Pages

Saturday 8 June 2024

Ishq Qaid Season 1 By Rimsha Hussain Complete Novel Story

Ishq Qaid Season 1 By Rimsha Hussain Complete Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Ishq qaid Season 1 By Rimsha Hussain Complete Novel Story

Novel Name: Ishq Qaid Season 1

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


یہ تو بہت اچهی بات ہںے اماں جان سارہ بیگم نے اپنی ساس کو کہا جو ان کو اپنے بیٹے حیدر کے آنے کا بتارہی تھی۔جو کافی سالوں سے شادی کرکے اپنی دنيا لنڈن میں بسا چُکے تھے اور اب وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتهہ ان سے ملنے کے لیے آرہںے تھے۔ستارے بیگم جو ان کی ساس تھی ۔بے صبری سےان کے انتظار میں تھی۔

ہاں نہ بیٹا میں تو کہتی ہںوں اس کو کے ابھی یہی رہںے۔پر ہمیشہ ولا جواب کے ابھی نہیں۔ستارے بیگم نے افسردہ لہجے میں کہا۔

آپ فکر نہ کرے اماں جان بھاٸی صاحب اگر کہہ رہے ہںے کہ بعد میں آۓ تو بس آپ اطمینان رکھے۔سارہ بیگم نے اپنی ساس کو اطمینان دلایا۔

امی جان 

امی جان۔وہ ابھی آپس میں بتاکر رہںے تھے۔کے سیڑھیو سے سارہ بیگم کے بچے بھاگتے ہںوۓ آرہںے تھے۔

امی جان مجھے اس چڑیل سے بچالے۔پندرہ سالہ شاہزیب نے اپنی ماں کے پیچھے چھپ کر کہا۔

امی جان آج آپ ہمارے بیچ نہیں آۓ گی اس کا قتل آج مجھے پہ وہ واجب ہںے۔سولہ سالہ مہرماہ نے ہانپتے ہںوۓ اپنی ماں سے کہا جو پریشانی سے دونوں کو دیکهہ رہی تھی۔جب کے ستارے بیگم نفعی میں سرہلاتی اپنی تسبیح کے دانے گرانے لگی تھی۔جیسے کہہ رہی ہںوکہ ان کا روز کا معمول ہںے۔

کیا اول فول بول رہی ہںو مہرو چھوٹا بھاٸی ہںے تمہارا لحاظ کرو کجھ۔سارہ بیگم نے اپنی لاڈلی بیٹی کو ڈانٹا۔

شاہزیب نے اپنی ماں کی حمایت پاکر کجھ شیر ہںوا اور اپنی شرٹ کے کالر ٹھیک کرتا پھر معصوم شکل بناتا اپنی ماں کے کجھ اور قریب ہںوکر کہا۔

امی جان یہ تو کجھ بھی نہیں میں آپ کو کیا کیا بتاٶ مہرو میرے ساتهہ کتنا ظلم کرتی ہںے۔آخر میں شاہزیب نے اپنے نا ہںونے والے آنسو صاف کیے اس کی اس ڈرامے بازی پہ مہرماہ نے اپنی بڑی بڑی سی آنکهيں گھماٸی۔

صاف صاف بتا کرو زیب ۔سارہ بیگم کجھ سنجيدہ سی ہںوگٸ۔وہ بیچاری ان کے ڈرامے میں پھنس جاتی تھی۔

امی اس دن آپ لوگ جب 

امی جان اس کو چھوڑے یہ ہںے ہی جھوٹا کمینہ۔شاہزیب کی بات کرنے سے پہلے ہی مہرماہ نے اپنی ماں سے کہا۔

تم دونوں سدھر جاٶ بچے نہیں رہںے ہںو اب۔سارہ بیگم نے دونوں کو ڈانٹا۔

امی جان آپ میری بات سنیں آپ جانتی نہیں آج یہ میرے کمرے میں آکر کیا کارنامہ انجام دے چکا ہںے۔مہرماہ نے رونے والے انداز میں کہا۔

کیا کردیا آپ شاہزیب نے ؟سارہ بیگم نے پوچها ۔

اس کا نشہ کم کیا۔شاہزیب نے مزے سے اپنی ماں کے قریب صوفے پہ لیٹنے والے انداز میں کہا۔

امی جان اس کمینے نے میری ناول کا بیچ والا اور وہ بھی  ضروری پیچ پھاڑ دیا۔مہرماہ نے ایسے بتایا جسے نجانے کونسی بڑی بات ہںو۔خیر اس کے لیے تو تھی۔اس کی بات سن کر ستارے بیگم کی ہنس نکل گٸ۔جب کے شاہزیب اس کو اور چڑانے کی خاطر زور زور سے ہنسنے لگا جیسے مہرماہ نے کوٸی لطیفہ سنا دیا جب کے سارہ بیگم نے افسوس بھری نظر سے مہرماہ کو دیکها اور کہا۔

یہ تم دونوں نے اِس منحوس ناول کے لیے اتنا شور مچایا ہںوا ہںے۔شاہزیب تو ناول کے اس لقب پہ پاگل ہںوکے ہنسنے لگا اور پیٹ پہ ہاتهہ رکھ دیا۔

امی جان کیا ہںوگیا ایسا تو نہ کہے مہرماہ نے اپنے دل پہ ہاتهہ رکھ کہ کہا۔وہ کہا برداشت کرتی اپنی ناولوں کے لیے ایسے الفاظ۔ اس لیے فورن سے بولی 

بس اور بحث نہیں اپنے اپنے کمروں میں جاٶ غضب خدا کا اتنے بڑے ہںوکر بھی عقل نام کی کوٸی چیز ہںے نہ اور کوٸی فضیلت۔سارہ بیگم نے اور جھاڑ پلاٸی۔

آپ جانتی ہںے میرا ناولز سے لگاؤ ۔مہرماہ نے کجھ شرماکر کہا۔جس پہ شاہزیب نے زبان دیکهاٸی۔

اس لیے بول رہی ہںوں ابھی ان کو کم کرو اور ڈھنگ سے رہنا تم دونوں دوسرے ملک سے تمہارے چچا اور ان کی فیملی آرہی ہںے میں نہیں چاہتی ان کو تم دونوں کی کوٸی بات ناگوارا گزرے۔سارہ بیگم نے اب کی کجھ سمجھانے والے انداز میں کہا تو شاہزیب سیدھا ہںوکر اپنی ماں کو دیکها۔جب کے مہرماہ بھی اپنا غم بھولاۓ ان کے دوسری طرف آکر بیٹھ گٸ اور کہا۔

چچا حیدر آرہںے کیا وہ ہمارے ساتهہ رہںے گے۔

نہیں انہوں نے ہمارے قریب ہی جو فلیٹ ہںے نہ وہ خریدا ہںے۔مہرماہ کو جواب ستارے بیگم نے دیا۔

تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے آۓ گے ؟شاہزیب نے سوال کیا۔

کہاں بیٹا بس دعا کرو کے ہمیشہ کے لیے بھی آۓ۔ستارے بیگم نے امید سے ان کو کہا۔

آجاۓ گے دادی یو فکر ناٹ ۔مہرماہ نے ان کو دیکهہ کر شرارت سے کہا۔

تو وہ ہنس پڑی۔پھر سارہ بیگم نے کہا۔

اچها ابھی تم لوگ اپنا کام کرو میں بھی کچن دیکهہ لوں زرہ کے کھانا بنایا ہںے کہ نہیں کُک نے۔ان کی بات سن کے مہرماہ نے شاہزیب کے بال کھینچ کر اپنے کمرے کی طرف اُپر کو بھاگی۔جب کے شایزیب چیخ کر بولا۔

چڑیل اللہ کرے آپ کے سارے ناولز برباد ہںوجاۓ۔

پر مہرماہ سیڑھیو چڑھنے کے بعد بولی۔

مہرماہ سکندر سے پنگا از ناٹ چنگا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شھباز خان کے دو بیٹے تھے بڑے سکندر خان اور اس سے دو سال چھوٹے حيدر خان اور ایک بیٹی تھی جن کا نا نادیہ تھا وہ دونوں بھاٸیوں سے چھوٹی تھی۔سکندر صاحب کی شادی کے بعد شھباز صاحب نے اپنے دوسرے بیٹے کی شادی کا سوچا تھا۔پر حیدر صاحب نے ان کی بات پہ انکار کردیا تھا کہ ابھی ان کا ایسا کوٸی ارادہ نہیں جن پہ شھباز صاحب کو اختلاف بہت تھا پر وہ خاموش رہے۔ان کے بعد انہوں نے اور ستارے بیگم نے اپنی بیٹی کی شادی کروادی تھی اپنے جاننے والے سے نادیہ کی شادی انہوں نے جبار شاہ  سے کی تھی جن کے ساتهہ وہ بہت خوش تھی۔پھر کجھ سالوں بعد حیدر صاحب نے بھی شادی کردی پر وہ بعد میں لنڈن چلے گٸے اور وہی کے ہںوکے رہ گٸے۔اپنے وطن وہ بس شھباز خان کی وفات پہ آۓ تھے وہ بھی اکیلے اس بعد نہیں۔

سکندر صاحب کہ دو بچے تھے ایک مہرماہ جو بہت اچهے دل کی مالک تھی جس کا دل شفاف اور چمکتا ہںوا تھا چھوٹی سی عمر میں ہی اس کو سب کی فکر اور خیال ہںوتا تھا۔پر اس کے ساتهہ وہ بہت شرارتی اور ہنس مکھ بھی تھی جس کی وجہ سے وہ ہر کسی کو پسند ہںوتی تھی ۔مہرماہ کا بہت خوبصورت تھی سب سے زیادہ اس کی بڑی بڑی اور موٹی سی آنکهيں جن کو وہ اگر گھماتی تو دل لوٹ لیتی اس حد تک وہ پیاری لگتی اور وہ ابھی کالج میں میں پڑھتی تھی۔ناولز پڑھنے کا اس کو کِریز تھا۔اور اس کے بعد آتا تھا سکندر خان کا دوسرا بیٹا شاہزیب جو شاید پیدا ہی مہرماہ کو تنگ کرنے کے لیے ہںوا تھا یہ مہرماہ کا کہنا تھا۔شاہزیب پندرہ سال کی عمر میں مہرماہ کی نسبت کافی سمجھدار تھا وہ بس اس کا ہی سوچتا جو اس کے بارے میں سوچتا وہ کافی شرارتی قسم کا تھا پر اجنبی لوگوں کے لیے وہ اتنا سنجيدہ ہںوتا کے لوگ حیرت سے اس بچے کی سنجيدگی دیکهتے اس کا پسندیدہ کا تھا مہرماہ کو پریشان کرنا اور اس کی اٹینشن حاصل کرنا اس کو اپنی بڑے بہن سے بہت پیار تھا اس لیے وہ اگر کبهی کوٸی شرارت کرنے کا سوچتا تو اس کا پہلا ٹارگٹ مہرماہ کی ناولز ہوتی کیوں کی وہ جانتا تھا اس کی بہن کو کس بات پہ زیادہ غصہ آۓ گا۔اور وہ بھی ابھی کالج لاٸف میں نیا قدم رکھا تھا۔

جب کے نادیہ کے تین بچے تھے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں سالار اور حور دونوں جڑوہ تھے۔جو مہرماہ کی عمر کے تھے۔وہ دونوں بھی اپنی ماں کی طرح تھے گُھلنے ملنے والے سالار کی شاہزیب سے جب کی حور کی مہرماہ سے بنتی تھی۔جب کی نادیہ کی دوسری بیٹی انابیہ  جو کی ابھی گیارہ سال کی تھی ابھی سے ہی بہت مغرور تھی اپنے سامنے کسی کو کجھ نہ سمجھنے والی۔

حيدر صاحب کے بھی تین بچے تھے ایک بیٹی اور دو بیٹے سب سے پہلے ان کی بیٹی پری جو کی چودہ سال کی تھی۔اور دوسرا بیٹا شاہ میر جو کی بارہ سال کا تھا پر بہت سنجيدہ اور کم بولنے والا تھا وہ اپنی چیزوں کے پوزیسو رہنے والا تھا وہ اپنی سنجيدہ طبيعت کی وجہ سے کم لوگوں سے ہی بات کرتا پر اگر کوٸی پسند آجاتا تو اس کے لیے جنون کی حدتک پاگل ہںوجاتا جس کی وجہ سے اس کی ماں ہانم بہت پریشان رہتی تھی۔ان کو شاہ میر نارمل بچوں کی طرح نہیں لگتا تھا پر حيدر خان خوش ہںوتے تھے۔شاہ میر بس اپنے قد کی وجہ سے چھوٹا بچہ لگتا پر اس کا غصہ اتنا تیز ہںوتا کے اس کے دونوں بہن بھاٸی بھی دور رہںتے۔آیان ان کا چھوٹا بیٹا جو کے آٹهہ سال کا تھا جو کی بہت معصوم سا تھا اور اس کو پڑھاٸی کا بہت شوق ہںوتا تھا۔اور وہ سب سے پیار سے بات کرنے کا عادی تھا لنڈن جیسے ملک میں بھی رہ کر انہوں میں کوٸی براٸی عادات نہ تھی جو باقی بچوں میں ہںوتی تھی۔حيدر اور ہانم نے اپنے بچوں کی بہت اچهے سے تربیت کی تھی۔کیوں کی وہ بس اپنے وطن سے دور تھے اسلام سے نہیں۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ رات کے دس بجے ٹي وی لاؤنج میں اپنے باپ کے ساتهہ ٹي وی پہ کوٸی فلم دیکهہ رہی تھی جب سکندر خان نے مہرماہ سے کہا۔

مہرو کل ہم آپ کے چچا کے گھر جاۓ گے تو آپ نے اور زیب نے ان سے بہت اچهے طریقے سے ملنا ہںے۔

جی بابا جان آپ فکر نہ کرے۔مہرماہ نے مسکرتے ہںوۓ کہا۔

شاباس میرا بچہ ہم نے کل ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دینی ہںے۔وہ شاید شاہ میر کی وجہ سے کجھ دیر کررہںے تھے آنے کو۔سکندر خان نے کہا۔

بابا جان وہ تو ابھی بچہ ہںے اس لیے اتنے دور اپنے گھر سے رہنے کے لیے انکار کررہا ہںوگا۔مہرماہ کو پتا چلا تھا کہ شاہ میر پاکستان نہیں آنا چاہتا تبھی اس نے کہا۔

ہاں یہ تو ہںے اپنے گھر کی تو عادت ہںوتی ہںے اور تو دوسرے مُلک کی بات ںںے۔سکندر خان نے اس کی بات پہ اتفاق کرتے کہا تب ہی سارہ بیگم ان کے پاس آٸی۔

مہرو اپنے کمرے میں جاؤ اور سوجاٶ۔انہوں نے آتے ہی مہرماہ سے  کہا۔

کجھ دیر بعد جاتی ہںوں۔مہرماہ نے انکار کیا۔

زیب کو دیکهو لڑکا ہںوتے ہںوۓ بھی کیسے رات کے کھانے کے بعد بنا میرے کہے اپنے کمرے میں آرام سے چلے جاتا ہںے اور ایک سال چھوٹا بھی ہںے تم سے۔سارہ بیگم اس کے انکار پہ غصے سے اظہار کیا۔

کوٸی نہیں آپ کا بیٹا اتنا سلیقہ مند آپ نہیں جانتی اس کے بارے میں۔مہرماہ جلدی سے کہا اس کو کہا برداشت تھی شاہزیب کی تعریف ۔اس کی بات پہ سکندر صاحب مسکردیٸے۔جب کے سارہ بیگم نے آنکهيں دیکهاٸی تو وہ چلی گٸ۔

نہ تنگ کیا کرو میری بیٹی کو ۔سکندر خان نے سارہ بیگم سے کہا۔

کہاں تنگ کرتی ہںوں میں یہ کام تو آپ کے بچوں کا ہںے۔سارہ بیگم نے ان کی بات پہ کہا۔

اماں جان سوگٸ کیا ؟ سکندر صاحب نے پوچها 

ہاں کل سے انتظار میں ہںے کہ کب حیدر بھاٸی سے ملے گی اور آج اس لیے جلدی سوگٸ۔سارہ بیگم نے اپنی ساس کی بے صبری یاد کرکے کہا۔

اچها اماں جان تو خوش ہںوگی آخر کو اتنے سال بعد ملے گی۔میں نے تو ان سے کہا کی آج ہی چلی جاۓ پر انہوں نے انکار کیا کے ابھی نٸے آۓ ہے۔کجھ آرام کرلے۔سکندر خان نے مسکراکر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

وہ اب بس جانے والے تھے۔لاٸونج میں مہرماہ کا انتظار کر رہںے تھے کہ وہ بھاگتی ہںوٸی سیڑھیو سے اُتر نے لگی ۔اس کی اتنی تیزی کے شاہزیب بولے بنا نہ رہ سکا۔

آہستہ ایک سال بڑی چڑیل آپی گِر ناجان اس کا اتنا کہنا تھا کے مہرماہ کی ہیل سیڑھیو میں اٹکی اور دھڑام سے نیچے دو سیڑھیو سے گِر پڑی۔

آآآ آ آ  آ آ ایک زوردار چیخ اس کے منہ سے نکلی تو سب پریشانی سے اس کے پاس آۓ اور جلدی سے صوفے کے قریب لاکر بیٹھایا۔

میرا پیر امی جان۔مہرماہ نے روتے ہںوۓ کہا۔

بیٹا آپ کو ضرورت کیا تھی اتنی تیزی سے آنے کی۔سکندر خان اس کے پیر کا جاٸزہ لے کر پریشانی سے بولے۔جب کی ستارے بیگم اس کو رونے باز رکھ رہی تھی۔جب کی وہ چپ رہی۔

اور کیا ضرورت تھی اتنی ہیل والی سینڈل پہننے کی اپنا قد کیا کم ہںے۔جو مینار پاکستان بنی۔شاہزیب نے بھی اس کو لتاڑا۔

تم چپ کرو بندر تمہاری وجہ سے ہںوا یہ سب مہرماہ نے اس پر الزام لگا کر کہا۔

لڑنا بند کرو تم دونوں اور سکندر آپ اماں جان اور زیب کے ساتهہ جاۓ میں مہرو کے پاس ہںوتی ہںوں۔سارہ بیگم نے ان کو چپ کروایا پھر اپنے شوہر سے کہا۔

نہیں کل چلے جاۓ گے۔سکندر خان نے انکار کیا۔

نہیں بابا جان آپ سب جاۓ امی جان آپ بھی میری وجہ سے رُکے نہیں۔کلثوم ہںے نہ ۔مہرماہ نے اپنا درد برداشت کرتے کہا اور گھر کی ملازمہ کا نام لے کر کہا۔

ایسے کیسے۔ستارے بیگم نے کجھ کہنا چاہا

دادی جان پلیز۔مہرماہ نے منت کی اب۔

ٹھیک میں کلثوم کو تمہارے ساتهہ رہنے کا کہتی ہںوں۔سارہ بیگم نے پریشانی سے کہا ورنہ ان کا دل نہیں تھا۔مہرماہ کو ایسے چھوڑ کے جانے کا 

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سکندر تمہارا بیٹا تو بہت سمجھدار ہںے۔حدید خان نے اپنے بھاٸی کو کہا ان لوگوں کو یہاں آۓ بہت وقت گزر چکا تھا اور اب وہ ڈراٸینگ روم میں تھے باتیں کرتے وقت انہوں نے کہا۔

ہاں بھاٸی صاحب پندرہ سال کا ہںے پر کبهی کبهی میری مدد بھی کرتا ہںے آفس کے کاموں میں۔سکندر خان اپنے بیٹے کی تعریف سن کے خوشی سے بولے۔جب کے شاہزیب جو آیان کے ساتهہ باتيں میں مصروف تھا اپنی تعریف پہ چوڑا ہںوکر بیٹھا اور مہرماہ کے ہںونے پہ اس کو افسوس ہںوا۔جب کی پری دوسری طرف عورتوں کے ساتهہ بیٹھی ہںوٸی تھی۔جب کے شاہ میر اپنے کمرے میں تھا اور ابھی تک نہیں آیا تھا نیچھے۔

اچها ماشاءَاللہ۔حیدر خان نے مسکراکر کہا۔

سارہ کیا مہرو کے پیر میں زیادہ پین تھا کیا ؟ہانم نے سارا بیگم کو چاۓ کا کپ پکڑا کر پوچها ۔

ہاں میں اس لیے اس کے ساتهہ رہنا چاہتی تھی پر مہرو اس کا میں تمہيں کیا بتاٶ۔سارہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔جب کی دوپہر کا وقت تھا تو ستارے بیگم نماز پڑھنے کے لیے اٹهہ گٸ تھی۔

آپ کیا کرتی ہںو بیٹا؟ سارہ بیگم نے ساتهہ خاموش بیٹھی پری سے پوچها ۔

میں ابھی بس اسکول جاتی ہںوں اور آیان کے ساتهہ کھیلتی ہںوں۔ان کی بات پہ پری نے کجھ معصومیت سے کہا۔

اور شاہ میر کے ساتهہ کیوں نہیں وہ بھی تو آپ کا چھوٹا بھاٸی ہںے۔سارہ بیگم نے اس کی بات پہ مسکراکر پوچها ۔

میر کو کھیلنا پسند نہیں اور وہ بس اپنے کمرے میں زیادہ ہںوتا ہںے یا اپنے دوست کو۔پری نے برا منہ بناکر کہا۔

اوہ آپ تو بہت کیوٹ ہںو۔سارا بیگم نے اس کے ایسے منہ بنانے پر ماتھا چوم کر بولی۔تب ہی شاہ میر ان کے پاس آیا جو ابھی شاید جاگا تھا کیوں اس کے براٸون بال ماتھے پہ بکھرے ہںوۓ تھے اور بلیک ناٸيٹ سوٹ میں ملبوس تھا۔

Hello everyone ,

شاہ میر نے سب کو دیکهہ کر کہا۔

ارے ماشاءَااللہ میر بیٹے یہاں آٶ ۔سارہ بیگم نے اس کو دیکهہ کر محبت سے اپنے پاس بولایا۔تو وہ چلتا ان کے پاس صوفے پہ بیٹھ گیا۔تو سارا بیگم پھر بولی۔

ہانم تمہارا شاہ میر تو بہت ہینڈسم ہںے اتنی سی عمر میں۔ان کی بات پہ سب نے ماشاءَاللہ کہا۔پر وہ چپ رہا۔

آپ کی نیند پوری ہںوٸی لیٹ سوۓ تھے کیا ؟سارہ بیگم نے اس کے بکھرے بال سنوارتے ہںوۓ کہا۔

نیو جگہ تھی اس لیے نیند نہیں آرہی تھی۔شاہ میر سنجيدگی سے بولا ۔

میر اب ادھر اپنے چچا سے بھی ملو۔سکندر خان صاحب نے اپنی بانہیں پھیلاکر اس سے کہا۔تو شاہ میر ان سے گلے ملنے لگا سکندر صاحب نے اس کے ماتھے پہ پیار کیا اور اپنی گود میں بیٹھا دیا۔

حيرت ہںے سکندر میری گود میں تو میر کبهی نہ بیٹھا جب بیٹھاٶ تو کہتا ہںے آیان کو بیٹھا بچے بیٹھتے ہںے۔اور میں بچہ نہیں۔حيدر خان نے حيرانکن لہجے میں کہا۔

بس پھر دیکهہ لوں۔سکندر صاحب نے شرارت سے اپنی بھاٸی کو دیکهہ کر کہا۔تو سب کے قہہقہقہ نکل گٸے جب کے شاہ میر نے اپنے ماتھے پہ آۓ بال اپنے ہاتهہ سے پیچھے کیے جیسے اس کی کسی اور کی بات ہںورہی تھی۔ستارے بیگم  بھی ان کے پاس آگٸ تھی۔پھر ہانم نے پری سے کہا۔

پری جاٶ اپنے بھاٸی کو گھر دیکهاٶ اور میر آیان آپ بھی جاۓ اور ایک دوسرے کو کمپنی دے۔ان کی بات سن کر ناچاہٸتے ہںوۓ بھی شاہ میر چلاگیا۔

میر کیا تم تھک نہیں جاتے اس طرح چپ رہ کر ؟شاہزیب نے اس کو سلام کے بعد کجھ بولتے نہ دیکها تو کہا۔آخر کو وہ اس سے بڑا تھا سوال کرسکتا تھا۔

نہیں مجھے فضول بولنا پسند نہیں۔شاہ میر نے عام لہجے میں کہا جب کی آیان نے پری کو دیکها اور پری نے اس کے ایسے دیکهنے پہ آنکهيں دیکهاٸی۔

اچها صحيح ۔پر مہرو کو بولنا بہت پسند ہںے اس کا کہنا ہںے کے اگر انسان بولا نہیں تو سمجھو وہ انسان ہی نہیں۔شاہزیب نے ہنس کر مہرماہ کو یاد کرکے کہا۔

مہرو؟شاہ میر نے ناسمجھی سے پوچها ۔

تمہيں نہیں پتا میری بہن مہرماہ اور تمہاری کزن سسٹر وہ بھی آنے والی تھی پر اس کا پیر سلپ ہںوا تو نہ آسکی۔شاہزیب نے اس کو بتایا۔شاہ میر نے بس سرہلایا۔

میں اپنے روم میں چلتا ہںوں مجھے فریش بھی ہںونا ہںے۔پھر ملاقات ہںوگی۔کجھ ٹائم بعد شاہ میر نے شاہزیب کو دیکهہ کر بولا۔

ٹھیک ہںے۔شاہزیب نے مسکراکر کہا۔

آٶ پری آیان ہم بھی باقی لوگوں کے اس کے پاس چلتے ہںے۔شاہزیب ان دونوں سے بولا۔تو وہ ابھی اندر کی طرف چلے گٸے۔

اچها اب ہم چلتے ہںے۔سکندر خان  نے کہا 

ابھی کجھ دیر رُکتے ناں۔حیدر خان نے کہا۔

نہیں شام بہت ہںوگٸ ہںے۔اور مہرو کو تو ہم یہاں آکر بھول گٸے ہںے۔سکندر خان نے سہولت سے انکار کرتے کہا

اچها پر اماں جان کو یہی رہنے دے۔ہانم نے ان کو کہا۔

اماں جان کی مرضی۔سکندر خان نے کہا۔پھر وہ تینوں اپنے گھر کی طرف چلے گٸے۔جب کی ستارے بیگم یہی رکی ۔تو ہانم نے اپنے دونوں بچوں کو کمرے میں جانے کا کہا۔پری اپنے علیحدہ روم کی طرف گٸ۔جب کی شاہ میر اور آیان ایک کمرے میں ہںوتے تھے بس بیڈ الگ ہںوتے تھے پر یہاں ان کا بیڈ ایک ہی تھا۔

گیسٹ چلے گٸے کیا ؟شاہ میر اپنے بیڈ پہ بیٹھا آۓ پیڈ پہ گیم کھیل رہا تھا۔آیان کو آتے دیکهہ کر پوچها ۔

گیسٹ نہیں تھے ہمارے چچا کی فیملی تھی۔آیان نے اپنے بڑے بھاٸی کو جیسے سمجھانے کے لیے بولا۔

جو پوچها ہںے اس کا جواب دو۔شاہ میر نے پھر کہا۔

جی بھاٸی وہ چلے گٸے۔پر ہماری دادی یہی ہںے۔آیان نے اس کے ساتهہ بیڈ پہ آتے کہا۔

ٹھیک۔شاہ میر بس اتنا کہا۔

میں بھی گیم کھیلوں آپ کے ساتهہ۔آیان شاہ میر کو دیکهہ کر معصوم شکل بناۓ بولا۔

پڑھاٸی کرو نہ اپنی۔شاہ میر نے کہا۔

ہم تو یہاں گھومنے آۓ ہںے نہ اور پڑھاٸی میں اب کیا کروں۔آیان نے اس کی بات سن کر کہا۔

اچها میں یہ لیول پوری کرلوں پھر۔شاہ میر گیم میں دیکهتا بولا۔

اوکے۔آیان خوش ہںوتا ہںوا بولا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

زیب تنگ اتنا کرو جتنا میرے پیر ٹھیک ہںونے کے بعد میرا بدلہ برداشت کرسکو۔مہرماہ نے شاہزیب سے کہا جو اس کے کمرے میں بیٹھا تھا۔اور کبهی کبهی اس کی چیزوں یہاں وہاں کررہا تھا۔اس لیے مہرماہ نے اس کو کہا۔

میں کیا کر رہا ہںوں میں تو اپنی بہن کی بوریت دور کرنے کے لیے آیا ہںوں۔بیچاری سارا دن اکیلے تھی نہ اپنے دکهتے پیر کے ساتهہ۔شاہزیب نے مصنوعی سنجيدگی سے کہا۔

زیب تمہیں تم بعد میں بتاٶ ابھی تم بتاٶ کیا باتيں ہںوٸی چچا والوں کے ساتهہ۔مہرماہ نے پوچها ۔

باتیں تو بہت کی اور ہمارے یہ کزنز سے بہت ڈیسنٹ سے تھے بس شاہ میر کجھ الگ تھا کم بولنے والا۔شاہزیب نے اس کے پاس رکھی ٹرے سے ایپل لے کے کہا۔

اچها کاش میں چلتی ۔مہرماہ نے حسرت سے کہا۔

کوٸی نہیں پھر چلی جانا۔شاہزیب نے کہا۔

اچها اب تم جاٶ۔مہرماہ نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

چھوٹا بھاٸی ہںوں تمہارا مگر ذرا جو عزت ہںو تمہيں میری۔شاہزیب نے تاسف سے مہرماہ دیکهہ کر کہا۔

جاٶ جاٶ پتا نہیں کہاں کہاں سے چلے آتے ہںے۔مہرماہ نے بنا اس کی بات پہ دھیان دے کر کہا۔

تو شاہزیب پھر کبهی بدلا لینے کا سوچتے نکل گیا۔اس کے جاتے ہی مہرماہ بھی سونے کے لیے آنکهيں بند کردی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

حيدر خان اور ہانم بیگم ڈراٸینگ ٹيبل پہ ناشتہ کررہںے تھے جب شاہ میر اور پری آیان بھی وہيں آکر کرسی کھینچ کر بیٹھ گٸے۔تو حیدر خان بولے۔

اماں جان ناشتے کی ٹيبل پہ کیوں نہیں آٸی؟

انہوں نے بس اپنے کمرے میں ہی کیا۔ہانم بیگم نے بتایا۔

پری آپ رات اپنی دادی کے پاس تھی نہ تو کیسا لگا ان سے باتيں کرکے۔ اب انہوں نے بریڈ کھاتی پری سے مسکراکر پوچها ۔

یس ڈيڈ دادی بہت اچهی اچهی باتيں کررہی تھی اور نماز کا بھی بتارہی تھی اور مجھ سے کہا کہ اب میں بھی پڑھا کرو کیوں کی جو مہرو آپی ہںے نہ وہ پابندی سے نماز پڑھتی ہںے۔اور زیب بھاٸی بھی۔پری نے مسکراتے چہرے کے ساتهہ اپنے ڈيڈ کو بتایا۔

ھمم پھر آپ نے کیا کہا ان سے حيدر صاحب نے پھر کہا۔

میں نے کہا میں بھی اب پابندی سے پڑھوں گی مجھے نماز ادا کرنا آتی ہںے۔پری نے کہا۔

میر تم ٹھیک سے ناشتہ کیوں نہیں کررہںے ؟ نانم بیگم نے شاہ میر کو دیکهہ کر بولی جو بس جوس پی رہا تھا۔

بس مجھے ابھی کجھ نہیں کھانا۔شاہ میر نے کہا۔

موم مجھے ناں چچا جان والوں کے گھر جانا ہںے ۔آیان اپنی ماں سے بولا۔

ہاں کیوں نہیں آپ تینوں چلے جانا قریب ہی تو ان کا گھر ہںے پھر بھی میں شکیلا سے کہوں گی کہ تم لوگوں کو ان کی طرف لے جاۓ مجھے اور آپ کے ڈيڈ کو کہیں جانا ہںے آج ضروری ہںے۔ہانم بیگم نے آیان کو کہا۔

وہ سب ایسے ناشتے کے بعد پھر آپس میں باتيں کرنے لگے جب کے شاہ میر بیزار ہںورہا تھا۔پھر وہ اپنے کمرے کی طرف چلاگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

تمہارا پیر کا درد کیسا ہںے۔شاہزیب لاٸونج میں مہرماہ کے پاس آتے بولا ۔

میرے پیر کے درد کا نہ پوچهو مرشد

بس پیر کا پوچهو جس میں بڑا درد ہںے۔

مہرماہ نے شاعرانہ لہجے میں کہا۔

مجال ہںے جو ٹھیک سے جواب دو۔شاہزیب نے مہرماہ کو دیکهہ کر بولا ۔

اچها اچها ایسے ہی کہا میں نے تو دل کیا شاعری کرنےکا۔مہرماہ نے ہنس کر بولی۔

تم مجھے بس یہ بتاٶ کے امی جان کہاں ہںے۔شاہزیب نے پورے لاٸونچ میں نظر گھماکر کہا۔

وہ تو بابا جان کو آفس بھیجنے کے بعد اپنے کسی دوست سے بات کررہی ہںے۔مہرماہ نے اس کو بتایا۔

اچها میں باہر اپنے دوستوں سے ملنے جارہا ہںوں امی کو بتادینا۔شاہزیب نے اٹهتے ہںوۓ کہا۔

اچها بتادوگی پر تم میرے لیے ناولز اور چاکليٹ اور چپس کے پاکٹ لے کر آنا۔مہرماہ نے حکم دینے والے انداز میں کہا۔شاہزیب تو اپنی بہن کا انداز اور فرماٸش سن کر عش عش کر اٹها پھر مہرماہ سے کہا۔

مہرو تمہارے ان فرماٸشيں پوری تو میں کردوگا پر تمہيں پٸسے دینے ہںوگے۔

اپنی بڑی بہن سے پٸسے لیتے ہںوٸے تمہيں اچها لگے گا کیا؟ مہرماہ نے اس کو شرم دلانے کو بولی۔

بلکل اچها لگے گا۔شاہزیب نے اپنے سر کو جنبش دے کر کہا۔

اچها میرا پیر دیکهو بعد میں دوگی ابھی تم لےآنا۔مہرماہ نے اپنا پٹی سے بانده پیر دیکھا کرکہا۔

اچها اچها پر امی کو یاد سے بتادینا۔شاہزیب کہہ کر لاٸونچ سے نکل گیا۔جب کی مہرماہ بھی اٹهنے کی کوشش کرتی باہر لان میں جانا سوچا اور صوفے سے اپنا ناول اٹهاتی لنگھڑاتے ہںوۓ باہر چلی گٸ۔

شاہ میر اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے دوست سے ویڈیو چیٹ کے بات کر رہا تھا۔پھر اس کے بعد وہ ایسے ہی اپنے پورے گھر میں چکر لگاتے لگاتے باہر نکل گیا۔پھر اس کو گھر سے باہر نکلتے ہںوۓ سامنے سے ہی ایک بڑا گیٹ دیکها جس کی پلیٹ پہ  اس کا نام پڑھ کر پتا لگا کے یہ اس کے چچا کا گھر تھا شاہ میر کجھ سوچتا گھر کے اندر جانے لگا ایسے ہی اس کو دور کوٸی لڑکی بیٹھی نظر آٸی جس نے واٸٹ فراق پہنا تھا اور بالوں کی چوٹی ایک ساٸیڈ پہ تھی اور وہ کوٸی کتاب پڑھنے میں مگن تھی شاہ میر اس کو اِس قدر مگن دیکهتا اندر جانے بجائے اس کے پاس جانے لگا۔اور قریب آکر بولا۔

Hello,can i sit here ?

مہرماہ جو ناول پڑھنے میں مصروف تھی اپنے پاس کسی بچے کی آواز سن کر سر اٹهایا تو ایک خوبصورت بچہ اس کو اس سامنے والی چیٸر پہ بیٹھنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔اس نے غور سے بچے کو دیکها جس نے بلیک ڈھیلی ٹی شرٹ اور واٸٹ جینز کی پینٹ پہنے ہںوۓ تھا اور بال ماتھے پہ بکھرے پڑے تھے مہرماہ کو بلو آنکهوں والا بچہ بہت پسند آیا اور ہلکی مسکراہٹ سے اس کو دیکهہ کر کہا۔

sure,but who are you? I'm look at you 1st time,

شاہ میر اجازت ملتے ہی بیٹھ گیا۔پھر اپنے سے کجھ دور رکھی چیٸر پہ بیٹھی مہرماہ کو دیکهہ کر بولا۔

I'm shahmeer Haidar Khan,And I know you,and  your name Mahermah,Right ?

مہرماہ اس کا نام جان کر حیرت سے اس بچے کو دیکها اور شرمندہ ہںوٸی کے اپنے کزن کو ناں پہچان سکی پر وہ بھی کیا کرتی کبهی ان سے بات کرنے کا اتفاق جو نہ ہںوا تھا ان کو اور کل اگر وہ جاتی تو ان سب سے مل بھی لیتی وہ اپنی سوچے جھٹکتی شاہ میر کو دیکها اور تجسس سے پوچها 

How you know me and my name ?

can,we talk in urdu ?

شاہ میر نے مہرماہ کی بات پہ اس سے سوال کیا وہ زندگی میں پہلی دفعہ کسی سے خود بات کرنے آیا تھا وہ بھی کسی لڑکی سے ورنہ جہاں وہ رہتا تھا وہاں بہت لڑکیاں ہںوتی تھی۔پر وہ کبهی ان سے بات کرنے میں دلچسی نہیں رکھتا تھا  پر شاید مہرماہ سے خون کی کشش کی وجہ سے خود چل کر آیا تھا پر وہ بچہ اب اتنی باتوں کو نہ سمجھتا تھا اور نہ سوچتا تھا۔

شاہ میر کی بات پہ مہرماہ مسکراٸی اور کہا۔

ہاں کیوں نہیں وہ دراصل تم نے شروعات انگلش میں کی بات کرنے کی تو مجھے لگا شاید تمہيں اُردو نہ آتی ہںو اس لیے میں بھی ایسے بات کرنے لگی۔

کل چچا والے آۓ تھے تو شاہزیب نے ایک دفعہ زکر کیا تھا آپ کا تو مجھے نام معلوم ہںوگیا اور آپ کا پیر دیکها تو مجھے لگا آپ وہيں کیوں انہوں نے بتایا تھا کہ آپ کا پیر سلپ ہںوگیا تھا جس کی وجہ سے آپ نہ آسکی اور مجھے اُردو آتی ہںے ہم گھر میں اُردو ہی بولتے ہںے وہ تو بس اسکول اور اگر کہیں باہر جانا ہںوتو انگلش کا استعمال کرتے ہںے۔شاہ میر نے پہلے اس کے پوچهے گٸے سوال کا جواب دیا اور بعد میں دوسری بات پہ کہا وہ ہمیشہ مختصر بات کرنے والا تھا پر مہرماہ سے بات کرتے ہںوۓ اس نے لمبی بات کی شاید اس کو مہرماہ سے بات کرنا اچها لگ رہا تھا۔

اچها صحيح۔آپ اکیلے آۓ ہںو ؟مہرماہ نے سوال کیا۔

جی میں ایسے ہی بور ہںورہا تھا تو اپنے گھر میں چکر لگاتے ہںوۓ باہر آگیا پھر گیٹ پہ نیم پلیٹ پہ چچا کا نام دیکها تو اندر آگیا۔شاہ میر نے مہرماہ کے چہرے کو دیکهہ کر پوری بات بتاٸی۔

اوہ تو تم بور ہںورہںے تھے اور مجھے پتا چلاتھا کہ تم پاکستان نہیں آناچاہںتے تھے پر اب آۓ ہںونہ تو تمہيں پاکستان سے پیار ہںوجاۓ گا اور واپس جانے کا دل ہی نہیں کرے گا۔مہرماہ نے شرارت سے اس کو دیکهہ کر کہا

شاید؛آپ کے پیر کا درد کیسا ہںے ؟شاہ میر نے اس کہ پیر کی طرف دیکهہ کر پوچها جس پہ پٹی تھی۔

ٹھیک ہںے پر چلنے میں تھوڑا پین فیل ہںورہا ہںے۔مہرماہ کو شاہ میر کا آپ کہنا اچها لگ رہا تھا اس کو شاہزیب کی بات ٹھیک لگی جو کہہ رہا تھا کہ وہ سب ڈسنٹ سے ہںے۔

اچها پھر آپ کو چلنا نہیں چاہٸیے جب تک ٹھیک نہیں ہںوجاتا آپ کا پیر۔شاہ میر نے ناجانے کیوں فکر دیکهاٸی۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔ایک جگہ بیٹھنا مجھے بلکل نہیں آتا اس لیے جیسے تیسے کرکے چل رہی ہںوں۔مہرماہ نے اس کی بات سن کر ہنس کر کہا۔

آپ کی سماٸل بہت پیاری ہںے۔شاہ میر کے منہ سے بے ساختہ اس کے لیے تعریف  نکلی۔

شکریہ ۔مہرماہ نے اپنی مسکراہٹ کے لیے یہ الفاظ کٸی  بار سنے تھے پر جانے کیوں اپنے سامنے اس بچے سے سن کر کجھ شرما سی گٸی تھی اس لیے بس یہ کہا۔

کیا آپ کو پین زیادہ فیل ہںورہا ہںے ؟شاہ میر نے اچانک سے پوچها ۔

نہیں تو۔ تمہيں کیوں ایسا لگا۔مہرماہ نے بتا کر سوال کیا

آپ کے چکس بہت ریڈ ہںوگٸے اس لیے مجھے لگا۔شاہ میر نے عام لہجے میں کہا

نہیں ایسا نہیں ہںے اور تم آٶ اندر چلتے ہںے امی جان سے ملو پھر کجھ دیر بابا جان اور زیب آۓ تو ان سے بھی ملنا۔مہرماہ نے بتاکر آخر میں اس کو اندر آنے کا کہا۔

آۓ آپ بھی پہلے ۔شاہ میر نے اٹهہ کر مہرماہ کے پاس آکر اپنا چھوٹا سا ہاتهہ بڑھایا۔تو مہرماہ میں سے مسکراکر اس کا بڑھایا ہاتهہ تھام کر اٹهنے کی کوشش کرنے لگی پھر آہستہ آہستہ لنگھڑا کر چلتی  شاہ میر کو اندر لے آٸی شاہ میر بھی مہرماہ کہ ساتهہ آہستہ چل رہا تھا اور اس نے مہرماہ کا ہاتهہ ابھی بھی نہیں چھوڑا تھا۔لاٸونج میں آتے ہی اس نے صوفے کے قریب آکر شاہ میر ہاتهہ چھوڑدیا اور بیٹھنے لگی۔پر شاہ میر کو مہرماہ کا ہاتهہ چھڑوانہ نجانے کیوں برا لگا پر وہ نظرانداز کرتا دوسرے سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا اور لاٸونج کو چاروں طرف سے دیکهنے لگا۔

کلثوم بی مہرماہ نے ملازمہ کو آواز دے کر بولایا۔

جی مہرو بیٹا کوٸی کام تھا۔وہ جلدی سے اس کے پاس آکر پوچها۔

ہاں ان سے ملو آپ یہ شاہ میر ہںے چچا حیدر کے بیٹے۔مہرماہ نے مسکراکر شاہ میر کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔

ماشاءَاللہ بہت پیارا بچہ ہںے۔کلثوم بی نے شاہ میر کے سر پہ ہاتهہ پھیر کے کہا۔

ہاں ماشاءَاللہ بہت آپ امی جان کو شاہ میر کے آنے کا بتاٸیے گا اور شاہ میر کے لیے Milk شیک بھی بھیجٸیے گا۔مہرماہ نے کلثوم بی سے کہا۔تو وہ چلی گٸ ۔

یہ کونسی بُک ہںے ؟شاہ میر نے مہرماہ کو خاموش دیکهہ کر خود ہی بات کی۔

یہ اس کو ناول بولتے ہںے۔مہرماہ نے ناول کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔

وہ کونسی بُک ہںوتی ہںے میں نے تو کبهی نہیں پڑھا۔شاہ میر نے اپنے چھوٹے سے ماتھے پہ بل ڈال کہ پوچھا۔

کیوں کی آپ ابھی بچے ہںونہ اس لیے نہیں پتا اور میں تو بڑی ہںوں نہ تو اس لیے۔مہرماہ نے شاہ میر کی کیوٹ شکل دیکهہ کر بتایا۔

اتنا بھی اب میں چھوٹا نہیں۔شاہ میر کو اپنے لیے دوسرےلوگوں  سے بچہ سننا برا لگتا تھا پر اب مہرماہ سے ایسے بچہ کہنے پہ اس کو زہر لگا یہ لفظ تبھی ناگواری سے کہا۔

سوری اگر تمہيں برا لگا ہںوتو۔مہرماہ نے شاہ میر کے اس طرح کہنے پہ احساس ہںواکہ اس برا لگا اس لیے اپنے سے چھوٹے بچے سے معزرت کی۔

نہیں پلیز آپ سوری مت کرے۔شاہ میر نے مہرماہ کہ اس طرح سنجيدہ ہںونے پہ جلدی سے بولا کیوں کی جب سے وہ اس سے بات کر رہا تھا مہرماہ کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکهی اور اب ایسے دیکهہ کر اس کو اچها نہ لگا۔

ارے میر آپ کب آۓ بیٹا ؟شاہ میر نے جیسے ہی اپنی بات کی تو سارہ بیگم لاٸونچ میں آکر شاہ میر کے گالوں پہ بوسہ دے کر سوال کیا۔

بہت وقت ہںوچکا ہںے۔شاہ میر نے ان کو دیکهہ کر کہا۔

پھر کلثوم بی نے شاہ میر کو Milk shack کا گلاس پکڑیہ تو اس نے ان سے لیا۔

امی جان میں اپنے کمرے میں جارہی ہںوں آرام کرنے کے لیے؟مہرماہ نے اٹهتے ہںوۓ اپنی ماں سے کہا۔

مہرو تمہيں ویسے ضرورت کیا تھی یہاں آنے کی پیر میں درد تب تک تو اس چین دو ایسے اگر سوجھے ہںوۓ پیر کے ساتهہ سیڑھیا اترتی چڑھتی رہںوں گی تو کیسے ٹھیک ہںوگا۔سارہ بیگم نے مہرماہ کی بات سن کر اس کو ڈانٹ کر کہا۔

کجھ نہیں ہںوتا امی جان۔مہرماہ نے سارہ بیگم کو دیکهہ کر کہا۔تو انہوں نے کجھ نہیں کہا۔جب کی شاہ میر بھی اس کو دیکهہ رہا تھا۔جو اب کلثوم بی کے ساتهہ سیڑھیو کی طرف جانے کے لیے اٹهہ رہی تھی۔

اچها شاہ میر اب میں جارہی ہںوں۔مہرماہ نے جاتے ہںوۓ شاہ میر سے کہا تو شاہ میر کے چہرے پہ پہلی دفعہ مسکراہٹ آٸی تھی جو بس سارہ بیگم نے دیکهی۔

کبهی کبهی مسکرا بھی لیا کرو بہت پیارے لگتے ہںو۔سارہ بیگم نے شاہ میر کو تنگ کرنے کے لیے کہا جس وہ جھنپ گیا۔تو سارہ بیگم ہنس دی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شام میں جب شاہ میر اپنے گھر کے اندر داخل ہںواتو آیان بھاگتے ہںوۓ اس کے پاس آیا اور ناراضگی سے کہا۔

آپ چچا جان کے پاس اکیلے چلے گٸے ہمیں بھی جانا تھا۔آپ کے سامنے ہی تو صبح بات ہںوٸی تھی۔

میرا ایسے اچانک موڈ بنا جانے کو اور تم آپی کے ساتهہ آجاتے ۔شاہ میر نے بیٹھتے ہںوۓ آیان کا پھولا منہ دیکهہ کر بولا۔

انہوں نے انکار کردیا کہا کہ پھر کبهی موم ڈیڈ کے ساتهہ چلے گے۔آیان نے اپنے نہ آنے کی وجہ بتائی ۔

اچها کوٸی پھر تم جانا ان کے ساتهہ ابھی میں بہت تھکا ہںوا ہںوں بعد میں بات کریگے۔شاہ میر نے اس کو مذید بحث کرنے سے پہلے کہا تو وہ بھی چپ ہںوگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہزیب  مہرماہ کے لیے آٸسکریم لایا تھا پر جب وہ مہرماہ کے کمرے میں گیا تھا۔تو مہرماہ کو گہری نیند میں دیکها تو واپس باہر آگیا اور کچن میں جاتے فرج میں آسکریم رکھ دی اور اپنے کمرے میں آگیا۔وہ لیٹنے والا تھا جب دروازہ نوک کرتی سارہ بیگم اس کے کمرے میں آٸی۔شاہزیب نے اپنی ماں کو دیکها سیدھا ہںوکے بیٹھا۔

زیب تم صبح کے گٸے تھے اور اب آۓ ہںو؟سارہ بیگم نے تفتيش والے انداز میں کہا۔

وہ امی جان ہم کرکیٹ کھیل رہںے تھے پھر ایسے باہر گھومے تو وقت کا پتا نہیں لگا۔شاہزیب نے اپنی ماں کا ایسا انداز دیکهہ کر گھبڑاکر بولا۔

ابھی تو چھوٹے ہںو زیب اس لیے شام کے بعد تم کہیں باہر نہیں جاٶ گے اور اگر باہر ہںوۓ تو شام ہںونے سے پہلے واپس آجاٶ گے ٹھیک ہںے۔سارہ بیگم نے اب آرام سے اس کو سمجھاکر کہا۔

جی امی جان ایسا ہی ہںوگا۔شاہزیب نے تابعداری سے کہا۔

شاباس میرا بچہ۔اور آپ نہیں تھے نہ تو شاہ میر آیا تھا انتظار کیا تمہارا پر وہ بعد میں چلاگیا وہ آپ سے چھوٹا نہ اور وہ یہاں کجھ وقت رہںنے آۓ ہںے تو آپ ان کو وقت دے اور ان کے ساتهہ کھیلے ان کو گھماۓ تاکہ وہ بور محسوس نہ ہںو۔سارہ بیگم نے شاہزیب کو سمجھایا۔

جی ایسا ہی کروں گا اور شاہ میر کے آنے کی بات پہ کجھ حیرت ہںوٸی۔شاہزیب نے ان کی بات پہ کجھ حيران ہںوکر کہا۔

ابھی بچہ ہںے اس لیے ایسے ہںے اور پہلی دفعہ ہم لوگوں سے ملا ہںے اور ابھی کم عمر ہںے اس لیے بس خاموش طبيعت سا ہںے۔میں تم سے بس یہی کہنے آٸی تھی تم بھی اب سوجاٶ اور اتنی دیر تک باہر نہ رہا کرو ۔سارہ بیگم کہتی کمرے سے نکل گٸ۔شاہزیب بھی پھر سوگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ جب صبح اٹهی تو اپنا پیر کجھ ٹھیک لگا اور زیادہ درد بھی محسوس نہيں ہںورہا تھا وہ تو خوش ہںوگٸ اور آہستہ آہستہ اپنا پاٶ ہلانے لگی تو کجھ درد ہںوا پر کل سے کم تھا۔اس لیے وہ اٹهتی الماری سے اپنے لیے آج کے پہننے کا ڈریس منتخب کرنے لگی۔انگلی ٹھوڑی پہ رکھے وہ پرسوچ نگاہوں سے اپنے کپڑوں کو دیکهہ ری تھی۔پھر مہرون رنگ کا کُرتا پاجامہ لیا اور واشروم کی طرف بڑه گٸ۔وہ مرر کے سامنے اپنے بالوں کی چوٹی بناتی ان آگے رکھتی وہ باہر کی جانب بڑه گٸ

مہرو ہم میں سے کسی کو بولا لیا ہںوتا ایسے اگر پھر گِر جاتی تو۔سارہ بیگم نے اس کو ناشتے کی ٹيبل پہ آتے بیٹھتے دیکها تو خفگی دیکها کر کہا۔

امی جان آج تو میرا پیر بہت ٹھیک ہںے بس ہلکا سا ہی درد اب محسوس ہںورہا تھا آپ پریشان نہ ہںو۔مہرماہ نے اپنے لیے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتی اپنی ماں کہ ہاتهہ پہ ہاتهہ رکھ کر مسکراکر تسٸلی کرواٸی۔

ہاں جی آپ سے تو درد بھی پناہ مانگتا ہںے۔اس کی بات سنتے شاہزیب نے ٹوسٹ منہ میں ڈال کر اپنا بولنا ضروری سمجھا۔

تمہارا بولنا لازمی ہںے؟ مہرماہ نے طنزیہ پوچها 

جی بہنا میری اگر میں نہ بولوں تو لگتا ہںے کہ جیسے دنيا خاموش ہںوگٸ ہںے۔اور یہ خاموشی محسوس کرکے مجھے لگتا ہںے کے یہ خاموشی میرے بولنے کا انتظار کر رہی ہںے۔شاہزیب نے مہرماہ کو اور غصہ دلانے کو بولا۔

مجھے لگتا ہی نہیں ہںے کہ میں اس سے بڑی ہںوں۔مہرماہ نے روہانسے لہجے میں اپنے باپ کو دیکهہ کر کہا۔

زیب نہ تنگ کرو میری بیٹی کو ناشتہ ٹھیک سے کرنے دو۔سکندر خان نے مہرماہ کی ایسی شکل دیکهہ کر شاہزیب سے سنجيدہ لہجے میں کہا۔

جی بابا جان ۔شاہزیب نے فورن کہا۔جب کہ مہرماہ نے اپنے باپ سے چھپ کر شاہزیب کو زبان دیکهاٸی۔جس سے شاہزیب نے اشارے سے بعد میں دیکهہ لوں گا کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اماں جان میں چاہتا ہںوں کے اب آپ ہمارے ساتهہ چلے سکندر کے ساتهہ بہت رہ لیا میرا بھی تو حق ہںے نہ آپ پر۔حيدر خان نے ستارے بیگم کا ہاتهہ تھام کر بولے۔

حیدر میں اس لیے تو تمہيں یہاں واپس آنے کا کہتی ہںوں۔اور تم آۓ بھی تو کجھ وقت کے لیے اور وہ بھی دوسرے گھر میں رہ رہںے ہںو۔میں اب کہاں اس عمر میں دوسرے دیس جاکے رہںوں گی۔ستارے بیگم نے ان کو انکار کرتے کہا اور واپس یہاں رہنے کے لیے منانا چاہا۔

اماں جان آپ ایک بات کیوں لے کر بیٹھی ہںے میں نے آپ سے کہا تو تھا جلد ہی میں اپنا بزنس یہاں سيٹ کردوگا پر ابھی مجھے کجھ وقت درکار ہںے۔حيدر خان نے ہر دفعہ والا جملا دُھرایا۔

بس بیٹا جلدی کرنا اس سے پہلے میری آنکهيں ہمیشہ کے لیے بند ہںوجاۓ۔ستارے بیگم نے آہ بھر کر کہا۔

اللہ نہ کرے اماں جان اللہ آپ کو ہماری عمر بھی لگادے ایسا تو نہ کہے۔ان کے ایسا کہنے پہ حيدر خان نےدُھل کر کہا۔

بس بیٹا یہ تو دنیا کا دستور ہںے۔کوٸی آتا ہںے اور کوٸی جاتا ہںے۔ستارے بیگم نے نرمی سے ان کو کہا۔

یہ لے گرما گرم چاۓ۔ہانم بیگم ملازمہ کے ساتهہ چاۓ کی ٹرے لاتے ان سے کہا

شکریہ بیگم ہمیں بھی طلب ہںورہی تھی۔حیدر خان نے مسکراکر ان سے کہا۔

اچها بہوں بچے کہاں ہںے دِکھ نہیں رہںے ؟ ستارے نے گھر میں خاموشی محسوس کرکے ان سے پوچها 

اماں جان پری اور آیان ڈراٸیور کے ساتهہ باہر گٸے ہںے۔میں نے ڈراٸیور سے کہا کے ان کہ ساتهہ رہںے اور ان کو گھماۓ پھیراۓ۔ہانم بیگم نے ان کو بتایا۔

اچها کیا۔اور  میر وہ کیوں نہیں گیا ان کے ساتهہ۔ستارے بیگم نے شاہ میر کو یاد کرکے کہا۔

میں کہا پر اس نے کہا میں گھر میں ٹھیک ہںوں۔ہانم بیگم نے چاۓ کا گھونٹ بھر کر کہا۔

پتا نہیں میر کیوں اتنا خاموش طبيعت ہںے۔ورنہ اس عمر کے بچے تو بہت شرارتی ہںوتے ہںے۔اب اپنے زیب کو ہی دیکهہ لوں سارا دن بس وہ اور مہرو شرارت میں لگے رہںتے ہںے۔وہ تو کجھ میر سے بڑے ہںے پھر بھی۔ستارے بیگم نے ان کی بات پہ کہا۔

ہاں اماں جان بس میر کجھ مختلف ہںے باقیوں سے بس وہ ان کھیلوں میں زیادہ نہیں پڑتا۔اس بار حیدر خان نے ان کی بات پہ جواب دیا۔

اماں جان میں تو بس اب میر کو بھی مہرو اور زیب سے زیادہ قریب کروں گی تاکہ وہ بھی ان کے جیسا شرارتی بن جاۓ۔ہانم بیگم نے مزاقً کہا۔

ہاں کیوں نہیں جب تک یہاں ہںے ان کے ساتهہ تو رہںے گے نہ بچے پھر دیکهنا کیسے دن میں تارے دیکهاتے ہيں ان کی بات پہ ستارے بیگم ہنس کر بولی۔

Hi,Everyone 

شاہ میر ان کے پاس لاٸونج میں آتا سلام کیا اور اپنی ماں کے قریب بیٹھ گیا۔

میر بیٹا یہ ہاۓ باۓ نہیں بولتے جب کسی سے ملتے ہںے تو اسلام وعلیکم“ کہتے ہںے۔ ستارے بیگم نے شاہ میر کو پیار سے سمجھایا۔

پر مجھے ایسے بولنے کی عادت ہںے۔شاہ میر انہيں دیکهہ کر بتایا۔

تو اب ڈال لوں ثواب ملتا ایسے کہنے پر۔ستارے بیگم نے دوبارہ سے کہا۔

جی ۔شاہ میر نے مختصر جواب دیا۔

اچها میں آج سکندر کے گھر جاؤ گی۔بچوں کی یاد آ رہی ہںے۔اور دیکهہ لوں اتنے دنوں سے میں یہاں ہںوں پر ذرہ تو توفيق ہںوٸی ہںو ان کو میرے حال پوچهنے کی سکندر اور سارہ سے تو فون پہ بات ہںوتی ہںے۔مہرو یہاں نہیں آسکتی درد ہںوگا اس کے پیر میں پر زیب اس کو اپنی دادی تھوڑا سا خیال نہیں یاد نہیں آٸی ویسے سارا دن کہتا رہتا ہںے دادی مجھے آپ سے پیار ہںے۔ستارے بیگم نے ان کو اپنے جانے کا بتایا اور ساتهہ ہی اپنے غصے کا اظہار بھی کیا۔ان کی باتوں پہ حيدر خان اور ہانم بیگم ہنس دیٸے جب کے شاہ میر کی نظروں کے سامنے مہرماہ کا مسکراتا چہرہ آگیا۔

اماں جان آپ بھی حد کرتی زیب کی عمر ہی کتنی ہںے دماغ سے نکل گیا ہںوگا۔اور آپ ان سے مل آٸیے گا۔آپ کی باتوں سے لگ رہا ہںے ان کی بہت یاد آرہی ہںے۔حيدر خان نے اپنی ہنسی روک کر کہا۔

یاد تو آۓ گی نہ بیٹا وہاں تو سارا دن ان کو لڑتے دیکهہ کر گزر جاتا ہںے۔اور یہاں پری کی معصوم باتيں اور آیان کے معصوم سوالات سے دن گزر جاتا ہںے۔پر بس ایسے ہی وہاں جانے کا سوچ رہی تھی۔ستارے بیگم نے حيدر خان کی بات پہ اتفاق کرتی بولی۔

ہاں تو اماں جان ہم اتوار کو جاۓ گے نہ تب آپ بھی چلنا آج رہنے دے۔ہانم بیگم نے ان سے کہا۔

یہ بھی ٹھیک ہںے۔ستارے بیگم نے رضامندی دے کر کہا۔

میر تم نے صبح کی نماز پڑھی تھی ؟حيدر خان نے خاموش بیٹھے شاہ میر سے سوال کیا۔

نو ڈيڈ خيال نہیں آيا۔شاہ میر نے ان کی بات پہ کہا۔

میر ہم نے آپ کو بتایا تھا نہ کہ بارہ سال کی عمر کے بعد ہر مسلمان انسان پہ نماز پڑھنا فرض ہںوتی ہںے تو یہ کیا کہنا ہںوا کہ خيال نہیں آیا۔حيدر خان نے شاہ میر کے اس طرح آرام سے انکار کرنے پہ کجھ سختی سے کہا 

سوری ڈيڈ۔شاہ میر نے سر جھکاتے کہا۔

آٸندہ خيال رکھنا۔حيدر خان نے اب کی آرام سے کہا۔جس پہ شاہ میر نے اپنا سر اثبات میں ہلایا۔جب کہ ستارے بیگم اور ہانم بیگم ان کے بیچ میں نہ بولی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ اپنے کمرے میں لگے شلف پہ ناولز سیٹ کر رہی تھی جب شاہزیب اس کے کمرے میں آکر بولا۔

چڑیل میں کہ

زیب بڑی بہن ہںوں تمہاری ۔اس کی بات پوری ہںونے سے پہلے ہی مہرماہ گھور کر کہا۔

ایک سال بس اور مجھے بتایا نہ کرو پتا ہںے مجھے۔شاہزیب اس کی بات سنتا بیزاری دیکهاتے بولا

اچها کہو کیا کہنے آۓ ہںو ؟ مہرماہ نے کہا۔

وہ مجھے نوڈلز بنا کرتو دو سچی بڑا دل کررہا ہںے نوڈلز کھانے کا۔شاہزیب اس کے بیڈ پہ لیٹتا زبان ہںونٹوں پہ پھیرتا بولا۔

کون نوڈلز بناۓ ؟مہرماہ کو لگا اس کو سننے میں غلطی ہںوٸی ہںے اس لیے تصدیق کے لیے دوبارہ پوچها ۔

تم اور کون اکلوتا بھاٸی ہںوں تمہارا کیا میرا اتنا حق نہیں تم پہ ۔شاہزیب نے ایموشنلی انداز اپناتے کہا۔

اچها اٹهو میرے بیڈ سے اور کمرے سے باہر جاٶ۔مہرماہ نے اس کی بات نظرانداز کرکے اٹهنے کا کہا۔

مہرو شرم کرو اتنے دنوں بعد کوٸی کام  کرنے کا کہا ہںے وہ بھی جو پانچ منٹ میں ہںوجاۓ گا اور تم ایسے انکار کر رہی ہںو۔شاہزیب معصومیت کے تمام رکارڈ توڑتا اس سے بولا۔

حد ہںے ویسے مجال ہںے جو تمہارے ہںوتے ایک پل سکون کا جی سکوں۔مہرماہ کمرے سے باہر نکلتی ہںوٸی بولی.

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔جواب میں شاہزیب نے اونچا قہہقہ لگایا۔

مہرو کچن میں آٸی تو سارہ بیگم پہلے کچن میں کھڑا پایا۔

امی جان آپ کیا کر رہی ہںے کھانا تو کُک بناتا ہںے نہ 

مہرماہ ان کے پاس آکر کہا۔

ہاں وہ بس تمہارے بابا جان نے کہا تھا کہ رات کے کھانے میں ان کے لیے بریانی میں بناٶ تو بس اس لیے۔سارہ بیگم نے مصروف انداز میں بتایا۔

اچها ۔مہرو اتنا کہا اور نوڈلز کے دو پیکٹ نکالنے لگی۔

زیب نے کہا ہںوگا نوڈلز کا۔سارہ بیگم نے اس کے ہاتهہ میں دیکهہ کر پوچها۔انہيں پتا تھا شاہزیب کو نوڈلز بہت پسند ہںے اور وہی کہتا تھا وہ بھی بس مہرماہ سے۔

جی ان صاحبزادے کا ہی فرمان ہںے کے ان کی خدمت میں نوڈلز پیش کیے جاۓ۔مہرماہ ان کی بات سنتی جلے دل سے بتایا۔

توبہ ہںے مہرو کبهی کبهی تو کہتا ہںے بیچارہ۔سارہ بیگم اس کے اس طرح بتانے پہ تاسف سے اس کو دیکهہ کر کہا۔

بیچارہ تو نہ کہے امی۔مہرماہ نےفورن کہا۔

خير چھوڑو اتوار کو تمہارے چچا والے آۓ گے تو تم اپنی کسی دوست کی طرف نہ چلی جانا۔سارہ بیگم نے اس کو پہلے سے ہی اطلاع دی۔

پر امی مجھے تو ثانيہ کی طرف جانا تھا۔مہرماہ نے ان کی بات پہ پریشانی سے اپنی دوست کا نام بتاکر کہا۔

مہرو کالج جب جاٶ تم مل لینا یہاں کسی اور دن پر اس بار اتوار کو نہیں تمہارے چچا والے اتنے عرصے بعد یہاں آۓ ہںے اور بھی کم وقت کے لیے اس لیے تم لوگوں کو چاہٸیے کے ان کو وقت دو ورنہ وہ کیا سوچیں گے ۔تم تو ان سے ملی بھی نہیں ورنہ تمہارے پیر کا درد جیسے ٹھیک ہںوا مل کے آنا چاہٸیے تھا۔سارہ بیگم نے اس کو سمجھایا۔

امی جان سوری مجھے واقعی ان کی طرف جانا چاہٸیے تھا۔پر بس اگلی دفعہ خیال کروں گی۔مہرماہ نے شرمندگی سے کہا۔

ہاں صحيح پر تم اتنا بھی شرمندہ نہ ہںو میں نے بس ایسے ہی تمہيں ابھی سے سمجھایا ورنہ تم اتنی بڑی بھی نہیں ہںوکے وہ بُرا مانے پر تمہيں ابھی سے احساس ہںونا چاہٸیے تاکہ بڑی ہںوجاٶ تو ان سے ملنے اور بات کرنے ہچکچاہٹ نہ ہںو۔سارہ بیگم نے مہرماہ کی شرمندگی محسوس کرکے کہا۔

جی امی جان شکریہ آپ کا۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

شکریہ کی کیا بات ہںے ماں تمہاری اگر میں نہیں سمجھاٶگی تو کون سمجھاۓ گا۔سارہ بیگم نے کہا۔

ہاں یہ بھی ہںے۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

اچها امی جان شاہ میر کتنا خوبصورت ہںے نہ ابھی تو اتنا چھوٹا سا ہںے۔پھر بھی جب بڑا ہںوگا تب تو پتا نہیں کیسا ہںوگا اور زیادہ خوبصورت ۔مہرماہ کو شاہ میر کا خیال آیا تو سارہ بیگم سے کہا۔

ماشاءَاللہ کہو کتنی دفعہ بتایا ہںے کے جب کسی کی تعریف کرو یا کوٸی چیز پسند آۓ تو ماشاءَاللہ کہتے ہںے۔سارہ بیگم نے مہرماہ کو ٹوک کر کہا۔

کہوں گی امی جان پر میری نات کا جواب تو دۓ نہ ۔مہرماہ نے اپنی بات پہ زور دے کر کہا۔

ہاں میر ماشاءَاللہ سے بہت پیارا بچہ ہںے اللہ اس کو لمبی اور صحتمند زندگی دے۔سارہ بیگم نے اس کی بات پہ مسکراکر کہا اور شاہ میر کو دعا بھی دی۔

آمین۔مہرماہ نے جوابن کہا۔

ویسے پری اور آیان بھی پیارے ہںے۔پر شاہ میر ان کی نسبت کافی خاموش طبيعت کا مالک ہںے ہانم بتا رہی تھی زیادہ کسی سے بات نہیں کرتا اگر کرے بھی تو بس مختصر اور خود سے مخاطب کرنا تو وہ گناہ سمجھتا ہںے ابھی سے جب بڑا ہںوجاۓ گا تو یہ بھی نہ بولے شاید ۔سارہ بیگم کو اس دن شاہ میر کا چپ رہنا یاد آیا تو کہا اور ساتهہ میں ہانم بیگم کی کہیں بات بھی۔

اچها پر مجھ سے تو بہت اچهے سے بات کر رہا تھا۔مہرماہ نے بتایا۔

اس کو پتا ہںوگا نہ تم کزن سسٹر ہںو اس کی اس لیے۔سارہ بیگم نے مسکراکر کہا۔

ہاں یہ تو ہںے۔مہرماہ نے ان کی بات پہ اتفاق کرتے کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آج اتوار کا دن تھا۔مہرماہ اور شاہزیب اپنے چچا کے آنے کے انتظار میں تھے مہرماہ تو لان کے چکر بھی لگا کے آگٸ تھی پر انہوں نے دیر کی تھی۔جب کے سارہ بیگم کچن میں کُک کو کھانے میں ہدایات دے رہی تھی کہ سب ٹھیک کرنا اور سکندر خان لاٸونج میں بیٹھے اخبار پڑھ رہںے تھے۔جب مہرو اور شاہزیب بھاگ کر ان کو بتانے لگے چچا والے آگٸے۔پھر وہ ان کی طرف آۓ۔

اسلام وعلیکم۔حيدر خان اپنے بھاٸی سے گلے مل کر بولے اور ہانم بیگم سارہ بیگم سے ملی۔جب کی مہرو شاہزیب پری آیان ساٸیڈ میں کھڑے تھے۔

آۓ اندر چلے۔سکندر خان نے ان کو لاٸونج کی طرف آنے کا کہا پھر وہ بیٹھے تو شاہزیب بولا۔

چچا جان دادی اور شاہ میر نہیں آۓ کیا ؟

نہیں وہ بس آتے ہی ہںوگے اماں جان کا چشمہ نہیں مل رہا تھا تو میر ان کی مدد کرنے لگا اور ہمیں کہا آپ لوگ جاۓ ہم آتے ہںے۔حیدر خان نے شاہزیب سے کہا۔

اچها صحيح ۔شاہزیب نے مسکراکر کہا۔

اور بتاۓ آپ لوگ ٹھیک ہںے ؟ سارہ بیگم نے ان سے پوچها ۔

الحمداللہ سب ٹھیک ہںے۔حيدر خان نے کہا۔

مہرو بیٹا آپ کیسے ہںو ؟ ہانم نے دور بیٹھی مہرماہ سے کہا جو پری کی کسی بات پہ مسکرا رہی تھی۔

چچی جان اللہ کا شکر ہںے میں ٹھیک ہںوں اور آپ بتاۓ پاکستان اتنے عرصے بعد آکر کیسا لگ رہا ہںے۔مہرماہ نے ان کی بات کا جواب دے کر سوال کیا۔

محسوس تو بہت اچها ہںورہا ہںے ۔ہانم بیگم مسکراکر بولی۔تبھی ستارے بیگم اور شاہ میر بھی وہی آۓ تو سکندر خان اور سارہ بیگم مہرو شاہزیب اٹهہ کر ان سے احترام سے ملے اور بعد میں شاہ میر سے ۔

تم لوگ بیٹھو میں ذرہ اپنے کمرے میں جارہی ہںوں۔ستارے بیگم نے ان سے کہا۔

اماں جان ابھی سب مل کے باتيں کر رہںے ہںے آپ کیوں اندر جارہی ہںے۔سکندر خان نے ان کی بات پہ کہا۔

وہ بس ایسے ہی بیٹا۔ستارے بیگم نے سادگی سے کہا۔

دادی جان صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ آپ کو اپنے کمرے کی یاد آرہی ہںے۔مہرماہ نے ستارے بیگم کی بات پہ شرارت سے کہا۔

چپ کرو شریر کہیں کی۔ستارے بیگم نے اس کی بات پہ فورن سے کہا۔جب کے سب کے قہقہقہ نکل گٸے مہرماہ کی بات پہ سواۓ شاہ میر کے جو مہرماہ کو دیکهہ رہا تھا جس نے آج ریڈ کلر کا فراق پہنا ہںوا تھا اور بالوں کی چوٹی بناۓ آگے کو رکھی تھی۔

آپ تو بُرا ہی مان گٸی میں تو مزاق کررہی تھی آۓ میں آپ کے ساتهہ کمرے تک چلتی ہںوں۔مہرماہ نے ہنس کر کہا اور ان کو لیے ان کے کمرے کی طرف چلی گٸی۔جب کے بڑے لوگ آپس میں باتوں میں مصروف ہںوگٸے اور شاہزیب ایک طرف شاہ میر پری اور آیان کے ساتهہ باتيں کر رہا تھا اور ان کے سوالوں کے جواب بھی دے رہا تھا۔اور کبهی کبهی شاہ میر سے بھی کوٸی بات کرلیتا جو بس مختصر جواب دے کر خاموش ہںوجاتا۔

مہرماہ دوبارہ لاٸونچ میں آٸی اور ایک خالی صوفے پہ بیٹھ گٸ شاہ میر اس کو اکیلا بیٹھا دیکهہ کر اس کے پاس آیا اور صوفے پہ اس کے ساتهہ بیٹھ کر کہا۔

آپ کے پیر کا درد کیسا ہںے اب تو چلنے میں درد نہیں ہںوتا نہ ؟

نہیں اب تو بلکل ٹھیک ہںوگیا ہںے اور اس بات کو کافی دن ہںوگٸے ہںے۔مہرماہ جو اس کو اپنے ساتهہ بیٹھتا دیکهہ کر مسکرا رہی تھی اس کے سوال پہ ان نے نرمی سے اس کے پھولے گال کھینچ کر کہا۔

اچها یہ تو بہت اچهی بات ہںے۔شاہ میر نے مسکراکر کہا۔

اوہ۔ماشاءَاللہ آپ مسکراتے بھی ہںے وہ بھی اتنا پیارا مجھے تو پتا بھی نہیں تھا۔مہرماہ نے پہلی دفعہ اس کو مسکراتا دیکها تو کجھ حیران ہںوٸی کیوں کی جب پہلے اس سے بات کی تھی تو وہ ذرہ بھی نہیں مسکرایا تھا اس لیے حيرانی سے نکل کر اس نے شرارت سے پوچها ۔

نہیں بس وہ کبهی کبهی۔شاہ میر مہرماہ سے اپنی تعریف سن کے شرما سا گیا۔

ہاہاہاہاہاہاہاہا۔تم تو شرما رہںے ہںو۔مہرماہ ہنس کر بولی۔

وہ کیا ہںوتا ہںے؟ شاہ میر نے تعجب سے پوچها 

کیا تمہيں نہیں پتا۔مہرماہ کجھ حیران ہںوٸی۔

نہیں تو پتا ہںوتا تو آپ سے کیوں پوچهتا۔شاہ میر نے کندھے اُچکا کر کہا۔ایسے کرتے ہںوۓ وہ مہرماہ کو اور پیارا لگا۔پھر اس نے کہا۔

رہنے دو پھر۔

آپ مجھ سے دوستی کرے گی۔شاہ میر کجھ پل خاموش ہںوکر اس کو دیکهہ کر بولا۔

ہاں میں تمہاری کزن سسٹر ہںوں تو دوست بھی ہںوٸی ۔مہرماہ اس کے معصومیت سے پوچهنے پر مسکراکر بولی

نہیں پکی والی دوست میں زیادہ تر دوست نہیں بناتا اور نہ بات پر آپ مجھ سے دوستی کرے وہ بھی پکی والی اور مجھ سے ٹھیر ساری باتيں کیا کرے اور میں بھی۔شاہ میر اس کی بات پہ نفعی میں سر ہلاتا بولا۔

اچها پر اُس حساب سے تو میں آپ سے بڑی ہںوں نہ عمر میں ۔مہرماہ نے بچوں جیسی شکل بناکر اس سے کہا۔

تو کیا ہںوا دوستی عمر دیکهہ کر تھوڑٸی کرتے ہںے۔شاہ میر نے سمجھداری سے کہا۔

ارے واہ آپ تو کافی سمجھدار ہںے۔مہرماہ نے اس کی بات پہ حيرت سے کہا۔

آپ بتائيں نہ کرے گی مجھ سے دوستی۔شاہ میر اس کی بات نظرانداز کرتا دوبارہ سے پوچهنے لگا۔

ہاں کیوں نہیں اتنے پیارے کیوٹ بچے سے کون دوستی نہیں کرےگا۔مہرماہ نے پیاری سی مسکراہٹ سے کہا۔

اچها تو Friends ۔شاہ میر نے اپنا چھوٹا سا ہاتهہ اس کے سامنے کرتے پوچها ۔

بلکل۔مہرماہ نے اس سے ہاتهہ ملاکر کہا۔جس سے شاہ میر کی آنکهوں میں چمک آگٸی۔مہرماہ نے شاہ میر کی آنکهوں میں چمک دیکهی تو مسکرادی اس کو لگا کے شاید  وہ اس سے دوستی کرنے پہ خوش ہںے۔

مہرو کچن سے Milk shacks کے گلاس لاکر بچوں کو دو ان کو پسند ہںے۔سارہ بیگم نے مہرماہ سے کہا۔

جی اچها ابھی لاتی ہںوں۔مہرماہ ان سے کہہ کر اٹهتی کچن کی طرف جانے لگی۔تو شاہ میر بھی اس کے ساتهہ اٹهہ گیا سب نے حیرت سے شاہ میر کو مہرماہ کے ساتهہ جاتا دیکها۔پھر ہانم بیگم بولی۔

میر کو شاید مہرو کی کمپنی ہم سے زیادہ اچهی لگی۔

ہاں میری بیٹی باتيں اتنی اچهی کرتی ہںے کہ ہر کوٸی اس کو سننا چاہے۔سکندر خان ان کی بات پہ محبت سے مہرو کا ذکر کرتے کہا۔

یہ تو اچهی بات ہںوۓ ایسے میں میر کو بھی مہرو کی طرح بولنے کی عادت ہںوجاۓ گی۔سارہ بیگم ہنس کر بولی۔

اللہ کرے میں تو میر کی طرف سے بہت پریشان رہتی ہںوں۔ہانم بیگم افسردہ لہجے میں کہا۔

پریشان نہ ہںوتم۔سارہ بیگم نے کہا۔

مہرماہ کچن میں آکر ٹرے میں Milk shacks کے گلاس رکھنے لگی تو شاہ میر بولا۔

پری آپی یہ نہیں پیتی یہ  بس آیان کو پسند ہںے پری آپی ایپل جوس پیتی ہںے بس۔

اچها کیوں۔مہرماہ نے پوچها 

دوده ان کو پسند نہیں اور باداموں سے ان کو الرجی ہںے۔شاہ میر نے بتایا۔

اچها ہںوا بتا دیا میں ابھی اس کے لیے ایپل جوس نکالتی ہںوں۔مہرماہ نے اس کی بات سن کر کہا۔

ویسے تم اس کو آپی بولتے ہںو ؟ مہرماہ نے اچانک سے پوچها۔

جی وہ مجھ سے دو سال بڑی ہںے نہ تو موم ڈیڈ نے کہا تھا کہ آپی کہنا ہںے۔شاہ میر نے بتایا۔

ٹھیک ہںے تم مجھے بھی آپی بول سکتے ہںو میں تو تم سے چار سال بڑی ہںوں۔مہرماہ نےمسکراکر کہا۔

وہ تو بہن ہںے اور آپ دوست ہںے۔شاہ میر نے فرق بتایا۔

تو کیا ہںوا کزن سسٹر بھی تو ہںوں۔مہرماہ نے کہا۔

آپ میری دوست ہںے اور دوستوں کو اس کے نک نیم سے بولاتے ہںے۔شاہ میر کو اس کا کزن سسٹر کہنا اچها نہیں لگا۔اس لیے کہا۔

اچها بابا نہیں کہنا تم بھی مجھے باقیوں کی طرح مہرو کہنا۔مہرماہ نے اس کا انکار سن کر ہلکی سے مسکراہٹ سے کہا۔

مہرو تو آپ باقیوں کے لیے ہںے میں تو آپ کو ماہ کہوں گا بس میں اور کسی کو بولنے نہیں دوگا۔شاہ میر کا لہجہ آخر میں ضدی سا ہںوگیا۔

ماہ ٹھیک ہںے یہ بھی تم مجھے یہی کہنا۔مہرماہ نے اس کا کہا لفظ دُھراکر کہا۔

جی اور آپ بھی یہ کسی اور کو کہنے کی اجازت نہ دینا۔

شاہ میر نے کہا۔

نہیں دوگی اجازت خوش۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

تو پھر میں تمہيں شاہ کہوں گی۔کجھ دیر بعد مہرماہ بولی۔

ضرور ۔شاہ میر نے خوشی سے کہا۔

اچها اب آٶ ۔مہرماہ نے ٹرے پکڑ کر کہا۔

مہرماہ سب کو گلاس تھماکر پری اور آیان کے بیچ میں بیٹھ گٸ۔

آپ کو کیسے پتا کے میں ایپل جوس پیتی ہںوں۔پری نے تجسس سے مہرماہ کو دیکهہ کر پوچها ۔

شاہ نے بتایا۔مہرماہ نے اُسے دیکهہ کر بتایا۔

آپ کا مطلب میر ؟پری نے پوچها 

جی بلکل۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

آپ کو پتا ہںے ہم نہ یہاں پہلے سے آنا چاہںتے تھے پر میر بھاٸی پہلے جب آۓ تھے نہ تو ہمیں بنا بتائے ہی آگٸے تھے۔آیان نے مہرو کہ کان میں رازدانہ انداز شاہ میر کو دیکهہ کر بولا جو بات شاہزیب سے کر رہا تھا پھر دیکهہ ان کو ہی رہا تھا۔

شاہ کو تو آپ کو بتانا چاہٸیے تھے اور اپنے چھوٹے سے معصوم اور پیارے بھاٸی کو لانا بھی چاہٸیے تھا۔مہرماہ نے اس کے اِس طرح بتانے پر پیار سے اس کو دیکهہ کر کہا اور اپنی گود میں بیٹھا لیا۔

ہاں نہ آپ ان کہٸیے گا کہ اگلی بار ایسا نہ کرے۔آیان خوش ہںوتا اس کی گود آرام سے  بیٹھتا بولا۔

ہاہاہاہاہاہاہا۔آیان تمہاری بات کرنے کا انداز کتنا کیوٹ ہںے۔مہرماہ ہنس کر کہتی اس گال پہ بوسہ دیا۔

وہاں ان کے ساته بیٹھے؟ شاہ میر کو مہرماہ کا آیان سے اتنا ہنس کر بات کرنا پسند نہیں آرہا تھا اور نہ اس کی گود میں مزے سے بیٹھا آیان اس لیے اس نے شاہزیب سے ان کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

ہاں کیوں نہیں آٶ۔شاہزیب خوشدلی سے کہتا اپنے سے کجھ دور مہرماہ کے صوفے پہ آیا۔شاہزیب پری کی ساٸیڈ پہ آیا جب کی شاہ میر پہلے ہی مہرماہ کے پاس بیٹھا جہاں پہلے آیان تھا۔

تم کیا چھوٹے بچے کی طرح ماہ کی گود میں بیٹھےہںو ٹیبل یا صوفے کم ہںے۔شاہ میر نے جب آیان کو اٹهتا نہ دیکها تو کہہ پڑا۔

شاہ ایسے تو بات نہ کرو آیان سے دیکهو کتنا خاموش ہںوگیا ہںے تمہاری بات پہ اور آیان کو میں نے خود بیٹھایا ہںے۔اتنا چھوٹا بچہ تو ہںے۔شاہ میر کی کی بات پہ  مہرماہ نے اس کو کہا۔شاہ میر پھر اس کی بات سن کر اٹهہ کر دوسری طرف بڑوں کی ساٸیڈ پہ آگیا۔

بھاٸی کو شاید غصہ آگیا۔آیان نے مہرماہ سے کہا۔

اچها اتنی سی بات پہ ۔مہرماہ نے پریشانی سے پوچها 

ہان نہ مہرو آپی ان کو غصہ بہت جلدی آجاتا ہںے ایسا سمجھ کے بس وہ غصہ ہی کرتے ہںے۔آیان نے معلومات دینے والے لہجے میں اس کو بتایا۔

پر یہ تو کوٸی بات نہ ہںوٸی ایسے اٹهنے کی۔مہرماہ خفگی سے کہا۔

ہاں تو کیا ان کو منانا آپ۔آیان نے ہنس کر کہا۔

بہت بدمعاش ہںو آپ۔مہرماہ نے اس کو گُدگدا کے کہا۔

میر آپ اتنے چپ کیوں ہںوگٸے پہلے تو صحيح تھے۔سکندر خان نے شاہ میر کو اپنے قریب کرکے پیار ی سے پوچها ۔

کجھ نہیں چچا بس ایسے ہی۔شاہ میر نے ان کے پاس بیٹھتا بولا۔

اچها یہ بتاٶ تمہيں اپنی مہرو آپی کیسی لگی ان سے بات کرکے اچها لگا ناں۔سکندر نے بات بدل کر مسکراکر پوچها باقی تینوں بھی اپنی باتيں چھوڑے ان کو دیکهہ رہںے تھے۔

وہ میری آپی نہیں ہںے۔اور میں نے ان سے دوستی کی ہںے تو میں ان کو ماہ کے نام سے بولاٶں گا۔شاہ میر ان کی بات سنتا تیزی سے کہا۔

میر یہ کس ٹون میں بات کر رہںے ہںوتم اور وہ تمہاری دوست ہںے بھی تو آپ کو ان سے تہمیز سے بولانا ہںوگا تمہيں بڑی آپ سے۔ہانم نے غصے سے اس کو دیکهہ کر کہا۔

بھابھی پلیز بچہ ہںے ذرہ آرام سے بات کرے۔سکندر خان نے کہا۔

بھاٸی صاحب وہ سب تو ٹھیک پر اب ہم نہیں سمجھاۓ گے تو یہ تو ایسے ہی شرمندہ کرواتے رہںے گے۔اور مہرو کو کتنا بُرا لگے گا۔ہانم نے ان کی بات سن کر آرام سے کہا

ان کو بُرا نہیں لگے گا۔میں نے ان کو بتادیا تھا اور اعتراض نہیں ان کو بلکہ انہوں نے بھی کہا کہ وہ اب مجھے شاہ کہہ کر پُکارے گی۔شاہ میر ان کی آخری بات سنتا آنکهوں میں چمک لیکر بتایا۔

دیکهہ لے آپ مہرو کو برا واقعی میں نہیں لگے گا کیوں کی اس کو تو بچے بہت پسند ہںوتے ہیں۔سکندر خان نے ہنس کر ان سے کہا تو وہ بھی مسکرادیٸے۔جب کی حیدر خان تو شاہ میر کی آنکهوں کی چمک دیکھ رہںے تھے جو پہلے کبهی نہیں دیکهی تھی۔پر وہ نظرانداز کرتے اپنے بھاٸی کی طرف متوجہ ہںو گٸے۔

باتيں تو ہںوتی رہ گی ابھی آپ لوگ کھانے کی ٹیبل پہ چلے۔کھانا تیار ہںوگیا۔سارہ بیگم نے مسکراکر کہا تو سب ڈراٸنگ روم کی طرف بڑھے۔جب کی مہرماہ ستارے بیگم کے کمرے کی طرف چلی گٸی ان کو لینے۔

سربراہی کرسی کو چھوڑے وہ سب اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھے جو ٹیبل کی ایک ساٸيڈ پہ جہاں چار کرسیوں کی قطار تھی وہاں پہلا سکندر خان اور سارہ بیگم بیٹھی اور پھر حيدر خان اور ہانم بیگم اور ان کی گود میں آیان جب کی دوسری ساٸیڈ پہ بھی چار کرسیوں کی قطار تھی جہاں شاہزیب ایک مہرماہ کی کرسی چھوڑے دوسری پہ بیٹھا تھا اور پھر پری اس کے بعد شاہ میر۔ مہرماہ جب ستارے بیگم کو لے آٸی تو ان کے بیٹھتے ہی سارہ بیگم نے کلثوم بی اور دوسری طرف کک کو کھڑے دیکهہ کر کھانا Serve کرنے کا اشارہ کیا۔

مہرماہ نے اپنی جگہ پہ پری کو بیٹھایا اور خود اس کی جگہ پہ آٸی۔جو شاہ میر کے قریب تھی۔شاہ میر مہرماہ کو اپنے قریب بیٹھتا دیکهہ کر خوش ہںوگیا تھا۔

کیا لوں گے تم ؟ مہرماہ نے شاہ میر سے پوچها ۔

میں بس چاول لوں گا۔شاہ میر نے اس کی بات پہ ملازمہ کی طرف اشارہ کرتے کہا جو بریانی دوسری پلیٹ میں ڈال رہی تھی۔

اچها میں ڈال کے دیتی ہںوں تمہيں ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔اور ٹبیل پہ بریانی کے ڈونگے سے اس کے لیے لیتی اس کی پلیٹ میں ڈالے جو شاہ میر نے اشارے سے تھوڑا کہا۔

اور کجھ نہیں لوں گے بریانی کے علاوہ باقی بھی تو بہت کجھ ہںے۔مہرماہ نے اس سے کہا۔

نہیں ابھی میرا بس یہی کھانے کو دل کررہا ہںے۔شاہ میر نے جواب دیا۔

چلو ٹھیک ہںے۔مہرماہ کہتی اپنے لیے کباب اٹهانے لگی۔

آپ کوٸی روٹی کیوں نہیں لے رہی۔شاہ زیب نے پوچها ۔

ایسے ہی میرا بس یہی کھانے کو دل کررہا تھا۔مہرماہ نے اس کا جواب واپس دے کر کہا۔تو شاہ میر کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸی۔پھر اس نے کہا۔

ایسا کرتے ہںے پھر کے آپ میری پلیٹ سے بریانی لے اور میں آپ کی پلیٹ سے کباب پھر دونوں مل کر کھاٸینگے۔

ہاں کیوں نہیں۔مہرماہ نے اس کی بات مان کر کہا۔پھر اپنے کباب میں سے شاہ میر کی پلیٹ میں ڈالا اور شاہ میر نے اپنی بریانی کی پلیٹ سے بریانی نکل کر دوسری پلیٹ میں ڈال کر مہرماہ کو دی۔

میر آج تم کیسے جھوٹا کھانے لگے۔تمہيں تو ہمارا بھی پسند نہیں ہںوتا۔ہانم بیگم جو جگ سے پانی نکال کر آیان کو دے رہی تھی ان پہ نظر پڑی تو حيرانکن لہجے میں بولی۔تو باقی بھی مسکراکر اپنا کھانا چھوڑ کر ان کی طرف دیکھا۔جب کے شاہزیب نے کسی بات کا نوٹس نہ لیا اور اپنے کھانا کھانے میں مگن رہا تھا۔

اچها کیا سچ میں۔مہرماہ نے بھی شاہ میر کو دیکهہ کر حيرت سے کہا۔جب کی شاہ میر کا پورہ دھیان مہرماہ کے جھوٹے کباب کھانے پہ تھا۔

ہاں مہرو میرا یہ بیٹا ایسا ہی ہںے ناجانے کس پہ گیا اور اب شاید آپ لوگوں سے مل کر شاید ٹھیک ہںوجاۓ۔ہانم بیگم نے مسکراکر کہا۔پھر کھانے کے بعد وہ واپس لاٸونچ ميں آۓ دوپہر کے وقت سب مرد مسجد کے لیے نکل گٸے نماز پڑھنے کے لیے آیان بھی ان کے ساتهہ گیا۔سارہ بیگم اور ہانم بیگم نے گھر کے ہال میں ہی نماز ادا کی اور ستارے بیگم اپنے کمرے میں اور مہرماہ پری کو لے کر اپنے کمرے کی طرف گٸی تھی۔سب لوگ جب نماز ادا کرنے بعد ایک ساتهہ بیٹھے تو ہانم بیگم بولی۔

پری کہاں ہںے سو تو نہیں گٸی؟ 

ارے نہیں نہیں ہانم وہ تو مہرو کے کمرے میں نماز پڑھنے گٸی تھی پھر مہرو کا تو آپ کو پتا ہںے وہيں باتوں میں اس کے ساتهہ لگ گٸی ہںوگی۔سارہ بیگم نے بتایا۔جب کے شاہ میر کی نظر سیڑھیوں پہ ٹک گٸی۔

اچها پری آپ کیا کرتی ہںے۔لنڈن میں تو آپ کی بہت سی دوستیں ہںوگی۔مہرماہ نے پری سے پوچها جو اس کے کمرے کو اشتیاق بھری نظروں سے دیکهہ رہی تھی۔

جی مہرو آپی ہںے تو بہت لڑکیاں وہاں پہ پر میری بس دو دوست ہںے وہاں باقی لڑکیاں مسلمان نہیں ہںے تو ہم ان سے بات نہیں کرتے زیادہ میر کا بھی بس پورے لنڈن میں ایک ہی دوست ہںے۔باقی پڑھاٸی کے حساب سے جو ان کا گروپ ہںے تو بس ان سے بات چیت ہںوجاتی ہںے۔اس کی بھی باقی آیان کا میں کیا بتاٶں ابھی سے ہی اپنی پڑھاٸی کے لیے اتنا پاگل ہںے کے نہ پوچهے۔پری نے اس کی بات پہ سمجھداری سے سب بتایا۔

اچها پر جو مسلمان نہیں ان سے آپ کیوں بات نہیں کرتے ؟مہرماہ نے سوال کیا۔

بس ایسے ہی دوستی نہیں کرتے ورنہ باتيں ہںوجاتی ہںے موم کہتی ہںے کہ ابھی اتنے دوست بنانا ٹھیک نہیں اور بعد  پھر انسان پڑھاٸی سے زیادہ اپنی دوستوں میں لگ جاتا ہںے۔پری نے بتایا۔

اچها ٹھیک ہںے۔مہرماہ نے مسکرا کر کہا۔اور وہ دونوں نیچے آگٸے۔جہاں بڑے چاۓ سے لُطف انگیز ہںو رہںے تھے۔

جب کی بچے شاید لان میں تھے۔مہرماہ پری کو لان میں چھوڑے وہاں سے جا رہی تھی تو شاہ میر اس کے پیچھے آتے بولا۔

آپ کہاں جارہی ہںے ؟

میں بس اندر لاٸونچ میں کیوں کوٸی کام تھا۔مہرماہ نے جواب دے کر پوچها 

کام تو نہیں بس مجھے آپ کے سوا بیٹھنے میں مزا نہیں آرہا ۔شاہ میر نے صاف گوٸی سے کہا۔

اوہ تو یہ بات ہںے۔مہرماہ نے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر مسکراکر کہا۔

ہاں نہ اور میرا قد اتنا چھوٹا بھی نہیں ہںے۔شاہ میر نے گھاس پہ بیٹھ کر کہا۔تو مہرماہ بھی ٹھیک سے بیٹھنے لگی۔اور پھر اس سے کہا۔

مطلب تمہيں خود کو چھوٹا کہلوانا پسند نہیں؟

بلکل نہیں پسند ۔شاہ میر فورن بولا۔

صحيح اب میں نہیں بولوں گی پھر۔مہرماہ نے اس کے گال کھینچ کر کہا اس کو شاہ میر کے گلابی پھولے گال بہت پسند آۓ تھے جو بلکل نرم تھے۔اس کے ایسے کرنے پہ شاہ میر دوبارہ شرمانے لگا تھا اور اس کے گال گلابی سے لال ہںوگٸے تو مہرماہ مسکرانے لگی پر کہا نہیں۔

کیا کبهی کبهی میں آپ کے گال کھینچ سکتا ہںوں۔شاہ میر کجھ دیر بعد بولا۔

میرے کیوں تمہارے تو اس لیے کوٸی تم چھوٹے سے ہںوتو مجھے پسند آۓ اس لیے کیا۔مہرماہ ہنس کر بولی۔

ہاں پر مجھے آپ خود بہت پسند آٸی ہںے صرف گال نہیں۔شاہ میر نے کہا تو عام لہجے میں پر جانے کیوں مہرماہ کو اس کا عام انداز میں جنونیت محسوس ہںوٸی پر اپنا وہم سمجھ کر نظرانداز کیا کہ بچہ ہںے۔

اچها آپ کرسکتے ہںے کبهی کبهی ۔مہرماہ نے اجازت دے کر کہا۔جس پہ شاہ میر کے چہرے کے ساتهہ ساتهہ آنکهيں بھی مسکرانے لگی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

حيدر خان والے شام  کے وقت اپنے گھر کو لوٹ گٸے۔تو سارہ بیگم کام کرنے میں کلثوم بی کی مدد کررہی تھی ۔

ویسے بیگم جی صاحب جی اور ان کے بھاٸی میں ماشاءَاللہ بہت محبت دیکهی میں نے کلثوم بی نے ان سے کہا۔

ہاں ماشاءَ اللہ۔اللہ ایسے ہی ان کی محبت قاٸم رکھے۔سارہ بیگم نے ان کی بات پہ  کہا۔

آمین۔کلثوم بی نے کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آج مہرماہ کو کالج جانا تھا اس لیے وہ جلدی سے تیار ہںوکے گھر سے نکلنے لگی تو سارہ بیگم نے آواز دی۔

مہرو ناشتہ تو کرتی جاٶ

امی جان کینٹين سے کجھ لے کر کھالوں گی ابھی میں جلدی میں ہںوں۔خدا حافظ ۔مہرو کہتی نکل گٸی۔اور گاڑی میں بیٹھ کر ڈراٸیور کو جلدی گاڑی چلانے کہا۔

توبہ ہںے یہ لڑکی ذرہ جو کوٸی کام آرام سے کرے۔سارہ بیگم بڑبڑاتی ہںوٸی کچن کی طرف گٸی۔

مہرو کالج پہنچی تو سامنے ہی اس کو اپنی دوستیں کھڑی نظر آٸی جو شاید اس کے انتظار میں تھی۔

مہرو صاحبہ اتنی جلدی کیوں آگٸی کجھ اور دیر سے آتی آپ کو کس نے کجھ کہنا تو نہیں تھا۔وہ جیسے ہی ان کے پاس آٸی۔اس کی دوست مونا نے طنزیہ کہا۔

بکو نہیں اور چلو کلاس میں پہلا لیکچر شروع ہںوگیا ہںوگا۔مہرماہ اس کو گھوری سے نوازتی کہنے لگی۔

ہاں چلو ہم بس تمہارا انتظار کر رہںے تھے۔ثانيہ جو خاموش کھڑی تھی۔ان کو دیکهہ کر کہا پھر تینوں اپنی کلاس کی جانب بڑه گٸی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

زیب تم کالج کیوں نہیں گٸے تمہارے بابا کو پتا لگا نہ تو غصہ کرے گے۔سارہ بیگم نے موبائل پہ Pubgکھیلتے شاہزیب سے کہا جو بہت سنجيدگی سے موبائل پہ گیم میں اپنے دشمن کو ایسے مار رہا تھا جیسے سچ میں کسی جنگ میں ہںو اس کے چہرے کے تاثرات ہی ایسے بن جاتے تھے یہ گیم کھیلتے ہںوۓ۔

امی جان کل پکا جاٶں  گا آپ بس بابا جان کو نہ بتانا۔شاہزیب نے بنا ان کی طرف دیکهے منت بھرے لہجے میں کہا۔

اگر کل نہ گٸے تو میں نے ان کو آفس سے یہی بولانا ہںے اور کہنا ہںے کے تمہارا موبائل تم سے لے اور جو آۓ پیڈ ہںے وہ بھی اور باہر جانے کی اجازت بھی بند۔سارہ بیگم نے آرام سے اس کے سر پہ بم گرایا شاہزیب کے لیے تو یہی تھا۔سارہ بیگم نے بھی چن چن کے اس کی دکھتی رگ پہ ہاتهہ ڈالا تھا جس پہ شاہزیب اپنا گیم بند کرتے تڑپ کے اپنی ماں کو دیکهہ کر بولا۔

ایسا ظلم نہ کرنا امی جان میں تو آج بھی جاتا پر بس وہ دیر ہںوٸی تو نہ جاسکا ورنہ آپ کو پتا ہںے میں کبهی اسکول کالج مس نہ کرتا۔

سب پتا ہںے اس لیے پہلے سے ہی خبردا کیا ورنہ اگر بات نہ مانی تو آپ کی اگلی پیشی اپنے بابا کے پاس ہںوگی۔

سارہ بیگم نے اپنے بیٹے کو دیکهہ کر مزے سے کہا۔

نہیں ہںوگا اب ایسا آپ کہے تو ابھی چلا جاٶں۔شاہزیب مصنوعی مسکراہٹ اپنے چہرے پہ سجا کر کہا۔

نہیں کل سے اب اتنا بھی ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں۔سارہ بھی کہتی وہاں سے اٹهتی کمرے کی طرف گٸی۔

اُف اللہ۔شاہزیب نے ان کے جانے کے بعد صوفے پہ ٹیک لگا کر کہا۔پھر دوبارہ گیم کی طرف متوجہ ہںوا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

نادیہ کا فون آیا تھا دعوت کا کہہ رہی ہںے کے آجاٶ آپ بھی اور سکندر کا بھی کہہ رہی تھی کے ان کو بھی کہے گی پھر سب مل کر بہن بھاٸی اور گھر والے وقت گزارے گے اور بچے بھی آپس میں مل لینگے۔حيدر خان نے ہانم بیگم سے کہا۔

اچها یہ تو اچهی بات ہںے۔پھر کیا جواب دیا آپ نے ان کو۔ہانم بیگم ان کے پاس آکر بولی۔

یہی کہ جب آپ کہی گی تب پر ابھی دو دونوں تک نہیں۔مجھے اپنے کسی پرانے دوستوں کے ساتهہ باہر جانے کا پلین ہںے۔حيدر خان نے ان کو بتایا۔

اچها جو آپ کو بہتر لگے۔ہانم نے ان کی بات پہ رضامند ہںوکر کہا۔

بچے کہاں ہںے؟حيدر خان نے پوچها 

باہر لان میں کھیل رہںے۔ہانم بیگم نے سامنے گلاس وال سے لان کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

خوش ہںے بچے ہیں نے۔حيدر خان ان سے کہہ کر تصدیق کے لیے پوچها ۔

ہاں پری بس خوش ہںے شاہ میر نے وہاں انکار کیا تھا اب کجھ نہیں کہتا جب کہ آیان پوچهہ رہا تھا کہ کب واپس جاٸينگے۔ہانم نے سانس بھر کر کہا۔

اچها ابھی تو کجھ ٹائم یہی ہںے ہم تم اس کو سمجھانا۔حيدر خان بولے۔

ضرور ۔ہانم بولی۔تب ان کے پاس شاہ میر آکر بولا۔

موم ڈيڈ مجھے ماہ کے پاس جانا ہںے۔

ہاہاہاہاہاہاہا۔میر بیٹے تو جاٶ نہ کس نے روکا ہںے۔ہانم بیگم نے ہس کر کہا۔جب کی حيدر خان اپنے بیٹے کا انداز دیکهہ رہںے تھے جو بڑے سے مہرماہ کو ماہ بول رہا تھا۔

اوکے میں بس آپ کو بتانے آیا تھا۔شاہ میر کہہ کر جانے لگا تو حيدر خان بولے۔

میر گھر تو قریب ہںے پر تم جلدی آنا واپس باہر بارش ہںونے کے آثار ہںے۔آج صبح سے ہی بادل تھے عموماً سردیوں میں کراچی میں دسمبر سے پہلے یا بعد شروع ہںوجاتی ہیں بارشیں اور آج شاید ہںونے والی تھی۔

کوشش کروگا۔شاہ میر کہتا نکل گیا۔

رفتار دیکهے اِس کی کتنی تیز ہںے۔ہانم بیگم ہنس کر شاہ میر کے جلدی سے جانے پہ حيدر خان کو کہا۔

ہاں کل سے وہی دیکهہ رہا ہںوں۔حيدر خان نے بے دھیانی سے کہا۔

مطلب ۔ہانم بیگم کو ان کی بات سمجھ نہ آٸی تو کہا۔

کجھ نہیں بس ایسے ہی منہ سے نکل گیا۔حيدر خان نے ٹالنے والے لہجے میں کہا۔

ٹھیک۔ہانم بیگم نے سر ہلایا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر سکندر خان کے گھر داخل ہںوا تو لاٸونچ بلکل خالی تھا اور وہ پہلے لان بھی دیکها تھا وہاں بھی مہر ماہ نہ تھی۔شاہ میر اُپر جانے کے بجاۓ کچن میں جانے کا سوچا۔اور اُس طرف گیا جہاں کل مہرماہ کے ساتهہ گیا تھا۔

ارے میر بیٹا آپ ہںے کیا۔کچن میں کھڑی کلثوم بی نے اس کو دیکهہ کر مسکراکر کہا۔

جی گھر میں کوٸی نہیں ہںے کیا؟شاہ میر نے بتا کر سوال کیا۔

ہںے نہ وہ دراصل صاحب تو اس وقت آفس میں ہںوتے

ماہ کہا ہںے؟شاہ میر نے ان کی بات پور ہںونے سے پہلے مہرماہ کا پوچها ۔

وہ تو کالج گٸی ہںے۔دو بجے تک آجاتی ہںے پر شاید آج جلدی آجاۓ موسم خراب ہںے تو۔کلثوم بھی کو شاہ میر کے اس طرح پوچهنے پہ حيرت ہںوٸی پھر بتایا۔

اچها تو وہ گھر پہ نہیں۔شاہ میر کو مایوسی ہںوٸی۔

جی بس کجھ ٹائم پھر تو وہ آجاۓگی۔کلثوم بی نے اس کی مایوسی محسوس کرتے کہا۔

ہممم باقی سب کہاں ہںے ؟شاہ میر نے پوچهافراط

صاحب آفس ہںے بیگم اور زیب اپنے کمرے میں ہںے۔کلثوم بی نے بتایا۔

ان کا روم کہاں ہںے ؟شاہ میر نے نیا سوال کیا۔

آۓ میں آپ کو لے چلتی ہںوں۔کلثوم بی نے کہا۔

نہیں آپ شاید مصروف ہںے اپنے کام میں آپ بتائيں میں خود چلاجاٶں گا۔شاہ میر نے انکار کرتے کہا۔

اچها اُپر راٸٹ ساٸيڈ پہ آخر والا کمرہ صاحب اور بیگم کا ہںے۔اور لیفٹ ساٸيڈ پہ پہلا کمرہ مہرو بیٹی اور اس کے بعد والا کمرہ زیب بیٹے کا ہںے۔کلثوم بی نے اس کے انکار پہ سب کے کمرے بتائے ۔

شکریہ ۔شاہ میر ان سے کہتا سیڑھیو کی جانب بڑھا۔اور اس نے پہلے مہرماہ کے کمرے کی طرف گیا۔اس نے لوک پہ جیسے ہاتهہ رکھا دروازہ کھولتا چلاگیا۔وہ اندر داخل ہںواتو کمرے کو چاروں طرف دیکهنے لگا۔سامنے سنگل بیڈ تھا جب کی ایک طرف ڈریسنگ ٹيبل اور اس کے کجھ پاس واشروم کا دروازہ تھا اور دوسری ساٸيڈ پہ کتابوں کا شلف تھا اور کھڑکی کے پاس ایک عدد صوفہ تھا۔پھر وہ آہستہ سے چلتا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا جہاں ٹيبل پہ اس کے میک اپ اور دیگر ضرورت کی چیزیں تھی۔پر شاہ میر ان سب کو نظرانداز کرتا سامنے ہی ان پہ ایک فوٹو فریم کو اٹهایا جس میں مہرماہ اور شاہزیب کی تصویر تھی مہرماہ کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ تھی تو اس کے ساتهہ کھڑا شاہزیب اس کو دیکهہ کر زبان چِڑه رہا تھا۔شاہ میر مہرماہ کی تصویر دیکهتا اپنی جگہ پہ رکھتا شلف کی طرف آیا جہاں زیادہ تر ناولز کی کتابيں تھی جو شاہ میر کو سمجھ میں نہیں آٸی شاہ میر سب پہ ایک نظر ڈالتا باہر چلاگیا۔اور سارہ بیگم کے کمرے پہ نوک کیا۔

آجاٶ۔اندر سے آواز آٸی۔

میر تم آٶ اندر آٶ  کب آۓ مجھے تو پتا نہ چلا۔سارہ بیگم نے جب شاہ میر کو دیکها تو خوشدلی سے بولی۔

بس کجھ ہی منٹس ۔شاہ میر نے جواب دیا۔

اچها بیٹھو تم۔کجھ کھاٶ گے۔انہوں نے پوچها ۔

نہیں میں ناشتہ کرکے آیا تھا۔شاہ میر انکار کرتا بولا۔

زیب سے ملے ۔سارہ بیگم نے پوچها ۔

نہیں ۔شاہ میر نے کہا۔

اوہ میں اس کو بولاتی ہںوں اور ڈراٸیور سے کہوں کے مہرو کے کالج سے لاۓ۔سارہ بیگم اس کی بات سنتے بولی۔

میں بھی جاٶں گا ڈراٸیور کے ساتهہ ماہ کو لینے۔شاہ میر ان کی بات سنتا جھٹکے سے کھڑا ہںوتا بولا۔

ہاہاہاہاہا۔میر بیٹے آرام سے آۓ آپ بھی ڈراٸیور کے پاس لے چلتی ہںوں۔سارہ بیگم کو شاہ میر کی حرکت پہ ہنسی آٸی پھر وہ اس کو ساتهہ لیتی باہر چلی گٸی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

یار موسم کتنا خوبصورت ہںے کیوں نہ باہر گھومنے جاۓ۔وہ تینوں اس وقت کالج کے گراؤنڈ پہ بیٹھی تھی جب مونا ان سے کہنے لگی۔

سیدھا کہوں نہ کے آوارہ گردی کرنے کا دل کررہا ہںے۔مہرماہ نے ثانيہ کو آنکهہ مار کر مونا کو کہا۔

تم تو مہرو اچهے خاصے بندھے کہ موڈ کا ستیاناس کردیتی ہںوں۔مونا اس کی بات پہ تپ کے بولی۔

نوازش ہںے آپ کی پر میں اپنی اس خوبی سے واقف ہںوں۔مہرماہ نے اس کی بات کا اثر لیے بنا کہا۔

مہرو یار پلیز سنجيدہ ہںوجاٶ میں سچ میں باہر جانے کا بول رہی ہںوں۔مونا آخر اب بے بسی سے اس کو کہا۔

میں نہیں آٶں گی تم لوگوں کو مرضی ہںے۔ثانيہ مہرو سے پہلے ہی بولی۔

کیوں ۔مونا نے کہا۔

بارش تو بس ہںونے والی ہںے اور اس موسم میں باہر جانا بیوقوفی ہںے۔ثانيہ نے اپنے کتابوں کو اٹها کر کہا۔

ایک تو تم ہم سے ایک دو سال چھوٹی ہںو پر روح تم میں سو سال کی عورتوں کا کہا۔مونا اس کی بات پہ جل کر بولی۔جب کی مہرماہ نے جاندار قہقہقہ لگایا۔

ایسا نہیں ہںے۔بس ہمارے ماحول اور اسٹس میں فرق ہںے۔ثانيہ نے سادگی سے مسکرا کر کہا۔ثانيہ کا تعلق غریب گھرانے سے تھا پر اس کی ماں اپنے سلاٸی کے پٸسوں کو جمع کرکے اس کی فیس ادا کرتی اور اسکول کالج کے اخراجات ثانيہ کے باپ کا انتقال تب ہںوا تھا جب وہ بس تین سال کی تھی اور بھاٸی اس کا کوٸی تھا نہ نہیں بس ایک چھوٹی سی بہن تھی بس اس لیے وہ کہیں آتی جاتی نہیں تھی فضول میں مہرماہ اور مونا سے دوستی بھی اس کی کالج میں ہںوٸی تھی۔

کتنی دفعہ کہا ہںے کے ایسے نہ کہا کرو۔مہرماہ نے غصے سے کہا۔

نہیں میں تو بس۔ثانيہ منمناٸی۔

اچها چھوڑو اب بس اس بات کو باہر جانے کے لیے کوٸی اور دن ڈيساٸيڈ کرے گے۔مونا نے ان دونوں کو کہا۔تب ہی ایک لڑکی نے آکر مہرماہ سے کہا کے اس کو لینے آۓ تو وہ ان سے خدا حافظ کہتی باہر نکل گٸی۔مہرماہ گرلز کالج کے گیٹ سے باہر نکلی تو شاہ میر کو دیکها تو اس کو حيرت ہںوٸی اس کے پاس آکر اس نے کہا۔

شاہ تم یہاں کیسے ؟

ماہ میں آپ سے ملنے آیا تھا تو پتا چلا آپ کالج ہںو اور پھر چچی نے آپ کو لینے کے ڈراٸيور کو بھیج رہی تھی تو میں بھی ان کے ساتهہ آیا۔شاہ میر نے مسکراکر مہرماہ سے کہا۔جو کالج یونیفارم میں مسکراکر اس کی بات سن رہی تھی۔

اچها اب گاڑی مں تو بیٹھو۔مہرماہ نے اس کو گاڑی کی بیک سیٹ پہ بیٹھایا اور خود بھی بیٹھ گٸی تو ڈراٸيور نے گاڑی چلانی سٹارٹ کی۔

اچها تو کوٸی کام تھا تمہيں ۔مہرماہ نے شاہ میر سے پوچها جو اس کے ساتهہ جُڑ کے بیٹھا تھا۔

ہاں نہ آپ سے باتيں کرنی تھی اور آپ کی یاد آرہی تھی تو میں آپ کی طرف آگیا۔شاہ میر نے پُرجوش آواز میں اس سے کہا۔

ہاہاہاہاہا۔واقعی شاہ تمہیں یہ کام تھا اور اتنی جلدی یاد بھی آرہی تھی کل ہی ملے تھے۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

ہاں نہ مجھے تو بس رات گزرنے کا انتظار تھا کہ پھر میں آپ سے ملوں ۔شاہ میر نے اپنا سر اٹها کر مہرماہ کو دیکهہ کر کہا۔

تم ناں اس وقت اپنی باتوں سے کہیں سے بھی بارہ سال کے بچے نہیں لگ رہںے۔مہرماہ نے اس کو کہا۔

آپ کو  مجھے بچہ سمجھنا بھی نہیں چاہٸیے۔شاہ میر نے عجيب لہجے میں کہا۔

اچها اب تو مجھے تمہاری باتوں سے خوف آرہا ہںے۔مہرماہ نے اچانک اس کے اِس طرح کہنے پہ کہا پر اس کو شاہ مير کی بات پہ واقعی عجيب سا خوف محسوس ہںوا جیسے وہ یہ کہہ کر نظرانداز کرگٸی کے بچہ ہںے۔

گھر آگیا شاہ میر گاڑی کے رکنے پہ بولا۔

ہاں اندر چلو۔مہرماہ نے اپنا بیگ اٹها کر کہا تو شاہ میر اس کے ساتهہ اندر داخل ہںوا۔وہ سیدھا اس کو لاٸونج میں لاٸی جہاں پہ سب تھے سکندر خان بھی آج جلدی گھر آگٸے تھے ۔مہرماہ نے سب کو سلام کیا اور شاہ میر کو یہاں بیٹھنے کا کہتی خود چینج کرنے چلی گٸی۔

 میر اب تمہيں کیسا لگا رہا ہںے یہاں آکر پہلے نہیں آنا چاہتے تھے نہ تم۔سکندر خان نے شاہ میر سے پوچها ۔

بہت اچها لگ رہا ہںے۔شاہ میر مسکراتے ہںوۓ ان سے کہا۔

ارے واہ ہمارا میر مسکراتا بھی ہںے۔سکندر خان نے اس کو تنگ کرنے کی خاطر بولا۔

ہاں کیا میں نہیں ہنس سکتا۔شاہ میر نے ان سے کہا۔

بلکل ہنس سکتے ہںو بلکہ میں تو چاہتا ہںوں ایسے ہی مسکراتے رہا کرو۔سکندر خان نے اس کے سر پہ شفقت سے ہاتهہ رکھ کر کہا۔

ماہ نہیں آٸی یہاں ۔شاہ میر نے شاہزیب سے پوچها جو اُپر سے آرہا تھا۔

وہ محترمہ کچن میں گٸی ہںے۔شاہزیب بولا۔

ہاں کتنی سمجھدار ہںے میری بیٹی ضرور میری پسند کا ہی کجھ بنا رہی ہںوگی۔سکندر خان نے فخریہ انداز میں کہا۔

میں بھی ان کے پاس جاتا ہںوں۔شاہ میر اٹهتا ان سے کہنے لگا۔

میر تم وہاں بور ہںوگے نہ تو بس یہی انتظار کرو مہرو کو آنا تو یہی ہںے۔سارہ بیگم نے اس کو اٹهتے دیکهہ کر بولی۔

میں جاتا ہںوں نہ وہاں اگر بور ہںوا تو آجاٶ گا واپس ۔شاہ میر ان کو بولتا چلاگیا۔جب کی سب مسکرادیٸے۔

آپ کیا کرر ہی ہںے۔شاہ میر آتے ہی مہرماہ سے پوچهنے لگا۔جو کبٹ سے کجھ نکال رہی تھی۔

شاہ تم یہاں کیوں آۓ میں تو وہاں آجاتی ۔مہرماہ نے اس کو دیکهہ کر کہا۔

آپ کو پسند نہیں آیا میرا یہاں آپ کے پاس آنا۔شاہ میر مہرماہ کو دیکهہ کر بولا۔

نہیں میں ایسا تو نہیں کہہ رہی وہ تو بس ایسے سب باہر تھے نہ تو یہاں تم بور نہ ہںوجاٶ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

نہیں ہںوگا میں بور اور آپ بتائيں یہاں کیا کررہی ہںے؟۔شاہ میر نے سوال کیا۔ 

میں تو پکوڑے بنانے آٸی ہںوں اس موسم میں پکوڑے اور چاۓ سے لوگ انجواۓ کرتے ہںے۔مہرماہ نے اس کو بتایا۔

پکوڑے مطلب ؟شاہ میر نے ناسمجھی سے پوچها 

پکوڑے کیا تم نے کبهی نہیں کھاۓ۔مہرماہ نے اُلٹا اس سے سوال کیا۔

میں نے تو نام ہی پہلی دفعہ سنا ہںے۔شاہ میر کندھے اُچکا کر کہا۔

اچها تو اب ميں بنا رہی ہںوں نہ تو تم کھانا دیکهنا کیسے پسند آتے ہیں تمہيں ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

اوکے۔شاہ میر مسکرا کر کہا۔

اچها شاہ تم یہاں شیف پہ بیٹھو کھڑے کھڑے تھک جاٶگے۔مہرماہ نے شاہ میر کو اٹها کر شیف پہ بیٹھایا اور کہا۔پھر اپنے کام پہ دھیان دیا۔

مجھے بھوک لگی ہںے۔شاہ میر معصوم شکل بناتا مہرماہ سے کہنے لگا۔

اچها پہلے بتاتے نہ اور سوری مجھے بھی خیال نہ آیا تم سے پوچهنے کا۔مہرماہ نے سر پہ ہاتهہ مار کر شرمندگی سے کہا۔

نہیں سوری نہ بولے۔شاہ میر بولا

اچها یہ پکڑو۔مہرماہ نے اس کو چپس کا باٶل دیا۔

آپ کھاٸینگی؟ شاہ میر چپس منہ میں ڈالتا اس سے پوچهنے لگا۔

نہیں تم کھاٶ ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

یہ کھاۓ۔مہرماہ جب جہاں شاہ میر بیٹھا تھا وہاں سے چمچہ اٹهانے لگی تو شاہ میر نے چپس اس کے منہ کے قریب کرتے کہا۔

شکریہ ۔مہرماہ اس کے ہاتهہ کھاتی مسکراکر بولی۔

کجھ دیر بعد جب پکوڑے تیار ہںوگٸے تو مہرماہ نے ٹرے سیٹ کی اور شاہ میر کو کہا۔

ان میں سے ایک لے کر کھاکے بتاٶ کہ کیسے بنے ہںے۔مہرماہ کے کہنے پہ وہ پہلے ان کو دیکهتا رہا پھر اپنے  منہ میں ڈالا تو اس کو پسند آۓ اور کہا۔

بہت ٹيسٹي ہیں ۔

ہیں نہ مجھے پتا تھا تمہيں پسند آۓ گے اچها آٶ باہر سب مل کے کھاتے ہںے۔مہرماہ نے خوش ہںوکر اس سے بولی تو وہ بھی جمپ لگاتا شیف سے اٹها ۔

تیار ہںے آپ سب کی خدمت میں گرما گرم پکوڑے مہرماہ لاٸونچ میں آکر ٹيبل پہ پکوڑے رکھتی سب سے کہنے لگی۔

باہر تو بارش شروع بھی ہںوگٸی اور تم اب لارہی ہںو۔شاہزیب ٹرے کے قریب آکر اس سے کہا۔

کیا بارش ہںوگٸی شروع اور مجھے پتا بھی نہیں لگا۔مہرماہ نے حيرت سے پوچها 

جی بلکل۔شاہزیب پکوڑے کھاتا مزے سے اس کو بتایا۔

اچها صحيح ۔مہرماہ کہتی پليٹ اٹهاتی اس میں شاہ میر لیے الگ سے نکالنے لگی۔پھر اس کو دیٸے۔

آپ بھی  کھاۓ۔شاہ میر نے کہا۔

ہاں کیوں نہیں پر یہ تمہارے ہںے تم کھاٶ  میں پھر وہاں سے لیتی ہںوں۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

نہیں آپ یہی سے کھاۓ۔شاہ میر ضدی لہجے میں بولا۔

اچها جی یہی سے کھاتی ہںوں۔مہرماہ نے ہار ماننے والے لہجے میں کہا۔

میر آج تم یہی رکنا حيدر کو میں نے کہہ دیا ہںے۔سکندر خان نے شاہ میر سے کہا۔

اچها ۔شاہ میر نے ایک لفظی جواب دیا۔

تمہيں ہانم کی یاد تو نہیں آۓ گی نہ ۔سارہ بیگم نے فکرمند لہجے میں پوچها 

نہیں میں ویسے بھی وہاں روم ميں آیان کے ساتهہ ہںوتا تھا اور جب سے یہاں آۓ ہںے تب بھی۔شاہ میر نے ان کو کہا۔

اچها آپ شاہزیب کے کمرے میں رہٸیے گا ۔سارہ بیگم نے مسکراکر کہا۔تو شاہ میر سرہلایا۔

آٶ میر میں تمہيں اندر لے چلوں بہت رہ لیا اِس چڑیل کے ساتهہ۔ شاہزیب نے شاہ میر کو کہا اور آخر میں مہرماہ کو سنانے کے لیے کہا۔

تم خود کیا ہںو جِن کہیں کے اور میں بڑی ہںوں تم سے۔مہرماہ نے غصے سے شاہزیب سے کہا۔

ایک تو تمہارا یہ پرانا ڈاٸيلوگ کان پک گٸے ہںے یہ سننتے سننتے اور یقين کرو اب تو رات میں خواب میں تم مجھے یہ کہتی نظر آتی ہںو۔شاہزیب نے بیزاری سے کہا۔

تمہيں تو بعد میں دیکهہ لوں گی۔مہرماہ اس کو دھمکی دیتی نکل گٸی۔ 

ماہ غصہ بھی کرتی ہںے ؟شاہ میر نے مہرماہ کو شاہزیب سے لڑتا دیکها تو اس کے جاتے ہی شاہزیب سے پوچها ۔

ایسا ویسا پوری لڑاکا ہںے۔تم دور رہنا اس سے۔شاہزیب نے اس کو ڈرایا۔

میں کیوں دور رہںوں اس سے آپ نے تو انہيں تنگ کیا اس لیے آپ سے ایسے کہا ورنہ وہ تو بہت اچهی ہںے۔شاہ میر نے شاہزیب کی بات پہ کہا۔

تمہيں نہیں پتا وہ سب کے لیے اچهی پر لیے نہیں تو میں تو ایسے ہی کہوں گا ناں۔شاہزیب اپنی بات ڈِٹا رہا۔

تو آپ ان سے اچهے سے رہا کرے تو وہ بھی رہے گی۔شاہ میر نے مہرماہ کو فل سپورٹ کیا۔

ویسے تمہيں میری طرف ہںونا چاہٸیے تھا اور تم مہرو کی مہرو کی طرف ہںورہںے ہںو۔شاہزیب نے مصنوعی غصے سے کہا۔

ہاں کیوں کی وہ میری دوست ہںے تو میں ہمیشہ ان کی طرف ہںوگا اور ضروری بات ماہ کبهی غلط نہیں ہںوسکتی۔شاہ میر پُریقین لہجے میں بولا۔

توبہ ہںے تم تو سنجيدہ ہی ہںوگٸے۔شاہزیب پہلے تو اس کی بات پہ شاک میں آیا کہ عمر دیکهو اور باتيں سنو جناب کی پر خود پہ کنٹرول کرتا بس یہی کہا۔

نہیں میں نے ویسے ہی بولا۔شاہ میر کندھے اُچکاتا بولا۔

اچها کمرے میں تو چلو۔شاہزیب اُس لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔وہ کمرے میں آۓ تو شاہزیب اس سے بولا۔

ایک گیم ہںوجاٸ ؟

ضرور ۔شاہ میر بولا۔

پوچهو گے نہیں کونسی۔شاہزیب تعجب سے پوچها

نہیں جو بھی ہںو میں کھیلوں گا اور بس کھیلوں گا ہی نہیں آپ سے جیتوں گا۔شاہ میر نے مغرونہ لہجے میں کہا۔

میر تمہارا کانفڈنٹ پسند آیا پر میں اس گیم کا پورانہ کھیلاڑی ہںوں۔اور کبهی نہیں ہارا اِنفکٹ کے مہرو نے بہت کوشش بھی کی ہںے پر نہیں میں اپنے دوستوں سے بھی نہیں  ہارا اور تم تو ابھی بچے ہںو اس لیے پہلے سے  بڑے بول نہ بولوں۔شاہزیب نے جیسے اس کا جوش ٹھنڈا کرنا چاہا۔

ماہ نے بس کوشش کی نہ اس لیے آپ کو ہارا ناں پاٸی اگر ارادہ کرتی تو آپ کو ہارا ڈالتی ۔شاہ میر نے جیسے اس کا بس مہرماہ والا جملا سنا تھا۔

ویسے میر ہمیں بس گیم شروع کرنی چاہٸیے۔ایسے باتيں نہیں کیوں کی اتنا اندازہ میں لگا چُکا ہںوں کہ گھر والے  تو خوامخوہ ہی پریشان ہںوتے ہںے کے تم کم بولتے ہںو ورنہ اگر تم ان کے کہے پہ نکلو پڑو تو میں یقين سے کہہ سکتا ہںوں کہ ابھی تو بس پریشان ہںے۔تمہاری باتيں سننے کے بعد تو ڈپریشن کا شکار ہںوجانا ہںے۔شاہزیب کو شاہ میر کی باتوں سے اپنی بی عزتی محسوس ہںورہی تھی اس لیے منہ بگاڑ کے بولا۔

میں کم نہیں بولتا بس فضول بولنے سے پرہيز کرتا ہںوں۔شاہ میر نے اس کو تپتے دیکھ کر اور تپایا۔

توبہ ہںے میر تم پہ تو مہرو کا اثر پڑا ہںے ورنہ پہلے دن جب میں تم سے ملا تھا تب ایسے تو نہ تھے۔شاہزیب نے تیز آواز میں کہا اس کو آج شاہ میر عجيب لگ رہا تھا۔

آپ کہہ سکتے ہںے۔شاہ میر نے اس کی بات پہ اتفاق کیا۔

نہ ہںو اس کے جیسا سچی میں پچهتاٶ گے بعد میں کہ کاش ميں پہلے ہی  مہرو سے دور رہتا ۔شاہزیب نے کہا تو ایسے ہی تھا پر اُس بات سے انجان کے بات میں واقعی شاہ میر کو پچهتانا تھا۔

آپ ماہ کے بارے میں ایسا نہیں بولے اور آۓ گیم شروع کرتے ہںے۔شاہ میر نے کہا۔

ہاں آٶ۔شاہزیب فورن بولا۔

تمہارے پاس فون تو نہیں ہںوگا نہ پھر ۔شاہزیب نے تشویش لہجے میں کہا جیسے بہت انہونی بات ہںو۔

گھر پہ ہںے۔لے آٶ ۔شاہ میر نے فورن حل بتایا۔

اوہںو میر باہر اتنی بارش ہںے اور تم گھر جانے کی بات کر رہںے ہںو۔شاہزیب نے اس کی عقل پہ ماتم کرتے کہا۔

اپس میں تو بھول گیا تھا ۔شاہ میر سر پہ اپنا چھوٹا ہاتهہ مار کر بولا۔

ویسے ساری باتيں ایک طرف ہںوتم بہت کیوٹ ۔شاہزیب نے اس کے ایسے کرنے پہ بولا۔

تو کیا ایک فون پہ گیم نہیں ہںوسکتی؟ شاہ میر اس کی بات نظرانداز کرتا بولا۔

نہیں نہ پارٹنر تو نہیں نہ ہم اور میرا آۓ پیڈ جو ہںے  اپنے دوست کے پاس ہںے بس ایک موبائل ہںے۔شاہزیب نے مایوس لہجے میں کہا۔

اچها پھر کبهی کھیلے گے۔شاہ میر عام لہجے میں بولا۔

نہیں ایک حل ہںے۔شاہزیب نے اچانک سے کہا۔

اور وہ کیا؟شاہ میر بھی اس کی طرف متوجہ ہںوکر بولا

مہرو مرجاۓ گی پر مجھے اپنا فون نہیں دۓ گی پر اگر تم اس سے مانگو گے تو وہ خوشدلی سے دے گی۔شاہزیب نے اس کو کہا۔

آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ کہے۔شاہ میر نے اصل بات جاننا چاہی۔

تم ابھی مہرو کے کمرے میں جاٶ اور اس سے کجھ دیر کے لیے موبائل دینے کا کہو ۔شاہزیب نے اس کو بتایا۔

اچها میں جاتا ہںوں۔شاہ میر فورن اٹهتا بولا۔

اگر نہ دے ناں تو اسرار ضرور کرنا۔شاہزیب نے اس کو سمجھایا۔

نہیں وہ میرے ایک دفعہ ہی کہنے پہ دے گی۔شاہ میر کے لہجے میں یقين تھا۔

اچها ٹھیک ہںے جاٶ۔شاہزیب نے کہا۔

شاہ میر مہرماہ کے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔پھر اس نے دروازہ نوک کیا۔مہرماہ کے اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہںوا۔تو دیکها مہرماہ بیڈ پہ چاروں طرف کتابوں کے بیچ تھی شاید وہ اپنے کالج کا کام کررہی تھی۔

شاہ  تم آٶ بیٹھو ۔مہرماہ نے کجھ کاغذ ہٹا کر اس کو بیٹھنے کا کہا۔تو وہ بیٹھ گیا۔

مجھے آپ کا موبائل چاہٸیے تھا کیا آپ دے گی ؟شاہ میر نے اس کو بتا کر پھر پوچها 

ہاں کیوں نہیں یہ لوں۔مہرماہ نے اس کی بات سنتے ہی  ساٸیڈ ٹيبل  پہ پڑا موبائل اس اٹها کر اس کو تھمایا۔

شکریہ ۔شاہ میر مسکراکر بولا۔اور موبائل کی اسکرین آن کی پاسورڈ منہ چڑرہا تھا۔تو شاہ میر نے پوچها 

پاسورڈ کیا ہںے آپ کی فون کا ؟

Zaib

مہرماہ نے اپنے کتاب پہ جھکے ہی اس کو اسپیل سے زیب بتایا۔

ایک بات پوچهو ؟ شاہ میر موبائل اَن لوک کرتا مہرماہ سے کہا۔

ہممم پوچهو۔مہرماہ نے رجسٹر پہ کجھ لکھتے اس کو اجازت دی۔

پاسورڈ یا تو انسان اپنے نام کا لگاتا ہںے اور یا تو وہ جس سے پیار کرتا ہںے اس کا ہںے ناں۔شاہ میر نے کہہ کر اپنی بات کی تصدیق چاہی۔

بلکل ایسا ہی ہںے۔مہرماہ نے مصروف لہجے میں جواب دیا۔

اچها تو میں آپ کا دوست ہںوں ناں۔شاہ میر پھر بولا۔

بلکل۔مہرماہ نے ہلکی مسکراہٹ سے اس کو دیکهہ کر کہا

تو ایک اگر ایک بات کہوں کرنے کو تو آپ کو برا تو نہیں لگے گا ناں۔شاہ میر نے آہستہ آہستہ بولا۔

مجھے تمہاری بات کا بُرا نہیں لگے گا تم بات کہو۔مہرماہ نے رجسٹر بند کرکے اس کی طرف متوجہ ہںوکر بولی۔

تو آپ اپنی موبائل پہ میرے نام کا پاسورڈ لگاۓ۔شاہ میر نے موبائل اس کی طرف بڑھاکر انوکھی فرماٸش کی۔

اوکے۔مہرماہ نے اس سے موبائل لے کر مسکراکر کہا۔

یہ لوں اب اس کا پاسورڈ Shah ہںے۔مہرماہ نے موبائل واپس دے کر اس کو کہا۔جس پہ شاہ میر کا چہرہ چمک اٹها تھا اور پھر وہ موبائل لے کر مہرماہ کے گال پہ بوسہ دے کر بھاگ کر کمرے سے نکل گیا۔جب کی مہرماہ حيران سی اس کی کارواٸی دیکهی پھر مسکراکر سرجھٹکتی اپنے کام میں لگ گٸ۔

اتنی دیر کیوں لگاٸی۔وہ جیسے کمرے میں آیا شاہزیب اس سے بولا۔

پتا نہیں لگا۔شاہ میر نے کہا۔

اچها موبائل دیا ناں مہرو نے اب آٶ گیم شروع کرے۔شاہزیب نے کہا۔پھر وہ بیڈ  کی ایک ساٸيڈ پہ شاہزیب اور دوسری پہ شاہ میر دونوں ایک دوسرے سے منہ موڑے گیم کھیلنا شروع کیا۔شاہزیب نے پورا دھیان اپنے اینمی مطلب شاہ میر کے سپاہیوں پہ اٹیک کرنے میں لگایا تھا اور وہ جلدی جلدی شاہ میر پہ اٹیک بھی کیا تھا جس پہ وہ کامیاب بھی رہا تھا جب کی شاہ میر بہت آرام سے کھیل رہا تھا اور اس نے ابھی گیم میں کوٸی بھی ایک وار شاہزیب پہ نہیں کیا تھا۔جس سے شاہزیب نے یہی اندازہ لگایا کہ شاہ میر کو گیم کھیلنا نہیں آتا۔ایک اور شاہزیب نے اس کے ساتهيوں پہ اٹیک کرتے پُرجوش آواز میں شاہ میر سے بولا۔

میر کیسا فیل ہںورہا ہںے۔گیم ہارتے ہںوۓ۔اس کی بات پہ شاہ میر نے اپنی زبان دانتوں تلے دباٸی پر کہا کجھ نہیں۔ان کو گیم کھیلے تقریباً آده گھنٹہ ہںوچکا تھا پر اِس ٹائم میں شاہ میر نے ابھی تک وار نہیں کیا تھا پر شاہزیب کا اس پہ دھیان نہيں تھا وہ بس اپنی جیت کے قریب ہںونے کے نشے میں تھا۔شاہ میر نے اب کی گیم پہ غور توجہ کے بعد اس کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آٸی شاید اس کو وہ موقعہ مل گیا تھا جس کے لیے وہ خاموش تھا۔شاہ میر نے اب گیم میں پہلا وار کیا تھا جو کی آخری وار بھی ثابت ہںوا اور پوری گیم کی بازی پلٹ گٸ اور جیت شاہ میر کے مقدر میں بنی اور اس نے آرام سے مہرماہ کا موبائل ساٸيڈ ٹيبل پہ رکھا اور سیدھا ہںوکر شاہزیب کی طرف دیکها جس کا شاک میں منہ کھلا ہںوا تھا۔شاہزیب جو خوشی خوشی شاہ میر پہ در پہ وار کیٸے جارہا تھا۔اس کے اچانک جوابی وار پہ شاہزیب کے پورے ساتهی اور وہ خود ڈھيڑ ہںوگیا۔شاہ میر نے وار ہی کجھ ایسے اور اس وقت کیا تھا جب سب ساتهہ اور ایک ہی جگہ پہ تھے۔شاہزیب کا منہ شاک کی کیفیت میں کھلا کا کھلا رہ  گیا اور موبائل اس کے ہاتهہ سے گِر کر بيڈ پہ پڑا۔کجھ دیر بعد شاہزیب نے شاہ کو دیکهہ کر کہا۔

یہ یہ تم نے کیسے کیا مطلب کے ایک ہی دفعہ میں تم نے ایسا کیسے ممکن ہںوسکتا ہںے میں تو اتنے ٹائم سے کھیلا ہںے اور میرے ہاتهہ تو کوٸی ایسا موقعہ نہ آیا سچ بتانا میر تم نے اتنی سی عمر میں مطلب شاہزیب کو سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے اس لیے چپ ہںوگیا اور شاہ میر کو دیکها جو جیسے جیسے اس کی بات سن رہا تھا ویسے ہی اس کی مسکراہٹ گہری ہںوتی جارہی تھی۔

ایسا بلکل ہںوسکتا ہںے اور آپ سے کس نے کہہ دیا کے گیم اسی انسان کو آسکتی ہںے جو عمر میں بڑا ہںو اور جیت بھی وہی سکتا ہںے۔انسان تو گیم اپنی عقل سے جیتتا ہںے۔میں نے  لنڈن میں ایک پروفيسر سے کہتے سنا تھا کے لاٸف ہںو یا گیم اپنے دشمن پہ تب وار کرو جب وہ اپنی جیت کہ بہت نزدیک ہںو اس طرح اس کو اپنی ہار اور آپ کو اپنی جیت بہت شدت سے محسوس ہںوگی۔اور میں نے وہ بات اپنے دماغ میں بیٹھالی تھی پر یہ نہیں سوچا تھا کہ کبهی کرنے کا موقعہ بھی ملے گا۔شاہ میر نے مسکراکر شاہزیب سے کہا جو ابھی تک شاک میں تھا اس کو یہ سب خواب لگ رہا تھا۔

پر تم نے کیا کیسے۔شاہزیب کی سوٸی ایک ہی جگہ پہ اٹکی ہںوٸی تھی۔

ویل یہ تو میں آپ کو نہیں بتاسکتا آپ اس گیم کے بہت پُرانے کھیلاری ہںے آپ کو بہتر پتا ہںوگا۔شاہ میر نے اس کو اس کی بات لوٹا کر کہا۔

تم نے تو یہ کبهی نہیں کھیلی اور میں اتنے اچهے سے اور سب کررہا تھا۔پھر بھی تم کیسے

رات بہت ہںوگٸ ہںے کزن برادر سوجانا چاہٸیے۔

Good night, and have a sweet dreams,

اور میں آپ سے بلکل یہ سوال نہیں کروگا جو آپ نے کیا تھا کے ہار کے کیسا فیل ہںورہا ہںے کیوں کی آپ کے چہرے پہ سب ظاہر ہںے۔شاہ میر اس کا سوال نظرانداز کرتا اپنی بات کہتا کمبل اپنے اپر اوڑھے لیٹ گیا۔جب کی شاہزیب ابھی بھی شاک میں تھا۔جس کو وہ بچہ سمجھ رہا تھا اس بچے نے اس کو ایک ہی جھٹکے میں ہرایا تھا اور اپنے لفظوں سے الگ اور اس کو کم عقل بھی کہہ گیا تھا۔شاہزیب کو تو بس اب یہی لگ رہ تھا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ صبح اٹهی تو اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی کے پردے ہٹاۓ اور باہر دیکها جہاں کل رات بارش ہںونے کی وجہ سے موسم خوبصورت اور سردیوں میں طبيعت پہ خوشگوار اثر کرنے والا تھا۔ایک تیز ہںوانکا جُھوکا اس کے چہرے پہ پڑا تو اس نے کپکنپاتے ہںوۓ وہاں سے ہٹ گٸ۔اور اپنا موبائل تلاشنے لگی تو اس کو یاد آیا کہ کل رات شاہ میر لے گیا تھا۔پھر وہ فریش ہںونے واشروم کی طرف بڑھی اور باہر آٸی تو اس نے لیمن کلر کا فراق پہنا تھا جو گھٹنو تک تھا اور لیمن ہی تنگ پاجامہ تھا یہ اس کلر اس کی سفید رنگت پہ بہت جچ رہا تھا۔اس نے ڈریسنگ ٹيبل کے پاس آکر بالوں کی چوٹی بناٸی اور اس کے آگے ڈالے باہر آٸی۔جہاں سب ناشتہ کررہںے تھے۔

اسلام وعلیکم سب کو ۔مہرماہ اپنے لیے کرسی گھسیٹتی ان کے ساتهہ بیٹھتے کہا۔جس کا جواب سب نے دیا تھا سواۓ شاہزیب کے جو ابھی تک رات کے زیر اثر تھا اور ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آیا تھا۔شاہ میر بھی ان کے ساتهہ تھا۔

تمہيں کیا ہںوا ہںے آج جو دکهی آتما بن کے بیٹھے ہںو۔مہرماہ نے شاہزیب کو ایک جگہ اسٹل دیکھا تو کہا۔

مجھ سے ابھی تم بات نہ کرو۔شاہزیب نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔

زیب کیا بدتمیزی ہںے مہرو بڑی تم سے یہ کس طرح سے بات کررہںے ہںو اس سے ۔سکندر خان نے شاہزیب کو گھڑکا جس کی آواز کجھ تیز تھی مہرماہ تک حیران سی اس کا انداز دیکهہ رہی تھی جس نے پہلی دفعہ اس لہجے میں بات کی تھی۔ورنہ مزاق تنگ کرنا شرارت کرنا ایک طرف پر اس نے کبهی ایسے بات نہ کی تھی۔سارہ بیگم پریشان ہںوگٸ تھی۔جب کے مہرماہ سے اس طرح بات کرنے پہ شاہ میر اس کو گھور کے دیکهہ رہا تھا۔جیسے سالم نگلنے کا ارادہ ہںو۔شاہزیب کجھ شرمندہ ہںوا۔اور سب کی طرف دیکھ کر بولا۔

سوری مہرو اور بابا جان بس ایسے ہی دوبارہ ایسے نہیں ہںوگا۔

پر بات کیا ہںے جو تم اتنا چپ ہںو۔سارہ بیگم کے لہجے میں تشویش تھی۔

وہ دراصل چچی کل میں نے اور زیب بھاٸی نے pubg گیم کھیلا تھا اور اس میں یہ مجھ سے ہار گٸے تو اس لیے بس ان کو غصہ ہںے۔ان کی بات کا جواب دیا شاہ میر نے اپنی مسکراہٹ دباکر دیا۔ورنہ اس کا دل قہقہقہ لگانے کا کر رہا تھا اس کو یقين نہیں آرہا تھا کہ شاہزیب نے ایک گیم کے ہارنے کا اتنا اثر لیا پر وہ کیا جانے اس کو دکهہ تو سب سے بڑا یہ تھا کہ وہ اپنے سے چھوٹے کزن سے ہارگیا تھا۔

ہاہاہاہاہاہاہاہا۔شاہ سیرٸسلی تم نے زیب کو ہرایا سچ میں دل خوش کردیا میں زیب کو دو سال سے اٹيک کر رہی تھی پر کبهی جیت نہ پاٸی اور تم نے ایک ہی دن میں ہاہاہاہاہاہا۔میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنا اچها محسوس ہںورہا ہںے۔شاہ میر بات سنتے ہی مہرماہ نے زور سے ہنس کر کہا اس کو دیکھہ کر کہا مہرماہ کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی پر سارہ بیگم اور سکندر خان اپنا سرنفعی میں ہلاتے ناشتہ کرنے لگے شاہزیب اٹهہ کر چلاگیا جب کی شاہ میر کو اپنی جیت مہرماہ کو ہنس کر دیکهتے ہںوۓ اب محسوس ہںورہی تھی۔

ویسے کیا کیسے؟مہرماہ نے رازدانہ انداز میں اس سے پوچها ۔

مہرو میر کو ناشتہ کرنے دو کل بھی اس نے کجھ نہیں کھایا تھا۔سارہ بیگم نے اس کو ٹوکا۔

جی امی جان۔مہرماہ نے تابعداری سے کہا۔

میں نے ان کو ایک ہی وار میں ہرادیا تھا اور ان کو پتا بھی نہیں چلا۔شاہ میر مہرماہ کو خاموش دیکهتا کان کے پاس آکر بولا۔

سچ میں ؟ مہرماہ نے حيرت سے پوچها 

جی بلکل۔شاہ میر نے گویا  ناک سے مکھی اُراٸی۔

تم تو پھر بہت ہی عقلمند ہںو۔مہرماہ نے اس کو دیکهہ کر کہا۔

اچها میں اب اپنے گھر جاتا ہںوں۔شاہ میر اٹهتا ان سے کہنے لگا۔

یہ بھی تمہارا اپنا ہی گھر ہںے۔سکندر خان نے مسکراکر بولے۔

جی پر اب میں چلتا ہںوں۔شاہ میر نے کہا۔

اچها پر خیال سے جانا۔گھر قریب ہںے پر بارش کی وجہ سے ریت اور روڈ دونوں ہی گیلے ہںوگے تو گِر ناجانا ۔سارہ بیگم نے شاہ میر کو تنگ کرنے کو بولی۔تو مسکرادیا۔پھر مہرماہ نے اس سے کہا۔

رکو میں ساتهہ چلتی ہںوں تمہارے ۔

آج آپ کالج نہیں جاۓ گی ؟شاہ میر نے چلتے اس سے سوال کیا۔

نہیں آج نہیں جانا مجھے۔مہرماہ نے نرمی سے کہا۔

اچها۔ آپ کا موبائل میں نے چچی کو دیا تھا آپ ان سے لے لینا ۔شاہ میر کہہ کر خاموش ہںوا۔

ہاں۔پر کیا کل اس لیے موبائل لیا تھا مجھ سے۔مہرماہ نے مسکراکر پوچها ۔

جی میرے پاس نہیں تھا تو زیب بھاٸی نے کہا آپ سے لوں۔شاہ میر نے بتایا۔

زیب کو بھاٸی اور میں اس سے بھی بڑی ہںوں تو مجھے ماہ۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

ميں آپ کو ماہ علاوہ نہیں پکاروں گا۔اور نہ کسی دوسرے کو ماہ کہنا کا موقعہ۔شاہ میر نے ضد لہجے میں کہا۔

اچها اچها اب تمہارا گھر آگیا۔خدا حافظ ۔مہرماہ نے گیٹ کے قریب اس کو چھوڑ کر کہا۔تو وہ بھی اللہ حافظ کہتا اپنا گھر کے اندر چلاگیا اور مہرماہ نے واپسی کے لیے اپنے قدم بڑھاۓ۔

مہرو بات سننا۔شاہزیب اس کے پاس آتے بولا۔

تم مجھے اپنی شکل بھی نہ دیکهاٶ۔مہرماہ نے غصے سے اس سے کہا۔

یار کیا ہںوگیا ہںے دوبارہ نہيں ہںوگا نہ کہا تو ہںے۔شاہزیب نے اس کی بات پہ منت بھرے لہجے میں کہا۔

اور میں نے بھی کہا نہ کہ مجھے تم سے بات نہیں کرنی۔مہرماہ نے ویسے ہی ناراضگی سے کہا۔

مان جاٶ پلیز پھر تم جو کہو گی میں کروگا۔شاہزیب نے ہاتهہ جوڑ کر کہا۔

اچها معاف کیا۔مہرماہ نے احسان کرنے والے انداز میں کہا۔

شکر اللہ کا۔شاہزیب نے صوفے پہ ڈھیر ہںوکے بیٹھتا کہا جیسے ناجانے کونسا معرکہ مار کر آیا ہںو۔

ویسے شاہ نے تم سے کیسا گیم کھیلا۔مہرماہ نے تجسس سے پوچها ۔

اب تم جلے پہ نمک تو نہ چھڑکوں ۔شاہزیب نے مسکین شکل بنا کر بولا۔

زیب بتاٶ نہ شاہ کہہ رہا تھا کہ اس نے ایک ہی دفعے میں تمہيں ہرایا ۔مہرماہ نے اپنی بات پہ زور دے کر کہا۔

ہاں وہ 1v4 ۔شاہزیب نے ادھوری بات کی۔

ہاہاہاہاہا۔مہرماہ پھر سے ہنسنے لگی۔

مہرو چپ ہںوجاٶ۔ شاہزیب نے اس کے ہنسنے پہ چڑ کے بولا۔

اچها اچها نہیں ہنستی میں۔مہرماہ نے سنجيدہ ہںوکر کہا۔

تم یقين نہیں کروگی وہ کھیل ہی اتنا آہستہ رہا تھا کہ مجھے لگا وہ اس گیم میں اناڑی ہںے۔پر جب میں نے اس پہ کٸ وار کیے اور اس کے ساتهی مار بھی دیٸے۔تب بھی اس نے کوٸی وار نہیں کیا تو مجھے یقين ہںوگیا کہ میں جیتنے والا ہںوں تو اس نے اٹيک کیا وہ بھی ایسا کہ نہ پوچهو۔شاہزیب نے آخر میں گہری سانس لے کے کہا۔

ہممم شاہ ویسے کلیور ہںے تمہيں اس کو ہلکے میں نہیں لینا چاہٸیے تھا۔تمہيں ایک بات بتادو کھیل ہںو یا زندگی  دشمن کو کبهی کمزور سمجھ کر وار نہیں کرنا چاہٸیے۔اور دشمن کو خود سے کمزور سمجھنا ہی بہت بیوقوفوں والی بات ہںے۔مہرماہ نے آرام سے اس کو سمجھایا۔اس کی بات پہ شاہزیب خاموش رہا اس کو شاہ میر کی بات یاد آٸی تھی پھر اس نے مہرماہ کو دیکها دونوں نے ہی ایک بات الگ الگ انداز میں اس سے کہی تھی وہ جو کل شاہ میر کی بات کا کل مطلب نہ سمجھا تھا وہ آج مہرماہ کی بات نے سمجھادیا تھا۔

ویسے امی  جان ویسے ہی پریشان ہںوگٸ تھی۔کہ کل رات شاہ نے کجھ نہیں کھایا۔مہرماہ نے شاہزیب کو خاموش دیکها تو ٹيری نظر سے اس سے کہا۔

ہاں کل اس نے نہیں کھایا تھا کھانا گیم کے بعد سوگیا تھا اور ہںے بھی بارہ سال کا امی کا پریشان ہںونا بنتا ہںے۔شاہزیب نے مہرماہ کی بات کا مطلب جانے بنا کہا۔

ان کو پہلے پتا نہیں تھا نہ کہ ۔مہرماہ اتنا کہہ کر خاموش ہںوٸی۔

کیا ہںوا پوری کرو اپنی بات ۔شاہزیب اسے چپ دیکهتا بولا۔

کہ شاہ نے رات کو چکن ڈنر کیا تھا۔مہرماہ کہتے ہی وہاں سے بھاگ گٸی۔جب کی شاہزیب اس کی بات کا مطلب سمجھتا دانت پیس کے رہ گیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

پری آپی اب بس بھی کرے میرے کان پک گٸے ہںے۔آپ کی باتيں سنتے سنتے۔آیان بیچارگی سے پری کو کہا جو ناجانے اس کو کونسے قصے سنا رہی تھی۔

آیان تمہيں میری باتيں اتنی بُری لگ رہی ہںے۔پری نے اس کو گھور کر کہا۔

ہاں اور نہیں تو کیا۔آیان فورن بولا۔

اچها پھر مجھ سے بات مت کرنا۔پری کہتی لاٸونج سے نکل گٸ جب کی بیچارا آیان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

کیا ہںوا تمہيں ؟شاہ میر اس کے پاس بیٹھتا ہںوا پوچهنے لگ۔

پری آپی ناراض ہںوگٸ۔آیان نے بتایا۔

اچها ۔شاہ میر نے بس اتنا کہا۔

ہاں۔کارٹون دیکهے کیا؟آیان نے جواب دے کر سوال کیا۔

ضرور آج کا میرا دن تمہارے نام۔شاہ میر نے خوشگوار لہجے میں آیان سے کہا۔

اچها خير تو ہںے ناں۔آیان نے معصومیت سے پوچها ۔

بلکل۔شاہ میر آیان کی بات سمجھ نہ پایا۔

نہیں وہ آپ نے کبهی اتنے پیار سے بات نہیں کیا نہ تو بس اس لیے۔آیان نے اپنی بات کا مطلب بتایا۔

اچها کارٹون نے نام بتاٶ کہ میں وہ چینل لگاٶ۔شاہ میر نے رموٹ اٹها کر اس سے پوچها ۔

Doremon

آیان جلدی سے بولا۔

شاہ میر ایسے ہی چینل سرچ کررہا تھا تو اس کے ہاتهہ ایک چینل پہ رک گیا جس پہ کوٸی مووی چل رہی تھی۔اور سین کجھ یوں تھا۔

میں نے بتایا ہںے تمہيں تمہاری شادی صرف مجھ سے ہںوگی ورنہ کسی سے نہیں۔لڑکا لڑکی کو بازوں سے پکڑتا  غصے سے بول رہا تھا۔

بھاٸی کیا  دیکهہ رہںے ہںے۔کارٹون لگاۓ نہ ۔شاہ میر جو پہلی دفعہ کسی مووی کا سین دیکهہ رہا تھا آیان کی بات سنتا ہںوا کہا۔

ایک منٹ دیکهنے دو کہ گرل کیا جواب دیتی ہںے پھر

آپ نے کیا کرنا ہںے جان کہ۔آیان نے منہ بگارتے کہا۔

چپ رہںو کجھ منٹ۔شاہ میر نے اس کو گھور کر بولا۔پھر مووی پہ متوجہ ہںوا۔

اور میری بات تمہيں سمجھ نہیں آتی مجھے نہیں ہںے تم سے پیار اس لیے میں اپنی مرضی سے جس سے چاہے نکاح یا شادی کرو تمہارا اس سے کیا تم کون ہںوتے ہںو مجھے رکنے والے۔جواب میں لڑکی نے کجھ اور غصے سے کہا۔

کیوں نہیں ہںے پیار میں جانتا ہںوں تمہيں بھی مجھ سے پیار ہںے بس جھوٹ بول رہی ہںو۔لڑکے نے اب کی کجھ آرام سے کہا۔

نہیں نہیں نہیں نہیں ہںے تم سے پیار میں تم سے عمر میں کتنی بڑی ہںوں۔یہ بات کہتے ہںوۓ تمہيں ہماری عمر پہ ہی دھیان دینا چاہٸیے تھا۔لڑکی نے چیخ کر لڑکے کا گریبان پکڑ کر کہا۔اور بعد میں فلم کے بیچ وقفہ آگیا جس سے شاہ میر جو بہت غور سے ان کی باتوں کو سن رہا تھا بدمزہ ہںوگیا جب کی آیان نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا پھر آیان بولا۔

اب لگادے کارٹون 

یہ لوں دیکهو ۔شاہ میر نے کارٹون لگاکے آیان کو کہا۔

شکریہ ۔آیان نے بتیسی نکال کہ بولا۔

آیان یہ نکاح کیا ہںوتا ہںے۔شاہ میر نے آیان سے بے تُکہ سوال پوچها ۔

آپ بڑے ہںے ۔آپ کو پتا ہںوگا۔آیان اپنا پورہ دھیان ٹی وی میں ٹکاے بولا۔

ہمممم تم دیکهو میں آتا ہںو۔شاہ میر اس سے کہتا اپر سیرھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

ڈيڈ میں آجاٶ ؟شاہ میر نے حيدر خان کے کمرے کے باہر کھڑے ہںوتے ہںوۓ پوچها ۔

ہاں میر آجاٶ۔حيدر خان نے اجازت دے کر کہا۔

موم نہیں ہںے کیا۔شاہ میر کمرے کو دیکهتا پوچها ۔

نہیں وہ تو اپنی کسی دوست سے ملنے گٸ ہںے۔حیدر خان نے جواب دیا۔

اچها ۔شاہ میر کہتا ان پاس بیٹھا۔

کجھ کہنا چاہتے ہںو ؟حيدر خان نے اس کے چہرے پہ اُلجھن دیکهی تو پوچها 

نہيں وہ کجھ پوچهنا تھا۔شاہ میر نے کہا۔

اچها پوچهو۔حيدر خان نے اپنا موبائل ساٸيڈ پہ رکھے شاہ میر کی طرف متوجہ ہںوۓ۔

نکاح کیا ہںوتا ہںے ؟شاہ میر نے بنا ان کو دیکهے سوال کیا۔

تم سے اس بات کا زکر کس نے کیا ؟حيدر خان نے الٹا اس سے سوال کیا۔

وہ مووی چل رہی تھی تو۔

میں آپ سب لوگوں کو منع کیا ہںے نہ کوٸی بھی فلم ڈرامہ آپ لوگ نہیں دیکهوگے اگر دیکهنا ہںے تو کوٸی کارٹون دیکهنا پھر۔حيدر خان نے شاہ میر کی بات پوری ہںونے سے پہلے کہا۔

میں نے پوری نہیں دیکهی بس سین پہ ۔شاہ میر نے کمزور سی وضاحت دی۔

ابھی تمہارا جاننا ضروری نہیں۔حيدر خان نے ٹالنے والے لہجے میں کہا۔

بتائيں نہ ڈيڈ۔شاہ میر نے پھر کہا۔

میر اپنے کمرے میں جاٶ۔حيدر خان کجھ سختی سے بولے۔

اوکے۔شاہ میر کہتا نکل گیا۔

کہیں ہم نے یہاں آکر غلطی تو نہیں کردی۔حيدر خان نے شاہ میر کے جاتے ہی خود سے سوال کیا۔

شاہ میر کمرے میں آکر یہاں وہاں ٹہلنے لگا۔پھر اس کی نظر آۓ پیڈ پہ پڑی تو وہ فورن وہ لیکر گوگل پہ نکاح کا مطلب دیکهنے لگا۔جس میں بہت سے مطلب نکلے جو شاہ میر کو اور اُلجھا رہںے تھے جو کجھ اس طرح تھے۔

نکاح ایک پاکیزہ عمل ہںے۔

مرد عورت اللہ اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر نکاح میں قبول ہںے کہتے ہيں۔

جو نکاح کرتے ہںے وہ دنیا اور آخرت کے ساتهی بن جاتے ہںے۔

کہا گیا ہںے مرد کو اگر کسی عورت سے محبت ہںو تو اس کو چاہٸیے کہ وہ فورن سے اس عورت کو اپنے نکاح میں لے۔

نکاح میں اللہ نے بہت برکت ڈالی ہںے۔نکاح دو انجان دلوں کے بیچ محبت پیدا کرتا۔

نکاح سے انسان بہت گناہوں سے بچ جاتا ہںے۔

اللہ کا فرمان ہںے۔کے بچوں کے بالغ ہںوتے ہی ان کا نکاح کرایا جاۓ۔

آگے بھی بہت کجھ تھا پر شاہ میر نے آۓ پیڈ رکھ دی اور جل کے خود سے بولا۔اتنا لکها ہںے یہ بھی لکهہ دیتے کہ بالغ کیسے ہںوتے ہیں اور نکاح کیا کیسے جاتا ہںے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

کل ہم نے نادیہ کی طرف جانا ہںے اس لیے آپ دونوں کالج نہیں جانا اور جلدی تیار ہںوجانا۔وہ اس وقت رات کا ڈنر کررہںے تھے جب سکندر خان نے مہرماہ اور شاہزیب سے کہا۔

جی بابا جان۔دونوں نے ان کی بات پہ کہا۔

اچها ویسے خيریت تھی نہ نادیہ نے ہمیں بھی بولایا ہںے اور حيدر بھاٸی کو بھی ۔سارہ بیگم سالن رکھتے ان سے پوچها ۔

ہاں خيریت ہی ہںے ملنے کے لیے بولایا ہںے اور کہا کے بچے بھی مل لینگے ایسے میں۔سکندر خان نے ان کو بتایا

تم حور کو میرے اور شاہ میر کے گیم کھیلنے کا نہیں بتانا ورنہ اس نے سالار کو بتانا ہںے۔شاہزیب نے مہرماہ کے کان میں کہا۔

یہ حکم ہںے کہ درخواست ۔مہرماہ نے ہاتهہ ميں لیا چمچ گھماکر۔شاہزیب سے پوچها ۔

ماہ بدولت سے عرض ہںے۔شاہزیب نے ضبط کرتے کہا۔

اچها دیکهوں گی۔مہرماہ نے شانِ بے نیازی سے کہا۔

مہرو سالار کو پتا نہیں ہںونا چاہٸیے تم سمجھو یہ تمہارے بھاٸی عزت مطلب تمہاری عزت کا سوال ہںے۔شاہزیب نے اس کو ایموشنلی انداز میں کہا۔

نہیں بتاٶگی بس۔مہرماہ نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔

شکریہ بہن۔شاہزیب خوش ہںوتا بولا۔

اماں جان کو بتادیا تھا؟سکندر خان نے سارہ بیگم سے پوچها ۔

بتایا تھا میں نے پر انہوں نے معزرت کرنے کا کہا آپ کو تو پتا ہںے وہ اب باہر جانا پسند نہیں کرتی۔سارہ بیگم نے ان کو جواب دیتے کہا۔

صحيح جیسا ان کو بہتر لگے۔سکندر خان نے کہا۔

ویسے دادی چچا جان کے پاس بھی نہیں رکی تھی ان کو وہاں بھی اچها نہیں لگ رہا تھا رہنا۔مہرماہ بولی۔

ہاں کیوں کی وہ چاہتی ہںے کہ حيدر یہاں آجاۓ اور ہمارے ساتهہ رہںے۔سکندر خان نے کہا۔

ویسے وہ کجھ غلط بھی نہیں چاہتی۔سارہ بیگم ستارے بیگم کی طرفداری کرتے کہا۔

ہاں پر حيدر جب ان کی بات مانے تب نہ وہ تو شروع سے ہی باغي ہںے اپنی کرنے والا ۔سکندر کہتے ٹيبل سے اٹهتے چلے گٸے۔

میں بھی اپنے میں اب جاؤں گی۔مہرماہ نے کہا۔

تو جاؤ ہم نے کونسا روکا ہںے۔شاہزیب نے کہا۔

تم تو اب مجھ سے عزت سے بات کرو ورنہ میرے منہ کھلنے پہ وقت نہیں لگتا۔مہرماہ نے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سے شاہزیب سے کہا۔

اب کیا میں اپنی بہن سے مزاق بھی نہیں کرسکتا۔شاہزیب نے جلدی پنترا بدلہ ۔

کرسکتے ہںو پر ایک حد میں رہ کر گڈ ناٸٹ۔مہرماہ ایک ادا سے کہتی واک آٶٹ کرگٸ۔

لعنت ہںو اس وقت پہ جب میں نے شاہ میر سے گیم کا کہا۔شاہزیب نے خود کو کوسہ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

میر آیا تھا آج ایک بات پوچهنے۔حيدر خان نے ہانم بیگم سے کہا جو ناٸٹ کریم اپنے ہاتهوں پہ لگا رہی تھی۔

اچها کیا پوچهنے آیا تھا ؟ ہانم بیگم مسکراکر بولی

نکاح کا مطلب پوچهنے آیا تھا۔حيدر خان نے بتایا۔

یہ سوال اس کے دماغ ميں کیسے آگیا؟ہانم بیگم تعجب سے بولی۔

آیا کیسے بھی یہ ضروری نہیں ہںے ضروری يہ ہںے کہ وہ پوچهنا کیوں چاہتا تھا اس نے دلچسپی کیوں  لی جاننے میں ۔حيدر خان نے پَرسوچ لہجے میں کہا۔

کیا بات ہںے اس میں اتنا پریشان ہںونے کی کیا بات ہںے نکاح کا ہی تو پوچها سن لیا ہںوگا کہیں سے تو مطلب جاننے کا تجسس ہںوا ہںوگا آپ کو تو پتا ہںوگا بچے کتنے تجسس لیتے ہيں ہر بات میں۔ہانم بیگم نے عام لہجے میں ان سے کہا۔

ہاں یہی بات ہںوگی۔حيدر خان نے سانس خارج کرتے کہا

مطلب بتایا پھر آپ نے ؟ہانم بیگم نے پوچها 

نہیں ابھی ان باتوں کو جاننا ان کا ضروری نہیں۔حيدر خان نے انکار کرتے کہا۔تو ہانم بیگم نے کجھ نہیں کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ اپنے کمرے میں سارے کپڑے بکھیرے بیٹھی تھی۔اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔کہ کیا پہنے یہ والا کیسا رہںے گا۔اس نے ایک بلیک کلر کا فراق خود پہ رکھے مرر میں دیکها نہیں یہ نہیں اس دوبارہ اس کو واپس رکھ دیا الماری اس نے پوری خالی کردی سب ڈریسز ایک سے بڑه کر تھی پر اس کو آج کہ لیے سمجھ نہیں آرہا تھا۔تھک ہار کہ وہ بیڈ پہ مایوسی سے بیٹھ گٸی۔

آجاۓ۔دروازہ نوک ہںونے پہ اس نے کہا۔

Hi,Maah

شاہ میر اس کے کمرے اجازت ملتے ہی آکر کہنےلگا۔

اسلام علیکم شاہ تم کب آۓ ؟ مہرماہ نے شاہ میر کو دیکهہ کر کہا۔

میں تو پانچ منٹ پہلے پر یہ آپ نے اپنے کمرے کا یہ حشر کیوں کرڈالا ہںے۔شاہ میر نے بتاکر آنکهيں بڑی کر کے سوال کیا۔

آج پھوپھو کے گھر جانا ہںے ناں سمجھ نہیں آرہا کہ کیا پہنوں اس لیے بس سب کپڑے باہر کیے پر سمجھ اب بھی نہیں آرہا۔مہرماہ نے پریشان لہجے میں اپنا مسٸلا بتایا۔

تو اس میں اتنا پریشان ہںونے کی کیا بات ہںے آپ کوٸی بھی پہنن لے۔شاہ میر نے آسان سا حل دیا۔

کوٸی بھی پہننا ہںوتا تو سارے کپڑے نہ نکالتی وہ تو مجھے آج اچها دیکهنا تھا اس لیے۔مہرماہ نے پہلے شاہ میر کو گھور کر پھر کجھ شرماکر کہا۔شرماٸی کیوں وہ خود نہیں جانتی تھی۔

آپ تو جو بھی پہنے اچھی ہی لگتی ہيں اس لیے اتنا سوچے مت۔شاہ میر نے عام لہجے ميں کہتے صوفے پہ بیٹھ گیا بیڈ پہ تو جگہ نہ تھی۔

تمہيں نہیں پتا شاہ اس لیے چپ رہںو۔مہرماہ نے اس کو اتنے آرام سے کہنے پہ منہ بنا کر کہا۔

ویسے آپ اچها کیوں دیکهنا چاہتی ہيں؟ شاہ میر کے لہجے میں کجھ چُبن تھی جو مہرماہ اپنی پریشانی میں محسوس نہ کرسکی۔

وہ ایسے ہی اچها لگنا کس کو نہیں پسند ۔مہرماہ شاہ میر کے سوال پہ گڑبڑہ کر بولی۔

اچها میں آپ کی مدد کرتا ہںوں۔شاہ میر نے اٹهہ کر کہا۔

تم کیسے کروگے تمہيں کیسے پتا ۔مہرماہ بولی۔پر شاہ میر نے سارے کپڑوں کو دیکهنے کے بعد ایک فراق اٹها کر مہرماہ کو دیا جو شاید مہرماہ نے نہیں دیکها تھا۔اس کی نظروں میں ستاٸش دیکهہ کر شاہ میر کو تو یہی لگا

یہ تو واقعی میں بہت پیارا ہںے میری پہلے اس پہ نظر نہیں پڑی تھی۔مہرماہ نے فراق شاہ میر سے لے کر کہا۔جو ہلکے پیچ کلر کا تھا اور اس ہی کلر کی کڑھاٸی کا کام کیا گیا تھا۔

شکریہ شاہ تمہاری پسند واقعی لاجواب ہںے اور نظر بھی بہت تیز ہںے۔مہرماہ نے مسکراکر اس سے کہا اور بعد شرارتی انداز میں۔

ہاں میری پسند واقعی ميں بہت اچهی ہںے۔شاہ میر نے مسکراکر کہا۔

اچها میں اب تیار ہںونے جارہی ہںوں۔مہرماہ نے اس کو بتایا۔

اوکے میں باہر لاٸونج میں جارہا ہںوں آپ پھر وہی آجانا۔شاہ میر مہرماہ کی بات سنتا بولا۔

اوکے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

وہ لاٸونج ميں آیا توشاہزیب کے ساتهہ بیٹھ گیا جو موبائل میں مگن تھا۔اس بیٹھنے پہ شاہزیب نے موبائل ٹیبل پہ رکھا۔اور شاہ میر سے بولا۔

تم تو مہرو کو لینے گٸے تھے نہ اکیلے ہی آگٸے۔

وہ ماہ کو تیار ہںونا تھا تو میں یہاں آگیا۔شاہ میر نے سرسری سا بتایا۔

تو ۔شاہزیب کو سمجهہ نہ آیا۔

تو یہ کہ شاید وہ ميری موجودگی ميں ٹھیک سے تیار نہ ہںو اس لیے میں آگیا۔شاہ میر نے اس کو اپنی بات کا مطلب سمجھایا۔شاہزیب نے اس کی بات پہ شاہ میر کو سر سے پیر تک دیکها اور ہنس دیا۔

ہنسے کیوں آپ ؟شاہ میر کو اس کے ہنسنے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔

بس دل کیا۔شاہزیب نے کہا۔

بتائيں ورنہ میں نے چچا جان کو کہنا ہںے کہ آپ میرا مزاق اڑا رہںے ہيں۔شاہ میر نے کُھلے عام دھمکی دی۔

میر مجھے تم سے ایسی امید نہیں تھی۔شاہزیب تو شاہ میر کی بات پہ شاک ہںوکے بولا۔

بتارہںے ہیں یا میں چچا جان کے پاس جاؤں۔شاہ میر نے کہا۔

میں اس لیے ہنسا کے تم بچے ہںو مجھے پتا ہںے تمہيں کوٸی بچہ کہے یہ پسند نہیں پر حقيقت تو یہی ہںے اور مہرو کو کیوں ان کمفرٹيبل ہںونا تھا تمہاری موجودگی سےجو وہ ٹھیک سے تیار نہ ہںوپارتی نہ تو وہ اتنی شرمیلی ہںے اور نہ ہی تم اس کی عمر کے ہںو۔تم باتيں بڑی کرتے ہںو اور تمہاری سوچ بھی شاید عام بچوں کی طرح نہیں پر یہ ایک حساب سے اچها بھی ہںے اور نہ بھی اتنی سمجھ تو مجھے بھی نہیں۔پر تم نے اچها کیا مہرو کے کمرے سے نکل آۓ یہ ادب اخلاق میں آتا ہںے کہ تمہيں پتا ہںے کہ کونسی بات ٹھیک ہںے اور کونسی غلط۔شاہزیب نے اس کے سوال کہ جواب پہ لمبی تقریر کر ڈالی جس کی سمجھ شاہ میر کو بلکل بھی نہيں آٸی تھی۔پر اس نے کہا کجھ نہیں۔

کیا تم خاموش کیوں ہںوگٸے؟شاہزیب نے پوچها  

اگر میں آپ سے کجھ پوچهو تو کیا آپ بتائيں گے ؟شاہ میر نے کہا۔

اگر پتا ہںوگا تو ضرور ۔شاہزیب نے خوشدلی سے کہا۔

نکاح کا مطلب کیا ہںوتا ہںے؟ شاہ میر کے دماغ میں جو یہ بات کل سے گردش کر رہی تھی وہ آخر شاہزیب سے پوچھنے کا سوچا۔

تم کیوں پوچهہ رہںے ہںو ؟ شاہزیب حيرت سے بولا۔

آپ کو بتانا ہںے نہ تو بتائيں ۔شاہ میر نے تیز آواز میں کہا۔

میر تم چھوٹے پر اتنے بھی کے نہیں تمہيں نکاح کا مطلب ہی پتا نہ ہںو۔خير شاید چچا جان والوں نے تم لوگوں کو بتایا نہ ہںو۔اگر تم یہاں رہتے تو تمہيں پتا ہںوتا کیوں کی یہاں آۓ روز کسی کسی رشتہداروں میں شادیا ہںوتی رہتی ہںے امی جان اور بابا جان کے ساتهہ میں اور مہرو بھی جاتے ہںے۔شاہزیب نے شاہ میر کو کہا۔

میں نے آپ سے نکاح کا پوچها ہںے پر آپ نے جو بات کی اس میں میرے کام کی کوٸی بات نہیں۔شاہ میر منہ بگاڑے بولا۔

جب لڑکا لڑکی بڑے ہںوجاتے ہيں نہ تو پھر گھر والے ان کی شادی کرواتے ہںے اور نکاح بھی تب ہی ہںوتا ہںے۔شاہزیب نے اس کی بات پہ اپنی عقل کے حساب سے نکاح کا مطلب  سمجھایا۔

اور اگر لڑکی انکار کرے تو؟شاہ میر کو مووی والی لڑکی کا انکار یاد آیا تو پوچها 

وہ کیوں انکار کرے گی۔ظاہر ہںے شادی سے پہلے تو گھر والوں نے اس سے رضامندی پوچهہ لی ہںوگی نہ۔شاہزیب نے سر پہ ہاتهہ مار کر بتایا۔

اچها تو سب کی ہںوتی ہںے شادی ؟ شاہ میر نے پھر کہا۔

ہاں میری بھی ہںوگی جب میر پڑھاٸی ہںوگی تو۔شاہزیب نے شرمانے سارے رکارڈ توڑ کر شاہ میر کو بتایا 

کس سے ؟شاہ میر نے نیا سوال کیا۔

لڑکی سے۔جواب فورن دیا شاہزیب نے

شادی ضروری ہںوتی ہںے؟شاہ میر نے پوچها 

ہاں نہ سنت ہںے شادی کرنا۔شاہزیب نے اب کی اپنی طرف سے سمجھداری سے بتایا۔

کرتے کیوں ہںے ؟شاہ میر نے ایک ہی سوال الگ الگ انداز میں پوچها ۔

تاکہ لڑکا لڑکی ساتهہ رہ سکے ہر حال میں دکهہ سکھ میں ہر قدم پہ آگے کا اور مجھے نہیں پتا۔شاہزیب سنجيدگی سے اس کو بتاتے بتاتے آخر میں مظلوم شکل بناتا بولا۔

اچها تو جو شادی کرتے ہںے وہ کبهی الگ نہیں ہںوتے ہمیشہ ساتهہ رہتے ہیں۔شاہ میر نے پوچها 

اگر بعد میں الگ ہی رہنا ہںو تو وہ شادی ہی کیوں کرے۔شاہزیب جل کے بولا۔

مطلب ؟شاہ میر سمجھ نہیں پایا۔

مطلب کی وہ الگ نہیں رہتے اور نہ کوٸی ان کو الگ کرسکتا ہںے وہ ایک دوسرے کے ساتهہ رہتے ہیں اور کوٸی تیسرا ان کے بیچ میں  نہیں آتا یہ ایک دفعہ مہرو نے بتایا تھا۔شاہزیب نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا

اتنا کجھ جان کر بھی شاہ میر مطمئن نہیں ہںوا تھا ناجانے وہ کیا جاننا چاہتا تھا۔پر اب اس نےشاہزیب سے نہیں پوچها ۔پھر سکندر خان سارہ بیگم بھی تیار ہںوکر لاٸونج میں آۓ تھے پر مہرماہ نہیں۔سارہ بیگم نے شاہزیب سے کہا۔

زیب جاٶ مہرو کو کہو کہ آۓ ہم نکلنے والے ہںے اور حيدر بھاٸي ہانم والے بھی تیار ہںے۔

جی امی جان جاتا ہںوں۔شاہزیب کہتا وہاں سے سیرھیو کی طرف گیا۔اور مہرو سے اپنی ماں کا پیغام دیا تو بھی سیرھیو سے اترتی آٸی تو سارہ بیگم نے مہرماہ کو دیکهہ کر ماشااللہ کہا جو پیچ کلر کے فراق پہننے بہت خوبصورت رہی تھی اور چہرے پہ ہلکی لال لپسٹک اور آنکهوں میں آۓ لاٸینر لگایا تھا بالوں کی اس نے آج بھی چوٹی بنائی تھی۔مہرماہ ان کے ساتهہ کھڑی ہںوگٸ۔

امی جان میں کیسی لگ رہی ہںوں؟ مہرماہ نے پوچها 

بہت پیاری اللہ نظر بد سے بچاۓ۔سارہ بیگم نے مسکراکر کہا۔شاہ میر کو جانے کیوں مہرماہ کا اتنا تیار ہںوکے باہر جانا پسند نہیں آرہا تھا۔

شکر اللہ کا۔آپ بھی تشریف لاٸی اب باہر چلے گاڑیاں دونوں تیار ہںوگٸی ہيں۔شاہزیب نے مہرماہ کو دیکهہ کر طنزیہ کہا۔

اچها مہرو میں اور تمہارے بابا جان اور چچا چچی آیان ایک گاڑی میں جب کی تم لوگوں نے ڈراٸیور کے ساتهہ آنا ہںے ۔مہرماہ شاہزیب کو جواب دیتی اس سے پہلے ہی سارہ بیگم نے مہرماہ سے کہا۔

اچها چلے اب ۔مہرماہ نے کہا۔تو وہ نکل گٸے باہر کی طرف۔شاہزیب ڈراٸيور کے ساتهہ فرنٹ سیٹ پہ تھا جب کی مہرماہ اور شاہ میر پری یہ تینوں بیک سیٹ پہ تھے۔شاہ میر مہرماہ کے ساتهہ تھا اس لیے بیچ میں تھا۔

آپ اتنا تیار کیوں ہںوٸی ایسے تو سب آپ کی تعریف کرۓ گے ۔گاڑی جیسے ہی چلنا شروع ہںوٸی تو شاہ میر نے مہرماہ سے کہا۔

تو کیا میری تعریف نہ ہںو ؟ مہرماہ نے معصوم شکل بناتے پوچها 

نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔شاہ میر کہہ کر چپ ہںوگیا اس کو سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔مہرماہ بھی پھر ونڈو کے باہر دیکهنے لگی۔گاڑی کے رُکتے ہی وہ سب آہستہ آہستہ باہر آۓ تو شاہ میر نے مہرماہ کا ہاتهہ پکڑ لیا اور گھر کی طرف دیکها جو بہت عالیشان سا تھا۔وہ گھر کے اندر داخل ہںوۓ تو نادیہ بیگم اور سالار حور انابیہ ان کہ انتظار میں ہی تھے جب کی ان کے شوہر کام کے سلسلے میں شہر  سے باہر تھے پھر ملنے ملانے کا سلسلہ شروع ہںوا بعد میں نادیہ بیگم نے ان سب کو اپنے بڑے سے لاٸونج میں لے آٸی اور کہا۔

میں آپ لوگوں کو بتا نہیں سکتی کہ آپ سے مل کر کتنی خوش ہںوں۔سکندر بھاٸی تو اب ایک شہر میں ہںوکر بھی دور ہںے اور آپ حيدر بھاٸی جب یہاں آۓ تو ہمارے گھر نہیں آۓ پر آج سب ساتهہ ہںے تو نہ پوچهے آپ میری خوشی۔نادیہ بیگم محبت سے اپنے بھاٸيوں سے بولی سب لوگ ان کی بات پہ ہلکہ سا مسکرادیٸے۔

بس نادیہ یہ دنیاوی مصروفيات جو ہںے وہ کہی آنے جانے نہیں دیتی۔سکندر خان ہنس کر بولے تو باقی بھی ہنس دیٸے۔پر شاہ میر سب کو ایک نظر دیکهتا مہرماہ کے کاندھے پہ سرٹکا گیا۔تو مہرماہ نے اس کو دیکها جو اس کو باقی کے دنوں کی نسبت آج خاموش لگا۔

ویسے بھابھی بچے ماشااللہ جلد بڑے ہںوگٸے ہںے نہ نادیہ بیگم آیان کو اپنے قریب کرتی بولی۔

ہاں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ہانم بیگم مسکراکر بولی۔تبھی وہاں ملازم ٹرالی گھسیٹ لایا جس میں چاۓ اور ریفریشمنٹ کا سامان تھا اور بچوں کے لیے کولڈ ڈرنکس اور نگٹس تھی۔پھر اس نے ان سب کو سرو کی۔میر تمہاری طبيعت ٹھیک ہںے نہ ؟ نادیہ بیگم نے شاہ میر سے کہا۔

Yes,I'm fine, 

شاہ میر مختصر سا بولا۔

حور مہرو آپ شاید بور ہںورہںے تو کمرے میں سب کو لے کے جاۓ اور باتيں بھی کرے ۔نادیہ بیگم نے مسکراکر کہا

تو وہ سب چھت پہ آۓ جہاں ایک کمرہ بھی تھا اور ہال بھی بیٹھنے کے لیے کرسیا ٹیبل تھے اور نیچھے قالین گدے رکھے گٸے تھے۔

کوٸی گیم کھیلتے ہںے۔سالار بولا

لوڈو کھیلتے ہںے۔مہرماہ اس کی بات پہ فورن بولی ۔

چار لوگ کھیلتے ہںے اس میں بس اور ہم چار سے اُپر ہںے ۔سالار نے اس کی بات پہ کہا۔

مجھے تو نہیں کھیلنا آپ لوگ ہی کھیلے میں تو یہاں ممی کے کہنے پہ آٸی ہںوں۔کسی اور کے بولنے سے پہلے ہی انابیہ نے کہا جس پہ کسی نے دھیان نہیں دیا آیان تو چھوٹا تھا شاہ میر کی نظر صرف مہرماہ پہ تھی جب کی پری کو اس کا لہجہ سمجھ نہیں آيا اور باقیوں کو انابیہ کی نیچر کا پتا تھا 

باری باری کھیلتے ہںے نہ جو ہارے گا وہ دوبارہ نہیں کھیلے گا۔حور نے حل بتایا۔

اوکے۔شاہزیب اور سالار نے کہا۔پھر وہ نیچھے قالین پہ بیٹھ گٸے اور لوڈو کو بیچ میں رکھا ایک طرف مہرماہ تھی اور دوسری طرف شاہ میر اور پھر حور شاہزیب تھے جب کی سالار پری اور آیان ابھی ان کا بس گیم دیکهے گے۔پہلی باری مہرماہ نے لی تھی جس کا انڈا مطلب زیرو  آیا تھا۔پھر حور نے اس کے بھی چھکے سے پہلے پانچ آۓ تھے پھر شاہزیب نے کیا تو اس کے بھی تین آۓ تھے آخر میں شاہ میر کی باری آٸی تھی جس کا چھکا آیا تھا۔آیان نے چیخ کے خوشی سے نارا لگایا تھا۔شاہ میر نے اپنی گوٹی نکالی پھر آہستہ آہستہ سب کی باہر آٸی شاہ میر چاروں باہر تھی تو مہرماہ کی تین شاہزیب کی دو اور حور کی بھی دو۔شاہ میر کے اب دو آۓ جس سے ایک مہرماہ کی گوٹی مرسکتی تھی اور ایک حور کی مہرماہ کی پکی گوٹی تھی جب کی حور کی بھی پر شاہ میر نے اپنی دوسری گوٹی نکالی اور حور کی گوٹی کو مار دیا جس پہ مہرماہ نے شکر ادا کیا کہ اچها ہںوا میری پہ نظر نہیں پژی پر شاہ میر نظریں اپنی گوٹیو سے زیادہ مہرماہ کی گوٹیوں پہ نظر تھی۔

میر یار مہرو کی مارتے نہ اس کی تو پار بھی ہںونے والی تھی۔حور نے اپنی گوٹی کو دوبارہ اندر کرنے پہ احتجاج کیا۔

مجھے آپ کی آسان لگی۔شاہ میر نے ہلکی مسکراہٹ سے حور کو دیکهہ کر کہا۔پھر مہرماہ کے پانچ آۓ تو اس نے اتنی زور سے چیخ ماری کے شاہ میر نے بے ساختہ اپنا ہاتهہ سینے پہ رکھا۔

یاہوں زیب تمہاری یہ گوٹی میرے ہاتهہ سے شہید ہںوگٸ مہرماہ نے چیخ کر کہا۔

آرام سے یار بچے کو ڈرادیا۔سالار نے شاہ میر کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔

سوری شاہ ۔مہرماہ نے ایک کان پکڑ کر شاہ میر سے کہا۔ جس پہ وہ بس مسکرادیا۔

یہ تم ہمیشہ میرے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہںو ؟ شاہزیب مہرماہ کو دیکهہ کر لفظ چبا چبا کے بولا۔

کیوں کی پیارے زیب مجھے ایسے کرنے پہ سکون ملتا ہںے۔مہرماہ نے آنکهہ ونک کرتے کہا۔جس پہ وہ اپنی آنکهيں گھما پایا بس۔پھر ایسے گیم کھلتے کھیلتے شاہ میر نے کٸ دفعہ مہرماہ کی گوٹی نظرانداز کی جب کی مہرماہ تو آج شاہزیب سے سارے بدلے نکالنے کا ارادہ رکھتی تھی شاہزیب نے مہرماہ کی ایک اور حور کی بھی ایک گوٹی مار گراٸی تھی پر شاہ میر کی ابھی کوٸی ہاتهہ نہیں آٸی تھی اسے جب کی حور نے شاہ میر کی دو دفعہ گوٹیاں ماری تھی۔مہرماہ کی دو گوٹیاں پار ہںوگٸی تھی جب کی شاہزیب کی دو اور حور کی تین شاہ میر کی بھی تین پر مہرماہ نے حور کی لاسٹ گوٹی پہ اپنی گوٹی رکھ کے حور کو گیم سے آٶٹ کیا جو جتنے والی تھی۔حور کا تو دکهہ سے بُرا حال ہںوگیا۔

مہرو یار کتنی بے رحم ہںو ذرہ ترس نہیں آیا میں جتنے والی تھی تب تو ویسے ہی نکلنا تھا میں نے۔حور نے مہرماہ سے ناراضگی سے کہا۔

حور گیم اگر ہم رحم کرنے پہ کھیلے نہ پھر تو جیت لی ہم نے بازی یہاں کوٸی کسی پہ رحم نہیں کرتا۔ہر کسی کو اپنی جیت حاصل کرنی ہںے۔مہرماہ نے اپنا فلسفہ جہاڑا۔جس پہ وہ منہ بناتی اٹهہ بیٹھی۔اب تین لوگ تھے جب کی سالار ابھی تک بس ان کی گیم دیکهہ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ مہرماہ کی گوٹیوں پہ اتنا رحم کیوں کھیل رہا ہںے۔شاہ میر گیم کھیلنا انداز ان تینوں سے الگ تھا۔شاہزیب تو بس اس کو ہاتهہ ہلانے کا طریقہ دیکھ رہا تھا جس پہ اس کے صرف چھکے ہی آرہںے تھے۔اب تینوں کی ایک گوٹياں بچی تھی۔کھیل میں اب سنجيدگی اور دلچسپی آرہی تھی شاہ میر کے علاوہ ہر کسی کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔شاہزیب کی گوٹی پار ہںونے ہی والی تھی کہ شاہ میر کے دو آنے پہ اس نے شاہزیب کی پکی اور آخری گوٹی مار گراٸی۔اور شاہزیب بھی گیم سے آٶٹ اب بس مہرماہ اور شاہ میر تھے۔

تم دونوں تو آج میرے پکے جانی دشمن بن گٸے ہںو۔شاہزیب اپنی بھڑاس نکالتا سالار کے پاس گیا جو ہنس کر اس کو اپنے پاس بولارہا تھا۔مہرماہ نے تو اب دل میں اپنی ہار مان لی تھی اس کو لگ رہا تھا شاہ میر ہی جیت جاۓ گا ۔مہرماہ کا آیا تو اس کی گوٹی شاہ میر کے سامنے آگٸی۔اگر شاہ میر کے تین آتے تو وہ بھی آٶٹ ہںوجاتی۔پر شاہ میر نے اپنا ہاتهہ اس طرح گھمایا کہ تین کے بجائے چار آۓ اور اب شاہ میر کی گوٹی مہرماہ کی گوٹی کے سامنے آگٸ۔سالار تو دنگ سا بس شاہ میر کی کارواٸی ملاحظہ فرما رہا تھا۔کیوں کی گیم میں زیادہ تر مہرماہ انڈا مطلب زیرو زیادہ آرہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہںوا مہرماہ نے خوشی سے شاہ میر کی گوٹی کو ماردیا اور تینوں سے جیت گٸ۔

میں جیت گٸ میں جیت گٸ۔مہرماہ اٹهہ کر خوشی سے چیخ کے بول رہی تھی جب کی شاہزیب بے یقين سا شاہ میر کو تک رہا تھا جو ساری گیم میں جیت نے کہ قریب آکر ہار گیا تھا۔اس کو لگ رہا تھا کہ اس نےجان بوجهہ کیا یہ سب پر سالار کو پکا یقين تھاکہ جان بوجھہ کر کیا ہںے۔۔شاہ میر مہرماہ کا چمکتا چہرہ دیکهہ کر اس کی آنکهوں بھی چمک آگٸ تھی۔

ہم جیت بھی سکتے تھے____اس بازی کو

”وہ جیت کے خوش ہںوگا ہم یہ سوچ کر ہارگٸے“

اچها اب کجھ اور کرتے ہںے۔شاہزیب مہرماہ اچهلتا کودتا دیکهہ کر بولا۔پھر ایک مردانہ آواز پہ سب نے چھت کے داخلی دروازے کو دیکها جہاں انیس سال کا لڑکا ان کو مسکراکر سلام کررہا تھا۔اس کو دیکهہ کر انیس کا نہیں کہہ سکتا تھا کیوں کی وہ شاید جم جوٸن کرتا اس کے کشادہ سینہ اور بازوں کے مسلز اس کو اپنی عمر سے دگنا بنارہںے تھے۔اس نے بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ پہنی تھی شرٹ بہت فٹ تھی جس سے اس کے مسلز ایسے واضح ہںورہںے تھے جسے باہر کو نکل پڑے گے۔سب نے خوشی اس کو ویلکم کیا اور شاہزیب بولا۔

شہیر برو آپ یہاں کب آۓ۔

مہرماہ میں بھی اس کو دیکهہ کر انتہا کی خوش ہںوٸی تھی حور نے اس کو شہیر کے آنے کا پہلے ہی بتایا تھا اس لیے وہ آج سب سے اچها لگنا چاہتی تھی۔وہ شہیر کو پسند کرتی تھی اور یہ بات بس حور کو پتا تھی۔شہیر نادیہ کی بڑی نند کا بیٹا تھا جو کبهی کبهی ان کی طرف آجاتا تھا ایسے ہی بنا بتائے پر اس دفعہ نادیہ نے بولایا تھا۔

زیب میں تو بہت ٹائم پہلے آیا تھا تم لوگ باہر ناں آۓ تو میں یہاں آگیا۔شہیر اس کو جواب دیتا آیان کو اپنی گود میں اٹها جو آنکهيں پھاڑ کے اس کو دیکهہ رہا تھا۔

ہاں ہم یہاں گیم کھیل رہںے تھے اور مہرو جیت گٸ ۔سالار نے اس کی بات پہ کہا تو اس نے مہرماہ کو دیکها۔

مبارک ہںو مہرو اور بتاٶ کیسی ہںو۔اس نے مسکراکر مہرماہ کو کہا اور اپنا بھاری ہاتهہ اس کی طرف بڑھایا۔پر شاہ میر جو مہرماہ کے ساتهہ ہی تھا اس نے مہرماہ کا باٸیاں ہاتهہ پکڑ لیا تاکہ وہ ہاتهہ ملا نہ سکے۔

شاہ ہاتهہ چھوڑنا ذرہ ۔مہرماہ نے شاہ میر کو کہا جو آنکهوں میں چُبن لیے شہیر کو دیکهہ رہا تھا۔

آپ ایسے ہی ان کو بول دے کے آپ بلکل ٹھیک ہںے اس لیے صحيح سلامت ان کے پاس کھڑی ہںے۔شاہ میر نے مہرماہ کا ہاتهہ چھوڑے بغير اپنے مفید مشورے سے نوازا جس پہ مہرماہ نے اس کو گھورا۔پر باقیوں کی ہنسی نکل گٸی۔شاہ میر کے کہنے کے انداز پہ ۔

تم میر ہںونہ۔شہیر اس کی بات کا برا مانے بغير خوشدلی سے بولا۔

جی۔شاہ میر نے ایک لفظی جواب دیا۔

ماشااللہ تم تو ابھی سے ان دونوں سے پیارے ہںو۔شہیر نے شاہزیب اور سالار کی طرف اشارہ کرتے اس کو مسکراکر بولا۔

شکریہ ۔پر پیارے سب لوگ ہںوتے ہںے بس ان کو دیکهنے کے لیے نظر میں خوبصورتی ہںونی چاہٸیے۔شاہ میر نے بہت آرام سے خود سے بڑے کی بے عزتی کی جو شاید زندگی میں پہلی دفعہ کی ہںوگی۔سالار کا قہقہقہ نکل گیا پر مہرماہ کو شاہ میر کو شہیر سے ایسے بات کرنا پسند نہ آیا تو کہا۔

شاہ ایسے نہیں بولتے بڑے ہںے تم سے ۔

پر میں نے بس ایسے جنرل بات کہیں کجھ غلط تو نہیں کہا۔شاہ میر نے معصومیت سے مہرماہ کو کہا پھر تاکید کے لیے شہیر کو دیکها جس کا چہرہ لال ہںوگیا تھا۔

اور یہ جنرل بات بھی تم نے لنڈن میں کسی پروفيسر  سے سنی ہںوگی۔شاہزیب نے شاہ میر پہ میٹھا طنزیہ کرتے کہا۔

نہیں یہ ہمیں ہمارے والدین نے سکھایا ہںے کہ کبهی بھی خود کو کسی سے برتر نہ سمجھنا اور اگر کوٸی کہے بھی تو سن کے خوش نہ ہںونا ورنہ یہ بات انسان کو مغرور بناتی ہںے اور غرور اللہ کو ناپسند ہںے۔شاہ میر نے تو آج جیسے ان سب کو درس دینے کا سوچا تھا۔

اچها رہنے دو ان باتوں کو آپ لوگ آۓ اور بیٹھے۔حور نے بات بدلنے کو بولی۔تو سب وہاں سے کمرے کی طرف چلنے لگے۔تو شاہ میر نے رک کر مہرماہ سے کہا۔

آپ ناراض ہںے ؟

نہیں تو۔مہرماہ مسکراکر بولی۔

مجھے اچها نہیں لگا آپ کا اس کو دیکهہ کر مسکُرانا۔شاہ میر نے اپنے رویے کی وجہ بتائی ۔

کیوں تمہيں دیکهہ کر بھی تو مسکراتی ہںوں اور وہ بھی تو اتنے اچهے ہںے تم پہلی دفعہ اس سے ملے ہںونہ اس لیے اچهے نہیں لگے۔مہرماہ اس کی بات حيران ہںوۓ بنا کہا۔

میری بات الگ ہںے میں آپ کا دوست ہںوں۔شاہ میر نے جتایا۔

شاہ تم بھی نہ عجيب ہںو۔مہرماہ سرجھٹک کر اس کو بولی۔

ویسے یہ اتنے موٹے ہںے اور آپ اچها کہہ رہی ہںے۔شاہ میر نے شہیر کی فٹ پرسنٸلٹی پہ چوٹ کرتے کہا۔

ہاہاہاہاہاہا۔شاہ وہ موٹے نہیں ہںے یہ تو ان کی پرفیکٹ بوڈی ہںے جو ان کے ہر روز جم جانے پہ بنی ہںے اور یہ دو تین دفعہ بوکسنگ بھی لڑچکے ہںے اور میڈل بھی جیت چُکے ہںے تم چھوٹے ہںو نہ اس لیے ابھی تمہيں ان کا نہیں پتا۔مہرماہ نے ہنس کر بتایا۔

اچها ۔شاہ میر نے بس اتنا کہا۔

یہاں آنا ۔سالار نے اشارے پہ شاہ میر کو اپنی طرف بولایا تو اس کی طرف آیا۔

تم ہارے کیوں ؟تم تو آسانی سے جیت سکتے تھے۔سالار نے تجسس سے شاہ میر سے پوچها ۔

میں ہارا نہیں۔شاہ میر نے اس کی بات پہ جلدی سےکہا۔

مہرو جیت گٸ۔سالار نے اس کو یاد کروایا۔

تو ماہ کی جیت میں مجھے اپنی جیت دیکهی اگر میں ماہ سے جیت جاتا تو سچ میں ہار جاتا۔شاہ میر نے گہری بات کہہ دی جس کا اندازہ اسے خود کو بھی نہ تھا۔

تو عشق میں رنگ چُکا ہںے

تجھ دیکهہ کر لگتا ہںے۔

سالار جو اس کی بات پہ حيرت سا تھا بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔

مطلب ؟شاہ میر نے الجھ کر پوچها ۔

کجھ نہیں سالار مسکراکر ٹالا۔

تم شہیر برو پسند نہیں آۓ راٸٹ؟سالار نے سوال کیا۔

میرے پاس ایسا کوٸی راٸٹ نہیں کہ میں کسی کو ناپسند کروں۔شاہ میر نے عام لہجے میں کہا۔

تم اتنی سی عمر میں اتنی بڑی باتيں کیسے کر لیتے ہںو۔سالار نے حيرانکن لہجے میں اس سے کہا۔شاہ میر نے کوٸی جواب نہ دیا۔

شہیر آپ نے شاہ کی باتوں کا برا تو نہیں لگا نہ ۔مہرماہ نے بیٹھتے ہی اس سے پوچها ۔

نہیں بچے کی بات کا کیا برا ماننا۔شہیر نے اس کو دیکهہ کر کہا۔

ہاں اور وہ کجھ آٶٹ Spoken بھی ہںے جو محسوس کرتا ہںے بول دیتا ہںے۔مہرماہ نے مسکراکر اس کو شاہ میر کا بتایا۔

ٹھیک ایسا بھی صحيح ہںے۔اس نے جوابن مسکراکر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مجھے آپ لوگوں کو ایک ضروری بات بتانی تھی۔نادیہ بیگم نے سب کی طرف دیکهہ کر کہا۔

ہاں کہوں۔سارہ بیگم نے ان سےکہا۔

حمیرا نے اپنے بڑے بیٹے زین کا رشتہ حور کے لیے مانگا تھا تو ہم نے ان کو تسلی بخش جواب دیا۔نادیہ بیگم نے ان کو بتایا۔

پر یہ کجھ جلدی نہیں ابھی تو ان کی عمر ہی کیا ہںے۔اور ہم نے تو حور اور شاہزیب کا سوچا تھا۔سکندر خان نے ان کی بات پہ کہا باقی سب شاک میں تھے۔

سنکندر بھاٸی ابھی بس بات ہی ہںوٸی ہے کہ وہ ان کی امانت ہںے اور حور شاہزیب میں ایک سال کا فرق ہںے حور بڑی ہںے اس سے۔نادیہ بیگم نے بات کرکے آخر میں وضاحت دی۔

تو ایک سال ناں تین چار سال تو نہیں اور ویسے بھی اپنوں میں یہ فرق نہیں دیکها جاتا۔اس بار سارہ بیگم نے ان سے کہا۔

آپ ٹھیک کہہ رہی ہيں پر بچوں کو یہ فرق دیکهتا اور بعد میں اگر وہ اختلاف کرے ہمارے بہن بھاٸی کا رشتہ خراب ہںو تو اس سے اچها ہںے کہ ہم پہلے ہی ایسا کوٸی قدم نہ اٹهاۓ۔نادیہ بیگم مسکراکر بولی۔

ہاں اور مرد اپنے سے کم عمر کی لڑکی پسند کرسکتا ہںے پر بڑی نہیں اور شروعات ميں کر بھی دے تو بعد میں ان کو یہ اپنی بیوقوفی لگتی ہںے۔ہانم بیگم نے بھی اپنی راۓ دی۔

بس جیسا تم لوگوں کو صحيح لگے۔سکندر خان نے رضامندی دے کر کہا۔

پر شہیر تو دوسرا بیٹا ہںے نہ ان کا ؟ سارہ بیگم نے پوچها ۔

جی پہلے زین ہںے اور بعد میں شہیر۔نادیہ بیگم نے بتایا۔

ماشااللہ۔سارہ بیگم مسکراکر بولی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر تم کو ہارنا پسند نہیں ناں ۔شاہزیب نے اس سے پوچها ۔

ہارنا کسی کو بھی پسند نہیں ہںوتا۔شاہ میر نے اس کی بات پہ کہا۔

ہاں جانتا ہںوں پر مجھے ایسا لگ رہا ہںے کہ تم نے جان کر مہرو کو جیتنے کا موقعہ دیا۔شاہزیب کندھے اچکاکر اس کو دیکهہ کر بولا۔

ماہ اس لڑکے سے اس طرح بات کیوں کر رہی ہںے ؟شاہ میر شاہزیب کی بات سنی ہی نہیں اور مہرماہ شہیر کو دیکهہ کر بولا جو ہنس ہنس کر باتيں کر رہںے تھے۔

ان دونوں کی بہت بنتی ہںے اور شہیر برو ہم سے بڑے ہںوکر بھی بچوں جیسے ٹریٹ کرتے ہیں اس لیے سب کو پسند ہںوتے ہیں۔اور جیسے کی ان کی شخصيت ہںے نہ مطلب ان مسلز بوڈی جم جواٸن کرنے سے یہ سب مہرو کو بہت پسند ہںوتے یوں سمجھ لو کہ شہیر برو مہرو کا کرش ہںے۔شاہزیب نے اس کی بات سن کے اس کو سب بتادیا اور شہیر کی تعریف بھی کر ڈالی۔

یہ تو کوٸی وجہ نہ ہںوٸی کسی کو پسند کرنے کی۔شاہ میر برا منہ بنا کر بولا۔

ہاہاہاہا۔تم ویسے چاہے جتنی باتيں کرلو پر ہںو تو چھوٹے نہ اس لیے تمہيں نہیں پتا ہلانکہ کے لنڈن میں رہنے کہ باوجود تمہيں نہیں پتا لڑکیوں کو نہ ایسے مرد پسند ہںوتے ہںے جو فاٸٹر ہںو مطلب یہ کہ ان کی پرسنٸیلٹی سٹرونگ ہںو۔جو کسی فلم کے ہیرو کی طرح دیکهتے ہںو پر مہرو کو ناولز کے ہیرو کی طرح چاہیے۔وہ جب تمہيں عقل آۓگی تب بتاٶں گا۔مہرو جب بھی کوٸی ناول پڑھتی ہںے نہ تو مجھے کہانی بتاتی ہںے چاہے میں نہ بھی سنوں اس کو کبهی جہان سنکندر پسند ہںوتا ہںے تو کبهی سالار سکندر اور پھر یا تو عمر جہانگير نہیں تو فارس غازی اور کبهی کبهی سعدی یوسف ولن کا رول ادا کرنے والا ہاشم کاردار بھی وہ اس کو پسند ہںوگا اور عالیان مارگریٹ پر تو اس نے میری جان عزاب بناڈالی تھی۔کہ وہ عرب کا سلطان پتا نہیں کس طرح بتایا تھا اس نے اور اس میں منحوس مارا کارل کا بھی اس کو شوق تھا کہ اصل میں ایسا کوٸی ہںو۔پھر آتے وان فاتح جس اپنی شہزادی کسی اور مرد سے بات کرتے نہ ملے۔اور بعد میں ان کے چہیتے ایڈم صاحب آتے ہںے کہ وہ کبهی جھوٹ نہیں بولتا۔کھڑوس میں اس کو معید حسن بھی چاہٸیے ہںوگا۔ایسے بہت قصے میں اگر تمہيں بتاٶں گا نہ تو آدھے بال تو ایسے ہی سفید ہںوجاۓ گے۔شاہزیب نے ایک بات بتاتے بتاتے ناجانے کس بات پہ پہنچ گیا۔جب کی شاہ میر ایک لفظ شاہزیب کا نہیں سمجھا تھا۔

آپ کیا بتانے والے تھے اور کیا کہہ گٸے آپ مجھے کجھ سمجھ نہیں آیا۔شاہ میر نے پریشان لہجے میں شاہزیب سے کہا۔

اس لیے تو پہلے میں نے یہ کہا کہ عقل آۓ پر پھر میں اتنا انتظار نہیں کرسکتا تھا اس لیے بتاتا گیا۔میں تمہيں آسانی سے سب بتاتا ہںوں۔

غریب آدمی (جہان سکندر)

عاشق بندہ (سالار سکندر)

کیٸرنگ (عمر جہانگير )

دو نمبر آدمی (فارس غازی) 

سب کجھ سنبهالنے والا (ہاشم کاردار)

عرب کا سلطان (عالیان مارگریٹ) 

منحوس مارا (کارل)

آپ رہنے دے میری غلطی ہںے جو میں آپ سے سوال کرتا ہںوں۔وہ ابھی بتا ہی رہا تھا کہ شاہ میری بیچ میں اس کو ٹوکتا اٹهہ گیا۔جب کی شاہزیب کھلے منہ کے ساتهہ اس کو بس دیکهتا رہ گیا۔

آپ میرے ساتهہ آۓ بات کرنی ہںے مجھے۔شاہ میر مہرماہ کے سر پہ کھڑا ہںوکر اس سے کہنے جو شہیر اور حور سالار کے ساتهہ باتيں کررہی تھی۔

ہاں یہی کہو کیا بات ہںے۔مہرماہ نے نرمی سے اس کو دیکهہ کر کہا۔

یہاں نہیں وہاں ۔شاہ میر انکار کرتا دور رکھے صوفے کی طرف اشارہ کرتا بولا۔

اچها آٶ۔مہرماہ نے اٹهتے ہںوکہا۔

کیا بات ہںے ؟ مہرماہ نے اس کو اپنے پاس بیٹھاتے پیار سے پوچها ۔

اگر میں آپ سے کوٸی سوال کروں تو کیا آپ آسانی سے جواب بتائيں گی جو میری سمجھ میں بھی آۓ۔شاہ میر اس کو دیکهہ کر بولا۔

تم پوچهو ضرور بتاٶں گی۔مہرماہ نے اس کے سر پہ ہاتهہ پھیر کر کہا۔

نکاح کا مطلب کیا ہںوتا ہںے ؟شاہ میر کی سوٸی کجھ دیر بعد نکاح پر اٹک رہی تھی۔

نکاح کا نہیں پتا تمہيں پر تم کیوں جاننا چاہتے ہںو۔مہرماہ نے تعجب سے پوچها 

جواب دے ناں ۔شاہ میر نے کہا۔

لغت میں اس کی مثال ہںے جیسے نیند آنکهوں میں جذب ہںوکر آنکهہ بن جاتی ہںے۔بارش کا پانی مٹی میں جذب ہںوکے مٹی بن جاتا ہںے دو زندگيوں کا آپس میں اسطرح جڑنا کہ ایک ہںوجاٸيں نکاح ہںے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

ہم نے دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی (بہترین اور)کوٸی چیز نہیں دیکهی۔

نکاح اللہ کا بنایا ہںوا سب سے خوبصورت اور پاکیزہ رشتہ ہںے۔

نکاح آدھا دین ہںے۔

نکاح میں بڑی طاقت ہںوتی ہںے کیوں کی اس میں گواہںوں سے زیادہ خدا کی رضامندی شامل ہںوتی ہںے۔

نکاح وہ لمحہ ہںے جس میں مانگی ہر دعا قبول ہںوتی ہںے۔

مہرماہ نے شاہ میر کو نکاح کے مطلب میں دلچسپی دیکهہ کر جذب کے ساتهہ بتاتی گٸ۔پھر اس کو دیکها جو مہرماہ کو دیکهہ رہا تھا وہ جان نہ پاٸی کہ شاہ میر کو اس کی کہیں باتيں سمجھ آٸی بھی کہ نہیں۔

مجھے آپ کا کہا کجھ سمجھ میں گیا جو پہلے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔شاہ میر نے مسکراکر بتایا۔

اچها شکر ہںے سمجھ آگیا تمہيں ۔مہرماہ نے مسکراکر شکر ادا کیا۔

قبول صرف ایک دعا ہںوجاۓ

اس کا میرے ساتهہ نکاح ہںوجاۓ

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

وہ اب سب  ایک ساتهہ لاؤنج میں تھے کھانا انہوں نے کھالیا تھا اور اب گھر جانے کی تیاری میں تھے۔

سارا دن گزر گیا وقت کا پتا ہی نہیں چلا باتوں میں ۔نادیہ بیگم ان کے ساتهہ دروازے تک آٸی تو کہا۔

اپنوں سے باتيں کرنے کے یہیں تو فاٸدے ہںوتے ہںے۔حيدر خان نے مسکراکر ان کے سر پہ ہاتهہ رکھ کے کہا۔پھر وہ سب خدا حافظ کہتے واپسی کے لیے نکل گٸے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

گاڑی کے رکتے ہی سکندر خان اور سارہ بیگم اپنے گھر کی طرف گٸے تو حيدر خان اور ہانم بیگم بھی بچوں کو لیے گھر کی طرف بڑه گٸے۔ہانم بیگم نے پری شاہ میر آیان کو ان کے کمرے میں چھوڑتی اپنے کمرے کی طرف آٸی جہاں حيدر خان اپنا ناٸٹ سوٹ پہنے بیڈ پہ سونے تیاری میں تھے۔ہانم بیگم بھی بیڈ پہ اپنی ساٸيڈ پہ آکر لیٹ گٸی تو حيدر خان نے ان کو مخاطب کیا۔

نادیہ نے اچها کیا کہ جذبات پہ آکر انہوں نے فیصلا نہيں پر سوچ سمجھ کر کیا ہںے۔

مطلب کیا ہںے آپ کی بات کا کونسا فیصلا ؟ہانم بیگم نے ان کی بات پہ الجھ کر پوچها 

حور کے رشتے کا اگر واقعی میں سکندر کی بات میں آکر شاہزیب سے کردیتی تو ہںوسکتا تھا کہ بعد میں مساٸل بنتے عمروں میں زیادہ فرق تو نہیں پر ہںے تو صحيح نہ ۔حيدر خان نے ان کی اپنی کا مطلب سمجھایا۔

ہاں کہہ تو آپ ٹھیک رہںے ہیں۔ہانم بیگم نے ان کی بات پہ اتفاق کیا۔تب بھی حيدر خان کا موبائل رنگ کرنے لگا۔

لنڈن سے میک کی کال ہںے۔حيدر خان نے نمبر دیکهہ کر انہيں بتایا۔

کیوں سب خيریت۔حيدر خان کو نجانے دوسری طرف کال پہ کیا کہا گیا تھا جن سے وہ پریشانی سے پوچهنے لگے۔

اتنی جلدی تو ہم اب نہیں آسکتے۔حيدر خان نے اپنی پیشانی پہ ہاتهہ پھیر کر کہا۔ہانم بیگم بھی ان کو پریشان دیکهہ کر اٹهہ کر بیٹھ گٸ۔

میں کوشش کرتا ہںوں جلدی آنے کی۔حيدر خان نے کہا۔

ہفتے کے اندر کیسے کل ممکن نہیں ابھی تو ٹکٹ بھی کنفرم نہیں۔اب کی انہوں نے غصے سے کہا۔

اچها میں آنلاٸن ٹکٹ بُک کرواتا ہںوں۔پھر پرسو ہم پاکستان سے نکلے گے۔حيدر خان نے کہتے کال کٹ کردی

کیا بات ہںے آپ پریشان لگ رہںے ہیں۔ہانم بیگم نے پوچها 

تیاری کر لینا کل تم دو تین دنوں بعد ہم نے یہاں سے نکلنا ہںے۔حيدر خان بولے۔

پر آپ کا پروگرام تو لمبا تھا یہاں رہنا کا تو اب۔انہوں نے تعجب سے پوچها ۔

بس بزنس میں شاید کوٸی مسلا ہںوا جس کی وجہ سے میرا جانا ضروری ہںے۔انہوں نے پریشانی سے کہا۔

اتنے سال بعد ہم آۓ ہںے اور وہ بھی اتنے کم وقت کے لیے۔ہانم بیگم نے مایوسی سے کہا۔

انشااللہ اگلی دفعہ جب آۓ گے تو ہمیشہ کے لیے یہی شفٹ ہںوجاۓ گے۔حيدر خان نے ان کو رلیکس کرنا چاہا۔

انشااللہ۔میں کل بچوں کی پیکنگ کرلوں گی اور بتادوگی کے واپس جاۓ گے۔ہانم بیگم نے کہا۔

ہاں اور کل ہم سکندر کی طرف جاۓ گے۔اماں جان سے بھی بات کرنی ہںے انہوں نے ناراض تو ہںونا ہںے پر میں منالوں گا۔حيدر خان کجھ فکرمند ہںوکے بولے۔

ہاں سہی ہںے۔ہانم بیگم نے بس اتنا کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہزیب اپنے میں کالج کے لیے تیار ہںوگیا تھا کہ مہرماہ اس کے کمرے میں آٸی اور کہنے لگی۔

آج کالج نہیں جانا تم۔

ناں کروں ایسا مزاق سچی خوشی سے دل بند نہ ہںوجاۓ کہیں۔شاہزیب نے اپنے بال مرر میں دیکهتے سیٹ کرتے کہا اس کو لگا شاید مہرماہ مزاق کر رہی ہںے

توبہ ہزار سے زیادہ نکمے لوگ مرے ہںوگے جب تم پیدا ہںوۓ ہںوگے۔مہرماہ نے اس کی بات پہ افسوس کرتے کہا

شکریہ بہن۔شاہزیب نے سر کو جھکا کر اپنی بے عزتی عزت سے قبول کی۔

چچا کی فیملی آٸی ہںے اس لیے سچ میں تم نے کالج نہیں جانا۔مہرماہ نے اس کو شوز پہنتے دیکها تو پھر کہا

کیا سچ میں ؟شاہزیب جو شوز پہننے والا تھا اس کو  پھینک کر خوش ہںوتے بولا۔

جی ہاں۔مہرماہ اس کی خوشی دیکهہ کر سر نفعی میں ہلاتی ہںوٸی کمرے سے نکل گٸ۔جب کی شاہزیب اچهلتا واشروم میں کپڑے چینج کرنے کے لیے گیا۔

چچی جان شاہ کیوں نہیں آیا آپ لوگوں کے ساتهہ؟مہرماہ نے شاہ میر کی غيرموجودگی محسوس کرتے ان سے پوچها ۔

مہرو بیٹا یہاں اس کی روٹین بدل گٸ ہںے دیر سے جاگتا ہںے میں گٸ تھی اس بتانے پر گہری نیند میں تھا اور میں نے اس کو جگایا نہیں ورنہ پھر وہ سارا دن چڑچڑا ہںوجاتا ہںے۔ہانم بیگم نے مسکراکر بتایا۔

اچها۔مہرماہ نے کہا۔

میں آپ کے لیے چاۓ لاتی ہںوں۔مہرماہ کہہ کر اٹهہ گٸی۔

اماں جان سے میں بات کر آٶں ذرہ؟۔حيدر خان نے کہا۔

اچها تم اکیلے جانا چاہتے ہںو کیا ان سے بات کرنے ۔سکندر خان نے ان کو اٹهتے دیکهہ کر پوچها 

ہاں نہ آپ لوگ یہی بیٹھے۔حيدر خان نے سنجيدگی سے کہا۔تو انہوں نے خاموشی اختیار کی۔

آیان یہاں آٶ ہم کارٹون دیکهتے ہںے پری تم بھی شاہزیب ان سے کہتا اُپر کی طرف بڑھا۔

میر آگٸے تم یہاں آٶ۔ہانم بیگم کی نظر جیسے شاہ میر پر پڑی تو انہوں نے کہا جو ابھی لاٸونج میں آیا تھا۔

آپ لوگ بنا بتائے ہی آگٸے مجھے اکیلا چھوڑ کر۔شاہ میر ان کے پاس آتا بولا۔

اکیلے کہا انم زبیدہ جو تھی۔اور تم سورہںے تھے تو بس اس لیے نہیں جگایا۔ہانم بیگم نے مسکراکر کہا انم زبیدہ جو ان کے گھر پہ ملازم تھی۔

ماہ کہاں ہںے ؟شاہ میر نے پوچها 

کچن میں ہںوگی یا اپنے کمرے میں۔سارہ بیگم نے اس کو جواب دیا۔

میں ان کے پاس جاٶں؟وہ سکندر خان کو دیکهہ کر بولا۔

ضرور ۔سکندر خان نے مسکراکر اجازت دی۔تو وہ چلاگیا۔

میر کی یہ عادت اچهی ہںے وہ ہر کام میں اجازت ضرور لیتا ہںے۔اس کے جاتے ہی سکندر خان نے کہا۔

ہاں یہ عادت تو حيدر کو بھی نہیں جتنی میر کو ہںے۔ہانم بیگم ہنس کر بولی تو وہ مسکرادیٸے۔

مہرماہ چاۓ کا کلثوم بی کہہ آٸی تو اور وہ خود اپنے کمرے میں ناول پڑہ رہی تھی جب شاہ میر دروازہ نوک کرتے اس کے پاس آیا مہرماہ نے اس کو دیکها تو بے ساختہ مسکرادی اور ناول کی کتاب کو بند کردیا۔

ابھی آۓ ہںو ؟مہرماہ نے سلام کے بعد پوچها 

جی ۔شاہ میر نے بتایا۔

چپ کیوں ہںو پہلے تو بولتے تھے پر شاید دوبارہ خاموش رہنے کا تو نہیں سوچا۔مہرماہ نے اس کی خاموشی نوٹ کرتے کہا۔

ایسا نہیں بس ویسے ہی میں چپ ہںوں۔شاہ میر ہلکہ سا مسکراکر بولا۔

پھر ٹھیک ہںے اور تم پہلے نہیں تھے تو مجھے تمہاری یاد آرہی تھی۔مہرماہ نے ہمیشہ کی طرح اس کے گال کھینچ کر کہا۔

کیا واقعی آپ مجھے یاد کررہی تھی۔شاہ میر کی آنکهوں میں چمک آگٸ۔مہرماہ کی بات پہ ۔مہرماہ جب دیکهی تو اس کو یہی لگا کہ شاید ایسے ہی چمکتی جب وہ مسکراتا ہںوگا یا پرجوش ہںوتا ہںوگ تو کیوں کی اس نے پہلے دن سے ہی دیکهی تھی۔

ہاں بلکل۔مہرماہ نے سر اثبات میں ہلاکر بتایا۔

مجھے بھی آپ یاد آتی ہںے جب میں آپ سے نہیں ملتا تو۔شاہ میر نے کہا۔

تو آجایا کرو ملنے۔مہرماہ نے پیار سے کہا۔

کیا ایسا نہیں ہںوسکتا کہ آپ ہمیشہ میرے ساتهہ رہںے یا میں آپ کے ساتهہ؟ شاہ میر نے امید سے پوچها 

چچا نے بتایا ہںوگا ناں کہ یہی آکر رہںے گے تب ہم ساتهہ ہںوگے۔مہرماہ نے اس کو بہلایا۔

اچها ۔شاہ میر کجھ ناامید سا ہںوگیا۔

ویسے اگر لڑکا لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہںو اور لڑکی راضی نہ ہںوتو لڑکے کو کیا کرنا چاہٸیے ؟کجھ دیر کی خاموشی کے بعد شاہ میر نے اس سے پوچها 

شاہ تم بھی ان باتوں میں پڑوں جب تم اس عمر پہ آٶگے نہ تو خود پتا چل جاۓ گا۔مہرماہ کو شاہ میر کے ایسے سوال پوچهنا عجيب لگ رہا تھا۔

آپ بتائے نہ میں نے ایک مووی میں دیکها تھا لڑکی لڑکے پہ غصہ ہںورہی تھی کہ وہ اس سے شادی نہیں کرے گی کسی اور سے نکاح کرے گی۔شاہ میر نے اس کے انکار پہ ضد کرتے کہا۔

ہاہاہاہا۔شاہ وہ بس مووی تھی اس پہ اتنا دھیان نہ دو۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

تو آپ نہیں بتائيں گی ؟شاہ میر نے سنجيدگی سے پوچها ۔

اچها ناراض کیوں ہںورہںے ہںو بتاتی ہںوں پھر لڑکے کو چاہٸیے کہ کوٸی اور لڑکی تلاش کرے۔مہرماہ نے اس کے منہ پھلانے پہ ہنسی ضبط کرتے کہا۔

اچها پر اگر لڑکے کو اس ہی لڑکی سے کرنی ہںو جو انکار کررہی ہںو تب وہ کیا کرے ؟اس کو اگر انکار والی سے محبت ہںوتو شاہ میر نے نواں سال داغا۔

دعا مانگا کرو؛ اگر انسان کو کوٸی چیز نہیں ملتی تو وہ اپنے رب سے دعا مانگتا ہںے پھر اللہ اس کو عطا کردیتا ہںے وہ۔مہرماہ نے بتایا۔

کیا دعا سے سب ملتا ہںے ؟شاہ میر نے کجھ حيرانی سے پوچها ۔

بلکل ۔مہرماہ نے اس کی حيرانی پہ مسکراکر بتایا۔

اور اگر کوٸی چیز ناممکن ہںوتو ؟شاہ میر نے سوال کیا۔

اتنے سوال کہاں سے لاۓ ہںو شاہ ۔مہرماہ نے ٹھوڑی پہ ہاتهہ رکھ کر کہا۔

آپ بتائيں پلیز۔شاہ میر نے بے چینی سے بولا۔

Allah makes Imposiible, to posiible,

مہرماہ نے گہری سانس لے کر بتایا۔

اگر دعا سے ناں ملے تو ؟شاہ میر نے پھر پوچها ۔

دعا مانگنے وقت یہ نہیں سوچنا چاہٸیے کہ قبول ہںوگی کہ نہیں کیوں دعا یقين سے مانگنی چاہٸیے کہ اللہ ضرور قبول کرے گا اگر نہ بھی ہںوٸی تو اللہ نے اس میں بھی بہتری رکھی ہںوگی یا کسی اور وقت کے لیے سنبهال کے رکھی ہںوگی کیوں کی دعا کے قبول ہںونے کا بھی وقت ہںوتا ہںے اس لیے دیر دعا کہ قبول ہںونے پہ ہںوتو مایوس ہںوکر دعا مانگنا چھوڑنا نہیں چاہٸیے۔

{وَلَٰم اَکُن بِدُعَاںِک رَبَّ شَقِّیًا}  

اے پروردگار میں تم سے مانگ کر کبهی محروم نہیں رہا

                                                 سورۃ مریم آیت  ٩٨

مہرماہ نے آرام سے اس کو سمجھایا۔

اچها مطلب اللہ کے لیے ہر چیز ممکن ہںے بس ہمارے مانگنے میں یقين ہںونا چاہٸیے۔شاہ میر جو غور سے سن رہا تھا مہرماہ کی باتيں اس کے چپ ہںونے پہ اس نے کہا۔

ہاں اب اور کوٸی سوال تو نہیں ہںے نہ ۔مہرماہ نے مسکراکر شرارت سے پوچها تو شاہ میر ہنس کر نہ میں سرہلاگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اپنی ماں کی بات کی کوٸی اہميت نہیں ہںے نا تمہاری نظر میں۔ستارے بیگم نے ناراضگی سے حيدر خان سے کہا جو ان کو اپنے واپس جانے کا بتارہںے تھے۔

اللہ نہ کرے اماں جان آپ ایسا نہ بولے آپ کی ہر بات سر آنکهوں پہ پر ابھی آپ خوشی سے اجازت دے۔حيدر خان نے ان کے ہاتهوں پہ بوسہ دے کر کہا۔

اجازت کہاں مانگنے آۓ ہںو بتانے آۓ ہںو۔انہوں نے جتایا۔

اماں جان بس عرصہ اور بعد میں جو آپ چاہے گی ویسا ہی ہںوگا۔حيدر خان نے مسکراکر کہا۔

کب کی فلاٸٹ ہںے ؟ستارے بیگم نے پوچها 

ایمرجنسی میں بوکنگ کرواٸی ہںے کل انشااللہ یہاں سے نکلے گے۔حيدر خان نے جواب دیا۔

اچها خير سے جاؤ ۔انہوں نے دعا دے کر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر رات میں اپنے کمرے میں تھا ساتهہ آیان بھی تھا جو سوگیا تھا۔ہانم بیگم ان کے کمرے میں آٸي۔اور ان کی پیکنگ کرنا شروع ہںوگٸ۔

یہ آپ ہماری پیکنگ کیوں کرہی ہيں؟ہم نے کہیں جانا ہںے کیا؟شاہ میر نے ان کو دیکهہ کر تعجب سے پوچها 

تمہيں بتانا یاد نہیں رہا میر ہم کل واپس جارہںے ہیں۔انہوں نے مسکراکر بتایا ان کو لوگ شاہ میر جان کر خوش ہںوگا۔

واٹ؟شاہ میر شاک میں چیخ کر بولا۔

آہستہ میر آیان اٹهہ جاۓ گا۔انہوں نے ٹوکا۔

آپ لوگوں نے پہلے مجھے زبردستی یہاں لے آۓ اور اب جب میں یہاں رہنا چاہتا ہںوتو آپ واپسی کی بات کررہںے ہیں۔شاہ میر ان کی بات پہ  غصے سے بولا۔

میر ہم یہاں پہلے ہمیشہ کے لیے رہنے نہیں آۓ تھے اور ویسے بھی تم سب کی پڑھاٸی وہاں ہںے پہلے جو حرج ہںوتا وہ اب نہیں ہںوگا۔انہوں نے پیار سے کہا۔

میں یہی رہںوں گا آپ لوگ جاۓ۔شاہ میر نے ضدی لہجے میں کہا۔

پاگلوں جیسی باتيں نہ کرو میر جب تمہارے بہن بھاٸی باہر کراچی گھومنے جاتے تھے تب تو تم ایک دفعہ نہ گٸے اور اب یہ اچانک تمہيں یہاں رہنے کا خیال کیسے آگیا ہمیشہ تمہيں ہم سب کو پریشان کرنا ہںوتا ہںے۔ہانم بیگم نے اب کی سخت لہجہ اپنایا۔

آپ ماہ کو بھی ساتهہ لے چلے پھر۔شاہ میر نے شرط رکھی۔

میر تمہيں نیند کی ضرورت ہںے یہ کیا بہکی بہکی باتيں کر رہںے ہںو۔ہانم بیگم کو شاہ میر دماغی حالت پہ شک گزرا۔

نہیں ضرورت مجھے نیند کی اور مجھے ماہ کے بنا اب اکیلا نہیں رہنا آپ ان کو ساتهہ لے چلے یا مجھے ان کے پاس۔شاہ میر نے آرام سے ان کو بے آرام کیا۔

وہ کیوں اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے ساتهہ آۓ گی۔ہانم بیگم نے ضبط کرتے کہا۔

مجھے وہ پسند ہیں اور ميں انہيں مس کروگا اگر وہ ساتهہ نہ ہںوٸی تو۔شاہ میر نے وجہ بتاٸی۔

تمہيں بس ابھی ایسا لگ رہا ہںے بچے جس کے ساتهہ وقت گزارتے ہںے ان کی عادت ہںوجاتی ہںے پر بعد ميں بھول جاتے ہںے اور اپنی زندگی میں مصروف ہںوجاتے ہںے۔انہوں نے اپنی طرف سے حل بتایا۔

اب تو میں بلکل آپ کے ساتهہ ناں جاٶں ورنہ ماہ مجھے بھول جاۓ گی۔شاہ میر نے ان کی بات کا اپنا مطلب نکال کر پریشانی سے اپنا سر نہ میں ہلاتا بولا۔

میر یہ اب تمہيں مہرو کب سے اتنی اچهی لگنے لگی اتنی ضد تو وہاں نہیں کی تھی جتنی اب کررہںے ہںو۔ہانم بیگم کا دل کیا اپنا سر دیوار پہ دے مارے ۔

پہلی دفعہ جب ان کو دیکها تھا۔شاہ میر نے کجھ شرما کر کہا اس پہ  اپنی ماں کے غصے کا اثر نہیں ہںوا۔

وہ بچی نہیں ہںے میر تم اس کو یاد رہںوگے اس لیے اب ضد چھوڑو۔ہانم بیگم کو اپنے بیٹے کے لال چہرے کو دیکهہ بہت پیار آیا جو شرمانے کی وجہ سے ہںو تھا اس لیے اب کی بار آرام سے بولی۔

ماہ بھول جاۓ گی ۔شاہ میر نے پھر کہا۔

نہیں بھولے گی تمہاری ماہ تمہيں ۔ہانم بیگم نے شاہ میر کو ایک ہی ضد کرتے دیکهہ کر اکتاۓ لہجے میں کہا۔

ہاں میری ماہ مجھے نہیں بھولے گی۔شاہ میر نے ان کی بات میری ماہ پہ زور دے کر کہا اس کا چہرہ کِھل اٹها تھا جو کی ہانم بیگم نے اپنی جان خلاصی ہںونے پہ نہیں دیکها اور ساری پیکنگ خود ہی کرتی اپنے کمرے میں لوٹ گٸ جب کی شاہ میری کی زبان پہ ایک ہی ورد تھا میری ماہ تھا اور آنکهوں میں عجيب سی چمک ۔

دل دماغ جب ایک ہی شخص کا ورد کرے

تو اسے ”عشق“ کہتے ہیں۔

دن کے بارہ بجے تھے حيدر خان نے سارا سامان کیب میں رکھوادیا تھا اب بس وہ اٸيرپورٹ کے لیے نکلنے والے تھے۔سکندر خان  اور سارہ بیگم نے ان کو اٸيرپورٹ چھوڑنے آنے تک کا کہا پر انہوں نے منع کردیا اور یہی الوداع کیا مہرماہ شاہزیب ان کی واپس جانے پہ بے خبر تھے اور اب کالج گٸے ہںوۓ تھے شاہ میر جو پہلے ہی اداس تھا مہرماہ کو نہ دیکهہ کر اداس ہںوگیا تھا۔وہ لوگ کیب  میں بیٹھے تو شاہ میر کو ایک خيال آیا تو اپنے ڈیڈ کو کہا جو ڈراٸیور کے ساتهہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے تھے۔

ڈیڈ پہلے مجھے آپ ماہ کے کالج لے چلے میں ان سے مل کر جانا چاہتا ہںوں۔

میر ماہ سے کیوں ملنا ہںے اب وہ کالج میں ہںے اس طرح آپ کا جانا ٹھیک نہیں کل تو ویسے بھی آپ ملے تھے۔حيدر خان نے نرمی سے منع کیا۔

نو ڈيڈ وہ کل کی بات تھی مجھے ابھی ان سے ملنا ہںے۔شاہ میر نے ضد کی۔تو انہوں نے مجبورن ڈراٸيور سے گرلز کالج کے راستے پہ جانے کا کہا۔کالج کے آتے ہی حيدر خان اس کو لیے اندر داخل ہںوۓ اور پرنسپل کے آفس گٸے تو ان سے مہرماہ سکندر کو بولانے کا کہا۔تو شاہ میر نے ان سے کہا کے وہ جہاں ہںے اس کو وہاں جانا ہںے تو پرنسپل نے پیون سے کہہ کر شاہ میر کو ان کے ساتهہ جانے کا کہا تو وہ ان کے ساتهہ نکل گیا۔

مہرماہ اپنی دوستوں کو ساتهہ لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد گراؤنڈ میں تھی جب اس کو شاہ میر بھاگتا ہںوا اپنے پاس آتا دیکها اس کو حيرت ہںوٸی اور جلدی سے اٹهہ کر شاہ میرکے پاس پہنچی مونا اور ثانيہ بھی اس کو اور چھوٹے سے شاہ میر کو دیکهہ رہی تھی جو بھاگنے کی وجہ سے گہری سانسيں بھر رہا تھا۔

شاہ تم یہاں کیسے ؟اس کو نارمل ہںوتا دیکهہ کر مہرماہ نے سوال کیا۔

ہم جارہںے ہیں واپس تو میں آپ سے ملنے آیا تھا۔شاہ میر نے مہرماہ کو دیکهہ کر کہا۔

کیا کیوں اچانک ؟مہرماہ حيرانی ہںوٸی اور سمجھ نہ آیا کے کیا کہے۔

پتا نہیں پر ہم واپس جارہںے تو اگر میں آنے میں دیر کروں تو آپ میرا انتظار کرے گی نہ مجھے بھول تو نہیں جاۓ گی۔شاہ میر نے پریشانی سے اس سے پوچها ۔اس کی بات مہرماہ کو سمجھ میں نا آٸی جب کی مونا اور ثانيہ نے ایک دوسرے کو دیکها پھر شاہ میر کو جو پہلے ان کو بچہ لگ رہا تھا اب اس کی بات سن کر کہیں سے نہیں لگا۔

شاہ کیا مطلب ؟مہرماہ نے الجھ کر پوچها۔

میں آپ کا دوست ہںوں تو آپ بھولیں گی تو نہیں ناں۔شاہ میر نے اپنی طرف سے سمجھایا اس کی بات پہ تینوں نے گہری سانس بھری۔

نہیں میں تمہيں نہیں بھولوں گی کبهی بھی نہیں۔مہرماہ نے مسکراکر اس کے گال پہ ہاتهہ رکھ کر کہا۔تو شاہ میر کی آنکهوں میں پہلی دفعہ کسی کے لیے آنسو نکلے مہرماہ نے دیکها تو بوکھلاگٸ۔

شاہ رو کیوں رہںے ہںو؟اس نے پریشانی سے اس کے آنسو صاف کرتے کہا۔

پتا نہیں پہلے تو ایسا نہیں ہںوا۔شاہ میر نے اپنی ایک سے آنسو پہ ہاتهہ رکھ کر معصومیت سے کہا۔تو مہرماہ نے اس کو اپنے گلے لگایا۔شاہ میر کو اپنا دل عجيب سے انداز  میں دھڑکتا ہںوا محسوس ہںوا اس نے اپنے دل کو اتنے زور سے دھڑکتا سن کے گبھراکر   جلدی سے مہرماہ سے دور ہںوا اور کہنے لگا۔

میں اب چلتا ہںوں۔کہتے ہی وہ وہاں سے نکل گیا۔جب کی مہرماہ نے حيرانی سے شاہ میر کی حرکت نوٹ کی۔

کون تھا ؟مونا نے سوال کیا وہ اب اپنی جگہ پہ آگٸے تھے بیٹھ گٸے تھے مہرماہ بھی اس کے جاتے دیکهہ کر اداس ہںوگٸ تھی۔

کزن ہںے میرا شاہ میر چچا جان پہلی دفعہ اپنے بچوں یہاں لے آۓ تھے اور اب شاید اچانک سے جا بھی رہںے ہیں تو وہ اداس ہںوگیا ہںے شاید۔مہرماہ نے جواب دیا۔

ماشااللہ تھا بہت خوبصورت ۔ثانيہ نے مسکرا کر کہا۔

ہاں وہ تو ہںے۔مہرماہ نے اس کی بات پہ کہا۔

کجھ سال بعد کو تو اس میں اور ہی چارم ہںوگا۔مونا نے کھوۓ ہںوۓ لہجے میں کہا۔

تمہيں کیا ہںوگیا ہںے۔مہرماہ نے اس کے اس طرح کہنے پہ کہا۔

کجھ نہیں۔ مونا ہنس کر بولی۔

شاہ میر کالج سے نکل کر کیب میں بیٹھا تو ہانم بیگم اس کی بھیگی آنکهيں دیکهہ کر پریشانی سے بولی۔

میر کیا تم روۓ ہںو ؟

نہیں۔شاہ میر نے بنا ان کی طرف دیکهہ کر کہا۔تو وہ چپ رہی پر پریشان ضرور تھی کہ شاہ میر رویا کیوں ہںوگا وہ تو آیان کے رونے پہ بھی غصہ ہںوتا تھا کہ روتے نہیں۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دن گزر رہںے تھے مہرماہ اور شاہزیب کے امتحان شروع ہںوگٸے جس میں وہ دونوں بس اپنے کمرے تک محدود ہںوکے رہ گٸے نہ مہرماہ کو ناولز پڑھنے کا ٹائم تھا اور نہ شاہزیب کو اپنی موبائل کو دیکهنے کا دونوں مصروف ہںوگٸے تھے اور سنجيدگی سے اپنے امتحانات کی تیاریوں میں تھے۔

جب کی  حيدر خان جیسے لنڈن پہنچ گٸے تو ان کے بزنس کا کجھ لوس ہںوا ہںوگیا جس کی وجہ سے وہ اب اپنے آفس کے کاموں میں لگے رہتے ہيں۔ان کے آنے کے کجھ دن تو شاہ میر نے مہرماہ کے پاس جانے کی ضد کی جس پہ کبهی ہانم بیگم نے پیار سے سمجھایا تو کبهی سختی سے بس اپنی پڑھاٸی پہ دھیان دے پر اس کی وہی ضد پھر مہینے بعد شاہ میر نے ان سے مہرماہ کا زکر کرنا چھوڑ دیا اور کہا کہ وہ اب جم جواٸن کرنا چاہتا ہںے ہانم بیگم نے کجھ اعتراض تو کیا پر حيدر خان نے اس کی بات مان لی تھی ہانم بیگم نے بھی سکون کا سانس لیا کہ چلو وہ مہرماہ کو بھول گیا پر شاہ میر مہرماہ کو بھولا بلکل نہ تھا اور اب یہ ہںوگیا تھا کہ وہ نماز پانچ ہی وقت کی پڑھنے لگا تھا اور اب کوٸی ضد بھی نہیں کرتا بس چپ ہی رہتا تھا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ کالج سے آکر ابھی بیٹھی ہی تھی کے شاہزیب بھی اس کے ساتهہ بیٹھنے والے انداز میں لیٹ گیا۔

مہرو اٹهو اور پانی لاٶ۔شاہزیب نے تھکے ہںوۓ لہجے ميں مہرماہ سے کہا جو آخری پیپر دے کر سکون محسوس کررہی تھی اس کی بات پہ اس نے کہا۔

ہاں میرے لیے بھی لانا بڑی بہن ہںوں ثواب ملے گا۔

میں نے تمہيں بولا ہںے۔شاہزیب نے کہا۔

اور میں نے تمہيں بڑی بہن کو کام کہتے ہںوۓ شرم نہیں آتی۔مہرماہ نے اس کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی۔

نہیں شرم کس بات کی بہن تم میری اگر تمہيں نيکی کرنے کا موقع نہیں دوگا تو کس کو دوگا۔شاہزیب نے مزے سے بتایا۔تبھی کلثوم بی ان دونوں کے لیے پانی لے آٸی جو انہوں نے شکریہ کہہ کر تھام لیا۔

امی جان نہیں کیا گھر پہ ؟شاہزیب نے پوچها 

میں بھی ابھی آٸی ہںوں نہیں پتا۔مہرماہ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اچها میں تو اب کمرے میں جاؤں گا اور جَم کے آرام کروں گا امتحانات نے تو سانس خشک کردیا تھا۔شاہزیب اٹهہ کر انگڑاٸی لیتے ہںوۓ مہرماہ سے کہا۔

جاٶ پھر کھڑے کیوں ہںو۔مہرماہ میں نے جانے کا کہا۔

جاتا ہںوں۔شاہزیب کہتا اپر کی جانب بڑھ گیا ۔اس کے جانے کے بعد مہرماہ بھی اپنے کمرے کی طرف گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

ایک سال بعد :

شاہ میر اپنی کلاس میں رجسٹر پہ کجھ لکھ رہا تھا جب اس کا دوست ریان اس کے پاس آیا وہ دنوں ایک ہی عمر کے تھے پر نیچر دونوں کی الگ تھی شاہ میر کو کم بولنا پسند تھا تو ریان کو بس بولنا ریان جب تک صبح اسکول میں آتے کسی سے لڑنا لیتا اپنی کلاس میں ٹھیک سے پڑھ نہ پاتا۔پر پھر بھی وہ شاہ میر کا اکلوتا دوست تھا۔

تم یہاں ہںو اور میں باہر انتظار کررہا تھا۔ریان اس کے پاس بیٹھتا بولا۔

ہاں بس کجھ کام تھا۔شاہ میر نے بہانا کیا۔

میر تم جم جاتے ہںو نہ تو چلو نہ باہر کسی سے فاٸيٹ کرتے ہيں۔ریان نے اس کو دیکهہ کر کہا جس کو جم جواٸن کرتے ایک سال ہںونے والا تھا۔

لڑنے کے علاوہ بھی کجھ سوچ لیا کرو۔شاہ میر نے بیزاری سے کہا۔

اور تم بھی رجسٹر پہ ماہ لکھنے کے علاوہ کجھ اور کیا کرو۔ریان نے بھی ناک چڑها کر اپنا بدلا لیا۔

ماہ اس کو بس میں بول سکتا ہںوں ۔شاہ میر کی آنکهيں پل میں سرخ ہںوٸی تھی اور اس نے غصے سے ریان کو گھور کر کہا۔

اچها نہ میں نہیں کہتا پر اس طرح گھوڑنا تو بند کرو۔ریان نے اس کو ایسے دیکهنے پہ ڈرتے ڈرتے کہا۔

تم نے جولیا میم کو اساٸمنٹ بنا کے دیا تھا کہ نہیں؟ شاہ میر بات بدل کے بولا۔

نہیں یہ مجھ سے نہیں ہںوتا۔ریان نے شرمندہ ہںونے کے بجاۓ ڈھٹاٸی سے ہنس کر بولا تو شاہ میر نے اپنا سر نفعی میں ہلایا اور بیگ تھام کر کلاس سے نکلنے لگا تو ریان بھی اس کے ساتهہ چل کم اور بھاگ زیادہ رہا تھا اور سامنے آنے والے بچوں کے کبهی بال پکڑتا تو کبهی کسی اپنی عمر کی بچی کو دیکهہ کر آنکهہ مارتا شاہ میر لاپرواہ سا چلتا آرہا تھا اس کو ریان کی عادت کا پتا تھا۔

انسانوں کی طرح چلو اب بندر کی طرح اچهلو مت۔شاہ میر نے اس کو گول گول کلابازی کرتے دیکها تو ٹوکا کیوں کی ایسے کرتے ہںوۓ کسی کو چوٹ بھی آسکتی تھی اور اسے خود بھی۔

بندر مطلب Monkey ؟ریان نے لڑکے سے بال لیتے اس کو اپنے ہاتهہ میں گول گول پھیرتے پوچها۔

یس۔شاہ میر نے کہا۔

ہاہاہاہاہاہاہا۔اب بندر اتنے خوبصورت ہںوتو کوٸی ان کو بندر کیوں کہتا۔ریان نے قہقہقہ لگا کر اپنی تعریف کی اور بنا دیکهے بال کو زور سے لات ماری جو سامنے دور کھڑے ان کے سینٸر کے گروپ میں ایک بدمعاش لڑکے کی بیک پہ جا لگی اور سب بچے ہنسنے لگے پر ریان نے تو حد ہی کردی ڈرنے یا سوری کے بجائے زور زور سے قہقہقہ لگایا بال لگی ہی ایسی جگہ پہ تھی کہ ریان کو اپنی ہنسی روکنا مشکل لگا جب کی شاہ میر کو ہنسی آٸی پر اس نے اپنا چہرہ جھکادیا۔وہ لڑکا جو اچانک بال لگنے کی وجہ سے غصہ تھا کہ کس نے کیا اپنے ساتهہ جس کا چہرہ ریان اور شاہ میر کی طرف ہی تھا اس نے اشارے سے ریان کی طرف بتایا جو اب نیچے بیٹھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ کا شکار ہںوگیا تھا اور جن کی ہنسی لڑکے کو غصے میں دیکهہ کر بند ہںوگٸ تھی دوبارہ ریان کی طرف دیکهہ کر نکل گٸ۔شاہ میر اس کو چلنے کا کہہ رہا تھا پر وہ سن ہی نہیں رہا تھا پھر وہ پورہ گروپ ان کی طرف آیا اور انگریزی میں ریان سے کہا جو ان کو دیکھ کر شاہ میر کے ساتهہ کھڑا ہںوا تھا۔تمہاری ہمت کسے ہںوٸی ہم سے پنگا لینے کی ۔

ہمت کی کیا بات یہ تو میری ٹانگ کا کمال ہںے۔ریان نے فخریہ انداز میں بتایا۔

تیری تو۔وہ غصے میں ریان کے منہ پہ مکہ مارنے والا تھا جو شاہ میر نے آگے آکر بیچ میں ہی روک دیا۔ریان جو اپنی آنکهيں بند کرلی تھی  کھول کے دیکها تو نظر آیا کہ لڑکے کے مکے والا ہاتهہ شاہ میر کے ہاتهہ میں تھا۔

یہ ہرگز نہ کرنا ریان سے غلطی سے ہںوگیا ورنہ اس کا ایسا کوٸی ارادہ نہ تھا ۔شاہ میر نے اس کا ہاتهہ چھوڑ کر صلح انداز میں کہا۔جس پہ لڑکا اور تپا۔

تم بیچ میں نہ آٶ اسکی تو میں آج ایک دو ہڈی توڑ کے ہی رہںوگا وہ غصے میں گالی بک کر بولا ۔جس پہ ریان نے اس کو زبان دیکھاٸی ڈرا اس سے وہ اب بھی نہ تھا۔

اپنی زبان پہ ذرہ کنٹرول رکھے کہا نہ میں نے کہ غلطی سے ہںوا ہںے۔شاہ میر نے اب سختی سے کہا۔

پہلے تمہيں ہٹانا پڑے گا۔لڑکے نے کہتے ہی شاہ میر پہ حملا کرنا چاہا پر شاہ میر شاید پہلے ہی تیار تھا اس لیے دوبارہ اس کا ہاتهہ روکے دوسرے ہاتهہ سے پوری قوت سے اس کے جبڑے پہ مکہ دے مارا جس سے سب کے منہ اوووو کے انداز سے کھل گٸے تھے ریان نے جمپ لگاکر کہا۔ گڈ شوٹ میر ون مور جس پہ شاہ میر نے اس کو گھورا تو اس نے اپنا جملا بدل دیا نو ون مور کہہ کر

لڑکے نے جس نام بوبی تھا اس نے اپنے منہ پہ ہاتهہ رکھا تھا تو منہ سے خون نکلا تھا وہ شاہ میر کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ اس کے دوستوں نے روک دیا کہ بعد میں دیکهہ لیں گے۔تو وہ شاہ میر کو گھورتا ہںوا اپنے کلاس کی جانب گیا۔شاہ میر ان کے جانے کے بعد اپنا گرا ہںوا بیگ تھاما اور ریان کو دیکها جو داد بھری نظروں سے اس کو دیکهہ رہا تھا پھر شاہ میر نے کہا۔

اب چلنا ہںے یا ان کے واپس آنے کا انتظار کرنا ہںے ؟

نہیں نہیں انتظار کیوں کرنا ہںے چلو۔ریان نے جلدی سے کہا کہ کہیں سچ میں ہی نہ آجاۓ۔

ایسا کیوں کرتے ہںو؟اور وہ اتنے لوگ تھے گروپ کے تمہيں ڈر نہیں لگا ؟شاہ میر نے چلتے چلتے اس سے پوچها۔

نہیں تم جو ساتهہ تھے تو ڈر کس بات کا۔ریان نے عام لہجے میں کہا۔

اچها ۔شاہ میر اس کی بات پہ مسکرادیا۔

ویسے میری بات جو تم نے نامانی گوڈ نے کیسے میری دل کی بات بغير کہے مان لی۔ریان نے پرجوش آواز میں کہا۔

کونسی بات میں نے نہیں مانی ؟اور اللہ نے مان لی۔شاہ میر کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آٸی۔

یہیں فاٸٹنگ کرنے والی۔ریان نے اپنے ہاتهوں سے اشارہ کرتے بتایا۔تو شاہ میر نے نفعی میں سرہلادیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سکندر خان یہ سب رات کے کھانے کی ٹيبل پہ تھے۔جب سارہ بیگم نے سب کو دیکها پر سکندر خان سے بولی۔

آج نادیہ کا فون آیا تھا وہ اور ان کی نند حمیرا کل آنا چاہتی ہيں۔ان کی بات پہ مہرماہ کے کان کھڑے ہںوۓ۔

اچها بتاکر آرہی ہيں کوٸی خاص وجہ ؟انہوں نے پوچها 

وہ تو کل آۓ گے تو پتا چلے گا۔انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

ٹھیک ہںے ویسے بھی کل اتوار ہںے۔سکندر خان بولے۔

اور تم دونوں کی پڑھاٸی کیسی چل رہی ہںے۔سکندر خان نے مہرماہ شاہزیب سے پوچها 

زبردست ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

ٹھیک بابا جان۔شاہزیب دل پہ پتھر رکھ کہ بولا۔

بس ٹھیک۔مہرماہ نے شرارت سے پوچها 

ہاں جی ۔شاہزیب دانت پیستا بولا۔

مہرماہ کھانے کے بعد کمرے میں آٸی تو اس کا بج رہا تھا اس نے کال کرنے والے کا نام تو جلدی سے کال پَک کی۔

اسلام علیکم ! مہرماہ نے سلام کیا۔

وعلیکم اسلام کیسی ہںو مہرو ؟دوسری طرف شہیر نے پوچها ۔

میں الحمداللہ ٹھیک اور آپ کیسے ہیں؟مہرماہ نے جواب کے بعد سوال کیا۔

میں بھی ٹھیک۔شہیر نے جواب دیا۔

آپ کو کوٸی کام تھا۔مہرماہ نے کال کرنی کی وجہ جاننی چاہی۔

بس بات کرنے کے لیے کال کی تھی تمہيں بُرا لگا شاید۔شہیر نے جانچنے والے لہجے میں کہا۔

ارے نہیں بُرا نہیں لگا میں نے ویسے ہی پوچها ۔مہرماہ جلدی سے بولی۔

اچها وہ کل امی اور مامی جان آۓ گی۔شہیر نے کہا۔

جی وہ امی جان نے بتایا تھا۔مہرماہ نے جوابن کہا۔

ہمارے رشتے کی بات کرنے آۓ گی۔شہیر نے اس کے سر پہ بم گِرایا۔

ک ک کیا م مطلب؟ مہرماہ کو لگا اس نے غلط سنا ہںے اس لیے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں پوچها ۔

مطلب اتنا مشکل تو نہیں۔شہیر نے کہا۔

ہممم۔مہرماہ نے بس اتنا کہا اس کا زور سے دھک دھک کر رہا تھا اس کو یقين نہیں آرہا تھا جس کو وہ چاہتی ہںے اللہ اس کو بن مانگے دے گا۔

تمہيں اعتراض تو نہیں ہںوگا نہ ؟شہیر نے تصدیق مانگی

میں کیا کہہ سکتی ہںوں ابھی یہ اختیار تو میں نے امی بابا کو دیا ہںے۔مہرماہ نے صاف گوٸی سے کام لیا۔

ہاں پر میں یہ پوچهنا چاہ رہا تھا کہ اگر ان کو اعتراض نہیں تو تمہيں بھی نہیں ہںوگا نہ اگر وہ تمہاری رضامندی پوچهے تو۔شہیر نے اس سے مرضي پوچهنی چاہی۔

اگر ان کو اعتراض نہیں ہںوگا تو مجھے کیوں ہںوگا۔مہرماہ نے سکون سے جواب دیا۔

اچها میں لڑکی راضی سمجھو ؟شہیر نے شرارتً پوچها 

پتا نہیں۔مہرماہ نے کہہ شرما کر کال کٹ کردی اور اپنے دل پہ ہاتهہ رکھا جو زور سے دھڑک رہا تھا پھر اس نے حور کو کال کی جو اس نےپہلی دفعہ میں اٹهالی تھی۔

مجھے پتا تھا تمہاری کال ضرور آۓ۔حور نے کال اٹها کر کہا۔

تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔مہرماہ نے ناراضگی سے کہا۔

سوچا کل بتادوگی پر مجھے نہیں تھا کہ شہیر بھاٸی اتنے بے صبرے ہںوگے۔حور نے ہنس کر کہا تو پل میں اس کا چہرہ سرخ ہںوگیا پھر بولی۔

کال کی انہوں نے تو تمہيں یہ کیسے پتا ؟

اوہںو ابھی سے انہوں نے۔حور نے شرارت سے کہا۔

حور تنگ نہ کرو۔مہرماہ نے التجا کی۔

اچها نہیں کرتی ۔کال کا انہوں نے بتایا تھا مجھے کے کال کرینگے تمہيں  اور مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے ضرور بتاٶگی۔حور نے بتایا۔

اچها اتنا یقين ۔مہرماہ اس کے جواب پہ ہنس پڑی۔

بلکل اور مجھے تم سے کجھ پوچهنا تھا۔حور نے کہا۔

پوچهو۔مہرماہ نے اجازت دی۔

کیا تمہيں شہیر برو سے محبت ہںے ؟حور نے پوچها 

پتا تو ہںے تمہيں میں ان کو پسند کرتی ہںوں۔مہرماہ نے اس کے سوال پہ کہا۔

محبت اور پسند میں فرق ہںوتا ہںے مہرو پسند ہمیں ہر اچهی چیز آتی ہںے پر محبت میں یہ فرق ہںوتا ہںے کہ وہ ہمیں ہر ایک سے نہیں ہںوتی اور نہ ہمیں اچهی چیزوں سے ہںوتی ہںے محبت ایک بے اختیار جذبہ ہںے اس کو ہم کرتے نہیں پر ہںوجاتی ہںے۔حور نے اس کے جواب پہ بتایا۔

حور یہ آج تم ایسے کیوں پوچهہ رہی ہںو؟مہرماہ کو اس کی باتيں سر سے گزرتی محسوس ہںوٸی۔

کیوں کی پہلے پوچهنا ضروری نہیں لگا اور آج لگا تو پوچه لیا۔حور نے لاپروٸی سے کہا۔

محبت کا تو نہیں پتا پر وہ اچهے لگتے ہيں۔ان کی مقناطیس سی شخصيت اور ان کے بات کرنے کا انداز مطلب ویسے ہی ہیں وہ جیسے ناول کے ہيرو ہںوتے ہيں ان کا رنگ صاف نہیں پر وہ اچهے ایسا سمجھ لوں کے ان سے کرش ہيں مجھے۔مہرماہ کو جو لگا اس نے بتا دیا۔

مطلب محبت نہیں پسندیدگی ہںے۔حور نے اس کی باتوں سے یہی اندازہ لگایا۔

کجھ ایسا ہی سمجھو۔مہرماہ نے کہا۔

تمہيں نہیں لگتا کہ انسان کو اسے اپنا  ہمسفر بنانا چاہٸیے جس سے وہ محبت کرتا ہںے۔حور نے اس سے پوچها 

ہاں بنانا چاہٸیے۔پر میرے خيال سے انسان کو اصل محبت زیادہ تر نکاح کے بعد ہںوتی ہںے۔ پر محبت کے بعد نکاح بہت کم ہںوتے ہیں۔اسلام میں محبت کرنا گناہ نہیں جس سے محبت کرو اس سے نکاح بھی کرو۔مہرماہ نے اس کی بات پہ خوبصورت الفاظ کہے۔

تم بہت اچهی باتيں کرتی ہںو مہرو تم بات کرنے وقت خوبصورت الفاظ کا انتخاب کرتی ہںو۔حور نے صدق دل سے مہرماہ کی تعریف کی۔

تمہيں پتا ہںے حضرت علیؓ کیا فرماتے ہیں؟مہرماہ نے اس کی بات سن کر مسکراکر پوچها 

تم بتاٶ۔حور نے کہا

جس طرح شبنم کے قطرے مرجھاۓ ہںوۓ پھول کو تازگی بخشتے ہیں۔اس طرح اچهے الفاظ مایوسی کو روشنی بخشتے ہیں۔مہرماہ نے مسکراکر بتایا۔

سُبحان اللہ۔حور کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

اس لیے میں کوشش کرتی ہںوں کہ اچها اچها بولوں جو سننے والوں کے دلوں میں تازگی بخشے ان کو پسند آۓ اور میرے منہ سے ایسے الفاظ نہ نکلے کہ سامنے والے کا دل ٹوٹيں میں کوشش بہت کرتی ہںوں۔مہرماہ نے کھوۓ ہںوۓ لہجے میں کہا۔

تم بھی اچهی ہںو مہرو۔حور نے مسکرا کر کہا۔

اچها اب باتيں بہت ہںوگٸ ہیں تم بھی سوجاٶ مجھے بھی نیند آرہی ہںے۔مہرماہ نے کہا۔

اچها سونا بھی ہںے کیامجھے لگا بس باتيں کرنی ہںے۔حور نے اس کی بات پہ مصنوعی حيرانکن لہجے میں کہا

سوجاٶ اب۔مہرماہ نے کہہ کر کال کٹ کردی اور سونے کے لیے لیٹ کر آنکهيں بند کردی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

صبح اس کی آنکهہ دیر سے کھلی تھی۔وہ جب لاؤنج میں آٸی تو اس کی پھوپھو اور ان کی نند حمیرا وہ دونوں سارہ بیگم کے ساتهہ باتوں میں مصروف تھی۔مہرماہ نے بھی ان کو سلام کرکے ان کے ساتهہ بیٹھ گٸ۔

پھر ان کی باتوں کو نا سمجھ کر دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلی گٸ۔اس کے جاتے ہی حمیرہ نے کہا۔

دیکهو سارہ میں نے تمہيں اپنے یہاں آنے کا مقصد بتادیا ہںے اب تم سکندر بھاٸی سے بات کرکے مجھے جواب دینا

جی حمیرہ میں سکندر سے بات کرکے آپ کو کال پہ بتادوگی شہیر سے زیادہ بہتر مہرو کے اور کوٸی ہںو بھی نہیں سکتا اچها ہںے اگر وہ اور مہرو بھی راضی ہںوجاۓ تو۔سارہ بیگم نے ان کو مطمئن کیا۔

صحیح ہںے بھابھی نادیہ نے اماں جان سے بات کرلی تھی ان کو اعتراض نہیں اور ہم بھی تو ابھی بس منگنی کی رسم کرے گے شادی تو ان کی پڑھاٸی مکمل ہںونے کے بعد ہی۔حمیرا بھی خوش ہںوتے ہںوۓ ان سے کہا۔جس پہ وہ مسکرادی۔

ان کے جانے کے بعد سارہ بیگم اپنے کمرے میں آٸی جہاں سکندر خان لیپ ٹاپ پہ کوٸی کام کر رہںے تھے۔

مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔سارہ بیگم نے ان کو مصروف دیکهہ کر کہا۔

بتاٶ بیگم کیا بات ہںے۔انہوں نے اجازت دی۔

حمیرا  اپنے بیٹے شہیر کا رشتہ مہرو سے کرنا چاہتی ہںے۔ان کو بتایا۔

کیا جواب دیا ان کو پھر ؟سکندر خان نے پوچها 

میں نہیں ابھی جواب نہیں دیا ان سے کہا کہ آپ سے بات کرلوں پھر۔سارہ بیگم نے کہا۔

اچها کیا ہم ان کو ابھی جواب نہیں دیتے مہرو سے پوچهو پہلے شہیر کے رشتے میں کوٸی خامی نہیں جو ہم انکار کرے پر اگر مہرو انکار کرے تو آپ بات کو ختم کیجٸیے گا زور زبردستی نہیں مہرو کو حق ہںے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلا وہ خود کرے اور راضی ہںوجاتی بھی ہںے تو ایک سال تک ہم کوٸی رسم نہیں کرۓ گے۔کیوں کی اتنی جلدی ٹھیک نہیں سال بعد مہرو اٹهارہ کی ہںوگی تب کرے گے اور میں حیدر سے بھی بات کرلوں جب سے وہ گیا ہںے تو اس سے بات ہی نہیں ہںوٸی۔سکندر خان نے ایک ہی دفعی میں ان سے کہہ دیا

میں مہرو سے بات کرکے بتاٶگی ۔سارہ بیگم نے مطمئن ہںوکر کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سارہ بیگم نے مہرماہ سے بات کرلی تھی جس سے اس نے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا تھا پھر انہوں نے سکندر خان کو بھی بتادیا اور کال پہ حمیرا سے بھی کہہ دیا پر منگنی کا ایک سال کا وقت مانگا جو انہوں نے خوشی خوشی  دے دیا۔سکندر خان نے حيدر خان کو بھی مہرماہ کے رشتے کا بتایا پر ابھی منگنی نہیں کی یہ بھی جسے سنتے حيدر خان کجھ پل تک تو کجھ نہ بولے پھر انہوں نے کہا کہ اچها کیا کہ مہرماہ کا رشتہ اس کی رضامندی سے کر دیا پھر ایسے ہی انہوں نے حال احوال کر کے بات ختم کردی تھی۔حيدر خان نے مہرماہ کے رشتے کی بات اپنے گھر میں کسی کو نہیں بتاٸی۔ایسے ہی وقت گزرتا جارہا تھا شاہ میر جو پہلے بارہ سال کا تھا اب چودہ سال کا ہںوگیا تھا ان دو سالوں میں شاہ میر میں بہت بدلاٶ آیا تھا جم ہر روز جانے کی وجہ سے اس کا جسم مضبوط ہںوگیا تھا۔اس کے زیادہ نہیں تو کجھ مسلز بھی بن چُکے تھے شاہ میر اب پہلے کی طرح بچہ نہیں رہا تھا اب اس کو کوٸی دیکهہ کر نہ یہ کہہ سکتا تھا اور نہیں بچہ سمجھ کر اس کی بات نظرانداز کرسکتا تھا۔شاہ میر اور ریان نے بھی اب کالج کی زندگی میں قدم رکھا تھا۔ریان کی حرکتوں میں کمی ذرہ بھی نہیں آٸی تھی۔ایسے ہی آج وہ لنڈن کی سڑکوں پہ آوارہ گردی کر رہںے تھے کہ شاہ میر کو اپنی طبيعت اچانک خراب محسوس ہںوٸی۔

ریان مجھے بہت گبھراہٹ ہںورہی ہںے۔شاہ میر نے اپنے سینے پہ ہاتهہ رکھ کر ریان سے کہا۔

میر کیا ہںوا تمہاری طبيعت نہیں ٹھیک تو بیٹھو یہاں ۔ریان اس کی بات پہ پریشان ہںوتا پاس پڑے بینچ پہ اس کو بیٹھایا اور اس کے ماتھے پہ ہاتهہ رکھ کے چیک کیا۔

میر میں انکل کو کال کرتا ہںوں۔ریان فکرمند ہںوتا بولا۔پر شاہ میر کو کجھ سمجھ نہیں آیا تھا دل میں عجیب سی بے چینی اور گھبراہٹ سی ہںوگٸ تھی۔جیسے کجھ بُرا ہںونے والا تھا۔ریان نے حيدر خان کو کال کرکے شاہ میر کا بتایا تو انہوں جگہ کا پوچها تو ریان نے بتایا۔ریان نے جب شاہ میر کو دیکها تو اس کی چیخ نکل گٸ کیوں کی شاہ میر بے ہوش ہںوچکا تھا۔

میر۔میر آنکهيں کھولو انکل بس آنے والے ہںوگے۔ریان نے شاہ میر کو جگانے کی کوشش کی پر وہ نہ اٹها ریان نے پریشانی سے دوبارہ حيدر خان کو کال کی اور بتایا۔حيدر خان نے آتے ہی شاہ میر کو گاڑی میں لیٹایا۔اور ہںوسپٹل کی طرف گاڑی بڑھادی ریان بھی ان کے ساتهہ تھا۔ہںوسپٹل میں آتے ہی جب شاہ میر کو وارڈ روم لے گٸے تو آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر نے واپس آکر ان سے کہا

آپ کے مریض کے دل کی دھڑکن آہستہ آہستہ چل رہی ہںے اور یہ کیوں ہںے ہم سمجھ نہیں پارہںے وہ ہںے بھی کم عمر آپ دعا کرے کے ان کی ہارٹ بیٹ نارمل ہںوجاۓ 

یہ آپ کیا کہہ رہںے ہیں دل کی دھڑکن آہستہ کیوں وہ تو بلکل ٹھیک تھا اور آپ تو ڈاکٹر ہںے کیسے جان نہیں پارہںے کہ کیا مسلا ہںے۔حيدر خان نے ان کی بات پہ پریشانی سے کہا۔

ہم اپنی طرف سے کوشش کر رہںے۔پر کجھ خاص معلومات نہیں ہںوٸی یہ کجھ عجيب سا کیس ہںے ڈاکٹر نے کہتے ہی وہاں سے نکلے جب کی حيدر خان بینچ پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گٸے۔

انکل میر ٹھیک تو ہںوجاۓ گا نہ ۔ریان نے پریشانی سے ان سے پوچها ۔وہ کجھ کہتے کے ان کا موبائل رنگ کرنے لگا دیکها تو پتا چلا پاکستان سے تھی انہوں نے سانس بھر کر کال اٹهالی۔

حیدر کہاں مصروف ہںو میں کب سے تمہيں کال کررہا تھا۔سکندر خان نے ان سے کہا۔

کہیں نہیں آپ بتائيں خيریت ہںے سب۔انہوں نے پوچها 

ہاں آج مہرو کی منگنی تھی آج تو میں چاہتا تھا کہ تم سب لوگ اسکاٸپ پہ بات کرتے۔سکندر خان کی بات پہ انہوں نے اپنی آنکهيں زور سے بند کرکے کھولی پھر کہا۔

بہت مبارک ہںو مہرو کی منگنی کی میں کجھ مصروف تھا بعد میں بات کرینگے حيدر خان نے اپنی بات کہہ کر کال کٹ کردی۔حيدر خان کو آج اپنا شک درست لگا وہ جو ہر دفعہ نظرانداز کر دیتے تھے کہ ایسا نہیں ہںوگا پر آج وہ اس بات سے چاہ کر بھی منہ نہیں موڑسکے کہ ان کے میر کو کم عمری میں ہی عشق ہںوگیا ہںے۔اس کو بھلے پتا نہ ہںو پر دل کو پتا لگ گیا تھا کہ اس کا عشق آج کسی اور کے نام ہںوگیا تھا۔حيدر خان ایک مضبوط مرد ہںوکر بھی اپنے بیٹے کے لیے رو پڑے اور ریان جو پہلے ہی پریشان تھا اب اور زیادہ ہںوگیا تھا۔

ساری رات گزر گٸ تھی پر شاہ میر کی دھڑکن نارمل اسٹیج پہ نہیں آٸی تھی۔حيدر خان نے ہانم بیگم سے بہانا کردیا تھا کہ ابھی وہ اور شاہ میر کجھ دن تک نہیں آۓ گے باقی باتيں وہ گھر آکر کرینگے جب کی ریان کو بھی انہوں نے اپنے گھر بھیج دیا تھا۔دن کے بارہ بج گٸے تھے جب ڈاکٹر نے شاہ میر کے خطرے سے باہر آنے کی خبر دی تھی کہ اب اس کی دھڑکن نارمل ہںوگٸ ہںے اور اب آپ کجھ دیر بعد مل سکتے ہںے یہ بھی کہ وہ اتنے بڑے ڈاکٹر ہںوکر بھی یہ جان نہیں پاۓ کے شاہ میر کو ہںوا کیا تھا ان کو کوٸی مرض معلوم نہ ہںوسکا۔پر حيدر خان نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کے میر کو نٸی زندگی دی تھی۔

عمر نہیں تھی عشق کرنے کی 

ایک چہرہ دیکها اور گناہ کر بیٹھے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سات سال بعد !

ہاں نہیں میں بس آرہی ہںوں۔مہرماہ نے جلد سے سیڑھیا اُترتے ہںوۓ کال پہ کہا۔

امی جان زیب کہاں ہںے ؟مہرماہ نے کچن میں آتے سارہ بیگم سے پوچها 

وہ تو تمہارے بابا کے ساتهہ آفس چلاگیا۔سارہ بیگم مصروف سے انداز میں کہا۔

کیا امی جان آپ نے روکا کیوں نہیں اس کو مجھے میری دوست کے گھر ڈراپ کرنے جانا تھا۔مہرماہ نے ان کی بات پہ شاک سے کہا۔

ڈراٸیور سے کہو چھوڑآۓ گا یہ اتنا بڑا مسلا نہیں جو زیب آفس کو روکتی میں۔سارہ بیگم اس کی بات پہ سرسری سے کہا۔

اور مجھے جو اتنا ہںونے کے بعد زیب کے ساتهہ جانا تھا اس کمینے سے میں نے کہا بھی تھا پھر بھی۔مہرماہ نے ان کو اپنی طرف اشارہ کرتے کہا جس نے اسکن کلر کا فراق پہنا تھا جو اس کے پاٶ کے کجھ اُپر تھا بال کھولے ہںوۓ تھے اور کندھوں پہ کالے رنگ کی چادر پہنی تھی۔چہرے پہ ہلکہ سا میک اپ اور ڈارک لپسٹک لگاٸی تھی۔

مہرو اب بڑے ہںو تم ایسے گالیاں منہ سے نہ نکالو ایسے اگر کبهی شہیر یا اس کے کسی گھر والوں نے سن لیا تو کیا کہے گے کہ کیسی بداخلاق لڑکی ہںے۔سارہ بیگم نے اس کی ساری بات ان سنی کرتی آخری بات پہ اس کو ٹوکا۔

امی جان اب اتنی بھی گالیاں نہیں دیتی میں اور شہیر کو میری اس عادت کا پتا ہںےآپ فکر نہ کرے۔مہرماہ نہ ان کی بات پہ بے فکری سے کہا۔

تمہيں دیر نہیں ہںورہی تھی۔سارہ بیگم نے اس کو کہا کیوں پتا تھا مہرماہ کو سمجھانا ان کی بس کی بات نہیں۔

ارے ہاں بہت میں جارہی ہںوں ڈراٸيور کے ساتهہ۔مہرماہ سر پہ ہاتهہ مارتی ان سے کہنے لگی اور نکل گٸ۔

اگر ڈراٸيور کے ساتهہ جانا ہی تھا تو اتنا ڈرامہ کیوں کیا۔اس کے جاتے ہی سارہ بیگم منہ میں بڑبڑاٸی۔

مہرماہ مونا کے گھر آٸی تو پارٹی شروع ہںوگٸ تھی۔آج مونا کی سالگرہ کا دن تھا جس پہ اسنے اپنی سب دوستوں کو انواٸٹ کیا تھا۔پارٹی گھر کے باہر لان میں کی گٸ تھی اور ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیا ٹیبل بہت خوبصورت طریقے سے سجاٸی گٸ تھی۔اور بیچ میں کجھ بڑی ٹیبل پہ کیک رکھا گیا تھا۔مہرماہ مونا کے باس آگٸ۔اور کہا۔

سالگرہ مبارک ہںو۔اللہ تمہاری ہر خواہش پوری کرے ۔

شکریہ یار۔مونا نے مسکراکر اس سے گلے ملی۔

بہت پیاری لگ رہی ہںوتم۔مہرماہ نے اس کو دیکهہ کر تعریفی انداز میں کہا مونا نے سلور کلر کی میکسی پہنی ہںوٸی تھی اور بالوں کا جواڑا بنایا ہںوا تھا مناسب میک اپ کیے وہ بہت اچهی لگ رہی تھی۔

ہاں پر تم سے کم۔مونا ہنس کر اس کو دیکهہ کر بولی۔

یہ تو سچ ہںے مہرماہ کی تو بات ہی کجھ اور ہںے۔مونا کی ایک کزن نے اس کی بات پہ کہا۔

اچها اب بس۔مہرماہ نے ان کی تعریف پہ جھنپ کر کہا۔

ویسے تمہارے لیے تمہارے جیسا ہی کوٸی سوٹ کرتا ہںے شہیر اتنا اچها نہیں لگے گا تمہارے سامنے۔ایک اور لڑکی نے مہرماہ کو دیکهہ کر کہا۔

سوری پر میں اپنی پرسنل زندگی کے بارے میں ایسی کو بات نہیں سنوگی۔مہرماہ نے اس کی بات پہ سنجيدگی سے ٹوکا۔

سوری میں نے ایسے ہی کہا۔مونا کی کزن نے معزرت کی۔

مہرو اپنا فون دینا۔مونا نے مہرماہ سے کہا۔

کیوں؟مہرماہ نے آنکهيں بڑی کے پوچها 

کیا کیوں دونا پہلی دفعہ تو مانگا ہںے۔مونا نے منہ بنا کر کہا۔

اچها لوں۔مہرماہ نے فون دیا۔

پاسورڈ؟مونا نے ناک چڑها کر پوچها ۔

شاہ۔مہرماہ کو اس کے پوچهنے پہ شاہ میر یاد آیا جس نے پیار سے فرماٸش کی تھی کہ اس کے نام کا پاسورڈ رکھے اور تب مہرماہ کو وہ زیادہ کیوٹ لگا تھا اس لیے اس نے فورن سے اس کی بات مان لی تھی۔اور شاہ نام کا پاسورڈ رکھ دیا اور اتنے سال گزر جانے بعد بھی نہیں بدلا تھا اس نے جانے کتنے موبائل چینج کیے تھے پر پاسورڈ شاہ ہی رکھتی تھی۔کیوں کی جب اس نے شاہ میر کی بات جب مانی تھی  تو اس کے چہرے کی چمک اور اس کی گال پہ بوسہ دینے والی حرکت کو یاد کرکے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آجاتی تھی۔اور اس نے اپنے لیپ ٹاپ پہ بھی شاہ پاسورڈ رکھا تھا۔

شاہ امیزنگ ۔مونا نے ہنس دی اور گلیری میں شہیر کی کوٸی تصویر تلاش کرنے لگی کے اپنی کزن کو دیکھا دے کہ دیکهو اتنا اچها تو ہںے پر اس کو شہیر کی تو نہیں شاہ میر کی تصویر ضرور ملی تھی جو بچپن کی تھی اور اس کے کسی اسکول فنکشن کی لگ رہی تھی۔شاہ میر اس میں اپنے اسکول یونیفارم میں تھا بال اس کے ماتھے پہ پڑ رہںے تھے اور چہرے پہ کم ہی عمر میں گہری سنجيدگی تھی پر تب بھی بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

مہرو یہ وہی ہںے نہ جو جو بہت سال پہلے ہمارے کالج آیا تھا تم سے ملنے۔مونا نے شاہ میر کی تصویر اس کو دیکها کر پوچها ۔

ہاں یہ شاہ ہںے۔مہرماہ نے موبائل پہ شاہ میر کی تصویر دیکه کر مسکراکر بتایا۔

اچها اب تو یہ جوان ہںوگیا ہںوگا اس میں تو بچہ ہںے کیا اس کی نٸی تصویر ہںے تمہارے پاس؟مونا نے تجسس سے پوچها ۔

نہیں۔مہرماہ نے مایوسی سے کہا۔

اچها اب تو اور ہینڈسم ہںوگیا ہںوگانہ بچپن میں تو جب میں نے دیکها تھا تو بہت پیارا تھا اور اب تو۔مونا نے پرجوش آواز میں اس سے پوچها ۔

نہیں یار میں نے بس کالج میں جب وہ ملنے آیا تھا تب ہی دیکها اور بات کی تھی اس کے سال بعد بھی یہ ایک تصویر چچی جان کہ اسٹيٹس سے لی تھی۔پر شاہ شاید بھول گیا ہںے اس لیے کبهی بات کرنے کا دل نہیں کیا اس کا اور میرے مگنی کے دن بابا جان کی چچا سے بات ہںوٸی تھی اس کے بعد ان سے رابطہ کرنا ہی ختم ہںوگیا بابا جان نے بہت کوشش کی پر ابھی کجھ نہیں پتا لگا پاۓ وہ ۔مہرماہ نے اس کی بات پہ افسردہ لہجے میں بتایا اس کا دل کرتا تھا کہ وہ شاہ میر سے ملے دیکهے کہ وہ بڑا ہںوکر کیسے دیکهتا ہںے کیا اب بھی وہ کم بولتا ہںوگا یا لنڈن میں بڑے ہںونے کے بعد فلرٹی بن گیا ہںوگا۔

اووو۔پر تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے چچا کی فیملی پاکستان شفٹ ہںوگی۔مونا نے اس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر پوچها ۔

ارادہ تو ان کا یہی تھا بعد کا مجھے نہیں پتا دادی بھی ان کے انتظار میں دنیا سے چل بسی۔مہرماہ کی آنکهوں میں آنسو آگٸے اپنی دادی کے زکر پہ ۔مونا نے اس کو اپنے ساتهہ لگایا۔

رو نہیں مہرو انشااللہ ان سے تم لوگوں کا رابطہ ہںوجاے گا ورنہ وہ شاہ ہی آۓ گا جو یہ کہہ کر گیا تھا کہ میرا انتظار کرنا۔مونا نے پہلے اس کو تسلی دی پھر شرارت سے کہا۔

شاہ اس کو بس میں بولاسکتی ہںوں۔مہرماہ نے فورن سے اس کو خود سے دور کرتی بولی۔

ہاہاہاہاہاہا۔معاف کیجٸیے سرکار غلطی ہںوگٸی۔مونا نے ہنس کر اپنا سر جھکا کر مہرماہ سے کہا تو سب ہنس پڑے۔

مجھے وہ زیب کی طرح عزیز ہںے۔مہرماہ نے ہنس کر کہا

مہرو ویسے میں سوچ رہی ہںوں بارہ سال میں یہ اتنا پیارا ہںے اب اکیس سال کا بھرپور مرد بن کے ناجانے کتنی لڑکیوں کے دل پہ پیر رکھتے چلتا ہںوگا۔مونا نے شاہ میر کا خاکا اپنے دماغ میں بنا کر مہرماہ سے کہا۔اور مہرماہ کو نجانے کیوں مونا سے شاہ میر کی تعریف سن کے عجيب سی جلن محسوس ہںوٸی تو کہا۔

تمہيں اب شاہ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ۔ویسے ہی اچها ہںے اپنا پیر ان کے دل پہ رکھے ان کا دل اپنے ہاتهہ پہ نہیں۔مونا کو مہرماہ کی آواز پہ جلن صاف محسوس ہںوٸی تھی۔پھر مہرماہ کی بات یاد آٸی کے زیب کی طرح عزیز ہںے تو وہ مسکرادی کیوں کی وہ زیب کی تعریف بھی کرنے نہیں دیتی تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

وہ تہجّد پڑھ کر جیسے ہی اٹها تو دروازے پہ نوک ہںوا اس نے ہاتهہ پہ بندھی گھڑی پہ وقت دیکها جو رات کے تین بتارہی تھی اس وقت اس کے کمرے میں کوٸی نہیں آتا تھا پر آج وہ سرجھٹکتا دروازے کہ پاس آتے اسے کھولا۔حيدر خان کو دیکهہ اس نے حيرانی سے ان دیکها۔

ڈيڈ آپ اس وقت خيریت۔شاہ میر نے ان کو دیکهہ کہا۔

ہاں خيریت میں ایسے ہی باہر آیا تھا تمہارے کمرے کی لاٸٹ آن دیکهی تو آیا تمہاری طبيعت تو ٹھیک ہيں نہ ۔حيدر خان نے کہتے اپنا ہاتهہ اس کے ماتھے پہ رکھ کہ چیک کرنے لگے۔

اندر آۓ آپ ۔شاہ میر ان کی فکر پہ مسکراتا کمرے کے اندر لایا اور کہا۔

میں ٹھیک ہںو ڈيڈ بس کجھ کام تھا اس لیے اور آپ ہماری پرواہ پہلے بھی کرتے تھے پر اب ان کجھ سالوں میں آپ میرے لیے اتنے پریشان کیوں ہںوتے ہیں؟ شاہ میر نے ان سے پوچها کیوں کی حيدر خان نے اس کے ہوش پہ آنے کہ بعد بس یہی بتایا تھا کہ کمزوری ہںوگٸ تھی تمہيں اور انہوں نے مہرماہ کی منگنی کا بھی بس ہانم بیگم کو بتایا تھا اور بچوں کو بتانے سے منع کیا تھا۔اس لیے شاہ میر ابھی تک بے خبر تھا پر اس کا دل ہمیشہ سے مہرماہ کے لیے پریشان رہتا تھا وہ مہرماہ کو بھول نہیں پایا تھا اس نے مہرماہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی پر حيدر خان نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اچانک پاکستان جان کر ان کو سرپراٸز کرینگے جس پہ شاہ میر راضی تو نہ تھا پر انہوں نے اپنی قسم دے کر کروادیا راضی ۔شاہ میر جو پہلے مہرماہ کو بس اپنی دوست سمجھتا تھا پر اب اس دل مہرماہ کے الگ انداز سے دھڑکتا تھا اس کو پتا چل گیا تھا جب اس سے محبت کے م کا بھی پتا نہ تھا تب اس کو اپنی ماہ سے عشق ہںوگیا تھا اور شاہ میر نے اپنے آپ کو ویسا بنالیا تھا جس طرح کے مرد اس کو پسند ہںوتے تھے شاہ میر اب دیکهنے میں اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا وہ اب وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا اس چہرے کا واٸٹ رنگ بلو آنکهيں ہلکے براٸون بال اس کا کشادہ سینہ لمبا قد مضبوط مسلز ان سب میں شاہ میر بارہ سال کے شاہ میر سے بلکل مختلف ہںوگیا تھا اب اگر کوٸی اس کو دیکهتا تو اتنی آسانی سے پہچان نہ پاتا۔لڑکیا اس سے بات کرنے کو بہانے تلاش کرتی پر شاہ میر ایک غلط نگاہ ان پہ ڈالنا گوارہ نہ کرتا۔اس نے اب تہجد پڑھنا بھی شروع کردیا تھا اس کی دعاٶں میں بس مہرماہ ہںوتی تھی کہ وہ اس کو کبهی نہ بھولے اور ہمیشہ اس کی ہی رہںے شاہ میر نے اپنی اور مہرماہ کی عمر کا فرق تک بھول گیا تھا اس کے لیے کون بڑا چھوٹا ہںے یہ ضروری نہیں تھا اس کو بس اپنی ماہ سے عشق تھا۔جس سے اس نے ان دونوں کے بیچ چار سال کے فرق پہ کبهی نظرثانی نہیں کیا تھا۔پر وہ بھول گیا تھا اس کو فرق نہیں پڑتا باقیوں کو ضرور پڑے گا پر شاہ میر کو کسی کی کہاں پرواہ تھی۔

ایسا نہیں میر باپ ہںوں تمہارا فکر تو ہںوگی نہ ۔حيدر خان نے اس کی بات پہ ٹالنے والے انداز میں کہا۔

اچها ہم پاکستان کب جاۓ گے۔شاہ میر نے اپنا ہمیشہ کیا گیا سوال دوبارہ سے پوچها 

بہت جلد۔حيدر خان نے کہا۔

بہت جلد کب آۓ گا ڈيڈ؟شاہ میر نے پوچها 

رات بہت ہںوگٸ ہںے میر اگر تمہارا کام ہںوگیا ہںوتو سوجاٶ میں بھی اب اپنے کمرے میں چلوں گا۔حيدر خان نے اس کا سوال نظرانداز کرتے کہا۔

جی۔شاہ میر نے دوبارہ نہیں پوچها ۔حيدر خان نے کے جانے کے بعد وہ سونے کا ارادہ کرکے وہ لیٹا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔شاہ میر دیکها تو ان نون نمبر تھا پہلے نظرانداز کرنا چاہا پر سوچا رات کا وقت شاید ضروری ہںو اس لیے اٹها لی۔

Hi,Shah meer why are you  block my number?

دوسری طرف سے جولی کی آواز سن کر شاہ میر بدمزہ ہںوا اور سوچا کہ کیوں اٹهالی کال جولی سے اس کی ملاقات یونيورسٹي میں ہںوٸی تھی اور تب سے اس کی جان پہ بنی تھی کہ وہ اس سے شادی کرے شاہ میر سے کہا تو پہلے بھی بہت سی لڑکیوں نے تھا پر ایسے اس سے کسی نہ تنگ نہیں کیا تھا شاہ میر جس جگہ جاتا وہ اس سے پہلے پہنچ جاتی شاہ میر نے کٸ دفعہ اس کو زلیل بھی کیا پر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی۔

میں تمہارے جواب دینے کا پابند نہیں ۔شاہ میر نے بیزاری سے انگریزی میں جواب دیا۔

تم جانتے ہںو میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں پھر بھی تم مجھ سے ایسا برتاٶ کرتے ہںو۔جولی نے شاہ میر کی بیزاری محسوس کرتے کہا۔

یہ کوٸی محبت نہیں تمہاری اگر ہںے بھی تو مجھے پرواہ نہیں میں نے نہیں کہا تھا کرنے کو پہلے بھی بتاچکا ہںوں میں۔شاہ میر نے غصے سے اس کو کہا۔

شاہ میر

Don't call me shah,otherwise I will kill you .

شاہ میر نے غصے سے دھاڑ کر کہا تو وہ ڈرگٸ۔

شاہ میر تم اتنے غصے میں کیوں رہتے ہںو ؟جولی نے خود کو نارمل کرتے پھر سوال کیا۔

دوبارہ تمہارے منہ سے میں شاہ نہ سنوں۔شاہ میر اپنی بات کہتا کال کٹ کرگیا اور ساته میں یہ بھی نمبر بلاک کیا۔شاہ میر نے پھر ریان کو کال جس نے کال اٹها کر ہی بولنا چھوڑو کیا بنا شاہ میر کی بات سنے۔

میر اگر تمہيں رات کہ وقت اتنا ہی بات کرنے کا دل کرتا ہںے تو کوٸی لڑکی کو اپنی گرل فرينڈ بنالوں تمہيں کونسا لڑکیوں کی کمی ہںے تم ایک دفعہ ان سے کہہ کر تو دیکهو نیند خود میں حرام کردے۔

تمہارا بکواس کرنا ضروری تھا ریان کبهی تو سنجيدہ رہا کرو اگر میں نے رات کہ وقت کال ہی تو تمہيں سوچنا چاہٸیے کہ کونسی ضروری بات ہںوگی۔شاہ میر نے اس کی باتيں سننے کے بعد کہا۔

انگارے کیوں چبارہںے ہںو۔ اچها بتاٶ کیا بات ہںے جس کے لیے آپ کل یونيورسٹي آنے تک کا انتظار نہیں کرسکے۔ریان نے اب ادب سے کہا۔

کیا تم میرے ساته پاکستان چلوگے اگر میں جاٶ تو۔شاہ میر نے پوچها 

خیریت ؟ریان نے حيرت سے پوچها 

ہاں بس ڈيڈ والے جب آۓ پاکستان پر میں اب امتحان کہ ختم ہںوتے ہی پاکستان کے لیے نکلوں گا اس لیے تم سے پوچها اب میں اور انتظار نہیں کرسکتا۔شاہ میر نے بتایا۔

مجھے کوٸی اعتراض نہیں ایسے میں بھی پاکستان گھوم آٶں گا۔ریان اس کی بات پہ مزے سے بولا۔

اچها اب سوجاٶ۔شاہ میر نے کہتے ہی کال بند کردی۔

نیند خراب کرتے کہتا ہںے سوجاٶ۔ریان منہ میں بڑبڑایا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہزیب اپنے آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ کجھ ٹاٸپ کررہا تھا جب اس کے آفس کے اندر سالار اندر داخل ہںوا۔

زیب کیا پلین ہںے آج کا ؟سالار نے کرسی پہ بیٹھتے ہی پوچها ۔

آج تو میرا کوٸی پلین نہیں بس کجھ ٹائم بعد گھر جاٶں گا۔شاہزیب نے اپنے کام پہ نظر جماۓ بتایا۔

اچها صحيح ۔سالار نے کہا۔

تم بتاٶ کافی یا کجھ اور شاہزیب نے کہا۔

نہیں کجھ نہیں۔سالار نے انکار کیا۔

اچها تم بتاٶ کیا چل رہا ہںے اور گھر میں سب کیسے ہںے؟شاہزیب نے سوال کیا۔

گھر ميں سب ٹھیک اور اب بس حور کی شادی کی تیاریوں میں امی بابا تو۔سالار نے مسکراکر جواب دیا۔

تم بھی شادی کرلوں۔شاہزیب نے مشورہ دیا۔

شکریہ پر ابھی آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں۔سالار نے طنزیہ کہا۔

مرضی ہںے ورنہ میں تو چاہتا ہںوں کہ میری آج ہی شادی ہںو۔شاہزیب اپنی کرسی پہ ٹيک لگاکر اور ہاته پیچھے کرتے سالار کو آنکه مار کر کہا۔

تم سے کریگی کون ؟سالار نے اس کا مزاق اُرایا۔

یہ پوچهو کہ کون نہیں کرےگی۔شاہزیب بنا اس کی بات کا برا مانے بولا۔

اب انسان کو اتنا خوش فہم بھی نہیں ہںونا چاہٸیے۔سالار نے کہا۔

اگر تمہارا ہںوگیا ہںو تو کیا ہم میٹنگ اٹينڈ کرسکتے ہيں؟شاہزیب نے بہت سنجيدگی سے کہا۔

یاد آیا میں بھی تمہيں یہی بتانے آیا تھا پر تم نے باتوں میں لگا دیا۔ سالار نے مزے سے سارا الزام شاہزیب پہ لگایا اور چلنے کا اشارہ کیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

ریان تم نے شاہ میر کو دیکها ہیں؟وہ ابھی یونی میں سیڑھیو پہ بیٹھا کتاب کو چاروں طرف سے دیکها رہا تھا جب جولی اپنی ہیل کی ٹک ٹک کرتی اس کے پاس آتے بولی۔

ہاں بہت بار۔ریان نے بہت سنجيدگی سے جواب دیا۔

بہت بار کا نہیں پوچها ڈفر ابھی کہاں ہیں یہی پوچهنے کا مطلب تھا۔جولی نے گھور کر کہا۔

تمہيں بھی نظر آۓ گا اگر تم اس کے ڈپارٹمنٹ میں جاٶگی تو۔ریان نے آنکهيں گھماکر جواب دیا

تمہارا ہمیشہ یہ محسوس کروانا ضروری ہںوتا ہںے کہ تم سے بات کرنا فضول ہںے۔جولی نے لفظ چبا چبا کر ادا کیا

نہیں تم سے بات کرنا بلکل فضول نہیں۔ریان نے اس کو سر سے پیر اور پیر سے سر دیکهتا ہنسی ضبط کرتا بولا۔

تم ہںو ہی جاہل۔جولی غصے اس کو بولتی ٹک ٹک کرتی واپس چلی گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ ناول پڑھ رہی تھی جب شاہزیب اس کے پاس آیا اور اس کے دیکه کر کہا۔

تمہارے لیے ایک نیوز ہںے۔

کونسی۔مہرماہ نے پورہ دھیان ناول پہ جماۓ کہا۔

تمہارے مستقبل کہ مجازی خدا کی نوکری لگ گٸ ہںے۔شاہزیب نے اس کو دیکه کر شرارت سے بتایا۔

کتنی دفعہ کہا ہںے بہن ہںوں تمہاری ایسی باتيں نہ کیا کرو۔مہرماہ نے لال ہںوتے چہرے سے گھورتے کہا۔

ہاہاہاہاہاہا۔look at your face مہرو۔شاہزیب قہقہقہ لگاکر بولا۔

ہاتهی بن گٸے ہںو پر عقل سے اب بھی فارغ ہی ہںو۔مہرماہ اس کو آنکهيں دیکهاتی اپنے کمرے کی طرف گٸ۔

مہرماہ نے کمرے میں آتے ہی شہیر کو کال کی۔

مبارک ہںو آپ کو نوکری کی۔سلام کے بعد مہرماہ نے مسکراکر شہیر سے کہا

شکریہ پر تمہيں کس نے بتادیا میں تمہيں خود بتانا چاہتا تھا؟شہیر نے پوچها 

زیب نے بتایا ابھی تو میں نے سوچا آپ کو مبارکباد دوں۔مہرماہ نے ہنس کر کہا۔

اوو زیب کو بھی کوٸی بات رکھنی نہیں آتی۔شہیر نے بھی ہنس کر کہا۔

نہیں اگر ایسا وہ کرے تو کیا ہی بات۔مہرماہ نے اس کی بات پہ کہا۔

اچها میں کیا سوچ رہا تھا۔شہیر نے اپنے لہجے میں تجسس ڈال کر کہا۔

کیا ؟مہرماہ نے پوچها 

یہی کہ اتنے سال ہںوگٸے ہیں منگنی کو اب شادی ہںونی چاہٸیے۔شہیر نے بتایا۔

ابھی اتنی جلدی کیوں۔مہرماہ نے پریشانی سے کہا۔

جلدی تو نہیں سات سال سے زیادہ ٹائم ہںوگیا ہںے ہماری منگنی کو۔شہیر نے یاد کروایا۔

ہاں پر ابھی تو چچا جان اور ان کی فیملی کو آنا ہںے جب تک وہ نہیں آجاتے بابا جان ایسا کجھ نہیں کرے گے۔مہرماہ نے وجہ بتاٸی۔

اچها تو کیا ان کا ہںونا اتنا ضروری ہںے ؟شہیر نے طنزیہ پوچها ۔

بلکل بہت ضروری ہںے۔مہرماہ نے بہت پہ زور دے کر کہا

پہ

شہیر مجھے امی بولارہی ہيں بعد میں بات کرتے ہںے۔مہرماہ نے کہہ کر کال کٹ کردی۔

پتا نہیں کیوں شہیر ایسے ہںوگٸے ہيں پہلے تو نہیں تھے۔مہرماہ نے فون رکھتے پریشانی سے بڑبڑاٸی۔پھر انسٹاگرام یوز کرنے لگی ایسے پوسٹ اسٹوریز دیکهی سب کی پھر جانے کیا سوجھا کہ اپنی تصویر پہ جون ایلیاء کا شعر رکھ کر اپنی انسٹا پہ پوسٹ اور اسٹوری رکھ دی۔ شعر کجھ یوں تھا۔

ہم جی رہںے ہیں کوٸی بہانا کیے بغير 

اس کے بغير،اس کی تمنا کیے بغير ۔

اس کے اپلوڈ کرنے کے فورن ہی ثانيہ نے کال کی۔

مہرو خير ہیں نہ ؟ثانيہ نے شرارت سے پوچها 

بلکل۔مہرو نے لب دانتوں تلے دباۓ کہا۔

اتنے ٹائم بعد کجھ پوسٹ کیا وہ اتنا کمال کا اس لیے پوچهنا تو بنتا ہںے وہ الگ بات ہںے کہ تم پہ سوٹ نہیں کررہا پر تمہاری تصویر پہ زبردست ہںے۔ثانيہ نے ہنس کر کہا۔

ہاں بس ایسے ہی دل کیا اور تمہيں تو پتا ہںے میرے شوق کا۔مہرماہ نے ہنس بھی کر کہا۔

ہاں جی خوابوں کی بستی میں رہنے والی ملکہ ہيں آپ ۔ثانيہ نے مزاقً کہا۔

ہاہاہاہاہا۔مہرماہ نے قہقہقہ لگایا۔

اچها میں بعد میں بات کرتی ہںوں۔ثانيہ نے ہنس کر کہا تو اس نے خدا حافظ کہا۔پھر فیس بک پہ شاہ میر کی آۓ ڈي ڈھونڈنے لگی جو نہیں ملی۔اس نے گہری سانس بھر کر سونے کے لیے لیٹ گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر ریان اور ان کہ کلاس کے ڈيوڈ اور جیک اور جولی وہ سب ایک اساٸمنٹ کے گروپ تھے جس میں ابھی وہ ساته بیٹھ کر ضروری لاٸنز ڈسکس کررہںے تھے کہ ریان نے اپنے ہاته کو ماٸک کہ اسٹاٸل میں کرکے جولی سے رپورٹر کی طرح سوال کیا۔

مس جولی کیا آپ ہمیں بتانا پسند کرے گی کہ آپ مسلم خاندان سے ہںوکر بھی اپنا نام جولی کیوں رکھا اس سے اچها تھا کہ ڈولی رکھتی۔اس کے ڈولی کہنے پہ سب ہنس دیٸے۔

نہیں میں بلکل بتانا نہیں چاہوں گی۔جولی نے آنکهيں گھماکر کہا۔

اچها تو جولی کا مطلب ہی بتادے جو آپ نہیں بتانا چاہتی۔ریان نے اس کو تپانا چاہا۔

شاہ میر اپنے دوست کو کہہ دو کہ مجھ سے فضول سے سوالات نہ کرے۔جولی نے شاہ میر کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔

اپنے معاملات مجھ سے دور رکھا کرو۔شاہ میر نے سخت لہجے میں کہا۔

کبهی تو آرام سے بات کرلیا کرو۔جولی نے فرماٸش کی۔

ریان تم کیفے چلوگے؟شاہ میر اس کی بات نظرانداز کرتا ریان سے سوال کیا۔

ہاں ضرور ۔ریان کہتے ہی اٹها۔جب کی ان دونوں کو ایسے جاتا دیکه کر ضبط کرتی رہ گٸ۔

ویسے جولی اتنی بری نہیں جتنا تم اس سے برا سلوک کرتے ہںو۔ریان نے کیفے میں آتے ہی اس سے کہا۔

مجھے نہیں پسند ایسی لڑکیا جو مردوں کو اپنی طرف متوجہ  کرنے کے لیے اپنی عزت نفس کو ختم کردیتی ہیں۔شاہ میر نفرت سے بولا۔

تم ایسے کیوں ہںو بچپن سے میر سنجيدہ ہںونا اچهی بات ہںے پر تمہارے چہرے پہ چمک کیوں بس ایک ہی نام سن کے آتی ہںے۔ریان نے سوال کیا۔

میں ایسا ہی ہںو اور کیوں ہںوں یہ جاننا ضروری نہیں اور رہی چمک کی بات تو اس میں بے بس ہںوں میں یہ میں ہی جانتا ہںوں ان کے بغير میں نے یہ سال کیسے گزارے ہیں میرے لیے مسکرانے کا مطلب ہی میری ماہ ہںے ان سے ملنے کے بعد ہی میں ان جذبات سے واقف ہںوا ہںوں جن سے ناواقف تھا اگر ان سے نہ ملتا تو شاید اب بھی ناواقف رہتا۔وہ میرے لیے کیا ہںے اگر جو میں بیان کرنے بیٹھوں نہ تو الفاظ ختم ہںوجاۓ گے۔شاہ میر نے سانس کھینچ کر کہا۔

مجھے حيرانی ہںوتی ہںے تمہارے لہجے ميں اس کا ذکر کرتے ہںوۓ اتنا احترام اور نرمی دیکه کر۔ریان نے حيرانکن لہجے میں کہا۔

محبت کی پہلی شرط ہی احترام، عزت، اور یقين، ہںوتی ہںے پر یہاں بات تو میرے عشق کی ہںے تو کیسے ان کے لیے احترام نہیں آۓ گا۔شاہ میر نے گہری مسکراہٹ کے ساته کہا۔ریان کجھ نہ بولا بس دل میں اس کی خوشی کی دعا کی۔جو بس مہرماہ تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر گھر آکر ہانم بیگم کے پاس گیا۔

موم ڈيڈ کہاں ہيں؟شاہ میر سوال کیا۔

گارڈن میں ہںوگے۔ہانم بیگم نے بتایا۔

اچها۔شاہ میر نے کہا اور گارڈن کا رخ کیا۔

ڈيڈ مجھے آپ سے بات کرنی ہیں۔شاہ میر ان کے پاس آتا ہںوا بولا۔

کہوں کیا بات ہيں؟حيدر خان اس طرف متوجہ ہںوۓ۔

میں دو تین دنوں بعد ایگزیمز سے فارغ ہںوجاٶ گا پھر میں پاکستان جانے کا ارادہ رکھتا ہںوں۔شاہ میر نے آرام سے بتایا۔

میر ہم نے

ڈيڈ پلیز اب اور نہیں میں بہت ٹائم سے آپ کی بات مان رہا ہںوں پر اب جاٶں گا پھر آپ لوگوں کی مرضی جب آپ آۓ۔شاہ میر ان کی بات پوری ہںونے سے پہلے بولا۔

اکیلے میں جانے نہیں دوگا کجھ اور صبر کرو۔حيدر خان نے کہا۔

ڈيڈ میں بچہ نہیں جو اکیلا نہیں جاسکتا اور دوسری بات کہ ریان میرے ساته ہںوگا پاکستان۔شاہ میر نے پوری تیاری کرلی تھی اس کو پتا تھا حيدر خان کسی نہ کسی بات پہ اس کو روکنا ضرور چاہے گے اس لیے اس نے پہلے ہی ریان کو پاکستان چلنے کا کہہ دیا تھا۔

اگر تم نے سوچ لیا ہںے تو پھر میں اب کیا سکتا ہںوں تیاری کرلوں تم کراچی کے گھر والی چابی تمہيں مل جاۓ گی کجھ ٹائم بعد ہم بھی آجاۓ گے۔حيدر خان نے اس کی بات پہ ہارنے والے لہجے میں کہا۔

Thank you,Dad thank you so much;

شاہ میر کہتے ہی ان کے گلے لگ گیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

وہ اس وقت لاؤنج میں تھے۔جب سکندر خان نے کہا۔

نادیہ نے آج مجھے فون کیا تھا کہہ رہی تھی کہ حور کے ساته ہم مہرماہ کی شادی بھی حمیرا چاہتی ہںے۔ان کی بات پہ سارہ بیگم مہرماہ اور شاہزیب تینوں کو حيرت ہںوٸی۔

آپ نے کیا جواب دیا پھر ؟سارہ بیگم نے پوچها 

یہی کہ حيدر کے بغير ہم نے منگنی تو کردی پر شادی نہیں۔سکندر نے جواب دیا۔

حيدر بھاٸی بہت بدنصیب نکلے اپنی ماں کا آخری دیدار تک نہ کرپاۓ۔سارہ بیگم افسوس سے بولی۔

اللہ کی بات ہںے سب میں تو بس سوچتا ہںوں کہ حيدر کی کیا حالت ہںوگی جان کر کہ اماں جان اب ہمارے بیچ نہیں رہی۔سکندر خان نے پریشانی سے کہا۔

ان کی غلطی تو ہیں نہ ان کو ایسے رابطہ ختم نہیں کرنا چاہٸیے تھا ناجانے ایسی کیا بات ہںوگٸ۔سارہ بیگم نے کہا۔

ہاں اب ایک بار اور لنڈن جاٶں گا پہلے تو نہیں شاید اب کجھ پتا لگ جاۓ۔سکندر خان نے کہا۔

جیسا آپ بہتر سمجھے۔سارہ بیگم نے کہا۔

بابا جان مجھے آپ کی اجازت چاہٸیے تھی۔مہرماہ نے ان کے خاموش ہںوتے دیکه کر کہا۔

ہاں مہرو کس بات کی اجازت ؟سکندر خان پوچها 

بابا جان وہ شہیر کو نوکری مل ہںے نہ تو وہ ہم سب کو ٹریٹ دے رہںے تو بس آپ سے پوچهنا تھا۔مہرماہ نے ایک ہی سانس میں بتایا۔

ہاں تو بیٹا جانا آپ لوگ کب جانا تھا؟سکندر خان نے مسکراکر کہا۔

آج بدہ ہیں اتوار کو ٹریٹ دی ہںے انہوں نے زیب کو بھی پر زیب کا پہلے ہی اپنے دوستوں کے ساته باہر کا پلین ہںے۔مہرماہ نے بتایا۔

ٹھیک پھر۔سکندر خان نے رضامندی دی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آپ نے میر کو اجازت دے دی تو اچها تھا ہم بھی چلتے آپ نے تو سارے رشتہداروں سے رابطہ ختم کرلیا ہںے۔ہانم بیگم نے ان سے کہا۔

چاہتا تو میں بھی تھا کہ ساته جاۓ پر ابھی کجھ وقت تک ممکن نہیں اس لیے اگر میر جانا چاہتا ہيں تو میں نے اجازت دے دی۔حیدر خان نے کہا۔

آپ نے ویسے ٹھیک نہیں کیا وہ سب لوگ کتنے پریشان ہںوگے ہمارے لیے۔ہانم بیگم نے شکوہ کیا۔

بس حالات کجھ اس طرح کہ ہںوگٸے کہ مجھے یہی سب بہتر لگا۔حيدر خان مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔

آپ بتاتے کیوں نہیں اصل بات ؟ہانم بیگم نے کہا۔

جب وقت آۓ گا تو خود جان جاؤ گی۔حيدر خان نے ان کی بات ٹالنے کے لیے کہا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آج شاہ میر کا آخری پیپر تھا اور اس نے آج رات ہی پاکستان کے لیے نکلنا تھا ریان نے بہت بار کہاکہ ایگزیمز کے ختم ہںونے کی خوشی میں پارٹی کرتے ہیں۔پر ایک شاہ میر ہی تھا جس کے سامنے اس کی نہیں چلتی تھی اس کی بس شاہ میر کی ایک گھوری پہ بولتی بند ہںوجاتی تھی۔شاہ میر نے اپنی پیکنگ پہلے ہی کردی تھی۔ریان نے بس اپنا ایک بیگ ہی لیا تھا کہ اس نے کونسا پاکستان ہمیشہ رہنا ہںے وہ بس شاہ میر کے لیے جارہا تھا۔وہ دونوں اب پاکستان جانے کے لیے تیار تھے اور ایٸر پورٹ کے لیے نکل گٸے تھے۔پاکستان پہنچتے ہی ریان کو اسلام آباد جانا تھا جب کی شاہ میر کو کراچی ریان نے پاکستان گھومنے کی شروعات اس شھر سے کرنا چاہا تھا۔کیوں کی اس کا آباٸی شھر وہی تھا وہ تو بعد میں اس کے والدین پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے دیس میں رہںے تھے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ نے تیار ہںوکر خود کو آٸینے میں دیکها اس نے واٸٹ کلر کا پیروں تک آتا فراق پہنا تھا اور بالوں کو کھلا رکھا تھا میک اپ اس نے بلکل نہیں کیا تھا بس گلابی رنگ کا لپ گلوز ہی لگایا تھا وہ اپنی اتنی سی تیاری میں بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ آج اس کو شہیر کی دی ٹریٹ پہ جانا تھا جہاں وہ خود اور حور اور شہیر کے علاوہ اس کے کجھ دوست وغيرہ۔وہ نیچے آتے ہی سارہ بیگم کو بتاکر ڈراٸیور کے ساته نکل گٸ تھی۔کیوں کی شاہزیب پہلے ہی گھر سے نکل گیا تھا۔سکندر خان دو دن پہلے ہی اپنے آفس کے کام سے شہر سے دور تھے شاہزیب نے کہا تھا کہ وہ جاۓ پر سکندر خان نہیں مانے تھے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سارہ بیگم کچن میں تھی جب گارڈ نے آکر کہا کہ کوٸی نوجوان لڑکا ان سے ملنے آیا ہںے۔

کون آیا ہںے ؟انہوں نے پوچها 

پتا نہیں ہم نے پوچها تو کہا اندر سے کسی کو بولاۓ میں ایسے گھر کہ داخل نہیں ہںوگا۔گارڈ نے بتایا۔

اچها میں جاکر دیکهتی ہںوں۔سارہ بیگم نے کہا۔

جی آۓ وہ دیکهنے میں پٹهان لگتا تھا ان کی طرح گورا اور خوبصورت تھا۔گارڈ نے چلتے چلتے بتایا۔

جی کس سے ملنا ہںے آپ نے ؟سارہ بیگم نے آتے ہی پوچها کیوں کی سامنے والے کی پیٹھ تھی ان کی طرف 

شاہ میر جیسے ہی آیا تھا اپنا سامان گیٹ پہ رکھ کر وہ سکندر خان کی طرف آیا تھا اور اس نے اندر سے کسی کو بولانے کا کہا تھا اس نے اپنا نام نہیں بتایا وہ دیکهنا چاہتا تھا کہ جب وہ ان سے ملتے ہںے تو پہچانتے ہیں کے نہیں اور خاص طور پہ اس کو مہرماہ کو دیکهنا چاہتا تھا کہ کیا وہ اس کو بھول تو نہیں اگر نہيں تو کیا وہ اس کو دیکهتے ہی پہچان لیگی۔اگر نہیں تو وہ اس کے آگے نہیں سوچنا چاہتا تھا۔وہ ان ہی سوچو میں گم تھا جب اپنے پیچھے سارہ بیگم کی آواز سنائی دی۔

اسلام وعلیکم۔شاہ میر ان کی طرف مڑ کر مسکراکر بولا سارہ بیگم اس کو الجھ کر دیکهنے لگی جیسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہںو۔

چچی جان نو سال اتنا زیادہ وقت بھی نہیں کہ آپ شاہ میر حيدر خان کو پہچان نہ پاۓ۔؟شاہ میر ان کی آنکهوں میں الجھن دیکهتا کہنے لگا۔اس کی بات پہ سارہ بیگم کو شاک لگا۔

میر بیٹا یہ آپ ہںو ؟انہوں نے حيرانکن لہجے میں پوچها 

جی بلکل ۔شاہ میر مسکراکر بولا۔سارہ بیگم نے اس کو غور سے دیکهنے کے بعد شاہ میر کو گلے سے لگا کہ ملی اور کہا۔

بہت بدل گٸے ہںو آپ بیٹا اتنی آسانی سے پہچان پانا ممکن نہيں تھا۔سارہ بیگم نے خوشی سے کہا ان کو اتنے ٹائم بعد شاہ میر کو دیکه کر یقين نہیں آرہا تھا اور خوشی بھی ہںورہی تھی۔

مجھے اندازہ تھا۔شاہ میر نے کہا۔

اندر آۓ مجھے بہت سے سوال اور باتيں کرنی ہںے۔سارہ بیگم نے شاہ میر کو اندر کی طرف آنے کا کہا۔تو وہ مسکراکر اندر  داخل ہںوا۔تو سارہ بیگم نے ان کو اس طرح رابطہ نہ رکھنے پہ سوال کیا تو شاہ میر کو جو پتا تھا اس نے بتادیا تھا اور سارہ بیگم نے ستارے بیگم کی وفات کا بھی بتایا جسے سن کر شاہ میر کجھ پل بول ہی نہیں پایا۔پھر اس نے سب کا بتایا تو اس نے مہرماہ کا پوچها انہوں نے بتایا کہ شہیر کو تو تم جانتے ہںوگے اس کو نوکری ملی تو اس نے سب کو ٹریٹ دی ہںے مہرماہ بھی وہی ہںے اور اب بس آنے والی ہںوگی۔پر شاہ میر شہیر کا ذکر سن کر بدمزہ ہںوا تھا وہ تو اس سے ملا ہی بس ایک دفعہ تھا اور جانے کیوں اس کو پسند نہیں آیا تھا اور نہ بھولا تھا مہرماہ کو اس سے بات کرتا دیکه کر شاہ میر نے اس کو اپنا رقیب سمجھ لیا تھا۔وہ ایسے ہی بات کررہںے تھے کہ سارہ بیگم کا فون بجنے لگا تو وہ معزرت کرتی اٹه کر کجھ کام کے لیے اندر اپنے کمرے کی طرف گٸ تو شاہ میر بھی کوٸی بات نہیں کہتا لان کی طرف آیا تھا۔جہاں اس نے مہرماہ کو پہلی دفعہ دیکها تھا۔شاہ میر مسکراکر اس جگہ کو دیکها جو بلکل ویسی ہی تھی بس کرسیا اور ٹيبل بدلی گٸ تھی۔شاہ میر کی نظر اب سامنے گیٹ پہ مہرماہ کی منتظر تھی۔تبھی شاہ میر کے دل کی دھڑکن نے تیز رفتار پکڑ لی تھی

 جب اس نے گیٹ کے اندر گاڑی سے مہرماہ کو دیکها جو واٸٹ کلر کے فراق میں تھی بال کھولے ہںوۓ تھے کالے رنگ کی چادر اپنے کندھوں پہ ڈالی ہںوٸی تھی۔شاہ میر بنا سانس لیے اس کو دیکه رہا تھا جو کجھ دور تھی اور ڈراٸيور کجھ کہہ رہی تھی شاہ میر پہ نظر نہیں پڑی تھی اس کی۔

پر شاہ میر کو اندازہ تھا کہ جب وہ مہرماہ کو دیکهے گا تو اس کی خوشی انتہا نہ رہںے گی پر جو اصل میں ہںوگٸ تھی اس کا تو اس کے وہم و گمان ميں تھا شاہ میر کو اپنا گلا خشک ہںوتا ہںوا محسوس ہںوا پر جان تو تب جاتی محسوس ہںوٸی جب مہرماہ کی نظر اس پہ پڑی اور وہ اب اس کی طرف آرہی تھی۔وہ جیسے جیسے اس کی طرف قدم بڑھاتی آرہی تھی شاہ میر اپنا  دل اور تیز دھڑکتا محسوس ہںوا اب مہرماہ بلکل اس کے پاس آکر کھڑی ہںوٸی تھی اس کو ایسے سنجيدہ دیکه کر شاہ میر لگا مہرماہ نے اس کو نہیں پہچانا وہ اب کہے گی کہ تم کون ہںو؟اگر وہ اس کو نہیں پہچانے گی تو وہ کیا کہے گا کہ وہ کون ہںے پر مہرماہ کی آواز سن کر اس کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔

تم شاہ ہںو نہ؟مہرماہ نے امید سے پوچها۔اور شاہ میر کو لگا آج وہ مرجاۓ گا اس کی ماہ نے اس کو بھلایا نہیں تھا اور نہ اس کو پہچاننے میں مشکل ہںوٸی تھی آج شاہ میر کی خوشی کی انتہا نہ تھا۔شاہ میر نے بس مہرماہ کو دیکه کر اپنا سر اثبات میں ہلایا۔

اوہ میرے خدا۔مہرماہ نے اپنے منہ پہ دونوں ہاته رکھے اور اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔اس کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ شاہ میر کو دیکه کر کیا کرے۔

شاہ ماشااللہ سے تم کتنے بڑے ہںوگٸے ہںو اور پیارے بھی۔مہرماہ نے اس کی لمبی ہاٸٹ اور چہرے کو دیکه کر حيرانی سے کہا۔شاہ میر مہرماہ کی بات پہ ہنس دیا کیوں کی مہرماہ اس کو اپنے سامنے بچی لگی۔اور اس کے چہرے کو دیکها اور مہرماہ کی آنکهوں میں خوشی کے آنسو تھے جن کو دیکه کر شاہ میر بے چین ہںوا۔

آپ نے کیسے مجھے پہچان لیا؟شاہ میر مہرماہ کو دیکه کر چمکتی آنکهوں سے سوال کیا اس کو اندازہ تھا مہرماہ نہیں بھولے گی اس کو پر ایسے جلدی پہچان بھی لے گی اور اتنی خوشی بھی ہںوگی یہ اس نے نہیں سوچا تھا اس نے تو اپنی کیفیت کا بھی نہیں سوچا تھا کہ کیسی ہںوگی۔شاہ میر کو اپنا دل سنبهالنا مشکل لگ رہا تھا وہ جواب جاننا چاہتا تھا کہ کیسے مہرماہ نے۔۔۔

تمہيں کیا لگا تھا جب تم اتنے سال بعد آٶ گے تو میں پہلی دفعہ جب تمہيں دیکها تھا تو تمہيں نہیں پہچانا تھا اب بھی ایسا ہی کروگی؟مہرماہ نے اس کی طرف دیکه کر شرارت سے کہا۔

آپ بتائے نہ کیسے پہچانا؟چچی جان تو ابھی بھی شاک ہيں۔شاہ میر نے بے چینی سے پوچها 

شاہ تمہاری آنکهيں ۔مہرماہ نے اس کی آنکهوں میں دیکه کر کہا جس کا رنگ پہلے ہی بلو تھا اور آنکهوں کی چمک نے بلو آنکهوں کو اور خوبصورت بنا لیا تھا۔

آنکهيں ؟شاہ میر تعجب سے پوچها 

ہاں جب پہلی دفعہ میرے سامنے آکر بیٹھنے کی اجازت مانگی تو جب میں نے تمہيں دیکها تو تم تب بھی بہت پیارے تھے پر مجھے تمہاری آنکهيں بہت پسند آٸی تھی۔مہرماہ نے مسکراکر بتایا۔

اچها۔شاہ میر ناجانے کیوں آج بھی مہرماہ کی تعریف پہ شرماگیا تھا اس لیے لب دانتوں تلے دباۓ یہاں وہاں دیکهنے لگا۔

ہاہاہاہاہا۔شاہ تم میں اب بھی شرمانے کی عادت ہںے۔مہرماہ نے قہقہقہ لگا کر کہا۔

نہیں تو ایسا کجھ نہیں۔شاہ میر نے کمزور سے دلیل تھی

اچها تو اب نہیں پوچهو گے شرمانے کا مطلب ؟مہرماہ نے پھر شرارت سے پوچها۔

نہیں۔شاہ میر ہنس کر سر نفعی میں ہلاکر کہا۔

اچها بیٹھو تو صحيح مجھے خیال نہیں آیا۔مہرماہ نے سر پہ ہاته مارکر کہا۔

کیسی ہیں آپ؟شاہ میر نے بیٹھتے ہی پوچها ۔

بڑا جلدی نہیں پوچها ؟مہرماہ نے گھور کر کہا۔

کوٸی نہیں بعد میں پوچه لوں گا۔شاہ میر نے بھی اس بار شرارت سے کہا۔

اوہںو کیا بات ہںے۔مہرماہ ہس دی۔

آپ پہلے سے زیادہ پیاری ہںوگٸ ہیں۔شاہ میر نے چاہ کر بھی خود کو یہ کہنے سے روک نہ پایا۔

شرم کرو شاہ خود سے بڑی کے ساته فلرٹ کر رہںے ہںو۔مہرماہ نے اس کی بات مزاق میں لیتے کہا۔

میں فلرٹ نہیں کررہا آپ سچ میں بہت خوبصورت ہںے اور اس لیے میں خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پایا۔شاہ میر نے مہرماہ کی آنکهوں میں آنکهيں ڈال کر کہا۔

اچها مان لیتی ہںوں۔مہرماہ کو شاہ میر کے لہجے پہ نجانے کیوں شدت جان کر اپنے گال تپتے محسوس ہںوۓ

آپ بلش کر رہی ہیں۔شاہ میر مہرماہ کے سرخ گال دیکه کر گہری مسکراہٹ سے بولا۔

نہیں بلکل بھی نہیں اور تمہيں نہ سچ میں لنڈن کی ہَںَوا لگی ہںے مہرماہ نے کہہ کر اپنا ہاته پہلے کی طرح اس کے بالوں میں ہاته ڈالنا چاہا پر شاہ میر کو اب برا نہ لگے اس لیے اپنا ہاته نیچے کر لیا۔جب کی شاہ میر نے مہرماہ کی یہ حرکت غور سے دیکهی تھی اور اس کا ایسے ہاته نیچے کرنا شاہ میر کو برا لگا اس لیے اپنا سر اس کے آگے کیا اشارہ صاف تھا کہ اپنی خواہش پوری کرے۔

اندر چلتے ہیں۔مہرماہ نے مسکراکر شاہ میر کے بالوں میں ہاته پھیرتے کہا تو وہ مسکراکر اٹه کھڑا ہںو۔

میر بیٹا میں بھی تمہيں دیکهنے باہر ہی آرہی تھی۔سارہ بیگم نے ان دونوں کو آتا دیکه کر کہا۔

جی میں لان میں چلاگیا تھا ماہ کا انتظار کرنے کے لیے آپ نے بتایا نہ کہ آنے والی ہںے اس لیے۔شاہ میر صوفے پہ بیٹھتا ان کو بتانے لگا۔مہرماہ شاہ میر کی اتنی صاف گوٸی پہ بس دیکهتی رہ گٸ۔

شاہ چچا جان اور باقی سب نہیں آۓ کیا ؟مہرماہ کو اب خیال آیا تو پوچها 

نہیں وہ کجھ ٹائم بعد آجاۓ گے۔شاہ میر نے بتایا۔

اچها تم کافی لوگے میں بہت اچهی بناتی ہںوں۔مہرماہ نے شاہ میر دیکه کر پوچها 

اچهی نہ بھی بناۓ میں نے پی لینی ہيں پھر بھی۔شاہ میر نے مسکراکر کہا۔

اچها تم بیٹھو میں بنا کہ لاتی ہںوں۔مہرماہ کہہ کر اٹه گٸ۔تو سارہ بیگم نے شاہ میر سے سوال کیا۔

اور بتاٶ میر کوٸی لڑکی تلاش کی لنڈن میں تم نے یا بھاٸي اور ہانم نے دیکهنی ہںے ؟

چچی جان میں نے وہاں کسی لڑکی کو پسند نہیں کیا اور شادی تو ميں ما 

اسلام وعلیکم۔شاہ میر ابھی کجھ کہتا کہ شاہزیب لاٸونج میں آتا سلام کرنے لگا شاہ میر اس کو دیکه اٹها 

وعلیکم اسلام۔شاہ میر اس کو دیکه کر کہا۔

ڈونٹ ٹيل می کہ تم میر ہںو۔شاہزیب حيرت سے منہ کھولے بولا۔

بلکل شاہزیب بھاٸي میں شاہ میر ہی ہںو۔شاہ میر نے اس کی حيرانی نوٹ کرتے مسکراکر بولا۔

کیسے ہںو اور کہاں غائب ہی ہںوگٸے۔شاہزیب خوشدلی سے اس گلے لگاۓ بولا۔

بس یہی آپ کے سامنے ہںوں۔شاہ میر نے جواب دیا۔

اور باقی سب کہاں ہیں ؟شاہزیب اس کو اکیلا دیکه کر بولا۔

باقی سب بھی آجاۓ گے۔شاہ میر نے کہا۔

میر جب تک سب نہیں آجاتے تم نے یہی رہنا ہںے۔سارہ بیگم نے حکیمہ لہجے میں کہا۔

نہیں چچی جان

نہیں کو اب بھول جاٶ میری بات ماننی ہںوگی۔میں نے سکندر کو بھی بتادیا ہںے بہت خوش ہںوۓ ہیں ورنہ وہ تو بہت پریشان رہنے لگے تھے اور انہوں نے ہی کہا کہ اب تمہيں یہی رکھے جب تک باقی لوگ نہیں آجاتے۔سارہ بیگم نے اس کی بات پورے ہںونے سے پہلے ہی کہا۔

اچها ٹھیک۔شاہ میر بولا۔مہرماہ بھی ٹرے میں تین کپ لاٸی دو کافی اور ایک سارہ بیگم کے لیے چاۓ کا۔مہرماہ نے سب کو دینے کا بعد شاہزیب سے کہا۔

تم نے کل نہیں آنا تھا ؟

نہیں۔شاہزیب نے کہتے ہی اس کا کافی کا کپ لیا۔

یہ میرا تھا زیب۔مہرماہ نے اس کی حرکت پہ گھور کر کہا۔

تھا نہ اب میرا ہںے۔شاہزیب نے کافی کا گھونٹ بھر کر بولا۔مہرماہ پاٶ پٹکتی دوبارہ کافی بنانے کچن میں گٸ۔جب کی شاہ میر کا موڈ خراب ہںوگیا اب کی مہرماہ کو جاتے دیکه کر۔

زیب مہرو کو تنگ ناں کیا کرو اب۔سارہ بیگم نے شاہزیب کو دیکه کہ کہا۔

امی جان ابھی تو زیادہ کرنا چاہٸیے کل کو جب شادی ہںوگی تو میں یہ سب تو نہیں کر پاٶں گا ناں۔شاہزیب نے بنا ان کی بات مانے بولا۔جب کی شاہ میر کا دل مہرماہ کی شادی کا سن کر زور سے دھڑکا اس نے گبھراہٹ ہںونے لگی تو اس نے کہا۔

میں ماہ کے پاس جاتا ہںوں۔شاہ میر کہتا اپنا کپ لیے کچن کی طرف گیا۔

دیکه لیں ابھی بھی بچپن کی طرح مہرو کہ پیچھے جانا پسند ہںے۔شاہزیب اس کو جاتا دیکه کر سارہ بیگم کو کہنے لگا جو اس کی بات پہ مسکرادی بس۔

ماہ آپ یہاں ایسے ہی بیٹھی ہیں؟شاہ میر نے اس کو ایسے کھڑا دیکها تو پوچها 

تم یہاں کیوں ؟مہرماہ نے سوال کے جواب بنا سوال کیا۔

آپ میری بات کا جواب دے۔شاہ میر نے کہا۔

کیوں کی اب میں چاۓ پینے کا ارادہ رکھتی ہںوں۔مہرماہ نے بتایا۔

اچها کیوں۔شاہ میر نے پوچها 

ایسے ہی انسان کے موڈ کو بدلنے میں وقت کتنا لگتا ہںے۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

ہاں یہ تو ہںے۔شاہ میر نے اس کی بات پہ اتفاق کرتے کہا

تمہاری پڑھاٸی تو پوری نہیں ہںوٸی ہںوگی نہ؟مہرماہ نے چاۓ کا پانی گرم کرنے کے رکھتے سوال کیا۔

نہیں۔شاہ میر نے جواب دیا۔

پھر کیا یہی کمپلیٹ کروگے ؟مہرماہ نے پوچها 

ابھی سوچا نہیں۔شاہ میر نے بتایا۔

اچها۔مہرماہ نے کہا۔

اور جب تک موم ڈيڈ نہیں آجاتے میں یہی رہںوگا چچی جان کا حکم ہںے۔شاہ میر نے بات کرنے کے غرض سے کہا

یہ تو اچهی بات ہںے مہرماہ نے مسکراکر کہا۔تو شاہ میر بھی مسکرادیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دوسرے دن سکندر خان بھی آگٸے تھے اور شاہ میر سے خوب ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ حيدر خان سے سخت خفا ہیں اور انہوں نے پھر شاہ میر منانے پہ راضی ہںوگٸے تھے۔شاہ میر نے حيدر خان کو کال کرکے یہاں کی ساری صورتحال بتادی تھی سکندر خان نے بھی پھر ان کو بتایا ستارے بیگم کی وفات کا جس کو سن کر حيدر خان کو اپنا وجود سناٹو کی زد میں آتا محسوس ہںوا پھر وہ اتنا روۓ کہ باقی سب بھی رو دیٸے اور کجھ ٹائم بعد انہوں نے اپنے آنے کا بتایا کہ وہ اب آۓ اور وہ سب سے شرمندہ ہیں۔انہوں نے اپنی جنت کو ناراض کیا اور وہ اب بس جو پہلے نہیں کرسکے اب کرے گے اور دوبارہ پاکستان آنے کے بعد دوسرے ملک نہیں جاۓ گے۔آج رات ان کو پہنچ جانا تھا اور شام میں اس لیے شاہ میر اپنے گھر جاۓ گا اور وہ اب لاٸونج میں شاہزیب کہ ساته تھا جو اس سے سوالات پوچه رہا تھا۔

میر تم نہ مجھے اب لسٹ بتادو۔شاہزیب نے مہرماہ کو آتے دیکه کر کہا۔

کس چیز کی لسٹ؟شاہ میر نے ناسمجھی سے اس کو دیکه کر پوچها 

وہاں لڑکیاں تمہارے آس پاس ہںوگی وہ بھی بولڈ لڑکياں  تو ان میں کتنی گرل فرینڈس کتنی تھی تمہاری وہ ان کے نام بتاٶ۔شاہزیب نے اب کے مزے اور تجسس سے پوچها تو مہرماہ بھی اپنا ناول رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہںوٸی۔

ایک بھی نہیں۔شاہ میر پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

ایک بھی نہیں۔شاہزیب صدمے کی حالت میں بولا۔

جی ایک بھی نہیں۔شاہ میر اس کو دیکه کر کہا۔

تم سے یہ امید تو نہ تھی کہ ایک لڑکی کو امپریس نہ کرسکے وہ بھی لنڈن میں رہ کر۔شاہزیب نے مصنوعی دُکھی انداز میں شاہ میر کو کہا۔جب کی مہرماہ بھی حيران اور خوش بھی تھی۔

ایسی بات نہیں مجھے بس لڑکیوں میں دلچسپی نہیں تھی۔شاہ میر نے صفائی دیتے کہا۔

اب تو تم ایسے ہی کہوں گے نہ ۔شاہزیب نے جان بوجه کے چھیرا۔

شاہ دلچسپی کیوں نہیں تھی لڑکياں تو بہت خوبصورت ہںوگی ایک سے بڑه کر پھر ؟مہرماہ نے اب کی سوال کیا۔

میرے لیے چہرے کی خوبصورتی ضروری نہیں۔وہاں جتنی بھی تھی مصنوعی چہرے تھے دل میں کجھ تو باہر سے کجھ وہ کسی ایک کے ساته نہیں رہ سکتی تھی۔اور اگر کوٸی تھی بھی تو میرے دل میں نہ آسکی۔شاہ میر مہرماہ کو دیکه کر ہلکہ سا مسکراکر بولا۔

کیا دل میں کوٸی اور ہںے؟شاہزیب نے دلچسپی سے پوچها ۔

ابھی یہ بات بتانے کا وقت نہیں۔شاہ میر نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا۔

مطلب کہ دل میں کوٸی ہںے۔مہرماہ نے جوش سے پوچها 

آپ کے لیے وہ کوٸی اور نہیں۔شاہ میر نے کہا۔

پہلیاں کیوں بجھوارہںے ہںو؟شاہزیب بیزاری سے بولا۔

کجھ نہیں مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا تو میں چلتا ہںوں۔شاہ میر بات ٹال کر کہتا وہاں سے نکل گیا۔جب کی وہ دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہ گٸے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آپ لوگوں کو تکليف تو نہیں ہںوٸی نہ آنے میں؟سکندر خان نے حيدر خان نے سے پوچها جو کل رات ہی آگٸے تھے تو سکندر خان اور سارہ بیگم مہرماہ شاہزیب ان سے ملنے آۓ تھے۔

نہیں سفر اچها گزرا ۔حيدر خان نے سرجھکا کر جواب دیا۔

تمہيں بہت مبارک ہںو۔ہانم بیگم نے مسکراکر مہرماہ کو دیکه کر کہا۔

کس بات کی مبارکباد چچی جان ؟مہرماہ کو ناسمجھی سے بولی۔

تمہاری منگنی کی اور کس کی تب تو نہ دے سکی تو آج دے دی۔ہانم بیگم نے کہا۔

شکریہ ۔مہرماہ نے مسکراکر کہا۔

میر نہیں کیا گھر پہ ؟شاہزیب نے سوال کیا۔

صبح کو نکل گیا تھا گھر سے کہ کوٸی کام ہںے اس کو۔ہانم بیگم نے جواب دیا۔

اچها ۔شاہزیب نے سرہلایا۔

اب ہمیں تاریخ دینی چاہٸیے مہرو کی شادی کی حمیرا بہت جلدی مچاٸی ہںے پر آپ لوگ نہ تھے تو ہم نے وقت مانگ لیا تھا۔سارہ بیگم نے سب کو دیکه کر کہا۔

ہاں اب تو ہم یہی ہںوگے۔ہانم بیگم نے مسکراکر کہا۔

حور کے ساته بس ابھی نکاح کی رسم کرینگے رخصتی سال بعد۔سکندر خان نے اپنا فیصلا سنایا۔

ٹھیک میں آپ کی بات حمیرہ کو بتادوگی۔سارہ بیگم نے ان کو دیکه کر کہا۔مہرماہ ان سب باتوں سے لاتعلق بیٹھی تھی۔جب کی حيدر خان آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کررہںے تھے وہ اب سمجھ گٸے تھے کہ شاہ میر سے یہ بات چھپانا ممکن نہیں ہںوگا اب شاہ میر نے بھلے ان کو کجھ نہ بتایا ہںو پر وہ باپ تھے بیٹے کے دل کا حال سمجھ گٸے تھے پر وہ مجبور تھے۔اس کے لیے کجھ کر نہیں سکتے تھے۔ان کی نظر میں شاہ میر نے غلط جگہ دل لگایا ہںے اور بعد میں اس کا اندازہ شاہ میر کو بھی ہںوجاۓ گا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

وہ اس وقت ریان کے ساته کیفے میں تھا۔جو کراچی آکر اس کو ملنے کے لیے یہاں بولایا تھا کہ تمہاری یاد آرہی تھی۔اس لیے شاہ میر اس کی بات پہ ملنے آیا تھا۔

اور بتاٶ کیا سوچا ہںے اب ؟ریان نے سوال کیا۔

کجھ دنوں میں موم ڈيڈ سے کہوں گا کہ ماہ سے شادی کرنا چاہتا ہںوں۔شاہ میر نے آرام سے بتایا۔

کیا وہ مان جاۓگے ؟ریان نے دوسرا سوال کیا۔

ناں ماننے کی وجہ؟شاہ میر نے الٹا اس سے پوچها 

تم بہتر جانتے ہںو۔ریان طنزیہ بولا۔

میں اس بات کو نہیں مانتا میرے لیے وہ بس سانس کی طرح ہیں جنہيں ہمیشہ میرے ساته رہنا ہیں۔شاہ میر نے کہا۔

دعا ہںے کہ تمہارے گھر والے یا تمہاری ماہ کو اعتراض نہ ہںو۔ریان نے دعا دے کر کہا تو شاہ میر کے چہرے پہ مسکراہٹ آگٸ۔شاہ میر کا فون بجا تو وہ وہاں متوجہ ہںوا۔

کس کی کال ہںے؟ریان نے پوچها 

شاہزیب بھاٸی کی تم خاموش رہنا ذرہ۔شاہ میر اس کو بتاتا کال پک کرنے لگا اور کجھ دور ساٸيڈ پہ کھڑا ہںوا۔

جی شاہزیب بھاٸی۔شاہ میر نے کہا۔

میر کہاں ہںو ہم صبح سے تمہارے گھر ہيں اور تمہارا کوٸی اتا پتا ہی نہیں۔شاہزیب اس کے پوچهنے پہ شروع ہںوگیا۔

اوہ سوری مجھے پتا نہیں تھا۔شاہ میر نے معزرت کی۔

اب تو چلا نہ پتا تو آجاٶ۔شاہزیب نے کہا۔

جی آتا ہںوں۔ماہ بھی ہںوگی نہ ؟شاہ میر نے جواب دے کر مہرماہ کا پوچها ۔

پہلے تھی اب نہیں ہںے۔شاہزیب نے بتایا۔

اب کیوں نہیں؟شاہ میر نے الجھ کر پوچها 

شہیر کی کال آٸی تھی اس کو اپنے کسی دوست سے مہرماہ کو ملانا تھا۔شاہزیب نے بتایا۔

ماہ کو اپنے دوست سے کیوں ملانا تھا انہيں ؟شاہ میر ضبط سے پوچهنے لگا ورنہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا شہیر کے ساته کیا کر گزرتا۔

ایسے ہی اب ملنا جلنا تو رہںے گا نہ ۔شاہزیب اس کہ لہجے پہ دھیان دیٸے بغير سرسری بولا۔

کیا مطلب ہںے آپ کا ؟شاہ میر کہ دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔

میر کیا تمہيں نہیں پتا جو اتنے سوال پوچه رہںے ہںو۔شاہزیب بیزاری سے بولا۔

آپ بتائے ۔شاہ میر اپنے ڈر پہ قابو پاتے پوچها 

حد ہںے میر چچا جان نے بتایا ہںوگا نہ پہلے کہ مہرو اور شہیر برو کی منگنی ہںوگٸ ہںے اور اب تو نکاح کی تاریخ رکھنے کا سوچ رہںے ہيں۔شاہزیب نے بتایا۔جب کی شاہ میر کو لگا اس کے پاٶ سے نیچے زمین کھسک گٸ ہںو وہ بے ساختہ لڑکھڑایا گیا اور ایک قدم پیچھے ہںوا۔

ک ک کب کی بات ہںے یہ ؟شاہ میر کو اپنی آواز دور کھاٸی سے آتی محسوس ہںوٸی۔

تم ٹھیک ہںو؟شاہزیب اس کی آواز میں لڑکھڑاہٹ محسوس کرتے شاہزیب نے پریشانی سے پوچها 

کب منگنی ہںوٸی تھی ان کی۔شاہ میر اس کا سوال نظرانداز کرتا دوبارہ پوچها ۔

سات سال سے اُپر ہںونے

میں آپ سے بات کرتا ہںوں۔شاہ میر سے مذید سنا نہیں گیا اور کال کٹ کردی اور بنا ریان کو بتائے کیفے سے نکل گیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شہیر آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو اپنے کسی دوست سے ملانا تھا؟ مہرماہ نے شہیر سے پوچها جو اس کو ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا اور ٹيبل پہ وہ دونوں ہی تھے۔

میں نے ایسے ہی کہا تھا مجھے پتا تھا اگر تمہارے ساته ایسے باہر آنے کا کہتا تو تم نے منع کرنا تھا۔شہیر نے ٹيبل پہ رکھے اس کے ہاتهوں کو تھام کر بولا۔

آپ کو جھوٹ نہیں بولنا چاہٸیے تھا۔مہرماہ نے نامحسوس طریقے سے اپنے ہاتهوں کو چھڑواتے ہںوۓ کجھ ناراضگی سے کہا۔

تو اور کیا کرتا ویسے بھی اب تو ہمارا نکاح بھی ہںونے والا ہںے اور کجھ ٹائم بعد شادی بھی۔شہیر آرام سے بولا۔

تو آپ کجھ صبر کرتے مجھے ایسے ہںوٹلنگ کرنا پسند نہیں۔مہرماہ نے ناگواری سے کہا۔

کیا ہںوگیا ہںے مہرو تم تو ایسے کہہ رہی ہںو جیسے میں کوٸی غير ہںو۔شہیر نے کجھ تیز آواز میں کہا۔

می

ابھی وہ کہتی کہ اس کا فون رنگ ہںوا۔نام دیکها تو شاہ کی کال تھی اس نے شاہ میر کے پاکستان آتے ہی نمبر لیا تھا اور اس کے انسٹاگرام اور فیس بک کی آۓ ڈي بھی پوچه لی تھی۔مہرماہ کے ایک نظر شہیر کو دیکهتی کال پک کی۔

اسلام وعلیکم

آپ کہاں ہيں اس وقت؟شاہ میر نے اپنے آنسو ضبط کرتے مہرماہ کے سلام کا جواب دیٸے بنا کہا۔

خيریت اور تمہاری آواز کو کیا ہںوا ہںے ؟مہرماہ نے پریشانی سے اٹه کھڑی ہںوٸی۔اس کو اٹهتا دیکه کر شہیر بھی کھڑا ہںوگیا۔

میں آپ کو ایک ایڈریس مسیج کر رہا ہںوں آپ آجاۓ ورنہ میں وہ کر بیٹھوں گا جس کا کبهی آپ نے یا کسی نے سوچا بھی نہیں ہںوگا۔شاہ میر نے بھاڑی آواز سے کہا

پر بات

مہرماہ پوچهنے والی تھی پر شاہ میر نے کال کٹ کردی تھی۔

شہیر میں چلتی ہںوں ایمرجنسی ہيں۔مہرماہ نے اس کو دیکه کر بتایا اور اپنا پرس لینے لگی۔

پر ابھی تو ہم نے کجھ آرڈر بھی نہیں کیا۔شہیر نے الجھ کر کہا۔

میں ابھی چلتی ہںوں۔خدا حافظ ۔مہرماہ بنا اس کی بات کا جواب دیٸے نکل گٸ۔جب کی شہیر نے غصے سے اپنا ہاته ٹيبل پہ دے مارا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر نے مہرماہ کو ساحل سمندر پہ بولایا تھا جہاں اس وقت شام ہںونے کی وجہ سے اکادکا ہی لوگ تھے۔مہرماہ پریشانی سے چلتی شاہ میر کے پاس آٸی تھی۔جس کی اس کے طرف پیٹھ تھی مہرماہ نے اس کو اپنی طرف موڑا تو دنگ رہ گٸ شاہ میر کی سرخ آنکهيں اور ماتھے پہ بکھیرے بال اس کو خوفزدہ کر گٸے۔

شاہ یہ تم نے اپنی حالت کیا بنالی ہںے اور تمہاری آنکهيں سرخ اور گیلی کیو ہںے تم نے مجھے اتنی جلدی میں بولایا وہ بھی آدهی ادھوری بات کرکے کال کٹ کردی تمہيں پتا بھی ہںے میں کتنا ڈر گٸ تھی اب چپ کیو ہںو کجھ بولتے کیوں نہیں۔مہرماہ نے آتے ہی اس کو سنانا شروع کیا تھا پر اس کے خود کو خاموش پاتا دیکه کر اس نے کہا۔

کیوں کیا آپ نے ؟شاہ میر نے پوچها 

میں نے کیا کردیا؟مہرماہ نے الجھ کر پوچها 

مجھ سے میرے جینے کی وجہ چھین کر مجھے ایسے ادھورا کرکے آپ کہہ رہی ہيں کہ آپ نے کیا کردیا ہںے۔شاہ میر نے زخمی مسکراہٹ ہںونٹوں پہ سجا کر بولا۔

شاہ ٹھیک سے بتاٶ کیا کہنا چاہتے ہںو میں کیوں تمہارے ساته ایسا کروگی۔مہرماہ نے اس کو دیکه کر کہا۔

میں جب جارہا تھا تو آپ سے کہا تھا نہ کہ میرا انتظار کیجٸیے گا ؟شاہ میر نے پوچها 

یہ کیا باتيں لے کر بیٹھ گٸے ہںوتم۔مہرماہ کا دل اب کسی انہونی کہ تحت زور سے دھڑکا۔

میں نے ایسا کہا تھا کہ نہیں۔شاہ میر اپنی بات پہ زور دے کر بولا۔

ہاں کہا تھا پر تم اس وقت بچے تھے تمہيں لگ رہا تھا کہ شاید تمہيں تمہاری دوست بھول نہ جاۓ ۔مہرماہ کو ایسے اچانک پوچهنا سمجھ نہیں آرہا تھا اس لیے جو سمجھ آیا اس نے بتایا۔

تو پھر آپ نے کیوں نہیں کیا میرا انتظار؟شاہ میر نے چیخ کر کہا۔تو مہرماہ ڈرکر کجھ قدم دور ہںوٸی پر شاہ میر نے بازوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور دوبارہ بولا۔

آپ کیسے کسی اور سے منگنی کرسکتی ہیں۔جب کی میں آپ سے بے انتہا عشق کرتا ہںوں۔میری دعاٶ کا محو آپ تھی اور رہںے گی۔میں آپ کو اس وقت سے چاہتا ہںوں جب مجھے ان باتوں کا پتا نہ تھا میں وہاں ایک ایک پل آپ کے بارے میں سوچا آپ کو مانگا آپ کو آپ سے زیادہ چاہا اور آپ نے آپ کیسے کسی اور کو اپنا ساتهی بنا سکتی ہںے جب کی میں یہاں آیا ہی آپ کو اپنا بنانے ہںوں آپ میرے ساته ایسا کیسے کرسکتی ہںے۔شاہ میر جنونی انداز میں مہرماہ کا بازوں پکڑے بول رہا تھا جب کی مہرماہ پھٹی آنکهوں سے شاہ میر کی باتيں سن رہی تھی اس کو یقين نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی شاہ میر جس کو وہ شاہزیب کی طرح چاہتی ہںے جس کی باتيں وہ بچہ سمجھ کر نظرانداز کرتی تھی وہ آج ایسے اس کو یہ سب بول رہا تھا بنا عمر کا فرق جانے۔

یہ کیا بکواس کررہںے شاہ میر ہوش میں تو ہںوتم۔مہرماہ نے غصے سے اس کا پورہ نام لے کر پوچها 

بکواس نہیں ہںے یہ میرا عشق ہںے جس میں آپ نے مجھے قید کردیا ہںے اور ایسا قید کیا ہںے کہ اگر میں نکلا تو اگلی سانس نہ لے پاٶ۔شاہ میر نے مہرماہ کا بازوں چھوڑ کر ہزیاتی انداز میں اپنا سرہلاتا بولا۔

میں نے ایسا کجھ نہیں کیا اور یہ کہتے ہںوۓ تمہيں ذرہ شرم نہ آٸی چار سال شاہ میر چار سال بڑی ہںو میں تم سےکجھ اس کا ہی لحاظ کیا ہںوتا یہ پیار عشق کی باتيں کرنے کے لیے تمہيں میں ہی ملی تھی کزن ہںوں تمہاری بہن کی حيثيت ہںے میری تمہاری اور تم۔مہرماہ نے شاہ میر سے چیخ کر بولی اس کو اپنا دماغ ماٶف ہںوتا محسوس ہںورہا تھا وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ اس سے چھوٹا شاہ میر یہ باتيں کررہا تھا اس کا دل کیا زمین پھٹے اور اس میں سماجاۓ۔

آپ میرے لیے جو حیثیت رکھتی ہںے اگر میں بیان کرنا چاہوں بھی تو نہ کرپاٶں۔

شاہ میر خدا کے واسطے چپ ہںوجاٶ۔مہرماہ نے اس کی بات پوری ہںونے سے پہلے ہی ہاته جوڑ کر کہا۔

یہ آپ پلیز ہاته  نیچے کرے۔شاہ میر نے اس کے جوڑے ہاتهوں کو دیکه کر منت بھرے لہجے میں کہا۔

میں اب جارہی ہںوں اور تم میرے سامنے اس وقت تک نہ آنا جب تک ہمارے بیچ عمر کے تقدس کا احساس نہ آجاۓ۔مہرماہ نے اپنے آنسو صاف کرتے کہا۔

آپ ایسے میری بات کا جواب دیٸے بنا نہیں جاسکتی میں اگر آپ سے کجھ چھوٹا ہںوں تو اس میں میرا کیا قصور مجھے آپ سے اگر محبت ہںے تو اس میں کیا کرسکتا ہںوں محبت کیا عمر دیکه کر ہںوتی ہںے اور میں نے ایسا کجھ بھی تو نہیں کیا جو آپ سزا سنا کہ جارہی ہیں۔کیا آپ نے کبهی ناولز میں یہ نہیں پڑھا۔Age doesn't not matter in love شاہ میر اس کے سامنے آتا ہںوا کہنے لگا۔

تمہارے لیے میٹر نہیں کرتا ہںوگا پر میرے لیے کرتا ہںے مجھے اسی معاشرے میں رہنا ہںے اور تمہاری اس ضد کی وجہ سے ساری عمر سر جھکا کر نہیں چل سکتی لوگ کیا کہيں گے کہ اپنی عمر کے چھوٹے چھ مجھے تو کہتے ہںوۓ بھی شرم آرہی ہںے اور تم نے ایسا سوچ بھی کے لیا۔مہرماہ نے حقارت سے کہا۔شاہ میر کو مہرماہ کے لہجے میں حقارت محسوس کرتے اپنا دل بند ہںوتا لگا۔

آپ کو اس معاشرے اور لوگ کیا کہیں گے اس کی پرواہ ہںے جو زمین پہ بیٹھ کر چاند کے داغ کی بات کرتے ہںے پر میرے جذبات احساسات اور میری محبت عشق کی کوٸی قدر نہیں کوٸی پرواہ نہیں آپ کو۔شاہ میر ویران نظروں سے دیکهتا کہنے لگا۔

یہ سب حماقت ہںے بعد میں تمہيں خود احساس ہںوجاۓ گا اور تب تم اس وقت کو یاد کرتے ہنسوگے۔مہرماہ کہہ کر نکل کے چلی گٸ۔شاہ میر نے روکا نہیں وہ وہيں زمين پہ بیٹھتا چلاگیا اس کے عشق کو وہ حماقت کا نام دے گٸ تھی ہاں شاید حماقت ہی تھی اس لیے تو عشق کیا ورنہ جان کر کون عشق کی آگ میں جلنے کے لیے کودتا ہںے اس کو بہت ٹائم پہلے شاہزیب کا کہا جملا یاد آیا تھا جو اس نے مشورہ دیا تھا کہ مہرماہ سے دور رہںو ورنہ پچھتاٶ گے وہ پچھتارہا تھا اگر تب اس کی بات مان لیتا تو آج اتنا مشکل نہ لگتا اس کو مہرماہ سے دور رہنا پر وہ مہرماہ سے دور رہنا کب چاہتا تھا وہ تو اس کے بغير مرنا پسند کرے گا۔

دل تے میرا کَملا ہںویا جن کہیرے خواب

سجا بیٹھا توں میرا ہی میرا ہی ہںے،

خود نوں لاڑے لابیٹھا میرا رِوم رِوم 

خالی ہںے میرے سارے خواب جالی 

ہںےمیرے قولِ آ دل نوں سمجھا توں

میرا نہیں۔۔۔۔توں میرا نہیں۔۔۔

زندگی میں صرف ایک چیز ایسی ہںے جو انسان کو جی بھر کر خوار کرنے کی صلاحيت رکھتی ہںے اور وہ ہںے محبت ۔وہ آپ کے ساته آنکه مچولی کھیلتی ہںے اور کبهی آپ کی آنکهوں پہ ہاته رکھ کر اپنے ہںونے کا اتنا گہرا احساس دلاتی ہںے کہ انسان کو لگتا ہںے کہ وہ اپنی  مٹھی میں پورے سمندر کو قید کرسکتا ہںے اور کبهی کبهی آپ کو یقين کی سیڑھی سے اتنا زور سے دھکا دیتی ہںے کہ انسان ساری زندگی سر اٹها کر چلنے کی ہمت نہیں کر پاتا !!!

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ گھر آکر ہی اپنے کمرے میں گٸ اور بیڈ پہ گرنے کے انداز میں لیٹ گٸ لب تو بند تھے پر آنکهوں سے آنسو قطار کی صورت میں نکل رہںے تھے اس کو شرمندگی ہںورہی تھی کہ اگر یہ بات گھر میں کسی کو پتا لگ گٸ تو وہ کیا منہ دیکهاٸی گی سب کو اس کی غلطی نہ ہںونے پہ بھی اگر گھروالوں نے اس کو قصوروار مانا تو وہ کیسے اپنے لیے وضاحت دیگی اس کا سردرد سے پھٹا جارہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شاہ میر کا حشر نشر کردے جس کی وجہ سے اس کو بھی سب سے نظر چڑاکر سب کو فیس کرنا ہںوگا اس لیٹے آدھا گھنٹہ ہی ہںوا تھا جب اس کا موبائل فون بجا اس نے بے دلی سے اپنا فون پرس سے نکالا شہیر نام بلنک ہںوتا دیکه کر اس نے اپنا فون بند کردیا اس کا ابھی ایسا موڈ نہیں تھا وہ اس سے بات کرتی یا اس کے کسی سوال کا جواب دے پاتی۔

مہرو بی بی آپ کو آپ کے بابا باہر لاٸونج میں بولارہںے ہیں۔وہ آنے والے وقت کے بارے میں ابھی سوچ رہی تھی جب ملازمہ نے دروازہ نوک کرتے اس کو بتایا مہرماہ نے اٹه کر اپنے آپ کو آٸینے میں دیکها ستایا چہرہ سوجھی آنکهيں اگر ایسے وہ باہر جاتی تو سب نے سوال کرنا تھا کہ کیا ہںوا ہںے وہ پہلے واشروم گٸ اپنا منہ دوھوکر کمرے سے نکل گٸ۔

آپ نے بولایا تھا؟مہرماہ ان کے ساته صوفے پہ نظرے جھکا کر بیٹھ کر پوچها 

ہاں میرے بچے اس وقت تو آپ ہمارے ساته بیٹھتی ہںے تو پھر آج کمرے میں نیند آرہی تھی کیا؟سکندر خان نے اس کو اپنے ساته لگاکر سوال کیا۔

جی بابا جان بس آج جلدی سونے کا دل چاہ رہا تھا۔مہرماہ نے اپنے آنسو پیتے جواب دیا۔

کیا پریشان ہںے میرا بیٹا ؟سکندر خان نے پوچها 

نہیں بابا جان بلکل بھی نہیں۔مہرماہ نے فورن سے کہا۔

اچها ہمیں لگا شاید آپ کے نکاح کی تاریخ آپ سے پوچهے بغير رکھی تو ناراض ہیں اس وجہ سے۔سکندر خان نے اپنا خدشہ بتایا۔

کیا تاریخ رکھ دی؟مہرماہ نے حيرانکن لہجے میں ان سے پوچها۔اس کے سوال پہ سکندر خان نے سارہ بیگم کو دیکها جو مہرماہ کو ہی حيرت سے دیکه رہی تھی۔

مہرو تم شہیر کے ساته تھی نہ تو کیا اس نے بتایا نہیں؟سارہ بیگم نے سوال کیا تو وہ پچھتاٸی کہ کال کیوں نہ اٹهاٸی اس کی شاید یہ بتانے کے لیے کال کررہا ہںو۔

امی جان ميں ان کے ساته گٸ تھی پر میں پھر نکل آٸي تھی اس لیے ان سے زیادہ بات نہ ہںوپاٸی۔مہرماہ نے بہانا کیا۔

اچها۔تاریخ ہم نے حور کے نکاح والے دن کی ہی دی ہںے ان کو انہيں تو جیسے حيدر کے آنے کا پتا چلا تو فورن شادی کی بات کی پتا نہیں اتنی جلدی کیوں ہںے ورنہ ایک بیٹے کی تو ہںورہی ہںے نہ ۔سکندر خان نے اب کی جواب دیا۔

بابا جان اب میری شادی کا بھی سوچے۔شاہزیب نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

ابھی تم اپنی زمیداریا تو سمجھ لو پھر شادی بھی کروالے گے۔سکندر خان نے مزاقً کہا 

بابا جان سمجھ تو لی ہںے اب کیا حفظ کرلوں اور اب آفس بھی ہر روز جاتا ہںوں پورہ کام بنا آپ کی مدد کے کرلیتا ہںوں۔شاہزیب نے پہلے ناراضگی سے پھر اپنی قابليت کے گن بتائے۔

اچها سوچتے ہيں تمہارا بھی کجھ۔سکندر خان نے ہنس کر بولے۔

پلیز جلدی ۔شاہزیب فورن بولا تو سب زور سے ہنس پڑے

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

حيدر اتنی رات ہںوگٸ ہںے میر ابھی تک گھر نہیں آیا صبح کا نکلا ہںے۔ہانم بیگم نے پریشانی سے حيدر خان سے کہا جو خود داخلی دروازے کے سامنے چکر کاٹ رہںے تھے ان کی بات سن کر انہوں نے ان کی طرف دیکها 

تمہيں پتا ہںے وہ دوست کم بناتا ہںے اور صبح وہ ریان سے ملنے کے لیے نکلا تھا اور جب میں نے ریان سے میر کا پوچها تو اس نے بتایا کہ وہ خود نہیں جانتا کہ میر کہاں ہںے اس کو بنا بتاۓ وہ چلاگیا تھا۔حيدر خان نے سنجيدہ لہجے ميں ان کو ساری بات بتائی 

پتا نہیں کہاں ہںوگا ؟ہانم بیگم پریشان ہںوتے ہںوۓ بولی

ریان کی کال آرہی ہںے۔حیدر خان نے اپنا موبائل دیکه کر کہا جس پہ ریان کی کال تھی۔

ہاۓ انکل معذرت کی میں نے آپ کو اتنی دیر رات کا کال کی۔ریان نے شرمندہ لہجے کہا

کوٸی بات نہیں آپ بتائے میر کو کجھ پتا چلا۔حيدر خان نے پوچها 

جی یہی بتانے کے لیے آپ کو کال کی دراصل میر میرے ساته ہی ہںے اور وہ کل گھر آجاۓ گا آپ فکرمند مت ہںوٸيے گا۔ریان نے اپنے سامنے بے سد لیٹے شاہ میر کو دیکه کر ان کو کہا۔

تمہارے ساته کیوں ہںوگا وہ اور گھر کیوں نہیں آۓ گا ؟حيدر خان نے سنجيدگی سے پوچها 

وہ تو آپ کو کل میر بتادے گا ابھی میں نے آپ کو پریشان نہ ہںو اس لیے بتادیا۔رات بہت ہںوگٸ ہںے آپ بھی سوجاٸيے گا۔ریان نے کہتے ہی ان کے مذيد سوالات سے بچنے کے لیے کال کٹ کردی۔اس کے فون رکھنے پہ انہوں نے ہانم بیگم کو دیکه جو سوالیہ نظروں سے ان کی طرف ہی دیکه رہی تھی سکندر خان نے ان کو کہا۔

اندر چل کے سوجاٶ کل آجاۓ گا گھر بلکل ٹھیک ہںے وہ ریان کے ساته ہںے۔

اچها شکر اللہ کا میں تو پریشان ہںوگٸ تھی۔ہانم بیگم نے ان کی بات پہ اپنے ہاته شکر کے انداز میں اُپر کی طرف کیے۔پھر وہ دونوں اپنے کمرے کی طرف چل دیٸے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ کے جانے پہ وہ ایسے ہی اسی جگہ پہ اسٹل ہںوگیا تھا اس کو لگتا تھا سب آسان ہںوگا پر مہرماہ نے کتنی جلدی اس کو تصوری دنیا سے نکال کہ حقيقت کی بےدرد دنیا میں واپس لوٹایا تھا اس کو یہاں بیٹھے کافی بیت گیا جب اپنے پاس کسی کے قدموں کے چلنے  کی آواز آٸی پر وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔

میر تم یہاں ہںو پتا بھی ہںے سب کتنے پریشان ہںے تمہارے لیے اور تم نے اپنی حالت کیا بناڈالی ہںے۔ریان اس کے ساته بيٹھ کہنے لگا۔شاہ میر ریان کی آواز سن کر خالی نظروں سے اس کو دیکهنے لگا پھر زور سے اس کے گلے لگ کر رونے لگا اتنا کہ شاید ہی کبهی رویا ہںو۔

اگر جو کبهی مجھے فتویٰ دینے کا ازِن ملے

میں انسان کا انسان کے آگے  رونا حرام لکهوں۔

میر کیا ہںوا تمہيں؟ریان شاہ میر حرکت پہ بوکھلاگیا اس کو سمجھ نہیں آیا کہ شاہ میر کو کیا ہںوا اس نے تو کبهی شاہ میر کی آنکهوں میں ایک آنسو نہ دیکها تھا اور آج یوں صبح تک تو وہ ٹھیک تھا پھر ایسا کیا ہںوگیا۔شاہ میر نے اس کو کوٸی جواب نہ دیا بیس منٹ بعد اس نے ریان سے الگ ہںوگر اٹه کھڑا ہںوا اور کہا۔

تم یہاں کیوں آۓ ہںو جاؤ مجھے ابھی اکیلا رہنا ہںے۔

ابھی جو تمہاری حالت ہںے نہ وہ اکیلے رہنے کی بلکل نہیں اس لیے میرے ساته میرے فلیٹ پہ چلو اگر گھر میں ایسے تمہيں دیکه لیا تو پریشان ہںوجاۓ گے۔ریان اس کی بات پہ غصے سے بولا۔

میں نے کہيں نہیں جانا ایک دفعہ کہہ دیا ناں۔شاہ میر سیدھا چلتے ہںوۓ اس سے کہنے لگا۔

وہاں کہاں جارہںے ہںو مرنا ہںے کیا؟ریان اس کو پانی کی طرف جاتا دیکه کر بازوں سے پکڑتا دانت پیس کہ بولا

میں زندہ ہی کب رہا۔شاہ میر خود پہ طنزیہ ہنستے ہںوۓ بولا۔

تم گھر چلو میرے ساته ۔ریان نے اس کو لے جانا کہا۔

٠م نہ آۓ تو میں نے تمہارے پورے گھر والوں کو یہاں آنے کا کہنا ہںے پھر تم خود سوچو رات کے نو بجے وہ تمہيں ایسے اس جگہ دیکهے گے تو کیا حالت ہںوگی ان کی۔ریان اس کو بات نہ مانتا دیکه کر دھمکی دے کر بولا۔

اچها چلو۔شاہ میر لڑکھڑاتا بولا۔

شراب پینے والوں کی بھی یہ حالت نہیں ہںوتی ہںوگی جتنی بری تمہاری ہںورہی ہںے۔ریان اس کی لڑکھڑاہٹ محسوس کرتا طنزیہ میں بولا۔پر دل میں وہ ابھی بھی  پریشان تھا کہ شاہ میر کی حالت ایسی کیوں ہںے صبح کو پوچهنے کا ارادہ کرتا وہ اس کو گاڑی میں بیٹھا کر اپنے فلیٹ کی جانب لے گیا اور وہاں پہنچتے ہی اس نے سکندر خان کو کال کرکے بتایا تھا پر اس کے رونے اور بکھرنے کی بات نہ بتا کر اس نے ان کو فکرمند ہںونے سے بچالیا اور ابھی تو اس نے شاہ میر سے حقيقت بھی جاننی تھی اس لیے اس کو دوده میں نیند کی گولیا دیتا خود دوسرے کمرے کی طرف بڑه گیا۔

صبح ہںوتے ہی وہ اس کے کمرے میں چاۓ اور ٹوسٹ ٹرے اس کے سامنے کی شاہ میر نے ایک نظر دیکه کر ریان کو دیکها جو کندھے اچکا کر بیٹھ کے بولا۔

مجھے ناشتہ بنانا آتا نہیں اور باہر جانے کا میرا موڈ نہیں تھا اس لیے ان سے ہی کام چلا لو۔

مجھے بھوک نہیں۔شاہ میر نے روکھے لہجے میں کہا

میر کیا تم مجھے اس لاٸق سمجھتے ہںو کہ مجھے اپنی حالت کی وجہ بتاٶ ورنہ کل تک تو بلکل ٹھیک تھے پھر اچانک کیا ہںوا ایسا جس نے تمہيں رونے پہ مجبور کردیا وہ بھی کسی کے سامنے ۔ریان کی بات پہ اس نے اس کو دیکها جس کے چہرے پہ پریشانی بے چینی صاف عیاں تھی۔شاہ میر دیوار پہ نظر جماتا بولا۔

سات سال پہلے ان کی منگنی ہںوگٸ اور میں تو ویسے بڑا دعویٰ کرتا تھا ان کی محبت کا پر اتنی بڑی بات سے بے خبر رہا ۔

کیا بات کر رہںے ہںو تمہيں نہیں پتا چلا تو کیا تمہارے گھر والے بھی بے خبر تھے ۔ریان شاک میں بولا۔

ریان میں بات کررہا ہںوں اب بیچ میں مت بولنا۔شاہ میر نے اس کو ٹوک کر بولا تو وہ خاموش ہںوگیا۔

مجھے اس بات سے زیادہ افسوس نہیں کہ میں بے خبر تھا یا بےخبر رکھا گیا مجھے مارا ایک بات نے ہںے کہ ان کو میری چاہت کی ذرہ قدر نہیں انہوں نے میرے عشق کو حماقت کا نام دے دیا۔میں نو سال سے ان کے علاوہ کسی کی چاہت نہ کی ان کے علاوہ دعا میں کجھ نہ مانگا اور ان کو میری یہ باتيں بکواس اور فضول لگی۔میں نے تہجد پڑھنا شروع کردیا ان کے لیے اور تہجد پڑھنے والوں کے لیے تو غيب سے معجزے اُتارے جاتے ہیں۔پھر میری دعائيں قبول کیوں نہیں میں نے اللہ سے کہا تھا ان کو ہمیشہ میرا کیجٸیے گا کوٸی ان کو مجھ سے نا چھین سکے ایسا کوٸی رشتہ بنا لیجٸیے گا پر انہوں نے کہا کہ جب تک میرے دماغ سے یہ فتور نہ نکلے میں ان کے سامنے نہ آٶں ان کو لگتا ہںے مجھے ان کے بیچ رشتے کے تقدس کا لحاظ نہیں انہوں نے یہ بات کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ میرا دل کیسے تڑپےگا ان کی یہ بات سن کر ان کو ہمارے بیچ چار سال کا فرق نظر آتا ہںے معاشرہ کیا سوچے گا ان کا بھی خيال ہںے ان کو لوگ کیا کہیں گے ان کی بھی پرواہ ہںے پر میرے اور میرے دل کی نہیں۔شاہ میر جیسے جیسے اس کو بتا رہا تھا ویسے ہی اس کی آنکهيں بھیگتی جارہی تھی۔ریان تو شاک سا اس کی دیوانوں جیسی باتيں سن رہا تھا۔

وہ تمہاری قسمت میں نہیں ہںے میر اس لیے خود کو اذیت میں مت ڈالوں جس طرح کی تم باتيں بتارہںے ہںونہ تو وہ کبهی تمہيں قبول نہیں کرے گی اور نہ ان کے گھر والے اور تمہارے اس لیے اپنی ضد چھوڑ دو۔ریان کو اس کی حالت دیکهی نہیں جارہی تھی اس لیے اپنی طرف سے اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔

اگر قسمت کا لکها سب کجھ ہںوتا تو خدا ہمیں دعا مانگنے کا حق نہ دیتا اور میں اذیت سہہ لوں گا بس وہ مجھے مل جاۓ ان کو مجھے قبول کرنا ہںوگا یہ ضد نہیں ہںے میری اگر ضد ہںوتی نہ تو میں ان کے لیے ایسے تڑپ نہ رہا تھا بنا ان کی مرضی کا خیال کیٸے ان کو اپنا بنادیا پر یہ وہ میرا عشق ہںے اور وہ عشق مجھے اجازت نہیں دیتا کہ خود کی خوشی کے لیے میں ان کی عزت داٶ پہ لگادو میں ان حاصل نہیں بلکہ پانا چاہتا ہںوں ان کی پوری رضامندی سے میں چاہتا ہںوں مجھے بھی ویسے ہی وہ چاہے جس طرح سے میں چاہتا ہںوں اگر نہیں چاہتی تو مجھے بس اپنا ہاته تھمادے میرے عشق کی شدت میں اتنی طاقت تو ضرور ہںوگی نہ کہ ان کے دل کو پگھلا سکے اور وہ بھی مجھ سے عشق نہیں تو محبت ہی کرنے لگے۔شاہ میر کے لہجے میں ریان نے جو آس محسوس کی اس پہ ریان کا دل تڑپ اٹها تھا۔

میر مجھے محبت کی زیادہ خبر تو نہیں پر میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر کسی کو آپ کی محبت محسوس نہیں ہںوتی تو ،اور نظر بھی نہیں آتی، تو یقين دلانے کی کوشش نہ کریں،ناکارہ رہںے گے، محبت ایک لطیف احساس ہںے،یہ پتھر دلوں پہ نہیں اترتی۔ریان نے ایک اور کوشش کرنی چاہی۔

وہ پتھر دل نہیں ہںے ان کو میری محبت کا احساس ہںے اگر نہیں تو ایک دن ضرور ہںوگا بس دعا ہںے کہ جب ان کو احساس ہںوتو میرے جسم میں جان بھی ہںو۔شاہ میر بے حسی سے بولا۔

کیا تمہارے لیے بس وہی اہم ہںے جو ایسے بول رہںے ہںو۔ریان نے پوچها 

پتا نہیں۔شاہ میر نے لاعلمی سے بولا

بھول جاٶ ۔ریان اس کو دیکه کر بولا۔

ان کو بھولنے کا دل کہاں سے لاٶ۔جواب فورن دیا تھا۔

وہ تمہاری نہیں۔ریان نے اس کو حقيقت میں لانا چاہا۔

وہ میری ہی ہيں ان کے یا کسی اور کہ کہنے پہ مجھے فرق نہیں پڑتا وہ اس دنیا میں بھی میری ہںے اور آخرت میں بھی میری ہی رہںے گی میں نے ان کو دعاٶں میں مانگا ہںے اور مجھے نہیں لگتا کہ ان میں ایسی کوٸی گھڑی نہیں ہںوگی جب میری دعا قبول نہ ہںوٸی ہںو۔شاہ میر ریان کی بات پہ تڑپ کہ بولا۔

زبردستی تم کرنا نہیں چاہتے رضامندی وہ دے گی نہیں تو کیسے وہ تمہاری ہںوٸی۔ریان نے اس کی عقل پہ ماتم کرنا چاہا۔

وہ ہںے نہ ۔شاہ میر نے اُپر کی طرف اشارہ کیا۔

اللہ ۔ریان نے پوچها 

ہاں اللہ ان کو مجھے ضرور دےگا میں ہار نہیں سکتا میں ایسے ہی نہیں کہوں گا کہ میری دعائيں قبول نہیں ہںوٸی میری دعائيں قبول ضرور ہںوگی مجھے اپنا یقین پختا کرنا ہںے وہ اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا میں جانتا ہںوں یہ بات اور میں اب مایوس نہیں ہںوں گا مایوسی مسلمانوں کے لیے کُفر ہںے۔شاہ میر عجيب لہجے میں کہتا اٹها جب کی ریان کو شاہ میر پاگل لگا۔

کہاں جارہںے ہںو؟ریان نے اٹهتے دیکه کر پوچها 

گھر۔شاہ میر نے بس اتنا کہا۔

ایسے جاؤ گے تو وہ پریشان ہںوگے فریش ہںوکر جاؤ ۔ریان نے اس کو ہوش دلانا چاہا۔

میں ایسی ہی جاؤں گا۔شاہ میر کہتا نکل گیا۔جب کی ریان اس کی پیٹھ دیکهتا رہ گیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ ایسے ہی اپنے گھر میں بولاٸی بولاٸی گھوم رہی تھی جب سارہ بیگم اس کے پاس آٸی اور کہا

مہرو میں چاہتی ہںوں کہ نکاح کی شاپنگ کرنا آج سے شروع کردے وقت بھی کم ہںے اور تم نے نکاح کا جوڑا بھی لینا ہںوگا اس لیے اور تمہيں تو گھر میں پہننے کے کپڑے مشکل سے پسند آتے ہںے یہ تو پھر تمہاری زندگی کا سب سے بڑے دن کے لیے ہںے۔

امی جان آپ کو جو ٹھیک لگے وہ کرے مجھے کہیں نہیں جانا آپ ہی خرید لیجٸیے گا سب کجھ۔مہرماہ ان سے کہتے نکل گٸ اس کو ابھی کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔

مہرو کو کیا ہںوا ہںے۔اس کے جانے کے بعد وہ تعجب سے خود سے پوچهنے لگی پھر نادیہ سے بات کرنے کا سوچتی وہ بھی کمرے کی طرف نکل گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر گھر میں داخل ہںوا تو لاٸونج میں چلاگیا۔

ڈيڈ مجھے آپ سے بات کرنی ہںے۔شاہ میر سب کو نظرانداز کرتا حيدر خان نے پاس آکر کہنے لگا اس کی حالت دیکه کر ان کو اتنا شاک نہ لگا جتنی سرخ آنکهيں دیکه کر ان کو شاک سے زیادہ شاک لگا۔

پری آیان کمرے میں جاؤ ۔حيدر خان نے ان کو جانے کا بولا تو وہ سرہلاتے نکل گٸے۔

میر میری جان یہ تم نے کیا حال کر رکھا ہںے اپنا۔ہانم بیگم نے حيرانکن لہجے میں اس کو دیکه کر کہا۔

موم کیا آپ کو پتا تھا ماہ کی منگنی کا؟شاہ میر ان کے سامنے آکر سوال کیا۔

یہ کیسا سوال ہںے۔ہانم بیگم تعجب سے پوچها 

موم کیا آپ کو پتا تھا ماہ کی منگنی کا؟شاہ میر چيخ کہ بولا۔

ہاں پتا تھا میں نے بتایا تھا تمہاری ماں کو۔جواب حيدر خان کی طرف سے تھا۔

آپ لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟شاہ میر نے پوچها 

تب ضروری نہیں سمجھا بچے تھے تم اب بتارہںے ہيں کجھ دن بعد مہرو کا نکاح ہںے۔حيدر خان نے جتنے اطمينان سے بتایا اتنے اطمينان میں وہ تھے نہیں۔

ک کیا؟شاہ میر کے سر پہ جیسے بم گرا تھا اس کو لگا کسی نے اس کو گرم پانی میں ڈال دیا گیا ہںے اس کو جلتے کوٸلوں کے بیچ رکھا گیا ہںے پر شاید تم اس کو اتنی تکليف نہیں ہںوتی تب شاید وہ بچ جاتا یا مرجاتا پر یہاں تو نہ وہ جی سکتا تھا نہ مرسکتا تھا بس تڑپ سکتا تھا۔

اتنا حيران کیوں ہںورہںے ہںو؟ ہانم بیگم کو شاہ میر کا ایسا ردعمل سمجھ میں نہیں آیا۔

موم میں ماہ کے بنا نہیں رہ سکتا میں آپ کے پیر پڑتا ہںوں پلیز آپ چچا جان سے ماہ کو میرے لیے مانگے۔شاہ میر ان کے پیروں کے قریب جھکتا ہںوا بولا۔

میر دماغ ٹھیک ہںے تمہارا یہ باتيں کررہںے ہںوتم چار سال بڑی ہںے تم سے شرم کرو۔ہانم بیگم نے غصے سے اس کی بات پہ کہا جب کی حيدر خان نے زور سے اپنی آنکهيں بند کرتے کھولی آخر وہ دن آہی گیا تھا جس کے نہ آنےکی انہوں نے چاہ کی تھی۔

مجھے کجھ نہیں پتا ماہ بس میری ہںے آپ

میر۔اس کی بات پوری ہںونے سے پہلے ہی ہانم بیگم نے زوردار تھپڑ اس کے چہرے پہ دے مارا۔شاہ میر کو فرق نہیں پڑا زندگی میں پہلی دفعہ انہوں نے اس پہ ہاته اٹها یا تھا پر شاہ میر کو بس اپنی ماہ چاہٸیے تھی۔

آپ جان سے ماردے میں اف نہیں کروگا پر ماہ بس میری ہںے۔شاہ میر ہانم بیگم کو دیکه کر کہا۔

میر کیوں تم ہمیں اس عمر میں زلیل کروانا چاہتے ہںو۔ہانم بیگم نے شاہ میر کی ایک بات کو کہتے دیکه کر کہا۔

میں کونسا کجھ غلط کررہا ہںوں جو آپ سب لوگ میرے خلاف ہںورہںے ہیں۔شاہ میر ان کی بات پہ چیخ کر بولا۔

تمہيں سچ میں اندازہ بھی نہیں تمہاری یہ بات اگر گھر سے کسی باہر والے کو پتا چلی نہ تو ہم سکندر بھاٸی کے سامنے نظر اٹها کر چلنے کی ہمت نہیں کرپاۓ گے۔ہانم بیگم نے اس کو سمجھانا چاہا۔

محبت کرنا گناہ تو نہیں۔شاہ میر ایک قدم پیچھے لیتا ہںوا بولا۔

تمہاری کزن ہںے بڑی بہن کی طرح

بہن نہیں ہںے وہ۔شاہ میر نے غصے سے کہا۔

میر کنٹرول کرو خود کو۔حيدر خان نے پہلی دفعہ کجھ کہا۔

ڈيڈ آپ ایک دفعہ ان سے بات کرے نہ وہ مان جاۓ گے ڈيڈ میں ماہ کو بہت چاہتا ہںوں پلیز ۔شاہ میر اب دوبارہ حيدر خان کے پاس آکر امید سے بولا۔

چار دن بعد مہرو کا نکاح ہںے میں تمہارا باپ ہںونے کی حيثيت سے امید کرتا ہںوں کہ تم کجھ نہیں کروگے اور دوبارہ کبهی مہرماہ کا نام بھی نہیں لوگے۔حيدر خان نے سنجیدگی سے اس کو دیکه کر کہا جس کے چہرے کے تاثرات پتھر کے جیسے ہںوگٸے تھے شاہ میر کو اب اپنی آنکهيں خشک ہںوتی محسوس ہںوٸی شاہ میر بنا کجھ کہے گھر سے نکل گیا۔

حيدر اس کو روکیں جذبات میں آکر کجھ غلط نہ کر بیٹھے۔ہانم بیگم نے فکرمندی سے حيدر خان سے کہا۔

اس کا باہر رہنا ٹھیک ہںے کیا پتا سمجھ آجاۓ۔حيدر خان ان کو جواب دے اٹه گٸے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دو دن ہںوگٸے تھے شاہ میر کا کجھ پتا نہیں تھا حيدر خان نے اس کو ڈوھونڈنے کی بہت کوشش کی اور کررہںے تھے پر شاہ میر تو ایسے لاپتہ تھا جیسے کبهی تھا ہی نہیں ہانم بیگم نے رو رو کر اپنی حالت خراب کر رکھی تھی۔سکندر خان کی فیملی کو بھی پتا چلا تھا جس سے وہ بھی پریشان تھے پر اصلیت سے ابھی بھی ناواقف تھے کہ وہ کیوں گھر چھوڑ کہ چلاگیا تھا دو دن بعد مہرماہ کا نکاح تھا انہوں نے کینسل کرنا چاہا پر حيدر خان نے روک دیا تھا مہرماہ کی اپنی حالت خراب تھی اس کو شاہ میر پہ غصہ تھا پر اس کی غیرموجودگی اور گم شدہ ہںونے میں وہ پریشانی میں بدل گیا تھا وہ اللہ سے اس کے ملنے اور دل بدلنے کی دعائيں مانگتی رہتی تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

سکندر خان اپنے آفس میں تھے جب ٹيبل پہ رکھا ان کا موبائل بجنے لگا۔

اسلام وعلیکم۔ ہاں اندر بھیجو ابھی ۔انہوں نے جلدی سے کہا۔

آجاٶ نوک کی آواز پہ انہوں نے کہا۔

میر بیٹے کہاں تھے تین دن سے تم؟سکندر خان فورن اٹه کر شاہ میر کے پاس آۓ جو اسی دن کے کپڑوں میں تھا بکھرے بال سرخ چہرہ ستا چہرہ دیکه کر ان کو شاہ میر کہیں سے بھی ٹھیک نہیں لگا اور اس کے کپڑوں پہ ان کو حیرانی ہںوٸی سفید شرٹ جس پہ شکنوں کا جال تھا سینے تک کہ تین بٹن کھلے ہںوۓ تھے پر وہ اپنی حالت سے لاپرواہ سکندر خان کے پاس امید لیٸے آیا تھا۔

اگر آپ سے کجھ مانگوں تو آپ دے گے؟شاہ میر نے سوال کیا۔

میر بیٹا اگر میرے لیے ممکن ہںواتو مگر یہ تم نے ابھی اپنی کیا حالت بنالی ہںے حيدر جانتا ہںے تم واپس آگٸے ہںو؟سکندر خان نے شاہ میر کو جواب دے کر پوچها 

میری حالت پہ نہ جاۓ اگر آپ میری بات مان لیگے تو یہ ٹھیک ہںوجاۓ گا۔شاہ میر نے اپنے مطلب کی بات کی۔

ایسی کیا بات ہںے؟سکندر خان نے پوچها 

ماہ کا نکاح کل مجھ سے کردے۔شاہ میر ان کو دیکه کر کہا۔

میر جانتے بھی ہںوتم کہ بول کیا رہںے ہںو؟سکندر خان سخت لہجے میں بولے۔

اگر جانتا نہ ہںوتا تو بولتا کیوں میں ماہ کو بہت چاہتا ہںوں ان کے بغير میں کجھ بھی نہیں آپ مجھے ماہ دے گے تو میں ساری عمر آپ کا شکر گزار رہںوں گا۔شاہ میر ان کے سامنے ہاته جوڑ کے بولا۔

میر معذرت کے ساته کے تمہيں یہ بات کرنا تو دور اس بات سوچنا بھی نہیں چاہٸيے تھا۔سکندر خان نے منہ موڑ کر بولے۔

کیوں آخر آپ سب لوگوں کو میری چاہت دیکه نہیں رہی میرے بس میں ہںوتا اگر تو میں آپ لوگوں کو اپنا دل چیر کر دیکهاتا کہ میں ماہ کو کتنا چاہتا ہںوں۔شاہ میر بنا یہ سوچے کہ وہ مہرماہ کے باپ کے سامنے ہںے بس اپنے دل کا حال بیان کرنے لگا۔

چار سال بڑی ہںے وہ تم سے چھوٹا بھاٸی سمجھتی ہںے وہ تمہيں اور تم نے اس کے بارے میں یہ گند اپنے دل دماغ میں بیٹھایا ہںے۔سکندر خان چاہ کر بھی اپنے غصے پہ قابو نہ کرپاۓ۔

آپ کو کوٸی حق نہیں کے آپ میرے جذبات کو گالی دے۔شاہ میر جنونی انداز میں بولا۔

اپنے لہجے میں پہ غور کرو۔سکندر خان کو اس کے بات کرنے کا انداز بلکل پسند نہ آیا۔

تو کیا آپ کو بھی میری چاہت نظر نہیں آرہی۔شاہ میر دکه سے بولا اس نے کس کس کے سامنے اپنا دلِ حال نہیں بتایا تھا پر سب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی وہ تو اللہ کے سامنے گِڑگڑایہ تھا پر نجانے ایسی کیا بات تھی جو اس کی دعا عرش پہ نہیں پہنچ پارہی تھی

تمہارا یہ جذباتی خیال ہںے گھر جاٶ آرام کرو۔سکندر خان اس کی بات نظرانداز کرتا بولے۔شاہ میر خاموش نظروں سے ان کو دیکهتا چلاگیا اس کے جاتے ہی سکندر خان پریشانی سے اپنا ماتھا مسلنے لگے۔

شاہ میر گھر آیا تو ہانم بیگم اس کی طرف آٸی۔

میری کہاں تھے پتا بھی ہںے ہم کتنے پریشان ہںوگٸے تھے؟ہانم بیگم نے اس کا چہرہ تھام پیار سے بولی۔

مر نہیں گیا تھا زندہ تھا پریشان مت ہںو اتنی مرنے والا ہںوں بھی نہیں۔شاہ میر ان کا ہاته اپنے چہرے سے ہٹاتا خشک لہجے میں کہہ کر اُپر کمرے کی طرف بڑه گیا۔جب کی ہانم بیگم اس کے رویے پہ جہاں تھی وہی رہ گٸ تھی تین دن بعد گھر آیا تھا اور آتے ہی اس کا رویہ ان کو شرمندگی اور پریشانی میں مبتلا کرگیا تھا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آج مہرماہ کا نکاح تھا اور نکاح کی تقریب گھر میں ہی رکھی گٸ تھی۔مہرماہ نکاح کا جوڑا پہنے خالی نظروں سے خود کو آٸينے میں دیکه رہی تھی اس نے آج واٸٹ کلر کی میکسی پہنی ہںوٸی تھی بال جوڑے میں قید تھے میک اپ اس نے ہلکہ ہی کرنے کا کہا تھا بیوٹيشن کو اور اس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی  بڑا سا نیٹ کا ڈوپٹہ سر پہ اُوڑھا گیا تھا کیوں کی کجھ ہی دیر میں نکاح کا پوچهنے آنے والے تھے۔دروازہ نوک ہںونے پہ اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکها سامنے شاہ میر کو دیکه کر اس کو حیرانی پریشانی اور ڈر دکه نجانے اور کیا محسوس ہںوا تھا مہرماہ نے ایک نظر اس کو دیکه کر نگاہ دوسری طرف کرلی تھی اس کو شاہ میر کی حالت پر ترس آرہا تھا پر وہ مجبور تھی۔

کیوں آۓ ہںو؟مہرماہ نے دوسری طرف دیکه کر پوچها 

ایک آخری کوشش کرنے کہ شاید پتھر پگل جاۓ۔شاہ میر بے بسی سے بولا مہرماہ کو کسی اور کے لیے تیار ہںوتا دیکهنا اس کے لیے انگاروں پہ چلنے سے زیادہ تکليف دہ تھا۔

شاہ میر اپنا بچپنا چھوڑ دو جو چاہتے ہںو ایسا ممکن نہیں۔مہرماہ نے کہا

بچپنا نہیں ہںے میں سب کو یقين دلاتے دلاتے بیزار ہںوگیا ہںوں میری بات پہ اعتبار کیوں نہیں آتا سب کو۔شاہ میر چیختے بولا۔

شاہ میر جاٶ یہاں سے باہر مہمان ہںے تمہيں ایسے میرے کمرے میں دیکه کر باتيں نہ بنانے لگ جاۓ۔مہرماہ نے اس کو باہر بھیجنا چاہا۔

چچا جان سے اجازت لے کر آیا ہںوں اور انہوں نے دے بھی دی پر جب آپ کو دینے کا کہا تو منع کردیا۔شاہ میر زخمی سا مسکراکر بولا۔

تم بابا جان کے پاس گٸے تھے ؟مہرماہ نے حيرانی سے پوچها 

ہاں پر کسی کو بھی میری بات میرے جذبات کا احساس نہیں جیسے آپ کو نہیں۔شاہ میر نے مشکل سے جواب دیا۔

تمہاری ضد ہی ایسی ہںے۔مہرماہ نے کہا۔

میں آپ کے بغير نہیں رہ سکتا۔شاہ میر نے بھیگے لہجے میں بتایا۔

سب کہنے اور سننے کی باتيں ہيں حقيقت میں ہرکوٸی اپنے لیے جیتا ہںے کوٸی کسی کے بغير نہیں مرتا۔مہرماہ نے پتھریلے لہجے میں کہا۔

میں سچ میں مرجاٶ گا۔شاہ میر نے پھر کہا۔

تو مرجاٶ شاہ میر پر میرے لیے مشکلات پیدا نہ کرو۔مہرماہ نے اس کی طرف رخ کرکے ہاته جوڑ کر کہا۔

مرجاٶ۔شاہ میر زیر لب بڑبڑایا۔

آپ کو یاد ہںے ایک دفعہ جب میں نے آپ سے پوچها تھا کہ نکاح کا کیا مطلب ہںے تو آپ نے بہت سے مطلب بتائے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ نکاح میں مانگی گٸ ہر دعا قبول ہںوتی ہںے۔شاہ میر کہتا ہںوا اس کے روبرو آیا۔

تو جب آپ نکاح نامے پہ دستخط کرے نہ تو آپ دل میں یہ دعا ضرور کیجٸیے گا کہ میں راستے میں جاتے وقت مرجاٶ کیوں کی میری زندگی کا مطلب ماہ ہںے اگر وہ نہیں تو شاہ میر حيدر خان کا دنیا میں کوٸی کام نہیں۔شاہ میر اس کو آنکهوں میں دیکهتا کہتے ہی کمرے سے نکل گیا۔جب کی مہرماہ کا سانس خشک ہںوگیا تھا اس کا لگا کہ وہ اب سانس نہیں لے پاۓ گی یہ کیا کہہ گیا تھا شاہ میر اس سے کہ وہ اس کے مرنے کی دعا کرے مہرماہ کا دل کیا وہ خود مرجاۓ پر وہ کجھ کر نہیں سکتی تھی مہرماہ کا دل زور سے دھڑک رہا تھا وہ کمرے سے نکل کہ شاہ میر کے پیچھے جانا چاہتی تھی پر اس کے پیر ہل تک نہیں رہںے تھے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر اپنے خالی وجود کو لیے گھر کے کہ قریب حيدر خان کی گاڑی میں بیٹھ گیا وہ اس وقت حواسوں میں نہیں تھا اس کو پتا بھی نہیں چلا تھا کہ اس نے گاڑی کا دروازہ ٹھیک سے لوک نہیں کیا تھا وہ ایسے ہی گاڑی ڈراٸيو کرتا مہرماہ کی باتوں کو سوچ رہا تھا کہ کیا وہ اتنا غيرضروری تھا مہرماہ کے  لیے کہ مہرماہ نے اس کو مرنےکا ہی کہہ دیا تھا اگر وہ اس کے عشق کو قبول کرتی تو شاید وہ اس وقت ہی مرجاتا شاہ میر ڈراٸيونگ کرتے کرتے اس کی اسپیڈ تیز کردی تھی اس کو اپنے سامنے ایک ٹرک آتا دیکهاٸی دیا تو شاہ میر کہ چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگٸ۔آپ نے ماہ پہلی دفعہ کجھ مانگا تھا مجھ سے اور ایسا کیا ہںوسکتا ہںے کہ محبوب کجھ کہے اور عاشق اس کی بات نا مانے شاہ میر خود سے باتيں کرتا اپنی گاڑی کچل نے کہ لیے ٹرک کے آگے کردی تھی اور یہ ایک سکنڈ کی بات تھی۔ ٹھاہ کی  آواز کے بعد چاروں طرف پھر سناٹا چھاگیا تھا قبرستان سے زیادہ گہرا خاموشی کا راج ہںوگیا تھا۔

اک تیرے عشق پہ واردیٸے میں نے

وہ رنگ جو تین سو پینسٹھ تھے

میری آنکهوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

مہرماہ ایسے ہی بے جان سی اپنے کمرے میں تھی جب اس کو نیچے نکاح کے لیے سارہ بیگم اور ہانم بیگم اس کو لینے کے لیے آۓ تھے مہرماہ بنا کجھ کہے ان کے ساته چل دی جب حمیرا نے اس کے اُپر لال چنڑی ڈالی تب بھی اس کو کوٸی فرق نہیں پڑا مہرماہ کو صوفے پہ شہیر کے آگے بیٹھایا گیا تھا اور سامنے پردہ لگایا گیا تھا امام صاحب نے نکاح کا کلمہ ابھی پڑھا ہی تھا کہ حيدر خان کی موبائل میں آنے والی کال نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا حيدر خان سب کو معذرت کرتی نظروں سے دیکهتے کال اٹهالی۔

ہاں

کیا بکواس ہںے یہ 

تم لوگوں کو میں نے میر کی حفاظت کے لیے ہی رکھا تھا۔فون پہ نجانے حيدر خان کو کیا بتایا گیا تھا جن سے ان کی آواز اتنی تیز ہںوگٸ تھی کہ سب ان کی طرف متوجہ ہںوۓ تھے شاہ میر کہ نام پہ مہرماہ بھی دولہن ہںونے کا لحاظ کیے بنا اٹه بیٹھی تھی اس کا دل زور سے دھک دھک کررہا تھا۔

م میں آتا ہںوں۔حيدر خان لڑکھڑاکر بولے۔

کیا ہںوا حيدر سب خيریت؟سکندر خان نے پریشانی سے پوچها ۔

میں ابھی آپ کو کجھ نہیں بتاسکتا مجھے میرے میر کے پاس جانا ہںے جس کے ایکسڈینٹ کی خبر ملی ہںے مجھے ان کی بات پہ سب سکتے کی حالت میں آگٸے تھے جب کی مہرماہ کو اپنا قصور لگ رہا تھا۔ہانم بیگم کا ہاته اپنے کلیجے پہ پڑا تھا آخر ماں تھی۔حيدر خان کو سکندر خان کو جواب دے کر باہر کی طرف چلے گٸے ہانم بیگم بھی ان کے پیچھے گٸ اور پری آیان بھی روتے اپنے موم ڈيڈ کے پیچھے گٸے پر سکندر خان کو اتنا ہوش نہ تھا کہ وہ کجھ کرتے ہوش میں تو ان کو مہرماہ لاٸی تھی۔

بابا جان مجھے شاہ کے پاس جانا ہںے یہ سب میری وجہ سے ہںوا مجھے پلیز لے چلے آپ مہرماہ ان کے قدموں میں بیٹھ گٸ تھی جب کی سکندر خان اپنی بیٹی کی حالت کو دیکه رہںے تھے مہرماہ کو دیکه کر ان کو کل شاہ میر سے ہںوٸی ملاقات یاد آٸی تھی وہ بھی تو ایسے ہی تڑپ رہا تھا ان کے سامنے پر انہوں نے اس کی بات پہ دھیان نہیں دیا تھا سارہ بیگم جلدی سے مہرماہ کو سہارا دیٸے صوفے پہ بیٹھایا تھا گھر میں مہمانوں کو شاہزیب نے معذرت کرتے گھر سے جانے کا بولا تھا کہ نکاح نہیں ہںوگا بھی جس میں حمیرا ناچاہتے بھی خاموش رہی شہیر تو بس مہرماہ کی حالت جانچنے میں لگا ہںوا تھا۔

بابا جان ہم یہاں کیوں ہيں؟ہمیں ہںوسپٹل کے لیے نکلنا چاہٸیے۔شاہزیب سکندر خان کے پاس آتا بولا مہرماہ پاگلوں کی طرح بس روۓ جارہی تھی سارہ بیگم کو مہرماہ کو  سنبهالنا مشکل لگ رہا تھا جو کسی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔

بہن کو لیکر آٶ ۔سکندر خان شاہزیب سے کہتے باہر نکل گٸے۔شاہزیب نے مہرماہ کو دیکها جو نجانے کیا کیا بول رہی تھی اور رو بھی رہی تھی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اسپتال کے کوریڈور میں موت کا سناٹا تھا وہ سب ڈاکٹر کے آنے کے انتظار میں تھے جو پہلے ہی ان کو امید دلاۓ بغير کہا تھا کہ شاہ میر کا ابھی بھی سانس لینا ایک معجزاتی بات ہںے ورنہ ان کا ایکسیڈنٹ بہت برا ہںوا ہںے۔حيدر خان نے شاہ میر کے اس طرح تین دن غائب رہنے کے بعد اس کے پیچھے کجھ آدمی رکھے تھے جن سے انہوں نے کہہ رکھا تھا کہ شاہ میر پہ نظر رکھے اس کو اگر کجھ غلط کرتا دیکهے تو اس کو روک کر ان کو اطلاع دے۔اور آج انہوں نے حيدر خان کو بتایا کہ کیسے شاہ میر نے اپنی گاڑی ٹرک کے آگے کردی تھی یہ اتنا اچانک ہںوا تھا کہ وہ کجھ کر بھی نہیں پاۓ تھے گاڑی بری کچل گٸ تھی پر شاہ میر کی سیٹ کا دروازہ ان لوک ہںوگیا تھا اور شاید اس نے سیٹ بلیٹ بھی نہیں باندھا تھا جس کی وجہ سے وہ گاڑی سے نکل کہ دور جا گرا تھا پر چوٹيں تب بھی بہت آٸی تھی جس سے ڈاکٹر ناامید تھے اور اپنی طرف سے کوشش کررہںے تھے

 ڈاکٹر میرا بیٹا کیسا ہںے اب ؟جیسے ہی ڈاکٹر آیا تو ہانم بیگم نے ان کو پوچها مہرماہ اور باقی سب بھی امید لیے ان کی طرف دیکه رہںے تھے۔

دیکهے ہم نے پہلے ہی بتایا تھا ان کی حالت بہت خراب ہںے پر ہم نے اپنی پوری  کوشش کی پر پھر بھی آپ کہ مریض کوما میں چلے گٸے ان کے سر پہ بہت گہری چوٹ آٸی ہںے۔ان کی بات پہ مہرماہ دیوار سے جا لگی تھی۔

ہوش کب آۓ گا؟حيدر خان نے ہمت کرتے پوچها 

ابھی ہم کجھ کہہ نہیں سکتے کیوں کہ کوما میں جانے کے بعد کم لوگ ہی بچتے ہیں اور مسٹر شاہ میر کی تو حالت بلکل خراب ہںے آپ بس دعا کرے۔ڈاکٹر کہتے ہی چلاگیا جب کی وہ سب اب رونے کے سوا کجھ نہیں کرسکتے تھے ہر کوٸی خود کو شاہ میر کی حالت کا ذمہدار سمجھ رہا تھا پر مہرماہ کو یقين تھا شاہ میر کی حالت کی وجہ وہ ہںے اس کے دماغ میں شاہ میر کا جملا گونج رہا تھا۔میں سچ میں مرجاٶں گا۔

ہم جو آپ پہ مر بیٹھے تھے 

آپ پہ لازم تھا ہمیں زندہ رکھنا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

نکاح سادگی میں کرلیتے ہیں ہمیں بھی میر کی حالت کا افسوس ہںے پر نکاح تو ہںونا ہی ہںے نہ تو بس آپ مان جاۓ میر کو ہفتے سے زیادہ ٹائم ہںوگیا ہںے ابھی تک تو ڈاکٹر خود پُرامید نہیں۔حمیرا سکندر خان اور سارہ بیگم کو کہہ رہی تھی وہ اس وقت سکندر خان کے گھر تھی جہاں نادیہ اور مہرماہ تھی اور وہ سب ان کو افسوس بھری نظروں سے دیکه رہںے تھے جن کو ابھی بھی بس نکاح کی پڑی تھی۔

بابا جان ابھی مجھے کسی سے نکاح نہیں کرنا۔مہرماہ اپنا فیصلا سنا کر اندر چلی گٸ۔

یہ کیا بات ہںوٸی۔حمیرا ناگوار لہجے میں بولی۔

حمیرا اگر تمہيں جلدی ہںے تو کہیں اور شہیر کی شادی کروادو۔نادیہ بیگم بنا لحاظ کیے بولی۔

بھابھی اگر آپ لوگوں نے ایسا کیا تو زین کا نکاح بھی حور سے نہیں ہںوگا۔حمیرا نے اپنی طرف سے ان کو دھمکی دی۔

شوق سے حمیرہ میری بیٹی کو رشتو کی کمی نہیں۔نادیہ بیگم نے طنزیہ لہجے میں ان سے کہا۔تو وہ سب گھورتی نکل گٸ۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

دو سال بعد 

حيدر ہمارے بیٹے کو ہوش کب آۓ گا؟ہانم بیگم نے افسردگی سے حيدر خان سے پوچها 

دعا کرو جلدی آجاۓ دعا میں بڑی طاقت ہںوتی ہںے۔حيدر خان نے ان کو دلاسہ دیا۔

دو سالوں سے وہی تو کررہی ہںوں۔ہانم بیگم نے گہری سانس بھر کر کہا۔

کبهی کبهی بڑے اپنے اندازو اور فیصلوں کی وجہ سے بہت غلط کردیتے ہيں۔حيدر خان کھوۓ لہجے میں بولے۔

بات تو صحيح کی ہںے آپ نے۔ہانم بیگم نے اتفاق کیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اتنا اندھیرہ کرکے کیوں بیٹھی ہںو؟شاہزیب مہرماہ کے کمرے کی لاٸيٹ آن کرتا بولا۔

اگر زندگی میں اندھیرہ ہںوتو آس پاس کا اندھیرہ دیکهاٸی نہیں دیتا۔مہرماہ نے سنجيدگی سے جواب دیا

بہت فضول بولنے لگ گٸ ہںو۔شاہزیب نے گھور کر کہا۔

ہاں واقعی میں بہت فضول بولتی ہںوں میں۔مہرماہ نے اس کی بات پہ کہا۔

تم کب تک اپنے آپ کو ایسی بات کی سزا دوگی؟جس کی قصوروار تم ہںوہی نہیں۔شاہزیب نے اس کو دیکه کر پوچها 

تمہيں نہیں پتا کجھ۔مہرماہ نے نفعی میں اپنا سرہلاکر کہا۔

وہ ٹھیک ہںوجاۓ گا جلدی اور دیکهنا اب وہ ضد نہیں کرے گا بلکی اپنی زندگی خوشی سے جیٸے گا۔شاہزیب نے اس کو امید دلاٸی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

حيدر خان کو ہںوسپٹل سے فون آیا تو انہوں نے جلدی سے کال اٹهالی اور ان کو جو خبر ملی انہوں نے کال کٹ کرکے زمين پہ سجدہ کرکے اپنا اللہ کا شکر ادا کیا کیوں کی ابھی ان کو پتا چلا کہ شاہ میر کو ہوش آگیا تھا وہ جلدی سے ہانم بیگم اور پری آیان کو بتانے کے لیے ان کو بولانے لگے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

تم نہیں چلوگی میر سے ملنے؟شاہزیب نے نماز سے فارغ ہںوتی مہرماہ سے سوال کیا۔

نہیں۔مہرماہ نے سنجيدگی سے جواب دیا

آتی تو بہتر تھا۔شاہزیب نے بھی سنجيدگی سے کہا

میں شاہ میر کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پاتی خود میں۔مہرماہ نے بے بسی سے کہا

اتنی کمزور تو نہیں تھی  میری چڑیل بہن۔شاہزیب نے جان بوجه کر چڑیل لفظ بولا

پر اب ہںوں۔مہرماہ نے جواب دیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر جب سے ہوش آیا تھا اس نے کسی بات کرنا ضروری نہیں سمجھا جو بھی آتا اس سے بات کرتا اور جواب نہ ملنے پہ افسردہ ہںوکر رہ جاتا شاہ میر جو پہلے کم بولتا تھا اب وہ بھی بولنا چھوڑدیا تھا۔

یہ لوں نہ میر۔ہانم بیگم نے ایک سویٹ ڈش اس کے سامنے کرتے کہا وہ اس وقت رات کا کھانا کھارہے تھے شاہ میر کو ہوش میں آۓ ایک مہینے سے زیادہ وقت ہںوگیا تھا جس پہ تین دفعہ سکندر خان سارہ بیگم اور شاہزیب اس سے ملنے آۓ تھے اور لوگ بھی ملنے آتے پر شاہ میر کا دل اب بھی بس مہرماہ کے آنے کا انتظار کرتا

شاہ میر اب بھی اس بات سے ناواقف تھا کہ مہرماہ کی شادی نہیں ہںوٸی اس کو لگتا تھا ہںوگٸ ہںوگی پر اس نے کبهی کسی سے پوچها نہیں تھا۔

مجھے جو چاہٸیے ہںوگا وہ میں خود لے لوں گا۔شاہ میر ان کا بڑہ ہںوا ہاته نظرانداز کرتا بولا۔

کب تک ناراض رہںوگے؟حيدر خان نے سوال کیا۔

میں کسی سے بھی ناراض نہیں ہںوں۔شاہ میر سنجيدگی سے بولا۔

تو بات کیوں نہیں کرتے اور اگر کر بھی لوں تو اتنا خشک لہجہ کیوں ہںوتا ہںے ؟حيدر خان اپنا کھانا چھوڑ کر اس سے سوال کرنے لگے۔

میرا دل نہیں کرتا بات کرنے کو۔شاہ میر نے بات ختم کرنی چاہی۔

اچها ۔حيدر خان نے اس کو دیکه کر کہا۔

جی۔شاہ میر ان سے کہتا اٹه کر چلاگیا۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

اب ہمیں مہرو کا رشتہ کہی اور کرنا چاہٸیے عمر ہںوگٸ ہںے اس کی۔سارہ بیگم نے فکرمند ہںوکر کہا۔

ہاں عمر تو ہںوگٸ ہںے۔سکندر خان نے بس اتنا کہا۔

نادیہ کی طرف بھی جانا ہںے اب زیب حور کے شادی کی تاریخ رکھنے۔سارہ بیگم نے بتایا۔

بھابھی کو بتادینا کہ شام میں تیار رہںے۔سکندر خان راضی ہںوتے بولے۔

جی کہہ دوگی۔سارہ بیگم نے سرہلایا

ایک دفعہ زیب سے پھر پوچه لینا ایسا نہ ہںو کہ بعد میں مسلا کردے۔سکندر خان نے اچانک کہا

بہت بار پوچه چکی ہںوں اس کا یہی کہنا ہںے کہ آپ لوگوں کی مرضی اور ایک سال کا فرق اتنا زیادہ بھی نہیں کہ میں انکار کرو۔سارہ بیگم نے خوشدلی سے بتایا۔

صحيح۔سکندر خان نے گہری سانس لی وہ اب مہرماہ کی وجہ سے پریشان رہتے تھے اس نے سب سے کہہ دیا تھا کہ اس کو شادی نہیں کرنی کسی سے بھی اور شاہزیب کا رشتہ جب حمیرا نے توڑنے کی دھمکی دی تھی تو نادیہ بیگم نے حقيقت ميں ختم کردیا تھا کہ جس رشتے کی بنیاد میں ہی دھمکی ہںوتو آگے اور مسائل بننے سے بہتر ہںے کہ ختم کردیا جاۓ تب پھر سکندر خان اور سارہ بیگم نے شاہزیب سے پوچه حور کا رشتہ مانگ لیا تھا جو انہوں قبول کرلیا تھا رسم وغيرہ کی نہیں تھی کہ جب شاہ میر ٹھیک ہںوجاۓ گا تب کرینگے۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر اس وقت ریان کے ساته تھا جس نے کراچی ميں اپنا گھر لیا تھا اور ابھی وہ وہيں رہتا تھا اور آج شاہ میر خود اس سے ملنے آیا تھا پر بات نہیں کی تھی۔

میر تم اپنی زندگی کیوں ضائع کررہںے ہںو؟ریان نے اس کی خاموشی سے تنگ آکر کہا۔

گھر اچها ڈيکوریٹ کیا ہںے اور فرنيچر بھی بہت اچها ہںے کیا یہ سب تم نے خود لیا اور تیار کیا ہں؟۔شاہ میر اس کی بات نظرانداز کرتے کہا۔

نہیں پڑوس میں کاجل رہتی ہںے اس نے کیا ہںے۔ریان خود کی بات نظرانداز کرتے دیکه کر جل بھن کر بولا۔

ریان میں یہاں سکون کے لیے آیا ہںوں کیا تم چپ رہںے کر دے سکتے ہںو۔شاہ میر سنجيدگی سے بولا۔

سکون مل جاۓ گا اگر اپنا دل سنبهال کر رکھوگے کہ اپنوں کے لیے کسی ایسے انسان کے پیچھے نہیں جس کو تمہاری قدر ہی نہیں۔ریان نے بھی سنجيدگی سے کہا۔

مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہٸیے تھا۔شاہ میر اس کو گھور کر کہتا نکل گیا۔

اللہ ہی تمہيں عقل دے۔ریان نے پیچھے سے ہانک لگاٸی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

شاہ میر گھر آکر اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا جب ان کے گھر میں کام کرنے والی ماجدہ نے اس کو دیکه کر پوچها 

میر صاحب آپ لیے کھانے کو کجھ لے آٶ بی بی جی نے کہا تھا جیسے ہی آپ آۓ آپ سے پوچهو؟

موم کہا ہںے ؟شاہ میر نے سیڑھیو پہ ہی کھڑے پوچها 

جی وہ کجھ ٹائم پہلے ہی نکلے تھے زیب صاحب اور حور بی بی کی شادی کی تاریخ رکھنے کے لیے نادیہ بی بی کے گھر گٸے ہیں۔اس نے آگاہ کیا۔

حور آپی یا انابیہ؟شاہ میر جھٹکے سے مڑ کر اس کی طرف دیکه کر پوچها 

حور بی بی۔اس نے جلدی سے بتایا

آپ یہاں میرے ایکسیڈنٹ سے پہلے سے ہیں نہ ؟شاہ میر نے نیا سوال کیا۔

جی جی بلکل۔اس نے فورن سے کہا۔

تو جس دن میرا ایکسیڈنٹ ہںوا تھا اس دن حور آپی کا نکاح تھا کسی اور کے ساته تو یہ زیب بھاٸی کے ساته کیسے ؟شاہ میر نے اُلجھ کر پوچها 

جی زیادہ تو مجھے نہیں پتا پر پر آپ کے ایکسیڈنٹ کی خبر پہ تقریب روک دی گٸ تھی۔اس نے اپنی معلومات کہ مطابق بتایا۔جس پہ شاہ میر کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔اس کو جاتا دیکه کر شاہ میر فورن سے بولا۔

کیا ماہ کا نکاح بھی نہیں ہںوا تھا ؟

جی ان کا بھی نہیں ہںوا تھا۔ماجدہ نے بتایا۔جب کی اس کی بات پہ شاہ میر کے جسم میں جیسے جان ڈال دی تھی وہ اپنے کمرے میں جانے کے بجائے سکندر خان کے گھر کی طرف بھاگ کر گیا۔

گھر میں کون کون ہںے ؟شاہ میر نے بے چینی سے گارڈ سے سوال کیا۔

جی بس مہرو بی بی ہيں۔گارڈ نے سر جھکاکر بتایا۔شاہ میر اس کی بات پہ دھڑکتے دل کے ساته گھر کے اندر جانے لگا پھر رک گیا اور پھر گارڈ سے کہا۔

ان سے کہو کہ کوٸی ملنے آیا ہںے اور لان میں ان کا انتظار کررہا ہںے۔

جی بہتر ۔گارڈ نے سرہلایا۔

شاہ میر بے چینی سے لان میں چکر کاٹتے مہرماہ کے آنا کا انتظار کررہا تھا۔مہرماہ کو آتے دیکه کر شاہ میر کا زور سے دھڑکا جب مہرماہ کی نظر اس پہ پڑی تو اس کی آنکهوں میں حيرانی در آٸي تھی پر اس نے شاہ میر کے چہرے سے نظر نہیں ہٹاٸی تھی جب کی شاہ میر کو آج وہ سکون نصيب ملا تھا جو وہ تلاش کرتا رہتا تھا۔

غمِ زندگی ، غمِ بندگی، غمِ دوجہاں، غمِ کارواں

میر ہر نظر تیری منتظر تیری ہر نظر میرا امتحان 

مہرماہ نے اپنا سرجھکا دیا اس کو شرمندگی ہںورہی تھی شاہ میر کو دیکه کر اپنا رویہ یاد آرہا تھا جو اس نے شاہ میر سے رکھا تھا دوسال پہلے پھر وہ بولی۔

کیسے ہںو؟

اتنا مشکل سوال تو نہ پوچهے۔شاہ میر ہنس دیا نجانے کتنے وقت بعد ورنہ اس کو تو مسکرانا ہی بھلادیا تھا۔

کیسے آنا ہںوا؟مہرماہ نے اپنا سوال بدلا۔

آپ کو پتا ہںونے کے بعد بھی پوچهنا چاہٸیے تو نہیں۔شاہ میر نے کجھ ناراضگی سے کہا۔

بیٹھو۔مہرماہ نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے بیٹھنے کا کہا۔

اب تو آپ کو یقين آیا ہںوگا نہ کہ آپ زمين پہ صرف میرے لیے اُتاری گٸ ہیں۔شاہ میر اس کی بات نظرانداز کرتا اس کے سامنے آکر کہنے لگا۔

پھر سے وہی باتيں ۔مہرماہ نے اس کو دیکه کر کہا

ہاں کیوں کی میرے بس یہی باتيں اور زندہ رہنے کے لیے یہی وجہ ہںے۔شاہ میر نے آرام سے جواب دیا

مجھے لگا تم بدل گٸے ہںوگے۔مہرماہ کجھ دور ہںوکر بولی۔

بدل تو گیا ہںوں پر شاید اب بھی کسی کو مجھ پہ رحم نہیں اس لیے تو اس بار بھی مجھ سے باتيں چھپاٸی گٸ۔شاہ میر طنزیہ بولا۔

میں تمہارے قابل نہیں تم مجھ سے زیادہ اچهی لڑکی کے قابل ہںو اگر اپنے آس پاس دیکهو تو۔مہرماہ نے سمجھانا چاہا۔

نگاہ اٹهی ہی نہیں  پھر ایک

شخص کا دیدار مجھے پابند کرگیا۔

شاہ میر گھمبیر آواز میں اس کو دیکه کر بولا۔

مجھے اب کسی سے شادی نہیں کرنی میں اب اکیلا رہنا پسند کرنے لگی ہںوں۔مہرماہ نے کجھ سخت لہجے میں کہا۔

مطلب آپ مان گٸ ہيں اب میرے ایکسیڈنٹ کے بعد آپ کا دل پگھل ہی گیا۔شاہ میر نے لب دانتوں تلے دباۓ مہرماہ کو دیکه کر بولا۔

ایسا کجھ نہیں۔مہرماہ نے اپنی طرف سے کمزور سی وضاحت دی۔

اب تو گھروالوں کو بھی مسلا نہیں ہںوگا بس آپ کہہ دے کہ آپ کو میں اور میرا عشق قبول ہںے۔شاہ میر محبت سے اس کو دیکه کر بولا۔

میں ہی کیوں شاہ۔مہرماہ نے کمزور لہجے میں کہا۔

آپ ہی کیوں نہیں۔شاہ میر اسی انداز میں بولا۔

یہ غلط ہںے شاہ تم ایسے اپنی بات منوا نہیں سکتے ۔مہرماہ نے اس کو دیکه کر کہا۔

پیار کرنا غلط تو نہیں۔شاہ میر نے برا مان کر کہا۔

لوگ کیا

لوگوں کی چھوڑے اپنی بات کہے ۔شاہ میر اس کو ٹوک کر بولا۔

مہرماہ نے ایک نظر شاہ میر کو دیکها جو چمکتی آنکهوں سے اس کے جواب کا منتظر تھا مہرماہ نے سرخ چہرے لیے اپنا سر جھکا دیا جب کی شاہ میر کا چہرہ کِھل اٹها تھا اس کا اپنا جواب مل گیا تھا شاہ میر فورن سے مہرماہ کا ہاته پکڑ کر اس سے پوچها 

کیا سچ میں ؟

ہممم مہرماہ نے ویسے ہی سرجھکا کر جواب دیا۔

پھر آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آٸی تھی کتنا انتظار تھا مجھے آپ کے آنے کا۔شاہ میر نے شکوہ کیا۔

میں شرمندہ تھی تمہاری حالت کا قصوروار خود کو سمجھ رہی تھی مجھے میں ہمت نہ تھی کہ تمہارا سامنا کرتی۔مہرماہ نے  وضاحت دی۔

ویسے آپ نے میرے معاملے میں بہت ظالم بنی ہیں۔شاہ میر مسکراکر بولا۔

میرے پاس اور کوٸی رستہ بھی تو نہیں تھا مجھے لگتا تھا بس بچپن سے جو تم میرے ساته ہںوتے تھے اس لیے اب بھی شاید بچپنا ہںے تمہارا اور میرا رشتہ شہیر سے ہںوچکا تھا میں کیسے تمہاری بات پہ اعتبار کرتی۔مہرماہ نے کہا۔

آپ کو پتا ہںے میں نہ پہلے ابھی گھر کے اندر آرہا تھا پھر یہاں آگیا پتا ہںے کیوں ؟شاہ میر نے پوچها 

کیوں؟مہرماہ نے پوچها 

کیوں کی مجھے آپ ملی دفعہ یہی دیکھی تھی اور میں تب اپنے آپ کو یہاں آپ کی طرف آنے سے روک نہیں پایا تھا۔شاہ میر نے بتایا۔

پاگل ہںوتم۔مہرماہ نے اس کے ماتھے پہ چپت لگا کر کہا۔

بنانے والی بھی آپ ہيں اپنی مسکراہٹ سے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ دیکه کر بارہ سال کا معصوم بچہ کیا کرے گا اگر اس کو اتنی خوبصورت مسکراہٹ دیکهنے کو ملے گی تو۔شاہ میر شرارت سے مہرماہ کو دیکه کر کہا۔

اب خود کو معصوم تو نہ کہو۔مہرماہ کو شاہ میر کی بات پہ بہت شرم آٸی جس کو قابو کرتی وہ مشکل سے بول پاٸی۔

ویسے سچ بتاٸیے گا جب میں نے آپ کی مسکراہٹ کی پہلی دفعہ تفریف کی تھی تب بھی آپ شرماٸی تھی نہ۔شاہ میر نے آج مہرماہ سے سارے حساب لینے چاہے 

شاہ چپ کرو اب۔مہرماہ نے اس کہ سینے پہ ہلکہ سا تھپڑ مار کر کہا۔

ہاہاہاہاہاہا۔یو آر بلشنگ۔شاہ میر نے زندگی میں پہلی دفعہ قہقہہقہ لگایا تھا۔مہرماہ نے شاہ میر کو دیکه کر دل میں ماشااللہ کہا تھا۔

آپ کو پتا ہںے جب مجھے آپ کا ملنا ناممکن لگا تو پھر کیا آیت آٸی میرے سامنے؟ شاہ میر نے اپنا سر مہرماہ کے سر سے ٹکا کر اس کو بولا۔

کیا؟مہرماہ نے سکون  سے آنکهيں بند کر کے پوچها 

اِنَّ الَلَہ کُلِٗ شَیءٍ قَدِیٗرُٗ ۔۔

شاہ میر کے بتانے پہ وہ پرسکون سی مسکرادی۔

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

                           ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Qaid Season 1Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Qaid Season 1 written by  Rimsha Hussain . Ishq Qaid Season 1 by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment