Ishq Qaid Season 2 By Rimsha Hussain Complete Novel Romantic Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 10 June 2024

Ishq Qaid Season 2 By Rimsha Hussain Complete Novel Romantic Story

Ishq Qaid Season 2 By Rimsha Hussain Complete Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Ishq Qaid By Rimsha Hussain Season 2 Complete Novel Short Story

Novel Name: Ishq Qaid Season 2

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


کوئی مخالف کی تھی شاہ میر اپنے بچپن کے عشق پانے کے بعد حد سے زیاد خوش تھا وہ اب تک بے یقین تھا کے اس کو اُس کی ماہ مل گئ تھی وہ ہر روز اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا شکرادا کرتا تھا۔

میری عمر کی لڑکیاں اپنے بچوں کو اٹھاکر اسکول بھیجتی ہیں اور ایک میں ہو جو صبح صبح اپنے شوہر نامراد سے مغزماری کررہی ہوں کہ جناب اٹھ جائے اور یونیورسٹی کو اپنا دیدار کرائے اففف خود سے چھوٹا شوہر کسی کو نہ ملے۔ مہرماہ شاہ میر کو اٹھتا نہ دیکھ کر خود سے بڑبڑائی اس کی بڑبڑاہت سن کر شاہ میر نے بامشکل اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی کیونکہ وہ جاگ تو کب کا گیا تھا اب مہرماہ کو تنگ کرنے کی خاطر سونے کا بہانا کیے ہوئے تھا۔ 

اِس میں غلطی آپ کی ہے کیا ضرورت تھی دنیا میں جلدی آنے کی میرا انتظار کرتی پھر آتی نہ۔ شاہ میر کی بات پہ مہرماہ نے گھور کر اس کی جانب دیکھا جو اب بیڈ کراٶن سے ٹیک لگائے اپنی بلو آنکھوں میں چمک لیے اس کو دیکھ رہا تھا

تم جاگ رہے تھے پھر مجھے کیوں بیوقوف بنایا میں پاگل تمہیں آوازیں دیئے جارہی ہوں۔ 

آپ اٹھاتی اِس انداز سے ہیں کے دل کرتا ہے بس سوتے رہو اور آپ اٹھنے کا کہتی رہیں۔شاہ میر نے وجہ بتائی 

اچھا اگر تمہارا رومانس ہوگیا ہو تو جلدی سے تیار ہوکر باہر ناشتہ کرنے آٶ چچی جان کیا سوچتی ہوگی کہ وقت کی قدر ہی نہیں ابھی سے میرا یہ حال ہے تم تو بلکل بچے ہو ہمارے بچے جانے کیسے ہوگے۔ مہرماہ اپنی گول مٹول آنکھیں گھماتی ہوئی بولی تو شاہ میر کو اتنی پیاری لگی کہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل گیا کہ کہیں اُس کی ہی نظر نہ لگ جائے۔

بچے بھی ہوجائے گے اور انشااللہ بہت معصوم ہوگے تنگ آپ کو بلکل نہیں کریں گے کیونکہ میں ان کو آپ کے پاس آنے ہی نہیں دوں گا۔ شاہ میر نے شوخ انداز میں کہا جب کی مہرماہ کے چہرے کی رنگت پل بھر میں سرخ انار ہوئی تھی شاہ میر نے بڑی محبت سے مہرماہ کے چہرے کے آتے جاتے رنگ دیکھے تھے۔ 

بہت باتیں بنانی آگئ ہیں میں باہر جارہی ہوں تم بھی جلدی سے تیار ہوکر آٶ۔ مہرماہ شاہ میر کی نظروں سے بچنے کی خاطر بولی اور جلدی سے دروازے کی جانب بڑہی مہرماہ کی حرکت پہ شاہ میر کا زوردار قہقہ گونجا تھا جو مہرماہ کے کانوں پہ پڑا تو اس کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آگئ تھی سیڑھیوں سے مسکراتی ہوئی مہرماہ کو جب ہانم بیگم نے دیکھا تو ماشااللہ کہا۔ 

میر نہیں آیا؟ حیدر خان اخبار کو سائیڈ پہ کیے مہرماہ سے بولے۔ 

بس آنے والا ہے تیار ہورہا ہے یونیورسٹی کی لیے۔ مہرماہ نے جواب دیا۔ 

سہی ورنہ نیو ایڈمیشن لی ہے اس نے اور چھٹیاں بہت کرلی ہیں۔ ہانم بیگم بیٹھتی ہوئی بولی۔ 

امی جان بھوک لگی ہے ناشتہ کروادے پھر مجھے کالج کے لیے بھی نکلنا ہے۔ اٹھارہ سالا آیان نے کہا۔ 

بھائی کو تو آنے دو اپنے۔حیدر صاحب نے کہا تبھی فریش ہوتا شاہ میر سیڑھیاں اُترتا نیچے ان کی جانب آیا۔ 

اسلام علیکم۔ شاہ میر نے سب کو سلام کیا۔ 

وعلیکم اسلام برخودار پڑھائی پوری کرنے سے پہلے اگر شادی کر ہی لی ہے تو اب دونوں ہی ذمیداریاں  پوری کرو ساتھ ساتھ وقت کا بھی خیال کرو۔ حیدر صاحب نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سمجھایا۔ 

ڈیڈ پلیز ماہ کے سامنے تو ایسے نہ بولیں۔ شاہ میر نے منہ بناکر کہا جس پہ سب نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔

اچھا اب ناشتہ کی ٹیبل پہ چلو۔ ہانم بیگم اٹھتی ہوئی بولی تو سب ڈائینگ ہال میں آئے۔ 

بھابھی بریڈ تو پاس کیجئے گا۔ آیان نے مہرماہ سے کہا کیونکہ بریڈ اس کے سامنے پڑا تھا مہرماہ بریڈ اٹھا کر آیان کو دینے والی تھی جب اس سے پہلے ہی شاہ میر نے اپنے ہاتھ میں اٹھاکر۔ آیان کو بریڈ پکڑائی سب کے سامنے شاہ میر اِس حرکت پہ مہرماہ خجل ہوئی تھی۔ 

ماہ کو کجھ مت بولو میں ان کے پاس ہی بیٹھا مجھ سے کہنا دوبارہ۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا جس پہ۔ آیان نے سر کو ہاں میں جنبش دی

شاہ۔مہرماہ نے شاہ میر کو ٹوکا۔ 

میں نے تو ایسے ہی کہا تاکہ آپ ڈسٹرب نہ ہو۔ شاہ میر نے اپنی طرف سے دلیل دی حیدر خان مسکراکر شاہ میر کا چمکتا چہرہ دیکھ رہے تھے شاہ میر کی آنکھوں میں جو الگ سی چمک تھی وہ ان کو اِس بار اور زیادہ محسوس ہوئی جب انہوں نے پہلی بار مہرماہ کے ذکر پہ شاہ میر کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔ 

نہیں ہوتی میں ڈسٹرب تم آرام سے اپنا ناشتہ کرو پہلے ہی یونیورسٹی جانے میں تم نے پہلی کلاس مس کردی ہے اور اب اتنے آرام سے ناشتہ کررہے ہو۔ مہرماہ نے کجھ رعب سے کہا۔ 

اچھا اب جلدی فینش کرتا ہوں ناشتہ۔ شاہ میر بچوں کے انداز میں بول کر مہرماہ کا بچا ہوا جوس پینے لگا جس پہ مہرماہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئ پری نے جب دیکھا تو اس نے ہوٹنگ کی۔ 

پری ناشتہ پہ دھیان دو۔ مہرماہ نے اب پری کو آنکھیں دیکھائی۔ 

امی جان اور ڈیڈ میں چلتا ہوں۔ آیان اپنا ناشتہ کرکے بیگ کاندھے پہ ڈال کر ان دونوں سے بولا۔ 

اوکے خدا حافظ۔حیدر خان اور ہانم بیگم نے ایک آواز میں کہا۔ 

خدا حافظ بھائی آپی اور بھابھی۔ آیان باقی سب سے کہتا باہر کی جانب بڑھا۔ 

مجھے تم اپنی دوست کے گھر چھوڑ آنا چچی سے اجازت میں نے لی ہے۔ شاہ میر کو باہر جاتا دیکھ کر مہرماہ چادر پہنتی اس کے پاس آکر بولی جب کی ایک ہاتھ میں اس نے اپنا پرس اٹھایا ہوا تھا۔ 

ضرور مطلب ہونی جانے کا سفر خوبصورت گُزرے گا۔ شاہ میر مہرماہ کی بات پہ خوش ہوتا ہوا بولا۔ 

پاگل ہو بلکل۔ مہرماہ نے اس کے سر پہ چپت لگائی شاہ میر مسکراتا مہرماہ کے لیے فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولنے لگا مہرماہ بیٹھ گئ تو شاہ میر نے مہرماہ کی پہنی چادر جو بڑی ہونے کی۔ وجہ سے لٹک رہی تھی اس کو اندر کیا پھر دروازہ بند کرتا ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا۔ 

کوئی اچھا سا سونگ تو ضرور ہوگا۔ مہرماہ نے شاہ میر سے کہا جس نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی۔ 

ہاں ہیں میں آپ کو اپنا فیورٹ سونگ سناتا ہوں۔ شاہ میر مسکراتا گاڑی میں موجود پلے میوزک آن کیا۔ 

اِس قدر تم سے ہمیں پیار ہوگیا

حد سے زیادہ حد کے پار ہوگیا۔ 

شاہ میر کے میوزک آن ہوتے ہی گاڑی میں تُلسی کُمار اور درشن راول کے گانے کی آواز گونجنے لگی شاہ میر نے ایک مسکراتی نظر مہرماہ پہ ڈالی جو بہت غور سے گانا سن رہی تھی۔ 

اِس قدر تم سے ہمیں پیار ہوگیا

حد سے زیادہ حد کے پار ہوگیا

دل تیری چاہتوں میں گزرنے لگے

دل کہے ہر گھڑی تمہیں ملنے چلے

گانے کی اِس لائن پہ شاہ میر کو اپنا بچپن یاد آیا جب وہ بہانے ڈھونڈتا تھا مہرماہ کے پاس جانے کا اس سے بات کرنے کا اس سے ملنے کا یہ سب سوچتے ہی ایک خوبصورت احساس نہ اس کو آ گھیرا۔ 

پہلوں میں ہر پل بیٹھے رہیں

ڈوب رہیں اِن آنکھوں میں 

اِس قدر تم سے ہمیں پیار ہوگیا

حد سے زیادہ حد کے پار ہوگیا

مہرماہ گانا سنتے کھوگئ تھی اس کو یاد تھا جب پہلی بار شاہ میر اس کے پاس آیا تھا تو اس کو شاہ میر کی بلو آنکھیں بہت پسند آئی تھی پر اس کو وہ ہمیشہ بچہ سمجھتی تھی اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ کبھی شاہ میر سے اتنا پیار کریں گی یا شاہ میر اس کو اتنا چاہے گا مہرماہ نے مسکراکر چہرہ شاہ میر کی طرف دیکھا جو مسکراتا ڈرائیونگ کررہا تھا۔ 

ہمیں عشق ہے تیری یادوں سے

ہمیں عشق ہے تیری باتوں سے

تیرے نیند میں آتے خواب سے

تیرے ساتھ ہوئی ملاقاتوں سے۔ 

شاہ میر نے مہرماہ کو مسکراتا محسوس کیا تو ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرنے لگا اور دوسرا ہاتھ مہرماہ کے سامنے کیا جس پہ مہرماہ اس کا مطلب سمجھتی مسکراکر اپنا ہاتھ شاہ میر کے ہاتھ میں دیا جس پہ شاہ میر کے۔ آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئ تھی۔ 

مجھے عشق ہے تیرے چھونے

مجھے عشق ہے تیرا ہونے سے

تیرے ہاتھ میں اپنے ہاتھ سے

تیرے ساتھ کٹے دن راتوں سے

مہرماہ نے شاہ میر کے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ کو کجھ اُپر کیے ہنس پڑی تو شاہ میر بھی مسکرادیا۔ 

چہرے کو تیرے دیکھا کریں

چہرے کو تیرے دیکھا کریں

لیکے تمہیں اِن بانہوں میں 

اِس قدر تم سے ہمیں پیار ہوگیا

حد سے زیادہ حد کے پار ہوگیا

یہاں سے اب لیفٹ جانا۔ کجھ دیر بعد جب گانا بند ہوگیا تو مہرماہ نے شاہ میر کو اپنی دوست مونا کے گھر کا ایڈریس سمجھایا۔ 

اوکے۔ شاہ میر نے کہتے ہی موڑ کاٹا۔ 

آگئ آپ کی منزل۔ شاہ میر مونا کے گھر کے باہر گاڑی کو بریک لگاکر مہرماہ سے بولا۔ 

ہمم اوکے اب تم سیدھا اپنی یونی جانا۔ مہرماہ اپنی چادر ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔ 

اور کدھر جانا ہے میں نے۔ شاہ میر بُرا مان کر بولا اور ساتھ ہی اپنی طرف کا ڈور کھوکر جلدی سے مہرماہ کی طرف آکر اس کے لیے دروازہ کھولا پھر ادب سے کھڑا ہوگیا۔ 

ایسے کھڑے ہو لوگ کہیں گے اتنے ہینڈسم لڑکے کو اپنا ڈرائیور بنایا ہوا ہے۔ مہرماہ نے شاہ میر کا گال کھینچ کر کہا۔

ماہ نہ کیا کریں۔ شاہ میر اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کر خفگی سے بولا۔

ہاہاہاہا شاہ بلکل بارہ سال والے شاہ لگ رہے ہو۔ مہرماہ شاہ میر کے سرخ ہوتی رنگت دیکھ کر زور سے قہقہ لگاکر بولی کیونکہ شاہ میر آج بھی مہرماہ کی اِس حرکت پہ لڑکیوں کی طرح شرما جاتا تھا۔ 

آپ بھی نہ حد کرتی ہیں۔شاہ میر ایک طرف کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

اچھا اب منہ مت پُھلاٶ میں اندر جارہی ہوں تم بھی یونی کا راستہ پکڑو۔ مہرماہ نے اب کی سنجیدگی سے کہہ کر جانے لگی تو شاہ میر نے اس کی نازک کلائی اپنی گرفت میں لی۔ مہرماہ نے سوالیہ نظروں سے شاہ میر کو دیکھنے لگی شاہ میر بنا کجھے کہے قریب آکر اس کے ماتھے پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑا جس پہ مہرماہ نے آنکھیں بند کرلی دل کے دھڑکنے کی آواز کانوں تک آتی محسوس ہوئی۔ 

خدا حافظ۔مہرماہ جلدی سے شاہ میر سے کجھ فاصلے پہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی شاہ میر کو مہرماہ کی حرکت پسند نہیں اس کو اپنے اور مہرماہ کے درمیان یہ فاصلہ بلکل بُرا لگا مہرماہ مونا کے گھر کی مین گیٹ کی جانب بڑھی اور پلٹ کر شاہ میر کو دیکھا جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا مہرماہ شاہ میر پہ ایک مسکراتی نظر ڈال کر گیٹ کے اندر داخل ہوگئ تھی شاہ میر تک تب کھڑا رہا جب تک مہرماہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی اس کے بعد وہ بھی گاڑی میں بیٹھتا اپنے راستے کی طرف گامزن ہوا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ویسے اگر حور سے زین شادی کرنا چاہتا ہے تو اِس میں کوئی قباحت نہیں حور بھی زین کو پسند کرتی ہے۔ سکندر خان نے سارہ بیگم سے کہا جو کافی پریشان معلوم ہورہی تھی۔ 

بات قباحت کی نہیں آپ خود سوچے پہلے نادیہ کو حور اور زیب کے رشتے پہ کوئی اعتراض نہیں تھا ہم جب باقاعدہ رشتہ لیکر گئے تب بھی سب ٹھیک تھا ہم نے زیب سے بھی اس رضامندی جانی جس پہ وہ راضی تھا اب اگر یہ رشتہ زیب سے نہیں زین سے ہوگا تو زیب کے دماغ پہ کیا اثر پرے گا۔ سارہ بیگم نے ان کا دھیان زیب کی جانب کیا۔ 

زیب کو حور میں دلچسپی نہیں تھی وہ بس ہمارے وجہ سے مان گیا تھا کیونکہ تم مہرو کی طرف سے پریشان تھی وہ اپنی طرف سے تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔سکندر خان نے کہا۔ 

اچھا پر یہ نادیہ کی نند بھی حد کرتی ہے جب دل کرتا ہے رشتہ جوڑ لیتی ہے اور جب دل چاہتا ہے ختم کردیتی ہے ورنہ آپ خود سوچے حور اور زین کا رشتہ تو پہلے ہوچکا تھا نہ مہرو اور شہیر کی بات بعد میں ہوئی ایسے میں اگر مہرو کی شادی شہیر سے نہ ہوسکی تو اِس میں انہوں نے حور کا اور زین کا رشتہ کیوں ختم کردیا تھا اور اب پھر سے جوڑنا چاہتی ہیں یہ کوئی مذاق کی بات تو نہیں۔سارہ بیگم سخت ہوئی تھی۔ 

اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے پر ہم انسان وہ سمجھ نہیں پاتے زیب لڑکا ہے تم شادی کے معاملے میں اس کی پرواہ مت کرو اُس کو اگر کوئی پسند آئی یا تمہیں تو زیب کے فرض سے بھی ہم سبکدوش ہوجائے گے تم بس اللہ سے اچھی امید رکھو۔ سکندر خان نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا جس میں سارہ بیگم نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔ 

کیا باتیں ہورہی ہیں میرے بغیر۔شاہ زیب اپنے آفس جانے کے لیے تیار ہوتا باہر آکر مسکراکر ان سے پوچھنے لگا۔ 

بس تمہارے ماں کو تمہاری شادی کی جلدی ہے۔ سکندر خان نے بتایا۔ 

گڈ امی جان لگی رہیں۔ شاہ زیب شوخ لہجے میں بولا سارہ بیگم نے گھور کر شاہ زیب کو دیکھا جو ان کی بات کو مذاق میں لے رہا تھا۔ 

تمہاری نظر میں کوئی لڑکی ہے تو بتادو ورنہ تمہارے ماں نے پریشان ہوکر اپنے بال سفید کردینے ہیں۔سکندر خان نے شرارت سے سارہ بیگم کی طرف دیکھ کر شاہ زیب سے بولے۔ 

میری نظر میں کہاں کوئی میں تو بہت معصوم سا بندہ ہوں میں کیوں بھلا لڑکیوں کو اپنی نظر میں رکھوں گا۔ شاہ زیب نے اپنی شرافت کے قصے بتانے شروع کیے۔ 

لڑکیوں کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے بھی نہیں بس ایک لڑکی بہت ہوگی تمہارے لیے۔ سارہ بیگم نے جتاتے لہجے میں کہا۔ 

ہاں بیشک امی جان میں کونسا چار شادیاں کرکے بچے پیدا کرکے کرکیٹ ٹیم بنانی ہے۔شاہ زیب دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا جس پہ سارہ بیگم نے اپنا سر پکڑلیا پر سکندر خان ہنس پڑے۔ 

سہی تو کہہ رہا ہے میرا بیٹا۔ سکندر خان نے شاہ زیب کا دفاع کیا جس پہ شاہ زیب کی گردن اکڑگئ۔ 

اب تمہیں آفس جانے چاہیے۔سارہ بیگم نے شاہ زیب کو آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا۔ 

جارہا ہوں میں آفس اور میں بتادوں میں نے کوئی شادی وادی نہیں کرنی میری بیوی کے سامنے بھی آپ نے ایسے آنکھیں دیکھانی ہے پھر کیا ایمپریشن پڑے گا میری بیوی کے سامنے میرا۔ شاہ زیب منہ کے زاویے بگاڑتا ہوا بولا۔

اففف شاہ زیب مہرو کی کم عقلی اب تم میں ٹرانسفر ہوگئ ہے۔ سارہ بیگم کوفت سے بولی۔ 

بیگم تھوڑا ہاتھ ہلکا رکھو میری مہرو جیسی سمجھدار بیٹی پوری خاندان میں نہیں ہوگی۔ سکندر خان نے اب فورن سے مہرماہ کی طرفداری کی۔ 

جی جی آپ کی بیٹی نے اپنی سمجھداری کے بل بوتے پہ تو کشمیر آزاد کروانہ ہے۔ سکندر خان کی بات پہ شاہ زیب منہ بسور کر بڑبڑایا۔ 

میں نہیں کہتی کجھ ۔سارہ بیگم غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئ۔ 

کرلیا ناراض میری ماں کو اب مناتے رہیے گا۔ شاہ زیب مزے سے کہتا باہر کی طرف لپکا حیدر خان بھی مسکراتے سارہ بیگم کو منانے چلے گئے۔  

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مزے ہیں تمہارے یار ایک تو خود سے چار سال چھوٹا اُپر سے اتنا خوبصورت شوہر کسی کسی کو ہی ملتا ہے۔ مونا نے مہرماہ کے سیل فون میں اس کی اور شاہ میر کی تصویریں دیکھ کر رشک بھرے لہجے میں کہا۔ 

پتا نہیں پر شاہ کی طرح چاہنے والا مرد کسی کسی کو ہی ملتا ہے جو دیکھتا بھی مجھے ایسے ہے جیسے میں اس کے لیے کوئی معجزہ ہوں۔مہرماہ نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔ 

یہ تو ہے اور دیکھے بھی کیوں نہ آخر کو اُس کو ملی بھی اتنی مشکل سے ہو۔ مونا نے مہرماہ کے پاس بیٹھ کر کہا۔ 

تمہیں پتا ہے مونا شہیر کو دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ میں اس کو چاہتی ہوں پر جب میں نے آٹھ سال بعد شاہ کو دیکھا تھا نہ اس کی مضبوط شخصیت دیکھ کر میں کافی ایمپریس ہوئی تھی کہ جس کو میں بچہ سمجھتی تھی وہ اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ میں اس کے سامنے چھوٹی لگتی ہوں پر جب اس نے اظہارِ محبت کیا تھا نہ تو میرا دل ڈر گیا تھا یہ سوچ کر کے لوگ کیا کہیں گے کہ میں نے اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے بھی کم عمر لڑکے کو اپنی جانب راغب کرلیا تھا بس یہ سوچتے ہی مجھے شاہ غلط لگنے لگا تھا پر جب پھر میرا نکاح کا دن آیا شاہ کی دل دُھلانے والی باتیں سن کر میں چاہ کر بھی اپنے دل کو روک نہیں پائی۔ مہرماہ نے آہستہ آہستہ اپنے دل کا حال مونا کو بتانے لگی۔ 

اپنے شاہ کو بتایا ہے حالِ دل کا راز مونا نے اپنا کندھا مہرماہ کے کندھے سے ٹکرا کر چھیڑنے والے انداز میں کہا جس پہ مہرماہ مسکرادی۔ 

شاہ جو ہروقت اپنی محبت کا اظہار کرتا رہتا ہے مجھے موقع ہی نہیں ملتا کہ میں بھی کجھ کہوں۔ مہرماہ نے کہا۔ 

ہاٶ کیوٹ۔ مونا نے مہرماہ کے سرخ گالوں کو دیکھ کر کہا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہائے شاہ میر کین آئے سِٹ ہیر؟ شاہ میر کلاس میں بیٹھا نوٹس بنارہا تھا جب اُس کی کلاس فیلو ثنا پاس آکر بولی شاہ میر نے ایک نظر اپنے برابر والی جگہ کو دیکھا پھر دوسری پوری کلاس میں جہاں اور بھی سیٹس بیٹھنے کے لیے خالی تھی۔ 

شیور۔ شاہ میر سنجیدگی سے کہتا اپنا سامان اُٹھاتا دوسری سیٹ پہ آیا ثنا جو شاہ میر کے ساتھ بیٹھنا چاہتی اس کو دوسری سیٹ پہ جاتا دیکھ کر منہ کے زاویے بنائے۔ 

ہم ساتھ بھی بیٹھ سکتے تھے۔ ثنا شاہ میر کے سر پہ نازل ہوتی ہوئی بولی۔ 

ایکسکیوز می مجھے کوئی شوق نہیں آپ کے ساتھ بیٹھنے کا اِس لیے بڑائے مہربانی دوبارہ یہ بات نہ کہنا۔ شاہ میر سخت لہجے میں بولا جس سے پاس بیٹھے اسٹوڈنٹس ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ 

تم میری انسلٹ کررہے ہو۔ خود پہ سب کی نظریں محسوس کرتی ثنا تیز آواز میں بولی۔ 

میں نہیں آپ خود کی انسلٹ خود کررہی ہیں۔شاہ میر آرام سے بولا تو ثنا تن فن کرتی اپنی جگہ پہ آ بیٹھی اس کو اپنے پر پورے کلاس کی تمسخرانہ نظریں محسوس ہورہی تھی جس سے اس کو وجود جل رہا تھا دوسری طرف شاہ میر ہر چیز سے بے نیاز نوٹس بنانے کے بعد اپ رجسٹر پہ مہرماہ کا اسکیچ بنانے میں مگن تھا۔

شاہ میر کلاسس لینے کے بعد لابی کی جانب تھا جب اس کا فون بجنے لگا  اس نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو ریان کالنگ لکھا آرہا تھا شاہ میر مسکراتا کال اٹینڈ کرگیا۔ 

اسلام علیکم۔ شاہ میر نے سلام کرنے میں پہل کی۔ 

وعلیکم اسلام میرے یار دلدار اگر آپ کے پاس چند منٹ کی فراغت ہے تو اپنے دوست سے ملنے آجاٶ ریسٹورنٹ کا نام میں میسج پہ بتادوں گا بس تم آنے کی حامی بھرو۔ ریان شاہ میر کی آواز سن کر نان سٹاپ بولنا شروع ہوچکا تھا شاہ میر نے کوفت سے فون کان سے ہٹاکر پھر دوبارہ کان کے پاس کی۔ 

کتنا فضول بولتے ہو تم۔ شاہ میر نے تاسف سے کہا۔ 

تم جو نہیں بولتے تو سوچا میں بول لوں کیا پتا اِس بہانے تم بھی بولنا شروع کردو۔ ریان اس کی بات ہوا میں اُڑاتا ہوا بولا۔ 

میں آتا ہوں ریسٹورنٹ تم نام ٹیکسٹ کردینا۔ شاہ میر ریان کی مزید فضول باتیں سننے کے بجائے سیدھا کی بات پہ آیا۔ 

ٹھیک ہے جلدی آنا۔ ریان خوش ہوتا ہوا بولا جس پہ شاہ میر پہلی بار مسکرایا کیونکہ ریان چاہے نان سیریس لڑکا تھا مگر پھر بھی اس کا بیسٹ فرینڈ تھا لنڈن میں رہنے کے باوجود بھی شاہ میر نے بس ایک ہی دوست بنایا اور یہاں بھی کالج میں اس نے ہر ایک سے بس مختصر اور کام کی بات کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کرتا تھا جس سے وہ تھوڑے ہی وقت میں یونی میں اٹیٹیوڈ بوئے کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕


آج جو بھی میٹینگز ہیں مجھے ان سب کی ڈیٹیلز چاہیے۔ شاہ زیب اپنے کیبن میں بیٹھا انٹر کام پہ مینجر سے بولا۔ 

سر یہ سب فائلز۔دو منٹ بعد مینجر شاہ زیب کے کیبن میں حاضر ہوا۔ 

ہمم میں نے تمہیں ایک کام کہا تھا۔ شاہ زیب فائلز پہ نظر گھماتا ہوا بولا۔ 

جی سر یاد ہے آپ نے پرسنل اسسٹنٹ کا کہا تھا میں نے ایڈ دیں دیا ہے پرسو سب کے انٹرویوز لیں گے۔ مینجر نے کہا تو شاہ زیب نے سر کو خم دیا۔ 

اوکے محمود تم اب جاسکتے ہو۔ شاہ زیب نے سر جھکائے کھڑے مینجر سے کہا تو وہ سرہلاتا ہوا کیبن سے نکل گیا شاہ زیب سب فائلز دیکھنے کے بعد لیپ ٹاپ کھول بیٹھا تبھی کیبن کا دروازہ نوک ہوا شاہ زیب نے سر اٹھا کر دیکھا تو سالار کھڑا تھا۔ 

بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے۔ شاہ زیب اپنے چیئر کو ہلکا سا گھماتا سالار سے بولا۔

بس ہمت نہیں تھی۔ سالار نے کہا۔ 

اوو ناٹ اگین۔ سالار کی بات کا مطلب سمجھتا شاہ زیب بیزار ہوا۔ 

زیب ہم تیار تھے پھپھو سے سارے رابطے ختم بھی کردیئے تھے پر یوں اچانک پھر زین آگیا تو سارا معاملہ بدل گیا حور کا نام بھی بہت وقت تک زین سے جڑا تھا اور تمہیں اندازہ ہوگا لڑکیاں منگنی کے بعد اس لڑکے کے ساتھ اپنے خواب سجا بیٹھتی ہیں حور کا بھی کجھ ایسا حال ہے وہ زین سے محبت کرتی ہے دوسرا یہ کہ تم سے سال بڑی ہے۔ سالار نے دھیمی لہجے میں کہا اس کو کسی نے کجھ کہا تو نہیں پر پھر بھی وہ شرمندہ ہورہا تھا۔ 

سالار میں سب جانتا ہوں اور میں کونسا حور سے طوفانی قسم کی محبت کرتا ہوں حور ہمیشہ میرے لیے مہرو کی طرح رہی ہے میں نے اگر شادی کے لیے حامی بھری تھی تو مہرو کی وجہ سے امی جان پریشان تھی اور پھپھو نادیہ بھی حور کے معاملے میں پریشان رہتی تھی میر کی مہرو سے محبت نے بہت سے مسائل پیدا کردیئے تھے خاندان کے بیچ اُس وقت ایک بس مجھے یہی حل لگا حور سے شادی کرلوں رہی بات مہرو کی تو وہ میر کی اس وقت ہوگئ تھی جب میر کے ایکسیڈنٹ کی خبر سنی تھی۔ شاہ زیب نے اس کی ساری شرمندگی ختم کرنی چاہی۔ 

سہی پر مسائل کا زمیدار تم میر کو نہ دو کیونکہ وہ معصوم ہے یہ سب بس پھپھو کی وجہ ہوا ہے۔ سالار نے شاہ میر کا دفاع کیا۔ 

ایک میرے علاوہ پوری دنیا کے لوگ معصوم ہے۔ سالار کی بات پہ شاہ زیب جل بھن کر بولا اس کی شکل دیکھ کر سالار کی ہنسی چھوٹ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ابھی تک کجھ آرڈر نہیں کیا؟ شاہ میر ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا ریان کی ٹیبل کے پاس آکر بولا جو ریسٹورنٹ کے کونے کے پاس تھی اور سامنے گلاس وال ڈور تھا جس سے باہر کی منظر صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ 

تمہارا انتظار کررہا تھا کہ تم آکر آرڈر دوگے آخر کو شادی کی ٹریٹ بھی تو دینی ہے مجھے۔ریان شاہ میر سے گلے ملتا ہوا بولا۔ 

دو ماہ میں پانچ دفع ٹریٹ دے چُکا ہوں۔ شاہ میر نے طنزیہ کا تیر چلایا۔ 

تو کونسا شادی کرکے مجھ پہ احسان کیا ہے اب اگر شادی کرلی ہے تو ٹریٹ بھی دو۔ ریان بنا اس کے طنزیہ کا اثرلیے کہا شاہ میر نفی میں سر کو جنبش دیتا اشارے سے ویٹر کو اپنے پاس آنے کا کہا ویٹر مینیو کارڈ لے آیا تو شاہ میر سے پہلے ریان نے اچک لیا شاہ میر بس ریان کو دیکھتا رہ گیا۔ 

دو چکن رول ون کباب کوفتہ ایک بریانی کی پلیٹ ملائی ٹِکا  شورمہ رول اور مینگو جوس۔ ریان طوطے کی طرح فر فر ویٹر سے اپنا آرڈر لکھوارہا تھا شاہ میر جو وال گلاس سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا ریان کے کھانے کی چیزوں کا نام سن کر ہونک زدہ ہوکر اس کا چہرہ دیکھنا لگا جو ابھی بھی شاید یاد کررہا تھا کہ اور کیا منگوانا ہے۔ 

میرے لیے بس یہی میر تم اپنا آرڈر دو۔ ریان کو کجھ یاد نہ آیا تو شاہ میر سے کہا۔ 

یہ ابھی بھی بس ہے۔ شاہ میر نے طنزیہ پوچھا۔ 

ہاں نہ ابھی تو میں نے پیزا برگر پاستا نہیں منگوایا۔ ریان نے اہم معلومات دی۔ 

سر آپ اپنا آرڈر بتائے۔ دونوں کو بحث کرتا دیکھ کر ویٹر نے اپنی موجودگی کا احساس کروایا۔ 

میرے لیے بس ایک کپ کافی۔ شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا۔ 

کھانے کے لیے نہیں کہا کجھ۔ ریان نے تعجب سے پوچھا۔ 

مجھے ماہ کے ساتھ لنچ کرنا ہے۔ شاہ میر نے آرام سے جواب دیا جس پہ ریان نے شریر نظروں سے اس کی جانب دیکھا جس پہ شاہ میر نے اپنی آنکھیں گُھمائی۔ 

میری ہفتے بعد لنڈن کی فلائٹ ہے۔ ریان نے شاہ میر سے کہا تبھی دو ویٹرز ان کا آرڈر ٹیبل پہ سیٹ کرنے لگے۔ 

ٹائم بتادینا سی آف کرنے آجاٶں۔شاہ میر نے کافی کا کپ پکڑتے ہوئے کہا۔ 

کتنے بے مروت ہو یار یہ بھی نہیں پوچھا کہ کیوں جارہے ہو اچانک سے۔ ریان نے چکن رول کا پیس منہ میں ڈال کر شاہ میر سے کہا۔ 

یہ کیوں پوچھو کہ کیوں جارہے ہو جب کے میں جانتا ہوں تم وہاں کے رہائشی ہو۔ شاہ میر نے آرام سے کافی کا گھونٹ بھر کر کہا۔ 

یہ بھی ہے۔ ریان نے گردن ہلائی تو شاہ میر مسکرایا۔

پھر کب آٶ گے پاکستان؟شاہ میر نے ریان کو مگن انداز میں کھاتا دیکھا تو پوچھا۔ 

پتا نہیں کیونکہ وہاں ڈیڈ کے اپنی کمپنی اسٹابلیش کی ہے جس کا زمہ میرے سر پہ ڈالا ہے ورنہ تم تو جانتے ہو تمہارے یہاں شفٹ ہونے کے بعد میرا بھی دل کررہا تھا پاکستان رہنے کا۔ ریان نے کجھ اُداس ہوکر کہا۔ 

اچھا تم کوشش کرنا یہاں سیٹل ہونے کی۔ شاہ میر نے بس اتنا کہا۔ 

ضرور اور میں لنڈن میں رہ کر بھی اپنے بچوں کی پرورش پاکستانی ٹریڈشن کے مطابق کروں گا۔ ریان نے مزے سے بتایا۔ 

پہلے شادی کے لیے لڑکی تو تلاش کرلو پھر بچوں کی پرورش بھی کردینا۔ شاہ میر نے گھور کر کہا

شادی بھی ہوجائے گی کونسا بڑی بات ہے یا شادی کرنا مشکل ہے بس میریج فارم میں سائن ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ریان اب ملائی ٹِکا کھاتے ہوئے بولا۔ 

جی بلکل لنڈن میں تو یہی ہوتا ہے ورنہ یہاں تو ماہ کو پورے سات مایوں میں بیٹھایا تھا میں نے تب ان سے بات کرسکتا تھا اور نہ ہی مل سکتا تھا سخت پہرے تھے ان پہ شاہ زیب بھائی کے۔ شاہ میر پورانی باتیں یاد کرتا ہوا بولا

ہاں تیرے سالے صاحب نے جانے کونسے بدلے نکالیں ہے تم سے۔ریان ہنس کر بولا۔ 

سالے صاحب مطلب؟ شاہ میر کو سمجھ نہیں آیا۔ 

بیوی کا بھائی سالا ہوتا ہے اور بہن کو سالی کہتے ہیں۔ریان نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔ 

بڑا عجیب نام ہے۔ شاہ میر کہتا کافی کا آخری گھونٹ پینے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ بیڈ پہ بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی جب شاہ میر واشروم سے ڈھیلی شرٹ کے ساتھ ٹراٶزر پہنتا باہر نکلا شاہ میر تولیہ صوفے پہ رکھتا مہرماہ کو دیکھنے لگا جو بلیک نائٹ سوٹ پہنے کھلے بالوں کے ساتھ ناول پڑھنے میں مگن تھی بالوں کی آوارہ لٹیں اس کہ گالوں پہ جھول رہی تھی جس سے لاپرواہ مہرماہ کا سارا دھیان ناول کی جانب دیکھا۔ 

جو میں چاہتا ہوں وہ توجہ تو مجھ سے زیادہ اِس ناول کی کتاب کو حاصل ہے۔ شاہ میر گھور کر مہرماہ کے ہاتھوں میں موجود باول کی کتاب کو دیکھا شاہ میر کو مزید مہرماہ کا دھیان خود پہ نا پاکر برداشت نہیں ہوا تو بیڈ پہ چڑھ کر اپنا سر مہرماہ کی گود میں رکھ دیا مہرماہ نے ایک نظر شاہ میر پہ ڈالی پھر دوبارہ ناول پڑھنے لگی۔ 

سونے کا اِرادہ نہیں کیا آپ کا؟ شاہ میر مہرماہ کے گالوں پہ پڑتے بال اس کے کان کے پیچھے کرتا ہوا پوچھنے لگا۔ 

بس تھوڑی بچی ہے وہ پڑھ لوں پھر سوتی ہوں۔ مہرماہ نے جواب دیا۔ شاہ میر یک ٹک مہرماہ کو دیکھنے میں مگن ہوگیا۔

شاہ سوجاٶ۔خود پہ شاہ میر کی نظروں کی تپش محسوس کرتی مہرماہ نے اس کی آنکھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر کہا کیونکہ شاہ میر کی نظروں سے اس کا دھیان ناول سے ہٹ رہا تھا۔ 

آپ سوجائے پھر۔ شاہ میر اپنی آنکھوں سے مہرماہ کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاکر اپنے سینے پہ دل کہ مقام پہ رکھ کر بولا

بہت ضدی ہو۔ مہرماہ نے ناول سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر شاہ میر سے کہا جس پہ شاہ میر کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ۔ 

آپ اگر میرے علاوہ اِس بے جان چیز کو اہمیت دیگی تو میں ضد پہ تو آٶں گا نہ۔شاہ میر نے جواب دیا۔ 

تمہارا کوئی جواب نہیں۔مہرماہ نفی میں سرہلاتی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی جس سے شاہ میر نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کرلی مہرماہ غور سے شاہ میر کے چہرے کے نقوش دیکھنے لگی شاہ میر کی بلو آنکھیں اِس وقت بند تھی سپید سفید رنگت پہ ہلکی سی بیئرڈ اس کے چہرے کو وجیہہ بنارہی تھی کشادہ چمکتی پیشانی پہ اِس وقت بال بکھرے ہوئے تھے جو کجھ گیلے بھی تھے مہرماہ سے رہا نہیں گیا تو جھک کر اس کی پیشانی پہ اپنے لب رکھیں۔شاہ میر جو آنکھیں بند کیے مہرماہ کے ہاتھ کا لمس اپنے بالوں پہ محسوس کررہا تھا مہرماہ کو اپنی پیشانی پہ جھکا دیکھا تو اپنی آنکھیں کھول کر مہرماہ کو دیکھا جس کے گالوں کا رنگ گلابی سے لال ہوگیا تھا شاہ میر کی بلو آنکھوں میں چمک آئی تھی جس کو دیکھ کر مہرماہ کا دل زور سے دھڑکا تھا شاہ میر نے مہرماہ کے ہاتھ کو کلائی سے پکڑ کر جھٹکا دیا جو اس کے بالوں میں تھا اچانک جھٹکا لگنے کی وجہ سے مہرماہ شاہ میر کے اُپر گِری تھی۔

شاہ۔ مہرماہ نے شاہ میر کو گھورا جواب میں شاہ میر مسکراہٹ دباتا اس کے گالوں پہ بوسہ دینے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ زیب ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھا ضروری ای میلز چیک کررہا تھا جب سارہ بیگم نے کجھ تصاویر اس کے سامنے کی۔ 

یہ کیا ہے امی جان؟ شاہ زیب بنا نظر ڈالیں پوچھنے لگا۔ 

خاندان میں تمہاری عمر کی کوئی لڑکی نہیں یہ ہمارے جاننے والے خاندان سے دور ان کے ساتھ بس ہمارے بزنس ٹرمز ہیں ان کی بیٹیاں بہت باشعور اور اعلیٰ تعلیم آفتا ہیں تم کوئی لڑکی اپنے لیے پسند کرو تاکہ میں بات آگے کروں۔ سارہ بیگم نے کہا شاہ زیب نے رحم کرتی نظروں سے سکندر خان کو دیکھا جو نو لفٹ کا سائن دیں کر پراٹھا کھانے میں لگ گئے تھے۔ شاہ زیب نے تھکن زدہ سانس ہوا میں خارج کی۔ 

مجھے تو سب پسند ہیں آپ ان کے سب کے والدین سے بات کریں۔ شاہ زیب نے معصوم شکل بناکر سارہ بیگم سے کہا۔ 

زیب ہروقت مذاق نہیں کیا جاتا یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اِس لیے تم بھی سنجیدگی سے اپنی شادی کا سوچو میر تم سے تین سال چھوٹا ہے پر دیکھو کیسے شادی کرلی۔ سارہ بیگم نے شاہ زیب کی اچھی خاصی کلاس لی

میر کا بس چلتا تو وہ اپنی بارہ سال کی عمر میں شادی کرکے بیٹھ جاتا مگر افسوس تب اس کو کسی نے شادی نکاح کا نہیں بتایا تھا۔ شاہ زیب شاہ میر کے نام پہ بولا سکندر صاحب کا قہقہ بے ساختہ تھا شاہ زیب کی بات پہ۔ 

مذاق مت اُڑاٶ اُس کا۔ سارہ بیگم نے آنکھیں دیکھائی۔ 

مذاق کہاں اُڑا رہا ہوں جنرل بات کررہا ہوں اب دیکھو انسان پڑھائی پوری کرنے کے بعد اپنے آپ کو سیٹل کرتا ہے بزنس میں پھر جاکر وہ شادی کرتا ہے مگر یہاں تو گنگا ہی اُلٹی تھی مسٹر شاہ میر حیدر خان نے اکیس سال کی عمر میں اپنی پڑھائی چھوڑ کر شادی کرنے کا شوشہ چھوڑا اِس ڈر سے کہ کہیں اس کی ماہ کسی اور کا چاند نہ ہوجائے دوسری حیرت مجھے اِس بات پہ ہے کہ شادی کے ایک ماہ بعد جناب نے MBA میں ایڈمیشن لے لیا۔ شاہ زیب جوس پیتا ساتھ میں بول بھی رہا تھا۔ 

برخودرا اگر ایسا ہے تو آپ تو اپنی پڑھائی پوری کردی ہے اور بزنس بھی سیٹل کردیا ہے پھر آپ نے اب بھی شادی کرنے کا نہیں سوچا۔ سکندر خان نے توپوں کا رخ دوبارہ سے شاہ زیب کی جانب کیا جو شاہ زیب بڑی مہارت سے خود کو بچاتا شاہ میر کا ذکر کرگیا تھا۔ 

میں کونسا بوڑھا ہورہا ہوں چوبیس کا ہوں کرلوں گا شادی ابھی بیچلر لائیف گُزارنا چاہتا ہوں۔ شاہ زیب دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا جس پہ سارہ بیگم ہمیشہ کی طرح سر پکڑ کہ بیٹھ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ر کا ہاتھ اپنے اُپر سے ہٹایا اور بیڈ سے نیچے اُتر کر وارڈروب کی جانب آکر ایک ڈریس نکال کر واشروم کی جانب گئ واشروم کے دروازے کہ بند ہونے کی آواز سے شاہ میر کی آنکھ بھی کُھل گئ۔

آج جلدی اٹھ گئے۔ دس منٹ بعد مہرماہ بالوں میں تولیہ لپیٹ کر آئی تو شاہ میر کو دیکھ کر بولی۔ 

میں تو ہر روز آپ کے ساتھ اٹھتا ہوں بس سونے کا ڈرامہ کرتا ہوں۔ شاہ میر نے گہری نظروں سے مہرماہ کی طرف دیکھ کر کہا جو ریڈ کلر کے نیٹ فراق کے ساتھ ریڈ چوریدار پاجامہ پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی چہرے پہ پانی کی بوندیں اب بھی ٹپک رہی تھی جس سے مہرماہ شاہ میر کو مزید خوبصورت لگی۔ 

اچھا تو فریش ہوجاٶ۔مہرماہ تولیے سے بالوں کو آزاد کرتی ہوئی بولی۔ 

ہمم جاتا ہوں۔ شاہ میر نے کہا۔ 

میں تمہارے لیے کپڑے نکال دیتی ہوں۔ شاہ میر بیڈ سے اٹھا تو مہرماہ نے کہا۔ 

ٹھیک ہے۔ شاہ میر جواب دیتا مہرماہ کے ہاتھ سے تولیہ لیکر واشروم کی طرف جانے لگا۔ 

شاہ تولیہ تو دوسرا یوز کرو۔ مہرماہ نے تاسف سے کہا۔ 

میاں بیوی ہیں ہم یوز کرسکتے ہیں۔شاہ میر آنکھ ونک کرتا ہوا بولا اور واشروم کا دروازہ بند کرگیا۔ 

میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ مہرماہ سرخ چہرے لیے واشروم کے دروازے کو گھور کر بولی۔ 

میرا تو وہی مطلب تھا جو آپ سمجھی۔ شاہ میر نے واشروم سے ہی جواب دیا جس پہ مہرماہ پیر پٹختی وارڈروب سے شاہ میر کے کپڑے نکالنے لگی۔ 

پندرہ منٹ بعد شاہ میر جینز پینٹ کے ساتھ بلیک کلر کی بنیان پہنے باہر آیا اور ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آکر مہرماہ کے پیچھے کھڑا ہوا۔ مہرماہ جو میک اپ کو آخری ٹچ دے رہی تھی اپنے پیچھے شاہ میر کو کھڑا ہوتا دیکھ کر اس کی نظر شاہ میر کے مضبوط بازوں پہ پڑی جو بنیان کے سلیولیس ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہورہے تھے۔ 

میک اپ کی کیا ضرورت ہے آپ کو۔ شاہ میر بیڈ سے اپنی شرٹ اٹھاکر پہن کر مہرماہ سے بولا۔ 

نہ کرتی تو چچی جان نے کہنا تھا تیار کیوں نہیں ہوتی تم نئ نئ شادی ہے تمہاری حلانکہ دو ماہ سے زیادہ وقت ہونے کو ہے۔ مہرماہ نے جواب دیا۔ 

تو آپ ان سے کہا کریں میرے شاہ کو میرا میک اپ کرنا پسند نہیں میں اس کو ایسے ہی بہت پسند ہوں۔ شاہ میر چلتا ہوا مہرماہ کو پیچھے سے حصار میں لیتا ہوا بولا۔ 

شاہ میں فلحال تمہاری طرح بے باک نہیں ہوئی۔ مہرماہ نے مرر سے شاہ میر کو گھور کر کہا۔ 

تو ہوجائے۔شاہ میر عقیدت بھرا لمس اس کے کاندھے پہ چھوڑ کر اس سے الگ ہوتا ہوا بولا۔ 

میں باہر جارہی ہوں تم بھی آجانا۔ مہرماہ اپنا ڈوپٹہ پہنتی شاہ میر سے کہنے لگی۔ 

نہیں آج ہم ساتھ نیچے جائے گے۔ شاہ میر بولا۔ 

اچھا تو یہ سہی ہے۔ مہرماہ نے سرہلایا تو شاہ میر مسکراتا اپنے بال سیٹ کرنے لگا اس کے بعد ڈیجیٹل واچ اپنی کلائی میں پہن کر پرفیوم کی بوتل اٹھائی پرفیوم خود پہ اسپرے کرنے کے بعد شاہ میر مہرماہ کے پاس آیا جو اس کے انتظار میں تھی۔ 

چلیں؟ شاہ میر نے۔ پوچھا۔ 

ایسے۔ مہرماہ نے شاہ نے شاہ میر کا جائزہ لینے کے بعد اس کے پیروں کی جانب اشارہ کیا جہاں وہ سادہ سی سلپر پہنے ہوئے تھا۔ 

اوو۔ شاہ میر نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ مار کر کہا تو مہرماہ ہنس پڑی شاہ میر بھی مسکراتا ریک کے پاس آکر اپنے شوز نکالنے لگا۔

ایک کی لیس میں باندھ دیتی ہوں۔ مہرماہ نے شاہ میر کو ایک شوز کی لیس باندھتے دیکھا تو دوسرے شوز کی جانب دیکھ کر کہتی لیس میں ہاتھ رکھنے لگی جو شاہ میر نے فورن سے پکڑ لیا تھا اور گھور کر مہرماہ کو دیکھا جو ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ 

کیوں کیا ہوا؟ مہرماہ نے آخر پوچھ لیا۔ 

آپ میرے شوز پہ ہاتھ نہ رکھیں ہاں دل پہ رکھ سکتی ہیں۔ شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا۔ 

یہ کیا بات ہوئی شاہ بس لیس ہی تو باندھنی ہے۔ مہرماہ نے کہا۔ 

جو بھی پر آپ میرے قدموں کو چھوے یہ مجھے گوارا نہیں۔شاہ میر کا لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔ 

کجھ نہیں ہوتا ویسے بھی تم کونسا اپنے پیروں میں پروا رہے ہو میں خود اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہوں۔ مہرماہ نے ایک بار پھر کہا۔ 

ماہ میں آپ سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں اور میرا عشق مجھے اجازت نہیں دیتا کہ آپ کے ہاتھ میرے پیروں میں ہو تھوڑی ہی وقت کے لیے کیونکہ میرے دل میں آپ کا مقام سے سے اونچا ہے میں امید کروں گا آپ دوبارہ ایسا کرکے یا کہہ کر میرے عشق کی توہین نہیں کریں گی۔ شاہ میر گھمیر آواز میں کہتا اپنا ماتھا مہرماہ کے ماتھے سے ٹکایا جب کی مہرماہ ساکت سی شاہ میر کے لفظوں کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی کیا کجھ محسوس نہیں ہوا تھا اس کو شاہ میر کے لہجے میں مان، عزت، عقیدت ، عشق، اور سب سے زیادہ شدت پسندی۔

شاہ میں نے ایسے ہی کہا تھا مجھے کیا پتا تھا تمہیں بُرا لگ جائے گا۔ مہرماہ نے اپنا چہرہ شاہ میر کے چہرے کے سامنے کرتے ہوئے کہا

مجھے کبھی بھی آپ کی بات کا بُرا نہیں لگ سکتا پر میں کبھی یہ بھی نہیں چاہوں کے آپ ایسا کجھ دوبارہ کہے۔ شاہ میر اس کے ماتھے پہ شدت بھرا لمس چھوڑ کر بولا۔ 

اچھا اب جلدی سے شوز کی لیس باندھو۔ مہرماہ شاہ میر کی شدت پسندی سے گھبراکر اٹھتی ہوئی بولی۔ 

لیں باندھ لی اب چلیں۔ شاہ میر اٹھتا مسکراکر اپنا ہاتھ مہرماہ کے کرتے ہوئے  بولا۔ 

جی چلو۔ مہرماہ نے اپنا ہاتھ شاہ میر کی چوڑی ہتھیلی پہ رکھ کر کہا پھر وہ دونوں ساتھ نیچے آئے جہاں حیدر خان ہانم بیگم پری اور آیان پہلے ہی موجود تھے۔ 

اسلام علیکم! مہرماہ نے سلام میں پہل کی۔ 

وعلیکم اسلام کتنے پیارے لگ رہے ہو ساتھ میں۔ہانم بیگم دونوں کی بلائے لیتی ہوئی بولی۔ 

شکریہ امی جان۔ شاہ میر ہانم بیگم کو اپنے ساتھ لگائے بولا۔ 

چچی جان میں سوچ رہی تھی اب دودھ میں ہاتھ دھونے کی رسم ہوجانی چاہیے میری۔ مہرماہ نے ناشتہ کی ٹیبل پہ شاہ میر کو ناشتہ سرو کرتے ہوئے ہانم بیگم سے کہا۔ 

ہوجائے گی رسم ویسے بھی تمہارا اپنا گھر ہے اور کام کرنے کے لیے ملازم ہیں نہ۔ ہانم بیگم مہرماہ کی بات پہ مسکراتی ہوئی بولی۔ 

آپ پہلی ساس ہوگی جو اپنی بہو کے گھر کے کاموں میں اُلجھانے کے بچائے ان کو بچا رہی ہیں۔پری نے آملیٹ کھاتے ہوئے شریر لہجے میں کہا جس پہ سب مسکرادیئے۔ 

ہاں تو ہر ساس ایسا کرتی ہوگی جس کے پاس مہرو جیسی بہو ہوگی۔ ہانم بیگم محبت پاش نظروں سے مہرماہ کو دیکھ کر بولی مہرماہ ان سب کی محبت پہ دیکھ کر دل میں اللہ کے شکرگزار ہوئی۔

چچی جان وہ سب تو ٹھیک پر پھر بھی دیکھے اب تو میری مہندی کا رنگ بھی ہلکا ہوگیا ہے۔ مہرماہ نے اپنے ہاتھ ان کے سامنے کرتے ہوئے کہا جہاں ابھی بھی مہندی کا گہرا رنگ چمک رہا تھا۔ 

بھابھی آپ نے اپنی شادی کے لیے کہاں سے مہندی لی تھی میری مہندی کا رنگ تو کب سے اُُتر بھی گیا۔ پری نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھ کر مہرماہ سے کہا۔ 

ایک کمپنی کی مہندی تھی بس فرق یہ ہے کہ مہرماہ کے ہاتھوں میں رنگ اتنا گہرا اس لیے کیونکہ میر اس کو بہت چاہتا ہے۔ ہانم بیگم کی بات پہ جہاں خاموش بیٹھے شاہ میر کی آنکھوں میں چمک آئی تھی وہی ہانم بیگم کی سب کے سامنے کہی بات پہ مہرماہ جزبز ہوگئ تھی۔ 

تم ناشتہ کرو چُپ چاپ۔ مہرماہ نے شاہ میر شریر نظریں خود پہ محسوس کیے رعب سے کہا جس سے شاہ میر اس کی بات مانتا ناشتے کی پلیٹ اپنے قریب کی۔ 

مہرو ایسا کرنا تم کل دودوہ میں کل ہاتھ دوھ لینا میٹھے میں کھیر بنانا ایسے میں تمہاری خواہش پوری ہوجائے گی۔ ہانم بیگم نے مہرماہ سے کہا جو بوائل انڈے کے چھلکے نکال رہی تھی۔ 

اوکے چچی جان۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا۔مہرماہ کانٹے کی مدد سے انڈہ کھانے لگی تو شاہ میر نے بھی ایک کانٹا اٹھا کر مہرماہ کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سے انڈہ کھانے لگا جس پہ مہرماہ نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا کیونکہ جانتی تھی جب تک شاہ میر اس کا چھوٹا جوس یا کھانا نہیں کھا پی لیتا اس کو چین نہیں آنا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میں تمہیں بہت مس کروں گا۔ شاہ میر ریان کو ایئرپورٹ  سی آف کرنے آیا تھا جب ریان شاہ میر کے گلے لگتے ہوئے بولا۔ 

جب مس کرو تو آجانا فون سے رابطہ تو ہوتا رہے گا۔ شاہ میر نے مسکراکر اس کی پیٹھ سہلاکر کہا۔ 

وہ تو ہوگی پر تم مجھے سب سے پہلے بتاٶ گے۔ریان نے ویسے ہی بولا۔ 

کیا سب سے پہلے؟شاہ میر کو سمجھ نہیں آیا۔ 

جب گڈ نیوز ملے بھابھی کو اور تمہیں بچے کی تو وہ۔ ریان نے شاہ میر کی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے کہا۔ 

ہاں ضرور۔شاہ میر گہری مسکراہٹ سے بولا۔ 

اچھا اب دور ہٹ لوگ مشکوک نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔شاہ میر نے ریان کو خود سے الگ ہوتا نہیں دیکھا تو کہا۔ 

بڑے کمینے ہوگئے ہو شادی کے بعد۔ ریان شاہ میر کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے اس کے کندھے پہ مکہ مار کر بولا جواب میں شاہ میر نے زوردار قہقہ لگایا۔ 

اللہ تمہاری مسکراہٹ ہمیشہ سلامت رکھیں۔ریان محبت سے شاہ میر کو مسکراکر دیکھ کر دل میں دعا دیتے ہوئے بولا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر گھر آیا تو اس کو پتا چلا مہرماہ اپنے ماں باپ کے گھر گئ ہے شاہ میر بنا ایک منٹ ضائع کیے اپنے قدم واپس باہر لیے اور سکندر خان کی طرف آیا شاہ میر جیسے ہی ہال میں داخل ہوا تو سب سے پہلے اس کی نظر شاہ زیب پہ پڑی تو وہ مسکراتا اس کی طرف آیا جو پوری طرح اپنے سیل فون میں pubg کھیلنے میں مگن تھا شاہ زین بزنس مین بن کر بھی اِس گیم کی جان نہیں چھوڑی تھی۔ 

کیا ہورہا ہے سالے صاحب؟ شاہ میر شاہ زیب کے برابر بیٹھ کر بولا شاہ زیب اس کے سالے کہنے پہ ایسے دیکھنے لگا جیسے شاہ میر کوئی خلائی مخلوق ہو۔ 

ؓمہروووو۔شاہ زین شاہ میر کو جواب دیئے بنا مہرماہ کے نام کو کھینچ کر تیز آواز میں اس کو پکارنے لگا شاہ میر حیرت سے شاہ زیب کو دیکھنے لگا اس کو سمجھ نہیں آیا اچانک شاہ زیب کو کونسے کیڑے نے کاٹ لیا۔ 

کیا ہے زیب کیوں گلا پھاڑ کر چلا رہے ہو؟ مہرماہ اس کے پاس آکر کوفت سے بولی۔ 

بتاتا ہوں تم تو میری عزت کبھی نہیں کی پر اب تمہارا تم سے چار سال چھوٹا شوہر بھی مجھے گالی دیں رہا ہے۔ شاہ زین نے دانت پیستے ہوئے کہا شاہ میر کی بلو آنکھیں شاہ زین کی گالی کہنے پہ پھیل گئ وہ سوچنے لگا کب اس نے شاہ زین کو گالی دی مہرماہ نے ناسمجھی سے شاہ میر کو دیکھا جس پہ شاہ میر جھٹ سے اپنا سر نفی میں ہلانے لگا۔ 

کیا بول رہے ہو زیب؟  مہرماہ نے پوچھا۔ 

میر نے مجھے سالا کہا۔ شاہ زین نے شاہ میر کی شکایت لگائی مہرماہ نے شاک میں شاہ میر کی جانب دیکھا جو اُس کے اِس طرح دیکھنے پہ گڑبڑا گیا تھا۔ 

زیب تم سے تین سال بڑا ہے۔ مہرماہ نے جیسے شاہ میر کو یاد دلایا۔ 

ماہ قسم سے میں زیب بھائی کو گالی نہیں دی اور نہ میرا ایسا کوئی ارادہ تھا میں تو بس آپ کے رشتے کے لحاظ  سے سالے صاحب بولا مجھے کیا پتا تھا شاہ زیب بھائی یہ مطلب نکالیں گے۔ شاہ میر نے ایک ہی سانس میں مہرماہ کو وضاحت دی۔ 

تو ایسا کہنا تھا نہ جیجا جی۔ شاہ زیب اب اس کی بات سمجھتا مسکراکر زور سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ مار کر بولا جس پہ شاہ میر ضبط کرتا رہ گیا۔ 

زیب جانے کب تمہیں عقل آئے گی۔ مہرماہ شاہ زین کے بال بگاڑتی وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئ۔ 

جب تمہیں مجھ جیسے ہینڈسم ڈیشنگ بھائی کی قدر ہوگی۔ شاہ زیب نے پیچھے سے ہانگ لگائی۔

ایک گیم ہوجائے ساتھ۔شاہ میر نے شاہ زیب سے کہا۔ 

میں بچوں سے نہیں کھیلتا۔ شاہ زیب اپنی پہلی ہار یاد کرتا شاہ میر سے بولا دوسری طرف شاہ میر نے شاہ زیب کو ایسے دیکھا جیسے اس کی بات پہ بہت محفوظ ہوا۔ 

کھیلنی چاہیے بھی نہیں اگر خود سے چھوٹے عمر کے لوگ جیت جائے تو بہت انسلٹ فیل ہوتی اگر اپنی عمر کا کوئی کھیلے بھی تو اپنی ہار انسان جیسے تیسے برداشت کرہی لیتا ہے۔ شاہ میر اپنی موبائل میں دیکھتا شاہ زیب سے بولا جو اس کی بات پہ اچھا خاصا تپ گیا تھا۔

ضرور یہ بات تمہیں  کسی پروفیسر نے بتائی ہوگی۔ شاہ زیب نے ٹھنڈے ٹھار طنزیہ کیا۔ 

ہر بات پروفیسر نہیں بتاتے کجھ باتیں انسان اپنے دماغ سے بھی کرلیتا ہے۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا۔ 

ارے میر تم یہاں ہو میں اندر تمہارا انتظار کررہی تھی۔ سارہ بیگم نے مسکراکر شاہ میر سے کہا۔ 

اسلام علیکم چچی جان میں وہ بس ماہ کو لینے آیا تھا۔ شاہ میر اپنی جگہ سے اٹھتا ادب سے سارہ بیگم کو مخاطب ہوا۔ 

مہرو ابھی تو آئی اور ساتھ میں گھر ہونے کی باوجود بھی تم دونوں نے بہت دِنوں بعد چکر لگایا اس لیے رات کا کھانا کھاتے جانا۔ سارہ بیگم اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی

ہم نے تو یہ بھی سوچا تھا دو تین دن مہرو یہاں رہے گی۔ شاہ زیب نے شاہ میر کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا جس سے شاہ میر تڑپ اٹھا تھا

دو تین دن یہاں کیوں پاس ہی گھر ہے جب آپ کا دل کریں آپ ان سے ملنے آجانا اور جب ماہ کا دل کریں گا میں ان کو یہاں لیں آٶں گا۔ شاہ میر جلدی سے بولا اس کا کہاں برداشت تھی مہرماہ سے چند منٹ کی بھی دور یونیورسٹی میں بھی وہ ایک ایک منٹ گِن کر گُزارتا تھا۔ 

میر شادی کے بعد لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھر رہنے آتی ہیں اور شادی کے دوسرے دن رہنا تو رسم ہوتی ہے پر تم نے ضد کی تھی جس پہ ہم نے بھی کوئی بحث نہیں کی تھی۔ سارہ بیگم نے کہا۔ 

ماہ سے بات کی آپ نے؟ شاہ میر نے پوچھا۔ 

ہاں اس کو تو کوئی اعتراض نہیں۔سارہ بیگم کی بات پہ شاہ میر کا منہ لٹک گیا شاہ زیب کا بس نہیں چل رہا تھا وہ زور زور سے قہقہ لگاتا شاہ میر کی اُڑی رنگت دیکھ کر پر سارہ بیگم کی وجہ سے خاموش بیٹھا تھا۔ 

میں چلتا ہوں پھر ماہ سے ایک دفع بات کرلوں۔ شاہ میر نے کہا۔ 

ابھی کیوں رات کا کھانا کھاکر جانا۔ سارہ بیگم نے دوبارہ کہا۔ 

چچی جان کل میرا ٹیسٹ ہے اس کی تیاری کرنی ہے۔ شاہ میر نے بہانا بنایا اور مہرماہ کے کمرے کی طرف جانے لگا۔ 

بچہ ہے بلکل مہرو کے معاملے میں۔سارہ بیگم شاہ میر کی پشت دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔ 

شاہ میر مہرماہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو مہرماہ کو الماری کے پاس کھڑا دیکھا جہاں وہ اپنے کجھ ڈریسز نکال رہی تھی شاہ میر اندر آیا اور دروازے کو لاک کیا۔ 

تم یہاں۔مہرماہ دروازہ لوک ہونے پہ چونک کر مڑ کر دیکھا۔

آج آپ یہاں رہنے والی ہیں۔ شاہ میر بیڈ پہ بیٹھ کر بولا۔ 

ہاں امی جان اور زیب بار بار اصرار کررہے تھے میرا اپنا بھی دل تھا یہاں رہنے کا اِس لیے۔مہرماہ نے مسکراکر بتایا۔ 

سہی۔ شاہ میر بس اتنا بولا مہرماہ الماری سے ایک شاپر نکالتی بُکس ریک کے پاس آکر اپنی پسندیدہ ناولز اُس میں ڈالنے لگی شاہ میر بہت دھیان سے اس کی حرکتیں ملاحظہ کررہا تھا۔ 

رات رہنے کی کیا ضرورت میں جب یونی جاتا ہوں تو تب آپ یہاں آجانا۔ شاہ میر کجھ دیر بعد بولا۔ 

شاہ ایک رات کی ہی تو بات ہے۔ مہرماہ بیڈ پہ اس کے پاس آکر بولی۔ 

مجھ سے رہا نہیں جائے گا۔ شاہ میر اپنا سر مہرماہ کے سینے پہ رکھتا بولا۔ 

تو تم بھی یہاں رہ لو۔ مہرماہ نے آسان سا حل پیش کیا۔ 

ایسے اچھا نہیں لگتا۔ شاہ میر زور سے مہرماہ کو خود میں بھینچ کر بولا۔ 

میں اب انکار کروں گی تو ان کو اچھا نہیں لگے گا۔ مہرماہ گہری سانس لیتی ہوئی بولی ورنہ جتنا حصار شاہ میر نے تنگ کیا تھا مہرماہ کو اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ 

ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں۔ شاہ میر مہرماہ سے دور ہوتا ہوا بولا۔ 

اتنی جلدی کیوں ابھی تو آئے ہو۔ مہرماہ نے سوال کیا 

نہیں بس کجھ کام یاد آگیا ہے۔ شاہ میر کہتا دروازے کا لاک کھولتا باہر نکل گیا۔ 

ناراض ہوگیا شاہ تو۔ مہرماہ پریشانی سے خود سے بولی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اہ میر بے چینی سے کمرے میں یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا دل کے ہاتھوں مجبور تھا اس کو تھوڑے ہی وقت میں مہرماہ کی شدت سے یاد آرہی تھی۔ 

میر ڈنر تیار ہے باہر آجاٶ کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا۔ شاہ میر ایسے ہی بے چین کھڑا تھا جب پری کمرے میں آتی ہوئی بولی۔ 

آپی مجھے بھوک نہیں۔شاہ میر نے کہا۔ 

دن میں بھی کجھ نہیں کھایا تھا طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔ پری فکرمند ہوئی۔ 

جی طبیعت بلکل ٹھیک ہے بس بھوک نہیں۔شاہ میر نے کہا۔ 

اچھا بھوک لگے تو مجھے جگادینا میں کھانا گرم کرکے دیں دوں گی۔ پری نے مسکراکر کہا جس پہ شاہ میر نے اپنا سرہلایا تو پری کمرے سے باہر چلی گئ۔ شاہ میر سینٹر صوفے پہ بیٹھ کر آنکھیں موند گیا پر آنکھوں سے نیند کوسو دور تھی یہی حال دوسری طرف مہرماہ کا تھا اس کو بھی ایک پل سکون محسوس نہیں ہورہا تھا

کہیں پر بھی رہیں ہم اور تم پھر محبت ہے

تمہیں ہم یاد آئیں گے ہمیں تم یاد آٶ گے

بار بار شاہ میر کا اُداس چہرہ آنکھوں کے سامنے آرہا تھا مہرماہ ایک فیصلہ کرتی اٹھی اور شاہ زیب کے کمرے کی طرف آئی مہرماہ نے دروازہ نوک کیا تو شاہ زیب جو فائل اسٹڈی کررہا تھا دروازے کہ پاس آکر دروازہ کھولا۔ 

تم یہاں نیند نہیں آرہی کیا؟ شاہ زیب تعجب سے مہرماہ کو دیکھ کر بولا۔

ہاں وہ میں گھر واپس جارہی ہوں امی ابا سوگئے ہوگے سوچا تمہیں بتادوں۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ زیب نے ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا جو رات کے بارہ بجنے کا اندیشہ بتارہی تھی۔ 

کیوں مہرو صبح چلی جانا ویسے بھی رات کے بارہ بجنے والے ہیں سب سوگئے ہوگے۔ شاہ زیب نے سمجھانا چاہا۔ 

شاہ جاگ رہا ہوگا میں اس کو میسج کردوں گی تو وہ دروازہ کھول دے گا۔ مہرماہ نے کہا۔ 

وہ کیوں اِس وقت اُلوو کی طرح جاگ رہا ہوگا۔ شاہ زیب نے پوچھا۔ 

تم کیوں اُلوو کی طرح جاگ رہے ہو؟ مہرماہ نے گھور کر کہا۔ 

مجھے تو آفس کا کام کرنا ہوتا ہے۔ شاہ زیب فخریہ انداز میں بولا۔ 

تو شاہ کو بھی یونی کا کام کرنا ہوتا ہے۔ مہرماہ دوبدو بولی۔ 

توبہ ہے چلو میں چھوڑ آتا ہوں۔ شاہ زیب آگے آتا ہوا بولا۔ 

قریب ہی گھر ہے میں چلی جاتی ہوں تمہیں ویسے ہی بتانے آئی تھی۔ مہرماہ نے کہا۔ 

میں چل رہا ہوں نہ۔ شاہ زیب نے کہا تو مہرماہ نے مزید بحث نہیں کی۔ 

تم میر کو اتنا چاہنے لگی ہو کہ ایک دن بھی اس کے بنا گُزارا نہیں ہوتا۔شاہ زیب اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا

پتا نہیں بس شاہ اتنا چاہتا ہے کہ اس کے بنا رہنے کو دل نہیں کرتا۔ مہرماہ سینے پہ بازوں باندھتے ہوئے کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔ 

محبت انسان کو سچ میں پاگل بنادیتی ہے ایسا پہلے سنا تھا تمہیں دیکھ کر یقین ہوگیا جس نے مہرو نان سیریس گرل کو بھی مشرقی لڑکی بنادیا ہے جس کو سب سے پہلے اپنے شوہر کی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ شاہ زیب مسکراتا مہرماہ کے سر پہ چپت لگاتا ہوا بولا تو مہرماہ مسکرادی۔ 

شکریہ یہاں تک آنے کا۔ مہرماہ گیٹ تک آتے ہوئے شاہ زیب سے کہا مہرماہ گیٹ عبور کرگئ تو شاہ زیب نے اپنے قدم واپسی کے لیے بڑھائے۔ مہرماہ گیٹ سے لان کروس کرکے ہال کے مین  گیٹ کے باہر کھڑی ہوتی شاہ میر کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ 

شاہ میر آنکھیں بند کیے صوفے پہ پہلے والی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا جب اس کا موبائل فون بجنے لگا شاہ میر نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی اور اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا موبائل اٹھایا یہ ایک مخصوص رنگ دی جو شاہ میر نے مہرماہ کے نمبر پہ لگائی تھی۔

ماہ۔ شاہ میر نے کال اٹھا کر بے چینی سے اس کا نام لیا۔ 

ابھی تک جاگ رہے ہو؟مہرماہ نے جان بوجھ کر سوال کیا۔ 

ہاں کیونکہ اِس وقت لیجنڈ جاگتے ہیں۔شاہ میر مہرماہ کی آواز سن کر سکون سے اپنی آنکھیں بند کرکے کھول کر کہا۔ 

اِس وقت لیجنڈ نہیں اُلوو جاگتے ہیں۔مہرماہ جو کجھ اور سننا چاہتی تھی شاہ میر کے جواب پہ جل بھن کر بولی جس پہ شاہ میر نے اپنے لب دانتوں تلے دباکر اپنی مسکراہٹ دبائی۔ 

بات تو سچ کہی آپ نے۔ شاہ میر مسکراکر بولا۔ 

میں باہر کھڑی ہوں آکر دروازہ کھولو۔ مہرماہ نے کہہ کر کال کٹ کردی شاہ میر تیز قدموں سے کمرے سے نکلتا باہر آکر دروازہ کھولا جہاں  مہرماہ کھڑی اس کو مسکراکر دیکھ رہی تھی شاہ میر گہری سانس لیتا دروازے سے ٹیک لگا گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج شاہ زیب کی آفس میں انٹرویو کا چوتھا دن تھا پر کوئی بھی شاہ زیب کے پرسنل اسسٹنٹ کے معیار پہ پورا نہیں اُتر رہا تھا شاہ زیب کا مینجر محمود سب سے انٹرویو لیں لیں کر آدھا ہوگیا تھا مگر شاہ زیب آرام سے سب کو ریجیکٹ کردیتا اِس لیے آج شاہ زیب نے خود انٹرویو لینے کا سوچا تھا۔ 

سر مے آئے کمن؟ شاہ زیب لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلارہا تھا جب کیبن کے دروازے پہ ناک ہوا۔ 

یس کمن۔ شاہ زیب نے جواب دیا تو ایک سٹائلش لڑکی ہیل کی ٹک ٹک کرتی اندر داخل ہوئی شاہ زیب نے ناگواری سے آنے والے لڑکی کو دیکھا جس کا پورا چہرہ میک اپ سے بھرا ہوا تھا۔ 

تشریف رکھیں۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

شکریہ وہ لڑکی ایک ادا سے کہتی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئ۔ 

یہ میری سی وی ہے میرا نام اقرا رانا ہے۔ اقرا نے  فائل شاہ زیب کی طرف رکھ کر کہا۔ 

میں نے کب کہا میری ہے۔ شاہ زیب بڑبڑاتا فائل کی جانب متوجہ ہوا جب کی اقرار اپنے بالوں کی لٹ کو گھماتی پرشوق نظروں سے شاہ زیب کو دیکھ رہی ہے۔ 

آپ نے بس بی آے کیا ہے۔شاہ زیب نے سی وی پہ نظر گھماتا ہوا بولا۔

پڑھائی کا کیا ہے آپ مجھے جاب پہ رکھ دیں یقین دلاتی ہوں آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ اقرا نے آگے کو زرا جھک کر کہا۔ 

کوئی تجربہ ہے آپ کے پاس اِس جاب کا؟ شاہ زیب اس کی بات نظرانداز کرتا سوال کرنے لگا۔ 

آپ جاب پہ رکھ لیں گے تو تجربہ بھی ہوجائے گا ویسے بھی پرسنل سیکیٹری کا کام بہت آسان ہوتا ہے۔ اقرا آرام سے بولی۔ 

آپ جاسکتی ہے میں نے آپ کی قابلیت دیکھ لی۔شاہ زیب فائل ٹیبل پہ رکھتا سنجیدہ لہجے میں بولا۔ 

آپ نے ٹھیک سے میرا انٹرویو لیا ہی نہیں ایسے کیسے بنا جانے آپ مجھے جاب سے ریجیکٹ کرسکتے ہیں۔اقرا کے مسکراتے لب سیکڑ گئے تھے شاہ زیب کی بات پہ۔ 

جتنا لیا وہی کافی ہے اب آپ اپنی تشریف لیں جائے تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملے۔ شاہ زیب نے دانت پہ دانت جماکر کہا۔ 

آپ کو مجھے ایک موقع دینا چاہیے۔ اقرا نے پھر سے کہا۔ 

آپ جاسکتی ہیں۔ شاہ زیب نے ضبط سے کہا تو اقرا ایک نظر پورے کیبن پہ ڈالتی باہر نکل گئ اُس کے جانے کے بعد شاہ زیب نے انٹرکام پہ مینجر کا نام ڈائل کیا۔ 

محمود صاحب اب اگر کوئی انٹرویو کے لیے بھیجے تو انسان ہو کوئی نمونہ یا آفت نہیں۔شاہ زیب نے کہہ کر انٹرکام زور سے کریڈل پہ پٹخہ۔ پانچ منٹ بعد دروازہ دوبارہ نوک ہوا۔ 

سر کیا میں اندر آسکتی ہوں۔ خوبصورت کوئل جیسی آواز سن کر شاہ زیب نے دیکھا تو کتنے ہی پل اس کی نظریں پری پیکر پہ ہٹنے سے انکار ہوئی جب کی دوسری طرف لڑکی کی پکڑ اپنے ہاتھ میں تھامی فائل پہ مضبوط ہوگئ تھی وہ سامنے والے کی نظروں سے خائف ہورہی تھی اس سب سے بے نیاز شاہ زیب یک ٹک اس کو دیکھنے میں مگن تھا پر لڑکی نے دوبارہ اس کو پُکارا تو شاہ زیب ہوش میں آیا۔ 

بیٹھ جائے۔شاہ زیب نے کالی چادر میں چھپے اس کے وجود کو دیکھ کر کہا۔ 

اپنی سی وی دیکھائے گی یا ایسے ہی بیٹھی رہے گی۔ شاہ زیب نے اس کو نظریں جھکائے بیٹھا دیکھا تو کہا جس پہ وہ شرمندہ ہوتی کانپتے ہاتھوں سے فائل ٹیبل پہ رکھ گئ۔ 

نام کیا ہے آپ کا؟ شاہ زیب نے ڈاکیومینٹس میں اس کا نام دیکھ کر جان بوجھ کر پوچھا۔ 

ثانیہ افتخار۔ثانیہ نے بتایا۔ 

اِس سے پہلے کہاں جاب کی ہے آپ نے؟ شاہ زیب فائل کے ورق گردانی کرتا پوچھنے لگا۔ 

ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچنگ کرتی تھی پر چار ماہ پہلے اس کو چھوڑنا پڑا۔ ثانیہ کی اِس بات پہ شاہ زیب کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔ 

اسکول کے علاوہ آپ نے کہیں جاب وغیرہ نہیں کی آپ کی سی وی تو بہت زبردست ہے آپ کو بہت آسانی سے کسی بھی کمپنی میں جاب مل سکتی تھی۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

بڑی کمپنیوں میں جاب بھی سفارش سے ملتی ہے قابلیت کوئی نہیں دیکھتا اور نہ ہی ڈگریاں۔ثانیہ کا لہجہ تلخ ہوگیا تھا جو شاہ زیب نے صاف محسوس کیا تھا۔ 

ہر ایک کے یہاں سفارش نہیں چلتی کجھ لوگ قابلیت اور ڈگری بھی دیکھتے ہیں۔شاہ زیب نے کہا تو ثانیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ پیر سے آفس جوائن کرسکتی کام آپ کو میرا مینجر سمجھا دیں گا۔ شاہ زیب نے فائل ثانیہ کی طرف بڑھاکر کہا جس سے ثانیہ کتنی پل بے یقین نظروں سے شاہ زیب کو دیکھتی رہی اس کو یقین نہیں آرہا تھا اُس جیسی مڈل کلاس لڑکی کو اتنی بڑی کمپنی میں جاب مل سکتی ہے وہ تو اخبار میں پرسنل اسسٹنٹ ایڈ دیکھ کر اپنی قسمت آزمانے آئی تھی ورنہ اس کو کہاں امید تھی کہ اس کو اتنی آسانی سے جاب مل سکتی ہے جب کی شاہ زیب کو اس کی حیرت سے پھیلی آنکھوں میں خود کو ڈوبتا محسوس کررہا تھا خود پہ ہزار دفع لعنت بھیج کر اس نے اپنی نظروں کا زاویہ ثانیہ کے چہرے سے ہٹایا۔ 

سر آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ثانیہ کو یقین نہیں آیا تو براہ راست شاہ زیب سے پوچھا۔ 

جی آپ کو جوائنگ لیٹر مل جائے گا شاید تب آپ کو یقین آجائے۔شاہ زیب اس کی بات پہ مسکراکر بولا تو ثانیہ نے اپنا سرہلایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

تھینک یو سر۔ ثانیہ اپنی چادر سر پہ درست کرتی ہوئی بولی۔ 

ویلکم۔ شاہ زیب نے سر کو خم دیں کر کہا۔ 

میں جاٶں سر؟ ثانیہ نے پوچھا

آپ بیٹھنا چاہتی ہیں تو بیٹھ سکتی ہیں نو ایشو۔ شاہ زیب مسکراہٹ دانتوں تلے دبائے بولا تو ثانیہ گڑبڑاگئ۔ 

میں جاتی ہوں سر۔ ثانیہ جلدی سے کہتی کیبن سے باہر نکل گئ اُس کی اتنی جلدبازی پہ شاہ زیب کتنی دیر تک ہنستا رہا پھر سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اماں

اماں

ثانیہ اپنے گھر آکر زور زور سے اپنی ماں کو آوازیں لگانے لگی۔ 

کیا ہوا باجی؟ اتنی زور سے کیوں چلارہی ہیں کوئی کُتا تو پیچھے نہیں پڑگیا۔ ثانیہ کی چھوٹی بہن ہانیہ چھوٹے سے لاٶنج میں آکر ثانیہ سے کہا جس پہ ثانیہ نے مسکراکر اس کی جانب دیکھا۔

اِدھر آ۔ ثانیہ نے اس کو اپنی طرف آنے کا کہا تھا

تمہیں پتا ہے میں کہاں گئ تھی آج؟ ثانیہ نے خوشی سے پوچھا۔ 

انٹرویو کے لیے گئ تھی آپ کیا ہوا پھر؟ ہانیہ کو اچانک یاد آیا تو دوسرا سوال کیا۔ 

اماں کدھر ہے ان کو تو آنے دو پھر بتاتی ہوں۔ ثانیہ نے۔ اس کے گال کھینچ کر کہا۔ 

اماں نے تو چھت پہ کپڑے سوکھانے کے لیے گئ ہے۔ ہانیہ نے کہا۔ 

اماں کو کیوں بھیجا تم جاتی نہ پتا تو ہے ان مے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے سیڑھیاں اُپر نیچے چڑھنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ثانیہ ہانیہ کی بات پہ اٹھتی ہوئی بولی اور چھت پہ جانے لگی

میں نے کہا تو تھا اماں کو پر انہوں نے کہا وہ خود جاکر ٹھیک سے کپڑے تار پہ لٹکائیں گی۔ ہانیہ نے اپنا دفاع کیا۔ 

اماں مجھے دیں یہ کپڑے آپ چارپائی پہ بیٹھے۔ چھت پہ آکر ثانیہ نے زبیدہ بیگم سے کہا جو کپڑے سوکھانے کے لیے تار پہ لٹکا رہی تھی۔ 

تم رہنے دو ابھی باہر سے آئی ہو تھک گئ ہوگی۔ زبیدہ بیگم نے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر محبت سے کہا۔ 

اماں آپ بیٹھے کوئی نہیں تھکی میں۔ثانیہ نے ان کو چارپائی پہ بیٹھا کر کہا۔ 

بہت ضدی ہو۔ زبیدہ بیگم ہارمانتی ہوئی بولی۔ 

اماں آپ کو ایک خوشی کی بات بتانی ہے میں جب بتاٶ گی نہ آپ دونوں بھی خوش ہوجائے گی۔ ثانیہ نے چادر اُتار کر اپنی ماں اور ہانیہ کو دیکھ کر کہا۔ 

باجی پھر بتائے نہ مجھ سے انتظار نہیں ہورہا۔ ہانیہ نے بے تابی سے کہا۔ 

اماں میں جہاں آج انٹرویو پہ گئ تھی وہاں مجھے جاب مل گئ۔ ثانیہ نے خوشی سے چور لہجے میں بتایا۔ 

ماشااللہ۔ زبیدہ بیگم فورن بولی۔ 

واہ باجی سیلری کتنی ہے؟ ہانیہ نے پوچھا۔ 

سیلری تو میں نے نہیں پوچھی۔ ثانیہ پریشانی سے انگلی دانتوں کے بیچ رکھ کر بولی۔ 

تو کیا ہوا اب نوکری تو مل گئ نہ سیلری کا پتا بھی چل جائے گا۔ زبیدہ بیگم نے آرام سے کہا۔ 

ہاں پوچھو گی تو سہی اور اماں آپ کو میں بتا نہیں سکتی وہ کمپنی کتنی بڑی تھی مجھے تو امید ہی نہیں تھی کہ مجھے جاب مل سکتی ہے وہاں وہ بھی بنا کسی بڑے انسان کی سفارش کے بنا۔ ثانیہ نے اپنے دل کی بات کہی۔ 

بس اللہ کا کرم ہے جس نے امید سے بڑھ کردیا۔زبیدہ بیگم اس کی بات پہ مسکراکر بولی۔ 

یہ تو ہے اماں۔ثانیہ نے ان کی تائید کی۔ 

ثانیہ جہاں جاب کروگی وہاں کا ماحول تو اچھا تھا نہ اور تمہارا بوس وغیرہ۔زبیدہ بیگم کسی خدشے کے تحت پوچھنے لگی۔ 

اماں آج تو انٹرویو کا پہلا دن تھا میرا ایک دن میں کیسے اندازہ لگاسکتی ہوں پر جتنا وقت بھی میں وہاں تھی خود کو بے آرام محسوس نہیں کیا وہاں بہت سارے لوگ کام کرتے ہیں لڑکیاں بھی تو لڑکے بھی۔ ثانیہ نے بتایا۔ 

اور باجی آپ کے بوس ان کا تو آپ نے نہیں بتایا۔ ہانیہ جو غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی وہ بولی۔

بوس بھی اچھے تھے میں نے سنا تھا وہاں کے چار دن سے وہاں انٹرویو لیں رہے تھے وہاں کے مینجر پر ریجیکٹ ان کا بوس کررہا تھا پر آج بوس نے انٹرویو لیا میں تو بہت ڈرگئ تھی کیونکہ مجھ سے پہلے ایک بہت کانفڈنٹ لڑکی گئ تھی مجھے لگا اگر اس کو نوکری پہ نہیں رکھا تو مجھے بھی نہیں رکھیں گے پر بوس کو میری سی وی پسند آئی اس لیے مجھے جاب مل گئ۔ ثانیہ نے ایک سانس میں کہہ سنایا۔ 

یہ نوکری تمہارے قسمت میں تھی تو کسی اور کو کیسے ملتی۔ زبیدہ بیگم نے کہا تو ثانیہ مسکرائی۔ 

اور باجی پلیز خود کو دوسروں سے کمتر مت سمجھا کریں۔ زبیدہ بیگم خاموش ہوئی تو ہانیہ نے کہا۔ 

انسان اب حقیقت سے رخ تو نہیں موڑ سکتا نہ۔ ثانیہ آخری جوڑا تار پہ لٹکاکر سادگی سے بولی۔ 

دنیا میں سے بڑا گناہ یہی ہے دوسروں کو خود سے کمتر سمجھنا پر دوسروں سے خود کو کمتر سمجھنا بھی اچھی بات نہیں بس اللہ جس حال میں بھی رکھیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ زبیدہ بیگم نے کہا۔ 

جی اماں۔ ثانیہ سرجھکاکر بولی۔ 

اچھا اب جاکر شکرانے کے نفل ادا کرو اگر اللہ امید سے زیادہ چاہ سے زیادہ عطا کریں تو شکرادا کرنا تو بنتا ہے نہ۔ زبیدہ بیگم نرمی سے بولی۔ 

جی اماں میں بھی شکرانے کے نفل ہی پڑھنے جارہی تھی کمرے میں۔ثانیہ نے بتایا پھر وہ تینوں چھت سے اُتر گئ۔ 

میں آپ کے لیے کجھ لایا ہوں۔ شاہ میر کمرے میں آکر مہرماہ سے بولا۔ 

اچھا اور وہ کیا؟ مہرماہ متجسس ہوئی۔ 

یہاں بیٹھے۔ شاہ میر نے پاس پڑے صوفے پہ بیٹھایا اور ہاتھ میں پکڑی شاپرز کھولی۔ 

واہ گجرے تمہیں پتا ہے مجھے بہت پسند ہیں یہ۔ مہرماہ نے شاہ میر کو شاپرز سے گجرے نکالتا دیکھا تو خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا۔ 

مجھے آپ کے بارے میں سب پتا ہے آپ کی پسند ناپسند ہر ایک بات کا۔ شاہ میر مسکراکر کہتا مہرماہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اُس کی کلائی میں گجرے پہنانے لگا 

محبت کے تحفوں میں وقت اور عزت کے بعد

گجرے سب سے انمول تحفہ ہے

شاہ میر لال پھولوں کے گجرے مہرماہ کی دونوں کلائی میں پہناکر باری باری وہاں پہ بوسہ دیا مہرماہ کی آنکھیں نم ہوگئ تھی اس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ شاہ میر اس کی کونسی نیکی کا پھل ہے۔ 

کیا ہوا آپ کو اچھا نہیں لگا۔ شاہ میر مہرماہ کی آنکھوں میں نمی محسوس کرتا فکرمندی سے پوچھنے لگا جس پہ مہرماہ مسکرائی اور اپنا سر شاہ میر کے چوڑے سینے پہ رکھا شاہ میر کو مہرماہ کی حرکت پہ خوشگوار حیرت ہوئی وہ مسکراتا مہرماہ کے گرد اپنا حصار قائم کرنے لگا

ضروری نہیں ہوتا شاہ کے اگر انسان کی آنکھوں میں نم آئے تو وہ اُداس ہو یا اس کو کوئی بات بری لگی ہے کبھی کبھی انسان اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے نہ کے اس کی آنکھوں میں نمی اُتر آتی ہے۔ مہرماہ نے شاہ میر کے سینے پہ سر رکھے ویسے ہی کہا تو شاہ میر نے اپنے لب مہرماہ کے بالوں میں رکھے۔ 

شاہ تم مجھے اتنے کیوں چاہتے ہو؟ مہرماہ نے اپنا سر اٹھاکر شاہ میر سے پوچھا۔ 

وہ تو مجھے خود نہیں پتا میرے لیے تو عشق کا نام اور مطلب میری ماہ ہے۔ شاہ میر کندھے اُچکاکر بولا۔ 

میں تم سے چار سال بڑی ہوں۔ مہرماہ نے کہہ کر شاہ میر کے چہرے کے تاثرات دیکھنے چاہے جو پہلے جیسے ہی تھے۔ 

تو کیا ہوا محبت میں عمر کا کیا کام وہ تو انسان کی روح سے ہوتی نہ کہ وجود سے اِس لیے آپ مجھ سے بڑی ہو یا خوبصورت نہ بھی ہوتی میں نے آپ کو ہی چاہنا تھا کیونکہ میں اِس دنیا میں آیا ہی آپ سے عشق کرنے کے لیے ہوں۔ شاہ میر نے آخر میں مہرماہ کو دیکھ کر ایک آنکھ ونک کی تو مہرماہ نے اس کے بازوں پہ ایک ہلکا تھپڑ رسید کیا

بہت بولنے لگے ہوتم۔ مہرماہ نے اپنا مخصوص جُملا دوہرایا جس پہ شاہ میر اِس بار ہنس پڑا۔ 

آپ کو پتا ہے جو مرد زیادہ نہیں بولتے نہ وہ اپنی پسندیدہ عورت کے سامنے بہت بولتے ہیں اور آپ میری پسندیدہ عورت میرا عشق ہے اِس لیے آپ سے جتنی بھی باتیں کروں ختم ہی نہیں ہوتی اور نہ دل بھرتا ہے۔ شاہ میر کندھے اچکاکر بولا۔ 

دل بھرنا چاہیے بھی نہیں۔مہرماہ نے شاہ میر کے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

بے فکر رہے نہیں بھرے گا۔شاہ میر مسکراکر کہتا مہرماہ کو اپنے قریب کرگیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ثانیہ کو جوائنگ لیٹر مل گیا تھا اور آج پیر کا دن تھا یعنی اس کی جاب کا پہلا دن جس کے لیے وہ خوش بھی تھی تو کجھ پریشان بھی پر وہ خود کو سنبھالتی آفس آگئ تھی جہاں پہچتے ہی اس کو بوس کے آفس جانے کا کہاگیا جس پہ ثانیہ اپنا دل مضبوط کرتی کیبن کے باہر کھڑی دروازہ نوک کرنے لگی۔ 

آجائے۔بھاری آواز سن کر اس کا دل اچھل کر حلق تک آگیا تھا۔ 

مس ثانیہ افتخار آئے بیٹھے۔ شاہ زیب نے لیپ ٹاپ پہ سے نظر اٹھائی تو اس کی نظر ثانیہ پہ پڑی جو آج بھی خود کو کالی چادر میں چھپائے ہوئے تھی اس کو دیکھ کر شاہ زیب کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ 

شکریہ سر۔ ثانیہ بیٹھ کر بولی۔ 

تو آج جیسے کے آپ کا فرسٹ ڈے ہے تو میں آپ کا ویلکم کرتا ہوں امید ہے کہ آپ اپنا کام جلدی سیکھ جائے گی اور اپنی ذمیداری اچھے سے سنبھالیں گی۔ شاہ زیب نے ثانیہ سے کہہ کر تائید کرتی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

جی سر میں پوری ایمانداری سے اپنا کام کروں گی آپ کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ ثانیہ نے جلدی سے کہا۔ 

گڈ تو اب ہم پہلے سیلری کی بات کرتے ہیں پھر کام کی بات پہ۔ شاہ زیب بات بڑھانے کے غرض سے بولا جس پہ ثانیہ نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا۔ 

ابھی آپ نیو ہے اور ہیں بھی میری اسسٹنٹ تو فلحال آپ کی سیلری چالیس ہزار ہوگی اگر آپ اپنا کام اچھے سے کریں گی تو سیلری بڑھنے کے چانس بھی موجود ہے۔چالیس ہزار سیلری کا سن کر ثانیہ کا وجود جھٹکوں کی زد میں آگیا تھا اس کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیسا ری ایکٹ کریں بیشک اللہ نے اس کو بہت سی آزمائشوں کے بعد اب نواز رہا تھا کہاں وہ دس ہزار کی جاب اور اب کہاں چالیس ہزار مہانہ اِس سے تو ان کے گھر کے سارے مسائل حل ہوسکتے تھے ثانیہ کا دل بے اختیار چاہا کہ یہی پہ سجدہِ شکر ادا کریں۔ 

جی سر میں سمجھ گئ۔ بہت دیر بعد ثانیہ بس یہی بول پائی۔ 

ٹھیک میں میرے مینجر سے کہتا ہوں وہ آپ کو آپ کا کام بتائے گے اور آپ کو جس چیز کی سمجھ نہ آئے آپ ان سے پوچھ سکتی ہیں۔شاہ زیب نے کہا اور انٹرکام پہ ایک نمبر ڈائل کرنے لگا دوسری طرف تشکر کی حالت میں ثانیہ کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ اتنی بڑی بات امی مجھے آپ اب بتارہی ہیں پہلے کیوں نہیں بتائی جب میں یہاں آتی جاتی تھی تو۔ مہرماہ کو جب سارہ بیگم نے حور اور شاہ زیب کی شادی نہ ہونے کا بتایا تو اُس نے ناراض بھرے لہجے میں کہا۔ 

تمہاری بھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اس لیے سوچا تمہیں پریشان نہیں کیا جائے۔سارہ بیگم نے وجہ بتائی۔

تو کیا میں اب پریشان نہیں ہوئی یہ کارڈ دیکھ کر۔ مہرماہ نے ٹیبل پہ پڑا کارڈ ان کی جانب کرکے بتایا۔ 

آپ تو اب بھی نہ بتاتی اگر میں یہ کارڈ نہ دیکھ لیتی تو چچی جان کا کہنا تھا یہ بہت پہلے سے زین اور حور کی شادی کی تیاریاں ہورہی ہے۔ مہرماہ نے ہنوز ناراض لہجے میں کہا۔ 

مہرماہ اب چھوڑو ایسی باتیں جن کے کرنے سے کوئی فائدہ نہیں تم بس اپنا چہرہ ٹھیک کرو اور ہاں تم نے حور کی شادی پہ جانا ہے اور بلکل ویسے ہی رہنا بات کرنا ہے جیسے پہلے کیا کرتی تھی ویسے بھی زیب اور حور کا رشتہ کونسا زیادہ پرانہ تھا بس ہم بڑوں نے ایسے بات کی تھی جو اب ختم ہوگئ۔ سارہ بیگم نے مہرماہ کو سمجھایا۔ 

پھر بھی زیب کو تو بتانا چاہیے تھا مجھے میری شادی کیا ہوگئ آپ لوگوں نے تو پرایا ہی کردیاں مجھے۔ مہرماہ کی سوئی ابھی تک وہی اٹکی ہوئی تھی کے اس کو بتایا کیوں نہیں گیا۔ 

کسی کی اتنی ہمت کے میری بیٹی کو پرایا کریں۔ سکندر خان جو باہر سے آرہے تھے مہرماہ کی آخری بات سن کر پوچھنے لگے۔ 

رہنے دیں ابا جان آپ جان آپ بھی ان سے ملے ہوئے ہیں۔مہرماہ نے اپنی آنکھیں گھماکر کہا جس پہ سکندر خان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ

شرم کرو باپ سے کوئی ایسے بات کرتا ہے۔ سارہ بیگم نے اس کے بازوں پہ تھپڑ مار کر کہا۔ 

امی جان میری شادی ہوگئ ہے اب آپ مجھے ایسے نہیں مارسکتی۔ مہرماہ نے یاد کروایا کہ وہ اب شادی شدہ ہے۔ 

عقل تو پھر بھی نہیں آئی۔ سارہ بیگم نے تاسف سے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔ 

شاہ ہوتا تو میں دیکھتی آپ کیسے مجھے ایسے مارتی۔ مہرماہ کو کجھ اور نہ سوجھا تو ان کو شاہ میر کا ڈر دیا جس پہ سکندر خان کے اب سارہ بیگم بھی ہنس پڑی۔

دیکھ لیں بیٹیان شوہر کو اپنے ماں باپ کا ڈر دیتی ہیں اور ایک ہماری مہرو ہے جو ماں باپ کو شوہر کا ڈر دیں رہی ہے۔ سارہ بیگم نے سکندر خان سے کہا۔ 

مہرو ناراضگی ختم کرو بس ہمیں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سکندر خان نے اب کی نرمی سے سمجھایا۔ 

اچھا آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا۔ 

بیگم جاکر ہمارے لیے کافی بنانے کا کہے کلثوم بی سے۔ سکندر خان نے سارہ بیگم کو مخاطب کیا۔ 

میں بناکر آتی ہوں۔ مہرماہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔ 

کلثوم بی بنادیں گی۔ سارہ بیگم نے کہا۔ 

میں بھی اچھی بناتی ہوں کافی۔ مہرماہ کہہ کت کچن کی طرف بڑھ گئ سارہ بیگم بس اس کی پشت دیکھتی رہ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا کررہی ہو تم؟ مہرماہ گھر واپس آئی تو مسکراکر پری سے پوچھا۔ 

وہ بھابھی حور آپ کی شادی ہے نہ تو میں آن لائن ڈریسز دیکھ رہی ہوں۔ پری نے بتایا۔ 

شاپنگ تو مجھے بھی کرنی ہے پر آن لائن نہیں مال سے۔ مہرماہ نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا۔ 

جلدی کرلیں پھر شادی کے دن قریب ہیں۔ پری نے مسکراکر کہا۔ 

ہاں میں شاہ سے کہتی ہوں اگر وہ ساتھ چلا تو ٹھیک ورنہ مونا کے ساتھ شاپنگ کرلوں گی۔ مہرماہ اٹھتی ہوئی بولی۔ 

میر کمرے میں ہے۔پری نے بتایا۔ 

آج یونی سے جلدی آگیا۔ مہرماہ کو حیرت ہوئی

ہمم اور اب کمرے میں ہے جانے کیا کررہا ہے۔پری نے مزید کہا۔ 

میں جاکر دیکھتی ہوں۔ مہرماہ کہتی اپنے اور شاہ میر کے مشترکہ کمرے کی طرف آئی۔ مہرماہ اندر آئی تو شاہ میر کو کھڑی کے پاس کسی سے بات کرتا ہوں دیکھا تو بیڈ پہ آکر بیٹھ گئ اور شاہ میر کو کال پہ بات کرتا دیکھنے لگی

ریان تمہیں ایک ہفتہ نہیں ہوا لنڈن گئے اور اب تم نے شادی بھی کرلی مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔ شاہ میر کا لہجہ سخت تھا۔ 

یار میر میں کیا بتاتا تمہیں جب کی میں خود ابھی تک شاک میں ہوں ڈیڈ نے زبردستی اپنے دوست کی بیٹی میرے سر پہ تھوپی ہے۔دوسری طرف ریان کی مسکین بھری آواز آئی۔ 

تو کیا تم پہلے اس کو نہیں جانتے تھے؟ شاہ میر نے پوچھا

جانتا تھا پر اتنا بھی نہیں جیسے یہ کہ اس کا نام مہرین ہے اور وہ لنڈن کی یونی میں لیکچرار ہے۔ ریان نے صاف گوئی سے کہا۔ 

تمہیں کوئی پسند بھی تو نہیں تھی پھر اچھا ہے انکل کی پسند سے ہوگئ ہے شادی۔ شاہ میر اب آرام سے بولا مہرماہ بہت غور سے اس کو باتیں کرتا سن رہی تھی شاہ میر جو کھڑکی کے سامنے کھڑا ریان سے بات کررہا تھا مہرماہ کو دیکھا تو اس کی طرف آیا اور بیڈ پہ آکر مہرماہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا جب کی موبائل فون کان کے پاس ہی تھا مہرماہ مسکراتی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ 

ہاں پر انسان کی اپنی بھی کوئی پسند ہوتی ہے کوئی آئیڈیل ہوتا ہے میرا تو فلحال شادی کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔ ریان نے کہا۔ 

اچھا اب فضول باتیں نہیں کرو شادی کرلی ہے تو اس کو سچے دل سے نبھانا بھی۔شاہ میر نے ٹوک کر کہا۔ 

نبھانا تو پڑے گا میں نے کب انکار کیا۔ ریان ہنس کر بولا۔ 

ٹھیک ہے اب میں کال رکھتا ہوں۔ شاہ میر مہرماہ کو دیکھ کر بولا۔ 

بائے۔ ریان نے کہا تو شاہ میر نے کال کاٹ دی۔ 

ریان کتنا عجیب نام ہے۔ شاہ میر نے فون دور کیا تو مہرماہ نے کہا۔ 

عجیب نہیں ہے جنت کے دروازے کا نام ہے۔ شاہ میر نے مہرماہ کے بالوں کی لٹوں میں اپنی انگلی گھماکر بولا۔ 

جنت کے دروازے کا نام۔ مہرماہ پرسوچ لہجے میں بولی پھر اچانک یاد آیا تو کہا۔ 

ہاں پتا ہے جنت کے آٹھ دروازے ہوتیں ہیں ایک کا نام ریان ہوتا ہے جس میں بس روزے دار ہی داخل ہوسکتے ہیں۔مہرماہ نے کہا تو شاہ میر نے اپنا سرہلایا۔ 

کل مجھے تم نے شاپنگ پہ لیں جانا ہے۔ مہرماہ نے کہا۔ 

کہیں تو آج لیں چلوں۔ شاہ میر نے کہا۔ 

آج تو بہت دیر ہوگئ ہے کل صبح چلیں گے۔ مہرماہ نے کہا۔ 

جیسے آپ کی مرضی۔شاہ میر نے کہا۔ 

کیا واقع باجی چالیس ہزار سیلری ہے آپ کی۔ ثانیہ جاب سے واپس آکر اپنی سیلری کا بتایا تو ہانیہ نے حیرت سے کہا۔ 

ماشااللہ کہو۔ زبیدہ بیگم نے ٹوکا۔ 

ہاں اگر میں ٹھیک سے کام کروں گی تو زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ثانیہ نے مسکراکر کہا۔ 

پھر ڈن ہوا آپ اپنی پہلی سیلری ملتے ہی مجھے میری مرضی کی شاپنگ کروائے گی۔ہانیہ نے چہکتے ہوئے کہا

اوکے ڈن۔ ثانیہ نے کہا۔ 

میں مغرب کی نماز پڑھ لوں۔ زبیدہ بیگم اٹھتی ہوئی بولی۔ 

باجی آپ کے فون  پہ صبح مہرو باجی کی کال آئی تھی۔ ہانیہ نے بتایا۔ 

مہرو کی کال میں آج جلدی گئ تھی تو فون لیکر جانا ہی بھول گئ تھی۔ ثانیہ سر پہ ہاتھ مارتی ہوئی کمرے میں جانے لگی۔ 

بات کرلے ان سے بہت خفا تھیں آپ سے آپ ان کی شادی پہ جو نہیں گئ تھی۔ ہانیہ نے اس کو جاتا ہوا دیکھا تو بتایا۔ 

میں منالوں گی۔ ثانیہ کہتی کمرے میں آکر اپنا فون اٹھاکر مہرو کا نمبر ڈائل کیا مگر بہت بار کرنے پہ کوئی رسپانس نہیں ملا تو اس نے کال کرنا چھوڑ دیا اور بیڈ پہ بیٹھ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ز گرلز مسکراتی کپڑوں کی لیٹسٹ کلیکشن اس کو دیکھانے لگی پہلے مہرماہ نے ولیمے کی ڈریس لینے کا سوچا پر اس کو سمجھ نہیں آیا کہ کونسا ڈریس لیں کیونکہ اس کو سب اچھے لگ رہے تھے۔ 

ایسا کریں آپ ایک یہ ڈریس پیک کردیں۔مہرماہ نے ایک پیلے رنگ کی قمیض اور پاجامہ سیلز گرل کو پیک کرنے کا کہا جس کے گلے پہ پیلے پھولوں کا خوبصورت کام کیا گیا تھا ڈوپٹہ جب کی اس کا گرین تھا جس کہ اطراف موتی لٹک رہے تھے۔ مہرماہ نے بس ایک ڈریس ہی سلیکٹ کیا تھا جب شاہ میر اس کے پاس آیا۔ 

تم نے کرلی شاپنگ۔مہرماہ نے حیرت سے پوچھا۔ 

جی پر آپ نے ابھی تک نہیں کی۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا۔ 

کجھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔ مہرماہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ 

آپ کپڑے خریدنے وقت سوچا نہ کریں میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا آپ جو بھی پہنے گی اچھی ہی لگے گی۔ شاہ میر نے اپنی بلو آنکھوں میں چمک لیے مہرماہ سے کہا تو مہرماہ کا چہرہ بلش کرنے لگا کیونکہ پاس کھڑی سیلز گرلز ان کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ 

شاہ ہم گھر پہ نہیں ہے۔ مہرماہ نے۔ اس کو احساس کروانا چاہا۔ 

آپ مہندی کے لیے یہ ڈریس پہنے گی۔ شاہ میر نے ایک براٶن میکسی کی طرف اشارہ کیے کہا مہرماہ نے دیکھا تو اس کو بھی بہت پسند آئی کیونکہ میکسی کافی سمپل سی تھی گول گلے۔ والی جس کے ساتھ سفید رنگ کی موتیوں کی مالا تھا۔ 

شادی کے لیے یہ۔شاہ میر تھوڑا آگے جاتا ایک ڈریس لیکر مہرماہ کے پاس آیا جو کی چاکلیٹی کلر کا لہنگا تھا جس پہ سیم کلر کی کڑھائی کی گئ تھی۔ 

ولیمے لے لیے آپ یہ پہنے گی۔ شاہ میر نے خود ہی مہرماہ کی شاپنگ کی مہرماہ ستائش نظروں سے شاہ میر کے بتائے گئے ڈریسز دیکھ رہی تھی جب کی کجھ سیلز گرلز بھی اپنا کام بھولائے شاہ میر کو دیکھ رہی تھی۔ 

فراق ٹھیک رہے گا؟مہرماہ نے گولڈن کلر کا فراق دیکھا تو شاہ میر سے کنفرم کرنا چاہا۔ 

ہاں آپ پہنے گی تو اِس فراق کی قیمت بڑھ جائے گی۔ شاہ میر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کیا مہرماہ کے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ کر کہا۔ 

ہاٶ رومانٹک۔ایک سیلز گرل شاہ میر کی بات سنتی اپنے منہ پہ ہاتھ رکھتی بولی تو مہرماہ نے گھور کر شاہ میر کے ہاتھ سے وہ فراق لیا اور سب ڈریسز سیلز گرل کو پیک کرنے کا کہا۔ 

اب جوتوں کی خریداری کرنی ہے۔ مہرماہ اور شاہ میر ڈریسز خریدنے کے بعد باہر آئے تو مہرماہ نے کہا۔ 

چار ڈریسز خریدنے میں دو پہر لگادی آپ نے اب میچنگ جوتوں میں شام کردیں گی پھر میچنگ جیولری میں رات لگادی دیں گی۔ شاہ میر نے مہرماہ کو چھیڑنے نے کی خاطر کہا ورنہ اس کو مزہ آرہا تھا مہرماہ کے ساتھ شاپنگ کرنے میں کیونکہ مہرماہ کے ساتھ باہر آنا اس کا پہلا تجربہ تھا اُس سے پہلے شادی کی شاپنگ سب عورتوں نے کی تھی جس میں شاہ میر کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بس اس نے شادی کا جوڑا مہرماہ کے لیے خود خرید کر ہانم بیگم کو دیا تھا کہ وہ مہرماہ کو دیں۔ 

ابھی تو پہلی بار شاپنگ کرانے آئے ہو اور ایسے بول رہے ہو پوری زندگی کیا کروگے؟مہرماہ نے شاہ میر کی بات پہ اس کے بازوں پہ چٹکی کاٹ کر کہا جس پہ شاہ میر بُلبُلا اٹھا۔ 

کتنی ظالم ہیں آپ۔ شاہ میر ایک ہاتھ میں بیگز پکڑتا دوسرے ہاتھ سے اپنا بازوں سہلاتا ہوا بولا

زیادہ لگی کیا؟مہرماہ فکرمند ہوئی۔ 

نہیں میں تو مزاق کررہا تھا۔ شاہ میر بولا تو  مہرماہ نے اب کی اور زور سے اس کے بازوں پہ چٹکی کاٹی جس پہ شاہ میر اب کی ضبط کرتا رہ گیا کیونکہ مہرماہ نے دوبارہ بھی وہی چٹکی کاٹی تھی۔ مہرماہ شاہ میر کے ساتھ مل کر میچنگ سینڈلز لیے پھر وہ دونوں جیولر کے پاس گئے جہاں مہرماہ نے اپنی ڈریسز سے میچنگ سمپل سی جیولری لی جو کہ شاہ میر کی پسند کی تھیں ساری شاپنگ ختم ہونے کے بعد شاہ میر کاٶنٹر کی جانب آتا بل پے کرنا اس کے بعد شاہ میر مہرماہ کو فوڈ کارنر میں جانا کا کہتا خود باہر اپنی گاڑی کے پاس آیا اور سارے بیگز گاڑی میں رکھ کر گاڑی کا دروازہ لاک کرتا خود بھی فوڈ کارنر کی جانب آیا جہاں مہرماہ اس کا انتظار کررہی تھی۔ 

آرڈر کیا آپ نے؟ شاہ میر کرسی مہرماہ کے پاس کرتا اس پہ بیٹھ کر مہرماہ سے سوال کیا۔

ہاں کرلیا ہے میں نے چچی کو میسج بھی کردیا کہ رات کے کھانے پہ ہمارا ویٹ نہ کریں۔ مہرماہ نے بتایا۔ 

میں نے تو پہلے ہی کہا تھا رات ہوجائے گی ہوگئ نہ رات۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا۔ 

جی جی آپ تو بہت بڑے نجومی ہیں۔ مہرماہ نے شاہ میر پہ میٹھا طنزیہ کیا جو شاہ میر نے ہنس کر قبول کیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ زیب اپنے کمرے کی بالکنی کے پاس کھڑا تھا جب کی دماغ پورا اس کا ثانیہ کے بارے میں سوچنے میں لگا ہوا تھا۔ 

شاہ زیب کنٹرول کنٹرول۔ شاہ زیب سرجھٹکتا گہری سانس لیکر خود سے بولا۔ 

میں کیوں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں مانتا ہوں پیاری اور معصوم تھی پر اس کا مطلب یہ تو نہیں میں اس کو یاد کرنے لگ پڑوں۔ شاہ زیب نے خود کو باور کروایا۔ 

اففف میں پاگل ہوجاٶں گا۔شاہ زیب نے اپنا ہاتھ زور سے اپنے سر پہ مارا اور صوفے پہ بیٹھ گیا

میں نے غلطی کردی اس کو اپنی اسسٹنٹ بناکر اب ہرپل میری نظروں کے سامنے رہے گی تو میں کیسے اس کے خیالوں سے چھٹکارا حاصل کروں گا۔ شاہ زیب اب کی فکرمند ہوا۔ 

یااللہ میں کہاں پیار کے چکر میں پڑگیا اچھا خاصا خوشحال تو تھا اپنی زندگی میں یہ پیار نامی بلا کیوں میرے پیچھے پڑگئ۔ شاہ زیب اچانک کہتا چونک اٹھا۔ 

پیار؟ شاہ زیب نے خود سے سوال کیا۔ 

اچھا مزاق ہے میں کونسا اس کو جانتا ہوں یا باتیں ہوئی ہیں جو مجھے اس سے پیار ہوجائے گا۔ شاہ زیب نے خود کی بات رد کی۔ 

پر پیار تو ایک لمحے میں ہوجاتا ہے۔ شاہ زیب کے اندر سے آواز آئی۔

ہاں تو ہوتا ہوگا میں شاہ زیب ہوں اور شاہ زیب سکندر کو کوئی زِیر نہیں کرسکتا وہ چھٹانگ بھر کی لڑکی تو بلکل نہیں۔ شاہ زیب کی آنکھوں کے سامنے ثانیہ کا خوبصورت نازک سراپا آیا تو اس نے خود کو یقین دلانا چاہا پر دل نے کب کسی کی سنی ہے جو اب شاہ زیب کی سنتا۔ 

ثانیہ افتخار 

ثانیہ شاہ زیب۔ گڈ ساٶنڈ۔ شاہ زیب اتنا کہتے مسکرانے لگا۔ 

میر کی طرح میں بھی مجنوں بن گیا تو؟ شاہ زیب کو اب ایک اور فکر لاحق ہوئی۔ 

میر کو سائیڈ پہ کرتا ہوں اور بس اپنے بارے میں سوچتا ہوں ویسے بھی ہر ایک کے پیار کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ شاہ زیب مسکراتا اپنے ہاتھ سر کے پیچھے لیں جاکر صوفے پہ رکھیں اور اپنا سر ان پہ ٹکاتا مسکراتی نظروں سے آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ 

بہت گہرے خیالوں میں 

محبت کے حوالوں میں 

تمہارا نام آجانا

مجھے اچھا سا لگتا ہے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ حور کے مایوں میں جانے کے لیے تیار ہورہی تھی جب شاہ میر کمرے میں اندر داخل ہوا مہرماہ کی اس پہ نظر پڑی وہ مسکرائی۔ 

آگئے تم اب جلدی سے تیار ہوجاٶ پہلے ہی بہت دیر ہوگئ ہے چچی جان والے سب تیار ہیں۔مہرماہ عجلت میں کہتی وارڈروب کی جانب بڑھی تاکہ شاہ میر کے کپڑے نکال سکے۔ جب کی شاہ میر مہرماہ کو دیکھنے میں مگن تھا جو مایوں کے پیلے جوڑے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی جس کا ڈوپٹہ فلحال بیڈ پہ پڑا ہوا تھا چہرے پہ ہلکا سا میک اپ اور آنکھوں میں آئی لائنر کی لکیر کھینچی ہوئی تھی جب کی ہونٹوں پہ ڈارک ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی شاہ میر کی آنکھیں مسلسل مہرماہ کے چہرے کا طواف کررہی تھی جب کی دل زور سے دھڑک تھا مہرماہ کو ایسے دیکھتے ہوئے۔

میں تمہارا ڈریس استری کرکے وارڈروب کے ہینگر میں لٹکادیا تھا۔مہرماہ نے پیلے کلر کُرتا شاہ میر کی طرف بڑھائے کہا شاہ میر مہرماہ کی آواز سن کر ہوش میں آتا کپڑے لیکر بیڈ پہ رکھے اور خود مہرماہ کی طرف آیا جو دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل کی جانب جارہی تھی شاہ میر نے مہرماہ کی کلائی پکڑکے کر اپنے روبرو کیا۔ 

شاہ کیا کررہے ہو لیٹ ہورہا ہے ہمیں۔مہرماہ نے جھنجھلا کر شاہ میر سے کہا۔ 

آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔ شاہ میر مہرماہ کے چہرے پہ آتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کرتا ہوا بولا۔ 

جانتی ہوں۔ مہرماہ نے اِتراکر کہا۔ 

اور کیا جانتی ہیں آپ؟ شاہ میر نے دلچسپی سے مہرماہ کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر پوچھا 

یہی کے اب تم مجھے اپنی باتوں میں لگاکر وقت  کا ضائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ مہرماہ نے اپنا ہاتھ چھڑواکر شاہ میر کو بازوں سے پکڑ کر واشرروم کی جانب دھکیلتے ہوئے کہا۔ 

یار ماہ آپ تو ظالم ہیں مجھے تو ابھی آپ کو جی بھر کے دیکھنا تھا۔ شاہ میر نے منہ بناکر کہا جس پہ مہرماہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔ 

تمہارا جی کبھی نہیں بھرسکتا اِس لیے اب جو میں کہہ رہی ہو وہ کرو۔ مہرماہ بیڈ سے شاہ میر کے کپڑے اٹھاکر اس کے ہاتھوں میں تھماکر بولی۔ 

اففف۔شاہ میر اتنا کہہ کر واشروم میں بند ہوگیا مہرماہ شاہ میر کی حالت انجوائے کرتی خود اپنے کام میں لگ گئ۔ 

مہرو بھابھی امی کہہ رہی ہیں ہم لوگ جارہے ہیں آپ اور میر تیار ہوکر آجانا ان کو بار بار پھپھو کا فون آرہا ہے اس لیے ہم جارہے ہیں۔مہرماہ اپنے بالوں کا اسٹائل بنارہی تھی جب پری دروازہ نوک کرتی اندر داخل ہوتی ہوئی بولی۔

ٹھیک ہے شاہ تیار ہوجائے ہم بھی آتے ہیں پھر۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا تو پری سرہلاتی باہر نکل گئ۔ 

شاہ میر واشروم سے نکلا تو مہرماہ تیار سی موبائل میں مگن تھی۔ 

آپ ہوگئ تیار۔ شاہ میر اپنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ 

جی کب کی پر یہاں تو سسٹم ہی اُلٹا ہے کہاں شوہر تیار سا اپنی بیوی کہ تیار ہونے کے انتظار میں ہوتا ہے اور ایک میں ہوں جو تیار ہوکر اپنے شوہر کے انتظار میں ہوں۔ شاہ میر کے پوچھنے پہ مہرماہ جل کے بولی۔ 

رلیکس میری جان۔ شاہ میر نے مہرماہ کو تپایا جب کی مہرماہ شاہ میر کے میری جان کہنے پہ بس گھور کر رہ گئ۔ 

مجھے یونی میں دیر ہوگئ تھی آج بہت کام تھا وہاں ورنہ اُلٹا سسٹم نہیں ہوتا۔ شاہ میر نے وضاحت دی۔

ٹھیک ہے پر اب جلدی کرو سب نکل گئے ہیں۔مہرماہ نے کہا۔ 

اچھی بات ہے پھر تو ہم آرام سے اکیلے جائے گیں۔ شاہ میر مہرماہ کی بات پہ خوش ہوا۔ 

شاہ اب میں تم کیا کہوں۔ مہرماہ اتنا کہتی خاموش ہوگئ جس پہ شاہ میر مسکراتا اپنے کُرتے کے کف اُپر کرنے لگا اپنے بال سیٹ کرنے کے بعد شاہ میر نے اپنے ہاتھ میں گھڑی پہنی پھر خود پہ پرفیوم چھڑکنے کے بعد خود کا جائزہ لینے لگا۔ 

اوسم۔ شاہ میر خود کی تعریف کہتا مہرماہ کے پاس آیا۔ 

میں ریڈی ہوں چلیں۔ شاہ میر نے مہرماہ سے کہا جس پہ مہرماہ نے شاہ میر کو دیکھا پھر دل میں ماشااللہ کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا ہوا اُداس بُلبُل؟ سالار نے شاہ زیب سے پوچھا جو جور کہ مایوں کے فنکشن میں کونے پہ رکھی ٹیبل پہ خاموش بیٹھا ہوا تھا حور کے مایوں کی رسم گھر کے باہر لان میں کی گئ تھی جہاں مہمانوں کے بیٹھنے کا بہت اچھے سے انتظام کیا تھا پورا لان لائٹس کی روشنیوں سے جگمگارہا تھا مایوں کی رسم لڑکا لڑکی ایک ساتھ تھی۔ 

کجھ نہیں۔شاہ زیب نے بُلبُل نام پہ بنا کوئی تاثر دیئے کہا۔ 

کجھ تو ہوا ہے ورنہ جہاں شاہ زیب سکندر ہو وہاں خاموشی بھی ہو ایسا تو ناممکنات میں سے ہے۔ سالار نے مشکوک نظروں سے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔ 

بات ہوتی تو ضرور بتاتا۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

توں تم نہیں بتانے والے؟ سالار نے کنفرم کرنا چاہا شاہ زیب نے سالار کو دیکھا پھر گہری سانس بھر کر اس کو بتانے کا سوچا۔ 

مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے محبت ہوگئ ہے۔ شاہ زیب اتنا کہہ کر چپ ہوا پر دوسری طرف سالار کی طرف سے نو رسپانس جان کر اس نے ٹیری نظر سے اس کو دیکھا جو بس اس کو تک رہا تھا۔ 

میں نے کجھ کہا۔ شاہ زیب نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ 

اچھا مذاق تھا۔ سالار سر جھٹکتا ہوا بولا۔

مجھے دیکھ کر تمہیں لگ رہا ہے کہ میں مذاق کررہا ہوں؟ شاہ زیب نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیے کہا جہاں بہت سنجیدگی تھی۔ 

لگ تو نہیں رہا۔ سالار اپنی ٹھوری پہ ہاتھ رکھتا شاہ زیب کے چہرے کو بغور دیکھتا ہوا بولا جس پہ شاہ زیب کو تپ چڑھی اور اس نے ایک مُکہ سالار کے بازوں پہ دیں مارا جس سے سالار ہنس پڑا۔ 

اچھا زیب اگر تم سیریس ہوتو یہ بھی بتادو کہ کون ہے وہ خوشنصیب جس نے تمہارا دل اپنے قبضے میں کرلیا۔ سالار نے پوچھا 

جب اس کا نام میرے نام سے جڑ جائے گا نہ حلال طریقے سے اور ہمیشہ کے لیے پھر تمہیں پتا چل جائے گا وہ کون ہے۔ شاہ زیب تصور میں ثانیہ کو یاد کرتا ہوا بولا۔ 

واہ جی واہ اب تم نام بھی نہیں بتارہے۔ سالار کو شاہ زیب کی بات پہ کافی حیرت ہوئی اس کا شاہ زیب آج بہت بدلا بدلا ہوا سا لگ رہا تھا۔ 

ہاں کیونکہ محبت کی پہلی شرط عزت کرنا اور دوسری شرط اعتبار کرنا ہوتا ہے اس لیے میں ان اس کا نام نہیں لیں رہا میں نہیں چاہتا بنا کسی جائز رشتے کے میں اس کا نام تمہارے سامنے یا کسی اور کے نام لوں کیونکہ جن سے محبت کی۔ جاتی ہے اس کا نام ایسے ہی نہیں لیا جاتا۔ شاہ زیب کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔ 

بدلے بدلے سرکار نظر آرہے ہیں۔سالار شاہ زیب کی بات کا بُرا مانے بنا مسکراکر اس کو چھیڑنے لگا جس پہ شاہ زیب بھی مسکرادیا۔ 

لو اگیا میر اور مہرو بھی آگئ۔ سالار نے اینٹرس کی طرف دیکھ کر شاہ زیب سے کہا تو شاہ زیب بھی اس کی طرف دیکھنے لگا جہاں شاہ میر کے ساتھ مہرماہ مسکراتی ہوئی آرہی تھی مہرماہ کو اتنا خوش دیکھ کر شاہ زیب کے اندر سکون کی لہر ڈورگئ۔ 

چلتے ہیں پھر ہم بھی اسٹیج کی طرف۔ شاہ زیب اٹھتا ہوا سالار سے بولا تو سالار بھی اُٹھ کھڑا ہوا پھر دونوں مل کر لان میں سیٹ کیے اسٹیج کی طرف گئے جہاں چہرے پہ ڈوپٹہ اوڑھے حور سرجھکاکر بیٹھی ہوئی تھی اور پاس کھڑی عورتیں رسم کررہی تھی۔ 

کیسی ہو؟ مہرماہ حور کے پاس بیٹھ کر بولی

ٹھیک تم کسی ہو؟ حور نے۔ آہستہ آواز میں بتاکر پوچھا۔ 

میں الحمداللہ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔ 

کیا حال ہے بھئ۔ سالار اور شاہ زیب شاہ میر کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہوئے پوچھنے لگے شاہ میر جو مہرماہ کی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا سالار کی آواز پہ چونک اٹھا۔

ٹھیک آپ سنائے۔ شاہ میر سالار کے گلے ملتا ہوا بولا۔ 

ہم بھی ٹھیک۔ سالار نے جواب دیا پھر شاہ میر شاہ زیب سے ملنے لگا۔ 

آپ کیسے ہیں۔شاہ میر نے شاہ زیب سے پوچھا تو اس کے کجھ بولنے سے پہلے ہی سالار نے کہا۔ 

زیب کو مشورہ چاہیے تم سے۔ سالار کی بات پہ شاہ زیب نے اُلجھن زدہ نظروں سے۔ سالار کو دیکھا جس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ 

مجھ سے مشورہ وہ بھی شاہ زیب بھائی کو چاہیے۔ شاہ میر حیرانکن لہجے میں بولا۔ 

ہمم بلکل۔ سالار نے کہا تو شاہ زیب نے اس کو آنکھیں دیکھائی جو جانے کیا بکواس کرنے والا تھا۔

کس بارے میں مشورہ۔ شاہ میر اب پوری طرح سالار کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ 

صاحبِ عقلمند ہو تو مشورہ دیجئے 

احتیاط سے عشق کرون، یا عشق سے احتیاط 

مشورہ آپ کو چاہیے یا انہیں؟سالار شعر پڑھ کر چپ ہوا تو شاہ میر شاہ زیب کی طرف اشارہ کیے بولا جب کی شاہ زیب کا بس نہیں چل رہا تھا سالار کو شوٹ کردیتا جو اس کے راز کو پانچ منٹ بھی اپنے پاس نہیں رکھ پایا تھا۔ 

تم بس مشورہ دو۔ سالار نے بڑے ادب سے کہا۔ 

احتیاط سے عشق کریں کیونکہ عشق سے احتیاط نہیں ہوتا یہ تو بس جب ہونا ہوتا ہے ہوجاتا ہے پھر ان کے علاوہ ہر انسان سے اُلجھن ہوتی ہے۔ شاہ میر مہرماہ کی طرف دیکھ کر بولا جو اپنے ہاتھوں میں اب سفید کلر کے گجرے پہن رہی تھی جو بڑے سے تھال میں رکھے ہوئے تھے۔ 

بات تو بہت اچھی کی تم نے ہو تو سب سے چھوٹے پر کبھی کبھی عقل میں سب کو مات دے جاتے ہو۔ سالار شاہ میر کی بات پہ تالیاں بجاتا ہوا بولا شاہ زیب بس شاہ میر کو دیکھ رہا تھا جس کی بلو آنکھیں چمک رہی تھی شاہ زیب کو یہ چمک عجیب لگتی تھی جو بس مہرماہ کی موجودگی میں ہی شاہ میر کی آنکھوں میں ہوتی تھی یا پھر جب مہرماہ کا ذکر ہوتا۔ 

عقل کا تعلق عمر سے نہیں سوچ اور دماغ سے ہوتا ہے۔ شاہ میر سالار کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا بول کر مہرماہ کے پاس جانے لگا شاہ میر کی بات سالار کو سمجھ نہیں آئی پر شاہ زیب نے بڑی مشکل سے امڈنے آنے۔ والے قہقہہ کا گلا گھونٹا تھا۔ 

یہ میر کیا کہہ گیا مطلب کیا تھا اِس بات کا؟ سالار نے شاہ زیب سے پوچھا۔ 

کجھ نہیں،شاہ زیب نے ٹالا۔ 

ویسے سالار جو میر ہے یہ بے عزتی بہت عزت سے کرجاتا ہے۔ شاہ زیب کجھ دیر خاموش ہونے کے بعد کہتا نو دو گیارہ ہوگیا سالار کو پہلے سمجھ نہیں آیا مگر جب آیا تو اس نے گھور کر شاہ میر کو دیکھا جو مہرماہ سے کوئی بات کررہا تھا۔ 

یہ کل کا بچہ مجھے کم عقل کہہ گیا تھا۔ سالار خود سے بڑبڑاتا وہاں سے نکلتا دوسری سمت جانے لگا۔ 

آآآہ۔ سالار جو خود سے بڑبڑاتا جانے لگا تھا سامنے سے آتی پری کو نہیں دیکھ پایا جس سے پری جو ہاتھوں میں پھولوں کا تھال لیے جارہی تھی سالار سے ٹکڑ لگنے کی وجہ سے وہ دھڑام گِرنے والی تھی پر سالار نے اس کو تو گِرنے سے بچایا پر پھولوں کو نہیں جو اب نیچے گِرکر اپنی حالت پہ افسوس کررہے تھے۔ 

تم تھیک ہوں؟سالار پری کی اتنی چیخ پہ پوچھنے لگا۔ 

جی سالار بھائی میں ٹھیک ہوں پر آپ نے پھولوں کا ہاتھ گرادیا۔ پری نے پریشانی سے کہا۔ 

سوری میرا دھیان نہیں تھا۔ سالار نیچے بیٹھ کر پری سے بولا اور ساتھ ہی تھال میں پھول ڈالنے لگا۔ 

میرا بھی پورا دھیان اِن پھولوں کو دیکھنے میں تھا۔ پری بھی نیچے بیٹھ کر سالار سے بولی۔ 

اِس لیے تو ٹکر ہوگئ۔ سالار نے مسکراکر کہا۔ 

شکریہ۔ پری نے سالار کے ہاتھوں سے تھال لیکر کہا جس میں اب سالار نے ترتیب سے پھول رکھے ہوئے تھے۔ 

شکریہ کی کیا بات سالار اٹھتا ہوا بولا تو پری مسکراکر سرہلاتی پاس سے گزر گئ۔ 

ماہ اب ہمیں گھر چلنا چاہیے۔ کافی دیر بیٹھنے کے بعد شاہ میر نے مہرماہ سے کہا

کیا ہوگیا ہے شاہ ہمیں رات تک یہی رہنا ہے۔ مہرماہ نے بتایا۔ 

شام تو ہوگئ ہے۔ شاہ میر ہاتھ میں بندھی گھڑی پہ وقت دیکھتا ہوا بولا۔

میر کیا بات ہے جلدی کیوں مچارہے ہو تمہاری کزن کی رسم کا فنکشن ہے چپ چاپ بیٹھے رہو ایسے بچوں کی طرح ضد نہیں کرو۔ مہرماہ کے بجائے اِس بار ہانم بیگم شاہ میر کو آنکھیں دیکھاتی ہوئی بولی جس سے شاہ میر کو ناچاتے ہوئے بھی چُپ ہونا پڑا۔ 

کھانا لگ گیا ہے چلیں۔ کجھ دیر بعد آیان ان کے پاس آتا ہوا بتانے لگا۔ 

کھانا تو ہم نے گھر پہ کھانا تھا۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں۔ 

شاہ ہم ہی نہیں سب مہمان یہاں کھانا کھائیں گے۔ مہرماہ نے شاہ میر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سب کی طرف اشارہ کیے بتانے لگی جو سب اب ٹیبل پہ بیٹھے کھانے سے لطف اندروز ہورہے تھے۔ 

میر اگر تم ان کمفرٹیبل ہو تو اندر کھانا کھاسکتے ہو۔ نادیہ بیگم جو حور کو اپنے کمرے میں چھوڑنے کے لیے آرہی تھی شاہ میر کو اِس طرح ری ایکٹ کرتا دیکھا تو نرمی سے کہا جب کی ہانم بیگم خوامخواہ شرمندہ ہوگئ تھی۔ 

نہیں پھپھو میں یہاں کھالوں بس ماہ سے ایسے ہی پوچھا۔ شاہ میر نے سہولت سے انکار کیا ورنہ دل تو یہی چاہ تھا اُس کا مہرماہ کے ساتھ اکیلے کھانا کھانے کا نادیہ بیگم شاہ میر کی بات پہ مسکرائی اور حور کو لیکر چلی گئ جب کی مہرماہ شاہ میر کو لیکر پاس پڑی میز کی طرف آئی جس کا اطراف کرسیوں کی قطار تھی جہاں ہانم بیگم سارہ بیگم حمیرا بیگم شاہ زیب سالار پری آیان بیٹھے ہوئے تھے۔ مہرماہ وہاں سے کے پاس آکر بیٹھی تو شاہ میر بھی اس کے برابر والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا مہرماہ کو بیٹھتے دیکھ حمیرا کا منہ بن گیا تھا جس کا نوٹس بس شاہ زیب نے لیا تھا۔ 

نہاری کھاٶ کراچی کی فیمس ڈس میں اِس کا شمار ہوتا ہے۔ مہرماہ پہلے شاہ میر کی پلیٹ میں کھانا سرو کرتی ہوئی بولی۔ 

اوکے۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا مہرماہ شاہ میر کو کھانا سرو کرتی اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوئی جب شہیر ان کے پاس آیا۔ 

اسلام علیکم۔ شہیر مہرماہ کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ کر سب کو سلام کیا جس کا جواب سب نے دیا تھا سوائے شاہ میر کے اُس کا موڈ پل بھر میں خراب ہوگیا تھا شہیر کو دیکھ کر دوسرا اس کو مہرماہ کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھا دیکھ کر تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی۔ 

شاہ ٹھیک سے کھانے پہ دھیان دو بس صبح ناشتہ ہی کیا تھا تم نے۔ مہرماہ شاہ میر کو کھانے کی پلیٹ کو بس گھورتا پایا تو ڈانٹ کر کہا جس پہ سب کھانے کھاتے ہوئے مسکرادیئے تھے اس کی شاہ میر کے لیے فکر دیکھ کر۔ 

رائس پاس کیجئے گا مجھے۔شاہ میر نے بس اتنا کہا مہرماہ شاہ میر کی بات سنتی بریانی کی پلیٹ اٹھانے ہی والی تھی جب شاہ میر اچانک سے اس کا بڑھتا ہوا ہاتھ پکڑ لیا کیونکہ شہیر نے بس بریانی کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ایسے میں اگر مہرماہ کا اور شہیر کا ہاتھ ایک دوسرے سے مس ہوسکتا تھا پر شاہ میر فورن سے مہرماہ کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے چُکا تھا۔ 

شاہ؟ سب کے سامنے شاہ میر کی یہ حرکت مہرماہ کو پسند نہیں آئی شاہ میر نے مہرماہ کے چہرے پہ ناپسندیدگی کے تاثرات دیکھے تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا پھر بنا کجھ کہے وہاں سے اٹھ گیا سب نے پریشانی سے اس کو جاتا دیکھا۔ 

میر کو کیا ہوگیا؟ ہانم بیگم شاہ میر کو بیچ کھانے پہ اٹھتا دیکھا تو مہرماہ سے پوچھا جو خود حیرت میں تھی جب کے سالار سمجھ گیس تھا شاہ میر کو پھر جیلسی کا دورہ پڑا ہے

پتا نہیں چچی جان میں جاکر دیکھتی ہوں۔ مہرماہ کہہ کر جانے لگی پر ہانم بیگم نے روک دیا۔ 

جانے دو کھانا تم پورا کرو اپنا ایسے کھانے کو بیچ میں نہیں چھوڑا کرتے۔ ان کی بات پہ مہرماہ بیٹھ گئ پر کھانے پہ اس کا دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ 

شروع شروع کے چونچلے ہیں بس ورنہ مرد کب تک خود سے چار سال بڑی بیوی کو برداشت کریں گا۔ حمیرا بیگم کو مہرماہ کو شاہ میر کے ساتھ مطمئن دیکھ کر اچھا نہیں لگا تو زہر اُگلا جس پہ مہرماہ کے دل میں پھانس چبی تھی اس نے بنا کجھ کہے پانی کا گلاس اٹھاکر پینے لگی۔ 

آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں آپ اپنے کھانے پہ دھیان دیں ناکہ ہماری پرسنل لائیف پہ۔ شاہ میر جو اپنا موبائل ٹیبل پہ بھول گیا تھا وہ لینے کے لیے آیا تھا جب اس کے کانوں پہ حمیرا بیگم کی آواز پڑی تو سخت انداز میں بولا۔ 

میر میری ماں سے تھمیز سے بات کرو۔ شہیر ناگوار لہجے میں بولا۔ 

آپ یہ بات اپنی ماں کو بھی سمجھادیں میری بیوی سے تھمیز سے بات کریں یا کریں ہی نہ۔ شاہ میر مہرماہ کا ہاتھ پکڑتا اس کو اپنے برابر کھڑا کیے شہیر سے زیادہ ناگوار لہجے میں بولا سب بس ان کو دیکھتے رہ گئے۔ 

شاہ چپ کرو۔ مہرماہ نے شاہ میر سے کہا جس پہ شاہ میر نے اس کو جس طرح دیکھا مہرماہ اپنا سرجھکانے پہ مجبور ہوگئ۔ 

تو غلط کیا کہا میں نے جو آگ لگ گئ ہے تمہیں۔ حمیرا بیگم باز نہیں آئی۔ 

لاکھ پڑھ لکھ لیں آپ حرکتیں اور عادات تو جاہلوں کی طرح ہی ہیں۔شاہ میر نے افسوس کرنے والے انداز میں کہتے مہرماہ کو اپنے سے ساتھ لیکر باہر جانے والے رستے کی طرف جانا لگا مہرماہ بنا کجھ کہے اس کے ہمقدم ہوئی باقی سے تعجب سے ان کو جاتا دیکھ رہے تھے۔ 

لنڈن میں یہ تربیت کی تھی تم نے؟ حمیرا بیگم نے اب ہانم بیگم کو نشان بنایا۔ 

حمیرا پلیز یہ جاہل عورتوں کی طرح طعنے بازی کرنا بند کرو۔ہانم بیگم ہاتھ کھڑا کیے کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ان کو اٹھتا دیکھ کر پری اور آیان بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

میری بیٹی بہت خوش تھی اس کو مایوس کرکے تم نے اچھا نہیں کیا۔ سارہ بیگم ہانم بیگم کے جانے کے بعد حمیرا بیگم سے کہا۔ 

آپ لوگوں نے تو جیسے بہت اچھا کیا تھا۔ حمیرا بیگم طنزیہ بولی۔ 

قسمت میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا اِس لیے آپ پُرانی باتیں دل پہ لیکر نہ بیٹھے کیونکہ اِس میں نقصان آپ کا ہی ہوگا دوسروں کا کجھ نہیں ہوگا۔ شاہ زیب اپنے ہاتھ صاف کرتا حمیرا بیگم سے بول کر کھڑا ہوا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تمہارا رویہ بہت بُرا تھا آج۔ وہ دونوں گھر آگئے تو مہرماہ نے شاہ میر سے کہا جو ابھی کپڑے چینج کیے واشروم سے نکلا تھا۔ 

آپ کو کوئی بھی کجھ کہے جو غلط ہوگا تو میرا رویہ ایسا ہی ہوگا چاہے پھر سامنے جو بھی ہو۔ شاہ میر تیز آواز میں بولا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ شاہ میر مہرماہ کے سامنے سخت ہوا تھا۔ 

خود پہ کنٹرول کرنا سیکھو شاہ اب یہ طعنے تو مجھے ملتے رہے گیں تم کب تک لوگوں سے تلخ ہوتے رہوگے۔ مہرماہ نے اس کو سمجھانا چاہا۔ 

نہیں ہوتا مجھے کنٹرول اور رہی بات کب تک تو سنے جب تک لوگ فضول بکواس کرتے رہے گیں میں ان کا منہ بند کرسکتا ہوں اتنی ہمت تو ہے مجھ میں۔شاہ میر مہرماہ کو بازوں سے پکڑتا شدت بھرے لہجے میں گویا ہوا جس پہ مہرماہ کو اس بس دیکھتی رہ گئ۔ 

میں کھانا لاتی ہوں تمہارے لیے۔ مہرماہ نے بات بدلنے میں بہتری جانی۔ 

بھوک نہیں مجھے۔شاہ میر مہرماہ سے الگ ہوتا بیڈ کی جانب آتا بولا۔ 

بھوکے پیٹ سویا نہیں کرتے۔ مہرماہ نے بتانا ضروری سمجھا۔ 

آج جو ہوا اس سے میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ شاہ میر شہیر کو سوچتا جل کے بولا۔ 

کیا مطلب اِس بات کا؟ مہرماہ کو سمجھ نہیں آیا۔ 

کجھ نہیں لائیٹ آف کردیں کل مجھے یونی جلدی جانا ہے۔ شاہ میر آنکھوں پہ بازوں ٹکاتا ہوا بولا مہرماہ بنا کجھ کہے لائیٹ آف کرتی بیڈ کی دوسری طرف آکر خود بھی سونے کے لیے لیٹ گئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کل جس طرح میر نے مہرو کو ڈیفینڈ کیا سچی میرا دل خوش ہوگیا پہلے جو ایک خلش تھی یہ سوچ کرکہ ہم نے مہرو کی شادی چھوٹے سے لڑکے سے کرواکر زیادتی تو نہیں کردی پر کل سے وہ خلش ختم ہوگئ۔صبح ناشتے کی ٹیبل پہ سارہ بیگم پرسکون سی مسکراہٹ کہ ساتھ بولی۔ 

اچھا شوہر وہی ہوتا ہے جو بیوی کے لیے آواز اٹھائے اور اس کا سر کبھی جھکنے نہیں دیں مگر میر کو بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی حمیرا بہن سے۔ سکندر خان نے کہا۔ 

بابا جان وہ باتیں ہی ایسے کررہی تھی کہ آپ ہوتے تو آپ کو بھی غصہ آجاتا میر کی تو بات ہی الگ ہے وہ کہاں برداشت کرتا ہے مہرو کے بارے میں کجھ اس کو مذاق میں اگر میں ہی کجھ کہہ دوں تو دو دنوں تک تو مجھے گھور کر دیکھتا ہے۔ شاہ زیب بریڈ میں جیم لگاتا ہلکے پھلکے لہجے میں بولا

یہ تو ہے۔سارہ بیگم شاہ زیب کی بات پہ متفق ہوتی ہوئی بولی۔ 

اچھا امی جان بابا جان میں چلتا ہوں آفس جانے کے لیے۔ شاہ زیب ناشتے سے فارغ ہوتا چیئر سے اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا بولا۔ 

ٹھیک ہے خدا حافظ۔سکندر خان اور سارہ بیگم ایک ساتھ بولیں۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی کی وجہ سے مہرماہ کی آنکھ کُھلی اس نے کسمساکر آنکھیں کھولی تو خود کو بیڈ پہ اکیلا پایا۔

شاہ کدھر گیا؟ مہرماہ حیرت سے خود سے سوال کرنے لگی شادی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا جب وہ صبح اٹھی ہو اور بیڈ پہ شاہ میر سویا ہوا نہ ہو مہرماہ نے لحاف خود سے ہٹاکر کر بیڈ سے اٹھی اور واشروم کے دروازے کی طرف آئی۔ 

شاہ تم اندر ہو؟ مہرماہ نے واشروم کا دروازے نوک کرکے پوچھا پر واشروم کے درواز کو ہاتھ لگتے ہی وہ چرر کی آواز سے کھل گیا

شاید جاگنگ پہ گیا ہو۔ مہرماہ اندازہ لگاتی فریش ہونے کے لیے واشروم میں چلی گئ۔ 

دس منٹ بعد واشروم سے باہر آئی تب بھی شاہ میر کمرے میں نہیں تھا تو اس نے بالوں سے تولیہ نکال کر ڈوپٹہ سر پہ اوڑھا پھر کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیوں کے پاس آکر ریکنگ پہ ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھک کر نیچے ہال کی طرد نظر گھمائی جہاں سب تھے پر شاہ میر نہیں تھا مہرماہ یہ دیکھ کر اپنے کب کچلے پھر کمرے میں آکر فون اٹھا کر شاہ میر کا نمبر ڈائل کیا۔ 

شاہ کدھر ہوتم؟ شاہ میر نے جیسے ہی کال اٹھائی مہرماہ نے سوال داغا۔ 

میں یونیورسٹی میں ہوں ضروری کلاس تھی میری۔ شاہ میر نے سامنے گراؤنڈ کی جانب دیکھ کر کہا جہاں اکا دکا ہی اسٹوڈنٹ آئے ہوئے تھے۔ 

تو مجھے جگادیتے میں ناشتہ بنادیتی تمہارے لیے۔ مہرماہ شاہ میر کی بات سن کر بولی

آپ سوئی ہوئی تھی میں نے اپنی خاطر آپ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔شاہ میر نے سنجیدہ سے کہا۔ 

یہ کیا بات ہوئی۔مہرماہ کو شاہ میر کی بات عجیب لگی۔ 

میں بعد میں بات کرتا ہوں ابھی کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے۔ شاہ میر نے کہا۔ 

ٹھیک ہے کاٹو پھر کال۔ مہرماہ نے کہا۔ 

میں کیوں کاٹو آپ کٹ کریں کال۔ شاہ میر نے جواب دیا۔ 

کلاس تمہاری ہے بات تمہیں نہیں کرنی تو تم کال کاٹو نہ میں کیوں کروں بند کال۔ مہرماہ نے آرام سے کہا۔ 

کال آپ نے کی تھی تو بند بھی آپ کریں میں کیوں کروں۔شاہ میر خفگی سے بولا۔ 

کیونکہ مجھے تو بات کرنی ہے تم سے۔ مہرماہ نے وجہ بتائی

گھر آکر بات ہوگی۔ شاہ میر نے کہا

اوکے۔مہرماہ نے بس اتنا کہا۔ 

جی کاٹیں اب کال مجھے اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب جانا ہے۔ شاہ میر نے پھر کہا۔ 

تو میں نے کونسا روک رکھا ہے ویسے بھی میری کال کاٹنے سے تمہارے ڈپارٹمنٹ جانے کا کیا تعلق۔مہرماہ نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ 

مجھے تنگ کرنا بند کریں۔شاہ میر نے گہری سانس بھر کر کہا۔ 

تم تنگ ہونا بند کرو۔ مہرماہ نے بھی ویسے ہی کہا۔ 

ماہ۔ شاہ میر اتنا کہہ چپ ہوا۔ 

شاہ۔ مہرماہ نے پیار سے اس کا نام لیا۔ 

آپ نہیں کریں گی بند کال؟شاہ میر نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

نہیں تمہارے کیا مسئلہ ہے کال کاٹنے میں۔مہرماہ نے پوچھا

آپ جانتی ہیں میں آپ کی کال نہیں کاٹتا یہ کام آپ ہی کرتی ہیں۔شاہ میر نے ناراض لہجے میں کہا۔ 

تو اِس بار میں بھی نہیں کررہی بند۔ مہرماہ اٹل لہجے میں گویا ہوئی۔

ٹھیک ہے پھر لگی رہیں آپ کال پہ میں تو اپنے ڈپارٹمنٹ جارہا ہوں۔ شاہ میر اتنا کہہ کر ایسے ہی موبائل کو اپنی جیپ میں رکھ دیا کال کاٹے بغیر۔

اگر تمہارے ضد ہے تو میری بھی ضد میں بھی کال نہیں کاٹوں گی۔ پانچ منٹ تک شاہ میر کی کوئی آواز نہیں آئی پر کال چلتی ہوئی دیکھی تو مہرماہ خود سے بڑبڑاتی فون کو بیڈ پہ رکھ دیا کال اس نے بھی نہیں کاٹی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مس ثانیہ افتخار میرے کیبن میں آئے۔ شاہ زیب نے انٹرکام پہ ثانیہ سے کہہ کر کال کٹ کی۔ 

سر می آئ کمن؟ ثانیہ کیبن کا دروازہ نوک کرتی ہوئی بولی۔ 

یس کمن۔ شاہ زیب نے سنجیدگی سے کہا تو ثانیہ اندر آئی۔ 

میں نے آپ کو ایک پریزیٹیشن تیار کرنے کو کہا تھا اس کا کیا بنا؟شاہ زیب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا۔ 

سر میں نے اس کی پروپرلی تیاری کرلی ہے۔ ثانیہ نے بتایا۔ 

ہمم گڈ آپ کو کانفڈنٹ کے ساتھ کانفرنس روم میں پریزیٹیشن دینی ہے بنا کسی پہ دھیان دیئے اور ہچکچائے کیونکہ ہمارے لیے اِس پراجیکٹ کا ملنا بہت ضروری ہے۔ شاہ زیب نے اس کو ہاتھوں کو دیکھ کر کہا جن کو وہ ثانیہ آپس میں مڑور رہی تھی ثانیہ کی حرکت پہ شاہ زیب سمجھ گیا تھا کہ وہ کنفیوز ہے اِس لیے اس کو سمجھانے کی خاطر کہا۔ 

جی سر میں سب سہی کرلوں گی۔ ثانیہ نے کہا۔ 

آپ ایک بار میرے سامنے پریزیٹیشن دیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو میں آپ کو بتادوں کیونکہ کانفرنس روم میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ شاہ زیب نے کہا تو ثانیہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ 

جی۔ ثانیہ حیرت سے بولی۔ 

کوئی پروبلم؟شاہ زیب نے آئبرو اُوپر کر پوچھا تو ثانیہ نے جھٹ سے سر نفی میں ہلایا جس پہ شاہ زیب مسکرایا شاہ زیب کو مسکراتا دیکھ کر ثانیہ نے اپنی نظریں جھکادی تھی شاہ زیب کی ایک بیٹ مس ہوئی تھی ثانیہ کی اِس حرکت پہ

آئے پھر۔ شاہ زیب اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا بولا۔ 

کہاں؟ ثانیہ نے پوچھا۔ 

میٹنگ چار بجے ہے ابھی تین گھنٹے ہیں اِس لیے آپ میرے ساتھ کانفرنس روم میں چل کر پریزیٹیشن دیں گی تاکہ آپ کا اعتماد بحال ہو پھر جب آپ دوبارہ وہاں دیں گی تو آپ کو ڈر نہیں لگے گا آپ کو بس یہی لگے گا کہ وہاں بس آپ خود ہے یا بس میں ہوں جو آپ کو پریزیٹیشن کرتا دیکھ رہا ہے۔شاہ زیب نے بتایا۔ پھر دونوں کیبن سے باہر نکلے تو سالار ان کے سامنے آگیا جو شاہ زیب کے پاس ہی آرہا تھا۔ 

کہاں کی سواری ہے؟ سالار ایک نظر چادر میں چھپی ثانیہ کو دیکھ کر شاہ زیب سے بولا۔ 

مس ثانیہ افتخار آپ جائے میں آتا ہوں۔ شاہ زیب نے ثانیہ سے کہا تو ثانیہ سر کو جنبش دیتی وہاں سے چلی گئ اس کے جانے بعد شاہ زیب نے سالار کو ساری بات بتائی۔ 

واقع میں تمہیں پراجیکٹ حاصل کرنے کے لیے کررہے ہو یا اُس کو پُراعتماد بنانا چاہتے ہو؟ شاہ زیب کی ساری بات سن کر سالار نے شرارتی نظروں سے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔ 

دونوں۔ شاہ زیب نے کان کی لو کو کھجاکر بتایا۔ 

ایک وجہ ہے اور وہ ہے کہ تم اُس لڑکی کے اندر کانفڈنٹ پیدا کرنا چاہتے ہو اگر پروجیکٹ کا ملنا تمہارے لیے ضروری ہوتا تو تمہیں پریزٹیشن تیار کرنا کا اس کو نہ کہتے اور نہ ہی اتنے لوگوں کے درمیان اپنے اس کو امپلوئے کو کھڑا کرتے جس کو آئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا بلکہ اپنے مینجر سے کہتے جو پہلے بھی بہت سی میٹینگز میں تمہارے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ سالار نے کہا تو شاہ زیب بس اس کو دیکھتا رہ گیا جس نے پوری کہانی خود بنالی تھی۔ 

پراجیکٹ بھی میرے لیے ضروری ہے میں نے بہت وقت سے اس کو حاصل کرنے کے لیے جتن کیے ہے پہلے یہ سب کام مینجر محمود کرتا تھا پر بہت سارے اور کام بھی ہوتے ہیں جس کے لیے میں نے پرسنل اسسٹنٹ کو بھی ہائیر کردیا اپنے لیے۔ شاہ زیب نے کہا تو سالار نے سرہلانے پہ اکتفا کیا شاہ زیب نے اس کو دیکھا پر اپنے قدم کانفرنس روم کی طرف بڑھائے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میر تم یہاں؟حیدر خان اپنے آفس میں  فائل ریڈ کررہے تھے جب شاہ میر کو اندر آتا دیکھا تو حیرت کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے جب سے اپنا بزنس لنڈن سے یہاں پاکستان میں وائنڈ اپ کیا تھا شاہ میر ایک مرتبہ بھی نہیں آیا تھا۔ 

جی ڈیڈ وہ میں چاہتا ہوں کہ یونی کے بعد یہاں آپ کے آفس آیا کروں ایز امپلوئے کی طرح۔ شاہ میر بیٹھتے ہوئے کہا۔ 

امپلوئے کیوں تم یہاں کے سی ای او ہو۔ حیدر خان حیرت سے پوچھنے لگے۔ 

میری پڑھائی پوری نہیں ہوئی اِس لیے پہلے میں یہاں سیکھنا چاہتا ہوں۔ شاہ میر نے وجہ بتائی 

وہ سب تو ٹھیک پر تمہاری پڑھائی متاثر ہوجائے گی یونی کے بعد آفس کا کام کروگے تو۔ حیدر خان فکرمند ہوئے۔

متاثر نہیں ہوگی میں ہینڈل کرلوں گا۔ شاہ میر نے ان کو مطمئن کرنا چاہا۔ 

پر یوں اچانک تمہارے دماغ میں خیال کیسے آیا؟ حیدر خان نے جاننا چاہا۔ 

میں ماہ کا خرچہ خود اٹھانا چاہتا ہوں یہاں باقیوں کی طرح آپ مجھے سیلری دیا کریں گے۔ شاہ میر نے کہا تو حیدر خان نے تعجب سے اس کو دیکھا۔ 

میر اول تو یہ بات تمہاری غلط ہے دوسرا یہ کہ تمہاری پاکٹ منی اتنی ضرور ہے کہ تم آرام سے مہرو کا خرچہ اٹھا سکتے ہو پر اِس کی تو کوئی ضرورت نہیں ہم ہیں تو سہی۔ حیدر خان نے کہا

میں سمجھ سکتا ہوں آپ کی بات پر میں اپنی زندگی میں سیٹل ہونا چاہتا ہوں میں ماہ کو اپنی پاکٹ منی سے ان کی ضروریات پوری نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنی محنت سے ان کو ہر آسائش دینا چاہتا ہوں۔ شاہ میر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ 

مہرو یا کسی اور نے کجھ کہا ہے کیا تم سے؟ حیدر خان نے اندازہ لگایا۔ 

نہیں ماہ نے تو کجھ نہیں کہا میں خود کہہ رہا ہوں۔ شاہ میر نے کہا

پھر بھی ایک بار سوچ لینا ایسے میں تم مہرو کو ٹائم نہیں دے سکوگے اس لیے میں تو یہی چاہوں گا ابھی تم اپنا پورا فوکس اسٹڈی پہ دو آفس کا کیا ہے بعد میں تو تمہیں ہی دیکھنا ہے۔ حیدر خان نے ایک اور کوشش کی اس کو سمجھانے کی۔ 

آپ فکر نہیں کریں میں سب ہینڈل کرلوں گا۔ شاہ میر اپنی بات پہ قائم تھا اِس لیے حیدر خان نے مزید کوئی بحث نہیں کی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تم آگئے میں نے تمہاری کال نہیں کاٹی تھی۔ شاہ میر کمرے میں آیا تو مہرماہ جو عصر کی نماز پڑھ کر جائے نماز اٹھارہی تھی شاہ میر کو دیکھ کر مسکراکر کہا۔ 

ضدی جو ہیں۔ شاہ میر نے ایک نظر مہرماہ کے حجاب میں لپیٹے چہرے کو دیکھا پر اپنی کتابیں روم میں رکھے اسٹڈی ٹیبل پہ رکھ کر کہا۔ 

ضدی کہاں خیر تم آج لیٹ گھر آئے ہو صبح گئے بھی جلدی تھے؟ مہرماہ نے پوچھا۔ 

ہاں بس کام تھا کجھ۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

تم فریش ہوجاٶ میں تب تک کھانا لیکر آتی ہوں تمہارے انتظار میں،میں نے بھی کجھ نہیں کھایا۔ مہرماہ نے کہا۔ 

آپ کو کھانا کھالینا چاہیے تھا۔ شاہ میر کو افسوس ہوا یہ جان کر کہ مہرماہ اس کی وجہ سے بھوکی تھی۔ 

تمہارے ساتھ کھاتی ہوں مجھے کیا پتا تھا تم لیٹ آنے والے ہو۔مہرماہ اپنا ڈوپٹہ حجاب کی صورت میں کُھول کر جواب دیا۔ 

آپ لیں آئے کھانا۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ کمرے سے باہر نکل گئ جب کی شاہ میر نے اپنا رخ واشروم کی جانب کیا۔ 

مہرو تم کچن میں کجھ چاہیے تھا؟ مہرماہ کچن میں آئی تو ہانم بیگم جو ملازم سے اپنے لیے چائے کا کہنے آئی تھی اس کو دیکھ کر بولی

جی چچی جان کھانا گرم کرنے آئی تھی اپنے اور شاہ کے لیے۔ مہرماہ نے بتاکر فریج کھولا اور اُس میں سے سالن اور بریانی کی پلیٹ نکالی اس کو پتا تھا شاہ میر کو بریانی پسند ہوتی ہے

میر اب آیا ہے گھر صبح بھی بنا ناشتہ کیے گھر سے نکل گیا تھا رات میں بھی بس چند نوالے ہی کھائے تھے۔ ہانم بیگم نے کہا۔ 

جی اِس لیے میں نے دو پہر کو شاہ کے لیے بریانی بنائی تھی۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا تو ہانم بیگم مسکراتی اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتی باہر نکل گئ مہرماہ کھانے گرم کرنے کے بعد ٹرے میں سیٹ کیا پھر کمرے میں آئی جہاں شاہ میر کتاب پڑھنے میں مگن تھا شاہ میر کہ گیلے بال دیکھ کر اس کو پتا چل گیا کہ وہ ابھی نہاکر بیٹھا ہے۔ 

کھانا کھالوں۔ مہرماہ نے ٹیبل پہ ٹرے رکھ کر شاہ میر کو آوازدی اور ٹیبل پہ کھانا ٹھیک سے رکھنے لگی۔ 

بریانی آپ نے بنائی ہے؟ شاہ میر نے پوچھا

بلکل۔ مہرماہ نے جواب دیا تو شاہ میر مہرماہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ 

ایک بات پوچھو آپ سے؟ مہرماہ شاہ میر کی پلیٹ میں سالن ڈال رہی تھی جب شاہ میر نے کہا۔ 

ہاں پوچھو اجازت کیوں لیں رہے ہو۔ مہرماہ اپنے لیے روٹی کا نوالہ توڑتی ہوئی بولی۔ 

کل رات میرا آپ کا ہاتھ پکڑنا آپ کو چھونا بُرا لگا تھا کیا؟ شاہ میر کہ اندر جو کل رات سے بات کھائے جارہی تھی آخر زبان پہ آگئ تھی جب کی شاہ میر کی بات پہ مہرماہ کہ گلے میں نوالہ اٹک گیا تھا جس سے اس کو کھانسی آگئ تھی شاہ میر مہرماہ کا لال چہرہ دیکھ کر جلفی سے پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں کے پاس کیا۔ 

آپ ٹھیک ہیں؟ شاہ میر پریشان کن لہجے میں بولا ساتھ ہی مہرماہ کی پیٹھ بھی سہلارہا تھا

تمہیں ایسا کیوں لگا شاہ کہ مجھے برا لگا۔ مہرماہ کی حالت کجھ ٹھیک ہوئی تو پوچھا 

آپ کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات آگئے تھے۔ یہ کہتے ہوئے شاہ میر کی آنکھوں میں مرچیں چُھبنے لگی تھی۔

ایسا نہیں تھا کہ مجھے بُرا لگا تھا پر وہاں سب تھے تمہاری حرکت پہ ہرکوئی ہماری طرف دیکھ رہا تھا اِس لیے مجھے ٹھیک نہیں لگا ورنہ تمہارا میرا ہاتھ پکڑنا مجھے چھونا کیوں بُرا لگے گا۔ مہرماہ نے شاہ میر کے گال پہ ہاتھ رکھ کر وضاحت کی۔ شاہ میر نے اپنا ہاتھ مہرماہ کے ہاتھ پہ رکھا جو اس کے گال پہ تھا پھر کہا۔ 

پکا یہی بات ہے؟ 

بلکل یہی بات ہے۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا۔ 

تو کیا یہ بات تھی جس سے تم کل رات پریشان تھے یا آج عجیب بیہیو کررہے تھے؟ مہرماہ نے پوچھا تو شاہ میر نے سر کو اثبات میں ہلایا جس سے مہرماہ اس کو دیکھتی رہ گئ۔ 

آپ کو کیا پتا میرا کیا حال ہوا تھا یہ دیکھ کر کہ آپ کے چہرے پہ ناگواری آگئ ہے۔ شاہ میر نوالہ بناکر مہرماہ کے ہونٹوں کے پاس کرتا ہوا بولا۔ 

پوچھ بھی سکتے تھے اپنے اندازے لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ مہرماہ نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ 

ابھی تو پوچھ لیا نہ۔ شاہ میر نے کہا۔ 

اچھا اب خود بھی بریانی نوش کرو میں خود کھالوں گی۔ شاہ میر نے دوسرا نوالہ مہرماہ کی طرف بڑھایا تو مہرماہ نے ٹوک کر کہا جس پہ شاہ میر نے چمچے میں بریانی ڈالی اور مہرماہ کے پاس کیا۔ 

آدھا آپ کھائیں باقی میں کھاٶں گا۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ نے تھوڑی بریانی کھائی پھر شاہ میر نے خود چمچہ اپنے منہ کے پاس کیا۔ 

میں ٹرے کچن میں رکھ کر آتی ہوں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مہرماہ نے کہا اور باہر نکل گئ

آپ کو کجھ بتانا ہے مجھے۔مہرماہ واپس آئی تو شاہ میر نے اس کا ہاتھ پکڑکر اپنے قریب بیٹھا کر کہا۔ 

کیا بتانا ہے؟ مہرماہ نے پوچھا۔ 

میں نے یونی کے بعد ڈیڈ کے آفس جانے کا سوچا ہے۔ شاہ میر نے کہہ کر مہرماہ کے تاثرات دیکھے جو نارمل تھے۔ 

یہ تو اچھا سوچا تم نے چچا جان بھی تھک جاتے ہوگے اکیلے آفس کا کام سنبھالتے سنبھالتے اچھا ہے تم ان کے ساتھ ہوگے تو ان کو مدد مل جائے گی۔ مہرماہ کو شاہ میر کی بات پسند آئی تو کہا۔ 

آپ کو بُرا نہیں لگا؟ 

بُرا کیوں لگے گا یہ تو اچھی بات ہے کہ تمہیں تمہاری ذمیداریوں کا خیال ہے۔ مہرماہ نے جواب دیا۔ 

آپ کو بس میرا احساس نہیں۔شاہ میر منہ کے زاویے بگاڑتا اس کے سینے پہ سر رکھ کر کہا۔ 

تمہارا احساس ہے کیوں نہیں ہوگا احساس۔ مہرماہ شاہ میر کے بچوں والا انداز دیکھ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر مسکراکر بولی۔ 

میں مصروف ہوجاٶں شاید آپ کو وقت نہ دے سکوں۔ شاہ میر مہرماہ کی کمر پہ اپنا حصار مضبوط کرتا ہوا بولا۔ 

میں جانتی ہوں شاہ جتنا بھی مصروف ہو اپنی ماہ کے لیے وقت نکال ہی سکتا ہے۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر کی بلو آنکھوں میں چمک اُتر آئی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ثانیہ جیسے ہی پریزیٹیشن دے کر فارغ ہوئی تو پورا کانفرنس روم تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا تھا۔ثانیہ سب پہ ایک نظر ڈال کر شاہ زیب کی طرف دیکھا جو اُس کے دیکھنے پہ انگھوٹے کی مدد سے شاباشی دیں رہا تھا جس کو دیکھ کر ثانیہ کی صبح سے اٹکی سانس بحال ہوئی یہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان اُس کی پہلی پریزیٹیشن تھی جو اللہ کے حکم اور شاہ زیب کی مدد سے بہت اچھی ہوگئ تھی۔ 

مسٹر شاہ زیب آپ نے جو سیمپل ہمیں دیکھائے پھر یہ پریزیٹیشن دیکھ کر ہم آپ کے ساتھ کنٹریکٹ کرنا چاہے گے کیونکہ آج کل مارکیٹ میں آپ کا بہت نام بھی ہے۔ مسٹر شوکت علی نے کہا تو شاہ زیب کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ آئی تھی کیونکہ یہاں کراچی کہ بہت مشہور بزنس مین بھی تھے پر یہ پراجیکٹ شاہ زیب کو ملا تھا جو کے شاہ زیب کے لیے کامیابی کی نوید اور باعثِ فخر کی بات تھی شاہ زیب نے ایک مسکراتی نظر ثانیہ پہ ڈالی پھر مسٹر شوکت علی سے ہاتھ ملایا۔ 

امید ہے آپ کے ساتھ کام کرنے کا وقت اچھا گزرے گا۔ شوکت علی نے کہا تو شاہ زیب نے اپنے سر کو خم دیا پھر سب باری باری کانفرنس روم سے باہر نکلے تو ثانیہ بھی فائلز سمیٹنے لگی۔ 

مبارک ہو مس ثانیہ افتخار۔شاہ زیب نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو ثانیہ کے ہاتھ ایک پل کو لرزے تھے پر دوسرے ہی پل وہ خود کو کمپوز کرتی شاہ زیب کی جانب دیکھنے لگی۔ 

آپ کو بھی یہ سب آپ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا اگر آپ صبح میری مدد نہ کرتے تو شاید میں ابھی اتنے اچھے طریقے سے بول نہ پاتی۔ ثانیہ نے کہا۔ 

انسان کو اپنی قابلیت پہ یقین ہونا چاہیے پھر ہر ناممکن چیز کو ممکن ہونے میں وقت نہیں لگتا اگر آج آپ ٹھیک سے کجھ بول نہ پاتی تو میرا اچھا خاصا نقصان ہوجاتا۔ شاہ زیب نے اب کی سنجیدگی سے کہا

میں کوشش کروں گی آپ کو میری طرف سے کبھی کوئی شکایت نہ ہو۔ ثانیہ اپنی انگلیاں مڑورتی شاہ زیب سے بولی جس سے شاہ زیب کے چہرے پہ دوبارہ گہری مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔ 

میرے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے۔ ثانیہ نے اپنے سیل فون پہ وقت دیکھ کر کہا۔ 

اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو میں آپ کو گھر تک ڈراپ کرسکتا ہوں۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

نہیں سر اس کی کوئی ضرورت نہیں میں خود چلی جاٶں گی۔ ثانیہ نے جلدی سے کہا۔ 

نہیں آج میں آپ کو ڈراپ کردیتا ہوں آپ کو مجھے پہ یقین ہونا چاہیے۔ شاہ زیب اس کی بات پہ بولا۔ 

ایسی بات نہیں سر مجھے آپ پہ یقین ہے۔ ثانیہ جلدی سے بولی۔ 

واقع آپ کو مجھے پہ یقین ہے؟شاہ زیب ایک قدم ثانیہ کی جانب بڑھاتا بولا تو ثانیہ گڑبڑاگئ تھی۔ 

جی سر آپ میرے بوس ہیں۔ثانیہ ایک قدم دور ہوتی ہوئی بولی۔ 

ٹھیک ہے پھر اپنا سامان لیکر پارکنگ کی طرف آجانا میں انتظار کررہا ہوں۔ شاہ زیب حکیمہ لہحے میں کہتا باہر نکل گیا جب کی ثانیہ شاہ زیب کے آج کے رویے پہ سوچ میں پڑگئ کیونکہ پہلے شاہ زیب نے ہمیشہ کام کی حدتک بات کی تھی اور اب اُس کا بار بار مسکراکر بات کرنا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا کافی دیر کھڑی رہنے کے بعد وہ اپنا سر جھٹکتی سامان لینے چلی گئ

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

دو دن بعد !

مہرماہ تیار ہوگئ بیٹا؟ ہانم بیگم مہرماہ کے کمرے میں آکر بولی آج ان کو حور کی مہندی پہ جانا تھا جب کی شاہ میر نے صاف انکار کردیا تھا کہ وہ وہاں نہیں جائے گا کیونکہ وہ مایوں والی بات بھولا نہیں تھا جس پہ ہانم بیگم نے بہت سمجھایا پر شاہ میر نہیں مانا مہرماہ نے بھی کجھ نہیں کہا کیونکہ جب سے شاہ میر نے آفس جانا شروع کردیا تھا وہ تھک جاتا تھا اِس لیے مہرماہ نے سوچا وہ گھر پہ آرام کریں شادی کے دن وہ اُس کو مناکر لیں آئے گی۔ 

جی چچی جان بس سینڈل پہن لوں۔ مہرماہ نے کہا اس نے آج براوٴن میکسی پہن رکھی تھی جو اس کے پیروں تک تھی براٶن اس کی گوری رنگت پہ کِھل اٹھا تھا بالوں کا اس نے جوڑا بنارکھا تھا چہرے پہ آج اس نے میک اپ نہیں کیا تھا بس آنکھوں پہ مسکارا لگایا ہوا تھا اور گلابی ہونٹوں پہ سرخ رنگ کی لپ اسٹک وہ اپنی اتنی سی تیاری میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی جس سے ہانم بیگم کی بھی نظر اُس پہ ٹک گئ تھی ان کو آج سمجھ آیا تھا کہ ان کا بیٹا کیوں مہرماہ کے پیچھے دیوانہ ہوا پِھرتا ہے

ماشااللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہوں میک اپ کرتی تو قیامت دھاڑتی۔ ہانم بیگم کی بات پہ مہرماہ کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا تبھی شاہ میر بھی اندر ہوا مہرماہ پہ جب اس کی نظر پڑی تو کتنے ہی پل ساکت سا اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھے گیا ہانم بیگم ایک مسکراتی نظر ان دونوں پہ ڈال کر چلی گئ۔ 

شاہ ایسے کیوں دیکھ رہے تھے چچی جان سامنے تھی۔ ہانم بیگم کہ جانے کے بعد مہرماہ تپتے گالوں کے ساتھ شاہ میر کے پاس آکر اس کے کندھے پہ چپت لگاکر کہا جس پہ شاہ میر ہوش میں آتا مہرماہ کو کمر سے پکڑتا اپنے قریب کرگیا۔ 

تو آپ کی غلطی ہے نہ کون کہتا ہے اتنا خوبصورت لگے۔ شاہ میر مہرماہ کے گال پہ اپنے ہاتھ کی پشت پھیرتا ہوا بولا۔ 

شاہ سُدھر جاٶ۔مہرماہ نے گھورنا چاہا پر شاہ میر کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر نظریں جھکانے میں مجبور ہوگئ۔ 

آپ سدھارلیں۔ شاہ میر نے مہرماہ کا چہرہ ٹھوری سے پکڑ کر اوپر کیے کہا۔ 

چھوڑو مجھے نیچے جانا ہے۔ مہرماہ شاہ میر کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانا چاہا پر شاہ میر نے دوسرا بازوں بھی مہرماہ کے گرد لپیٹا۔ 

شاہ پلیز۔ مہرماہ نے منت کی شاہ میر نے کوئی جواب نہیں دیا بس دیوانہ وار مہرماہ کو دیکھتا رہا تھک ہار کر مہرماہ نے اپنے بازوں شاہ میر کے کندھوں پہ حائل کیے شاہ میر کی کشادہ پیشانی پہ بوسہ دیا۔ 

اب خوش اب اجازت دو کہ میں جاٶں۔ مہرماہ نے اپنا چہرہ شاہ میر کے سامنے کیے کہا جس پہ شاہ میر مسکراتا مہرماہ کے گال پہ شدت بھرا بوسہ دیں کر اس سے الگ ہوا پر مہرماہ کے گال پہ نشان ہوگیا تھا جس سے وہ بے خبر شاہ میر کے چھوڑنے پہ شکر کا سانس لیں رہی تھی

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تمہیں اگر میر ہی پسند تھا تو مجھے بتادیتی۔ مہرماہ مہندی ہاتھ میں لیے جارہی تھی جب شہیر سامنے آتا ہوا بولا۔ 

یہ باتیں پُرانی ہوگئ ہے اِس لیے آپ یہ ذکر کرنا چھوڑ دیں۔ مہرماہ نے سنجیدگی سے کہا جب کی نظر آپس پاس کی طرف تھی وہ نہیں چاہتی تھی کسی کی نظر ان دونوں پہ پڑے۔ 

میر تو یہاں نہیں پھر کس کو تلاش کررہی ہو؟ شہیر نے پوچھا

کسی کو نہیں۔مہرماہ اتنا کہہ کر جانے لگی جب شہیر دوبارہ سامنے آیا جس پہ مہرماہ نے آنکھیں بند کرکے کھول کر جیسے ضبط کیا۔

شہیر بھائی سامنے سے ہٹ جائے۔ مہرماہ نے کہا

یہ تمہارے گال پہ نشان کیسا ہے۔ شہیر اس کی بات نظرانداز کرتا بولا تو مہرماہ ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھنے لگی تو شہیر اپنی جیب سے موبائل نکالتا کیمرہ آن کرکے اسکرین مہرماہ کے سامنے کی مہرماہ کی جب نظر اپنے گال پہ پڑی تو اس کا چہرہ خون چھلکانے کی حدتک لال ہوگیا تھا وہ بنا کجھ کہے تیزی سے گزر گئ شہیر کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

پری اپنے لہنگے کو سنبھالتی مہرماہ کو تلاش کررہی تھی جب اس کی نظر سالار پہ پڑی جو نیوی شلوار قمیض ملبوس فون پہ کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ 

سالار بھائی۔پری نے ہاتھ ہلاکر سالار کو آواز دی تو سالار نے پری کو دیکھا جو قندھاری کلر کے لہنگے میں کُھلے بالوں کے ساتھ سچ مچ میں کوئی پری لگ رہی تھی سالار کتنی دیر تک بے مقصد اس کو دیکھتا رہا پر پری کے سامنے ہاٹھ ہلانے پہ وہ چونک اٹھا پر پری نے جب اپنا ہاتھ نیچے کیا تو اس کی کلائیوں میں پہنی چوڑیوں کی آواز کسی ساز کی طرح چاروں طرف گونج اٹھی۔ 

کیا ہوا آپ کو؟ پری نے پوچھا 

کجھ نہیں تمہیں کجھ کہنا تھا کیا؟ سالار نے کہا۔ 

جی وہ میں پوچھنا چاہ رہی تھی آپ نے مہرو بھابھی کو دیکھا ہے؟ پری نے چہرے پہ آتے بال اپنی نازک ہاتھوں سے پیچھے کرتی ہوئی بولی۔ 

مہرو کو تو میں نے بہت بار دیکھا ہے۔ سالار پری کے چہرے سے نظر چُراتا ہوا بولا۔ 

میں ابھی کا پوچھ رہی تھی۔ پری نے کہا

ابھی تو وہ شاید گھر کے اندر ہو۔ سالار نے کہا تو پری سرہلاتی اندر کی طرف جانے لگی سالار اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کو جاتا دیکھتا رہا۔ 

خیر تو ہے کیوں پاگلوں کی طرح اکیلے اکیلے مسکرارہے ہو۔ شاہ زیب نے سالار کو مسکراتا دیکھا تو اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا

کجھ نہیں بس ایسے ہی۔ سالار نے ٹالا۔ 

کجھ تو ہے۔ شاہ زیب مشکوک ہوا۔ 

کجھ نہیں بس کجھ یاد آگیا تو مسکرادیا۔ سالار نے وضاحت کی

ایسا کیا یاد آگیا زرہ مجھے بھی تو پتا چلیں۔ شاہ زیب سینے پہ بازوں باندھ کر پوچھنے لگا

یہی کہ ہنستے رہا کرو ہنسنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ سالار دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا تو شاہ زیب نے بائیں آئبرو اوپر کر اس کو دیکھا

دھیان سے کہیں ہنستے ہنستے لگ جائے نہ رستے۔شاہ زیب نے کہا تو سالار کے دانت فورن اندر ہوئے تھے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕 

باجی کیا سوچ رہی ہیں؟ہانیہ نے ثانیہ سے پوچھا جو بیڈ پہ چائے کا کپ پکڑے کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ 

کجھ نہیں۔ثانیہ نے مسکراکر جواب دیا۔ 

اچھا تو چپ کیوں ہیں؟ ہانیہ نے دوسرا سوال کیا۔ 

ایسے ہی بس یاد آرہا تھا کہ کیسے ہم پریشان تھے گھر کے حالت سے ہر مہینے فکر لگی رہتی تھی کہ کب پئسے جمع ہو اور ہم مکان مالک کو دیں۔ ثانیہ نے کہا۔ 

ہمم بس اللہ کی مہربانی ہے جنہوں نے ساتھ دیا جب ہمیں ان کی ضرورت تھی ورنہ پریشان تو میں بھی ہوجاتی تھی جب پہلی تاریخ کو ان کو کرایہ ادا نہیں ہوتا تھا تو گھر خالی کرنے کی دھمکی دیتے تھے تو۔ ہانیہ نے افسوس کہا

اللہ ہی تو ہے جب کوئی ساتھ نہیں ہوتا تو ہمارے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے پھر وسیلہ چاہے وہ جس کو بھی بنائے۔ثانیہ گہری سانس لیکر بولی

بلکل جیسے ہمارا وسیلہ انہوں نے آپ کے بوس کو بنایا اگر آپ کو اسسٹنٹ کی جاب نہ ملتی تو آج ہم اتنے پرسکون نہ ہوتے۔ ہانیہ نے کہا تو ثانیہ کی آنکھوں کے سامنے شاہ زیب کا مسکراتا عکس لہرایا۔ 

واقع ان سے مل کر مجھے معلوم ہوا کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ثانیہ کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔ 

اچھا اب سوجائے۔ ہانیہ بیڈ پہ لیٹ کر بولی

سوتی ہوں۔ ثانیہ نے کہا اور ہاتھ میں پکڑے ٹھنڈے چائے کے کپ کو دیکھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میں تو تھک گئ ہوں سونے جارہی ہوں۔ ہانم بیگم مہرماہ پری گھر آئے تو پری نے کہا۔ 

دیر بھی بہت ہوگئ ہے میں بھی آرام کروں گی۔ ہانم بیگم مسکراکر بولی۔ 

شاہ نے کھانا کھایا؟ مہرماہ نے پاس گزرتی ملازمہ سے پوچھا

نہیں وہ تو کمرے سے باہر نہیں آئے میں نے دروازہ نوک کیا تھا پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ملازمہ نے بتایا۔ 

اچھا میں دیکھتی ہوں۔ مہرماہ نے کہا۔ 

کھانا دیکر تم بھی آرام کرنا۔ہانم بیگم نے کہا تو مہرماہ نے سرہلایا مہرماہ کچن میں آئی تو اس کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا اس نے جلد ہی دیوار کا سہارا لیا تاکہ گر نہ سکے۔ 

افف میرا سر۔ مہرماہ نے اپنے چکراتے سر کو تھاما اور آہستہ سے چلتی فریج کی جانب آکر پانی کی بوتل نکالی پانی گلاس میں ڈال کر اس نے پیا تو کجھ سنبھلی۔ 

آرام کی۔ واقع ضرورت ہے مجھے۔مہرماہ خود سے کہتی جلدی سے شاہ میر کے لیے کھانا گرم کرنے لگی گرم کرنے کے بعد ٹرے میں سیٹ کیا پھر پانی کا گلاس بھر کر کمرے کی طرف آئی جہاں شاہ میر بیڈ پہ ڈھیر کتابوں کے بیچ بیٹھا تھا۔ 

بڑی کردی آپ نے۔ شاہ میر نے رجسٹر پہ لکھتے ہوئے کہا۔ 

میں نے اتنا آہستہ سے دروازہ کھولا پھر بھی تمہیں پتا چل گیا۔ مہرماہ ٹرے ٹیبل پہ رکھتی ہوئی بولی۔ 

مجھے تو تبھی پتا چل گیا تھا جب آپ یہاں گھر میں آئی تھی۔ شاہ میر اس کی بات پہ مسکراکر بولا۔ 

اچھا اب یہ ڈائیلاگ بند کرو اور یہاں بیٹھو کھانا لائی ہوں تمہارے لیے۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر اٹھتا ہوا آیا پھر مہرماہ کو دیکھا جو کھانا ٹیبل پہ لگارہی تھی ڈوپٹہ جھکنے کی وجہ سے ایک طرف ڈھلک گیا تھا بال بھی چہرے کے پڑرہے تھے شاہ میر مسکراتا بال پیچھے کرنے والے تھا پر اُس سے پہلے مہرماہ نے کان کے پیچھے کیے تو شاہ میر کی نظر مہرماہ کے گال پہ نشان پہ پڑی تو اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی اُس نے بازوں سے پکڑ کر مہرماہ کو اپنے روبرو کیا۔ 

شاہ پلیز ابھی فلحال میرا کوئی موڈ نہیں تمہارا بے وقت کا رومانس برداشت کرنے کا مجھے سونا ہے تمہیں کھانا سرو کرکے کیونکہ میں بہت تھک گئ ہوں۔ مہرماہ شاہ میر کی حرکت پہ بول ہی رہی تھی جب شاہ میر آگے آکر پہلے کی طرح شدت بھرا لمس مہرماہ کے دوسرے گال پہ چھوڑا تو مہرماہ نے زور سے مکے اس کے سینے پہ برسائے جس پہ شاہ میر ہنستا پیچھے ہوا۔ 

بہت بُرے ہوتم شاہ۔ مہرماہ اپنے دونوں گالوں پپ ہاتھ رکھ کر بولی۔ 

ایک پہ نشان تھا تو دوسرا مجھے شکوہ کرتی نظروں سے دیکھ رہا تھا اِس لیے میں نے سوچا اس کا شکوہ دور کردوں۔ شاہ میر نے آنکھ کا کونا دباکر کہا تو مہرماہ بس اس کو دیکھتی رہ گئ۔ 

کھانا کھاٶ۔مہرماہ اتنا کہہ بیڈ کی طرف جانے لگی جب شاہ میر نے ہاتھ پکڑکر روکا 

آپ ساتھ کھائے ورنہ مجھ سے نہیں کھایا جائے گا۔ شاہ میر نے منہ بناکر کہا۔ 

شاہ میں بیٹھتی ہوں کھانا کھانے کی گنجائش نہیں میرا پیٹ پہلے ہی بھرا ہوا ہے۔ مہرماہ شاہ کی بات سمجھتی ہوئی صوفے پہ بیٹھتی ہوئی بولی۔ 

یہ ایک نوالہ۔شاہ میر نے روٹی کا نوالہ توڑ کر کہا

شاہ نہیں سچی میرا دل نہیں۔مہرماہ نے چہرہ موڑ لیا۔ 

میری خاطر۔شاہ نے ضد کی مہرماہ نے جیسے ہی نوالہ منہ میں ڈالا تو اس کو قے سے محسوس ہوا مہرماہ منہ پہ ہاتھ رکھتی جلدی سے واشروم کی جانب بھاگی شاہ میر پریشان ہوتا مہرماہ کے پیچھے گیا جو واش بیسن کے سامنے کھڑی منہ صاف کررہی تھی مہرماہ نڈھال ہوتی دیوار سے ٹیک لگائی۔ 

ماہ کیا ہوا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ شاہ میر مہرماہ کو اپنے ساتھ لگائے اس کی پیشانی چھوکر بولا۔ 

ہاں بس چکر آگیا وومیٹنگ جیسا فیل ہوا۔ مہرماہ سر پہ ہاتھ رکھتی ہوئی بولی جب کی شاہ میر پریشان سا مہرماہ کا زرد چہرہ دیکھ رہا تھا۔ 

سوری مجھے زبردستی آپ کو کھانا نہیں کھلانا چاہیے تھا۔ شاہ میر کو افسوس ہوا۔ 

نہیں چکر ویسے ہی آرہے تھے آرام کروں گی تو ٹھیک ہوجائے گا سر ویسے بھی تھکن کی وجہ ہوا ہے یہ سب۔ مہرماہ زبردستی مسکراکر بولی۔ 

ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ شاہ میر نے کہا۔ 

نہیں شاہ میں ٹھیک ہوں۔ مہرماہ کہہ کر واشروم سے جانے لگی جب دوبارہ سر چکرایا وہ گِرنے والی تھی پر شاہ میر نے جلدی سے تھام لیا۔ 

کیا خاک ٹھیک ہیں آپ۔ شاہ میر غصے اور فکرمندی کی ملی جلی کیفیت میں کہتا مہرماہ کو اپنی بانہوں میں اُٹھایا کمرے میں آکر اس نے مہرماہ کو بیڈ پہ بیٹھایا اور آس پاس تکیہ سیٹ کیے۔ 

میں ڈاکٹر کو کال کرکے یہی بولا لیٹا ہوں۔ شاہ میر اپنا سیل فون اٹھاکر بولا جس پہ مہرماہ نے کجھ نہیں کہا بس آنکھیں موند گئ۔ 

شاہ میر کال کرنے کے بعد بیڈ سے اپنی ساری کتابیں اٹھاکر اسٹڈی ٹیبل پہ رکھی پندرہ منٹ بعد ہانم بیگم پریشانی سی لیڈی ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ 

میر خیر تو ہے اتنی رات کو ڈاکٹر کو کیوں کال کی۔ ہانم بیگم نے پوچھا۔ 

امی بتاتا ہوں آپ ماہ کو دیکھے ان کی طبیعت کجھ خراب ہے وومیٹنگ اور چکر آرہے تھے ان کو۔ شاہ میر ہانم بیگم سے کہتا ڈاکٹر بختاور سے مخاطب ہوا جو اس کی بات سن کر مہرماہ کی طرف گئ جو نڈھال بیڈ پہ اب لیٹ گئ تھی۔ 

آپ لوگ کجھ دیر کے لیے باہر جائے تاکہ میں اِن کا چیک اپ کرسکوں۔ڈاکٹر بختاور نے کہا۔ 

میں یہی ہوں آپ چیک اپ کریں ماہ کا۔ شاہ میر بضد ہوا جس پہ ڈاکٹر نے ہانم بیگم کی طرف دیکھا۔ 

میر چلو کجھ منٹ کی ہی بات ہے۔ ہانم بیگم نے کہا تو شاہ میر نے مہرماہ کی طرف دیکھا پھر ناچاہتے ہوئے بھی کمرے سے باہر نکل گیا ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر بختاور مہرماہ کا معائنہ کرنے لگی جب کی دوسری طرف شاہ میر بے چین سا دروازے کے باہر چکر کاٹنے میں لگا ہوا تھا۔ 

میر بس کردو مہرو ٹھیک ہوگی بس تھکاوٹ کی وجہ سے طبیعت خراب ہوئی ہوگی۔ ہانم بیگم نے تسلی دینی چاہی۔ 

یہ ڈاکٹر ابھی تک باہر کیوں نہیں آئی؟شاہ میر نے ان کی بات جیسے سنی ہی نہیں تھی۔ 

آجائے گی صبر کرو۔ ہانم بیگم نے کہا۔ کجھ دیر بعد ڈاکٹر بختاور باہر آئی۔ 

پریشانی کی کوئی بات نہیں ایسے کیسس میں وومیٹنگ اور سر کا چکرانا عام سی بات ہے۔ڈاکٹر بختاور کی بات پہ ہانم بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی جب کی شاہ میر ناسمجھی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 

کیا مطلب آپ کا کونسا کیس ماہ کو کیا ہوا ہے؟ شاہ میر پریشان ہوا۔ 

آپ باپ بننے والے ہیں آپ کی مسسز امید سے ہیں۔ شاہ میر شاک سا ان کی بات پہ چہرہ تک رہا تھا اس کو یقین نہیں آرہا تھا جو اُس نے سنا وہ سچ تھا۔ 

مبارک ہو میر۔ ہانم بیگم کی بات پہ شاہ میر نے نے ان کو دیکھا پھر چہرے پہ ہاتھ پھیرا اس کی حالت سمجھ کر ڈاکٹر مسکراکر ہانم بیگم کو ہدایت دینے لگی پھر الوداع کہتی باہر گئ شاہ میر جلدی سے کمرے میں گیا ہانم بیگم ان دونوں کو اکیلا رہنے کا سوچتی حیدر خان کو یہ خبر سننانے کمرے میں گئ تاکہ کال کرسکے دراصل وہ بزنس کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے۔ شاہ میر کمرے آیا تو مہرماہ کو مسکراتا دیکھا مہرماہ کی نظر شاہ میر پہ پڑی تو اس کا چہرہ گلاب کی طرح ہوگیا تھا شاہ میر چلتا مہرماہ کے پاس بیٹھ گیا۔ 

ماہ مجھے سمجھ نہیں آرہا میں اپنی خوشی کے بیان کروں۔ شاہ میر مہرماہ کے ہاتھوں کو تھامتا عجیب لہجے میں بولا۔مہرماہ نے کجھ نہیں کہا بس اس کو سنتی رہی۔ 

ماہ میں بہت خوش ہوں اتنا کے میں بتا نہیں سکتا۔ شاہ میر اچانک مہرماہ کو زور سے اپنا گلے لگاتا ہوا بولا جس پہ مہرماہ پرسکون سانس خارج کرتی شاہ میر کی پیٹھ پہ اپنے ہاتھ رکھے

ہمارا بچہ ہوگا ماہ ہمارے پیار کی نشانی جو ہمیں احساس دلوائے گا کہ وہ ہمارے لیے کیا ہے۔ شاہ میر مہرماہ کو خود میں بھینچ کر بولا

شاہ میں اب تک بے یقین ہوں کہ اللہ ہمیں اولاد کی نعمت سے نواز رہا ہے۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا شاہ میر کی آنکھوں میں نمی آگئ تھی۔ 

آپ کو پتا ہے آپ میرے لیے اللہ کی طرف سے انمول تحفہ ہیں اور اب آپ مجھے ایک اور تحفے سے نواز نے والی ہیں اللہ کے حکم سے۔شاہ میر مہرماہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیکر بولا

چچی جان کو پتا ہے؟مہرماہ نے پوچھا۔

پتا ہے ڈیڈ کو بتانے گئ ہوگی۔شاہ میر نے اپنی ناک مہرماہ کی ناک سے رگڑ کر اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی جوڑی۔

تمہارے خوشی کا اظہار کرنے کا طریقہ کافی انوکھا ہے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا جب کی شاہ میر کی گرم سانسیں اس کہ چہرے کو جلسارہی تھی۔

میری زندگی میں ہرچیز انوکھی اور خوبصورت ہوگئ ہے جب سے آپ میری زندگی میں آئی ہیں۔شاہ میر اتنا کہہ کر مہرماہ کو اپنے مزید قریب کیا۔مہرماہ نے مسکراکر شاہ میر کے گرد اپنا حصار قائم کیا اور پرسکون ہوتی آنکھیں بند کرگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

حیدر خان کے گھر میں خوشیوں کا سماں تھا سکندر خان اور سارہ بیگم کو بھی ننھے مہمان کی آمد کا پتا چلا تھا جس سے وہ سب بھی مہرماہ سے ملنے یہاں آئے تھے حیدر خان بھی اپنے گھر واپس آگئے تھے اور کالے بکروں کا صدقہ دے ڈالا تھا جب کی شاہ میر تو مہرماہ کے پاس سے ایک انچ بھی نہیں ہلا تھا یونی اور آفس جانا تو وہ بھول ہی چُکا تھا۔ 

مہرو اب تم نے بچوں کی طرح چھلانگے نہیں مارنے اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے اب تمہیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچے کا بھی خیال رکھنا ہے اس لیے کوتاہی ہرگز مت کرنا۔ سارہ بیگم مہرماہ کو سمجھانے لگی باقی سب مسکراکر ان کو دیکھ رہے تھے۔ 

ہائے مہرو میری جان کب مجھے ماموں کہنے والا پرنس پرنسس آئے گے۔ شاہ زیب مہرماہ کے پاس آکر اس پہ سر پہ پیار کرتا ہوا بولا شاہ میر کو شاہ زیب کو مہرماہ کو میری جان کہنا کافی برا لگا اور رہی سہی کثر اس کے بوسے نے پوری کردی تھی۔ 

ماہ میری جان ہے آپ اپنی جان لانے کے لیے چچی جان سے بولے۔ شاہ میر جو مہرماہ کے پاس چیئر رکھے بیٹھا تھا اب اس کے سرہانے آکر مہرماہ کو اپنے ساتھ لگائے شاہ زیب کو گھورتا ہوا بولا شاہ میر کی حرکت پہ مہرماہ کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا تھا باقی سب شاہ میر کی جیلسی دیکھ قہقہ لگارہے تھے۔ 

امی سن رہی ہے اب معاملہ غیرت کا ہے جلدی سے میری شادی کروائے مجھ سے تین سال چھوٹا لڑکا ترقی کرگیا ہے۔ شاہ زیب سارہ بیگم سے کہنے لگا مہرماہ اس کی فضول گوئی پہ پاس پڑا تکیہ اٹھاکر دے مارا۔ 

آرام سے ماہ۔ شاہ میر پریشان ہوا۔ 

کجھ نہیں ہوتا شاہ۔ مہرماہ نے اس کو رلیکس کیا۔ 

بیٹا یہ فروٹس کھاٶ۔ہانم بیگم فروٹ کی پلیٹ مہرماہ کے سامنے کی تو شاہ میر نے ان کے ہاتھ سے لی اور خود مہرماہ کو کھلانے لگا۔ 

میرے خیال سے ہمیں باہر جانا چاہیے۔ شاہ زیب نے کہا تو سبھی مسکراتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 

ہمیشہ خوش رہو۔ سکندر خان مہرماہ کے سرپہ ہاتھ رکھ کر بولے۔ 

شاہ گھروالوں کے سامنے تو خیال رکھا کرو۔ سب کے جانے کے بعد مہرماہ نے شاہ میر سے کہا

میں نے کیا کردیا۔ شاہ میر ایپل کا پیس مہرماہ کے ہونٹوں کے پاس کرتا ہوا بولا۔ 

یہ ایسی باتیں کیوں کی زیب سے۔ مہرماہ نے کہا

ماہ آپ یہ کھائے باقی سب کو چھوڑے۔ شاہ میر نے آرام سے کہا۔ 

کل ہم نے ہوسپٹل جانا ہے کجھ ٹیسٹ ہونے ہیں۔ مہرماہ نے شاہ میر سے کہا۔ 

جی مجھے یاد ہے۔ شاہ میر جوس کا گلاس مہرماہ کو پلاتے ہوئے بولا۔

بس شاہ میرا پیٹ بھرگیا۔ شاہ میر کو مزید فروٹ کاٹتا دیکھا تو مہرماہ نے کہا۔ 

اچھا بھوک لگے تو مجھے بتائیے گا۔ شاہ میر نے کہا۔ 

تم نے کجھ کھایا ہے؟ مہرماہ نے پوچھا 

آپ میری فکر نہیں کریں مجھے کجھ کھانا ہوگا تو میں کھالوں گا۔شاہ میر مہرماہ کے اوپر لحاف ٹھیک کرتا ہوا بولا۔ 

شاہ مجھے باہر جانا ہے کل سے بند ہوں کمرے میں۔مہرماہ نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ 

ابھی آپ آرام کریں باہر جانے کا سوچنا بند کریں۔ شاہ میر خود بھی بیڈ کہ دوسری سائیڈ آتا ہوا بولا۔ 

شاہ۔ 

ششش

مہرماہ نے کجھ کہنا چاہا پر شاہ میر نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر اس کو خاموش کروایا

ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے میں ہوں نہ آپ کے پاس اِس لیے باہر جانے کا نہ کہے۔ شاہ میر مہرماہ کا سر اپنے سینے پہ رکھتا اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔ 

ابھی تو فرسٹ منتھ ہے پریگنسی کا تو میرا یہ حال ہے آگے جاکر تو تم جانے کیا کروگے کتنی پابندی کروگے۔ مہرماہ شاہ میر کی شرٹ کے بٹنس میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔ 

جتنی مجھے آپ کے لیے ٹھیک لگے گی میں اُتنی کروں گا۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا تو مہرماہ نے اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپایا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آج چار دن سے شاہ زیب آفس نہیں گیا تھا پہلے حور کی شادی کی وجہ سے اس کو آفس سے آف کرنا پڑا کیونکہ سالار کو اس کی ضرورت تھی شادی کے ہزاروں کام ہوتے ہیں سالار اس کا دوست بھی تھا جس سے شاہ زیب نے اپنے کام پشت پہ ڈال دیئے تھے پھر مہرماہ کی طرف ملنے والی خوشخبری ملنے پہ اُس نے سارا دن مہرماہ کے پاس گُزارا تھا آخر اکلوتی اور ایک سال بڑی بہن تھی شاہ زیب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا اپنے ماموں بننے کی خبر سن کے بعد پر جب ابھی جب وہ ہرکام سے فری ہوکر بیٹھا تھا تو شدت سے ثانیہ کی یاد آرہی تھی شاہ زیب ٹیرس پہ کھڑا آسمان میں چاند دیکھ رہا تھا جو پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ 

کبھی تم بھی نظر آٶ

صبح سے شام تک ہم کو

بہت سے لوگ ملتے ہیں 

نگاہوں سے گزرتے ہیں 

کوئی انداز تم جیسا

کوئی ہم نام تم جیسا

مگر تم ہی نہیں ملتے

بہت بے چین پِھرتے ہیں

بڑے بے تاب رہتے ہیں

دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں

دعا میں یہی کہتے ہیں

لگی ہے بھیڑ لوگوں کی

مگر اِس بھیڑ میں جاناں

کبھی تم بھی نظر آٶ

کبھی تم بھی نظر آٶ!!!!!

بس ایک آفس کا ذریعہ ہے ثانیہ کو دیکھنے کا اس سے بات کرنے کا؟ شاہ زیب چاند کو دیکھ کر خود سے ہم کلام ہوا۔ 

مجھے امی سے بات کرنی ہوگی پر اُس سے پہلے ثانیہ سے۔ شاہ زیب فیصلہ کرنے لگا۔ کیونکہ اب اس کو لگ رہا تھا وہ ثانیہ سے دور اب مزید نہیں رہ سکتا۔ 

اس کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا نہ! شاہ زیب فکرمند ہوا اب ثانیہ کے جواب کا سوچ کر۔ 

ثانیہ کو کیا اعتراض ہوگا۔ شاہ زیب نے خود کو تسلی کروائی پھر دوبارہ چاند کی طرف دیکھا جو مسکراکر اس کو دیکھ کر شاہ زیب کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ 

مت پوچھ میری جاگنے کی وجہ ائے چاند

تیرا ہی ہم شکل ہے جو مجھے سونے نہیں دیتا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مہرو یار کب تک ناراض رہوگی؟ثانیہ نے فون پہ مہرماہ سے کہا جو اس کا فون نہیں اٹھاتی تھی اور آج جب اٹھایا بھی تو لہجہ ناراضگی سے بھرپور تھا۔ 

ثانیہ مجھ سے یہ پوچھنا تو نہیں چاہیے تمہیں۔مہرماہ نے کہا آج اس نے جیسے تیسے کرکے شاہ میر کو یونیورسٹی جانے کے لیے بھیجا تھا شاہ میر جانا تو نہیں چاہتا تھا پر مہرماہ کی کسی بات پہ انکار کرنا بھی اس کے بس میں نہیں تھا اِس لیے ڈھیر ساری ہداہت مہرماہ کو دینے کے بعد وہ یونی گیا تھا تو مہرماہ کو وقت ملا تھا کسی سے بات کرنے کا ورنہ شاہ میر اس کو بیڈ سے اٹھنے بھی نہیں دیتا تھا۔ 

مہرو یار میری ماں کی طبیعت بہت خراب تھی اتنی پریشانیاں تھی گھر میں مجھے اپنا ہوش نہیں تھا میں تمہاری شادی پہ کیسے آتی۔ ثانیہ نے وجہ پیش کی اپنے نہ آنے کی۔ 

اچھا تو آج میرے گھر آجاٶ۔مہرماہ نے کہا۔ 

میں نے نوکری تلاش کی ہے دوسری اور ابھی میں وہاں ہوں۔ ثانیہ نے بتایا۔ 

اوو اچھی بات ہے پھر ایسا کرنا چھٹی  کے دن آجانا۔مہرماہ نے کہا۔ 

ضرور تم کسی ہوں اور ہمارے جیجا کیسے ہیں۔ثانیہ نے پوچھا۔ 

میں بھی ٹھیک ہوں شاہ بھی ٹھیک ہے اور تمہارا بحانجہ بھی۔ آخری بات پہ مہرماہ نے اپنے لب لہجے کچلے۔ 

بحانجہ؟ ثانیہ حیران ہوئی پھر جیسے سمجھ آیا تو اس کی چیخ نکل گئ۔ 

کیا مہرو سچ۔ 

آہستہ کان کے پردے پھاڑوں گی کیا۔ مہرماہ نے فون کان سے کجھ دور کیا۔ 

چھوڑو یہ بتاٶ کب گڈ نیوز ملی تمہیں یہ۔ ثانیہ نے خوش ہوکر پوچھا۔ 

ہفتہ ہوگیا ہے ٹیسٹ بھی کروائی تھی ایک ماہ کی پریگنسی تھی۔ مہرماہ نے بتایا۔ 

ماشااللہ اللہ صحتمند اولاد اور نیک اولاد سے تمہیں نوازے۔ ثانیہ نے صدق دل سے دعادی تو مہرماہ نے آمین کہا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مہرو تمہیں اور شاہ کو اب نیچے والے کمرے میں شفٹ ہونا چاہیے جب تک بچہ نہیں آجاتا ایسی حالت میں تمہارا سیڑھیاں چڑھنا ٹھیک نہیں۔وہ سب اِس وقت لاونج میں تھے جب ہانم بیگم نے مہرماہ سے کہا۔ 

جی چچی جان۔ مہرماہ نے سرہلایا۔ 

آپ کمرہ تیار کروادے ہم آج ہی شفٹ ہوجائے گے۔ شاہ میر نے کہا۔ 

نہیں شاہ ابھی تو تیسرا مینتھ چل رہا ہے پانچ ماہ بعد یا چھ ماہ بعد شفٹ ہوجائے گیں۔ مہرماہ نے شاہ میر سے کہا۔ 

نہیں بیٹا ابھی سے ٹھیک رہے گا۔ اِس بار حیدر خان نے کہا۔ 

میں بہت پرجوش ہوں میں نے اپنے سب دوستوں کو بتادیا ہے اپنے چچوں بننے کا۔ آیان نے خوش ہوکر کہا تو سب مسکرادیئے۔

آج تو تم لوگ اپنے کمرے میں رہنا جب تک میں کمرہ اچھے سے تیار کروالوں۔ ہانم بیگم نے مہرماہ کو خاموش دیکھ کر کہا

جی امی جان ماہ چلیں آپ کی دوائی لینے کا وقت ہوگیا ہے۔ شاہ میر ہانم بیگم کو جواب دیتا مہرماہ کو مخاطب ہوکر بولا

بعد میں چلتے ہیں نہ ابھی سب ساتھ بیٹھے ہیں۔ مہرماہ نے ٹالا۔

میں یہاں دوائیں لے آتا ہوں ڈاکٹر نے کہا تھا وقت پہ کھانی ہے۔ شاہ میر کہتا سیڑھیوں کی جانب گیا۔ 

کتنا خیال ہے میر کو۔حیدر خان مسکراکر بولے۔جس پہ مہرماہ کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ آگئ تھی اُس سے زیادہ بھلا کون جانتا تھا کہ شاہ میر نے کیسے اس کو اپنی ہاتھ کا چھالا بناکر رکھا تھا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ زیب آفس آکر بے چینی سے ثانیہ کا اتنظار کررہا تھا پر انتظار آج کافی لمبا ہوگیا تھا یا اس کو لگ رہا تھا یہ شاہ زیب سمجھ نہیں پایا۔ 

سر مسٹر قادری آپ سے ملنے آئے ہیں۔مینجر کیبن کا دروازہ نوک کرتا شاہ زیب سے بولا مینجر کی بات پہ شاہ زیب نے گہری سانس لی وہ بھول گیا تھا کہ آج اس کی میٹنگ تھی قادر عرفان کے ساتھ۔ 

میں آتا ہوں تم سب کو میٹنگ روم میں آنے کا کہو۔ شاہ زیب نے کہا

جی سر پر مس ثانیہ افتخار ابھی نہیں آئی۔ مینجر نے بتایا 

کوئی بات نہیں تم باقیوں سے کہہ دو۔ شاہ زیب نے کہا اور اپنا کوٹ پہنتا اٹھ کھڑا ہوا تو مینجر بھی اس کی تلقین پہ باہر نکلا۔ 

تیس منٹ بعد شاہ زیب دوبارہ اپنے کیبن میں آیا تو اس کو ثانیہ کھڑی ہوئی نظر آئی شاہ زیب نے اس کو دیکھا جو آج نیلے کلر کے سادہ سے شلوار قمیض پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی پر آج اس نے کالی چادر کے بجائے آف وائیٹ کلر کی چادر پہنی ہوئی تھی۔ 

آج آپ لیٹ آئی ہیں مس ثانیہ افتخار۔شاہ زیب خود اپنی جگہ پہ بیٹھتا ثانیہ کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا

سوری سر آج ٹریفک زیادہ تھی جس سے دیر ہوگئ۔ ثانیہ نے آہستہ آواز میں وضاحت دی۔ 

آپ کو آنے جانے کا مسئلہ ہے تو آفس کی طرف سے پِک اینڈ ڈراب کی سروس مل سکتی ہے۔ شاپ زیب نے کہا۔ 

نہیں سر اِس کی کوئی ضرورت نہیں میں وقت پہ آجایا کروں گی۔ ثانیہ نے سہولت سے انکار کیا

آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا امید ہے آپ بنا کوئی ری ایکٹ کیے میری بات تحمل سے سنے گی۔ شاہ زیب نے آج بہت وقت بعد ثانیہ کو اپنے دل کی بات سنانے کا فیصلہ کیا۔ 

جی سر آپ کہے۔ ثانیہ کو تجسس ہوا کیونکہ ان تین ماہ میں شاہ زیب نے کبھی بات کرتے وقت تہمید نہیں باندھی تھی۔ 

کیا تمہاری منگنی وغیرہ ہوئی ہے کہیں؟ شاہ زین سیدھا مدعے کی بات پہ آیا بنا آپ جناب کا تکلف کیے وہ تم پہ آگیا جب کی ثانیہ کو شاہ زیب کے سوال پہ حیرت کا جھٹکا لگا۔ 

جواب دو۔ شاہ زیب اس کو خاموش دیکھ کر اپنی بات پہ زور دیتا ہوا بولا۔ 

نہیں سر۔ ثانیہ بس یہی کہہ پائی۔ شاہ زیب کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ ثانیہ کے جواب پہ

تمہیں کسی سے محبت ہے؟ شاہ زیب نے دوسرا سوال پوچھا اِس بار ثانیہ کا دل چاہا وہ کہہ دیں کہ کیوں وہ اتنے پرسنل سوال پوچھ رہا تھا 

پر اس نے بس سر کو نفی میں ہلایا۔ 

میں اپنے گھروالوں کو تمہاری گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

کیوں سر؟ ثانیہ کے منہ سے بے ساختہ پھسلا

کیا آپ نہیں چاہتی میری فیملی آپ کے گھر آئے۔ شاہ زیب اب سنجیدہ ہوا۔ 

میرا وہ مطلب تو نہیں تھا۔ ثانیہ منمناکر بولی

میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے تم انکار نہیں کرسکتی کیونکہ انکار کی وجہ تمہارے پاس نہیں۔شاہ زیب آرام سے چیئر پہ پشت ٹکاکر بولا تو ثانیہ کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔

شادی۔ ثانیہ کا منہ کُھل گیا۔ 

جی شادی وہ بھی مجھ سے۔ شاہ زیب اسی کے انداز میں بولا

میں آپ سے کیسے شادی کرسکتی ہوں۔ ثانیہ نے کہا

کیوں نہیں کرسکتی۔ شاہ زیب تیز آواز میں بولا جس سے ثانیہ سہم گئ۔ 

آپ کے اور میرے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔ ثانیہ نے کہا

شادی کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم دونوں اشرف المخلوقات ہیں آپ کا یا میرا خلائی مخلوق سے تعلق نہیں۔شاہ زیب نے بڑی سنجیدگی سے غیرسنجیدہ بات کی ثانیہ شاہ زیب کے عجیب مثال پہ بس اس کو دیکھتی رہ گئ۔ 

دیکھو ثانیہ ایسا کہیں نہیں لکھا کہ جو لڑکا امیر ہو وہ شادی بھی کسی امیر لڑکی سے کریں

میرا تعلق اگر کسی امیر گھرانے سے ہے تو اِس میرا کمال نہیں اور نہ تمہارا چھوٹے گھرانے میں ہونے پہ تمہارا کوئی قصور یہ سب دنیاوی باتیں ہیں میں جہاں رہتا ہوں وہاں ایسے فرق کو نہیں دیکھا جاتا۔ شاہ زیب نے سنجیدگی سے سمجھانا چاہا

مجھے کجھ وقت چاہیے۔ ثانیہ نے اتنا کہا۔ 

دو دن ہے آرام سے سوچ لو۔ شاہ زیب نے احسان کرنے والے انداز میں کہا۔ ثانیہ کے لیے یہی بہت تھا کہ شاہ زیب نے دو دن بھی سوچنے کے لیے دیئے تھے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

امی آپ سے کجھ بات کرنی ہے مجھے۔ سالار نادیہ بیگم کے پاس آتا ہوا بولا جو انابیہ کے بالوں میں مساج کررہی تھی۔ 

کرو بات۔ نادیہ بیگم نے اجازت دی۔ 

بیا تم باہر جاٶ۔سالار نے انابیہ سے کہا

یہ کیوں جائے سالار بڑی مشکل سے ہاتھ آئی ہے بال دیکھو اِس کے چڑیا کا گھونسلہ بن گیا ہے میں تیل کی مالش کررہی ہوں تاکہ اِس بال ٹھیک ہو۔ نادیہ بیگم سالار کی بات پہ بولی۔ 

بھائی آپ آرام سے بات کریں میں جاتی ہوں۔ انابیہ اپنی جان خلاصی پہ شکر کا سانس بھرتی ہوئی بولی ورنہ کوئی بعید نہیں تھا نادیہ بیگم اس کے اسٹائلش کرلی بالوں کا کیا حال کردیتی۔ 

چلی گئ۔ نادیہ بیگم کو افسوس ہوا۔ 

امی آپ میری بات سنے۔ سالار نے کہا۔ 

کیا بات ہے سالار۔ نادیہ بیگم اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ 

میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ سالار نے کہا۔ 

اچھی بات ہے میں دیکھتی ہوں تمہارے لیے کوئی اچھی سی لڑکی۔ نادیہ بیگم سالار کی بات پہ مسکراکر بولی۔ 

لڑکی میں نے دیکھ رکھی ہے آپ بس رشتے کی بات کریں۔ سالار نے فورن سے کہا تو نادیہ بیگم سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھنے لگی۔ 

کون؟ نادیہ بیگم نے پوچھا۔ 

پری۔ سالار نے بس اتنا کہا۔ 

پری حیدر بھائی کی بیٹی۔ نادیہ بیگم حیران ہوئی۔ سالار نے سرہلاکر ہاں کہا۔ 

فکر نہیں کرو میں کرتی ہوں بات بھائی اور بھابھی سے مہرو سے بھی نہیں ملی سوائے ایک دو دفع جو ملی تھی۔ نادیہ بیگم نے سالار کو مطمئن کیا جس پہ۔ سالار نے سکون کا سانس خارج کیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ اتنا کیا اٹھا لائے ہو۔ مہرماہ نے حیرانگی سے شاہ میر سے پوچھا جس کے ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز تھے۔ 

آپ کے لیے اور ہمارے بچے کے لیے میں شاپنگ کر آیا ہوں۔شاہ میر نے مسکراکر سب بیگز بیڈ پہ مہرماہ کے سامنے رکھے وہ اب اوپر کے بجائے راہداری کے پاس بنے کمرے میں شفٹ ہوگئے تھے

مجھے بھی چلنا تھا ہم ساتھ مل کر شاپنگ کرتے۔ مہرماہ نے ناراض لہجے میں کہا۔ 

توں اِس میں ناراض کیوں ہورہی ہیں ہم کل جائے گے دوبارہ ویسے بھی بچے کی شاپنگ کونسا ایک دن میں پوری ہوگی بازار کے چکر تو لگتے رہے گیں نہ۔ شاہ میر نے جلدی سے کہا۔ 

اچھا کیا لائے ہو۔ مہرماہ متجسس ہوئی۔

آپ کے لیے ایزی ڈریسز لایا ہوں جس میں آپ کمفرٹیبل فیل کریں گی اور یہ سلپر بھی آپ پہلے والی سلپر کا استعمال نہیں کریں گی بار بار آپ کا پیر پھسل رہا تھا۔شاہ میر بڑی دادی اماٶں کی طرح مہرماہ کو سمجھانے لگا مہرماہ مسکراکر ڈریسز دیکھنے لگی جو کافی ڈھیلے ڈالیں تھے جس سے اس کو آسانی ہوتی جس مرحلے سے وہ گزر رہی تھی اُس میں ویسے بھی اپنے بڑھتے وزن کی فکر ہورہی تھی کیونکہ اب شاہ میر بار بار اس کے گال کھینچتا تھا جو سرخ اور پہلے سے زیادہ بھرے ہوئے تھے۔ 

یہ اِن کا پاجامہ تم نے الگ لیا ہے کیا؟ مہرماہ سارے کپڑے دیکھ کر شاہ میر سے بولی۔ 

ہمم کیوں کی ان کے ساتھ ٹراٶزر تھا مجھے یاد ہے آپ نے پہلا ایسے کوئی ڈریس پہنا تھا جس سے آپ کا پیر اٹک گیا تھا وہ تو اچھا ہوا آپ گِرنے سے بچ گئ اِس لیے میں نے سوچا نارمل پاجامہ شلوار ہو۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ کو اپنی قسمت پہ رشک آیا تھا بیشک اللہ کی طرف سے شاہ میر اس کے لیے نعمت تھا جس کا وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔ 

واک کرنے چلیں لان میں؟شاہ میر نے سارا سامان وارڈروب میں رکھ کر مہرماہ سے پوچھا

ہاں ضرور میں تک یہاں کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر تنگ آگئ ہوں۔ مہرماہ جھٹ سے شاہ میر کی بات سن کر بولی تو شاہ میر مسکرادیا اور مہرماہ کو اٹھنے میں مدد دینے لگا مہرماہ اپنے اطراف اچھے سے شال لپیٹتی شاہ میر کے ساتھ لان کی طرف آئی۔ 

آپ کو مجھ سے محبت کب ہوئی؟ شاہ میر آہستہ آہستہ مہرماہ کے ساتھ چلتا ہوا بولا

پتا نہیں۔مہرماہ ہنس کے بولی۔ 

ہے تو سہی  نہ۔ شاہ میر منہ بناکر بولا۔

اگر پیار نہیں ہوتا تو اِس وقت میرے ساتھ تم نہیں ہوتے۔ مہرماہ نے رک کر اس کے بال بگاڑتے ہوئے کہا۔ 

یہاں مجھے آپ کے ساتھ ہی ہونا تھا کیونکہ میں نے پہلے بھی کہا آپ ازل سے میری ہیں اور زمین پہ آپ کو میرے لیے اُتارہ گیا ہے۔ شاہ میر مہرماہ کی بات پہ سنجیدہ ہوگیا تھا جبھی اس کو اپنے قریب کیے شدت بھرے لہجے بولا۔ 

شاہ مجھے تم سے محبت ہے میں نہیں جانتی کب سے پر میں نے محبت کا اصل مطلب تم سے ملنے کے بعد جانا میں نہیں جانتی میرا ہمارا ساتھ لوگوں کو کیسے لگتا ہوگا ہمارے درمیان جو چار سال کا فرق ہے وہ مجھے سکون سے نہیں رہنے دیتا تھا میں یہی سوچتی تھی کہ تمہاری محبت تمہارا بچپنا ضد ہے بس جو ختم ہوجائے گا کیونکہ تم مجھ سے زیادہ بہتر ہمسفر کے مستحق تھے پر اِن نوں ماہ نے مجھے احساس کروایا مجھے بتایا کہ مہرماہ سکندر شاہ میر حیدر کی ماہ شاہ میر ہے جس سے شاہ میر کو عشق ہے اور اُس عشق نے مہرماہ کو بھی قید کردیا تھا میں اب مہرو مہرماہ نہیں مجھے اب بس شاہ کی ماہ بن کر رہنا ہے۔مہرماہ سمجھ گئ تھی شاہ میر اظہار چاہتا ہے اِس لیے ایڑیوں کے بل اونچی ہوتی اپنی پیشانی کو شاہ میر کی پیشانی سے ٹکاکر اپنی محبت کا اعتراف کیا جسے سن کر شاہ میر کے اندر سرشاری سی ڈور گئ تھی شاہ میر نے مہرماہ کو کمر سے پکڑکر کجھ اونچا کیا۔ 

شاہ میر حیدر خان اگر کسی کا مستحق تھا تو وہ بس مہرماہ کا تھا اور کسی کا نہیں۔شاہ میر نے آنکھیں بند کیے کہا۔ 

اب واپس اندر چلتے ہیں۔مہرماہ نیچے ہوتی شاہ میر سے بولی۔ 

ضرور۔شاہ میر کہتا مہرماہ کو اپنی بانہوں میں اٹھاتا اندر کی جانب بڑھنے لگا مہرماہ نے مسکراکر اپنے بازوں شاہ میر کی گردن پہ حائل کر دیئے۔  

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ایک ہفتہ شاہ زیب نے ثانیہ کی منمانی کیسے برداشت کی تھی وہ بس شاہ زیب خود جانتا تھا ثانیہ دو دنوں کا کہتی ہفتہ بھر غائب تھی جس پہ شاہ زیب کجھ نہیں کہا پر آج اُس نے سوچ لیا تھا وہ آفس نہیں آئی تو وہ اُس کے گھر پہنچ جائے گا شاہ زیب ڈریسنگ کے پاس کھڑا ہوتا خود پہ نظر ڈالی پھر اپنا سیل فون اٹھا کر ایک نمبر پریس کیا جو تین سے چوتھی بیل پہ رسیو کیا گیا تھا۔ 

ہیلو۔ ثانیہ کی آواز سن کر شاہ زیب نے گہری سانس بھری۔ 

بنا آفس میں کسی کو اِن فارم کیے تم ہفتہ بھر لیو پہ کیسے رہ سکتی ہو۔ شاہ زیب سنجیدگی سے بولا تو ثانیہ کے گلے پہ گلٹی اُبھر کر معدوم ہوئی۔ 

وہ سر میری ماں کی طبیعت خراب تھی جس وجہ سے میں نہیں آسکی۔ ثانیہ نے وضاحت دی جو سچ تھی کیونکہ کجھ دنوں پہلے ہی ان کی طبیعت خراب رہنے لگی کبھی بخار ہوتا کبھی جوڑوں میں درد کبھی کھانسی تو کبھی کجھ اور جس سے ثانیہ کے دماغ سے ہربات فراموش ہوچکی تھی۔ 

اوو اب کیسی طبیعت ہے آپ کی والدہ کی؟ ثانیہ کی بات پہ شاہ زیب کجھ نارمل ہوا۔ 

اللہ کا شکر ہے اب بہتر ہیں۔ ثانیہ نے کہا۔ 

ٹھیک ہے جب وہ مکمل طور پہ صحتیاب ہوجائے تو تم آفس آجانا بہت سے کام ہیں جو تم نے کرنے ہیں۔شاہ زیب گھمبیر آواز میں بولا تو ثانیہ کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں چمکنے لگی۔

جی سر۔ ثانیہ نے کہا شاہ زیب ایک دو اور باتیں کرنے کے بعد کال کاٹ دی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہمہیں تو کوئی اعتراض نہیں سالار اپنا بچہ ہے اور ہمارے لیے اُس سے بڑی کیا بات ہوگی کہ پری اپنی پھپھو کے گھر میں رہے گی غیروں کا کیا اعتبار۔حیدر خان نادیہ بیگم کی بات سن کر بولے جو آج ان سے سالار کے رشتے کی بات کرنے آئی تھی ڈرائینگ روم میں سب موجود تھے جو حیدر خان کی بات پہ بہت خوش ہوئے تھے سالار کی بتیسی تو اندر جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ 

تو کب کی تاریخ طے کریں ہم؟ نادیہ بیگم مصرت بھرے لہجے میں بولی۔ 

نادیہ اتنی بھی کیا جلدی آرام سے ہوجائے گا سب ویسے بھی مہرو کا چھٹا مہینہ ہے اچھا ہے بچہ آجائے پھر شادی کی تیاریاں کریں گے۔ ہانم بیگم ان کی جلدبازی پہ مہرماہ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

دراصل میں جلدی سالار کی شادی کرنا چاہتی ہوں مہرو کے بچہ کی پیدائش میں تو ابھی وقت ہے۔ نادیہ بیگم مسکراکر بولی 

چچی جان آپ لوگ تاریخ رکھ لیں اچھا ہے پری کی شادی بھی جلد ہوجائے تو ابھی تو میں آپ کی مدد بھی کرواسکتی ہوں پھر تو ناممکن سی بات ہے۔ مہرماہ نے شرارت سے کہا تو سب ہنس پڑے۔ 

آپ کو ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے ناکہ کام کرنے ڈاکٹر نے خاص طور مجھے کہا تھا کہ آپ وزنی چیزیں نہیں اٹھائے گی اور نہ خود کو تھکائے گی۔ شاہ میر جو اب تک خاموش تھا مہرماہ کی مدد والی بات سن کر بول اٹھا۔ 

میر کا بس نہیں چل رہا ورنہ مہرو کے ساتھ پریگنسی کی دوا بھی کھالیں۔شاہ میر کی بات پہ شاہ زیب بڑبڑیا جب کی اس کی بات پہ پاس بیٹھے آیان کو پانی پیتے زبردست قسم کا اچھو لگا تھا جس سے شاہ زیب گڑبڑا گیا تھا۔ 

آیان تم ٹھیک ہو؟ ہانم بیگم فکرمند ہوئی اس کی لال ہوتی رنگت دیکھ کر جو کھانس نے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ 

جی امی جان میں ٹھیک ہوں۔ آیان ایک نظر شاہ زیب پہ ڈالتا ہوا بولا۔ 

تم لوگوں نے منتھلی چیک اپ کے لیے کب جانا ہے؟ سکندر خان نے شاہ میر سے پوچھا۔ 

آج شام چار بجے ماہ کا اپائیمنٹ ہے۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

ٹھیک ہے تو ہم تاریخ طے کرلیتے ہیں ویسے بھی نیک کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ حیدر خان نے کہا تو سب نے سریلایا۔ 

اِس مہینے کی آخر تاریخ پہ فنکشن شروع کرتے ہیں۔نادیہ بیگم نے کہا۔ 

پہلے شادی کی ساری تیاریاں کرلیتے ہیں کپڑے جیولری اور بھی بہت سی ضروری چیزیں ہیں جس میں وقت لگ جائے جب سب شاپنگ ہوجائے تو ہم شادی کے فنکشن شروع کردے گے کیونکہ تب مہرماہ کی ڈیلیوری کے دن بھی کم رہے گے۔ ہانم بیگم کجھ سوچ کر بولی

ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا ان چیزوں میں بھی وقت تو لگے گا۔ نادیہ بیگم ان کی بات پہ متفق ہوتی ہوئی بولی۔ 

میں آپ سب سے کجھ کہنا چاہتا ہوں۔ شاہ زیب اچانک سے بولا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

میں چاہتا ہوں میری شادی بھی سالار کے ساتھ ہو۔ شاہ زیب کی بات پہ سب حیرانکن نظروں سے اس کو دیکھنے لگے۔ 

تمہاری ماں نے تو ابھی تک کوئی لڑکی نہیں دیکھی تو شادی کس سے کروگے۔ سکندر خان نے کہا

لڑکی ماں کے بیٹے نے دیکھ لی ہے آپ بس ان کے گھر رشتہ لیں جائے۔شاہ زیب آرام سے بولا 

زیب تم مجھ سے بات نہ کرنا اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی۔مہرماہ غصہ سے شاہ زیب سے بولی تو شاہ زیب سٹپٹاگیا اپنی بات کہتے وقت وہ مہرماہ کے ری ایکشن کو فراموش کربیٹھا تھا۔ 

مہرو میں بتانے والا تھا۔ شاہ زیب نے وضاحت کرنی چاہی۔ 

جی بتا تو دیا۔مہرماہ کہتی جلدی کھڑی ہوئی تو اس کے پیٹ میں ہلکا سا درد ابھرا اس نے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھا شاہ میر نے مہرماہ کے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھے تو اس کے پاس کھڑا ہوا۔

آرام سے ماہ آپ اپنا خیال بلکل نہیں رکھتی۔ شاہ میر فکرمندی سے بولا جب کی سب اب مہرماہ کے پاس آئے تھے۔ شاہ میر نے آرام سے مہرماہ کو دوبارہ بیٹھایا۔ 

مہرو جانتی ہوں یہ نازک وقت ہوتا ہے پھر بھی اتنی لاپروائی۔سارہ بیگم نے اس کو گھڑکا۔ 

چچی جان پلیز ماہ کو پہلے ہی پین ہورہا ہے۔شاہ میر کو سارہ بیگم کا مہرماہ سے ایسے بات کرنا پسند نہیں آیا جب کی اتنی سنجیدہ حالت میں بھی شاہ میر کی بات پہ مسکرائے بنا نہیں رہ پائے۔ 

میر تم مہرو کو اندر کمرے میں لیں جاوٴ تاکہ آرام کریں۔ ہانم بیگم نے کہا جس پہ شاہ میر نے سرہلایا۔ 

چلیں۔ شاہ میر نے مہرماہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا پر مہرماہ نے کجھ نہیں کہا کیونکہ اس کو اپنی پسلی کی جگہ بہت درد محسوس ہورہا تھا جس میں وہ اٹھنے کی سکت نہیں کرپارہی تھی مہرماہ نے اُس وقت کو کوسا جب وہ جلدی سے کھڑی ہوئی تھی۔شاہ میر مہرماہ کی حالت سمجھتا بنا کسی پہ دھیان دیئے مہرماہ کو اپنے بانہوں میں بھرا جس پہ سکندر خان،حیدر خان،شاہ زیب،سالار نے اپنا چہرہ جھکادیا تھا جب کی آیان کا منہ حیرت سے کُھل گیا تھا نادیہ بیگم نے اپنی ہنسی دبائی جب کی سارہ بیگم، ہانم بیگم خوامخواہ شرمندہ ہوگئ تھی ان سب کے ری ایکشن سے بے نیاز شاہ میر بس مہرماہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں وہ درد برداشت میں ہلکان ہورہی تھی مہرماہ نے شاہ میر کے چہرے پہ اپنے لیے پریشانی کے تاثرات دیکھے تو اس کو رلیکس کرنے کی خاطر زبردستی مسکرائی اور شاہ میر کے سینے پہ سرٹکادیا پر شاہ میر مطمئن نہیں ہوا تھا ایسے ہی وہ مہرماہ کو کمرے میں لایا اور اس کو بیڈ پہ لیٹایا خود وہ بلکل پاس بیٹھایا۔

زیادہ پین ہے تو ڈاکٹر کو کال کروں؟ شاہ میر آرام سے مہرماہ کے وجود سے شال الگ کرتا ہوا بولا۔ 

نہیں شاہ میں ٹھیک ہوں شام میں تو ویسے بھی جانا ہے نہ۔ مہرماہ نے کہا۔ 

پر ابھی جو آپ کو تکلیف ہے اس کا کیا؟ شاہ میر مہرماہ کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ 

مجھے پین کلر دو تھوڑا درد ہے ٹھیک ہوجائے گا۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر جلدی سے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے فرسٹ ایڈ بوکس نکال کر اس میں سے ایک پین کلر نکالی جگ میں پانی کا گلاس بھرا پھر مہرماہ کو آرام سے اٹھایا اور پین کلر دیں کر اس کے پاس تکیہ درست کیے۔ 

یہ بچہ ہوجائے پھر دوبارہ آپ کوئی بچہ نہیں کریں گی۔ شاہ میر مہرماہ کے پیٹ میں پاتھ رکھتا ہوا بولا جس سے سن کر مہرماہ کی ہنسی نکل گئ۔ 

یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں ویسے بھی ایسی حالت میں ہر لڑکی ایسی تکلیف سے گزرتی ہے۔ مہرماہ نے کہا

جو بھی پر مجھ سے نہیں برداشت ہورہی آپ کی تکلیف۔شاہ میر نے کہا تو مہرماہ نے بیڈ کی دوسری طرف شاہ میر کو آنے کا کہا تو شاہ میر وہاں آگیا مہرماہ نے شاہ میر کے بازوں پہ سرٹکایا جس پہ شاہ میر مسکرایا اور ساتھ میں اس کی بلو آنکھیں بھی۔ 

شاہ کیا تم نہیں چاہتے ہمارے ڈھیر سارے بچیں ہو۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر نے منہ بگاڑا۔ 

یہ ایک برداشت کرلوں گا ڈھیر ساروں کی ضرورت نہیں ۔شاہ میر نے کہا تو مہرماہ نے گھور کر اس کو دیکھا۔ 

ماہ مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ اتنی تکلیف سہے گی ورنہ میں اِس کو بھی آنے نہیں دیتا۔ شاہ میر نے صاف گوئی سے کہا مہرماہ کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں۔ 

مجھے تو تین چار بچے چاہیے۔ مہرماہ نے آرام سے کہا۔ 

ماہ آپ کے لیے میں کافی ہوں جیسے میرے لیے آپ اِس لیے بچوں کا اب نہ سوچے ایک بہت ہے میں برداشت نہیں کروں گا آپ کی توجہ میرے علاوہ کسی اور پہ ہو۔ شاہ میر کا انداز جنونی ہوگیا تھا۔ 

وہ کسی نہیں ہمارے بچے ہوگے۔ مہرماہ نے باور کروانا چاہا۔ 

جو بھی۔ شاہ میر بنا اثر لیے بولا مہرماہ بحث کیے بنا بس خاموش رہی شاہ میر نے اپنا سر مہرماہ کے سر سے ٹکالیا۔ 

یہ مجنوں کی اولاد میرے گھر کیسے پیدا ہوئی۔ ہانم بیگم بولی۔ 

آپ کو نہیں پتا ورنہ حیدر بھی جوانی میں ایسے تھا۔ سکندر خان نے حیدر خان کو چھیڑا جس پہ ان کی سٹی گم ہوئی تھی۔ 

بھائی مذاق کیوں کررہے ہیں۔حیدر خان نے خود پہ ہانم بیگم کی تیکھی نظریں محسوس کی تھی ہڑبڑاکر بولے باقی سب دلچسپی سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ 

مذاق کہاں کیا تم نہیں تھے کالج میں کیسے ہر روز نئ گرلفرینڈ ہوا کرتی تھی جن کے لیے کبھی تم شاعری کرتے تو کبھی گانا گاتے میر تو پھر بھی مہرو کے لیے پاگل ہے۔ سکندر خان نے حیدر خان کا پھانڈا پھوڑا اِس وقت حیدر خان کو سکندر خان اپنا بھائی نہیں بلکہ جانی دشمن لگا

میرے لیے تو کبھی تعریف کا ایک لفظ نہیں بولا پر کالج میں لڑکیوں کے لیے شعرو شاعری کرتے رہے ہیں۔ ہانم بیگم جل بھن کے بولی۔ 

بیگم بھائی مذاق کررہے ہیں۔حیدر خان نے کمزور سی دلیل پیش کی مگر ہانم بیگم ان کو گھوری سے نوازتی اٹھ گئ حیدر خان کی شکل دیکھ کر سب کا قہقہقہ گونج اٹھا جس پہ حیدر  خان کو بھی پرانے دن یاد آگئے تو ہنس پڑے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اماں سے کیسے بات کروں؟ ثانیہ چھت پہ چکر لگاتی پریشانی سے بولی بہت دنوں سے وہ زبیدہ بیگم سے بات کرنا چاہتی تھی شاہ زیب کے بارے میں پر وقت نہیں مل رہا تھا اور جب وقت مل رہا تھا تو ہمت نہیں ہورہی تھی آج اُس کو ایک ماہ ہوگیا تھا آفس نہیں گئے ہوئے جس پہ زبیدہ بیگم نے بہت بار پوچھا اور آفس جانے کا بھی کہا کہ ورنہ نوکری چلی جائے گی پر اس نے ان کو مطمئن کیا تھا کہ بوس نے کہا تھا جب تک آپ کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی چھٹی کرسکتی ہیں انہوں تب بھی کہا وہ اب ٹھیک ہیں پر ثانیہ نہیں گئ اس کو پتا تھا شاہ زیب جواب مانگے گا تو وہ کیا جواب دیتی وہ اپنی ماں سے بات کرنے سے پہلے شاہ زیب سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بہت سوچ بے چار کے بعد ثانیہ نے گہری سانس لی اور اپنے قدم زبیدہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھائے۔ 

ثانیہ کیا ہوا بیٹا؟زبیدہ بیگم نے ثانیہ سے پوچھا جو کمرے میں آتے ان کو دیکھ رہی تھی۔ 

اماں آپ سے کجھ بات کرنی تھی۔ ثانیہ نے کہا

کرو۔ زبیدہ بیگم نے کہا

میرے جو بوس ہیں نہ۔ ثانیہ نے بس اتنا کہا

اس نے جاب پہ آنے کا کہا ہوگا میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی میں اب ٹھیک ہوں تمہیں کام پہ جانا چاہیے۔ زبیدہ بیگم اندازہ لگاتی ہوئی بولی

یہ بات نہیں ہے اماں۔ ثانیہ نے کہا

پھر کیا بات ہے؟ زبیدہ بیگم نے پوچھا

وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ثانیہ نے بتایا تو وہ حیرت انگیز نظروں سے ثانیہ کو دیکھنے لگی ثانیہ نے اپنا سرجھکادیا۔ 

ثانیہ اتنے بڑی کمپنی کا مالک تجھ سے کیوں شادی کرے گا۔ زبیدہ بیگم نے کہا

اماں وہ کہتے ہیں اسٹیٹس نہیں دیکھا جاتا شادی کے لیے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے ان کا اخلاق ان کا کردار معائنے رکھتا ہے بہترین ہمسفر کا ملنا اسٹیٹس سے نہیں ہوتا کیونکہ پئسوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا پئسا ہاتھوں کی میل ہے کب کہاں پھسل جائے پتا نہیں چلتا۔ثانیہ کو کجھ دن پہلے شاہ زیب کی کال پہ کہی بات یاد آئی تو کہا

اگر لڑکا اچھا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تم کہو وہ اپنے گھروالوں کو لائے یہاں۔زبیدہ بیگم ثانیہ کی بات سن کر بولی وہ بھی چاہتی تھی وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے۔

کیا واقع اماں؟ ثانیہ کو یقین نہیں ہوا۔ 

بلکل اِس لیے کل آفس جانا۔ زبیدہ بیگم نے مسکراکر کہا تو ثانیہ بھی مسکرادی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مطمئن کیا تھا کہ بوس نے کہا تھا جب تک آپ کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی چھٹی کرسکتی ہیں انہوں تب بھی کہا وہ اب ٹھیک ہیں پر ثانیہ نہیں گئ اس کو پتا تھا شاہ زیب جواب مانگے گا تو وہ کیا جواب دیتی وہ اپنی ماں سے بات کرنے سے پہلے شاہ زیب سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بہت سوچ بے چار کے بعد ثانیہ نے گہری سانس لی اور اپنے قدم زبیدہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھائے۔ 

ثانیہ کیا ہوا بیٹا؟زبیدہ بیگم نے ثانیہ سے پوچھا جو کمرے میں آتے ان کو دیکھ رہی تھی۔ 

اماں آپ سے کجھ بات کرنی تھی۔ ثانیہ نے کہا

کرو۔ زبیدہ بیگم نے کہا

میرے جو بوس ہیں نہ۔ ثانیہ نے بس اتنا کہا

اس نے جاب پہ آنے کا کہا ہوگا میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی میں اب ٹھیک ہوں تمہیں کام پہ جانا چاہیے۔ زبیدہ بیگم اندازہ لگاتی ہوئی بولی

یہ بات نہیں ہے اماں۔ ثانیہ نے کہا

پھر کیا بات ہے؟ زبیدہ بیگم نے پوچھا

وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ثانیہ نے بتایا تو وہ حیرت انگیز نظروں سے ثانیہ کو دیکھنے لگی ثانیہ نے اپنا سرجھکادیا۔ 

ثانیہ اتنے بڑی کمپنی کا مالک تجھ سے کیوں شادی کریں گا۔ زبیدہ بیگم نے کہا

اماں وہ کہتے ہیں اسٹیٹس نہیں دیکھا جاتا شادی کے لیے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے ان کا اخلاق ان کا کردار معائنے رکھتا ہے بہترین ہمسفر کا ملنا اسٹیٹس سے نہیں ہوتا کیونکہ پئسوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا پئسا ہاتھوں کی میل ہے کب کہاں پھسل جائے پتا نہیں چلتا۔ثانیہ کو کجھ دن پہلے شاہ زیب کی کال پہ کہی بات یاد آئی تو کہا

اگر لڑکا اچھا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تم کہو وہ اپنے گھروالوں کو لائے یہاں۔زبیدہ بیگم ثانیہ کی بات سن کر بولی وہ بھی چاہتی تھی وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے۔

کیا واقع اماں؟ ثانیہ کو یقین نہیں ہوا۔ 

بلکل اِس لیے کل آفس جانا۔ زبیدہ بیگم نے مسکراکر کہا تو ثانیہ بھی مسکرادی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ کس لڑکی کی بات کررہے تھے تم؟ سارہ بیگم نے شاہ زیب سے پوچھا۔ 

امی جان میرے آفس میں کام کرتی ہے میری اسسٹنٹ ہے میں پسند کرتا ہوں اس کو۔ شاہ زیب نے اعتراف کیا۔ 

برخودار بات پسند سے تو بہت آگے کی لگ رہی ہے۔ سکندر خان نے شاہ زیب سے کہا۔ 

آپ کو لگ رہا ہے تو سہی ہوگا۔ شاہ زیب نے مسکراکر کہا۔ 

وہ لڑکی ٹھیک تو ہے نہ۔ سارہ بیگم نے کسی خدشے کے تحت پوچھا۔ 

امی جان آپ کو میری پسند پہ شک ہے کیا؟ شاہ زیب نے اُلٹا ان سے سوال کیا۔ 

شک تو نہیں ہے۔ سارہ بیگم مسکراکر بولی

پھر بس آپ تیار رہے ان کے گھر جانے کی۔ شاہ زیب نے کہا تو سارہ بیگم نے سرہلایا

اچھا ہے تمہاری شادی بھی ہوجائے۔ سکندر خان نے کہا۔ 

ہاں مہرو کے بعد تو گھر خالی خالی سا لگنے لگا ہے۔ سارہ بیگم افسردہ ہوکر بولی۔ 

امی مہرو پاس ہی تو ہے کونسا دور ہے۔ شاہ زیب ان کو اپنے ساتھ لگاکر بولا

پھر بھی یاد تو آتی ہے۔ سارہ بیگم نے کہا تو سکندر خان اور شاہ زیب مسکرائے

💕💕💕💕💕💕💕💕

تو سوچ لیا تم نے مجھے کیا جواب دینا ہے۔ شاہ زیب نے گہری نظروں سے ثانیہ کو دیکھ کر کہا جو آج پرپل کلر کے شلوار قمیض میں ہرروز کی طرح بہت خوبصورت لگ رہی تھی پر شاہ زیب کو آج اور زیادہ لگی کیونکہ آج ایک ماہ بعد دیدارِ یار ہوا تھا۔ 

جی میں نے اپنی ماں سے بھی بات کی۔ ثانیہ تزبز ہوکر بولی۔ 

پھر کیا کہا ساسوں ماں نے۔ شاہ زیب نے دلچسپی سے پوچھا پر ساسوں ماں لفظ پہ ثانیہ کے چہرے پہ لالی بکھر گئ تھی جس نے شاہ زیب کو مبہوت کردیا تھا۔ 

اماں نے کہا میں آپ سے کہوں آپ اپنے گھروالوں کو ہمارے گھر بھیجے۔ ثانیہ نے شرم سے چہرے جھکاکر کہا تو شاہ زیب اُس کی ادا پہ جی جان سے مسکرایا تھا۔ 

میرے گھروالے کل آئے گے شادی کی تاریخ فکس کرنے۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

اتنی جلدی۔ ثانیہ نے یکدم اپنا سراٹھاکر کہا

سریسلی ثانیہ ایک ماہ ہوگیا ہے تمہیں وقت دیئے اور ابھی بھی تمہیں یہ جلدی لگ رہا ہے۔ شاہ زیب نے خشمگین نظروں سے اس کو دیکھا جسے اس کے جذبات کی قدر ہی نہیں تھی پر ثانیہ تو شاہ زیب کے ثانیہ نام پہ ٹک گئ تھی آج پہلی بار شاہ زیب نے بس اس کا نام لیا تھا بنا مس یا افتخار لگائے ثانیہ کو بہت اچھا لگا تھا شاہ زیب کا یوں حق سے اس کا نام لینا شاید یہ نئے رشتے کی تاثیر تھی جو ثانیہ کو سب کجھ خوبصورت لگ رہا تھا

آپ جو بہتر لگے آپ وہ کریں۔ ثانیہ نے اجازت دی تو شاہ زیب سرشار ہوگیا تھا۔ 

تو بس تم میری ہونے کی تیار کرو۔ شاہ زیب نے آنکھ ونک کرتے کہا تو ثانیہ گلنار چہرہ لیے کیبن سے باہر نکل گئ شاہ زیب ثانیہ کی پتلی ہوتی حالت پہ ہنس پڑا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

کیا کررہی ہیں یہ آپ؟ شاہ میر یونی سے واپس آیا تو مہرماہ کو ڈریسنگ کے پاس کھڑا دیکھا کر حیرت سے بولا جو اپنا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ 

شاہ دیکھو میں موٹی ہوگئ ہوں۔ مہرماہ نے پریشان ہوکر کہا۔ 

کہاں موٹی ہیں اتنی پیاری تو ہے۔ شاہ میر مہرماہ کو اپنے حصار میں لیکر بولا

میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہو۔ مہرماہ نے اپنا چہرہ مرر کے سامنے کیے کہا۔ 

بلکل نہیں آپ تو مزید خوبصورت ہوگئ ہے یقین نہیں آتا تو میری آنکھوں میں دیکھ لیں۔ شاہ میر نے مہرماہ کا چہرہ اپنی طرف کیے کہا

مجھے شاپنگ کرنی ہے۔ مہرماہ شاہ میر کی چمکتی نظروں سے خائف ہوتی بات بدل کر بولی۔

میں کرلوں گا آپ کی شاپنگ۔ شاہ میر نے کہا۔ 

شاہ مجھے خود اپنی پسند کے لینے ہیں۔مہرماہ تیز آواز میں بولی۔ 

ماہ وہاں بھی تو آپ نے میری پسند کی چیزیں خریدنی ہوتی ہے۔ شاہ میر نے کہا

پھر بھی بچے کی شاپنگ بھی تو کرنی ہے اس کا روم سجانا ہے۔ مہرماہ نے کہا۔ 

جی میری جان وہ تو ہم دونوں مل کر کریں گے پر آپ جلدی تھک جاتی ہے۔ شاہ میر نے مہرماہ کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑ کر کہا۔ 

تم میری بات نہیں مانتے۔ مہرماہ نے بلیک میل کرنا چاہا۔ 

سوری میری جان میں آپ کی اِس بلیک میلنگ میں نہیں آسکتا کیونکہ میرے لیے آپ کی صحت سے زیادہ اور کجھ نہیں۔شاہ میر نے ہڑی جھنڈی دیکھائی تو مہرماہ اس کا حصار توڑ کر منہ پُھلاکر بیڈ پہ بیٹھ گئ شاہ میر نے گہری سانس بھری مہرماہ کی ناراضگی کا سوچ کر۔ 

ماں کے کتنے ارمان ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کے لیے شاپنگ کریں اس کے لیے کھلونے خریدے اس کا روم سیٹ کریں۔شاہ میر بیڈ پہ بازوں ٹکائے لیٹا تو مہرماہ نے کہا

توں میں کونسا اختلاف کررہا ہوں آپ کمرے میں چلیں ہمارے روم میں سیٹ کروں گا آپ بس مجھے ہدایت دیتی جائیے گا کہ کیا کیسے کرنا ہے۔ شاہ میر نے حل پیش کیا۔ 

سیڑھیاں چڑھنے سے بھی تو منع کیا ہوا ہے۔مہرماہ چڑ کر بولی تو شاہ میر مسکرادیا۔ 

یہ میرے بازوں جو ہیں۔ شاہ میر نے اٹھ کر اپنے کسرتی بازوں پہ ہاتھ پھیر کر کہا شاہ میر کی بات کا مطلب سمجھ کر مہرماہ کا چہرہ انار کی طرح سرخ ہوگیا تھا۔ 

میں بھاری ہوگئ ہوں نہیں اٹھاسکتے۔ مہرماہ نے کہا۔

یہ سوچ ہے آپ کی میں نے کل کی شاپنگ پہ بے بی کاٹ پہ لایا تھا جو ہمارے کمرے میں ہے آپ بتائیے گا کہاں رکھنا ہے مطلب کمرے کی کونسی سائیڈ پہ۔ شاہ میر اس کے پاس بیٹھ کر بولا۔ 

ہاں چچی جان نے بتایا تم نے دو بے بی کاٹ لائے تھے دو کیوں؟مہرماہ کو اچانک یاد آیا تو پوچھا۔ 

کیونکہ ہمیں پتا نہیں بی بی گرل ہے یا بی بی بوائے اِس لیے میں ایک پنک کلر کا لایا تھا دوسرا بلیو کلر کا۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

اچھا تو یہ بات ہے۔ مہرماہ مسکراکر بولی۔ 

بلکل ورنہ ہارٹ بیٹ تو ہم نے ایک سنی تھی اِس لیے ٹوئنز کا تو کوئی سین نہیں۔شاہ میر نے شرارت سے کہا تو مہرماہ نے ایک مکہ اس کے بازوں پہ مارا۔ 

بہت بے شرم ہوگئے ہو تم۔ مہرماہ نے کہا۔ 

شکریہ مجھے بتانے کا۔ شاہ میر نے مہرماہ کے بالوں میں چہرہ چھپاکر کہا مہرماہ گہری سانس بھرتی شاہ میر کی پیٹھ پہ بازوں حائل کیے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

پھر آپ کیا کہتی ہیں۔ سارہ بیگم نے زبیدہ بیگم کو اپنے آنے کا مقصد بتانے کے بعد پوچھا وہ آج ہانم بیگم کے ساتھ یہاں آئی تھی سکندر خان کی۔ ضرورت میٹنگ تھی جس وجہ سے وہ نہیں آ پائے تھے۔ 

جیسا آپ کو مناسب لگے بچے راضی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔زبیدہ بیگم سادگی سے بولی

اپنی بیٹی کو تو بلائے۔ ہانم بیگم نے کہا۔ 

ہانی ثانیہ سے یہاں آنے کا کہو۔ زبیدہ بیگم نے پاس بیٹھی ہانیہ سے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی

دراصل ہم شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دوسرے بیٹے کی بھی شادی ہے وہ ہماری نند کا بیٹا ہے شاہ زیب اس کا دوست ہے اِس لیے چاہتا ہے کہ ایک ساتھ شادی ہو۔ سارہ بیگم نے کہا

پر اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہوگی۔ زبیدہ بیگم پریشان ہوئی ان کی بات سن کر۔ 

اس کی فکر آپ نہ کریں ہمیں بس آپ کی بیٹی چاہیے۔ ہانم بیگم نے ان کو تسلی کروائی 

اچھا۔ زبیدہ بیگم اتنا کہہ کر چپ ہوئی تبھی ہانیہ کے ہمراہ ثانیہ اندر آئی۔ 

ماشااللہ آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے۔ ہانم بیگم نے ثانیہ کو دیکھ کر کہا جو آسمانی کلر کے شلوار قمیض کے ساتھ اچھے سے سرپہ ڈوپٹہ پہنے سادگی میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی جب کی سارہ بیگم کو ثانیہ دیکھی ہوئی سی لگی۔ 

تم مہرو کی دوست ہو نہ؟ سارہ بیگم کو اچانک یاد آیا تو کہا انہوں نے مہرماہ کی دوستوں کو دیکھ رہا تھا مہرماہ اکثر ان کی باتیں کیا کرتی۔ اور اپنے موبائل میں ان کی تصویریں بھی دیکھائی تھی جب کی کبھی آمنے سامنے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا پر مونا سے وہ بہت بار مل چُکی تھی۔ 

جی آنٹی۔ ثانیہ کو ان کے سوال پہ حیرت تو ہوئی پر وہ ظاہر کیے بنا بولی۔ 

مہرو کو پتا ہے تم اس کی بھابھی بننے والی ہو۔ سارہ بیگم مسکراکر پوچھنے لگی۔ کیونکہ مہرماہ نے بہت ضد کی تھی وہ اپنی بھابھی سے ملنا چاہتی ہے پر شاہ میر نے اجازت نہیں دی ان کو آج چیک اپ کے لیے جانا تھا۔ 

مہرو کی بھابھی؟ثانیہ حیران ہوئی۔

لو مطلب تمہیں خود نہیں پتا تم اس کی بھابھی بنے والی ہو تمہارا بوس شاہ زیب اور تمہاری دوست مہرماہ میرے بچے ہیں۔سارہ بیگم اِس خوبصورت اتفاق پہ مسکراکر بولی تو ثانیہ کجھ بول ہی نہیں پائی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماشااللہ آپ کا بچہ ٹھیک ہے ایسے ہی اپنے بچے کا خیال رکھنا ہے۔ ڈاکٹر اپنے کیبن میں آتی مہرماہ سے بولی۔ 

میرے شوہر کی مہربانیاں ہیں۔ مہرماہ نے شاہ میر کی طرف دیکھ کر کہا۔ 

اللہ قسمت والوں کو ہی اتنے پیار کرنے والا شوہر دیتا ہے۔ ڈاکٹر مسکراکر بولی

ڈاکٹر کوئی پرہیز والی بات ہے تو بتادے اور اگر دوائیاں چینج کرنی ہے تو وہ بھی کیونکہ رات میں پین کی وجہ ماہ کو نیند نہیں آتی۔ شاہ میر نے کہا

میں ایک میڈیسن لکھ دیتی ہوں اور اب آپ کو اِن کو واک کروانا ہے جو کی ضروری ہے۔ڈاکٹر نے کہا تو شاہ میر نے سرہلایا

آپ کی ڈیلیوری پانچ ویک بعد ہوگی۔ ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر مہرماہ سے کہا تو مہرماہ کا چہرہ کِھل اٹھا تھا یہی حال شاہ میر کا بھی تھا پر اس کو مہرماہ کی تکلیف کا سوچ کر فکرمند بھی تھا اور یہ فکر خوشی پہ غالب آگئ تھی ورنہ جیسے جیسے ڈیلیوری کے دن قریب آتے ہیں لڑکیاں پریشان ہوجاتی ہیں پر یہاں یہ ڈیوٹی شاہ میر نے اپنے سِرلی تھی۔ 

گاڑی مال کی جانب کرنا۔ وہ ہوسپٹل سے نکل لر باہر آئے تو مہرماہ نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے۔ شاہ میر بنا سوال کیے بولا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر انکار کرتا تو مہرماہ کی خوشی مانند ہوجاتی اور یہ شاہ میر کو برداشت نہیں تھا۔ 

مال میں آکر مہرماہ نے اوپر والے پلازے کی طرف جانے کا شاہ میر سے کہا کیونکہ وہاں بچوں کے بہت اچھی چیز موجود تھی۔ 

اُپر آپ تھک نہیں جائے گی؟ شاہ میر نے مہرماہ سے کہا۔

لفٹ کی طرف جاتے ہیں اور ویسے بھی کونسا پیدل جاتے ہیں وہاں۔مہرماہ نے ضد کی

ماہ آپ کو سانس لینے میں مشکل ہوگی۔ شاہ میر بے بس ہوکر بولا نہ تو اس میں مہرماہ کی کسی بات پہ انکار کرنے کی ہمت تھی اور نہ ہی وہ مہرماہ کی کہی بات مان سکتا تھا۔ 

شاہ تم اب اوور سینسٹو ہورہے ہو۔ مہرماہ نے منہ بناکر کہا۔ 

جو بھی پر آپ اُس سائیڈ والی شاپ پہ بی بی کی خریداری کریں۔ شاہ میر نے نرمی سے کہا اور دوسری طرف کِڈ شاپ کی جانب اشارہ کیا۔ 

چلو۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر نے شکر کا سانس لیا شاہ میر نے ایک ٹرالی ہاتھ میں گھسیٹی جس میں مہرماہ چیزیں ڈالتی جارہی تھی

شاہ یہ کار کسی رہے گی۔ مہرماہ نے ایک ریڈ کلر کی کار ہاتھ میں لیکر شاہ میر سے کہا جس کا دھیان گڑیا کی جانب تھا جو ریموٹ کنٹرول سے تھی۔ 

ہمم بہت اچھی۔ شاہ میر نے دیکھ کر کہا جس کے اندر چھوٹے گڑیا گڈھا موجود تھا مہرماہ خوش ہوتی وہ کار لی جب کی شاہ میر نے وہ گڑیا لی جو ریموٹ کنٹرول پہ چلتی تھی۔ مہرماہ نے کھلونے اور کپڑے سب بی بی بوائے کے لیے تھے جب کی شاہ میر نے زیادہ تر بی بی گرل کی شاپنگ کی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕

ر چھایا ہوا تھا۔ دوسری طرف شاہ میر بھی کاٹن کے براوٴن کلر پہنے ہوئے تھا کندھوں پہ براوٴن شال اوڑھے بہت وجیہہ لگ رہا تھا چہرے پہ سنجیدہ تاثرات تھے جو اس کو رعبدار بنارہے تھے۔

ماہ آپ کو ایک جگہ ٹک کے بیٹھنا ہے۔ شاہ میر نے مہرماہ سے کہا جو بڑی سی شال میں خود کا بھاری وجود چھپانے کے جتن میں تھی یہ بات شاہ میر نے اِس لیے کی تھی کیونکہ مہرماہ کے پیر سوجھ جاتے تھے شاہ میر تو چاہتا تھا مہرماہ جائے ہی نہ پر شاہ زیب مہرماہ کا بھائی تھا ایسی بات کرتے وہ مہرماہ کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔

شاہ کتنی بار ایک بات کروگے۔ مہرماہ چڑچڑے پن سے بولی جو کی اب اس کی طبیعت کا خاصا بن گیا تھا پہلے شاہ میر اس کے بات بات پہ غصہ کرنے پہ پریشان ہوگیا تھا کیونکہ مہرماہ شاہ میر کو اپنے پاس آنے نہیں دیتی تھی وہ جب کوئی بات کرتا تو غصہ ہوجاتی تھی پر ہانم بیگم نے اس کو مطمئن کیا کہ ایسی سچویشن میں لڑکیاں ایسی ہوجاتی ہیں جس پہ شاہ میر کا ارادہ پکا ہوگیا تھا وہ دوسرا بچہ مہرماہ کو پیدا کرنے نہیں دے گا اس کو مہرماہ کی بے رخی برداشت جو نہیں ہورہی تھی۔ 

غصہ کیوں ہورہی ہے۔ شاہ میر پاس اکر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرکر بولا۔ 

شاہ پلیز۔ مہرماہ نے دور ہونا چاہا پر شاہ میر نے اس کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔ 

آپ کا غصہ آپ کی ڈانٹ آپ کا چڑچڑاپن سب سر آنکھوں پہ پر دور جانے کی کوشش مت کیا کریں۔ شاہ میر بنا اس کی حالت کا سوچے اس پہ اپنی گرفت مضبوط کرتا بولا۔ 

ٹھیک ہے پر ابھی چلو۔ مہرماہ کو شاہ میر کی سرخ آنکھوں سے خوف محسوس ہوا تھا وہ جانتی تھی یہ سرخی اس کے دور جانے کی وجہ سے آئی تھی پر وہ کیا کرتی مجبور تھی اور اپنی حالت پہ پریشان بھی کیونکہ اس کو ہرچیز سے بیزاری ہورہی تھی غصہ آرہا تھا جس کا نشانہ شاہ میر بن رہا تھا جو وہ ماتھے پہ شکن لائے بغیر برداشت کررہا تھا پر اگر وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی تو شاہ میر کا انداز جنون بھرا ہوجاتا تھا۔ 

چلیں۔ شاہ میر اس کے گال پہ پیار کرتا ہوا بولا پھر وہ دونوں سکندر خان میشن میں کی طرف آئے جہاں رسم شروع ہوچکی تھی کیونکہ سب تقریبات ان کے گھر میں ہونا طے پایا گیا تھا۔ 

میں بہت خوش ہوں تمہیں اپنی بھابھی کے روپ میں دیکھ کر۔ مہرماہ ثانیہ کے پاس بیٹھ کر بولی جو سرجھکاکر اپنے ہاتھوں میں مہندی لگوارہی تھی۔ 

شکریہ مہرو۔ ثانیہ بس یہی بول پائی۔اس کی گھبراہٹ سمجھ کر مہرماہ نے مزید بات نہیں کی اور پری کو دیکھنے لگی جو اپنی مہندی کے۔ سوکھنے کے انتظار میں تھی۔ 

بھابھی آپ بھی مہندی لگوائے نہ۔ پری نے مہرماہ سے کہا۔ 

ہاں لگواتی ہوں۔ مہرماہ نے مسکراکر وہ خود مہندی کی دیوانی تھی انکار کیسے کرتی۔

میم میں لگاتی ہوں آپ کو مہندی۔ ایک بیوٹیشن مہرماہ کو دیکھ کر بولی۔ 

سمپل سا ڈیزائن کرنا۔ مہرماہ نے کہا جس پہ اس نے سرہلایا۔ 

میم آپ کے شوہر کا نام؟ بیوٹیشن نے پوچھا 

شاہ۔ مہرماہ نے دور سکندر خان اور حیدر خان کے درمیان کھڑے شاہ میر کو دیکھ کر مسکراکر بتایا جس پہ بیوٹیشن اس کے ہاتھ پہ شاہ میر کا نام لکھنے لگی۔ 

ویسے ہماری شادی کی تقریب میں ہمیں ہی قید کرکے گھروالوں نے بڑی ناانصافی کی ہے۔ سالار نے دکھ بھرے انداز میں شاہ زیب سے کہا جو بیڈ پہ بیٹھا کافی پی رہا تھا اور ساتھ میں لیپ ٹاپ میں بزی تھا۔ 

یہ سب میر کا مشورہ تھا کہ سب تقریبات ایک گھر میں ہو سوائے بارات اور ولیمہ کے اگر شادیان ایک ساتھ ہورہی ہیں تو امی جان بھی اس کی بات مان کر ثانیہ کی والدہ سے بات کی اور اس کو تمہارے گھر لیں آئی۔ شاہ زیب جل کے بولا۔ 

اُس نے تو بہت اچھے سے اپنے سارے بدلے ہم سے لیے ہیں۔سالار دانت پیس کر بولا۔

اور نہیں تو کیا ہم نے ایسے ہی اس کو چھوٹا سمجھ کر انڈرسٹمینٹ کیا تھا۔ شاہ زیب کافی کا آخری گھونٹ بھرتا ہوا بولا۔ 

تم نے کیا تھا میں نے تبھی انڈرسٹمینٹ کرنا چھوڑدیا تھا جب بچپن میں ہی اس کے اندر بڑوں والے جذبات دیکھے تھے۔ سالار نے کہا۔ 

تم نے مجھے تو کبھی نہیں بتایا کہ میر مہرو کو بارہ سال کی عمر میں ہی چاہتا ہے۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

وقت ایسا تھا پھر میر لنڈن چلا گیا مجھے لگا وقتی کشش ہے جو لنڈن کی خوبصورتی دیکھ کر میر مہرو کو بھول جائے گا یہ تھورئی تھا پتا میر یہاں پاکستان سے گیا ہی اِس لیے تھا تاکہ بڑا ہوکر مہرو کو اپنا بناسکیں۔ سالار نے وجہ بتائی تو شاہ زیب مسکرادیا۔ 

میر مہرو سے عشق کرتا ہے جس کی قید میں وہ تاعمر خوشی خوشی رہ سکتا ہے۔ شاہ زیب نے مسکراکر کہا۔ 

عشق قید سے کس کو رہائی ملی ہے جو میر کو ملیں گی۔ سالار شاہ زیب کی بات سن کر بولا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ مسکراتی ہاتھوں میں اپنی مہندی کا رنگ دیکھ رہی تھی جو پہلے کی طرح بہت گہرا آیا تھا تبھی شاہ میر ہاتھ میں تیل کی بوتل لاکر مہرماہ کے پاس آیا اور اس کے پیروں کے پاس بیٹھا۔ 

شاہ مہندی کا رنگ دیکھو کتنا پیارا ہے۔ مہرماہ نے بنا دیکھے کہا۔ 

دیکھائے۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ سیدھی ہوکر اپنے ہاتھ اس کے سامنے کیے جہاں اس کی مہندی سے ہاتھ مزید خوبصورت لگ رہا تھا۔ 

واقع بہت گہرا رنگ ہے۔ شاہ میر نے اس کے ہاتھوں پہ بوسہ دیں کر کہا تو مہرماہ کا دل زور سے دھڑکنے لگا مہرماہ نے اپنا ہاتھ کھنچنا چاہا پر شاہ میر نے اپنی مرضی سے اپنے لب اس کے حنائی ہاتھوں سے ہٹائے۔

تیل کی بوتل کیوں لائے ہو؟ مہرماہ نے شاہ میر کا دھیان خود سے ہٹانے کی خاطر کہا۔ 

آپ کے پیروں پہ مالش کرنی ہے دیکھے کتنے سوجھ گئے ہیں۔شاہ میر نے مہرماہ کے پیروں پہ اپنا ہاتھ پھیرکر کہا مہرماہ نے اپنے پیر کھینچ کر شاہ میر کے ہاتھوں سے اپنے پیر دور کیا

کیا ہوا؟ شاہ میر کو مہرماہ کی حرکت پسند نہیں آئی۔ 

شاہ میں گرم پانی میں اپنے پیر ڈال دوں گی یا خود مالش کروں گی پر تم نہیں کرو۔ مہرماہ نے کہا۔ 

میں کیوں نہیں؟شاہ میر نے سنجیدگی سے پوچھا 

شوہر ہو تم میرے عمر میں بھلے میں تم سے چار سال بڑی ہوں پر تمہارا رتبہ مجھ سے بڑا ہے۔ مہرماہ نے جواب دیا۔ 

میاں بیوی کا برابر کا رتبہ ہے۔ شاہ میر نے کہتے مہرماہ کے پیر اپنی طرف کیے۔ 

شاہ تم نے کیسے سوچ لیا کہ تم اپنے شوز کی لیس مجھے باندھنے نہیں دوگے اور میں تمہیں یہ اپنے پیروں پہ مالش کرنے دوں گی۔ مہرماہ نے دوبارہ اپنے پیر کھینچنے چاہے پر اب شاہ میر کی گرفت مضبوط تھی۔ 

میرے دل نے کہا اور آپ ہاتھ لگانے کی بات کررہی ہے میں تو آپ کے پیروں کو چومنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کروں۔ شاہ میر کی بے باک بات پہ مہرماہ کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا۔ 

بہت بُرے ہوتم۔ مہرماہ نے گھور کر کہا پر شاہ میر مسکراہٹ دبائے آرام سے اس کے پیروں میں مساج کرنے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

آج بارات کا دن تھا جس وجہ سے ہانم بیگم پریشانی سے یہاں وہاں چکر لگاتی ملازموں کو ہدایت کررہی تھی کیونکہ بارات کی تقریب اب ان کے گھر میں منعقد کی گئ تھی جس وجہ سے ڈیکوریشن کا کام بھی وہ دیکھ رہی تھی مہرماہ اپنے کمرے میں تھی شاہ میر لان میں لائٹس وغیرہ کا کام دیکھ رہا تھا جب کی آیان کرسیاں سیٹ کروارہا تھا حیدر خان بھی اپنی بڑی اور اکلوتی بیٹی کی شادی پہ سارے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں رہے تھے یہ پھول اِس سائیڈ پہ لگانے ہیں آپ نے۔ شاہ میر نے کام کرتے آدمیوں سے کہتا جیب سے اپنا موبائل نکالا اور مہرماہ کا نمبر پریس کیا۔ 

ہیلو ماہ آپ کمرے میں ہی ہیں نہ کجھ چاہیے تو بتادے۔ مہرماہ کے کال اٹھاتے ہی شاہ میر سے کہا۔ 

یہ ٹوکرہ اندر لے جانا ہے۔ شاہ میر جو مہرماہ کی بات سننے والا تھا ایک لڑکے کو مٹھائی کا ٹوکرا دیکھا تو جھنجھلاکر کہا دوسری طرف مہرماہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی۔ 

میں کمرے میں ہی ہوں اور جو تم نے میری جاسوسی کے لیے بیٹھا ہے اس کی کڑی نظریں مجھ پہ ہی ہیں۔مہرماہ نے منہ بسورکر کہا تو مسکراہٹ شاہ میر کے چہرے پہ آگئ کیونکہ اس نے صبح سے ثانیہ کی بہن ہانیہ کو سائے کی طرح مہرماہ کے ساتھ رہنے کا حکم دیا تھا جو ہانیہ نے خوشدلی سے قبول بھی کیا تھا جس پہ شاہ میر نے اس کو ڈھیر سارے چاکلیٹس اور چپس دی تھی۔

اچھی بات ہے میں بھی آتا ہوں بس تھوڑا کام ختم ہوجائے۔شاہ میر نے کہا۔ 

ٹھیک ہے کام پہ دھیان دو۔ مہرماہ نے کہا پھر کال بند کی پتا جو تھا  شاہ میر نے کرنی نہیں تھی بند۔ 

باجی مہرو یہ کھائیں۔ہانیہ نے ڈرائے فروٹ کی پلیٹ مہرماہ کے سامنے کی۔ 

کھا کھا کر بھینس تو ہوگئ ہوں اب کیا ہاتھی بن جاٶ۔مہرماہ منہ بناکر بولی۔

بھینس توبہ کریں اتنی پیاری ڈول ہیں آپ۔ ہانیہ مہرماہ کے سرخ بھرے گال کھینچ کر بولی۔ 

دل رکھنے کی باتیں ہیں۔مہرماہ نے شاعرانہ انداز میں کہا تو ہانیہ ہنس پڑی پر فروٹ کھلانے سے باز نہیں شاہ میر کا جو حکم تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕

بارات کے بعد سب اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے شاہ میر بھی مہرماہ کو اپنے کمرے میں لاکر کھانا کھلانے کے بعد دوائی دیکر سونے کا کہتا خود اپنے یونی کا کام کرنا لگا جو بہت رہ گیا تھا پر ابھی مہرماہ کو اپنی طبیعت خراب ہوتی محسوس ہورہی تھی ایک بے چینی سی تھی جو اس کو بے سکون کررہی تھی مہرماہ نے شاہ میر کو دیکھا جو اسٹڈی کے پاس بیٹھا پڑھنے میں محو تھا اس نے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے بارات والے ڈریس میں تھا۔ 

شاہ۔ مہرماہ کو تکلیف بڑھتی ہوئی لگی تو اس نے شاہ میر کو آواز دی تو وہ فورن مہرماہ کے پاس آیا۔ 

ماہ آپ ٹھیک ہیں۔ شاہ میر کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگی مہرماہ کا فق ہوتا چہرہ دیکھ کر۔ 

پ پین ہو ہور ہورہا ہے۔ مہرماہ پیٹ پہ ہاتھ رکھتی کراہ کے بولی۔ 

ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔شاہ میر جلدی سے وارڈوب سے مہرماہ کی شال نکال کر اس کو پہناکر بولا جب کی مہرماہ درد سے دوہری ہوگئ تھی۔ 

چچی جان کو بلاٶ۔مہرماہ نے شاہ میر کے پہنے کُرتے کو مٹھیوں میں جکڑ کر کہا۔ 

بلاتا ہوں ابھی آپ چلیں۔ شاہ میر مہرماہ کو بانہوں اٹھاتا ہوا بولا اس کا دماغ کام کرنا بند ہوگیا تھا مہرماہ کو تکلیف میں دیکھ کر اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مہرماہ کی ساری تکلیف اپنے حصے میں ڈالتا۔شاہ میر مہرماہ کو گاڑی کی بیک سیٹ پہ آرام سے لیٹاتا حیدر خان کے نمبر پہ ایک میسج چھوڑ کر خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آکر گاڑی کا ہارن زور سے بجاکر باہر کھڑے چوکیدار کو گیٹ کُھولنے کا کہا گیٹ کہ کُھلتے ہی شاہ میر گاڑی زن سے بھگاگیا۔ 

اللہ خیر یہ میر کی گاڑی کے ہارن کی آواز تھی نہ۔ ہانم بیگم جو لیٹنے والی تھی ہارن کی آواز سن کر بولی حیدر خان جو شاہ میر کا میسج پڑھ رہے تھے جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ہوسپٹل کے لیے نکلنا ہے مہرو کی طبیعت  بگڑ گئ ہے۔ حیدر خان پریشانی سے بولے۔ 

ٙتو میر اکیلا اس کو لیکر چلاگیا بیوقوفی کی حد ہے۔ ہانم بیگم اٹھتی ہوئی بولی

باتیں کرنے کا وقت نہیں جلدی چلیں۔ حیدر خان نے کہا اور دونوں ہوسپٹل کے لیے نکل گئے میسج پہ شاہ میر نے بتادیا تھا کہ وہ مہرماہ کو پاس والے ہوسپٹل لے جارہا ہے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

ثانیہ شاہ زیب کے کمرے میں بیٹھی کمرے کا جائزہ لیں رہی تھی جو بہت خوبصورت اور عمدہ طریقے سے سیٹ کیا گیا تھا کمرے کا تھیم بلیو کلر کا تھا جہائزی سائیز بیڈ صوفے ڈرینسگ ٹیبل اسٹڈی اور کتابوں کا ریک بھی بلیو تھیم کا تھا ثانیہ ابھی یہ سب دیکھنے میں مگن تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز میں اس کا حلق تک خشک ہوگیا تھا اتنا وقت شاہ زیب کے آفس میں کام کرتے وقت وہ شاہ زیب کے پرفیوم کی خوشبو سے آشنا ہو ہی گئ تھی شاہ زیب چلتا ہوا ثانیہ کے پاس بیٹھ گیا جو سکڑ سمیٹ گئ تھی شاہ زیب مسکراتا ثانیہ کو دیکھنے لگا جو لائٹ ریڈ کلر کے لہنگے میں مناسب میک اپ کے ساتھ معمول سے ہٹ کر حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی شاہ زیب پہلی دفع ثانیہ کو اتنا تیار دیکھا تھا ورنہ تو وہ ہمیشہ سادہ سے حلیے میں بھی اس کا دل دھڑکا دیتی تھی مگر آج وہ فل تیار ہوکر اس کی سیج سجاکر بیٹھی تھی شاہ زیب نے ثانیہ کا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کو سہلانے لگا ثانیہ شاہ زیب کی حرکت پہ جزبز ہوگئ تھی

کیسی ہو؟ شاہ زیب نے پوچھا جس پہ ثانیہ کو حیرت ہوئی مگر وہ قابو پاگئ۔ 

ٹ ٹھیک۔ ثانیہ نے جواب دیا

مجھ سے نہیں پوچھو گی؟ شاہ زیب نے مسکراکر کہا۔ 

آپ کیسے ہیں؟ ثانیہ نے فورن سے پوچھا تو شاہ زیب کی ہنسی نکل گئ ثانیہ خجل ہوتی اپنا جھکا سر مزید جھکادیا۔ 

میں تو بہت خوش ہوں کیونکہ مجھے تم جو ملی ہو۔ شاہ زیب اس کے ہاتھ کی پشت پہ اپنا لمس چھوڑ کر بولا ثانیہ کا دل زور سے دھڑکا اٹھا شاہ زیب کا پہلا لمس محسوس کرکے اس کے وجود کانپ اٹھا تھا۔ 

کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ ثانیہ نے جاننا چاہا کیونکہ شاہ زیب نے اظہار محبت نہیں کیا تھا اور عام لڑکیوں کی طرح اس کے دل نے بھی خواہش کی تھی کے اس کا ہمسفر اس سے اظہارِ محبت کریں۔ 

نکاح کے بعد پوچھنے کی گنجائش تو نہیں پر اگر تم اظہار چاہتی ہو تو  ہاں مجھے  بہت محبت ہے تم سے جب میں نے پہلی دفع تمہیں اپنے کیبن میں دیکھا تھا تب سے ہی میرے دل کو بھا گئ تھی پر میں نے یہ بات ماننے میں وقت لگایا تھا۔ شاہ زیب نے مسکراکر اس کے کانوں میں رس گھولا جس پہ ثانیہ کے چہرے پہ شرمگین مسکراہٹ آگئ تھی شاہ زیب نے دلچسپی سے اس کے چہرے پہ اپنے نام کے رنگ دیکھے تھے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیسی ہے مہرو؟حیدر خان ہانم بیگم ہوسپٹل داخل ہوئے تو شاہ میر سے پوچھنے لگے جو سرخ آنکھوں اور بکھرے حلیے سمیت روم کے باہر چکر لگا رہا تھا جہاں مہرماہ کو اسٹریچر پہ لیں گئے تھے شاہ میر کی آنکھوں کے سامنے بار  بار مہرماہ کا تکلیف زدہ چہرہ آرہا تھا جس سے اس کا دل ڈوب کر اُبھر رہا تھا۔

آپ آپریشن ہوگا۔ شاہ میر بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا

آپریشن کیوں مہرو کی حالت تو ٹھیک تھی اور ڈاکٹر عنایہ نے کہا تھا اس کی نارمل ڈیلیوری ہوگی پھر یہ آپریشن۔ہانم بیگم پریشانی سے بولی۔ 

امی ماہ کی طبعیت بگڑ گئ تھی شاید انہوں نے ایسا کجھ کھالیا تھا جو پریگنسی میں نہیں تھا کھانا ورنہ ڈیلیوری دو دن بعد ہوتی۔ شاہ میر یہاں وہاں چکر لگاتا عجیب انداز میں بولا اس کو رہ رہ کر خود پہ غصہ آرہا تھا کہ اس نے کہاں کوتاہی کی مہرماہ کے معاملے میں جو اس کی یہ حالت ہوگئ تھی

اللہ خیر کریں گا ہمت کرو۔حیدر خان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جس کی بس رونے کی کثر رہ گئ تھی۔ 

ماہ کو پین ہورہا تھا بہت۔ شاہ میر نے بتایا

اب نہیں ہورہا ہوگا ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا ہوگا نیند کا تاکہ اس کو آرام ملے۔ ہانم بیگم نے اس کو تسلی کروائی ورنہ شاہ میر کا حال دیکھ کر ان کو مہرماہ سے زیادہ شاہ میر کی فکر ہورہی تھی۔ 

میں سکندر بھائی کو بتادو۔ حیدر خان موبائل ہاتھ میں لیکر سائیڈ پہ ہوئے ہانم بیگم پاس پڑی بینچ پہ بیٹھ گئ۔ 

ڈاکٹر ابھی تک باہر کیوں نہیں آئی۔ شاہ میر ہانم بیگم سے پوچھنے لگا بیس منٹ ہوگئے تھے پر کمرے کا دروازہ نہیں کُھولا تھا اِس لیے شاہ میر کو گھبراہٹ ہورہی تھی۔ 

میر شانت رہو مہرو ٹھیک ہوگی۔ہانم بیگم بولی جو ٹہلنے میں لگا ہوا تھا۔ 

اتنا وقت ہوگیا ہے کجھ بتا ہی دیں۔شاہ میر تیز آواز میں بولا

میر کنٹرول کرو خود پہ ڈاکٹرز کو اپنا کام کرنے دو بچے کی پیدائش میں وقت تو لگے گا نہ۔ حیدر خان نے شاہ میر سے کہا جس پہ شاہ میر نے اپنا سرجھٹکا۔ 

حیدر مہرو کہاں ہیں؟سکندر خان سارہ بیگم کے۔ ساتھ آتے ہوئے بولے۔ 

آپریشن چل رہا ہے۔ حیدر خان نے بتایا۔ 

آپریشن۔ سارہ بیگم پریشان سی بولی۔ 

بھابھی بس دعا کریں خیر ہو بچے کی طرف بھی اور مہرو کی طرف بھی۔ حیدر خان نے کہا ان کی بات پہ شاہ میر مسجد کی جانب چلاگیا کیونکہ یہاں رہ کر اس کو بے چین ہی رہنا تھا اس لیے سکون اور مہرماہ کی سلامتی کے لیے اس نے اپنا رخ مسجد کی جانب کرنے کا سوچا

زیب کو ہم نے انفارم نہیں کیا۔ سارہ بیگم بیٹھتی ہوئی بولی

سہی کیا بچے تھک گئے ہوگے کل آجائے گے۔ ہانم بیگم نے کہا۔ 

آپ ولیمہ کجھ وقت کے لیے پوس پون کردے۔ حیدر خان نے سکندر خان سے کہا جس پہ انہوں نے سر کو جنبش دی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

ثانیہ میں ہوسپٹل جارہا ہوں۔ شاہ زیب نے ثانیہ کو جاگتا ہوا دیکھا تو بتایا

ہوسپٹل خیریت؟ثانیہ نے تعجب سے پوچھا

ہاں مہرو کی طبیعت رات میں خراب ہوگئ تھی مجھے اب بتایا ہے انہوں نے۔ شاہ زیب گاڑی کی چابی اپنا سیل فون اٹھاتا ہوا بتانے لگا۔ 

میں بھی چلوں گی آپ کے ساتھ۔ثانیہ اٹھتے ہوئے بولی اب تو اس کا مہرماہ کے ساتھ دو رشتے تھے وہ کیسے اس کو ایسے وقت میں اکیلا چھوڑتی۔ 

اِس حال میں؟شاہ زیب نے پوچھا کیونکہ ابھی جاگنے کی وجہ سے ثانیہ کے بال بکھرے ہوئے تھے نائٹ سوٹ بھی شکن زدہ ہوگیا تھا۔ 

میں جلدی فریش ہوجاتی ہوں۔ ثانیہ نے لب دانتوں کے بیچ دباکر کہا۔ 

جلدی کرنا۔ شاہ زیب نے گھڑی پہ وقت دیکھ کر کہا ثانیہ سر ہلاتی واشروم کی طرف بھاگی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

ساری رات شاہ میر نے کس ضبط سے گُزاری یہ بس وہ جانتا کیونکہ رات میں ڈاکٹر نے کہا کہ آپریشن فجر کے وقت ہوگی ابھی مہرماہ پہ بیہوشی کی دوا اثر نہیں کررہی شاہ میر ان کی بات سن کر بس ان کو دیکھتا رہ گیا تھا۔ 

میر بیٹا آرام دو اپنی ٹانگوں کو۔ سکندر خان نے شاہ میر سے کہا جس نے پوری رات نہ خود کو چین دیا تھا نہ اپنی ٹانگوں کو سارا وقت اس نے روم کے باہر چکرا لگانے میں گزارا تھا۔ 

ماہ کی خبر مل جائے آرام خودبخود مل جائے گا۔ شاہ میر بنا ان کی طرف دیکھ کر بولا اِس وقت اس کی کیا حالت تھی یہ وہ خود اچھے سے جانتا تھا۔ 

کجھ کھالوں۔ہانم بیگم نے سینڈوچ اس کی طرف بڑھایا جو ابھی حیدر خان ان سب کے لئے لائے تھے۔ 

امی پلیز فلحال مجھے کجھ نہ کہے۔ شاہ میر منت بھرے لہجے میں بولا تو پھر کسی میں ہمت نہیں ہوئی کے کجھ کہے اس کو۔ 

اسلام علیکم۔ شاہ زیب کوریڈور میں آتا ان کو سلام کیا ساتھ میں ثانیہ بھی تھی

وعلیکم اسلام۔ سب نے سلام کا جواب دیا 

کیسی کنڈیشن ہے مہرو کی؟ شاہ زیب شاہ میر پہ نظر ڈالتا ان سے پوچھنے لگا اس سے پہلے کوئی جواب دیتا بچے کی آواز پہ سب اس کی جانب متوجہ ہوئے 

یااللہ تیرا شکر۔ ہانم بیگم  اور سارہ بیگم بے اختیار بولی تو سکندر خان اور حیدر خان نے بھی مسکراکر ایک دوسرے کو دیکھا شاہ میر کے دل کو کجھ قرار آیا۔ 

مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔ نرس کمرے سے باہر آتی مسکراکر بولی شاہ زیب جلدی سے ان کے ہاتھ سے بچہ لیا جو گلابی کمبل میں لپیٹا ہوا باقی سب شاہ زیب کی جلدبازی پہ گھور کر رہ گئے

میری وائف کیسی ہے؟ شاہ میر بچے پہ نظر ڈالیں بغیر مہرماہ کے لیے فکرمند ہوا۔ 

وہ بلکل ٹھیک ہے پر ابھی ہوش میں نہیں۔نرس نے جواب دیا۔ 

میر یہ تو بلکل تمہارا عکس ہے۔ ہانم بیگم خوبصورت بچے کو دیکھتی ہوئی بولی جو دودہ جیسی رنگت نین نقش میں بلکل شاہ میر کی کاپی تھا۔ 

چچی جان ابھی تو دس منٹ کا بھی بچہ نہیں ہوا اور آپ نے میر کے جیسا کردیا اللہ نے کریں وہ اُس جیسا سڑا ہوا ہو یہ تو میری اور مہرو کی طرح ہنس مکھ ہوگا۔ شاہ زیب بچے کی ننہی سی پیشانی چومتا ہوا بولا سارہ بیگم نے شاہ زیب کے کندھے پہ چپت لگائی۔ 

میر بھی اپنی پیدائش وقت ایسا تھا تبھی میں نے کہا۔ ہانم بیگم نے کہا

آنکھیں بند ہیں وہ کھلے تو آنکھوں کا رنگ پتا چلیں کیسا ہے۔ ثانیہ نے اس کی بند آنکھوں کو دیکھ کر کہا۔ 

میر اپنے بچے کو گود میں تو اٹھاٶ۔سارہ بیگم نے شاہ میر سے کہا جس کی نظریں بند دروازے پہ تھی سب لوگوں نے بچے کو پیار کیا سوائے شاہ میر کے۔ 

ماہ اور میں ایک ساتھ دیکھے گے۔ شاہ میر نے جواب دیا تو سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ 

روم میں شفٹ ہونے کے بعد آپ اپنی بیگم سے مل سکتے ہیں۔ڈاکٹر شاہ میر کے پاس آتی بولی

کب شفٹ کریں گے؟ شاہ میر نے بے قراری سے پوچھا۔ 

بس کجھ دیر بعد۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہ اب بس کردیں۔ شاہ میر اکتاہٹ بھرے لہجے میں مہرماہ سے کہا جو کبھی اپنے بچے کے ننہے ہاتھ چوم رہی تھی تو کبھی اس کا چہرہ مہرماہ کو جیسے ہی ہوش آیا تو سب باری باری ملنے آئے پرائیویٹ روم ہونے کی وجہ سے بس ایک ایک ہی مل سکتا تھا پر یہاں پہلے سکندر خان سارہ بیگم مہرماہ سے مل کر ڈھیر ساری دعائیں دی اور پیار کیا پھر حیدر خان ہانم بیگم آئی جو اپنی خوشی کا اظہار کیا اور اس کو بہت ساری ہدایتیں کی پھر آخر میں شاہ زیب ثانیہ کے ہمراہ داخل ہوا جس سے مہرماہ ناراض تھی اِس لیے بس اس نے ثانیہ سے بات کی۔جب کی اتنے سارے وقت میں شاہ میر شکرانے کے نفل ادا کرنے کے غرض سے مسجد میں تھا پر جب وہ مہرماہ کے پاس آکر اپنی ساری بے چینی بے قراری بتانا چاہتا پر اس کے ارمان ہی رہ گئے کیونکہ مہرماہ پوری طرح اپنے بچے میں گم تھی شاہ میر کے لیے چہرے پہ نو لفٹ کا بورڈ تھا۔ 

شاہ یہ دیکھو ہمارا بچہ کتنا پیارا ہے اِس کی آنکھیں دیکھو بلکل میری آنکھوں کی طرح ہے۔ مہرماہ خوشی سے چور لہجے میں شاہ میر سے بولی اور اپنے بچے کی گول مٹول آنکھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں پہ بوسہ دیا۔ 

ماہ اب اگر ایک اور بوسہ دیا نہ تو میں نے اِس کو باہر پھینکنا ہے۔ شاہ میر مٹھیاں بھینچتا گھور کر اپنے بچے کو دیکھا جیسے اپنا نہ ہو کسی اور کا ہو جب کی مہرماہ تو شاک میں شاہ میر کو دیکھنے لگی اور ساتھ میں اپنے بچے پہ گرفت مضبوط کی شاہ میر پہ کوئی بھروسہ نہیں تھا جو جیلسی میں آکر ایسا کر گزرتا۔ 

شاہ تمہارا دل نہیں کانپا یہ کہتے ہوئے۔مہرماہ نے تاسف سے شاہ میر کو دیکھ کر کہا

کانپنے کا پتا نہیں میرے دل میں شعلے ضرور بھڑک رہے ہیں یہ دیکھ کر کہ آپ مجھ سے زیادہ اِس ایک انچ کے بچے کو توجہ دیے رہی ہیں۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا

تمہارا کوئی حال نہیں۔مہرماہ نے نفی میں سرہلاکر کہا اور مسکراکر اپنے بیٹے کو دیکھا جو آنکھیں کھول کر ان کو بڑی بڑی کرتا کبھی اسے تو کبھی شاہ میر کو دیکھتا آخر اب شاہ میر کو بھی خیال آگیا اِس لیے مہرماہ سے لیکر اپنی گود میں اٹھایا۔ 

کتنا ہلکہ ہے۔ شاہ میر کو سکون محسوس ہوا اپنی اولاد کو کا لمس ہاتھوں میں محسوس کیا تو۔ 

تم خوامخواہ جیلس ہورہے تھے۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا

وہ تو میں اِس لیے ہوا کیونکہ آپ نے اتنے وقت میں مجھے پیار نہیں کیا جتنا اِس کو کیا۔ شاہ میر نے کہا اور بچے کی پیشانی پہ اپنا لمس چھوڑا جس پہ وہ مسکرایا

آآ شاہ یہ مسکرایا۔ مہرماہ خوش ہوکر بولی

اپنے باپ کا بوسہ پسند آیا اِس کو۔ شاہ میر ہنس کر بولا تو مہرماہ نے شاہ میر کو دیکھا جو دو دن پُرانے جوڑے میں ملبوس تھا بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں پہ سرخ سوجھی ہوئے تھی جو نیند نہ لینے کی وجہ سے تھی۔ مہرماہ کو شاہ میر پہ  ترس اور پیار دونوں آیا جو اس کی وجہ سے خود سے بے نیاز بیٹھا تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماشااللہ کتنا پیارا بچہ ہے تمہارا۔ حور مسکراکر مہرماہ کے بیٹے کو اپنی گود میں لیکر بولی

نام کیا سوچا ہے۔ حور نے پوچھا۔ 

مرجان میر۔ مہرماہ نے چہکتے ہوئے بتایا۔ 

مرجان تو لڑکیوں کا نام ہوتا ہے۔ شاہ میر جو گھر فریش ہونے گیا تھا اب واپس آیا تو مہرماہ کی بات سن کر اپنے کان کی لو کھجاکر بولا جس پہ حور نے اپنی ہنسی ضبط کی۔ 

لڑکوں کا بھی ہوتا ہے۔ مہرماہ نے خونخوار نظروں سے شاہ میر کو دیکھا جو سٹپٹاکر یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔ 

ڈسچارج کب ملے گا تمہیں ؟حور نے پوچھا 

دو تین لگے گیں۔ مہرماہ نے بتایا

عقیقہ  رکھوگی نہ۔ حور نے پوچھا 

سنت ہے ضرور رکھے گے۔ مہرماہ نے کہا

مرجان کو مجھے دو۔ شاہ میر کو اپنے بیٹے کو مرجان کہنے پہ جانے کیوں ہنسی آرہی تھی پر خود پہ جبر کیے اس کو کنٹرول کرگیا۔ 

شاہ باقی سب کہاں ہیں؟مہرماہ نے حور کے جانے کے بعد شاہ میر سے پوچھا جو سوئے ہوئے مرجان کو اب بی بی کاٹ میں لیٹا رہا تھا۔ 

میں نے سب کو گھر بھیج دیا تاکہ آرام کریں دو دنوں سے یہاں تھے جب کی چچی جان تو آپ کے ساتھ ہونا چاہتی تھی پر میں نے کہا ابھی آپ گھر جاکر آرام کریں۔ شاہ میر مہرماہ کے پاس آتا ہوا بتانے لگا۔ 

تم بھی تو بے سکون ہو اور سوتے بھی نہیں۔مہرماہ فکرمند ہوتی ہوئی بولی۔ 

میرا سکون آپ ہیں۔شاہ میر مہرماہ کا ہاتھ چومتا ہوا بولا جہاں ڈرپ کا نشان تھا۔ 

یہاں بیٹھو۔ مہرماہ نے اشارے سے بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ آنے کا کہا 

آپ کے ٹانکے کُھل نہ جائے۔شاہ میر نے خدشہ بیان کیا کیونکہ روم میں سنگل بیڈ تھا۔ 

کجھ نہیں ہوتا۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر مہرماہ کے سرہانے آیا۔ 

ہمارا خیال رکھنے کے لیے تمہارا ٹھیک ہونا بھی ضروری ہے میں دیکھ رہی ہوں تم بلکل خود سے لاپرواہ ہوگئے ہو اگر ایسا رہا تو بیمار ہوجاٶگے پھر میرا اور مرجان کا خیال کون رکھے گا میری اپنی ایسی حالت نہیں جو تمہاری خدمت کرسکوں۔مہرماہ شاہ میر کی طرف چہرہ کیے آہستہ آہستہ بولنے لگی۔ 

آپ کیا چاہتی ہیں؟شاہ میر مہرماہ کے گال پھر ماتھے پہ پیار کرتا ہوا بولا۔ 

یہ میرا کندھا ہے اِس پہ اپنا سر رکھ کر آنکھیں بند کرو۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر سیدھا ہوکر بیٹھا پھر مہرماہ کا سر اپنے بازوں پہ رکھا جب کی خود اس نے بیڈ سے ٹیک لگالی مہرماہ حیران سی شاہ میر کی کاروائی دیکھ رہی تھی

آپ کا نازک کندھا درد کرجاتا اس لیے میں ایسے آرام کروں گا۔ شاہ میر نے کہا تو مہرماہ کے چہرے پہ تبسم کِھلا اس نے ایسے ہی اپنی آنکھیں بندکرلی تو شاہ میر نے بھی آنکھیں موندلی تین دنوں کی بے آرامی اور پاس اپنے عشق کی موجودگی میں وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں اُترگیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ کو ہسپتال سے ڈسچارج مل گیا تھا جس سے آج وہ سب کے ساتھ گھر واپس آئی تھی جہاں پری آیان اس کے ویلکم کے لیے کھڑے تھے۔ 

ویلکم بیک ٹو ہوم بھابھی۔ پری مہرماہ کے پاس آتی بولی شاہ میر اس کے پیچھے کھڑا تھا اور مرجان اس کی بانہوں میں تھا۔

شکریہ۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا

ہم نے بہت اچھے سے کمرہ سیٹ کیا ہے۔ آیان نے پرجوش ہوکر بتایا

وہ تو ہم نے کیا تھا۔ مہرماہ نے کہا

ہم نے الگ روم تیار کیا ہے۔ پری نے بتایا۔ 

مہرو اندر چل کر بیٹھو  زیادہ کھڑے رہنا ٹھیک نہیں۔ہانم بیگم مہرماہ سے کہا جس پہ وہ سرہلاتی اندر آئی۔

بھائی یہ مجھے دے۔ آیان نے شاہ میر سے مرجان لینا چاہا

خیال سے سویا ہوا ہے اٹھ گیا تو ماہ کو تنگ کرے گا۔ شاہ میر مرجان آیان کے حوالے کرتا ہوا بولا۔ 

بے فکر رہے میں اپنے بھتیجے کو کمرے میں لیں جارہا ہوں۔ آیان نے کہا تو شاہ میر اندر آکر اپنے کمرے میں گیا۔ 

تم بھی کمرے میں جاکر آرام کرتی شام میں ویسے بھی مہمانوں نے آنا ہے۔ ہانم بیگم نے مہرماہ سے کہا جو صوفے پہ پشت ٹکائے بیٹھی ہوئی تھی۔ 

کونسے مہمان؟مہرماہ نے پوچھا 

نادیہ کی فیملی اور بھابھی سارہ یہ سب۔ ہانم بیگم نے بتایا۔ 

امی تو ابھی گھر گئ ہیں۔ مہرماہ نے بتایا۔ 

ہاں پر تم آرام کرو میر سے بھی کہو کے یونی جانے پہ دھیان دے۔ ہانم بیگم نے کہا تو مہرماہ نے اثبات میں سرہلایا۔ 

میں بھی باپ بننے والا ہوں۔ ریان نے فون پہ شاہ میر کو بتایا

ماشااللہ مبارک ہو۔ شاہ میر نے مسکراکر کہا

خیر مبارک تمہارے بیٹے کی تصویر دیکھی میں نے بہت پیارا ہے۔ ریان نے بتایا

امی کہتی ہیں میرے جیسا ہے پر آنکھیں ماہ پہ ہیں۔

ہاں بس دل تمہارے جیسے نہ ہو اس کا۔ شاہ میر کی بات سن کر ریان شرارت سے بولا

اِس بات سے تمہارا کیا مطلب؟شاہ میر کو سمجھ نہیں آیا

اگر دل تمہاری طرح ہوگا تو اس کا بھی خود سے بڑی عمر پہ آئے گا اب ہر ایک کی قسمت میں محبت کا ملنا نہیں ہوتا نہ تم خوش قسمت نکلے ضروری تو نہیں تمہارا بیٹا بھی اِس معاملے میں خوش قسمت ثابت ہو پر مجھ سے زیادہ تم بہتر جانتے ہو بھابھی مہرماہ تمہیں آسانی سے نہیں ملی بہت تڑپے تھے تم اُس کے لیے۔ ریان نے سادہ لہجے میں کہا پر جانے کیوں شاہ میر کو اُس کی کہی بات پہ چُپ لگ گئ تھی۔

ایک ہفتہ شاہ زیب نے ثانیہ کی منمانی کیسے برداشت کی تھی وہ بس شاہ زیب خود جانتا تھا ثانیہ دو دنوں کا کہتی ہفتہ بھر غائب تھی جس پہ شاہ زیب کجھ نہیں کہا پر آج اُس نے سوچ لیا تھا وہ آفس نہیں آئی تو وہ اُس کے گھر پہنچ جائے گا شاہ زیب ڈریسنگ کے پاس کھڑا ہوتا خود پہ نظر ڈالی پھر اپنا سیل فون اٹھا کر ایک نمبر پریس کیا جو تین سے چوتھی بیل پہ رسیو کیا گیا تھا۔ 

ہیلو۔ ثانیہ کی آواز سن کر شاہ زیب نے گہری سانس بھری۔ 

بنا آفس میں کسی کو اِن فارم کیے تم ہفتہ بھر لیو پہ کیسے رہ سکتی ہو۔ شاہ زیب سنجیدگی سے بولا تو ثانیہ کے گلے پہ گلٹی اُبھر کر معدوم ہوئی۔ 

وہ سر میری ماں کی طبیعت خراب تھی جس وجہ سے میں نہیں آسکی۔ ثانیہ نے وضاحت دی جو سچ تھی کیونکہ کجھ دنوں پہلے ہی ان کی طبیعت خراب رہنے لگی کبھی بخار ہوتا کبھی جوڑوں میں درد کبھی کھانسی تو کبھی کجھ اور جس سے ثانیہ کے دماغ سے ہربات فراموش ہوچکی تھی۔ 

اوو اب کیسی طبیعت ہے آپ کی والدہ کی؟ ثانیہ کی بات پہ شاہ زیب کجھ نارمل ہوا۔ 

اللہ کا شکر ہے اب بہتر ہیں۔ ثانیہ نے کہا۔ 

ٹھیک ہے جب وہ مکمل طور پہ صحتیاب ہوجائے تو تم آفس آجانا بہت سے کام ہیں جو تم نے کرنے ہیں۔شاہ زیب گھمبیر آواز میں بولا تو ثانیہ کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں چمکنے لگی۔

جی سر۔ ثانیہ نے کہا شاہ زیب ایک دو اور باتیں کرنے کے بعد کال کاٹ دی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ہمہیں تو کوئی اعتراض نہیں سالار اپنا بچہ ہے اور ہمارے لیے اُس سے بڑی کیا بات ہوگی کہ پری اپنی پھپھو کے گھر میں رہے گی غیروں کا کیا اعتبار۔حیدر خان نادیہ بیگم کی بات سن کر بولے جو آج ان سے سالار کے رشتے کی بات کرنے آئی تھی ڈرائینگ روم میں سب موجود تھے جو حیدر خان کی بات پہ بہت خوش ہوئے تھے سالار کی بتیسی تو اندر جانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ 

تو کب کی تاریخ طے کریں ہم؟ نادیہ بیگم مصرت بھرے لہجے میں بولی۔ 

نادیہ اتنی بھی کیا جلدی آرام سے ہوجائے گا سب ویسے بھی مہرو کا چھٹا مہینہ ہے اچھا ہے بچہ آجائے پھر شادی کی تیاریاں کریں گے۔ ہانم بیگم ان کی جلدبازی پہ مہرماہ کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

دراصل میں جلدی سالار کی شادی کرنا چاہتی ہوں مہرو کے بچہ کی پیدائش میں تو ابھی وقت ہے۔ نادیہ بیگم مسکراکر بولی 

چچی جان آپ لوگ تاریخ رکھ لیں اچھا ہے پری کی شادی بھی جلد ہوجائے تو ابھی تو میں آپ کی مدد بھی کرواسکتی ہوں پھر تو ناممکن سی بات ہے۔ مہرماہ نے شرارت سے کہا تو سب ہنس پڑے۔ 

آپ کو ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے ناکہ کام کرنے ڈاکٹر نے خاص طور مجھے کہا تھا کہ آپ وزنی چیزیں نہیں اٹھائے گی اور نہ خود کو تھکائے گی۔ شاہ میر جو اب تک خاموش تھا مہرماہ کی مدد والی بات سن کر بول اٹھا۔ 

میر کا بس نہیں چل رہا ورنہ مہرو کے ساتھ پریگنسی کی دوا بھی کھالیں۔شاہ میر کی بات پہ شاہ زیب بڑبڑیا جب کی اس کی بات پہ پاس بیٹھے آیان کو پانی پیتے زبردست قسم کا اچھو لگا تھا جس سے شاہ زیب گڑبڑا گیا تھا۔ 

آیان تم ٹھیک ہو؟ ہانم بیگم فکرمند ہوئی اس کی لال ہوتی رنگت دیکھ کر جو کھانس نے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ 

جی امی جان میں ٹھیک ہوں۔ آیان ایک نظر شاہ زیب پہ ڈالتا ہوا بولا۔ 

تم لوگوں نے منتھلی چیک اپ کے لیے کب جانا ہے؟ سکندر خان نے شاہ میر سے پوچھا۔ 

آج شام چار بجے ماہ کا اپائیمنٹ ہے۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

ٹھیک ہے تو ہم تاریخ طے کرلیتے ہیں ویسے بھی نیک کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ حیدر خان نے کہا تو سب نے سریلایا۔ 

اِس مہینے کی آخر تاریخ پہ فنکشن شروع کرتے ہیں۔نادیہ بیگم نے کہا۔ 

پہلے شادی کی ساری تیاریاں کرلیتے ہیں کپڑے جیولری اور بھی بہت سی ضروری چیزیں ہیں جس میں وقت لگ جائے جب سب شاپنگ ہوجائے تو ہم شادی کے فنکشن شروع کردے گے کیونکہ تب مہرماہ کی ڈیلیوری کے دن بھی کم رہے گے۔ ہانم بیگم کجھ سوچ کر بولی

ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا ان چیزوں میں بھی وقت تو لگے گا۔ نادیہ بیگم ان کی بات پہ متفق ہوتی ہوئی بولی۔ 

میں آپ سب سے کجھ کہنا چاہتا ہوں۔ شاہ زیب اچانک سے بولا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

میں چاہتا ہوں میری شادی بھی سالار کے ساتھ ہو۔ شاہ زیب کی بات پہ سب حیرانکن نظروں سے اس کو دیکھنے لگے۔ 

تمہاری ماں نے تو ابھی تک کوئی لڑکی نہیں دیکھی تو شادی کس سے کروگے۔ سکندر خان نے کہا

لڑکی ماں کے بیٹے نے دیکھ لی ہے آپ بس ان کے گھر رشتہ لیں جائے۔شاہ زیب آرام سے بولا 

زیب تم مجھ سے بات نہ کرنا اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی۔مہرماہ غصہ سے شاہ زیب سے بولی تو شاہ زیب سٹپٹاگیا اپنی بات کہتے وقت وہ مہرماہ کے ری ایکشن کو فراموش کربیٹھا تھا۔ 

مہرو میں بتانے والا تھا۔ شاہ زیب نے وضاحت کرنی چاہی۔ 

جی بتا تو دیا۔مہرماہ کہتی جلدی کھڑی ہوئی تو اس کے پیٹ میں ہلکا سا درد ابھرا اس نے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھا شاہ میر نے مہرماہ کے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھے تو اس کے پاس کھڑا ہوا۔

آرام سے ماہ آپ اپنا خیال بلکل نہیں رکھتی۔ شاہ میر فکرمندی سے بولا جب کی سب اب مہرماہ کے پاس آئے تھے۔ شاہ میر نے آرام سے مہرماہ کو دوبارہ بیٹھایا۔ 

مہرو جانتی ہوں یہ نازک وقت ہوتا ہے پھر بھی اتنی لاپروائی۔سارہ بیگم نے اس کو گھڑکا۔ 

چچی جان پلیز ماہ کو پہلے ہی پین ہورہا ہے۔شاہ میر کو سارہ بیگم کا مہرماہ سے ایسے بات کرنا پسند نہیں آیا جب کی اتنی سنجیدہ حالت میں بھی شاہ میر کی بات پہ مسکرائے بنا نہیں رہ پائے۔ 

میر تم مہرو کو اندر کمرے میں لیں جاوٴ تاکہ آرام کریں۔ ہانم بیگم نے کہا جس پہ شاہ میر نے سرہلایا۔ 

چلیں۔ شاہ میر نے مہرماہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا پر مہرماہ نے کجھ نہیں کہا کیونکہ اس کو اپنی پسلی کی جگہ بہت درد محسوس ہورہا تھا جس میں وہ اٹھنے کی سکت نہیں کرپارہی تھی مہرماہ نے اُس وقت کو کوسا جب وہ جلدی سے کھڑی ہوئی تھی۔شاہ میر مہرماہ کی حالت سمجھتا بنا کسی پہ دھیان دیئے مہرماہ کو اپنے بانہوں میں بھرا جس پہ سکندر خان،حیدر خان،شاہ زیب،سالار نے اپنا چہرہ جھکادیا تھا جب کی آیان کا منہ حیرت سے کُھل گیا تھا نادیہ بیگم نے اپنی ہنسی دبائی جب کی سارہ بیگم، ہانم بیگم خوامخواہ شرمندہ ہوگئ تھی ان سب کے ری ایکشن سے بے نیاز شاہ میر بس مہرماہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں وہ درد برداشت میں ہلکان ہورہی تھی مہرماہ نے شاہ میر کے چہرے پہ اپنے لیے پریشانی کے تاثرات دیکھے تو اس کو رلیکس کرنے کی خاطر زبردستی مسکرائی اور شاہ میر کے سینے پہ سرٹکادیا پر شاہ میر مطمئن نہیں ہوا تھا ایسے ہی وہ مہرماہ کو کمرے میں لایا اور اس کو بیڈ پہ لیٹایا خود وہ بلکل پاس بیٹھایا۔

زیادہ پین ہے تو ڈاکٹر کو کال کروں؟ شاہ میر آرام سے مہرماہ کے وجود سے شال الگ کرتا ہوا بولا۔ 

نہیں شاہ میں ٹھیک ہوں شام میں تو ویسے بھی جانا ہے نہ۔ مہرماہ نے کہا۔ 

پر ابھی جو آپ کو تکلیف ہے اس کا کیا؟ شاہ میر مہرماہ کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ 

مجھے پین کلر دو تھوڑا درد ہے ٹھیک ہوجائے گا۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر جلدی سے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے فرسٹ ایڈ بوکس نکال کر اس میں سے ایک پین کلر نکالی جگ میں پانی کا گلاس بھرا پھر مہرماہ کو آرام سے اٹھایا اور پین کلر دیں کر اس کے پاس تکیہ درست کیے۔ 

یہ بچہ ہوجائے پھر دوبارہ آپ کوئی بچہ نہیں کریں گی۔ شاہ میر مہرماہ کے پیٹ میں پاتھ رکھتا ہوا بولا جس سے سن کر مہرماہ کی ہنسی نکل گئ۔ 

یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں ویسے بھی ایسی حالت میں ہر لڑکی ایسی تکلیف سے گزرتی ہے۔ مہرماہ نے کہا

جو بھی پر مجھ سے نہیں برداشت ہورہی آپ کی تکلیف۔شاہ میر نے کہا تو مہرماہ نے بیڈ کی دوسری طرف شاہ میر کو آنے کا کہا تو شاہ میر وہاں آگیا مہرماہ نے شاہ میر کے بازوں پہ سرٹکایا جس پہ شاہ میر مسکرایا اور ساتھ میں اس کی بلو آنکھیں بھی۔ 

شاہ کیا تم نہیں چاہتے ہمارے ڈھیر سارے بچیں ہو۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر نے منہ بگاڑا۔ 

یہ ایک برداشت کرلوں گا ڈھیر ساروں کی ضرورت نہیں ۔شاہ میر نے کہا تو مہرماہ نے گھور کر اس کو دیکھا۔ 

ماہ مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ اتنی تکلیف سہے گی ورنہ میں اِس کو بھی آنے نہیں دیتا۔ شاہ میر نے صاف گوئی سے کہا مہرماہ کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں۔ 

مجھے تو تین چار بچے چاہیے۔ مہرماہ نے آرام سے کہا۔ 

ماہ آپ کے لیے میں کافی ہوں جیسے میرے لیے آپ اِس لیے بچوں کا اب نہ سوچے ایک بہت ہے میں برداشت نہیں کروں گا آپ کی توجہ میرے علاوہ کسی اور پہ ہو۔ شاہ میر کا انداز جنونی ہوگیا تھا۔ 

وہ کسی نہیں ہمارے بچے ہوگے۔ مہرماہ نے باور کروانا چاہا۔ 

جو بھی۔ شاہ میر بنا اثر لیے بولا مہرماہ بحث کیے بنا بس خاموش رہی شاہ میر نے اپنا سر مہرماہ کے سر سے ٹکالیا۔ 

یہ مجنوں کی اولاد میرے گھر کیسے پیدا ہوئی۔ ہانم بیگم بولی۔ 

آپ کو نہیں پتا ورنہ حیدر بھی جوانی میں ایسے تھا۔ سکندر خان نے حیدر خان کو چھیڑا جس پہ ان کی سٹی گم ہوئی تھی۔ 

بھائی مذاق کیوں کررہے ہیں۔حیدر خان نے خود پہ ہانم بیگم کی تیکھی نظریں محسوس کی تھی ہڑبڑاکر بولے باقی سب دلچسپی سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ 

مذاق کہاں کیا تم نہیں تھے کالج میں کیسے ہر روز نئ گرلفرینڈ ہوا کرتی تھی جن کے لیے کبھی تم شاعری کرتے تو کبھی گانا گاتے میر تو پھر بھی مہرو کے لیے پاگل ہے۔ سکندر خان نے حیدر خان کا پھانڈا پھوڑا اِس وقت حیدر خان کو سکندر خان اپنا بھائی نہیں بلکہ جانی دشمن لگا

میرے لیے تو کبھی تعریف کا ایک لفظ نہیں بولا پر کالج میں لڑکیوں کے لیے شعرو شاعری کرتے رہے ہیں۔ ہانم بیگم جل بھن کے بولی۔ 

بیگم بھائی مذاق کررہے ہیں۔حیدر خان نے کمزور سی دلیل پیش کی مگر ہانم بیگم ان کو گھوری سے نوازتی اٹھ گئ حیدر خان کی شکل دیکھ کر سب کا قہقہقہ گونج اٹھا جس پہ حیدر  خان کو بھی پرانے دن یاد آگئے تو ہنس پڑے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اماں سے کیسے بات کروں؟ ثانیہ چھت پہ چکر لگاتی پریشانی سے بولی بہت دنوں سے وہ زبیدہ بیگم سے بات کرنا چاہتی تھی شاہ زیب کے بارے میں پر وقت نہیں مل رہا تھا اور جب وقت مل رہا تھا تو ہمت نہیں ہورہی تھی آج اُس کو ایک ماہ ہوگیا تھا آفس نہیں گئے ہوئے جس پہ زبیدہ بیگم نے بہت بار پوچھا اور آفس جانے کا بھی کہا کہ ورنہ نوکری چلی جائے گی پر اس نے ان کو مطمئن کیا تھا کہ بوس نے کہا تھا جب تک آپ کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی چھٹی کرسکتی ہیں انہوں تب بھی کہا وہ اب ٹھیک ہیں پر ثانیہ نہیں گئ اس کو پتا تھا شاہ زیب جواب مانگے گا تو وہ کیا جواب دیتی وہ اپنی ماں سے بات کرنے سے پہلے شاہ زیب سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بہت سوچ بے چار کے بعد ثانیہ نے گہری سانس لی اور اپنے قدم زبیدہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھائے۔ 

ثانیہ کیا ہوا بیٹا؟زبیدہ بیگم نے ثانیہ سے پوچھا جو کمرے میں آتے ان کو دیکھ رہی تھی۔ 

اماں آپ سے کجھ بات کرنی تھی۔ ثانیہ نے کہا

کرو۔ زبیدہ بیگم نے کہا

میرے جو بوس ہیں نہ۔ ثانیہ نے بس اتنا کہا

اس نے جاب پہ آنے کا کہا ہوگا میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی میں اب ٹھیک ہوں تمہیں کام پہ جانا چاہیے۔ زبیدہ بیگم اندازہ لگاتی ہوئی بولی

یہ بات نہیں ہے اماں۔ ثانیہ نے کہا

پھر کیا بات ہے؟ زبیدہ بیگم نے پوچھا

وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ثانیہ نے بتایا تو وہ حیرت انگیز نظروں سے ثانیہ کو دیکھنے لگی ثانیہ نے اپنا سرجھکادیا۔ 

ثانیہ اتنے بڑی کمپنی کا مالک تجھ سے کیوں شادی کرے گا۔ زبیدہ بیگم نے کہا

اماں وہ کہتے ہیں اسٹیٹس نہیں دیکھا جاتا شادی کے لیے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے ان کا اخلاق ان کا کردار معائنے رکھتا ہے بہترین ہمسفر کا ملنا اسٹیٹس سے نہیں ہوتا کیونکہ پئسوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا پئسا ہاتھوں کی میل ہے کب کہاں پھسل جائے پتا نہیں چلتا۔ثانیہ کو کجھ دن پہلے شاہ زیب کی کال پہ کہی بات یاد آئی تو کہا

اگر لڑکا اچھا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تم کہو وہ اپنے گھروالوں کو لائے یہاں۔زبیدہ بیگم ثانیہ کی بات سن کر بولی وہ بھی چاہتی تھی وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے۔

کیا واقع اماں؟ ثانیہ کو یقین نہیں ہوا۔ 

بلکل اِس لیے کل آفس جانا۔ زبیدہ بیگم نے مسکراکر کہا تو ثانیہ بھی مسکرادی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مطمئن کیا تھا کہ بوس نے کہا تھا جب تک آپ کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی چھٹی کرسکتی ہیں انہوں تب بھی کہا وہ اب ٹھیک ہیں پر ثانیہ نہیں گئ اس کو پتا تھا شاہ زیب جواب مانگے گا تو وہ کیا جواب دیتی وہ اپنی ماں سے بات کرنے سے پہلے شاہ زیب سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بہت سوچ بے چار کے بعد ثانیہ نے گہری سانس لی اور اپنے قدم زبیدہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھائے۔ 

ثانیہ کیا ہوا بیٹا؟زبیدہ بیگم نے ثانیہ سے پوچھا جو کمرے میں آتے ان کو دیکھ رہی تھی۔ 

اماں آپ سے کجھ بات کرنی تھی۔ ثانیہ نے کہا

کرو۔ زبیدہ بیگم نے کہا

میرے جو بوس ہیں نہ۔ ثانیہ نے بس اتنا کہا

اس نے جاب پہ آنے کا کہا ہوگا میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی میں اب ٹھیک ہوں تمہیں کام پہ جانا چاہیے۔ زبیدہ بیگم اندازہ لگاتی ہوئی بولی

یہ بات نہیں ہے اماں۔ ثانیہ نے کہا

پھر کیا بات ہے؟ زبیدہ بیگم نے پوچھا

وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ثانیہ نے بتایا تو وہ حیرت انگیز نظروں سے ثانیہ کو دیکھنے لگی ثانیہ نے اپنا سرجھکادیا۔ 

ثانیہ اتنے بڑی کمپنی کا مالک تجھ سے کیوں شادی کریں گا۔ زبیدہ بیگم نے کہا

اماں وہ کہتے ہیں اسٹیٹس نہیں دیکھا جاتا شادی کے لیے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے ان کا اخلاق ان کا کردار معائنے رکھتا ہے بہترین ہمسفر کا ملنا اسٹیٹس سے نہیں ہوتا کیونکہ پئسوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا پئسا ہاتھوں کی میل ہے کب کہاں پھسل جائے پتا نہیں چلتا۔ثانیہ کو کجھ دن پہلے شاہ زیب کی کال پہ کہی بات یاد آئی تو کہا

اگر لڑکا اچھا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تم کہو وہ اپنے گھروالوں کو لائے یہاں۔زبیدہ بیگم ثانیہ کی بات سن کر بولی وہ بھی چاہتی تھی وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے۔

کیا واقع اماں؟ ثانیہ کو یقین نہیں ہوا۔ 

بلکل اِس لیے کل آفس جانا۔ زبیدہ بیگم نے مسکراکر کہا تو ثانیہ بھی مسکرادی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

یہ کس لڑکی کی بات کررہے تھے تم؟ سارہ بیگم نے شاہ زیب سے پوچھا۔ 

امی جان میرے آفس میں کام کرتی ہے میری اسسٹنٹ ہے میں پسند کرتا ہوں اس کو۔ شاہ زیب نے اعتراف کیا۔ 

برخودار بات پسند سے تو بہت آگے کی لگ رہی ہے۔ سکندر خان نے شاہ زیب سے کہا۔ 

آپ کو لگ رہا ہے تو سہی ہوگا۔ شاہ زیب نے مسکراکر کہا۔ 

وہ لڑکی ٹھیک تو ہے نہ۔ سارہ بیگم نے کسی خدشے کے تحت پوچھا۔ 

امی جان آپ کو میری پسند پہ شک ہے کیا؟ شاہ زیب نے اُلٹا ان سے سوال کیا۔ 

شک تو نہیں ہے۔ سارہ بیگم مسکراکر بولی

پھر بس آپ تیار رہے ان کے گھر جانے کی۔ شاہ زیب نے کہا تو سارہ بیگم نے سرہلایا

اچھا ہے تمہاری شادی بھی ہوجائے۔ سکندر خان نے کہا۔ 

ہاں مہرو کے بعد تو گھر خالی خالی سا لگنے لگا ہے۔ سارہ بیگم افسردہ ہوکر بولی۔ 

امی مہرو پاس ہی تو ہے کونسا دور ہے۔ شاہ زیب ان کو اپنے ساتھ لگاکر بولا

پھر بھی یاد تو آتی ہے۔ سارہ بیگم نے کہا تو سکندر خان اور شاہ زیب مسکرائے

💕💕💕💕💕💕💕💕

ا تم نے مجھے کیا جواب دینا ہے۔ شاہ زیب نے گہری نظروں سے ثانیہ کو دیکھ کر کہا جو آج پرپل کلر کے شلوار قمیض میں ہرروز کی طرح بہت خوبصورت لگ رہی تھی پر شاہ زیب کو آج اور زیا

دہ لگی کیونکہ آج ایک ماہ بعد دیدارِ یار ہوا تھا۔ 

جی میں نے اپنی ماں سے بھی بات کی۔ ثانیہ تزبز ہوکر بولی۔ 

پھر کیا کہا ساسوں ماں نے۔ شاہ زیب نے دلچسپی سے پوچھا پر ساسوں ماں لفظ پہ ثانیہ کے چہرے پہ لالی بکھر گئ تھی جس نے شاہ زیب کو مبہوت کردیا تھا۔ 

اماں نے کہا میں آپ سے کہوں آپ اپنے گھروالوں کو ہمارے گھر بھیجے۔ ثانیہ نے شرم سے چہرے جھکاکر کہا تو شاہ زیب اُس کی ادا پہ جی جان سے مسکرایا تھا۔ 

میرے گھروالے کل آئے گے شادی کی تاریخ فکس کرنے۔ شاہ زیب نے کہا۔ 

اتنی جلدی۔ ثانیہ نے یکدم اپنا سراٹھاکر کہا

سریسلی ثانیہ ایک ماہ ہوگیا ہے تمہیں وقت دیئے اور ابھی بھی تمہیں یہ جلدی لگ رہا ہے۔ شاہ زیب نے خشمگین نظروں سے اس کو دیکھا جسے اس کے جذبات کی قدر ہی نہیں تھی پر ثانیہ تو شاہ زیب کے ثانیہ نام پہ ٹک گئ تھی آج پہلی بار شاہ زیب نے بس اس کا نام لیا تھا بنا مس یا افتخار لگائے ثانیہ کو بہت اچھا لگا تھا شاہ زیب کا یوں حق سے اس کا نام لینا شاید یہ نئے رشتے کی تاثیر تھی جو ثانیہ کو سب کجھ خوبصورت لگ رہا تھا

آپ جو بہتر لگے آپ وہ کریں۔ ثانیہ نے اجازت دی تو شاہ زیب سرشار ہوگیا تھا۔ 

تو بس تم میری ہونے کی تیار کرو۔ شاہ زیب نے آنکھ ونک کرتے کہا تو ثانیہ گلنار چہرہ لیے کیبن سے باہر نکل گئ شاہ زیب ثانیہ کی پتلی ہوتی حالت پہ ہنس پڑا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

کیا کررہی ہیں یہ آپ؟ شاہ میر یونی سے واپس آیا تو مہرماہ کو ڈریسنگ کے پاس کھڑا دیکھا کر حیرت سے بولا جو اپنا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ 

شاہ دیکھو میں موٹی ہوگئ ہوں۔ مہرماہ نے پریشان ہوکر کہا۔ 

کہاں موٹی ہیں اتنی پیاری تو ہے۔ شاہ میر مہرماہ کو اپنے حصار میں لیکر بولا

میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہو۔ مہرماہ نے اپنا چہرہ مرر کے سامنے کیے کہا۔ 

بلکل نہیں آپ تو مزید خوبصورت ہوگئ ہے یقین نہیں آتا تو میری آنکھوں میں دیکھ لیں۔ شاہ میر نے مہرماہ کا چہرہ اپنی طرف کیے کہا

مجھے شاپنگ کرنی ہے۔ مہرماہ شاہ میر کی چمکتی نظروں سے خائف ہوتی بات بدل کر بولی۔

میں کرلوں گا آپ کی شاپنگ۔ شاہ میر نے کہا۔ 

شاہ مجھے خود اپنی پسند کے لینے ہیں۔مہرماہ تیز آواز میں بولی۔ 

ماہ وہاں بھی تو آپ نے میری پسند کی چیزیں خریدنی ہوتی ہے۔ شاہ میر نے کہا

پھر بھی بچے کی شاپنگ بھی تو کرنی ہے اس کا روم سجانا ہے۔ مہرماہ نے کہا۔ 

جی میری جان وہ تو ہم دونوں مل کر کریں گے پر آپ جلدی تھک جاتی ہے۔ شاہ میر نے مہرماہ کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑ کر کہا۔ 

تم میری بات نہیں مانتے۔ مہرماہ نے بلیک میل کرنا چاہا۔ 

سوری میری جان میں آپ کی اِس بلیک میلنگ میں نہیں آسکتا کیونکہ میرے لیے آپ کی صحت سے زیادہ اور کجھ نہیں۔شاہ میر نے ہڑی جھنڈی دیکھائی تو مہرماہ اس کا حصار توڑ کر منہ پُھلاکر بیڈ پہ بیٹھ گئ شاہ میر نے گہری سانس بھری مہرماہ کی ناراضگی کا سوچ کر۔ 

ماں کے کتنے ارمان ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کے لیے شاپنگ کریں اس کے لیے کھلونے خریدے اس کا روم سیٹ کریں۔شاہ میر بیڈ پہ بازوں ٹکائے لیٹا تو مہرماہ نے کہا

توں میں کونسا اختلاف کررہا ہوں آپ کمرے میں چلیں ہمارے روم میں سیٹ کروں گا آپ بس مجھے ہدایت دیتی جائیے گا کہ کیا کیسے کرنا ہے۔ شاہ میر نے حل پیش کیا۔ 

سیڑھیاں چڑھنے سے بھی تو منع کیا ہوا ہے۔مہرماہ چڑ کر بولی تو شاہ میر مسکرادیا۔ 

یہ میرے بازوں جو ہیں۔ شاہ میر نے اٹھ کر اپنے کسرتی بازوں پہ ہاتھ پھیر کر کہا شاہ میر کی بات کا مطلب سمجھ کر مہرماہ کا چہرہ انار کی طرح سرخ ہوگیا تھا۔ 

میں بھاری ہوگئ ہوں نہیں اٹھاسکتے۔ مہرماہ نے کہا۔

یہ سوچ ہے آپ کی میں نے کل کی شاپنگ پہ بے بی کاٹ پہ لایا تھا جو ہمارے کمرے میں ہے آپ بتائیے گا کہاں رکھنا ہے مطلب کمرے کی کونسی سائیڈ پہ۔ شاہ میر اس کے پاس بیٹھ کر بولا۔ 

ہاں چچی جان نے بتایا تم نے دو بے بی کاٹ لائے تھے دو کیوں؟مہرماہ کو اچانک یاد آیا تو پوچھا۔ 

کیونکہ ہمیں پتا نہیں بی بی گرل ہے یا بی بی بوائے اِس لیے میں ایک پنک کلر کا لایا تھا دوسرا بلیو کلر کا۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

اچھا تو یہ بات ہے۔ مہرماہ مسکراکر بولی۔ 

بلکل ورنہ ہارٹ بیٹ تو ہم نے ایک سنی تھی اِس لیے ٹوئنز کا تو کوئی سین نہیں۔شاہ میر نے شرارت سے کہا تو مہرماہ نے ایک مکہ اس کے بازوں پہ مارا۔ 

بہت بے شرم ہوگئے ہو تم۔ مہرماہ نے کہا۔ 

شکریہ مجھے بتانے کا۔ شاہ میر نے مہرماہ کے بالوں میں چہرہ چھپاکر کہا مہرماہ گہری سانس بھرتی شاہ میر کی پیٹھ پہ بازوں حائل کیے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕

پھر آپ کیا کہتی ہیں۔ سارہ بیگم نے زبیدہ بیگم کو اپنے آنے کا مقصد بتانے کے بعد پوچھا وہ آج ہانم بیگم کے ساتھ یہاں آئی تھی سکندر خان کی۔ ضرورت میٹنگ تھی جس وجہ سے وہ نہیں آ پائے تھے۔ 

جیسا آپ کو مناسب لگے بچے راضی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔زبیدہ بیگم سادگی سے بولی

اپنی بیٹی کو تو بلائے۔ ہانم بیگم نے کہا۔ 

ہانی ثانیہ سے یہاں آنے کا کہو۔ زبیدہ بیگم نے پاس بیٹھی ہانیہ سے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی

دراصل ہم شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دوسرے بیٹے کی بھی شادی ہے وہ ہماری نند کا بیٹا ہے شاہ زیب اس کا دوست ہے اِس لیے چاہتا ہے کہ ایک ساتھ شادی ہو۔ سارہ بیگم نے کہا

پر اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہوگی۔ زبیدہ بیگم پریشان ہوئی ان کی بات سن کر۔ 

اس کی فکر آپ نہ کریں ہمیں بس آپ کی بیٹی چاہیے۔ ہانم بیگم نے ان کو تسلی کروائی 

اچھا۔ زبیدہ بیگم اتنا کہہ کر چپ ہوئی تبھی ہانیہ کے ہمراہ ثانیہ اندر آئی۔ 

ماشااللہ آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے۔ ہانم بیگم نے ثانیہ کو دیکھ کر کہا جو آسمانی کلر کے شلوار قمیض کے ساتھ اچھے سے سرپہ ڈوپٹہ پہنے سادگی میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی جب کی سارہ بیگم کو ثانیہ دیکھی ہوئی سی لگی۔ 

تم مہرو کی دوست ہو نہ؟ سارہ بیگم کو اچانک یاد آیا تو کہا انہوں نے مہرماہ کی دوستوں کو دیکھ رہا تھا مہرماہ اکثر ان کی باتیں کیا کرتی۔ اور اپنے موبائل میں ان کی تصویریں بھی دیکھائی تھی جب کی کبھی آمنے سامنے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا پر مونا سے وہ بہت بار مل چُکی تھی۔ 

جی آنٹی۔ ثانیہ کو ان کے سوال پہ حیرت تو ہوئی پر وہ ظاہر کیے بنا بولی۔ 

مہرو کو پتا ہے تم اس کی بھابھی بننے والی ہو۔ سارہ بیگم مسکراکر پوچھنے لگی۔ کیونکہ مہرماہ نے بہت ضد کی تھی وہ اپنی بھابھی سے ملنا چاہتی ہے پر شاہ میر نے اجازت نہیں دی ان کو آج چیک اپ کے لیے جانا تھا۔ 

مہرو کی بھابھی؟ثانیہ حیران ہوئی۔

لو مطلب تمہیں خود نہیں پتا تم اس کی بھابھی بنے والی ہو تمہارا بوس شاہ زیب اور تمہاری دوست مہرماہ میرے بچے ہیں۔سارہ بیگم اِس خوبصورت اتفاق پہ مسکراکر بولی تو ثانیہ کجھ بول ہی نہیں پائی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ماشااللہ آپ کا بچہ ٹھیک ہے ایسے ہی اپنے بچے کا خیال رکھنا ہے۔ ڈاکٹر اپنے کیبن میں آتی مہرماہ سے بولی۔ 

میرے شوہر کی مہربانیاں ہیں۔ مہرماہ نے شاہ میر کی طرف دیکھ کر کہا۔ 

اللہ قسمت والوں کو ہی اتنے پیار کرنے والا شوہر دیتا ہے۔ ڈاکٹر مسکراکر بولی

ڈاکٹر کوئی پرہیز والی بات ہے تو بتادے اور اگر دوائیاں چینج کرنی ہے تو وہ بھی کیونکہ رات میں پین کی وجہ ماہ کو نیند نہیں آتی۔ شاہ میر نے کہا

میں ایک میڈیسن لکھ دیتی ہوں اور اب آپ کو اِن کو واک کروانا ہے جو کی ضروری ہے۔ڈاکٹر نے کہا تو شاہ میر نے سرہلایا

آپ کی ڈیلیوری پانچ ویک بعد ہوگی۔ ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر مہرماہ سے کہا تو مہرماہ کا چہرہ کِھل اٹھا تھا یہی حال شاہ میر کا بھی تھا پر اس کو مہرماہ کی تکلیف کا سوچ کر فکرمند بھی تھا اور یہ فکر خوشی پہ غالب آگئ تھی ورنہ جیسے جیسے ڈیلیوری کے دن قریب آتے ہیں لڑکیاں پریشان ہوجاتی ہیں پر یہاں یہ ڈیوٹی شاہ میر نے اپنے سِرلی تھی۔ 

گاڑی مال کی جانب کرنا۔ وہ ہوسپٹل سے نکل لر باہر آئے تو مہرماہ نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے۔ شاہ میر بنا سوال کیے بولا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر انکار کرتا تو مہرماہ کی خوشی مانند ہوجاتی اور یہ شاہ میر کو برداشت نہیں تھا۔ 

مال میں آکر مہرماہ نے اوپر والے پلازے کی طرف جانے کا شاہ میر سے کہا کیونکہ وہاں بچوں کے بہت اچھی چیز موجود تھی۔ 

اُپر آپ تھک نہیں جائے گی؟ شاہ میر نے مہرماہ سے کہا۔

لفٹ کی طرف جاتے ہیں اور ویسے بھی کونسا پیدل جاتے ہیں وہاں۔مہرماہ نے ضد کی

ماہ آپ کو سانس لینے میں مشکل ہوگی۔ شاہ میر بے بس ہوکر بولا نہ تو اس میں مہرماہ کی کسی بات پہ انکار کرنے کی ہمت تھی اور نہ ہی وہ مہرماہ کی کہی بات مان سکتا تھا۔ 

شاہ تم اب اوور سینسٹو ہورہے ہو۔ مہرماہ نے منہ بناکر کہا۔ 

جو بھی پر آپ اُس سائیڈ والی شاپ پہ بی بی کی خریداری کریں۔ شاہ میر نے نرمی سے کہا اور دوسری طرف کِڈ شاپ کی جانب اشارہ کیا۔ 

چلو۔ مہرماہ نے کہا تو شاہ میر نے شکر کا سانس لیا شاہ میر نے ایک ٹرالی ہاتھ میں گھسیٹی جس میں مہرماہ چیزیں ڈالتی جارہی تھی

شاہ یہ کار کسی رہے گی۔ مہرماہ نے ایک ریڈ کلر کی کار ہاتھ میں لیکر شاہ میر سے کہا جس کا دھیان گڑیا کی جانب تھا جو ریموٹ کنٹرول سے تھی۔ 

ہمم بہت اچھی۔ شاہ میر نے دیکھ کر کہا جس کے اندر چھوٹے گڑیا گڈھا موجود تھا مہرماہ خوش ہوتی وہ کار لی جب کی شاہ میر نے وہ گڑیا لی جو ریموٹ کنٹرول پہ چلتی تھی۔ مہرماہ نے کھلونے اور کپڑے سب بی بی بوائے کے لیے تھے جب کی شاہ میر نے زیادہ تر بی بی گرل کی شاپنگ کی تھی۔ 

💕💕💕💕💕💕

بہت حسین لگ رہی ہو۔ شاہ زیب نے ثانیہ کو پیچھے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔ 

شکریہ۔ ثانیہ نے نظریں جھکاکر کہا۔  

میری سفارش کرو نہ مہرو سے۔ شاہ زیب نے کہا

کونسی سفارش؟ثانیہ اپنا چہرہ شاہ زیب کی طرف کیے پوچھا 

کہ مجھے معاف کرے۔ شاہ زیب نے مسکین شکل بنائے کہا

یہ تو آپ بہن بھائی کا معاملہ ہے خود ہینڈل کریں۔ ثانیہ نے ہڑی جھنڈی دیکھائی۔ 

تم بھی کجھ کرو۔ شاہ زیب نے مسکراکر کہا

میں کیا کرسکتی ہوں۔ ثانیہ نے کہا

میرے لیے تازہ دم چائے بناکر آؤ۔شاہ زیب نے کہا تو ثانیہ بدمزہ ہوئی۔ 

مجھے لگا جانے کیا کہیں گے۔ ثانیہ دور ہوتی ہوئی بولی۔ 

رومانٹک بات ضرور کرتا پر ابھی ہمیں مہرو کی طرف جانا ہے۔ شاہ زیب آنکھ ونک کرتا بولا جس پہ ثانیہ جلدی کمرے سے نکل گئ شاہ زیب اس کی پُھرتی دیکھ کر مسکراتا واش روم کی جانب گیا۔ 

ارے ثانیہ بیٹا کچن کی طرف کیوں جارہی ہوں کجھ چاہیے تھا تو ملازمہ سے کہہ دیتی۔ سارہ بیگم نے ثانیہ کو کچن میں جاتا دیکھا تو کہا

آنٹی وہ شاہ زیب کے لیے تازہ دم میرا مطلب چائے بنانے جارہی ہوں۔ ثانیہ ہڑبڑاکر بولی۔ 

زیب تو ہے ہی نکما پر بیٹا تمہیں تو پتا ہے نہ شادی کے بعد جب تک دولہن دودہ میں ہاتھ نہ ڈالیں پھر جب تک وہ میٹھا نہ بنالیں کچن میں کام نہیں کرتی۔ سارہ بیگم نے کہا تو ثانیہ نے اپنا سرجھکادیا۔ 

آنٹی شادی کو دو ہفتے ہوگئے ہیں میں بنالوں گی۔ ثانیہ نے کہا

پہلے تو مجھے آنٹی نہیں بلکہ زیب مہرو کی طرح امی کہنا دوسرا یہ کے کیا ہوا دو ہفتے ہوگئے ہیں ولیمہ تو نہیں ہوا نہ اور نہ دودہ میں ہاتھ ڈالنے کی رسم اِس لیے کچن کے آس پاس بھی نہ گزرے زیب کو میں سمجھادیتی ہوں فلحال تم سے کوئی فرمائش نہ کریں۔ سارہ بیگم نے پیار سے کہا تو ثانیہ مسکرادی

پر چائے۔ ثانیہ کو چائے کا خیال آیا

میں ملازمہ سے کہہ دیتی ہوں تم بس تیاری کرو مہرو کی طرف جانا ہے۔ سارہ بیگم نے کہا تو ثانیہ واپس کمرے کی طرف آئی۔ 

چائے نہیں لائی کیا؟ شاہ زیب جو ڈریسنگ کے سامنے بالوں میں جیل لگارہا تھا ثانیہ کو خالی ہاتھ آتا دیکھا تو پوچھا

آنٹی نے کہا ابھی میں کام نہیں کرسکتی آپ کے لئے چائے وہ ملازمہ کے ہاتھوں بھیج دیگی۔ ثانیہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی

ٹھیک پر اِس میں اتنا نروس کیوں ہورہی ہو۔ شاہ زیب چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے

وہ شادی کے بعد آپ نے پہلی بار کوئی کام کہا تھا اور میں۔ ثانیہ اتنا کہتی چپ ہوگئ۔ 

تو میری معصوم بیگم اِس میں تمہارا تو قصور نہیں مجھے دھیان میں رکھنا چاہیے تھا کہ ابھی تم نئی نویلی دلہن ہو۔ شاہ زیب ثانیہ کی ٹھوری پکڑ کر اس کو ہلتا شرارت سے بولا تو ثانیہ ہنس پڑی۔ 

آپ بہت اچھے ہیں۔ ثانیہ نے کہا تو شاہ زیب نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھتے گِرنے کی ایکٹنگ کی تو ثانیہ گھبراگئ۔

کیا ہوا؟ ثانیہ کو سمجھ نہیں آیا اچانک شاہ زیب کو کیا ہوگیا۔ 

ہارٹ اٹیک آرہا تھا پر رُک گیا اس کو پتا چل گیا شاید کہ میں ابھی چالیس سال کا نہیں ہوا۔ شاہ زیب نے بڑی سنجیدگی سے کہا جب کی آنکھوں میں شرارت صاف ظاہر تھی جو ثانیہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ 

ایسی بات  کیوں کہہ رہے ہیں۔ ثانیہ پریشان ہوگئ

اور کیا کہوں میری بیگم نے پہلی دفع میری تعریف کیے ہے مجھے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا۔ شاہ زیب نے آنکھ ونک کرتے ثانیہ کو اپنے قریب کیے کہا

آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ ثانیہ نے اپنا سر شاہ زیب کے بازون پہ ٹکاکر کہا تو شاہ زیب مسکرادیا۔ 

کبھی تم بھی اظہارِ محبت کرلیا کرو۔ شاہ زیب کی انوکھی فرمائش پہ ثانیہ خود میں سمیٹ گئ شاہ زیب اس کی شرماہٹ محسوس کرتا نفی میں سرہلانے لگا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

لنڈن !

کیا سوچ رہے ہو؟ مہرین کافی کا کپ ریان کو دیتے ہوئے پوچھنے لگی اور پاس ہی بیٹھ گئ۔ 

یہی کے اللہ نے مجھے کتنی خوبصورت بیوی دی ہے اور پیار کرنے والی جو میرے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتی۔ ریان کافی کا کپ پکڑتے شرارت سے بولا جس پہ مہرین نے اس کو گھور کر دیکھا۔

کبھی تو سنجیدہ ہولیا کرو۔ مہرین نے اس کے بازوں پہ مُکہ مارکر کہا۔ 

سنجیدہ ہی ہوں بس تم محسوس نہیں کرتی۔ ریان شوخ ہوا۔ 

ریان۔ مہرین نے تنبیہہ کی۔ 

اچھا اچھا نہیں کہتا یہ بتاؤ میرا بے بی کیسا ہے؟ریان مسکراکر اس کے پیٹ پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا

بے بی نہیں بے بیز۔مہرین نے تصدیق کی تو ریان کی آنکھوں میں ناسمجھی کے تاثرات اُبھرے۔

ڈاکٹر کے پاس گئ اس نے کہا ٹوئنز بے بی ہیں۔مہرین نے بتایا تو ریان کا چہرہ خوشی سے کِھل اٹھا۔

کیا واقع۔ریان نے پوچھا

بلکل۔مہرین نے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا وہ جانتی تھی ریان کو بچے کتنے پسند ہیں۔ 

مجھے یقین نہیں ہورہا۔ ریان ابھی بھی شاک میں تھا جس پہ مہرین نے اس کے بازوں پہ زور سے چٹکی کاٹی۔ 

آ آ یہ کیا تھا۔ ریان اپنا بازوں سہلاکر چیخ کہ بولا

یقین دلانا چاہتی تھی میں تو بس۔ مہرین نے معصومیت سے کہا۔ 

معاف کرو ایسے ہی آگیا یقین۔ ریان خشمگین نظروں سے اس کو دیکھ کر بولا جس پہ مہرین ہنس پڑی۔ 

مہرین میں کجھ اور بھی سوچ رہا تھا۔ ریان مہرین کو اپنے بازوں کے حصار میں لیتا ہوا بولا

کیا سوچ رہے ہو؟ مہرین نے جاننا چاہا۔ 

تمہیں پتا ہے نہ میر کے یہاں بیٹا ہوا ہے۔ ریان نے اس کے بالوں میں انگلیان چلاتا ہوا بولا

ہاں بچے کی تصویریں بھی تو دیکھائی تھی بہت کیوٹ تھا۔ مہرین نے مسکراکر کہا

اگر ہمارے یہاں ایک بیٹی ہوئی نہ تو ہم اس کی شادی میر کے بیٹے سے کروائے گے۔ ریان نے مزے سے فیوچر کا پلان بتایا جس پہ مہرین فورن سے سیدھی ہوکر بیٹھی۔ 

ریان ہوش میں تو ہو ہم یہاں لنڈن اور وہ پاکستان میں ہیں۔ مہرین کو ریان کی عقل پہ شک گزرا۔ 

تو کیا ہم نے بعد میں ویسے بھی پاکستان میں سیٹل ہونا ہے میں نے بتایا ہوا نہ میرا دل نہیں لگتا اب یہاں میر کے بنا۔ ریان دوبارہ مہرین کو اپنے قریب کیے بولا۔

ریان جو بھی پر بچہ ہوا ہی نہیں تم اول ہی ایسی باتیں کررہے ہو۔ مہرین پریشان ہوکر بولی

ہوجائے گا بچہ میں نے بس اپنے دل کی بات کی۔ ریان نے کہا

شادی وغیرہ کا فیصلہ ہم اپنے بچوں پہ چھوڑ دے گے جہاں وہ چاہے گے وہاں ہم اپنی مرضی ان پہ نہیں تھوپے گے ویسے بھی آج کے زمانے میں لوگ اپنی مرضی چلاتے ہیں تمہیں لگتا ہے وہ بیس سال بعد ہماری بات مانے گے ہر ایک کا اپنا نظریہ ہوتا ہے ہمارے بچے لنڈن میں زندگی گُزارے گے جہاں انسان خودمختار ہوتا ہے۔ مہرین نے ہر ایک پہلو سے ریان کو روشناس کروایا اور ریان سمجھ بھی گیا تھا کیونکہ مہرین کے بات کرنے کا طریقہ ہی ایسا تھا آخر کو وہ ایک لکچرار تھی اپنی بات دوسروں کے دماغ میں بیٹھانا اس کو خوب آتا تھا۔ 

کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو خیر میں نے تو ایسے ہی کہا۔ ریان نے کہا جس پہ مہرین شکر کا سانس خارج کرتی ریان کے سینے پہ اپنا سر رکھ لیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

یار مہرو پلیز مان بھی جاؤ جانتا ہوں مجھے تمہیں بتانا چاہیے تھا پر میں کیا کرتا موقع ہی نہیں ملا۔شاہ زیب ایک اور کوشش کی مہرماہ کو منانے کی جس نے اِس بار پوری طرح سے بات بند کررکھی تھی جس سے شاہ زیب پریشان ہوگیا تھا۔

بات مت کرو تم۔مہرماہ نے ناراض لہجے میں کہا تبھی شاہ میر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا تو شاہ زیب کو شرارت سوجھی

مہرو میں جانتا ہوں تم خفا ہو کیونکہ تم سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتی ہو اور میرا تم سے بات چھپانا تکلیف پہچارہا ہے پر میری بات بھی تو سمجھو۔ مہرماہ نے عجیب نظروں سے شاہ زیب کی بدلتی ٹون محسوس کی کہاں وہ پہلے منت کررہا تھا اور اب ایسے بات کررہا تھا۔ 

ماہ سب سے زیادہ مجھے چاہتی ہے۔ شاہ میر شاہ زیب کی بات پہ تپ اٹھا تھا۔ 

تم تو کل کی پیداوار ہو میری بہن کا اور میرا ساتھ تو بچپن کا ہے۔ شاہ زیب نے جلے پہ نمک کا کام کیا بھلا وہ کیسے اس کی عمر پہ چوٹ نہ کرتا آخر کو شاہ میر کی دُکھتی رگ تھی خود کے بارے میں چھوٹا لفظ سننا۔ 

شاہ زیب بھائی پلیز۔ شاہ میر مٹھیان بھینچ کر بولا جب کی مہرماہ نے اپنا سرپکڑ لیا۔ 

کیا پلیز۔شاہ زیب نے چڑانے والی مسکراہٹ لبوں پہ سجاکر کہا

صرف تین سال چھوٹا ہوں جب کی ہائیٹ اور وزن میں آپ کے برابر ہوں۔ شاہ میر نے اپنے کسرتی بازوں اور چوڑے سینے کی نمائش کرتے کہا مہرماہ کو شاہ میر اِس وقت سچ مچ میں بچہ لگا اس نے مسکراکر سر کو نفی میں ہلایا۔ 

جو بھی پر عمر چھپائے نہیں چھپتی تم نے خود کو بڑے لگنے کے لیے ڈولے چھولے تو بنالئے پر چہرے سے چھوٹے ہی لگتے ہو۔ شاہ زیب نے مسکراکر کہا۔ 

چپ کرو اور باہر چلو تم دونوں۔مہرماہ نے تنگ آکر کہا

میں مرجان کو تو اٹھالوں۔ شاہ زیب کارٹ کی طرف آکر بولا۔ 

چلیں ماہ۔ شاہ میر ایک نظر گھور کر شاہ زیب کو دیکھا پھر مہرماہ کو اٹھنے میں مدد دیتے ہوئے کہا۔ 

اٹھاکر لیں چلو اپنی ماہ کو ویسے تو بڑے بول بولتے ہو مجھے عشق ہے ماہ سے اب جب اس کے  ٹانکے کُھلے ہیں تو یہ بول رہے ہو۔شاہ زیب نے پھر شاہ میر کو چھیڑا۔ 

میں خود چل سکتی ہوں۔ مہرماہ نے شاہ زیب کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا

شیور ماہ۔ شاہ میر کو شاہ زیب کی بات پہ غصہ آنے کے بجائے مہرماہ کی فکر ہوئی

ہاں شاہ۔ مہرماہ نے تسلی آمیز لہجے میں کہا تو شاہ میر نے اس کا ہاتھ تھام لیا شاہ زیب مسکراتا مرجان کو لیکر باہر چلاگیا۔ 

کتنی کمزور ہوگئ ہو تم۔ سارہ بیگم مہرماہ کو دیکھتی ہوئی بولی۔ 

ٹھیک تو ہوں۔ مہرماہ ان کی فکر پہ مسکرائی۔ 

کھانے پہ توجہ زیادہ دو اب بچے کی دیکھ بھال بھی تو کرنی ہوتی ہے۔ سارہ بیگم نے کہا تبھی مرجان رونے لگا۔ 

شاہ تم مرجان کو تو زیب سے لو۔ مہرماہ نے شاہ میر سے کہا۔ 

مہرو عقل کرو ایک بچے کی ماں بن گئ ہو پر شوہر کے آداب نہیں سیکھے۔ سارہ بیگم پل بھر میں سخت ہوئی۔ 

میں نے کیا کردیا۔ مہرماہ کو سمجھ نہیں آیا

میر بھلے چار سال چھوٹا ہے پر شوہر ہے تمہارا اِس لیے تم نہیں آپ کہا کرو۔ سارہ بیگم نے کہا تو سب مسکرا پڑے پر مہرماہ کو ان کی بات پسند نہیں آئی۔ 

چچی جان میں نے خود ماہ سے کہا مجھے اچھا نہیں لگتا وہ مجھے آپ کہے عجیب غیروں والی فیلنگ آتی ہیں۔ شاہ میر مہرماہ کو خاموش دیکھا تو اس کا دفاع کیا۔ 

تو تم بھی آپ نہیں تم کہا کرو نہ۔ شاہ زیب نے اپنی ٹانگ بیچ میں لانا ضروری سمجھا۔ 

میں جو بھی کہوں آپ کو اُس سے کیا۔ شاہ میر کو غصہ آیا۔ 

میر تہمیز سے زیب بڑا ہے تم سے۔ حیدر خان کو سکندر خان کی موجودگی میں شرمندگی محسوس ہوئی شاہ میر رویہ دیکھ کر جب کی شاہ زیب گردن فخر سے تن گئ جیسے جانے کونسا تیر مار لیا ہو۔ 

میں اندر جارہا ہوں۔ شاہ میر سنجیدگی سے کہتا مرجان کو لیے اوپر کی جانب بڑھنے لگا

مرجان کو تو مجھے دیتے۔ شاہ زیب نے پیچھے ہانک لگائی جس کو شاہ میر نظرانداز کرگیا مہرماہ پریشان ہوگئ تھی شاہ میر ایسے جاتا دیکھ کر۔ 

زیب مت تنگ کیا کرو میر کو۔ سکندر خان نے ٹوکا۔ 

بابا جان مجھے مزہ آتا ہے۔ شاہ زیب دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا تو سب کے سر نفی میں ہلنے لگے۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

زیب کی مزاق کرتا ہے تم سے بُرا مت مانا کرو۔ مہرماہ نے شاہ میر کے پاس آکر کہا جو لکھنے میں مصروف تھا پاس ہی کارٹ میں مرجان سویا ہوا تھا۔ 

میں جانتا ہوں ماہ بس ان کی بات کبھی اچھی نہیں لگتی جب وہ آپ پہ بلاوجہ حق جماتے ہیں تو۔ شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا۔ 

بھائی ہے میرا اور اس کا حق بلاوجہ نہیں۔مہرماہ کو شاہ میر کی یہ بات پسند نہیں آئی تو کہا۔ 

سب کی پرواہ ہے پر میری جانے کب ہوگی۔ شاہ میر کا موڈ بُری طرح آف ہوچکا تھا

تمہیں ایسے کیوں لگتا ہے مجھے تمہاری پرواہ نہیں۔مہرماہ شاہ میر کی چیئر کو اپنی طرف کیے اس کی گود میں بیٹھتی ہوئی پوچھنے لگی جب کی شاہ میر مہرماہ کی حرکت پہ دنگ رہ گیا جو اپنے بازوں اس کے کندھوں پہ حائل کیے اس کے جواب کی طلبگار تھی۔ 

م می میرا ک کل ض ضروری لیکچر ہ ہے ا اُس کی تیار کرنی ہے۔ شاہ میر اٹکتے اٹکتے اپنی بات مکمل کی مہرماہ کو ہنسی آرہی تھی شاہ میر کا چہرہ دیکھ کر جہاں ہوائیاں اُڑ رہی تھی۔ 

شاہ اب جب میں پرواہ کررہی ہوں تو تم بہانے بنارہے ہو مجھ سے دور ہونے کہ۔ مہرماہ نے نروٹھے پن سے کہا۔ 

ایسا نہیں میں کبھی آپ سے دور جانے کا سوچ نہیں سکتا آپ بہانے بنانے کی بات کررہی ہیں۔ شاہ میر۔ سنجیدہ ہوکر بولا۔ 

تو کیا یہ لیکچر مجھ سے زیادہ ضروری ہے۔ مہرماہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا 

آپ سے زیادہ ضروری تو میری خود کی جان بھی نہیں۔شاہ میر مہرماہ کی کمر پہ گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔ 

شاہ ہاتھ ہلکا رکھو۔ مہرماہ کو شاہ میر کی مضبوط پکڑ پر تکلیف ہوئی تو کہا۔ 

سو سوری ماہ۔ شاہ میر جلدی سے بولا

کوئی بات نہیں۔مہرماہ نے اپنی پیشانی شاہ میر کی پیشانی سے جیسے ہی جوڑی تو مرجان کی بھاں بھاں رونے کی آواز آئی جس سے مہرماہ فورن سے شاہ میر سے الگ ہوکر کارٹ کی جانب گئ شاہ میر نے خونخوار نظروں سے مرجان کو دیکھا جس سے اچھا خاصا موڈ اس کا خراب کردیا تھا۔ 

کیا ہوا میرا شونا بے بی۔ مہرماہ آہستہ آہستہ روم میں چکر لگاتی مرجان کو چپ کرانے لگی جو بُری طرح رونے میں مصروف تھا۔ 

ماہ یہ آپ امی کو دے آئے۔ شاہ میر دس منٹ سے مرجان کو روتا دیکھا تو تپ کے کہا

شاہ کیا ہوگیا ہے بچہ ہے روئے گا تو سہی نہ۔ مہرماہ مرجان کی پیٹھ سہلاتی ہوئی بولی

اتنے وقت بعد ہمیں اپنے لیے باتیں کرنا کا وقت ملا تھا۔ شاہ میر نے کہا

تو شاہ کیا ہوا ہمیشہ ساتھ ہی تو ہوتے ہیں مرجان کو بھی تو وقت چاہیے نہ۔ مہرماہ آرام سے بولی

میں باہر اسٹڈی کی طرف جارہا ہوں آپ دے اِس کو وقت۔ شاہ میر سنجیدگی سے کہتا اپنی کتابیں سمیٹنے لگا۔ مہرماہ بے بس ہوکر اس کو جاتا دیکھا ایک طرف شوہر تو دوسری طرف ایک ماہ کا بیٹا تھا جن کے درمیان وہ بُری طرح سے پس کے رہ گئ تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج سالار پری، شاہ زیب ثانیہ کا ولیمہ تھا جب کی مرجان کا عقیقہ بھی تھا ولیمے کے ہال بُک کیا گیا تھا جہاں مہمانوں کی آمد جاری تھی آہستہ آہستہ سارا ہال مہمانوں سے بھرگیا تھا جب کی پری اور ثانیہ ابھی تک میک اپ روم میں تیار ہورہی تھی مہرماہ گھر میں تھی اس کو شاہ میر کے ساتھ ہال میں جانا تھا کیونکہ مرجان کی وجہ سے اس کو تیار ہونے میں وقت لگ گیا تھا اس نے ولیمے کے لحاظ سے لائٹ بلیو کلر کی میکسی پہن رکھی تھی بالوں کا خوبصورت سا جوڑا بنایا ہوا تھا جب کی چہرہ میک اپ سے پاک تھا کانوں میں سمپل سے ایئر رنگز پہن رکھے تھے اور گلے میں چین جو کی شاہ میر کی طرف سے رونمائی کا تحفہ تھا دیکھنے میں جتنی سادہ تھی پر تھی وہ اُتنی ہی مہنگی کیونکہ وہ بس دیکھنے میں سمپل سا لُک دے رہی تھی پر ہاتھوں میں جب لیا جائے تو بھاری تھی مہرماہ نے اس کو سنبھال کہ رکھا تھا ایک اپنے ولیمے کے دن پہنی تھی دوسرا آج اس نے آج پہنی تھی ہاتھوں میں اس نے سفید موتیوں والا بریسلیٹ پہنا تھا جس میں اس کی نازک کلائی بہت دلکش لگ رہی تھی۔ مہرماہ نے مسکراکر خود پہ ایک نظر ڈالی بلاشبہ وہ سادگی میں بھی غضب دھاڑ رہی تھی۔ 

ماہ ایک دن آپ میری جان لیں لیگی۔ مہرماہ خود کو دیکھنے میں مصروف تھی جب شاہ میر پیچھے سے اس کو ہگ کرتا ہوا بولا جس پہ مہرماہ نے اس کو زور سے کہنی ماری

فضول مت بولا کرو۔ مہرماہ نے مرر سے شاہ میر کو گھورا جس نے آج بلیو کلر کا کُرتا پہنا ہوا تھا جس سے وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا اپنے سلکی گھنے بالوں کو اس نے جیل سے سیٹ کیا تھا چہرے پہ نفاست سے سیٹ کی بیئرڈ تھی جو اس کو باوقار بنارہی تھی اور مضبوط کلائی میں رولیکس کی گھڑی پہن رکھی تھی جب کی پیروں میں پیشاوری چپل پہنی ہوئی تھی۔

حد سے زیادہ بے حد خوبصورت لگ رہی ہیں۔شاہ میر مہرماہ کو اپنے طرف کیے بولا

تم بھی بہت پیارے لگ رہے ہو۔ مہرماہ نے اس کا گال کھینچ کر کہا تو شاہ میر ہنس پڑا۔ 

آپ کا مرجان اور میرا رقیب کہاں ہیں۔ شاہ میر نے پوچھا اس کو اپنا بیٹا رقیب لگتا تھا کیونکہ وہ جب جب مہرماہ کے ساتھ وقت گُزارتا تو وہ رونا شروع کردیتا ورنہ سارا وقت سوتا رہتا جس سے شاہ میر کو اچھی خاصی تپ لگتی پر مہرماہ ہنس کر اس کی حالت انجوائے کرتی تھی۔ 

ہمارا بیٹا اپنے چاچوں کے پاس ہے میں نے اس کو بھی بلیو کلر کا کُرتا پہنایا ہے۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا۔ 

ہاں اس ڈیڑھ انچ کو بھی شلوار قمیض پہنائے پیمپر میں تو وہ پورا آتا نہیں آپ ایسی ڈریسنگ کرکے اور اس کو اور  غائب کردے۔ شاہ میر مہرماہ کی بات سن کر بولا کیونکہ مرجان کافی کمزور تھا جس سے جب جب مہرماہ اس کو پیمپر پہناتی وہ اُتر جاتا تھا جس سے مہرماہ تو پریشان پر شاہ میر کی ہنسی نکل جاتی تھی مرجان کی پتلی ٹانگیں دیکھ کر جو اس کے وزن سے زیادہ کم اور چھوٹی تھی۔ 

یہ کیا تم پہلے اس کو ایک انچ اب ڈیڑھ کا کہتے ہو بیٹا ہے وہ تمہارا اور تمہاری معلومات کے لیے 

عرض ہے کہ ڈائپر میرے بیٹے کو اب فٹ آجاتا ہے۔ مہرماہ نے اِتراکر بتایا

جی دیکھا تھا میں نے کیسے آپ نے پِن لگانی چاہی تھی پر پھر آپ کو خیال آیا کہ پن اس کو چُب بھی سکتی ہیں اِس لیے آپ نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ شاہ میر نے مسکراہٹ دباکر کہا جس پہ مہرماہ یہاں وہان دیکھنے لگی کیونکہ وہ چاہتی تھی ایسا کریں ورنہ اس کا سارا دھیان مرجان کی طرف جاتا پر پنز کو دیکھ کر اس کو وہم ہوا کہ بچہ ہے اگر اس کی ملائم نازک اسکن پہ چُب جاتا تو۔ 

باتیں مت کرو ہال کی طرف جانے کی تیار کرو دیر ہورہی ہے۔ مہرماہ نے بات بدلنے میں عافیت جانی۔ 

جو حکم آپ کا۔ شاہ میر سینے پہ بازوں رکھتا سرجھکا کر بولا تو مہرماہ ہنس پڑی۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

ولیمے کی تقریب شروع ہوچکی تھی ہرکوئی اسٹیج پہ ان کی طرف آتا مل کر نیچے اُتر جاتا سالار اور پری مسکراکر کوئی بات کررہے تھے شاہ زیب اپنے کسی جاننے کے۔ ساتھ بات کررہا تھا پر ثانیہ کے لیے یہ سب نیا تھا جس وجہ سے وہ کنفیوز ہوگئ تھی کیونکہ زبیدہ بیگم نیچے سارہ بیگم،نادیہ بیگم، ہانم بیگم، کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی اور ہانیہ پورے ہال میں چکر لگانے میں مگن تھی ایسے میں اس کے دل نے شدت سے مہرماہ کے آنے کی دعا کی تھی۔ 

کیا ہوا کس کو تلاش کررہی ہو؟ شاہ زیب مسکراکر ثانیہ سے پوچھنے لگا جو گولڈن کلر کے بھاری لہنگے میں ملبوس تھی جس کا ڈوپٹہ باریک سا سر پہ ٹکا ہوا تھا چہرے پہ مناسب میک اپ میں وہ کسی اپسرا کو مات دینے کی حدتک خوبصورت لگ رہی تھی پر چہرے پہ اضطراب کی کیفیت تھی جو شاہ زیب اس کے ڈارک لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں کو دیکھ کر جان گیا جن کو وہ بار بار کچل رہی تھی شاہ زیب خود گولڈن کلر کی شیروانی میں ملبوس تھا بالوں کا اس نے پف کا اسٹائل دیا تھا چہرے پہ عجیب سی چمک تھی جس سے وہ بہت سمارٹ اور ہینڈسم لگ رہا تھا ہرکوئی ان کی جوڑی کی تعریف کررہا تھا وہ ایک دوسرے کے سنگ لگ ہی اتنے پیارے رہے تھے۔ 

مہرو نہیں آئی اب تک۔ ثانیہ نے مدھم آواز میں کہا۔ 

وہ دیکھوں۔شاہ زیب نے انٹرنس کی طرف اشارہ کرکے کہا جہاں شاہ میر مہرماہ مرجان کے ساتھ سیم ڈریسنگ کیے اندر آرہے تھے۔ 

کتنے پیارے لگ رہے ہیں نہ؟ ثانیہ نے مسکراکر کہا اب سب لوگوں کی نظریں ان پہ ٹک گئ تھی جو مسکراکر آپس میں کسی بات پہ بحث کررہے تھے شاہ میر کے کندھے پہ مرجان سر رکھ کر۔ سویا ہوا تھا جب کی مہرماہ اپنی میکسی سنبھالتی کجھ کہہ رہی تھی اس سے۔ 

ہاں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں یہ دونوں۔ شاہ زیب مسکراکر اس کی بات پہ اتفاق کرتا بولا۔ 

مبارک ہو۔ مہرماہ اسٹیج پہ ان چاروں کے پاس آتی ہوئی بولی۔ 

مل گئ توفیق اپنے بھائی کے ولیمے میں سب سے آخر میں آنے کی۔ شاہ زیب نے میٹھا سا طنزیہ کیا۔ 

مرجان تیار ہونے نہیں دیں رہا تھا۔ مہرماہ نے وجہ بتائی 

مرجان یا مرجان کا باپ۔ شاہ زیب شاہ میر کو دیکھ کر بولا جو پری کے پاس بیٹھا تھا۔ 

مرجان۔ مہرماہ نے دانت پیستے ہوئے کہا

دیر خود کرو نام دو ماہ کے بیٹے کو دو۔ شاہ زیب سرجھٹک کر بولا جس سے مہرماہ بس اس کو دیکھتی رہ گئ۔ 

آپی آپ خوش تو ہیں نہ؟ شاہ میر نے پری سے پوچھا جو مرجان کو پیار کررہی تھی۔ 

ہاں سالار میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔پری نے مسکراکر اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر بتایا۔ 

اللہ آپ کو ایسے ہی خوش رکھے۔ شاہ میر نے دعا دی

آمین۔ پری نے فورن سے کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر تھوڑی دیر پہلے ہی سویا تھا جب اس کو مرجان کے رونے کی آواز آئی شاہ میر نے فورن سے آنکھیں کھولی اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ دیکھا جہاں مہرماہ گہری نیند میں تھی شاہ میر مہرماہ کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے آہستہ سے اٹھا اور اپنا فون اٹھا کر اس کی ٹارچ آن کی پھر کارٹ کی طرف آیا جہاں مرجان رونے کا شغل فرمارہا تھا شاہ میر نے اس کو اٹھایا اور دبے پاؤں کمرے سے نکل کر باہر لان میں آیا۔

کیوں رو رہا ہے میرا بیٹا۔شاہ میر مرجان کو ہوا میں چھوڑتا پھر کیچ کرکے پوچھنے لگا اگر مہرماہ یہ منظر دیکھتی تو یقیناً غش کھاکر گِرپڑتی۔

افف کہیں اِس کو بھوک تو نہیں لگی۔شاہ میر خود سے بڑبڑاتا مرجان کو اپنے سینے سے لگاتا کچن میں آیا اور فریج سے دودہ نکال کر اس کو اُبالنے لگا پھر اس کو فیڈر میں ڈالتا کجھ ٹائم کے لیے فریج میں رکھا تب تک مرجان کو لیے یہان وہاں کچن میں ٹہلنے لگا۔

ماہ ایسے ہی دودھ بناتی ہوگی نہ مرجان کا۔تین منٹ بعد شاہ میر فیڈر ہاتھ میں لیتا خود سے سوال کرنے لگا کیونکہ اس کو یہ تو پتا تھا بچے کو دودھ دینے سے پہلے اس کو اُبالا جاتا پر پھر سیدھا پلاتے ہیں یا کجھ اور بھی یہ اس کو نہیں تھا پتا جب اس نے دودہ فیڈر میں ڈالا تھا تب وہ تھوڑا گرم تھا اِس وجہ سے شاہ میر نے فریج میں رکھا تھا شاہ میر سر جھتکتا فیڈر مرجان کے منہ میں ڈالا جس سے مرجان چپ ہوتا فیڈر پینے لگا۔

اووہ ماہ کے مرجان کو بھوک لگی تھی۔شاہ میر مرجان کو مگن انداز میں دودہ پیتا دیکھ کر اس کے ماتھا پہ بوسہ دیتے بولا جس سے مرجان نے اپنی آنکھیں کھول کر بند کی شاہ میر تو فدا ہی ہوگیا تھا اپنے بیٹے کی حرکت پہ پھر اس کو لیکر وہ ہال میں ڈپل صوفے پہ ٹیک لگاتا بیٹھ گیا کہ مرجان دودہ پیتا سوجائے تو وہ اندر کمرے میں جائے وہ نہیں چاہتا تھا کہ مہرماہ کی سکون بھری نیند ڈسٹرب ہو اِس لیے مرجان کو اپنے سینے پہ لیٹاتا اس کی ننہی پیٹھ سہلانے لگا جس سے سکون محسوس کرتا مرجان آنکھیں بند کرگیا تھا اور شاہ میر کو بھی وہی نیند آگئ تھی۔

مہرماہ نے نیند میں کروٹ بدلی تو اس کو بیڈ کی دوسری جگہ خالی محسوس ہوئی اس نے ہاتھ یہاں وہاں رکھ کر شاہ میر کو محسوس کرنا چاہا پر وہ نہیں تھا مہرماہ نے آنکھیں کھول کر مسلی پھر سائیڈ ٹیبل کا لیمپ آن کیا تو کمرہ روشنی میں نہاگیا اس نے دیکھا تو بیڈ پہ وہ اکیلی تھی یکایک اس نے نظر گھماکر کارٹ کی طرف دیکھا جہاں مرجان بھی نہیں تھا مہرماہ نے لحاف خود سے پڑے کیا اور ننگے پاؤں کمرے سے باہر آکر سیڑھیوں کی ریکنگ پہ دیکھا جہاں ہال کا ایک بلب آن تھا جس سے وہ آرام سے شاہ میر کو صوفے کی پشت سے ٹیکا لگاتا نیند میں دیکھا اور اس کے سینے پہ لیٹے پرسکون مرجان کو جس کے منہ میں فیڈر تھا مرجان سات ماہ کا ہوگیا تھا جس سے مہرماہ اس کو اپنے دودھ کے ساتھ ساتھ باہر کا دودھ بھی پلاتی تھی مہرماہ نے مسکراکر ان دونوں کو دیکھا مہرماہ کو یہ منظر حد سے زیادہ خوبصورت لگا مہرماہ مسکراکر کمرے کی طرف آئی اور وہاں سے ایک چادر اٹھاکر وہ ہال میں آئی پہلے اس نے مرجان کے منہ سے فیڈر نکالا تاکہ اس کا سانس بند نہ ہو پھر دونوں کے اُوپر اچھے سے چادر ڈال کر خود وہ شاہ میر کی دوسری سائیڈ پہ آکر بیٹھ کر اپنے اوپر چادر لی اور مسکراکر شاہ میر کے کندھے پہ اپنا سر رکھ کر سونے کے لیے آنکھیں بند کرگئ اگر اس کا جان سے پیارا شوہر اور بیٹا یہاں تھا تو اس کو اکیلے کمرے میں نیند کیسے آتی جلد ہی مہرماہ بھی ان دونوں کی طرح نیند کی وادیوں میں کھوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آیان اپنی آنکھیں مسلتا سیڑھیاں اُتر رہا تھا جب اس کی نظر شاہ میر مہرماہ اور مرجان پہ پڑی جو آرام سے صوفے پہ بے آرام ہونے کے بجائے سکون سے نیند میں تھے مہرماہ کا سر شاہ میر کے کندھے پہ تھا اور مرجان شاہ میر کے سینے پہ جب کی اب شاہ میر کا سر مہرماہ کے سر پہ تھا آیان نے مسکراکر یہ خوبصورت منظر دیکھا پر کجھ سوچ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا وہاں سے اپنا موبائل اٹھاکر اس نے جلدی سے کیمرہ آن کی اور مختلف پوز سے یہ منظر اپنے فون میں محفوظ کیا اپنی کاروائی سے وہ مطمئن ہوتا ان لوگوں کی طرف آیا اور آہستہ سے شاہ میر کو آواز دی۔ 

بھائی۔آیان نے دو تین بار آواز دی پر شاہ میر ٹس سے مس تو نہیں ہوا پر مرجان نے بھاں بھاں کرکے رونا ضرور سٹارٹ کردیا تھا جس سے آیان نے ڈور لگاکر بھاگنے میں عافیت جانی

مرجان کے رونے کی آواز سے شاہ میر نے مندی مندی آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا تو اس کی نظر قریب مہرماہ پہ پڑی جو آرام سے اس کا بازوں اپنی مٹھیوں میں جکڑے سوئی تھی مہرماہ کو دیکھ کر شاہ میر کی بلو آنکھوں میں چمک آگئ تھی اس کو نہیں تھا پتا مہرماہ کب آئی پر اس کو اپنے پاس دیکھ کر شاہ میر نے ہمیشہ کی طرح سکون محسوس کیا تھا۔ شاہ میر نے مہرماہ کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور مرجان کو دیکھا جس کا چہرہ آنسوؤ سے بھیگ گیا تھا

رونے میں تو تمہارا مقابلہ اسٹار پلس کی ہیروئن بھی نہ کرپائے۔شاہ میر کوفت سے بڑبڑایا جس سے مہرماہ کی بھی آنکھ کھلی۔

مجھے دو رات کو تم نے اپنا سکون خراب کیا تھا۔مہرماہ اپنی حالت درست کرتی مرجان کو شاہ میر سے لیا۔

کیونکہ پھر آپ کا سکون نیند یہ روندو خراب کردیتا۔شاہ میر اٹھتا ہوا بولا۔

میرے بچے سے جانے کیا پرخاش ہے تمہیں۔مہرماہ نے گھور کر شاہ میر سے کہا

جب دیکھو چپکا رہتا ہے آپ کے ساتھ۔شاہ میر نے ڈبل گھوری سے مرجان کو نوازا جو اپنے ننہے ہاتھ مہرماہ کے چہرے پہ پھیر رہا تھا۔

جاکر یونی کے لیے تیار ہوجاؤ۔مہرماہ نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا شاہ میر دوبارہ مہرماہ کے ماتھے پہ پیار کرتا مرجان کے گال پہ بوسہ سیڑھیوں کی جانب گیا مہرماہ مسکراکر گردن موڑ کر شاہ میر کو دیکھا جو سیڑھیاں عبور کرگیا تھا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ثانیہ میری ٹائی نہیں مل رہی۔ شاہ زیب نیچے آتا ثانیہ کہ پاس آتا جھنجھلا کر بولا۔ 

وہی تو تھی میں دیکھ کر آتی ہوں۔ ثانیہ جو سارہ بیگم کے ساتھ کچن میں جانے والی تھی شاہ زیب کی بات سن کر بولی۔ 

جلدی کرو پلیز میری ضروری میٹنگ ہے آج۔ شاہ زیب آتا دوبارہ اندر کی جانب جانے لگا۔ 

یہ تو ہے۔ ثانیہ کبرڈ میں سے بلیک کلر کی ٹائی نکال کر شاہ زیب کے سامنے کی آج شاہ زیب بلیک کلر کے پینٹ کورٹ میں ملبوس تھا اِس لیے ثانیہ نے بلیک ٹائی اس کے سامنے کی

اچھا باندھو اب۔ شاہ زیب نے کہا تو ثانیہ شاہ زیب کے گلے میں ٹائی ڈالر اس میں گرہ لگانے لگی۔ 

مجھے کب دوگی۔ ثانیہ ٹائی باندھ کر جانے لگی تھی جب شاہ زیب اس کا ہاتھ پکڑ کر بھاری آوا میں بولا۔ 

سب کجھ تو دے دیا اب اور کیا چاہیے۔ ثانیہ نے پوچھا تو شاہ زیب مسکراتا اس کان کے پاس جھک کر بولا

مجھے بے بی چاہیے۔

امی بولا رہی ہیں شاید۔ ثانیہ شاہ زیب کی بات پہ سرخ ٹماٹر ہوتی ہوئی بولی سارہ بیگم کے بہت بار کہنے پہ وہ اب انہیں آنٹی کے بجائے امی کہتی تھی۔ 

پہلے ان کے بیٹے کو تو جواب دو۔ شاہ زیب بضد ہوا۔

آپ کی تو ضروری میٹینگ تھی نہ۔ ثانیہ نے اس کا دھیان دوسری طرف کرنا چاہا۔ 

یہ بھی ضروری بات ہے۔ شاہ زیب نے کہا

جب اللہ نے چاہا تو ہوجائے کا بچہ بھی میں کیا کہہ سکتی ہوں۔شاہ زیب کو ایک بات پہ ڈٹا دیکھ کر اس نے گہری سانس لیکر کہا۔ 

اچھا۔شاہ زیب نے بس اتنا کہا اور بیڈ سے اپنی فائل اٹھانے لگا ثانیہ نے حیرت سے شاہ زیب کا ٹھنڈا ری ایکشن دیکھا تھا اس کو سمجھ نہیں آیا کہ اچانک شاہ زیب کو بچے کی خواہش کیسے ہوئی پر اس کو کجھ سمجھ نہیں آئی تبھی شاہ زیب کو باہر جاتا دیکھا تو وہ بھی اس کی تلقید میں باہر آگئ۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ واشروم میں نہا رہی تھی جب کی شاہ میر بیڈ پہ بیٹھا مرجان سے کھیلنے میں مگن تھا جب اس کا سیل فون بجا شاہ میر نے دیکھا تو ریان کی کال تھی اِس لیے جلدی کال اٹھائی ساتھ میں مرجان کو بیڈ سے نیچے اُتارا جس پہ وہ کِھل کھلاتا نیچے فرش پہ اپنے ڈھیر سارے کھلونوں کی جانب آیا وہ اب چل تو نہیں سکتا تھا پر رینگتا ضرور تھا جس وجہ سے شاہ میر اکثر اس کو چلانے کی بھی کوشش کرتا تھا تاکہ وہ جلد چلنا سیکھ جائے۔

کیسے ہو ریان؟ شاہ میر نے پوچھا

میں تو بہت خوشششش۔ ریان نے الفاظ کھینچ کر ادا کیے۔ 

اچھا وجہ؟ شاہ میر اس کے لہجے میں خوش محسوس کرتا متجسس ہوا۔ 

اللہ کے حکم سے مہرین نے آج دو بیٹیوں کو جنم دیا ہے اور میر میں ان کو اپنی گود میں اٹھانے کے بعد کتنی خوشی محسوس کررہا تھا تمہیں بتا نہیں سکتا۔ ریان نے گہری سانس بھر کر بتایا جس پہ شاہ میر بھی خوش ہوا اولاد کا پہلی بار لمس محسوس کرکے کیسا لگتا ہے یہ تو وہ اچھے سے جانتا شاہ میر نے ایک نظر مرجان پہ ڈالی جو سب کھلونوں کو اوپر نیچے کررہا تھا پھر ریان کی کال پہ متوجہ ہوا۔ 

بہت مبارک ہو اللہ نے اپنہ رحمت سے نوازا ہے تمہیں۔شاہ میر نے کہا

ہاں۔ ریان نے بس اتنا کہا خوشی کے مارے اس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔ 

بھابھی مہرین کیسی ہیں۔ شاہ میر نے پوچھا

وہ بھی بلکل خوش ہے جڑواں بچے ہیں کا اس کو پتا تھا دونوں بیٹیاں ہیں یہ سن کر وہ بھی بہت خوش ہوئی ہے۔ ریان نے بتایا۔ 

پھر تو دونوں کو پہچاننے میں مشکل ہوتی ہوگی نہ۔ شاہ میر نے پوچھا

نہیں نہیں جڑواں ہیں پر سیم شکل نہیں ہیں۔ ریان شاہ میر کی بات سمجھتا ہوا بولا

اوو تصویر ضرور سینڈ کرنا مجھے۔شاہ میر نے وارن کیا۔ 

وہ تو میں نے کردی ہیں تم نے دیکھی نہیں۔ریان نے مسکراکر کہا تبھی اپنی طرف ڈاکٹر کو آتا دیکھا تو شاہ میر سے بولا۔ 

میر ابھی میں ہوسپٹل ہوں پھر بعد میں بات کرتے ہیں۔ 

ٹھیک ہے۔شاہ میر کہتا رابطہ متفق کیا۔ 

کیا بات ہے؟ مہرماہ واشروم سے نکلی تو شاہ میر مسکراتا دیکھا تو پوچھا۔ 

میرا دوست ہے نہ اس کے یہاں دو جڑواں بیٹیوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ شاہ میر نے بتایا۔ 

ماشااللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مہرماہ نے مسکراکر کہا۔ 

ہے تو سہی۔ شاہ میر بس اتنا بولا

اِس نیچے کیوں اُتارا میں نے کجھ پہلے ہی تو نہلایاں تھا۔ مہرماہ کی نظر جب مرجان پہ پڑی تو تاسف سے شاہ میر کو دیکھ کر کہا جو اب ریان کی سینڈ کی بچیوں کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ 

نیچے رہے گا تو چلنا سیکھے گا ورنہ تو بس آپ کے ساتھ چپکا رہے گا۔ شاہ میر نے آرام سے کہا پر مہرماہ مرجان کو اٹھاتی شاہ میر کی گود پہ رکھا جس پہ شاہ میر بس ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔ 

💕💕💕💕💕💕💕💕

چار سال بعد! 

ان سب کی زندگیوں میں چار سال کا وقت گزرگیا تھا پر اِن چار سالوں میں کجھ نہیں بدلا تھا اگر کجھ تھا تو یہ کے شاہ میر جو دوسرے بچے سے پناہ مانگتا تھا اب وہ بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی کا باپ تھا مرجان کے دو سال ہونے کے بعد ہی اللہ نے پھر سے اس کی بچے کی نعمت سے نوازا تھا جس پہ شاہ میر نے پہلے سے زیادہ مہرماہ کو خیال رکھا تھا اور ساتھ میں مرجان کو بھی اس نے دیکھنا ہوتا باقی سے تو مرجان کو اٹھاتے بہلاتے پر رات میں وہ تو یا مہرماہ کی سنتا یا شاہ میر کی ان کے علاوہ کسی اور کی نہیں۔شاہ میر کو اپنی ایک سالہ بیٹی حیات سے بے انتہا محبت تھی مہرماہ کے بعد اگر اس کی آنکھوں میں چمک آتی تھی تو وہ حیات تھی جب وہ مسکراتی تو شاہ میر بھی مسکرا پڑتا اگر وہ تھوڑا روتی تو شاہ میر پورا گھر سر پہ اٹھالیتا حیات پوری طرح مہرماہ کی طرح تھی اس کے بالوں کا رنگ اس کے نین نقش اس کے مسکرانے کا طریقہ سب کجھ بس ایک آنکھیں تھی جو اس نے شاہ میر سے لی تھی ورنہ وہ ایک سال کی عمر میں ہی مہرماہ کا عکس تھی جب کی مرجان شاہ میر کا جس طرح شاہ میر کو مرجان اپنا رقیب لگتا ہے ویسے ہی اب حیات مہرماہ کو اپنا رقیب لگنے لگی ہے مہرماہ کو جو شاہ میر کی حرکتیں عجیب لگتی تھی انجانے میں وہ خود ایسے کام کردیتی مہرماہ کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے علاوہ شاہ میر کی بلو آنکھوں میں چمک آئے۔ جب کی شاہ میر اب بھی ویسے ہی مہرماہ سے عشق کرتا تھا یا یوں کہے جائے کے اس سے زیادہ پر اب مصروفیت کی وجہ سے مہرماہ کو لگتا تھا شاہ میر ویسے نہیں چاہتا شاہ میر اپنی پڑھائی کے بعد حیدر خان کے۔ ساتھ آفس جاتا تھا اس کے بعد بچوں اور مہرماہ کو وہ جتنا وقت دے سکتا تھا وہ دیتا تھا۔ 

دوسری طرف شاہ زیب اور ثانیہ کا تین سالہ کا بیٹا تھا شاہ ویر جس کو سب ویر کہتے تھے سکندر خان کی اپنے پوتے میں جان تھی جو شاہ زیب کی طرح شرارتی تھا ثانیہ کا سر چکراجاتا اس کی شرارتوں سے پر وہ بھی ڈھیٹ ہڈی تھا شاہ زیب اپنی زندگی میں خوش تھا کیونکہ شاہ ویر کے بعد اس کی فیملی مکمل ہوچکی تھی شاہ ویر گورے رنگ کا خوبصورت بچہ تھا جس کے کجھ نین نقش شاہ زیب سے ملتے تو کجھ ثانیہ کے پر آنکھوں کا رنگ اس کا سب الگ تھا شاہ ویر کی آنکھوں کا رنگ گولڈن شڈڈ تھا مہرماہ کو اپنے بھتیجے سے تو پیار بہت تھا پر اس کی شاہ ویر کی آنکھیں بہت پسند تھی۔ 

سالار اور پری کی ایک بیٹی تھی پریسہ جو پری کی طرح معصوم تھی سیدھی سادھی بھولی سی وہ دیکھنے میں سالار کی طرح تھی پر آنکھیں اس کی بھی الگ تھی جس کا رنگ لائٹ براؤن تھا پریسہ کی پیدائش میں پیچیدگیاں تھی جس وجہ سے ڈاکٹرز نے کہا تھا پری پھر دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی جس پہ سالار نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا اس کے لیے یہی بہت تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اس کو اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا بیٹے کی خواہش اس نے کبھی نہیں کی اگر دل میں ہوتی تو دفنا دیتا وہ پری کو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ڈیڈ کی ڈول نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا۔شاہ میر آفس سے گھر لوٹا تو اس کی نظر فرش پہ رینگتی حیات پہ پڑی جس کا چہرہ چاکلیٹ سے بھرا ہوا تھا شاہ میر مسکراتا اس کو اپنی بانہوں میں اٹھایا۔

دید مردان۔

شاہ میر ہنس پڑا حیات کی بات سن کر جو کہنا چاہتی تھی مرجان نے کی ہے حیات کی پیدائش پہ شاہ میر نے مہرماہ سے کہا تھا ہم اپنی بیٹی کا نام مرجان رکھتے ہیں تم بیٹے کا کوئی اور نام سوچو ہر مہرماہ نے شاہ میر کی ایک نہیں سنی اُس سے پہلے مہرماہ اپنی بیٹی کا نام لڑکوں والا رکھتی شاہ میر نے اس کا نام حیات میر رکھ لیا تھا جو سب کو بہت پسند آیا تھا

ڈیڈ آپ آگئے۔چار سالہ مرجان اپنے ہاتھ میں بھالوں لاتا ہوا بولا۔

ہاں جی میں آگیا۔شاہ میر نے مرجان کو بھی اپنی بانہوں میں اٹھاتا کہا اب شاہ میر کے ایک بازوں پہ حیات تو دوسری طرف مرجان تھا شاہ میر ان کو لیے کمرے میں آیا جہاں مہرماہ ان کا پھیلایا ہوا گند صاف کررہی تھی چہرے پہ غصے کے تاثرات صاف نمایاں تھے جس سے شاہ میر کو بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی شامت پہ دیکھائی تھی۔

تم نے مما کو تنگ کیا ہے۔شاہ میر نے مرجان سے پوچھا جس پہ وہ فورن نفی میں سر کو جنبش دیتا حیات کی طرف اشارہ کرنے لگا شاہ میر نے گردن موڑ کر چھوٹی آنکھیں کیے حیات کو دیکھا جو اپنے دو دانتوں کی نمائش کررہی تھی مطلب اس کو اپنا جرم قبول تھا کہ یہ گند اس کا پھیلایا ہوا ہے شاہ میر اپنی بیٹی کی ڈھٹائی پہ مسکرایا۔

آگِئے تم اور حیات کو تو میری نظروں سے دور کرو غضب خدا کا ہے ایک پائونڈ کی مشکل ہے اور میرا جینا دوبہر کردیا ہے۔مہرماہ تیزی سے سامان یہان وہاں ترتیب دیتی شاہ میر کو بولی جو اپنی حیات کے لیے ایک پائونڈ کا لفظ سن کر حیرت میں غلطان تھا۔

ماہ پلیز میری حیات کو ایسے مت بولوں۔شاہ میر حیات کا چہرہ چومتا مہرماہ سے بولا جس پہ مہرماہ کو مزید تاؤ آیا۔

یہ آپ کی حیات چھوٹا پیک بڑا دھماکہ ہے کمرے کا حشر دیکھو کیا کردیا ہے کیا میں بس سارا دن کمرہ سیٹ کرتی رہوں گی ہمارا کمر الگ خراب کیا ہے اور مرجان کا الگ اس کے تو کھلونے ہی توڑ کر رکھ دیئے ہیں بس ایک بھالوں سلامت ہیں۔مہرماہ نے مرجان کے ہاتھ میں بھالوں دیکھ کر تیز آواز میں حیات کی شکایت لگائی۔

حیات اگر اتنی محنت کی تھی تو بھالوں پہ بھی کردیتی۔شاہ میر نے مرجان کو نیچے اُتار کر حیات سے بولا جیسے اس کو بہت افسوس ہوا تھا کہ حیات نے مرجان کا بھالوں بھی کیوں چھوڑا جس پہ حیات نے بھی منہ بناکر افسوس کا اظہار کیا۔

شاہ۔مہرماہ نے غصے سے شاہ میر کی جانب تکیہ مارا جو شاہ میر نے ایک ہاتھ سے کیچ کرلیا تھا مرجان تو بھاں بھاں کرتا رونا شروع کرچکا تھا اس کو تو اب پتا چلا تھا اس کی بہن نے اس کے کِھلونوں کے ساتھ کیا کاروائی کی ہے۔

سنبھالوں اپنے روندو پُتر کو ہم تو چلیں۔شاہ میر نے ایک نظر روتے ہوئے مرجان کو دیکھا جو چار سال کا ہوکر بھی زور زور سے روتا تھا شاہ میر مہرماہ کی طرف فلائنگ کس اُچھالتا حیات کو لیے روم سے باہر چلاگیا۔

نا میرا بچہ مما نئے کِھلونے لیکر دے گی۔مہرماہ مرجان کو اپنے ساتھ لگائے کہا۔

حیات گندی۔مرجان بھاں بھاں کرتا ہوا بولا

مرجان حیات بہن ہے اور بہن کے بارے میں ایسا نہیں کہتے۔مہرماہ نے اس کے روئی جیسے گال صاف کرتے پیار سے سمجھایا۔

وہ ہر بار ایسا کرتی۔مرجان نے شکایت کی۔

شاہ نے بگاڑا ہے اس کو بجائے سمجھانے کے اس کو اور شے دیتا جس سے وہ ایک سال میں ہی اتنی ڈھیٹ ہوگئ ہے اللہ جانے آگے میرا کیا ہوگا۔مہرماہ کو آگے کی فکر لگ گئ۔

مما میں جاؤں۔مرجان نے مہرماہ سے کہا

کدھر؟مہرماہ نے پوچھا۔

ویر کے پاس۔مرجان نے بتایا۔

ٹھیک ہے گارڈ کو کہنا چھوڑ آئے۔مہرماہ نے کہا۔

حیات چاچوں کے پاس آؤ۔آیان نے شاہ میر کی گود میں بیٹھی حیات سے کہا جو شاہ میر کے کانوں میں اپنی توتلی زیان میں جانے کیا کہہ رہی تھی اور شاہ میر بھی بڑی دلجمعی کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا جیسے اِس سے زیادہ ضروری کام اور ہو ہی نہ۔

ن نہ۔حیات نے آیان کو زبان دیکھائی جس سے شاہ میر کا جاندار قہقہ گونجا حیدر خان بھی مسکرا اٹھے ان کو اپنی شرارتی پوتی عزیز تھی شرارت کرنے میں ان کو بھی نہیں بخشتی تھی آیان کو منہ حیرت سے کُھل گیا۔

بھائی آپ کی بیٹی بڑی کوئی بے وفا ہے۔آیان نے منہ بناکر کہا۔

خبردار جو میری حیات کو کجھ کہا تو۔شاہ میر نے آیان کو آنکھیں دیکھائی۔

یاہوں۔حیات نے خوشی سے نعرہ لگایا۔

بس یہی کام رہ گیا تھا وہ بھی کردیا۔مہرماہ حیات کا فیڈر لاتی تاسف سے بولی۔

کیوں میری بیٹی کو سناتی رہتی ہو ہر وقت۔شاہ میر نے شکوہ کیا۔

بیٹی کم گُنڈی زیادہ ہے۔مہرماہ نے کہتے ہی فیڈر حیات کی جانب بڑھایا۔

دید۔مہرماہ نے فیڈر دینا چاہا تو حیات نے شاہ میر کی طرف اشارہ کیا جس پہ مہرماہ کو غصہ آیا 

لوں پکڑو دو اپنی لاڈلی کو۔مہرماہ شاہ میر کے ہاتھ میں فیڈر دیتی تن فن کرتی وہاں سے چلی گئ۔

میری بیٹی کو میرے ہاتھ سے فیڈر پینا ہے۔شاہ میر نے مسکراکر حیات کے منہ میں فیڈر ڈالا تو وہ مگن انداز میں سر کو دائیں بائیں گھماتی دودہ پینے لگی۔

میر واقع حیات بہت شرارتی ہوگئ ہے مہرو کو تنگ بھی بہت کرتی ہے جس سے اس کا غصہ کرنا جائز ہے۔ہانم بیگم ان کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

امی جان بچی ہے اب اگر مستیاں نہیں کرے گی تو کب کریں گی۔شاہ میر نے محبت سے حیات کی طرف دیکھ کر بولا۔

سہی کہتی مہرو تمہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے۔حیات دودہ منہ میں ڈالے پاس بیٹھی ہانم بیگم کے کپڑوں میں گِرایا تو ہانم بیگم بڑبڑاتی وہاں سے اٹھی حیات بولتی بھلے ٹھیک سے نہ تھی پر سمجھتی سب ضرور تھی اِس لیے اُس نے یہ حرکت کی تھی شاہ میر نے لب دانتوں تلے دبائے

حیات میری جان مستی اپنے طرف پر بڑوں سے ایسے نہیں کرتے۔شاہ میر نے سمجھایا تو حیات فیڈر میں ڈالے اس کے سینے پہ اپنا سر رکھ گئی

💕💕💕💕💕💕💕💕

ویر

ویر

ثانیہ ہاتھ میں دودہ کا گلاس لیے پورے گھر میں شاہ ویر کو تلاش کررہی تھی جو جانے کس کونے میں چُھپا بیٹھا تھا۔

اسلام علیکم !مرجان گھر میں اندر داخل ہوتا ہوا ثانیہ کو دیکھ کر سلام کیا یہ عادت مہرماہ نے اس میں ڈالی تھی کہ جب کی بڑوں سے ملو تو پہلے سلام کیا جاتا ہے۔

وعلیکم اسلام !کیسے ہو مرجان۔ثانیہ مسکراتی مرجان کو سلام کا جواب دیتی ہوئی بولی جب کی لاوٴنج میں ڈبل صوفے کے پاس چھپا شاہ ویر الرٹ ہوا تھا اور اپنا چھوٹا ہاتھ پیشانی پہ مارا۔

اِس کو ابھی آنا تھا۔شاہ ویر اپنی چھوٹی پیشانی پہ بل ڈالے خود سے بڑبڑایا۔

میں ٹھیک مامی جان ویر کہاں ہیں؟مرجان نے پوچھا

میں خود اُس نالائق کو ڈھونڈ رہی تھی۔ثانیہ پریشان سی بولی تبھی شاہ ویر اپنا سر اونچا کرتا ان کو دیکھنے لگا۔

وہ رہا ویر۔مرجان نے دیکھا تو فورن سے کہا جس سے ثانیہ نے اس کے ہاتھ کے تعاقب میں دیکھا جہاں شاہ ویر کھسیانا ہوکر کھڑا ہوگیا تھا۔

ویر اِدھر آؤ دودہ پیو۔ثانیہ نے جلدی سے کہا۔

موم مجھے نہیں پسند یہ دودہ میں اب بڑا ہوگیا ہوں۔شاہ ویر منہ بگاڑتا ہوا بولا۔

بڑے کے کجھ لگتے یہ فنش کرو۔ثانیہ نے گھور کر اس کو دودھ کا گلاس پکڑایا۔

مرجان تم بیٹھو میں تمہارا فیورٹ انار کا جوس لیکر آتی ہوں۔ثانیہ نے پیار سے مرجان سے کہا جس پہ وہ مسکراتا صوفے پہ بیٹھ گیا۔

تم نے موم کو کیوں بتایا یہ دیکھو اب مجھے یہ سارا پینا پڑے گا۔شاہ ویر نے مرجان سے ناراض لہجے میں کہا۔

تو پیوں نہ مما کہتی ہے دودہ سے طاقت آتی ہے۔مرجان نے سمجھایا

پر مجھے اِس کا ٹیسٹ نہیں پسند۔شاہ ویر نے وجہ بتائی۔

کجھ نہیں ہوتا پی لوں ویسے بھی مامی جان تمہارے دودہ میں بہت سارے بادام اور پستا ڈالتی ہیں تاکہ تمہیں پسند آئے۔مرجان نے پھر کہا تو شاہ ویر منہ کے الگ الگ زاویئے بناتا سارا گلاس دودہ کا خالی کرگیا۔

گڈ بوائے۔مرجان نے مسکراکر اس کے گال کھینچے جس پہ شاہ ویر مسکرایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر کمرے میں آیا اور سوئی ہوئی حیات کو خوبصورت سے گلابی کارٹ میں ڈالا جس میں اس نے لائٹس لگائی ہوئی تھی تاکہ حیات کو اگر رات میں جاگ ہو تو وہ اُس میں اپنے ہاتھ ڈال کر ساری لائٹس آن کریں جو اس کے ٹچ ہونے سے ہی جگمگا جاتی دوسرا ان میں شور ہوتا جس سے شاہ میر کو پتا لگ جاتا اس کے جاگنے کا کیونکہ حیات کو رونے کی عادت نہیں تھی رات میں جتنی بھی بھوک لگتی وہ کارٹ میں لیٹی رہتی اِس لیے شاہ میر نے یہ حل تراشا تھا۔شاہ میر نے حیات کو کارٹ میں ڈالا پھر مہرماہ کو دیکھا جو سنجیدہ تاثرات لیے بیڈ پہ پاؤں لٹکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔شاہ میر چلتا ہوا اس کے برابر بیٹھا تو مہرماہ اٹھ کھڑی ہوئی اس سے پہلے وہ قدم آگے بڑھاتی شاہ میر نے اس کی کلائی پکڑ کر اپنی تھائی پہ بیٹھایا۔

اپنی لاڈلی کے پاس جاؤ۔مہرماہ نے سرد لہجے میں کہا جس پہ شاہ میر نے مسکراکر اس کا ناراض لہجہ دیکھا

آپ بھی تو میری لاڈلی ہیں۔شاہ میر نے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

پہلے مجھے بھی یہ خوشفہمی تھی پر اللہ کا شکر اب دور ہوگئ ہے۔مہرماہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو شاہ میر کا دل تڑپ اٹھا تھا۔

ماہ کیا ہوگیا ہےکیوں ایسے بات کررہی ہیں۔شاہ میر پریشان ہوتا ہوا بولا۔

تھک گئے ہوگے آفس میں بہت کام ہوتا ہے شام کو گھر آئے ہو اور حیات کو سنبھال رہے تھے رات بہت ہوگئ ہے آرام کرو۔مہرماہ نے بنا اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔شاہ میر مہرماہ کے چہرے اپنی طرف کیا مگر مہرماہ کی۔آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ بونچکار کہ رہ گیا۔

آپ رو رہی ہیں۔شاہ میر مہرماہ کی آنکھوں میں نمی صاف کرتا بولا۔

تم مجھے وقت نہیں دیتے صبح آفس چلے جاتے ہو سات بجے آتے ہو پھر حیات میں مصروف ہوجاتے ہو اِس میں ماہ تو کہیں نہیں ہوتی اب مجھے سچ میں پچھتاوا ہوتا ہے حیات کیوں اِس دنیا میں آئی تم سہی کہتے تھے ہمارے لیے مرجان ہی کافی تھا۔جلدبازی میں مہرماہ کیا کجھ کہہ گئ اس کو خود اندازہ نہیں ہوا احساس تب ہوا جب شاہ میر کی بلو آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔

شاہ۔مہرماہ نے کجھ کہنا چاہا پر شاہ میر نے ہاتھ سے اِشارے سے روک لیا۔

مجھے نہیں تھا پتا ماہ کہ آپ اپنی بیٹی کے بارے میں ایسا سوچتی ہے اس کے پیدا ہونے پہ آپ کو افسوس ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کے وہ میرے لیے یہ اہمیت رکھتی ہے۔شاہ میر کو مہرماہ کی بات نے بہت تکلیف پہچائی تھی حلانکہ مہرماہ جلدبازی میں کہہ گئ تھی ورنہ کون ماں اپنی اولاد کے بارے میں ایسے کہے گی وہ بس کجھ وقت سے شاہ میر کی روٹین سے تنگ آگئ تھی جس سے شاہ میر مرجان اور حیات کو تو وقت دے پاتا پر مہرماہ کو کبھی کبھی نہیں دے پاتا تھا۔

سوری شاہ پر میرا وہ مطلب نہیں تھا بس منہ سے نکل گیا۔مہرماہ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو نکلے تھے جس سے شاہ میر کا دل فورن سے پگھلا تھا۔

ماہ میری غلطی ہے مجھے آپ کو وقت دینا چاہیے پر آپ ناراض نہ ہو میں کل آف لوں گا آفس سے پھر ہم باہر چلیں گے حیات کو ہم گھر پہ رہنے دے گے بس میں اور آپ ہوگے۔شاہ میر نے آرام سے سارا الزام خود پہ لیکر کہا 

ٹھیک ہے مجھے شاپنگ مال بھی جانا ہے پھر ہم لنچ بھی باہر کریں گے آئسکریم پارلر بھی جائے گے۔مہرماہ خوش ہوتی سارا پلان ترتیب دیتی ہوئی بولی۔

بلکل میری جان۔شاہ میر مہرماہ کو خود سے لگائے بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر حیات کو ہانم بیگم کے حوالے کرتا جیسے ہی گاڑی میں بیٹھا تو مہرماہ کی گود میں مرجان کو دیکھ کر اس کا موڈ بگڑا تھا۔

یہ یہاں کیا کررہا ہے۔شاہ میر نے مہرماہ سے پوچھا۔

بیٹا ہے تمہارا۔مہرماہ نے ایسے کہا جیسے شاہ میر جانتا نہ ہو۔

اوو واقع یہ میرا بیٹا ہے میں تو لاعلم تھا چار سالوں سے۔شاہ میر کو اچھی خاصی تپ چڑھی

شاہ ٹائم ویسٹ نہیں کرو مرجان کو مجھے اُس کی پسند کے کِھلونے لیکر دینے ہیں اب اس کا اسکول میں ایڈمیشن کروانا ہے تو اسکول کی چیزیں بھی لینی ہے۔مہرماہ نے گھور کر شاہ میر سے کہا جس پہ شاہ میر جو سیٹ بیلٹ باندھنے والا تھا اس کو ہٹاتا گاڑی کا درواز کھولنے لگا۔

اب تم کہاں جارہے ہو؟مہرماہ نے اس کا ارادہ جان کر پوچھا۔

حیات اور ویر کو لینے پھر آپی پری سے بھی کہوں گا کہ پریسہ کو تیار رکھے جاتے ہوئے اس کو ہم اپنے ساتھ لیکر جائے گے۔شاہ میر نے بڑی سنجیدگی سے کہا مرجان اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے کبھی مہرماہ کو تکتا تو کبھی شاہ میر کو۔

اچھا مذاق ہے پر کیا اور وقت نہیں ملا۔مہرماہ نے طنزیہ کہا۔

مذاق تو آپ میرے ساتھ کررہی ہیں کل شکوہ کررہی تھی کہ میں آپ کو وقت نہیں دیتا اور اب آپ کیا کررہی ہیں۔شاہ میر نے کہا۔

شاہ مرجان کے پاس ایک بھی کِھلونا نہیں جو تم نے لاسٹ ٹائم مرجان کو ریموٹ کنٹرولر کی گاڑی لیکر دی تھی نہ حیات نے اس کا ریموٹ واشروم کے ٹپ میں پھینک دیا تھا جب کی سیل نکال کر اپنی ڈول کے ریموٹ میں ڈالے جو تم نے مرجان کے وقت شاپنگ کی تھی تو ڈول لی تھی جو ریموٹ کنٹرولر تھی گاڑی کے سارے شیشے توڑ کر رکھ دیئے تھے۔مہرماہ نے صلح انداز میں مرجان کی دکھ بھری کہانی بیان کی شاہ میر نے مرجان کو دیکھا جو معصومیت سے اس کو دیکھ رہا تھا شاہ میر کے تاثرات یکدم ڈھیلے پڑے تھے

اب اِس کو پلاسٹک کے کِھلونے لیکر دے گے۔شاہ میر گاڑی پورچ سے نکالتا گیٹ سے پار کرتا مہرماہ سے بولا۔

تمہاری بیٹی نے ان کو بھی سلامت نہیں چھوڑنا میں نے ہی اب اور ٹھیک سے مرجان کی چیزیں سنبھال کے رکھنی ہے۔مہرماہ نے مرجان کے کالے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔

بچہ نہیں ماشااللہ سے چار سال کا ہے خود خیال کریں نہ اپنی چیزوں کا پھر الزام حیات پہ ڈال دیتے ہو وہ تو بچی ہے جو دیکھے گی اس کو اپنے طریقے سے استعمال کرے گی۔شاہ میر نے بھرپور طریقے سے حیات کی حمایت کی جس پہ مہرماہ نے اپنا دھیان ونڈو کے پاس کیا۔

شیشہ بند کردے آپ کو فلو ہوجائے گا اور مرجان کا کیا ہی کہنا وہ تو ہے ہی نازک مزاج۔شاہ میر نے باہر سے آتی تیز ہوا محسوس کیے مہرماہ سے کہا

شاہ تم مرجان پہ طنزیہ نہیں کیا کرو۔مہرماہ برا مان کر بولی۔

بیٹا ہے میرا جو مرضی کہوں۔شاہ میر ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتا دوسرے ہاتھ سے مرجان کا گال کھینچ کر بولا جس پہ مہرماہ مسکرائی اور ونڈو کا شیشہ اوپر چڑھایا کیونکہ اس کو اپنی نہیں مرجان کی فکر تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ویر تم کیا پوری دنیا کے سونے کے بعد سوؤگے؟شاہ زیب تنگ آتا پاس لیٹے شاہ ویر سے بولا جو رات کے گیارہ بجے اس کو اپنے آج دیکھے ہوئے کارٹون کے بارے میں بتارہا تھا۔

ڈیڈ سنے تو آگے کیا ہوا۔شاہ ویر اپنا ننہا ہاتھ شاہ زیب کے چہرے پہ رکھ کر تجسس بھرے انداز میں بولا۔

میرا بیٹا اب سونے کی کوشش کرو۔شاہ زیب نے اس کو پچکارنا چاہا پر وہ یہ بھول گیا تھا وہ بھی اس کا ہی بیٹا تھا۔

نو ڈیڈ پہلے میری بات سنے۔شاہ ویر اٹل انداز میں بولا جس پہ شاہ زیب نے گہری سانس لی پر ثانیہ مسکراکر ان کو دیکھ رہی تھی۔

تم تو سوجاؤ نہ صبح جلدی اٹھتی ہو۔شاہ زیب نے شاہ ویر کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر ثانیہ سے کہا۔

ویر سوجائے پھر سوتی ہوں۔ثانیہ نے سادہ لہجے میں کہا۔

آج کی تاریخ میں اِس کے سونے کے آثار لگ تو نہیں رہے۔شاہ زیب ٹھنڈی سانس خارج کرتا بولا۔

ویر اب سوجاؤ اچھے بچے ڈیڈ کو تنگ نہیں کرتے۔ثانیہ بیڈ کی دوسری سائیڈ آتی بولی جب کی شاہ ویر درمیان میں لیٹا ہوا تھا۔

جیسے مرجان نہیں کرتا؟ویر نے تصدیق چاہی۔

بلکل۔ثانیہ نے کہا تو ویر فورن سے اپنی آنکھوں کو بند کرگیا ثانیہ نے مسکراکر اس کے سینے پہ ہاتھ رکھا تو شاہ زیب نے اس کے ہاتھ پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھ دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

تمہاری بیٹی ماہا تو کمزور ہوتی جارہی ہے اور بھی۔شاہ میر نے فکرمندی سے ریان سے کہا وہ لیپ ٹاپ پہ ویڈیو کال پہ ریان سے باتیں کررہا تھا ریان کی ایک سائیڈ پہ اس کی بیٹی ملیحہ تھی اور گود میں ریان کے دوسری بیٹی ماہا تھی جو ریان کے چہرے پہ اپنا ہاتھ رکھ رہی تھی۔

میر کیا کہوں میں خود ماہا کے لیے فکرمند ہوتا ہوں ایک سال کی تھی بیڈ سے نیچے گِرگئ تھی اس کے بعد اکثر بیمار رہنے لگی تھی جس سے ماہا کی گروتھ ٹھیک سے نہیں ہوئی ہے تو یہ دونوں جڑواں پر ملیحہ پھر بھی ماہا کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔ریان پریشان ہوکر بولا۔

فکر نہیں کرو تین سال کی ہے ابھی آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گی پیاری ہے نہ بہت نظر لگ گئ ہوگی۔شاہ میر نے مسکراکر اس کو تسلی کروائی 

پیاری تو تمہاری بیٹی بھی ہے۔ریان نے حیات کو دیکھ کر کہا جو شاہ میر کے پاس ہی تھی اور بار بار اپنے ننہے ہاتھ لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ رکھ رہی تھی۔

میری بیٹی تو شرارتی بھی بہت ہے۔شاہ میر ہنس کے بولا۔

ماہا ملیحہ بھی کم نہیں۔ریان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا

تمہارا بیٹا کہاں ہے؟شاہ میر نے پوچھا کیونکہ اس کا ایک سال کا بیٹا بھی جس کا نام ولی تھا

مہرین کے ساتھ باہر گیا ہے۔ریان نے بتایا

ماہا جو ہے وہ ملیحہ سے قد میں چھوٹی ہوگی۔شاہ میر نے اسکرین پہ ماہا کو دیکھ کر کہا

ہاں ایک جتنی ہوتی پر ماہا کے ساتھ حادثہ پیش آیا جس وجہ سے وہ ایسے ہوگئ ہے ورنہ میری بیٹی ٹھیک ہے۔ریان ماہا کے سر پہ پیار کرتا ہوا بولا۔

علاج کروایا کرو۔شاہ میر نے کہا

یہاں کے  بیسٹ ڈاکٹرز کو دیکھایا ہے۔ریان نے بتایا۔

پھر فکر نہیں کرو۔شاہ میر نے کہا تو ریان نے سرکو اثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ویر چپ چاپ بیٹھو۔ثانیہ نے گھور کر شاہ ویر کو دیکھا وہ آج شاہ ویر کی ضد پہ حیدر خان کی طرف آئی تھی۔

مت ڈانٹو اِسے۔مہرماہ نے ٹوکا

حیات آؤ ہم لان میں چلیں۔شاہ ویر نے حیات سے کہا جو نقلی اسکوپ پہنے اب شاہ میر کا علاج کررہی تھی شاہ میر حیات کے لیے میڈیکل کی چیزیں لایا تھا وہ چاہتا تھا حیات بڑی ہوکر ڈاکٹر بنے اس لیے شاہ میر نے اِس بار اس کے کھلونے بھی ایسے لایا جس سے حیات بہت خوش تھی اپنے نئے کھلونے دیکھ کر۔

می دید علاد۔حیات شاہ میر کے ماتھے پہ اپنا چھوٹا ہاتھ رکھتی شاہ ویر سے بولی۔

پہلے چلنا تو سیکھو پھر اپنے ڈیڈ کا علاج بھی کرنا۔مہرماہ نے حیات سے کہا جس نے کوئی دھیان نہیں دیا۔

میری بیٹی مستقبل کی مشہور اور کامیاب ڈاکٹر بنے گی۔شاہ میر حیات کو اپنے ساتھ لگاکر کہا جس پہ حیات نے اپنا سر زور شور سے ہلایا

مریض تو مستقبل کی  ڈاکٹر حیات میر سے پناہ مانگے گے۔آیان شاہ میر کی بات پہ آیان بڑبڑایا

تم سے زیادہ ہوشیار ہے میری بیٹی۔شاہ میر کے کانوں سے آیان کی بڑبڑاہٹ منفی نہ رہ سکتی۔

میں مستقبل کا سوفٹ ویئر انجنیئر ہوں۔آیان جلدی سے بولا۔

بڑے تیر مار لینے ہے تمہیں ایپس بناکر۔شاہ میر نے اس کی بات پہ کہا جس پہ آیان دل مسوس کرتا رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ ماں ہے اپنی بیٹی کو سمجھائے استاد سے کیسے پیش آیا جاتا ہے۔پرنسپل نے مہرماہ سے کہا جس کا چہرہ شرمندگی کے احساس سے سرخ ہوگیا تھا پاس ہی چار سالہ حیات کھڑی تھی۔

میم میری غلطی نہیں تھی۔حیات نے اپنا دفاع کرنا چاہا پر مہرماہ کی ایک گھوری سے اس کی چلتی زبان کو بریک لگی۔مہرماہ کو آج حیات کے اسکول سے فون آیا تھا جس میں پرنسپل نے اس کو آنے کا کہا حیات کو اسکول میں داخلہ لئے پانچ ماہ ہوئے تھے پر آئے دن حیات کی کوئی نہ کوئی شکایت محصول ہوتی پر پرنسپل ہمیشہ شاہ میر کو کال کرتی تھی پر آج اس کا نمبر بند تھا جس وجہ سے انہوں نے مہرماہ کو کال پہ یہاں آنے کا کہا یہاں آکر مہرماہ کو جو سننے میں ملا اُس میں وہ شرمندہ ہوکر رہ گئ تھی حیات نے اپنی ایک کلاس فیلو کے بال قینچی سے کاٹ دیئے تھے جب ٹیچر نے سخت لہجے میں پوچھا تو جواب میں کہنے لگی کہ اِس لڑکی سے پوچھو جس سے ٹیچر نے نجانے کیا کہا تو حیات شاہ میر کی دھمکیاں دینے لگی تو ٹیچر اس کا ہاتھ پکڑتی پرنسپل کے آفس میں لائی تھی اور سارا کجھ ان کے گوش گزار دیا۔

چلو تم گھر۔مہرماہ حیات کا ہاتھ پکڑتی باہر گاڑی میں بیٹھایا خود اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔

مما میری کوئی غلطی نہیں تھی۔حیات اپنے چوٹیوں کو آگے پیچھے کرتی وضاحت دینی چاہی پر مہرماہ کا کوئی موڈ نہیں تھا آج بات اس کی پرورش پہ آئی تھی جس وجہ سے وہ بہت غصے میں تھی مہرماہ ریش ڈرائیو کرتی گھر میں داخل ہوئی تھی حیات جلدی سے مہرماہ کے پیچھے لپکی۔

مما لیسن۔حیات نے مہرماہ کو آواز دی۔

ارے حیات تم اسکول سے اتنی جلدی آگئ۔ہانم بیگم حیرت سے استفسار کرنے لگی۔

دادو ٹیچر نے میری غلط شکایت مما سے لگائی جس وجہ سے مما مجھ سے ناراض ہے۔حیات نے مہرماہ کی طرف اشارہ کرکے بتایا جو چکر کاٹتی گہرے سانس لے رہی تھی۔

حیات اوپر جاؤ ورنہ میں بہت برا پیش آؤں گی۔مہرماہ نے کڑے تیوروں سے حیات کو دیکھا جو اپنی غلطی مان نہیں رہی تھی ورنہ شاہ میر کے سامنے بڑے فخر سے اپنا کارنامہ بتاتی تھی۔

مما مجھے کجھ بولنے کے موقع تو دے۔حیات نے اپنی ننہی ناک پھلاکر کہا۔

سنا نہیں تم نے میں کیا بکواس کررہی ہوں۔مہرماہ نے حیات کا نازک بازوں سختی سے دبوچ کر کہا ہانم بیگم اس کو ہٹانے والی تھی پر جو منظر انہوں نے دیکھا بے ساختہ ان کا ہاتھ دل پہ ہڑا۔

مما یو ہرٹ حیات یو آر ڈرٹی۔حیات اپنا بازوں آزاد کرنے کی کوشش کرتی مہرماہ سے بولی وہ جو پہلے ہی غصے میں تھی حیات کی بات پہ کھینچ کر زوردار تھپڑ اس کے نازک رخسار پہ جڑدیا تھا جس سے حیات اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاکر فرش پہ گِرپری پڑی مگر یہ ہولناک منظر اندر آتے شاہ میر نے بھی دیکھ لیا تھا 

مہرماہ!!!

شاہ میر نے دھاڑ کی آواز میں مہرماہ کا نام لیا تھا جس سے مہرماہ کا دل اچھل کر حلق تک آگیا تھا حیات جو اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کر آنکھیں پھاڑ کر مہرماہ کو دیکھ رہی تھی اپنے باپ کی آواز سن کر وہ اٹھتی بھاگ کر شاہ میر کی ٹانگوں سے چپک گئ تھی شاہ میر حیات کو کانپتا دیکھ کر فورن سے اس کو اپنے بازوں میں اٹھایا تھا شاہ میر کی آنکھیں سرخ ہوگئ تھی حیات کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر حیات کبھی روتی نہیں تھی پر آج اس کو روتا دیکھ کر شاہ میر کو اپنا دل مٹھی میں جکڑتا محسوس ہوا تھا آج اس کی ضروری میٹنگ تھی جس وجہ سے اُس نے اپنا فون بند کررکھا تھا میٹنگ کے بعد جب اس نے اپنا فون آن کیا تو حیات کے اسکول سے کالز دیکھ کر کال بیک کی تھی جس سے وہ ساری بات جان گیا تھا اس لیے وہ گھر آکر حیات کو مہرماہ کے غصے دے بچانا چاہتا تھا اور خود اکیلے اس کو سمجھانے کا سوچا وہ جانتا تھا مہرماہ غصے میں ہوگی پر شاہ میر کو مہرماہ سے اتنے شدید عمل کی توقع نہیں تھی کے وہ اس کی نازک پھولوں جیسی بیٹی پہ ہاتھ اٹھائے گی۔

میرا بہادر بچہ روتے نہیں۔شاہ میر دیوانہ وار حیات کا چہرہ چومتا اس کو بہلانے لگا جو اب ہچکیاں لیکر رو رہی تھی مہرماہ کا سارا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا مہرماہ چلتی شاہ میر سے حیات کو لینا چاہا اس کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ وہ غصے میں کیا کرگئی تھی جس سے وہ یہ بھی محسوس نہیں کرپائی کے آج زندگی میں پہلی بار اس کو ماہ کے بجائے مہرماہ کہا تھا دوسرا وہ زور سے اس پہ چیخا تھا اس کی تو ممتا تڑپ اٹھی تھی حیات کو روتا دیکھ کر پر اس کو حیرت کا شدید جھٹکا تب لگا جب وہ حیات کو اپنے پاس کرنا چاہا تو شاہ میر نے حیات کو پیچھے کردیا تھا۔

آج کے لیے اتنا کافی ہے آپ جو آج کیا نہ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔شاہ میر حیات کا چہرہ صاف کرتا سرد لہجے میں مہرماہ سے بولا مہرماہ گنگ سی اپنے لیے شاہ میر کا سرد سپاٹ اندر نوٹ کررہی تھی اس کو کہاں عادت تھی شاہ میر کے ایسے رویئے کی۔

شاہ وہ آ

مہرماہ نے کجھ کہنا چاہا پر حیات پہلے ہی شروع ہوگئ اس کے اندر ڈر بیٹھ گیا تھا کے اگر وہ نہ بولی تو شاہ میر بھی اس کو مارے گا۔

ڈیڈ کلاس میں لڑکی نے میرے بالوں میں ببل چپکائی تھی۔حیات نے اپنی چوٹی شاہ میر کو دیکھائی جہاں چونگم چپکا ہوا تھا جو مہرماہ نے نہیں دیکھا تھا شاہ میر غور سے حیات کو دیکھنے لگا وہ جانتا تھا حیات جھوٹ نہیں بولتی تھی اگر کجھ کر بھی دیتی تو مان لیتی تھی۔

پھر میرے بچے نے کیا کیا۔شاہ میر نے بے حد نرمی سے پوچھا 

ڈیڈ آپ نے بولا تھا نہ کلاس میں نو شرارت تو میں نے اس کی شرارت پہ دھیان نہیں دیا پھر اس نے میرا ہوم ورک والا پیج پھاڑ دیا میں نے اس لیے اس کے بال کاٹ دیئے ایک تو پہلے اس نے میرے بال خراب کردیئے دوسرا ہوم ورک بھی جس سے میں نے برداشت نہیں کیا۔یہ سنتے ہوئے مہرماہ کو حیات کہی سے بھی چار سال کی نہیں لگی۔

ڈیڈ کو اپنی ڈول پہ یقین ہے۔شاہ میر نے حیات کو اپنے ساتھ لگائے کہا۔

ڈیڈ مما ڈرٹی۔حیات نے پھر رونا سٹارٹ کیا اور اپنے گال کی طرف اشارہ کرکے بتایا جہاں سرخ نشان بن گیا تھا مہرماہ حیات کی بات پہ شاہ میر کی نظریں خود پہ محسوس کیے شرمندہ اور چور ہوکر رہ گئ تھی۔

یس مما ڈرٹی۔شاہ میر اس کے گال پہ بنے سرخ نشان پہ اپنے لب رکھتا حیات کی بات پہ اتفاق کیا مہرماہ کو نظرانداز کیے حیات کو اوپر لے جانے کے بجائے نیچے والے کمرے میں گیا جو اس نے حیات کے لیے سیٹ کیا تھا۔مہرماہ شاک میں بس ان کو جاتا دیکھتی رہی ہانم بیگم نے سر پکڑ صوفے پہ ڈھے گئ ایک جگہ یک ٹک دیکھنے کی وجہ سے مہرماہ کو اپنی آنکھیں پتھرائی ہوئی لگی۔

مہرو مرجان آنے والے ہے اس کے لیے پاستا بناؤ آتے ہی کھانے کا کہے گا تمہارے علاوہ کسی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتا۔ہانم بیگم خود ہی ہمت جمع کرتی مہرماہ سے مخاطب ہوئی جو ساکت کھڑی تھی۔

چچی جان کیا میں نے غلط کیا اگر بچے نافرمانی کریں گے تو ماں ہاتھ اٹھائے گی نہ تاکہ وہ مزید نہ بگڑے۔مہرماہ نے ہانم بیگم سے پوچھا۔

بعد میں بات کرتے ہیں ابھی میر غصے میں ہے تھوڑی دیر میں غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو خود تمہارے پاس چلا آئے گا۔ہانم بیگم اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔

شاہ نے تو کبھی مذاق میں بھی سخت نظروں سے نہیں دیکھا پر آج تو اس کی آنکھیں میرے لیے شعلے بھڑکا رہی تھی۔مہرماہ کو شاہ میر کا سردپن یاد آیا تو روہانسی ہوکر بولی

کیونکہ وہ آج ماہ کا شاہ نہیں بلکہ حیات کا ڈیڈ تھا۔ہانم بیگم اتنا کہتی وہاں سے چلی گئ جب کی مہرماہ تنہا سی شاہ میر کا سوچنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر فکرمند سا حیات کو دیکھ رہا تھا جو بھوکے پیٹ سوگئ تھی۔

کجھ کھایا بھی نہیں۔شاہ میر حیات کے ماتھے پہ بوسہ دیتا بولا اور اس پہ چادر ٹھیک کرتا خود سنگل صوفے کی طرف آکر بیٹھا۔

ماہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔شاہ میر دو انگلیوں سے اپنی پیشانی سہلاتا ہوا بولا۔

کون؟دروازہ نوک ہونے پہ شاہ میر نے پوچھا

بات کرنی ہے۔مہرماہ نے کہا

فلحال میں بات نہیں کرسکتا۔شاہ میر بے رخی سے بولا

یہ آج کس انداز سے بات کررہے ہو تم؟مہرماہ کو شاہ میر کی بے رخی تکلیف پہچارہی تھی۔

آپ کس لحاظ سے بنا حیات کی بات سنے اس پہ ہاتھ اٹھاسکتی ہیں یہ بھی نہ سوچا آپ کے اِس عمل پہ چار سال کی بچی پہ کیا اثر ہوگا۔شاہ میر حیات کو سوتا ہوا دیکھ کر دھیمی مگر سخت لہجے میں بولا۔

چار سالہ بچی اپنے استاد سے بدتمیزی کرسکتی ہے شاہ تم بلاوجہ حیات کو فیور کررہے ہو آج میری تربیت پہ بات آئی تھی میں کیسے خاموش رہتی۔مہرماہ کو اب غصہ آیا اِس لیے تیز آواز میں بولی۔

باہر چلیں حیات سورہی ہے اس کی نیند ڈسٹرب ہوگی۔شاہ میر سنجیدگی سے کہتا روم سے باہر نکلا تو مہرماہ بھی سوتی ہوئی حیات پہ نظر ڈالتی باہر آئی۔

حیات نے استاد کے ساتھ کیا کیا کیوں کیا یہ میں اس کے جاگنے پہ پوچھ لوں گا پر پھر بھی میں یہی کہوں گا آپ کو حیات پہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔شاہ میر باہر آتے ہی مہرماہ سے بولا باقی سے بھی ہال میں جمع ہوگئے تھے حیدر خان اور آیان کو مختصر سا ہانم بیگم نے بتادیا تھا۔

شاہ۔مہرماہ نے کجھ کہنا چاہا۔

مہرو واقع حیات بچی ہے اس کو تھپڑ مارنا ٹھیک نہیں تھا تم اور زیب بھی تو شرارتیں کرتے تھے تو کیا کبھی سارہ بھابی نے تم لوگوں پہ ہاتھ اٹھایا۔حیدر خان نے مہرماہ سے کہا تو مہرماہ سرجھکا کر نفی میں ہلایا۔

بچے شرارت کرتے ہیں ماں باپ کو چاہیے آرام سے ان کو سمجھائے یا ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ کریں پر مارنا ٹھیک نہیں ہوتا ایسے بچے سُدھرتے تو نہیں پر ڈھیٹ ضرور بن جاتے ہے جو کام زبان سے ہوجاتا ہے تو اس میں ہاتھ کو استعمال کرنے کی کیا ضرورت ایسے میں بچوں کے دماغ میں غلط تصورات پیدا ہوتے ہیں۔حیدر خان مزید بولے مہرماہ کو اپنا آپ زمین میں دھنستا محسوس ہوا پہلے شاہ میر کی بے رخی پھر اب باقی سب بھی اس کو قصوروار سمجھ رہے تھے کہی کہی اس کو بھی لگ رہا تھا وہ غلط ہے۔

میں حیات کو اِس لیے نہیں ٹوکتا کیونکہ اگر میں بات بات پہ اس کو ٹوکتا رہا تو وہ کوئی کام نہیں کرے گی اُس میں کانفڈنٹ کی کمی ہوجائے گی میں اپنی بیٹی کو بزدل نہیں بہادر بنانا چاہتا ہوں تاکہ وہ جب بڑی ہو تو عام لڑکیوں کی طرح ڈری سہی نہ ہو بلکہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں لڑکا اور ہو یا لڑکی اگر بچپن میں اگر وہ کجھ کریں گے تو ہم جب اس کو کہے گے نہ ایسا نہ کرو تو وہ ایسا نہیں کریں گے ہمیں لگے گا ہمارا بچہ فرمانبردار بن گیا ہے تو یہ سہی بھی ہے پر وہ اندر سے ڈرا ہوا ہی ہوتا ہے خود سے کبھی کجھ کرنے کی ہمت اس میں نہیں ہوگی پیدا کیونکہ جب اس کے اندر ہمت پیدا ہورہی تھی تو ہم والدین ٹوکتے رہتے ہیں ٹوکنا اس چیز پہ چاہیے جب وہ اخلاقیات سے باہر کا کام کریں یہ پلٹ نہ اٹھانا یہ کِھلونا نہیں توڑنے یہان مت جانا وہاں مت جانا یہ مت کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب وہ چیزیں ہے جس میں کچی عمر کے بچوں کے اندر خوداعتمادی مار دیتی ہے میں حیات کو سمجھاؤں گا پوچھو گا بھی پر مجھے اتنا یقین ہے میری بیٹی شرارتی ہے پر بدتمیزی بداخلاق نہیں جو استاد سے ایسے پیش آئے۔شاہ میر ایک سانس میں کہتا وہاں رُکا نہیں تھا حیات کے کمرے میں چلاگیا تھا مہرماہ بُت بنی وہاں کھڑی رہ گئ اس کو سمجھ نہیں آیا کیسے وہ اپنی غلطی کا کفارہ ادا کریں جو وہ کر بیٹھی ہے اپنے غصے میں آکر اس نے حیات کو تو خود سے دور کردیا تھا پر شاہ میر کو بھی بدزن کردیا تھا۔

مہرو اِدھر بیٹھو۔ہانم بیگم نے پاس پڑے صوفے پہ اس کو بیٹھایا۔

میرا تمہیں کجھ کہنا یا حیدر،میر کی باتوں کا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں بلکہ یہ احساس کروانا ہے کہ تم کبھی کبھی زیادتی کرجاتی ہو حیات کے معاملے میں شاید اِس لیے کیونکہ میر کی محبت اس کے آنے کے بعد بٹ چُکی ہے وہ حیات کو بھی اُتنا چاہتا ہے جتنا تمہیں پر تین سالوں میں تمہیں میر کی محبت اس کی توجہ کی اتنی عادت ہوگئ ہے کہ تم اس میں اپنی خود کی بیٹی کی شراکت نہیں برداشت کررہی مرجان کی پیدائش پہ میر کا بھی یہی حال تھا پر وہ بس تب چِڑتا جب تم میر کے سامنے اس کو پیار کرتی ورنہ مرجان سے کبھی میر غافل نہیں ہوا تھا وہ ہر رات مرجان کے رونے پہ تمہارے جاگنے سے پہلے جاگتا تھا میر کو اپنی نیند سے زیادہ تمہاری فکر ہوتی تھی ورنہ وہ سارا یونی کا تھکا ہارا آفس میں کام کرتا تھا اس کو بھی تو آرام چاہیے ہوتا تھا نہ پر وہ اپنا سکون تم میں اور مرجان میں دیکھتا تھا پھر جب حیات آئی تو اس کو اپنی بیٹی سے عشق ہوا جانتی ہو کیوں؟ہانم بیگم کہتی کہتی رُک کر مہرماہ کو دیکھ کر پوچھا تو مہرماہ نے بس نفی میں سر ہلایا۔

ایک تو وہ تمہاری جیسی ہے شکل وصورت میں دوسرا یہ کہ وہ تمہارے قریب نہیں آتی تھی جس سے میر کو وہ کبھی اپنی رقیب نہیں لگی تمہیں لگتا ہے حیات میر کے اِس لیے قریب ہے کیونکہ میر اس کو زیادہ توجہ اور پیار دیتا ہے تو ایسا نہیں حیات اِس لیے اس کے قریب ہوتی ہے کیونکہ تم نے حیات کو وہ توجہ نہیں دی جو مرجان کو دیتی تھی۔ہانم بیگم آرام سے بولی تو مہرماہ بس ان کو دیکھتی رہ گئ۔

وہ میری بھی اولاد ہے چچی جان میں کبھی نہ تو مرجان کو حیات پہ ترجیح دوں گی نہ حیات کو مرجان پہ وہ دونوں مجھے ایک حیسے عزیز ہیں۔مہرماہ نے فورن سے کہا تو ہانم بیگم مسکراپڑی۔

بیشک مہرو پر تم کوشش کرنا حیات کو سمجھنے کی۔ہانم بیگم بس اتنا کہہ پائی۔

اگر آپ مانتی ہے کہ میں شراکت نہیں برداشت کر پارہی اپنی بیٹی کی تو بلاوجہ بھی نہیں ہے شاہ نے آج پہلی بار مجھ سے ایسے بات کی ہے جن آنکھوں میں میرے لیے چمک ہوتی تھی آج وہاں سرخ پن سردپن اور سپاٹ تاثرات تھے تھے وہ بھی حیات کی وجہ سے۔مہرماہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ہانم بیگم کو وہ آج بچی لگی جو اپنا پسندیدہ کِھلونے کے چھن جانے کی وجہ سے رونا رو رہی ہے پر کہا بس یہ۔

ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لیے الگ الگ جگہ ہوتی ہے تم یہ سوچ رہی ہوکہ میر بیٹی کی وجہ سے بیوی سے پیار نہیں کرتا تو ایسا نہیں بیوی کا الگ مقام ہوتا ہے بیٹی کا الگ کوئی کسی کی جگہ نہیں لیں سکتا۔مہرماہ نے ان کی بات پہ بس اپنے آنسو صاف کیے

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اٹھ گیا میرا بچہ۔شاہ میر شکر کا سانس بھرتا حیات سے بولا جو شام کے وقت سوئی تھی تو ابھی رات کے دو بجے اٹھی تھی اِس وقت میں شاہ میر بس جاگ کر حیات کے اٹھنے کا انتظار کررہا تھا۔

ڈیڈ بھوک۔حیات شاہ میر کی بات پہ منہ بناکر بولی تو شاہ میر مسکرادیا۔

میری جان کو بھوک لگی۔شاہ میر مسکراتا اس کے پیٹ میں گُدگُدی کرتا بولا تو حیات کِھل کِھلا اٹھی جس سے شاہ میر بھی جی اٹھا۔

آؤ آج باپ بیٹی مل کر کھانا پکائے گے۔شاہ میر حیات کو کندھے پہ اٹھاتا ہوا بولا۔

پر ڈیڈ مجھے تو کجھ بنانا نہیں آتا۔حیات نے پریشانی سے بتایا جس پہ شاہ میر آسودگی سے مسکرایا۔

میری حیات کونسا تمہارے ڈیڈ کو کجھ بنانا آتا ہے ہم کھانا گرم کرکے کھائے گے۔شاہ میر نے کہا تو حیات نے خوش ہوکر سرہلایا پھر دونوں کمرے سے نکل کر کچن کی جانب آئے مہرماہ جو دیر تک کمرے میں آنے کا انتظار کررہی تھی پر وہ نہیں آیا تو مرجان کو سُلانے کت بعد سیڑھیوں پہ بیٹھ کر حیات کے کمرے سے شاہ میر کے باہر نکلنے کا انتظار کررہی تھی اب جب دونوں کو کچن میں جاتا دیکھا تو وہ فورن سے ان کے پیچھے گئ۔

تم بیٹھو میں جب تک کھانا گرم کرو۔شاہ میر حیات کو کچن شیف پہ بیٹھاتا ہوا بولا۔

ڈیڈ جب تک مجھے چپس دے۔حیات نے فرمائش کی تو شاہ میر نے کچن میں سیٹ کیے سارے کبرڈز کھول کر چیک کیے پھر ایک کبرڈ میں سے جب چپس کا پیکٹ ملا تھا ان میں سے ایک لیز چپس اٹھا کر حیات کو دی۔

میں گرم کردیتی ہوں سالن پھر تازی روٹی بنالوں گی۔مہرماہ کچن میں آتی شاہ میر سے بولی جو فریج میں سے سالن نکال رہا تھا ساتھ میں اس نے کباب کی پلیٹ بھی اٹھا رکھی تھی

ضرورت نہیں میں کرلوں گا۔شاہ میر بنا اس کی طرف دیکھے بولا۔

شاہ ضد نہیں کرو حیات کو کیا تم اتنا ہیوی کھانا کھلاؤگے؟مہرماہ نے سمجھانا چاہا۔

آپ فکر نہیں کرے میں جانتا ہوں حیات کے لیے کیا ٹھیک ہے کیا نہیں۔شاہ میر گہری سانس بھرتا ہوا بولا۔

یہاں دیکھو۔مہرماہ نے شاہ میر کا بازوں پکڑ اس کا رخ اپنی طرف کرکے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

کیا دیکھوں۔شاہ میر مہرماہ کو دیکھ کر بولا مگر اس کی سوجھی آنکھیں دیکھ کر وہ نظریں چُراگیا۔

میں جانتی ہوں میں نے غلطی کی ہے پر شاہ پلیز تم ایسے بات مت کرو مجھے نظرانداز نہیں کرو ورنہ میں مرجاؤں گی۔مہرماہ اپنا سر شاہ میر کے سینے پہ رکھتی روتی ہوئی بولی شاہ میر نے دُھل کر اس کا آخری جُملا سنا تھا۔

فضول باتیں مت کریں۔شاہ میر ایک قدم پیچھے ہوتا ہوا بولا مہرماہ نے شکوہ کرتی اس کی طرف دیکھا پر شاہ میر آج پتھر بنا کھڑا رہا۔مہرماہ کجھ پل اس کو دیکھتی رہی پھر کچن سے باہر نکلی گئ شاہ میر گہری سانس بھرتا خود کو کمپوز کرتا حیات کو دیکھا جو حیران سی تھی۔

حیات پاستا کھاؤ گی؟شاہ میر نے پوچھا تو حیات نے سر کو اثبات میں ہلایا تو شاہ میر نے سالن کباب واپس فریج میں رکھے اور پاستا جو مہرماہ نے مرجان کے لیے بنایا تھا وہ اٹھاکر حیات کو اپنی گود میں لیکر کمرے میں آیا۔

ڈیڈ آج ہم یہاں کیوں ہیں؟حیات نے شاہ میر سے پوچھا

کیونکہ یہ آپ کا کمرہ ہے۔شاہ میر نے مسکراکر کہا اور اس کو پاستا کِھلانے لگا۔

پر ہم تو آپ کے روم میں ہوتے ہیں۔حیات نے کہا

آج سے آپ اور میں یہاں ہوگے۔شاہ میر بتایا

مما اور مرجان برو؟حیات نے پوچھا

وہ دوسرے کمرے میں۔شاہ میر نے آرام سے کہا

آپ مما سے میری وجہ سے ناراض ہیں؟حیات نے پوچھا

نہیں آپ کے ڈیڈ آپ کی مما سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتے۔شاہ میر تحمل سے جواب دیتا ہوا بولا۔

تو جب انہوں نے آپ کو ہگ کیا تو جواب میں آپ نے ہگ کیوں نہیں کیا۔حیات نے مزید پوچھا

حیات بُری بات اب آپ ہمارے پرسنل موومنٹس بھی دیکھے گی۔شاہ میر نرمی سے حیات کا کان پکڑتا  مصنوعی رعب سے بولا جس پہ حیات ہنس پڑی۔

آپ میرے سامنے کریں گے تو میں دیکھوں گی نہ۔حیات نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا تو شاہ میر بھی ہنس پڑا۔

اچھا میرا بیٹا اب مجھے ایک بات بتاؤ؟شاہ میر کھانے کِھلانے کے بعد حیات کو اپنی گود میں بیٹھاتا ہوا بولا۔

کونسی بات؟حیات سر اونچا کرتی بولی۔

ڈیڈ آپ کو سمجھاتا ہے نہ کہ بڑوں سے بدتمیزی نہیں کرتے۔شاہ میر نے کہا تو حیات نے سرہلایا

پھر پرنسپل نے مجھے کیوں کہا کہ آپ کی بیٹی نے اپنے استاد سے بدتمیزی کی تھی۔شاہ میر نے کہا۔

ڈیڈ میں نے ٹیچر سے روڈلی بات نہیں کی تھی انہوں جب مجھ سے وجہ پوچھی تو میں نے کہا سونی سے پوچھے کیونکہ شروعات اس نے کی تھی پر ٹیچر بولی میں جاہل ماں باپ کی جاہل اولاد ہوں مجھے ان کا کہا لفظ جاہل سمجھ تو نہیں آیا پر پوری کلاس ہنس رہی تھی تو میں سمجھ گئ یہ بُرا ورڈ ہے تو میں نے ان سے کہا میں ان کی شکایت ڈیڈ سے کروں گی تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر پرنسپل کی آفس لے گئ ان کو سب کجھ بتایا پر اپنا کہا جُملا جاہل نہیں۔حیات اپنا چہرہ موڑ کر شاہ میر کو دیکھتی بتانے لگی شاہ میر نے اپنے ہاتھوں کہ مٹھیاں زور سے بند کی تھی اس کو حیات کی ٹیچر پہ اشتعال آیا تھا جو اُس نے نکالنا بھی تھا۔

آپ کجھ مت سوچو۔شاہ میر حیات کے لیے خود کو نارمل کرتا بولا۔

ڈیڈ میرا ہوم ورک۔حیات کو رات کے تین بجے اپنا ہوم ورک یاد آیا۔

بیٹھو میں تمہارا بیگ لاتا ہوں۔شاہ میر نے حیات کی پیشانی پہ بوسہ دے کر کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ ناشتہ کرلوں۔مہرماہ نے شاہ میر سے کہا جو ابھی کمرے میں فریش ہونے کے لیے آیا تھا۔

بھوک نہیں۔شاہ میر وارڈروب سے اپنے لیے وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک کوٹ جینز پینٹ نکالتا ہوا بولا۔

شاہ پلیز۔مہرماہ نے اپنا سر شاہ میر کی پشت پہ ٹکایا وہ اپنی انا اپنا سب کجھ پشت پہ ڈالیں اس کو منارہی تھی مگر شاہ میر ماننے کا نام ہی نہیں لیں رہا تھا اور مہرماہ کو شاہ میر کی ناراضگی برداشت نہیں ہورہی تھی اپنے سینے پہ مہرماہ کا ہاتھ محسوس کرکے شاہ میر کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی پر وہ مہرماہ کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔

مجھے آفس کے لیے دیر ہورہی ہے۔شاہ میر مہرماہ سے دور ہوتا سنجیدگی سے بول کر واشروم کی طرف بڑھا شاہ میر کا ایسا انداز دیکھ کر ایک آنسو مہرماہ کی آنکھ سے گِرکر قالین میں جذب ہوا۔

کسی کو خاص کرکے 

بہت عام کردینا

کسی سے پہروں باتیں

اور صبح سے شام کردینا

کسی کو بھولنا ایسے

کہ جانتے نہ تھے

عجیب ہے محبت کا

خود انجام کردینا

مما تسمے بند نہیں ہورہے۔سات سالہ مرجان اسکول یونیفارم پہنے مہرماہ کے پاس آتا بولا

میں باندھ دیتی ہوں۔مہرماہ چہرہ صاف کرتی مرجان کو دیکھ کر بولی۔

تھوڑی دیر بعد شاہ میر باہر آیا تو مہرماہ مرجان کی بیگ میں ٹفن ڈال رہی تھی شاہ میر نے مرجان کو دیکھا تھا اس کی جانب آیا کل سے اس نے مرجان کو نہیں دیکھا تھا سارا وقت حیات کے کمرے میں ہونے کی وجہ سے۔

کیسے ہو۔شاہ میر نے مرجان کو گود میں لیا

میں ٹھیک آپ کل سے کہاں تھے؟مرجان اپنے ننہے بازوں شاہ میر کے کندھے پہ حائل کرتا ہوا بولا۔

ڈیڈ کل بزی تھے۔شاہ میر نے اس کی آنکھوں  پہ بوسہ دے کر بتایا۔

اووہ۔مرجان نے منہ پہ ہاتھ رکھا تو شاہ میر نے مسکراکر اس کو صوفے پہ بیٹھایا خود آفس جانے کے لیے تیار ہونے لگے جب کی مہرماہ کو اپنا نظرانداز ہونا برداشت نہیں ہورہا تھا اِس لیے وہاں سے چلی گئ تھی۔

حیات !!!!

حیات!!!!

حیات۔شاہ میر ہال میں آتا حیات کو پُکارنے لگا

آئی ڈیڈی صبر۔حیات اپنا ننہا ایک ہاتھ میں بیگ جب کی دوسرا ننہا ہاتھ اپنے بالوں میں رکھ کر بھاگتی ہوئی آکر شاہ میر سے بولی تو سب مسکرادیئے۔

اِدھر آؤ پہلے۔ہانم بیگم نے حیات سے کہا جو شاہ میر کے پاس جارہی تھی۔

جی دادو اور کوئی حکم۔حیات ہانم بیگم کی گود میں بیٹھ کر بولی۔

بدمعاش۔ہانم بیگم نے اس کے ماتھے پہ چپت لگائی پھر اس کے بال سنوارنے لگی جو کندھوں تک تھے۔

مرجان گاڑی میں جاکر بیٹھو میں حیات کو لیکر آتا ہوں اسکول جانے کے لیے دیر ہوگئ ہے بہت۔مہرماہ نے شاہ میر کے پاس فریش جوس رکھا تھا شاہ میر اپنی جگہ سے اٹھ کر مرجان سے بولا جو آیان کے ساتھ بیٹھا تھا مہرماہ نے حسرت سے شاہ میر کو دیکھا تھا جو پل بھر میں اُس سے بیگانہ ہوگیا تھا۔

میں جاتا ہوں۔مرجان اپنا اسکول بیگ اٹھاتا بولا

آجاؤ میڈم حیات۔شاہ میر حیات کا بیگ پکڑ کر اس کو اپنی گود میں اٹھاکر بولا۔

حیات نے ناشتہ نہیں کیا۔مہرماہ نے ہمت جمع کرکے کہا وہ حیات کا سامنا نہیں کرپارہی تھی کل اپنی حرکت کی وجہ سے اِس لیے اس نے ملازمہ سے کہا حیات کو ناشتہ کروائے پر حیات نے نہیں کیا تھا۔

صالحہ بی۔شاہ میر ایک اچٹنی نظر مہرماہ پہ ڈالتا ملازمہ کو آواز دینے لگا۔

جی میر صاحب۔ملازمہ فورن سے آتی ہوئی بولی۔

حیات کے لیے جوس لیکر آئے اور دو بریڈ۔شاہ میر نے کہا۔

ڈیڈ بھوک نہیں۔حیات نے کہا

صبح کا ناشتہ ضروری ہوتا ہے۔شاہ میر نے اس کی ناک دباکر کہا۔

آپ نے کیا ہے؟کجھ سوچ کر حیات نے پوچھا۔

وہ دیکھو آگیا آپ کا ناشتہ۔شاہ میر اس کا دھیان دوسری طرف کرتا بولا جس میں کامیاب بھی ٹھیرا۔مہرماہ نے ہانم بیگم کو دیکھا جنہوں نے نظروں میں اس کو تسلی دی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آپ حیات کی کلاس ٹیچر کو بلائے۔شاہ میر سنجیدہ تاثرات لیے پرنسپل کی آفس میں بیٹھ کر بولا جب کی ساتھ والی کرسی پہ حیات کو بیٹھایا ہوا تھا۔

جی میں ابھی بلواتی ہوں۔پرنسپل شاہ میر کے تاثرات دیکھ کر تھوک نگلتے ہوئے بولی۔

آپ نے بلایا۔حیات کی کلاس ٹیچر اسماء آفس میں آتی بولی مگر جب حیات کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا تو ان کو اپنے آس پاس خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دی۔

حیات ذرہ بتانا کل آپ کی ٹیچر نے آپ سے کیا کہا تھا۔شاہ میر تیکھے چتونوں سے ٹیچر کو دیکھتا حیات سے کہا۔

ٹیچر نے کہا تھا جاہل ماں باپ کی جاہل اولاد حلانکہ میں نے کجھ کیا بھی نہیں تھا جسٹ اپنا دفاع کیا تھا۔حیات کانفڈنٹ ہوکر بولی پرنسپل اس کی بات پہ استہفامیہ نظروں سے اسماء کو دیکھا پر اس کے ماتھے پہ پسینہ دیکھ کر ساری حقیقت کا اندازہ ان کو ہوگیا جس سے وہ شرمندگی سے اپنا سرجھکا گئ۔

حیات اب آپ اپنی کلاس میں جاؤ۔شاہ میر نے کہا تو حیات فورن نے آفس سے باہر نکلی۔

ہم تو جاہل ہیں آپ کیا ہیں جو بچوں کے سامنے ایسی لینگویج استعمال کرتی ہیں آپ استاد ہیں آپ کا مقام قابلِ احترام ہے پر آپ کا کام بچوں کی اصلاح کرنا ہوتا ہے ناکہ ان کے دماغ میں گالیاں ڈالنا آپ کو شرم آنی چاہیے تھی چار سالہ بچی کو جاہل کہتے ہوئے ساتھ میں ان کے ماں باپ کی انسلٹ کرتے ہوئے بھی۔شاہ میر سرد لہجے میں بولا 

چار سال کی آپ کی بیٹی ہے پر پانچ ماہ ہوئے ہیں اس کو یہاں داخلہ لیے ہوئے پر اس وقت میں ایک دن سکون سے نہیں گُزرا۔اسماء اپنے دفاع میں بولی

ایک استاد ہونے کی حیثت سے آپ کو کس نے یہ رائٹ دیا ہے کہ آپ میری بچی کو جاہل بولے اور پھر پرنسپل کے سامنے یہ کہے کے اس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے۔شاہ میر نے بات گھما پھیرا کرا وہی لایا جہاں سے ٹیچر اسماء بچنا چاہتی تھی۔

میں اپنی غلطی مانتی ہوں۔اسماء نے سرجھکاکر کہا۔

ماننی چاہیے بھی آپ کو پتا ہونا چاہیے بچوں کے سامنے کیا بات کرنی چاہیے کیا نہیں کونسا جُملا ان کو کہا جاسکتا ہے کونسا نہیں اگر آپ حیات سے تنگ تھی تو یہ بات آپ صاف صاف کہہ سکتی تھی پرنسپل سے کراچی میں بچوں کے اسکولوں کی کمی نہیں مگر آپ نے بس اپنی ایک اسٹوڈنٹ کو پرنسپل کے سامنے کیا جب کی جس نے شروعات کی حیات کو تنگ کرنے کی اس کا نام ہی نہیں لیا۔شاہ میر کا لہجہ برفیلا ہوگیا تھا۔

وہ میری بھانجی تھی جس کے بال حیات نے کاٹ دیئے۔اسماء کی بات پہ پرنسپل اپنا سر نفی میں ہلانے لگی جب کی شاہ میر کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگئ۔

مس آپ اپنے پرسنل اور پروفیشنل ایشوز کو الگ الگ رکھے اگر آپ کی بھانجی ہے تو بس گھر تک یہاں اسکولز میں اپنا پیار نچھاور کرنے کی ضرورت نہیں آپ کے لیے سب اسٹوڈنٹس برابر ہونے چاہیے اگر بچوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے تو آپ کا فرض ہے آپ دونوں بچوں کی باتیں سنے ایک طرفہ بات سن کر دوسرے بچے پہ غصہ کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔شاہ میر دو ٹوک انداز میں بولا جس سے اسماء کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔

میں معزرت خواہ ہوں آپ سے ہماری وجہ سے آپ کی بیگم کو بھی شرمندہ ہونا پڑا۔پرنسپل صاحبہ نے کہا۔

آپ اپنے اسکول میں استاد رکھ رہی ہیں تو پہلے چیک کیا کریں ان کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا ہے ماں باپ اعتماد کرکے آپ کے پاس اسکول میں اپنے بچے بھیجتے ہیں کل آپ دونوں کی غلط بیانی کی وجہ سے ہمارے گھر کا ماحول خراب ہوا۔شاہ میر کہتا لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

 کی غلطی کا احساس کروانا چاہتا تھا اگر مہرماہ بے سکون تھی تو شاہ میر خود اپنے رویئے پہ خود پہ لعنت بھیجتا یہ ایک ماہ اس نے مہرماہ سے دور رہ کر کیسے گزارا یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔

شاہ میں جارہی ہوں۔مہرماہ سنجیدہ آواز میں شاہ میر سے بولی وہ جو کال پہ بات کررہا تھا تعجب سے مہرماہ کو دیکھنے لگا جس کا گورا رنگ پیلا زرد ہوگیا تھا آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نمایاں ہورہے تھے شاہ میر کا دل ڈوب کے ابھرا تھا مہرماہ کی حالت دیکھ کر جو اس کی وجہ سے ہوا تھی شاہ میر نے شرمندہ ہوکر اپنی نظروں کا رخ بدلا تھا وہ کیسے مہرماہ کو تکلیف دے سکتا تھا جب کی وہ اُس سے پہلے مرنا پسند کرتا جب کی مہرماہ کے ہونٹوں پہ درد بھری مسکراہٹ آگئ تھی اس کو شاہ میر کا نظر پھیرنا بے رخی لگا تھا۔

امی کے پاس جارہی ہوں جب تمہاری ناراضگی ختم ہوجائے یا میری ضرورت ہو تو لینے آجانا میرا یہاں کیا کام بچوں کو ویسے بھی تم دیکھتے ہو حیات کو میرے پاس آنے نہیں دیتے میرا وجود اب تمہارے لیے حقیر سا ہے۔شاہ میر نے تڑپ کے اس کو دیکھا تھا پر مہرماہ دور خلا میں جانے کیا تلاش کررہی تھی۔

میں نے کہی پڑھا تھا پسندیدہ چیز مل جائے تو اس کی قدر کم ہوجاتی ہے شاید تمہیں بھی احساس ہوگیا ہے کہ تم بڑی عمر کی لڑکی کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارسکتے۔شاہ میر بے چین سا نفی میں سرہلانے لگا اس کو زرہ اندازہ نہیں تھا مہرماہ اس سے اِس قدر بدگمان ہوجائے گی۔

شاہ میں جارہی ہوں بس ایک دفع تمہیں محسوس کرنا چاہتی ہوں۔مہرماہ اتنا کہتی شاہ میر کے گلے لگ گئ شاہ میر ساکت سا مہرماہ کو اپنے قریب محسوس کررہا تھا اس کو اپنی شرٹ پہ گیلاپن محسوس ہورہا تھا شاہ میر نے بے ساختہ مہرماہ کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کیا اور زور سے خود میں بھینچ لیا۔

ماہ مجھے معاف کردیں میں بس آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ حیات ہماری زندگی میں اللہ تعالیٰ کا خوبصورت انعام ہے اس نے آپ کی جگہ نہیں لی میں آپ کو ویسے ہی عشق کرتا ہوں یہ ایک ماہ میں نے کیسے گزارا ہے آپ اندازہ نہیں لگاسکتی پر میں تھک گیا ہوں آپ سے دور رہ رہ کر۔شاہ میر مہرماہ کے بال سہلاتا بول رہا تھا مگر دوسری طرف خاموشی تھی شاہ میر کو عجیب لگا اس نے نرمی سے حصار ڈھیلا کیا اور مہرماہ کا چہرہ سامنے کیا مہرماہ کی بند آنکھیں دیکھ کر شاہ میر کا رنگ فق ہوا تھا۔

ماہ۔

ماہ کیا ہوا آپ کو؟شاہ میر گھبراکر مہرماہ کے گال تھپتپاکر بولا مگر مہرماہ کی آنکھیں بند ہی رہی۔شاہ میر مزید بنا دیر کیے مہرماہ کا وجود بانہوں میں بھرتا گھر کے اندر جانے کے بجائے ہوسپٹل جانے کا سوچا تھا مہرماہ کو احتیاط سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا کر اس کا سر سیٹ پہ رکھا اور سیٹ بلیٹ باندھ کر جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا اور اگینشن میں چابی گھماکر گاڑی مین روڈ پہ ڈالی۔

ہوسپٹل پہنچ کر مہرماہ کو اسٹریچر پہ لیٹاکر وارڈ میں لیں جاگیا شاہ میر بالوں میں ہاتھ پھیرتا یہاں وہاں ٹہلنے لگا۔

یااللہ ماہ کو ٹھیک کریئے گا۔شاہ میر چہرے پہ ہاتھ پھیرتے دعائیہ انداز میں بولا جب کی دل کے دھڑکن کی آواز کانوں میں پڑتی محسوس ہورہی تھی۔

ڈاکٹر ماہ کیسی ہے۔بیس منٹ بعد ڈاکٹر باہر آئی تو شاہ میر جلدی سے ان تک پہنچ کر بولا۔

مسٹر شاہ میر خان آپ کی وائف بہت کمزور ہے اِس حالت میں تو آپ بہت کیئر کرتے ہیں پھر اِس بار کیا ہوا۔ڈاکٹر شاہ میر سے افسوس زدہ لہجے میں بولی۔

صاف صاف بات کریں۔شاہ میر سمجھ تو گیا تھا مگر کنفرم کرنے کی خاطر پوچھا۔

آپ کی مسسز دو ماہ سے ایکسپٹ کررہی ہیں پر ان کو کمزوری ہے اگر ایسا ہی رہا تھا تو بچے کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر نے کہا تو شاہ میر کا وجود حیرت کے جھٹکوں میں آگیا اس کی ماہ ایسے مراحل میں گزر رہی تھی اور اس کو پتا بھی نہیں چلا تھا۔

میں مل سکتا ہوں؟شاہ میر بس یہی بول پایا۔

شیور۔ڈاکٹر کہتی وہاں سے گزر گئ شاہ میر بھی ہمت جمع کرتا وارڈ کے اندر داخل ہوا جہاں مہرماہ بے حرکت خاموش بیٹھی ہوئی تھی شاہ میر کو یاد آیا مرجان اور حیات کی خبر ملتے وقت مہرماہ کے چہرے پہ کتنے دھنک کے رنگ تھے اور اِس بار اس کا چہرہ بے رونق سا تھا شاہ میر کو خود پہ بے انتہا غصہ آیا۔

ماہ۔شاہ میر نے اس کا ہاتھ تھاما جس میں گلوکوز کی ڈرب لگی ہوئی تھی۔

بات مت کرو۔مہرماہ نے بیدردی سے اپنا ہاتھ کھینچا۔

سوری۔شاہ میر نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھ کر کیوٹ سی شکل بناتا بولا مگر مہرماہ نے دھیان نہیں دیا۔

ماہ ہمارا تیسرا بچہ آنے والا ہے اب کیا تم اس کی آمد پہ ناراض رہو گی؟شاہ میر مہرماہ کے قریب آتا بولا۔

خوش ہو تم؟مہرماہ نے پوچھا

ہاں؟شاہ میر نے بنا دیر کیے بولا۔

پہلے تو کہتے تھے بچے نہیں چاہیے۔مہرماہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

تب مجھے نہیں تھا نہ پتا کہ بچوں سے ہمارا رشتہ خوبصورت ہوگا اور پہلے سے زیادہ مضبوط بھی۔شاہ میر اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھتا بولا۔

اگر بیٹی ہوئی تو۔مہرماہ پھر بولی

تو اچھی بات ہوگی۔شاہ میر گہری مسکراہٹ سے بولا تو مہرماہ نے ایک مکہ اس کے شانے پہ جڑدیا۔

کیا ہوا۔شاہ میر کو سمجھ نہیں آیا۔

ایک بیٹی کافی ہے دوسری ہوگی تو میں تمہیں نظر ہی نہیں آٶں گی بیٹا چاہیے مجھے۔مہرماہ کو شاہ میر کی بات پہ پتنگے ہی لگ گئے شاہ میر مہرماہ کا لال بھبھو چہرہ دیکھ کر زور سے ہنسنے لگا۔

میری اتنی مجال کہ میں آپ جیسی خوبصورت بیوی کو نہ دیکھوں۔شاہ میر اپنی بات کے احتتام پہ مہرماہ کے گال پہ بوسہ دینے والا جب مہرماہ نے اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا شاہ میر نے اپنی دائیں آئبرو اُوپر کرکے جیسے وجہ پوچھی۔

ایک مہینہ تم نے مجھے خود سے دور کیا اب میری باری تم میرے قریب نہیں آوٴگے جب تک میں نہ چاہوں۔مہرماہ نے آرام سے کہا۔

آپ اتنی بڑی زیادتی نہیں کرسکتی میرے ساتھ۔شاہ میر مہرماہ کے خطرناک ارادے جان کر احتجاج کرتا ہوا بولا۔

تم جو ایک منٹ میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے پر ایک ماہ گُزار لیا تو کیا میں نہیں کرسکتی میں ضرور کروں گی۔مہرماہ نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا شاہ میر زندگی میں پہلی بار مہرماہ کی مسکراہٹ بُری لگی تھی۔

دیکھتا ہوا کیسے کرتی ہیں آپ۔شاہ میر سرہلاتا ہوا بولا جب کی مہرماہ لب دانتوں تلے دبائے شاہ میر کی حالت سے لطف اندروز ہورہی تھی۔

ویسے ایک بات تو بتائے؟کجھ دیر خاموشی کے بعد شاہ میر نے کہا

کونسی بات؟مہرماہ جو آنکھیں بند کرکے سونے کی تیاری کررہی تھی شاہ میر کی بات سن کر بولی۔

وہ جو آپ لان میں کہہ رہی تھی وہ آپ کے دل کی باتیں تھی یا کسی ناول کا سین تھی۔یہ کہتے ہوئے شاہ میر نے بڑی مشکل سے اپنے امڈ آنے والے قہقہ کا گلا گھونٹا تھا پہلے تو نہیں پر اب جب مہرماہ کی ایموشنل باتیں یاد آئی تو اس کو ہنسی آرہی تھی زندگی میں پہلی بار جو مہرماہ نے ایسے بات کی تھی اُس سے۔

بہت ہی کوئی ڈیش انسان ہو تم۔مہرماہ شاہ میر کے سینے پہ مُکے برساتی ہوئی بولی شاہ میر مسلسل ہنستا اس کے مُکے برداشت کرتا رہا پھر ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ قید دوسرا ہاتھ اس کی کمر پہ رکھ کر اپنے قریب کیا۔

میں تو اور بھی کجھ کہنے والا تھا۔شاہ میر نے کہا۔

کیا؟مہرماہ نے مُنہ پُھلاکر کہا۔

اتنے منہ تو حیات بھی نہیں بناتی جتنے آپ بناتی ہے۔شاہ میر مہرماہ کی ناک سے اپنی ناک مس کرتا ہوا بولا۔

میں نے کیا کہا تھا دور رہنا۔مہرماہ نے گھور کر کہا۔

اور میں نے بھی کجھ کہا تھا۔شاہ میر نے بھی اُسی انداز میں کہا

یہ چھوڑو وہ بات کرو جو کہنا چاہتے تھے۔مہرماہ سرجھٹک کر بولی۔

آپ کہہ تو ایسے رہی تھی کہ میں امی کی طرف جارہی ہوں جیسے چچی جان کا گھر ہمارے گھر سے کتنی دور ہو اور میں آپ تک پہنچ نہیں سکتا۔شاہ میر کی بات جو مہرماہ غور سے سن رہی تھی اس کو اپنا مذاق اُڑاتا دیکھا تو ضبط کرتی رہ گئ پر شاہ میر بنا اس کے غصے کا نوٹس لیے قہقہہ لگارہا تھا۔

بدتمیز ۔مہرماہ گھور کر بولی۔

آئی لو یو ماہ سچی بہت کیوٹ لگتی ہیں آپ غصے میں بس اِس لیے آپ کو چڑارہا تھا ورنہ میری کیا مجال جو آپ کی شان میں گستاخی کروں۔شاہ میر سر جھکاکر بڑے موٶدب انداز میں کہا تو مہرماہ کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کیا اپنی ساری ناراضگی بُھلائے شاہ میر کے کندھے پہ اپنا سر ٹکادیا شاہ میر بھی شکر کا سانس بھرتا مہرماہ کے گرد اپنا حصار باندھا۔

میری روح کی طلب ہوتم

بے شک سب سے الگ ہوتم

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اب تمہیں اپنا پہلے سے زیادہ خیال رکھنا ہے۔سارہ بیگم مہرماہ کو اپنے ساتھ لگائے بولی آج پھر حیدر خان کے یہاں رونق لگی ہوئی تھی پچھلی بار کی طرح اِس بار بھی حیدر خان نے بکروں کا صدقہ دیا تھا۔

ڈیڈ مما کو کیا ہوا ہے۔حیات ہاتھ میں گڑیا لیکر شاہ کے پاس آتی بولی۔

مما کو تو کجھ نہیں ہوا بس وہ آپ کو چھوٹا بے بی دے گی۔شاہ میر حیات کے بھرے ہوئے گال کھینچتا ہوا بولا۔

بے بی گرل یا بے بی بوائے؟مرجان نے پوچھا

مجھے تو حیات جیسی بے بی گرل چاہیے پر تمہاری مما کو تمہاری طرح بیٹا چاہیے۔شاہ میر نے حیات کو گود میں بیٹھا کر کہا۔

اووو تو مطلب ہمارا بھائی آئے گا۔مرجان پرجوش ہوکر بولا۔

زیادہ نجومی بننے کی ضرورت نہیں۔شاہ میر تپ کے بولا حیات کھی کھی کرنے لگی مرجان کو دیکھ کر۔

ڈیڈ ہوتا تو وہی ہے نہ جو مما چاہتی ہیں۔مرجان نے اپنے عقل مطابق کہا اس کی آواز اتنی تیز تھی کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے سب فرد نے سنی جس پہ سب نے قہقہقہ لگائے مہرماہ کا چہرہ جو پہلے ہی لال ہوا پڑا تھا اب مزید سرخ انار ہوگیا تھا۔شاہ میر محبت سے مہرماہ کے چہرے پہ آتے جاتے رنگ دیکھ رہا تھا جو ہمیشہ اس کے لیے آتے تھے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر کمرے میں دیوار پہ اپنی مہرماہ اور مرجان کی تصویر دیکھ رہا تھا یہ وہ تصویر تھی جو آیان نے ہال میں ان کے نیند میں لی تھی پھر جب ان کی شادی کی دوسری سالگرہ پہ تحفہ دیا تھا لارج پکچر بناکر مہرماہ اِس تصویر کو دیکھ کر حد سے زیادہ خوش ہوئی تھی شاہ میر کو بھی پسند آئی تھی اور اپنے کمرے میں لگالی تھی بعد میں پروفائل پِک بناکر اپنے والٹ میں بھی رکھ لی تھی۔

خوبصورت ہے نہ جب بھی دیکھو نظر ہٹانے کو دل نہیں کرتا۔مہرماہ شاہ میر کے بازوں پہ سر ٹکاتی ہوئی بولی۔

خوبصورت تو ہے اب اللہ کے کرم سے ہماری فیملی میں ایک فرد کا اضافہ ہوگا۔شاہ میر نے کہا تو مہرماہ مسکرادی۔

میں نے اس کا نام بھی سوچ لیا ہے لڑکے کا بھی اور اگر تمہاری خواہش مطابق لڑکی ہوئی تو اس کا بھی۔مہرماہ نے مسکراکر بتایا تو شاہ میر نے تھوک نگلا تھا اس کے دماغ میں بس یہی خیال آیا تھا کہ اِس بار بھی مرجان کی طرح عجیب نام نہ رکھیں کوئی پر مہرماہ سے کجھ کہہ کر اپنی شامت نہیں لانی تھی اِس لیے چُپ رہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

کجھ سال بعد !!!

خان مینشن آج رنگ برنگی لائٹس سے جگمگارہا تھا پورے گھر کو خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا بڑے قمقموں سے لان چمک رہا تھا کیونکہ آج شاہ میر اور مہرماہ کے چھوٹے بیٹے زرجان کی اٹھارویں سالگرہ تھی جس وجہ سے پورا لان مہمانوں کی آمد سے بھرا پڑا تھا سامنے اسٹیج بنایا ہوا تھا جہاں خوبصورت سی ٹیبل پہ گلاب کی پنکھڑیاں تھی اور اس کے بیچ بڑا کیک رکھا ہوا تھا جس میں زرجان کا نام لکھا ہوا تھا مرجان کی بات سچ ہوئی تھی وہی ہوا تھا جو مہرماہ چاہتی تھی مہرماہ نے ایک اور خوبصورت بیٹے کو جنم دیا تھا جس کا نام اس نے زرجان رکھا تھا۔زرجان نہ تو مرجان کی طرح روندو تھا اور نہ ہی حیات کی طرح شرارتی وہ موڈی بندہ تھا شاہ میر کی طرح کم ہی بات کرتا تھا شکل وصورت تو مہرماہ کی تھی مگر عادات بلکل شاہ میر کے جیسی تھی اور آنکھوں کا رنگ بھی شاہ میر کی آنکھوں کے رنگ جیسا بلو تھا۔مرجان اب پچیس سال کا چھ فٹ چار انچ سے نکلتا قد وجاہت سے بھرپور مرد بن گیا تھا سفید کشادہ چمکتی پیشانی گول مٹول سی آنکھیں جن کو وہ مہرماہ کی طرح بات بات پہ گھماتا تھا کھڑی مغرور تیکھی ناک عنابی لب جن پہ ہمیشہ نرم مسکراہٹ ہوتی تھی جب کی چہرے پہ نیو لُک کی بیئرڈ تھی بیشک وہ خوبصورت کا منہ بولتا ثبوت تھا لڑکیاں اس کی ایک نظر کو ترستی تھی زرجان بھی اپنی چھوٹی عمر میں ہی کم خوبصورت نہیں تھا پر اس کے ماتھے پہ ہمیشہ بل نمایاں رہتے تھے جس سے لوگ اس سے بات کرتے وقت ڈرتے تھے حلانکہ وہ کم گوؤ تھا۔حیات کی بات کرے تو وہ ویسے ہی تھی شرارتی سی بائیس سال کی خوبصورت لڑکی بن گئ تھی پر وہ شاہ میر کے لیے ابھی بھی ڈیڈ کی ڈول ہی تھی بلو آنکھیں جن میں ہر وقت چمک ہی ہوتی تھی بھرے بھرے سرخ گال تیکھی ستوان ناک اور گلابی ہونٹ جہاں ہر وقت شرارتی مسکراہٹ ہوتی تھی اس کی شرارت سے اگر کوئی بچہ ہوا تھا تو وہ تھا زرجان حیات بھلے اس سے چار سال بڑی تھی پر اس کی سب پہ چلتی سوائے زرجان پہ کیونکہ زرجان اس کی شرارت پہ مرجان کی طرح چپ نہیں رہتا تھا بلکہ جواب دیتا تھا پانچ سال کی عمر میں ہی زرجان نے اپنی نو سالہ بہن سے کہا تھا ہر عمل کا رد عمل دینا زرجان میر کو آتا ہے جس سے حیات نے توبہ کرلی تھی کیونکہ زرجان اگر اس کی شرارت کا جواب دیتا تھا تو نشانہ اس کی پسندیدہ چیزیں ہی ہوتی تھی۔

شاہ زیب اور ثانیہ کا ایک ہی بیٹا تھا شاہ ویر جو وکالت کے چوتھے سال میں تھا شاہ ویر کی شرارتیں بھی اپنی طرف سے عروج پہ تھی اس کی اور حیات کی بہت گہری دوستی تھی پر شاہ ویر کو اپنی کزن سے ون سائیڈڈ لو تھا پر کبھی کہنے کی ہمت نہیں ہوئی اس کی ہمیشہ چلتی زبان کو حیات کے سامنے جانے کیوں زنگ لگ جاتا تھا مرجان اور شاہ ویر کی وجاہت میں اکیس بیس کا فرق تھا قد میں وہ دونوں برابر ہی تھی پر مرجان کا فوکس بزنس میں تھا جب کی حیات کو ڈاکٹر بننا تھا جب کی زرجان فلحال کالج کے سکنڈ ایئر میں تھا۔

سالار اور پری کی بیٹی پریسہ کو بزنس وومن بننا تھا تاکہ اپنے باپ کا بزنس میں ساتھ دے سکے اور اس کو کبھی یہ محسوس نہ ہو کہ اس کے پاس بیٹا کیوں نہیں۔

اب بس بھی کریں۔شاہ میر نے مہرماہ سے کہا جس نے آج مہرون کلر کی ڈیسنٹ ساڑی پہن رکھی ہلکی سی جیولری جس میں بس سونے کے ٹاپس اور گلے میں نازک سی چین تھی  بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جب کی چہرہ ہر مصنوعی  آرائش سے پاک تھا جس سے وہ بہت گارجیئس لگ رہی تھی  اِن سالوں میں شاہ میر کے عشق میں کمی نہیں آئی تھی وہ پہلے کی طرح اپنی ماہ کو چاہتا تھا جس سے مہرماہ اپنی عمر سے کم ہی بڑی لگتی تھی شاہ میر بھی گزرتے وقت کے ساتھ گریس فل ہوگیا تھا اس نے آج بلیک کلر کا تھری پیس پہن رکھا تھا بالوں کو اس نے ہمیشہ کی طرح جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا ہاتھ میں مہنگی گھڑی پہنے وہ فل تیار تھا بس مہرماہ کے انتظار میں تھا جو مرر کے سامنے بار بار اپنی ساڑی کا پلو ٹھیک کررہی تھی۔

شاہ میں اچھی تو لگ رہی ہوں نہ؟مہرماہ نے پریشانی سے شاہ میر سے پوچھا۔

اچھی آپ میری نظروں سے خود کو دیکھے تو آپ کو اپنے علاوہ ہر کوئی بدصورت لگے۔شاہ میر گھمبیر آواز میں بولا تو مہرماہ پوچھ کے پچھتائی۔

اپنے بچوں کی خبر لیں تیار ہوئے کہ نہیں مہمان آگئے ہیں سب۔مہرماہ نے کہا

پہلے بچوں کی ماں کی تو خبر لوں۔شاہ میر مہرماہ کو کمر سے تھامتا ہوا بولا۔

شرم کرو شاہ کجھ بچے بڑے ہوگئے ہیں اب۔مہرماہ نے شاہ میر کو آنکھیں دیکھائی۔ 

ماہ پلیز۔شاہ اتنا کہتا اس کے ماتھے پہ بوسہ دینے والا تھا جب دھڑام سے دروازہ کھول کر حیات اندر داخل ہوئی شاہ میر فورن سے مہرماہ سے دور ہوا۔

ڈیڈ میں کیسی لگ رہی ہوں؟حیات وائٹ کلر کا فراق پہنے گول گول گھوم کر شاہ میر سے پوچھنے لگی بالوں میں وائٹ ہیئربینڈ تھا چہرہ پہ مناسب میک اپ کیے اور ہونٹوں پہ ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے حیات انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔

بہت خوبصورت۔شاہ میر مسکراکر بولا۔

مما سے بھی زیادہ؟حیات نے کان کی لو کھجاکر پوچھا مہرماہ تو اس کے بنا دروازہ نوک کیے آنے پہ خفا تھی مگر اس کی بات سن کر تپ گئ۔

دونوں ایک دوسرے کو مات دے رہے ہو۔شاہ میر اس کی شرارت سمجھتا چلاکی سے بولا جو کہ کجھ غلط نہ تھا۔

بہت کلیور ہیں آپ۔حیات منہ بناکر بولی۔

حیات دیکھو مرجان اور زرجان تیار ہوئے کے نہیں۔مہرماہ نے کہا

وہی بتانے آئی تھی دونوں نیچے آپ دونوں کا ویٹ کررہے ہیں۔حیات نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا۔

اچھا چلو پھر۔مہرماہ نے کہا تو حیات چلی گئ شاہ میر نے اپنا بازوں آگے کیا تو مہرماہ نے مسکراکر اس کا بازوں تھام لیا پھر دونوں باہر جانے لیے نکلے جہاں ان کے بچے انتظار میں تھے

واہ آپ تو چھاگئے۔مرجان شاہ میر اور مہرماہ کو آتا دیکھا تو کہا۔

وہ تو تب سے چھاگئے تھے جب پیدا ہوئے تھے۔شاہ میر گردن اکڑا کر بولا تو مہرماہ نے آنکھیں گھمائی مرجان نے دونوں آئبروز اُوپر کی جب کی حیات نے داد دیتی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا۔

میرا بیٹا کیوں چپ ہے؟مہرماہ زرجان کے بال بگاڑتی بولی جو لاتعلق سا بیٹھا تھا۔

یہ بولتا کب ہے۔حیات بڑبڑاہٹ میں بولی۔

مما میرے فرینڈز باہر ویٹ کررہے ہیں اور میں یہاں ہوں۔زرجان خفگی سے بولا۔

چلتے ہیں باہر پہلے یہ تو بتاؤ گفٹ کیا چاہیے۔شاہ میر نے مسکراکر پوچھا

مجھے بھی گفٹ چاہیے ڈیڈ۔حیات زرجان سے پہلے بولی۔

سالگرہ زر کی ہے۔مہرماہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

ڈیڈ مجھے اجازت چاہیے تھی۔زرجان نے سنجیدہ ہوکر شاہ میر سے کہا

کسی اجازت دیکھو زر اگر شادی کرنا چاہتے ہو تو یہ خیال اپنے دماغ سے نکل دو ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے بس اٹھارہ سال اِس عمر میں تو بچوں کو شادی کی ڈفینیشن بھی نہیں معلوم ہوتی یہ بھی تو سوچو بڑا بھائی کنوارہ بیٹھا ہے تم اپنی شادی کا کیسے سوچ سکتے ہے لوگ کیا کہیں گے۔حیات زرجان کی بات سن کر ایک سانس میں بولی زرجان نے کوفت سے سرجھٹکا مرجان اپنی ماں کا تپا چہرہ دیکھ کر مسکراہٹ ضبط کرتا چہرہ جھکا گیا تھا شاہ میر آگے بڑھ کر حیات کی پیٹھ سہلا رہا تھا جو اب گہرے سانس بھر رہی تھی۔

ڈیڈ میرے فرینڈز نے مری ٹرپ پہ جانے کا سوچا ہے ایک مہینے کے لیے مجھے بھی جانا ہے۔زرجان نے کہا۔

تمہارے فرینڈز پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرنے کا سوچے گے تو کیا تم بھی ایسا کروگے۔حیات نے پھر بیچ میں مداخلت کی۔

آپی پلیز مجھے سکون سے بات کرنے دے۔زرجان تنگ آکر بولا۔

زر ایک مہینہ کیوں دو تین دن تک ٹھیک تھا۔شاہ میر نے کہا۔زرجان نے کجھ کہنا چاہا پر مرجان اِس بار بولا

کیک کٹنے کا وقت ہوگیا ہے ہمیں باہر چلنا چاہیے دادو اور بڑے ابا جان خفا ہوگے۔

ابھی چلو پھر بات کرتے ہیں۔مہرماہ نے نرمی سے کہا تو زرجان نے سرہلایا۔

وہ تو لان میں آئے تو ہانم بیگم نے شاہ میر کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی کے اتنی دیر کیوں لگائی جب کی مہرماہ اپنی جان بچاتی مہمانوں سے ملنے میں مصروف ہوگئ تھی وہ تینوں بھی اپنے اپنے فرینڈز کے گروپ کی طرف بڑھ گئے تھے۔

تم تو بہت ہینڈسم لگ رہے ہو۔زرجان کے دوست کی بہن عروہ زرجان سے بولی جس پہ اس نے کوئی رسپانس نہیں کیا۔

اسٹیج کی طرف آجاؤ کیک کٹ کرنے کا وقت آگیا ہے۔شاہ ویر زرجان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ بولا شاہ ویر آج بلیو شرٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا بالوں کو اس نے ایک سائیڈ کا اسٹائل دیا تھا ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے بہت ڈیشنگ اور اٹریکٹو لگ رہا تھا کافی لڑکیوں کی نظریں اس پہ ٹکی ہوئی تھی مگر وہ جس کی نظر کا منتظر تھا وہ اپنے آپ میں مگن تھی۔

زرجان اسٹیج پہ آیا تو اپنے ایک سائیڈ پہ مہرماہ کو کھڑا کیا تو دوسری سائیڈ پہ زرجان کو باقی سب بھی اسٹیج پہ آگئے تھے۔سب کی تالیوں کے درمیان زرجان نے کیک کٹ کیا اس نے ایک چھوٹا سا پیس کٹ کرکے شاہ میر طرف بڑھایا تو شاہ میر نے ہمیشہ کی طرح پہلے مہرماہ کی طرف اشارہ کیا جس پہ زرجان کے چہرے پہ آج کے دن پہلی بار مسکراہٹ آئی تھی زرجان نے سب سے پہلے مہرماہ کو کیک کِھلایا جس سے مہرماہ نے مسکراکر اس کے بال بگاڑے تو زرجان شاہ میر کے پاس گیا پھر حیدر خان، ہانم بیگم،  سکندر خان،سارہ بیگم شاہ زیب ثانیہ سالار پری آیان،اور اس کی بیگم ثانیہ کی بہن ہانیہ کے پاس آیا آیان کی پڑھائی کے فورن بعد ہی ہانم بیگم نے اس کی شادی کروادی تھی جس سے آیان کے دو بچے تھے ایک بیٹا دوسری بیٹی بیٹا منہاج جو سولہ سال کا تھا دوسری بیٹی منت جو کی چودہ سال کی تھی اور وہ شاہ میر کو حیات کی طرح عزیز تھی۔ان سب کو کیک کِھلانے کے بعد زرجان مرجان کے پاس آیا پھر شاہ ویر اس کے بعد حیات کے پاس جس کو اس نے سب مہمانوں کے سامنے کیک کھلایا کم اور چہرے پہ لگایا زیادہ یہ اس کا بدلا تھا جو اس کے اور شاہ میر کے بیچ میں حیات نے مداخلت کی تھی اس کا۔حیات مہرماہ کی نظروں میں چھپی تنبیہہ دیکھ کر بس دانت پیستی رہ گئ ورنہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا ٹیبل پہ پڑا بچا سارا کیک زرجان کے اُوپر گِرادیتی۔ زرجان اپنی کاروائی سے مطمئن ہوتا پریسہ کے پاس آیا جو اس کو بہت عزیز تھی پریسہ کو بھی اپنا یہ چھوٹا کزن بے حد عزیز تھا۔

ہیپی برتھ ڈے زر ہمیشہ خوش رہو وہ ہر چیز تمہیں مل جس کی تم تمنا کرو۔پریسہ نے مسکراکر اس کو دعا دی تو زرجان سر نیچے کرکے ہنس پڑا۔

آپی اتنی دعائیں تو بڑے اباجان بڑی امی دادو نے نہیں کی جتنی آپ کررہی ہیں۔زرجان نے کہا تو پریسہ نے مصنوعی گھوری سے نوازا جس پہ زرجان آنکھ ونک کرتا اب اپنے دوستوں کی جانب آیا تھا کیونکہ فیملی سے تو وہ فارغ ہوگیا تھا۔تھوڑی دیر بعد کھانے کا دور شروع ہوا تو سب مہمان اپنی اپنی نشت پہ بیٹھ کر کھانا کھانے کی طرف مصروف ہوگئے۔

تمہارا کیوں منہ پُھلا ہوا ہے؟شاہ ویر کو حیات کے سات بات کرنے کا موقع ملا تو وہ فورن چلا آیا جہاں حیات کونے پہ سیٹ کی ایک جگہ پپ تھی جہاں ٹیبل کے درمیان دو چیئر تھی شاہ ویر ایک پہ بیٹھ کر حیات کو دیکھنے لگا جس نے اپنا چہرہ واش کرلیا تھا۔

مجھے کتنے مہمانوں کے سامنے سبکی محسوس کی زر کی وجہ سے۔حیات منہ بناتی ہوئی بولی

تو تمہیں کون کہتا ہے اس سے پنگا لو ضرور تم نے کجھ کیا ہوگا جس کا جواب زر نے بڑھ کر دیا ہوگا۔شاہ ویر آرام سے بولا کیونکہ وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔

بڑی بہن ہوں انسان لحاظ ہی کرلیتا ہے۔حیات اس کی بات پہ ہڑبڑاکر بولی

تم تو بڑا کرتی مرجان کا لحاظ۔شاہ ویر منہ بناکت بڑبڑایا۔

کجھ کہا؟حیات نے مشکوک نظروں سے دیکھ کر پوچھا تو شاہ ویر کا گلا خشک ہوا تھا تو وہ اُس سے دو سال بڑا مگر دونوں کے درمیان بے تکلفی تھی دوستی کی وجہ سے جس وجہ سے مہرماہ کے لاکھ کہنے پہ بھی وہ شاہ ویر کو بھائی نہیں کہتی تھی شاہ ویر بھی بے حد مطمئن تھا کہ اچھا ہوا بھائی کے دم چھلے سے تو بچہ ہوا ہوں۔

میں کہہ رہا تھا یہاں اکیلے بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں میرے ساتھ چلو ویسے بھی زر نے کونسا تم سے سوری کرنا ہے۔شاہ ویر بات بدل کر بولا۔

ہاں تو میں کونسا اس کے سوری کے انتظار میں ہوں۔حیات کھڑی ہوکر جی کڑا کر بولی جس پہ شاہ ویر نے مسکراہٹ دبائی۔

تم دونوں کیوں اُداس ہو۔زرجان اپنے دوستوں کو سی آف کرکے اندر کی طرف جارہا تھا جب منہاج اور منت اُداس بیٹھے نظر آئے تو ان کی طرف آیا سب مہمان اب آہستہ آہستہ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

آپ نے ہمیں کیک کیوں نہیں کِھلایا؟منت نے منہ پھلاکر کہا تو زرجان ساری ماجرا سمجھ گیا

کیونکہ آپ دونوں وہاں نہیں تھے۔زرجان نے خود کو بے قصور کیا

میں سمجھارہا ہوں یہی بات پر جب یہ سمجھے۔منہاج اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولا۔

اچھا اب تم اندر چلو میں آئسکریم دیتا ہوں وہ تمہیں کیک سے زیادہ پسند آئے گی۔زرجان نے اس کو بہلایا تو منت خوش ہوگئ۔

پر امی کو پتا چل گیا تو؟منہاج نے خدشہ ظاہر کیا۔

تو کجھ نہیں ہوگا۔زرجان کہتا منت کو اٹھنے کا اشارہ کرنے لگا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ان دونوں کو جاتا دیکھ کر منہاج بھی ان کے ساتھ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا بات ہے شاہ؟مہرماہ نے شاہ میر کو سوچو میں گم دیکھا تو استفسار کیا۔

زر کو اجازت دینے کا سوچ رہا ہوں اچھا ہے گھوم پِھر آئے گا اسلام آباد کجھ دور تو نہیں ہوگا بھی اپنے دوستوں کے ساتھ۔شاہ میر نے بتایا۔

شاہ پر ابھی اس کی عمر نہیں زر کو فلحال اپنی پڑھائی پہ دھیان دینا چاہیے گھومنا پِھرنا تو لگا رہے گا۔مہرماہ نے اپنی بات کی۔

ماہ یہی تو وقت ہوتا ہے گھومنے پِھرنے کا پھر تو بچے اپنے کاروبار اور دوسرے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔شاہ میر نے نرمی سے کہا۔

ٹھیک ہے پر اس کو کہنا کال پہ بات کریں اور اپنا بہت سارا خیال رکھے۔مہرماہ شاہ میر کے سامنے ہار مانتے ہوئے بولی۔

بلکل پر کبھی میرے پہ بھی توجہ دیا کریں۔شاہ میر شرارت سے بولا۔

تمہارا کجھ نہیں ہوسکتا۔مہرماہ فورن سے شاہ میر سے دور ہوتی ہوئی بولی جس پہ شاہ کا قہقہقہ بے ساختہ تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان کمرے میں داخل ہوا تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا سارا دن وہ جتنا ہوسکتا تھا خود کو مصروف رکھتا پر رات کے وقت اپنا کیا ہوا گناہ اس کو کسی ناگ کی طرح ڈستا تھا۔

مرجان گہری سانس لیتا کمرے کی ساری لائٹس آن کی تو کمرہ پورا روشنیوں میں نہاگیا۔پورا کمرا اسکن کلر سے ڈیکوریٹ تھا کمرے کی ایک وسعت میں جہائزی سائیز بیڈ تھا سامنے دیوار پہ بڑی سی ایل ای ڈی چسپا تھی دیوار پہ اس کی تصویروں کے ساتھ شاہ میر اور مہرماہ کے ساتھ بچپن والی تصویر بھی تھی اور ایک فیملی پِک تھی۔ بیڈ کے دوسرے طرف صوفہ رکھا گیا تھا اور کھڑکی بھی جہاں گھر کی بیک سائیڈ پہ سجا گارڈن صاف دیکھائی دیتا تھا بیڈ کے بائیں طرف ڈریسنگ ٹیبل تھا جہاں اس کے پرفیومز، واچز،بینڈز،اور دیگر ضرورت کی چیزیں پڑی تھی ڈریسنگ کے کجھ دوری  پہ چینجنگ روم تھا وارڈروب بھی وہی سیٹ کیا ہوا چینجنگ روم کے دروازے کے پاس واشروم کا دروازہ بھی تھا۔

ایک بار ملو میں معافی مانگنا چاہتا ہوں تاکہ میرا پچھتاوا ختم ہوجائے۔مرجان دروازے سے لگ کر نیچے بیٹھتا گیا اور خود سے بڑبڑانے لگا۔

غرور میں آکر میں نے اچھا نہیں کیا پر پلیز بس ایک بار مجھے معاف کردو میں پیشمان ہوں اپنے عمل سے۔مرجان بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتا وحشت زدہ لہجے میں بولا۔

کبھی تو ختم ہوگی،

یہ اُداسیاں،یہ تنہائیاں،

💕💕💕💕💕💕💕💕

ڈیڈ میرا آج ضروری ٹیسٹ ہے تو میں جارہی ہوں کالج۔حیات تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں اُترتی شاہ میر سے بولی ساتھ میں ہاتھ بیگ میں کجھ تلاشنے میں مصروف تھے۔

حیات ناشتہ ضروری ہوتا ہے خالی پیٹ کے ساتھ کیا پڑھوں گی۔شاہ میر جو حیدر خان کے ساتھ اپنا ایک پراجیکٹ ڈسکس کررہا تھا حیات کی بات سن کر سنجیدگی سے گویا ہوا۔

میرے ڈیڈی سمجھے پلیز۔حیات پیچھے سے شاہ میر کے گلے میں بانہیں ڈالتی لاڈ سے بولی۔

یہ پی لوں ورنہ شاہ کو سارا دن چین نہیں پڑے گا۔مہرماہ حیات کے سامنے اورینج جوس کرتی ہوئی بولی۔

پی لیا اب میں جارہی ہوں۔حیات ایک گھونٹ میں سارا جوس ختم کرتی گلاس مہرماہ کو دیتے ہوئے بولی اور جلدی سے باہر کی طرف بڑھی۔

ایک تو اِس پیر زمین پہ نہیں ٹکتے۔مہرماہ بڑبڑاتی کچن کی طرف بڑھی۔

آفس میں سب ٹھیک چل رہا ہے نہ اگر تمہیں پروبلم ہوتی ہے تو بتادو۔شاہ میر جو مہرماہ کی بات پہ مسکرارہا تھا حیدر خان کی بات پہ چونکہ حیدر خان نے بزنس سے خود کو ریٹائر کردیا تھا اب آفس کا سارا کام اکیلے شاہ میر سنبھالتا تھا مرجان کا ایک سال رہتا تھا اس کے بعد وہ بزنس میں شاہ میر کا ساتھ دیتا حیات میڈیکل کے ٹھرڈ ایئر میں تھی۔

سب ٹھیک چل رہا ہے ڈیڈ آپ فکر نہ کریں۔شاہ میر نے ان کو تسلی کروائی۔

اسلام علیکم!زرجان رف حُلیے میں نیچے آتا حیدر خان اور شاہ میر کو سلام کرتا ہوا پاس ہی بیٹھ گیا۔

وعلیکم اسلام!رات دیر سوئے تھے کیا۔دونوں نے سلام کیا جواب دیا تو پھر حیدر خان نے اس کی سرخ نیند سے بھری آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا۔

جی دادا جان۔زرجان نے بس اتنا کہا۔

زر بریک فاسٹ میں کیا لوں گے؟مہرماہ ملازمہ کے ساتھ ڈرائینگ ٹیبل پہ ناشتہ رکھواتی زرجان سے بولی۔

دو بوائل انڈے۔زرجان نے کہا۔

ڈیڈ آج میرے دوست مری کے لیے نکل گئے مجھے بھی جانا تھا پر آپ نے کل کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے ان سے ایک دو دن بعد میں آنے کا کہا۔زرجان نے شاہ میر سے کہا۔

ٹھیک ہے تو کل تم بھی چلے جانا پر اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے اسلام آباد کے ایئرپورٹ پہنچتے ہی تمہیں کیب ملے گی جو میں نے تمہاری لیے بُک کروائی ہے۔شاہ میر نے مسکراکر کہا تو اجازت ملنے پہ زرجان نے بھی سکھ کا سانس خارج کیا۔

پر ڈیڈ کیب کیوں ہم نے بس میں سفر کرنا ہے میرا مطلب ہم نے ایک بس بُک کروائی ہے۔زرجان شاہ میر کی آخری بات پہ بولا۔

تمہیں اکیلے کہیں جانا ہو تو اِس لیے ایسے میں ہمیں بھی تسلی رہے گی۔شاہ میر نے وجہ بتائی تو زرجان نے سرہلانے میں اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

موم میری بلیک شرٹ نہیں مل رہی۔شاہ ویر نیچے ثانیہ کے سر پہ کھڑا ہوتا ہوا بولا جو شاہ زیب کو ناشتہ سرو کررہی تھی۔

تمہارے کبرڈ میں ہوگی ٹھیک سے دیکھو۔ثانیہ نے کہا۔

موم نہیں ہے اِس لیے تو کہا ہے آپ سے۔شاہ ویر فروٹ باسکٹ میں سے ایپل اٹھاتا ثانیہ سے بولا

ماجدہ سے کہو وہ ڈھونڈ کے دے اِسے۔شاہ زیب نے پراٹھا کھاتے ہوئے کہا۔

ماجدہ کیوں موم کیوں نہیں۔شاہ ویر شاہ زیب کی بات پہ جلدی سے بولا

میں دیکھتی ہوں ورنہ یہ آپ کو سکون سے ناشتہ نہیں کرنے دے گا۔ثانیہ کہتی شاہ ویر کے کمرے کی طرف گئ۔

ہمیشہ کباب میں ہڈی بننا ضروری ہوتا ہے۔شاہ زیب ثانیہ کے جانے کے بعد شاہ ویر کا گلا پکڑ کر دانت پیس کر بولا۔

ڈیڈ کہاں ہیں کباب صبح کباب کون کھاتا ہے؟شاہ ویز اپنے گلا آزاد کرواتا شاہ زیب کو چھیڑنے والے انداز میں بولا۔

میں اور تمہارا ماں کباب ہیں اور تم ہم دونوں کے درمیان میں آنے والی ہڈی۔شاہ ویز پہ اثر نہ ہوتا دیکھ کر شاہ زیب جل بھن کے بولا۔

ہاہاہا ڈیڈ سریسلی کیا مثال دی ہے۔شاہ ویر پیٹ پہ ہاتھ رکھتا زور سے ہنستا ہوا بولا جس پہ شاہ زیب بس گھور کر رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ یہ تم اچانک پیکنگ کیوں کررہے ہو؟مہرماہ شاہ میر کو جلدی جلدی بیگ میں اپنے کپڑے ڈالتے دیکھا تو کہا ورنہ اگر کبھی بزنس میٹنگ کے سلسلے میں باہر جانا ہوتا تھا تو شاہ میر اس کو ساتھ لے جاتا تھا مگر آج اس کے اچانک پیکنگ کرنے پہ وہ حددرجہ حیران ہوئی تھی۔

ماہ مجھے لنڈن جانا ہے۔شاہ میر نے جیسے مہرماہ کے سر پہ دھماکا کیا۔

لنڈن؟مہرماہ کے لب پھڑپھڑائے۔

ہاں میری جان ایمرجنسی ہے ورنہ میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاتا ریان کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے ایکسیڈنٹ میں میرا ریان کے پاس ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کو میری ضرورت ہے۔شاہ میر پیکنگ چھوڑتا  مہرماہ کے گال پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

سوری مجھے پتا نہیں تھا تمہیں تو واقع میں ہونا چاہیے۔مہرماہ شرمندہ ہوتی ہوئی بولی۔

ریان کے مینجر سے یہ بات پتا چلی ریان کی حالت کا سوچ کر مجھے پریشانی ہورہی ہے۔شاہ میر مہرماہ کو اپنے سینے سے لگاتا بولا۔

میں پیکنگ کردیتی ہوں۔مہرماہ نے کجھ دیر بعد کہا تو شاہ میر نے سرہلایا۔

میری فلائٹ ہے تم ایسا کرنا حیات کو آرام سے سمجھا لینا لنڈن اچانک جانے کا اور میرے آنے تک اس کا بہت خیال رکھنا ہے بغیر ناشتے کے اس کو کالج نہیں بھیجنا رات کو وہ دیر تک پڑھتی ہے اِس لیے دودہ اس کو لازمی دینا ہے۔شاہ میر اپنا بیگ گاڑی میں رکھواتا مہرماہ کو ہدایت دے رہا تھا جو مہرماہ بڑے ضبط سے سن رہی تھی۔

شاہ وہ میری بھی بیٹی ہے۔مہرماہ نے جھلا کر کہا تو شاہ میر مسکرادیا۔

بلکل وہ ہماری بیٹی ہے۔شاہ میر مہرماہ کے ماتھے پہ بوسہ دیتا ہوا بولا۔

بال سفید ہورہے ہیں تمہارے پر سُدھرنا مت۔مہرماہ باہر شاہ میر کی حرکت پہ تپ کے بولی۔

بالوں کی سفیدی کو چھوڑے اور میری بات سنے آپ رات کو مجھ سے کال پہ بات کرنی ہے آپ نے اور دن کی ساری روٹین بتانی ہے اپنے کھانے پینے کا بھی بہت خیال رکھنا ہے۔شاہ میر آرام سے سمجھاتے ہوئے بولا۔

لنڈن میں رات ہو تو کال کروں یا پاکستان میں رات ہو تو؟مہرماہ نے شرارت سے پوچھا۔

لنڈن میں رات ہو تو پاکستان میں رات ہو تو آپ آرام کرئیے گا۔شاہ میر نے آرام سے جواب دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

زرجان اسلام آباد کی  ایئرپورٹ پہنچا تو سامنے کیب کے پاس کھڑے آدمی ہاتھ میں اس کی نیم پلیٹ پکڑے کھڑا تھا۔زرجان نے اپنا بیگ گھسیٹا اس کے سامنے آیا تو کیب والے ڈرائیور نے فورن سے اس کو پہچان لیا زرجان کے ہاتھ میں پکڑا بیگ اس نے لیکر پیچھے ڈگی میں رکھا تو زرجان کیب کا ڈور کھول کر اندر بیٹھ گیا۔

کیا ہوا؟زرجان جو کانوں میں ایئر فون ڈالے گانے سنتا اپنی پشت سیٹ سے ٹکاکر آنکھیں بند کرتے گانا سننے میں مگن تھا اچانک گاڑی جھٹکے سے رُکی تو پوچھا۔

لگتا ہے سامنے جھگڑا یا پھر کوئی حادثہ پیش آیا ہے اِس لیے بھیڑ جمع ہوگئ ہے۔کیب ڈرائیور نے سامنے دیکھ کر کہا تو زرجان کجھ سوچتا کیب سے نیچے اُترا۔

بیٹا آپ کہاں جارہے ہو میر سر نے کہا تھا آپ کو مری کے ہوٹل میں چھوڑ آنا ہے۔کیب ڈرائیور پریشانی سے بولا۔

جسٹ فائیو منٹس۔زرجان کہتا بھیڑ کی جانب آیا جہاں بہت لوگ جمع ہوکر سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کجھ کہہ رہے تھے زرجان بھیڑ کو چیرتا گزرنے لگا تو اس کے کانوں میں کسی لڑکی کی خوبصورت آواز پڑی۔

آپ سب لوگوں کو شرم آنی چاہیے ایسے تماشائی بن کر کھڑے ہوئے ہیں بجائے اِن بزرگ کی مدد کرنے کے۔لڑکی نے روڈ پہ بیٹھے ایک بزرگ کی جانب اشارہ کیا جو گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر درد سے کراہ رہے تھے ماتھے پہ چوٹ کا نشان بھی تھا ایک تیز رفتار گاڑی ان کو ٹکڑ مار کر چلی گئ تھی جس پہ کسی نے بھی اس بزرگ کی مدد نہیں پر اس نے جب دیکھا تو فورن سے آگے آئی تھی پر مسئلا یہ تھا کہ وہ یہاں اکیلی تھی راستوں کا بھی اس کو علم نہیں تھا وہ تو اپنی فرینڈز کے بہت اصرار کرنے پہ آئی تھی اب جب ان سے کے جانے کا وقت آیا تو اس کو کوئی کام یاد آگیا تھا جس سے وہ اپنا پرس موبائل وہی بھول آئی تھی اور کہا تھا ان سے کے وہ ایئرپورٹ پہنچ جائے گی گوگل میپ کے زریعے پر اب خود پروبلم میں بھنس گئ تھی

زرجان کی نظر سب سے پہلے اُس لڑکی پہ پڑی تھی جو بلیک شرٹ پہنے ہوئے تھی جس کے کف بازوؤں تک فولڈ کیے ہوئے تھے جس سے اس کے دودھیالی بازوں صاف ظاہر ہورہے تھے جینز بلیک پینٹ پہنے ساتھ میں بلیک ہیل پہنے وہ جو کوئی بھی تھی حد سے زیادہ خوبصورت تھی آنکھوں کا رنگ بالوں کی طرح بھورا تھا بھورے بال جو کسی آبیشار کی طرح پشت پہ بکھرے پڑے تھے جس سے وہ بے نیاز سب لوگوں سے سخت انداز میں بات کررہی تھی زرجان کی دور سے ہی اس کی ٹھوری کے پاس تِل کو آرام سے دیکھ سکتا رنگت بہت سفید ہونے کی وجہ سے کالا تِل پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔

سنو لڑکی یہ پولیس کیس ہے بہتر ہے تم بھی اِس میں نہ پڑو۔ایک آدمی جوابً بولا تو اس کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آئی جس سے اس کے گالوں پہ گہرے ڈمپل پڑے تھے اور جلدی سے غائب بھی ہوگئے تھے۔

ان کو ہوسپٹل لے جانے میں مدد کروں گا۔زرجان سنجیدگی سے بولا تو اس نے نظراٹھا کر دیکھا جس سے ٹھنڈی سانس لی پہلے تو کوئی آ نہیں رہا تھا اب آیا بھی تو ایک بچہ یہ سوچ کر اس نے جھری جھری لی۔

ہوسپٹل کا رستہ معلوم ہے؟کجھ سوچ کر اس نے پوچھا۔

جی۔زرجان اس کی ناک پہ چمکتی نوز پن کو دیکھ کر بولا۔

کیب،ٹیکسی،گاڑی وغیرہ میں سے کجھ ہے؟اُس نے دوسرا سوال داغا جس پہ زرجان نے دانت کچکچائے۔

جی تبھی تو بول رہا ہوں۔زرجان سنجیدگی سے کہتا بزرگ کو اٹھنے میں مدد دینے لگا۔

تم بچے ہو اِن کا وزن نہیں اٹھاسکتے۔اس نے پھر سے کہا۔

بچہ نہیں میں۔زرجان نے سپاٹ انداز میں کہا۔

سترہ اٹھارہ کے ہوگے ستر سالہ بزرگ کو کیسے سنبھال سکتے ہو میں کرتی ہوں ان کی مدد تم بس جس پہ بھی آئے ہو اُسے قریب لیں آؤ۔زرجان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا اس نے گھور کر اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا جہاں ایسا کوئی تاثر نہیں تھا جِسے وہ یہ سوچتا کہ وہ اُس کا مزاق اُڑا رہی ہے۔

عمر میں آپ سے چھوٹا ضرور ہوں پر طاقت، قدکاٹھ،میں  آپ سے زیادہ ہوں۔زرجان بزرگ کو اٹھنے میں سہارا دیتا کیب ڈرائیور کو کھڑا دیکھا تو یہاں آنے کا کہا جس پہ وہ دونوں پھر اس کو سہارا دیتے کیب کے پاس لیں آئے اور وہاں بیٹھایا جب کی وہ زرجان کی بات پہ ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ گئ۔

آپ نہیں آئی گی کیا؟زرجان نے پوچھا تو وہ بنا کجھ کہے کیب کی پچھلی سیٹ پہ آکر بیٹھی جہاں وہ بزرگ آدھا لیٹا ہوا تھا زرجان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گیا تھا

بچے آپ خود بھی چھوٹی ہیں ایسے میں اتنے لوگوں سے بحث نہیں کرنی چاہیے تھی۔کیب والے نے ڈرائیو کرتے پیچھے اس کو دیکھ کر کہا

میں چھوٹی نہیں پورے چوبیس سال کی ہوں میں بلکل ان سے بحث نہ کرتی اگر مجھے یہاں کے راستوں کا علم ہوتا یا میرے پاس سواری ہوتی تو میرا تو سیل فون ہی چھوٹ گیا ورنہ میں کسی کو بلالیتی۔اس نے ڈرائیور کی بات پہ سپاٹ انداز میں کہا زرجان کی سوئی تو چوبیس سال کی عمر پہ اٹک گئ تھی اس نے بیک ویو مرر سے اس کو دیکھا جو کہیں سے بھی چوبیس سال کی نہیں لگ رہی تھی شاید اپنے کمزور جسامت کی وجہ سے زرجان کو بالوں کے رنگ اور چہرے سے وہ یہاں کی نہیں لگی تھی زرجان کی نظر بھٹک کر اس کے گلے میں پہنی چین پہ پڑی جو کافی بڑی تھی پر وہ سر جھٹکتا اپنا دھیان ونڈو سے باہر کیا۔

ہوسپٹل آنے کے بعد ویل چیئر کی مدد سے بزرگ کو اندر لے جایا گیا جو اب درد کی شدت سے بیہوش ہوگئے تھے۔

اسٹریچر پہ لے جاتے۔بزرگ کا سر ایک جانب ڈھلا دیکھا تو وہ بڑبڑاکر اندر بڑھی۔

آپ یہی انتظار کریں پر یہ حادثہ آپ ڈیڈ سے نہیں کرے گے۔زرجان کیب سے اُترنے سے پہلے کیب ڈرائیور کو وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

وہ لڑکی اب سنبھال لیں گی۔ڈرائیور نے کجھ کہنا چاہا۔

انہوں نے کیا کہا تھا کہ وہ یہاں کے راستوں سے لاعلم ہے۔زرجان اس کی بات پہ سرد لہجے میں بولا۔

آپ بھی تو لاعلم ہیں۔ڈرائیور نے کہا تو وہ ان کو بس گھورتا باہر نکل کر اندر آیا جہاں وہ دیوار سے ٹیک لگاتی بار بار ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ رہی تھی زرجان اس پہ ایک نظر ڈالتا پاس بینچ پہ بیٹھ گیا۔

تمہارا شکریہ اب تم جاسکتے ہو تمہارے ماں باپ پریشان ہوجائے گے۔اس کی بات پہ زرجان کا دل کیا اپنے بال نوچ لیں جو تھوڑے ہی وقت میں یہ احساس کرواچکی تھی جیسے وہ کوئی پانچ سال کا بچہ ہو۔

نہیں ہوتے وہ پریشان اور میں جب اتنا آیا ہوں تو ان بزرگ کو ان کے گھر پہنچاکر ہی جاؤں گا۔زرجان نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو اس نے ایک نظر اس پہ ڈالی اس کو مردوں سے سخت نفرت تھی خاص طور پہ ایشین مردوں سے پر آج ایک بزرگ کی مدد کرنے کی خاطر اس نے ایک ایشین لڑکے کی مدد لی تھی بچہ سمجھ کر۔

یہ بِل آپ جمع کروائے۔نرس اس کے سامنے آتی ایک پرچی تھماکر بولی تو اس کے چہرے پہ پریشانی کی لکیریں اُبھری۔

یہ دوائیں بھی چاہیے۔نرس نے ایک اور پرچی ہاتھ میں دیکر چلی گئ۔

میں لیں آتا ہوں۔زرجان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

پئسے ہیں تمہارے پاس؟اس نے پوچھا حلانکہ کے شکل سے وہ اس کو امیر گھرانے سے ہی لگا تھا پر بہت سالوں سے اس نے لوگوں کو شکل سے جاننا ختم کیا تھا کیونکہ وہ اپنی کم عمر میں یہ بات سمجھ گئ تھی کے انسان کا چہرہ ہی سب سے بڑا نقاب ہوتا ہے اِس لیے کسی کی ظاہری شخصیت اور شکل سے اس کے بارے میں اندازہ لگانا سراسر بے وقوفی کے سوا کجھ نہیں 

جی میں لیں آؤں گا۔زرجان نے کہہ کر اس کے ہاتھوں سے پرچی لینی چاہی۔

ایسا کرو یہ بریسلیٹ ان کو دے دینا بل بھی پے ہوجائے گا ساتھ میں دوائیاں بھی ہوجائے گی۔ایک خیال کے آتے ہی اس نے اپنے ہاتھ سے بریسلیٹ اُتار کر زرجان کے سامنے کرکے کہا۔

ڈسپینسری جارہا ہوں جیولر کے پاس نہیں۔زرجان اس کے بریسلیٹ والے ہاتھ کو نظرانداز کرتا دونوں پرچیاں لیتا ہوا بولا تو وہ کندھے اُچکاگئ۔تھوری دیر بعد زرجان آیا جس کے ہاتھ میں دوائی کی شاپر تھی جو اُس نے پاس گُزرتی نرس کو وارڈ نمبر بتاکر دی۔

ریسپیشن کس طرف ہے؟زرجان واپس بیٹھا تو اس نے سوال کیا ان کو یہاں بیٹھے تین گھنٹوں سے زیادہ وقت بیت گیا تھا جس سے وہ اب پریشان ہوگئ تھی اس کے برعکس زرجان رلیکس تھا۔

کیوں؟زرجان نے جواب کے بجائے سوال کیا۔

کال کرنی تھی مجھے۔اس نے وجہ بتائی تو زرجان کی نظر گلے میں جھولتی چین پہ پڑی جہاں بڑے حرفوں سے ایک نام لکھا ہوا تھا جو وہ ٹھیک سے جان نہیں پایا۔

میرے فون سے کرلیں۔زرجان نے جیب سے اپنا سیل فون نکال کر دیا۔

تھینکس۔اس نے تھوڑا جھجھک کر فون تھام لیا

زرجان کو جو پہلے شک گزرا تھا کے وہ یہاں کی نہیں اب یقین ہوگیا تھا کیونکہ وہ جس سے بھی بات کررہی تھی انگریزی میں کررہی تھی جس سے زرجان سمجھ گیا کیونکہ اس کی انگلش بہت صاف تھی نرس کے آتے ہی اس کو طرف متوجہ ہوا۔

کیا کہہ رہی تھی نرس ڈسچارج کب ملے گا اُن کو؟فون وہ زرجان کی طرف بڑھاکر پوچھنے لگی۔

رات تک ان کو یہی رہنا کل صبح ان کو ڈسچارج مل جائے گا۔زرجان نے بتایا تو اس کو مُنہ حیرت سے کُھل گیا۔

اوو گوڈ۔وہ پاس بینچ پہ بیٹھ گئ۔

آپ اپنے گھر جاسکتی ہیں میں ان کو باحفاظت گھر تک چھوڑ آؤں گا۔زرجان نے اس کی باتیں کال پہ سن لی تھی جبھی کہا۔

میری فلائٹ ہے رات ایک بجے کی۔اس نے بس اتنا کہا۔

جی تو ابھی رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔زرجان نے آرام سے کہا جب کی شاک اس کو لگا کیونکہ اس کو وقت گزرنے کا پتا نہیں لگا تھا۔

مطلب دو گھنٹے رہتے ہیں۔وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔

یہاں سے ایئرپورٹ چالیس منٹ کی دوری پہ ہے۔زرجان نے مزید بتایا۔

اوکے تو پھر تم انہیں گھر تک چھوڑ آنا میرا جانا بہت ضروری ہے میری فرینڈز ایئرپورٹ پہ میرا انتظار کررہی ہیں میرا سارا سامان بھی ان کے پاس ہے۔وہ کجھ پل سوچنے کے بعد بولی کیونکہ وہ اب مزید یہاں نہیں بیٹھ سکتی تھی

آپ جائے گی کیسے؟زرجان نے پوچھا۔

کوئی سواری دیکھ لوں گی۔وہ عام انداز میں بولی۔

باہر کیب والا کھڑا ہے آپ ان کے ساتھ جائیے گا وہ آپ کو ایئرپورٹ چھوڑ آئے گے رات کے اِس پہر دوسری سواری ملنا مشکل ہے۔زرجان نے کہا تو وہ اُس کی کجھ مشکور ہوئی۔

تھینکس اگین۔وہ کہتی تیز قدموں سے باہر جانے لگی خاموش کوریڈور کے ہال میں اس کی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز گونجنے لگی جو اب زرجان کو دور جاتی محسوس ہوئی۔

💕💕💕💕💕💕

ڈیڈ ملے بغیر چلے گئے۔حیات اُداس ہوکر بولی یہ بات وہ کل سے کئ مرتبہ دوہراچکی تھی۔

جلدی سے جانا پڑا ورنہ کالج آجاتے۔مہرماہ نے منت کے بالوں میں تیل کی مالش کرتے ہوئے بتایا پاس ہی ہانیہ بیٹھی تھی جو ہانم بیگم کے سر پہ مالش کررہی تھی۔

ہممم کتنے دنوں کا اسٹے ہے اُن کا؟حیات نے پوچھا۔

کال آئے گی تو پوچھو گی۔مہرماہ نے کہا۔

زر کا فون آیا تھا پہنچ گیا مری؟ہانم بیگم نے مہرماہ سے پوچھا۔

چچی جان کل کال کی تھی رات کا وقت تھا شاید سویا ہوا تھا اِس لیے رسپانس نہیں ملا اب اٹھے گا تو کرلیں گا کال بیک۔مہرماہ نے جواب دیا۔

سہی اس کو کہنا وہاں سردی بہت ہوتی ہے اپنا بہت سارا خیال رکھے سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کا استعمال کرے۔ہانم بیگم نے کہا

چچی جان میں نے پیکنگ کرتے وقت کپڑے یہ رکھے تھے آپ فکر نہ کریں۔مہرماہ ان کی فکرمندی پہ مسکراکر بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

انہوں نے کہا تھا وہ اب پاکستان شفٹ ہونا چاہتے ہیں پر دیکھو زندگی نے ان کو مہلت ہی نہیں دی۔ریان دکھ سے کہا۔

اللہ نے ان کی زندگی اتنی لکھی تھی تم بس ان کی مغفرت کی دعا کرو۔شاہ میر نے حوصلہ دینے والے انداز میں کہا۔

کافی۔مہرین ٹرے میں کافی لیکر ان کے پاس رکھتی بولی۔

ماہا کسی ہے اب؟ریان نے آنکھیں صاف کرکے مہرین سے پوچھا۔

جب سے پتا چلا ہے پاگل سی ہوگئ ہے انکل کو گزرے چار دن ہوگئے ہیں پر وہ کمرے سے باہر ہی نہیں نکل رہی۔مہرین پریشانی سے بتانے لگی۔

میں گیا تھا پر آپی نے دروازہ نہیں کھولا۔ولی نے کہا۔

وہ اپنے گرینڈ فادر اور گرینڈ مدر سے بہت قریب تھی ان کی اچانک موت کا سن کر اس کو صدمہ لگا ہے اِس لیے فلحال اس کو اکیلا رہنے دو۔ریان نے سنجیدگی سے کہا۔

ملیحہ کہاں ہے؟شاہ میر کو ملیحہ کا خیال آیا تو پوچھا۔

کمرے میں قرآن پڑھ رہی ہے۔مہرین نے جواب دیا

ایک سیپارہ ماہا کو بھی دے رونے سے ان کی روح کو تکلیف ہوگی اِس لیے ماہا سے کہے ان کے لیے دعا کریں۔شاہ میر نے کہا تو مہرین نے سرہلایا۔

چار دن سے ٹھیک سے کجھ کھایا بھی نہیں۔ولی مایوسی سے کہتا اٹھ گیا۔

ریان اب تم پاکستان آنے کا سوچو بزنس آہستہ آہستہ یہاں سے وائنڈ اپ کرو۔شاہ میر نے ریان سے کہا جو سر ہاتھوں میں گِرائے بیٹھا تھا۔

دیکھتا ہوں فلحال تو اِن بچوں کو سنبھالنا ہے۔ریان نے کہا تو شاہ میر خاموش رہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

یار زر بتاؤ نہ جس بزرگ کے لیے لڑکی سب سے لڑ رہی تھی وہ دیکھنے میں کیسی تھی اتنے دنوں سے پوچھ رہے ہیں پر تم بتا ہی نہیں رہے۔فرزان نے زرجان سے کہا جو موبائل میں گیم کھیل رہا تھا اس کی بات پہ باقی سب بھی زرجان کو دیکھنے لگے۔

چلتی پِھرتی قیامت تھی۔زرجان کے سامنے اس کا خوبصورت سِراپا آیا تو بے ساختہ اس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔

اووو مطلب واقع کوئی بات تھی اُس میں اِس لیے تو زرجان میر تعریف کررہا ہے اس کی بات پہ سب نے ہوٹنگ کرکے کہا تو زرجان نے شانے اُچکادیئے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

دو سال بعد !!!

وہ اپنی ارزاں ہوتی ذات کو سمیٹتے بس چلتی جارہی تھی اس کو نہیں تھا پتا وہ کہاں تھی اور اب کہاں جارہی تھی اس کے دماغ میں بس یہ بات گردش کررہی تھی کے آج اُس نے اپنے باپ کا مان توڑدیا تھا اس کے باپ نے جو اُس کو خودمختار اور سب سے نظرے ملنے کے قابل بنایا تھا آج اُس نے اپنے باپ کو جیسے نظریں جُھکانے پہ مجبور کردیا تھا۔

تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہے جو پہلے پارسائی کا لِبادہ اُوڑھتی ہیں پھر چند جملے اور اٹینشن پہ پکے ہوئے پھلے کی طرح جھولی میں آ گِرتی ہے۔

اس کے کانوں میں زہریلے الفاظ گونجے تو اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے تاکہ آوازیں آنا بند ہوجائے پر ایسا ممکن نہیں تھا آواز مسلسل آرہی تھی بیچ سڑک پہ اس کو اپنے اُوپر کسی کی تمسخر اُڑاتی نظریں محسوس ہورہی تھی تو کسی کی طنزیہ تو کسی کی ہمدردانہ نظریں کوئی اس کو دیکھ کر آپس میں چہ مگوئیاں کررہا تھا تو کوئی نفرت سے نگاہ پِھیر رہا تھا۔اپنے آپ سے جنگ لڑتی وہ لہراکر نیچے روڈ پہ گِر پڑی تھی شاید اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی یہ سب برداشت کرنے کی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

زرجان اپنی ہیوی بائیک لیے یونیورسٹی میں انٹر ہوا جہاں سب لڑکیوں کی نظر اس پہ ٹھیرگئ تھی جس سے وہ لاتعلق بن کر اپنی بائیک سے اٹھا اور چابیاں ہاتھوں میں لیتا تو کبھی ہوا میں اچھال کر اپنی مٹھی میں جکڑتا اس کا رخ اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب تھا مگر سامنے اپنے دوست کی بہن آتا دیکھ کر اس کا موڈ بُری طرح خراب ہوا تھا۔

ہائے ہنی کیسے ہو؟عروہ نے ایک ادا سے بال جھٹک کر پوچھا جس پہ زرجان کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات نمایاں ہوئے تھے وہ اِس وقت بلیک کلر کی گول گلے والی ٹی شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز پینٹ میں اپنی صحرانگیز پرسنلیٹی کے ساتھ ہر ایک کی نظر کا مرکز بنا ہوا تھا ایک ہاتھ کی کلائی میں ڈیجیٹل واچ پہنی ہوئی تھی تو دوسرے ہاتھ میں مختلف قسم کے بینڈز پہنے ہوئے تھے۔

تمہارے سامنے سہی سلامت تو کھڑا ہوا۔زرجان چہرے پہ سختی سموئے بولا۔

افففف ایک تو بلا کے ہینڈسم دوسرا یہ غصہ سچی جان نکال لیتے ہو۔عروہ ڈھیٹ پن سے مسکراکر اس کے وجیہہ خوبصورت چہرے کو دیکھ کے بولی جہاں مسکراہٹ کا نام ونشان نہیں ہوتا خوبصورت چمکتی پیشانی پہ بل نمایاں ہوتے تھے تیکھی کھڑی ناک عنابی ہونٹ جو آپس میں باہم پیوست تھے جو اس کے ضبط کی نشاندھی کررہے تھے۔عروہ کو وہ بس اپنے دوست فرزان کی وجہ سے برداشت کرتا تھا ورنہ اس کا بس چلتا تو وہ ایک منٹ نہ لگاتا اس کی عقل ٹھکانے لگانے میں۔

فضول گوئی ہوگئ ہے تو ہٹو۔زرجان اس کو تھکادینے والے انداز میں سائیڈ پہ کرتا اپنے راستے چل دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اُس کی آنکھ کُھلی تو خود کو ہسپتال کے بیڈ پہ پایا چند پل تو وہ چت کو گھورتی رہی پھر نظر چاروں طرف گھمائی مگر سامنے اسٹول پہ شاہ ویر کو بیٹھا دیکھ کر اپنی جگہ دنگ رہ گئ تھی جو چہرے پہ دنیا جہاں کی فکر سجائے اس کو دیکھ رہا تھا۔

حیات اب کیسا فیل کررہی ہو؟شاہ ویر اس کو ہوش میں آتا دیکھ کر فورن سے بولا وہ اپنے آفس جارہا تھا کیس کے سلسلے میں جب بیچ روڈ پہ اس کو ایک وجود بیہوش دیکھائی دیا تو وہ گاڑی سے اُتر کر آیا مگر سامنے گِری ہستی کو دیکھ کر وہ کتنے پل اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا جہاں حیات ہوش وحواس سے بیگانہ بیہوش پڑی تھی شاہ ویر فورن سے حیات کا نازک وجود بانہوں میں بھرتے اس کو ہسپتال لایا تھا تقریباً پانچ گھنٹے بعد اُس کو ہوش آیا تھا ڈاکٹر کے مطابق حیات نے کسی بات کا صدمہ لیا تھا اور یہ بات شاہ ویر کو سمجھ نہیںہے آئی کے حیات کس بات کا صدمہ لے سکتی تھی۔

زندہ لاش کی مانند۔حیات آنکھیں میچ کے بولی تو شاہ ویر تڑپ کے اس کو دیکھنے لگا جس کی آنکھ سے آنسو نکل کر تکیے میں جذب ہورہے تھے۔

کیا بات ہے حیات ہم دوست ہیں مجھے نہیں بتاؤگی۔شاہ ویر نے تحمل سے پوچھا 

میرا سب کجھ برباد ہوگیا ویر سب کجھ۔حیات دھاڑ مار کر روتی ہوئی بولی شاہ ویر کو سمجھ نہیں آرہا تھا زندہ دل حیات کو اچانک سے کیا ہوگیا تھا۔

کجھ برباد نہیں ہوا حیات ایسا مت سوچو۔

تمہیں نہیں پتا ویر تمہیں کجھ نہیں پتا۔حیات اپنا سرنفی میں ہلاتی ہوئی بولی۔

پھر بولوں کیا بات ہے یقین کرو حیات بات جو بھی ہوئی ہمارے درمیان رہے گی۔شاہ ویر پُریقین لہجے میں بولا تو حیات نے اس کی گولڈ شڈڈ آنکھوں میں دیکھا جس پہ وہ شاہ ویر پہ یقین کرنے پہ مان گئ۔

ویر میں جو کہوں گی تم اس پہ یقین تو ہوگا نہ مجھے غلط تو نہیں سمجھوگے؟حیات نے رنجیدہ آواز میں کہا تو شاہ ویر کو تشویش ہوئی کے اصل بات ہے کیا۔

حیات اپنی ساری سوچو کو جھٹک دو میں تمہیں کبھی غلط نہیں سمجھوگا اور پہلی بات مجھے تم پہ اعتبار ہے۔شاہ ویر نے اس کو مان بخشا تو حیات کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔

یار حیات ڈونٹ۔شاہ ویر بے بس ہوتا بولا اس کا دل چاہ رہا تھا خود اپنے ہاتھ کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کرکے پر وہ اپنی حدودد سے واقف تھا اِس لیے ضبط کیے بیٹھا رہا۔

میرے کالج میں فیضان نامی لڑکا پڑھتا تھا۔حیات نے بتانا شروع کیا تو شاہ ویر کے سارے عضوو کان بن گئے تھے دل کی دھڑکن نے نے رفتار پکڑ لی تھی۔

فیضان کی ریپو پورے کالج میں بُری ہے ایک دفع ہم ایکسپریمنٹ کے لیے لائبریری میں تھے تو اُس پنج انسان نے وہاں بھی اپنا گھٹیا پن دیکھایا تھا ہماری کلاس فیلو تھی اس کو بار بار بہانے بہانے سے کبھی اس کا ہاتھ چھوتا تو کبھی کندھا ٹکراتا یہ بات میں نے نوٹ کی تھی پر میں بولی نہیں مگر کجھ دن بعد وہ لڑکی ڈین کی آفس پہنچ گئ فیضان کی شکایت لگانے جس پہ فیضان اپنی حرکت پہ مُکر گیا جب اس سے پوچھ تاچھ ہوئی تو اُس نے کہا کسی کو میرے سامنے لاؤ جو یہ بات کہے اس نے ایسا کرتے دیکھا ہے مجھے تمہارے ساتھ۔حیات بات کرتے کرتے سانس لینے کو رُکی۔

میں نے پورے کلاس کے سامنے فیضان کے روبرو آکر کہا کے میں نے اس کو دیکھا ہے ایک لڑکی کو نہیں جانے کتنی لڑکیوں کو حراس کرتے ہوئے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوتا گالیاں بکنے لگا میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی آئے دن وہ مجھے بدلا لینے کی دھمکی دیتا رہتا تھا پر میرا ویسے بھی میڈیکل کا کجھ عرصہ تھا جو میں سکون سے پورا کرنا چاہتی تھی اِس لیے ڈیڈ کو نہیں بتایا۔حیات اتنا کہہ کر خاموش ہوئی پھر شاہ ویر کو دیکھا جو سنجیدہ تاثرات لیے اس کو دیکھ رہا تھا۔

اُس بے غیرت انسان نے کیا کیا جو تم ایسے رو رہی ہو۔شاہ ویر کا لہجہ حد سے زیادہ برفیلا تھا حیات کا گلا خشک ہوا تھا شاہ ویر کا ایسا انداز دیکھ کر پر وہ اپنی حالت پہ قابو پاتی گلاتر کیے بولی۔

ایک ماہ پہلے میری ڈگری پوری پوگئ تھی نہ میڈیکل کی ڈیڈ نے فائیو اسٹار ہوٹل میں میری خوشی کو سیلیبریٹ کیا تھا مجھے ڈاکٹر بنانا ان کا بچپن کا خواب تھا وہاں پہ فیضان نے میری کجھ پِک کلک کی تھی مجھے نہیں تھا وہ وہاں کیسے اور کیوں آیا ڈیڈ نے تو بس قریبی لوگوں کو انوائٹ کیا تھا اور سارا ہوٹل تو ڈیڈ نے بُک کروالیا تھا۔

حیات فار گاڈ سیک اصل بات پہ آؤ۔شاہ ویر نے پھر سے حیات کو چپ ہوتا دیکھا تو سامنے پڑی دوائیوں کو ہاتھ مارکر گِراکر طیش کے عالم میں دھاڑ کر بولا حیات سہم کر بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

اُس نے میری اور اپنی پکچر ایڈیٹ کی جس میں،میں بہت قریب ہوں اُس کے۔حیات آنکھ میچ کر بولی جب کی آنسو کا سلسلہ پھر سے جاری ہوگیا تھا اور اس کے سرخ رخساروں پہ بہہ رہے تھے۔شاہ ویر ساکت سا حیات کو دیکھنے لگا جو پوری طرح بکھری ہوئی تھی۔

صبح میں اپنی فرینڈس کو ٹریٹ دینے والی تھی جب فیضان اپنے دوستوں کے ساتھ آیا اور ہمارے پاس آکر سب کے سامنے وہ پکچرز پیش کرکے میرے کردار کی مشکوک قرار دیا سب لوگ مجھے جن نظروں سے دیکھ رہے تھے میرے لیے وہ ڈوب مرنے کا مقام تھا اب جب وہ تصویریں کسی اور یا ڈیڈ کے پاس جائے گی تو کیا منہ دیکھاؤں گی ڈیڈ کو وہ کتنا ایمبریس ہوگے۔حیات روتے ہوئے بولی تو اچانک اس کی نظر شاہ ویر کے ہاتھوں پہ پڑی۔شاہ ویر حیات کی بات سن کر اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بھینچے کھڑا تھا جس سے اس کے گورے ہاتھوں کی سبز رگیں اُبھری پڑی تھی جو اُس کے اشتعال کا پتا دے رہی تھی حیات کا وجود ایک پل کو لرز اٹھا تھا۔

حیات کیا تمہیں میر ماموں اتنے کمزور لگتے ہی یا ہم اتنے گئے گُزرے ہیں کے ٹکے ٹکے کے لوگ ہماری عورتوں کو دھمائے گے اور ہم بس تماشائی کا رول پلے کریں گے۔شاہ ویر نے کہا تو حیات کجھ نہ بولی وہ اُس کو کیا بتاتی اگر ایک لڑکی کے کردار پہ کوئی داغ آجاتا ہے تو وہ بے قصور ہوکر بھی قصوروار ٹھیرتی ہے اپنے ماں باپ پہ بوجھ بن جاتی ہے۔

حیات تمہارے آنسو اتنے بے مول نہیں جو تم اُن کو فضول میں ضائع کرو۔شاہ ویر نے اِس بار نرمی سے کہا۔

ڈیڈ کو بتاتی تو وہ فیضان کا وہ حال کرتے کے لوگ عبرت لیتے پر بات یہ ہے کے میں ان کو پریشانی میں نہیں ڈال سکتی۔حیات نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

اپنا حلیہ درست کرو ہم گھر جارہے ہیں۔شاہ ویر سنجیدہ لہجے میں بولا۔

مجھے میں ہمت نہیں گھروالوں کا سامنا کرنے کی۔حیات سرجھکاکر بولی۔

تم نے ایسا کجھ نہیں کیا جس میں تم گھروالوں کے سامنے شرم محسوس کرو اور دوسری بات اپنا سر ہمیشہ اونچا کیے رکھو۔شاہ ویر نے کہا تو حیات نے تشکرانہ نظروں سے اس کو دیکھا جس نے اس کو سنبھال لیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان نے اب شاہ میر کے ساتھ آفس جانا شروع کردیا تھا اس کو آفس جوائن کیے ایک سال ہوگیا تھا وہ ابھی ایک اہم میٹنگ سے فارغ ہوتا اپنے کیبن میں بیٹھا تھا جب دھڑام سے دروازہ کُھول کر شاہ ویر کیبن میں داخل ہوا تھا کیبن کا دروازہ ایسے کُھلنے پہ مرجان کی پیشانی شکن آلود ہوئی تھی مگر شاہ ویر کو دیکھ کر اس کے اعصاب کجھ ڈھیلے پڑے۔

خیر تو ہے اِیسے جلاد بن کر کیونکہ اینٹری ماری ہے۔مرجان اپنی جگہ سے اٹھتا شاہ ویر سے ملنے کے لیے آگے بڑھا پر شاہ ویر نے ایک زوردار مکہ اُس کے چہرے پہ مارا مُکہ اتنا زور کا تھا کہ مرجان کو اپنا جبڑا ٹوٹتا محسوس ہوا۔

کیا حرکت ہے یہ دوستی اپنی جگہ ایک سال بڑا ہوں میں تم سے۔مرجان اپنے چہرے کی سائیڈ پہ ہاتھ رکھتا شاہ ویر کو گھور کر دیکھ کر بولا جس کی آنکھیں آگ برسا رہی تھی۔شاہ ویر مرجان کی بات کا جواب دیا بنا دوسرا مکہ اس کے منہ پہ مارا تو مرجان تلملا اٹھا تیسری بار بھی اس نے مرجان پہ وار کرنا چاہا پر مرجان بیچ میں ہی روک دیا۔

منہ سے کجھ پھوٹوں گے بھی یا بس ہاتھوں کا استعمال کروگے۔مرجان نے کہا تو شاہ ویر نے نفرت سے سرجھٹکا اور کیبن میں چکر کاٹنے لگا مرجان عجیب نظروں سے اس کو دیکھتا اپنا چہرہ صاف کرنے لگا جب کی ایک گال بُری طرح سوجھ چُکا تھا۔

میں نے کہا تھا مرجان کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ بُرا مت کرو یہ دنیا گول ہے جو تم آج کروگے وہی گھوم پِھرکر کل تمہارے پاس لوٹ آئے گا۔شاہ ویر کی آواز پوری کیبن میں گونجی تھی مرجان کا حرکت کرتا ہاتھ ایک لمحے کو رُکا تھا دل کی حالت عجیب ہوئی تھی۔

کیا کہنا چاہتے ہو تم؟مرجان خود پہ قابو کیے بولا۔

بچے نہیں تم بھول گئے تم سالوں پہلے تم نے کیا کیا تھا؟شاہ ویر اس کی بات سن کر طنزیہ انداز میں بولا۔

پُرانی بات کرنے کا کیا فائدہ بھول جاؤ۔مرجان نے کہا پر خود وہ ایک پل کے لیے بھی نہیں بھولا تھا۔

یہی تو المیہ ہے ہم انسانوں کا دوسروں کے ساتھ بُرا کرکے ہم بھول جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کے ہم سے اِس بات کا حساب لیا جائے گا ہم اگر کسی کے ساتھ بُرا کرتے ہیں نہ تو بھلے ہی ہم بھول جائے پر اللہ نہیں بھولتا وہ اُس چیز کا حساب ہم سے ضرور لیتا ہے اپنے بندوں کے ساتھ وہ ناانصافی کبھی نہیں کرتا اور نہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو معاف کرتا ہے جب تک سامنے والا خود نہ کریں۔شاہ ویر نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا۔

یہ آج تمہیں کہاں سے یہ بات یاد آئی ہے جو مجھے شرمندہ کرنے آگئے۔مرجان نے پانی کا گلاس لبوں پہ لگاکر پوچھا۔

یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے مرجان جو کل تم نے کسی لڑکی سے ساتھ کیا تھا اُس سے زیادہ بُرا آج تمہاری بہن کے ساتھ ہوا ہے۔شاہ ویر کی بات پہ مرجان نے اس کا گریبان پکڑ لیا تھا۔

کیا بکواس کررہے ہو تم حیات کا کیا ذکر اِن سب میں۔مرجان غراکر بولا۔

تمہیں نہیں پتا آج وہ کس فیز سے گزری ہے اگر میں اس کو نہ سنبھالتا نہ تو کوئی بعید نہیں تھا وہ اپنے ساتھ کیا کر گزرتی۔شاہ ویر اس کا ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا بولا۔

صاف صاف بات کرو۔مرجان کا دل کسی انہونی کے احساس سے دھڑک اٹھا تھا شاہ ویر نے ایک نظر اس کو دیکھا پھر سارا کجھ بتادیا جس کو سنتے مرجان کا دل کیا اپنا قتل کردے اُس کی انجانے میں کی گئ غلطی کا خمیازہ اس کی بہن کو بھگتا نہ پڑرہا تھا اس کو اپنے وجود سے گھن آئی۔

حیات کجھ دنوں بعد ٹھیک ہوجائے گی پر ایک بات اس کے دماغ پہ نقش رہے گی جو آہستہ آہستہ مٹ جائے گی پر تم نے مرجان پیار کے نام پہ کسی کا دل ریزہ ریزہ کردیا تھا کسی کے کردار کی دھجیاں بکھیر دی تھی ایک پل کو نہ سوچا وہ کیا کرے گی کیسے خود کو سنبھالے گی۔شاہ ویر نے اپنے دل کا سارا غبار نکالا۔

میں امچیور لڑکا تھا دوستوں کے بہکاوے میں آگیا تھا۔مرجان شرمندگی کے احساس سے بس اتنا ہی بول پایا۔

وہ بھی کچی عمر کی لڑکی تھی لڑکیاں تو اور نادان ناسمجھ نازک مزاج کی ہوتی ہیں ان کو پھولوں طرح رکھا جاتا پر تم نے اس کا وجود کاٹوں سے لہولہان کردیا تھا پر تو اُس کی کوئی خبر ہی نہیں ملی۔شاہ ویر نے اُس کو اُس کا بھیانک روپ دیکھایا جس سے وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل نہ رہا تھا پہلے جو پچھتاوا تھا اب زہر کی طرح اس کے جسم میں پھیل رہا تھا جو اب شاید معافی ملنے کے بعد ہی ختم ہونا تھا۔

کوئی آیت مل جائے ایسی

میں ورد کروں،اور توں مل جائے

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

زندہ ہونے کے لیے سانس،خوش رہنے کے لیے وجہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے مگر بعض دفع یہ دونوں چیزیں ہو تو بھی انسان محسوس نہیں کرپاتا سانس تو آتی ہے اُس کو پر خود کو زندہ تصور نہیں کرپاتا،خوش ہونے کی وجہ ہو بھی تو بھی وہ وجہ اس کو خوش ہونے نہیں دیتی کیونکہ کبھی کبھی انسان ویسے نہیں ہوتا جیسے نظر آتا ہے اصل خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے اگر دل خوش ہو تو چھوٹی وجہ بھی بڑی خوشی دے ڈالتی ہے مگر جب دل خوش نہ ہو تو بڑی وجہ تھوڑی خوشی بھی نہیں دے پاتی۔

کیوں پریشان کررکھا ہے سب کو؟ماہا اپنی سوچو میں غلطان تھی جب اس کی پانچ منٹ بڑی بہن دندناتی اس پہ سر پہ نازل ہوئی۔

میں نے کسی کو پریشان نہیں کیا۔ماہا بے تاثر لہجے میں کہتی راکنگ چیئر سے اُٹھ کر کتابوں کی ریکس کے پاس کھڑی ہوکر ترتیب شدہ کتابوں کو اور ترتیب سے رکھنے لگی خود کو بس مصروف ظاہر کرنا تھا۔

ماہا تم جانتی ہو ڈیڈ دو سالوں سے اپنے فرینڈ کے ساتھ مل کر اپنا بزنس پاکستان سیٹل کروارہے ہیں وہ اب پاکستان میں اپنی زندگی گُزارنا چاہتے ہیں تو تم کیوں رکاوٹ بن رہی ہو۔ملیحہ نے جھنجھلاکر اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھ کر کہا جہاں ویرانی کے سوا کجھ نہیں تھا وہ دونوں تھی تو جڑواں پر ملیحہ قد کے لحاظ سے اس سے کجھ لمبی تھی چہرے کے نین نقش بھی بہت الگ تھے ملیحہ کی آنکھوں کا رنگ بھورا تھا پتلی ستوان ناک اور بھرے بھرے سرخ گال کی حامل پرکشش لڑکی تھی جب کی اُس کے برعکس ماہا گہری سفید رنگت کی مالک تھی آنکھوں کا رنگ اُس کا بھی بھورا تھا جہاں اب وہ عینک کا استعمال کرتی تھی تو مزید خوبصورت لگتی تھی اور سیم بالوں کا کلر بھی بھورا تھا ستوان ناک جہاں نوز پن پہنی ہوئی تھی سرخ انار جیسے گال جہاں  گہرے ڈمپلز پڑتے تھے اور چھوٹے گلابی ہونٹ جب کی ٹھوری کے نیچے سائیڈ پہ اس کو تِل تھا۔وہ مناسب قد کی انتہا کی خوبصورت لڑکی تھی اُپر سے چہرے پہ ہر وقت سنجیدگی چھائی رہتی جو کی نئ تھی ورنہ وہ ملیحہ کی طرح شوخ مزاج چنچل سی لڑکی تھی پھر ریان کے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے وہ مغرور اور خودسر بنا دیا تھا پر کجھ عرصے سے وہ بس اپنے آپ میں مگن رہتی تھی جس سے سب گھروالے پریشان رہتے تھے شروع شروع میں تو سب نے جاننے کی کوشش کی تھی پر ماہا نے کجھ بتایا نہیں تو اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا تھا پر ملیحہ نے نہیں اُس نے تنگ کر رکھا اور ایک دن طیش میں آکر ماہا نے ساری کجھ بتادیا تھا جس پہ ملیحہ کو افسوس ہوا کہ اس نے کیوں ضد کرکے ماہا سے پوچھا کیونکہ بتانے کے بعد ماہا کی حالت بُری ہوگئ تھی۔ماہا ہر وقت پڑھتی رہتی تھی کبھی کوئی کتاب تو کبھی کوئی اُس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پر ملیحہ کو نہیں وہ لنڈن جیسے مُلک میں رہنے کے باوجوہ بھی بس ایف اے کیا تھا۔

میں رکاوٹ نہیں بن رہی۔ماہا نے فورن سے کہا

تمہیں کیا مسئلا ہے پاکستان جانے سے تم نہیں چل رہی اِس لیے ڈیڈ بھی نہیں جاپارہے وہ اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتے تمہیں یہاں۔ملیحہ نے دانت پیس کر کہا

بچی نہیں میں اکیلے رہ سکتی ہوں۔ماہا نے دو ٹوک انداز اپنا کر کہا

ماہا ڈیڈ ہم میں  سے سب سے  زیادہ پیار تم سے کرتے ہیں اور تم اُن کے لیے امتحان بن رہی ہو۔ملیحہ نے اس کو ڈپٹ کر کہا۔

مجھے پڑھنا باہر جاؤ۔ماہا نے بغیر لحاظ کیے کہا

پانچ منٹ بڑی ہوں تم سے یہ عزت ہے میری تمہاری نظروں میں۔ملیحہ نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں کہا۔

اگر چاہتی ہو میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر باہر دروازے کے پاس کرکے دروازہ تمہارے منہ پہ بند نہ کروں تو شرافت سے خود ہی چلی جاؤ۔ماہا نے بازوں سینے پہ باندہ کر کہا تو ملیحہ اس کو گھور کر دیکھتی کمرے سے باہر نکل گئ اس کے جانے کے بعد ماہا گِرنے کے انداز سے بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

اور اب تنہائی میں راحت،

اور محفلوں میں اکتاہٹ سی ہوتی ہے

💕💕💕💕💕💕💕💕

و ٹھیک ورنہ اس کو پانی پینے کا ہوش نہ رہتا شاہ میر جو بظاہر تو وہ خود کو مہرماہ سے لاتعلق ظاہر کرتا مگر در حقیقت وہ ایک پل لے لیے بھی مہرماہ سے غافل نہیں ہوا تھا وہ بس مہرماہ کو اس


ڈیڈ آپ یہاں مجھے بُلا لیا ہوتا۔حیات جو بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی دروازہ نوک ہونے پہ شاہ میر کو آتا دیکھا تو سیدھی ہوکر بیٹھ کر بولی۔

کیوں جی میں اپنی ڈول کے پاس نہیں آسکتا؟شاہ میر مصنوعی غصہ دیکھاکر بولا تو حیات کے چہرے پہ ایک دن بعد مسکراہٹ آئی تھی۔

بلکل آسکتے ہیں۔حیات شاہ میر کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔

میرا بچہ کجھ پریشان ہے۔شاہ میر نرمی سے اس کے بال سہلا کر بولا۔

نہیں تو۔حیات نے خود پہ ضبط کیے کہا۔

توں پھر دو دن سے کمرے میں کیوں قیام پزیر ہے۔شاہ میر نے چھیڑا۔

ایسے ہی بس سوچا تھوڑا آرام کروں۔حیات نے بہانا بنایا پر شاہ میر مطمئن نہیں ہوا۔

حیات تم میرا دل ہو اِس لیے جو بھی بات ہو مجھے بلا جھجھک بتادیا کرو۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا۔

ہائے یہ بات اگر آپ مما کے سامنے کرتے تو کیا بات ہوتی۔حیات نے شرارت سے کہا تو شاہ میر نے اُس کو گھورا۔

وہ میرے دل کی دھڑکن ہے اِس لیے تم زیادہ چالاکی مت دیکھانا۔شاہ میر نے وارن کیا۔

لیں جی کجھ بھی ہو پر آپ یہ بات ظاہر ضرور کردیتے ہیں کے مما آپ کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔

بلکل کیونکہ ان کی وجہ سے ہی تو آپ یہاں ہو۔شاہ میر نے اعتراف کیا۔

کیا ڈیڈ دل رکھنے کے لیے ہی کہا ہوتا کہ نہیں میری حیات تم ماہ سے زیادہ مجھے عزیز ہو۔حیات منہ بناکر بولی۔

ڈرامے باز۔شاہ میر نے اس کے گال کھینچے

ڈیڈ دھڑکن نہ ہو تو دل کسی کام کا نہیں ہوتا سارا کام تو دھڑکن کا ہوتا ہے وہ اگر رُک جائے تو بس سب ختم۔حیات نے بڑی سنجیدگی سے کہا

میں نے تمہیں میڈیکل کی پڑھائی اِس لیے نہیں کروائی کے تم مجھے سائنس پڑھانے لگو۔شاہ میر اس کی بات پہ تپ کے بولا جس پہ حیات ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوئی۔تو شاہ میر نے کہا

تمہارا کہا بھی سہی پر دل ہوتا ہے تبھی تو دھڑکن ہوتی ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

بات ہوسکتی ہے۔مہرین نے ماہا کے کمرے میں آکر سنجیدگی سے کہا۔

شیور موم۔ماہا جو لکھنے میں مصروف تھی مہرین کی آواز سن کر رجسٹری بند کیا ساتھ میں آنکھوں میں پہنے گلاسس بھی اُتار کر سائیڈ ٹیبل پہ دراز میں رکھے۔

ریان ہمیں پاکستان لیکر جانا چاہتا ہے تمہاری وجہ سے رُکا ہوا ہے اپنی ضد چھوڑو ہمارے ساتھ چلو۔مہرین نے کہا تو ماہا کے چہرہ پہ اذیت بھری مسکراہٹ آئی۔

میں کس سے کہوں حال دیدہ نم کا

میرے دکھ سے آگاہ میری ماں بھی نہیں 

تو آپ لوگ جائے میری وجہ سے کیوں رکے ہوئے ہیں۔ماہا نے سادہ لہجے میں کہا۔

پاگل ہو یہاں کس کے بھروسے پہ ہم تمہیں چھوڑ کر جائے۔مہرین سخت لہجے میں بولی۔

اللہ کے بھروسے۔ماہا نے کہا

وہ تو سہی ماہا پر تم بات کو سمجھو ریان نے ہماری وجہ سے اپنے آپ کو بھلا دیا ہے اُس کا دل تو سالوں سے پاکستان رہنے پہ تھا پر انکل نہیں مانے پھر جب ان کا پاکستان رہنے پہ آیا تو ریان تم تینوں کی وجہ سے نہیں گیا اب ہمیں بھی اُس کے لیے کجھ کرنا چاہیے نہ۔مہرین اب کی کجھ نرم ہوئی۔

آپ کی ہر بات سے میں اتفاق کرتی ہوں پر موم میں پاکستان ہمیشہ نہیں رہ سکتی۔ماہا اپنی بات پہ قائم رہی۔

ہمیشہ اپنے بارے میں نہیں سوچا جاتا زندگی میں کبھی کبھی اپنوں کی خوشیوں کے لیے بھی سوچنا ہوتا ہے۔مہرین نے پھر کہا۔

وقت چاہیے مجھے آپ لوگ جائے ایک دو ویک بعد میں آجاٶں گی۔ماہا نے نیم رضامندی دی۔

ساتھ چلنے میں کیا قباحت ہے؟

قباحت کوئی نہیں بس اکیلا رہنا چاہتی ہوں آپ بس میری اِس بات پہ ڈیڈ کو کنوِنس کریں میرا واعدہ ہے میں بھی آوٴں گی پھر۔ماہا ان کی بات پہ بولی تو مہرین نے سر کو اثبات میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

خیر ہے اپنے ہی آپ کیوں مسکرایا جارہا ہے؟مہرماہ ٹیرس پہ بیٹھے شاہ میر کو چائے کا کپ دیتی ہوئی مشکوک نظروں سے دیکھ کر بولی اور خود بھی پاس والی چیئر پہ بیٹھی صبح کا وقت کا تازی تازی ہوا جسم کو سرور بخش رہی تھی۔

خیر ہی ہے آپ کو پتا ہے ریان کا فون آیا تو بتارہا تھا جلدی ہی وہ یہاں آنے والا ہے۔شاہ میر نے مہرماہ کو دیکھ کر مسکراکر بتایا۔

یہ تو اچھی بات ہے۔مہرماہ نے شاہ میر کو خوش دیکھ کر کہا

ہاں نہ۔

شاہ۔مہرماہ نے پُکارا

جی۔فورن سے جواب حاضر ہوا۔

تم نے بس ایک دوست کیوں بنایا؟مہرماہ کے دماغ میں چلتا سوال زبان پہ آیا۔

ایسے ہی بس زیادہ لوگوں سے دوستی کرنے کا کیا فائدہ بس ایک حد تک ان سے بات کرنا ٹھیک ہے۔

حضرت علی کا فرمان ہے!

ہزار دوست بنانے سے اچھا ہے ایک ایسا دوست بناو جب ہزار ساتھ نہ بھی ہو تو ایک ہمیشہ ساتھ رہے۔

شاہ اتنا کہہ کر چائے کا گھونٹ پینے لگا،مہرماہ بس اس کو دیکھتی رہی۔

سہی کہا مطلب تمہیں بچپن سے ہی اندازہ تھا کے ریان تمہارا اچھا دوست ثابت ہوگا؟مہرماہ نے دوسرا سوال داغا۔

بلکل ہماری دوستی کی شروعات میں پٙہل اُس نے کی تھی ورنہ میں جس مزاج کا تھا بچے زیادہ تر مجھ سے ڈرتے تھے۔شاہ میر اتنا کہہ کر ہنس پڑا تو مہرماہ مسکرادی شاہ میر نے اپنی بات دوبارہ سے شروع کی۔

ریان بچپن میں بہت شرارتی ہوتا تھا ایک پل بھی سکون سے نہیں بیٹھتا تھا پڑھائی تو اُس کے ماں باپ نے زبردستی کروائی ورنہ اُس نے کتابوں کی شکل بھی نہیں دیکھنی تھی ایسے ہی پھر میری سنجیدگی دیکھ کر اُس نے پورے اِسکول کو چھور کر میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جو میں نے پہلے تو نہیں بعد میں تھام دیا۔شاہ میر نے اپنی بات ختم کی۔

بہت گہری دوستی معلوم ہوتی ہے۔مہرماہ سرجھٹک کر کہتی چائے پینے لگی۔

ہماری محبت گہری ہے یہ تو کبھی نہیں کہا آپ نے۔شاہ میر کو تو جیسے موقع مل گیا۔

شاہ اِس عمر میں بھی تمہیں اظہارِ محبت سننا ہے۔مہرماہ کو شاہ میر کی بات پہ جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

ہر بات پہ عمر کو بیچ میں نہ لایا کرے دوسرا محبت،اظہار،کی کوئی عمر نہیں ہوتی یہ چیزیں انسان کو ہر عمر میں چاہیے ہوتی ہے خاص طور پہ اُس اِنسان سے جسے آپ بہت چاہتے ہو۔شاہ میر نے سنجیدہ ہوکر کہا تو مہرماہ اپنا سر دائیں بائیں ہلانے لگی۔

ایک تو آپ پہ میری بات کا اثر نہیں ہوتا۔شاہ میر چائے کا کپ رکھتے بدمزہ ہوکر بولا مہرماہ کو شاہ میر کی شکل دیکھ کر ہنسی نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

بھائی مجھے ہوسپٹل چھوڑ آئیے گا۔حیات سیڑھیوں سے اُترتی مرجان سے بولی جو ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔مرجان نے حیات کو دیکھا تو خود کو اُس کا مجرم سمجھنے لگا بے ساختہ اُس کی نظریں شرمندگی کے مارے جھک گئ تھی۔

بہن کو جواب تو دو۔شاہ میر جو آفس جانے کے لیے تیار تھا مرجان کو حیات کی بات کا جواب نہ دیتے دیکھا تو ٹوک کر بولا۔

سوری ڈیڈ،حیات میں بس تیار ہوکر آتا ہوں پھر چلتے ہیں۔مرجان شرمندہ ہوتا پہلے شاہ میر پھر حیات سے بولا تو وہ  کندھے اُچکاکر زرجان کے برابر بیٹھ گئ جو فِری فائیر گیم کِھیل رہا تھا

تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟حیات نے پوچھا۔

ٹھیک۔زرجان نے مختصر جواب دیا۔

پڑھائی میں مدد چاہیے تو میں حاضر ہو۔حیات نے پیش کش کی تو شاہ میر مسکرایا پھر مہرماہ سے لیپ ٹاپ بیگ لیتا وہاں سے نکلتا باہر جانے لگا تو مہرماہ بھی اس کی تقلید میں چلنے لگی تاکہ باہر تک چھوڑ آئے۔

میں بزنس پڑھ رہا ہوں اور آپ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ رہ چُکی ہے۔زرجان نے گیم کِھیلتے ہوئے جواب دیا۔

تو کیا ہوا میں حیات ہوں اور حیات کو سب آتا ہے۔حیات نے فرضی کالر اکڑائے۔

اور میں زرجان میر ہوں زرجان کو سب کرنا آتا ہے بنا کسی کی مدد کے۔زرجان نے دوبدو جواب دیا۔

ایک دن تو ایسا ہوگا نہ جو تم اکیلے نہیں کرسکوں گے کجھ کسی کا ساتھ ضرور ہوگا جس کی تمہیں چاہ ہوگی مدد کے لیے۔حیات نے بغور اُس کا چہرہ دیکھ کر کہا جو تھا تو اُس کے جیسے مگر عادات میں زمین آسمان کا فرق تھا

ایسا کبھی نہیں ہوگا۔زرجان گیم جیت کر اب رلیکس سا صوفے سے پشت ٹکاکر بولا۔

ایسا ہوگا کیونکہ ایسا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے خاص طور پہ اُن لوگوں کے ساتھ جن کو لگتا ہے وہ اکیلے سب کجھ کرسکتے ہیں۔حیات نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا پر اِس بار زرجان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

اپنا خیال رکھنا اور کوشش کرنا جلدی آنے کی مجھے پریشانی لگی رہے گی تمہاری طرف سے۔ریان ماہا کو اپنے ساتھ لگائے مسلسل سمجھا رہا تھا آج ان کی پاکستان جانے کی فلائٹ تھی اور ماہا ان کو سی آف کرنے آئی تھی ریان تو ماہا کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا پر مہرین نے اُس کو جیسے تیسے کرکے سمجھادیا تھا جِس سے ریان ناچاہتے ہوئے بھی ان کی بات مان گیا۔

آپ بے فکر رہے ڈیڈ میں اپنا ڈھیر سارا خیال رکھوں گی۔ماہا نے ان کو مطمئن کرنے کی خاطر کہا۔

آپی مجھے تو آپ بہت یاد آئے گی۔ولی ماہا کے گلے ملتے بولا تو وہ مسکرادی۔

میں بھی تمہیں یاد کروں گی۔ماہا نے اس کے بالوں میں ہاتھ پِھیر کر کہا۔

اچھا اب یہ سین ہوگیا تھا چلیں فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے۔ملیحہ نے ان کو وقت کا احساس کروانا چاہا۔

کھانا باہر سے نہیں کھانا بیمار پڑجاتی ہوتم۔مہرین نے فکرمند ہوتے کہا تو ملیحہ گہری سانس بھر کر رہ گئ۔ماہا نے ایک نظر ملیحہ پہ ڈالی پھر کہا۔

میں سب آپ کے کہے مطابق کروں گی ابھی آپ لوگ جائے فلائٹ نہ مس ہوجائے مس ملیحہ بے چین ہوئی پڑی جیسے جانے کیا خزانہ ہے وہاں اُس کا۔آخر میں ماہا نا لہجہ طنزیہ ہوگیا جس سے ملیحہ نے نفی میں سرہلایا پھر وہ سب چلے گئے تو ماہا بھی گھر لوٹنے کے لیے وہاں سے چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

زر اپنے نوٹس تو دینا۔فرزام نے زرجان سے کہا۔

تمہارے اپنے کہاں ہیں۔؟زرجان نے نوٹس پکڑا کر سوال کیا۔

کل میری اور عروہ کی لڑائی ہوئی تھی تو اُس نے پھاڑ دیئے۔فرزام نے آرام سے بتایا۔

تم اور تمہاری بہن کی حرکتیں تو بلکل بچوں جیسے ہی ہیں۔ان کا دوست احتشام بولا تو فرزام ہنس دیا۔

بس کیا کریں اللہ نے بہن دی ہے تو بھگتنی پڑے گی۔فرزام معصوم شکل بنائے بولا 

ویسے تم دونوں کو پتا ہے ہمارے بزنس ڈپارٹمنٹ کے سر بدل گئے ہیں۔احتشام کو اچانک یاد آیا تو کہا۔

کیا ہوگیا ہے ان کو جو بدل گئے ہیں؟زرجان کو اُس کی بات سمجھ نہیں آئی۔

ہوا کجھ نہیں بس سر جابر نے اپنا ٹرانسفر دوسری یونی کروایا ہے جس سے ہماری دو دن بزنس مینجمنٹ کی کلاس نہیں ہوگی۔احتشام نے بتایا۔

تو کیا کوئی نیا استاد ہوگا۔فرزام نے پوچھا۔

ہاں شاید۔احتشام نے کہا۔

اچھا اب کلاس کا وقت ہوگیا ہے اندر چلو سر جو ہوگا نیا دیکھا جائے گا۔زرجان اپنے ہاٹھ کی گھڑی میں وقت دیکھتا ہوا بولا تو وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ میر مرجان اور حیات کے ساتھ ریان اور اس کی فیملی کو ریسیو کرنے آیا تھا جبھی وہ اُس کو آتے دیکھے تو شاہ میر مسکراکر ان کی طرف بڑھا۔

ویلکم بیک ٹو پاکستان۔شاہ میر ریان کے گلے ملتا خوشگوار لہجے میں بولا جب کی حیات مہرین اور ملیحہ سے ملنے لگی اور مرجان ولی سے۔

زرجان نہیں آیا؟

ماہا نہیں آئی کیا؟

شاہ میر اور ریان یک زبان ہوکر بولے تو باقی ان کو حیرت سے دیکھنے لگی شاہ میر نے ریان کو دیکھا پھر وہ دونوں بھی ہنس پڑے۔

ماہا ایک دو ہفتے بعد آجائے گی۔ریان نے بتایا۔

زر ریسیو کرنے آتا پر اُس کو اپنے فرینڈز کے ساتھ برتھ پارٹی میں جانا تو میں نے اُس سے کہا نہیں۔شاہ میر نے زرجان کے نہ آنے کی وجہ بتائی۔

ابھی ہمارے گھر چلو۔شاہ میر نے ڈرائیور سے کہہ کر ان کا سارا سامان گاڑی کے اندر رکھنے کا کہہ کر ریان سے بولا۔

نہیں میر ہم نے تو گھر دیکھ لیا ہے وہاں جانا ہے سب تیاریاں کرکے آئے ہیں ہم۔ریان نے مسکراکر بتایا۔

کس ڈیفینس میں گھر لیا ہے؟شاہ میر نے پوچھا

تمہارے بغل والے علاقے میں ہی گھرلیا ہے۔ریان شاہ میر کے کندھے سے کندھا ٹکرا کر بولا تو شاہ میر نے گھور کر اُس کو دیکھا جس نے اِس عمر میں بھی شوخیاں نہیں کی تھی ختم جب بچے سارے اور مہرین نے مسکراکر ان دونوں کو دیکھا تھا۔

یہ تو اچھی بات ہے آنا جانا لگا رہے گا آپ ابھی نہیں چل رہے پر ہمارے گھر دعوت پہ تو آپ سب کو آنا ہی ہوگا۔مرجان نے پہلی بار ان کی گفتگو میں حصہ لیا۔

ضرور ایسے سنہرے موقعے ہم نہیں چھوڑتے۔ریان نے مرجان کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

ڈیڈ گھر چلیں اتنا لمبا سفر کیا ہے تھکاوٹ ہورہی ہے۔ملیحہ نے سب کی توجہ اپنی جانب مبزول کروائی۔مرجان اُس کی آواز پہ ایک نظر اُس کو دیکھا پر دیکھ کر بے ساختہ ٹھٹک گیا اپنا وہم سمجھ کر مرجان نے اپنا دھیان دوسری طرف کرنا چاہا مگر ناکام رہا۔

آپ نے کونسا لمبے سفر میں پلین کو تھکا دے کر یہاں پہنچایا ہے۔ولی نے ملیحہ کو چھیڑا۔

ابھی مجھے میں انرجی نے بعد میں اِس کا جواب سود سمیت دوں گی۔سب کو ہنستا دیکھ کر ملیحہ نے دانت پیس کر دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو ولی کو چپ لگ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ویر کن سوچوں میں گم ہو۔سارہ بیگم شاہ ویر سے پوچھا جس کے سامنے کافی دیر چائے کا کپ ٹھنڈا ہوگیا تھا پر شاہ ویر کو احساس ہی نہیں ہوا تھا۔

دادو آپ سے ایک بات کرنی تھی۔شاہ ویر ان کی بات پہ چونکا پھر سنبھل کر بولا

کہو کیا بات ہے؟سارہ بیگم نے محبت سے پوچھا

آپ موم ڈیڈ سے کہے نہ کے وہ میری شادی کروادے۔شاہ ویر بنا لگی لپیٹی کے بولا تو سارہ بیگم حیرانکن تاثرات سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی ان کو لگا شاہ ویر مذاق کررہا ہے پر اس کے چہرے پہ سنجیدگی دیکھ کر وہ گہری سانس بھر کر رہ گئ۔

یہ تمہیں شادی کا خیال کہاں سے آیا تمہارے باپ کو تو میں لڑکیوں کی تصویریں تھماتی تھی تب بھی راضی نہیں ہوتا تھا۔سارہ بیگم نے شاہ ویر کا کان پکڑ کر استفسار کرنے لگی۔

دادو یار آپ کا بیٹا صابر تھا پر پوتہ نہیں۔شاہ ویر دانتوں کی نمائش کرتا بولا تو سارہ بیگم کجھ مشکوک ہوئی۔

لڑکی دیکھ رکھی ہے کیا؟سارہ بیگم نے سوال کیا۔شاہ ویر اُس سے پہلے نام لیتا مہرماہ اندر داخل ہوئی جسے دیکھ کر سارہ بیگم خوشی سے اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ گھر پاس ہونے کے باوجود بھی مہرماہ کم ہی گھر آتی تھی ان سے ملنے۔

کیسی ہیں امی جان؟مہرماہ مسکراکر ان سے مل کر پوچھنے لگی۔

میں ٹھیک تم کیسی ہو۔سارہ بیگم اس کاماتھا چومتی پوچھنے لگی۔

میں بھی فٹ۔مہرماہ نے جواب دے کر شاہ ویر کی طرف رخ کیا۔

تم یہاں کوئی کیس نہیں کیا آج؟مہرماہ نے شرارت سے پوچھا تو شاہ ویر مسکرادیا

پھپھو جان کیسس تو بہت ہے آخر کو آپ کا بھتیجا ایک قابل وکیل ہے وہ تو بس میں نے آج آف لیں رکھا ہے۔شاہ ویر بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولا۔

اچھا کیا میں نے دیکھ لیا تم نے ورنہ تمہیں تو توفیق نہیں ہوتی اپنی اکلوتی پھپھو سے ملنے کی۔مہرماہ نے شکوہ کناں انداز میں کہا۔

میں تو ملنے آ ٹپکوں پر آپ کے شوہر نامدار ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں نے ان سے قرض لے رکھا ہو۔شاہ ویر نے اپنا دامن صاف کیا۔

شاہ تو بس اِس لیے ایسا کرتا ہے کیونکہ تم اس کی موجودگی میں زیب کی طرح مجھ سے چپکتے ہو۔مہرماہ فورن سے شاہ میر کے حق میں بولی۔

میں تمہارے لیے کجھ کھانے کو لاتی ہوں۔سارہ بیگم اٹھتی ہوئی بولی۔

میں کجھ کھانے نہیں آئی آپ سے ملنے آئی ہوں۔مہرماہ نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

پھر بھی۔سارہ بیگم اتنا بولی تھی کے مہرماہ بول پڑی۔

ثانیہ کہاں ہیں؟

موم تو ڈیڈ کے ساتھ ڈیٹ پہ گئ ہیں۔شاہ ویر موبائل کی طرف دیکھتا خود کو مصروف ظاہر کرتا بتانے لگا۔

شرم کرو ماں پاب کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں کیا۔سارہ بیگم نے اس کے بازوں پہ چپت لگائی جب کی مہرماہ ہنس رہی تھی۔

بازار جانا تھا اُس کو موسم بدل رہا ہے نہ تو  میں نے زیب سے بھی کہا ساتھ جائے تاکہ وہ سکندر کے لیے بھی کجھ سامان لیں آئے وہ تو اب نہیں جاتے خریداری کرنے کے لیے۔سارہ بیگم نے جواب دیا تو مہرماہ نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

ریان اور مہرین،ملیحہ،ولی یہ سب آج خان مینشن میں تھے کیونکہ شاہ میر نے ان کو دعوت دی تھی جس سے اب وہ سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے خوش گپوں میں مصروف تھے۔ایک طرف مرد اپنی باتوں میں گم تھے تو دوسری طرف ہانم بیگم،مہرماہ،مہرین،حیات،اور ملیحہ ایک دوسرے سے باتوں میں لگی ہوئی تھی اور ساتھ میں چائے اور کباب سے بھی لطف اندروز ہورہے تھے۔

میر تیرا یہ بیٹا تو سنجیدگی میں تم سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔ریان نے زرجان کو دیکھ کر شاہ میر سے کہا جو اُس کی بات پہ شانے اچکا گیا تھا۔

سنجیدہ مزاج بلکل نہیں بس موڈی ہے۔حیدر خان نے زرجان کی پیٹھ تھپتھپاکر بولے۔

کونسی کلاس میں ہو تم؟ریان نے سوال کیا۔

بزنس کے سکنڈ ایئر میں۔زرجان نے بتایا۔

کس یونی میں کیونکہ یہاں کراچی کی ایک یونی میں مہرین نے جاب کے لیے اپلائے کیا ہے اور وہ بزنس مینجمنٹ کی ٹیچر کے بطور ہوگی لنڈن میں بھی وہ لیکچرار تھی اِس لیے وہ پڑھنا اور پڑھانا نہیں چھوڑ سکتی۔ریان نے مسکراکر کہا۔

خود تو تم نکمے میں ہو پر بیوی لائق فائق ملی ہے۔شاہ میر نے کہا تو ریان کا منہ اُتر گیا۔

ہمارے یونی میں بھی سر کی بدلی ہوگئ ہے تو شاید آپ کی وائف ہمیں ہی پڑھائے گی۔زرجان نے ان کا پہلے پوچھا ہوا سوال کا جواب دیا۔

یہ تو اچھی بات ہوئی۔ریان خوش ہوکر بولا۔

میں ذرہ یہ کال سن لوں۔ملیحہ نے اپنے فون پہ ماہا کی کال آتی دیکھی تو کہا اور اٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر گئ۔

اپس سوری۔ملیحہ کال پہ فارغ ہوتی آرہی تھی جب اُس کا سر سامنے آتے مرجان کے سینے سے لگا تو وہ بولی۔

کوئی بات نہیں مجھے دیکھنا چاہیے تھا۔مرجان آرام سے بولا۔

آپ یہاں؟میرا مطلب باقی سب تو ڈرائینگ روم میں ہیں۔مرجان نے اس کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔

میری بہن کا فون آیا تھا اس سے بات کرنے یہاں آئی تھی۔مہرماہ نے لان کو چاروں طرف دیکھ کر بتایا۔

میں بھی یہاں کال سننے کے لیے آیا تھا۔مرجان نے مسکراکر بتایا تو ملیحہ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر مسمرائز ہوئی تھی۔

کہاں کھوگئ آپ؟مرجان نے اُس کے سامنے چٹکی بجاکر ہوش میں لانے کی کوشش کی۔

آپ کی سمائیل بہت اٹریکٹو ہے۔ملیحہ نے بلاجھجھک ہوکر کہا تو مرجان کے مسکراتے لب فورن سمیٹے تھے اُس کو کسی کی یاد آگئ تھی۔

اور کسی کی یادیں،

کبھی نہیں چھوڑتی۔

تم مسکراتے ہوئے اور بھی ڈیشنگ لگتے ہو بکوز یوئر سمائیل از سو اٹریکٹو اینڈ مسمرائزنگ۔مرجان کے کانوں میں آواز گونجی تو ایک پھانس سینے پہ محسوس ہوئی۔

آپ کو بُرا لگا کیا؟ملیحہ نے اُس کو خاموش دیکھ کر اندازہ لگایا۔

نہیں بس کوئی یاد آیا تھا۔مرجان اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتا بولا۔

اندر چلتے ہیں باقی سب ویٹ کررہے ہوگے۔ملیحہ نے کہا پھر دونوں اندر کی طرف بڑھے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کبھی لگتا ہے پتھر بن

گئ 

ہوں میں اور کبھی یوں

ہی

ٹوٹ کر رونے کو دل

کرتا ہے

اپنی غلطیوں پر۔

ماہا ہاتھ میں پکڑا کاغذ پہ لکھی اپنی تحریر پڑھ رہی تھی جب کی پاس ہی اس کی دوست مانوی بیٹھی تھی۔

بھول کیوں نہیں جاتی سوائے تکلیف کے ملا کیا ہے تمہیں جو اب بھی اپنی زندگی فضول میں ضائع کررہی ہو۔مانوی نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

سوچ رہی ہوں موم ڈیڈ کے پاس چلی جاٶں ان کے بغیر یہاں دل نہیں لگ رہا ملی اور ولی بھی بہت یاد آرہے ہیں۔ماہا اس کی بات نظرانداز کرتی بولی۔

اچھی بات ہے ماحول، جگہ،مُلک بدلے گا تو بہتر محسوس کروں گی۔مانوی اس کی بات سن کر بولی۔

یہ سب تو بہت پہلے بھی بدلا تھا پر میرے اندر کا حال نہیں بدلا۔ماہا طنزیہ انداز میں بولی۔

ہر ایک انسان کا ماضی ہوتا ہے کسی کا اچھا تو کسی کا بُرا پر یہ ہم پہ منحصر ہوتا ہے کے ہم  اپنے ماضی سے کجھ سیکھتے ہیں یا اُس کو اپنے سر پہ سوار کرلیتے ہیں سیکھنا اچھی بات ہے جب کی اگر سر پہ سوار کرے گے تو نقصان ہمارا اپنا ہوگا۔مانوی نے گہری سانس لیکر کہا۔

ماضی سے کوئی کیا سکھے گا بس لوگ حال میں ماضی کے ساتھ جی لیتے ہیں اپنی زندگی سے سمجھوتا کرلیتے ہیں پر میں چاہ کر بھی ویسا نہیں کرسکتی میں دل کا حال چہرے پہ چھوٹی مسکراہٹ سجاکر نہیں چھپاسکتی نہ تو میرے پاس ایسا آرٹ ہے اور نہ ہی میں دوغلی زندگی گُزارنا چاہتی ہوں۔ماہا نے اپنی بات کی۔

تم سے باتوں میں جیت نہیں سکتی اِس لیے تمہاری پیکنگ میں مدد کرواتی ہوں۔مانوی اٹھتی اس کے کمرے میں کبرڈ کے پاس کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

ابھی تو ٹِکٹ کنفرم نہیں ہوئی۔ماہا نے کہا۔

اُس میں کونسا دیر لگتی ہے۔مانوی نے اُس کی بات ہوا میں اُڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ملیحہ اپنے نئے گھر کا جائزہ لیتی اب کمرے میں لیٹی ہوئی تھی اُس کی سوچو کا محو اِس وقت مرجان تھا جو پہلی تو نہیں پر دوسری نظر میں دل پہ قابض ہوگیا تھا سوچتے سوچتے ملیحہ کے چہرہ پہ مسکراہٹ آگئ تھی پھر وہ اٹھ کر الماری کی طرف آکر اُس کا پٹ کھولا جہاں مشرقی ٹائپ کپڑوں کی کلیکشن تھی مہرین نے یہاں جینز شرٹ پہننے سے منع کردیا تھا جس پہ ملیحہ نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا کے مجھے عادت نہیں وغیرہ کیونکہ جب وہ دعوت پہ گئے تھے تو اُس نے چودہ سال منت پہ سر پہ بھی ڈوپٹہ دیکھا تب اُس کو شرٹ کے جینز پہنتے ہوئے عجیب لگا تھا اِس لیے اُس نے سوچ لیا تھا وہ بھی اب اِن کی طرح ڈریسنگ کرے گی۔ملیحہ نے بلیو اور یلو کلر کا پرنٹڈ سوٹ کا انتخاب کیا اور ملحقہ واشروم کی طرف گئ نہانے کے لیے۔تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہوتی باہر آئی اور اپنے بھورے بالون کو تولیہ سے آزاد کرکے بیڈ پہ پھینک کر ڈریسنگ کے دراز سے ہیئر ڈرائیر اٹھا کر بال سوکھانے لگی بال سوکھانے کے بعد ان کو پشت پہ بکھرا چھوڑ کر خود کو آئینے میں دیکھا جہاں وہ معمولی سے ہٹ کر بہت پیاری لگ رہی تھی پرنٹڈ شلوار قمیض جس کا گلا کافی چھوٹا تھا اُس کی صراحی دار گردن اس سے مزید پتلی معلوم ہوئی ملیحہ نے خود پہ نظر ہٹانے کے بعد گلابی رنگ کا لپ گلوس اپنے ہونٹوں پہ لگایا پھر ہاتھ میں گھڑی پہننے کے بعد اپنی چین اٹھائی جو کافی بڑی تھی جس کے بیچ لاکیٹ میں بڑے حرفوں سے اُس کا نام ملیحہ جگمگارہا تھا ملیحہ اپنی سادہ تیاری سے مطمئن ہوتی دوبارہ الماری کے پاس آئی اور اپنے پہنے ہوئے ڈریس سے میچنگ ڈوپٹہ نکال کر ایک شانے پہ سیٹ کرتی باہر آئی۔

موم

موم۔

ملیحہ سیڑھیاں اُترتی زور زور سے مہرین کو پُکارنے لگی جو ابھی اپنی یونی کی جاب سے واپس آتی کچن میں گئ تھی۔

کیا ہے ملی کیوں پورا گھر سر پہ اٹھایا ہوا ہے۔مہرین ہال میں آتی ملیحہ سے بولی۔

موم میں نے ڈیڈ سے گاڑی کا کہا تھا تاکہ میں اپنی مرضی سے آ جا سکوں۔ملیحہ نے مہرین سے کہا۔

تو دلادے گے ویسے بھی اکیلے تم نے نہیں جانا میر بھائی کے بیٹی حیات یا ان کے گھر کے کسی فرد کے ساتھ جایا کرنا ابھی کہاں واقف ہوتم یہاں کے راستوں سے۔مہرین نے جواب دیا۔

تو ابھی مجھے باہر جانا تھا کیا کروں پھر گھر میں بھی بور ہوگئ ہوں۔ملیحہ نے کوفت سے کہا

میری مانو تو یونی میں ایڈمیشن لیکر اپنی پڑھائی دوبارہ سے کنٹینیوں کرو۔مہرین نے مشورہ دیا۔

موم پلیز مجھ سے نہیں پڑھی جاتی یہ موٹی موٹی کتابیں۔ملیحہ نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

ماہا کو دیکھو دونوں ساتھ دنیا میں آئی ہو اُس نے دوبار ایم بی ائے کیا ہے اور ایک تم ہو جس نے ایف کے بعد کتابوں کی شکل بھی نہیں دیکھی۔مہرین نے اس کو شرمندہ کرنا چاہا۔

ماہا آجائے گی تو اُس کو دیکھ لوں گی فلحال یہ بتائے میں جو اتنا تیار ہوئی ہوں اب کیا کروں۔ملیحہ ان کی بات پہ دھیان دیئے بنا اپنی بات کہنے لگی۔

کرتی ہوں مہرو سے بات کے اگر حیات ہے تو اُس کو بھیجے۔مہرین نفی میں سرہلاتی ہوئی بولی۔

ہوئی بات؟ملیحہ نے مہرین سے پوچھا۔

مرجان آرہا ہے حیات ہوسپٹل میں اپنی ڈیوٹی پہ ہے۔مہرین نے بتایا تو مرجان کے نام پہ ملیحہ کے دل میں ہلچل ہوئی۔

انہیں کیوں تکلیف دی۔ملیحہ نے اپنا بھرم قائم کرنے کی خاطر کہا ورنہ دل تو بھنگڑے ڈال رہا تھا۔

ہاں میں نے بھی کہا پر اُس نے کہا آج اُس کا آف ہے آفس سے اِس لیے کوئی پریشانی نہیں۔مہرین نے بتایا تو ملیحہ شدت سے مرجان کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ریان نے اپنا بزنس شاہ میر کے بزنس کے ساتھ جوڑ دیا تھا اب وہ دونوں آپس میں بزنس  پارٹنرز بھی تھے ریان کے ساتھ ولی آفس کا کام دیکھتا تھا تو شاہ میر کے ساتھ مرجان ابھی ریان اپنے کیبن میں بیٹھا تھا جب اس کا موبائل فون رِنگ کرنے لگا تو ریان نے اسکرین پہ ماہا کالنگ دیکھا تو کال پِک کرلی۔

کیسی ہے میری بیٹی؟ریان نے محبت سے پوچھا

بہت اچھی اور اب آپ کا ویٹ کررہی ہے جناح ایئر پورٹ پہ۔ماہا نے آرام سے اُن پہ سر پہ بم پھوڑا۔

کیا واقع تم آگئ بتایا کیوں نہیں پہلے۔ریان اپنی جگہ سے اٹھتا بولا۔

سوچا آپ کو سرپرائز دوں۔ماہا نے جواب دیا۔

آدھا گھنٹہ پہلے بتادیتی فلائٹ ٹیک آف ہونے سے پہلے تو اب انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ریان آفس کی راہداری سے گزرتا فون کان سے لگائے بولا۔

کجھ نہیں ہوتا انتظار سے آپ بس جلدی آجائے۔ماہا نے کہا۔

اوکے آیم کمنگ۔ریان پورچ میں آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کہاں جانا ہے؟مرجان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ملیحہ سے پوچھا جو اس کو ہی دیکھے جارہی تھی۔

جہاں آپ لیں چلے۔ملیحہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو مرجان نے حیرت سے گردن موڑ کر اس کو دیکھا جس سے ملیحہ سٹپٹاتی سیدھی ہوئی۔

میرا مطلب تھا مجھے تو یہاں کے راستوں کے علم نہیں تو آپ ہی کجھ نالج دے تاکہ میں خود آسکوں۔ملیحہ نے اپنی بات کی صفائی دیتے کہا

اوکے تو میں آپ کو سی ویو لیں چلتا ہوں۔مرجان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی ملیحہ کے اِس انداز سے۔

کیا ہم آپ کا تکلف چھوڑ سکتے ہیں؟ملیحہ نے پوچھا۔

مطلب؟

مطلب یہ ہماری عمر میں زیادہ فرق تو ہے نہیں اِس لیے آپ بھی مجھے تم کہے اور میں بھی۔ملیحہ نے اپنی بات کا مطلب سمجھایا۔

ٹھیک ہے نو پروبلم۔مرجان راضی ہوتا بولا تو ملیحہ خوش ہوگئ۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

گھر چل کر میں اب ریسٹ کروں گی۔ماہا اپنا سفری بیگ  گاڑی کی ڈگی میں رکھنے کے لیے ریان کو دیتی بولی۔

ضرور پھر تمہیں میرے دوست سے بھی تو ملنا ہے باقی سب تو مل لیے۔ریان نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

وہ کہاں ہوگے اِس وقت۔ماہا نے پوچھا

ہم نے بزنس ایک ساتھ کیا ہے تو وہ اپنے آفس میں ہی ہے میں جلدی میں آگیا ورنہ اس کو بتادیتا۔ریان نے جواب دیا

تو آپ گاڑی اپنے آفس کی جانب موڑ دے۔ماہا نے کہا۔

ابھی تو تم نے آرام کرنا تھا۔ریان نے کہا۔

ہاں پر میر انکل سے مل لوں گی پہلے جب آئے تھے تو میں نہیں مل پائی تھی۔ماہا نے جواب دیا۔

تم ڈیڈ کے وفات پہ صدمے میں جو تھی۔ریان اچانک اُداس ہوا تھا ماہا بھی خاموش ہوگئ تھی۔

میں آخری بار ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا یہ بات میری برداشت سے باہر تھی۔ماہا تھوڑی دیر بعد بولی۔

ایکسیڈنٹ بُرا ہوا تھا اِس لیے تزفین جلدی کرنا پڑی تھی۔ریان کی آنکھوں میں اپنے باپ کے ذکر پہ نمی اُتر آئی تھی۔

گاڑی تیز چلائے نہ تاکہ جلدی پہنچ جائے۔ماہا نے بات بدلنے میں بہتری سمجھی۔

ہممم۔ریان اتنا کہتا گاڑی کی اسپیڈ بڑھاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان اور ملیحہ ساحل سمندر پہ اِس وقت ننگے پاٶں ریت پہ چل رہیں تھے ٹھنڈی ٹھنڈی لہریں اُن کے پیروں کو چھوتی واپس لوٹ جاتی ملیحہ کو یہ سب بہت خوبصورت لگ رہا تھا اُپر سے دل میں نئے جذبات جو پیدا ہوئے تھے یہ سب اُس لیے نیا اور منفرد تھا جس کو وہ بھرپور طریقے سے گزارنا چاہتی تھی۔

کیسا لگ رہا ہے یہاں آکر؟مرجان نے بات کی شروعات کی۔

بہت اچھا۔ملیحہ نے ہوا کی دوش سے اُڑتے بالوں کے چہرے سے ہٹاکر مسکراکر جواب دیا۔

یہ میری پسندیدہ جگہ ہے میں جب بھی اکیلا رہنا چاہتا ہوں تو یہاں آجاتا ہوں بہت ہلکہ پھلکہ ہوجاتا ہوں یہاں کا پرسکون ماحول یہ پانی اور لہروں کو دیکھ کر اِس گیلی ریت پہ چلنا مجھے اچھا لگتا ہے۔مرجان نے چلتے ہوئے بتایا۔

مطلب آپ کی بہت اچھی ہے۔ملیحہ نے اُس کی بات سن کر کہا۔

بلکل میری کیا زر اور حیات بھی اکثر یہاں آتے ہیں پتا ہے کیوں؟مرجان نے آخر میں اس کی طرف رخ کیے پوچھا۔

کیوں؟ملیحہ نے بے ساختہ پوچھا۔

کیونکہ یہاں پہلی بار ڈیڈ نے مما سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔مرجان کے چہرے پہ یہ بتاتے ہوئے تبسم کِھلا تھا۔

واؤ آپ کے فادر کافی رومانٹک معلوم ہوتے ہیں ڈیڈ اکثر بتاتے ہیں ہمیں ان کے بارے میں کے وہ کتنا پیار کرتے ہیں اپنی بیوی سے۔ملیحہ نے بھی مسکراکر کہا۔

جی پیار تو وہ سچ میں بہت کرتے ہیں شاید پیار لفظ تو بہت چھوٹا ہے وہ تو مما سے عشق کرتے ہیں۔مرجان نے جواب دیا۔

آپ کے والدین کے بیچ میں ایج ڈفرنس ہیں نہ؟ملیحہ نے پوچھا۔

ہاں بس چار سال کا پر کبھی محسوس نہیں ہوتا۔مرجان نے آرام سے جواب دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

بہت خوشی ہوئی کہ آپ ایئر پورٹ سے سیدھا یہاں آئی۔شاہ میر نے مسکراکر ماہا سے کہا۔

مجھے بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا تجسس ہوتا تھا پر جب آپ آئے میں اُس کنڈیشن میں نہیں تھی کے آپ سے مل سکوں۔ماہا نے جواب دیا پر شاہ میر کا چہرہ اُس کو کسی کی یاد دلارہا تھا جس سے اُس کو اپنے یہاں آنے پہ افسوس ہورہا تھا پر یہاں بیٹھنا اُس کی مجبوری تھا کیونکہ سامنے بیٹھا شخص اُس کے باپ کا گہرا دوست تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی اپنے روڈ بیہیو سے ریان مایوس ہو اور اپنے دوست کے سامنے شرمندہ۔

ہاں وہ وقت ہی ایسا تھا خیر یہ بتاٶ کیا لوں گی کھانے میں اور پینے میں؟شاہ میر انٹرکام اٹھاتا پوچھنے لگا جب کی اِس بیچ ریان خاموش بیٹھا تھا۔

کجھ بھی نہیں میں نے فلائٹ میں کھالیا تھا۔ماہا نے سہولت سے انکار کیا 

جو بھی ایک کافی تو پھر بھی ہوگی ساتھ میں۔شاہ میر نے مسکراکر کہا تو ماہا اتنی چاہت سے کہنے پہ انکار نہیں کرپائی۔

میرے لیے چائے کے ساتھ سموسے بھی۔ریان نے کہا 

اوکے۔شاہ میر نے کہہ کر انٹرکام پہ کہا پھر ماہا سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

زرجان دوستوں کے ساتھ فٹبال گیم کِھیل رہا تھا جس کے مخالف اس کے کلاس فیلو میں ایک عباس نامی شخص تھا جس کے ساتھی عمار،خالد،فیاض،اور نعیم تھے۔زرجان پوری پُھرتی سے بال کو اپنی طرف کرتا سامنے گول کرگیا تھا جس سے اس کے مخالف کے منہ سے او شُٹ کا لفظ نکلا تھا پر باقی سب نے زرجان زرجان کے نام کا نعرہ لگایا تھا زرجان کے چہرے پہ فاتحہ مسکراہٹ آئی تھی زرجان بال کو اپنے ہاتھ میں لیتا انگلی کے اُپر رکھتا گول گول گھماتا سیٹی کی دُھن بجاتا سامنے عباس کو چڑانے کے غرض سے پاس سے گُزر گیا جس سے عباس دانت پیستا رہ گیا اُس سے زیادہ وہ کجھ کر بھی نہیں سکتا تھا گیم تو زرجان جیت چُکا تھا۔

مجھے پتا تھا تم جیت جاؤگے۔عروہ نے مسکراکر زرجان سے کہا جو پانی کی بوتل آدھی پی کر باقی چہرے کے اُپر انڈیل دی تھی اور اپنے سر کو دائیں بائین کررہا تھا۔

ہر بار تو زر ہی جیت جارتا ہے کوئی نئ بات نہیں۔احتشام نے تولیہ زرجان کی طرف بڑھاکر فخریہ انداز سے کہا۔

آگے کا کیا پلان ہے؟فرزام نے زرجان سے پوچھا

میں تو گھر جارہا ہوں ڈیڈ کی کال آئی تھی۔زرجان نے اپنے بیگ سے دوسری شرٹ نکال کر بتایا۔

جیت کی خوشی میں ٹریٹ تو بنتی ہیں۔احتشام نے کہا

تم لوگ جی بھر کر ٹریٹ لو بِل میں پے کرلوں گا پر میں ساتھ نہیں آسکتا۔زرجان نے انکار کرکے کہا۔

کل دے دینا۔عروہ نے زرجان کی توجہ خود پہ کروانی چاہی۔

مرضی ہے تم لوگوں کی ابھی میں چلتا ہوں۔زرجان احتشام اور فرزام سے ملتے ہوئے بولا۔

تم کیوں خود کو اس کے سامنے ڈی گریڈ کرتی ہوں جب کی پتا بھی ہے اُس کو تم میں کوئی دلچسپی نہیں۔زرجان کے جانے کے بعد احتشام نے عروہ سے کہا۔

ایٹی ٹیوڈ دیکھاتا ہے اپنی خوبصورت پہ ناز ہے اُس کو پر وہ جانتا ہے آنا اُس کو میرے پاس ہی ہے۔عروہ خوشفہمی میں مبتلا ہوتی بولی۔

سوچ ہے تمہاری۔احتشام نے تاسف سے اُس کو دیکھ کر کہا 

دیکھ لینا کیسے وہ اپنی محبت کا اظہار مجھ سے کرتا ہے۔عروہ نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

بڑی میسنی ہو مجھے بتایا تک نہیں۔ملیحہ دوسرے دن ماہا کے کمرے میں آتی ہوئی ناراض لہجے میں بولی۔

میسنی کیا سرپرائز دینا چاہتی تھی میں تو۔ماہا اپنے بھورے بالوں کو جوڑے میں قید کرتی ہوئی سادہ انداز میں بولی۔

ہممم سرپرائز تو مجھے بہت پسند آیا۔ملیحہ ماہا کو اپنے ساتھ لگاتی مسکراکر بولی تو ماہا کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آئی۔

میں فریش ہوکر باہر آتی ہوں بھوک بہت لگی ہے۔ماہا بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی۔

ڈریس میں دیتی ہوں وہ پہن کر آنا۔ملیحہ نے کہا

میں اپنے کپڑے لائی ہوں۔ماہا نے بتایا

جینز شرٹ ہوگی نہ۔ملیحہ نے منہ بناکر کہا۔

ڈیئر ملیحہ ریان تم بھول رہی ہو میں نے ایک سال سے اپنی ڈریسنگ چینج کردی ہے۔ماہا اُس کی بات کا مطلب سمجھتی ہوئی بولی۔

ریئلی میں تو سچ میں بھول گئ تھی۔ملیحہ سر پہ ہاتھ مارتی ہوئی بولی

یاد کیا رہتا ہے تمہیں۔ماہا نے نفی میں سرہلاکر کہا تو ملیحہ کی آنکھوں کے سامنے مرجان کا چہرہ آیا۔

اچھا سنو ملی۔ماہا اپنے بیگ سے ایک ڈریس کا انتخاب کرتی ملیحہ سے مخاطب ہوئی۔

بولوں۔ملیحہ نے کہا۔

میرا وارڈروب تو سیٹ کردو۔ماہا نے کہا۔

ٹھیک ہے تم جلدی سے فریش ہوجاؤ ناشتہ ہم نے بھی نہیں کیا۔ملیحہ اُس کا بیگ اپنی طرف کرتی بولی۔

بس بیس منٹس۔ماہا کہتی واشروم میں بند ہوگئ۔ملیحہ بھی اس کے کپڑے بیگ سے نکالتی وارڈروب میں سیٹ کرنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ناراض ہو؟مرجان شاہ ویر کی آفس میں آئے کافی وقت بیت گیا تھا پر شاہ ویر اُس کو بُری طرح نظرانداز کرتا کیس ریڈ کرنے میں مصروف تھا تبھی مرجان ہمت کرتا خود ہی بول پڑا۔

میں کیوں ناراض ہوگا۔شاہ ویر کندھے اُچکاتا بولا۔

میں جانتا ہوں میں غلط تھا پر حیات کے ساتھ جو ہوا اُس سے پہلے ہی میں شرمندگی کے احساس سے گِھرا ہوا تھا مجھے اپنے کیے پہ افسوس ہے پر میں گزرا ہوا وقت واپس نہیں لاسکتا۔مرجان نے پژمردگی سے کہا۔

سُدھار تو سکتے ہو نہ اُس کو ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔شاہ ویر نے سنجیدگی سے کہا

ہمت نہیں معافی مانگنے کی۔مرجان نے افسردہ ہوکر کہا۔

ڈھونڈنے کی کوشش کرو جتنا ہوسکے اُس کو منالینا پھر اُس کو اپنا نام دینا۔شاہ ویر نے کہا

یو مین میں اُس سے شادی کروں؟مرجان کو جیسے شاہ ویر سے اِس بات کی توقع نہیں تھی۔

ہاں تو کیا بُرائی ہے۔شاہ ویر نے کہا

میں نے جو اُس کے ساتھ کیا تمہیں لگتا ہے پھر کوئی لڑکی ایسے انسان سے شادی کرنا چاہے گی اُس نے جن نفرت زدہ نظروں سے مجھے دیکھا تھا نہ مجھے نہیں لگتا وہ ایسا کرے گی۔مرجان نے کہا

پیار کرنے لگی تھی نہ تو بس معافی مل جائے گی کیونکہ جن سے محبت ہو ان کے لیے کجھ بھی ہو پر دل میں ہمیشہ نرم گوشہ رہتا ہے۔شاہ ویر نے آرام سے کہا 

میرے لیے اُس کے لیے پیار کے جذبات نہیں میں بس اپنے کیے پہ پیشمان ہوں۔مرجان نے صاف گوئی سے کہا

پہلے اس کو ڈھونڈو پیار ہے یا نہیں وہ بعد کی بات ہے ویسے بھی اصل محبت وہ ہے جو نکاح کے بعد ہو۔شاہ ویر نے اس کی بات پہ کہا تو مرجان گہری سوچ میں ڈوب گیا

💕💕💕💕💕💕💕💕

موم میں بھی جاب کرنا چاہتی ہوں۔ماہا نے مہرین سے کہا۔

یہ تو اچھی بات ہے ریان سے کہتی ہوں وہ تمہیں اپنے ساتھ آفس لے جایا کریں۔مہرین اُس کی بات سن کر مسکراکر بولی۔

بزنس میں نہیں یونی میں جہاں آپ کرتی ہے جاب آپ کو تو پتا ہے مجھے پڑھنے اور پڑھانے کا آپ کی طرح ہی شوق ہے۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا۔

ہاں پر تمہیں بزنس کی نالج ہے اچھا ہے ریان کے ساتھ جاؤں گی تو۔مہرین نے کہا۔

اِس لیے تو میں چاہتی ہوں یونی میں ایم بی اے کے اسٹوڈنٹ کو پڑھا لوں گی آپ بات کریں میری۔ماہا نے کہا.

یونی میں جاب ملنا اتنا آسان تو نہیں پر تم قابل ہو آرام سے پڑھاسکتی ہوں میں میر بھائی سے بات کروں گی تمہیں جاب مل جائے گی۔مہرین نے کجھ سوچ کر کہا۔

جی کوشش کرئیے گا جلدی ہو میں گھر میں بور ہوجاتی ہوں۔ماہا نے کہا

کاش ملیحہ بھی تمہاری طرح پڑھائی کی شوقین ہوتی۔مہرین کو ملیحہ کا افسوس ہوا۔

اُس کو کھانا پکانے کا شوق ہے طرح طرح کے کھانے بنائے۔ماہا نے آرام سے مشورے سے نوازا 

کرتی ہوں اِس کا میں بندوبست۔مہرین پرسوچ انداز میں بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان آج اتوار ہونے کی وجہ سے دیر اُٹھا تھا وہ فریش ہوتا باہر آیا تو اپنے فون پہ کال آتی دیکھی تو موبائل اسکرین پہ نظر ڈالی جہاں ملیحہ کا نام جگمگارہا تھا مرجان نے اپنے گیلے بالوں کے ماتھے سے ہٹایا اور اسکریپ پہ گرین بٹن کو پُش کرکے کال اٹینڈ کی۔

اسلام علیکم!مرجان نے سلام میں پہل کی۔

وعلیکم اسلام!میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟ملیحہ نے جھجھک کر پوچھا۔

نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں آپ بتائے کوئی کام تھا۔مرجان نے ملیحہ کے کہنے کے بعد بھی آپ کہنا ختم نہیں کیا تھا اور نہ ہی ملیحہ نے خود۔

کیا بنا کام کے کال نہیں کرسکتی؟ملیحہ کا لہجہ بوجھل ہوگیا تھا۔

نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔مرجان نے فورن سے صفائی پیش کی۔

میں نے نیو گاڑی لی ہے سوچا آپ کو کہوں میرے ساتھ باہر چلے کیونکہ آج اِتوار ہے آپ بھی فری ہیں پھر تو وقت نہیں ہوگا اگر آج ہے تو انجوائے کیا جائے۔ملیحہ نے اپنا پلان بتایا۔

اوکے نو پروبلم آپ تیار ہوجائے میں آجاتا ہوں۔مرجان نے آرام سے کہا تو ملیحہ کا دل باغ باغ ہوگیا۔

جی میں تیار ہوں بس آپ آجائے۔ملیحہ نے فورن سے کہا پھر کال کاٹ کر مرر کے سامنے کھڑی ہوئی۔اُس نے آج اسکن کلر کے کُرتے کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنا تھا جس کا ڈوپٹہ بھی وائٹ کلر کا تھا چہرے پہ اُس نے ڈارک لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی جب کی بال پشت پہ کُھلے چھوڑے ہوئے تھے جس سے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ملیحہ نے گہری سانس لی اور برش اٹھاکر بالوں میں پِھیرنے لگی۔

کہیں جارہی ہو کیا؟ماہا اُس کے کمرے میں آئی تو اُس کو اتنا مگن انداز میں بالوں کو برش کرتا دیکھا تو سوال پوچھا۔

ہاں ڈیڈ نے نیو کار دی ہے نہ تو سوچا سواری کرلوں۔ملیحہ نے مسکراکر بتایا

کس کے ساتھ جاؤ گی؟

میر انکل کا بیٹا ہے اُس کے ساتھ میری اچھی خاصی دوستی ہوگئ ہے اُس کے ساتھ ہی پروگرام بنایا ہے۔ملیحہ نے بتایا

نام کیا ہے جس کے ساتھ اتنے کم عرصے میں اتنا گُھل مل گئ ہو۔ماہا کو اُس کا کسی لڑکے پہ اتنا بھروسہ کرنا پسند نہیں آیا۔

مر

ملیحہ نام بتانے ہی والی تھی جب ہارن کی آواز آئی تو ملیحہ نے جھٹ سے برش رکھا اور اپنا پرس اٹھاکر سینڈل ہاتھوں میں لیا

میں جارہی ہوں پھر بات کرتے ہیں۔ملیحہ عجلت میں کہتی باہر نکلی سینڈل ہاتھوں میں ہی تھا جس سے ماہا کو ملیحہ کا انداز کجھ عجیب سا لگا پر اپنا وہم سمجھتی سر جھٹک کے رہ گئ۔

سوری میں بس تیار ہورہی تھی۔ملیحہ نے جلدی آکر کہا اور سینڈل نیچے رکھتی پہننے لگی۔

اتنی بھی کیا جلدی آپ آرام سے آتی۔مرجان اُس کی پُھولی ہوئی سانس میں بات کرتا دیکھ کر مسکراکر بولا۔

بزنس کرنے والے لوگ وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں نہ تو بس میں نے سوچا آپ کو ویٹ نہ کرواؤں۔ملیحہ نے گاڑی سے ٹیک لگاکر کہا۔

پر یہاں کونسا ہم بزنس کررہے ہیں۔مرجان نے کہا

یہ تو ہیں آئے میں آپ میری گاڑی کی طرف آج میں ڈرائیو کروں گی۔ملیحہ نے اُس کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا تو مرجان اُس کی تقلید میں پورچ کی جانب چلنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

میری یونی والوں سے بات ہوئی تھی ماہا وہاں جاب کرسکتی ہے بس ایک دفع خود جاب کے لیے اپلائے کریں۔شاہ میر آفس میں لنچ ٹائم پہ ریان سے بولا۔

میں کہوں گا اُس کو۔ریان نے جواب دیا۔

ریان ماہا اتنی خاموش کیوں رہتی ہے تم تو کہتے تھے وہ بہت شرارتی ہے ہنس مکھ ہے۔شاہ میر نے پوچھا

پہلے بچی تھی اب میچیور ہوگئ ہے۔ریان نے مسکراکر جواب دیا جب کی وہ خود بھی پریشان رہتا تھا کے ماہا ہنسنا کیوں بھول گئ ہے

میچیور ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کے انسان ہنسنا لوگوں سے بات کرنا ملنا جُلنا چھوڑدے۔شاہ میر نے کہا

مطلب؟ریان کو سمجھ نہیں آیا

مطلب یہ کے ماہ ماہا سے ملنا چاہتی تھی ایک دفع تمہارے گھر آئی تھی پر ماہا نہیں تھی تب پھر ماہ نے مہرین سے کہا تھا ماہا سے کہے وہ چکر لگالیں کیونکہ ماہ کو وقت نہیں ملتا اپنے والدین کے گھر بھی بامشکل جا پاتی ہے۔شاہ میر نے مطلب بتایا اپنی بات کا۔

او مجھے نہیں تھا پتا شاید مہرین ماہا سے کہنا بھول گئ ہو پر میں چکر لگاتا ہوں ماہا کے ساتھ۔ریان نے فورن سے کہا۔

ہاں ٹھیک ہے باقی سب سے تو وہ مل چکی ہے بس ماہا سے نہیں ملی۔شاہ میر نے جوابً کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان اور ملیحہ اِس وقت ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آئے تھے جہاں چاروں طرف لذیذ پکوانوں کی خوشبوں پھیلی ہوئی تھی اور دھیمی آواز میں گانے کی آواز گونج رہی تھی جو ماحول کو خوبصورت اور رومانٹک بنارہی تھی۔

تمہاری فیوریٹ ڈش کونسی ہے؟ملیحہ نے آپ کا تکلف بُھلائے پوچھا۔

میں کھانے کی چیز جو بھی ہو آرام سے کھالیتا ہوں۔مرجان سادگی سے بولا

اچھا مجھے تو تلی ہوئی مچھلی شامی کباب نہاری کچن رول قورمہ ہے سب بہت پسند ہیں۔ملیحہ نے آرام سے بتایا۔

اتنا ہیوی کھانا کھاتی ہیں۔مرجان ہنس کے بولا

یس پر میری جڑواں بہن ماہا وہ ڈائیٹ کے معاملے میں بہت کونشئس ہے وہ اتنا ہیوی کھانا نہیں کھاتی کبھی کبھار کھالیں اگر کوئی اصرار کریں ورنہ نہیں۔ملیحہ نے بتایا۔

تمہاری جڑواں بہن سے تو میں نہیں ملا تمہاری طرح ہی ہوگی۔مرجان نے کہا

نہیں ہائیٹ میں،میں بڑی ہوں اُس سے۔ملیحہ نے مزے سے بتایا

اچھا اور وہ کیوں جڑواں میں زیادہ تر ایسا تو نہیں ہوتا۔

نہیں ہوتا ہوگا پر ماہا بچپن میں اکثر بیمار رہتی تھی اور جو بچے بیمار رہتے ہیں ان کی گروتھ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے ماہا کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا پر اب الحمد اللہ وہ بلکل ہٹی کٹی ہے اور مجھ سے زیادہ خوبصورت بھی۔ملیحہ نے رائس کا چاول منہ میں ڈالتے بتایا۔

یہ تو میں ان سے ملنے کے بعد کہہ سکتا ہوں ورنہ تم بھی بہت پیاری ہو۔مرجان کے عام لہجے میں کہیں بات ملیحہ کو بہت خاص کرگئ تھی اُس کو اپنے آس پاس پھول بکھرتے محسوس ہوئے۔

شکریہ۔بہت دیر بعد وہ بس یہی کہی پائی جب کی گال تپ گئے تھے مرجان کے جُملے پہ جو مرجان نہیں دیکھ پایا کیونکہ اُس کا سرجھکا ہوا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

مجھے بھی وقت دے دیا کریں۔مہرماہ وارڈروب سیٹ کررہی تھی جب شاہ میر نے کہا

سارا وقت تمہارا ہی تو ہوتا ہے وہ الگ بات ہے تمہارے شکوے ختم نہیں ہوتے۔مہرماہ نے مسکراہٹ دبائے کہا

جانتی ہیں تو کوشش کیا کریں مجھے اور وقت دینے کے لیے۔شاہ میر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا

شاہ اب تمہیں میرے وقت کی نہیں یہ سوچنا چاہیے کے بچے بڑے ہورہے ہیں ان کا سوچو۔مہرماہ نے شاہ میر کی پیشانی پہ چپت لگائی 

بڑے ہورہے ہیں تو خود سوچے میں کیوں سوچو مجھے کونسا فرصت ہے آپ کے علاوہ کجھ اور سوچنے کی۔شاہ میر کی بات پہ مہرماہ نے گھور کر اُس کو دیکھا جس سے شاہ میر نے اپنا نچلا لب دبایا۔

اچھا بتائیں کیا سوچوں ان کے بارے میں؟شاہ میر اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا ہوا بولا

زر تو بہت چھوٹا ہے پر مرجان اور حیات کی شادی کا سوچو مرجان ماشااللہ سے ستائیس سال کا ہوگیا ہے اس کی اب شادی ہوجانی چاہیے اور حیات وہ تو لڑکی ہے اس کی تو جلدی ہی کردینی چاہیے پر تم ویسے تو میری ڈول میری حیات کرکے نہیں تھکتے پر وہ چوبیس سے پچیس سال کی ہونے والی ہے پر تمہیں تو کسی کی بھی فکر ہی نہیں۔مہرماہ بولنے پہ آئی تو بولتی ہی چلی گئ جب کی شاہ میر بڑی دلچسپی سے اُس کو دیکھ رہا تھا جس پہ مہرماہ تپ ہی گئ۔

مجھے کیا دیکھ رہے ہو میں کجھ بول رہی ہو وہ سنا۔مہرماہ نے جھنجھلاکر کہا۔

آپ غصے میں بہت پیاری لگتی ہے۔شاہ میر نے تو جیسے اُس کی اتنی تقریر سنی ہی نہیں تھی۔

شاہ۔۔۔مہرماہ نے کھینچ کے اُس کا نام لیا تو شاہ میر بھی اب کجھ سنجیدہ ہوا جو مہرماہ کے سامنے بننا اس کو بہت مشکل لگتا تھا۔

آپ مرجان کے لیے کوئی لڑکی تلاش کریں اگر نظر میں ہے تو بتائے پر حیات نے ابھی جاب اسٹارٹ کی ہے اس کے قابل مجھے کوئی لگے گا تو میں شادی کرنے میں دیر نہیں کروں گا۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا۔

لڑکی کا تو میں پہلے مرجان سے پوچھو گی پھر نہیں تو اپنی پسند سے کروں گی۔مہرماہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

اچھا تو اب سوچ لیا بچوں کے بارے میں فیصلا بھی ہوگیا تو کیوں نہ اب اپنے بارے میں بات ہوجائے۔شاہ میر مہرماہ کو کمر سے پکڑکر بولا تو مہرماہ گڑبڑاگئ۔

چچی جان آپ۔مہرماہ نے بوکھلا کر سامنے دیکھ کر کہا شاہ میر جو مہرماہ کے گال پہ جھکنے والا تھا فورن سے مہرماہ سے دور ہوا۔

ہاہاہاہا۔اففف شاہ اپنا فیس دیکھو کیسے لال ہوگیا ہے۔مہرماہ زور سے ہنستی شاہ میر کا سرخ چہرہ دیکھ کر بولی جب کی شاہ میر نے اپنے پیچھے کسی کو ناپاکر ضبط کرتا رہ گیا۔

آپ نے مجھے بیوقوف بنایا۔شاہ میر نے کہا

بلکل میری جان کیونکہ اب تمہاری عمر نہیں یہ سب کرنے کی۔مہرماہ شاہ میر کا گال کھینچ کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئ۔

بات بات پہ عمر کو بیچ میں لانا ازحد ضرور ہوتا ہے کیا۔مہرماہ کے جانے کے بعد شاہ میر خود سے بڑبڑایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

دل تو ہے دل کا کیا۔گستاخ ہے یہ

ڈرتا نہیں پاگل،بے باک ہے یہ

ہے رقیب،خود کا ہی،عشق میں نگاہوں کو ملتی ہے بارشیں پھر بھی کیوں کررہا

دل تیری خواہشیں 

دل میری نہ ناسنے

دل کی میں نا سنوں

ملیحہ گانا گُنگُناتی لاؤنج میں آئی جہاں ولی کرکیٹ میچ دیکھ رہا تھا۔

ریموٹ دو مجھے۔ملیحہ ولی کے برابر بیٹھتی حکیمہ انداز میں بولی۔

یار آپی آج ہی تو گھر پہ ہوں دیکھ لینے دے مجھے۔ولی نے منت کی۔

میرا ڈرامہ سیریل چلنے والا ہے وہ دیکھنا ہے اِس لیے بحث مت کرو۔ملیحہ نے اُس کی بات پہ کان دھڑے بنا کہا۔

ایک تو آپ ہمیشہ فارغ ہوتی ہے کجھ ماہا آپی سے سیکھ لیں۔ولی نے ریموٹ ہاتھ میں پکڑاکر جل کر ماہا کی طرف اشارہ کیا تو ملیحہ اُس کو گھورتی ماہا کو دیکھا جو ڈارک بلیو کلر کے فراق کے ساتھ پاجامہ پہنے ڈارک نیٹ کا ڈوپٹہ سر پہ سیٹ کیا تھا جب کی کندھوں کو اطراف ڈارک براؤن چادر پہنے کہیں جانے کو تیار تھی یہ اندازہ ملیحہ نے ماہا کے ہاتھوں میں پرس اور کجھ کتابیں دیکھ کر لگایا۔

کہاں کی سواری ہے؟ملیحہ نے پوچھا

تمہیں نہیں کیا پتا میں نے موم کے ساتھ جاب کرنے کا سوچا تھا تو بس آج میرا فرسٹ ڈے یونی میں۔ماہا نے ہاتھ کی پوروں سے گالوں پہ پڑتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کرکے جواب دیا۔

مجھے لگا تم نے ایسے ہی کہا ہوگا پر تم تو واقع جارہی ہو۔ملیحہ ہنس کے بولی۔

میں ایسے ہی کجھ نہیں کہتی۔ولی تم آکر مجھے یونی ڈراپ کرو۔ماہا ملیحہ کو سنجیدگی سے جواب دیتی والی سے بولی تو وہ فورن اپنی جگہ سے اٹھا

آئے آپی۔

میرا بھی کبھی کام اتنے شوق سے کرلیا کرو۔ملیحہ نے گھور کر کہا

مجھے بھی کبھی آپ میری پسند کا ٹی وی پہ دیکھنے دیا کریں۔ولی اسی کے انداز میں بول کر باہر کو بھاگا۔

کمینہ۔ملیحہ اُس کی پشت دیکھتی بُڑبڑائی۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

زر آج یونی نہیں جانا کیا؟مہرماہ زرجان کے کمرے کی کھڑکیوں سے پردے ہٹاتی پوچھنے لگی زرجان بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا کھڑکیوں کے سامنے پردے ہٹنے کی وجہ سے سورج کی روشنی چھن سے اُس کی آنکھوں پہ پڑی جس پہ زرجان نے آنکھوں کے اُپر کشن رکھ دیا۔

زر میں کجھ پوچھ رہی ہوں۔مہرماہ کشن اس کے چہرے سے ہٹاتی پوچھنے لگی۔

مما آج دل نہیں یونی جانے کا۔زرجان نے بتایا

دل کیوں نہیں یہ تمہارا ہر ہفتے چھٹی کرنا لازم ہوتا ہے کیا؟مہرماہ نے سخت لہجے میں پوچھا زرجان ہر بدہ کو یونی نہیں جاتا تھا مہرماہ غصہ ہوتی پر وہ اُس کو منالیتا۔

لازم تو نہیں ہوتا۔زرجان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا

پھر؟مہرماہ نے پوچھا

پھر بس ایسے ہی۔زرجان نے کندھے اُچکائے۔

اچھا ریڈی ہوکر باہر آؤ بریک فاسٹ کرنے۔مہرماہ نے بلینکٹ سیدھا کرکے کہا زرجان سرہلاتا بیڈ سے اٹھا مہرماہ کے گال پہ بوسہ دیتا واشروم کی طرف بڑھ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

بزنس ڈپارٹمنٹ میں بزنس مینجمنٹ کی ٹیچر تو آپ ہیں پھر میں کیوں مجھے کوئی اور کلاس دے دیتی۔ماہا نے مہرین سے کہا جو اُس کو ایم بی اے کے سکنڈ ایئر اسٹوڈنٹ کی کلاس لینے کا کہہ رہی تھی۔

میری اور بھی کلاسس ہوتی ہے جب کی تمہاری تین اِس لیے سوچا تمہیں کہہ دوں۔مہرین نے وجہ بتائی 

ٹھیک ہے میرے لیے اچھا ہے ویسے بھی میں بزنس کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانا چاہتی تھی۔ماہا نے رضامندی دیتے ہوئے کہا۔

دس منٹ بعد کلاس ہے تمہاری۔مہرین نے مسکراکر بتایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

حیات ٹیرس کے پاس کھڑی کافی کا کپ ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی اُس کی سوچو کا محو اِس وقت فیضان تھا جس نے اُس کی سب کے سامنے انسلٹ کی تھی ساتھ میں کردار بھی مشکوک کر ڈالا تھا۔

کمینہ اللہ کرے جہنم وصل ہو۔حیات کافی کا گھونٹ بھرتی ساتھ میں فیضان کو صلواتیں بھی سُنانے لگی۔

کیسی ہو؟شاہ ویر اچانک اُس کے برابر کھڑا ہوا تو وہ چونک کر اُس کو دیکھنے لگی۔

تم یہاں؟حیات نے حیرت ظاہر کی۔

ہاں کیوں میری پھوپھو کا گھر ہے کوئی اعتراض۔شاہ ویر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا حیات نے جھٹ سے نفی میں سرہلایا۔

میں یہ نہیں کہہ رہی تھی تم ٹیرس پہ آئے اِس لیے کجھ حیران ہوئی۔حیات نے مسکراکر کہا

تم یہاں تھی سوچا یہاں آجاؤ مہرو پھپھو ملازمین کے ساتھ سارے گھر کی صفائی کروارہی ہیں چھوٹی امی اپنے کمرے میں نشین ہے زر ایل ای ڈی پہ فلم دیکھنے میں مگن ہے مرجان اپنے آفس میں ہے سوچا تمہارے پاس آجاؤں۔شاہ ویر نے آرام سے سب کی مصروفیت بتائی۔

ہمم اِس لیے میں یہاں آکر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندروز ہونے کے لیے آئی تاکہ مائینڈ فریش ہو۔حیات نے اپنی بانہیں کھول کر بتایا شاہ ویر نے بے ساختہ نظریں چُرائی۔

تمہاری نائٹ ڈیوٹی ہے آج؟شاہ ویر نے پوچھا

بلکل اِس لیے تو مابدولت یہاں موجود ہے۔حیات نے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔

باہر چلتے ہیں کہیں۔شاہ ویر نے کہا

کہاں؟حیات نے تجسس سے پوچھا

تمہیں بھگانے۔شاہ ویر نے سنجیدگی سے کہا

ہاہاہا بھاگا ہی نہ لو مجھے تم۔حیات شاہ ویر کی بات مزاق میں سمجھتی زور زور سے ہنستی ہوئی کہنے لگی۔

اگر سچ میں شادی کرنے لے لیے بھاگا لوں تو؟شاہ ویر کا لہجہ جذبات سے بوجھل تھا حیات کی ہنسی کو یکدم بریک لگا۔

فضول مت بولوں ڈیڈ کو پتا لگ گیا نہ تو کھڑے کھڑے شوٹ کردے گے۔حیات نے خفت مٹانے کے غرض سے کہا دل عجیب انداز سے دھڑک رہا تھا آج سے پہلے کبھی شاہ ویر نے ایسے بات نہیں کی تھی اُس سے یہ سب اُس کے لیے نیا تھا جس کو وہ کوئی نام نہیں دے پارہی تھی۔

مووی دیکھنے چلتے ہیں۔شاہ ویر نے بات بدل گیا حیات نے بھی شکر کا سانس لیا۔

اچھا آئیڈیا ہے میں نے بھی بہت وقت سے کوئی مووی نہیں دیکھی۔حیات خوش ہوکر بولی 

آؤ پھر۔شاہ ویر کے کہا۔

چینج تو کرلوں۔حیات نے اُس کی توجہ اپنی طرف کروائی شاہ ویر نے بغور اُس کا جائزہ لیا جو وائٹ کُرتے کے ساتھ جینز پینٹ پہنے نکھری نکھری سی لگ رہی تھی بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنا ہوا تھا جب کی چہرہ میک اپ سے پاک چمک رہا تھا خود شاہ ویر بلیک شرٹ کے اوپر بلیک لیدر کی جیکٹ کے ساتھ بلیک ہی جینز پینٹ میں ملبوس تھا بال بکھرے پیشانی چھورہے تھے چہرے پہ تازی بنائی ہوئی شیو پہ وہ بہت جازب نظر آرہا تھا۔

اچھی لگ رہی ہو ایسے ہی اِس لیے ٹائم ویسٹ نہیں کرو۔شاہ ویر نے ہاتھ اپنی جینز پینٹ کی پاکٹ میں پھنسائے کہا۔

گھوڑے پہ سوار رہتے ہو تم تو۔حیات نے نفی میں سرہلاکر چلتے ہوئے کہا شاہ ویر بھی سرجھکاکر مسکراتا اُس کے ہمقدم ہوا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

زرجان کو یونی آئے آج کجھ لیٹ ہوگیا تھا زرجان اپنی ہیوی بائیک سائیڈ پہ کھڑا کرتا بیگ ایک کندھے پہ ڈالی چابیاں ہاتھ میں اُچھالتا اپنے مخصوص انداز ڈپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہا تھا وہ سیدھا کلاس میں داخل ہورہا تھا جب سامنے بورڈ پہ لکھتی ایک لڑکی پہ نظر پڑی جس کا چہرہ بس وہ سائیڈ سے ہی دیکھ سکتا تھا اُس کو یاد تھا ان کو بزنس مینجمنٹ مہرین پڑھانے لگی تھی پر بورڈ کے پاس کھڑی ہستی اس کو کہی سے بھی مہرین نہیں لگی زرجان اُس کو اسٹوڈنٹ سمجھتا اپنی سیٹ کی طرف بڑھا جب ماہا کی نظر اُس پہ پڑی۔

اسٹاپ۔ماہا کی سخت آواز پہ اس کے قدم تھمے تھے زرجان نے پلٹ کر اُس کو دیکھا تو ایک پل کو ٹھٹک گیا۔

کیا آپ کو نہیں پتا کلاس میں آنے لیے استاد کی اجازت درُکار ہوتی ہے؟ماہا نے مارکر ڈائیس پہ رکھ کر زرجان سے پوچھا زرجان کو ماہا کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا تھا وہ تو بس یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا یہ چہرہ اُس نے کہاں دیکھا تھا۔

میں آپ سے بات کررہی ہوں۔زرجان کو بُت بنا کھڑا دیکھ کر ماہا سامنے آتی اس کے سامنے چٹکی بجاکر بولی تو زرجان یکدم ہوش میں آیا تھا کلاس میں کھی کھی کی آواز گونجنے لگی

بی کوائٹ۔ماہا نے پوری کلاس میں نظر گھماکر کہا کلاس میں سناٹا چھاگیا کیونکہ وہ کجھ ہی عرصے میں جان گئے تھے کے ان کی کلاس ٹیچر کتنی اسٹرکٹ تھی پر زرجان تین دنوں سے یونی میں غیر حاضر تھا اُس کو نہیں پتا کجھ بھی۔

جی کیا کہہ رہی تھی آپ؟زرجان نے پوچھا ماہا نے زبردست گھوری سے اُس کو نوازہ

میں کہہ رہی تھی آپ کو یونی آنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی اتنی سویرے سویرے یونی آگئے آرام سے آتے۔ماہا نے لطیف سے طنزیہ کیا کلاس میں پھر ہنسنے کی آواز گونجی جو اب ماہا کی گھوری پہ بند ہوگئ تھی۔

راستے میں ٹریفک تھا جس وجہ سے آنے میں کجھ دیر ہوئی ورنہ میں وقت پہ آتا ہوں۔زرجان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

پر میں تو آپ کو پہلی بار کلاس میں دیکھ رہی ہوں اتنے دِن غیر حاضر ہونے کی وجہ؟ماہا نے اُس سے زیادہ سنجیدہ انداز میں پوچھا۔

پرسنل ایشوز تھے آپ کو بُرا نہ لگے تو بتادوں۔زرجان نے بڑے ادب سے کہا آنکھوں میں شُناسائی کے تاثرات نمایاں ہوئے تھے دوسری طرف ماہا کے انداز سے تو کیا آنکھوں سے بھی اُس کو محسوس نہیں ہوا جیسے وہ اُس کو جانتی ہو یا پہچانتی ہو۔

اپنی جگہ پہ بیٹھ جائے دوبارہ ایسا نہ ہو۔ماہا اس کی بات سن کر تپ کے بولی مگر مزید بحث کرکے کلاس کا وقت ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔

زرجان اپنی جگہ پہ بیٹھا تو ماہا سامنے ڈائیس پہ کھڑی ہوتی سمجھانے لگی

سترہ اٹھارہ کے ہوگے ستر سالہ بزرگ کو کیسے سنبھال سکتے ہو میں کرتی ہوں ان کی مدد تم بس جس پہ بھی آئے ہو اُسے قریب لیں آؤ۔

زرجان کے دماغ میں اچانک سے دو سال پہلے والا واقع گُھما تو اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی مگر بُرا ہوا جو ماہا نے دیکھ لی تھی وہ جو پہلے ہی اُس پہ تپی ہوئی تھی اب مزید غصہ عود آیا۔

اسٹینڈ اپ۔ماہا نے اس کی جانب دیکھ کر کہا سب اسٹوڈنٹ ایک دوسرے کو ناسمجھی سے دیکھنے لگے۔

میں؟زرجان نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر تصدیق چاہی سب کی نظریں اُس پہ ٹک گئ۔

جی آپ۔ماہا نے لفظ چباکر استعمال کیے زرجان کو اپنے اُپر سب کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا تو کھڑا ہوگیا۔

لگتا ہے آج زر کے ستارے گردش میں ہیں۔احتشام نے فرزام کے پاس جھک کر کہا تو فرزام نے زور سے کہینی مار کر اُس کو خاموش کروایا۔

ایک تو آپ لیٹ ہیں اُپر سے کلاس میں دھیان دینے کے بجائے مسکرارہے ہیں۔ماہا نے سخت لہجے میں کہا۔

سوری۔زرجان نے بس اتنا کہا فرزام نے احتشام کو ایسے دیکھا جیسے زرجان نے کوئی انوکھی بات کردی تھی باقی سب کا حال بھی ان سے کجھ مختلف نہ تھا۔

ماہا کو نیلی ٹی شرٹ کے ساتھ گھٹنوں سے پھٹی جینز پینٹ پہنے بالوں کو پیچے کی طرف سیٹ کیے ہاتھ میں ڈیجیٹل واچ پہنے  سفید رنگت چہرے پر ہلکی براؤن کلر کی  بیئرڈ لیے ہینڈسم سا زرجان اپنا اسٹوڈنٹ جانے کیوں پسند نہیں آیا تھا وجہ اُس کا غیرحاضر ہونا دوسرا اُس کا لیٹ کلاس میں بغیر پرمیشن کے اینٹر ہونا اور اب یوں بلاوجہ مسکرانا۔

بزنس کے بارے میں آپ سے کجھ سوالات کروں گی۔ماہا نے پڑھائی میں اُس کا ٹیسٹ لینا چاہا۔

شیور۔زرجان نے آرام سے جواب دیا۔

What is the job of a business management?

ماہا نے پہلا سوال کیا۔کلاس میں سب اسٹوڈنٹ دلچسپ نظروں سے کبھی ماہا کو دیکھتے تو کبھی زرجان کو جو مطمئن سا کھڑا تھا۔

A business manager is a professional who is responsible for leading and supervising employees to ensure productivity efficiency of operations providing direction on how best to handle different tasks while maintaining customer satisfaction.

زرجان نے بنا رُکے آرام سے جواب دیا۔

دوسرا سوال۔ماہا نے ایک نظر زرجان کا پرسکون چہرہ دیکھ کر کہا۔

How many subjects are there in business management?

لگتا ہے میم کو زرجان بہت نالائق اسٹوڈنٹ لگا اِس لیے ایسے سوال پوچھ رہی ہیں۔احتشام نے پھر سے فرزام کے پاس جھک کر کہا جس پہ فرزام اِس بار بھی خاموش رہا۔

You can achieve the business management:

Foundation level after completing just 3 subjects,

Thereby achieving the national certificate:small business financial management.

زرجان کو پرسکون جواب دیتا دیکھ کر ماہا کجھ ایمپریس ہوئی پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔زرجان کی سوالیہ نظریں ماہا پہ تھی وہ جیسے انتظار میں تھا کہ کجھ اور بھی پوچھے۔

تیسرا اور آخری سوال۔ماہا نے کہا تو زرجان نے گہری سانس بھری۔

What are the subject needed for business management ?

ماہا کے خاموش ہونے پہ زرجان کجھ پل چُپ رہا پھر آنکھیں زور سے میچ کر کھول کر بتانا شروع کیا۔

Most businesses courses develop a solid grounding in key elements such as business theory,

Management,economics,entrepreneurship, marketing,accounting,and business law.

زرجان بتاکر چپ ہوا تو پورا کلاس تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا پر زرجان ماہا کو دیکھ رہا تھا شاید وہ ایک لفظ تعریف کا کہہ دیں۔

بیٹھ جائے۔ماہا نے سنجیدہ ہوکر کہا۔

میم زر ہمارے کلاس کا ہائیسٹ مارکر اسٹوڈنٹ ہے۔ایک اسٹوڈنٹ اٹھ توصیفی انداز میں ماہا سے بولی۔

آج کی کلاس کا وقت ختم ہوا میں نے جو آج بتایا کل اُس کے بارے میں پوچھو گی۔ماہا نے سامنے والی لڑکی کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہتے اپنا سامان سمیٹ کر کلاس سے باہر نکل گئ۔

یار آج تو تیرے ستارے لگتا ہے آسمان پہ ڈور کر گردش کررہے تھے۔احتشام زرجان کے پاس آتا بولا۔

جو بھی پر میم جتنی خوبصورت ہیں اُتنی ہی سخت مزاج بھی۔ایک لڑکی آنکھیں بڑی بڑی کرتی بولی۔

ہاں جب سے آئی ہیں تب سے پوری یونی میں ان کی دھوم مچی ہوئی ہے اتنی تعریفیں اففف۔فرزام نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

پہلے جہاں بیٹھو زر کی تعریف ہوا کرتی تھی اب تو میم نے تمہاری جگہ لے لی۔احتشام نے کندھا زرجان کے کندھے سے ٹکرا کر اس کو چھیڑا۔

تم لوگوں نے بتایا نہیں مجھے کے ہماری کلاس ٹیچر پھر سے چینج ہوگئ ہے؟زرجان جو خاموش بیٹھا بس اتنا بولا۔

تم سے یونی کے بارے میں بات نہیں ہوئی نہ اِس لیے دماغ میں نہیں رہا بتانا۔فرزام نے بتایا

اُن کا نام کیا ہے؟زرجان نے پوچھا۔

ماہا نام ہے۔

ماہا نہیں میم ماہا ریان۔

فرزام جو بتارہا تھا احتشام نے فورن سے ڈپٹنے والے انداز میں ٹوک کر کہا جس پہ پاس بیٹھے اسٹوڈنٹ کو پھر سے ہنسنے کا دورا پڑا۔

ماہا ریان۔زرجان نے زیر لب نام دوہرایا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہا مجھے تمہیں کجھ بتانا ہے۔ماہا گھر آکر بیٹھی ہی تھی جب ملیحہ نے جوس کا گلاس پکڑاکر کہا۔

بعد میں ابھی میں تھکی ہوئی ہو۔ماہا نے کسلمندی سے کہا۔

بہت ضروری بات ہے میرے لیے جو میں تم سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ملیحہ نے پھر سے کہا

ضروری ہے تو بعد میں کرے گے نہ میں دلجمعی سے سنوں گی بھی پر ابھی میں بس سونا چاہتی ہوں۔ماہا نے نرمی سے اُس کا گال چھو کر کہا۔

اچھا سہی کھانا تو کھالیتی اور موم نہیں آئی؟ملیحہ نے کہا۔

ان کی کلاسس رہتی ہیں میں تو روز تین بجے آتی ہوں۔ماہا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

کھانا؟ملیحہ نے کہا۔

بھوک نہیں۔ماہا اتنا کہتی بیگ کتاب اٹھاتی کھڑی ہوئی ملیحہ نے بھی پھر زیادہ زور نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕💕

بھائی ریان انکل کی ایک اور بیٹی بھی ہے کیا؟زرجان مرجان کے کمرے آکر مرجان سے پوچھنے لگا جو لیپ ٹاپ پہ ای میلز چیک کررہا تھا۔

ہاں ایک سے تو تم ملے ہو دوسری اُس کی جڑواں بہن ہے۔مرجان نے مصروف انداز میں بتایا۔

میں دوسری سے بھی ملا آپ کو پتا ہے وہ ہمارے بزنس مینجمنٹ کی کلاس ٹیچر ہیں۔زرجان نے بتایا۔

اچھا مجھے نہیں تھا پتا دوسرا میں اُس سے ملا بھی نہیں پر سُنا ہے بہت چینج ہے ملیحہ کی نسبت۔مرجان نے مسکراکر کہا۔

جی وہ سب سے الگ ہے۔زرجان نے بے دھیانی میں کہا احساس تب ہوا جب خود پہ مرجان کی نظریں محسوس ہوئی۔

میرا مطلب تھا وہ واقع میں چینج ہیں ملیحہ آپی سے تو بہت مختلف ہیں ساتھ میں سنجیدہ مزاج بھی ہے۔زرجان سنبھل کے بولا۔

میں نے بھی ایسا ہی کجھ سنا ہے۔مرجان اپنا فوکس دوبارہ لیپ ٹاپ کی جانب کرتا بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ویر تم فری ہو؟سارہ بیگم شاہ ویر سے پوچھنے لگی جو اسٹڈی روم میں کیس کی فائل پڑھ رہا تھا کل اس کو کورٹ جانا تھا ایک کیس کی وجہ سے اِس لیے وہ اسٹڈی روم میں تھا۔

جی دادو میں فری ہوں۔شاہ ویر مسکراکر بولا

تم سے بات کرنی تھی۔سارہ بیگم بیٹھتی ہوئی بولی۔

جی کریں۔شاہ ویر ہمہ تن گوش ہوا۔

اُس دن تمہاری بات بیچ میں رہ گئ تھی مہرو کے آنے سے سوچا آج پوری سن لوں۔سارہ بیگم نے کہا۔

شادی کے مطلق والی بات؟شاہ ویر نے تصدیق چاہی۔

بلکل تم نے کوئی لڑکی پسند کی ہے کیا؟

دادو میں چاہتا ہو آپ موم ڈیڈ کے ساتھ مامی جان اور ماموں میر سے میرے لیے حیات کے رشتے کی بات کریں۔شاہ ویر سنجیدہ انداز میں بولا وہ اب دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔

تم حیات کو چاہتے ہو؟سارہ بیگم حیرت اور خوشی کے ملے جلے انداز میں بولی۔

جی دادو بہت چاہتا ہوں میں اُس کو ۔شاہ ویر سر جھکاکر بولا۔

تو پہلے کیوں نہیں بتایا حیات سے بہتر اور کون ہوسکتی ہے بھلا اچھا ہے میری نواسی یہاں آجائے گی۔سارہ بیگم انتہا کی خوش ہوتی ہوئی بولی۔

موم ڈیڈ کی طرف سے تو نہیں مجھے بس میر ماموں کی طرف خدشہ ہے۔شاہ ویر نے کہا

میر کی طرف سے کیسا خدشہ؟سارہ بیگم نے اُلجھ کر پوچھا 

دادو آپ جانتی ہیں اُن کی حیات کے لیے اٹیچمنٹ کہیں وہ میرے لیے انکار نہ کردیں۔شاہ ویر نے اپنے اندر کا ڈر بیان کیا۔

میر کو کیا اعتراض تم میں کیا کمی ہے اچھے خاصے ویل ایجوکیشن ہو ویل سیٹل ہو اور کیا چاہیے میر کو۔سارہ بیگم کو شاہ ویر کی بات ہضم نہیں ہوئی۔

بس میں نے ایسے ہی کہا۔شاہ ویر بالوں میں ہاتھ پِھیر کر اضطراب کی حالت میں کہا۔

دیکھو ویر فضول کے وہم دل میں مت پالوں جب ہم نے مہرو کا رشتہ میر کو دیا تھا نہ تو میر بس اکیس سال کا تھا اُس وقت نہ تو اُس کی پڑھائی کمپلیٹ ہوئی تھی نہ ہی کوئی جاب کرتا تھا حیدر بھائی ہی اپنا بزنس دیکھتے تھے پر ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا سوائے اِس کے کہ وہ مہرو سے چار سال چھوٹا تھا مگر ہم سب کو اُس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ہمیں بعد میں  سمجھ آگیا ہمارا فیصلہ غلط نہیں مہرو بہت خوش ہے میر کے سنگ عمر کا فرق ان کے درمیان کبھی نہیں آیا پر اگر بات اب کی کریں تو تم ماشااللہ سے پچیس سال کے ہو پڑھائی بھی پوری کی ہے تم نے تو جاب بھی ہے ساتھ میں اپنے باپ دادا کا بزنس بھی اِس لیے انکار کا جواز ہی نہیں بنتا پھر بھی اگر میر نے بیوقوفی کی تو مہرو ہے اُس کو سمجھانے کے لیے پر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں وہ ایسا نہیں کرت گا وہ خود یہی چاہے گا کہ اس کی حیات قریب رہے۔سارہ بیگم نے ہر لحاظ سے شاہ ویر کو مطمئن کیا۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا آپ کہہ رہی ہیں۔شاہ ویر کو ان کی باتیں پرسکون کرگئ تھی۔

ایسا ہی ہوگا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

لے وہ اس کو چھوٹا کھانا نہ کھاتا تو اس کا دن نہ گزرتا مہرماہ شاہ میر کی لاتعلقی سے بہت ڈس ہارٹ ہوئی تھی اُس نے کھانے پینے پہ دھیان دینا ختم کردیا تھا ہانم بیگم اگر زور زبردستی کرتی ت

بیٹا میں نے تم سے کہا تھا میر کی طرف چلنا ہے کتنے دن ہوگئے ہیں اِس بات کو ابھی تک تم نے وہاں جانے لیے نہیں کہا۔رات کے کھانے پہ سب مل بیٹھے تھے جب ریان نے ماہا سے کہا۔

ڈیڈ سوری پر اب جب آپ کہے گے میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔ماہا نے ریان کے لہجے میں خفگی کا عنصر محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔

ٹھیک ہے تو میں بتاؤں گا پھر تمہیں کب چلنا ہے۔ریان مسکراکر بولا۔

میرا ہوگیا۔ماہا کھانے کی پلیٹ خود سے دور کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

کمزور ہوگئ ہو اپنی ڈائیٹ پہ توجہ دو۔مہرین نے ٹوکا۔

موم جتنی نیڈ تھی اُتنا میں نے کھالیا۔ماہا نے آرام سے جواب دیا۔

میرا بھی ہوگیا۔ملیحہ بھی پلیٹ دور کھسکاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اُس کو جلدی تھی ماہا سے اپنی بات شیئر کرنے کی۔

ماہا اب میں بات کروں تم فری ہو؟ملیحہ ماہا کے پاس بیٹھتی بولی۔

ہممم بولوں کونسی ضروری بات ہے؟ماہا اُس کی طرف متوجہ ہوکر بولی

مجھے پیار ہوگیا ہے۔ملیحہ نے آنکھیں بند کرکے کہا۔

ہوش میں ہوتم؟ماہا سخت ہوئی 

ہاں اِس میں ہوش میں نہ ہونے کی کیا بات ہے۔ملیحہ کو ماہا کا سخت ہونا سمجھ نہیں آیا۔

پیار کجھ نہیں ہوتا ملی یہ سب ایک فریب ہے جو انسان پیار کی آڑ میں کرتا ہے۔ماہا نے ملیحہ کا بازوں پکڑتے ہوئے کہا۔

ایسا نہیں ماہا ابھی پیار میری طرف سے ہے جس سے اُس کے جذبات فلحال میں اپنے لیے نہیں جانتی پر وہ بہت اچھا ہے۔ملیحہ نے نرمی سے کہا

ہونہہ اچھا ہے۔ماہا نے ہنکارا بھرا۔

میر انکل کا بیٹا ہے وہ بھلا ان کا بیٹا دھوکے باز ہوسکتا ہے کیا تم بھول گئ ہو جو باتیں ہمیں ڈیڈ بتاتے تھے ہم مہرو آنٹی کی قسمت پہ رشک کرتے تھے تو ماہا میر انکل کا بیٹا بھی اُن کے جیسے ہوگا نہ۔ملیحہ نے اس کی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

نام کیا ہے اُس کا۔ماہا نے سنجیدگی سے پوچھا 

مرجان نام ہے۔ملیحہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی نام بتاتے وقت۔

باہر جاؤ مجھے سونا ہے۔ماہا سرد لہجے میں بولی

اچانک کیا ہوا تمہیں۔ملیحہ حیرانگی سے بولی اُس کو لگا نام کے بعد وہ مزید مرجان کے بارے میں پوچھے گی پر ماہا کا ایسا رویہ اُس کو حیرانی میں مبتلا کرگیا تھا۔

ملیحہ میری بات تمہیں ایک دفع میں سمجھ کیوں نہیں آتی میں نے کہا جاؤ تو مطلب جاؤ۔ماہا ملیحہ پہ چیختی ہوئی بولی ملیحہ کی آنکھیں نم ہوئی تھی پر وہ بنا کجھ کہے کمرے سے باہر نکل گئ۔ماہا نے بیڈ پہ پڑے کشن نیچے پھینک دیئے خود اپنا سر ہاتھوں میں گِرائے بیٹھتی چلی گئ۔

تیری تلخیوں میں اے زندگی 

بہت ہی تلخ ہوچکے ہیں ہم

اتنا دکھ نہ دے زندگی 

کہ تجھے جی بھی نا پائے ہم

تیری رنجشیوں میں اے زندگی 

کہیں ہنسنا نا بھول جائیں ہم

تجھ سے بیزار ہوکر اے زندگی 

خود سے روٹھ نا جائیں ہم

تجھے گُزارتے گُزارتے اے زندگی 

کہیں خود ہی نا گزر جائے ہم

💕💕💕💕💕💕💕💕

جان

جان

جان۔

یورپ کی سنسنان سڑک پہ اِس وقت زبردست قسم کی ریس چل رہی تھی ہر کوئی جان نامی شخص کا نعرہ لگاکر اُس کو ایپریشیٹ کررہا تھا

وہ اپنی جیت کے بے حد قریب اُس سے پہلے وہ سڑک پار کرکے فاتح ٹھیرتا کوئی پیچھے والا آکر جیت اپنے مقدر کے نام کرگیا تھا جہاں ہر وقت نعرے گونج رہے تھے اب ہر وقت سناٹا چھاگیا تھا کیونکہ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کے جیتنے والا شخص ہے کون؟

مرجان جس کو اپنے سب دوست مرجان کہتے تھے اُس نے اپنا ہاتھ زور سے ہیوی بائیک کے ہینڈل پہ مارا ایسا پہلی بار ہوا تھا کے ہار اُس کی مقدر میں آئی۔

مرجان نے اپنا ہیلمینٹ اُتار کر خونخوار نظروں سے دور کھڑی بلیو کلر کی ہیوی بائیک پہ مموجود ہستی کو دیکھا تھا جو بڑے شان سے بائیک سے اُتر کر اسٹیج کی طرف جاکر داد وصول کرنے کا ارادہ رکھتا تھا شاید۔پر مرجان کو حیرت کا شدید ترین جھٹکا تب لگا جب دور سڑک پہ بنی اسٹیج پہ موجود ہستی نے اپنے سر سے ہیلمینٹ اُتار تو اُس کے بھورے گھنے بال نظر آئے جو اب چہرہ دائیں بائیں کرکے ان کو سنوار رہی تھی لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے منہ بھی کُھل گئے تھے سامنے حد سے سوا خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر جو مسکراکر اپنے ڈمپل کی نمائش کرتی وہاں موجود آدمی سے ٹرافی لے رہی تھی اُن سب میں سے ایک مرجان تھا جس کی نظریں نفرت سے شعلہ اُگل رہی تھی اُس کو یہ بات پاگل کرنے کے در پہ تھی کے وہ ایک لڑکی کے سامنے ہار گیا تھا۔

یہ کون اور کہاں سے آگئ۔مرجان کا دوست  عقیل اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتا بولا۔

ڈونٹ نو۔مرجان خود پہ ضبط کیے بولا۔

جو بھی پر لڑکی بہت مست ہے۔نعمان نے کہا 

شٹ اپ۔مرجان نے بری طرح اُس کو گُھڑکا۔

مبارک باد نہیں دوگے۔وہ ہاتھ میں ٹرافی لاتی مرجان سے بولی۔مرجان نے نفرت سے سرجھٹکا

میرا نام ماہی ہے اینڈ میں آج کی وِنر ہوں سو مجھے کوئی افسوس نہیں اگر تم مجھے مبارکباد نہیں دوگے تو۔ماہی شانِ بے نیازی سے بولی تب تک خوش سے جگمگاتے چہرے کے ساتھ اُس کی باقی فرینڈس بھی آگئ تھی۔

مرجان آ واپس چلیں۔عقیل نے مرجان کا غصے سے تمتماتا چہرہ دیکھا تو کہا۔

ہاہاہا مرجان یہ کیسا نام ہوا بھلا۔ماہی زور سے ہنستی مذاق اُڑاتی ہوئی بولی

شٹ اپ یو سلی گرل۔مرجان دھاڑ کر بولا 

اوو میں تو ڈر گئ۔ماہی ڈرنے کی اداکاری کرتی اپنی دوست کے ساتھ ہائے فائے کیا۔

ایڈیٹ۔مرجان غصے سے بڑبڑایا۔

سی یو سنو مرجان!!!!!!ماہی نے اُس کو جاتا دیکھا تو چِڑانے کے غرض سے مرجان نام کو کھینچ کر ادا کیا۔

بہت تیز لڑکی ہے۔عقیل مرجان کے پیچھے بائیک پہ بیٹھتا بولا۔

ہاہاہاہا۔لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی۔ماہی کی دوست فروزین ہنستے ہوئے بولی 

اور نہیں تو آخر کو میں نے اُس کو جیت کے قریب لاکر ہرایا ہے۔۔ماہی مغرور لہجے میں بولی۔

💕💕💕💕💕💕💕

آج تو مزہ ہی آگیا۔فروزین نے چہک کر کہا۔

ہاں نہ یہ اِن بوائز کو لگتا ہے بس وہ ہی ہر کام میں مہارت رکھتے ہیں۔مانوی ناک سکوڑ کر بولی۔

ہر بوائز کا تو نہیں پر ایشین مردوں کو یہ خوشفہمی ضرور لاحق ہوتی ہے۔فروزین نے اپنی بات کہی۔

گائز جو بھی ہے جیت میرے نام ہوئی ہے ہمیشہ کی طرح تو اب ہار ایشین مرد کی ہو یا مغربی مرد کی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ماہی نے جواب میں کہا جو اب تک اپنے نیل پینٹ لگارہی تھی۔

بلکل تمہاری جیت لگتا ہے اُس لڑکے کی انا پہ کاری ضرب کی طرح ہے۔مانوی نے کہا۔

اِن مردوں کو اور کام ہی کیا ہے۔ماہی نخوت سے گویا ہوئی۔

میں تمہیں بتانا بھول گئ تھی تمہارے ڈیڈ کی کال آئی تھی۔فروزین اچانک سر پہ ہاتھ مار کر بولی۔

پہلے بتانا تھا نہ خیر میں کرتی ہوں کال ان کو۔ماہی نے فروزین کی بات سن کر کہا۔

اگر آنے کا کہے تو کہنا فلحال ہمارا ٹرپ لمبا ہے۔مانوی نے اُس کو ہدایت دی۔

ڈونٹ وری میں کرلوں گی ہینڈل۔ماہی نے آنکھ ونک کرتے کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

یورپ میں آج صبح سے بارش تھی مرجان گلاس وال کے سامنے کھڑا باہر برستی بوندوں کو ٹپ ٹپ کرتا گِرتا دیکھ رہا تھا۔

موسم خراب ہونے کی وجہ سے راستے بلاک کیے گئے ہیں۔عقیل اُس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

میرے دل میں آگ لگی ہوئی ہے۔مرجان نے دیوار پہ مکہ مار کر کہا۔

رلیکس جان اب تم اوور ری ایکٹ کررہے ہو ہار جیت زندگی کا حصہ ہے اگر آپ جیت پہ خوش ہوتے ہیں تو ہار کو اپنے سر پہ سوار کرنے سے بہتر ہے کہ اُس ہار سے کجھ سیکھ کر اگلی بار اچھے سے کام کریں۔عقیل نے دوست ہونے کے ناتے اُس کو سمجھانا چاہا۔

ریئلی عقی یہ سب اتنا آسان ہے تمہیں نہیں پتا ہر بار جب جیت مقدر ہو پھر اچانک سے ہار کا سامنا ہو تو کیا محسوس ہوتا ہے ایک چھوٹی سی لڑکی مجھ سے جیت گئ یہ بات میرے لیے ناقابلِ یقین ہے۔مرجان تنفر سے بولا۔

تم نے اپنی ہار کو انا کا مسئلا بنادیا ہے زیادہ کجھ نہیں۔عقیل نے کندھے اُچکاکر کہا

اگر انا ہے تو انا ہی سہی پر وہاں جب میرے نام کی پُکار کررہے تھے پھر جب ان کی نظروں میں اُس لڑکی کے لیے ستائش دیکھی تو میرا دل کہہ رہا تھا میں سب کجھ تہنس نہس کردوں۔

یہ تو کہی نہیں لکھا کے ہر جیت پہ تمہارا نام ہو ویسے بھی وہ لڑکی تھی اتنی خوبصورت لوگوں میں ستائش تب بھی آتی جب وہ ہار جاتی تو۔عقیل نے مرجان کی بات پہ آرام سے کہا۔

ویسے میرے پاس تمہارے لیے اچھا سا مشورہ ہے۔نعمان کب ان کے پاس کھڑا ہوا ان کو کوئی خبر نہیں ہوئی۔

کیسا مشورہ؟مرجان نے پوچھا۔

تم اپنی ہار کا بدلا اُس سے لو۔نعمان نے کہا

کیسا بدلا نعمان تم یہ جان کو کیا پٹیاں پڑھا رہے ہو یہ بس ایک حادثہ تھا نہ تو مرجان اس لڑکی کو جانتا ہے نہ ہی وہ لڑکی تو کیوں مرجان اُس بیچاری سے بنا بات کے بدلا لیں۔نعمان کی بات پہ عقیل نے بُری طرح سے اُس کو جہاڑ پلائی۔

میں نے تو جان کے بھلے کے لیے کہا ورنہ ہزاروں لوگوں کے سامنے اُس لڑکی کا غرور دیکھنے لائق تھا۔نعمان نے فل طریقے سے جلے پہ نمک چھڑکا اٹھارہ سال عمر کا مرجان،نعمان کی باتوں کو سن کر بہت کجھ سوچنے پہ مجبور ہوگیا تھا

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہا کلاس میں سب اسٹوڈنٹ کو پڑھا رہی تھی زرجان کا سارا دھیان اُس کی آنکھوں پہ تھا جہاں بھوری آنکھوں میں لال ڈورے تھے۔ماہا گلابی رنگ کے فراق کے ساتھ گلابی ہی پاجامے میں ملبوس تھی سر پہ نیٹ کا ڈوپٹہ جو بار بار سر سے ڈھلک رہا تھا جس کو وہ بار بار سہی بھی کرتی کندھوں کے اطراف ہمیشہ کی طرح براؤن چادر تھی چہرہ روز کی طرح سنجیدہ تھا مگر آج زرجان کو وہ کجھ اُلجھی ہوئی سی اس کے سرخ گال اور بھینچے ہوئے گلابی ہونٹ اُس کے اضطراب میں ہونے کا بتارہے تھے جس سے وہ لیکچر میں بہت بار مسٹکس کرچُکی تھی سوائے زرجان کے یہ بات کسی نے نوٹ نہیں کی تھی۔زرجان کو ڈریسنگ کے لحاظ سے دو سال پہلے سے زیادہ مختلف لگی ورنہ وہ اُس میں اور کوئی تبدیلی زرجان کو نہیں ملی سوائے اُس کی ڈریسنگ سے۔

کتاب پہ دھیان دو اگر میم نے دیکھ لیا نہ تو لحاظ نہیں کرے گی اُس کو تمہارے ہائے مارکس ایمپریس نہیں کرسکتے جو ہر پروفیسرز کو کرتے ہیں ایمپریس۔فرزام نے زرجان کا دھیان کتاب کے بجائے ماہا پہ دیکھا تو کان کے پاس آتا ہوا بولا۔

مجھے پتا ہے وہ اتنی جلدی ایمپریس نہیں ہوتی۔زرجان نے آرام سے جواب دیا۔

کلاس بی کوائٹ۔ماہا نے سخت لہجے میں کہا ایک تو صبح سے اُس کے سر میں درد تھا اوپر سے کلاس میں ہلکی ہلکی باتوں کی آواز سن کر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔

زرجان نے ایک نظر فرزام پہ ڈال کر سامنے دیکھنے لگا جہاں ماہا کے ہاتھ تیزی سے سفید بورڈ پہ چل رہے تھے۔

کل میں ایک ٹیسٹ لوں گی آپ سب تیاری کرلیجئیے گا۔کلاس ختم ہونے کے بعد ماہا نے جاتے وقت کہا۔

اِن کی طرح ٹیسٹ بھی سخت قسم کا ہوگا۔فرزام ماہا کے جانے کے بعد بولا۔

ساتھ میں خوبصورت بھی۔احتشام نے لقمہ دیا تو زرجان نے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں زور سے بند کی۔

میں کیفے ٹیریا جا رہا ہوں آنا ہے تو آجانا۔زرجان ایک تیکھی نظر احتشام پہ ڈال کر کلاس روم سے باہر نکلا۔

زر اتنے پیار سے  مجھے کیوں دیکھ کر گیا۔احتشام کو زرجان کا ایسا دیکھنا ہضم نہیں ہوا۔

ٹیچر ہیں وہ ہماری عمر میں بھی ہم سے بڑی ہے اُستاد ہونے کے لحاظ سے ہمیں ان کے بارے میں ایسے نہیں بولنا چاہیے شاید زر کو بھی یہ بات بُری لگی۔فرزام نے اپنے تئیں سمجھایا۔

لگتی تو نہیں بڑی پر کیا کرے ان کو دیکھنے کے بعد بندہ تعریف کیا بنا نہ رہ سکتا تعریف خودبخود منہ سے نکل آتی ہے۔احتشام آنکھ کا کونا دباکر بولا۔

کیفے ٹیریا چلو اب۔فرزام نفی میں سرہلاتا بولا

💕💕💕💕💕💕💕

ملیحہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھی جب باہر گاڑی کے ہارن کی آواز آئی تو وہ اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی وہ جان گئ تھی یہ مرجان کی گاڑی کا ہارن ہے یہ سوچ آتی ہی اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ ملیحہ نے جلدی سے باہر کی جانب ڈور لگائی۔

اسلام علیکم! ملیحہ نے وائٹ شرٹ کے ساتھ وائٹ پینٹ پہنے آنکھوں پہ سیاہ گاگلز چڑھائے مرجان کو گاڑی سے اُترتا کھڑا دیکھا تو فورن سے سلامی بھیجی جو آج معمول سے زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا یا بس اُس کو لگ رہا تھا کیونکہ محبت احساس ہی کجھ ایسا ہے جس سے عام انسان بھی بہت خاص ہوجاتا ہے۔

وعلیکم اسلام!مجھے ریان انکل نے بھیجا تھا اُن کی ایک فائل یہاں رہ گئ تھی ولی مصروف تھا تو میں آگیا کیونکہ فائل میں بہت ضروری ڈاکیومینٹس تھے۔مرجان نے سلام کا جواب دینے کے بعد اپنے یہاں آنے کی وجہ بتائی جس سے ملیحہ کی ساری خوشی اُڑن چھو ہوگئ تھی اُس کو خوشفہمی ہوگئ تھی کے شاید مرجان اُس سے ملنے آیا ہو پر یہاں تو بات ہی کجھ اور تھی۔

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا

وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا

میں دیکھ کر دیتی ہوں آپ کو۔ملیحہ منہ کے زاویے بگاڑ کر کہتی اندر کی طرف چلی گئ۔مرجان تعجب سے اس کا انداز دیکھتا اس کے ساتھ اندر کی طرف بڑھا۔

ہائے ملی تمہاری خوشفہمیاں۔ریان اور مہرین کے مشترکہ کمرے میں آکر ملیحہ فائل یہاں وہاں تلاش کرنے کے ساتھ مسلسل بڑبڑا بھی رہی تھی

یہ رہی۔اسٹڈی ٹیبل پہ ریڈ کلر کی فائل دیکھی تو ملیحہ نے لپک کر اس کو اٹھایا۔

یہ لیں۔ملیحہ نے باہر آکر مرجان کی طرف فائل بڑھاکر کہا۔

تھینکس۔مرجان نے فائل تھام کر کہا۔

کیا تم مجھ سے خفا ہو کسی بات پہ؟مرجان واپسی کے لیے جارہا تھا مگر ملیحہ کا رویہ نوٹ کرکے وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔

کیا تمہیں فرق پڑتا ہے میرے خفا ہونے سے؟ملیحہ نے اُلٹا اُس سے سوال کیا۔

بلکل فرق پڑتا ہے۔مرجان نے ایک لمحے کی دیر کیے بنا کہا۔

ک کیو کیوں پڑتا ہے؟ملیحہ کا دل زور سے دھڑکا اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا

کیونکہ ہماری اچھی خاصی دوستی ہوگئ ہے دوست خفا اچھے نہیں لگتے۔مرجان نے مسکراکر کہا۔

میں نہیں خفا۔ملیحہ نے دوست لفظ سن کر گہری سانس بھر کر کہا۔

پکی بات ہے؟مرجان کو جیسے یقین نہیں آیا۔

جی پکی بات ہے۔ملیحہ نے مسکراکر کہا تو مرجان بھی مسکرا پڑا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ماہی اپنی فرینڈس کے ساتھ ڈنر کرنے باہر آئی تھی جب اُس کا سامنے آتے شخص سے ٹکر ہوا۔

تم۔ماہی نے سر اٹھاکر سامنے مرجان کو کھڑا دیکھا تو کہا

ہاں میں کیوں۔مرجان ماہی کو دیکھ کر بدمزہ ہوکر بولا

نہیں ایسے ہی سوچا نہیں تھا تم سے ملاقات ہوگی پھر سے۔ماہی نے آرام سے جواب دیا تو مرجان کو نعمان کی کہی بات آئی تو چہرے پہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا دوسری طرف ماہی تو اس کی خوبصورت مسکراہٹ دیکھ کر جیسے کھوگئ تھی۔

تم مسکراتے ہوئے اور بھی ڈیشنگ لگتے ہو بکوز یوئر سمائیل از سو اٹریکٹو اینڈ مسمرائزنگ۔ماہی چاہ کر بھی خود کو کہنے سے روک نہیں پائی۔

تو تم مانتی ہو میں ڈیشنگ پرسنائلٹی کا مالک ہوں۔مرجان نے اُس کی بات سن کر کہا۔

بلکل مجھ سے بیر تو تم نے پال رکھا ہے ورنہ میں تو بہت سویٹ ہوں۔ماہی نے اپنے دونوں ڈمپلز کی نمائش کرکے کہا مرجان کو اس کی مسکراہٹ دیکھ کر ماننے میں وقت نہیں لگا کے سامنے کھڑی لڑکی اپنی کم عمر میں ہی بہت حسین ہے۔

کیا تم حُسن پرست ہو؟مرجان کے اپنے پلان ترتیب دیتے سوال داغا۔

بلکل نہیں حُسن بھی پسند ہے پر ایسا نہیں کے میں بس خوبصورت لوگوں سے مُتاثر ہونے لگوں۔ماہی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

ماہی تم یہاں ہو کھانا کب کا ٹھنڈا ہوگیا۔فروزین باہر آکر ماہی کو کھڑا دیکھ کر کہا۔

میں آرہی تھی پر ان سے ملاقات ہوگئ ہے۔ماہی نے سامنے کھڑے مرجان کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔

اوو نائس ٹو میٹ یو۔فروزین چہرے پہ مسکراہٹ سجاکر اپنا ہاتھ مرجان کے سامنے کیے کہا۔

سیم ہیئر۔مرجان نے مروتً کہا۔

تم اگر اکیلے ہو تو ہمیں جوائن کرسکتے ہو۔ماہی نے پیش کش کی۔

میں اپنے فرینڈس کے ساتھ ہوں تم لوگ انجوائے کرو۔مرجان نے سہولت سے انکار کیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

زر تم آگئے جاؤ جاکر مہمانوں کو سلام کرو۔زرجان گھر میں داخل ہوا تو مہرماہ جو کچن میں ریفریشمنٹ کا سامان دیکھنے جارہی تھی زرجان کو ہدایت کی۔

مما میں تھک گیا ہوں آئے نیڈ ریسٹ۔زرجان نے اپنے بازوں مہرماہ کے کندھوں پہ رکھ کر کہا

زر ایک منٹ نہیں لگے گا تمہیں سلام کرنے میں پھر چلے جانا اپنے کمرے میں۔مہرماہ نے گھور کر کہا۔

ممااااااا۔زرجام نے التجا کی۔

اچھا جاؤ۔مہرماہ اُس کے بازوں اپنے کندھوں سے ہٹاتی بولی

ماہا بیٹے تم نے تو کجھ لیا ہی نہیں کجھ کھاؤ تو سہی۔زرجان ڈرائینگ ہال سے گُزر رہا تھا جب ماہا نام پہ اُس کے قدم ٹھٹکے تھے زرجان ایڑھیوں کے بِل گھوم کر اپنے قدم ڈرائینگ ہال کی طرف کیے جہاں ہانم بیگم ہانیہ ایک صوفے پہ بیٹھی ہوئی تھی سامنے صوفے پہ ماہا مہرین کے ساتھ بیٹھی ماہا اِس وقت کالے رنگ کی کڑھائی والا کُرتا پہن رکھا تھا ساتھ میں سفید رنگ کا ٹراؤزر تھا جب کی ایک شانوں پہ سفید رنگ کا ڈوپٹہ اوڑ رکھا تھا بھورے بال کُھلے ہوئے تھے تھے چہرے کا رنگ کالے رنگ پہ کِھل اٹھا تھا زرجان نے بے ساختہ اندر آکر سلام کیا۔

محبوب کی طرف بڑھتے قدم انسان

چاہ کر بھی نہیں روک سکتا۔

اسلام علیکم! ماہا نے سر اٹھاکر زرجان کو دیکھا تو وہ حیرت نے آ گھیرا۔

یہ زرجان میر ہے شاہ میر بھائی کا چھوٹا بیٹا۔مہرین نے اُس کا حیرت زدہ چہرہ دیکھا تو کہا

آپ جانتی ہیں کیا زر کو؟ہانیہ نے پوچھا زرجان ماہا کو دیکھتا منہاج کے ساتھ بیٹھ گیا۔

جی میرا اسٹوڈنٹ ہے۔ماہا نے بس اتنا کہا۔

تمہیں تو آرام کرنا تھا۔مہرماہ ملازمہ کے ساتھ آئی تو زرجان کو دیکھ کر کہا۔

اِس کی ٹیچر موجود ہے آرام کیسے کرے گا۔زرجان اپنی ماں کی بات پہ سٹپٹاگیا تھا پر ہانیہ نے شوخ انداز میں کہا جس پہ سب مسکرادیئے سِوائے ماہا کے۔

میں بس چائے لوں گی۔ماہا نے مہرماہ سے کہا جو اس کے سامنے کباب کے ساتھ رول کی پلیٹ رکھ رہی تھی۔

بیٹا تکلف کیوں کررہی ہو تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔مہرماہ نے نرمی سے کہا۔

تکلف کی بات نہیں میں یہ سب اتنا نہیں کھاتی۔ماہا نے جواب دیا۔

ماہا سہی کہہ رہی ہے یہ بہت ڈائٹ کونشیئس ہے۔مہرین نے مہرماہ کو دیکھ کر کہا۔

کھانے پینے پہ دھیان دیا کریں بہت کمزور ہیں آپ حیات کو دیکھ لو وہ تم سے دو تین سال چھوٹی ہوگی پر صحت میں تم سے بہتر ہے۔ہانم بیگم نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

جی کوشش کروں گی۔ماہا نے اتنا کہہ کر چائے کا گھونٹ بھرا۔

تو آپ یہ کھائیں۔مہرماہ نے مسکراہٹ دبائے کباب اس کے سامنے کیا ماہا کی شکل دیکھ کر زرجان کے چہرہ پہ مسکراہٹ آگئ تھی جس کو چُھپانے کے لیے اُس نے اپنا سر جھکادیا۔

شکریہ۔ماہا اب کی ان کا خلوص دیکھ کر انکار نہیں کرسکی۔

تمہارے لیے کافی کا کہا ہے آتی ہوگی۔مہرماہ نے زرجان سے کہا۔

اب ہم چلتے ہیں اجازت دے۔تھوڑی دیر بعد مہرین اٹھ کر بولی۔

اتنی جلدی کیوں ؟ہانیہ نے کہا

جلدی کہاں بہت دیر ہوگئ ہے۔مہرین نے کہا ماہا ولی کو میسج کرنے لگی تاکہ وہ اُن کو پِک کرنے آجائے۔

موم میں نے ولی کو میسج کیا ہے پر وہ ڈیڈ کے کام سے باہر ہے۔ماہا نے موبائل اسکرین کو دیکھ کر مہرین کو بتایا

کوئی بات نہیں کیب منگوالوں۔مہرین نے کہا

کیب کیوں ڈرائیور چھوڑ آئے گا۔مہرماہ نے کہا

شکریہ آنٹی پر اِس تکلف کی ضرورت نہیں۔ماہا نے میسج ٹائپ کرکے رسانیت سے کہا

مہرین تمہاری بیٹی تو ہم غیر سمجھ رہی ہے۔مہرماہ نے ناراض لہجے میں کہا

ایسا نہیں۔ماہا نے جلدی سے وضاحت کرنا چاہی

ڈرائیور کیوں زر ڈراپ کردے آپ لوگوں کو پھر۔ہانم بیگم نے مسکراکر کہا زرجان فورن سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ماہا نے عجیب نظروں سے اُس کی پُھرتی دیکھی زرجان یہاں وہاں دیکھتا خود کو لاتعلق ظاہر کرنے لگا۔

زر جاٶ اپنی آنٹی اور بہن کو گھر ڈراپ کردو۔مہرماہ نے زرجان سے کہا زرجان کے چہرے کے زاویئے (بہن)لفظ پہ ایسے ہوگئے تھے جیسے کڑوا بادام نگل لیا ہو۔

ٹیچر ہیں میری۔زرجان نے جتانے والے انداز میں کہا۔

یونی کی حدتک ورنہ تو حیات کی طرح تمہاری ماہا اور ملیحہ بھی بڑی بہن ہے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

میں باہر آپ کا ویٹ کررہا ہوں۔زرجان ڈرائینگ روم سے نکلتا بولا مہرین ماہا بھی سب سے ملتی باہر آئی زرجان کو پورچ میں جاتا دیکھا تو ماہا مہرین کو اِشارہ کرتی پورچ کی طرف جانے لگی وہاں آئی تو اُس کی نظر ہیوی بائیک پہ پڑی۔

اے میرے لمحہِ ناراض کہیں مل تو سہی

اِس زمانے سے الگ ہوکر گُزاوں تجھے۔

آپ کو بائیک پسند ہے؟ زرجان ماہا کے پاس آکر پوچھنے لگا جس کی بھوری آنکھوں میں بائیک کو دیکھ کر ستائش اُبھری تھی جو زرجان نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

ہممم۔ماہا نے بس اتنا مہرین گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ چُکی تھی ماہا بھی ڈور کھولنا چاہتی تھی پر زرجان کی آواز پہ حرکت کرتے ہاتھ تھمے تھے۔

آنٹی پچھلی سیٹ پہ بیٹھی ہیں آپ فرنٹ سیٹ پہ آجائے ورنہ مجھے اپنا آپ ڈرائیور محسوس ہوگا۔زرجان فرنٹ سیٹ کا دروازہ اِن لاک کیے بولا ماہا خاموشی سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئ زرجان مسکراتے دروازہ بند کرکے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

محبت ایک ایسی خواہش ہے

جو باقی تمام خواہشوں کو کھاجاتی ہے

کیا مرجان کو میری محبت محسوس نہیں ہوتی۔ملیحہ نے خود سے سوال کیا۔

محبت تو ایک پھول کی طرح ہوتی ہے جس کی مہک چار سوں پھیل جاتی ہے پھر ایسا کیسے ممکن ہے کے مرجان کو میری آنکھوں میں اپنے لیے جذبات سے ناواقف ہو یا وہ جان بوجھ کر نظرانداز کررہا ہے۔ملیحہ خود سے تانے مانے جوڑنے لگی پر اصل بات وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔

پر ایسا وہ کیوں کرے گا مجھے میں کوئی کمی تو نہیں یا وہ کسی اور میں دلچسپی رکھتا ہے۔یہ سوچ آتے ہی ملیحہ کا دل انہونی کے احساس سے دھڑکا۔

میں بات کرکے دیکھ لوں گی ایسا نہ ہو کے بعد میں سوائے پچھتاوے کے میرے پاس کجھ نہ ہو۔ملیحہ نے خود سے عہد کیا۔

💕💕💕💕💕💕

زر اندر آتے۔مہرین گاڑی سے اُتر کر زرجان سے بولی۔

نہیں آنٹی پھر کبھی۔زرجان نے ماہا کو دیکھ کر جواب دیا۔

پانی وغیرہ پی لیتے ایسے مجھے اچھا نہیں لگے گا۔مہرین نے پھر سے کہا۔

موم اصرار کررہی ہیں تو مان لوں ان کی بات۔زرجان انکار کرنے والا تھا پر ماہا کے کہنے پہ اُس کے پاس جیسے انکار کرنے کا جواز نہیں بچا تھا نجانے کیوں وہ ماہا کی بات پہ انکار نہ کرسکا۔

پانی پینے میں کوئی قباحت نہیں۔زرجان نے مسکراکر کہا ماہا اندر چلی گئ تھی زرجان مہرین کے ساتھ اندر آیا۔

یہ لوں۔ماہا نے پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھایا تو زرجان مسرور سا ہوگیا تھا۔

شکریہ۔زرجان نے گلاس تھام کر کہا ماہا بنا کوئی جواب دیئے وہاں سے چلی گئ۔

آنٹی آپ کے گھر میں کوئی ہیلپر نہیں؟زرجان نے پوچھا

نہیں بیٹا میں نے خود نہیں رکھا لنڈن میں سارا کام میں خود ہی کرتی تھی یہاں آکر ریان نے بہت کہا پر میں نے سارا کام خود کرنے کو ترجیح دی۔مہرین نے مسکراکر جواب دیا

آپ جاب کے ساتھ یہ سب کیسے ہینڈل کرلیتی ہیں؟زرجان نے دوسرا سوال کیا۔

اتنا کام نہیں ہوتا بس کھانا پکانا گھر کی صفائی کرنا تو ہوتی ہے ملیحہ کھانا بناتی ہے کیوں اس کو شوق ہے باقی میں صفائی ستھرائی پہ دھیان دیتی ہوں۔مہرین نے آرام سے جواب دیا۔

اور ماہا میم؟زرجان نے جھجھک کر پوچھا

ماہا کو بس پڑھنے کا شوق ہوتا ہے تو وہ بس وہی کرتی ہے۔مہرین نے ہنس کر بتایا تو زرجان مسکرادیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

شاہ مجھے تمہارے دوست کی بیٹی ماہا بہت پسند آئی۔مہرماہ نے لیپ ٹاپ پہ مصروف شاہ میر سے کہا۔

ریان کے سب بچے بہت اچھے ہیں اُس نے بہت اچھی تربیت کی ہے۔شاہ میر نے اپنی نظریں لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ مرکوز کیے جواب دیا۔

ہاں وہ تو ہے پر ماہا مجھے اور لحاظ سے پسند آئی ہے۔مہرماہ دل کی بات زبان پہ لائی۔

اور کس لحاظ سے؟شاہ میر نے پوچھا

اِس کو تو پڑے کرو پھر میں بتاتی ہوں۔مہرماہ نے شاہ میر کی گود سے لیپ ٹاپ اٹھاکر دور کرکے کہا شاہ میر نے اپنے ہاتھ کھڑے کرلیے۔

ماہا ہمارے مرجان کے لیے کیسے رہے گی مرجان کی بھی عمر ہوگئ ہے شادی کی ہمیں اب مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔مہرماہ نے کہا

میں بات کرتا ہوں ریان سے۔شاہ میر مہرماہ کی خواہش جان کر خوش ہوتا ہوا بولا۔

میں اندر آسکتا ہوں۔زرجان نے دروازہ نوک کیے کہا۔

پوچھ کیوں رہے ہو۔مہرماہ نے مسکراکر کہا زرجان بھی مسکراتا اندر آیا۔

کیا باتیں ہورہی تھی۔زرجان صوفے پہ بیٹھتا بولا

بس تمہاری ماں کو اب بس مرجان اور حیات کی شادی کی پڑی ہے۔شاہ میر نے جواب دیا۔

ڈیٹس گریٹ تو مما آپ نے اپنے لیے بہو اور داماد تلاش کیا۔زرجان نے مسکراکر پوچھا۔

داماد کو تلاش کرنا تو تمہارے باپ کا کام ہے پر بہو میں نے تلاش کرلی ہے۔مہرماہ نے مزے سے بتایا۔

اچھا کون؟زرجان نے دلچسپی سے پوچھا۔

ماہا مہرین کی بیٹی مرجان کے ساتھ بہت اچھی لگے گی۔مہرماہ نے بتایا تو زرجان کے مسکراتے لب فورن سے سمٹ گئے تھے زرجان کو اپنا دل عجیب انداز سے دھڑکتا محسوس ہوا اپنے دل کی آواز سے گھبراتا زرجان اٹھ کھڑا ہوا۔

مجھے اب یاد آیا کل مجھے اپنا اسائمنٹ جمع کروانا ہے تو میں کمرے میں جارہا ہوں۔زرجان کہہ کر رُکا نہیں تھا مہرماہ پھر سے شاہ میر کی طرف متوجہ ہوئی۔

پھر ہم کب بات کریں ان سے رشتے کی؟مہرماہ نے بے صبری سے پوچھا۔

پہلے مرجان کی رائے لوں پھر ہم رشتہ لینے جائے گے۔شاہ میر نے کہا مہرماہ سمجھنے والے انداز میں سرہلایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

مجھے گھبراہٹ کیوں ہورہی ہے؟زرجان گھر کے اندر بنے پول سائیڈ کے پاس آتا اپنے پیر پانی میں ڈالتا سوچنے لگا۔

شاید میرا وہم ہو۔زرجان سر جھٹک کر بولا مگر اندر ایک بے چینی سی دی جو اس کو سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔

رہنے دیجئے آپ سے نہیں ہوگی یہ

محبت ہے کوئی یونیورسٹی کی اسائمنٹ نہیں

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

کیا میں یہ سمجھوں تم میرا پیچھا کررہے ہو؟ماہی نے اپنی فرینڈس کے ساتھ جس ہوٹل اسٹے کیا تھا وہاں باہر اُس نے مرجان کو کھڑا دیکھا تو پوچھا۔

نہیں یہ تو قسمت ہمیں بار بار ملا رہی ہے ورنہ میں کیوں کرنے لگا تمہارا پیچھا۔مرجان نے آرام سے اُس کو جواب دیا۔

ہوسکتا ہے پر میں بار بار ایسے اتفاق کو نہیں مانتی۔ماہی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

تو کیا میں یہ سمجھوں کے تم چاہتی ہو میں تمہارا پیچھا کروں؟مرجان نے ماہی کے پہلے والے انداز میں پوچھا۔

نہیں میں کیوں ایسا چاہوں گی۔ماہی نے چلتے ہوئے کہا

وہ تو تمہیں پتا ہوگا۔مرجان اس کے ساتھ ہمقدم ہوتا ہوا بولا

تم یہاں کے ہو؟ماہی نے بات کرنے کے غرض سے پوچھا

نہیں میں پاکستان کا ہوں۔مرجان نے مسکراکر کہا۔

تم کہاں رہتی ہو؟مرجان نے پوچھا

میں زمین پہ۔ماہی نے مزاقً کہا

ظاہر ہے وہ تو اب بھی ہو۔مرجان نے گھور کر کہا

نہیں اب تو میں صاف شفاف روڈ پہ ہوں۔ماہی نے معصومیت سے کہا۔

میرا ایک گیارہ سال کا بھائی ہے اُس کے قد میں اور تمہارے قد میں ذرہ فرق نہیں دونوں ایک جتنے ہوگے۔مرجان نے مسکراہٹ دباکر اُس کی چھوٹے قد پہ چوٹ کی۔

بوائز کے قد لڑکیوں کی نسبت بڑے ہی ہوتے ہیں ورنہ میں سترہ کی ہوں تمہارا اپنے گیارہ سال کے بھائی سے میرا موازنہ کرنا بنتا نہیں۔ماہی نے چڑ کر کہا۔

تم مان لو تمہارا قد چھوٹا ہے۔مرجان نے چہرہ اُس کی جانب موڑ کر کہا

میرے قد میری عمر کے لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہے ویسے بھی مجھے لمبی ٹانگوں والی لڑکیاں نہیں پسند۔ماہی نے آرام سے کہا۔

تمہارے پاس جو نہیں اِس لیے دوسروں کی بھی نہیں پسند۔مرجان کا انداز صاف مزاق اُڑانے والا تھا۔

لگتا ہے تم میری انسلٹ کررہے ہو اپنی ہار کا بدلا چُکانے کے لیے۔ماہی رُک کر اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

خوشفہمی ہے چھوٹی گرل ورنہ ایسا کجھ نہیں۔مرجان نے کہا ماہی نے مشکوک نظروں سے دیکھ کر کندے اُچکا دیئے

💕💕💕💕💕💕💕💕

مرجان ایک بار سوچ لوں بات بڑی نہیں جو تم ایک معصوم لڑکی کے ساتھ ایسا کرو۔شاہ ویر نے کال پہ مرجان کی بات سن کر سنجیدگی سے کہا

تمہیں کجھ نہیں پتا میں کیا محسوس کررہا ہوں اِس لیے فضول میں مجھے لیکچر نہیں دو میں جانتا ہوں میں سہی کررہا ہوں۔مرجان نے سنجیدگی سے کہا

مرجان ایک ریس ہارنے کا یہ مطلب نہیں تم کسی بے گناہ کو دھوکہ دو اس کے دل سے کھیلوں ہار جیت قسمت کی بات ہے اگر کوئی ہارتا ہے تو اُس کا یہ مطلب نہیں کے وہ بدلا لیتا پِھیرے۔شاہ ویر کو غصہ آرہا تھا مرجان کی ہڈ دھرمی پر۔

مجھے تمہیں بتانا ہی نہیں چاہیے تھا۔مرجان بیزارگی ظاہر کرتا بولا

مرجان تم میرے کزن ہونے ساتھ ایک اچھے دوست بھی ہو اُس لحاظ سے میں بس اتنا کہوں گا یہ دنیا گول ہے یہاں آج جو تم کروگے کل کو وہی تمہارے پاس لوٹ آئے گا دھوکہ ایک قرض ہے جو تمہیں سود سمیت لوٹانا پڑے گا اِس لیے ایسا کجھ مت کرنا جس سے تمہیں پچھتاوا ہو پر تمہارے پاس کجھ نہ ہو۔شاہ ویر نے ایک اور کوشش کی۔

ابھی میرا تمہارا یہ فلسفانے باتیں سننے کا موڈ نہیں۔مرجان اتنا کہہ کر کال کاٹ گیا شاہ ویر کتنی موبائل اسکرین کو دیکھتا رہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

یار ماہی مجھے لگتا ہے وہ مرجان تم میں انٹرسٹ لے رہا ہے۔فروزین نے پرسوچ انداز میں ماہی سے کہا جو ایک ہیڈ فون کان میں لگائے گانے سن رہی تھی۔

مجھے بھی یہی لگتا ہے۔پاپ کارن کھاتی مانوی جھٹ سے بولی

میرا نہیں خیال کونسا وہ مجھے جانتا ہے۔ماہی نے ان کی بات پہ کہا

محبت کرنے کے لیے ایک دوسرے کو جاننا ضروری نہیں ہوتا۔مانوی نے اُس کی عقل پہ جیسے ماتم کیا۔

پتا نہیں پر فرسٹ ڈے پہ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھ رہا تھا آے ڈونٹ تھنک کہ وہ میرے لیے ایسے جذبات رکھ سکتا ہے۔ماہی کا دل مان نہیں رہا تھا۔

میری جان وہ اِس لیے کیونکہ تب وہ ہار گیا تھا جس کا اُس کو غصہ تھا بعد میں غصہ اُترا تو وہ سمجھ گیا پھر تم ہو بھی اتنی خوبصورت اِس لیے وہ خود کو تمہارے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوبنے سے بچا نہیں پایا۔فروزین نے آنکھ ونک کرکے کہا ماہی نے گھور کر پاس پڑے تکیے اُس کی طرف اچھالے تھوڑی دیر بعد کمرے میں اُن تینوں کے قہقہقہ کی آواز گونجنے لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

خان مینشن میں آج سب بڑے اکٹھے جمع ہوئے تھے شاہ زیب بھی ثانیہ اور سارہ بیگم کے ہمراہ یہاں موجود تھا سالار بھی پری اور اپنی بیٹی پریسہ کے ساتھ آیا ہوا تھا ڈرائینگ روم سب کی موجودگی سے بھرا ہوا تھا ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا تھا شاہ زیب کا پسندیدہ مشغلہ شاہ میر کو چِڑانا ہے جو وہ باخوشی آج بھی سرانجام دے رہا تھا۔

مرجان تم شادی کیوں نہیں کرتے تمہارے والدین کو لگتا ہے پرواہ نہیں پر میں ماموں ہوں مجھے تمہاری فکر ہے اگر لڑکی کا سین ہے تو بتادو میں آج ہی رشتہ لینے چلو۔شاہ زیب نے مسکراتی نظر شاہ میر پہ ڈال کر مرجان سے کہا جو سب کی موجودگی میں ایسی بات پہ خجل سا ہوگیا تھا

ماموں ایسی کوئی بات نہیں۔مرجان نے جلدی سے کہا تو پورا ڈرائینگ روم قہقہقہ سے گونج اُٹھا زرجان بس خاموش سا ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے غیر معی نقطے کو گھور رہا تھا۔

زیب تم پریشان نہ ہو ہم نے مرجان کی شادی کا سوچ لیا ہے انشاءاللہ اِس سال ہوگی۔مہرماہ سب کو چائے سرو کرتی شاہ میر کے ساتھ بیٹھتی ہوئی بولی۔

کروالوں جلدی سے مرجان ویسے آپس کی بات ہے تم اپنے باپ پہ نہیں گئے۔شاہ زیب نے مرجان سے کہا جو اپنی شادی کی بات پہ شاک سا تھا زرجان کے اندر جو بے چینی تھی اُس کو اب مزید اضافہ ہوتا ہوا لگا۔

وہ کیسے بھائی ڈیڈ کی طرح نہیں؟حیات نے سوال داغا۔

میر جب مرجان کی عمر کا تھا تو تم تینوں اِس دنیا میں موجود تھے پر مرجان دیکھوں کنوارہ بیٹھا ہے۔شاہ زیب نے بڑی سنجیدگی سے کہا شاہ میر تو بس شاہ زیب کو دیکھتا رہ گیا۔

اُس لحاظ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ہانم بیگم فورن سے بولی۔

ویسے لڑکی کون ہے جو تم نے مرجان کے لیے تلاش کی ہے؟سارہ بیگم نے مہرماہ سے پوچھا زرجان کے ہاتھ میں موجود گلاس پہ گرفت مضبوط ہوئی تھی مرجان سب کو ایسکیوز کرتا باہر چلاگیا تھا اُس کے فون پہ کال آئی تو۔

ماہا مرجان کے ساتھ بہت اچھی لگے گی۔مہرماہ نے پرجوش ہوکر بتایا

سارہ بیگم پوچھنے والی تھی کون ماہا پر چھناک کی آواز سے سب کا دھیان زرجان کی طرف چلاگیا تھا جس کے ہاتھ گلاس ٹوٹنے پہ کانچ اس کے ہاتھ پہ چُھب گئے تھے مہرماہ شاہ میر سرعت سے زرجان کے پاس آئے۔

زر یہ کیسے ہوا حیات فورن سے میڈیکل باکس لاؤ۔مہرماہ پریشانی سے زرجان کا ہاتھ تھامتی حیات سے بولی جو خود پریشان کھڑی تھی باقی سب ساری صورتحال سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ زرجان نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا بس اپنے ہاتھ میں بہتے خون کو دیکھتا رہا۔

اتنا زور سے کیوں پکڑا تھا گلاس ٹوٹ گیا نہ جانے کتنے کانچ اندر گئے ہوگے۔حیات زرجان کا ہاتھ تھامتی پائیوڈین لگاتی کہنے لگی۔

تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ۔شاہ میر نے اس کو بے حس بے حرکت پایا تو سوال کیا۔

میں ٹھیک ہوں۔زرجان سپاٹ انداز میں بولا۔

ہاتھ کا تو کچومر بنادیا نہ۔حیات نے اس کے ہاتھ میں پٹی باندھتے خفگی سے کہا۔

حیات یہ وقت مذاق کا نہیں۔مہرماہ نے ٹوکا

کیا ہوا ہے؟مرجان واپس آیا تو سب کو زرجان کے اُپر جھکے پایا تو پوچھنے لگا۔

زر کے ہاتھ پہ چوٹ لگ گئ ہے۔ثانیہ نے بتایا۔

کیسے ہوا یہ؟مرجان نے زرجان سے پوچھا۔

لاپروائی سے ہوا ہے کونسا کوئی تم سے گلاس چھین رہا تھا جو ایسے پکڑ لیا تھا۔حیات نے تیز آواز میں کہا لہجے میں فکر صاف نمایاں تھی

اتنا گہرا کٹ نہیں بس معمولی ہے۔زرجان اپنا ہاتھ پٹی میں جکڑتا دیکھ کر بولا۔

زیادہ ہیرو مت بنو۔مرجان نے گھور کر کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

موم آج میں یونیورسٹی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ماہا نے تیار کھڑی مہرین سے کہا۔

تمہارا فرسٹ لیکچر تو نو بجے ہوتا ہے نہ؟مہرین نے پوچھا

ہاں پر آج میں نے ایک ٹیسٹ لینی تھی جس وجہ سے جلدی جارہا ہوں۔ماہا نے وجہ بتائی۔

ٹھیک ہے چلو۔مہرین نے سر کو اثبات میں ہلاکر کہا۔

مجھے بھی میر کے انکل کے گھر ڈراپ کردے۔ملیحہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچی۔

اتنی۔صبح صبح تمہارا وہاں کیا کام؟مہرین نے سنجیدگی سے پوچھا

حیات کے ساتھ باہر جانا تھا شاپنگ پہ۔ملیحہ نے بہانا بنایا۔

مجھ سے کہتی یا ماہا سے کہتی ان کو بار بار تکلف دینا ضروری ہے کیا۔مہرین کو بات پسند نہیں آئی۔

ہماری اچھی خاصی دوستی ہوئی ہے ویسے بھی فرینڈس آپس میں شاپنگ پہ جاتے ہیں۔ملیحہ پچھلی سیٹ کا ڈور کھول کر بولی۔

اچھا بیٹھو تم بھی۔مہرین سر جھٹک کر بولی

💕💕💕💕💕💕

آج یونی سے چھٹی کرلوں پڑھائی تو ہوگی نہیں تم سے۔مہرماہ نے زرجان سے کہا کیونکہ اُس کو چوٹ بائیں ہاتھ پہ آئی تھی۔

میرا ہاتھ ٹھیک ہے یونی جانا ضروری بھی ہے۔زرجان نے ریسٹ واچ پہ وقت دیکھ کر کہا

خود کرتے ہو بلاوجہ چھٹیاں اب جب میں کہہ رہی ہوں تو ایسا کہہ رہے ہو۔مہرین نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا

آج میرا ضروری ٹیسٹ ہے اگر نہیں گیا تو مارکس کٹ ہوجائے گی۔زرجان نے کہا

وائیوا ٹیسٹ ہے؟مہرماہ نے اُس کا پٹی میں چُھپا ہاتھ دیکھ کر پوچھا۔

نہیں۔زرجان نے جواب دیا

لکھوں گے کیسے پھر؟مہرماہ نے جاننا چاہا

کرلوں گا کجھ نہ کجھ آپ ٹینشن نہ لیں۔زرجان مہرماہ کے ماتھے پہ بوسہ دیکر بولا۔

گاڑی نکالوں۔زرجان باہر آتا ڈرائیور سے بولا ایک ہاتھ سے اگر بائیک چلاتا تو لازمی دیر ہوجاتی پر وہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا اِس لیے آج گاڑی پہ یونیورسٹی جانے کا سوچا۔

یونیورسٹی پہنچا تو سامنے فرزام احتشام کھڑت تھے۔

ہاتھ کو کیا ہوا؟احتشام کی نظر اس کے ہاتھ پہ پڑی تو پوچھا

کجھ نہیں چھوٹا سا کٹ تھا۔زرجان نے ٹالا

ٹیسٹ کیسے دوگے پھر؟فرزام پریشان ہوا

دے دوں گا۔زرجان اپنے ہاتھ کو دیکھ کر بولا

میم لگتا ہے فل تیار ہیں ٹیسٹ کے لیے۔احتشام دور دیکھتا ہوا بولا تو زرجان نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں ماہا سفید شلوار قمیض کے ساتھ کالے رنگ کی چادر پہنے ہوئی تھی ہاتھوں میں پیپرز تھے جن کو ٹھیک کرتی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی شاید لائبریری جارہی تھی۔

مجھے ایک بُک ایشو کروانا تھا تم لوگ کلاس میں چلو میں آتا ہوں۔زرجان نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا

جلدی کرنا کلاس شروع ہونے میں دس منٹ ہے۔فرزام نے کہا زرجان سر کو جنبش دیتا لائبریری کی طرف آیا سامنے ہی ماہا اُس کو کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف نظر آئی زرجان کتنے ہی پل بلاوجہ اُس کو دیکھتا رہا جو پوری طرح کتاب پڑھنے میں مگن تھی چادر سر سے اُتر چُکی تھی جس سے بال چہرے پہ گِررہے تھے زرجان کی نظروں کی ہی تپش دی جو وہ اپنا سر اٹھانے پہ مجبور ہوئی شاید وہ خود پہ کسی کی گہری نظریں محسوس کرچکی تھی۔

کوئی کام تھا؟ماہا نے زرجان کی نظریں محسوس کرکے سنجیدگی سے پوچھا۔

ن ن نہیں و وہ م میں ی یہاں کا کام س سے آ آیا ت تھا۔زرجان جو والہانہ نظروں سے ماہا کا چہرہ آنکھوں کے زریعے دل میں بسا رہا تھا اُس کے اچانک کیے سوال پہ اٹک اٹک کر بولا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ ماہا کے سامنے وہ اتنا بے اختیار کیوں ہوجاتا تھا کیوں جب وہ بات کرتا تھا تو الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے کیوں وہ جب اُس کو دیکھتا تھا تو آس پاس کا شور اس کو سنائی نہیں دیتا سب بلنک ہوکر بس ماہا کیوں نظر آتی تھی زرجان جتنا بھی سوچتا پر کجھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

ہاتھ میں کیا ہوا ہے؟ماہا کی نظر ہاتھ پہ پڑی تو پوچھ بیٹھی ماہا کا اتنا پوچھنا تھا زرجان کو اپنے اندر سکون کی لہر ڈورتی محسوس ہوئی۔

کٹ لگا تھا۔زرجان نے جواب دیا آنکھوں میں چمک اُتر آئی تھی۔

کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے۔مہرماہ ہاتھ میں بندھی واچ پہ ایک نظر ڈال کہتی لائبریری سے باہر چلی گئ زرجان دل مسوس کرتا رہ گیا اس کے دل نے ماہا کی اٹینشن چاہی تھی جو کہ ناممکن تھی زرجان اپنے دل کا تھتھپاتا کلاس کی طرف جانے لگا

💕💕💕💕💕💕💕

ملیحہ اِس وقت حیات کے روم میں تھی جو شاور لیں رہی تھی تھوڑی دیر بعد دونوں کو مال جانے کے لیے نکلنا تھا پر ملیحہ بس مرجان سے بات کرنا چاہتی تھی جو اپنے آفس کے لیے نکل چُکا تھا یہ بات جیسے ہی اُس کو پتا چلی اس کو بہت افسوس ہوا۔

میں ہر وقت اُس کے انتظار میں

اور وہ مجھ سے اکتایا ہوا شخص!!!

سوری میں نے انتظار کروایا۔حیات واشروم سے باہر آتی ملیحہ سے معزرت کرتی بولی۔

سوری کی کوئی بات نہیں مجھے اتنا جلدی نہیں آنا چاہیے تھا۔ملیحہ کو اپنے یہاں آنے پہ افسوس ہوا جس کے لیے وہ یہاں آئی تھی وہ تو اپنے آپ میں مگن تھی بس ایک وہ تھی جو انجانے میں اُس سے امیدیں وابستہ کررہی تھی۔

اب ایسا بھی نہیں اِس ٹائم آنے کو تو میں نے ہی کہا تھا نہ۔حیات مرر کے سامنے کھڑتی ہوئی بولی۔

کہا تو تھا پر مجھے اب آکورڈ لگ رہا ہے۔ملیحہ نے کہا۔

فضول مت سوچو میں بس بال بنالوں پھر چلتے ہیں۔حیات نے مسکراکر سادہ لہجے میں کہا

💕💕💕💕💕💕💕💕💕

ٹیسٹ کا ٹائم اوور ہونے کے بعد ماہا سب سے ٹیسٹ پیپرز لیں رہی تھی زرجان کی سیٹ سے اس نے پیپرز اٹھایا تو اُس نے افسوس سے اُس کی جانب دیکھا جس نے سارے وقت بامشکل بس ایک سوال کا جواب لکھا تھا۔

آپ میرے آفس آئے۔ماہا نے زرجان سے کہا جو اُس کو ایسے دیکھنے لگا جیسے ماہا نے جانے کیا کہہ دیا ہو۔

صدمے میں چلے گئے ہو کیا جاؤ نہ انہوں نے اپنے آفس میں بُلایا ہے۔ماہا جانے کب کی جاچُکی تھی پر زرجان اسٹل اپنی جگہ بیٹھا رہا تو مجبوراً احتشام کو ہوش میں لانا پڑا۔

ہاں میں جارہا ہوں۔زرجان جلدی سے اٹھا بھاگنے والے انداز میں کلاس سے باہر نکل گیا۔

زر آج کل عجیب نہیں ہوگیا۔احتشام نے فرزام سے کہا

لگ تو ایسا رہا ہے ماہا میم کی کلاس پہ تو اُس کی توجہ ہوتی ہی نہیں۔فرزام نے اتفاق کرتے کہا

وہ تو کسی کی بھی نہیں ہوتی سب ان کا لیکچر سنتے کم ان کو دیکھتے زیادہ ہے۔احتشام منہ کے زاویئے بگاڑتا بولا

یس کم اِن۔ماہا آفس میں بیٹھی تھی جب دروازے نوک ہونے پہ اُس نے کہا

آپ نے بُلایا تھا۔زرجان اندر آکر بولا

بیٹھو۔ماہا نے سنجیدگی سے بیٹھنے کا کہا۔

جو ٹیسٹ میں نے آج لیا اس کی تیاری تھی آپ کی؟ماہا نے پوچھا

جی میں نے کی تھی۔زرجان نے کہا

پھر یہ کیوں؟ماہا نے پیپرز اس کے سامنے کیا

لکھنے میں مسئلا ہورہا تھا دائیں ہاتھ سے مجھ سے لِکھا نہیں جاتا۔زرجان نے ماہا کے چہرہ پہ نظر ٹکاکر جواب دیا۔

ٹیسٹ کے بعد میں نے ویسے بھی وائیوا لینا تھا آپ کا آج لیتی ہوں ٹیسٹ تب آپ دیجئے گا جب ہاتھ بہتر ہو۔ماہا نے ہنوز سنجیدہ انداز میں کہا زرجان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی ماہا نے پہلی بار اُس کو اتنے قریب مسکراتا دیکھا تھا۔

آپ لیں سکتی ہیں میں تیار ہوں۔زرجان نے کہا تو ماہا نے سراثبات میں ہلایا۔

میں یہ اِس لیے کررہی ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے آپ پڑھائی کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ماہا نے باور کرنے والے انداز میں کہا۔

میں نے کب کہا میری محبت میں کررہی ہیں۔زرجان یہ بس سوچ سکا۔

پہلا سوال؟

💕💕💕💕💕💕💕

 میر نے شاید قسم اٹھائی تھی جانے کونسے بدلے لیں رہا تھا اس سے جو نہ نظر بھر کر اس کو دیکھتا نہ ہی اس کی کسی بات کا ٹھیک سے جواب دیتا اس کی بنائی چیز کو ہاتھ نہ لگاتا جب کی پہ

مرجان تم جانتے ہو نہ تمہاری ماہ فل موڈ میں تمہارے سر پہ سہرا سجانے کے لیے۔شاہ میر نے آفس میں بیٹھے مرجان سے کہا

جی ڈیڈ جانتا ہوں پر ابھی میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔مرجان نے سنجیدگی سے کہا

ماہ بہت خوش ہے میں نہیں چاہوں گا کہ تم اپنی ضد پہ ان کی خوشی خراب کرو۔شاہ میر نے دو ٹوک انداز میں کہا مرجان نے شرمندگی سے اپنا سر جھکادیا

دیکھو اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتادو مجھے یا ماہ کو کوئی مسئلا نہیں ہوگا۔شاہ میر نے کہا

بات یہ نہیں ڈیڈ کے مجھے کوئی پسند ہے میں بس ابھی شادی کے حق میں نہیں۔مرجان نے سنجیدگی سے جواب دیا پر یہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے ملیحہ کا عکس لہریا وہ جان گیا تھا ملیحہ اس کے لیے جذبات رکھنے لگی ہے جس کا بڑھاوا وہ نہیں دینا چاہتا تھا کیونکہ جب وہ یہ جانے گی کے اُس نے ماضی میں کیا ہے تو ضرور نفرت کرے گی۔

تو بس تیار رہو میں بات کروں گا ریان سے بلکہ میں اور ماہ جائے گے ان کے گھر باقاعدہ ہاتھ مانگنے۔شاہ میر کی بات پہ مرجان ٹھٹک گیا اس کا سب سے پہلا دھیان ملیحہ کی طرف گیا۔

توں کیا مما میری اور ملیحہ؟مرجان بس سوچ سکا۔

کوئی اعتراض؟شاہ میر نے پوچھا مرجان کا سر خودبخود نفی میں ہلنے لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟زرجان نے شاہ میر اور مہرماہ کو ایک ساتھ باہر جاتا دیکھا تو پوچھا کیونکہ اُس نے ڈرائیور کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ مٹھیائیوں کے ٹوکروں کے ساتھ تحائف بھی دیکھ لیا تھا۔

تمہارے بھائی کو ڈولی چڑھانے کے چکروں میں ہیں۔شاہ میر نے مسکراکر بتایا۔

ماہا میم راضی ہیں؟زرجان کا چہرہ فق ہوا تھا شاہ میر کی بات سن کر اپنی حالت پہ قابوں پاتا اُس نے سوال کیا۔

پوچھنا تو تمہیں مرجان کا چاہیے تھا پر میں بتادوں مرجان راضی ہے اور انشااللہ ماہا کو اس کے گھروالوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔مہرماہ نے مسکراکر کہا

میں بھی چلوں ساتھ؟زرجان نے دونوں کو دیکھ کر کہا

ضرور۔شاہ میر اور مہرماہ یک آواز میں بولے زرجان اپنا بے جان ہوتا وجود گھسیٹتا گاڑی کی طرف آیا۔

ڈرائیو تم کرو میں ماہ کے ساتھ بیک سائیڈ پہ بیٹھو گا۔شاہ میر نے مہرماہ کو دیکھ کر آنکھ ونک کرکے مہرماہ گھور کر دیکھتی بیک سیٹ کی طرف آگئ زرجان بنا کجھ کہے ڈرائیونگ سیٹ پہ آگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیا تم ملیحہ کو پسند کرتے ہو؟شاہ ویر نے مرجان کی ساری بات سن کر پوچھا

پتا نہیں بس دل کی حالت عجیب ہے میں مما کو پہلے انکار کرنا چاہتا تھا ڈیڈ سے بھی بات کرتا پر جانے کیوں ریان انکل سے بات کرے گے یہ سن کر میں انکار نہیں کرپایا۔مرجان نے اُلجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

ہممم تو جناب کو محبت ہوگئ ہے۔شاہ ویر نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔

ویر اگر اُس کو پتا چل جائے گا میں نے ایک لڑکی کو دھوکہ دیا ہے تو کیا وہ میرے ساتھ رہنا پسند کرے گی؟مرجان نے سوال کیا

شادی کے بعد لڑکی اپنا سب کجھ شوہر کو مان لیتی ہے ایسے میں اگر اس کو پتا چل بھی گیا تو وہ ناراض ہوگی چیخے گی پھر کمپرومائز کرے گی ویسے بھی ہر انسان کا ماضی ہوتا ہے۔شاہ ویر نے آرام سے کہا

میں نہیں چاہتا ہم سے کوئی کمپرومائز کرنے والی زندگی گُزارے۔مرجان نے سنجیدگی سے کہا

تو پھر کوشش کرنا یہ بات اس کو پتا نہ لگے۔شاہ ویر نے کندھے اُچکاکر کہا۔

عمر بڑھ یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب

دھول چہرے پہ تھی اور میں آئینہ صاف کرتے رہے

💕💕💕💕💕💕

خیریت تو ہے یہ اتنا سب کجھ۔ریان نے حیرت سے شاہ میر کو دیکھا جو مسکراکر سارا سامان ملازم سے کہہ کر اندر کروا رہا تھا ملیحہ بھی سائیڈ پہ مٹھائیوں کے ٹوکرے اور دیگر سامان دیکھ رہی تھی زرجان کی بے چین نظرے یہاں وہاں ماہا کو تلاش کررہی تھی جو جانے کہاں تھی۔

بتاتا ہوں پہلے بیٹھنے تو دو۔شاہ میر نے مسکراکر کہا پھر سب ڈرائینگ روم کی طرف آئے۔

میں نے فون پہ بتایا تھا نہ ایک خاص مقصد کے لیے یہاں آنے والیں ہیں۔شاہ میر نے کجھ باتوں کے بعد ریان سے کہا۔

پہلے ماہا تو بلائے۔مہرماہ نے مہرین سے کہا۔

ماہا کے سر میں درد تھا وہ آرام کررہی ہے۔مہرین نے جھجھک کر بتایا۔

اچھا تو پھر رہنے دے۔مہرماہ نے عام انداز میں کہا

میر اب تم بات شروع کرو ورنہ مجھے بے چینی لگی رہے گی۔ریان نے کہا زرجان اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گیا ملیحہ کو بھی تجسس ہو کے جانے کیا بات ہوگی۔

ہم یہاں

واشروم کس طرف ہے مجھے جانا تھا وہان۔شاہ میر کی بات بیچ میں ہی تھی جب زرجان اپنی جگہ اٹھ کر بولا۔

میں لیکر چلتی ہوں۔ملیحہ نے مسکراکر کہا

نہیں آپ بتادے میں خود سے چلا جاٶں گا۔زرجان نے کہا

اوپر سیدھا جاکر رائٹ پہ جانا وہاں ولی کا روم ہے تم اُس کا واشروم یوز کرلوں۔ملیحہ نے بتایا تو زرجان بنا کسی پہ نظر ڈالے اوپر کی طرف گیا۔

ملیحہ تم ریفریشمنٹ کا بندوبست کرو۔مہرین نے ملیحہ سے کہا

ٹھیک ہے۔ملیحہ کہہ کر اپنا رخ کچن کی طرف کیا۔

زرجان نے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر بے ساختہ اُس نے اپنی نظروں کا رخ دوسری طرف کیا۔

ماہا اپنا دکھتا سر دباتی شاور لینے کے لیے واشروم گئ تھی شاور سے فارغ ہوکر وہ باہر آئی تو گیلے بھورے بال آدھے چہرے پہ چپکے ہوئے تھے تو آدھے پشت پہ چہرے پہ پانی کی ننہی ننہی بوندوں کے قطرے بھی تھے جو اس کو دلکش بنارہے تھے وہ کسٹرڈ کلر کے ڈھیلی قمیض کے ساتھ ٹراٶزر میں ملبوس تھی ڈوپٹہ بیڈ پہ پڑا تھا وہ ڈریسنگ کی طرف بڑھی تھی جب دروازہ اٙن لاک ہونے پہ گردن موڑ کر دیکھا تو اسکی پیشانی پہ بل نمایاں ہوئے بیڈ سے ڈوپٹہ لیکر اس نے اپنے اطراف اوڑھا

یہ کیا طریقہ ہے کسی لڑکی کے کمرے میں آنے کا اور تم یہاں کیسے میرے کمرے میں کیوں آئے ہو۔ماہا غصے سے سرخ ہوتی درشتی سے بولی۔

زرجان کو ماہا کے ایسے رویئے پہ تکلیف ہوئی تھی وہ چاہتا تو جواب دے سکتا تھا پر ایک تو وہ اُس کی ٹیچر تھی دوسرا وہ اس کے سامنے خود کو کمزور پاتا تھا۔

سوری میں نہیں تھا جانتا یہ آپ کا کمرہ ہے میں ولی کا سمجھ کر آیا تھا۔زرجان نے نظریں نیچے کرکے صفائی دی جب کی دل بے اختیار ہوکر زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے سینا چیر کر باہر آجائے گا اُس نے ماہا کو جس روپ میں دیکھا تھا ڈوپٹے سے بے نیاز ایسا وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔

اپ پتا چل گیا نہ۔ماہا نے کوئی لحاظ کیے بغیر کہا۔

آپ میرے ساتھ آرام سے بات بھی کرسکتی ہیں۔زرجان نے منہ سے شکوہ پھسلا

میرا تم سے ایسا کیا رشتہ ہے جو میں آرام سے باتیں کروں ہاں ایک رشتہ ہے یونی کی حدتک مزید کجھ نہیں۔ماہا نے دو ٹوک انداز میں کہا

کیا کوئی اور نہیں بن سکتا؟زرجان نے اپنی بلو آنکھوں کو ماہا کی بھوری آنکھوں پہ گاڑھ کر کہا۔

کیا مطلب تمہارا؟ماہا کو زرجان کا پُراسرار لہجہ سمجھ نہیں آیا۔

کجھ نہیں۔زرجان نہ میں سرہلاتا کمرے سے باہر چلاگیا۔

آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟زرجان تیز قدموں سے ڈرائنگ روم کی طرف آیا تھا ملیحہ کو ہاتھ میں ٹرالی پکڑے ساکت دیکھا تو پوچھا ملیحہ ریفریشمنٹ کا سامان ٹرالی میں سیٹ کرتی اندر کی طرف گھسیٹ کر لیں جارہی تھی جب اندر سے آتی آواز سن کر اس کو لگا جیسے کسی نے اس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچی لی ہو۔

میر میری تم سالوں پُرانی خواہش تھی کے میری بیٹی ہو تو میں اس کا رشتہ تمہاری بیٹے سے کرو یقین جانوں آج تم نے ماہا کا رشتہ مرجان کے لیے مانگ کر جیسے میری خواہش کو پورا کردیا۔ریان کی آواز خوشی سے بھرپور تھی ملیحہ بس یہ سوچنے میں تھی کہ مرجان کے والدین کو وہ کیوں نہیں دیکھی مرجان بنا دیکھے ماہا سے شادی پہ کیسے حامی بھرسکتا ہے وہ مانتی تھی ماہا خوبصورت ہے ہر کوئی اس کے ساتھ کی تمنا کرسکتا تھا پر وہ یہ بھی جانتی تھی مرجان ماہا سے نہیں ملا تھا۔مرجان اگر ماہا سے بنا دیکھے شادی کے لیے ہاں کرسکتا تھا تو محبت نہیں تو دوستی کی ہی خاطر اس سے شادی کرلیتا ملیحہ کو اپنا آپ مفلوج ہوتا محسوس ہوا تھا ابھی تو اُس نے کسی کو چاہا تھا کسی کے ساتھ کی تمنا کی تھی کوئی تھا جو اس کو حد سے سوا عزیر ہوگیا تھا جس کی مسکراہٹ اُس کو پسند تھی جس کے لیے دل نے خواہش تھی کے اُس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ ہو جس کی وجہ وہ ہو۔

کبھی ایک خواب سا دیکھا تھا میں نے

کہ تم میرے ہو اور میرے لیے ہو

میں وہ بس یہ ٹرالی اندر لیں جارہی تھی۔ملیحہ اپنے سامنے زرجان کی آواز سن کر تزبز ہوکر بول کر اندر آئی اپنے باپ کا چمکتا چہرہ اِس بات کی گواہی تھا کہ وہ کتنا خوش ہے اِس نئے جڑنے والے رشتے سے ملیحہ کے چہرے پہ زخمی مسکراہٹ آگئ تھی تو کیا اُس کی محبت ملنے سے پہلے ہی روٹھ گئ تھی؟ملیحہ نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔

ڈیڈ میں گھر جارہا ہوں۔زرجان نے سنجیدگی انداز میں شاہ میر سے کہا

زر بیٹے کجھ لو تو سہی ایسے ہی جارہے ہو۔شاہ میر سے پہلے ریان نے زرجان سے کہا

شکریہ انکل پر مجھے ضروری کام آگیا ہے اِس لیے میرا جانا ضروری ہے۔زرجان نے کہا

ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔شاہ میر نے اُس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر اصرار نہیں کیا زرجان ایک منٹ دیر کیے بنا وہاں سے چلاگیا تھا۔

ایک تو مجھے اِس لڑکے کی سمجھ نہیں آتی۔مہرماہ نے زرجان کی پشت دیکھ کر کہا جس پہ سب مسکرادیئے۔

💕💕💕💕💕💕

آپ لوگ چلتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔مہرماہ نے ہانم بیگم اور حیدر خان کو دیکھ کر کہا

میرے تو گھٹنوں میں درد ہے پتا تو ہے تمہیں حیدر بھی بس اب زیادہ باہر نہیں جاتے تم دونوں تو گئے نہ ماشااللہ سے بات بھی بن گئ۔ہانم بیگم نے مسکراکر کہا

جی بات تو ہوگئ اب بس وہ ایک دفع ماہا سے بات کریں گے تو ہم شادی کی تاریخ طے کرے گے۔مہرماہ نے کہا اندر آتے مرجان نے ماہا نام حیرت سے مہرماہ کو دیکھا۔

اسلام علیکم!!!مرجان خود پہ قابو پاکر اندر آیا مگر وہ سمجھ نہیں پایا کے پوچھے کیسے وہ ملیحہ کا رشتہ لینے گئے تھے تو اس کی بہن ماہا کہاں سے آگئ جس کو اُس نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔

وعلیکم اسلام!!! رشتا پکا ہونے پہ منہ میٹھا کرلوں۔مہرماہ خوش سے چہک کر مرجان کے منہ کے پاس میٹھائی کا ٹکرا کیا جو مرجان نے کھالیا۔

مما آپ آج گئے تھے؟مرجان نے جان کر بھی پوچھا۔

بلکل اب بس وہ ماہا سے بات کرے پھر ہم تم دونوں کی شادی کروادے گے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔مرجان کو جیسے اب سب سمجھ آگیا اُس کو خود پہ بے اختیار غصہ آیا اُس نے کیوں نہیں پوچھا کس بیٹی کا وہ کیسے بھول گیا وہاں دو لڑکیاں رہتی ہیں مرجان کو اپنا سر درد سے پھٹتا محسوس ہوا۔

میں چینج کر کرلوں۔مرجان کو وہاں مزید رکنا دو بہر لگا۔

💕💕💕💕💕💕💕

تمہیں کیا مسئلا ہے پھر اگر ماہا میم تمہاری بھائی کی بیوی بنے گی تو۔فرزام نے زرجان کا سرخ چہرہ دیکھا تو استفسار کیا

پتا نہیں میں نہیں جانتا پر ان کی شادی کا سن کر جانے کیوں مجھے تکلیف ہورہی ہے جو میری سمجھ سے باہر ہے۔زرجان اضطراب کی حالت میں بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا

دیکھ زر مت بھول تمہارا اُس سے کیا رشتہ ہے دوسرا یہ وہ تم سے عمر میں بھی کافی بڑی ہیں مانا کہ وہ خوبصورت ہے پر تم ان کے بارے میں کجھ اور خیالات مت لانا۔فرزام نے جیسے اُس کے اندر کی بات جان لی۔

کیسے خیالات؟زرجان سمجھ نہیں پایا۔

اگر تم یہ سوچ رہے ہو وہ تمہاری ہوگی تو یہ تمہاری خوشفہمی ہے اُس سے زیادہ کجھ نہیں۔فرزام نے کہا زرجان حیرت سے اس کو دیکھنے لگا کیا وہ واقع ایسے چاہتا تھا؟زرجان نے خود سے پوچھا۔

خوشفہمی کیوں اگر ان کی شاد

زر خاموش ہوجا یہی۔فرزام نے فورن سے اُس کو ٹوکا زرجان کو اپنی حالت غیر ہوتی ہوئی لگی۔

خاموش کیوں کیا کمی ہے مجھ میں؟زرجان کا انداز سخت ہوگیا تھا

بات کمی یا بہتری کی نہیں ہے تم پاگل ہوگئے ہو کیا اپنے اور ان کے درمیان واضع فرق نظر نہیں آتا کیا۔فرزام نے اس کی عقل پہ ماتم کرکے کہا

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔زرجان نے دو ٹوک کہا۔

بات صرف تمہاری نہیں ہے میم ماہا جس نیچر کی ہے تمہاری یہ خرافات سوچ اگر وہ جان لیں نہ تو ایک پل نہ لگائے تمہارا سر قلم کرنے میں۔فرزام نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

وہ مان جائے گی تمہیں پتا ہے میرے والدین کے بیچ بھی عمر کا فرق تھا۔زرجان نے کہا

جانتا ہوں پر ان کی شادی میں دونوں کی رضامندی شامل تھی دوسرا یہ وہ کزنز تھے ماہا میم کبھی نہیں مانے گی۔فرزام نے جوابً کہا

وہ بھی مان جائے گی۔

عقل گھاس چڑھنے گئ ہے کیا تمہارے بھائی سے بات پکی ہے اُس کی۔فرزام کا بس نہیں چل رہا تھا زرجان کی بات پہ اپنے بال نوچ لیتا۔

مجھے فرق نہیں پڑتا ماہا کو بس میرا ہونا چاہیے۔زرجان گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولا

💕💕💕💕💕💕

ماہا تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔رات کے کھانے کے بعد ماہا اپنے کمرے میں جارہی تھی جب ریان کی بات پہ وہ ان کے ساتھ لاونج میں بیٹھ گئ۔

جی ڈیڈ کہے۔ماہا نے ملیحہ کو دیکھ جو اب یہاں سے جانے پہ تول رہی تھی ماہا کو آج ملیحہ کجھ ٹھیک نہیں لگی اُس کی سرخ آنکھیں رونے کی چُغلی کھارہی تھی وہ بعد پوچھنے کا سوچتی اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی۔

میر آیا تھا اس نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے اپنے بیٹے کے لیے۔ریان نے کہا ماہا کو اپنا آپ شل ہوتا محسوس ہوا گلے میں کانٹے چُھبتے محسوس ہوئے اُس نے تو اپنی شادی نام کے باب کا کب کا بند کردیا تھا۔

ڈیڈ۔ماہا کے لب پھڑپھڑائے۔

تم وقت لو سوچنے کا کوئی زور زبردستی نہیں۔ریان نے اس کی حالت سمجھ کر کہا ماہا نے ملیحہ کو ڈورنے والے انداز میں اپنے کمرے میں جاتا دیکھا پر ریان اپنے سالوں پُرانی خواہش پوری ہونے پہ اتنا خوش تھا کے دھیان نہیں دے پایا ماہا اب سمجھ گئ تھی ملیحہ کی ایسی حالت کیوں تھی وہ سب جانتی تھی پر اپنی محبت کے لیے کجھ کہا نہیں لبوں کو سل دیا تھا ماہا کو ملیحہ کی بزدلی پہ انتہا کا غصہ آیا

ماہا ملیحہ کے کمرے میں آئی تو اُس کو کھڑکی کے پاس کھڑا پایا ماہا چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔

یہاں اداس کیوں کھڑی ہو؟ماہا نے ملیحہ سے پوچھا جو اپنا رخ کھڑکی کی طرف کیے جانے کن سوچو میں گم تھی۔

میں کیوں اُداس ہونے لگی میں تو تمہارے لیے بہت خوش ہوں۔ملیحہ اپنا لہجہ ہشاش بشاش کیے بولی

میرے لیے خوش کس بات پہ ہو؟ماہا نے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھا جو اُس کے اندر کی کیفیت بیان کررہا تھا۔

اتنا اچھا ہمسفر جو ملنے والا ہے۔یہ بات ملیحہ نے کس دل سے کہی تھی یہ وہ بس خود جانتی تھی۔

اِدھر دیکھو میری طرف۔ماہا نے اُس کا رخ اپنی طرف کیا۔

تمہیں لگتا ہے میں تمہاری قبر پہ اپنا گھر بناٶں گی؟ماہا نے اس کے ماتھے پہ چپت لگاکر کہا

مطلب؟ملیحہ کو سمجھ نہیں آیا۔

دیکھو ملیحہ میں جانتی ہوں کبھی کبھی میں بہت تلخ ہوجاتی ہوں تمہارے ساتھ روڈ بیہیو کرتی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کے مجھے تم سے پیار نہیں ہم دونوں ساتھ اِس دنیا میں آئی ہیں مجھے تمہاری خوشی اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہے۔ماہا نے نرمی سے کہا

مطلب تم۔ملیحہ سے کجھ بولا نہیں گیا

بلکل میں کبھی اُس انسان سے شادی نہیں کروں گی جس کو تم چاہتی ہوں ویسے بھی میرا دور دور تک شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ماہا کا لہجہ سرد ہوگیا تھا۔

ماہا تم نہیں جانتی تم نے آج مجھے کتنی خوشی دی ہے۔ملیحہ خوشی سے چور لہجے میں بولی

میری دعا ہے تم ہمیشہ خوش رہو۔ماہا نے اس کو اپنے گلے لگاتی ہوئی بولی۔

اور میری خواہش ہے کے وہ انسان میرے روبرو ہو تاکہ میں اس کا گریبان پکڑوں جس نے تمہارے چہرے سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ملیحہ نفرت انگیز لیجے میں گویا ہوئی ماہا نے کوئی حواب نہیں دیا

ڈیڈ کو کیسے راضی کروں گی میرے لیے۔ماہا کو باہر جاتا دیکھ کر ملیحہ نے پوچھا

وہ میرا کام ہے تم خود کو ہر فکر سے آزاد کرو یہ بات سمجھ لو جو چیز تمہاری قسمت میں ہوگی وہ تم سے کوئی چھین نہیں سکتا دیر بدیر ملے گی تمہیں ہی اگر وہ چیز تمہاری قسمت میں نہ ہوئی تو ہزار بار حاصل ہونے کے بعد بھی تم لاحاصل ہی رہوگی۔ماہا نے سنجیدہ لہجے میں بہت کجھ باور کروایا جس کے بعد ملیحہ کجھ اور پوچھنے کے قابل نہیں رہی۔

💕💕

ماں کا فون آیا ماں!!!!!!!

کا فون آیا تیری ماں

کا فون آیا!!!!!!!

میری ماں کا فون آیا

سب کی ماں کا فون

آیا ماں!!!!!!!؟؟؟

یہ کیا بدلحاظی ہے؟ماہا سفید بورڈ پہ ان کو سمجھارہی تھی جب پوری خاموش کلاس میں ہلچل مچ گئ گانے کی آواز سن کر سب کھی کھی کرنے لگے ماہا نے زور سے بلیک مارکر ڈائیس پہ مارا سامنے پوری کلاس میں موت کا سناٹا چھایا گیا کسی کو معلوم نہیں ہوسکا یہ کس کی فون میں گانا چل رہا تھا سوائے احتشام اور فرزام کا جن کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال بھبھو ہوگیا تھا زرجان اچانک سے اپنی فون پہ آتی کال سن کر ہڑبڑا گیا تھا وہ آج اپنا فون سائلنٹ پہ کرنا بھول گیا تھا جس سے اب بُری طرح پھس چُکا تھا ظلم تو یہ تھا نہ جلدی میں اس کا ٹچ ریڈ بٹن پہ لگ کر کال بند کرپارہا تھا نہ ہی فون سائلنٹ پہ ہورہا تھا۔

جس کی فون میں یہ آواز ہے وہ کھڑا ہوجائے۔ماہا نے درشت لہجے میں کہا زرجان لب دانتوں تلے دباتا اٹھ کھڑا ہوا مہرماہ کی آج آتی کال نے اُس کو بُری طرح پھسا چُکی تھی وہ جو ماہا کو ایمپریس کرنے کے چکروں میں تھا اُس کا اثر اُلٹا ہورہا تھا فرسٹ ڈے سے ہی اس کا امیج ماہا کے سامنے کجھ خاص نہیں تھا۔

کلاس سے باہر جائے۔ماہا نے ایک تیکھی نظر زرجان پہ ڈال کر سخت لہجے میں کہا باقی سب حیرانی سے زرجان کو دیکھ رہے تھے کیونکہ ایسا پہلے نہیں ہوا تھا کہ بیچ کلاس میں کوئی استاد اس کو باہر جانے کا کہے سب پروفسرز کا زرجان فیورٹ تھا۔

میں اپنا فون سائلنٹ پہ کرنا بھول گیا تھا۔زرجان نے وضاحت کرنا چاہی۔

میں نے کہا کلاس سے باہر جائے یہ سب میں اپنی کلاس کے وقت برداشت نہیں کروں گی۔ماہا بنا اس کے چہرے پہ موجود شرمندگی کا اثر لیے بولی۔

زرجان کجھ دیر تک ماہا کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اپنا بیگ ہاتھ میں لیے لمبے لمبے ڈگ بھرتا کلاس سے باہر نکل گیا زرجان کے جانے کے بعد کلاس میں سوگواریت جیسی کیفیت چھاگئ تھی ماہا سر جھٹکتی دوبارہ سے مارکر اپنے ہاتھ لیں چُکی تھی۔

تم یہاں یہ تو تمہاری کلاس کا وقت ہے نہ؟عروہ نے کیفے ٹیریا میں زرجان کو خاموش بیٹھا دیکھ کر پاس والی کرسی پہ بیٹھتی پوچھنے لگی۔

میرا دماغ خراب کرنے آئی ہو تو جاسکتی ہو۔زرجان نے اپنی لال انگار ہوتی آنکھوں سے عروہ کو گھور کر دیکھ کر کہا ایک پل کو عروہ کا سانس سینے میں اٹک گیا تھا مگر جلد ہی خود کو کمپوز کرتی بولی۔

میں کیوں تمہارا دماغ خراب کروں گی میں جسٹ ایک بات پوچھی تم نہیں بتانے چاہتے تو کوئی بات نہیں۔زرجان عروہ کی بات پہ کوئی رسپانس نہیں دیا تب تک احتشام اور فرزام بھی وہاں آچکے تھے۔

میم نے آج ویسے زیادتی کی تمہارے ساتھ۔احتشام بیٹھتے ہی بولا۔

کجھ ہوا کیا کلاس میں؟عروہ نے پوچھا احتشام نے مختصر بتایا۔

تم نے ایسکیوز کرنا چاہا تو ان کو تمہاری بات سننی چاہیے تھی ورنہ تم نے کبھی کسی سے معافی مانگی تو نہیں۔عروہ نے کہا

زر خاموش کیوں ہو؟فرزام کو زرجان کی چپ سے وحشت محسوس ہونے لگی۔

ایسے ہی میں ابھی اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔زرجان اپنی جگہ سے اٹھتا بولا اس کا اِرادہ اب یونی کی بیک سائیڈ پہ جانے کا تھا پر گراؤنڈ سے گُزرتے ہوئے اس کی نظر ماہا کے ساتھ چلتے پروفسر منان پہ پڑی تو آنکھوں میں مرچیں پڑنے لگی جو ہنس ہنس کر ماہا کو کیا بتارہے تھے پروفیسر منان تیس سال کے خوش شکل آدمی تھے جو آج کل ماہا کے پیچھے رہتے تھے یہ بات پہلے اُس نے بس سنی تھی مگر آج دیکھ بھی لیا تھا ماہا کی نظر بھی اچانک سے زرجان پہ پڑی تھی کو شکوہ کرتی نظروں سے اُس کی جانب دیکھ پلٹ گیا تھا ماہا زرجان کے اِس طرح دیکھنے پہ کتنی دیر تک کنفیوز ہوتی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

اسلام علیکم!!مرجان آفس سے آتا گاڑی سے باہر نکلا ہی تھا جب ملیحہ نے مسکراکر سلام کیا۔

وعلیکم اسلام!!!مرجان نے نظریں چُراکر جواب دیا۔

کیسے ہو؟ملیحہ نے ہمقدم ہوتے ہوئے خیریت دریافت کی۔

ٹھیک تم کیسی ہو؟مرجان نے جواب دینے کے ساتھ میں پوچھا

میں بلکل ٹھیک تم نے کبھی کوئی کال میسج نہیں کیا ورنہ تو بڑا مجھے دوست کہہ رہے تھے اپنے دوستوں سے اِس طرح لاپرواہ کون رہتا ہے۔ملیحہ نے شکوہ کیا۔

سوری بس وہ مصروفیت زیادہ تھی اِس وجہ سے ورنہ میں لاپرواہ نہیں ہوتا۔مرجان نے وضاحت کی باتوں کے درمیان وہ لان کی طرف آگئے تھے۔

تم نے بنا ماہا کو جانے دیکھے اُس سے شادی کے لیے حامی کیسے بھرلی۔ملیحہ نے وہ سوال کیا جس سے وہ بچنا چاہ رہا تھا۔

مجھے نہیں تھا پتا مما تمہاری بہن کا ہاتھ میرے لیے مانگے گی۔مرجان نے صاف گوئی سے کہا۔

تو تم کیا سمجھے تھے۔ملیحہ کو گونا سکون ملا تھا۔

مجھے لگا وہ تمہارے لیے آرہے ہیں۔مرجان نے بلا جھجھک کہا ملیحہ کو مرجان کی اِتنی صاف گوئی کی امید نہیں تھی وہ مرجان کے اتنے کھلے اعتراف پہ پزل ہوئی تھی۔

میرے لیے کیوں؟ملیحہ نے مزید سننا چاہا

کیا تمہیں اعتراض ہوتا اگر مما تمہاری شادی مجھ سے کرواتی تو۔مرجان اب کی اُس کے روبرو کھڑا ہوتا پوچھنے لگا مرجان کے اِس طرح سامنے آنے پہ ملیحہ فورن سے دو قدم پیچھے ہوئی تھی ملیحہ کی حرکت پہ مرجان مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

بات تو ماہا اور تمہاری ہورہی ہے نہ۔ملیحہ نے جواب دینے سے بچنا چاہا۔

تو میں چاہتا ہوں تم اپنی اور میری بات کرو تاکہ میں کوئی ری ایکشن لوں۔مرجان نے مسکراکر کہا۔

تمہیں کوئی ری ایکشن لینے کی ضرورت نہیں۔ملیحہ مرجان کی بات سن کر سرشار ہوکر بولی

کیوں؟مرجان ناسمجھی سے بولا۔

کیونکہ ماہا خود اِس رشتے کے حق میں نہیں وہ جلد ہی ڈیڈ سے بات کریں گی۔ملیحہ نے بتایا مرجانا بس سرہلاتا اُس کو لیکر اندر کی طرف بڑھا۔

💕💕💕💕💕💕

ڈیڈ میں اندر آجاؤں؟ماہا ریان کے کمرے کا دروازہ نوک کرتی ان سے اجازت چاہی۔

ہاں آجاؤں۔ریان جو آفس کا کام کررہا تھا ماہا کو دیکھ کر مسکراکر کہا ماہا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سینٹر صوفے پہ ٹک گئ۔

کیا بات ہے ماہا پریشان لگ رہی ہو۔ریان نے ماہا کو الجھن میں دیکھ کر کہا۔

ڈیڈ میں اِس رشتے سے راضی نہیں۔ماہا نے گہری سانس بھرکر کہا ریان کا چمکتا چہرہ بُجھ گیا تھا ماہا کی بات سن کر ماہا کو ملال نے آ گھیرا پر وہ مجبور تھی۔

ایک بار مرجان سے مل لوں وہ بہت اچھا لڑکا ہے تمہیں پسند آئے گا۔ریان نے اس کو راضی کرنا چاہا ماہا اپنے ڈوپٹہ کا کونا زور سے مٹھی میں جکڑا۔

ڈیڈ ملیحہ اُس کو پسند کرتی ہے آپ پلیز اس کے بارے میں سوچے۔ماہا نے نام لینے سے گریز برتا

یہ تم سے کس نے کہا۔ریان کو حیرت ہوئی۔

ملیحہ نے خود آپ کو تو ہماری خوشی عزیز ہوتی ہے نہ تو آپ بات کریں انکل میر سے۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا

پر انہوں نے بہت چاہت سے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔

ڈیڈ آپ کو ملیحہ کی بھی چاہت دیکھنی چاہیے آپ کو لگتا ہے میں ایسے انسان سے شادی کروں گی جس کو میری بہن چاہتی ہو۔ماہا نے ریان کی بات پہ کہا۔

دیکھتا ہوں میں۔ریان حقیقتً پریشان ہوگیا تھا ماہا اپنی بات کہہ کر باہر چلی گئ تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم میری روح کی آواز ہو

تم بہت خاص ہو

جستجو میں تھی تمنا کب سے

اِک خوشبو میں لپیٹا راز ہو

تم بہت خاص ہو

تیری ہر بات پہ دل دھڑک جاتا ہے

تم میری ذات کا آغاز ہو

تم بہت خاص ہو

تمہارے لفظ میری سوچ میں سمائے ہیں

روح کا دلفریب ساز ہو

تم بہت خاص ہو

ایک حقیقت بھرا مجاز ہو

تم بہت خاص ہو♡

زر کھانے پہ کیوں نہیں آئے تم؟مہرماہ زرجان کے کمرے کی لائٹ آن کیے زرجان سے بولی جو اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔

بھوک نہیں تھی۔زرجان نے جواب دیا

بینڈج چینج نہیں کی کیا۔مہرماہ نے زرجان کا ہاتھ دیکھ کر استفسار کیا

اب قدرے بہتر ہے ہاتھ۔زرجان گہری سانس لیکر بولا

کسی بات پہ پریشان ہو؟مہرماہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔

نہیں۔زرجان نے یک لفظی جواب دیا

تو پھر منہ کیوں بنا ہوا ہے تمہارا۔مہرماہ مطمئن نہیں ہوئی۔

مما ریان انکل والوں کی طرف سے کیا جواب ملا تھا۔زرجان مہرماہ کی بات نظرانداز کرتا پوچھنے لگا۔

وہ تو راضی ہے بس ماہا سے بات کرنی تھی اب تک تو کر بھی لی ہوگی شاہ کو بتائے گے تو پتا چل جائے گا۔ مہرماہ نے جواب دیا

اگر وہ انکار کرے تو۔

انکار کیوں کرے گی مرجان میں کیا کمی ہے۔مہرماہ کو اپنے بیٹے کی بات پسند نہیں آئی۔

آپ بس امیجن کرے۔زرجان نے اپنی بات پہ زور دیا۔

میں کیوں فضول میں یہ سب سوچو انشااللہ ماہا حامی بھرے گی۔مہرماہ زرجان کی بے قراری سے لاپرواہ اپنی دُھن میں بولی زرجان نے زور سے لب بھینج لیے

💕💕💕💕💕💕

پریشان ہو؟شاہ میر نے آج ایک ضروری میٹینگ میں ریان کی غیر دماغی حالت محسوس کی تو میٹنگ ختم ہوتے ہی پوچھا

شرمندہ ہوں سمجھ نہیں آرہا تم سے کیسے کہوں۔ریان نے کہا

شرمندہ کی کیا بات یہ سب تم پہ سوٹ نہیں کرتا آرام سے بتادو جو بات ہے۔شاہ میر نے کہا

ماہا رشتے سے راضی نہیں اس کا کہنا ہے ملیحہ مرجان کو پسند کرتی ہے۔ریان نے کہتے شاہ میر کو دیکھا جس کے تاثرات نارمل تھے۔

تمہیں بُرا نہیں لگا؟ریان نے پوچھا

بلکل نہیں اِس میں برا لگنے والی کیا بات زندگی بچوں نے گُزارنی ہے ہمیں ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے اگر ماہا نہیں تو ملیحہ ہی اِس میں کوئی بڑی بات نہیں بس ماہ کو ماہا پسند آئی تھی پر میں اس سے بات کروں گا تو وہ سمجھ جائے گی۔شاہ میر نے مسکراکر کہا ریان کی اٹکی سانس بحال ہوئی۔

ٹھیک ہے تم بات کرو پھر میں شادی کی تاریخ طے کریں گے۔ریان نے کہا

بلکل کیونکہ ماہ کا بس نہیں چل رہا وہ مرجان کا ابھی نکاح پڑھوا لیں۔شاہ میر نے ہنس کر کہا

ماؤں کو فکر ہوتی ہے اب دیکھنا مرجان کے بعد ان کو حیات اور زر کی فکر لاحق ہوگی۔ریان نے مسکراکر کہا۔

حیات کے لیے تو کسی بہتر کے انتظار میں ہوں دوسرا زر تو وہ ابھی چھوٹا ہے پانچ چھ سال رہتے ہیں ابھی پھر دیکھتے ہیں۔شاہ میر نے کہا

اچھا اب پراجیکٹ کے بارے میں ڈسکس کرلیں۔ریان نے کہا تو شاہ میر نے سر کو جنبش دی۔

💕💕💕💕💕💕💕

حیات کی شادی کا کیا سوچا ہے؟سارہ بیگم نے مہرماہ سے پوچھا جو آج ان سے ملنے آئی تھی شاہ زیب اور ثانیہ سے تو بات انہوں نے کرلی تھی اِس لیے آج مہرماہ کو دیکھ کر اُس سے باتوں ہی باتوں میں شاہ ویر کا کہنے والی تھی۔

میں نے کیا سوچنا ہے امی جان شاہ نے حیات کی ذمیداری لی ہے کہتا ہے کسی بہتر کے انتظار میں ہے۔مہرماہ نے مسکراکر بتایا

تو کیا اس کو اپنے آس پاس بہتر نظر نہیں آتا۔

مطلب؟مہرماہ کو ان کا جُملا سمجھ نہیں آیا

مطلب یہ ویر اور حیات کے بارے میں کیا خیال ہے۔سارہ بیگم نے اپنی بات کہہ کر مہرماہ کو دیکھا جو گنگ سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

ویر اور حیات؟مہرماہ نے جیسے تصدیق چاہی۔

ہاں کیوں کوئی مسئلا ہے؟سارہ بیگم کو مہرماہ کا اتنا حیرت زدہ ہونا سمجھ نہیں آیا۔

نہیں امی جا مسئلا تو کوئی نہیں دراصل ان دونوں کی طرف دھیان نہیں گیا نہ تو بس۔مہرماہ کو خوش ہوئی تھی سارہ بیگم کی بات سن کر پر یہ بھی سچ تھا اس نے کبھی ان دونوں کا نہیں سوچا تھا مگر جب آج سوچ رہی تھی تو بہت اچھا لگ رہا تھا۔

پھر کیا کہتی ہو؟سارہ بیگم اب مطمئن سی ہوکر بولی۔

میں شاہ سے بات کروں گی پھر آپ کو ساری بات کال پہ بتادوں گی۔مہرماہ نے جواب دیا۔

آج ہی کرلینا لڑکا بڑا بے صبر ہے۔سارہ بیگم نے کہا۔

کیا ویر نے خود آپ سے حیات کا کہا ہے؟مہرماہ نے کُریدہ۔

ہاں اس نے ہی تو کہا۔سارہ بیگم نے بتایا

میں آج ہی کروں گی لگے ہاتھ حیات کے فرض سے بھی سبکدوش ہوجائے گے۔مہرماہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔

💕💕💕💕💕

بھائی آپ اِس رشتے سے خوش ہیں جہاں مما ڈیڈ کررہے ہیں؟زرجان نے اپنا لہجہ سرسری کرکے مرجان سے پوچھا۔

ہاں۔ملیحہ کا خیال آتے ہی مرجان نے مسکراکر کہا زرجان کو اپنا دل جلتا محسوس ہوا۔

آپ کو ماہا کہاں ملی میرا مطلب میم ماہا سے آپ کی ملاقات کب کیسے ہوئی۔زرجان نے دوسرا سوال کیا۔

میری اُس سے ملاقات نہیں ہوئی خیر وہ مجھ سے شادی کرنے میں انٹرسٹڈ نہیں۔مرجان نے آرام سے کہا ایک پل کو زرجان کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔

تو آپ کی خوشی کی وجہ یہ ہے کے آپ کی شادی وہاں نہیں ہوگی۔زرجان کو مرجان کا پہلا جواب یاد آیا تو پوچھا۔

وہاں ہوگی پر اُس سے نہیں ہوگی۔مرجان نے کہا زرجان کو فلحال مرجان یا کسی کی بھی پہلیوں میں دلچسپی نہیں تھی وہ بس اپنے مطلب کی بات جاننا چاہتا تھا۔

صاف صاف بات کریں نہ۔زرجان نے چڑ کر کہا۔

مائے ڈیئر برادر تم فلحال یہ فلم دیکھو باقی سب تمہیں سمجھ آجائے گا۔مرجان نے مسکراکر میز سے ریموٹ اٹھاکر زرجان کو دیکر کہا خود وہ ٹیوی لاوٴنج سے نکلتا چلاگیا زرجان کتنی دیر مرجان کی بات کا مطلب اخذ کرنے لگا پر سمجھ نہیں پایا وہ بس اُس میں مطمئن ہوگیا ماہا مرجان میں دلچسپی نہیں رکھتی اُس کے علاوہ پھر مرجان کس سے شادی کرتا ہے یہ بات جاننے میں زرجان کو دلچسپی نہیں تھی وہ جو بہت دنوں سے سننا چاہتا آج سن چُکا تھا جس پہ اس کے دل کو قرار آیا تھا زرجان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی زرجان خود بھی اٹھتا گُنگناتا کمرے کی جانب گیا۔

دل کو قرار آیا

پہلی پہلی بار آیا

💕💕💕💕💕

شاہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔مہرماہ نے شاہ میر کو کمرے میں آتا دیکھا تو کہا۔

مجھے بھی آپ سے بات کرنی ہے۔شاہ میر ڈریسنگ ٹیبل پہ گھڑی اُتارتا بولا۔

اچھا تو پہلے تم کہو۔مہرماہ نے کہا

نہیں پہلے آپ کہے۔شاہ میر نے کہا

شاہ اب بتادو کیا بات ہے مجھے صبر نہیں ہو رہا اپنی کہنے کی بے صبری ہے۔مہرماہ نے نروٹھے پن سے کہا۔

میری آج آفس میں ریان سے بات ہوئی

تو کیا روز نہیں ہوتی۔مہرماہ شاہ میر کی بات بیچ میں کاٹ کر بولی۔

ہوتی ہے پر آج اس نے ماہا کا جواب بتایا۔شاہ میر نے گہری سانس بھر کر کہا

اچھا پھر مان گئ ہوگی ماہا۔مہرماہ خوش ہوکر کہا شاہ میر نے نظر چراگیا جانتا تھا جو بات وہ بتائے گا مہرماہ کو دُکھ ہوگا۔

ماہا فلحال شادی نہیں کرنا چاہتی۔

کوئی بات نہیں ابھی ہم نکاح کردے گا رخصتی پھر ایک دو سال بعد۔مہرماہ نے آرام سے کہا

ملیحہ مرجان کو پسند کرتی ہے ہمیں مرجان اور اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔شاہ میر نے کہا مہرماہ کی خوشی مانند پڑی۔

ملیحہ بھی پسند ہے مجھے پر میں ماہا

ماہ ہمیں بچوں کی خوشی کے بارے میں سوچنا چاہیے میں جانتا ہوں آپ کو ماہا پسند تھی پر کیا پتا مرجان بھی ملیحہ کو پسند کرتا ہو بس ہمارے لیے اُس نے ماہا کے لیے ہاں کی ہو۔مہرماہ کجھ کہنا چاہ رہی تھی جب شاہ میر بیچ میں بولا۔

مرجان سے میں نے پوچھا تھا اُس نے تو کبھی نہیں بتایا۔مہرماہ نے کہا

پتا نہیں پر میں امی ڈیڈ سے بات کروں آپ منگنی کی رسم کر آئیے گا پھر شادی کی تاریخ طے۔شاہ میر نے مہرماہ کا دھیان دوسری طرف کرنا چاہا۔

ٹھیک ہے۔مہرماہ نے کہا

آپ بھی کوئی بات کرنے والی تھی۔شاہ میر کو یاد آیا تو کہا

میں آج امی کی طرف گئ تھی تو انہوں نے حیات کے بارے میں بات کی۔مہرماہ نے بتایا

اچھا کیا بات کی؟شاہ میر نے جاننا چاہا

ویر اور حیات کی شادی مطلب یہ کے وہ حیات کا رشتہ مانگنا چاہتے ہیں ویر کے لیے۔مہرماہ نے شاہ میر کا چہرہ دیکھ کر بتانا شروع کیا پر وہ اندازہ نہیں لگا پائی شاہ میر کو یہ بات پسند آئی یا نہیں۔

آپ کو لگتا ہے ویر حیات کے لیے ٹھیک رہے گا یا حیات ویر کے لئے راضی ہوگی۔شاہ میر مہرماہ سے پوچھا

بلکل ویر حیات کے لیے پرفیکٹ لائف پارٹنر ثابت ہوگا میرے بھتیجے میں کیا کمی ہے جو حیات راضی نہیں ہوگی۔مہرماہ نے تیز آواز میں کہا

آرام سے میں نے ایسے ہی بات کی۔شاہ میر نے مسکراکر کہا۔

حیات سے اُس کی رضامندی جان لوں پھر دیکھتے ہیں اس کا کیا جواب ہے۔شاہ میر نے پھر کہا۔

شاہ تم نے اس کو کنونس کرنا ہے اگر وہ نخرے کریں تو میں بتارہی ہوں حیات کی شادی ویر سے ہی ہوگی۔مہرماہ نے اٹل انداز میں کہا۔

ماہ شادی کے لیے دونوں طرف سے باہم رضامندی ہونی چاہیے اگر حیات نہیں مانیں گی تو میں یا آپ اس کو فورس نہیں کرے گے۔شاہ میر نے مہرماہ کو سمجھاتے ہوئے کہا

تمہیں ایسے کیوں لگتا ہے حیات نہیں مانے گی۔

کیونکہ وہ دونوں فرینڈز ہیں۔شاہ میر کندھے اُچکاتا بولا۔

اپنے اندازے نہیں لگاؤ اگر لگارہے ہو تو اچھے اچھے لگاؤ۔مہرماہ نے گھور کر کہا تو شاہ میر ہنس دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

یار زر توں نے ایک بات نوٹ کی ہے پروفیسر منان آج کل زیادہ ہی میم ماہا کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔وہ تینوں لائبریری میں تھے وہاں جب احتشام نے ماہا کو منان کے ساتھ آتا دیکھا تو کہا زرجان نے کتاب سے نظر ہٹاکر دیکھا تو ماہا سنجیدہ چہرہ لیے ان کی کوئی بات سن رہی تھی زرجان کے برداشت کرنے سے باہر تھا تبھی ایک خیال اُس کے دماغ میں کوندا جس پہ اُس کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی تھی۔

میں آتا ہوں۔زرجان اپنی ایک کتاب اٹھاتا ہوا بولا۔

کدھر؟فرزام نے پوچھا۔

اِدھر۔زرجان نے سامنے کی طرف اشارہ کیا کہا جہاں ماہا اور منان بیٹھے تھے فرزام نفی میں سرہلاتا رہ گیا پر احتشام سمجھ نہیں پایا۔

اسلام علیکم !!!زرجان ان کے پاس کھڑا ہوتا بولا

یس زرجان کوئی کام تھا۔پروفیسر منان نے سامنے زرجان کو کھڑا دیکھ کر پوچھا

جی پر آپ سے نہیں میم ماہا سے۔زرجان نے مسکراکر کہا

ابھی تو وہ بزی ہیں بعد میں آجانا۔پروفیسر منان نے کہا

سوری سر وہ تیس منٹ بعد ہماری کلاس ہے میرا ابھی سمجھنا ضروری ہے۔زرجان نے چہرے پہ معصومیت سجاکر کہا

تو کلاس میں پوچھ لینا۔پروفیسر منان کو اِس وقت زرجان کی مداخلت بلکل پسند نہیں آئی تھی کتنے اصرار کے بعد وہ ماہا کو اپنے ساتھ لائبریری آنے پہ راضی کربیٹھے تھے پر بیچ میں زرجان آگیا۔

بیٹھو اور بتاؤ کیا مسئلا ہے۔ماہا نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا ساتھ میں زرجان کو کرسی پہ بیٹھنے کا بھی کہا زرجان فٹ سے بیٹھ گیا

وہ کل آپ جو پڑھا رہی تھی اُس چیپٹر کی مجھے کجھ سمجھ نہیں آئی اس کے بارے میں ڈسکشن کرنی تھی۔زرجان نے کہا

زرجان کلاس میں دھیان دیتے تو سمجھ آجاتا نہ۔پروفیسر منان نے بمشکل اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے کہا زرجان کو بہت ہنسی آئی ان کا تپا تپا چہرہ دیکھ کر۔

ضرور پر میم نے مجھے کلاس سے بے دخل کرلیا تھا۔زرجان ماہا کی طرف دیکھ کر بولا ماہا نے گھور کر اُس کو دیکھا پھر کتاب اپنی جانب کھسکائی۔

کیا سمجھ نہیں آرہا۔ماہا نے پوچھا تو زرجان نے بتایا ماہا نے آرام سے اس کو سمجھاتی گئ جو زرجان پہلے سے ہی جانتا تھا پر وہ ایسے ری ایکٹ کرنے لگا جیسے وہ سمجھ نہیں پارہا ہو مقصد بس اس کو پروفیسر منان سے دور رکھنا تھا۔پروفیسر منان پہلے تو دیکھتے رہے مگر جب ان دونوں کو دھیان کتاب پہ دیکھا تو صبر کا گھونٹ بھر کر وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔زرجان رلیکس سا ماہا کو دیکھنے لگا جو اس کو سمجھانے میں محو تھی زرجان کی نظر ماہا کے گال پہ پڑی جہاں بات کرتے وقت اُس کا ڈمپل ہلکا سا شو ہورہا تھا زرجان کا دل ڈوب کر اُبھرا تھا۔

اب ٹھیک ہے آگئ سمجھ؟ماہا نے زرجان کو دیکھ کر کہا جو مگن انداز میں اُس کو نہارنے میں مصروف تھا۔

زرجان!!!!!ماہا نے اب کی زور سے اُس کا نام لیا زرجان ہڑبڑا کر سیدھا ہوا۔

جی میم سوری۔زرجان خجل ہوتا بولا۔

سمجھ آیا کجھ یا نہیں؟ماہا نے سنجیدگی سے پوچھا

آگیا آپ کا شکریہ۔زرجان نے مسکراکر کہا

ٹھیک ہے میری کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے تیس منٹ تو تم نے سمجھنے میں لگادیئے۔ماہا کھڑی ہوتی ہوئی بولی

بس وقت گُزرنے کا پتا نہیں چلا۔زرجان بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا اُس کے رگ رگ میں سکون کی لہر ڈورگئ تھی یہ تیس منٹ اُس کی زندگی کے خوبصورت لمحے تھے جو اُس نے ماہا کے ساتھ گُزارے تھے چاہے جیسے بھی پھر۔

مجھے تو دیر ہوگئ نہ۔ماہا عجلت میں کہتی لائبریری سے باہر چلی گئ زرجان مسکراتا اس کو دیکھنے لگا۔

تجھ سے گفتگو دیر تک چلے

اِس لیے تیری ہر بات سے اختلاف کیا

💕💕💕💕💕💕💕

حیات کمرے میں بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی تھی ساتھ میں پاپ کارن منہ میں ڈال رہی تھی دروازہ نوک ہونے پہ جب شاہ میر اور مہرماہ کو ایک ساتھ اپنے کمرے میں آتا دیکھا تو فورن سیدھی ہوکر بیڈ سے اُٹھی۔

اللہ خیر۔حیات نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا شاہ میر اُس کی اداکاری پہ ہنس دیا مہرماہ نفی میں سرہلاتی مسکرادی۔

بات کرنی تھی سوچا آجائے۔شاہ میر نے کہا

ڈیڈ بیٹھے تو سہی پھر باتیں ہوتی رہے گی۔حیات نے بیڈ پہ چادر سائیڈ پہ کرکے بیڈ شیٹ درست کرکے ایسے کہا جیسے شاہ میر پہلی دفع یہاں آیا ہو۔

کیا حشر کر ڈالا ہے کمرے کا۔مہرماہ نے تاسف سے کہا۔

اچھا ہے نہ۔حیات ڈھیٹ پن سے مسکراکر بولی

حیات بیٹھو بات کرنی ہے۔ماں بیٹی میں بحث ہونے سے پہلے شاہ میر نے کہا

جی ڈیڈ کیا ہے بات ہے جو آپ بارڈی گارڈ کے ساتھ آئے۔حیات نے پہلے سنجیدگی سے پھر مہرماہ کو دیکھ کر شرارت بھرے لہجے میں کہا

ویر کا رشتہ ہے تمہارے لیے تمہاری بڑی ماں چاہتی ہیں تم ان کے گھر کی بیٹی بنو۔شاہ میر نے اپنی بات شروع کی۔

رشتہ ویر کا میرے لیے ویر اپنا شاہ ویر۔حیات کو یقین نہیں آیا جیسے۔

کیا پانچ چھ اور شاہ ویر ہیں کیا یہاں؟مہرماہ نے اس کی ایسے ری ایکشن پہ سوال کیا۔

نہیں وہ

تمہیں کوئی اعتراض ہے ویر سے شادی کرنے پہ تم بلاجھجھک بتا سکتی ہو تمہیں فیصلہ کا پورا اختیار ہے۔شاہ میر نے اس کو الجھتا دیکھ کر نرمی سے بولا۔

شادی کرنا ضروری ہے کیا؟حیات سر کُھجاتی بولی۔

ضروری کا تو نہیں پتا پر سنت ضرور ہے۔شاہ میر حیات کو اپنا ساتھ لگائے بولا۔

ڈیڈ مجھے آپ کے کسی فیصلے پہ کوئی اعتراض نہیں۔حیات کی بات پہ شاہ میر کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ وہی مہرماہ بھی طمانیت سے مسکرا پڑی۔

💕💕💕💕💕

آج مہرماہ،ہانم بیگم،سارہ بیگم،ہانیہ،اور حیات ریان کے یہاں منگنی کی رسم کرنے آئی تھی ملیحہ سرشار سی اپنے کمرے میں بیٹھی اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دے رہی تھی پاس ماہا کھڑی اُس کا ڈوپٹہ سیٹ کررہی تھی۔ملیحہ نے گلابی کلر کا خوبصورت گھیردار فراق پہنا تھا جس کے باریک سفید موتیاں کو جھرمٹ تھا بالوں کو اُس نے کھلا چھوڑ رکھا تھا چہرے پہ نفاست سے کیے میک اپ اور گلابی کلر کی لپ اسٹک لگائے ملیحہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی جس کو چاہا اُس کو پانے کی خوشی نے اس کے چہرے پہ الگ رونق دی تھی۔

ماشااللہ میری بہن بہت پیاری لگ رہی ہے۔ماہا نے ملیحہ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔

ویسے اگر مرجان خود آتا مطلب ہال میں انگیجمنٹ کی رسم ہوتی تو زیادہ مزہ آتا پر خیر۔ملیحہ نے حسرت بھرے لہجے میں کہا

آج کوئی بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔حیات کمرے میں آتی ملیحہ کو دیکھ کر بولی جو اب بھر بھر کر اپنی کلائیوں میں چوڑیاں پہن رہی تھی۔حیات خود آج لائٹ گلابی کلر کی ڈھیلی شرٹ ٹراؤزر پہنے بالوں کی پونی ایک سائیڈ پہ کیے وہ بھی پیاری لگ رہی تھی میک اپ کے نام پہ اُس نے بس گلابی لپ گلوس لگایا تھا۔

شکریہ جناب۔ملیحہ نے سر کو جنبش دے کر ادب سے کہا

آپ تیار نہیں ہوئی؟حیات نے ماہا سے پوچھا جو سادہ حلیے میں تھی براؤن لمبی قمیض کے ساتھ سفید پاجاما پہن رکھا تھا جب کی بھورے بال جوڑے میں قید تھے پر وہ اپنے لاپرواہ حلیے میں بھی بہت دلکش لگ رہی تھی۔

سب آپس میں ہی تو ہے تیار کیا ہونا۔ماہا نے سرسری سا جواب دے کر میک اپ کا سامان سمیٹا۔

تمہاری تیاری ہوگئ ہے تو چلے باہر انگھوٹی کی رسم ہونی ہے۔حیات نے ملیحہ سے کہا۔

چلتے ہیں پھر میں پکچرز بناؤں گی۔ملیحہ احتیاط سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

پھر بھائی کو بھی تو بھیجنی ہے۔حیات نے شرارت سے کہا۔

ماہا سب سامان سیٹ کرنے کے بعد باہر جانے والی تھی جب موبائل کی رنگٹون نے اس کا دھیان اپنی طرف کیا۔ماہا نے یہاں وہاں دیکھنا چاہا تو سائیڈ ٹیبل پہ ملیحہ کا فون بج رہا تھا۔

اففف ملی جانے کب عقل آئے۔ماہا بڑبڑاتی فون ہاتھ میں لیا تو اسکرین پہ آنے والی ہستی کی کال پہ تصویر دیکھ کر اُس کو چار سو چالیس کا جھٹکا لگا تھا موبائل بے ساختہ اس کے ہاتھ سے گِر کر نیچے ماربل پہ پڑا جب کی ماہا کی آنکھیں پتھرا سی گئ تھی اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا تقدیر اُس کے ساتھ ایسا مذاق بھی کرے گی ماہا شل ہوتے وجود کے ساتھ گِرنے والی تھی پر جلدی سے میز پہ ہاتھ رکھ کر خود کو سہارا دیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

اکیلی ہو؟ماہی ہوٹل کے باہر بینچ پہ بیٹھی تھی جب مرجان فاصلے پہ بیٹھ کر بولا۔

نہیں پچاس باڈی گارڈ میرے پیچھے کھڑے ہیں بیس میرے اگل اور بگل میں بیٹھے ہیں باقی بچے دس جو میرے لیے کھانے کا احتمام کرنے گئے ہیں۔ماہی بڑی نے بڑی سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھ کر کہا مرجان ناچاہتے بھی ہنس پڑا

مذاق اچھا کرلیتی ہو۔مرجان نے کہا

پتا ہے مجھے۔ماہی ناک سکوڑ کر بولی

مجھے کجھ کہنا ہے تم سے۔مرجان نے کہا

کہو؟ماہی نے اجازت دی۔

مجھے تم سے محبت ہوگئ ہے۔مرجان نے دل پہ پتھر رکھ کر اِظہارِ محبت کیا۔

کیا کہا محبت ہوش میں تو ہو میاں جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور تم محبت کے داعویدار بن کر آگئے۔ماہی کو مرجان کی دماغی حالت پہ شک گُزرا۔

محبت کا کیا ہے وہ اگر ہونی ہو تو دو گھڑی میں ہوجاتی ہے اگر نہ ہونی ہوتو پوری زندگی ایسے گُزرجاتی ہے۔مرجان اپنا غصہ دباکر بولا اُس کو سخت چڑ تھی ماہی کے ایٹیٹیوڈ سے جس کو وہ اب توڑ کر انا کی تسکین چاہتا تھا۔

اچھا اس فلسفے کو میں نہیں مانتی۔ماہی اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

کہاں جارہی ہو میری بات کا جواب تو دو۔مرجان اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔

دیکھو بھائی

بھائی تو مت کہو۔مرجان نے بیچ میں ٹوکا

اچھا دیکھو مرجان ابھی ہماری عمر پیار محبت کی نہیں اِس لیے صبر کرو کیا پتا آگے جاکر تمہیں کسی سے سچ مچ میں محبت ہو۔ماہی نے سمجھانے والے انداز میں کہا

ہم دونوں بالغ ہے۔مرجان نے دانت پیسے۔

میں یہاں بڑی مشکل سے اجازت لیکر آئی ہوں صرف اور صرف گھومنے ناکہ عشق معشوقی کرنے اگر میرے گھر میں کسی کو پتا چل گیا نہ تو میں رہ جاؤں گی بس اپنے گھر تک جو میں نہیں چاہتی کیونکہ مجھے اپنی آزادی بہت پیاری ہے۔ماہی اُس کی باتوں میں آئے بغیر بولی

تو میں کیا کہہ رہی ہوں بس اپنی محبت کا اظہار تم بس اُس کا اچھا سا رسپانس دو۔مرجان نے کہا

کیا رسپانس دوں میرے رسپانس دینے سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔ماہی نے بازوں سینے پہ باندھ کر استفسار کیا

یہ ہوگا کے میں پاکستان اپنے والدین سے بات کروں گا۔مرجان نے کہا

نا بابا نا میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے سب سے زیادہ اپنی پڑھائی سے محبت ہے۔ماہی نے کانوں کو ہاتھ لگاکر کہا مرجان بس اِس ڈھیٹ ہڈی کو دیکھتا رہ گیا جس کے چہرے پہ اپنے لیے اظہار محبت پہ تھوڑی بھی شرم حیا یا زرہ جو سرخ پن نظر آیا ہو جو عام طور پہ ہر لڑکی کے چہرے پہ رنگ بکھر جاتے ہیں۔

تو پڑھ لینا میں یا میری فیملی کونسا منع کرے گی۔مرجان کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو شوٹ کردیتا۔

مجھے ڈبل ایم بی اے کرنا ہے۔ماہی نے مسکراہٹ دانتوں تلے دبائے کہا مرجان خود کو بس صبر کی تلقین کرتا رہ گیا۔

💕💕💕💕💕

یہ سلسلہ ایک ماہ تک چلتا رہا ماہی جہاں جہاں جاتی مرجان اس کے پیچھے پیچھے وہاں آجاتا پھر اپنی محبت کا اظہار کردیتا جس پہ اس کی فرینڈز ہاں کرنے کو بولی پر ماہی کو اپنی چھٹی حس ہمیشہ خبردار کرتی رہتی جس سے اُس کو مرجان کی کسی بات پہ بھی نزاکت نہیں لگتی

مگر کب تک وہ مرجان کو انکار کرتی یا ٹالتی اُس کا دل بھی پِگھل رہا تھا جس سے وہ سہی غلط کا فرق کرنا بھول رہی تھی اُس کو مرجان کی باتیں سچ لگنے لگی تھی اُس کا اظہار محبت سننا اچھا لگتا تھا لاشعوری طور پہ اس کو مرجان کا انتظار رہتا تھا آج بھی کجھ ایسا ہی تھا وہ واک پہ نکلی تھی مگر سوچے مرجان کے ارد گرد تھی تبھی وہ اُس کے سامنے آیا۔

مرجان تم۔ماہی نے حیرت کا اظہار کیا جب کی دل کو کہیں سکون ملا تھا۔

تم چاہوں مر ہٹا کر بس جان کہہ سکتی ہو۔مرجان نے آنکھ ونک کرتے کہا جس پہ ماہی کا چہرہ بلش کرنے لگا ماہی کے چہرے پہ خوبصورت رنگ دیکھ کر ایک پل کو مرجان کا دل کیا قدم واپس لیں لے اُس کا دل کیا سامنے کھڑے وجود کو توڑنے سے بہتر ہے وہ یہاں سے لوٹ جائے پر بس ایک پل کے لیے دوسرے پل وہ اپنے خول میں واپس آگیا۔

زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ماہی نے مصنوعی گھوری سے نواز کر کہا۔

اچھا نہیں ہوتا تم سے ایک بات کرنی تھی۔مرجان نے کہا۔

کیا بات؟ماہی نے پوچھا۔

میں ایک ویک بعد پاکستان واپس جارہا ہوں۔مرجان کی بات ماہی کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ لگی۔

مجھے کیوں بتارہے ہو۔ماہی نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔

کیونکہ میں چاہتا ہوں اب مجھے میری محبت کا جواب محبت سے ملنا چاہیے۔مرجان اُس کے روبرو ہوکر بولا۔ماہی نے نظریں چُرالی۔

ماہی میں جانتا ہوں تم مجھے پہ یقین نہیں کر پارہی پر تم بھی مجھے چاہنے لگی

ایسا کجھ نہیں۔ماہی نے اس کی بات بیچ میں اچک لی۔

ایسا ہی ہے تم بس ماننا نہیں چاہتی اِس سے پہلے تمہیں پچھتانا پڑے میں کل شام ایک ایڈریس سینڈ کروں گا وہاں آجانا میری محبت کا جواب دینا اگر نہیں تو دوسرے دن تیار رہنا میری موت کی خبر سننے کے لیے۔مرجان اتنا کہہ کر وہاں سے چلاگیا۔ماہی ساکت سی اس کو جاتا دیکھنے اس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے اگر وہ کل نہیں گئ تو کیا سچ میں؟اِس سے آگے ماہی سوچنے لگی تو کپکپا اٹھی۔

"دل کہہ رہا ہے* تجھ پہ بھروسہ کروں*

مگر

حالات کہہ رہے* ہیں سب فریب ہیں*۔۔۔

💕💕💕💕💕

ماہی زیادہ مت سوچو ہاں کہہ دو وہ سچا ہے ورنہ کون اتنا خوار ہوتا ہے کسی کے پیچھے۔فروزین نے کمرے میں پریشانی سے چکر لگاتی ماہی سے بولی۔

تمہاری بات ٹھیک پر ڈیڈ کو پتا چل گیا پھر کیا ہوگا۔ماہی نے کہا

تم کونسا کورٹ میریج کررہی ہو بس اظہار ہی کرنا ہے دوسرا یہ ان کو بتائے گا کون ان کو الہام ہونے سے تو رہا ویسے بھی ان کے مطابق تم دبئ میں ہو ناکہ یورپ میں۔فروزین نے جیسے ہر مسئلے کا حل دیا۔

ماہی تمہارا دل کیا کہتا ہے؟مانوی نے سنجیدگی سے پوچھا

پتا نہیں میرا دل تو صبح سے گھبراہٹ کا شکار ہے۔ماہی نے بتایا

یہ سب اُس لیے کیونکہ تمہیں ڈر ہے اس کے دور جانے کا۔فروزین نے دور کی کوڈی اُچھالی۔

میں جاؤں گی پھر جو ہوگا اللہ مالک ہے۔ماہی ایک نتیجے پہ پہنچ کر بولی۔

یہ ہوئی نہ بات۔فروزین نے خوشی سے نعرہ لگاکر کہا۔

شام کے وقت ماہی اپنی فرینڈز کے ساتھ مرجان کی بھیجی ہوئی لوکیشن پہ موجود تھی مرجان نے اپنے ساتھ ان کو بھی لانے کا کہا تھا جو بات اُس کو عجیب لگی پر یہاں آکر اُس کو مزید حیرانگی بھی ہوئی کیونکہ یہاں لوگوں کا ہجوم تھا اکٹھا تھا سب کپلز کی صورت میں کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے تو کوئی ڈانس کرنے میں مگن تھا ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کسی نے پارٹی پہ انوائٹ کیا ہو ماہی کو سمجھ نہیں آیا مرجان اگر اس کا جواب سننا چاہتا ہے تو اتنے لوگوں کو کیوں جمع کیا ہوا ہے۔

یہ مرجان کو تم سے اظہارِ محبت کا جواب سننا ہے یا قومی خطاب کروانا ہے جو اتنے لوگوں کو انوائٹ کیا ہے۔مانوی سے رہا نہیں گیا تو کہہ ڈالا

میں بھی وہی سوچ رہی تھی عام طور پہ تو لڑکے یہی چاہتے ہیں کہ ڈسٹربنس نہ ہو کسی کی آرام سے ایک دوسرے کی سنے سنائے پر یہ مرجان تو اپنے انوکھے نام کی طرح کام بھی انوکھا کررہا ہے۔فروزین نے بھی تعجب سے کہا ماہی کا دھیان سامنے آتے مرجان کی طرف تھا جو مسکراتا ان کی طرف آرہا تھا۔

مجھے یقین تھا تم ضرور آؤں گی۔مرجان فاتحانہ لہجے میں بولا۔

ہماری مہربانی ہے ورنہ یہ نہ آتی۔فروزین نے ہنس کر کہا۔

جو بھی آئی تو سہی نہ۔مرجان نے کہا

یہ اتنے لوگ کیوں؟ماہی نے پوچھا۔

میں چاہتا ہوں تم اِن سب کے سامنے کہوں تمہیں میری محبت قبول ہے اور مجھے بھی تم چاہتی ہو۔مرجان نے وجہ بتائی

پر کل تم نے ایسا تو کجھ نہیں کہا تھا۔ماہی نے کہا۔

سرپرائز۔مرجان ہاتھ کھڑے کیے بولا

ماہی ریڈی رہو۔مانوی نے اُس کے کان میں سرگوشی کرنے والے انداز میں کہا۔

کم۔مرجان مسکراتا اس کو اپنے ساتھ لے آتا سب کے درمیان کھڑا ہوا تھا نعمان وہاں آکر گلاب کا پھول اُس کو تھام کر جاچُکا تھا۔

کِس چیز کی انتظار ہے جو کہنا کہہ دو۔مرجان نے مسکراکر کہا

مرجان مجھے آکورڈ فیل ہورہا ہے۔ماہی نے گہری سانس بھر کر کہا

کجھ اور مت سوچو بس یہ محسوس کرو کے یہاں میں اور تم ہے دوسرا کوئی نہیں۔مرجان نے اُس کی مشکل آسان کی۔

دس از فار یو۔ماہی نے نعمان کا دیا پھول مرجان کی طرف بڑھا کر کہا مرجان کے چہرے کے تاثرات یکدم بدلے اُس نے دو انگلیوں سے پھول کو تھام لیا ماہی کو مرجان کی یہ حرکت ناگوار گُزری پر نظرانداز کرگئ کیونکہ اب سب کی توجہ کا مرکز وہ دونوں تھے۔

کجھ ٹائم پہلے تم نے اپنا محبت کا اظہار کیا تھا آج میں اُس کا جواب دینا چاہتی ہوں۔ماہی نے سوکھے لبوں پہ زبان پِھیر کر کہا دل سے بار بار آواز آرہی تھی لوٹ جائے پر وہ اُس کی آواز اٙن سنی کرتی مرجان کے سامنے گھٹنوں کے بِل بیٹھ گئ۔مانوی اور فروزین نے داد دیتی نظروں سے اُس کو دیکھا تھا مرجان نے ماہی کے خوبصورت سِراپے سے نظریں چُرالی تھی جو فل بلیک کلر کے ٹاپ اور جینز میں تھی بھورے بال کُھلے ہوئے تھے چہرہ بنا کسی میک اپ کے بھی چمک رہا تھا مرجان کا دل بے ایمان ہونے کو تھا۔

تم نے کل کہا تھا یو لوٙ می میں کہہ رہی ہوں وِل یو میری می۔ماہی نے اپنی بھوری آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھ کر کہا مرجان دو قدم پیچھے ہوا۔

گائیز کیا تم سب لوگوں میں سے کوئی یہ بتاسکتا ہے آج کونسی تاریخ ہے۔مرجان بانہیں کھول کر ان سب کی طرف دیکھ کر بولا ماہی نے ناسمجھی سے اُس کی طرف دیکھا جو اُس کو نظرانداز کررہا تھا۔جب کی سب لوگ اب زوردار آواز میں دو اپریل دو اپریل کہہ کر چیخ رہے تھے۔

سو مس واٹ ایور۔مرجان چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سجاکر ماہی کی طرف آیا جو سمجھنے کی کوشش میں تھی۔

کل فرسٹ اپریل تھا اگر میں نے ایسا کجھ کہہ بھی دیا تو تم نے سیریسلی نہیں لینا چاہیے تھا۔مرجان نے اجنبی نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا مرجان کی بات پہ ماہی سکتے میں چلی گئ تھی اس کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے محسوس ہورہے تھے۔

کیا بکواس ہے یہ۔مانوی مرجان پہ زور سے چلائی۔

شانت شانت۔مرجان کانوں پہ ہاتھ رکھ کر دل جلانے والی مسکراہٹ سجاکر بولا مانوی کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مرجان کا حشر نشر کردیتی۔

آپ لوگ بتائے اپریل میں تو یہ عام بات ہے نہ۔مرجان نے پھر زوردار آواز میں کہا تو سب اس کی بات سے متفق ہوئے۔ماہی لڑکھڑا کر سیدھی ہوئی تھی اُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا مرجان اتنے سارے لوگوں کے سامنے تزلیل کرے گا آخر اس کا قصور کیا تھا جو سب کے سامنے اُس کی عزت دوکوڑی کہ کررہا تھا ماہی نے ساکت نظروں سے آس پاس دیکھا جہاں سب اس کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے تو کِن کی نظروں میں اس کے لیے افسوس تو کجھ جانے کیا بول رہے تھے ماہی کا دلا چاہا زمین پھٹے اور اُس میں سما جائے۔

اتنی گھٹیا حرکت کی وجہ جان سکتی ہوں؟ماہی نے کاٹ دار لہجے میں کہا مرجان نے اچانک ماہی کی آواز پہ اس کو دیکھا جس کی نظروں میں جانے کیا تھا جو اُس کا دل لرز اٹھا تھا۔

یہ میرا بدلا تھا ڈیئر ماہی جو تم نے ہزاروں لوگوں کے درمیان مجھے ہرا کر سب کے سامنے شرمندہ کیا تھا۔مرجان چلتا ہوا ماہی کے کان کے پاس آتا بولا ماہی کو افسوس ہوا جو ایک ہار کی وجہ سے اتنا گِرگیا تھا۔

میری ذات آدھی رہ گئ

کسی کا کھیل پورا ہوا۔

تم مرد ہوتے ہی گھٹیا ہو۔ماہی نے چیخ کر کہا۔

ماہی چلو یہاں سے۔فروزین اس کا بازوں پکڑ کر بولی۔

چھوڑو مجھے یہ کمینہ ہوتا کون ہے میرا تماشا بنانے والا میں اِسے جان سے ماردوں گی۔ماہی آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی بھوری آنکھیں میں لال ڈورے نظر آنے لگے تھے عقیل نے افسوس سے اپنی دوست کو دیکھا کتنا منع کیا تھا اُس نے پر وہ تو نعمان کی باتوں میں ایسا آیا کے بس

تم کون ہوتی تھی سب کے سامنے مجھے چِڑانے والی۔مرجان نے بھی اس کے انداز میں کہا

اگر ہارنے سے اتنا ڈر لگتا ہے تو سہی سے تیاری کرلیتے نہ آتا کجھ ہے نہیں بعد میں بدلا بدلا کرتے پِھرتے ہیں۔ماہی اپنا بازوں فروزین سے چھڑواتی مرجان کے چہرے پہ تھوک کر بولی مانوی نے حیرت سے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا مرجان غصہ سے لال ہوتا اس کو مارنے کی طرف بڑھا پر عقیل بیچ میں آگیا۔

جان ہوش سے کام لو۔

یہ دو ٹکے کی لڑکی میرے منہ پہ تھوک گئ اور تم کہہ رہے ہو میں ہوش میں آوٴں۔مرجان ہذیاتی انداز میں چیخا ماہی کے اندر چین پڑگیا تھا مرجان کو ایسے دیکھ کر۔

جو تم نے میرے ساتھ آج کیا ہے نہ میرے دل کے ساتھ تم نے کِھیلا ہے ایک دن یہی کجھ تمہارے سامنے آئے گا تمہاری زندگی سے سکون چلا جائے گا تم سکون کی تلاش کروگے پر تب تک نہیں ملے گا جب تک میں معاف نہ کرودں۔ماہی نے سرد سپاٹ انداز میں کہا تھا۔

بھول ہے تمہاری۔مرجان نفرت انگیز نظروں سے اس کو گھور کر بولا۔

حقیقت ہے۔ماہی نے کہا۔

ماہی تم چلو اب۔مانوی سامنے آتی بولی ماہی کی شعلہ برساتی نظریں مرجان پہ تھی۔فروزین جیسے تیسے کرتی ماہی کو اپنے ساتھ لیں گئ۔مرجان بھی سب کی نظروں سے خائف ہوتا وہاں رُکا نہیں تھا اس کو یہ بات پاگل کرنے کے در پہ تھی کے ایک لڑکی نے پھر سے اس کو زلیل کررکھا تھا۔مرجان فلحال اپنے ماں باپ کی تربیت بُھلائے اپنی انا میں تھا۔

زہر سے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں

وہ لوگ جو اپنا بناکر چھوڑ جاتے ہیں۔

💕💕💕💕💕💕💕💕







دن ہفتوں میں اور ہفتے ایک مہینے میں گزرگیا تھا پر شاہ میر کی مہرماہ سے ناراضگی جوں کی توں برقرار تھی مہرماہ نے بہت کوشش کی تھی شاہ میر کو منانے کی پر شاہ

تمہیں پتا ہے گھر میں ہمارے مطلق کیا کھچڑی پٙک رہی ہے؟حیات آج شاہ ویر کے ساتھ کیفے آئی تھی جب باتوں ہی باتوں میں اُس نے کافی پیتے شاہ ویر سے پوچھا

ہمارے رشتے کی بات کررہی ہو۔شاہ ویر نے پوچھا۔

ہاں وہی۔حیات نے منہ بگاڑ کر کہا

تمہیں کوئی احتراز ہے کیا؟شاہ ویر کسی خدشے کے تحت پوچھنے لگا۔

میں ڈیڈ کو انکار نہیں کرپائی پر میں چاہتی ہوں تم اپنی طرف سے انکار کردو۔حیات نے کہنیاں میز پہ ٹکائے شاہ ویر سے رازدانہ انداز میں کہا شاہ ویر کا چہرہ فق ہوا تھا حیات کی بات پہ۔

کیوں؟شاہ ویر کجھ دیر بعد یہی بول پایا۔

تم وکیل ہوں تمہیں کوئی بہتر مل جائے گی مجھ سے۔حیات سیدھی ہوکر بولی۔

میں تم سے بہتر جانتا ہوں کے میرے لیے کون بہتر ہے اور نہیں۔شاہ ویر لفظ چٙبار کر بولا

اتنا روڈ کیوں ہورہے ہو۔حیات کو اس کا ایسے بات کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا۔

کیونکہ مس حیات میر میں محبت کرتا ہوں تم سے میرے کہنے پہ یہ رشتہ ہورہا ہے اور اب تم مجھ سے کہہ رہی ہو میں انکار کروں کیا میں اتنا بیوقوف نظر آتا ہوں جو اپنی محبت کو کسی اور کے لیے چھوڑو گا۔شاہ ویر سخت انداز میں بولا دوسری طرف حیات گنگ سی ہوگئ تھی اُس کے اظہار پہ۔

تم نے بتایا تو نہیں کبھی ایسا کجھ پھر یوں اچانک۔حیات جزبز ہوکر بولی شاہ ویر جو تنے ہوئے تاثرات اس کو دیکھ رہا تھا حیات کی بات سن کر چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی۔

کوئی غزل سناکر کیا کرنا

یوں بات بڑھا کر کیا کرنا

تم میرے تھے تم میرے ہو

دنیا کو بتاکر کیا کرنا

شاہ ویز نے شعر پڑھا حیات کا چہرہ خفت سے لال ہوا تھا اُس کے لیے شاہ ویر کا یہ روپ نیا تھا جس سے وہ پزل ہورہی تھی وہ کوشش کے باوجود بھی شاہ ویر کی جذبے لوٹاتی نظروں کا سامنا نہیں کرپارہی تھی۔

کیا اب بھی تمہیں اعتراض ہے؟شاہ ویر نے پوچھا۔

ویر

حیات پلیز میری محبت کو سمجھو میرے لیے تم آتی جاتی سانس کی طرح ضروری ہو اگر تم نے انکار کیا تو میں زندہ نہیں رہوں گا۔حیات کجھ کہنا چاہتی تھی پر شاہ ویر بیچ میں ٹوک کر بولا۔

یہ کیا پاگل پن ہے۔حیات جھنجھلا کر بولی

پاگلپن نہیں میری محبت ہے۔شاہ ویر خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

میں جینا حرام کردوں گا تمہارا۔حیات نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔

شوق سے۔شاہ ویر مزے سے بولا۔

زندگی جہنم بنادوں گی۔حیات نے ایک اور کوشش کی۔

دوسرے جہاں میں جنت میں ساتھ جائے گے۔شاہ ویر کی مسکراہٹ چہرے پہ برقرار تھی۔

میں نے بہت خرچہ کروانا ہے تم سے۔حیات نے سوچ سوچ کر کہا۔

میں جاب بھی تو تمہارے لیے کررہا ہوں۔شاہ ویر کو اب ہنسی آرہی تھی۔

افففف۔حیات تھک ہار کر اپنا سر میز سے ٹیک دیا شاہ ویر ٹھوری پہ ہاتھ رکھتا دلچسپی سے حیات کو دیکھنے لگا۔

کب لیکر آوٴگے بارات؟حیات نے ویسے ہی پوچھا تو شاہ ویر گردن جھکا کر ہنس پڑا۔

💕💕💕💕💕💕

ہر شام سے تیرا اظہار کیا

کرتے ہیں

ہر خواب میں تیرا دیدار کیا

کرتے ہیں

دیوانے ہی تو ہیں تمہارے

جو ہر وقت/۔

تیرے ملنے کا انتظار کیا

کرتے ہیں

زرجان کو جیسے پتا چلا آج ماہا یونیوسٹی نہیں آئی تب سے وہ بے چین سا ہوگیا تھا ماہا کو ہر روز دیکھنے کی اُس کو عادت ہوگئ تھی اس کا بس نہیں چلتا تھا وہ ماہا کو اپنے پاس بیٹھاکر رکھے پر وہ بس ایسا چاہ سکتا تھا کرنا اس کے اختیار میں نہیں تھا۔

کیا ہوا؟فرزام نے اس کو گراؤنڈ میں اکیلا بیٹھا دیکھا تو کہا۔

وہ نہیں آئے گی آج میں کیا کروں مجھے ان کو دیکھنا ہے۔زرجان نے بتایا

ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں دل لگانے کے لیے ٹیچر ہی ملی تھی۔فرزام اس کی بات پہ پھٹ پڑا۔

فضول مت بولو میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔زرجان نے ڈپٹ کر کہا

ایک دن نہیں دیکھوگے تو مر نہیں جانا تمہیں۔فرزام نے آرام سے کہا۔

کل ہفتہ پھر اِتوار ہے۔زرجان نے پریشانی سے کہا

بچوں جیسا ری ایکٹ نہیں کرو زر جو تم چاہتے ہو ویسا ممکن نہیں۔فرزام نے پتھر سے سر پھوڑا

ناممکن بھی نہیں وہ میری ہے تم دیکھنا میں ان کو اپنا بنا کر رہوں گا۔زرجان شدت پسندی سے گویا ہوا۔

ایک یہ محبت کرنے والوں کی سب سے بڑی غلط فہمی یہی ہوتی ہے کے وہ جس کو چاہتا ہے اُس کو لگتا ہے وہ انسا اُسی کا اسی کے لیے بنا ہے۔فرزام سر جھٹکتا بولا۔

کیونکہ وہ انسان جانتا ہے جس اللہ نے اُس انسان کی محبت دل میں ڈالی ہے وہ اللہ اُس انسان مقدر میں بھی دے گا۔زرجان پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

میں یہی مشورہ دوگا اپنے قدم واپس لیں میم ماہا کبھی تمہاری نہیں بنے گی۔فرزام نے کہا

اگر تمہیں زندہ رہنا ہے تو اپنی بکواس بند کرو۔زرجان فرزام کا گریبان پکڑکر کہتا تھکا دے کر وہاں سے نکل گیا فرزام نے افسوس سے اس کو جاتا دیکھا۔

💕💕💕💕💕💕

آج جلدی آگئے۔مہرماہ نے زرجان کو تیزی سے کمرے میں جاتا دیکھا تو کہا

کلاسس نہیں تھی۔زرجان کہتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

اچھا اب آگئے ہو تو ایک کام کرو۔مہرماہ نے کہا۔

مما میرے سر میں درد ہے بعد میں۔زرجان نے التجا کی۔

اوہو شاہ نے کہاں پھسادیا۔مہرماہ بڑبڑائی جو زرجان نے باآسانی سن لیا۔

کیا کہہ دیا انہوں نے؟زرجان نے پوچھا۔

یہ فائل ریان کو دینی ہے وہ آفس نہیں گیا آج شاہ نے کہا اِس میں اس کے سنگنیچر ضروری ہے۔مہرماہ نے بیزار شکل بنائے کہا تو زرجان کی آنکھوں میں چمک آئی۔

میں چلاجاتا ہوں ان کے پاس۔زرجان فورن نیچے آتا بولا۔

تمہارے تو سر میں درد تھا۔مہرماہ نے تعجب سے کہا۔

ہاں نہ تو میں نہیں چاہتا آپ کو بھی ہو اِس لیے میں جاتا ہوں۔زرجان نے مہرماہ کے ہاتھ سے فائل لیکر کہا۔

شاہ تو اب اتنے کام سے وہاں نہیں جاسکتا مرجان کا وہاں جانا سہی لگتا بھی نہیں ابھی منگنی جو ہوئی ہے دوسرا شاہ نہ تو ڈرائیور سے یہ کام کہتا ہے نہ اپنے اسٹاف میں کسی کو۔مہرماہ رلیکس ہوتی ہوئی بولی۔

میں ہوں نہ میں جارہا ہوں۔زرجان کا بس نہیں چل رہا تھا اُڑ کر وہاں پہ پہنچ جاتا۔

💕💕💕💕💕💕

تم پھر سے اب اور زیادہ اُداس رہنے لگی ہو آج تو یونی سے بھی آف کیا۔ملیحہ نے ماہا کے پاس بیٹھ کر کہا

ابھی میرے پاس تمہاری کسی بات کا جواب نہیں۔ماہا نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

ماہا پریشانیاں بتانے سے کم ہوجاتی ہیں۔ملیحہ نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

میں پریشان نہیں ہوں۔ماہا نے فورن سے کہا

منگنی کے دن سے گم سم دیکھ رہی ہوں۔

کیا وہ تمہیں چاہتا ہے جس سے تمہاری شادی ہونے والی ہے؟ماہا نے اس کی بات نظرانداز کرکے پوچھا۔

ہاں اس لیے تم شادی ہورہی ہے۔ملیحہ مسکراکر بولی۔

حیرت ہے۔ماہا طنزیہ لہجے میں بولی۔

کیا ہوا۔ملیحہ کو اس کا لہجہ عجیب لگا۔

باہر بیل ہورہی ہے۔ماہا نے کہا

میں جاکر دیکھتی ہوں۔ملیحہ بیڈ سے اٹھتی بولی۔

باہر آئی تو زرجان ہاتھ میں فائل لیے کھڑا تھا۔

اسلام علیکم!زرجان نے سلام کیا۔

وعلیکم اسلام!اندر چلو۔ملیحہ نے مسکراکر کہا

انکل ہیں گھر پہ؟زرجان یہاں وہاں نظر گُھماتا بولا

اسٹڈی میں ہے تم مل لو میں تب تک تمہارے لیے کجھ کھانے پینے کا بندوبست کرتی ہوں۔ملیحہ نے کہا

اس کی کوئی ضرورت نہیں میں بس فائل سائن کروانے آیا تھا۔زرجان نے انکار کرتے ہوئے کہا جب کی نظریں ماہا کو دیکھنے کی تمنا کررہی تھی۔

جوس لیکر آتی ہوں وہ تو پی لینا۔ملیحہ کہتی کچن کی طرف گئ زرجان بھی منہ بناتا اسٹڈی کی طرف جانے لگا۔

او سوری۔زرجان سر جھکاکر جا ہی رہا تھا جب سامنے آتی ماہا سے اُس کا ٹکر ہوتے ہوتے بچا۔

کوئی بات نہیں۔ماہا سنجیدگی سے کہتی پاس سے گُزر گئ زرجان جو ماہا کو دیکھنے پہ خوش ہو رہا تھا اُس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر پریشانی نے آگھیرا۔

آپ ٹھیک ہے؟زرجان ماہا کے پاس آکر بولا جو شاید کچن کی طرف جارہی تھی۔

ہاں مجھے کیا ہونا ہے؟ماہا نے اُلٹا اُس سے سوال کیا تو زرجان گِڑبڑا گیا۔

آج آپ یونی نہیں آئی تھی اور آپ کی آنکھیں بھی سرخ تھی اِس لیے پوچھا۔زرجان نے کہا

میں ٹھیک ہوں تم وہ کرو جو کرنے آئے ہو۔ماہا سپاٹ انداز میں بولی۔

وہی تو کررہا ہوں۔زرجان بڑبڑاتا دوبارہ سے اپنا رخ اسٹڈی کی جانب کرگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

مرجان ملیحہ اور شاہ ویر حیات کی شادی ایک ساتھ ہونا پائی تھی خان مینشن اور سکندر مینشن سے ریان کی طرف سے بھی شادیوں کی تیاریاں زور شور سے شروع تھی پر اِس بیچ ماہا کی ملاقات ایک دفع بھی مرجان سے نہیں ہوئی تھی شادیوں کے دن جیسے قریب آرہے تھے مہرماہ کی حالت اُتنی بُری ہورہی تھی کیونکہ اُس کی طرف سے افراد کی شادیاں جس نے سہی معنوں اُس کو تھکادیا تھا ہر روز بازار کے چکر مہمانوں کی لسٹ بنانا سب کی سپورٹ خاص طور پہ شاہ میر کی سپورٹ ہونے کے باوجود بھی مہرماہ تنگ آکر رہ جاتی۔

حیات تیار ہوجاؤ مہرین آئی گی اس کے ساتھ شاپنگ پہ جانا ہے مجھے بھی ملیحہ کا ریسپشن کا جوڑا بھی لینا ہے اس لیے ساتھ جائے گے جانا تو تمہیں ثانیہ کے ساتھ تھا پر آج اس کے سر میں درد ہے۔مہرماہ حیات کے کمرے میں آتی جلدی جلدی بولنے لگی۔

پر مما پھر کبھی جائے گے نہ سچی اِس مہینے بہت شاپنگ مال کے دیدار کا شرف حاصل کیا ہے۔حیات نے سُستی دیکھائی۔

حیات فضول مت بولوں دو دن بعد مایوں میں بیٹھنا ہے تمہیں اِس لیے چُپ چاپ جو کہہ رہی ہو وہ کرو۔مہرماہ نے اس کی بات پہ تپ کر کہا۔

آپ لیں آئیے گا اپنی طرف سے کیونکہ میں واقع آرام کرنا چاہتی ہوں۔حیات نے مسکین سی شکل بناکر کہا۔

حیات مہرین دس منٹ میں پہنچ جائے گی فٹافٹ تیار ہوجاؤ۔مہرماہ اس کی بات پہ کان دھڑے بنا بولی تو حیات تلملا اُٹھی۔

💕💕💕💕💕💕

مس ماہا مجھے آپ سے کجھ بات کرنا تھی۔ماہا اپنے آفس کی طرف جارہی تھی جب پروفیسر منان نے مسکراکر کہا۔

جی کہے۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا۔

کیفے ٹیریا چلتے ہیں۔پروفیسر منان نے کہا

اوکے پر جلدی کرئیے گا میری کلاس کا وقت ہورہا ہے۔ماہا نے پروفیسر منان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔

زر وہ دیکھے۔زرجان کیفے ٹیریا میں بیٹھا تھا جب احتشام نے اس کی کمر پہ ٹھوکا مار کر سامنے دیکھنے کا کہا زرجان نے ماہا کو پھر پروفیسر منان کے ساتھ دیکھا تو آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی جل بیٹھا۔

تم ایسے ہی دل جلے بنے رہنا اور اُن کو کوئی اور لیں جائے گا۔فرزام نے زرجان کے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا جو زرجان نے ضبط کرنے کی خاطر زور سے بند کر رکھی تھی۔

تمہارا بکواس کرنا ضروری ہوتا ہے کیا۔زرجان نے گھور کر کہا۔

جی کہے کیا بات ہے۔ماہا نے بیٹھتے ہی پوچھا۔

دیکھے مس ماہا میں صاف اور سیدھی بات کرنے کا قائل ہوں گھما پھیرا کر بات کرنا مجھے پسند نہیں۔پروفیسر منان نے تھمید باندھی۔زرجان کی آگ برساتی نظریں پروفیسر منان پہ تھی دور ہوتے بھی زرجان کو آج پروفیسر سے خطرہ محسوس ہورہا تھا۔

پروفیسر منان تو تمہارا فیورٹ استاد ہے ان کو کیوں ایسے دیکھ رہے ہو کیا پسند کرنے کا حق صرف تمہارا ہے۔فرزام نے پھر زرجان کو چھیڑا احتشام وہاں سے اٹھ کر جاچُکا تھا۔

ماہا ریان کو پسند کرنے کا حق صرف زرجان میر کو ہے اُس کے علاوہ کسی کا نہیں۔زرجان نے وحشت بھرے لہجے میں کہتے فرزام کی بولتی بند کردی۔

مجھے بھی صاف اور سیدھی باتیں سننا پسند ہے اس لیے آپ تھمید باندھنے کے بجائے اصل بات پہ آئے۔ماہا نے اپنی کلائی میں بندھی گھڑی پہ وقت دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔

میں آتا ہوں۔زرجان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

زر پاگل مت بنو تمہارا وہاں جانا وہ بھی جب میم منان سر کے ساتھ ہو تو اسٹوڈنٹس کو شک میں مبتلا کرسکتا ہے اس لیے خود پہ کنٹرول کرو خاص طور پہ اپنی نظروں کو۔فرزام نے زرجان کا ہاتھ پکڑ کر سنجیدگی سے کہا۔

مجھے کسی کی پرواہ نہیں پر ہاں مجھے ماہا کی عزت سب سے زیادہ عزیز ہے میں ان کے پاس نہیں جارہا بس سامنے والی ٹیبل پہ بیٹھوں گا تاکہ پتا چلے وہ کیا بات کررہے ہیں۔زرجان نے اپنا ہاتھ چھڑواکر ایک ٹیبل کی جانب اشارہ کیا جو خالی تھی۔

اچھی بات ہے یہی باتیں مجھے آپ میں بہت پسند ہے۔زرجان پاس سے گزرا تو پروفیسر منان کی آواز کانوں پہ پڑی جس پہ جلتا کڑھتا ٹیبل کی طرف آکر کتاب کھول کر خود کو ایسے ظاہر کیا جیسے وہ پڑھ رہا ہو۔

میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔زرجان کے ساتھ ساتھ ماہا بھی اپنی جگہ گنگ سی ہوگئ زرجان کو اپنا آپ ضبط کرنا مشکل لگا۔

ایسکیوز می۔ماہا نے تصدیق چاہی۔

آپ نے سہی سنا۔پروفیسر نے کہا زرجان نے ماہا کی طرف دیکھا جس کے سرخ گال مزید سرخ ہوگئے تھے ماہا کے تاثرات دیکھ کر زرجان کو کجھ سکون ہوا پر وہ دل کو شدت سے اس کے جواب کا انتظار تھا۔

دیکھے مسٹر منان میں آپ کی دل سے عزت کرتی ہوں دوسرا یہ آپ یہاں کے پروفیسر ہے میں یہاں بطور ٹیچر ہوں تو مجھے وہی رہنے دے یہ شادی وغیرہ آپ کسی اور سے کریں۔ماہا نے بڑی مشکل سے خود پہ ضبط کیے کہا زرجان کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ آگئ تھی۔

آخر کیوں مجھے کیا بُرائی ہے ایک نہ ایک دن تو آپ کو کرنی ہے نہ تو پھر میں کیوں نہیں۔پروفیسر منان کی بات پہ زرجان دانت کچکچاکر رہ گیا۔

اچھا خاصا رقیب بن گئے ہیں یہ تو۔زرجان بڑبڑاہٹ میں بولا۔

آپ کو کس نے کہا مجھے شادی کرنی ہے میں اپنی زندگی میں پرسکون ہوں یہ میری زندگی اللہ کے سوا میرے اختیار میں ہے جس پہ بس میری حاکمت ہے میں کسی اور کو اپنی زندگی میں انوالو کرکے خود کو کسی کا پابند نہیں کروگی۔ماہا کے جواب پہ زرجان بے چین ہوا۔

ایسا کیوں کہہ رہی ہیں ایسا تو نہیں ہوتا کیا آپ کسی اور کو پسند کرتی ہیں یا آپ کو محبت میں ناکامی ملی ہے۔ماہا کا دل کیا پروفیسر منان کی بات پہ ان کا منہ توڑ دے زرجان کا رنگ پل فق ہوا تھا دل نے تیز رفتار پکڑلی تھی۔

یہی سمجھ لیں میرا ایک تجربہ کافی ہے امید ہے آپ یہ بات دوبارہ نہیں کرے گے۔ماہا اٹھ کر سنجیدہ سپاٹ انداز میں بولی جہاں پروفیسر منان کو مایوسی ہوئی تھی وہی زرجان کو لگ رہا تھا وہ دوبارہ سانس نہیں لے پائے گا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آپ تو پہلے سے زیادہ پیاری ہوگئ ہیں۔شاہ میر مہرماہ کے پیچھے کھڑا ہوتا بولا جو مرر کے سامنے کھڑی ہاتھوں میں لوشن لگارہی تھی۔

سدھرنا نہیں تم نے۔مہرماہ اپنی خفت مٹانے کے لیے شاہ میر کو گھور کر بولی۔

ہاہاہا آپ تو آج بھی بلش کرتی ہیں۔شاہ میر ہنستا اس کے گال کھینچ گیا۔

شاہ دور رہو۔مہرماہ نے اب کی التجا کی۔

اچھا اچھا۔شاہ میر مسکراتا بیڈ پہ بیٹھ گیا۔

شاہ میں نے اپنی طرف سے شاپنگ کرلی ہے اب تم اور مرجان آفس سے آف لیکر اپنی شاپنگ کرلوں۔مہرماہ نے شاہ میر سے کہا جو موبائل میں مصروف ہوچکا تھا۔

کرلوں گا مرجان بھی کرلیں گا۔شاہ میر نے کہا

کل۔مہرماہ نے یاد کروایا۔

اوکے ڈن۔

💕💕💕💕

ماہا فری ہو نہ بھی ہو تو جو کام کررہی ہو وہ رہنے دو۔ملیحہ ماہا کے کمرے میں آتی بولی

سوری میں ضروری لیکچر تیار کر رہی ہوں۔ماہا نے سنجیدگی سے جواب دیا

ماہا یار پلیز کل میرا مایوں ہے مجھے پھر باہر نہیں جانے دے گے آج میرے ساتھ تم مال میں چلو تم نے اپنی شاپنگ بھی تو کرنی ہے نہ۔ملیحہ نے منت کرنے والے انداز میں کہا

ملیحہ ہر بات پہ ضد نہیں کیا کرو میں بزی ہو۔ماہا نے ٹوکا

تم بھی ہر وقت بزی نہیں رہا کرو کبھی اپنی بہن کو وقت بھی دے دیا کرو۔ملیحہ دوبدو بولی۔

کیا کرنا ہے تم بازار جاکر؟ماہا نے پوچھا جانتی تھی جب تک ملیحہ اپنی بات نہیں منوائے گی کام بھی نہیں کرنے دے گی۔

مجھے جیولر کے پاس جانا ہے ایک سیٹ میں نے بنوانے کا کہا تھا پھر کجھ ضرورت کی چیزیں ہیں۔ملیحہ نے پرجوش ہوکر کہا۔

چلو۔ماہا اٹھتی ہوئی بولی

ایسے۔ملیحہ حیرت سے بولی

کیوں کیا پروبلم ہے۔ماہا کو تعجب ہوا

میری بہن مانا تم خوبصورت ہو سادگی میں بھی اپنی مثال آپ ہو پر ہم شاپنگ پہ جارہے ہیں ڈریس چینج کرو ہاتھ منہ دھولو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں فجر کے بعد تم نے چہرہ نہیں دھویا۔ملیحہ نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

مال جارہے ہیں ریڈ کارپیٹ پہ جلواہ بکھیرنے نہیں جو میں تیار ہوتی پھیرو۔ماہا کوفت سے کہتی کبرڈ سے اپنی چادر نکالی۔

سہی کہتے ہیں اللہ جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آجاتی ہے خوبصورت اور گوری لڑکیوں کے مزے ہیں جیسے بھی رہے پیاری لگتی ہیں۔ملیحہ ڈرامائی انداز میں بولی جس پہ ماہا نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ملیحہ اور ماہا کراچی کے سب سے بڑے مال میں آئی تھی ملیحہ سب سے پہلے ماہا کو جیولر کے پاس لے گئ تاکہ اپنا سیٹ لیں سکے سیٹ لینے کے بعد ماہا لیڈیز ڈریسز کے سینٹر گئ تاکہ اپنے لیے کجھ لیں جو کی اس نے شاپنگ نہیں کی تھی۔

شاہ میر بھی زرجان کے ساتھ شاپنگ مال آیا تھا جہاں وہ دونوں تھی مرجان مصروفیت کی وجہ سے نا آسکا کہ وہ بعد میں بھی لیں سکتا ہے شاہ میر خود جیولر کے پاس گیا تھا مہرماہ کا حکم تھا کے آتے وقت جیولر سے اس کے آرڈر کی جیولری لیں آئے زرجان نے ماہا اور ملیحہ کو دیکھ لیا تھا پر وہ ان کے پاس جانے کے بجائے اپنے لیے شرٹس دیکھنے لگا ماہا کی کہی پرفیسر منان سے بات زرجان اُداس رہنے لگا تھا۔

یہ سوٹ بہت اچھا لگے گا تم پہ۔ملیحہ نے سیٹ کیے ہینگرز میں سے ایک ملٹی کلر کا شرارہ ماہا کی طرف بڑھا کر کہا جس پہ بہت بھاری اور عمادہ کام کیا گیا تھا۔

شادی میری نہیں تمہاری ہے اور میں ویسے بھی اتنی ہیوی ڈریسنگ نہیں کرتی۔ماہا نے اکتاہٹ بھری نظروں سے ڈریس دیکھ کر کہا

اففف تمہارا کوئی جواب نہیں۔ملیحہ نے سرجھٹکا۔ایک خیال کے آتے ہی ماہا دوسری سائیڈ پہ گئ وہاں کھڑی سیلز گرل سے کہا

مجھے پیلے کلر کا ایک سمل ڈریس اور تین لہنگے مختلف ڈیزائن اور کلرز کے دیکھائے۔

ابھی تو کہا ہیوی ڈریسنگ نہیں کرتی۔ملیحہ نے اس کی نقل اُتار کر کہا

موڈ چینج ہوگیا۔ماہا نے آرام سے کہا ملیحہ بس اس کو دیکھتی رہ گئ۔

زرجان بیگ ہاتھ میں لیے جیولر کی شاپ پہ آیا جہاں ابھی شاہ میر موجود دیکھا زرجان بیزار سی نظر شاپ پہ پھیر رہا تھا جب اس کی نظر سفید موتیوں کے نفیس بریسلیٹ پہ پڑی۔زرجان نے ایک چور نظر شاہ میر پہ ڈالی پھر ہیلپر سے اس بریسلیٹ پیک کرنے کا کہا۔

ڈیڈ آپ فری ہوگئے؟زرجان نے پوچھا

ہمم بل پے ہوگیا ہے بس میں اپنے لیے کوئی ڈریس دیکھو شادی ہو تو ماہ میرے لیے کپڑے دیکھتی ہے اِس بات تو انہوں نے بھی ہڑی جھنڈی دیکھائی۔شاہ میر منہ بناکر بولا تو زرجان ہنس پڑا۔

آپ کو مما میں سب سے زیادہ اچھی بات کیا لگتی ہے؟زرجان نے پوچھا

ان کا مسکرانا۔شاہ میر بنا تاخیر کیے بولا۔

آپ کو مما سے پیار کیوں ہوا؟زرجان نے دوسرا سوال کیا۔

پیار بتاکر نہیں ہوتا۔شاہ میر نے جواب دیا۔

پیار کو پانا ضروری ہوتا ہے؟زرجان نے سوال کیا

ضروری تو نہیں ہوتا۔شاہ میر نے کہا اور سیل بوائے کو کجھ کہا جس پہ وہ سرہلاتا گیا۔

پر جن سے محبت ہو ان کے بغیر رہا بھی تو نہیں جاتا نہ۔زرجان نے الجھے انداز میں کہا

ہاں پر محبت میں ہمیشہ اپنا نہیں دوسروں کا بھی سوچنا ہوتا ہے اسپیشلی جس سے آپ محبت کرتے ہو ہر محبت منزل محبت کو حاصل کرنا نہیں ہوتی ہاں اگر آپ کو محبت ہوجاتی ہے پھر آپ نکاح کی خواہش کرتے ہیں تو اللہ ضروری اس کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔شاہ میر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

اگر آپ کو مما نہ ملتی تو۔زرجان نے شاہ میر کا چہرہ دیکھ کر کہا جو آج بھی مہرماہ کے الگ ہونے کے خیال سے ہی فق ہوجاتا دل عجیب انداز میں دھڑک جاتا تھا۔

تو میں زندہ نہ رہتا۔شاہ میر کی بات پہ زرجان کو سمجھ نہیں آیا کیا بولے

مما راضی تھی جب آپ کی شادی ہوئی تھی تو۔زرجان نے ایک اور سوال داغا اب شاہ میر کو ٹھٹکا محسوس ہوا عموماً زرجان کبھی بھی اتنی باتیں نہیں کرتا تھا اور آج سوال پوچھ رہا تھا وہ پیار محبت کے بارے میں مگر شاہ میر اپنا وہم سمجھ کر جواب دینے لگا۔

بلکل میرے لیے میری محبت میرے عشق سے زیادہ ان کی رضامندی اہم تھی اگر میں اپنا سوچتا تو جب ان کا نکاح کسی اور سے ہورہا تھا میں زبردستی بھی کرسکتا تھا پر تب شاید وہ مجھ سے اِتنی محبت نہ کرتی جتنی اب کرتی ہیں محبت کی بنیاد جس طرح عزت،اعتبار ہے اسی طرح محبت کا دوسرا نام قربانی ہے میں نے ماہ سے رقیب کے ڈر سے محبت کرنا نہیں چھوڑی بلکہ میں نے اپنے اللہ پہ چھوڑ دیا ان سے دعا مانگی اور اللہ نے مجھے مایوس نہیں کیا۔شاہ میر گہری مسکراہٹ سے بولا۔

اگر ہم کسی سے محبت کرے پر سامنے والا نہ کرتا ہو یا ہماری محبت کی قدر نہ کرے تو کیا کیا جائے۔زرجان نے پوچھا۔

پہلی بات اگر آپ کسی سے محبت کرے تو جواب میں محبت نہ مانگے محبت ایک خودساختہ جذبہ ہے ہم کسی کو مجبور نہیں کرسکتے کے وہ آپ سے پیار کریں دوسرا یہ کے اگر قدر نہ کریں تو اس میں ایک فرمان ہے حضرت علی کا

حضرت علیؓ فرماتا ہے!!

کسی کو تم دل سے چاہو

اور وہ تمہاری قدر نہ کریں

تو یہ اُس کی بدقسمتی ہے تمہاری نہیں ۔

زرجان شاہ میر کے چُپ ہونے کے بعد بولنا چاہتا تھا پھر شاہ میر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا

بہت کرلیے سوال اب وہ کریں جو کرنے آئے ہیں۔شاہ میر نے کہا زرجان نے بس سر کو جنبش دی۔

ہے تم یہاں۔ملیحہ اور ماہا شاپنگ کے بعد مال کے پاس ریسٹورنٹ کی طرف جانے والی تھی جب ملیحہ نے زرجان کو دیکھ کر کہا ماہا نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا

جی ڈیڈ کے ساتھ آیا تھا۔زرجان ایک گہری نظر ماہا کو دیکھ کر ملیحہ سے بولا زرجان کی نظریں اور تو کسی نے نہیں پر سامنے آتے شاہ میر نے ضرور نوٹ کی تھی۔

اسلام علیکم انکل!!!شاہ میر کو آتا دیکھ کر دونوں نے سلام کیا۔

وعلیکم اسلام!! کرلی شاپنگ۔شاہ میر نے سلام کا جواب دے کر مسکراکر پوچھا۔

جی انکل بس اب ریسٹورنٹ جارہے تھے آپ بھی ہمیں جوائن کرے۔ملیحہ نے مسکراکر کہا۔

ہاں کیوں نہیں ضرور۔شاہ میر کے کجھ کہنے سے پہلے زرجان بول پڑا۔

چلیں پھر۔شاہ میر ایک نظر زرجان پہ ڈال کر بولا پھر سب ریسٹورنٹ کی طرف آئے۔

پہلے آپ آرڈر کریں۔ملیحہ نے مینیو کارڈ شاہ میر کی طرف بڑھایا۔

میرے لیے بس ایک فریش جوس۔ماہا نے پاس کھڑے ویٹر سے کہا۔

اور میرے لیے ملک شیک۔زرجان نے بھی اپنا آرڈر بتایا ملیحہ مینیو کارڈ دیکھنے میں بزی تھی۔

آرڈر دینے کے بعد زرجان فرصت سے ماہا کو دیکھنے لگا جو اردگرد کا جائزہ لینے میں خود کو مصروف ظاہر کررہی تھی۔

زر سب ٹھیک ہے نہ؟شاہ میر نے مسلسل اس کی نظریں ماہا پہ جمی دیکھی تو کان کے پاس کہا زرجان گڑبڑا کر اپنا دھیان ملک شیک پینے پہ لگاکر آہستہ آواز میں کہا۔

یس ڈیڈ سب ٹھیک ہے۔شاہ میر نے زرجان کی بات پہ گہری سانس لی۔

💕💕💕💕💕💕💕

حیات سونے کے لیے لیٹی ہی تھی جب اس کے فون پہ میسج کی بپ ہوئی حیات نے سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون لیا تو شاہ ویر کا میسج تھا۔

جاگ رہی ہو؟

آسمان کی سیر پہ نکلی ہوں۔حیات نے شاہ ویر کا میسج پڑھ کر مسکراہٹ دباکر رپلائے کیا۔دوسری طرف شاہ ویر کو ایسے ہی کسی جواب کی توقع تھی۔

اکیلے اکیلے مجھے بتایا ہوتا ساتھ میں چلتے۔شاہ ویر نے ہنس کر میسج سینڈ کیا۔

اِس وقت میسج کیوں کیا ہے؟حیات سر جھٹکتی پوچھنے لگی کیونکہ اس کو نیند آرہی تھی شاہ ویر سے بات کرنے کے بعد وہ سوجاتی۔

تم سے بات کرنی تھی۔شاہ ویر نے بتایا۔

کونسی بات جلدی کرو مجھے سونا ہے۔

کل مایوں پہ جب تیار ہوجاؤ تو اپنی تصویریں سینڈ کرنا۔شاہ ویر نے میسج بھیجا۔

کس خوشی میں؟حیات کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی پر شاہ ویر کو چھیڑنا ضروری سمجھا۔

تمہارا مجازی خدا بننے کی خوشی میں۔شاہ ویر کے پاس جواب موجود تھا۔

دیکھوں گی سوچوں گی پھر بھیجوں گی۔حیات کا میسج پڑھ کر شاہ ویر نے دانت پیسے۔

نہ دیکھنا ہے نہ سوچنا ہے بس سینڈ کرنا ہے۔

اچھا اچھا کل کی کل دیکھے گے ابھی گُڈ نائٹ۔جیات نے بمشکل اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھول کر میسج سینڈ کیا شاہ ویر بھی سمجھ گیا تھا وہ تھکی ہوئی ہے اِس لیے بحث نہیں کی

اوکے گُڈ نائٹ اپنے ڈریم میں مجھ دیکھنا نا بھولنا۔شاہ ویر کا میسج پڑھ کر اس نے تکیہ منہ پہ رکھ کر مسکراکر آنکھیں موندلی۔

💕💕💕💕💕💕

مایوں کی رسم سب نے الگ الگ کرنے کا فیصلا کیا تھا سب بڑا مرجان تھا اِس لیے پہلے مہرماہ نے ملیحہ کی طرف جانا تھا پھر واپس سب خان مینشن جانا تھا جہاں پھر ثانیہ نے حیات کو مایوں میں بیٹھنا تھا ملیحہ نے پیلے رنگ کی پٹیالا شلوار قمیض پہن رکھی تھی مایوں کے حساب سے پھولوں کے گجروں کے ساتھ پھولوں کے ہی زیور تھے بالوں کو چوٹی میں قید کیا تھا چہرہ میک اپ سے پاک تھا مگر چہرے پہ مسورکن مسکراہٹ تھی جس سے وہ بہت دلکش لگ رہی تھی۔

ماہا پیلے اور گرین امتزاج کے شلوار قمیض پہنے بالوں کی چوٹیاں بنائی ہوئی تھی گرین ڈوپٹہ ایک شانے پہ ٹکا ہوا تھا میک اپ کے نام پہ بس لب گلوس لگایا ہوا تھا جب کی ہاتھ چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے جو بھی اس کو دیکھتا ماشااللہ کہے بنا نہ رہ پاتا وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی۔مایوں کی رسم گھر کے لان میں کی گئ تھی پورے لان کو رنگ برنگی لائٹس اور پھولوں سے سجایا گیا تھا ایک طرف جھولا تھا جہاں ملیحہ سر جھکا کر بیٹھی ہوئی تھی مہمانوں کی آمد رفت جاری تھی۔

ماہا تم کچن سے پھولوں کا تھال تو لے آوٴ۔مہرین نے ماہا کو اکیلا کھڑا دیکھا تو کہا۔

جی موم لاتی ہوں۔ماہا نے سامنے خوشی سے جگمگاتا ملیحہ کا چہرہ دیکھ کر کہا

خود کی نظر ضرور اُتارنا۔مہرین اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہتی چلی گئ ان کے جانے کے بعد ماہا کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگئ تھی۔

زر تم کہا ہو؟مہرماہ سائیڈ پہ آتی کال پہ زرجان سے بولی۔

مما میں تو گھر پہ ہوں۔زرجان منہ بناتا بولا اُس کا بڑا دل تھا وہاں آکر ماہا کو تیار ہوتا دیکھنے کا مگر مہرماہ نے یہ کہہ کر چُپ کروایا تھا کہ وہاں لڑکوں کا کوئی کام نہیں جس سے وہ بس اب اپنے کمرے میں بیٹھا جل کڑھ رہا تھا۔

میرے کمرے میں ایک شاپنگ بیگ ہے وہ لیکر یہاں آوٴ فورن۔مہرماہ کی عجلت بھری آواز سن کر زرجان فورن سیدھا ہوکر بیٹھا چہرے پہ مسکراہٹ آنکھوں میں الوہی چمک اُبھری تھی

میں ابھی آیا میرا مطلب ابھی لیکر آتا ہوں۔زرجان اپنی خوشی پہ قابوں پاتا فورن سے کہا

کیا ہوا پریشان ہو؟مہرین مہرماہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

نہیں اب ٹھیک ہوں جلدی جلدی میں ملیحہ کی چادر لانا بھول گئ تھی زر سے کہا ہے وہ بیگ لاتا ہوگا۔مہرماہ نے رلیکس ہوکر بتایا۔

اچھا سہی تب تک ہم رسم کرلیں۔مہرین نے کہا تو مہرماہ نے سرہلایا۔

ماہا اگر زر آئے تو اس سے بیگ لینا اندر تو وہ نہیں آسکتا لڑکیوں کا فنکشن ہے۔مہرین نے ملیحہ کے پاس بیٹھی ماہا سے کہا ماہا نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

پانچ منٹ بعد مہرماہ کو زرجان کا میسج آیا تو ماہا سے کہا جس پہ ماہا اپنا ڈوپٹہ سہی کرتی باہر آئی۔

زرجان ہاتھ میں بیگ پکڑے بیزار سا کھڑا پر جب ماہا کو آتا دیکھا تو اپنی جگہ ساکت ہوگیا تھا آنکھیں اس کے چہرے سے انکاری ہوگئ تھی زرجان کو اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا اس کو سمجھ نہیں آتا تھا وہ کیوں ماہا کو دیکھ کر بے بس ہوجاتا تھا کیوں وہ جب بھی اس کو دیکھتا تو دل خواہش کرتا کے وقت تھم جائے کیوں اس کو اپنے اور ماہا کے درمیان چھ سالوں کا فرق نظر نہیں آتا تھا۔

بیگ۔ماہا اس کی نظروں سے بے نیاز نظریں جھکاکر بیگ کی طرف اِشارہ کیا زرجان کی نظر ماہا کی جھکی پلکوں پہ ٹھیر گئ تھی۔

بیگ۔ماہا نے اِس دفع گھورا کر کہا زرجان بڑی مشکل سے اپنی نظریں ہٹاتا بیگ ماہا کی طرف بڑھایا۔

آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ماہا گھر کے اندر جارہی تھی جب اپنے پیچھے زرجان کی آواز سنی زرجان دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا بول تو لیا تھا اپ بالوں میں ہاتھ پھیرتا آس پاس دیکھ رہا تھا دل شدت سے ماہا کے ری ایکشن کا منتظر تھا وہ جانتا تھا اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا مگر جو لفظ اُس نے ماہا کے منہ سے سنا وہ اس کی توقع کے برعکس تھا۔

شکریہ۔ماہا کہہ کر اندر جاچُکی تھی۔مگر زرجان اسٹل سا وہی کھڑا ہوگیا تھا ماہا کے ایک چھوٹے لفظ نے اُس کو خوشفہمی میں مبتلا کردیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

حیات فل پیلے کلر کے فراق کے ساتھ گرین ڈوپٹے میں ملبوس انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی بال کُھلے ہوئے تھے چہرے پہ مناسب سا میک اپ کیے وہ اپنی تصویریں لینے میں مگن تھی اس کی حرکتیں دیکھ کر ثانیہ اور ہانیہ مسکرارہی تھی مگر مہرماہ دانت پیستی اس کو گھور رہی تھی جس کو اپنے مایوں میں ہونے کا لحاظ تک نہیں تھا۔

حیات ساری فوٹوگرافی آج کرنی ہے کیا؟مہرماہ نے طنزیہ کیا۔

نو مما بس آج کی کرنی ہے اب ہر روز تو مایوں میں نہیں بیٹھوں گی نہ۔حیات دانتوں کی نمائش کرتی ہوئی بولی۔

مہرو چچی آپ کو میر چاچوں بلا رہے ہیں۔مہرماہ حیات سے کجھ کہتی اُس سے پہلے منت نے آکر کہا تو مہرماہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر نکلی۔

کمرے میں آئی تو شاہ میر کو وارڈروب سے سارے کپڑے نکالتے ہوئے پایا۔

شاہ کیا ہوگیا ہے اتنا گند کیوں پھیلایا ہوا ہے۔مہرماہ نے تعجب سے پوچھا۔

ماہ اچھا ہوا آپ آگئ مجھے میری فائل نہیں مل رہی آپ دیکھ کر دے اہم میٹیگ میں جانا ہے۔شاہ میر مہرماہ کو دیکھ کر شکر کا سانس بھرتا ہوا بولا۔

پچاس سے اُپر کے ہوگئے ہو مگر مجال ہو جو عقل آئی ہو۔مہرماہ تاسف سے شاہ میر کو دیکھتی سائیڈ ٹیبل کا دراوز کھول کر اُس میں گرین کلر کی فائل نکالی شاہ میر نے دیکھا تو کھسیانا ہوگیا کیونکہ کل رات اُس نے ہی یہاں رکھی تھی اور اب تلاش وہ وارڈروب میں کر رہا تھا۔

ہر بات میں عمر یاد نہ کروایا کرے اینڈ تھینکس فار دس۔شاہ میر مہرماہ کے گال پہ بوسہ دیتا فائل کی طرف اشارہ کرکے کہا مہرماہ نے ایک مکہ شاہ میر کے بازوں پہ مارا جس پہ شاہ میر ڈھیٹ ہوکر ہنس پڑا۔

💕💕💕💕💕

ماہا کبھی ہمارے ساتھ بھی بیٹھ لیا کریں۔ماہا یونی آکر اپنے آفس جارہی تھی جب راستے میں اس کی کولیگ تحریم کے ساتھ کھڑی بیلا نے کہا۔

ضرور بیٹھتی پر ابھی مجھے اسائمنٹ دیکھنے ہیں ۔ماہا نے سہولت سے انکار کرتے ہوئے کہہ کر سامنے سے گُزر گئ۔

خوبصورت پہ بہت ناز ہے اُس کو اِس لیے اپنی انا میں رہتی ہے۔تحریم ماہا کا انکار سن کر جل کے بولی بیلا نے اس کی بات پہ تائید میں سرہلایا ماہا اپنے بارے میں ان کے خیالات جان کر طنزیہ مسکرائی تھی۔

میرے اندر کی کہانی سے کہاں واقف ہیں

یہ لوگ

اور کہتے ہیں یہ لڑکی اپنی انا میں رہتی ہے

تم یہاں؟ماہا اپنے آفس میں زرجان کو بیٹھا دیکھ کر بولی۔

اسلام علیکم!!!زرجان فورن سے کھڑا ہوتا فرمانبرداری سے بولا

وعلیکم اسلام!!ماہا اپنی جگہ پہ بیٹھ کر بولی۔

آپ سے پراجیکٹ کے بارے میں بات کرنی تھی جس کے آپ نے گروپ بنائے تھے۔زرجان نے اپنے یہاں آنے کی وجہ بتائی۔

تو میں کلاس میں آتی تو پوچھ لیتے باقی سب بھی جان لیتے۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا اس کو زرجان کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اُلجھن ہوتی تھی۔

سوری اگر میرا آنا آپ کو بُرا لگا ہو تو۔زرجان ٹیبل سے اپنا فون اٹھاکر کہتا آفس سے باہر نکل گیا ماہا بس اس کو دیکھتی رہ گئیں جو خوامخواہ اُس کو اٹیٹیوڈ دیکھا کر جاچُکا تھا۔

اب یہ اسٹوڈنٹس اپنے ٹیچرز کو نخرے دیکھائے گے۔ماہا بڑبڑاہٹ میں کہتی کام میں بزی ہوگئ۔

کیسے ہو سنا ہے تمہارے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔زرجان سیڑھیوں کے پاس بیٹھا ماہا کو سوچ رہا تھا جب عروہ ساتھ میں بیٹھتی پوچھنے لگی یا بتانے لگی زرجان سمجھ نہ پایا۔

ہمم ٹھیک سنا ہے۔زرجان نے بس اتنا کہا

اپسیٹ ہو۔عروہ نے اُس کے بازوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا زرجان نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو میٹھی نظروں سے اُس کو دیکھ رہی تھی زرجان واقف تھا کے وہ اس کے لیے جذبات رکھتی ہے پر زرجان بس تھوڑی بہت باتیں فرزام کی وجہ سے کرلیتا تھا اب بھی وہ بس یہی سوچ رہا تھا جب وہ جان گیا تھا عروہ کے دل کا حال تو کیا ماہا نہیں سمجھ پائی ہوگی کے وہ اس کے لیے کیا محسوس کرتا ہے۔

کہاں گم ہوگئے؟عروہ نے مسکراکر پوچھا۔

تمہاری کلاس نہیں کیا آج؟زرجان اس کی بات ٹال کر بولا۔

ہے پر تمہیں یہاں دیکھا تو آگئ۔عروہ نے آرام سے جواب دیا۔

میرے بارے میں جو خیالات تمہارے دماغ کے اندر پل رہے ہیں ان کو نکال دو۔زرجان نے سنجیدگی سے کہا عروہ کے چہرے پہ سایہ لہرایا۔

بات دماغ کی نہیں زر دل کی ہے اور عروہ دل کے سامنے بے بس ہے۔عروہ خود کو کمپوز کرتی اپنا سر زرجان کے بازوں پہ رکھا عروہ کی حرکت پہ زرجان کو کرنٹ سا لگا تھا لائبریری جاتی ماہا نے افسوس سے یہ منظر دیکھا تھا مگر وہ اپنا سر نفی میں ہلاتی وہاں سے ہٹ گئ۔

حد میں رہو اپنی۔زرجان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا تنیبیہ کرتی نظروں سے اس کو دیکھتا بولا

محبت میں کوئی حد نہیں ہوتی۔عروہ ڈھٹائی سے بولی

بکواس بند کرو اپنی۔زرجان آپے سے باہر ہوتا بولا۔

تم ہر بار مجھے نظرانداز کردیتے ہو پر یاد رکھنا آنا تمہیں میرے پاس ہی ہے نہیں تو۔۔۔عروہ کہتی کہتی رُک گئ۔

نہیں تو کیا بولو نہیں تو کیا دھمکی دے کس کو رہی ہو زرجان میر نام ہے میرا اِن ٹھرڈ کلاس دھمکیوں سے میں نہیں ڈرنے والا۔زرجان طنزیہ مسکراہٹ سے بولا۔

میں دھمکی نہیں دے رہی اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کے ہونا کا سوچا تو آے سویئر میں اپنی جان لے لوں گی۔عروہ نے سرخ آنکھوں سے زرجان کو دیکھ کر کہا۔

میری بلا سے تم آج مرجاؤ۔زرجان سفاکی سے کہتا یونی کے ایکزیٹ دروازے کی طرف بڑھا عروہ دھندلی نظروں سے زرجان کو خود سے دور جاتا دیکھا جانے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے گِر کر بے مول ہوئے تھے۔

وہ محبت کجھ ادھوری سی لگی!!!!!

پاس ہوکر بھی دوری سی لگی!!!!

"ہونٹوں میں ہنسی آنکھوں میں نمی"

پہلی بار کسی کی ضرورت اتنی ضروری لگی۔

💕💕💕💕💕💕💕

شاہ ویر مسکراتا حیات کی بھیجی ہوئی تصویریں دیکھ رہے تھا جب مرجان کو اندر آتا دیکھا تو فون کی اسکرین بند کرتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔

منہ کیوں اُترا ہوا ہے؟شاہ ویر نے پوچھا۔

کیا میں سہی کررہا ہوں؟مرجان نے پوچھا

تم تو فلحال کجھ نہیں کررہے۔شاہ ویر نے معلومات فراہم کی۔

میں سیریس ہوں اور میں اپنی شادی کی بات کررہا ہوں۔مرجان نے گھور کر شاہ ویر سے کہا

تمہیں اس لڑکی سے محبت نہیں تھی اب جو ہے وہ پچھتاوا ہے اِس لیے جو ہورہا ہے وہ ہونے دو۔شاہ ویر نے سنجیدگی سے کہا

میں ملیحہ کو بتانا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا پھر ہمارے درمیان بحث ہو۔مرجان نے کہا

کرکے دیکھ لو میرا نہیں خیال یہ غلط ہے۔شاہ ویر نے کہا

وہ مجھے سمجھے گی تو سہی نہ؟مرجان نے پوچھا۔

پتا نہیں۔شاہ ویر کے کندھے اُچاکر کہا۔

💕💕💕💕

رات کا وقت تھا شاہ میر کی آج ضروری میٹینگز تھی جس وجہ سے اُس کو آنے میں دیر ہوگئ تھی شاہ میر اپنے کمرے میں جارہا تھا جب کجھ دوری پہ زرجان کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی شاہ میر نے آنکھیں چھوٹی کرکے کمرے کو دیکھا پھر اپنی کلائی میں بندھی ریسٹ واچ پہ ٹائم دیکھا جو دو بجے کا بتارہی تھی۔شاہ میر کجھ سوچ کر زرجان کے کمرے کے پاس آکر آہستہ سے دروازے کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر کھولا شاہ میر نے کمرے کے چاروں طرف نظر گھمائی بیڈ خالی تھا زرجان کا کمرہ براؤن کلر کے تھیم سے ڈیکوریٹ تھا پر ڈریسنگ ٹیبل بیڈ اور صوفے وائٹ کلر کے تھے۔شاہ میر واپس جانے والا تھا پر بالکنی پہ جب اس کی نظر پڑی تو اس کو اپنی بینائی پہ یقین نہیں آیا شاہ میر بالکنی کے پاس آتا گلاس وال کے پار زرجان کو نماز پڑھتا دیکھ کر جتنی اُس کو حیرت ہوئی شاید ہی کبھی ہوگی وہ جانتا تھا مرجان زرجان نماز پڑھتے تھے پر تہجد یہ اُس کے لیے نئ بات تھی وجہ کجھ جو اس کے دل میں وہم آگئے تھے ایک یہ بھی وجہ تھی جو شاہ میر جھٹلا رہا تھا پر آج زرجان کو سفید کُرتے شلوار پہنے مگن انداز میں نماز پڑھتا دیکھ کر جیسے یقین ہوگیا تھا۔شاہ میر زرجان کے کمرے سے باہر آتا اپنے کمرے میں آیا جہاں مہرماہ اُس کے انتظار میں صوفے پہ ہی سوچُکی تھی۔

💕💕💕💕💕💕

ماہا تم نے اپنا جیجا دیکھا ہے۔ملیحہ نے اشتیاق سے ماہا سے پوچھا جو اس کے پاس بیٹھی اپنے یونی کا کام کررہی تھی۔

نہیں۔ماہا نے سپاٹ انداز میں کہا۔

بڑی بے مروت ہو اکلوتے جیجا کو نہیں دیکھا۔ملیحہ کو حقیقتً ماہا کی بات پہ افسوس ہوا۔

بے مروت کی کیا بات ہے کل مہندی پہ اچھے طریقے سے مل لوں گی۔ماہا پُراسرار مسکراہٹ سے بولی۔

ٹھیک اچھے سے ملنا مہندی کا فنکشن تو ویسے بھی ہم چاروں کا کمبائن ہے۔ملیحہ نے پرجوش ہوکر کہا۔

بے فکر رہو اچھے سے ہی ملوں گی۔ماہا نے ملیحہ کو دیکھ کر تسلی کروائی جو ابھی تک مایوں کے ڈریس میں ملبوس تھی۔

💕💕💕💕💕

اپسیٹ ہو؟مہرماہ ٹیوی لاؤنج میں شاہ میر کے پاس بیٹھ کر بولی شادی کی وجہ سے اب شاہ میر نے آفس جانا بند کیا تھا باقی سب بھی کل کے فنکشن کی تیاریوں میں بزی تھے جو ہوٹل میں ہونا طے پایا تھا۔

ماہ زر بڑا ہوگیا ہے۔شاہ میر کی بات مہرماہ کے سر پہ سے گُزری۔

یہ بات اب پتا چلی ہے تمہیں جب وہ اکیس سال کا ہونے والا ہے۔مہرماہ نے کہا

ماہ زر محبت کرنے لگا ہے۔شاہ میر نے پرسوچ انداز میں کہا۔

شاہ مذاق کرنے کا موڈ ہے تمہارا؟مہرماہ شاہ میر کی بات پہ حیران تو ہوئی تھی جس پہ قابوں پاکر وہ بس اتنا بول پائی۔

میں سنجیدہ ہوں

زر کسی لڑکی کو آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھتا تم محبت کی بات کررہے ہو۔مہرماہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔

نظریں نہ بھی ملے تو محبت ہوجاتی ہے۔شاہ میر نے سکون سے کہا۔

یہ بھی بتادو کس سے کیونکہ میرا بیٹا تمہارے جیسا نہیں جو کم عمری میں محبت کا روگ پالے۔مہرماہ کی بات پہ شاہ میر کا دل کیا زور سے ہنسے۔

ماہا ریان سے زرجان میر کو عشق ہوگیا ہے۔شاہ میر نے کہا مہرماہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئ تھی۔

شاہ تمہیں نیند کی ضرورت ہے زر کیا اتنا بیوقوف ہے جو استاد اور شاگرد کے درمیان کا رشتہ سمجھ نہ پائے دوسرا بات ماہا چھ سال زر سے بڑی ہے اُس نے مرجان سے شادی پہ انکار کیا زر سے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مہرماہ ایک سانس میں بول پڑی۔

ماہ محبت بتاکر نہیں ہوتی میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تو محبت عمر نہیں دیکھتی جب انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے نہ تو فرق نہیں پڑتا سامنے والا کیسا ہے اس کی ظاہری شخصیت کسی ہے محبت کا تعلق روح سے ہوتا ہے اور بس۔شاہ میر کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔

محبت میں تو تم نے جیسے پی ایش ڈی کی ہے کہ شاہ بات کو آگے بڑھنے کا انتظار مت کرو زر کو۔سمجھاؤ وہ جس کشتی پہ خود کو سوار کررہا ہے اس کی کوئی منزل نہیں۔مہرماہ نے پریشان کن لہجے میں شاہ میر سے کہا

رلیکس ماہ آپ کیوں پریشان ہورہی ہیں ماہا زر کی طلب اس کا عشق بن گئ ہے میں یا آپ کجھ نہیں کرسکتے۔شاہ میر نے سنجیدہ انداز میں کہا

کوئی طلب نہیں نادانی ہے اس کی۔مہرماہ شاہ میر کی بات سن کر بھڑک اُٹھی۔

ماہ جب طلب بڑھتی ہے نہ تو ہاتھ خودبخود اللہ کے آگے پھیل جاتے ہیں بات ساری طلب کی ہوتی ہے میں نے زر کے ہاتھوں کو اللہ کے سامنے پھیلاتے دیکھا ہے۔شاہ میر نے آرام سے کہا

شاہ جو تم نے کیا میں نہیں چاہتی زر بھی ایسا کرے کجھ۔مہرماہ نے دو ٹوک انداز میں کہا شاہ میر کے چہرے کے تاثرات یکدم بدلے تھے۔

میں نے کیا کیا ماہ کیا ہمارا ایک ہونا غلط ہے کیا میں نے کبھی آپ کو ایسا محسوس کروایا کجھ کیا کبھی میری محبت میں ملاوٹ محسوس ہوئی آپ کو یا میں نے کبھی آپ کی کسی بات پہ اعتراض اٹھایا۔شاہ میر کو مہرماہ کی بات بُری لگی تھی مہرماہ بھی اپنے کہے پہ شرمندہ ہوگئ تھی۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا شاہ۔مہرماہ نے وضاحت کرنا چاہی۔

جو بھی تھا مجھے آپ کا یہ کہنا اچھا نہیں لگا۔شاہ میر صاف گوئی سے بولا۔

ماہا نہیں مانے گی ریان مہرین تمہاری وجہ سے مان بھی گئے تو اور میں اپنے بیٹے کی وہ حالت نہیں دیکھ سکتی جو بہت سال پہلے میرے انکار پہ تمہاری ہوئی تھی یہ تھا میری بات کا مطلب۔مہرماہ سنجیدگی سے کہتی لاونج سے چلی گئ شاہ میر اپنی آنکھیں زور سے میچتا سر ہاتھوں میں گِرادیا۔

💕💕💕💕💕💕

آج مہندی کی تقریب تھی جو کی ہوٹل میں کمبائن منعقد تھی۔سارے مہمان آچکے تھے تینوں فیملیز بھی آچکی تھی سوائے ماہا کے جس کو تیار ہونے میں وقت درکار تھا اِس لیے اس نے بعد میں آنے کو ترجیح دی مہرین کے اصرار کے باوجود بھی اس نے منع کردیا کہ وہ ولی کو بلادے گی۔

زرجان بے چینی سے انٹرنس کی طرف دیکھتا ماہا کا انتظار کررہا تھا زرجان نے آج براوٴن کلر کے شلوار قمیض پہنا ہوا تھا بالوں کو پیچے کی طرف سیٹ کیا ہوا تھا چہرے پہ تازی کی ہوئی شیو میں وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا پیروں میں پیشاوری چپل پہنی ہوئی تھی جب کی ہاتھ کی کلائی میں ڈیجیٹل واچ تھی۔

ماہا کہاں ہیں مہندی کی رسم شروع ہونے والی ہے؟مہرین نے دھیمی آواز میں کال پہ ولی سے پوچھا ماہا نام پہ زرجان جو پاس کھڑا تھا الرٹ ہوکر مہرین کو دیکھا جو کجھ پریشان نظر آرہی تھی۔

اچھا میں بھیجتی ہوں کسی کو۔مہرین اتنا کہہ کر کال کاٹ گئ۔

کیا ہوا آنٹی سب خیریت؟زرجان نے مہرین سے پوچھا۔

زر کیا تم میرا ایک کام کرسکتے ہو؟مہرین نے جھجھک کر پوچھا۔

شیور آپ بتائے۔زرجان نے خوشدلی سے کہا۔

ولی لینے جارہا تھا ماہا کو پر راستے میں اس کی گاڑی خراب ہوگئ تم جاکر ماہا کو لیں آسکتے ہو مہندی کی رسم ہونے والی ہے ماہا کا یہاں ہونا ضروری ہے۔مہرین کی بات پہ زرجان نے بمشکل اپنے چہرے پہ آتی مسکراہٹ کو روکا تھا۔

وائے ناٹ میں ابھی جاتا ہوں۔زرجان نے کہا

شکریہ بیٹا۔مہرین شکر کا سانس ادا کرتی بولی۔

پیاری لگ رہی ہوں۔مرجان نے سامنے دیکھتے ہوئے پاس بیٹھی ملیحہ سے کہا جو لہنگا چولی پہنے ہوئے تھی بیوٹیشن نے چہرے پہ نفاست سے میک اپ کیا ہوا تھا جس سے وہ بہت خوبصورت نظر آرہی تھی۔

آپ بھی پیارے لگ رہے ہیں۔ملیحہ مرجان کی بات سن کر مسکراکر بولی۔مرجان نے سفید کُرتا شلوار زیب تن کیا تھا ساتھ میں براوٴن واسکٹ پہنے وہ بہت جاذب نظر آرہا تھا۔

میں تو ہمیشہ لگتا ہوں۔مرجان نے مغرور لہجے میں کہا۔

خوشفہمیاں۔ملیحہ نے چڑانے والے انداز میں کہا۔

۔۔۔۔۔۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے مہندی کے ساتھ ہمارا نکاح بھی ہو۔شاہ ویر نے بے صبری سے حیات سے کہا جس نے آج آف وائٹ شلوار قمیض پہنا تھا بال کھلے ہوئے تھے جب کی بیچ مانگ میں جھومر لٹک رہا تھا اُس سے وہ اِتنی پیاری لگ رہی تھی کے شاہ ویر کا بس نہیں چل رہا تھا وہ حیات کو کہیں چُھپالیں جہاں اُس کے علاوہ اور کوئی نہ دیکھے خود شاہ ویر بھی مرجان کی طرح ڈریسنگ کیے ہوئے تھا جس میں دونوں ایک دوسرے کو ٹکر دے رہے تھے۔

نہیں ڈیئر فیوچر ہبی۔حیات نے شرارت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔

ایک دن انتظار کرلیتے ہیں پھر۔شاہ ویر دل مسوس کرتا بولا جس پہ حیات کا قہقہ گونجا شاہ میر اپنی بیٹی کا چمکتا چہرہ دیکھ کر مطمئن سا تھا مگر پاس کھڑی بلیک کلر کی نفیس سلک کی ساڑھی پہنے مہرماہ کا دل کیا اپنی بیٹی کی حرکت پہ ماتھا پیٹ لیں جو اپنی مہندی کے دن بھی سب مہمانوں کی موجودگی میں گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنس رہی تھی۔

میں آتی ہوں۔مہرماہ ساڑھی کا پلو ہاتھ میں پکڑتی شاہ میر سے بولی۔

حیات سے کجھ مت کہئیے گا۔شاہ میر نے درخواست کی۔

مہندی کے دن ایسے کون کرتا ہے شاہ۔مہرماہ چڑ کر بولی

ہماری حیات کررہی ہے۔شاہ میر نے مسکراکر جواب دیا مہرماہ بس اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زرجان نے گاڑی باہر پارک کی خود گھر کے باہر دروازے پہ بیل دی تو ماہا باہر نکل آئی ماہا کو ہتھیارلیس دیکھ کر زرجان کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے زرجان کو آج اپنا آپ سنبھالنا بے حد مشکل لگا ماہا نے گولڈن کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس کا ڈوپٹہ نیٹ کا تھا جو اُس نے ایک شانے پہ ٹِکا کر بیچ میں کمر بند باندھا ہوا تھا کمر کے نیچے آتے بھورے اسٹریٹ بال کھلے ہوئے تھے جو کجھ کندھے پہ تھے تو کجھ پشت پہ پڑے تھے خوبصورت چہرے پہ لائٹ سا میک اپ ہونٹوں پہ ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے وہ زرجان کی سانسیں اتھل پُتھل کرنے کا سبب بنی ہوئی تھی ماہا کو زرجان کا یوں دیکھنا عجیب لگا۔

نیند میں چلے گئے کیا؟ماہا نے ہاتھ اس کے چہرے کے سامنے لہراکر پوچھا جس سے اس کے ہاتھوں میں پہنی چوڑیوں کی چھنک سے زرجان ہوش میں آیا زرجان کو لگا جیسے ہر چیز ساکت ہوگئ ہو زرجان نے اپنا ہاتھ دل پہ لگا جو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل آئے گا۔

آپ اتنا تیار کیوں ہوئی ہیں۔زرجان اس کے سراپے سے نظریں چُراتا بس یہی بول پایا۔

میری بہن کی شادی ہے۔ماہا نے جتانے والے انداز میں کہا جس سے زرجان چاہ کر بھی ماہا کو نہیں دیکھا وہ جانتا تھا اگر اس نے دیکھا تو اپنی نظریں ہٹا نہیں پائے گا اور نہ ہی اپنے اندر چھپے جذبات کو وہ اپنے تک رہنے دے گا وہ جو پہلے ہی اس کے سادہ حُلیے میں ہی دھڑکن روکنے کی سبب بنتی مگر آج تو وہ شاید پورا مارنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی۔

چلیں میں آلریڈی دیر کرچکی ہوں۔ماہا نے خاموش کھڑے زرجان سے کہا ماہا کو آج زرجان ٹھیک نہیں لگا۔

جی آئے۔زرجان نے سرہلاتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ نے حیات کو مہندی لگادی تھی اب بس باقی لوگ باری باری رسم ادا کررہے تھے۔اسٹیج کی دوسری سائیڈ پہ مہرماہ ملیحہ کو مہندی لگا رہی تھی مہرین نے میٹھائی کا پیس مرجان کے کِھلانے کی طرف بڑھایا مرجان نے جیسے ہی ہلکا سا منہ کُھولا تو نظر سامنے آتی ہستی پہ پڑی تو اس کے منہ کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی پوری کی پوری کُھل گئ مرجان کو لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا مگر وہ خواب نہیں حقیقت بن کر اُس کے سامنے تھی۔

ماہی۔مرجان کے لب پھڑپھڑائے۔مہرین جو میٹھائی پیس لیکر بیٹھی تھی پر مرجان کو ساکت انٹرنس کی طرف دیکھتا پھر ماہی نام لیکر سنا تو اس نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے ماہا زرجان کے ساتھ آرہی تھی مہرین نے ماہا کو دیکھا تو دل ہی دل میں اُس کی نظر اُتاری۔

ماشااللہ کتنے پیارے لگ رہے ہیں نہ دونوں۔مہرماہ اسٹیج سے نیچے آئی تو شاہ میر نے ماہا اور زرجان کو ایک ساتھ آتا دیکھا تو کہا جو واقع ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے ہر ایک کی نظر ان پہ ٹھیرگئ تھی دونوں کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اِن کے بیچ چھ سال کا فرق ہے زرجان اپنے لمبے قد چوڑے سینے اور مضبوط مسلز سے اپنی عمر سے کجھ بڑا لگ رہا تھا۔

فضول مت بولو۔مہرماہ نے گھور کر کہا۔

اسلام علیکم!!!!!جیجا جی۔۔۔۔ماہا اسٹیج پہ آتی مرجان کی طرف دیکھ کر مسکراکر بولی زرجان بھی مرجان کی ایک سائیڈ پہ کھڑا ہوگیا تھا اس کی نظر ماہا کے نمایاں ہوتے ڈمپل پہ پڑی تو اپنا دل ڈوپ کے اُبھرتا محسوس ہوا۔

مرجان ساکت سا بس ماہا کو دیکھ رہا تھا جو آج دس سال بعد اس کے روبرو کھڑی تھی اِن دس سالوں میں وہ ایک پل کے لیے بھی ماہا کو نہیں بھولا تھا جس سے اُس کو ایک لمحہ بھی مشکل نہیں ہوئی ماہا کو پہچان نے میں جو بلکل ویسے ہی تھی بس خوبصورت پہلے سے زیادہ ہوگئ تھی مرجان کا گلا خشک ہوگیا تھا۔ماہا طنزیہ مسکراہٹ سے مرجان کو دیکھ رہی تھی۔

ملی جیجا جی نے جواب نہیں دیا۔ماہا نے مصنوعی اُداس بھرے لہجے میں کہا۔

وہ شاید مرجان پہلی بار دیکھ رہا ہے نہ مرجان یہ میری بہن ہے ماہا۔ملیحہ نے مسکراکر ماہا سے کہا پھر مرجان سے ماہا کا تعارف کروایا۔

اوو اچھا پہلی بار تو واقع ہم مل رہے ہیں میرا نام ماہا ریان ہے آپ کی سالی ہونے کا رتبہ مجھے ملنے والا ہے۔ماہا نے مسکراکر کہا زرجان پہلی بار ماہا کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھ رہا تھا جو بہت خوبصورت تھی مگر زرجان کو اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ مرجان سے ایسے بات کررہی تھی اُس کا دل کررہا تھا جب جب ماہا مسکرائے اُس کے لیے مسکرائے اور اُس وجہ سے مسکرائے نہ کے کسی اور کی وجہ سے زرجان خود کو زرنش کرتا نظریں جھکاگیا تھا جو آج بے ایمان ہونے کو تھی دور کھڑی عروہ نے جلتی آنکھوں سے زرجان کی محویت نوٹ کی تھی۔

صرف باتے کرو گی یا رسم بھی کرو گی۔مہرین نے کہا تو ماہا نے سر پہ ہاتھ مارا۔

اوپس سوری میں بھول گئ۔ماہا اتنا کہتی رسم ادا کرنے لگی بیک گراؤنڈ میں پہلے جو ہلکہ سا میوزک بج رہا تھا وہ اب تیز ہوگیا تھا سب لوگ اب ڈانس فلور کی طرف آتے ڈانس کرنے میں مگن تھے جو اسٹیج کے پاس ہی تھا شاہ ویر حیات کا ہاتھ پکڑتا لایا تھا اب دونوں بھی ہلکے ہلکے ڈانس کے اسٹیب کررہے تھے ملیحہ مسکراکر سب دیکھ رہی تھی جب کی مرجان ابھی صدمے کے زیر اثر تھا اس کو اپنا وجود زلزلوں کی زد میں آتا محسوس ہورہا تھا ماہا پرسکون ہوتی مرجان کی حالت دیکھ رہی تھی آج اتنے سال بعد اس کے جلتے دل کو قرار ملا تھا۔

کین وی ڈانس۔زرجان اپنا ہاتھ ماہا کے سامنے کرتا بولا۔ماہا نے ایک آئبرو اُپر کرکے زرجان کو دیکھا۔

ابھی تو ہم یونی میں نہیں سو ہمارے بیچ ٹیچر اسٹوڈنٹ کا رشتہ نہیں۔زرجان نے چمکتی نظروں سے اس کو دیکھ کر کہا کوئی اور وقت ہوتا تو ماہا انکار کردیتی مگر آج اُس کا موڈ بہت اچھا تھا جس وجہ سے اس نے اپنا نازک ہاتھ زرجان کے ہاتھ پہ رکھا زرجان کتنے پل بے یقین سا اپنے ہاتھ کے اُپر ماہا کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتا رہا تھا پھر اپنا ہاتھ زور سے بند کیا جس میں ماہا کا ہاتھ تھا۔

زرجان ماہا کو لیکر اسٹیج پہ آیا تبھی میوزک چینج ہوگیا تھا مگر پھر جو سونگ آن ہوا تھا ماہا کے ساتھ ساتھ زرجان کے ہوش بھی اُڑ گئے تھے کہاں اُس نے رومانٹک سا گانا ڈی جے کو پلے کرنے کا کہا تھا اور اب اُس نے جانے کسی صدی کا سونگ چلایا ہوا تھا۔

یہ کیا ہے۔ماہا نے کینہ توز نظروں سے زرجان کو دیکھ کر کہا جو خود پریشان سا تھا کیونکہ سب لوگوں کی نظریں ان پہ تھی جو گانا شروع ہونے کے بعد بھی بس چپ کھڑے تھے۔شاہ میر،حیات،شاہ ویر گھر کے باقی سب لوگ بھی دلچسپی سے ان کو دیکھ رہے تھے

پتا نہیں میں خود نہیں جانتا سنگر کیا بول رہا ہے کیا گا رہا ہے۔زرجان نے منمناتے ہوئے کہا۔

ڈانس آتی تو ہے نہ؟ماہا نے کنفرم کرنا چاہا۔

بلکل آتی ہے جو چل رہا میں تو اُس میں بھی سلمان خان کو پیچھے چھوڑ دوں۔زرجان نے گردن اکڑاکر کہا

تمہیں تو کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ماہا نے طنزیہ کہا تو زرجان چپ ہوگیا۔

آجا نہ چھولے میری چنڑی

صنم کجھ نہ بولوں تجھے

میری قسم۔

زرجان ہونک سا ماہا کو دیکھ رہا تھا جو اب ماہرانہ طریقے سے ڈانس کے اسیٹپ لے رہی تھی ساتھ میں اپنے لہنگے کو بھی گُھما رہا تھا۔

آج تو میں گیا۔زرجان بالوں میں ہاتھ پھیرتا بڑبڑایا۔

آئی جوانی سر پہ میرے

تیرے پہ کیا کروں جوانی

بے رحم۔

آجا نہ چھولے میری چنڑی

صنم کجھ نہ بولوں تجھے

میری قسم۔

آئی جوانی سر پہ میرے

تیرے پہ کیا کروں جوانی

بے رحم۔

آجا نہ چھولے میری چنڑی

صنم کجھ نہ بولوں تجھے

میری قسم۔

چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔

چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔

۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔

حیات نے شاہ ویر کے کان میں کجھ کہا جس پہ شاہ ویر کی آنکھیں بھی شرارت سے چمک اُٹھی پھر وہ دونوں اُٹھ کر ملیحہ اور مرجان کے پاس آئے ملیحہ کے بار بار منع کرنے کے بعد بھی حیات نے اس کو اپنے ساتھ کھڑا کیا جب کی مرجان کو شاہ ویر اسٹیج پہ لے آیا۔

میری چنڑی لال رنگ کی شرمائے گھبرائے

توں جو ڈالے اُس پہ نظر تو اور لال ہوجائے۔

چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔ چنڑی

چنڑی۔۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔

ماہا نے اپنا گولڈن کلر کا ڈوپٹہ لہراتے زرجان کو دیکھ کر ڈانس کے اسٹیپ کیے جس پہ زرجان اس کے پاس آیا۔

تیری چنڑی لپٹ لپٹ کر

پاگل مجھے بنائے پہلے سے

ہی تڑپ رہا تھا اور مجھے تڑپائے

جانے تمنا کرنا ایسے ستم

زرجان ماہا کے گرد گھومتا آس پاس سے بیگانہ ہوگیا تھا ماہا مسکراکر اس کی طرف پلٹی تھی زرجان سانس روکے بس اس کو دیکھ رہا تھا۔

کجھ نہ میں بولوں مجھے

میری قسم

آئی جوانی سر پہ میرے

تیرے پہ کیا کروں جوانی

بے رحم۔

آجا نہ چھولے میری چنڑی

صنم کجھ نہ بولوں تجھے

میری قسم۔

آئی جوانی سر پہ میرے

تیرے پہ کیا کروں جوانی

بے رحم۔

آجا نہ چھولے میری چنڑی

صنم کجھ نہ بولوں تجھے

میری قسم۔

چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔

چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔

۔۔۔۔۔چنڑی۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا نے ڈانس کرنے وقت انجانے میں اپنا ہاتھ عین زرجان کے سینے پہ دل کے مقام پہ رکھا تھا اور اپنے قدم اس کی طرف بڑھائے تو زرجان نے آہستہ سے اپنے قدم پیچھے کی طرف لیے۔

گانا ختم ہوتے ہی ماہا فورن سے اسٹیج سے اُتر گئ تھی زرجان ساکت سا گزرے پلوں کے زیر اثر تھا مگر فرزام اس کو نیچے لیں آیا تھا اسٹیج سے۔

آج تو بڑی سشمیتا بنی ہوئی تھی۔ماہا پانی پی رہی تھی جب ملیحہ پاس آتی شرارت سے بولی

بکواس نہیں کرو۔ماہا نے مصنوعی گھوری سے نواز کر کہا۔

افف اتنا غصہ ویسے میں نے بہت وقت بعد تمہاری ڈانس کرتا دیکھا تمہارا ڈریم تھا نہ پڑھائی کے ساتھ لنڈن میں بیسٹ ڈانسر بننے کا۔ملیحہ نے مسکراکر کہا

ہاں تھا۔ماہا سنجیدہ ہوکر بولی۔

ملیحہ اللہ کو مانو کیوں شرمندہ کرنے پہ تُلی ہو تمہاری جگہ یہ نہیں وہاں جاؤ اسٹیج پہ تاکہ لگے لڑکی میں کجھ شرم حیا ہے۔مہرین سخت لہجے میں ملیحہ سے بولی۔

شرم آئے تو شرماؤں نہ۔ملیحہ کوفت سے کہتی کھڑی ہوئی اُس کا رخ اب اسٹیج کی طرف تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میم ماہا تو آج بہت الگ نظر آرہی ہے۔احتشام حیرت سے بولا۔

کافی منفرد ان کے چہرے پہ سنجیدگی سے زیادہ یہ مسکرانا سوٹ کررہا ہے۔فرزام اس بات پہ متفق ہوتا بولا۔

ٹیچر کے ساتھ کون ڈانس کرتا ہے اور کون ایسے گھور گھور کر دیکھتا ہے۔عروہ زرجان سے بولی جو ان کے ساتھ ہوکر بھی نہیں تھا۔

لینگویج دیکھو اپنی۔زرجان نے ڈپٹ کر کہا اس کو اپنی سوچو میں عروہ کا خلل ڈالنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔

عروہ تم اپنی دوستوں کے پاس جاؤ۔فرزام نے نرمی سے کہا۔

بٹ بھائی۔عروہ نے کجھ کہنا چاہا پر زرجان وہاں سے چلاگیا تو وہ خاموش ہوگئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہی۔مرجان ماہا کے پاس کھڑا ہوتا دھیمی آواز میں بولا ماہا جو موبائل میں مصروف تھی اپنے پاس مرجان کی آواز سن کر ایسے ظاہر کیا جسے سنا ہی نہ ہو۔

مجھے بات کرنی ہے تم سے۔مرجان نے پھر کہا

آپ مجھ سے بات کررہے ہیں۔ماہا نے سر اٹھایا کر اپنی طرف سے حیرت کا اظہار کیا۔

ہاں تم سے ماہی

ماہا نام ہے میرا ماہا ریان۔ماہا نے مرجان کی بات بیچ میں ٹوک کر بولی۔

تمہارا نام ماہی ہے۔مرجان اُلجھ کر کہا

ماہا ریان۔ماہا نے اپنی بات پہ زور دے کر کہا۔

اچھا جو بھی میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔مرجان نے کہا

جیجا جی معافی کس بات کی؟ماہا نے پوچھا

تم جانتی ہوں۔

میں کجھ نہیں جانتی۔ماہا نے دوبدو جواب میں کہا

اجنبی کی طرح کیوں بیہیو کررہی ہو جیسے تم مجھے جانتی ہی نہیں؟مرجان نے جھنجھلا کر کہا۔

کیونکہ میں واقع میں آپ کو نہیں جانتی۔ماہا نے کندھے اُچکاکر کہا۔

مجھے معاف کردو۔مرجان نے التجا کی وہ سمجھ گیا تھا وہ نفرت کی وجہ سے ایسے برتاؤ کررہی ہے۔

ایکسکیوز می۔ماہا کہہ کر وہان سے گزر گئ مرجان بس اس کو جاتا دیکھتا رہا وہ اتنا تو جانتا تھا جب ان دونوں کا سامنا ہوگا وہ اس کو بے رخی ضرور دیکھائے گی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کے وہ سِرے سے ہی اُس کو پہچان نے سے انکاری ہوگی۔

اب کے مجھے کو دیکھ کر وہ دیکھتا رہ جائے گا

اِس قدر خود کو بدلیں گے خود کو وہ سوچتا رہ جائے گا

💕💕💕💕💕💕💕💕

زرجان کمرے میں لیٹا آج کے فنکشن کی تصویریں دیکھ رہا تھا کجھ پکچرز پرسنلی اس نے اپنی فون میں ماہا کی لی تھی جس پہ اس نے گیلری میں پرائیویسی لگادی تھی اب وہ مسکراکر ایک پکچر کو سو سو بار زوم کرتا دیکھ رہا تھا پر دوسری پکچر پہ بھی یہی عمل کرتا۔

جاگ رہے ہو؟ شاہ میر زرجان کے کمرے میں آتا بولا شاہ میر کو آتا دیکھ کر زرجان نے اپنی فون کی اسکرین بند کی۔

ًڈیڈ آپ یہاں اِس وقت۔زرجان نے پریشانی سے پوچھا۔

ہاں حیات کے پاس تھا سوچا تمہیں دیکھتا چلوں۔شاہ میر نے کہا

حیات کے پاس؟

کل اُس کی رخصتی جو ہے۔شاہ میر اُداسی سے مسکراکر بولا۔

آپ بیٹھے۔زرجان نے بیڈ کی جانب اشارہ کرتے کہا۔

زر میری بات غور سے سننا۔شاہ میر کجھ دیر خاموشی کے بعد بولا۔

آپ بولیں۔

میں چاہتا ہوں تم ایم بی اے تین سال لنڈن میں کرو۔شاہ میر کی بات پہ زرجان کا تنگ پل بھر میں فق ہوا تھا تین سال لنڈن مطلب تین سال ماہا سے دوری جو زرجان ایک پل کے لیے بھی برداشت نہیں کرپاتا تھا۔

ڈیڈ یہ آپ کا کیا کہہ رہے ہیں۔زرجان کو اپنی آواز کھائی سے آتی ہوئی لگی۔

تم بھی تو یہی چاہتے تھے نہ پر مجھے ٹھیک نہیں لگا اِس لیے پر اب سوچ رہا ہوں تمہارے سمسٹر ختم ہوجائے پھر تم لنڈن جانے کی تیاری کرو۔شاہ میر نے وجہ بتائی۔

پر میں اب یہی رہنا چاہتا ہوں۔زرجان نے سنجیدگی سے کہا۔

پر میں اور ماہ تمہیں لنڈن بھیجنا چاہتے ہی۔

وجہ جان سکتا ہوں آپ مجھے اچانک کیوں بھیجنا چاہتے ہیں؟زرجان نے سوال کیا۔

تاکہ تمہارا دماغ بس پڑھائی کی حد تک ہو۔شاہ میر نے جواب دیا زرجان کو لنڈن بھیجنے کی ضد مہرماہ نے کی تھی جو شاہ میر ناچاہتے ہوئے بھی پوری کررہا تھا۔

اب کونسا سرکس میں ہوتا ہوں۔زرجان چڑ کر بولا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا جو شاہ میر کے ساتھ ایسے بات کی تھی اُس نے۔

زر میں نے کب کہا ایسا میں بس جو چاہتا تھا وہ تمہیں بتادیا۔شاہ میر نے نرمی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

میں یہی سہی ہوں۔زرجان نے فورن سے کہا شاہ میر بس گہری سانس بھرتا رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

آج برات کا دن تھا ہر کوئی اپنی تیاریوں میں مصروف ہوچکا تھا سب نے آج بھی ہوٹل جانا تھا جہاں ساری اریجمینٹ کی گئ تھی شاہ میر آیان کے ساتھ ہوٹل میں ساری ڈیکوریشن کا انتظام دیکھنے گئے تھے تاکہ کوئی کمی پیشی نہ ہوجائے۔

ماہا سارا سامان لے لیا ہے نہ؟مہرین نے عجلت میں ماہا سے پوچھا جو سوٹ کیس گھسیٹ کر آرہی تھی جو ملیحہ کا تھا۔

یس موم بس یہ سوٹ کیس آپ گاڑی میں رکھوادے بہت بھاری ہے۔ماہا نے کہا

میں رکھواتی ہوں تب تک تم ایک بار پھر ملیحہ کے کپڑے جیولری اور میچنگ کا ہر سامان دیکھ لو۔مہرین نے ہدایت کی۔

اوکے۔ماہا سرہلاتی اندر کی طرف بڑھی۔

کیا ہوا اُداس ہو؟ماہا اندر آئی تو ملیحہ کو گم سم پایا۔

جب تمہاری شادی ہوگی نہ تو تمہیں بھی اُداسی ہوگی۔ملیحہ نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔

نہ کرو پھر شادی کونسا ہم زبردستی کروارہے ہیں شادی۔ماہا سر جھٹک کے بولی۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے جب لڑکیاں اپنے گھروالوں سے الگ ہوتی ہے تو وہ اُداس ہوجاتی ہے اپنے اندر اُس کو خالی پن سا محسوس ہوتا ہے۔ملیحہ نے ابھی کی کجھ تفصیل سے بتایا۔

چادر پہن لو پارلر جانا ہے۔ماہا اس کی بات سن کر بولی۔

ہممم۔ملیحہ نے بس اتنا کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شادی ہے تمہاری اور تم یہاں بیٹھے ہو ابھی تک۔شاہ ویر مرجان کے کمرے میں آتا بولا مرجان نے کوئی جواب نہیں دیا جس سے شاہ ویر کی عجیب لگا۔

سب ٹھیک ہے؟شاہ ویر پاس بیٹھ کر بولا مرجان نے شاہ ویر کو دیکھا جس کی فکرمند نظریں اس کے چہرے پہ جمی ہوئی تھی۔

ماہی کا پتا لگ گیا۔مرجان سپاٹ انداز میں بولا

واقع کہاں ہیں وہ تمہیں کیسے ملی؟شاہ ویر نے فورن سے پوچھا۔

ماہا ماہی ہے۔مرجان عجیب انداز میں مسکراتا بولا۔

ماہا ریان انکل کی بیٹی؟شاہ ویر نے تصدیق چاہی۔

ہمم۔مرجان مضطرب سا بولا

تم نے پھوپھا میر کے اکلوتے بیسٹ فرینڈ کی بیٹی کو چیٹ کیا تھا۔شاہ ویر کو یقین نہیں آرہا تھا۔

مجھے نام اب پتا چلا ہے اس کا باپ کا کیسے پتا چلتا۔مرجان اپنا سر ہاتھوں میں گِراکر بولا۔

ملیحہ کی بہن ہے وہ میری مانو تو اس کو سب سچ سچ بتادو ورنہ بعد میں مسئلا ہوجائے گا۔شاہ ویر نے سنجیدگی سے کہا

وہ عین نکاح کے وقت انکار کردے گی۔مرجان نے افسوس سے کہا

شادی کے بعد بھی تو پروبلمز ہوگی اچھا ہے رشتے کی شروعات سچائی سے ہو جہاں دونوں کے درمیان کوئی راز نہ ہو سب پیور ہو۔شاہ ویر نے پھر کہا

مجھے محبت ہے ملیحہ سے۔مرجان بے بسی سے بولا

ایسا ہی کجھ اس کی بہن سے کہا تھا۔شاہ ویر کا لہجہ ناچاہتے ہوئے بھی طنزیہ ہوگیا۔

شادی کے کجھ عرصے بعد بتادوں گا پھر اس کے پاس میرے ساتھ رہنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔مرجان شاہ ویر کی بات نظرانداز کرتا بولا۔

وہ راستہ کمپرومائزنگ کا ہوگا تم یہ چاہتے ہو وہ پوری زندگی تمہارے ساتھ سمجھوتہ کرے۔شاہ ویر نے تاسف سے اس کو دیکھ کر کہا

جہاں محبت ہو وہاں کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔مرجان نے کہا۔

کیا پتا اس سے پہلے ماہا ساری حقیقت سے پردہ اٹھالیں پھر۔

اگر اُس کو ایسا کرنا ہوتا تو کب کا کرچُکی ہوتی۔مرجان نے شاہ ویر کی بات پہ کہا

کیا پتا وہ سہی وقت آنے کا انتظار کررہی ہو۔شاہ ویر نے اندازہ لگایا۔

اب ایسا بھی نہیں ہوگا بس میں یہ چاہتا ہوں میں نے جو کیا وہ بات مما ڈیڈ یا گھر کے کسی بھی فرد کے سامنے لیک نہ ہو۔مرجان نے سپاٹ انداز میں کہا

باتیں چُھپائے نہیں چُھپتی ہر بھید وقت پہ کُھلتا ہے اِس لیے خود کو ہر طرح سے تیار رکھو۔شاہ ویر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب لوگ ہوٹل پہنچ گئے تھے مرجان اور شاہ ویر اسٹیج پہ بیٹھ کر اپنی اپنی دلہن کے آنے کا انتظار کررہے تھے۔مرجان رویل بلیو کلر کی شیروانی پہنی تھی جس پہ وہ ہمیشہ کی طرح سمارٹ اور ڈیشنگ لگ رہا تھا شاہ ویر نے ڈارک بلیو کلر کی شیروانی پہنی تھی جو اس پہ انتہا کی جچ رہی تھی اُپر سے اس کے چہرے کی چمک مزید اس کو خوبصورت بنارہی تھی۔

زرجان تم کہاں جارہے ہو؟عروہ اپنی میکسی سنبھالتی زرجان سے بولی جو کال پہ بات کرتا باہر کی طرف جارہا تھا زرجان نے آج وائٹ کلر کا کُرتا اور اس کے ساتھ بلیک کلر کی واسکوٹ پہن رکھی تھی جس سے وہ اپنی مثال آپ لگ رہا تھا بال ماتھے پہ بے ترتیب سے تھے۔

کام ہے۔زرجان نے خلافِ معمول نرمی سے جواب دیا۔

اچھا میں کیسی لگ رہی ہوں۔عروہ نے خوش ہوکر پوچھا جب کی اس کی بات سن کر زرجان نے اپنا سر اٹھایا تو اس کی نظر سامنے آتی ماہا پہ پڑی تو آنکھیں جھپکنا بھول گئ زرجان کی نظریں ماہا پہ ٹِک گئ تھی جو اسکن چولی کے ساتھ بلیو کلر کے لہنگے میں کسی اپسرہ کو بھی مات دے رہی تھی چہرے پہ ہلکہ سا میک اپ کیا ہوا تھا جب کی بال کھلے ہوئے تھے عروہ نے زرجان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو جل بھن کر خاک ہوئی۔

زرجان موم کو کہیں دیکھا ہے تم نے مجھے یہ میٹھائی کا ڈبہ دینا تھا۔ماہا زرجان کے پاس آتی بولی جو یک ٹک اس کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو راحت پہنچا رہا تھا۔

زرجان۔ماہا نے پھر پوچھا تو وہ ہوش میں آیا عروہ اِس بیچ وہاں سے چلی گئ تھی۔

آنٹی مما اور مامی چچی یہ سب میک اپ روم میں ہیں۔زرجان نے بتایا۔

اچھا میں بھی جاتی ہوں تم یہ یو ایس پی ڈے جے کو دینا اِس میں سونگز ہیں اور دیکھنا کل کی طرح کجھ نہ ہو۔ماہا نے کہا تو زرجان نے مسکراکر سرہلایا پھر ایک خیال آتے ہی بول پڑا۔

آپ کا پارٹنر میں بنوں گا۔زرجان کی بات پہ ماہا نے عجیب نظروں سے دیکھا تو زرجان گِڑبڑاگیا

میرا مطلب تھا ڈانس پارٹنر۔زرجان نے وضاحت کی تو ماہا نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دونوں دلہنوں کو اسٹیج پہ بیٹھا دیا گیا تھا کجھ دیر میں نکاح بھی ہوگیا تھا ملیحہ ریان اب ملیحہ مرجان جب کی حیات میر اب حیات شاہ ویر بن چُکی تھی سب لوگ باری باری ان کو مبارکباد دیتے جارہے تھے جو شاہ ویر تو خوش اسلوبی سے وصول کررہا تھا مگر مرجان چاہ کر بھی خوش نہیں ہوپارہا تھا۔مرجان نے ایک نظر پاس بیٹھی ملیحہ پہ ڈالی جس نے ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگا پہنا تھا پھر دوسری سامنے جہان ماہا آرہی تھی بیک گراؤنڈ میں گانا چل رہا تھا اب شاید ماہا نے ڈانس کرنا تھا کیونکہ اس کے پیچھے بہت ساری لڑکیاں بھی تھی۔

Ballay ballay ni dor panjaban di

Ho ballay ballay ni dor panjaban di

Ho jutti khal di marona nio chal di dor panjaban di

Ho jutti khal di marona nio chal di dor panjaban di

Ho ballay ballay!!!!

ماہا اسٹیج کے سامنے کھڑی ہوتی ڈانس کے اسٹیپ لینا شروع کرچکی تھی سب لوگ ستائش بھری نظروں سے اس کو دیکھ رہے تھے شاہ میر کی نظریں زرجان کی چمکتی آنکھوں پہ تھی مہرماہ بس پریشان ہو رہی تھی۔

Raat ki rangeeni dekho

Kiya rang lai hai

Hathon ki mehindi bhi jaise

Khil-khil aae hai

زرجان بنا کسی کی پرواہ کیے جان لُٹاتی نظروں سے ماہا کو دیکھ رہا تھا جس کی نظریں ڈانس کے اسٹیپ کرتے مرجان پہ تھی حیات اپنے چہرے سے گھونگھٹ ہٹاتی ماہا کا خوبصورت ڈانس دیکھ رہی تھی اُس کی حرکت پہ مہرماہ نے باقاعدہ اپنا سر پکڑ لیا تھا شاہ میر مسکراہٹ دباتا مہرماہ سے دور کھسک گیا تھا۔

Mastiyon nay aankh yun kholi

O..jhumti dhadhkan yahi boli

Balay balay ....

Ho ballay balay nache hai ye bawara jiya

Balay balay le jaega sanwara piya

Jale jale naino mai jaise pyaar ka diya

Ballay balay nache hai ye bawara jiya

Balay balay le jaega sanwara piya

زرجان اپنی واسکوٹ اُتارتا ماہا کے پاس آیا جو گول گول گھومتی ڈانس کے اسٹیپ لیں رہی تھی۔

Jee bhar k aaj naach le

Aaa saari raat nach le

Sharmana chod nach le

Naach le...oye oye !!

زرجان ماہا کے پیچھے کھڑا ہوگیا تھا جب اُس کا کندھا ماہا کے کندھے سے ٹکڑاگیا تھا جو ڈانس کرتے وقت ماہا نے محسوس نہیں کیا پر زرجان کے دل نے زور سے اسپیڈ پکڑ لی تھی۔

Chahnay laghe dil jisse ussi p addh jayee

Door na rahe yaar say aankh jab ladh jayee

Ho jaha bhi ho raasta ussi p mod jaayee

Koi pyaar ka rang sa badan mai chid jayee.

Khowab aankho mai sajayeega piya k sang re

Gin gin gin gin k ab din aae wo piya k sang--

O ballay ballay....

o ballay balay nache hai ye bawara jiya

Balay balay le jaega sanwara piya

Jale jale naino mai jaise pyaar ka diya

Ballay balay nache hai ye bawara jiya

Balay balay le jaega sanwara piya

زرجان اور ماہا اسٹیج پہ آتے اُن چاروں کو بھی اپنے ساتھ ڈانس کے لیے کھڑا کیا تھا گانا ختم ہوتے ہی باقی سب لوگوں نے زور شور سے تالیاں بجانا شروع کردی تھی۔

یہ لیں۔ماہا دور صوفے پہ تھکن زدہ ہوکر بیٹھی ہی تھی جب زرجان نے پانی کا گلاس اُس کے سامنے کیا۔

شکریہ۔ماہا نے گلاس پکڑ کر کہا۔

آپ ڈانس بہت اچھا کرتی ہیں۔زرجان فاصلے پہ بیٹھ کر بولا۔

تم بھی کم اچھا نہیں کرتے۔ماہا نے ایک سانس میں پانی کا گلاس خالی کرکے کہا۔

میں نے بس ایسے ہی۔زرجان اتنا کہتا کان کی لو کھجانے لگا جبھی منہاج ان کے پاس آکر بولا۔

زر بھائی رخصتی ہونے والی ہے آپ کو وہاں بلارہے ہیں۔منہاج کہہ کر چلاگیا تو وہ دونوں بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔

ملیحہ اور حیات کو قرآن کے سائے میں رخصت کردیا گیا تھا ملیحہ ریان کے گلے لگ کر خوب روئی جب کی حیات مہرماہ کے خوب ڈانٹنے پہ بھی ایک مصنوعی آنسو تک نہیں بھایا بس شاہ میر کے ساتھ لگ کر خوب ساری بات کی جو شاہ میر بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔

💕💕💕💕💕

شاہ ویر کمرے میں آیا تو حیات کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا جو اپنے شادی کے جوڑے میں ملبوس فروٹس کھانے میں مصروف تھی۔

اسلام علیکم!!!شاہ ویر بیڈ پہ بیٹھ کر بولا

وعلیکم اسلام!!حیات اتنا سلام کا جواب دیتی بیڈ سے نیچے لٹکتا اپنا ڈوپٹہ اُٹھا کر اوڑھا شاہ ویر حیرت سے اُس کی ساری کروائی ملاحظہ فرمارہا تھا جس نے اب اپنا چہرہ چُھپا لیا تھا۔

میری منہ دیکھائی۔حیات نے اپنا نازک ہاتھ اس کے سامنے کیا شاہ ویر مسکرادیا

تو ساری نوازش منہ دیکھائی کی وجہ سے تھی۔شاہ ویر نے کہا تو حیات نے اپنا سرہلایا۔

میں نے تو تمہارا خوبصورت چہرہ دیکھ لیا۔شاہ ویر حیات کا ہاتھ پکڑ کر وہاں اپنے لب رکھ کر بولا جس پہ حیات بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔

دوبارہ نہیں دیکھنا کیا۔حیات خود کو کمپوز کرتی بولی۔

دیکھنا ہے نہ ہر لمحہ۔شاہ ویر نے اتنا کہہ کر ڈوپٹہ اس کے چہرے سے ہٹادیا۔

بہت پیاری لگ رہی ہو۔شاہ ویر نے عقیدت سے اس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا جس پہ حیات نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کرکے اس کا لمس محسوس کیا۔

منہ دیکھائی۔حیات نے پھر کہا۔

یہ لو۔شاہ ویر نے اپنی جیب سے مخملی کیس نکال کر سامنے کیا حیات نے جھٹ سے پکڑ کر کُھولا تو اس میں خوبصورت سی رنگ تھی۔

اِٹس سو بیوٹیفل۔حیات نے انگھوٹی پکڑ کر کہا۔

پسند آئی۔شاہ ویر نے پوچھا

افکورس اگر ڈائمنڈ کی نہ ہوتی تو بھی۔حیات نے مسکراکر کہا۔

پہنادوں؟شاہ ویر نے اجازت چاہی تو حیات نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا جو شاہ ویر نے بڑی چاہت سے تھام لیا۔

تمہاری منہ دیکھائی۔مرجان نے ایک بوکس ملیحہ کی طرف بڑھا کر کہا۔

شکریہ۔ملیحہ نے بوکس سائیڈ پہ رکھ کر کہا۔

دیکھو گی نہیں کیا ہے اُس میں؟مرجان نے سوال کیا۔

دیکھتی ہوں۔ملیحہ نے اپنے سر سے ڈوپٹہ اُتار کر کہا۔

بہت اچھا ہے۔ملیحہ نے بوکس کھول کر کہا جس میں ہیرو کا جگمگاتا بریسلیٹ تھا۔

تم سے زیادہ نہیں۔مرجان نے اُس کے ہاتھ کی پشت پہ لب رکھ کر کہا۔

کوئی پریشانی ہے۔ملیحہ نے پوچھا اس کو مرجان کی مسکراہٹ مصنوعی لگی تو پوچھنے کا سوچا۔

ارے واہ ابھی سے سمجھنے لگی ہو۔مرجان نے شرارتً کہا۔

آپ بتائے نہ۔ملیحہ بضد ہوئی۔

دیکھو ملیحہ زندگی میں کبھی تمہیں لگے نہ پتا کوئی بات تو یہ سوچ کر مجھ سے ناراض نہ ہوجانا کے میں نے کیوں تم سے بات چھپائی بلکہ یہ سوچنا کے ایسی کیا بات تھی جو میں نے تمہیں نہیں بتائی۔مرجان ملیحہ کا حنائی والا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا۔

مجھے یہ دونوں چیزیں سوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ملیحہ کی بات پہ مرجان نے ناسمجھی سے اس کو دیکھا۔

مجھے پتا ہے آپ کبھی ایسا وقت آنے ہی نہیں دے گے۔ملیحہ نے پُریقین انداز میں کہا تو مرجان نے افسردہ سانس خارج کی۔

💕💕💕💕💕💕💕

مہرماہ واشروم سے چینج کرکے نکلی تو کمرہ خالی پایا وہ سمجھ گئ شاہ میر کہاں ہوگا اِس لیے تولیہ صوفے پہ رکھ کر کمرے سے باہر نکل کر حیات کے کمرے میں آئی جہاں شاہ میر خاموش سا کمرے کی ہر چیز کو چھوکر دیکھ رہا تھا۔

شاہ ابھی تک یہاں ہو سونا نہیں کیا۔مہرماہ نے شاہ میر کو افسردہ دیکھ کر کہا۔

نیند نہیں آرہی آپ جاکر سوجائے میں بعد میں آجاؤں گا۔شاہ میر آنکھوں کی نمی کو اندر دھکیلتا آرام سے بولا۔

شاہ تمہاری ڈول پاس والے گھر میں ہی تو ہے پھر یہ اُداسی کیوں؟مہرماہ نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

باپ ہوں بیٹی شادی کے بعد پاس رہے یا قریب اس کی کمی تو محسوس ہوتی ہے نہ۔شاہ میر زبردستی مسکراکر بولا۔

شاہ تم حیات سے مجھ سے زیادہ چاہتے ہو۔مہرماہ نے نروٹھے پن سے کہا مقصد اس کا دھیان بٹانا تھا۔

ایسا نہیں آپ کا مقام الگ ہے حیات کا الگ وہ میری بیٹی ہے۔شاہ میر اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا۔

مسکراؤ پھر۔مہرماہ نے کہا تو شاہ میر مسکرادیا۔

شاہ تم پریشان نہ ہو حیات کے بارے میں وہ اپنی نانو اور ماموں کے گھر میں ہے ویر بہت چاہتا ہے اُس کو۔مہرماہ نے شاہ میر کو رلیکس کرنے کی خاطر کہا۔

آپ کے کہنے پہ میں نے اِس رشتے کی حامی بھری ورنہ میرا ارادہ گھر داماد بنانے کا تھا۔شاہ میر نے مہرماہ کی معلومات میں اضافہ کیا جس پہ مہرماہ بس اس کو گھور سکی۔

💕💕💕💕💕💕

ناشتہ تیار ہے؟مہرین نے ماہا سے پوچھا جو کتاب پڑھنے میں مگن تھی۔

جی میں نے سیٹ کرلیا ہے سب آپ جائے صبح کے نو بج رہے ہیں۔ماہا نے کہا

کیوں کیا تم نہیں چل رہی ہمارے ساتھ؟مہرین نے پوچھا۔

نہیں میرا کیا کام وہاں۔ماہا نے کندھے اُچکاکر کر کہا۔

بہن ہے وہ تمہاری ناشتہ لیکر جارہے ہیں ہم وہاں تمہارا آنا لازم ہے۔مہرین نے دو ٹوک کہا

آپ ڈیڈ اور ولی کے ساتھ جا تو رہی ہیں۔ماہا نے کوفت سے کہا

مجھے کجھ نہیں سننا دس منٹ ہے تمہارے پاس جلدی سے آجانا۔مہرین نے حکیمہ انداز میں کہا جس پہ ماہا کو ناچار اٹھنا ہی پڑا۔

💕💕💕💕

زرجان نائٹ سوٹ پہنے بکھرے بالوں سمیت سیڑھیاں اُتر رہا تھا جب اُس کی نظر ہال میں بیٹھی ماہا پہ پڑی تو اُس نے ایک نظر خود کو دیکھا پھر اُپر واپسی کے لیے ڈور لگائی۔

مہرو اور میر صبح سویر ہی حیات کی طرف گئے ہوئے ہیں۔ہانم بیگم نے مہرین کو بتایا۔

اچھا ہم زرہ لیٹ ہوگئ۔مہرین نے کہا

آپ کو لیٹ نہیں ہوا میر کو جلدی تھی بس۔حیدر خان نے کہا تو سب مسکرادیئے۔

تم کیوں خاموش ہو؟ریان نے مرجان سے پوچھا

خاموش تو نہیں میں۔مرجان نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر کہا

منہ دیکھائی میں کیا ملا۔ماہا نے پوچھا تو ملیحہ نے مسکراکر اپنا ہاتھ اُس کے آگے کیا۔

نائیس۔ماہا نے بس اتنا کہا۔

اسلام علیکم!!!زرجان براوٴن ٹی شرٹ وائٹ جینز پینٹ پہنے ڈھیر پرفیوم لگائے ہشاش بشاش لہجے میں بولا۔

وعلیکم اسلام!!تمہارا چہرہ تو ایسے چمک رہا ہے جیسے شادی کی پہلی صبح مرجان کی نہیں تمہاری ہے۔ریان نے مرجان کی خاموشی پہ ٹونٹ کرکے زرجان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جس کے گیلے بال ماتھے پہ چپکے ہوئے تھے چہرہ اور آنکھوں کا رنگ ماہا کی موجودگی بھی چمک اُٹھا تھا۔

بھائی کی تو ہے نہ تو بس فلحال ان کی شادی پہ خوش ہوں اپنی باری جب آئے گی تو دیکھا جائے گا۔زرجان اپنے گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا مسکراکر بولا۔

میں کیسے بھول گیا تم میر کی کاربن کاپی ہو۔ریان اس کی حاضر جوابی پہ کلس کر بولا

ڈیڈ بولتے ہیں میں مما پہ گیا ہوں بس آنکھیں اُن سے چُرائی ہے۔زرجان نے معصومیت سے کہا

ناشتہ ٹیبل پہ لگادیا ہے آجائے آپ سب لئے لوگ۔ہانیہ نے کہا تو سب اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

💕💕💕💕

کوئی مسئلا ہوا تو فورن سے مجھے بتانا اگر ویر تنگ کرے یا کوئی بات نہ مانے تو بھی پھر میں جانوں اور ویر۔شاہ میر نے اپنی سینے پہ سر ٹکائے بیٹھی حیات سے بولا جو مسکراکر اس کی باتیں سن رہی تھی۔

شاہ اب بس بھی کرو۔مہرماہ نے بیزار ہوکر کہا

مما یہ ہم دونوں باپ بیٹی کا پرسنل معاملہ ہے سو پلیز۔حیات نے زچ کرنے والی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر کہا تو مہرماہ کا منہ کُھل گیا اس نے شاہ میر کو دیکھا جو سر جھکائے اپنی مسکراہٹ دباکر رہا تھا مہرماہ کا دل کیا رونے لگ جائے مگر اپنی عمر کا سوچ کر ان کو نظرانداز کردیا۔

مما کا ناراض کردیا نہ۔شاہ میر نے آہستہ آواز میں حیات سے کہا

آپ منالیجیئے گا۔حیات نے آرام سے مشورہ دیا۔

وہ تو منالوں گا تم چل رہی ہو نہ ہمارے ساتھ ابھی۔شاہ میر نے پوچھا۔

جی بلکل مجھے زر سے بھی کام ہے۔حیات نے بتایا۔

تمہیں کوئی سامان لینا ہے تو لوں ریان کے بہت میسجز آچُکے ہیں۔شاہ میر نے اپنا موبائل دیکھ کر کہا۔

میں اپنا فون لوں کمرے سے بس۔حیات شاہ میر سے دور ہوتی بولی شاہ میر نے مہرماہ کو دیکھا جو ثانیہ سے بات کرتے خود کو مصروف ظاہر کررہی تھی۔

شاہ میر مہرماہ اور شاہ ویر حیات گھر آئے تو سب کو انتظار کرتا پایا۔

سوری دیر ہوگئ۔مہرماہ سب ملتی معذرت خواہ لہجے میں بولی۔

آپ آج اتنی چُپ کیوں ہیں؟زرجان سے رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا وہ نوٹ کررہا تھا جب سے وہ نیچے آیا ہے ماہا نے ایک لفظ تک نہیں بولا۔

باتیں نہیں میرے پاس کرنے کے لیے۔ماہا جواب دیتی ملیحہ کے پاس چلی گئ جس پہ زرجان کا منہ اُترگیا۔

تمہارے چہرے پہ کیوں بارہ بجے ہوئے ہیں۔حیات زرجان کے پاس بیٹھتی آرام سے بولی۔

بارہ بجے یا تیرہ چودہ آپ کو کیا۔زرجان نے حیات کو دیکھ کر کہا۔

چار سال بڑی بہن ہوں مگر مجال ہے جو میری عزت ہو تمہاری نظر میں۔حیات بُرا مان کر بولی۔

اب ایسا بھی نہیں آپ خوامخواہ سیریس ہوگئ۔زرجان کو اپنے روڈ بیہیویر کا احساس ہوا تو فورن سے کہا۔

اگر ایسا نہیں تو میں جو کہوں گی وہ میں بات مانوں گے۔حیات دل میں خود کی اداکاری پہ شاباشی دیتی ہوئی بولی۔

میں کیسے بھول گیا جیسے آپ ڈیڈ کی ڈول ہے ویسے ہی مما کی نظر میں ڈرامہ کوئین ہے۔زرجان اپنا سر نفی میں ہلاتا ہوا بولا۔

زیادہ بنو مت کل ہمارا ولیمہ ہے تو میں چاہتی ہوں جیسے تم نے مہندی اور شادی کے دن ڈانس کیا تھا کل گانا گاوٴ میرے لیے۔حیات نے چہک کر کہا زرجان نے حیات کو ایسے دیکھا جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو اُس نے جو سنا وہ واقع سچ ہے۔

میں زرجان میر ہوں عاطف اسلم نہیں۔زرجان نے اپنی پہچان کروائی۔

پتا ہے مجھے عاطف اسلم کی تو ایک بات بھی تم میں نہیں پر میری بات مان لوں گانا گانا سچی میرا دل خوش ہوجائے گا۔حیات نے مسکین شکل بناکر کہا

مجھے نہیں آتا۔زرجان نے ہڑی جھنڈی دیکھائی۔

میری آنکھ سے بس ایک آنسو نکلے گا پھر تم ایک گانا تو کیا ڈیڈ تم سے پورا البم گانے کا کہے گے۔حیات نے اب کی دھمکی دی۔

کیا یار آپی مجھے نہیں گایا جاتا گانا۔زرجان جھنجھلاکر بولا

تمہاری آواز اچھی ہے پلیز میری خاطر ایک دفع گانا گانے میں کیا ہے دوسری بات یہ مجھے پتا ہے کبھی تمہیں کسی کام کے لیے میری ضرورت پڑے گی اِس لیے مجھ سے بناکر رکھو۔حیات نے لالچ دیتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے۔زرجان نے احسان کرنے والے انداز میں کہا۔

💕💕💕💕💕

شاہ تم کیسے بھی کرکے زر کو راضی کرو لنڈن جانے کے لیے۔مہرماہ نے سنجیدگی سے شاہ میر سے کہا

بات کی تھی میں نے پر وہ راضی نہیں اب میں زبردستی تو نہیں کرسکتا نہ۔شاہ میر نے جواب دیا۔

شاہ ایسا نہ ہو بعد میں پچھتانا پڑے۔مہرماہ نے پھر کہا

پچھتاوا کیسا ماہ نہ میں زر کے دل سے ماہا کی محبت نکال سکتا ہوں اور نہ ہی ایسا کرنا زر کے اختیار میں ہے۔شاہ میر بھی اب سنجیدہ ہوا

محبت نہیں ہے یہ بس اٹریکشن ہے جو زر کو ہوئی ہے ماہا کی خوبصورتی دیکھ کر جس سے وہ اپنے اور اُس کے درمیان چھ سال کو بھی فراموش کر بیٹھا ہے۔مہرماہ کی بات پہ شاہ میر کو افسوس ہوا۔

میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کے کوئی کسی کو محبت کو پہلے یا وقت پہ کیوں نہیں سمجھ سکتا ہے کئ سال پہلے میری محبت بھی آپ سب کو میرا بچپنا لگا تھا اور اب زر کی محبت آپ کو اٹریکشن لگ رہی ہے ہم کسی کے دل کی حالت سے واقف نہیں ہوتے پر ہمیں دوسروں کی محبت کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنی چاہیے ناکہ کبھی بچپنا کبھی وقت اٹریکشن کبھی نادانی تو کبھی کجھ تو کبھی کجھ میں باپ ہوں زر کا اگر وہ مجھ سے اِس معاملے میں بات کرے گا تو میری پوری سپورٹ ہوگی اُس کے ساتھ۔شاہ میر نے اٹل انداز میں کہا۔

میرے دل میں تمہارے لیے جذبات تھے شاہ پر ماہا سب سے الگ ہے وہ کبھی زر کو قبول نہیں کرے گی اِس لیے بار بار دھتکارنے سے اچھا ہے وہ ایک بار سہی معنوں میں دھتکار حاصل کرے۔مہرماہ اپنی بات پہ قائم رہی۔

آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں محبت اتنا کمزور جذبہ نہیں وہ اپنا آپ منوالیتی ہے جیسے آپ کا دل پگھلا تھا ماہا کا دل بھی زر کے لیے پِگھل جائے گا۔شاہ میر نے مہرماہ کو بیڈ پہ بیٹھاکر سمجھانے والے انداز میں کہا۔

تم سب لوگوں نے قسم کھائی ہوئی ہے مجھے پریشان کرنے کی پر میں بتارہی ہوں میں زر کو دُکھی نہیں دیکھ سکتی۔مہرماہ نے سر ہاتھوں میں گِراکر کہا۔

پریشان نہیں ہو آپ وقت ابھی نہیں آیا جب آئے گا تو دیکھا جائے گا اللہ نے اگر زر کے دل میں محبت ڈالی ہے تو یقیناً ان کے ملنے کا بھی کوئی نہ کوئی سبب بنایا ہوگا۔شاہ میر پریقین ہوکر بولا مہرماہ خاموشی سے اُس کو سنتی رہی۔

💕💕💕💕

آج اُن چاروں کا ولیمہ تھا جو گھر کے لان میں ہی کیا گیا تھا باقی فنکشنز کی نسبت مہمانوں کو بھی کم انوائٹ کیا گیا تھا۔

مرجان ملیحہ نے سیم کلر کی ڈریسنگ کی تھی مرجان نے گولڈن کلر کی شیروانی پہنی تھی تو ملیحہ نے گولڈن کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا جس سے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

شاہ ویر اور حیات نے بھی سیم کلر کی ڈریسنگ کی تھی شاہ ویر نے براوٴن شیروانی پہنی تھی تو حیات نے براوٴن کلر کا لونگ فراق پہنا تھا۔

زرجان نے آج بلیک کلر کا شلوار قمیض پہنا تھا ساتھ میں کندھے پہ بلیک شال پہنی تھی جس وہ بہت باوقار لگ رہا تھا۔

ماہا نے سی گرین کلر کا سادہ سا فراق پہنا تھا جو گھٹنوں تک تھا بھورے بال کھلے ہوئے تھے چہرہ میک اپ سے پاک تھا مگر وہ اپنے سادہ حلیے میں بھی سبھی لڑکیوں کو مات دے رہی تھی۔

سیلفی ہوجائے ایک۔ماہا ملیحہ کے پاس جارہی تھی جب حیات نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا ماہا نے سوچا انکار کردے مگر اس کی مسکراہٹ دیکھ کر انکار نہ کرسکی۔

زرجان اسٹیج سے دور تھا جب اُس کے موبائل پہ میسج ٹون بجی جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو حیات کا میسج تھا جس میں لیکھا تھا اپنی آواز کا سُر چاروں طرف پھیلادوں۔زرجان نے حیات کو دیکھا جو مسکراکر اُس کو دیکھ رہی تھی زرجان نے دوسری نظر دور چیئر پہ منت کے ساتھ بیٹھی ماہا کو دیکھا یکلخت اس کے دماغ میں ایک خیال آیا تو چہرے پہ مسکراہٹ آگئ۔

منہاج۔زرجان نے منہاج کو آواز لگائی۔

جی بھائی۔منہاج فورن پاس آتا بولا۔

تمہارے پاس گیٹار ہے نہ وہ لیکر آنا زرہ۔زرجان نے کہا۔

آپ گانا گائے گے؟منہاج نے اشتیاق سے پوچھا۔

ہمم زرجان نے بس اتنا کہا منہاج خوش ہوتا اندر کی طرف گیا زرجان بالوں میں ہاتھ پھیرتا اسٹیج پہ مائک کی طرف گیا۔

Yun he nh tujh p dil ye fida hai

Sab say to alahida Sab say juda hai

Yun he nh tujh p dil ye fida hai

Sab say to alahida Sab say juda hai

Na mumkin tumsa koi chihra mil pana

!!!!!!!!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!

مہناج جیسے ہی گٹار لایا زرجان نے گانا گانا شروع کردیا تھا اچانک خوبصورت سن کر سب کا دھیان سامنے اسٹیج پہ زرجان کی طرف گیا تھا جو اپنے ہر ایک لفظ پہ ماہا کو دیکھ رہا تھا ماہا نے خود پہ زرجان کی نظریں بخوبی محسوس کی تھی پر اُس نے اپنا وہم سمجھا تھا حیات گانا سن کر بُرا منہ بنالیا تھا اُس کو لگا تھا زرجان اُس کے لیے گائے گا مگر زرجان نے اپنی پسند کا گایا تھا۔

Milo ge kabhi Jo tum

Batain ge kia ho tum

Milo ab akelay raha jae na

Milo ge kabhi Jo tum

Batain ge kia ho tum

Milo ab akelay raha jae na

Bohat he zarori ho

Khatam sari douri ho

Koi fasla ab saha jae na

Muskhil hai dil ko bin teray samjhana!!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!

زرجان نے اب کی یہ لائنز باقاعدہ ماہا کے پاس آکر گائی تھی جس ماہا بلاوجہ جزبز ہوکر رہ گئ تھی اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا واقع زرجان اس کو گانا سنا رہا تھا یا بس اُس کو لگ رہا تھا مگر جو بھی زرجان کا اس کے پاس گاتا دیکھ کر وہ بُری طرح کنفیوز ہوگئ تھی ایک تو گانے کے بول ایسے تھے دوسرا زرجان کی نظریں۔

Ajab dil ki halat ho

Jo teri ziyarat ho

Nazar ko nazara koi bhaee na

Ajab dil ki halat ho

Jo teri ziyarat ho

Nazar ko nazara koi bhaee na

Ye wo be qarari hai Jo darya si jaari hai

Tera ishq mojh ko baha jae na

Sahil ki tarha tou mojh ko bachana!!!!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!

Dil mera chahe jab bhi to aae

Tujh say mai kah du wapas na jana

Banhu mai Teri sari shab jagu

Aankho say dekho subah ka aana!!!!!!

زرجان گانا گاتا اسٹیج پہ حیات کے پاس آیا اور اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کھڑا کیا جس پہ حیات جو پہلے منہ بناکر بیٹھی تھی اُس کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا دوسری طرف ماہا نے بھی سکون کا سانس لیا تھا پہلے زرجان کی حرکت پہ اس کے دل کی رفتار تیز ہوگئ تھی جو اب اپنی جگہ پہ آگئ تھی مہرماہ نے تیز نظروں سے شاہ میر کو دیکھا جس کا دھیان حیات اور زرجان کی طرف تھا۔

کیسا لگا؟زرجان نے حیات سے پوچھا

اچھا تھا پر تم وہ گانا گاتے نہ میرے لیے رب ہنستا ہوا رکھے تم کو۔حیات نے مسکراکر کہا

وہ مجھے نہیں تھا یاد اِس لیے یہ گایا۔زرجان نے کندھے اُچکاکر کہا

جو بھی پر مجھے اچھا لگا آخرکار پہلی میری بات کا مان رکھا۔حیات واپس اپنی جگہ پہ بیٹھتی بولی۔

آپ کے تو جتنے بھی کام کرو بعد میں آپ نے یہی کہنا ہوتا ہے پہلی بار میری بات کا مان رکھا۔زرجان کندھے اُچکاکر کہتا آخر میں اُس کی نقل اُتاری جس پہ حیات نے دانتوں کی نمائش کی۔

💕💕💕💕💕

اپنی آوارہ نظروں کو قابوں میں رکھو۔زرجان کمرے میں بیٹھا ماہا کو سوچتا مسکرا رہا تھا جب مہرماہ دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر آتی بولی جسے سن کر زرجان پریشان ہوتا کھڑا ہوا۔

رلیکس مما کیا ہوگیا ہے آپ کو۔زرجان نے آرام سے کہا یہ پہلی بار تھا جب مہرماہ نے اتنے سخت انداز میں بات کی تھی۔

میرا دماغ خراب ہوگیا ہے زر اگر تم سمجھ رہے ہو میں تمہارے معاملے میں بے خبر ہوں تو اِس بھول سے نکل آؤ کیونکہ میں سب جانتی ہوں۔مہرماہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا

آپ صاف صاف بات کیوں نہیں کررہی۔زرجان اُلجھ کر بولا

ماہا کے بارے میں جو خرافات تم نے پال رکھی ہیں اس کو نکال دو کیونکہ جیسا تم چاہتے ہو ایسا بلکل نہیں ہوگا۔ماہا کے نام زرجان چونک کر مہرماہ کو دیکھنے لگا مگر مہرماہ کی آخرت بات پہ اُس کو لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑلیا ہو۔

اللہ نہ کریں ماں ہوکر کسی باتیں کررہی ہیں۔زرجان تڑپ کر بولا۔

ماں ہوں اِس لیے کہہ رہی ہوں ایسے راستے کا انتخاب مت کرو جس میں سوائے تکلیف کے کجھ نہ ہو۔مہرماہ نے اب نرمی سے کہا

تکلیفیں کیوں ہوگی اگر آپ سب جانتی ہیں تو میں بتادو میں ان کو بہت چاہنے لگا ہوں کب کیسے میں نہیں جانتا پر ان کے دور جانے کے خیال سے میرا دل لرز جاتا ہے آپ پلیز ایسا مت کہے۔زرجان مہرماہ کے ہاتھ تھام کر بولا۔

چھ سال بڑی ہے وہ تم سے تمہیں لگتا ہے وہ مان جائے گی اپنالیں گی تمہیں ریان مہرین یا شاہ مان بھی جائے نہ تو بھی ماہا نہیں مانے گی وہ مختلف ہے۔مہرین نے کہا۔

دیکھنے میں لگتا تو نہیں۔زرجان نے نقطہ نکالا۔

دیکھنے میں لگتا ہو یا نہیں سب کو پتا تو ہے نہ۔مہرماہ نے اس کا نقطہ رد کرتے کہا

میں نہیں جانتا مجھے وہ پسند ہے بس۔زرجان چہرہ دوسری طرف کرکے بولا

بات پسند تک ہی رہنے دو پھر پانے یا حاصل کرنے کی جستجو میں مت پڑنا بہت تکلیف ہوتی ہے اگر کوئی آپ کے سچے جذبات کو ٹھکرالیں۔مہرماہ کی آنکھیں نم ہوگئ تھی۔

آپ میری لیے دعا کریں وہ مجھے مل جائے کیونکہ میں اِس جستجو میں پڑچکا ہوں کے وہ ہمیشہ میری رہے میری بن جائے میرے نام کے ساتھ ان کا نام لیا جائے ان کو میری محبت پہ ایمان آجائے بیچ میں چھ سالوں کا فرق نظر نہ آئے میرے اندر موجود اپنے لیے وہ چاہت اور تڑپ دیکھے اگر آپ ایسا نہیں مانگ سکتی تو بس ایک دعا مانگ لیں میرے مرنے کی۔زرجان آخر میں بے رحمی سے بولا مہرماہ کا ہاتھ اپنے سینے پہ پڑا۔

چٹاخ۔

زرہ خیال نہیں آیا یہ بات کرتے وقت کل آئی لڑکی کی محبت بیس سال ماں کی محبت سے زیادہ عزیز ہوگئ۔مہرماہ نے تھپڑ اس کے گال پہ مارکر غصے سے کہا زرجان اپنے گال پہ ہاتھ رکھتا زمین کو گھور رہا تھا یہ اس کی زندگی کا پہلا تھپڑ تھا جو اُس کو پڑا تھا۔

آپ کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں مما پر ماہا کے بنا جینا بھی میرے لیے ممکن نہیں۔زرجان مہرماہ کے ہاتھ پہ عقیدت بھرا بوسہ دے کر کہا مہرماہ بس اُس کو دیکھتی رہی دروازے کے پار کھڑے شاہ میر نے ان کی ساری باتیں سن کر گہری سانس خارج کی تھی۔

💕💕💕💕💕

آج یونی جاؤں گی کیا؟مہرین نے ماہا کو تیار ہوتا دیکھ کر پوچھا

جی موم ایک ہفتہ لیو ہوچکی ہے اب بس جوائن کرنا چاہتی ہوں۔ماہا نے جواب دیا۔

میں بھی کل سے آیا کروں گی۔مہرین نے سرہلاتے ہوئے کہا۔

اچھی بات ہے میں اب نکلتی ہوں۔ماہا چادر ٹھیک کرتی بولی

خدا حافظ۔مہرین نے کہا تو وہ بھی الواعدہ کہتی باہر کی جانب بڑھی۔

💕💕💕💕

ویر ہم ہنی مون پہ کہاں جائے گے؟حیات نے لیپ ٹاپ پہ کام کرتے شاہ ویر سے بولی۔

حیات ابھی تو نہیں اگلے ماہ دیکھتے ہیں کہاں جانا ہے۔ شاہ ویر نے کہا

مجھے بڑی مشکل سے ہوسپٹل سے چھٹی ملی ہے ویر تو پلیز اس کو ویسٹ نہیں کرو۔حیات ناراض لہجے میں بولی۔

حیات میری بات کو سمجھو میرا بہت ضروری کیس ہے اِس لیے فلحال میرے پاس گھومنے پِھرنے کا وقت نہیں۔شاہ ویر نے گہری سانس لیکر اپنا مسئلا بتایا۔

جانے کیا سوچ کر میں تم سے شادی کرنے پہ راضی ہوگئ جس کے پاس اپنی نئ نویلی بیوی کے لیے وقت ہی نہیں۔حیات غصے سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئ شاہ ویر نے اپنا سر پکڑلیا

💕💕💕💕

ہماری شادی کو تین چار دن ہی ہوئے ہیں اور آپ آفس جارہے ہیں۔ملیحہ نے کوٹ مرجان کی طرف بڑھاکر کہا

بہت ضروری مینگز ہیں ورنہ نہیں جاتا۔مرجان نے اس کو کندھوں سے تھام کر نرمی سے کہا

کوئی اور کرتا آفس میں اور بھی تو بہت ورکرز ہوتے ہیں۔ملیحہ نے منہ پُھلاکر کہا جس پہ مرجان کو وہ بہت کیوٹ لگی۔

اتنی پیاری شکلیں تو مت بناؤ اب۔مرجان اس کے گال کھینچ کر کہا

آپ آج جائے پر کل ہم باہر جائے گے اور سارا دن انجوائے کرے گے۔ملیحہ نے حکیمہ انداز میں کہا

جو حکم پر ابھی اجازت دے مرجان نے معصوم شکل بنائے کہا

اجازت ہے پر کل وہی ہوگا جو میں چاہوں گی۔ملیحہ نے پھر سے کہا

بلکل وہی ہوگا۔مرجان نے مسکراکر کہا تو ملیحہ بھی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕

زرجان آج یونی نہیں گیا تھا سارا وقت وہ اپنے کمرے میں بند تھا مہرماہ نے بہت بار آوازیں دی مگر وہ نظرانداز کرگیا تھا اب بھی وہ بس یہی سوچے جارہا تھا ایسا کیا کریں جس سے گھروالوں کے ساتھ ساتھ ماہا بھی مان جائے پہلے اُس نے سوچا تھا اپنی ڈگری مکمل کرکے وہ شاہ میر سے بات کریں گا پر مہرماہ کی باتوں نے اُس کو پریشان کردیا تھا جس وجہ سے وہ اب دیر نہیں کرنا چاہتا تھا بس ایک ہی خیال آرہا تھا کے ماہا انکار کردے گی جو وہ برداشت نہیں کرپائے گا وہ ماہا کے بارے میں اتنا تو جان گیا تھا وہ اگر مرجان کو ٹھکرا سکتی ہے تو اس کو ٹھکرانے کے لیے تو بہت ساری وجوہات تھی جس نے زرجان کو بے چین کر ڈالا تھا ماہا کے سامنے اپنی محبت اعتراف وہ نہیں کرسکتا تھا وہ چاہتا تھا پہلے شادی ہوجائے پھر مگر اب اس کو لگ رہا تھا ماہا کو اپنے دل کی حالت سے آگاہ کردیں۔

💕💕💕💕💕

کوئی بات ہے جس کی وجہ سے تم پریشان ہو؟ریان نے پیپر ویٹ کو گھماتے شاہ میر سے پوچھا۔

ہمم تم سے کجھ مانگوں تو کیا تم مجھے دوگے؟شاہ میر نے کہا

بلکل اگر میرے بس میں ہوا تو ضرور میرے پاس جو ہے وہ تمہارا ہی ہے۔ریان نے خوشدلی سے کہا

جو میں چاہتا ہوں وہ میرے بیٹے کی خوشی کے لیے ہے۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا

اچھا ایسا کیا ہے میرے پاس؟ریان متجسس ہوا

میں ماہا کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں زرجان کے لیے۔شاہ میر نے بغور ریان کے تاثرات دیکھ کر کہا

میر اگر بھول گئے ہو تو بتادو ماہا چھ سال بڑی ہے زر سے۔ریان کے چہرے کا رنگ پل بھر میں اُڑا تھا۔

جانتا ہوں تم جواب دو۔شاہ میر نے کہا

میں کیا کہہ سکتا ہوں ماہا کبھی راضی نہ ہو دوسرا یہ کیا زر راضی ہوگا۔ریان نے کہا

محبت کرتا ہے ماہا سے۔شاہ میر نے آرام سے جواب دیا

اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے۔ریان کو یقین نہیں ہوا۔

میں نے بھی تو ماہ سے عشق کیا ہے۔شاہ میر نے جتانے والے انداز میں کہا

اوو ہاں جیتا جاگتا مثال میرے سامنے تو بیٹھا ہے۔ریان نے مذاقً کہا

ابھی میں سیریس ہو۔شاہ میر نے ٹوک کر کہا

میر مہرو بھابھی مان گئ تھی تبھی انکل آنٹی نے کوئی ایشو نہیں کیا پر ماہا وہ بلکل راضی نہیں ہوگی تم دونوں میں تو پھر بھی چار سال کا فرق تھا اب بات چھ سال کی ہے ماہا بہت ضدی ہے نا تو وہ ایموشنل ہوکر شادی پہ مانے گی نہ ہی کوئی اور تجربہ کام آئے گا۔ریان نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

تمہیں تو کوئی مسئلا نہیں نہ اور مہرین بھابھی تو اعتراض نہیں کرے گی نہ؟شاہ میر نے پوچھا۔

مجھے کیا مسئلا ہوگا زر تمہارا بیٹا ہے جس طرح تمہارے دل میں مہرو بھابھی کا مقام پہلے کی طرح ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں زر کو بھی کبھی اپنے فیصلے پہ پچھتاوا نہیں ہوگا رہی بات مہرین کی تو اُس کے لیے میری بات حرفِ آخر ہے۔ریان نے مزے سے کہا تو شاہ میر مطمئن ہوا۔

ٹھیک ہے تو اب ماہا کو کنوینس کرو۔شاہ میر پرسکون ہوتا بولا جس پہ ریان نے سر کو جنبش دی۔

💕💕💕💕

ریان گھر آیا تو مہرین اُس کو کچن سے باہر آتی نظر آئی۔

مہر کمرے میں آکر بات سننا زرہ۔ریان بڑی محبت سے کہتا کمرے کی طرف بڑھ گیا پیچھے مہرین حیرانکن نظروں سے ریان کو جاتا دیکھنے لگی۔

اللہ خیر کریں بڑے پھول نکلے رہے ہیں آج تو۔مہرین بڑبڑاتی کمرے میں داخلی ہوئی جہاں ریان کمرے میں چکر لگاتا ٹہل رہا تھا شاہ میر سے تو بڑے دھڑلے سے کہہ دیا تھا مہرین کی نظر میں اُس کی بات حرفِ آخر ہے مگر اب وہ سمجھ نہیں پارہا تھا مہرین سے بات کرے تو کیسے کریں۔

یہ میں مہرین سے مہر کب ہوئی؟مہرین نے سینے پہ بازوں باندھ کر پوچھا

ایسے ہی محبت سے کہا خیر بیٹھو ضروری بات کرنی ہے۔ریان نے مسکراکر کہا۔

کیا بات ہے۔مہرین صوفے پہ بیٹھ کر بولی

میری بات تحمل سے سننا جذباتی مت ہوجانا۔ریان نے کہا

میں کیوں جذباتی ہونے لگی تم بات کرو جلدی مجھے لنچ تیار کرنا ہے۔مہرین نے کوفت سے کہا

میر چاہتا ہے ہم ماہا کا ہاتھ زرجان کو دے۔ریان نے گہری سانس لیکر کہا مہرین نے بڑی مشکل سے اپنا چکراتا سر تھاما ریان کی بات پہ اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔

ریان ہوش میں ہو تم ماہا کی عمر میں اور زرجان کی عمر میں بہت فرق ہے زرجان تو ابھی بچہ ہے جب کی ماہا میچور ہے وہ ہرگز نہیں مانے گی وہ تو کیا میں ہی اِس رشتے کے حق میں نہیں بلکل بے جوڑ رشتہ ہے تم تو اپنی دوستی میں اندھے ہی ہوگئے ہو جب کی الحمد اللہ میری آنکھیں ٹھیک ہے۔مہرین اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی سخت لہجے میں بولی اُس کو زرہ اندازہ نہیں تھا ریان ایسا بھی چاہ سکتا ہے۔

مہرین میں نے پہلے ہی کہا تھا تحمل سے بات سننا۔ریان نے اس کو رلیکس کرنا چاہا پر مہرین ہتھے سے اُکھڑ گئ۔

ماہا میں کسی چیز کی کمی نہیں نہ خوبصورتی میں نہ ذہانت میں اور نہ ہی کسی اور چیز میں جو ہم اُس کا ہاتھ کم عمر لڑکے کو تھماکر ساری زندگی لوگوں کی باتیں سننے پہ مجبور کریں۔مہرین بنا ریان کی باتیں سن کر کہا۔

بات کمی کی نہیں ہے زرجان پیار کرنے لگا ہے ماہا سے اِس لیے شاہ میر نے یہ بات کی۔ریان کو لگا شاید اب وہ اُس کی بات سمجھے۔

زرجان کو میں کیا کہوں میر بھائی کا بیٹا ہے ورنہ اُس کو شرم آنی چاہیے تھی یہ سوچنے پہ بھی عمر کا نہیں تو اُس کے رتبے میں کا خیال کرتا ٹیچر ہے وہ اُس کی اور وہ ہے کے اُس سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہے۔مہرین دانت چباکر بولی ریان کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں ایک طرف جان سے عزیز دوست دوسری طرف مہرین جو فل دبنگ انداز میں تھی اُس کا ری ایکشن دیکھ کر اس کو ماہا کا خیال آیا کے اگر یہ بات اُس کو پتا چلی پھر تو جانے کیا ہوگا۔

💕💕💕💕

شاہ میر ٹیرس پہ آیا تو غصے سے اپنی مٹھیان بھینچ لی اور زرجان کو دیکھا جو سگریٹ کے کش لگا رہا تھا شاہ میر لمبے لمبے ڈگ بھرتا زرجان کے پاس آکر اُس کے ہاتھ سے سگریٹ چھین نے والے انداز سے لیا زرجان جو اپنی سوچو میں گُم تھا اِس اچانک افتادہ پہ بوکھلا کر رہ گیا مگر جیسے ہی نظر شاہ میر پہ پڑی تو شرمندگی سے اپنا سر جھکادیا۔

وجہ جان سکتا ہوں اِس زہر کو کیوں منہ لگایا جارہا تھا میری اور ماہ کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئ تھی جو آج یہ دن دیکھنے کو مل رہا ہے۔شاہ میر نے بمشکل خود پہ ضبط کیے سوال پوچھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا زرجان کا چہرہ تھپڑوں سے لال کردے۔

ڈیڈ وہ۔زرجان سے کجھ بولا نہیں گیا۔

کیا وہ بات مکمل کرو اپنی۔شاہ میر سخت لہجے میں کہا۔

ایسا ممکن نہیں کے مما نے آپ سے بات نہ کی ہو۔زرجان چہرہ جھکاکر بولا اُس میں ہمت نہیں تھی شاہ میر کو دیکھنے کی۔

سب جانتا ہوں میں اور ایسی بھی کیا بے چینی جو کجھ دن تم سے صبر نہ ہوسکا میں مرگیا

ڈیڈ پلیز۔زرجان شاہ میر کی بات بیچ میں کاٹ کر نم آواز میں بولا۔

گھر میں کس کے ہاتھ میں تم نے یہ مضر چیزیں دیکھی ہے ڈیڈ اپنی اِس عمر میں حوکا تک نہیں پیتے۔شاہ میر کو زرجان کی حرکت پہ تکلیف ہوئی تھی۔

آئیندہ نہیں ہوگا ایسا۔زرجان نے کہا

آئیندہ ایسا ہوا بھی تو آج میں زبان استعمال کررہا ہوں دوبارہ ہاتھ استعمال کروں گا۔شاہ میر وارن کرنے والے انداز میں کہا جس پہ زرجان کا جُھکا سر مزید جھک گیا۔

مما نے جیسا ری ایکشن دیا تھا میں ٹوٹ گیا تھا ڈیڈ سمجھ نہیں آرہا تھا کروں تو کیا کروں ہر دفع سپورٹ کرنے والی ماں جب زیادہ ضرورت پڑنے پہ سپورٹ نہ کریں تو اولاد کیا کریں۔زرجان ندامت بھرے لہجے میں بولا۔

میں نے ریان سے بات کی ہے انشااللہ مثبت جواب ملے گا۔شاہ میر گہری سانس بھر بولا شاہ میر کی بات پہ زرجان کتنے پل بے یقین سا شاہ میر کو دیکھتا رہا۔

سچ میں؟زرجان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا جس پہ شاہ میر نے سرہلانے پہ اکتفا کیا زرجان کے لیے یہی کافی تھا جس پہ زرجان آگے آتا زور سے شاہ میر کے گلے لگا۔

کیا تاریخی پھر سے دوہرائی جائت گی۔مہرماہ ٹیرس کے داخلی دروازے پہ کھڑی ان دونوں کو دیکھتی سوچ سکی وہ سمجھ گئ تھی شاہ میر کیوں زرجان کو اتنا سپورٹ کررہا ہے کیونکہ وہ خود اِس فیض سے گُزر چکا ہے پر وہ یہ بھی جانتی تھی ماہا اپنے آپ میں رہنے والی لڑکی ہے وہ کبھی زرجان کی محبت نہیں سمجھے گی یہ وجہ تھی جس سے وہ زرجان کے خلاف تھی وہ نہیں چاہتی تھی بار بار ماہا زرجان کے جذبات کو دھتکارے۔

💕💕💕💕💕💕

ماہا نوٹ کر رہی تھی آج ڈنر کے وقت خاموشی سی ہے ورنہ روز ریان اپنے آفس اور مہرین اپنی یونی کی باتیں کیا کرتی تھی ماہا نے ولی کو دیکھا جو بہت محویت سے کھانا کھارہا تھا اُس نے اپنا پاؤں ولی کے پاؤں پہ مارا تو ولی نے سراُٹھا کر اس کو دیکھا ماہا نے ریان اور مہرین کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کے کجھ ہوا ہے کیا؟جس پہ ولی کندھے اُچکاکر ہاتھ کھڑے کرتا دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوا ماہا نے گھور کر اس کو دیکھا

موم کجھ ہوا ہے کیا؟کھانے کے بعد ماہا کچن میں آکر مہرین سے پوچھنے لگی۔

ہاں ہوا ہے۔مہرین برتن سینک پہ زور سے رکھتی بولی۔

کیا ہوا ہے؟ماہا نے پھر پوچھا

تمہارے باپ کا دماغ خراب ہوگیا۔مہرین جھلاکر بولی۔

صاف صاف بات کیوں نہیں کررہی آپ؟ماہا بیزار ہوئی۔

صاف صاف بات یہ ہے کے تمہارا باپ چاہتا ہے ہم زرجان کا رشتہ تمہارے لیے قبول کرلیں۔مہرین اس کے سامنے آتی بولی تو ماہا کی پیشانی شکن آلود ہوئی۔

کون زرجان؟ماہا کے دماغ سے زرجان بلکل غائب تھا دوسرا سب اُس کو زر کہتے تھے۔

تمہارا اسٹوڈنٹ زرجان میر۔مہرین نے دانت پیس کر کہا

واٹ۔ماہا شاک کی حالت میں بولی

میں نے صاف انکار کردیا ہے۔مہرین نے کہا

ڈیڈ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ماہا اب تک بے یقین تھی۔

میر بھائی نے بات کی ہوگی ان کو تو خیال نہیں آیا خود تو چار سال بڑی لڑکی سے شادی کرلی اب اپنے بیٹے کو بھی اُس نقشے پہ چلارہے ہیں۔مہرین نخوت سے بولی۔

میں بات کرتی ہوں ڈیڈ سے ان کو چاہیے تھا میر انکل کو انکار کردیتے ناکہ یہاں آپ سے بات کرتے۔ماہا غصے سے کہتی کچن سے جانے لگی پر مہرین سامنے آگئ۔

تم کیا بات کرو گی جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا تمہارا باپ ہے وہ تم ایسے بات نہیں کرو ان سے۔مہرین نے رسانیت سے کہا

غصہ مجھے میر انکل پہ ہے وہ کیسے اپنے بیٹے کا رشتہ مانگ سکتے ہیں جو ابھی تک اپنی پڑھائی پوری نہیں کرسکا اگر ان کو بڑی عمر کی لڑکی سے کروانی ہے تو کوئی اور تلاش کریں میرے سر پہ یہ عذاب نہ ڈالیں انہوں نے زرہ اچھا نہیں کیا ڈیڈ کے دماغ میں یہ بات ڈال کر۔ماہا مہرین کو سناتی باہر نکل گئ مہرین نے تاسف سے اس کی پیٹھ کو دیکھا پھر اپنے کام میں لگ گئ۔

💕💕💕💕💕

ناراض ہے میری جان۔شاہ ویر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی حیات کو اپنے حصار میں لیتا پوچھنے لگا۔

بات مت کرو تم۔حیات نے ناراض ہوکر کہا

کیس کی وجہ سے مصروف تھا اِس لیے تمہیں منا نہیں سکا۔شاہ ویر نے معصوم شکل بناکر بولا

تو اب کوئی اور مصروفیت تلاش کرو۔حیات نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

حیات یار سوری۔شاہ ویر نے حیات کا رخ اپنی طرف کیے کہا

ایسے میں نہیں ماننے والی۔حیات نے چہرہ دوسری کیے کہا۔

پھر کیسے مانوں گی وہ سب کروں گا پر تم ناراض نہ رہو۔شاہ ویر اس کے گال پہ پیار کرتا بولا جس پہ حیات کی پلیکیں لرز گئ تھی۔

دور رہو تو بتاتی ہوں۔حیات نے شاہ ویر کو دور کرنا چاہا۔

ایسے ہی بتادو۔شاہ ویر نے مسکراکر کہا۔

مرغہ بنو تو میں مانوں۔حیات نے مسکراہٹ دباکر کہا جب کی شاہ ویر کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی تھی۔

شرم کرو حیات میں چھبیس سال کا مرد مرغہ بن کر اچھا لگوں گا۔شاہ ویر نے گھور کر کہا اُس کو زرہ توقع نہیں تھی حیات ایسا کجھ کہے گی پھر شاید وہ بھول گیا تھا سامنے والی لڑکی حیات تھی جس سے ہر چیز کی توقع کی جاسکتی تھی۔

تو میں نے کہا کیا چھبیس کے بنو اب جو کہا ہے وہ کرو ورنہ میں ڈیڈ کے پاس جارہی ہوں۔حیات نے شانِ بے نیازی سے کہا شاہ ویر اُس کی بات پہ تڑپ گیا تھا اِس لیے فورن سے اُس کی بات پہ عمل کرنے کا سوچا۔

پھر ناراضگی ختم کرلوں گی نہ؟شاہ ویر نے کنفرم کرنا چاہا۔

بلکل۔حیات نے زور سے سر کو جنبش دی تو مجبوراً شاہ ویر کو مرغہ بننا پڑا جسے دیکھ کر حیات ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوئی شاہ ویر کی سفید رنگت سرخ ہوگئ تھی جب حیات کو پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر زور سے ہنستا دیکھا تو۔

💕💕💕💕💕

مجھے آپ سے کجھ بات کرنی تھی۔زرجان ماہا کے سامنے آتا بولا۔

ہمم بولوں۔ماہا نے اجازت دی۔

وہ مجھے آپ سے کہنا تھا

ماہا تم یہاں ہو میں نے کہا تھا آج میری کلاس کے اسٹوڈنٹس کو پڑھانا ہے۔زرجان کی بات بیچ میں ہی تھی جب مہرین ماہا کے پاس آتی بولی۔

میں بس جارہی تھی پر زرجان کو شاید کوئی کام تھا۔ماہا نے جواب دیا۔

پہلے تم جاؤ۔مہرین نے زرجان پہ نظر ڈالیں بنا کہا۔

میری بات ضروری ہے۔زرجان نے فورن سے کہا وہ آج سوچ کر آیا تھا ماہا کو اپنے دل کی بات بتادے گا اِس لیے سیدھا وہ یہاں آگیا تھا وہ کہہ بھی دیتا پر مہرین کی آمد میں اس کی بات پوری نہ ہوسکی۔

ضروری فلحال ماہا کا ابھی فزکس ڈپارٹمنٹ میں جانا ہے۔مہرین نے سنجیدگی سے کہا ماہا اپنا پرس اٹھاتی چلی گئ تو مہرین زرجان کی طرف متوجہ ہوئی۔

تم میرے آفس آنا بات کرنی ہے۔مہرین نے کہا تو زرجان نے سرہلایا۔

جی کہے۔زرجان نے کہا۔

تم نے میر بھائی سے جو کہا انہوں نے ریان سے کہا ریان تو اپنی دوستی کے آگے مجبور ہے پر میں یا ماہا نہیں اِس لیے بہتر ہے تم اپنی پڑھائی پہ دھیان دو ناکہ عشق معشوقی کے چکر میں پڑوں میری بیٹی نہ ٹین ایجر ہے اور نہ تمہاری عمر کی اور نہ ہی ایسے شوق ہیں اُس کے۔مہرین سخت لہجے میں کہا تاکہ زرجان اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائے کیونکہ ریان نے اُس سے بول چال بند کر رکھی تھی جس کا قصوروار وہ شاہ میر اور زرجان کو سمجھ رہی تھی۔

میرا دھیان پڑھائی پہ ہے دوسری بات یہ کے میں ماہا سے بہت محبت کرتا ہوں اور آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کے آپ ہمارے درمیان نہیں آئے گی۔زرجان نے کہا

تمہارے اور ماہا کے درمیان۔مہرین اتنا کہہ کر ہنس پڑی۔زرجان کو ان کا ہنسنا پسند نہیں آیا۔

زرجان چھ سال بڑی ہے وہ تم سے کل صاف لفظوں میں اُس نے کہہ دیا تھا وہ تم سے شادی کرنے کا سوچا بھی کیسے ریان نے۔مہرین کی بات پہ زرجان ساکت ہوا تھا اس کو لگ رہا تھا اس کا دل بند ہوجائے گا مگر ستم یہ تھا اس کی سانسیں چل رہی تھی اتنا کجھ سننے کے باوجود بھی۔

ماہا اتنی بے وقوف نہیں جو خود سے چھوٹے امیچور لڑکے کو اپنا لائف پارٹنر بنائے گی اِس لیے جتنا ہوسکے اُتنی جلدی یہ بات سمجھ لو۔مہرین زرجان کا دل لہولہان کرتی خاموش ہوگئ تھی۔

💕💕💕💕💕

ریان نے کوئی جواب دیا۔مہرماہ نے سپاٹ انداز میں شاہ میر سے پوچھا۔

ابھی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔شاہ میر نے جواب دیا۔

کہے گا تو وہی جس کا مجھے ڈر ہے۔مہرماہ نے کہا۔

اتنا نیگیٹو کب سے سوچنے لگی آپ۔شاہ میر کو افسوس ہوا۔

مجھے نہیں پتا پر شاہ زر کو بڑھاوا دے کر تم نے اچھا نہیں کیا۔مہرماہ شاہ میر کو دیکھ کر کہا۔

سہی یا غلط یہ تو نہیں پتا پر میں زر کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا اُس کی کوئی ناجائز خواہش نہیں جو ہم اُس کا ساتھ نہ دے۔شاہ میر نے کہا

پیار کیا بھی تو کِس سے۔مہرماہ طنزیہ مسکرائی

محبت نہ پوچھ کر ہوتی ہے نہ بتاکر۔شاہ میر نے مسکراکر کہا

دماغ خراب ہے تم باپ بیٹے کا۔مہرماہ اکتاکر بولی۔

💕💕💕💕

ماہا فری ہو تو میری بات سننا۔ماہا لاونج میں تھی جب ریان سنجیدگی سے کہتا اسٹڈی روم کی طرف گیا ماہا نے ایک نظر پاس بیٹھی مہرین پہ ڈالی پھر اُٹھ کر اسٹڈی روم کی طرف آئی۔

جی ڈیڈ بولیں۔ماہا نے کہا

تمہارے لیے ایک رشتہ آیا سوچا تمہیں بتادوں اِس بار میں انکار نہیں سنوں گا بیٹی کا پہلا رشتہ آئے تو اُس کو ٹھکرایا نہیں کرتے پر خیر وہ تمہاری بہن کا نصیب تھا میں چاہوں گا اِس بار تم میری زبان کا پاس رکھو اور رشتے کے لیے حامی بھرو۔ریان نے اپنی بات شروع کی۔

میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا

شادی سنت ہے اِس لیے کوئی بحث نہیں ہوگی جوان بیٹی کو بلاوجہ گھر پہ رکھنے سے اللہ کی طرف سے گُناہ نازل ہوتا ہے بیٹی کے بالغ ہوتے ہی اُس کے نکاح کا حکم ہے۔ریان نے اپنی بات پہ وزن قائم کیا تاکہ ماہا کوئی اور بہانا نہ کریں۔

کون ہے جس کا میرے لیے رشتہ آیا ہے؟ماہا نے پوچھا کے شاید اب کوئی دوسرا ہو۔

شاہ میر کا بیٹا زرجان میر۔ریان نے کہا

ڈیڈ پلیز اب آپ مجھے شرم آرہی ہے یہ سوچ کر کے آپ میری شادی میری کم عمر لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں۔ماہا نے ریان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

ہمارے نبی کریم ﷺ بھی حضرت بیبی خدیجة الکبرا سے بارہ سال چھوٹے تھے۔ریان نے بتایا

ڈیڈ وہ اللہ کے رسول تھے آپ مجھے اِس طرح راضی نہیں کرسکتے زرجان میر آخری لڑکا تو نہیں۔ماہا نے تھک ہار کر کہا دل میں ہزار بار اللہ سے معافی بھی مانگ لی۔

تمہاری نظر میں کوئی اور ہے تو بتادو ورنہ زرجان تمہاری عمر کا لگتا ہے۔ریان نے کندھے اُچکاکر کہا

مجھے کجھ دن کا وقت دے۔ماہا نے گہری سانس لیکر کر کہا اب اس کو اپنے لیے لڑکا بھی تو ڈھونڈنا تھا نہ۔

تین دن ہے تمہارے پاس اِن تین دنوں میں اگر تم نے خود کسی لڑکے کا انتخاب نہیں کیا تو چوتھے دن تمہارے ہاتھ کی اُنگلی میں زرجان میر کے نام کی انگھوٹی ہوگی۔ریان نے فیصلہ سنایا۔

تین مہینے کا وقت دیتے آپ یہ تین دنوں میں کیسے میں۔ماہا ریان کی بات پہ بوکھلاکر بولی۔

تین دن بہت ہے اب تم سوجاؤ رات بہت ہوگئ ہے۔ریان ہاتھ میں کتاب تھام کر بولا ماہا بس ریان کو دیکھتی رہ گئ جس نے آرام سے اُس کا سکون غارت کردیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

کجھ شامیں زندگی کی

ایسی بھی ہوتی ہے

جہاں

رفتہ رفتہ سورج نہیں

ہم خود غروب ہوجاتے ہیں

زرجان اپنے کمرے کی بالکنی کی ریکنگ پہ کہنیاں ٹکائے دور آسمان میں خلاؤں کو گھور رہا تھا مہرین کی باتیں اُس کے دماغ میں کسی ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔

کیا اب محبت انسان عمر دیکھ کر کریں؟زرجان بس سوچ سکا وہ جان نہ سکا اگر کبھی کسی کو محبت ہوتی ہے تو کوئی اور اُس انسان کو ٹھکرانے میں کبھی اسٹیٹس کبھی رنگت کبھی ذات وغیرہ کو بیچ میں کیوں لگاتے ہیں محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو بنا کسی غرض کے دل میں اُترتا ہے پھر کوئی کیوں نہیں سمجھتا۔

کیا میں نے لاحاصل کی تمنا کی ہے۔یہ سوچ آتے ہی زرجان کا وجود کانپ اُٹھا۔

اللہ ہر چیز پہ قادر ہے سب کجھ اُس کے کُن کی محتاج ہے لوگ کیا کہتے ہیں کیا کرتے ہیں یہ ضروری نہیں،ضروری تو یہ جاننا ہے اللہ کیا چاہتا ہے اُس نے کیا لکھا ہے اُس کو راضی کیسے کرنا ہے اللہ تو غفور الرحیم ہے جو انسان کے ایک آنسو پہ اُس کے سارے گناہ ساری خطائے معاف کردیتا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کے وہ اللہ سے ماہا مانگے گا اور وہ مایوس کریں گا۔زرجان کے چہرے پہ پرسکون لہر ڈورگئ۔

اب میں کسی سے کجھ نہیں کہوں گا اب میں بس اللہ سے دعا مانگوں گا اگر اللہ نے ان کو میری قسمت میں ڈال دیا تو کوئی کجھ نہیں کرسکتا کیونکہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی کجھ نہیں کرسکتا تو بس میں اب کسی اور باتوں میں آکر خود کو مایوس یا ناامید نہیں ہوگا بلکہ اللہ کے سامنے گِرگراؤں گا تو وہ میری ضرور سنے گا اب بس بہت ہوا۔زرجان خود سے عزم کرتا بالکنی سے نکلتا کمرے میں آیا پھر کمرے سے نکلتا اپنا رخ باہر مسجد کی جانب کیا۔

پہنچ گئ ہے دعائیں عرش پہ

تم اب بس میرے ہونے کا انتظار کرو۔

💕💕💕💕💕💕

ماہا پریشان سی اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی ریان کے فیصلے نے اُس کو حقیقتاً پریشان کردیا تھا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا اب زرجان نامی بلا سے کیسے خود کی جان چُھڑائے۔

زرجان سے بات کروں ظاہر ہے کوئی مرد کبھی نہیں چاہے گا اُس کی شادی بڑی عمر لڑکی سے ہو۔ماہا کے دماغ میں اچانک سے ایک خیال کوندہ۔

کل یونی میں بات کرتی ہوں اللہ بہتر کریں گا انشااللہ۔ماہا اپنی سوچ سے مطمئن ہوتی لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگی جب اُس کا فون وائبریٹ ہوا اسکرین پہ دیکھا تو کوئی انون نمبر تھا۔

رات کو انون نمبر پہ کال۔ماہا نے اُلجھ کر خود سے سوال کیا پھر کجھ سوچ کر کال اٹینڈ کرلی کے شاید ضروری ہو۔

ماہی میں مرجان بات کررہا ہوں۔اسپیکر پہ اُبھرتی آواز سن کر اُس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ماہا نے زور سے اپنی آنکھیں بند کرکے خود کو رلیکس کیا۔

میں ماہا ہوں اور جیجا جی خیر تو ہے یہ کونسا وقت ہے اپنی سالی کو فون کرنے کا۔ماہا نے طنزیہ انداز میں کہا دوسری طرف گھر کے لان میں بیٹھا مرجان گہری سانس بھرتا رہ گیا کتنے دنوں سے وہ ماہا سے بات کرکے معافی مانگنا چاہتا تھا تاکہ یہ چیپٹر کلوز ہوجائے ملیحہ یا گھر میں کسی اور کو کجھ پتا نہ چلیں پر آفس کی مصروفیت کی وجہ سے اُس کو وقت نہیں مل پایا تھا آج جب کام سے کجھ فارغ ہوا تو ملیحہ کے سونے کے بعد وہ لان میں آتا ماہا سے بات کرنے کا سوچا اِس بیچ میں وہ ٹائم کیا ہوا یہ بات فراموش کرچکا تھا۔

تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں پلیز مجھے معاف کردوں میں بہت شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کرکے شرمندگی کے عذاب سے بچالوں.مرجان کا لہجہ منت بھرا تھا جس کو محسوس کرکے ماہا کو لگا جیسے کسی نے ٹھنڈی پھوار اس کے وجود میں ڈورگئ ہو۔

یہ کوئی وقت نہیں کسی لڑکی کو کال کرنا خاص طور پہ اپنی سالی کو اگر تمہیں کوئی بات کرنی ہو تو گھر آجایا کرو۔ماہا اپنی کہہ کر کال کٹ کرگئ مرجان فون کان سے ہٹاتا اسکرین کو دیکھتا رہا۔

تم سے بہت حساب نکلتے ہیں ایسے کیسے اتنی جلدی معاف کردوں۔ماہا سیدھی لیٹ کر چت کو گھورتی مرجان کے تصور سے مخاطب ہوئی۔

💕💕💕💕

زر کہاں ہوتا ہے آجکل ناشتے پہ آج بھی نہیں آیا۔حیدر خان ڈائینگ ٹیبل پہ زرجان کی غیرموجودگی دیکھ کر بولے۔

میں آرہا ہوں دادا جان۔کسی کے کجھ کہنے سے پہلے ہی زرجان وہاں آتا بولا تو مسکرادیئے۔

یونی کے لیے آج اتنا تیار ہوئے ہو خیر تو ہے؟مرجان نے زرجان کو جائزہ لیتے ہوئے پوچھا

روز تو ایسے ہی ہوتا ہوں آپ نے آج غور کیا ہے۔زرجان سب کی نظریں خود پہ محسوس کرتا بولا

سہی کہہ رہا ہے بس لگتا ہے ڈریسنگ چینج کرلی ہے۔ہانیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا زرجان نے روز معمول سے ہٹ کر آج ٹی شرٹ کے بجائے گریں کلر کی شرٹ کے ساتھ وائٹ پینٹ میں تھا جو اُس پہ بہت جچ رہے تھے۔

باتیں ختم کرو ناشتے پہ دھیان دو۔مہرماہ فریش جوس کا جگ ٹیبل پہ رکھتی بولی۔

تمہیں کجھ چاہیے؟مرجان نے ملیحہ سے پوچھا جس نے نفی میں سرہلایا۔

میں چلتا ہوں اب یونی کے لیے۔زرجان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بولا۔

💕💕💕

ماہا اپنی کلاس کی طرف جارہی تھی جب اُس کی نظر پروفیسر منان پہ پڑی تو اُس کا منان کا شادی کی بات کرنا بھی یاد آئی۔

اسلام علیکم!!!!ماہا پروفیسر منان کے ساتھ چلتی ہوئی سلام کرنے لگی۔

وعلیکم اسلام!!!کیسی ہیں مس ماہا۔پروفیسر منان نے خوشدلی سے پوچھا

میں ٹھیک اگر آپ کے پاس وقت ہو تو کیا چالیس منٹ بعد آپ میرے آفس آسکتے ہیں کجھ بات کرنی تھی۔ماہا نے کجھ سوچ کر کہا۔

جی جی ضرور۔پروفیسر منان نے جلدی سے کہا تو ماہا اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب گئ۔

ماہا کلاس میں آکر سب سے پہلے ان کا چیک کیا گیا ٹیسٹ بڑھانے لگی ہر ایک اسٹوڈنٹ کی سیٹ پہ جاکر وہ ان کا ٹیسٹ رکھتی گئ زرجان بس اس کے اپنی طرف آنے کا انتظار کرنے لگا جب ماہا اس کی سیٹ کے پاس آئی تو ٹیسٹ رکھ کر ایکسیلینٹ بولی تب اُس کی نظریں نیچے ہی تھی زرجان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اُس نے ٹیسٹ کھولا تو فل مارکس تھے۔

آج ماہا نے کلاس میں جلدی سے خود کو فارغ کیا وہ جلد از جلد اِس معاملے کو ختم کرنا چاہتی تھی اِس لیے زرجان کے بجائے اُس نے منان سے بات کرنے کا سوچا۔

سوری میں نے شاید دیر کردی۔ماہا آفس آئی تو پروفیسر منان پہلے سے بیٹھا ہوا تھا جس وجہ سے اُس نے کہا

آپ نے دیر نہیں میں جلدی آیا کیونکہ مجھے صبر نہ ہوسکا آپ کیا بات کرنا چاہتی ہوگی۔پروفیسر منان نے مسکراکر کہا ماہا نے پہلی دفع منان پہ غور کیا جو بتیس سال کا خوش شکل تھا سب سے بڑی بات وہ نرم مزاج کا مالک تھا اُس نے شادی تو ویسے بھی کرنی تھی تو منان میں اُس کو بُرائی نظر نہیں آئی چھ سال چھوٹے لڑکے سے شادی کرنے سے اچھا تھا وہ خود سے پانچ سال بڑے آدمی سے شادی کرتی۔

آپ کو یاد ہے ایک دفع آپ نے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ماہا نے بات کا آغاز کیا۔

بلکل یاد ہے۔پروفیسر منان نے کہا

کیا آپ ابھی بھی اُس بات پہ قائم ہیں؟

میں سمجھا نہیں۔

اگر میں آپ سے کہوں آپ اپنے گھروالوں کو میرے گھر رشتہ لینے کے لیے بھیجے تو آپ کا کیا جواب ہوگا۔ماہا نے اپنے بات پہ دیکھا منان کے چہرے پہ پہلے حیرانی پھر مسکراہٹ آگئ تھی۔

کب بھیجنا ہے۔پروفیسر منان نے بنا کوئی سوال کیے مدعے کی بات پہ آیا۔

اِس اِتوار کو۔ماہا نے بتایا۔

💕💕💕💕💕

تمہیں پتا ہے آج میں بہت خوش ہوں اتنے وقت بعد ہم یوں باہر آئے ہیں۔ملیحہ نے چہک کر مرجان سے کہا جس نے آج آفس سے آف لیکر ملیحہ کو لنچ کروانے ریسٹورنٹ لایا تھا

اِس لیے تو لایا اپنی مصروفیت میں تم سے بہت لاپرواہ ہوگیا تھا۔مرجان نے ٹیبل پہ رکھا ملیحہ کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر کہا

کھانا آرڈر کریں۔ملیحہ نے کہا تو مرجان نے سر کو جنبش دیتے ویٹر کو اِشارہ کیا۔

تمہاری بہن ہے اُس کی شادی کا کیا پلان ہے؟کھانا آرڈر کرنے کے بعد مرجان نے پوچھا

پتا نہیں ماہا اپنی مرضی کی مالک ہے۔ملیحہ نے کندھے اُچکاکر کہا۔

اُس کا کوئی نِک نیم ہے۔مرجان نے سرسری انداز اپناتے پوچھا

ہاں نِک نیم ماہی تھا اُس کا اور میرا ملی مگر پھر ماہا کو ماہی نام سے نفرت ہونے لگی تو بس سب اُس کو ماہا ہی بُلانے لگے۔جس انداز میں مرجان نے پوچھا ملیحہ نے بھی ویسے ہی جواب دیا جس کو سن کر مرجان میں مزید ہمت نہیں ہوئی کے کجھ اور پوچھے۔

💕💕💕💕💕

تم میرے برتھ ڈے پہ آؤ گے نہ کل؟عروہ نے امید بھری نظروں سے زرجان کو دیکھ کر پوچھا۔

کل میری اپنی مصروفیت ہے کوشش کروں گا آنے کی۔زرجان نے جواب دیا تو عروہ کا چہرہ بوجھ سا گیا۔

پریشان کیوں ہوتی ہو یہ نا بھی آئے میں تو ضرور آؤں گا۔احتشام نے مزے سے بتایا۔

تمہارا کیوں آج کل موڈ خراب ہوتا ہے؟فرزام نے زرجان سے پوچھا

نہیں کجھ نہیں بس میں اب چلتا ہوں۔زرجان کھڑا ہوتا بولا

ابھی تو ہم نے کافی تک نہیں پی۔عروہ ناراض ہوکر بولی۔

عروہ پلیز۔زرجان ایک نظر اُس پہ ڈالتا وہاں سے چلاگیا تو عروہ بھی اٹھ گئ۔

عروہ کو سمجھاؤ فرزام زر کبھی اس کو قبول نہیں کرے گا وہ بس تمہاری وجہ سے تھوڑا بہت بات کرلیتا ہے ورنہ نہیں۔دونوں کے جانے کے بعد احتشام نے فرزام سے کہا

وہ بہن ہے میری بہت دفع سمجھایا ہے پر میری سنتی ہی نہیں میرا دل اس کے لیے ڈرا رہتا ہے اگر اُس کو پتا لگ گیا کے زرجان کسی اور کو چاہتا ہے تو جانے کیا کرڈلیں خود کے ساتھ۔فرزام پریشان لہجے میں بولا

یہ بات تو ہے زر جب میم ماہا کے ساتھ ڈانس کررہا تھا عروہ تو میم ماہا کو بھی کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔احتشام کی بات پہ فرزام خاموش رہا اُس نے یہ نہیں کہا وپ ڈانس کرنے پہ نہیں زرجان کی آنکھوں میں جو چمک ماہا کو دیکھ کر آئی تھی اُس وجہ سے عروہ ایسی نظروں سے ماہا کو دیکھ رہی تھی۔

💕💕💕💕💕

موم آج کجھ گیسٹ آنے والے ہیں آپ ریفریشمنٹ اچھا سا کیجئے گا۔ماہا صبح صادق ہوتے ہی کچن میں آکر مہرین سے بولی جو ناشتہ بنارہی تھی۔

کونسے گیسٹ؟مہرین مصروف بھرے انداز میں بولی

آئے گے تو پتا لگ جائے گا آپ بس تیاری کرلیجئے گا۔ماہا نے فروٹ باسکٹ سے ایپل اُٹھا کر کہا۔

ٹھیک ہے۔مہرین نے بحث کیے بنا کہا تو ماہا باہر لاونج میں آکر اپنا سیل فون اُٹھاکر ایک نمبر ڈائل کرنے لگی جو دوسری بیل پہ ریسیو کرلیا گیا تھا۔

آگیا خیال کے تمہاری کوئی بہن بھی ہے۔دوسری طرف کال اٹھاتے ہی طنزیہ کیا گیا تھا۔

سوری بس کجھ کام تھا۔ماہا نے لب دانتوں تلے دبائے کہا

جی جی ایک تم مصروف ہم سب تو ویلے ہیں نہ۔ملیحہ نے ایک اور طنزیہ کیا۔

تم خود بھی تو گھر نہیں آئی۔ماہا نے اپنا بچاؤ کرنا چاہا۔

تمہارے تو پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں میرے گھر آتے آتے۔ملیحہ نے پھر میٹھا طنزیہ کیا۔

کیا ہے یار کیوں صبح صبح انگارے نکل رہے ہیں تمہاری زبان سے۔ماہا آخر تنگ آکر بولی۔

کجھ نہیں تم بتاؤ یہ صبح صبح میری یاد کیسے آگئ۔ملیحہ بیڈ پہ بیٹھ کر پوچھنے لگی۔

آج ہمارے طرف آجاؤ میرے گیسٹ آرہے ہیں تمہارا آنا لازمی ہے بہن جو ہو۔ماہا نے وجہ بتائی

کوئی خاص گیسٹ ہیں کیا؟ملیحہ نے پوچھا

ہممم۔ماہا نے بس اتنا کہا تو ملیحہ نے آنے پہ حامی بھر کر رابطہ منتفق کیا۔

💕💕💕💕💕💕

مہرماہ آج حیات سے ملنے گئ تھی اُس سے واپس آکر وہ بیٹھی ہی تھی جب ملیحہ پاس آئی اور اُس سے بولی۔

میں آج موم کی طرف جارہی تھی سوچا آپ کو بتادوں۔

اچھا کس ٹائم؟مہرماہ نے مسکراکر پوچھا

بس تیار ہوکر ڈرائیور کے ساتھ۔ملیحہ نے بتایا

ڈرائیور کیوں مرجان کو کال کرکے آنے کا کہو پھر اُس کے ساتھ چلی جانا۔مہرماہ نے مشورہ دیا۔

ان کو کال کی تھی پر ان کی کو ضروری کا تھا جس وجہ سے صبح کو ہی گھر سے باہر چلے گئے تھے۔ملیحہ نے وجہ بتائی۔

تم تیار ہوجاؤ زر چھوڑ آئے گا تمہیں۔مہرماہ نے کہا تو ملیحہ نے سر کو جنبش دی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔مہرماہ بھی اٹھ کر زرجان کے کمرے میں گئ جو اتوار ہونے کی وجہ سے ابھی تک نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔

تم جاگ رہے ہو۔مہرماہ کمرے میں آئی تو زرجان کو ڈریسنگ کے سامنے بال بناتے دیکھ کر کہا

جی آپ کہے تو دوبارہ سوجاتا ہوں۔زرجان نے شرارت سے کہا۔

اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے باہر جارہے ہو تو ابھی رک جاؤ اپنی بھابھی کو اُس کی ماں کے گھر چھوڑ آؤ مرجان بزی ہے ڈرائیور کے ساتھ جانا سہی نہیں۔مہرماہ نے کہا

اوکے۔زرجان نے بس اتنا کہا اور خود پہ پرفیوم اسپرے کرنے لگا مہرماہ ایک نظر زرجان کی تیاری پہ ڈال کر باہر نکل گئ۔

آپ ریڈی ہیں تو چلیں۔زرجان باہر آکر ملیحہ سے بولا۔

ہاں چلو۔ملیحہ نے مسکراکر کہا تو زرجان باہر آتا پورچ سے گاڑی نکالنے لگا۔

زرجان اور ملیحہ جیسے ہی ریان کے گھر کے پاس پہنچے تو ایک اور گاڑی ان کے ساتھ رکی۔

زرجان نے پہلے اُس گاڑی سے منان کو نکلتا دیکھا تو اُس کا ماتھا ٹھٹکا پھر پچھلی سیٹ سے ایک مرد اور خاتون کو دیکھ کر زرجان گاڑی سے باہر نکلا۔

ارے زرجان تم یہاں؟پروفیسر منان نے زرجان کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا۔

اسلام علیکم!!!زرجان نے پہلے سلام کیا تو پروفیسر منان خجل ہوتا جواب دینے لگا۔

میں یہاں بھابھی کو ڈراپ کرنے آیا تھا پر آپ یہاں کیسے۔زرجان اپنے دھڑکتے دل کی آواز نظرانداز کرتا سوال کرنے لگا۔

پتا چل جائے گا ابھی اندر چلیں۔پروفیسر منان کے فادر لیاقت صاحب نے مسکراکر کہا۔

تو کیا آپ ماہا کے گیسٹ ہیں؟ملیحہ جو اب تک خاموش تھی پوچھنے لگی ماہا کے نام پہ زرجان نے زور سے اپنی مٹھیاں بند کی۔

جی بلکل اب اندر چلیں۔پروفیسر منان نے کہا جس پہ ملیحہ نے مسکراکر سر کو جنبش دی۔

زر تم بھی اندر چلو۔ملیحہ نے بت بنے زرجان سے کہا۔زرجان انکار کرنے والا تھا مگر پھر کجھ سوچ کر اندر کی طرف آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیڈ آپ نے کہا تھا اگر میں کوئی اچھا سا لڑکا آپ کے سامنے کھڑا کروں تو آپ میری بات مان لیں گے باہر ڈرائینگ روم میں میرے لیے رشتے کی بات کرنے آئے ہیں آپ پلیز آکر اُن سے مل لیں۔ماہا ریان کے کمرے میں آتی بولنے لگی جسے سن کر ریان کے ساتھ ساتھ مہرین بھی حیرت سے اُس کو دیکھنے لگی۔

کون ہے وہ لوگ ایسے ہی تو نہیں میں تمہارا رشتہ طے کرسکتا۔ریان کرخت آواز میں بولا۔

آپ ملے گے تو سارے خدشات دور ہوجائے گے۔ماہا کہتی کمرے سے باہر نکل گئ۔

تمہیں پتا تھا یہ۔ریان نے سنجیدہ سے مہرین سے پوچھا جو باہر جانے والی تھی۔

مہمان آنے والے ہیں یہ پتا تھا کیوں آرہے ہیں یہ ابھی پتا چلا۔مہرین نے جواب دیا ریان پریشانی سے چہرہ پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔

دوست سے وفاداری کرنا اچھی بات ہے ان سے محبت کرنا بھی اچھی بات ہے مگر دوستی میں وفاداری اور محبت میں انسان کو اتنا بھی آگے نہیں جانا چاہیے کے اپنی سگی اولاد سے زیادہ دوست کی فکر ہو۔مہرین نے ریان کا پریشان چہرہ دیکھ کر کہا۔

کیا مطلب ہوا تمہاری اِس بات سے؟ریان جو پہلے پریشان تھا مہرین کی بات اُس کو سمجھ نہیں آئی۔

ماہا جہاں چاہتی ہے اُس کی شادی کروانا زرجان بہت چھوٹا ہے اِس لیے ان دونوں کو ساتھ دیکھنے کی سوچ ختم کردو۔مہرین نے کہا

ماہا یہ بس ضد میں کررہی ہے کل تک تو ایسا کجھ نہیں تھا اب جانے کسے اُٹھالائی ہے۔ریان اپنی پیشانی مسلتا بولا۔

میں باہر جارہی ہوں تم بھی اپنا چہرہ ٹھیک کرتے آجانا ان کو ایسا نہ لگے کے تمہیں زبردستی بیٹھایا گیا ہے۔مہرین اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتی کمرے سے نکل گئ جب کی ریان بس اس کی پشت کو گھورتا رہا۔

پروفیسر منان آپ۔مہرین ڈرائینگ روم میں آئی تو اُس کا حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور کہی اچھا بھی لگا۔

جی سوچا آپ کو سرپرائز کروں۔پروفیسر منان نے مسکراکر کہا زرجان کو اُس کی مسکراہٹ اتنی بُری لگی جس کی کوئی حد نہ تھی۔

اسلام علیکم!!!ریان ڈرائینگ روم میں آتا رسمی سلام دعا کرنے لگا اس کو آتا دیکھ کر مہرین کچن کی طرف چلی گئ ملیحہ بھی مدد کروانے کے غرض سے اس کے پیچھے گئ۔

زر تم کھڑے کیوں ہو بیٹھو۔ریان نے زرجان کی سرخ ہوتی آنکھیں منان پہ جمی دیکھی تو اُس کا دھیان دوسری طرف کرنا چاہا مگر زرجان جواب دیئے بنا ویسے ہی بیٹھ گیا ریان کو زرجان کو دیکھ کر بہت دُکھ ہورہا تھا مگر وہ جن نظروں سے منان کو دیکھ رہا تھا اُس پہ ہنسی بھی آرہی تھی جس کو وہ بڑی مشکل سے کنٹرول کیے ہوئے تھا۔

اِس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔پروفیسر منان کی والدہ مریم بیگم بولی۔

تکلف کیسا آپ ہمارے مہمان ہیں اتنا تو بنتا ہے۔مہرین نے آرام سے کہا۔

نو تھینکس۔مہرین نے کھانے کے لوازمات زرجان کی طرف جیسے ہی بڑھائے زرجان نے ہاتھ اُٹھا کر روخے لہجے میں انکار کیا۔جس پہ مہرین چہرے پہ زبردستی مسکراہٹ سجائے ریان کے ساتھ بیٹھ گئ۔

تم ٹھیک ہو۔ملیحہ نے زرجان کا لال ہوتا چہرہ دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔

پتا نہیں۔زرجان نے خود پہ ضبط کیے بس یہ بول پایا.

اپنی بیٹی کو تو بلائے۔مریم بیگم نرمی سے مسکراکر بولی۔

یہ ان کی بیٹی ہے۔کسی دوسرے کے بولنے سے پہلے زرجان نے ملیحہ کی جانب اشارہ کرکے کہا

جی جی ماشااللہ میں جانتی ہوں پر دوسری بیٹی کی بات کررہی تھی۔مریم بیگم نے کہا تو زرجان بس ہونہہ کرتا رہ گیا۔

میں لیکر آتی ہوں۔ملیحہ مہرین کے اِشارے پہ کھڑی ہوتی بولی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا مرر کے سامنے اپنا خوبصورت عکس دیکھ رہی تھی اُس نے ابھی نیٹ کا بلیک فراق پہنا ہوا تھا جس سے اُس کی گوری رنگت دمک رہی تھی بھورے بالوں کو چوٹی بنائی تھی جب کی میک اپ کے نام پہ اپنے گلابی نازک ہونٹوں پہ بس بام لگایا تھا ماہا نے ڈوپٹہ اُٹھا کر سر پہ جمایا تبھی ملیحہ اندر آکر اس کو دیکھ کر ماشااللہ بولی جس پہ ماہا مسکرادی اُس کو اپنی خوبصورتی سے اچھے سے علم تھا۔

کیا پیار ویار کیا چکر ہے ورنہ باہر بیٹھا شخص تم جیسی خوبصورت لڑکی ڈیزرو نہیں کرتا۔ملیحہ نے شرارت سے ماہا کو پیچھے سے گلے لگاکر کہا۔

ایسا تو کجھ نہیں رہی بات خوبصورتی کی تو آخر میں اِس نے ختم ہوجانا ہے پھر اپنے چہرے اپنی خوبصورتی پہ کیا ناز کرنا جو کجھ وقت کے لیے آپ کے پاس موجود ہے ۔ماہا نے گہری سانس بھر کر کہا۔

یہ بات تو ٹھیک کی تم نے پر پھر بھی اب تمہیں دیکھ کر یہ خیال میرے دماغ میں آرہا ہے کے کاش زرجان کجھ سال پہلے پیدا ہوجاتا تو تم دونوں کی شادی کروادیتی زرجان ہے بھی بلا کا ہینڈسم اُپر سے اُس کی بلو آئیز۔مہرین کی بات پہ ماہا کے مسکراتے لب سیکڑ گئے۔

بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔ماہا نے سخت انداز میں کہا

کجھ غلط بھی تو نہیں کہا۔ملیحہ اس کا غصہ کسی خاطے میں لائے بنا بولی۔

کوئی کام تھا جو یہاں آئی ہو باہر مہمانوں کو چھوڑ کر۔ماہا نے پوچھا جس پہ مہرین نے سر پہ ہاتھ مار کر اپنی عقل پہ ماتم کیا۔

میں تو تمہیں لینے آئی تھی پر باتوں میں بھول گئ۔ملیحہ نے کہا

تو اب چلو۔ماہا نے گھور کر کہا تو ملیحہ نے سرہلایا۔

وہ دونوں باہر آئی تو زرجان کی نظر بلیک بیوٹی بنی ماہا پہ ٹھیرگئ مگر جلد ہی اُس نے اپنی نظروں کا رخ بدل دیا۔

ہمارے پاس بیٹھو۔مریم بیگم نے اپنی طرف آنے کا کہا تو ماہا ان کے ساتھ بیٹھ گئ۔

ماشااللہ تم تو بہت خوبصورت ہو۔مریم بیگم ماہا کے چہرے پہ ہاتھ پِھیرکر کہا زرجان کی برداشت ختم ہورہی تھی اِس لیے بنا کسی پہ ایک نظر ڈالے وہاں سے باہر نکلتا گیا سب اس کے اِس طرح جانے سے تعجب سے دیکھنے لگے۔

زرجان باہر آتا گہرے گہری سانس بھرتا خود پہ پرسکون کرنے لگا مگر سکون شاید اب اس کی زندگی میں نہیں تھا زرجان نے ہاتھ کی مٹھی بناکر زور سے مکہ اپنی گاڑی پہ مارا ایک نہیں دو نہیں بار بار وہ یہ عمل دوہرانے لگا جس سے اس کا ہاتھ سرخ ہوگیا تھا مگر پرواہ کسے تھی اس کو بس اپنے اندر جنون کو دبانا تھا جو آج ساری حدیں پار کرنے کا کررہا تھا۔

میرے لیے میری محبت میرے عشق سے زیادہ ان کی رضامندی اہم تھی اگر میں اپنا سوچتا تو جب ان کا نکاح کسی اور سے ہورہا تھا میں زبردستی بھی کرسکتا تھا پر تب شاید وہ مجھ سے اِتنی محبت نہ کرتی جتنی اب کرتی ہیں محبت کی بنیاد جس طرح عزت،اعتبار ہے اسی طرح محبت کا دوسرا نام قربانی ہے میں نے ماہ سے رقیب کے ڈر سے محبت کرنا نہیں چھوڑی بلکہ میں نے اپنے اللہ پہ چھوڑ دیا ان سے دعا مانگی اور اللہ نے مجھے مایوس نہیں کیا۔

زرجان کے دماغ میں شاہ میر کی بتائی بات گونجی تو اُس نے اپنا سر اُٹھا کر نیلے آسمان کی جانب کیا کب اُس کی آنکھوں میں نمی پھر آنسو بہہ کر ڈارھی میں جذب ہوا زرجان کو پتا نہیں چلا۔

یااللہ آپ اپنے بندھوں سے ستر ماؤں سے زیادہ چاہتے ہیں آپ کہتے ہیں ہم آپ سے مدد مانگے آپ سے دعا مانگیں آپ ہماری دعائیں سنے گے اور قبول کرے گے تو یااللہ پلیز میرے دل کی بھی التجا پوری کیجئے گا یا مجھے اپنے پاس بلالیجیئے گا مگر ماہا کے بغیر مجھے زندہ مت رکھئیے گا جس طرح آپ نے ڈیڈ کو کبھی مایوس نہیں کیا پلیز مجھے بھی مت کرنا آپ تو ہر ایک انسان کی باتیں اور دعائیں سنتے ہیں میری بھی سن لیں۔زرجان آسمان کو دیکھتا اپنے رب سے مخاطب تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ماہا کا رشتہ مانگنے آئے ہیں اپنے بیٹے منان کے لیے اگر آپ کی اجازت ہو تو انگھوٹی پہنالوں۔مریم بیگم نے مسکراکر مہرین سے کہا اُن کی بات پہ ریان جو لیاقت صاحب کی بات سن رہا تھا مہرین کو نہ کہنے کا اِشارہ کرنے لگا۔

کیوں نہیں اگر بچے یہ چاہتے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے زندگی تو انہوں نے گُزارنی ہے۔مہرین ریان کو نظرانداز کرتی بولی تو مریم بیگم خوشی سے نہال ہوتی پرس میں سے ایک ڈبی نکال کر نفیس سی انگھوٹی ماہا کی انگلی میں پہنادی ماہا کے ہاتھ میں اپنے نام کی انگھوٹی دیکھ کر پروفیسر منان سرشار سا ہوگیا تھا۔

میں میٹھائی لیکر آتی ہوں۔ملیحہ جھٹ سے کچن کی طرف گئ سب اس کی جلدبازی پہ ہنس پڑے ماہا غور سے اپنے ہاتھ میں انگھوٹی کو دیکھنے لگی وہ تو بس ابھی رشتے کی بات چاہتی تھی مگر پروفیسر منان کی ماں بہت جلدباز معلوم ہوئی تھی جو منگنی کی رسم بھی ادا کرلی تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

ماہا کے رشتے کی بات حیدر خان مینشن میں بھی ہوگئ تھی جس پہ سب خوش تھے سوائے تین لوگون کے۔شاہ میر اور مہرماہ جن کو زرجان کی فکر تھی تیسرا زرجان خود جو اب اپنی حالت سے بلکل لاپرواہ ہوگیا تھا یا یوں کہنا بہتر ہوگا کسی معجزے کے انتظار میں تھا۔

ریان کو شاہ میر کے سامنے بہت شرمندگی ہورہی تھی پر شاہ میر نے کوئی سوال نہیں اُٹھایا تھا وہ سمجھ سکتا تھا ماہا نہیں مانی ہوگی دوسری طرف اب منان کے گھروالوں کو شادی کی ضرورت تھی جس پہ ریان نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اُس نے کہا جب منگنی ہوگئ ہے تو شادی بھی ہوجائے تو اب سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے ملیحہ اِس بیچ اپنے والدین کے گھر رہنے آئی تھی شاہ میر مہرماہ ایک دوسرے سے نظریں چُراتے پِھرتے تھے زرجان نے جو پہلے کم گو تھا اب جسے اُس نے بولنا بھول گیا تھا صبح کو باہر جاتا شام میں جب دل چاہتا آجاتا یا کبھی بس کمرے میں خود کو بند کرتا مہرماہ کا دل زرجان کی حالت دیکھ کر کٹ کے رہ جاتا شاہ میر نے فلحال اُس کو منع کیا تھا کے وہ زرجان سے کوئی بات نہ کریں اس کو وقت دے انشاللہ وہ ٹھیک ہوجائے گا شاہ میر کے کہنے پہ مہرماہ اُس کی بات مان گئ تھی زندگی اب عجیب دوہرائے پہ آگئ تھی سکندر خان یہ سب نوٹ کررہے تھے پر خاموش تھے جب کی ہانم بیگم کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی تھی جس سے وہ کجھ دوسرا سوچ نہیں پاتی تھی۔مرجان ماہا سے بات کرنے کی بہت بار کوشش کی پر ماہا ہمیشہ نو لفٹ کا بورڈ سامنے کرتی اب مرجان نے بھی خاموشی اختیار کرلی تھی شاہ ویر اور حیات گھومنے کے لیے سینگاپور گئے تھے ہر فکر پریشانی سے دور اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات انجوائے کررہے تھے

💕💕💕💕💕💕

یہ سیٹ کتنا پیارا ہے نہ۔ملیحہ نے ایک نیکلیسٹ باکس سے باہر نکال کر ستائش بھرے لہجے میں کہا۔

آنٹی نے کہا تھا ریسیپشن پہ پہننا ہے اُس کا جو ڈریس ہے اس پہ یہ میچنگ کرتا ہے۔ماہا نے ایک سرسری نظر اُس سیٹ پہ ڈال کر کہا۔

تم دونوں یہاں ہو باہر مریم آئی ہوئی ہے۔مہرین کمرے میں آکر اُن سے بولی

خیریت وہ کیوں آئی ہیں؟ملیحہ نے پوچھا ماہا جب کی سارا پھیلاوا سمیٹنے لگی۔

کیا مطلب کیوں ماہا کو لینے آئی ہے شادی میں دن کتنے بچے ہیں ماہا کے ساتھ جاکر شاپنگ کروانی ہے اس نے شادی کا جوڑا ابھی تک فائنل نہیں ہوا۔مہرین نے بتایا۔

وہ خود لیں آتی میرا جانا ضروری ہے کیا۔ماہا نے بیزار سی شکل بنائے کہا۔

بےوقوفوں والی بات مت کرو اور جلدی سے باہر آوٴ۔مہرین گھور کہتی باہر نکل گئ ماہا نے ملیحہ کو دیکھا جو کندھے اُچکاگئ تھی۔

اسلام علیکم!!ماہا باہر آکر سلام کرنے لگی۔

وعلیکم اسلام بیٹا اگر تیار ہو تو چلیں لیٹ ہورہا ہے۔مریم بیگم نے کہا

جی چلیں میں تیار ہوں۔ماہا نے کہا تو دونوں مہرین کو خُدا حافظ کہتی مال جانے کے لیے نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕💕

تباہ ہوجاوں نشے میں

یہ عشق سے تو بہتر ہے

عروہ بہت چاہتی ہے تمہیں اُس کو قبول کرلوں دیکھنا اُس کی چاہت اور محبت دیکھ کر تمہیں ماہا یاد نہیں رہے گی۔فرزام ایک بھائی ہوتا اپنے دوست کے سامنے یہ کس دل سے کہہ رہا تھا بس وہ جانتا تھا پر اُس کو نہ تو اپنی بہن کی حالت دیکھی جارہی تھی اور نہ اب جان سے عزیز دوست کی۔

جس کو میں چاہتا ہوں وہ مجھے نہیں چاہتی اِس لیے مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں۔زرجان سپاٹ انداز میں بولا۔

جس تم چاہوں وہ تمہیں نہ چاہے تو اس کو موقع ضرور دو اپنی زندگی میں جو تمہیں چاہتا ہے۔فرزام نے ایک اور کوشش کرنا چاہی۔

پلیز فرزام مجھے یہ سب نہ کہو میرے دل نے بس ماہا کو چاہا ہے اُس کے علاوہ میرا کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی حرام ہے۔زرجان نے کہا

کجھ دنوں بعد شادی ہے اُس کی پروفیسر منان کے ساتھ ابھی تو تم سے بس دور ہے پھر وہ پروفسر منان کے دسترس میں آجائے گی پھر کیا کرو گے تم۔فرزام نے جیسے اُس کی دُکھتی رگ میں ہاتھ نہیں پیر رکھ ڈالا۔

وہ ہمیشہ میرے رہے گی میں نے اپنی دعا میں مانگا ہے ان کو پھر کیسے اللہ کسی اور کو اُن کا ساتھ دے گا۔زرجان عجیب انداز میں بولا۔

تم رہو اپنی خوابوں کی دُنیا میں کیونکہ حقیقت سے تم منہ موڑ بیٹھ کر اپنا خسارہ کررہے ہو اور کجھ نہیں۔فرزام نے غصے سے کہا۔

میں چلتا ہوں اب۔زرجان اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بولا۔

دیکھو زر محبت میں دوری انسان کو کس عذاب میں ڈالتی ہے یہ تم اچھے سے جانتے ہو تمہارا مجھ پہ احسان ہوگا اگر تم اِس عذاب سے میری بہن کو نکالو۔

جو میرے اختیار میں نہ ہو مجھے وہ کرنے پہ مت کہو تم میرے بہت اچھے دوست ہو میں نہیں چاہتا اِس میں ڈرار آئے میں ماہا سے عشق کرتا ہوں مجھے یقین ہے وہ میرے پاس آئے گی میرا عشق میری تمنا لاحاصل نہیں ایک سال سے میں ان کو چاہتا ہوں یہ زیادہ لمبا عرصہ نہیں پر میں نے اِس ایک سال میں جتنا اللہ سے ان کو مانگا ہے نہ اُس کا کوئی حساب نہیں میں جتنی دفع سانس لیتا ہوں نہ میری ہر ایک سانس ان کے ملنے کی دعا کرتی ہے پھر میں کیسے کسی دوسرا کا ہاتھ تھام لوں یہ سوچ کرکے وہ میری نہیں۔زرجان ایک سانس میں بولتا فرزام کو شاکڈ چھوڑتا وہاں سے جاچُکا تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

آج ماہا کا مایوں تھا اِس وقت وہ گرین اور پیلے کلر کے امتزاج شلوار قمیض پہنے بلکل ایک نازک گُڑیا لگ رہی تھی ہاتھوں میں گجرے پہنے ہوئے تھے باقی سب زیور پہننے سے اس نے انکار کردیا تھا اِس وقت وہ لڑکیوں کے جھرمٹ میں الگ جھولے پہ بیٹھی ہوئی تھی جہاں اب رسم ادا ہورہی تھی۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو ماشااللہ سے۔مہرماہ نے اُس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا ماہا نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا پر مہرماہ کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر اُس کو حیرت ہوئی

آنٹی آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ماہا نے فکرمند ہوکر پوچھا۔

ہاں کیوں؟مہرماہ کو اُس کا پوچھنا سمجھ نہیں آیا۔

بس ایسے ہی۔ماہا نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔

ملیحہ کی بچی اب بس کرو یہ۔ملیحہ نے جیسے ہی ہلدی ماہا کے چہرے پہ لگائی تو ماہا نے دانت پیسے کیونکہ پہلے ہی اُس کے کپڑے خراب ہوگئے تھے۔

کیا ہے چپ کرو تم۔ملیحہ نے اُس کو آنکھیں دیکھائی۔

موم میں کمرے میں جانا چاہتی ہوں۔ماہا نے پاس گُزرتی مہرین سے کہا۔

اچھا میں لیں چلتی ہوں۔مہرین نے کہا

نہیں آپ مہمانوں کو دیکھے میں جاتی ہوں۔ماہا نے آرام سے کہا تو مہرین نے کجھ نہیں کہا اُس کو پہلے ہی بہت سارے کام تھے کرنے کے لیے۔

تم۔ماہا اپنے کمرے میں آئی تو زرجان کو دیکھ کر شدید حیران ہوئی۔

زرجان نے ماہا کو دیکھا جو مایوں کے ڈریس میں تھی چہرے پہ جگہ جگہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے وہ بہت کیوٹ معصوم اور پیاری لگ رہی تھی زرجان کا کے جلتے دل اور پیاسی آنکھوں کو قرار سا آگیا تھا اُس نے ماہا کی بات کا جواب دیا بنا اُس کے پاس آتا کھڑا ہوا۔

آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔

تم یہاں کیوں اور کیسے آئے۔

آپ کو دیکھنے آیا تھا کھڑکی سے آیا ہوں۔زرجان نے اشارے سے بتاکر کہا تو ماہا کو زرجان کی دماغی حالت پہ شک گُزرا۔

مجھے کیوں دیکھنا تھا۔ماہا کو سمجھ نہیں آیا

آپ نے میرا پرپوزل کیون ریجیکٹ کیا کیا میں اتنا برا ہوں۔زرجان اُداس ہوکر بولا

کہیں سے پیکر آئے ہو کیا جو ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ماہا کو زرجان کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر شک گُزرا۔

نہیں اللہ کی قسم میں نے اُس کی حرام شے کو دیکھا بھی نہیں۔زرجان فورن سے اپنی بات کا یقین دلانے لگا۔

ٹھیک ہے قسم کیوں اُٹھارہے ہو میں نے بس ایسے پوچھا۔ماہا کو اس کا قسم اٹھانا عجیب لگا۔

آپ نے بتایا نہیں میرا پرپوزل کیوں ریجیکٹ کیا۔زرجان نے دوبارہ پوچھا۔

ریجیکٹ کی کوئی بات نہیں تم اپنی عمر پھر میری عمر دیکھو جواب مل جائے گا۔ماہا نے آرام سے کہا

کیا ہوا میری اور آپ کی عمر کو۔زرجان نے سنجیدگی سے کہا

تمہیں اتنا ناگوار گُزر رہا ہے تو میں بتادو ایسا کجھ نہیں نہ میں نے تمہیں ریجیکٹ کیا ہے اور نہ ایسا ارادہ تھا تم جس عمر پہ ہو اپنی پڑھائی پہ دھیان دو پھر شادی کرلینا اپنی عمر کی لڑکی سے۔ماہا نے آرام سے مشورہ دیا۔

میں یہاں اپنی اور آپ کی بات کررہا ہوں آپ کسی تیسرے کو درمیان میں نہ لائے آپ نے پروفیسر منان سے شادی کا فیصلہ کرنے وقت ایک بار بھی میرا نہیں سوچا۔زرجان کے منہ سے شکوہ نکلا۔

تم مجھے کنفیوز کررہے ہو تمہارے بارے میں مجھے کیا سوچنا تھا تمہیں تو میرا شکرگزار ہونا چاہیے کے تم اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے سے بچ گئے۔ماہا زرجان کے روبرو کھڑی ہوتی بولی۔

سیرسیلی آپ کو لگتا ہے میں شکرگزار ہوگا اِس۔بات پہ۔زرجان زخمی مسکراہٹ سے بولا

توں اور نہیں کیا۔ماہا جواب دیتی مرر کے سامنے کھڑی ہوئی۔

میں محبت کرتا ہوں آپ سے۔زرجان ماہا کے پیچھے کھڑا ہوتا بولا ماہا شاکڈ سی اُس کو دیکھنے لگی پھر شاکڈ کی جگہ غصے نے لیں لی۔

جانتے بھی ہو کیا بات کررہے ہو تم۔ماہا نے دانت پیستے ہوئے کہا زرجان کی بات پہ اُس کو کیا کجھ یاد نہیں آیا تھا۔

آپ ایک سال سے ہمیں پڑھاتی ہیں نہ تو کیا کبھی آپ نے میری آنکھوں اپنے لیے جذبات نہیں دیکھے کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔زرجان نے سوال پہ سوال کیا۔

زرجان ابھی میرے کمرے سے نکلو ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ماہا نے ضبط کی حدود کو چھوتے زرجان سے کہا

آپ میری بات کا جواب دے پہلے۔زرجان بھی اپنے نام کا ایک تھا۔

چھ سال بڑی ہوں تم سے کجھ تو لحاظ کیا ہوتا ٹیچر بھی ہوں تمہاری اگر تم بھول گئے ہو تو۔

میں کجھ نہیں بھولا ٹیچر آپ میری یونی میں ہے۔زرجان نے جواب دیا

کمرے سے جارہے ہو یا نہیں۔ماہا نے سرد لہجے میں کہا

محبت عمر دیکھ کر نہیں ہوتی ابھی بھی دیر نہیں ہوئی پلیز میری محبت کو قبول کردے یقین کریں دنیا کی ساری خوشیاں آپ کے قدموں میں ڈھیر کردوں گا۔زرجان ماہا کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بولا۔

گیٹ آوٴٹ۔ماہا نے تیز آواز میں کہا۔

میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ماہا میرے جذبات میں کوئی کھوٹ نہیں میں وعدہ کرتا ہوں آپ بس ایک دفع میرا ہاتھ تھام لیں میری وجہ سے کبھی آپ کو کوئی دُکھ نہیں پہنچے گا۔زرجان جانتا تھا ماہا اتنی آسانی سے اُس کا یقین نہیں کریں گی اِس لیے دوبارہ اپنی محبت کا اعتبار کروانا چاہا۔

میں جو کہا سننا نہیں تم نے۔ماہا چیخ پڑی زرجان ماہا کو زور سے سانس بھرتا دیکھا تو چہرے پہ پریشانی کے تاثرات نمایاں ہوئے زرجان سائیڈ ٹیبل پہ رکھا جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیل کر ماہا کی طرف آیا۔

پانی پیئے۔زرجان فکرمند ہوتا بولا تو ماہا نے اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ جھٹک دیا جس سے چھناک کی آواز سے گلاس ٹوک گیا۔

گو۔ماہا کے پھر سے کہنے پہ زرجان نے ایک بے بس نگاہ اُس پہ ڈال کر کھڑکی طرف گیا نیچے آس پاس نظر ڈال کر وہ جیسے آیا تھا ویسے چلاگیا اُس کے جانے کے بعد ماہا نے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھے ساری چیزوں کو نیچے گِرادیا اور خود فرش پہ سر ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گئ۔

💕💕💕💕

شاہ میر مہرماہ لان میں چہل قدمی کررہے تھے جب شاہ میر نے مہرماہ سے کہا۔

زر یونی جاتا ہے اب؟

نہیں تم صبح آفس چلے جاتے ہو زر نے تو تب سے یونی جانا بند کیا ہوا ہے جب سے ماہا نے اپنی شادی کی وجہ سے یونی سے چھٹیاں لیں رکھی ہے بہت حرج ہوگیا ہے زر کا پڑھائی میں پر ایک وہ ہے جس کو پرواہ نہیں اپنے مستقبل تباہ کرنے کے در پہ ہے۔شاہ میر کے سوال پہ مہرماہ نے اپنے دل کا غبار نکالا۔

اُس کو یونی بھیجے ڈیڈ کو شک ہورہا ہے اب۔شاہ میر نے سنجیدگی سے کہا

جانتی ہوں وہ بہت غور سے زر کو دیکھتے ہیں۔مہرماہ نے پریشان ہوکر کہا۔

زر کو سمجھاؤ یہ زندگی ہے اور زندگی میں سب کجھ نہیں ملتا۔

وہ تمہارا بیٹا ہے تم سمجھے تھے جو وہ سمجھے گا۔مہرماہ نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا

میں کرتا ہوں اُس سے بات۔شاہ میر کجھ سوچ کر بولا۔

صرف بات مت کرنا اُس کو ہر طریقے سے سمجھانا تاکہ عقل ٹھکانے پہ آئے۔مہرماہ نے کہا

آپ فکر نہیں کریں میں سب سنبھال لوں گا۔شاہ میر نے مسکراکر مہرماہ کو رلیکس کروانا چاہا۔

💕💕💕💕💕

بارہ دن مایوں میں ویسے کون بیٹھتا ہے تمہاری ہونے والی ساس نے بڑا ظلم کیا ہے اپنی ساس کا بدلا تم سے لیں رہی ہے۔ملیحہ نے خاموش بیٹھی ماہا سے کہا جب کی ماہا سمجھ نہ پائی ملیحہ افسوس کررہی ہے یا مذاق اُڑا رہی ہے۔

پہلے تو لڑکیاں مہینہ بھر روپ آنے کے لیے مایوں میں بیٹھا کرتی تھی آج کل تو دو چار دن ہی مشکل سے ان کا مایوں میں گُزارا ہوتا ہے میرے وقت سے بھی تم واقف ہو۔ملیحہ نے پھر سے سلسلہ کلام جوڑا۔

خاموش رہو یا باہر نکلو۔ماہا نے بے زار لہجے میں کہا

ماہا سوچنے والی بات ہے ایک مہینہ ایک ڈریس ایک جگہ لڑکیوں کا گُزارا کیسے ہوتا ہوگا پھر جب ان کی شادی کا دن آتا ہوگا ان کے بال تو چڑیوں کا گھونسلہ بن جاتا ہوگا کتنے مشکل سے بالوں میں برش آتا ہوگا۔ملیحہ بنا ماہا کی بات پہ دھیان دیئے بولنے لگی تو ماہا بیڈ سے اٹھ کر اُس کا بازوں پکڑا۔

میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہے تم مزید مت دو۔ماہا اُس کو کمرے کے دروازے کے پاس کرتی دانت پیس کر بولی تو ملیحہ کا منہ کُھل گیا۔

مایوں میں بیٹھی لڑکیاں غصہ نہیں کرتی اور نہ ہی تیز آواز میں بولتی ہے۔ملیحہ نے اس کی معلومات اضافہ کیا۔

زیادہ تم میری بڑی اماں مت بنو۔ماہا دروازہ بند کرنے والی تھی پر درمیان میں ملیحہ نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

میں نے تمہاری اور زر کی باتیں سن لی تھی۔ملیحہ کی بات پہ ماہا خاموشی سے اُس کو دیکھتی رہی۔

زر بہت اچھا لڑکا ہے تمہیں منان کے بجائے زر کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔ملیحہ نے سنجیدگی سے کہا۔

وہ ایک امیچور لڑکا ہے چھ سال مجھ سے چھوٹا بھی تم چاہتی ہوں میں ایسے لڑکے کا انتخاب کرتی تاکہ لوگ آتے جاتے میرا مذاق اُڑاتے کے میں نے اپنے سے کم عمر لڑکے سے شادی کی ہے۔ماہا کا دل کیا ملیحہ کی بات پہ ماتم کریں۔

وہ امیچور لڑکا تم سے محبت کرتا ہے اور محبت میں ظاہری شخصیت یا عمر سے فرق نہیں پڑتا رہی بات لوگوں کی تو ان کی تو خیر ہے ان کا کام بس باتیں بنانا ہے یہ ہماری زندگی ہے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے وقت ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کے لوگ کیا کہے گے لوگ تو کسی بھی حال میں ہمیں خوش نہیں دیکھ سکتے بہتر کے کے ہم ان کے بارے میں سوچنا ختم کریں کیونکہ جتنے لوگ اُتنی زبانیں ہم نہ تو کسی کی زبان بند کرسکتے ہیں اور نہ کسی کی سوچ بدل سکتے ہیں یہ معاشرہ کسی کم سن لڑکی کی شادی تو بڑی عمر کے مرد سے کروادیتا ہے پر اگر لڑکی کجھ دن بھی لڑکے سے بڑی ہو تو اِس معاشرے کے لوگوں کے مُنہ کُھل جاتے ہیں۔ملیحہ نے بے حد سنجیدہ ہوکر اُس کو سمجھانا چاہا۔

میں یہاں کسی اور کے مایوں میں بیٹھی ہوں اور تم کسی دوسرے مرد کی سوچ میرے دماغ میں ڈال رہی ہوں۔ماہا کو کجھ اور نہ سوجھا تو یہ کہا۔

دیکھو ماہا میں تمہاری بہن ہوں جیسے تمہارے نزدیک میری خوشیاں ضروری ہیں اُسی طرح مجھے بھی زر کے علاوہ تمہیں کوئی خوش نہیں رکھ سکتا اگر تمہیں لگتا ہے کے منان تمہیں چاہتا ہے تو میں ایک بات بتادوں وہ تمہاری خوبصورتی کی وجہ سے شادی کا خواہشمند ہیں۔ملیحہ نے رسانیت سے کہا

زرجان بھی میری خوبصورتی کی وجہ سے اٹریک ہوا ہوگا۔ماہا نے طنزیہ کہا

وہ اگر تمہاری خوبصورت چہرے سے محبت کرتا تو بس اس کو افسوس ہوتا ناکہ تمہارا کسی اور کے ہونے کا سوچتے خود کو تڑپاتا یا اذیت دیتا مرد ایسے ہی نہیں روتا اگر کبھی تم مرد کی آنکھوں میں نمی دیکھو تو سمجھ جانا وجہ بڑی ہے۔ملیحہ نے مسکراکر کہا پر ماہا خاموش رہی وہ فلحال کجھ بھی سمجھنے کی حالت میں نہیں تھی پیار،محبت پہ یقین تو اُس کا بہت پہلے ہی اُٹھ گیا تھا۔

دوھوکہ ایک دیتا ہے

بھروسہ سب سے اٹھ جاتا ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕

زرجان بہت دنوں بعد آج یونی آگیا تھا پر اُس کا دماغ پڑھائی میں لگ نہیں رہا تھا اُس کی غیردماغی حالت ہر ایک نے نوٹ کی تھی ابھی بھی زرجان اپنی ایک کلاس مس کرتا سیڑھیوں کے پاس بیٹھا تھا جب عروہ ساتھ کجھ فاصلے پہ بیٹھ کر زرجان کو دیکھنے لگی جس کو شاید یہ تو محسوس نہیں ہوا کے کوئی اُس کے ساتھ بیٹھ چُکا ہے۔

کاش ایسا دن بھی آئے تم اتنی محویت سے مجھے سوچو۔عروہ نے مسکراکر زرجان سے کہا تو زرجان نے گردن موڑ کر خالی نظروں سے اُس کو دیکھا۔

میں ایک سیراب ہوں میرے تک آنے سے بہتر ہے تم اپنا راستہ بدل ڈالوں۔زرجان بے تاثر لہجے میں بولا۔

جنہیں راستوں سے عشق ہو

انہیں کیا پرواہ منزل کی۔

زرجان کی بات پہ عروہ نے اچھے بھلے شعر کا ستیاناس کیا۔

میں کسی اور کو چاہتا ہوں۔یہ سننے کے بعد عروہ کتنی دیر تک سناٹوں کی زد میں رہی آنکھیں پتھرا سی گئ تھی اُس کو تو لگتا تھا آج نہیں تو کل زرجان اُس کی محبت کو قبول کرلیں گا ابھی جیسا بھی رویہ رکھے بعد میں وہ آئے گا تو بس اُس کے پاس تو پھر یہ کیا کہہ رہا تھا اُس کے سامنے اُس کے ساتھ بیٹھ کر وہ کسی اور کی محبت کا دعویٰ کررہا تھا وہ کیسے کسی اور کی چاہت کرسکتا تھا۔

بہت بُرا مذاق تھا۔عروہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی۔

میری زندگی کی خوبصورت حقیقت ہے۔زرجان کے چہرے پہ مسکراہٹ چھاگئ جب نظروں کے سامنے ماہا کا مسکراتا عکس نظر آیا۔

پانچ سال سے میں تمہارے پیچھے ہوں اور تم کیسے یہ کہہ سکتے ہو کے تمہیں کسی اور سے محبت ہے۔عروہ نے زرجان کو کھڑا ہوتا دیکھا تو خود بھی کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

میں نے نہیں کہا تھا اپنے کیے کی تم خود زمیدار ہو ہمیشہ سے کہا تھا میں نے مجھے تم میں دلچسپی نہیں۔زرجان نے ناگوار نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا۔

تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی زر ورنہ میں خودکشی کرلوں گی۔عروہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

حرام موت مرنے ہے تو شوق سے مرو پر میں شادی نہیں کرسکتا۔زرجان کی بات پہ عروہ نے اس کا گریبان پکڑلیا۔

اپنی حد میں رہو یونی ہے یہ۔زرجان ایک جھٹکے میں اس کو خود سے پرے دھکیلتا بولا۔

تم اتنے بے رحم کیسے ہوسکتے ہو ترس نہیں آتا مجھے پہ۔عروہ کا چہرہ آنسو سے تر ہوگیا تھا اُس کی حالت قابلِ رحم تھی پر زرجان نظرانداز کرگیا۔

اپنی زندگی ضائع مت کرو کسی اچھے انسان کو تم ڈیزرو کرتی ہو۔زرجان کہتا سائیڈ سے گُزرگیا عروہ ساکت سی اپنی جگہ پہ جمی رہی اُس میں ذرہ ہمت نہیں تھی کے وہ ہل بھی پاتی۔

ٹوٹ کر چاہا تھا تمہیں،

تمہیں چاہ کر ٹوٹیں ہیں

💕💕💕💕💕💕

اتنا وقت ہوگیا اب کال کی ہے۔مرجان شکوہ کناں انداز میں کہا۔

سوری مرجان وہ دراصل مصروف تھی ورنہ روز وقت پہ کال کرتی ہوں۔ملیحہ نے لب دانتوں تلے دبائے کہا۔

مجھے یاد آرہی ہے تمہاری کب آؤں گی؟مرجان نے بےچارگی سے کہا

جب ماہا کی شادی ہوجائے موم اکیلی ہوتی ہیں کام میں زیادہ نہیں تو تھوڑی مدد ہوجاتی ہے اُن کو میری طرف سے۔ملیحہ نے جواب دیا۔

اچھا اب دعا ہے جلدی سے یہ دن ختم ہوجائے۔مرجان کی بات پہ ملیحہ کی ہنسی چھوٹ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ امیچور لڑکا تم سے محبت کرتا ہے۔

ماہا کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی تھی کانوں میں کبھی زرجان کی آواز گونجتی تو کبھی ملیحہ کی جس سے اُس کو نیند نہیں آرہی تھی۔

ملیحہ کی بچی نے کیس فتور ڈال دیا میرے دماغ میں۔ماہا جھنجھلا کر کھڑکی کا دروازہ بند کرتی بیڈ کے پاس آئی۔

مجھے سوچنا نہیں ہے کسی اور کے بارے میں اگر میں نے منان کا انتخاب کیا ہے تو مجھے چاہیے اپنی سوچو میں بھی اُس کو شامل کرو ناکہ کسی اور کو۔ماہا نے خود کو باوار کروایاں اور سونے کے لیے لیٹ گئ۔

💕💕💕💕💕

زرجان عشاء کی نماز پڑھتا سونے والا تھا جب اُس کے موبائل پہ میسج ٹون بجی زرجان نے ہاتھ بڑھاکر سیل فون اُٹھایا تو عروہ کا ایس ایم ایس تھا جسے دیکھ کر زرجان کے چہرے کے زاویے بگڑے مرے دل کے ساتھ اُس نے میسج اوپن کیا۔

وہ طلب نہ تھا عطا تھا،خواہش نہ تھا دعا تھا

وہ کبھی نہ جان سکے گا،وہ میرے لیے کیا تھا۔

زرجان نے آنکھیں چھوٹی کیے بار بار میسج کو پڑھا جانے کیوں اُس کو عجیب سا لگا مگر وہ اپنا سر جھٹکتا بیڈ پہ آرام سے لیٹ گیا۔

زرجان کو سوئے ہوئے ابھی کجھ ہی وقت ہوا تھا جب خاموش رات میں اس کے موبائل پہ آتی کال نے پورے کمرے ارتعاش پیدا کیا کال آتی بند ہوگئ تھی اب دوبارہ فون بجنے لگا تھا سوئے ہوئے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔تیسری بیل پہ زرجان مکمل طور پہ نیند سے بیدار ہوا زرجان نے ہاتھ یہاں وہاں مار کر وہ تلاش کیا موبائل ہاتھ میں لیکر جب اسکرین پہ احتشام کی کال دیکھی تو سیدھا ہوتا کال پِک کی۔

زر کہاں ہے توں؟احتشام نے عجلت بھرے انداز میں پوچھا۔اُس کے سوال پہ زرجان نے فون کان سے ہٹاکر وقت دیکھا جو رات کے گیارہ بجے کا سندیسہ دے رہا تھا۔

ہر شریف مرد اِس وقت اپنے گھر پہ ہوتا ہے۔زرجان نے سائیڈ لیمپ آن کرتے جواب دیا۔

سیٹی ہوسپٹل آجا فورن سے۔احتشام کی بات پہ زرجان کا دل کسی انہونی کے احساس سے دھڑکا۔

سب خیریت تو ہے؟

اللہ کریں سب خیر کو عروہ نے اپنی کلائی کی نس کاٹ لی ہے۔احتشام نے بتایا تو زرجان کجھ بول نہ پایا۔

تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی زر ورنہ میں خودکشی کرلوں گی۔

عروہ کی کجھ دن پہلے کہی بات یاد آئی تو زرجان نے زور سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔

💕💕💕💕💕💕

چچی جان زر نے آپ کو کجھ بتایا تھا وہ کہاں جارہا ہے۔مہرماہ نے پریشان لہجے میں ہانم بیگم سے پوچھا صبح وہ زرجان کے کمرے میں گئ تو کمرہ خالی تھا بعد میں گارڈ سے معلوم ہوا کہ زرجان رات میں بہت تیزی سے کہی چلاگیا تھا تب سے مہرماہ پریشان تھی شاہ میر نے بہت بار کالز وغیرہ کی مگر وہ اپنا فون کمرے میں ہی بھول گیا تھا۔

مجھے بتاکر جاتا تو میں بتادیتی۔ہانم بیگم نے گہری سانس لیکر کہا۔

لاپرواہ ہوگیا ہے زر اتنا بچپن میں مجھے تنگ نہیں کیا جتنا اب ناک میں دم کرتا ہے۔مہرماہ کہتی کمرے سے باہر چلی گئ۔

کجھ پتا چلا؟مہرماہ نے شاہ میر کو ہاتھ میں موبائل پکڑے سوچ میں گم دیکھا تو پوچھا۔

ہممم اُس کے دوست سے میرا رابطہ ہوا زر کا دوست ہے نہ فرزام اُس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے زر اُس کے ساتھ ہے۔شاہ میر نے گہری سانس بھر کہا تو مہرماہ نے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔

اللہ اُس کو زندگی بخشے پر ایسا کیوں کیا اُس نے۔مہرماہ نے افسوس سے کہا۔

پتا نہیں اللہ بہتر جانتا ہے بس اللہ اُس پہ اپنا رحم فرمائے زندگی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے خودکشی کی سزا اتنی بھیانک ہے کے انسان سو دفع ضرور سوچے جانے ایسی کیا وجہ ہوگی۔شاہ میر نے رنجیدہ آواز میں کہا۔

اپنے والدین کا سوچ لیتی۔مہرماہ نے کہا۔

آپ کو چلنا ہے میں ایک دفع ہوسپٹل جاکر دیکھ آؤں۔شاہ میر نے مہرماہ سے پوچھا۔

میں بھی چلتی ہوں سمیرا(عروہ کی والدہ) سے میری اچھی بات چیت ہوتی ہے۔مہرماہ نے حامی بھرتے کہا۔

💕💕💕

زرجان خاموش سا دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا سامنے بینچ پہ عروہ کی والدہ بیٹھی رونے میں مصروف تھی تھیں والد کا انتقال آج سے چند سال پہلے ہی ہوچُکا تھا وہ تینوں ہی بس ایک دوسرے کا سہارا تھے عروہ کی حرکت نے فرزام اور اُس کی والدہ کو توڑ کے رکھ دیا تھا ڈاکٹرز نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا ان کا کہنا تھا مریض کو ہوسپٹل لانے میں کافی دیر کردی تھی جس میں اُس کے بچنے کے چانسس بہت کم تھے وہ بس کوشش ہی کرسکتے تھے باقی اللہ کی مرضی۔

زرجان عروہ کی حالت کا قصوروار خود کو سمجھ رہا تھا احساسِ شرمندگی اُس کو فرزام سے نظریں ملانے سے قطرا رہی تھی جب عروہ کی ماں کو روتا دیکھتا تو دل ڈوب مرنے کو چاہتا۔

اسلام علیکم!!!شاہ میر اور مہرماہ ایک ساتھ آتے سلام کیا مہرماہ سمیرا کے پاس بیٹھ گئ تسلی کروانے کے لیے جب کی شاہ میر فرزام کی طرف آیا جو بنا حرکت کیے ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔

حوصلہ رکھو اللہ نے چاہا تو وہ بلکل ٹھیک ہوجائے گی۔شاہ میر کی بات پہ فرزام کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ آئی۔

حوصلہ ہے انکل اب بس ڈاکٹر کا انتظار ہے کے وہ آئے اور کہے سوری ہم آپ کے مریض کو بچا نہ پائے۔فرزام بے تاثر لہجے میں کہا

ایسی بات

شاہ میر کجھ کہنے والا تھا مگر سامنے نرس کے ساتھ ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر خاموش ہوگیا۔

وی آر سوری زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہم آپ کے پیشنٹ کو بچا نہ پائے اللہ آپ سب کو صبر دے۔ڈاکٹر افسوس سےکہتا شاہ میر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر چلاگیا جب کی ان کی بات نے سب کے پیروں سے زمین کھینچ لی تھی عروہ کی ماں دھاڑے مار مار کر رونے لگی شاہ میر نے فرزام کو دیکھا جو ابھی بھی ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا۔

فقط کجھ دنوں کی بات ہے

ہم آپ کو کبھی بھی کہیں بھی

میسر نہ ہوں گے۔

💕💕💕💕💕

چار دن بعد:

کجھ بات کرنی تھی آپ سے اِس لیے کال کی۔ماہا کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب سیل فون پہ پروفیسر منان کی کال آئی تو اُس کو کجھ تعجب ہوا آج اُس کو مایوں میں بیٹھے ساتواں دن تھا اور اِن دنوں میں پہلی دفع منان کی کال آئی تھی۔

جی کہے میں سن رہی ہوں۔ماہا نے کتاب بند کرکے کہا۔

آپ مایوں سے اُٹھ جائے میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا۔پروفیسر منان دھیمی آواز میں بولا ماہا کو نہ کوئی دُکھ ہوا نہ افسوس نہ حیرانی بس چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگئ۔

تو کیا آپ نے مجھ سے بدلا لیا؟ماہا نے چبھتے لہجے میں پوچھا۔

بدلا کیسا میری مجبوری ہے ورنہ میں کبھی آپ سے شادی کرنے کے لیے انکار نہ کرتا۔پروفیسر منان نے فورن سے وضاحت کی۔

بدلا اُس بات کا جب آپ نے مجھے پرپوز کیا تو میں نے انکار کردیا۔ماہا نے یاد کروایاں۔

آپ غلط سمجھ رہی ہیں ایسا کجھ نہیں میں نے بس اپنے دل کی بات کی تھی اس کے بعد آپ کا رائٹ تھا جو جیسا آپ جواب دیتی میں ایک میچور مرد ہوں اتنی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بناکر بدلا نہیں لیں سکتا دوسری بات کے ہمارا تعلق اُس مذہب سے ہے جو بدلا لینے والے کو بہادر نہیں بزدل کہتا ہے اور الحمد اللہ میں نے ایسا کجھ نہیں کیا اگر اللہ نے چاہا تو آپ کو پتا چل جائے گا میرے انکار کرنے کی وجہ۔منان نے صاف گوئی سے کہا

ہمارا تعلق اُس مذہب سے ہے جو بدلا لینے والے کو بہادر نہیں بزدل کہتا ہے۔

ماہا منان کی ایک بات پہ رُک سی گئ تھی۔

شکریہ اتنی جلدی آپ کو احساس ہوا آپ کو مجھ سے شادی نہیں کرنی۔ماہا اپنی بات کہتی کال کاٹ گئ تھی۔

شاید ڈیڈ کو مایوس کرنے کی سزا ہے۔ماہا کے آنکھ سے آنسو گِر پڑا۔ماہا خود کو کمپوز کرتی کمرے سے باہر نکلتی مہرین کے کمرے میں آئی۔

موم آپ فری ہیں؟ماہا نے سنجیدگی سے کہا۔

ہاں فری ہوں تم آوٴ یہ دیکھو میں نے تمہارے لیے سیٹ بنوایا تھا کیسا ہے۔مہرین نے مسکراکر کہا ماہا نے ایک سرسری نظر بیڈ پہ موجود جیولری پہ ڈالی پھر مہرین کے پاس آئی۔

آپ نے ایک دفع کہا تھا کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے اور وہ مایوں میں بیٹھی ہو تو گھر میں سے کوئی انسان اُس لڑکی کے اُپر پانی کا مٹکہ بہادیتے تھے پھر اُس کا مایوں ختم ہوجاتا تھا۔ماہا نے مہرین کو دیکھ کر کہا

کہا تھا میں نے پر تم اِس وقت یہ باتوں کیوں لیکر بیٹھی ہو۔مہرین کو ماہا کی باتیں عجیب لگی۔

مٹکہ تو آپ کے پاس نہیں ہوگا اِس لیے میرے اُپر پانی کی بالٹی گِرادے تاکہ میں مایوں سے اُٹھ جاؤں۔ماہا نے مسکراکر کہا۔

یہ کیا بول رہی ہو اندازہ ہے تمہیں۔مہرین نے سخت لہجے میں کہا۔

منان نے کہا میں مایوں سے اُٹھ جاؤں مجھ سے شادی نہیں کرے گا وجہ اللہ نے چاہا تو مجھے پتا لگ جائے گی آپ جلدی سے میرا مایوں ختم کریں تاکہ میں اِس ڈریس سے خود کو آزاد کروں۔ماہا آرام سے کہتی کمرے سے نکل گئ مہرین نے اپنا سر پکڑلیا۔

💕💕💕💕

میں بہت شرمندہ ہوں فرزام سچ پوچھو تو میرا دل چاہتا ہے ڈوب کے مروں۔زرجان چار دنوں میں ہر روز فرزام سے ملنا آتا تھا مگر فرزام ہمیشہ خاموش رہتا تھا آج جب فرزام کی حالت بہتر ہوئی تو زرجان نے افسوس کا اظہار کیا۔

تم کیوں شرمندہ ہورہے ہو خودکشی کونسا اس نے تمہاری وجہ کی ہے کی ہوگی پر بات کجھ اور ہے جس سے ابھی تمہارا ناواقف ہونا بہتر ہے۔فرزام سپاٹ انداز میں بولا تو زرجان کے ماتھے پہ ناسمجھی کی لکیریں اُبھری چار دنوں سے وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں تھا رات کو عروہ کا چہرہ اُس کو سکون سے سونے نہیں دیتا تھا اس کی موت کا ذمیدار وہ خود کو سمجھتا تھا اور اب فرزام کہہ رہا تھا اُس کی وجہ سے کجھ نہیں ہوا اِس بات پہ جہاں اُس کو سکون آیا تھا پریشانی بھی ہوئی کے پھر اور کیا بات ہے دل میں افسوس بھی تھا عروہ کی موت کا مگر جو وہ چاہتی تھی زرجان وہ چاہ کر بھی نہیں کرسکتا تھا کجھ چیزوں میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا اُسی طرح زرجان بھی ماہا کے عشق کے آگے بے بس تھا۔

کونسی وجہ مجھے معلوم ہونی چاہیے ایسی کیا بات ہے جو تم چھپارہے ہو؟زرجان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

وقت آنے دو پھر۔فرزام نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔

💕💕💕💕💕

میں بات کرتا ہوں ایسے کیسے انکار کردیا اب انہوں نے مذاق سمجھا ہوا ہے کیا۔مہرین نے جیسے ہی ریان کو ساری بات سے آگاہ کیا تب سے اُس کا غصے سے بُرا حال ہوگیا تھا مہرین پریشان ہوگئ تھی آج سے پہلے اُس نے کبھی ریان کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔

بات کرنے کا مطلب اپنی بیٹی کو ان پہ زبردستی مسلط کرنا اور میری بیٹی گئ گُزری نہیں جو ہم ایسا کریں۔مہرین نے انکار کرتے کہا

تمہاری وجہ سے پہلے میں نے میر کو انکار کیا تب بھی تمہارا یہ جُملا تھا اور اب جب تم لوگوں کی پسند کا لڑکا عین وقت پہ اناکر کررہا ہے تب بھی تم ایسے بول رہی ہو۔ریان نے سخت لہجے میں کہا۔

دیکھو ریان انہوں نے انکار کیا ہے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں میں ماہا کو مایوں سے اُٹھارہی ہو۔مہرین کہتی کمرے سے جانے لگی۔

معاملے بات کرنے سے حل ہوتے ہیں۔ریان نے اس کو جاتا دیکھا تو کہا اُس کی بات سن کر مہرین پلٹ کر واپس ریان کی طرف آئی۔

بیشک معاملے باتوں سے جس طرف خراب ہوتے ہیں اُس طرح ٹھیک بھی مگر منان نے خود یہ بات ماہا سے کہی ہے اب ماہا ساری زندگی کنواری رہے گی پر منان سے کبھی شادی نہیں کریں اِس لیے بہتر ہے تم یا میں بات نہیں کریں۔مہرین نے سنجیدگی سے کہا۔

اگر ایسا ہے تو ٹھیک تم ماہا پہ پانی نہیں گراؤ گی۔ریان سپاٹ لہجے میں بولا

ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ اُس کا مایوں ختم نہیں ہوگا۔مہرین نے سمجھانا چاہا۔

میں نے تم لوگوں کی بات مانی اس کا نتیجہ دیکھ لیا اب جو میں کہوں گا اور کروں گا تمہیں یا ماہا کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے ماہا سے کہہ دو جہاں ایک ہفتہ بعد اس کی شادی تھی اب دو دن بعد اس کا نکاح ہے زر کے ساتھ خود کو مینٹلی طور پہ تیار کردیں اگر اِس بار میری بات نہیں مانی تو میں سمجھوں گا اِس گھر میں میری کوئی حیثیت نہیں۔ریان نے سنجیدہ ہوکر کہا تو مہرین نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔

لوگ کیا کہیں گے

کتوں کا کام ہوتا ہے بھونکنا وہ جب بھونکتے ہیں تو انسان پاس سے گُزر جاتے ہیں ناکہ اس کا بونکنا سننے کے لیے رُک جاتے ہیں یا جواب دیتے ہیں اُس طرح لوگوں کا کام باتیں کرنا ہوتا ہے ہمیں چاہیے ان کو نظرانداز کریں دوسروں کی وجہ سے ہم اپنے فیصلے کیوں بدلے۔مہرین کی بات ریان نے بیچ میں ہی کاٹ دی دروازے کے پاس ماہا نے گہری سانس لی اور اندر داخل ہوئی مہرین اور ریان نے اس کو آتا دیکھا تو خاموش ہوگئے۔

مجھے آپ کا ہر فیصل منظور ہے ڈیڈ۔ماہا کے بے تاثر لہجے میں کہی بات سن کر ریان نے کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی ماہا ریان کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر آگے آکر اپنا سر اس کے سینے پہ رکھا۔

ایم سوری ڈیڈ میں نے پہلے آپ کی بات پہ اختلاف کیا عمر کا بہانہ کرکے جب کے مجھے یہ سوچنا چاہیے تھا آپ میرے باپ ہیں اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو اِس میں میرے لیے بہتر ہوگی مگر میں نے آپ کی پسند کو پسند کرنے کے بجائے خود کی پسند کو ترجیح دی۔ماہا کی آنکھ سے آنسو گِرکر فرش پہ پڑا۔

کوئی بات نہیں تم نے جو کیا اپنے حساب سے تم بھی ٹھیک تھی۔ریان نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے کہا۔

خدا کریں بس تم خوش رہو۔مہرین گہری سانس لیکر بولی۔

اپنے سارے خدشات دور کردو زرجان میر بہت چاہتا ہے ماہا کو دیکھنا بہت خوش رکھے گا ماہا کو۔ریان نے دونوں کو تسلی کروائی جس پہ مہرین نے تو آمین کہا پر ماہا خاموش رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب کیا سن رہی ہوں میں؟ملیحہ ماہا کے کمرے میں آتی حیران لہجے میں بولی۔

تمہارے کان سنا تم نے پتا بھی تم ہوگا۔ماہا نے اپنے ہاتھ سر پہ رکھ کر ہلکہ ہلکہ دباکر کہا

زیادہ مسخراپن نہیں کرو۔ملیحہ نے گھور کر کہا

میرے سر میں بہت پین ہورہا ہے اِس لیے فلحال بحث نہیں کرو۔ماہا نے منت کرنے والے انداز میں کہا وہ ابھی تک خود کو زرجان کے ساتھ نکاح پہ تیار نہیں کرپائی تھی ریان سے تو کہہ دیا تھا اب سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہوگیا تھا کے کیسے وہ اپنے سے چھوٹے عمر کے لڑکے کے ساتھ شادی کریں گی۔

پہلے بتاتی نہ میں دوائی دیتی ہوں انشااللہ آرام ملے گا۔ملیحہ نے فکرمند ہوکر جس پہ ماہا نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕

مبارک ہو۔شاہ میر مہرماہ کے کان کے پاس آکر بولا

کس چیز کی مبارکباد۔ماہا ناسمجھی سے پوچھنے لگی۔

آپ کے بیٹے کی دعائیں قبول ہوگئ پرسو دونوں کا نکاح ہے۔شاہ میر نے مسکراکر کہا مہرماہ بے یقین نظروں سے شاہ میر کو دیکھا۔

واقعی شاہ پر کیسے۔مہرماہ متجسس ہوکر بولی

زیادہ تو ریان نے مجھے نہیں بتایا بس یوں سمجھ لوں معجزہ ہوگیا۔شاہ میر نے کہا

زر کو بتایا۔مہرماہ شکر ادا کرتی شاہ میر سے بولی۔

پہلے آپ کو بتایا سوچا ساتھ میں چلتے ہیں۔شاہ میر نے جواب دیا۔

کمرے میں ہے اپنے چلو۔مہرماہ خوشی سے بولتی شاہ میر کا پکڑتی زرجان کے کمرے میں آئی۔

مما ڈیڈ کوئی کام تھا۔زرجان نہاکر باہر آیا تو شاہ میر اور مہرماہ کو دیکھ کر پوچھا۔

تمہارے لیے خوشخبری ہے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا

ریئلی بتائے پھر۔زرجان نے بے صبری سے پوچھا

ایک دن بعد نکاح ہے تمہارا ماہا کے ساتھ۔شاہ میر مسکراہٹ دباتا زرجان کا چہرہ دیکھ کر بولا

میرا نکاح وہ بھی ماہا کے ساتھ۔زرجان اپنے تیز دھڑکتے دل کو قابو پاتا اٹک اٹک کر بولا اُس کو لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی خواب ہو۔

بلکل تمہارا اور ماہا کا۔شاہ میر زرجان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولا تو زرجان اُس کے گلے لگ گیا

میں بہت خوش ہوں ڈیڈ اتنا کے بتا نہیں سکتا۔زرجان اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی کو اندر دھکیل کر بولا۔

میں سمجھ سکتا ہوں کہا تھا نہ دعاؤں میں طاقت ہوتی ہے نیت سچی ہو تو خدا کبھی دعا رد نہیں کرتا۔شاہ میر نے مسکراکر اس کی پیٹھ تھپتھپاکر کہا۔

اِن اللہٙ کُلِّ شٙیْءٍ قٙدِیْرُٗ"

بے شک اللہ ہر چیز پہ قادر ہے"

زرجان نے آیت پڑھی تو مہرماہ کو وہ وقت یاد آیا جب شاہ میر نے بھی یہی کہا تھا سب یاد آکر اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ تھی۔

💕💕💕💕💕


زرجان آج بہت خوش تھا جس وجہ سے اُس نے آج فرزام اور احتشام کو ٹریٹ دی تھی زرجان کو لگا تھا احتشام حیران ہوگا جب وہ اُس کو اپنی اور ماہا کی شادی کا بتائے گا تو پر اُس کا نارمل ری ایکٹ تھا جس پہ زرجان نے کندھے اُچکادیئے تھے۔

آج تو میں دل کھول کر تمہارے پئسے خرچ کروں گا۔کھانے آرڈر کرتے وقت احتشام نے کہا فرزام جب کی خاموش تھا۔

مرضی ہے۔زرجان نے آرام سے کہا

آنٹی کی طبیعت کسی ہے؟زرجان نے فرزام سے پوچھا عروہ کے مرنے کے بعد وہ بیمار رہنے لگی تھی جس وجہ سے فرزام نے اُن کو ہسپتال ایڈمٹ کروایا تھا تاکہ ان کا علاج ٹھیک سے ہو۔

دعا کرو ٹھیک ہوجائے میرا ان کے سوا اور کوئی نہیں ڈیڈ کو کھودیا بہن کو کھودیا اب ماں کو کھونے کی ہمت نہیں بچی۔فرزام بے تاثر لہجے میں بولا تو ماحول میں خاموشی چھاگئ۔

اللہ ان کو لمبی اور تندرستی والی زندگی دے گا تم پریشان نہ ہو۔زرجان نے اُس کو تسلی کروائی

آمین میں آتا ہوں۔فرزام سنجیدگی سے کہتا اُٹھ گیا۔

تمہیں پتا ہے تمہیں اگر تمہاری محبت مل رہی ہے تو اُس میں سب سے بڑا ہاتھ فرزام کا ہے۔احتشام نے سنجیدگی سے کہا

مطلب۔زرجان حیرت سے بولا

فرزام نے مجھے بتایا تھا تم میم ماہا کو چاہنے لگے ہو جس پہ مجھے کافی شاک لگا خیر پھر تمہاری حالت تم اتنے اُداس تھے تو ہم نے ایک فیصلہ کیا۔احتشام اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔

کونسا فیصلہ۔زرجان بے قرار ہوا۔

ہم دونوں مل کر پروفیسر منان نے آفس گئے تھے۔احتشام کی بات پہ زرجان کی بلو آنکھیں حیرت سے پھیل گئ احتشام ہلکہ سا مسکرایا پھر بتانا شروع کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وی آر کم اِن سر۔پروفیسر منان اپنے آفس میں بیٹھا تھا جب فرزام اور احتشام نے ایک ساتھ اندر آنے کی اجازت چاہی۔

یس کم اِن۔پروفیسر منان نے اجازت دی تو وہ اندر آئے۔

سر آپ سے ایک درخواست کرنی تھی اِس وقت آپ یہ بھول جائے ہم یونیورسٹی میں ہیں اور آپ ہمارے اُستاد اور ہم شاگرد۔فرزام نے گہری سانس بھر کر کہا۔

ایسی کیا درخواست ہے؟پروفیسر منان ناسمجھی سے بولا۔

سر آپ غصہ مت ہوئیے گا۔احتشام نے ڈرتے ہوئے کہا۔

نہیں ہوتا میں تم دونوں ایزی ہوکر ساری بات کرو۔پروفیسر منان مسکراکر بولے تو ان کو کجھ ڈھارس ملی۔

سر آپ میم ماہا سے شادی مت کریں۔فرزام نے آنکھیں بند کیے ایک سانس میں کہا

یہ کیا بکواس ہے تم دونوں میرے پرسنلز میں گھس رہے ہو۔پروفیسر منان سخت لہجے میں بولے۔

سر پلیز زرجان میر بہت چاہتا ہے اگر میم ماہا کی شادی اس کے بجائے کسی اور سے ہوئی تو وہ یا تو مرجائے گا یا اپنی زندگی برباد کردیں گا۔احتشام نے التجا کی۔

زرجان میر؟پروفیسر منان نے بے یقینی سے پوچھا

جی سر ان کے بیچ فیملی ٹرمز بھی ہیں جب سے آپ دونوں کا رشتہ طے ہوا ہے تب سے زر نے یونی آنا کم کردیا ہے آپ اِن دنوں میں اُس کی پڑھائی کا رکارڈ دیکھے گے نہ اُس کی پریزیٹیشن اس کا اسائمنٹ یا کجھ بھی جہاں سب سے پہلے اس کے ہائی مارکس ہوتے تھے اب بہت کم دیکھنے کو ملے گے۔فرزام نے کہا تو پروفیسر منان کو وہ دن یاد آیا جب وہ رشتے کی بات کررہے تھے تو زرجان اچانک اُٹھ کر چلاگیا تھا۔

تم لوگ جاسکتے ہو اب۔پروفیسر منان نے کہا تو دونوں کا چہرہ تاریک ہوگیا۔

وہ جب باہر نکلے تو دروازے پاس عروہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی چہرہ پورا آنسو سے تر تھا جس کا مطلب صاف تھا اُس نے ساری باتیں سن لی تھی وہ تو یہاں پروفیسر منان سے لیکچر کے بارے میں پوچھنے آئی تھی پر اندر سے آتی آواز سن کر وہ وہی رُک گئ تھی اس کو زرجان کا ماہا سے محبت کرنا حیران نہیں کرگیا تھا بلکہ اپنے بھائی کا اس کے ساتھ ایسا کرنا توڑ کے رکھ دیا تھا۔

آپ نے اچھا نہیں کیا بھائی۔عروہ شکوہ کرتی نظروں سے فرزام کو دیکھتی وہاں سے چلی گئ فرزام پریشان سے اُس کے پیچھے جانے لگا پر احتشام نے ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔

ابھی اُس کو اکیلے رہنے دو۔احتشام نے کہا

نادان ہے وہ کجھ غلط نہ کردیں خود کے ساتھ۔فرزام پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا

نہیں کریں گی اُس کو اب سمجھ جانا چاہیے اُس کی محبت یکطرفہ ہے۔احتشام نے سمجھانے والے انداز میں کہا تو فرزام نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احتشام ساری بات کرکے خاموش ہوگیا تھا زرجان ابھی تک بے یقین سا تھا۔

فرزام اگر تمہیں نہ بتائے تو تم بھی مت بتانا کے تم سب جانتے ہو۔احتشام نے خود ہی بات شروع کی۔

ہمم۔زرجان نے بس اتنا کہا۔

💕💕💕💕💕💕💕

وہ جو مل جائے

تو میں

بھی کہوں

مل گیا

مجھے میری تہجد کی

دعاٶں کا

صلہ

جب سے اُس کو ماہا کی طبیعت خراب ہونے کا پتا چلا تھا ایک منٹ بھی اُس کو چین نہیں آیا تھا اب وہ اُس کے کمرے میں آیا تھا مگر اُس کی بند آنکھیں دیکھ کر بے چین ہوا تھا بیڈ پہ آکر اس نے اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پہ رکھ کر ٹیمپریچر چیک کرنا چاہا مگر اُس نے جیسے ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تبھی ماہا کی آنکھیں کھول گئیں جس سے اُس نے اپنا ہاتھ سرعت سے واپس کھینچ کر اپنا دھیان دوسری طرف کیا۔

تم کیوں میرے سر پہ کھڑے ہو؟ماہا کا دماغ گھوم گیا اُس کو اپنے کمرے میں دیکھ کر۔

کہاں میں تو ماربل کے فریش پہ کھڑا ہوں۔اپنے پیروں کو دیکھ کر پھر ماہا کو دیکھ کر بڑی معصومیت سے جواب دیا گیا۔

زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں۔ماہا کہتی سیدھی ہوکر بیٹھی۔

آپ کی طبعیت خراب ہونے کا پتا چلا تو سوچا دیکھ لوں۔زرجان نے مسکراکر بتایا

کھڑکی تو لاک ہے۔ماہا نے کھڑکی کی طرف دیکھ کر کہا

اِس دفع ڈائریکٹ کمرے کے دروازے سے آیا ہوں۔زرجان نے فخر سے بتایا۔

بڑا معرکہ مار لیا۔ماہا نے طنزیہ کیا۔

معرکہ تو کل آپ سے نکاح کرنے کے بعد ماروں گا۔زرجان نے آنکھ ونک کرکے کہا تو ماہا سٹپٹاگئ۔

شرم کرو۔ماہا نے اپنی خجلت مٹانے کے غرض سے کہا۔

نہیں آتی آپ مجھے اپنے ڈمپل شو کروائے بڑی چاہت اِن کو دیکھنے کی۔زرجان نے کسی بچے کی طرح کہا

زیادہ فری مت ہو۔ماہا کو ہنسی آئی جس کو ضبط کرتی ہوئی بولی۔

فری کہا ہوا میں نے ایسے ہی کہا۔زرجان کا منہ لٹک گیا۔

اچھا اب جاوٴ باہر۔ماہا نے اس کو باہر بھیجنے چاہا۔

مجھے آپ سے باتیں کرنی ہے۔زرجان نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا۔

پر مجھے نہیں کرنی۔ماہا نے ہڑی جھنڈی دیکھائی۔

آپ کو کرنے کا کون کہہ رہا ہے آپ بس میری سن لیجئے گا۔زرجان نے آرام سے مشورہ دیا۔

اگر تم نہیں گئے نہ تو میں نکاح سے انکار کرودں گی۔ماہا نے دھمکی دی۔

میں آپ کو اغوا کرلوں گا۔زرجان مزے سے بولا

بہت بولنے لگے ہو مجھے آرام کرنا ہے۔ماہا نے تھک ہار کر کہا تو زرجان کو اُس کی بات ماننی پڑی۔

اچھا ابھی جاتا ہوں۔زرجان دروازے کے پاس آیا پھر رُک کر ماہا کی طرف دیکھا۔

یہ سترہ اٹھارہ سال کا بچہ اب بڑا ہوگیا ہے اِس لیے کبھی کبھی آپ کو بھی اِس کی بات ماننی پڑے گی۔زرجان کہہ کر رُکا نہیں تھا ماہا پہلے تو زرجان کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگی تھوڑی دیر بعد جب سمجھ آیا تو اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کیسے کال کرلی؟مرجان نے سنجیدگی سے پوچھا

سوچا تمہیں معاف کرلوں گا رشتہ بدل گیا ہے مزید بدل جائے گا۔ماہا نے آرام سے کہا

تم سچ کہہ رہی ہو۔مرجان خوشی سے بولا

ہممم سوچا تھا بدلا لوں گی تم سے پھر کسی نے مجھ سے کہا بدلا لینا بزدلوں کا کام ہے جو بزدلی تم نے دیکھائی اُس کا مظاہرہ میں کیوں کروں۔ماہا نے کہا تو مرجان شرمندہ ہوگیا۔

سوری

سوری کی کوئی ضرورت نہیں اب کجھ باتیں راز رہیں تو بہتر ہیں میں اگر ملیحہ کو تمہارا سچ بتاٶں گی تو تمہاری محبت پہ میری محبت حاوی آجائے گی اِس لیے میں ایسا کجھ نہیں کروں گی کیونکہ مجھے میری بہن کی خوشی عزیز ہے۔ماہا نے سنجیدگی سے کہا

تم کسی کو نہیں کہوگی کجھ؟مرجان نے تصدیق چاہی۔

کہا نہ کجھ باتیں راز رہے تو بہتر ہیں تم نے جو کیا وہ دس سال پہلے کیا تھا میں اب اس کو نہیں دوہراٶ گی۔ماہا نے جواب دیا۔

شکریہ تم نہیں جانتی آج میں خود کو کتنا پرسکون محسوس کررہا ہوں۔مرجان گہری سانس بھر کر کہا تب ماہا نے کال کاٹ دی۔

💕💕💕💕💕💕

کجھ وقت پہلے ہی ماہا ریان سے ماہا زرجان میر بن گئ تھی رخصتی زرجان کی پڑھائی کے بعد طے پائی تھی جس پہ سب خوش تھے سوائے زرجان کے مگر وہ رخصتی نہ ہونے کے غم پہ موجود وقت برباد نہیں کرنا چاہتا تھا اِس لیے خوشی خوشی سب سے مبارکباد وصول کررہا تھا زرجان نے ڈارک بلیو کلر کے شلوار قمیض پہنا تھا جس سے وہ بہت ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا ماہا بھی آف وائٹ میکسی میں حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی ہرکوئی ان کی جوڑی کی تعریف کررہا تھا۔

نکاح مبارک ہو۔زرجان آنکھوں میں چمک لیے ماہا سے بولا۔

خیر مبارک۔ماہا نے آہستہ آواز میں کہا۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ۔زرجان نے پھر کہا

شکریہ پر تم بھی بہت پیارے لگ رہے ہو۔ماہا نے کہا تو زرجان نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھا جس پہ ماہا نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔

💕💕💕💕💕

شاہ میر اور مہرماہ سکندر خان کے گھر کے لان میں بیٹھے پُرانی یادیں تازہ کررہے تھے یہ جگہ شاہ میر کی پسندیدہ جگہ تھی بقول اُس کے اُس نے یہاں مہرماہ کو پہلی دفع دیکھا تھا۔

مجھے لگتا ہے اب یہ روایت میں شامل ہوگا۔شاہ میر کے بازوں پہ سررکھے مہرماہ نے کہا۔

کونسی روایت؟شاہ میر نے پوچھا۔

جیسے تم نے چار سال بڑی عمر لڑکی سے شادی اُس طرح تمہارے بیٹے نے بھی یہی کیا اب آگے جاکر اُس کا بیٹا بھی یہی کریں گا۔مہرماہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا شاہ میر کا قہقہقہ بلند ہوا۔

سیریسلی ماہ آپ کو یہ لگتا ہے؟شاہ میر اپنی ہنسی پہ قابو پاتا بولا۔

اور نہیں تو کیا۔مہرماہ نے منہ کے زاویے بگاڑ کر کہا۔

کجھ دنوں بعد آرہے ہیں ویر اور حیات میں نے اب حیات کو پورا مہینہ اپنے ساتھ رکھنا ہے۔شاہ میر نے اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو مہرماہ نے اپنا سر اُٹھا کر گھور کر شاہ میر کو دیکھا

پاس میں گھر ہے ایک مہینہ رکھوگے تو ویر کو کا کیا ہوگا۔

کیا ہی کیا ہوگا اُس نے جو میری بیٹی کو اتنے وقت تک قید کیا ہے اُس حساب سے ایک مہینہ کجھ نہیں۔شاہ میر آرام سے بولا

اور جو تم نے مجھے قید کیا ہے۔مہرماہ نے کہا

اور جو آپ نے بارہ سال کے بچے کو اپنے عشق میں قید کیا تھا اُس کا کیا۔شاہ میر مہرماہ کی بات پہ دوبدو بولا

ایک تو میں تمہاری حاضر جوابی سے بہت تنگ ہوں۔مہرماہ اپنا سر دوبارہ شاہ میر کے بازوں پہ رکھ کر کہا۔

بس اب کیا کرسکتا ہوں میں۔شاہ میر بے چارگی سے بولا۔

شاہ۔مہرماہ نے پیار سے اُس کا نام کیا۔

جی کہے۔شاہ میر دل وجان سے فدا ہوتا بولا

میں نے سوچا ہے اب میں تمہیں تم نہیں بلکہ آپ کہوں گی۔مہرماہ کی بات پہ شاہ میر کے گلے میں کھانسی کا پھندا اٹکا۔

ماہ اب اِس عمر میں میرا ہارٹ تو فیل نہیں کروائے۔شاہ میر اپنا سینہ سہلاتا بولا۔

ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے تم میرا مطلب آپ نے اتنا کجھ کیا ہے میرے لیے اور کرتے ہو میں اتنا تو کرسکتی ہوں نہ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

آپ کی مرضی جو کہے۔شاہ میر اس کے بالوں پہ بوسہ دیتا بولا تو مہرماہ سکون سے آنکھیں بند کرلی۔

💕💕💕💕💕💕💕

زرجان بہت منت کرتے ماہا کو سمندر کے پاس لیں آیا تھا وہ دونوں آہستہ آہستہ گیلی ریت پہ چل رہے تھے ہوا سے ماہا کے بال اُڑتے اُس کے چہرے پہ پڑرہے تھے جن کو وہ پیچھے کررہی تھی ماہا کے چہرے پہ سکون تھا تو زرجان کی آنکھوں میں الگ سی چمک تھی جب کی چہرے کے رنگ ہی کجھ اور تھے۔

اب تو ڈمپل شو کروائے۔زرجان ماہا کو اپنے روبرو کھڑا کرتا بولا تو ماہا ہنس دی زرجان مبہوت سے اس کے ڈمپلز دیکھنے لگا۔

آپ بہت بڑی اداکار ہیں کیسے یونی کے فرسٹ ڈے پہ ایسے ظاہر کیا جیسے مجھے پہنچاتی ہی نہیں۔زرجان نے ماہا کے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

تو کونسا اچھی جان پہنچان تھی اتفاقی ملاقات تھی۔ماہا نے کہا

جو بھی میں تو لمحے میں آپ کو پہچان گیا تھا جب کی تب میں اور اب میں فرق تھا۔زرجان نے مسکراکر کہا۔

تمہارا کیا ہی کہنا۔ماہا نفی میں سرہلاتی بولی۔

آپ کو پتا ہے میں یہاں کیوں لایا ہوں آپ کو؟زرجان نے ماہا سے پوچھا۔

نہیں پتا۔ماہا نے لاعلمی ظاہر کی۔

ڈیڈ نے مما سے یہاں اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔زرجان نے بتایا تو ماہا مسکرادی

تو کیا تم بھی کرنے والے ہو۔ماہا کے جاننا چاہا

میں نے کرلیا تھا۔زرجان نے کہا تو ماہا نے منہ بنایا۔

اب زبان میں زنک لگا ہوا ہے کیا۔ماہا نے طنزیہ کیا۔

نہیں تو۔زرجان نے ماہا کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

پھر۔ماہا نے اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

پھر یہ کے زرجان میر ماہا زرجان میر سے بے انتہا محبت کرتا ہے شاید محبت سے زیادہ محبت کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے ماہا ہمیشہ اُس کے ساتھ رہے کبھی نہ دور جانے کے لیے۔زرجان نے فسوں خیز لہجے میں کہا تو ماہا مطمئن سی اس کے سینے پہ اپنا سر رکھا۔

امید ہے ہمارے درمیان عمر نہیں آئے گی۔ماہا نے آہستہ آواز میں کہا۔

کبھی بھی نہیں آئے گی ہمارے درمیان بس محبت ہوگی۔زرجان ماہا کے گرد اپنا مضبوط حصار قائم کرتا بولا۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Qaid Season 2 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Qaid Season 2 written by  Rimsha Hussain . Ishq Qaid Season 2 by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages