Pages

Saturday 8 June 2024

Khuram ki Haram By Rimsha Hussain Complete Novel Story

Khuram ki Haram By Rimsha Hussain Complete Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Khuram Ki Haram By Rimsha Hussain Complete Short Novel Story

Novel Name: Khuram Ki Haram

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


آفندی ہاؤس میں سب اِس وقت خوش گپوں میں مصروف تھے رحمان آفندی آپس میں دو بھائی تھے بہن اُن کی کوئی نہیں تھی ماں باپ کا سایہ کجھ سالوں پہلے اُن سے دور ہوگیا تھا

رحمان آفندی کی شادی اپنی خالہ ذاد ذوناش سے ہوئی تھی اُن کے بھی اللہ کے کرم سے دو بیٹے تھے ذوناش اب امید سے تھی اُن کو بیٹی کی بڑی چاہ تھی ہر وقت اللہ سے بیٹی کے لیے دعائیں مانگتی تھی رحمان آفندی کے بڑے بیٹا کا نام جو کے دس سال کا تھا اُس کا خرم تھا جو غصے کا بہت تیز تھا دوسرے بیٹے کا نام آہل تھا سات سال کا تھا جو اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔

رحمان آفندی کے چھوٹے بھائی مختار آفندی کے دو بچے تھے ایک بیٹا دوسری بیٹی اُن کی شادی اپنے خاندان کی لڑکی سے ہوئی تھی اُن کی بیٹی کا نام ماویہ تھا جو دس سال کی تھی اور بیٹے کا نام فاخر تھا جو ابھی پانچ سال کا تھا

💕💕💕💕💕

خرم اسکول سے واپس گھر کی طرح جارہا تھا ڈرائیور کو آج دیر ہوگئ تھی اِس لیے اُس نے انتظار کرنے کے بجائے پیدل جانے کو ترجیح دی

خرم پتھر کو ٹھوکر مار کر اُچھل کود کر جارہا تھا جب اُس کو کسی بچی کے رونے کی آواز آئی

اُس نے آواز کے تعاقب میں جانا چاہا پر سامنے کوئی ایسا بچہ نہیں تھا اپنا وہم سمجھ کر وہ جانے لگا جب پھر سے آواز آئی جو جہاڑیوں کی طرف سے تھی خرم تجسس کے مارے وہاں گیا تھا تو ایک بے بی کاٹ تھا جس میں ایک سالہ بچی زور زور سے رو رہی تھی۔

کتنی پیاری بچی ہے۔خرم اپنا اسکول بیگ زمین پہ رکھ کر اشتیاق بھری نظروں سے بچی کو دیکھتا بولا جو اپنا رونا بھول کر بڑی بڑی آنکھیں کیے خرم کو دیکھ رہی تھی۔

ڈول تمہارا نام کیا ہے۔خرم اُس کی طرف جھک کر بولا جواب میں وہ بھاں بھاں کرتی رونے لگی خرم پریشان ہوتا اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اُس کو بازوں میں اُٹھانے لگا۔

کتنی ہلکی ہو تم۔خرم ہنس کے بولا پر وہ رونے میں مصروف تھی۔

لگتا ہے اِس کو بھوک لگی ہے۔خرم خود سے کہتا اپنے بیگ کی طرف آیا وہاں سے اپنا ٹفن نکال جو خالی تھا اپر ایک بیسکٹ کا پاکٹ تھا خرم اُس کو غنیمت سمجھتا ایک بسکٹ اُس کے منہ کے پاس کیا جس پہ بچی نے منہ پڑے کیا۔

عجیب نخریلی ہو ایک تو میں کسی کو اپنی چیزیں نہیں دیتا تمہیں دے رہا ہوں تو اُپر سے تم نخرے دیکھا رہی ہوں۔خرم نے گھور کر کہا

رو کیوں رہی ہو پیاری میں تو مذاق کررہا ہوں۔خرم نے پھر سے اُس کو روتا دیکھا تو پچکارنے لگا اُس نے بسکٹ کے کئ ٹکڑے کیے پھر آہستہ آہستہ اُس کے منہ کے پاس کیا جس پہ بچی کھانے لگی تو خرم خوش ہوگیا بچی نے رونا بند کیا تو خرم نے اُس کو ایک بازوں پہ ڈالا دوسرے بازوں پہ اپنا بیگ ڈال کر وہ اپنے گھر کے راستے چل دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کس کو اُٹھا آئے ہو تم۔رحمان آفندی نے خرم کو آتے دیکھا تو استفسار کیا۔

ڈیڈ یہ بچی ہے۔خرم نے پرجوش ہوکر بتایا

واہ یہ بچی ہے ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا۔رحمان آفندی نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا

خرم اُن کی بات پہ منہ بناتا صوفے پہ آرام سے بیٹھ کر بچی کو اپنی گود میں بیٹھایا جو سوگئ تھی۔

خرم یہ کون ہے یہاں کیوں لائے اِس کے گھروالے فکرمند ہوگے۔ذوناش بیگم نے خرم سے کہا

موم یہ مجھے روتے ہوئے ملی اِس کا اپنا شاید کوئی نہیں اِس لیے میں اِس کو یہاں لے آیا اب یہ یہاں رہے گی ایز ا فیملی میمبر۔خرم نے مزے سے اُن کی معلومات میں اُضافہ کیا۔

خرم جاؤ اور ابھی کے ابھی اِس بچی کو وہاں چھوڑ آؤ جہاں سے اُٹھا کر لائے ہو۔رحمان آفندی نے سخت لہجے میں کہا

ڈیڈ وہاں جہاڑیوں کے پاس میں کیوں چھوڑ آؤ اگر کسی جانور نے نقصان پہچایا تو آپ دیکھے کتنی کیوٹ اور چھوٹی بچی ہے اکیلے ڈر لگے اِس کو وہاں بھوک بھی تو لگے گی۔خرم اپنی چھوٹی پیشانی پہ بل ڈال کر بولا

تم کمرے میں جاکر یونیفارم چینج کرو یہ بچی مجھے دو۔ذوناش بیگم نے رحمان آفندی کو غصے میں دیکھا تو خرم سے بچی لینی چاہیے

میں اِس کو اپنے کمرے میں لیں جارہا ہوں یہ میری ڈول ہے۔خرم نے بچی کا گال چوم کر کہا۔

میں پولیس میں رپورٹ کرواتا ہوں معلوم کریں کس کی بچی ہے جانے کہاں سے اُٹھا لایا ہے۔رحمان آفندی غصے سے بڑبڑاتے وہاں سے اُٹھ گئے۔

موم یہ میری ہے اب میں اِس کو کہی نہیں جانے دوں گا۔خرم اٹل انداز میں بولا

خرم فضول کی ضد مت کرو کتنی چھوٹی بچی ہے یہ اپنے ماں باپ اِس لو لیں جائے گے تمہارے ساتھ نہیں ہوگی یہ۔ذوناش بیگم نے اُس کو پیار سے کہا

نو موم اگر اُن کو یہ چاہیے ہوتی تو ایسے اکیلے نہ چھوڑتی اب بس یہ ہمارے ساتھ رہے گی آپ پلیز ڈیڈ سے بول دے کسی سے کجھ مت کہے اگر یہ گئ تو میں بھی نہیں رہوں گا۔خرم اپنی سناتا وہاں چلاگیا ذوناش بیگم نے حیرت سے اپنے بیٹے کو دیکھا جو ایک دن میں اُس بچی کے لیے پاگل ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے سُنا ہے تم کسی بچی کو لیں آئے ہو۔ماویہ اُچھل کر خرم کے کمرے میں آتی ہوئی بولی۔

ہمم یہ دیکھو۔خرم نے بیڈ کی جانب اِشارہ کیا جہاں وہ لیٹی ہوئی تھی۔

تمہیں یہاں نہیں لیکر آنا چاہیے تھا اِس کو اپنی ماں کی کمی محسوس ہوگی تمہیں تنگ بھی کرے گی۔ماویہ نے کہا

میں یہاں ہوں تو میری ڈول کو بھی یہاں ہونا چاہیے ویسے بھی میرے ہوتے ہوئے اِس کو کسی کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔خرم بیڈ پہ بچی کے پاس آکر بولا

نام کیا ہے اِس کا۔ماویہ نے پوچھا تو خرم سوچ میں پڑگیا۔

اِس کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اِس کا نام میرے نام سے میچنگ میں ہوگا میں خرم تو یہ حُرم۔خرم خوشی سے بولا تو ماویہ نے ناک چڑائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خرم کہاں ہیں۔رحمان آفندی نے ناشتے کے وقت خرم کو نہیں دیکھا تو استفسار کیا۔

وہ جس کو اُٹھا کر لایا تھا اُس کے ساتھ کمرے میں کھیل رہا ہے۔کسی کے کجھ کہنے سے پہلے ماویہ نے جھٹ سے کہا

بھائی صاحب آپ نے پولیس کی مدد لی تھی کیا کجھ پتا چلا کون ہے اُس بچی کے والدین۔مختار آفندی نے پوچھا

نہیں پتا چلتا تو بچی کو واپس نہ بھیجتا۔رحمان آفندی نخوت سے سرجھٹک کر بولے۔

بھائی صاحب کہنا تو نہیں چاہیے پر آپ کو کجھ کرنا چاہیے خرم کا اُس کے ساتھ لگاؤ کم دنوں میں زیادہ ہوگیا ہے ابھی وہ بچہ ہے اُس کے لیے یہ ٹھیک نہیں کجھ دنوں کا شوق ہے بہن نہیں تو اُس میں بہن تلاش رہا ہے پر خرم کی پڑھائی متاثر ہوگی اگر وہ ہر وقت بچی کے ارد گرد منڈلاتا رہا تو۔فوزیہ مختار آفندی کی بیگم نے کہا۔

جی کرتا ہوں کجھ۔رحمان آفندی نے کہا ذوناش بیگم خاموشی سے آہل کو ناشتہ سرو کررہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خرم ناشتہ کرو بعد میں اسکول جانا ہے۔ذوناش بیگم خرم کے کمرے میں آتی بولی جو حرم کو فیڈر پلا رہا تھا۔

موم آج میں اسکول نہیں جاؤں گا حرم کو اپنے ساتھ پارک لے جاؤں گا ایک کمرے میں رہ کر بور ہورہی ہے۔خرم فیڈر دور ہٹاتا اُس کا چہرہ صاف کیے بولا

خرم تمہارے ڈیڈ پہلے ہی تم سے خفا ہے اُن کو مزید مت کرو بہتر یہی ہے کے اپنے اسکول اور پڑھائی میں دھیان دو۔ذوناش بیگم سختی سے کہا

موم تیز آواز میں بات مت کریں حرم کو ڈر لگتا ہے۔خرم نے آرام سے کہا

خرم تم میری بات سن رہے ہو۔ذوناش بیگم نے ضبط کیے کہا

جی سن رہا ہوں آپ سب کو میری حرم سے جانے کیا پرخاش ہے ہلانکہ اتنی پیاری ہے میری حرم۔خرم حرم کے گال نرمی سے کھینچ کر بولا تو حرم مسکرادی جس سے اُس کے گالوں پہ ڈمپل نمایاں ہوئے۔

واو موم دیکھے اِس کے پاس ڈمپلز ہیں خوبصورت سے۔خرم خوشی سے اُچھل کر بولا ذوناش بیگم نفی میں سرہلاتی باہر نکل گئ

کیا خرم اسکول نہیں جارہا۔رحمان آفندی نے آہل ماویہ فاخر کے ساتھ خرم کو ناپاکر پوچھا

کل جائے گا آج اُس کی طبعیت نہیں ٹھیک۔ذوناش بیگم نے بہانا بنایا

اچھے سے جانتا ہوں کہو اُسے اسکول جائے ورنہ ابھی اُس کے سامنے میں بچی کو گھر سے باہر کروں گا۔رحمان آفندی نے غصے سے کہا

بچہ ہے ایک دن اسکول نہیں جائے گا تو کیا ہوا۔ذوناش بیگم نے اُن کا غصہ کم کرنا چاہا

طرفداری کرنے سے اچھا ہے وہ کرو جو میں کہہ رہا ہوں۔رحمان آفندی نے کہا

میں جارہا ہوں ڈیڈ پر آپ پلیز حرم کو کجھ مت کہیے گا۔خرم سیڑھیوں کی ریلنگ کے پاس کھڑا ہوتا بولا

ہمم۔رحمان آفندی نے ہنکارہ بھرا۔

آپ اُن کا خیال رکھیے گا۔خرم نے اُداس لہجے میں ذوناش بیگم سے کہا

💕💕💕💕💕

دن تیزی سے گُزرتے جارہے تھے ذوناش بیگم نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا تھا جس سے آفندی ہاؤس میں رونق آگئ تھی رحمان آفندی نے بہت کوشش کی پر حرم کے گھر کے بارے میں کجھ پتا نہیں چلا جس سے وہ مجبوراً اُس کو اپنے گھر پہ رکھنے کے لیے راضی ہوگئے تھے جس کی سب سے زیادہ خوشی خرم کو ہوئی تھی۔

گیم کھیلتے ہیں تم بھی چلو ساتھ۔ماویہ نے خرم سے کہا

تم سب جاؤ میں اور حرم یہاں ہوگے۔خرم نے حرم کو سریلیک کِھیلاتے ہوئے کہا

کبھی اِس کو چھوڑ بھی دیا کرو ہر وقت ساتھ لگائے رہتے ہو۔ماویہ نے ناگواری سے کہا

تمہیں کیا مسئلا میں حرم کو اپنے ساتھ لگاؤ یا گود میں بیٹھاؤ اپنے کام سے کام رکھو۔خرم نے سختی سے کہا

تم اِس کے لیے اپنی کزن سے بدتمیزی کررہے ہو۔ماویہ نے شکوہ کیا

ہاں کیونکہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کوئی میری حرم کو کجھ بھی کہے۔خرم سپاٹ انداز میں کہا جس پہ ماویہ نے شعلہ برساتی نظروں سے معصوم حرم کو دیکھا

💕💕💕💕

پانچ سال بعد!


وہ خُرما خُرما چلتی بیڈ کی جانب آئی جہاں ایک وجود خواب خروش کے مزے لوٹ رہا تھا اُس نے بیڈ کے پاس آکر سائیڈ ٹیبل پہ پڑا پانی کا جگ اُٹھا کر اُس پہ اُلٹ دیا جس سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

ہاہاہاہاہا

خرم در گیا خرم حرم سے در گیا۔چھ سالہ حرم اُچھل کر قہقہقہ لگاتی بولی۔پہلے تو خرم کو کجھ سمجھ نہیں آیا پر جب نظر سامنے حرم پڑی تو سارا ماجرا سمجھ کر ایک جست میں اُس اپنی طرف کیا۔

بڑی ہنسی آرہی ہے خرم کی حرم کو۔پندرہ سالہ خرم اتنا کہہ کر اُس کو گُدگدی کرنے لگا تو وہ ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوگئ۔

ایشا نہ کلو ہشی آرہی ہے۔حرم ہنسی کے درمیان اپنی توتلی زبان میں بولی

تو تمہیں مجھ سے پنگا لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ایک تو ساری رات تم نے مجھ تنگ کیا اُپر سے اتنی سویرے جگا بھی دیا۔خرم نے اُس کو اپنی گود میں بیٹھا کر کہا

مجھ تو بھوت لگی ہے۔حرم نے معصوم شکل بنائی۔

اوو میرے بچے کو بھوت لگی ہے۔خرم ہونٹوں کو گول کا شیپ دیتے بولا تو حرم نے زور سے سر کو جنبش دی۔

موم سے کہتی وہ تمہیں ناشتہ دے دیتی خوامخواہ اتنی بھوک برداشت کی۔خرم اُس کو پیار سے ڈپٹ کر بولا

او تو حنا شے پال کلتی ہے اش کو تھانا دیتی ہے۔حرم نے اُداسی سے بتایا

سب آپ سے پیار کرتے ہیں ایسا مت سوچو میں بھی تو تم سے پیار کرتا ہوں اِس لیے اپنے فرینڈ کے بارے میں سوچا کرو۔خرم نے نرمی سے کہا

بعد شوچو دی ابی بھوت۔حرم نے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر کہا خرم کا قہقہقہ چھوٹ گیا اُس کی معصوم بات پہ۔


اسلام علیکم!خرم حرم کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پہ آتا سب کو سلام کرنے لگا جس کا جواب سب نے دیا

آرام سے سیپ کون سا بھاگ رہا ہے جو اُتاولی ہورہی ہو۔ماویہ نے نخوت سے حرم کو دیکھ کر کہا جو سیپ اُٹھانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔

بیہیو۔خرم نے خود کو کجھ اور کہنے سے بمشکل روکا۔

چاہیے تمہیں۔خرم نے حرم سے کہا جو اُداس ہوگئ تھی۔

شیپ۔حرم نے سیپ کی طرف اِشارہ کیے کہا

اوکے۔خرم اتنے کہہ کر اُس کے لیے سیپ کاٹنے لگا

مرد ہو تم یہ کام تمہیں زیب نہیں دیتا۔رحمان آفندی نے ناگواری سے کہا

عورت کو دیتا ہے تو مرد کو کیوں نہیں ہلانکہ جو بڑے بڑے ریسٹورنٹس ہوٹلز ہیں وہاں ہم سب جو شوق سے کھانا کھاتے ہیں وہ مرد ہی بناتا ہے اگر یہ مرد کو زیب نہ دیتا تو آج وہاں مردوں کے بجائے عورتیں ہوتی۔خرم نے سنجیدگی سے کہا

خرم تہمیز کے دائرے میں رہو باپ اگر بات کریں تو اُس کی بات سرجھکاکر سنو ناکہ جواب دو۔ذوناش بیگم چار سالہ حنا کو جوس دیتی ٹوک کر خرم سے بولی۔

سوری۔خرم اتنا کہہ کر اپنا سرجھکاگیا۔

حرم چھ سال کی ہوگئ ہے اِس کا اب اسکول میں ایڈمیش ہونا چاہیے۔مختار آفندی جو حرم کے پاس والی چیئر پہ برجمان تھے نرمی سے اُس کا گال سہلاکر بولے

واہ اشکول۔حرم تالیا بجاتی خوشی سے بولی تو خرم مسکرادیا

ڈیڈ پہلے یہ ٹھیک سے بولنا تو سیکھ لیں چھ سال کی ہوگئ ہے پھر بھی توتلہ بولتی ہے اسکول میں سب نے مذاق اُڑانا ہے۔ماویہ حرم کا مذاق بناتی بولی

میں جان نہ لوں اُن کی جو حرم کا مذاق اُڑانے کا سوچے۔خرم طیش کی حالت میں بولا تو سب اُس کے رد عمل پہ حیران رہ گئے حرم سہم کر دور ہونے لگی پر خرم اُس کا چھوٹا نازک ہاتھ پکڑتا اندر کی طرف چلاگیا۔

نہ خود ناشتہ کیا نہ حرم کو کرنے دیا۔ذوناش بیگم نے تاسف سے کہا

بچہ ہے رہنے دے۔مختار آفندی نے کہا


فرینڈ۔حرم نے آہستہ سے خرم کو آواز دی جو کمرے میں یہاں وہاں چکر لگارہا تھا۔

حرم میری جان میری بات غور سے سننا۔خرم اُس کے پاس پنجوں کے بل بیٹھتا بولا

تمہارا جلد اسکول میں داخلہ ہوگا ابھی میں ٹیوشن دیتا ہوں بعد میں بھی دوں گا پر تب اسکول بھی جائے گی وہاں آپ نے کسی لڑکے سے بھی دوستی نہیں کرنی اگر کوئی کجھ کریں یا کہے تو میرے پاس آؤں گی بجائے رونے کے سمجھ آرہی ہے میری بات۔خرم نے ساری بات کے احتتام میں اُس سے تصدیق چاہی۔

ہاں۔حرم نے جھٹ سے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم کا اسکول میں ایڈمیشن ہوگیا تھا خرم ڈرائیور کے ساتھ اُس کو اسکول چھوڑتا خود کالج جانے لگا

خرم پلیز یہ سبق پڑھنے میں میری مدد کرو۔ماویہ خرم کی سیٹ پہ آکر کتاب آگے کرتی بولی

ماویہ کسی اور سے کہو میرے پہلے ہی بہت کام روکے ہوئے ہیں۔خرم نے بے زاری سے کہا

تم حد سے زیادہ روڈ نہیں ہے ہوگئے۔ماویہ نے غصے سے کہا

پتا نہیں ابھی میں ضروری نوٹ بنارہا ہوں۔خرم نے شانے اُچکاتے کہا ماویہ بس اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕

خرم کی مارکس دیکھی ہے فرسٹ ایئر میں یہ حال رہا تو بھول اُس کی کسی اچھی یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوگا۔رحمان آفندی نے غصے سے ذوناش بیگم سے کہا

میں کیا کہوں سترہ کا ہوگیا ہے میری بات تو ایک کان سے سنتا ہے دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ذوناش بیگم حنا کے بالوں میں پونی ڈالتی بولی۔

میں نے سوچ لیا ہے اگر اُس کا مستقبل بچانا ہے ایبروڈ بھیج دوں۔رحمان آفندی نے کہا

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں کیسے اپنے بچے کو پردیس بھیجو گی۔ذوناش بیگم اُن کی بات پہ تڑپ کے بولی

سارا دن وہ حرم حرم کرتا رہتا ہے اگر یہاں رہا تو کرلی اُس نے ڈگری حاصل اِس لیے بہترین حل یہی ہے۔رحمان آفندی نے کہا

اگر حرم مسئلہ ہے تو بتادوں وہ کبھی اُس چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ذوناش بیگم نے اُن کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہا۔

کالج کی پڑھائی اُس کی پوری ہوجائے تو میں خود منالوں گا۔رحمان آفندی پرسوچ انداز میں بولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُنیس سالہ خرم پورے گھر میں حرم کو تلاش کررہا تھا جو اُس کو کہی نظر نہیں آرہی تھی جس سے وہ شدید اشتعال میں آگیا تھا بال پوری طرح بکھری ہوئے تھے جب کی کالج یونیفارم بھی شکن آلود ہوگیا تھا

موم ویئر از حرم۔خرم کچن میں آتا ذوناش بیگم سے بولا

یہی تھی سب کے ساتھ اب پتا نہیں۔ذوناش بیگم نے بتایا۔

کیا موم آپ نے اُس کو جانے کیوں دیا۔خرم غصے اور فکرمند کی ملی جلی کیفیت میں کہتا پھر سے ٹیرس کی طرف جانے لگا جب باہر سے قہقہ کی آواز نے اُس کے قدموں کو بریک لگائی خرم نے پلٹ کر دیکھا تو آنکھوں میں جیسے مرچیں چھبنے لگی تھی سامنے دس سالہ حرم ہنستی فاخر سے کوئی بات کررہی تھی دونوں کے ہاتھ میں موجود آئسکریم دیکھ کر وہ سمجھ گیا باہر گئے تھے۔

میری اجازت کے بغیر کیوں گئ تھی تم۔خرم تن فن کرتا اُس کا بازوں دبوچ کر بولا

فرینڈ وہ تم نہیں تھے تو اِس لیے باہر گئ خود ہی۔حرم نے جھٹ سے جواب دیا۔

اندر چلو۔خرم اُس کو اپنے ساتھ لے جانے لگا

مجھے فاخر کے ساتھ کارٹون دیکھنے ہیں۔حرم نے اپنا بازوں چھڑوانے کی کوشش کرتے کہا

حرم میں پہلے ہی غصہ ہوں میرے غصے کو مزید ہوا مت دو چلو چپ چاپ۔خرم نے ناگواری سے کہا

اگر وہ نہیں جانا چاہتی تو کیوں ضد کررہے ہو ہم کون سے غیر ہیں جو ایسا رویہ اختیار کررہے ہو۔فاخر حرم کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کیے بولنے لگا خرم اُس کی جرئت پہ بنا دیر کیے ایک گھونسہ اُس کے چہرہ پہ جڑدیا

آ۔اہ پاگل ہو کیا۔فاخر اپنی ناک سے خون صاف کرتا غصے سے بولا حرم حیرت سے خرم کا جلالہ روپ دیکھ رہی تھی جو اپنی نظروں سے فاخر کو بھسم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

آئیندہ حرم کو ہاتھ لگانے کی کوشش کی نہ ہاتھ جڑ سے اُکھیر دوں گا۔خرم غصے سے پھنکار کر بولا شور ہونے کی وجہ سے ذوناش بیگم اور فوزیہ بیگم کی ہال میں آئی فوزیہ بیگم نے اپنے بیٹے کی ناک سے خون بہتا دیکھا تو کلیجہ منہ کو آیا۔

یہ کیا ہوا تمہیں۔فوزیہ بیگم پریشانی سے بولی

خرم نے زور سے پنج مارا۔فاخر نے شکایت لگائی

خرم چھوٹے بھائی کو کون مارتا ہے ایسے۔فوزیہ بیگم نے خشمگین نظروں سے اُس کو دیکھا خرم نے نخوت سے سر جھٹکا۔

💕💕💕💕💕💕💕

خرم آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔حرم نے ہوم ورک کرکے خرم سے کہا

حرم تم بچی ہو اِس لیے کجھ نہیں سمجھتی تمہیں فاخر کے ساتھ اکیلے نہیں جانا چاہیے تھا وہ خود چودہ سال کا ہے اپنا خیال کرتا یا تمہارا۔خرم نے ناراض لہجے میں کہا۔

آپ بلاوجہ ٹینشن لیتے ہیں ورنہ ہم تو سہی سلامت آگئے۔حرم نے کہا

اچھا چھوڑو یہ سب کل تمہارا ٹیسٹ ہے نہ تیاری کیسی ہے۔خرم نے بات بدلی۔

ہاں وہ کل اُردو کا ٹیسٹ ہے۔حرم نے بتایا

اِدھر آؤ اردو ہے تو آسان پر تمہاری اُردو رائٹنگ بہت بُری ہے اگر ایسا رہا تو مارکس کٹ ہوجائے گی۔خرم کی بات پہ حرم منہ بناتی اُس کے پاس آئی۔

نوٹ بُک دو اپنی۔خرم اُس کا پُھولا ہوا منہ دیکھ کر ہنسی کنٹرول کیے بولا

یہ لیں۔حرم نے اپنے بیگ سے نوٹ بُک نکال کے دی۔

یہ کیا تم نے انگریزی ہوم ورک ایک ہفتے سے نہیں کیا ٹیچر نے نوٹ لگایا ہے وہ بھی مجھے دیکھانا گوارہ نہیں کیا۔خرم نے کجھ سختی سے کہا

پلیز خرم ڈانٹوں تو مت۔حرم نے مسکین شکل بنائی۔

کیوں نہ ڈانٹوں ابھی میرے سامنے سارے پیجز لِکھو گی۔خرم نے حتمی انداز میں کہا

خرم یہ ظلم ہے۔حرم کی حالت رونے والی ہوگئ

نو میری جان کوئی ظلم نہیں پڑھائی کے معاملے میں مجھ سے نرمی کی توقع مت رکھنا۔خرم نے اُس کی ٹھوڑی پکڑ کر کہا

میں ناراض ہوجاؤں گی بات بھی نہیں کروں گی۔حرم نے اپنی طرف سے دھمکی دی

کوئی بات نہیں میرے لیے اچھا ہے جلد سوجاؤ گا کوئی مجھے تنگ بھی نہیں کرے گا۔خرم شرارت سے بولا حرم اس کی بات کو سریس لیکر رونا شروع ہوگئ۔

رو کیوں رہی ہو میں تو مذاق میں کہہ رہا ہوں۔خرم نے اُس کی آنکھوں موٹے موٹے آنسو دیکھے تو پریشانی سے بولا

آپ مجھ سے بے زار ہوگئے ہیں ٹھیک ہے میں اب کجھ نہیں کہوں گی آپ کو۔حرم سوں سوں کرتی بولی

کس نے کہا ایسا نہیں ہے تم سے بے زار ہونے سے پہلے میں مرنا پسند کروں گا۔خرم نے سنجیدہ لہجے میں کہا

آپ نے جو کہا کوئی تنگ کرنے والا مطلب تو صاف ہوا نہ آپ بے زار ہیں۔حرم نے خرم کی عقل پہ ماتم کیا۔

بڑے مطلب سمجھ آنے لگے ہیں سب سمجھ رہا ہوں یہ ہوم ورک نہ کرنے کے بہانے ہیں اِس لیے رونا ختم کرو اور چپ چاپ پڑھائی کرو۔خرم اُس کی چلاکی سمجھتا بولا

خرررررم۔حرم نے معصومیت سے اُس کے نام کو کھینچ کر ادا کیا۔

خررررررم کی حرررررررم میں نہیں آنے والا ایموشنلی بلیک میلنگ میں۔خرم اُسی کے انداز میں بولا

💕💕💕💕💕

کافی شوق نہیں چڑھا مار کُٹائی کا۔رحمان آفندی سخت نظروں سے خرم سے بولے۔

سوری۔خرم نے بس اتنا کہا

ایک غیر لڑکی وجہ سے اپنے چچا ذات بھائی پہ ہاتھ اُٹھایا۔رحمان آفندی کا غصے ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا۔

وہ غیر نہیں ہے ڈیڈ دس سال سے یہاں ہے اب تو آپ اُس کو قبول کرلیں۔خرم کو رحمان آفندی کی بات پسند نہیں آئی۔

مجھے کجھ اور نہیں سننا میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اُمید ہے تم اختلاف نہیں کروگے۔رحمان آفندی ہنکارہ بھر کر بولے

کیسا فیصلہ۔خرم نے جاننا چاہا۔

تمہارا ایڈمیشن میں نے لنڈن میں کروا لیا ہے ایم بی بی ایس تم وہاں کروگے۔رحمان آفندی کی بات اُس کے سر پہ دھماکے کی طرح گِری ہے۔

آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں میں نہیں جاؤں گا یہاں سے۔خرم قطیعت سے بولا

اجازت نہیں مانگی تم سے اپنا فیصلہ سنایا ہے اختلاف کرنے کی صورت میں ساری عمر بھول جانا اپنے باپ کو۔رحمان آفندی اٹل لہجے میں بولے۔

ڈیڈ آپ زبردستی اپنا فیصلہ مجھ پہ مسلط نہیں کرسکتے میں یہاں بھی سب کرسکتا ہوں دوسرے ملک میں کیوں۔خرم سخت خفا ہوا۔

باپ میں ہوں تمہارا تم میرے باپ مت بنو مائینڈ بنالوں اپنا ایک ماہ بعد کی فلائٹ ہے تمہاری۔رحمان آفندی سنجیدگی سے بولے

پر ڈیڈ۔خرم نے کجھ کہنا چاہا

خرم بلاوجہ کی بحث مت کرو۔رحمان آفندی نے ٹوک دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موم آپ ڈیڈ سے بات کریں نہ۔خرم نے ذوناش بیگم کی گود میں سر رکھ کر کہا

میں کیا بات کروں تمہارے والد ہے بہتر چاہتے ہیں تمہارا اِس لیے اُن کی بات مان لو۔ذوناش بیگم اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی

میں جانتا ہوں پر حرم کا بھی تو سوچے وہ چھوٹی ہے میں اُس کو یہاں اکیلے چھوڑ کر کیسے جاسکتا ہوں۔خرم نے اپنا سر اُن کی گود سے اُٹھا کر اپنا مسئلا بیان کیا۔

سیریسلی خرم تم حرم کی وجہ سے نہیں جانا چاہتے۔ذوناش بیگم حیرت سے کہا جس پہ خرم نے سر کو جنبش دی

حرم کے لیے پریشان ایسے ہو رہے ہو جیسے باپ ہو تم اُس کے تمہیں اُس کی فکر کرنے کی ضروری نہیں ہم سب ہیں یہاں دیکھ بھال کرلیں گے اُس کی۔ذوناش بیگم نے اُس کو تسلی کروانی چاہی۔

میرا دل نہیں لگے گا اُس کے بنا۔خرم نے دوسری وجہ بھی بتائی۔

اپنا دل پڑھائی پہ لگاؤ حرم کی ٹینشن سے خود کو آزاد ہوجاؤ ہم بہت خیال رکھے گیں اُس کا۔ذوناش بیگم نے کہا

وہ بہت روئے گی میرے جانے کا سن کر۔خرم کا دل نہیں مان رہا تھا۔

خرم حرم کے علاوہ ہمارا بھی سوچو۔ذوناش بیگم نے تنگ آکر کہا

💕💕💕💕💕

حرم میری بات سننا۔خرم حرم کے پاس آتا بولا جو ڈرائینگ کرنے میں لگی ہوئی تھی۔

خرم آپ آج ہمیں سینڈریلا کے علاوہ اسٹوری سنانا۔حرم اپنی ڈرائینگ چھوڑ کر خرم سے بولی

جو حکم آپ ایک ضروری بات کرنی ہے۔خرم اُس کے ننہے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر بولا

کہے۔حرم نے معصومیت سے کہا

میں نہ دوسرے ملک جاؤں گا پڑھنے کے لیے۔خرم بس اتنا بول پایا

پڑھنے کے لیے تو اسکول جانا ہوتا ہے نہ۔حرم نے پرسوچ انداز میں کہا تو خرم مسکرا پڑا۔

ہاں پر اِس بار میں بہت دور جاؤں گا۔خرم نے کہا

اکیلے مجھے بھی ساتھ لیں چلو۔حرم نے ملتجی لہجے میں کہا

کاش ایسا ممکن ہوتا پر میں اکیلے جا سکتا ہوں تم یہاں رہ کر اپنی پڑھائی پہ دھیان دینا اور اچھے مارکس لینا کسی سے زیادہ فری مت ہونا اور نہ کسی دوسرے کو ہونے دینا۔خرم نے نرمی سے اُس کو سمجھایا۔

آپ واپس کب آؤگے؟حرم نے سوال داغا

انشااللہ بہت جلد۔خرم کی آنکھوں میں نمی اُتری تھی۔

میں آپ کے بنا کیسے رہوں گی یہاں تو بس آپ پیار کرتے ہیں مجھ سے رات کو کہانیاں کون سنائے گا مجھے ہوم ورک کون کروائے گا اسکول کون چھوڑنے جائے گا ناشتہ لنچ ڈنر وقت پہ یہ سب کون کروائے گا گُھمانے باہر کون لیکر جائے گا۔حرم نے ایک کے بعد ایک اپنا مسئلا بیان کیا جس پہ خرم نے اُس کو اپنے سینے سے لگادیا

💕💕💕💕

سات سال بعد !

اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی وہ یک ٹک آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی سات سال ہوگئے تھے پر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا جس نے جلد واپس آنے کا کہا تھا پہلے پہل تو وہ اُس سے فون پہ بات کرلیا کرتا تھا پر اب تو وہ رابطہ بھی ختم ہوگیا تھا ایک آنسو آنکھ سے گِر کر رخسار پہ پھسلا تھا

اِن سات سالوں میں وہ اپنی حیثیت سے باخوبی جان گئ تھی کے اِس بڑی دنیا میں اُس کا کوئی نہیں تھا دس سالہ خرم اُس کو ہمدری میں اپنے ساتھ گھر لایا تھا یہ بات جان کر جتنی وہ تکلیف سے گُزری تھی بس وہ جانتی تھی یا اُس کا خدا پر جب خرم کی عنایتیں یاد آتی تو اُس کی یاد شدت اختیار کرلیتی اور ایک ڈر جو اتنے سالوں میں اُس کے اندر بیٹھ گیا تھا شاید خرم بھی بدل جائے تو پھر اُس کا کیا ہوگا اپنی سوچو سے خوفزدہ ہوکر کھڑکی کے پردے برابر کرکے وہ بیڈ کی طرف آکر بیٹھ گئ۔

چررر

دروازہ کُھلنے کی آواز پہ اُس نے پلٹ کر دیکھا جہاں حنا مسکراکر کھڑی تھی حنا کو دیکھ کر وہ بھی ہلکہ سا مسکرائی۔

کیا ہورہا ہے۔حنا نے مسکراکر پوچھا

کجھ نہیں بس فری ہوں۔حرم نے سادگی سے کہا

آپ کو پتا ہے خرم بھائی جلد آنے والے ہیں واپس۔حنا نے پرجوش آواز میں بتایا خرم کے نام پہ حرم کے چہرے پہ کو آثار نمایاں نہیں ہوئے۔

اچھا۔حرم نے بس اتنا کہا۔

آپ کو خوشی نہیں ہوئی مجھے لگا آپ تو ناچنے نے لگے گی خوشی سے بہت سنا جو ہے کہ آپ بھائی کے بہت قریب رہی ہیں۔حنا نے اپنی دھن میں کہا

کل میرا ٹیسٹ ہے میں اُس کی تیاری کرلوں ذرا۔حرم اُس کی بات نظرانداز کرتی بولی حنا نے بھی شانے اُچکائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موم حرم کیسی ہے آپ لوگ میری بات کیوں نہیں کرواتے اُس سے۔ویڈیو کال پہ بات کرتے خرم کے چہرے سے بے چینی عیاں تھی۔

حرم بلکل ٹھیک ہے فرسٹ ایئر میں داخلہ ہوا ہے اُس کا۔ذوناش بیگم نے دوسری بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

موم آپ اور ڈیڈ کس بات کا مجھ سے بدلا لیں رہے ہیں کیوں مجھے حرم سے دور کررہے ہیں دیکھنا تو دور آپ نے تو اُس کی آواز سننے کے لیے مجھے ترسا دیا ہے۔خرم پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا

غنیمت جانو تمہارے جانے کے بعد رحمان نے اُس کو گھر سے بے دخل نہیں کیا بلکہ سب بچوں کی طرح اُس کی ضروریات کا خیال رکھا اب تم بتاؤ کب کی فلائٹ ہے تمہاری۔ذوناش بیگم نے بات کا رخ تبدیل کیا۔

اُتوار کو انشااللہ۔خرم سپاٹ انداز میں بولا

اُداس مت ہو یہاں آکر ویسے بھی مل لینا ہے تم نے۔ذوناش بیگم نے پیار سے سمجھانا چاہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرم کالج کے گراؤنڈ میں نوٹس بنا رہی تھی جب ایک لڑکا اُس کے پاس آتا بولا۔

مس حرم کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔حرم نے سر اُٹھا کر تیکھے نین نقوش گندمی رنگت کا خوبرو لڑکا مسکراکر اُس سے اجازت چاہ رہا تھا

یہ کالج میری پراپرٹی نہیں بیٹھنا ہے تو بیٹھے۔حرم اپنا رخ اپنے کام کی طرف کرکے بولی

شکریہ میرا نام دانیش ہے ہم کلاس فیلوز ہیں پر کبھی بات کرنے کا موقع نہیں ملا آج آپ کو یہاں بیٹھا دیکھا تو سوچا بات چیت ہوجائے۔دانیش بے تکلفی سے بولا

مجھے میرا ڈرائیور لینے آگیا ہوگا ایکسکیوز می۔حرم اپنے سامان سمیٹ کر بولی۔

میری بات تو آپ نے لگتا سنی نہیں آپ کجھ دیر بیٹھ جاتی تو اچھا ہوتا۔دانیش نے کہا

سوری ٹو سے پر مجھے لڑکوں کا فری ہونا پسند نہیں آج تو آپ نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی دوبارہ مت کرئیے گا۔حرم اُس کو سُناتی پلٹ گئ۔

💕💕💕💕

تم میرا یہ جوڑا استری کرکے لاؤ۔حرم کو گھر آئے کجھ دیر گُزری تھی جب ماویہ ہیل کی ٹک ٹک کرتی اپنا ایک ڈریس اُس کی طرف بڑھاکر بولی گھر میں ملازم ہونے کے باوجود بھی وہ اپنا سارا کام حرم سے کرواتی تھی اپنی انا کی تسکین کے لیے۔

جی۔حرم اُس کے ہاتھ سے جوڑا لیتی بولی

اچھے سے کرنا کل بھی جو کیا تھا اُس میں شکنیں تھی اِس بار ایسا ہوا تو دوبارہ کرواؤں گی۔ماویہ اُس کو حکم دیتی کمرے سے باہر چلی گئ پیچھے حرم نے تھکی سانس خارج کی۔

۔....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اُتوار کا دن تھا ذوناش بیگم کچن میں کھڑی خرم کی پسند کے لوازمات پکوارہی تھی آخرکار اِتنے سالوں بعد اُن کا بیٹا آرہا تھا یہ خبر سن کر اُن کے پاؤں زمین پہ نہیں ٹِک پارہے تھے۔

حرم کو جیسے پتا چلا خرم کے آنے پہ اب کم وقت ہے تو اُس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا آہل اور رحمان آفندی ایئرپورٹ خرم کو ریسیو کرنے گئے تھے۔

گاڑی کے ہارن کی آواز پہ جہاں حرم کی دھڑکنیں تھمی تھی دوسری طرف ذوناش بیگم نہال سی باہر کو لپکی تھی اُن کے ساتھ شارٹ شرٹ اور جینز پینٹ پہنے ماویہ بھی ساتھ تھی

میری جان میرے دل کا ٹکڑا۔ذوناش بیگم خرم کا وجیہہ چہرہ چومتی بولی جو اُن کو اپنے ساتھ لگائے مسکرا رہا تھا ماویہ کی آنکھوں میں چمک آئی تھی خرم کو دیکھ کر جو اِن سالوں میں بہت شاندار پرسنائلٹی کا مالک ہوگیا تھا جو چیز اُس کو سب سے منفرد ظاہر کررہی تھی وہ تھے اُس کے براوٴن بال جو اُس کی سفید کشادہ چمکتی پیشانی پہ لاپرواہی سے بکھرے ہوئے تھے ذوناش بیگم اور اپنی چچی سے ملنے کے بعد خرم کی نظریں بے چینی سے حرم کو تلاش نے لگی جو یہاں نہیں تھی سب کی موجودگی میں بھی خرم کو اُس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی اُس کو لگا تھا وہ سب سے پہلے اُس کے استقبال میں کھڑی ہوئی ہوگی مگر ایسا نہیں تھا۔

تم تو پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئے ہو۔ماویہ نے اُس کو اپنی موجودگی کا احساس کروایا۔

شکریہ حرم کہاں ہیں؟خرم سے رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا۔

اپنے کمرے میں ہوگی تو فریش ہوکر آرام کرو اُس کے بعد مل لینا۔ذوناش بیگم نے کہا

اُس کا کمرہ کونسا ہے اُس سے مل لوں پھر آرام کرلوں گا۔خرم نے کہا

وہی ہے۔ذوناش بیگم نے کہا تو خرم جلدی سے اندر کی طرف بڑھا اُس کی جلدبازی پہ ماویہ جل بھن کے رہ گئ تھی۔

ٹک

ٹک

ٹک

دروازہ نوک ہونے پہ اُس کو اندازہ ہوگیا باہر کھڑی ہستی کون ہوگی مگر وہ ڈھیٹ بن کر اپنے کمرے میں رہی۔

حرم اوپن دا ڈور۔خرم نے محبت بھرے لہجے میں اُس کو آواز دی دوسری طرف حرم اتنے سالوں بعد خرم کی آواز سن کر زور سے آنکھیں میچ لی تھی۔

یار حرم کیا ہوگیا ہے کیا مجھے تم بھول گئ ہو مجھے لگا تھا تمہیں بے صبری سے میری آمد کا انتظار ہوگا پر یہاں تو ایسا کجھ ہے نہیں ناراض ہو کیا دروازہ تو کھولو تاکہ میں تمہارے شکوے شکایت سن سکوں۔خرم نے پریشانی سے کہا حرم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے کتنا انتظار کیا تھا اُس نے خرم کا اور وہ کہہ رہا تھا ایسا نہیں ہے حرم نے اپنا چہرہ صاف کیا پھر ڈوپٹہ بیڈ سے اُٹھا کر دروازہ کھول کر سرجھکا کر کھڑی ہوگئ حرم کو اپنے سامنے دیکھ کر خرم کی جان میں جان آئی تھی اتنے سالوں بعد اپنے روبرو دیکھ کر بے چین دل کو قرار سا آگیا تھا۔

اب کیوں آئے ہیں وہی رہتے۔حرم نے شکوہ کیا

حرم میں شوقیہ طور پہ تو نہیں گیا تھا نہ مجبوری تھی میری۔خرم نے وضاحت دیتے کہا

بات تو کرسکتے تھے نہ۔حرم نے دوسرا شکوہ کیا

میں اتنی دور سے آیا ہوں اتنے سالوں بعد آیا ہو بجائے میرا حال دریافت کرنے کے تم شکوے کررہی ہو۔خرم نے مسکراکر اُس کا دیہان دوسری طرف کروانا چاہا

آپ کیسے ہیں۔حرم نے معصومیت سے پوچھا تو خرم کا جاندار قہقہقہ گونجا حرم کھسیانی ہوکر سر جھکاگئ۔

میں تمہارے سامنے ہوں تم بتاؤ جانے سے پہلے جو میں ہدایات کرکے گیا تھا اُس پہ عمل پیرا تھی یا نہیں۔خرم نے کجھ رعب سے پوچھا

میں نہ خود کسی سے فری ہوئی نہ کسی اور کو خود کے ساتھ فری ہونے دیا۔حرم نے جھٹ سے کہا تو خرم پھر سے ہنس پڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاب کب سے اسٹارٹ کرو گے۔خرم کو آئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا جب رحمان آفندی نے پوچھا

دو تین جگہوں پہ اپلائے کیا ہے دیکھتے ہیں کیا رسپانس آتا ہے۔خرم نے جواب دیا

میری مانو تو اپنا ہوسپٹل بناؤ کسی اور کے انڈر کام کرنے کی کیا ضرورت۔رحمان آفندی نے سنجیدگی سے کہا

ڈیڈ ہسپتال اپنا ہو یا کسی اور کا کام تو میرا ایک ہوگا پھر کیا فرق پڑتا ہے۔خرم لاپرواہی سے بولا۔

اچھا جیسے تمہاری مرضی جاب تمہاری ہوجائے تو ہم تیاری کرلینگے۔رحمان آفندی نے کہا تو خرم ناسمجھی سے اُن کو دیکھنے لگا۔

مختار نے ماویہ کا رشتہ ڈالا ہے تمہارے لیے۔رحمان آفندی کی بات پہ خرم کی پیشانی پہ شکنوں کا جال بن گیا تھا۔

پر میں نے تو رضامندی نہیں دی اور نہ کسی نے مجھے اِس بات کی بھنک بھی پڑنے دی۔خرم سپاٹ انداز میں بولا

یہ فیصلے بڑے کرتے ہیں۔رحمان آفندی نے کرخت آواز میں کہا

ڈیڈ بات سمجھنے کی کوشش کریں یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے ایسے کیسے آپ میرے ساتھ ایسی لڑکی سے شادی کروائے گے جس میں میری رضامندی شامل نہ ہو پہلے بھی آپ اپنی مرضی مسلط کرچُکے تھے پر اب نہیں۔خرم انکار کرتا بولا۔

تو برخودار یہ بھی بتادو تمہاری رضامندی کس میں ہے؟رحمان آفندی نے طنزیہ پوچھا تو خرم سوچ میں پڑگیا۔

ًڈیڈ وہ حرم۔خرم اتنا کہہ کر اپنا سرجھکاگیا رحمان آفندی نے تاسف سے اُس کی جانب دیکھا

تمہیں لگتا ہے میں ایسا ہونے دوں گا۔رحمان آفندی نے سنجیدگی سے پوچھا

انکار کی کوئی وجہ ہونی چاہیے ڈیڈ میں چاہتا ہوں حرم کو آج سے نہیں کئ سال سے جب میں محبت کے م سے بھی ناواقف تھا۔خرم نے جواب دیا۔

کتنی بے شرمی سے اپنے باپ کے سامنے اظہار کررہے ہو۔رحمان آفندی نے اُس کو شرم دلانی چاہی۔

شرم کیسی میں کونسا نائٹی ٹوئنٹی سال کی پُرانی ہیروئن ہو۔خرم بے نیازی سے بولا

چھوٹی ہے وہ تم سے۔رحمان آفندی نے دوبارہ کہا

نو سال زیادہ نہیں۔خرم نے جواب دیا

پہلے اُس انجان لڑکی کو اپنے گھر اور اب تم چاہتے ہو تمہاری اُس سے شادی کرواؤ۔رحمان آفندی خائف ہوئے۔

حرم نے اپنی زندگی یہاں گُزاری ہے اِس لیے اب تو اُس کو انجان مت بولے۔خرم نے سنجیدگی سے کہا۔

تم نے سوچ لیا ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں ویسے بھی کرنا تم نے وہی ہے جو تم چاہتے ہو۔رحمان آفندی سرجھٹک کر بولے۔

تو کیا آپ راضی ہے۔خرم کا چہرہ خوشی سے جگمگا اُٹھا۔

میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔رحمان آفندی ہاتھ کھڑے کیے بولے تو خرم خوش ہوگیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کررہی ہو تم؟خرم حرم کے کمرے میں آتا بولا

الماری میں کپڑے سیٹ کررہی ہوں آپ کو کوئی کام تھا۔حرم نے مسکراکر کہا جس سے اُس کے گالوں پہ ڈمپل نمایاں ہوا۔

ہمم بات کرنے آیا تھا۔خرم اُس کے ڈمپلز سے نظریں چُراتا بولا

کہے۔حرم کجھ فاصلے پہ بیٹھ کر بولی۔

ڈیڈ سے میں نے کہہ دیا۔خرم بغور اُس کا چہرہ دیکھ کر بولا

کیا کہہ دیا آپ نے۔حرم نے خرم کو خاموش دیکھا تو استفسار کیا۔

یہی کے میں حرم کو چاہتا ہوں اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔خرم کی بات پہ حرم کے رخسار تپ اُٹھے تھے اُس کو خرم سے ڈھیروں شرم محسوس ہونے لگی۔

آپ سچ میں پیار کرتے ہیں یا بس ہمدردی کی وجہ سے۔کجھ دیر بعد حرم نے کسی خدشے کے تحت پوچھا۔

محبت کرتا ہوں تم سے بے انتہا ہمدردی کیوں کروں گا تم سے۔خرم کو حرم کی بات پہ تعجب ہوا۔

نہیں بس من میں سوال آیا تو پوچھا۔حرم نے سرجھکاکر کہا

اچھا فضول سوچنا بند کرو یہ بتاؤ مجھے کتنا چاہتی ہو تم۔خرم نے شرارت سے اُس کو دیکھ کر پوچھا

یہ کیسا سوال ہے۔حرم سٹپٹا کر بولی

آسان سوال ہے۔خرم نے مزے سے کہا

مجھے نہیں پتا۔حرم نے کہا

اچھا تو جو پتا ہے وہ بتادو۔خرم نے مشورہ دیا

خرم پلیز تنگ مت کریں۔حرم نے التجا کی۔

ہاہاہاہا۔خرم کی حرم نہیں کہتا کجھ پر شادی کے بعد بتانا پڑے گا۔خرم ہنس کے بولا تو حرم طمانیت سے مسکرادی آج بہت سالوں بعد اُس کو خرم کی حرم سننے کو ملا تھا ایک سرشاری سی کیفیت اُس کو اپنے اندر محسوس ہوئی

💕💕💕💕💕💕

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Khuram ki Haram Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Mera Junoon HaiKhuram Ki haram written by  Rimsha Hussain . Khuram Ki Haram by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment