمحہ دور ہوتے شاہ ویز سکندر کی چوڑی پشت کو گھورتا اپنے آدمیوں کے سہارے گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"فرح آپی آپ کو مامی بلا رہی ہیں۔۔۔ آپ جائیں میں کر لیتی ہوں یہ۔۔۔۔۔"
مہروسہ کچن میں قورمہ بناتی فرح کو سمیعہ بیگم کا پیغام دیتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
"اُجالا تمہارے آنے سے تو میری کچن کی طرف سے چھٹی ہی ہوگئی ہے۔۔۔ تم مجھے کوئی کام کرنے ہی نہیں دیتی۔۔۔۔ یہ سب اگر اتنا اچھا کھانے کے عادی ہوگئے نا تو بعد میں اِنہوں نے میرے ہاتھ کا بنا کچھ کھانا ہی نہیں ہے ۔۔۔"
فرح اُسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتی کچن سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ اُس کی بات پر مسکراتی چمچہ ہلا کر فریج کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ پانی گلاس میں نکال کر ابھی اُس نے منہ سے لگایا ہی تھا جب اچانک اُسے کچن کے دروازے پر وہی مخصوص قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔۔۔
جسے وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔۔۔۔
"اُجالا مجھے بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔ بلکہ معافی مانگنی ہے۔۔۔ اپنے رات والے رویے کی۔۔۔۔ آئم سوری۔۔۔۔۔"
مہروسہ جو حمدان کی آواز سن کر آنکھیں پھاڑے گلاس ہونٹوں سے لگائے کھڑی تھی۔۔۔۔۔ اُس کی پوری بات سنتے اُسے اتنی زور کا اچھو لگا تھا کہ زرا سی دیر میں وہ کھانس کھانس کر خطرناک حد تک لال ہوگئی تھی۔۔۔۔
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان اُس کی غیر ہوتی حالت پر فکرمند ہوتا اُس کے قریب آتے بولا۔۔۔۔
مہروسہ نے بمشکل اپنی سانسیں بحال کرتے خود کو جی بھر کر کوسا تھا۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار تو وہ اُس سے اُجالا سمجھ کر ہی سہی مگر نرمی سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔
اپنے گلے کی تکلیف پر قابو پاتے وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ حمدان کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔
"نن نہیں آپ سوری کیوں کررہے ہیں۔۔۔؟؟؟ میں نے آپ کی کبھی کسی بات کا بُرا نہیں مانا۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے اُجالا ہونے کا بھرپور ناٹک کرتے چہرا جھکا کر جواب دیا تھا۔۔۔۔
"نہیں میں واقعی بہت شرمسار ہوں۔۔۔ غلط فہمی کی بنیاد پر تم سے بہت بُرا سلوک کیا۔۔۔۔ مگر اب سب غلط فہمی دور ہوچکی ہے۔۔۔۔ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اگین آئم سوری۔۔۔۔"
حمدان اُس کی جانب گہری نگاہوں سے دیکھتا یہ نرم الفاظ ادا کرتا مہروسہ پر ایک بار پھر سکتہ طاری کر گیا تھا۔۔۔۔
"نو اٹس اوکے۔۔۔۔ آپ کی غلط فہمی کلیئر ہوگئی۔۔ میرے لیے یہی بہت ہے۔۔۔۔"
مہروسہ حمدان کے سوری بولنے اور اتنے نرم لہجے پر اتنا کھو گئی تھی کہ چولہے پر رکھا قورمہ بالکل فراموش کر گئی تھی۔۔۔
"کچھ جل رہا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے کمرے میں پھیلتی جلنے کی بو پر اردگرد نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔۔
"اوہ شٹ۔۔۔۔۔ اِسے تو میں بھول ہی گئی۔۔۔"
مہروسہ سر پر ہاتھ مارتی چولہے کی جانب بھاگی تھی۔۔۔ جہاں قورمہ پوری طرح جل چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ فرح کی ساری محنت برباد ہوتے دیکھ بے دھیانی میں چولہا بند کرنے کے بجائے آگ پر تپتا گرم کڑاہی دونوں ہاتھوں سے تھامتے نیچے اُتارنے لگی تھی۔۔۔۔
مگر کڑاہی کی گرمائش نے اُس کے ہاتھوں کو بُری طرح جلا دیا تھا۔۔۔ کڑاہی اُس کے ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی۔۔۔ اِس سے پہلے کے وہ اُس کے پیروں اور ٹانگوں کو جلا دیتی۔۔۔۔۔
حمدان نے جلدی سے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔
مہروسہ ہر شے فراموش کرتی سیدھی اُس کے چوڑے سینے سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔ اُس کے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں بُری طرح جل چکی تھیں۔۔۔ جنہیں اِس وقت حمدان کے سینے پر رکھے اُن کی پشت پر اپنا ماتھا ٹکائے وہ اپنے ہاتھوں سے زیادہ سینے کی جلن کم کرنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔
جو اِسی سنگدل سے ہر بار ملی تھی اُسے۔۔۔۔
"آر یو اوکے۔۔۔۔۔"
حمدان نے نگاہیں جھکا کر اُس کے لرزتے وجود کو دیکھا تھا۔۔۔۔ جو خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا یا اُس کی قربت کی وجہ سے وہ اندازہ نہیں لگا پایا تھا۔۔۔۔
"بہت جلن ہورہی ہے۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے اپنی بھیگی پلکیں اُٹھا کر کمزور سی آواز میں اُسے اپنی تکلیف بتائی تھی۔۔۔۔
اُس کے لرزتے ہونٹ، گھنیری بھیگی پلکیں اِس وقت حمدان صدیقی کے بہت قریب تھے۔۔۔۔ اور اُن کی دلکشی کہیں نہ کہیں حمدان صدیقی کے دل پر اثر انداز بھی ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"یہاں بیٹھو۔۔۔۔ "
حمدان کے دل میں اِس لڑکی کے لیے چاہے جو کچھ بھی تھا۔۔ مگر اِس وقت وہ اِن سیاہ جھیل سی آنکھوں میں نجانے کیوں آنسو نہیں برداشت کر پایا تھا۔۔۔۔۔
وہ مہروسہ کو کرسی پر بیٹھا کر باہر سے فرسٹ ایڈ باکس لاتا اُس کے مقابل آن بیٹھا تھا۔۔۔۔
مہروسہ تو بس اپنا درد بھلائے اِس سنگدل انسان کا یہ مہربان رُوپ دیکھ رہی تھی۔۔۔ اُسے جو حمدان کے معافی مانگنے پر وہ اُس کا کوئی نیا پلان اور دھوکا لگا تھا۔۔۔ اِس وقت وہ ساری سوچ زہن سے جھٹکتی وہ حمدان صدیقی کے واقعی بدلنے پر یقین کر چکی تھی۔۔۔
وہ اُسے مہروسہ نہیں اُجالا مان چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کے ہاتھوں کی تکلیف تو کب سے ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔ وہ یک ٹک دیوانہ وار نگاہوں سے حمدان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو بہت ہی احتیاط سے اُس کی بینڈیج کررہا تھا۔۔۔
حمدان نے جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوتے سر اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔۔ نگاہوں کے تصادم پر مہروسہ نے گڑبڑاتے جلدی سے نگاہیں پھیر لی تھیں۔۔۔ اُس کا دل بہت زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔۔
جبکہ حمدان صدیقی سامنے بیٹھی لڑکی کی کیفیت نوٹ کرتا دل ہی دل میں ہنس دیا تھا۔۔۔۔ وہ ہر شے سے دھوکا کھا سکتا تھا۔۔۔ مگر مہروسہ کنول جن دیوانگی اور حسرت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتی تھی اُس سے وہ کیسے دھوکا کھاتا۔۔۔۔ ہر بار یہ لڑکی اُس کے ساتھ کھیل کھیلتی آئی تھی۔۔۔
مگر اب وہ اِسے اپنے کھیل میں اُلجھا کر اِسے اِس کے انجام تک لانے والا تھا۔۔۔۔
لیکن شاید وہ خود بھی اِس بات سے واقف نہیں تھا کہ یہ کھیل کس کی زندگی میں بربادی لکھنے والا تھا اور کسے سرخرو کرنے والا تھا۔۔۔۔۔
"کیا اب بھی جلن ہورہی ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کے دونوں ہاتھوں پر دوا لگا دی تھی۔۔۔۔ اُس کے سوال مہروسہ نے سر اثبات میں ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔۔۔۔
"اب کچھ دن ریسٹ کرنا۔۔۔ آؤ میں تمہیں تمہارے روم میں چھوڑ دوں۔۔۔۔"
حمدان مہروسہ کے قریب آتا اُسے سہارا دیتے بولا۔۔۔۔
مہروسہ کو لگا تھا کہ اِس شخص کی کیئر پر کسی بھی لمحے اُس کا ہرٹ فیل ہوجائے گا۔۔۔۔
"اللہ جی۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔۔۔ آخر اِس شخص کو ہوا کیا ہے۔۔۔۔ آج تک بڑے بڑے خطرناک مشن کیے ہیں۔۔۔ مگر اِس مشن سے خطرناک کبھی کوئی نہیں لگا۔۔۔۔"
مہروسہ کو اپنا دائیاں پہلو سلگھتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ یہ شخص اُس کے ساتھ جو بھی کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔ وہ بہت ہی جان لیوا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ماما آپ دونوں ٹھیک ہیں نا۔۔۔۔؟؟ اُنہوں نے آپ لوگوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا نا۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نجانے کتنی بار نجمہ بیگم اور صبا کو گلے سے لگا کر اُن کے صحیح سلامت ہونے کا یقین کرچکی تھی۔۔۔۔
"ہم بالکل ٹھیک ہیں میری جان۔۔۔۔ اللہ بس اُس بچے کو سلامت رکھے۔۔۔ جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہمیں وہاں سے نکلا۔۔۔۔ "
نجمہ بیگم جب سے آئی تھیں۔۔۔۔ حازم کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہی تھیں۔۔۔۔ جبکہ حبہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
اُس کا بس نہیں چل رہا اُنہیں اُس اچھے بچے کی ساری اصلیت بتا دے۔۔۔ مگر اُن دونوں کی کنڈیشن کے پیشِ نظر وہ اُنہیں مزید خوفزدہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
"ویسے آپی آپ نے اُس آفیسر کا کبھی ذکر نہیں کیا۔۔۔۔ اتنا ڈیشنگ اور ہینڈسم بندہ ہے۔۔۔۔ دیکھنے میں تو آپ کا سینئر لگ رہا تھا۔۔۔"
صبا نے بھی اپنی رائے دی تھی۔۔۔۔ جس پر حبہ کا دماغ مزید کھول اُٹھا تھا۔۔۔
"فضول باتیں چھوڑو۔۔۔۔ اور جاؤ جاکر فریش ہوکر آؤ۔۔۔ میں کھانا لگواتی ہوں۔۔۔۔"
حبہ دانت پیستے بولی۔۔۔
"حبہ تم کسی دن اُس بچے کو ڈنر پر بلانا نا۔۔۔ مجھے اُس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔۔۔۔"
حبہ بہت کوشش کے باوجود اُن دونوں کو اُس شخص کے سحر سے نہیں نکال پائی تھی۔۔۔
"اوکے ٹھیک ہے۔۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گی۔۔۔ اب پلیز اُس کا ذکر چھوڑیں اور فریش ہوکر کھانا کھا لیں۔۔۔"
حبہ آخر میں زچ ہوتے بولی۔۔۔۔
اُن دونوں کو روم میں بھیج کر وہ بھی اپنے روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ جب اُس کے ہاتھ میں موجود موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سفیان تم ایسا کیسے کرسکتے ہو۔۔۔ تم پری کو کیسے وہاں غنڈوں کے بیچ چھوڑ کر آسکتے ہو۔۔۔۔ ؟؟" یاسمین بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا اپنے بیٹے کو منہ تھپڑوں سے لال کردے۔۔۔۔
باقی سب کا حال بھی کچھ ایسا تھا۔۔۔ ایک شہباز آفندی ہی تھے جنہوں نے سفیان کو کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔
پولیس اُس جگہ پہنچ چکی تھی۔۔۔ مگر پریسا کو وہاں کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی اُس شخص کا جس نے پریسا کو غنڈوں سے بچایا تھا۔۔۔۔
"سر وہ باہر۔۔۔ باہر۔۔۔۔ پریسا میڈم۔۔۔"
وہ سب لوگ ڈرائینگ روم میں جمع تھے۔۔۔ جب گیٹ پر تعینات ملازم اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا کے نام پر سب اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ اُس کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب شاہ ویز سکندر پریسا کو بانہوں میں اُٹھائے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
اُس کا حلیہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔۔۔
بڑی بڑی مونچھوں اور داڑھی کے نیچے اُس کا چہرا بالکل بھی پہنچانا نہیں جارہا تھا۔۔۔ جس پر اُس نے الگ سے سکنی ماسک چڑھا کر۔۔ اُوپر یہ داڑھی مونچھیں لگائی تھیں۔۔۔۔
جنہوں نے اُسے دیکھ رکھا تھا وہ بھی اُسے نہیں پہچان سکتے تھے۔۔۔۔ اور یہ لوگ تو ویسے بھی اُس کی صورت سے ناواقف تھے۔۔۔۔
"پری۔۔۔ پری میری جان۔۔۔۔"
یاسمین بیگم تڑپ کر آگے بڑھی تھیں۔۔۔۔
شاہ ویز نے آگ اُگلتی نگاہوں سے سفیان کو دیکھتے آگے بڑھ کر پریسا کو صوفے پر لٹا دیا تھا۔۔۔۔ پریسا کو اُس نے پوری طرح سے اُس کے دوپٹے اور اپنی جیکٹ سے کور کر رکھا تھا۔۔۔۔
سب گھر والوں کی نظریں شاہ ویز سکندر پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔
"بیٹا آپ ہی وہ۔۔۔۔"
شہباز آفندی فوراً واپس پلٹتے شاہ ویز کے قریب آئے تھے۔۔۔۔۔۔
"جی۔۔۔ میں وہاں سے گزر رہا تھا۔۔۔ اِن کو مشکل میں دیکھا تو مدد کے لیے آگیا۔۔۔۔ "
شاہ ویز کا انداز ہنوز سرد و سپاٹ تھا۔۔۔۔
"آپ نے ہماری بیٹی کو بچا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۔۔۔ جسے ہم زندگی بھر نہیں بھول پائیں گے۔۔۔۔"
شہباز آفندی تشکر بھرے لہجے میں بولے تھے۔۔۔
"میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔۔ بس آپ اپنے بیٹے کو تھوڑی غیرت سیکھا دیں۔۔۔۔ اپنی عزت کو دوسروں کے ہاتھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنا مردانگی کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ایک قہر برساتی نظر پریسا کی جانب بڑھتے سفیان پر ڈالتے اُس کے قدم وہیں روک دیئے تھے۔۔۔۔
"آپ نے ہماری بیٹی کو بچا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۔۔۔ جسے ہم زندگی بھر نہیں بھول پائیں گے۔۔۔۔"
شہباز آفندی تشکر بھرے لہجے میں بولے تھے۔۔۔
"میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔۔ بس آپ اپنے بیٹے کو تھوڑی غیرت سیکھا دیں۔۔۔۔ اپنی عزت کو دوسروں کے ہاتھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنا مردانگی کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ایک قہر برساتی نظر پریسا کی جانب بڑھتے سفیان پر ڈالتے اُس کے قدم وہیں روک دیئے تھے۔۔۔۔
اُس کی بات سن کر سفیان کو غصہ تو بہت آیا تھا،،، مگر سب گھر والوں کی ملامتی نظروں پر وہ شرمندہ ہوتا چہرا وہیں جھکا گیا تھا۔۔۔۔
"بیٹا آپ۔۔۔۔۔"
یاسمین بیگم نے آگے آتے اُسے روکنا چاہا تھا۔۔۔ مگر وہ اُن کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
"اتنا ایروگینٹ سا بندہ تھا یہ۔۔۔۔ "
اُس کے باہر نکلتے ہی فضہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔۔۔
"جیسا بھی ہے مگر ہم سب پر بہت بڑا احسان کرکے گیا،، ہماری پری کی جان بچا کر۔۔۔۔"
حرا بھی وال کلاک سے باہر جاتے شاہ ویز سکندر کی پشت کو گھورتے بولی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تم تو واقعی جادوگرنی نکلی۔۔۔ ہم سب گھر والوں کو تو اپنا دیوانہ بنا ہی رکھا تھا۔۔۔ ان حمدان بھائی کو بھی اپنا فین بنا لیا۔۔۔ "
مہروسہ آنکھوں پر بازو رکھے اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ جب فرح زومعنیت سے مسکراتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
"کیا مطلب؟؟؟ "
حمدان کے ذکر پر مہروسہ فوراً اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔۔
"صبح سے دو بار تمہارا پوچھ چکے ہیں کہ تمہارا درد کیسا ہے۔۔۔ جلن تو نہیں ہورہی زیادہ۔۔۔۔ اور یہ کہ تمہارے ساتھ رہوں۔۔۔ تمہیں کسی شے کی ضرورت نہ ہو۔۔۔"
فرح نے حمدان کی فکرمندی اُسے کہہ سنائی تھی۔۔۔
"ایس پی حمدان صدیقی آپ اتنی جلدی بے وقوف بننے والوں میں سے بالکل بھی نہیں ہیں۔۔ آپ کی زہانت کا اندازہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں لگا سکتا۔۔ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ چلیں ناٹک ہی سہی مگر یہ احساس ہی بہت خوبصورت ہے کہ آپ میری فکر کررہے ہیں۔۔۔ اِس فریب پر ہی اتنی خوشی ہورہی ہے۔۔۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو آپ کی اِس دیوانی نے تو پاگل ہی ہوجانا تھا۔۔۔۔ "
مہروسہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوتی زیرِ لب مسکرا دی تھی۔۔۔
"ایک منٹ۔۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ یہ آپ ہی آپ کس بات پر مسکرایا جارہا ہے۔۔۔ کہیں تمہیں حمدان بھائی سے۔۔۔؟؟؟"
فرح نے اُس کے قریب بیڈ پر بیٹھتے مشکوک نظروں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ آپ کے بھائی بہت زیادہ کھڑوس ہیں۔۔۔ اُن سے دل لگانے والی پاگل لڑکی ہی ہوگی۔۔۔"
مہروسہ اپنا ہی مذاق اُڑاتے فرح کو جواب دے گئی تھی۔
جبکہ فرح بھی ایک دم خاموش سی ہوئی تھی۔۔۔
"کیا ہوا آپی آپ کو میری بات بُری لگی۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ نے فرح کی پھیکی پڑتی صورت دیکھ فکرمندی سے پوچھا تھا۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔ نہیں اُجالا تمہاری بات کا بُرا کیوں مناؤں گی۔۔۔ بس اچانک ایک بہت تلخ حقیقت یاد آگئی تھی۔۔۔۔ "
فرح نے جھکا کر پلکیں جھپکتے اپنی آنکھوں کی نمی کو اندر اُتارا تھا۔۔۔ مگر وہ نمی مہروسہ سے پوشیدہ نہیں رہ پائی تھی۔۔۔
تم آرام کرو میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔۔۔"
اِس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھتی فرح جلدی سے روم سے نکل گئی تھی۔۔۔
"یہ زرا سی اُنگلیاں کیا جل گئی اِن لوگوں نے تو مجھے مریضہ ہی بنا دیا ہے۔۔۔ اِنہیں کیا پتا یہ وجود گولیوں کے وار بھی سہہ چکا ہے۔۔۔ دہکتے کوئلے کی جلن بھی۔۔۔۔ "
مہروسہ بیڈ سے اُٹھتی باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
جب اُس کی نظر اُوپر کی جانب جاتی سیڑھیوں کی طرف گئی تھی۔۔۔ اُسے بس کسی بھی طرح اِن سیڑھیوں کو عبور کرکے اُوپر موجود کمرے تک رسائی حاصل کرنی تھی۔۔۔ جس کے لیے وہ یہاں موجود تھی۔۔۔۔
مگر وہ جانتی تھی اُس کا ہٹلر ایس پی یہ کام اتنا آسان نہیں ہونے دینے والا تھا۔۔۔
اُس دن جب حمدان نے اُسے قید کرکے رکھا ہوا تھا۔۔۔ تو حازم اور شاہ ویز نے ہی نہ صرف اُسے بچایا تھا۔۔۔ بلکہ وہاں آگ لگا کر ایک پہلے سے جلی ڈیڈ باڈی رکھ دی تھی۔۔۔۔ تاکہ حمدان صدیقی کے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچے۔۔۔۔
صدیقی ولا میں آنے کے پیچھے اُس کا کیا مقصد ہوسکتا تھا۔۔۔ یہ شاید حمدان صدیقی کبھی نہ جان پاتا ۔۔۔
سوائے مہروسہ کے اپنی زبان سے بتانے کے۔۔۔۔
وہ بلیک سٹارز بہت اچھے سے جانتے تھے کہ اُسے اپنے گھر میں دیکھ کر حمدان سمجھ جائے گا کہ وہ مری نہیں ہے۔۔۔۔ مگر آج تک اُن کا کوئی بھی مشن بغیر کسی رسک کے مکمل نہیں ہوا تھا۔۔۔ اِس میں بھی اُنہیں رسک لینا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مہروسہ اب تک وہی رسک لیتی آرہی تھی۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس رسک میں اُس کی جان جانے کے اسی پرسنٹ چانسز تھے۔۔۔ مگر وہ یہ چانس لینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب تک لے رہی تھی۔۔۔
اُسے کہیں نہ کہیں اُمید تھی ایک یقین تھا کہ ایس پی حمدان صدیقی اُسے گولی نہیں مار سکتا۔۔۔
مگر وہ خود اِس بات سے انجان تھی کہ آگے قسمت اُس کے ساتھ کیا چال چلنے والی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
نجمہ بیگم اور صبا کے سونے کے بعد وہ اُن دونوں کی جانب سے مطمئین ہوتی ٹیرس پر رکھے جھولے پر آن بیٹھی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل آج بہت زیادہ اُداس تھا۔۔۔ اِس وقت رات کے پونے بارہ کا ٹائم تھا۔۔۔ پندرہ منٹ بعد اگلا دن شروع ہونے والا تھا۔۔۔ وہ دن جو دس سال پہلے اُس کی زندگی میں بہت بڑی سیاہی بھر گیا تھا۔۔۔ جس سیاہی سے وہ آج تک نہیں نکل پائی تھی۔۔۔ نہ ہی دوبارہ ویسے ہی کھل کر جی پائی تھی۔۔۔ جیسے دس سال پہلے وہ رہتی تھی۔۔۔
وہ بہت ہی زیادہ ہنسنے مسکرانے اور خوش رہنے والی ایک زندہ دل لڑکی تھی۔۔۔۔
جس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ مسکرائے بغیر نہیں گزرتا تھا۔۔۔ کیونکہ اُسے خوش رکھنے والا اُس کا بہت پیارا دوست اُس کے ساتھ تھا۔۔۔ جسے اُس کے بابا نے اُن دونوں کی محبت اور دوستی کو دیکھ اُس کا جیون ساتھی بھی بنا دیا تھا۔۔۔۔
مگر اُس ایک دن نے اُس سے سب کچھ چھین لیا تھا۔۔۔ اُس کے جان نچھاور کرنے والے بابا کو بھی اور اُس کے زندگی کے سب سے پیارے ساتھی کو بھی۔۔۔۔
حبہ کی آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت گر رہے تھے۔۔۔ اُس نے ہاتھ میں اپنی نکاح کی تصویر اُٹھا رکھی تھی۔۔۔ جہاں وہ پندرہ سال کی بچی تھی اور اپنے ساتھ بیٹھے اٹھارہ سالہ اپنے پارٹنر سے یہاں بھی نخرے اُٹھوا رہی تھی۔۔۔۔
وہ اُس کے قدموں میں بیٹھا اُسے سینڈل پہنا رہا تھا۔۔ اور وہ اُوپر بیٹھی اُس کے نفاست سے بنے بال کھینچ رہی تھی۔۔۔۔ جس پر وہ ہمیشہ کی طرح غصہ بھی ہورہا تھا۔۔۔ اِس ایک تصویر میں بہت کچھ قید کیا گیا تھا۔۔۔
"تم نے وعدہ کیا تھا نا کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑو گے۔۔۔۔ تم تو ہمیشہ سے اپنا پرامس نبھاتے تھے نا۔۔۔ تو اب کیوں توڑ دیا اِس وعدے کو۔۔۔ دس سال سے اکیلی ہوں میں کیوں نہیں رحم آرہا تمہیں مجھ پر۔۔۔ کیوں نہیں لوٹ رہے تم واپس۔۔۔۔ سب یہی کہتے ہیں تم نہیں رہے اب اس دنیا میں۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں سب غلط کہتے ہیں۔۔۔ تم اتنی بڑی وعدہ خلافی نہیں کرسکتے میرے ساتھ۔۔۔ تم مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔"
حبہ کو آج پھر اپنے دل کے سب سے قریبی انسان کی شدت سے یاد آرہی تھی۔۔۔
دس سال پہلے اِسی دن ایک کار حادثے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اُس کے بابا اور اُس کا سب سے پیارا دوست اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۔۔
اُس کے بابا کی شناخت تو ہوچکی تھی ۔۔۔ مگر دوسری ڈیڈ باڈی اِس بُری طرح جھلس گئی تھی کہ شناخت تو نہیں ہوپائی تھی۔۔ مگر ڈی این اے کی ریورٹ سے تصدیق کردی گئی تھی کہ وہ ڈیڈ باڈیز اُسی کی ہیں۔۔۔ لیکن حبہ آج تک یقین نہیں کر پائی تھی کہ وہ اُسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔۔۔۔
یہی وجہ تھی کہ نجمہ بیگم کے اتنے اصرار، ناراضگی اور جھڑک کے باوجود وہ خود کو کسی اور سے شادی کے لیے راضی نہیں کر پائی تھی۔۔۔
اُسے بس وہی انسان چاہییے تھا۔۔۔
"پلیز لوٹ آؤ۔۔۔۔ "
حبہ اُس کی تصویر ہونٹوں سے لگاتی بھیگی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے کوئی شے اُس کی پیشانی سے آن ٹکراتی حبہ کو ہڑبڑانے کے ساتھ الرٹ کر گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے اپنی گود میں گری اُس نرم گرم شے کو دیکھا تھا۔۔۔
وہ گلاب کی پتیوں سے سجا گیند نما بنا گولا سا تھا۔۔۔ جسے نیچے سے پھینکا گیا تھا۔۔۔۔
حبہ جلدی سے اُٹھتی ریلنگ کی جانب جھکی تھی۔۔۔ مگر وہاں نیچے کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔
حبہ نے نیچے چھائی تاریکی میں چاروں جانب نظریں دوڑائی تھیں۔۔۔۔ جب اُسے دیوار پھلانگ کر روڈ کے دوسرے پار جاتا ایک سایہ سا نظر آیا تھا۔۔
"یہ۔۔۔ یہ۔۔۔تو۔۔۔۔ بلیک سٹار۔۔۔۔"
حبہ پہلی نظر میں ہی پہچان گئی تھی کہ یہ سایہ حازم کا تھا۔۔۔۔
مگر یہ ایک سایہ اُس کے اندر بہت کچھ ہلا گیا تھا۔۔۔۔
وہ جلدی سے جھولے کی جانب بڑھی وہ گیند اُٹھا کر اُسے کھولنا شروع کر چکی تھی۔۔۔۔
جس پر پتیوں کی تہہ در تہہ چڑھائی گئی تھی۔۔۔۔
"تم نہیں جانتی تم یوں رو کر کس کا کتنا نقصان کررہی ہو۔۔۔ تمہارے پور پور پر میرا حق ہے۔۔۔ آخری بار چھوٹ دے رہا ہوں۔۔۔ اگر دوبارہ تم روئی تو میں جو کروں گا تم اُسے سہہ نہیں پاؤ گی۔۔۔۔۔ "
اُس بال کے اندر سے نکلی چٹ پڑھ کر حبہ کتنے ہی لمحے اپنی جگہ ساکت سی بیٹھی رہ گئی تھی۔۔۔۔
حازم سے پہلی ملاقات سے لے کر اب تک کا ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح اُس کی نظروں کے سامنے سے گزر گیا تھا۔۔۔
حبہ کا دل بہت زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ اُس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے چٹ کو گھورا تھا۔۔۔ جس پر لکھی ہینڈ رائٹنگ اُسے شدت سے کسی کی یاد دلا گئی تھی۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ ییی یہ۔۔۔ ای ایسا کک کیسے۔۔۔۔"
حبہ کا دل جو کہہ رہا تھا اُس کا دماغ وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔
اُس شخص کا استحقاق بھرا لمس۔۔۔ بات بہ بات اپنا حق جتانا۔۔۔ وہ کیسے نہیں دھیان دے پائی تھی اُس سب پر۔۔۔۔۔۔۔
"یہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔ ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ وہ تو ایک بُرا انسان ہے۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ قاتل ہے۔۔ وہ میرا۔۔۔۔ نن نہیں۔۔۔ ایسا نہیں۔۔۔۔ اوہ میرے خدا یہ کیسا انکشاف ہے۔۔۔۔ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔ "
حبہ کا چہرا آنسو سے تر تھا۔۔۔۔
جب اُس چٹ پر تحریر دھمکی کا خیال آتے ہی اُس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔۔۔۔
جب حبہ کی نظر بے اختیار گلے میں جگمگاتے لاکٹ پر پڑی تھی۔۔۔۔
"مجھے ہر حال میں اِس لاکٹ کو کھولنا ہوگا۔۔۔ مگر آخر کیا پاسورڈ ہوگا اِس کا۔۔۔۔۔"
حبہ جھولے کی پشت سے سر ٹکاتی تھک کر آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔ پچھلے دس سالوں سے اپنی زندگی کی ساری لڑائیاں اکیلے لڑتے لڑتے وہ تھک گئی تھی۔۔۔۔
اب اُسے اُس سہارے کی ضرورت تھی جس کے ساتھ اُس کی زندگی کی ہر خوشی موجود تھی۔
آنکھیں موندے کب وہ نیند کی وادیوں میں اُترتی چلی گئی تھی اُسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔
اُس کے پاس کوئی گرم شے موجود نہیں تھی۔۔۔ وہ ٹھنڈ سے کپکپاتی خود میں ہی سمٹ رہی تھی جب دو مہربان بانہوں نے اُسے نرمی اور احتیاط سے اُٹھا لیا تھا۔۔۔
مقابل جیسے اُس کی گہری نیند سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ اِس لیے ٹیرس کا دروازہ بند کرتا اُسے لیے بیڈ روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔
اُسے بیڈ پر لیٹا کر اچھی طرح کمفرٹر سے کور کرتے وہ اُس کے قریب ہی نیم دراز ہوتا اُس کے چہرے کو دیوانہ وار نگاہوں سے تکے گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ حبہ نیند میں اُس کے مزید قریب کھسکتی اُس کے سینے پر اپنا چہرا ٹکاتی مسکائی تھی۔۔۔
اُس کو نیند میں مسکراتا دیکھ مقابل کے چہرے پر بھی دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔
"تم سے اچھی تو تمہاری نیند ہے۔۔۔ کم از کم نیند میں میری بیوی میری تو ہوتی ہے۔۔۔۔ ورنہ جاگتے ہوئے تو جنگلی بلی بن کر پنجے ہی مارتی رہتی ہو۔۔۔ لیکن یہ بلیک سٹار تمہارے ہر ہر رُوپ کا دیوانہ ہے۔۔۔۔"
اُس کے گال پر شدت بھرا لمس چھوڑتا وہ پیچھے ہٹا تھا۔۔۔نیند میں بھی اُس کی شدت محسوس کرتے حبہ کسمسائی تھی۔۔۔
وہ جلدی سے اُس کے قریب سے اُٹھتا ٹیرس کے راستے واپس نکل گیا تھا۔۔۔ اِس لڑکی کی قریب رہ کر شرافت کا مظاہرہ کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سر یہ آپ سب کی کافی۔۔۔"
وہ تینوں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے تھے جب جنید نے اُن کے سامنے کافی کے مگ لا کر رکھے تھے۔۔۔
اُن تینوں کو ہی کڑوی کافی پینے کی عادت تھی۔۔۔
"جنید اِن باقی دو مگ میں کچھ میٹھا گھول دو۔۔۔ یہ دونوں محبت کی مٹھاس چکھ کر آئے ہیں۔۔۔ اِنہیں یہ کڑوی کافی آج پسند نہیں آئے گی۔۔۔"
شاہ ویز کافی کا مگ ہونٹوں سے لگاتا اُن دونوں کے گم صم انداز پر چوٹ کرتے بولا۔۔
"تم ہمارا مذاق بنا رہے ہو۔۔۔؟؟"
حازم نے جنید کو جانے کا اشارہ کرتے شاہ ویز کو گھورا تھا۔۔۔۔
"نہیں تو۔۔۔ مجھے تو بس تم لوگوں کی فکر ہورہی ہے۔۔۔ کیا نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اب بھی سیریس نہیں تھا۔۔۔
"تو تمہیں لگتا ہے۔۔۔ ہمیں یہ محبت برباد کردے گی۔۔۔؟؟"
حازم نے بھی اُسی کا انداز اپنایا تھا۔۔۔
"کر دے گی نہیں کر چکی ہے۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز آج کافی موڈ میں تھا۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ نے مگ ہونٹوں سے ہٹاتے سوالیہ نگاہوں سے شاہ ویز کو دیکھا تھا۔۔۔
"تم دونوں چاکلیٹ ملی کافی پی رہے ہو۔۔۔ آدھے مگ خالی ہوچکے ہیں اور تم لوگوں کو علم ہی نہیں ہے۔۔۔"
شاہ ویز نے مزے سے انکشاف کرتے کافی کا گہرا سپ لیا تھا۔۔۔۔
"کیا۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔"
وہ دونوں ہی چہرے کا میٹھا ٹیسٹ محسوس کرتے شرمندہ شرمندہ سے کافی کے مگ ٹیبل پر پٹخ چکے تھے۔۔۔۔۔۔
"دھیان سے کہیں ایسے نہ ہو۔۔۔۔ وہ پولیس آفیسر تم لوگوں کے ساتھ ایسا میٹھا کھیل نہ کھیل جائیں۔۔۔ محبت کے یہ کھیل جتنے چاشنی بھرے ہوتے ہیں۔۔۔ جاتے جاتے زندگی میں اُس سے کہیں زیادہ کڑواہٹ بھی گھول جاتے ہیں۔۔۔ اور وہ کڑواہٹ برداشت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر اُن دونوں کی رگ رگ سے واقف تھا وہ بہت اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ دونوں کس رُخ پر جارہے ہیں۔۔۔ لیکن اُسے اُن دونوں پر پورا بھروسہ بھی تھا۔۔۔ وہ کبھی بھی کچھ ایسا نہیں کرسکتے تھے جس سے اُن کے گینگ کو نقصان پہنچے۔۔۔
"تمہیں صرف دو کپس میں میٹھا نہیں گھولنا چاہیئے تھا۔۔۔ ہم تینوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔۔۔ کیوں مہرو ٹھیک کہا نا میں نے۔۔۔؟؟"
حازم نے اپنی آدھی کافی شاہ ویز کے مگ میں اُنڈیل دی تھی۔۔۔ جبکہ مہروسہ خاموش بیٹھی اُن دونوں کی نوک جھوک انجوائے کررہی تھی۔۔۔ آج کل اُنہیں ایک ساتھ بیٹھنے کا ٹائم بہت کم مل رہا تھا۔۔ مگر جب ملتا تھا تو وہ ایسے ہی ریلیکس ہوکر باتیں کرتے تھے۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔"
شاہ ویز نے فوراً اُس کی بات کی نفی کی تھی۔۔۔
"مہرو تمہارا اِس بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حازم نے خاموش بیٹھی مہروسہ کو بھی اپنی گفتگو میں شامل کرتے اُس کی رائے لینی چاہی تھی۔۔۔
"مجھے بھی یہی لگتا ہے۔۔۔ کہ ایک سفید پری نے بلیک بیسٹ کو کافی ڈسٹرب کر رکھا ہے۔۔۔۔ اور شاید بلیک بیسٹ بھی اپنی پری کو بہت مس کررہا ہے۔۔۔؟؟ "
مہروسہ کو بھی حازم کے ساتھ مل کر شاہ ویز کو تنگ کرنے میں بہت مزا آیا تھا۔۔۔
"سٹاپ دس نان سینس۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ مجھے اُس لڑکی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ اور بلیک بیسٹ کے لیے وہ پری ایک مہرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔"
شاہ ویز کو اپنے نام کے ساتھ پریسا آفندی کا نام جڑنا بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
جبکہ وہ دونوں اُس کے بھڑکنے پر دھیرے سے مسکرا دیئے تھے۔۔ کیونکہ وہ بھی اپنے بلیک بیسٹ کو بہت اچھے سے جانتے تھے۔۔۔ اگر ایسا کچھ نہ ہوتا تو شاہ ویز کی جانب سے اُنہیں نارمل جواب ملتا۔۔۔ مگر پری کے ذکر پر اُس کی یہ بیزاری اور جھنجھلاہٹ بتارہی تھی کہ وہ واقعی اُس کی وجہ سے کتنا ڈسٹرب ہے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"پری کی بچی میں پورے گھر میں ڈھونڈ چکی ہوں اور تم یہاں بیٹھی ہو۔۔۔۔"
فضہ پھولے سانس کے ساتھ اُس کے سامنے کرسی پر ڈھیر ہوتی اُسے گھورتے ہوئے بولی۔۔۔
"کیوں۔۔۔ تم صبح صبح مجھے کیوں ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔"
پریسا کا موڈ بہت سخت آف تھا۔۔۔
کل شام جو کچھ ہوا تھا۔۔۔ اُسے وہ چاہنے کے باوجود بھول نہیں پارہی تھی۔۔۔ جو شخص اُس سے محبت کا دعویدار تھا۔۔۔ وہ مشکل پڑنے پر اُسے خطرے میں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا تھا اور جو اُس سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتا آیا تھا۔۔۔
وہ کسی مضبوط چٹان کی طرح اُس کی ڈھال بن کر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔
اُسے شاہ ویز سکندر کی وہ لال آنکھیں نہیں بھول رہی تھیں۔۔۔ جو اُس غنڈے کے ہاتھ میں اُس کی کلائی دیکھ کر مزید لہولہان ہوئی تھیں۔۔۔۔
جو شخص اُس سے محبت کا دعویدار تھا۔۔۔ وہ مشکل پڑنے پر اُسے خطرے میں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلا تھا اور جو اُس سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتا آیا تھا۔۔۔
وہ کسی مضبوط چٹان کی طرح اُس کی ڈھال بن کر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔
اُسے شاہ ویز سکندر کی وہ لال آنکھیں نہیں بھول رہی تھیں۔۔۔ جو اُس غنڈے کے ہاتھ میں اُس کی کلائی دیکھ کر مزید لہولہان ہوئی تھیں۔۔۔۔ وہ شخص نفرت میں بھی اِس قدر شدت پسند تھا۔۔۔ کہ اُس پر کسی اود کا سایہ پڑتے بھی نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔ اُس سے برداشت نہیں ہوپایا تھا کہ اُس کے سوا کوئی پریسا آفندی کو کسی بھی نظر سے دیکھے۔۔۔
آخر حقیقت کیا تھی اُس شخص کی۔۔۔ کیوں وہ اُس کا سایہ سا بن کر اُس کے آس پاس رہنے لگا تھا۔۔۔۔۔
کیا اِس سب کی وجہ اُس کا آفندی مینشن والوں سے اپنا بدلہ پورا کرنا ہی تھا۔۔۔ پریسا کوشش کے باوجود کل رات سے اُسے اپنے دماغ سے نکال ہی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔
پہلے وہ صرف اُس کے خوابوں میں آتا تو اور اب تو وہ پوری طرح اُس کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔
"جانا تو کہیں نہیں ہے۔۔۔۔ مگر تمہیں نہ پاکر مجھے لگا شاید کہیں پھر وہ نقاب پوش تمہیں اپنی بانہوں میں اُٹھا کر نہ لے گیا ہو۔۔۔۔"
فضہ اُس کے سامنے رکھا جوس اُٹھا کر مزے سے بولتی پریسا کو گہرے جھٹکے سے دوچار کر گئی تھی۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔؟؟ تم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔؟؟؟"
پریسا کا چہرا ذرد پڑا تھا۔۔۔ فضہ بھلا شاہ ویز سکندر کے بارے میں کیا اور کیسے جانتی تھی۔۔۔
"اوہ ہو۔۔۔ اتنی پریشان کیوں ہوگئی ہو۔۔۔ میں تو بس مذاق کررہی تھی۔۔۔۔ تم شاید بھول رہی ہو کہ اُس دن بینک میں میں بھی تمہارے ساتھ تھی۔۔۔ تمہارے بے ہوش ہونے پر جس نرمی سے وہ نقاب پوش تمہیں اُٹھا کر روم میں لے کر گیا تھا۔۔۔۔ وہ چیز مجھے کافی عجیب لگی تھی۔۔۔ مطلب لمحے بھر کو بھی نہیں لگا تھا کہ وہ بلیک سٹارز کا لیڈر بلیک بیسٹ ہے۔۔۔ "
فضہ کی بات سن کر پریسا کچھ حد تک ریلیکس ہوئی تھی۔۔۔ مگر وہ جو شاہ ویز سکندر کی سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔۔۔ شاہ ویز کی جانب سے بتائے جانے والے ایک اور پلس پوائنٹ کو سنتے۔۔۔ ایک بار پھر اُس شخص کی پرچھائی اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئی تھی۔۔۔۔
"ویسے لُک وائز تو وہ بلیک سٹارز بڑے ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہے تھے۔۔۔ کیا تم نے اُن کے چہرے دیکھے تھے۔۔۔ بائے فیس بھی وہ کیا بہت پیارے ہیں۔۔۔۔"
فضہ کی بات پر پریسا کو شاہ ویز سکندر کا مغرور نقوش سے سجا خوبصورت چہرا یاد آیا تھا۔۔۔ وہ واقعی بہت خوبصورت تھا۔۔۔ یونانی دیوتاؤں کے جیسا حُسن رکھنے والا ایک سحر انگیز مرد۔۔۔ جس کی ایک جھلک سے کئی دل گھائل ہوسکتے تھے۔۔۔۔
وہ شخص آخر خود کو اتنا برباد کیوں کررہا تھا۔۔۔۔
پریسا پھر اُسی مقام پر آکر رُک جاتی تھی۔۔۔ اُس کے دل و دماغ پر عجیب سی بے چینی چھا جاتی تھی۔۔۔ اُسے شاہ ویز سکندر کی وہ دلکش آنکھیں یاد آئی تھیں۔۔۔ جن میں سرد پن اور وحشت ناکی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔
اُسے وہ شخص ہر بار احساس سے عاری ہی نظر آیا تھا۔۔۔
جس کے چہرے پر کچھ کھونے یا پانے کی کوئی خواہشں موجود نہیں تھی۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اُس نے وہاں رہتے ہوئے بھی ایک بار بھی شاہ ویز سکندر کو مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
اور اقراء نے بھی اِس بات کی تصدیق کی تھی کہ اُس نے اتنے سالوں میں شاہ ویز سکندر کو ہنسنا تو دور زرا سا مسکراتے بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔
"او میڈم کہاں کھو گئی؟؟ میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔۔؟؟؟"
فضہ نے اُس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہراتے پوچھا تھا۔۔۔
"پاگل ہو کیسے سوال پوچھ رہی ہو؟؟؟ بتایا تو تھا وہاں میرے سامنے کوئی نہیں آیا۔۔۔ تو میں کہاں سے اُن کے فیس دیکھتی۔۔۔ ویسے بھی مجھے کہیں سے بھی وہ ڈیشنگ اور ہینڈسم نہیں لگے۔۔۔۔"
پریسا اُسے منہ چڑھاتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھی دائیں جانب لگے پودوں کے پاس اُسے کوئی سایہ دکھائی دیا تھا۔۔۔۔
پچھلےکچھ دنوں سے وہ جلاد جس طرح اُس کے سر پر سوار ہورہا تھا۔۔۔ اُسے ایک سیکنڈ لگا تھا اِس سائے کو پہنچانے میں۔۔۔۔
خوفزدہ ہوکر اندر بھاگ کر سب کو بتانے کے بجائے وہ بے اختیاری میں آنکھوں میں ایک چمک لیے اُس سائے کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔
"کہاں ہو تم۔۔۔۔؟؟؟ تم مجھ سے نہیں چھپ سکتے۔۔۔ میں نے ابھی دیکھا ہے تمہیں۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے وہ تم ہی تھے۔۔۔ اگر اتنے ہی بلیک سٹار بنے پھرتے ہو تو اب سامنے آؤ۔۔۔۔"
پریسا آفندی کے ہر ہر انداز سے اُسے دیکھنے کی بے چینی واضح تھی۔۔۔۔
مگر جب کافی دیر بعد بھی اُسے وہاں کہیں بھی کوئی بھی دکھائی نہ دیا تو وہ وہاں سے واپس جانے کے لیے پلٹی تھی۔۔۔۔
جہاں پہلے وہ بیٹھی تھی وہاں سے اب اُسے سفیان کی آواز بھی آرہی تھی۔۔۔ جو فضہ سے اُسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔۔ یہ آفندی مینشن کا پچھلا حصہ تھا۔۔۔ جہاں پریسا کی فرمائش پر پورا باغیچہ بنایا گیا تھا۔۔۔ اُسے مختلف کلر کے پھول بہت پسند تھے۔۔۔ وہ جب بھی اُداس ہوتی تھی یہاں آکر ہی بیٹھتی تھی۔۔۔
اُس کے علاوہ یہاں کم ہی لوگ آتے تھے۔۔۔ یا اکثر اُسے ڈھونڈتے ہوئے آ نکلتے تھے۔۔۔ جیسے اِس وقت سفیان اُسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اُس کی آواز سنتے اُس کی جانب قدم بڑھانے ہی چاہے تھے۔۔۔ جب اچانک کسی نے ایک ہاتھ اُس کے ہونٹوں پر جماتے دوسرا بازو اُس کے پیٹ سے گزار کر کمر تک لاتے اُسے ایک ہی جھٹکے میں اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔
پریسا کی کمر اُس کے سینے سے جاٹکرائی تھی۔۔۔
پریسا نے خود کو آزاد کروانا چاہا تھا مگر نتھنوں سے ٹکراتی اُس مخصوص خوشبو نے اُس کی مزاحمت وہی منجمند کر دی تھی۔۔۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جس کے بارے میں سوچ سوچ کر صبح سے وہ پاگل ہورہی تھی۔۔۔ وہ اس وقت یہاں اُس کے گھر میں موجود ہوگا۔۔۔ جس گھر میں ہر طرف گارڈز ہی گارڈز تعینات کیے گئے تھے۔۔۔۔
اُسے ساکت ہوتا دیکھ شاہ ویز نے اُس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹا دیا تھا۔۔۔۔
سفیان اُسے پکارتا اِسی جانب آرہا تھا۔۔۔
"سفیان ہمیں دیکھ۔۔۔۔"
پریسا نے ابھی اتنا ہی بولا تھا۔۔۔ جب شاہ ویز نے اُس کا رُخ اپنی جانب موڑتے اُسے جن تیز نگاہوں سے گھورا تھا پریسا کی بولتی وہیں بند ہوئی تھی۔۔۔
وہ اِس وقت ہمیشہ کی طرح سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔۔۔ سیاہ ٹی شرٹ اور پینٹ میں اُس کا دراز سراپا مزید نمایاں ہورہا تھا۔۔۔ پریسا کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔۔۔
اُس نے فوراً نظریں جھکائی تھیں۔۔۔
"کیا اِس ڈرپوک اُلو کو ابھی بھی فیانسی رکھا ہوا ہے تم نے۔۔۔؟"
شاہ ویز نے بہت قریب آتے سفیان کو دیکھ پریسا کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔ اُس کی گرم سانسیں اپنے کان کی لوح پر محسوس کرتے پریسا کا پورا چہرا لال ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ دونوں اِس وقت وہاں لگے بڑے بڑے اور بیل کے پیچھے کھڑے تھے۔۔۔ جہاں سے سفیان اُنہیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔ مگر پریسا کو اپنی پسندیدہ بیل شاہ ویز سکندر کے دراز قد کی وجہ سے ٹوٹتی نظر آرہی تھی۔۔۔۔
"اپنی جان بچانے کا حق ہر انسان کے پاس ہے۔۔۔۔ ہر کوئی تمہاری طرح سرپھرا نہیں ہوتا۔۔۔ تم تو دوسروں کی جانیں چھیننے کے عادی ہونا۔۔۔ تو پھر تم نے کیوں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مجھے بچایا۔۔۔ وہ اتنے سارے لوگ تھے آسانی سے تمہیں مار سکتے تھے۔۔۔؟؟"
سفیان اُسے ڈھونڈتے آگے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جب پریسا نے اُس سے فاصلہ برقرار رکھتے اپنی حالت نارمل رکھنے کی کوشش کرتے یہ سوال کیا تھا۔۔۔ اُسے اب نجانے کیوں اِس شخص سے خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔۔ جو اُس کی خاطر اپنی جان مشکل میں ڈال سکتا تھا۔۔۔ وہ بھلا اُسے کیسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔۔۔
"اپنی جان ہی کو بچایا ہے۔۔۔۔"
اُس کی آنکھوں میں جھانکتے شاہ ویز سرگوشیانہ لہجے میں بوجھل پن سے بولتا پریسا کو کچھ پل کے لیے اپنے آس پاس کی دنیا بھلا گیا تھا۔۔۔
وہ آنکھیں پھاڑے یک ٹک اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ نے ایک بھرپور انگڑائی لیتے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔۔ مگر کمرے میں چھایا ملگجا سا اندھیرا دیکھ وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔
"میں بیڈ پر کیا کررہی ہوں؟؟؟ کیا میں اندر آئی تھی؟؟؟ نہیں میں تو وہیں سو گئی تھی نا رات کو۔۔۔ ہاں میں ٹیرس پر ہی سو گئی تھی۔۔ پھر یہاں کیسے۔۔۔؟؟"
حبہ نے اپنے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے جھٹکتے اچانک اپنی رائٹ سائیڈ پر دیکھا تھا۔۔۔۔ جہاں کی سلوٹ زدہ بیڈ شیٹ اُس کا چہرا فق کر گئی تھی۔۔۔۔
اُس کی بچپن سے عادت تھی وہ جس کروٹ پر سوتی تھی۔۔۔ صبح اُسی پر اُٹھتی تھی۔۔۔ بیڈ شیٹ کا وہ حصہ صاف بتا رہا تھا کہ یہاں اُس کے علاوہ بھی کوئی انسان موجود تھا۔۔۔۔
حبہ کا چہرا اب بالکل لال ہوچکا تھا۔۔۔ اُسے اپنی یہ گہری نیند ہمیشہ شدید غصہ دلاتی تھی۔۔۔ وہ اِس حوالے سے کئی میڈیسن بھی ٹرائے کر چکی تھی۔۔۔ مگر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔
"وہ چٹ۔۔۔ وہ چٹ قدر ہے۔۔۔۔"
حبہ ایک جھٹکے سے اپنے اُوپر سے کمفرٹر ہٹاتی بیڈ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔
جب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے گزرتے اُس کی ایک غیر ارادی نظر مرر پر پڑتی اُسے وہیں ساکت کر گئی تھی۔۔۔ اُس کا جوڑا کھلا ہوا تھا۔۔۔ اور بال اُس کے کندھوں اور کمر کے گرد پھیلے ہوئے تھے۔۔۔
حبہ غصے سے مُٹھیاں بھینچتی ٹیرس کی جانب گئی تھی۔۔۔۔ اور وہاں موجود ہر شے چھان مارنے کے بعد بھی اُسے وہ چٹ کہیں بھی نہیں ملی تھی۔۔۔
شاید جس نے وہ اُسے بھیجی تھی وہ اپنی مرضی سے اُسے لے بھی گیا تھا۔۔۔
حبہ نے تھک ہار کر وہیں جھولے پر گرتے ایک کونے پر رکھی تصویر اُٹھائی تھی۔۔۔
"کیا یہ سب تم کررہے ہو۔۔۔؟؟ اگر تم ہی ہو تو سامنے کیوں نہیں آرہے۔۔۔ ؟؟ کیوں تڑپا رہے ہو اتنا؟؟ کیا قصور ہے میرا۔۔۔۔۔ ؟؟ اگر غصہ ہو ناراض ہو تو ریزن تو بتاؤ۔۔۔ میں منا لوں گی نا تمہیں۔۔۔۔ ریزن بھی نہیں بتانا تو ایک بار سامنے ہی آجاؤ۔۔۔۔ میں خود ہی سب ٹھیک کرلوں گی۔۔۔ مگر اب مزید دور مت رہو۔۔۔۔"
حبہ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر تصویر پر گرے تھے۔۔۔ جب رات کو ملی دھمکی یاد آتے اُس نے فوراً آنسو پونچھ بھی لیے تھے۔۔۔
تصویر کو سینے سے لگاتے اچانک اُس کی نظر تصویر کے دوسرے جانب لکھی تحریر پر پڑی تھی۔۔۔۔
"Always Together"
حبہ جھٹکے سے سیدھی ہو بیٹھی تھی۔۔۔۔
"تم نہیں آنا چاہتے نا سامنے۔۔۔ تو اب میں خود تمہیں ڈھونڈوں گی۔۔۔۔ اب تمہیں میرے سامنے آنا ہی ہوگا۔۔۔۔۔"
یہ دو لفظ ہی حبہ کو چٹانوں جیسا حوصلہ دے گئے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتی اُٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ کا ہاتھ اب ٹھیک تھے۔۔۔ مگر گھر والے پھر بھی اُس سے احتیاط ہی کروا رہے تھے۔۔۔
آج فرح کی ڈیٹ فکس کرنے اُس کے سسرال والے آرہے تھے۔۔۔۔ فرح کی منگنی اپنے چچا زاد دانش سے ہو رکھی تھی۔۔۔۔ اب دونوں گھرانے اُن کی شادی کے خواہش مند تھے۔۔۔۔ صدیقی صاحب حمدان کے الگ رہنے کی وجہ سے ہی اب تک اُنہیں ٹالتے آئے تھے۔۔۔ مگر اب وہ حمدان کے ہوتے فرح کو رخصت کرنا چاہتے تھے۔۔۔
مہروسہ نے صبح سے فرح کو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔۔۔ وہ ملازمہ کے ساتھ مل کر سارے کام خود ہی کررہی تھی۔۔۔ شاہ ویز اور حازم کے کھانے میں نخروں نے اُسے بہت اچھی کوکنگ سیکھا دی تھی۔۔۔
وہ دونوں بالکل سگے بھائیوں کی طرح اُس سے اپنے نخرے بھی اُٹھواتے تھے۔۔۔ شاہ ویز کو جہاں اُس کے ہاتھوں کی بنی سپائسی سی بریانی پسند تھی۔۔۔ وہیں حازم کو اُس سے بھی زیادہ مرچوں والی حلیم پسند تھی۔۔۔
مہروسہ نے اُن کی خاطر سب کچھ سیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ ہر کام میں مہارت رکھنے والے وہ دونوں کوکنگ کے معاملے میں بالکل صفر تھے۔۔۔۔ مگر کھانے کے ایکسٹرا شوقین تھے۔۔۔۔۔
اِس وقت بھی مہروسہ اپنی مہارتیں آزماتی کھانا بنانے میں پوری طرح جتی ہوئی تھی۔۔۔ ملازمہ کو اُس نے ابھی کوئی شے لینے باہر بھیجا تھا۔۔۔ وہ پوری توجہ سے آٹا گوندھنے میں مصروف تھی جب اچانک اُسے اپنے پیروں کے پاس کاکروچ دکھائی دیا تھا۔۔۔ اور اُس کے ساتھ ہی مہروسہ کی دلخراش چیخوں نے پورے گھر کو سر پر اُٹھا لیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اور حازم سالار کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک ہی وار میں سانپ جیسے خطرناک جانور کو مار گرانے والی، پانچ چھ چھ ہتھیاروں سے لیس دشمنوں کو مار گرانے والی کاکروچ سے کس قدر ڈرتی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی جان جاتی تھی کاکروچ سے۔۔۔ اُسے بچپن سے ہی کاکروچ سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا۔۔۔
پورے بلیک ہاؤس میں کاکروچ کو مارنے کے لیے ہر مہینے سپرے کروایا جاتا تھا۔۔۔۔
اپنے دھیان میں کام کرتی مہروسہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا سب سے بڑے جانی دشمن ایس پی حمدان صدیقی کے گھر اُس سے بھی زیادہ بڑا اُس کا جانی دشمن کاکروچ پہنچ جائے گا۔۔۔۔
مہروسہ بنا دوپٹے کی پرواہ کیے چلاتی ہوئی کچن سے باہر بھاگی تھی۔۔۔ سامنے سے آتے حمدان صدیقی کے سینے سے جاٹکرائی تھی۔۔۔
حمدان کسی بہت ضروری کام کی وجہ سے فل یونیفارم میں ملبوس باہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ اُس نے ایک گھنٹے میں لوٹ آنا تھا۔۔۔ ابھی وہ صدیقی صاحب کو یہی بتا رہا تھا جب مہروسہ کی دلدوز چیخوں پر باقی سب سے پہلے وہی بھاگتا ہوا اِس جانب آیا تھا۔۔۔۔
مگر جیسے ہی مہروسہ اُس کے سینے سے ٹکراتی اُس کے گرد بازو کا حصار بناتی بُری طرح کانپتی اُس کے ساتھ آن لگی تو حمدان صدیقی کو ایک لمحے کے لیے جیسے کرنٹ سا چھو گیا تھا۔۔۔۔
اُس کا نازک لرزتا کانپتا وجود۔۔۔ حمدان نے اپنی غیر ہوتی حالت پر قابو پاتے اُسے پیچھے ہٹانا چاہا تھا۔۔۔ مگر مہروسہ تو اِس وقت آپے میں ہی نہیں تھی۔۔۔
"اُجالا کام ڈاؤن۔۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟ "
حمدان نے اُسے کندھوں سے تھامتے اپنے مقابل کھڑا کیا تھا۔۔۔۔ زرا دیر رونے اور خوف سے اُس کا چہرا بالکل لال ہوچکا تھا۔۔۔ سیاہ آنکھیں خوف سے مزید بڑی ہوچکی تھیں۔۔۔ یہ لڑکی مجسمہ حُسن تھی۔۔۔ اِس کی کشش حمدان صدیقی کو کچھ پل کے لیے ہی سہی مگر اپنے حصار میں پوری طرح جکڑ گئی تھی۔۔۔
"اُجالا۔۔۔۔ کیا ہوا گڑیا۔۔؟؟"
وہ پتھر کا ہوجاتا جب فرح کی پکار نے اُسے ہوش کی دنیا میں لا پٹخا تھا۔۔۔
"وہہہ۔۔۔وہ کچن میں کاکروچ تھا۔۔۔۔"
سمیعہ بیگم اور نسرین بیگم کے بھی قریب آنے پر حمدان اُس سے مزید دور ہوا تھا۔۔۔۔
کچھ فاصلے پر کھڑا وہ اُن سب کے بیچ آنسو بہاتی کھڑی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس کے نجانے کتنے رُوپ تھے۔۔۔ آخر کیا تھی یہ لڑکی۔۔۔۔ کیا وہ اب بھی اِس پر شک کرکے غلط کررہا تھا۔۔۔۔
پورے شہر کو اپنی اُنگلیوں پر نچا کر رکھ دینے والی لڑکی ایک کاکروچ سے ڈر گئی تھی۔۔۔
کیا یہ اِس کا ناٹک تھا۔۔۔۔؟؟؟
حمدان نے ایک بار پھر اُس کو دیکھا تھا۔۔۔ نہیں یہ اُس کا ناٹک نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔
حمدان اُس قاتل حسینہ کے دلفریب رُوپ سے نظریں چراتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جب فرح کی آواز پر اُس کے قدم رُکے تھے۔۔۔
"بھائی آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔؟؟"
فرح کے سوال پر حمدان نے پلٹ کر اُسے گھورا تھا۔۔۔
"پولیس اسٹیشن اور کہاں جانا ہے مجھے۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے ابھی جواب دیا ہی تھا جب وہاں موجود گھر کے تمام افراد اپنی مسکراہٹ نہیں روک پائے تھے۔۔۔ جبکہ مہروسہ شرمندگی سے سر جھکا گئی تھی۔۔۔
"ایسے جائیں گے آپ۔۔۔۔"
فرح نے اُس کے یونیفارم کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔ حمدان نے اُن سب کی مسکراہٹ دیکھ جیسے ہی سامنے لگے شیشے کی جانب دیکھا اُس کا منہ بھی کھل چکا تھا۔۔۔۔
اُس کی پوری شرٹ آگے اور پیچھے سے آٹے کے نشانوں سے سجی ہوئی ہوئی تھی۔۔۔
اور اب وہ قاتل حسینہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر معصوم بنی سب کے درمیان سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔۔
"ایسے جائیں گے آپ۔۔۔۔"
فرح نے اُس کے یونیفارم کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔ حمدان نے اُن سب کی مسکراہٹ دیکھ جیسے ہی سامنے لگے شیشے کی جانب دیکھا اُس کا منہ بھی کھل چکا تھا۔۔۔۔
اُس کی پوری شرٹ آگے اور پیچھے سے آٹے کے نشانوں سے سجی ہوئی ہوئی تھی۔۔۔
اور اب وہ قاتل حسینہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر معصوم بنی سب کے درمیان سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔۔
حمدان اُس پر ایک تیز نگاہ ڈالتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
تم کتنی کیوٹ ہو نا۔۔۔۔"
فرح سب کے جانے کے بعد اُس کے گال کھینچتی مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔
مہروسہ نے ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"میں جانتی ہوں تم نے بھائی کو جان بوجھ کر روکا ہے۔۔۔ تاکہ وہ آج آفس نہ جائیں اور میرے اِس ایونٹ میں میرے ساتھ رہیں۔۔۔ تم بہت اچھی اور پیاری لڑکی ہو۔۔۔۔"
فرح اُس کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔ جبکہ مہروسہ نے ہونق بنے اُسے جاتے دیکھا تھا۔۔۔۔
وہ یہ چاہتی تھی کہ حمدان آج اپنی مصروفیات ترک کرکے گھر والوں کے ساتھ رہے۔۔۔ مگر اُس نے یہ سب حمدان کو روکنے کے لیے بالکل بھی نہیں کیا تھا۔۔۔۔
وہ حقیقتاً کاکروچ سے ڈرتی تھی۔۔۔۔۔
مگر فرح کی خوشی دیکھ وہ اُسے کوئی وضاحت نہیں دے پائی تھی۔۔۔۔ اِس سے پہلے کے وہ فرح کو پکارتی۔۔۔ اُس کے پیچھے جاتی۔۔۔۔
حمدان نے اُس کی کلائی مڑور کر انتہائی سکتی سے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔
مہروسہ اپنے دھیان میں کھڑی اِس افتاد کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی۔۔۔۔ اُس کے کھینچ کر دیوار سے لگانے پر وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔۔۔ اُس کا سر اور کمر بہت زور سے دیوار سے ٹکراتے اُس کی ٹیسیں نکال گئے تھے۔۔۔۔
"آہہہ۔۔۔۔۔"
مہروسہ کے ہونٹوں سے تکلیف کے مارے بے اختیار کراہ نکلی تھی۔۔۔ اُسے اپنی گردن سے زرا نیچے کندھے پر شدید جلن محسوس ہوئی تھی۔۔۔ جیسے کوئی نوکیلی شے چبھ گئی ہو۔۔۔۔ شاید دیوار پر کیل تھا جو اُس کے کندھے میں چبھا تھا۔۔۔
لیکن اپنی تکلیف کا احساس کیے بغیر وہ گھبرائی نگاہوں سے اُس سنگدل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اُس کے نہایت قریب کھڑے ہوتے اُس کی کلائی اتنی زور سے تھامے ہوئے تھا۔۔۔ کہ مہروسہ جیسی مضبوط لڑکی کی بھی چیخیں نکل رہی تھیں۔۔۔ اُسے لگا تھا آج تو اُس کی ہڈی توڑ کر ہی چھوڑے گا یہ شخص۔۔۔۔۔
وہ اِس تکلیف کو بمشکل برداشت کرتی بس اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ حمدان فرح کی کہی باتیں سن چکا ہے۔۔۔ اور اب وہ بھی وہی سمجھ کر شاید اُس پر دوبارہ اپنا اعتبار کھو چکا ہے۔۔۔۔۔۔
"فرح آپی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ میں سچ میں کاکروچ۔۔۔۔۔۔"
مہروسہ کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔۔ مگر حمدان نے اُس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اُسے وہیں خاموش کروا دیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی اِس حرکت پر مہروسہ کے دل کی دھڑکن غیر معمولی حد تک بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"جانتا ہوں۔۔۔ تمہیں وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔"
حمدان چہرا اُس کے بالکل قریب کیے اُس کی آنکھوں میں جھانکتا اُس نازک جان پر قیامت برپا کرگیا تھا۔۔۔۔
اُس کی گرفت جس قدر بے رحم تھی۔۔۔۔ لہجہ اُتنا ہی مہربان تھا۔۔۔۔
مہروسہ اُس کے سحر میں جکڑی کھڑی یک ٹک اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
"یہ معصوم چہرا دھوکے باز بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ ہیں نا؟؟؟؟"
اُس کے چہرے کو ٹھوڑی سے تھام کر اُوپر کرتے وہ بھاری گھمبیر لہجے میں بولتا مہروسہ کو سر سے پیر تک لال کرگیا تھا۔۔۔۔
ہمیشہ اُس سے ایسے ہی اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنے والی وہ بلیک سٹارز کی گینگ لیڈر اِس وقت ایس پی حمدان کے میدان میں آتے ہی کانپنے لگی تھی۔۔۔ اُسے کچھ دیکھائی اور سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
نہ کندھے کی تکلیف نہ ہی کلائی کا درد۔۔۔۔۔
وہ تو بس اِس ساحر کی شخصیت کے سحر میں جکڑی کھڑی تھی۔۔۔
"میں نے تم پر شک کرکے بہت غلط کیا۔۔۔ میری زندگی کا گزرتا ہر لمحہ مجھے احساس دلاتا ہے کہ میں کتنا غلط تھا۔۔۔۔ آئم سوری فار ایوری تھنگ۔۔۔۔"
حمدان اُس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔۔۔ اور وہ آنکھیں غیر یقینی حد تک کھولے اُسے یک ٹک تکے جارہی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کی کل رات کی کہی باتیں بھول چکی تھیں۔۔۔ اُسے یاد رہا تھا تو صرف سامنے کھڑا شخص اور اپنے پہلو میں بے قابو ہوکر دھڑکتا دل۔۔۔۔
شاہ ویز نے اُسے جس بربادی کی بات کی تھی وہ اُس کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
"مجھے اعتبار ہے تم پر۔۔۔۔"
حمدان صدیقی اُس کی آنکھوں میں جھانکتا بہت کاری وار کر گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کو لگا تھا وہ اب پوری زندگی اِس لمحے سے نہیں نکل پائے گی۔۔۔۔
"ہنستی رہا کرو۔۔۔ تمہاری مسکراہٹ بہت پیاری ہے۔۔۔"
حمدان اُس کا گال تھپتھپاتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ مہروسہ نجانے کتنے ہی لمحے وہیں ساکت کھڑی رہی تھی۔۔۔۔۔ اُسے لگا تھا بس جیسے اُس کی زندگی اِسی ایک لمحے میں آکر ٹھہر گئی ہو۔۔۔
"بی بی جی۔۔۔۔۔"
ملازمہ کے آکر پکارنے پر مہروسہ نے گم صم سے انداز میں اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"بی بی جی حمدان صاحب آپ کو اپنے روم میں بلا رہے ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں اُن کا یونیفارم پریس کردیں۔۔۔"
ملازمہ کو بھجوائے اِس نئے پیغام پر مہروسہ کی سٹی گم ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کا سنگدل ستمگر ایک دم اتنا مہربان کیسے ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ مہروسہ کو لگا تھا گولی کے وار سے تو وہ ہمیشہ بچتی آئی تھی۔۔۔ مگر اس شخص کی محبت کے وار اُس کی جان نکال دیں گے۔۔۔
وہ ملازمہ کو اثبات میں سر ہلا کر جواب دیتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
"یہ دیوار پر خون۔۔۔ یہ کہاں سے آیا۔۔۔۔؟؟؟"
وہاں سے ہٹتے اچانک ملازمہ کی غیر ارادی نظر اُسی دیوار پر پڑی تھی۔۔۔ جہاں مہروسہ کھڑی تھی۔۔۔
اُس نے فوراً نظریں گھما کر مہروسہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ مگر اُس کی کندھے پر پڑے بال اور دوپٹے کی وجہ سے وہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی کہ یہ خون کس کا ہے۔۔۔۔
اِس لیے بنا کچھ بولے خاموشی سے اُسے صاف کرنے لگ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اپنی جان ہی کو بچایا ہے۔۔۔۔"
اُس کی آنکھوں میں جھانکتے شاہ ویز سرگوشیانہ لہجے میں بوجھل پن سے بولتا پریسا کو کچھ پل کے لیے اپنے آس پاس کی دنیا بھلا گیا تھا۔۔۔
وہ آنکھیں پھاڑے یک ٹک اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"کک کیا مطلب ؟؟؟ میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟؟"
پریسا کو اپنے حلق میں کچھ اٹکتا محسوس ہوا تھا۔۔۔ دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آن ٹپکے گا۔۔۔
"اُن غنڈوں سے میری جان کو بھی خطرہ تھا۔۔۔ تو اُنہیں ختم کرکے میں نے اپنی جان کو بچایا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنے مخصوص کھردرے لہجے میں بولتا اُس کی ساری خوش فہمی ہوا کر گیا تھا۔۔۔
"اُف میں پاگل کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔ جس انسان کے سینے میں دل ہی نہیں ہے۔۔۔ وہ بھلا کسی بھی قسم کے احساسات اور جذبات کے بارے میں کیا جانتا ہوگا۔۔۔۔ میں کیوں یہ اول فول سوچ رہی ہوں۔۔۔ یہ شخص پتھر ہے جس سے ساری زندگی سر پھوڑنے کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔۔۔۔۔"
پریسا دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔ مگر دل تھا کہ بار بار اِسی شخص کے لیے ہمک رہا تھا۔۔۔۔
"یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اُسے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔ جب اُوپر سے گرتی بیل کی وجہ سے دور ہونے کے بجائے وہ اُس کے مزید قریب ہوگئی تھی۔۔۔۔
"میرے پودے خراب ہورہے ہیں۔۔۔۔"
اپنی ساری بیلوں کو ایک ایک کرکے ٹوٹتے دیکھ پریسا روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔
شاہ ویز نے ایک نظر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اُسے آرام سے اُٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالتا اُنہیں پودوں کے پیچھے سے ہوتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔
"تم کہاں لے کر جارہے ہو مجھے۔۔۔ میں شور مچا دوں گی۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔"
پریسا کا دل خوف سے لرز اُٹھا تھا۔۔۔۔ وہ اب مزید اِس شخص کی جان لیوا قید برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
"مچا دو شور۔۔۔۔ تمہارے سارے خاندان کو تم سمیت اُوپر پہنچانے میں پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے کا مجھے۔۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی دھمکی سے اُس کی بولتی وہیں بند کرتا پچھلے حصے کے آخری کونے میں آن پہنچا تھا۔۔۔
پریسا کو نیچے اُتارتے اُس نے سب سے پہلے وہاں موجود گھاس کو ہاتھ سے نیچے دھکیلا تھا۔۔۔۔
جس کے بعد وہاں کی زمین کو آگے کی جانب سرکتے دیکھ پریسا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔۔۔ اتنے سالوں سے وہ یہاں رہ رہی تھی۔۔۔ مگر وہ اس سب کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔۔۔۔
"یہ سب۔۔۔۔۔"
پریسا نے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"اُترو نیچے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے سپاٹ تاثرات کے ساتھ اپنے حاکمانہ لہجے میں اُسے آرڈر دیا تھا۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ نہیں اُتروں گی میں۔۔۔ "
پریسا اُس سے خوفزدہ ہوتی وہاں سے جانے کے لیے پلٹی تھی۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی شاہ ویز اُس کی کلائی تھامتا اُسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر اُسے بانہوں میں اُٹھاتا اُس حصے میں نیچے کو جاتی سیڑھیاں اُتر گیا تھا۔۔۔۔
اُن کے نیچے جاتے ہی شاہ ویز کے اشارے پر پیچھے سے کسی نے اُس حصے کو واپس ڈھانپ دیا تھا۔۔۔۔
"پلیز۔۔۔ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ یی یہ تم کہاں لے کر آؤ ہو مجھے۔۔۔۔"
پریسا وہاں چھایا گھپ اندھیرا دیکھ اُس کے کندھے پر سر ٹکاتی آنکھیں سختی سے میچ گئی تھی۔۔۔ اندھیرے سے جان جاتی تھی اُس کی۔۔۔۔
اور اس شخص کی وحشت ناکی اور جان لیوا قربت سے وہ شدید خوفزدہ تھی۔۔۔۔
اُس کی شاید اِسی کیفیت کو دیکھتے شاہ ویز نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارتے اُس تہہ خانے کو روشنیوں سے بھر دیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اُس کے کندھے سے سر اُٹھا کر اردگرد دیکھا تھا۔۔۔ اور پھر دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔۔
یہ حصہ اُوپر والے گھر سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔۔۔۔ اِس حصے کو ڈرائینگ روم کی طرح بہت شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔۔۔
پریسا اپنا کھلا منہ بند کرنا بھول چکی تھی۔۔۔
"یہ۔۔ یہ۔۔۔"
اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اِس وقت آفندی مینشن کے بیسمنٹ میں کھڑی ہے۔۔۔۔ یہ کب بنا تھا۔۔۔۔
اُسے تو ہمیشہ سے یہی بتایا گیا تھا کہ اِس گھر کا کوئی بیسمنٹ نہیں ہے۔۔۔۔
"میرے پاس تمہاری یہ حیرانی دیکھنے اور اِس جگہ کے حوالے سے تمہیں مزید وضاحتیں دینے کا ٹائم بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ جتنی جلدی میری بات مانو گی۔۔۔ اُتنی جلدی یہاں سے آزادی پا سکو گی۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے قریب آتے اُس کی ٹھوڑی اُوپر کرتے اُس کا منہ بند کردیا تھا۔۔۔
اُس کی اِس حرکت پر پریسا اُسے گھورتی خود ہی دور ہوگئی تھی۔۔۔ اُس کا یوں پیچھے ہونا شاہ ویز سکندر جیسے گھمنڈی شخص کو کافی ناگوار گزرا تھا۔۔۔ وہ اُسے سے مزید فاصلہ بناتا دور صوفے پر جا بیٹھا تھا۔۔۔
"کیسا کام۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا کو چند سیکنڈ لگے تھے اُس کے یوں دور جاکر بیٹھنے کی وجہ سمجھنے میں۔۔۔۔
"اِن پیپرز پر سائن کردو۔۔۔۔ تو جاسکتی ہو یہاں سے۔۔۔ انکار کرنے سے پہلے سوچ لینا۔۔۔ بلیک ہاؤس میں تمہیں مجھ سے بچانے کے لیے بہت سے لوگ تھے۔۔۔ مگر اِس تہہ خانے میں تم پوری طرح میرے رحم و کرم پر ہوگی۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے پاکٹ سے سیگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دباتے اُس کے خوف میں مزید اضافہ کردیا تھا۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔ ؟؟؟ کیسے سائن۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز سکندر کے ساتھ یہاں اکیلے قید رہنے کے خوف سے ہی اُسے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ اُس سے کن پیپرز پر سائن لینا چاہتا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز جس صوفے پر بیٹھا تھا اُس کے بالکل سامنے ٹیبل پر اُس پیپرز اور پین رکھ دیا تھا۔۔۔۔
"یہ کس چیز کے پیپرز ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اُس کے سامنے ٹیبل کے قریب آتے مشکوک نگاہوں سے اُس کے خوبرو چہرے کو گھورا تھا۔۔۔ جو اب نقاب اُتار کر آرام سے سیگریٹ سے خود کو پرسکون کررہا تھا۔۔۔
"وہ بہت جلد تمہیں پتا چل جائے گا۔۔۔ ابھی بس سائن کرو۔۔۔۔۔ "
پریسا نے پیپرز اُٹھانے چاہے تھے۔۔۔۔ جب شاہ ویز اُس کے ہاتھ سے فاصلہ برقرار رکھتے پیپرز کو تھامتا واپس ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔۔۔
"تمہیں اِنہیں پڑھے بغیر اِن پر سائن کرنے ہونگے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے سر پر ایک اور بم پھوڑا تھا۔۔۔
"میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔۔۔ "
پریسا نے فوراً نفی میں سر ہلاتے انکار کیا تھا۔۔۔
"تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔ دونوں بیٹھتے ہیں یہیں۔۔۔"
شاہ ویز صوفے پر ٹانگیں رکھتا نیم دراز ہوتے بولا تھا۔۔۔
"تم یہ ٹھیک نہیں کررہے۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو ہر بار وہی ہوگا جو تم چاہتے ہو؟؟ میرے گھر والے مجھے گھر میں نہ پاکر۔۔۔ مجھے یہاں تک ڈھونڈنے ضرور آئیں گے۔۔۔"
پریسا نے اُسے ڈرانا چاہا تھا۔۔۔
مگر اُس کی بات کے جواب میں سیگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتے شاہ ویز نے نظریں گھما کر بغور اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"کیا تم واقعی اتنی بے وقوف ہے۔۔۔؟؟ یا صرف مجھے لگتی ہو۔۔۔"
سیگریٹ کو زمین پر پھینک کر پیر سے مسلتا وہ صوفے سے اُٹھ کر اُس کے مقابل آیا تھا۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔"
پرہسا اُس کی نظروں سے گھبرا گئی تھی۔۔۔ کبھی کبھی وہ اُسے ایسی گہری نگاہوں سے دیکھتا تھا کہ پریسا اندر تک کانپ اُٹھتی تھی۔۔۔ ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔
وہ اِس شخص کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔ وہ اُس کا دشمن تھا، ہمدرد اور محافظ تھا۔۔۔ یا پھر۔۔۔ اِس سے آگے کا تصور وہ کر نہیں پائی تھی۔۔۔
کیونکہ یہ وحشی درندہ بھلا محبت جیسے جذبے سے کیسے واقف ہوسکتا تھا۔۔۔
"تمہیں کیا واقعی لگتا ہے اِس گھر کے کسی ایک بھی فرد کو تمہاری فکر ہے۔۔۔۔؟؟ وہ باہر جو تمہاری ہمدرد بنی تمہاری کزن تم سے میرے متعلق اُگلوانا چاہتی تھی اُس کا ریزن یہی ہے۔۔۔ کہ جن پر تک اندھا اعتماد کرتی ہو۔۔۔ اُنہیں تم پر رتی برابر بھی بھروسہ نہیں ہے۔۔۔۔ وہ صرف تمہیں۔۔۔۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھوں میں اپنی وحشت ناک لال آنکھیں گاڑھے بولتا وہ اُسے اپنی جگہ سن کر گیا تھا۔۔۔
اُس کی آنکھوں میں بھرتی نمی دیکھ شاہ ویز نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو بھینچتے خود کو مزید کچھ کہنے سے روکا تھا۔۔۔
"تمہاری بہتری اِسی میں ہے۔۔۔ کہ خاموشی سے اِن پیپرز پر سائن کردو۔۔۔ تمہارے روم میں اِس وقت میری گینگ کی ممبر پریسا آفندی بن کر سو رہی ہے۔۔۔ تمہارے پیاروں کو زرا سا بھی شک نہیں ہوگا کہ تم یہاں ہو۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی جانب سے رُخ موڑتا بات بدل چکا تھا۔۔
"بات مکمل کریں اپنی مسٹر شاہ ویز سکندر۔۔۔ کیوں میرے خاندان والوں کو مجھ پر بھروسہ نہیں۔۔۔ اگر اُن کے متعلق زرا سا بھی پروف ہے تو سامنے لاؤ۔۔۔ تم اپنی دشمنی میں مجھے اُن کے خلاف کرکے اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔۔۔۔ اور نہ میں اتنی بے وقوف ہوں کہ تمہاری باتوں میں آؤں گی۔۔۔ تم جیسے لوگ۔۔۔۔"
پریسا اُس کے بات ادھوری چھوڑنے پر اُس کی کشادہ پشت کو گھورتی غصے سے بولی تھی جب شاہ ویز نے ایک دم واپس پلٹتے اُس کی دونوں کلائیاں تھام کر کمر پر مڑورتے اُسے اپنے قریب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
"میں کون ہوں؟؟؟ کیا ہوں۔۔۔؟؟ اگر یہ تمہیں اور تمہارے خاندان والوں کو پتا چل گیا تو پیروں تلے زمین نہیں بچے گی۔۔۔ اِس لیے دوبارہ ایسی بکواس مت کرنا۔۔۔ مجھے تمہیں کسی کے خلاف کرنے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔ نہ ہی اپنی سائیڈ لانے کی کوئی خواہش ہے۔۔۔ تم اپنے اُس سفیان آفندی کو ہی مبارک ہو۔۔ "
شاہ ویز آگ اُگلتے لہجے میں بولتا پریسا آفندی کا چہرا لال کر گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"انسپکٹر جمال مجھے آج کے آج ہی شکار پور جانا ہے۔۔۔ مجھے بابا کے کار حادثے والا کیس ری اوپن کرنا ہے۔۔۔۔ اِس سلسلے میں آپ میرے ساتھ چلیں گے۔۔۔ کیونکہ آپ کے علاوہ میں کسی پر اعتبار نہیں کرسکتی۔۔۔"
حبہ انسپکٹر جمال کو بلاتے اپنے ارادوں سے آگاہ کرتے بولی۔۔۔۔
وہ حادثہ شکار پور میں پیش آیا تھا۔۔۔ اُس کے حوالے سے ساری فائلز وہیں کے پولیس اسٹیشن میں موجود تھیں۔۔۔ اُس کی ماما نے اُسے یہی بتایا تھا کہ اُس حادثے کو پولیس والوں نے پوری جانچ پڑتال کے بعد ایک حادثہ ہی بتایا تھا۔۔۔ وہ آگ حادثاتی طور پر لگی تھی۔۔۔ اُس میں کسی کی کوئی سازش نہیں تھی۔۔۔
پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد اُس کے دماغ میں کبھی اِس حوالے سے خیال ہی نہیں آیا تھا۔۔۔ مگر اب وہ اُس کیس کو ایک بار پھر ری اوپن کرکے۔۔۔ اپنے لحاظ سے تسلی کرنا چاہتی تھی۔۔۔
انسپکٹر جمال اُس کے بابا کی ایج کے تھے۔۔۔ اور جب سے اُس نے یہ فورس جوائن کی تھی وہ اُسی کے انڈر کام کررہے تھے۔۔۔۔
اُسے اُن سے زیادہ کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔۔۔
وہ ابھی اُنہیں مزید کچھ بتانے ہی لگی تھی۔۔۔ جب اُس کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔
ای جی صاحب کا نمبر دیکھ اُس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔۔۔
"ایس پی حبہ آج شام پانچ مجھے میٹنگ ہے۔۔۔ ایک بہت امپورٹنٹ کیس کے حوالے سے بات کرنی ہے۔۔۔"
ای جی صاحب اُسے آرڈر دیتے فون رکھ چکے تھے۔۔۔ جبکہ حبہ موبائل سکرین کو گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔
بھلا آج ہی یہ نیا کیس آنا تھا۔۔۔۔
انسپکٹر جمال اُس کے بابا کی ایج کے تھے۔۔۔ اور جب سے اُس نے یہ فورس جوائن کی تھی وہ اُسی کے انڈر کام کررہے تھے۔۔۔۔
اُسے اُن سے زیادہ کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔۔۔
وہ ابھی اُنہیں مزید کچھ بتانے ہی لگی تھی۔۔۔ جب اُس کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔
آئی جی صاحب کا نمبر دیکھ اُس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔۔۔
"ایس پی حبہ آج شام پانچ بجے میٹنگ ہے۔۔۔ ایک بہت امپورٹنٹ کیس کے حوالے سے بات کرنی ہے۔۔۔"
ای جی صاحب اُسے آرڈر دیتے فون رکھ چکے تھے۔۔۔ جبکہ حبہ موبائل سکرین کو گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔
بھلا آج ہی یہ نیا کیس آنا تھا۔۔۔۔
حبہ دانت پیستے موبائل سامنے پڑے ٹیبل پر پٹخ گئی تھی۔۔۔
"میم میرے لیے اب کیا آرڈر ہے۔۔۔۔؟"
انسپکٹر جمال اُس کا خراب ہوتا موڈ دیکھ سمجھ چکا تھا۔۔۔۔
"آپ جائیں آج ہم نہیں جا پائیں گے وہاں۔۔۔۔"
حبہ نے بے دلی سے اُنہیں کہتے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی تھی۔۔۔۔
آنکھیں موندے وہ رات کو بیتے لمحوں کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔۔۔ پہلے اُس لیٹر کا آنا پھر اچانک یوں غائب ہوجانا۔۔۔۔ اُس پر لکھی ہینڈرائٹنگ حبہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔۔۔
کیونکہ یہ ہینڈ رائٹنگ جس انسان کی تھی وہ اُس کی سانسوں میں بستا تھا۔۔۔ وہ بھلا کیسے اُسے بھول پاتی۔۔۔۔۔۔۔
حبہ کتنے ہی لمحے اُسی پوزیشن میں بیٹھی سوچتی رہی تھی۔۔۔ وہ جب بھی آنکھیں بند کرتی تھی۔۔۔ سیاہ نقاب سے جھانکتی دو آنکھیں اُسے بے چین کر دیتی تھیں۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ میرا دل جو محسوس کررہا ہے ویسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ بہت رحم دل اور نرم جذبے رکھنے والا پیارا انسان تھا۔۔۔ وہ اتنا بے درد نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ تو چیونٹی کے بھی اپنے پیر کے نیچے آجانے پر کتنے لمحے افسوس میں گزار دیتا تھا۔۔۔ وہ بھلا انسانوں کا قاتل کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ نہیں تم خونی درندے نہیں ہوسکتے۔۔۔ تم بلیک سٹار نہیں ہو۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔
میں پاگل ہوں ایسا بھلا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں۔۔۔۔"
حبہ کا چہرا بالکل زرد پڑ چکا تھا۔۔۔ آنکھوں سے آنسو چھلکنے کو تیار تھے۔۔۔۔
اُس نے اپنے ہاتھوں میں واضح کپکپاہٹ محسوس کی تھی۔۔۔۔
"لیکن اگر حقیقت میں ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔"
حبہ کی آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر چہرے پر بکھر گئے تھے۔۔۔۔
"میں کیا کروں گی۔۔۔؟؟؟"
حبہ ساکت و صامت سی بیٹھی تھی جب دروازے پر ہوتی دستک نے اُسے ہوش کی دنیا میں واپس کھینچا تھا۔۔۔
وہ آنسو صاف کرتی فوراً خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے سیدھی ہوئی تھی۔۔۔
"میم یہ آپ کے لیے آیا ہے۔۔۔"
حبہ کے اشارے پر پولیس اہلکار ٹیبل پر وہ گفٹ پیک رکھتا واپس مُڑ گیا تھا۔۔۔ حبہ روئی روئی لال آنکھوں سے اُسے پیک کو دیکھتی اُسے اپنی جانب کھینچ گئی تھی۔۔۔۔
"یہ کس نے بھیجا ہے۔۔۔۔؟؟؟"
پورے گفٹ پیک کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد بھی اُسے کہیں کوئی نام لکھا نظر نہیں آیا تھا۔۔۔
اُس نے تجسس کے ہاتھوں مجبور جلدی سے اُسے چاک کیا تھا۔۔۔ مگر آگے سے جو نکلا تھا اُسے دیکھ حبہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔۔۔۔
وہ کتنے ہی لمحے بت بنی اُس لال عروسی دوپٹے کو گھورتی رہی تھی۔۔۔۔ دس سال پہلے اُس نے کسی سے اِسی دوپٹے کی ضد کی تھی۔۔۔۔ اور آج دس سال بعد اُس کی ضد پوری کردی گئی تھی۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔
کس نے؟؟؟؟
اس سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی وہ انجان بننے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔۔۔
حبہ کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوچکے تھے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ نے دھڑک دھڑک کر بے قابو ہوتے دل کے ساتھ حمدان کے روم میں قدم رکھا تھا۔۔۔ وہ فرح کے ساتھ پہلے بھی ایک دو بار آچکی تھی۔۔۔
حمدان کو وہاں نہ پاکر وہ جلدی سے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ جہاں کپڑوں کی الماری کے پاس ہی پریسر لگائی گئی تھی۔۔۔ سامنے ٹیبل پر رکھے اُس کے یونیفارم کو دیکھ مہروسہ سکھ کا سانس لیتی یونیفارم پریس کرنا شروع ہوچکی تھی۔۔۔
وہ بس جلد از جلد یہ کام کرکے یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے اُسے واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔۔۔ مہروسہ نے گہری سانس ہوا میں خارج کرتے خود کا بمشکل نارمل رکھنا چاہا تھا۔۔۔۔
ایس پی حمدان صدیقی کا یہ رُوپ اُس کے لیے سب سے زیادہ جان لیوا تھا۔۔۔ وہ اِسی شخص کی ستمگری برداشت کرسکتی تھی۔۔۔ مگر اُس کے اس محبت بھرے انداز کا عادی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ۔۔۔۔
اُس کے کانوں میں حمدان کے لمحہ با لمحہ قریب آتے قدموں کی آواز گونجتی اُس کی سانسوں کی رفتار مزید بڑھا گئی تھی۔۔۔۔
"یونیفارم پریس ہوگیا۔۔۔۔"
حمدان نے دروازے میں رکتے نہایت ہی نرم لہجے میں سوال کیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے کپڑے پریس کرتے مہروسہ کے ساتھ کپکپا اُٹھے تھے۔۔۔ پریسر شرٹ پر پھیرنے کے بجائے وہ اپنی اُنگلی پر پھیر چکی تھی۔۔۔
مگر وہ دیوانی لڑکی اِن بوجھل دھڑکنوں کے پیچھے اِس جلن کو محسوس ہی نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
"جی بس تھوڑی سی دیر ہے۔۔۔۔"
مہروسہ بہت مشکل سے یہ الفاظ ادا کر پائی تھی۔۔۔ اُس نے پلٹ کر حمدان کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔
"تمہاری ایجوکیشن کیا ہے اُجالا۔۔۔۔؟؟"
حمدان دروازے سے جما کھڑا اُس سے مزید بات کرنے کا خواہش مند تھا۔۔۔
"گریجویشن کیا ابھی۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ نے اپنے لہجے کو ہموار رکھا تھا۔۔۔۔
"کہاں سے۔۔۔۔؟؟"
حمدان کی پراسرار نظریں اُس کی پشت پر گڑھی ہوئی تھی۔۔۔۔
"وہیں گاؤں میں پرائیویٹ کالج تھا اُسی کے تھرو۔۔۔۔"
مہروسہ کا لہجہ مضبوط تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے حمدان کی نظر اُس کے کندھے سے خون نیچے بہہ کر کمر پر آتے خون پر پڑی تھی۔۔۔
"تمہیں چوٹ لگی ہے۔۔۔۔؟؟"
وہ اُس کے ہاتھ سے اپنی شرٹ لیتا حیرت زدہ سا اُس کا رُخ اپنی جانب موڑ گیا تھا۔۔۔۔
"نن نہیں تو۔۔۔۔"
مہروسہ نے بوکھلاہٹ میں انکار کیا تھا۔۔۔
"تمہارا خون نکل رہا ہے۔۔۔۔"
حمدان نے اُس کے کندھے پر لپٹے دوپٹے کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔
"نن نہیں وہ بس معمولی سا۔۔۔۔"
مہروسہ تو اُس کے چہرے پر پھیلتی فکر دیکھ کر ہی اپنا ہر درد بھول گئی تھی۔۔۔
"معمولی سی چوٹ پر اتنا خون نہیں بہتا۔۔۔۔"
اُس کے پیچھے ہونے پر حمدان اُسے بازو سے تھام کر روکتے ہوئے بولا۔۔۔
یہ چوٹ بھی ایس پی حمدان کو اُس کے حوالے سے مشکوک کر گئی تھی۔۔۔ اِس بات سے انجان کے یہ ستم اُسی کا ڈھایا ہوا تھا۔۔۔۔
اِس سے پہلے کہ وہ اپنا شک دور کرنے کی کوشش کرتا دروازے پر ہوتی آہٹ پر دونوں نے اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں کھڑی مریم سامنے کا منظر دیکھ اندر سے جل بھن کر کوئلہ ہوچکی تھی۔۔۔
حمدان مہروسہ کے دونوں بازو تھامے فکر مند سا اُس کے زخم کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔ جبکہ مہروسہ اُسے اپنا زخم دیکھانے کے حق میں بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
"لگتا ہے میں غلط وقت پر آگئی۔۔۔۔"
مریم حمدان کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولی۔۔۔۔
جبکہ اُسے واقعی غلط ٹائم پر آتا دیکھ جہاں حمدان نے ہونٹ بھینچے تھے وہیں مہروسہ نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔۔۔
اگر یہ شخص مزید اُسے فکر دیکھاتا تو اُس نے حیرت کے مارے اُوپر پہنچ جانا تھا۔۔۔۔
"تم یہاں۔۔۔ کب آئی۔۔۔۔؟"
حمدان بنا مہروسہ سے دور ہٹے وہیں کھڑا مریم سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔ جس پر مہروسہ نے حیرت سے اُسے گھورا تھا۔۔۔۔ وہ حمدان کی مریم کے لیے فکر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی۔۔۔ مگر آج اُس کا مریم کے حوالے سے یہ لاپرواہ انداز وہ ہضم نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
"لگتا ہے آپ کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔ اٹس اوکے۔۔۔ میں باہر ویٹ کررہی ہوں آپ کا۔۔۔ آپ فری ہوکر آجائیے گا۔۔۔۔"
مریم اُس کے سوال کا بُرا مناتی وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔
مہروسہ یک ٹک سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔ اِسی دھیانی میں اُس کا دوپٹہ کندھے سے پھسل گیا تھا۔۔۔
"وہ آپ سے ناراض ہوگئی ہیں۔۔۔ آپ کو اُنہیں منانا چاہیے۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے اُسے وہاں سے بھیجنا چاہا تھا۔۔۔
"تمہیں یہ چوٹ نیچے لگی۔۔۔ اور تم نے مجھے بتایا ہی نہیں۔۔۔ تم جیسی پاگل لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔۔۔"
حمدان اُس کے کندھے سے بال ہٹاتا اُس کی سانسیں حلق میں ہی اٹکا گیا تھا۔۔۔۔
"آپ یہ۔۔۔۔"
مہروسہ نے بولنا چاہا تھا۔۔۔۔
جب حمدان اُس پر ایک سخت نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
اُسے وہیں کھڑے چند سیکنڈز ہی گزرے تھے جب فرح پریشان سی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا تمہیں۔۔۔؟؟ پھر چوٹ لگوا لی تم نے۔۔۔۔ یہ بھائی جب بھی آس پاس ہوتے ہیں۔۔۔ تم خود کو زخمی ہی کرتی رہتی ہو۔۔۔۔ "
فرح فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اُس کے قریب آتی اُس کا زخم دیکھ فکرمندی سے بولی تھی۔۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں یار۔۔۔ تمہیں کس نے بھیجا۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ اُنہیں کیا بتاتی کہ یہ معمولی سی چوٹیں اُس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔۔۔۔
" بھائی نے بھیجا ہے۔۔۔ بہت پریشان لگ رہے تھے وہ۔۔۔ اور ہونا بھی چاہیئے دیکھو نا۔۔۔ کتنی چوٹ آئی ہے تمہیں۔۔۔ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی لاپرواہ لڑکی۔۔۔ یا تم یہ چاہتی ہو کہ بھائی تمہارا خیال رکھیں۔۔۔"
فرح اُسے ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ آخر میں معنی خیزی سے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔"
مہروسہ حمدان کے جانے کے بعد اب نارمل ہوچکی تھی۔۔ اور اُس کا دماغ بھی کچھ سوچنے کے قابل ہوا تھا۔۔ اُسے حمدان صدیقی کا یہ رویہ بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
فرح کے جاتے ہی وہ بھی حمدان کے روم سے نکلی تھی جب اُس کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔
"ایس پی حمدان صدیقی کے آدمی اُجالا کے گاؤں پہنچ کر اُس کے حوالے سے ساری معلومات اکٹھی کررہے ہیں۔۔۔ ایس پی صاحب کھیل کھیل رہے ہیں تمہارے ساتھ۔۔۔ اُس سے تمہاری جان کو خِطرہ ہے۔۔۔۔ بی کیئر فل۔۔۔۔"
حازم سرد و سپاٹ لہجے میں اُسے ہدایت دے کر فون بند کرگیا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ کے آنسو آنکھوں کے راستے دل میں اُترنے لگے تھے۔۔۔۔
"تو یہ مہربان رُوپ صرف ایک فریب تھا ایس پی صاحب۔۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی ریلنگ سے نیچے جھانکا تھا۔۔۔ جہاں حمدان مریم کے بہت پاس کھڑا اُس کی کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔۔
اچانک اُس نے نظریں اُٹھا کر مہروسہ کو دیکھا تھا۔۔۔ دونوں کی نگاہیں ملی تھیں۔۔۔ اِس سے پہلے کے مہروسہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوتا وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"بات مکمل کریں اپنی مسٹر شاہ ویز سکندر۔۔۔ کیوں میرے خاندان والوں کو مجھ پر بھروسہ نہیں۔۔۔ اگر اُن کے متعلق زرا سا بھی پروف ہے تو سامنے لاؤ۔۔۔ تم اپنی دشمنی میں مجھے اُن کے خلاف کرکے اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔۔۔۔ اور نہ میں اتنی بے وقوف ہوں کہ تمہاری باتوں میں آؤں گی۔۔۔ تم جیسے لوگ۔۔۔۔"
پریسا اُس کے بات ادھوری چھوڑنے پر اُس کی کشادہ پشت کو گھورتی غصے سے بولی تھی جب شاہ ویز نے ایک دم واپس پلٹتے اُس کی دونوں کلائیاں تھام کر کمر پر مڑورتے اُسے اپنے قریب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
"میں کون ہوں؟؟؟ کیا ہوں۔۔۔؟؟ اگر یہ تمہیں اور تمہارے خاندان والوں کو پتا چل گیا تو پیروں تلے زمین نہیں بچے گی۔۔۔ اِس لیے دوبارہ ایسی بکواس مت کرنا۔۔۔ مجھے تمہیں کسی کے خلاف کرنے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔ نہ ہی اپنی سائیڈ لانے کی کوئی خواہش ہے۔۔۔ تم اپنے اُس سفیان آفندی کو ہی مبارک ہو۔۔ "
شاہ ویز آگ اُگلتے لہجے میں بولتا پریسا آفندی کا چہرا لال کر گیا تھا۔۔۔۔
"تو کیوں سائن کروانا چاہتے ہیں اِن پیپرز پر۔۔۔ خود ہی کرلو۔۔۔۔"
پریسا کو اُس کا حد درجہ رُوڈ انداز بہت کھلا تھا۔۔۔ یہ شخص ہر وقت بس تلخ الفاظ ہی منہ سے نکال کر مقابل کی عزت دو کوڑی کی کرکے رکھ دیتا تھا۔۔۔
"میں کرچکا ہوں۔۔۔ اب تمہاری باری ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے بہت ہی سکون سے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔ وہ مسلسل اُس سے اپنی کلائیاں آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ مگر وہ اپنی بات پر بضد کھڑا تھا۔۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟ کونسے پیپرز ہیں۔۔۔ ہم دونوں کے سائن۔۔۔ کہیں تم دھوکے سے مجھ سے نکاح۔۔۔۔۔"
پریسا کے ہونٹوں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے تھے۔۔۔
"واٹ نان سینس۔۔۔۔ میرا دماغ بالکل بھی خراب نہیں ہے۔۔۔۔ جو تم جیسی لڑکی سے نکاح کروں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی کلائیاں آزاد کرتا اُسے خود سے دور کرگیا تھا۔۔
جبکہ اُس کی بات پر پریسا کو بہت زیادہ انسلٹ فیل ہوئی تھی۔۔۔۔
"کیا مطلب ہے تمہاری اِس بات کا۔۔۔۔ مجھ جیسی لڑکی۔۔۔ کیسی لڑکی ہوں میں۔۔۔"
پریسا احساسِ توہیںن سے لال پڑتے چہرے کے ساتھ اُس کے سامنے آئی تھی۔۔۔۔ اُسے اب شاہ ویز سکندر سے بالکل بھی ڈر نہیں لگتا تھا۔۔۔ جو یہ بات تو جان گئی تھی کہ وہ اُسے نقصان کبھی نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔
اُس کے دل کے اندر کسی کونے میں اِس شخص کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوچکا تھا۔۔۔ جس سے وہ خود بھی انجان تھی۔۔۔۔
"تمہیں میری یہ بات اتنی بُری کیوں لگ رہی ہے۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کی آنکھوں میں جگمگاتی نمی دیکھ ٹھٹھکا تھا۔۔۔۔
"مجھ جیسی لڑکی سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔؟؟ کیسی لڑکی ہوں میں۔۔۔۔؟؟"
پریسا کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔ سیگریٹ سلگھاتا شاہ ویز سکندر اُس کی گھنیری پلکوں پر ٹھہرتا آنسو دیکھ پل بھر کے لیے اپنی جگہ تھم سا گیا تھا۔۔۔۔
یہ لڑکی اُس کی چھوٹی سی بات کو اتنا سیریس کیونکر لے گئی تھی۔۔۔۔
"میں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔۔۔ اپنے اُس سفیان سے پوچھنا۔۔۔۔"
شاہ ویز ایک دم لاپرواہ بنتا واپس صوفے پر جا بیٹھا تھا۔۔۔
پریسا کتنے ہی لمحے اپنی جگہ کھڑی اُسے غصے سے گھورتی رہی تھی۔۔۔ یہ شخص اتنا بدتمیز اور ہٹ دھرم کیوں تھا۔۔۔ اُس کا اِس وقت دل چاہا تھا اِس کا اِس مغرور نقوش سے سجے چہرے پر چھائی یہ ساری اکڑ کہیں غائب کردے۔۔۔۔
"تمہیں بتانا ہوگا۔۔۔۔"
پریسا اُس کے پاس آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
"جب ہم دونوں کا کوئی لنک ہی نہیں ایسا تو تم اپنے بارے میں میرے خیالات جان کر کیا کرو گی۔۔۔"
شاہ ویز نے سیگریٹ کا گہرا کش لیتے اُس کے بے چین انداز کو دیکھا تھا۔۔۔۔
"میری نظر میں تمہاری اور تمہارے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔۔ تم بھی بھاڑ میں جاؤ۔۔۔ اور تمہارے یہ پیپرز بھی۔۔۔ میں اب اِن پر کسی قیمت پر سائن نہیں کروں گی۔۔۔۔"
پریسا نے آگے بڑھتے اُن پیپرز کو پھاڑنے کی نیت سے اُن کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔ مگر اُس کے وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی شاہ ویز اُس کی کلائی تھام کر اُسے اپنے قریب صوفے کی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
پریسا اُس کی اِس حرکت پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتے سیدھی اُس کے قریب رکھے صوفے پر آن گری تھی۔۔۔
"یہ کیا بہودگی ہے۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اپنی کلائی سہلاتے اُسے غصے سے گھورا تھا۔۔۔
"تم سائن کرو پھر بہت اچھے سے ایکسپلین کروں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر کی چمکتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ پریسا کو زچ کر کے اُسے کتنا مزا آرہا ہے۔۔۔۔
"نہیں کروں گی سائن۔۔۔۔"
پریسا نے اُسے گھورتے صاف انکار کیا تھا۔۔۔
"میں یہ کام زبردستی بھی کروا سکتا ہوں۔۔۔۔ مگر میں چاہتا ہوں تم اپنی مرضی سے سائن کرو۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی جانب گردن موڑی تھی۔۔۔ جو اُس کے نہایت قریب بیٹھی لال چہرے کے ساتھ اپنی کلائی سہلا رہی تھی۔۔۔۔
"یہ کیا بہودگی ہے۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اپنی کلائی سہلاتے اُسے غصے سے گھورا تھا۔۔۔
"تم سائن کرو پھر بہت اچھے سے ایکسپلین کروں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر کی چمکتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ پریسا کو زچ کر کے اُسے کتنا مزا آرہا ہے۔۔۔۔
"نہیں کروں گی سائن۔۔۔۔"
پریسا نے اُسے گھورتے صاف انکار کیا تھا۔۔۔
"میں یہ کام زبردستی بھی کروا سکتا ہوں۔۔۔۔ مگر میں چاہتا ہوں تم اپنی مرضی سے سائن کرو۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی جانب گردن موڑی تھی۔۔۔ جو اُس کے نہایت قریب بیٹھی لال چہرے کے ساتھ اپنی کلائی سہلا رہی تھی۔۔۔۔
"مگر آخر ہے کیا اِن پیپرز میں....؟؟؟"
پریسا آخر کا ہار مانتے بولی۔۔۔۔
"اِس پر سائن کرنے سے تمہیں نقصان بالکل بھی نہیں ہوگا۔۔۔ ایسا کرنے سے تمہارا ہی فائدہ ہے۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز بھی سنجیدہ ہوا تھا۔۔۔
"مجھے تم پر اعتبار نہیں ہے۔۔۔۔"
پریسا نے اُس کی جانب دیکھتے اُسے غصہ دلانا چاہا تھا۔۔۔
"مجھے اِس بات کی پرواہ نہیں ہے۔۔۔۔ اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ پر اعتبار کرو۔۔۔ کیونکہ مجھے نہ ہی اعتبار رکھنا آتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے دل۔۔۔۔۔"
شاہ ویز چہرے پر پتھریلے تاثرات سجائے اُس کے پاس سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کتنے ہی لمحے خاموش نگاہوں سے اُسے تکے گئی تھی۔۔۔ یہ شخص کیا اندر سے بھی اتنا ہی پتھر اور احساس سے عاری تھا۔۔۔ جیسا یوں ہر وقت اُس کے سامنے ظاہر کرتا تھا۔۔۔۔
یا اِس کا یہ سنگدلانہ رُوپ صرف اُسی کے لیے تھا۔۔۔
پریسا نے آنکھیں موندتے ایک لمحے کے لیے سائن کرنے کے بارے میں سوچا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ فیصلہ کرتی ٹیبل پر رکھے پیپرز کی جانب جھکی تھی۔۔۔۔
اور لرزتے ہاتھوں سے پین اُٹھا کر بنا اُنہیں پڑھے سائن کرنے لگی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کچھ فاصلے پر کھڑا سیگریٹ کا دھواں اُڑاتا اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ رف سے حلیے میں بھی وہ اُداس تنہا سی لڑکی اپنی جانب کھینچنے کی طاقت رکھتی تھی۔۔۔۔۔
اُس کے سیاہ بال اُس کے چہرے کے گرد ہالہ بنائے بار بار اُسے ڈسٹرب کررہے تھے۔۔۔۔ وہ اپنی نازک مخروطی اُنگلیوں سے اُنہیں کانوں کے پیچھے اڑستی تھی۔۔۔ اور ہر بار وہ پھسل کر پھر اُس کے حسین چہرے سے آن ٹکراتے تھے۔۔۔
یہ منظر اتنا دلفریب اور دلکشی بھرے تھا۔۔۔ کہ شاہ ویز جیسا انسان کچھ پل کے لیے سیگریٹ پینا بھول چکا تھا۔۔۔۔ سیگریٹ اُس کی اُنگلی کو جلاتا کب راکھ بن گیا تھا۔۔۔ اُسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔
نگاہوں کی تپیش پر گھبراتے پریسا نے جیسے ہی اُس کی جانب دیکھا ۔۔۔ شاہ ویز بے اختیار اپنی نِظریں پھیر گیا تھا۔۔۔ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی مگر دل کے کسی کونے میں بہت عرصے بعد ایک سرور سا سرایت کر گیا تھا۔۔۔
یہ میٹھا سا نرم گرم درد شاہ ویز سکندر کے لیے بہت بڑا تھا۔۔۔۔
"میں نے سائن کردیئے ہیں۔۔۔۔"
پریسا پیپرز اُٹھائے اُس کی جانب آتے بولی۔۔۔۔
شاہ ویز گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کرتا واپس پلٹا تھا۔۔۔۔
"گڈ۔۔۔۔ تم مجھ سے جتنا دور رہو اُتنا تمہارے لیے بہتر ہوگا۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی جانب دیکھنے سے اب بھی گریز کیا تھا۔۔۔ پریسا نے اُس کا بدلہ انداز واضح طور پر نوٹ کیا تھا۔۔۔۔ یہ شخص آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوفزدہ کرنا جانتا تھا۔۔۔۔ مگر یہ نظریں چرانا تو اِس کا خاصہ نہیں تھا۔۔۔۔
مگر وہ یہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی تھی۔۔۔ کیونکہ سوال کے بدلے میں اِس شخص سے کسی سیدھے جواب کی توقع تو تھی ہی نہیں۔۔۔
"اب میں سائن کرچکی ہوں۔۔۔ اب تو تم بتا سکتے ہوں کہ اِن پیپرز میں کیا ہے۔۔۔۔؟؟"
پریسا ایک بار پھر بضد ہوئی تھی۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز کی نظریں اُس کے سائن والے حصے پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔
"تمہارے خاندان کی بربادی ہے یہ۔۔۔۔۔ ایسا ذلیل اور رسوا کروں گا۔۔۔ کہ کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔۔۔۔"
شاہ ویز کی آنکھوں میں جلتے آگ کے شعلے پریسا کا سانسیں منجمند کرگئے تھے۔۔۔
"کک کیا مطلب ہے اِس بات کا۔۔۔۔؟؟؟ کیا کرنے والے ہو تم۔۔۔؟؟؟ تم نے دھوکا دیا مجھے۔۔۔ اگر میرے خاندان والوں کے ساتھ کچھ بھی کیا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔"
پریسا اُس کی بات سن کر غصے سے چلاتی اُس کا گریبان مُٹھیوں میں دبوچتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
وہ پہلے بھی ایک بار یہ حرکت کرچکی تھی۔۔۔ جس کا نتیجہ شاید وہ ابھی کچھ لمحوں کے لیے فراموش کر گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے اُس کی اِس حرکت پر اُسے آگ اُگلتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ اِس لڑکی کو تو کیا دنیا کے کسی انسان کو اپنے گریبان تک پہنچنے کی جرأت نہیں کرنے دے سکتا تھا۔۔۔۔
"دھوکے باز، قاتل، فریبی، بدکردار سب کچھ ہوں میں۔۔۔۔ اور یہ سب جانتے ہوئے بھی تم نے میرے کہنے پر اِن پیپرز پر سائن کیے ہیں۔۔۔ تو سوچو یہاں بے وقوفی کس نے کی ہے۔۔۔ تم بے وقوف لڑکی ہو یا میں دھوکے باز ہوں۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اُس کا چہرا اُوپر کرتے زہر خند لہجے میں بولتا اُس کا چہرا اپنی گرم سانسوں سے جھلسا گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے طنزیا انداز پر پریسا نے اندر کی تکلیف سے نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
تو بنا اُس کے اعتراف کیے وہ اُس کی فیلنگز سے واقف ہوچکا تھا۔۔۔۔ اپنے جذبات تو وہ اب تک خود سے بھی چھپاتی آرہی تھی۔۔۔۔ پھر یہ شخص۔۔۔۔۔
پریسا کی گرفت اُس کے گریبان پر مزید سخت ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی شاہ ویز کی بھی۔۔۔۔
"آہہہ۔۔۔۔"
پریسا کی کراہ نکلی تھی۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز کی سخت گرفت سے اُس کے بالوں میں کھنچاؤ بڑھا تھا۔۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ اِس شخص کو اُس کے بال پسند تھے یا بہت بُرے لگتے تھے۔۔۔ مگر وہ ہر بار اُسے بالوں سے ہی ہرٹ کرتا تھا۔۔۔۔
"تم جیسا انسان محبت کے نہیں صرف اور صرف نفرت کے قابل ہے۔۔۔ اور میں شدید نفرت کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔ میری فیملی کو نقصان پہنچانے سے پہلے ہزار بار سوچنا۔۔۔ کیونکہ اُن کے آگے میں کھڑی ہوں۔۔۔۔ اگر اُنہیں کچھ بھی کیا تو میں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔"
پریسا میں اچانک نجانے اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی۔۔۔ کہ وہ بلیک بیسٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسے دھمکی دے گئی تھی۔۔۔۔
"میں انتظار کروں گا اِس وقت کا۔۔۔ کیونکہ تمہارا خاندان تو ضرور برباد ہوگا۔۔۔ وہ بھی میرے ہاتھوں۔۔۔۔۔ کتے کی موت نہ مارا اُنہیں تو میرا نام بھی شاہ ویز سکندر نہیں۔۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی آنکھوں میں وحشت ناکی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"بلیک بیسٹ کو آج پہلی بار کسی نے دھمکی دی ہے۔۔۔۔ تمہاری اس جرأت اور حوصلے کو خراجِ تحسین بہت جلد بخشوں گا۔۔۔ میرا انتظار کرنا۔۔۔۔۔"
یہ بات کہتے پریسا کو لگا تھا شاہ ویز سکندر کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔۔۔ پریسا ساکت سی کھڑی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ اُس نے اب تک اِس شخص کے چہرے پر تو مسکراہٹ کی زرا سی جھلک تک نہیں دیکھی تھی۔۔۔ مگر اِن سیاہ گہری آنکھوں کا مسکرانا اُسے مسمرائز سا کرگیا تھا۔۔۔
مگر وہ اِس مسکراہٹ کی وجہ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتی شاہ ویز پاکٹ سے رومال نکال کر اُس کے منہ پر رکھتا اُسے بے ہوش کرچکا تھا۔۔۔۔
پریسا کے ہاتھ اُس کے گریبان سے نیچے گرے تھے۔۔۔۔
وہ ایک نظر اُس حسین پری پر ڈالتا اُسے بانہوں میں اُٹھاتا واپسی کے راستے پر چل دیا تھا۔۔۔ کیونکہ اِس پری پر اُس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔۔۔۔ اور نہ ہی کوئی اختیار حاصل کرنے کا خواہش مند تھا وہ۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"ایس پی حبہ امتشال۔۔۔ یہ کیس بہت ہی پیچیدہ اور حساس ہے۔۔۔۔ اِس لیے اِس کے لیے میں نے آپ کو چنا ہے۔۔۔۔ اور مجھے پوری اُمید ہے کہ آپ اِس کو ہمیشہ کی طرح بہت اچھے سے ہینڈل کریں گی۔۔۔۔۔ یہ شخص اِس علاقے کا وڈیرا ہے اور پچھلے چند سالوں میں پچاس کے قریب لڑکی کی ونی لے چکا ہے۔۔۔۔ ونی میں لینے کے بعد وہ اُنہیں دوسرے ملکوں میں سمگل کردیتا ہے۔۔۔ غریب ماں باپ ساری زندگی اپنی بیٹیوں سے ملنے کے لیے تڑپتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔"
آئی جی صاحب اُسے ساری صورتحال سے آگاہ کرتے بولے۔۔۔ جبکہ ظلم کی یہ انتہا سنتے حبہ کا دل درد سے بھر گیا تھا۔۔۔۔ کوئی انسان بھلا اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ کہ صرف پیسے کی لالچ میں انسانی جانوں کا سودا کردے۔۔۔۔۔
"سر اگر ہم اِس وڈیرے کے بارے میں اتنا سب جانتے ہیں تو اِسے گرفتار کیوں نہیں کررہے۔۔۔"
حبہ نے سوالیہ نگاہوں سے اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"کیونکہ ہمارے پاس اُن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔۔۔ وہ بہت پاور فل شخص ہے۔۔۔ بڑے بڑے سیاستدانوں کو پیسہ کھلا چکا ہے۔۔۔۔ کوئی اُس پر ایک آنچ تک نہیں آنے دیتے۔۔۔۔ ہم ثبوتوں کے ساتھ بھی اتنی آسانی سے اُس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔۔۔۔ ایک اور اہم بات وہ اپنے علاقے کے اردگرد کسی بھی فورسز کے انسان کو بھٹکنے تک نہیں دیتا۔۔۔۔ وہاں کسی آرمی یا پولیس والے کی جرأت نہیں ہے جانے کی۔۔۔۔ یہ کیس جتنا میں آپ کو بتا رہا ہوں اُس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔۔۔ اِس میں کامیاب ہونے کے چانسز بیس پرسنٹ اور مارے جانے کے اسی فیصد ہیں۔۔۔۔ پچھلے سال دو آفیسرز کو میں نے آپروچ کیا تھا۔۔۔ مگر وہ دونوں ہی اِس خطرے میں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں تھے۔۔۔۔
میں آپ کو بھی چوائس دے رہا ہوں۔۔۔ کیا آپ یہ کیس لینا چاہیں گی۔۔۔؟؟؟ "
آئی جی صاحب نے فیصلے کا اختیار اُسے دیا تھا۔۔۔
"سر اگر موت سے ڈر لگتا تو یہ فیلڈ کبھی چوز نہ کرتی۔۔۔۔ میں نے اپنی عوام کی خدمت کرنے کی قسم کھائی ہے۔۔۔ تو میں کیسے مرنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ سکتی ہوں۔۔۔ میں یہ کیس ضرور لوں گی اور انشاءاللہ کامیابی بھی حاصل کروں گی۔۔۔۔ "
حبہ نے پورے جذبے کے ساتھ یہ الفاظ ادا کرتے آئی جی صاحب کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔۔۔
"آئم پراؤڈ آف یو ایس پی حبہ۔۔۔ میں جانتا تھا آپ انکار نہیں کریں گی۔۔۔ اِس لیے پہلے ہی آپ کا نام آگے دے چکا ہوں۔۔۔۔ آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں کہ آپ کو اِس کیس میں صرف ایک وڈیرے سے نہیں لڑنا۔۔۔۔ بلکہ اِن سیاسی طاقتوں سے بھی لڑنا ہے۔۔۔ جو کرسی کے نشے میں۔۔۔ ملک میں ہوتے ظلم و ستم پر آنکھیں بند کیے۔۔۔ اُوپر سے اُوپر اُٹھتے جا رہے ہیں۔۔۔ اور اِن کا منہ کیسے بند کروانا ہے آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔۔"
آئی جی صاحب اشارتاً ہی اُسے بہت کچھ سمجھا گئے تھے۔۔۔۔
"یس سر۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔ میں پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اُتروں گی۔۔۔۔"
حبہ پورے یقین سے کہتی اُنہیں سلوٹ کرتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔۔
باہر آکر وہ پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ جب اُسے اپنی گاڑی کے برابر ہی ایک کالے شیشوں والی گاڑی کھڑی نِظر آئی تھی۔۔۔ جس کی دن کے وقت جلتی ہیڈ لائٹس اُسے عجیب سے احساس سے دوچار کر گئی تھیں۔۔۔
مگر وہ اِس بات کو سر جھٹک کر نظر انداز کرتی اپنی گاڑی میں بیٹھتی گاڑی وہاں سے نکال کر لے گئی تھی۔۔۔۔ جب تھوڑا آگے جاکر اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ گاڑی اُس کا پیچھا کر رہی ہے۔۔۔۔
"اب یہ لوگ پولیس والیوں کو چھیڑیں گے۔۔۔ایڈیٹ۔۔۔ تمہیں تو میں بتاتی ہوں۔۔۔۔"
حبہ دانت پیستی گاڑی کی سپیڈ فل کرگئی تھی۔۔۔ اُس نے گاڑی کو سنسان راستے پر ڈال دیا تھا۔۔۔ اُس کی نظریں بیک ویو مرر پر تھیں۔۔۔ پیچھے آتی گاڑی کی سپیڈ بھی اُس کے ساتھ ہی تیز ہوچکی تھی۔۔۔۔
"لوفر کہیں کے۔۔۔ ابھی توڑتی ہوں تمہارا منہ۔۔۔۔"
حبہ نے اُس گاڑی کو فل سپیڈ میں بالکل اپنے پیچھے آتے دیکھ اچانک بیچ روڈ پر گاڑی کو بریک لگا دی تھی۔۔۔۔ وہ روڈ بالکل سنسان تھا وہاں اُن دو کے سوا کوئی گاڑی نہیں تھی۔۔۔۔
حبہ کے یوں اچانک روکنے پر پچھلی گاڑی سیدھی اُس کی گاڑی میں آن گھسی تھے۔۔۔۔ حبہ نے سیٹ بیلٹ پہلے ہی کس لیا تھا۔۔۔ اور ہاتھ ٹیکتے اپنی پیشانی ٹکرانے سے بچائی تھی۔۔۔ مگر پیچھے ہوئے دھماکے سے لگ رہا تھا کہ پیچھا کرنے والے کا منہ واقعی ٹوٹ چکا ہے۔۔۔۔
حبہ گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکل آئی تھی۔۔۔۔ اور تیز تیز قدموں سے اُس گاڑی کے قریب گئی تھی۔۔۔
مگر اُس گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی اُسے شدید جھٹکا لگا تھا۔۔۔ کیونکہ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ پوری گاڑی میں جھانکنے کے بعد بھی اُسے کہیں کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔۔
"واٹ دا ہیل۔۔۔۔ یہ کیا معاملہ ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کا ماتھا ٹھنکا تھا۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے وہ گاڑی کی جانب بڑھتی۔۔۔ اُس کے کانوں میں چھوٹے بچوں کی ننھی منھی آوازیں اور کھلکھلاہٹیں گونجی تھیں۔۔۔
وہ جیسے ہی پلٹی اُس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔۔۔۔
بیس پچیس کے قریب چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں پھول، کارڈز اور بکے اُٹھائے اُس کی جانب بھاگے آرہے تھے۔۔۔۔۔
"بوتییفل لل کی زلا نیتے تو جھتنا۔۔۔۔۔"( بیوٹیفل لڑکی زرا نیچے کو جھکنا۔۔۔)
ایک بہت ہی کیوٹ سی بچی اپنی توتلی زبان میں اُسے نیچے جھکنے کا اشارہ کرتے بولی تھی۔۔۔
حبہ انکار نہ کر پاتے نیچے کو جھکی تھی۔۔۔ جب وہ سب باری باری اُس کا گال چومتے اُسے وہ کارڈز اور پھول تھماتے وہاں سے واپس مُڑتے رہے تھے۔۔۔۔
حبہ نے اُنہیں روکنے اور پوچھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ اُسے اپنی توتلی زبان میں نجانے کیا بتاتے وہاں سے غائب ہوچکے تھے۔۔۔
حبہ نے پھولوں کو گاڑی میں رکھتے اُن کارڈز کو کھولا تھا۔۔۔ جہاں لکھے الفاظ اُسے ایک نئے شاک میں مبتلا کر گئے تھے۔۔۔
"ہیپی نکاح اینورسری مائی لو۔۔۔۔"
حبہ کا دل بہت زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ آنکھوں سے کئی آنسو ٹوٹ کر چہرے پر بکھر گئے تھے۔۔۔
"تت تو اِس کا مطلب۔۔۔ میرا دل ٹھیک کہتا تھا۔۔۔ تم زندہ ہو۔۔ تم میرے آس پاس ہوکر بھی سامنے کیوں نہیں آرہے۔۔۔۔۔"
حبہ نے بے چینی سے چاروں جانب نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔ مگر وہاں اُسے کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ خود کو ایک دم نارمل کرکے باہر سب کے بیچ آچکی تھی۔۔۔ وہاں موجود تمام گھر والے جو صبح تک بہت خوش تھے۔۔ اِس وقت اُن سب کے چہرے مرجھا چکے تھے۔۔۔۔ سوائے ایک بندے کے۔۔۔ جو مریم اور اُس کی فیملی کے آنے سے کافی خوش لگ رہا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے اُسے گہری نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔ جس کی ساری توجہ صرف اُس کے ساتھ بیٹھی مریم پر تھی۔۔ اور محترم اب تو آفس جانا بھی بھول چکے تھے۔۔۔
"کیا ہوا آپی۔۔۔؟؟ آپ اچانک سے اتنی اُداس کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔ کوئی پرابلم ہے۔۔۔۔"
مہروسہ ایک جانب بیٹھی فرح کے قریب کھسکتی سرگوشیانہ لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"پوری آفت اور منحوسیت جو چل کر ہمارے گھر آگئی ہے۔۔۔۔ اب بھلا کیسی خوشی۔۔۔۔ "
فرح کے ہر انداز سے مریم کے لیے نفرت ہی نفرت تھی۔۔۔
"کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔۔۔؟؟"
مہروسہ اب تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ یہ لوگ مریم اور اُس کے گھر والوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے تھے۔۔۔ اور حمدان اپنے گھر والوں سے بھی زیادہ اُن لوگوں کو اتنی اہمیت کیوں دیتا تھا۔۔۔۔
"اِس لڑکی نے مجھ سے میرا ایک بھائی چھینا ہے۔۔۔ ہمارا ہنستا بستا گھر تباہ کیا ہے۔۔۔ اور اب یہ مجھ سے میرا دوسرا بھائی بھی چھیننا چاہتی ہے۔۔۔ بہت بڑا کھیل کھیل کر یہ نے نہ صرف حمدان بھائی کے سامنے مظلوم بن گئی ہے۔۔۔ بلکہ اُنہیں ہم سب سے بھی دور کردیا ہے۔۔۔۔ یہ بہت شاطر عورت کے۔۔۔۔ اب یہ دوبارہ یہاں کسی مقصد سے ہی آئی ہے۔۔۔۔"
فرح کے لہجے میں ایک عجیب سا خوف تھا۔۔۔
"یہ تو حمدان کی فیانسی ہے نا۔۔۔؟؟ اور یہاں آنے کا کیا غلط مقصد ہوگا اِس کا۔۔۔۔"
مہروسہ آج فرح سے سب سچ جاننے کی متمنی تھی۔۔۔ جو سچ اُن گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔
"نہیں یہ اُن کی فیانسی نہیں۔۔۔ میرے بڑے بھائی ارسلان کی بیوہ ہے۔۔۔۔ اور اب یہ حمدان بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔ پہلے دن سے کی اِس کی نظر حمدان بھائی پر ہی تھی۔۔۔ مگر جب اِسے پتا چلا کہ وہاں اِس کی دال نہیں گلنے والی تو اِس نے ارسلان بھائی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ہمارے گھر میں داخل ہوئی۔۔۔ اور میرے بھائی کو مہرا بنا کر حمدان بھائی تک پہنچنا چاہا۔۔۔۔ جب تک ہم اِس کی یہ چالاکی سمجھ پاتے تب تک یہ ہمارے بھائی کی زندگی نگل گئی۔۔۔۔ اور حمدان بھائی کے سامنے اپنی مظلومیت کا جو ناٹک کیا۔۔۔ اُس کے بعد بھائی تو کیا اںس کی اصلیت سے ناواقف ہر انسان یہی سمجھتا کہ اِس سے زیادہ مظلوم لڑکی اِس پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ شاید حمدان بھائی عنقریب اِس سے شادی بھی کرلیں۔۔۔ مگر ہمدردی کے زیرِ اثر۔۔۔ کیونکہ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں کہ حمدان بھائی اس لڑکی سے محبت تو بلکل بھی نہیں کرتے۔۔۔۔"
اپنے گھر کے اُجرنے کی درد بھری داستان سناتے فرح کا پورا چہرا آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ گم صم سی بیٹھی ایس پی حمدان صدیقی کو گھور رہی تھی۔۔۔
جو شخص اب تک اُس جیسی بلیک سٹار کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بن سکا تھا۔۔۔ وہ اِس عام سی لڑکی کے ہاتھوں بھلا کیسے بے وقوف بن سکتا تھا۔۔۔۔
اپنے گھر کے اُجرنے کی درد بھری داستان سناتے فرح کا پورا چہرا آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ گم صم سی بیٹھی ایس پی حمدان صدیقی کو گھور رہی تھی۔۔۔
جو شخص اب تک اُس جیسی بلیک سٹار کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بن سکا تھا۔۔۔ وہ اِس عام سی لڑکی کے ہاتھوں بھلا کیسے بے وقوف بن سکتا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے فرح کا ہاتھ دبا کر اُسے تسلی دیتے حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جو مریم کی کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔۔ مہروسہ کو نجانے کیوں محسوس ہوا تھا جیسے یہ مسکراہٹ بہت ہی مصنوعی سی ہے۔۔۔۔
"حمدان ایسے لگتے تو نہیں ہیں کہ وہ کسی سے ہمدردی کے تحت اپنی لائف کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیں۔۔۔ کیا پتا جو وہ آپ سب کو دیکھا رہے ہیں ویسا نہ ہو۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ کے انداز میں کچھ ایسا تھا کہ فرح نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟ میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟"
فرح نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"ابھی میں خود بھی ٹھیک سے کچھ سمجھ نہیں پارہی۔۔۔۔ مگر آپ سے اتنا وعدہ ضرور کرتی ہوں کہ آپ کے بھائی کو اِس لڑکی سے تو کسی صورت شادی نہیں کرنے دوں گی۔۔۔۔۔۔۔"
مہروسہ کا لہجہ بے لچک اور مضبوط تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی آنکھوں میں اپنے بھائی کے لیے فکر دیکھ فرح مسکرا دی تھی۔۔۔۔
"کیا آپ کو بھی میری طرح وہ دونوں ساتھ میں بیٹھے اچھے نہیں لگ رہے۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ نے آنکھوں میں شرارتی چمک لیے فرح کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اُس سے پوچھا تھا۔۔۔۔
"زہر سے بھی بُری لگ رہی ہے یہ چڑیل مجھے بھائی کے ساتھ۔۔۔۔۔"
فرح نے ناگواری بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
"بس پھر میرا کمال دیکھیں۔۔۔۔"
مہروسہ آنکھ کا ایک کونا دباتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
"یہ مجھے دے دو۔۔۔ میں سرو کردیتی ہوں سب کو۔۔۔۔"
مہروسہ نے کچن سے نکلتی ملازمہ کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لیے اُسے واپس بھیج دیا تھا۔۔۔۔
"ارے بیٹا آپ صبح سے لگی ہوئی ہو۔۔۔ اب تھک گئی ہوگی۔۔۔۔"
سمیعہ بیگم کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔۔۔۔
"ممانی جان گھر کے کاموں میں بھلا کیسی تھکن۔۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ سب کرکے۔۔۔۔"
مہروسہ نے اُن کی محبت کا اُنہیں کے انداز میں جواب دیتے ٹرے ٹیبل پر رکھتے سب کو اُن کی چائے کے کپ پکڑانا شروع کیے تھے۔۔۔
اس دوران اُسے حمدان کی نگاہوں کا فوکس خود پر باخوبی محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
سب کو چائے دیتے آخر میں وہ مریم اور حمدان کی جانب آئی تھی۔۔۔۔ مریم کو چائے کا کپ تھماتے اُس کے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش ہوئی تھی۔۔۔ اور گرم گرم چائے مریم کے ہاتھ اور بازو پر گرتی اُسے اچھا خاصہ جھلسا گئی تھی۔۔۔۔
"اوہ۔۔۔ آئم سو سوری۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے فوراً معذرت کی تھی۔۔۔۔
جبکہ مریم کا دل چاہا تھا سامنے کھڑی اِس لڑکی کا منہ نوچ لے۔۔۔۔۔
"دکھائی نہیں دیتا تمہیں۔۔۔۔"
مریم کے سارے کپڑے داغداد ہوچکے تھے۔۔۔ جبکہ ہاتھ اور بازو کی جلن الگ تھی۔۔۔۔
"مریم اُس نے سوری بولا نا۔۔۔۔ تم اُوپر جاؤ۔۔۔ ملازمہ تمہیں فرح کا کوئی ڈریس نکال دیتی ہے۔۔۔ چینج کر لو۔۔۔۔"
اِس سے پہلے کہ مریم مہروسہ کو مزید کچھ سناتی۔۔۔ حمدان نے بیچ میں ہی اُسے ٹوکتے وہاں سے جانے کا بول دیا تھا۔۔۔۔
جبکہ حمدان کی مہروسہ کی یوں سائیڈ لینے پر سب گھر والوں کا ری ایکشن مہروسہ جیسا ہی تھا۔۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔۔"
مہروسہ نے اپنی جانب گہری نگاہوں سے دیکھتے حمدان کو ندامت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔ حمدان کی نگاہوں میں کچھ ایسا تھا جو مہروسہ کو مشکوک کر گیا تھا
"اٹس اوکے۔۔۔۔"
حمدان اب بھی بس اُسے تکے جارہا تھا۔۔۔۔
یہ لڑکی اپنے ہر عمل سے اُس پر واضح کردیتی تھی کہ وہ اُجالا نہیں بلیک سٹار ہے۔۔۔ جو اُس کے قریب بیٹھنے والی لڑکی کو چائے سے جھلسا سکتی تھی۔۔۔ وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔
مہروسہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔ ابھی اُس نے سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھا ہی تھا۔۔۔ جب حمدان نے پیچھے سے آتے اُس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ جھٹکے سے پلٹی تھی۔۔۔
"مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے مہروسہ کے سیدھا دل پر بہت کاری وار کر گیا تھا۔۔۔۔
وہ یک ٹک سی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ یہ شخص پھر سے کونسا نیا ستم ڈھانے والا تھا اُس کے دل پر۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تت تو اِس کا مطلب۔۔۔ میرا دل ٹھیک کہتا تھا۔۔۔ تم زندہ ہو۔۔ تم میرے آس پاس ہوکر بھی سامنے کیوں نہیں آرہے۔۔۔۔۔"
حبہ نے بے چینی سے چاروں جانب نگاہیں دوڑائی تھیں۔۔ مگر وہاں اُسے کوئی دکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔
وہ سب بچے بھی جہاں سے آئے تھے واپس وہیں غائب ہوچکے تھے۔۔۔۔
حبہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ آخر اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔ جب اُس نے شکار پور جاکر اُس کیس کو ری اوپن کرنا چاہا تھا تو اُسے کہ نیا کیس سونپ دیا گیا تھا۔۔۔
اور اب بار بار اُس کے شوہر کے زندہ ہونے کی یہ نشانیاں ملنا اُسے اچھا خاصہ اُلجھا رہی تھیں۔۔۔
"تم ہر بار مجھ سے نہیں جیت سکتے۔۔۔۔ اب میرے سامنے آنا ہی ہوگا۔۔۔ تھک گئی ہوں میں اِس آنکھ مچولی کے کھیل سے۔۔۔۔ "
حبہ نے وہ سارے پھول گاڑی پر رکھتے اپنے گلے میں پہنے لاکٹ کو دیکھا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوسکتا ہے اِس کا پاسورڈ۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے اپنے ذہن پر زور ڈالتے سوچا تھا۔۔۔۔۔۔ جب اُسی لمحے کسی احساس سے اُس کی آنکھیں چمکی تھی۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے لاکٹ کو ہاتھ میں لیتے پاسوڑ والی کی کو گھما کر وہاں ڈبل ایچ پریس کیا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے کلک کی آواز کے ساتھ وہ کی کھل چکی تھی۔۔۔۔
حبہ کی آنکھیں غیر یقینی کی حد تک پھیل گئی تھیں۔۔۔۔ یہ پاسورڈ تو وہ کسی اور کے ساتھ لگایا کرتی تھی۔۔۔ تو پھر یہ۔۔۔ یہ لاکٹ تو اُسے بلیک سٹار نے پہنایا تھا۔۔۔۔
حبہ کا پورا وجود اِس سوچ کے ساتھ ہی لرز اُٹھا تھا۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے لاکٹ کو اُتار کر اُس میں موجود چھوٹی سی چپ نکالی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل بہت زور سے دھک دھک کررہا تھا۔۔۔ وہ اب زیادہ دیر ویٹ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ اِس لیے اُس نے جلدی سے اُسے اپنے لیپ ٹاپ میں لگاتے آن کیا تھا۔۔۔۔
مگر آن کرنے کے ساتھ ہی۔۔۔۔ آگے پھر پاسورڈ کے لیے بنا باکس دیکھ اُس کا چہرا غصے سے لال ہوا تھا۔۔۔۔ وہاں بھی یہی لکھا تھا۔۔۔ اگر اُس نے غلط پاسورڈ انٹر کیا تو اِس چپ کا سارا ڈیٹا ڈیمج ہوجائے گا۔۔۔۔
"واٹ دا ہیل۔۔۔۔ تم ہر بار ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں تم یہیں کہیں ہو۔۔۔ اور میری بے بسی کو دیکھ رہے ہو۔۔۔۔ لیکن اب تمہیں میرے سامنے آنا ہی ہوگا۔۔۔۔ تم جو میرے ساتھ کھیل کھیل رہے ہو۔۔۔ اُس کا اختتام اب میں کروں گی۔۔۔۔۔"
حبہ اپنے گالوں پر بکھرے آنسو صاف کرتی موبائل نکالتے کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی تھی۔۔۔
"ایس پی حبہ امتشال اسپیکنگ!.... میں اپنی لوکیشن بھیج رہی ہوں۔۔۔۔ اگلے دس منٹ میں بیس کے قریب غنڈوں کو ہائر کرکے یہاں بھیجو۔۔۔ اُن کا بہت اچھے سے سمجھا دینا کہ مجھ پر کیا گیا حملہ کہیں سے بھی ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔۔۔ اگر مجھے کہیں گولی لگتی بھی ہے تو لگنے دیں۔۔۔ مگر دیکھنے والے کو یہی محسوس ہونا چاہییے کہ یہ سب کوئی پلان نہیں ہے۔۔۔۔ "
حبہ بہت اچھے سے اپنے ایک قابلے اعتماد پولیس آفیسر کو ہدایت دیتی کال کاٹ گئی تھی۔۔۔ اب اُسے بس اِس گاڑی میں بیٹھ کر دس منٹ انتظار کرنا تھا۔۔۔۔
"تم کون ہو۔۔۔؟؟ کیا ہو؟؟۔ آج میں اِس بات کی حقیقت جان کر رہوں گی۔۔۔۔ چاہے مجھے اپنے ہی ڈپارٹمنٹ کے اصولوں کے خلاف کیوں نہ جانا پڑے۔۔۔۔۔"
حبہ نے اردگرد غصے بھری نگاہوں سے دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔
جب کچھ ہی لمحوں بعد اُس کے کہے کے مطابق دو گاڑیاں پوری رفتار سے اُس کی گاڑی کی جانب آتی دکھائی دی تھین۔۔۔۔
حبہ لیپ ٹاپ بند کرتی جلدی سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔
اُس کے ہاتھ میں گن موجود تھی۔۔۔ مگر اُن لوگوں نے آتے ہی اُس پر اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کر دی تھی۔۔۔۔
حبہ نے اپنی گن اُوپر کرنی چاہی تھی مگر وہ اُن کی مسلسل ہوتے فائرنگ سے بچنے کے لیے گاڑی کی پیچھلی جانب بھاگی تھی۔۔۔
اُسے یوں بھاگتا دیکھ وہ لوگ۔۔۔ فائرنگ مزید تیز کر چکے تھے۔۔۔۔ اِس سے پہلے کے ایک گولی حبہ کے وجود میں پیوست ہوتی۔۔۔۔
کسی نے بھاگ کر آتے اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔
حازم سالار کے سینے سے ٹکراتے حبہ کی دھڑکنیں اُس کے کانوں میں شور مچانے لگی تھی۔۔۔
وہ بھلا اتنی ساری ملاقاتوں میں اِس شخص کے لمس کو کیسے نظر انداز کرسکتی تھی۔۔۔۔
حبہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اُس کے گالوں پر پھسل گئے تھے۔۔۔
"تم پاگل ہوگئی ہو۔۔۔۔۔؟ یہ کیسا گھٹیا پلان ہے تمہارا۔۔۔ اگر تمہیں گولی لگ جاتی تو۔۔۔۔ انہیں روکو۔۔۔ ورنہ میں نے اگلے پانچ منٹوں میں اِن سب کو ختم کردینا ہے۔۔۔۔"
حازم اُسے گاڑی کے پیچھے لاتا اُس پر زور دار آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔
مگر حبہ تو اِس وقت اُس کا غصہ دیکھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔ اُس پر تو بس سامنے کھڑے شخص کی اصلیت جاننے کا بھوت سوار تھا۔۔۔۔
"اپنا چہرا دیکھاؤ۔۔۔ میں اِنہیں روک دوں گی۔۔۔ تمہارے پاس بھی صرف پانچ منٹ ہیں۔۔۔ اپنی شناخت بتاؤ مجھے ورنہ میں خود کو ختم کرلوں گی۔۔۔۔"
حبہ عجیب جنونی انداز میں بولتی اپنی کنپٹی پر گن رکھ گئی تھی۔۔۔ اُس نے حازم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جس طرح یہ الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ااگر حازم نے اُس کی بات نہ مانی تو اُس نے ایسا کر بھی گزرنا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ماضی۔۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کے والد سکندر شاہ اپنے دور کے نہایت ہی امیر کبیر اور کامیاب بزنس مینز میں سے ایک تھے۔۔۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ اپنے باپ کے کڑوروں کے ورثے کے تن تنہا وارث تھے۔۔۔۔۔۔۔ اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود اُن میں غرور اور تکبر نام کو نہیں تھا۔۔۔ ہمیشہ وہ اپنے دوست احباب اور اپنے سے نیچے لوگوں کی مدد کرنے کو تیار رہتے تھے۔۔۔۔
سکندر شاہ نے اپنی کلاس فیلو حمیرا سے محبت کی شادی کی تھی۔۔۔ حمیرا کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔۔۔ اُن کے ماں باپ کی اُن کے بچپن میں ہی ڈیتھ ہوچکی تھیں۔۔۔ اُن کی پرورش اُن کی پھپھو نے کی تھی۔۔۔۔ اُن کی پھپھو کے سسرال والے انتہائی لالچی لوگ تھے۔۔۔ اِس لیے جیسے ہی سکندر شاہ کا رشتہ اُن کے لیے گیا۔۔۔۔ اُن کے گھر والوں نے بنا ایک لمحے کی بھی دیر کیے اِس رشتے کے لیے حامی بھر دی تھی۔۔۔۔
حمیرا بیگم اور سکندر شاہ بہت زیادہ خوش تھے۔۔۔۔ اُنہیں ایک دوسرے کا ساتھ مل گیا تھا اِس سے زیادہ اُنہیں کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔۔ مگر حمیرا بیگم کے گھر والے اپنی لالچی حرکتوں سے باز نہیں آئے تھے۔۔۔ وہ بچپن سے اپنے پھپھا اور اُن کے خاندان والوں کے احسانوں تلے دبی ہوئی تھیں۔۔۔۔ اِس لیے سکندر شاہ سے چھپ کر اُن کی کہی ہر ڈیمانڈ پوری کرتی رہی تھیں۔۔۔
اُن کی پھپھو کے بڑے بیٹے ظفر آفندی کی نظر ہمیشہ سے حمیرا بیگم پر تھی۔۔۔ وہ ہی اُن سے شادی کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔ مگر سکندر شاہ کے آئے رشتے کو دیکھتے اُن کی بات کو وہیں دبا کر حمیرا کی شادی تو یہاں کرا دی گئی تھی۔۔۔ مگر ظفر آفندی کے دل سے یہ خیال نہیں نکال پائے تھے۔۔۔ اُن کی بُری نظریں حمیرا بیگم کی شادی کے بعد بھی ہٹ نہیں پائی تھیں۔۔۔۔ حمیرا بیگم یہ سب جانتے بوجھتے بھی سکندر شاہ سے چھپاتی رہی تھیں۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ سکندر شاہ کس قدر غصے والے اور اُن کے معاملے میں بہت زیادہ پوزیسیو تھے۔۔۔
اگر اُنہیں زرا سی بھی بھنک پڑ جاتی تو اُنہوں نے ظفر آفندی کا نام و نشان ہی اِس دنیا سے مٹا دینا تھا۔۔۔
اِس لیے صرف اپنی پھپھو کی خاطر وہ یہ سب سہتی رہی تھیں۔۔۔۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کا مصلحت کے لیے یوں خاموش رہنا اُن کی زندگی کو کس طرح برباد کرکے رکھ دے گا۔۔۔۔
شادی کے دو سال بعد اُن کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز اور بیا نے آتے ہی اُن کی زندگی میں خوشیاں اور بہاریں کئی گنا بڑھا دی تھیں۔۔۔ وہ دونوں اپنے بچوں کے ساتھ بے پناہ خوش تھے۔۔۔
وہیں دوسری جانب اُن کی پھپھو کی ڈیتھ کے بعد اُن کے کزنز کی ڈیمانڈز مزید بڑھتی جارہی تھیں۔۔۔۔
وہ چاہتے تھے کہ حمیرا بیگم سکندر شاہ سے بات کرکے اُنہیں الگ کاروبار کے لیے سرمایہ مہیا کریں۔۔۔۔ مگر حمیرا بیگم ایسا کچھ بھی کرنے سے انکاری تھیں۔۔۔۔
ظفر آفندی اور اُن سے چھوٹے شہباز آفندی کی دھمکیاں دن بدن زور پکڑتی جارہی تھیں۔۔۔۔
ظفر آفندی نگہت بیگم جیسی پیاری جیون ساتھی کے مل جانے کے بعد بھی اپنی بُری نیت حمیرا بیگم کی جانب سے ٹھیک نہیں کر پائے تھے۔۔۔۔
سکندر آفندی اِن سب باتوں سے انجان اُن دونوں بھائیوں کے کہنے پر حمیرا بیگم کے کزن ہونے کی خاطر اُنہیں اپنے آفس میں بہت اچھی جابز دے چکے تھے۔۔۔۔
جو حمیرا بیگم کو کسی صورت گوارہ نہیں ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ سکندر شاہ کو اِس بارے میں آگاہ کرکے کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھیں۔۔۔۔
اِس لیے بس خاموش ہوگئی تھیں۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کے پھپھو زاد دولت کے نشے میں اپنی انسانیت تک بیچ دیں گے۔۔۔۔
سکندر شاہ کے بزنس میں اچھی طرح قدم جمانے کے بعد اُنہوں نے اُن کا پورا اعتماد جیت لیا تھا۔۔ سکندر شاہ اُن دونوں کو اپنی فیملی ہی سمجھتے تھے اِس لیے اُنہوں نے کبھی اتنی نظر رکھی ہی نہیں تھی۔۔۔
اِس لیے وہ اِس بات سے انجان ہی رہے تھے کہ کیسے وہ لوگ اُن کا ہی نمک کھا کر اُنہیں کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔۔۔۔
اُن دونوں بھائیوں نے سکندر شاہ کے دفتر میں موجود کچھ اور بھی ضمیر فروشوں کو اپنے ساتھ ملا کر گھپلے کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔ اِس سب کا انداز جیسے ہی سکندر شاہ کے خاص آدمی کو ہوا اُس نے فوراً اپنے باس کو اُنفارم کرنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر اِس سے پہلے ہی اُن دونوں نے اُس آدمی کو مروا کر۔۔۔ اُس کی لاش کھائی میں پھینکوا کر اُس فراڈ کا سارا الزام سکندر شاہ کے سامنے اُسی آدمی پر لگا دیا تھا۔۔۔ کہ وہ پیسے لوٹ کر فرار ہوگیا ہے۔۔۔
مگر یہاں ہو سکندر شاہ کو بے وقوف نہیں بنا پائے تھے۔۔۔۔ سکندر شاہ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ کون اُن کا وفادار ہے۔۔۔ اور کون نہیںں۔۔۔
اُنہیں بزنس میں بہت بڑا گھاٹا ہوا تھا۔۔۔ جس نے اُن کی ساکھ تباہ و برباد کرکے رکھ دی تھی۔۔۔ اور وہ دونوں بھائی اپنے اکاؤنٹس بھرتے رہے تھے۔۔۔۔
سکندر شاہ کے بزنس کا بالکل دیوالیہ نکل چکا تھا۔۔۔۔ وہ بہت زیادہ پریشان رہنے لگے تھے۔۔۔۔
اپنے طورپر پتا کروانے پر اُن پر ظفر آفندی اور شہباز آفندی کی ساری اصلیت کھل چکی تھی۔۔۔۔ حمیرا بیگم اپنے شوہر کو اپنی وجہ سے یوں برباد ہوتا دیکھ ڈپریشن کا شکار ہوچکی تھیں۔۔۔۔ پانچ سالہ شاہ ویز اور بیا اپنے ماں باپ کی اُجڑی حالت دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں سمجھ پاتے تھے۔۔۔
سکندر شاہ اُن دونوں نمک حراموں کو بخشنے کا بالکل بھی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔۔۔ مگر اُنہیں سب سے زیادہ غصہ حمیرا بیگم پر تھا۔۔ جنہوں نے اُن سے باتیں چھپا کر اُنہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔۔۔۔
حمیرا بیگم اپنے محبوب شوہر کی ناراضگی نہیں دیکھ پارہی تھیں۔۔۔ سکندر شاہ اُن دونوں بھائیوں کو اُن کے دھوکے کی سزا دینے کا پورا ارادہ کرچکے تھے۔۔۔۔
مگر قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔
ظفر آفندی کے چھوٹے بھائی شوکت آفندی جو کے کہنے کو حمیرا بیگم سے سگے بھائیوں سے بڑھ کر محبت کرتے تھے۔۔۔۔ اُنہوں نے بھی دولت کے لالچ میں اندھے ہوکر شہباز آفندی کے کہنے پر حمیرا بیگم اور سکندر شاہ کو یہ کہہ کر اپنے آبائی گھر میں دعوت پر بلایا تھا۔۔۔۔ کہ وہ اُنہیں ظفر آفندی اور شہباز آفندی کے خلاف ثبوت دینا چاہتا ہے۔۔۔۔
حمیرا بیگم یہاں بھی اُن پر اعتبار کرتی سکندر شاہ کو بنا بتائے بیا اور شاہ ویز کو لیے وہاں جا پہنچی تھیں۔۔۔۔
مگر آگے سے اپنے منہ بولے بھائی کے ہاتھوں ایک اور دھوکا اُن کا منتظر تھا۔۔۔۔۔
حمیرا بیگم یہاں بھی شوکت آفندی پر اعتبار کرتیِں سکندر شاہ کو بنا بتائے بیا اور شاہ ویز کو لیے وہاں جا پہنچی تھیں۔۔۔۔
مگر آگے سے اپنے منہ بولے بھائی کے ہاتھوں ایک اور دھوکا اُن کا منتظر تھا۔۔۔۔۔ وہاں صرف شوکت آفندی نہیں بلکہ شہباز اور ظفر آفندی بھی موجود تھے۔۔۔۔ اور اُن کے ارادے نیک بالکل بھی نہیں تھے۔۔۔ اُنہوں نے حمیرا بیگم کو سکندر شاہ کو بھی کال کرکے بلوانے کو کہا تھا۔۔۔
مگر حمیرا بیگم نے سختی سے انکار کردیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے بچوں کی زندگیاں تو خطرے میں ڈال چکی تھیں۔۔۔۔ مگر اپنے شوہر کو کچھ نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں۔۔۔ لیکن یہاں بھی اُن کی آہ و پکار نہیں سنی گئی تھی۔۔۔ ظفر آفندی نے اُنہیں حمیرا بیگم اور بچوں کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر اکیلے وہاں آنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔
سکندر شاہ بنا ایک سیکنڈ بھی دیر کیے وہاں جا پہنچے تھے۔۔۔۔ مگر آگے کا منظر اُن کی ہستی کو فنا کر گیا تھا۔ جس گھر سے چھ سال پہلے وہ اپنی بیوی کو رخصت کروا کر گئے تھے۔۔۔ اُسی گھر کو آگ کے ظالم شعلوں کی لپیٹ میں دیکھ وہ پاگل ہو اُٹھے تھے۔۔۔۔
آگ کے شعلے لمحہ با لمحہ بھڑک رہے تھے۔۔۔۔ سکندر شاہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اندر کود گئے تھے۔۔۔۔ اُنہوں نے ایک طرف پڑے حواس کھوتے شاہ ویز کو تو بچا کر باہر نکال لیا تھا۔۔۔۔ مگر حمیرا بیگم اور بیا تک پہنچتے دیوار گرنے کی وجہ سے وہ اپنی جان بھی گنوا بیٹھے تھے۔۔۔۔
شاہ ویز کے زندہ ہونے کا علم ظفر آفندی سمیت کسی کو بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ لوگ یہی سمجھے تھے کہ وہ چاروں مر چکے ہیں۔۔۔۔
شاہ ویز دو دن تک اُس گند کے ڈھیر پر پڑا سوئی جاگی کیفیت میں رہا تھا۔۔۔۔
کتے اُس کے سر پر آکر بھونکتے تھے۔۔۔۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے وہ ہلنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ زندگی ہار جاتا۔۔۔۔۔ اللہ نے ایک ادھیڑ عمر بزرگ کو فرشتہ بنا کر اُس کی مدد کو بھیج دیا تھا۔۔۔۔
جو واقعی اُس کے لیے فرشتے سے کم ثابت نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔ اُنہوں نے اُس کے ٹھیک ہونے تک پوری طرح اُس کی دیکھ بھال کی تھی۔۔۔ نواز محمد خود بہت غریب انسان تھے۔۔۔ مگر دل کے حد درجہ امیر۔۔۔۔۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔۔۔۔ بیوی کی ڈیتھ ہوچکی تھی۔۔۔ ایک کمرے کے چھوٹے سے گھر میں وہ اکیلے رہتے تھے۔۔۔
مگر شاہ ویز کو اُنہوں نے بالکل اپنی سگی اولاد کی طرح رکھا تھا۔۔ اُس کی خواہش دیکھتے ہوئے اُنہوں نے اُسے ایک ًقریبی گورنمنٹ سکول میں داخلہ دلوا دیا تھا۔۔۔۔۔ اعلٰی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والا پرائمری سکول میں زمین پر بیٹھ کر پڑھنے لگا تھا۔۔
شاہ ویز اتنی کم عمری کے باوجود اپنے ماں باپ کے ساتھ ہوئے دھوکے سے بہت حد تک آگاہ تھا۔۔۔ وہ اکثر سکول سے چھٹی کے بعد میلوں کا فاصلہ پیدل طے کرتا۔۔۔۔ اپنے گھر کی عالی شان عمارت کے سامنے جابیٹھتا تھا۔۔۔۔
جہاں سے اب شاہ مینشن کی تختی ہٹا کر آفندی مینشن لکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔ وہ چھوٹا سا بچہ نہ تو اپنے گھر کا راستہ بھول پایا تھا۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے ماں باپ کے زندہ جلنے والا منظر۔۔۔۔
اِن لوگوں کی درندگی کا منظر ہر رات سونے سے پہلے یاد کرتا تھا وہ۔۔۔۔ جس چیز نے آہستہ آہستہ اُس کے اندر سے انسانیت ختم کرکے درندگی بھر دی تھی۔۔۔۔
سکول میں ٹیچر کے فیوچر کے حوالے سے سوال کرنے پر وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ اُسے بڑے ہوکر ایک اچھا انسان بننا ہے۔۔۔ وہ ہمیشہ بنا کسی سے ڈرے یہی کہتا تھا کہ وہ درندہ بن کر بُرے اور دھوکے باز لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس بات کو ہمیشہ مذاق میں ہی اُڑا دیا جاتا تھا۔۔۔ مگر کبھی کوئی اُس کے پختہ ارادوں سے واقفیت حاصل نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
نواز محمد نے اُس کی خواہش کے مطابق اُسے تعلیم دلوائی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز نے آٹھویں کلاس کے بعد سے ہی مزدوری کرنا شروع کر دی تھی۔۔۔۔ ہوٹلوں پر برتن دھونا، نالیاں صاف کرنا، یہاں تک کے اکثر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے جھوٹے برتنوں میں کھانا بھی کھایا تھا۔۔۔۔
وہ رئیس زادہ اتنی بڑی وراثت کا مالک ہونے کے باوجود فقیری کی زندگی گزار رہا تھا۔۔۔۔
دوسری جانب دولت کی لالچ نے بھائیوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا تھا۔۔۔۔ ظفر آفندی نے سکندر شاہ کی ساری جائیداد فراڈ سے اپنے نام کروا لی تھی۔۔۔۔
اور اب وہ شہباز آفندی سمیت اپنے کسی بھائی کو اِس میں حصہ دینے کے حق میں نہیں تھے۔۔۔
وہ ان سب کو اپنے ساتھ رکھنے کو تو تیار تھے۔۔۔ مگر سب پر حکمرانی خود کرنا چاہتے تھے۔۔۔ جو شہباز آفندی اور شوکت آفندی برداشت نہیں کر پائے تھے۔۔۔
جس دولت کو حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے ایک پورا خاندان اُجاڑا تھا اُس کے لیے وہ دوسرا خاندان بھی اُجاڑ سکتے تھے۔۔۔۔۔
ظفر آفندی نے نگہت بیگم کے ساتھ شہر سے باہر جانا تھا۔۔۔۔۔ اُس سے ایک دن پہلے اُن کا اپنے بھائیوں سے بہت بُرا جھگڑا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ اُن کے بھائی پیسوں کی لالچ میں اُنہیں بھی نہیں بخشیں گے۔۔۔۔ اِس لیے وہ اپنی بیٹی کی زندگی محفوظ کرنے کے لیے اپنی وصیت میں ساری جائیداد پریسا آفندی کے نام کر چکے تھے۔۔۔ جو اُسے کچھ ہوجانے کی صورت میں چیرٹی میں چلی جانی تھی۔۔ ورنہ اُس کے پچیس سال کے ہوجانے تک یہ جائیداد کسی اور کے نام شفٹ نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔
ظفر آفندی نہیں جانتے تھے کہ اُن کا اٹھایا یہ قدم آگے چل کر واقعی اُن کی بیٹی کی ڈھال بنے گا۔۔۔۔ جو شخص کل تک کسی اور کا گھر اُجاڑنے کا پلان بنا رہا تھا۔۔۔ آج وہ خود اپنے بھائیوں کا شکار بن چکا تھا۔۔۔۔
ظفر آفندی نگہت بیگم کے ساتھ کراچی جانے کے لیے نکلے تھے۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کے بُرے کاموں کا انجام اُنہیں اتنی جلدی ملنے والا ہے۔۔۔۔
شہباز آفندی اور شوکت آفندی پہلے ہی پوری پلاننگ کرچکے تھے۔۔۔۔
ظفر آفندی کی گاڑی اُن کے ہائر کیے گئے ٹرالے سے ٹکراتی اُن دونوں میاں بیوی کو ہمیشہ کے لیے سلا گئی تھی۔۔۔ پریسا معجزانہ طور پر بچ گئی تھی۔۔۔ شہباز آفندی اُسے بھی ختم کردیتے۔۔۔ جب عین موقع پر وکیل نے ظفر آفندی کی وصیت بتاتے اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔۔۔
کیونکہ پریسا کو مارنے کے بعد اُن کے ہاتھ کچھ نہیں بچنا تھا۔۔۔۔
اُس دن کے بعد سے شہباز آفندی سمیت باقی سب بھی پریسا سے محبت سے پیش آنے پر مجبور تھے۔۔۔۔ بڑوں کے علاوہ صرف سفیان ہی اِس سب حقیقت سے واقف تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اتنے سالوں تک پریسا یہ نہیں جان پائی تھی کہ جن اپنوں پر وہ جان دیتی ہے۔۔۔ اُنہیں اُس سے نہیں اُس کی دولت سے محبت ہے۔۔۔۔
ایک یاسمین بیگم ہی تھیں جو بغیر کسی غرض اور مفاد کے پریسا سے محبت کرتی تھیں۔۔۔ اُنہوں نے بہت بار کوشش کی تھی کہ وہ پریسا کو سب بتا دیں۔۔۔ مگر وہ جانتی تھیں یہ سب جان کر پریسا کی جانب خطرے میں پڑ جائے گی۔۔۔ اِس لیے اب تک وہ ایسا کچھ نہیں کر پائی تھیں۔۔۔ مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ پریسا کی شادی سفیان سے ہو۔۔۔
وہ پریسا کے لیے کوئی ایسا انسان چاہتی تھیں جو اُن کے بیٹے کی طرح اُس کے نام پر موجود جائیداد سے نہیں بلکہ اُس سے محبت کرے۔۔۔۔
اُسے بے لوث چاہے۔۔۔ جو اُس کی جان کا دشمن نہ ہو بلکہ اُس کو محافظ ہو۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اپنا چہرا دیکھاؤ۔۔۔ میں اِنہیں روک دوں گی۔۔۔ تمہارے پاس بھی صرف پانچ منٹ ہیں۔۔۔ اپنی شناخت بتاؤ مجھے ورنہ میں خود کو ختم کرلوں گی۔۔۔۔"
حبہ عجیب جنونی انداز میں بولتی اپنی کنپٹی پر گن رکھ گئی تھی۔۔۔ اُس نے حازم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جس طرح یہ الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ااگر حازم نے اُس کی بات نہ مانی تو اُس نے ایسا کر بھی گزرنا تھا۔۔۔۔
"تمہارا دماغ خراب ہوچکا ہے۔۔۔۔ نیچے کرو اِسے۔۔۔۔"
حازم نے مُٹھیاں بھینچتے اُسے سختی سے کہا تھا۔۔۔
"میرے قریب مت آنا۔۔۔ میں پانچ منٹ ختم ہونے کا انتظار نہیں کروں گی۔۔۔۔۔"
حبہ اُس کے قدموں کو اپنے قریب آتے دیکھ ہٹ دھرمی سے بولی تھی۔۔۔
"یہ سب کرکے تم اپنی تکلیف بڑھا دو گی۔۔۔ لاعلمی میں جینا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوگا تمہارے لیے۔۔۔ جتنا میری سچائی جان کر ہوگا۔۔۔۔"
حازم اُسے وارن کررہا تھا۔۔۔
"میں ابھی کس تکلیف میں جی رہی ہوں۔۔۔ تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔۔۔۔ اگر میری تکلیف کا اتنا اندازہ ہوتا تو اب تک مجھے اپنی سچائی بتا چکے ہوتے تم۔۔۔۔ مگر تمہیں مجھ سے محبت ہے ہی نہیں میر حازم سالار۔۔۔۔۔"
حبہ کی باقی کی بات ہونٹوں میں ہی دبی رہ گئی تھی۔۔۔ جب حازم نے اُس کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی اپنے چہرے سے وہ سیاہ رومال ہٹاتے اُس کی نازک جان پر قیامت برپا کردی تھی۔۔۔۔
اُس کی آنکھیں جو ہمیشہ سیاہ رومال سے جھانک رہی ہوتی تھیں۔۔۔ وہ اِس وقت بنا کسی پردے کے اُس کے سامنے تھیں۔۔۔۔ وہی دلکش نقوش، اعنابی لبوں پر سجی گھنی مونچیں اُس کے چہرے کو مزید رعب دار بنا گئی تھیں۔۔۔۔
حبہ کا چہرا پوری طرح آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ آج دس سال بعد بھی ایک نظر دیکھ کر ہی اُسے پہچان گئی تھی کہ وہ وہی تھا جس کے نام دس سال پہلے اُس نے اپنا آپ لکھوا دیا تھا۔۔۔
مگر وہ اپنے وعدے پورے کیے بغیر اُسے اکیلا چھوڑ کر چلا گی تھا۔۔۔ سامنے کھڑا شخص اُس کا چچا زاد اور اُس کا شوہر تھا۔۔۔ میر حازم سالار۔۔۔۔۔
جو اُس کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ دنیا والوں کے لیے بھی دس سال پہلے مر چکا تھا۔۔۔ مگر حبہ آج تک اِس بات پر یقین نہیں کرپائی تھی۔۔۔ اور آج اُس کا یقین جیت چکا تھا۔۔۔ وہ زندہ سلامت اُس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔
حبہ اِس وقت باقی سب کچھ فراموش کر چکی تھی۔۔۔ سوائے اِس بات کے۔۔۔۔ کہ سامنے کھڑا شخص اُس کی زندگی تھا۔۔۔ اُس کی خوشیاں۔۔۔ اُس کا سب کچھ تھا۔۔۔ جس کا بنا کسی اُمید کے اُس نے دس سال انتظار کیا تھا۔۔۔۔۔۔
اور آج اُس کا وہ انتظار اُس کا انعام بن کر اُس کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اُن پر ہوتی فائرنگ اچانک روک دی گئی تھی۔۔۔
حبہ بے خود سی اُس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ حازم اپنی جگہ کھڑا خاموش نگاہوں سے اُس کا یہ دیوانہ پن دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جو صرف اُس کے لیے تھا۔۔۔۔ وہ پہلے دن سے بہت اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اِس لڑکی اور اِس کے دل و دماغ پر صرف اُس کی حکمرانی تھی۔۔۔۔
حبہ نے ہاتھ بڑھاتے اُس کے چہرے کو چھوا تھا۔۔۔ جیسے اپنے بے یقین دل کو آخری بار یقین دلانا چاہتی ہو۔۔۔۔
"تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔۔۔ بہت ظالم ہو تم۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں۔۔۔۔"
حبہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اُس کے سینے پر مکوں کی برسات کرتی اپنے اندر کی اذیت کو اُسی کے چوڑے سینے پر نکالنے لگی تھی۔۔۔
جب حازم نے اُس کے گرد اپنی بانہوں کا مضبوط حصار قائم کرتے اُسے اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔۔
"میری اصلیت جان کر تم مجھے معاف کر بھی نہیں پاؤ گی۔۔۔۔ "
حازم دل ہی دل میں اُس سے مخاطب ہوتا اُسے قیمتی متاع کی طرح اپنے آپ میں جذب کر گیا تھا۔۔۔۔ اتنا کے حبہ کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ مگر وہ بنا اُس سے دور ہوئے ایسے ہی اُس کے ساتھ لگی کھڑی رہی تھی۔۔۔۔۔
"ایس پی صاحبہ۔۔۔۔ آپ پوری دنیا کے سامنے ایک گینگسٹر کو گلے لگا رہی ہیں۔۔۔ دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو۔۔۔ یہ ظالم سماج آپ کی وردی کا دشمن بن جائے۔۔۔ میں تو ویسے ہی بدنام ہوں میرا کچھ نہیں جائے گا۔۔ ہاں یہ دلفریب قربت حاصل کرکے فائدہ ضرور ہوگا۔۔۔۔۔"
حازم چہرا جھکا کر اُس کے کان کے قریب سرگوشیانہ لہجے میں بولتا۔۔۔۔ حبہ کا سارا سحر توڑ گیا تھا۔۔۔۔
وہ حازم کے یوں زندہ سلامت سامنے آنے کی خوشی میں اُس کا پچھلا سارا ریکارڈ تو پل بھر میں فراموش کر گئی تھی۔۔۔
وہ بھلا یہ کیسے بھول سکتی تھی کہ وہ دونوں اب بہت الگ دنیاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔
وہ بلیک سٹار تھا۔۔۔۔ سب سے بڑے گینگ کا لیڈر۔۔۔۔
حبہ ایک جھٹکے سے اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کی اِس حرکت پر حازم کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رینگ گئی تھی۔۔۔۔
جو حبہ سے پوشیدہ نہیں رہ پائی تھی۔۔
"تمہیں میرے ساتھ گھر چلنا ہوگا۔۔۔۔"
حبہ نے اُس کا ہاتھ تھامے گاڑی کی جانب بڑھنا چاہا تھا۔۔۔
مگر حازم اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
"تم نے میرے حازم سالار ہونے پر کیسے یقین کرلیا۔۔۔ میں نے تو منہ سے اِس بات کا اقرار بھی نہیں کیا۔۔۔ اور نہ ہی ایسا کوئی ثبوت دیا ہے۔۔۔ چہرے تو کسی بھی انسان کا کسی سے بھی میل کھا سکتا ہے۔۔۔۔ تم شاید بھول رہی ہو میں کون ہوں۔۔۔ ایک انتہائی خطرناک انسان کو اپنا شوہر مان کر گھر لے جارہی ہو ایس پی۔۔۔ ایسے نہ ہو نقصان اُٹھانا پڑے۔۔۔"
حازم نے اُس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑواتے اُسے وارن کیا تھا۔۔۔ اُس کا انداز طنز لیے ہوئے تھا۔۔۔
"بہت بار دھوکا کھا چکی ہوں۔۔۔ اتنے قریب ہونے کے بعد بھی آپ کو نہ پہچان کر۔۔۔ مگر اب کی بار میرا دل و دماغ دونوں ہی اِس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔۔۔۔ اب یہ دل دن نادانی نہیں کرسکتا۔۔۔۔ اور نہ یہ ہاتھ چھوڑے گا۔۔۔۔ "
حبہ نے واپس سے اُس کا ہاتھ تھامتے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔۔۔ اُس کی نظریں حازم کے چہرے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔۔۔ دس سالوں کی پیاس تھی۔۔۔ بھلا اتنی آسانی سے کیسے بجھ سکتی تھی۔۔۔۔
وہ کچھ لمحوں کے لیے حازم کی تلخ حقیقت بالکل فراموش کردینا چاہتی تھی۔۔
"اتنے بڑے بول مت بولیں ایس پی صاحبہ۔۔۔ جن پر بعد میں پورا نہ اُتر سکیں۔۔۔۔"
حازم کا ایک بار پھر کیا جانے والا طنز حبہ کو شدید غصہ دلا گیا تھا۔۔۔۔
وہ حازم کی شرٹ سینے سے دبوچتی اُس کے قریب آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
"تم میرے ساتھ نہیں آنا چاہتے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کی آنکھیں غصے کی وجہ سے لال ہونے کے ساتھ ساتھ نمی سے بھر گئی تھیں۔۔۔۔
وہ بتا نہیں سکتی تھی حازم کو سامنے پاکر وہ کس قدر خوش تھی۔۔۔۔ وہ ابھی اُن جان لیوا حقیقتوں میں نہیں اُلجھنا چاہتی تھی۔۔۔۔ مگر حازم کا رویہ اور انداز اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم پہلے جاکر ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچو۔۔۔۔ کیا تم مجھ جیسے انسان کی بیوی بن کر اب بھی رہنا چاہتی ہو جو بلیک سٹار یعنی لوگوں کی زندگیاں نگلنے والا ایک درندہ ہے۔۔۔۔ "
حازم فخریہ انداز میں اُسے اپنی خوبیاں گنواتا جھک کر اُس کا گال چومتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ حبہ شاکی نگاہوں سے اُسے دور جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے مہروسہ کے سیدھا دل پر بہت کاری وار کر گیا تھا۔۔۔۔
وہ یک ٹک سی اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔ یہ شخص پھر سے کونسا نیا ستم ڈھانے والا تھا اُس کے دل پر۔۔۔۔
مہروسہ بت بنی کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اگر وہ اُس کی اصلیت جانتا تھا تو اُس سے شادی کیونکر کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
تو پھر کیا حازم کا کہا سچ ہونے والا تھا۔۔۔۔ وہ اُسے جان سے مارنے والا تھا۔۔۔۔۔
"کیا ہوا؟؟؟؟ کیا تمہیں میری بات بُری لگی۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کا چہرا تھامتے اپنی جانب کیا تھا۔۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ وہ میں۔۔۔۔ "
مہروسہ پوری طرح ہکلا گئی تھی۔۔۔ اُس نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ حمدان اُسے ایسا بھی کچھ بول سکتا ہے۔۔۔۔
اُس کی بوکھلاہٹ دیکھ حمدان مسکرایا تھا۔۔۔ اور مہروسہ کو لگا تھا وہ اِس مسکراہٹ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گی۔۔۔
"تم سوچ کر۔۔۔۔ فرح یا پھوپھو کو جواب دے سکتی ہو۔۔۔۔"
حمدان اُس کی گھبراہٹ دیکھ اُس کی مشکل آسان کرگیا تھا۔۔۔
اُس کے دور ہونے پر مہروسہ نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی تھی۔۔۔ جب وہ واپس جاتے جاتے پلٹا تھا۔۔۔
"جواب ہاں میں ہونا چاہیے ڈئیر کزن۔۔۔ ورنہ یہ ایس پی لاشیں گرا دے گا۔۔۔۔"
مہروسہ کی آنکھوں میں دیکھ کر اُسے بہت گہری بات کہتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ اُس کا لہجہ جتنا محبت بھرا اور نرم تھا۔۔۔۔ آنکھوں کا تاثر اُتنا ہی پُر اصرار سا تھا۔۔۔۔۔
مہروسہ نے اپنے روم میں جاتے جلدی سے شاہ ویز کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔۔۔۔
"جواب ہاں میں ہونا چاہیے ڈئیر کزن۔۔۔ ورنہ یہ ایس پی لاشیں گرا دے گا۔۔۔۔"
مہروسہ کی آنکھوں میں دیکھ کر اُسے بہت گہری بات کہتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ اُس کا لہجہ جتنا محبت بھرا اور نرم تھا۔۔۔۔ آنکھوں کا تاثر اُتنا ہی پُر اصرار سا تھا۔۔۔۔۔
مہروسہ نے اپنے روم میں جاتے جلدی سے شاہ ویز کا نمبر ڈائل کرتے حازم کو بھی کانفرنس کال میں لیا تھا۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا مہرو۔۔۔۔؟؟ تم ٹھیک ہو؟؟"
وہ دونوں اُس کے یوں اچانک ایک ساتھ کرنے پر فوراً الرٹ ہوتے اپنا کام چھوڑ چھاڑ اُس کی جانب آنے کے لیے اُٹھے تھے۔۔۔۔
"اوہ ہو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔ وہ ایک پرابلم ہوگئی ہے۔۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں آرہا اِس پرابلم سے کیسے نکلوں۔۔۔"
مہرو اُن کی پریشانی سمجھتی جلدی سے بولی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی اُن کے لیے وہ کیا حیثیت رکھتی ہے۔۔۔ وہ اُسے مشکل میں دیکھ ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رُک پائیں گے۔۔۔۔۔ اُن میں سے کسی ایک کو بھی کچھ ہونے پر اُن تینوں کی جان ایک ساتھ اٹک جاتی تھی۔۔۔
اُن کے درمیان کیا رشتہ تھا کبھی کوئی جان نہیں پایا تھا۔۔۔ مگر اتنا مضبوط رشتہ آج تک کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا،،،
"یہ پہلیاں بجھوانا بند کرکے تم سیدھی طرح سے بولو گی مہرو۔۔۔ ہمیں فکر ہورہی ہے تمہاری۔۔۔۔"
حازم تشویش بھرے لہجے میں بولتا اُسے ڈپٹ گیا تھا۔۔
"وہ۔۔۔ ایس پی حمدان صدیقی نے مجھے پرپوز کردیا ہے۔۔۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔"
یہ الفاظ ادا کرتے مہروسہ رو دی تھی۔۔۔۔
"چلو جی۔۔۔۔ اِس کی کمی تھی۔۔۔"
شاہ ویز غصے سے پہلو بدلتا سیگریٹ سلگھا گیا تھا۔۔۔
جبکہ حازم کا چھت پھاڑ قہقہ فون کے سپیکر میں گونجتا اُن دونوں کو فون کان سے دور کرنے پر مجبور کرگیا تھا۔۔۔
"مہرو تو اِس میں رونے والی کیا بات ہے۔۔۔۔؟؟"
حازم اُسے پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ سنجیدہ ہوتا دیکھ بولا۔۔۔
"میں کیا کروں۔۔۔؟؟؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔"
مہروسہ اِس وقت چھوٹے بچے کی طرح رو رہی تھی۔۔۔
"مہرو تم بھول رہی ہو شاید کہ تم کوئی عام لڑکی نہیں بلیک سٹار ہو۔۔۔ یہ کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔ اِس سے بڑے بڑے مسائل حل کیے ہیں تم نے۔۔۔ فوراً انکار کردو اُس ایس پی کو۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے سرد و سپاٹ انداز میں اُس کی سرزنش کرتے اُس کے آنسو کو فوراً منجمند کردیا تھا۔۔۔
"شاہ تم کیا کہہ رہے ہو؟؟؟ اگر مہرو نے انکار کیا تو اُسے شک ہوجائے گا۔۔۔ اور ہمارا پلان اور مہرو کی اتنی محنت ضائع چلی جائے گی۔۔۔"
حازم نے شاہ ویز کو ٹوکا تھا۔۔۔۔
"میرے لیے کسی بھی پلان سے اوپر مہرو کی خوشی ہے۔۔۔ اور وہ شخص کی طرف محبت بھرا ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔ اُسے مہرو پر شک ہے۔۔۔ جس کی خاطر وہ یہ کھیل کھیل رہا ہے۔۔ میں نہیں چاہتا مہرو کا دل ٹوٹے۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر نے پہلی بار یوں سامنے آکر اپنی فکر کا اظہار کیا تھا۔۔۔
اُن دونوں کو خاموشی سے سنتی مہروسہ کی آنکھوں سے ایک بار پھر رواں ہوچکے تھے۔۔۔ وہ دونوں آپس میں اُس کی خاطر لڑ رہے تھے۔۔۔ دونوں کو ہی اُس کی فکر تھی۔۔۔ مگر دونوں کی سوچ اور انداز ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔۔۔
حازم اُس کی حمدان سے پسندیدگی سے واقف تھا۔۔ وہ چاہتا تھا مہروسہ کو اُس کی محبت مل جائے۔۔ مگر وہیں شاہ ویز کو ڈر تھا کہ اگر ایسا ہوا تو بعد میں مہروسہ کا دل ٹوٹے گا۔۔۔ اور وہ اپنے بلیک سٹار کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
"مہرو محبت کرتی ہے ایس پی سے۔۔۔۔"
حازم نے اُسے آگاہ کرنا چاہا تھا۔۔۔
"جانتا ہوں اِسی لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔"
شاہ ویز نے سیگریٹ کا گہرا کش لیتے دھواں خارج کرتے بے تاثر لہجے میں جواب دیا تھا۔۔۔
"ایس پی نکاح نہیں کرے گا۔۔۔ وہ صرف ناٹک کررہا ہے۔۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا مہروسہ واقعی کوئی کھیل کھیل رہی ہے یا نہیں۔۔۔"
حازم نے اپنی معلومات کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔۔۔
"بہت ایماندار ہے وہ۔۔۔۔ اپنی ڈیوٹی کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگا سکتا ہے تو زندگی بھی لگا دے گا۔۔۔۔ میں یہ فیصلہ مہرو پر ہی چھوڑتا ہوں۔۔۔ وہ جو کرنا چاہے کرسکتی ہے۔۔۔ لیکن اگر اِس سب میں مہرو کا نقصان پہنچا تو میں اُس ایس پی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ یہ بات یاد رکھنا تم لوگ۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی بات ختم کرتا کال ڈسکنکٹ کر چکا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی آخر میں بولی بات مہروسہ کا دل چیر گئی تھی۔۔۔۔
"میر سر میں کیا کروں اب۔۔۔۔"
مہروسہ کے آنسو ایک بار پھر سے بہہ نکلے تھے۔۔۔
"شاہ بالکل ٹھیک کہتا تھا۔۔۔ دل کے معاملات کو بیچ میں نہیں لانا چاہیئے تھا ہمیں۔۔۔ بہت تکلیف دیں گے۔۔۔"
حازم لال آنکھوں کو سختی سے میچتے بولا تھا۔۔ جس میں مہروسہ نے بھی اُس کی بھرپور تائید کی تھی۔۔۔
"تم ہاں بول دو اُس ایس پی کو۔۔۔۔"
حازم نے اپنے اندر کی بے چینی دور کرنے کے لیے سیگریٹ سلگھایا تھا۔۔۔۔
"اگر اُنہوں نے مجھے نقصان۔۔۔۔ شاہ سر اُنہیں۔۔۔۔"
مہروسہ اِس مقام پر آکر خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کبھی شاہ ویز اور حازم کا ٹکراؤ اُس کی وجہ سے حمدان سے ہو۔۔۔ کیونکہ یہ تینوں ہی اُس کے لیے زندگی کے برابر تھے۔۔۔
"قسمت کے لکھے کو آج تک کوئی نہیں روک پایا مہرو۔۔۔ خود کو ہلکان کرنے سے بہتر ہے وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔۔۔۔ مجھے اور شاہ کو ہمیشہ اپنے ساتھ ہی پاؤ گی۔۔۔۔ کوئی تمہارا بال بھی بیکار نہیں کرسکتا۔۔۔ تمہیں نقصان پہنچانے سے پہلے اُنہیں ہمارا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔.."
حازم ہمیشہ کی طرح اُسے فل سپورٹ کرتا کال بند کرگیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"حبہ میری جان کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔؟؟؟ آپ ڈنر کرنے بھی نہیں آئیں۔۔۔ کیوں شام سے خود کو روم میں قید کرکے رکھا ہوا ہے۔۔۔۔"
نجمہ بیگم حبہ کے روم کی لائٹ آن کرتے اُس کے قریب آئی تھیں۔۔۔ اُس کی حالت دیکھ اُن کا کلیجہ منہ کو آیا تھا۔۔۔۔ اُس کی ایسی حالت اُنہوں نے تب دیکھی تھی جب اُس نے اپنے باپ اور شوہر کو ایک ساتھ کھویا تھا۔۔۔
"ماما وہ۔۔۔"
حبہ اُن کے قریب آنے پر اپنا ضبط کھوتی اُن کے سینے سء لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
"ماما حازم زندہ ہیں۔۔۔ میں کہتی تھی نا آپ سے۔۔۔۔ آپ نے کبھی میری بات مانی ہی نہیں۔۔۔"
حبہ اُن کے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
اُس کے بہتے آنسو نجمہ بیگم کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔
مگر اُنہوں نے اُسے چپ نہیں کروایا تھا۔۔۔۔
وہ اُسے اپنے اندر کا غبار نکال دینا چاہتی تھیں۔۔۔ جو اتنے سالوں سے وہ اپنے اندر دبا کر بیٹھی تھی۔۔۔
"میں جانتی ہوں حازم زندہ ہے۔۔"
نجمہ بیگم کے انکشاف پر حبہ جھٹکے سے اُن سے دور ہوتی شاکی نگاہوں سے اُنہیں دیکھنے لگی تھی۔۔۔
"ایک ہفتہ پہلے ہی پتا چلی ہے مجھے یہ بات۔۔۔۔ حازم یہاں آیا تھا۔۔۔۔ میں تمہیں بتانا چاہتی تھی مگر حازم نے منع کردیا۔۔۔۔ "
نجمہ بیگم اُس کے نارضگی بھرے تاثرات دیکھ فوراً وضاحت دیتے بولی تھیں۔۔۔۔
جبکہ حبہ کو اُس پر بے پناہ غصہ آیا تھا۔۔۔ وہ اُسے آخر کس بات کی سزا دے رہا تھا۔۔۔۔
"ماما وہ ایک گینگیسٹر۔۔۔۔۔"
حبہ سے جملہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔۔
"میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔"
نجمہ بیگم نے اُس کے آنسو صاف کرتے اُسے پانی پلایا تھا۔۔۔
"ماما پلیز آپ اُن سے کہیں نا کہ وہ یہ سب چھوڑ کر واپس ہمارے پاس لوٹ آئیں۔۔۔ وہ بہت غلط کام ہے۔۔۔ اُس سے چھٹکارا پالیں۔۔۔ میں سروائیول میں پوری مدد کروں گی اُن کی۔۔۔۔ پلیز وہ آپ کی بات نہیں ٹالیں گے۔۔۔"
حبہ اُن کے ہاتھ تھامتی ملتجی لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"میں ایسا نہیں کروں گی حبہ۔۔۔ دنیا والوں کے لیے وہ چاہے گینگسٹر ہو یا اِس سے بھی زیادہ بُرا انسان۔۔۔ مگر میرے لیے وہ میرا بیٹا ہے۔۔ جس پر اِس ماں کو پورا یقین ہے کہ وہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرے گا۔۔۔ اور نہ کبھی غلط کرسکتا ہے۔۔۔۔"
نجمہ بیگم اپنا ہاتھ اُس کی گرفت سے نکالتیں اُسے وہیں ٹوک گئی تھیں۔۔
"ماما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے بے یقینی بھری نظروں سے اُنہیں دیکھا تھا۔۔۔
"میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔"
نجمہ بیگم مضبوط لہجے میں بولتیں اپنی جگہ سے اُٹھی تھیں۔۔۔
"ماما وہ بلیک سٹارز ہیں جنہوں نے نجانے کتنے گھر برباد کیے ہیں۔۔۔ کتنے لوگوں کا خون بہایا ہے۔۔۔ معزز سیاسیتدانوں کو اُن کے گھروں میں گھس کر مارا ہے۔۔۔ چوری چکاری، بینک لوٹنے جیسے یہ سب غلط فعل کرتا ہے آپ کا داماد۔۔۔ کیا آپ پھر بھی اُسے سپورٹ کریں گی۔۔۔"
حبہ کو اپنی ماں کی بالکل سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔
"ہم کیسے یقین کرلیں آپ پر آپی۔۔۔ کھڑے کھڑے تو کوئی بھی کسی پر بہت سارے الزام لگا سکتا ہے۔۔۔ آپ کے پاس کوئی ایک بھی پروف ہے ایسا۔۔۔ جس میں حازم بھائی کا کوئی بھی غلط فعل ثابت ہوسکے۔۔۔ یا کوئی ایک بھی ایسا مظلوم انسان ہمارے سامنے لاسکتی ہیں۔۔۔ جس پر حازم بھائی یا اُن کے کسی گینگ نے ظلم ڈھایا ہو۔۔۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا پولیس آفیسر بننے کے بعد انسان دل اور جذبات سے بالکل عاری ہوجاتا ہے۔۔۔ حازم بھائی اتنے عرصے سے آپ کے سامنے اِسی خوف سے نہیں آرہے تھے۔۔۔
کیونکہ اُنہیں خوف تھا کہ آپ ایسے ہی اُن پر یقین نہیں کریں گی۔۔۔۔ "
صبا آنکھوں میں نمی بھرتے بولتی حبہ کا دل بے چین کر گئی تھی۔۔۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔۔
اُس کے محکمے کا موسٹ وانٹڈ گینگسٹر تھا وہ۔۔۔ جسے پکڑنے پر بہت بڑی قیمت رکھی گئی تھی۔۔۔
آج تک اُس کے حوالے سے نجانے کتنے کیسز اُس کی فائل میں درج ہوچکے تھے۔۔۔
پھر اُس کے گھر والے کیوں ماننے کو تیار نہیں تھے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"چلو پری سفیان بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھو۔۔۔ سب ایک ساتھ ہی شاپنگ پر نکلیں گے۔۔۔۔"
دو دن بعد پریسا کا نکاح تھا۔۔۔ جس کی شاپنگ کے لیے آج وہ سب خواتین ہی جارہی تھیں۔۔۔۔ اور ساتھ میں سفیان، حمد اور طلحہ بھی تھے۔۔۔
پریسا کی اُس دن کے بعد سے سفیان سے کوئی خاص بات نہیں ہوئی تھی۔۔ سفیان اُس سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔ مگر وہ خود ہی سفیان کو زیادہ لفٹ نہیں کروا رہی رہی تھی۔۔۔۔۔
اُسے نجانے کیوں اب سفیان کے ساتھ ہونے اور اُس کے دیکھنے سے اُلجھن سی محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔۔ اور وہ ستمگر اپنی ہٹ دھرمی اور دھمکی آمیز رویہ کے ساتھ بھی اُسے نجانے کیوں اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔
اُس کے دل و دماغ ناچاہتے ہوئے بھی اُس کے بارے میں سوچنے لگتے تھے۔۔۔
اِس وقت بھی بیٹھی وہ سفیان کے ساتھ تھی۔۔۔ مگر اُس کا زہن بھٹک بھٹک کر شاہ ویز سکندر کی جانب جارہا تھا۔۔۔۔۔
جب اچانک سفیان نے اُس کا ہاتھ تھامتے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔۔۔
"ناراض ہو ابھی بھی۔۔۔۔۔"
سفیان کا انداز انتہائی محبت لیے ہوئے تھا۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔۔۔"
پریسا نے اُس کی گرفت سے اپنا ہاتھ کھینچتے نارمل سے انداز میں جواب دیا تھا۔۔۔
سفیان کو اُس کا انداز بہت عجیب سا لگا تھا۔۔۔ مگر وہ لوگ شاپنگ مال پہنچ چکے تھے۔۔۔ اِس لیے وہ کچھ بول نہیں پایا تھا۔۔۔
"واؤ یہ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔۔۔۔ پری پر کتنا سوٹ کرے گا۔۔۔۔"
اُنہیں شاپنگ کرتے کرتے رات کے نو بج چکے تھے۔۔۔۔
اب بس ایک نکاح کا جوڑا رہ گیا تھا۔۔۔ جو کسی سے بھی ڈیسائیڈ نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔ پریسا پوری شاپنگ میں اکتائی اُکتائی دی رہی تھی۔۔۔۔
اُس کی نظریں پورا ٹائم اِدھر اُدھر ہی گھومتی رہی تھیں۔۔۔ مگر کہیں بھی اُسے اپنا مطلوبہ انسان نہیں دکھ پایا تھا۔۔۔
"پری آؤ اُوپر والے فلور پر چلتے ہیں اپنی فیورٹ چاکلیٹ آئسکریم کھانے۔۔۔۔"
وہ لوگ اِس وقت بلنڈنگ کے ففتھ فلور پر تھے۔۔۔ اور فجر ابھی مزید اُوپر جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ جہاں اُن کا فیورٹ آئسکریم بار تھا۔۔۔
پریسا نے انکار کرنا چاہا تھا مگر وہ سب ینگ پارٹی اُسے ساتھ گھسیٹتی لفٹ میں داخل ہوچکی تھی۔۔۔۔
پریسا کو اُن سب کے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹ دکھائی دی تھی۔۔۔ جس کا مطلب وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔ مگر بنا کسی سے استفسار کیے ایسے ہی گم صم سی کھڑی رہی تھی۔۔۔
لفٹ سے نکل کر وہ سب دائیں جانب بنے ہال میں داخل ہوئے تھے۔۔۔۔ مگر وہاں کا منظر دیکھ پریسا نے بے یقینی بھری نظروں سے اُن سب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جو آنکھوں میں محبت بھرے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
پورے ہال کو اُس کے فیورٹ پھولوں اور بے شمار چاکلیٹس سے سجایا گیا تھا۔۔۔ جن کے عین بیچ میں اُس کا فیورٹ چاکلیٹ کیک رکھا گیا تھا۔۔۔ جس کے عین اُوپر بڑا سا سوری لکھا ہوا تھا۔۔۔
"سفیان بھائی تم سے بہت شرمندہ تھے اُس دن کی وجہ سے۔۔۔۔ یہ سب اُنہوں نے ہی کیا ہے تمہارے لیے۔۔۔ "
فجر اُس کا بازو تھامتی سفیان کے سامنے کھڑا کر چکی تھی۔۔۔
"اُس دن جو ہوا میں اُس کے لیے خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔۔۔ مگر میرا یقین کرو پری مجھے اُس وقت کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ اچانک سے وہ سب کیا ہوا ہے۔۔۔ میں تمہیں کھونے کے خیال سے بہت ڈر گیا تھا۔۔۔ تم جان نہیں سکتی میں کتنی محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔ تم میرے لیے بہت امپورٹنٹ ہو۔۔۔ وعدہ کرتا ہوں آئندہ کبھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔ میں تمہاری ناراضگی برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔"
سفیان اُس کے سامنے دوزانو بیٹھا شرمندگی سے چور لہجے میں بولتا پریسا کا سارا غصہ پگھلا گیا تھا۔۔۔ مگر اُس کے دل میں اب بھی اِس انسان کے لیے وہ احساس پیدا نہیں ہوسکا تھا۔۔۔ جو وہ شاہ ویز سکندر کے لیے اتنے دنوں سے محسوس کر رہی تھی۔۔۔
مگر اِس وقت اُس نے اُس ستمگر کا خیال جھٹکتے جھک کر سفیان کا بڑھا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔ جو دیکھ کر سب کزنز خوش ہوتے ہوٹنگ کرنے لگے تھے۔۔۔
سفیان اُس کا ہاتھ تھامے مسکراتے ہوئے اُسے لیے کیک کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"اللہ جی پلیز میری مدد کریں۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔۔۔ اگر اُس انسان کو میرے نصیب میں لکھا ہی نہیں ہے تو دل میں کیوں داخل کردیا۔۔۔ کیوں میں اُس انسان کی جانب کھینچی جارہی ہوں۔۔ جو میرا کچھ بھی نہیں لگتا۔۔۔ جس کے نزدیک میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔ جس کے لیے میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔۔۔ پلیز اللہ جی میرا دل اُس کے لیے کیوں اتنا بے چین ہورہا ہے۔۔۔ پلیز کچھ ایسا کردیں۔۔ جس سے میرے دل کو سکون مل جائے۔۔۔ میرے سامنے اُس انسان کی صورت واضح ہوجائے جو میرے لیے سب سے بہتر ہے۔۔۔۔"
پریسا نے آنکھیں جھپکتے اُن میں آئے آنسوؤں کو اندر دھکیلتے اپنے رب سے دعا کی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے اچانک سے ہال کے دائیں جانب زور دار دھماکا ہوا تھا۔۔۔ اور اُس کے ساتھ ہی آگ کے شعلے ہر طرف بھڑک اُٹھے تھے۔۔۔۔
وہاں کا سٹاف آگ کو بجھانے کی پوری کوشش کررہے تھے۔۔۔ مگر وہ آگ بجھنے کے بجائے لمحہ با لمحہ مزید بھڑکتی جارہی تھی۔۔۔
وہ سب لوگ افراتفری میں باہر کی جانب بھاگے تھے۔۔۔ کسی کو دوسرے کا ہوش نہیں رہا تھا۔۔۔ سب ہی اپنی جان بچانے کے لیے اندھا دھند سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ پریسا نے بے یقین نگاہوں سے ہاتھ چھڑوا کر بھاگتے سفیان کو دیکھا تھا۔۔۔
کچھ دیر پہلے کے کیے اُس کے سارے عہد ایک ہی سیکنڈ میں ٹوٹتے اِن آگ کے شعلوں میں بھسم ہوگئے تھے۔۔۔۔
پریسا بھی بھاگنا چاہتی تھی۔۔ اپنی جان بچانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہاں ہوتی دھکم پہل میں اپنا راستہ بنا کر نیچے جانے کی سکت اُس میں نہیں تھی۔۔۔ وہاں پھیلتے دھویں کی وجہ وہ بُری طرح کھانستے ایک جانب دیوار کو تھام کر کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔
وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس وقت اپنی جان بچانے کے لیے کچھ کر بھی نہیں پارہی تھی۔۔۔۔
اُسے سیڑھیاں اُترتے لوگوں میں کہیں بھی سفیان سمیت کوئی بھی شناسا چہرہ دیکھائی نہیں دیا تھا۔۔ شاید وہ سب وہاں سے نکل چکے تھے۔۔۔۔
سیڑھیوں کا راستہ خالی ہوتے دیکھ اُس نے بُری طرح کھانستے آگے جانا چاہا تھا۔۔۔ جب تیزی سے بھڑکتی آگ سیڑھیوں کی ریلنگ کو اپنی لپیٹ میں لیتی اُس کا بچ نکلنے کا راستہ بند کر گئی تھی۔۔۔
وہاں ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ آگ کے شعلوں کی خوفناک روشنی پریسا کی جان نکال رہی تھی۔۔۔۔
وہ خوف کے عالم میں بُری طرح سسکتے وہیں دیوار کے ساتھ لگتی نیچے بیٹھ گئی تھی۔۔۔
تو کیا اُس کی موت کا وقت آچکا تھا۔۔۔؟؟
لمحہ با لمحہ قریب آتی آگ کو دیکھتے پریسا نے خوف کے عالم میں سوچا تھا۔۔۔
کیونکہ اِس پوری دنیا میں وہ کسی کے لیے بھی اتنی اہم نہیں تھی۔۔۔ کہ کوئی اپنی جان داؤ پر لگا کر اُسے بچانے آتا۔۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے اُس سے محبت کا دعوے دار۔۔۔ اُس کی جان دینے کے وعدے کرنے والا۔۔۔ ایک بار پھر اُسے فراموش کرتا اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا تھا۔۔۔
وہاں ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ آگ کے شعلوں کی خوفناک روشنی پریسا کی جان نکال رہی تھی۔۔۔۔
وہ خوف کے عالم میں بُری طرح سسکتے وہیں دیوار کے ساتھ لگتی نیچے بیٹھ گئی تھی۔۔۔
تو کیا اُس کی موت کا وقت آچکا تھا۔۔۔؟؟
لمحہ با لمحہ قریب آتی آگ کو دیکھتے پریسا نے خوف کے عالم میں سوچا تھا۔۔۔
کیونکہ اِس پوری دنیا میں وہ کسی کے لیے بھی اتنی اہم نہیں تھی۔۔۔ کہ کوئی اپنی جان داؤ پر لگا کر اُسے بچانے آتا۔۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے اُس سے محبت کا دعوے دار۔۔۔ اُس کی جان دینے کے وعدے کرنے والا۔۔۔ ایک بار پھر اُسے فراموش کرتا اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا تھا۔۔۔
پریسا کو آگ کے شعلے تیزی سے اپنی جانب بڑھتے محسوس ہورہے تھے۔۔۔
اُس سے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ وہ بھی اتنی درد ناک موت نہیں۔۔۔۔ اُس نے خوف سے جھڑجھڑی لیتے اپنی آنکھیں سختی سے میچی تھیں۔۔۔
جب آنکھوں کے سیاہ پردے پر شاہ ویز سکندر پوری آب و تاب کی طرح روشن ہوا تھا۔۔۔
پریسا نے فوراً گھبرا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔۔۔
اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ ہمیشہ اُس کے مشکل وقت میں یہی انسان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اُس کے پاس آیا تھا۔۔۔ تو کیا آج بھی۔۔۔۔؟؟
"نہیں وہ بلیک بیسٹ ہے۔۔۔ وہ نفرت کرتا ہے مجھ سے۔۔۔ اُس دن اُس نے میری جان صرف اپنے مقصد کے لیے ہی بچائی تھی۔۔۔ جو اُن پیپرز پر سائن کرتے اب پورا ہوچکا ہے۔۔۔ یہاں اب کوئی بھی اپنی زندگی کو رسک میں ڈال کر نہیں آنے والا۔۔۔۔ میں اتنی اہم کسی کے لیے نہیں ہوں کہ کوئی میری خاطر اپنی جان دے۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھیں دھویں اور آنسوؤں سے بالکل دھندلا گئی تھیں۔۔۔
اُس کا سر بُری طرح چکرا رہا تھا۔۔۔ دھواں اُس کے منہ اور گھاس میں گھس چکا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ آئی جی صاحب سے ملنے والے آرڈر کے مطابق بھیس بدل کر مطلوبہ علاقے میں پہنچ چکی تھی۔۔۔۔
جہاں پہلے ہی اُس کی فورسز کے دو لوگ موجود تھے۔۔۔ اور میاں بیوی بن کر وہاں رہ رہے تھے۔۔۔۔
حبہ کو اُنہیں کے پاس رہنا تھا۔۔۔۔
وہ مغرب کے قریب وہاں پہنچی تھی۔۔۔ یہ دیہاتی علاقہ تھا۔۔۔ جہاں آج بھی مٹی کے کچے مکان تھے۔۔۔ لوگ آج بھی کھلے آسمان تلے ایک ساتھ چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے۔۔۔ بظاہر یہ گاؤں بہت ہی پرسکون اور خوشحال لگا رہا تھا۔۔۔ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہاں درندے صفت وڈیرے آئے روز اپنا قہر ڈھاتے رہتے تھے۔۔۔
اور سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ وہاں کے بچارے مکین اپنے غم کسی کو بتا بھی نہیں سکتے تھے۔۔۔ اُن کا کوئی مددگار نہیں تھا۔۔۔ مگر یہاں قدم رکھتے حبہ نے خود سے عہد کیا تھا کہ وہ اب یہاں سے تب تک نہیں جائے گی۔۔۔
جب تک اِن لوگوں کو اِن کی آزادی نہ مل جائے۔۔۔۔
اُسے کبھی بھی اپنی زندگی کی پرواہ نہیں رہی تھی۔۔۔۔
اور اب بھی وہ اپنی جی جان لگانے والی تھی۔۔۔
"اے لڑکی۔۔۔۔ نئی آئی ہے کیا یہاں۔۔۔۔ تجھے پہلے دیکھا کبھی نہیں۔۔۔۔"
وہ بس سے اُتر کر اپنا چھوٹا سا سیاہ بیگ اُٹھائے آگے بڑھ رہی تھی جب نجانے کہاں سے تین چار اوباش لڑکے سیٹیاں مارنے کے ساتھ ساتھ فضول سے جملے کستے اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔۔۔۔
حبہ اِس وقت لان کے عام سے سوٹ میں سکن کلر کی شال سے چہرے کو ڈھکے تیز تیز چل رہی تھی۔۔۔۔
"اے دیکھ نہیں رہا اِس کی چکنی چمڑی۔۔۔ یہاں کی لڑکیاں بھلا ایسی کہاں دکھتی ہیں۔۔۔۔ "
اُن میں سے ایک حبہ کے مزید قریب ہوکر چلنے لگا تھا۔۔۔
حبہ نے مُٹھیاں سختی سے بھینچتے خود کو کوئی سنگین حرکت کرنے سے روکا تھا۔۔۔
ورنہ اُس کا دل کیا تھا ابھی اور اِسی وقت اِن اوباش لڑکوں کی چمڑی اُدھیڑ کر رکھ دے۔۔۔۔
وہ بہت مشکل سے ضبط کیے ہوئے تھی۔۔۔ جب اُن میں سے کسی نے حبہ کے ہاتھ کو ٹچ کرنا چاہا تھا۔۔۔
اور بس پھر حبہ کا ضبط ختم ہوا تھا۔۔۔۔ وہ گھما کر اُس لڑکے کو پنچ مارنے ہی والی تھی۔۔۔ جب اچانک سے وہاں رضیہ اور جاوید نے آکر اُسے روک لیا تھا۔۔۔
"میم پلیز کنٹرول۔۔۔۔ یہ لوگ اُسی وڈیرے کے آدمی ہیں۔۔۔ آپ کی ایسی کوئی بھی حرکت اُن کو الرٹ کر سکتی ہے۔۔۔ آپ کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ مشن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔۔۔۔"
رضیہ اُن کو دکھانے کے لیے بظاہر حبہ کے گلے لگ کر کان میں سرگوشی کرتے درحقیقت اُسے مارنے سے روکے ہوئے تھی۔۔۔ حبہ اتنے غصے میں آچکی تھی کہ اگر یہ لوگ نہ آتے تو اب تک وہ اِن اوباش لڑکوں کا صفایا کر چکی ہوتی۔۔۔
حبہ نے گہری سانس خارج کرکے اُنہیں دیکھا تھا۔۔ جو اب بھی حبہ کو عجیب نگاہوں سے ہی گھور رہے تھے۔۔۔
حبہ دل ہی دل میں اُن کی عقل ٹھکانے لگانے کا سوچتی اُن دونوں کے ساتھ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ آنکھیں موندے اندھیرے کمرے میں بیٹھا ریوالونگ چیئر پر جھول رہا تھا۔۔۔ جب اچانک اُس کا سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل زور و شور سے بچ اُٹھا تھا۔۔۔۔
اُس نے اپنی سرد وحشت ناک سی لال آنکھیں کھول کر غصے سے موبائل سکرین کو گھورا تھا۔۔۔ اُس کے پتھریلے تاثرات بتا رہے تھے کہ اُسے اپنا ڈسٹرب کیا جانا کتنا بُرا لگا ہے۔۔۔۔ جب وہ اِس کمرے میں ہوتا تھا تو کوئی اُسے ڈسٹرب نہیں کرتا تھا۔۔۔۔ مگر آج یوں جنید کی آتی کال نے اُسے تشویش میں بھی مبتلا کر دیا تھا۔۔۔
اُس نے اُنہیں سرد تاثرات کے ساتھ کال اٹینڈ کرتے فون کان سے لگایا تھا۔۔۔
"بولو۔۔۔۔۔"
سرد و سپاٹ لہجے میں پوچھا گیا تھا۔۔۔
"شاہ سر سٹی شاپنگ مال میں بہت شدید آگ بھڑک اُٹھی ہے۔۔۔۔ اُس کا پانچواں پورشن بالکل جل کر بھسم ہوچکا ہے۔۔۔۔ وہاں موجود سب افراد باہر آگئے ہیں سوائے ایک کہ۔۔۔۔۔۔۔"
جنید نے بہت ڈرتے ڈرتے اُسے اطلاع دی تھی۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز نے اُسے ہی پریسا کے آس پاس رہنے کا کہہ رکھا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی بات سنتے شاہ ویز کو اپنے دل و دماغ میں آگ بھڑکتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔۔۔ کسی انہونی کے احساس سے اُسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
"اور وہ انسان پریسا آفندی ہے۔۔۔۔۔"
جنید نے کمزور سی آواز میں اُسے بتایا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز نے مُٹھیاں بھینچتے سختی سے اپنی آنکھوں کو میچ لیا تھا۔۔۔۔
"تم سب کہاں مرے ہوئے تھے۔۔۔ اگر اُسے زرا سی خراش بھی آئی تو میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا۔۔۔ پریسا آفندی کو چوٹ پہنچانے کا حق صرف اور صرف شاہ ویز سکندر کو ہے۔۔۔ اُسے سزا صرف میں سنا سکتا ہوں۔۔۔ اور کوئی نہیں۔۔۔۔ "
شاہ ویز موبائل کو کھینچ کر دیوار پر مارتا اتنے زور سے دھاڑا تھا کہ پورے بلیک ہاؤس کے درو دیوار لرز اُٹھے تھے۔۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔ اُس کی آواز سن کر سارے گارڈز اور ملازمین باہر آچکے تھے۔۔۔
آج بہت دنوں بعد سب شاہ ویز کو بلیک بیسٹ کے رُوپ میں واپس آتا دیکھ رہے تھے۔۔۔
جو اپنی گاڑی میں بیٹھتا۔۔۔ بنا خود پر منڈلاتے خطروں کی پرواہ کیے وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اِس وقت آگ میں جھلستا وہ گھر آرہا تھا جس میں اُس کے ماں باپ اور بہن کو پریسا کے باپ نے زندہ جلایا تھا۔۔۔
جس شخص سے وہ شدید نفرت کرتا تھا۔۔۔ مگر آج پھر ویسی ہی آگ اُس شخص کی بیٹی کو جھلسانے کے لیے تیار تھی۔۔۔ لیکن شاہ ویز سکندر کے اندر کی آگ اِس بات پر کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ اُسے تو خوش ہونا چاہئے تھا اُس کے دشمن کی بیٹی کا انجام بھی ویسا ہی ہورہا تھا۔۔۔
مگر اُس کا دل اتنی تکلیف میں کیوں تھا۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔۔
ہوا کی دوش پر ڈرائیونگ کرتے نجانے کتنی بار اُس کی گاڑی ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔۔
تین منٹ کا فاصلہ دس منٹ میں طے کرتا وہ وہاں پہنچ تھا۔۔۔ اُس کی نظر پانچویں پورشن پر لگی آگ پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔۔
حازم بھی جنید کی اطلاع پر اُسی وقت وہاں پہنچا تھا وہاں عجیب سی افراتفری مچی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ لوگوں کا بڑی تعداد میں رش موجود تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز۔۔۔۔۔"
حازم بھاگ کر اندر کی جانب بڑھتے شاہ ویز کے قریب آیا تھا۔۔۔۔ جنید بھی اُس کے ساتھ ہی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں ہی نہیں چاہتے تھے شاہ ویز اندر جائے کیونکہ اطلاعات کے مطابق پانچواں پورشن پوری طرح جل چکا تھا۔۔۔ وہاں اب کوئی شے بھی سلامت نہیں بچی تھی۔۔۔
"شاہ ویز رک جاؤ۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔ تمہارا اندر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔۔ آگ ہر شے کو تباہ کر چکی ہے۔۔۔۔۔"
حازم نے اُسے بازو سے جکڑتے وہیں روکنا چاہا تھا۔۔۔
جس پر شاہ ویز نے پلٹ کر اُسے خون آشام نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم مجھے اندر جانے سے روک رہے ہو۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اندر پریسا آفندی موجود ہے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے چبا چبا کر لفظ ادا کرتے اُس کی گرفت سے اپنا بازو چھڑوایا تھا۔۔۔
"تم تکلیف ہی دینا چاہتے تھے نا اُس لڑکی کو۔۔۔۔ اُسے اُس کے باپ کی غلطی کی سزا مل چکی ہے۔۔۔ تمہارا انتقام قدرت نے پورا کردیا ہے۔۔۔۔"
حازم اُس کے آگے آن کھڑا ہوتا اُسے جانے سے روک گیا تھا۔۔۔
شاہ ویز کو حازم پر اتنا غصہ کبھی نہیں آیا تھا جتنا اِس وقت آرہا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر اپنا انتقام خود لیتا ہے۔۔۔۔ اور پریسا آفندی کی سزا بھی صرف میں تجویز کروں گا۔۔۔ یہ آگ شاہ ویز سکندر کے ہوتے ہوئے پریسا آفندی کا ایک بال بھی بیکار نہیں کر سکتی۔۔۔ میں نہیں چاہتا میں تم لوگوں کے سامنے بیسٹ بنوں۔۔۔ اِس لیے تم دونوں ہٹ جاؤ میرے سامنے سے۔۔۔۔ کیونکہ اگر آج پریسا آفندی کو کچھ ہوا تو شاہ ویز سکندر برباد ہوجائے گا۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات سن کر وہ دونوں سکتے میں آچکے تھے۔۔۔۔ شاہ ویز خود بھی نہیں جانتا تھا کہ انجانے ميں وہ اُن کے سامنے کتنا بڑا اعتراف کر گیا ہے۔۔۔
وہ اعتراف جو آج تک اُس نے اپنے سامنے بھی نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ کھڑکی میں کھڑی دور اندھیرے میں جلتی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ آج اُس کا دل بہت زیادہ اُداس تھا۔۔۔۔ اُس نے نسرین بیگم کی رضامندی پر حمدان صدیقی کے پروپوزل کا ہاں میں جواب دے دیا تھا۔۔۔ مگر اُس کے بعد سے اُس کا دل پوری طرح سے بے سکون ہوچکا تھا۔۔۔۔
وہ حمدان صدیقی کے ساتھ یوں دھوکے سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی حمدان بھی صرف اُس کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے۔۔۔ مگر پھر بھی مہروسہ کے لیے نکاح کا رشتہ بہت اہمیت رکھتا تھا۔۔۔۔
وہ اِس میں دھوکا دہی نہیں لانا چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ حمدان کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ اُس کی پھوپھو زاد نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی اُس کے قابل ہے۔۔۔۔
نسرین بیگم نے حمدان صدیقی کے گھر میں داخل ہونے میں اُس کی صرف مدد کی تھی۔۔۔
ایک سال پہلے اُس نے نسرین بیگم کی بیٹی اُجالا کو غنڈوں کے ہاتھوں اغوا ہونے سے بچا کر اُسے با حفاظت گھر پہنچایا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے نسرین بیگم اور اُن کے گھر والے اُس کے بہت زیادہ مشکور ہوئے تھے۔۔۔ اور نسرین بیگم ایک طرح سے اُسے اپنی بیٹی مان چکی تھیں۔۔۔۔۔
ایک دن مہروسہ کو ایک مشن میں ٹانگ پر گولی لگی تھی۔۔۔ اُس کا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا۔۔۔ وہ اُس وقت اپنے پیچھے لگی پولیس کی وجہ سے نہ تو ہاسپٹل جاسکتی تھی۔۔۔ نہ ہی اُس ایریا سے نکل سکتی تھی۔۔۔ حازم اور شاہ ویز سے بھی اُس وقت وہ کانٹیکٹ نہیں کر پائی تھی۔۔۔ تب اُسے آخری راہ نسرین بیگم کا گھر ہی نظر آیا تھا۔۔۔۔
وہ اُسی زخمی حالت میں آدھی رات کو اُن کے دروازے پر جا پہنچی تھی۔۔۔ وہ سب اُسے اُس حال میں دیکھ گھبرا گئے تھے۔۔۔۔ لیکن نسرین بیگم نے سگی ماں کی طرح اُس کی دیکھ بھال کی تھی۔۔۔۔
اپنی پروسن کو بلا کر نہ صرف اُس کا علاج کروایا تھا۔۔ بلکہ اُسے پولیس والوں سے بھی چھپا کر رکھا تھا۔۔۔۔ مہروسہ دو دن بعد ہوش میں آئی تھی۔۔۔ مگر اِن دو دنوں میں نسرین بیگم اور اُن کے گھر والوں نے جس طرح مہروسہ کا خیال رکھا تھا۔۔۔ وہ اُن کا یہ احسان ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں محفوظ کر گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے اُن سب پرخلوص لوگوں کو اپنی اصلیت بتا دی تھی۔۔۔۔ وہ اُنہیں دھوکا نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اُس کی ساری سچائی جان کر اُنہوں نے اُس سے نفرت نہیں پہلے سے بھی زیادہ محبت دی تھی۔۔۔۔
تب سے مہروسہ اُن کے لیے اُن کی بیٹیوں جیسی ہی تھی۔۔۔ حمدان سے ملنے کے بہت بعد اُسے پتا چلا تھا کہ حمدان نسرین بیگم کا بھتیجا ہے۔۔۔ جو جان کر اُسے بے پناہ خوشی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اور ایک بار پھر مہروسہ نسرین بیگم جی دہلیز پر مدد مانگنے جا پہنچتی تھی۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح اُسے اِس بار بھی انکار نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ نسرین بیگم کو اُس پر پورا بھروسہ تھا۔۔ وہ اُسے اُجالا بنا کر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوگئی تھیں۔۔۔۔
لیکن مہروسہ کی اصل پہچان کیا تھی۔۔۔ وہ یہ کبھی کسی کے سامنے نہیں آنے دینا چاہتی تھی۔۔۔ اُس کی اِس پہچان سے صرف حازم اور شاہ ویز ہی واقف تھے۔۔۔۔
اِن دو لوگوں کے سوا وہ کسی کو نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ ایک کوٹھے کی ناجائز پیداوار تھی۔۔۔ اُس کی ماں شکیلا بائی اپنے وقت کی بے حد حسین اور جانی مانی طوائف تھی۔۔۔۔ مہروسہ کا باپ ایک بہت بڑا رئیس زادہ اور بہت بُرا انسان تھا۔۔۔ جس نے کچھ عرصے اُس کی ماں کو اپنے ساتھ رکھا تھا مگر اپنا نام نہیں سے پایا تھا۔۔۔
مہروسہ سے بڑی دو سوتیلی بہنیں بھی تھیں۔۔ جنہیں اپنے باپ کا علم بھی نہیں تھا۔۔۔
وہ دونوں بھی اب اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتیں طوائفیں بن چکی تھیں۔۔۔ مگر مہروسہ پندرہ سال کی عمر میں ہی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوچکی تھی۔۔ وہ بے پناہ حسین تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے گاہک اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی اُس کی ڈیمانڈ کرنے لگے تھے۔۔۔
جس کی وجہ سے اُس کی سگی ماں نے اُسے رقص سیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔
مگر مہروسہ نے ایسی حرام زندگی جینے سے حرام موت کو گلے لگانا بہتر سمجھا تھا۔۔۔ وہ خود کشی کے ارادے سے کوٹھے سے فرار ہوئی تھی۔۔۔
مگر اُس کے مہربان رب نے شاہ ویز سکندر اور حازم سالار کی صورت دو فرشتوں کو اُس کی زندگی میں بھیج کر اُسے دنیا کے بہت ہی خوبصورت رُخ سے متعارف کروایا تھا۔۔۔۔۔
مہروسہ کو یہی لگا تھا جیسے اُن کے کوٹھے پر آئے باقی مرد اُنہیں حقارت سے دیکھتے تھے ویسے ہی حازم اور شاہ ویز بھی اُس کی اصلیت جان کر بُرا سلوک کریں گے۔۔۔ مگر اُن کا محبت بھرا نرم رویہ مہروسہ کے زخموں پر مرہم رکھ گیا تھا۔۔۔۔
وہ اُسے اپنی سگی بہن کے جتنی اہمیت اور محبت دیتے اُسے اپنا تیسرا ساتھی بنا گئے تھے۔۔۔۔۔
جس کے بعد مہروسہ کو اپنی بے مقصد زندگی میں جینے کا اصل مقصد مل گیا تھا۔۔۔۔
مگر مہروسہ جانتی تھی اُس کی اصلیت جان کر حمدان صدیقی اُس سے پہلے سے بھی زیادہ نفرت کرے گا۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر اپنی زندگی کے بہت مشکل موڑ پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
کئی آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر بے مول ہوتے اپنی قدر کھو بیٹھے تھے۔۔۔۔ مہروسہ اپنے دل کو حمدان صدیقی کی جانب سے پتھر بنانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہ چاہ کر بھی ایسا کچھ نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل بس اُسی سنگدل کی جانب ہی ہمک رہا تھا۔۔۔
"شاہ سر ٹھیک کہتے تھے۔۔۔ ہم جیسے لوگوں کے نصیب میں یہ محبت نہیں لکھی۔۔۔ یہ نرم و پاکیزہ جذبہ صرف ہماری بربادی ہے۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔۔"
مہروسہ بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی نڈھال سے انداز میں بولتی کھڑی کے پٹ کے ساتھ سر ٹکا گئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دونوں بعد اُس کا اپنی زندگی کے محبوب ترین انسان سے نکاح تھا۔۔۔ مگر اُس کی بدقسمتی ہی یہی تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی پر کھل کر مسکرا بھی نہیں سکی تھی۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی عنقریب وہ حمدان صدیقی کا بے رحم رُوپ دیکھنے والی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز سکندر اِس وقت بلیک بیسٹ بنا خود کو روکنے کی کوشش کرتے راستے میں آئے ہر انسان اور چیزوں کو ٹھوکروں سے اُڑاتا اُوپر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
بلنڈنگ سے سب لوگوں کو نکال دیا گیا تھا۔۔۔۔ کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔ مگر وہ سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے گارڈ اُس بلیک بیسٹ کو نہیں روک پائے تھے۔۔۔
جو چاروں پورشن کراس کرتا اب پانچویں پورشن کی بھڑکتی آگ میں کودنے کو تیار کھڑا تھا۔۔۔۔
وہاں جلتے آگ کے شعلوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کو شاہ ویز سکندر کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ کیونکہ انہیں دیکھ اندر موجود انسان کے بچ جانے کے ایک پرسنٹ چانسز بھی موجود نہیں تھے۔۔۔۔
"پریسا۔۔۔۔۔۔"
وہ آگ میں جمپ کرتا پوری شدت سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اِس وقت بلیک بیسٹ بنا خود کو روکنے کی کوشش کرتے راستے میں آئے ہر انسان اور چیزوں کو ٹھوکروں سے اُڑاتا اُوپر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
بلنڈنگ سے سب لوگوں کو نکال دیا گیا تھا۔۔۔۔ کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔ مگر وہ سینکڑوں کی تعداد میں کھڑے گارڈ اُس بلیک بیسٹ کو نہیں روک پائے تھے۔۔۔
جو چاروں پورشن کراس کرتا اب پانچویں پورشن کی بھڑکتی آگ میں کودنے کو تیار کھڑا تھا۔۔۔۔
وہاں جلتے آگ کے شعلوں کو دیکھ کر لمحہ بھر کو شاہ ویز سکندر کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ کیونکہ انہیں دیکھ اندر موجود انسان کے بچ جانے کے ایک پرسنٹ چانسز بھی موجود نہیں تھے۔۔۔۔
"پریسا۔۔۔۔۔۔"
وہ آگ میں جمپ کرتا پوری شدت سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔
ہر طرف دھواں اور آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے،،، کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
ہر شے جل رہی تھی۔۔۔ یہ جلتی آگ شاہ ویز سکندر کے دل کو جلا کر راکھ کررہی تھی۔۔۔ اُسے اِس آگ میں سالوں پہلے کا منظر یاد آرہا تھا۔۔ جب اُس نے اپنے ماں باپ۔۔۔ اپنی پوری دنیا کو جلتے دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر آج وہ ایسا کچھ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
پریسا آہستہ آہستہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔۔۔ اُس نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا ہوا تھا۔۔۔۔ کسی بھی لمحے وہ بے ہوش ہوکر اِن شعلوں کی نظر ہوسکتی تھی۔۔۔
جب اُسی لمحے اُسے اپنے کانوں میں شاہ ویز کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔
پریسا کو لگا تھا شاید یہ اُس کا وہم ہے۔۔۔ بھلا اِس آگ میں کوئی پاگل ہی اُس کی خاطر کود سکتا تھا۔۔۔ اور وہ پاگل شاہ ویز سکندر کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔ وہ تو اُس سے نفرت کرتا تھا پھر وہ بھلا کیسے آسکتا تھا۔۔۔
پریسا نے اذیت سے سوچتے اپنے چکراتے سر کا تھاما تھا۔۔۔۔ جب اُسے دائیں جانب سے دروازہ گرنے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔
آگ کے شعلوں میں لپٹا دروازہ اُس سے کچھ فاصلے پر جا گرا تھا۔۔۔۔
خوف کے عالم میں پریسا کے منہ سے دلخراش چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز جس نے وہ دروازہ گرا کر اندر آنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ پریسا کی چیخ کانوں میں پڑتے وہ جلدی سے آگے بڑھا تھا۔۔۔ پریسا جو خوف کے عالم میں لرزتی کانپتی اُسی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ آگ کے شعلوں کے پیچھے آن کھڑے ہوتے شاہ ویز کو دیکھ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں رہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اُسے بچانے کی خاطر۔۔۔۔
اِس احساس کے ساتھ ہی کئی آنسو ٹوٹ کر اُس کے چہرے کو بھیگو گئے تھے۔۔۔۔۔
تو کیا وہ اِس انسان کے لیے اتنی ضروری تھی کہ وہ اُس کی خاطر آگ سے بھی بھڑ گیا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز۔۔۔۔۔"
اُس کی جانب دیکھتے پریسا کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔۔
شاہ ویز کی نظر بھی ایک کونے میں سکڑی سمٹی بیٹھی پریسا پر پڑ چکی تھی۔۔۔۔
"تم کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔۔۔؟؟؟ واپس چلے جاؤ۔۔۔۔ تم مجھ تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔۔۔۔"
پریسا اور شاہ ویز کے درمیان میں آگ بہت زیادہ تھی۔۔۔ جہاں سے گزر پانا آسان نہیں تھا۔۔۔ پریسا نہیں چاہتی تھی کہ شاہ ویز اُس کی وجہ سے خود کو نقصان پہنچائے۔۔۔ جس بات کی کشمکش میں وہ اتنے دنوں سے ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔ اُسے آج اُس کا جواب مل چکا تھا۔۔۔
وہ نجانے کب اور کیسے اِس وحشی انسان سے محبت کرنے لگی تھی۔۔۔ جس کے ساتھ ایک بار بھی اُس کی خوشگوار انداز میں بات نہیں ہوئی تھی۔۔ مگر پھر بھی وہ اُسے چاہنے لگی تھی۔۔۔ کیونکہ یہی واحد انسان تھا اُس کی زندگی میں جو اُسے بچانے۔۔ اُس کی حفاظت کرنے کہیں بھی پہنچ سکتا تھا۔۔۔
جس کے لیے وہ اہم تھی۔۔۔۔۔ پریسا کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ آگ سے اُس کا سارا خوف ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی سامنے کھڑا شخص اب اُسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔
مگر اُس کا دل شاہ ویز سکندر کو آگ میں کودنے کے ارادے سے آگے آتا دیکھ تڑپ اُٹھا تھا۔۔۔
"تم تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا مجھے۔۔۔ یہ آگ بھی نہیں۔۔۔۔۔ خاموشی سے کھڑی رہو۔۔۔ ہلنا مت وہاں سے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے صحیح سلامت وہاں کھڑا دیکھ اب کافی حد تک ریلیکس ہوچکا تھا۔۔۔۔
اُسے خود پر یقین تھا اب وہ پریسا آفندی کو کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔
پریسا نے بھیگی آنکھوں سے گھور کر اُسے دیکھا تھا۔۔۔ جو یہاں بھی اُسے ڈانٹنے سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"وحشی انسان کہیں کا۔۔۔۔ "
پریسا رونے کے بیچ اُسے اُس کے لقب سے نوازنا نہیں بھولی تھی۔۔۔۔
"آگے مت آنا۔۔۔۔"
شاہ ویز اونچی آواز میں اُسے ایک بار پھر وارن کرتا آگ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ وہ لانگ جمپ کرنے والا تھا۔۔۔ مگر وہ جانتا تھا کہ فاصلہ زیادہ ہے۔۔۔ وہ آگ میں کودے بغیر آگے نہیں جاسکتا۔۔۔۔ اِس لیے خود کو کچھ سیکنڈ کے لیے آگ کی لپیٹ میں دینے کے لیے وہ خود کو مینٹلی تیار کر چکا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز پوری طاقت لگا کر جمپ کرتا آگ میں کودا تھا۔۔۔ پریسا کا دل ساکت ہوا تھا۔۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز کے بازو کو آگ کے شعلے اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ "
پریسا کو ایک پل میں پوری دنیا فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ بنا اپنی پرواہ کیے شاہ ویز کی جانب بھاگی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے ایک جانب سے آگ میں لپٹا پلر اُس پر آن گرنے کو تھا۔۔۔ جب شاہ ویز واپس اُس کی جانب جمپ کرتا اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں دیوار سے ٹکراتے نیچے جاگرے تھے۔۔۔۔ پریسا کو شاہ ویز نے پوری طرح اپنے حصار میں قید کرتے چوٹ لگنے سے بچایا تھا۔۔۔ جبکہ خود اُس کا سر بہت بُری طرح سے دیوار سے ٹکراتا ٹیسیں چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز نے اپنے سینے سے لگی خوف سے کپکپاتی پریسا کو پکارا تھا۔۔۔۔
وہ اُسے اِسی طرح اپنے ساتھ لگائے واپس سے کھڑا ہوچکا تھا۔۔۔۔
اُس کی نہایت قریب سے آتی آواز پر پریسا نے اُس کے سینے سے زرا سا چہرا اُوپر اُٹھاتے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز نے بھی اُسی لمحے پریسا پر نظر ڈالی تھی۔۔۔
مگر یہ ایک لمحہ شاہ ویز سکندر کے دل کی دنیا پر قیامت برپا کر گیا تھا۔۔۔
وہ سہمی سی ہرنی آگ سے بچ کر اُس کے وجود میں چھپنے کی کوشش کرتی شاہ ویز سکندر کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر چھوڑ گئی تھی۔۔۔
"ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے۔۔۔۔؟؟ میں مرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔"
پریسا اُس کے گرد بازو سختی سے باندھے۔۔۔ خوف سے لرزتے بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
آج ہی تو اُس پر اپنی محبت کا ادراک ہوا تھا۔۔۔۔ وہ اِس محبت کا اقرار کیے بغیر نہیں مرنا چاہتی تھی۔۔۔ نجانے کیوں مگر دل میں اِس انسان کے ساتھ جینے کی شدید خواہش جاگ اُٹھی تھی۔۔۔۔
اُس نے چہرا موڑ کر شاہ ویز کا بازو دیکھا تھا۔۔۔ اُس کے ہاتھ سے اُوپر کا حصہ جل گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ اپنی تکلیف بھلائے بس اُسی کے لیے فکر مند تھا۔۔۔۔
"یہ آگ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ تمہیں اگر کسی ڈرنا چاہیے تو وہ ہے شاہ ویز سکندر۔۔۔ میرے علاوہ کوئی شے تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔۔۔۔ ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنا کوٹ اُتار کر پریسا کو پہنا چکا تھا۔۔۔۔
آگ میں کودنے کے بعد بھی اِس کوٹ سے اُس کی کافی بچت ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا کوٹ پریسا کے نازک وجود کو آدھے سے زیادہ کور کر چلا تھا۔۔۔۔
"تم یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ کیوں۔۔۔۔ تمہیں آگ۔۔۔ "
پریسا کو اُس کی فکر ہوئی تھی۔۔۔ جو اپنے آہنی وجود کے پیچھے صرف اُسے کور کر رہا تھا۔۔۔ جیسے اُس کی حفاظت سے ضروری شاہ ویز سکندر کے لیے کوئی نہیں تھا۔۔۔
پریسا کا سر بہت بُری طرح چکرا رہا تھا۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اُسے ہر منظر دھندلا ہوتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
شاہ ویز اُس کے بے جان وجود کو اُٹھاتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ اُس کا رُخ ونڈو کی جانب تھا۔۔۔ جہاں سے وہ نیچے اُتر سکتا تھا۔۔۔۔
کانچ کی کھڑکی توڑنے میں اُسے زیادہ ٹائم نہیں لگا تھا۔۔۔
پریسا کو کندھے پر ڈالتے وہ باہر اُتر چکا تھا۔۔۔۔
اُسے سیدھے دروازے سے زیادہ اِن راستوں سے جانے کی عادت تھی۔۔۔ اِس لیے پائپ سے گزر کر وہ بہت ہی آرام سے نچلے پورشن میں اُتر گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
رات کے دو بجے کا وقت تھا۔۔۔ ہر جانب ہو کا عالم چھایا ہوا تھا۔۔۔ سردیوں کی گہری ٹھٹھرتی رات میں سب لوگ اپنے بستروں میں دبکے سو رہے تھے۔۔۔۔
مگر اُن سب میں ایک وجود ایسا تھا جو آج کی رات سکون کی نیند نہیں سو پایا تھا۔۔۔
اُسے رہ رہ کر اُن اوباش لڑکوں کی بُری نظریں یاد آرہی تھیں۔۔۔ جن سے اب تک وہ اِس گاؤں کی ہر لڑکی کو حراساں کرتے آئے تھے۔۔۔۔ مگر آج وہ یہ حرکت بہت غلط لڑکی کے ساتھ کر گئے تھے۔۔۔۔
حبہ اپنی ساتھ سوئی رضیہ کو ایک نظر دیکھتی اپنا پسٹل اپنی پاکٹ میں چیک کرتی۔۔۔ نائٹ ٹراؤزر شرٹ کے اُوپر سیاہ شال لپیٹے وہ وہاں سے نکل آئی تھی۔۔
وہ سونے سے پہلے رضیہ سے اُن لوگوں کی ساری معلومات لے چکی تھی۔۔۔ وہ لڑکے یہاں کے وڈیرے کے ڈیرے پر رہتے تھے۔۔۔
جو اُن کے گھر سے دس منٹ کی مسافت پر تھا۔۔۔۔
حبہ اُن کو آج ایسا مزا چکھانا چاہتی تھی کہ آئندہ وہ کسی لڑکی کی جانب دیکھنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔۔۔
وہ جیسے ہی وہاں پہنچی۔۔۔ اُسے سامنے ہی پانچ چارپائیاں پڑی نظر آئی تھیں۔۔۔۔
آنکھوں میں نفرت بھرے وہ جیسے ہی اُن کی جانب بڑھی۔۔۔۔ کسی نے پیچھے سے اُس کی کلائی تھام کر اُسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔
حبہ نے اُس کے سینے پر پنچ مارتے اُس سے خود کو بچانا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر مقابل اُس کو زرا سی بھی مہلت دیئے بغیر اُس کی کلائیاں کمر کے پیچھے مڑورتا اُسے پوری طرح اپنے گرفت میں قید کر گیا تھا۔۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ "
حبہ بنا دیکھے ہی سمجھ گئی تھی کہ یہ لمس اور خوشبو کس انسان کی تھی۔۔۔۔ اور ہمیشہ اُس کی طاقت کا اندازہ لگا کر کون اُسے قابو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔
"تمہارا دماغ اِس قدر خراب ہے مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔ تم جیسی جذباتی لڑکی کو بھلا پولیس والی بنایا کس نے ہے۔۔۔۔ "
حازم اُس کے باوز کمر پر باندھ چکا تھا۔۔۔
جبکہ حبہ اُس کی یہاں موجودگی اور اب اِس حرکت پر آنکھیں پھاڑے اُسے دیکھنے لگی تھی۔۔۔
"آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔۔۔؟؟ تو کیا آپ اِس وڈیرے کے بُرے کاموں میں بھی اِس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔۔۔۔"
حبہ نے بے یقینی سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جبکہ اُس کی اِس بات کا بھی بنا کوئی جواب دیئے۔۔۔ حازم اُس کے منہ پر بھی رومال باندھ گیا تھا۔۔۔۔
"میں گینگسٹر ہوں۔۔۔ کچھ بھی کرسکتا ہوں۔۔۔ اِس میں اتنی حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حازم اُسے بانہوں میں اُٹھائے واپس مڑتے بولا تھا۔۔۔
جبکہ اُسے نجانے کس جانب جاتا دیکھ ہاتھ پاؤں مارنے لگی تھی۔۔۔۔
حازم اُسے ایسے ہی اُٹھائے کافی دور نکل آیا تھا۔۔۔ وہاں پہاڑوں پر قدرے اونچائی پر ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا تھا۔۔۔۔ حازم کا رُخ اُسی جانب تھا۔۔۔۔
وہ اندر داخل ہوکر گھر کا دروازہ بند کر گیا تھا۔۔۔۔ چھوٹا سا صحن عبور کرتے وہ اندر بنے ایک روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ جہاں چھوٹا سا پلنگ۔۔۔ دو کرسیاں اور کپڑوں کی ایک چھوٹی سی الماری رکھی گئی تھی۔۔۔۔
اُسے نیچے اُتارتے حازم اُس کے منہ سے رومال کھول چکا تھا۔۔۔۔ مگر ہاتھ ابھی بھی نہیں کھولے تھے۔۔۔
"بیٹھ سکتی ہو تم۔۔۔۔ اور جتنا مرضی چلانا ہے چلا بھی سکتی ہو۔۔۔۔۔"
حازم اُسے پلنگ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود کرسی پر بیٹھتا سیگریٹ سلگھا گیا تھا۔۔۔۔
حبہ نے وہیں کھڑے کھڑے اُسے غصے بھری نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔۔ جو اُس کی جانب دیکھنے سے بھی گریزاں تھا۔۔۔۔
"اگر مجھے اپنانے میں اتنا مسئلہ ہے آپ کو۔۔۔ تو مجھے میرا کام کیوں نہیں کرنے دیا۔۔۔۔ "
حبہ کو اُس پر کتنا غصہ تھا وہ بیان نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
حبہ اُس سے ملنے۔۔۔ اُسے واپس دیکھنے کے لیے دو دن سے کتنی تڑپی تھی۔۔۔ مگر یہ شخص ایک بار بھی اُس کے سامنے تک نہیں آیا تھا۔۔۔ اُسے سنبھالنا اور چپ کروانا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔۔
"تم میرے آدمیوں کو مارنے جاؤ گی۔۔۔ اور تمہیں لگتا ہے۔۔۔ میں اتنے آرام سے دیکھتا رہوں گا۔۔۔۔"
حازم نے سیگریٹ کا گہرا کش لگاتے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ بستر پر کروٹ بدلتے بدلتے تھک گئی تھی۔۔۔۔ مگر نیند آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔ جب آخر کار تنگ آکر وہ بیڈ سے اُٹھ آئی تھی۔۔۔
روم سے نکل کر وہ بے مقصد کوریڈور میں چکر کاٹتی ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ جب اُس کی نظر گیٹ سے زرا فاصلے پر بنی انیکسی کے ساتھ بنائے گئے جم خانے پر پڑی تھی۔۔۔ فرح سے ہی اُسے پتا چلا تھا کہ یہ جم خانہ خاص طور پر حمدان کے لیے بنوایا گیا تھا۔۔۔۔
مگر رات کے اِس پہر جم خانے کی لائٹ آن دیکھ مہروسہ کا حیرت ہوئی تھی۔۔۔ اُس کی حیرت بے یقینی میں اُس وقت بدلی جب اُس نے مریم کو وہاں داخل ہوتا دیکھا تھا۔۔۔۔
"یہ لڑکی اِس وقت کیوں جارہی ہے وہاں۔۔۔؟؟ مگر لائٹ تو پہلے سے آن ہے۔۔۔۔ تو اِس کا مطلب وہاں پہلے سے کوئی ہے۔۔۔۔۔"
مہروسہ اِس سوچ کے ساتھ ہی اندر سے جل بھن اُٹھی تھی۔۔۔ حمدان صدیقی رات کے اِس پہر تنہا مریم کے ساتھ تھا۔۔۔ مہروسہ کے اندر کی مشرقی لڑکی یہ بات برداشت نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
وہ فوراً نیچے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتے وہ انیکسی کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ لیکن دروازے تک پہنچتے وہ وہیں رُک گئی تھی۔۔۔ اُسے اندر سے مریم کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھیِں نم ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ حمدان صدیقی اپنی دلی رضامندی سے شادی بالکل بھی نہیں کررہا تھا۔۔۔ مگر وہ کسی اور سے محبت کرتا تھا یہ بات بھی مہروسہ کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا باعث تھی۔۔۔
"مجھے جلد از جلد اپنا کام مکمل کرکے یہاں سے جانا ہوگا۔۔۔ میں مزید یہاں رہ کر خود کو مزید کمزور نہیں کرسکتی۔۔۔ میں ایک طوائف کی بیٹی ہوں۔۔۔ جس کے لیے نہ تو محبت بنی ہے اور نہ ہی حمدان صدیقی جیسا باکردار قبول کرے گا۔۔۔۔
میرے پیارے پروردگار کیوں لکھی آپ نے محبت کی یہ اذیت میری قسمت میں۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری محبت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔۔۔۔
مہروسہ بھیگتی آواز کے ساتھ وہاں سے پلٹ آئی تھی۔۔۔
"ارے اُجالا تم یہاں۔۔۔۔"
مہروسہ ابھی آدھے راستے میں ہی پہنچی تھی۔۔۔ جب اُسے مریم کی حیران سی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی اُسے واپس مُڑنا پڑا تھا۔۔۔
مریم کے ساتھ کھڑے حمدان کو کھڑا دیکھ مہروسہ نے مُٹھیاں بھینچ کر اپنے غصے کو دبایا تھا۔۔۔
سیاہ ٹراؤزر پر سیاہ بنیان پہنے وہ رف سے حلیے میں بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔ اُس کا لمبا چوڑا کسرتی وجود بہت ہی متاثر کن تھا۔۔۔
"ہاں وہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔۔ تو باہر آگئی۔۔۔"
مہروسہ نے فوراً بہانہ بنایا تھا۔۔۔
جبکہ حمدان صدیقی کی نظریں اُس کی روئی آنکھوں اور بھینچی مُٹھیوں پر تھیں۔۔۔
"اوہ اچھا۔۔۔ روم میں چلی جاؤ۔۔۔ بہت ٹھنڈ ہے کہیں بیمار نہ پڑ جاؤ۔۔۔۔ گڈ نائٹ حمدان۔۔۔۔"
اُسے سر سے پیر تک عجیب سے انداز میں گھورتی مریم حمدان کو مسکرا کر گڈ نائٹ کہتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ بھی بنا حمدان کی جانب دیکھے واپس پلٹنے ہی لگی تھی جب اُس نے دیئے جانے والے آرڈر پر مہروسہ نے گھور کر اُسے دیکھا تھا۔۔۔
"اُجالا میرے لیے بلیک کافی بنا کر لاؤ۔۔۔۔ میں اندر ہی ہوں۔۔۔"
اُسے حکم دیتا وہ واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔ اُس کا حاکمانہ انداز بالکل شوہروں والا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ آنکھیں پھاڑے اُس کی چوڑی پشت کو گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
"اپنی چہیتی سے ہی بنواتے نا کافی۔۔۔ جس کے ساتھ بیٹھ کر آدھی رات کو بڑے قہقہے لگائے جارہے تھے۔۔۔ ویسے تو بڑا شریف بنتا ہے یہ ایڈیٹ ایس پی۔۔۔ مگر ابھی اِن لڑکی کے ساتھ ہوتے ساری شرافت ختم ہوجاتی ہے۔۔۔۔ ایسی کافی پلاؤں گی کہ ساری زندگی میری کافی کا ذائقہ منہ سے نہیں جائے گا۔۔۔"
مہروسہ سے مریم اور حمدان کی یہ آدھی رات کی ملاقات ہضم نہیں ہوپائی تھی۔۔۔ اُوپر سے اُس کے دیئے گئے آرڈر پر الگ جلتی بھنتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
آخر کو ایس پی صاحب کو اُن کی فیورٹ بلیک کافی بنا کر بھی دینی تھی نا۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں کافی کا مگ رکھے حمدان کے اُس لگژری سے جم خانے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں ایکسرسائز کی تمام جدید مشینریز موجود تھیں۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔
مہروسہ سے مریم اور حمدان کی یہ آدھی رات کی ملاقات ہضم نہیں ہوپائی تھی۔۔۔ اُوپر سے اُس کے دیئے گئے آرڈر پر الگ جلتی بھنتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
آخر کو ایس پی صاحب کو اُن کی فیورٹ بلیک کافی بنا کر بھی دینی تھی نا۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں کافی کا مگ رکھے حمدان کے اُس لگژری سے جم خانے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں ایکسرسائز کی تمام جدید مشینریز موجود تھیں۔۔۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔
حمدان صدیقی بھاری بھاری ڈمبل اُٹھائے۔۔ ۔ اپنے کسرتی مسلز کے ساتھ ایکسر سائز کرتا مہروسہ کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس کا نمایاں ہوتا کسرتی وجود بہت ہی متاثر کن تھا۔۔۔ مہروسہ کی آنکھیں خیرا ہوئی تھیں۔۔۔
یہ شخص اُس کی اولین چاہت اور اُس کا ہونے والا شوہر تھا۔۔۔ جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔۔
اُس نے بے اختیار حمدان کی جانب سے نگاہیں پھیر لی تھیں۔۔۔ اُسے خوف محسوس ہوا تھا کہ کہیں اُس کی اپنی نظر ہی نہ لگ جائے اُسے۔۔۔۔
وہ جلدی سے کافی ٹیبل پر رکھ کر واپس پلٹنے ہی والی تھی۔۔۔ جب حمدان کی پکار نے اُس کے قدم وہیں جکڑ لیے تھے۔۔۔
"میں ٹاول پکڑا دو اُجالا۔۔۔۔۔"
حمدان کا انداز عجیب سا تھا۔۔۔ جیسے وہ جان بوجھ کر اُسے وہاں روک رہا ہو۔۔۔۔
مہروسہ اپنی بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتی واپس پلٹی تھی۔۔۔ اِس وقت حمدان صدیقی کی جانب نہ دیکھنے سے گھبراتی وہ کہیں سے بھی بلیک سٹار نہیں لگی تھی۔۔۔۔
جس کے کارنامے سن کر بڑے بڑے لوگ لرز اُٹھتے تھے۔۔۔ وہ لڑکی اپنی محبت کے آگے بالکل چھوئی موئی سی بن گئی تھی۔۔۔۔ حمدان صدیقی کے مقابل آتے وہ ایک الگ ہی مہروسہ بن جاتی تھی۔۔۔۔
اُس نے جیسے ہی ٹاول حمدان کو دینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔ حمدان ٹاول کی جگہ مہروسہ کی کلائی اپنی گرفت میں لیتا اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔
مہروسہ اُس کی ایسی کسی حرکت کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔
سیدھی اُس کے فولادی سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
اُس نے گھبرا کر لال ہوتے چہرے کے ساتھ حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو پوری طرح اُسی کی جانب متوجہ تھا۔۔۔
"ییہ یہ آپ کیا۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ نے گھبرا کر اُس کی گرفت سے نکلنا چاہا تھا۔۔۔
"تم مجھ سے اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟؟
میں نے تمہیں یہاں صرف شکریہ ادا کرنے کے لیے بلایا تھا۔۔۔۔۔"
حمدان کا لہجہ اُس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔۔۔ اور مہروسہ کی کلائی پر بھی اُس کی گرفت اِس قدر سخت تھی کہ مہروسہ کو اپنی کلائی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
"نہیں وہ میں تو۔۔۔۔"
اُس کے نہایت قریب کھڑے مہروسہ کا دل اِس بُری طرح دھڑک رہا تھا کہ اُس سے بول پانا محال ہوا تھا۔۔۔
"میری بات کا مان رکھنے کے لیے شکریہ۔۔۔۔۔ تمہارا یہ فیصلہ آگے چل کر تمہارے لیے کتنا بہترین ہونے والا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔ "
حمدان کا انداز گہرا طنز لیے ہوئے تھا۔۔۔
مہروسہ کو حمدان کی باتوں سے گھبراہٹ محسوس ہورہی تھی۔۔۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ بہت بڑا کرنے والا ہے۔۔۔۔
اِس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتی حمدان کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔
بنا اُسے آزاد کیے حمدان نے کال آن کرتے کان سے لگایا تھا۔۔۔ دوسری جانب سے نجانے کیا کہا گیا تھا کہ حمدان کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔۔
"ویری گڈ حماد۔۔۔ مجھے تم سے اِسی بہترین کام کی امید تھی۔۔۔۔ اب بلیک سٹارز کو وہ رائٹ ہینڈ جنید کسی قیمت پر بچنا نہیں چاہیے۔۔۔۔
کل تک مجھے وہ ہر حال میں اپنی قید میں چاہیے۔۔۔ زندہ یا پھر مردہ۔۔۔۔ "
حمدان کی بات سن کر مہروسہ کا دل کانپ اُٹھا تھا۔۔۔ شاہ ویز نے اُن تینوں کے سوا کبھی کسی کا نام سامنے نہیں آنے دیا تھا۔۔۔ پھر بھلا حمدان جنید تک کیسے پہنچ گیا تھا۔۔۔
اور کیا وہ جنید کے اتنے قریب پہنچ گیا تھا کہ اُسے پکڑنے کی بات کررہا تھا۔۔۔
مہروسہ کے لیے جنید بالکل بھائیوں جیسا تھا۔۔۔ اُس کے بارے میں یہ سب سنتے اُس کا دل لرز اُٹھا تھا۔۔۔
مگر اِس وقت وہ بنا کوئی ردعمل دیئے ایسے ہی کھڑی رہی تھی۔۔۔۔
مگر اُس کی آنکھوں میں اُبھرتی خوف کی لکیریں حمدان سے چھپی نہیں رہ پائی تھیں۔۔۔
"آئم سوری ایک بہت اہم کال آ گئی تھی۔۔۔۔
میں نے تمہیں یہاں ایک بہت اہم بات بتانے کے لیے بلایا تھا۔۔۔۔"
حمدان کی بات پر مہروسہ نے مُٹھیاں بھینچ کر اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو پاتے بمشکل اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"ایک ہفتے بعد کے بجائے۔۔۔ میں نے ہمارا نکاح کل رکھوایا ہے۔۔۔ اور ساتھ رخصتی بھی۔۔۔۔ "
حمدان نے بہت ہی آرام سے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔
"کیا۔۔۔"
مہروسہ جو کل جنید کے پاس جاکر اُسے اِس خطرے سے بچانے کا دل ہی دل میں پلان بنا چکی تھی۔۔۔ حمدان کے اِس نئے انکشاف پر اُس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔
جو اُسے نکاح میں اُلجھا کر بہت بڑا کھیل کھیلنے والا تھا۔۔۔۔۔
"مگر اتنی جلدی کیسے۔۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ کے بے چینی سے پہلو بدلنے پر حمدان نے مسکرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
اور اگلے ہی لمحے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔
"تم سے مزید دوری اِس دل کو برداشت نہیں اب۔۔۔ میں جلد از جلد اِن فاصلوں کو ختم کرکے۔۔۔ اپنے بے قرار دل کو قرار بخشنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی میرے دل میں تمہارے لیے کتنے شدت بھرے جذبات ہیں۔۔۔۔ جن کا انداز کل میری دسترس میں آنے بعد ضرور ہوجائے گا تمہیں۔۔۔۔ اور میری شدتوں کا بھی۔۔۔۔"
حمدان اُس کے کان کی لوح کو چھو کر اُسے سر سے پیر تک منجمند کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا تھا۔۔۔ پورا وجود اِس سنگدل شخص کی قربت پر لرز رہا تھا۔۔۔۔ اور دل آنے والے وقت کا سوچ جیسے رکتا ہوا محسوس ہوا تھا اُسے۔۔۔
کچھ غلط ہونے کے احساس سے اُس کے تن بدن میں بے چینی بھر گئی تھی۔۔۔۔
حمدان کے انداز بتا رہے تھے کہ وہ کسی قیمت پر جنید کو چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔۔ اور اگر جنید کو کچھ ہوتا تو شاہ ویز اور حازم حمدان کو نہیں چھوڑنے والے تھے۔۔۔ اور یہی حمدان کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ اُن دونوں کو اپنے سامنے لانا چاہتا تھا۔۔۔
اگر ایسا ہوجاتا تو بہت بڑی انہونی ہوجاتی۔۔۔
مہروسہ اپنا سر پکڑتی وہیں بیٹھ گئی تھی۔۔۔ ہر طرف سے نقصان اُسی کا ہونے والا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز پریسا کو لاکر گاڑی میں ڈالتا اُس ایریا سے نکلتا سیدھے بلیک ہاؤس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
اُس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ اِس وقت کس قدر غصے کے زیرِ اثر ہے۔۔۔۔ اُس کے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے اور کنپٹی کی رگیں باہر کو اُبھری ہوئی تھیں۔۔۔
بلیک ہاؤس پہنچتے ہی وہ پریسا کو بانہوں میں اُٹھاتا اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
اُس کے اشارے پر فوراً ڈاکٹر کو بلوایا گیا تھا۔۔۔
"یہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔ دھواں اندر چلے جانے اور خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھیں۔۔۔ کچھ دیر میں ہی ہوش آجائے گا۔۔۔۔"
ڈاکٹر پریسا کا چیک اپ کرنے کے بعد شاہ ویز کو بتاتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
"اِس کا خیال رکھنا۔۔۔ اور ہوش میں آتے ہی واپس اِس کے آفندی منشن پہنچا دینا۔۔۔ میں اپنے کمرے میں ہوں۔۔ مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔"
شاہ ویز سختی سے ہدایت دیتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ اقراء نے گھبرا کر اُس کے جلے بازو کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
دوسروں کا درد بانٹنے اور زخموں پر مرہم رکھنے والا اُن کا یہ لیڈر اپنے معاملے میں اتنا ہی لاوپرواہ اور ظالم تھا۔۔۔ جو تکلیف برداشت کرتا رہتا تھا۔۔۔ مگر اپنے زخموں پر کسی کو مرہم نہیں رکھنے دیتا تھا۔۔۔
اُس کے ہاتھ پر ہوتی جلن کے احساس سے اقراء کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔ مگر وہ اُسے کچھ کہنے یا ٹوکنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
ابھی اُسے گئے کچھ لمحے ہی گزرے تھے جب پریسا نے کسمساتے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔۔ مگر خود کو اُس بھڑکتی آگ میں جھلسنے کے بجائے یہاں بالکل صحیح سلامت دیکھ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔
"پری تم ٹھیک ہو۔۔۔؟؟"
اُسے یوں روتا دیکھ اقراء فوراً اُس کے قریب آتی اُس کا ہاتھ تھام گئی تھی۔۔۔
"شاہ۔۔۔ شاہ ویز کہاں ہے۔۔۔ وہ ٹھیک ہے نا؟؟؟ مجھے اُس سے ملنا ہے۔۔۔۔؟؟"
پریسا اقراء کو سامنے دیکھ سمجھ چکی تھی کہ وہ اِس وقت بلیک ہاؤس میں موجود ہے۔۔۔۔
"وہ بالکل ٹھیک ہیں اور اپنے روم میں ہیں۔۔۔ تم ابھی نہیں مل سکتی اُن سے۔۔۔ اُنہوں نے سختی سے منع کیا ہے۔۔۔"
اقراء پریسا کا شاہ ویز کے لیے ایسا دیوانوں بھرا رُوپ دیکھ حیرت میں ڈوب چکی تھی۔۔۔
"مگر مجھے ابھی اُس سے ملنا ہے۔۔۔۔"
پریسا اُس سے اپنا ہاتھ چھڑواتی اُٹھی تھی۔۔۔ جب اُس کا سر بہت بُری طرح چکرایا تھا۔۔۔۔
گزرے لمحوں جو کچھ بھی اُس کے ساتھ ہوا تھا اُسے بہت اچھی طرح واضح ہوچکا تھا کہ وہ کس کے لیے کتنی اہم تھی۔۔۔ اور اُس کا دل اب کس کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کے لیے اپنے جن جذبات کو وہ اتنے ٹائم سے دباتی آرہی تھی۔۔۔ وہ اب دل سے انہیں تسلیم کرچکی تھی۔۔۔ سفیان آفندی تو بہت پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔
اُس کے لیے اب شاہ ویز سکندر سے اہم کوئی نہیں رہا تھا۔۔۔۔ اُس نے شاہ ویز کی آنکھوں میں اپنے لیے جو تڑپ دیکھی تھی اُس نے اُس کے دل و دماغ کو پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔۔۔۔
اقراء نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ اُس کی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کرواتی باہر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"پری ابھی شاہ سر بہت غصے میں لگ رہے تھے۔۔۔ پلیز ابھی مت جاؤ۔۔۔۔ "
اقراء شاہ ویز کی لال آنکھیں دیکھ اُس کے غصے کا اندازہ لگا چکی تھی۔۔۔۔ اِس لیے اُسے روکتے ہوئے بولی۔۔۔۔
جس پر پریسا کو ناچار اُس کی بات ماننی پڑی تھی۔۔۔
مرر کے سامنے سے گزرتے اُس نے اپنے حلیے پر نظر دوڑائی تھی۔۔۔۔
اُس کا چہرا دھویں کی وجہ سے سیاہی مائل ہورہا تھا۔۔۔۔ کپڑوں اور بالوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔
اقراء نے اُسے اپنا ڈریس نکال کر دیتے فریش ہونے کا کہا تھا۔۔۔
"شاہ سر کا غصہ بہت غضبناک ہوتا ہے۔۔۔۔ سوچ لو۔۔۔ ابھی بات کر لو گئی اُن سے۔۔۔۔"
اقراء نے اپنے سامنے بیٹھی پریسا کو دیکھا تھا۔۔۔ جو سیاہ قمیض شلوار میں گیلے لمبے بالوں کی آبشار کو کمر پر کھلا چھوڑے سامنے رکھے کافی کے مگ پر نگاہیں گاڑھے بیٹھی تھی۔۔۔۔
اُس کا انداز بہت گم صم سا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اپنے دل کی مان کر وہ جو کرنے والی ہے۔۔۔ وہ ٹھیک بھی ہوگا یا نہیں۔۔۔
شاہ ویز سکندر کوئی عام انسان نہیں تھا۔۔۔ ایک بہت بڑا گینگسٹر تھا۔۔۔ اور اُس کی ستم ظریفی ہی یہی تھی۔۔۔ کہ وہ ایک ایسے ہی انسان کے ساتھ دل لگا بیٹھی تھی۔۔۔۔
"مجھے ملنا ہے اُس سے۔۔۔۔"
پریسا ابھی بھی بضد تھی۔۔۔
اُس کی آنکھوں میں ٹھہرے آنسو دیکھ اب کی بار اقراء اُسے روک نہیں پائی تھی۔۔۔
پریسا لرزتی ٹانگوں کے ساتھ شاہ ویز کے کمرے کے باہر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل بُری طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔
مگر وہ اب یہاں تک آکر پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی۔۔۔
اُس نے دروازہ دھکیلتے اندر قدم رکھا تھا۔۔۔
جہاں چھائے اندھیرے کو دیکھ وہ مزید خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے چاروں جانب نظریں دوڑائی تھیں مگر اندھیرے کے سوا اُسے کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔۔۔
"کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔۔"
شاہ ویز کا سرد گھمبیر سپاٹ لہجہ اُس کے کانوں سے ٹکراتا اُسے رُخ موڑنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔
اُس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔۔
اُسی لمحے شاہ ویز نے سیگریٹ سلگانے کے لیے ماچس جلائی تھی۔۔۔۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔"
پریسا کو جلتے سگریٹ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ اُس نے کمرے میں اِس قدر اندھیرا کر رکھا تھا۔۔۔ پریسا کو خوف کے مارے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
اُس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی اِس شخص کو سیاہ رنگ اور اندھیرا اِس قدر پسند کیوں ہیں۔۔۔ جن دونوں چیزوں سے اُسے سخت نفرت تھی۔۔۔
"بولو۔۔۔۔۔"
ایک بار پھر وہی بے تاثر لہجہ۔۔۔۔
پریسا کو اِس وقت کہیں سے بھی محسوس نہیں ہورہا تھا کہ یہ وہی انسان ہے۔۔ جو اُس کی خاطر آگ میں گودا تھا۔۔۔۔۔
جس کی آنکھوں میں اُس نے اپنے لیے خوف دیکھا تھا۔۔۔
"مجھے اندھیرے سے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ پلیز لائٹ آن کر دو۔۔۔"
پریسا نے اُس سے التجا کی تھی۔۔۔
"میری دنیا میں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ملے گا تمہیں۔۔۔ اِس لیے جو کہنے آئی ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ۔۔۔ "
شاہ ویز اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کی جانب بڑھتا بے لچک اور بے حسی بھرے انداز میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اگر مجھے اپنانے میں اتنا مسئلہ ہے آپ کو۔۔۔ تو مجھے میرا کام کیوں نہیں کرنے دیا۔۔۔۔ "
حبہ کو اُس پر کتنا غصہ تھا وہ بیان نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
حبہ اُس سے ملنے۔۔۔ اُسے واپس دیکھنے کے لیے دو دن سے کتنی تڑپی تھی۔۔۔ مگر یہ شخص ایک بار بھی اُس کے سامنے تک نہیں آیا تھا۔۔۔ اُسے سنبھالنا اور چپ کروانا تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔۔
"تم میرے آدمیوں کو مارنے جاؤ گی۔۔۔ اور تمہیں لگتا ہے۔۔۔ میں اتنے آرام سے دیکھتا رہوں گا۔۔۔۔"
حازم نے سیگریٹ کا گہرا کش لگاتے اُس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟؟ "
حبہ مزید کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔
"وہی جو تم سمجھ رہی ہو۔۔۔۔"
حازم نے نظریں اُس کے دلنشین سراپے پر ڈالی تھیں۔۔۔ جو نائٹ سوٹ پر شال لپیٹے ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی حازم سالار کے دل کے تاڑ چھیڑ گئی تھی۔۔۔
مگر اپنے منہ زور جذبات پر بمشکل بندھ باندھتے وہ ایک کے بعد دوسرا سیگریٹ سلگھانے لگا تھا۔۔۔۔
"نہیں تم اتنے بُرے انسان نہیں ہوسکتے۔۔۔۔"
اُس کی بات سن کر حبہ کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتی اُس کے قریب اُس کے قدموں میں آن بیٹھی تھی۔۔۔
اُس کا یہ عمل حازم سالار کے دل پر بہت بھاری ثابت ہوا تھا۔۔۔
مگر اُس کے سامنے برا بنے رہنے کے لیے وہ ایسے ہی بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔
"تو آج تک کونسا گینگسٹر دیکھا ہے تم نے۔۔۔ جو اچھا انسان ہے۔۔۔ اچھے انسان بھلا گینگسٹر کیسے بن سکتے ہیں۔۔۔۔۔ "
حازم اُس کی آنکھوں میں جھانکتا اُسے یقین دلاتے بولا تھا۔۔۔۔
"تم لڑکیوں کی اسمگلنگ کرتے ہو۔۔۔ ؟؟"
یہ سوال پوچھتے حبہ کی آواز کانپ گئی تھی۔۔۔ جس انسان سے وہ اِس قدر محبت کرتی تھی۔۔۔ جسے اتنے سالوں سے وہ اپنے دل میں بسائے۔۔۔ بے پناہ بےلوث چاہتی آئی تھی۔۔۔ اُس کا ایسا رُوپ دیکھ پانا اُس کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور جان لیوا تھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔۔ اور اِس سے بھی کہیں زیادہ بُرے کام جو تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔""تمہیں کیا لگتا ہے حازم سالار یہ ڈرامہ کرکے ایس پی حبہ کو بے وقوف بنا لو گے۔۔۔۔ "
اُس کی گردن میں بازو حمائل کرتے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ اُسے باور کروا گئی تھی کہ اُسے بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی یہ دلربانہ ادا حازم سالار کے دل پر بجلیاں گرا گئی تھی۔۔۔۔
وہ اُسے دور کرتا اُٹھا کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
"تمہیں کس نے کہا تھا اِسی فیلڈ کو جوائن کرو۔۔۔ باقی عام لڑکیوں کی طرح کوئی نارمل کام نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔"
حازم اُسے پوری طرح اگنور کرنے کی کوشش میں پانی کا گلاس اُٹھاتا ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔۔۔
"اگر یہ فیلڈ جوائن نہ کرتی تو تم تک کیسے پہنچ پاتی میر حازم سالار۔۔۔ "
حبہ اُس کے مقابل آن کھڑی ہوتی اُسے بخشنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں تھی آج۔۔۔۔
"تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ تم مجھ تک پہنچ چکی ہو۔۔۔۔"
حازم نے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا تھا۔۔۔ جس کی آنکھوں کی چمک انوکھی تھی۔۔۔۔
"ہاں اور بہت جلد تمہارے گینگ کو ختم کرکے اپنے شوہر کو واپس پا لوں گی۔۔۔۔"
حبہ اُس کی اصلیت جان کر بھی اُس سے نفرت نہیں کر پائی تھی۔۔۔ وہ اُسے سدھارنا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ چاہتی تھی حازم اِن اندھیروں سے نکل کر اُس کے ساتھ ایک نارمل زندگی گزارے۔۔۔۔
"ایسا ناممکن ہے۔۔۔ جو میرے گینگ کی جانب بُری نگاہ سے دیکھے گا۔۔۔ اُسے سب سے پہلے مجھ سے ٹکرانا ہوگا۔۔۔ میرے ساتھی، میرے لوگ میری زندگی ہیں۔۔۔ جن کے بغیر حازم سالار اب کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔"
حازم کا انداز بے لچک تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر حبہ تپ اُٹھی تھی۔۔۔
"تو تم اپنے اُن برائی میں گھرے لوگوں کی خاطر مجھے بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرو گے۔۔۔"
حبہ اُس کا گریبان مٹھیوں میں دبوچتے اُس کے مقابل آئی تھی۔۔۔۔
جبکہ حازم اُس کے اِس بپھرے انداز پر اپنی مسکراہٹ روک نہیں پایا تھا۔۔۔
"تم تو میری جان ہو۔۔۔ تمہیں نقصان پہنچانے سے پہلے حازم سالار خود کو نہ ختم کردے۔۔۔"
اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا وہ اُسے اپنے قریب کر گیا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ نے اُلجھی نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم مجھے گھما رہے ہو حازم سالار۔۔۔ کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔۔۔ کرنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کو حازم کا پر اسرار انداز ٹھٹھکا گیا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے اُس کے کانوں میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دی تھیں۔۔۔
"یہ فائر کہاں ہوئے ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے تشویش بھری نگاہوں سے حازم کو دیکھا تھا۔۔۔
"وڈیرا قربان شاہ کے آدمیوں کو فورس کے لوگوں کے یہاں آنے کی خبر ہوچکی ہے۔۔۔ یہ ابھی جو فائرنگ ہوئی ہے یہ تمہارے ہی ساتھیوں کو مارا گیا ہے۔۔۔ اور جن لوگوں کو تم مارنے جارہی تھی۔۔۔ وہ سب جاگ رہے تھے۔۔۔ اور تمہاری جانب سے ہی کسی حملے کے منتظر تھے۔۔۔ تمہارے آفیسر کی عقل لگتا کے گھاس چڑنے جا چکی ہے۔۔۔ کتنی بار اُن تک پیغام بھجوایا گیا ہے کہ یہاں اپنے آدمیوں کے بھیج کر اُن کی جان خطرے میں مت ڈالیں۔۔۔ مگر اُنہیں تو بس ایک چیز ہی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔۔ وڈیرا قربان شاہ کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔۔۔ اُس کے مخبر پولیس فورس میں بڑے بڑے عہدوں پر موجود ہیں۔۔۔ جنہیں پیسہ کھلا کر وہ اپنا غلام بنا چکا ہے۔۔۔۔ ایک لیڈی آفیسر یہاں آئی ہے۔۔۔ اِس بات کی خبر تمہارے یہاں پہنچنے سے پہلے اُس تک پہنچ چکی تھی۔۔۔ تمہاری بہتری اِسی میں ہے کہ تم یہاِں سے لوٹ جاؤ۔۔۔۔"
حازم نے اُسے تفصیل بتاتے اُس کا فق پڑتا چہرا دیکھا تھا۔۔۔۔ اپنے لوگوں کے مارے جانے کا دکھ آنسو بن کر اُس کی آنکھوں سے بہہ نکلا تھا۔۔۔
اُن کے اپنے لوگ ہی جب اُن کے خلاف تھے تو وہ بھلا کس طرح ایسے وڈیروں کا مقابلہ کر پاتی۔۔۔۔
"تم مجھے کمزور اور بزدل سمجھتے ہو۔۔۔ جو یوں ڈر کر بھاگ جاؤں گی میں۔۔۔۔ اُن لوگوں کے ساتھ ساتھ تم بھی قاتل ہو میرے لوگوں کے۔۔۔ تمہیں پتا تھا نا کہ وہ اُنہیں مارنے والے ہیں تو بتایا کیوں نہیں مجھے۔۔۔ حازم سالار میرا دل تمہاری اصلیت جان لینے کے بعد بھی یہ بات نہ ماننے پر بضد تھا کہ تم اتنے بُرے انسان نہیں ہوسکتے۔۔۔ جو انسانی جانوں سے کھیلنے جیسا گھناؤنا فعل کرو۔۔۔ مگر آج تم نے ثابت کردیا ہے۔۔۔ کہ تم ایک انتہائی۔۔۔۔"
حبہ نے اُس سے خود آزاد کرواتے بنا اُسے سمجھے۔۔۔ اُس پر الزامات کی بارش کر دی تھی۔۔۔
حازم خاموشی سے کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
مگر اُس کی آخری بات برداشت نہ کر پاتے وہ اُس کی کلائی اپنی گرفت میں لیتا اُسے کھینچ کر دیوار سے لگاتا اُس کے ہونٹوں پر اپنی مضبوط ہتھیلی جما گیا تھا۔۔۔
"ہاں ہوں میں انسانوں کی زندگیاں نگلنے والا خونی درندہ۔۔۔ جان لیتا ہوں میں لوگوں کی۔۔۔۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ تم سمیت تمہارے دونوں پولیس اہلکاروں کو مارنے والا ہے وہ وڈیرا۔۔۔ سب کچھ جانتا ہوں۔۔۔۔ دنیا کا سب سے بُرا انسان ہوں میں۔۔۔ جس کے لیے انسانی جانیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔۔۔۔ یہی ہے میری اصلیت۔۔۔ اور میں اپنی اِس پہچان کے ساتھ بے پناہ خوش بھی ہوں۔۔۔۔ ایس پی حبہ حازم سالار تم مجھ جیسے بلیک سٹار کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاؤ گی۔۔۔۔ کیونکہ تم اب ایک پولیس والی ہو۔۔۔ حازم کی حبہ نہیں۔۔۔ جو میرے بنا بولے میری ہر بات سمجھ جایا کرتی تھی۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دوں گا۔۔۔۔ "
حازم اُسے آزاد کرتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
جب حبہ نے اُسے پیچھے سے جاتے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے ایک کک رسید کرتے اُسے نیچے گرانا چاہا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے حازم واپس پلٹا تھا۔۔۔
اور گرتے گرتے اُسے بھی اپنے ساتھ کھینچ گیا تھا۔۔۔
دونوں ایک ساتھ پیچھے رکھے پلنگ پر جاگرے تھے۔۔۔
اُن کے پورے وزن سے گرتے ہی زور دار آواز کے ساتھ پلنگ ٹوٹتا پورے کمرے میں وزن پیدا کر گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"مجھے اندھیرے سے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ پلیز لائٹ آن کر دو۔۔۔"
پریسا نے اُس سے التجا کی تھی۔۔۔
"میری دنیا میں اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ملے گا تمہیں۔۔۔ اِس لیے جو کہنے آئی ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ۔۔۔ "
شاہ ویز اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُس کی جانب بڑھتا بے لچک اور بے حسی بھرے انداز میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا کا دل اُس کی اِس قدر سنگدلی پر کانپ گیا تھا۔۔۔
پریسا اپنے بہت قریب اُس کی دلفریب مہک محسوس کرتی چند قدم پیچھے ہٹی تھی۔۔۔
اُسے روم میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ شاہ ویز کے سیگریٹ کا دھواں اُس کے نتھنوں سے ٹکراتا اُسے کھانسنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔
"شاہ ویز سکندر ہر شے پر تمہارا اختیار نہیں چل سکتا۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھوں سے آنسو پھسلا تھا۔۔۔
"تمہیں میری بات سننی ہوگی۔۔۔ "
پریسا اُس سے بنا ڈرے اپنا لہجہ مضبوط کرتے بولی تھی۔۔۔۔
"بولو۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ہاتھ بڑھا کر ساری لائٹس آن کردی تھیں۔۔۔ چند سیکنڈز کے اندر پورا کمرہ روشنیوں میں جگمگا گیا تھا۔۔۔
پریسا نے نگاہیں اُٹھا کر بے قراری سے اُس کے جلے بازو کو دیکھا تھا۔۔۔
جس پر اُس شخص نے ابھی تک کچھ نہیں لگاتا تھا۔۔۔
سیاہ لباس میں اپنے مغرور نقوش پر سختی بھرے تاثرات سجائے وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"تم اتنے بے رحم کیوں ہو۔۔۔ تمہیں خود پر بھی زرا رحم نہیں آتا۔۔ کوئی انسان بھلا خود کو اتنی تکلیف کیسے دے سکتا ہے۔۔۔"
اُس کا زخم دیکھ پریسا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی جاری ہوچکی تھی۔۔۔
"تم کچھ کہنے والی تھی۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے آنسو دیکھ سختی سے اپنی مُٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔
"میں نے کہا نا ہر بات پر تمہارا اختیار نہیں چلے گا شاہ ویز سکندر۔۔۔ "
پریسا اُس کی بات کو اگنور کرتی الماری کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ اور وہاں سے فرسٹ ایڈ باکس نکالتے واپس سے شاہ ویز کے قریب آئی تھی۔۔۔
اُس نے ابھی شاہ ویز کا بازو تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا۔۔۔ جب شاہ ویز اُس کے ہاتھ سے باکس چھین کر دور اُچھال گیا تھا۔۔۔۔
اور اُس کی کلائی تھام کر کمر کے پیچھے موڑتے اُس نے جھٹکے سے پریسا کو اپنے قریب کیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کے اِس جارحانہ عمل پر گھبرا گئی تھی۔۔۔
"پریسا آفندی میں تمہاری موجودگی زیادہ دیر یہاں برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میرے پاس ہر بات کا اختیار ہے۔۔۔ تمہیں یہاں سے باہر پھینکوانے کا بھی۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے لال آنکھیں اُس کی آنکھوں میں گاڑھے بولتا اُسے خود سے خوفزدہ کرنا چاہا تھا۔۔۔
وہ اِس لڑکی کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھ برداشت نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ اُس کے اندر اک اَن دیکھی جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔
اُس نے پریسا کی کلائی اتنی سختی سے مروڑ رکھی تھی کہ پریسا کا چہرا تکلیف کے مارے زرد پڑ چکا تھا۔۔۔
"نہیں ہر شے پر اختیار نہیں ہے تمہارا شاہ ویز سکندر۔۔۔ مجھ پر اور میرے دل پر تو بالکل بھی نہیں۔۔۔ تم مجھے خود سے نفرت کروانا چاہتے تھے نا۔۔ مگر دیکھو نفرت نہیں کر پائی میں تم سے۔۔۔ محبت کرنے لگی ہوں میں تم۔۔۔ شدید محبت۔۔۔۔ "
پریسا تکلیف کے باوجود اُس کی لال وحشت ناک آنکھوں میں جھانکتے بولتی اپنی محبت کا اظہار کر گئی تھی۔۔۔
جبکہ اُس کی بات سن کر شاہ ویز کی گرفت مزید سخت ہوئی تھی۔۔۔
"مگر مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔۔ شدید نفرت۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے اُسے خود سے دور جھٹکتے پریسا کو قہر برساتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے انداز میں اپنے لیے اتنی حقارت دیکھ پریسا لرز اُٹھی تھی۔۔۔ اُس کے الفاظ پریسا آفندی کا دل چیر گئے تھے۔۔۔ جس نے آج تک کسی کے سامنے اپنی زرا سی پسندیدگی کا اظہار نہیں تھا۔۔۔ وہ لڑکی آج ہر لحاظ بلائے تاک رکھتی سامنے کھڑے بے درد انسان کے سامنے محبت کا اظہار کر گئی تھی۔۔۔ مگر ہمیشہ کی طرح وہ اپنی سفاکیت کی انتہاء کرتا اُس کا دل چکنا چور کر گیا تھا۔۔۔
"تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ اگر تم مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہوتے تو اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہر بار مجھے بچانے نہیں آتے۔۔۔۔ "
پریسا نے فوراً نفی میں سرہلاتے اُسے دیکھا تھا۔۔۔
جس کی آنکھوں میں نظر آتے نفرت بھرے تاثرات وہ برداشت نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
"تمہاری جان میں نے تمہاری محبت میں پاگل ہوتے نہیں بچائی۔۔۔ تمہاری اور تمہارے خاندان کی بربادی کی خاطر تمہارا زندہ رہنا میرے لیے بہت ضروری ہے۔۔۔ تم میرا سب سے اہم مہرا ہو۔۔۔ جسے اتنی آسان موت نہیں مرنے دے سکتا میں۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات سن کر پریسا لڑکھڑائی تھی۔۔۔۔ اپنے لیے اُس شخص کی آنکھوں میں اتنی نفرت دیکھنا جس سے آپ محبت کرتے ہوں انتہائی درد ناک تھا۔۔۔
پریسا کی حالت اِس وقت ایسی ہی تھی۔۔۔
اُس نے بے اختیار پاس رکھی کرسی کو تھامتے خود کو گرنے سے بچایا تھا۔۔۔
"اِس نفرت کی وجہ جان سکتی ہوں۔۔۔۔ "
پریسا بمشکل بول پائی تھی۔۔۔
اُس کی بھیگتی آنکھوں کے پیچھے شاہ ویز کا عکس دھندلا چکا تھا۔۔۔
"آفندی مینشن جاکر اپنے چچا شہباز آفندی اور ہونے والے شوہر سفیان آفندی سے پوچھنا۔۔۔ بہت تفصیل سے بتائیں گے تمہیں۔۔۔۔ اب جا سکتی ہو تم یہاں سے۔۔۔ بہت جلد آؤں گا میں آفندی مینشن تم سب کی بربادی بن کر۔۔۔۔"
شاہ ویز نفرت سے چور لہجے میں بولتا اُس کی جانب سے رُخ موڑ گیا تھا۔۔۔
جبکہ پریسا کی حالت اِس قدر خراب ہوچکی تھی کہ اُس سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو پانا بھی مشکل ہوا تھا۔۔۔
سفیان اور اپنے باقی خاندان والوں کی خود غرضی دیکھنے کے بعد اُس کا دل صرف اور صرف شاہ ویز سکندر کی طلب کرنے لگا تھا۔۔۔
اُسے یہی لگا تھا کہ جو انسان اُس کی خاطر آگ میں کود سکتا تھا۔۔۔ وہ اُس سے کس قدر بے پناہ محبت کرتا ہوگا۔۔۔ مگر شاہ ویز سکندر کا یہ نیا رُوپ اُس کی ہستی فنا کر گیا تھا۔۔۔
اُسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ شاہ ویز سکندر اُس سے اتنی نفرت کرتا ہوگا۔۔۔۔ اُسے اِس وقت اپنے دل پر بے پناہ غصہ آرہا تھا کہ جسے محبت ہوئی بھی تھی تو کیسے بے رحم انسان سے۔۔۔ جو تکلیف دینے کے سوا کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔۔۔
پریسا شاہ ویز کے پاس آنے سے پہلے سفیان سے شادی سے انکار کا پورا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔
مگر اب شاہ ویز کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر خود کو سزا دینے کے لیے اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب سفیان آفندی سے شادی ضرور کرے گی۔۔۔ اب وہ ہر وہ کام کرے گی۔۔ جس سے اُسے اذیت ملے۔۔۔۔
وہ خود کو خود ہی اِس محبت کی سزا دینا چاہتی تھی۔۔۔
وہ بنا کسی کو بتائے بلیک ہاؤس سے نکل آئی تھی۔۔۔
اُس کا دوپٹہ زمین پر گھسٹتا جا رہا تھا۔۔۔
مگر اُسے کسی بھی شے کا کوئی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔
اُسے بس خود کو اذیت دے کر اپنے دل کی اُس تکلیف کو کم کرنا تھا جو شاہ ویز سکندر کی اپنے لیے نفرت جان کر ملی تھی اُسے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
صدیقی ولا میں حمدان اور مہروسہ کے نکاح میں شرکت کرنے کے لیے تمام مہمان صبح صبح ہی پہنچ چکے تھے۔۔۔ حمدان کی خواہش پر نکاح پوری دھوم دھام کے ساتھ کیا جارہا تھا۔۔۔
جس میں اُس نے اپنے اُن اُن رشتہ داروں کو بھی بلوایا تھا جن سے وہ خود بمشکل چند ایک بار ملا تھا۔۔۔
اُس کا مقصد صرف مہروسہ کو کسی بھی صورت گھر سے نہ نکلنے دینا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کا نہ تو کسی سے رابطہ ہو پارہا تھا اور نہ ہی حمدان کی اتنی ساری کزنز کے بیچ وہ باہر نکل پارہی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی حالت بہت خراب تھی۔۔۔ جنید کے سر پر موت منڈلا رہی تھی اور وہ جانتے بوجھتے کچھ نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ اُس نے اپنے نجانے کتنے آدمیوں کے نمبر پر فون کر ڈالا تھا مگر اُس کی کال ہی نہیں جا پا رہی تھی۔۔۔
مہروسہ بہت اچھے سے سمجھ رہی تھی کہ حمدان یہ سب جان بوجھ کر رہا ہے۔۔۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ حمدان یہ سب نکاح کا بھی صرف ایک ناٹک ہی کررہا تھا۔۔۔
ایس پی حمدان اُس جیسی لڑکی سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔
مریم کے چہرے کے پرسکون تاثرات دیکھ ہی مہروسہ سمجھ گئی تھی کہ مریم کو بھی حمدان نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔۔۔۔
مہروسہ کی پریشانی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔۔۔ اُس کا کئی بار دل چاہا تھا کہ جنید کی زندگی بچانے کی خاطر وہ حمدان کے سامنے جاکر اپنی حقیقت بتا دے۔۔۔ مگر وہ جانتی تھی اگر اُس نے ایسا کردیا تو شاہ ویز اور حازم اُسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔۔۔
اِس لیے وہ چاہنے کے باوجود ایسا کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
"مہرو تم پریشان لگ رہی ہو مجھے۔۔۔۔ سب خیریت ہے۔۔۔"
نسرین بیگم جو مہروسہ کی سچائی سے واقف تھیں۔۔۔ صبح سے اُسے بے چین سا دیکھ وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی تھیں۔۔۔۔
"خالہ جان خیریت بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ میں بہت زیادہ پریشان ہوں۔۔۔ آپ کا وہ اُلٹی کھونپڑی والا بھتیجا جنید کو مارنا چاہتا ہے۔۔ وہ اُس تک پہنچ چکا ہے۔۔۔۔ اور جنید کو خبر تک نہیں ہے۔۔۔ میں صبح سے کوشش کررہی ہوں۔۔ مگر اُس نے نجانے میرے موبائل کو کیا کردیا ہے۔۔۔ میں کسی کو کال ہی نہیں کر پارہی۔۔۔۔ فرح آپی کے موبائل سے بھی ٹرائے کیا ہے۔۔۔ مگر نیٹ ورک بہت ڈاؤن جا رہا ہے۔۔۔ مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے۔۔۔ جنید کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ "
مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔
اُن تینوں بلیک سٹارز کے لیے اپنے لوگ بہت قیمتی اور اہم تھے۔۔۔ جن پر آئی زرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔
اُس کی بات سن کر نسرین بیگم بھی پریشان ہو اُٹھی تھیں۔۔۔ وہ ایک دو بار جنید سے مل چکی تھیں۔۔۔ یہ خبر سن کر وہ بھی پریشان ہوئی تھیں۔۔۔
"حمدان ایسا کیوں کرنا چاہتا ہے۔۔۔ جنید تو اتنا اچھا بچا ہے۔۔۔ آج تک میں نے اُسے دوسروں کے ساتھ بھلا کرتے ہی دیکھا ہے۔۔۔ مہرو کچھ بھی کرکے اسے بچا لو۔۔۔ کیا میں اِس معاملے میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہوں۔۔۔؟؟"
نسرین بیگم نے ابھی اتنا ہی کہا تھا۔۔ جب کسی خیال کے تحت مہروسہ کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔۔۔
"وہ کوئی رسم ہوتی ہے نا۔۔۔ جس میں دلہے کو رخصتی سے پہلے دلہن سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔ آپ بس اُسی کا شور مچا دیں۔۔۔ اور حمنہ کو یہاں بھیج دیں۔۔۔ میں اُسے یہاں بیٹھا کر باہر جاؤں گی۔۔۔ اور آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں لوں گی۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے اُنہیں حامی بھرتے دیکھ جلدی سے کہا تھا۔۔۔
"تم بے فکر ہوکر جاؤ میں سب سنبھال لیتی ہوں۔۔۔"
نسرین بیگم اُسے سیاہ شال نکال کر تھمائی تھی۔۔۔
جب اُسی لمحے دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی حمدان اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
اُسے وہاں آتا دیکھ مہروسہ کا رنگ فق ہوا تھا۔۔۔ اُسے جنید کی بہت فکر ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے جلدی سے شال اپنے پیچھے کرتے حمدان سے چھپائی تھی۔۔۔
مگر حمدان کی نظر اندر داخل ہوتے ہی شال پر پڑ چکی تھی۔۔۔۔
حازم نے مٹھیاں بھینچتے بہت مشکل سے اُس کی آنکھ سے ٹوٹتے آنسو کو دیکھا تھا۔۔۔
"اگر کبھی ایسے ہی میری اور صبا کو بھی بیچنا پڑ جائے تب ہمارا بھی سودا کر لو گے۔۔۔۔"
ایس پی حبہ نے اُس کا ہاتھ تھامتے بھیگتے چہرے کے ساتھ جو سوال کیا تھا۔۔۔ وہ حازم سالار کی روح فنا کر دینے کے لیے کافی تھا۔۔۔
حازم کے سارے ضبط ٹوٹ گئے تھے۔۔۔۔ وہ حبہ کا جبڑا اپنی مضبوط ہتھیلی کے شکنجے میں لیتا اُس کی جانب جھکا تھا۔۔۔
"آج تو یہ بکواس کی ہے۔۔۔ آئندہ اگر ایسا کچھ بولا تو گدی سے زبان کھینچ لوں گا۔۔۔۔"
حازم کو غصہ بہت کم آتا تھا۔۔۔ مگر جب آتا تھا تو اتنا ہی شدید ہوتا تھا۔۔۔۔ حبہ نے جو کہا تھا وہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ۔۔۔ حبہ بہت اچھے سے جانتی تھی کہ وہ صبا کو اپنی سگی بہن سے بڑھ کر چاہتا ہے۔۔۔ اور وہ۔۔۔ اُس کے لیے تو حازم سالار کی محبت کا اندازہ لگا پانا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔
حازم کی دیوانگی نے ہی تو سالوں پہلے اُسے اپنا دیوانہ بنایا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کا بپھرا انداز دیکھ حبہ اُس کے بے رحم لمس کے باوجود مسکرائی تھی۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے حازم سالار یہ ڈرامہ کرکے ایس پی حبہ کو بے وقوف بنا لو گے۔۔۔۔ "
اُس کی گردن میں بازو حمائل کرتے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ اُسے باور کروا گئی تھی کہ اُسے بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی یہ دلربانہ ادا حازم سالار کے دل پر بجلیاں گرا گئی تھی۔۔۔۔
"تم بے فکر ہوکر جاؤ میں سب سنبھال لیتی ہوں۔۔۔"
نسرین بیگم اُسے سیاہ شال نکال کر تھمائی تھی۔۔۔
جب اُسی لمحے دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ ہی حمدان اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
اُسے وہاں آتا دیکھ مہروسہ کا رنگ فق ہوا تھا۔۔۔ اُسے جنید کی بہت فکر ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے جلدی سے شال اپنے پیچھے کرتے حمدان سے چھپائی تھی۔۔۔
مگر حمدان کی نظر اندر داخل ہوتے ہی شال پر پڑ چکی تھی۔۔۔۔
"ارے حمدان بیٹا آپ۔۔۔۔"
نسرین بیگم مہروسہ کے آگے کھڑے ہوتے بولیں۔۔۔
"جی۔۔۔ لیکن اُجالا کہیں جارہی ہے کیا۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کے ہاتھ میں موجود شال کی جانب اشارہ کیا تھا،،،
"نہیں تو۔۔۔۔ "
مہروسہ نے نسرین بیگم کو بازو سے ہلکا سا ٹہوکا دیتے ایکشن میں آنے کا کہا تھا۔۔۔ ورنہ یہ ایس پی یوں کھڑے کھڑے نظروں سے ہی اُس کا پوسٹ مارٹم کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔
"حمدان بیٹا آپ یوں دلہن کے کمرے میں نہیں آسکتے۔۔۔۔ آپ ک باہر جانا ہوگا۔۔۔ ہمارے ہاں رسم ہے یہ۔۔۔ مہروسہ کو ہم نے مایوں بٹھایا ہوا ہے۔۔۔ اور مایوں میں دلہا دلہن کو نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ کیوں فرزانہ آپا۔۔۔"
دروازے میں کھڑی مہروسہ کے اشارے پر باقی خواتین کو بھی اندر لے آئی تھی۔۔۔
جو سب اب مہروسہ کے آگے آن کھڑی ہوئی۔۔۔ اُسے اُس کھڑوس ایس پی کی کڑی نگاہوں سے بچا گئی تھیں۔۔۔
"میں ایسی کسی رسم کو نہیں مانتا۔۔ پلیز آپ لوگ جائیں یہاِں سے مجھے بات کرنی ہے اُجالا سے۔۔۔"
حمدان کو اُن سب کے یوں بیچ میں آجانے پر بہت غصہ آیا تھا۔۔۔ اُس نے مہروسہ کو زچ کرنے کے لیے اِن سب کو بلایا تھا۔۔۔ مگر اب وہ خود ہی شدید کوفت کا شکار ہورہا تھا۔۔۔۔۔
اُس کے تاثرات دیکھ مہروسہ ٹینشن کے باوجود اپنی مسکراہٹ نہیں روک پائی تھی۔۔۔
وہ اس شخص کی رگ رگ سے واقف ہوچکی تھی۔۔۔ کہ اُسے کب، کہاں، کیا برا یا کیا اچھا لگتا تھا۔۔۔
"لیکن ہم مانتے ہیں بیٹا جی۔۔۔ اور آپ کو بھی ماننا پڑے گا۔۔۔ سمیعہ سمجھاؤ اپنے بیٹے کو۔۔۔ اپنی ہونے والی دلہن سے ملنے کو اُتاولا ہورہا ہے۔۔۔ اب ہماری اُجالا تمہارے پاس رخصتی کے بعد ہی آئے گی۔۔۔۔"
حمدان کی رشتے کی خالہ حمدان کے سامنے کھڑیں اُسے شدید غصہ دلانے کے ساتھ ساتھ مہروسہ کا دل خوش کر گئی تھیں۔۔۔
مہروسہ کو اُن پر بہت پیار آیا تھا۔۔۔۔
حمدان ایک قہر برساتی نگاہ مہروسہ پر ڈالتا وہاں سے پلٹ گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ ایک جانب کھڑی مریم نے بغور اُن دونوں کے تاثرات دیکھے تھے۔۔۔ دونوں کو دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اس شادی سے خوش ہیں۔۔۔۔
"کچھ تو گڑبڑ ہے۔۔۔۔ میرے حمدان کو مجھ سے چھینا ہے۔۔۔ تمہیں تو میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔ "
نسرین بیگم کے ساتھ مسکرا کر باتیں کرتی مہروسہ کو زہریلی نگاہوں سے دیکھتے مریم وہاں سے پلٹ گئی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ نے اُسے پیچھے سے جاتے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے ایک کک رسید کرتے اُسے نیچے گرانا چاہا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے حازم واپس پلٹا تھا۔۔۔
اور گرتے گرتے اُسے بھی اپنے ساتھ کھینچ گیا تھا۔۔۔
دونوں ایک ساتھ پیچھے رکھے پلنگ پر جاگرے تھے۔۔۔
اُن کے پورے وزن سے گرتے ہی زور دار آواز کے ساتھ پلنگ ٹوٹتا پورے کمرے میں شور پیدا کر گیا تھا۔۔۔
حبہ نے آنکھیں پھاڑے حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو ایک پولیس آفیسر سے کہیں زیادہ ٹرینڈ تھا۔۔۔
وہ بنا قدموں کی چاپ پیدا کیے اُس تک گئی تھی۔۔ مگر پھر بھی وہ بنا دیکھے اُس کی موومنٹ کا تعین کرتا اُس کا وار خالی کرگیا۔۔۔
"حازم سالار تم۔۔۔ تم میری مرضی کے بغیر یہاں سے نہیں جاسکتے۔۔۔ ورنہ میں تم پر گولی چلا دوں گی۔۔۔"
حبہ اُس کے اُوپر سے اُٹھتی اپنی گن نکالتے بولی تھی۔۔
"مجھے یہاں روک کر تم اپنے لیے مشکل پیدا کررہی ہو۔۔۔ جب تک میں تمہارے یہاں سے نکلنے کے اقدامات نہیں کر لیتا تم یہیں پر قید رہو گی۔۔۔۔"
حازم اُس کی دونوں کلائیاں جکڑتا کروٹ بدلتے اُسے بیڈ سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اِس وقت ٹوٹے ہوئے بیڈ پر ہی پڑے تھے۔۔۔ مگر آپسی لڑائی میں دونوں کو ہوش نہیں تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے حازم کا فون بجا تھا۔۔۔
حبہ اُس کی گرفت سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کرتی اُسے کال اٹینڈ کرنے سے روک رہی تھی۔۔۔
"میں کال اٹینڈ کرنے لگا ہوں۔۔۔ خبردار جو کچھ بولی تو۔۔۔۔۔۔"
حازم اُس کے ارادے جان کر اُسے وارن کرتے بولا۔۔۔ اُس نے ایک ہاتھ سے حبہ کی دونوں کلائیاں تھام رکھی تھیں۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔ میں تمہاری بات مانوں گی۔۔۔"
حبہ نے آنکھیں نچاتے صاف انکار کیا تھا۔۔۔
"انجام کی زمہ دار تم خود ہوگی پھر۔۔۔"
حازم اچھے سے واقف تھا اُس سے۔۔۔۔ اِس لیے اُس نے حبہ کی کلائیاں آزاد کرتے اُس کے ہونٹوں پر ہتھیلی جماتے شاہ ویز کی کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔ جنید بھی ساتھ ہی لائن پر تھا۔۔۔
"ہاں بولو شاہ۔۔۔۔ سب خیریت ہے۔۔۔۔"
حبہ اپنے ہونٹوں سے اُس کا ہاتھ ہٹانے کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔ مگر وہ اپنا پورا زور لگانے کے بعد بھی اُس کی ہتھیلی زرا سی سرکا بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
"مہرو کی کل سے ہوئی خیر خبر نہیں ہے۔۔ ایس پی حمدان اتنے آرام سے بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔۔ وہ ضرور کچھ کرنے والا ہے۔۔۔۔ اِسی لیے مہرو کے ساتھ ایک ہفتے بعد کے بجائے آج نکاح کررہا ہے۔۔۔ ہمیں کسی بھی طرح مہرو کے پاس پہنچنا ہوگا۔۔۔۔ وہ نکاح کے ٹائم کچھ بھی کرسکتا ہے۔۔۔ مہرو پر زرا سی آنچ بھی نہیں آنی چاہیے۔۔۔"
شاہ ویز کی بات سن کر حازم کو گہرا شاک لگا تھا۔۔۔
"مہرو کا آج نکاح ہے۔۔۔ اور مجھے ابھی پتا چل رہا ہے۔۔۔ میں بس ابھی نکلتا۔۔۔۔"
حازم ابھی اتنا ہی بول پایا تھا۔۔۔ جب حبہ کی رنگت خطرناک حد تک سُرخ پڑتی دیکھ۔۔۔ حازم نے اپنی ہتھیلی زرا سی اُوپر کی تھی۔۔۔
جس کا فائدہ اُٹھاتے حبہ چلائی تھی۔۔۔ جو چیخ دوسری جانب موجود جنید اور شاہ ویز تک با آسانی جا پہنچی تھی۔۔۔
"میر سر آپ کسی لڑکی کے ساتھ ہیں اِس وقت۔۔۔۔ ؟؟"
جنید نے بے حد حیرت کے زیرِ اثر پوچھا تھا۔۔۔
"حازم سالار چھوڑو مجھے۔۔۔۔"
حبہ ایک بار پھر بول پانے کے قابل ہوتے چلائی تھی۔۔۔ جو دوسری جانب با آسانی پہنچ چکی تِھی۔۔۔
"حازم۔۔۔۔؟؟ تم کس کے ساتھ ہو اِس وقت۔۔۔"
شاہ ویز بھی نسوانی چیخیں سن کر حیران ہوا تھا۔۔۔
"تم لوگ بھول رہے ہو۔۔۔ میری ایک عدد بیوی بھی ہے۔۔۔ اور جو پولیس والی ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ انتہائی جنگلی بھی ہے۔۔۔۔"
حازم حبہ کے لال پڑتے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹاتا۔۔۔۔ ایک آنکھ دباتے اُس کی شان میں قصیدہ گوئی کر گیا تھا۔۔۔
"اوہ اچھا اچھا۔۔۔ آپ اِس وقت بھابھی جی کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔"
جنید نے اُسے چھیڑا تھا۔۔۔ جبکہ شاہ ویز اُسے آنے کی یادہانی کرواتا فون بند کر گیا تھا۔۔۔
وہ ایک نازک دل توڑ کر جس کیفیت کے زیرِ اثر تھا۔۔۔
اُس کے دل کو ہر شے انتہائی بُری لگ رہی تھی۔۔۔
حازم اُس کی خاموشی سے ہی بہت کچھ اخذ کر گیا تھا۔۔۔ وہ بہت اچھے سے جانتا تھا کہ شاہ ویز کی یہ خاموشی نارمل خاموشی بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
"ہمیں اِسی وقت شہر کے لیے نکلنا ہوگا۔۔۔۔ "
حازم نے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔
جب حبہ اُس کا کالر دونوں مُٹھیوں میں جکڑتی اُسے واپس اپنے قریب کر گئی تھی۔۔۔
"میں یہاں سے۔۔۔ اِس وڈیرے کو ختم کیے بغیر نہیں جاؤں گی۔۔۔ تم لوگوں کی طرح بے رحم نہیں ہوں میں۔۔ اُن معصوم لڑکیوں اور اُن کے مظلوم گھرانوں کو اُس ظالم وڈیرے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔"
حبہ پھولی سانسوں کے ساتھ ایک عزم سے بولتی حازم کو بہت پیاری لگی تھی۔۔۔
وہ جھکا تھا۔۔۔ اور اُس کے ہونٹوں کو نرمی سے چھوتا اُس کی دھڑکنوں کی رفتار کئی گنا بڑھا گیا تھا۔۔۔
حبہ نے اُس کی اِس گستاخی پر اُسے دور دھکیلنا چاہا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں حازم اُسے بانہوں میں اُٹھاتا وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔"
حبہ چلائی تھی۔۔۔
"میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔ دو دنوں کے اندر وڈیرا قربان عالم اپنے ظلم و جبر کی داستان اپنے ساتھ لے کر دفن ہوچکا ہوگا۔۔۔۔ اور میں اُن تمام لڑکیوں کو بھی اُن کے گھر واپس پہنچانے کا وعدہ کرتا ہوں۔۔۔ جنہیں وہ ملک سے باہر سمگل کرچکا ہے۔۔۔"
حازم اُس کے پھولے گالوں پر لب رکھتے نرمی سے بولتا اُسے شدید حیرت اور بے یقینی میں غوطہ زن کر گیا تھا۔۔۔۔۔
"مگر کیسے۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔
حازم اُسے کرسی پر بیٹھاتا اُس کے سامنے ٹیبل پر آن بیٹھا تھا۔۔۔
"آئم سوری مائی لو۔۔۔ یہ کرنا میری مجبوری ہے۔۔۔۔"
حازم اُس کی کان کی لوح پر لب رکھتا اُسے حیران کر گیا تھا۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھ پاتی۔۔۔۔ حازم نے کلوروفارم سے بھرا موبائل اُس کے ناک پر رکھتے اُسے بے ہوش کر گیا تھا۔۔۔ حبہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی حازم ایسا کچھ کرے گا۔۔۔
اِس لیے وہ اپنے بچاؤ کی زرا سی کوشش بھی نہیں کر پائی تھی۔۔۔
اور حواس کھوتی حازم کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔
حازم قیمتی متاع کی طرح اُسے اپنی بانہوں میں بھرتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آفندی مینشن کے تمام افراد جو یہی سمجھ چکے تھے کہ پریسا واقعی آگ میں جل کر مر چکی ہے۔۔۔۔ اُسے زندہ سلامت واپس آتا دیکھ سر پکڑے شہباز اور شوکت آفندی خوشی سے جھوم اُٹھے تھے۔۔۔
ورنہ اُنہیں یہی لگ رہا تھا کہ اُن کی اتنی ساری محنت اتنے آگے آکر ضائع جانے والی تھی۔۔۔ اگر آج پریسا کو کچھ ہوجاتا تو وہ وصیت کے مطابق ساری دولت جائیداد کھو دیتے۔۔۔۔
اِس لیے پریسا کو زندہ واپس لوٹتا دیکھ وہ سب بے پناہ خوش تھے۔۔۔ مگر پریسا کا دھیان نہ تو اُن کی خوشی کی جانب تھا۔۔۔ نہ اپنے صحیح سلامت بچ جانے پر۔۔۔
اُس کے دل و دماغ میں بس شاہ ویز سکندر کی نفرت آمیز دھاڑ گھوم رہی تھی۔۔۔ جس طرح اُس بے رحم شخص نے اُسے خود سے دور دھتکارا تھا۔۔۔
یہ ٹھکرایا جانا اُس کا حساس دل ساری زندگی نہیں بھولنے والا تھا۔۔۔
اُس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔ اُس کے اِس گم صم انداز کو سب اُس کا خوف ہی سمجھے تھے۔۔۔
اِس لیے کسی نے زیادہ اُسے تنگ نہیں کیا تھا۔۔۔ سفیان تو اِس قدر شرمندہ تھا کہ اُس کے سامنے بھی نہیں آیا تھا۔۔۔
اُسے یہی لگ رہا تھا کہ شدید غصے میں کہیں پریسا شادی سے ہی انکار نہ کردے۔۔۔
پریسا اِس وقت خود کو دنیا کا سب سے زیادہ تنہا انسان محسوس کررہی تھی۔۔۔ جس کا اِس دنیا میں کوئی بھی نہ ہو۔۔۔۔
یاسمین بیگم نے اُس کے روم میں قدم رکھا تھا۔۔۔
پریسا کو اُسی طرح گم صم عجیب سی لٹی پٹی سی حالت میں بیٹھا دیکھ یاسمین بیگم کا کلیجہ منہ کو آیا تھا۔۔۔
اِس لڑکی کو اُنہوں نے اپنی سگی اولاد کی طرح پال پوس کر بڑا کیا تھا۔۔۔ اُس کی ہر چھوٹی بڑی تکلیف کا خیال رکھا تھا۔۔۔
مگر اب اُسے یوں مفاد پرست لوگوں میں گھرا دیکھ اُنہیں اُس کے لیے خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔ وہ اپنے شوہر کی نیت بہت اچھے سے جانتے تھے۔۔۔
جو پریسا کی ساری جائیداد اپنے نام لگوانے کے بعد اُسے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو اِس لالچ میں نہ پڑنے دینے کی بہت کوشش کی تھی۔۔ مگر کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔۔۔
اپنے بیٹے کو بھی باپ جیسا بنتا دیکھ اب وہ کسی قیمت پر بھی پریسا کی شادی سفیان سے نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں۔۔۔
"پری میری جان تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟"
یاسمین بیگم اُس کے قریب آتے تشویش زدہ سی بولی تھیں۔۔۔
پریسا نے بھیگتی آنکھیں اُٹھا کر اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو اُس کا ہاتھ تھامتی اُس کے پاس آن بیٹھی تھیں۔۔
"نہیں ماما میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔ "
پریسا اُن کی آغوش میں چہرا چھپاتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
"وہ بہت ظالم ہے ماما۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی میں اُسے۔۔۔ اگر اتنی ہی نفرت کرتا تھا مجھ سے۔۔ تو کیوں بچایا مجھے۔۔۔ آگ میں جل کر مرنے دیتا۔۔۔ ایک بار کی اذیت سہہ کر ہی مر جاتی نا۔۔۔ یوں پل پل اِس اذیت کی مار نہ مرتا مجھے۔۔۔۔ "
پریسا ہچکیوں اور سسکیوں کے بیچ بولتی یاسمین بیگم کو منجمند کر گئی تھیں۔۔۔ اُن کا دل کسی انجانے احساس سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔
"کس کی بات کررہی ہو پری۔۔۔ کس نے بچایا تمہیں۔۔۔؟؟ کون اتنی نفرت کرتا ہے تم سے۔۔۔۔؟"
یاسمین بیگم نے اُس کی پشت سہلاتے نرمی سے پوچھا تھا۔۔۔
"شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ ہر بار مصیبت سے بچاتا ہے مجھے۔۔۔ اور اب کہتا ہے کہ نفرت ہے اُسے مجھ سے۔۔۔ کیا میں اتنی بُری ہوں ماما کہ کسی کو مجھ سے محبت نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ آپ کیوں محبت کرتی ہیں مجھ سے۔۔ آپ بھی چکی جائیں مجھ سے دور۔۔۔۔ میں بہت بُری ہوں۔۔۔ کسی کی محبت کے قابل نہیں ہوں۔۔۔"
پریسا کے رونے میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی بات سن کر یاسمین بیگم کو لگا تھا جیسے کمرے کی چھت اُن کے سر پر آن گری تھی۔۔۔
"شاہ ویز سکندر زندہ ہے۔۔۔۔۔"
اُن کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔
پریسا اُن کے چہرے کا بدلتا رنگ نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
جبکہ یاسمین بیگم بالکل ساکت سی بیٹھی تھیں...
"شاہ ویز سکندر سے ملی ہو آپ۔۔۔۔۔؟؟؟"
یاسمین بیگم نے اُس کا چہرا ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے بمشکل پوچھا تھا۔۔۔
"جی ماما۔۔۔۔ مجھے بینک سے اغوا کرکے لے جانے والا بھی وہی تھا۔۔۔ اُس دن غنڈے سے بچا کر یہاں چھوڑ کے جانے والا بھی وہی تھا۔۔۔ اور میری خاطر اُس جلتی آگ میں کودنے والا بھی وہی تھا۔۔۔۔ میں بہت محبت کرنے لگی ہوں اُس سے ماما۔۔۔۔ میں نہیں جانتی ایسا کب اور کیسے ہوا۔۔۔ مگر اُس کی تکلیف پر میرا دل تڑپ اُٹھتا ہے۔۔۔ اُس کے قریب رہنا اچھا لگتا ہے۔۔۔ لیکن آپ جانتی ہیں اُس نے کیا کہا مجھ سے۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ اُسے شدید نفرت ہے مجھ سے۔۔۔ وہ مجھے صرف اپنا ایک مہرا سمجھتا ہے۔۔۔ سفیان اور بابا سے بدلہ لینے کا مہرا۔۔۔۔ وہ ایسا کیوں کہتا ہے ماما۔۔۔۔ میں نے تو اُس کا کچھ نہیں بگاڑا نا ماما۔۔ پھر وہ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے۔۔۔ کیا میں واقعی اتنی بُری ہوں کہ کسی کی اولین ترجیح نہیں بن سکتی۔۔۔۔"
پریسا پھوٹ پھوٹ کر روتی یاسمین بیگم کا دل چھلنی کر گئی تھیں۔۔۔
اُن کے چہرے پر پریسا کو لے کر ایک عجیب سا خوف پھیل گیا تھا۔۔۔۔
اُنہیں جس بات کا خوف تھا وہ ہوچکا تھا۔۔۔۔ اُن کے شوہر اور باقی خاندان والوں کے عروج کا وقت زوال کی جانب گامزن ہوچکا تھا۔۔۔۔ اب اُن سب کو اپنے کیے کا جواب دینا تھا۔۔۔۔
"تمہارا کسی چیز میں کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔ تمہارے کچھ بُرا نہیں ہوگا۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
یاسمین بیگم اُسے اپنے سینے میں بھینچتی پوری دنیا سمیت اُسے شاہ ویز سکندر کے انتقام سے بھی بچا لینا چاہتی تھیں۔۔۔
اُن کا پورا وجود سرد پڑ چکا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ شخص دل کا زخم دے کر اُن کی معصوم پری سے اپنا انتقام تو لے ہی چکا تھا۔۔۔۔ ابھی مزید وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"پریسا آفندی کا نکاح ہے کل سفیان آفندی سے۔۔۔ مجھے تو لگا تھا وہ اُس بزدل گدھے سے شادی سے انکار کر دے گی۔۔۔ مگر لگتا ہے تمہارے انکار نے گہرا صدمہ دیا ہے اُسے ۔۔"
حازم اور شاہ ویز اپنا حلیہ تبدیل کرکے ایس پی حمدان کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔
جب حازم اُس کی آنکھوں کی بڑھی وحشت ناکی دیکھ خود کو بولنے سے نہیں رو پایا تھا۔۔۔
"کچھ بھی مت بولو۔۔۔ میں نے کوئی انکار نہیں کیا۔۔۔ اور نہ ہی وہ لڑکی مجھ سے اتنی محبت کرتی تھی۔۔۔۔ "
پریسا کے نکاح کا سن کر اسٹیئرنگ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ وہ غصے میں گاڑی کی اسپیڈ بھی فل کر چکا تھا۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔ نہیں کرتی ہوگی وہ تم سے محبت۔۔۔ مگر تم جس طرح اُس کے نکاح کا سن کر پاگل ہورہے ہو۔۔۔ مجھے لگتا ہے آگ اِس طرف سے زیادہ بھڑکی ہوئی ہے۔۔۔۔ ڈرائیونگ تو زرا نارمل کرو۔۔۔ میرے پاس تو ایک عدد بیوی ہے۔۔۔ مجھے مرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔"
حازم نے اُس پر چوٹ کرتے آخر میں دہائی دی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ گاڑی کی اسپیڈ بلکل فل کرتا اتنی ٹریفک میں بھی رش ڈرائیونگ کرنے لگا تھا۔۔۔
"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ ورنہ گاڑی سے باہر پھینک دوں گا میں تمہیں۔۔۔ میرے نام کے ساتھ اُس کا نام جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ محبت تو بہت دور کی بات زرا سی اہمیت بھی نہیںں رکھتی وہ میری زندگی میں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے حازم دے زیادہ اِس بات کا یقین خود کو دلایا تھا۔۔۔
جبکہ حازم اُس کی لال پڑتی آنکھیں دیکھ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔
"یہ تو کل پتا چلے گا میرے یار۔۔۔ کہ وہ اہمیت رکھتی ہے یا نہیں۔۔۔ جب وہ اپنا سب کچھ کسی اور کے نام لکھوا دے گی۔۔۔۔۔"
حازم بولنے سے اب بھی باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ ورنہ گاڑی سے باہر پھینک دوں گا میں تمہیں۔۔۔ میرے نام کے ساتھ اُس کا نام جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ محبت تو بہت دور کی بات زرا سی اہمیت بھی نہیںں رکھتی وہ میری زندگی میں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے حازم دے زیادہ اِس بات کا یقین خود کو دلایا تھا۔۔۔
جبکہ حازم اُس کی لال پڑتی آنکھیں دیکھ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔
"یہ تو کل پتا چلے گا میرے یار۔۔۔ کہ وہ اہمیت رکھتی ہے یا نہیں۔۔۔ جب وہ اپنا سب کچھ کسی اور کے نام لکھوا دے گی۔۔۔۔۔"
حازم بولنے سے اب بھی باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"فرق نہیں پڑتا مجھے۔۔۔۔ "
شاہ ویز اپنی ضد پر قائم تھا ابھی بھی۔۔۔۔
"تم پوری دنیا سے اپنا آپ چھپا سکتے ہو شاہ ویز سکندر۔۔۔ مگر مجھ سے نہیں۔۔۔۔ کل رات پریسا کے اندر آگ میں جلنے کے خیال سے تم باہر جل رہے تھے۔۔۔۔ تم جانتے تھے کہ اندر جانا کسی رسک سے کم نہیں ہے۔۔۔ اور پریسا سے پیپرز پر سائن کروانے کے بعد اب وہ تمہارے لیے اتنی اہم رہی بھی نہیں ہے۔۔۔ پھر بھی تم بنا سوچے سمجھے اُس آگ میں کود گئے۔۔۔ تم اپنی محبت سے انکار کرکے پریسا آفندی کو بے وقوف بنا سکتے ہو۔۔۔ میر حازم سالار کو نہیں۔۔۔۔"
حازم اُسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی ضد اور غصے میں اپنا کتنا بڑا نقصان کررہا ہے۔۔۔۔
اُس کی بات کا شاہ ویز کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔
وہ اپنے اندر چھڑی جنگ سے نہیں لڑ پارہا تھا۔۔ حازم کی باتوں کا بھلا اُسے کیا جواب دیتا۔۔۔۔
اُس نے زور سے بریک لگاتے گاڑی حمدان کے گھر سے زرا فاصلے پر روکی تھی۔۔
حمدان نے سیکیورٹی کے تحت فنکشن کے تمام اریجمنٹس اپنے گھر میں ہی کروائے تھے۔۔ جہاں وہ دونوں ویٹر بن کر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔
وہ بس کسی بھی طرح مہروسہ کے آس پاس رہ کر اُسے حمدان کی کسی بھی سازش سے بچانا چاہتے تھے۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ حمدان صدیقی اُن کے ساتھ کھیل کھیل کر مہروسہ کو نہیں بلکہ جنید کو مارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اندر تو داخل ہوچکے تھے مگر اُنہیں مہروسہ تک پہنچ پانے میں دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔
"حمدان صدیقی نے جان بوجھ کر اتنے سارے گیسٹ بلائے ہیں۔۔۔۔ "
حازم کو اب غصہ آرہا تھا۔۔۔۔ اُن دونوں کو مہروسہ کی فکر ہوئی تھی۔۔۔
"وہ کوئی اور کھیل کھیل رہا ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز اپنے چہرے پر موجود ماسک کو ٹھیک کرتا حازم کو بھی الرٹ کر گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ نے بہت کوشش کی تھی یہاں سے نکلنے کی۔۔۔ مگر ہر بار حمدان کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر دیتا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی حالت غیر ہوچکی تھی۔۔۔۔ اُسے ریڈ لہنگا پہنا کر اُس کا ہار سنگھار کر دیا گیا تھا۔۔۔
مہروسہ نے بے دلی سے بیوٹیشن کی کہی ہر بات کو فالو کیا تھا۔۔۔ مگر تیار ہونے کے بعد جیسے ہی اُس نے خود کو آئینے میں دیکھا وہ دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے زندگی میں آج تک کاجل کے سوا میک اپ کے نام پر کچھ بھی نہیں لگایا تھا۔۔۔ مگر آج تو زرا سے بناؤ سنگھار نے اُس کا حُسن نکھار کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
سُرخ عروسی جوڑے میں اُس کا نازک سراپا مزید دلفریب لگ رہا تھا۔۔۔ جیولری اور پھولوں کے گجروں میں سجی سجائی وہ دیکھنے والوں کا ایمان ڈگمگانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔
ہمیشہ اُس کے دشمن اُس کی گولی کے وار سے نہیں بچ پائے تھے۔۔۔ مگر آج ایس پی حمدان صدیقی اُس کے دو آتشہ حُسن کے وار سے نہیں بچنے والا تھا۔۔۔
مہروسہ کی اُداسی اُس کے حُسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔۔۔۔۔
بیوٹیشن سمیت باقی سب بھی باہر جا چکی تھیں۔۔۔
مہروسہ کا دل چاہا تھا اِسی حلیے میں بھاگ نکلے یہاں سے۔۔۔۔ کیونکہ حمدان صدیقی جو سلوک اُس کے ساتھ کرنے والا تھا۔۔۔۔ وہ شاید برداشت نہ کر پاتی۔۔۔۔
"اللہ جی پلیز میرے ساتھیوں کی حفاظت کرنا۔۔۔۔"
مہروسہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر چکی تھیں۔۔۔
جب اُسی لمحے دروازہ کھلا تھا اور دو ویٹر کے یونیفارم میں ملبوس افراد اندر آئے تھے۔۔۔۔ مہروسہ اُنہیں پہلی نظر میں ہی دیکھ کر پہچان چکی تھی۔۔۔ کہ اُس کے بلیک سٹارز وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔۔ میر سر۔۔۔۔ آپ لوگ یہاں۔۔۔۔"
مہروسہ فوراً اُٹھ کر اُن کے قریب گئی تھی۔۔۔۔
"شاہ تمہیں نہیں لگتا ہم غلط کمرے میں آگئے ہیں۔۔۔۔ "
حازم مہروسہ کو دلہن کے روپ میں تیار کھڑی مہروسہ کو دیکھ پر مزاح لہجے میں بولا تھا۔۔۔ جو بالکل بھی پہچانی نہیں جارہی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز بھی مہروسہ کو دیکھ کر ایک پل کے لیے پہچان نہیں پایا تھا۔۔۔
"میر سر۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے منہ پھلاتے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"مہرو۔۔۔ کیا تم واقعی حمدان سے شادی کرنا چاہتی ہو۔۔۔ تم پر ہمارے مشن کو لے کر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔۔۔۔ تم اگر اب بھی چاہو تو انکار کرسکتی ہو۔۔۔۔"
شاہ ویز مہروسہ کے مقابل آن کھڑا ہوتا سنجیدگی بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔۔
اُس کی بات پر مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو گرا تھا۔۔۔
اُس نے لرزتے وجود کے ساتھ سامنے کھڑے شاہ ویز اور حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
یہ دونوں اُس کے لیے سگے بھائیوں سے بڑھ کر تھے۔۔۔ اُنہوں نے اُسے حرام موت مرنے سے بچا کر اُسے اتنی خوبصورت زندگی دی تھی۔۔۔۔ اُس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف کا خیال رکھا تھا۔۔۔۔
کتنی بار حازم اور شاہ ویز نے اُس کے نام کی گولی اپنے وجود پر کھائی تھی۔۔۔ اور اُس پر آنچ تک نہیں آنے دی تھی۔۔۔
آج بھی وہ ہر شے کو پسِ پشت ڈال کر صرف اُس کی خوشی چاہتے تھے۔۔۔
"میں ایس پی حمدان صدیقی سے بہت محبت کرتی ہوں شاہ سر۔۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتی ہوں وہ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ لیکن آپ دونوں کے ساتھ رہتے موت کا خوف تو بہت پیچھے رہ گیا ہے۔۔۔ میں جتنے وقت زندہ ہوں میں اپنا یہ مشن پورا کرنے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ حمدان صدیقی کے نام کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں میری اصلیت جاننے بعد وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔
لیکن میں اِس معاملے میں بے بس ہوچکی ہوں۔۔۔ مجھے معاف کردیں آپ لوگ۔۔۔۔ مگر میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں۔۔۔۔۔ اپنے مشن میں کوئی کوتاہی نہیں آنے دوں گی۔۔۔ جیت ہماری ہی ہوگی۔۔۔۔"
مہروسہ آنسوؤں میں بھیگتی اُن دونوں کی آنکھیں بھی لال کر گئی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں مُٹھیاں بھینچے بہت مشکل سے ضبط کرکے کھڑے تھے۔۔۔۔
وہ دونوں ہمیشہ سے اُسے اپنی چھوٹی سی گڑیا سمجھ کر اُسے ہر تکلیف ہر درد سے بچاتے آئے تھے۔۔۔۔ مگر آج محبت کے درد سے نہیں بچا پائے تھے۔۔۔
کیونکہ وہ خود اِسی اذیت میں جل رہے تھے۔۔۔۔
"تمہارا فیصلہ ہمیں دل و جان سے قبول ہے۔۔۔ مگر مشن کے ساتھ ساتھ تمہاری سلامتی بھی چاہتے ہیں۔۔۔ اگر اپنی سلامتی پر زرا سا بھی کمپرومائز کیا تو بتا رہا ہوں تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے اُس ایس پی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔۔۔ "
حازم نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے اُسے شفقت بھرے انداز میں ہدایت دیتے دھمکی دی تھی۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز بنا کچھ بولے چند قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔۔ مہروسہ کے آنسوؤں میں اُسے کسی اور کے آنسو دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔
اُسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اُسے ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔ وہ کیوں اُس لڑکی کے بارے میں اتنا سوچ رہا تھا۔۔۔
جو اُس کے لیے بالکل بھی اہمیت کے حامل نہیں تھی۔۔۔
مہروسہ نے شاہ ویز کے انداز پر پریشان ہوتے سوالیہ نگاہوں سے حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"پریسا آفندی کا نکاح ہے کل۔۔۔۔۔"
حازم کی بات سن کر مہروسہ کو ایک لمحہ لگا تھا ساری بات سمجھنے میں۔۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔۔ پریسا کی زندگی برباد ہوجائے گی اگر اُس کا نکاح سفیان جیسے کریمنل سے ہوگیا تو۔۔۔۔۔ پلیز اُس معصوم لڑکی کو بچا لیں۔۔۔ آپ سے زیادہ بہتر اُس کے لیے کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کی بے چینی سمجھتی اُسے سمجھانے کی خاطر اپنی سی کوشش کر گئی تھی۔۔۔۔
جس پر شاہ ویز نے اُسے جن سرد نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔ وہ گھبرا کر حازم کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔
"سفیان آفندی ایک معزز شہری ہے۔۔۔۔ وہ بالکل ٹھیک فیصلہ کررہی ہے۔۔۔ کریمنل میں ہوں وہ نہیں۔۔۔ اتنی بے وقوف نہیں ہے وہ۔۔۔۔ اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز کا لہجہ ابھی بھی بے لچک اور احساس سے عاری تھا۔۔۔
جو دیکھ حازم غصے سے اُس کی جانب سے رُخ موڑ گیا تھا۔۔۔
"بے وقوف تو بہت بڑی ہے۔۔۔ جو تمہاری محبت کو نفرت سمجھ رہی ہے۔۔۔۔ "
حازم نے دبے لہجے میں کہا تھا۔۔۔ جو شاہ ویز اور مہروسہ کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔۔۔
اُسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔۔۔۔
"سر جنید کہا ہے۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ اچانک ہوش میں آتے جلدی سے بولی تھی۔۔۔
"کیوں کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟"
اُس کے ہوں اچانک گھبرانے پر شاہ ویز ٹھٹھکا تھا۔۔۔
"ایس پی حمدان کو پتا چل چکا ہے اُس کے بارے میں۔۔۔ وہ آج اُسے مروانا چاہتا ہے۔۔۔ آپ لوگ پلیز اُسے بچا لیں۔۔۔۔ "
مہروسہ کی بات سنتے حازم نے فوراً جنید کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔
مگر جواب نہ موصول ہوتے دیکھ اُن تینوں کے رنگ اُڑ چکے تھے۔۔۔۔ آج پہلی بار بلیک سٹارز کو مات ہونے والی تھی۔۔۔۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔ "
شاہ ویز اور حازم باری باری اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے کھڑکی کے راستے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔۔
جنید سے رابطہ نہ ہو پانا۔۔۔ اُنہیں کچھ غلط ہونے کا الارم دے گیا تھا۔۔۔
جبکہ دوسری جانب مہروسہ کو روم میں داخل ہوتی لڑکیاں۔۔۔ نکاح کی رسم کے لیے باہر لے جانے لگی تھی۔۔ کچھ لمحوں بعد وہ اپنا آپ ایس پی حمدان کے نام لگوانے والی تھی۔۔۔
یہ سوچ کر ہی اُس کے وجود پر کپکپی طاری ہوچکی تھی۔۔۔۔۔
"خالہ میرا نام نکاح میں اُجالا ہی لیا جائے گا۔۔۔ "
مہروسہ کو اچانک خیال آیا تھا تو اُس نے فوراً قدم روکتے اپنے ساتھ چلتی نسرین بیگم کو پکارا تھا۔۔۔
"میں نے مولوی صاحب اور چند ایک علما سے بات کرلی ہے۔۔۔۔ اُن کا یہی کہنا ہے کہ اگر لڑکی اور لڑکا نکاح کی محفل میں موجود ہیں۔۔۔ اور اپنی زبان سے قبول کررہے ہیں نکاح کو۔۔۔ تو غلط نام لینے سے فرق نہیں پڑتا نکاح ہوجائے گا۔۔۔ اِسی لیے میں نے الگ الگ جگہ بیٹھانے کے بجائے باہر ایک ساتھ نکاح کی محفل ارینج کروائی ہے۔۔۔ ویسے بھی حمدان جانتا ہے تم اُجالا نہیں مہروسہ ہو۔۔ تو کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔۔۔ وہ تمہیں مہروسہ سمجھ کر ہی قبول کررہا ہے۔۔۔۔"
نسرین بیگم نے تفصیل بتاتے اُس کی اِس اُلجھن کو دور کردیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے تشکر بھری نگاہوں سے اُنہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ جو بالکل اُس کی حقیقی ماں کی طرح ہر موڑ پر اُس کا ساتھ دے رہی تھیں۔۔۔۔ مہروسہ نے جھک کر اُن کا ہاتھ چوم لیا تھا۔۔۔۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کو لاکر بیٹھانے کی کچھ دیر بعد نکاح شروع کردیا گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ وہ اِس وقت جس کنڈیشن کے زیرِ اثر تھی۔۔۔۔ اُسے ہوش بھی نہیں رہا تھا کہ کب مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا ہے۔۔۔۔ اُسےخاموش پاکر مولوی صاحب نے دوسری بار پوچھا تھا۔۔۔ جب نسرین بیگم نے مہروسہ کے قریب آتے اُس کا کندھا ہلایا تھا۔۔۔۔
سامنے بیٹھا حمدان صدیقی سرد و سپاٹ نگاہوں کے ساتھ گھونگھٹ میں چھپی بیٹھی مہروسہ کو گھور رہا تھا۔۔۔
جو اُس کی سب سے بڑی دشمن تھی۔۔۔۔ جس نے ایس پی حمدان صدیقی کو ہارنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔۔
مگر اب حمدان صدیقی اُسے پل پل اُس ہار کی اذیت سے روشناس کروانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ کو جیسے ہی ہوش آیا اُس نے خود کو اپنے بیڈ روم میں پایا تھا۔۔۔۔
حبہ کا چہرا شدید غصے کے عالم میں لال ہوچکا تھا۔۔۔
"تم کیوں کررہے ہو حازم ایسا۔۔۔ کیوں۔۔۔۔؟؟ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو۔۔۔ جو تم کررہے ہو وہ بہت غلط ہے۔۔۔ خدا کے لیے مت کرو یہ ظلم۔۔۔۔ "
حبہ چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔
اُس نے خود کو کبھی اتنا بےبس محسوس نہیں کیا تھا جتنا اِس وقت کررہی تھی۔۔۔
وہ حازم کو اُس سب سے نکالنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہ ہر بار اُس سے دو قدم آگے چل کر اُسے یوں ہی ہار ماننے پر مجبور کردیتا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی ڈیوٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہ اپنے شوہر کو بھی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔ وہ اِس وقت ہر طرف سے بُری طرح پھنس چکی تھی۔۔۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کرے کیا۔۔۔۔۔
حبہ بیڈ سے اُٹھی تھی۔۔۔ اُسے ابھی اپنے سینئرز کو بھی اپنے واپس لوٹ آنے کی اطلاع دینی تھی جب اُس کا موبائل بج اُٹھا تھا۔۔۔
حمدان کا نمبر دیکھ اُس نے جلدی سے کال پک کی تھی۔۔۔۔
مگر دوسری جانب سے جو اطلاع اُسے ملی تھی۔۔۔ حبہ کو اپنی سانسیں اٹکتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔
"بلیک سٹارز کے سب سے خاص آدمی جنید پر حملہ کروا دیا ہے میں نے۔۔۔ بیچ راہ میں پڑا تڑپ رہا ہے۔۔۔۔ میں نے سنا ہے وہ بلیک سٹارز باقی گینگسٹرز سے تھوڑے مختلف ہیں۔۔۔۔ اپنے لوگوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔۔۔۔ اپنے آدمی کو یوں تڑپتے نہیں دیکھ سکیں گے۔۔۔۔ اُن کی ایک سٹار اِس وقت میرے پاس ہے۔۔۔ تو باقی دونوں سٹارز کو باہر نکلنا ہی پڑے گا۔۔۔۔ جیسے ہی وہ دونوں جنید کے پاس آئیں گے۔۔۔۔ میرے شارپ شوٹرز اُنہیں اُڑا دیں گے۔۔۔۔ اور یہاں ختم ہوگا بلیک سٹارز کا قصہ۔۔۔۔۔"
حمدان زہر خند لہجے میں بولتا حبہ سے اُس کی سانسیں چھین گیا تھا۔۔۔
اگر اُسے حازم کے حوالے سے علم نہ ہوتا تو اِس وقت وہ سب سے زیادہ خوش ہو رہی ہوتی۔۔۔۔ مگر اِس وقت حمدان کی بات سن کر حبہ کو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔"
حبہ نے بنا سوچے سمجھے بے اختیاری میں بولتے اُسے اِس سنگین قدم سے روکنا چاہا تھا۔۔۔
مگر تب تک حمدان کال ڈسکنکٹ کر گیا تھا۔۔۔۔
حبہ کو کسی شے کا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ وہ فوراً باہر کی جانب دوڑی تھی۔۔۔۔۔ اُسے اپنی ٹانگیں کانپتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
آہستہ آہستہ جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"نہیں۔۔۔ پلیز مت جاؤ مجھے چھوڑ کر۔۔۔ پلیز مت جاؤ۔۔۔ میں محبت کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔۔"
پریسا نیند میں کسی بُرے خواب کے زیرِ اثر سر تکیے پر دائیں سے بائیں مارتی مسلسل چلا رہی تھی۔۔۔۔
"نہیں پلیز شاہ ویز کو کچھ مت کرو۔۔۔۔"
پریسا کے چہرے پر پسینہ اور خوف کے تاثرات نمایاں تھے۔۔۔۔
جب اُسے خواب میں شاہ ویز خون میں لت پت دکھائی دیا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ چیخ مارتی اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ اُس کا پورا وجود پسینہ میں شرابور ہوتا ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔
"یہ کیسا خواب تھا۔۔۔؟؟ کیوں آرہا ہے وہ میرے خواب میں۔۔۔ وہ جب مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے تو میں خواب میں بھی کیوں تڑپ رہی ہوں اُس کے لیے۔۔۔۔ مگر یہ کیسا خواب تھا۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔"
پریسا چاہنے کے باوجود اپنے دل کو اُس کی اتنی دھتکار کے بعد بھی اُس کی جانب سے سخت نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔
اِس وقت وہ کسی بھی طرح اپنے اُس وحشی دشمنِ جاں کی خیریت دریافت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اُس کے پاس کسی کا نمبر بھی موجود نہیں تھا۔۔۔
پریسا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہوچکی تھی۔۔۔۔ اُس کا دل عجیب بے چین اور بوجھل سا ہورہا تھا۔۔۔۔
"میں اُس کے پاس نہیں جا سکتی مگر اُس کے لیے دعا تو کر سکتی ہوں نا۔۔۔۔ وہ نفرت کرتا ہے مجھ سے۔۔۔ میں تا محبت کرتی ہوں نا اُس سے۔۔۔۔ "
اُس کی نفرت کو یاد کرتے پریسا کے ہونٹوں سے سسکاری نکلی تھی۔۔۔
وہ اپنا دوپٹہ اُٹھاتی واش روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ وضو کرکے جائے نماز بچھاتے اُس کے لبوں پر صرف ایک ہی دعا تھی۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی سلامتی کی دعا۔۔۔۔
"اے میرے پروردگار اُس کی حفاظت کرنا۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ دنیا والوں کے سامنے خود کو ظالم درندہ ظاہر کرتا ہے۔۔۔ مگر میرا دل کہتا ہے وہ بُرا انسان نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی کوئی بُرے کام کرتا ہے۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ میں آپ سے اُس کا ساتھ نہیں مانگ رہی۔۔۔ مگر بس اُس کی سلامتی مانگتی ہوں۔۔۔ میرے مولا اُس کی حفاظت کرنا۔۔۔ اُسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔"
پریسا بھیگی آواز میں اپنے رب کا پکارتی سجدہ ریز ہوتی رو دی تھی۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کی یہ آہیں اور سسکیاں عرش تک پہنچتی اُس کی جھولی میں اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ڈالنے والی تھیں۔۔۔۔
"اے میرے پروردگار اُس کی حفاظت کرنا۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ دنیا والوں کے سامنے خود کو ظالم درندہ ظاہر کرتا ہے۔۔۔ مگر میرا دل کہتا ہے وہ بُرا انسان نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی کوئی بُرے کام کرتا ہے۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ میں آپ سے اُس کا ساتھ نہیں مانگ رہی۔۔۔ مگر بس اُس کی سلامتی مانگتی ہوں۔۔۔ میرے مولا اُس کی حفاظت کرنا۔۔۔ اُسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔"
پریسا بھیگی آواز میں اپنے رب کا پکارتی سجدہ ریز ہوتی رو دی تھی۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اُس کی یہ آہیں اور سسکیاں عرش تک پہنچتی اُس کی جھولی میں اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ڈالنے والی تھیں۔۔۔۔
پریسا کو کسی طور سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔
وہ جائے نماز سے اُٹھتی۔۔۔ اپنے گرد شال اوڑھے گاڑی کی چابیاں اُٹھاتی روم سے نکل آئی تھی۔۔۔
اُسے گھر میں عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی۔۔۔
اپنے دل و دماغ کو ریلیکس کرنے کے لیے وہ گاڑی میں بیٹھتی آفندی مینشن سے نکل آئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ نے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ نکاح کے بول ادا کرتے نکاح نامے پر سائن کر دیئے تھے۔۔۔۔
اُس کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔ یہ فیصلہ کر کے وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا رسک لے چکی تھی۔۔۔ جس میں اُس کی جان بھی جاسکتی تھی۔۔۔۔
اُسے نکاح کے آخری سیکنڈ تک یہی لگا تھا کہ حمدان اُس سے شاید یہ نکاح نہ کرے۔۔۔ مگر حمدان کی زبان سے نکلتے قبول ہے کہ الفاظ مہروسہ کے دل کا بوجھ بڑھا گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔
وہ یہ تو جانتا تھا کہ مہروسہ کنول بلیک سٹار ہے۔۔۔ مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ایک طوائف زادی ہے۔۔۔۔ جس کا علم ہونے کے بعد وہ شاید اُس کی شکل دیکھنا بھی پسند نہ کرتا۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں سے اپنے محبوب ترین انسان کے اپنے نام لگ جانے کی خوشی کے ساتھ ساتھ بہت ساری اذیتوں کی وجہ سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔
نسرین بیگم اُس کی کیفیت سمجھتیں اُسے اپنے سینے سے لگا گئی تھیں۔۔۔
حمدان ایک سرد و سپاٹ نگاہ اُس کے سُرخ آنچل میں چھپے لرزتے کانپتے نازک وجود پر ڈالتا سب سے مبارک باد وصول کرتا سائیڈ پر چلا گیا تھا۔۔۔
"بولو خضر کیا خبر ہے۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان پوری طرح اپنی جیت کا مزا لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
"سر جنید بے ہوش ہوچکا ہے۔۔۔ مگر اُس کے بزدل لیڈرز بلیک سٹارز ابھی تک یہاں نہیں پہنچے۔۔۔ یا شاید یہیں آس پاس کہیں چھپے ہوئے ہیں اور سامنے آنے کی جرأت نہیں کر پارہے۔۔۔"
دوسری جانب سے حمدان کو جو خبر ملی تھی۔۔۔ وہ سن کر وہ غصے سے مُٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔۔
اُسے جنید کے ساتھ ساتھ اُن کے ایک لیڈر کی لاش چاہیئے تھی۔۔۔۔
"چاہے پوری رات گزر جائے تم سب لوگ وہاں سے ہلنے نہیں چاہیے۔۔۔ جیسے ہی اُن میں سے کوئی بھی سامنے آئے گولیوں سے بھون دینا۔۔۔۔۔"
حمدان کا لہجہ بہت بے رحم تھا۔۔۔
"سر اُن کے ساتھی جنید کا بہت زیادہ خون بہہ گیا ہے۔۔۔ وہ مرجائے گا۔۔۔۔"
خضر اپنے ایس پی کی سفاکی سے واقف تھا۔۔۔ مگر پھر بھی نجانے کس احساس کے تحت بول گیا تھا۔۔۔
"وہ دشمن ہے ہمارا۔۔۔۔ نجانے کتنے مظلوم لوگوں کا خون ایسے ہی بہایا ہے اِنہوں نے۔۔۔۔ آج اِنہیں بھی تو خبر لو۔۔۔ تکلیف اور اذیت کسے کہتے ہیں۔۔۔ فکر مت کرو زیادہ دیر نہیں پڑے رہنے دیں گے وہ اپنے ساتھی کو۔۔۔ سنا یے بلیک سٹارز کے لیے اپنے ساتھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔"
حمدان اُسے ہدایت دیتا فون کاٹ گیا تھا۔۔۔
اُس کا رُخ اپنے روم کی جانب تھا۔۔۔ جہاں کچھ سیکنڈ پہلے مہروسہ کو لے جایا گیا تھا۔۔۔
وہ اپنی نئی نویلی دلہن کو زیادہ دیر اکیلے چھوڑنے کا ارادہ بالکل بھی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے وہ یہاں سے فرار ہونے سے بھی باز نہیں آئے گی۔۔۔۔
حمدان موبائل جیب میں رکھتے اپنے پھولوں سے سجے سجائے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔
پھولوں کی دلفریب خوشبو میں اب اُس عروسی لباس میں سجے سجائے وجود کی مہک کا اضافہ بھی ہوچکا تھا۔۔۔
حمدان دروازہ لاک کرتا لال گلابوِں سے سجائی گئی اپنی سیج کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جس کے بیچوں بیچ بیٹھی مہروسہ کنول اُس کے لیے پور پور سجی اُسی کی منتظر تھی۔۔۔
لیکن اِس سے پہلے کے وہ بیڈ پر بیٹھتا اُس کی نظر دائیں جانب کھڑکی کے گرے پردوں کے پیچھے سے جھانکتے سُرخ آنچل پر پڑی تھی۔۔۔۔
اگر اُس کی دلہن بیڈ پر بیٹھی تھی تو وہاں کون تھا۔۔۔
حمدان نے وہیں کھڑے کھڑے بیڈ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ ایک نظر دیکھ کر ہی پہچان گیا تھا کہ اِس سُرخ دوپٹے کے گھونگھٹ کے پیچھے مہروسہ نہیں تھی۔۔۔
حمدان کا موڈ اِس وقت سخت آف تھا وہ ایسے مذاق برداشت کرنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔
اُس نے آگے بڑھتے بیڈ پر بیٹھے وجود کے اُوپر سے سُرخ دوپٹہ کھینچ لیا تھا۔۔۔
"کیا کررہے ہو تم یہاں پر۔۔۔۔؟؟ "
اُس کی سوچ کے عین مطابق وہاں سے مہروسہ نہیں اُس کا خالہ زاد نکلا تھا۔۔۔۔
"کیا حمدان بھائی۔۔۔ تھوڑا سا بے وقوف تو بن ہی جاتے۔۔۔"
حمزہ منہ بسورتا بیڈ سے اُٹھا تھا۔۔۔
ایک جانب سے فرح اور اُجالا کی بڑی بہن مسکراتیں باہر آئی تھیں۔۔۔
"یہ کیا بے ہودہ مذاق ہے۔۔۔۔ ایوری باڈی گیٹ لاسٹ۔۔۔۔"
حمدان اُن سب پر اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ پردے کے پیچھے کھڑی مہروسہ بھی لمحے بھر کو کانپ گئی تھی۔۔۔
یہ شخص ہر وقت چنے ہی چباتا نظر آیا تھا اُسے۔۔۔
"بھائی ہم تو مذاق۔۔۔۔"
فرح نے وضاحت دینی چاہی تھی۔۔۔
"آئی سیڈ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔"
حمدان ایک بار پھر دھاڑا تھا۔۔۔ جس پر وہ خاموشی سے سر جھکائے باہر نکل گئے تھے۔۔۔ جبکہ مہروسہ اُسے اتنے خراب موڈ میں دیکھ۔۔۔ زرد ہوئی تھی۔۔۔ یہ بپھرا شخص نجانے اب اُس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔۔۔
وہ بنا اپنی جگہ سے ہلی وہیں کھڑی رہی تھی۔۔۔
حمدان اُس کی جانب بڑھا تھا اور پردے کے پیچھے سے اُس کی مہندی، چوڑیوں اور گجرے سے سجی کلائی اپنی گرفت میں جکڑتا اُسے باہر کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اُسے ڈھونڈ چکا ہے۔۔۔
مہروسہ سیدھی اُس کے چوڑے سینے سے جاٹکرائی تھی۔۔۔۔۔۔
اُس کے ماتھے پر پڑا نیٹ کا گھونگھٹ جھٹکے کی وجہ سے اُس کے چہرے پر پھسلا تھا۔۔۔
حمدان نے اُس کی خوشبو کی دلفریب مہک کے حصار سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اُس کے چہرے سے گھونگھٹ ہٹایا تھا۔۔۔۔
جس کے ساتھ ہی مہروسہ کے حسین سجے سجائے چہرے اور دلکش سراپے پر نظر پڑتے ہی حمدان صدیقی کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پایا تھا۔۔۔
وہ اِس قدر حسین لگ رہی تھی کہ حمدان صدیقی کو اپنے دل پر سے اختیار ہٹتے محسوس ہوا تھا۔۔۔
اُس کی گرفت مہروسہ کی کلائی پر اتنی سخت تھی کہ مہروسہ کی چوڑیاں ٹوٹ کر اُس کی کلائی میں پیوست ہوچکی تھیں۔۔۔۔
لیکن مہروسہ اُس تکلیف سے زیادہ ایس پی حمدان صدیقی کے اِس بے خود انداز سے گھبرا چکی تھی۔۔۔ وہ اُس کے نہایت قریب تھی... حمدان کی گرم سانسوں سے اُسے اپنا چہرا جھلستا ہوا تھا۔۔۔ اُس کا پورا وجود ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔۔۔۔
اُس سے اپنی دھڑکنوں پر قابو پانا مشکل ہوا تھا۔۔۔
بے خوف و خطر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن کو موت کے گھاٹ اُتارنے والی اِس وقت حمدان صدیقی کی گرفت میں اپنی حیا کے بوجھ سے بھاری ہوتیں پلکیں تک نہیں اُٹھا پائی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز اور حازم خبر ملتے ہی جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔۔۔ جہاں حمدان صدیقی نے پولیس کی بھاری نفری کھڑی کر رکھی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں آگے جاتے ہی پکڑے جاتے۔۔۔۔
"میر رک جاؤ۔۔۔ آگے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔۔ "
شاہ ویز نے جنید کو خون میں لت پت دیکھ اذیت سے آنکھیں میچتے حازم کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔۔۔
"وہ مر جائے گا شاہ۔۔۔۔ ہم یوں بیچ راستے میں اُسے تڑپتا کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔۔"
حازم نے بے یقینی سے شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھیوں کو بچاتا آیا تھا۔۔۔ مگر آج اُسے بھی جانے سے روک رہا تھا۔۔۔
وہ لوگ اِس وقت ایک جانب موجود لوگوں کی بھیڑ کے بیچ کھڑے تھے۔۔۔ جبکہ جنید کے آس پاس پولیس کی بھاری نفری موجود تھے۔۔۔
"اگر وہاں ہم اپنی جان خطرے میں ڈال کر جنید کو بچا سکتے تو ہم ضرور جاتے۔۔۔ لیکن ہمارے اِس جذباتی عمل سے جنید تو نہیں بچ پائے گا۔۔۔ بلکہ ہم بھی خود کو پولیس والوں کے حوالے کرکے اپنا پورا گینگ خطرے میں ڈال دیں گے۔۔۔ ہمیں پکڑنے کے بعد وہ ایس پی مہروسہ کو بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات سن حازم کے قدم بھی رک گئے تھے۔۔۔
"یہ ایس پی بھول گیا ہے کیا کہ یہ بلیک سٹارز کے ساتھ اُلجھ کر اپنی بربادی کو آواز دے رہا ہے۔۔۔۔"
حازم نے شدید غصے کے عالم میں مُٹھیاں بھینچتے جنید کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔ اور اب اِس ایس پی کو بتانا ہوگا کہ بلیک سٹارز کی درندگی اور سفاکیت کیسی ہوتی ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز حازم کو اشارہ کرتا اپنے چہرے کو اچھی طرح رومال سے ڈھکنے کے بعد اپنی گن نکال کر اُس کا رُخ آسمان کی جانب کرتا۔۔۔ اندھا دھند فائر کھول چکا تھا۔۔۔۔۔
حازم نے اپنی جیب سے اسموک گرنیڈ نکالتے یکے بعد دیگر فضا میں اُچھالنے شروع کردیئے تھے۔۔۔
جس کے ساتھ ہی وہاں ہلچل مچ گئی تھی۔۔۔۔
وہاں موجود عام لوگ اپنی جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگنے لگے تھے۔۔۔
جبکہ پولیس والے اِس افراتفری میں اُن پر فائر نہیں کرسکے تھے۔۔۔۔
وہ لوگوں کے بیچ تھے۔۔۔ اُن پر گولی چلانے کے نتیجے میں لوگوں کو لگ سکتی تھی۔۔۔
جس کا فائدہ اُٹھاتے شاہ ویز نے جنید کے اردگرد کھڑے پولیس والوں کے بازو اور ٹانگوں پر فائر کھول دیئے تھے۔۔۔ وہ اُنہیں جان سے مارنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔
پولیس والوں کو ہمیشہ یہی پتا چلا تھا کہ بلیک سٹارز کبھی پولیس والوں پر ہتھیار نہیں اُٹھاتے۔۔۔۔
مگر آج بلیک سٹارز اپنے آدمی کے بہے خون کا بدلہ لینے اپنی درندگی کی نئی مثال رقم کررہے تھے۔۔۔
حازم اور شاہ ویز ایک ساتھ گولیوں کی برسات کرتے جنید کو اپنے گھیرے میں لے چکے تھے۔۔۔۔
شاہ ویز جیسے ہی جنید کو اُٹھانے کے لیے جھکا تھا۔۔۔ نجانے کس جانب سے آتی آندھی گولی شاہ ویز کا بازو چیرتی نکل گئی تھی۔۔۔۔
مگر اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر شاہ ویز جنید کو دوسرے کندھے پر ڈالتا وہاں سے ہٹا تھا۔۔۔
حازم وہیں کھڑا اُن سب کو اپنی جانب متوجہ کرتا شاہ ویز کی جانب سے اُن کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔
شاہ ویز جنید کو وہاں آئے اپنے ساتھیوں کے حوالے کرتا فوراً وہاں سے نکل جانے کا حکم دے گیا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں اپنے آدمیوں کے نکل جانے تک یہیں اِن لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔۔۔تاکہ وہ اُن کے ساتھیوں کا پیچھا نہ کر سکیں۔۔۔
"میر۔۔۔۔۔"
شاہ ویز جیسے ہی پلٹ کر حازم کی جانب آیا۔۔۔۔ ایک پولیس والے کو حازم کے سر پر نشانہ باندھتا دیکھ وہ چلایا تھا۔۔۔۔ جب اُسی لمحے کسی نے حازم کا بازو پکڑتے اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
حازم شاہ ویز کی پکار پر اُس کی جانب متوجہ ہورہا تھا۔۔۔ پیچھے سے کسی کے پوری قوت سے کھینچنے پر وہ لڑکھڑاتا اُس وجود کے ساتھ پیچھے موجود ڈھلوانی سطح پر لڑھک گیا تھا۔۔۔۔
اپنے بازو پر محسوس ہوتی گرفت سے ہی وہ سمجھ گیا ہے کہ یہ ہستی کون ہے جو اپنی جان اور نوکری خطرے میں ڈال کر صرف اُسے بچانے وہاں آن پہنچی ہے۔۔۔
وہ دونوں ایک ساتھ زمین پر گرے تھے۔۔۔
مگر حازم نے حبہ کی کمر اور سر کے نیچے اپنی بانہیں حمائل کرتے اُسے چوٹ لگنے سے بچایا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں ڈھلوانی سطح پر پھسلتے بل کھاتے کافی نیچے آگرے تھے۔۔۔۔
"تم پاگل ہوگئی ہو۔۔۔ کیوں آئی یہاں؟؟؟ اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو۔۔۔۔"
حازم اپنے اُوپر پڑی حبہ کی کمر کے گرد بازو حمائل کیے اُس پر چلایا تھا۔۔۔۔
"بکواس مت کرو میر حازم سالار۔۔۔۔ میرا دل چاہ رہا ہے۔۔۔ میں اِس وقت اپنے ہاتھوں سے تمہارا قتل کر دوں۔۔۔۔ کیوں کررہے ہو ایسا۔۔۔ کیوں اذیت دے رہے ہو مجھے۔۔۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ سب۔۔۔ بہت غلط ہے یہ۔۔۔ اپنی زندگی برباد مت کرو۔۔۔۔ خدا کے لیے۔۔۔ اِس حرام کام کو چھوڑ دو۔۔۔۔"
اُس کا گریبان مُٹھیوں میں دبوچتی وہ اُس کے سینے پر سر ٹکائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔ اُس کا دل ابھی بھی خوف کے مارے اِس بُری طرح سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آن دھکمے گا۔۔۔۔
اگر وہ بروقت پہنچ کر حازم کو نہ کھینچتی تو نجانے کیا انہونی ہوجاتی۔۔۔ اِس خیال کے آتے ہی اُسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔
حازم اُس کی کیفیت سمجھتا اُس کے وجود کو اپنے سینے میں بھینچے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اُس کے سینے سے لگی حبہ گڑیا کے سے نازک وجود کی طرح ایسے ہی اُس کے حصار میں مقید بلکتی رہی تھی۔۔۔۔
جبکہ حازم حبہ کا اپنے پیچھے یہاں آنا برداشت نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہتا تھا اُس کی وجہ سے حبہ مشکل میں پڑے۔۔۔۔
اُس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔۔۔ کچھ ایسا جو حبہ کو اذیت سے نکلنے کے لیے دوہری اذیت دینے والا تھا۔۔۔۔
کیونکہ یہ بات تو طے تھی کہ وہ تینوں مرتے دم تک اپنے مشن کو پورا کیے بغیر اِس کام کو چھوڑنے والے تو نہیں تھے۔۔۔۔ بہت ساری قربانیاں دینے کے بعد حازم سالار اب ایک اور قربانی دینے والا تھا۔۔۔
اپنی محبت کو خود سے دور کرنے کی قربانی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شاہ ویز حازم کے وہاں سے ہٹتے ہی خود بھی وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔ مگر اُس پر اُن سب پولیس والوں کی نظر تھی۔۔۔ وہ سب اندھا دھند فائرنگ کرتے اپنے آفیسر کے دیئے آرڈر کے مطابق کسی بھی طرح اُسے زندہ یا مردہ پکڑنے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔
شاہ ویز کے دائیں بازو میں گولی لگی تھی۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ نہ تو گاڑی ڈرائیو کرسکتا تھا اور نہ فائرنگ کرکے اُن کا مقابلہ۔۔۔۔
اُس کے بازو سے خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔۔۔۔
وہ دو تین سنسنان گلیوں سے ہوتا پولیس والوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتا دوسرے روڈ پر آن نکلا تھا۔۔۔ مگر اُس ایریے میں چاروں جانب پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دے رہے تھے۔۔
پولیس فورس کی پوری نفری اِس وقت کے سب سے بڑے گینگسٹر شاہ ویز سکندر کو پکڑنے کے لیے پوری طرح الرٹ ہوچکی تھی۔۔۔۔
ہر جگہ پر ناکا بندی کی گئی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کا زخمی ہونے کے ساتھ اِس جگہ سے نکل پانا مشکل تھا۔۔۔ مگر وہ ہمیشہ سے خطروں کا کھلاڑی رہا تھا۔۔۔ ہمیشہ اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے پھرتا تھا۔۔۔ اِس وقت بھی اُس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف کا نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔
وہ ایک سنسان تاریکی میں ڈوبی گلی کے سرے پر کھڑا کچھ فاصلے پر لگے پولیس ناکے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر اُس ناکے سے پراپر چیکنگ کے ساتھ گزرتی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی پر پڑتی واپس پلٹنا بھول گئی تھی۔۔۔
وہ گاڑی کسی اور کی نہیں پریسا آفندی کی تھی۔۔۔ جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی وہ پریشان اور بے زار سی اپنی باری کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔
مگر پریسا کی گاڑی سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے پولیس والے اُسے جن نگاہوں سے گھور رہے تھے۔۔۔ وہ شاہ ویز کا خون جلا کر رکھ گئے تھے۔۔۔۔ وہ غصے سے مُٹھیاں بھینچتا اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔۔
"میں جب بھی تمہیں اپنے دل و دماغ سے نکالنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم ایسے ہی میرے راستے میں آکر مجھ سے ٹکرا جاتی ہو۔۔۔۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی پریسا آفندی تم میری منزل نہیں صرف میرا ایک مہرا ہو۔۔۔۔ پھر کیوں ہر بار ایک نئی تکلیف سہنے کی خاطر کیوں آتی ہو میرے راستے میں۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی گن نکالتا پریسا کی ناکے سے گزرتی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ جس کے پیچھے وہ دونوں پولیس والے بھی بائیک پر جا رہے تھے۔۔۔۔ اُن دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ وہ پریسا آفندی پر غلط نظر ڈال کر شاہ ویز سکندر کے قہر کو آواز دے چکے ہیں۔۔۔۔
جس سے اب بچ پانا اُن کے لیے ممکن نہی تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا نے جیسے ہی پولیس چیک پوسٹ سے گاڑی آگے نکالی اُسے دو پولیس والے بائیک پر اپنے پیچھے آتے دکھائی دیئے تھے۔۔۔
جو دیکھ وہ ایک دم گھبراتی گاڑی روک گئی تھی۔۔۔۔
"باہر نکلیں میڈم۔۔۔۔۔"
اُس کی گاڑی کے آگے بائیک روکتے وہ اُس کی کھڑی کو بجاتے پریسا کو خوفزدہ کر گئے تھے۔۔۔۔
اُسے اِن دونوں کی نظریں پہلے ہی کافی عجیب سی لگی تھیں۔۔۔۔
وہ باہر نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔
"باہر نکو حسین بلبل۔۔۔ ورنہ ہم کھڑکی توڑ کر تمہیں باہر نکال لیں گے۔۔۔۔"
وہ اُس کا شیشہ زور سے بجاتے اُسے دھمکی دے گئے تھے۔۔۔ پریسا کو اِس وقت وہ پولیس کی وردی میں چھپے درندے معلوم ہوئے تھے۔۔۔۔ اُسے رات کے اِس پہر گھر سے نکل کر کی جانے والی کوتاہی ہر جی بھر کر پچھتاوا ہوا تھا۔۔۔۔
"باہر نکلو حسین بلبل۔۔۔ ورنہ ہم کھڑکی توڑ کر تمہیں باہر نکال لیں گے۔۔۔۔"
وہ اُس کا شیشہ زور سے بجاتے اُسے دھمکی دے گئے تھے۔۔۔ پریسا کو اِس وقت وہ پولیس کی وردی میں چھپے درندے معلوم ہوئے تھے۔۔۔۔ اُسے رات کے اِس پہر گھر سے نکل کر کی جانے والی کوتاہی ہر جی بھر کر پچھتاوا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ خوف سے سیٹ کے ساتھ چپکی بیٹھی کانپ رہی تھی۔۔۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں میچتے پورے دل سے اپنے رب کو پکارتے مدد مانگی تھی۔۔۔
وہ مرنا چاہتی تھی مگر ایسی موت بالکل بھی نہیں۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں سے آنسو گررہے تھے۔۔۔۔ جن کے بیچ نظر آتی شاہ ویز سکندر کی پرچھائی دھندلا گئی تھی۔۔۔۔
جب باہر سے آتی زور دار آواز پر پریسا نے گھبرا کر آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔۔
جب سامنے کا منظر دیکھ وہ اپنی سماعتوں پر یقین نہیں کر پائی تھی۔۔۔
ابھی تو اُس نے اپنے رب کو پکارا تھا اور اُسی وقت اُس کے پیارے پروردگار نے شاہ ویز سکندر کو ہمیشہ کی طرح حافظ بنا کر اُس کی مدد کے لیے بھیج دیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز زخمی بازو کے باوجود اُن پولیس والوں کو بُری طرح پیٹ رہا تھا۔۔۔
نجانے اُسے کس بات کا غصہ تھا کہ وہ جنونی کیفیت میں اُن پولیس والوں کے بے جان ہوتے وجود کا خیال کیے بغیر اندھا دھند اُن دونوں کو پیٹے جارہا تھا۔۔۔
پریسا گھبرا کر گاڑی سے باہر نکلی تھی۔۔۔ وہ شاہ ویز کے اِس خوفناک روپ کو دیکھ اُس کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔
مگر اُن پولیس والوں کی حالت دیکھ نجانے کیوں پریسا کو اُن پر رحم آیا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر مر چکے ہیں شاید وہ۔۔۔۔ چھوڑ دو اُنہیں۔۔۔۔"
پریسا اُس کے پاس آتے چلائی تھی۔۔۔۔
مگر شاہ ویز سکندر کے کان پر تو جوں تک نہیں رینگی تھی۔۔۔ اُسے تو بس اتنا یاد تھا کہ اِن دونوں نے پریسا آفندی پر بُری نظر ڈال کر گناہِ کبیرہ سرزد کیا تھا۔۔۔
پریسا کی آواز اُس کے کانوں تک نہیں پہنچ پائی تھی۔۔۔۔
جب پریسا اُس کے قریب آتی اُس کا بازو تھام کر اُسے اپنی پوری قوت لگاتے اپنی جانب کھینچ گئی تھی۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر تم پاگل ہوگئے ہو کیا۔۔۔ ہر وقت ہر جگہ اپنی درندگی دکھانا ضروری نہیں ہوتا۔۔۔ وہ مر چکے ہیں۔۔۔۔ کیوں مارا تم نے اِنہیں۔۔۔۔؟؟ کیوں آئے ہو تم یہاں میرے پیچھے۔۔۔ ؟؟؟ تم تو شدید نفرت کرتے ہو نا مجھ سے۔۔۔۔ تو پھر کیوں ہر بار پہنچ جاتے ہو مجھے بچانے۔۔۔ بولو؟؟؟ سمجھتے کیا ہو تم خود کو۔۔۔ "
پریسا اُس کے سینے پر مکے برساتی اِس شخص کے لیے اپنے دل و دماغ میں موجود ساری فرسٹیشن اور غصہ نکالتی چلی گئی تھی۔۔۔
وہ شدید غصے کے عالم میں نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
کہ جس جگہ سے اُس نے شاہ ویز کا بازو سختی سے دبوچ رکھا تھا۔۔۔ وہیں شاہ ویز کو گولی لگی تھی۔۔۔۔
وہ اِس وقت شاہ ویز سکندر کو اپنے سامنے دیکھ اِس قدر غصے میں تھی۔۔۔ کہ اُسے شاہ ویز کے بازو پر نمی کا احساس بھی نہیں ہوپایا تھا۔۔۔
مگر شاہ ویز سکندر اُس کے منہ سے نکلے الفاظ برداشت نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
پریسا کی کمر میں سختی سے بازو حمائل کرتا وہ جارحانہ انداز میں اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
پریسا اِس حملے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی۔۔۔ سیدھی اُس کے سینے سے جاٹکرائی تھی۔۔۔
"کیونکہ تم سے نفرت کرنے کا۔۔۔ تمہیں تکلیف پہنچانے کا حق صرف اور صرف شاہ ویز سکندر کے پاس ہے۔۔۔ جو بھی تم پر بُری نگاہ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔۔۔ اُس کا ایسا ہی عبرت ناک انجام ہوگا۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کی آنکھوں میں اپنی لال انگارہ وحشت میں ڈوبی نظریں گاڑھے بولا پریسا کو ساکت کر گیا تھا۔۔۔
یہ کیسا اقرار تھا اِس شخص کا۔۔۔۔
یہ شخص خود تو پاگل تھا ہی مگر آہستہ آستہ اُسے بھی پاگل کررہا تھا۔۔۔۔
"تمہارا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے شاہ ویز سکندر۔۔۔ نہ ہی تم جیسے انسان کو میں خود پر کوئی حق دیتی ہوں۔۔۔۔ تم جیسے وحشی درندے ساری زندگی اکیلے ہی رہتے ہیں۔۔۔ تم نے دل توڑا ہے میرا۔۔۔ تم بھی اب ساری زندگی تڑپو گے۔۔۔ تب تمہیں احساس ہوگا دل ٹوٹنے کی تکلیف کیسے ہوتی ہے۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑے ظالم اور احساس سے عاری بے پرواہ شخص کا یہ خوبرو مغرور چہرا نوچ لے۔۔۔ جس نے اپنا جلاد صفت انداز اپناتے اُس کا دل مسل کر رکھ دیا تھا۔۔۔
شاہ ویز اِس سے پہلے کے اُس کی اتنی سنگین دل چیرتی باتوں کا کوئی جواب دیتا۔۔۔۔ اُسے دور سے پولیس کی گاڑی اِسی جانب آتی دکھائی تھی۔۔۔۔۔
"اگر زرا بھی چلائی تو میری اصل درندگی تم تب دیکھو گی۔۔۔ اور یقین کرو اگر شاہ ویز سکندر اپنی کرنے پر آگیا تو تمہیں تمہارا پورا آفندی خاندان بھی مجھ سے نہیں بچا پائے۔۔۔ اِس لیے آواز مت نکالنا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے اُٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالتا جنگل کی جانب نکل گیا تھا۔۔۔۔
پریسا جو گھبرا کر واقعی اُس کی اِس حرکت پر جی جان سے کانپ اُٹھتی چلانا چاہتی تھی۔۔۔ اُس کی ابھی دی گئی دھمکیوں کا خیال آتے ہی اُس کی آواز حلق کے اندر ہی کہیں گم ہوچکی تھی۔۔۔۔
پریسا مسلسل خود کا آزاد کروانے کے لیے اُس کی کمر پر مکے برساتی اُس پر بار بار حملہ آور ہورہی تھی۔۔۔۔
مگر شاہ ویز سکندر کی رفتار میں زرا برابر بھی کمی نہیں آئی تھی۔۔۔۔
جنگل میں بہت آگے آکر رکتے اُس نے پریسا کو نیچے اُتار دیا تھا۔۔۔۔
اُس کا خون بازو سے بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔۔۔ تکلیف تو اُس نے ہمیشہ کی طرح ضبط کر رکھی تھی۔۔۔ مگر خون بہہ جانے کی وجہ سے اُسے کمزوری محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔
وہ پریسا کے پاس سے ہوتا ایک درخت کے تنے کے ساتھ سر ٹکا کر بیٹھتا آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔۔
جنگل میں چاروں جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔ چاند کی روشنی گھنے درختوں کے بیچ بہت مشکل سے بہت تھوڑی مقدار میں پہنچ رہی تھی۔۔۔
پریسا نے موبائل کی ٹارچ آن کرتے شاہ ویز کو دیکھا تھا۔۔۔
مگر جیسے ہی پریسا کی نظر اُس کی کہنیوں تک فولڈ کیے بازو سے نکلتے خون پر پڑی وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی بمشکل اپنی چیخ روک پائی تھی۔۔۔۔
یہ خون ابھی نہیں نجانے کس وقت کا ایسے کی بہہ رہا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کا سفید چہرے میں گھلتی زردیاں دیکھ ہی پریسا کا دل خوف اور تکلیف کے مارے کانپ گیا تھا۔۔۔
اپنے محبوب ترین انسان کی اِس تکلیف پر اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی ایک بار پھر سے جاری ہوچکی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے شاہ ویز نے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
اور پھر جیسے دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔
ٹارچ کی روشنی میں سیاہ شال کے ہالے میں مقید دودھیا چہرا آنسوؤں سے معطر ہوتا مزید نکھر گیا تھا۔۔۔ مسلسل رونے کی وجہ سے آنکھوں کے سوجے پپوٹے اِس لڑکی کی دلکشی میں مزید اضافہ کررہے تھے۔۔۔۔
اِس ایک لمحے نے شاہ ویز سکندر کے دل کی دنیا تہہ و بالا کرکے رکھ دی تھی۔۔۔
"یہاں آؤ اور میرے زخم کی بینڈیج کرو۔۔۔۔"
ہر شے سے بے خوف رہنے والا بلیک بیسٹ شاہ ویز سکندر اِس وقت پریسا آفندی کی قربت سے شدید خوفزدہ ہوچکا تھا۔۔۔
مگر دل کی فریاد پر ہمیشہ کی طرح آج وہ اُسے خود سے دھتکار نہیں پایا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے پورے استحقاق سے دیئے جانے والے حکم پر پریسا کپکپا کررہ گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ حازم کے سینے سے لگی کھڑی تھی جب حازم نے اُس کی کلائی دبوچتے اُسے خود سے جدا کردیا تھا۔۔۔۔
حبہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے حازم کا یہ جارحانہ انداز دیکھا تھا۔۔۔
"ایس پی حبہ امتثال۔۔۔ جس شے کو پانے کے لیے ميں نے اپنے سگے چچا کو نہیں چھوڑا تمہیں لگتا ہے تمہارے کہنے پر میں یہ سب چھوڑ دوں گا۔۔۔ تم اتنی بے وقوف لگتی تو نہیں تھی مجھے۔۔۔۔ تمہیں کیا لگا۔۔۔ تم سے محبت کی خاطر لوٹا ہوں میں تمہارے پاس۔۔۔ اتنا مرا جارہا تھا تمہاری محبت میں۔۔۔ اگر مجھے تمہاری محبت میں لوٹنا ہوتا تو اُس وقت لوٹتا جب تم میری موت کی خبر سے ڈپریشن میں جا چکی تھی۔۔۔ لیکن آج میں تمہاری یہ غلط فہمی دور کر ہی دیتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت کبھی تھی ہے نہیں۔۔۔ میں تمہیں صرف استعمال کر رہا تھا۔۔۔ اپنے مقصد کے لیے۔۔۔ کیونکہ تم میرے مشن کی کامیابی تک پہنچنے کی ایک بہت اہم کڑی ہو میرے لیے۔۔۔۔ "
حازم آنکھوں میں نفرت کے رنگ بھرے چہرے پر تضحیک اور طنز بھرے تاثرات لیے بولتا حبہ کی دنیا ہلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔
حبہ کے ہاتھ سے گن چھوٹ کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔
وہ ساکت سی کھڑی اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
حازم کے الفاظ اُس کے پیروں تلے سے زمین اور سر سے آسمان کھینچ چکے تھے۔۔۔۔
وہ کتنے ہی لمحے کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔۔
"تت تم۔۔۔ تم نے بِابا کو قتل کیا۔۔۔۔ نن نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے۔۔۔ تم اتنی سفاک نہیں ہو سکتے۔۔۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔ تم تو اُنہیں اپنے سگے باپ کی طرح چاہتے تھے نا۔۔۔۔"
حبہ بمشکل خود کو بول پانے کے قابل کرتی نفی میں سر ہلاتے بولی۔۔۔۔
"باپ کہتا تھا۔۔۔ مگر وہ میرے باپ تھے نہیں۔۔۔۔ میری راہ کا کانٹا بن گئے تھے۔۔۔ اِسی لیے اپنے ہاتھوں سے مار دیا اُنہیں۔۔۔۔ اور اُن کی گاڑی کو آگ لگا کر جلا دیا۔۔۔ "
حازم بے رحمی سے بولتا حبہ کے دل کے دل کے کئی ٹکڑے کر گیا تھا۔۔۔۔
اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ حازم ایسا کچھ کرسکتا ہے۔۔۔ مگر اُس کی آنکھوں کی وحشت اور چہرے کی سفاکی بتا رہی تھی کہ وہ ایسا کر چکا ہے۔۔۔۔
وہ اُس کے قریب آتی اُس کی گردن اپنی مُٹھیوں میں دبوچ گئی تھی۔۔ حازم بنا کوئی مزاحمت کیے ساکت کھڑا رہا تھا۔۔۔۔
وہ بس اِن آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھنا چاہتا تھا۔۔ جو اُس کے اِس ظالمانہ انکشاف کے بعد اُسے واضح طور پر نظر آگئی تھی۔۔۔
"مجھے شدید نفرت محسوس ہورہی ہے تم سے حازم سالار۔۔۔۔ اگر تم واقعی میرے بابا کے قاتل ہو تو میں قسم کھا کر کہتی ہوں اپنے ہاتھوں سے جان لوں گی تمہاری۔۔۔ مگر میرا دل اب بھی گواہی دے رہا ہے۔۔۔ تم اتنے سفاک نہیں ہوسکتے۔۔۔ میں اتنے بُرے انسان سے محبت کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ کسی ریزن کی وجہ سے تمہیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔ لیکن اگر یہ سچ ہوا نا تو اب تک تم نے ایس پی حبہ امتثال کی محبت دیکھی ہے۔۔۔ اب آگے تم میری نفرت دیکھو گے۔۔۔ تمہارے پورے گینگ کو نیست و نابود کرکے رکھ دوں گی میر حازم سالار۔۔۔۔۔ "
حبہ اُسے لال بھیگی اذیت بِھری آنکھوں سے وارن کرتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
جبکہ حازم کی نگاہوں نے دور تک اُس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔
حبہ کے نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ تھکن سے چور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتا مُٹھیاں سختی سے بھینچتا اپنا اضطراب دور کرنے لگا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بے خوف و خطر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن کو موت کے گھاٹ اُتارنے والی اِس وقت حمدان صدیقی کی گرفت میں اپنی حیا کے بوجھ سے بھاری ہوتیں پلکیں تک نہیں اُٹھا پائی تھی۔۔۔
اُس کے ہاتھ کی بے رحم گرفت سے اب مہروسہ کو شدید تکلیف ہونے لگی تھی۔۔۔ شاید چوڑیوں کے کچھ ٹکڑے اُس کی شہہ رگ کو زخمی کر گئے تھے۔۔۔
مگر حمدان صدیقی تو اُس کے ہوش رُبا حُسن کی رعنائیوں میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ اُس کے بانہوں میں مقید لڑکی اُس کی محبوبہ نہیں بلکہ سب سے بڑی دشمن تھی۔۔۔۔
"مجھے درد ہورہا ہے۔۔۔۔"
مہروسہ دھیرے سے کسمسائی تھی۔۔۔ وہ مزید حمدان صدیقی کی یہ جان لیوا قربت اور چہرے کو جھلساتی گرم سانسوں کی تپیش برداشت نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔
اُس کی کراہ پر حمدان کا فسوں ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ جلدی سے ہوش میں آیا تھا۔۔۔ اُس نے جھٹکے سے مہروسہ کو کسی اچھوت شے کی طرح خود سے دور جھٹکنا چاہا تھا۔۔۔
جس پر مہروسہ بُری طرح لڑکھڑائی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی پل ہیلز پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتے وہ زمین بوس ہوتی حمدان اُسے گرتا دیکھ ایک بار پھر بے اختیاری کے عالم میں اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔۔۔"
اُس کی کلائی کا زخم دیکھ حمدان کے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ نے بے یقینی میں غوطہ زن ہوتے حمدان صدیقی کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ اُس سے جتنا خوف زدہ تھی۔۔۔ حمدان کا رویہ اُتنا ہی نارمل اور نرمی بھرا تھا۔۔۔
مہروسہ کی حالت زیادہ خراب اِسی بات پر ہورہی تھی۔۔۔۔
"بہت حسین لگ رہی ہو تم۔۔۔ "
حمدان اُسے بانہوں میں اُٹھاتا بیڈ کی جانب بڑھتا مہروسہ کو نئے عذاب میں ڈال گیا تھا۔۔۔۔
اُسے اپنے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔ اُسے تو لگا تھا کہ حمدان اُس کے آگے آج اُس کی اصلیت کھول کر اُسے کوئی نئی سزا دے گا۔۔۔۔
مگر اِس وقت حمدان صدیقی تو الگ ہی انداز اپنائے ہوئے اُس کی جان نکالنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا۔۔۔
"اللہ جی یہ اِس کھڑوس کو کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟ یہ اتنا عجیب بی ہیو کیوں کررہا ہے۔۔۔ میں جانتی ہوں میں اِسے کسی بھی روپ میں اچھی نہیں لگ سکتی۔۔۔۔ پھر یہ۔۔۔۔۔ یہ ایسا کیوں کررہا ہے۔۔۔؟؟ کیا اِس میں بھی اِس ایس پی کی کوئی چال ہے۔۔ کہیں یہ ابھی ہی تو مجھے مارنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔۔۔۔"
حمدان کا اتنا اچھا انداز مہروسہ سے ہضم ہوپانا مشکل تھا۔۔۔۔
وہ اُسے بیڈ پر بیٹھاتا خود سائیڈ دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکالتا اُس کے سامنے جا بیٹھا تھا۔۔۔
مہروسہ کی دھڑکنیں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ چکی تھیں۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"
حمدان نے جیسے ہی اُس کے ہاتھ کو تھاما مہروسہ نے گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچا تھا۔۔۔ وہ مہروسہ کے روپ میں جس بے باکی کا اظہار کرتی آئی تھی اُس کا کھڑوس ایس پی شاید آج اُن سب باتوں کا بدلہ لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
اُس کی یہ حرکت حمدان کو بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔۔۔ حمدان اُس کے میک اپ سے سجے دلکش چہرے پر نگاہیں گاڑھتے درمیانی فاصلہ طے کرتے اُس کے قریب ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا کو لگا تھا ابھی اُس کی سانسیں رک جائیں گی۔۔۔ یا اُس کا دل بند ہوجائے گا۔۔۔۔ حمدان صدیقی کی سحر انگیز شخصیت کا سحر اُسے آہستہ آہستہ اپنے حصار میں جکڑ رہا تھا۔۔۔
"مسز حمدان صدیقی اب آپ پر آپ سے زیادہ ہمارا حق ہے۔۔۔ اِس لیے دوبارہ ایسی کوئی حد بندی بنانے کی کوشش مت کیجیے گا۔۔ اُس ایک حرکت کے سنگین نتائج کی زمہ دار آپ خود ہونگی۔۔۔۔"
حمدان ہاتھ بڑھا کر اُس کے ناک میں پڑی نتھ کھول چکا تھا۔۔۔۔ جو اُس کے ہونٹوں سے ٹچ ہوتی حمدان کو بُری طرح ڈسٹرب کر رہی تھی۔۔۔
اُس کے لمس پر مہروسہ کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔ وہ خود کو اس سب کے لیے بالکل بھی تیار نہیں کرکے آئی تھی۔۔۔۔
اپنے سامنے بیٹھے بے رحم اور بے حس دشمنِ جاں کی اِن عنایتوں کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔ ہمیشہ عین موقع پر دشمنوں کی چال پلٹ کر رکھ دینے والی اِس وقت بُری طرح گھبراہٹ کا شکار تھی۔۔۔۔
حمدان پورے انہماک کے ساتھ اُس کی دودھیا کلائی کو تھامے اُس پر دوا لگا کر اب بینڈیج کررہا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ بے خود سی یک ٹک اُسے تکے گئی تھی۔۔۔ کھڑے دلکش نقوش۔۔۔ ہر وقت غصے سے لبریز بھوری آنکھیں اور سلوٹوں بھری کشادہ پیشانی پر بکھرے سیاہ بال۔۔۔ وہ آج اُس کے گینگ کے سب سے پسندیدہ رنگ۔۔۔ سیاہ رنگ کے کرتے میں ملبوس مہروسہ کے پہلے سے گھائل دل پر بجلیاں گرا گیا تھا۔۔۔
اُوپر سے اُس کی یہ عنایت رہی سہی کسر بھی پوری کر گئی تھی۔۔۔۔ وہ تو اِس شخص کے ہر انداز کی اسیر تھی۔۔۔
لیکن آج حمدان صدیقی کا یہ انداز اُس کی جان لینے کے در پر تھا۔۔۔۔
وہ آج اُس کے گینگ کے سب سے پسندیدہ رنگ۔۔۔ سیاہ رنگ کے کرتے میں ملبوس مہروسہ کے پہلے سے گھائل دل پر بجلیاں گرا گیا تھا۔۔۔
اُوپر سے اُس کی یہ عنایت رہی سہی کسر بھی پوری کر گئی تھی۔۔۔۔ وہ تو اِس شخص کے ہر انداز کی اسیر تھی۔۔۔
لیکن آج حمدان صدیقی کا یہ انداز اُس کی جان لینے کے در پر تھا۔۔۔۔
"وہ۔۔۔ مم مجھے چینج کرنا ہے۔۔۔۔۔"
مہروسہ کی سانسیں اٹک رہی تھیں۔۔۔
وہ مزید اِس شخص کے سامنے بیٹھ پانے کی ہمت نہیں رکھ پارہی تھی۔۔۔
"مگر میں نے ابھی اِس بات کی اجازت نہیں دی۔۔۔ ابھی تو میں نے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تمہیں۔۔۔"
حمدان تو جیسے آج اُس سے ہر بدلہ لے لینا چاہتا تھا۔۔۔ آج حمدان صدیقی کے میدان میں آتے ہی مہروسہ کنول خوفزدہ ہوچکی تھی۔۔۔۔
"مجھے پانی پینا ہے۔۔۔۔"
مہروسہ نے اُس سے اپنا ہاتھ چھڑواتے وہاں سے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔ مگر اُس کے وہاں سے ہٹنے سے پہلے ہی حمدان اُس کی کلائی کھینچ کر اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ توازن برقرار نہ رکھ پاتے سیدھی اُس کی گود میں جا گری تھی۔۔۔
حمدان اُس کے گرد بازو حمائل کرتا اُس کے فرار کی ساری راہیں مسدود کر گیا تھا۔۔۔
"کیا تم مجھ سے فرار ہونے کی کوشش کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟"
اُس کے ماتھے کی بندیا کو چھوتے حمدان اُس کے لال پڑتے چہرے کو تکے جارہا تھا۔۔۔
وہ پہلے دن سے ہی بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ لڑکی اُس سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ اِس محبت کو اب تک ایسے ہی استعمال کرتا آیا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کی محبت کو کھیل سمجھ کر کھیلنے والا خود کتنے بڑے درد کا شکار ہونے والا تھا۔۔۔۔
"نہیں تو۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ میں اِس لباس میں تھک گئی ہوں۔۔۔ اِس لیے۔۔۔۔"
حمدان کی گرم سانسیں اپنی کان کی لوح پر محسوس کرتے مہروسہ کا دل اُس کے کانوں میں دھڑکنے لگا تھا۔۔۔
وہ نگاہ تک نہیں اُٹھا پارہی تھی۔۔۔۔
"آر یو شیور۔۔۔ یہی بات ہے۔۔۔۔۔"
حمدان کا انداز گہرا طنز لیے ہوئے تھا۔۔۔۔ مہروسہ جنید کا سوچتے بہت تکلیف میں تھی۔۔۔۔ حمدان صدیقی اُسے اُس کی زندگی کے اتنے اہم دن پر بھی اتنی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔۔۔ مہروسہ نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ محبت آپ کے ہر مرہم کا مداوا کردیتی ہے۔۔۔ مگر اُس کی محبت تو اُسے دوہرے عذاب سے گزارنے کا باعث بن رہی تھی۔۔۔
"جی۔۔۔۔ "
مہروسہ بمشکل بول پارہی تھی۔۔۔۔
وہیں دوسری جانب حمدان صدیقی بہت کوشش کے باوجود بھی خود کو اِس پری پیکر کی دلکشی اور مسحور کن خوشبو میں کھونے سے نہیں بچا پارہا تھا خود کو۔۔۔۔
اُس کی بانہوں میں مقید یہ حسین لڑکی اُس کی شریک حیات تھی۔۔ جو اُس سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔۔ وہ اُس پر قانونی اور شرعی حق رکھتا تھا۔۔۔۔
حمدان صدیقی جیسا مضبوط اعصاب کا مالک شخص بھی خود کو اِس وقت اِس حُسن کی مورتی کی تابکاریوں سے خود کو نہ بچا پاتے اُس کے چہرے پر جھکا تھا۔۔۔
اور باری باری اُس کے دونوں گالوں کو اپنے ہونٹوں سے چھو لیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ اُس سے اِس عمل کی توقع نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ وہ لرزتے وجود کے ساتھ اُس کا گریبان سختی سے دبوچ گئی تھی۔۔۔ نجانے کس احساس کے زیرِ اثر اُس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر پھسلے تھے۔۔۔۔
نمی کا احساس ہوتے ہی حمدان دور ہوتا جیسے ہوش کہ دنیا میں لوٹا تھا۔۔۔۔
وہ اُس لڑکی کے سحر میں گرفتار ہوکر وہ حرکت سرزد کرگیا تھا۔۔ جو وہ کبھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
حمدان کو خود پر شدید غصہ آیا تھا۔۔۔ وہ بھلا اِس لڑکی کو اپنا لمس کیسے بخش سکتا تھا۔۔۔ جو اُس کی دشمن تھی۔۔۔۔۔
اُسی لمحے حمدان کا فون بجا تھا۔۔۔۔
"تم چینج کر لو جاکر۔۔۔۔"
حمدان اپنی مُٹھیاں سختی سے بھینچتا اُسے سرد تاثرات کے ساتھ وہاں سے جانے کا بول گیا تھا۔۔۔
مہروسہ حمدان صدیقی کو واپس اپنے اصل روپ میں آتے دیکھ پھیکا سا مسکراتے اُس کے پاس سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔
وہ بنا ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیے واش روم میں گھس گئی تھی۔۔۔۔
اُسے اپنے ساتھیوں کی خیریت دریافت کرنی تھی۔۔۔
مگر حازم سے بات کرتے جو خبر اُسے ملی تھی۔۔۔ تکلیف کے مارے اُس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔۔۔ حمدان صدیقی کی سفاکی کی وجہ سے اُس کا بھائیوں جیسا ساتھی دوست۔۔۔ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے کوما میں جا چکا تھا۔۔۔۔۔ اُس کے ہوش میں آنے کے چانسز بہت کم تھے۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہہ نکلے تھے۔۔۔ ایک بار پھر اُن کے بلیک سٹارز کو بہت گہری چوٹ پہنچی تھی۔۔۔۔ اُن کے نہایت ہی قریبی آدمی کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔۔۔ مہروسہ کو اِس وقت حمدان صدیقی پر بے پناہ غصہ آرہا تھا۔۔۔ اُس کا دل چاہا تھا ایک پل کے لیے تو اِس سفاک اور بے رحم شخص سے اپنے بے قصور ساتھی کا بدلہ ضرور لے۔۔۔
مگر وہ دل کے معاملے میں اتنی بے بس تھی کہ ایسا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ اُسے شاہ ویز اور حازم کے غصے سے بھی خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ جو جنید کی حالت دیکھ غصے میں حمدان کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔۔۔۔
اور وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ تینوں کبھی بھی آمنے سامنے آتے۔۔۔۔
شاہ ویز کو گولی لگی تھی۔۔ اُس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔ مگر حازم اور مہروسہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اگر حمدان صدیقی کی پوری فورس بھی ایک ساتھ لگ جاتی تب بھی شاہ ویز سکندر تک پہنچ پانا اور اُسے گرفتار کر پانا ناممکن تھا۔۔۔۔
اِس لیے وہ شاہ ویز کی جانب سے مطمئین تھے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یہاں آؤ اور میرے زخم کی بینڈیج کرو۔۔۔۔"
ہر شے سے بے خوف رہنے والا بلیک بیسٹ شاہ ویز سکندر اِس وقت پریسا آفندی کی قربت سے شدید خوفزدہ ہوچکا تھا۔۔۔
مگر دل کی فریاد پر ہمیشہ کی طرح آج وہ اُسے خود سے دھتکار نہیں پایا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے پورے استحقاق سے دیئے جانے والے حکم پر پریسا کپکپا کررہ گئی تھی۔۔۔۔
پریسا ہمیشہ خون سے بہت زیادہ خوفزدہ رہتی تھی۔۔۔ اپنے ماں باپ کی ڈیڈ باڈیز خون میں لت پت دیکھی تھی اُس نے۔۔۔۔۔ جس کے بعد سے وہ خون دیکھ اپنے حواس قائم نہیں رکھ پاتی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر سے ہوئی اُس کی پہلی ملاقات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔۔
مگر اِس وقت وہ شاہ ویز سکندر کا خون دیکھ ڈری نہیں تھی۔۔۔ لیکن اُس کی فکر سے دل کانپ گیا تھا۔۔۔ جس طرح اُس کا خون بہہ رہا تھا اگر اُسے کچھ ہوجاتا تو۔۔۔
پریسا ہر لحاظ بالائے طاق رکھتی اُس کے قریب گئی تھی۔۔۔ جو اب دوبارہ آنکھیں موند چکا تھا۔۔۔۔
اُسے یوں آنکھیں بجد کرتے دیکھ پریسا کو تشویش ہوئی تھی۔۔۔
شاہ ویز کے قریب آنے پر اُس کا دل بُری طرح دھڑکنے لگا تھا۔۔۔ اُس نے اپنی شال کا ایک بڑا سا حصہ لے کر اُسے پھاڑ کر شاہ ویز کے بازو کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
وہ اندازہ نہیں لگا پائی تھی کہ زخم کہا ہے۔۔۔۔
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے اُسے پکارا تھا۔۔۔۔
لیکن وہ بنا اُسے کوئی جواب دیئے ایسے ہی آنکھیں بند کیے رہا تھا۔۔۔۔ جو بات پریسا کی پریشانی میں مزید اضافہ کر گئی تھی۔۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل شاہ ویز کے قریب بیٹھتی اُس کا بازو اپنے گداز ہاتھوں میں تھام گئی تھی۔۔۔۔ اُس کی شرٹ کو زخم والی جگہ سے اُوپر کرتے وہ لمحے بھر کا کانپ گئی تھی۔۔۔۔
پوری جگہ لال ہوچکی تھی۔۔۔۔ بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔۔۔ پریسا نے اُس کی تکلیف پر بھیگتی آنکھوں کے ساتھ جھک کر اپنی شال اُس کے زخم پر کس کے باندھ دی تھی۔۔۔۔۔۔
اچھی طرح سے باندھتے خون رک گیا تھا۔۔۔۔ پریسا نے نگاہیں موڑ کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جس کی گردن ایک جانب ڈھلکی ہوئی تھی۔۔۔ اور اُس کا بازو بھی بے جان سا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
یہ دیکھ کسی انہونی کے خوف سے پریسا کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
"شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔ ؟؟؟ پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔"
پریسا اُس کا کندھا ہلاتی اُسے جھنجھوڑنے لگی تھی۔۔۔۔
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہے تم۔۔۔۔ میں جانتی ہوں بہت بُری لگتی ہوں تمہیں۔۔۔۔ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تم۔۔۔ مگر اُس کے لیے مجھے خود سے دور رکھو نا۔۔۔۔ خود کیوں آنکھیں موندے ہوئے ہو۔۔۔ تم تو سب کچھ کرسکتے ہو نا۔۔۔ ہر شے پر اختیار ہے نا تمہارا۔۔۔ تو اب کیا ہوا۔۔ خود پر ہی اختیار کھو بیٹھے۔۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر مجھ سے چاہے جتنی مرضی نفرت کرو۔۔۔ مگر خود کو تو اذیت میں مت رکھو۔۔۔ نہیں دیکھ سکتی میں تمہیں ایسے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کا چہرا دونوں ہاتھوں میں تھامے اُس کے کندھے پر سر ٹکائے اُس کے قریب بیٹھی۔۔۔ زار و قطار روتی۔۔۔۔ بس کسی بھی طرح اُس کے ہوش میں آنے کی دعا کرنے لگی تھی۔۔۔
یہاں شاہ ویز کی مدد کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔ لیکن وہ اِس شخص کو ایسے بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔۔۔
ہوش سے بیگانہ وہ اُس کے سامنے اپنے دل کی ہر بات اشکار کرتی۔۔۔ اُسے ہوش میں نہ آتے دیکھ۔۔۔ کسی سے مدد مانگنے کے لیے اُس نے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب اُسی لمحے اُسے اپنی کمر پر شاہ ویز کے بازو کی گرفت محسوس ہوئی تھی۔۔۔
اُس نے جھٹکے سے نگاہیں اُٹھا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
اُسے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔۔ اپنی جانب دیکھتا پاکر پریسا بے خود کے عالم میں اُس کے چہرے کو چھوتے بولی تھی۔۔۔۔
جس کی وحشت ناک آنکھیں اُس کے صبیحہ چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔۔ اُس کے چہرے کے پتھریلے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اُس کی ساری باتیں سن چکا ہے۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگا۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر اتنی آسانی سے یہ دنیا چھوڑ دے گا۔۔۔۔ ابھی تو تمہیں اور تمہارے خاندان کو برباد کرنا ہے۔۔۔۔ اتنی آسانی سے بخشنے والا نہیں ہوں میں تم لوگوں کو۔۔۔۔ اور خاص کر تمہیں تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی ٹھوڑی کو گرفت میں لے کر چہرا اپنی جانب موڑتے بے لچک انداز میں بولا تھا۔۔۔۔
"میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔۔۔ کیا قصور ہے میرا۔۔۔؟؟؟ کیوں تم مجھے اتنی اذیت دے رہے ہو۔۔۔؟؟؟ میری محبت کو میری سزا بنا دیا ہے تم نے۔۔۔۔"
پریسا کے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
"میری سب سے بڑی قصور تم ہی ہو پریسا آفندی۔۔۔ ابھی تو تم نے میری ایک ایک اذیت کا حساب سود سمیت ادا کرنا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ تمہاری یہ تڑپ کتنا سکون دیتی ہے مجھے۔۔۔ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔ تمہارے یہ گرتے آنسو میرے اندر لگی آگ میں کمی لانے کا باعث بن رہے ہیں۔۔۔ "
شاہ ویز شہادت کی اُنگلی سے اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھوتے آگ اُگلتے لہجے میں بولتا پریسا کو خود سے مزید خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے گھبرا کر اُس سے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر اُس سے پہلے ہی شاہ ویز اُس کی فرار کی ساری راہیں مسدود کرتا اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
"کیا ہوا ڈر لگ رہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔؟؟ تم تو محبت کرتی ہو نا مجھ سے۔۔۔۔ پھر یہ ڈر کیسا پریسا آفندی۔۔۔ تم جانتی تھی نا کہ میں انسان نہیں ایک وحشی درندہ ہوں۔۔۔۔ تو کیوں کی مجھ سے محبت۔۔۔ تمہاری قصور وار تم خود ہو میں نہیں۔۔۔۔ میں شروع سے ایسا ہی ہوں۔۔۔۔ اور ہمیشہ سے ایسا ہی رہوں گا۔۔۔۔ جذبات اور احساس سے عاری بلیک سٹارز کا لیڈر بلیک بیسٹ۔۔۔۔ جو انسان نہیں ایک درندہ ہے۔۔۔۔ جس سے محبت کرکے تم نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے برباد کردی ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے چہرے سے آنسو صاف کرتا اُس کا چہرا اپنے چہرے سے قریب تر کر گیا تھا۔۔۔ اتنا کہ پریسا کو اپنا چہرا اُس کی گرم سانسوں سے جھلستا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔
"تم ایک دن بہت پچھتاؤ گے شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ جب تمہیں محبت کی ضرورت ہوگی۔۔۔ اور تمہارے پاس کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔ میں نہیں جانتی مجھے کب اور کیسے تم سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔ مگر مجھے اُس دن کا انتظار ہے جب تمہیں بھی ایسے ہی کسی سے محبت ہوگی۔۔۔۔ تب تمہیں محبت کے درد کا اندازہ ہوگا۔۔۔۔ اور تمہیں احساس ہوگا۔۔۔ میرا دل توڑ کر تم نے مجھے کتنی تکلیف دی ہے۔۔۔ مگر تب تمہارے پاس میں نہیں ہونگی۔۔۔۔"
پریسا اُس سے اپنا آپ آزاد کروانے کی کوشش کرتی شاہ ویز سکندر کو لمحے بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔
"بدعا دے رہی ہو۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز سکندر کی نگاہیں بس اُس کے آنسوؤں اور لرزتے کانپتے ہونٹوں پر تھیں۔۔۔۔
"نہیں آگاہ کررہی ہوں۔۔۔ کہ تمہارا یہ تکبر اور غرور محبت کے آگے نہیں ٹھہر پائے گا۔۔۔۔"
پریسا اُس کے وجیہہ نقوش کی جانب دیکھتے اذیت سے بولی تھی۔۔۔۔ اِس شخص کو اُس نے دل و جاں سے چاہا تھا۔۔۔ مگر یہ شخص اُس کی قسمت میں ہی نہیں تھا۔۔۔۔
یہ اُس کے ساتھ پہلی بار نہیں ہورہا تھا۔۔۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا جس انسان کو وہ شدت سے چاہتی تھی۔۔۔ اپنے قریب دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ وہی اُس سے چھین لیا جاتا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر کبھی اپنی زندگی میں ایسی نوبت نہیں آنے دے گا۔۔۔۔ وہ اپنی عزیز ازجان چیزوں اور انسانوں کو اپنے قریب رکھنا جانتا ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی نگاہیں اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کا طواف کرتیں پریسا کو لمحے بھر کے لیے نروس کر گئی تھیں۔۔۔ اُسے اُس کا انداز بہت عجیب سا لگا تھا۔۔۔۔
اُسے محسوس ہوا تھا جیسے بات کے اختتام پر شاہ ویز سکندر کی آنکھیں مسکرائی ہوں۔۔۔
مگر یہ سب لمحے کے ہزارویں حصے میں ہوا تھا۔۔۔ کہ پریسا سمجھ نہیں پائی تھی کہ یہ سچ ہے یا۔۔۔۔ اُس کا کوئی وہم۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کی ڈھیلی پڑتی گرفت پر اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباؤ ڈال کر اُس کا حصار توڑتی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ شاہ ویز سکندر کی عزیزازجان ہستیوں میں شامل نہیں تھی۔۔۔ اِس سوچ کے ساتھ ہی اُس کے دل میں درد سا اُٹھا تھا۔۔۔
اُس کے پیچھے ہی شاہ ویز بھی اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔۔
اور بنا مزید کچھ بولے اُس کا ہاتھ تھامتا وہ اُس ایریے سے نکل آیا تھا۔۔۔ جنگل کراس کرکے پچھلے روڈ پر آتے ہی وہاں اُس کے آدمی گاڑی لیے اُس کے منتظر تھے۔۔۔۔
وہ دونوں ہی اِس وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھنے سے اجتناب برتے ہوئے تھے۔۔۔۔
پریسا شاہ ویز کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں سے آنسو خشک ہی نہیں ہوپارہے تھے۔۔۔ جبکہ شاہ ویز سکندر اُن آنسوؤں کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔
پریسا غصے میں سفیان سے نکاح کرنے کا فیصلہ تو کر چکی تھی۔۔۔۔ مگر کل متوقع نکاح کا سوچتے اُسے اپنا وجود بے جان ہوتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی آفندی مینشن سے کچھ فاصلے پر قدرے تاریک حصے میں روکی گئی تھی۔۔۔ پریسا گاڑی کے رکتے ہی ہوش میں آتے بنا شاہ ویز کی جانب ایک نظر بھی ڈالے باہر نکل گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر مُٹھیاں بھینچے بہت غور سے اِس لڑکی کا یہ اگنور کیا جانا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی پریسا گیٹ کے سامنے پہنچی اندر سے اُسے سفیان باہر آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز کی نگاہیں اُسی منظر پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔
جب سفیان نے پریسا سے کوئی بات پوچھتے اُس کے قریب ہوتے اُس کا بازو تھاما تھا۔۔۔۔ پریسا نے گھبرا کر اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں شاہ ویز سکندر آگ اُگلتی نگاہوں سے اُسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔
پریسا نجانے کس غصے کے تحت صرف شاہ ویز کو طیش دلانے اور دکھانے کے لیے سفیان کا ہاتھ تھامتی زرا سا اُس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔
اور بس یہاں شاہ ویز سکندر کا ضبط ٹوٹا تھا۔۔۔
اُس نے آگے بیٹھے گارڈ سے بندوق کھینچتے وہیں بیٹھے سفیان کے اُسی بازو پر فائر کیا تھا۔۔۔۔ جس سے اُس نے پریسا کو تھام رکھا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کی اِس حرکت کا تصور پریسا وہم وگمان میں بھی نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔ سفیان کے بازو سے بہتے خون کو دیکھ اُس نے گھبرا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو آگ اُگلتی نگاہوں سے اُسے دیکھتا گاڑی وہاں سے نکال کر لے گیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اُلجھن بھرے انداز میں یہ دیکھا تھا۔۔۔۔۔ اُس کا دماغ پوری طرح سے گھوم چکا تھا۔۔۔ شاہ ویز سکندر آخر چاہتا کیا تھا وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میم آپ کا شک بالکل ٹھیک نکلا۔۔۔۔ آپ کے فادر کے ساتھ جو واقعی پیش آیا وہ حادثہ نہیں بلکہ سازش کے تحت اُن کی گاڑی کو جلایا گیا تھا۔۔۔۔۔ اور اُس ٹائم اُن کے موبائل کا جو ریکارڈ نکالا گیا تھا۔۔۔ اُس کے تحت آخری بار اُن کے موبائل سے اُن کے بھتیجے حازم سالار سے کے نمبر پر کال کی گئی تھی۔۔ اب تک اِس کیس میں یہی کہا گیا ہے کہ حازم سالار بھی اُن کے ساتھ تھا۔۔۔ مگر مجھے نہیں لگتا ایسا کچھ ہے۔۔۔ کیونکہ گاڑی سے صرف ایک شخص کی ہی جلی ہوئی لاش ملی ہے۔۔۔ اور پورسٹ مارٹم ميں وہ انسان آپ کے فادر تھے۔۔۔۔۔"
انسپکٹر غفور نے اُس کے کہے پر اے ٹو ذی اپنے کی گئی ساری انویسٹی گیشن سے آگاہ کردیا تھا۔۔۔۔
جو سنتے حبہ کو اپنی آخری اُمید بھی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُسے حازم کا کہا سچ ثابت ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
جو وہ کبھی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
مہروسہ چینج کرکے سیاہ شفیون کا سادہ سا سوٹ زیب تن کرکے خود کو اُس بھاری بھرکم لہنگے سے آزاد کر گئی تھی۔۔۔ حمدان صدیقی کا کچھ دیر پہلے والا رُوپ دیکھ اُس کا دل چاہا تھا یہیں اِس کشادہ واش روم کے ایک کونے میں رات گزار دے۔۔۔
وہ حمدان صدیقی کا جلاد والا روپ تو برداشت کرسکتی تھی۔۔ مگر اُس کا یہ مہربان انداز نہیں۔۔۔ جو اُس کے لیے جان لیوا تھا۔۔۔۔
وہ جانتی تھی اُس کا دل کیسے پاگل تھا حمدان صدیقی کے لیے۔۔۔ اگر وہ اُس کے نرم رویے کے آگے اپنا سب کچھ وار کر کچھ اُلٹا سیدھا بول جاتی۔۔۔ تو بہت سارا نقصان اُٹھانے کے ساتھ ساتھ خود کو کبھی معاف نہ کر پاتی۔۔۔۔
جنید کے ساتھ جو ہوچکا تھا۔۔۔ ایسا وہ حازم اور شاہ ویز کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق مہروسہ باہر نکلی تھی۔۔۔
پورے روم پر نظر ڈالتے اُس نے سکون کی سانس خارج کی تھی۔۔۔ کیونکہ حمدان وہاں کہیں بھی نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن چند قدم آگے بڑھاتے ہی اُس کی دھاڑ پر مہروسہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ٹیرس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جس کے پردے گرے ہوئے تھے۔۔۔ مگر اُس حمدان کی کسی پر غصے سے برسنے کی آوازیں یہاں تک آرہی تھیں۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اِس غصے کی وجہ کیا تھی۔۔۔
اِس لیے حمدان صدیقی اُس پر بھی اپنا غصہ نکال سکتا تھا۔۔ کیونکہ اُسی کے فیلو لیڈرز نے جاکر اُس کے کھڑوس پولیس والے کا پلان خراب کردیا تھا۔۔۔
مہروسہ جلدی سے بیڈ کی جانب بڑھتی،، کمبل کھول کر اپنے اُوپر لپیٹتی بیڈ کے ایک کونے پر دراز ہوچکی تھی۔۔۔۔ اُس نے کمبل سر سے پیر تک اوڑھ رکھا تھا۔۔۔ اُس کا ایک بال تک دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
جب کچھ لمحوں بعد اُسے حمدان کے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔۔۔ کمبل کے اندر وہ آنکھوں اور مُٹھیوں کو سختی سے بھینچے ہوئے تھی۔۔۔
اُسے حمدان بیڈ کی دوسری سائیڈ پر بیٹھتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
مہروسہ زندگی میں آج تک کبھی اتنی نہیں گھبرائی تھی جو حالت اُس کی اِس وقت ہورہی تھی۔۔۔۔ اُس نے شدت سے دعا کی تھی کہ حمدان صدیقی اِس وقت اُسے یاد نہ ہی کرے تو ٹھیک تھا۔۔۔
مگر شاید یہ وقت قبولیت کا نہیں تھا۔۔۔ مہروسہ کی نہیں سنی گئی تھی۔۔۔ اور حمدان صدیقی اگلے ہی لمحے اُسے کمبل کے اُوپر سے ہی تھام کر اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔
مہروسہ نے ہونٹوں کو سختی سے میچتے منہ سے برآمد ہوتی بے ساختہ چیخ کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے ایک بار کھینچنے پر ہی مہروسہ سیدھی اُس کے سینے پر آن گری تھی۔۔۔۔
مہروسہ اُس کی سخت گرفت سے ہی اُس کا غصہ سمجھ پارہی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا اتنی جلدی نیند آگئی تمہیں۔۔۔۔؟؟؟ مجھے تو ابِھی بہت ساری باتیں کرنی تھیں تم سے۔۔۔"
حمدان کروٹ بدلتے اُسے اپنے بازو پر لٹاتے خود زرا سا اُوپر ہوتا اُس کا کمبل میں چھپا چہرا دیکھنے لگا تھا۔۔۔ بنا میک اپ کے صاف شفاف دودھیا چہرا اور بے پناہ دلکشی بھرے نقوش۔۔۔ بلاشبہ وہ بے حد حسین تھی۔۔۔ حمدان اس بات سے انکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔
مگر اس وقت اندر سے وہ جس قدر غصے سے بھڑک رہا تھا۔۔۔۔ اُسے مہروسہ کی یہ خوبصورتی بھی بہت زیادہ بُری لگی تھی۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے پھوٹتے شرارے۔۔ مہروسہ کو اُس سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔ وہ اِس شخص کو ہارتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ہر بار وہ ہی اُس کی ہار کا باعث بن رہی تھی۔۔۔
"جج جی مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کی جھلساتی گرم سانسوں کی تپیش اپنے چہرے پر برداشت کرتی بمشکل بول پائی تھی۔۔۔ اُسے خود پر حیرت ہوتی تھی کہ آخر حمدان صدیقی کے سامنے اُسے ہو کیا جاتا تھا۔۔۔
اُس کی محبت اُسے اتنا کمزور کیوں کردیتی تھی۔۔۔
"لیکن اب تم میری دسترس میں آچکی ہو۔۔۔ اب تم وہی کرو گی جو میں کہوں گا۔۔۔ تم اب صرف میری ہو۔۔۔ تمہارے ایک ایک عمل پر تم سے زیادہ میری مرضی چلے گی۔۔۔۔ یہ ہی حمدان صدیقی کی محبت ہے۔۔۔ جسے اب برداشت کرنا پڑے گا تمہیں۔۔۔۔"
حمدان اُس کی آنکھوں میں جھانکتا معنی خیزی سے بولتا اُس کے ہونٹوں کے اُوپری حصے پر چمکتے سیاہ تل پر اپنے دہکتے لب رکھ گیا تھا۔۔ جبکہ مہروسہ اُس کے اِس جارحانہ لمس پر بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں میچتے اپنی منتشر ہوتی سانسوں اور بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو اعتدال پر لانا چاہا تھا۔۔۔
اُس کا چہرا خطرناک حد تک لال ہوچکا تھا۔۔۔
حمدان جس نے عمل کسی بھی محبت بھرے جذبے کے تحت نہیں بلکہ مہروسہ کو صرف خود سے خوفزدہ کرنے کے لیے کی تھی۔۔۔ تاکہ وہ اُس کے انداز سے گھبرا کر اپنا سچ خود ہی اپنے منہ سے اُگل دے۔۔۔
مگر مہروسہ کے اِس قدر قریب آجانے پر اُس کے اپنے دل کی دھڑکنوں کا ساز بدلنے لگا تھا۔۔۔
وہ اُس کی فیلنگز کو استعمال کرکے اُسے ہی گھیرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر مہروسہ کا خوشبوؤں میں مہکتا نازک وجود ایس پی حمدان صدیقی کا گہرا امتحان لے گیا تھا۔۔۔
حمدان نے نگاہیں جھکا کر مہروسہ کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو آنکھیں میچے،، لرزتی پلکوں، کپکپاتے ہونٹوں اور دہکتے گالوں کے ساتھ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ حمدان صدیقی کو اپنا دل اپنے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ فوراً مہروسہ کو خود سے آزاد کرتا بیڈ سے اُٹھ گیا تھا۔۔۔
مہروسہ نے سکھ کا سانس لیتے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔
"تم سو جاؤ۔۔۔ مجھے تھوڑا کام ہے۔۔"
حمدان سائیڈ ٹیبل سے لیپ ٹاپ اور موبائل اُٹھاتا ٹیرس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ اُس نے پلٹ کر ایک بار بھی مہروسہ کی جانب نہیں دیکھا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ اُس کا لال چہرا اور ضبط سے بھینچے ہونٹ دیکھ اپنے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ آنے سے نہیں روک پائی تھی۔۔۔
"ایس پی صاحب۔۔۔ کب تک اپنے دل پر ایسے ہی نفرت کے پہرے بٹھائے رکھیں گے۔۔۔ جیسے باقی سب مشنز میں آپ ہار رہے ہیں۔۔ ویسے ہی آپ کو مہروسہ کنول کی محبت کے آگے بھی گھٹنے ٹیکنے ہونگے۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کی کیفیت سمجھتی سر تکیے پر ٹکاتی کھل کر مسکرا دی تھی۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی۔۔۔اُس کی قسمت آگے اس کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلنے والی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میم آپ کا شک بالکل ٹھیک نکلا۔۔۔۔ آپ کے فادر کے ساتھ جو واقعی پیش آیا وہ حادثہ نہیں بلکہ سازش کے تحت اُن کی گاڑی کو جلایا گیا تھا۔۔۔۔۔ اور اُس ٹائم اُن کے موبائل کا جو ریکارڈ نکالا گیا تھا۔۔۔ اُس کے تحت آخری بار اُن کے موبائل سے اُن کے بھتیجے حازم سالار سے کے نمبر پر کال کی گئی تھی۔۔ اب تک اِس کیس میں یہی کہا گیا ہے کہ حازم سالار بھی اُن کے ساتھ تھا۔۔۔ مگر مجھے نہیں لگتا ایسا کچھ ہے۔۔۔ کیونکہ گاڑی سے صرف ایک شخص کی ہی جلی ہوئی لاش ملی ہے۔۔۔ اور پورسٹ مارٹم ميں وہ انسان آپ کے فادر تھے۔۔۔۔۔"
انسپکٹر غفور نے اُس کے کہے پر اے ٹو ذی اپنے کی گئی ساری انویسٹی گیشن سے آگاہ کردیا تھا۔۔۔۔
جو سنتے حبہ کو اپنی آخری اُمید بھی ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اُسے حازم کا کہا سچ ثابت ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
جو وہ کبھی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا،،،،، کچھ مسنگ ہے،،، "
حبہ انسپکٹر کو وہاں سے جانے کا اشارہ کرتی پرسوچ انداز میں بولی تھی۔۔۔
اُس کا دل حازم کی کہی بات ماننے کو کسی قیمت پر تیار نہیں تھا۔۔۔
وہ اُس کی محبت تھا۔۔۔ جس پر وہ خود سے بھی زیادہ اعتبار کرتا تھا۔۔۔ اُس کا دل کہہ رہا تھا کہ اُس کا شوہر اتنا بے رحم اور بے حس نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔
بے شک وہ برے لوگوں کے ساتھ مل کر بُرے کاموں میں پڑ چکا تھا۔۔ مگر وہ اِتنا بے ضمیر بالکل بھی نہیں تھا کہ اپنے باپ جیسے چچا کو مار دیتا۔۔۔
حبہ کچھ دیر بیٹھی سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موندے رہی تھی۔۔۔ جب کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتی وہ اپنی کرسی سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
"تشریف لائیں ایس پی حبہ۔۔۔۔ "
وہ سیدھی کمشنر سر کے آفس میں پہنچی تھی۔۔۔ جن تک اُس کے واپس لوٹ آنے کی اطلاع تو پہنچ چکی تھی۔۔۔ مگر اُنہوں نے اُس سے کوئی استفسار نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ اُس کیس کو سالو کرنا ناممکنات میں سے تھے۔۔۔ وہاں کے وڈیرے کسی کو اپنے علاقے میں گھسنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔۔۔
اُنہیں تو اِس بات کا یقین نہیں آرہا تھا کہ حبہ زندہ بچ کر کیسے واپس لوٹ آئی تھی۔۔۔
"سر میں بنا مشن پورا کیے واپس لوٹ آئی اُس کے لیے بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ میں اس وقت خود کو مینٹلی سٹیبل نہیں رکھ پارہی۔۔۔۔ مجھے کچھ وقت کے لیے چھٹیاں چاہییں۔۔۔۔ "
حبہ کی بات پر کمشنر صاحب نے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ اُن کے ادارے کی سب سے قابل آفیسرز میں سے تھی۔۔۔ اُس کا تھکا تھکا سا اُداس چہرا دیکھ وہ اُس کی بات سے انکار نہیں کرپائے تھے۔۔۔
"ٹھیک ہے ایس پی حبہ۔۔۔ آپ ایپلی کیشن دے دیں۔۔۔ آپ نے جب سے یہ فیلڈ جوائن کی ہے۔۔ ایک بار بھی چھٹیاں نہیں لیں۔۔۔ بلکہ اپنی ڈیوٹی سے بڑھ کر کام کیا ہے۔۔۔ آپ آرام سے ریسٹ کریں۔۔۔۔"
کمشنر صاحب کا رویہ ہمیشہ حبہ کے ساتھ بہت اچھا رہا تھا۔۔۔ اُنہیں اپنی یہ قابل آفیسر بہت عزیز تھی۔۔۔۔
حبہ اُن کی بات پر مروتاً مسکراتی وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔۔۔۔
پہلے وہ بھی خود کو بہت قابل آفیسر ہی سمجھتی تھی۔۔۔ مگر حازم والے واقع کے بعد اُسے اپنا آپ اِس پوسٹ کے لیے بالکل نا اہل لگنے لگا تھا۔۔۔ وہ یہی سمجھتی تھی کہ جو لڑکی اتنے سالوں تک اپنے شوہر کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اُسے مرا ہوا تصور کرتی رہی تھی۔۔۔ جو اتنے سال اپنی مدد نہیں کر پائی تھی۔۔ وہ بھلا دوسروں کی کیسے کرتی۔۔۔
حبہ بہت ہی خراب موڈ کے ساتھ گھر آئی تھی۔۔۔ جہاں اُس کی ماما اور صبا اُسی کی منتظر تھیں۔۔۔
"حبہ تم نے اِس طرح اچانک پیکنگ کرنے کو کیوں بولا۔۔۔؟؟ ہم کہاں جارہی ہیں۔۔۔؟؟"
نجمہ بیگم حیرت کا اظہار کرتے اُس کے قریب آئی تھیں۔۔۔
"میں جانتی ہوں آپ دونوں نے پیکنگ نہیں کی ہوگی۔۔۔"
حبہ ٹیبل پر پڑا نجمہ بیگم کا اور صبا کے ہاتھ سے اُس کا موبائل لیتی اُن دونوں کی جانب سے مُڑی تھی۔۔۔
"حبہ میں کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے۔۔۔ اور یہ موبائل کیوں لیے تم نے۔۔۔۔؟؟"
نجمہ بیگم اپنی سر پھری بیٹی کو یہ سب کرتا دیکھ پریشان ہوئی تھیں۔۔۔
"سوری ماما میں ابھی آپ کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے سکتی۔۔ پلیز اگر آپ لوگوں کو میری زرا سی بھی فکر ہے تو جو میں کہہ رہی ہوں وہ کریں۔۔۔ اور یہ موبائلز لینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ اپنے چہیتے بیٹے سے رابطہ نہ کرسکیں۔۔۔۔ "
حبہ کی بات سن کر نجمہ بیگم مزید پریشان ہوئی تھیں۔۔۔ مگر اُس کے دو ٹوک انداز پر وہ بنا کچھ بولے صبا کو بھی اُوپر جانے کا اشارہ کرتیں وہاں سے نکل گئی تھیں۔۔۔
صبا حبہ کا جلالی روپ دیکھتی خاموشی سے وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔۔
صبا حازم کو آگاہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
مگر نہ تو لینڈ لائن سے رابطہ کر پائی نہ کسی اور طریقے سے۔۔۔ اور ناچار اُنہیں حبہ کی بات مان کر گھر سے نکلنا پڑا تھا۔۔۔
وہ دونوں ہی نہیں جانتی تھیں کہ حبا کو اچانک ہوا کیا ہے۔۔۔ وہ اس طرح اچانک اُنہیں کہاں لے کر جارہی تھی۔۔۔ اور کس ریزن سے اُن کے موبائل بھی اپنے قبضے میں لے گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ نے کمبل سے سر نکال کر دیکھا تھا۔۔۔ حمدان روم میں نہیں تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سفیان پر رات کو ہوئے حملے پر آفندی ولا میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔۔۔ سب لوگ بہت زیادہ پریشان تھے۔۔۔ شہباز آفندی اپنے مخالفین کا نام لیتے اُن پر شک کررہے تھے۔۔۔
مگر وہ اِس وقت اُن کے خلاف ایکشن لے کر کوئی سکینڈل نہیں بننے دینا چاہتے تھے۔۔۔ اُن کے لیے اِس وقت سب سے اہم پریسا اور سفیان کی شادی تھی۔۔۔جس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے پر ہوئے اِس حملے پر بھی خاموشی اختیار کر گئے تھے۔۔۔ وہ اب پریسا کی ساری جائیداد اپنے نام ہونے کا مزید انتظار نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
دوسری جانب کل کے واقع کے بعد پریسا عجیب سی کیفیت کا شکار تھی۔۔۔ ایک طرف شاہ ویز سکندر کی اتنی نفرت اور دوسری جانب اُس کا ہر مشکل وقت میں محافظ بن کر پہنچ جانا۔۔۔
اور سب سے بڑی بات کل جو اُس نے سفیان کے ہاتھ پکڑنے پر شاہ ویز کی آنکھوں میں جلتی آگ دیکھی تھی۔۔۔ وہ کوشش کے باوجود اُس لمحے سے نہیں نکل پارہی تھی۔۔۔ وہ سفیان کو صرف اُس کا ہاتھ پکڑنے پر گولی مار گیا تھا۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔ اُس وحشی انسان غصے میں پاگل ہوکر کسی کو بھی گولی مار سکتا ہے۔۔۔ اُسے کسی بھی قسم کے ریزن کی ضرورت ہے بھی نہیں۔۔۔۔"
پریسا اپنے دل کو تسلی دیتی بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ ابھی کچھ گھنٹوں بعد اُس کا نکاح اور رخصتی تھی۔۔۔ جو سوچ سوچ کر ہی اُس کا دل بے چین ہورہا تھا۔۔۔۔ صبح سے نجانے کتنی بار اُس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔۔۔
ابھی بھی آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ وہ اُس سنگلدل کو دل و دماغ سے نکالنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔ مگر ہر بار ناکام ٹھہر رہی تھی۔۔۔۔۔
اُس کی حالت اِس وقت بہت زیادہ قابلے رحم تھی۔۔۔
جب اُسی لمحے دروازے پر دستک دینے کے ساتھ ہی اُس کی ساری کزنز نے ایک ساتھ اُس پر دھاوا بول دیا تھا۔۔۔
بڑے بڑے تھال اُٹھائے وہ سب ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ اندر داخل ہورہی تھیں۔۔۔
آفندی مینشن کا ہر فرد ایسے ہی خوش تھا۔۔۔ سوائے پریسا آفندی کے۔۔۔ جس کی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا ابھی اِس نکاح سے انکار کرکے۔۔ چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتا دے کہ وہ شاہ ویز سکندر سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔۔۔ اور صرف اُسی کے نام کی دلہن بننا چاہتی ہے۔۔۔
مگر ایسا کرکے بھی اُسے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا تھا۔۔ کیونکہ شاہ ویز سکندر اُس کی صورت سے بھی نفرت کرتا تھا۔۔۔۔
"ارے پاگل لڑکی اتنا کیوں رو رہی ہو؟؟ تم کونسا رخصت ہوکر کسی دوسری دنیا میں جارہی ہو۔۔۔ تم نے تو صرف ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونا ہے۔۔۔"
فضہ اُس کے قریب آن بیٹھتی اُسے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔
"تم تنگ مت کرو میری پری کو۔۔۔ یہ موومنٹ ہی ایسا ہوتا۔۔۔۔ "
اریبہ بھابھی اُسے گلے سے لگاتے اُس کے آنسو پونچھتیں فضہ کو ڈپٹتے ہوئے بولیں۔۔۔
وہ سب ہلکی پھلکی مستی اور نوک جھوک کرتیں پریسا کو تیار کرنے لگی تھیں۔۔ پریسا جو ہر وقت چہکتی اور ہنستی کھلکھلاتی رہتی تھی آج اُس کی یہ خاموشی اور اُداسی اُن سب کو حیران کر رہی تھی۔۔۔
مگر یہی سمجھ کر خاموش ہوگئی تھیں۔۔۔ کہ شاید وہ اپنے پیرنٹس کو مس کررہی ہے۔۔۔
"ماشاء اللہ کتنی حسین لگ رہی ہو۔۔۔ بالکل نازک سی گڑیا جیسی۔۔۔۔"
بیوٹیشن نے مہارت کے ساتھ اُس کے دو آتشہ حُسن کو مزید نکھار دیا تھا۔۔۔
وہ بہت کم ہی میک اپ کرتی تھی۔۔۔ اِس لیے اُس پر آج ٹوٹ کر رُوپ آیا تھا۔۔۔ وہ لال عروسی جوڑے میں پور پور سجی۔۔۔ نظر لگ جانے کے حد تک دلکش لگ رہی تھی۔۔۔ اُس کے بالوں میں موتیے کے پھول ڈال کر ڈھیلی سی چٹیا میں مقید کرکے آگے کی جانب ڈال رکھے تھے۔۔۔
وہ اِس وقت اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ اُن سب سے نگاہیں ہٹا پانا مشکل ہورہا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا کی سوجی دلفریب آنکھیں اور سوگواریت اُس کے حسین روپ کو مزید چار چاند لگا رہی تھی۔۔۔ ابھی کچھ دیر بعد اُسے نکاح کے لیے نیچے لے جایا جانا تھا۔۔۔ پریسا کو اپنی دھڑکنیں آہستہ آہستہ مدھم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
اُسے لگ رہا تھا وہ کسی بھی لمحے حواس کھو دے گی۔۔۔۔ جیسے جیسے نکاح کا وقت قریب آرہا تھا۔۔۔ اُس کا پورا وجود ہولے ہولے لرزنا شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔
گول گول خوبصورت آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو جاری ہوچکے تھے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ پچھلے پانچ گھنٹوں سے تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی یہاں آفندی مینشن کے باہر کھڑا کیے ہوئے ہو۔۔۔ اور اب تک پچاس سے اُوپر سیگریٹ بھی پی چکے ہو۔۔۔ مگر مجھے سمجھ نہیں آرہی میرا دوست آخر کیا چاہتا ہے۔۔۔ میں جانتا تھا تم بہت زیادہ انا پرست اور پتھر دل ہو۔۔۔ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ اپنی محبت کے معاملے اِن دونوں چیزوں کی انتہا کر دو گے۔۔۔۔ مان کیوں نہیں لیتے کہ انتقام لینے کے چکر میں اپنے دل کی بازی ہار چکے ہو۔۔۔۔ محبت کرنے لگے ہو پریسا آفندی سے۔۔۔اور آج اُسے کسی اور کا ہوتا دیکھ برداشت نہیں ہو پارہا تم سے۔۔۔ کیوں خود پر اتنا ظلم کررہے ہو۔۔۔ اور اُس پر بھی۔۔۔۔ ابھی بھی اُسے بنا سکتے ہو۔۔۔ پچھلے پانچ گھنٹوں سے تمہاری نگاہیں پریسا آفندی کے کمرے کی کھڑکی سے ہٹ نہیں رہیں۔۔۔ اور تم کہتے ہو نفرت ہے تمہیں اُس لڑکی سے۔۔۔۔"
حازم کا بس نہیں چل رہا تھا خود کو کب سے اذیت میں مبتلا کیے شاہ ویز سکندر کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔۔۔۔
جو نہ تو آفندی مینشن کے آگے سے ہٹ رہا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اندر جاکر پریسا آفندی سے نکاح کرکے اپنی ہار تسلیم کرنے کا ارادہ کر پارہا تھا۔۔۔۔
"نہیں ہے محبت مجھے اُس سے۔۔۔۔ کتنی بار بتاؤں میں تم سب کو۔۔۔ میرے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی ہے وہ۔۔۔ اور شاہ ویز سکندر اتنا اعلٰی ظرف بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ اُس لڑکی کو اپنے دل کی رانی بنائے۔۔۔۔"
شاہ ویز کو حازم کی کہی محبت والی بات بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔۔۔ وہ غصے سے چلاتا جیسے اِس وقت خود سے بھی سخت ناراض لگا تھا۔۔۔
حازم کو لگ رہا تھا کہ عنقریب اُس کا بلیک بیسٹ موڈ آن ہونے والا ہے۔۔۔۔ اِس لیے وہ اِس حالت میں اُسے اکیلا چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔
وہ دونوں اس وقت وسیع و عریض آفندی مینشن کے دائیں جانب کھڑے تھے۔۔۔ جہاں سے پریسا کا کمرا صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔۔
اِس پورے آفندی مینشن کا اکلوتا وارث شاہ ویز سکندر تھا۔۔۔ مگر اِس وقت اُسے اِن مینشن میں موجود ہر فرد انتہائی بُرا لگ رہا تھا۔۔۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے۔۔۔۔
جب اُسی لمحے دائیں جانب سے اُنہیں سیاہ لباس اور سیاہ نقاب میں ملبوس لڑکی اپنی جانب آتے دکھائی دی تھی۔۔۔۔ وہ ایک نظر دیکھ ہی پہنچان گئے تھے کہ یہ اُن کی گینگ لیڈر مہروسہ کنول ہے۔۔۔۔
"مہرو تم یہاں کیوں آئی ہو۔۔۔۔ ؟؟ اگر تمہارے ایس پی کو شک ہوگیا تو اُلٹا معاملہ خراب ہوجانا ہے۔۔۔۔"
وہ دونوں اُس سرپھری لڑکی کو گھورنے لگے تھے۔۔ جو ہمیشہ ایسے ہی اپنی لائف ڈینجر میں ڈالتی رہتی تھی۔۔۔
"ڈونٹ وری۔۔۔ میرے ایس پی کو بالکل بھی پتا نہیں چلے گا۔۔۔ میں پورا انتظام کرکے آئی ہوں۔۔۔ اور ویسے بھی جب آپ دونوں مجھے میری مشکل گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑتے تو میں کیوں کروں ایسا۔۔۔"
وہ دونوں جو گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔۔۔ مہروسہ بھی شاہ ویز کے ساتھ آکر اُسی کے انداز میں کھڑی ہوچکی تھی۔۔۔
"ایکسکیوزمی۔۔۔۔ ہم پر کوئی مشکل گھڑی نہیں آئی ہوئی۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے گردن موڑ کر اُسے گھورا تھا۔۔۔ جو نقاب اُتارتی حازم کو دیکھ اب مسکرا رہی تھی۔۔۔
"شاہ سر ضروری تو نہیں نا کہ نکاح کرنے کے لیے محبت ہونا ضروری ہے۔۔۔۔ نفرت کے تحت بھی تو نکاح کیا جاسکتا ہے نا۔۔۔ جیسے حمدان نے کیا میرے ساتھ۔۔۔۔ آپ بھی تو ایسا کرسکتے ہیں نا۔۔۔۔"
مہروسہ نے حازم کے اشارہ کرنے پر ڈرتے ڈرتے بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔۔
"تم دونوں جو کرنا چاہتے ہو میں بہت اچھے سے سمجھ رہا ہوں۔۔۔ میں بلیک سٹارز کا بلیک بیسٹ ہوں۔۔۔ مجھے بے وقوف سمجھنے کی غلطی مت کرنا۔۔۔۔ میں جارہا ہوں واپس۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُن دونوں کو تیز نگاہوں سے گھورتا گاڑی کی جانب پلٹا تھا۔۔۔ جس دوران اچانک اُس کی غیر ارادی نگاہ پریسا کے ٹیرس کی جانب اُٹھی تھی۔۔۔ اور پھر جیسے پلٹنا بھول چکی تھی۔۔۔۔
سُرخ عروسی لباس میں سر سے پیر تک سجی۔۔۔ وہ اُسے کوئی اپسرا معلوم ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ ٹیرس کی ریلنگ تھام کر کھڑی بُری طرح سسک رہی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کو لگا تھا وہ اب کبھی اِس منظر سے نکل نہیں پائے گا۔۔۔
حازم اور مہروسہ بھی اُس کی نگاہوں کا تعاقب کرتے پریسا کو دیکھ چکے تھے۔۔۔
"بہت خوش قسمت ہیں سر آپ۔۔۔ یہ لڑکی اتنی محبت کرتی ہے آپ سے۔۔۔ آج کل کے دور میں ایسی سچی محبت ملنا آسان نہیں ہے۔۔۔ اور اِس پرخلوص محبت کو ٹھکرانے سے بڑا گناہ بھی کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ "
مہروسہ نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔ جبکہ حازم بس یہی دعا کررہا تھا۔۔۔ کہ اُس کا دوست اِس وقت غصے میں اپنی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ نہ کردے۔۔۔۔
مہروسہ اور حازم بہت اچھے سے سمجھتے تھے شاہ ویز کو۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ شاہ ویز سکندر پریسا سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ پریسا ہی وہ واحد لڑکی تھی جسے شاہ ویز سکندر سے اتنی اہمیت ملی تھی۔۔۔ ورنہ اُس کے سوا تو شاہ ویز نے کبھی کسی لڑکی پر نگاہ تک نہیں ڈالی تھی۔۔۔
" بیس منٹ بعد پریسا کا نکاح ہے۔۔۔ مولوی صاحب آفندی مینشن آچکے ہیں۔۔۔"
حازم نے اُسے یک ٹک پریسا کی جانب دیکھتا پاکر اُسے احساس دلانا چاہا تھا۔۔۔
"اُٹھوا لو اُس مولوی کو۔۔۔ "
شاہ ویز پریسا پر نگاہیں گاڑھے بولتا۔۔۔ اُن دونوں کو گہرے جھٹکے سے دوچار کر گیا تھا۔۔۔ دونوں شاہ ویز کی جانب مُڑے تھے۔۔۔
"تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟"
حازم کو یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ بھی مسکراتے چہرے کے ساتھ اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اُن دونوں کے مرجھائے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے تھے۔۔۔
"میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُن دونوں پر ایک نظر ڈالتے آفندی مینشن کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ پریسا اب ٹیرس سے ہٹ چکی تھی۔۔۔ شاید اُسے نکاح کے لیے بلانے آگئے تھے۔۔۔
"شاہ سر ایک منٹ۔۔۔۔ "
مہروسہ گاڑی سے کچھ نکال کر اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
"یہ ڈریس۔۔۔۔ پریسا کے لیے۔۔۔ آپ کو اُس دن شاپ میں اِس ڈریس کی جانب غور سے دیکھتا پاکر مجھے یہی لگا تھا کہ شاید یہ ڈریس آپ کو پریسا کے لیے اچھا لگا ہے۔۔۔ تو میں نے یہ خرید لیا تھا۔۔۔ اُس پورے مال میں بلیک کلر کا یہ ایک ہی برائیڈل ڈریس تھا۔۔۔۔"
مہروسہ کی بات پر شاہ ویز نے اُس کے ہاتھ میں پکڑے ڈریس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
اُسے بہت اچھے سے یاد تھا کہ پریسا سے پہلی ملاقات میں اُس نے پریسا کو سفید فراک میں دیکھا تھا۔۔۔ جو دیکھ اُسے پریسا پر زیادہ غصہ آیا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ اُس کا سب سے ناپسندیدہ کلر تھا۔۔۔ تبھی اگلے دن ایک مشن کے دوران اُس کی نظر اِس بلیک ڈریس پر پڑی تھی۔۔۔ اور نجانے کیوں چند سیکنڈ کے لیے ہی سہی وہ پریسا آفندی کو اِس ڈریس میں تصور کر گیا تھا۔۔۔
اُسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُس کے ساتھی اُسے اتنے اچھے سے آبزرو کرتے تھے۔۔۔۔
"شکریہ۔۔۔۔"
وہ سرد تاثرات کے ساتھ اُس کے ہاتھ سے وہ پیکٹ تھامتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ حازم اور مہروسہ ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرا دیئے تھے۔۔۔ وہ پہلے ہی سارا انتظام کرچکے تھے۔۔ وہ جانتے تھے کسی بھی معاملے میں ہار نہ ماننے والا شاہ ویز سکندر محبت کے آگے ضرور گھٹنے ٹیک دے گا۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔
وہ اندر ہی اندر کمزور پڑ چکا تھا۔۔۔ مگر اُس کی انا اُسے اقرار کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا کی سانسیں اٹک رہی تھیں۔۔۔ اُسے روم میں عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی۔۔۔ اُس لیے وہ باہر آئی تھی۔۔۔۔ اُس کے فرشتوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کی یہ سسکیاں اُس کے پروردگار کے ساتھ ساتھ شاہ ویز سکندر کے کانوں تک بھی پہنچ جائیں گی۔۔۔
نیچے سفیان کی رسم چل رہی تھی۔۔۔ تو سب لوگ ہی وہ دیکھنے اُسے اکیلا چھوڑ کر نکل گئی تھیں۔۔۔ وہ اپنا بھاری بھرکم لہنگا سنبھالتی تھکے تھکے سے انداز میں صوفے پر جا بیٹھی تھی۔۔۔۔
صوفے کی پشت سے سر ٹکاتے ابھی اُسے لیٹے چند سیکنڈز بھی نہیں گزرے تھے جب اُسے ٹیرس پر آہٹ کا احساس ہوا تھا۔۔۔
پریسا خوفزدہ سی آنکھیں کھولتی سیدھی ہوئی تھی۔۔۔
"کک کون ہے۔۔۔۔؟؟"
پریسا پر اب تک جتنے حملے ہو چکے تھے وہ اندر سے بہت زیادہ سہم چکی تھی۔۔۔ اُس میں ہمت نہیں تھی صوفے سے اُٹھ کر روم سے باہر بھاگنے کی۔۔۔ جب اُسی لمحے ٹیرس کے پردے ہٹاتے جو شخص برآمد ہوا تھا۔۔۔
اُسے دیکھ پریسا کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔ پریسا کو لگا تھا اُس کی آنکھوں کو کوئی دھوکا ہوا ہے۔۔۔ وہ صوفے سے اُٹھتی شاک کی کیفیت میں سیاہ لباس میں اپنی شخصیت کی تمام تر سحر انگیزی کے ساتھ کھڑے شاہ ویز کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
جس نے ہمیشہ کی طرح آج اپنا چہرا رومال سے ڈھکا ہوا نہیں تھا۔۔۔
پریسا کو یہی لگا تھا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔ ورنہ شاہ ویز سکندر اِس وقت اُس کے روم میں کیوں آتا۔۔۔
پریسا بے خود سی چلتی اُس کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو قطار در قطار بہہ رہے تھے۔۔۔
اُسے شاہ ویز سکندر اپنا وہم لگا تھا۔۔۔ جسے دور کرنے کے لیے اُس نے بے خود انداز میں اُسے چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔۔ مگر جیسے ہی اُس کا ہاتھ شاہ ویز سکندر کے ہلکی ہلکی شیو زدہ چہرے سے ٹکرایا پریسا نے کرنٹ کھا کر اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
جو سرد پتھریلی نگاہوں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"تم۔۔۔ تم۔۔ سچ میں یہاں۔۔۔؟؟"
پریسا ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی۔۔۔ اِس چکر میں اپنے ہی لہنگے سے الجھتی وہ بُری طرح لڑکھڑا کر پیچھے گرتی۔۔۔ شاہ ویز نے بازو پھیلا کر اُسے اپنے قریب کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
پریسا سیدھی اُس کے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگا تھا۔۔۔ اتنی آسانی سے میری نفرت سے بچ جاؤ گی۔۔۔ دور سے نفرت کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔ اِس لیے میں اب پوری زندگی تم سے اپنی نفرت نبھاؤں گا۔۔۔ تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر۔۔۔۔"
شاہ ویز سکندر نے دنیا کے سب سے نرالے انداز میں اُس کے سامنے اپنا پروپوزل پیش کیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی سخت گرفت میں سہمی کھڑی پریسا سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔ کہ وہ اب پھر اُسے یہاں کونسی نئی سزا سنانے آیا تھا۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔۔؟؟ یہ کیا کررہے ہو تم۔۔۔؟؟"
پریسا ہکلا گئی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ ہاتھ بڑھا کر اُس کے کانوں میں پہنے جھمکے اُتار چکا تھا۔۔۔۔
پریسا اُس کی حرکت پر جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔
"تم پاگل ہوگئے ہو کیا وحشی انسان۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا اُس کی گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کروانے کی کوشش کرتے چلائی تھی۔۔۔ جو اُس کا حلیے خراب کرنے کے ارادے سے ہی آیا تھا۔۔۔
"اب تمہیں یہ پاگل انسان اپنی وحشت ناکی سے ہی روشناس کروائے گا۔۔۔ چپ چاپ کھڑی رہو۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے کی دونوں کلائیاں کمر کے پیچھے باندھتا اب اپنا ہاتھ اُس کی ماتھا پٹی کی جانب بڑھا چکا تھا۔۔۔ وہ اُسے کسی اور کے نام کی دلہن بنی بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر یہ کیا کررہے ہو تم۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں نکاح ہے میرا۔۔۔ "
پریسا چلائی تھی۔۔۔۔
"اُسی کے لیے تیار کررہا ہوں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ماتھا پٹی اُتارتے جیسے ہی اُس کے نیکلس کی جانب ہاتھ بڑھایا پریسا نے گھبرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔ اُس کا چہرا خطرناک حد تک لال پڑ چکا تھا۔۔۔
اُس کی حالت دیکھ شاہ ویز کے آنکھیں میں ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری تھی۔۔۔۔
جو دیکھتے پریسا بے خود ہوئی تھی۔۔۔
اُس نے آج پہلی بار اِس شخص کے چہرے پر مسکراہٹ کی یہ ہلکی سی جھلک دیکھی تھی۔۔۔۔
جو اگلے ہی لمحے معدوم بھی ہوچکی تھی۔۔۔
شاہ ویز اُسے آزاد کرتا پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
" دس منٹ ہے تمہارے پاس۔۔۔۔ جلدی سے تیار ہوکر باہر آؤ۔۔۔ فکس پندرہ منٹ بعد نکاح ہے ہمارا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے ایک جانب پڑے ڈریس کا پیکٹ پکڑاتا حاکمانہ لہجے میں بولتا پریسا کو دوہرے شاک میں مبتلا کر گیا تھا۔۔۔
وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔۔۔
"ہمارا نکاح۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے خود کو بمشکل بول پانے کے قابل کرتے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو سینے پر بازو باندھے اُس کے ردعمل کا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے پریسا آفندی اتنی گئی گزری ہے۔۔ کہ تم جب چاہو گے اُسے ٹھکرا دو گے۔۔۔ اور جب دل چاہے گا۔۔۔ اُسے اپنا لو گے۔۔۔۔ میں ساری زندگی کے لیے اذیت برداشت کرلوں گی شاہ ویز سکندر مگر اب تم جیسے پتھر دل، بے رحم وحشی درندے سے بھیک میں ملا یہ رشتہ قبول نہیں کروں گی۔۔۔۔۔"
پریسا اُس کی بات سن کر جیسے آپے سے باہر ہوچکی تھی۔۔۔۔ اگر شاہ ویز یہی بات اُسے محبت سے کہتا تو وہ اُس کے آگے اپنا سب کچھ قربان کردیتی۔۔۔ مگر اُس کی نگاہوں میں اب بھی اپنے لیے ویسی ہی سرد مہری اور نفرت دیکھ وہ اپنے دل کو ایک بار پھر سے لہولہان ہونے سے نہیں روک پائی تھی۔۔۔
شاہ ویز اُس سے ایسے ہی کسی ردعمل کی توقع کررہا تھا۔۔۔۔
"تم کیا چاہتی ہو۔۔۔؟؟ میں آج ہی آفندی مینشن میں لاشوں کا ڈھیر لگا کر تمہیں زبردستی یہاں سے اُٹھا کر لے جاؤں۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز نے اُس کے بکھرے ہوش ربا حلیے سے نگاہیں چراتے کہا تھا۔۔۔۔ یہ لڑکی اُس کو آزمائش میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔
اُس کی بات پر پریسا نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ بالکل سنجیدگی سے بولتا اپنی پاکٹ سے گن نکال چکا تھا۔۔۔۔
"تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔۔۔"
پریسا نے اُسے دروازے کی جانب قدم بڑھاتے دیکھ گھبرا کر کہا تھا۔۔۔
"ایک وحشی درندہ سب کچھ کر سکتا ہے۔۔۔۔ اور لوگوں کی جان لینا تو میرا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز کے اِس وحشت ناک انداز پر پریسا کا خوف سے پورا وجود لرز اُٹھا تھا۔۔۔
"تم بہت ظالم ہو شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ کاش میں شدید نفرت کر پاتی تم سے۔۔۔۔ مگر جو تم کررہے ہو ایک دن تمہیں ضرور پچھتانا پڑے گا۔۔۔ جب یوں سزائیں سنانے کے لیے تمہارے سامنے پریسا آفندی نہیں ہوگی۔۔۔۔ "
پریسا آنکھوں میں آئے آنسو بے دردی سے رگڑتی ڈریس اُٹھائے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
جب اُس کی بات پر غصے سے بپھرتا اُس کے قریب آتا شاہ ویز اُس کی کلائی دبوچ کر کمر کے پیچھے مڑورتا اُسے اپنے قریب تر کر گیا تھا۔۔۔۔
"کیوں نہیں ہوگی تم میرے سامنے۔۔۔۔ ؟؟ شاہ ویز سکندر ایسا دن آنے ہی نہیں دے گا جس دن وہ پریسا آفندی کو دیکھ نہ پائے۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی نفرت کی انتہا بھی پریسا آفندی ہے اور عشق کی بھی۔۔۔۔ "
پریسا کی دی بد دعا شاہ ویز سکندر کے دل پر زہریلے خنجر کی طرح آن پیوست ہوئی تھی۔۔۔ جسے برداشت نہ کر پاتے وہ بلبلا اُٹھا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے زبان سے ادا ہوتے آخری الفاظ پر پریسا کو اپنی سماعتیں سن ہوتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ تو کیا وہ بھی اُسے چاہتا تھا۔۔۔۔؟؟؟
شاہ ویز سکندر کی گرم تپیش زدہ سی چہرے کو جھلساتی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی وہ ساکت سی اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو غصے میں اپنے ہونٹوں سے یہ الفاظ تو نکال گیا تھا۔۔۔ مگر ابھی واپس سے اپنے گرد وہی نفرت کی چادر چڑھاتا اُس سے دور ہوا تھا۔۔۔
مگر اُس کے دور ہونے سے پہلے ہی پریسا اُس کا گریبان مُٹھیوں میں دبوچتے اُس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔
اُس کے منہ سے نکلا اقرار پریسا آفندی کی دل کی دنیا ہلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔
"تم بہت دوغلے انسان ہو شاہ ویز سکندر۔۔۔ منہ پر کچھ اور دل میں کچھ اور۔۔۔ تمہیں یہی لگتا ہے نا کہ ہر شے پر اپنا اختیار بنا کر سب کچھ اپنے حساب سے موڑ لو گے...؟؟ تو بہت بڑی بھول ہے یہ تمہاری۔۔۔۔ آج تک ہر ایک کو اپنے سامنے دباتے اور خود سے ڈراتے آئے ہو نا۔۔۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ اب میں تمہیں بتاؤں گی کے جو تم کررہے ہو۔۔۔ ویسا اگر کوئی تمہارے ساتھ کرے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ پریسا آفندی کو بہت ہلکے میں لے رہے تھے تم۔۔۔ "
پریسا بنا اُس سے ڈرے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے بولتی شاہ ویز سکندر کو اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔
"میں تمہیں صرف اپنی بیوی بنا رہا ہوں۔۔۔ اتنی اہمیت بالکل بھی نہیں دے رہا کہ تمہارے ہاتھ میرے گریبان تک جا پہنچیں۔۔۔۔"
شاہ ویز کو اندازہ ہو رہا تھا کہ غصے کی شدت سے منہ سے غیر ارادی طور پر نکلے الفاظ اِس سامنے کھڑی لڑکی کو بہادر بنا گئی تھی۔۔۔
وہ اُس کے بالوں کی گدی میں ہاتھ پھنساتا اُس کا چہرا اپنے چہرے کے مزید قریب کرتا اُس پر جھکا تھا۔۔۔
"میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔ اِسی بات کا شکر مناؤ۔۔۔ میری محبت برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔ پناہ مانگو گی مجھ سے۔۔۔ اور میرے سوا کہیں پناہ کہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔۔ اِسی لیے دعا کرو میری نفرت ہی قائم رہے۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے میک اپ سے سجے دلنشین چہرے اور لال لپسٹک سے مزین کپکپاتے سُرخ ہونٹوں پر ایک گہری نگاہ ڈالتا اُسے آزاد کرتا اُس کی جانب سے رُخ موڑتا سیگریٹ سلگھا چکا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا اُس کے اِس روح کو فنا کرتے عمل اور الفاظ پر جیسے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔
"تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں تیار ہونے کے لیے۔۔۔ پانچ منٹ تم خود ضائع کر چکی ہو۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات پر پریسا ایکدم ہوش میں آتی اپنے لرزتے وجود کے ساتھ بمشکل چل پاتے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
"وحشی درندہ کہیں کا۔۔۔ پانچ منٹ میں کونسی دلہن تیار ہوتی ہے بھلا۔۔۔"
پریسا کو محسوس ہورہا تھا جیسے شاہ ویز کے آنے کے بعد بہت بھاری بوجھ اُس کے سر سے سرک گیا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر جیسے بلیک بیسٹ سے نکاح کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔۔
مگر اِس وقت پریسا آفندی کا دل جیسے خوشی سے جھومنے کو چاہ رہا تھا۔۔۔ اُس نے شاہ کا سکندر سے سچے دل سے محبت کی تھی۔۔۔ جو اُس کے رب نے اُس کی جھولی میں ڈال دی تھی۔۔۔
"وحشی درندہ کہیں کا۔۔۔ پانچ منٹ میں کونسی دلہن تیار ہوتی ہے بھلا۔۔۔"
پریسا کو محسوس ہورہا تھا جیسے شاہ ویز کے آنے کے بعد بہت بھاری بوجھ اُس کے سر سے سرک گیا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر جیسے بلیک بیسٹ سے نکاح کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔۔
مگر اِس وقت پریسا آفندی کا دل جیسے خوشی سے جھومنے کو چاہ رہا تھا۔۔۔ اُس نے شاہ ویز سکندر سے سچے دل سے محبت کی تھی۔۔۔ جو اُس کے رب نے اُس کی جھولی میں ڈال دی تھی۔۔۔
اُس کی آنکھیں بار بار نم ہورہی تھیں۔۔۔ وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اُس کی یہ کپکپاہٹ خوشی کی وجہ سے تھی یا گھبراہٹ اور باہر کھڑے شاہ ویز سکندر کے خوف کی وجہ سے۔۔۔۔
اُس دن کے شاہ ویز کے انکار کے بعد اُس نے اِس بات پر یقین کرلیا تھا کہ شاہ ویز اُس سے محبت نہیں کرتا۔۔ مگر آج کے بولے گئے اُس کے الفاظ پریسا کو بہت کچھ سمجھا گئے تھے۔۔۔
وہ اُس سے محبت کرتا تھا مگر اُس کی محبت بھی اپنے بلیک بیسٹ والے انداز کی تھی۔۔۔ بے حسی اور ظالم۔۔۔۔ پریسا بہت اچھے سے جانتی تھی کہ شاہ ویز سکندر کے ساتھ رہنا آسان بالکل بھی نہیں ہونے والا تھا اُس کے لیے۔۔۔۔
مگر اُسے تو شاہ ویز سکندر ہی چاہیے تھا۔۔ جس کے اتنے بُری طرح ٹھکرانے کے باوجود بھی وہ اُس سے نفرت نہیں کر پائی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا جیسے ہی ڈریسنگ روم سے نکلی سامنے شاہ ویز کے بجائے انعم اور مہروسہ کو بیٹھا دیکھ اُس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔
اُس کا دل شاہ ویز سے سامنے کا سوچتے بہت بُری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔ مگر اُن دونوں کو مسکراتے خوشی سے بھرپور چہروں کے ساتھ سامنے پاکر پریسا بھی بہت خوشی ہوئی تھی۔۔
"دیکھ لوگ پیاری لڑکی۔۔ سب سے انوکھی بارات ہے تمہاری۔۔۔ جو دیوار پھلانگ کر آئی ہے۔۔۔"
وہ دونوں اُس کے حسین روپ کے واری صدقے جاتیں اُس کے قریب آئی تھیں۔۔۔ جو سفیان کے نام کا سُرخ عروسی لباس تبدیل کرکے اپنے بلیک بیسٹ کی پسند کا سیاہ لہنگا پہن چکی تھی۔۔۔
جو فل نیٹ کا تھا۔۔ جس پر بلیک کلر کی بہت ہی خوبصورت ایمبرائیڈری کی گئی تھی۔۔۔ بلیک بلاؤزر کے نیچے بلیک زمین کو چھوتا لہنگا پہنے وہ اپنی چمکتی دھمکتی دودھیا رنگت میں مومی گڑیا لگ رہی تھی۔۔۔
جسے چھونے سے میلے ہوجانے کا ڈر لگ رہا تھا۔۔
مہروسہ نے اُسے سیاہ رنگ کا بہت قیمتی سٹونز کا بنا سیٹ پہنایا تھا۔۔
"ماشاء اللہ بہت حسین لگ رہی ہو۔۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔۔۔ پوری دنیا کے ہوش اُڑا کر رکھنے والے شخص کے ہوش ٹھکانے لگانے والی ہو تم۔۔۔ بیسٹ آف لک۔۔۔ شاہ ویز سکندر سے ڈیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔"
مہروسہ اُس کا بھاری دوپٹہ سیٹ کرتی بے اختیار اُس کی نظر اُتار گئی تھی۔۔۔
"صحیح بات ہے۔۔م ورنہ ہم سب لوگ تو اُن سے بات کرتے ہوئے کانپ جاتے ہیں۔۔۔۔"
انعم شاپر سے فریش گجرے نکالتے اُس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔
"یہ سفید رنگ کے ہیں۔۔۔ "
انعم کو گجرے آگے کرتے دیکھ پریسا ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔ وہ سب ہی جانتے تھے شاہ ویز کو سفید رنگ بہت بُرا لگتا تھا۔۔۔ دیکھ کر ہی غصہ آجاتا تھا۔۔۔
"ابھی سے اپنے شوہر کی پسند نا پسند کا اتنا خیال ہے۔۔۔ یہ کیا۔۔۔؟؟ تم نے مہندی کیوں نہیں لگائی۔۔۔"
انعم اُسے چھیرتے اُس کے قریب آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ اُس کے خالی ہاتھ دیکھتے بولی۔۔
"مجھے مہندی نہیں پسند۔۔۔۔ "
پریسا نے فوراً منہ بسورا تھا۔۔۔
"مگر تمہارے اُن کو بہت پسند ہے۔۔۔ لگوا لو۔۔۔۔ "
مہروسہ نے انعم کو اشارہ کیا تھا مہندی لگانے کا۔۔۔۔
"نہیں مجھے نہیں لگوانی۔۔۔ اور آپ لوگ جانتی ہو۔۔۔ آپ کا باس مجھ سے زبردستی نکاح کررہا ہے۔۔۔ گن پوائنٹ پر۔۔۔ میں اُس کی خاطر مہندی کیوں لگواؤں۔۔۔۔"
پریسا اُن کو منہ بسور کر جواب دیتی جیسے ہی پلٹی۔۔۔ اپنے عین پیچھے کھڑے شاہ ویز سکندر کو دیکھ اُس کے ہونٹوں سے چیخ نکلتے نکلتے بچی تھی۔۔۔
وہ سرد نگاہوں سے اُسے گھورتا اُس کے حسین سراہے پر ایک زرا سی نگاہ ڈالتا مہروسہ لوگوں کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔
مہروسہ شاہ ویز کی ہدایت پر دھیما سا مسکراتی ایک جانب پڑی شال اُٹھا کر پریسا کے گرد اوڑھ گئی تھی۔۔۔
"شاہ سر نہیں چاہتے تمہیں اِس روپ میں کوئی اور دیتے۔۔۔ دیکھو اِس لیے مجھے سختی سے تمہیں پوری طرح ڈھکنے کا اشارہ کرکے گئے ہیں۔۔۔۔"
مہروسہ کو پریسا کا لال گلابی پڑتا چہرا بہت مزے دے رہا تھا۔۔۔۔ اِس لیے وہ اُسے چھیڑنے سے باز نہیں آرہی تھی۔۔۔
شاہ ویز کے ساتھ گواہان کے طور پر باقی سب بھی اندر آچکے تھے۔۔۔
شاہ ویز کا نکاح حازم خود پڑھوا رہا تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سے زیادہ خوشی مہروسہ اور حازم کے چہروں سے ٹپک رہی تھی۔۔۔ اُن تینوں کا ماضی ہی انتہائی درد ناک تھا۔۔۔ مگر اُن سب میں۔۔۔ سب سے زیادہ تکلیف شاہ ویز نے ہی اُٹھائی تھی۔۔۔ اور بچپن سے لے کر اب تک خود پر ہر خوشی حرام کر دی تھی۔۔۔۔
یہاں تک کہ وہ مسکرانا بھول گیا تھا۔۔۔ اُنہوں نے آج تک شاہ ویز کو ایک بار بھی مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
جو بات اندر سے اُن کا دل زخمی کیے ہوئے تھی۔۔ مگر آج شاہ ویز کو اپنی زندگی میں یوں اپنی پہلی خوشی شامل کرتے دیکھ اُن کا یوں خوشی سے پاگل ہونا تو بنتا تھا۔۔۔
پریسا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔
آفندی مینشن کے ہر فرد نے اُسے محبت دی تھی۔۔۔ چاہے جس ریزن سے بھی مگر اُنہوں نے ہمیشہ اُسے بہت محبت دی تھی۔۔۔ جن میں سب سے بے رعیاں اور پرخلوص محبت یاسمین بیگم کی تھی۔۔۔
آج اُن کے بغیر نکاح کرنا پریسا کی آنکھیں بھیگو رہا تھا۔۔حازم نکاح پڑھوانا شروع کرنے ہی لگا تھا۔۔۔ جب اچانک دروازے پر ہوتی دستک نے پریسا کو خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔ باقی سب نے بھی پریشانی سے شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو اپنے مخصوص سرد و سپاٹ تاثرات کے ساتھ اپنی جگہ سے اُٹھتا دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
"شاہ سر یہ کیا کررہے ہیں آپ۔۔۔؟؟"
مہروسہ اُسے بنا کوئی ہتھیار اُٹھائے ایسے ہی دروازہ کھولتے دیکھ فکرمندی سے کھڑے ہوتے بولی تھی۔۔۔ مگر تب تک شاہ ویز دروازہ کھول چکا تھا۔۔۔
دروازے کھلتے ہی اندر داخل ہونے والی ہستی کو دیکھ پریسا بے اختیار اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"ماما۔۔۔"
اُس کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔
شاہ ویز دروازہ واپس لاک کرچکا تھا۔۔۔
"تمہیں کیا لگا گڑیا۔۔۔ تمہاری ماں تمہیں تمہاری زندگی کے اتنے اہم موقع پر اکیلا چھوڑ دے گی۔۔۔۔"
یاسمین بیگم اُس کے قریب آتیں اُس کی پیشانی چومتے اُسے سینے سے لگا گئی تھیں۔۔۔
"آئم سوری ماما۔۔۔۔"
پریسا نم آواز میں بولتی اُن کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی۔۔
"میں تمہارے اِس فیصلے سے بہت خوش ہوں۔۔۔ شاہ ویز سکندر جیسا شخص تمہارے لیے سب سے بہترین ہے۔۔۔ اللہ نصیب اچھے کرے تمہارے۔۔۔"
یاسمین بیگم اُس کے کپکپاتے وجود کے گرد بازو کا گھیرا بناتے ممتا سے چور لہجے میں بولتیں پریسا کو حیران کر گئی تھیں۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ کیسے جانتی تھیں شاہ ویز کو۔۔۔
مگر اِس وقت وہ کچھ بھی پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔۔۔ اِس لیے خاموش ہوگئی تھی۔۔۔
اور ہی لمحوں بعد اُسے پریسا آفندی سے پریسا شاہ ویز سکندر بنا دیا گیا تھا۔۔۔
نکاح نامے پر سائن کرنے کے بعد سے پریسا کی دھڑکنیں معمول پر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔
اُس کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔۔۔ اُسے کسی کی کہی کوئی بات بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔
نکاح ہوتے ہی سب لوگ رخصت ہوگئے تھے۔۔۔ یاسمین بیگم بھی باہر کے حالات سنبھالنے اُسے دعائیں دیتی باہر نکل گئی تھیں۔۔۔ شاہ ویز نے اُن سے بات نہیں کی تھی۔۔۔ مگر وہ شاہ ویز سے مل کر گئی تھیں۔۔۔
پریسا کے کمرے کے سوا پورے آفندی مینشن میں اِس وقت سوگ کا سماں تھا۔۔۔ کیونکہ اتنے سارے مہمانوں کے بیچ سے پولیس سفیان کو گرفتار کرکے لے گئی تھی۔۔۔
اُنہیں کل رات پولیس ناکے کے قریب آفندی ہاؤس کی گاڑی کے ساتھ سفیان کی چیزیں ملی تھیں۔۔۔
جن شواہد سے ہی ظاہر ہورہا تھا کہ اُن دو پولیس والوں کو سفیان نے ہی مارا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے شہباز آفندی کے بہت زیادہ شور مچانے کے بعد بھی سفیان کو وہ گرفتار ہونے سے نہیں بچا پائے تھے۔۔۔
کیونکہ یہاں قتل پولیس والوں کا ہوا تھا۔۔۔
اُن کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ شاہ ویز سکندر نے یہ اُنہیں اپنے نکاح کی خوشی میں تحفہ دیا تھا۔۔۔
سب لوگ روم سے نکل گئے تھے۔۔۔ اب وہاں صرف پریسا اور شاہ ویز موجود تھے۔۔۔
پریسا کی حالت اِس وقت بہت غیر ہوچکی تھی۔۔۔ دل جس بُری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔ اُسے یہی محسوس ہورہا تھا کہ اُس کا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔۔۔
"نکاح مبارک ہو پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بھاری گھمبیر دلکش آواز اُس کے کانوں سے ٹکراتی اُس کی سانسں منتشر کر گئی تھی۔۔۔۔
اُسے قریب آتا دیکھ وہ ایک دم سے گھبرا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ جاتے ہوئے اُس کے اُوپر سے شال ہٹا گئی تھی۔۔ وہ اس وقت اپنے سہانے رُوپ کے ساتھ شاہ ویز سکندر کے سامنے کھڑی چہرا جھکائے ہوئے تھی۔۔۔
شاہ ویز فاصلے سے ہی اُس کا لرزتا کانپتا وجود محسوس کر پارہا تھا۔۔۔
"کیا ہوا تم تو نکاح سے پہلے کچھ دھمکیاں دے رہی تھی مجھے۔۔۔ اب اچانک کیا ہوا۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کی حالت پر چوٹ کرتا اُس کی کلائی تھام کر اسے اپنے قریب کرتا سر سے پیر تک اپنے لیے سجا اُس کا دلفریب رُوپ دیکھنے لگا تھا۔۔۔ اُس کا نازک سراپا بلیک ڈریس میں مزید قیامت ڈھا رہا تھا۔۔ اور شاید شاہ ویز سکندر کے دل پر بھی۔۔۔۔
پریسا اب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔۔۔
جب شاہ ویز نے اُس کا چہرا ٹھوڑی سے تھام کر اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔ پریسا کی آنکھوں سے ایک ساتھ کئی آنسو ٹوٹ کر اُس کے گداز گالوں کا بھیگو گئے تھے۔۔۔
"کیا ہوا پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔ ابھی سے یہ حال ہورہا ہے تمہارا۔۔۔ "
شاہ ویز کی انگلی کی پوروں نے اب اُس کے ہونٹوں کو چھوتے اُسے بولنے پر اُکسایا تھا۔۔۔۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سے۔۔۔ تم نے سب کو یہاں سے کیوں بھیج دیا۔۔ تم خود کیوں نہیں گئے۔۔۔ ؟؟"
پریسا خوف سے ذرد پڑتی اُس کی گہری نگاہوں سے پزل ہوتی اُلٹے سیدھے سوال کرتی اگلے ہی لمحے حواس کھوتے شاہ ویز کی بانہوں میں لہرا گئی تھی۔۔۔ جبکہ حواس کھونے سے پہلے اُس نے اپنی باتوں کے جواب ميں شاہ ویز سکندر کو مسکراتے پایا تھا۔۔۔۔
"پاگل لڑکی۔۔۔۔ میرے سخت رویے کو سچ میں میری نفرت سمجھ رہی ہے۔۔۔ تم نہیں جانتی پریسا آفندی تم شاہ ویز سکندر کی نفرت کی ایک جھلک بھی برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے نازک وجود کو بانہوں میں اُٹھاتا ٹیرس کے راستے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ وہ واقعی بلیک بیسٹ نکلا تھا۔۔۔ جس نے آفندی مینشن کے اتنے سخت سیکورٹی سسٹم میں داخل ہوکر۔۔ نہ صرف اپنے طریقے سے پریسا سے نکاح کیا تھا۔۔۔ بلکہ اب رخصتی بھی اُسی انداز میں ہورہی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"حبہ ہم یوں مجرموں کی طرح اپنے ملک سے کیوں فرار ہورہے ہیں۔۔۔ تم نے حازم کو بھی کچھ نہیں بتانے دیا۔۔۔ کیوں کررہی ہو تم یہ سب۔۔۔"
نجمہ بیگم اُسے ائیر پورٹ میں داخل ہوتے دیکھ اُس کا بازو پکڑتے اُسے سختی استفسار کرتے بولی تھیں۔۔
"کیوں بتائیں اُسے۔۔۔ کچھ نہیں لگتا وہ ہمارا۔۔۔ آپ دونوں میری یہ بات پہلی اور آخری بار سن لیں۔۔۔ اگر آپ لوگ حازم سالار سے رشتہ رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ تو آپ کو یہ بھولنا پڑے گا کہ حبہ نام کی آپ کی کوئی بیٹی ہے۔۔۔ کیونکہ اُس کے بعد میں آپ دونوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھوں گی۔۔۔ اتنی نفرت ہے مجھے اُس شخص سے۔۔۔"
حبہ بھیگی آنکھوں اور نفرت آمیز لہجے میں بولتی نجمہ بیگم کے ساتھ ساتھ صبا کو بھی پریشان کر گئی تھی۔۔۔
"آپی یہ کیا بول رہی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟ حازم بھائی تو اتنے اچھے۔۔۔"
نجمہ بیگم کو ساکت ہوتا دیکھ صبا نے بولنا چاہا تھا۔۔۔
"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ۔۔۔ اب اگر دوبارہ تم نے اُس شخص کا نام لیا تو منہ توڑ دوں گی تمہارا ۔۔۔ "
حبہ صبا کو بہت بُری طرح جھڑکتی وہیں پر خاموشی کروا گئی تھی۔۔۔ صبا نے نم آنکھوں سے نجمہ بیگم کو دیکھا تھا۔۔ جو خود پریشان اور بے بس سی کھڑیں یہ سب دیکھ رہی تھیں۔۔۔
"کیا آپ لوگ نہیں آنا چاہتیں میرے ساتھ۔۔۔"
حبہ نے اُن دونوں کو وہیں ائیر پورٹ سے باہر جما کھڑا دیکھ سوالیہ نگاہوں سے اُنہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
"نہیں اور نہ ہی میں تمہیں جانے دوں گی کہیں بھی۔۔۔ مجھے موبائل دو۔۔۔ میں حازم کو کال کرتی ہوں۔۔ وہ آجائے تو جو لڑائی ہوئی ہے دونوں کے بیچ اُسے سلجھا لو۔۔ مگر یوں گھر اور ملک چھوڑ کر جانا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔۔۔۔"
نجمہ بیگم اُس کا بازو تھامتے اُسے بھی روک گئی تھیں۔۔۔
"ٹھیک ہے آپ دونوں کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔۔۔ مت آئیں آپ میرے ساتھ۔۔۔ مگر مجھے رکونے کی کوشش بھی مت کریں۔۔۔ آپ جانتی ہیں میں کتنی ضدی ہوں۔۔ یہ سب کرکے آپ صرف ٹائم ویسٹ کریں گی۔۔۔ یہ گاڑی کی چابیاں۔۔۔ باہر گاڑی کھڑی ہے۔۔۔ آپ لوگ جاسکتی ہیں۔۔۔"
حبہ اُن کی بنا مزید کچھ سنے اپنا بازو چھڑوا کر ائیر پورٹ کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
جبکہ نجمہ بیگم نے جلدی سے پاس سے گزرتی عورت کق روک کر اُن سے موبائل لے کر حازم کو کال کی تھی۔۔۔
مگر کئی بار کی ٹرائے کے بغیر اُس کا نمبر نہیں مل پایا تھا۔۔۔ نجمہ بیگم کو یہی لگا تھا وہ حازم کو وہاں بلا کر حبہ کو روک لیں گی۔۔۔ مگر نہ تو حازم سے بات ہو پائی تھی۔۔۔ اور حبہ بھی لوگوں کے رش میں غائب ہوچکی تھی۔۔۔۔
اُنہوں نے صبا کو ساتھ لے جاکر حبہ کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ جب اُسی لمحے اُن کے کانوں میں فلائٹ کے فلائی کرجانے کی اناؤنسمنٹ ہوئی تھی۔۔۔
"ماما آپی سچ میں چلی گئیں۔۔۔ مجھے لگا تھا وہ ہمیشہ چھوڑ کر نہیں جا پائیں گی۔۔۔"
صبا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
جبکہ نجمہ بیگم کہ حالت اُس سے بھی زیادہ خراب تھی۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ مکلاوے کی رسم کرکے واپس گھر آچکی تھی۔۔۔ مگر نہ تو اُس کے شوہر محترم باقی سب کے ساتھ اُسے لینے آئے تھے اور نہ ہی ابھی تک آفس سے لوٹے تھے۔۔۔
مہروسہ اِس وقت اپنے کھڑوس ایس پی کو بہت مس کررہی تھی۔۔۔۔
وہ صدیقی صاحب اور سمیعہ بیگم کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں ابھی کچھ دیر پہلے ہی اُٹھ کر گئے تھے۔۔۔۔ مہروسہ شدید بوریت کا شکار ہورہی تھی۔۔۔اُس نے اپنی پوری زندگی میں اتنا آرام نہیں کیا تھا جتنا شادی کے بعد کررہی تھی۔۔۔
آج ہوئے شاہ ویز کے نکاح کی وجہ سے اُس کا موڈ بہت زیادہ خوشگوار تھا۔۔۔۔
اسی لیے نجانے کس احساس کے تحت اُس نے لینڈ لائن سے حمدان کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔ جو تیسری بیل پر اُٹھا لیا گیا تھا۔۔
مگر آگے سے سنائی دیتی نسوانی آواز مہروسہ کے ہوش اُڑا گئی تھی۔۔۔ اُس کا شوہر رات کے اِس پہر کس کے ساتھ تھا۔۔۔۔
"جی بولیں کس سے بات کرنی ہے آپ کو۔۔۔؟؟"
اُس لڑکی کی عجیب سی مدہوش آواز مہروسہ کے تن بدن میں آگ بھڑکا گئی تھی۔۔۔۔
"تم کون بول رہی ہو۔۔۔ یہ میرے شوہر کا نمبر ہے۔۔۔ اُنہیں سے بات کرنے کے لیے ہی کال کی ہوگی نا۔۔۔ "
مہروسہ اتنے غصے میں آچکی تھی کہ اُس سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔۔
"جی بولیں کس سے بات کرنی ہے آپ کو۔۔۔؟؟"
اُس لڑکی کی عجیب سی مدہوش آواز مہروسہ کے تن بدن میں آگ بھڑکا گئی تھی۔۔۔۔
"تم کون ہو۔۔۔ یہ میرے شوہر کا نمبر ہے۔۔۔ اُنہیں سے بات کرنے کے لیے ہی کال کی ہوگی نا۔۔۔ "
مہروسہ اتنے غصے میں آچکی تھی کہ اُس سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔۔
"وہ اِس وقت تم سے بات نہیں کرسکتا۔۔۔ کیونکہ وہ اِس وقت میرے ساتھ بزی ہے۔۔۔"
وہ لڑکی عجیب سے دلربانہ انداز میں بولتی فون رکھ گئی تھی۔۔۔ جبکہ مہروسہ بنا فون کان سے ہٹائے کتنے ہی لمحے ایسے ہی بیٹھی رہی تھی۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوچکے تھے۔۔۔
غصے اور اشتعال کے مارے اُس کا بُرا حال تھا۔۔۔ حمدان صدیقی ایسا کیسے کرسکتا تھا۔۔۔
مہروسہ نے دوبارہ کال کی تھی۔۔۔ پہلے کسی نے اٹینڈ نہیں کیا تھا۔۔۔ اور بعد میں نمبر بزی کردیا تھا۔۔۔ مہروسہ کا خون بُری طرح کھول اُٹھا تھا۔۔۔
"شاید تم بھول چکے ہو ایس پی حمدان صدیقی کہ تمہاری بیوی کتنی بڑی گینگسٹر ہے۔۔۔ ابھی مزا چکھاتی ہوں میں تمہیں۔۔۔"
اُس نے جلدی سے اپنے ایک آدمی کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔
"ہیلو کاشف۔۔۔ میں ایک نمبر سینڈ کررہی ہوں۔۔۔ مجھے اگلے پانچ منٹ کے اندر اِس کی لوکیشن چاہیے۔۔۔"
مہروسہ آرڈر دیتی فون بند کرچکی تھی۔۔۔ اُس کے اندر آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔ اُسی کسی طور چین نہیں آرہا تھا۔۔۔ حمدان کا کسی اور لڑکی کے ساتھ ہونے کا خیال ہی اُسے کوئلوں پر لیٹا گیا تھا۔۔۔۔
ٹھیک پانچ منٹ بعد اُس کے نمبر پر لوکیشن سینڈ کردی گئی تھی۔۔۔
یہ کسی ہوٹل کی لوکیشن تھی۔۔۔
"کاشف اپنی ٹیم کو لے کر اِس ہوٹل میں پہنچو۔۔ اور ٹریس کرو یہ موبائل کس روم میں ہے۔۔۔۔ اُس روم میں چھاپا مار دوں۔۔۔ لیڈیز میں سے کسی کو ساتھ لے کر جانا۔۔۔ اور مجھے وہاں جاکر ساری صورتحال سے آگاہ کرو۔۔۔"
مہروسہ کے اِس نئے آرڈر پر اُس کی ٹیم پوری طرح تیار ہوتی چند ہی منٹوں میں اُس کے دیئے مشن کے لیے نکل گئی تھی۔۔۔
"مجھے وہاں کی ساری فوٹیج چاہیئں۔۔۔"
مہروسہ یہ کہہ کر کال کاٹتی پلٹی تھی۔۔۔۔ جب اپنے عین پیچھے کھڑے حمدان کو دیکھ اُس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے حمدان کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔ مگر جیسے ہی اُسے وہ فون کال یاد آئی۔۔۔ وہ ہر لحاظ بھلاتی۔۔۔حمدان کا گریبان مُٹھیوں میں جکڑتی اُس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔
"کون تھی وہ لڑکی۔۔۔۔؟؟ کیا تعلق ہے آپ کا اُس کے ساتھ۔۔۔ کب سے آپ دونوں کا افیئر چل رہا ہے۔۔۔ "
مہروسہ اُس کا گریبان مُٹھیوں میں جکڑے ایک ہی سانس میں سوالوں کی برسات کر گئی تھی۔۔۔
یہ دیکھے بنا کے وہ فل یونیفارم میں ملبوس کتنا تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔
"ایکسکیوزمی مسز۔۔۔ کیا آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آپ کیا بول رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟ کونسی لڑکی۔۔۔۔ میرے ساتھ تو آج بہت ساری لڑکیاں تھیں۔۔۔ "
حمدان اُس کا غصے سے لال چہرا اور تنی بھنویں دیکھ اُسے اپنے قریب کرتے سوالیہ لہجے میں بولتا اُسے مزید جلا کر راکھ کر گیا تھا۔۔۔۔
حمدان کو اس لڑکی کی اپنے لیے یہ تڑپ بہت مزا دیتی تھی۔۔۔ اِس وقت بھی وہ شدید تھکن کے باوجود اُسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔
ملک کے سب سے بڑے گینگ کی لیڈر پولیس فورس کے سب سے ایماندار پولیس آفیسر کی دیوانی تھی۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔؟؟ آپ کن لڑکیوں کے ساتھ تھے۔۔۔؟؟"
مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو پھسل آئے تھے۔۔۔۔ حمدان کے سینے پر ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتے اُس نے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔
اُس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو نجانے کیوں حمدان صدیقی کا دل بوجھل کر گئے تھے۔۔۔
وہ خود اِس لڑکی کو رُلانہ چاہتا تھا۔۔۔ اِس سمیت اِس کے پورے گینگ کا نام صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا تھا۔۔۔
اُن کو بہت دردناک سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر نجانے کیوں اِس وقت اُسے مہروسہ کی آنکھوں میں چمکتے آنسو بے چین سا کرگئے تھے۔۔۔
وہ شدید ناراضگی کا اظہار کرتی اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔ جب حمدان اُسے واپس اپنے قریب کرگیا تھا۔۔۔
"کیا پرابلم ہے۔۔۔۔؟؟ میں کیس کے سلسلے میں پورا دن مصروف رہا ہوں۔۔۔ کالجز میں ڈرگز پھیلانے والے لڑکیوں کے ایک بہت بڑے گینگ کو گرفتار کیا ہے۔۔۔۔ مگر تم ایسے کیوں پوچھ رہی ہو؟؟؟ کیا کچھ ہوا ہے؟؟؟"
حمدان کو اُس کا شکی بیویوں والا انداز اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
"آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔؟؟ آپ بہت ساری نہیں صرف ایک لڑکی کے ساتھ تھے۔۔۔ ابھی اُسی کے پاس سے آرہے ہیں۔۔۔۔ میں نے کال کی تھی آپ کے موبائل پر۔۔۔ میرے پاس ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔۔۔۔ اُسی لڑکی نے کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔ جس کے ساتھ آپ۔۔۔ آپ دونوں کے بیچ۔۔۔ "
مہروسہ غصے سے بات کرتی آخر میں شرمندگی اور خفت سے کچھ بول بھی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
جبکہ حمدان اُس کے لال پڑتے گالوں کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ نہیں روک پایا تھا۔۔۔
"کیا کررہا تھا میں اُس کے ساتھ۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کا چہرا ٹھوڑی سے تھام کر اُوپر اُٹھایا تھا۔۔۔ وہ اُسے یہ مہروسہ وہ پہلی ملاقات والی مہروسہ نہیں لگی تھی۔۔۔ جو صرف اُسے بھٹکانے اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے نہایت ہی عامیانہ لہجے میں بولی تھی۔۔۔ وہ بہت اچھے سے سمجھ چکا تھا کہ بلیک سٹارز گینگ بہت ہی منظم طریقے سے پراپر پلاننگ کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔۔۔ جن کو پکڑ پانا واقعی آسان نہیں تھا۔۔۔
"آپ خود ہی سن لیں۔۔۔۔"
مہروسہ نے ریکارڈنگز میں سے حمدان کے نمبر پر کی کال اُسے سنائی تھی۔۔۔ جسے سنتے ہی حمدان اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ نے اُس کی جانب غصے سے دیکھا تھا۔۔ مگر اُسے دل سے مسکراتے دیکھ وہ مبہوت ہوئی تھی۔۔۔ وہ اُس کے غصے کی دیوانی تو تھی ہی۔۔۔ مگر اب اُس کی مسکراہٹ پر بھی اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔۔۔
وہ یک ٹک دیوانہ وار نگاہوں سے اُسے تکے گئی تھی۔۔۔ آج پہلی بار اُسے حمدان کے انداز میں بناوٹ کا احساس محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
"آج صبح ہی مختلف کالجز میں بھاگ دوڑ کے دوران میرا موبائل کہیں کر گیا تھا۔۔۔ مگر یہ معاملہ اتنا سیریس اور اہم تھا کہ میں اپنا موبائل ڈھونڈنے پر ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ شاید کسی اور کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔۔۔ اور آپ جس کی بات کر رہی ہیں۔۔ وہ کسی اور کا شوہر ہوگا آپ کا نہیں۔۔۔۔"
حمدان اُسے ساری تفصیل بتاتا آخر میں طنزیا لہجے میں بولتا وہاں سے جانے لگا تھا۔۔۔ جب مہروسہ ایک دم اُس کے سامنے آن کھڑی ہوتی اُس کے سنجیدہ چہرے کی جانب دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
حمدان کے جواب پر شدید شرمندگی کے ساتھ ساتھ اُس کا دل خوش ہوتا واپس سے کھل اُٹھا تھا۔۔۔ وہ بھلا سوچ بھی کیسے سکتی تھی کہ اُس کی محبت۔۔۔ اُس کا ایس پی بدکردار ہوسکتا تھا۔۔۔ مہروسہ کو خود پر شدید غصہ آیا تھا۔۔۔ اور حمدان پر بہت زیادہ پیار بھی۔۔۔
جو خود پر شک کیے جانے اور ایسی تہمت کے باوجود بنا غصہ کیے آرام سے وضاحت دے گیا تھا۔۔۔ اس شخص کی یہی خوبیاں تو اُسے مزید دیوانہ کر جاتی تھیں اُس کا۔۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر۔۔۔۔"
مہروسہ ندامت بھرے لہجے میں ہونٹ کاٹتی بولتی حمدان کو ایک بار پھر اپنی جانب متوجہ کر گئی تھی۔۔۔
"اٹس اوکے۔۔ مجھے بُرا نہیں لگا۔۔۔ بہت اچھا لگا ہے۔۔۔ میں بھی اپنی ملکیت کے معاملے میں ایسے ہی پوزیسو ہوں۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ حمدان صدیقی نہ کبھی کسی کو دھوکا دیتا ہے۔۔۔ اور نہ خود کو دھوکا دینے والے کو بخشتا ہے۔۔۔ جس سے محبت کروں گا میری وفا بھی اُسی کے ساتھ ہوگی۔۔۔۔"
حمدان اُس کی ہونٹوں کو دانتوں کے ستم سے آزاد کرواتا اُس کے دلکش چہرے کو گہری نگاہوں کے حصار میں لیتا بہت کچھ باور کروا گیا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے انداز اور الفاظ پر مہروسہ اندر تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
"میرے سر میں بہت درد ہے ایک سٹرانگ سی کافی بنا کر لاؤ روم میں۔۔۔ "
حمدان اُسے آرڈر دیتا روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کا تھکن زدہ انداز دیکھ مہروسہ کو خود پر مزید تپ چڑھی تھی۔۔۔۔ جس نے فضول بات کے لیے اُسے ایسے ہی روکے رکھا تھا۔۔۔
کچن کی جانب بڑھتے اُس کا موبائل وائبریٹ ہوا تھا۔۔۔
"میم ہم نے موبائل ٹریس کرلیا ہے۔۔ ہوٹل کے روم میں ایک آدمی کسی لڑکی کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔۔۔ اب بتائیں اِن کے ساتھ کیا کرنا ہے۔۔۔۔"
کاشف کی بات سن کر مہروسہ نے سر پر ہاتھ مارا تھا۔۔۔
"موبائل لے کر چھوڑ دو اُنہیں۔۔۔۔ "
مہروسہ کے نارمل سے انداز پر کاشف حیران ہوتا فون بند کر گیا تھا۔۔ کیونکہ مہروسہ نے پہلے جتنے غصے بھرے انداز میں بات کی تھی۔۔۔ اب اتنا ہی نارمل لہجہ تھا اُس کا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم بلیک ہاؤس کے گارڈن میں بے چینی سے ٹہلتا عجیب سے احساسات کا شکار تھا۔۔۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اُس نے حبہ کو وہ سب کہہ کر ٹھیک کیا تھا یا نہیں۔۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کی آواز پر وہ پلٹا تھا۔۔۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔ مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔۔؟؟"
سیگریٹ سلگھاتے حازم نے نارمل انداز میں جواب دیا تھا۔۔۔۔
"جب جانتے ہو کہ جھوٹ بولنے میں کامیاب نہیِں ہوسکتے تو کیوں بولتے ہو۔۔۔ جب اُس لڑکی سے اتنی محبت کرتے ہو۔۔۔ تو کیوں نہیں سب سچ بتا دیتے اُسے۔۔۔"
شاہ ویز کرسی پر براجمان ہوتا اُسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کر گیا تھا۔۔
"وہ نہیں سمجھ پائے گی۔۔۔ وہ پھر بھی نفرت ہی کرے گی مجھ سے۔۔۔۔ میں ہر تکلیف برداشت کرسکتا ہوں۔۔ مگر اُسے کی آنکھوں میں نفرت برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ اُسے خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ مگر میں جانتا ہوں ایسا ایک دن ہونا ہی ہے۔۔۔ "
حازم کی آنکھیں شدت ضبط سے لال ہوچکی تھیں۔۔۔۔
"تو تم نے جو انکشاف کیا ہے اُس کے سامنے۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے اُس کے بعد نفرت نہیں کرے گی تم سے۔۔۔۔ دور نہیں جائے گی تم سے۔۔۔۔"
شاہ ویز حازم کی تکلیف نہیں دیکھ پارہا تھا۔۔۔
"نہیں کیونکہ وہ جانتی ہے۔۔۔ میں کتنا بڑا درندہ کیوں نہ بن جاؤں مگر اُس کے بابا کو کبھی قتل نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ اِس بات پر یقین کبھی نہیں کرے گی۔۔۔ بہت محبت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔۔ میں کیا بتاؤں اُسے کہ میں واقعی کتنا بڑا درندہ بن چکا ہوں۔۔۔ اُس کے بابا کو مارنے والا سچ میں میں ہی ہوں۔۔۔۔"
اپنے عمل کا اقرار کرتے حازم کی آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا تھا۔۔۔ جبکہ کنپٹی کی رگیں خوفناک حد تک تن گئی تھیں۔۔۔
شاہ ویز خاموشی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ سب لوگوں کے سامنے وہ تینوں انتہائی ظالم اور جابر درندہ صفت بلیک سٹارز تھے۔۔۔ مگر اُن میں سے کوئی بھی اُن کے دلوں میں پلتے زخموں اور اذیتوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے۔۔۔۔
اِس سے پہلے کہ شاہ ویز اُس سے کوئی بات کرتا حازم کا فون بجا تھا۔۔۔۔
نجمہ بیگم کا نمبر دیکھ حازم نے فوراً کال پک کی تھی۔۔۔
"واٹ۔۔۔ حبہ ملک چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ یہ کیا کہہ رہیں ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟"
نجمہ بیگم کی بات سن کر حازم جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔ آج شاہ ویز کے نکاح میں وہ اِس قدر مصروف رہا تھا کہ وہ حبہ کے حوالے سے کچھ پتا بھی نہیں لگوا پایا تھا۔۔۔۔۔
"حبہ بھلا ایسے کیسے کرسکتی ہے۔۔۔؟؟"
حازم اضطرابی کیفیت میں پیشانی رگڑتا کرسی سے اُٹھا تھا۔۔۔
"کونسی فلائٹ میں گئی ہے حبہ۔۔۔۔"
شاہ ویز نے موبائل نکالتے اُس سے پوچھا تھا۔۔۔۔ انعم بھی اُسی وقت اُن دونوں کے لیے کافی لیے وہاں آئی تھی۔۔۔
"نو بجے کی پاکستان سے دبئی جانے والی فلائٹ میں۔۔۔ آگے سے نجانے کہاں جائے گی۔۔۔۔؟؟"
حازم اُسے بتاتے ہونٹ سختی سے میچ گیا تھا۔۔۔
جب اُس کی بات دن کر انعم کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹ کر گری تھی۔۔۔
اُن دونوں نے مُڑ کر انعم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"کیا انعم۔۔۔؟؟"
اُس کی حالت دیکھ وہ دونوں فکرمندی سے اُس کے قریب آئے تھے۔۔۔۔
"ابھی میں نیوز سن کر آرہی ہوں۔۔۔ اِس فلائٹ کا پلین کریش ہوگیا ہے۔۔۔۔ اِس پلین میں موجود تمام افراد کی موقع پر ہی ڈیتھ ہوگئی ہے۔۔۔ کوئی ایک بھی نہیں بچا۔۔۔۔"
انعم کے اِس انکشاف پر حازم کو اپنے وجود سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
"یہ کیا بکواس کررہی ہو تم۔۔۔۔؟؟؟"
حازم اُسے خون آلود نگاہوں سے دیکھتا اندر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔ مگر اندر ایل سی ڈی سکرین پر چلتی نیوز دیکھ حازم وہیں بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
سکرین پر چلتی سیاہ پٹی پر جہاز میں سوار لوگوں کے نام آرہے تھے۔۔۔ جن میں لکھا حبہ امتشال کا نام حازم سالار کی دنیا اندھیر کر گیا تھا۔۔۔۔
"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ اِس طرح مجھ سے ناراض ہوکر مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔۔۔ نہیں ہوسکتا ایسا۔۔۔ جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔۔"
حازم اپنے ہاتھ کی مضبوط مُٹھی بنا کر فرش پر پوری قوت سے مارتا اُسے لہولہان کر گیا تھا۔۔۔
شاہ ویز آگے بڑھا تھا۔۔۔۔
"حازم ہوش میں آؤ۔۔۔۔ ایس پی حبہ امتشال پر زندگی ختم نہیں ہوتی تمہاری۔۔۔ تمہاری زندگی کا مقصد کوئی اور ہے۔۔۔ جسے اِس وقت بھول رہے ہو تم۔۔۔۔"
شاہ ویز کے ادا کیے سنگدلانہ الفاظ پر حازم نے زخمی نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
زندگی میں پہلی بار اُسے شاہ ویز اور اُس کی سنگدلی پر غصہ آیا تھا۔۔۔ جو اُس کا درد سمجھنے سے قاصر اُسے مزید اشتعال دلا گیا تھا۔۔۔
حازم اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔۔
وہاں موجود ہر فرد نے آج پہلی بار اپنے سب سے مضبوط اعصاب کے مالک گینگ لیڈر کو روتے دیکھا تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر بیوی ہے وہ میری۔۔۔ میری محبت میرا عشق ہے۔۔۔۔ تم آج میرے درد کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔۔۔ میری تکلیف اور تڑپ کا اندازہ تمہیں اُس وقت ہوگا۔۔۔ جب پریسا آفندی کو کھوئے گے تم۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔ بلکہ تمہیں تو یہ تڑپ تب بھی محسوس نہیں ہوگی۔۔۔۔ تم کونسا محبت کرتے ہو اُس سے۔۔۔۔"
حازم اپنے اندر کا اُبال شاہ ویز پر نکالتا غصے سے بپھرا تھا۔۔۔۔ اُن کے لوگ بے یقینی کے ساتھ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
جو آج پہلی بار یوں آمنے سامنے آئے تھے۔۔۔ جس کا ریزن عورت تھی۔۔۔۔
اُن میں سے کسی میں ہمت نہیں تھی اُن دونوں بپھرے شیروں کے درمیان آنے کی۔۔۔ سب کو شدت سے اپنی تیسری گینگ لیڈر کی یاد آئی تھی۔۔۔۔
"تم اِس وقت اپنے حواسوں میں نہیں ہو۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے اُس کی غیر ہوتی حالت دیکھ سرد لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
جبکہ حازم اِس وقت اتنے غصے میں تھا کہ وہ راستے میں آئی ہر شے ٹھوکروں سے اُڑاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
"حامد اور قاسم۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی دھاٰڑ پر وہ دونوں فوراً حاظر ہوئے تھے۔۔۔۔
"گارڈز کی دو ٹیمز لے کر حازم کے ساتھ ساتھ رہو۔۔۔ اُسے زرا سی خراش بھی نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کے حکم پر وہ سب لوگ نکل گئے تھے۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز کا چہرا ضبط کی کوشش میں لال ہوچکا تھا۔۔۔ اُس کا عزیز از جان دوست اِس قدر اذیت میں تھا۔۔۔۔۔۔ مگر فلحال پورا اختیار ہوتے ہوئے بھی وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کر پارہا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں اُس نے خود کو شاہ ویز کے کمرے میں پایا تھا۔۔۔ وہ شاہ ویز کے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔ جبکہ ہمیشہ کی طرح روم میں مدھم سی روشنی کے ساتھ ہر جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کہیں نہیں تھا۔۔۔۔
پریسا خود پر سے کمبل ہٹاتی بیڈ سے نیچے اُتری تھی۔۔۔
پریسا نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں اُس نے خود کو شاہ ویز کے کمرے میں پایا تھا۔۔۔ وہ شاہ ویز کے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔ جبکہ ہمیشہ کی طرح روم میں مدھم سی روشنی کے ساتھ ہر جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کہیں نہیں تھا۔۔۔۔
پریسا خود پر سے کمبل ہٹاتی بیڈ سے نیچے اُتری تھی۔۔۔
اُس کا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔ پورے روم سے اُسے اپنے جانِ ستمبگر کی خوشبو آرہی تھی۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔۔۔
اُس کی دھڑکنیں جگہ پر آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔ دل و دماغ پر عجیب سا سرور چھایا محسوس ہوا تھا۔۔۔
اُس کا دل چاہا تھا کہ وہ خوشی سے جھومے، کھلکھلائے۔۔۔ پوری دنیا کو بتائے کہ وہ آج کتنی خوش ہے۔۔۔ اُس کے رب نے اُس کی محبت۔۔ اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو اُس کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔۔۔
پریسا سیاہ رنگ سے سجے پورے کمرے پر ایک مسکراتی نگاہ ڈالتے جیسے ہی پلٹی اپنے عین پیچھے کھڑے شاہ ویز سے ٹکرا گئی تھی۔۔
اُس کے فولادی سینے سے ٹکراتے وہ لڑکھڑا گئی تھی۔۔ جب شاہ ویز نے اُس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے اُسے گرنے سے بچایا تھا۔۔ شاہ ویز کے تاثرات اب بھی ویسے ہی تھے سرد و سپاٹ۔۔۔
مگر پریسا کو اب وہ ایسے ہی بہت پیارا لگتا تھا۔۔۔ اب اُس کا صرف ایک ہی مشن تھا۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کے منہ سے اپنی محبت کا اقرار کروانا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی شاہ ویز اُس سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اور ساتھ میں یہ بھی بہت اچھے سے جانتی تھی کہ وہ اُس سے اقرار کبھی نہیں کرے گا۔۔۔
لیکن وہ بھی پریسا آفندی تھی۔۔۔ جو اپنے سامنے چاروں شانے چت گرانا جانتی تھی۔۔۔۔
"اتنی خوشی کس بات کی ہورہی ہے پریسا آفندی۔۔۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے یہ شادی تمہیں کتنے بڑی مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔۔۔۔ میں کوئی عام انسان نہیں ہوں۔۔۔۔ ملک کا سب سے برا گینگسٹر ہوں۔۔۔ جو اتنی بے دردی سے تڑپا تڑپا کر جان نکالتا ہے۔۔۔ کہ انسان خود اپنی موت کی دعائیں مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ میرے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گی تم۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے چہرے کی دلکش مسکراہٹ پر چوٹ کرتے اُسے وارن کرتے واپس پلٹنا چاہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ اِس وقت وہ بنا دوپٹے کے سیاہ لہنگے میں قیامت لگ رہی تھی۔۔۔۔
"میں جانتی ہوں۔۔۔ تم کیا ہو۔۔۔؟؟ یہ سب جانتے ہوئے محبت کی ہے تم سے۔۔۔ تم بار بار مجھے یہ سب بول کر ڈرا نہیں سکتے۔۔۔۔ اور نہ ہی میں اب تم سے ڈرنے والی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں تم ایک بہت اچھے انسان ہو۔۔۔۔ تم خود پر یہ جو خول چڑھایا ہوا ہے دیکھنا میں بہت جلد اِسے اُتار پھینکوں گی۔۔۔۔"
پریسا اُس کے راستے میں آتی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے بول کر چیلنج کرتی واپس پلٹنے لگی تھی۔۔۔ جب شاہ ویز نے اُس کی چٹیا اپنی گرفت میں لیتے اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
اُس کے اِس جارحانہ عمل پر پریسا کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔۔
"تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔؟؟ رئیلی۔۔۔؟؟ مگر میں تو تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے خوف دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھنسائے اُس کے چہرے کو اپنے چہرے کے انتہائی قریب کیے بولتا پریسا کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
دونوں کے چہرے اتنے قریب تھے کہ پریسا کو اُس کے بولنے پر اُس کے ہونٹ اپنے چہرے سے ٹچ ہوتے محسوس ہورہے تھے۔۔۔۔ دوسرا ہاتھ وہ اُس کی کمر میں حمائل کرتا اُسے اُوپر اُٹھائے ہوئے تھا۔۔۔۔
پریسا کی بولتی وہ ایک سیکنڈ کے اندر بند کرچکا تھا۔۔۔
"تم بہت خوبصورت ہو۔۔۔ مگر مجھے تم اور تمہاری خوبصورتی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز شہادت کی اُنگلی اس کے ماتھے سے گزار کر ٹھوڑی تک لاتا۔۔۔۔ اُس کو کپکپانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔
"تممم۔۔۔ تم اِس طرح۔۔۔۔ مجھے۔۔۔ خوفزدہ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔ کرسکتے۔۔۔۔"
اُس کی جان لیوا قربت پر پریسا سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔
"کیا ہوا تم کانپ کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟ تم تو نہیں ڈرتی نا مجھ سے۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کے لرزتے وجود پر چوٹ کرتے بولا تھا۔۔۔
جبکہ حقیقت یہی تھی کہ وہ خود پریسا آفندی کی یہ قربت برداشت نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ آج بہت سالوں بعد اُس کے دل میں عجیب سی ہلچل ہورہی تھی۔۔۔۔
وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر وہ اِس بات کو کبھی بھی نہیں جھٹلا پایا تھا کہ پریسا کے سامنے آتے وہ اپنی نفرت میں کمزور پڑنے لگ جاتا تھا۔۔۔
وہ وحشی درندہ اپنی درندگی بھولنے لگتا تھا۔۔۔
اِس وقت بھی پریسا کی مدھم سانسیں۔۔۔ اور سینے سے لگے اُس کے لرزتے وجود کی نرماہٹیں شاہ ویز کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ گئی تھیں۔۔۔۔ وہ فوراً اُسے دور دھکیلتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
جبکہ اُس کے یوں دور جھٹکنے پر پریسا لڑکھڑا کر منہ کے بل زمین پر جا گری تھی۔۔۔۔ اُس کے منہ سے نکلتی کراہ پر شاہ ویز نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔
جو زمین پر بیٹھی اپنے پیر کو تھامے درد سے دوہری ہورہی تھی۔۔۔
شاہ ویز حیران ہوا تھا۔۔۔ اُس نے اُسے اتنے زور سے تو نہیں دھکیلا تھا۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز پنجوں کے بل اُس کے قریب آن بیٹھتا مشکوک نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھنے لگا تھا۔۔۔
"کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ جائیں آپ یہاں سے۔۔۔ میں اکیلے اپنا درد برداشت کرنے کی ہمت رکھتی ہوں۔۔۔۔"
پریسا اپنا لال ہوتا نازک پیر دونوں ہاتھوں میں تھامتی شاہ ویز کی جانب سے رُخ موڑ گئی تھی۔۔۔ تکلیف کے احساس سے اُس کی آنکھوں سے آنسو قطار در قطار بہہ رہے تھے۔۔۔۔
"بات بے بات آنسو نکالنے ضروری ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟ "
شاہ ویز اُسے بانہوں میں اُٹھاتے اُس کے بھیگے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
یہ لڑکی آج واقعی اُسے زیر کرنے کے مشن سے ہی آئی تھی۔۔۔۔
"مجھے درد ہورہا ہے۔۔۔۔ آپ جیسے وحشی انسان کو کیا پتا درد کیا ہوتا ہے۔۔۔"
پریسا اُس کا سنجیدہ چہرا دیکھ تپ کر بولی تھی۔۔۔۔
"تمہیں میری خوبیوں کا بہت اندازہ ہے۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُسے سخت نگاہوں سے گھورتے اُسے بیڈ پر بیٹھاتے واپس پلٹا تھا۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔ آپ جیسا اِس قدر جذبات سے عاری اور اَن رومینٹک بندہ میں نے آج تک دیکھا کہاں ہے۔۔۔۔ "
پریسا اپنی جانب بہت آہستہ آواز میں بولی تھی۔۔۔ مگر اُس کی بات شاہ ویز کی زیرک سماعتوں سے نہیں بچ پائی تھی۔۔۔۔
"کیا کہا تم نے۔۔۔۔؟؟؟"
وہ واپس پلٹا تھا۔۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ "
پریسا نے گھبرا کر فوراً انکار کیا تھا۔۔۔
"میں اَن رومینٹک ہوں۔۔ یہی کہا ہے نا تم نے۔۔۔؟؟"
شاہ ویز سوالی نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھتے بیڈ پر اُس کے قریب آن بیٹھا تھا۔۔۔
"نن نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔۔"
پریسا اُس کے خطرناک تاثرات دیکھ نفی میں سر ہلاتی پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز اُس کے گرد تکیے پر اپنی ہتھیلی جمائے اُس کے اُوپر نہایت قریب جھکا تھا۔۔۔ پریسا کی دھڑکنیں ساتویں آسمان پر پہنچ چکی تھیں۔۔۔
"شاہ ویز سکندر دور رہو مجھ سے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے سینے پر اپنی کپکپاتی نازک ہتھیلیاں جماتی اُسے دور دھکیلنے کی ناکام کوشش کر گئی تھی۔۔۔
"پریسا آفندی۔۔۔ وہ الفاظ ادا ہی مت کرو۔۔۔ جو برداشت نہ کر پاؤ۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی دونوں کلائیاں دبوچ کر تکیے سے لگا چکا تھا۔۔۔ پریسا نے خوفزدہ نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔
"میرے پاؤں میں درد ہورہا ہے۔۔۔۔"
پریسا نے اُسے پیر کی چوٹ یاد دلانی چاہی تھی۔۔۔
"اور مجھے دل میں درد ہورہا ہے پریسا آفندی۔۔۔ تمہارے درد کا علاج تو ہر ڈاکٹر کے پاس موجود ہے۔۔۔ مگر میرے درد کا علاج ایک انسان کے سوا کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔۔۔۔تو سوچ لو۔۔۔ زیادہ بڑا درد کس کا ہوگا۔۔۔ مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے کی جو یہ کوشش کررہی ہو۔۔۔ ترک کردو اِنہیں۔۔۔ کیونکہ جب میں قریب آیا تو تم اپنے ہوش بھول جاؤ گی ۔۔"
شاہ ویز ضبط سے سُرخ آنکھوں سے بولتا اُس پر جھکا تھا۔۔۔ اور اُس کے کپکپاتے نازک ہونٹوں پر اپنی وحشت کی داستان رقم کرتا اُس کی جان نکال گیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اُس کا کالر سختی سے دبوچ لیا تھا۔۔۔ اُسے شاہ ویز سے ایسے کسی عمل کی موقع نہیں تھی۔۔۔ اُس کی گول گول آنکھوں کی پتلیاں ناقابلے یقین حد تک سکڑ گئی تھیں۔۔۔
"اب مجھ سے دور رہنا۔۔۔ پریسا آفندی۔۔۔۔ "
اُس کے لال پڑتے گال پر اپنے دہکتے لب رکھتا وہ اُس کی غیر ہوتی حالت پر ایک بھرپور نگاہ ڈالتا اُس کے پاس سے اُٹھتا روم سے نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ پریسا کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔ اُس کا پورا وجود ابھی تک کانپ رہا تھا۔۔۔ دل کی دھڑکنیں جگہ پر آنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔
وہ گہرے گہرے سانس لیتی اُٹھ بیٹھی تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد کسی خیال کے تحت اُس کے کانپتے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔
ہمیشہ اُسے سختی سے اپنے قریب کرنے والے اُس کے وحشی کے آج کے لمس میں بے اختیاری کے ساتھ ساتھ بے خودی اور ایک نرمی بھی تھی.۔۔۔
"شاہ ویز سکندر۔۔۔ تم بلیک بیسٹ نہیں ہو۔۔ تم جو بھی ہو بہت اچھے ہو۔۔۔ اور اب صرف میرے ہو۔۔۔ تمہارے اِس نکاح لے بدلے میں تمہاری دی ہر تکلیف بھول چکی ہوں۔۔۔ تمہارے ٹھکرانے کی اذیت بھی اور تمہاری بناوٹی نفرت بھی۔۔۔۔ تمہیں اب پوری طرح میرا تو ہونا ہی ہوگا۔۔۔ "
پریسا بیڈ سے اُٹھتےنارمل انداز میں چلتی واش روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
اُس نے شاہ ویز کے سامنے گرنے کا صرف ناٹک کیا تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ صرف اپنے ستمگر کی توجہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اب آگے بھی وہ یہی کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
پریسا ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ وارٹ روب سے ایک نیوی بلو کلر کا سادہ سا جوڑا نکال گئی تھی۔۔
شاہ ویز کے نکاح کی خبر ملتے ہی اُس کی وارڈ روب سیٹ کر دی گئی تھی۔۔۔۔ جس میں شاہ ویز کی چوائس کے ڈارک کلرز ہی موجود تھے۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ کافی لیے روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ جہاں سامنے ہی حمدان اُسے اپنی پیشانی مسلتا بے چین سا دکھائی دیا تھا۔۔۔
مہروسہ کی نگاہ فوراً گھڑی کی جانب گئی تھی۔۔۔ جہاں گھڑی سوا بارہ کا ٹائم بتا رہی تھی۔۔۔ مہروسہ نے بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا۔۔۔ وہ بھلا کیسے بھول سکتی تھی۔۔۔ یہ نیا شروع ہونے والا دن حمدان کے لیے کتنا اذیت ناک تھا۔۔۔
آج کے دن اُس نے اپنے بھائی کو کھویا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کو بے اختیار حمدان کی لال آنکھیں اور مرجھایا چہرا دیکھ تکلیف محسوس ہوئی تھی۔۔۔ حمدان صدیقی اُس کی تکلیف نہیں سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ اُس سے محبت نہیں کرتا تھا۔۔۔
مگر مہروسہ اُس کی تکلیف اور درد سمجھتی بھی تھی اور اُس کی خاطر کتنی اذیت برداشت کرچکی تھی حمدان کو زرا سا علم بھی نہیں تھا۔۔۔
"آپ کی کافی۔۔۔"
مہروسہ اُس کے قریب جاتی اُس کی جانب کافی کا مگ بڑھا گئی تھی۔۔۔
"وہاں رکھ دو۔۔۔۔"
حمدان بنا اُس کی جانب دیکھے ٹیبل پر رکھنے کا اشارہ کر گیا تھا۔۔۔
"آپ کے سر میں درد ہے۔۔۔ میں سر دبا دوں آپ کا۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کے غصے کے خیال سے دھیمے لہجے میں بولی تھی۔۔۔ جو اِس وقت سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس اپنی وجاہت سے بھرپور شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ مہروسہ کا دل دھڑکائے جا رہا تھا۔۔۔
اُس کی بات پر شاہ ویز نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو فکرمند نگاہوں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔
"اتنی محبت کیوں کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔؟؟"
حمدان اُس کی جانب قدم بڑھاتا قریب آیا تھا۔۔۔
"میں محبت نہیں کرتی آپ سے۔۔۔۔"
مہروسہ فوراً انکاری ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ اُس کے چہرے نے اِس جھوٹ میں اُس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔۔۔۔
"اچھی بات ہے۔۔۔ کرنا بھی مت۔۔۔ بہت خوار کرے گی یہ محبت۔۔۔۔"
حمدان اُسے نصیحت کرتا بیڈ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ وہیں کھڑی اُسے تکتی رہی تھی۔۔۔
جو کافی کا مگ اُٹھاتا ایک ہی سانس میں گرم کافی کا مگ اپنے اندر اُنڈیلتا اپنے اندر کی جلن کم کرنے کی ناکام کوشش کر گیا تھا۔۔۔
مہروسہ حیرت سے منہ کھولے اُسے تکتی رہی تھی۔۔۔ جو اُسے صاف اگنور کرتا بیڈ پر لیٹتا کمبل اوڑھتے آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔
مہروسہ چلتی ہوئی بیڈ کے دوسرے کنارے پر آتی خاموشی سے ٹک گئی تھی۔۔۔ روم کی لائٹ آف تھی۔۔۔ سائیڈ لیمپ کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ خاموشی سے بیٹھی اُسے بے چین سا کروٹ پر کروٹ بدلتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
جب اُس سے رہا نہ گیا تو بیڈ پر کمبل ہٹا کر اُس کی جانب سرکتی وہ اُس کے نہایت قریب آن بیٹھی تھی۔۔۔
"حمدان صدیقی محبت نہیں عشق ہو چکا ہے مجھے آپ سے۔۔۔ آپ کو زرا سی تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتی میں۔۔۔۔"
مہروسہ اُس کی تپتی پیشانی پر اپنی گداز ہتھیلی رکھتے دھیرے سے بولی تھی۔۔۔
حمدان نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔۔۔
مگر بند آنکھوں سے ہی وہ انتہائی قریب موجود اُس کے وجود کی دلفریب مہک اور ہاتھ کا نرم گداز لمس محسوس کرتا اپنے تڑپتے بھڑکتے دل میں سکون اُترتا محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔ پچھلے دو سالوں سے اُس کی یہ رات ہمیشہ جاگتے تکلیف میں ہی گزری تھی۔۔۔ آج تک ایسا مرہم کبھی کسی نے اُس کے زخم پر نہیں رکھا تھا۔۔۔
وہ اُس کی سرگوشی سننے کے باوجود بنا آنکھیں کھولے اُس کا لمس محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔ جو انتہائی محبت اور عقیدت سے اُس کا سر دبا رہی تھی۔۔۔۔
کئی بار اُسے یہی لگتا تھا کہ جو وہ اُسے سمجھ رہا ہے مہروسہ کنول ویسی نہیں ہے۔۔ مگر ہمیشہ یہ اُس کی سوچ ہی رہی تھی۔۔۔ کبھی حقیقت کا رُوپ نہیں دھار سکی تھی۔۔۔
مہروسہ اُس کے خوبرو تیکھے نقوش کو پرسکون ہوتا دیکھ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے حمدان سے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا تھا۔۔۔ جو اُسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتی مسکرا رہی تھی۔۔۔
اگلے ہی لمحے وہ اُس کی گود میں سر رکھتا مہروسہ کی جان حلق میں اٹکا گیا تھا۔۔۔ اُسے حمدان سے ایسے کسی عمل کی اُمید بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔ اُس کے ہاتھ کی موومنٹ ایک تم رک چکی تھی۔۔۔۔
جب حمدان نے آنکھیں کھول کر اُس کے لال چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
اور اُس کی گردن میں بازو حمائل کرتا وہ اُسے اپنی جانب جھکا گیا تھا۔۔ مہروسہ کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا۔۔۔ حمدان نے اُسے اپنے اتنے قریب کرلیا تھا کہ کہ مہروسہ کے گداز ہونٹ اُس کے چہرے سے ٹچ ہورہے تھے۔۔۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تمہارا لمس مجھے سکون پہنچائے گا۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے قریب نہیں لانا چاہتا۔۔۔ مگر تم یہاں بھی اپنا کھیل انتہائی ماہرانہ انداز میں کھیلتی مجھے اپنا عادی بنانے کی کوشش کررہی ہو۔۔۔۔ تم ایک ساحرہ ہو جس کے سحر میں حمدان صدیقی کبھی قید نہیں ہونا چاہتا۔۔۔۔ مگر آج میں کوشش کے باوجود تمہیں خود سے دور نہیں کر پارہا۔۔۔ سکون چاہتا ہوں میں۔۔۔ اور آج مجھے وہ سکون تم سے مل رہا ہے۔۔۔ مجھ سے دور مت جانا۔۔۔ اگر میں دور کرنا چاہوں تب بھی نہیں۔۔۔ میں کمزور نہیں۔۔ اور نہ کبھی کمزور پڑا ہوں۔۔۔ مگر آج میں اپنی ساری تکلیفیں بھول کر سکون چاہتا ہوں۔۔۔ ایسے ہی میرے ساتھ رہو۔۔۔ "
حمدان اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتا مہروسہ کے ہوش گم کر گیا تھا۔۔۔ وہ جو سمجھ رہی تھی کہ اُس کے اتنے والہانہ رویے کے بعد بھی حمدان نے خود کو پتھر کر رکھا ہے ایسا نہیں تھا۔۔۔
حمدان صدیقی کے سینے میں قید پتھر اُس کی محبت سے قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا۔۔۔
"میں کبھی آپ سے دور جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں۔۔۔ آپ میری حقیقت جاننے کے بعد مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے بے دخل کردیں گے۔۔۔۔"
مہروسہ یہ بات صرف دل میں سوچ پائی تھی۔۔۔ حمدان کو کہنے کی جرأت نہیں تھی اُس کے پاس۔۔۔۔
"میں کبھی آپ سے دور جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں۔۔۔ آپ میری حقیقت جاننے کے بعد مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے بے دخل کردیں گے۔۔۔۔"
مہروسہ یہ بات صرف دل میں سوچ پائی تھی۔۔۔ حمدان کو کہنے کی جرأت نہیں تھی اُس کے پاس۔۔۔۔
مہروسہ کی وہ پوری رات جاگ کر گزری تھی۔۔۔ حمدان اُس کے لمس کا مرہم پاتے ویسے ہی اُس کی گود میں سر رکھے سویا رہا تھا۔۔۔ جبکہ مہروسہ اُس کے آرام کے خیال سے زرا سا ہل تک نہیں پائی تھی۔۔۔ اُس نے پوری رات ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے گزار دی تھی۔۔۔
اُس کی ٹانگیں درد کے مارے جیسے بے جان ہوچکی تھیں۔۔۔ مگر اُس کی حمدان صدیقی کے لیے بے پناہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے وہ حمدان کا سر اپنی گود سے ہٹا نہیں پائی تھی۔۔۔ اور شدید تکلیف برداشت کرتی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ ساری رات اُسے دیوانہ وار نگاہوں سے تکتی رہی تھی۔۔۔
وہ جانتی تھی اِس شخص کے ساتھ اُس کی زندگی کا سفر بہت مختصر سا تھا۔۔۔ اِس لیے وہ اُس کے ساتھ ملا ہر لمحہ ایسے ہی کھلی آنکھوں سے جینا چاہتی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بلیک سٹارز جو دنیا والوں کے لیے دہشت اور بُرائی کی علامت مانے جاتے تھے۔۔۔ اُن کی اصل حقیقت کیا تھی اِس سے بہت کم لوگ ہی واقف تھے۔۔۔۔
وہ تینوں ایک ساتھ تو آئے تھے۔۔۔ مگر اُن کے اِس گینگ کو تشکیل دینے کے پیچھے ملک کی سلامتی کا کتنا بڑا ریزن تھا یہ آج تک کوئی نہیں جان پایا تھا۔۔۔ اُن تینوں کا تعلق نہ تو کسی خفیہ ایجنسی سے تھا اور نہ ہی کسی اور ادارے سے۔۔۔
وہ اپنے لیڈر آپ تھے۔۔۔۔
وہ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ فورسز کے تمام ادارے اُنہیں ختم کرنے کے لیے ہاتھ دھو کر اُن کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے ملک میں پلتے شر پسند عناصر کے سر پر لٹکتی ایک ایسی اَن دیکھی تلوار ثابت ہورہے تھے۔۔۔ جس سے نہ تو اُن کے نام نہاد سیاسی لیڈرز بچ پا رہے تھے۔۔۔ اور نہ ہی فورسز کی وردیوں میں چھپی کالی بھیڑیں۔۔۔۔
پہلے پہل شاہ ویز صرف اور صرف شہباز آفندی سے اپنے والدین کا بدلہ لینے کے لیے اپنا ایک منظم گینگ بنا کر اُتنا پاور فل ہونا چاہتا تھا۔۔۔ کہ شہباز آفندی اور اُس کے خاندان کو اپنے ماں باپ پر کیے گئے ظلم کے نتیجے میں عبرت کا نشانہ بنا سکے۔۔۔۔ کیونکہ وہ بہت بچپن میں ہی یہ بات تو بہت اچھے سے سیکھ گیا تھا کہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹا کر وہ سیدھے طریقے سے انصاف نہیں مانگ سکتا تھا۔۔۔
شہباز آفندی اور اُس کی جیب سے پیسہ کھاتے کئی لوگ اُسے اپنے حق تک پہنچنے سے پہلے ہی زندہ نگل جاتے۔۔۔۔
مگر جیسے ہی اُس کی ملاقات حازم سے ہوئی اور حازم کی زندگی کی درد ناک حقیقت پتا چلی اُسے۔۔۔ تب اُسے اندازہ ہوا تھا کہ ظلم صرف اُس کے خاندان کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔۔۔ اور نہ ہی ایک شہباز آفندی ظالم تھا۔۔۔
بلکہ اُس جیسے کئی مظلوم اور شہباز آفندی جیسے بے ضمیر لوگ موجود تھے۔۔۔ جو اپنوں کا ہی خون چوس کر اپنے لالچ کی پیاس بھجانا چاہتے تھے۔۔۔
حازم بہت چھوٹا سا تھا جب اُس کے والدین کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔۔۔۔ اُس سے بڑی اُس کی دو بہنیں تھیں۔۔۔ وہ لوگ حبہ کے فادر اور اپنے چاچو کے ساتھ رہتے تھے۔۔۔۔ جہاں سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا۔۔۔ حازم کے چاچو اور چچی اُن کا بہت خیال رکھتے تھے۔۔۔۔
حازم اپنی بہنوں سے عمر میں کافی چھوٹا تھا۔۔۔ وہ صرف اُس کی بہنیں نہیں اُس کے لیے سگے ماں باپ سے بڑھ کر تھیں۔۔۔ جو اُس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش کا خیال رکھتی تھیں۔۔۔۔
حازم اُن دونوں کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلتا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ ڈھال بن کر اُس کے ساتھ رہی تھیں۔۔۔ مگر ایک دن حازم پر ایسی قیامت ٹوٹی تھی جو اُس نرم دل رکھنے والے انسان کو ایک درندہ بننے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔
حازم جسے ہمیشہ صبح اُس کی بہنیں نہایت ہی محبت سے اُٹھاتی تھیں۔۔۔ ایک صبح اُس کی زندگی میں ایسی آئی تھی۔۔۔ جب اُسے اُٹھانے کوئی نہیں آیا تھا۔۔۔
حازم روز سات بجے اُٹھ کر اپنی بہنوں کے ہاتھوں تیار ہوکر سکول جاتا تھا۔۔۔ مگر اُس دن اُس کی آنکھ دس بجے کے قریب گھر میں ہوتے شور کے احساس سے کھلی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہی باہر نکلا۔۔۔ باہر چھاپا قیامت کا سا سماں دیکھ وہ معصوم کم سن بچہ سہم گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی بہنیں کہیں نہیں تھیں۔۔۔ مگر اُن دونوں کے بارے میں جو باتیں کی جارہی تھیں۔۔۔ وہ سن کر حازم کی زندگی کا سکون چھین گئی تھیں اُس سے۔۔۔۔
"تیری دونوں بہنیں اپنے عاشقوں کے ساتھ منہ کالا کرکے بھاگ گئی ہیں رات کی تاریکی میں۔۔۔۔ جب ماں باپ سر پر نہ ہوں تو لڑکیاں ایسے ہی گل کھلاتی ہیں۔۔۔"
حازم کے کانوں سے اپنے رشتے کی پھوپھو کی کہی بات ٹکرائی تھی۔۔ صرف وہی نہیں وہاں موجود ہر شخص اُس کی بہنوں پر ایسے ایسے الزام لگا رہا تھا کہ حازم کی روح تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
نجمہ بیگم لوگوں کے منہ بند کرنے میں ہلکان ہورہی تھیں۔۔۔ جبکہ اُس کے چچا ایک جانب جھکے کندھوں کے ساتھ چہرا جھکائے بیٹھے تھے۔۔ چھوٹی سی حبہ پنک فراک پہنے دیوار کے ساتھ لگی سہمی نگاہوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کی نظریں حازم پر آن ٹکی تھیں۔۔۔ جو لال چہرے کے ساتھ نفی میں سرہلاتا اُن سب لوگوں کے منہ بند کردینا چاہتا تھا۔۔۔
مگر اُس میں ابھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اُن لوگوں سے لڑ پاتا۔۔۔۔
لیکن اُس کا دل گواہی دے رہا تھا اُس پر جان نچھاور کرنے والی اُس کی بہنیں کچھ غلط نہیں کرسکتی تھیں۔۔۔ نہ ہی اُسے چھوڑ کر جا سکتی تھیں۔۔۔ وہ پندرہ سال کا تھا اتنا چھوٹا بالکل بھی نہیں تھا کہ لوگوں کی باتوں پر یقین کر لیتا۔۔۔۔
اُس دن کے بعد سے اُسے بالکل چپ لگ گئی تھی۔۔۔ اُس نے اپنے چچا چچی سے چھپ کر اپنی بہنوں کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔۔ مگر اُن کا سراغ کہیں نہیں مل پایا تھا۔۔۔ جب ایک دن اُس نے اپنے چچا ہاشم علی کو جو بات کرتے سنے وہ ایک بار پھر اُسے ہلا کر رکھ گئی تھی۔۔۔
اُنہیں یہی لگا تھا کہ حازم بھی باقی سب کے ساتھ شادی پر گیا ہوا ہے۔۔۔ مگر حازم طبیعت خرابی کی وجہ سے گھر پر ہی تھا۔۔۔
ہاشم صاحب کے دوستوں کی آمد کا سن کر حازم ویسے ہی باہر نکلا تھا۔۔۔۔ مگر ڈرائنگ روم کے دروازے پر آتے اُسے اپنے چچا کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
جو اُس کی بہنوں کے بارے میں ہی بات کررہے تھے اپنے قریبی دوست سے۔۔۔۔
"ویسے آج تک اتنے مہنگے داموں کوئی لڑکی نہیں بکی جتنا مول تمہاری بھتیجیوں کا لگا ہے۔۔۔ کیا دھول جھونکی ہے تم نے پورے خاندان والوں کی نگاہوں میں۔۔۔ یہاں سب کے سامنے بھی معزز بن گئے۔۔۔ اور وہاں اپنا کاروبار بھی چمکا لیا۔۔۔ میں تو بہت حیران ہوں کہ تمہیں یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا۔۔۔ گھر میں اتنی حسین لڑکیاں ہوتے ہوئے بھی باہر خوار ہوتے رہے۔۔۔"
وہ شخص اور بھی نجانے کے کچھ بول رہا تھا۔۔۔ مگر حازم کو لگا تھا وہ اب کبھی کچھ بھی سن نہیں پائے گا۔۔۔ اُس کی بہنوں پر اتنا بڑا ظلم کیا گیا تھا اور اُسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔
حازم دیوار پر لٹکی ہاشم علی کی رائفل اُتارتا غصے سے اُنہیں مارنے کے لیے ڈرائنگ روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جب ایک کچن سے نکلتے خانساماں نے بھاگ کر آتے اُسے راستے میں ہی روک لیا تھا۔۔۔۔
"نہیں حازم بابا۔۔۔ آپ کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔ یہ لوگ اِس وقت بہت طاقت ور ہیں۔۔ وہ آپ کو ختم کردیں گے۔۔۔ ہم اپنی معصوم بچیوں کا بدلہ ضرور لیں گے۔۔۔ مگر ایسے نہیں۔۔۔ "
اُن کے خانساماں جو اُس کے والدین کے دور سے یہاں کام کررہے تھے۔۔۔ وہ بھی ہاشم علی کی یہ ظلم کی داستان سن چکے تھے۔۔۔۔ اُن کی آنکھوں میں بھی غصے اور دکھ کے مارے آنسو تھے۔۔۔ مگر وہ حازم کو فلحال کوئی جذباتی قدم اُٹھانے کی اجازت نہیں دیے رہے تھے۔۔۔
کیونکہ وہ جانتے تھے اندر بیٹھے افراد اِس بچے کو نہیں چھوڑتے۔۔۔
"میں اِس کمینے کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔ میری بہنوں پر اتنا بڑا ظلم کیا اِس نے۔۔۔ میں اِسے مار دوں گا۔۔۔ میں کیسا بھائی تھا اُن کا۔۔۔ اُن کی حفاظت نہیں کر پایا۔۔۔ نجانے وہ کس حال میں ہونگی۔۔۔۔"
حازم درد سے بلبلاتا اپنے بال نوچ رہا تھا۔۔۔ مگر اُس وقت اُسے سنبھالنے کے لیے وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
اُس نے اپنے خانساماں کی بات سمجھتے پہلے خفیہ طور پر اپنے چچا کی جاسوسی کرتے اپنی بہنوں کا سراغ لگانا چاہا تھا۔۔۔
اِس دوران وہ نجمہ بیگم سے ضد کرکے اپنی بچپن کی محبت حبہ امتشال کو اپنے نام لگوا گیا تھا۔۔۔۔وہ جانتا تھا آنے والا وقت شاید اُس کے حق میں نہیں ہونے والا تھا۔۔ اِس لیے وہ اب حبہ کو کھونے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُس کے چچا کے کسی بھی بُرے فعل میں حبہ یا نجمہ بیگم کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔۔
نہ ہی وہ اُنہیں کوئی سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ حبہ اُس کی محبت تھی جس پر وہ کسی کی بُری نظر نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا۔۔۔
حازم کو پورے دو مہینے لگ گئے تھے اپنی بہنوں کا پتا لگوانے میں۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ اپنی منزل کے قریب پہنچا۔۔۔ اُسے لگا تھا وہ ایک بار پھر ہار گیا تھا۔۔۔
اُس کے چچا نے اُس کی بہنوں کو دوسرے ملک سمگل کردیا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنی عزت بچا کر اُسی دن حرام موت کو گلے لگا گئی تھیں۔۔۔
اُن دونوں نے اپنی رگ کاٹ کر اپنی زندگی کی ڈور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کاٹ دی تھی۔۔۔۔
اُس دن حازم بہت بُری طرح ٹوٹا تھا۔۔۔ اُس کے اندر کی انسانیت اُس دن جیسے ختم ہوچکی تھی۔۔۔ وہ پوری دنیا کو تہس نہس کردینا چاہتا تھا۔۔۔ جس کا آغاذ اُس نے اپنے سب سے بڑے مجرم سے کیا تھا۔۔۔
وہ گھر سے اپنے چچا کے ساتھ کسی کام سے نکلا تھا۔۔ مگر آدھے راستے میں آکر اُن پر حملہ آور ہوتے اُس نے اُنہیں رسیوں سے باندھ دیا تھا۔۔۔۔۔
پہلے اُس نے اُن سے اپنی بہن کی بے گناہی کا ثبوت ریکارڈ کروایا تھا۔۔۔ جو وہ پوری دنیا کو دکھا کر۔۔۔ اُن پر لگا بدکرداری کا داغ ہٹوانا چاہتا تھا۔۔۔
اور پھر اُس نے اُن کی آہوں اور سکیوں سنتے اپنے دل کو سکون پہنچاتے گاڑی کو آگ لگاتے اُنہیں زندہ جلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔
اُس کے ہاتھ ثبوت تھا وہ واپس نجمہ بیگم اور حبہ کے پاس جاکر اُنہیں سب بتا سکتا تھا۔۔۔ مگر وہ جانتا تھا اُس کے ایسا کرنے سے اپنے باپ کو اپنا آئیڈیل ماننے والی اُس کی نازک حبہ ٹوٹ جائے گی۔۔۔ اور نہ کبھی زندگی میں کسی پر اعتبار کر پائے گی۔۔۔
اُس کے باپ کی حقیقت جان کر دنیا والوں کے طعنے اُسے زندہ درگور کردیں گے۔۔۔ خود پر اتنا بڑا ظلم ہونے کے باوجود حازم سالار یہاں بھی اپنی محبت کے بڑے پن کا ثبوت دیتا وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فرار ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
تب اُس کی ملاقات شاہ ویز سے ہی ہوئی تھی۔۔۔ جو اُسی کی طرح پوری دنیا سے خفا ہر ایک سے انتقام لینے کا جذبہ رکھتا تھا۔۔۔۔
الگ الگ وہ دونوں ٹوٹے بکھرے تھے۔۔۔ مگر ایک ساتھ آتے وہ اتنے مضبوط ہوگئے تھے کہ پوری دنیا کو ہلا دینے کی طاقت رکھتے تھے۔۔۔۔ اُن دو کے مل جانے سے سب کچھ مکمل ہونے کے باوجود ایک کمی سی رہ گئی تھی۔۔۔ جس کمی کو مہروسہ کنول نے آکر پورا کردیا تھا۔۔۔۔ وہ کہنے کو صرف ایک گینگ تھا مگر وہ کئی مظلوموں کا سہارا تھا۔۔۔ اُن کا یہ گینگ ہمیشہ ظالموں پر ہی قہر برساتا آیا تھا۔۔۔۔ جو لوگ عدالتوں تک پہنچ کر انصاف نہیں مانگ پاتے تھے۔۔۔۔ اُنہیں بلیک سٹارز اپنے انداز میں انصاف دلاتے تھے۔۔۔۔۔
وہ ہمیشہ سے اچھے کام کرتے آئے تھے۔۔۔ جس بارے میں پوری طرح آگاہ ہوتے ہوئے بھی اُن کی فورسز کے ادارے،، سیاستدان اور یہاں تک کہ میڈیا والے ہمیشہ اُن کے حوالے سے ہر جگہ دہشت اور غلط خبریں پھیلا کر لوگوں کے دلوں میں اُن کے لیے نفرت اور خوف و حراس پھیلانے کی کوشش کرتے آئے تھے۔۔۔۔
مگر کبھی بلیک سٹارز نے اِن جھوٹے الزاموں کا جواب نہیں دیا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ اپنے عمل سے اپنا آپ اپنی عوام کے بیچ منواتے آئے تھے۔۔۔
اُن کے نام سے عوام سے زیادہ بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان اعلٰی افسران اور بے ضمیر سیاستدان ڈرتے تھے۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ کئیوں کو ایسے ہی موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔۔۔۔۔۔
مگر آج تک اتنی پلاننگز کے باوجود کوئی اُن کا بال بھی بیکار نہیں کر پایا تھا۔۔۔
جب ایک بار اُن کو ختم کرنے کے لیے تمام اداروں نے مل کر اپنی ایک ٹیم تیار کی تھی۔۔۔ جس کا لیڈر اُنہوں نے اپنا ہی ایک پولیس آفیسر بنایا تھا۔۔۔ جو کہنے کو تو پولیس آفیسر تھا۔۔۔ درحقیقت وہ بھی کالے دھندوں میں ملوث تھا۔۔۔ جس کے کام میں ہمیشہ بلیک سٹارز آکر اُسے پورا نہیں ہونے دیتے تھے۔۔۔۔
اور وہ شخص تھا حمدان صدیقی کا بڑا بھائی رضوان صدیقی۔۔۔۔ جس کی تربیت صدیقی صاحب نے حمدان کی طرح بہت اچھی کی تھی۔۔۔ مگر بُری سنگت میں پڑ کر وہ اپنا ایمان بیچ بیٹھا تھا۔۔۔۔
اُسے بھی پیسے کمانے کا شوق چڑھا تھا۔۔۔ جس میں وہ حلال اور حرام کا فرق بھلائے بس اونچے سے اونچے عہدے پر جانا چاہتا تھا۔۔۔۔ حمدان اُن دنوں تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ گیا ہوا تھا۔۔۔
رضوان کی بیوی مریم جس نے صرف حمدان کی خاطر اُس سے شادی کی تھی۔۔۔۔ وہ بہت پہلے ہی اِس سب سے آگاہ ہوچکی تھی۔۔۔ دوسری جانب صدیقی صاحب بھی آگاہ تھے۔۔۔ اور رضوان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے تھے۔۔۔
مگر رضوان آئے روز پستی سے پستی میں ڈوبتا جارہا تھا۔۔۔۔ اُس نے بہت غلط کام کرنا شروع کردیئے تھے۔۔۔ جس کی وجہ سے اکثر اُس کا مریم سے جھگڑا ہوتا تھا۔۔ فرح جو مریم کی نیت سے واقف تھی۔۔۔ وہ یہی سمجھتی رہی تھی۔۔ کہ مریم جان بوجھ کر اُس کے بھائی کو مینٹلی ٹارچر کر رہی ہے۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اِس ٹینشن کا ریزن تو اُس کا بھائی خود تھا۔۔۔۔
حمدان نے پاکستان واپس لوٹتے ہی پولیس فورس جوائن کر لی تھی۔۔۔جب آہستہ آہستہ اُس کے علم میں اپنے بھائی کی حقیقت آنا شروع ہوئی تب تک بہت سارا پانی سر سے گزر چکا تھا۔۔۔۔
وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
اُس نے اپنے بھائی کو روکنے اور سیدھے راستے پر لانے کی بہت کوشش کی تھی۔۔۔ وہ اپنے بابا سے اور باقی سب گھر والوں سے بھی شدید غصہ تھا جنہوں نے اتنے ٹائم اُسے اندھیرے میں رکھ کر بہت بڑا نقصان کردیا تھا۔۔۔
اُس کا بھائی ملک کی ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کے ہاتھوں کٹ پتلی بنا ہوا تھا ۔۔ جو وہ اُسے کرنے کو کہتے تھے وہ کر گزرتا تھا۔۔۔ چاہے وہ کام کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو۔۔۔۔
رضوان صدیقی کے بُرے فعل دن بدن بڑھتے کی جارہے تھے۔۔۔ جب ایک دن حمدان کو اپنے دل پر پتھر رکھ کر وہ کام کرنا پڑا تھا جو وہ کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
حمدان نے رات کی تاریکی میں رضوان کے روم میں جاکر اُسے جان سے مار دیا تھا۔۔۔ اُس کا اپنا بھائی اُس کے ملک کے لوگوں کے لیے ناسور بن چکا تھا۔۔۔ نجانے کتنے گھروں کے اُجڑنے اور عزتیں لُٹنے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔۔
جو ملک کا محافظ ہونے کی وجہ سے حمدان صدیقی نہیں برداشت کر پایا تھا۔۔۔ رضوان کی موت کو پورسٹ مارٹم میں خودکشی کا نام دلوایا گیا تھا۔۔۔
حمدان اپنے فادر سے سخت ناراضگی کے باعث قطع تعلق کرچکا تھا۔۔۔ مگر کہیں نہ کہیں اِس قطع تعلق کا بڑا ریزن یہی تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے نگاہیں ملانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا خود کو۔۔۔۔۔
حمدان اپنے فادر سے سخت ناراضگی کے باعث قطع تعلق کرچکا تھا۔۔۔ مگر کہیں نہ کہیں اِس قطع تعلق کا بڑا ریزن یہی تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے نگاہیں ملانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا خود کو۔۔۔۔۔
اُس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بڑے بھائی کو قتل کیا تھا۔۔۔ جو بے شک غلط نہیں تھا۔۔۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اُس کا بھائی مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا۔۔۔ اور ایسے ہی انتشار پھیلا کر مظلوموں پر ظلم کرتا رہتا۔۔۔
حمدان نے رضوان کے روم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کروا دیا تھا۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا رضوان کا نام اخباروں میں اُچھلے اور اُس کے بُرے فعل سامنے آئیں۔۔۔
وہ مرنے کے بعد اب اپنے بھائی کو رسوا نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔۔۔ اِس لیے یہاں پر خود غرضی کا مظاہرہ کرتے اُس نے رضوان کے پاس موجود اُس سیاسی پارٹی کے خلاف تمام ثبوت اپنے پاس محفوظ کر لیے تھے۔۔۔
اور اب کبھی اُنہیں سامنے نہیں لانا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ اچھے سے یہ بھی جانتا تھا کہ یہ چند ثبوت اُس پارٹی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔۔۔
شاہ ویز ، حازم اور مہروسہ کے گینگ کا اب سب سے بڑا مشن اُسی سیاسی پارٹی کو بے نقاب کرکے اُس کا نام تک ملک سے ختم کرنا تھا جو بظاہر تو دنیا والوں کے لیے سب سے معزز پارٹی تھی۔۔۔ لیکن اُن کی حقیقت بہت ہی بُری تھی۔۔۔۔
جن کا لیڈر تھا ملک اقبال کیانی۔۔۔۔ وہ بہت سالوں سے چیئرمین کی کرسی پر بیٹھا عوام کی واہ واہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پیٹھ پیچھے اُنہی کی رسیاں کاٹ رہا تھا۔۔
اُس کی پارٹی کا ہر بندہ کرپٹ تھا۔۔۔ جن میں سے بہت سارے لیڈروں کو تو بلیک سٹارز موت کے گھاٹ اُتار چکے تھے۔۔۔
اور اُن سب کے ثبوت بھی اپنے پاس ریکارڈ کر رکھے تھے۔۔۔ لیکن جب تک اقبال کیانی کے خلاف اُنہیں ثبوت نہ ملتا وہ تب تک لوگوں کے دلوں میں اُس کے لیے نفرت نہیں بھر سکتے تھے۔۔۔ اُسے ختم کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر وہ اُنہیں بے نقاب کرکے مارنا چاہتے تھے۔۔۔
جن کے خلاف کافی جد تک ثبوت حمدان کے پاس موجود تھے۔۔۔۔ وہ خود حیران تھے کہ اتنا ایماندار، قابل اور نڈر ایس پی اتنے اہم ثبوت چھپا کر کیوں بیٹھا تھا۔۔۔
لیکن جب اُن کے سامنے حقیقت کھلی تو تب وہ حمدان صدیقی کی ایمانداری سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پائے تھے۔۔۔۔
جس نے اپنی ڈیوٹی اور اپنے ملک کے ساتھ ایمانداری اور مخلص پن کا ثبوت دیتے اپنے بھائی تک کو نہیں چھوڑا تھا۔۔۔
مہروسہ کا صدیقی ولا میں جانے کا مقصد ہی یہی تھا۔۔۔ اُسے وہ ثبوت حاصل کرنے تھے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ پوری طرح حمدان صدیقی کی محبت میں گرفتار ہوجائے گی۔۔۔۔
اور اُس شخص کو بے پناہ چاہے گی جو اس سے شدید نفرت کرتا تھا۔۔۔۔
حازم حبہ کے سامنے کبھی نہیں آنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اُس دن اُسے سامنے دیکھ وہ خود سے کیا وعدہ بھول گیا تھا۔۔۔ حبہ کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ وہ برداشت نہیں کر پایا تھا۔۔۔ وہ چاہتا تھا حبہ اُس سے محبت کرے۔۔۔
وہ اتنی جلدی اپنی سچائی حبہ کے سامنے نہیں لانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اُس دن اپنی ایس پی کے پلان کے آگے ہار مانتے اُسے سامنے آنا پڑا تھا۔۔۔۔
لیکن حبہ اُس سے جو چاہتی تھی۔۔۔ حازم ویسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ اُس کے لیے اپنی زندگی سے پہلے بلیک سٹارز تھے۔۔۔ اور اُن کا مشن تھا۔۔ اپنے ملک کو اِن نام نہاد سیاسیوں اور معزز لوگوں کے قہر سے بچانے کا۔۔۔۔ اِس لیے اُس نے حبہ کو خود سے بدظن کرنے کے لیے اُس سچ کو اِس طرح پیش کیا تھا کہ وہ اُس سے نفرت کرنے لگے۔۔۔۔
اُس نے صرف خود کو اُس کے بابا کا قاتل بنا کر پیش کیا تھا۔۔۔ اُس کے بابا کی حقیقت اشکار کرکے اُس کا دل نہیں توڑا تھا۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ایسا کرنے سے اُس کی حبہ ناراض ہوکر اُس سے اتنی دور چلی جائے گی۔۔۔
جو کام فورسز اور باقی ایجنسی اپنے ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے نہیں کر پارہے تھے۔۔۔ وہ کام اب تک بلیک سٹارز کرتے آئے تھے اور اب آگے بھی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔
اُنہیں پرواہ نہیں تھی کہ دنیا اُنہیں بُرا کہے یا اچھا۔۔۔ اُنہیں صرف اپنی عوام اور اپنے لوگوں کی پرواہ تھی۔۔۔ جو اب اداروں سے زیادہ مشکل وقت میں اُنہیں یاد کرتے تھے۔۔۔
اور ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ بلیک سٹارز کبھی کسی کی پکار پر وہاں نہ پہنچے ہوں۔۔۔۔ ہمیشہ ہر جگہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر وہ پہنچے تھے۔۔۔
وہ کہنے کو بلیک سٹارز تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں سیاہیاں بھر کر باقی لوگوں کی زندگیاں روشن کر رکھی تھی۔۔۔
بلیک سٹارز کی دہشت سے لوگ کانپتے ضرور تھے۔۔۔ مگر صرف وہ لوگ جنہوں نے کچھ غلط کیا ہوتا تھا۔۔۔ وہ بلیک سٹارز تھے جو اب کسی اور کے انصاف کرنے کا انتظار نہیں کرتے تھے۔۔۔
بلکہ خود ہی انصاف کرتے تھے۔۔۔ اور اُن کا کیا گیا انصاف سہنا آسان کبھی نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان کی آنکھ کھلی تو اُس کی نظریں سیدھی مہروسہ کی جانب گئی تھیں۔۔۔ جو اُسی طرح اُس کا سر اپنی گود میں رکھے ہوئے تھی۔۔۔۔ اُس کا اپنا سر بیڈ کراؤن سے ٹکا ہوا تھا۔۔۔۔
شاید ابھی کچھ دیر پہلے ہی اُس کی آنکھ لگی تھی۔۔ اُس کے چہرے پر تھکن ، بے آرامی اور تکلیف کے آثار دیکھ حمدان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ آج ایک بار پھر اُس کا دل اِس لڑکی کی محبت پر ایمان لے آیا تھا۔۔۔ جو اُس کے سکون کے خیال سے خود اتنی اذیت برداشت کر گئی تھی۔۔ حمدان اُٹھ کر نجانے کتنی ہی دیر اُس کے صبیحہ دلکش چہرے کی جانب دیکھے گیا تھا۔۔۔
ہر وقت اُسے اپنے سحر میں جکڑتی اِس لڑکی کی قاتل نگاہیں اِس وقت بند تھیں۔۔۔ شیفون کا دوپٹہ اُس کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا۔۔۔ حمدان نے ہاتھ بڑھا کر نہایت ہی احتیاط سے اُس کی گردن سے سختی سے کھنچا دوپٹہ ہٹانا چاہا تھا۔۔۔۔
جو شاید وہ حمدان کے نیچے آجانے کی وجہ سے کھینچ نہیں پائی تھی۔۔۔۔ اور اپنی گردن میں نجانے کتنی دیر سے یہ تکلیف برداشت کرتی رہی تھی۔۔۔۔
حمدان کے دوپٹہ نکالتے ہی اُس کی دودھیا گردن حمدان کے سامنے آن ٹھہری تھی۔۔۔۔ جو ریشمی دوپٹے کی رگڑ کی وجہ سے کئی جگہوں سے لال ہوچکی تھی۔۔۔۔
حمدان نے اُس کی ٹانگوں کو سیدھا کیا تھا۔۔۔ جب نیند میں بھی مہروسہ کے ہونٹوں سے سسکاری نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اُس کی تکلیف کا سوچ حمدان کو خود پر شدید غصہ آیا تھا اور ساتھ میں مہروسہ پر بھی۔۔۔۔
وہ کیوں اُس کی اتنی نفرت کے بدلے اُسے اتنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ اب تک اُس کے ساتھ ہر طرح سے غلط کر چکا تھا۔۔۔ اُسے نجانے کتنی اذیت دی تھی۔۔۔ مگر وہ اُسے پھر بھی یوں دیوانوں کی طرح چاہتی تھی۔۔۔
حمدان اُس کے نازک وجود کو بانہوں میں بھرتا اُسے آرام دہ حالت میں بیڈ پر لٹاتا اُس کا سر تکیے پر رکھ گیا تھا۔۔۔۔۔
غلافی گھنیری پلکوں سے سجی سیاہ آنکھیں جن میں کاجل ڈال کر اُنہیں مزید قاتل بناتی وہ اُس کے دل پر پوری طرح حملہ آور ہونے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔۔ کٹاؤ دار گلابی گداز لبوں کے اُوپر سجا سیاہ تل کسی کا بھی ایمان ڈگمگانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔ گلابیاں چھلکاتے ملائم گال اور چھوٹی سی ستواں ناک۔۔۔۔۔
وہ دلکشی کی مورتی تھی۔۔۔۔ جس میں حمدان صدیقی خود کو گم ہونے سے نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔ وہ جھکا تھا اور باری باری اُس کے دونوں گالوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کسمسائی تھی۔۔۔۔ جب حمدان فوراً پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔۔۔۔ جو نجانے کیوں حمدان برداشت نہیں کر پارہا تھا۔۔۔
اُس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے انٹر کام سے ملازمہ کو پین کلر لانے کو کہا تھا۔۔۔۔
جب اُس کی آواز سنتے اور اُسے اپنے پاس سے اُٹھتا محسوس کرتے مہروسہ کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔
"آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔؟؟"
مہروسہ نے جلدی سے بیڈ سے اُٹھ کر اُس کے پیچھے جانا چاہا تھا۔۔۔ جب ٹانگوں میں ہوتے درد کی وجہ سے وہ نیچے اُترتے ہی بُری طرح لڑکھڑا گئی تھی۔۔۔
حمدان نے جلدی سے اُس کے قریب آتے اُسے اپنی بانہوں میں تھام لیا تھا۔۔۔۔
وہ اُس کے سہارے کھڑی اُس کے سینے سے آن لگی تھی۔۔۔ تکلیف کے مارے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
"میری وجہ سے خود کو اتنی تکلیف میں کیوں ڈالا۔۔۔۔؟؟ میرے آرام کا اتنا خیال کیوں ہے تمہیں۔۔۔۔"
حمدان اُسے اپنے سہارے اُٹھائے کھڑا سرد نگاہوں سے اُسے گھور رہا تھا۔۔۔ جو اُسے پرسکون کھڑا دیکھ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔ وہ ایسے ہی اُس کی زندگی کی ہر تکلیف اپنے اُوپر لے لینا چاہتی تھی۔۔۔
"میں نے ریزن آپ کو بتایا تھا رات کو۔۔۔ میرا مجھ پر اختیار نہیں ہے آپ کے معاملے میں۔۔۔ بہت بے بس ہوں میں۔۔۔۔ "
مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر نیچے گرتے حمدان کو بے چین سا کر گئے تھے۔۔۔ وہ اِس لڑکی کے معاملے میں اپنے دل کو پتھر کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن اِس وقت وہ موم کی طرح لمحہ با لمحہ اِس کی دیوانگی کے آگے پگھلتا جا رہا تھا۔۔۔
آج تک اُس کے لیے کبھی کسی نے اتنی اذیت برداشت نہیں کی تھی۔۔ کیونکہ اُس نے ہر انسان کو اپنے بُرے رویے کی وجہ سے خود سے نفرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔ لیکن ایک واحد یہ لڑکی تھی۔۔۔ جس کے ساتھ اُس نے اب تک سب سے زیادہ نارواں سلوک رکھا تھا۔۔۔ مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ اُس کی اثیر ہو رہی تھی۔۔۔ اور ساتھ اُس کو بھی اپنا دیوانہ بنانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔
"تم جانتی ہو مجھے تم سے محبت نہیں ہے اور شاید نہ کبھی کر پاؤں۔۔۔ پھر کیوں خوار کررہی ہو خود کو میرے پیچھے۔۔۔۔۔ تمہیں یہاں کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔۔"
حمدان کی نگاہیں اُس کی دودھیا گردن پر بنے سُرخ نشانوں پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔
جو اُسی کے دیئے ہوئے تھے۔۔۔۔
اُس کے انداز پر مہروسہ کو اچانک اپنے بنا دوپٹے کے ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔
اُس نے فوراً حمدان کے حصار سے نکلنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب اُسی لمحے حمدان اُس اپنے مزید قریب کھینچتا اُس کی گردن پر جھکا تھا۔۔۔۔ اور اُس کے زخم پر اپنے لبوں کا مرہم رکھتا اُس کا رات کا قرض اُتار گیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کی سانسیں منتشر ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہ حمدان کا بدلہ بدلہ انداز نوٹ کر چکی تجی مگر اُسے حمدان سے اِس استحقاق بھرے عمل کی اُمید بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔ اُس کا چہرا لال انگارہ ہوچکا تھا۔۔۔۔
ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اپنی محبت کا اظہار کرنے والی اپنے ایس پی کے میدان میں آتے ہی ایسی ہی سہمی ہرنی بن جایا کرتی تھی۔۔۔۔
وہ اِس لڑکی کو محبت کے وار سے زخمی کرکے اُس کی اصلیت سامنے لانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر وہ ہر بار محبت کا ایسا امتحان پار کر جاتی تھی کہ حمدان چاہنے کے باوجود اپنے کہے پر عمل نہیں کر پاتا تھا۔۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ اُس کے سحر میں جکڑتا جا رہا تھا۔۔۔ اِس وقت بھی سرزد کیا گیا اُس کا عمل بالکل بے اختیاری تھا۔۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں۔۔۔
حمدان اُس کے لرزتے کانپتے وجود کو بانہوں میں اُٹھاتا بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
"خاموشی سے یہیں بیٹھو۔۔۔ اور آرام کرو۔۔۔ میں جانتا ہوں تم رات بھر نہیں سوئی۔۔۔۔ "
حمدان اُس کی جھکی نگاہوں اور کپکپاتے ہونٹوں پر ایک گہری نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ اپنے دھڑک دھڑک کر بے قابو ہوتے دل پر ہاتھ رکھتی اپنی دھڑکنوں کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔۔
اُسے آج پہلی بار حمدان کی آنکھوں میں اپنا عکس دکھائی دیا تھا۔۔۔ جس پر خوش ہونے کے بجائے وہ شدید ٹینشن میں آچکی تھی۔۔۔ محبت کا درد کتنا شدید ہوتا تھا۔۔۔ اُس سے بڑھ کر بھلا کون سمجھ سکتا تھا۔۔۔
وہ حمدان کو اِس اذیت میں مبتلا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ اُسے اب جلد از جلد رضوان کے کمرے تک پہنچ کر وہ ثبوت حاصل کرکے حمدان کے گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا تھا۔۔۔۔
یہ بات سوچتے ہی مہروسہ کو اپنا وجود بے جان ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں نے حبہ کو روکنے کی بہت کوشش کی۔۔۔ مگر وہ آپ پر بہت غصہ تھی بیٹا۔۔۔ اُسی غصے میں وہ ہم سے اتنی دور چلی گئی۔۔۔ "
نجمہ بیگم اُس کے سینے سے لگ کر رو رہی تھیں۔۔۔ جبکہ حازم بالکل ساکت کھڑا اُنہیں حوصلے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہہ پایا تھا۔۔۔۔
وہ بنا کچھ بولے وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس سے اُس کی زندگی بھر کا اثاثہ چھین لیا گیا ہو۔۔۔۔۔
گاڑی میں آن بیٹھتے اُس نے گاڑی فل سپیڈ پر دوڑانہ شروع کردی تھی۔۔۔۔ اُس کا دل چاہا رہا تھا وہ خود کو ختم کردے۔۔۔۔
وہ سیدھا بلیک ہاؤس پہنچا تھا۔۔۔ جہاں سامنے ہی اُسے شاہ ویز فون پر بات کرتا نظر آیا تھا۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ میں اُس نے سیگریٹ تھام رکھا تھا۔۔۔۔ حازم کو دیکھ اُس کی آنکھیں روشن ہوئی تھیں۔۔۔
"آگئے تم۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُسے اپنے سامنے کرسی پر گرتے دیکھ فون رکھتا اُس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
"تم خود سے گستاخی کرنے والوں کو کبھی نہیں بخشتے نا۔۔۔ میں نے بھی کل رات تمہیں بہت بُرا بھلا کہا۔۔۔ اُسی کی سزا دے دو مجھے۔۔۔ ختم کردو مجھے۔۔۔ میں یہ تکلیف برداشت نہیں کر پارہا۔۔۔ اپنے تمام سورسز لگا چکا ہوں۔۔۔ مگر ہر جانب سے یہی اطلاع مل رہی ہے کہ حبہ اُس جہاز میں موجود تھی۔۔۔ اُس کے جہاز میں داخل ہونے کی ریکارڈنگ بھی دیکھ چکا ہوں۔۔۔ مگر پھر بھی میرے دل کو یقین نہیں آرہا کہ حبہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکی ہے۔۔۔۔"
حازم تھکے تھکے لہجے میں بولتا شاہ ویز کو بھی اپنے ساتھ اذیت میں مبتلا کر گیا تھا۔۔۔
"ہمیشہ مجھے اور مہروسہ کو حوصلہ دیتے آئے ہو۔۔۔ ہمیں کبھی ٹوٹنے نہیں دیا تم نے۔۔۔ تو پھر آج کیوں ٹوٹ رہے ہو۔۔۔ پوری زندگی کتنی اذیت برداشت کی ہے تم نے۔۔۔ پھر اب کیوں نہیں برداشت کر پارہے۔۔۔ میں اپنے گینگ کے سب سے مضبوط انسان کو یوں ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ہے۔۔۔"
شاہ ویز بول رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ حازم سختی سے آنکھیں میچے نفی میں سر ہلا گیا تھا۔۔۔۔
"نہیں یہ درد برداشت نہیں کرسکتا میں۔۔۔ میرے زخموں کا مرہم اور میرے ہر درد کا مداوا تھی وہ۔۔ میں کیسے اُسے بھول جاؤں۔۔۔۔ جینا بھول سکتا ہوں شاہ مگر اُسے نہیں بھول سکتا۔۔۔ نہیں رہ پاؤں گا میں اُس کے بغیر۔۔۔ اِسی لیے بہتر یہی ہے میں خود کو ختم کرلوں۔۔۔۔"
حازم نے پسٹل اُٹھاتے اپنی کنپٹی پر رکھی تھی۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں مرنے دوں گا حازم سالار۔۔۔ تم اور مہروسہ میرے لیے میری زندگی سے بڑھ کر ہو۔۔۔۔ تم دونوں پر زرا سی آنچ آنے سے پہلے شاہ ویز سکندر خود کو قربان کردے گا۔۔۔۔ میں تمہیں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں۔۔۔ میں ہر شے پر اختیار رکھتا ہوں۔۔۔ پھر تمہاری زندگی کو تم سے دور کیسے جانے دے سکتا تھا۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات پر حازم نے جھٹکے سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو سیگریٹ کا گہرا کش لیتا کرسی کی پشت سے سر ٹکاتا اُسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔ اُسے کچھ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔۔۔ وہ شاہ ویز کے بنا بولے ہی سب سمجھ چکا تھا۔۔۔۔
"پریسا بالکل ٹھیک کہتی ہے تم وحشی درندے سے کم نہیں ہو۔۔۔۔ "
حازم اُس کے ایک جملے میں دبی بات سمجھ چکا تھا۔۔۔۔ اور جیسے اُس کے تڑپتے دل کو قرار آگیا تھا۔۔۔
"وہ پاگل ہے۔۔۔۔۔ اور پاگل کچھ بھی بولتے ہیں۔۔۔"
پریسا کے ذکر پر شاہ ویز کی آنکھوں میں اُبھر کر معدوم ہوتی ہلکی سی مسکراہٹ حازم کو حیران کر گئی تھی۔۔۔۔ آج پہلی بار اُس نے شاہ ویز کے چہرے پر یہ نہایت معمولی سی مسکان دیکھی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے بنا کچھ بولے اُس کی جانب ایک انویلپ بڑھا دیا تھا۔۔۔
وہ دونوں وہیں بیٹھے تھے جب اُن کے کانوں میں پریسا کی نسوانی دلخراش چیخ ٹکرائی تھی۔۔۔
"پری۔۔۔۔"
شاہ ویز سیگریٹ وہیں پھینکتا بے اختیاری میں زیرِ لب بڑبڑاتا اُس جانب بھاگا تھا۔۔۔۔
"اُسے زرا سی تکلیف میں دیکھ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیوانوں کی طرح اُس کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔۔۔ اور اِس وحشی کو اپنی پری سے محبت نہیں ہے ابھی۔۔۔۔"
حازم جس کو شاہ ویز کے ایک جملے نے اُس کی زندگی واپس لوٹا دی تھی۔۔۔ وہ اُس کے اِس بے خود انداز پر مسکراتا اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
"پری۔۔۔۔"
شاہ ویز سیگریٹ وہیں پھینکتا بے اختیاری میں زیرِ لب بڑبڑاتا اُس جانب بھاگا تھا۔۔۔۔
"اُسے زرا سی تکلیف میں دیکھ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دیوانوں کی طرح اُس کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔۔۔ اور اِس وحشی کو اپنی پری سے محبت نہیں ہے ابھی۔۔۔۔"
حازم جس کو شاہ ویز کے ایک جملے نے اُس کی زندگی واپس لوٹا دی تھی۔۔۔ وہ اُس کے اِس بے خود انداز پر مسکراتا اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز جلدی سے اپنے روم میں پہنچا تھا۔۔ جہاں پریسا خوف سے کانپتی باہر نکل رہی تھی۔۔۔ شاہ ویز سے ہونے والے زور دار تصادم پر اُس کے منہ سے دوبارہ چیخ نکلی تھی۔۔۔
جب شاہ ویز اُسے اپنے حصار میں لے گیا تھا۔۔۔
وہ شاید ابھی ابھی واش روم سے نکلی تھی۔۔۔ گیلے بالوں کو تولیے میں قید کر رکھا تھا۔۔۔۔ اُس کا نرم نم آلود لرزتا کانپتا دلکش وجود شاہ ویز کے دل و دماغ پر ایک قیامت برپا کر گیا تھا۔۔۔
"کیا ہوا ۔۔۔؟؟ تم ٹھیک ہو..؟؟؟"
شاہ ویز نے اُس کی آنکھوں سے نکلتے آنسو دیکھ پورے کمرے پر نگاہ دوڑائی تھی۔۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ اور وہ بہت اچھے سے جانتا تھا اُس کے کمرے میں آنے کی جرأت کوئی کر بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔
اِس وقت بھی سب لوگ پریسا کی چیخ پر فکرمند ہونے کے باوجود باہر ہی رک گئے تھے۔۔۔
"وہ اندر واش روم میں۔۔۔۔۔"
پریسا اُس کے سینے میں ہی چہرا چھپائے روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
جس پر شاہ ویز طیش کے عالم میں اُسے ساتھ لگائے واش روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ مگر واش روم میں بھی کوئی دکھائی نہیں دیا تھا اُسے۔۔۔
"پری یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ تم نے کس کو دیکھا۔۔۔۔ تم کیوں ڈر گئی ہو اتنا۔۔۔۔؟؟؟"
زندگی میں آج پہلی بار شاہ ویز اُس سے اتنی نرمی سے بات کرتا اُس کے گرد اپنا حصار مزید مضبوط کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"ہے تو سہی۔۔۔ سامنے دیکھو نا۔۔۔ اتنا بڑا کاکروچ ہے دیوار پر۔۔۔۔ "
پریسا نے بنا دیکھے دیوار کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی بات سمجھتے شاہ ویز سکندر کا چہرا غصے سے لال ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا کی وہ دل دہلا دینے والی مسکراہٹ سن کر وہ کیا سمجھ رہا تھا اور یہاں ماجرا کیا نکلا تھا۔۔۔
دنیا کو ڈرا کر رکھنے والے بلیک بیسٹ کی بیوی ایک کاکروچ سے ڈرتی تھی۔۔۔ جو خود اُس کی چیخوں سے ڈر کر اپنے لیے کوئی پناہ گاہ ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے اُس کا بازو پکڑ کر اُسے خود سے جدا کیا تھا۔۔
پریسا نے نگاہ اُٹھا کر اُس کے جارحانہ تیور دیکھے تھے۔۔۔
جو اُسے دیوار کے ساتھ دھکیلتا اُس کی دونوں کلائیاں تھام کر دیوار سے لگاتے اُس پر حاوی ہوا تھا۔۔
پریسا کو اب احساس ہوا تھا کہ وہ کس حلیے میں اُس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔
سیاہ گیلے دراز بالوں کی آبشار کمر پر پڑی اُس کی شرٹ کو پوری طرح بھگو گئی تھی۔۔۔۔ وہ اُسے سر سے پیر تک تپیش زدہ نگاہوں سے گھورتا اُس کی ٹھوڑی کو اپنی گرفت میں لیتا چہرا اُوپر کر گیا تھا۔۔۔۔
پریسا اِس وقت فریش ریڈ کلر کا شارٹ فراک اور کھلا ٹراؤزر پہنے بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔ اُس کا شاہ ویز کی دہشت سے لال ہوتا چہرا اور ہولے ہولے لرزتا وجود شاہ ویز سکندر کے دل و دماغ پر بھاری ثابت ہورہا تھا۔۔۔
پریسا کی چیخ سن کر جس طرح وہ پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بھاگ کر آیا تھا۔۔۔۔ یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔ اِس طرح کون چیختا ہے۔۔۔ کاکروچ بھی کوئی ڈرنے والی شے ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز غصے سے لال پڑتے چہرے کے ساتھ اُس پر چلایا تھا۔۔۔
جبکہ پریسا سہم کر دیوار سے بالکل چپک گئی تھی۔۔۔
"مجھے کاکروچ سے اتنا ڈر نہیں لگا جتنا اِس وقت تم سے لگ رہا ہے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کی جانب لرزتی پلکیں اُٹھاتے بولی تھی۔۔۔۔
وہ زرد چہرے ہے ساتھ۔۔۔ منہ پھلائے کھڑے اتنی پیاری لگی تھی۔۔۔ کہ شاہ ویز کا خود پر سے اختیار ختم ہوا تھا۔۔۔
"کہیں تمہارا اب دوبارہ بے ہوش ہونے کا ارادہ تو نہیں بن رہا ہے۔۔۔۔ ؟؟"
شاہ ویز اُس کی کلائی تھام کر اُسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔ پریسا ایک دم اُس کے اتنے قریب آگئی تھی کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے میں اُلجھنے لگی تھیں۔۔۔
پریسا نے جان بوجھ کر شاہ ویز کو دیکھانے کی خاطر اُس کی جانب سے چہرا پھیرتے منہ بنایا تھا۔۔۔
"تم سے سگریٹ کی سمیل آرہی ہے۔۔۔ مجھے بات نہیں کرنی تم سے۔۔۔۔"
وہ ایک ادا سے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں پٹ پٹاتے بولتی شاہ ویز سکندر کا چین و قرار چھین گئی تھی اُس سے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اُس سے دور رہنا چاہتا تھا۔۔۔ اُس کی وحشت ناکی اِس لڑکی کی اداؤں کے مقابل نہیں ٹکنے والی تھی۔۔۔۔
وہ جھکا تھا اور اُس کا ہاتھ ہونٹوں سے ہٹاتا اُس کے ہونٹوں پر اپنے شدت بھرا لمس چھوڑ گیا تھا۔۔۔ پریسا اُس کے اِس گستاخانہ عمل پر کانپ گئی تھی۔۔۔
وہ جانتی تھی وہ اُسے صرف خوفزدہ کرنا چاہتا ہے خود سے۔۔۔۔ مگر وہ بھی پریسا آفندی تھی۔۔۔ شاہ ویز سکندر کے سارے کس بل نکلنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
"مجھ دنیا میں سب سے زیادہ پیارے سگریٹ ہیں مجھے۔۔۔ پوری دنیا کے بغیر جی سکتا ہوں۔۔۔ اِن کے بغیر نہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے اُس کی غلطی باور کرواتا پیچھے ہٹا تھا۔۔۔ جب پریسا اُس کے کالر اپنی دونوں مُٹھیوں میں دبوچتے اُسے واپس اپنی جانب کھینچ چکی تھی۔۔۔
"تمہاری زندگی میں اِسی مقام پر آنا چاہتی ہوں۔۔۔ جس پر تم میرے بنا نہ جی سکو۔۔۔ بولو کیا کرنا ہوگا مجھے یہاں تک پہنچنے کے لیے۔۔۔۔"
پریسا اُس کے پیروں پر اپنے پیر جماتی اُس کے نہایت قریب آن کھڑی ہوتی اپنے گداز ہونٹ اُس کی ٹھوڑی پر رکھتی ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز سکندر اُسے کیا بتاتا وہ بہت پہلے پریسا آفندی کی اِن اداؤں سے گھائل ہوچکا تھا۔۔۔
"سیگریٹ میرا نشہ ہے۔۔۔ میرے درندگی بھرے قہر برساتے غصے میں مجھے سنبھالتے ہیں۔۔۔ میری پل پل کی اذیت کے ساتھی ہیں۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے گیلے بالوں کی لٹوں کو اُنگلیوں پر لپیٹتا اُس کا چہرا اپنے چہرے کے قریب کر گیا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے پریسا کی آنکھوں سے آنسو پھسلے تھے۔۔۔
"میں جانتی ہوں شاہ ویز سکندر۔۔۔ تمہاری زندگی میں مجھے یہ مقام کبھی نہیں مل پائے گا۔۔۔۔"
پریسا اُس سے اپنے بال آزاد کرواتی دور ہوئی تھی۔۔ جب شاہ ویز اُس کے بالوں کو گرفت میں لیتا واپس اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
پریسا کے آنسو اُس کا دل چیر جاتے تھے۔۔۔
"کیا چاہتی ہو تم۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُس کے بالوں کو جکڑے اُس کی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو سُرخ نگاہوں سے دیکھتے خفگی بھرے انداز میں بولا تھا۔۔۔
"شاہ ویز سکندر کا نشہ بننا چاہتی ہوں۔۔۔ ایسا خطرناک اور جان لیوا نشہ کہ مجھے خود سے دور کرنے پر تمہیں اپنی زندگی دور ہوتے محسوس ہو۔۔۔ میرے بغیر تم جی بھی نہ سکو۔۔۔ جیو تو صرف میرے لیے۔۔۔ مرو تو صرف میرے نام پر۔۔۔ "
پریسا شدت پسندی سے بولتی شاہ ویز سکندر کے دل و دماغ کو جیسے اپنے لفظوں میں جکڑ گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز اپنی دیوانی کی یہ دیوانگی دیکھ کتنے ہی لمحے کچھ بول ہی نہیں پایا تھا۔۔۔۔
مگر جیسے ہی اُسے آنے والے حالات کا خیال آیا وہ اُسے دونوں بازوؤں سے تھامتا اپنے مقابل لے آیا تھا۔۔۔
"تم جو کررہی ہو یہ تمہیں بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔۔۔ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا۔۔۔ میری محبت سہہ نہیں پاؤ گی۔۔۔۔ کیوں مجھے اپنے قریب آنے پر اُکسا رہی ہو۔۔۔ تم بہت نازک ہو۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی قربت برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔ جیسا چل رہا ہے۔۔۔۔ چلنے دو۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے چہرے پر گرتے قطروں کو دیکھتا اُس کے چہرے پر جھکا تھا۔۔۔ اور ایک ایک قطرے کو اپنے ہونٹوں سے چننے لگا تھا۔۔۔
پریسا اُس کا شدت بھرا لمس اپنے چہرے پر محسوس کرتے جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔ شاہ ویز کی شیو کی چبھن محسوس کرتے وہ کسمسائی تھی۔۔۔۔
اور شاہ ویز کے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتے اُسے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔۔
"تمہیں تو نفرت ہے نا مجھ سے شاہ ویز سکندر۔۔۔ پھر کونسی محبت۔۔۔۔ کیوں لائے ہو مجھے یہاں پر۔۔۔ دھتکار دو نا اب بھی پہلے کی طرح۔۔۔۔ "
پریسا اُس کی گرفت سے خود آزاد کرواتے لال چہرے کے ساتھ بولی تھی ۔۔۔ جب شاہ ویز اُس کی کلائی کمر کے پیچھے موڑتا اُس کے لال چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔
"اپنی بات پر میں اب بھی قائم ہوں۔۔۔۔ نفرت تو اب بھی ہے مجھے تم سے۔۔۔۔ مگر اب دھتکار نہیں سکتا۔۔۔ کیونکہ اب تم شاہ ویز سکندر کی بیوی ہو۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی نگاہیں بار بار اُس کی گیلی زلفوں سے اُلجھ رہی تھیں۔۔۔
"کاش تمہیں مجھ سے شدید محبت ہوجائے۔۔۔ تو میں بھی تمہیں ایسے ہی تڑپاؤں شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ "
پریسا اُس سے اپنا آپ چھڑواتی دور ہوئی تھی۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر شاہ ویز دھیرے سے مسکراتا واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔۔
"تم مسکرائے ہو۔۔۔۔"
پریسا پیچھے سے چلائی تھی۔۔۔
"جس کی تم جیسی ڈرپوک بیوی ہوگی وہ اور کیا کرے گا۔۔۔۔"
شاہ ویز بنا پلٹے سگریٹ سلگھاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم بلیک ہاؤس کے اُوپر کے پورشن میں موجود اپنے روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔ جب اچانک کوئی شے اُڑتی ہوئی اُس کی جانب آئی تھی۔۔۔ وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں ایک طرف ہوتا اپنا بچاؤ کر گیا تھا۔۔۔
وہ حبہ کا پھینکا گیا گلدلان تھا جو اُس نے بنا دیکھے اندر آتے شخص پر پھینکا تھا۔۔
لیکن سامنے کھڑے حازم کو دیکھ وہ پل بھر کے لیے ساکت ہوئی تھی۔۔۔
"حبہ۔۔۔۔"
حبہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے صحیح سلامت کھڑا دیکھ حازم کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔۔
جو روم کے وسط میں کھڑی خونخوار نگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"دیکھ لیا تم نے اپنے لوگوں کی حرکت۔۔۔ تمہاری بیوی کو اغوا کرکے یہاں لے آئے ہیں۔۔۔۔ "
حبہ اُس کے قریب آتی غصے سے بپھری اور بھی نجانے کیا کہہ رہی تھی۔۔ جب حازم نے اُسے تھام کر اپنے سینے سے بھینچتے اُس کے نازک وجود کو خود میں سمو لیا تھا۔۔۔
حبہ کی گردن میں منہ چھپائے اُس کا لمس محسوس کرتا وہ اُس کے ہونے کا یقین کرنے لگا تھا۔۔۔۔
جبکہ حبہ اُس کا یہ یہ شدت بھرا انداز دیکھ حیرت سے اُسے دیکھے جارہی تھی۔۔۔
"تم زندہ ہو۔۔ تم بالکل ٹھیک ہو۔۔۔ "
حازم اُسے اتنی مضبوطی سے اپنے سینے میں بھینچے ہوئے تھا کہ حبہ کو سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی تھی۔۔۔۔
"حازم سالار دور رہو مجھ سے۔۔۔۔ تم یہ۔۔۔۔"
حبہ بمشکل بولتی اُسے خود سے دور دھکیلنے لگی تھی۔۔۔
"نہیں اب دور نہیں رہ سکتا تم سے۔۔۔ بہت تڑپایا ہے تم نے مجھے۔۔۔ میری جان نکال دی تھی تم نے۔۔۔۔ تمہاری اِس حرکت کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں۔۔۔"
حازم اُس کا چہرا دونوں ہاتھوں میں تھامتے اُس کی حیران آنکھوں میں اپنی ضبط سے لال ہوتی آنکھیں گاڑھے بولتا اُسے ششدر کر گیا تھا۔۔۔
"تم کیا بول رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟ "
حبہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ جب حازم نے موبائل نکالتے وہ ساری نیوز دکھائی تھی اُسے۔۔۔۔
جو دیکھ حبہ جا چہرا زرد ہوا تھا۔۔۔ وہ اِس جہاز میں اپنی ماما اور صبا کو بھی لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اُس کے رب نے اُنہیں بچا لیا تھا۔۔۔۔
"تو تمہیں لگا میں مر گئی۔۔۔۔ جبکہ تمہارے اپنے لوگ مجھے اغوا کرکے یہاں لے آئے۔۔۔۔ اور تمہیں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا۔۔۔۔ یہیں ہیں تمہارے بلیک سٹارز۔۔۔ جن کی خاطر تم نے میرے بابا کی جان لی۔۔۔ حازم سالار تم سے نفرت محسوس ہورہی ہے مجھے۔۔۔ میرا دن رات اِس اذیت میں گزر رہے ہیں کہ اتنے سال میں نے اپنے بابا کے قاتل سے محبت کی۔۔۔ جو نفرت کے قابل بھی نہیں ہے۔۔۔ اُسے اپنا شوہر مانا۔۔۔۔ تمہیں کیا لگ رہا ہے یہ سب کرکے میرا دل پگھلا دو گے۔۔۔ بہت بڑی بھول ہے تمہاری۔۔۔۔ تمہیں تمہارے ظلم کی سزا دے کر رہوں گی میں۔۔۔۔ "
حبہ اُس کے ساتھ لگی کھڑی نفرت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھتی اُس کی جیب سے گن کھینچتی ایکدم دور ہوئی تھی۔۔۔۔
حازم خاموش نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
"تم لوگ کیا سمجھ رہے ہو کہ مجھے یہاں قید رکھ کر تم لوگ مجھے چپ کروا لو گے۔۔۔ نہیں بلیک سٹار اب تمہیں میں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ تمہارے بخت لی سیاہی میں اب خود بنوں گی۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے ماروں گی تمہیں۔۔۔ جیسے تم نے میرے بابا کو مارا تھا۔۔۔۔"
حبہ اِس وقت شدید غصے میں تھی۔۔۔
جبکہ حازم اِس وقت اُسے سامنے دیکھ اتنا خوش تھا کہ اُس کے لیے حبہ کے منہ سے نکلتے یہ کانٹے دار الفاظ بِھی پھول محسوس ہورہے تھے۔۔۔
وہ اُس کے سر پر گن تانے کھڑی اُسے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہی تھی۔۔۔
"مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اُس شخص کو مارنے کا۔۔۔ اتنی نفرت ہے مجھے تمہارے بابا سے۔۔۔ کہ اگر وہ دوبارہ زندہ ہوکر میرے سامنے آجائے۔۔۔ تو میں دوبارہ اُسے اُتنی ہی بے دردی سے مارنے کو تیار ہوں۔۔۔۔"
حازم اُس کی نفرت پر زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولتا اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"دور رہو ورنہ گولی چلا دوں گی۔۔۔۔"
حبہ اُس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی چہرا موڑ گئی تھی۔۔۔
جب حازم اُس کی اس حرکت پر طیش میں آتا اُسے اپنے قریب کرتا اُس کی گردن پر جھکا تھا۔۔۔ اور اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتا حبہ کے حواس معطل کر گیا تھا۔۔۔
گن اُس کے ہاتھ میں تھی مگر شدید نفرت کے باوجود وہ گن کا رُخ اس کی جانب نہیں موڑ سکی تھی۔۔۔
"تم مجھ سے نفرت کرتی ہو۔۔۔ بدلہ لینا چاہتی ہو۔۔ جاؤ لو۔۔۔ جو کرنا ہے کرو۔۔۔ تم آزاد ہو میری طرف سے۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا۔۔ ایک دن واپس اِنہیں بانہوں میں لوٹنا پڑے گا تمہیں۔۔۔ اُس دن حساب لونگا اپنی ایک ایک تڑپ اور اذیت کا۔۔۔ "
حازم اُس کے حسین سراپے کو اپنی نگاہوں میں قید کرتا روم سے نکل آیا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ حبہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔
اُس نے اپنی پوری زندگی میں صرف اِس ایک شخص کا ساتھ ہی تو چاہا تھا۔۔۔ مگر اِسے بھی اُس کی قسمت سے چھین لیا گیا تھا۔۔۔
وہ جب بھی سمجھتی تھی اب اُس کی زندگی میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ ایک نئی آزمائش اُس کے راستے میں آن کھڑی ہوتی تھی۔۔۔
وہ ایک کامیاب پولیس آفیسر تھی۔۔۔جس نے اب تک نجانے کتنے مجرموں کو پکڑ کر سزا دلوائی تھی۔۔ اور نجانے کتنے بے گناہوں کو آزادی بھی دلوائی تھی۔۔۔
مگر اِس بار جو شخص مجرم کے روپ میں اُس کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔
اُسے نقصان پہنچانے سے پہلے وہ خود کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
وہ بُری طرح پھنس چکی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"اسلام و علیکم شاہ سر۔۔۔۔۔"
حمدان آفس گیا ہوا تھا۔۔ جبکہ باقی سب اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔ جب مہروسہ نے شاہ ویز کو کال ملائی تھی۔۔۔۔
"سر مجھے حمدان کے خفیہ لاکر سے رضوان صدیقی کے کمرے اور لاکرز کی کیز مل چکی ہیں۔۔۔ اب میں بہت جلد رضوان صدیقی کے کمرے تک پہنچ جاؤں گی۔۔ اور وہ ثبوت ہاتھ لگ جائیں گے۔۔۔ جن کا ہمیں سالوں سے انتظار تھا۔۔۔۔"
مہروسہ شاہ ویز سے بات کرتے کرتے جیسے ہی پلٹی اپنے عین پیچھے کھڑی ہستی کو دیکھ وہ سناٹے میں آگئی تھی۔۔۔۔
"اسلام و علیکم شاہ سر۔۔۔۔۔"
حمدان آفس گیا ہوا تھا۔۔ جبکہ باقی سب اپنے کاموں میں مصروف تھے۔۔۔ جب مہروسہ نے شاہ ویز کو کال ملائی تھی۔۔۔۔
"سر مجھے حمدان کے خفیہ لاکر سے رضوان صدیقی کے کمرے اور لاکرز کی کیز مل چکی ہیں۔۔۔ اب میں بہت جلد رضوان صدیقی کے کمرے تک پہنچ جاؤں گی۔۔ اور وہ ثبوت ہاتھ لگ جائیں گے۔۔۔ جن کا ہمیں سالوں سے انتظار تھا۔۔۔۔"
مہروسہ شاہ ویز سے بات کرتے کرتے جیسے ہی پلٹی اپنے عین پیچھے کھڑی ہستی کو دیکھ وہ سناٹے میں آگئی تھی۔۔۔۔
مریم کب اُس کے روم میں داخل ہوئی تھی اُسے پتا بھی نہیں چلا تھا۔۔۔ وہ اتنی بے خبر تو کبھی نہیں رہی تھی۔۔۔ مریم کے تاثرات بتا رہے تھے وہ اُس کی ساری باتیں سن چکی ہے۔۔۔۔
"تم یہاں میرے روم میں کیا کررہی ہو۔۔۔؟"
مہروسہ کو یہ لڑکی پہلے دن سے بہت بُری لگتی تھی۔۔۔ جو حمدان کے سامنے معصوم بننے کا ناٹک کرکے اُس کی ہمدردی حاصل کررہی تھی۔۔۔
"تمہارا روم نہیں ہے یہ حمدان کا روم ہے۔۔۔ جس میں آنے کے لیے مجھے کم از کم تمہاری اجازت کی ضرورت تو بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔۔ اتنی بے خبر نہیں ہوں میں۔۔۔ بہت اچھے سے اندازہ ہے مجھے حمدان کے نزدیک تمہاری اہمیت کا۔۔۔۔"
مریم اُس کے بیڈ پر پورے استحقاق سے بیٹھتی مہروسہ کی جانب طنزیا مسکراہٹ اُچھال گئی تھی۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ مُٹھیاں بھینچے بہت مشکل سے اُس کی بات پر ضبط کیے کھڑی تھی۔۔۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔ ابھی اِس گھٹیا عورت کی گردن مڑور کر رکھ دے۔۔۔۔۔۔
"شرافت سے میرے کمرے سے نکل جاؤ۔۔۔ ورنہ میرا اپنایا طریقہ تمہیں پسند نہیں آئے گا۔۔۔۔"
مہروسہ مُٹھیاں بھینچے چلائی تھی۔۔۔۔
"اوہ ہو اتنا غصہ۔۔۔ مہروسہ کنول عرف اُجالا اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔۔ چلی جاؤں گی میں۔۔۔ پہلے میری بات تو سن لو۔۔۔ کیا پتا اِس میں تمہارا ہی فائدہ ہو۔۔۔۔"
مریم کے منہ سے اپنا اصلی نام سنتے مہروسہ کو شاک لگا تھا۔۔۔ اِس کا مطلب وہ جو سوچ رہی تھی۔۔۔ ویسا ہی کچھ تھا۔۔۔ مریم کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔۔۔
"ویسے ماننا پڑے گا۔۔۔ بہت شاطر ہو تم۔۔۔ اتنے سالوں سے حمدان صدیقی کو اپنے قریب نہیں لا سکی۔۔۔ اور تم کچھ دنوں میں ہی اُس کی بیوی کے عہدے پر فائز ہوگئی۔۔۔ کافی سنا تھا تم لوگوں کی زہانت اور کارکردگی کے بارے میں۔۔۔۔ آج دیکھ بھی لیا۔۔۔ ویسے تمہارے باقی دنوں لیڈر بھی سنا ہے کافی ہینڈسم ہیں۔۔۔ اُنہیں ہی پھانس لیتی۔۔ میرے حمدان کو تو میرے لیے چھوڑ دیتی۔۔۔ "
مریم اور بھی نجانے کیا کیا بکواس کررہی تھی۔۔۔ جب مہروسہ اپنے اصل روپ میں آتی اُس پر جھپٹی تھی۔۔۔ اور اُس کی گردن کو اپنی گرفت میں لیتی اُسے زمین پر گرا گئی تھی۔۔۔
"اب بول کیا بکواس کررہی تھی۔۔۔؟؟ میرے حمدان کو مجھ سے چھینے گی۔۔۔ بلیک سٹار کا نام سنا ہے تو اُن کی دہشت بھی سنی ہوگی۔۔۔۔ "
مہروسہ اُس کی گردن پر پورا دباؤ ڈالے غرائی تھی۔۔۔ اِس لڑکی نے اُس کے تین بہت اہم لوگوں کے حوالے سے بات کرکے اُس کے قہر کو آواز دی تھی۔۔۔
"مجھے مت مارو۔۔۔ ورنہ اقبال کیانی۔۔۔ حمدان کو۔۔۔۔"
مریم دم گھٹتا محسوس کرتی بمشکل بولی تھی۔۔۔ جب اُس کے منہ سے اقبال کیانی کا نام سن کر مہروسہ کے ہاتھ تھم سے گئے تھے۔۔۔
"اقبال کیانی کو کیسے جانتی ہو تم...؟؟؟ وہ حمدان کو نقصان کیوں پہنچائے گا۔۔۔۔؟؟"
مہروسہ اُسے بالوں سے کھینچ کر سیدھا کرتے کاٹ دار لہجے میں بولی تھی۔۔۔ مریم آج اپنی آنکھوں سے بلیک سٹار کی دہشت دیکھ کانپ گئی تھی۔۔۔۔
"وہ میں نہیں بتا سکتی۔۔۔۔"
مریم کھانستے ہوئے اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔
"مر تو سکتی ہو نا۔۔۔۔"
مہروسہ نے اپنا پسٹل نکال کر اُس کی کنپٹی پر رکھا تھا۔۔۔
"میرے ہوتے ہوئے میرے حمدان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اور تم جیسے گیدڑ اُس شیر کا کچھ بگاڑ سکتے بھی نہیں ہیں۔۔۔ تم سے ساری سچائی اب میرے آدمی خود ہی اُگلوا لیں گے۔۔۔."
مہروسہ اپنے دوپٹے سے اُس کے ہاتھ پیر باندھنے لگی تھی۔۔۔۔
"حمدان کو اگر پتا چل گیا تو تمہیں چھوڑے گا نہیں وہ۔۔۔"
مریم اپنے بچاؤ کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔
"میری فکر مت کرو۔۔۔ مجھے خود کو بچانا آتا ہے۔۔۔"
مہروسہ اُس کے منہ پر بھی کپڑا باندھتی اپنے آدمی قاسم کو کال کر گئی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا آفندی مینشن واپس آچکی تھی۔۔۔ جہاں یاسمین بیگم نے اُس کی دو دن کی غیر موجودگی کو اپنے طریقے سے سنبھال لیا تھا۔۔۔۔ ویسے بھی سب سفیان کی وجہ سے اتنے پریشان تھے کہ پریسا پر کسی کا دھیان گیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
پریسا سمجھ نہیں پارہی تھی کہ شاہ ویز نے اُسے واپس کیوں بھیج دیا تھا۔۔۔
"پری مجھے بات کرنی ہے تم سے۔۔۔ میرے روم میں آؤ۔۔۔"
پریسا اپنے خیالوں میں کھوئی سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔۔۔ جب اپنی پشت پر سفیان کی آواز سنتے وہ پلٹی تھی۔۔۔
"جی بولیں۔۔۔ کیا بات کرنی ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟"
پریسا وہیں کھڑے پوچھنے لگی تھی۔۔۔ وہ اب شاہ ویز سکندر کی بیوی تھی۔۔۔ سفیان آفندی کی بات سننے اُس کے کمرے میں نہیں جاسکتی تھی۔۔۔
"پری میں نے تمہیں روم میں آنے کو کہا ہے۔۔۔"
سفیان کا انداز عجیب سا تھا۔۔۔
"لیکن میں روم میں نہیں آنا چاہتی مجھے یہیں بات سننی ہے۔۔۔۔"
پریسا کو آج اُس کی اپنے وجود پر اُٹھتی یہ عجیب نگاہیں بہت ناگوار گزر رہی تھیں۔۔۔
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی تم مجھے انکار کرو۔۔۔ گھر والوں کی جانب سے ملنے والی اہمیت نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔۔۔۔"
سفیان کو آج وہ بے حد کانفیڈنٹ سی پریسا ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔۔۔
وہ آگے بڑھتا اُس کی کلائی تھام کر زبردستی اپنے ساتھ کمرے میں لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ مگر اِس سے پہلے کہ اُس کا ہاتھ پریسا کی کلائی تک پہنچتا۔۔۔ اچانک سفیان کو اپنے بازو پر کسی کی آہنی گرفت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔
پریسا نے سر اُٹھا کر اپنے سامنے آتے شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ وہ وہاں کب آیا تھا وہ دیکھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے بازو کو زور دار جھٹکا دیتا ناکارہ کر گیا تھا۔۔۔ اُس کی دھاڑتی آواز اتنی بلند تھی کہ آفندی مینشن کے تمام لوگ وہاں آن پہنچے تھے۔۔۔۔
پریسا پھٹی پھٹی نگاہوں سے شاہ ویز کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو سرد پتھریلے تاثرات کے ساتھ سفیان کو بُری طرح پیٹنا شروع ہوچکا تھا۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔ ؟؟ کیوں مار رہے ہو میرے بیٹے کو۔۔۔ "
شہباز آفندی اور باقی سب شاہ ویز کی گرفت سے سفیان کو چھڑوانے آئے تھے۔۔۔
لیکن اُس نے سفیان کا حلیہ مار مار کر بگاڑ دیا تھا۔۔۔ اور ایک ہی جھٹکے سے اُن سب کو بھی دور پھینک دیا تھا۔۔۔ وہ سب بہت بُری طرح پیچھے فرش پر جاگرے تھے۔۔۔
شاہ ویز وہاں اکیلا آیا تھا۔۔۔ اور وہ اکیلا ہی سب پر بھاری ثابت ہورہا تھا۔۔۔
پریسا ایک جانب سہمی کھڑی اپنے وحشی درندے کی یہ درندگی دیکھ رہی تھی۔۔۔
باقی سب خواتین بھی سہم کر ایک کونے میں جا کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک یاسمین بیگم ہی تھیں۔۔۔ جو آنکھوں میں آنسو بھرے یہ سب دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
وہ جانتی تھیں اُن کے خاندان والوں کے گناہوں کا گھڑا بھرنے والا تھا۔۔۔۔
جس کے بعد ایسا ہی قہر ٹوٹنے والا تھا اُن سب پر۔۔۔۔
"پولیس کو فون کرو۔۔۔۔"
شہباز آفندی چلائے تھے۔۔۔
"میں نے کئی بار ٹرائے کیا ہے۔۔۔ مگر کال نہیں جارہی نیٹ ورک ایشو ہے۔۔۔۔"
شوکت آفندی نے سفیان کے لہولہان ہوتے وجود کو دیکھ گھبرا کر کہا تھا۔۔۔ شہباز آفندی باہر موجود گارڈز کو بلانے باہر کی جانب بڑھے تھے۔۔۔ مگر گیٹ کو باہر سے لاک کیا گیا تھا۔۔۔
اُنہوں نے بوکھلاہٹ میں سارے دروازے چیک کرلیے تھے۔۔ جن سب کو لاک کیا گیا تھا۔۔۔ یہ شخص پوری پلاننگ کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
"میرا بیٹا مر جائے گا۔۔۔۔ کیوں اتنا ظلم کررہے ہو اُس پر۔۔۔۔؟؟"
شہباز آفندی آخر کار بے بس ہوتے شاہ ویز کے پاس آتے ہاتھ جوڑتے گھٹنوں کے بل اُس کے پیروں کے قریب بیٹھ گئے تھے۔۔۔ جو دیکھ شاہ ویز کی آنکھوں میں سکون اُترتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
"اِس نے میری بیوی کو چھونے اور ڈرانے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اِسی کی سزا تھی یہ۔۔۔۔"
سفیان کو مار مار کر وہ اُس کی حالت خراب کر گیا تھا۔۔۔
شہباز آفندی کو اپنے قدموں کے قریب بیٹھا دیکھ وہ سفیان کو زمین پر پھینکتا صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
اُس نے ایک جانب سہمی کھڑی پریسا کی جانب ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔
جس بیوی کی خاطر ایک شخص کو موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا۔۔۔ اُس کی بیوی کی جانب ایک نگاہ ڈالنا بھی گوارہ نہیں کی تھی اُس نے۔۔۔۔
بڑے سے صوفے پر شاہانہ انداز میں ٹیک لگا کر نیم دراز ہوتے وہ اپنا سگریٹ سلگھاتے ہونٹوں میں دبا گیا تھا۔۔۔
"اگر اپنے بیٹے کی زندگی چاہتے ہو۔۔۔ تو جب تک میں نہ کہوں ایسے ہی بیٹھے رہو۔۔۔۔"
شہباز آفندی نے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔ جب شاہ ویز نے اُنگلی اُٹھا کر وارن کرتے اُسے اُسی پوزیشن میں رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا اپنے اُس بلیک بیسٹ کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
جو حقیقت میں درندے کے رُوپ میں تو آج سامنے آیا تھا اُس کے۔۔۔۔
"بابا آپ۔۔۔۔۔"
پریسا شہباز آفندی کی حالت نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔ اور آنکھوں میں آنسو لیے اُنہیں اُٹھانے کے لیے اُن کی جانب بڑھی تھی ۔۔
"خبردار پریسا آفندی۔۔ دور رہو۔۔۔ ورنہ پورے آفندی مینشن کو آگ لگا دوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز پریسا کی آنکھوں میں اُن لوگوں کے لیے تکلیف برداشت نہ کر پاتے غصے سے بپھرتا جلتا ہوا لائٹر درمیان میں رکھے چھوٹے سے کارپٹ پر پھینکتا وہاں آگ بھڑکا گیا تھا۔۔۔
پریسا آگ دیکھ خوف سے چیخ مارتی پیچھے ہوئی تھی۔۔۔
"تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔ پریسا میری ہونے والی بہو ہے۔۔۔ وہ تمہاری بیوی کیسے بن سکتی ہے۔۔۔۔ تم زیادہ دیر تک میرے گھر میں یوں غنڈہ گردی نہیں مچا پاؤ گے۔۔۔ بہت جلدی تمہیں سلاخوں کے پیچھے بھیج کر رہوں گا۔۔۔۔"
شہباز آفندی کا بس نہیں چل رہا تھا۔۔۔ سامنے بیٹھے مغرور اور جلاد شخص کا سینہ گولیوں سے بھون دے۔۔۔۔
"مجھے اپنے نکاح کو ثبوت تمہیں دینے کا کوئی شوق نہیں ہے شہباز آفندی۔۔۔ ہاں مگر یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ میں کون ہوں۔۔۔ اور یہاں کس حیثیت سے آیا ہوں۔۔۔ حمیرا سکندر اور سکندر شاہ کو بھولے تو نہیں ہوگے تم سب۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز نے اُن سب کے سروں پر بم پھوڑتے اُنہیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اُن سب میں ایک پریسا ہی تھی جو حیران نگاہوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔ اُسے اِس سب تماشے کے بعد اپنے حواس ساتھ چھوڑتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
اُس کی نازک جان مزید یہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ جس شخص سے اُس نے بے پناہ محبت کی تھی۔۔۔ وہ اُس کے گھر والوں کے ساتھ یہ سب کررہا تھا۔۔۔
"تم۔۔۔ تم سکندر۔۔۔۔"
شہباز آفندی ہکلا گئے تھے۔۔۔
"ہاں۔۔۔ میں اُنہیں کا بیٹا شاہ ویز سکندر ہوں۔۔۔۔ اِس آفندی مینشن سمیت تمہاری ملکیت میں موجود ہر شے کا اکلوتا وارث۔۔۔۔ جسے اُس رات آگ میں جھلسانا بھول گئے تھے تم۔۔۔۔۔"
شاہ ویز جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھتا پریسا کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اور اُس کے بے ہوش ہوکر گرنے سے پہلے ہی اپنی مضبوط پناہوں میں بھر گیا تھا۔۔۔
پریسا جو یہی سمجھ رہی تھی کہ شاہ ویز اُسے اگنور کرتا اُس کی جانب سے بالکل غافل ہوچکا ہے اِس وقت۔۔۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔
اُس کی جانب نہ دیکھتے ہوئے بھی اُس کے سارے دھیان پریسا آفندی کی جانب ہی تھے۔۔۔۔
باقی سب جو اُسے کا درندگی بھرا روپ دیکھ سہمے خوفزدہ سے کھڑے تھے۔۔۔ پریسا کے لیے اُس کا اتنا کیئرنگ اور محبت بھرا انداز دیکھ اُن سب کی بے یقینی مزید بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
"میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اِس لیے فلحال کے لیے بخش رہا ہوں تم لوگوں کو۔۔۔ اپنے بیٹے کو ہوش میں لانے کی کوشش کر سکتے ہو تو کر لو۔۔۔۔ اب اتنا بے رحم بھی نہیں ہوں میں۔۔۔ کہ تم لوگوں کو تمہارے بیٹے کے قریب نہ جانے دوں۔۔۔"
شاہ ویز اُن سب پر نفرت بھری نگاہ ڈالتا پریسا کو اُٹھائے اُس کے روم میں بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
پریسا کو بیڈ پر لٹاتے اُس نے سرتاپا اپنی بے حد نازک بیوی کو دیکھا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ اُسی کے خوف سے بے ہوش ہوکر گرتی تھی۔۔۔۔
سیاہ لباس میں ملبوس وہ اُس کی پوری توجہ اپنی جانب کھینچ گئی تھی۔۔۔۔ بالوں کو جوڑے کی شکل میں کیچر میں مقید کیا گیا تھا۔۔۔ جس میں سے نکلتی شریر لٹیں اُس کے چہرے کو چھوتیں شاہ ویز سکندر کا ڈسٹرب کر رہی تھیں۔۔۔
وہ ہاتھ بڑھاتا اُس کے بالوں کو چہرے سے ہٹا گیا تھا۔۔۔
آرزوں پر سجی لانبی خمدار پلکوں سے ہوتی اُس کی نگاہ پریسا کے گلابی ہونٹوں پر آن ٹکی تھی۔۔۔ کہ لڑکی اُس کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھی۔۔۔
اِس سے پہلے کہ اُس کی بے خبری میں وہ بہکتا۔۔۔ شاہ ویز نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی اُنڈیلتے پریسا کے چہرے پر ڈال دیا تھا۔۔۔
پریسا ہڑبڑا کر اُٹھتی خوف کے عالم میں سامنے بیٹھے شاہ ویز سے ٹکرا گئی تھی۔۔۔۔
جو ایک بار پھر سے سیگریٹ سلگھاتا بیڈ کی پائنتی پر لیٹتا چہرا موڑ کر اُسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح اُس کے سامنے پنجے جھاڑ کر اُس سے لڑنے کو تیار نہیں ہوئی تھی۔۔۔
بلکہ اُس کے خوف سے کانپتی سہمی سے بیڈ کراؤن سے جا لگی تھی۔۔۔
"نفرت محسوس ہورہی ہے مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز سیگریٹ کا دھواں اُس کی جانب چھوڑتے اُسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔
مگر اِس بار شاید وہ اُس سے زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی۔۔ اس لیے بنا بولے بس بھیگتی آنکھوں سے اُسے تکے گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز جو ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ اُس کے سامنے آواز اُٹھانے کی جرأت کوئی نہ کرے۔۔۔ پریسا کا یہ سہما انداز اُسے آج بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔
سگریٹ کو دور پھینکتے وہ پریسا کو اپنے اُوپر گرا گیا تھا۔۔۔۔۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔ پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔ جواب دو۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے بالوں سے کیچر نکالتا اُس کی سیاہ زلفوں کی آبشار کو آزاد کرواتا دونوں کے گرد حصار بنا گیا تھا۔۔۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سے۔۔۔ میں جانتی ہوں تم میرے ساتھ بھی وہی کرو گے۔۔ جو تم نے سفیان کے ساتھ کیا۔۔۔۔ مگر میں نے سفیان کو نہیں۔۔۔۔"
پریسا اپنی صفائی میں مزید بھی کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔
"واٹ ربش تم پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟ "
شاہ ویز اُٹھ کر بیٹھتا غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔ اُس کی بیوی اُسے اپنے باکردار ہونے کا ثبوت دے رہی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز غصے سے پاگل ہوگا اُسے خود سے دور کرتا بیڈ سے اُٹھا تھا۔۔۔
"تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں تم پر شک کروں گا۔۔۔ کیا واقعی تمہارے پاس دماغ نہیں ہے۔۔۔ تم شاہ ویز سکندر کی بیوی ہو۔۔۔ تمہیں اب تک اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا۔۔؟؟؟"
شاہ ویز نے قہرآلود نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔ "
پریسا اُسے اتنے غصے میں آتے دیکھ دھیرے سے بولتی شاہ ویز کو سکندر کو ساکت کر گئی تھی۔۔۔ یہ لڑکی کیوں آج اُس کا ضبط آزمانے پر تلی ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ آگے بڑھا تھا اور اُسے دونوں کندھوں سے تھام کر اُوپر اُٹھاتے اپنے مقابل کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے پریسا اندر تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
"آئم سوری۔۔۔ "
پریسا اُسے اتنے غصے میں آتے دیکھ دھیرے سے بولتی شاہ ویز سکندر کو ساکت کر گئی تھی۔۔۔ یہ لڑکی کیوں آج اُس کا ضبط آزمانے پر تلی ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ آگے بڑھا تھا اور اُسے دونوں کندھوں سے تھام کر اُوپر اُٹھاتے اپنے مقابل کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے پریسا اندر تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
"میرے ضبط کو مت آزماؤ پری۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے گالوں کی نرمی محسوس کرتا پریسا کا دل زور سے دھڑکا گیا تھا۔۔۔۔ اُس کے منہ سے اپنا نام سنتے پریسا نے لرزتی پلیکیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
نگاہوں کا تصادم ہوا تھا۔۔۔
"کیا تم مجھ سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہو۔۔۔ جتنی میرے گھر والوں سے۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے سوال کیا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ اُن سے بھی زیادہ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔۔"
شاہ ویز کو اپنی بانہوں میں مقید سہمی ہرنی بنی اپنی بیوی پر بے اختیار ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔۔
وہ جھکا تھا۔۔۔ اور اُس کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا شدت بھرا لمس چھوڑتا پریسا کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کے کندھے سختی سے دبوچے۔۔۔۔ کتنی ہی دیر کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔ اُس کی گول مٹول دلکش آنکھوں میں نمی اُترتی نمی شاہ ویز سکندر کو مدہوش کر گئی تھی۔۔۔
"یہ لوگ تمہارے گھر والے نہیں ہیں۔۔۔ تمہارا صرف ایک ہی گھر والا ہے۔۔۔۔ اور وہ میں ہوں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے کانپتے وجود کو اُٹھاتا صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اُسے صوفے پر بیٹھاتے وہ اُس کے قریب آن بیٹھا تھا۔۔۔
"تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔ تمہیں نفرت نہیں ہے مجھ سے۔۔۔۔ اگر نفرت ہوتی تو ہمیشہ اتنے اچھے سے پیش نہ آتے مجھ سے۔۔۔۔"
پریسا اُسے ایک بار پھر سیگریٹ سلگھاتے دیکھ اب کی بار اپنے خوف پر قابو پاتے بولی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے نگاہیں گھما کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اب فاصلے پر کھسک چکی تھی۔۔۔
اُس کی بیوی اُس کی دی اہمیت کے بعد ایک بار پھر اُسی روپ میں آچکی تھی۔۔۔ جیسا شاہ ویز اُسے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔
سیاہ لباس میں آج وہ اپنے دلکش وجود کی رعنائیوں کے ساتھ اُس کے دل پر قیامت ڈھا رہی تھی۔۔۔۔ نیٹ کی ہاف سلیوز سے جھانکتی اُس کے دودھیا بازو شاہ ویز سکندر کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔۔۔۔
"اگلی بار کمرے سے باہر اِس لباس میں نہ دیکھوں تمہیں میں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی بات کو نظر انداز کرتے اپنے مخصوص حاکمانہ انداز میں اُسے آرڈر جاری کیا تھا۔۔۔
"کیوں۔۔۔؟؟ کیوں نہ پہنوں۔۔۔ ؟ "
پریسا اُس وقت اُس کی بات سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔ اور اُس کے انداز پر تپ کر پوچھا تھا۔۔۔۔ اُس سے قدرے فاصلے پر بیٹھی وہ بہادر بنی پڑی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز آگے کو جھک کر سیگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتا وہاں سے نظر بچا کر کھسکتی پریسا کا ہاتھ تھام کر واپس صوفے پر گراتا اُس پر جھکا تھا۔۔۔۔
پریسا نے گھبرا کر خود پر جھکے شاہ ویز کے خطرناک تیور دیکھے تھے۔۔۔۔۔
"کیونکہ پری صرف شاہ کی ہے۔۔۔ اُس سے نفرت کرنے، محبت کرنے اور اُس کی حُسن کو سراہنے کا حق صرف شاہ ویز سکندر کے پاس ہے۔۔۔۔ تم اگر اِس طرح باہر جانا چاہو تو جاسکتی ہو۔۔۔ لیکن اگر کسی نے تم پر نگاہ اُٹھا کر دیکھا بھی تو اُس انسان کا وہی حال ہوگا جو سفیان کا ہوا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی دودھیا کلائی پر اپنے لب رکھتا اُن کی نرمائٹوں کو اپنی سانسوں میں اُتار گیا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا لال پڑتے چہرے اور حیا کے بوجھ سے جھکتی پلکوں کے ساتھ ساکت سی بیٹھی اِس شخص کا اپنے لیے جنون دیکھ رہی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر کا خوف ایک جانب۔۔۔ مگر اپنے وحشی کی اپنے لیے یہ جنونیت دیکھ اُس کے دل میں پھول سے کھل اُٹھے تھے۔۔۔۔۔ آنکھوں میں جگنو سے اُتر آئے تھے۔۔۔
اُس کی اُٹھتی گرتی پلکوں کا دلفریب رقص شاہ ویز سکندر کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کی یہ قاتلانہ مسکراہٹ دیکھ پریسا کا دل بہت بُری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
وہ واقعی وجاہت اور خوبصورتی کا شاہکار تھا۔۔۔ جس کی شخصیت کا رعب و دبدبا ہی اتنا تھا کہ اکثر مجرم اُس کا نام سنتے ہی گھٹنے ٹیک لیتے تھے۔۔۔
اگر یہاں شہباز آفندی کو پتا چل جاتا کہ وہ صرف شاہ ویز سکندر ہی نہیں بلکہ بلیک سٹار ہے تو وہ اتنا واویلا کبھی نہ مچا پاتے۔۔۔۔
"تم اِن سب کو کس بات کی سزا دے رہے ہو۔۔۔۔"
پریسا اُس کی گستاخانہ نگاہیں محسوس کرتی جان بوجھ کر بات بدلتے بولی۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر تم نفرت کرتے ہو مجھ سے۔۔۔ پلیز دور رہو۔۔۔۔"
پریسا خود پر جھکتے شاہ ویز کے ہونٹوں پر اپنی نازک ہتھیلی جماتے اُسے باز رکھنے کی معصوم سی کوشش کرتے بولی تھی۔۔۔۔
"مگر تم تو محبت کرتی ہو نا مجھ سے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی ہتھیلی کو اپنی گرفت میں لیتا۔۔۔ اُس پر جھکا ہی تھا جب اچانک اُس کا موبائل بج پڑا تھا۔۔۔۔۔
پریسا نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔۔
مگر شاہ ویز بنا اُس سے دور ہوئے کال اٹینڈ کر گیا تھا۔۔۔
جبکہ دوسری جانب سے آتی نسوانی آواز قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے پریسا کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے کوئی اہم بات ہونے کی وجہ سے اُس سے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔۔ جب پریسا اُس کا گریبان مُٹھیوں میں جکڑے نفی میں سر ہلا گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے اُس کی حرکت پر تیز نگاہوں سے گھورتے چھوڑنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
"تم فکر مت کرو نتاشا میں بس ابھی پہنچتا ہوں وہاں۔۔۔"
شاہ ویز نے بات کرتے پریسا کے جلن سے سُرخ ہوتے چہرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"کہاں جارہے ہو تم۔۔۔۔؟؟ کس لڑکی کے پاس۔۔۔۔؟؟"
پریسا نے اپنی گرفت سخت کیے اُسے شکی نگاہوں سے گھورا تھا۔۔۔
"تم مجھ پر شک کررہی ہو۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کے گریبان نہ چھوڑنے پر اُس کی کمر میں دونوں بازو حمائل کرتا اُسے اپنے ساتھ کسی بے جان گڑیا کی طرح اُٹھاتا صوفے سے نیچے اُتر آیا تھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔۔ تم جیسے گینگسٹرز کے بہت ساری لڑکیوں سے افیئرز ہوتے ہیں۔۔۔۔ کوئی بلا رہی ہوگی تمہیں۔۔۔۔"
پریسا اُس کا گریبان سختی سے دبوچے ہوئے تھی۔۔۔۔
"تمہیں یہ سب بولتے مجھ سے زرا ڈر نہیں لگ رہا۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز اُس کے چہرے پر پھونک مارتا بالوں کو پیچھے ہٹا گیا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ کیونکہ میں جانتی ہوں تم مجھے کبھی کچھ نہیں کہو گے۔۔۔۔ نہ خود نقصان پہنچاؤ گے۔۔۔ اور نہ کسی اور کو پہنچانے دو گے۔۔۔۔ تم دنیا والوں کے لیے بلیک بیسٹ ہو میرے لیے نہیں۔۔۔۔۔"
پریسا کے ہونٹوں سے نکلنے والے الفاظ شاہ ویز سکندر کو بے خود سا کر گئے تھے۔۔۔۔
"تم خود مجھے بہکاتی ہو۔۔۔۔ اور بعد میں الزام مجھ پر ڈال دیتی ہو۔۔۔۔ اِس بار میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی جانب زومعنیت سے دیکھ اُسے کنفیوز کرتا جھک کر باری باری اُس کے دونوں گال چومتا اُسے نیچے اُتار گیا تھا۔۔۔۔
پریسا اُس کے شدت بھرے لمس پر دھک اُٹھی تھی۔۔۔۔
"میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔ تم روم سے نہیں نکلو گی۔۔۔۔"
شاہ ویز نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
پریسا نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔
مگر جیسے ہی اُس نے پورچ سے اُس کی گاڑی نکلتی دیکھی وہ اپنے روم سے نکل آئی تھی۔۔۔
"تم سے بہت محبت کرتی ہوں میں شاہ ویز سکندر۔۔۔ مگر یہ جن لوگوں کو عذاب میں ڈال رکھا ہے نا تم نے۔۔۔۔ بچپن سے اب تک یہی میرے اپنے رہے ہیں۔۔۔ تمہاری خاطر اِن سے منہ نہیں موڑ سکتی۔۔۔۔ اور اگر موقع آیا تو تم سے بھی لڑ جاؤں گی۔۔۔۔"
روم سے نکلتے پریسا کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ یہ سب کرکے اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کرنے جارہی تھی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان فل یونیفارم میں ملبوس کمشنر صاحب کے آفس میں داخل ہوا تھا۔۔۔ جہاں پہلے سے بیٹھی ایس پی حبہ کو دیکھ وہ ٹھٹھکا تھا۔۔۔۔
"تشریف لائیں ایس پی حمدان۔۔۔۔۔ مجھے آپ ہی کا انتظار تھا۔۔۔۔"
کمشنر صاحب کے لیے اپنے یہ دونوں ہونہار آفیسرز بہت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔۔۔۔ اِسی لیے وہ ہر مشکل کیس اُنہیں دونوں کا دیتے تھے۔۔۔۔ اور ہمیشہ وہ اُن میں سرخرو بھی ٹھہرے تھے۔۔۔
"جی سر۔۔۔۔"
حمدان خاموشی سے وہاں ٹک گیا تھا۔۔۔۔
"میں نے آج پھر آپ دونوں کو ایک بہت اہم کیس کے سلسلے میں بلایا ہے۔۔۔ جس کے لیے اُوپر سے مجھ پر بہت زیادہ پریشر ہے۔۔۔ اور آج کل ہر دوسرے فرد کی زبان پر یہی قصہ چل رہا ہے۔۔۔۔ "
کمشنر صاحب نے بات کرنے سے پہلے تمہید باندھی تھی۔۔۔ جبکہ وہ دونوں اتنے جینئیس تو تھے ہی کہ آرام سے سمجھ گئے تھے وہ کس کی بتا کررہے ہیں۔۔۔۔
"الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے۔۔۔ اور اِس وقت کی سب سے بڑی جماعت کے چیئرمین اقبال کیانی کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی زور پکڑتی جارہی ہیں۔۔۔۔ اب تک اُن کی پارٹی کے دس سے زائد لیڈرز کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ہے۔۔۔۔ اور یہ سب کون کررہا ہے آپ لوگ اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔۔ "
کمشنر صاحب کی بات پر حبہ اور حمدان نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُنہیں جس بات کا ڈر تھا وہیں ہونے والا تھا۔۔۔۔
"سر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
حبہ نے اپنے ہاتھ کی مُٹھیوں کو ایک دوسرے میں جکڑے اپنے دل کی غیر ہوتی حالت پر قابو پاتے پوچھا تھا۔۔۔
"تینوں بلیک سٹارز چاہیئں مجھے۔۔۔۔ زندہ یا مردہ۔۔۔ یہ آپ پر ہے۔۔۔۔ اب تک نجانے کتنی ایجنسیز اور فورسز کے ادارے اُن کے خلاف اپنی کئی ٹیمز بھیج چکے ہیں۔۔۔ مگر بلیک سٹارز اتنے منظم طریقے سے کام کرتے ہیں کہ اُن تک پہنچنا تو دور کی بات اُن ٹیمز کا کوئی ایک فرد بھی واپس نہیں مل سکا۔۔۔۔
اُن تینوں نے اپنی بہت بڑی فوج تیار کر رکھی ہے۔۔۔ اور سب سے بڑی بات۔۔۔ اُن میں کوئی غدار نہیں ہے۔۔۔ اگر ایک بھی غدار ہوتا تو اب تک بلیک سٹارز میں سے کسی ایک کی شناخت تو سامنے آچکی ہوتی۔۔۔۔۔۔ لیکن ہماری بہت ساری کوششوں کے بعد ایک آدمی ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔۔۔ جس سے ہمیں بہت معمولی سی معلومات ملی ہیں۔۔۔ بلیک سٹارز میں ایک لیڈی گینگسٹر بھی ہے۔۔۔ جو بہت زیادہ زہین اور تگڑی کھلاڑی ہے۔۔۔۔ وہ اکیلی درجنوں سے لڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔۔۔۔ اُسے کمزور سمجھ کر اُس پر وار کرنا آسان نہیں ہے۔۔ کیونکہ اُس کا جوابی وار آج تک کوئی نہیں سہہ پایا۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنے باقی دونوں سٹارز کی کمزوری ہے۔۔۔۔ اُن میں سے اگر ہم کسی ایک کو بھی مار دیں۔۔۔ تو باقی دونوں ویسے ہی کمزور پر جائیں گے۔۔۔۔ کیونکہ یہ تینوں ہی ایک دوسرے کا سپورٹ سسٹم ہیں۔۔۔
باقی دونوں لیڈرز ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔۔۔۔ اور اُن کے قہر سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا۔۔۔۔ ہمیں اُنہیں کمزور کرنا ہے پہلے۔۔۔ اور پھر ایک ساتھ تینوں پر وار کرنا ہے۔۔۔۔
اِن لوگوں کی دہشت دن بدن ملک میں پھیلتی جارہی ہے۔۔۔ تمام سیاسی جماعتیں اندر سے ڈری ہوئی ہیں۔۔۔ کیونکہ اب تک یہ نجانے کتنے مضبوط سیکورٹی سسٹم توڑ کر سیاسی لیڈرز کے گھروں میں گھس چکے ہیں۔۔۔
اقبال کیانی ہمارے بہت ہی معزز سیاست دان ہیں۔۔۔۔ اُن کی حفاظت کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔۔۔۔"
کمشنر صاحب نے ساری تفصیل بتاتے آخر میں اُن دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
حبہ بالکل ساکت سی اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی۔۔۔
"سر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ کہ بلیک سٹارز اتنی ساری سیاسی پارٹیز چھوڑ کر صرف تحریکِ حریت کو ہی ٹارگٹ کیوں کررہے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ یہ اقبال کیانی سے کوئی پرسنل دشمنی بھی نہیں لگتی اُن کی۔۔۔۔ "
حمدان نے ناسمجھی سے کمشنر صاحب کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے آفس کا دروازہ کھلا تھا اور اقبال کیانی اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ پچاس سے اُوپر کی عمر کا مالک وہ شخص قیمتی پہناوے اور اپنی شخصیت کے دبدبے کے ساتھ وہاں آتا اُن تینوں کو لمحہ بھر کے لیے حیران کر گیا تھا۔۔۔ کمشنر صاحب نے اُنہیں بتایا تھا اِس میٹنگ کے بارے میں۔۔۔ مگر اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ اقبال کیانی خود اُن کے آفس پہنچ جائے گا۔۔۔۔
حبہ اور کمشنر صاحب اُن کو دیکھ اپنی کرسی سے اُٹھے تھے۔۔۔ جبکہ حمدان نے ایسی کوئی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ وہ ویسے ہی ٹانگ پر ٹانگ جمائے سر ہلا کر اقبال کیانی کے سوال کا جواب دے گیا تھا۔۔۔
اُس کا یہ توہین آمیز انداز وہاں موجود تمام افراد نے نوٹ کیا تھا۔۔۔ مگر اِس وقت اقبال کیانی کو اِن آفیسرز کی اشد ضرورت تھی اِس لیے چاہنے کے باوجود وہ کچھ نہیں کہہ پایا تھا۔۔۔۔
"سر آپ نے زحمت کیوں کی۔۔۔۔ مجھے بتا دیتے میں یہ میٹنگ آپ کے گھر پر ہی کروا لیتا۔۔۔ اگر آپ کی اِس میں شرکت کی خواہش تھی تو۔۔۔۔"
کمشنر صاحب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اُن کے پیروں تلے ہاتھ رکھ دیں گے۔۔۔ حمدان نے نخوت سے سر جھٹکا تھا۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا کمشنر صاحب کو پروموشن چاہیے تھی۔۔۔
"نہیں۔۔ ہر کام اپنی مقرر جگہ پر ہی اچھا لگتا ہے۔۔۔ تعارف نہیں کروائیں گے اپنے آفیسرز سے۔۔۔۔"
اقبال کیانی کے اندر کے خوف سے آج اُس کی ٹون ہی بولی ہوئی تھی۔۔۔ حمدان پہلے بھی ایک بار اُس سے ملاقات کر چکا تھا۔۔۔ جب یہی شخص خود کو خدا اور باقی انسانوں کو کم تر ترین مخلوق تصور کرتا تھا۔۔
حمدان کو اُس کی یہ حالت دیکھ دل کو سکون محسوس ہوا تھا۔۔۔
"یہ ایس پی حمدان صدیقی اور ایس پی حبہ امتشال ہیں۔۔۔۔ اِن کے کارناموں کے بارے میں تو آپ نے سن ہی رکھا ہے نا۔۔۔ اپنی جان سے بڑھ کر اپنی ڈیوٹی سے محبت کرتے ہیں یہ۔۔۔۔ اور آپ جیسے سیاسی لیڈرز سے بہت عقیدت بھی ہے اِنہیں۔۔۔۔"
کمشنر صاحب نے پرستائش انداز میں تعارف کروایا تھا۔۔۔
"جی بہت زیادہ عقیدت ہے۔۔۔۔ "
حمدان نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلاتے جواب دیا تھا۔۔۔۔
جبکہ حبہ خاموش کی رہی تھی۔۔۔ اُسے اقبال کیانی کے ساتھ بیٹھے اُس کے بھانجے شہزاد کیانی کی خود پر اُٹھتی نگاہیں انتہائی ناگوار گزر رہی تھیں۔۔۔ جو جب سے آیا تھا اپنی مکروہ نگاہیں اُسی پر گاڑھے بیٹھا تھا۔۔۔ حبہ کو اگر وہاں بیٹھے لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو اب تک وہ اِس شخص کا حلیہ بگاڑ دیتی۔۔۔ بہت ضبط کرتی وہ مُٹھیاں بھینچے بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔
اُسی لمحے ایک بار پھر دروازہ کھلا تھا اور دو ملازمین لوازمات سے سجی ٹرے گھسیٹتے اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔۔
سب لوگ ایک دم خاموش ہوئے تھے۔۔
"ارے ڈونٹ وری یہ میرے بہت قابلے اعتماد لوگ ہیں۔۔۔"
کمشنر صاحب نے ملازمین کی جانب اشارہ کرتے اُن سب کو بات جاری رکھنے کا کہا تھا۔۔۔۔
جب حمدان نے نظریں گھما کر نیچے بیٹھ کر تمام لوازمات ٹیبل پر سجاتی ملازمہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ سیاہ سادہ سے کپڑوں میں ملبوس چہرا دوپٹے سے ڈھکے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے پہنے بیٹھی لڑکی کے پہچاننے میں اُسے ایک سیکنڈ نہیں لگا تھا۔۔
وہ کوئی اور نہیں اُس کی زوجہ محترمہ تھیں۔۔۔ جو اُس سے کال پر اپنے میکے جانے کی اجازت طلب کرکے یہاں پولیس اسٹیشن پہنچی ہوئی تھی۔۔۔
حمدان کی نظریں اب اُسی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جو نوٹ کرتے ٹرالی سے پلیٹس اُٹھا کر ٹیبل کے رکھی مہروسہ کے ہاتھ لرز گئے تھے۔۔۔
حبہ کا دھیان اِس سب کی جانب تھا ہی نہیں وہ تو بس مُٹھیاں بھینچے شہزاد کیانی کو جان سے مارنے کے منصوبے بنا چکی تھی۔۔۔
اُس نے کمشنر صاحب کے بلانے پر اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے اُس کے کانوں میں شہزاد کیانی کی دردناک چیخیں سنائی دی تھیں۔۔۔۔
شہزاد کیانی نے شاید بے دھیانی میں بجلی کی ننگی تار کو پاؤں سے چھو لیا تھا۔۔۔ لوہے کی کرسی پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے وہ شدید کرنٹ کی لپیٹ میں آگیا تھا۔۔۔
حبہ جیسے ہی پلٹی اپنی کرسی کے عین پیچھے کھڑے ملازم کو دیکھ وہ پل بھر کے لیے حیران ہوئی تھی۔۔۔
جب سیاہ پینٹ اور ٹی شرٹ میں داڑھی مونچھوں کے ساتھ سر پر کیپ ڈالے کھڑے شخص کے مسکرا کر آنکھ مارنے پر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"یہ میر حازم سالار کی بیوی کو بُری نگاہوں سے دیکھے اور سمجھے گا بچ جائے گا۔۔۔۔"
سب کی توجہ شہزاد کیانی کی جانب تھی۔۔۔ جو ابھی تک بجلی کے جھٹکے کھا رہا تھا۔۔۔ وہ بالکل دروازے کے ساتھ تھا۔۔۔ اگر کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تو اُس نے بھی کرنٹ کی لپیٹ میں آجانا تھا۔۔
اپنے کانوں میں پڑتی گھمبیر آواز پر حبہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"یہ میر حازم سالار کی بیوی کو بُری نگاہوں سے دیکھے اور سمجھے گا بچ جائے گا۔۔۔۔"
سب کی توجہ شہزاد کیانی کی جانب تھی۔۔۔ جو ابھی تک بجلی کے جھٹکے کھا رہا تھا۔۔۔ وہ بالکل دروازے کے ساتھ تھا۔۔۔ اگر کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا تو اُس نے بھی کرنٹ کی لپیٹ میں آجانا تھا۔۔
اپنے کانوں میں پڑتی گھمبیر آواز پر حبہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم۔۔۔۔۔؟؟"
حبہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ وہ لوگ جن بلیک سٹارز کے لیے اتنے منصوبے بنا رہے تھے۔۔۔ وہ اِس طرح بے خود ہو کے نہ صرف اُن کے ساتھ اُن کے بیچ آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ بلکہ اتنے بڑے سیاسی شہزاد کیانی پر حملہ آور بھی ہوچکا تھا۔۔۔۔
"جہاں تم وہاں میں۔۔۔۔ ایس پی صاحبہ۔۔۔۔"
حازم کی آنکھوں کے سرد و سپاٹ تاثرات حبہ کے وجود میں سنسنی دوڑا گیا تھا۔۔۔
"وہ مرجائے گا۔۔۔۔ اُسے بچاؤ۔۔۔۔"
حبہ دھیمی آواز اور منت بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔
"تو میں نے کونسا مذاق کیا ہے۔۔۔ مارنے کے لیے ہی کرنٹ لگایا ہے اُسے۔۔۔۔"
حازم بڑے ریلیکس موڈ میں اُس شخص کو بجلی کے زور دار جھٹکے کھاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔
"تم کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟"
حبہ نے دانت پیستے پوچھا تھا۔۔۔۔
"میں جو چاہتا ہوں تم بہت اچھے سے جانتی ہو۔۔۔۔"
حازم نے سامنے رکھی ٹرے سے بسکٹ اُٹھا کر منہ میں ڈالا تھا۔۔۔۔
اقبال کیانی چیخ رہا تھا چلا رہا تھا اپنے بھتیجے کی جان بچانے کے لیے سب کے آگے فریاد کررہا تھا۔۔۔ جبکہ حمدان سینے پر بازو باندھے اُس شخص کو جھٹکے کھاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ مہروسہ بھی خاموشی سے سرجھکائے کھڑی تھی۔۔۔
کمشنر صاحب خود بے بسی سے یہ دیکھ رہے تھے۔۔۔
وہ کس کو موت کے منہ میں جانے کا کہتے۔۔۔۔
"میں نہیں جانتی۔۔۔۔ "
حبہ نگاہیں چراتے انکاری ہوئی تھی۔۔۔
"رخصتی چاہتا ہوں تمہاری۔۔۔ اور جو تم مجھ سے طلاق لینے کے لیے وکیلوں سے رابطے کررہی ہو اُسے ختم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
حازم کی بات پر حبہ نے سختی سے مُٹھیاں بھینچی تھیں۔۔۔۔
"میں اپنے باپ کے قاتل سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔"
حبہ نے دانت پر دانت چڑھاتے کاٹ دار نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"تو ٹھیک ہے مرنے دو پھر اِن چچا بھتیجے کو۔۔۔ جس کا الزام آئے گا تمہارے کمشنر صاحب پر۔۔۔ بچارا اتنی محنت کرکے اِس پوسٹ تک پہنچا ہے اور اتنے بڑے سیاسی کے قتل میں بے عزت کرکے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔"
حازم کی بات پر حبہ کا دل چاہا تھا اُسے اپنی نگاہوں سے غائب کردے۔۔۔۔۔ یہ شخص ہر بار اُسے ایسے ہی بے بس کردیتا تھا۔۔۔
"میں تمہاری بات ماننے کو تیار ہوں۔۔۔ پلیز اُسے بچا لو۔۔۔"
حبہ نے اپنی مُٹھیاں بھینچے بہت مشکل سے جواب دیا تھا۔۔۔۔
جس پر حازم نے ایک زخمی مسکراہٹ اُس پر اُچھالتے ایک جانب رکھی لکڑی کی کرسی اُٹھا کر شہزاد کیانی کے پیر پر دے ماری تھی۔۔۔۔
حازم نے شہزاد کیانی کی گھٹیا حرکت کو دیکھتے سب سے نظر بچا کر بورڈ سے بجلی کی ننگی تار لے کر شہزاد کیانی کے پیروں میں پھینک دی تھی۔۔۔
اُس کے کرسی مارنے پر تار ایک جھٹکے سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔ اور شہزاد کیانی بے دم سا ہوتا منہ کے بل کرسی سے نیچے جا گرا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے دھیرے سے جاکر سوئچ آف کرتے تار کا دوسرا سرا بورڈ سے نکال دیا تھا۔۔۔ شہزاد کیانی کی جانب متوجہ ہوتے باقی لوگ تو یہ نہیں دیکھ پائے تھے۔۔۔ مگر حمدان صدیقی کی نگاہیں تو اُس سیاہ شال میں لپٹی لڑکی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔
جلدی سے ایمبولنس بلاتے شہزاد کیانی کو فوری طور پر ہاسپٹل لے جایا گیا تھا۔۔۔
حازم اور مہروسہ نے وہاں سے الگ الگ نکلنا تھا۔۔۔ حازم جاچکا تھا۔۔۔
جبکہ مہروسہ نکلنے ہی والی تھی جب اُسے اپنی کلائی کسی کی مضبوط گرفت میں قید ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
اُسے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی۔۔۔ کیونکہ یہ بے رحم لمس محسوس کرکے ہی وہ پہچان گئی تھی کہ پیچے کھڑا شخص اُس کا ستمگر ہی تھا۔۔۔
"آپ ایسے نہیں جاسکتیں۔۔ آپ کون ہے اور اِس پولیس اسٹیشن میں کیا کررہی ہیں۔۔۔۔ ؟؟"
حمدان اُس کی کلائی سختی سے مڑورتے پوچھ رہا تھا۔۔۔ جبکہ مہروسہ اِس وقت شدید مشکل میں پھنس چکی تھی۔۔۔۔
مگر اِس وقت وہ حمدان کے سامنے وہ اپنی شناخت نہیں لاسکتی تھی۔۔۔۔
اُس نے بنا مُڑے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا تھا۔۔۔ جب حمدان نے اُسے اپنی گرفت سے یوں بے قابو ہوتے دیکھ اُس کی کمر بازو حمائل کرتے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اِس وقت جس کوریڈور میں کھڑے تھے وہ بالکل سنسان پڑا تھا۔۔۔ اُن کی ہاتھا پائی کوئی بھی نہیں دیکھ پارہا تھا۔۔۔۔
مہروسہ اُسے خود پر حاوی ہوتا دیکھ پلٹی تھی۔۔۔ اور اُس کے پیٹ پر اپنا زور دار پنچ رسید کرتی حمدان صدیقی کو لمحے بھر کے لیے بھونچکا کر رکھ گئی تھی۔۔۔
اُس نے آج تک مہروسہ کے ساتھ فائٹ نہیں کی تھی۔۔۔ اِس لیے وہ اُس کی اِن صلاحیتوں سے واقف نہیں تھا۔۔۔ یہ پنچ کوئی عام پنچ نہیں تھا۔۔۔ وہ پراپر ٹرینڈ کمانڈوز کی طرح لڑنا جانتی تھی۔۔۔۔
حمدان کو شدید حیرت ہوئی تھی۔۔۔ اگر یہ لڑکی کمشنر صاحب کے کہے کے مطابق اور اب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اتنی زیادہ سٹرانگ تھی تو اب تک اُس کی سختی اتنے آرام سے کیونکر برداشت کرتی آئی تھی۔۔۔۔
اُس پر جوابی وار کیوں نہیں کیا تھا۔۔۔۔
کیا یہ اُس کی بے پناہ محبت تھی۔۔۔؟؟
حمدان اپنی سوچوں میں اُلجھا تھا۔۔ جب اُس کی گرفت کمزور پڑتی دیکھ مہروسہ وہاں سے بھاگ گئی تھی۔۔۔ حمدان خاموشی سے کھڑا اُسے وہاں سے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
اُس کے نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ وہاں سے ہٹا تھا۔۔۔ جب اُسے اپنے پیر کے نیچے کسی شے کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔۔۔
پیر ہٹاتے وہ نیچے بیٹھتا وہاں گرا سیاہ رنگ کا انتہائی خوبصورت جھمکا اپنی ہتھیلی پر رکھتا اُسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔ کچھ لمحے اُسے ایسے ہی دیکھتے رہنے کے بعد وہ اُسے سنبھال پر جیب میں رکھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"شاہ ویز نے تمہارے پیرنٹس کا قتل کیا ہے۔۔۔ اور اب وہ باقی سب کو مار کر تمہارے نام پر موجود ساری جائیداد حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اُس نے تم سے نکاح بھی صرف اِسی وجہ سے کیا ہے۔۔ کیونکہ ایسا کرنے سے وصیت کے مطابق ساری دولت جائیداد تمہارے شوہر کے نام پر ٹرانسفر ہوسکتی ہے۔۔۔ اُس نے تمہاری معصومیت دیکھ تمہارے سامنے محبت کا ناٹک کرکے تمہیں صرف پھنسایا ہے۔۔۔۔ ہم سب کو مارنے کے بعد، وہ ساری جائیداد اپنے نام لگوائے گا۔۔۔ اور پھر تمہیں بھی مار دے گا۔۔۔ یہی ہے اُس کی اصل حقیقت۔۔۔ وہ صرف تمہیں استعمال کررہا ہے۔۔۔۔"
یاسمین بیگم اپنے شوہر اور خاندان والوں کے مجبور کرنے پر پریسا کے سامنے شاہ ویز کے حوالے سے جھوٹ بولتیں۔۔۔ اندر سے خون کے آنسو رو رہی تھیں۔۔۔ شاہ ویز اورپریسا کی شادی سے سب سے زیادہ وہی خوش تھیں۔۔۔ اُن کی لاڈلی سفیان سے شادی کرکے برباد ہونے سے بچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
لیکن اِس وقت وہ مجبور تھیں۔۔۔ شہباز آفندی نے اُنہیں پریسا کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔
"ماما یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا فق پڑتے چہرے کے ساتھ۔۔۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کی بات جھٹلا سکتی تھی سوائے یاسمین بیگم کے۔۔۔
اور سب نے اِسی بات کا فائدہ اُٹھایا تھا۔۔۔
"آپ کو لگتا ہے پری تائی جان کی باتوں کا یقین کرے گی۔۔۔"
فضہ اپنی ماں کے کان میں سرگوشی کرتے بولی تھی۔۔
"پری بہت پاگل ہے یقین کرلے گی۔۔۔ پتا نہیں اُس کروڑوں کی وراثت کے مالک کو اِس میں کیا نظر آگیا۔۔ بس اِدھر پری بات پر یقین کر گی اُدھر تم نے شاہ ویز سکندر کے پاس پہنچ جانا ہے۔۔۔ وہ کنگال سفیان اب اِس پری کو ہی مبارک ہو۔۔۔ تم بس شاہ ویز سکندر کو اپنی مُٹھی میں کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ "
فضہ کی ماں اپنی بیٹی کو اِس مشکل سے نکلنے کی ترکیب بتا رہی تھیں۔۔۔ اُن دونوں ماں بیٹی کو شاہ ویز پہلی نظر میں ہی بہت زیادہ پسند آیا تھا۔۔۔۔
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں شاہ ویز سکندر کو اِس پریسا کے خلاف کروں گی میں۔۔۔ ہر بار ہر اچھی شے کو اُسی کی جھولی میں کیوں ڈالا جاتا ہے۔۔۔ پہلے بھی سب پریسا پریسا کرتے تھے اور اب یہ شاہ ویز سکندر بھی اُسی کو بیوی بنا بیٹھا۔۔۔۔"
فضہ کی آنکھوں میں پریسا کے لیے نفرت ہی نفرت تھی جو آج برا وقت آنے پر سامنے آرہی تھی۔۔۔۔
"میں بالکل سچ کہہ رہی ہو پری۔۔۔ تم جانتی ہو چاہے کچھ بھی ہوجائے میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گی۔۔۔ "
یاسمین بیگم آس پاس موجود لوگوں کے خیال سے پریسا کو کوئی بھی اشارہ نہیں دے پارہی تھیں۔۔۔
"پری بیٹا بچپن سے لے کر اب تک آپ کو سگی اولاد کی طرح پال پوس کر بڑا کیا ہے۔۔۔ آپ کی چھوٹی سے چھوٹء خوشی کا خیال رکھا ہے۔۔۔ مگر مجھے بہت دکھ ہورہا ہے آج۔۔۔۔ کہ آپ ہم سے زیادہ ایک غیر انسان پر بھروسہ کررہی ہیں۔۔۔ "
شہباز آفندی اُسے نرم پڑتا دیکھ مزید ایموشنل بلیک میل کر گئے تھے۔۔۔
پریسا جو اپنے پیرنٹس کا سن کر پہلے ہی نڈھال سی بیٹھی تھی۔۔۔ شہباز آفندی کی بات پر بالکل ڈھے گئی تھی۔۔ وہ اپنی آنکھوں سے شاہ ویز کو قتل کرتے دیکھ چکی تھی۔۔۔
اور اب اُس کے اتنے قریبی رشتے اُسے یہ سب بول رہے تھے۔۔۔ جس پر یقین کرنے کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچتا تھا۔۔۔
اُس کا دل مسلسل دہایا دے رہا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنی آنکھ اور کان بند کیے اِس وقت دل کی سننے سے بالکل انکاری تھی۔۔۔۔۔
"لیکن وہ بہت پاور فل ہے بابا۔۔۔ ہم چاہ کر بھی اُس کا کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔۔ "
پریسا نے اُس کی گینگسٹر والی بات بتا کر اُن سب کو مزید خوفزدہ نہیں کیا تھا۔۔۔
اُس کی بات سن کر وہاں موجود سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے تھے۔۔۔ جبکہ یاسمین بیگم نے بے یقینی سے پریسا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
وہ بھلا ایسے کیسے شاہ ویز کے خلاف جاسکتی تھی۔۔۔ وہ تو بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔۔
"ہم نہیں مگر تم کرسکتی ہو۔۔۔ "
شہباز آفندی اُسے مانتا دیکھ آنکھوں میں چمک بھرے اُس کے قریب آئے تھے۔۔۔
"کیا۔۔۔۔؟؟؟"
پریسا نے دھڑکتے دل کے ساتھ اُن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"شاہ ویز سکندر کو زہر دے سکتی ہو تم۔۔۔۔ اُس کا بُرا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے سروں سے ٹل جائے گا۔۔۔۔"
شہباز آفندی کی بات پر پریسا کا دل کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔۔۔
وہ کتنے ہی لمحے کچھ بول پانے کے قابل نہیں رہی تھی۔۔۔ اِس سوچ سے ہی اُس کی آنکھوں کے گوشوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔
"میں تیار ہوں۔۔۔۔ آپ مجھے سارا پلان سمجھا دیں۔۔۔۔۔"
پریسا کی بات پر شہباز آفندی کو زندگی میں پہلی بار اُس پر پیار آیا تھا۔۔۔
اُسی لمحے گاڑی کا ہارن بجا تھا۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی آمد کا سن کر پریسا سمیت ہر فرد خوف سے کانپ گیا تھا۔۔۔
ماں کے اشارے پر فضہ سب سے نظر بچا کر وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میر سر آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟؟ آپ نے اس طرح اچانک کال کیوں کی۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ حازم کو یوں اچانک شاہ ویز کو بھی کانفرنس کال پر لیتا دیکھ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوئی تھی۔۔۔۔
"دو بہت اہم گڈ نیوز ہیں میرے پاس۔۔۔ وہی بتانے کے لیے کال کی ہے۔۔۔۔"
حازم بات کرتے مسکرایا تھا۔۔۔۔
"جی بتائیں جلدی سے۔۔۔ اتنے دنوں سے کان گڈ نیوز سننے کے لیے ترس سے گئے تھے۔۔۔۔۔"
مہروسہ فوراً ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔۔۔
"جنید کو ہوش آگیا ہے۔۔ وہ اب کومہ سے باہر ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ "
حازم کی بات سن کر شاہ ویز اور مہروسہ دونوں کے دل میں سکون سا اُتر گیا تھا۔۔۔
"اور دوسری خبر۔۔۔۔"
مہروسہ چہکتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
"میری شادی ہے کل۔۔۔۔ اور وہ بھی ویسی ہی شان و شوکت کے ساتھ۔۔۔ جیسے ہم تینوں چاہتے تھے۔۔۔ کل بلیک سٹارز پوری دنیا کے سامنے جشن منائیں گے۔۔۔ اور اُس کے بعد شروع ہوگی دنیا والوں کی تباہی۔۔۔۔"
حازم کی بات پر اُن دونوں کی آنکھوں میں بھی چمک واضح ہوئی تھی ۔۔۔
"بالکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔ کل کا فنکشن بہت سارے لوگوں کے لیے یادگار ہونا چاہیے۔۔۔ سب کو پتا چلنا چاہیے بلیک سٹارز کتنے شاہانہ طریقے سے اپنی خوشی مناتے ہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز کے انداز میں عجیب سا سرد پن تھا۔۔۔
"شاہ تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟؟"
حازم کے ساتھ ساتھ مہروسہ بھی ٹھٹھکی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں ایک سیکنڈ میں پہچان جاتے تھے جب شاہ ویز اپنے بلیک بیسٹ موڈ میں ہوتا تھا۔۔۔
"جس کی بیوی اُسے زہر دینے کی پلاننگ کررہی ہو۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔۔۔ وہ شخص کیسا محسوس کرسکتا ہے۔۔۔ اور انسان بھی مجھ جیسا۔۔۔ جو غداروں سے ایک لفظ بھی سننے سے پہلے اُنہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز کے لہجے کی سنگینی اُن دونوں کو پریشان کر گئی تھی۔۔۔ کیونکہ اِس وقت اُس کے غصے کو کم کرنے کے لیے وہ دونوں اُس کے ساتھ موجود نہیں تھے۔۔۔
"شاہ سر پری حقیقت سے آگاہ نہیں ہے۔۔ وہ وہی مانے گی جو اُسے وہ لوگ کہیں گے۔۔۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ اُنہیں کے ساتھ رہی ہے۔۔۔۔"
مہروسہ کو اُس کے لہجے سے خوف آیا تھا۔۔۔
"اُس کا دعوا ہے کہ محبت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔۔ "
شاہ ویز سیگریٹ سلگھاتے خود بھی سلگھا تھا۔۔۔
"تم کیا سمجھتے ہو۔۔ بلکہ چاہتے ہو۔۔۔۔ جس دیوانگی سے تم اُسے چاہتے ہو۔۔ ویسے ہی وہ بھی تمہیں چاہے۔۔۔؟؟ تمہاری محبت کا مقابلہ اُس کی محبت کبھی نہیں کرسکے گی۔۔ جتنے تم دیوانے ہو اُس کے۔۔۔ وہ نازک لڑکی اُتنی دیوانگی نہیں رکھ سکتی تم جیسے مشکل ترین انسان کے لیے۔۔۔ جو اُس سے محبت نہیں عشق کرتا ہے۔۔۔ اُسے تکلیف میں دیکھ تڑپ اُٹھتا ہے۔۔۔ اُس کی پائل کو ہر وقت اپنے سینے کی جیب میں ڈال کر ہر وقت خود کو اُس کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔۔۔ اُس کی زرا سی مہک سے پاگل ہو اُٹھتا ہے۔۔۔ اگر کچھ دن وہ نظر نہ آئے تو شاہ کا سکندر سے بلیک بیسٹ بن جاتا ہے۔۔۔۔ "
حازم ابھی مزید بھی بول رہا تھا۔۔۔ جب شاہ ویز غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔
"بکواس بند کرو میر۔۔۔ ہر وقت مذاق کرنے کا نہیں ہوتا۔۔۔۔ نہیں ہے اتنی ضروری پریسا آفندی میرے لیے۔۔ نہیں مر رہا میں اُس کے بغیر۔۔۔۔ "
شاہ ویز سکندر اضطراری کیفیت میں بولتا انکار میں بھی اقرار کر گیا تھا۔۔۔ کہ کیسے وہ پل پل تڑپ رہا تھا اُس لڑکی کی قربت کے لیے ۔۔۔۔
"تو ٹھیک ہے۔۔۔ تمہاری اذیت کی وجہ کو ہی میں جڑ سے ختم کردیتا ہوں۔۔۔۔ پریسا آفندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر۔۔۔۔۔"
حازم نے عین اُس کے دل پر ہاتھ ڈالا تھا۔۔۔
"میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔ دوبارہ ایسی بکواس بھی کی تو۔۔۔۔"
شاہ ویز کی کنپٹی کی رگیں تن گئی تھیں۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔ یہ پریسا آفندی کی چاہت ہی ہے کہ آپ کے بارے میں بنا کچھ جانے وہ آپ سے نکاح کرچکی ہے۔۔۔ اُس کی نظر میں آپ ایک گینگسٹر ہی ہیں۔۔۔ وہ بہت معصوم ہے۔۔۔ جیسے سچا دل خود رکھتی ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتی ہے۔۔۔۔ "
مہروسہ نے ہمیشہ کی طرح تحمل کے ساتھ اُسے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی شاہ ویز کا غصہ کتنا بُرا تھا۔۔
زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔ دوبارہ ایسی بکواس بھی کی تو۔۔۔۔"
شاہ ویز کی کنپٹی کی رگیں تن گئی تھیں۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔ یہ پریسا آفندی کی چاہت ہی ہے کہ آپ کے بارے میں بنا کچھ جانے وہ آپ سے نکاح کرچکی ہے۔۔۔ اُس کی نظر میں آپ ایک گینگسٹر ہی ہیں۔۔۔ وہ بہت معصوم ہے۔۔۔ جیسا سچا دل خود رکھتی ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتی ہے۔۔۔۔ "
مہروسہ نے ہمیشہ کی طرح تحمل کے ساتھ اُسے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی شاہ ویز کا غصہ کتنا بُرا تھا۔۔
"معصوم نہیں بے پاگل ہے وہ۔۔۔۔ سب نظر اور سمجھ آتا ہے اُسے۔۔۔ جان بوجھ کر کررہی ہے سب۔۔۔ صرف مجھے اپنے آگے جھکانے کے لیے۔۔۔۔ وہ جانتی ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔ اقرار سننے کی خاطر کررہی ہے یہ سب۔۔۔۔"
شاہ ویز خود بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ غصے میں وہ کیا بات اپنے منہ سے نکال گیا ہے۔۔۔
جس محبت کا اقرار وہ اپنے سامنے نہیں کر پایا تھا۔۔۔ وہ اِس وقت اُن دونوں کے سامنے کر چکا تھا۔۔۔
وہ دونوں کھل کر مسکرا دیئے تھے۔۔۔ وہ خود بھی یہی چاہتے تھے کوئی ایسی لڑکیاں شاہ ویز کی زندگی میں آئے جو اُس کے اندر کی وحشت نکال کر اُسے جینا سکھا دے۔۔۔ اور پریسا کی وجہ سے وہ سب ہورہا تھا۔۔۔
کبھی بھی اپنی فیلنگز شیئر نہ کرنے والا اب اپنی جھنجھلاہٹ بیان کررہا تھا۔۔۔
"بس اِسی بات کا اقرار پریسا کے سامنے کردو۔۔۔ کہ محبت کرتے ہو اُس سے۔۔۔ جو لڑکی تمہاری نفرت کے باوجود تم سے دور نہیں جا پارہی۔۔۔ تمہاری محبت کی جھلک دیکھ تو وہ مزید دیوانی ہوجائے گی۔۔۔ خود کو مزید سزا مت دو۔۔۔۔ تمہارا بھی زندگی کی دلکشی کو جینے کا حق ہے۔۔۔"
حازم اور مہروسہ اُسے اپنی طرف سے بہت ساری نصحیتیں کرتے فون بند کر گئے تھے۔۔۔
جبکہ شاہ ویز موبائل بیڈ پر اُچھالتا سیگریٹ سلگھاتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گیا تھا۔۔۔
اُس کا دماغ شدید غصے سے کھول رہا تھا۔۔ وہ پریسا کو روم سے باہر نہ نکلنے کا کہہ کر گیا تھا۔۔۔ مگر وہ محترمہ نہ صرف باہر گئی تھیں۔۔۔ بلکہ اپنے پیارے خاندان والوں کے ساتھ مل کر اُس کے قتل کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔۔۔
یہ لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ شاہ ویز نے صرف اُنہیں نذر بند کیا ہے۔۔۔۔
مگر وہ ابھی تک شاہ ویز سکندر کی پہنچ اور دہشت سے واقف نہیں تھے۔۔۔
شاہ ویز اِسی طرح سگریٹ پیتا آنکھیں موندے بیٹھا تھا جب دروازہ ہلکی سی دستک کے بعد کھلا تھا۔۔۔ وہ پہلی آہٹ سے ہی پہچان گیا تھا کہ یہ پریسا نہیں ہے۔۔۔
جو سوچ اُس کی رگیں مزید تن گئی تھیں۔۔۔ وہ اِس وقت شدید غصے میں تھا۔۔۔ جس نے بھی یوں اُس کے پاس آنے کی گستاخی کی تھی۔۔۔ اُس کی خیر نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔۔۔
"سر مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ پریسا کے حوالے سے۔۔۔۔"
فضہ نے اُنگلیاں مڑورتے اُس کی شخصیت کی دہشت دیکھ خوف سے کپکپاتے بمشکل الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔
شاہ ویز نے ابھی تک آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔۔
"بولو۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کے گھمبیر وحشت ناک لہجے پر وہ سہم کر مزید چند قدم پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔
"سر وہ پریسا آپ کے ساتھ سنسیئر نہیں ہے۔۔۔۔ وہ باہر اپنے گھر والوں کے ساتھ آپ کو مارنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔۔۔۔ ابھی کافی میں زہر مکس کرکے وہ آپ کے پاس لانے والی ہے۔۔۔۔ اُس نے آپ سے نجانے کس وجہ سے نکاح کیا ہے۔۔۔ ورنہ وہ محبت صرف سفیان سے کرتی ہے۔۔۔۔ وہ بہت بڑی دھوکے باز لڑکی۔۔۔۔۔"
فضہ اُس کی وجیہہ صورت پر نگاہیں گاڑھے ایک ہی سانس میں بولی جارہی تھی۔۔۔ جب پریسا کے لیے غلط الفاظ استعمال کیے جانے پر شاہ ویز نے بنا آنکھیں کھولے گن اُٹھا کر فضہ کے سر سے زرا اونچا فائر کیا تھا۔۔۔
جو دیکھ فضہ کی سانسیں حلق میں ہی اٹک چکی تھیں۔۔۔ اُس کی بولتی بالکل بند ہوچکی تھی۔۔۔
وہاں سے بھاگنے کے لیے اُس کے پیروں میں جان باقی نہیں رہی تھی۔۔۔۔
وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ شاہ ویز سکندر کا نشانہ آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے مس ہوا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اگر شاہ ویز کا ارادہ واقعی اُسے مارنے کا ہوتا تو اب تک وہ اِس دنیا کو خیر آباد کہہ چکی ہوتی۔۔۔
شاہ ویز نے آنکھیں کھول کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
یہ لڑکی پریسا کی بیسٹ فرینڈ تھی۔۔۔ جسے شاہ ویز نے ہر وقت پریسا کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔
اور یہ اُس کی بیوی کو دھوکے باز بول رہی تھی۔۔۔
"گیٹ لاسٹ اگر دوبارہ میری بیوی کے بارے میں غلط سوچا بھی تو اُس دن یہ گولی دیوار میں نہیں تمہاری کھونپڑی میں لگے گی۔۔۔۔"
شاہ ویز کی دھاڑ پر فضہ لڑکھڑاتی روم سے نکلی تھی۔۔۔۔۔ جب اُسی لمحے گولی کی آواز سن کر پریسا گھبرائی سی روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ باقی سب بھی اُس کے پیچھے سیڑھیوں کے قریب رک گئے تھے۔۔۔ جبکہ فضہ کو شاہ ویز کے روم سے نکلتا دیکھ وہ سب حیران ہوئے تھے۔۔۔
شاہ ویز نے پریسا کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جو واقعی ہاتھ میں کافی کا مگ اُٹھائے اندر آتی اُسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہی تھی۔۔۔
"تم نے اُس بچاری کو کیوں ڈرایا۔۔۔ ؟؟ مجھے لگا تھا تم لڑکیوں پر وار نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر تم ہر بار میری سوچ کو غلط ٹھہرا کر خود کو میری نگاہوں میں مزید نیچے گرا دیتے ہو۔۔۔۔"
پریسا زہر خند لہجے میں بولتی اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
اُس نے کافی کا مگ وہیں سنٹرل ٹیبل پر ہی رکھ دیا تھا۔۔۔
"اِس وقت دور رہو مجھ سے پریسا آفندی میں شدید غصے میں ہوں۔۔۔ نہیں چاہتا تم میرے قہر کا نشانہ بنو۔۔۔"
شاہ ویز سگریٹ جلا کر ہونٹوں میں دباتا واپس پہلی والی پوزیشن میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا چکا تھا۔۔۔
پریسا کو بھی اس وقت اُس پر شدید غصہ تھا۔۔۔۔
"ہر بار تم مجھے خود سے خوفزدہ نہیں کرسکتے۔۔۔ نہیں ڈرتی میں تمہارے کسی بھی قہر سے۔۔۔۔"
وہ آگے بڑھی تھی اور شاہ ویز کے ہونٹوں سے سگریٹ کھینچتی اُسے ساتھ رکھی ایش ٹرے میں مسلتے۔۔۔ سگریٹ کی پوری ڈبی اُٹھا کر پانی کے جگ میں ڈال گئی تھی۔۔۔ شاہ ویز نے اپنی لال آنکھیں کھول کر ایک نظر پنک لباس میں دلکش بکھیرتے حسین رُوپ کے ساتھ سامنے کھڑی پریسا کو دیکھا تھا۔۔۔ اور اُس کی کلائی دبوچ کر اُسے اپنے برابر بیڈ پر گرا لیا تھا۔۔۔۔
"پریسا آفندی اب تم مجھ سے خود کو نہیں بچا پاؤ گی۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے فرار کی ساری راہیں مسدود کرتا اُس کے گرد اپنی مضبوط بانہوں کا حصار قائم کر گیا تھا۔۔۔
وہ اِس وقت شدید زہنی اذیت کا شکار تھا۔۔۔ صرف اور صرف اپنی بانہوں میں مقید لڑکی کی بے اعتباری کی وجہ سے۔۔۔۔
وہ اُسے حقیقت سے آگاہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اور یہ بھی چاہتا تھا کہ پریسا اُس سے نفرت نہ کرے۔۔۔۔
پریسا جو بہت بہادر بن کر روم میں آئی تھی۔۔ اِس وقت شاہ ویز سکندر کے آہنی حصار میں قید پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ میں نفرت کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔"
پریسا اُس کی وحشت ناک لال آنکھیں دیکھ خوف سے لرز گئی تھی۔۔۔ ساتھ ہی اُس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔ یہ شخص ہر وقت اتنی اذیت میں کیوں رہتا تھا۔۔۔ جب اپنے اردگرد ہوتی ہر شے پر اختیار رکھنے کا دعوا کرتا تھا تو اپنی اذیت کم کیوں نہیں کرتا تھا۔۔۔
مگر پریسا یہ نہیں جانتی تھی کہ شاہ ویز سکندر کے زخموں کی دوا صرف اور صرف وہ تھی۔۔۔ اگر پریسا کو اس بات کا اندازہ ہوجاتا تو وہ کبھی اُس سے خود کو دور رکھنے کی کوشش نہ کرتی۔۔۔
"اتنی نفرت نہیں کرپاؤ گی تم مجھ سے۔۔۔ جتنی میں کرتا ہوں۔۔۔۔ آج میری وہی نفرت برداشت کرنے کے لیے خود کو تیار کرلو پریسا آفندی۔۔۔۔"
شاہ ویز وحش ناک لہجے میں بولتا پریسا کی گردن سے بال ہٹاتے اُس پر جھکا تھا۔۔۔ اور اپنے جارحانہ لمس سے اُس کی دھڑکنوں میں طغیانی برپا کر گیا تھا۔۔۔ اُس کی ہلکی ہلکی داڑھی کی چبھن محسوس کرتی وہ کسمسائی تھی۔۔۔۔۔ اور اُس کی شرٹ کے کالر کو سختی سے دبوچ لیا تھا۔۔۔
وہ شاہ ویز سکندر کی یہ نفرت برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کے لمس سے اُسے اپنی گردن جلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
"پریسا آفندی بہت مہلت دی ہے میں نے تمہیں اب تک۔۔۔ مگر اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ وحشی درندہ کیسا ہوتا ہے۔۔۔ جب اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کو زندگی کی بھیک مانگتے دیکھو گی۔۔۔ بہت عزیز ہیں نا یہ سب تمہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنے زرا سے لمس پر اُس کا خطرناک حد تک لال پڑتا چہرا دیکھ اُسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔
پریسا بنا اُس کی بات کا جواب دیئے جواباً اُس سے بھی زیادہ غصہ آنکھوں میں بھرے اُس کے وجاہت سے بھرپور مغرور نقوش کو تکے گئی تھی۔۔ جو ہمیشہ کی طرح اِس وقت بھی غصے سے تنے ہوئے تھے۔۔۔ اور ماتھے پر دنیا جہاں کی شکنیں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔
اپنے اِس وحشی کو دیکھ نجانے کیوں اُس کا دل چاہا تھا وہ اُس کی پیشانی پر لب رکھ کر اُس کی شکنوں کے جال کو ختم کردے۔۔۔ اُس کی آنکھوں کی وحشت اور اذیت کو ختم کرکے اُس میں محبت اور چاہت کے رنگ بھر دے۔۔۔۔
لیکن مگر اِس شخص کے سامنے وہ ایسا صرف سوچ ہی سکتی تھی۔۔۔ ایسا کرنے کی جرأت نہیں تھی اُس میں۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان فل یونیفارم میں ملبوس روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔ آہٹ پر مرر کے سامنے کھڑی اپنی چین کی ہک بند کرتی مہروسہ کے ہاتھ سے چین چھوٹ کر نیچے جا گری تھی۔۔۔ وہ ابھی نہا کر نکلی تھی۔۔۔
اُس نے گیلے بالوں کو ٹاول میں قید کر رکھا تھا۔۔۔ جبکہ دوپٹہ اِس وقت بیڈ پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔ اُس نے رُخ نہیں موڑا تھا۔۔۔ مگر حمدان کو سیدھا اپنی جانب آتا دیکھ اُس کا دل زور زور سے دھڑکنیں لگا تھا۔۔۔
وہ جانتی تھی آج پولیس اسٹیشن میں حمدان اُسے پہچان چکا تھا۔۔۔۔ اور اب شاید اُس کی زندگی کا وہ وقت آگیا تھا جس کے لیے وہ بالکل بھی تیار نہیں تھی۔۔۔
نہ زندگی میں کبھی وہ حمدان صدیقی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوسکتی تھی۔۔۔۔
حمدان پر بحالتِ مجبوری اُسے حملہ آور ہونا پڑا تھا۔۔۔ مگر وہ اپنی اُس حرکت کے لیے خود کو کبھی معاف نہیں کرنے والی تھی۔۔۔
"گڈ ایوننگ مائی لیڈی۔۔۔۔"
حمدان چلتا ہوا اُس کے عقب میں آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ مرر پر اب دونوں کے عکس ایک ساتھ اُبھرتے اُن کی جوڑی کی ایک مکمل تصویر کررہے تھے۔۔۔
مہروسہ نے بے اختیار اُس عکس کی نظر اُتارتے اپنی جوڑی کے ہمیشہ ایسے ہی سلامت رہنے کی دعا کی تھی۔۔۔
حمدان کا گھمبیر دلکش لہجہ اُس ہی سماعتوں سے ٹکراتا اُسے اچھا خاصہ نروس کر گیا تھا۔۔۔
وہ تو اُس کی جانب سے اپنی اصلیت سامنے آنے کے بعد کسی شدید ردعمل کی توقع کررہی تھی۔۔۔ وہ اِس قدر بوکھلا چکی تھی کہ بوکھلا کر پلٹتی وہ اُس کی بات کا جواب نہیں دے پائی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا مائی لو۔۔۔۔ کوئی پریشانی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟"
حمدان نے اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنے قریب کھینچا تھا۔۔۔۔
حمدان کا یہ محبت بھرا دلربانہ انداز دیکھ مہروسہ کا دل اُچھل کر باہر آنے کو تیار ہوچکا تھا۔۔۔۔
وہ اِس وقت سیاہ لباس میں ملبوس بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ اُس کا یہ لرزتا کانپتا انداز حمدان کے دل و دماغ پر ایک خمار سا طاری کر گیا تھا۔۔۔۔
"نن نہیں میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
مہروسہ اُس کا محبت بھرا انداز دیکھ اپنی آنکھوں کے گوشے نم ہونے سے نہیں روک پائی تھی کیونکہ اُسے کہیں نا کہیں فیل ہوچکا تھا کہ اُس کی ایس پی کی محبت کا یہ انداز آج بہت بناوٹی تھا۔۔۔
جو دھوکا وہ اُسے دے رہی تھی۔۔۔۔ حمدان بھی اُسے اُسی دھوکے کی مار مارنا چاہتا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کو اپنے آنسو دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔ وہ اب تک جو کھیل کھیل رہی تھی اُس یا دی اینڈ ہونے والا تھا۔۔۔۔
جو سوچ کر ہی مہروسہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔
"مگر مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا۔۔۔۔"
حمدان اُس کے بالوں سے ٹاول نکال کر دور اُچھال چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ اُسی کے سہارے سر جھکائے کھڑی رہی تھی۔۔۔
وہ حمدان صدیقی کی محبت چاہتی تھی مگر یہ بناوٹی نہیں۔۔۔
"تم جانتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔۔"
حمدان اُس کے کانوں سے بال ہٹاتے سرگوشیانہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے اپنی جھیل سی بڑی بڑی آنکھوں پر سجی گھنیری پلکیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ کیونکہ اب اُسے حمدان کی آنکھوں اور لہجے میں سچائی نظر آئی تھی۔۔۔۔
"اپنے ماں باپ کے بعد جتنی آج تک کبھی کسی سے نہیں کی۔۔۔ "
حمدان جھک کر اُس کے سرخ پڑتے گال پر مہرِ محبت ثبت کرتا سچے لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کی سانسیں اُس کے اِس اظہارِ محبت کے ساتھ تیز ہوتی جارہی تھیں۔۔۔ اُسے محسوس ہورہا تھا جیسے یہ لمحے اُس کی زندگی کے سب سے حسین ترین لمحے تھے۔۔۔۔
"میں محبت نہیں کرنا چاہتا تھا تم سے۔۔۔ کیونکہ آج تک ہمیشہ میرا قریبی ترین رشتہ مجھے دھوکا دیتا آیا ہے۔۔ مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔۔۔ میں سب کچھ برداشت کرسکتا ہوں مگر جھوٹ اور فریب بالکل بھی نہیں۔۔۔۔"
حمدان اُس کی جانب دیکھتا زخمی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولا مہروسہ کو دل چیر گیا تھا۔۔۔
وہ بھی تو اُسے دھوکا ہی دے رہی تھی نا۔۔۔۔
"مگر میری بے بسی دیکھو۔۔۔ کہ اپنے دل کو تمہیں چاہنے سے نہیں روک پایا۔۔۔۔ تم نے مجھے اپنا عادی بنا لیا ہے۔۔۔۔"
حمدان کی گرم سانسیں اپنے کان کی لوح پر محسوس کرتے مہروسہ خود میں سمٹی تھی۔۔۔
اُس کا دل بُری طرح سے لرز رہا تھا۔۔ اُسے حمدان کی باتوں سے خوف محسوس ہورہا تھا۔۔۔ وہ کیسے بتاتی کہ وہ بھی اُسے دھوکا ہی دے رہی تھی۔۔۔
مگر حمدان صدیقی کے لیے اُس کے دل میں کتنی محبت تھی یہ سچ شاید وہ کبھی نہ جان پاتا۔۔۔۔
"میں بھی آپ سے دور کبھی نہیں جانا چاہتی۔۔۔ پلیز کبھی مجھے خود سے دور مت کیجیئے گا۔۔۔۔ "
مہروسہ اُس کے سینے پر اپنی کپکپاتی ہتھیلی جماتے کہا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کے چہرے کا زرد رنگ ہی حمدان کو سمجھا گیا تھا کہ یہ لڑکی اُسے دھوکا دے رہی تھی۔۔۔
وہ ایک دم اُس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔
"کل میری ایک بہت قریبی دوست کی شادی ہے۔۔۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ شرکت کرنی ہے۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کل میری بیوی پورے دل سے میرے لیے تیار ہو۔۔۔۔ "
حمدان کے پر اسرار انداز پر مہروسہ ٹھٹھکی تھی۔۔۔
"جی۔۔۔ "
وہ مزید کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ حمدان اُسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتا واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
جبکہ حمدان کے جاتے ہی مہروسہ نے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ شاہ ویز اور حازم کے نمبر پر میسیج سینڈ کیا تھا۔۔۔
"آج رات رضوان صدیقی کے پاس موجود اقبال کیانی کے خلاف تمام ثبوت آپ لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔۔۔ ہمارے سب سے بڑے مشن کو لے کر میرا کام ختم ہوجائے گا۔۔۔ مگر آپ دونوں کو میری قسم ہے مجھے چاہے کچھ بھی ہو آپ لوگ حمدان صدیقی کو زرا سی خراش تک نہیں پہنچائیں گے۔۔۔ اگر آپ دونوں میں سے کسی نے بھی ایسا کچھ کیا۔۔۔ تو کبھی معاف نہیں کروں گی آپ لوگوں کو۔۔۔۔"
یہ میسیج ٹائپ کرتے مہروسہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
"آج رات رضوان صدیقی کے پاس موجود اقبال کیانی کے خلاف تمام ثبوت آپ لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔۔۔ ہمارے سب سے بڑے مشن کو لے کر میرا کام ختم ہوجائے گا۔۔۔ مگر آپ دونوں کو میری قسم ہے مجھے چاہے کچھ بھی ہو آپ لوگ حمدان صدیقی کو زرا سی خراش تک نہیں پہنچائیں گے۔۔۔ اگر آپ دونوں میں سے کسی نے بھی ایسا کچھ کیا۔۔۔ تو کبھی معاف نہیں کروں گی آپ لوگوں کو۔۔۔۔"
یہ میسیج ٹائپ کرتے مہروسہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
اُس کے میسیج سینڈ کرتے ہی فوراً حازم نے اُسے کال کی تھی۔۔۔
تیزی سے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ حازم کی کال پک کرتے مہروسہ روم سے نکل آئی تھی۔۔۔
"مہرو یہ کیا بول رہی ہو تم۔۔۔ ؟؟ اگر تمہیں اُس ایس پی سے خطرہ محسوس ہورہا ہے تو فوراً نکل آؤ وہاں سے۔۔۔ ہمیں کوئی ثبوت نہیں چاہییں۔۔۔ ہمارے لیے تم زیادہ امپورٹنٹ ہو۔۔۔۔ میں ابھی آرہا ہوں تم میرے ساتھ چلو گی۔۔۔۔"
حازم اُس کا میسیج پڑھتے ہی تیزی سے بلیک ہاؤس سے نکلا تھا۔۔۔۔
"نہیں میر سر آپ کچھ نہیں کریں گے۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں یہ ثبوت حاصل کرنے کے لیے میں نے کتنی تکلیف اُٹھائی ہے۔۔۔ میں اپنا کام آدھے میں چھوڑ کر نہیں آؤں گی۔۔ اور نہ ہی حمدان کو۔۔۔۔ ورنہ میری آگے کی زندگی میرے لیے جینا مشکل ہوجائے گی۔۔۔ میں نے اُنہیں دھوکا دیا ہے۔۔ اپنی محبت میں دھوکا کیا ہے۔۔۔۔ جب تک وہ مجھے اِس کی سزا نہ دے دیں۔۔۔ میں اُنہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔"
مہروسہ کی بات سن کر حازم نے سختی سے اپنی مُٹھیاں بھینچتے خود پر ضبط کیا تھا۔۔۔
اِس ایک محبت نے اُن تینوں کی زندگیوِں میں داخل ہوکر اُنہیں بالکل بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔ کبھی کسی سے نہ دبنے والے۔۔۔ محبت کے آگے اپنا آپ ہار رہے تھے۔۔۔
"تم ہم دونوں کے ساتھ بہت غلط کررہی ہو مہروسہ۔۔ تم بہت اچھے سے جانتی ہو کہ تم ہم دونوں کے لیے کیا ہو۔۔۔ ۔ اگر تمہیں کچھ ہوا تو ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔۔۔۔ "
حازم بول رہا تھا جبکہ مہروسہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پارہی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔ جبکہ اُس کا رونا نہ سن پاتے دوسری جانب سے حازم فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تمہیں مجھ پر کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔ تم کتنے بڑے وحشی اور درندے ہو۔۔۔۔ "
پریسا اُس کی گرفت میں قید بنا خوف کھائے دو بدو بولتی شاہ ویز کو مبہوت کر گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کو اتنے غصے میں دیکھ کر بھی اُس کے چہرے پر خوف کا نام و نشان تک نہیں تھا۔۔۔ جیسے وہ جانتی ہو کہ چاہے کچھ ہوجائے شاہ ویز سکندر کبھی اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔۔
"یہ تو پھر ہم دونوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کے گلابی ہونٹوں کی جانب معنی خیزی سے دیکھتا اُس کی جانب جھکا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا اُس کے تیور دیکھ کانپ گئی تھی۔۔۔
"شاہ ویز سکندر اپنی حد میں رہو۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے سینے پر دباؤ ڈالتی اُسے دور رکھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔ جب شاہ ویز اُس پر ایک گہری نگاہ ڈالتا اُس کے اُوپر سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
"تم میری نفرت کے قابل بھی نہیں ہو پریسا آفندی۔۔۔ مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ میں کبھی کوئی غلطی کرسکتا ہوں۔۔۔ مگر اب سمجھا آرہی ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کر لی ہے۔۔۔ تمہیں اپنے قریب لاکر۔۔۔۔"
شاہ ویز زہر خند لہجے میں بولتا صوفے پر رکھے گلاس کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
"یہ تم میرے لیے لائی تھی نا۔۔۔ تو پھر اِسے ایسے کیوں رکھ دیا۔۔۔۔"
شاہ ویز کافی کا مگ ہاتھ میں لیتے اُس کی جانب پلٹا تھا۔۔۔ جبکہ اُسے مگ اپنے ہونٹوں کے قریب لے جاتے دیکھ پریسا کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔ تم یہ نہیں پیو گے۔۔۔۔"
پریسا فوراً بیڈ سے اُٹھی تھی۔۔۔
"کیوں۔۔۔؟؟ میری بیوی اتنی محبت سے میرے لیے لائی ہے۔۔۔ تو کیوں نہیں پیؤں گا میں۔۔۔ شاہ ویز سکندر اب اتنا بے مروت بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے پریسا کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی کافی کا مگ ہونٹوں سے لگاتے اُسے ایک ہی سانس میں ختم کردیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے قریب پہنچتی پریسا بُری طرح لڑکھڑا گئی تھی۔۔۔
وہ منہ کے بل نیچے گرتی جب شاہ ویز نے ہاتھ بڑھا کر اُسے تھام لیا تھا۔۔۔
اُس نے محسوس کیا تھا کہ پریسا کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہوچکی تھی۔۔۔ زرد چہرے اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ وہ اُسے دیکھتی جیسے اپنے آپے میں نہیں تھی۔۔۔
شاہ ویز خاموش نگاہوں سے یک ٹک اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔
"تم نے کیوں پی وہ کافی۔۔۔۔ تم سب باتوں پر اختیار رکھتے ہو۔۔۔ تو یہ کیسے نہیں جان پائے کہ میں نے اُس کافی میں زہر ملایا ہے۔۔۔ بولو۔۔۔ کیوں نہیں جان پائے۔۔۔ کیوں پیا زہر تم نے۔۔۔۔؟؟"
پریسا اُس کے سینے پر مکے برساتی اِس وقت اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔۔ وہ بُری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔ اُسے دیکھ کر یہی لگ رہا تھا جیسے اِس لڑکی کی آنکھوں کے سامنے اِس کی زندگی لُٹ گئی ہو۔۔۔۔
شاہ ویز نے اُس کے گرد اپنے دونوں بازو حمائل کر رکھے تھے۔۔۔
"تم نے زہر اِسی لیے ملائی تھی نا۔۔ کہ وہ پی کر میں مرجاؤں۔۔۔ اور تمہارے خاندان والوں کی جان چھوٹ جائے مجھ سے۔۔۔۔ میں نے تو تمہارا کام ہی آسان کیا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے کان میں سرد لہجے میں سرگوشی کرتا اُس کے کان کی لوح پر اپنے لب جماتا پریسا کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
"نہیں چاہتی میں ایسا کچھ بھی۔۔۔ تم بہت بُرے ہو۔۔۔ میں جانتی ہوں تم میری محبت کا کبھی یقین نہیں کرو گے۔۔۔۔ تم نہ خود محبت کرتے ہو اور نہ کسی کی خود کے لیے محبت برداشت کرسکتے۔۔۔ "
پریسا کی حالت بہت غیر ہوچکی تھی۔۔۔ جبکہ شاہ ویز خاموشی سے کھڑا اپنے لیے اِس لڑکی کی دیوانگی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جو اُس کے زہر پینے کے خیال سے ہی اپنے حواس کھو بیٹھی تھی۔۔۔۔
"میں ڈاکٹر کو بلاتی۔۔۔۔"
پریسا نے اُس کا حصار توڑتے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔۔
مگر شاہ ویز اُس کا ہاتھ تھام کر واپس اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔۔
"کیوں کرتی ہو مجھ سے اتنی محبت۔۔۔ ؟؟ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں ہوں۔۔۔۔ باقی سب کی طرح مجھ سے نفرت کیوں نہیں کرتی تم۔۔۔ اتنے لوگوں کے سامنے تمہیں اغوا کیا میں نے۔۔۔ تمہیں مینٹلی ٹارچر کیا۔۔۔ تمہیں بلیک میل کیا۔۔۔ تمہارے خاندان والوں کے خلاف استعمال کیا۔۔۔ تمہیں خود سے نفرت کروانے کی پوری کوشش کی۔۔۔ تمہیں تو اِس سب کے بعد مجھ سے شدید نفرت ہوجانی چاہییے تھی۔۔۔ پھر کیوں کر محبت ہوئی تمہیں مجھ سے۔۔۔۔ میں واقعی ایک وحشی اور درندہ ہوں۔۔۔ جو تم جیسی لڑکی کی محبت کے قابل نہیں ہوں۔۔۔ تمہارے گھر والے ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔ میں نے استعمال کیا ہے تمہیں۔۔۔ تمہاری جائیداد حاصل کرنے کے لیے کھیل کھیلا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی اپنے لیے یہ دیوانگی بھری محبت دیکھ پاگل ہوچکا تھا۔۔۔ اُسے اِس لڑکی پر کیا اپنا ہر ایک ستم یاد آرہا تھا۔۔۔
پریسا بھیگی آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔
"تو تم چاہتے ہو میں تم سے نفرت کروں۔۔۔ اور دور چلی جاؤں تم سے۔۔۔۔"
پریسا نے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا تھا۔۔۔
جس کا جواب شاہ ویز نے فوراً سر اثبات میں ہلا کر دیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے کافی کا مگ اُٹھایا تھا۔۔۔ جس میں اُس نے اپنے ہاتھوں سے زہر مکس کی تھی۔۔۔
اُس میں تھوڑی سی کافی ابھی بھی باقی تھی۔۔۔
پریسا اُس زہر ملی کافی کو پی گئی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی کہی یہ بات بھی مان گئی تھی وہ۔۔۔۔۔
شاید اُس کا یہ جانِ ستمگر کبھی نہ سمجھ پاتا کہ وہ اُس کی کتنی دیوانی تھی۔۔۔
اُس کی یہ حرکت دیکھ شاہ ویز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔ اِس لڑکی کی حرکتیں اور قربت اُسے زیادہ دیر اضطراب میں بھلا کہاں رہنے دیتی تھیں۔۔۔
اُس کی مسکراہٹ ہونٹوں پر ایک پل کے لیے آکر معدوم ہوچکی تھی۔۔۔ جبکہ پریسا کے دل پر اُس کی یہ دلکشی ہمیشہ کے لیے نقش ہوگئی تھی۔۔۔
"تم کیا سچ میں اتنی معصوم ہو۔۔۔؟؟؟ تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ مجھ جیسے بلیک بیسٹ کو ختم کرنا اتنا آسان ہے۔۔۔۔ اور اُس سے بھی بڑی بات۔۔۔ میرے سامنے تم یا کوئی اور تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔"
پریسا اُس کے آگے سے ہٹنے لگی تھی۔۔۔ جب شاہ ویز اُس کے سر کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکڑتا اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
پریسا بالوں کے کھنچاؤ پر درد سے بلبلا گئی تھی۔۔۔
"وحشی درندے۔۔۔۔ "
پریسا کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا تھا۔۔۔
"اب ساری زندگی اِس وحشی درندے کو برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کا چہرا قریب کرتا اُس پر بکھرے آنسو اپنے ہونٹوں سے چننے لگا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا اُس کے اِس جنونی انداز پر گھبرا گئی تھی۔۔۔
"میں نے اپنے ہاتھوں سے کافی میں زہر ملائی تھی۔۔۔"
پریسا لال چہرے اور دھڑکتے دل کے ساتھ اُس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتی۔۔۔ بے حد حیرت سے بولی تھی۔۔۔۔
"آفندی مینشن میں کام کرتا ہر فرد شاہ ویز سکندر کا وفادار ہے۔۔۔ وہ زہر نہیں تھی جو تم نے میری کافی میں مکس کی ہے۔۔۔ نیند کی گولیاں تھیں۔۔۔ جو میں اتنی زیادہ مقدار میں استعمال کرچکا ہوں کہ اب اُن کا بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات پر پریسا اُس شاک کی کیفیت میں اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُس کی آخری بات پریسا کے دل میں کھب سی گئی تھی۔۔۔۔
اُس نے شاہ ویز کو بہت کم سوتے دیکھا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اقبال کیانی کی پارٹی نے ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا تھا۔۔۔ جس کے حوالے سے ساری سیکیورٹی حبہ اور اُس کی ٹیم کو سونپی گئی تھی۔۔۔
حبہ پوری طرح سے اِس کام میں مصروف تھی۔۔۔ اُسے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔۔۔ وہ بس اب پوری طرح بلیک سٹارز کو اُن کے ارادوں میں ناکام کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔
وہ دوبارہ حازم سالار کی بلیک میلنگ میں بھی نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔
"میڈم باہر کوئی شخص کھڑا ہے۔۔۔۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔"
حبہ سیکورٹی روم میں بیٹھی سارے کیمروں کی لوکیشن چیک کررہی تھی۔۔۔ جب اُس کے ماتحت نے آکر اُسے پیغام دیا تھا۔۔۔
"میں بزی ہوں ابھی۔۔۔ کسی سے نہیں مل سکتی۔۔۔۔"
حبہ مصروف سے انداز میں کہتے واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔۔ وہ اپنی ٹیم میں بھی کسی پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اِس لیے سب کچھ خود ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"ہم سے بھی نہیں ملیں گی ایس پی صاحبہ۔۔۔۔"
حبہ زوم کرکے جلسہ گاہ کے اردگرد موجود بلڈنگز چیک کررہی تھی۔۔۔ جب کانوں میں گونجتی حازم کی آواز پر اُس کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔ وہ اُچھل کر اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔
ریموٹ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوتا کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔۔۔
"تم یہاں۔۔۔۔"
حبہ نے حازم کے پیچھے کھڑے اپنے آدمیوں کو آنکھیں نکالتے حازم کو گھورا تھا۔۔۔
"میں نے بولا تھا نا۔۔۔ یہاں کسی کو بھی مت بھیجنا۔۔۔۔"
حبہ پولیس اہلکاروں پر چلائی تھی۔۔۔
جبکہ حازم سن گلاسز لگائے پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا اُسے اِردگرد موجود لوگوں کا خیال کیے بغیر انتہائی دلبرانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"میر حازم سالار کو اپنی بیوی کے پاس آنے سے کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا۔۔۔۔ "
حازم کو روکنے کی جرأت وہاں کسی نے نہیں کی تھی۔۔۔
"کیا چاہتے ہو تم۔۔۔؟؟"
حبہ مُٹھیاں بھینچے اپنا غصہ ضبط کرتے بولی۔۔۔
"میرے ساتھ شاپنگ پر چلو۔۔۔۔ کل شادی ہے ہماری۔۔۔۔ میں تمہیں میری پسند کی شاپنگ کروانا چاہتا ہوں۔۔۔"
حازم اُس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ اِردگرد موجود پولیس اہلکاروں کو دیکھ حازم کی اِس حرکت پر شرم سے لال ہوئی تھی۔۔۔
"میں ڈیوٹی پر ہوں اس وقت۔۔۔ "
حبہ نے دانت چباتے ضبط سے جواب دیا تھا۔۔۔
"جس کے خوف سے تم سب کے اتنے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ خود تمہارے ساتھ شاپنگ پر چل رہا ہے۔۔۔۔ تو اتنے گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔ آج میرا کچھ بھی کرنے کا موڈ نہیں ہے۔۔۔۔ آج آرام سکون سے کر لینے دیتا ہوں اقبال کیانی کو۔۔۔ "
حازم سرگوشی نما آواز میں بولتا اُس کا بازو تھامے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
"میرے ایک اشارے کی دیر ہے حازم سالار۔۔۔ یہاں ہر طرف پولیس اہلکار پھیلے ہوئے ہیں۔۔۔ تمہیں ابھی اُٹھا کر جیل میں ڈال دیں گے۔۔۔۔ "
حبہ نے باہر آکر اُس کی گرفت سے اپنا ہاتھ کھینچتے وارن کیا تھا۔۔۔ جس کے جواب میں حازم نے قہقہ لگاتے اُس کا ہاتھ واپس تھام لیا تھا۔۔۔۔
"تمہیں مکمل اجازت ہے میری زندگی۔۔۔ تم سب کچھ کر سکتی ہو۔۔۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ مجھے پکڑنا اتنا آسان ہے تو۔۔۔۔ کہیں اپنی فورسز کا نقصان ہی نہ کروا بیٹھنا۔۔۔۔"
حازم اُسے لیے گاڑی تک پہنچ چکا تھا۔۔۔
"اقبال کیانی اچھا لیڈر اور اچھا انسان ہے۔۔۔۔ تم لوگ بہت غلط کررہے ہو اُس کے ساتھ۔۔۔۔"
حبہ اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔
"اچھا انسان تو میں بھی ہوں۔۔۔ میرے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔۔ "
حازم اُس کے قریب آتا اُسے بانہوں میں اُٹھا چکا تھا۔۔۔
"تم ایک انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔ میں کہیں نہیں آرہی تمہارے ساتھ۔۔۔۔"
حبہ اُس کے بات بدلنے پر تلملا گئی تھی۔۔۔
مگر اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی حازم اُسے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا چکا تھا۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے اپنے بابا کے قاتل کو ایک شوہر کے روپ میں قبول کروں گی میں۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔ بہت جلد خلع کا کیس دائر کرنے والی ہوں۔۔۔۔۔"
حبہ اپنے مقابل فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے حازم کو دیکھتی زہر خند لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔
جب حازم اُس کی کلائی تھام کر اپنے نہایت قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
"بھول ہے تمہاری کہ حازم سالار کی زندگی میں تم اُس سے جدا ہوسکتی ہو۔۔۔ ہاں میرے مرنے کے بعد تم جو چاہو کر سکتی ہو۔۔۔۔۔"
حازم اُس کے گال پر اپنے لب رکھتا سرد لہجے میں بولتا حبہ کے وجود میں سنسنی سی پھیلا گیا تھا۔۔۔ اُس کا دل زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔ حبہ نے فوراً نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
وہ زبان سے کچھ نہیں بولی تھی۔۔۔ مگر اُس کی آنکھوں نے نم گوشے ہی اُس کی اذیت کا پتا دے گئے تھے۔۔۔
"تم نے کبھی سوچا ہے میں واپس سے تمہارے قریب کیوں آیا۔۔۔ تمہارے سامنے اپنی شناخت ظاہر کیوں کی۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم ایک پولیس آفیسر ہو۔۔۔۔ اور میں تمہارے باپ کا قاتل۔۔۔۔ تمہیں اپنی اصلیت بتائی۔۔۔۔ کیونکہ میں اپنے دل پر پڑا بوجھ ختم کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ میں نے جس اذیت میں اپنی زندگی گزاری ہے۔۔۔ میں اُس اذیت سے مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ میری اب تک کی زندگی بہت مشکل رہی ہے حبہ۔۔۔ میں چند پل اپنی محبت کے ساتھ گزار کر اِس کے کچھ حسین لمحوں کو جینے کی خواہش میں تمہارے قریب آیا ہوں۔۔۔۔ مگر میں جانتا ہوں۔۔۔ بہت بدنصیب انسان ہوں۔۔۔ آج تک میری خواہش اور دلی سکون کے مطابق کچھ نہیں ملا مجھے۔۔۔۔ تمہارے ساتھ کی یہ چند پل کی خوشیاں کیسے مل سکتی ہیں۔۔۔"
حازم اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھوتا زخمی مسکراہٹ کے ساتھ بولتا۔۔۔۔ حبہ کا دل اُدھیڑ کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔ روکنے کی بہت کوشش کے بعد بھی بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔
اُس نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
مگر حازم اُس کی ٹھوڑی پر جھک کر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتا اُس کی بولتی بند کروا گیا تھا۔۔۔۔
"مگر میں حازم سالار ہوں۔۔۔ اگر خواہش کے مطابق کچھ نہیں ملتا تو چھین لیتا ہوں۔۔۔ جیسےاب تمہیں چھین لوں گا سب سے۔۔۔۔ "
حازم اُس کا چہرا اپنے مزید قریب کرتا اُسے اپنی گرم سانسوں سے جھلسا گیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے ایک دم بدلتے انداز پر حبہ خوف سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"مگر میں حازم سالار ہوں۔۔۔ اگر خواہش کے مطابق کچھ نہیں ملتا تو چھین لیتا ہوں۔۔۔ جیسےاب تمہیں چھین لوں گا سب سے۔۔۔۔ "
حازم اُس کا چہرا اپنے مزید قریب کرتا اُسے اپنی گرم سانسوں سے جھلسا گیا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے ایک دم بدلتے انداز پر حبہ خوف سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"تم بہت غلط کر رہے ہو۔۔۔۔ نقصان کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔۔۔۔۔"
حبہ اُس کے شکنجے سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے بولی تھی۔۔۔۔
"اب تک جتنا نقصان پاچکا ہوں۔۔۔ اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔ "
حازم اُس کی مزاحمت ختم کرتا اُس کے دھکتے گالوں پر لب رکھتا اُس کی سانسیں منجمند کر گیا تھا۔۔۔۔ حبہ کے جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا تھا۔۔۔۔
حبہ کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر اُس کے ہاتھ پر گرا تھا۔۔۔
"تم مر بھی جاؤ گے نا حازم سالار تب بھی معاف نہیں کروں گی تمہیں۔۔۔۔۔"
حبہ اُس کے حصار سے خود کو آزاد کرواتی پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔
"اور مجھے مرنے کے بعد بھی تمہاری کسی معافی کی ضرورت نہیں ہے ایس پی حبہ امتشال۔۔۔۔۔"
حازم اُس کی تلخی بھری بات کا اُسی کے انداز میں جواب دیتا۔۔۔۔ گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا۔۔۔۔
حبہ اِس وقت اپنے فل یونیفارم میں ملبوس تھی۔۔۔۔ جبکہ حازم اپنے خصوص سیاہ لباس میں بنا چہرے کو کسی شے سے ڈھکے سر عام گھوم رہا تھا۔۔۔۔ بلیک سٹارز جو اب تک سب کے لیے موسٹ وانٹڈ بن چکے تھے۔۔۔ وہ اپنی مرضی سے یوں سر عام گھومتے تھے۔۔۔۔
سیاہ قمیض شلوار میں اپنی چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ کلائی میں مہنگی گھڑی اور آنکھوں پر سن گلاسز لگائے وہ بہت ہی ڈیشنگ اور ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔
گاڑی سے اُترتے حبہ نے بے اختیار دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتاری تھی۔۔۔۔ وہ جو بظاہر اُس سے اپنی نفرت کا اظہار کررہی تھی۔۔۔ اُس کا دل ابھی بھی یقین نہیں کر پارہا تھا کہ اُس کا حازم کچھ غلط کر سکتا ہے۔۔۔۔
اِسی وجہ سے اندر ہی اندر اُس نے اپنے بابا کے قتل کیس کی انویسٹی گیشن شروع کروا دی تھی۔۔۔ جس کا علم وہ حازم کو کسی قیمت پر نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں اُس کی چوڑی پشت کو گھورتے اُس کے پیچھے چلتی مال میں داخل ہوئی تھی۔۔۔
حازم اُسے اتنی فرمانبردار سے اپنے پیچھے آتا دیکھ اچانک سے پلٹا تھا۔۔۔
جب حبہ اپنے دھیان میں چلتی اُس کے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
اُس نے گھبرا کر حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو بہت غور سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
"کیا ہوا ایس پی صاحبہ۔۔۔۔؟؟"
حازم اُس کا زرد پڑتا چہرا دیکھ پریشان ہوا تھا۔۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔"
حبہ اُسے اگنور کرتی آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔ حازم اُس کی کیفیت پر حیران ہوتا اُس کے پیچھے چل دیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں برائیڈل ڈریسز کی ایک بہت بڑی شاپ میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ جہاں آتے جاتے اکثر لوگ اُن کے انوکھے کپل کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
جو اپنی شادی کی شاپنگ کرنے آئے تھے۔۔۔ مگر کھڑے ایسے تھے جیسے ابھی ایک دوسرے کا قتل کر دیں گے۔۔۔
"میم یہ ڈریس زیادہ اچھا لگے گا آپ پر۔۔۔۔ آپ کا کلر بہت فیئر ہے تو۔۔۔۔۔"
شاپ کیپر ایک مہرون رنگ کا نہایت ہی خوبصورت برائیڈیل ڈریس حبہ کے سامنے رکھتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی بات پر حازم نے جن خونخوار نگاہوں سے شاپ کیپر کو دیکھا تھا وہ بے چارہ اپنی بات بھی پوری نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔
"میں بہت اچھے سے جانتا ہوں میری بیوی پر کیا سوٹ کرے گا اور کیا نہیں۔۔۔۔ یہ سب رکھو یہاں اور جاؤ یہاں سے۔۔۔"
حازم کے سرد و سپاٹ لہجے پر شاپ کیپر کا چہرا خوف سے زرد پڑا تھا۔۔۔ کیونکہ حازم کی آنکھوں سے خون ٹپک آیا تھا۔۔۔۔
اپنی بیوی کی خوبصورتی کی تعریف وہ بھلا کسی اور کے منہ سے کیسے سن سکتا تھا۔۔۔۔
"سوری سر۔۔۔۔"
شاپ کیپر سارے ڈریسز سامنے رکھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ نے گردن گھما کر غصے سے حازم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"تم یہاں میرا ٹائم ویسٹ کرنے لائے ہو مجھے۔۔۔ وہ چلا گیا ہے۔۔۔ اب یہ ڈریسز کون دکھائے گا مجھے ۔۔۔"
حبہ نے دانت پیسے تھے۔۔۔
"میں کس لیے ہوں سویٹ ہارٹ میں دکھاؤں گا نا۔۔۔ یہ بلیک سٹار اپنی بیوی کے لیے ایک شاپ کیپر بھی بن سکتا ہے۔۔۔۔"
حازم اُٹھا تھا اور سامنے پڑے ڈریسز میں سے ایک بلیک کلر کا بیوی ڈریس اُٹھایا تھا۔۔۔۔
"میں یہ ڈریس نہیں پہنوں گی۔۔۔۔ "
حبہ نے اُس ڈریس پر ناگواری بھری نگاہ ڈال کر اپنا چہرا پھیر لیا تھا۔۔۔۔
اِس سے پہلے کہ حازم کچھ بولتا جب دو لڑکیاں اُس کے قریب آئی تھیں۔۔۔
"ایکسکیوزمی سر کیا یہ ڈریس ہم دیکھ سکتے ہیں۔۔۔آپ کی چوائس بہت اچھی ہے۔۔۔۔ مجھے یہ ڈریس بہت پسند آیا ہے۔۔۔ اور شاپ کے منیجر کے مطابق یہ صرف ایک ہی پیس ہے۔۔۔۔۔"
وہ لڑکی چہرے پر مسکراہٹ سجائے انتہائی شائستگی بھرے لہجے میں بولتی حبہ کو زہر لگی تھی۔۔۔ کیونکہ اُس لڑکی کی پسندیدگی بھری نگاہیں ڈریس سے زیادہ حازم پر تھیں۔۔۔ جو بات حبہ کو آگ لگا گئی تھی۔۔۔
"یس شیور۔۔۔ میری بیگم کو یہ ڈریس نہیں پسند۔۔۔ آپ لے سکتی ہیں۔۔۔۔ "
حازم حبہ کے تاثرات جانچتا انتہائی خوشدلی سے وہ ڈریس اُن لڑکیوں کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
"نہیں مجھے بہت پسند ہے یہ ڈریس۔۔۔ اور میں یہی پہنوں گی۔۔۔۔"
حبہ سے کسی قیمت پر گوارہ نہیں ہوا تھا کہ حازم کی پسند کا ڈریس کوئی اور لڑکی پہنے۔۔۔ جبکہ اُس کے ڈریس چھیننے کے انداز پر حازم اپنی جاندار مسکراہٹ روک نہیں پایا تھا۔۔۔
"اوکے میم۔۔۔۔ نو پرابلم۔۔۔۔ لیکن سر اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو آپ ہمارے ساتھ ڈریس سلیکٹ کرنے میں ہماری ہیلپ کرسکتے ہیں۔۔۔۔"
وہ لڑکیاں حازم کی مسکراہٹ کی مزید دیوانی ہوتیں۔۔۔ وہاں سے جانے کو بالکل بھی تیار نہیں تھیں۔۔۔۔ حبہ نے کھا جانے والی نگاہوں سے اُن کو دیکھا تھا۔۔۔۔
"یس شیور "
حازم اپنی بیوی کا جلن سے لال پڑتا چہرا دیکھ اُن کی بات پر حامی بھر گیا تھا۔۔۔ اُسے حبہ کا یہ پوزیسیو انداز بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔۔۔
"نہیں ہمیں دیر ہورہی ہے۔۔۔۔ آپ اپنے ہزبینڈ کو کال کرکے اُنہیں بلوا لیں۔۔۔۔ "
حبہ حازم کا ہاتھ تھامتی اُٹھی تھی۔۔۔ حازم نہایت ہی تابیداری کا مظاہرہ کرتا اپنے قہقے پر بمشکل قابو پاتا اُس کے ساتھ اُٹھا تھا۔۔۔۔
"یار یہ اتنے بڑے مال میں جلنے کی بو کہاں سے آرہی ہے۔۔۔۔"
حازم باہر آکر اپنے قہقے پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ تو پہلے سے ہی شدید تپی ہوئی تھی۔۔۔ بنا اردگرد موجود لوگوں کی پرواہ کیے وہ اُس پر جھپٹ پڑی تھی۔۔۔
جبکہ حازم ہنستا ہوا اُس پنجے جھاڑتی اپنی سرپھری شیرنی کی کلائیاں اپنی گرفت میں جکڑتا اُسے قابو کر گیا تھا۔۔۔
جو اُس کی گردن اپنے ناخنوں سے بُری طرح زخمی کرچکی تھی۔۔۔
"حازم سالار تم جیسے بھی ہو ایس پی حبہ کے ہو۔۔۔ اگر دوبارہ کسی لڑکی کو یوں اپنے قریب لانے کی کوشش کی تو اپنے ہاتھوں سے تمہارا ان کاؤنٹر کروں گی۔۔۔۔ "
حبہ نم آنکھوں اور لال چہرے کے ساتھ اُسے وارن کرتی حازم سالار کو جیسے پل بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔
"تم نفرت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟"
حازم نے سوال کیا تھا۔۔۔۔
"تم کبھی مجھے سمجھ نہیں پاؤ گے حازم سالار۔۔۔ کیونکہ تم نے کبھی مجھے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔ تم آج تک وہی کرتے آؤ ہو۔۔۔ جو تم نے خود چاہا۔۔۔ میں کیا چاہتی ہوں۔۔۔ میری خوشی کیا ہے۔۔۔ اِس بارے میں تم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔۔۔۔ مگر میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ اب میں بھی وہی کروں گی جو میں چاہتی ہوں۔۔۔ تمہیں تو نقصان نہیں پہنچا پاؤں گی میں۔۔۔ لیکن تمہارے ساتھیوں کو نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔ "
حبہ اُسے آگ اُگلتی نگاہوں سے دیکھتی واپس پلٹی تھی۔۔۔ جب حازم اُسے کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے واپس اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔
"میرے لوگوں کو اب تم لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔ اور اگر تم نے میرے کسی ساتھی کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی تو پھر تم میرا بلیک سٹار والا رُوپ دیکھو گی۔۔ حازم سالار کو بھول جانا پھر۔۔۔۔"
حازم اُس کی آنکھوں کا ہر رنگ سمجھتا تھا وہ دیکھ چکا تھا کہ واقعی کچھ کرنے والی تھی۔۔۔۔ جو حازم کسی قیمت پر نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔۔۔
وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔۔ حبہ وہیں کھڑی اُسے نگاہوں سے اوجھل ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جسے اپنے ساتھی اتنے عزیز تھے کہ وہ اُن کی خاطر اُسے دھمکی دے کر گیا تھا۔۔۔ حبہ آنکھوں میں آئے آنسو اندر دھکیلتی نیچے گرا شاپر اُٹھائے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"جنید تم کچھ دن مزید آرام کر لیتے۔۔۔۔ "
مہروسہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس تاریکی کا حصہ بنے کھڑے جنید کو اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔ جو اِس وقت اُس سے ثبوت لینے آیا تھا۔۔۔۔
"میم بستر پر پڑے دن کتنے مشکل سے گزارے ہیں میں نے۔۔۔ یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔ اِس وقت میرے لیڈرز کو میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔۔۔ اِس موقع پر میں آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
جنید کے لہجے میں اُن تینوں کے لیے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔۔۔۔
جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر اُس کی جان بچائی تھی۔۔۔
مہروسہ اُس کی بات پر مسکراتی ہاتھ میں پکڑا بیگ اُسے تھما گئی تھی۔۔۔
"دھیان سے جانا۔۔۔۔ یہ ثبوت ہم لوگوں کے لیے بہت زیادہ اہم ہیں۔۔۔۔"
مہروسہ اُسے ہدایت دیتی واپس اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ جہاں چاروں جانب اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔
کوریڈور پار کرکے اپنے روم کی جانب بڑھتے اچانک کسی نے اُس کا بازو تھام کر اُسے اپنی جانب کسی روم کے اندر کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
وہ بنا کوئی مزاحمت کیے سیدھی حمدان صدیقی کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
وہ بنا دیکھے ہی اُس کے لمس سے پہچان گئی تھی کہ وہ اُس کا ستمگر ہی تھا۔۔۔ اور شاید اُسے جنید کے ساتھ دیکھ بھی چکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے آنکھیں موندتے اپنی موت کو اپنے بے حد قریب محسوس کیا تھا۔۔۔۔
"ہیپی برتھ ڈے مائی لو۔۔۔۔"
اُس کے کان میں سرگوشی کرتے حمدان نے اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے تھے۔۔۔ جبکہ مہروسہ حیرت زدہ سی تاریکی میں آنکھیں پھاڑے اُسے تکے گئی تھی۔۔۔
حمدان نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی تھی۔۔۔۔ جس کے ساتھ ہی مہروسہ کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی کھل گیا تھا۔۔۔
پورا کمرہ لال گلابوں سے سجا ہوا تھا۔۔۔ جس کے عین وسط میں کیک رکھا گیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب اُس کے لیے کیا گیا ہے۔۔۔۔
"یہ سب آپ نے۔۔۔"
مہروسہ سے بولنا محال ہوا تھا۔۔۔ وہ تو حمدان کی نفرت کی منتظر تھی۔۔۔ مگر حمدان تو ہر مزید محبت کا مظاہرہ کرکے اُسے پہلے سے بھی زیادہ حیران کر دیتا تھا۔۔ جیسا اِس وقت ہوا تھا اُس کے ساتھ۔۔۔
حمدان اُسے اپنے ساتھ لگائے کیک کے قریب آیا تھا۔۔۔
"میں آج کی یہ خوبصورت رات ہم دونوں کے لیے بہت اسپیشل بنانا چاہتا ہوں۔۔۔ "
حمدان اُس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار قائم کرتے اُس کے دونوں ہاتھ تھام چکا تھا۔۔۔ حمدان کے جھکے ہونے کی وجہ سے اُس کی گرم سانسیں مہروسہ کی گردن پر پڑتیں اُس کی دھڑکنیں منتشر کر رہی تھیں۔۔۔
مہروسہ اِس وقت جس کیفیت کے زیرِ اثر تھی۔۔۔ اُس سے بول پانا مشکل ہورہا تھا۔۔۔۔
"مجھے یہی لگا تھا کہ مجھ جیسے جذبات سے عاری انسان کو کبھی محبت نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ اور تم سے تو بالکل بھی نہیں۔۔۔ مگر آج محسوس ہورہا ہے کہ کتنی محبت کرنے لگا ہوں تم سے۔۔۔۔ تمہارے پاس نہ ہوتے ہوئے بھی تمہارا احساس ساتھ رہتا ہے۔۔۔ تم آہستہ آہستہ بہت عزیز ہوتی جارہی ہو۔۔۔ اور جانتی ہو یہی بات ایس پی حمدان صدیقی کو بہت زیادہ خوفزدہ کررہی ہے۔۔۔۔ "
حمدان اُس کا ہاتھ تھام کر چھڑی پکڑتا اُس کے کانوں میں اپنی محبت کا اظہار کرتا مہروسہ کو مسمرائز سا کر گیا تھا۔۔۔
"میں تم سے محبت نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ تم سے دور رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ مگر میں ایسا بھی نہیں کر پارہا..."
حمدان اُس کا ہاتھ تھام کر کیک کاٹتے اُس کا رُخ اپنی جانب موڑ چکا تھا۔۔۔ اُس کی قربت پر مہروسہ کو دل بُری طرح لرز رہا تھا۔۔۔ اُسے محسوس ہورہا تھا کہ اگر یہ شخص اُسے ایسے ہی والہانہ چاہت سے دیکھتا رہا تو وہ یہیں اپنے حواس کھو دے گی۔۔۔۔
حمدان نے کیک کا پیس اُٹھا کر اُسے کھلایا تھا۔۔۔ مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر بے مول ہوا تھا۔۔۔۔
"آپ مجھ سے دور کیوں رہنا چاہتے ہیں۔۔۔۔؟؟ آپ تو محبت کرتے ہیں نا،مجھ سے۔۔۔۔"
مہروسہ کے ہونٹوں سے بے اختیار شکوہ نکلا تھا۔۔۔ وہ حمدان کے اِس نرم رویے پر زچ ہوچکی تھی۔۔۔ وہ اُس کی اصلیت جانتا تھا۔۔۔ پھر بھی اُسے کچھ کیوں نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔ جو شخص ملک سے غداری کرنے پر اپنے سگے بھائی کو قربان کر گیا تھا۔۔۔ وہ بھلا اُس کے بارے میں سب جانتے بوجھتے اُسے کیوں نہیں کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔
"یہی محبت ہی تو نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔"
حمدان اُس کے گلابی ہونٹوں پر لگے کیک کو دیکھ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اُس کے ہونٹوں پر جھکتا کیک وہاں لگا کیک اپنے ہونٹوں سے صاف کر گیا تھا۔۔۔ مہروسہ اُس کے اِس جارحانہ لمس پر اُس کی شرٹ سختی سے دبوچ گئی تھی۔۔۔
اِس سے پہلے کہ حمدان صدیقی اپنے مقابل کھڑی ساحرہ کے سحر میں پوری طرح جکڑا جاتا۔۔۔ موبائل پر آتی کال اُسے اِن حسین لمحوں کی قید سے باہر کھینچ گئی تھی۔۔۔
وہ مہروسہ کے بکھرے دلفریب حلیے پر ایک گہری نگاہ ڈالتا فون پر جگمگاتے نمبر کو دیکھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے بے یقینی کے عالم میں اُسے یوں جاتے دیکھا تھا۔۔۔ یہ شخص آخر کر کیا رہا تھا اُس کے ساتھ۔۔۔ حمدان صدیقی کا یہ پل پل بدلتا رُوپ مہروسہ کو اذیت میں مبتلا کر گیا تھا۔۔۔
وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر یہ کس کا فون تھا جس پر حمدان یوں سب کچھ ادھورا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔
وہ اُس کے پیچھے جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اچانک اُس کا سر بہت زور سے چکرایا تھا۔۔۔۔
مہروسہنے بمشکل اپنے حواس بحال رکھتے مشکوک نگاہوں سے کیک کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسے آہستہ آہستہ اپنے حواس ساتھ چھوڑتے محسوس ہورہے تھے۔۔۔ تو اِس کا مطلب باقی سب چیزوں کی طرح حمدان صدیقی یہاں بھی اُس کے ساتھ گیم کھیل گیا تھا۔۔۔
کیک میں کچھ ملایا گیا تھا۔۔۔۔ اِس سوچ کے ساتھ ہی مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ اپنے حواس کھوتی زمین بوس ہوچکی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"آفندی مینشن میں کام کرتا ہر فرد شاہ ویز سکندر کا وفادار ہے۔۔۔ وہ زہر نہیں تھی جو تم نے میری کافی میں مکس کی ہے۔۔۔ نیند کی گولیاں تھیں۔۔۔ جو میں اتنی زیادہ مقدار میں استعمال کرچکا ہوں کہ اب اُن کا بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات پر پریسا اُس شاک کی کیفیت میں اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُس کی آخری بات پریسا کے دل میں کھب سی گئی تھی۔۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔ تم اتنے ٹائم سے میرے ساتھ کھیل کھیل رہے تھے شاہ ویز سکندر ۔۔ تم نے میری زندگی کو کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کی گرفت سے اپنے بال آزاد کروانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی چلائی تھی۔۔۔
"شاہ ویز سکندر کسی کو خود پر یوں چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کی سانسوں کی مہک محسوس کرتا اُسے اپنے مزید قریب کر گیا تھا۔۔۔
"پریسا آفندی بھی کسی کو یوں خود پر حق جمانے کی اجازت نہیں دیتی۔۔۔ "
"شاہ ویز سکندر کسی کو خود پر یوں چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کی سانسوں کی مہک محسوس کرتا اُسے اپنے مزید قریب کر گیا تھا۔۔۔
"پریسا آفندی بھی کسی کو یوں خود پر حق جمانے کی اجازت نہیں دیتی۔۔۔ "
پریسا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بے خوفی سے بولی تھی۔۔۔۔
"کاش مجھے تم سے محبت نہ ہوئی ہوتی شاہ ویز سکندر تو میری زندگی کتنی خوبصورت ہوتی۔۔۔۔"
پریسا کی آنکھوں سے آنسو گرے تھے۔۔۔ جبکہ اُس کی بات سن کر شاہ ویز اپنی گرفت سے اُسے آزاد کر گیا تھا۔۔
"اب کیا ہوسکتا ہے۔۔۔ تم اپنی زندگی کی یہ سب سے بڑی غلطی کر چکی ہو۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی پاکٹ سے سیگریٹ نکالتے لاپرواہی سے بولا تھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔ مگر تمہیں معاف کرکے اب دوسری غلطی کبھی نہیں کروں گی۔۔۔۔"
پریسا کو اُس کا یہ لاپرواہ انداز آگ لگا گیا تھا۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے مجھے تمہاری معافی کی ضرورت پڑے گی۔۔۔"
شاہ ویز کو غصے سے آگ بھگولا ہوتی سامنے کھڑی لڑکی پر بے اختیار پیار آیا تھا۔۔۔
"نہیں۔۔۔ پریسا آفندی نے غلط فہمیاں پالنا چھوڑ دی ہیں۔۔۔ اب میری صرف ایک ہی خواہش ہے شاہ ویز سکندر۔۔۔ تمہیں اپنی محبت میں تڑپتے دیکھنا۔۔۔ اُس لمحے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ جب مجھے سامنے نہ پاکر تم پاگل ہوجاؤ گے شاہ ویز سکندر۔۔ جس دن تم میرے پیچھے دیوانے ہوئے پھرو گے۔۔۔ مجھے بس وہ دن دیکھنا ہے۔۔۔۔"
پریسا تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولتی شاہ ویز کے چہرے کے بدلتے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز سائیڈ ٹیبل پر رکھا گلاس اُٹھا کر فرش پر مارتا پریسا کو خوفزدہ کر گیا تھا۔۔۔ اُس کے پتھریلے تاثرات اور خون ٹپکاتی آنکھوں کو دیکھ پریسا سہم کر چند قدم پیچھے ہٹی تھی۔۔۔
شاہ ویز اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"میں کب کب۔۔۔ کہاں کہاں اور کس طرح تڑپا ہوں۔۔ اگر تم یہ جان لو۔۔۔ تو آئندہ کبھی ایسی بددعا دے کر میرے دل کا خون کرنے کا سوچو بھی نہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز جھک کر اُس کے بہتے آنسوؤں پر اپنے لب رکھتا اُس کے پیچھے موجود دراز سے فائل نکالتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
اُس کے اِس انداز اور الفاظ پر پریسا نے اُلجھ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آج حبہ اور حازم کی رخصتی تھی۔۔۔ جس کا انتظام بلیک سٹارز کے لوگوں نے بہت اعلی پیمانے پر کیا تھا۔۔۔ وہاں اُن کے گینگ کے بہت سارے لوگ موجود تھے۔۔۔
اور آج بہت دنوں بعد مل کر ایک ساتھ کوئی خوشی سیلیبریٹ کرنے والے تھے۔۔۔
حبہ نے اپنے چند ایک کولیگز کو انوائٹ کیا تھا جن میں حمدان صدیقی بھی شامل تھا۔۔ جو اپنی بیوی مہروسہ کنول کے ساتھ وہاں آنے والا تھا۔۔۔۔
وہ پولیس آفیسرز نہیں جانتے تھے کہ آج وہ جس فنکشن میں شریک ہونے والے تھے وہ پوری طرح اُنہیں لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ جنہیں گرفتار کرنے کے لیے وہ اپنی دن رات ایک کررہے تھے۔۔۔ مگر بلیک سٹارز تک نہیں پہنچ پارہے تھے۔۔۔۔
حبہ نے حمدان کا پسند کیا برائیڈل ڈریس پہنا تھا۔۔ جس میں اُس کا کلیوں جیسا حسین وجود نکھر آیا تھا۔۔ وہ فل میک اپ اور لائٹ سی جیولری میں اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی۔۔۔
آج حازم سالار کی خیر نہیں ہونے والی تھی۔۔۔ دونوں کے بیچ چھڑی سرد جنگ آج کس پار لگنے والی تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
حازم وہاں سب سے پہلے پہنچا تھا۔۔۔ جہاں کے انتہائی خوبصورت انتظامات دیکھ وہ مُسکراتے چہرے کے ساتھ جنید کے قریب آیا تھا۔۔۔
"تمہیں میری شادی کی کچھ زیادہ خوشی نہیں ہے۔۔۔۔"
حازم جانتا تھا جنید اُس کی خوشی میں بہت خوش تھا۔۔ مگر وہ اُس کی چمکتی آنکھوں پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"سر آپ کی شادی ہوگی تب ہی تو مجھ غریب کی باری آئے گی۔۔۔۔ ویسے بھی آپ کی ایس پی صاحبہ اور مہرو میم کے ایس پی صاحب تو ویسے ہی میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔۔۔۔"
جنید کی بات پر حازم مسکرائے بنا نہیں رہ پایا تھا۔۔۔ آج وہ دل سے خوش تھا۔۔۔ جس دن کا اُس نے برسوں سے انتظار کیا تھا۔۔۔ چاہے زبردستی ہی سہی مگر اُس کی زندگی کا یہ سب سے حسین دن آج آن پہنچا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُسے اپنی بیوی سے نفرت کے سوا کچھ نہیں ملنے والا تھا۔۔۔
لیکن پھر بھی اُسے پوری طرح پا لینے کے خیال سے ہی وہ بہت زیادہ خوش تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ کی آنکھ صبح دس بجے کے قریب کھلی تو اُس نے خود کو بیڈ پر پایا تھا۔۔۔ وہ اتنا زیادہ کبھی بھی نہیں سوئی تھی۔۔۔ اور اُس سے بھی زیادہ حیران وہ اِس بات پر تھی کہ رات کو اُسے ہوا کیا تھا۔۔۔
وہ بے ہوش کیسے ہوئی تھی۔۔۔۔ اگر حمدان نے کیک میں کچھ ملا کر اُسے کھلایا تھا تو کیا ریزن تھا اِس کے پیچھے۔۔۔۔
اُس کے پاس سوال بہت تھے۔۔۔ مگر کسی ایک کا بھی جواب نہیں جانتی تھی وہ۔۔۔
بیدار ہوتے ہی اُس کی نظر سب سے پہلے بیڈ کی دوسری جانب گئی تھی۔۔۔ جہاں حمدان کی سائیڈ بنا کسی سلوٹ کے صاف شفاف پڑی تھی۔۔۔
فریش ہوکر روم سے نکلتے اُسے ملازم سے پتا چلا تھا کہ حمدان تو رات سے ہی واپس نہیں آیا۔۔۔۔ مہروسہ کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔۔
پورا دن اُس کا انتظار میں گزر گیا تھا۔۔ مگر نہ تو حمدان خود آیا تھا نہ اُس کا میسیج۔۔۔ شام سات بجے کے قریب اُسے ملازمہ کے ہاتھوں انتہائی خوبصورت سا بلیک کلر کا فراک دیا گیا تھا۔۔۔ جو بہت ہی نفاست سے میچنگ جیولری اور سینڈلز کے ساتھ پیک کیا گیا تھا۔۔۔
اور اُس کے اوپر جگمگاتے لفظوں میں لکھا گیا تھا۔۔۔
"فار مائی بیوٹی فل وائف۔۔۔۔"
مہروسہ کو یاد آیا تھا۔ کل حمدان نے اُسے اپنی کسی کولیگ دوست کی شادی میں جانے کا کہا تھا۔۔۔۔ مہروسہ صرف حمدان سے ملنا چاہتی تھی۔۔۔ اُسی اُمید کے زیرِ اثر جلدی سے وہ پیروں تک آتا فل ایمبرائیڈری سے سجا بلیک فراک زیب تن کیے حمدان کی پسند کے مطابق تیار ہوچکی تھی۔۔۔
مگر حمدان پورے دو گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی گھر نہیں آیا تھا۔۔۔ اُس نے میسج کرکے اُسے ڈرائیور کے ساتھ مقررہ جگہ پر آنے کا کہا تھا۔۔۔
مہروسہ کی چھٹی حس کچھ بہت غلط ہونے کا الارم دے رہی تھی۔۔۔ مگر وہ بنا خوف کھائے اور اپنے ساتھیوں کو انفارم کیے حمدان کی ہر بات مانتی جارہی تھی۔۔
ڈرائیور کے ساتھ وہ شہر سے باہر ایک بہت ہی خوبصورت لوکیشن پر آن پہنچی تھی۔۔۔
ابھی گاڑی انٹرنس کے سامنے رکی ہی تھی۔۔۔ جب کسی نے اُس کی سائیڈ کا دروازہ واں کرتے اُس کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔۔ مہروسہ نے گھبرا کر اُوپر دیکھا تھا۔۔۔ جہاں بلیک تھری پیس سوٹ میں مسکراتے چہرے اور سرد آنکھوں سے اپنی جانب دیکھتے حمدان کو پاکر کر مہروسہ کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔۔
حمدان نہایت ہی احتیاط اور محبت سے اُس کا ہاتھ تھامے اُسے گاڑی سے باہر نکال چکا تھا۔۔۔۔۔
"آپ پورا دن کہاں تھے۔۔۔۔؟؟ میں آپ کا انتظار کرتی رہی۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ اُسے سامنے دیکھ اپنا شکوہ نہیں روک پائی تھی۔۔۔
جبکہ حمدان تو اُس کا یہ دلفریب روپ دیکھ کر کتنے ہی لمحے اُس پر سے نگاہیں نہیں ہٹا پایا تھا۔۔۔۔
"اپنی بیوٹی فل وائف کے لیے ایک بہت زبردست سرپرائز تیار کررہا تھا۔۔۔۔ "
حمدان اُسے اپنے ساتھ لگائے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے اتنے خوشگوار انداز پر مہروسہ ٹھٹھکے بنا نہیں رہ پائی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا کو شاہ ویز نے کال کرکے تیار ہونے کا کہا تھا۔۔۔ مگر وہ اُس کے ساتھ کہیں بھی جانے سے انکار کرتی۔۔۔ آرام سے سو گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز کی دھمکی کا بھی اِس بار اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔ شاہ ویز اُسے اپنے ساتھ آفندی مینشن سے واپس بلیک ہاؤس لے آیا تھا۔۔۔ جہاں وہ شہباز آفندی کو اُس کے خاندان سمیت ٹارچر کرکے اپنے خاندان کی اذیت کا بدلہ لے رہا تھا۔۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا پریسا وہ سب دیکھے اور اُس سے مزید نفرت کرے۔۔۔۔
شاہ ویز جیسے ہی روم میں داخل ہوا اُمید کے عین مطابق وہ اُسے کمبل سے خود کو پوری طرح ڈھکے سوئی ہوئی ملی تھی۔۔۔
شاہ ویز بنا کوئی لحاظ کیے آگے بڑھا تھا اور اُس کے اُوپر سے کمبل کھینچتے صوفے پر اُچھال دیا تھا۔۔ پریسا جس کی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔۔۔ اُس کے اِس جارحانہ عمل پر گھبراہٹ کے مارے اُس کے ہونٹوں سے چیخ نکلی تھی۔۔۔
اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی شاہ ویز آگے بڑھا تھا اور اُس کے نازک وجود کو بانہوں میں اُٹھاتے واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
پنک ڈریس میں بنا دوپٹے کے، کھلے بالوں اور کچی نیند سے سُرخ پڑتی آنکھوں کے ساتھ اُس کے سینے پر سر ٹکائے وہ شاہ ویز سکندر کے ہوش اُڑا گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے اُس کے اِس ہوش رُبا حلیے سے کتنی مشکل سے نگاہیں چرائی تھیں یہ وہی جانتا تھا۔۔۔
"شاہ ویز سکندر تک پاگل ہوگئے ہو کیا۔۔۔ مجھے سکون سے کیوں نہیں رہنے دیتے۔۔ مجھے بہت سخت نیند آئی ہے۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا تمہارے ساتھ۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے اِس دھونس بھرے انداز پر چلائی تھی۔۔۔ مگر شاہ ویز سکندر کی اگلی حرکت اُسے ساکت کر گئی تھی۔۔۔
"میرے بھائی سے بڑھ کر دوست کی زندگی کا سب سے بڑا دن ہے آج۔۔۔ جس میں۔۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ شرکت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میری زندگی میں خوشیوں اور سکون کے پل بہت کم آتے ہیں۔۔۔۔ جب آتے ہیں تو میں اُنہیں ایسے ہی بھرپور طریقے سے جینے کی خواہش رکھتا ہوں۔۔۔ اپنے اہم ترین لوگوں کے ساتھ۔۔۔"
شاہ ویز اُسے واش روم میں لاکر نیچے اُتارتے بولتا اُس کے ماتھے پر مہر محت ثبت کر گیا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا خاموشی سے شاہ ویز سکندر کا یہ نیا رُوپ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جو آج پہلی بار بنا دھمکی دیئے اُسے محبت سے منا رہا تھا۔۔۔۔
"اگر میں پھر بھی نہ آنا چاہوں تو۔۔۔۔"
پریسا بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔۔۔۔ چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے جھٹکتی دوبدو بولی تھی۔۔۔
"تو پھر میں اپنے طریقے سے لے جاؤں گا مسز۔۔۔ آپ بھول رہی ہیں مجھے بلیک بیسٹ بننے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اپنی زندگی کی اِس واحد ایسی ہستی کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ جو نہ تو شاہ ویز سکندر سے ڈرتی تھی نہ ہی بلیک بیسٹ سے۔۔۔۔
شاہ ویز کی دھمکی پر پریسا نے ایک نظر اُسے دیکھا تھا اور دوسری اُس کے سر کے اُوپر موجود شاور پر۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ نل کھول گئی تھی۔۔۔۔
جس سے نکلتا پانی شاہ ویز سکندر کو پوری طرح بھگو گیا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے ایک نظر دور کھڑی کھلکھلاتی پریسا پر ڈالی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اُس کی کلائی تھام کر وہ اُسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔
پریسا کے ہونٹوں سے چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔ اور وہ سیدھی شاہ ویز کے سینے سے آن ٹکراتی تیزی سے آتے پانی میں پوری طرح بھیگ گئی تھی۔۔۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔ "
پریسا اُس سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ جب اُسی دوران شاہ ویز اُسے اپنے مزید قریب کرتا اُس کا چہرا اپنے چہرے کے قریب کر گیا تھا۔۔۔
"پریسا آفندی تم ہمیشہ شاہ ویز سکندر کی پہنچ میں ہی رہو گی۔۔۔ تمہارے پاس دس منٹ ہیں جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔۔ ورنہ ایسے ہی اُٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔۔ مجھے ایسے لے جانے میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے پانی سے بھیگتے ہونٹوں کو دھیرے چھوتا اُسے محبت بھری دھمکی سے نواز گیا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی آنکھوں میں اُبھرتے محبت کے رنگ پریسا کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئے تھے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"رابطہ کرو اُس شہباز آفندی سے۔۔۔ کیوں فون نہیں اُٹھا رہا ہمارا۔۔۔ مجھے اِس حرام خور سے اِسی بات کی اُمید تھی۔۔۔ وقت آنے پر ایسے ہی دھوکا دے گا۔۔۔۔"
اقبال کیانی کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹتا اپنے اسسٹنٹ سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ شہزاد کیانی کرنٹ لگنے کے بعد سے بے ہوش تھا۔۔۔ جس کے بعد اقبال کیانی مزید تشویش کا شکار ہوچکا تھا۔۔۔
بلیک سٹارز کی دھمکیوں نے الگ اُس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔۔۔ اُس کے پاس سیکیورٹی تھی۔۔۔ عوام کا ساتھ تھا اور اپنی پوری پارٹی کا سپورٹ بھی ۔۔۔ مگر وہ خوفزدہ تھا تو بلیک سٹارز کے پاس موجود اپنے خلاف ثبوتوں سے۔۔۔ جو اگر ایک بار منظرِ عام پر آجاتے تو اُس کا نہ صرف سیاسی کیرئیر برباد ہوجانا تھا بلکہ اُسے بلیک سٹارز نے ملک سے بھاگنے بھی نہیں دینا تھا۔۔۔
وہ اب تک جو کالے کرتوت کرچکا تھا بلیک سٹارز اُسے وہ بھولنے نہیں دے رہے تھے۔۔۔
ہمیشہ اپنی راہ میں آئی ہر پارٹی کو لات مار کر ہٹانے والا بلیک سٹارز کے آگے بے بس ہوچکا تھا۔۔۔ جو بنا سامنے آئے بھی اُس کا جینا حرام کر چکے تھے۔۔۔
"سر آفندی مینشن کے کسی بھی فرد کی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی اُن میں سے کوئی اپنے آفس گیا ہے اور نہ گھر سے نکلا ہے۔۔۔۔۔ "
اقبال کیانی کا اسسٹنٹ ابھی بول ہی رہا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے فیصل بخشی اپنے آدمیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
"میں نے آپ سے کہا تھا کیانی صاحب یہ شہباز آفندی اعتبار کے قابل انسان بالکل بھی نہیں ہے۔۔ جو شخص اپنے سگے بھائی کو مار سکتا ہے وہ بھلا ہمارے ساتھ وفاداری کیسے کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر میرے کہے کے مطابق اُس کی وہ سونے کی چڑیا کو اپنے قبضے میں لے لیتے نا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔۔۔۔ "
فیصل بخشی اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا اقبال کیانی کو اُس کی غلطی کا احساس دلا گیا تھا۔۔۔
"میں نے نہیں مانی تمہاری بات۔۔۔ مگر تم تو اُٹھوا سکتے تھے نا اُس لڑکی کو۔۔۔۔ "
اقبال کیانی اپنی غلطی ماننے کے ساتھ ساتھ اُلٹا اُس پر برسا تھا۔۔۔
"کئی بار کوشش کی اُس پریسا آفندی کو اُٹھوانے کی مگر ہر بار نجانے وہ بلیک سٹارز کہاں سے بیچ میں آکر اُس لڑکی کو بچا لیتے تھے۔۔۔۔ "
فیصل بخشی کی بات پر وہاں موجود سب افراد ٹھٹھکے تھے۔۔
"ایک منٹ بلیک سٹارز ہر بار اُس لڑکی کو کیوں بچانے آجاتے ہیں۔۔۔ کہیں اُس لڑکی کا اُن سے کوئی لنک تو نہیں ہے۔۔۔ ہمیں جلد از جلد اُس لڑکی تک پہنچنا ہوگا۔۔۔ یہی اب ہمیں بلیک سٹارز تک لے کر جائے گی۔۔۔ بہت اُچھل رہے ہیں یہ لوگ اپنی شناخت چھپا کر۔۔۔ اِن کا بھی وہی حال کروں گا جو آج تک مجھ پر ہاتھ ڈالنے والوں کا عبرت ناک انجام ہوا ہے۔۔۔۔"
اقبال کیانی کی بات پر فیصل بخشی دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔۔
"مجھے تو بس وہ لڑکی چاہیے کیانی صاحب۔۔۔ بہت چھوٹی سی تھی تب سے نظر ہے اُس پر۔۔۔ بس ابھی تک ہاتھ نہیں آپارہی۔۔۔۔"
فیصل بخشی خباثت سے قہقہ لگاتے بولا تھا۔۔۔ جس میں اقبال کیانی نے بھی اُس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۔۔۔
"شعیب اپنے آدمیوں کو آفندی مینشن کے آس پاس پھیلا دو۔۔۔ اور کچھ کو اندر بھیج کر پتا کرنے کی کوشش کرو کہ آخر اصل معاملا ہے کیا۔۔۔۔"
اقبال کیانی اپنے خاص اور سب سے قابلے اعتبار آدمی کو ہدایت دیتے بولا تھا۔۔۔ جس پر وہ سر ہلاتا فوراً وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
"بلیک سٹارز کو بہت جلد اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔۔۔ "
اقبال کیانی کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی بلیک سٹارز کا اپنے سامنے حاضر کرلے۔۔۔
"سر ابھی ابھی خبر ملی ہے۔۔۔ مریم فرار ہوگئی ہے۔۔۔ قاسم اُسے بلیک ہاؤس نہیں لے کر گیا تھا۔۔۔ بلکہ اُسے کہیں اور رکھا ہوا تھا۔۔۔ آج جب اس سے مریم کے بارے میں پوچھا گیا تو اُس نے ابھی اطلاع دی ہے کہ مریم فرار ہوچکی ہے۔۔۔۔ وہ مہرو میم کے بارے میں جانتی ہے۔۔۔ اُن کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔ اگر اُس نے ایس پی حمدان کو بتا دیا تو۔۔۔۔"
جنید گھبرایا سا حازم کے قریب آیا تھا۔۔۔ وہ اتنی خوشی کے موقع پر حازم کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ مگر یہ بات بتانا بھی ضروری تھی۔۔۔
"اِس کا مطلب قاسم پر کیا گیا ہمارا شک ٹھیک نکلا۔۔۔ ہماری جو چند باتیں ایس پی حمدان تک پہنچی ہیں وہ بھی شاید پھر قاسم کی حرکت ہی ہے۔۔۔۔ اِسے تو میں اب کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔مگر اُس سے پہلے مریم کو تلاش کرنا ہوگا۔۔۔ کہیں وہ اقبال کیانی کے ہاتھ نہ لگ جائے۔۔۔۔"
حازم کا چہرا مہروسہ کی فکر سے متغیر ہوچکا تھا۔۔۔
وہ باہر کی جانب بڑھنے ہی لگا تھا جب سامنے سے اُسے مہروسہ اور ایس پی حمدان داخل ہوتے نظر آئے تھے۔۔۔
وہاں موجود گینگ کے تمام افراد ایس پی حمدان کو اپنے بیچ دیکھ ایک دم سنبھل چکے تھے۔۔۔۔
جبکہ حازم کے اشارے پر جنید وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کی نگاہیں حازم پر ٹکی تھیں۔۔۔ وہ حازم کا لال پڑتا چہرا دیکھ دور سے ہی سمجھ گئی تھی۔۔ یقیناً کوئی گڑبڑ ہے۔۔۔۔ وہ تینوں اِس قدر سمجھتے تھے ایک دوسرے کو۔۔۔
حمدان چہرے پر دھیمی مسکراہٹ سجائے سٹیج کے پاس کھڑے حازم کے قریب آیا تھا۔۔۔ حمدان کو وہاں آتا دیکھ نجمہ بیگم اُسے ویلکم کرنے پاس آئی تھیں۔۔۔ حبہ کچھ ہی دیر میں پہنچنے والی تھی۔۔۔
"بہت بہت مبارک ہو آپ کو مسٹر حازم سالار۔۔۔۔ بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔۔۔۔۔"
حمدان کا لہجہ بہت عام سا تھا۔۔ مگر حازم کی نظریں اُس کی ہتھیلی میں مضبوطی سے قید مہروسہ کے ہاتھ پر تھیں۔۔۔
"سیم ہیر ایس پی حمدان۔۔۔ حبہ سے بہت ذکر سنا ہے آپ کا۔۔۔ "
حازم نے بہت مشکل سے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا۔۔۔ ورنہ اب تک یہ شخص اُس کی مہرو کو جتنی تکلیف اور درد دے چکا تھا۔۔۔ حازم کا کوئی ارادہ نہیں تھا اُس سے بات کرنے کو۔۔۔۔
جبکہ دوسری جانب مہروسہ حمدان اور حازم کو یوں آمنے سامنے کھڑا دیکھ گھبراہٹ کا شکار ہوئی تھی۔۔۔ وہ حمدان کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ یہاں موجود تمام افراد کو کتنے اچھے سے جانتی ہے۔۔۔۔ مگر حمدان کے تیور دیکھ کر اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ حازم کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ہے۔۔۔۔
اُسے یہی محسوس ہورہا تھا کہ حمدان اور حازم ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں نگل جائیں گے۔۔۔
مہروسہ نے ایک جانب کھڑی انعم کو اشارے سے حازم کو بلانے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
"وہ حبہ آگئی۔۔۔۔"
اِس سے پہلے کہ انعم قریب آتی۔۔۔۔ نجمہ بیگم کی آواز پر سب لوگ انٹرنس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔
جہاں حبہ صبا کا ہاتھ تھام سہج سہج کر چلتی اُن کے قریب آرہی تھی۔۔۔
حازم کی حبہ کی جانب اُٹھتی نگاہیں واپس پلٹنا بھول چکی تھیں۔۔۔۔ وہ مبہوت سا اپنے نام کی دلہن بنی اُس حسین دوشیزہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو صرف اور صرف اُس کی تھی۔۔۔
حازم اُس کی طرف بڑھتے حبہ کے آگے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلا گیا تھا۔۔۔
حبہ نے ایک نظر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے اپنا مہندی اور جیولری سے سجا دودھیا ہاتھ اُس کی مضبوط ہتھیلی پر رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ دونوں ہی شاید اس وقت اردگرد موجود لوگوں کو اپنے درمیان چلتی سرد جنگ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔
حازم اُس کی خوبصورتی کو سراہتی نگاہوں سے دیکھتا اُسے لیے باقی سب کے قریب آیا تھا۔۔۔
نہ حازم نے اُس کی تعریف کی تھی۔۔۔ اور نہ ہی حبہ نے اُس سے کوئی بات کی تھی۔۔۔
مگر حازم کی مضبوط گرفت حبہ کو بہت کچھ کہہ گئی تھی۔۔۔۔
مہروسہ نے مسکراتی محبت پاش نگاہوں سے حازم اور اُس کی حبہ کو دیکھا تھا۔۔۔ اُس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا کہ حازم سالار اِس لڑکی کے لیے کتنا تڑپا تھا۔۔۔
حمدان نے گردن گھما کر دلکش مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کھڑی مہروسہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ حمدان کو اِس دلفریب مسکراہٹ میں اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ اُس نے آج سے پہلے مہروسہ کو یوں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
حمدان کے دیکھنے پر مہروسہ گڑبڑا گئی تھی۔۔۔
"مسز حمدان صدیقی سر عام ایسی حرکتیں مت کریں اگر آپ کا یہ ایس پی بہک گیا تو قصور وار آپ ہی ہونگی۔۔۔۔"
حمدان اُس کی جانب جھکتا سرگوشیانہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کی بات اور انداز پر مہروسہ سر سے پیر تک لال ہوئی تھی.۔۔۔
اُس نے گھبرا کر اردگرد دیکھا تھا۔۔۔ اُس کے سبھی لوگوں کی نگاہیں انہیں پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ وہ اپنے گینگ میں شاہ ویز کے بعد انتہائی کھڑوس گینگ لیڈر مشہور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے وار سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا تھا۔۔۔ لڑتے ہوئے اُس کی دہشت سے اُس کے گینگ کے اکثر لوگ کانپ اُٹھتے تھے۔۔۔
اُس کا ایک امیج تھا لوگوں کے سامنے۔۔۔ جو اُسے محسوس ہورہا تھا آج اُس کے ایس پی صاحب بالکل ختم کردیں گے۔۔۔۔۔
"حمدان یہ کیا کررہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟ سب لوگ ہماری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔"
مہروسہ نے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔ مگر حمدان اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے واپس اپنے ساتھ کھڑا کر گیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کا لال چہرا بتا رہا تھا۔۔۔ ابھی وہاں سے خون چھلک پڑے گا۔۔۔۔
حمدان کی اگلی بے باکی پر مہروسہ چکرا کر رہ گئی تھی۔۔۔ اُس نے شکر ادا کیا تھا کہ حازم اور باقی لوگ اُن کی جانب متوجہ نہیں ہیں۔۔۔ مگر ایک جانب کھڑی انعم اور اقراء کی شوخ نگاہیں دیکھ اُس نے اُن دونوں کو گھورا تھا۔۔۔۔
"ہماری طرف کوئی نہیں دیکھا رہا۔۔۔۔ بلکہ آپ کی یہ بوکھلاہٹیں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کررہی ہیں۔۔ اور مجھے اپنا مزید دیوانہ بنا رہی ہیں مسز۔۔۔۔"
حمدان اُس کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑستے اُسے کے حسین مکھڑے کو تکے گیا تھا۔۔۔۔
کاجل سے سجی اُس کی قاتل نگاہیں حمدان کو اپنا دیوانہ کررہی تھیں۔۔۔۔
مہروسہ کو حمدان کے قریب کھڑے رہنا کسی خطرے سے کم محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں نے تمہیں دس منٹ دیئے تھے۔۔۔ اب سولہ منٹ ہوچکے ہیں۔۔۔"
شاہ ویز فون کان سے لگائے روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔ سیاہ پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ اپنے وجیہہ سراپے کے ساتھ بہت زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔ اُس کی بات کے جواب میں اُسے گھورتی پریسا بے اختیار دل میں ماشاء اللہ کہے بنا نہیں رہ پائی تھی۔۔۔
اتنا پیارا لگنے کے باوجود ماتھے سے سلوٹیں اِس وقت بھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔۔۔۔
دوسری جانب شاہ ویز سکندر کے دل کا حال بھی کچھ الگ نہیں تھا۔۔۔ کریم کلر کے پیروں تک آتے فینسی گاؤن میں بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں مقید کیے وہ جلدی جلدی ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں اور گجرے پہنتی اپنی آدھی ادھوری تیاری کے ساتھ شاہ ویز کو سیدھی اپنے دل میں اُترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
وہ جلدی جلدی کرنے کی کوشش میں مزید ہڑبڑاہٹ کا شکار ہورہی تھی۔۔۔
شاہ ویز بنا اُسے مزید کچھ بولے۔۔۔ وہاں سامنے رکھے صوفے پر براجمان ہوتا اپنی بازو صوفے کی پشت پر پھیلائے وہ اپنے مخصوص سٹائل میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھتا پرسکون انداز میں اُسے دیکھے گیا تھا۔۔۔
پریسا جو پہلے ہی جلدی جلدی کے چکر میں ٹھیک سے تیار نہیں ہو پارہی تھی۔۔۔ شاہ ویز سکندر کی نگاہوں کے فوکس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔۔۔
لپسٹک لگاتے پریسا کے ہاتھ لرز گئے تھے۔۔۔ مرر کے اندر سے اُسے گھورتی وہ لپسٹک لگانے کا ارادہ ترک کرتی سامنے رکھا نیکلیس پہننے لگی تھی۔۔۔۔
جو گردن تک لے جاتے شاہ ویز کی گہری نگاہوں کے ارتکاز کی وجہ سے اُس کے ہاتھ سے دو بار چھوٹ کر گرا تھا۔۔۔
آخر کار تنگ آتے پریسا لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ جمائے شاہ ویز کی جانب پلٹی تھی۔۔۔۔
"تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے وحشی انسان۔۔۔ کیوں تیار نہیں ہونے دے رہے تم مجھے۔۔۔"
پریسا نے اپنی بلی جیسی گول گول آنکھیں گھما کر اُسے گھورا تھا۔۔۔
"میں نے تو ابھی تک کچھ کیا ہی نہیں۔۔۔ میں تو انتہائی شرافت کا مظاہرہ کرتا خاموشی سے یہاں بیٹھا ہوں۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے بنا دوپٹے کے دلنشین سراپے کو سر سے پیر تک شوخ نگاہوں سے گھورتا اُسے اچھا خاصہ نروس کر گیا تھا۔۔۔
پریسا نے فوراً خیال آتے ایک جانب رکھا دوپٹہ اُٹھا کر اپنے اُوپر اوڑھا تھا۔۔۔۔
"تم کافی سمجھدار ہو۔۔۔"
شاہ ویز اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔۔۔
"میں تیار ہوں۔۔۔ ہمیں دیر ہورہی ہے۔۔۔ جانا چاہیے۔۔۔ ورنہ آپ کے دوست ناراض ہوجائیں گے۔۔۔۔"
پریسا اُس کو قریب آتا دیکھ اُلٹے قدموں پیچھے ہٹتی مرر کے ساتھ جالگی تھی۔۔۔
"پریسا آفندی میرے دل کی دنیا میں ہلچل مچا کر۔۔۔ اتنی آسانی سے کیسے فرار اختیار کر سکتی ہو تم۔۔۔۔ تمہیں ابھی بھی لگتا ہے کہ یہ بلیک بیسٹ اب تمہیں کہیں جانے دے گا۔۔۔۔"
شاہ ویز ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا اُس کا نیکلیس اُٹھا کر اُس کے مقابل آتا درمیانی فاصلہ ختم کر گیا تھا۔۔۔
"تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔۔۔ اور میں اپنی محبت کو مزید بے مول نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ تم دیکھنا شاہ ویز سکندر ایک دن تمہیں چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔۔۔ "
پریسا اِس سرد مہر کو اپنی محبت میں تڑپانا چاہتی تھی۔۔۔ اُسے اپنی محبت کی اذیت سے گزرتے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔
اُس کی بات کے جواب میں شاہ ویز اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔
اُس کی گرفت کی سختی پریسا کو اُس کے غصے کا احساس دلا گئی تھی۔۔۔
"ہر اُس انسان کو کاٹ کر رکھ دوں گا۔۔ جو تمہیں مجھ سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔ مجھے اپنی اِس بے لوث محبت کا عادی بنا کر میری قید سے رہاعی اختیار کر لو گی۔۔ یہ تمہاری زندگی کی بہت بڑی بھول ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی اُنگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے پریسا کپکپا گئی تھی۔۔۔ شاہ ویز اُسے نیکلیس پہنانے اُس کی جانب جھکا تھا۔۔۔ پریسا کی جان حلق میں اٹکی تھی۔۔۔۔۔
"تم نے مجھ سے بدلہ لینے کے لیے شادی کی ہے۔۔ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں۔۔ تم نے مجھے اپنی محبت گرفتار کرکے مجھے سزا دینی چاہی ہے۔۔۔ مگر تم یہ سب کیوں کررہے ہو۔۔۔ میں نہیں جانتی۔۔۔ اور نہ جاننا چاہتی ہوں۔۔۔ "
شاہ ویز کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے پریسا کی بولتی بند ہوچکی تھی۔۔۔۔
اُس نے گھبرا کر شاہ ویز کی گرفت سے نکلنا چاہا تھا۔۔۔
مگر شاہ ویز کا شکنجہ اتنا کمزور نہیں تھا کہ وہ آسانی سے نکل پاتی۔۔۔
"اگر اتنا ہی بُرا لگتا تھا تو محبت کیوں کی مجھ سے۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کے نیکلیس کی ہک بند کرتا اپنے دہکتے ہونٹ اُس کی صاف شفاف گردن پر رکھتا پریسا کی جان نکال گیا تھا۔۔۔ پریسا اُس کا کالر مُٹھی میں دبوچے اُس کے تپیش زدہ لمس پر سہمی سی اُس کے ساتھ لگی کھڑی رہی تھی۔۔۔
"کیونکہ میں دنیا کی بے وقوف ترین لڑکی ہوں۔۔۔ جس نے تم جیسے وحشی سے محبت کی۔۔ جسے صرف ظلم ڈھانا آتا ہے محبت کرنا نہیں۔۔۔۔"
پریسا لہو رنگ چہرے کے ساتھ اُس کے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتی اُس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔
"میری محبت سے بچی ہوئی ہو اِس میں تمہارا ہی فائدہ ہے پریسا آفندی۔۔۔۔ خدانخواستہ اگر کسی دن مجھے تم سے محبت ہو گئی تو اُس دن خیر نہیں ہوگی تمہاری۔۔۔۔"
پریسا کی دودھیا خوبصورت گردن شاہ ویز سکندر کے جذبات میں تغیانی برپا کرتی اُسے گستاخی پر اُکسا رہی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز ایک نظر اپنے حصار میں لرزتی کانپتی اپنی نازک سی بیوی پر ڈالتا۔۔۔ اپنے دل کی خواہش کو سختی سے دباتا ہاتھ بڑھا کر اُس کا جوڑا کھول گیا تھا۔۔
جنہوں نے اُس کی گردن کو اپنی سیاہ چادر کے اندر ڈھانپ لیا تھا۔۔۔
پریسا نے خفگی سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔ مگر شاہ ویز کی ضبط سے سُرخ پڑتی آنکھیں دیکھ پریسا اگلے ہی لمحے اُس سے سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔۔۔۔
"گڈ۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُس کی اِس احتیاط پر مسکراتا اُسے مزید کوئی بھی تیاری کرنے کا موقع دیئے بغیر اُس کا ہاتھ تھامتا روم سے نکل گیا تھا۔۔۔۔
پریسا اُس کے تیور دیکھ لپسٹک تک نہیں لگا پائی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تو آج ہر طرف تم نے اپنے گینگ کے لوگوں کو پھیلا رکھا ہے۔۔۔۔ ہم پولیس والوں کو بہت ہلکے میں لے رہے ہو تم۔۔۔۔ "
حبہ نے اپنے برابر میں آکر بیٹھتے حازم کو مخاطب کیا تھا۔۔۔
"ہم نے آپ کو کبھی ہلکے میں نہیں لیا ایس پی صاحبہ۔۔"
حازم کا جگمگاتا چہرا اُس کی بے پناہ خوشی کا پتا دے رہا تھا۔۔۔
مگر حبہ جس نے اتنے سالوں تک آج کے دن کا بے صبری سے انتظار کیا تھا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی آج کے دن کی خوشی کو دل سے محسوس نہیں کر پارہی تھی۔۔۔۔ اُس کے دل میں بے چینی سی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
"وہ دن دور نہیں ہے جس دن بلیک سٹارز کا نام و نشان اِس دنیا سے مٹ جائے گا۔۔۔۔۔"
حبہ نے اپنی کاجل اور مسکارے سے سجی قاتل نگاہیں موڑ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ جن سے حازم سالار کو اپنا دل واقعی زخمی ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
"ایسے خواب اب تک بہت سارے لوگ دیکھ چکے ہیں۔۔۔ مگر بلیک سٹارز کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا پائے۔۔۔ ہاں خود ضرور مر مٹ گئے ہیں۔۔۔ کیونکہ بلیک سٹارز سے اُلجھنے والا بچتا نہیں ہے۔۔۔۔ "
حازم اُس کی جانب وارفتگی بھری نگاہوں سے دیکھتا سرد لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔
"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو۔۔۔۔؟؟"
حبہ اُس کے لہجے کی پختگی اور اٹل ارادوں پر جل بھن کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
"اُف خدایا۔۔۔۔ کیا کروں میں اِن دونوں اُلٹی کھونپڑی والے بلیک سٹارز کا۔۔۔ بھلا شادی والے دن سٹیج پر بیٹھ کر ایسی دھمکی آمیز باتیں کون کرتا ہے اپنی بیویوں سے۔۔۔ پہلے ایک شاہ سر کیا کم تھے کہ میر سر اُن سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔۔۔۔۔"
حمدان کسی فون کے لیے وہاں سے ہٹا تھا جب سٹیج کے قریب آتے مہروسہ خفگی سے بڑبڑائی تھی۔۔۔
جو حازم کے کانوں تک تو نہیں پہنچ پائی تھی۔۔۔ مگر قریب ہی کھڑے جنید اور اقراء اپنی ہنسی نہیں روک پائے تھے۔۔۔
"دو نہیں ہمارے تینوں گینگ لیڈرز ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔۔۔ آپ بھی تو اتنے ہینڈسم بندے کی محبت کا جواب بورنگ سے انداز میں دے رہی ہیں۔۔۔۔"
جنید نے اُن دونوں کے ساتھ ساتھ مہروسہ کو بھی لتاڑا تھا۔۔۔۔
"شٹ اپ۔۔۔ اُس ہینڈسم بندے کی نظر پڑ گئی نا تم پر تو یہیں کھڑے کھڑے گولی مار دے گا۔۔۔۔"
مہروسہ نے دور سے آتے حمدان کی جانب محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے جنید کو آگاہ کیا تھا۔۔۔۔
"یہ تیسری گینگ لیڈر بھی گئیں کام سے۔۔۔ اپنے ہی لوگوں کو دھمکی دیتے ایک دم پولیس والے کی بیوی لگ رہی ہیں۔۔۔۔ ایس پی حمدان کے سارے رنگ چڑھ چکے ہیں آپ پر۔۔۔۔"
جنید حمدان کو آتا دیکھ وہاں سے کھسکتے مہروسہ کو چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔۔
"مہرو میم۔۔۔۔ اتنے غصے والے لگتے ہیں یہ۔۔۔۔ آپ کیسے ہینڈل کر پارہی ہیں اپنے ایس پی صاحب کو۔۔۔ دیکھیں نا جب سے آئیں ہیں شاہ سر کی طرح اِن کے چہرے پر بھی میں نے مسکراہٹ کا زرہ تک نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ "
اقراء کو دور سے ہی حمدان سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ وہاں موجود بہت سی لڑکیوں کی نگاہیں حمدان پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ مگر اُس کے ایس پی نے کسی ایک کی جانب بھی نگاہیں اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔
کال پر بات کرتے اُس کی نگاہیں ایک دو بار اُٹھی تھیں۔۔۔ مگر صرف مہروسہ کی تلاش میں۔۔۔ اور اُس پر نظر پڑتے ہی ہر بار حمدان صدیقی کی نگاہیں کی چمک واضح ہوجاتی تھی۔۔۔
اور ساتھ ہی دل کی دھڑکنیں بھی۔۔۔۔۔۔
"مہرو میم۔۔۔۔ اتنے غصے والے لگتے ہیں یہ۔۔۔۔ آپ کیسے ہینڈل کر پارہی ہیں اپنے ایس پی صاحب کو۔۔۔ دیکھیں نا جب سے آئیں ہیں شاہ سر کی طرح اِن کے چہرے پر بھی میں نے مسکراہٹ کا زرہ تک نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ "
اقراء کو دور سے ہی حمدان سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ وہاں موجود بہت سی لڑکیوں کی نگاہیں حمدان پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ مگر اُس کے ایس پی نے کسی ایک کی جانب بھی نگاہیں اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔
کال پر بات کرتے اُس کی نگاہیں ایک دو بار اُٹھی تھیں۔۔۔ مگر صرف مہروسہ کی تلاش میں۔۔۔ اور اُس پر نظر پڑتے ہی ہر بار حمدان صدیقی کی نگاہیں کی چمک واضح ہوجاتی تھی۔۔۔
اور ساتھ ہی دل کی دھڑکنیں بھی۔۔۔۔۔۔
مہروسہ کے لیے یہ احساس ہی کافی تھا کہ کسی بات کے تحت ہی سہی مگر وہ اپنے ایس پی کے لیے اہم تو ہوئی تھی۔۔۔۔
"وہ شاہ سر بھی آگئے اپنی پری کے ساتھ۔۔۔۔۔"
اقراء کی ایکسائٹڈ سی آواز پر مہروسہ نے اُس جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس پریسا کا ہاتھ تھامے انٹرس سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ ہی وہاں موجود تمام لوگوں کی ستائشی نگاہیں اُن کے خوبصورت کپل پر جم کر رہ گئی تھیں۔۔۔۔
سختی بھرے تاثرات اور ماتھے پر ہمیشہ کی طرح سلوٹوں کا جال بنے شاہ ویز سکندر اپنے پہلو میں نازک سی گڑیا جیسی پریسا آفندی کو لیے اندر آرہا تھا۔۔۔۔ پریسا کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔۔۔ ریڈ گاؤن فل پیروں تک آتے گاؤن میں اُس کا نازک سراپا اور دودھیا چمکتی رنگت اُس کے حُسن کی رعنائیوں میں مزید اضافہ کررہی تھی۔۔
اُس نے بال کھول رکھے تھے۔۔۔ جبکہ سر پر دوپٹہ پنوں کی مدد سے سیٹ کر رکھا تھا۔۔۔ جس میں سے نکلتے سلکی بال اُس کے چہرے سے ٹکراتے ہونٹوں سے چھیڑ خانیاں کررہے تھے۔۔۔
وہاں سب نے بلیک ڈریس پہن رکھے تھے۔۔۔ کیونکہ اُن کے گینگ لیڈرز ہو بلیک رنگ پسند تھا۔۔۔۔ اِس رنگ کے علاوہ کوئی اور رنگ پہننا اُن کے لیڈرز کا پسند نہیں تھا۔۔ مگر پریسا آفندی کو ریڈ گاؤن میں دیکھ وہ سب خوشگوار حیرت سے نہیں نکل پائے تھے۔۔۔ شاہ ویز سکندر کے اندر آتی اِس اتنی بڑی تبدیلی پر اُن سب کی محبت بھری نگاہیں پریسا پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔
جو اپنی معصوم اداؤں سے اُن کے لیڈر کی بے رونق زندگی میں آہستہ آہستہ رنگ بھر رہی تھی۔۔۔
سب کو اپنی جانب دیکھتا پاکر پریسا کنفیوژ ہوئی تھی۔۔۔ اور جلدی سے شاہ ویز کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا تھا۔۔۔۔
"آپ کے لوگ ہمیشہ ایسے گھور رہے ہیں جیسے ہم دلہا دلہن ہیں۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔۔ "
پریسا اُس سے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔
"جو تم پہن کر آئی ہو اِس میں تم کسی دلہن سے کم نہیں لگ رہی۔۔۔ اسی لیے گھور رہے ہیں سب تمہیں۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔
"کیا۔۔۔ میں اتنی اوور لگ رہی ہوں۔۔۔ تم نے بتایا کیوں نہیں مجھے۔۔۔۔"
پریسا نے صدمے سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسی لمحے شاہ ویز نے بھی اُس کے دلفریب رُوپ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اور بے اختیار اُس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔۔
جو روہانسی صورت بنائے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز اُس کی گول گول کٹوروں میں بھرتا پانی نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔ اِس لیے فوراً نگاہیں پھیر گیا تھا۔۔۔
وہ اُس کے سامنے اُس کے حُسن کو سراہنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔
"تو کیا بہت بُری لگ رہی ہوں۔۔۔؟؟"
پریسا کی آنکھوں سے آنسو بس چھلکنے کو تیار تھے۔۔۔
"اگر میں نے یہاں بتا دیا نا سب کے سامنے کہ تم کیسی لگ رہی ہو۔۔۔ تو تم نے یہیں بے ہوش ہوجانا ہے۔۔۔ اِسی لیے کہہ رہا ہوں رہنے دو۔۔۔۔"
شاہ ویز چہرا اُس کی جانب جھکا کر بولتا پریسا کو لمحے بھر کے لیے بالکل ساکت کر گیا تھا۔۔۔ اُس کی جذبے لُٹاتیں سُرخ آنکھیں پریسا کا دل لرزا گئی تھیں۔۔۔ وہ سہم کر شاہ ویز سے دور ہوئی تھی۔۔۔ اُس کی اِس حرکت پر شاہ ویز کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔ جو وہاں موجود اُس کے تمام لوگوں کے دل میں گھر کر گئی تھی۔۔۔۔۔۔
پریسا نے شاہ ویز کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال لیا تھا۔۔۔ جب اگلا قدم بڑھاتے ہی اُس کا پیر گاؤن سے اُلجھا تھا۔۔۔ وہ لڑکھڑا کر بُری طرح زمین بوس ہونے ہی والی تھی۔۔۔ جب شاہ ویز نے فوراً اُسے اپنی بانہوں میں بھرتے گرنے سے بچا لیا تھا۔۔۔
"آر یو اوکے۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز متفکر لہجے میں بولا تھا۔۔۔ اکیلے میں اُس کے ساتھ وہ جتنا روڈ ہوتا تھا۔۔۔ یہاں سب کے سامنے وہ اُس کے لیے اُتنا ہی ریسپیکٹ فل، کیئرنگ اور محبت بھرا روپ دکھا رہا تھا۔۔۔ پریسا اُس کا یہ نیا روپ دیکھ ایک بار پھر اُس کی محبت میں گرفتار ہورہی تھی۔۔۔
"تم گری نہیں ہو۔۔۔ نہ تمہیں چوٹ آئی ہے۔۔۔ پھر تم اِس طرح کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز کو اِس لڑکی کے آنسوؤں کی بالکل سمجھ نہیں آتی تھی۔۔۔ جو ہر وقت بس بہنے کو تیار رہتے تھے۔۔۔
"میری پائل ٹوٹ گئی ہے۔۔۔۔۔ میری فیورٹ پائل تھی۔۔۔ پہلے اِس کا ایک پیئر گم ہوچکا ہے۔۔۔ اب دوسرا بھی ٹوٹ گیا ہے۔۔۔۔۔"
پریسا معصومیت بھرے انداز میں آنسو صاف کرتے بولتی شاہ ویز سکندر کے دل کی دنیا میں طوفان برپا کر گئی تھی۔۔۔۔
یہ لڑکی اپنی اِن معصوم اداؤں سے اُس کی جان لے کر رہنے والی تھی۔۔۔۔ پریسا ابھی بھی اُس کے ساتھ لگی کھڑی اُس کی شرٹ کو سینے سے دبوچے ہوئے تھی۔۔۔ اور شاہ ویز کے بازو ابھی بھی اُس کی کمر کے گرد پھیلے ہوئے تھے۔۔۔۔
سب لوگوں کی دلچسپی بھری نگاہیں اُن دونوں پر تھیں۔۔۔۔ اپنے بلیک بیسٹ کو یوں اپنی بیوی کے نخرے اُٹھاتے دیکھنا اُن سب کے لیے انتہائی غیر یقینی منظر تھا۔۔۔۔۔
"اب اگر میں نے تمہیں روتے دیکھا تو بہت بُرا حشر کروں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے چہرے سے آنسو صاف کرتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے اتنی سختی بھرے انداز پر پریسا نے بھی خفگی دکھاتے اُس سے دور ہونا چاہا تھا۔۔۔
جب شاہ ویز جھکا تھا اور اُس کے پیروں کے قریب گری پائل کو اپنی مُٹھی میں قید کر لیا تھا۔۔۔
پریسا اُسے اپنے پیروں کے قریب یوں جھکتے دیکھ گھبرا کر پیچھے ہوئی تھی۔۔۔ جس کا موقع دیئے بغیر شاہ ویز اُس کی کلائی تھام کر قریب کرتا اُسے اپنی بانہوں میں اُٹھا گیا تھا۔۔۔
سب کے سامنے شاہ ویز کی اِس حرکت پر پریسا کا چہرا شرم سے لال ہوا تھا۔۔۔ مگر شاہ ویز کو کسی کے بھی دیکھنے پر رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔
پریسا کو ایک جانب رکھی کرسی پر بیٹھاتے شاہ ویز گھٹنوں کے بل اُس کے قدموں میں جا بیٹھا تھا۔۔۔ شاہ ویز سکندر کا لمحہ با لمحہ بدلتا یہ وارفتگی بھرا انداز پریسا کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھانے لگا تھا۔۔۔۔
"یہ کیا کررہے ہو تم۔۔ تمہارے لوگ کیا کہیں گے کہ ہمارا لیڈر پورا پاگل ہوچکا ہے۔۔۔۔ "
پریسا نے اُسے اردگرد موجود لوگوں کی جانب متوجہ کرنا چاہا تھا۔۔۔۔
"اپنی بیوی کی کیئر کرنے والے لوگ پاگل ہوتے ہیں مجھے نہیں پتا تھا۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کی ٹوٹی ہوئی پائل کو اپنی ایک پاکٹ میں ڈالتے دوسری سے اپنا والٹ نکالا تھا۔۔۔ جس میں موجود پائل دیکھ پریسا کا سر چکرا گیا تھا۔۔۔۔
یہ اُسی کی پائل تھی۔۔۔ جو شاہ ویز سکندر سے ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد گم ہوئی تھی اُس کی۔۔۔۔۔
اُسے لگا تھا وہیں گر کر بارش کے پانی میں کہیں اُس کی پائل بہہ گئی ہوگی۔۔۔ مگر ایسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا یہ وحشی دندرہ اُس کی پائل تک کو اتنی احتیاط اور محبت سے سنبھال کر رکھے گا۔۔۔۔
شاہ ویز نے پائل نکال کر اُس کے پیر کو تھامنا چاہا تھا۔۔۔
"پلیز۔۔۔ "
پریسا شاہ ویز سکندر سے اِس سب کی اُمید نہیں کر پارہی تھی۔۔۔ اک انجانی خوشی کے احساس سے اُس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔۔ شاہ ویز سکندر نے اب تک ہمیشہ زبان سے اُس کے لیے نفرت کا اظہار ہی کیا تھا۔۔۔۔
مگر اُس کا ہر عمل اور جنونی انداز چیخ چیخ کر اُس کی بے پناہ محبت کا احساس دلاتا تھا پریسا کو۔۔۔ جن پر ہمیشہ دل کو مختلف دلائل دے کر وہ اپنے کان بند کردیتی تھی۔۔۔ مگر آج وہ ساکت و صامت سی دنیا کے سامنے اپنی دہشت اور درندگی دکھانے والے بلیک بیسٹ کو اپنے سامنے جھکا دیکھ پریسا آفندی آج اپنا سب کچھ شاہ ویز سکندر کے آگے خالی کر گئی تھی۔۔۔۔
اُس کے پاس اب اپنا کچھ بھی نہیں بچا تھا۔۔۔ اُس کا ایک ایک عضو شاہ ویز سکندر کے گن گانے لگا تھا۔۔۔
شاہ ویز سکندر نے اتنے لوگوں کے سامنے اُس کے آگے جھک کر اُس کے پیر میں پائل پہناتے سب کے سامنے اپنی بیوی کی عزت اور مرتبے کو کئی گنا اُونچا کر دیا تھا۔۔۔
وہ اچھے سے جانتا تھا کہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے تھے۔۔۔ کہ پریسا آفندی سے اُس نے نکاح صرف بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔۔۔ یہ سب کرکے وہ اُن سب لوگوں پر پریسا آفندی کی اہمیت واضح کر گیا تھا۔۔۔۔ اُن دونوں کے درمیان جو بھی اختلافات تھے۔۔۔ وہ اُن دونوں تک ہی رہنے چاہیے تھے۔۔۔۔
پریسا یہاں بھی شاہ ویز سکندر کو اُس کی من مانی کرنے سے نہیں روک پائی تھی۔۔ شاہ ویز کی اُنگلیوں کا لمس اپنی پنڈلیوں پر محسوس کرتے پریسا نے گھبرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُس کا چہرا خطرناک حد تک لال ہوا تھا۔۔۔۔۔
"غلطی سے ٹچ ہوا ہے ہاتھ۔۔۔ اب اِس بات پر بے ہوش مت ہوجانا پلیز۔۔۔۔ "
اُسے پائل پہناتے شاہ ویز نے اُس کی غیر ہوتی حالت دیکھ وضاحت دیتا پریسا کو مزید لال کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم بہت۔۔۔۔۔"
پریسا اُس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوتی اپنا جملہ ادھورا چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔ وہ اِس شخص کے لیے بہت پہلے سے پاگل تھی۔۔۔ اور اب مزید ہورہی تھی۔۔۔۔۔
"اپنا جملہ کمپلیٹ کرو بیوی۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ایک بار پھر مضبوطی سے اُس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔ جیسے چھوڑے گا تو وہ کہیں دور چلی جائے گی۔۔۔۔
"تم بہت بڑے وحشی اور درندے ہو۔۔۔۔ جس سے میں اب صرف نفرت کرتی ہوں۔۔۔"
پریسا نے اپنی حیا کے بوجھ سے بھاری ہوتی پلکیں اُٹھا کر اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔
"تمہاری نفرت میری نفرت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور میں واقعی کتنا بڑا وحشی اور درندے ہوں اِس کا اندازہ بھی تمہیں بہت جلد ہوجائے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز سکندر اُس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرتا اُسے وارن کر گیا تھا۔۔۔ اُن دونوں کی ڈکشنری میں نفرت لفظ کے کیا معنی تھے یہ وہ دونوں بہت اچھے سے جانتے تھے۔۔۔ مگر ابھی نہ ایک دوسرے کو بتانا چاہتے تھے اور نہ دنیا والوں کو۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مہروسہ محبت پاش نگاہوں سے شاہ ویز اور پریسا کو دیکھ رہی تھی۔۔ شاہ ویز کو اپنی پری کے ساتھ مسکراتے دیکھ اُس کا دل سکون سے بھر گیا تھا۔۔۔
وہ یہی چاہتی تھی کہ شاہ ویز اور حازم اپنے اندر پلتی تمام اذیتوں سے چھٹکارا پاکر وہ خوشیوں بھری زندگی گزاریں جس کے وہ دونوں حقدار تھے۔۔۔۔
مہروسہ نے ایک نظر پلٹ کر حازم اور حبہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور دل سے دعا کی تھی۔۔۔۔
جب اُسی لمحے اچانک اُس کی نظر ایک قدرے تاریک کونے میں کھڑی مریم پر پڑی تھی۔۔۔
"یہ یہاں کیا کررہی ہے۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ تک ابھی تک مریم کے فرار ہونے کی اطلاع نہیں پہنچی تھی۔۔۔۔۔
مہروسہ اِس وقت حازم اور شاہ ویز کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اِس لیے وہ خود ہی مریم کے پیچھے گئی تھی۔۔۔۔ مریم پر نگاہ رکھے وہ بنا اِدھر اُدھر دیکھے آگے بڑھ رہی تھی جب وہ سامنے سے آتے حمدان کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔ اُس کا سر بہت زور سے حمدان کے فولادی سینے سے ٹکراتا اُس کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا۔۔۔۔
حمدان نے فوراً اُس کے گرد بازو حمائل کرتے مہروسہ کو گرنے سے بچایا تھا۔۔۔
"اوہ آئم سوری۔۔۔۔۔"
مہروسہ حمدان کو سامنے دیکھ ایک دم نارمل ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے مریم کی جانب دیکھا تھا جہاں اب وہ موجود نہیں تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔ تم اتنی عجلت میں کہاں جارہی تھی۔۔۔ کہیں مجھے نہ پاکر۔۔ مجھے تو نہیں ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔"
حمدان اُس کی ٹھوڑی کو چھوتا اُس کا چہرا اُوپر اُٹھاتے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
مہروسہ اُس کے ایک دم اتنے قریب آجانے پر گھبرا گئی تھی۔۔۔۔ حمدان کی سحر انگیز خوشبو مہروسہ کو اپنے حصار میں جکڑنے لگی تھی۔۔۔۔
حمدان کی اپنے وجود پر گڑھی نگاہیں اُسے بھلا چکی تھیں کہ وہ مریم کے پیچھے جارہی تھی۔۔۔ جس لڑکی سے اُسے اور اُس کے گینگ کے لوگوں کو خطرہ تھا۔۔۔۔
اور سب سے زیادہ خطرہ مہروسہ کی جان ہو تھا۔۔۔ کیونکہ مریم اقبال کیانی کے لیے کام کرتی تھی۔۔۔ اور اقبال کیانی بھوکے کتوں کی طرح بلیک سٹارز کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں وہ میں۔۔۔۔ "
مہروسہ اُس کے سامنے جھوٹ نہیں بول پائی تھی۔۔۔
"تم کتنی محبت کرتی ہو مجھ سے۔۔۔ آج نجانے کیوں دل میں یہ خواہش ہورہی ہے۔۔۔ کہ تمہارے دل میں اپنی اہمیت کا اندازہ لگاؤں۔۔۔۔"
حمدان کی باتیں مہروسہ کی گھبراہٹ میں اضافہ کررہی تھیں۔۔۔۔
"بالکل میں سیدھی طرح وہ سوال کرتا ہوں جو میں اب تک جاننا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔"
حمدان کی آنکھیں ایک دم لال ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہ مہروسہ کی کلائی تھام کر دائیں جانب بنی سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جہاں اُوپر پودوں کے بیچ بنا نہایت ہی خوبصورت سا ٹیرس تھا۔۔۔
مہروسہ کا دل بہت بری طرح دھڑکنا شروع ہوچکا تھا۔۔۔
وہ بنا کوئی سوال کیے بے جان ہوتے وجود کے ساتھ حمدان کے ساتھ کھینچی چلی گئی تھی۔۔۔۔
"حمدان آپ کو اچانک سے۔۔۔۔۔ "
مہروسہ نے بولنا چاہا تھا جب حمدان اُس کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے اپنے نہایت قریب کرگیا تھا۔۔۔
حمدان کی اُنگلیاں مہروسہ کو اپنی کمر میں کھوبتی محسوس ہوئی تھیں۔۔۔۔ تکلیف کے احساس سے اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔
"میں بہت پہلے سے یہ سوال پوچھنا چاہتا تھا۔۔ مگر یہ سوال پوچھنے کا مقام اور وقت آج سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا تھا مہروسہ کنول۔۔۔۔۔۔ "
حمدان کا آخری لفظ مہروسہ سے اُس کی سانسیں چھین گیا تھا۔۔۔۔ مہروسہ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو۔۔۔۔ جس قیامت کا اُسے اتنے وقت سے انتظار تھا۔۔۔ وہ آج اُس کے سر پر ٹوٹنے والی تھی۔۔۔۔
اُس کی محبت اُس سے چھن جانے والی تھی۔۔۔ مہروسہ اِس تکلیف دہ سوچ پر اپنے آنسو نہیں روک پائی تھی۔۔۔۔
"میں تمہیں تمہارے اِس دھوکے پر کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔ کیونکہ میں پہلے دن سے سب کچھ جانتا تھا۔۔ میں نے خود تمہیں یہ دھوکا دینے دیا۔۔۔ ہاں مگر میں اتنا جاننا چاہوں گا۔۔۔ کہ کیا تمہاری میرے لیے محبت بھی تمہارے پلان کا حصہ تھی۔۔۔ یا تمہیں سچ میں مجھ سے محبت ہوئی ہے۔۔۔۔"
حمدان کے منہ سے نکلتے الفاظ مہروسہ کے دل کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ گئے تھے۔۔۔۔
یہ شخص ظالم تھا وہ جانتی تھی۔۔ مگر اتنا ستمگر بن جائے گا اُسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔
"میں بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ لیکن شاید کبھی آپ کو اپنی محبت کی شدت کا یقین نہیں دلا پاؤں گی۔۔۔۔"
مہروسہ کی حالت اِس وقت قابلِ رحم ہوچکی تھی۔۔۔ اُس انسان کے جیسے جسے پتا ہو کہ کچھ ہی لمحوں میں اُس کی پوری دنیا لُٹنے والی ہے.۔۔۔۔
لیکن سامنے کھڑے شخص کو اُس پر رحم نہیں آیا تھا۔۔۔۔
"میں بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ لیکن شاید کبھی آپ کو اپنی محبت کی شدت کا یقین نہیں دلا پاؤں گی۔۔۔۔"
مہروسہ کی حالت اِس وقت قابلِ رحم ہوچکی تھی۔۔۔ اُس انسان کے جیسے جسے پتا ہو کہ کچھ ہی لمحوں میں اُس کی پوری دنیا لُٹنے والی ہے.۔۔۔۔
لیکن سامنے کھڑے شخص کو اُس پر رحم نہیں آیا تھا۔۔۔
"فریب اور دھوکا کا ہی سہی مگر ایک رشتہ ہے ہم دونوں میں۔۔۔۔ اُسی کی خاطر میں تمہیں ایک موقع ضرور دوں گا۔۔۔۔ اپنی محبت کا یقین دلانے کا۔۔۔۔۔"
حمدان کی لمحہ با لمحہ سخت ہوتی گرفت مہروسہ کی سانسیں مدھم کررہی تھی۔۔۔ حمدان صدیقی کی آنکھوں میں ہمیشہ اُس نے اپنے لیے محبت دیکھنے کی خواہش کی تھی۔۔۔ مگر آج اتنی نفرت اور حقارت دیکھ وہ اپنے دل سے ہار چکی تھی۔۔۔۔۔
"کیسا موقع۔۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔۔ وہ اپنے ہر طرح کے انجام کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔۔۔۔
"اگر تمہاری محبت میرے لیے واقعی سچی اور خالص ہے تو تمہیں اپنے باقی دونوں گینگ لیڈرز کو میرے حوالے کرنا ہوگا۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ لوگ اِس وقت اِس فنکشن میں موجود ہیں۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں بھی اُن کی جان لے سکتا ہوں۔۔۔ مگر میں چاہتا ہوں یہ کام تم کرو۔۔۔۔ اور مجھے اپنی سچی محبت کا یقین دلاؤ۔۔۔۔"
حمدان کی بات پر مہروسہ کا چہرا ایکدم سفید پڑ گیا تھا۔۔۔۔۔ وہ اُن لوگوں کی جان کیسے کے سکتی تھی۔۔۔ جنہوں نے اُسے حرام موت مرنے سے بچا کر جینے کے قابل بنایا تھا۔۔۔ جو اُس کا کل اثاثہ تھے۔۔۔۔
اُس پر جان دیتے تھے۔۔۔۔ وہ اُن دونوں پر زرا سی خراش آنے سے پہلے ہی اپنی جان قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتی تھی۔۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہہ نکلی تھیں۔۔۔۔۔ وہ حمدان کے سینے پر اپنی دونوں ہتھیلیاں جمائے اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کا پورا وجود اِس سوچ پر ہی نڈھال ہوچکا تھا کہ جس شخص کو اُس نے دیوانوں کی طرح چاہا تھا۔۔۔ جس کے لیے وہ اپنے لوگوں تک سے دور رہنے لگی تھی۔۔۔ وہ اُس سے اُس کی محبت کا ثبوت مانگ رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ بھی اتنا بڑا ثبوت۔۔۔۔۔
"اگر آپ کہتے نا کہ میں آپ کہ محبت کو ثابت کرنے کے لیے اپنا سینہ گولیوں سے چھلنی کردوں۔۔۔ تو میں وہ بھی کر گزرتی مگر آپ نے تو میرے محسنوں کی جان مانگ لی۔۔۔ جنہوں نے مجھے عزت بھری زندگی گزارنا سکھائی میں اُن کی پیٹھ میں خنجر نہیں کھونپ سکتی۔۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔۔۔ میں آپ کو اپنی محبت کا یقین نہیں دلا سکتی۔۔ہاں میں نے آپ کے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا ہے۔۔۔۔ جس کے لیے آپ مجھے جو سزا دیں۔۔۔ مجھے منظور ہے۔۔۔ میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں۔۔۔ آپ مجھے ختم کرکے اپنا بدلہ لے سکتے ہیں۔۔۔۔ "
مہروسہ اُس کے سامنے کھڑی بے بسی سے بولتی حمدان صدیقی کا چہرے کو مزید کرختگی بھرے تاثرات سے بھر گئی تھی۔۔۔۔
"تم نے مجھ سے محبت نہیں کی کبھی مہروسہ کنول۔۔۔۔ اگر کی ہوتی تو تمہیں محبت کی طاقت کا اندازہ ہوتا۔۔۔ تم حمدان صدیقی کی بیوی بننے کے قابل کبھی تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ "
حمدان نے اپنی گن نکال کر مہروسہ کی کنپٹی پر رکھی تھی۔۔۔۔۔
مہروسہ نے اپنے ہونٹ سختی سے میچتے اپنی سسکی کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔۔۔
"مرنے سے پہلے پلیز میں صرف ایک سوال کا جواب جاننا چاہتی ہوں۔۔۔۔ کیا پتا میرے تڑپتے دل کو سکون مل جائے۔۔۔۔ کیا آپ نے کبھی مجھ سے محبت کی ہے۔۔۔ کبھی آپ کو اپنے دل میں میرے لیے زرا سے جذبات بھی محسوس ہوئے ہیں۔۔۔ یا یہ صرف میری ایک غلط فہمی تھی۔۔۔۔ "
مہروسہ کا پورا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔
حمدان نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھیں۔۔۔ وہ کیا بتاتا اِس لڑکی کو کہ یہ اُس کی زندگی اور دل میں کس مقام پر تھی۔۔۔۔۔
"پلیز۔۔۔۔۔"
اُسے ٹریگر پر اُنگلی رکھتے دیکھ مہروسہ سسکی تھی۔۔۔
وہ خود ہو بچانے کی پوری طاقت رکھتی تھی۔۔۔ لیکن اُس کے اندر اب جیسے جینے کی خواہش ہی ختم ہوچکی تھی۔۔۔ اُس نے اب تک زندگی میں بہت ساری تکلیفیں برداشت کی تھیں۔۔۔ مگر یہ تکلیف مہروسہ سے اُس کی جینے کی اُمگ بھی چھین گئی تھی۔۔۔
مہروسہ اب وہ زندگی ہی نہیں جینا چاہتی تھی۔۔۔ جس میں حمدان صدیقی کا ساتھ نہ ہو۔۔۔۔
مہروسہ نے ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں۔۔۔ جب گولی کی آواز کے ساتھ ہی اُس کے پیٹ سے خون اُبل پڑا تھا۔۔۔۔ یکے بعد دیگر دو گولیاں مزید اُس کے وجود میں پیوست ہوئی تھیں۔۔۔۔
حمدان نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔۔ اور سامنے خون میں لت پت ہوتی مہروسہ کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے وہ پلٹا تھا۔۔۔۔ جہاں مریم کو گن اُٹھائے کھڑے دیکھ حمدان کے پورے تن بدن میں آگ بھڑک اُٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
مریم کی اگلی گولی مہروسہ تک پہنچنے سے پہلے ہی حمدان نے آگے آتے وہ گولی اپنی بازو پر کھاتے مہروسہ کے گرتے وجود کو تھام لیا تھا۔۔۔ حمدان کو بیچ میں آتے دیکھ مریم اُلٹے قدموں وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔۔۔
حمدان کے بازو سے خون نکل رہا تھا۔۔۔۔
"ممم۔۔۔ میں آآآ۔۔۔ پپ س ے ببب بہہہت محبت کر۔۔۔۔ کر رتی تھ ی۔۔۔ آآآ۔۔۔۔ آپپ ننن ننے ییی۔۔۔ یقین نن ننہہہیں کیا میرا۔۔۔۔ پپ۔۔۔ پل۔۔۔ پلیز۔۔۔ آآآ خ ری۔۔۔۔ آخری بارررر بب بتا۔۔۔ ددیں۔۔۔ آآپپپ مم محبتت۔۔۔۔ مم مجھ سے۔۔۔۔ ؟؟"
مہروسہ کا سوال پورا بھی نہیں ہو پایا تھا۔۔۔ جب وہ آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔ اُس کا ہاتھ حمدان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔
حمدان جو لگا تھا جیسے اُس کے ہاتھوں سے اُس کی زندگی چھوٹ گئی ہو۔۔۔۔۔
اُس کی محبت میں پور پور ڈوبی اُس کی دیوانی۔۔۔ یہی سمجھ کر آنکھیں موند گئی تھی کہ اُسے اُس کے ایس پی حمدان نے مارا ہے۔۔۔۔
"آنکھیں کھولو مہروسہ۔۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ "
حمدان کے اپنے بازو سے خون نکل رہا تھا۔۔۔ مگر اُسے اِس وقت مہروسہ کے سوا کسی کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ یہ لڑکی اُس کی دشمن تھی،۔۔۔۔ اُس سے دھوکا بازی کررہی تھی۔۔۔
لیکن اُسے یوں آنکھیں موندے دیکھ حمدان کو اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔
حمدان کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر مہروسہ کے ماتھے پر گرا تھا۔۔۔ مگر ہر وقت اُس کی ایک پکار کی منتظر رہنے والی اُس کے عشق میں پاگل لڑکی۔۔۔ اِس وقت اپنے ایس پی کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی۔۔۔۔
"مہرو میم۔۔۔۔۔۔ "
گولی کی آواز سن کر جنید وہاں آیا تھا۔۔۔ جس کے پیچھے پیچھے حازم اور شاہ ویز بھی تھے۔۔۔۔
مگر سامنے کا منظر اُن تینوں کی دنیا اُلٹ گیا تھا۔۔۔ جنید لڑکھڑاتے وہیں بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
حازم اور شاہ ویز کو پہلی بار اپنے کندھے جھکتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
وہ دونوں مہروسہ کے قریب آئے تھے۔۔۔
حازم نے مہروسہ کو حمدان کے ہاتھوں سے چھین لیا تھا۔۔۔
"بہت بڑا نقصان کیا ہے تم نے ہمارا ایس پی۔۔۔۔ اگر مہروسہ کی قسم نے ہمارے ہاتھ نہ باندھے ہوتے تو اِس وقت تم اپنے قدموں پر چل کر یہاں سے نہ جا پاتے۔۔۔۔۔ وہ پہلے سے جانتی تھی کہ تم اُسے مار دو گے۔۔۔۔ وہ چاہتی تو بھاگ جاتی۔۔۔ مگر اُس نے اپنی محبت کو آخری لمحے تک نبھایا ہے۔۔۔۔ دعا کرو میری مہرو کو کچھ نہ ہو۔۔۔ ورنہ میں ہر شے کو تباہ و برباد کر دوں گا۔۔۔۔"
مہروسہ کی طرح وہ سب بھی یہی سمجھے تھے کہ حمدان نے مہروسہ کو مارا ہے۔۔۔۔
وہ مہروسہ کو حمدان کے ہاتھوں سے چھینتے جلدی سے وہاں سے بھاگے تھے۔۔۔۔
جبکہ حمدان کسی لُٹے پٹے مسافر کی طرح وہاں بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا تھا۔۔۔۔
اُس نے اپنے ہاتھوں پر لگا مہروسہ کا خون دیکھا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ غضناک حد تک لال ہوتی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ اب اُس کے ہاتھوں مریم کو کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں نے تمہارا ایک کام کردیا ہے۔۔۔۔ بلیک سٹارز کی ایک گینگ لیڈر کو ختم کردیا ہے۔۔۔۔ مگر مجھے اِس کے لیے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔۔ اُس لڑکی سے میری ذاتی دشمنی تھی۔۔۔۔ وہیں پوری کی ہے میں نے۔۔۔۔ اُس نے مجھ سے میری محبت کو چھین لیا۔۔۔ حمدان صدیقی کو پانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا میں نے۔۔۔۔ اور وہ ایک بار میں ہی میرے حمدان کو مجھ سے چھین گئی۔۔۔
مجھے لگا تھا ہمدردی میں ہی سہی مگر حمدان صدیقی مجھ سے شادی تو کرے گا۔۔۔ مگر حمدان نے کیا کہا مجھ سے۔۔۔ کہ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ اُس لڑکی کی اصلیت جاننے کے بعد بھی وہ اُسی سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔ کیسی محبت تھی اِن لوگوں کی۔۔۔۔ حمدان جانتا تھا کہ مہروسہ اُسے دھوکا دے رہی ہے۔۔۔ پھر بھی اُسے اپنے پاس رکھا۔۔۔ مہروسہ جانتی تھی حمدان اُسے مارنے والا ہے۔۔۔ پھر بھی وہ اُس کے ساتھ چپکی رہی۔۔۔۔
تو دیکھو میں نے اِن کا کام تمام کردیا۔۔۔۔ حمدان کے سامنے مہروسہ کی اصلیت لائی۔۔۔۔ اور مہروسہ کو اپنے ہاتھوں پر مار کر سارا الزام حمدان پر ڈال دیا۔۔۔ اب حمدان بھی خود کو اُس کی موت کا زمہ دار سمجھے گا اور بلیک سٹارز بھی اُسے نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ میں اپنے حمدان کی یہ حالت نہیں دیکھ سکتی کیا کروں۔۔۔
مگر اُسے تنہا روتے دیکھنا کسی اور لڑکی کی بانہوں میں دیکھنے سے زیادہ بہتر ہے۔۔۔۔
لیکن اِس میں غلطی بھی تو حمدان کی اپنی ہے نا۔۔۔ میں نے کتنا یقین دلانا چاہا اُسے کہ مہروسہ غلط لڑکی ہے۔۔۔ اُسے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے اپنا لو۔۔۔ میں بہت محبت کرتی ہوں تم سے۔۔۔ مگر وہ میری نہیں مانا۔۔۔ اب اُس سے اُس کی بیوی کو چھیننے کے سوا میرے پاس بھلا اور کوئی راستہ بچتا جو نہیں تھا۔۔۔۔۔"
مریم فون کان سے لگاتے بولتی دوسری جانب موجود شخص کی خوشی میں اضافہ کر گئی تھی۔۔۔۔
"میں تب مانو گا تمہیں۔۔ جب پریسا آفندی کو میرے حوالے کرو گی تم۔۔۔۔ اُن کا ایک گینگ لیڈر تو خود ہی سر کے بل چلتا ہوا آئے گا۔۔۔۔ "
مریم کی بات سن کر فیصل بخشی کو اپنا اہم ترین کام یاد آیا تھا۔۔۔ پریسا آفندی کا حُسن اُسے پاگل کر چکا تھا۔۔۔ پریسا پر حملہ کروا کر اغوا کروانے والا بھی وہی تھا۔۔۔ مگر اُس کی کوشش ہر بار شاہ ویز سکندر نے ناکام بنائی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"فکر نہ کریں۔۔۔ اُدھر بھی چنگاری لگا چکی ہوں میں۔۔۔ بس آگ بھڑکنے کی دیر ہے۔۔۔۔ پھر پریسا آفندی بھی آپ کے قبضے میں ہوگی۔۔۔ بس آپ میری مطلوبہ رقم میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا مت بھولیئے گا۔۔۔ میں جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں۔۔۔ کیونکہ اب حمدان صدیقی مجھے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ "
مریم فیصل بخشی کو یادہانی کرواتی آخر میں حمدان کا خوف ظاہر کر گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا گولی کی آواز پر سہم گئی تھی۔۔۔ اُس نے شاہ ویز کو اپنے اردگرد تلاشنہ چاہا تھا۔۔۔ مگر وہ کہیں نہیں تھا۔۔ سب لوگ نجانے کس جانب بھاگ رہے تھے۔۔۔
"پریسا میم آپ چلیں میرے ساتھ۔۔۔۔ ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکلنا ہے۔۔۔۔"
جنید اپنی لال بھیگتی آنکھیں رگڑتا اُس کے پاس آیا تھا۔۔۔
"کیوں میں تمہارے ساتھ کیوں جاؤں۔۔۔۔ شاہ ویز کو بلاؤ۔۔۔ میں اُس کے ساتھ آئی تھی۔۔۔ اب جاؤں گی بھی اُسی کے ساتھ ہی۔۔۔ "
پریسا کی متلاشی نگاہیں بس شاہ ویز کو ہی تلاش کررہی تھیں۔۔۔ جو اتنے لوگوں میں اُسے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔
"میم سر اِس وقت نہیں آسکتے۔۔۔ آپ پلیز چلیں میرے ساتھ۔۔۔ یہاں آپ کے لیے خطرہ ہے۔۔۔۔ "
جنید ملتجی لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے اچانک وہاں کسی نے عجیب دھواں سا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ سب بُری طرح کھانس رہے تھے۔۔۔ جب اُسی لمحے پریسا کو محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے اُس کا ہاتھ تھام لیا ہو۔۔۔۔
"کک کون۔۔۔؟؟"
پریسا آنکھوں میں پڑتے اُس زہریلے دھویں کی وجہ سے مقابل کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے کسی نے اُس کے منہ پر رومال رکھتے اُسے بے ہوش کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
پریسا کے مزاحمت کرتے ہاتھ وہیں لڑھک گئے تھے۔۔۔۔۔
جنید اپنی آنکھوں کو رگڑتا پریسا کو تلاش کرتا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ اُسے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم اور شاہ ویز ہر شے فراموش کیے مہروسہ کی جان بچانے کی خاطر اُسے لیے سیدھے اپنے ہاسٹل پہنچے تھے۔۔۔ جو بلیک ہاؤس میں اُن کے اپنے لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔
وہاں کے ڈاکٹرز خود اپنی گینگ لیڈر کی حالت دیکھ صدمے کی کیفیت میں تھے۔۔۔ شاہ ویز اور حازم کی حالت بھی بہت خراب تھی۔۔۔ آئی سی یو کے دروازے کے باہر کھڑے وہ خوف کے مارے اپنی پلکیں تک نہیں جھپک رہے تھے۔۔۔۔
کہ کہیں اُن کی مہرو اُنہیں چھوڑ کر نہ چلی جائے۔۔۔ مہروسہ کو تین گولیاں لگی تھیں۔۔۔۔ اُس کا خون کافی بہہ گیا تھا۔۔۔ ڈاکٹرز کے مطابق اُس کے بچنے کے چانسز بہت کم تھے۔۔۔۔ کیونکہ وہ خود بھی جیسے جینے کی اُمنگ چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
"مہرو کو کچھ نہیں ہونا چاہیے میر۔۔۔۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔ آگ لگا دوں گا ہر شے کو۔۔۔۔ مہرو کو اُس دن اُس اذیت کی موت مرنے سے اِس لیے نہیں بچایا تھا کہ وہ اِس طرح اتنی اذیت اور درد اپنے دل میں لیے ہمیں چھوڑ جائے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی لال انگارہ آنکھیں خون ٹپکانے کو تیار تھیں۔۔۔۔ جب اُسی لمحے جنید بھاگتا ہوا اُس کے پاس آیا تھا۔۔۔ اُس کے چہرے کا اُڑا رنگ دیکھ حازم اور شاہ ویز کو مزید پریشان کر گئی تھی۔۔۔۔
"شاہ سر وہ پریسا میم۔۔۔ پریسا میم کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔۔۔۔ وہ سامنے کھڑی تھیں مگر اچانک۔۔۔۔ "
جنید شاہ ویز کو اپنے قریب آتا دیکھ خوف سے کانپتا اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
"تم سب کہاں مرے ہوئے تھے۔۔۔۔ کہاں گئی ہے پری۔۔۔۔ ؟؟؟"
شاہ ویز نے اپنی پاکٹ سے گن نکالی تھی۔۔۔ وہ اِس وقت آپے میں نہیں تھا۔۔۔۔
"شاہ۔۔۔۔۔"
حازم نے جلدی سے اُس کے قریب آتے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔ مگر شاہ ویز حازم کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتا بلیک بیسٹ بنا راستے میں آئی ہر شے کو ٹھوکروں سے اُڑاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔
گاڑی کے قریب پہنچتے اُس کی نظر گیٹ سے اندر داخل ہوتی قاسم کی گاڑی پر پڑی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز نے وہیں کھڑے قاسم کے کنپٹی پر نشانہ باندھتے اُسے اگلی سانس لینے کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔۔۔ قاسم کی گاڑی بے قابو ہوتی دائیں جانب بنے درخت سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
جنید گھبرا کر وہاں آیا تھا۔۔۔ شاہ ویز ایک قہر آلود نگاہ جنید پر ڈالتا بنا گارڈز کو لیے اکیلا ہی نکل گیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کے دل و دماغ میں اس وقت آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔۔۔
پریسا کو جس نے بھی اغوا کیا تھا وہ اب اُس کے ہاتھوں بچنے نہیں والا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتا آفندی مینشن پہنچا تھا۔۔۔۔۔ جہاں موجود اُس کے گارڈز اُسے دیکھ فوراً الرٹ ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شاہ ویز کو اندر آتے دیکھ آفندی مینشن کے ہر فرد کا چہرا زرد ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز کی خون ٹپکاتی بے حد لاپ آنکھیں اُنہیں شدید خوفزدہ کر گئی تھیں۔۔۔
"میری بیوی کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ "
شاہ ویز شہباز آفندی کو گریبان سے پکڑتا ایک زور دار تمانچہ رسید کر گیا تھا۔۔۔۔ شوکت آفندی اور باقی سب نے آگے آنا چاہا تھا۔۔۔۔ جب شاہ ویز نے بنا دیکھے اُن کی جانب فائرنگ کرتے اُنہیں وہیں ساکت کر دیا تھا۔۔۔
"میری بیوی کہاں ہیں۔۔۔ بتا رہے ہو یا یہ ساری گولیاں تمہاری کھونپڑی میں اُتار دوں۔۔۔۔"
شاہ ویز اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ اُن سب کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
"خبردار شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ تم میری فیملی کے کسی بھی فرد کو کچھ نہیں کہو گے۔۔۔۔ ورنہ جو میں کروں گی وہ تم برداشت نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔۔ "
پریسا کی آواز شاہ ویز کے کانوں سے ٹکراتی اُسے پل بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔۔
وہ شہباز آفندی کو دور دھکیلتا پریسا کی آواز کی سمت پلٹا تھا۔۔۔۔
"خبردار شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ تم میری فیملی کے کسی بھی فرد کو کچھ نہیں کہو گے۔۔۔۔ ورنہ جو میں کروں گی وہ تم برداشت نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔۔ "
پریسا کی آواز شاہ ویز کے کانوں سے ٹکراتی اُسے پل بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔۔
وہ شہباز آفندی کو دور دھکیلتا پریسا کی آواز کی سمت پلٹا تھا۔۔۔۔
جو سیڑھیوں پر صحیح سلامت کھڑی آنکھوں میں دنیا جہاں کی نفرت لیے اُسے زخمی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری جانب شاہ ویز کو اُس کی نفرت کے رنگ تو دکھائی ہی نہیں دے پائے تھے۔۔۔ وہ تو بس اِس بات پر اپنے رب کا شکر بجا لایا تھا کہ اُس کی پریسا بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔
"میرے قریب مت آنا شاہ ویز سکندر ورنہ میرے گھر والے تمہیں ختم کردیں گے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کو اپنے قریب آتا دیکھ پریسا چلائی تھی۔۔۔ شاہ ویز نے مُڑ کر اپنے پیچھے دیکھا تھا۔۔۔ جہاں شہباز آفندی ، سفیان آفندی سمیت باقی سب بھی اُس پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔۔۔۔
"یہ سب کیا ڈرامہ ہے۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز چاہتا تو ابھی ایک پل میں اِن سب لوگوں کو یہیں مار گراتا اور پریسا کو کھینچ کر یہاں سے لے جاتا۔۔۔ مگر وہ ابھی جاننا چاہتا تھا کہ آخر کو اُس کی بیوی نے اس کے خلاف اتنی بڑی سازش کس خوشی میں کی تھی۔۔۔۔۔۔
"ڈرامہ نہیں حقیقت ہے۔۔۔۔ وہ حقیقت جو مجھ سے چھپا کر تم نے اب تک مجھے بے وقوف بنایا۔۔۔ اور میں بنتی بھی رہی۔۔۔۔ تم نے نہایت ہی ہوشیاری سے میرے گرد اپنی محبت کا جال پھینکا۔۔۔ میرے گھر والوں کو پھنسانے کے لیے اور ساری دولت اپنے نام کرنے کے لیے اِن جائیداد کے پیپرز پر زبردستی سائن لیے میرے۔۔۔۔
اور میں بے وقوف بنی تم جیسے قاتل اور وحشی درندے کی ایک ایک بات سنتی رہی۔۔۔۔ اپنے گھر والوں تک پے یقین نہیں کیا۔۔۔۔ جنہوں نے بچپن سے لے کر اب تک مجھے ایک خراش تک نہیں آنے دی۔۔۔ تم نے مجھے اُن لوگوں کے خلاف استعمال کیا۔۔۔ تمہارے پاس رشتے نہیں ہیں۔۔۔ دوسروں کے رشتے تو مت چھینوں۔۔۔۔ شکر ہے بابا مجھے آج یہاں لے آئے۔۔۔ ورنہ میں یہ کبھی جان ہی نہ پاتی کہ اُس دن مجھے سچائی بتانے کی وجہ سے تم نے میری ماما کو کڈنیپ کروا لیا تھا۔۔ کہاں ہیں میری ماما اُنہیں ابھی اور اِسی وقت آزاد کرو ورنہ اب کی بار میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے ختم کروں گی۔۔۔"
بھیگتی آنکھوں سے بولتی وہ شاہ ویز کے سر پر پسٹل تان گئی تھی۔۔۔ اُس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ مگر آنکھوں کی نفرت ہنوز قائم تھی۔۔
شاہ ویز نے زخمی نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا اور اُس کی جانب پیش قدمی کر دی تھی۔۔۔
"ہاں میں نے تمہیں استعمال کیا، میں تمہیں اِن سب سے چھین کر اپنے پاس قید کرنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا، یہ ساری دولت جائیداد بھی ہڑپ کرنا چاہتا ہوں، ایک پھوٹی کوڑی بھی اِن کے پاس نہیں چھوڑنا چاہتا، تمہارے قریب میں جب بھی آیا ہوں سوچی سمجھی سازش کے تحت ہی آیا ہوں۔ مگر میں نے جو کیا سرعام کیا ہے۔۔ کبھی یوں پیٹھ پیچھے دھوکا نہیں دیا تمہیں۔۔۔ کیونکہ مجھے سخت نفرت ہے دھوکے سے اور دھوکا دینے والے سے۔۔۔
تم نے مجھے دھوکا دے کر خود کو میری نگاہوں میں گرا دیا ہے۔۔۔ جس کے لیے میں کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں۔۔ لیکن میری یہ بات ہمیشہ اپنے دماغ میں رکھنا۔۔ تمہیں اس سب کے باوجود رہنا تو میرے ساتھ ہی ہوگا۔۔۔ "
شاہ ویز بنا خود پر تنے ہتھیاروں کی پرواہ کیے دھیرے دھیرے اپنے قدم پریسا کی جانب بڑھا رہا تھا۔
جبکہ اُس کو قریب آتا دیکھ پریسا کا ہاتھ لرز اُٹھا تھا اور پسٹل چھوٹ کر زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کی آنکھوں میں اُترتا خون دیکھ وہ اپنی جگہ سہم گئی تھی۔ اُسے تو یہی لگا تھا کہ شاہ ویز سب کے سامنے اُسے صفائی دے کر سب کے سامنے ثابت کردے گا کہ اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔
مگر شاہ ویز کا یہ انداز اُسے ہلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔
پریسا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ گھر والوں کی جانب سے سچائی سننے کے بعد بھی اُسے کہیں نہ کہیں لگ رہا تھا کہ اُس کا شاہ ویز اتنا سنگدل اور بے حس نہیں ہوسکتا،،،
وہ اُسے یوز نہیں کرسکتا۔۔۔ غصے میں آکر وہ یہاں تو آگئی تھی لیکن اُسے اِس بات کا خیال نہیں رہا تھا کہ اُس کی اِس حرکت پر شاہ ویز کا ردعمل کتنا شدید ہوسکتا ہے۔۔۔
"پریسا کو ہاتھ مت لگانا شاہ ویز سکندر۔۔۔ یہ ساری گولیاں تمہارے وجود میں اُتار دوں گا۔۔۔۔"
شاہ ویز پریسا سے دو سیڑھیوں کے فاصلے پر تھا جب سفیان گن اُٹھائے آگے آیا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا شاہ ویز کی غصے سے پھولی نسیں دیکھ کر نفی میں گردن ہلاتی سفیان کو پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ کر گئی تھی۔۔۔
"تو تم مجھے بتاؤ گے کہ شاہ ویز سکندر کو کیا کرنا چاہیے، اور کیا نہیں۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ٹریگر دباتے سفیان کا قصہ ہی ختم کرنا چاہا تھا۔۔۔ جب اُس کا ارادہ بھانپتے پریسا جلدی سے اُس کے قریب آتے اُس کی گن کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"نہیں تم اِن میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں کہو گے۔۔۔ میں نے یہاں بلا کر دھوکا دیا ہے تمہیں سزا بھی تم مجھے ہی دو۔۔۔ "
پریسا اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتی شاہ ویز کے دل میں لگی آگ کو مزید ہوا دے گئی تھی۔۔۔ جس لڑکی کی خاطر وہ آہستہ آہستہ خود کو بدل رہا تھا۔۔۔ وہ اُسے اب تک سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔ شاہ ویز کو زبان سے اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔۔۔ لیکن اب تک ہر ملاقات میں اُس کا ہر عمل پریسا کے سامنے اُس کی محبت کا چیخ چیخ کر گواہ رہا تھا۔۔ مگر اِس لڑکی کو دنیا کے ہر انسان کے ساتھ ہمدردی تھی سوائے اُس کے۔۔۔
وہ سفیان کو آج جان سے مار دینے کا ارادہ رکھتا تھا مگر یہاں بھی پریسا نے درمیان میں آتے اُسے بچا لیا تھا۔۔
شاہ ویز پریسا کی کلائی تھام کر اُسے اپنی جانب کھینچتا اُس کے بازو کو سختی سے اُس کی کمر پر باندھ گیا تھا۔۔۔
پریسا کو سب کے سامنے اُس سے اِس جارحانہ حرکت کی توقع نہیں تھی۔۔ وہ سیدھی اُس کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"بھائی آپ نے مہرو کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔ میں آپ سے اب کبھی بات نہیں کروں گی۔۔۔ آپ نے میری بہت اچھی اور پیاری دوست کو چھینا ہے مجھ سے۔۔۔ وہ بہت اچھی تھی بھائی اور آپ سے بہت پیار بھی کرتی تھی۔۔۔ آپ نے اُس کی زندگی تو اُس سے چھینی ہی ہے آپ نے اپنا بھی بہت نقصان کیا ہے۔۔۔ اب آپ اپنی ساری زندگی بھی لگا دیں نا تب بھی اُس جیسی محبت نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔۔۔۔"
حمدان ٹوٹا بکھرا سا گھر پہنچا تھا۔۔۔ جہاں سامنے ہی فرح روتی بلکتی کھڑی اُس کے ضمیر کو مزید کچوکے لگا گئی تھی۔۔۔۔
اپنے سامنے کسی کو ایک لفظ تک نہ بولنے دینے والا ایس پی حمدان صدیقی۔۔۔ اِس وقت گم صم سا کھڑا بس اُسے ہی دیکھے گیا تھا۔۔۔۔
اُس نے ایک نگاہ ڈرائینگ روم پر ڈالی تھی۔۔ جہاں چاروں جانب سوگواریت سی چھائی ہوئی تھی۔۔۔
نسرین بیگم کو جب سے مہروسہ کے بارے ميں پتا چلا تھا وہ اُس وقت سے بے ہوش تھیں۔۔۔
اُنہوں نے مہروسہ کو اپنی سگی بیٹیوں سے زیادہ چاہا تھا۔۔۔ حمدان سمیت اُن سب تک مہروسہ کے مرنے کی خبر ہی پہنچائی گئی تھی۔۔۔
جس خبر نے صدیقی ولا کے ہر فرد کی روح فنا کردی تھی۔۔۔ مہروسہ کچھ ہی وقت میں اُن سب کے دلوں میں اپنی بہت گہری جگہ بنا چکی تھی۔۔۔ بس ایک اُسی سنگدل کا دل نہیں جیت پائی تھی۔۔۔
جس کی خاطر اُس نے اتنا وقت تکلیف کاٹی تھی۔۔۔ اُس کی کٹیلی باتیں اور نفرت بھرے نشتر برداشت کیے تھے۔۔۔
جس سے مہروسہ کی روح لہولہان ہوچکی تھی۔۔۔ مگر وہ جاتے جاتے بھی اپنی زبان پر ایک شکوہ تک نہیں لائی تھی حمدان کے لیے۔۔۔
یہی تھی اُس دیوانی لڑکی کی حمدان صدیقی کے لیے محبت۔۔۔ جو مہروسہ کنول کے سوا کوئی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔
ہمیشہ اُس کے قریب ہوتے اُس کے وجود کو نظر انداز کرنے والا اِس وقت گھر کے ہر کونے میں اُسے ہی تلاش کررہا تھا۔۔۔ وہ اُسے ہر جگہ دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
کہیں اُس سے شرماتی۔۔ کہیں گھبراتی اور کہیں اُس کے قہر برساتے غصے سے خوف کھاتے ہوئے۔۔۔۔
حمدان صدیقی کو اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔ اُس کا دل اذیت اور تکلیف سے چور چور تھا۔۔۔ کوئی اِس وقت اُس کے دل سے پوچھتا کہ وہ کتنے درد میں تھا۔۔۔
"آپ جانتے ہیں حمدان بھائی وہ کتنے پیارے دل کی لڑکی تھی۔۔۔ آپ اور ساری دنیا والے اُسے ایک گینگسٹر اور دنیا کی بُری ترین انسان سمجھتے تھے نا۔۔۔
مگر میں آپ کو بتاؤں اُس کے جیسی پیاری اور نیک نیت والی لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔۔۔ وہ لوگوں کی جانیں لیتی تھی۔۔۔ مگر صرف اُن کی جو ظالم اور جابر تھے۔۔۔۔ وہ اُن لوگوں کا خاتمہ کرتی تھی۔۔۔ جن اُونچی شان والوں پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت آپ کا محکمہ نہیں دیتا آپ کو۔۔۔۔
اُس نے نجانے کتنی لڑکیوں کی عزتیں اور زندگیاں بچائی ہیں۔۔۔ اُس نے آپ سے جھوٹ بولا کیونکہ جانتی تھی آپ اُس سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ اُس کا نام سنتے ہی اُسے اپنی زندگی سے بے دخل کردیں گے۔۔۔ اُس نے مجھے کہا تھا کہ میں جانتی ہوں بہت جلد میری زندگی کا سفر ختم ہونے والا ہے۔۔۔ مگر میں جاتے جاتے صرف اتنا چاہتی ہوں کہ حمدان کی بیوی بن کر رخصت ہوں۔۔۔ لیکن مجھے علم ہے حمدان مجھے طلاق دے دیں گے۔۔۔ وہ مجھ جیسی لڑکی کو اپنی بیوی کی صورت کبھی قبول نہیں کریں گے۔۔۔ میں اتنی بُری اور ناپاک ہوں اُن کی نظر میں۔۔۔ مگر میں قسم کھا کر کہتی ہوں۔۔۔ میں نے اتنے سال شاہ سر اور میر سر کے ساتھ گزارے ہیں مگر ہمیشہ اُنہوں نے مجھے سگی بہنوں سے بڑھ کر چاہا ہے۔۔۔ میرے سر کے ایک بال تک حمدان کے سوا کسی مرد کی نگاہوں نہیں پڑی۔۔۔ میں کبھی کسی مرد کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
مگر حمدان کو دیکھ مجھ جیسی احساس سے عاری اور بے رنگ زندگی گزارنے والی بدل گئی۔۔۔ میں ہمیشہ سے جانتی تھی۔۔۔ جو کام میں کررہی ہوں بہت جلد موت کی بھینٹ چڑھ جاؤں گی۔۔۔ پہلے کبھی مرنے سے ڈر نہیں لگا۔۔۔ مگر جب سے حمدان میری زندگی میں شامل ہوئے ہیں مجھے موت سے ڈر لگنے لگا ہے۔۔۔ میں اب اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتی۔۔۔ میں جینا چاہتی ہوں حمدان کا ہاتھ تھام کر اُن کے سینے سے لگ کر اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔ لیکن میں جانتی ہوں بہت بدقسمت ہوں۔۔۔ آج تک دل کی کوئی بھی مراد کبھی بر نہیں آئی۔۔۔
اور یہ تو میں پھر اس سے بھی بہت بڑا مانگ رہی ہوں۔۔۔ یہ کیسے پورا ہوسکتا ہے۔۔۔ "
اُجالا کہ چھوٹی بہن حمنہ بات ختم کرتے ہچکیوں سے رو دی تھی۔۔۔ جبکہ حمدان کو لگا تھا جیسے اُس کی روح کو نہایت ہی بے دردی سے چیر دیا گیا ہو۔۔۔ اور دل میں نوکیلا ُخنجر پیوست کردیا ہو۔۔۔ جس کی اذیت ناک تکلیف سے بلبلا اُٹھنے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں کر پارہا تھا۔۔۔
حمدان وہاں مزید ایک سیکنڈ بھی نہیں رک پایا تھا۔۔۔ اپنے روم میں داخل ہوتے اُس نے روم کا دروازہ اتنی زور سے بند کیا تھا۔۔۔ کہ گھر کی در و دیوار لرز اُٹھی تھیں۔۔۔
"تم مجھے یوں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔۔۔ نہیں تمہیں کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ تم پر تم سے بھی زیادہ میرا حق تھا۔۔۔ پھر تم اپنی مرضی سے خود کو مجھ سے دور کیسے لے جاسکتی ہو۔۔۔ میں جانتا ہوں تم سمیت ہر انسان یہی سمجھ رہا ہے کہ میں نے تمہاری جان لی ہے۔۔۔۔
میں کسی کو وضاحت نہیں دوں گا۔۔۔ صرف تمہیں دوں گا۔۔۔ پلیز ایک بار میرے سامنے آجاؤ۔۔۔ واپس آجاؤ۔۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کتنی محبت کے مجھے تم سے۔۔۔ نفرت کرتا تھا تم سے۔۔۔ مگر تم نے کیسے میری نفرت کو اپنی محبت میں بولا میں سمجھ ہی نہیں پایا۔۔۔ مجھے اپنا اسیر بنا کر مجھ سے دور کیسے جاسکتی ہو تم۔۔۔
تم تو دیوانی تھی نا میری۔۔۔ میری زرا سی تکلیف پر ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتی تھی۔۔۔
پھر اب کیوں نہیں آرہی میرے پاس۔۔۔ دیکھ نہیں رہی میں کتنی اذیت میں ہوں۔۔۔۔"
حمدان نے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر مکا جڑتے ہاتھ کو پوری طرح سے لہولہان کردیا تھا۔۔۔۔ چھناکے کی آواز کے ساتھ وہ شیشہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔۔۔
اِس کے بعد بھی وہ رُکا نہیں تھا۔۔۔
ایک کے بعد دوسری شے کو اُٹھا اُٹھا کر پھینکتے وہ خود کو بُری طرح سے زخمی کر رہا تھا۔۔۔
مگر اُسے ہوش نہیں تھا۔۔۔
ہزیانی انداز میں مہروسہ کو پکارتا آج پہلی بار حمدان صدیقی اتنی قابلے رحم حالت میں لگا تھا۔۔۔
وہ خود کو بیرونی چوٹیں پہنچا کر اپنے اندر کی اذیت کم کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن دل کی تکلیف تو کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔
اُسے اپنا وہ ایک ایک ستم یاد آیا تھا۔۔۔ جو سنگدلی اور ظلم کی انتہا کرتے اُس نے اپنی محبت میں دیوانی اُس معصوم لڑکی پر ڈھائے تھے۔۔۔
"کیوں کیا میں نے وہ سب۔۔۔ ایک بار اُس کی زبانی کیوں نہیں پوچھی اُس کہ اصل حقیقت۔۔۔ کیونکہ اُسے اذیتوں کی مار مارتا رہا۔۔۔ "
حمدان نے پوری قوت سے اپنا دوسرا ہاتھ کانچ کے ٹیبل پر مارتے اُسے بھی بُری طرح زخمی کردیا تھا۔۔۔
کانچ کے کئی ٹکڑے حمدان کے ہاتھ میں چبھ گئے تھے۔۔۔ مگر اُسے پرواہ ہی کہا تھی۔۔۔
وہ تو بس اِس وقت صرف اور صرف مہروسہ کو اپنے سامنے چاہتا تھا۔۔۔۔
"میں نے بہت غلط کیا تھا نا تمہارے ساتھ۔۔۔ مجھ سے خود کو چھین کر اُسی کی سزا دی ہے نا تم نے مجھے۔۔ میں نہیں برداشت کرسکتا یہ دردناک سزا۔۔۔۔ نہیں جی پاؤں گا تمہارے بغیر۔۔۔ پلیز واپس لوٹ آؤ۔۔۔ پلیز۔۔۔ میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔ مجھے اپنا عادی بنا کر تم یوں منہ نہیں موڑ سکتی مجھ سے۔۔۔۔ مہروسہ کنول تم اپنے ایس پی کی رگ رگ میں خون بن کر دوڑنے لگی ہو۔۔ میرے دل کی دھڑکن بن کر دھڑکنیں لگی ہو۔۔ تو تم اتنی آسانی سے مجھے چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہو۔۔۔"
حمدان بیڈ پر سر کے بل چت گرتا چھت کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر تکیے کے قریب پڑے مہروسہ کے بلیک کلر کے دوپٹے پر پڑی تھی۔۔۔۔
جس کے کناروں پر سیاہ نگوں کی کناری بنائی گئی تھی۔۔۔ حمدان والہانہ چاہت سے اُسے دوپٹے کو اپنے چہرے پر رکھتا اُس کی خوشبو اپنی سانسوں میں اُترتی محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔
"تم کہتی تھی میں بہت ضدی ہوں۔۔۔ اب میری یہی ضد تمہیں میرے پاس لائے گی۔۔۔ تمہیں واپس اپنے ایس پی کے پاس لوٹنا ہی ہوگا۔۔۔"
حمدان اُس کے دوپٹے پر لب رکھتا اُسے سینے سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
اگر مہروسہ اپنے ایس پی کی اپنے لیے یہ دیوانگی دیکھ لیتی تو شاید اپنے حواس قائم نہ رکھ پاتی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"تمہیں تو جو سزا میں دوں گا تم آئندہ کبھی بھی مجھ سے دور جانے سے پہلے ہزار بار سوچو گی۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا کہ شاہ ویز سکندر کو دھوکا دینے کی سزا کتنی درد ناک ہوتی ہے۔۔۔۔ "
شاہ ویز خون آشام نگاہوں سے اُسے دیکھتے بولتا پریسا کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص کا خون خشک کر گیا تھا۔۔۔
اُن سب کے ہاتھوں میں گنز تھیں مگر بہت کوشش کے بعد بھی کسی سے ایک گولی بھی نہیں چل پائی تھی۔۔۔
"مجھے سفیان آفندی کو مارتے دیکھ تم اُس کی جان بچانے میرے سامنے آن کھڑی ہوئی ہو۔۔۔ اور وہ سات کے قریب لوگ مجھے مارنے کے ارادے سے مجھ پر گن تانے کھڑے ہیں۔۔۔ اور تم اُنہیں میں شریک ہوکر اُن کی آٹھویں ساتھی بنی ہوئی ہو۔۔۔ جو بات ثابت کررہی ہے کہ تمہارے لیے کس کی کتنی اہمیت ہے۔۔۔۔ آج تک بہت لوگوں نے دھوکا دیا ہے مجھے۔۔۔ مگر کسی کے دھوکے سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی تم نے آج دی ہے۔۔۔ تمہارا یہ دھوکا کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کا چہرا اُس کے بے پناہ قریب تھا۔۔ پریسا کا دل اُس کی بے اعتباری کو دیکھ لرز اُٹھا تھا۔۔ اُس کی وحشت ناک آنکھیں اور کنپٹی کی اُبھری رگیں بتا رہی تھیں کہ اِس وقت وہ کیسے خود پر کنٹرول کیے ہوئے ہے۔۔۔
"تم ایک بات نہیں جانتی اور نہ تمہارے یہ گھر والے۔۔۔ اِن کے پاس موجود ہتھیاروں میں بلٹس نہیں ہیں۔۔۔ بلٹس صرف تمہاری گن میں تھیں۔۔۔۔ میں مرتا تو صرف تمہاری ماری جانے والی گولی سے۔۔۔ یہی میری دردناک سزا ہوتی تم سے محبت کرنے کی سزا۔۔۔ اُس لڑکی سے محبت کرنے کی سزا جو میری محبت ڈیزرو ہی نہیں کرتی۔۔۔ "
شاہ ویز زہر خند سرد لہجے میں بولتا پریسا کی ہستی فنا کر گیا تھا۔۔۔۔
سفیان پریسا کو شاہ ویز کی بانہوں میں دیکھ پیچ و تاب کھانے کے سوا کچھ نہیں کر پایا تھا۔
پریسا شاک کی کیفیت میں اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس نے اُس سے اپنی محبت کا اظہار کیا بھی تھا تو کس ٹائم پر۔۔۔
اُسی لمحے باہر پولیس کی گاڑیوں کا سائرن بجا تھا۔۔
پریسا نے گھبرا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُسے یہی لگا تھا پولیس شاہ ویز کو گرفتار کرلے گی۔۔۔
اور قانون کی نظر میں وہ جتنا بڑا مجرم تھا اُس کی سزا پھانسی کے سوا کوئی نہیں ہونے والی تھی۔۔۔
وہیں پولیس کو اندر آتا دیکھ آفندی مینشن کا ہر فرد خوش تھا۔۔۔۔ اُن کی جان شاہ ویز سکندر نامی افریت سے چھوٹنے والی تھی۔۔۔۔
مگر سب لوگ حیران اُس وقت ہوئے تھے جب پولیس انسپکٹر شاہ ویز کے پاس جانے کے بجائے سیدھے شہباز آفندی کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
پریسا کو خود سے دور کرتا شاہ ویز سیڑھیوں سے نیچے اُترا تھا۔۔۔
"مسٹر شہباز آفندی یور آر انڈر اریسٹ۔۔۔ "
شہباز آفندی ،شوکت آفندی اور سفیان کے سامنے ہتھکڑیاں لہراتے وہ لوگ وہاں موجود تمام افراد کو ساکت کر گئے تھے۔۔۔
پریسا نے اُلجھی نگاہوں سے شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اب بڑے ہی ریلیکس موڈ میں ایک جانب صوفے پر اپنے مخصوص انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا سیگریٹ سلگھا گیا تھا۔۔۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انسپکٹر صاحب۔۔۔ میں اِس ملک کا بہت ہی معزز شہری ہوِں۔۔۔ اور ایک بہت نامور بزنس مین ہوں۔۔۔ آپ کس جرم میں مجھے اور میرے گھر والوں کو اریسٹ کرسکتے ہیں۔۔۔۔ "
شہباز آفندی بپھرے انداز میں بولتا اُن پولیس والوں پر چلا اُٹھا تھا۔۔۔
"پولیس والوں پر کیوں چلا رہے ہیں آفندی صاحب۔۔۔ مجھ سے پوچھیں میں بتاتا ہوں۔۔ میرے باپ کی کمپنی میں فراڈ کرکے اُن کی ساری جائیداد دھوکے سے اپنے نام لگوائی تم نے۔۔۔ یہ تھا تم لوگوں کا پہلا جرم۔۔۔ میری فیملی کو دھوکے سے بلا کر اُنہیں زندہ جلا کر مار دینا تھا تم لوگوں کا دوسرا جرم۔۔۔ میرے پورے خاندان کو تباہ کرکے میری ہی دولت جائیداد پر قبضہ کرکے ساری زندگی عیش اور سکون کی زندگی گزارنا تھا تم لوگوں کا تیسرا جرم۔۔۔۔ اور اپنے بڑے بھائی کو لالچ میں آکر اُس کے نام لگی میرے باپ کی دولت جائیداد حاصل کرنا تھا تمہارا چوتھا جرم۔۔۔ لیکن یہ جرم اتنا بڑا نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ اگر ظفر آفندی آج زندہ ہوتا تو سب سے زیادہ دردناک موت اُسی کی ہوتی۔۔۔ کیونکہ اُس کی سزا اتنی آسان موت بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔ میری پریسا آفندی کو ساری زندگی استعمال کرنا تھا تمہارا پانچواں جرم۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمہارے دوست نما دشمنوں سے اُس کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔ اُسے سیکیورٹی نہ دے کر ہر بار اُسے اُن لوگوں کے آگے مرنے کے لیے چھوڑنا ہے تمہارا چھٹا اور تمہارا آخری جرم جس کی سزا تم اب ساری زندگی بھگتو گے۔۔۔ میری بیوی کا فیصل بخشی کے آگے سودہ کرنے کا جرم۔۔۔ تمہیں کیا لگا تھا مجھے مار کر میری بیوی کو اُن حرام خور کتوں کے آگے ڈال کر تم لوگ واپس سے اپنی عیش کی زندگی کی جانب لوٹ جاؤ گے۔۔۔؟ میں وہ درندہ ہوں جسے ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔ میں آگ ہوں جو ہر پل خود بھی جلتا ہوں اور اپنے دشمنوں کو بھی اِس بھٹی میں جلاتا ہوں۔۔۔۔ "
شاہ ویز سکندر جلا ہوا سیگریٹ نیچے پھینک کر اپنے پیر سے مسلتا اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کے بولے جانے والے الفاظ کے بعد پورے آفندی مینشن میں سکوت چھا گیا تھا۔۔۔
پریسا کو لگا تھا وہ اب کبھی اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پائے گی۔۔۔
جن لوگوں کو اُس نے اپنا سب کچھ مانا تھا وہ اُسے پہلے دن سے صرف استعمال کر رہے تھے۔۔۔ اُس نے اپنی پوری زندگی اپنے ماں باپ کے قاتلوں میں رہ کر گزاری تھی۔۔۔
اور اُس کے بابا۔۔۔ جن کے بارے میں ہمیشہ سوچ کر اُسے فخر محسوس ہوتا تھا۔۔۔
آج اُن کی اصلیت جان کر پریسا کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔۔۔۔ پولیس والوں کے پیچھے پیچھے اب میڈیا کے افراد بھی بڑی تعداد میں داخل ہوتے شہباز آفندی اور اُن کی فیملی کے ہر فرد کو کیپچر کر رہا تھا۔۔۔
وہ سب شرمندگی سے منہ چھپا رہ تھے۔۔۔ مگر کیمرے کی پڑتی فلیش لائٹس اُن کے سیاہ کار چہرے پوری دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہورہے تھے۔۔۔
شاہ ویز کی جانب کسی نے بھی کیمرہ نہیں موڑا تھا۔۔۔ شاید وہ اُنہیں پہلے ہی منع کر چکا تھا۔۔۔ کیونکہ جس معلوم کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئے تھے اُس کا یہی مطلب تھا کہ شاہ ویز پہلے ہی اُنہیں ہر بات سے آگاہ کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویز نے پلٹ کر سیڑھیوں کی ریلنگ تھام کر بمشکل خود کو سہارا دینے کی کوشش میں ہلکان ہوتی پریسا کو دیکھا تھا۔۔ جو بھیگے چہرے کے ساتھ اِس وقت بہت بُری کنڈیشن میں تھی۔۔۔۔
شاہ ویز دور سے ہی سمجھ گیا تھا کہ اب اُس کی نازک سی بیوی ایک بار پھر سے بے ہوش ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔۔۔
وہ پریسا کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اُسے اپنے قریب آتے دیکھ پریسا کے خوف کے عالم میں رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے تھے۔۔۔ پریسا لڑکھڑائی تھی اور اگلے ہی لمحے اپنے حواس کھوتی شاہ ویز سکندر کی مضبوط بانہوں میں جھول گئی تھی۔۔۔
آنکھیں موندے بھی اُس کے چہرے پر خوف کے تاثرات تھے۔۔۔ جن پر ایک سرد نگاہ ڈالتا وہ نہایت ہی احتیاط سے اُسے بانہوں میں اُٹھائے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میر مہرو کیسی ہے۔۔۔۔ ڈاکٹرز نے کچھ بتایا۔۔۔؟؟ اُسے ہوش آیا کہ نہیں۔۔۔۔؟؟"
شاہ ویز حازم کے قریب آتا ایک کی سانس میں نجانے کتنے سوال پوچھ گیا تھا۔۔۔
مگر حازم کے چہرے پر چھائی نا اُمیدی شاہ ویز کی تکلیف میں مزید اضافہ کر گئی تھی۔۔۔۔
"ہماری مہرو بہت سٹرانگ ہے شاہ اُسے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ وہ ہم پر جان دیتی ہے۔۔۔ ہمیں ناراض چھوڑ کر کبھی نہیں جائے گی۔۔۔ وہ جانتی ہے بلیک سٹارز اُس کے بغیر ادھورے ہیں۔۔۔ اُس نے آج تک کبھی ہماری کوئی بات نہیں ٹالی۔۔۔ نہ کبھی اُس کا کوئی عمل تکلیف کا باعث بنا ہے ہمارے لیے۔۔۔ تو اب بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ "
حازم کو اپنی مہرو پر پورا بھروسہ تھا۔۔ اور شاہ ویز بھی اِسی یقین کے ساتھ پلر کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوتا آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔۔
جب کچھ لمحوں بعد ڈاکٹرز ای سی یو کا دروازہ کھولتے باہر نکلے تھے۔۔۔ شاہ ویز اور حازم فوراً اُن کے قریب گئے تھے۔۔۔۔
اُن کے دل خوف سے سکڑ گئے تھے۔۔۔ وہ مہروسہ کے حوالے سے کوئی بھی بُری خبر سننے کا حوصلہ نہیں کر پارہے تھے۔۔۔۔۔
"ڈاکٹر صاحب ہماری مہرو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ ؟؟"
شاہ ویز اپنی مُٹھیاں جکڑے بے چینی سے بولا تھا۔۔۔
"پلیز ڈاکٹر صاحب جلدی بولیں۔۔۔۔"
حازم کو ڈاکٹر کی خاموشی خوفزدہ کر رہی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک نظر اُن دونوں پر ڈالی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے دھیرے سے مسکرا دیئے تھے۔۔۔
"جس لڑکی کے پاس آپ جیسے پیار کرنے والے لوگ ہوں اُسے بھلا کیسے کچھ ہوسکتا ہے۔۔۔ بروقت ہاسپٹل لے آنے اور آپ کی دعاؤں نے مہرو میم کو بچا لیا ہے۔۔۔۔ وہ کافی سٹرانگ وول پاور کی مالک ہیں۔۔ جس کا آج اُن کی اِس ریکوری میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔۔۔ اُنہیں تین گولیاں لگی تھیں۔۔۔ اور خون بھی کافی بہا ہے۔۔۔ آپریشن سے پہلے اُن کے بچنے کے چانسز صرف ٹین پرسنٹ تھے۔۔۔ لیکن میرا رب ہے نا جو بڑے سے بڑے معجزے کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔۔۔۔ اُس نے آپ کی مہرو واپس آپ لوگوں کو سونپ دی۔۔۔۔"
ڈاکٹر کے ہونٹوں سے نکلنے والے الفاظ اُن دونوں میں جیسے زندگی کی نئی روح پھونک گئے تھے۔۔
"میں نے کہا تھا مہرو ہمیں ناراض کرکے کہیں نہیں جائے گی۔۔۔۔۔"
حازم اور شاہ ویز ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے بے پناہ خوش تھے۔۔ وہ جانتے تھے آنے والے وقت میں اُن کے سروں پر کتنے بڑے خطرے کا سایہ منڈلا رہا ہے۔۔۔ مگر اب اُنہیں کسی کی پرواہ نہیں رہی تھی۔۔۔
اُن کی تیسری پارٹنز لوٹ آئی تھی۔۔۔۔ وہ تینوں ایک ساتھ اتنے سٹرانگ تھے کہ آج تک بڑی بڑی مصیبت اور سازش اُن کا کچھ نہیں بگاڑ پائی تھی۔۔۔ اور نہ اب بگاڑ سکتی تھی۔۔۔
"بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ بے شک یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔۔ مگر ہماری مہروسہ کی زندگی بچا کر آپ نے ہمیں اپنا مقروض بنا لیا ہے۔۔۔ آپ جب چاہے جو چاہیے مانگ سکتے ہیں ہم سے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے ڈاکٹر شفیق سے مصافحہ کرتے اُن کا شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔
"آپ کی وجہ سے ہی میں اِس قابل بنا ہوں شاہ سر۔۔۔ آپ پلیز شکریہ ادا کرکے مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔۔ ہم آپ کے ساری زندگی کے لیے احسان مند ہیں۔۔۔ اور چاہے جیسی بھی سچویشن ہو بلیک سٹارز کے ہمیشہ ساتھ کھڑے ہیں ہم سب۔۔۔۔۔"
ڈاکٹر شفیق عقیدت بھرے لہجے میں بولتے اُن دونوں کو لاجواب کر گئے تھے۔۔۔
"کیا ہم مہرو سے مل سکتے ہیں۔۔۔؟"
حازم بے چینی سے بولا تھا۔۔۔ جب تک مہروسہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ دیکھ لیتے اُنہیں سکون نہیں ملنے والا تھا۔۔۔
"جی۔۔۔ آپ اندر جاسکتے ہیں۔۔۔ کچھ دیر میں مہرو میم کو ہوش آجائے گا۔۔۔۔"
ڈاکٹر کا جواب سنتے وہ دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔
جہاں سامنے ہی مہروسہ مشینوں میں جکڑی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ اُس کا دودھیا چھلکاتا چہرا بالکل زرد پڑ چکا تھا۔۔۔ غنودگی میں بھی اُس کے چہرے پر اذیت کے تاثرات نمایاں تھے۔۔۔
جو دیکھ شاہ ویز اور حازم بھی شدید تکلیف کا شکار ہوئے تھے۔۔۔ وہ مہروسہ کی اِس اذیت کی وجہ جانتے تھے۔۔۔۔
"یہ محبت کتنا خوار کرتی ہے نا انسان ہوں۔۔۔ رئیس سے فقیر بنا کر رکھ دیتی ہے۔۔۔ جس میں ساری زندگی انسان محبت کی بھیگ مانگتے اپنی زندگی بھکاریوں سے بھی بدتر کر دیتا ہے۔۔۔ مگر آخر میں ملتا کیا ہے اذیت ، درد، تکلیف اور اکیلا پن۔۔۔"
حازم کے لہجے سے اُس کی دلی کیفیت کا اندازہ با آسانی لگایا چاسکتا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے نگاہیں گھما کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔ اُسے سیگریٹ کی شدید طلب ہورہی تھی۔۔ مگر مہروسہ کے خیال سے وہ خود پر ضبط کیے کھڑا رہا تھا۔۔۔
محبت کے نام پر اُس کے زخم بھی اُدھیڑ گئے تھے۔۔۔
"اپنے دل کو ہی پتھر کر لو۔۔۔ اِس اذیت سے بچ جاؤ گے۔۔۔"
شاہ ویز نے لاپرواہ بنتے اُسے مفید مشورے سے نوازا تھا۔۔۔
"تم کر پائے ہو اپنے دل کو پتھر۔۔۔ "
حازم کو جنید سے ساری خبر مل چکی تھی۔۔۔ جو پریسا نے شاہ ویز کے ساتھ کیا تھا۔۔۔ اور جواباً شاہ ویز جو اُس کے خاندان والوں کے ساتھ کرکے آیا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے اُن سے اپنا سب کچھ چھین لیا تھا۔۔۔ آفندی مینشن کے تمام افرار سڑک پر آچکے تھے۔۔۔
جبکہ شہباز آفندی، شوکت آفندی اور سفیان آفندی کو اُس نے جیل میں ڈلوا دیا تھا۔۔۔ اُن کے پورے خاندان کی اصلیت جان کر لوگ اُنہیں گالیاں دے رہے تھے۔۔۔ ان پر تھوک رہے تھے۔۔۔۔
جنہوں نے سکندر شاہ جیسے معزز انسان کا خاندان برباد کردیا تھا۔۔۔ شاہ ویز کے بابا کے پرانے دوست اُس سے ملنے کے خواہاں تھے۔۔۔ مگر شاہ ویز ابھی کسی سے بھی نہیں ملنا چاہتا تھا۔۔۔۔
اُس کا ارادہ پہلے شہباز آفندی اور شوکت آفندی کو دردناک سزا دلوانے کا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ بہت جلد شہباز آفندی کے ساتھ ملے سیاسی اُسے جیل سے باہر نکلوا لیں گے۔۔۔ اِسی لیے اُس نے اِس خبر کو اُچھالنے کے لیے میڈیا کو بلوایا تھا۔۔۔
اور اب بہت جلد اُس کا ارادہ اُن لوگوں کو جیل سے نکلوا لینے کا تھا۔۔
دنیا والوں کے سامنے یہی جانا تھا کہ وہ لوگ جیل توڑ کر خود بھاگے ہیں۔۔۔ جبکہ شاہ ویز اُنہیں اپنی قید میں رکھ کر اپنی طرح کی سزا دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
جس کے خیال سے لوگ خودکشی کرنا پسند کرتے تھے۔۔۔
"میرا دل شروع سے پتھر ہی ہے میر۔۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی سرد آواز پر حازم اُس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔
"تمہیں دھوکے باز لوگوں سے نفرت ہے،۔۔۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اِس وقت تم خود کو سب سے زیادہ دھوکا دے رہے ہو۔۔۔ تم کیوں نہیں مان لیتے کہ تمہارا دل صرف اور صرف پریسا آفندی کے لیے دھڑکتا ہے۔۔۔۔
کوئی ایک دن ایسا نہیں رہا جس میں تم نے اُسے پریسا آفندی نہیں بلکہ ظفر آفندی کی بیٹی مان کر نفرت سے ٹریٹ کیا ہو۔۔۔ اگر تم واقعی اُس لڑکی سے نفرت کرتے ہوتے۔۔۔۔ تو کبھی اُس کی جان نہ بچاتے۔۔۔ کبھی اُس کے محافظ نہ بنتے۔۔۔۔ تم شدید محبت کرتے ہو پریسا آفندی سے۔۔۔ مان جاؤ اِس بات کو۔۔۔۔ "
حازم نے اپنے سب سے زیادہ انا پرست دوست کو اُس کی محبت کا احساس دلایا تھا۔۔۔
"اُس نے دھوکا دیا ہے مجھے۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنی جلتی آنکھیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"اِس میں بھی تمہاری غلطی ہے۔۔۔ اگر تم اُسے حقیقت سے آگاہ کردیتے اُس کے بعد وہ تمہیں دھوکا دیتی پھر اُسے دھوکے باز کہہ سکتے تھے تم۔۔۔ لیکن یہاں تم اُس کے برابر کے قصور وار ہو۔۔۔۔"
حازم ہی تھا جو شاہ ویز کو آئینہ دکھا سکتا تھا۔۔۔ اِس سے پہلے کہ شاہ ویز کچھ بولتا مہروسہ کو ہوش میں آتے دیکھ وہ دونوں اُس کے قریب آئے تھے۔
"مہرو۔۔۔۔"
حازم نے اُسے پکارا تھا۔۔۔
"سر۔۔۔۔۔"
مہروسہ نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں اُن دونوں کو اپنے سامنے دیکھ وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔
اُس کی مسکراہٹ میں بھی اذیت کی جھلک نمایاں تھی۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں سر۔۔۔۔ باقی سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کو بستر پر پڑے بھی اپنے لوگوں کی ٹینشن تھی۔۔۔۔۔
"سب بالکل ٹھیک ہیں مہرو اور شدت سے تمہارے صحت یاب ہونے کے منتظر ہیں۔۔۔۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں تم نے ہم سب کو جس اذیت کی جس سولی پر لٹکائے رکھا ہے ہم بتا نہیں سکتے کتنی تکلیف میں رہا ہے گینگ کا ہر بندہ۔۔۔۔۔"
حازم بول رہا تھا جبکہ شاہ ویز مہروسہ کی آنکھوں میں پنپتا سوال پڑھ رہا تھا۔۔۔
جو وہ اُن دونوں سے پوچھنے میں جھجھک رہی تھی۔۔۔
جبکہ شاہ ویز کو اِس لڑکی کی محبت نے جیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
"ایس پی حمدان بالکل ٹھیک ہے مہرو۔۔۔ ہم میں سے کسی نے تمہاری قسم میں جکڑے ہونے کی وجہ سے اُسے ایک خراش تک نہیں پہنچائی۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی بات پر مہروسہ نے تشکر آمیز نگاہوں سے اُن دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
اُسے بس اِسی بات کا ڈر تھا کہ کہیں غصے میں آکر اِن میں سے کسی نے حمدان کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔۔۔۔
"مہرو مجھے سچ سچ بتانا۔۔۔ تم پر گولی حمدان نے چلائی ہے۔۔۔"
حازم کی بات پر مہروسہ کو وہ منظر یاد آیا تھا جب حمدان نے اُس کی جانب بندوق تانی تھی۔۔۔
اِس سے آگے اُسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔۔۔ لیکن جتنی نفرت حمدان اُس سے کرتا تھا وہ اِس بات پر آرام سے یقین کرگئی تھی کہ اُس پر گولی حمدان نے ہی چلائی ہے۔۔۔
"میں نہیں جانتی۔۔۔ میں نے جب آنکھیں کھولیں تو وہ ہی میرے سامنے گن اُٹھائے ہوئے تھے۔۔۔ اُن کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ لیکن پلیز آپ لوگ حمدان کو کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔ میں اُنہیں اُسی لمحے معاف کر گئی تھی۔۔۔۔ آپ لوگ بھی بھول جائیں اِس بات کو۔۔۔ میں بھی بھول جانا چاہتی ہوں کہ کبھی حمدان صدیقی نامی کوئی انسان میری زندگی میں آیا تھا۔۔۔"
یہ الفاظ ادا کرتے مہروسہ کو اپنی روح جس سے نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ کئی آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر اُس کے تکیے میں جذب ہوئے تھے۔۔۔۔
"محبت سے دستبردار ہونا اتنا آسان ہے۔۔۔۔۔؟"
شاہ ویز نے سوال کیا تھا۔۔۔
جس کے جواب میں مہروسہ پھیکا سا مسکرا دی تھی۔۔۔
"یکطرفہ محبت میں یہی سب سے آسان حل ہے۔۔۔ "
مہروسہ کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔۔۔
"مہرو ریلیکس۔۔۔۔ "
شاہ ویز نے اُس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگاتے پریشانی سے کہا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کی حالت اِس وقت ایسی نہیں تھی کہ وہ زرا سی بھی ٹینشن لیتی۔۔۔ مگر وہ اِس وقت ایک شخص کی چاہت میں خود کو ریلیکس نہیں رکھ سکتی تھی۔۔۔
اُسے یہ احساس ہی کھائے جارہا تھا کہ اب وہ ساری زندگی اِس جدائی کی اذیت میں کیسے کاٹے گی۔۔۔۔
لیکن وہ اب خود سے اِس بات کا عہد بھی کر چکی تھی کہ اب کبھی پلٹ کر حمدان کو اپنی صورت تک نہیں دکھائے گی۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"سر ہمارے دس کے قریب آدمی پولیس والوں نے اریسٹ کر لیے ہیں۔۔۔ جن میں اقراء، انعم اور باقی بھی تمام اہم لوگ شامل ہیں۔۔۔۔ اور سننے میں یہی آرہا ہے کہ یہ سب ایس پی حبہ کی پراپر پلاننگ سے ہوا ہے۔۔۔
یہ لوگ ابھی تک پولیس اسٹیشن میں ہی ہیں۔۔۔ جس کے باہر سخت سیکیورٹی تعینات ہے۔۔۔ اگر ہم میں سے بھی کوئی اندر گیا تو وہاں سے نکل نہیں پائے گا۔۔۔ اور ابھی تازہ ترین خبر کے مطابق ایس پی حبہ اِن سب کو کسی خفیہ ٹھکانے پر منتقل کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔۔۔ "
جنید کی بات پر اب کی بار حازم کے حواس جھنجھنا اُٹھا تھا۔۔۔ اُن کے دشمنوں نے ایک ساتھ اُن پر حملہ کرکے اُنہیں کمزور کرنا چاہا تھا۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ بلیک سٹارز آج تک ہمیشہ چوٹیں لگنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوکر سامنے آئے تھے۔۔۔۔ اُنہیں توڑ پانا یا گرا پانا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔
"وہ میرے ہوتے ہوئے میرے کسی بھی گینگ ممبر کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔۔۔ "
حازم پتھریلے لہجے میں بولتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
گاڑی تیز رفتار پر دوڑاتے وہ پولیس اسٹیشن کے ایریے سے کچھ فاصلے پر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔
پورے پولیس اسٹیشن کے اردگرد بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔۔۔۔
"بہت فاصلے لے آئی ہو تم ہم دونوں کے بیچ۔۔۔ جو لگتا ہے مجھے ہی پار کرنے ہونگے۔۔۔"
حازم ہم کلامی کرتا چاروں جانب نگاہیں گھماتا تیزی سے سوچنے لگا تھا۔۔۔ جب اُس کی نظر وہاں سیکیورٹی کی ایک اور گاڑی آتی دکھائی دی تھی۔۔۔
سیاہ کپڑوں میں سیاہ رومال سے چہروں کو ڈھکے وہ سپیشل فورسز کے اہلکار معلوم ہورہے تھے۔۔۔۔
جس کا یہی مطلب تھا کہ حبہ اُس کے لوگوں کو کچھ ہی دیر میں وہاں سے نکلوانے لگی تھی۔۔۔
حازم نے کسی خیال کے تحت زونیا کو نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔ جو ہمیشہ کی طرح پہلی بیل پر ہی اُٹھا لیا گیا تھا۔۔۔
"زونیا اِس وقت مجھے تمہاری مدد کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔"
حازم اُسے کوئی بھی فضول بات کرنے کا موقع دییے بغیر جلدی سے بولا تھا۔۔۔
"حکم کریں سرکار۔۔۔ آپ کے لیے تو آپ کی یہ باندی اپنی گردن بھی کٹوا سکتی ہے۔۔۔۔ "
زونیا اپنے مخصوص دلربانہ انداز میں بولتی حازم کو تپ تو بہت چڑھا گئی تھی۔۔۔ مگر اِس وقت وہ اُسے ڈانٹ کر اپنا ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
"میں ایڈریس بھیج رہا ہوں۔۔۔ فوراً پہنچو یہاں۔۔۔ میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔ "
حازم اُسے حکم دیتا آنے کے لیے صرف دس منٹ کا ٹائم دے گیا تھا۔۔۔۔
جس کو فالو کرتی زونیا دس منٹ کے اندر وہاں آن پہنچی تھی۔۔۔
"ہم دونوں کو میاں بیوی کے روپ میں پولیس اسٹیشن کے اندر جانا ہے۔۔۔۔ وہ لوگ ہمیں روکنے کی پوری کوشش کریں گے تو تم نے واویلا کرکے میڈیا والوں اور وہاں باہر موجود سیکیورٹی اہلکار کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے۔۔۔ اِسی دوران میں کھڑکی کے راستے اندر داخل ہونگا۔۔۔۔"
حازم کی ہدایت سنتی زونیا خوش ہوتی مسکرا دی تھی۔۔۔۔۔
"اس میں اتنی خوشی ہونے والی کونسی بات کہی میں نے۔۔۔۔"
حازم اُس کے اکسائیٹڈ انداز کو دیکھ اُسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔
"کچھ سیکنڈز کے لیے ہی سہی مگر مجھے تمہاری بیوی کے عہدے پر فائز ہونے کا موقع مل رہا ہے میں خوش کیسے نہ ہوں۔۔۔۔"
زونیا اُسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔
جس بات کا حازم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔ کیونکہ اُس کی چاہت اور محبت صرف ایک انسان کے لیے ہی مختص تھی۔۔۔۔۔
دو دن گزر جانے کے باوجود پریسا کا شاہ ویز سے سامنا نہیں ہو پایا تھا۔۔۔ وہ ایک بار بھی روم میں نہیں آیا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اُس کے سامنے۔۔۔۔
پریسا دو دن سے شاک میں تھی اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اُس کے سگے چچا جنہیں وہ اپنے باپ کا درجہ دیتی تھی۔۔ وہ اُس کے سگے باپ کا قاتل نکلا تھا۔۔۔
اور اپنے بابا کے بارے میں سوچتے اُس کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی تھیں۔۔۔
شاہ ویز کے سب کے سامنے پیش کیے گئے ثبوتوں کے بعد اب اُس کے پاس شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔۔
وہ اِس وقت بہت بُری کنڈیشن میں تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔۔۔ اُسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا کہ اُسے شاہ ویز کے ساتھ یہ اتنا بڑا دھوکا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔۔۔۔
اگر اُس دن واقعی وہ لوگ شاہ ویز کو مار دیتے تو وہ کیا کرتی۔۔۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شہباز آفندی اور سفیان نے اُس کا سودہ کر رکھا تھا۔۔۔
اُسے یہ بات رُلا رہی تھی کہ اُس نے ہر انسان پر یقین کیا تھا سوائے شاہ ویز کے۔۔۔۔
لیکن قصور وار وہ اکیلی نہیں تھی۔۔۔۔ شاہ ویز بھی اِس قصور میں برابر کا شریک تھا۔۔۔ وہ اُسے ساری سچائی پہلے ہی بتا سکتا تھا۔۔
پریسا کو اب شاہ ویز کی اُس ساری تکلیف اور نفرت کا مطلب سمجھ آرہا تھا۔۔۔۔ اتنے سال اُس انسان نے تن تنہا اذیت کاٹتے اتنی مشکل میں گزارے تھے۔۔۔ صرف اُس کے خاندان کی وجہ سے وہ اربوں کی جائیداد کا مالک سڑکوں پر زندگی گزار کر بڑا ہوا تھا۔۔۔
اور وہ اُسی کے پیسے پر عیش کرتے رہے تھے۔۔۔
پریسا شاہ ویز کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ اُس کی اذیت کے بارے میں بھی سوچتی تڑپ رہی تھی۔۔۔
اُسے شاہ ویز کا وہ نارواں سلوک اور وہ نفرت اُس کی اذیت کے آگے بہت کم لگنے لگی تھی۔۔۔
کیونکہ اُس کی زندگی کی تلخ حقیقت نے اُسے اتنا تلخ بنا دیا تھا۔۔۔
لیکن اب وہ اپنے اِس وحشی درندے کی زندگی کو واپس سے حسین بنانے کا عہد خود سے کر چکی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر اُس کی محبت تھا جس نے نجانے کتنی بار اپنی جان پر کھیل کر اُس کی جان بچائی تھی۔۔۔ اُس کی خاطر آگ تک میں کود گیا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے بالکل ٹھیک کہا تھا وہ بے وقوف ہی تھی جو اُس کی محبت نہیں سمجھ پائی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے ہر عمل سے اُس کے سامنے اپنی دیوانگی کا اظہار کرتا آیا تھا۔۔۔ مگر وہ پاگل سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔۔۔
وہ آخری لمحے تک اس بات پر ہی ڈاؤٹ فل تھی کہ شاہ ویز اُس سے محبت نہیں کرتا۔۔۔ اِسی لیے وہ اُن سب کی باتوں میں آگئی تھی۔۔۔
مگر شاہ ویز نے اُس دن اُس کے سب گھر والوں کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرتے اُس کا یہ ڈاؤٹ بھی کلیئر کردیا تھا۔۔۔
لوگ خوشگوار ماحول میں انتہائی رومانوی انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔۔۔
جبکہ شاہ ویز سکندر نے یہ کام بھی سب سے منفرد کرتے بندوقوں کی چھاؤں کے نیچے کھڑے ہوتے انتہائی غصے بھرے انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔
لیکن پریسا کے لیے تو وہ اقرار ہی بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔۔۔
شاہ ویز کی تکلیف کا سوچ کر اُس کا دل درد سے بھر جاتا تھا۔۔۔ وہ کتنی اذیت میں تھا اور وہ اتنی شدید محبت ہونے کے باوجود اُس کا درد نہیں سمجھ پائی تھی۔۔۔۔
لیکن اب اُس کی زندگی کا ہر مقصد اُس کے سامنے کلیئر ہوچکا تھا۔۔۔ اُس کی زندگی کا مرکز اب شاہ ویز سکندر ہی تھا۔۔۔۔
اُس کی آج صبح یاسمین بیگم سے بات ہوئی تھی۔۔۔ جنہوں نے اُس دن اُس کے سامنے بولے جانے والے جھوٹ کی معافی مانگتے اُسے ایک بار پھر ساری بات کلیئر کر دی تھی۔۔۔ کہ شاہ ویز نے کبھی اُس کے بارے میں غلط نہیں سوچا تھا۔۔۔ بلکہ اُس کے خاندان والے ہمیشہ سے اُسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے آئے تھے۔۔
پریسا اُن کے منہ سے سارا سچ جاننے کے بعد مزید شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔
یاسمین بیگم کی زبانی ہی اُسے پتا چلا تھا کہ اُنہیں شاہ ویز نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ شہباز آفندی نے ہی اُنہیں نگاہوں اوجھل کیا تھا۔۔۔
یہ سن کر تو پریسا کو اپنی بے وقوفی پر جی بھر کر غصہ آیا تھا۔۔۔
"میں جانتی ہوں بہت جلد میں تمہیں منا لوں گی شاہ ویز سکندر۔۔۔ تم اتنے وحشی بالکل بھی نہیں ہو۔۔۔ جتنا تم خود کو سب کے سامنے پوٹرے کرتے ہو۔۔۔۔ تم پوری دنیا کو اپنے خوف کے زیرِ اثر رکھنا چاہتے ہو۔۔۔ پوری دنیا کو بے شک رکھو۔۔۔ مگر میں تمہارے رعب میں اب نہیں آنے والی۔۔۔"
پریسا اپنے آنسو خشک کرتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔
الماری میں لائٹ کلر کے ڈریسز دیکھ پریسا نے پوری قوت سے الماری کا پٹ بند کردیا تھا۔۔۔
"یہ ہلکے رنگ کے کپڑے ایسے جمع کر رکھے ہیں جیسے میں نئی نویلی دلہن نہیں۔۔۔ کوئی ستر اسی سال کی بوڑھی ہوں۔۔۔ جو یہ پہنوں گی۔۔۔۔ خیر اب تو بوڑھیاں بھی ایسے کلرز نہیں پہنتیں۔۔۔۔"
پریسا خود سے ہی ہمکلام ہوتی باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔ اقراء اُسے کہیں دکھائی نہیں دی تھی۔۔۔
جب اُسے جنید تیز قدموں سے گیٹ کی جانب جاتا دکھائی دیا تھا۔۔۔۔
"بات سنو جنید۔۔۔۔"
پریسا کو اچانک سے اُس کا نام یاد آیا تھا۔۔۔ جبکہ پریسا کی پکار پر جنید کے قدم وہیں تھم گئے تھے۔۔۔
"جی میم آپ نے بلایا مجھے۔۔۔۔"
جنید چہرا جھکائے انتہائی مودبانہ لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔۔۔۔
"مجھے یہ سب چاہییں۔۔۔ خود جاؤ یا کسی کو بھیجو مگر مجھے یہ سب ایک گھنٹے میں چاہییں۔۔۔۔"
پریسا نے شاہ ویز سکندر کی بیوی ہونے کا رعب جماتے اُسی کے انداز میں جنید کو حکم جاری کیا تھا۔۔۔
جسے سنتے جنید گھبرا گیا تھا۔۔۔
اگر اُسے دس بندوں کو جگہ پر ہی اُڑانے کا حکم ملتا تو وہ ایک سیکنڈ کی بھی دیری نہ لگاتا۔۔۔ مگر شاپنگ جیسا مشکل ترین کام تو اُس نے آج تک نہیں کیا تھا۔۔۔
"میم میں یہ۔۔۔۔۔"
وہ ہڑبڑاہٹ میں کچھ بول ہی نہیں پایا تھا۔۔۔
"کیا تمہیں شاپنگ کرنی نہیں آتی کیا۔۔۔ یہ تمہارے باس نے خود سمیت تم سب کو بھی بس گولیاں چلانا ہی سکھایا ہے۔۔۔۔ جاؤ وہاں کسی لڑکی سے مدد لے لینا۔۔۔۔"
جنید کو کنفیوز دیکھ پریسا نے مشورے سے نوازتے اُس پر احسان کیا تھا۔۔۔۔
"نہیں میم میں کسی لڑکی سے کچھ نہیں پوچھ سکتا۔۔۔ ایک دن مہرو میم کو گفٹ دینے کی خاطر میں نے ایک لڑکی کو شاپ پر کھڑے ہوکر صرف اتنا ہی کہا تھا کہ زرا یہ رنگ پہن کر سائز دیکھ پر بتا دیں۔۔۔ مہرو میم کے ہاتھ جیتنا سمارٹ ہی اُس کا ہاتھ تھا۔۔۔۔
مگر وہ سمارٹ ہونے کے ساتھ کتنا بھاری تھا اس کا اندازہ مجھے اُس لڑکی کے ہاتھ سے تھپڑ کھانے کے بعد ہوا تھا۔۔۔
کیونکہ وہ لڑکی یہ سجھی تھی کہ شاید میں اُسے چھیڑ رہا ہوں اور غصے میں آکر اُس نے تھپڑ مار دیا مجھے۔۔۔۔ اُس کے بعد سے آج تک ایسے کسی انجان لڑکی سے بات نہیں کی۔۔۔"
جنید نے انتہائی بچارگی سے اپنی دکھ بھری داستان سناتے پریسا کو بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔
پریسا اپنی ہنسی پر کنٹرول نہ رکھ پاتی ہنستی چلی گئی تھی۔۔۔ اُس کی کھلکھلاہٹیں لان میں کھڑے ہوکر فون سنتے شاہ ویز کے کانوں سے ٹکراتیں اُسے اپنی جانب متوجہ کر گئی تھیں۔۔۔
شاہ ویز نے فون کان سے ہٹاتے اُس کی جانب دیکھا تھا اور پھر جیسے واپس پلٹنا بھول چکا تھا۔۔۔۔
وہ ہنس ہنس کر لال ہوتی بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔ اُس کے چہرے کا بھول پن اور معصویت دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے کافی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر بھی خود کو اِس سحر سے نہیں بچا پایا تھا۔۔
جب نگاہوِں کی تپیش پر اچانک پریسا کی ہنسی کو بریک لگی تھی۔۔۔ اُس نے پلٹ کر شاہ ویز کی سمت دیکھا جو سیاہ ٹراؤزر اور بنیان میں ملبوس مبہوت سا اُسے ہی تکے جارہا تھا۔۔۔
پریسا اُس کو یوں اچانک سامنے دیکھ گڑبڑائی تھی۔۔۔۔
اُس کا دل اُچھل کر پیٹ میں جاگرا تھا۔۔۔
"جنید یہاں آؤ۔۔۔۔۔"
شاہ ویز کی سرد آواز پر جنید فوراً الرٹ ہوتا شاہ ویز کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔ جو وہاِں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔
"اکڑو کہیں کا۔۔۔۔ آرام سے بھی تو بلا سکتا تھا نا۔۔۔ "
پریسا اُس کا یہ اکڑ بھرا انداز ملاحظہ کرتی منہ بسورتے بولی تھی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم کے بنائے گئے پلان کے مطابق وہ دونوں پولیس اسٹیشن کے دروازے تک جا پہنچے تھے۔۔۔ جہاں حبہ کی لگائی گئی سیکیورٹی نے اُنہیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔۔۔ حازم اِس بات سے پہلے ہی واقف تھا۔۔۔
اُس کا اشارہ کرتے ہی زونیا نے اپنا ایکشن سٹارٹ کردیا تھا۔۔۔ وہ اپنی پھٹی سیاہ شال کا پلو اُٹھا کر منہ پر رکھتی اونچی اونچی آواز میں رونا شروع ہوچکی تھی۔۔۔۔
اور وہاں کھڑے ایک اہلکار کا گریبان سختی سے تھام لیا تھا۔۔۔
"کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔؟؟ جب ساتھ نبھانا ہی نہیں تھا تو محبت کے سبز باغ کیوں دکھائے مجھے۔۔۔ میں بتا دوں گی دنیا والوں کہ میری موت کے زمہ دار تم ہوگے۔۔ دینے جا رہی ہوں میں اپنی جان۔۔۔۔ "
زونیا اُس شخص کو بنا کچھ سمجھنے کا موقع دیا بغیر اُس کے کندھے پر سر رکھتی زارو قطار رونا شروع ہوچکی تھی۔۔۔ وہ شخص بچارا گھبرا گیا تھا۔۔۔
سب لوگ اِس اچانک بنتے ڈرامے پر حیران ہو کر اُس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کا فائدہ اُٹھاتے حازم سب کی نگاہوں سے بچتا اندر کی جانب بھاگ گیا تھا۔۔۔۔
بنا چیکنگ کے وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوچکا تھا۔۔۔
سامنے سے آفس میں اُسے بہت سارے پولیس اہلکار آتے جاتے دکھائی دیئے تھے۔۔۔۔
حبہ اُن میں کہیں نہیں تھی۔۔۔ نہ اُسے اپنے لوگ کہیں دکھ رہے تھے۔۔۔۔
حازم ایک جانب بینچ پر بیٹھا چاروں جانب نگاہیں دوڑاتا ماحول کا پوری طرح سے جائزہ لینے لگا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے اُسے فون کان سے لگائے حبہ ایک جانب سے آتی دکھائی دی تھی۔۔۔
فل یونیفارم میں ملبوس سر کس سیاہ حجاب سے کور کیے وہ پوری طرح الرٹ تھی۔۔۔ وہ جس تیزی سے قدم اُٹھاتی دوسری جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔ حازم سمجھ چکا تھا کہ اُس کے لوگوں کو وہیں رکھا گیا تھا۔۔۔
وہ فوراً حبہ کے پیچھے گیا تھا۔۔۔
حبہ جس آفس میں داخل ہوئی تھی حازم بھی پیچھے وہیں داخل ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ آفس بالکل خالی تھا۔۔۔ حبہ آفس کے بیچ میں پہنچتی ایک دم رکی تھی۔۔۔
حازم ابھی دروازے میں ہی تھا۔۔۔
"میں جانتی تھی تم ضرور آؤ گے۔۔۔۔ "
حبہ بنا پلٹے بھی جان گئی تھی کہ حازم اُس کے پیچھے اندر آچکا ہے۔۔۔۔
اُس کی بات پر حازم حیران رہ گیا تھا۔۔۔
حبہ پلٹی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا حازم سالار تم مجھے سرپرائز دینا چاہتے تھے نا۔۔۔ دیکھو میں نے تمہیں سرپرائز کردیا۔۔۔ کیسا لگا میرا سرپرایز ڈئیر ہزبینڈ۔۔۔ دلہا دلہن ایک دوسرے کو شادی کی پہلی رات ایک دوسرے کو محبت بھرے تحفے دے کر زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔۔۔۔ مگر ہم دونوں کی زندگی ہمیشہ سب سے مختلف رہی ہے نا۔۔۔۔ حجلا عروسی کے بجائے رخصتی کے بعد ہماری پہلی ملاقات پولیس اسٹیشن میں ہورہی ہے۔۔۔ "
حبہ حازم کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی تھی۔۔۔۔
"بالکل اور ایسا پہلی بار ہے کہ شوہر کو اپنی نئی نویلی دلہن کی صورت تک دیکھنے میں بھی کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔۔ میرے لوگوں کو آزاد کردو ورنہ تمہارا یہ پولیس اسٹیشن اُڑانے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا مجھے۔۔۔۔"
حازم مُٹھیاں بھینچے غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔
"آہستہ بولیں مسٹر حازم سالار یہ آپ کا بلیک ہاؤس نہیں ہے۔۔۔۔ میرا پولیس اسٹیشن ہے۔۔۔ جہاں آپ کی دہشت نہیں چلے گی۔۔۔۔"
حبہ اُس کے چلانے پر اُسے تنبیہی نگاہوں سے گھورتے بولی تھی۔۔۔۔
حازم نے نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ سیاہ حجاب میں اُس کی دودھیا رنگت دھمک رہی تھی۔۔۔۔ گلابی غصے کی وجہ سے کپکپاتے ہونٹ اور براؤن آنکھوں پر سجی گھنیری پلکیں غصے کی شدت سے لرزتیں حازم سالار جو جیسے اپنے حُسن کے تعویز میں جکڑنے لگی تھیں۔۔۔
وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے سخت خفا تھے۔۔۔۔
اور شدید غصے میں بھی۔۔۔ مگر یہ بھی بہت بڑی حقیقت تھی کہ اُن دونوں کے بیچ کی بے پناہ محبت ایک پرسنٹ بھی کم نہیں ہوپائی تھی۔۔۔۔
دونوں کے دل آج بھی ایک دوسرے کے لیے دھڑک رہے تھے۔۔۔ بس ایک غلط فہمی نے اُن دونوں کو فاصلے پر جاکھڑا کیا تھا۔۔
تڑپ ابھی بھی ایک دوسرے کے لیے ہنوز تھی۔۔۔۔
"تم پولیس اسٹیشن میں بھی میری بیوی اور بلیک ہاؤس میں بھی۔۔۔ "
حازم اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
"اپنی لمٹس میں رہیں۔۔۔۔ "
حبہ اُسے کڑے تیوروں سے قریب آتے دیکھ۔۔۔ باز رکھتے بولی تھی۔۔۔
"یہ آپ کا پولیس اسٹیشن ہے۔۔۔ آپ بتا دیں مجھے میری لمٹس کیا ہیں۔۔۔ "
حازم اُس کے نہایت قریب آتے بولا تھا۔۔۔ حبہ پیچھے ہوتی ٹیبل سے جاٹکرائی تھی۔۔
"مجھ سے دور رہو حازم سالار۔۔۔۔ مجھے اِس وقت شدید نفرت محسوس ہورہی ہے تم سے۔۔۔۔"
حبہ اُس کو اپنے اُوپر جھکتا دیکھ ٹیبل پر بالکل ڈھے گئی تھی۔۔۔ اُس نے حازم کے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباؤ ڈالتے اُسے پیچھے دھکیلا تھا۔۔۔
جب حازم اُس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں لیتا اُنہیں ٹیبل پر ٹکاتا اُس کے چہرے کی جانب جھکا تھا۔۔۔
"تمہیں مجھ سے مسئلہ ہے تو مجھے نقصان پہنچاؤ۔۔۔ میرے لوگوں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا اُنہیں آزاد کردو۔۔۔ "
حازم اُس کے چہرے پر اپنی تپیش زدہ سانسیں چھوڑتا حبہ کو کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
وہ مسلسل اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔۔ جس کے جواب میں حازم اُس کی دونوں ہاتھ اُس کی کمر پر باندھتا اُسے اپنے قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
"میں دو بھول ہی گیا تھا۔۔ دو دن پہلے رخصتی ہوئی ہے نا ہماری۔۔۔۔ تمہیں تمہاری منہ دکھائی کا گفٹ تو دیا ہی نہیں میں نے۔۔۔۔ "
حازم اُس کی سکارف کی پن کھول چکا تھا۔۔۔
حبہ اُس کے اچانک بدلتے اِس انداز پر بوکھلا گئی تھی۔۔ اُسے اِس سیریس سچویشن میں حازم سے اِس سب کی اُمید بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔
اُس کے گال خفت و حیا کے مارے دہک اُٹھے تھے۔۔۔ چاہے درمیان میں کتنے بھی اختلاف سہی مگر اُس کا دل صرف اور صرف حازم سالار کے لیے ہی دھڑکتا تھا۔۔۔
جس کی زرا سی قربت اُس کو ہمیشہ ایسے ہی پگھلا کر رکھ دیتی تھی۔۔۔
بڑے بڑے دشمنوں کو ایک اکیلی مار گرانے والی حازم کے سامنے خود کو آزاد تک نہیں کروا پاتی تھی۔۔۔
"مجھے اپنے بابا کے قاتل سے کوئی تحفہ نہیں چاہیے۔۔۔"
حبہ نے اُسے وہ بات یاد دلانی چاہی تھی جس کی وجہ سے وہ اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔
حبہ نے پراپر انویسٹی گیشن کروائی تھی۔۔۔ جس کے بعد حازم کا کہا سچ نکلا تھا حازم نے ہی اُس کے بابا کو مارا تھا۔۔۔۔ یہ سچائی سن کر حبہ اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔۔۔ مگر ابھی بھی وہ اُس کی جانب سے وضاحت کی اُمید رکھتی تھی۔۔۔
اُس کا دل ابھی بھی اُس سے یہی کہہ رہا تھا کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے۔۔۔۔
"مگر میں اپنی بیوی کی اُس کی خوبصورتی کے شیانے شان ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔۔۔ تم اُس رات میری دلہن بنی بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ ہتھیاروں سے نہ سہی مگر اپنے قاتلانہ حُسن سے تم مجھ بچارے کو قتل کرنا چاہتی ہو۔۔۔ اسی لیے میں اُس رات نہیں آیا تمہارے پاس۔۔۔۔"
حازم اُس کی خمدار ٹھوڑی کو ہونٹوں سے چھوتا حبہ کی دھڑکنیں بڑھا گیا تھا۔۔۔۔
حبہ نے گھبرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
اُس کی بڑی بڑی حسین آنکھیں حازم سالار کو مزید اپنا دیوانہ بنا گئی تھیں۔۔۔ وہ جھکا تھا اور باری باری اُس کی دونوں آنکھوں پر اپنے ہونٹوں کا شدت بھرا لمس چھوڑتے اُس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر گیا تھا۔۔۔۔
حبہ اُس سے اپنے ہاتھ چھڑوا پانے میں ہلکان ہوتی اُس کے اِس دہکتے لمس پر جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"تم یہاں اپنے آدمیوں کو چھڑوانے آئے تھے حازم سالار۔۔۔ تم اپنے مقصد سے بھٹک رہے ہو۔۔۔۔"
حبہ اب کی بار اُسے اپنے ہونٹوں پر جھکتے دیکھ چلا اُٹھی تھی۔۔۔ جبکہ اُس کی لرزتی آواز پر حازم اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا۔۔۔
اُس کے چھٹ پھاڑ قہقے پر حبہ نے اُسے آنکھیں نکالی تھیں۔۔۔ یہ شخص اُسے سسپینڈ کروا کر ہی سکون سے بیٹھنے والا تھا۔۔۔۔
اگر باہر کھڑے گارڈز کسی گڑبڑ کا سوچتے اندر آجاتے تو اپنی سخت گیر ایس پی صاحبہ کو اپنے شوہر کے آگے یوں بھیگی بلی بنے دیکھ وہ ضرور اپنے حواس کھو بیٹھتے۔۔۔
حبہ اپنے محکمے کی سخت گیر آفیسرز میں سے ایک تھی۔۔۔۔۔
نجانے اپنے سے نیچے کتنے لوگوں کو اُن کی نااہلی یا رشوت لینے کے جرم میں سسپینڈ کر چکی تھی۔۔۔
اِس لیے سب اُس سے بہت ڈرتے تھے۔۔۔
مگر اُن میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ اُن کی ہٹلر ایس پی کی بولتی اُس کے جانِ ستمگر کے آگے بند ہوجایا کرتی تھی۔۔۔
جیسے اِس وقت ہوئی تھی۔۔۔
"تم ایک پولیس آفیسر کے آفس میں داخل ہوکر اُسے ہراساں کررہے ہو۔۔۔ یہ کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔۔۔ "
حبہ اُس کی جانب دیکھتے اُسے وارن کرتے بولی۔۔۔
"ایسی کی تیسی تمہارے قانونوں کی۔۔۔ میں باہر تمہاری جمع کی گئی اُس ساری مخلوق کے سامنے تمہیں اُٹھا کر لے جانے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔۔۔۔ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔۔۔۔ "
حازم اُس کے دھکتے گالوں پر لب رکھتا گھمبیر بھاری لہجے میں بولتا حبہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا گیا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا روم میں آئی تھی جب اُس کی نظر ڈریسنگ روم کے دروازے کے ساتھ پڑے بیگ پر پڑی تھی۔۔۔ جس کے ساتھ بینچ پر ایک درمیانی سائز کا باکس بھی رکھا گیا تھا۔۔۔۔
پریسا پر تجسس سی اُس بیگ کی جانب بڑھی تھی۔
جسے کھولتے ہی اُس کی آنکھوں میں ستائش بھر گئی تھی۔۔۔۔
اُس میں نہایت ہی خوبصورت ڈریسز تھے۔۔۔ ویسے ہی ڈریسز جو پریسا پسند کرتی تھی۔۔
"واؤ۔۔۔ یہ یہاں پہلے تو نہیں تھے۔۔۔۔ "
پریسا کے ہونٹ کسی خیال کے تحت مسکرائے تھے۔۔۔
باکس کھولتے ہی آگے سے بہت کی نفیس سی جیولری بر آمد ہوئی تھی۔۔۔
"اوہ۔۔۔ تو اس وحشی کو اِس کے بارے میں بھی پتا ہے۔۔۔۔۔"
پریسا اُن میں سے پنک کلر کا ایک بہت کی خوبصورت سا ڈریس اور اُس کے ساتھ میچنگ وائٹ کلر کی جیولری لیتی اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
کچھ ہی لمحوں بعد وہ نک سک سے تیار شاہ ویز سکندر کے دل پر بحلیاں گرانے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔
اُس کے غصے کا سوچتے پریسا کا دل ایک بار بہت شدت سے دھڑکا تھا۔۔۔۔
مگر اب وہ پیچھے ہٹ کر شاہ ویز اور اپنے درمیان مزید دوریاں پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
پریسا خود کو بہادر ظاہر کرتی روم سے نکل آئی تھی۔۔۔
گارڈز سے پوچھ کر وہ بلیک ہاؤس کے ایک الگ تھلگ کونے میں بنی ایک چھوٹی سی بلڈنگ کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
جہاں اِس وقت شاہ ویز سکندر موجود تھا۔۔۔۔
پریسا آج تک وہاں نہیں گئی تھی۔۔۔
اُس کا دل بہت بُری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
پریسا نے اندر قدم رکھا تھا۔۔۔۔
سامنے ہی بڑا سا سیاہ رنگ کا لکڑی کا گیٹ تھا۔۔۔ اور اُس کے دائیں جانب کھڑکی تھی۔۔۔۔
پریسا نے اندر جانے کے بجائے احتیاطاً پہلے وہاں سے اندر جھانکا تھا۔۔۔
لیکن سامنے کا منظر دیکھ پریسا کا دل دہل گیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز اندھا دھند پنچنگ بیگ پر مکے برساتا اپنا سارا غصہ اور قہر اُسی پر نکال ریا تھا۔۔۔۔
وہ سانس لینے کے لیے ایک سیکنڈ بھی نہیں رک رہا تھا۔۔۔ وہ جیسے اپنا سارا غصہ اِسی بے جان شے پر نکال دینا چاہتا تھا۔۔۔
پریسا خوف کے مارے چند قدم دور ہوئی تھی۔۔۔ اُسے محسوس ہورہا تھا کہ شاہ ویز نے پنچنگ بیگ کو اُس کی صورت ہی تصور کر رکھا تھا۔۔۔ اور اپنا سارا غصہ یوں اندھا دھند نکالے جارہا تھا۔
ایک پل کے لیے تو اُسے یہیں سے واپس لوٹ جانا ہی مناسب لگا تھا مگر اُس کا دل یہ بات ماننے کو بھی بالکل بھی تیار نہیں تھا۔۔۔
جس پر لرزتی ٹانگوں کے ساتھ پریسا دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوچکی تھی۔۔۔
شاہ ویز سیاہ ٹراؤزر اور سلیو لیس ٹی شرٹ میں ملوس تھا۔۔۔۔ جس سے اُس کے کسرتی چوڑے مضبوط کندھے نمایاں ہورہے تھے۔۔۔۔
پورے روم میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔
پریسا کی جانب اُس کی بیک تھی۔۔۔ مگر دروازہ کھلنے کی وجہ سے روم میں ہلکی سی روشنی کی کرن داخل ہوئی تھی۔۔۔۔
اور اُس کے ساتھ ہی پریسا کے پیروں میں پہنی پائلوں کی چھن چھن بھی۔۔۔۔
جو شاہ ویز کے کانوں تک باآسانی پہنچ بھی رہی تھیں۔۔۔ لیکن وہ اِس دلکش فریب سے اپنی آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے تھا۔۔۔۔
پریسا دھیرے دھیرے چلتی اُس سے کچھ فاصلے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
پریسا نے اُسی کا پرفیوم لگا رکھا تھا۔۔۔ جو شاہ ویز سکندر محسوس بھی کرچکا تھا۔۔۔
مگر اِس پری پیکر کے ہوش رُبا حُسن کی جانب دیکھنے سح گریز برتتا وہ بس بیگ پر مکے برسائے جارہا تھا۔۔۔ جس میں اب مزید تیزی آچکی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کو آج تک کبھی کسی سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔ مگر اِس وقت اُس کا دل بہت زیادہ خوفزدہ تھا۔۔ پریسا آفندی سے سامنا کرنے سے خوفزدہ تھا وہ۔۔۔۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔"
پریسا نے اُسے پکارا تھا۔۔۔۔
مگر شاہ ویز کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل پایا تھا اُسے۔۔۔۔
"میں تم سے بات کر رہی ہوں شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ "
پریسا اب کی بار قدرے اُونچی آواز میں چلائی تھی۔۔۔۔
مگر اُس کے اِس بپھرے وحشی پر اُس کی آواز کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا نے نم ہوتی آنکھوں اور خفگی بھرے تاثرات کے ساتھ اُسے دیکھا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ اُس کی جانب بڑھتی پنچنگ بیگ کی جانب ہاتھ بڑھا گئی تھی۔۔۔
شاہ ویز کو اُس سے ایسی بے وقوفی کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔ وہ بیگ سنبھال نہیں پایا تھا۔۔۔۔
جو سیدھا جاکر کر پریسا کے سر پر لگا تھا۔۔۔۔
وہ منہ کے بل زمین بوس ہونے کو تھی۔۔۔ جب شاہ ویز نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے تھام لیا تھا۔۔۔۔
پریسا نے نگاہیں اُٹھا کر خود پر جھکے شاہ ویز کو دیکھا تھا۔۔۔
اُس کے سر میں درد سے ٹیسیں اُٹھی تھیں۔۔۔۔
جبکہ شاہ ویز تو سامنے سارے ہتھیاروں سے لیس پنک پری بنی کھڑی پریسا کو دیکھ کر اپنی نگاہیں چرانا بھول چکا تھا۔۔۔۔
پنک ڈریس کے ساتھ گول گول آنکھوں میں کاجل لگا کر اُن کی دلکشی کو مزید چار چاند لگایا گیا تھا۔۔۔۔ گالوں کی لالی تو اُسے کے دیکھتے ہی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔۔۔ جبکہ بالوں کو جوڑے میں مقید کیے صراحی دار صاف شفاف گردن کا پردہ بالکل ہٹا دیا گیا تھا۔۔۔۔
دودھیا چمکتی گردن اور اُس کے عین درمیان میں جگمگاتا سیاہ تل شاہ ویز سکندر کا ایمان ڈانوں ڈول کرگیا تھا۔۔۔۔ پنک لپسٹک سے سجے تراشیدہ نازک ہونٹ اُس کے خوف سے لرزتے شاہ ویز سکندر کی بے قراری میں کئی گنا اضافہ کر گئے تھے۔۔۔۔
اور رہی سہی کسر اُس کے چہرے کو بار بار آن چھوتیں اُس کی باریک لٹوں نے پورا کردی تھی۔۔
جو کبھی اُس کے ہونَٹوں کو، کبھی گالوں کو چھوتیں شاہ ویز سکندر کے دل پر قیامت برپا کر گئی تھیں۔۔۔۔
شاہ ویز کو اپنا آپ بچانا مشکل لگا تھا۔۔۔ مگر یہ لڑکی جو غلطی کر چکی تھی۔۔۔ وہ اُسے اتنی آسانی سے معاف کرنے کا ارادہ بالکل بھی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔
"کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔۔۔؟؟؟"
شاہ ویز نے اُسے اپنے سہارے سیدھا کرتے اُس کی پیشانی سے بال ہٹاتے اُس کے ماتھے کا جائزہ لیا تھا۔۔۔
جو اُس کی کارگزاری کی وجہ سے سوج چکا تھا۔۔۔
ابھی جو کچھ ہوا تھا اُس کے خوف سے پریسا کا پورا وجود لرز رہا تھا۔۔۔۔ لیکن یہ چیز ایک طرح سے اُسے اپنے فیور میں آتے محسوس ہوئی تھی۔۔۔
کیونکہ اُس کے سینے سے لگے پریسا نے اُس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے محسوس کیے تھے۔۔۔۔
وہ اُس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔۔۔۔
"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔ "
پریسا نے اُسے اپنے آنے کی وجہ بتائی تھی۔۔۔
مگر اُس کی بات کو صاف نظر انداز کرتے شاہ ویز جلدی سے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس لگاتا اُس کے ماتھے پر ٹیوب لگا گیا تھا۔۔۔ جو کافی زیادہ سوج چکا تھا۔۔۔۔
پریسا کو ایسے ہی اپنے ساتھ لگائے کھڑے اُس نے پریسا کو دوا لگاتے اپنے حصار سے آزاد کردیا تھا۔۔۔
"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی تم جاسکتی ہو یہاں سے۔۔۔۔ "
شاہ ویز ایک بار پھر پنچنگ بیگ کے سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔ مگر اِس بار پریسا نے اُسے روکا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی بیگ کو دور دھکیلتی شاہ ویز کے بہت قریب عین اُس کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
"تم پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟"
پریسا کے دھکے کی وجی سے ہوا میں جھولتا بیگ واپس اُس کے سر پر آکر لگنے والا تھا جب شاہ ویز نے ہاتھ بڑھا کر بیگ کو تھامتے اُسے محفوظ رکھا تھا۔۔
"ہاں تم جیسے وحشی سے محبت کرنے والی لڑکی پاگل ہی ہوسکتی ہے نا۔۔۔۔ "
پریسا اُس سے آج کسی صورت دبنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
"تمہاری بھلائی اِسی میں ہے کہ تم میری نگاہوں سے اوجھل ہوجاؤ اِس وقت۔۔۔۔"
شاہ ویز نے جیسے ہی اپنی ضبط سے لال پڑتی نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا لمحے بھر کو پریسا کا دل خوف سے کانپ گیا تھا۔۔۔
اُس کے قدم چند انچ پیچھے کی جانب اُٹھے تھے۔۔۔
جبکہ مُٹھیاں سختی سے بھینچتے پریسا نے اپنی بے قابو ہوتی دھڑکنوں پر قابو پایا تھا۔۔۔۔
"میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں۔۔۔۔ "
پریسا اُس کو واپس سے وحشیانہ روپ دھاڑتے دیکھ بولی تھی۔۔۔
"مجھے تم سے اور تمہاری معافی سے اب کوئی غرض نہیں ہے۔۔۔ دھوکے باز لوگوں کی شاہ ویز سکندر کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے مُٹھیاں بھینچتے بہت مشکل سے خود پر ضبط کر رکھا تھا۔۔۔۔
"دھوکا میں نے نہیں کیا شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ تم نے مجھ سے دھوکا کیا ہے۔۔۔ ہم دونوں کی زندگی کا اتنا بڑا سچ چھپایا تم نے مجھ سے۔۔۔۔ تم ہمیشہ خود کو میرا دشمن کہہ کر خود کو مجھ سے متعارف کرواتے رہے۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سب سے بڑے خیر خواہ تم تھے۔۔۔ مجھ سے محبت کرتے تھے تم مگر تم نے ہمیشہ سے مجھے نفرت سے اپنے قریب آنے سے دھتکار دیا۔۔۔ تم پہلے دن سے سمجھ گئے تھے کہ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔۔ مگر تم پھر بھی میری فیلنگز کے ساتھ کھیلتے رہے۔۔۔۔ میں شہباز آفندی اور اُن نے خاندان والوں کو اپنا قصور وار نہیں مانتی ۔۔ کیونکہ وہ تو پہلے دن سے ہی مجھے استعمال ہی کررہے تھے۔۔۔ اُن میں سے کسی کو مجھ سے محبت نہیں تھی۔۔۔ میرے دل میں اب اُن کے لیے ایک زرا سا احساس بھی باقی نہیں رہا۔۔۔۔ کیونکہ کبھی اُن کی محبت مجھے سچی اور خلوص بھری لگی ہی نہیں۔۔۔ ہمیشہ اُن سب کے بیچ رہتے ایک عجیب سا خالی پن رہا میرے اندر۔۔۔ جس خالی پن کو دور کرنے والی تھی تمہاری محبت۔۔۔ تمہارے ہونے کا احساس۔۔۔
مگر تم واقعی انسان نہیں ایک بیسٹ ہی ہو۔۔۔۔ ایک ایسا درندہ جسے صرف اپنی انا، اپنی دلی خواہشیں عزیز ہیں۔۔۔۔ جو صرف وہی کرنا چاہتا ہے جو اُس کے لیے ٹھیک ہو۔۔۔۔ میرے اصل قصور وار تم ہو۔۔۔۔ تم اگر پہلے دن ہی مجھے بتا دیتے تو میں اتنی اذیت میں نہ رہتی۔۔۔ میں اُن لوگوں کو تو شاید کبھی آگے چل کر معاف کردوں۔۔ مگر تمہیں کبھی معاف نہیں کرون گی شاہ ویز سکندر کبھی نہیں۔۔۔۔ دھوکے باز تم ہو میں نہیں۔۔۔۔ مجھ سے محبت کرنے کے باوجود نفرت کا اظہار کرنے والے جھوٹے اور منافق انسان تم ہو۔۔۔ میں نہیں۔۔۔۔ "
وہ اُس کے آگے سے ہٹنے لگا تھا جب پریسا اُس کا گریبان اپنی مُٹھیوں میں دبوچتی جارحانہ تیور لیے بولتی شاہ ویز سکندر کو پل بھر کے لیے ساکت کر گئی تھی۔۔۔
پریسا کا پورا چہرا بولتے بولتے آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ بھول گئی تھی کہ وہ معافی مانگنے آئی ہے۔۔۔ مگر وہ اتنا جانتی تھی کہ سامنے کھڑا شخص نرمی سے بات سننے والوں میں سے نہیں تھا۔۔۔ اُسے اُسی کے انداز میں ڈیل کرنا تھا۔۔۔۔
لیکن یہ سب بولتے پریسا کا دل اُس کے خوف سے لرز رہا تھا۔۔۔ اگر اُس کی بولی گئی اِن باتوں کا اِس وحشی اُلٹا اثر پڑتا تو اُس کی خیر نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔
اِس سے پہلے کے اس کا گریبان آزاد کرتے پریسا اُس کی پہنچ سے دور جاتی شاہ ویز اُس کی کلائی تھام کر اپنی آہنی گرفت میں لے کر اُس کی کمر کے پیچھے موڑتا اُسے اپنے نہایت قریب کھینچ گیا تھا۔۔۔
پریسا سیدھی اُس کے سینے سے جا ٹکرائی تھی۔۔۔۔
"کیا بکواس ہے یہ۔۔۔۔ تمہیں میں مہلت دیتا ہوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کچھ بھی بولو گی۔۔۔۔ تمہیں آفندی خاندان کے ایک ایک انسان سے نفرت کرنی ہوگی۔۔۔ کیونکہ وہ سب تمہارے مجرم ہیں۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی گرم سانسیں پریسا کا چہرا جھلساتی اُسے اُس کے شدید طیش میں ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔۔۔
اُس کی آہنی گرفت اور قربت کے احساس سے پریسا اندر تک لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
اُس کا پورا چہرا لال ہوچکا تھا۔۔۔ جبکہ کلائی تکلیف کے مارے ٹوٹتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
مگر وہ اِس بپھرے زخمی شیر کو جو بول چکی تھی۔۔۔ اُس کا نتیجہ بھی بھگتا تھا اُسے۔۔۔ جس کے لیے وہ خود کو تیار کرکے آئی تھی۔۔۔
مگر شاہ ویز سکندر کی قربت اُس کی نازک جان پر بہت بھاری تھی۔۔۔۔
"میری جانب دیکھو پریسا شاہ ویز۔۔۔۔۔ تمہیں زرا بھی اندازہ ہے ابھی جو بکواس تم نے کی ہے۔۔۔ میں اُس کے جواب میں کیا کرسکتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔ میرے سامنے آج تک کسی نے اونچی آواز میں بات کرنے کی جرأت نہیں کی۔۔۔ اور تم مجھے۔۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے لرزتے کانپتے ہونٹوں کو دیکھتے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔۔۔
اُس کی ٹھوڑی تھام کر اُس کا چہرا اپنی جانب موڑتے وہ اُس کی سہمی ہرنی جیسی آنکھوں میں جھانکتے بولا تھا۔۔۔۔
"کیا کرو گے تم۔۔۔۔؟؟ مجھے سزا دو گے۔۔۔ پھر سے اپنے کال کوٹھڑی میں بند کردو گے۔۔۔۔ جو سزا دینی ہے دے دو۔۔۔ نہیں ڈرتی میں اب تم سے۔۔۔۔"
پریسا اُس سے اپنا آپ آزاد کروانے کی کوشش کرتی نڈر انداز میں بولی تھی۔۔۔۔
جبکہ اُس کے سرخی مائل چہرے کو دیکھتا شاہ ویز سکندر دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔۔
جو دیکھ پریسا کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔۔۔
اِس شخص کی طرح اِس کی مسکراہٹ بھی بہت دلکش تھی۔۔۔۔
"نہیں۔۔۔ میری اب کی دی سزا برداشت نہیں کر پاؤ گی تم پریسا شاہ ویز۔۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ کوشش کرنا میری اپنے لیے موجود بے پناہ نفرت کو چھیڑنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے ہلکے سے جھکے سے اپنے مزید قریب کرتا اُس کے چہرے پر جھکا تھا۔۔۔۔
اور اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش پر اپنے ہونٹوں کا شدت بھرا لمس چھوڑتا پریسا کی سانسیں بکھیرے گیا تھا۔۔۔۔ پریسا کو اُس سے اِس سزا کی توقع بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
اُس کا چہرا شاہ ویز سکندر کی ہلکی ہلکی داڑھی کی چھبن سے جل اُٹھا تھا۔۔۔
"کاش کے تم میرے دل میں جھانک کر دیکھ سکتی کہ پریسا آفندی کا کیا مقام ہے تو ابھی جو فضول باتیں کہیں ہیں وہ کہنے سے پہلے ہزار بار سوچتی۔۔۔۔ تم میری محبت نہیں میرا جنون ہو۔۔۔۔ جس کے لیے سالوں تڑپا ہوں میں۔۔۔ مگر اب تمہیں میرے اِسی جنون اور تڑپ کا حساب دینا ہوگا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے کان کی لوح پر جھکتا سرگوشیانہ گھمبیر بوجھل لہجے میں بولتا پریسا کی دھڑکنیں منجمند کر گیا تھا۔۔۔۔
اپنے وحشی کا جنونیت بھرا یہ وحشیانہ انداز دیکھ اُس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ گیا تھا۔۔۔۔
اُس کی بولتی شاہ ویز سکندر ایک منٹ کے اندر ہی بند کرچکا تھا۔۔۔۔ اُس کے سارے الزام دھڑے کے دھڑے رہ گئے تھے۔۔۔
"تم اِس کا الزام مجھ پر نہیں لگا سکتی۔۔۔ کیونکہ تم نے خود میری تڑپ کو ہوا دی ہے۔۔۔ اب تمہیں اِسے ختم بھی کرنا ہوگا۔۔۔"
شاہ ویز جیسے ہی اُس کے ہونٹوں کی جانب جھکا پریسا اپنا لرزتا ہاتھ اُس کے ہونٹوں پر رکھتی اپنے دھڑک دھڑک کر پاگل ہوتے دل کو سنبھلنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی اُس ستمگر سے لمحہ بھر کی مہلت مانگ گئی تھی۔۔۔
اُسے شاہ ویز سکندر کی دی وارننگز بہت اچھے سے یاد آئی تھیں۔۔۔۔
مگر اب وہ اُسے چھیڑ چکی تھی۔۔۔ اب خود کو اپنے اِس وحشی سے بچا پانا مشکل تھا اُس کے لیے۔۔۔۔
"شاہ ویز سکندر تمہیں پہلے میرے ہر الزام کا جواب دینا ہوگا۔۔۔۔ "
پریسا کپکپاتے لہجے میں بولتی شاہ ویز کو اتنی پیاری لگی تھی کہ وہ خود کو مزید بہکنے سے نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔
اُس نے ایک جھٹکے سے پریسا کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا تھا۔۔۔
"تم جا سکتی ہو۔۔۔۔ تمہیں تمہارے ایک ایک الزام کا جواب مل جائے گا۔۔۔۔"
شاہ وزیر اُس کی جانب سے رُخ موڑتا اپنے بے قابو ہوتے جذبات پر بندھ باندھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔
وہ اب بھی خود کو پریسا کے قریب جانے سے روکتا خود کو اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔۔۔۔
"میں کہیں نہیں جارہی شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ اب ساری زندگی تمہیں ہی مجھے جھیلنا ہوگا۔۔۔ "
پریسا اُس کے دور ہونے پر اُس کی جانب بڑھتی پیچھے سے اُس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار قائم کرتے اُس کے سینے پر بازو باندھتی اُس کی چوڑے کندھے پر اپنی پیشانی ٹکا گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اُس کے گداز ملائم ہاتھوں کا لمس اپنے سینے پر محسوس کرتا اپنی جگہ منجمند ہوگیا تھا۔۔۔
اُس کا دل پوری شدت سے دھڑک اُٹھا تھا۔۔۔
"تم بہت ظالم ہو شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ تم میری جانب سے منہ موڑ رہے ہو۔۔۔ میں آخری بار بتا رہی ہوں تمہیں۔۔ اگر اب بھی تم نے اپنے اُوپر چڑھایا یہ نفرت اور اجنبیت کا خول نہ توڑا تو میں بہت دور چلی جاؤں گی تم سے۔۔۔ اتنی دور کہ مجھے واپس لانے میں تمہاری یہ طاقت بھی کام نہیں آئے گی۔۔۔۔ میں یہی سمجھوں گی کہ تم میرے قریب واقعی اپنا بدلہ پورا کرنے کے لیے آنے والے ایک بزدل انسان تھے۔۔۔۔ جس نے اپنا بدلہ پورا ہوتے ہی مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔"
پریسا کے ہونٹوں کا لمس شاہ ویز کے دل و دماغ میں تغیانی برپا کر گیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کے ساتھ لگی کھڑی بھیگے لہجے میں بولتی اُس سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز کو ویسے ہی پتھر بنا کھڑا دیکھ پریسا کے آنسوؤں میں مزید رفتار آگئی تھی۔۔۔
وہ مرجھائے چہرے کے ساتھ واپس کی جانب پلٹی تھی۔۔۔
"اتنی جلدی ہار مان لی۔۔۔۔ بس اتنی سی ہی تھی تمہاری محبت۔۔۔ میں نے کہا تھا تمہاری محبت کبھی بھی میرے جنون کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔۔۔۔ اتنے وقت سے تم سے دور رہ کر تمہارے لیے تڑپتا آیا ہوں۔۔۔ تمہیں اپنے دشمنوں کے بیچ رہتے دیکھ اذیت کی بھٹی میں جلتا رہا ہوں۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ پاگل ہوتا رہا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم میرا یہ چند سیکنڈز کا منہ موڑنا بھی برداشت نہیں کر پائی۔۔۔۔ یہی تھی تمہاری محبت۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی گھمبیر بھاری آواز نے دروازے کے قریب پہنچتے پریسا کے قدم وہیں جکڑ لیے تھے۔۔۔
وہ جھٹکے سے پلٹتی بے یقین نگاہوں سے اُسے دیکھے گئی تھی۔۔۔۔
"میری زندگی کا کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جس دن میں آفندی مینشن میں نہ آیا ہوں۔۔۔ وہ میرا گھر تھا۔۔۔ جہاں میں خون کے آنسو بہاتا دوسروں کو اُس میں راج کرتے دیکھتا تھا۔۔۔۔
مجھے آفندی مینشن کے ہر فرد سے شدید نفرت محسوس ہوتی تھی۔۔۔ دل کرتا تھا پورے آفندی مینشن کو آگ لگا کر وہاں کہ ایک ایک مکین کو زندہ جلا دوں۔۔۔ میں ایسا کر بھی گزرتا اگر وہ گھر میرے باپ نے اپنی حلال کی کمائی اور محبت سے بنایا تھا۔۔۔۔ جہاں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہ کر ایک خوشحال زندگی کے خواب دیکھے تھے اُنہوں نے۔۔۔۔ آفندی مینشن والوں کے لیے وہ ایک شاندار عمارت تھی۔۔۔۔
مگر میرے لیے وہ میرے ماں باپ کی اکلوتی نشانی تھی۔۔۔
جہاں میرے والدین کی یادیں بستی تھیں۔۔۔۔ میں وہاں روز جاتا تھا اور خود سے عہد کرتا تھا کہ اِن سب لوگوں کو برباد کرکے رکھ دوں گا۔۔۔۔ جب ایک رات میں نے وہاں لان میں پڑے سنگی بینچ پر تمہیں ظفر آفندی کی تصویر کو اُٹھائے دیکھا تھا۔۔۔۔
مجھے تم سے سب سے زیادہ نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔ کیونکہ تم میرے سب سے بڑے دشمن ظفر آفندی کی بیٹی تھی۔۔۔ میرا دل چاہا تھا کہ تمہیں تو ختم ہی کردوں۔۔۔
لیکن قریب آنے پر تمہاری آنکھوں سے بہتے آنسو اور تمہاری سسکیوں نے میرے قدموں کو وہیں جکڑ لیا تھا۔۔۔ اور شاید آج تک میں خود کو اُس لمحے سے نکال نہیں پایا۔۔۔ جب مجھ جیسے احساس سے عاری انسان کو تمہارے آنسوؤں نے تکلیف دی تھی۔۔۔ تم بھی میری طرح اکیلی تھی۔۔۔ بس فرق اتنا تھا تمہارے اردگرد بناوٹی اور دھوکے باز لوگوں کی بھیڑ تھی۔۔۔۔ اور مجھے اُنہیں لوگوں سے نفرت۔۔۔۔ میں درخت کی اوٹ میں کھڑا نجانے کتنے ہی لمحے تمہیں دیکھتا رہا تھا۔۔۔
تم روتے ہوئے تصویر کو اپنے سینے سے لگائے ہی سو گئی تھی۔۔۔ تب میں تمہارے قریب آیا تھا اور تم سے ظفر آفندی کی تصویر چھین لی تھی۔۔۔۔
میں اس وقت اپنی کیفیت سمجھ نہیں پایا تھا۔۔ تمہارے لیے اپنی محبت، اپنا جنون نہیں سمجھ پایا تھا۔۔۔۔ مگر میں تمہارے قریب اُن میں سے کسی کی پرچھائی بھی نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
تم روئی تھی۔۔ پریشان بھی ہوئی تھی۔۔۔ اور تم نے اُس تصویر کو پورے آفندی مینشن میں ڈھونڈا تھا۔۔۔ لیکن میں تو اُسے جلا کر راکھ کر چکا تھا۔۔۔۔
میں اُس کے بعد روز تمہیں دیکھنے کی نیت سے آفندی مینشن کے بہت سارے حصے میں ڈھونڈنے لگا تھا تمہیں۔۔۔۔
جس کے بعد تم مجھے اُس خاندان کے کسی نہ کسی فرد کے ساتھ پائی نظر آتی تھی۔۔۔۔
مجھے سب سے زیادہ آگ اُس وقت لگتی تھی جب میں تمہیں سفیان کے ساتھ دیکھتا تھا۔۔۔۔
جس کے بعد میں کئی بار سفیان کو پیٹ بھی چکا تھا۔۔۔ مگر آج تک شہباز آفندی سراغ نہیں لگا پایا کہ اُس کے بیٹے کو ٹارچر کون کرتا تھا۔۔۔
میں چاہے جتنے اہم کام پر ہی کیوں نہ ہوتا میں تمہیں دیکھنے ضرور آتا تھا۔۔۔۔ تمہاری ایک جھلک جیسے میری اذیت کی دوا بنتی جارہی تھی۔۔۔ میں جانتا تھا تمہاری قربت میری تمام تکلیفوں کا مداوا کردے گی۔۔۔
گزرتے وقت کے ساتھ تمہارے لیے میری محبت جنون سے عشق کی منزل طے کرتی چلی گئی تھی۔۔۔۔ اور اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہا تھا تمہارے لیے میرا غصہ۔۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ تم اُن سب سے دور رہو۔۔۔۔ اُن سے نفرت کرو۔۔۔ اپنے ہی غصے میں یہ بات سوچ اور سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ تم بنا اُن کا سچ جانے بھلا اُن سے نفرت کیسے کرسکتی تھی۔۔۔۔ میں بس یہی چاہتا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرو۔۔۔ ساری زندگی نفرت کرتے کرتے میں جذبات کے معنی سے بالکل نابلد ہوچکا تھا۔۔۔
میں بس ہر کام زور زبردستی کی بنیاد پر کرنا جانتا تھا۔۔۔۔ میں نے کئی بار سوچا تھا کہ تمہیں آفندی مینشن والوں سے چھین کر اپنے پاس قید کرلوں۔۔۔
جب تم پہلی بار مجھ سے ٹکرائی تھی۔۔۔ اور پہلی بار میں ہی تم میرا اصل روپ دیکھ گئی تھی۔۔۔ اُس دن میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے خوف دیکھا تھا۔۔۔ جو مجھے بہت اچھا لگا تھا۔۔۔
میں چاہتا تھا تم ڈر کر یا خوف کھا کر بس کسی بھی طرح میرے انڈر رہو میرے بات مانو۔۔۔ جب تم سے دوبارہ اُسی شاپ کے سامنے میری دوسری ملاقات ہوئی تب مجھے تم پر شدید غصہ تھا جس کی وجہ تمہارا سفیان کے ساتھ طے پانے والا نکاح تھا۔۔۔
مجھے تم پر بہت غصہ آتا تھا کہ تم اُن دھوکے باز لوگوں کی بناوٹی محبت اور فریب کیوں نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔۔۔ تم اتنی معصوم کیوں تھی کہ اتنے آرام سے شہباز آفندی کے کہے پر اُنہیں کسی بھی پیپر پر سائن کردیتی تھی۔۔۔۔ وہ لوگ تمہیں استعمال کرتے رہے اور تم ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔
یہی چیز مجھے تم پر شدید غصہ دلاتی تھی۔۔۔۔ لیکن تم یہاں بھی مجھے بے بس کردیتی تھی۔۔۔ جب بھی تم پر غصہ کرنے لگتا تم بے ہوش ہوکر میری جان مزید عذاب میں ڈال دیتی تھی۔۔۔۔
اور پھر ایک دن اپنے دل کی خواہش پر عمل کرتے میں نے تمہیں اُن سب کی آنکھوں کے سامنے سے اُٹھا کر اپنی قید میں لے گیا تھا۔۔۔۔ جہاں تمہارے قریب ہوکر۔۔۔ تم سے دور رہنا میری اذیت اور فرسٹریشن کو کئی گنا بڑھا جاتا تھا۔۔۔
تمہیں میں اُن لوگوں کی اصلیت کیا بتاتا جب تم اُن کے خلاف کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔۔
تمہارے دل و دماغ پر میں اپنی حکمرانی چاہتا تھا۔۔۔ مگر تمہارا سفیان کے لیے سوچنا مجھے پاگل کر جاتا تھا۔۔۔ میں تمہیں صرف اپنے لیے ہی تڑپتے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔
میں چاہتا تھا تم بھی مجھ سے ویسی ہی لازوال محبت کرو جیسی میں تم سے کرتا ہوں۔۔۔۔
پھر ایک دن میرے رب کو جیسے مجھ پر رحم آہی گیا تھا۔۔۔ اُس نے مجھ سے لیے گئے امتحان میں مجھے سرخرو کرتے تمہارے دل میں میری محبت ڈال دی تھی۔۔۔
میں بہت حیران ہوا تھا کہ تمہیں بھلا مجھ جیسے بقول تمہارے وحشی درندے سے بھلا محبت کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ میں اُس رات بے پناہ خوش تھا۔۔۔ میں جانتا تھا تمہیں انکار کرکے میں نے تمہیں بہت تکلیف دی تھی۔۔۔ مگر میں اگر اُس دن تمہاری محبت قبول کرلیتا تو خود کمزور پڑ جاتا۔۔۔۔۔
میں اپنے لیے تمہاری محبت کی طاقت بھانپنا چاہتا تھا۔۔۔ اور یہ تمہاری اور میرے ساتھیوں کی بہت بڑی بھول تھی کہ شاہ ویز سکندر پریسا آفندی سے دستبردار ہونا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ تم میری تھی اور تمہیں میرا ہی رہنا تھا۔۔۔ میں اُس دن صبح ہی سارے معاملات طے کرچکا تھا۔۔۔۔
اور یاسمین آفندی سے تمہاری اپنے لیے دیوانگی کی داستان بھی سن چکا تھا۔۔۔۔
یہ بات پہلے دن سے ہی میرا دل ڈیسائیڈ کر چکا تھا کہ پریسا آفندی نے صرف شاہ ویز سکندر کی دلہن ہی بننا تھا۔۔۔۔
تمہیں حاصل کرنے کے بعد بھی میں اپنے اُوپر سے یہ خول نہیں ہٹا پارہا تھا۔۔۔ اتنے سال نفرتوں اور ظالموں سے لڑتے میرا دل پتھر کا ہوچکا ہے۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے تم جیسی نازک لڑکی مجھ جیسے درندے کو برداشت نہیں کر پائے گی۔۔۔ میں تمہیں کبھی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا مگر اپنے جنون کی آگ میں سب سے زیادہ دل تمہارا ہی جلایا ہے میں نے۔۔۔۔
مجھے محبت نہیں عشق ہے تم سے۔۔۔۔ میں عشق کرنا تو جانتا ہوں مگر اُسے نبھانا نہیں۔۔۔ میں نے اب تک تمہارے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔۔۔۔ جس کے لیے میں تو خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔۔۔ مگر میں تم سے معافی مانگ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ آج پہلی بار شاہ ویز سکندر کسی انسان کے سامنے جھکنے لگا ہے۔۔۔۔ اور وہ واحد انسان ہمیشہ تم ہی رہو گی جس کے آگے جھکنے میں بھی مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہورہی۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا پریسا کے سن ہوتے وجود میں جان ڈال گیا تھا۔۔۔
وہ اُس کا ایک ایک لفظ سن کر شاک کی کیفیت میں گھری کھڑی تھی۔۔۔ اُس کا پورا چہرا آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر کی اذیت بھری زندگی کی ساری کہانی وہ اُس کے لوگوں سے سن چکی تھی۔۔۔
مگر اُس کی اِس اذیت میں وہ بھی اُس کی ساتھی رہی تھی۔۔۔ پریسا کو اِس بات کی خبر آج ہوئی تھی۔۔۔
یہ شخص اُس کے سامنے جھکنے لائق نہیں تھا۔۔۔۔ اِس پیارے انسان کی جگہ اُس کے دل میں تھی۔۔۔ پیروں میں نہیں۔۔۔۔
شاہ ویز سکندر اگر نہ ہوتا تو آج اُس کا بھی نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔۔۔۔ اُس کے باپ سے اتنی شدید نفرت ہونے کے باوجود وہ اُس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔۔۔ اِس بات نے پریسا کو اُس کا مزید دیوانہ بنا لیا تھا۔۔۔۔۔
پریس آگے بڑھی تھی۔۔۔ اور اُس کے ہاتھ ہٹاتی اُس کے سینے میں سما گئی تھی۔۔۔۔
"میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔ تم چاہے کتنے بھی بڑے وحشی درندے بن جاؤ۔۔۔ میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔ چاہے تم مجھ سے محبت کرو یا نفرت۔۔۔۔ میں اب تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ کیونکہ میں جانتی ہوں تم دنیا کے سب سے پیارے انسان ہو۔۔۔ "
پریسا اُس کے سینے پر سر ٹکائے جذب کے عالم میں بولتی شاہ ویز کے تڑپتے دل پر اپنے لفظوں سے مرہم رکھ گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے مسکرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اِس وقت خود کو پوری طرح اُس کے سپرد کر گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز اُس کے گرد بانہوں کا حصار قائم کرتا اُسے اپنے سینے سے لگائے کھڑا کر گیا تھا۔۔۔
پریسا نے اُس سے دور ہونا چاہا تھا جب اُس کی مضبوط گرفت پر اُس نے نگاہیں اُٹھا کر شاہ ویز کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ مگر اُس کے تاثرات پریسا کا دل بُری طرح دھڑکا گئے تھے۔۔۔۔
"چھوڑو مجھے جانا ہے۔۔۔۔ "
پریسا اُس کی خمار آلود نگاہیں دیکھ گھبراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
"اب تمہارے سارے راستے یہیں نکلتے ہیں تم کہیں نہیں جاسکتی۔۔۔۔ ویسے تم نے اُس دن میرے بارے ایک بات کہی تھی۔۔۔ جو ابھی تک میرے دماغ میں چل رہی ہے۔۔۔۔ بھولا نہیں ہوں میں۔۔ "
شاہ ویز نے اُس کے چہرے سے ٹکراتی لٹ کو تھام کر اُس کے کان کے پیچھے اڑسا تھا۔۔۔۔
"کک کون سی بات۔۔۔۔؟؟"
پریسا کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا موڈ اتنی جلدی بدل جائے گا۔۔۔ وہ تو وہاں سے کھسکنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔
مگر اُسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ شاہ ویزسکندر سے اب اُسے اتنی آسانی سے چھوٹ نہیں ملنے والی تھی۔۔۔
"یہی کہ وحشی درندہ ہونے کے ساتھ ساتھ میں نہایت ہی اَن رومینٹک بندہ ہوں۔۔۔ جسے صرف مار کٹائی آتی ہے۔۔۔ پیار محبت کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے بالوں میں ہاتھ پھنساتا اُس کا چہرا اپنے قریب کرتے بولا تھا۔۔۔۔
اِس لڑکی کے لیے اب تک وہ بہت تڑپا تھا۔۔۔ اُس نے کب کب۔۔۔ کیسے کیسے اِس لڑکی کے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی خود پر ضبط کرتے اُسے خود سے دور رکھا تھا۔۔۔ یہ وہی جانتا تھا۔۔۔
مگر اب وہ اپنی ہر تکلیف کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔۔۔
"مم میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔۔۔۔"
پریسا اُس کے خطرناک تیور دیکھ لرز اُٹھی تھی۔۔۔
پریسا فوراً اُس کے حصار سے نکلی تھی۔۔۔۔
"تمہیں میں نے کہا تھا پریسا آفندی جس دن میں نے اپنی محبت کا اظہار کردیا تم میری دیوانگی سے بچ نہیں پاؤ گی۔۔۔ اور آج وہ دن آچکا ہے۔۔۔ اب تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی جانب بڑھتا خمار آلود لہجے میں بولا تھا۔۔۔
"مگر تم نے ابھی تک اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا۔۔۔۔"
پریسا پیچھے سے ہوتی دروازے سے جا لگی تھی۔۔۔ بڑے سے لکڑی کے دروازے سے اُس کی کمر زور سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز اُس کے اردگرد اپنی ہتھیلیاں جماتا اُس کو پوری طرح اپنے چوڑے وجود کے پیچھے قید کر گیا تھا۔۔۔
پریسا کے فرار کی ساری راہیں مسدور ہوچکی تھیں۔۔۔
"وہیں تو کرنے لگا ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے ایک بات سے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز کے ہونٹ دلکشی سے مسکرائے تھے۔۔۔۔
" کس بات سے۔۔۔۔ ؟؟"
پریسا نے جانثار نگاہوں سے اُس کی مسکراہٹ دیکھی تھی۔۔۔۔ اُس نے اِس شخص کو مسکرانا سکھا دیا تھا۔۔۔۔
"میرے اظہار کا طریقہ دیکھ تم بے ہوش نہ ہوجاؤ۔۔۔ "
شاہ ویز اپنی بات مکمل کرتا اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے میں جان بوجھ کر بے ہوش ہوتی ہوں۔۔۔ تم سچ میں بہت بڑے وحشی انسان ہو۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے مذاق اُڑانے پر منہ بسور گئی تھی۔۔۔
"ہر بار نہیں مگر ایک دو بار تم جان بوجھ کر بے ہوش ہوئی ہو۔۔۔۔ میں تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔۔۔ تم کب سوتی ہو۔۔۔ کب اُٹھتی ہو؟ کس بات پر تم خوش ہوتی ہو۔۔۔ کس پر تم ہرٹ ہوتی ہو۔۔۔ گل بہار بیکرز کے کیک میں تمہاری جان بستی ہے۔۔۔ بلیک رنگ تمہیں سخت ناپسند ہے۔۔۔ میرا ناپسندیدہ کریم کلر تمہارا فیورٹ کلر ہے اور میرے غصے سے بچنے کے لیے کب تم جان بوجھ کر بے ہوش ہوتی ہو۔۔۔ سب کا علم ہے مجھے۔۔۔۔ "
شاہ ویز کو اُس کے جوڑے میں جکڑے بال دیکھ اُلجھن ہورہی تھی۔۔۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر پریسا کا کیچر نکالتے اُس کا جوڑا کھول دیا تھا۔۔۔
اور ساتھ ہی اُس کا کیچر بھی توڑ دیا تھا۔۔۔ یہ پریسا کا فیورٹ کیچر تھا جو اُس کے وحشی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔۔۔۔
پریسا کی دودھیا نازک گردن سیاہ زلفوں میں جا چھپی تھی۔۔۔۔
"اور میں کتنا بڑا وحشی ہوں یہ بھی ابھی باور کروا دیتا ہوں تمہیں۔۔۔ "
شاہ ویز کی اُنگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس ہوتے پریسا کے وجود میں برقی لہر دوڑ گئی تھی۔۔۔
"پلیز۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی گردن پر جھکا ہی تھا جب پریسا کی منمناہٹ کے ساتھ ساتھ کسی نے دروازہ ناک کیا تھا۔۔۔۔
جس پر جہاں پریسا نے سکھ کا سانس لیا تھا وہیں شاہ ویز سکندر کی پیشانی پر سلوٹوں کا جال پھیل گیا تھا۔۔۔ جو دیکھ پریسا اپنی مسکراہٹ نہیں روک پائی تھی۔۔۔۔ جبکہ اُس کی ہونٹوں کے کناروں میں قید یہ ہنسی شاہ ویز کی نگاہوں سے نہیں بچ پائی تھی۔۔۔
"شاہ سر۔۔۔۔ وہ۔۔۔ "
ثاقب ابھی اتنا ہی بولا تھا۔۔۔ جب شاہ ویز کی دھاڑ پر اُس کے اگلےالفاظ منہ میں ہی اٹک کر رہ گئے تھے۔۔۔۔
"اگر دوبارہ مجھے اِس انیکسی کے آس پاس کسی کی آہٹ بھی محسوس ہوئی یا کوئی نظر آیا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔"
شاہ ویز کا اتنا ہی کہنا تھا کہ ثاقب بند دروازے کے پیچھے سے آتی اُس کی خونخوار دھاڑ سن کر بنا پلٹ کر دیکھے وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔۔۔۔
جبکہ پریسا اپنے دہلتے دل پر ہاتھ رکھی اُسے گھور کر رہ گئی تھی۔۔۔
یہ بات دیکھ اُسے پوری طرح سے کلیئر ہوچکا تھا کہ آج اُس کی خیر بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
"تم شروع سے ہی اتنے ہی جنگلی تھے۔۔۔۔"
پریسا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا تھا۔۔۔۔
"نہیں تم سے ملنے کے بعد زیادہ ہوا ہوں۔۔۔ "
شاہ ویز اُس پر جھکتا اُسے مزید بولنے کا موقع دیئے بغیر اُس کی سانسوں کو اپنی قید میں لیتا پریسا کے چودہ طبق روشن کر گیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کے لمس میں بے قراری، جنونیت، شدت پسندی اور بے پناہ محبت محسوس کرتی اُس کے گریبان کو مُٹھیوں میں دبوچ گئی تھی۔۔۔۔ پریسا کا نازک وجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔ جبکہ وہ شاہ ویز سکندر کے رحم و کرم پر کھڑی اُس کی اپنے لیے بے پناہ وارفتگی محسوس کررہی تھی۔۔۔۔
یہ شخص ہمیشہ اُس کی قربت سے گریز برتتا آیا تھا۔۔۔ مگر آج اُس کی بے چینی اور بے قراری دیکھ پریسا اُس کی محبت کی شدت کا اندازہ باآسانی لگا پارہی تھی۔۔۔۔
اُس وحشی کی نازک پری اُس کی یہ دیوانگی برداشت کرتی ہلکان ہوئی تھی۔۔۔ جب اُس کی مدھم ہوتی سانسیں محسوس کرتے شاہ ویز اُسے آزادی بخش گیا تھا۔۔۔
پریسا اُس کے سینے پر سر ٹکاتی اُس کی جذبے لُٹاتی بے باک نگاہوں سے بچنے کے لیے اُسی میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔
"آئ لو یو۔۔۔۔ تم شاہ ویز سکندر کا جنون ہو۔۔۔ جس میں، میں پور پور ڈوبنا چاہتا ہو۔۔ "
شاہ ویز نے اپنے دہکتے لب اُس کی گردن پر رکھتے اُس کے کپکپاتے نازک وجود کو اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا۔۔۔
اُس کی داڑھی کی چھبن محسوس کرتی پریسا کسمسائی تھی۔۔۔ وہ اُس کی سیاہ زلفوں کی مہکتی خوشبو سے اپنی سانسوں کو معطر کرتا اُس کی گردن پر جا بجا اپنے لب رکھتا چلا گیا تھا۔۔۔
"شاہ۔۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے شدتوں پر اُس کے حصار میں لرز اُٹھی تھی۔۔۔
شاہ ویز نے نگاہیں اُٹھا کر اُس لال چہرے اور اُس کی لرزتی کانپتی پلکوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"جی جانِ شاہ۔۔۔ آپ کا شاہ آپ سے بھی اِسی محبت کا منتظر ہے۔۔۔ میرے میدان میں آتے ہی آپ فرار اختیار کر گئیں۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کے سُرخی مائل ستواں ناک سے اپنا ناک مس کرتے بولتا اُس کے ہونٹوں کے اُوپری حصے پر جگمگاتے تل پر لب رکھ گیا تھا۔۔۔۔
"تم بہت بڑے وحشی ہو۔۔۔۔ "
پریسا اُس کے وحشناک لمس سے جلتی گردن کی جلن محسوس کرتے بولی تھی۔۔۔
"ابھی کہاں پریسا شاہ ویز۔۔۔ ابھی تو میری اصل دیوانگی کی داستان بتانا تو باقی ہے۔۔۔۔ آپ اتنے میں ہی گھبرا گئیں۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی کمر میں بازو ڈالتے اُس کا رُخ مخالف سمت موڑ گیا تھا۔۔
اُس نے ہاتھ بڑھا کر پریسا کے بالوں کو گردن سے ہٹایا تھا۔۔۔ اور جھک کر اُس کی شفاف گردن پر لب رکھتے وہ اُس کی دھڑکنیں منجمند کر گیا تھا۔۔۔
شاہ ویز نے پاکٹ سے ایک بہت ہی باریک سی نفیس چین نکالتے اُس کی گردن میں پہنا دی تھی۔۔۔
"تمہارے میری زندگی میں شامل ہونے سے میری تمام تکلیفوں کا مداوا ہوگیا ہے۔۔۔ چند مہینے پہلے میرے اندر سے جینے کی خواہش بالکل ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔
مگر اب میں سو سال سے بھی زیادہ جینا چاہتا ہوں تمہارے سنگ۔۔۔۔"
شاہ ویز اُسے بانہوں میں اُٹھاتے بولتا اُس کی پیشانی پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ پریسا اُس کے اِس محبت بھرے رُوپ کی اسیر ہوتی دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر بجا لائی تھی۔۔۔
جس نے اُس کی زندگی کو اندھیرے اور فریب کی نظر ہونے سے بچا کر اُسے شاہ ویز سکندر جیسا پیارا انسان سونپا تھا۔۔۔۔ جو صرف اُس کا تھا۔۔۔۔
جس کا غصہ۔۔۔ جس کی بے پناہ محبت اور وحشت سب اُسی کے لیے تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
جنید پریسا کی دی گئی ہدایت کے مطابق اُس کے بتائے گئے مال میں داخل ہوچکا تھا۔۔۔ آج زندگی میں دوسری بار وہ لیڈیز شاپنگ کررہا تھا۔۔۔
جب اچانک مُڑتے وہ کسی لڑکی سے بُری طرح ٹکرا گیا تھا۔۔۔۔
"آؤچ۔۔۔ اندھے ہو کیا؟ دکھائی نہیں دیتا تمہیں۔۔۔۔"
صبا کا بازو بہت زور سے جنید کے سینے سے ٹکرایا تھا۔۔۔۔ وہ درد سے بلبلاتی سامنے کھڑے اُس لمبے چوڑے شخص کو گھورنے کے لیے جیسے ہی پلٹی سامنے کھڑے جنید کو دیکھ اُس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو مزید بڑا کرتے اُسے کھا جانے والی خونخوار نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔
جنید اِس وقت سیاہ سن گلاسز اور نقلی مونچھیں لگائے اُسی دن والے حلیے میں تھا جس میں وہ پہلے بھی ایک بار اِس سر پھری لڑکی سے ٹکرا چکا تھا۔۔۔
"تم وہی ہو نا جس نے پچھلی بار مجھے چھیڑا تھا۔۔۔۔"
صبا بھی شاید ابھی تک اُسے بھول نہیں پائی تھی۔۔۔ اور آج بھی یہی سمجھ رہی تھی کہ جنید نے اُس دن اُسے چھیڑنے کے لیے ہی انگوٹھی کا سائز پوچھا تھا۔۔۔
" جی میں وہی بندہ نا چیز ہوں۔۔۔ کوئی مسئلہ ہے آپ کو۔۔۔۔۔"
جنید اُس کو لڑاکا عورتوں کی طرح آنکھیں نکالتے لڑنے کو تیار کھڑا دیکھ اب کی بار میدان میں آیا تھا۔۔۔
یہ چھوٹی سی لڑکی اُسے بہت ہی دلچسپ لگی تھی۔۔۔ جسے شاید لڑنے کا بہت شوق تھا۔۔۔ اور وہ تو ویسے ہی لڑائی میں ماہر تھا۔۔۔ تو دونوں کی اچھی نبھنے والی تھی۔۔۔
"تم یہاں کیا کررہے ہو۔۔۔۔؟؟؟"
صبا نے اُسے گھورتے انتہائی بے تکا سوال کیا تھا۔۔۔
"کرکٹ کھیلنے آیا ہوں۔۔۔ آپ کھیلیں گی میرے ساتھ۔۔۔"
جنید نے سینے پر بازو باندھتے طنزیا لہجے میں جواب دیتے اُسے بھی آفر کی تھی۔۔۔
"میرے کہنے کا مطلب ہے تم یہاں لیڈیز بوتیک میں کیا کررہے ہو۔۔۔؟ کتنی گرل فرینڈز ہیں تمہاری جنہیں گفٹ دیتے نہیں تھکتے تم۔۔۔۔"
صبا بنا شرمندہ ہوتے اگلا سوال کر گئی تھی۔۔۔
"توبہ استغفراللہ کیسی باتیں کررہی ہیں آپ۔۔۔ میں اُس دن اپنی بہنوں جیسی باس کے لیے شاپنگ کرنے آیا تھا اور آج اپنی بھابھی کے لیے۔۔۔۔ ویسے لگتا ہے آپ یہاں لوگوں سے انکوائری کرنے آئی ہیں کہ وہ اِس شاپنگ مال میں کیوں موجود ہیں۔۔۔۔"
جنید نے مشکوک نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔
اُس کی بات اور گہری نگاہوں پر صبا لمحے بھر کو بوکھلا گئی تھی۔۔۔ اور اِسی لمحے جنید کی چھٹی حس نے کچھ غلط ہونے کا الارم دیا تھا۔۔۔
اُس دن جو لڑکی اُس کے پاس ایک سیکنڈ بھی نہیں رکی تھی۔۔۔ آج وہ اُس کے سامنے روکاوٹ بنی سوال پر سوال داغ رہی تھی۔۔۔
"کون ہو تم۔۔۔۔؟؟"
جنید ایک دم الرٹ ہوتا اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے حمدان جلدی سے صبا کے آگے آکر ڈھال بنتا جنید کے قدم وہیں جکڑ گیا تھا۔۔۔
"میری چھوٹی بہن ہے۔۔۔ میرے کہنے پر ہی تمہیں روک کر رکھا۔۔۔ ویسے اپنے لیڈرز کی طرح تم بھی کافی ذہین ہو۔۔۔ سب آسانی سے سمجھ جاتے ہو۔۔
شکریہ گڑیا۔۔۔۔۔"
حمدان صبا کا شکریہ ادا کرتا اُسے وہاں سے جانے کا بول گیا تھا۔۔۔ جاتے جاتے صبا نے پلٹ کر جنید کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
جو اُسے سُرخ نگاہوں سے دیکھتا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں قتل کر دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
صبا کو ایک دم اُس سے خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔ وہ جلدی سے چہرا موڑتی وہاں سے پلٹ گئی تھی۔۔۔
"آپ میری مہرو میم کو مار کر اب مجھے مارنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا صاحب۔۔۔ آپ جتنی چاہیئں گولیاں اُتار دیں میرے سینے میں۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھیئے گا کہ آپ جو پہلے کر چکے ہیں اور جو اب کرنے والے ہیں اِس سے آپ کو کبھی سکون نہیں مل پائے گا۔۔۔ کیونکہ آپ نے ایک بے گناہ انسان کو بہت بے دردی سے مارا ہے۔۔۔ اُس کی محبت آپ کو کبھی چین نہیں لینے دے گی۔۔۔۔"
حمدان کو دیکھ جنید کو مہروسہ کی تکلیف کی شدت سے یاد آئی تھی۔۔۔
وہ جسمانی طور پر تو کافی بہتر ہوچکی تھی۔۔۔ مگر زہنی طور پر ابھی تک سکون میں نہیں آ پارہی تھی۔۔۔ وہ ایس پی حمدان صدیقی کو بھلا پانے میں ناکام ہورہی تھی۔۔۔
اکثر نیند میں وہ حمدان کا خود پر گولی چلانے والا منظر یاد کرکے ڈر کر اٹھ جایا کرتی تھی۔۔۔ وہ اپنی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ بھول ہی نہیں پارہی تھی۔۔۔ جس میں اُس کی زندگی کے عزیز ترین انسان نے اُس پر گولیاں چلائی تھیں۔۔۔
"مجھے میری بیوی سے ملنا ہے۔۔۔"
جنید کی اتنی ساری باتوں کے جواب میں حمدان مختصراً بولا تھا۔۔۔
جو سنتے جنید لمحہ بھر کو ہڑبڑا گیا تھا۔۔۔ اُس کی یہ حرکت حمدان نے باخوبی نوٹ کی تھی۔۔۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟ جو انسان اِس دنیا میں ہی نہیں ہے آپ کیسے مل سکتے ہیں اُس سے۔۔۔۔"
جنید نے اپنے لہجے ہو پختہ بناتے صفائی سے جھوٹ بولا تھا۔۔۔
"تم لوگوں کو کیا لگتا ہے۔۔۔ تم بولو گے اور میں مان جاؤں گا۔۔۔ مہروسہ بیوی ہے میری۔۔۔ سب سے زیادہ حق میرا ہے اُس پر۔۔۔۔ اُسے تم لوگ مجھ سے یوں چھپا کر نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔"
حمدان کا چہرا غصے سے لال ہوا تھا۔۔۔
"آپ اپنی اُسی بیوی پر اپنے ہاتھوں گولیاں چلا کر مار چکے ہیں اُسے۔۔۔ "
جنید اُسے کسی قیمت پر مہروسہ کے حوالے سے نہیں بتا سکتا تھا۔۔۔ ورنہ مہروسہ اُس کے سینے میں گولیاں اُتار نے سے ایک پل کے لیے بھی گریز نہ برتتی۔۔۔ مہروسہ نے اتنی سختی سے اُن سب کو دھمکا رکھا تھا۔۔۔
"اور اب اگر تم نے دوبارہ میری بیوی کے بارے میں اپنے منہ سے ایسی بکواس نکالی تو اُس فانوس پر لٹکا کر تمہیں گولیوں سے بھون دونگا۔۔۔۔ "
حمدان اِس سے زیادہ نرمی سے بات نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔ اُسے ایک دم غصے میں آتے دیکھ جنید نے بے چارگی سے اُسے دیکھا۔۔۔
جنید کو آگے حمدان نامی کنواں اور پیچھے مہروسہ نامی کھائی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ اُس کی باس لیڈی کے یہ ایس پی صاحب جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔۔۔ اور سچ بولنے پر مہروسہ نے اُسے بلیک ہاؤس میں گھسنے نہیں دینا تھا۔۔۔
جنید بُری طرح پھنس چکا تھا۔۔۔
مگر اُس نے حمدان کا بدلہ بدلہ انداز بہت اچھے سے نوٹ کیا تھا۔۔۔
اگر حمدان چاہتا تو ابھی اُسے گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن میں ٹارچر کرکے اُس کے لیڈرز کو بلیک میل کرسکتا تھا۔۔۔ وہ اِس ایس پی کی دہشت سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھا۔۔۔
"آپ کو تو نفرت تھی نا مہروسہ میم سے۔۔ پھر اب اُن سے ملنے کے لیے اتنا کیوں تڑپ رہے ہیں۔۔۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ آپ اپنی سب سے بڑی دشمن کو مات دے چکے ہیں۔۔۔ "
جنید نے اُس کو جانچتی نگاہوں سے دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔
جب اُسے اپنے سوال کے جواب میں حمدان کی آنکھوں میں درد لکیریں نمایاں ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
"میں اِس وقت کتنی اذیت میں ہوں اِس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔۔۔ تم میری مدد نہیں کرنا چاہتے مت کرو۔۔۔ جب میں یہ پتا لگوا چکا ہوں کہ میری بیوی زندہ ہے۔۔ تو یہ بھی پتا لگوا لوں گا کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔"
حمدان اُسے قہر بھری نگاہوں سے دیکھتا پلٹا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے جنید اپنے دل میں فیصلہ کر گیا تھا کہ اُسے کیا کرنا چاہیئے۔۔۔
حمدان کو مہروسہ کے لیے یوں تڑپتا دیکھ اُسے بہت خوشی ہوئی تھی۔۔۔ آخر کار اُس کی پیاری سی مہرو میم کی تکلیفیں بھی ختم ہونے والی تھیں۔۔۔۔
"حمدان سر ایک منٹ۔۔۔۔"
جنید اُسے پلٹتا دیکھ جلدی سے اُسکے آگے آیا تھا۔۔۔
"میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں صرف اِس لیے کہ آپ میری مہرو میم کو بہت زیادہ عزیز ہیں۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے اُن پر گولیاں چلائی ہیں۔۔۔ وہ آپ سے نہ تو نفرت کر پائی ہیں اور نہ آپ کو بھول پائی ہیں۔۔۔۔ اور میں اُن کی وہ تڑپ نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ اِس لیے آج زندگی میں پہلی بار میں اپنے گینگ لیڈرز کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے جارہا ہوں۔۔"
جنید کی باتیں سنتے حمدان کی آنکھوں کی چمک واضح ہوئی تھی۔۔۔
اُس کی مہروسہ بالکل ٹھیک تھی۔۔۔ یہ خیال ہی اُس کے مردہ پڑے دل میں زندگی کی نئی روح پھونک گیا تھا۔۔۔
"تمہیں اپنے اِس فیصلے پر پچھتاوا نہیں ہوگا۔۔۔ اور نہ ہی تمہارا کوئی گینگ لیڈر تمہیں کچھ کہے گا۔۔۔ یہ وعدہ ہے میرا تم سے۔۔۔۔"
حمدان مہروسہ سے ملنے کے لیے بے قرار سا ہوا تھا۔۔۔
وہ اُسے اپنے سینے میں بھینچ اپنی کب سے ساکت دھڑکنوں کا شور سننا چاہتا تھا۔۔۔
اپنے عشق میں پاگل اُس دیوانی لڑکی کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ ایس پی حمدان صدیقی کے لیے کتنی اہم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔
اُس کے بغیر ایس پی حمدان کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اقبال کیانی کے فارم ہاؤس پر آج بہت اہم میٹنگ کا انعقاد کیا گیا تھا۔۔۔ جو بہت زیادہ حساس بھی تھی۔۔۔ جس میں اُن کے دھندے میں ملوث تمام اہم لوگ شامل تھے۔۔۔۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ عوام کے سامنے سفید پوش، پرہیزگار اور معزز بن کر آنے والے اُن کے سیاسی لیڈرز کی اصل حقیقت کیا تھی۔۔۔
ملک کو لوٹ کھسوٹ کر آدھی سے زیادہ عوام کو غربت کی لکیر سے بھی بہت نیچے لے گئے تھے۔۔ مگر اُن کے جھوٹے وعدوں کے آگے عوام لٹ پٹ جانے کے بعد بھی۔۔ آج بھی اُن حرام خوروں سے کچھ اچھا ہوجانے کی اُمید لگائے بیٹھی تھی۔۔۔
کیونکہ اُن کے سامنے ابھی تک اِن لوگوں کے اصلی چہرے نہیں آپائے تھے۔۔۔
جو بہت جلد بلیک سٹارز لانے والے تھے۔۔۔ جس بات کا اندازہ اُن سب کو پہلے سے ہوچکا تھا۔۔۔
اور تب سے وہ سب ہاتھ دھو کر بلیک سٹارز کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔۔۔
"اقبال کیانی دس از ناٹ فیئر۔۔۔ میرا انتظار کیے بغیر ہی میٹنگ کا آغاز کردیا آپ نے۔۔۔"
سب لوگ میٹنگ روم میں موجود تھے۔۔۔ جب وہاں ایک نسوانی آواز گونجی تھی۔۔۔ سب نے گردنیں موڑ کر دروازے میں کھڑی مریم کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"ارے آپ کو کیسے بھول سکتے ہیں۔۔۔ آپ تو ہماری پارٹی کی جان ہیں۔۔۔ ہم آپ ہی کا ویٹ کررہے تھے۔۔۔ کیونکہ آج کی یہ میٹنگ آپ ہی کے لیے تو رکھی گئی ہے۔۔۔ جی تو دوستوں آج اِس میٹنگ میں ہمیں ساری بریفنگ اور آگے اختیار کیے جانے والے لائحہ عمل کے بارے میں مریم ہی آگاہ کریں گی۔۔۔ یہ بلیک سٹارز کو بہت قریب سے جان چکی ہیں۔۔۔ اور ایک بلیک سٹار کا خاتمہ بھی اِنہیں نے ہی کیا ہے۔۔۔ اور باقی دو تک بھی یہی ہمیں پہنچائیں گی۔۔۔
آج یہ اُنہیں کا ڈیٹا لے کر آئی ہیں۔۔۔۔"
اقبال کیانی نے نہایت ہی فخریہ انداز میں مریم کا تعارف سب سے کروایا تھا۔۔۔
وہ سب جانتے تھے کہ اقبال کیانی اِس عام سی لڑکی کی اتنی خوشامد کس لیے کررہا ہے۔۔۔ اِس وقت اُسے صرف اقتدار کی کرسی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ جسے پانے کے لیے وہ کسی کے بھی تلوے چاٹنے کو تیار تھا۔۔۔
مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُس کرسی تک پہنچنے سے پہلے اُس کے سامنے بلیک سٹارز نامی تلوار لٹک رہی تھی۔۔۔۔ جسے ختم کرنے کے بعد ہی وہ آگے بڑھ سکتا تھا۔۔۔اور اُن تینوں کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔
مریم کا کارنامہ دیکھ وہ اُسے اتنی اہمیت دے رہا تھا۔۔۔
"میری ایک بات یاد رکھنا اقبال کیانی تمہیں کرسی چاہیے اور مجھے پریسا آفندی۔۔۔ اُسی کی وجہ سے میں تمہارا ساتھ دے رہا ہوں۔۔۔ پریسا بلیک سٹارز کے پاس ہے۔۔۔ اُن کے ختم ہوتے ہی پریسا کو میرے حوالے کرنا ہوگا۔۔۔ تب ہی تم کرسی تک پہنچ پاؤ گے۔۔۔ "
فیصل بخشی نے کئی بار کی کی بات ایک بار پھر سے اقبال آفندی کو یاد دلوائی تھی۔۔۔
"فکر مت کرو۔۔۔۔ وہ لڑکی بہت جلد تمہارے قبضے میں ہوگی۔۔۔۔۔ "
اقبال کیانی کو پورا یقین تھا۔۔۔ اُس کے مطابق وہ جو گیم کھیلنے والا تھا اُس سے بلیک سٹارز کا بچ پانا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔
اُس کی اِسی بات پر اُس کی پارٹی کا ہر لیڈر یقین کیے ہوئے تھا۔۔۔۔ وہ سب ایک ہی قماش کے تھے۔۔۔ اُن کا مقصد صرف ملک کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنا تھا۔۔۔ جس میں دوسرا کیا کررہا تھا۔۔۔ کس برائی میں ملوث تھا اُنہیں کوئی خبر نہیں تھی۔۔۔۔
مریم اُن سب کے بیچ کرسی پر آن بیٹھی تھی۔۔۔ مہروسہ کو مارنے کے اعزاز میں اقبال کیانی نے اُسے اپنی پارٹی کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔
جس بات پر وہ بے پناہ خوش تھی۔۔۔ اُسے ابھی بھی کہیں نہ کہیں اُمید تھی کہ حمدان صدیقی کو وہ اب بھی اپنی جانب مائل کرسکتی ہے۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"حازم پلیز۔۔۔۔"
حازم کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے حبہ لرز اُٹھی تھی۔۔۔ حازم نے ایک بات نوٹ کی تھی۔۔۔ کہ اُس نے اپنے ہاتھ آزاد کرنے کے سوا اُس کے لمس سے بچنے کے لیے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔ تمہاری نفرت کی وجہ سے میں نے تم سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔۔۔ تو ایسی کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔۔۔ تم حازم سالار کے لیے بہت امپورٹنٹ ہو۔۔۔ اب سے نہیں اُس وقت سے جب تمہیں اپنا ہوش تک نہیں تھا۔۔۔ تمہیں اُس دن سے میں نے اپنی ملکیت مانا ہے جس دن تم گلابی فراک میں دروازے کے ساتھ لگی نازک سی باربی کی طرح کھڑی مجھے روتے دیکھ خود بھی رو رہی تھی۔۔۔۔
اور پھر معاشرے کے ظالم لوگوں کے جانے کے بعد جب میں اپنی بہنوں کی تکلیف میں اکیلا بیٹھا رو رہا تھا۔۔۔ تب بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتی اصل حقیقت سے انجان تم میری باربی ڈول بن کر میرے غم میں شریک تھی۔۔۔۔
اُس دن سے میں نے سوچ لیا تھا۔۔۔ تم پر حق ہوگا تو صرف میرا۔۔۔ میرے آنسو پونچھنے کا اختیار ہوگا تو صرف تمہارے پاس۔۔۔ میرا غم دور کرنے کی وجہ ہوگی تو صرف تمہاری دلکش معصومیت بھری مسکراہٹ۔۔۔ تمہارے دل و دماغ پر حکمرانی ہو گی تو صرف میری۔۔۔ میرے دل کی ملکہ بننے کا حق ہوگا تو صرف تمہارے پاس۔۔۔ "
حازم آج پہلی بار پورے دل سے اپنی محبت کا اظہار کرتا حبہ کی پیشانی پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔۔۔
حبہ نے مسمرائز سی اُس کی محبت کے سحر میں جکڑی کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔۔۔۔
اُسے محسوس ہورہا تھا جیسے اُس کی زندگی اِن روح افزاء الفاظ پر ہی اٹک کر رہ گئی تھی۔۔۔
اُسے اب مزید اپنی زندگی سے کچھ نہیں چاہیئے تھا۔۔۔
"اگر اتنی ہی محبت کرتے تھے تو اتنا عرصہ دور کیوں رہے مجھ سے۔۔۔۔ "
حبہ کی آنکھوں سے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر نیچے گر رہے تھے۔۔۔ وہ اُس سے لڑنا چاہتی تھی۔۔ اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اُس سے اپنے بابا کی ڈیتھ کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔۔۔ مگر یہ شخص ہمیشہ وہیں کرتا تھا جو وہ چاہتا تھا۔۔۔ اِس وقت بھی وہ اُس کے کسی سوال کا بھی جواب دیئے بغیر اُسے اپنی محبت بھری دنیا میں داخل کرتا ہر شے بھولنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں ہی بھول چکے تھے کہ اِس وقت وہ ایک دوسرے کے سامنے ایک دوسرے کے دشمن کے روپ میں کھڑے تھے۔۔۔۔
اُن دونوں کا یاد رہا تھا تو بس اتنا کہ وہ ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔۔۔
"میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی حازم سالار۔۔۔ تم مجھے ایک بار پھر چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔۔۔ جیسے آج تک کرتے آئے ہو۔۔ تم نے بار بار میرا دل توڑا ہے۔۔۔ ہر بار اپنی مہربان قربت کی زرا سی جھلک دکھا کر مجھ سے بہت دور چلے جاتے ہو تم۔۔۔ میں اب کی بار اعتبار نہیں کروں گی تم پر۔۔۔۔"
حبہ اُس کے حصار سے نکلتی اُسے خود سے دور دھکیل گئی تھی۔۔۔ حازم نے اُس کے بہتے آنسوؤں کو بچارگی سے دیکھا تھا۔۔۔
وہ اُسے سب سچ بتانا چاہتا تھا۔۔۔
مگر وہ اُسے تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ نہ ہی اُس مقام پر اُسے ٹوٹتا دیکھ سکتا تھا۔۔۔ جب وہ خود اُس کے قریب نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی اِس وقت اُس کا سہارا بن سکتا تھا۔۔۔
"میں اپنی ڈیوٹی سے بے دیانتی نہیں کرسکتی۔۔۔ تم اِس طرح مجھے کمزور کرکے اپنا کام نہیں نکلوا سکتے۔۔۔ میں تمہیں بہت اچھے سے سمجھ چکی ہوں حازم سالار۔۔۔ تم ایک بلیک سٹار ہو تمہارا دماغ نارمل لوگوں کے دماغوں کے جیسا بالکل نہیں چلتا۔۔۔۔ تم یہ محبت کا ناٹک کرکے میرے ساتھ پھر کوئی کھیل کھیلنا چاہتے ہو۔۔۔"
حبہ خود کو اُس کے سحر سے نکالنے کی کوشش کرتی مضبوط لہجے میں بولی تھی۔۔
وہ اِس شخص کی چالاکیوں سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔۔۔
"میری محبت کھیل نہیں ہے ایس پی حبہ۔۔۔ اور نہ آج تک میں تمہارے ساتھ کوئی کھیل کھیل پایا ہوں۔۔۔ جس دن کھیلا اُس دن تم سمجھ بھی نہیں پاؤ گی مائی لو۔۔۔"
حازم نے اپنی پاکٹ سے ایک نہایت ہی خوبصورت سا باریک بریسلیٹ نکالا تھا۔۔۔
"یہ کس کے لیے ہے۔۔۔؟؟"
حبہ جو وہاں سے نکلنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں کسی لڑکی کا بریسلیٹ دیکھ وہ ٹھٹھک کر رکتی مزید قدم آگے نہیں بڑھا پائی تھی۔۔۔
"میری گرل فرینڈ کا۔۔۔ "
حازم اُس کے سوال کے جواب ميں جل کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ اُس کے طنز کو سچ سمجھتی حبہ غصے سے جل بھن گئی تھی۔۔۔
"ہاں گرل فرینڈ کے جو ڈھیر لگا رکھے ہیں تم نے اپنے بلیک ہاؤس میں۔۔۔ بیوی کی بھلا کہاں ضرورت ہوگی۔۔۔"
اُس نے شدید غصے کے عالم میں پاس رکھی کرسی اُٹھا کر حازم کے پیر پر دے ماری تھی۔۔۔
جو حازم کو بہت زور سے لگی تھی۔۔۔
"پہلے لوگوں کی زبانی سنا تھا کہ اُن کی بیوی سے پٹائی ہوتی ہے۔۔۔ آج تو میرے ساتھ ہی ہوگیا۔۔۔ ایس پی کچھ شرم کر لو بلیک سٹار ہوں میں۔۔۔ ایک دنیا ڈرتی ہے مجھ سے۔۔۔ "
حازم اُس کے تیور دیکھ بریسلٹ واپس اپنی پاکٹ میں ڈال چکا تھا۔۔۔ حبہ کا یہ خونخوار جنگلی بلی جیسا رُوپ اُسے بے پناہ پسند تھا۔۔۔
بریسلٹ کا بتا کر وہ یہ دلفریب منظر ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
"دنیا ڈرتی ہے۔۔۔ مگر ایس پی حبہ اُس دنیا میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔"
حبہ نے اپنی پاکٹ سے گن نکالتے اُس پر تانی تھی۔۔۔
"میری پوری فورسز تمہیں پکڑنے کے لیے دن رات کا ہوش بھلائے سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہے۔۔۔ اور تم یہاں پولیس اسٹیشن میں بڑی شان و شوکت سے موجود ہو۔۔۔ میں تمہیں اب یہاں سے نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔"
حبہ اُس کی راہ میں حائل ہوتی دیوار بنی کھڑی تھی۔۔۔
"میرے لوگوں کو چھوڑ دو۔۔۔۔ پھر تمہارے کہنے پر پھانسی بھی چڑھ جاؤں گا۔۔۔۔"
حازم کی بات پر حبہ کے ہاتھ میں تھامی گن لرز اُٹھی تھی۔۔۔۔
"نہیں چھوڑوں گی میں۔۔۔ تم بہت شاطر ہو۔۔۔ تم بھاگ جاؤ گے۔۔۔۔"
حبہ نے سختی سے انکار کیا تھا۔۔۔
"اُن کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔ نہ اُن میں سے کسی پر بھی کوئی جرم ثابت ہوا ہے۔۔۔۔ تمہارا اور تمہاری فورسز کا قصور وار میں ہوں۔۔۔ مجھے گرفتار کرنے پر تمہارے سیاسی لیڈر بھی شاباشی دیں گے تمہیں۔۔۔ میں خود کو پیش کررہا ہوں تمہارے سامنے۔۔۔۔ میرے آدمیوں کو چھوڑ دو۔۔۔۔"
حازم اُس کی نازک کمر میں بازو حمائل کرکے اُسے ایک بار پھر اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔
"اور اگر تم اپنی بات پر قائم نہ رہے تو؟ "
حبہ مشکوک ہوئی تھی۔۔۔ حازم کے قریب کرنے پر حبہ کے ہاتھ میں موجود گن حازم کے سینے سے آن ٹکرائی تھی۔۔۔
جو دیکھ لمحے بھر کو حبہ کا دل دہل گیا تھا۔۔۔
"آزما کر دیکھ لو۔۔۔۔ کہا بھاگوں گا اور کتنا بھاگوں گا۔۔۔۔ آنا تو ایک دن تمہارے پاس ہی ہے نا۔۔۔۔"
حازم کی نگاہیں اُس کے صبیحہ چہرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔
"میں تمہارے بابا کا قاتل ہوں۔۔۔ مجھے گرفتار کرکے تم اپنا بدلہ بھی پورا کر سکتی ہو۔۔۔۔ "
حازم کی بات پر حبہ کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔۔۔ یہ شخص آخر کو اتنا ظالم کیوں تھا۔۔۔ کیوں اُس کی اذیت نہیں سمجھتا تھا۔۔۔
اُس کے بابا جو اُس کی زندگی کے آئیڈیل اُس کی پہچان تھے۔۔۔۔ اور یہ سامنے کھڑا شخص جس کا اُس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں انتظار کیا تھا۔۔۔
جو اُس کی پوری زندگی تھا۔۔۔ جس کے بغیر اُس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں تھا۔۔۔ وہی اُس کے بابا کا قاتل نکلا تھا۔۔۔۔
حبہ اپنے بابا کے قاتل کو سزا نہ دے کر اُن کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ میں تمہارے لوگوں کو آزاد کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ تمہیں مجھے گرفتاری دینی ہوگی۔۔۔۔"
حبہ نے تکلیف سے دو ٹکڑے ہوتے دل کے ساتھ یہ الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔
"تھینکس مائی لو۔۔۔۔ اب تم صحیح مجرم کو گرفتار کرو گی۔۔۔۔"
حازم اُس کی لال ہوتی پھولی ناک پر لب رکھتا حبہ کا چہرا لال کر گیا تھا۔۔۔۔
جب اُسی لمحے حبہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر اُس کے گال پر بکھرا تھا۔۔۔ جسے بے مول ہونے سے پہلے ہی حازم نے اپنے ہونٹوں پر چن لیا تھا۔۔۔۔
"اگر زندگی نے مہلت دی تو بہت جلد میں تمہاری ساری تکلیفیں دور کر دوں گا میری زندگی۔۔۔ تمہاری اذیت کی وجہ میں خود ہوں۔۔۔ یہ سوچ کر ہی دل تکلیف سے بھر جاتا ہے۔۔۔۔ "
حازم اُس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو ہونٹوں سے چھوتا حبہ کی سانسیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔۔ اُس کا یہ شدت بھرا جارحانہ لمس محسوس کرتے حبہ کا پورا وجود لرزنے لگا تھا۔۔۔
مگر اِس وقت وہ بنا کوئی مزاحمت کیے اِس شخص کا لمس محسوس کرتی اپنے تڑپتے دل کو سکون پہنچانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔۔
حبہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ حازم سالار نے اپنی گرفتاری دے کر اپنے لوگوں کو کیوں بچایا تھا۔۔۔ اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اُس کا اُٹھایا یہ قدم آگے چل کر اُس کے لیے ہی کتنی تکلیف کا باعث بننے والا تھا۔۔۔
بلیک سٹارز کی سوچ کو آج تک کوئی نہیں پڑھ پایا تھا۔۔۔ ہمیشہ سب لوگ ہی اِس بات پر حیران رہتے تھے کہ اگر بلیک سٹارز ملک دشمن تھے تو وہ کچھ مخصوص لوگوں کو ہی نقصان کیوں پہنچاتے تھے۔۔۔
اُنہوں نے آج تک پولیس والوں پر ہتھیار نہیں اُٹھائے تھے۔۔۔ اکثر وہ خود زخمی ہوجاتے تھے۔۔ مگر کبھی پولیس والوں کو نہیں مارا تھا۔۔۔ اُن کے لیے اپنے آدمیوں کی جانے اتنی قیمتی تھیں کہ اپنے لوگوں پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے تھے۔۔۔۔ کئی بار حازم، شاہ ویز اور مہروسہ نے اپنے لوگوں کو بچاتے اپنے وجود پر گولیاں کھائی تھیں۔۔۔۔
اُن کی یہی بات لوگوں کے دلوں میں اُن کے لیے نرم گوشہ پیدا کر چکی تھی۔۔۔ کیونکہ کئی جگہوں پر جہاں پولیس نہیں پہنچ پاتی تھی وہاں بلیک سٹارز پہنچ کر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچاتے تھے۔۔۔۔
کئی غریب بیوہ عورتوں کے گھروں کا راشن بلیک سٹارز کی جانب سے ہی جاتا تھا۔۔۔ اُنہوں نے خود جس اذیت میں زندگی گزاری تھی۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتے تھے باقی لوگ بھی ایسے ہی رہیں۔۔۔۔
یہی وجہ تھی کہ بہت سارے پولیس والے بھی اکثر اُن کا ساتھ دیتے نظر آتے تھے۔۔۔۔
بلیک سٹارز نے بہت سارے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا رکھا تھا۔۔۔۔ بلیک سٹارز صرف اُن لوگوں کے دشمن تھے جو اُن ملک کو تباہی کے دہانے کی جانے دھکیلتے اُسے لوٹ کر کھا رہے تھے۔۔۔
بہت جلد وہ اپنا سب سے بڑا مشن مکمل کرتے۔۔۔ ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کو بے نقاب کرنے والے تھے۔۔۔ جن کے خلاف اُن کے پاس سارے ثبوت موجود تھے۔۔۔
اُن لوگوں کو پہلے سے اِس بارے میں علم ہوچکا تھا۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ تمام فورسز کو بلیک سٹارز کے پیچھے لگا دیا گیا تھا۔۔۔ وہ سب لوگ گھٹ جوڑ کرکے ایک ساتھ بلیک سٹارز پر اٹیک کرچکے تھے۔۔۔
حازم اور شاہ ویز کو بھی کہیں نہ کہیں لگ رہا تھا کہ مہروسہ کو مارنے کے پیچھے حمدان نہیں بلکہ اُنہیں کے دشمنوں کا ہاتھ تھا۔۔۔
یا یہ بھی پاسبل تھا کہ حمدان بھی اُن سب کے ساتھ ملا ہوا ہو۔۔۔ مہروسہ کی وجہ سے وہ حمدان کے خلاف بھی کچھ نہیں کر پارہے تھے۔۔۔
حازم کے بنائے گئے پلان کے مطابق عمل کرتے حبہ نے اُس کے آدمیوں کو دوسری جیل میں لے جانے کے بہانے راستے میں ہی فرار کروا دیا تھا۔۔۔۔
اور ایک دوسری جگہ ریڈ کرتے اُن کے گینگ لیڈر حازم سالار کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔۔۔۔ حازم کا اصل چہرا ابھی بھی سامنے نہیں آسکا تھا۔۔۔۔
حازم نے داڑھی اور مونچوں کی مدد سے اپنے چہرے کی اصل شناخت چھپا لی تھی۔۔۔۔ جس بات پر حبہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔۔۔۔
حازم کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگاتے اُس کا دل کسی انہونی کے خوف سے لرز اُٹھا تھا۔۔۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ بہت غلط کررہی ہے۔۔۔
حازم نے اُس سے یہی شرط رکھی تھی کہ گرفتاری تب ہی دے گا۔۔۔ جب حبہ اُسے گرفتار کرنے خود آئے گی۔۔۔۔
حازم کو گرفتار کرتے حبہ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔۔۔۔ جو نوٹ کرتے حازم نے اُس کی جانب مسکرا کر دیکھتے آنکھ دبائی تھی۔۔۔
"تمہارے شوہر کو نقصان پہنچانے والا کوئی مائی کا لال ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔۔ اِس لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ جلد ہی ملاقات ہوگی سویٹ ہارٹ۔۔۔۔"
حازم اُس کے کانوں میں سرگوشیانہ لہجے میں بولتا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔
بلیک سٹار کی گرفتاری کا سن کر پورے سوشل میڈیا پر ہلچل مچ چکی تھی۔۔۔۔ لوگ اُس کی شناخت جاننا چاہتے تھے۔۔۔ اُسے دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔۔ اور کچھ سیاسی پارٹیز کے کارندے یہی چاہتے تھے کہ اِس بلیک سٹار کو سرعام پھانسی لگا دی جائے۔۔۔
یہ سب سنتے حبہ کا دل ہول رہا تھا۔۔۔۔
اُس کا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اُس نے ٹھیک کیا ہے یا غلط۔۔۔۔
مگر اُس کی چھٹی حس اُسے شدید غلط ہونے کا الارم دے رہی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"حمدان سر وہ سامنے کمرہ ہے مہرو میم کا۔۔۔ اب میری زندگی کی ڈور آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ "
جنید حمدان کو بلیک ہاؤس تک لے آیا تھا۔۔۔ اندر سے اُس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ حمدان کو یہاں لاکر اُس نے ٹھیک کیا ہے یا نہیں۔۔۔ مگر اُسے حمدان کی آنکھوں میں آج سچائی نظر آئی تھی۔۔۔۔
اور مہروسہ کے لیے محبت بھی دکھی تھی۔۔۔ اِس لیے آج پہلی بار اُس نے اتنا بڑا رسک لیا تھا۔۔۔
حمدان خود کو اِس وقت دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت انسان تصور کررہا تھا۔۔۔ جس کو اتنی بڑی غلطی کرنے کے بعد بھی ازالہ کرنے کے لیے دوسرا موقع دے دیا گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کے پاس شاہ ویز اور حازم نے فل ٹائم کے لیے نرسز کا انتظام کر رکھا تھا۔۔ تاکہ اُسے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرسکے۔۔۔ مہروسہ کی ول پاور کافی سٹرانگ تھی۔۔۔ وہ جلدی جلدی ریکور کررہی تھی۔۔ اپنے زخموں کو۔۔۔
لیکن اُس کے دل و دماغ پر چھائی پژمردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کی تکلیف میں اضافہ کررہی تھی۔۔۔ وہ جب بھی آنکھیں بند کرتی تھی۔۔۔ اُس سنگدل ایس پی کا تصور اُس کے دل و دماغ پر چھا جاتا تھا۔۔۔
وہ اپنے اُس جانِ ستمگر کو بھول جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس معاملے میں بالکل بے بس ہوچکی تھی۔۔۔
اِس وقت بھی اپنے دماغ کو تھوڑا سا ریلیکس کرنے کے لیے اُس نے بک پڑھنے کا ارادہ کیا تھا۔۔۔
لیکن اِس شے میں بھی وہ پوری طرح سے ناکام ہوچکی تھی۔۔۔
جس کے بعد خود سے ہی زچ ہوتی وہ بک اپنے چہرے پر رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
"آئی ہیٹ یو ایس پی حمدان صدیقی آئی رئیلی ہیٹ یو۔۔۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو۔۔۔۔ "
مہروسہ روتے ہوئے با آواز بلند شکوہ کناں لہجے میں بولی تھی۔۔۔
اِس بات سے انجان کے جس سے وہ مخاطب تھی اُس تک یہ الفاظ باآسانی پہنچ چکے تھے۔۔۔
"بٹ آئی لو یو مائی بیوٹی فل گینگسٹر۔۔۔۔۔ "
حمدان کا بھاری لہجہ روم کی خاموش فضا میں گونجتا مہروسہ کے کانوں سے جاٹکرایا تھا۔۔
اُس نے اپنے چہرے سے بک ہٹاتے جھٹکے سے آواز کی سمت دیکھا تھا۔۔۔ اپنی شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ سامنے کھڑے ایس پی حمدان کو دیکھ مہروسہ کو روم کی ہر شے اپنی نگاہوں کے سامنے گھومتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
مہروسہ نے ایکدم اپنی جگہ سے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔ جب درد کے مارے اُس کے ہونٹوں سے کراہ نکلی تھی۔۔۔ اور وہ واپس تکیے پر جاگری تھی۔۔۔
تکلیف کے ساتھ ساتھ سامنے کھڑے دشمنِ جاں کو دیکھ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔
حمدان تیزی سے اُس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
"وہیں رک جائیں ایس پی صاحب۔۔۔ میرے قریب آنے کی کوشش مت کیجئے گا۔۔۔ ورنہ خود کو یہ مار کر اپنی جان لے لوں گی۔۔۔۔ "
حمدان کو سامنے دیکھ مہروسہ کو اپنی ایک ایک اذیت یاد آگئی تھی۔۔۔ وہ اذیت اور گریہ زاری سے سوجی لال آنکھوں سے اُسے دیکھتی سائیڈ ٹیبل پر فروٹ کے ساتھ رکھی چھری اُٹھا کر اپنے پیٹ کی جانب لے جاتی اُسے خود سے دور رہنے کی دھمکی دے گئی تھی۔۔۔
اُس کی آنکھوں سے پھوٹتے شرارے دیکھ حمدان اپنے قدم وہیں روک گیا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا غصے میں آکر یہ جذباتی لڑکی کوئی سنگین قدم اُٹھا سکتی تھی۔۔۔
"تمہیں لگتا ہے تم یہ سب کرکے مجھے اپنے قریب آنے سے روک لو گی۔۔۔ تم میری ضد سے واقف ہو۔۔۔ اور میری شدت پسندی سے بھی۔۔۔۔"
حمدان اُس کی آنکھوں سے بہتے آنسو بے چینی سے دیکھتا سختی سے مُٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔ میں اب کبھی آپ کو خود کے قریب نہیں آنے دوں گی۔۔۔ اُس دن آپ کی اپنے لیے نفرت دیکھ میں میرے دل میں موجود آپ کی محبت بھی ختم ہوچکی ہے۔۔۔۔ اب میں آپ سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی ۔۔ ٹھیک ہوتے ہی سب سے پہلا کام آپ سے طلاق لینے والا ہی کروں گی۔۔۔۔۔"
مہروسہ آج پہلی بار حمدان کے سامنے یوں بول رہی تھی۔۔۔ جو دیکھ حمدان اندازہ لگا پاریا تھا کہ یہ پیاری سی لڑکی کتنی اذیت میں تھی۔۔۔
حمدان اِس وقت اُسے اپنے سامنے دیکھ اتنا خوش تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے یہ فراموش کرگیا تھا کہ اِس لڑکی کو اُس نے اب تک کتنی اذیت دی تھی۔۔۔
لیکن مہروسہ کی آنکھوں سے قطار در قطار بہتے آنسو دیکھ اُسے اپنا ہر ستم یاد آنے لگ تھا۔۔۔۔
"پلاننگ بہت اچھی کی ہے تم نے۔۔۔ مگر افسوس کہ یہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گی۔۔۔۔ "
حمدان دھیرے دھیرے اُس کی جانب بڑھنے لگا تھا۔۔۔ مہروسہ اُسے سامنے دیکھ اِس وقت اتنی عجیب کیفیت کا شکار تھی کہ اُس کی یہ پیش قدمی نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔۔
"آپ پلیز چلیں جائیں یہاں سے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔ "
حمدان اِس وقت فل سیاہ پینٹ شرٹ میں ملبوس سر پر سیاہ سکارف باندھے بالکل اُن کے گینگ کے حلیے میں کھڑا اُس کا دل آج بھی پوری شدت سے دھڑکائے جارہا تھا۔۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی حمدان اُس سے دور جائے۔۔
"اوکے تم خود کو مزید تکلیف مت دو۔۔۔ میں جارہا ہوں۔۔۔ اگر میرے سامنے آنے سے تمہیں اذیت ہوتی ہے تو میں اب کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گا۔۔۔"
حمدان اُسے آنسوؤں میں بھیگتا دیکھ واپس جانے کے لیے پلٹا تھا۔۔۔ جبکہ مہروسہ جو غصے میں اُسے دور جانے کا کہہ رہی تھی۔۔۔ مگر دل سے وہ اُس سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔۔ اُسے ایک بار پھر سنگدلی کی انتہا کرکے یوں واپس جاتے دیکھ وہ اپنے آنسوؤں کے ریلے پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔۔۔
اور چہرا دونوں ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔ اُسے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تھی۔۔۔ جسے کے ساتھ ہی اُسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
"آپ نہ پہلے کبھی مجھ سمجھ پائے ہیں نہ کبھی سمجھ سکیں گے۔۔۔۔ "
مہروسہ نے چہرے سے ہاتھ ہٹاتے روتی آنکھوں کے ساتھ خالی کمرے کو دیکھا تھا۔۔۔ کچھ دیر پہلے جس جگہ پر حمدان کھڑا تھا وہ جگہ اپنا ویران پڑی تھی بالکل اُس کے دل کی طرح۔۔۔
"پہلے مجھے بھی یہی لگتا تھا۔۔۔ مگر اب لگتا ہے کہ مجھ سے بہتر تمہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔۔"
اپنے کان کے قریب سے سنائی دیتی سرگوشی اور گرم سانسوں کے لمس پر مہروسہ نے فوراً سے گردن موڑ کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
حمدان کہیں نہیں گیا تھا۔۔۔ وہ بیڈ پر اُس کے انتہائی قریب بیٹھا اُس کی جھیل سی سیاہ آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو تکے گیا تھا۔۔۔
"آپ۔۔۔"
مہروسہ نے اُسے اپنے اتنے قریب بیٹھے دیکھ دور کھسکنا چاہا تھا۔۔۔
جب حمدان اُس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا اُسے ایسا کرنے سے روک گیا تھا۔۔۔۔
"پہلی بار ایسی روتی بسورتی گینگسٹر دیکھی ہے۔۔۔ جو بات بعد میں کرتی ہے۔۔۔ آنسو پہلے گرتے ہیں۔۔۔ ویسے یہ روپ لگتا ہے صرف میرے لیے ہی مختص ہے باقی لوگوں کو تو اپنی دہشت سے کافی خوفزدہ کررکھا ہے تم نے۔۔۔۔"
حمدان اُس کے ہاتھ کی پشت پر لب رکھتا مہروسہ کی دھڑکنیں منتشر کر گیا تھا۔۔۔
"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں۔۔۔ کہ بنا مجھ سے کسی بات کی وضاحت مانگے۔۔۔ پورا سچ سنیں مجھے سزا سنا دیں گے۔۔۔"
مہروسہ اُس سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر اِس دشمنِ جاں کو سامنے دیکھ شکوے کے ساتھ ساتھ اُس کے ہونٹوں سے سسکی نکلی تھی۔۔۔۔
"اور مجھے بھی نہیں لگا تھا کہ تم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہو گی۔۔۔ کہ اپنے لوگوں کو۔۔ اپنے ساتھی بلیک سٹارز کو چھوڑ کر مجھ سے خطرا ہونے کے باوجود میرے پاس رہنے کو ترجیح دو گی۔۔۔ میرے اتنے بُرے رویے کے بعد اتنی محبت کیسے کر لیتی ہو تم مجھ سے۔۔۔ کبھی غصہ نہیں آیا تھا مجھ پر۔۔۔۔ کبھی نفرت محسوس نہیں ہوئی۔۔۔ "
حمدان اُس کے زخموں کا خیال کرتے نہایت ہی نرمی سے اُس کے گرد بانہوں کا حصار قائم کرتے اُسے اپنے قریب کرگیا تھا۔۔۔
مہروسہ میں اتنی ہمت نہیں تھی اِس وقت کے اُس کا حصار توڑ سکتی۔۔۔۔
"اب نہیں کرتی آپ سےمحبت۔۔۔۔ میرے دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں آپ میرے۔۔۔ پلیز دور رہے مجھ سے۔۔۔ آپ میری بے بسی کا فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔۔۔"
مہروسہ اُس کی جانب دیکھنے سے گریزاں تھی۔۔ جیسے اِس ستمگر کی جانب دیکھ کر اپنے کمزور پڑ جانے کا خوف ہو۔۔۔۔
"اچھا تمہاری یہ دھڑکنیں تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں۔۔۔"
حمدان اُس کا چہرا اپنی جانب موڑتے دلفریب لہجے میں بولا تھا۔۔۔
"تم مجھ سے محبت کی دعوے دار تو ہو۔۔۔ مگر مجھے سمجھ نہیں پائی کہ میں کیسا انسان ہوں۔۔۔ مجھے حیرت ہورہی ہی کہ تم نے سوچ بھی کیسے لیا میں تمہیں مارنے کا پلان بنا سکتا ہوں۔۔۔ کیا زرا سا یقین بھی نہیں کرپائی تم مجھ پر۔۔۔۔"
حمدان کی بات پر مہروسہ نے کرنٹ کھاتے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
"کک کیا مطلب۔۔۔۔۔"
مہروسہ کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں رہا تھا۔۔۔۔ جب سے ہوش میں آئی تھی اُس نے اپنے رب سے صرف ایک ہی دعا مانگی تھی۔۔۔ مگر اُسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا پروردگار اُس کی دعا کو یوں قبولیت بخش دے گا۔۔۔ اِس کا مطلب اُس کا دل اِس شخص کے حق میں ٹھیک گواہی دے رہا تھا اُسے۔۔۔۔
حمدان نے اُسے ایسے ہی ساتھ لگائے اُس دن کا سارا احوال کہہ سنایا تھا۔۔ کہ اُس پر گولی چلانے والا وہ نہیں مریم تھی۔۔۔
"آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟"
مہروسہ کو لگا تھا اُس کے دل سے نجانے کتنا بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔۔۔۔
اُسے حمدان کے منہ سے نکلی ہر بات پر پورا یقین تھا۔۔۔ وہ اُس کے کہے الفاظ پر فوراً ایمان لے آئی تھی۔۔۔
جبکہ اُس کی اتنی بے لوث محبت دیکھ حمدان کا دل شرمندگی کی مزید اتھا گہرائیوں میں پہنچ گیا تھا۔۔۔۔۔
"تم میری زندگی کی ہر حقیقت سے واقف ہو۔۔۔ میں نے اپنے سگے بھائی سے دھوکا کھایا تھا۔۔۔ جس کے بعد لوگوں پر اعتبار کرنا میرے لیے ہمیشہ سے بہت مشکل رہا تھا۔۔۔ اور جس طرح تم جھوٹ کی بنا پر میری زندگی میں شامل ہوئی۔۔۔ اُس بات نے میرا رہا سہا یقین بھی ختم کردیا تھا۔۔۔ میں جانتا ہوں میرا رویہ ہمیشہ سے تمہارے لیے بہت ہتک آمیز رہا۔۔۔ جس کے لیے میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔۔۔ آج تک زندگی کے کسی موڑ پر نہ میں کبھی ہارا تھا نہ مجھے ہرانے والا کوئی ملا۔۔۔ مگر تم نے پہلی ملاقات میں ہی اپنی زہانت کا استعمال کرتے مجھے بہت بُری طرح شکست دی تھی۔۔۔
جسے میں برداشت نہیں کر پایا۔۔۔ میں تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔۔۔ تمہیں اور تمہارے گینگ کو ختم کردینا چاہتا تھا۔۔۔ جو کام آسان نہیں تھا۔۔۔ لیکن تم جس طرح اچانک میرے گھر میں داخل ہوئی۔۔۔ اور آہستہ آہستہ میرے گھر کے ساتھ ساتھ میرے دل پر بھی قابض ہونے لگی۔۔۔ میرے پاس کئی مواقعے آئے جس میں، میں تمہیں آرام سے ختم کرسکتا تھا۔۔۔
مگر نجانے ہر بار میرا دل بیچ میں آکر مجھے ایسا کرنے سے کیوں روک دیتا تھا۔۔۔ پہلے پہل تو میں خود پر بہت غصہ ہونے لگا اںس بار پر۔۔۔ مگر پھر جیسے ہی مجھے تمہارے لیے اپنی فیلنگز کا احساس ہوا کتنے ہی دن میں اِس بات پر یقین نہیں کر پایا۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ تم سے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔۔ لیکن مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا یہ دوری مجھے اِس قدر تڑپائے گی۔۔۔
پہلے خود دور رہا اور پھر میری قسمت نے مجھے تم سے دور کردیا۔۔۔۔ تمہاری اپنے لیے دیوانگی دیکھ میں خود کو تم سے محبت کرنے سے روک نہیں پایا۔۔۔ اور اب میری دیوانگی تم برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔ میں اِن گزرے دنوں میں تمہارے لیے کتنا تڑپا ہوں میں بتا نہیں سکتا۔۔۔
یہ خیال ہی میری سانسیں چھین لیتا تھا کہ تم اب میری زندگی میں نہیں رہی۔۔۔ لیکن میرا دل اِس بات پر یقین نہیں کر پایا۔۔۔ اور آج تمہیں اپنے سامنے دیکھ مجھے اپنے یقین کی جیت ہوتی محسوس ہورہی ہے۔۔۔
مریم کو میں نے اُس وقت سہارا دیا جب وہ بالکل بے سہارا اور کمزور تھی۔۔۔ اُس کے پاس کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔۔
مگر تمہیں نقصان پہنچا کر اُس نے جو گناہ کیا ہے اُس کا بہت جلد عبرت ناک انجام بھگتے گی وہ میرے ہاتھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حمدان اپنی بات مکمل کرتا اُس کی جانب جھکتے اُس کی پیشانی پر عقیدت بھرے انداز میں اپنے لب رکھ گیا تھا۔۔۔
مہروسہ کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔ مگر یہ آنسو تکلیف کے نہیں تشکر کے تھے۔۔۔
اُس کے رب نے اُس کی تمام اذیتوں کا مداوا کرنے کا فیصلہ کردیا تھا۔۔۔۔
"کیا آپ اب بھی بلیک سٹارز کو بُرا اور اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔۔؟؟"
مہروسہ کا دل یہ سوال پوچھتے بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔۔۔ اک انجانا سا خوف محسوس ہوا تھا کہ اگر حمدان اب بھی اُس کے ساتھیوں سے نفرت کرتا ہوا تو۔۔۔
"میں تم لوگوں کو اپنا دشمن کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا۔۔۔ میری جنگ ہمیشہ سے اقبال کیانی کے خلاف تھی۔۔۔ مجھے یہی لگتا رہا کہ تم میرے قریب صرف اِس لیے آرہی ہو کیونکہ تم میرے پاس موجود اقبال کیانی کے خلاف ثبوتوں کو ختم کرکے اُسے بچانا چاہتی ہو۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو میں تمہیں وہاں تمہیں کبھی اُن ثبوتوں تک رسائی حاصل نہ کرنے دیتا۔۔۔ اب ہمارا دشمن ایک ہے تو ہم بھی ایک ہوکر کام کرسکتے ہیں۔۔۔"
حمدان اُس کے خوشی سے کھلتے چہرے کو دیکھ مسکرا دیا تھا۔۔۔
اُس کے لیے اب اِس پیاری سی لڑکی کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے دیئے ہر درد کا مداوا کرنے کا عزم رکھتا تھا۔۔۔
حمدان مہروسہ کی دلکش مسکراہٹ دیکھ اُس کی جانب جھکا تھا اور اُس کی مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں سے چن گیا تھا۔۔۔
"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
مہروسہ نے اُس کے سینے پر دباؤ ڈالتے گھبرائی سی آواز میں کہا تھا۔۔۔ کیونکہ حمدان کی بولتی جان لیوا قربت پر مہروسہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
"اُسی کا ہی تو خیال کیا ہوا ہے ابھی تک۔۔۔"
حمدان کی بیچارگی دیکھ مہروسہ اپنی بے ساختہ اُمڈ آنے والی کھلکھلاہٹ نہیں روک پائی تھی۔۔۔ مگر حمدان کے والہانہ محبت بھرے خطرناک تیور دیکھ وہ فوراً ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی تھی۔۔
جبکہ اُس کی یہ معصوم حرکت دیکھ حمدان اپنا قہقہ نہیں روک پایا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"یہ ہے شاہ ویز سکندر بلیک سٹارز کا بانی۔۔۔ شہباز آفندی کی کزن حمیرا کا بیٹا ہے یہ۔۔۔ جس کے باپ سکندر شاہ کی جائیداد چھین کر اُس کے پورے خاندان کو زندہ جلا دیا تھا شہباز آفندی اور اُس کے بھائیوں نے۔۔۔ لیکن یہ قسمت سے بچ گیا تھا۔۔۔
اور اُس دن کے بعد سے یہ اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیے ارادے سے شہباز آفندی اور اُس کے پورے خاندان کے پیچھے ایسا پڑا کہ اُنہیں تباہ کرکے ہی دم لیا۔۔۔ اِس کے نیچے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کام کررہے ہیں۔۔۔ اِس کے ملک بھر میں کئی خفیہ ٹھکانے ہیں مگر اِس کی رہائش گاہ بلیک ہاؤس ہے۔۔۔ وہیں اِس کے لوگوں کو ٹریننگ سی جاتی ہے۔۔۔۔
پراپر فوج تیار کی ہوئی ہے بلیک سٹارز نے۔۔۔ لیکن ایک سب اہم اور چونکا دینے والی بات کہ اِن کا نام آج تک کبھی کسی ایسے جرائم میں نہیں آیا جو غریب یا مظلوم لوگوں کے خلاف ہو۔۔۔
بلکہ بلیک سٹارز کی توسط سے کئی گھر آباد ہیں۔۔۔ اُن کے راشن پانی کی ساری زمہ دادی بلیک سٹارز نبھا رہا ہے۔۔۔۔ بہت سے علاقے تو ایسے ہیں جہاں مصیبت آجانے پر پولیس والوں کے بجائے اب بلیک سٹارز کی مدد لی جاتی ہے۔۔۔ وہ پولیس سے بہت پہلے پہنچ منٹوں میں لوگوں کے مسئلے حل کردیتے ہیں۔۔۔
اب آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے اِن بلیک سٹارز کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔ وہ اب اِنہیں اپنا خیر خواہ سمجھنے لگے ہیں۔۔۔ جو بات ہم سب کے لیے بہت خطرے کی بات ہے۔۔۔ کیونکہ عوام ہی اُن کی سپورٹ میں ہوگی تو اُن کی کہیں ہر بات باآسانی مانے گی بھی سہی۔۔۔
شہباز آفندی کی بھتیجی پریسا آفندی بیوی ہے اِس بلیک سٹار کی۔۔ یہ وہی لڑکی ہے جسے فیصل بخشی حاصل کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔"
اقبال کیانی کے سامنے اپنا لیپ ٹاپ کھولے وہ سامنے چلتے پروجیکڑ پر آتی تصویروں کے ساتھ اُسے ساری تفصیل بتا رہا تھا۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں قاسم کا چھوٹا بھائی بابر تھا۔۔۔ وہی قاسم جسے حازم نے اُس کی غداری کی وجہ سے مار دیا تھا۔۔۔
وہ اب اپنے بھائی کا بدلہ بلیک سٹارز کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔۔۔ اِس لیے اُس نے قاسم کی دی ساری معلومات اقبال کیانی کے آگے کھول کر رکھ دی تھی۔۔ جبکہ اندر سے اُس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔۔
کیونکہ بلیک سٹارز سے دشمنی مول لینے والے کبھی بچ نہں پائے تھے۔۔۔۔
اقبال کیانی جیسے جیسے بلیک سٹارز کے بارے میں سن رہا تھا۔۔ ویسے ہی اُس کا چہرا زرد پڑتا جارہا تھا۔۔۔
جبکہ مُٹھیاں سختی سے بھینچ لی تھیں۔
"یہ ہے میر حازم سالار۔۔ بلیک سٹار نمبر 2 شاہ ویز سکندر کا جگری دوست ہے۔۔۔ جس کی دہشت کی کہانیاں بھی بہت سننے کو ملی ہیں۔ یہ اپنے دشمنوں کے مینٹلی طور پر اتنا کمزور کردیتا ہے کہ وہ خود چل کر اِس کے قدموں میں آن گرتا ہے۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اِس کے بعد آتی ہے تیسری بلیک سٹار مہروسہ کنول۔۔۔۔ جو اِن دونوں کی طرح بھرپور طاقت ور اور زہانت سے مالا مال ہے۔۔۔ اِس کا شکار کبھی اِس سے بچ نہیں پایا۔۔۔ جس کام میں گھستی ہے اُسے پورا کرکے رہتی ہے۔۔۔ اِسے چیلنج لینا بہت پسند ہے۔۔۔
یہ تینوں کون ہیں آج تک اِس بات کو سراغ کوئی نہیں لگا پایا۔۔۔ کیونکہ اِن کے لوگوں نے کبھی اِن کے ساتھ غداری نہیں کی۔۔۔ یہ اپنے لوگوں پر جان دیتے ہیں۔۔ لیکن شاید میرے بھائی کی قسمت ہی خراب تھی۔۔۔ یا شاید اس کی موت ہی ایسی لکھی تھی۔۔۔ "
اپنے بھائی کا ذکر کرتے بابر کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہوئے تھے۔۔۔
اقبال کیانی اب اِسی شے کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
"سر ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔۔۔"
اُسی لمحے اقبال کیانی کا خاص آدمی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
"ایک ایس پی حبہ ایک بلیک سٹار کو گرفتار کر چکی ہیں۔۔۔۔ اُسے ابھی کچھ دیر پہلے سینٹرل جیل میں منتقل کیا گیا ہے۔۔۔ اب آگے اُس کو لے کر ہمارے لیے کیا حکم ہے۔۔۔؟"
وہ سب ہی بہت زیادہ ایکسائیٹڈ تھے۔۔۔ آہستہ آہستہ ہر شے اُن کی فیور میں آنے لگی تھی۔۔۔۔
"مروا دو اُسے۔۔۔۔ شاہ ویز سکندر کا ایک بازو ٹوٹ چکا ہے۔۔۔ اب اِس کے بھی مر جانے سے وہ بالکل تنہا رہ جائے گا۔۔۔۔ پھر میں اُس سے بدلہ لوں گا۔۔۔ ہر اُس عمل کا جو اتنے سال میرے خلاف سازشیں کرکے اُس نے مجھے ذلیل کیا ہے۔۔۔ ہر بار میرا نقصان ہوا اُس کی وجہ سے۔۔۔ اگر وہ تینوں نہ ہوتے تو آج میں اقتدار کے کئی سال گزار چکا ہوتا۔۔۔۔ اِن لوگوں کا اب خاتمہ ہونا ہی ہوگا۔۔۔۔"
اقبال کیانی کے چہرے سے خباثت ٹپک رہی تھی۔۔۔ وہ کتنا گھٹیا لیڈر تھا یہ بات بہت سے لوگ پہلے سے جانتے تھے۔۔۔ اُس کے ہاتھ اقتدار آتے ہی اُس نے سب کچھ تباہ کردینا تھا۔۔۔۔
"جو حکم سر۔۔۔ اُسے صرف کھانے کے ذریعے ہی زہر دیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ بہت جلد آپ کو یہ خوش خبری بھی مل جائے گی۔۔۔"
وہ لوگ سرخم کرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔
"اُن کو مارنا اتنا آسان نہیں ہے سر۔۔۔۔ جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔۔۔ "
بابر اُن لوگوں کی خوشی دیکھ طنزیا مسکرایا تھا۔۔۔
"میں رُکا ہوا تھا کہ میرے پاس اُن کی شناخت نہیں تھی۔۔۔ اب میں اُنہیں کتے کی موت ماروں گا۔۔۔۔ کہ دوبارہ کوئی یوں ہم سے ٹکرانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔۔۔۔"
اقبال کیانی سگار سلگاتا اُسے اپنی انگوٹھیوں بھری اُنگلیوں میں دبا گیا تھا۔۔۔۔
اُس کے پاس ابھی اُس کے دو بہت اہم مہرے موجود تھے۔۔۔ جسے اب اُسے استعمال کرنا تھا۔۔۔ اور اُن مہروں گا نام تھا ایس پی حمدان صدیقی اور ایس پی حبہ امتشال۔۔۔۔
جن کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ اُن کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا تھا۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم کی گرفتاری کی خبر ہر طرف پھیل چکی تھی۔۔۔ شاہ ویز اور مہروسہ جانتے تھے حازم نے یہ قدم اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لیے اُٹھایا تھا۔۔۔
مگر وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ قاسم کی غداری کے بعد اقبال کیانی مزید مضبوط ہوچکا تھا۔۔۔ اب اقبال کیانی اور اُس کی ٹیم سے صرف حازم کو ہی نہیں حبہ کو بھی خطرہ تھا۔۔۔
اُنہیں بس اب کسی بھی طرح حازم کو وہاں سے نکالنا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کے زخم ابھی ٹھیک سے بھرے نہیں تھے مگر وہ اُٹھ کر چلنے پھرنے کے قابل ہوچکی تھی۔۔۔
اِس وقت اُن سب پر خطرہ منڈلا رہا تھا۔۔۔ مہروسہ ایسے وقت میں اپنے بلیک سٹارز اور اپنے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔۔۔
اُن کے گینگ کا سب سے بڑا مشن اب اختتام کی منزلیں طے کر رہا تھا۔۔۔ جس کے بعد یا تو اقبال کیانی اور اُس کی پوری پارٹی مٹنے والی تھی۔۔۔ یا پھر بلیک سٹارز کا نام و نشان ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والا تھا۔۔۔
مہروسہ جانتی حمدان اب اُن کے ساتھ تھا۔۔۔ حمدان کی جنگ بھی ہمیشہ سے اقبال کیانی کے خلاف رہی تھی۔۔۔ کیونکہ اُس کے بھائی کی بربادی کا زمہ دار اقبال کیانی ہی تھا۔۔۔
اور مریم نے بھی اقبال کیانی کے کہنے پر ہی اُس کی بیوی کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
اقبال کیانی اور اُس کی پارٹی کو ختم کرنا مشکل ترین کام تھا۔۔۔ مگر وہ سب ایک ہوکر ایک مضبوط چٹان بن کر یہ مشکل بھی پار کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔۔۔
"ایس پی حبہ۔۔۔۔ یہ کیا بے وقوفی کی ہے آپ نے۔۔۔۔ آپ جانتی بھی ہیں کہ آپ نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے شوہر کو کتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔۔۔۔ پلیز وہ غلطی مت کریں جو میں ایک بار کر چکا ہوں۔۔۔ ضروری نہیں ہے ہر ایک کو میری طرح دوسرا موقع ملے۔۔۔ میں ابھی تک اپنے گلٹ سے نہیں نکل پارہا۔۔۔۔ میں نے یہ وردی پہنتے حلف اُٹھایا تھا کہ ہمیشہ ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنے ملک کی خدمت کریں گے۔۔۔۔ جس میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہمیں اپنے کرپٹڈ افسران کی جانب سے دیئے جانے والے ہر اچھے اور بُرے آرڈر کو اندھا دھند فالو کرنا ہے۔۔۔
کمشنر سر اِس وقت جس بھی مجبوری کے تحت ہی سہی مگر اُن لوگوں کے زیرِ سایہ آچکے ہیں۔۔۔
لیکن ہم اب یہ نہیں کرسکتے۔۔۔ چاہے اُس کے لیے ہم سے ہماری وردیاں ہی کیوں نہ چھین لی جائیں۔۔۔ ہمیں آج اپنے محکمے کے خلاف جاکر اپنے ملک کی عوام کی خاطر کھڑا ہونا ہوگا۔۔۔
میں بھی آج تک بلیک سٹارز کو غلط سمجھتا آیا ہوں۔۔ مگر اب مجھے سمجھ آئی ہے کہ وہ بھی ہماری طرح ہی ہماری عوام کے لیے کام کرتے آئے ہیں۔۔۔ اُنہیں ظالم ہونے کا خطاب تو دیا گیا مگر وہ تو مظلوم لوگوں کے خیر خواہ نکلے۔۔۔ وہ بنا وردی کے آج تک وہ کام کرتے آئے ہیں جو ہمارا فرض تھا۔۔۔ مگر ہماری وردی نے ہی ہمارے آگے حد بندیاں قائم کرکے ہمیں پوری طرح سے اپنے لوگوں کے لیے کام نہیں کرنے دیا۔۔۔ "
حمدان حبہ کے آفس آتے اُس پر پھٹ پڑا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا حبہ کتنی بڑی غلطی کر چکی ہے حازم کو جیل میں ڈال کر۔۔۔
جس کا انجام بہت بُرا ہونے والا تھا۔۔۔
حمدان کی باتیں سنتے حبہ کو محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے اُس کا دل پیروں تلے مسل دیا ہو۔۔۔۔
اگر واقعی حازم کو کچھ ہوجاتا تو کیا وہ خود کو معاف کر پاتی۔۔۔۔
"حازم قصور وار ہے۔۔۔ اُس نے میرے بابا کو قتل کیا ہے۔۔۔۔ اُنہیں آگ میں زندہ جلایا ہے۔۔۔ آپ بلیک سٹارز کی سائیڈ لے رہے ہیں کیونکہ آپ کی مہروسہ نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ اُس کے ہاتھ بالکل صاف ستھرے ہیں۔۔۔ مگر میرے شوہر نے میرے باپ کو بہت بے دردی سے مارا ہے۔۔۔ پھر میں کیسے اُس کا ساتھ دوں۔۔۔ نجانے وہ اِس کے علاوہ بھی کتنے بے گناہ لوگوں کی جان لے چکا ہوگا۔۔۔۔"
حبہ بہت اذیت سے بولتی حمدان کے سامنے اپنی زندگی کا کڑوا سچ رکھ گئی تھی۔۔۔
"محبت کرتی ہو تم حازم سے۔۔۔"
حمدان کے سوال پر حبہ نے فوراً نگاہیں اُٹھا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔
"اگر محبت کرتی ہو تو اعتبار بھی ہونا چاہئے تھا نا۔۔۔ ہم پولیس والے دن رات مجرموں کو پکڑتے اُن پر تشدت کرتے اپنے احساس و جذبات بھی کھو دیتے ہیں۔ بالکل بے حس اور سنگدل بن جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں ہر انسان مشکوک ہی لگنے لگتا ہے۔۔۔۔ چاہے وہ ہمیں کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو۔۔۔ اور ہماری زندگی میں سب سے اونچے مقام پر ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔
کیا آپ نے ایک بار بھی یہ سوچا کہ اگر حازم غلط ہوتا تو وہ اپنے منہ سے اپنے جرم کا اقرار کیوں کرتا۔۔۔ وہ تو آپ کو اپنے قریب لانا چاہتا تھا نا۔۔۔ پھر آخر وہ سچ آپ کے سامنے کیوں لاتا جس کے بارے میں آپ کو زرا سا علم بھی نہیں تھا۔۔۔ آپ تو یہی سمجھی بیٹھی تھیں نا کہ آپ کے بابا کی موت ایک حادثے کے تحت ہی ہوئی ہے۔۔۔۔
حازم کے بتانے کے بعد ہی آپ کے سامنے سچائی آئی۔۔۔ وہ غلط ہوتا تو کبھی بھی یہ سچ آپ کے سامنے نہیں لاتا۔۔۔۔ آپ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ اُس کی نیت بُری نہیں تھی۔۔۔۔ جس انسان کو وہ اپنے سگے باپ کی طرح مانتا تھا آخر اُسے اتنی بے دردی سے مارنے کی نوبت کیوں آئی۔۔۔
میں اِس کی اصل وجہ جانتا ہوں مگر آپ کو نہیں بتاؤں گا۔۔۔ مگر بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ حازم سالار کی دو بڑی بہنیں بھی تھیں۔۔۔ جو آپ کے گھر سے ہی اچانک غائب ہوگئی تھیں۔۔۔
کیا کبھی آپ نے اُن کے حوالے سے کوئی انویسٹی گیشن کی ہے۔۔۔ وہ کہاں گئیں۔۔۔ اور کیا حازم سالار جیسے پاور فل بندے نے اُنہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔۔۔ کیا پتا اُس کی بہنوں کی گمشدگی کا تعلق آپ کے بابا کی موت کے ساتھ نکلتا ہو۔۔۔۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔ میں اِس سے زیادہ آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔۔۔
لیکن آپ حازم سالار کے ساتھ جو کررہی ہیں وہ آپ کی آگے کی پوری زندگی کے لیے پچھتاوا بن سکتا ہے۔۔۔ "
حمدان اپنی بات مکمل کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
جبکہ حبہ نجانے کتنے ہی لمحے اپنی جگہ سن سی کھڑی رہی تھی۔۔۔
اُس کے دل میں درد سا اُٹھا تھا۔۔
کیا وہ واقعی حازم کے ساتھ غلط کرچکی تھی۔۔۔ ؟
"میم ایک بہت بُری خبر ہے۔۔۔ "
اُسی وقت ایک پولیس اہلکار بھاگتا ہوا اندر آیا تھا۔۔۔
"بلیک سٹار کو کھانے میں کسی نے زہر دے دی ہے۔۔۔۔ اُسے فوری طور پر ہاسپٹل لے جانے کی کوشش کی گئی مگر وہ زہر کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا ہے۔۔۔"
یہ الفاظ نہیں تھے پگھلا ہوا سیسہ تھا جو حبہ کے کانوں میں اُنڈیلا گیا تھا۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حازم کی موت کی خبر ہر نیوز چینل، سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگی تھی۔۔
جس سے بہت سے لوگ خوش تھے۔۔۔ جبکہ بہت سارے غم میں ڈوب چکے تھے۔۔۔ اُن سب کو ابھی تک یہی کہا گیا تھا کہ مہروسہ کی بھی ڈیتھ ہوچکی ہے۔۔۔
جس کی وجہ سے سب لوگ مزید ٹینشن میں آچکے تھے۔۔۔ اپنے اُوپر بیٹھے ضمیر فروش اقتدار کے بھوکے لیڈرز سے نجات اُنہیں صرف بلیک سٹارز کی صورت میں ہی نظر آرہی تھی۔۔۔
مگر بلیک سٹارز کو ایک ایک کرکے ختم ہوتا دیکھ لوگوں کی اُمیدیں بھی ٹوٹنے لگی تھیں۔۔۔۔
"واہ کیانی صاحب کیا کھیل کھیل رہے ہیں آپ۔۔۔ مان گئے ہم آپ کو۔۔۔۔۔ "
سیٹھ فاروق نے یہ خبر دیکھتے خوشی سے جھومتے اقبال کیانی کو کال ملائی تھی۔۔۔ وہ بھی اقبال کیانی کی جماعت کے لیڈرز میں سے ایک تھا۔۔۔۔
جو اچانک اپنے حق میں ہوتے حالات دیکھ اب کافی حد تک سکون میں آچکا تھا۔۔۔
"میں نے کہا تھا تم سے۔۔۔۔۔ یہ بلیک سٹارز مجھے بھی باقی سب کی طرح آسان مشن سمجھ رہے تھے۔۔ مگر بچارے بہت غلط جگہ آن ٹکرائے ہیں۔۔۔۔ اب میں اُس شاہ ویز سکندر کو میری طاقت کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا۔۔۔ اور بہت جلد دم دبا کر بھاگنے کی کوشش کرے گا۔۔۔
مگر بھول ہے یہ اُس کی کہ میں اُسے بچ کر جانے دوں گا۔۔۔ ابھی تو اُس سے پریسا آفندی کو بھی چھیننا ہے۔۔۔ "
اقبال کیانی کے ہر ہر انداز سے اُس کی خوشی ٹپک رہی تھی۔۔۔ جب اچانک دوسری جانب سے سیٹھ فاروق کی کال کٹ گئی تھی۔۔۔
اقبال کیانی کو عجیب تو لگا تھا۔۔۔ مگر اپنی خوشی میں مست وہ اِس عام سی بات پر زیادہ دھیان نہیں دے پایا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حبہ بہت بُری حالت میں جیل میں پہنچی تھی۔۔۔ جہاں سنگی سیمنٹ کے سرد بینچ پر حازم کی لاش رکھی گئی تھی۔۔۔ اُس کے اُوپر سفید رنگ کی چادر دی گئی تھی۔۔۔
آس پاس بہت سے لوگ موجود تھے۔۔۔
حبہ کو آتے دیکھ جیلر نے اُن سب کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔۔۔
"سر ایس پی حبہ ڈیڈ باڈی کے پاس پہنچ چکی ہے۔۔۔۔"
ایک جانب کھڑے شخص نے نہایت ہی دبی آواز میں دوسری جانب کال پر موجود اقبال کیانی کو اطلاع دی تھی۔۔۔
جو گہرے صدمے میں ہونے کی وجہ سے حبہ نہیں سن پائی تھی۔۔۔ مگر وہ کسی اور کی زیرک سماعتوں تک ضرور پہنچ چکی تھی۔۔۔
حبہ کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہیں نکلا تھا۔۔۔ وہ گہرے شاک کے زیرِ اثر تھی اِس وقت۔۔۔۔
وہ حازم کے قریب آتی اُس کے چہرے سے چادر ہٹا گئی تھی۔۔۔ جب سامنے آنکھیں موندے پڑے حازم کو دیکھ اُس کے ہونٹوں سے سسکی برآمد ہوئی تھی۔۔۔۔
"تم نے جان بوجھ کر کیا نا یہ سب۔۔۔ تم جانتے تھے نا کہ یہ لوگ تمہیں مروا دیں گے۔۔۔۔"
حبہ اُس کے قریب جھکی نہایت کمزور آواز میں بولی تھی۔۔۔ جو وہاں کچھ فاصلے پر کھڑا اقبال کیانی کا کارندہ بھی نہیں سمجھ پایا تھا۔۔۔
"میں اب بھی سب جان بوجھ کر ہی کررہا ہوں۔۔۔ تمہیں اب میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔۔۔۔"
حازم کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ مگر اُس کے ہلتے ہونٹ اور نہایت باریک آواز سنتے حبہ کا سر چکرا گیا تھا۔۔۔۔
"تم۔۔۔۔"
حبہ ہکلا گئی تھی۔۔۔
"اُسے یقین نہیں آیا تھا کہ یہ شخص اتنی اچھی ایکٹنگ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔
"رونا مت۔۔۔ ہم پر کیانی کی نظر ہے۔۔۔۔ کسی بھی طرح مجھے یہاں سے نکالو۔۔۔ یہ جیلر ہمارا آدمی ہے۔۔۔ اِس کے علاوہ یہاں موجود ہر آدمی کیانی کا کارندہ ہے۔۔۔۔"
حازم کی بات سنتے حبہ کو لگا تھا اُس کے مردہ وجود میں واپس سے روح پھونک دی گی ہو۔۔۔۔
اُس کا حازم زندہ تھا۔۔۔ اُسے اُس کے رب کی جانب سے ازالے کا ایک موقع اور دے دیا گیا تھا۔۔۔۔
حبہ کی جان میں جان واپس لوٹ چکی تھی۔۔۔ مگر شدید صدمے سے گزرنے کی وجہ سے ابھی اُس کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔۔۔
لیکن وہ اِس وقت اتنی خوش تھی کہ اُس کا خوشی سے جھومنے کو دل چاہا تھا۔۔۔
"ساجد اِس ڈیڈ باڈی کو سر خانے میں لے جاؤ۔۔۔ میری کمشنر صاحب سے میٹنگ ہے۔۔۔ اُس کے بعد اِس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔۔۔۔"
حبہ کے آرڈر پر وہاں موجود اقبال کیانی کا کارندہ چونکا تھا۔۔۔ یہاں پر ہی تو اقبال کیانی حبہ کی اصلیت جاننا چاہتا تھا۔۔۔
مگر حبہ کو حازم کے لیے ایک آنسو بھی نہ بہاتے دیکھ وہ لوگ بہت زیادہ حیران ہوئے تھے۔۔۔
"تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ اور باقی قیدیوں کو دیکھو۔۔۔۔ یہ جو اتنی بڑی کوتاہی ہوئی ہے اِس پر میں بعد میں تم سب کی انویسٹی گیشن کرتی ہوں۔۔۔"
حبہ اپنے رعب دار لہجے میں بولتی اقبال کیانی کے کارندے کو وہاں سے جانے کا بولتی خود بھی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
حبہ حازم کی ہدایت کے مطابق ہی خود تو آفس میں آگئی تھی۔۔۔ مگر اُس کے دل کو ایک عجیب سا دھڑکا لگا ہوا تھا۔۔۔۔
وہاں حازم صرف اُس جیلر کے ساتھ اکیلا تھا۔۔ اور آس پاس دشمنوں کا ڈھیر موجود تھا۔۔۔۔
حبہ آفس میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔۔۔ جب اُسے دروازہ پر آہٹ محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
حبہ فوراً الرٹ ہوئی تھی۔۔۔۔
جب سیاہ کپڑوں میں ملبوس چہرے کو سیاہ رومال سے چھپائے حازم اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
حبہ اُسے زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھ اپنے آنسو نہیں روک پائی تھی۔۔۔ اور اُس کے زندہ ہونے کا یقین کرتی سیدھی اُس کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔
"تم نے میری جان نکال دی تھی حازم سالار۔۔۔۔ آخر کیا ہو تم۔۔۔۔ کوئی کام سیدھے طریقے سے نہیں کرسکتے کیا۔۔۔ ؟"
حبہ اُس کے سینے سے لگی نم لہجے میں بولتی حازم کے پیچھے جیلر کے روپ میں کھڑے شاہ ویز سکندر کو نہیں دیکھ پائی تھی۔۔۔
حازم حبہ کے گرد اپنے مضبوط بانہوں کا حصار قائم کرتا خود بھی لمحے بھر کو شاہ ویز کی موجودگی فراموش کر گیا تھا۔۔۔
جب شاہ ویز کو ہی گلا کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا پڑا تھا۔۔۔
حبہ ایک جھٹکے سے حازم سے دور ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے حیرت سے جیلر بنے شخص کو دیکھا تھا۔۔۔ جس کا چہرا بھی حازم کی طرح سیاہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔
"یہ شاہ ویز ہے۔۔۔۔"
حبہ کی حیرت کو دور کرتے حازم نے شاہ ویز کا تعارف کروایا تھا۔۔۔ جو سن کر اپنی بے اختیار حرکت پر حبہ مزید شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔
"تم تھوڑی دیر صبر نہیں کر سکتے تھے۔۔۔"
اُس کی حقیقت جان لینے کے بعد پہلی بار حبہ خود سے اُس کے قریب آئی تھی۔۔۔
حازم ڈھٹائی سے بولا تھا۔۔۔ جبکہ حبہ اُس کی بے شرمی پر اُس سے اپنا ہاتھ چھڑوا گئی تھی۔۔۔۔
" گلے شکوے کرنے کے لیے آپ دونوں کو کوئی مناسب جگہ ڈھونڈنی ہوگی۔۔۔۔ ہمارا یہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔۔۔۔ "
شاہ ویز اُسے آنکھیں نکالتا کھڑکی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔
اقبال کیانی کو حبہ کے اپنے ساتھ نہ ملے ہونے کی یقین دہانی کروا لینے کے بعد بھی وہ دونوں حبہ کو وہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔۔۔۔
وہ تینوں آفس کی کھڑکی کی جالی کو بلیڈ سے کاٹتے وہاں سے نکل آئے تھے۔۔۔
اقبال کیانی نے اپنی ساری فورسز کو اُن کے خلاف متحرکت کر رکھا تھا۔۔۔
جبکہ وہ لوگ اُن کی فورسز کے مقابلے میں کم تھے۔۔۔ اور اب تو اُن کی شناخت بھی اقبال کیانی کے سامنے آچکی تھی۔۔۔
قاسم کی غداری کے بعد وہ اِس نازک وقت میں اپنے باقی آدمیوں پر بھی زیادہ بھروسہ نہیں کرسکتے تھے۔۔۔۔
اِس لیے اُنہوں اپنا ہر قدم بہت پھونک پھونک کر رکھنا تھا۔۔۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"کیسے ہیں سیٹھ صاحب۔۔۔۔ مجھے پتا چلا کہ آپ بلیک سٹارز کو بہت شدت سے یاد کررہے تھے تو مجھ سے آپ سے دور رہا ہی نہیں گیا۔۔۔ دیکھیں آپ سے ملنے آن پہنچی ہوں۔۔۔۔ "
سیٹھ فاروق جو اقبال کیانی سے بات کررہا تھا۔۔۔ اچانک فون کا کنکشن کٹنے کے ساتھ ساتھ روم کی لائٹس بھی آف ہوئی تھیں۔۔۔۔ دور دور تک تاریکی پھیل گئی تھی۔۔۔
اِس تاریکی میں گونجتی مہروسہ کا سرد برفیلا لہجے سیٹھ فاروق کا پورا وجود پسینے سے بھگو گیا تھا۔۔۔۔
"کک۔۔ کون ہو تم۔۔۔۔؟؟؟ اور میرے کمرے تک کیسے پہنچی۔۔۔۔ شکیل،،، ساجد۔۔۔ کہا مرگئے ہو سب۔۔۔۔؟؟؟"
سیٹھ فاروق کو اپنے اردگرد موت کے فرشتے منڈلاتے دکھائی دیئے تھے۔۔۔
"مت چلائیں سیٹھ صاحب۔۔۔ مجھ سے بچانے کے لیے کوئی نہیں آنے والا۔۔۔ سوائے موت کے۔۔۔۔"
مہروسہ نے ہاتھ مارنے سیٹھ فاروق کے قریب رکھے لیمپ کو آن کیا تھا۔۔۔
جس کی زرد روشنی میں سیٹھ فاروق اپنے سامنے صوفے پر بیٹھی مہروسہ کو دیکھ حیران ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اِس دھان پان سی لڑکی سے بھلا اتنا خوفزدہ کیوں ہورہا تھا۔۔۔۔
"پہچان نہیں پارہے مجھے۔۔۔۔ اوہ ہو۔۔۔ میں اپنا تعارف کروا دیتی ہوں۔۔۔۔ تمہاری ناجائز اولاد ہوں میں سیٹھ فاروق۔۔۔۔ تمہاری بہت ساری ناجائز اولادوں میں سے ایک۔۔۔۔ اپنا یہ تعارف کرواتے ہوئے بہت گھن محسوس ہورہی ہے مجھے تم سے۔۔۔۔ چلو اپنا اچھے والا تعارف کرواتی ہوں۔۔۔
بلیک سٹار کہتے ہیں مجھے۔۔۔ بلیک سٹار مہروسہ کنول۔۔۔ جو آج تمہاری موت بن کر آئی ہوں یہاں۔۔۔ ساری زندگی تمہیں ڈھونڈنے میں لگا دی۔۔۔۔ کل پتا چلا ہے مجھے۔۔۔ کہ میرے باپ کے عہدے پر فائز وہ معزز انسان تم ہو۔۔۔ جو لوگوں کے سامنے اُن کا سب سے زیادہ ایماندر لیڈر ہے۔۔۔ اور اب تک نجانے کتنی عورتوں کی عزت تار تار کرچکا ہے۔۔۔ میری ماں اور اُس جیسی نجانے کتنی عورتوں کو طوائف بنانے میں تم جیسے بدکردار مردوں کا ہاتھ ہے۔۔۔۔
آج میں تمہارا وہ حال کروں گی کہ اپنے جیسے تمام مردوں کے لیے عبرت کا نشان بن جاؤ گے تم۔۔۔۔"
مہروسہ ہاتھ میں خنجر اُٹھائے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔
"نن نہیں۔۔۔ میں نہیں جانتا تمہیں اور تمہاری ماں کو۔۔۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ معاف کردو مجھے۔۔۔۔"
سیٹھ فاروق اُس کے سامنے ہاتھ جوڑتے گڑگڑایا تھا۔۔۔
"پھر تو تمہیں مارنا میرے لیے اور بھی زیادہ آسان ہوجائے گا کیونکہ میرا تو تم سے کوئی رشتہ ہی نہیں ہے نا۔۔۔۔"
مہروسہ کتنی مشکل سے چل پارہی تھی۔۔۔ اِس کی کی تکلیف اُس کے چہرے سے لگائی جاسکتی تھی۔۔۔
اُس کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔۔۔ مگر اِس شخص کو وہ اپنے ہاتھوں ہی ختم کرنا چاہتی تھی۔۔۔ جیسوں کی وجہ سے وہ اور اُس جیسی کئی لڑکیاں حرام موت مرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔۔۔
"نہیں معاف کردو مجھے۔۔ خدا کے لیے ۔۔۔"
سیٹھ فاروق کے ہاتھ پیر پھول چکے تھے۔۔۔
"ٹھیک ہے معاف کردیتی ہوں۔۔۔ مگر اُس کے لیے تمہیں۔۔ اپنے اور اپنے لیڈر اقبال کیانی کے سارے کالے کرتوت تمام ثبوتوں کے ساتھ مجھے بتانے ہونگے۔۔۔۔ "
مہروسہ نے اُس کے آگے شرط رکھی تھی۔۔۔۔
جو سنتے ہی صرف اپنی جان بچانے کی خاطر وہ فوراً حامی بھر گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ کے کیمرہ آن کرتے ہی اُس نے اقبال کیانی کے ساتھ کیے ہر بُرے فعل اور لوٹ مار کی ساری حقیقت اُگل دی تھی۔۔۔ وہ بھی پورے ثبوتوں کے ساتھ۔۔۔
"اب تو تم مجھے نہیں مارو گی نا۔۔۔۔"
مہروسہ کو کیمرہ بند کرکے اپنے بیگ میں رکھتے دیکھ وہ خوف سے ہاتھ باندھے بولا تھا۔۔۔
بلیک سٹارز کی دہشت کا بہت سن رکھا تھا اور آج اِن نازک سی لڑکی کو آگ کا جوالہ بنا دیکھ اُس کے ہاتھ پیر کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔۔۔
اُس نے یہ ساری سچائی بتا کر فل وقت اپنی جان بچائی تھی۔۔۔ وہ بس مہروسہ کہ اس کمرے سے نکلنے کے انتظار میں تھا تاکہ باہر موجود اپنے گارڈز کو الرٹ کرکے مہروسہ کو یہیں مروا دے۔۔۔۔
"میں نے معاف کرنے کا کہا تھا سیٹھ صاحب۔۔۔۔ یہ تو کہا ہی نہیں کہ جان نہیں لوں گی۔۔۔ "
مہروسہ کھڑکی جانب بڑھتے بولی تھی۔۔۔۔
اُسے جاتا دیکھ سیٹھ فاروق کے چہرے پر چمک اُبھری تھی۔۔۔ اُسے یہی لگا تھا کہ یہ بے وقوف لڑکی اُسے زندہ چھوڑ کر جارہی ہے۔۔۔
اُس نے اپنے گارڈز کو اطلاع کرنے کے لیے نیچے گرا اپنا موبائل اُٹھایا تھا۔۔۔ جب اُسی لمحے مہروسہ پلٹی تھی۔۔۔ اور اپنی سلینسر لگی گن میں موجود تمام گولیاں اُس کے وجود میں اُتارتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔۔
یہ سب کرتے مہروسہ کی آنکھوں میں پنپتا درد ختم ہوگیا تھا۔۔۔ یہ شخص اُس کی زندگی کی اذیت کا باعث تھا۔۔۔
جسے وہ اب اپنے ہاتھوں ختم کرچکی تھی۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی اقبال کیانی کے خلاف ایک اور ثبوت بھی حاصل کر گئی تھی۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم بلیک سٹارز کبھی اِن پولیس والوں سے ہاتھ ملائیں گے۔۔۔۔ "
شاہ ویز حازم اور مہروسہ کے ساتھ تینوں کے مشترکہ روم میں بیٹھے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔۔
آج تک اُن کے اِس روم میں کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔۔۔ یہاں تک کہ جنید کو بھی نہیں۔۔۔ مگر آج ایس پی حمدان اور حبہ یہاں آرہے تھے۔۔۔
"مگر ہم جانتے تھے۔۔۔۔"
شاہ ویز کی بات پر حازم اور مہروسہ مسکرائے تھے۔۔۔
"تم چاہو تو پریسا بھابھی کو بھی بلوا سکتے ہو یہاں۔۔۔۔"
حازم نے اُسے آفر کی تھی۔۔۔
"تم لوگ کیوں چاہتے ہو میری نازک سی بیوی تم لوگوں کی خطرناک باتیں سن کر بے ہوش ہوجائے۔۔۔"
شاہ ویز کے ہونٹوں پر پریسا کے ذکر پر انتہائی دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔
جو دیکھ حازم اور مہروسہ بے اختیار دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتار گئے تھے۔۔۔ آج اتنے سالوں بعد اُنہوں نے اُسے ایسے مسکراتے دیکھا تھا۔۔۔
جب اُسی لمحے حمدان اور حبہ ایک ساتھ اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔
حازم کی نگاہیں سیاہ لباس میں ملبوس اپنی بیوی پر جم کر رہ گئی تھیں۔۔۔ جو بنا اُس سے حقیقت جانے اُس پر یقین کرتی اُس کا ساتھ دینے کو راضی ہوگئی تھی۔۔۔
حازم کے دل میں اُس کے لیے محبت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
جبکہ مہروسہ نے اندر داخل ہوتے حمدان پر ایک نگاہ غلط تک نہیں ڈالی تھی۔۔۔ اُس کا یہ نظر انداز کیا جانا حمدان بُری طرح کھلا تھا مگر اِس وقت اِس بارے میں استفسار کرنے کا ٹائم نہیں تھا اُن کے پاس۔۔۔
"بلیک ہاؤس میں میں بہت بہت خوش آمدید ہے آپ کو۔۔۔ ویسے تو آپ دونوں ہی یہاں پہلے آچکے ہیں۔۔۔ مگر آفیشلی آج آپ کو یہاں دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز نے حمدان اور حبہ کو ویلکم کرتے حازم اور مہروسہ پر طنز کیا تھا کہ وہ ہر بات سے باخبر تھا۔۔۔
مہروسہ نے اب کی بار بھی سر اُوپر نہیں اُٹھایا تھا جبکہ حازم یہاں بھی ڈھٹائی سے مسکرا دیا تھا۔۔۔
"ہمیں جو بھی کرنا ہے آج ہی کرنا ہوگ۔۔۔۔ سیٹھ فاروق کی موت کی خبر بہت جلد اقبال کیانی تک پہنچ جائے گی۔۔۔ جس کے بعد اقبال کیانی کچھ بھی سنگین قدم اُٹھا سکتا ہے۔۔۔ یا تو وہ پلٹ کر ہم پر حملہ کردے گا۔۔۔ یا پھر ملک سے فرار ہوجائے گا۔۔۔
اِن دونوں میں سے ہم کچھ بھی افورڈ نہیں کرسکتے۔۔۔ اقبال کیانی کی سیکورٹی بہت سخت ہے۔۔۔ اور اُسے آپ دونوں پر شک بھی پورا ہے۔۔۔ وہ آپ لوگوں سے ملنا بھی نہیں چاہے گا۔۔۔
ہمیں سب سے پہلے اُس تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔۔ بے شک اُس کے خلاف اُس کے آدمیوں اور باقی سب لوگوں کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں۔۔ مگر ہمارے ملک کے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اُس شخص کی حقیقت پر اُس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک اقبال کیانی کی اپنی زبان سے نہ سن لیں۔۔۔۔ پہلے ہمیں اُسے یرغمال بنانا ہوگا۔۔۔ اُس کے بعد اُس سے سب اگلوا کر اُسے ختم کرنا ہوگا۔۔۔ کیونکہ اگر اُسے زندہ گرفتار کرلیا تو کچھ بیرونی طاقتیں ہیں جو اُسے بچا لیں گی۔۔۔ اور ہماری اتنے سالوں کی محنت ضائع چلی جائے گی۔۔۔ "
شاہ ویز نے تفصیل سے سارا پلان اُن کے سامنے رکھا تھا۔۔۔
"اقبال کیانی تک پہنچنے کے لیے ہمارے پاس فیصل بخشی سیڑھی کا کام کرسکتا ہے۔۔۔ دونوں کے آپس میں گہرے مراسم ہیں۔۔۔ اور فیصل بخشی تک ہمیں لے جائے گی مریم۔۔۔۔۔ جس نے مہروسہ پر فیصل بخشی کے کہنے پر حملہ کیا تھا۔۔۔ اور اب بھی وہ اُسی کے ساتھ ہی ہے۔۔۔۔ میں مریم تک آسانی سے پہنچ سکتا ہوں۔۔۔"
حمدان کی بات پر مہروسہ نے گھبرا کر اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی مریم سے حمدان کا بہت خطرہ تھا۔۔۔ مگر جیسے ہی حمدان نے اُس کی جانب دیکھا مہروسہ نگاہیں پھیر گئی تھی۔۔۔
حمدان کو اُس کا یہ رویہ فکر میں مبتلا کررہا تھا۔۔ کیا وہ پھر کچھ ایسا کرچکا تھا۔۔ جس بات نے اُس کی مہروسہ کو اتنا ہرٹ کیا تھا۔۔۔۔ جو وہ اُس کی جانب دیکھنے سے بھی گریزاں تھی۔۔۔
"فیصل بخشی بھی آسان مہرا بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ ایک طرح سے اقبال کیانی کا رائٹ ہینڈ ہے۔۔۔ جس کے ختم ہونے کی خبر پر اقبال کیانی کافی حد تک ویسے ہی ڈھے جائے گا۔۔۔۔"
حازم نے بھی اپنی رائے دی تھی۔۔۔
جب اُسی لمحے جنید بنا دستک دیئے دروازے کو کک رسید کرتا اندر داخل ہوا تھا۔۔ اُس کا چہرا پسینے سے شرابور تھا جبکہ اُس کے ہر ہر انداز سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔۔۔
"کیا ہوا جنید۔۔۔۔؟؟"
کسی انہونی کے خیال سے شاہ ویز اپنی جگہ سے اُٹھا تھا۔ باقی سب کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔۔
"اقبال کیانی کی فوج نے بلیک ہاؤس پر حملہ کردیا ہے۔۔۔ وہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ہمارے آدمی اُنہیں روک بھی نہیں پارہے۔۔۔ اُنہوں نے ہمیں چاروں جانب سے گھیر لیا ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔ "
جنید کی اور پر اُن سب کی سانسیں اٹکی تھیں۔۔۔۔
"اور پریسا میم بلیک ہاؤس میں موجود نہیں ہیں۔۔۔ اُنہیں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے مگر وہ یہاں نہیں ہیں۔۔۔"
جنید نے آخر میں جو بم اُن سب کے سروں پر پھوڑا تھا۔۔ وہ شاہ ویز سمیت اُن سب کو ہلا کر رکھ گیا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کو لگا تھا کسی نے اُس کا دل سینے سے نوچ پھینکا ہو۔۔۔
وہ بنا کسی بات کا خیال کیے باہر کی جانب بھاگا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُس کی پری اِس وقت کا کے قبضے میں تھی۔۔۔
"شاہ سر آپ کو وہاں اکیلا جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔۔۔۔"
مہروسہ اُسے یوں اکیلے جاتے دیکھ چلائی تھی۔۔۔ مہروسہ کی آنکھوں سے گرتے آنسو دیکھ حمدان اُسے تسلی دیتا شاہ ویز کے پیچھے نکل گیا تھا۔۔۔
"جنید سب آدمیوں میں اعلان کردو کہ فورسز سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ یہ لوگ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔۔۔ دونوں طرف گولیاں چلیں گی آخر میں دونوں جانب جانی نقصان ہوگا۔۔۔ جبکہ فائدہ ہوگا اُن حرام خوروں کا۔۔۔ سب لوگوں کو بولو جو جہاں ہے اُسے ویسے ہی چھوڑ کر سرنگوں کے راستے بلیک ہاؤس سے نکل جائیں۔۔۔ مجھے اپنے کسی ایک آدمی کا بھی جانی نقصان نہیں چاہیئے۔۔۔ "
حازم کی ہدایت پر جنید اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
"مہرو تمہاری طبیعت ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔"
مہروسہ کو شاہ ویز اور حمدان کے پیچھے جاتے دیکھ حازم نے اُسے روکنا چاہا تھا۔۔۔۔
"میر سر یہ چھوٹے موٹے درد مہروسہ کنول کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔ اِس وقت میرے ملک کو میری ضرورت ہے۔۔۔ جس کے لیے میں سالوں سے لڑتی آئی ہوں۔۔ آج کیسے پیچھے ہٹ جاؤں۔۔۔۔"
مہروسہ اُسے مسکراتی نم آنکھوں سے جواب دیتی وہاں سے نکل گئی تھی۔۔۔
جب حبہ فون پر کسی کو ہدایت دیتی حازم کے قریب آئی تھی۔۔۔
"اقبال کیانی کی رات گیارہ بجے کی فلائٹ کی ٹکٹ بک ہوچکی ہیں۔۔۔ اُس نے خود کو بچانے کا سارا بندوبست کرلیا ہے۔۔۔ اگر ہمیں نہ ہرا پایا تو ہم سے بچ کر کہاں دم دبا کر بھاگنا ہے اِس کا فیصلہ کرلیا لے اُس نے۔۔۔۔"
حبہ کی اطلاع پر حازم کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔۔۔
"اقبال کیانی اب ہمارے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا۔۔ پہلے اُسے اُس کی بربادی کا ٹریلر دکھاؤں گا اور پھر اُسے موت کے گھاٹ اُتاروں گا۔۔۔ بہت مظلوموں کا خون چوس چکا ہے مزید نہیں۔۔۔"
حازم حبہ کا ہاتھ تھامے وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
پریسا کی آنکھ جیسے ہی کھلی اُس نے خود کو نیم تاریک سے چھوٹے سے کمرے میں پایا تھا۔۔۔
جہاں ایک چھوٹی سی ونڈو بنی ہوئی تھی۔۔۔۔ جس سے چھن کر آتی ہلکی سی روشنی میں پریسا کچھ دیکھنے کے قابل ہوئی تھی۔۔۔
مگر وہ یہاں کیسے پہنچی تھی۔۔۔
پریسا نے اپنے دماغ پر زور دیا تھا جب اُسے یاد آیا تھا کہ اُسے چائے دینے کے لیے ایک ملازمہ اُس کے روم میں آئی تھی۔۔۔
وہ چائے پیتے اُس کا سر چکرایا تھا۔۔۔
اُس کے بعد کا پریسا کو کچھ یاد نہیں تھا۔۔۔ مگر اب کی سچویشن دیکھ وہ اتنا تو سمجھ چکی تھی کہ اُسے اغوا کیا گیا ہے۔۔۔
اُسے نجانے کیوں خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی اُس کے رب کے بعد اُس کا محافظ اُس کا شوہر اُسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔
اِسی سوچ کے ساتھ ہی وہ دل ہی دل میں قرآنی دعاؤں کا ورد کرتی وہیں نیچے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔
جب اچانک اُس کے کانوں میں کسی لڑکی کی نسوانی آواز ٹکرائی تھی۔۔۔
پریسا گھبرا کر اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔ چیخوں کے ساتھ ساتھ اُس لڑکی کی اونچی اونچی رونے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔۔۔
جیسے وہ کسی کے آگے گڑگڑا رہی ہو۔۔۔
پریسا یہ سب سنتے وہاں سکون سے نہیں بیٹھ پائی تھی۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے دروازے کو ہلاتے اُسے کھولنا چاہا تھا۔۔۔ جب اچانک معجزانہ طور پر وہ اُس کے ہلکے ہلکے جھٹکوں سے باہر سے لگا لاک کھل گیا تھا۔۔۔
اُسے بے ہوش سمجھ کر شاید وہ لگایا ہی ایسے گیا تھا۔۔۔
مگر جو بھی تھا پریسا بس اب جلد از جلد اُس لڑکی تک پہنچنا چاہتی تھی۔۔۔
جو بچاری شاید کسی بہت بڑی مشکل میں تھی۔۔۔ باہر کا پورا کوریڈور خالی پڑا تھا۔۔۔
آواز کی سمت کا تعین کرتے پریسا اردگرد دیکھتی جلدی سے آگے بڑھی تھی۔۔۔
آوازیں آہستہ آہستہ قریب آتی محسوس ہورہی تھیں۔ پریسا اُس روم کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی جو آدھ کھلا تھا اور وہیں سے آوازیں آرہی تھیں۔۔۔
پریسا کا پورا وجود خوف کے عالم میں لرز رہا تھا۔۔ لیکن اُس لڑکی کا خیال کرتی وہ خود کو روک نہیں پائی تھی۔۔۔۔
ہلکا سا دروازہ دھکیلتے وہ جلدی سے وہاں لگے پردوں کی اوٹ میں ہوئی تھی۔۔۔
جب سامنے کا منظر دیکھ اُسے اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
فیصل بخشی کو وہ بہت اچِھے سے پہچانتی تھی اور اُس کی گندی نگاہوں سے بھی باخبر تھی۔۔ یہ اکثر آفندی مینشن میں نظر آتا تھا اُسے۔۔۔
اور اِس شخص کے آتے ہی وہ اپنے روم میں گھس جایا کرتی تھی۔۔۔
لیکن اُسے اِس بات کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا کہ یہ شخص اتنا گھٹیا نکلے گا۔۔۔۔ وہ اُس روتی بلکتی لڑکی سے زبردستی کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔
پریسا کو یہ سمجھنے میں ایک پل بھی نہیں لگا تھا کہ اُسے بھی فیصل بخشی نے ہی اغوا کیا ہے۔۔۔
لیکن اُن دونوں کے بیچ اِس ہاتھا پائی میں چلتی گفتگو پریسا کو گہرے دھچکے سے دوچار کر گئی تھی۔۔۔
"تم اپنی بات سے پلٹ کر بہت غلط کررہے ہو فیصل بخشی۔۔۔ تم نے مجھے کہا تھا کہ پریسا آفندی کو تمہارے حوالے کردوں تو تم حمدان کو میرے حوالے کردو گے۔۔۔ تم نے تو آج رات پریسا کو لے کر ملک سے چلے جانا ہے نا۔۔۔ تو تم میری زندگی کیوں برباد کررہے ہو۔۔۔۔"
مریم چلا رہی تھی گڑگڑا رہی تھی۔۔۔ اُس سے اپنی عزت کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔۔ مگر فیصل بخشی جیسے درندے پر اِن سب چیزوں کو کبھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
پریسا نے غور سے مریم کی جانب دیکھا تھا یہ وہی لڑکی تھی۔۔۔ جو اُس کی چائے میں کچھ مکس کرکے لائی تھی۔۔۔۔۔
پریسا نے افسوس بھری نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ اُس نے جو گڑھا پریسا کے لیے کھودا تھا وہ خود اُس میں منہ کے بل گرنے والی تھی۔۔۔
لیکن پریسا اُس کی طرح بے ضمیر نہیں تھی۔۔۔
اُسے اب بھی مریم پر بے اختیار رحم آگیا تھا۔۔۔۔
اُس نے اردگرد نگاہیں گھمائی تھیں جب اُس کی نظر ایک جانچ کے نوکیلے ڈیکوریشن پیس پر پڑی تھی۔۔۔
اُس میں نجانے ایک دم اتنی طاقت کہاں سے آئی تھی کہ وہ اللہ کا نام لیتی آگے بڑھی تھی۔۔۔۔
وہ شاید آج ثابت کردینا چاہتی تھی کہ وہ بلیک بیسٹ کی بیوی تھی نڈر اور بے خوف۔۔۔
پریسا نے ڈیکوریشن پیس اُٹھایا تھا۔۔۔
فیصل بخشی کی اُس کی جانب بیک تھی۔۔۔
مریم کی نظر اُس پر پڑ چکی تھی۔۔۔ پریسا کو اپنی مدد کے لیے آتا دیکھ اُس کی نگاہیں ندامت کے احساس سے جھک گئی تھیں۔۔۔۔
اُس کا دل چاہا تھا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے۔۔۔
جس لڑکی کے ساتھ اُس نے اتنا غلط کیا تھا۔۔۔ وہ لڑکی خود کو خطرے میں ڈال کر اُسے بچانے آرہی تھی۔۔۔
فیصل بخشی مریم کو پوری طرح اپنے شکنجے میں لے چکا تھا۔۔۔
اِس سے پہلے کے وہ کچھ غلط کرتا پریسا نے پوری قوت سے وہ ڈیکوریشن پیس اُس کے سر پر دے مارا تھا۔۔۔۔
اُس کی نکلی نوکیلی سائیڈیں فیصل بخشی کے سر میں بہت بُری طرح دھنسی تھیں۔۔۔۔
وہ شاک کی کیفیت میں پلٹا تھا۔۔۔
جب پریسا نے دوبارہ اُسے پوری قوت سے مارتے وہیں گرنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔۔
اُسی لمحے باہر سے گولیاں چلنے کی آوازیں آئی تھیں۔۔۔
اور ساتھ ہی شاہ ویز کی اپنی پری کے لیے تڑپتی آواز۔۔۔
پریسا نے اُسی وقت پلٹ کر دیکھا تھا۔۔۔
جب شاہ ویز روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔
"شاہ۔۔۔۔"
پریسا کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔
پریسا کو وہاں سہی سلامت شاہ ویز کی جان میں جان آئی تھی۔۔
وہ جلدی سے اُس کی جانب بڑھتا پریسا کو اپنے چوڑے سینے میں بھینچتا اُس کے اپنے سامنے ہونے کا یقین کرنے لگا تھا۔۔۔
شاہ ویز کے پیچھے حمدان اور مہروسہ بھی اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔
سامنے جو منظر تھا وہ دیکھ اُن تینوں کو ساری صورتحال سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔۔۔
مریم کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔۔۔ وہ ایک جگہ سہمی کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔۔
اُس کے عین قدموں میں فیصل بخشی سر سے نکلتے خون کے ساتھ منہ کے بل نیچے پڑا تھا۔۔۔
جبکہ پریسا کے پاس گرا خون آلود ڈیکوریشن پیس اُنہیں ساری سچویشن اچھے سگ باور کروا گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ جو مریم کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی اِس وقت اُس کی حالت دیکھ اُسے رحم آیا تھا۔۔۔
وہ آگے بڑھی تھی اور بیڈ پر پڑی چادر اُٹھا کر مریم کے گرد اوڑھا دی تھی۔۔۔ جبکہ مریم مہروسہ کو زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھ گہرے شاک میں گھر گئی تھی۔۔۔
حمدان مریم کو سامنے دیکھ مُٹھیاں بھینچے بہت مشکل سے خود کو اُس کا گلا دبانے سے روک پایا تھا۔۔۔
"حمدان میری بات۔۔۔۔۔"
مریم حمدان کو پکارتے اُس کے قریب گئی تھی۔۔۔
جب حمدان خود پر ضبط نہ رکھ پاتے ایک زناٹے دار تھپڑ مریم کے منہ پر رسید کرگیا تھا۔۔۔
مریم دور لڑکھڑا کر نیچے جا گری تھی۔۔۔
"حمدان اِسے اِس کے کیے کی عبرت ناک سزا ملے گی۔۔۔ اِسے۔۔۔ مگر ابھی ہمیں حازم کے پاس پہنچنا ہوگا۔۔۔ "
شاہ ویز حمدان کے مقابل آتا اُسے مریم کی جانب دوبارہ بڑھنے سے روک گیا تھا۔۔۔
اِس وقت اُسے حازم کی ٹینشن ہوئی تھی۔۔۔ ورنہ جتنا غصہ اُسے اِس لڑکی پر تھا وہ اِس کے ٹکڑے ٹکڑے کردینے کا خواہشمند تھا۔۔۔
اُن کے ساتھ آئے اُن کے آدمی فیصل بخشی کے ساتھ ساتھ مریم کو بھی وہاں سے لے گئے تھے۔۔۔۔
اُن دونوں کا ٹھکانا اب قبر سے پہلے بلیک سٹارز کی کال کوٹھڑی ہونے والی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
"جنید تمام نیوز چینلز تک اقبال کیانی کے خلاف اکٹھے کیے گئے تمام ثبوت پہنچا دو۔۔۔ فکس نو بجے تمام ثبوت عوام کے سامنے آجانے چاہییں۔۔۔ شبر چوہان کا مرنے سے پہلے کیا گیا اقبالِ جرم، سیٹھ فاروق اور اِس پارٹی کے باقی تمام لیڈرز جو ہمارے ہاتھوں نشانہ بن چکے ہیں۔۔۔ کیونکہ اُس کے بعد بہت جلد اقبال کیانی خود لائیو ہوکر سب کے سامنے اقبالِ جرم کرکے اپنی اِس نام نہاد کرپٹڈ اور کریمینل سے بھری جماعت کو ختم کرنے کا اعلان کردے گا۔۔۔۔ "
شاہ ویز کی ہدایت پر سر تسلیمِ خم کرتا جنید فون بند کر گیا تھا۔۔۔
وہ تینوں بلیک سٹارز جانتے تھے کہ جس مشن کے پیچھے اُنہوں نے اتنے سالوں سے اپنے دن رات ایک کر رکھے تھے۔۔۔ اور اِس ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی جڑوں کو کمزور کرکے بہت حد تک لوگوں کو اِن کی غلامی سے نجات بھی دلوا چکے تھے۔۔۔ مگر وہ اتنا سب کرکے بھی اپنے ملک سے برائی کا خاتمہ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔
کیونکہ یہاں چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر کرپشن کی جاتی تھی۔۔۔ غریب کا حق مارا جاتا تھا۔۔۔
جب تک اس ملک کی عوام خود کو نہیں بدلتی تب تک اِن پر حکمرانی کرتے حکمرانوں کو بھی رائے راست پر نہیں لایا جاسکتا تھا۔۔۔
حازم اور حبہ اقبال کیانی کے بنگلے پر پہنچ گئے تھے۔۔۔ جن کے پیچھے ہی شاہ ویز، حمدان اور مہروسہ بھی آگئے تھے۔۔۔
اقبال کیانی کی سیکورٹی کے لیے تعینات افسران حمدان اور حبہ کو اپنے سامنے دیکھ حیران رہ گئے تھے۔۔۔
جو آج اُن کے ساتھ نہیں بلکہ بلیک سٹارز کے ساتھی بن کر آئے تھے۔۔۔
لیکن ہر جانب اقبال کیانی کی جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیلتی خبر نے اُس کی سیکورٹی پر موجود بہت سے لوگوں کے ضمیر جگا دیئے تھے۔۔
وہ سب حمدان اور حبہ کے پیچھے جا کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
اُن میں سے اب کوئی بھی اقبال کیانی جیسے حکمران کے لیے آپس میں خون خرابہ نہیں چاہتے تھے۔۔۔
شاہ ویز، مہروسہ اور حازم نے اپنی شناخت اب بھی اُن سب سے پوشیدہ ہی رکھی تھی۔۔۔
وہ تینوں ساری عمر بلیک سٹارز بن کر ہی رہنا چاہتے تھے۔۔۔ جس کے لیے وہ اپنے آپ کو کسی کے سامنے بھی نہیں لانا چاہتے تھے۔۔۔
اقبال کیانی کے کمرے کے باہر تعینات سیکورٹی اہلکار خود بخود پیچھے ہٹ گئے تھے۔۔۔
اقبال کیانی جو اپنے سینے کو مسلتا ٹی وی پر چلتی خبریں دیکھ اپنے ڈوبتے دل کو بچانے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔ تین سیاہ وردی میں ملبوس نقاب پوشوں کو دیکھ اُس کی آنکھیں باہر کو اُبل پڑی تھیں۔۔۔
ایسا ہی کچھ حلیہ اُس نے بلیک سٹارز کے حوالے سے سن رکھا تھا۔۔۔
اُسے اپنا پورا وجود پسینے میں شرابور ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
"کون ہو تم لوگ۔۔۔ "
اقبال کیانی اُن تینوں کے پیچھے فل یونیفارم میں ملبوس حبہ اور حمدان کو داخل ہوتے دیکھ کرسی پر پیچھے جاگرا تھا۔۔۔
اِس کا مطلب اُس کی موت کا وقت اُس کے سر پر آن پہنچا تھا۔۔۔
اقبال کیانی نے اپنے دل کو مسلنا شروع کردیا تھا۔۔۔
"ہمیں نہیں پہچانا۔۔۔ اتنی شدت سے ہمارے ملنے کے منتظر تھے اور اب ہمیں سامنے دیکھ پہچان ہی نہیں پارہے۔۔۔ دیٹس ناٹ فیئر کیانی صاحب۔۔۔ "
شاہ ویز اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا وہاں رکھی ایک کرسی پر بیٹھتا سیگریٹ سلگھاتے بولا تھا۔۔۔
"ارسلان صدیقی تو یاد ہی ہوگا تمہیں۔۔۔ اُسے تو کبھی نہیں بھول سکتے تم۔۔۔ جس کو بلیک میل اور مینٹلی ٹارچر کرکے تم نے اُسے خودکشی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔۔۔ "
حمدان آگے بڑھا تھا اور گن کی پشت اقبال کیانی کی گردن پر اتنی شدت سے ماری تھی کہ وہ بلبلا کر رہ گیا تھا۔۔۔
جبکہ اُس کی بات پر باقی سب نے بھی بے یقینی سے حمدان کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
وہ تو اب تک یہی سمجھتے آئے تھے کہ حمدان نے اپنے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے ختم کیا ہے۔۔۔
لیکن اِس وقت حمدان کی آنکھوں میں اُترتا خود اور چہرے پر سجے درد کے تاثرات مہروسہ کا دل بھی دکھ سے چیر گئے تھے۔۔۔
آہستہ آہستہ اُس کے سامنے حمدان صدیقی کے اندر کی اذیتیں سامنے آرہی تھیں۔۔۔ اُسے اب سمجھ آرہا تھا کہ اِس شخص نے اپنے دل کو پتھر کیوں کررکھا تھا۔۔۔
وہ کسی کو بھی اپنے قریب کیوں نہیں آنے دیتا تھا۔۔۔
مہروسہ کے آنسو پھسل کر اُس کے نقاب میں جذب ہوئے تھے۔۔۔۔
"مجھے معاف کردو۔۔۔ تم لوگ جو چاہتے ہو میں وہی کروں گا۔۔۔ پوری دنیا کے سامنے اپنا ہر گناہ کا اقرار اپنے منہ سے کروں گا۔۔۔ یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر کہیں دور بھاگ جاؤں گا۔۔۔ پر خدا کے لیے مجھے مت مارو۔۔۔۔"
اقبال کیانی اِس وقت اُن کے آگے بالکل بے بس ہوچکا تھا۔۔۔
کچھ گھنٹے پہلے وہ جن کے مرنے کی خبریں سن کر جشن منا رہا تھا۔۔۔
اِس وقت وہ اُنہیں کے آگے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔۔۔
"یہ خدا تمہیں اُس وقت یاد کیوں نہ آیا جب تم اپنے لالچ میں مظلوم لوگوں پر ظلم ڈھاتے تھے۔۔ نجانے کتنے لوگوں نے تمہاری وجہ سے بے بس اور لاچار ہوکر حرام موت کو گلے لگایا۔۔۔ "
حازم اپنے جگہ سے اُٹھا تھا اور اُس کے گردن پر عین زخم والی جگہ پر دباتے اُس کی چیخیں نکال دی تھیں۔۔۔
"میں اِن سب لوگوں سے تمہاری جان خلاصی کروا سکتا ہوں۔۔۔۔ مگر اُس کے لیے تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔۔۔۔"
حازم کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ تڑپ اُٹھا تھا۔۔۔
اُس نے حازم کی بات سن کر فوراً اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔۔
"اُس کیمرے سامنے اپنے ہر جرم کا اقرار کرنا ہوگا۔۔۔ اپنی پارٹی کے ہر اُس ملک فروش غدار کا نام لینا ہوگا جو تمہارے ساتھی رہے ہیں۔۔۔ اور ایس پی حمدان کے بھائی ایس پی ارسلان کے اُوپر لگوائے اپنے اُس الزام کی تردید کرنی ہوگی۔۔۔ جس سے اُسے غدار قرار دیا گیا تھا۔۔۔ "
حازم کی گرفت لمحہ با لمحہ سخت ہوتی جارہی تھی۔۔۔
"ہاں میں بولوں گا۔۔ سب بولنے کو تیار ہوں میں۔۔۔"
اقبال کیانی اذیت سے ہاتھ پیر نیچے مارتا تڑپ رہا تھا۔۔۔
جب اُس کی بات سنتے حازم نے اُسے چھوڑ دیا تھا۔۔۔
کیمرے کی لائٹ آن ہوتے ہی اقبال کیانی پوری عوام مے کے سامنے لائیو ہوا تھا۔۔۔
اپنی جان بچانے کے خوف سے وہ اپنا کیا ہر جرم ثبوتوں کے ساتھ لوگوں کے آگے رکھتا چلا گیا تھا۔۔۔
اپنے بھائی کے اُوپر سے الزام ہٹتے دیکھ حمدان آنکھیں سختی سے میچ گیا تھا۔۔۔ کاش اُس کا بھائی وہ جذباتی قدم نہ اُٹھاتا اور آج یہاں اُس کے ساتھ ہوتا۔۔۔
اقبال کیانی کا اقرارِ جرم سنتے ہی سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ پر اُسے جان سے مارنے کا مطالبہ شروع کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔
حکومت اور باقی سارے ادارے اِس ہنگامے کو روکنے اور بلیک سٹارز کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کے لیے وارن کررہے تھے۔۔۔
عوام کو یقین دلایا جارہا تھا کہ اقبال کیانی کو اُس کے جرم کی سزا ضرور ملے گی۔۔۔
حمدان کے بعد حبہ کو کمشنر صاحب کی کال موصول ہوئی تھی۔۔ جو اُنہیں اقبال کیانی کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کررہے تھے۔۔۔
اُن دونوں نے اپنے آفیسر کو اقبال کیانی کی جان بچانے کی یقین دہانی کرواتے فون کاٹ دیا تھا۔۔۔
"سر آپ فکر مت کریں۔۔۔ میں اپنی پوری فورسز کے ساتھ اقبال کیانی کے بنگلے میں ہی داخل ہورہا ہوں۔۔۔ ہم اُنہیں بچانے کی پوری کوشش کریں گے۔۔۔۔"
حمدان فون بند کرتا اپنے گن میں موجود ساری گولیاں اقبال کیانی کے سینے میں پیوست کر گیا تھا۔۔۔
باقی سب نے خاموشی سے حمدان کو اپنا انتقام لیتے دیکھا تھا۔۔۔
"ایک اور جیت مبارک ہو بلیک سٹارز پلس اوور ایس پیز۔۔۔۔۔"
حازم مسکراتی آنکھوں سے اُن چاروں کی جانب بڑھا تھا۔۔
"ان شاء اللہ ہماری یہ ٹیم ہمیشہ قائم اور دائم رہ کر ایسے ہی اِن ملک فروشوں کا خاتمہ کرتی رہے گی۔۔۔۔"
شاہ ویز نے اپنی ہتھیلی آگے بڑھائی تھی جس پر وہ سب باری باری ہاتھ رکھتے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے بھی عہد کر گئے تھے۔۔۔
یہ اُن کا طریقہ تھا جو حکومت کے ساتھ ساتھ باقی بہت سارے لوگوں کی نظروں میں چاہے غلط تھا۔۔۔ مگر وہ اور اُن کا رب اُن کی نیت جانتا تھا۔۔۔۔
اِسی لیے ہر معاملے میں اُن کا ساتھ دے کر اُنہیں سرخرو کرتا آیا تھا۔۔۔۔
وہ تینوں بلیک سٹارز وہاں سے نکل گئے تھے۔۔۔۔
حبہ اور حمدان پوری فورس کے ساتھ اقبال کیانی کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ جہاں اُنہوں نے اُسے مردہ پایا تھا۔۔۔۔
اقبال کیانی کی سیکورٹی پر تعینات افسران کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔۔
نیوز چینلز پر ہر طرف گردش کرتی اِس خبر نے ہر طرف مسرتیں بکھیر دی تھی۔۔۔۔
بڑی تعداد میں عوام بلیک سٹارز کو دعائیں دیتی اِس خبر کا جشن منا رہی تھی۔۔۔
ایس پی حمدان صدیقی اور ایس پی حبہ اِس کیس کی چھان بین کرتے بلیک سٹارز کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔۔۔
مگر بلیک سٹارز ایسے غائب ہوئے تھے کہ کسی کو اُن کا زرا سا سراغ بھی نہیں مل پایا تھا۔۔۔۔
اور اِسی کے ساتھ ہی اُن کا یہ دوسرا پلان بھی پایہ تکمیل تک جا پہنچا تھا۔۔۔۔ جس میں وہ پانچوں نہایت ہی صفائی سے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
حمدان کچھ دنوں کے لیے چھٹی لیتا اپنا یہ پورا وقت اپنی پیاری بیوی مہروسہ کے ساتھ گزارنے کے ارادے سے واپس لوٹا تھا۔۔۔
جہاں آگے سے ملنے والی خبر نے اُس کے ہوش اُڑا دیئے تھے۔۔۔۔
مہروسہ اُس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ فرح نے مہروسہ کا چھوڑا خط حمدان تک پہنچایا تھا۔۔۔
"میں جانتی ہوں میرے اِس فیصلے سے آپ کو بہت تکلیف پہنچے گی اور بہت غصہ بھی آئے گا۔۔۔ مگر میرا آپ کے قریب رہنا آپ کو اُس سے زیادہ اذیت سے دوچار کرسکتا ہے۔۔۔ اِسی لیے میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔ آپ اپنی جیسی بہت اچھی اور خاندانی لڑکی ڈیزرو کرتے ہیں۔۔۔۔
آپ کی خوشیوں کے لیے دعا گو۔۔۔
مہروسہ کنول۔۔۔۔ "
حمدان خط پڑھنے کے ساتھ ہی غصے سے آگ بھگولا ہوچکا تھا۔۔۔۔
"فرح اگر یہ کوئی مذاق ہے تو میں بتا رہا ہوں بہت بُری سزا ملے گی اِس کی۔۔۔۔۔ سچ سچ بتاؤ مجھے مہروسہ کہا ہے۔۔۔۔"
حمدان اُس خط کے ٹکڑے کرتا فضا میں اُچھال چکا تھا۔۔۔
"یہ کوئی مذاق نہیں ہے بیٹا مہروسہ سچ میں گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔۔۔ ہمیں اگر زرا سا بھی اِس بات کا علم ہوتا تو ہم اُسے ضرور روکتے مگر ہمیں تو خود یہ خط ملا ہے اُسے کے کمرے سے۔۔۔۔"
سمیعہ بیگم حمدان کو غصے سے بپھرتے دیکھ اُس کے قریب آتے اپنی پریشانی بیان کر گئی تھیں۔۔۔۔
جو سنتے حمدان مُٹھیاں بھینچتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
اُس کے غصے بھرے تیور بتا رہے تھے کہ آج مہروسہ کی اُس کے ہاتھوں خیر نہیں ہونے والی تھی۔۔۔
"جلدی سے بتاؤ تمہاری وہ سرپھری میڈم کہا ہے۔۔۔ آج اُس کی عقل ٹھکانے نہ لگا دی تو میرا نام بھی حمدان صدیقی نہیں۔۔۔۔"
حمدان نے گاڑی میں بیٹھتے ہی جنید کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔
"سر کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں مہرو میڈم کے ہاتھوں ہی شہید ہوں۔۔۔"
جنید کی سپیکر پر مسکین سی آواز اُِبھری تھی۔۔۔
"تم فون پر ہی بتا رہے ہو یا میں پہلے تمہارے پاس آؤں۔۔۔"
حمدان کے دھمکی آمیز الفاظ پر جنید کو اُسے بتاتے ہی بنی تھی۔۔۔۔
حمدان سیدھا اُس فلیٹ پر پہنچا تھا جہاں اُس کی بیوی اُس سے فرار اختیار کیے بیٹھی تھی۔۔۔۔
اگر جنید نہ بتاتا تو حمدان کو اِس فلیٹ کا کبھی پتا نہ چلتا۔۔۔
حمدان نے بیرونی گیٹ کے سامنے کھڑے ہوتے بیل بجائی تھی۔۔۔ مہروسہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حمدان اتنی جلدی اُس تک پہنچ جائے گا۔۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی سامنے خونخوار تیور لیے کھڑے ایس پی حمدان صدیقی کو دیکھ مہروسہ کے چودہ طبق روشن ہوچکے تھے۔۔۔۔
"آپ۔۔۔۔؟؟"
اُسے اندر آتے دیکھ مہروسہ اُلٹے قدموں پیچھے ہٹی تھی۔۔۔ حمدان دروازہ اندر سے لاک کرتا لال آنکھوں کے ساتھ اُس کی جانب پلٹا تھا۔۔۔
اُس کے تیور دیکھ مہروسہ کا دل بہت بُری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔ وہ ابھی شاور لے کر نکلی تھی۔۔۔ اُس کی گیلی زلفیں سر پر بندھے ٹاول میں قید تھیں۔۔۔ جن سے ٹپکتا پانی اُس کی شفاف گردن کو بھیگو رہا تھا۔۔۔
اورنج رنگ کے کھلتے رنگ کا شیفون کا لباس زیب تن کیے وہ اُسے واقعی بہار کے موسم میں کھلتا پھول محسوس ہوئی تھی۔۔۔
اُس کا ریشمی دوپٹہ بار بار کندھوں سے پھسلتا اُس کے نازک سراپے کی دلکشی کو نمایاں کررہا تھا۔۔۔
"یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔۔۔؟؟ کیا بکواس کی تھی تم نے اُس خط میں۔۔۔ تم میرے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہو۔۔۔ ایک بار وہی ساری باتیں میری آنکھوں میں دیکھ کر دوہراؤ۔۔۔ "
حمدان اُس کا بازو تھام کر اُسے دیوار کے ساتھ لگاتے تیز لہجے میں بولا تھا۔۔۔
اُس کی کنپٹی کی رگیں اُوپر کو اُبھر آئی تھیں۔۔۔
مہروسہ کی دھڑکنیں کئی گنا بڑھ گئی تھیں۔۔۔ اُسے بے اختیار خوف محسوس ہوا تھا۔۔۔
"میں نے جو اُس خط میں لکھا میں اب بھی وہی چاہتی ہوں۔۔۔ میں چاہتی ہوں آپ اپنے معیار کی کسی لڑکی سے شادی کر لیں۔۔ جو آپ کی شریک حیات بننا ڈیزرو کرتی ہو۔۔۔ مجھ جیسی لڑکی آپ کی بیوی بن کر رہنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔"
یہ الفاظ ادا کرتے مہروسہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔ حمدان کو آہستہ آہستہ سمجھ آرہا تھا کہ وہ اُسے اگنور کیوں کررہی تھی۔۔۔
"واٹ ربش۔۔۔۔ تمہاری باتیں اب میرا دماغ خراب کررہی ہیں مہروسہ۔۔۔۔"
حمدان اُسے کی کمر میں بازو حمائل کرتا اُسے جھٹکے سے اپنے قریب تر کر گیا تھا۔۔۔
اتنا کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگی تھیں۔۔۔
اُس نے اپنی مُٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔۔۔ وہ شدید غصے میں تھا۔۔ مگر مہروسہ کی آنکھوں سے گرتے آنسو اُسے اُس کی تکلیف کا اندازہ کروا گئے تھے۔۔۔
اُس کے جھٹکے کی وجہ سے مہروسہ کے بالوں سے ٹاول نیچے جاگرا تھا۔۔۔ اُس کی گیلی زلفیں حمدان کے چہرے سے ٹکراتیں اُس کی سانسوں کو معطل کر گئی تھیں۔۔۔۔
حمدان جھکا تھا اور مہروسہ کی آنکھوں سے گرتا ایک ایک آنسو اپنے لبوں سے چننے لگا تھا۔۔۔
مہروسہ کی سانسیں اٹک کر رہ گئی تھیں۔۔۔ اپنے اِس سنگدل کا یہ مہربان لمس سے اُسے اپنے زخموں پر مرہم بن کر محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔
"تم شاید ابھی تک نہیں جان پائی کہ تم حمدان صدیقی کے لیے کیا بن چکی ہو۔۔۔ میری آتی جاتی سانسوں کے لیے کتنی ضروری ہو۔۔۔ تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ تم حمدان صدیقی کو ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔۔ میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان تصور کرتا ہوں جس کی زندگی میں تم جیسی لڑکی شامل ہوئی ہے۔۔۔ جو بہت پاکیزہ اور صاف دل کی مالک ہے۔۔۔۔ جو دنیا کی بہتر سے بہترین شے ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔۔ جو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔۔ اور جو حمدان صدیقی کے دل پر راج کرتی ہے۔۔۔۔ جس کے نام کی مالا حمدان صدیقی کی دھڑکنیں جپتی ہیں۔۔۔ اور جو بہت زیادہ سرپھری اور پاگل ہے۔۔۔
جسے اب بھی لگتا ہے کہ اُس کا شوہر اُس کی پوری حقیقت نہیں جانتا۔۔۔ "
حمدان کی بات پر آنکھیں بند کیے کھڑی مہروسہ نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔ جب اُسی لمحے حمدان اُس کی آنکھوں کو چوم گیا تھا۔۔۔۔
"تم سے نکاح سے پہلے ہی میں تمہارے بارے میں سارا بائیو ڈیٹا نکلوا چکا تھا میں۔۔۔ تمہیں اُجالا نہیں مہروسہ کے نام سے ہی قبول کیا تھا میں نے۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اُن سب باتوں سے۔۔۔۔ تم اپنی پہچان خود بنا چکی ہو۔۔۔ تم ایک بلیک سٹار اور ایس پی حمدان کی بیوی اور اُس کے دل کی ملکہ ہو۔۔۔۔ جسے اب آگے کی ساری زندگی اپنے ایس پی سنگت میں خوشیوں سے بھرپور ہوکر گزارنی ہوگی۔۔۔ اذیت کے دن بیت چکے ہیں میری جان۔۔۔ اب کوئی اذیت اور کسی بھی درد کو اپنے قریب نہیں بھٹکنے دینا۔۔۔ کیونکہ اب ہم دونوں کی محبت کی طاقت ایسے کسی غم کو ہمارے قریب نہیں آنے دے گی۔۔۔ اور اگر آئی تو اُس سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ہم۔۔۔۔"
حمدان کے محبت میں ڈوبے الفاظ سن کر مہروسہ ایک دم سرشار ہوئی تھی۔۔۔ اُس کے سر سے بہت بھاری بوجھ ہٹ گیا تھا۔۔۔ وہ کھل کر مسکرا دی تھی۔۔۔
جس میں حمدان نے بھی اُس کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔۔۔۔
"اور میں دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت لڑکی ہوں جس کے حصے میں ایس پی حمدان آیا ہے۔۔۔ "
مہروسہ اُوپر کو ہوتی حمدان کے ماتھے پر لب رکھ گئی تھی۔۔۔ جبکہ اُس کی اِس دلفریب ادا پر نثار ہوتے حمدان اُس کے گیلے بالوں میں چہرا چھپاتے اُس کے ہونٹوں کی دلکش مسکراہٹ کی دلفریبی کو مزید بڑھا گیا تھا۔۔۔۔
مہروسہ نے بہت ساری قربانیوں میں سرخرو ہوتے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی شخص کو پا لیا تھا۔۔۔ وہیں حمدان صدیقی بھی مہروسہ کے روپ میں ایک پرخلوص ساتھی پاکر اپنی قسمت پر نازاں ہوا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
نجمہ بیگم نے حازم کا روم کھلوا کر بہت شاندار طریقے سے سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔
جو اب صرف حازم کا ہی نہیں بلکہ حبہ کا بھی کمرہ تھا۔۔۔ اُن سب نے مل کر کچھ دیر پہلے ڈنر کیا تھا۔۔۔
کچھ اہم فون کالز کرنے کے بعد حازم روم میں آیا تھا۔۔۔ واش روم کا خالی دروازہ دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ حبہ واش روم میں ہی ہے۔۔۔
اِس لیے وہ وہیں بیڈ پر نیم دراز ہوتا حبہ کے آنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔۔ مگر اِسی چکر میں وہ نجانے کتنے سیگریٹ پھونک چکا تھا۔۔ لیکن حبہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔
حازم آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا بہت ضبط کے ساتھ اُس کا انتظار کررہا تھا جب اچانک اُسے اپنے پیروں پر نرم گرم سا لمس محسوس ہوا تھا۔۔۔
حازم فوراً آنکھوں سے بازو ہٹاتا جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا تھا۔۔ حبہ کو اپنے پیر تھامے دیکھ اُس نے کرنٹ کھاتے اپنے پیر پیچھے کیے تھے۔۔۔
"حبہ یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔؟؟"
حازم اُسے بیڈ کے قریب نیچے بیٹھے دیکھ فوراً بیڈ سے اُٹھتا اُس کے پاس جا بیٹھا تھا جو اِس وقت اُسی کے پسند کے لہنگے میں ملبوس بے پناہ دلکش لگ رہی تھی۔۔۔
حازم اُس کے اِس دو آتشہ حسن کی رعنائیوں میں اپنا دل اٹکتا محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔
جو آج اُس کے دل کو اپنے حُسن کی حشر سامانیوں کے ساتھ پاگل کرکے رکھ دینے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔
لیکن حبہ کی یہ حرکت اُس کی سمجھ سے باہر تھی۔۔۔ آخر وہ اُس سے کس بات کی معافی مانگنا چاہتی تھی۔۔۔
حازم نے اُس کے جڑے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتے اُسے اپنے مقابل کھڑا کیا تھا۔۔۔
"میں نہیں جانتی تھی میرے بابا اتنے غلط کاموں میں ملوث تھے۔۔۔ آپ نے اتنے سال جس اذیت میں گزارے میں اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردیں آپ کی اذیت کا اندازہ لگائے بغیر میں نے آپ پر اتنے غلط الزام لگائے۔۔۔ آپ کو بہت بُرا بھلا کہا جس کے لیے میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔۔۔ "
حبہ حازم کی اذیت کا سوچتی اُس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔
حازم نے اُسے منع کیا تھا کہ وہ نجمہ بیگم اور صبا کو یہ سچ نہیں بتائے گی۔۔۔ اُس کی یہ فراخ دلی دیکھ حبہ مزید اُس کی اسیر ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس کو یوں شدت سے روتا دیکھ حازم اُسے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا۔۔۔
"میری زندگی۔۔۔ میری متاعِ زیست پور پور میری محبت سے لبریز اِس وقت میری بانہوں میں موجود ہے۔۔۔ قسم سے یہ احساس ہی میری ہر تکلیف کا مداوا کر گیا ہے۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے دنیا میں اب کوئی غم نہیں بچا۔۔۔۔۔ "
حازم اُس کی پیشانی پر لب رکھتے اُس کے آنسو میں کمی لاتے بولا تھا۔۔۔
اُسے یہ روتی بسورتی لڑکی سیدھی اپنے دل میں اُترتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔ اُسے دیکھ کر اِس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہ کھڑوس ایس پی تھی جس نے اپنے پولیس اسٹیشن میں سب کو اپنی دہشت سے سہما رکھا تھا۔۔۔
"ویسے ایک طریقہ ہے جس سے تم اپنے اِس فضول سے گلٹ کو ختم کرسکتی ہو۔۔"
حازم اُس کے کان کے قریب سرگوشیانہ لہجے میں بولتا اُس کی کان کی لوح پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتا اُسے لال کر گیا تھا۔۔۔
حبہ نے بنا اُس کی آنکھوں میں چھپی شرارت نوٹ کیے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا تھا۔۔۔
"بہت عرصہ درد رہا ہے یہاں۔۔۔ اپنے گداز ہونٹوں سے اِس درد کی تشفی کر دو۔۔۔۔"
حازم خمار آلود لہجے میں بولتا حبہ کو اپنی بانہوں میں جکڑتے بولتا اُس کا چہرا لال انگارہ کر گیا تھا۔۔
حازم کے ایک دم بدلتے تیور دیکھ وہ جی جان سے لرز اُٹھی تھی۔۔۔
"لیکن مجھے ابھی آپ سے معافی مانگنی ہے۔۔۔"
حبہ نے اُس کی جسارتوں پر بندھ باندھنے کی کوشش کرتے کمزور سا احتجاج کیا تھا۔۔۔
"ٹھیک طریقے سے معافی مانگنے کا طریقہ کی بتانے لگا ہوں ایس پی صاحبہ۔۔۔ جو آپ کو بالکل بھی نہیں آتا۔۔ "
حازم اُس کو کھسکتا دیکھ واپس اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔۔
اُس کے جارحانہ انداز پر حبہ کھلکھلاتی واپس اُس کے سینے میں سما گئی تھی۔۔۔
ہجر کی لمبی مسافت طے کرتے آج آخر کار اُنہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ پالیا تھا۔۔۔ اب اُن کے بیچ نہ کوئی نفرت کی دیوار باقی بچی تھی نہ کسی قسم کی بدگمانی یا گلٹ۔۔۔۔ آخر میں بچی تھی تو دونوں کی ایک دوسرے کے لیے لازوال محبت جسے بڑے سے بڑا طوفان بھی ختم نہیں کر پایا تھا۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
تاریکی میں ڈوبے آفندی مینشن کو ایک بار پھر سے روشن کیا گیا تھا۔۔۔ جہاں شاہ ویز سکندر اب اپنی پری کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزارنا چاہتا تھا۔۔۔
پریسا گہری نیند میں تھی جب اُس کے کانوں سے فون کی آواز ٹکرائی تھی۔۔۔
پریسا نے آنکھیں موندے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھاتے کان سے لگا تھا۔۔
وہ بولی کچھ نہیں تھی فون کان سے لگائے ایسے ہی سوئی رہی تھی۔
جب دوسری جانب سے اُسے گل شیر بھائی کی سہمی سی آواز سنائی دیتی اُس کی آنکھوں کے پٹ وا کر گئی تھی۔
"پریسا یہ جو سیاہ کپڑوں میں ملبوس، ماتھے پر دنیا جہاں کے بل ڈالے، غصے بھری سرد آنکھیں گھاڑے ہم سب سے صبح کے چار بجے آپ کا فیورٹ کیک بنوا رہا ہے یہ شخص کہیں آپ کا ہزبینڈ تو نہیں ہے۔۔۔"
پریسا نے آنکھیں کھول کر اپنی دائیں جانب پڑے خالی بیڈ کو دیکھا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اُس کے منہ سے برآمد ہوتی ہنسی گل شیر کو مزید حیران کر گئی تھی۔۔۔ اُسے یہ دونوں میاں بیوی پاگل لگے تھے۔۔۔
"جی وہ میرے ہزبینڈ ہیں گل بھائی۔۔۔ میں اِس وقت آپ کہ مدد کے لیے کچھ نہیں کرسکتی بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ آپ کی عافیت اِسی میں ہے کہ میرے ہزبینڈ جو کہہ رہے ہیں آپ آرام سے مان لیں۔۔۔ "
پریسا اُن لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی فون بند کرتی کھل کر مسکرا دی تھی۔۔
شاہ ویز کا کہنا تھا کہ وہ اُس سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اُس کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے، گزری رات اُس نے شاہ ویز کو تنگ کرنے کے لیے اُسے صبح صبح گل بہار بیکری کا فریش اور عین اُس کی پسند کے مطابق کیک لانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔
شاہ ویز سکندر اب تک جتنا اُسے ستا چکا تھا۔ اب اُس سے نخرے اُٹھوانے کی باری پریسا کی تھی۔
کیونکہ پہلی ملاقات میں وہ اُس کا کیک نہایت بے دردی سے توڑ چکا تھا۔۔۔ یہ اُسی کی سزا تھی۔۔۔ مگر پریسا نے یہ سب صرف مذاق میں کہا تھا۔۔ اُسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا وحشی اُس کی مذاق میں کہی بات بھی پوری کرنے صبح صبح ہی نکل جائے گا۔
پریسا کے لب اُس کی بے پناہ محبت کا تصور کرتے دلکشی سے مسکرا دی تھی۔۔۔
شاہ ویز سے ہونے والی پہلی ملاقات کو وہ اپنی زندگی کا سب سے بُرا دن اور حادثہ تصور کرتی تھی۔۔ مگر اب اُسے وہ دن، وہ لمحے اپنی زندگی کے سب سے خوش بختی بھرے لگ رہے تھے۔
جس کے بعد شاہ ویز سکندر جیسے بظاہر چٹان جیسے سخت مگر دل کے انتہائی پیارے انسان کو اُس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔
پریسا جو اُسی کے خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی دروازے پر ہوتی آہٹ پر وہ ایک دم الرٹ ہوتی آنکھیں موندے واپس سے سوتی بن گئی تھی۔
کیونکہ کیک لانے کی فرمائش کے بدلے جو فرمائش وہ اُس سے کرنے والا تھا پریسا کا وہ سوچتے ہی دل بہت زور سے دھڑک اُٹھا تھا۔
وہ آنکھیں موندے سر تکیے پر رکھے کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی۔۔ اُس کا ایک ہاتھ چہرے کے نیچے رکھا تھا جبکہ دوسرا تکیے کے قریب نیچے پڑا تھا۔۔
شاہ ویز اُس کی دھمکتی دودھیا شفاف رنگت اور لال پڑتی چھوٹی سی ناک پر والہانہ نگاہیں جمائے اُس کے قریب آیا تھا۔
پریسا کے قریب بیٹھ کر دونوں ہتھیلیاں اُس کے دائیں بائیں ٹکاتے وہ اُس کی جانب جھکا تھا۔ اور اپنے دہکتے لب پریسا کی ٹھنڈی پڑتی پیشانی پر رکھ دیئے تھے۔
پریسا آنکھیں موندے رہی تھی۔۔۔ مگر وہ بھول چکی تھی کہ سامنے بیٹھا شخص بلیک سٹار تھا جسے وہ کسی قیمت پر چکما نہیں دے سکتی تھی۔
پریسا کی لرزتی پلکیں، سختی سے ایک دوسرے میں پیوست ہونٹ اور اُس کی قربت کے احساس سے ہولے ہولے لرزتا وجود شاہ ویز سکندر کو اچھے سے باور کروا گیا تھا کہ اُس کی یہ نازک سی پری اُس سے بچنے کے لیے نیند کی آغوش میں پناہ لے رہی تھی۔۔
"صبح بخیر پریسا شاہ ویز سکندر۔۔۔ میں تمہاری دی ڈیمانڈ پوری کر چکا ہوں۔۔۔ اب تمہاری باری ہے۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا تھا۔
اُس کی جسارتوں پر پریسا کا رنگ بالکل لال ہوچکا تھا۔۔۔ مگر آنکھیں اُس نے اب بھی نہیں کھولیں تھیں۔
"تم مجھے ہر روپ میں بہت پیاری لگتی ہو۔۔۔ اور سوتے ہوئے تو سب سے زیادہ، تمہیں دیکھ کر دل کرتا ہے،،،"
شاہ ویز نے ابھی بات مکمل بھی نہیں کی تھی جب پریسا اُس کی باتوں سے گھبرا کر آنکھیں کھول گئی تھی۔
شاہ ویز اُسے دونوں کلائیوں سے تھامتے اُسے اپنے مقابل بیٹھا گیا تھا۔
"گل بہار بیکرز کا کیک تیار ہے۔۔۔"
شاہ ویز نے اُس کے چہرے پر گری بالوں کی لٹیں کانوں کے پیچھے اڑستے اُسے اپنی شرط یاد دلائی تھی۔
"تو میں کیا کروں،،، "
پریسا نے اُس کی جانب دیکھتے بھولپن سے پوچھا تھا۔
"تم بھول رہی ہے میں بلیک سٹار ہوں،،، جس کی دہشت سے ایک دنیا کانپتی ہے،،،"
شاہ ویز نے اُسے خوفزدہ کرنا چاہا تھا۔ جو اُس کی اپنے لیے بے پناہ محبت دیکھنے کے بعد اب اُس سے زرا سا بھی خوفزدہ نہیں ہوتی تھی۔ مگر شاہ ویز سکندر کا سنجیدگی اور غصے بھرا انداز اُس کی سانسیں تیز کر دیتا تھا۔
اور بے ہوش ہونا تو جیسے اب بھی عام سی بات تھی۔
"میں بلیک سٹار کی بیوی ہوں تم بھی بھول رہے ہو شاہ ویز سکندر۔۔۔۔ شاید تم نے اُس دن فیصل بخشی کی حالت غور سے نہیں دیکھی تھی۔"
پریسا نے سائیڈ ٹیبل کے دراز میں پڑا اُسی کا پسٹل نکالتے اُسے خوفزدہ کرنا چاہا تھا۔
جب شاہ ویز اُس کا پسٹل والا ہاتھ تھام کر جھٹکے سے اپنے جانب کھینچ گیا تھا۔ وہ سیدھی اُس کی گود میں جاگری تھی۔
"میں کچھ نہیں بھولا۔۔۔ اور نہ اتنی آسانی سے تمہیں بھولنے دوں گا کہ تم نے مجھے کیا دینا تھا۔"
شاہ ویز اُسے باتوں جو اِدھر سے اُدھر گھماتے دیکھ اُسے ٹھیک ٹریک پر لاتے بولا تھا۔
وہ اِس وقت اُس کی گود میں تھی۔ اور شاہ ویز پوری طرح اُس پر جھکا ہوا تھا۔
"وحشی انسان۔۔۔ "
شاہ ویز نے اپنی بڑھی ہوئی شیو اُس کے گال سے رگڑی تھی۔ جس پر پریسا اُس کے بال پکڑے چلائی تھی۔
"آئی لو یو مائی لو۔۔۔ بہت شکریہ میری بے رنگ و رونق زندگی میں شامل ہونے اور اِس میں خوشیوں کے رنگ بھرنے کے لیے بہت شکریہ۔۔۔ "
شاہ ویز اُسے اپنے سینے میں بھینچتے محبت سے چور لہجے میں بولا تھا۔ جبکہ اُس کی والہانہ محبت کے اظہار پر پریسا کھل کر مسکرا دی تھی۔
"میں بھی آپ کو بہت چاہتی ہوں میرے وحشی درندے۔۔۔ بس میرے سامنے دوبارہ وحشی مت بننا۔۔ ورنہ۔۔۔ "
پریسا اُس کے کان کے قریب ہونٹ لے جاتے بولی تھی۔
"ورنہ تم نے پھر سے بے ہوش ہوجانا۔۔۔ آئی نو، تمہارا یہ وحشی درندہ بہت پہلے سے تمہاری رگ رگ سے واقف ہے۔۔۔ جسے خوفناک کتوں سے نہیں بلکہ مجھ سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"
شاہ ویز اُس کی وہ حرکت اب بھی نہیں بھول پایا تھا۔۔ جب وہ کتوں کے بجائے اُسے دیکھ کر بے ہوش ہوئی تھی۔
شاہ ویز اپنی بات مکمل کرتے جھکا تھا اور اُس کے مسکراتے گداز لبوں کی ہنسی چنتے اُس کے دلفریب چہرے پر اپنی محبت کے پھول کھلاتا پریسا آفندی کو اپنی جنونی محبت کی وادیوں میں اپنے سنگ لے گیا تھا۔
باہر کھلتے پھولوں کی طرح اُن کی زندگی میں بھی خوشیوں کی بہاریں اُتر آئی تھیں۔
وہ سب ایک دوسرے کی سنگت میں بے پناہ خوش تھے۔ بلیک سٹارز کی دوستی اور ساتھ اب بھی ویسے ہی قائم و دائم تھا اور آگے بھی رہنے والا تھا۔ بلکہ اب وہ مزید مضبوط ہوچکے تھے۔ کیونکہ اب اُن کے ساتھ اُن کے دو پاور فل ایس پی بھی شامل ہوچکے تھے۔۔۔۔
مریم نے کال کوٹھڑی میں ہی خودکشی کرکے اپنی جان لے لی تھی۔
اُس نے ہمیشہ سے حمدان کو چاہا تھا۔ مگر اُس نے حمدان کو حاصل کرنے کے لیے سیدھا راستہ نہیں اپنایا تھا۔ اُس کے ناجائز کاموں اور غلط لوگوں کی سنگت نے اُسے حرام موت مرنے کی نوبت تک پہنچا دیا تھا۔
ہمیشہ برائی کا انجام برا ہی ہوا تھا۔ مریم کے ساتھ بھی وہی ہوا تھا۔
شہباز آفندی ، شوکت آفندی اور سفیان آفندی کو تاعمر سزا با مشقت سنا دی گئی تھی۔ جس کی کوئی معافی اور ضمانت نہیں تھی۔ شہباز آفندی کا پورا خاندان سڑک پر آ گیا تھا۔
مگر پریسا جیسی نرم خو انسان یہ نہیں دیکھ پائی تھی۔ اس لیے اُس کی خاطر شاہ ویز نے اُن پر احسان کرتے کچی آبادی میں ایک چند کمروں والا چھوٹا سا گھر اُنہیں سر چھپانے کے لیے دلوا دیا تھا۔۔۔ کیونکہ شاہ ویز نے اُن سے جیسے ہی اپنی ساری دولت جائیداد چھینی اُس کے بعد اُن کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔
جو بچی کچھ سیونگز تھی۔ وہ اُن لوگوں کی رہاعی کے لیے کیے گئے وکیل کو دے چکے تھے۔۔
وہ سب پریسا کو استعمال کرنے میں شامل تھے۔۔ اآج اُن سب کو اُن کے انجام تک پہنچاتے شاہ ویز بہت زیادہ خوش تھا۔۔۔ اُس نے اپنی ماں کے آنسو اور باپ کی بے بسی کا بدلہ لے لیا تھا۔۔ کیونکہ اصلیت سامنے آنے کے بعد اب پوری دنیا اب شہباز آفندی اور اُس کے گھر والوں پر تھوک رہی تھی۔
بلیک سٹارز نے اقبال کیانی جیسے شر پسند اور ملک فروش لوگوں کے خاتمے کی قسم کھائی تھی۔ جس پر وہ پوری طرح کاربند تھے۔ اقبال کیانی کو اُس کے انجام تک پہنچا کر اُنہوں نے اپنے تمام دشمنوں پر واضح کردیا تھا کہ بلیک سٹارز سے ٹکرانے والوں کا انجام کیا ہوتا تھا۔
آج صبا اور جنید کی منگنی تھی۔ جس کا اہتمام اعلی پیمانے پر کیا گیا تھا۔
لڑائی سے شروع ہونے والی اُن دونوں کی کہانی محبت میں کب بدلی تھی وہ خود بھی نہیں جان پائے تھے۔
خوشیوں کی محفل عروج پر تھی۔ جہاں ہر دوسرا چہرا اپنے ہم سفر کے سنگ کھڑا مسکرا رہا تھا۔
کالی رات میں چمکتا چاند اُن سب کی مسکراہٹ کو ایسے ہی تا عمر قائم رہنے کی دعا دیتا سیاہ بادلیوں میں جا چھپا تھا۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Jaan E Sitamgar Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Jaan E Sitamgar written by Farwa Khalid Jaan E Sitamgar by Farwa Khalid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment