Dil Muntazir Mera By Rimsha Hussain Complete Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 9 June 2024

Dil Muntazir Mera By Rimsha Hussain Complete Novel Story

Dil Muntazir Mera  By Rimsha Hussain Complete Novel Story 

Madiha Shah Writer: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Based Romantic  Novel Enjoy Reading.....

Dil Muntazir Mera By Rimsha Hussain Complete Novel Story

Novel Name: Dil muntazir Mera

Writer Name: Rimsha Hussain

Category: Complete Novel 


اسلام علیکم دوستوں میں آپ کو بتاتی چلوں یہ صبح صبح کا منظر سہانا ہم منہا مرزا کے ساتھ گُزارے گے جن کا دن جہاڑو کرنے سے شروع ہوتا ہے اور رات کو برتن دھونے پہ ختم ہوجاتا ہے۔کشف اپنا سیل فون سیلفی اسٹک پہ لگائے فر فر کسی نیوز ریپوٹر کی طرح بول رہی تھی۔

بکواس نہیں کرو۔منہا جو اپنا روم صاف کررہی تھی کشف کی بات پہ اس کی پیٹھ پہ تھپڑ رسید کیا۔

افففف اللہ ظالموں فلحال میرے ساتھ حادثہ پیش آیا جس کے لیے ابھی ہم لیتے ہیں ایک دن کا بریک پھر جلدی ملیں گے اِس لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیے گا۔کشف اپنی ہانکتی ویڈیو بند کرگئ

کالج نہیں جانا جو میرے کمرے کا حشر بگاڑنے آئی ہو؟منہا نے کشف سے کہا جو رشتے میں اُس کی چچا زاد کزن تھی پر آپس میں محبت بھی محبت تھی منہا کشف سے دو سال بڑی تھی پر وہ آپس میں بے تکلف ہوکر ساری بات کردیا کرتے تھے ابھی کشف اس کے کمرے میں لیز چپس کا پیکٹ کھولتے دیکھا تو گہری سانس لی جانتی جو تھی اُس نے پھر ایسے ہی کمرے میں پھینک دینا ہے جس سے اُس کو دوبارہ سے صفائی کرنے پڑے گی۔

ویکینڈ پہ میں ہم کالج نہیں جاتے ڈیئر۔کشف نے شرارت سے آنکھ ونک کرتے کہا۔

منہا ماہر بھائی آئے ہیں امی کا حکم ہے ان کے لیے زبردست سی چائے بنا کر آؤ۔حیا منہا سے ایک سال چھوٹی بہن کمرے میں آتی منہا سے بولی جس کے چہرے کا رنگ ماہر نام پہ سنجیدہ ہوگیا تھا جب کی کشف کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ آگئ تھی۔

چائے تو بہانا ہے اصل میں تو بس وہ دیدارِ یار کرنے آئے ہیں۔کشف چپس کا ٹکڑا چباتی بولی حیا نے مسکراہٹ دبائی۔

فضول مت بولوں۔منہا نے آنکھیں دیکھاکر کہا۔

اِن نظروں سے ہی اُن کو گھائل کیا ہوگا یقیناً۔کشف کہاں باز آنے والی تھی۔

مرو تم۔منہا نے تکیہ اُٹھاکر اس کی طرف اُچھالا جو کشف نے بڑی مہارت سے کیچ کیا۔

چائے بنانا کونسا مشکل کام ہے تم بنادیتی یا گھر میں کسی ملازمہ سے کہہ دیتی۔منہا نے اپنی توپوں کا رخ حیا کی طرف کیا۔

پتا تو ہے ان کو چائے مطلب منہا اور کسی کی نہیں پسند۔حیا نے معصوم شکل بنائے کہا تو منہا پاؤں پٹختی کمرے سے جانے لگی۔

ایک کڑک الائچی والی چائے کشف مرزا کے لیے بھی۔کشف نے جلے پہ تیل کا کام کیا منہا بنا کوئی جواب دیئے دروازہ زور بند کرگئ ان دونوں کا قہقہ بے ساختہ تھا۔

رحم کرتی دروازہ اپنے کمرے کا ہی تھا۔کشف ہنسی سے لوٹ پھوٹ ہوتی بولی مگر سننے والی جاچُکی تھی۔

منہا کچن میں آتی چائے بنانے کے بعد زور سے کٹیلی ٹرے میں رکھی دو کپس رکھنے کے بعد اپنے قدم باہر ڈرائینگ روم کی طرف بڑھائے۔

اسلام علیکم!!!منہا نے ٹرے ٹیبل پہ رکھ بنا دیکھے سلام کیا جس پہ لائٹ پنک کلر کی شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز پینٹ پہنے شخص نے نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا تھا جو پرپل کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں ڈوپٹہ اچھے سے سر پہ سجائے سادگی میں بھی اس کو بہت خوبصورت لگی۔

وعلیکم اسلام!!!!ماہر نے مسکراکر سلام کا جواب دیا منہا ٹرے رکھ کر جانے لگی مگر اپنی ماں کی آواز پہ اُس کے قدم تھمے۔

منہا اتنی جلدی ہے کیا ماہر کو چائے تو سرو کرو۔رخشندہ بیگم نے کہا تو منہا نے ماہر کی جانب دیکھا جو ابھی بھی مسکراتا اس کی طرف دیکھ رہا تھا منہا کو اُلجھن ہونے لگی مگر ماں کی بات پہ ماننی تھی ورنہ پورا ایک ہفتہ ایک بات پہ لیکچر ملنا تھا۔

چائے۔منہا نے دانت پیس کر کہا کیونکہ کافی دیر سے وہ چائے ہاتھ میں لیکر کھڑی تھی پر ماہر صاحب کو منہا کا چہرہ دیکھنے سے فرصت ہو تو وہ بیچاری چائے کو بھی ایک نظر دیکھے۔

او سوری۔ماہر خجل سا ہوتا چائے کا کپ اُس کے ہاتھ سے لیں لیا۔

آپ کو دوں۔منہا نے رخشندہ بیگم سے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں سرہلایا۔

نظر سے جب نظر ملی

ارے یاروں

 نظر سے جب نظر ملی

ہاتھ میں تب چائے ملی

منہا جیسے کمرے میں داخل ہوئی اُس کو دیکھ کر کشف پٹری سے اُتر کر حیا کو دیکھ کر شعرانہ انداز میں کہا۔

واہ

واہ

حیا نے تالیاں بجاکر داد دی کشف گردن اکڑاکر اُس کی داد وصول کی۔

تم دونوں نکلی نہیں ابھی تک میرے کمرے سے منہا کا پارہ ہائے ہوا کشف کا ایجاد کیا ہوا شعر سن کر۔

نہیں سوچا آپ سے دیدار یار کی تفصیل پوچھ لیں۔حیا نے زچ کرنے والے انداز میں کہا۔

اب اگر ایک اور بیہودہ گفتگو کی تو سر پھاڑ دوں گی میں۔منہا نے غصے سے کہا۔

ماہر ٹو بی جیجا جی چلیں گئے کیا دروازے تک چھوڑ آئی تو کجھ اپنے اُداسی محسوس تو ہوئی ہوگی۔وہ کشف ہی کیا جو باز آجائے۔

میں ہی چلی جاتی ہوں۔منہا دونوں کو گھور کر دیکھتی کمرے سے نکل گئ کشف نے مسکراکر حیا سے ہائے فائے کیا۔

💕💕💕💕💕💕

ثاقب مرزا نے دو شادیاں کی ہوئی تھی جن میں پہلی بیوی سے ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی بیٹا سعید مرزا تو بیٹی عانیہ مرزا کے جب کی دوسری بیوی سے ان کو دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی تھی بڑے بیٹے کا نام نور احمد تھا دوسرے بیٹا کا نام واحب احمد تھا جب کی بیٹی کا نام فاریہ مرزا تھا۔

سعید مرزا جو سب سے بڑے بیٹے تھا انہوں نے اپنی کلاس فیلو ہما سے شادی کی تھی جو ایک سُلجھی ہوئی خاتون تھی سعید احمد کے دو بیٹے تھے بڑا بیٹا نعیم دوسرے بیٹے کا نام حمزہ تھا نعیم پڑھائی کے سلسلے میں کینیڈا میں مقیم تھا اس کے برعکس حمزہ نے اپنی پڑھائی پاکستان میں ہی کی تھی۔

سعید کے بعد عانیہ مرزا کی باری آئی تھی جن کی شادی انہوں نے اپنے دوست کے بیٹے عمران مٙلک سے کی تھی جو بہت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے عانیہ مرزا کی تین اولادیں تھی پہلی دو بیٹیاں پھر ایک بیٹا بڑی بیٹی کا نام حنا تھا دوسری بیٹی کا نام ثنا تھا بیٹے کا نام ماہر رکھا جو حال میں ہی اپنی پڑھائی پوری کرتا پاکستان آیا تھا اور اُس نے اپنی فلمی انڈسٹری کھولی تھی وہ خود کبھی ٹی وی پہ نہیں آیا تھا وہ بس ڈائریکٹر وغیرہ یا  فوٹوگرافی کرتا تھا۔

نور احمد کی شادی ثاقب مرزا نے رشتیدار کی بیٹی رخشندہ سے کروائی تھی جن میں ان کی دو بیٹیاں تھی ایک منہا دوسری حیا دونوں کا رشتہ ثاقب مرزا کی مرضی سے سعید احمد کے بیٹوں کے ساتھ طے پایا تھا اُن کے خاندان میں منگنی کو نکاح کی طرح بہت اہمیت دی جاتی ہے ایک دفع جس کا نام جس کے ساتھ جُڑ جائے لازم ہوجاتا ہے شادی بھی ہو پھر چاہے کسی ایک افراد کی رضا ہو یا نہ ہو منہا کا نعیم کے ساتھ حیا کا حمزہ کے ساتھ وہ خود تو اِس دُنیا سے چلے گئے مگر ان کے فیصلہ برقرار تھا جس کے خلاف نعیم تھا جس وجہ سے وہ پاکستان نہیں تھا آتا لفظی طور پہ اُس نے صاف انکار کردیا تھا جس کو ابھی تک کوئی خاطر میں نہیں لایا تھا۔

واحب احمد کی شادی اپنی خالہ زاد سومل سے ہوئی تھی جن سے ان کی دو اولادیں تھی بیٹا ساگر کی پیدائش کے پانچ سال بعد کشف کی پیدائش ہوئی تھی جو گھر بھر کی لاڈلی تھی وجہ اُس کا شوخ اور چنچل ہونا تھا سارا دن ہنستی اور ہنساتی۔

فاریہ مرزا شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے ملک سیٹل تھی کبھی کبھار ہی بس آیا کرتی تھی ان کا ایک بیٹا تھا ولید۔

💕💕💕💕💕

ایک بڑی سی کار کالج گیٹ کے پاس رُکی آتے جاتے اسٹوڈنٹس خوبصورت کار دیکھ کر رُک گئے تھے جانتے تھے آنے والی ہستی کون تھی۔

کار کے رُکتے ہی کشف جو موبائل میں مصروف تھی اپنا بیگ کندھے پہ ڈالتی کار سے باہر نکلی کالج میں انٹر ہوتی ہی اُس کی فرینڈس اس کے استقبال میں کھڑی تھی جن سے ملنے کے بعد اُس کی نظریں یہاں وہاں بھٹکتی کسی کو تلاش کررہی تھیں اپنی فرینڈس کو بعد میں آنے کا کہتی وہ کالج کے سنسنان گوشے کی طرف بڑھی جہاں بس اکا دکا اسٹوڈنٹس ہی بیٹھتے تھے تاکہ پڑھائی میں ڈسٹربنس نہ ہو کشف وہاں آئی تو جس کی اُس کو تلاش تھی اُس کو بینچ پہ اکیلا بیٹھا پایا کشف کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ آئی وہ اپنا بیگ مضبوطی سے پکڑتی اس کے پاس بینچ پہ بیٹھ گئ۔

آداب۔کشف نے بیٹھتے ہی کہا موحد جو اپنے اسائمنٹ پہ ایک نظر ڈال رہا تھا جانی پہچانی آواز قریب محسوس کرتے نظرانداز کرتا بیٹھ گیا کشف کو بُرا تو بہت لگا مگر ڈھیٹ بنی مسکراتی رہی اُس کو موحد کے اِس طرح رویے کی عادت تھی وہ الگ بات تھی تکلیف پھر بھی نئے سرے سے ہوتی تھی اُس کو کالج جوائن کیے ابھی سات ماہ ہوئے تھے کشف کو اپنا کلاس فیلو سب سے الگ تھلگ رہنے والا سویٹ نیچر کا موحد بہت پسند تھا اُس کو کب موحد سے محبت ہوئی پتا ہی نہیں چلا اپنی محبت کا اظہار وہ بلاجھجھک اس سے کر بھی لیا کرتی موحد کا ہر بار انکار ہوتا وہ ہمیشہ سے روڈ بیہیو رکھتا کبھی اس کی پزیرائی نہیں کی کشف کو خود میں ایسی بات نہ دیکھتی جس سے موحد اُس کو انکار کرتا خوبصورتی اور ذہانت میں اس کے مقابل کوئی نہیں تھا اپنی کلاس میں سب زیادہ امیر لڑکی وہی تھی ہر کوئی اُس کے آگے پیچھے ہوتا مگر وہ جس کی نظر چاہتی وہ کبھی بھی اس کو نہ دیکھتا ایسا ہوتا ہے نہ جب ہر انسان کو توجہ دو مگر کوئی ایک نہ دے تو آپ کو اُس انسان سے سب سے زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے کشف کے ساتھ بھی کجھ ایسا تھا۔

اسلام علیکم!!!!کشف نے موؤدب انداز میں سلام کیا اس کو یقین تھا اب تو جواب ضرور ملے گا اور وہی ہوا۔

وعلیکم اسلام!!!موحد سنجیدگی سے جواب دیتا کھڑا ہوا تو کشف بھی کھڑی ہوئی۔

کیسی لگ رہی ہوں میں ؟کشف نے اس کا دھیان اپنی طرف کروانا چاہا جو لائٹ براوٴن گھٹنوں تک آتی شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے کھلے بالوں کے ساتھ بہت خوبصورت اور معصوم لگ رہی تھی۔

گھر میں آئینہ دیکھ کر نہیں آئی کیا۔موحد تیز قدم اُٹھاتا بولا۔

وہ تو کہتا ہے کشف مرزا تم بہت خوبصورت ہو اتنی کے دیکھ کر لبوں سے شعر ادا ہوجائے۔کشف نے موحد کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر مزے سے بتایا اس کی بات سن کر موحد نے ناچاہتے ہوئے بھی چہرہ اُس کی طرف موڑا جو واقع میں بہت خوبصورت تھی۔

تم بھی اس لیے نہیں دیکھتے نہ کیونکہ پھر نظر ہٹانا مشکل لگتا ہے تمہیں۔کشف خوشفہمی کی انتہا پہ پہنچی موحد اُس کی بات سنتا نفی میں سرہلانے لگا۔

تم بھی بہت ہینڈسم لگ رہے ہو۔کشف نے سچے دل سے کہا جو گرے شرٹ اور پینٹ میں سنجیدہ تاثرات لیے بہت پیارا لگ رہا تھا موحد کا تعلق میڈل کلاس فیملی سے تھا وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا باپ دو سال پہلے ہی دنیا سے چلاگیا تھا جس سے ساری ذمیداریاں اب موحد پہ تھی موحد کی ماں نائلا سلائی کا کام کرتی بڑی بہن  صائمہ ٹیچنگ کرنے کے ساتھ شام میں بچوں کو ٹیوشن دیتی دوسری بہن حمائمہ ٹیوشن پڑھانے میں اُس کا ساتھ دیتی جب کی تیسری بہن پندرہ سال کی تھی جو اسکول میں پڑھتی تھی موحد پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم جاب کرتا تھا ورکشاپ پر تین بچے سے سات بجے تک وہ وہاں کام کرتا پھر آٹھ بچے ریسٹورنٹ میں تین گھنٹے ویٹر کا کام کرتا بارہ بجے جب گھر آتا تو بس دو گھنٹے آرام کرتا اُس کے بعد باقی کا وقت اپنی پڑھائی پہ دیتا ایسے میں اُس کی زندگی میں فلحال پیار محبت کرنے کا وقت نہیں تھا اُس کے سر پہ بہنوں اور ماں کی ذمیداریاں تھی جن کا پورا کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا اِس لیے جتنا ہوسکتا تھا وہ ان کے لیے کرتا تھا اپنے لیے جینا اس نے باپ کی وفات کے بعد چھوڑدیا اب اس کی زندگی میں ماں بہنوں کا علاوہ کسی اور کہ گنجائش نہیں تھی کشف کی تو بلکل نہیں اُس کی نظر میں کشف کی مثال اس بچے جیسی تھی جو منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوتے ہیں کشف آسمان کی حور تھی تو موحد خود کو زمین کا ایک معمولی انسان سمجھتا تھا۔

مجھے بلاوجہ اپنی تعریف پسند نہیں۔موحد اپنی کہہ کر کلاس میں اینٹر ہوگیا۔

سڑو۔کشف بڑبڑاتی اُس کے پیچھے کلاس میں داخل ہوئی موحد اپنی سیٹ سنبھال چُکا تھا اس کو اکیلا بیٹھا دیکھ کر کشف ساتھ میں بیٹھ گئ موحد سیٹ چینج کرنے والا تھا پر کلاس ٹیچر کو دیکھ کر واپس بیٹھ گیا۔

کوششیں رائیگان ہیں ہم سے دور جانے کی

جہاں بھاگ کر جاؤ گے ہم سب سے پہلے پاؤ گے۔

کشف موحد کے پاس جھک کر شاعرانہ انداز میں بولی موحد نے زور سے اپنے لب بھینچ لیے پھر سرجھٹکتا نوٹ بُک نکال لیا اُس کے برعکس کشف فرصت سے بازوں سیٹ پہ ٹکائے اپنا چہرہ اُس پہ رکھ کر موحد کو دیکھ رہی تھی۔

کشف پلیز سامنے دیکھو۔موحد کب سے خود پہ اُس کی نظریں جمی دیکھی تو زچ ہوتا دیکھا اگر میم افسانہ کو پتا لگ جاتا تو کشف کے ساتھ ساتھ اس کو بھی کلاس سے باہر نکال دیتی تھی جس کی پرواہ کشف کو تو نہیں پر موحد کو تھی۔

تمہیں پتا ہے مجھے اپنا نام تب بہت پیارا لگتا ہے جب تمہارے منہ سے سنتی ہوں۔کشف موحد کی بات نظرانداز کرتی بولی۔

لیکچر پہ فوکس کرو۔موحد نے آنکھیں دیکھاتے کہا۔

تمہاری آنکھیں بہت پیاری ہیں۔کشف غور سے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔

اینی پروبلم۔میم افسانہ کی تیز آواز پہ کشف فورن سیدھی ہوکر کھڑی ہوئی۔

نو میم نو پروبلم۔کشف نے فورن سے کہا موحد کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی کشف کے چہرے کی اُڑی رنگت دیکھ کر جس کو چھپانے کے لیے اس نے اپنا سر کتاب کی طرف جھکادیا۔

تو میں یہاں پڑھا رہی ہوں آپ وہاں کیا دیکھ رہی ہیں۔میم افسانہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔

ایسے ہی ایک جگہ دیکھ کر ایسا لگا جیسے گردن اکڑگئ ہو اور ہلنے جُلنے سے قائل ہوگئ تو بس وہی چیک کررہی تھی۔کشف نے معصوم شکل بناکر کہا کلاس میں دبی دبی ہنسی کی آواز آئی۔

میں نے جوآج پڑھایا ہے کل سب سے پہلے آپ سے پوچھو گی۔میم افسانہ ایک تیز نظر پورے کلاس میں ڈال کر کشف سے بولی۔

شیور میم۔کشف تابیداری سے کہتی دوبارہ بیٹھ گئ۔

تمہیں بڑی ہنسی آرہی تھی۔کشف ناراض لہجے میں بولی جس پہ موحد نے کوئی جواب نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕💕

حمزہ تمہیں پتا ہے ہم فرینڈز مری ٹرپ پہ جارہے ہیں۔حیا نے اشتیاق بھرے لہجے میں پاس بیٹھے حمزہ کو بتایا حیا یونی میں اپنی پہلی کلاسس اسکیپ کرتی حمزہ کے ساتھ کافی پینے آئی تھی۔

تم نہیں جارہی۔حمزہ نے آرام سے کہا۔

حمزہ مجھے تمہاری بلاوجہ روک ٹوک نہیں پسند میری اپنی بھی کوئی زندگی ہے تم ہربار میرے بنائے ہر پلان میں ایسا کرتے ہو کبھی یہاں نہ جانا وہاں جانا یہ نہ کرنا وہ نہ کرنا سبجیکٹ یہ پڑھنا ہے ڈریسنگ ایسی کرنی ہے بال ایسے بنانے ہے ہر کام میں تمہاری مرضی کے مطابق تو نہیں کرسکتی نہ۔حیا کا موڈ بُری طرح خراب ہوا اِس لیے جو منہ میں نان اسٹاپ بولتی حمزہ کو دیکھنے لگی جو ہاتھ کی مٹھی ٹھوڑی پہ جمائے فرصت سے اُس کو دیکھ رہا تھا۔

تقریر اچھی تھی پر میرا جواب وہی تم نہیں جاؤں گی۔حمزہ سپاٹ انداز میں کہتا کافی پینے لگا۔

وجہ۔حیا نے گہری سانس لیکر پوچھا۔

شادی کے بعد جہاں تم کہوں گی میں لیکر چلوں گا پر تمہیں تمہاری لاپرواہ دوستو کے ساتھ میں ہرگز جانے کی اجازت نہیں دوگا۔حمزہ نے آرام سے جواب دیا۔

ڈیڈ نے پرمیشن دے دی ہے۔حیا نے دانت کچکچائے۔

میں تمہارا منگیتر ہوں حیا میری بات تمہارے نزدیک اہم ہونی چاہیے۔حمزہ تنگ آکر بولا۔

مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔حیا اپنا بیگ اُٹھاتی کھڑی ہوتی بولی۔

حیا یار کیا بچپنا ہے اتنے دنوں بعد ملے ہیں اور تم فضول کی بحث میں دن خراب کررہی ہوں۔حمزہ حیا کا ہاتھ تھام کر واپس بیٹھاکر بولا جس کا منہ غبارے کی طرح پھول گیا تھا۔

تو میری کیا غلطی خود تو بزنس میٹینگز کے بہانے شہر شہر گھومتے ہو اور مجھے پہ پابندیاں لگاتے ہو۔حیا جھلاکر بولی۔

میں شہر شہر کام کے سلسلے میں جاتا ہوں ناکہ شہر شہر گھومنے۔حمزہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا بولا۔

بات مت کرو مجھ سے۔حیا نے گھور کر کہا۔

اوکے میری جان پر اپنا چہرہ تو ٹھیک کرو۔حمزہ نے پیار سے کہا 

جان بھی کہتے ہو اور بلاوجہ شک بھی کرتے ہو۔حیا نے افسوس سے کہا۔

بات شک کی نہیں ہے حیا مجھے تم پہ خود سے زیادہ اعتبار ہے تم بہت معصوم ہو میں نہیں چاہتا تیز لوگوں سے ملو جلو مجھے تمہاری معصومیت بہت پسند ہے تم میری بچپن کی محبت ہو بس میں بے بس ہوں تمہارے معاملے میں۔حمزہ اس کے گال پہ ہاتھ رکھتا نرمی سے بولا۔

تو میں مری جاؤں۔حیا اس کا ہاتھ تھامتی بولی

نہیں۔حمزہ نے گھور کر کہا۔

حم

ششش۔

حیا  کجھ کہنا چاہتی تھی پر حمزہ نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش کروایا۔

💕💕💕💕💕💕💕

امی آپ کو پتا تو تھا میرا ٹیسٹ ہے پھر آپ کیسے ساگر بھائی کو جانے دیا مجھے اُن کے ساتھ یونی جانا تھا۔منہا کا آج بارہ بجے کے وقت یونی میں ضروری ٹیسٹ تھا اِس لیے وہ اس کی تیاری کرنے کے لیے باقی کی کلاسس مس کردی تھی پر جب وہ تیار ہوتی باہر آئی تو گھر میں کسی مرد کو ناپاکر وہ پریشان ہوکر بولی حیا اور کشف تو ڈرائیور کے ساتھ جہاں جانا ہو چلی جاتی تھی پر منہا نہیں جاتی تھی گھر میں کوئی ساتھ ہو تبھی وہ باہر جاتی تھی

ساگر کو کام سے جانا تھا میں کیسے روکتی۔رخشندہ بیگم نے کہا

پر اب میں کیا کرو ٹیسٹ شروع ہونے میں بس چالیس منٹ بچے ہیں۔منہا ہاتھ میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھتی پریشان لہجے میں بولی۔

صبح ہی حیا کے ساتھ چلی جاتی لائبریری میں تیاری کرتی تو اب پریشان نہیں ہونا پڑتا۔رخشندہ بیگم نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا

مجھے کونسا الہام ہوا تھا ایسا کجھ ہوگا۔منہا تھک ہار کے صوفے پہ بیٹھ گئ۔

آج چلی جاؤ ڈرائیور کے ساتھ کونسا بڑی بات ہے۔سومل بیگم جو کب سے ان کی باتیں سن رہی تھی مشورہ دیتی بولی۔

نہیں چچی جان۔منہا نے انکار کیا۔

اسلام علیکم!!!پانچ منٹ بعد منہا جو انگلی دانتو تلے دبانے میں مصروف تھی جانی پہچانی آواز سن کر نظر اُٹھا کر دیکھا جہاں ماہر فارمل حلیے میں چہرے پہ دلکش مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔

وعلیکم اسلام!!!بیٹا وقت پہ آئے ہو۔رخشندہ بیگم کو ماہر آج کسی فرشتے سے کم نہ لگا

خیریت؟ماہر منہا کو دیکھ کر بولا

منہا نے دماغ خراب کر رکھا تمہارے پاس اگر وقت ہو تو اِس کو یونی ڈراپ کردو ضروری ٹیسٹ ہے یونی کا۔رخشندہ بیگم کی بات پہ ماہر کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی تھی منہا جزبز ہوکر رہ گئ تھی وہ سب کی موجودگی میں اُس کا سامنا مشکل سے کرتی تھی کجاکہ اکیلے میں سفر کرنا منہا کو جھری جھری سی آئی۔

ساگر بھائی آنے والے ہوگے میں ان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔منہا نے انکار کیا۔

میں باہر آپ کا ویٹ کررہا ہوں۔ماہر سنجیدگی سے کہتا باہر نکل گیا۔

منہا ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا ماہر کو بُرا لگا ہوگا۔سومل بیگم نے نرمی سے کہا منہا شرمندہ سی نظریں جھکاگئ۔

اب دیر نہیں ہورہی جاؤ ماہر انتظار کررہا ہے۔رخشندہ بیگم کی بات سن کر منہا اپنی چادر ٹھیک کرتی باہر کی طرف آئی۔اس کے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہی ماہر نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

سوری اگر آپ کو برا لگا ہو تو۔منہا نے خاموش کو توڑ کر کہا

کوئی بات نہیں مجھے آپ کی کسی بات کا بُرا نہیں لگتا دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ماہر کی بات پہ منہا لب بھینچتی گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ماہر نے گردن موڑ کر منہا کو دیکھ کر میوزک سسٹم آن کیا۔

Tera fittor jab say chadh gaya ray 

Tera fittor jab say chadh gaya ray 

Ishq Jo zara zara sa tha wo badh gaya ray

Tera fittor jab say chadh gaya ray 

Tou Jo meray sang chal nay laghe

Toh meri raah hain dhadhk nay laghe

Dekho Jo na ek pal tumhay

Meri banhay tarap nay laghe 

Ishq Jo zara zara sa tha wo badh gaya ray

Tera fittor jab say chadh gaya ray

Tera fittor jab say chadh gaya ray 

منہا نے اپنی چادر کا کونہ مضبوطی سے جکڑ لیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا آگے بھر کر یہ گانا بند کردے پر ہائے وہ بس چاہ سکی آج سے پہلے کبھی بھی اُس کو اپنا پسندیدہ گانا اتنا بُرا نہیں لگا جتنا آج لگ رہا تھا کیونکہ ماہر کے ساتھ بیٹھ کر اس کو بہت عجیب لگ رہا تھا اس کو لگ رہا تھا ماہر نے جان بوجھ کر اس کو تنگ کرنے کی خاطر چلایا ہے۔

Hathon say lakeerain yahee kahti hai

K zindagi Jo hai meri tujhi mai hai

Ab rahti hai

Labo p likhi hai meri khowahish 

Lafzo mai kese mai batao

Ik tujh ko he panay ki khatir

Sab say juda mai hojao

Kal tak mainay Jo bhi khowab thai dekhay tujh mai hain dekh nay laghe

Ishq Jo zara zara sa tha wo badh gaya ray

Tera fittor jab say chadh gaya ray

Tera fittor jab say chadh gaya ray 

ماہر نے ایک مُسکراتی نظر منہا پہ ڈالی جس کو دیکھ کر لگ رہا تھا چلتی ہوئی گاڑی سے کود نے کا اِرادہ رکھتی ہو ماہر جانتا تھا یہ سونگ منہا کا فیورٹ ہے اُس کو لگا منہا رلیکس محسوس کرے گی پر منہا کو دیکھ کر اس کو ایسا کجھ نظر نہیں آیا

Sanso k kinaray baray tanha thai

Tou aakar in ko chu le

Yahee to meray arma thai 

Sari duniya say mojhay kia lena

Hai bas tujh ko he pahchan 

پلیز اِسے بند کریں۔منہا کو مزید گانا سننا محال لگا تو کہا

اچھا تو ہے۔ماہر سونگ کا وُلیم کم کرتا بولا۔

مجھے نہیں اچھا لگ رہا۔منہا نے بنا دیکھے کہا۔

میرے ساتھ ہو اِس لیے؟ماہر نے اپنا چہرہ اُس کی طرف کرکے پوچھا

اپنا چہرہ سامنے کرکے گاڑی چلائے مجھے یونیورسٹی جانا ہے جنت میں نہیں۔ماہر کی بات نظرانداز کر کے منہا نے کہا

اتنا یقین کے سیدھا جنت میں جائے گی۔ماہر عش عش کرکے بولا۔

بلکل۔منہا نے پُراعتماد ہوکر کہا۔

آپ کی یونیورسٹی آگئ جنت میں ساتھ جائے گے ابھی آپ انتظار کریں۔ماہر گاڑی سائیڈ پہ روکتا ہوا بولا۔

میں یہاں تک آپ کے ساتھ آئی ہوں بس۔منہا سیٹ کھول کر جانے کیا اُس کو باور کروانا چاہا

پر مجھے تو دُنیا اور جنت کا سفر آپ کے ساتھ کرنا ہے۔ماہر گہری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا۔

ضروری نہیں جو انسان کرنا چاہے ہر بار وہ ہو۔منہا سنجیدگی سے جواب دیتی گاڑی سے اُترگئ منہا کے جانے کے بعد ماہر نے تھکی سانس خارج کی۔

💕💕💕💕💕💕💕

موحد گھر آیا تو گھر میں خاموشی کا راج تھا اُس نے اپنا بیگ صوفے پہ رکھا پھر اپنی ماں کے کمرے میں گیا جن کے پاس پہلے ہی اُس کی بڑی بہن صائمہ بیٹھی ہوئی تھی۔

اسلام علیکم اماں!!!!موحد بیڈ پہ ان کے پاس آکر عقیدت سے بولا

وعلیکم اسلام!!! فریش ہوجاو تو میں کھانا دیتی ہوں۔ نائلا بیگم نے مسکراکر کہا۔

عروسہ کہاں ہیں اور گھر میں اتنا سناٹا کیوں ہیں؟موحد نے سوال کیا۔

کمرے میں منہ پُھولا کر بیٹھی ہے۔صائمہ نے اکتاہٹ سے اپنی چھوٹی بہن کے بارے میں بتایا۔

کیوں کیا بات ہے۔موحد اٹھتا بولا۔

کجھ نہیں موحد پریشان مت ہو ٹھیک ہوجائے گی تھوڑی دیر تک۔نائلا بیگم نے آرام سے کہا۔

پر پتا تو چلے۔موحد بضد ہوا۔

دال روٹی بنائی تھی مہینے کے آخری دن ہے بس دال کو دیکھ کر عجیب وغریب شکلیں بناتی کمرے میں چلی گئ کھانا بھی نہیں کھایا۔نائلا بیگم نے بتایا۔

اچھا میں دیکھتا ہوں جاکر۔موحد کجھ سوچ کر بولا۔

رہنے دو موحد تمہیں دیکھ کر فرمائشوں کی دُکان کھول دے گی سارا دن توں تم کام کرتے رہتے ہو بس ہمارا ہی خیال رکھتے ہو عروسہ اب بچی نہیں جو ایسے نخرے کرتی ہے اُس کو سمجھ جانا چاہیے گھر کے حالات کے بارے میں۔صائمہ نے سنجیدہ انداز میں کہا

آپی بچی ہے وہ اگر میں اُس کا خیال نہیں کروں گا تو کون کریں گا دوسرا یہ کے وہ ہم سے ہی فرمائش کرتی ہے تو کوئی بُری بات تو نہیں۔موحد رسانیت سے بولا۔

وہ بچی بس پانچ سال تم سے چھوٹی ہے بات فرمائش کرنے کی نہیں عروسہ فضول خرچی کرتی ہے جو ٹھیک نہیں۔صائمہ نے ایک بار پھر کہا۔

آپ بس کھانا دیں میں اور عروسہ ساتھ کھائیں گے۔موحد نے کہا صائمہ سرہلاتی باہر نکلی تو موحد عروسہ کے پاس گیا۔

میرا بچہ کیوں خاموش ہے۔موحد نے پیار سے خاموش بیٹھی عروسہ سے پوچھا۔

کیوں کی میری اس گھر میں کسی کی پرواہ نہیں۔عروسہ نے ناک چڑھا کر کہا

جھوٹ کم بولا کرو۔حمائمہ جو پاس بیٹھ کر بچوں کی کاپیاں چیک کررہی تھی عروسہ کی بات پہ فورن سے بولی۔

اب میں جھوٹی بھی ہوگئ۔عروسہ تپ کے بولی۔

اِدھر آؤ کھانا کیوں نہیں کھایا۔موحد اس کو اپنے پاس بیٹھا کر پوچھنے لگا

مجھے نہیں پسند مسور کی دال۔عروسہ نے بتایا۔

کھانے کے بارے میں ایسا نہیں کہتے گھر میں جو پکا ہو بسم اللہ کہہ کر کھایا کرتے ہیں کھانے پہ انکار مطلب کھانے کی ناشکری کرنا وقت پہ جو ملے بنا کجھ کہے کھایا کرتے ہیں کجھ لوگوں کے پاس تو یہ بھی نہیں ہوتا باسی روٹی بچی ہوئی روٹی کھایا کرتے ہیں پر ان کے لبوں میں اللہ کے لیے شکر ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں اللہ شکر کرنے والے کو پسند کرتا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کے ہم اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہو تو وہ جس حال میں رکھے ہمیں الحمد اللہ کہنا چاہیے۔موحد اس کے بال سہلاتے آرام س سمجھانے لگا۔

میں شکر کرتی ہوں بھائی پر دال۔عروسہ ہچکچا کر کہتی خاموش ہوگئ۔

دال ہمارے اللہ کے رسولﷺ شوق سے کھایا کرتے ہیں اور آپ کو نہیں پتا دال کھانے کے کتنے فائدے ہوتے ہیں۔موحد نے مسکراکر کہا تب تک صائمہ کھانا لیکر آچُکی تھی۔

اب سے میں کوشش کروں گی کھانے کے معاملے میں کجھ نہ کہوں بلکہ جو ہو صبر و شکر کے ساتھ کھاؤ۔عروسہ موحد کی بات سمجھ کر بولی۔

گڈ میرا بچہ اب آؤ کھانا کھاتے ہیں۔موحد نے مسکراکر کہا عروسہ سرہلاتی کھانے کی طرف متوجہ ہوئی۔

یہ بھی تو بتاتے جو انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اللہ پھر اُس کو اور نوازتا ہے۔صائمہ نے کہا تو موحد نے عروسہ کو اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو سن لوں۔

اج کل ہم دال یا سبزی کا سن کر ناک منہ چڑھا لیتے ہیں امیر لوگ تو دال کو پکانا توہین سمجھتے ہیں ان کے حساب سے دال چاول یا دال روٹی بس چھوٹے لوگ ہی کھاسکتے ہیں جب کی ایسا کجھ نہیں میں جو دال کے بارے میں جانا ہے آپ کو بتاتی چلوں

زیادہ تر جرمنی فرانس جنوبی افریقہ اور کئی مشرقی ممالک میں وسیع پیمانے پر کا شت کیا جا تا ہے۔ان مما لک میں اسے اہم غذائی حیثیت حاصل ہے یورپ میں مسور سوپ بنانے اور مو یشیوں کے لیے چارہ وغیرہ تیار کرنے میں استعمال ہو تا ہے امر یکہ میں غذائی ضرورت کے تحت ممالک سے درآمد کی جا تا ہے پاک و ہند میں خاکستری چھلکے والا مسور کاشت کی جا تا ہے قرآنِ حکیم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ بنی اسرائیل من و سلو ا کی نا قدرتی کر تے تھے دوسری اشیاء کے علاوہ مسور

کے بھی خواہش مند ہوئے تھے انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ہمارے لیے مسور پیاز پیدا کر ے لیکن مسور کی مختصراً تاریخ اسی طرح مسور کا ذکر مختلف حدیثِ مبارکہ میں بھی ملتا ہے۔جو ہم آپ کو آگے چل کر سنا تے ہیں اور ساتھ ہی اس کے انسانی جسم کے لیے کیا فوائد ہیں ان سے بھی انہیں آگاہ کر تے ہیں آگے بڑھنے سے قبل آپ سے گزارش ہے کہ ان باتوں کو بہت ہی زیادہ غور سے سنیے گا تا کہ ان باتوں سے آپ کو بہت ہی زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے آج کل گھروں میں اکثر فارمی مرغی پکائی جا تی ہے اور اگر ہوٹلوں کے باہر چھلی

ہوئی مرغیوں کی لمبی قطار دیکھی جا ئے تو اندازہ کر نا مشکل نہیں کہ یہ نسل کس کھانے کا زیادہ شوق رکھتی ہے بچے اور نوجوان سبزی کے نام پر ناک منہ چڑاتے نظر آ تے ہیں۔اور دوسری جانب بعض خواتین بھی کاہل اور تن آسان ہو گئی ہیں کہ ڈبے کے مصالحوں اور فارمی مرغی سے آدھے پونے گھنٹے میں مختلف ذائقوں کے سالن تیار ہو جا تے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ سالن پکا ئے جا ئیں اور ان کے اجزاء کے ساتھ تیار کرنے کی مجھے سخت حیرت ہو تی ہے کہ یہ کیسی بد نصیب نسل ہے جو دال جیسی لذیز اور مفید غذا سے محروم ہے دالوں کو اگر درست طریقے سے پکا یا جا ئے اور اس کے ضروری لوازمات پیش کیے جا ئیں تو دالیں بھی قورمے کڑ ھا ئیوں سے کم نہیں۔

 دوسری طرف ہمارے رسول ﷺ نے بتایا !!!!!

فرمانِ مصطفیٰ: مسور کی دال کھاؤ، کیونکہ یہ دل کو نرم اور آنسوؤں کو زیادہ کرتی ہے۔ (مسند الفردوس، رقم الحدیث:3876) مفتی صاحب! کیا یہ حدیث درست ہے؟

جواب: سوال میں مذکور حدیث حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے، اس حدیث کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے "اللآلی المصنوعہ" 2/ 180 میں امام ابن السنى رحمہ اللہ کى کتاب "الطب النبوى صلى اللہ علیہ وسلم" کے حوالے سے اور امام ابو نعیم الأصبہانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الطب النبوی صلى اللہ علیہ وسلم" میں اور امام دیلمی رحمہ اللہ نے اپنى کتاب مسند الفردوس (بحوالہ الغرائب الملتقطۃ) میں ذکر کیا ہے، ذیل میں اس حدیث کو مکمل سند، متن اور ترجمہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس حدیث کا حکم ذکر کیا جاتا ہے:

وقال ابن السني في الطب: أنبأنا علي بن محمد حدثنا حسون بن أحمد بن سليمان حدثنا موسى بن محمد المرادي حدثنا يحيى بن حوشب الأسدي عن صفوان بن عمرو عن مكحول عن أبي هريرة قال قال رسول الله: إن نبيا من الأنبياء اشتكى إلى الله قساوة قلوب قومه فأوحى الله إليه وهو في مصلاه أن مر قومك يأكلوا العدس فإنه يرق القلب ويدمع العينين ويذهب الكبر وهو طعام الأبرار.

اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (2/ 180، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت)

وقال: يحيى منكر الحديث.

وأخبرنا أحمد بن محمد بن إسحاق في كتابه، أَخْبَرنا علي بن محمد، حَدَّثَنا حسنون بن أحمد بن سليمان، حَدَّثَنا موسى بن محمد المرادي، حَدَّثَنا يحيى بن حوشب الأسدي، عَن صفوان بن عَمْرو، عَن مكحول، عَن أَبِي هُرَيرة، قال: قال رسول الله صَلَّى الله عَليْهِ وَسلَّم: إن نبيا من الأنبياء اشتكى إلى الله تعالى قساوة قلوب قومه فأوحى الله إليه وهو في مصلاه أن مر قومك أن يأكلوا العدس فإنه يرق القلب ويدمع العين ويذهب بالكبر وهو طعام الأبرار.

الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني (2/ 637، رقم الحدیث: (688)، الناشر: دار ابن حزم)

قال: أخبرنا محمد بن الحسين الثقفي إذناً، أخبرنا أبي، أخبرنا ابن السني، أخبرنا علي بن محمد، حدثنا حسنون بن أحمد بن سليمان، حدثنا موسى بن محمد المرادي، حدثنا يحيى بن حوشب الأسدي، عن صفوان بن عمرو، عن مكحول، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " شكا نبي من الأنبياء إلى الله عز وجل قساوة قلوب قومه، فأوحى الله إليه وهو في مصلاه أن مُرْ قومك أن يأكلوا العدس، فإنه يرق القلب، ويدمع العين، ويذهب بالكبرياء، وهو طعام الأبرار ".

الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس: (5/ 290، رقم الحديث: (1829) ط: جمعية دار البر)

ترجمہ:

حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ايک نبى علیہ السلام نے اللہ تعالى کے سامنے اپنى قوم کے دلوں کى سختى کا شکوہ کیا، تو جس وقت وہ نبى علیہ السلام اپنى جائے نماز پر تھے، تو اللہ تعالى نے ان کى طرف وحى نازل فرمائی کہ آپ اپنى قوم کو دال کھانے کى تلقین کریں، کیونکہ دال کھانے سے دل میں نرمى پیدا ہوتی ہے، یہ آنکھوں میں آنسو لاتى ہے، تکبر کو ختم کرتى ہے اور یہ نیک اور برگزیدہ بندوں کا کھانا ہے۔

حکم الحدیث:

اس حدیث کو علامہ سیوطى رحمہ اللہ نے "اللآلی المصنوعہ" 2/ 180 میں ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: اس حدیث کى سند میں ایک راوى "یحیى بن حوشب الأسدى" ہیں، وہ "منکر الحدیث" (محدثین کى اصطلاح میں ضعیف راوى) ہیں، اسى طرح ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ نے "تنزیہ الشریعۃ" 2/ 244 میں اس حدیث کو اور علامہ سیوطى رحمہ اللہ کے کلام کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: " یحیى بن حوشب" سے روایت کرنے والے"موسى بن محمد المرادى" ہیں، جن کو میں نہیں جانتا۔

نیز دال کى اس جیسى فضیلت سے متعلق (7) احادیث مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ سے بھى مروى ہیں، جن میں سے بعض سند کے اعتبار سے شدید ضعیف بھى قرار دى گئى ہیں۔

تاہم دال کى فضیلت سے متعلق اس طرح کا جو بھی مضمون احادیث میں بیان کیا گیا ہے، اس کے بارے میں چند جلیل القدر محدثین رحمہم اللہ کے اقوال درج ذیل ہیں:

1- علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے "الموضوعات": ٣/ ١١٢(١٣٢٥-١٣٢٦) میں حضرت على رضی اللہ عنہ اور عبد الرحمن بن دلہم رحمہ اللہ سے دال کى فضیلت سے متعلق حدیث ذکر کرنے کے بعد ان کو موضوع قرار دیا ہے۔

2- علامہ ابن القیم جوزی رحمہ اللہ نے "المنار المنیف" ص 128 میں فرمایا: دال، چاول، لوبیا وغیرہ سے متعلق جتنى بھى احادیث ہیں، وہ سراسر جھوٹ ہیں۔

3- علامہ عجلونى رحمہ اللہ نے "کشف الخفا" 1/ 319 میں فرمایا: ابن الغرس نے کہا ہے کہ مجدالدین نے "سفر السعادۃ" میں فرمایا: دال، لوبیا وغیرہ کے متعلق کوئى حدیث صحیح نہیں ہے، ان احادیث کو زندیق لوگوں نے ان ابواب میں اپنى طرف سے گھڑی ہیں اور ان احادیث کو اسلام کى بدنامى کے لیے محدثین کى کتابوں میں شامل کر دیا ہے، اللہ تعالى ان کو ناکام بنائے۔

4- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوى"27/ 23 میں فرمایا: وہ حدیث جس میں دال کھانے کو دل کى نرمى کا باعث قرار دیا گیا ہے، وہ حدیث جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

5- علامہ سیوطى رحمہ اللہ نے "تدریب الراوى" 1/ 342 میں دال سے متعلق حدیث کو موضوع احادیث میں سے شمار کیا ہے۔

خلاصہ کلام:

سوال میں مذکور حدیث "سند" کے اعتبار سے ضعیف ہے، جبکہ اس حدیث کے "متن" (مضمون) کو بہت سے محدثین نے "موضوع" (من گھڑت) بھی قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف نسبت کر کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور میں بات آپ کو بتاتی چلوں اگر آجکل ہم کسی سے اس کی پسندیدہ کھانے کے بارے میں پوچھے تو ان کا کہنا ہوتا ہے شامی کباب کوفتے کڑھائی کراچی کی مشہور نہاری اور بہت دیگر لوازمات اگر میں لکھنے پہ بیٹھ جاوں تو بہت ہیں پر میری بات کا مقصد یہ کے ہم دال کا نام نہیں لیں گے کیونکہ لوگوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

شاید ایسا نہ بھی ہو مگر میں نے جتنا جانا ہے وہ یہی ہے جو میں نے بتایا۔

💕💕💕💕

رات کا وقت تھا جب سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے کشف بھی اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھی موحد کے بارے میں سوچ رہی تھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔


محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز

گمنام زندگی تھی کتنا سکون تھا۔


بالوں کی لٹ کو گھماتی کشف نے زِیر لب شعر پڑھا۔

پر میری محبت ابھی کہاں مجھے ملی ہے۔کشف نے دُکھ سے سوچا۔

موحد ائے لو یو الوٹ اور میں تمہیں پاکر ہی رہوں گی میں نہیں جانتی ایسی کونسی چیز ہے جو تمہیں میرے پاس آنے سے روکتی ہے پر کشف کو اپنے راستے میں آنے والا کانٹا ہٹانا جانتی ہے موحد کو بس کشف کا ہونے کا ہے آج تو نہیں تو کل جتنا وقت گُزر جائے موحد کو بس کشف کا ہونا ہے۔کشف تصور میں موحد سے مخاطب ہوتی آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گُڈ مارننگ ایوری ون۔صبح ہوتے ہی کشف ہال میں آتی سب سے بولی پھر آخر میں واحب صاحب کے پاس آئی جو اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔

کیسی ہے میری جان۔واحب صاحب کشف کو دیکھ کر محبت سے پوچھنے لگی۔

ٹوٹلی فٹ آپ کے سامنے۔کشف نے مسکراکر اپنی طرف اشارہ کیا

پڑھائی کسی جارہی ہے کالج میں کوئی پروبلم ہو تو بتانا مجھے واحب احمد کی بیٹی ہو تم۔واحب صاحب نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولے۔

ڈونٹ وری ڈیڈ آپ شاید بھول رہے ہیں کشف مرزا سے پروبلم بھی ڈرتی ہیں۔کشف نے گردن اکڑاکر کہا تو واحب صاحب ہنس پڑے۔

رخصانہ اماں کا فون آیا تھا کجھ دنوں میں ہمارے پاس آرہی ہیں۔سومل ان کے پاس آتی بولی رخصانہ اماں کا نام سنتے کشف کے چہرے کا رنگ اُڑا تھا جو آتی تو مہینہ بھر کے لیے تھی مگر ان دونوں یعنی حیا اور کشف کو تگنی کا ناچ نچاتی تھی ملازموں کے ہوتے ان سے کام کرواتی تھی جس سے وہ بس ان کے جانے کی دعائیں کرتی تھی رخصانہ اماں ثاقب مرزا کے دور کی رشتیدار تھی۔

ارے وہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے اِس بار سالوں بعد چکر لگایا ہے انہوں نے۔رخشندہ بیگم خوشگوار حیرت سے بولی۔

خاک اچھی بات ہے۔کشف منہ میں بڑبڑائی جو خود کے علاوہ کسی نے نہیں سنا۔

ہاں اچھا ہیں آجائے ان نکمیوں کو بھی کجھ سیکھنے کو ملے گا۔سومل بیگم نے کشف کی طرف اشارہ کیے کہا۔

آپ کے سامنے آپ کی بیوی آپ کی اکلوتی بیٹی کو نکمی بول رہی ہے آپ کجھ کہے گے نہیں اِس بارے میں؟کشف اپنی آنکھیں پھیلاکر واحب صاحب سے بولی جو کشف کی بات سن کر چہرے پہ مصنوعی غصہ کے تاثرات چہرے پہ سجائے سومل بیگم کو دیکھ رہے تھے۔

شروع ہوگیا اس کا ڈرامہ۔سومل بیگم نفی میں سرہلاتی بولی۔

بیگم آرام سے ہماری بیٹی سے زیادہ اِس خاندان میں کوئی ہوشیار عقلمند نہیں۔واحب صاحب نے کشف کو اپنے ساتھ لگاکر کہا کشف گردن اوپر کر بیٹھ گئ۔

ایسے اور ہوشیار عقلمند پیدا ہوجائے خاندان میں تو کیا ہی بات ہے۔سومل بیگم طنزیہ بولی۔

بیبی جی ناشتہ ٹیبل پہ لگ گیا ہے۔کشف کجھ کہنے والی تھی مگر ملازمہ نے آکر ناشتے کی اطلاع کی۔

میں حیا اور منہا کو بلاتی ہوں۔کشف کھڑی ہوتی بولی۔

حیا جلدی سے ناشتہ کرو پھر ایک دھماکیدار خبر سنانی ہے۔کشف دھڑام سے دروازہ کھولتی حیا سے بولی جو بیڈ پہ اپنا موبائل یوز کررہی تھی۔

پہلے دھماکیدار خبر بتاو ورنہ ناشتہ کھایا نہیں جائے گا۔حیا موبائل سائیڈ پہ کرتی متجسس ہوکر بولی۔

ابھی تو کجھ کھایا جائے گا اگر پہلے بتادیا تو وہ ایک دو نوالے بھی بامشکل نگل سکوں گی۔کشف نے مزے سے بتایا۔

ایسا کیا پھر پہلے ناشتہ کرتی ہوں کیونکہ مجھے زوروشور کی بھوک لگی ہے۔حیا بیڈ سے اُتر کر بولی۔

گُڈ فار یو۔کشف کہتی منہا کے کمرے میں آئی۔

تمہیں لیا او سی ڈی ہے کیا؟ کشف نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

اللہ خیر کیوں۔ منہا جو بیڈ شیٹ درست کررہی تھی کشف کی بات پہ بول پڑی۔

جب دیکھو کوئی نہ کوئی صفائی کرتی رہتی ہو۔ کشف اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولی۔

اپنے کمرے میں صفائی کرنے میں کیا حرج ہے ویسے بھی انسان جہاں رہتا اُس جگہ کی صفائی کرنی چاہیے۔ منہا نے آرام سے جواب دیا

ملازم ہیں وہ یہ کام کرسکتے ہیں۔ کشف نے کہا

میں بھی تو کرسکتی ہوں اگر ملازم ہیں تو ضروری نہیں ہم تھوڑا تھوڑا کام بھی ان کو بولے۔ منہا نے مسکراکر کہا۔

ناشتہ تیار آگر کرلوں۔ کشف بات بدل کر بولی۔

تم چلو میں آتی ہوں۔ منہا نے کہا کشف ایک نظر اُس کے صاف کمرے میں پہ ڈالی جہاں ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے رکھی ہوئی کمرے پہ نظر ڈال کر وہ باہر نکل گئ۔

ناشتہ سب نے آرام سے کھایا ناشتے کے بعد حیا کشف کا ہاتھ تھامتی کمرے میں لائی تاکہ دھماکیدار نیوز سنے سکے۔

بتاؤ اب کیا بات ہے؟حیا نے سنجیدگی سے پوچھا

سننے کی ہمت ہے؟کشف نے سسپینس پیدا کیا۔

افففف کشف ہمت کو چھوڑو بات کرو۔حیا جھنجھلا کر بولی۔

بات یہ ہے کے اماں رخصانہ آرہی ہے ہمارا خون خشک کرنے۔کشف نے منہ بناکر حیا سے کہا جس کا اُپر کا سانس اُپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔

یہ مزاق تھا۔حیا حیرت میں غلطان ہوتی بولی

کاش میں کہہ سکتی یہ مزاق تھا۔کشف ڈرامائی انداز میں بولی

نہیںںںںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیا نے باقاعدہ کانوں پہ ہاتھ رکھ زور سے کہا کشف کو اپنے کان کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے ہوئے۔

میری کانوں کی دشمن اب بس کرو۔ کشف اپنے کان میں انگلیاں ٹھونستی حیا سے بولی۔

یار کشف پچھلی بار کیسے انہوں نے باتھروم کی صفائی کروائی تھی ہم سے۔ حیا رونے والی ہوکر بولی۔

باتھروم کی کیا کمرے کا فرش کیسے دُھلوایا تھا ہم سے۔ کشف پریشانی سے بولی۔

ہاں نہ اِس بار پتا نہیں کیا کہے گی اب تم ہم بڑی ہوگئ ہیں تب تو چھوٹی تھی ان کو رحم نہ آیا۔ حیا انگلی دانتوں تلے دباکر بولی۔

بس اللہ سے دعا کرو۔ کشف ہاتھ آسمان کی جانب کرکے بولی تو حیا سرہلاتی اس کی بات پہ عمل کرنے لگی۔

یااللہ اماں رخصانہ جس فلائٹ میں آئے وہ فلائٹ مس ہوجائے۔

آمین۔ کشف کی دعا پہ حیا نے فورن سے کہا

یااللہ اگر وہ بائے روڈ آئے تو اُن کی گاڑی کا ٹائر پینچر ہوجائے۔

آمیں اِس بار کشف نے آمین کہا۔

یااللہ ان کے دل میں ہمارے لیے رحم فرما۔

آمین۔ حیا نے جلدی سے کہا

یااللہ کجھ ایسا کردیں کے ہم ان کو نظر نہ آئے۔

آمین۔ کشف آنکھیں زور سے میچ کر بولی۔

یااللہ

بس کرو اب۔ منہا جو کب سے مسکراہٹ ضبط کرتی ان کی دعائیں سن رہی تھی ان کی دعاؤں کی لسٹ تویل دیکھی تو ٹوکا۔

کیا بس کرو تم سے وہ کام کروائے تو میں پوچھو۔ کشف منہ کے زاویے بگاڑ کر بولی

اور نہیں تو اُن کی نظر میں تو یہ سلیقہ شعار ہے۔ حیا ناک چڑھاکر بولی۔

فضول میں مت ڈرو اور تمہارے بھلے کے لیے کرتی ہیں۔ منہا نے آرام سے کہا

کیسا بھلا ان کے بھلے کے چکر میں ہماری کمر ہماری ٹانگیں درد کرجاتی ہیں۔ کشف نے فورن سے کہا

درد بھی وہ جو ہفتے سے زیادہ عرصہ چلے۔ حیا نے جلدی سے کہا کشف نے فورن سے تائید میں سرہلایا۔

تم دونوں سے بحث کرنا فضول ہے جاؤ جاکر اپنے کالج یونی جانے کی تیاری کرو۔منہا نفی میں سرہلاتی بولی۔

اوو ہاں مجھے اسائمنٹ جمع کروانا تھا۔حیا سر پہ ہاتھ مارتی واشروم کی طرف بھاگی۔کشف بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی صاحب سے بات کریں کب آرہا ہے نعیم پاکستان۔ رخشندہ بیگم نور احمد صاحب سے بولی۔

ہمم ان کی طرف سے گہری خاموشی ہے جس سے مجھے خود خدشہ ہے میں بات کرکے دیکھتا ہوں۔ نور احمد صاحب نے کہا

ان کو بتادیجئے گا خاندان میں کیا اہمیت ہے منگنی کی منہا کا نام نعیم کے ساتھ منسوب ہوچکا ہے اگر وہ پِھرنے کی کوشش کریں تو ایسا مت کرنے دیجئے گا۔ رخشندہ بیگم سنجیدہ انداز میں گویا ہوئی۔

ایسا کجھ نہیں ہوگا میں کروں گا سعید بھائی سے بات انشااللہ اچھا جواب ملے گا۔ نور احمد صاحب نے کہا

جلد ورنہ وہ حمزہ اور حیا کے رشتہ کا بھی بھول جائے۔ رخشندہ بیگم دو ٹوک انداز میں بولی۔

کسی بدشگنی کی باتیں کررہی ہو کہا نہ میں نے بات کروں بھائی سے بس پھر بات ختم فضول کے خدشات نہ خود سوچو نہ میرے دماغ میں ڈالوں۔ نور احمد صاحب اس بار سخت لہجے میں بولے۔

ماں ہوں جوان بیٹیوں کی آپ کے بھائی کے گھر کے جو رنگ ڈھنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں نہ وہ مجھے اچھے خدشات پالنے کی اجازت نہیں دیتے اتنے سال ہوگئے ہیں نعیم ایک بار بھی پاکستان نہیں آیا سنی سنائی باتوں پہ میں یقین نہیں کرتی پر اب وہ باتیں سچ لگنے لگی ہے۔ رخشندہ بیگم نے کہا

مسئلاً کیسی باتیں؟ نور احمد صاحب نے جاننا چاہا۔

خاندان والے باتیں بنارہے ہیں نعیم کو اعتراض ہے منہا کے ساتھ جڑے رشتے میں تبھی پاکستان نہیں آرہا میں نے تب یقین نہیں کیا پر جب ماہر اکیلا پاکستان آیا تو مجھے وہ باتیں سچ لگنے لگی ہے۔ رخشندہ بیگم نے بتایا۔

من گھڑت کہانیاں ہے دو بھائیوں میں درار پیدا کرنے کے لیے رہی بات ماہر کے پاکستان آنے کی تو کونسا وہ دونوں ساتھ گئے تھے جو ہم ساتھ آنے کی توقع کرتے۔ نور احمد صاحب نے کہا۔

مجھے نہیں پتا اب بس بات کرئیے گا۔ رخشندہ بیگم ہاتھ کھڑے کیے بولی سعید مرزا کا الگ اپنا بڑا سا گھر تھا جہاں وہ الگ رہائش پذیر تھے ان کے برعکس احمد نور صاحب اور واحب احمد صاحب ایک ساتھ رہتے تھے بزنس بھی ایک تھا

سعید مرزا کے الگ گھر رہنے پہ دونوں بھائیوں نے اعتراض کیا تھا کے آپ سوتیلے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں پر انہوں نے آرام سے سمجھادیا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

بیچ روڈ پہ گاڑی کے رُکتے ہی حیا گاڑی سے اُتری پھر نظر گھماکر دیکھا تو سائیڈ پہ گاڑی کھڑی تھی جسے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئی ڈرائیور کو واپس جانے کا کہتی وہ ہیل کی ٹِک ٹِک کرتی دوسری گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئ جہاں حمزہ بلیک جینز پینٹ شرٹ پہنے آنکھوں پہ بلیک گاگلز چڑھائے بیٹھا تھا۔

لُک ویری پریٹی۔ حیا کے بیٹھتے ہی حمزہ نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا جس کا چہرہ بلش کرگیا تھا حیا نیلے رنگ کے کُرتے اور جینز میں ملبوس تھی ڈوپٹہ ایک کاندھے پہ تھا جب کی بالوں کا جوڑا بنایا تھا میک اپ کے نام پہ بس گلوکوز لگایا تھا جس سے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی حیا کو میک اپ کا بہت شوق تھا پر حمزہ کو نہیں اِس لیے وہ میک اپ کا استعال نہیں کیا کرتی تھی۔

شکریہ اب گاڑی چلاؤ یونی کے لیٹ ہورہا ہے۔حیا نے مسکراکر کہا

ابھی باتیں کرتے ہیں پھر گھنٹہ بعد چھوڑ آؤں کا یونیورسٹی۔حمزہ اُس کے ہاتھ کی پشت سہلاتا بولا۔

ایسے تو میری فرسٹ کلاس مس ہوجائے گی۔حیا فکرمند ہوکر بولی

کل لیں لینا اگر کجھ سمجھ نہ آئے تو مجھے کال کرنا میں سمجھادوں گا۔حمزہ نے مسئلے کا حل بتایا تو حیا مسکراتی سرہلانے لگی۔

کہیں اور چلتے ہیں نہ ایسے گاڑی میں کیا کریں گے۔حیا نے اُس کو گاڑی چلاتے نہیں دیکھا تو کہا

یہ اچھی جگہ ہے بہت خاموش پرسکون یہاں بس میں اور تم ہیں کوئی تیسرا ہمیں ڈسٹرب کرنے والا نہیں۔حمزہ نے آرام سے کہا

تمہاری بھی مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی۔حیا نے کہا

بس اتنا سمجھ لوں حمزہ سعید مرزا تمہیں جنون کی حدتک چاہتا ہے اُس سے الگ ہونے کا سوچنا بھی مت۔حمزہ شدت پسندی سے بولا جس کو محسوس کرتی حیا کو گھبراہٹ ہونے لگی کبھی کبھی وہ ایسے ہی ڈر جایا کرتی وہ جانتی تھی حمزہ اپنی چیزوں کے لیے بہت پوزیسو رہنے والا بندہ ہے اس کے معاملے میں تو جنونی بھی جس سے کبھی کبھی اُس کو خوف آتا تھا آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

تمہاری یہی باتیں مجھے روکتی ہے تم سے ملنے کے لیے۔ حیا نے ونڈو کی طرف منہ کرکے کہا

جب میرے ساتھ ہو تو مجھے دیکھا کرو۔ حمزہ اس کے چہرہ اپنی طرف کرکے کہا۔

تمہیں ہی دیکھتی ہوں پر تمہارے چہرے پہ شدت پسندی مجھے خوف میں مبتلا کرتی ہے۔ حیا نے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر دھیمے لہجے میں کہا۔

میرے اندر وہم ہوتے ہیں تمہارے معاملے میں جس سے انسان پیار کرتا ہے نہ اس کی کھونے کا ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے ایسا ہی ایک خوف میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھا ہے۔ حمزہ نے حیا کا ہاتھ پکڑ کر جو وہ اُس کے چہرے پہ پھیر رہی تھی۔

وہم کرنا چھوڑ دو کیونکہ یہ ایک لاعلاج ہے۔ حیا نے مسکراکر کہا حمزہ مسکراتا اس کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ دیکھ رہا تھا۔

تمہاری مسکراہٹ میرے اندر جان ڈالتی ہے۔ حمزہ حیا کا ہاتھ اپنے دل پہ رکھ کر بولا

آج موڈ میں لگ رہے ہو خیر تو ہے نہ؟ حیا اس کے دل کی دھڑکن سن کر نروس ہوتی بولی۔

میرے دل کی آواز کو محسوس کرو جو تمہارا نام لیں رہا ہے۔ حمزہ اس کی بات نظرانداز کرتا بولا۔

حمزہ پلیز ایسی باتیں مت کرو مجھے شرم آرہی ہے۔ حیا اپنا چھڑواتی دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ کر بولی۔

میری جان تو مجھے دیکھنے ہیں تمہارے چہرے پہ وہ رنگ جن پہ بس میرا حق ہے۔ حمزہ گہری مسکراہٹ سے بولا حیا نے زور سے سر کو نفی میں ہلایا۔

اچھا تو میں بتاتا ہوں میں آج خوش کیوں ہوں۔ حمزہ گہری سانس لیکر بولا

کیا بات ہے؟ حیا چہرے سے ہاتھ ہٹاکر بولی حمزہ نے اپنا ہاتھ حیا کے سامنے پھیلایا تو حیا مسکراتی اس کی چوڑے مضبوط ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

تم نے کہا نہ وہم کا کوئی علاج نہیں تو میں بتاتا چلوں میرے پاس ہے۔ حمزہ اتنا بول کر حیا کو دیکھنے لگا جو غور سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

کونسا علاج؟ حیا نے پوچھا

ہم دونوں کورٹ میں نکاح کریں گے بعد میں بھی تو ہونا ہے پر میں ابھی چاہتا ہوں میرے دل کو سکون مل جائے گا سارے خدشات ختم ہوجائے گے تم میری ہو میں جانتا ہوں پر تب میرے ساتھ پرمینٹلی سرٹیفیکٹ ہوگا ہمارے نزدیک منگنی کی اہمیت بہت ہے نکاح کے برابر ہے پر اسلام میں نہیں میں مکمل طور پہ تمہیں اپنی دسترس میں لینا چاہتا ہوں۔ حمزہ کی بات پہ حیا بے یقین نظروں سے حمزہ کو دیکھا اُس کو ہرگز حمزہ سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی

💕💕💕💕💕💕

دل والوں

دل میرا

سننے کو بے قرار

ہے کہوں نہ پیار ہے

کہوں نہ پیار ہے۔

کشف موحد کے پاس آتی خوبصورت آواز میں گانا گانے لگی۔

میں مصروف ہوں اِس لیے ڈسٹرب نہیں کرو۔ موحد نے سنجیدگی سے کہا

ہممم اِس لیے لائبریری میں بیٹھے ہو تاکہ میں تیز آواز میں بات نہ کرسکوں۔ کشف نے سمجھنے والے انداز میں کہا۔

کشف پلیز مجھے تنگ مت کیا کرو جو تم مجھ سے چاہتی ویسا کجھ نہیں ہوسکتا اِس لیے ابھی سے سنبھل جاؤ۔موحد دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا۔

میں کیا چاہتی ہوں تم سے زرہ روشنی ڈالنا اِس بات پہ؟کشف نے شرارت سے اُس کی جانب دیکھ کر کہا۔

تمہیں لگتا ہے تم ایسے مجھے خود سے محبت کرنے پہ مجبور کرسکتی ہوں تو تمہاری یہ سب سے بڑی بھول اور وقت کا ضائع ہے بہتر اِس میں ہے کے تم اپنے راستے میرے راستوں سے جوڑنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ میرے ساتھ تمہاری کوئی منزل نہیں بس سفر ہے اور سفر ہے جس کا کوئی ٹھکانہ یا منزل نہیں۔موحد نے سپاٹ انداز میں کہا پر وہ نہیں جانتا تھا سامنے بیٹھی لڑکی جس سفر پہ نکلی تھی اُس کے لیے رُکنا اب ممکن نہیں تھا۔

مجھے میں کیا کمی ہے موحد بہت پیار کرتی ہوں میں تم سے پر تم ہو جس کی نظر میں میری محبت کی کوئی ویلیو ہی نہیں۔کشف رندھی آواز میں بولی اُس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی جس سے موحد نے اپنی نظریں چُرائی تھی۔

کمی تم میں نہیں ہے کشف میرے ساتھ تمہارا گُزارا نہیں ہوسکتا تھا یہ جو تمہارا موبائل ہے نہ۔ موحد نے ٹیبل پہ اُس کے فون کی طرف اشارہ کرتے کہا

میری بائیک کی قیمت سے ڈبل قیمت ہوگی اِس کی تم محلوں میں رہنے والی ہو ایک جھونپڑی میں تمہارا رہنا ممکن نہیں ایک دن میں اکتا جاؤں گی غلط فیصلے سے بہتر ہے تم ابھی میرا بات سمجھ جاؤں یہ پیار محبت کجھ نہیں ہوتا تمہاری محبت اُس دن کہی نہیں رہے گی جب میری زندگی کا لائیف اسٹائل دیکھو گی جہاں تم ہر چیز کو ترس جاؤں گی اچھے سے کھانا تک نصیب نہیں ہوگا میرے اُپر میری جوان بہنوں کی زمیداریاں ہیں مجھے میری ماں کا سہارا بننا ہے میری زندگی میں تمہاری کوئی جگہ نہیں اِس لیے بہتر ہے اپنے یا میرے لیے مشکلات کھڑی مت کرو اپنا جیسا کوئی انسان تلاش کرو جو خالی اپنا ساتھ نہیں بلکہ ہر وہ آسائش دے جن کی تم عادی ہو۔ موحد تلخ انداز میں بولتا گیا کشف گنگ سی موحد کی باتیں سن رہی تھی جو بس اسٹیٹس کی وجہ سے اس کے ساتھ کنارہ کررہا تھا۔

موحد تم مجھے جس حال میں رکھوگے میں بنا شکوہ شکایت کیے خوشی خوشی تمہارے ساتھ رہ لوں گی میرے لیے بس تمہارا پاس ہونا تمہارا ساتھ تمہارا نام ہی کافی ہے میں کبھی تمہاری بہنوں اور ماں کے درمیان نہیں آؤں گی کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی تم بس میرا ہاتھ تھام کر تو دیکھو۔کشف اپنے آنسوؤ پیتی موحد کا بازوں تھام کر بولی۔

میں پھر بھی یہی کہوں گا میرے قدم کبھی تمہاری طرف نہیں بڑھ سکتے۔ موحد سنجیدگی سے اپنا بازوں آزاد کرواتا بولا کشف کجھ بولنا چاہتی تھی جس کو اٙن سنا کرتا وہ لائبریری سے نکل گیا کشف نے دور تک اُس کی پشت کو دیکھا تھا۔


میں بھول جاؤں تمہیں اب یہی مناسب ہے

مگر بُھلانا چاہوں بھی تو کیسے بھولوں؟

کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو کوئی خواب نہیں

یہاں تو دل کا یہ عالم ہے کیا کہوں کمبخت

بُھلانا پایاکہ وہ سلسلہ جو تھا ہی نہیں !!

وہ ایک خیال جو آواز تک گیا ہی نہیں !!

وہ ایک بات جو میں کہہ نہ سکی تم سے

وہ ایک رابطہ جو ہم میں کبھی رہا نہیں

مجھے یاد ہے سب جو کبھی ہوا ہی نہیں!!!

💕💕💕💕💕

ہنی گولڈ کلر کے شلوار قمیض پہنے منہا ٹیرس پہ کھڑی چائے سے لطف اندروز ہورہی تھی جب اُس کا سیل فون بج اُٹھا منہا نے ٹیبل سے فون اٹھاکر دیکھا تو ماہر کی کال تھی سوچا کاٹ دے پر اپنے خیال کی نفی کرتی کال پِک کردی۔

اسلام علیکم! !!!منہا نے جیسے کان پہ فون رکھا ماہر کی گھمبیر آواز اسپیکر سے اُبھری۔

وعلیکم اسلام! !!!منہا سلام کا جواب دیتی خاموش ہوگئ۔

کیسی ہو؟ ماہر نے پوچھا

میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ منہا نے اخلاقً حال دریافت کیا۔

آپ نے پوچھ لیا اب کافی بہتر ہوں۔ ماہر نے سکون سے کہا

مجھ سے ایسے بات مت کیا کریں۔ منہا نے گہری سانس بھر کر کہا

تو پھر آپ بتادے کیسے بات کروں۔ ماہر نے مسکراکر پوچھا۔

میں کسی اور کے ساتھ منسوب ہوں آپ کو زیب نہیں دیتا میرے بارے میں ایسے خیالات رکھنے کا۔ منہا نے سنجیدگی سے اُس نے ٹھان لیا تھا وہ اب ماہر سے صاف صاف سے بات کریں گی ماہر پہلے تو نہیں مگر جب سے پاکستان واپس آیا تھا تب سے عجیب برتاؤ رکھنے لگا تھا اُس کی بولتی نگاہوں سے وہ ہمیشہ خائف ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ ماہر ڈھکے چُھپے لفظوں میں اپنے جذبات کے بارے میں آگاہ کرتا گیا جو منہا کو سہی نہیں لگا بچپن سے اُس نے اپنے نام کے ساتھ نعیم کا نام سن لیا تھا رخشندہ بیگم نے اس کے بارہ سال کے ہوتے ہی بتادیا تھا ہمارے خاندان میں منگنی نکاح کے برابر ہے اور اس کی منگنی نعیم کے ساتھ طے ہے لہٰذا وہ یہ بات اپنے دماغ میں نشین کرلیں اور اُس نے کیا بھی یہی تھا بچپن میں نعیم کا روخا انداز دیکھ کر بھی اُس نے اپنا دل نعیم کے لیے کبھی میلا نہیں ہونے دیا خود کو نعیم کی امانت سمجھا اُس کے کینیڈا جانے پہ بھی اُس کو بہت دُکھ ہوا تھا کے ایک بار مل کر جاتا مگر کجھ سال بعد ماہر کا اُس کی زندگی میں ایسے آنا ٹینشن میں مبتلا کرگیا تھا وہ بس اس کو کزن کی طرح دیکھتی اور سمجھتی تھی اُس سے زیادہ نہیں ماہر لاکھ نعیم سے بہتر پر منہا کو پتا تھا ماہر کجھ کہے اُس کی قسمت میں بس نعیم کا ساتھ تھا۔

آپ میری ہیں بس۔ ماہر کے مُسکراتے لب فورن سے سمیٹ گئے تھے۔

آپ جانتے ہیں آج سے نہیں بچپن سے کے میرا نام نعیم کے ساتھ جوڑا گیا ہے پھر بھی آپ ایسے داعوے کررہے ہیں۔ منہا افسوس سے بولی۔

نانا جان نے غلط فیصلہ لیا تھا ان کو اپنا بھتیجا نظر آیا پر اپنا بھانجا نہیں خیر میں پُرانی باتیں نہیں کروں گا نعیم کا کوئی اِرادہ نہیں پاکستان آنے کا میں بات کروں گا موم سے وہ آپ کی اور میرے رشتے کی بات کریں گی۔ ماہر نے سنجیدہ لہجے میں کہا

آپ کو خُدا کا واسطہ ایسا مت کیجئے گا۔ منہا ماہر کے اِرادے جان کر پریشان ہوکر بولی۔

ایسا تو کروں تو کیا آپ کو کسی اور کا ہوتا دیکھو۔ ماہر تلخ انداز میں بولا

بلکل میرے لیے نعیم ضروری ہے آپ نہیں میں نے اپنا نام ہمیشہ نعیم کے ساتھ جڑا سنا ہے میں اب کیسے آپ کے بارے میں سوچوں۔ منہا نے دُکھ سے کہا ماہر کے اندر چھن سے کجھ ٹوٹا تھا۔

ہمارے بڑوں کو ہماری کچی عمر میں بڑی باتیں نہیں ڈالنی چاہیے ضروری نہیں ہوتا جیسا وہ سوچتے ہیں ہمیشہ سہی ہو یا ویسا ہی ہو جیسا وہ چاہ رہے ہو بچپن سے جُڑے رشتے ہمیشہ تکلیف کا باعث ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان کا اپنا خیال ہوتا ہے اپنے ہمسفر کے طور پہ میں جانتا تھا آپ کا نام کسی اور کے ساتھ منسوب ہے پر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں سب جانتے ہوئے بھی میرے دل نے آپ کو چُنا آپ کا نام لیا منہا میری زندگی میں آپ بہت ضروری ہوگئ ہے جیسے جینے کے لیے سانس میں آپ کو کسی اور کے ساتھ سوچتا ہوں تو دل بند ہوتا محسوس ہوتا ہے میں جب پاکستان آیا تھا تو میں نے جب آپ کو دیکھا میں تب بھول گیا تھا آپ میری نہیں ہوسکتی پر پھر بھی آپ سے محبت کرنے لگا میرے لیے آپ کی خوشی عزیز ہے میں کبھی آپ کو تکلیف دُکھ نہیں دے سکتا پر آپ کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا عجیب کشمش میں پڑگیا ہوں پر اب جو ہے جو ہوگا میری اپنی تجویز کی ہوگی۔ ماہر عقیدت سے کہتا منہا کے دل کی دھڑکن کو اُتھل پُتھل کرگیا تھا ماہر اپنی ساری بات کیے کال کاٹ چُکا تھا پر منہا ماہر کی باتوں میں جکڑگئ تھی۔

💕💕💕💕💕💕💕

. نیوٹن کے حرکتِ قانون کے دوسرے قانون کے مطابق ، جب ایک قوت کو تیز کیا جاتا ہے تو ایک قوت تیار کی جاتی ہے۔


کلاسیکی میکانکس میں ، نیوٹن کے دوسرے قانون کے مطابق ، ہم کہتے ہیں کہ کسی جسم میں بڑے پیمانے پر میٹر ہوتا ہے ، اگر کسی وقت بھی ، وہ حرکت کی مساوات کو مانتا ہے۔

آخری حصے میں رشتہ داری طبیعیات کی توقع ہے کیوں کہ آخری تین ابواب نیوٹن کے حرکت ، مطلق اور رشتہ دار حرکت ، اور ہرٹز کی حرکیات کے قوانین پر غور کرتے ہیں۔


میں ، الیکسس بوورڈ نے یورٹنس کے ,1821مدار کے فلکیاتی جدولوں کو شائع کیا تھا ، جس میں نیوٹن کے تحریک اور گروت کے قوانین کی بنیاد پر مستقبل کی پوزیشنوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔


نیوٹنین میکانکس کے دائرے میں ، حوالہ کا ایک جڑنا فریم ، یا غیر مبہم حوالہ فریم ، وہی ہے جس میں نیوٹن کا تحریک کا پہلا قانون جائز ہے۔

کہنے کو تو حیا کلاس اٹینڈ کررہی تھی مگر اُس کا دماغ حمزہ کی بات میں اُلجھا ہوا تھا اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں۔

کن سوچو میں ہو فزکس کی ٹیچر چلی گئ۔ حیا کی دوست نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجاکر کہا تو وہ یکدم ہوش میں آئی۔

میرے سر میں سردردر میں گھر جارہی ہوں۔ حیا اپنا بیگ پکڑتی بولی۔

دو کلاسس مس کرچکی ہو ایک غیردماغی حالت میں لی ہے تمہارا کیا ہوگا جنت نے افسوس کیا۔

وہی جو قبول خُدا کو ہوگا۔ حیا مسکراکر کہتی کلاس سے باہر نکل پڑی۔

گھر آکر وہ سب کو سلام کرتی اپنے کمرے میں بند ہوگئ شام کے وقت وہ باہر نکلی تو سب اپنے کاموں میں مصروف تھے اُس نے کشف سے بات کرنے کا سوچا مگر جب وہ کمرے کے دروازے کے پاس گئ تو اندر سے لاک تھا ایک دو باہر آواز دی کوئی رسپانس نہ ملنے پہ وہ منہا کے کمرے میں گئ اُس کا بھی وہی حال تھا۔

ایسا کیا ہوگیا جو یہ دونوں مایوں میں بیٹھ گئ ہے۔ کافی دیر منہا کو آوازیں دینے کے بعد جب دروازہ نہیں کُھلا تو حیا جھنجھلا کر بولی

رات کے کھانے کے وقت وہ دونوں موجود نہ تھیں حیا بھی زہر مار کر دو تین نوالے لیتی کمرے میں آکر آج کے واقع کے بارے میں سوچنے لگی۔


حیا میری جان چپ کیوں ہو بتاؤ کرو گی نہ مجھ سے نکاح دو تین سال بعد جب بھائی آجائے گے تب بھی تو ہوگا اچھا ہے اگر ہم ابھی کرلیں میں نے کوئی غلط فرمائش تو نہیں کی۔حمزہ حیا کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھامتا نرمی سے بولا۔

حمزہ پر ایسے خوفیہ نکاح کرنا سہی نہیں تم فضول میں وہم پال رہے ہو دو تین سال تم صبر کرو۔حیا نے پریشانی سے کہا۔

حیا میرا دل بے چین رہتا ہے جب تک نکاح نہیں ہوگا مجھے چین نہیں ملے گا۔حمزہ نے کہا

میں سوچ کر بتاؤں گی۔حیا نے ابھی فیصلا کرنا سہی نہیں سمجھا۔

اوکے جب ہاں کرو تو میرے آفس آجانا انکار کرو پھر بھی پر میں ہاں کی توقع کروں گا ورنہ سمجھو گا محبت بس میری طرف سے ہے۔حمزہ نے سنجیدگی سے کہا

حمزہ پلیز تمہیں میرے فیصلا کا احترام کرنا ہوگا۔حیا نے کہا

میں کروں گا حیا ہمیشہ کروں گا پر یہ بات کجھ ایسی ہے کے میں انکار سننا پسند نہیں کروں گا۔حمزہ دو ٹوک بولا۔

میں بتادوں گی۔حیا نے ٹالا۔

حیا آج نہیں تو کل تم نے ہونا میرا ہے یہ بات یاد رکھنا میں کسی خدشے کے تحت یہ کہہ رہا ہوں اُمید ہے تم مایوس نہیں کرو گی۔حمزہ کہہ کر اس کے ہاتھ کی پشت پہ اپنے لب رکھنے چاہے مگر حیا نے گھبراکر اپنا ہاتھ کھینچ لیا حمزہ کو بُرا تو بہت لگا مگر خاموش رہا۔

یونی جارہے ہیں ہم اب تم آرام سے سوچ کر مجھے بتانا محبت کرتی ہو تو یقین بھی ہونا چاہیے۔حمزہ نے کہا

اعتبار یقین ہے مجھے تم پہ۔حیا نے جلدی سے کہا

تمہارے فیصلے سے پتا چل جائے گا میری کیا حیثیت ہے تمہارے دل اور نظروں میں۔حمزہ گاڑی اسٹارٹ کرتا بولا حیا بس خاموشی سے حمزہ کا چہرہ دیکھنے لگی۔

سب کجھ یاد کرنے کے بعد حیا نے گہری سانس لی بالآخر وہ ایک فیصلے پہ پہنچ گئ تھی جس سے اس کے چہرے پہ طمانیت چھاگئ کل اُس پہ عمل کرنے کا سوچتی آرام سے سونے کے لیے لیٹ گئ۔

💕💕💕💕

کشف کو آج موحد کی باتوں نے بہت ہرٹ کیا تھا اس کو یقین نہیں ہورہا تھا محض دونوں کے درمیان ایک اسٹیٹس کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہا تھا بار بار اُس کا دل توڑتا تھا۔

یااللہ موحد کا دل میرے لیے نرم کردے پلیز اُس کے دل میں میرے لیے محبت کا دیپ جلائے اس کو میرا محرم بنادے ہم دونوں کو حلال رشتے میں باندھ پلیز میرے اللہ میری دعا قبول فرمادے اُس کے بعد میں کجھ اور نہیں مانگوں گی۔کشف جائے نماز پہ بیٹھتی روتے ہوئے دعا مانگ رہی تھی آنسو سے پورا چہرہ نم تھا اِس وقت وہ کہیں سے بھی سارا دن مسکراتی کشف نہیں لگ رہی تھی بلکہ ایک دیوانی لگ رہی تھی موحد کی دیوانی جس کو بس اپنے محبوب کا ساتھ اُس کا پیار اُس کی توجہ چاہیے تھی سارا دن وہ کمرے سے نہیں نکلی تھی اکیلے رہنا چاہتی تھی اس لیے جب حیا نے دروازہ کھولنے کا کہا تھا وہ بہری بن کر بیٹھی رہی اُس کو فلحال تنہائی چاہیے تھی تب وہ ایسی پوزیشن میں بھی نہیں تھی اس کی سوجھی آنکھیں دیکھ کر حیا نے سوالوں کا انبار کھڑا کرنا جو ابھی وہ نہیں دینا چاہتی تھی۔

آپ ہر چیز پہ قادر سب کجھ آپ کے کن کے محتاج ہے میری دعا پہ یااللہ کن فرمائے دے آپ کے کن فیکون سے مجھے بہت حوصلہ ہے پلیز یا اللہ کوئی معجزہ کردے پلیز پلیزززززز یااللہ پلیززززززززز۔ کشف دعا مانگتی سجدے میں چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن کشف روزانہ کی طرح فریش چہرے کے ساتھ کمرے سے باہر نکلی اُس کو دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کے ساری رات اُس نے رو کر گُزاری ہے۔

ڈیڈ کہاں ہیں؟ کشف نے ایپل ہاتھ میں پکڑے سومل بیگم سے پوچھا۔

ضروری میٹنگ تھی جلدی آفس چلے گئے۔ سومل بیگم نے بتایا تو کشف نے ایپل منہ میں ڈالا۔

کھانے سے پہلے دھو تو لیتی۔ سومل بیگم نے ٹوک کر کہا

آپ لوگ یہاں دھوکر رہتے ہیں بار بار دھونے سے ایپل کی لذت ختم ہوجاتی ہے۔ کشف نے اپنا ایجاد کیا فلسفہ جہاڑا۔

مجال ہے جو تمہارے دماغ میں کوئی بات بیٹھے۔ سومل بیگم تاسف سے بولی جب کی کشف مُسکراتی ہاتھ میں ایپل پکڑتی حیا کے کمرے میں آئی جہاں وہ آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی۔

خیر تو ہے کسی پارٹی میں جارہی ہو کیا؟ کشف نے حیرت سے اُس کی تیاری کو دیکھ کر پوچھا جو ریڈ کلر کے فراق میں انتہا کی خو خوبصورت لگ رہی تھی ہونٹوں پہ سرخ کلر کی لپ اسٹک لگائے اب بالوں کو اسٹریٹ کررہی تھی۔

دروازہ بند کرو۔ حیا نے کہا تو کشف عجیب نظروں سے اُس کو گھورتی دروازے کو لاک لگانے لگی۔

اب پھوٹوں بھی۔کشف نے کوفت سے کہا جو ریڈ کلر کی ہائے ہیل پہن رہی تھی۔

بتاتی ہوں تھوڑا صبر کرو۔ حیا نے آرام سے کہا

کشف پہلے وعدہ کرو میں آج جو بات کروں گی وہ بس میرے اور تمہارے درمیان رہے گی۔ حیا اپنے کام سے فارغ ہوتی کشف کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاتی ہوئی بولی۔

ہم دونوں کزن ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص دوست بھی ہیں ہم بنا وعدے کیے ایک دوسرے پہ یقین کرسکتے ہیں پر اگر تمہاری تسلی میرے وعدے سے ہے تو میرا وعدہ ہے جو تم بات کرو گی وہ بس ہمارے درمیان رہے گی کسی تیسرے کو تب تک پتا نہیں چلے گا جب تک تم نہیں چاہوں گی۔ کشف نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر کہا حیا مسکراکر آگے بھرتی زور سے اُس کو گلے لگایا۔

مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔ حیا نے چہکتے ہوئے بتایا۔

بات کیا ہے وہ بتاؤ۔کشف کو بس بات جاننے کا تجسس تھا۔

حمزہ چاہتا ہے میں اس سے خوفیہ نکاح کروں۔حیا نے گہری سانس لیکر بتایا۔

ہائیڈن نکاح۔ کشف چیختی بولی

آہستہ۔ حیا نے اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔

اِس سب کی کیا ضرورت دونوں کی منگنی تو ویسے ہی ہوچکی ہے۔ کشف نے ناسمجھی سے کہا

میں نے بھی کہا پر حمزہ نکاح پہ بضد ہے۔ حیا نے بتایا

توں اس کو کہو نہ چچا سے بات کریں ناکہ ایسے خوفیہ نکاح کریں۔ کشف نے سمجھانے والے انداز میں کہا

نعیم بھائی نہیں آجاتے تب تک ہمارا نکاح بھی نہیں ہوسکتا دوسرا کجھ غلط بھی نہیں بعد میں بھی تو ہونا ہے نہ۔ حیا نے آرام سے کہا

جیسے تمہارے مرضی حمزہ کجھ زیادہ ہی بے صبرا ہے۔ کشف نے کہا

پیار جو کرتا ہے مجھ سے۔ حیا نے شرمگین مسکراہٹ سے بتایا۔

نکاح کررہے ہو تو نکاح تک ہی رہنا نکاح کے بعد کوئی حد نہیں ہوتی پر اِس نکاح کا کسی کو پتا نہیں ہوگا اِس لیے ایسا کجھ مت کرنا جس سے بعد میں تمہیں پروبلمز کا سامنا کرنا پڑے۔ کشف کا اِشارہ کس بات کی طرف تھا وہ جان کر حیا نے سرہلایا۔

💕💕💕💕💕

روزانہ معمول کی طرح ڈرائیور حیا کو بیچ راستے پہ چھوڑتا خود چلاگیا تھا حیا آج چادر میں خود کو چُھپائے ہوئے تھی وہ حمزہ کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی غصہ کرنے کا۔

برتھ پارٹی ہے کیا یونی میں؟حمزہ نے اندازً کہا

میرا نکاح ہے۔ حیا نے نظریں جھکا کر بتایا حمزہ ہونک سا اُس کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ لال انار ہوگیا تھا۔

تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔حمزہ خوش ہوتا بولا

مجھے کیا اور کیوں اعتراض ہوگا۔ حیا نے اُلٹا اس سے سوال کیا۔

تم نہیں جانتی مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے۔ حمزہ خوشی سے پاگل ہونے کے در پہ تھا۔

میں یقین کرتی ہوں حمزہ تم پہ پلیز میرا یقین نہیں توڑنا۔ حیا نے التجائیہ انداز میں کہا۔

ایسا تمہیں کہنا بھی نہیں چاہیے مجھے پتا ہے ہمارا نکاح فلحال خوفیہ ہوگا اِس لیے فکر نہیں کرو۔ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا جسے سن کر حیا مطمئن سی مسکرادی۔

چلیں پھر؟ حمزہ نے پوچھا۔

کہاں؟حیا نے فورن پوچھا

مسجد پھر تمہیں یونی ڈراپ کرنا ہے۔ حمزہ نے پلان بتایا۔

ٹھیک ہے۔ حیا نے کہا حمزہ تیز ڈرائیو کرتا مسجد پہنچ گیا تھا حمزہ حیا کا ہاتھ تھام کر مسجد کے اندر داخل ہوا جہاں کے مولوی صاحب سے اُس نے پہلے ہی بات کر رکھی تھی کجھ ہی دیر میں نکاح کے ایجاب ومراحل ہوگئے تھے وہ اب حیا نور احمد سے حیا حمزہ بن گئ تھی دونوں کے چہرے پہ سرشار سی کیفیت تھی حیا نہیں جانتی تھی حمزہ کس وہم کے تحت نکاح کا شور مچایا پر حمزہ نے اُس سے اس کی محبت کا ثبوت مانگا تھا وہ بھلا کیسے نہ دیتی۔

نکاح مبارک ہو۔ حمزہ واپس گاڑی میں بیٹھتا حیا سے بولا

تمہیں بھی مبارک ہو۔ حیا نے کہا

شکریہ۔ حمزہ نے سر کو خم دیا

تم نے تو کل کورٹ کا کہا تھا پھر مسجد کیوں؟ اور تمہارے پاس نکاح کے کاغذ بھی بنے ہوئے تھے کیا بہت پہلے سے سوچ رکھا تھا کیا؟ حیا نے اُلجھ کر پوچھا۔

ایسا ہی سمجھ لو۔ حمزہ نے بس اتنا کہا حیا کو لگا جیسے حمزہ کوئی بات چُھپارہا ہوں پر اُس نے کُریدہ نہیں۔

خوش ہو نہ اب۔ حیا نے پوچھا

خوشی کی انتہا پہ ہوں۔ حمزہ جھک کر اس کے ماتھے پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر بولا۔ حیا کا دل زور سے دھڑکا تھا حمزہ پہلی بار اُس کے اتنے قریب ہوا تھا۔

رلیکس۔حمزہ نے مسکراکر اس کا ہاتھ تھام کر ہلکہ سا دباکر کہا۔

چلیں یونی۔ حیا اپنے آپ پہ قابوں پاتی بولی۔

ہممم چلتے ہیں۔ حمزہ ایک گہری نظر اُس پہ ڈالتا بولا حیا حمزہ کی نظروں سے بچنے کی خاطر اپنا رخ گاڑی کی ونڈو کی جانب کردیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کشف تمہارا فون کہاں ہیں؟ کشف کی دوست طاہرہ نے پوچھا

گم ہوگیا۔ کشف نے آرام سے بتایا

کیا گم ہوگیا کب کیسے اتنا مہنگا فون گم کردیا۔ طاہرہ صدمے کی حالت میں بولی۔

اب گم ہوگیا تو ہوگیا کب کیسے کا بتانے کا کیا فائدہ۔کشف نے بے زاریت سے کہا جب کی حقیقت میں اُس نے اپنا قیمتی فون کمرے کے وارڈوب میں نیچے والے ڈرار میں رکھ دیا تھا اُس نے سوچ لیا تھا وہ اب اتنی مہنگی چیز استعمال نہیں کریں گی موحد کو احساس دلوائے گی کے وہ بنا کسی آسائشوں کے ساتھ بھی رہ سکتی ہے لگژری لائیف جینا اس کے لیے اتنا ضروری نہیں اُس کو بس موحد چاہیے تھا۔

ناشکری ہو بڑی۔ طاہرہ منہ بناکر بولی۔

شکریہ مجھے سمجھنے کے لیے۔ کشف نے مسکراکر کہا

اب کہاں جارہی ہو کجھ منٹ بعد کلاس ہے۔ طاہرہ نے اُس کو کھڑا ہوتا دیکھا تو کہا۔

کام ہے آتی ہوں۔کشف نے بتایا۔


محبت میں گجرے بھی پہنائے جاسکتے ہیں

سونے کی چوڑیاں ضروری تو نہیں

کشف اپنے ڈپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پہ موحد کو بیٹھا دیکھا تو پاس بیٹھ کر شعر سنایا۔

میں ضروری نوٹس بنارہا ہوں میرا دماغ مت خراب کرو۔ موحد بے رخی سے بولا۔

تم تھک نہیں جاتے میری محبت نظرانداز کرتے کرتے اپنا سرد ترین رویہ رکھتے رکھتے۔ کشف نے ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر سوال کیا۔

میرے پاس تمہارے فضول سوالوں کے جواب نہیں۔موحد سپاٹ انداز میں بولا۔

ایک دن ایسا آئے گا جب تم میری ان فضول باتیں سننے کے لیے بے قرار اور بے چین رہوگے میری ایک جھلک دیکھنے کو ترسو گے۔ کشف نے اُداس مسکراہٹ سے کہا۔

وہ ایک دن کبھی نہیں آئے گا۔ موحد کشف کی آنکھوں دیکھ کر بول کر کھڑا ہوا۔

ضرور آئے گا میری محبت میں اتنی طاقت ضرور ہے جو تمہارے دل کو پگھلا سکے۔ کشف نے پُریقین لہجے میں کہا موحد کے قدم کجھ پل کے لیے تھمے تھے پر وہ بنا کشف کو جواب دیئے وہاں سے چلاگیا۔

💕💕💕💕💕💕💕

کیسی غیروں والی بات کررہے ہو نور نعیم پاکستان آئے گا تم پریشان نہیں ہو میں کرتا ہوں بات انشااللہ ایک دو ماہ میں وہ آئے گا تم تسلی رکھو۔ سعید صاحب نے اپنے آفس میں بیٹھے نور احمد صاحب سے کہا جو خاص یہاں منہا اور نعیم کے بارے میں بات کرنے آئے تھے۔

رخشندہ کو خدشات ہیں بس اِس لیے میں چاہتا ہوں جلدی سے آپ نعیم کو پاکستان آنے کا کہے بہت رہ لیا دوسرے مُلک اب اس کو واپس آنا چاہیے تاکہ ہم منہا کے فرض سے سبکدوش ہوجائے تو حیا کا سوچا۔ نور احمد صاحب نے سنجیدگی سے کہا

حیا کا کیا سوچنا ہے وہ بھی میرے حمزہ کی امانت ہے آپ کے پاس دونوں کو ایک ساتھ ہم رخصت کریں گے۔ سعید صاحب نے مسکراکر کہا

تو پھر آپ بات کریں اب۔ نور احمد ایک بار پھر بولے سعید صاحب نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕

وہ دن بھی آگیا تھا جس کا انتظار کشف اور حیا کو بلکل نہیں تھا اماں رخصانہ آج ان کے گھر موجود سب سے مسکرا مسکرا مل رہی تھی منہا کے تو وہ صدقے واری جارہی تھی حیا اور کشف کی حالت پتلی ہورہی تھی بس ان کو دیکھنے سے ہی۔

تم دونوں کو زرہ لحاظ نہیں اماں اتنے سالوں بعد آئی ہیں ان سے کجھ پوچھ لیا جائے۔اماں رخصانہ نے دونوں کو گھور کر کہا۔

ہوگیا ٹیپ شروع۔ کشف بڑبڑائی تو حیا نے زور سے کہنی ماری۔

جی اماں تو پھر بتائے کیسا گُزرا سفر؟ کشف زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولی۔

اب پوچھنے کا کیا فائدہ رہنے دو۔اماں رخصانہ کی بات پہ سب نے مسکراہٹ ضبط کیا کشف اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔

آپ تھک گئ ہوگی کمرے میں جاکر آرام کریں۔ سومل بیگم نے کہا

ہاں تھک تو میں بہت گئ ہوں پیر بھی درد کررہے ہیں کشف تم ایسا کرو پانی گرم کرکے میرے کمرے لاؤ۔اماں رخصانہ سومل بیگم کو جواب دیتی کشف سے بولی۔

پیروں میں درد کیوں آپ کونسا پیدل چل کر آئی ہیں۔حیا کے زبان میں کُھجلی ہوئی۔

کشف تم رہنے دو حیا میرے لیے پانی گرم کرکے آنا۔ اماں رخصانہ کے حکم پہ جہاں کشف نے شکر کا سانس لیا وہی حیا بول کر پچھتائی۔

اللہ تمہیں صبر دے۔ کشف ہمدردرانہ لہجے میں کہتی اپنے کمرے کی طرف گئ۔

حیا گرم پانی لیکر اماں رخصانہ کے کمرے میں آئی جہاں تیس منٹ میں تین بار وہ گرم پانی کرنے کا کہا حیا کو آج پہلی بار اپنے گھر کے بڑے ہونے پہ افسوس ہوا تین بار چکر مطلب چھ دفع سیڑھیوں سے اُپر نیچے کا سفر اماں رخصانہ کے پیر درد کم کرنے کے چکر میں اس کی ٹانگوں اور پیروں میں درد ہوگیا تھا۔

میں اب تھک گئ ہوں آرام کروں گی۔ حیا نے ہانپتے ہوئے کہا۔

بڑی ہی سست لڑکیاں ہو ہمارے دور میں سارا دن کام کرنے کے بعد بھی فریش ہوا کرتے تھے اور ایک تم اور وہ کشف ہے جن کو ایک کام کرنے کا کہو تو تھکاوٹ ہونے لگتی ہے یہ سب دیسی تیل استمعال نہ کرنے کا نتیجہ اب جب تک میں یہاں ہوں تم لوگوں کو دیسی پراٹھے کھلاوں گی تاکہ میرے کام میں تم لوگوں کو تھکاوٹ نہ ہو۔ اماں رخصانہ افسوس پھر حکیمہ انداز میں کہا

ہمیں اپنا ویٹ نہیں بڑھانا۔ حیا تصور میں خود کو موٹی دیکھ کر فورن سے بولی

چپ کرو کوئی موٹی نہیں ہوگی طاقت ہوگی۔اماں رخصانہ نے ڈپٹ کر کہا۔

ہاں پہلوانوں سے مقابلہ جو کرنا ہے ہم نے۔ حیا بڑبڑاہٹ میں بولی مگر اماں رخصانہ کی سماعتوں نے سن لیا۔

کیا کہا؟ اماں رخصانہ کڑے لہجے میں پوچھا

میں نے کہا جیسا آپ کہے۔ حیا سٹپٹاکر بولی۔

ہممم رخصانہ بیگم نے ہنکارہ بھرا حیا اپنے لیے گرم پانی لاتی اُس میں پیر ڈال دیئے دس منٹ بعد کجھ آرام ملا تو لیٹنے سے پہلے کل اپنے یونی نہ جانے کا حمزہ کو میسج پہ بتایا۔

💕💕💕💕💕💕

حمزہ اپنے والدین کے ساتھ ڈنر کررہا تھا حیا کا میسج اُس کو ریسیو ہوگیا تھا۔

نور منہا کی شادی چاہتا ہے نعیم تمہاری سنتا ہے اُسے کہو پاکستان کی فلائٹ پکڑے۔ ڈنر کے دوران سعید مرزا کی بھاری آواز گونجی۔

ہما اپنے شوہر کی بات سن کر حمزہ پہ ایک نظر ڈالی جو مطمئن سا رغبت سے کھانا کھارہا تھا۔

نعیم کا کوئی ارادہ نہیں منہا سے شادی کا۔ ہما بیگم نے دھیمی لہجے میں کہا۔

ہما کی بات پہ سعید مرزا نے ہاتھ میں پکڑا اسپون زور سے پلیٹ پہ پٹخا۔

اُس نالائق سے کہو واپس آئے نہیں تو بھول جائے جائداد میں اُس کو کوئی حصہ ملے گا۔ سعید مرزا سخت انداز میں بولے۔

شادی زور زبردستی سے تو نہیں کروا سکتے پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ہما بیگم نے سمجھانے والے انداز میں کہا

سالوں سے رشتہ جوڑا گیا ہے اگر منہا کا رشتہ نہیں ہوا تو حمزہ کو حیا کا رشتہ بھی نہیں ملے گا۔ سعید مرزا کی بات پہ حمزہ کے ہاتھ ایک پل کو روکے تھے۔

آپ کو بچپن میں ان کا رشتہ جوڑنا ہی نہیں چاہتا تھا ویسے اگر حیا کا رشتہ بھی نہ ہو حمزہ سے تو کوئی بات نہیں۔ہما نے کہا حمزہ افسوس کرتی نظروں سے ان کو دیکھنے لگا۔

بھائی شادی منہا سے کرتے ہیں یا نہیں یہ میرا ہیڈک نہیں اُمید کرتا ہوں بھائی کی وجہ سے میرے اور حیا کے رشتے پہ کوئی بات نہیں ہوگی آپ میں سے یا چچا والوں میں سے مجھے حیا سے دور کرنے کا سوچا بھی تو میرے پاس بہت سے طریقے ہیں حیا کو اپنے ساتھ رکھنے کے۔ حمزہ سنجیدگی سے کھڑا ہوتا اپنی بات پہ زور دیتا بولا۔

بات کو سمجھو اگر ہم ان سے ایک بیٹی کا رشتہ نہیں لیں گے تو دوسری کا وہ کیسے دے گے۔ ہما بیگم نے نرمی سے کہا

تم حمزہ کو سمجھانے کے بجائے نعیم کو سمجھاو اب کوئی اور بحث نہیں ہوگی دونوں کی شادی ایک ساتھ ہوگی نور سے میں نے کہہ دیا ہے۔ حمزہ کے کجھ بولنے سے پہلے سعید مرزا گھمبیر آواز میں بولے حمزہ دونوں پہ ایک نظر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف چلاگیا۔

کل کال پہ میں کہوں گی اُس کو۔ ہما بیگم حمزہ کے جانے کے بعد بولی۔

صرف کہنا نہیں راضی کرنا ہے یہاں آنے پہ ورنہ میں اُس کے اکاؤنٹ سے ساری رقم نکلوالوں گا۔ سعید مرز دھمکی آمیز لہجے بولے ہما بیگم کو چُپ لگ گئ۔

💕💕💕

55) سورۃ الرحمٰن (مدنی — کل آیات 78)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اَلرَّحْـمٰنُ (1)

رحمنٰ ہی نے۔


عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (2)

قرآن سکھایا۔


خَلَقَ الْاِنْسَانَ (3)

اس نے انسان کو پیدا کیا۔


عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)

اسے بولنا سکھایا۔


اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5)

سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں۔


وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6)

اور بیلیں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں۔


وَالسَّمَآءَ رَفَـعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْـزَانَ (7)

اور آسمان کو اسی نے بلند کر دیا اور ترازو قائم کی۔


اَلَّا تَطْغَوْا فِى الْمِيْـزَانِ (😎

تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو۔


وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْـزَانَ (9)

اور انصاف سے تولو اور تول نہ گھٹاؤ۔


وَالْاَرْضَ وَضَعَهَا لِلْاَنَامِ (10)

اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا۔


فِـيْـهَا فَاكِهَةٌ وَّّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ (11)

اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں۔


وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ (12)

اور بھوسے دار اناج اور پھول خوشبو دار ہیں۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (13)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14)

اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔


وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (15)

اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (16)

پھر تم (اے جن و انس) اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (17)

وہ دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (18)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (19)

اس نے دو سمندر ملا دیے جو باہم ملتے ہیں۔


بَيْنَـهُمَا بَـرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ (20)

ان دونوں میں پردہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (21)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


يَخْرُجُ مِنْـهُمَا اللُّـؤْلُـؤُ وَالْمَرْجَانُ (22)

ان دونوں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (23)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


وَلَـهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَاٰتُ فِى الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ (24)

اور سمندر میں پہا ڑوں جیسے کھڑے ہوئے جہاز اسی کے ہیں۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (25)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ (26)

جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے۔


وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ (27)

اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (28)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


يَسْاَلُـهٝ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِىْ شَاْنٍ (29)

اس سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ہر روز وہ ایک کام میں ہے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (30)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلَانِ (31)

اے جن و انس ہم تمہارے لیے جلد ہی فارغ ہو جائیں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (32)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُـمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۚ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ (33)

اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکو گے (اور وہ ہے نہیں)۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (34)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


يُـرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (35)

تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم بچ نہ سکو گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (36)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (37)

پھر جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر گلابی تیل کی طرح سرخ ہو جائے گا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (38)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِهٓ ٖ اِنْـسٌ وَّلَا جَآنٌّ (39)

پس اس دن اپنے گناہ کی بات نہ کوئی انسان اور نہ کوئی جن پوچھا جائے گا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (40)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمَاهُـمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِىْ وَالْاَقْدَامِ (41)

مجرم اپنے چہرے کے نشان سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑے جائیں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (42)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


هٰذِهٖ جَهَنَّـمُ الَّتِىْ يُكَذِّبُ بِـهَا الْمُجْرِمُوْنَ (43)

یہی وہ دوزخ ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے۔


يَطُوْفُوْنَ بَيْنَـهَا وَبَيْنَ حَـمِيْـمٍ اٰنٍ (44)

گناہ گار جہنم میں اور کھولتے ہوئے پانی میں تڑپتے پھریں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (45)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتَانِ (46)

اور اس کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے دو باغ ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (47)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


ذَوَاتَـآ اَفْنَانٍ (48)

جن میں بہت سی شاخیں ہوں گی۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (49)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ (50)

ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (51)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ (52)

ان دونوں میں ہر میوہ کی دو قسمیں ہوں گی۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (53)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


مُتَّكِئِيْنَ عَلٰى فُرُشٍ بَطَـآئِنُهَا مِنْ اِسْتَبْـرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ (54)

ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے کہ جن کا استر مخملی ہوگا اور دونوں باغوں کا میوہ جھک رہا ہوگا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (55)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِۙ لَمْ يَطْمِثْـهُنَّ اِنْـسٌ قَبْلَـهُـمْ وَلَا جَآنٌّ (56)

ان میں نیچی نگاہوں والی عورتیں ہوں گی، نہ تو انہیں ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہوگا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (57)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


كَاَنَّهُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ (58)

گویا کہ وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (59)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ (60)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (61)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّـتَانِ (62)

اور ان دو کے علاوہ اور دو باغ ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (63)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


مُدْهَآمَّـتَانِ (64)

وہ دونوں بہت ہی سبز ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (65)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ (66)

ان دونوں میں دو چشمے ابلتے ہوئے ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (67)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ (68)

ان دونوں میں میوے اور کھجوریں اور انار ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (69)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


فِـيْهِنَّ خَيْـرَاتٌ حِسَانٌ (70)

ان میں نیک خوبصورت عورتیں ہوں گی۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (71)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


حُوْرٌ مَّقْصُوْرَاتٌ فِى الْخِيَامِ (72)

وہ حوریں جو خیموں میں بند ہوں گی۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (73)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


لَمْ يَطْمِثْـهُنَّ اِنْـسٌ قَبْلَـهُـمْ وَلَا جَآنٌّ (74)

نہ انہیں ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے چھوا ہوگا۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (75)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


مُتَّكِئِيْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ (76)

قالینوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جو سبز اور نہایت قیمتی نفیس ہوں گے۔


فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (77)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔


تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِى الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ (78)

آپ کے رب کا نام با برکت ہے جو بڑی شان اور عظمت والا ہے۔


صبح صادق کا دن اطلوع ہوچکا تھا ایسے میں موحد سورہ رحمان ترجمے کے ساتھ عروسہ کو پڑھ کے بتایا تھا تاکہ اُس کو معلوم ہو اللہ کی ہمارے اُپر کتنی نعمتیں ہیں ہم ان کی کس کس نعمت کی ناشکری کریں گے اِس لیے روزانہ صبح وہ اُس کو سورہ رحمان پڑھ کر سناتا جب کے جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت وہ ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر سناتا تھا۔

آپ کی آواز بہت پیاری ہے بھائی آپ کو چاہیے پاس والی مسجد میں آذان دے۔ عروسہ جو تلاوت سننے میں پوری طرح مگن تھی موحد خاموش ہوا تو اُس کا طلسم ٹوٹا جبھی وہ بولی۔

ہم اللہ کے اتنے نیک بندے بھی نہیں۔موحد نے مسکراکر کہا۔

کون کتنا نیک ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے فلحال ناشتہ تیار ہے کرلوں۔صائمہ باہر صحن میں اُن کے پاس آتی بولی۔

بھائی آج میں اسکول آپ کے ساتھ بائیک پہ چلوں گی۔ عروسہ اٹھتی ہوئی بولی

ٹھیک ہے پھر جلدی تیار ہوجانا۔ موحد نے کہا۔

لاوٴ میں قرآن پاک کو جگہ پہ رکھتی ہوں۔ صائمہ نے موحد کے دونوں ہاتھوں میں قرآن پکڑے دیکھا تو کہا جہاں وہ اب عقیدت سے قرآن کو آنکھوں سے لگارہا تھا۔

آپ کا وضو نہیں ہوا۔موحد نے مسکراکر کہا صائمہ نے اپنے ماتھے پہ چپت لگائی

سوری۔ صائمہ نے کہا موحد سرہلاتا گھر کے اندر کی طرف بڑھا۔

💕💕💕💕💕💕

کشف گھور کے ہاتھ میں پکڑے پراٹھے کو دیکھ رہی تھی جو بہت گول تھا تیل اتنا ڈالا تھا گیا تھا جہاں اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہے تو ٹپک ٹپک کر پلیٹ میں گِررہا تھا۔

مجھے نہیں لگتا یہ کھانے کے بعد مہینہ بھر ہمیؑ کجھ اور کھانے کی ضرورت پڑے گی۔ حیا جو اُس کے ساتھ بیٹھی والی کرسی پہ بیٹھی تھی اپنی پلیٹ میں موجود پراٹھے کو دیکھ کر بولی۔

مجھے تو متلی سی ہو رہی ہے اِس کو دیکھ کر۔ کشف منہ کے زاویے بناکر بولی۔

پراٹھے کو تم نے خود منہ میں ڈالنا ہے پراٹھا خود بخود تمہارے منہ میں نہیں جائے گا۔اماں رخصانہ نے گھور کر کہا۔

میں صبح کو بس باؤل انڈہ کھاتی ہوں ساتھ جوس یہ مجھ سے نہیں کھایا جائے گا۔کشف نے پراٹھا پلیٹ میں رکھ کر کہا

بیٹی کھانا تو پڑے گا۔اماں رخصانہ حکیمہ انداز میں بولی۔

ڈیڈ آپ ان سے کہے نہ زیادہ آؤلی چیزیں صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔کشف کو کوئی راہِ فرار نظر نہ آئی تو واحب احمد کو بیچ میں گھسیٹا۔

اگر تم بیچ میں آئے تو ایسے چار پراٹھے کھانے پڑے گے۔واحب احمد اپنی بیٹی کی حالت پہ ترس کھاکر کجھ کہنے والے تھے جب اماں رخصانہ نے پہلے وارن کیا اُن کی بات پہ جہاں سب نے مسکراہٹ چھپائی وہی واحب احمد نے ایسے خود کو لاپرواہ ظاہر کیا جیسے انہوں نے کشف کی بات سنی ہی نہ ہو کشف تو بس ان کی بے نیازی پہ عش عش کر اُٹھی ناچار پھر دونوں کو بقول اماں رخصانہ کے دیسی تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھانا پڑا۔

ٹیسٹ کیسا تھا پراٹھے کا؟ منہا نے شرارت سے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا جو کمرے میں آتی بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی۔

جاننے کا اتنا شوق ہے تو کھاکر دیکھتی۔ کشف نے طنزیہ کہا۔

وہ اسپیشلی تم دونوں کے لیے تھا بھلا میں کیسے تم دونوں کی حق تلفی کرتی۔ منہا نے مزے سے بتایا دونوں کم ہی اُس کے ہاتھ آتی تھی ورنہ اکثر تو وہ دونوں اُس کے ناک میں دم کرکے رکھتی تھی۔

شکریہ بڑائے مہربانی اب خاموشی اختیار کریں۔ حیا نے بے زار شکل بناکر کہا۔

اچھا مذاق کررہی تھی میں تم دونوں کے لیے گرین ٹی یا حاج مولا لیکر آتی ہوں۔ منہا نے اب کی سنجیدہ ہوکر کہا اُس کو پتا تھا دونوں نے پہلی دفع اتنا ہیوی ناشتہ کیا تھا دونوں بہت ڈائیٹ کونشیئس تھیں جس وجہ سے ہلکہ پُھلکہ ہی کھاتی تھی اب ان کا ہاضمہ بھی مشکل سے ہوتا تبھی کہا۔

پلیز یہ مہربانی کردو۔ کشف نے فورن سے کہا منہا سر کو جنبش دیتی باہر چلی گئ۔

کش اگر ایک مہینہ یہی چلتا رہا تو ہماری فگر خراب ہوجائے گی۔ حیا اس کی طرف چہرہ کرکے بولی۔

میں تو جم جوائن کرنے کا سوچ رہی ہوں اپنی ڈائیٹ پہ نو کمپرومائز۔کشف نے اپنا پلان بتایا جس سے حیا بھی متفق ہوئی۔

💕💕💕💕💕

میں ایک ڈیل کے سلسلے میں لاہور جارہا ہوں سوچا تمہیں بتادوں۔دوسرے دن حیا جب حمزہ سے ملی تو اُس نے بتایا۔

کتنے دنوں کے لیے؟حیا نے پوچھا۔

ون ویک یا ون منتھ۔ حمزہ نے پرسوچ انداز میں بتایا۔

اتنا وقت کیوں؟

اور بھی ڈیلرز سے ہیں جن سے میرا ملنا ضروری ہے ان کاموں میں اتنا وقت تو لگ جائے گا۔ حمزہ نے اُس کے پوچھنے پہ بتایا۔

ابھی تو جان چھوٹی تھی میری اب پھر سے تم سیر سپاٹوں پہ نکلے ہو۔ حیا نے تاسف سے کہا

یہ میرا کام ہے حیا بزنس میں جانا پڑتا ہے شادی کے بعد تو تم ساتھ چلو گی یہ دوریاں تو بس اب چند وقت کے لیے ہے۔ حمزہ نے اُس کو اپنے ساتھ لگاکر کہا۔

ٹھیک ہے پر بات کرتے رہنا۔ حیا نے کہا

وہ تو کروں گا۔ حمزہ اس کا گال سہلاکر بولا

اماں رخصانہ بڑا ظلم کرتی ہے۔ حیا اس کی شرٹ کے بٹن پہ ہاتھ پھیر کر بولی

ہاہاہا کبھی کبھی تو آتی ہیں وہ۔ حمزہ نے ہنس کر کہا

تم ملنے آؤں گے ان سے؟حیا نے مسکراکر پوچھا

کوشش کرسکتا ہوں شیور نہیں ہوں کیونکہ میری روٹین اب بزی ہوچکی ہے تمہیں ہی مشکل سے وقت دے پاتا ہوں۔حمزہ نے صاف گوئی سے کہا۔

تمہاری مرضی زور زبرستی تھورئی ہے۔ حیا نے اپنا سر حمزہ کے سینے پہ رکھ کر کہا حمزہ نے مسکراکر اس کے گرد اپنا حصار باندھا۔

💕💕💕💕💕

یہ میرے کجھ کپڑے ہیں ان کو اچھے سے استری کرنا ایک شکن نہ ہو۔ اماں رخصانہ نے اپنے دو جوڑے کشف کی طرف بڑھا کر کہا۔

میں نوشین سے کہتی ہوں۔کشف نے کہا

میں نے تم سے کہا ملازمہ سے کہنے کا نہیں۔اماں رخصانہ نے کہا۔

میں؟کشف نے اپنی طرف اشارہ کیے کہا

اور کوئی ہے یہاں۔ انہوں نے اُلٹا اُس سے سوال کیا۔

نہیں میں ہوں میں ہی کروں گی پھر۔ کشف منہ کے زاویے بگاڑتی بولی۔

شاباش اب جاوٴ۔اماں رخصانہ نے کہا کشف تین چار جوڑے لیکر آئرن اسٹینڈ کی جانب آئی۔

ہائے میری کمر۔ پانچ منٹ میں اُس نے ایک جوڑا استری کیا تو اپنی کمر میں درد محسوس ہونے لگا۔

ہائے میری ٹانگیں۔کشف اپنے آپ کو دیکھ کر دوہائی دیتی بولی۔

یہاں چیئر کیوں موجود نہیں لازمی میں ہے انسان کھڑے ہوکر کپڑے استری کریں بیٹھ کر آرام سے بھی تو کرسکتا ہے۔ کشف استری کرتی ساتھ میں خود سے باتیں کرنے لگی۔

یااللہ تیرا شکر۔ استری سے فارغ ہوکر کشف شکرادا کرتی اماں رخصانہ کے کمرے کی طرف آئی جو اُس کے انتظار میں تھی۔

کرلیے میں نے۔ کشف نے فخریہ بتایا۔

مبارک ہو اب اِن کو ترتیب سے الماری میں سیٹ کرو۔ ان کی بات سن کر کشف نے ویسا ہی کیا۔

💕💕💕💕💕

زندگی آزمائش کا دوسرا نام ہے یہاں ہر بار وہ نہیں ہوتا جو انسان چاہتا ہے ہر کوئی آپ کی قسمت میں نہیں ہوتا اور نہ ہر کوئی مقدر کا سکندر ہر انسان سب کجھ پانے کے بعد بھی ادھورا ہوتا ہے کیونکہ بعض دفع ان کے پاس ایک ایسی چیز نہیں ہوتی جو بعد میں ان کی حسرت بن جاتی ہے موحد کا حال بھی کجھ انہی لوگوں میں شُمار تھا جس نے ہر چیز پہ تو صبر وشکر کا مظاہرہ کیا تھا پر اِس بار زندگی نے ایسا موڑ لیا تھا جس پہ اُس کا دل خودغرض بننے کو چاہ رہا تھا اپنے دل کی آواز پہ لیبک پڑھنے کی جی چاہ رہا تھا پر وہ بس چاہ سکتا تھا اصل میں نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا جو وہ چاہنے لگا ہے سوائے اس میں خسارے کے اور کجھ نہیں اپنے دل کو مار کر جینا جس کو چاہوں اُس سے بے رخی برتنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے یہ کوئی اُس سے پوچھتا۔

مان لوں تمہیں بھی اُس سے محبت ہے۔ موحد آج اپنے دوست سے ملنے آیا تھا جو اُس کے ہر حال سے واقف تھا۔

میرے ماننے سے کیا ہوگا۔ موحد تلخ انداز میں بولا۔

تم جو ہو جیسے ہو وہ تمہارے حال سے واقف اُس کے باوجود بھی تمہیں چاہتی ہے تمہاری محبت کی طلبگار ہے پھر کیوں تم اسے اور خود کو اذیت دے رہے ہو۔ افعان نے سنجیدگی سے کہا

وہ میرے حال سے واقف ہے تنگی کی زندگی کیسے گُزاری جاتی ہے اُس سے ناواقف ہے جب اُس سے واقف ہوجائے گی نہ تو یہ پیار محبت کے داعوے دھرے کے دھرے رہ جائے گے۔ موحد نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا

وفادار شخص ہر حالت میں آپ کے ساتھ رہتا ہے حالات کے مطابق نہیں جس طرح تم مجھے اُس کے بارے میں بتاتے ہو میرا نہیں خیال وہ تمہیں اکیلا چھوڑے گی۔ افعان نے اس کو منانا چاہا۔

تمہاری بات مان بھی لوں میں اس کا ہاتھ تھام بھی لوں تو کیا اس کے گھروالے ایسے لڑکے سے اُس کی شادی کروائے گے جس کے مستقبل کی کوئی گرنٹی نہیں جس کو پہلے اپنی بہنوں کی شادی کروانی ہے۔ موحد نے سنجیدگی سے سوال کیا۔

ایسا کیوں کہہ رہے ہو تمہارے مستقبل کی گرنٹی نہیں ابھی سے تم پڑھائی کے ساتھ بہت ساری جابز کرتے ہیں پڑھائی کے بعد تمہیں بہت اچھی جابز کی آفرز ہوسکتی ہیں تمہاری قابلیت دیکھ کر۔ افعان نے مسکراکر کہا

یہ سب تب ہوگا جب اسکالرشپ ملے گی دعا کرنا مل جائے امی پریشان ہیں آپی صائمہ کی شادی کو لیکر مجھے کوئی اچھی جاب مل جائے تو امی ان کے جہیز کے سامان تیار کرواسکے۔ موحد پریشانی سے بولا۔

جہیز ایک لعنت ہے اگر جہیز کی لالچ ختم ہوجائے تو کوئی بھی ماں اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پریشان نہ ہو اور نہ ہی بیٹی کی پیدائش پہ ان کے جہیز بنانے کے لیے ہلکان ہونا پڑے۔ افعان گہری سانس لیکر بولا۔

اب کون حلال حرام غلط سہی یا لعنت جیسی چیزوں سے دور رہتا ہے یا ان کا فرق سمجھتا ہے۔موحد آسمان کی طرف دیکھ کر بولا۔

ہمارے معاشرے کی یہی تو بُری بات ہے۔ افعان افسوس سے بولا موحد کجھ بس سانس خارج کرتا رہ گیا۔

💕💕💕💕💕💕

منہا آج اپنی دوست کے ساتھ شاپنگ کرنے مال آئی تھی اُس کی فرینڈ رباب مال کے دوسرے ایریا کی طرف گئ تھی وہ اب اکیلی اپنے لیے ڈریس لینے کا سوچتی لیڈیز شاپ کی طرف جارہی تھی جب سامنے سے ماہر فون پہ بات کرتا نظر آیا ماہر کو دیکھ کر وہ نظر بچاتی گُزرنا چاہتی تھی پر پاس سے گُزرتے ہی اس کی نازک کلائی ماہر کی گرفت میں آچُکی تھی منہا نے زور سے آنکھین میچ لی ماہر کال سے فارغ ہوتا منہا کی طرف دیکھنے لگا جو پوری لائٹ براوٴن چادر میں چھپی ہوئی تھی۔

مجھ سے بھاگ رہی تھی؟ ماہر نے کلائی آزاد کرتے کہا

میں کیوں آپ سے بھاگوں گی میں تو یہاں شاپنگ کرنے آئی تھی۔ منہا نے جزبز ہوکر بتایا

اچھا کرلی شاپنگ پھر۔ ماہر اس کی معصوم شکل دیکھ کر پوچھنے لگا۔

ابھی کروں گی دوست کے ساتھ آئی ہوں۔ منہا نے جواب دیا۔

گھر آپ میرے ساتھ چلے گی اپنی فرینڈ کو بتادیجئے گا۔ ماہر نے آرام سے کہا

آپ کے ساتھ کیوں؟ منہا گھبراکر بولی

میرے ساتھ کیوں نہیں؟ماہر نے سوال کے بدلے سوال کیا منہا کی پلکیں جھک سی گئ۔

مجھ سے گھبرانا چھوڑ دے میں جتنی آپ سے محبت کرتا ہوں اُس سے زیادہ آپ کی عزت کرتا ہوں۔ ماہر نے ناراض لہجے میں کہا۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ منہا نے منمناکر کہا

پھر کیا مطلب تھا۔ ماہر نے جاننا چاہا۔

ماہر میں آپ کی نہیں پلیز اِس لیے آپ میرے سامنے مت آیا کریں۔ منہا نے پہلی دفع اُس کا نام لیا تھا ماہر ٹرانس کی کیفیت میں منہا کو دیکھتا رہا آج سے پہلے اُس کو اپنا نام اتنا پیارا نہیں لگا جتنا منہا کے منہ سے سن کر لگا اُس کے دل نے خواہش کی منہا بس اُس کا نام لیتی رہے اور وہ پاگلوں کی طرح سنتا رہے۔


آپ ملے یا نہ ملے

یہ میرے

مقدر کی بات ہے مگر

سکون

بہت ملتا ہے آپ کو

اپنا/

سوچ کر


ماہر نے جذب کے عالم میں منہا کو دیکھ کر شعر پڑھا منہا نے نظریں اُٹھا کر ماہر کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اُس کا عکس تھا۔

میں آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں پر جو آپ چاہتے ہیں میرے لیے ممکن نہیں۔منہا نے کہا

جانتا ہوں میرے لیے اتنا ہی بہت ہے آپ کو میری فیلینگز کی قدر ہے۔ ماہر اُداس مسکراہٹ سے بولا۔

میں اپنی دوست کو میسج کردوں گی آپ جس کام سے آئے تھے وہ کریں تب تک میں اپنی کجھ چیزیں خرید لوں۔ منہا نے بات بدل کر کہا

میرا کوئی کام نہیں میں بس یہاں ایک ماڈل سے ملنے آیا تھا اس سے کجھ باتیں ڈسکس کرنی تھی جو کی ہوگیا آپ اپنی خریداری مکمل کریں اُس کے بعد چلتے ہیں۔ ماہر نے آرام سے کہا منہا سر اثبات میں ہلاتی لیڈیز شاپ کی طرف آئی ماہر بھی اس کی تلقید میں چلتا ہوا پیچھے آیا۔

ایک گھنٹے بعد منہا اپنی شاپنگ سے فارغ ہوئی جس میں زیادہ تر ماہر نے مدد کی تھی شاپنگ کے بعد منہا کو ماہر فوڈ کارنر لیں آیا منہا نے انکار کرنا چاہا تھا پر ماہر نے ایک نہ سنی۔

آپ اپنے لیے کجھ آرڈر کریں۔ ماہر نے مینیو اُس کی طرف بڑھا کر کہا منہا نے اپنا آرڈر بتایا تو سیم ماہر نے بھی وہی آرڈر کیا۔

آپ کو کھانے میں کیا پسند ہیں؟ ماہر نے بات کرنے کے غرض سے پوچھا

چائینز فوڈ۔ منہا نے مسکراکر بتایا۔

نائیس۔ ماہر بھی مسکراہٹ سے بولا۔

آپ کو کیا پسند ہے؟ منہا نے جھجھک کر کہا

مجھے آپ بہت پسند ہیں۔ ماہر نے کھوئے ہوئے انداز میں بولا تو منہا اچانک اظہار پہ گِڑبڑا سی گئ۔

میں کھانے کا پوچھ رہی تھی۔ منہا نے بتایا

کھانا مجھے اسپائسی بہت پسند ہے۔ ماہر خجل ہوتا ہوا بولا۔

چیزیں تیکھی پسند ہیں پر آپ کا مزاج بہت ٹھنڈا ہے۔ منہا نے ہنس کر کہا۔

بلاوجہ غصہ کرنا میری تربیت کا خاصہ نہیں پر جب آجائے تو میرا خود پہ اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ ماہر نے ٹیبل سے ہاتھ ہٹاکر کہا کیونکہ اُن کا آرڈر آچُکا تھا۔

غصہ ویسے بھی حرام ہے انسان غصے میں اپنے آپ میں نہیں رہتا سہی غلط کا فرق بھول جاتا ہے۔ منہا نے سمجھداری سے کہا۔

کوشش کروں گا غصہ نہ کروں۔ ماہر نے کہا

کھانا شروع کریں۔ منہا نے اس کا دھیان کھانے کی طرف کروانا چاہا۔

شیور۔ ماہر ہلکی مسکراہٹ پاس کرتا بولا۔

آج کا میرا دن بہت خوبصورت اور یادگار تھا۔ ماہر اور منہا کھانے سے فارغ ہوتے باہر پارکنگ کی طرف آئے تو ماہر نے اُس کے لیے فرنٹ ڈور کھول کر کہا۔

وجہ؟ منہا اس کی بات کا مطلب سمجھے بنا بولی۔

آپ؟ جواب مختصر سا تھا جسے سننے کے بعد منہا میں ہمت نہ ہوئی کجھ اور بات کرنے کی باقی کا سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔

💕💕💕💕💕💕

حیا صبح سویر کشف کے کمرے میں آئی تو اُس کو لگا کسی دوزخ میں آگئ ہو اتنا گرم کمرہ محسوس کرکے اس کو حیرانی ہوئی اس نے بیڈ کی طرف دیکھا جہاں کشف پسینے سے شرابور سوئی ہوئی تھی۔

کشف

کشف۔

حیا نے اس کا کندھا جھنجھور کر اُٹھانا چاہا

کیا ہے؟ کشف بے زار ہوکر بولی ایک تو گرمی میں مشکل نیند آئی تھی اُپر سے حیا اس کو جگانے آ پہنچی تھی۔

تمہارے کمرے کا اے سی خراب ہوگیا ہے کیا؟ حیا نے اندازہ لگاکر پوچھا

نہیں لاسٹ ٹائیم ہی تو اے سی بدلوائی تھی۔ کشف نے کہا

تو اے سی کیوں نہیں چل رہا گرمی میں کیسے تم کمرے میں موجود ہو اُپر سے کھڑکیاں بھی بند کررکھی ہے۔ حیا کی نظر کمرے کی بند کھڑکی پہ پڑی تو فورن سے اٹھ کر کھڑکیوں کے پاس آئی۔

اففف پاگل لڑکی جون مہینہ ویسے ہی اتنا گرم ہوتا ہے مرنا ہے کیا تمہیں گرمی میں؟حیا نے تاسف سے کہا۔

نہیں میں نے سوچا اب سے میں سادگی زندگی گُزاروں گی۔ کشف نے بتایا۔

سادگی زندگی جینے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کے انسان گرمی میں سوئے۔ حیا کو اُس کی بات سن کر حیرت ہوئی تو طنزیہ بولی۔

جو بھی پر میں مکمل طور پہ سادہ زندگی جینا چاہتی ہوں۔ کشف نے آرام سے کہا

یہ کوئی تمہارا نیا ایڈوینچر ہے۔ حیا نے پوچھا

نہیں۔ کشف نے گردن کو دائیں بائیں ہلاکر انکار کیا۔

اچھا نہالوں سمیل آرہی ہے تم سے پسینے کی۔ حیا نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا کشف نے زور سے تکیہ اس کی طرف اُچھالا پھر واشروم کی طرف بڑھ گئ کیونکہ اُس کو خود بھی پسینے کی سمیل آرہی تھی۔ حیا بھی ہنس کر کمرے سے باہر نکل گئ اُس کو گرمی میں پگھلنا جو نہیں تھا پر جاتے وقت اے سی آن کرنا نہیں بھولی تھی۔

کشف ناشتہ کرکے کالج کے لیے روانہ ہوگئ تھی جہاں اُس کو معلوم ہوا کے آج کلاسس نہیں ہوگی ایسے بیزار بیٹھنے کے بعد اُس کے دماغ میں کجھ کلک ہوا تو فورن سے کھڑی ہوتی ڈائیس کے سامنے کھڑی ہوئی۔

اٹینشن پلیز۔ کشف نے کہا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوئے سوائے موحد کے۔

جیسا کے آج ہماری کوئی کلاسس نہیں تو کیوں نہ ہم گیم کھیلے۔کشف نے کہا تو سب یس یس کے نعرے لگانے لگے۔

گیم ہوگی کیا؟ ایک کلاس فیلو نے کہا

گیم کجھ یوں ہوگی کے ہم پرچیاں بنائے گے پھر اُس میں جو لکھا ہوگا جس کے ہاتھ میں جو پرچی آئے گی اُس کو وہ کام کرنا ہوگا پر گیم میں نو چیٹنگ۔ کشف نے مسکراکر گیم کا بتایا تو سب متفق ہوئے موحد جانے لیے کھڑا ہوا تو کشف فورن سے بول پڑی۔

جس کو گیم پہ اعتراض ہے وہ نہیں گیم کھیلنا چاہتا پھر بھی اس کو یہاں موجود ہونا ہوگا ساجد تم دروازے پہ کھڑے ہوجائے کسی کو بھی باہر جانے نہیں دینا۔ کشف نے اپنی بات کہہ کر کلاس فیلو کو مخاطب کیا تو وہ دروازے کے پاس کھڑا ہوا۔ موحد بھی ناچار بیٹھ گیا۔

تو ہم پرچیاں بنانا شروع کرتے اگر کوئی اپنی طرف سے ایڈ کرنا چاہتا ہے تو ضرور بتائے۔ کشف نے مسکراکر کہا پھر سب پرچیاں بنانے لگے جو کی تیس کے درمیان تھی جن میں کجھ خالی تھی۔

پرچیاں بنانے کے بعد اس کو گھما کر ٹیبل پہ رکھ دیا تو سب نے کھول کر دیکھا۔

اب ہر کوئی اپنی پرچی میں لکھا ہوا بتائے میری تو خالی ہے۔ کشف نے ہاتھ کھڑے کیے۔

اپنی دوست کو تھپڑ مارو

کوئی ایسی بات جس کا ڈر ہو

زندگی کیا ہے

اپنے کرش کو اے لو یو کہنا۔

ایک کے بعد ایک سب بتاتے گئے تو پہلے کشف نے اپنی کلاس فیلو صدف سے کہا جس کو اپنی دوست کو تھپڑ مارنا تھا۔

یار سوری ناراض مت ہونا۔ صدف اپنی دوست سے کہتی اس کے گال پہ تھپڑ جڑدیا جس پہ سب کے قہقہقہ گونج اُٹھے موحد نفی میں سرہلانے لگا۔ صدف تھپڑ مارنے کے بعد اپنے کان پکڑتی دوست کو گلے سے لگا لیا۔ سب نے پرچی کے مطابق کیا تو گیم دوبارہ شروع کی۔

کشف نے اپنی پرچی پہ لکھا ہوا پڑھا تو زور سے آنکھیں میچ کر لب دانتوں تلے دبائے۔

تمہارا کیا آیا ہے؟ طاہرہ نے تجسس سے پوچھا

جس سے پیار ہے اُس کے لیے شعر پڑھو۔ کشف نے موحد کی طرف دیکھ کر کہا موحد خود پہ اُس کی نظریں محسوس کرتا انجان بنا بیٹھا۔

تو پھر ریڈی ہوجائے۔پوری کلاس نے شور مچایا تو کشف نے گلا کھنکارہ۔

پلیز خاموش ہوجائے تاکہ میں شعر عرض کروں۔ کشف کی بات پہ پوری کلاس میں سناٹا چھاگیا۔


میں ناواقف تھی محبت کے احساس سے

میں ناواقف تھی محبت کے احساس سے

ایک شخص ملا اور مجھے عشق کی آگ سے

روشناس کروا گیا۔


کشف ایک ایک لفظ ادا کرتی موحد کو دیکھنے لگی جو بے نیاز سا بیٹھا تھا باقی پوری کلاس نے زور سے تالیاں بجائی۔

💕💕💕💕💕💕💕

تم سمجھ کیوں نہیں رہے سعید تمہیں پروپرٹی سے عاق کردے گے۔ ہما بیگم نے پریشان کن انداز میں نعیم سے کہا

موم آپ ڈیڈ کو سمجھ جائے زمانہ بدل چُکا ہے بچپن میں بنائے گئے رشتے کامیاب نہیں ہوتے۔ نعیم نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا

باپ بیٹے کے درمیاں میں تو پس کر رہ گئ ہوں میری بات سنو نعیم ایک دفع پاکستان آجاؤ تمہیں پتا تو ہے حمزہ حیا کو چاہتا ہے اگر تم نے انکار کیا تو وہ بھی انکار کردیں گے۔ہما بیگم نے سلجھے ہوئے انداز میں کہا۔

حمزہ اپنی چیزوں کے لیے کتنا جنونی ہے آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں حمزہ نے ضرور کجھ سوچ لیا ہوگا ورنہ اِس وقت کالز پہ کالز آپ نہیں وہ کررہا ہوتا۔نعیم حمزہ کی رگ رگ سے واقف تھا تبھی بولا۔

مسئلاً کیا کیا ہوگا اُس نے؟ہما بیگم ٹھٹک کر پوچھنے لگی۔

وہ تو مجھے نہیں پتا پر حمزہ کو پتا ہے میں انکار کروں گا دوسرا یہ بھی کے ایسے میں اُس کو حیا کا رشتہ نہیں ملے گا تو سوچ تو لیا ہوگا نہ اُس نے ایسے سکون سے لاہور میں نہ ہوتا۔نعیم نے کہا

فلحال تم پاکستان کی فلائٹ پکڑو شادی کے بعد پھر منہا کو ساتھ لیں جانا۔ہما بیگم نے کہا

منہا میرے معیار کی نہیں۔نعیم نے عدم دلچسپی دیکھائی۔

تمہارے معیار پہ کون اُترتا ہے وہ بھی مجھے اچھے سے پتا ہے اِس لیے چاہتے ہو اگر کے جائداد سے عاق نہ کیا جائے تو پاکستان آنے کی تیاری کرو ورنہ بھول جاؤ سعید تمہیں پھوٹی کوڑی بھی دے گے۔ہما بیگم نے کہہ کر فون بند کیا دوسری طرف نعیم بہت کجھ سوچنے پہ مجبور ہوگیا۔

💕💕💕💕💕💕

ان سے کے فائنل ایکزام شروع ہوچکے تھے جس وجہ سے سب اپنی پڑھائی میں مصروف تھے ان دنوں میں اماں رخصانہ بھی واپس چلی گئ تھی جس پہ حیا اور کشف نے دس دس شکرانے کے نفل ادا کیے تھے۔

تمہارا آج کا پیپر کیسا رہا؟ حیا نے پاپ کارن کھاتی کشف سے پوچھا

سہی تھا بس تم دعا کرو۔ کشف نے آرام سے کہا

میرا تو زبردست تھا۔ حیا نے مزے سے کہا

ہمم اگر تیاری کروانے والا حمزہ ہو تو پیپر زبردست ہی ہوگا۔ کشف نے معنی خیز لہجے میں کہا۔

آہستہ بولو۔حیا نے اس کے بازوں پہ چٹکی کاٹ کر کہا۔

بہت ہی کوئی مین ہو۔ کشف اپنا بازوں سہلاتی گھور کر بولی۔

منہا کہاں ہیں؟ حیا اُس کی بات نظرانداز کرتی بولی۔

تمہاری بہن ہے تمہیں پتا ہوگا۔ کشف زچ ہوتی بولی۔

مرو تم یہاں۔حیا کی فون پہ حمزہ کی کال آنے لگی تو اُس نے کشف سے یہ کہہ کر کمرے کی طرف آئی کمرے کا دروازہ لاک کرتی وہ آرام سے کشن گود میں رکھتی حمزہ کی کال اٹینڈ کرگئ۔

اتنی دیر کال اُٹھانے میں۔حیا نے جیسے ہی فون کان پہ رکھا اسپیکر پہ حمزہ کی خفگی بھری آواز اُبھری۔

دوسری بیل پہ تو ریسیو کرلی نہ۔ حیا نے مسکراکر کہا۔

مہربانی آپ کی۔ حمزہ طنزیہ بولا۔

چھوڑو اب یہ بتاؤ کب واپس آرہے ہو؟حیا نے بے چینی سے پوچھا۔

رات کو آؤں گا۔حمزہ نے بتایا تو حیا خوش ہوگئ۔

سچی۔حیا چہک کر بولی۔

یس میری جان اور دو دن بعد تمہارا لاسٹ پیپر ہے تیسرے دن پہ میری برتھ ڈے تو میں چاہتا ہوں میری سالگرہ کے دن سارا وقت تم میرے ساتھ رہو۔حمزہ کی بات پہ حیا پریشان ہوگئ۔

حمزہ سارا دن کیسے تمہارا برتھ سلیبریٹ کرنے کے بعد میں گھر واپس آؤں گی ورنہ امی سے کیا کہوں گی۔حیا نے اپنا مسئلا بتایا۔

حیا تم یہ کہنا اپنی دوست کے ساتھ ہو ویسے بھی میں اب تمہارا محرم ہوں۔حمزہ نے آرام سے حل پیش کیا۔

پھر بھی۔حیا کو سمجھ نہیں آیا حمزہ کو کیسے منائے۔

نو آرگیومنٹ حیا تم نے آنا ہوگا میں نے سارا سیٹ اپ کرلیا ہے۔ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔

اچھا اور کون کون ہوگا سیٹ اپ کہاں کیا ہے؟ حیا نے گہری سانس لیکر پوچھا وہ سمجھ گئ حمزہ اس کی بات ماننے کے موڈ میں نہیں۔

میں اور تم ہوگے باقی سیٹ اپ میں نے فام ہاؤس میں کیا ہے۔ حمزہ نے مسکراکر کہا۔

بس ہم دونوں؟ حیا حیران ہوئی۔

بلکل کیونکہ میں اپنی زندگی کا خاص دن خاص انسان کے یادگار بنانا چاہتا ہوں۔ حمزہ نے گھمبیر لہجے میں کہا۔

اوکے دین میں کوشش کروں گی جلد تمہارے پاس آجاؤں۔حیا نے کہا۔

مجھے انتظار ہے اب تو۔حمزہ نے آنکھیں بند کرکے کہا۔

💕💕💕💕💕

ایکزام کے بعد چھٹیوں میں تمہیں بہت یاد کروں گی۔ کشف نے کالج میں درخت سے ٹیک لگائے موحد سے کہا۔

بہت فضول وقت جو ہے۔ موحد نے بنا دیکھ کر کہا۔

بہت پیار جو ہے تم سے۔

صرف وقت کا ضائع ہے۔ موحد نے سپاٹ انداز میں کہا۔

تمہیں میرا ہونا ہے موحد تم اندازہ نہیں لگا سکتے کتنی محبت کرتی ہوں میں تم سے۔ کشف نے بے بسی سے کہا موحد کی بے رخی اُس کا دل چیر رہی تھی۔

مجھے اندازہ لگانا بھی نہیں ہے کشف مرزا پلیز میری جان چھوڑ دو۔ موجد نے ہاتھ جوڑ کر کہا

میرے بس میں نہیں موحد اگر ہوتا تو اپنے جذبات کو تمہارے سامنے بے مول نہ کرتی اپنی عزت نفس اپنی انا کو مار کر تمہارے سامنے بے باکی سے ہر وقت اپنی محبت کا اظہار نہ کررہی ہوتی یہ میری محبت ہے جو مجھے ہر چیز کروانے پہ مجبور کررہی ہے۔ کشف نے زخمی مسکراہٹ سے کہا۔

میں ایک سیراب ہوں۔ موحد نے بس اتنا کہا۔

تم میری منزل ہو۔ کشف پُریقین ہوکر بولی

ماہر میری جان مجھے تم سے بات کرنی ہے اگر ٹائم ہے تو سن لوں۔ عانیہ مزرا اپنی ساڑھی کا پلو سنبھالتی ماہر کے کمرے میں آتی بولی جو لیپ ٹاپ پہ بزی تھا۔

یس موم آیم فری پلیز کم۔ ماہر لیپ ٹاپ سے نظریں اُٹھاکر ان کو دیکھ کر بولا۔

ماہر دراصل بات یہ ہے کے میں تمہاری شادی کروانی چاہتی ہوں لڑکی میں نے دیکھ لی ہے بس تم ایک دفع اُس سے مل لوں۔ عانیہ بیگم نے سیدھا مدعے کی بات کی۔

بٹ موم فلحال میرا شادی کرنے کا کوئی موڈ نہیں۔ماہر سنجیدہ انداز میں بولا۔

کیا مطلب موڈ نہیں شادی کیا موڈ دیکھ کر ہوتی ہے۔ عانیہ مرزا کو ماہر کی بات پسند نہیں آئی۔

فلحال میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ ماہر نے پھر کہا۔

ایک دفع روبی سے ملو شادی کا موڈ خوبخود بن جائے گا۔ عانیہ مرزا نے کہا۔

موم پلیز یہ شادی کا معاملہ زندگی بھر کا ہے آپ مجھے فورس مت کریں۔ ماہر دو ٹوک انداز اپنا کر بولا۔

کیا تم کسی کو پسند کرتے ہو؟عانیہ مرزا کا انداز جانچنے والا تھا ان کے سوال پہ ماہر کی آنکھوں میں چھن سے منہا کا عکس آیا۔

موم مجھے شادی کرنی ہوگی تو آپ کو بتادوں گا۔ ماہر ان کا سوال گول کرتا بولا۔

جلدی سے اپنا مائینڈ بنالوں بہوں تو میری روبی بنے گی۔ عانیہ مرزا اٹل انداز میں بولی ماہر کا رویہ ان کو سوچنے پہ مجبور کرگیا تھا جبھی وہ اس کو باور کروانا نہیں بھولی۔

💕💕💕💕💕

یار حیا ہم جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو اُس میں رکاوٹیں کیوں ہوتی ہیں؟ کشف نے بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ لیٹی حیا سے کہا۔

اگر محبت میں رکاوٹیں نہ ہو محبت جلد مل جائے تو آپ کو اُس کی اتنی قدر نہیں ہوگی جتنی بڑی مشکلوں سے محبت پانے کے بعد ہوگی کیونکہ تب آپ کو لگے گا اللہ نے بہت رکاوٹوں کے بعد نوازا ہے تو آپ اُس کی قدر کریں گے اللہ کا شکر ادا کریں گے جو چیز آسانی سے مل جائے چاہے پھر کتنی ہی عزیز پیاری خوبصورت کیوں نہ ہمارے نزدیک آہستہ آہستہ اُس کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ حیا نے ایک سانس میں بتایا۔

ہممم بات تو تمہاری درست ہے۔ کشف اس کی بات سے اتفاق کرتی بولی۔

تم کیوں پوچھ رہی تھی ویسے؟ حیا نے پوچھا

موحد کا دل میری طرف سے موم نہیں ہوتا۔ کشف حیا کی طرف کروٹ لیکر بولی اُس کی محبت کی واحد ہمراز حیا ہی تھی۔

دفع کرو پھر جس انسان کو آپ کی قدر نہ ہو اُس کے سامنے بار بار اپنے جذبات کی توہین کرنے سے اچھا ہے کے انسان خاموشی اختیار کرلیں اُس کو تم سے محبت ہوتی تو تمہارے اظہار پہ بے رخی نہ دیکھاتا تمہارا بڑھا ہوا ہاتھ نہ جھٹکتا تمہارے ساتھ چلنے پہ راستہ نہ بدلتا

لاحاصل کے تقاضوں سے بہتر ہے

جو بے زار ہو ان کو چھوڑ دیا جائے۔

حیا نے بھی کشف کی طرف کروٹ لیکر سمجھانے کی خاطر بات شروع کی۔

یہ سب کہنا سننا آسان ہے مگر اس کے برعکس عمل کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے آپ کو جس سے محبت ہو اُس کو نہ تو آپ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے لاپرواہ ہوسکتے ہیں میں یہ نہیں کہتی میں اُس سے محبت کرتی ہوں تو وہ بھی کریں میں بس اتنا چاہتی ہوں وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھ کو اپنی زندگی میں شمار کرلیں اُس کا ساتھ ہونا ہی میرے لیے بڑی بات ہے۔ کشف نے کسی بچے کے انداز میں کہا۔

مجھے یہ تو نہیں پتا تم نے دل سہی جگہ پہ لگایا ہے یہ غلط پر اتنا ضرور چاہوں گی اللہ تمہیں وہ عطا کریں جس کی تم چاہت کررہی ہو۔ حیا نے کہا تو کشف مسکرادی۔

💕💕💕💕💕

منہا کمرے کی صفائی کرتی باہر آئی تو اپنی ماں کو خاموش دیکھ کر اُس کے پاس بیٹھ گئ۔

کیا ہوا امی پریشان لگ رہی ہیں؟ منہا نے پوچھا

پریشان نہیں سوچ رہی ہوں کجھ۔ رخشندہ بیگم نے جواب دیا۔

اچھا کیا سوچ رہی ہیں؟ منہا نے جاننا چاہا۔

تمہارے چچا کا فون آیا تھا تمہارے والد صاحب کے پاس انہوں بتایا کے نعیم پاکستان لینڈ کررہا ہے۔ رخشندہ بیگم نے بتایا تو منہا کا دل عجیب انداز میں دھڑکا۔

اچھی بات ہے بہت سالوں بعد انہوں نے آنے کا سوچا۔ منہا نے آہستہ آواز میں کہا۔

وہ بھی تب جب نور نے بات کی سنجیدگی سے ورنہ کہاں ان کو خیال تھا کے نعیم کو اب واپس آنا چاہیے۔ رخشندہ بیگم نے کہا۔

بابا نے ان سے کیا بات کی؟ منہا نے ناسمجھی سے پوچھا

یہی کے بچپن سے بات طے ہے شادی ہوجانی چاہیے بچوں کی۔ رخشندہ بیگم نے بتایا تو منہا خاموش رہی۔

💕💕💕💕💕

ایکزامز ختم ہونے کے بعد وہ سب اپنے گھر میں تھے کشف موحد سے نہ ملنے پہ اُداس تھی منہا نے بوتیک جوائن کرلیا تھا اُس کو کپڑوں کی ڈیزائننگ کا شوق تھا جب کی حیا رخشندہ بیگم سے اپنی دوست کا کہہ کر حمزہ کے ساتھ اُس کے فام ہاؤس میں موجود تھی۔

ہیپی برتھ ڈیئر ہبی۔ حیا نے حمزہ کے گال پہ لب رکھ کر وش کیا۔

شکریہ میری جان اب اپنے ہاتھوں سے مجھے کیک کھالاو۔ حمزہ مسکراتا حیا کو اپنے ساتھ لگائے کیک ٹیبل کے پاس لیں آیا۔

واے نوٹ آج تمہارا دن ہے برتھ بوائے۔حیا نے ہنس کر کہا۔

اب تم گانا گاٶں گے۔ کیک کٹ کرنے کے بعد حیا نے کہا۔

گانا کیوں؟ حمزہ نے کہا

کیا مطلب کیوں میں نے اتنا کہا تمہارا مانا ہے اب تمہارا فرض ہے میرا فیورٹ گانا گانے کا۔ حیا نے اِتراکر کہا۔

گٹار لیکر آتا ہوں۔ حمزہ مسکراکر بولا۔

فار می۔ حیا نے مسکراکر پوچھا۔

یس اونلی فار یو مائے لو۔ حمزہ نے آنکھ ونک کرتے کہا۔

گٹار لیے آنے کے بعد حمزہ صوفے پہ بیٹھ گیا تو حیا بھی خوشی ہوتی پاس بیٹھ گئ۔

Music 🎶...............

Mai wird e_mohabat hi

karta rahun karta rahun

Zaban pe tera naam ho

Sub_shaam tujh ko

Nazar mai rakhun

Mera bas yahi kaam ho

Na chaand aur suraj

Ki hai aarzu

Mai taron say karlo

Teri guftugu

Aaa re aa re aa re

dil k saharay

Aaa re aa re aa re

dil k saharay

Aa ja Ray aaa ja ray

Aaa bhi jaa....

Music 🎶....


حمزہ نے رک کر حیا کو دیکھا جو اُس کو دیکھنے میں مگن تھی حمزہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ حیا کا ایسا انداز دیکھ کر۔

Mai sham_o_sehar

Teri yaadon mai gum tha

Nahi koi duja mujhe

Gum tha......

Mujhe dekh kar

Tera nazren churaana

Mohabbat me thoda

Tera sitam tha..


Teray pyaar ke mai

Kaseede parhun mera

Bas ye anjaam ho.

Na chaand aur suraj

Ki hai aarzu

Mai taron say karlo

Teri guftugu

Aaa re aa re aa re

dil k saharay

Aaa re aa re aa re

dil k saharay

Aa ja Ray aaa ja ray

Aaa bhi jaa....


حمزہ آدھا سونگ گاتا گٹار سائیڈ پہ کرتا حیا کے سامنے چٹکی بجائی تو حیا نے مسکراکر سرجھٹکا۔

تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے حمزہ۔ حیا ابھی بھی کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولی۔

تمہارا مجھے دیکھنے کا انداز بھی بہت خوبصورت تھا۔ حمزہ نے شرارت سے کہا۔

ایسا بھی کجھ نہیں۔ حیا مکرکر بولی تو حمزہ نے مسکراکر سر کو نفی میں جنبش دی۔

بھائی آئے گے جلد ہی پھر ہماری شادی ہوجائے گی تو یوں بہانے سے ملنا نہیں پڑے گا۔ حمزہ حیا کو اپنے قریب کرتا بولا۔

اگر نعیم بھائی آنے والے تھے تو تم نے نکاح کیوں کیا بعد میں بھی تو ہونا تھا؟ حیا نے اُلجھ کر پوچھا۔

میرا دل کیا ویسے بھی جو کام بعد ہونا تھا میں نے پہلے کرلیا۔ حمزہ حیا کے چہرے پہ آتی لٹ کو کان کے پیچھے کرتا بولا۔

کتنا مزہ آئے گا نہ ان دونوں کی جب شادی ہیں گی ہم اپنی بعد میں کرلیں گے ورنہ میں انجوائے نہیں کر پاوٴں گی۔ حیا نے لاڈ سے کہا۔

بعد میں دیکھے گے۔حمزہ حیا کو اپنے حصار میں لیتا بولا۔

حمزہ اب مجھے جانا چاہیے رات کے دس بج رہے ہیں۔ حیا حمزہ سے فاصلہ بناکر بولی۔

صبح کو چلی جانا ابھی میرا کوئی موڈ نہیں تم سے دوری اختیار کرنے کا۔ حمزہ حیا کے بالوں میں چہرہ چھپائے بولا حیا کو گھبراہٹ کے مارے پسینے آنے لگے۔

حمز

ششش

حیا کے کجھ بولنے سے پہلے حمزہ اُس کو بانہوں میں بھرتا کمرے کی طرف بڑھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح حیا کی آنکھ کُھلی تو خود کو بیڈ پہ اکیلا پایا کجھ دیر تک چھت کو گھورنے کے بعد وہ بیڈ سے اُٹھ کر اپنا حلیہ درست کرتی باہر آئی جہاں کچن کی طرف اُس کو کھٹ پٹ کی آواز آئی حیا کچن میں آئی تو حمزہ ناشتے بنانے میں مصروف تھا حمزہ کو اپنے پیچھے کسی کا احساس ہوا تو چہرہ موڑ کر دیکھا تو حیا کو کھڑا پایا جن کی آنکھوں میں شکوہ سا تھا

اچھا ہوا اٹھ گئ میں بھی تمہیں جگانے والا تھا ناشتہ تیار ہے۔حمزہ مسکراکر اس کے پاس آکر بولا حیا نے اپنا رخ موڑ لیا۔

کیا ہوا حیا؟ حمزہ انجان بن کر بولا۔

تم نے اچھا نہیں کیا۔ حیا نے بس اتنا کہا۔

میں کجھ غلط بھی نہیں کیا۔ حمزہ اس کو پیچھے سے اپنا حصار میں لیکر بولا۔

سہی نہ تھا وہ۔ حیا نے روندھی آواز میں کہا۔

ہے حیا ڈونٹ بی کرائے کجھ غلط نہیں تھا۔ حمزہ حیا کا چہرہ اپنی طرف کرتا نرمی سے بولا۔

مجھے تم یقین تھا۔ حیا نے آنسو بہاتے کہا۔

میں نے تمہارا یقین توڑا بھی نہیں اِس لیے کجھ فضولات مت سوچو۔ حمزہ سنجیدہ ہوکر بولا۔

میں نے پہلی غلطی بنا گھروالوں کو بتائے تم سے نکاح کیا دوسری غلطی یوں اکیلے تم سے ملنے چلی آئی۔ حیا کی بات پہ حمزہ نے جبڑے بھینچ لیے۔

بات کرتے سوچ لیا کرو کہ کیا بات کررہی ہو۔ حمزہ نے اس کے بال مٹھی میں جکڑ کر سخت انداز میں کہا۔

آآآآہ۔ درد سے حیا کی منہ سے سسکی نکلی۔

میں تمہارے پیار میں جنونی ہوں حیا میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا تم ایسا کہو۔ حمزہ اپنی گرفت ڈھیلی کرتا بولا۔

بہت برے ہو تم۔حیا اپنے قدم پیچھے لیتی بولی۔

جیسا بھی ہوں تمہارا ہوں برداشت کرنا پڑے گا۔ حمزہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔

آج سے پہلے تم مجھے اتنے برے نہیں لگے۔ حیا نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

ناشتہ تیار ہے۔ حمزہ اُس کے ماتھے پہ پُر حدت لمس چھوڑتا بولا۔

حمزہ۔

جی جانِ حمزہ۔ حمزہ محبت سے چور لہجے میں بولا۔

کسی کو پتا لگ گیا تو۔ حیا نے ڈرتے ہوئے کہا

تو لگنے دو ہم نے کجھ غلط نہیں کیا۔ حمزہ اس کو اپنے سینے سے لگاتا لاپرواہ انداز میں بولا۔

مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ حیا نے کہا

میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں صرف ہمارے گُزرے ہوئے خوبصورت لمحات کو سوچا کرو۔ حمزہ نے آرام سے کہا۔

میں آج کے بعد تم سے نہیں ملوں گی۔ حیا نے ناراض لہجے میں کہا۔

یہ ظلم مت کرنا۔ حمزہ مسکراہت دبائے بولا۔

بدتمیز۔ حیا نے اس کے سینے پہ مُکہ جڑکر کہا تو حمزہ کا قہقہقہ نکل گیا حیا بھی شرماکر اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپالیا۔

💕💕💕💕💕💕

کشف گھر کی طرف جارہی تھی جب اُس کی کار بیچ میں خراب ہوگئ آج اُس کا اکیلے باہر جانے کا موڈ تھا تبھی ڈرائیور کے بنا آگئ تھی مگر اب کار کے خراب ہونے پہ بُری طرح جھنجھلا گئ تھی۔

ہیلو مسٹر کیا آپ بتاسکتے ہیں ورکشاپ یہاں سے کتنی دور ہے۔ کشف کار سے باہر آتی پاس سے گُزرتے لڑکے سے بولی۔

یہاں سے سیدھا جاکر رائت لیں گی تو آپ کو ورکشاپ نظر آئے گا جو کی دس منٹ کی دوری پہ ہے۔ لڑکا بتاکر چلاگیا تو کشف شکرادا کرتی کار سے اپنا کلچ اور موبائل نکال کر لڑکے کے بتائی ہوئی جگہ پہ جانے کے لیے آگے بڑھنے لگی۔

موحد تم یہاں۔ کشف ورکشاپ پہ جیسے آئی اُس کی نظر موحد پہ پڑی جو کسی گاڑی کے بونٹ پہ جھکا ہوا تھا بال بکھرے ہوئے تھے کپڑے بھی کافی میلے اور ہاتھوں میں کالے رنگ کا نشان تھا کشف کو موحد کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اُس کو زرہ بھی موحد کا حُلیہ بُرا نہیں لگا۔

تم یہاں کیا کررہی ہو۔ موحد نے جانی پہچانی آواز سن کر چہرہ اُٹھایا تو کشف کو دیکھا جو مسکراتی اس کو دیکھ رہی تھی۔

میری گاڑی خراب ہوگئ تھی تبھی میں یہاں آئی کیا تم یہاں کام کرتے ہو؟ کشف نے بتاکر آخر میں پوچھا۔

ہممم۔ موحد نے بس اتنا کہا اُس نے ایک چور نظر کشف پہ ڈالی جس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی کہیں بھی ناگواری کے تاثرات نہیں تھے۔ اندر جاوٴ کوئی لڑکا چلے گا ساتھ اُس کو اپنی گاڑی دیکھانا وہ ٹھیک کردیں گا۔ موحد نے اس کو ایک جگہ کھڑا پایا تو کہا

تم دیکھو نہ چل کر یہاں سے دن منٹ کی مساوت پہ ہے۔ کشف نے کہا

مجھے اور بھی کام ہے۔ موحد نے سنجیدگی سے کہا۔

موحد انسانیت کی خاطر ہی مدد کردو۔ کشف نے خفگی سے کہا تو موحد نے سرد سانس خارج کی دوسرے لڑکے کو وہ کام کا بتاتا کشف کو چلنے کا اِشارہ کیا کشف خوشی سے مگن ہوتی موحد کے ہمہ قدم ہوئی۔

ٹائر پینچر ہے۔ موحد کی نظر کار کے ٹائر پہ پڑی تو کہا۔

اووہ میں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ کشف سر پہ ہاتھ مار کر بولی۔

دوسرا ٹائر ہے؟ موحد نے پوچھا

پتا نہیں شاید ہو۔ کشف نے کندھے اُچکاکر کہا تو موحد کار کی بونٹ کھول کر دیکھا تو ٹائر موجود تھا موحد نے اپنی مطلوبہ چیزیں نکال کر کام پہ لگ گیا۔ کشف دلچسپ نظروں سے موحد کو دیکھ رہی تھی موحد جب کی اُس کی نظروں سے اُلجھن کا شکار ہورہا تھا۔

تم ویسے پیارے لگتے ہو ہر حال میں۔کشف نے بات کا آغاز کیا۔

شکل سب کجھ نہیں ہوتی جس سے انسان ایمپریس ہوجائے۔موحد کشف کی بات کو اپنا رنگ دے کر بولا۔


حُسن کہاں حسین ہوتا ہے اے بشرِ بددماغ۔!!

جن سے عشق ہوجائے وہ دلکش لگتے ہیں۔!!


کشف نے مسکراکر شعر ادا کیا موحد کان دھرے بنا کام سے فارغ ہوتا ہاتھ جہاڑ کر کھڑا ہوا۔

ہوگیا کام اب تم جاسکتی ہو۔ موحد نے سنجیدگی سے کہاں اُس کو یہاں کشف کا اکیلا ہونا اچھا نہیں لگ رہا تھا ایک تو یہ علائقہ قدرے سنسان سا تھا دوسرا کشف لڑکی ذات ہوکر ایسے آنا موحد کو ٹھیک نہیں لگا تبھی فورن سے جانے کا کہا۔

فیس کتنی ہوئی۔ کشف نے پوچھا۔

سامان سارا تمہارا تھا میں نے بس مدد کی مدد کی فیس نہیں ہوتی۔ موحد نے سنجیدہ سا جواب دیا

کاش تم یہ میری محبت میں کرتے۔ کشف نے حسرت سے کہا۔

محبت کے علاوہ بھی کجھ سوچ لیا کرو۔ موحد نے ٹوکا۔

تم سے ملنے کے بعد میرا دل دماغ بس ایک یہی بات سوچتا ہے۔ کشف نے آرام سے کہا۔

میں تمہاری طرح فارغ نہیں۔موحد اپنی بات کہتا واپسی کے لیے جانے لگا کشف نے تب تک اُس کی پیٹھ دیکھی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا پھر وہ اپنے راستے کی طرف گامزن ہوئی۔

💕💕💕💕💕

نعیم پاکستان آگیا تھا اب وہ سعید مرزا اور ہما بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جب حمزہ بھی ان کے ساتھ بیٹھا۔

سوری یار میں تمہیں سالگرہ وش نہ کرسکا تھا۔ نعیم نے حمزہ کو دیکھ کر کہا۔

کوئی بات نہیں مجھے اندازہ ہے آپ کی مصروفیات کا۔ حمزہ نے سادہ انداز میں کہا۔

تم ریسٹ کرو اس کے بعد پھر مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ سعید مرزا نے روعبدار آواز میں کہا۔

میں بھی یہاں ڈیڈ اِس لیے آیا ہوں تاکہ آپ سے ساری بات کلیئر کرسکوں۔ نعیم کی بات پہ سعید مرزا نے بھنوئیں اُچکائی۔

ڈیڈ کینیڈا میں اپنے لیے میں لڑکی پسند کرلی ہے میں اُس سے شادی کروں گا منہا مجھے پہلے بھی پسند نہیں تھی اب تو میرے پاس وجہ بھی ہے۔ نعیم کی بات پہ سعید مرزا کی رگ غصے اُبھر پڑی۔

ہوش میں تو ہو تم۔ سعید مرزا بھڑک اُٹھے۔ حمزہ خود پریشان سا ہوگیا تھا۔

میں ہوش میں ہوں آپ لوگوں کو ہمارا رشتہ بچپن میں طے نہیں کرنا چاہیے تھا حمزہ بھلے خوش ہو آپ اُس کا کروائے پر میں اپنی زندگی ان چاہی ہمسفر کے ساتھ ہرگز نہیں گُزاروں گا۔ نعیم سنجیدگی سے بولا۔

شادی تو تمہاری منہا سے ہوگی جو بچپن سے تمہارے ساتھ منسوب ہے۔سعید مرزا تیز آواز میں بولا۔

میں بالغ مرد ہوں ڈیڈ اپنے فیصلے کرسکتا ہوں۔نعیم کوفت بھرے لہجے میں بولا۔

نعیم بیہیو ہوئر سیلف۔ ہما بیگم نے ٹوکا۔

آپ لوگ پھر میری بات مان لیں چچا کی فیملی سے انکار کردیں۔ نعیم ہاتھ کھڑے کرتا بولا۔

یہ ہماری عزت کا سوال ہے دیکھتا ہوں تم کیسے انکار کرتے ہو۔ سعید مرزا بگڑے تیوروں سے بولے

سوری ڈیڈ آپ مجھے بلیک میل نہیں کرسکتے اور نہ ہاں کرنے کے لیے پریشررائز کیونکہ میں خود چچا نور سے بات کرلوں گا۔ نعیم لاپرواہ انداز میں بولا۔

اگر ایسا کجھ کیا تو میں تمہیں عاق کرلوں گا۔ سعید مرزا نے دھمکی دے کر کہا۔

آپ ایسا نہیں کرسکتے مجھ سے میرا حق ایک چھوٹی بات کی وجہ سے چھین نہیں سکتے۔ نعیم فورن سے احتجاج کرتا بولا۔

جب باپ کی کسی بات کی اہمیت تمہاری نظر میں نہیں تو جائداد میں بھی تمہارا حق نہیں۔سعید مرزا طنزیہ ہوکر بولے۔

ایسا تو پھر ایسا سہی پر میں شادی منہا سے قطعاً نہیں کروں گا میری پوری زندگی کا معاملہ ہے پئسو کا کیا ہے وہ تو آنی جانی چیز ہے۔ نعیم اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا بولا۔

ایک دن مزدوری کروگے نہ تو ساری اکڑ ختم ہوجائے گی پئسو کی اہمیت تب بتانا پئسا آنے جانے کی چیز ہے یا بس جانے کی۔ سعید مرزا نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ نعیم بنا جواب دیا اندر کی طرف بڑھا۔

بھائی راضی نہیں ہوتا تو آپ چچا سے میری اور حیا کی بات کریں میں چاہتا ہوں ہماری شادی جلد ہو بھائی کا انکار ہمارے درمیاں خلش پیدا نہ کریں۔ حمزہ نے سنجیدگی سے اپنے باپ سے کہا

بھول جاوٴ نعیم کے انکار کے بعد تمہیں حیا کا رشتہ ملے گا۔ ہما بیگم نے فورن سے کہا۔

حیا بچپن کی منگ ہے میری دیکھتا ہوں کون بیچ میں آتا ہے ہمارے۔حمزہ رلیکس ہوکر بولا اُس کو اب کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی حیا کو اُس نے پوری طرح اپنے نام کرلیا تھا جس سے وہ اب پرسکون تھا۔

💕💕💕💕💕💕💕

نعیم بھائی آگئے بڑا افسوس ہورہا ہے مجھے ماہر بھائی پہ۔ کشف نے سرسری انداز میں کہا۔

افسوس کیوں؟منہا نے انجان بن کر پوچھا

تمہیں چاہتے ہیں وہ اگر آپ کو کسی اور ہوتا دیکھے گے تو کتنی بڑی قیامت ٹوٹ پڑے گی ان کے دل میں۔ کشف نے افسوس سے کہا

تمہیں ضرورت نہیں ان سے ہمدردی کرنے کی۔ منہا نے ٹوک کر کہا

آپ نہیں کریں گی تو کوئی اور تو کریں گا نہ۔ کشف نے آرام سے کہا۔

حیا کہاں ہیں؟ منہا نے بات بدل کر پوچھا۔

کمرے میں ہے آجکل چہرے پہ جانے کونسا مساج کرتی ہے بہت گلو کرگیا ہے۔ کشف نے جواب دیا۔

وہ پہلے ہی خوبصورت ہے۔ منہا نے آنکھیں دیکھا کر کہا۔

تو میں نے کب کہا نہیں ہے۔ کشف نے کہا۔

کہنا بھی مت۔ منہا نے وارن کیا۔

ویسے ماہر بھائی کو پتا لگ گیا ہوگا اب تو نعیم بھائی کی آمد کا۔ کشف کی سوئی گھوم پِھر کر ماہر پہ اٹکی۔

تمہیں اگر یہی باتیں کرنی ہے تو میرے کمرے سے چلی جاؤ۔منہا نے زچ ہوکر کہا۔

جاتی ہوں کام ہے مجھے۔کشف منہ بناکر کہتی باہر چلی گئ اُس کے جانے کے بعد منہا نے ہوا میں سانس خارج کی۔

💕💕💕💕💕

نعیم سے ملاقات ہوئی تمہاری؟عانیہ مرزا نے ڈنر کے وقت ماہر سے پوچھا۔

نہیں۔ماہر نے سنجیدگی سے یک لفظی جواب دیا

کیوں اتنے دن ہوئے ہیں اُس کو آئے ہوئے تمہیں ملنے جانا چاہیے تھا۔ عانیہ بیگم نے کہا

جی۔ ماہر نے پھر اتنا کہا۔

کیا بات ہے ماہر آجکل بہت خاموش خاموش نظر آتے ہو۔ عانیہ بیگم فکرمندی سے بولی۔

کجھ نہیں بس ایک شوٹ تھا اُس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ماہر نے بہانہ تلاشا جس سے عانیہ مرزا بلکل مطمئن نہیں ہوئی۔

کل میں نے تمہیں اور روبی کو ملوانا ہے بُکنگ ہوگئ ہے جاکر مل لینا تاکہ میں بات کو آگے کروں۔ عانیہ بیگم کجھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی پر ماہر نے کوئی جواب نہیں دیا۔

💕💕💕💕💕

منہا سونے کے لیے لیٹنے والی تھی جب اُس کا فون رنگ کرنے لگا۔

یہ کس کا نمبر ہے؟منہا نے اسکرین پہ انون نمبر دیکھا تو خود سے سوال کیا پھر سرجھٹک کر کال اٹینڈ کرلی۔

کون؟ منہا نے سیدھا یہی سوال کیا۔

نعیم بات کررہا ہوں۔ دوسری طرف سنجیدہ آواز نے اُس کو کھڑا ہونے پہ مجبور کیا۔

اسلام علیکم!!!منہا نے جلدی سے سلام کیا۔

ملنا ہے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ نعیم نے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

گھر آجائے بات ہوجائے گی۔ منہا نے کہا

گھر آنا ہوتا تو اِس وقت کال نہ کرتا میں جو بات کرنا چاہتا ہوں وہ گھر پہ نہیں ہوسکتی۔ نعیم نےطنزیہ بھرے لہجے میں کہا۔

پھر کہاں ملنا ہے آپ کو اگر بات ضروری ہے تو کال پہ کرلیں ایسے ملنا مناسب نہیں لگتا۔ منہا نے جھجھک کر کہا۔

شوق سے نہیں ملنے کا کہہ رہا ہے اور نہ ڈیٹ کی آفر کررہا ہوں جو مناسب نامناسب کا درس دے رہی ہو کام کی بات ہے تبھی کہا۔ نعیم نے سخت انداز میں کہی بات پہ منہا شرمندگی محسوس کرنے لگی۔

میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ منہا نے بنا تاخیر کیے کہا

جو بھی تھا مجھے دلچسپی نہیں میں نے لوکیشن سینڈ کی ہے کل وقت پہ آجانا۔ نعیم اپنی بات کہے بنا اس کی کجھ سنے کال کٹ کرگیا منہا فون کو بس دیکھتی رہی بس سرجھٹک کر میسج دیکھا جہاں ریسٹورنٹ کی لوکیشن تھی۔

💕💕💕💕💕

واحب ایک بات کرنا تھی تم سے۔ واحب صاحب کو اپنے آفس میں بیٹھے کجھ ہی وقت گُزرا تھا جب ان کا جگری دوست مسٹر اسحاق ظفر آتے ہوئے بولے۔

ضرور کیا بات ہے؟ واحب صاحب خوشدلی سے بولے۔

شیراز سے تو تم ملے چُکے ہو۔ اسحاق ظفر نے اپنے بیٹے کا نام لیتے ہوئے کہا۔

ہاں بہت بار۔ واحب صاحب نے کہا۔

بُرا مت ماننا پر میں اور میری بیگم چاہتی ہیں ہم شیراز کی شادی تمہاری بیٹی کشف سے کریں ماشااللہ بہت پیاری بچی ہے جہاں جائے گی رونق لگائے گی اِس لیے ہم چاہتے ہیں وہ چراغ ہمارے گھر کو روشن کریں۔ اسحاق ظفر نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا جس کو سن کر واحب صاحب کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ واحب صاحب یقین کرنے سے قاصر تھے۔

بلکل میں کیا یہاں تم سے مذاق کرنے آیا ہوں۔ اسحاق ظفر ان کی حیرانی پہ مسکراکر بولے۔

نہیں یہ تو اچھا ہوگا اگر ہماری دوستی رشتیداری میں بدل جائے گی تو۔ واحب صاحب نے کہا۔

ٹھیک ہے تو تم بات کرو گھر میں پھر ہم طے کرلیتے ہیں سارے معاملات۔اسحاق ظفر خوش ہوتے ہوئے بولے تو واحب صاحب نے سرہلانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕

کشف کی چھٹیاں ختم ہوگئ تھی آج وہ کالج جلد آگئ تھی جس کا اندازہ اُس کو تب ہوا جب موحد کہیں نظر نہیں آیا۔

بور دن ہے آج کا لگتا ہے۔ کشف نے اُداس شکل بنائے کہا۔

اتنا خوشگوار موسم ہے تو بور کیسا۔ طاہرہ اس کی بات سے متفق نہیں ہوئی۔

موحد نہیں آیا نہ ابھی۔ کشف نے وجہ بتائی

ایک تو تم موحد موحد کہتی رہتی ہو اُس کو تو زرہ پرواہ نہیں تمہاری پھر بھی۔ طاہرہ منہ بناکر بولی۔

پرواہ بھی ہوجائے گی ایک دن ویسے بھی

ضروری تو نہیں کہ وہ سب کجھ کہہ دے

دل میں جو کجھ بھی ہو آنکھوں سے نظر آتا ہے۔ کشف نے اُمید سے کہا پھر بات کا احتتام شعر سے کیا۔

اُس کے ساتھ رہ کر تم نے اپنی زندگی اسپوئل کردینی ہے۔طاہرہ نے کہا۔

بکواس نہیں کرو۔ کشف نے گھور کر کہا۔

میں نے جسٹ ایک بات کی کہاں تم مشہور بزنس ٹائیکون واحب احمد کی بیٹی اور کہاں موحد دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔طاہرہ نے سنجیدگی سے کہا۔

ہم دونوں کا جوڑ ہے اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اِس لیے کسی کے بارے میں بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو ایسا نہ ہو وہ وقت خود پہ آجائے۔کشف سخت لہجے میں کہتی وہاں سے اٹھ گئ

میں تمہارا انتظار کررہی تھی۔ کشف جو واپس جانے کا سوچ رہی تھی موحد کو آتا دیکھا تو مسکراکر بولی

کیوں؟ موحد سپاٹ انداز میں بولا

کبھی تو مسکراکر بات کرلیا کرو۔ کشف نے زاویئے بگاڑ کر کہا۔

کام کی بات ہے تو کرو ورنہ مجھے پریشان مت کرو۔ موحد نے کہا۔

موحد آے لو یو۔ کشف نے سامنے آکر کہا تو موحد نے ایک ناگوار نظر اُس پہ ڈالی آس پاس کھڑے اسٹوڈنٹس ان کی طرف دیکھنے لگے تھے

مس کشف مرزا آپ کا تو پتا نہیں پر مجھے میری عزت بہت عزیز سے تو بڑائے مہربانی دوبارہ مجھ سے ایسی بات مت کیجئے گا۔ موحد چبا چبا کر لفظ ادا کرتا اُس کے دل کو کئ ٹکڑوں میں بکھیرا۔

موحد۔

اناف۔ کشف نے کجھ کہنا چاہا پر موحد سختی سے ٹوکتا اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چلاگیا خود پہ سب کی نظریں محسوس کرتی کشف کو آج پہلی بار موحد کا تلخ رویہ بُرا لگا تھا۔


بہت دیر سے ہی لیکن یہ سمجھ تو آیا کہ

محبت اگر قیمتی ہوتی ہے تو

عزت انمول ہوتی ہے۔

💕💕💕💕💕💕💕💕

منہا پچھلے دس منٹ سے نعیم کا انتظار کررہی تھی اب وہ جانے کا سوچ رہی تھی جب نعیم اُس کو آتا دیکھا منہا نے اُس کو دیکھا جو گرے کلر کی شرٹ اور وائٹ پینٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے اچھا لگ رہا تھا۔

منہا؟ نعیم سامنے آتا تصدیق کرنے لگا منہا کو نعیم کا اِس طرح پوچھنا لگا اب وہ اتنی بدل بھی تو نہیں گئ تھی جو وہ ایسے سوال کرتا۔

جی منہا نور احمد۔ منہا نے سنجیدگی سے جواب دیا نعیم نے بغور اس کو دیکھا جو لائٹ براوٴن چادر میں چھپی ہوئی تھی۔

میں جو بات کروں اس کو غور سے سننا۔ نعیم نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

آپ کو جو بات کرنی ہے پلیز جلدی کریں پہلے ہی بہت دیر ہوگئ ہے۔ منہا نے کہا اُس کو عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔

میں یہاں نہیں آنا چاہتا تھا موم ڈیڈ نے بہت پریشر ڈالا مجھ پہ جس وجہ سے مجھے آنا پڑا۔ نعیم کو منہا کی بات پہ غصہ تو بہت آیا مگر تحمل کا مظاہرہ کرکے آرام سے بولا۔

میں تم سے شادی نہیں کرسکتا۔ نعیم کی بات پہ اُس کا دل زور سے دھڑکا اُس کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہر عانیہ مرزا کے بار بار اصرار کرنے پہ اُن کی بتائی ہوئی جگہ پہ آیا تھا جب سامنے سے ہاتھ ہلاتی روبی پہ نظر پڑی تو وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا اُس کی طرف آیا۔

ہیلو۔ ماہر نے مروتً کہا۔

ہیلو کیسے ہو؟ روبی نے بال ایک طرف کرکے ایک ادا سے پوچھا ماہر نے بے زاریت سے اُس کی طرف دیکھا۔

میں ٹھیک تمہارے سامنے بیٹھا ہوں۔ ماہر نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

ہممم کافی سنا تھا پر اس سے زیادہ ہینڈسم ہو۔ روبی ایمپریس ہوکر بولی۔

میں یہاں موم کی وجہ سے آیا ہوں جو وہ سب چاہتی ہیں میں ایسا کجھ نہیں چاہتا۔ ماہر بنا فضول بات کیے اصل بات پہ آیا۔

کیا مطلب ہوا اِس بات کا؟ روبی نے پوچھا

مطلب یہ میں تم سے شادی نہیں کرسکتا بکوز ابھی میرا کوئی اِرادہ نہیں شادی کرنے کا دوسری بات کے میرے مائینڈ میں جیسی میں ہمسفر چاہتا ہوں وہ تم نہیں۔ماہر نے بنا لحاظ کیا کہا روبی کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوگیا۔

تو تم یہاں میری انسلٹ کرنے آئے ہو۔ روبی ضبط کرتی بولی۔

میں صرف بات کرنے آیا ہوں۔ ماہر کندھے اُچکاکر بولا۔

میں کونسا تم سے شادی کے لیے مرے

روبی کی بات ماہر کی فون پہ آتی کال کی وجہ سے بیچ میں رہ گئ۔

ایسکیوز می۔ ماہر اسکرین کی طرف دیکھ کر سائیڈ پہ آیا تاکہ آرام سے بات ہوسکے۔

ماہر بات کرکے مڑا تو نظر کجھ فاصلے پہ بیٹھی منہا پہ پڑی منہا کو دیکھ کر اُس کو تعجب ہوا وہ جانتا تھا منہا کہیں اکیلی نہیں آتی جاتی نعیم کی اُس کی طرف پیٹھ تھی جس وجہ سے وہ جان نہ پایا تبھی دوسری طرف آیا تاکہ دیکھ سکے مگر نعیم پہ نظر پڑتے ہی اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لی تھی۔

منہا اِس کے ساتھ کیوں آئی ہے۔ ماہر اضطراب کی حالت میں بڑبڑایا۔

ایک دن نہیں دیکھ سکتا پوری زندگی نعیم کے ساتھ کیسے برداشت کروں گا۔ ماہر بے بسی سے کہتا ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا اُس کا موڈ بُری طرح خراب ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا رشتہ بڑوں نے طے کیا تھا بہتر تھا یہ بات آپ ان سے کہتے۔ منہا کافی دیر بعد بس یہی بول پائی۔

میں نے ہر کوشش کی ہے پر کوئی میری بات نہیں سن رہا اِس لیے تم سے کہہ رہا ہوں رشتے سے انکار کردو ورنہ ساری زندگی خوشیوں سے ترس جاوٴں گی۔ نعیم نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔

میرے کندھوں پہ بندوق چلانے سے اچھا ہے آپ چچا سے بات کریں یا میرے بابا سے پر میں ایسا کجھ نہیں کہوں گی جس سے میرے والدین کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ منہا نے صاف انکار کرتے کہا۔

سوچ لوں بدنامی ہوگی تمہاری۔نعیم ضبط کرتا بولا

عزت اور زلت اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ آرام سے پورے خاندان میں اعلان کردے کے آپ کو مجھ سے شادی نہیں کرنی۔ منہا آرا سے بولی چاہے اُس کو نعیم کی باتوں سے تکلیف ہورہی تھی پر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ٹھیک ہے پھر۔ نعیم کھڑا ہوتا بولا منہا نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔

💕💕💕💕

سوچ سوچ کر اُس کا سردرد کررہا تھا ابھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہاتھ کی انگلیوں سے ماتھا سہلا رہا تھا جب عانیہ بیگم کڑے تیور لیے کمرے میں داخل ہوئی۔

ماہر آج کی حرکت کی وجہ جان سکتی ہوں؟ عانیہ مرزا سخت لہجے میں استفسار کرنے لگی۔

موم میرے سر میں درد ہے کل بات ہوگی۔ ماہر نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔

بات تو ابھی ہوگی تم جانتے ہو نہ روبی میری بیسٹ فرینڈ کی بیٹی ہے پھر بھی تم نے اُس کی انسلٹ کی پھر بنا بتائے چلے گئے۔ عانیہ بیگم غصے سے بولی۔

میں بچہ نہیں ہوں موم دوسری بات میں نے کوئی اُس کی انسلٹ نہیں کی۔ ماہر زچ ہوتا بولا

دیکھو ماہر روبی مجھے پسند ہے میں اُس کو تمہارے ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں اِس لیے اپنا بیہیویر چینج کرو۔ عانیہ مرزا اٹل انداز میں بولی۔

شادی زندگی ساتھ بھر کا ساتھ ہے میں جیسی آئیڈیل لائیف پارٹنر چاہتا ہو اُس معیار پہ روبی نہیں ہوتی اور موم پلیز آج کے لیے اتنی بحث کافی ہے۔ ماہر بات ختم کرنے والے انداز میں بولا عانیہ مرزا کجھ پل اُس کو گھورنے کے بعد کمرے سے چلی گئ ان کے جانے کے بعد ماہر افسوس بھری سانس خارج کرتا سونے کی کوشش کرنے لگا۔

💕💕💕💕💕

گھر واپس آنے کے بعد کتنے ہی آنسو اُس کی آنکھوں سے نکل کر بے مول ہوئے وہ نہیں جانتی تھی وہ کیوں رو رہی تھی وہ یہ بھی سمجھ نہیں پارہی تھی سالوں پُرانہ رشتہ نعیم ایسے کیسے توڑ سکتا تھا۔

امی بابا کو کتنی تکلیف ہوگی اور حیا ایسے تو اس کا حمزہ کے ساتھ جوڑے رشتے پہ بھی اثرانداز ہوگا کیا ہوگا اب۔ منہا روتے ہوئے خود سے باتیں کرنے لگی۔

میرے خُدایا میری مدد فرما ہمارے رشتے پہ حیا اور حمزہ کا رشتہ متاثر نہ ہو نعیم کا دل بدل دے۔ منہا دعائیہ انداز میں بولی۔

💕💕💕💕💕

میں واپس کینیڈا جارہا ہوں۔ نعیم لاوٴنج میں آتا سب سے بولا سعید مرزا آفس جانے کے لیے تیار تھے نعیم کی بات سن کر انہوں نے تیز نظروں سے اس کو گھورا۔

شادی کرلو بعد میں جہاں جانا ہے چلے جانا اپنی بیوی کے ساتھ۔ سعید مرزا بیوی پہ زور دیتے بولے۔

منہا سے میں شادی نہیں کرسکتا آپ مجھے عاق کرسکتے ہیں مگر میں جائداد کی لالچ میں کسی کی زندگی خراب نہیں کرسکتا۔ نعیم سنجیدہ آواز میں بولا۔

بھائی منہا بہت اچھی لڑکی ہیں آپ کا انکار ویسے بھی ان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتا ہے بچپن سے آپ کے ساتھ منسوب ہے پورے خاندان کو یہ بات پتا ہے۔ حمزہ نے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا۔

میں جانتا ہوں تم یہ کیوں بول رہے ہو پر میں نہیں کرسکتا اُس سے شادی میں کسی اور کو چاہتا ہوں۔ نعیم کا لہجہ طنزیہ بھرا تھا۔

آپ کی وجہ سے بول رہا تھا میرا اپنا کوئی فائدہ نہیں۔حمزہ سنجیدگی سے کہتا کورٹ ہاتھ میں لیے باہر نکل گیا۔

سامان پیک کرو آج کے بعد میں تمہیں گھر میں نہ دیکھوں۔ سعید مرزا کڑخت لہجے میں بولے ہما بیگم نے دُھل کر سینے پہ ہاتھ رکھا نعیم کو فرق نہیں پڑا۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہما بیگم پریشان سی بولی۔

تم بیچ میں مت بولوں خاندان والے سارے رشتے ختم کردے گے اگر یہ بات ان کو پتا لگ گئ تو دو کوڑی کی عزت نہیں رہے گی کیا کہے گے وہ ہمیں اپنی زبان کا پاس نہیں۔سعید مرزا تیز آواز میں بولے۔ نعیم اندر کی طرف چلاگیا ہما بیگم کی ہمت نہیں ہوئی کجھ اور کہنے کی۔

💕💕💕💕

اسحاق نے اپنے بیٹے کا رشتہ مانگا ہے کشف کا۔ واحب صاحب نے پاس بیٹھی سومل بیگم سے کہا۔

وہ تو ابھی کالج میں پڑھتی ہے بیس سال کی بھی نہیں ہوئی۔ سومل بیگم حیران ہوئی۔

اسحاق میرا دوست ہے کشف اب اتنی چھوٹی بھی نہیں شادی کے بعد پڑھائی پوری کرسکتی ہے پر یہ رشتہ بہت اچھا ہے ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے۔ واحب صاحب نے کہا

جیسا آپ کو مناسب لگے پر ایک بار کشف سے اُس کی مرضی جان لیجئے گا۔ سومل بیگم نے کہا

کشف کو کیا اعتراض ہوگا بھائی صاحب نے بھی تو اپنی بیٹیوں کا رشتہ بچپن میں طے کرلیا تھا میں بھی کروں گا اپنی بیٹی کے لیے فیصلہ باپ ہوں اُس کا کوئی غلط فیصلہ تو نہیں لوں گا نہ۔ واحب صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے۔

بات سہی غلط فیصلے کی نہیں رسول ﷺ کا فرمان ہے جب آپ اپنی بیٹی کا رشتہ کریں تو ان کی رضامندی جان لیں۔ سومل بیگم نے رسانیت سے کہا۔

تم بتادینا اُس کو میری عزت کا معاملہ ہے۔ واحب صاحب بس اتنا بولے۔

💕💕💕💕💕

نعیم کینیڈا واپس چلاگیا تھا رشتے سے انکار والی بات پورے خاندان میں پھیل گئ تھی نور احمد صاحب حد سے زیادہ غصے میں تھے رخشندہ بیگم کو جس بات کا ڈر تھا آخر کو وہ ہوگیا منہا اپنے کمرے میں مُقید ہوکر رہ گئ تھی حیا کو جتنا دُکھ منہا کا ہورہا تھا اُتنی پریشان اور فکر اپنے اور حمزہ کے لیے بھی ہورہی تھی وہ جانتی تھی اب اس کا اور حمزہ کا رشتہ بھی مُتاثر ہوگا جس سے اس کی جان سینے پہ اٹک گئ تھی کشف نے کالج جانا بند کرلیا تھا گھر میں ٹینشن والا ماحول چھاگیا تھا ماہر کو بھی یہ بات پتا چل گئ تھی پر اُس کو دکھ افسوس ہونے کے بجائے کمینی سی خوشی محسوس ہورہی تھی وہ اپنی محبت میں انا پرست بن گیا تھا جس کو بس اپنی پرواہ تھی۔


حمزہ اب کیا ہوگا ڈیڈ تو ہماری شادی بھی نہیں ہونے دے گے۔ حیا نے پریشان لہجے میں حمزہ سے کہا وہ دونوں اِس وقت پارک میں موجود تھے۔

ہمارا نکاح تو ہوگیا ہے اب کوئی جواز نہیں بنتا اگر ایسا کجھ ہوا تو تم بس میرے پاس آجانا۔ حمزہ نے آرام سے کہا

حمزہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ہمیں ایسے خوفیہ نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حیا کو حمزہ کا اِس طرح رلیکس ہونا پسند نہیں آیا۔

حیا رلیکس یار دیکھتے کیا کرنا ہے تم فکر نہیں کرو۔ حمزہ نے مسکراکر کہا

تمہارے بھائی نے اچھا نہیں کیا میرے بہن کے ساتھ۔حیا افسوس سے کہا۔

جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں بھائی اور منہا کا کوئی جوڑ نہیں تھا اِس لیے ٹوٹ گیا اللہ نے چاہا تو منہا کے لیے کوئی اچھا سا پیار کرنے والا ہمسفر کا ساتھ لکھے گا۔ حمزہ نے گہری سانس لیکر کہا حمزہ کی اِس بات پہ حیا کے سامنے ماہر کا عکس لہرایا۔

💕💕💕💕

اب کیا کرنے کا اِرادہ ہے آپ کا؟ واحب صاحب نے نور احمد سے پوچھا۔

میں بھائی صاحب سے حیا اور حمزہ کا بھی رشتہ ختم کردوں گا جہاں میری پہلی بیٹی کو ٹھکرایا گیا ہو وہاں میں اپنی دوسری بیٹی نہیں دوں گا۔ نور احمد صاحب نے کہا

خاندان والے باتیں بنائے گے۔ واحب صاف فکرمند سے بولے

وہ تو ابھی بھی بنارہے ہیں۔ نور احمد صاحب طنزیہ بولے۔

جیسے آپ کو مناسب لگے آپ دونوں کے لیے رشتہ تلاش کریں کشف کے لیے بھی اچھا سا رشتہ آیا ہے نعیم والے واقع کے بعد میں بتانا بھول گیا تھا۔ واحب صاحب نے کہا۔

اللہ کشف کے نصیب اچھے کریں منہا اور حیا کے بارے میں بھی سوچتا ہوں باہر سے تو بہت سارے رشتے آئے تھے پر ہم نے انکار کیا ہمیں کیا پتا تھا سالوں سے جوڑا گیا رشتہ عین موقعے پہ توڑا جائے گا۔ نور احمد افسوس سے بولے۔

اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے آپ بس پہلے جنہوں نے رشتے کی بات کی تھی ان سے رابطہ کریں اچھا ہے گھر میں تینوں بیٹیاں ایک ساتھ رخصت ہو۔ واحب صاحب نے کہا۔

دیکھتا ہوں یہ معاملہ بھی دیر نہیں کروں گا۔ نور احمد صاحب پُرسوچ انداز میں بولے۔

💕💕💕💕💕

موم میں چاہتا ہوں آپ ماموں جان سے میرے اور منہا کے رشتے کی بات کریں۔ عانیہ مرزا اور عمران ملک آپس میں باتوں میں مصروف تھے جب ماہر ان کے پاس آکر سنجیدہ ہوکر بولا۔

دماغ سیٹ ہے تمہارا کل تک شادی کا کوئی موڈ نہیں تھا اب منہا سے شادی کرنا چاہتے ہو جس کا رشتہ پہلے ہی ٹوٹ گیا ابھی بس ایک مہینہ ہوا ہے بس۔ عانیہ مرزا منہ بگاڑ کر بولی۔

میں منہا سے بے انتہا محبت کرتا ہوں آپ میرے رشتے کی بات کریں اِس سے پہلے دیر ہوجائے۔ماہر کا انداز ہنوز سنجیدہ تھا۔

میں نے تمہارے لیے روبی کا سوچا ہے اِس لیے منہا کا سوچنا چھوڑ دو۔ عانیہ مرزا نے آرام سے کہا

روبی کے لیے میں انکار کرچُکا ہوں اور آپ کیا اپنی بھتیجی سے زیادہ دوست کی بیٹی کو فوقیت دے گی۔ ماہر کو یقین نہ آیا۔

جو سمجھو پر مجھے روبی پسند ہے تمہارا اور اُس کا پرفیکٹ جوڑ ہے منہا بلکل تمہارے ساتھ نہیں جچے گی۔ عانیہ مرزا نے کہا۔

میں منہا سے محبت کرتا ہوں صرف اور صرف منہا کو چاہتا ہوں میری زندگی میں اگر کسی لڑکی کی گنجائش ہے تو وہ ہے منہا اگر وہ نہیں تو کوئی اور بھی نہیں اگر آپ رشتہ لیکر نہیں گئ تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلا جاوٴں گا کبھی نہ آنے کے لیے۔ ماہر سنجیدگی سے دونوں کی طرف دیکھ کر کمرے کی طرف بڑھا۔

دیکھا آپ نے کیسا باغی انداز تھا ماہر کا آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا منہا ابھی گھر میں آئی نہیں ماہر کے تیور بدلے بدلے سے ہیں جب آجائے گی تو ہمارا وجود تو نظر ہی نہیں آئے گا۔عانیہ مرزا بدگمان ہوکر بولی۔

تم رشتے کی بات کرو اپنے بھائی سے ماہر کی بات پوری ہوگی تو ٹھیک ہوجائے گا۔ عمران صاحب نے کہا

مجھے روبی پسند ہے میں نے بس ماہر کے ساتھ روبی کا سوچا ہے۔ عانیہ مرزا نے کہا

زندگی ماہر نے گُزارنی ہے بہتر ہے ہم اُس کی پسند کو ترجیح دے منہا اپنے گھر کی بچی ہے تمہاری اپنی بھتیجی بھی اِس لیے ضد چھوڑ دو۔ عمران صاحب نے سمجھانے والے انداز میں کہا جس پہ عانیہ مرزا نے نفرت سے سرجھٹکا۔

💕💕💕💕

منہا کیا تمہیں نعیم بھائی سے محبت تھی جو یوں خاموش رہنے لگی ہو۔ کشف نے منہا سے سوال کیا جو زیادہ تر اپنے کمرے میں رہا کرتی تھی۔

اصل محبت نکاح کے بعد ہوتی ہے جس میں پاکیزگی ہوتی ہے مانتی ہوں ہمارے خاندان میں منگنی کو نکاح کی حیثیت حاصل ہے پر در حقیقت میں ایسا نہیں ہے مجھے شاید محبت ہوجاتی نعیم سے پر اُس نے کبھی مجھے احساس نہیں کروایا اُس کا رویہ اُس کا انداز مجھے آگے بڑھنے سے روکتا تھا ویسے بھی آجکل کی محبتیں جو نکاح سے پہلے ہوتی ہیں ان کا مطلب ہے۔

م مزاق

ح حوس

ب بحث

ت تعلق ختم

منہا کشف کی بات پہ عجیب مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔

ایسا نہیں ہے منہا محبت کا اصل مطلب ہے۔

م مراد

ح حسرت

ب بے انتہا

ت تاحیات

محبت کے لیے دل کا نیک ہونا ضروری ہے آپ کے جذبات سچے ہو آپ کا مخلص ہونا ضروری ہوتا ہے محبت میں حوس نہیں ہوتی جہاں حوس ہو وہاں محبت نہیں ہوتی کیونکہ یہ دونوں ساتھ نہیں ہوسکتی محبت ظاہری وجود کی محتاج نہیں ہوتی اُس کا بس احساس ہی کافی ہوتا ہے۔کشف منہا کی بات سے اختلاف کرتی بولی۔

بڑی سمجھداری والی باتیں کرنے لگی ہو کافی معلومات بھی ہے محبت کے بارے میں۔منہا پہلے حیرت سے کشف کا سنجیدہ انداز دیکھ رہی تھی پھر اُس کی ساری بات سننے کے بعد بولی۔

بس دیکھ لیں کبھی غرور نہیں کیا۔ کشف نے گردن اکڑ کر کہا تو منہا ہنس پڑی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشف منہا سے بات کرنے کے بعد اپنے کالج کا کام کررہی تھی جب سومل بیگم دروازہ نوک کرتی اندر آئی۔

کشف بات کرنی ہے تم سے۔ سومل بیگم نے سنجیدگی سے کہا

جی امی کہے میں سن رہی ہوں۔ کشف نے کہا

تمہارے ڈیڈ نے تمہارا رشتہ طے کرلیا ہے اپنے کسی دوست سے۔ سومل بیگم کی بات پہ کشف کو لگا جیسے پورے گھر کی چھت اُس پہ آگری ہو۔

یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کشف کو اپنی آواز دور سے آتی محسوس ہوئی۔

وہی جو سنا تم نے واحب نے کہا تمہیں بتادوں۔ سومل بیگم نے کہا۔

آپ بنا میری مرضی جانے ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔کشف چیخ کر بولی۔

کشف سنبھالوں خود کو ماں ہوں تمہاری۔سومل بیگم ناگواری سے بولی۔

میں شادی نہیں کروں گی آپ ڈیڈ کو بتادے یہ بات۔ کشف اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتی بولی اُس کا دل گھبرانے لگا تھا موحد کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی اُس کے لیے سوہانِ روح تھا۔

زبان دے رکھی ہے تمہارے ڈیڈ نے اس کی عزت پہ داغ مت آنے دینا۔ سومل بیگم نے دو ٹوک انداز میں کہا پھر وہ روکی نہیں تھی ان کے جانے کے بعد کمرے میں کشف کی سسکیوں کی آوازیں گونجنے لگی جس کا سلسلہ ساری رات چلا۔

💕💕💕💕💕💕

بھائی آپ پریشان نہ ہو منہا اور حیا کو میں نے اپنی بیٹیاں ہی سمجھا ہے میں پاکستان جلد آنے کی کوشش کروں گی پھر مل بیٹھ کر بات ہوگی۔ فاریہ مرزا نے تسلی آمیز لہجے میں کال پہ نور احمد صاحب سے کہا

کیا بات ہوگی؟ نور احمد صاحب نے پوچھا۔

منہا تو ولید سے کجھ بڑی ہے اِس لیے حیا کی طرف سے بے فکر ہوجاٶ میں حیا کا رشتہ ولید کے لیے مانگتی ہوں۔ فاریہ مرزا نے بتایا تو نور احمد نے شکر بھرا سانس خارج کیا۔

میری فکر دور کردی غیروں سے اچھا ہے آپ کے پاس آجائے۔نور احمد تشکرانہ لہجے میں کہا۔

بلکل مجھے تو حیا کو اپنی بہوں بنانے کا ارمان تھا پر بابا سائیں نے جو فیصلہ کیا تو خاموش رہی۔ فاریہ مرزا نے مسکراتے کہا۔

کبھی کبھی بڑوں کا فیصلہ غلط ثابت ہوجاتا ہے نور احمد صاحب نے کہا۔

یہ تو ہے پر ہمیں بھی چاہیے اپنی اولاد کے بالغ ہونے کا انتظار کریں پھر ان کی رضامندی جان کر بات کریں ورنہ بعد میں ان کے دماغ میں بھی نیگیٹویٹی آجاتی ہے فاریہ بیگم نے کہا۔

بات تو سہی کی بس تم جلدی کرو آنے کی میں اب کوئی تاخیر نہیں کرنا چاہتا بھائی صاحب کو بتانا چاہتا ہوں اگر ان سے رشتہ ختم ہوا تو دنیا میں باقی رشتوں پہ قال نہیں پڑی۔ نور احمد صاحب نے کہا تو فاریہ مرزا نے اپنے جلدی آنے کی تسلی دلاکر رابطہ ختم کیا۔

💕💕💕💕

ساری رات رونے کے بعد وہ بنا ناشتے کیے کالج آگئ تھی ایک دو سے موحد کا پوچھا جو شاید کلاس فیلو کے ساتھ اسائیمنٹ بنارہا تھا۔

بات کرنی ہے تم سے۔کشف بنا کسی پہ توجہ دیئے موحد پہ سر پہ کھڑی ہوکر بولی موحد انکار کرنے والا تھا مگر حد سے زیادہ سرخ آنکھیں چہرے کے سنجیدہ تاثرات نے اُس کی بات سننے پہ مجبور کیا تبھی کھڑا ہوگیا کشف موحد کا ہاتھ تھامتی کالج کی بیک سائیڈ لیں آئی۔

موحد اپنے گھروالوں کو میرے رشتے کے لیے بھیجو۔ کشف کی بات پہ موحد نے ایسے دیکھا جیسے اُس کا دماغ چل گیا ہو۔

رشتہ کیوں؟ موحد سپاٹ لہجے میں بولا

موحد محبت کرتی ہوں میں تم سے ڈیڈ نے میرا رشتہ کسی اور سے طے کیا ہے پلیز تم رشت ۔ بھیجو میں تتمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ کشف اس کی شرٹ مٹھیوں میں جکڑتی بولی۔

میں تم سے پیار نہیں کرتا اور تمہیں بھی کہا ہے میرے بارے میں ایسے خیالات سوچنا بند کردوں۔ موحد سفاکی سے بولا۔

موحد پلیز ایسے نہیں کرو تم بس میرا ساتھ دو محبت کا کیا ہے وہ بھی ہوجائے گی۔ کشف موحد کا چہرہ ہاتھ کے پیالے میں بھرتی دیوانہ وار بولی۔

اسٹے اوے۔ موحد قدم پیچھے لیکر بولا کشف پتھرائی نظروں سے موحد کو دیکھنے لگی۔

موحد۔ کشف کے لب پھڑپھڑائے۔

میں نہ کل تمہارے بارے میں سوچتا تھا اور آج ایسا سوچتا ہوں میرے دل میری زندگی میں تمہارے گنجائش نہیں یہ بات جتنی جلدی سمجھ جاؤ تمہارے لیے بہتر ہے۔موحد بنا کشف کے آنسوؤ کی پرواہ کرتا بول کر چلی گئ کشف کے اندر چھناک سے کجھ ٹوٹا تھا اپنے بکھرے وجود کے ساتھ وہ نیچے بیٹھتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آنے کے بعد اُس کو پیغام ملا کے واحب صاحب اسٹڈی روم میں اُس کا انتظار کررہے ہیں کشف کجھ کہنے سننے کی حالت میں تو نہیں تھی پر پھر بھی اسٹڈی روم میں آئی۔

بیٹھو۔ واحب صاحب نے اس کو دیکھ کر بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔

اپنی ماں سے کیا کہاں ہے تم نے؟ واحب صاحب نے روعبدار لہجے میں پوچھا۔

انہوں نے بتایا ہے تو میرے سے پوچھنے کا مطلب۔کشف تلخ انداز میں بولی۔

انکار کی وجہ شیراز اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے پئسا دولت طاقت حسن ہر نعمت سے مالا مال ہے اور کیا چاہیے تمہیں۔واحب صاحب نے پوچھا۔

میں کسی اور کو چاہتی ہوں ڈیڈ۔ کشف سرجھکا کر مجرمانہ انداز میں بولی۔

کون ہے وہ؟ واحب صاحب نے جاننا چاہا۔

کالج میں پڑھتا ہے میرے موحد نام ہے اُس کا آپ ایک دفع اس سے مل لیں آپ کو پسند آجائے گا۔ کشف نے ایک اُمید سے کہا۔

پورا نام کیا ہے اُس کا کونسا بزنس ہے اُس کا؟ واحب صاحب نے ایک ساتھ سوال پوچھے۔

موحد یوسف پورا نام ہے بزنس نہیں ہے کوئی پڑھائی کے ساتھ جاب کرتا ہے والد کی وفات کجھ عرصہ پہلے ہوچکی ہے جس سے اب اپنی تین بہنوں اور ماں کا خیال وہی رکھتا ہے۔ کشف نے بتایا۔

تم کروڑوں روپے کی مالک ہو تمہیں کیا لگتا ہے ہم تمہارا رشتہ میڈل کلاس لڑکے سے کریں گے۔ واحب صاحب حقارت سے بولے۔

ڈیڈ وہ بہت اچھا اور ذمیدار انسان ہے آپ کو اس کا اسٹیٹس دیکھنے کے بجائے میری خوشی دیکھنی چاہیے۔ کشف نے تڑپ کر کہا۔

بس بہت ہوگیا کشف میں نے اپنے دوست سے بات کی ہے ان کو آنے کا وقت بھی دیا ہے میڈل کلاس لڑکے بس امیر لڑکیوں کو جال میں پھنسا کر ان کی سار ۔ دولت حاصل کرلیتے ہیں۔ واحب صاحب سنگدلی سے بولے۔

موحد ایسا نہیں ہے آپ ایک دفع مل تو لیں۔ کشف نے کہا۔

میں کہہ دیا نہ اب جاؤ یہاں سے اُمید ہے ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جس سے میرا سر شرم سے جھک جائے۔واحب صاحب دو ٹوک انداز میں بولے کشف اپنے آنسو پیتی اسٹڈی روم سے نکل گئ۔

💕💕💕💕💕

عانیہ مرزا عمران مٙلک کے ساتھ مُردہ دل لیے منہا کا ہاتھ مانگنے آئی تھی پر انہوں نے سوچ لیا تھا زیادہ دیر منہا کو اپنے گھر ٹکنے نہیں دے گی۔

ہم یہاں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں۔ عمران صاحب نے بات شروع کی۔

جی کہے۔ نور احمد صاحب نے خوش اسلوبی سے کہا۔

ہماری دلی خواہش ہے کے ماہر اور منہا کا رشتہ جوڑ دیا جائے پہلے جو کجھ ہوا وہ قسمت کی بات تھی۔ عمران صاحب نے کہا نور احمد نے رخشندہ بیگم کی طرف دیکھا جن کے چہرے پہ رونق آگئ تھی۔

ہم سوچ کر جواب دے گے۔ نور احمد صاحب نے کہا۔

سوچنا کیا ہے ہم کونسا غیر ہیں۔عانیہ مرزا نے کہا۔

پہلے جنہوں نے توڑا وہ بھی غیر نہیں تھے۔ رخشندہ بیگم نے جواب دیا۔

نعیم کو اگر منہا پسند نہیں تھی تو زبردستی تو اس کے گلے کا ہار نہیں بنایا جا سکتا تھا نہ۔ عانیہ مرزا نے سرجھٹک کر کہا اُن کی بات کسی کو پسند نہیں آئی پر سب خاموش رہے۔

فاریہ بھی آرہی ہے پاکستان کشف کا بھی رشتہ ہم نے طے کرلیا ہے ہم چاہتے ہیں تینوں کی ایک ساتھ شادی ہو۔ نور احمد صاحب نے بتایا۔

جیسا آپ کو مناسب لگے۔ عانیہ مرزا نے کہا۔

میں میٹھائی لیکر آتی ہوں۔ سومل بیگم مسکراکر کچن کی طرف چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مبارک ہو میری بہن ماہر سے آپ کا رشتہ پکا ہوگیا۔ حیا نے خوشی سے منہا کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔

کیا سچ میں ایسا ہوگیا ڈیڈ مان گئے۔منہا تعجب سے بولی اُس کو سب خواب سا لگ رہا تھا

سو فیصد سچ۔ حیا نے چہک کر بتایا۔

اتنی جلدی کیا تھی سب کو۔ منہا نے افسوس سے کہا

جلدی کہاں ہیں یہ تو خوشی کی بات ہے۔ حیا نے مسکراکر کہا۔

بلکل اچھا ہوا فاریہ نے ولید کے لیے تمہارا ہاتھ مانگ لیا۔رخشندہ بیگم کمرے میں آتی بولی تو حیا کی مسکراہٹ فورن سے سمٹ گئ۔

کیا مطلب میرا رشتہ حمزہ سے طے ہے ولید کہاں سے بیچ میں آگیا۔ حیا اپنی گھبراہٹ پہ قابو پاکر بولی۔

شرم کرو تمہیں لگتا ہے منہا کے بعد ہمیں تمہیں اُس گھر بھیجے گے ہرگز نہیں ہمارا ان سے اب کوئی تعلق نہیں۔ رخشندہ بیگم نفرت سے بولی

پر اِس میں ہمارا کیا قصور۔ حیا نے کہا۔

بحث نہیں کرو اور خبردار جو کوئی آواز کی یا انکار کا سوچا بھی تو۔ رخشندہ بیگم نے بُری طرح ڈپٹ کر کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیا فورن سے کمرے میں آتی حمزہ کو کال کرنے لگی پر اُس کا نمبر مسلسل بند جارہا تھا حیا کو ٹیشن ہونے لگی پورے گھنٹے لگاتار وہ کال کرتی رہی پر نمبر بند جارہا تھا تھک ہار کر اپنا سر پکڑ کر وہ بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

میرے خدایا اب کیا ہوگا میں تو حمزہ کے نکاح میں ہوں اور گھر والے کسی اور سے نکاح کروانے کا سوچ رہے ہیں۔ حیا پریشانی سے اللہ کو مخاطب ہوئی۔

حمزہ کا فون کیوں بند ہے۔ حیا کشن زمین پہ پھینک کر بولی۔

کل بات ہوگی تو بتادوں گی۔ حیا خود کو تسلی دینے لگی پر دل کو ایک پل سکون میسر نہیں ہورہا تھا۔

💕💕💕💕

آج مسٹر اسحاق ظفر اور ان کی بیوی راحیلہ کشف کو انگھوٹی پہنانے آئے تھے۔

ماشااللہ بہت پیاری بچی ہے آپ کی راحیلہ بیگم نے کشف کو دیکھ کر کہا جو روبوٹ کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔

جی بس اللہ نصیب اچھا کریں۔ سومل بیگم نے مسکراکر کہا۔

ایسکیوز پلیز۔ کشف سنجیدگی سے کہتی وہاں سے اُٹھ گئ۔

لگتا ہے شرماگئ۔ راحیلہ بیگم نے اندازہ لگایا جس پہ سومل بیگم زبردستی مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر سرہلایا۔

💕💕💕💕💕

صبح سے حیا کو اپنی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی حمزہ کے آفس جاکر اُس کو پتا لگا کہ وہ کجھ دِنوں سے آوٴٹ آف کنٹری یہ بات حیا کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی ایسا پہلی بار ہوا تھا حمزہ بنا بتائے کہیں گیا تھا اب جب اُس کو زیادہ حمزہ کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں تھا وہ جو پہلے ہی پریشان تھی طبیعت خراب ہونے پہ کلینک آگئ تھی جہاں ایک اور نئ خبر اُس کی منتظر تھی جو اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔

کانگریس آپ ایکسیپٹ کررہی ہیں۔ ڈاکٹر نجمہ نے کہا تو وہ گنگ سی ان کا چہرہ تکنے لگی چہرے کے رنگ لٹھے مانند سفید ہوگیا تھا۔

آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ حیا نے ماتھے سے ننہی بوندیں صاف کرتے ہوئے کہا۔

پچیس سال کا تجربہ ہے میں ڈاکٹر ہوں رپورٹ آجائے گی تو آپ کو بھی یقین ہوجائے گا۔ ڈاکٹر نجمہ نے مسکراکر کہا۔

گھر آکر حیا نے حمزہ سے رابطہ کیا مگر سب نے سود ای میل پہ اُس بے ایک سب کجھ بتادیا پر سکون کی گھڑیاں جیسے چھین لی گئ تھی فاریہ مرزا کی آمد میں بھی چند دن رہ گئے تھے

💕💕💕💕💕

امی آپ ڈیڈ سے بات کریں مجھے نہیں کرنی شادی۔ کشف نے التجایہ انداز میں سومل بیگم سے کہا۔

کشف فضول کی ضد مت کرو جس کے لیے تم ماں باپ کے فیصلے پہ اختلاف کررہی ہو اُس کے ساتھ رُل جانے کے علاوہ تمہیں کجھ حاصل نہیں ہوگا۔ سومل بیگم نے سخت لہجے میں کہا

آپ لوگ ایک دفع مل تو لیں۔ کشف نے بے بسی سے کہا۔

وہ بھی تمہیں چاہتا ہے؟ سومل بیگم نے جاننا چاہا جس پہ کشف کا سر نفی میں ہلا۔

تو ہم کیا کریں گے اُس سے مل کر۔سومل بیگم نے طنزیہ کہا۔

آپ راضی ہوجائے موحد میں راضی کرنا میرا کام ہے۔ کشف نے سنجیدگی سے کہا۔

کشف ہمیں سختی کرنے پہ مجبور مت کرو جو ہورہا ہے اُس کو ہونے دو بھول جاؤ دوسرے لڑکے کو۔سومل بیگم اس کی بات سنے بنا بولی۔

💕💕💕💕💕

کسی ہیں؟ ماہر نے مسکراکر منہا سے پوچھا جو یونی کے گیٹ پہ کھڑی ساگر کا انتظار کررہی تھی۔

آپ یہاں؟ منہا حیران ہوکر بولی۔

جی میں آپ کے ساتھ لنچ کا پروگرام بنایا ساگر کو بتادیا ہے وہ نہیں آئے گا آپ کو لینے دوسرا یہ کے میں ماموں جاں سے اجازت لیں چُکا ہوں۔ ماہر نے مسکراکر ایک سانس میں سب بتادیا جب سے منہا اُس کے ساتھ منسوب ہوگئ تھی اُس کو سب کجھ خوبصورت لگنے لگا تھا سرشار سی کیفیت ہر وقت اپنے اندر محسوس ہوتی تھی۔

ٹھیک ہے۔ منہا نے بس اتنا کہا۔

چلیں پھر۔ ماہر نے کہا پھر وہ اُس کے ساتھ گاڑی کی طرف آئی۔

بابا نے اجازت دے دی؟ منہا نے سوال کیا کیونکہ ان کے یہاں منگنی ہونے کے بعد جب تک شادی نہ ہوجائے لڑکا لڑکی کا ایک دوسرے سے ملنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

جی بلکل میں نے کہا اِس انداز سے کے وہ انکار نہیں کرپائے۔ ماہر نے جواب دیا۔

لنچ کا پروگرام کیوں بنایا آپ نے؟ منہا نے دوسرا سوال داغا۔

پوچھنا چاہتا تھا آپ رشتے سے خوش ہیں یا نہیں کیونکہ میں تو بہت خوش ہوں۔ماہر نے مسکراکر جواب دیا اُس کو منہا کا سوال کرنا اچھا لگ رہا تھا۔

اچھا۔ منہا اتنا کہہ کر خاموش ہوگئ۔

جی تو بتائے آپ خوش ہیں؟ ماہر نے ڈرائیونگ کرتے سوال پوچھا۔

جی میں خوش ہوں۔ منہا نے جواب دیا۔

خوش ہوئی جان کر۔

ایک سوال پوچھو؟ منہا نے اجازت چاہی۔

جی پوچھے۔

میں آپ سے دو سال چھوٹی ہوں پھر آپ مجھے آپ؛ کیوں کہتے ہیں؟ منہا نے جاننا چاہا اُس کو یاد آیا نعیم بار بار اُس کو تم؛ کہہ کر مخاطب کررہا تھا جب کی ماہر ہمیشہ آپ؛ کہہ کر احترام سے بات کرتا تھا۔

کیوں کی آپ ان کو کہتے ہیں جن کی آپ عزت کرتے ہیں اور یہ کہاں لِکھا ہے جو آپ سے عمر میں بڑا ہو بس ان کو آپ کہہ کر مخاطب کیا جائے دل میں اگر کسی کی عزت ہو تو چاہے آپ سے کوئی چھوٹا ہی کیوں نہ ہو منہ سے ان کے لیے آپ ہی نکلتا ہے۔ ماہر نے آرام سے بتایا تو منہا مُسکرادی۔

باتیں اچھی کرلیتے ہیں آپ باتوں سے لوگوں کو آرام سے اپنی طرف راغب کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ منہا نے کہا

تو کیا میرا یہ ہنر آپ پہ بھی کام آگیا؟ ماہر نے شرارت سے اس کی جانب دیکھ کر کہا جس پہ منہا مسکراکر دوسرے طرف دیکھنے لگی پر ماہر کو اپنا جواب مل گیا تھا ریسٹورنٹ پہنچ کر ماہر نے گاڑی روک کر منہا کی طرف آیا پھر دونوں اندر کی طرف بڑھے۔

💕💕💕💕💕

محبت کا کتنا عجیب

رشتا ہے

دل تکلیف میں ہے

اور

تکلیف/

دینے والا دل میں


کشف نے آج موحد کو کال کی تھی جو پانچ چھ کالز کے بعد موحد نے ریسیو کرلی تھی تبھی کشف نے شعر پڑھا۔

کیوں بار بار کال کررہی ہو؟ موحد نے بے زاریت سے پوچھا۔

تمہیں پتا ہے موحد میں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ کی انگلی پہ تمہارے نام کی انگھوٹی پہننے کا سوچا تھا پر دیکھو میرے ہاتھ کی انگلی میں کسی اور کے نام کی انگھوٹی ہے۔ کشف نے ہاتھ میں پہنی انگھوٹی کو دیکھ کر اُداس مسکراہٹ سے بتایا۔

اچھی بات ہے۔ موحد بس اتنا بول پایا۔

تمہارے لیے اچھی بات ہوگی تم نے سوچا ہوگا جان چھوٹی پر موحد ایک بات بتادوں میں ہمیشہ تمہیں چاہوں گی میرا دل ہمیشہ تمہارا منتظر رہے گا۔ کشف نے کہا۔

زندگی میں آگے بڑھ جانا بھول جاؤ تمہاری زندگی میں کوئی موحد بھی تھا۔موحد نے گہری سانس بھر کر کہا۔

تم میری زندگی میں کہاں تھے موحد وہ تو میں پاگل تھی جو تمہیں اپنی زندگی سمجھ بیٹھی۔کشف کے جواب پہ موحد کجھ بولنے کے قابل نہ رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیا ماؤف دماغ کے ساتھ ہاتھ میں رپورٹ تھامتی گھر میں داخل ہوئی تھی آج اُس کو ہوسپٹل سے کال آئی تھی کے آکر اپنی رپورٹس لیں جائے جی کی اُس کی پریگنسی کی تھی اور پوزیٹو آئی تھی یہ بات جان کر وہ سچ میں ماں بننے والی ہے اُس کا خون خشک ہوگیا تھا گھر میں کسی کو پتا چل گیا تو کیا کہے کیا سوچے گے کیا ہوگا یہ باتیں سوچ سوچ کر اُس کا دل گھبراہٹ کا شکار ہوگیا تھا رپورٹس کو چھپاتی وہ سیدھا کشف کے کمرے میں آئی جو کال پہ بات کررہی تھی وہ اِس کنڈیشن میں نہیں تھی کجھ سمجھ پاتی پر بے دھیانی میں کشف کے الفاظوں نے اس کی باتیں سننے پہ مجبور کردیا۔

زندگی میں نہ ہمیں ہر چیز ملتی ہے پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کوئی جان سے زیادہ پیارا ہوجاتا ہے پھر اللہ وہ ہم سے چھین لیتا ہے یا دور کردیتا ہے پھر ہماری ساری زندگی ایک اس لاحاصل کی حسرت میں گُزر جاتی ہے تم میری ہر دعاؤں میں شامل ہوتے ہو مجھے لگتا تھا تمہیں میری محبت نظر ضرور آئے گی پر تم نے مجھے موقف تک نہیں دیا میں خود کو ایسے بنالیتی جیسا تم چاہتے ہو میں کبھی کوئی فرمائش نہ کرتی فاقے کی زندگی بھی تمہارے ساتھ ہنسی خوشی گُزار لیتی پر تم نے مجھے موقع نہیں دیا ایک بار بھی نہیں۔کشف روتے ہونے بولتی کال کاٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی حیا اپنا غم تکلیف بھولاتی کشف کی طرف بڑھی۔

کشف سنبھالوں خود کو۔ حیا اس کو اپنے ساتھ لگاتی بولی

حیا میں بہت چاہتی ہوں اُس کو پلیز اُس کو کہو میری محبت قبول کردے۔ کشف حیا کے ہاتھ تھامتی اُمید سے بولی۔

وہ تمہیں نہیں چاہتا اگر چاہتا تو کبھی تمہیں کسی اور کا ہوتا نہ دیکھتا۔ حیا نے سمجھانے کی خاطر کہا کشف خالی خالی نظروں سے اُس کو دیکھنے لگی۔

حضرت علی رضہ

مولا علی رضہ فرماتے ہیں تم کسی کو چاہوں اور وہ تمہیں ٹھکرادے تو یہ اُس کی بدنصیبی ہے اُس کے بعد بھی اگر تم اُس کو زبردستی اپنانا چاہوں تو یہ تمہارے نفس کی زلت ہے۔

حیا اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی بولی۔

میں کیا کروں اُس کو بھولنا میرے بس میں نہیں۔کشف بے بسی سے بولی

صبر کرلوں اگر وہ تمہاری قسمت میں نہیں تو سمجھ لوں اللہ نے کجھ اور بہتر لِکھا ہے اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ حیا نے نرمی سے کہا تو پہلی دفع کشف کا دھیان اُس کے زرد چہرے اور سوجھی آنکھوں کی طرف گیا۔

تمہیں کیا ہوا ہے چہرے کا رنگ پیلا کیوں ہورہا ہے آنکھیں بھی لال ہورہی ہیں۔ کشف نے فکرمندی سے پوچھا جس پہ حیا زخمی مسکرادی اور اُٹھ کر بنا کجھ کہے رپورٹس اُٹھاکر کشف کی طرف بڑھائی کشف ناسمجھی سے اس کو دیکھ کر رپورٹس پاتھ میں لیکر کھول کر دیکھنے لگی جیسے جیسے دیکھتی گئ اُس کی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل گئ۔

یہ کیا حماقت کرڈالی تم نے۔ کشف نے غصے سے رپورٹس اُس کی طرف پھینک کر کہا۔

💕💕💕💕

Episode 3

حمزہ کا ایک ہفتے سے موبائل سوئچ آف ہے نعیم بھائی کے انکار پہ ڈیڈ نے میرا رشتہ دینے سے بھی انکار کیا یہ بات حمزہ کو پتا بھی ہے یا نہیں میں نہیں جانتی ہر طریقے سے حمزہ سے رابطہ کرنا چاہا پر کوئی فائدہ نہیں ہوا ڈیڈ نے میرا رشتہ ولید سے طے کرلیا ہے کل پڑسو وہ آرہے ہیں ہم تینوں کی شادی ایک ساتھ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے مجھے کجھ سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں۔ حیا نے روتے ہوئے سارا کجھ بتادیا۔

دماغ درست ہے اب کیا نکاح کے اُپر نکاح کروگی اور یہ بچہ جو تمہارے پیٹ میں ہے کون یقین کرے گا جائز ہے یہ گھر میں اگر کسی کو پتا لگ گیا تو سوچا ہے کیا قیامت آجائے گی تمہیں ضرورت کیا تھی خوفیہ نکاح کرنے کی ایک تو گھروالوں سے چھپ کر حمزہ سے روز ملا کرتی تھی اب یہ اففف اللہ۔ کشف ایک سانس میں کہتی اُس کو دیکھنے لگی جو رونے مصروف تھی۔

حیا تم پریشان نہیں ہو رپورٹس میں اپنے پاس رکھتی ہوں ابھی کسی کو نہیں بتانا آج نہیں تو کل حمزہ خود رابطہ کرلیں گا کہیں بزی ہوگا اُس کو جب سب پتا لگے گا تو خود ہینڈل کرلیں گا۔ کشف نے ابھی کی تسلی آمیز لہجے میں کہا جس پہ حیا مطمئن نہیں ہوئی اُس کا دل کسی انہونی کے احساس سے دھڑک رہا تھا۔

💕💕💕💕

موحد کیا بات ہے آجکل پریشان رہتے ہو؟ صائمہ باہر صحن میں چارپائی پہ موحد کو خاموش بیٹھا دیکھا تو کہا۔

کجھ نہیں آپا بس ایسے ہی۔ موحد نے مسکراکر ٹالنے کی کوشش کی۔

بڑی بہن ہوں اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاسکتے ہو۔ صائمہ نے کُریدہ۔

ایسی تو کوئی بات نہیں بس اسکالر شپ کے لیے کجھ پریشان ہوں۔ موحد نے بہانا بنایا۔

اسکالر شپ کے لیے کیوں پریشان ہو اگر سلیکشن نہ بھی ہوئی تمہاری تو خیر ہے ہمارا اچھا گُزر بسر تو ہورہا ہے نہ جو تم پارٹ ٹائم جاب کرتے ہو کالج کی فیس بھی تو ہوجاتی ہے۔ صائمہ نے مسکراکر اُس کو رلیکس کرنا چاہا۔

آپا ساری زندگی ایسا تو نہیں چلتا رہے گا نہ امی آپ کی اور آپا حمائمہ کی شادی کے لیے پریشان رہتی ہیں اگر میں اسکالر شپ پہ جرمنی میں پڑھائی کروں گا تو اچھی جاب کے چانسز ہیں اور اب تو عروسہ کا بھی کالج میں داخلہ ہونا ہے۔ موحد نے گہری سانس بھر کر کہا

خود کو ہماری وجہ سے ہلکان مت کرو اپنے لیے بھی سوچا کرو زندگی تو تم بس ہمارے لیے جی رہے ہو کبھی کبھی مجھے شرمناک ہوتی ہے کے چھوٹی سی عمر میں تم پہ اتنی زمیداریاں آگئ ہے۔ صائمہ نے دُکھ سے کہا۔

ایسا نہیں آپ ایسا سوچے بھی نہیں شرمندگی کسی اِس گھر میں مرد میں ہوں مجھے ہی سب دیکھنا ہے آپ لوگوں کا خیال کرنا میرا فرض اور آپ لوگوں کا مجھے پہ حق ہے میں کوئی انوکھا کام نہیں کررہا ویسے بھی آپ اور آپا امی بھی تو جاب کرتی ہیں نہ۔ موحد نے رسانیت سے کہا

دیکھنا اللہ تم اٙجر ضرور دے گا جو تم کررہے ہو اُتنا کوئی نہیں کرتا۔ صائمہ نے اس کے بالوں میں پاتھ پھیر کر کہا جس پہ موحد نے بس مسکرانے پہ اکتفا کیا۔

💕💕💕💕💕💕

فاریہ مرزا پاکستان آگئ تھی ولید کے ساتھ شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھی کشف نے کسی بھی کام میں ہاتھ نہیں بٹایا تھا خود کو بس کمرے کی حدتک محدود کرلیا تھا حیا کا بھی یہی حال تھا کسی کو اُس کی حالت پہ شک نہ ہو اِس لیے وہ باہر نہیں جاتی تھی منہا جب کی ہرکام میں حصہ لیں رہی تھی کاموں میں وہ اِس طرح اُلجھی ہوئی تھی کے اُس کو کشف اور حیا کی اُداسی کو محسوس کرنے کا بھی وقت نہیں ملا تھا۔


دنیا کی اور بات ہے دنیا تو غیر ہے

ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی


حیا کھڑکی کے پاس کھڑی آسمان کی طرف نگاہ ٙٹکائے بیٹھی تھی آج بہت دن ہوگئے تھے حمزہ سے رابطہ نہیں ہوا تھا ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

کہاں ہوتم حمزہ مجھے ضرورت ہے تمہاری۔حیا تحلیل میں آنکھیں میچ کر حمزہ سے مخاطب ہوئی۔

حیا۔رخشندہ بیگم کمرے میں آکر آواز دی تو حیا نے فورن سے اپنی آنکھیں صاف کی۔

جی امی۔حیا نے پوچھا

ولید کے ساتھ شاپنگ پہ جانا ہے تیار ہوجاو۔رخشندہ بیگم نے کہا

سب کجھ طے کرلیا ہے تو یہ شاپنگ بھی خود کرلیں مجھے اِن سب میں دلچسپی نہیں۔حیا نے بے رخی سے کہا

ٹون ٹھیک کرو اپنی ماں ہوں تمہاری۔رخشندہ بیگم کو حیا کا انداز نہیں بھایا۔

آپ لوگوں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ساری زندگی مجھے حمزہ کے خواب دیکھائے اور اب ایسا کررہے ہیں اگر یہی کرنا تھا تو بچپن میں ہمارا رشتہ طے کیوں کیا۔حیا پھٹ پڑی۔

کجھ غلط نہیں کیا جن لوگوں نے تمہاری بہن کو ٹھکرایا اب بھی تم کہہ رہی ہو رشتہ کیوں توڑا بہن سے زیادہ حمزہ ضروری ہوگیا تمہیں۔رخشندہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا۔

مجھے کہیں نہیں جانا اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔حیا نے اپنا رخ دوسری طرف کرکے کہا رخشندہ بیگم اس کو دیکھتی باہر چلی گئ۔

💕💕💕💕💕💕

دو دن بعد حیا کی مہندی ہے حمزہ کا پتا کیوں نہیں لگواتے اگر حیا کی شادی ہوگئ تو حمزہ پوری دنیا کو آگ لگادے گا۔ہما بیگم نے پریشان لہجے میں سعید مرزا سے کہا۔

خود لاپرواہ ہوگیا ہے اپنے بھائی کی طرح تو میں کیا کرسکتا ہوں گیا ہوگا اپنی آفس کی کسی میٹنگ میں فون اُس کا بند ہے دوستوں میں کسی کو پتا نہیں میں اب کیا کروں پھر۔سعید مرزا نے جواب دیا۔

آپ کو اپنے بھائی سے بات کرنی چاہیے تھی حیا کا رشتہ کیسے توڑ سکتے تھے وہ حمزہ سے۔ہما بیگم نے کہا۔

ویسے ہی جیسے تمہارے بیٹے نے توڑا۔سعید مرزا نے طنزیہ کہا۔

حمزہ کی بات الگ ہے وہ بہت چاہتا ہے حیا کو۔ہما بیگم فکرمندی سی بولی۔

کوشش کرتا ہوں کہاں گیا ہوا ہے خبر ملے گی تو خود چلا آئے گا بس حیا کا نام کسی اور سے جوڑا گیا ہے یہ بات اُس کو پتا چلیں۔سعید مرزا نے پُرسوچ انداز میں کہا حیا کے لیے حمزہ کی دیوانگی سے وہ بچپن سے واقف تھے۔

💕💕💕💕💕💕

منہا کو آج ماہر کے ساتھ مال جانا تھا وہ تیار ہوتی خود کو آئینہ میں دیکھا گلابی کلر کے پرنٹڈ سوٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا چہرے جب کی میک اپ سے پاک تھا منہا مسکراتی بیڈ کی طرف آئی بیڈ سے اپنی چادر اُٹھاتی اچھے سے پہن کر باہر آئی جہاں ماہر پہلے سے موجود اُس کا انتظار کررہا تھا۔

ٹھیک ہے مامی جان اب ہم چلتے ہیں۔ماہر نے مسکراتی نظر منہا پہ ڈال کر رخشندہ بیگم سے کہا۔

خیر سے جاو بیٹا۔رخشندہ بیگم نے مسکراکر کہا

بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ماہر نے باہر آکر مسکراکر کہا۔

شکریہ۔منہا نے چہرہ جُھکاکر کہا۔

آج تو ہم سارا دن ایک ساتھ ہوگے۔ماہر نے گاڑی کا ڈور اوپن کرکے مزے سے بتایا۔

بس شاپنگ اُس سے زیادہ نہیں۔منہا نے اُس کے ارمانوں پہ پانی پھیرا۔

جی نہیں پہلے شاپنگ اُس کے بعد دیر ہوجائے گی تو ہم ڈنر کریں گے پھر آئسکریم اُس کے بعد واپسی کا سوچا جاسکتا ہے۔ماہر نے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے کہا۔

اُس کے بعد بھی سوچا جاسکتا ہے۔منہا حیرت سے بولی۔

یس۔ماہر نے تابیداری سے سرہلایا تو منہا بس اُس کو دیکھتی رہ گئ۔

💕💕💕💕💕💕

کشف نے موحد کو کال کرنا چاہا جیسے ہی اُس نے کال ملائی تو پتا لگا اُس کا نمبر بلاک کیا گیا تھا کشف کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ آگئ تھی آج اُس نے اپنی زندگی پہ ایک کہانی لِکھنے کا سوچا تھا کل اُس کی مہندی کا دن تھا اس کے لاکھ احتجاج کے باوجود کسی نے اُس کی نہیں سنی تھی تو اُس نے بھی منہ پہ قفل ڈال دیا تھا۔


دل منتظر میرا

کشف نے ٹائٹل لِکھا پھر موحد سے پہلی ملاقات سے لیکر جتنا ہوسکتا تھا اُتنا لِکھا اِس بات سے انجان کے مستقبل میں یہ کہانی ایک مشہور ناول کا خطاب حاصل کرنے والی تھی۔

💕💕💕💕💕💕

حیا نے آج دوائی نہیں کھائی تھی مہندی کی تیاریان زور شور سے شروع تھی سارا وقت لڑکیاں اُس کے ارد گرد تھی جس سے اُس کو دوائی کھانے کا وقت نہیں ملا تھا اب اس کو اپنی طبعیت میں بوجھل پن محسوس ہورہا تھا وہ آرام کرنا چاہتی تھی مگر رخشندہ بیگم اور سومل بیگم کجھ عورتوں کو ساتھ آکر ان تینوں کو باہر لے جانے لگی مہندی کا فنکش گھر کے بڑے سے لان میں کیا گیا تھا۔

پہلے منہا کی رسم ہونی تھی اُس کے بعد حیا پھر کشف منہا کو ماہر کے ساتھ بیٹھایا گیا سر پہ بڑا سا ڈوپٹہ تھا جس سے اُس کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔

پردہ کیوں لگایا ہوا ہے مجھے دیکھنا تھا آپ کو۔ماہر نے سرگوشی نما آواز میں منہا سے کہا منہا کے ہاتھوں میں پسینا آگیا تھا اُس کو سمجھ نہیں آیا کیا جواب دے سب کی موجودگی میں اِس لیے خاموش رہنے میں عافیت جانی۔

حیا خاموش سی ولید کے پہلوں میں بیٹھی تھی ولید کافی خوش نظر آرہا تھا اُس کے برعکس تیسری طرف جہاں کشف مورت کی مانند بیٹھی ہوئی تھی شیراز کو بھی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے زبردستی بیٹھایا ہوا تھا۔حیا کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی سر پہ اتنا بڑا ڈوپٹہ ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں مشکل ہورہی تھی چہرہ پورا پسینے سے نہایا ہوا تھا منہا کے بعد جب حیا کی طرف سب آئے تو حیا کا دم گھٹنے لگا فاریہ مرزا نے موتی چور کا لڈو اس کے منہ میں ڈالا تو حیا کو وومیٹنگ ہونے لگی بڑی مشکل سے اس نے ہضم کیا تھا۔

مجھے کمرے میں جانا ہے۔کشف کی رسم ہورہی تھی جب حیا نے گہرے سانس بھرتے رخشندہ بیگم سے کہا ان کو بھی حیا کی حالت سہی نہیں لگی تو اندر لے جانے لگی مگر حیا جیسے ہی کھڑی ہوئی اُس کا سر بُری طرح چکرایا جس سے وہ زمین بوس ہوئی۔

سب مہمانوں میں ہلچل مچ گئ تھی رخشندہ بیگم پریشان سی حیا کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی نور احمد صاحب کو پتا لگا تو وہ حیا کو اٹھاتے گھر کی طرف آئے۔

ڈاکٹر کو فون کرو۔نور احمد صاحب نے پاس کھڑے ساگر سے کہا تو وہ سرہلانے لگا۔

مہمانوں سے معذرت کرلوں فنکشن ختم ہوگیا۔نور احمد صاحب نے پریشان کھڑی رخشندہ بیگم سے کہا جس پہ وہ لان کی طرف بڑھ گئ۔

پریشان نہیں ہو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے کمزوری ہوئی ہوگی۔فاریہ مرزا نے رخشندہ بیگم کو تسلی کروانی چاہی۔

موم ڈیڈ کی کال ہے ولید نے فاریہ مرزا سے کہا بزنس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی شادی پہ بھی نہیں آسکے تھے۔

میں آتی ہوں۔فاریہ مرزا ان سے معذرت کرتی اپنے کمرے میں گئ ولید بھی ان کے ساتھ گیا ڈاکٹر بھی آگئ تھی اب سومل بیگم رخشندہ بیگم منہا سب ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں تھیں کشف نے خود کو کمرے میں بند کرلیا تھا جب کی نور احمد صاحب واحب صاحب باہر کھڑے تھے ساگر کسی کام سے نکل گیا تھا۔

ٹیشن کی کوئی بات نہیں پریگنسی میں ایسا ہوتا رہتا ہے پر یہ بہت ویک ہیں ان کا بہت سارا خیال رکھنا ہے ورنہ بچے کو نقصان ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد کہا ان کی بات پہ ان تینوں کے چہرے کے رنگ پل بھر میں اُڑا تھا۔

پریگننٹ؟رخشندہ بیگم کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔

جی میں کجھ سیمپلز لِکھ کے دے رہی ہو اور پلیز اِن کا منتھلی چیک اپ کروانے ہوسپٹل آیا کریں ان کے شوہر سے کہیے گا کیونکہ اس کنڈیشن میں ان کو اپنی بیوی کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ڈاکٹر کی یہ بات باہر کھڑے نور احمد صاحب اور واحب صاحب پہ بھی بجلی بن کر گِری تھی دروازے آدھا کھلا ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی سے سب کجھ جان گئے تھے۔

رخشندہ بیگم نے دیوار کا سہارا لیا منہا نے فورن سے ان کو کندھوں سے تھاما۔

آدھے گھنٹے بعد حیا کو ہوش آیا تھا وہ تینوں ابھی تک ویسے ہی اسٹل بن کر کھڑے تھے ان کے چہروں کو دیکھ کر حیا کو کسی انہونی کا احساس ہوا۔رخشندہ بیگم نے اُس کو ہوش میں آتا دیکھا تو آگے بھر کر ایک زوردار تھپڑ اُس کے نازک گال پہ جڑدیا منہا نے بے ساختہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا جب کی حیا کو پتا لگ گیا کے وہ سب جان گئے ہیں۔

رخشندہ بیگم نے تھپڑوں سے حیا کا چہرہ لال کردیا تھا سب لوگ خاموش تماشائی بن کر بس ان کو دیکھ رہے تھے۔

یہ دیکھانے کو پیدا ہوئی تھی تم مر کیوں نہیں جاتی حیا زرہ خیال نہیں آیا اتنا بڑا گناہ کرتے وقت بتاٶ مجھے کس کا ناجائز خون ہے یہ۔ رخشندہ بیگم غصے اور غم سے ہانپتی ہوئی بولی حیا جو خاموشی سے ان کی مار کھارہی تھی ناجائز خون پہ تڑپ کر اپنا سر اُٹھایا تھا۔

ناجائز نہیں ہے جائزہ ہے۔ حیا روتے ہوئے بولی

چٹاخ

چٹاخ۔

رخشندہ نے ایک بار نہیں بار بار اس کے چہرے پہ تھپڑ مارے۔

شرم نہیں آتی ابھی بھی جھوٹ بول رہی ہو۔ رخشندہ بیگم پاگل ہونے کے در پہ تھی منہا ایک سائیڈ پہ کھڑی رونے میں مصروف تھی سومل بیگم کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے رخشندہ بیگم کو روکے جو حیا کی حالت کا سوچے بنا اُس کو مارے جارہی تھی نور احمد صاحب اور واحب صاحب شرمندگی سے اپنا سر جھکا کر باہر چلے گئے تھے جب کی کشف کو خود کا ہوش تک نہیں تھا۔

جھوٹ نہیں سچ ہے یہ میرا اور حمزہ کا بچہ ہے۔ حیا اتنا بتاتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی سب کو جیسے حیا کی بات پہ سانپ سونگھ گیا تھا

کیا بکواس ہے یہ؟ رخشندہ بیگم چلا کر بولی۔

میں نے حمزہ کے کہنے پہ اُس سے خوفیہ نکاح کیا تھا ہمیں کیا پتا تھا ہمارے نام ایک ساتھ منسوب کرکے آپ لوگ ایک بات کو اپنی انا کا مسئلا بناکر ہمارا بچپن سے جوڑا رشتہ ختم کردے گے۔ حیا ہذیاتی انداز میں چیختی بولی۔

منہا اپنی لال ہوتی آنکھوں سے اس کو دیکھ کر باہر نکل گئ سومل بیگم دونوں کو اکیلا چھوڑتی باہر نکل گئ۔

کیسے مان لوں تم سچ بول رہی ہو یہ بچہ ناجائز نہیں بلکہ جائز ہے۔ رخشندہ بیگم سرد لہجے میں بولی حیا کے چہرے پہ اپنی ماں کی بات پہ زخمی مسکراہٹ آگئ۔

مجھ پہ نا سمہی اپنی تربیت پہ بھروسہ کیا ہوتا آپ کو میرے پہ یقین نہیں تو کشف سے پوچھ لیں حمزہ اور میرے سوا وہ جانتی ہیں۔ حیا بہتے آنسوٶ کے درمیان بولی۔

ہماری تربیت یہ بھی نہیں تھی کے خوفیہ نکاح کرو اتنی آگ لگی تھی دونوں میں تو ہم سے کہا ہوتا کردیتے شادی دونوں کی۔ رخشندہ بیگم زہر خند لہجے میں بولی حیا نے اپنا سر جھکادیا اُس کو جوڑ جوڑ میں درد محسوس ہورہا تھا چہرہ الگ سے جل رہا تھا اُن سب کے علاوہ ستمگر کی دوری نہ اس کے رہے سہے اوسان خطا کردیئے تھے جو جانے کہاں غائب تھے حمزہ کا خیال آتے ہی حیا کو اپنے سینے پہ تکلیف محسوس ہونے لگی۔ رخشندہ بیگم ایک غصیلے نظر اُس پہ ڈال کر چلی گئ تھی۔

💕💕💕💕💕💕

سب لوگ لاوٴنج میں سر جھکاکر بیٹھے تھے رخشندہ بیگم نے ان کو ساری بات بتادی تھی فاریہ مرزا ولید بھی یہ بات جان گئے تھے مگر خاموش تھے جب کی عانیہ مرزا کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

کشف کو لیکر آوٴ۔نور احمد صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

میں بات کرتی ہوں اُس سے آپ کا بات کرنا ٹھیک نہیں۔رخشندہ بیگم سپاٹ انداز میں کہتی کشف کے کمرے میں گئ۔

بات کرنی ہے تم سے کیا تمہیں پتا تھا حیا کے نکاح کا؟رخشندہ بیگم کمرے میں آتی سپاٹ انداز میں سیدھا سوال کیا کشف جو اپنے خیالوں میں تھی رخشندہ بیگم کی آواز پہ چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

نکاح کا پتا تھا تمہیں۔رخشندہ بیگم نے دوبارہ سے اپنی بات پہ زور دے کر کہا کشف نے غور سے ان کی طرف دیکھا حیا کا بے ہوش ہونا یاد آیا تو وارڈروب کی طرف آکر ان میں سے نکاح کی کاپی اور پریگنسی کی رپورٹس رخشندہ بیگم کی طرف بڑھائی۔

اچھا نہیں کیا تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا کم از کم آج جو ہماری بدنامی ہوئی ہے اُس سے تو بچ جاتے۔رخشندہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا۔

اگر فیصلہ کرتے وقت اپنی اولاد کی خوشیوں کا بھی سوچ لیں تو ان کے ارمان بھی چکنا چور ہونے سے بچ جاتے۔کشف نے جواب دیا تو رخشندہ بیگم باہر نکل گئ کشف نے سرد سانس بھر کر بیڈ پہ بیٹھ گئ۔

میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے۔نور احمد صاحب نے سرجھکاکر ندامت سے کہا۔

شرمندہ مت ہو بھائی ہمیں حیا سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔فاریہ مرزا نے کہا

اگر دونوں کا نکاح ہوگیا ہے تو حمزہ نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا اُس نے بتایا کیوں نہیں حیا سے وہ پہلے نکاح کرچُکا ہے۔ولید نے غصے سے کہا۔

یہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں حمزہ تو اپنی چیزوں کے لیے بہت پوزیسیو رہنے والا انسان ہے تو اب بات تو اپنی منکوحہ کی تھی تو کیسے خاموش رہا۔سومل بیگم نے اُلجھ کر کہا۔

حمزہ تو ایک ماہ سے یہاں نہیں ہے چچا جان خود اُس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ساگر نے سنجیدگی سے بتایا۔

اب حمزہ کو بلاکر بیٹی کی رخصتی کردو یا ابھی بھیج دو اُس کو جو کارنامہ سرانجام دیا ہے ان دونوں نے کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔عانیہ مرزا نے زہر خند لہجے میں کہا۔

موم۔ماہر نے تنبیہہ کی۔جس پہ عانیہ مرزا نے منہ کے زاویے بگاڑے۔

💕💕💕💕💕

حمزہ کہاں ہے؟نور احمد صاحب سعید مرزا کے گھر آکر سنجیدگی سے بولے۔

حمزہ کسی کام سے باہر ہے تم اندر بیٹھو۔سعید مرزا نے آرام سے جواب دیا۔

جہاں بھی ہے اُس کو کہو اپنی منکوحہ کو لیکر جہاں دفع ہونا ہے ہوجائے تمہارے دونوں بیٹوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔نور احمد صاحب تیز آواز میں بولے۔

کیا بات کررہے ہو مجھے کجھ سمجھ نہیں آرہا۔سعید مرزا واقع میں نہیں سمجھے۔

حمزہ کو بتادے سب جانتا اور سمجھتا ہے۔نور احمد نے طنزیہ کہا

💕💕💕💕

فاریہ مرزا ولید کے ساتھ واپس چلی گئ تھی منہا اور کشف کی شادی سادگی میں اب طے پائی تھی جس کا فرق دونوں کو نہیں پڑا منہا کجھ ڈیلے کرنا چاہتی تھی شادی کو پر کسی نے نہیں سنی اُس کی بات آج دونوں کا نکاح تھا تقریب میں بس کجھ جاننے والوں کو بُلایا گیا تھا۔

پہلے منہا کا نکاح ہوا اُس کے بعد کشف کا نکاح کے پیپرز میں سائن کرتے وقت کتنے ہی آنسو اُس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے آج وہ پوری طرح سے کسی اور کی ہوچکی تھی موحد کو پانے کی جو ایک اُمنگ تھی تھی وہ بھی دٙم توڑگئ تھی۔


وہ کوئی عام شخص تو نہیں ہوسکتا

جس کو ہم اپنا کہیں،عشق کرین،روپڑیں


رخصتی کا وقت ہوا تو کشف بنا واحب صاحب سے ملے گاڑی میں بیٹھ گئ تھی واحب صاحب کو بہت دُکھ ہوا سومل بیگم نے کوشش کی بات کرنے کی پر کشف نے جواب نہیں دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے گھر میں سب کو پتا لگ گیا تھا حیا کمرے سے باہر نہیں نکلتی تھی اور نہ کوئی اس کو کہتا تھا ملازم کھانا وقت پہ اُس کو دے جایا کرتی تھی جو وہ کبھی کبھی اپنے بچے کا سوچ کر کھالیا کرتی تھی آج پورے دو ماہ ہوگئے تھے پر حمزہ کا کجھ اتا پتا نہیں تھا۔

میں معاف نہیں کروں گی تمہیں حمزہ کبھی بھی نہیں۔حیا بیدردی سے اپنے آنسو صاف کرتی بڑبڑائی۔

💕💕💕💕

منہا ڈیپ کلر کا لہنگا پہنے نفاست سے چہرے پہ میک اپ کیے بہت خوبصورت لگ رہی تھی ماہر کی بہنوں نے اُس کو ماہر کے کمرے میں بیٹھا کر باہر نکل گئ تھی پورے کمرے میں گلاب کے پھولوں کی خوشبوں بسی ہوئی تھی جو ماحول کو خوابناک بنا رہی تھی منہا بیس منٹ سے ماہر کا انتظار کررہی تھی پر ابھی تک ماہر نہیں آیا تھا۔

چررر۔

دروازہ کُھلنے کی آواز پہ منہا سمٹ کر بیٹھ گئ ماہر مسکراتا بیڈ کے پاس آیا۔

میرا آپ کو اپنا بنانے کا خواب پورا ہوگیا میں آپ کو یہاں اپنے کمرے پورے حق کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر جو خوشی محسوس کررہا ہوں وہ میں بتا نہیں سکتا۔ماہر منہا کے چہرے سے ڈوپٹہ ہٹاکر اس کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر مسکراکر کہا۔

آپ نہ بھی بتائے تو آپ کا چہرہ ساری داستان بیان کررہا ہے۔منہا نے چہرہ جھکاکر آہستہ سے کہا۔

اور کیا بتارہا ہے میرا چہرہ؟ماہر منہا کے حنائی والے ہاتھ تھام کر بولا۔

بس یہی۔منہا سٹپٹاکر بولی۔

میں بتاتا ہوں آپ کو اپنے دل کا حال جو پہلے آپ کو کسی اور کے ہونے کا سوچ کر تڑپ رہا تھا۔ماہر نے منہا کو اپنے ساتھ لگاکر کہا۔

پُرانی باتوں کا کیا ذکر اب تو میں آپ کی ہوں۔منہا مسکراکر کہا ماہر اس کی مسکراہٹ پہ صدقے واری ہوا تھا جھک کر اُس کے ماتھے پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑا منہا نے سکون سے آنکھیں بند کرکے کُھولی۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ۔ماہر نے ڈرار سے ایک مخملی کیس نکال کر کہا۔

یہ کیا کررہے ہیں؟منہا نے ماہر کے ہاتھ پیروں پہ محسوس کیا تو کہا۔

دے تو سہی پتا لگ جائے گا۔ماہر نے مسکراکر کہا پھر لہنگا کجھ اُپر کرکے اس کو پاوٴں میں پازیب پہنائی۔

بہت خوبصورت یہ تو۔منہا نے مسکراکر پازیب پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔

آپ کے پیر میں موجود ہے تبھی لگ رہی ہے۔ماہر کے جواب پہ منہا کا چہرہ سرخ انار ہوا ماہر مبہوت سا اُس کو دیکھتا رہا۔

💕💕💕💕

کشف کو کجھ رسموں کے بعد کمرے میں لایا گیا تھا۔

تم یہاں بیٹھو شیراز بس آتا ہوگا۔مسز اسحاق نے مسکراکر کہا کشف نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا ان کے جانے کے بعد شیراز کمرے میں آیا۔

یہاں کیا کررہی ہو؟شیراز اُس کے سر پہ کھڑا ہوتا تیز آواز میں بولا کشف نے چہرہ اُٹھاکر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جس کے ساتھ کجھ پل پہلے نکاح ہوا تھا اب اُس کی بیوی بن کر یہاں موجود تھی اور سامنے والا کیا سوال پوچھ رہا تھا۔

میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔شیراز نے اپنا ہاتھ اُس کے چہرے کے سامنے لہرایا جواب میں کشف بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

مجھے یہاں آپ کی والدہ چھوڑ گئ ہیں آپ ان سے پوچھ لیں مجھے یہاں کیا کرنے لیے چھوڑا ہے۔اگر سامنے والا لحاظ نہیں کررہا تھا تو کشف نے بھی عزت دینا ضروری نہیں سمجھا۔

زبان چلاتی ہو۔شیراز اس کے جواب پہ غصے اس کو تھپڑ مارنا چاہا جو کشف نے بیچ میں ہی پکڑلیا۔

میں یہاں آپ کی بیوی کی حیثیت سے ہوں ملازم کی حیثیت سے نہیں اِس لیے دوبارہ مجھ پہ ہاتھ اُٹھانے کی زحمت مت کرئیے گا کشف مرزا نام ہے میرا ایزی مت لیجئے گا۔کشف اس کا ہاتھ چھوڑتی وارن کرنے والے انداز میں بولی شیراز تو اس کو دیکھتا رہ گیا جو چہرے سے معصوم نظر آرہی تھی مگر لگ رہا تھا جیسے معصومیت اُس کو چھو کر بھی نہیں گُزری تھی

یہ میرا بیڈ میرا کمرہ ہے تمہیں یہاں رہنا ہے تو صوفے پہ رہنا ہوگا۔شیراز اپنی شیروانی کے بٹن کھولتا بولا۔

بیوی ہونے کے ناطے اب یہ کمرہ یہ بیڈ ہمارا ہوا۔کشف نے بتانا ضروری سمجھا۔

بار بار بیوی کا لفظ مت یوز کرو وحشت ہورہی ہے مجھے تم بس میرے والدین کی وجہ سے یہاں ہو اگر وہ مجھے فورس نہ کرتے تو میں کبھی یہ شادی نہیں کرتا اِس لیے مجھ سے کسی بھی قسم کی امیدیں وابستہ مت رکھنا کیونکہ میں کسی اور کو چاہتا ہوں۔شیراز اچھے سے اس کو اپنی حیثیت بتاتا واشروم کی طرف بڑھ گیا۔

ایک اور امتحان۔کشف بے بسی سے بڑبڑائی۔

💕💕💕💕

افعان پریشان سا موحد کو دیکھ رہا تھا جو زندگی میں پہلی بار شراب نوشی کررہا تھا اُس کی آنکھیں حد سے زیادہ لال ہوگئ تھی افعان کو وحشت ہونے لگی۔

کشف کی شادی ہونے سے اتنا درد ہورہا ہے تو کیوں نہیں مانی اُس کی بات بار بار کہتی رہی پر تم پتھر بن گئے اب جب وہ کسی اور کی ہوگئ تو ناکام عاشقوں کی طرح یہاں بیٹھے ہو۔افعان نے افسوس سے موحد کو دیکھ کر کہا جس کی کیفیت کا اندازہ اس کے چہرے سے لگایا جاسکتا تھا۔

میں کیا دیتا اُس کو سوائے محرومیوں کے۔موحد نشے کی حالت میں بولا۔

محبت،عزت،اعتبار،اپنا ساتھ دیتے۔افعان نے جواب دیا۔

اِن چیزوں کے علاوہ بھی بہت ساری ضروریات ہوتی ہے جو میں کبھی پوری نہیں کرسکتا تھا۔موحد بے بس ہوکر بولا

اُس نے کونسا ایسی چاہ کی تھی وہ تو بس تمہارا خلوص تمہارا ساتھ مانگ رہی تھی۔افعان نے اُس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

اُس کے والدین نے اُس کے حق میں اچھا فیصلہ کیا ہوگا دیکھنا بہت خوش رہے گی وہ میں تو یاد بھی نہیں رہوں گا۔موحد زخمی مسکراہٹ سے بولا افعان بس اس کو دیکھتا رہا جو نااُمیدی کی بلندی پہ کھڑا تھا۔

وہ جو پتھر سے پانی نکال سکتا ہے

وپ اپنے بندے کے لئے وسیلہ بھی بناہی لیتا ہے۔افعان نے سنجیدگی سے کہا موحد بس شراب کی بوتل کو دیکھنے لگا۔

💕💕💕💕

حمزہ کو نعیم کے کینیڈا جانے کے تین دن بعد فون آیا تھا کے اُس کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے بتانے والی نعیم کی گرل فرینڈ تھی حمزہ کو جب یہ بات پتا چلی تو وہ جلدی میں بنا کسی کو بتائے کینیڈا جانے کے لیے نکل پڑا تھا کینیڈا آنے کے بعد اُس کا موبائل گم ہوگیا تھا اِس وجہ سے وہ حیا سے بھی رابطہ نہیں کرسکا پاکستان میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں حمزہ اِس سب لاعلم تھا نعیم کی حالت بہت سیریس تھی حمزہ نے وہاں رہنا فلحال بہتر جانا نعیم کی حالت کو ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگا جب نعیم نے خود کو بہتر سمجھا تو حمزہ کو واپس جانے کا کہا جس پہ حمزہ مان گیا تھا کیونکہ اُس کو بھی حیا کی یاد آرہی تھی جس سے دو ماہ ہوگئے تھے پر وہ بات نہیں کرسکا تھا حمزہ پاکستان جانے سے پہلے حمزہ نیا موبائل لیکر حیا کو کال کرنے لگا پر نمبر بند جارہا تھا حمزہ کو ٹینشن ہونے لگی اِس لیے جلدی سے فلائٹ بُک کرواتا پاکستان واپس لوٹ آیا یہاں آکر اُس کو جو خبر ملی اسے سن کر وہ اشتعال میں آگیا اپنے گھر جانے کے بعد وہ سیدھا حیا کی طرف آیا جہاں نور احمد صاحب رخشندہ بیگم کے ساتھ منہا کی طرف گئے تھے ناشتہ لئے اور واحب صاحب سومل بیگم کشف کی طرف گئے تھے۔

حیا

حیا۔

حمزہ ہال میں آتا زور سے حیا کا نام لینے لگا۔

صاحب جی وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ایک ملازمہ باہر آتی حمزہ سے بولی جسے سن کر حمزہ سیڑھیاں چڑھتا حیا کے کمرے کے پاس آتا دھڑام سے دروازہ کھولا حیا جو کھڑکی کے پاس کھڑی تھی گردن موڑ کر دیکھا حمزہ کو کھڑا دیکھ کر اُس کو لگا جیسے کوئی خواب ہے مگر وہ حقیقیت میں کھڑا تھا وائٹ شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز پینٹ پہنے بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا کافی فریش سا اُس کے برعکس حیا دو دن پہلے پہنے والے سوٹ میں ملبوس تھی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ہوگئے تھے چہرے کا رنگ پیلا زد ہوگیا تھا وہ کہیں سے بھی ہروقت تیار رہتی حیا نہیں لگ رہی تھی حمزہ جو سخت غصے میں آیا تھا حیا کی حالت دیکھ کر ایک جست میں اُس کی طرف پہنچا۔

حیا میری جان یہ کیا حالت بنالی ہے اپنی۔حمزہ فکرمند سا اُس کے چہرے پہ ہاتھ رکھتا سر سے پیر تک دیکھتا بولا۔

چٹاخ۔

حیا نے حمزہ کو خود سے دور کیے تھپڑ اُس کے گال پہ مارا حمزہ بے یقین سا حیا کو دیکھنے لگا جو آنکھوں میں نفرت لیے اس کو دیکھ رہی تھی اپنے لیے اُس کی نظروں میں نفرت دیکھتا حمزہ تڑپ کے دوبارہ سے اُس کے پاس آیا۔

حیا کیا ہوگیا ہے پلیز ٹیل می۔حمزہ نے ایک سانس میں پوچھا۔

چٹاخ

چٹاخ

چٹاخ۔

حیا بنا کوئی بات کیے ایک کے بعد ایک تھپڑ اس کو مارنے لگی جو حمزہ بنا غصے کیے برداشت کررہا تھا اُس کو بس ابھی یہ جاننا تھا کہ حیا اِس طرح ری ایکٹ کیوں کررہی ہے جہاں تک اُس کو معلوم ہوا تھا وہ یہ بات تھی کے نور احمد نے حیا کا رشتہ اُس سے توڑ کر کسی اور کے ساتھ جوڑنے کا سوچ رہے ہیں جس سے حمزہ کو غصہ آگیا تھا۔

حیا کیا پاگلپن ہے میرا سانس خشک ہوا پڑا ہے تمہیں مارنے کی لگی ہے بعد میں جتنے چاہے تھپڑ مارلینا پر ابھی مجھے یہ بتاؤ کیا ہوا ہے؟حمزہ اُس بڑھتا ہاتھ تھام کر فکرمندی سے بولا دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کیے جو مسلسل بہہ رہے تھے۔

اب کیوں آئے ہو تم جب ضرورت تھی تو کہاں غائب تھے۔حیا اپنے ہاتھ چھڑواتی اس کے سینے پہ مُکے برسانے لگی حمزہ گہری سانس لیتا اس کے دونوں ہاتھ جکڑتا قریب کیا۔

ساری بات کیا ہے جو تم یوں غصہ ہورہی ہو؟حمزہ نے نرمی سے پوچھا۔

تمہارے جانے کے بعد ڈیڈ نے میرا رشتہ ولید سے طے کرلیا تھا میرا دوبارہ نکاح بھی ہوجاتا اگر ان کو ہمارے بچے کا پتا نہ چلتا۔حمزہ جو جبڑے بھینچ کر حیا کی بات سن رہا تھا بچے کے نام پہ ٹھٹک کر حیا کو دیکھا جو جانے اور کیا بول رہی تھی۔

بچہ؟حمزہ زیر لب بڑبڑایا۔

ہاں بچہ جس کو امی نے ناجائز بولا۔حیا طنزیہ مسکراہٹ سے بولی حمزہ کا خون کھول اُٹھا تھا ناجائز لفظ پہ۔

ہمارا جائز بچہ ہے یہ ہماری محبت کی نشانی۔حمزہ سخت لہجے میں بولا۔

تم تو چلے گئے تھے جب مجھے تمہاری ضرورت تھی تو۔حیا نے نظریں پھیر کر کہا۔

مجبوری نہ ہوتی تو کبھی بھی نہیں جاتا۔حمزہ نے اُس کا چہرہ اپنی طرف کرکے کہا۔

بات مت کرو۔حیا بے رخی سے بولی۔دل جب کی ساری ناراضگی ختم کرنے کا چاہ رہا تھا دو ماہ بعد اپنے سامنے حمزہ کو دیکھ کر۔

حیا آئے کانٹ بلیو اِٹ۔حمزہ خوشی سے چور لہجے میں بولا تو حیا ناسمجھی سے اس کو دیکھنے لگی۔

ہم والدین کے رُتبے پہ فائز ہونے والے ہے تم اب میرے ساتھ جاؤ گی حال دیکھو اپنا کیا بنالیا ہے میرے بعد شاید بلکل بھی خیال نہیں کیا پر اب میں لاپرواہی برداشت نہیں کروں بہت خیال رکھوں گا تمہارا۔حمزہ حیا کے ہاتھ کی پشت پہ لب رکھتا بولا۔

مجھے کہیں نہیں جانا تمہارے ساتھ تو بلکل بھی نہیں۔حیا نے صاف انکار کیا۔

حیا میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ میں سختی کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہوں۔حمزہ نے تیز آواز میں کہا تو حیا رونے لگی۔

یار حیا سیلاب لانا ہے کیا۔حمزہ اس کے بار بار رونے پہ جھنجھلاکر بولا۔

ایک تو اتنا وقت جانے کہاں تھے سب کجھ میں نے اکیلے برداشت کیا جب تم آئے ہو تو تم بھی ایسے بات کررہے ہو۔حیا ہچکیوں کے درمیان بولی تو حمزہ کو اپنے سخت رویے کا احساس ہوا۔

اچھا سوری نہیں کرتا میں اب کجھ پر تم رونا بند کرو۔حمزہ نے منت کرنے والے انداز میں کہا۔

حیا نے ہلکہ سا تھپڑ اُس کے چہرے پہ مار کر اُس کے سینے پہ سررکھ دیا وہ جو سوچ بیٹھی تھی کبھی معاف نہیں کرے گی پر حمزہ کو دیکھ کر اُس کی ساری ناراضگی ختم ہوگئ تھی یاد تھا تو بس اتنا اُس کا حمزہ اُس کے پاس موحود تھا حمزہ نے مُسکراکر اُس کے گرد حصار باندھا۔

زندگی میں کبھی ایک تھپڑ مجھے نہیں پڑا پر آج تم نے تھپڑوں کی بارش کردی۔حمزہ نے جل کر کہا تو حیا نے ایک مکہ اس کے سینے پہ مارا حمزہ بس ضبط کرتا رہا۔

تم بس میری ہو حیا تمہارے نام کے شروع کے حرف اور آخری حرف میرے نام کے جیسے ہیں تم سے دور تو مجھے موت کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔حمزہ حیا کے بالوں پہ لمس چھوڑتا دل میں بولا۔

💕💕💕💕💕

کیسی ہوں سب ٹھیک ہے نہ؟رخشندہ بیگم نے ناشتے کے بعد منہا سے پوچھا۔

جی امی جان میں ٹھیک ہوں حیا کو بھی ساتھ لاتی آپ۔منہا نے جواب دے کر کہا۔

اُس کا نام مت لو بس اپنے گھر کا سوچو اب۔رخشندہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔

امی حیا نے کونسل گُناہ نہیں کیا کہیں نہ کہیں غلطی ہم سے ہوئی ہے۔منہا نے کہا۔

منہا۔رخشندہ بیگم نے تنبیہہ کی تو منہا خاموش ہوگئ۔

اتنے شوک کلر کا ڈریس پہننے کی کیا ضرورت تھی تمہیں۔عانیہ مرزا نے ناگواری سے منہا سے کہا جو ریڈ کلر کر سادہ سے فراق میں بہت پیاری لگ رہی تھی سر پہ ڈوپٹہ اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا پر عانیہ مرزا کو وہ ایک آنکھ نہ بھاہی۔

کیا بات ہے عانیہ شادی سے کے بعد لڑکیاں ایسے ہی کپڑے پہنتی ہیں۔رخشندہ بیگم نے منہا کا زد ہوتا چہرہ دیکھا تو کہا۔

ہمم۔عانیہ مرزا نے منہ بگاڑا جب کی مرد سب دوسری طرف تھے منہا کو اپنے نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو چہرہ ماہر کی طرف دیکھا جو دور بیٹھا اِشارے سے پوچھ رہا تھا کیا ہوا؟منہا نے دیکھا تو مسکراہٹ آگئ اُس نے مسکراکر نفی میں سرہلاکر ماہر کو تسلی کروائی عانیہ مرزا نے کڑی نظروں سے یہ منظر دیکھا تھا۔

💕💕💕💕

اِتنا تکلف کیوں کیا سومل۔مسز اسحاق نے سومل بیگم سے کہا جو ناشتے کے نام پہ مہینے بھر کا کھانا لائی تھی جیسے۔

تکلف کیسا اتنا تو ہوتا ہے۔سومل بیگم نے سادگی سے کہا۔

تم خوش ہو نہ؟واحب صاحب نے کشف سے پوچھا جو خاموش بیٹھی تھی۔

خوش کس بات پہ؟کشف نے اُلٹا ان سے سوال کیا۔

ابھی تم ناراض ہو بعد میں ہمارے فیصلے پہ فخر محسوس کروگی۔واحب صاحب نے مسکراکر کہا۔

کشف بیٹے شیراز کو اٹھاؤ ساتھ میں ناشتہ کریں۔مسز اسحاق نے کہا تو کشف کا اُس کا رات والا رویہ یاد آیا ساری رات صوفے پہ اس کو نیند نہیں آئی تھی کمر الگ سے درد کررہی تھی۔

جی۔کشف اتنا کہہ کر کمرے میں آئی جہاں شیراز گہری نیند میں تھا اُس کو اتنی گہری نیند میں دیکھ کر وہ سوچنے لگی کیسے جگائے اگر غصہ کرے تو۔

کرتا ہے تو کریں میں کونسا اِس کے غصے سے ڈرتی ہوں۔کشف سرجھٹک کر سوچتی شیراز کو آواز دینے لگی۔

سنو باہر نیچے بلارہے ہیں آپ کو۔کشف نے کہا پر شیراز اپنی جگہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔

ش۔۔شی۔راز۔کشف نے اٹک کر اُس کا نام لیا۔

ہمم کیا ہے؟شیراز مندی مندی آنکھیں کھولتا بیزار سے بولا۔

ناشتے کے لیے بلارہے ہیں باہر۔کشف نے دوبارہ سے بتایا۔

مجھے نہیں کرنا اب تم جاؤ مجھے سونا ہے۔شیراز نے کروٹ بدل کر کہا۔

ایک بار نیچے آکر پھر دوبارہ سولیجئے گا۔کشف نے دانت پیس کر کہا۔

ایک دفع کہا نہ اب جاؤ یہاں سے۔شیراز اٹھ کر اس کے بازوں کو جھٹکا دے کر بولا کشف کراہ کر رہ گئ۔

جھنگلی۔کشف بڑبڑاتی باہر نکل گئ

انہوں نے ناشتہ نہیں کرنا۔کشف باہر آتی اُن سے بولی۔

کہتی نہ ہم آئے ہیں۔واحب صاحب زبردستی مسکراہٹ بولے اسحاق ظفر نے ایک شرمندہ نظر اپنی بیگم پہ ڈالی جو خود نظریں چُراگئ تھی۔

اُن کا سونا ضروری تھا اِس لیے مجھے باہر بھیج دیا۔کشف صاف گوئی سے بولی سومل بیگم نے گھور کر اُس کو دیکھا۔

💕💕💕💕💕

تم یہاں کیا کررہے ہو؟نور احمد صاحب نے ہال میں حمزہ کو بیٹھا دیکھا تو غصے سے کہا رخشندہ بیگم بھی نفرت سے اُس کو دیکھ رہی تھی۔

میں یہاں آپ کا انتظار کررہا تھا تاکہ بتاسکوں میں حیا کو لیکر جارہا ہوں۔حمزہ سپاٹ انداز میں بولا اُس کو حیا کے علاوہ کسی سے مطلب نہیں تھا۔

نکاح کے وقت بتایا تھا جو رخصتی پہ بتارہے ہو لیکر جاو اپنی منکوحہ کو جس نے ہمارا نام روشن کیا ہے۔رخشندہ بیگم ناگواری سے بولی۔

امی جان آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں۔سیڑھیاں اُترتی حیا اُن کی بات سن کر تڑپ کے بولی۔

تم سے ہمیں بات نہیں کرنی اپنا سامان پکڑو اور جہاں جانا ہے جاوٴ ہمہیں اپنی شکل دوبارہ مت دیکھانا۔رخشندہ بیگم زہر خند لہجے میں بولی۔

اولاد ہے آپ کی ایسے بات کیوں کررہے ہیں آپ مانا کے نکاح آپ کو بتائے بنا کیا تھا بعد میں بھی تو ہونا تھا نہ حیا میری منگ تھی اگر اپنی مرضی سے ہم نے کوئی فیصلہ لیا تو آپ کو اِس طرح ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیے۔حمزہ سنجیدگی سے بولا۔

ہمیں تم دونوں سے کوئی بحث نہیں کرنی۔رخشندہ بیگم کہتی وہاں سے چلی گئ نور احمد صاحب بھی ایک نظر اُن پہ ڈال کر چلے گئے حیا نے دُکھ سے اُن کو جاتا دیکھا حمزہ چلتا حیا کے پاس آیا اور اس کو اپنے ساتھ لگایا۔

رلیکس سب ٹھیک ہوجائے گا۔حمزہ نے اُس کے بال سہلاکر کہا۔

💕💕💕💕

دو ماہ بعد!

دو ماہ ہوگئے تھے مگر کشف کی زندگی میں کجھ نہیں بدلا تھا شیراز کا رویہ بہت بُرا تھا اُس کے ساتھ جس سے موحد اُس کو شدت سے یاد آتا تھا اِن دو ماہ بعد میں اُس کو موحد پہ غصہ بھی آتا تھا منہا کی زندگی ماہر کے ساتھ بہت خوشگوار گُزر رہی تھی ولیمے کے دوسرے دن ماہر اُس کو اپنے ساتھ دبئی لیکر گیا تھا اور دو ماہ بعد ان کی واپسی تھی حیا کا چوتھا مہینہ چل رہا تھا حمزہ بہت خیال رکھ رہا تھا اُس کا حمزہ کی حد سے زیادہ محبت توجہ عزت پاکر حیا بہت پُرسکون اور خود کو خوش قسمت محسوس کرتی تھی مگر نور احمد صاحب یا رخشندہ بیگم ابھی بھی اُس سے ناراض تھے حیا نے منانے کی کوشش کی پر بے سود اِس لیے اب حمزہ اس کو ان سے بات کرنے نہیں دیتا تھا کیونکہ حیا پریشان ہوجاتی تھی جو حمزہ کو گوارہ نہیں تھا۔


ہر سجدے پہ دل لیتا ہے نام تیرا

مجھے دورانِ نماز تو یاد نہ آیا کرو۔


کشف نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو اُس کو سمجھ نہیں آیا کیا مانگے دو ماہ سے وہ ایسے ہی بس اپنے ہاتھوں کو دیکھا کرتی تھی اُس کی دعا کی شروعات اور آخر تو بس موحد تھا شادی کے بعد اُس نے دعا مانگنا چھوڑدیا تھا

کجھ دیر تک اپنے ہاتھوں کو دیکھنے کے بعد کشف جائے نماز اُٹھا کر بیڈ پہ بیٹھ گئ۔


موت سے پہلے بھی ایک موت ہوتی ہے

دیکھو زرہ اپنی محبت سے جُدا ہوکر۔


کشف بات کرنی ہے تم سے۔سومل بیگم کشف کے کمرے میں آکر بولی جو کل ان کے یہاں آئی تھی

جی کریں۔کشف نے سنجیدگی سے کہا۔

اتنا خاموش کیوں رہنے لگی ہو خوش رہا کرو پہلے کی طرح بات چیت کرلیا کرو ہمارا دل کٹتا ہے تمہیں ایسے دیکھ کر۔سومل بیگم نے نرمی سے کہا۔

کس بات پہ خوش رہوں میری شادی آپ نے امیر وکبیر ایک شرابی لڑکے سے کروائی ہے اُس پہ یہاں اِس بات پہ کے اُس کا چکر کسی اور لڑکی میں ہے۔کشف ان کی بات پہ طنزیہ بولی۔


حضرت علی رضہ فرماتے ہیں!

رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہیں بے عیب انسان تلاش کروگے تو اکیلے رہ جاؤ گے۔


اِس لیے میری جان شیراز کو اپنی توجہ اور محبت دو تاکہ وہ تمہاری طرف مائل ہو جن مردوں کو اپنی بیوی سے سہی سے توجہ اور محبت نہیں ملتی نہ تو وہ مرد باہر کی عورتوں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں تم بیوی ہو اُس کی پورا حق ہے تمہارا اُس پہ دوسرا یہ نکاح میں اللہ پاک نے بہت برکت اور طاقت رکھی ہے تم کوشش کرو رشتے کو سنبھالنے کی پھر دیکھنا کیسے شیراز تمہارا ہوکر رہتا ہے شادی ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی کو تو پٙہل کرنء ہے نہ تم کرو شوہر کا بہت بڑا رتبہ ہے اُس کو سمجھنے کی کرو نامحرم کو بھول کر اپنی محرم کا سوچو۔سومل بیگم نے بہت خوبصورت طریقے سے اس کو سمجھایا اُن کی آخری بات پہ کشف نے بہت ضبط کیا تھا۔

شیراز کی زندگی میں مجھ سے پہلے وہ لڑکی تھی وہ محبت کرتا ہے اُس سے۔کشف نے سنجیدگی سے کہا۔

محبت تو وہ ہوتی ہے جو نکاح کے بعد ہو۔سومل بیگم اُس کی بات پہ مسکرائی۔

میں کوشش کروں گی ان کو میری طرف سے کوئی شکایات نہ ہو پر منافقت مجھ سے نہیں ہوتی جھوٹی محبت کا دیکھاوا میں نہیں کرسکتی میرے دل میں اگر کوئی نامحرم ہے تو میرا کیا قصور محبت کرنا میرے بس میں تو نہ تھا۔کشف نے سنجیدگی سے کہا۔

محبت کرنا تمہارے بس میں نہیں تھا آگے بڑھنا اپنے محرم سے وفا کرنا تمہارے بس میں ہے تم جب تک اپنے دل سے اِس رشتے کو قبول نہیں کروگی تب تک صرف بے کار کوشش ہوگی اُس کا نتیجہ تب آئے گا جب سچے دل سے چاہوں گی۔سومل بیگم نے اس کو دیکھ کر کہا۔

کشف جس طرح نماز جنت کی کنجی ہے ویسے ہی کوشش کامیابی کی کنجی ہے تمہیں یہ ضد ہے ہم نے تمہاری مرضی کے خلاف شادی کیوں کروائی تو میں بتادو والدین اپنی اولاد کے لیے کبھی کجھ بُرا نہیں سوچتے۔سومل بیگم کی بات پہ کشف اُداس سی مسکرائی۔


غرور ٹوٹ گیا،اپنی حد میں آگئے ہیں

انا پرست محبت کی زد میں آگئے ہیں

میں کُل ملاؤں تو اتنے نہیں ملے مجھ کو

جو غم تمہاری محبت کی زد میں آگئے

💕💕💕💕💕💕

ماہر آج آپ نے آفس نہیں جانا؟منہا اور ماہر کو واپس آئے دو دن ہوگئے تھے۔

نہیں کیوں کی مجھے اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ وقت گُزارنا ہے۔ماہر نے مسکراکر اس کے ہاتھ تھام کر کہا۔

دو ماہ سے تو یہی کررہے ہیں اب کام پہ بھی توجہ دے۔منہا نے مصنوعی گھوری سے نواز کر کہا تو ماہر نے دل پہ ہاتھ رکھا۔

افففف یہ ادا مار ڈالا۔ماہر نے سینے پہ ہاتھ رکھ کہا تو منہا نے شرما کر نظریں دوسری طرف کی۔

میری ساری توجہ کا محو آپ بن گئ ہیں یہ دل آپ کے بنا کہیں اور نہیں لگتا۔ماہر نے معصوم شکل بناکر کہا۔

بہانے ہیں آپ کے کام نہ کرنے کے۔منہا نے کہا۔

عشق ہے میرا آپ سے۔ماہر اس کی گود میں سر رکھتا بولا۔

پھوپھو ناراض ہوگی اگر آپ ایسے کرتے رہے تو۔منہا نے نرمی سے اس کو بالوں میں پاتھ پھیر کر کہا۔

میں بے چارہ بھی تو بے بس ہوں آپ کے عشق میں آپ کوئی حل نکالے۔ماہر اس کا گال سہلاکر بولا۔

میں کیا حل نکالوں؟منہا ناسمجھی سے بولی۔

میرے ساتھ آفس آیا کریں۔ماہر اُٹھ کر اس کے گال پہ پیار کرتا بولا۔

آپ بھی نہ۔منہا بس اتنا بولا پائی۔

میں بھی کیا۔ماہر اس کے دوسرے گال پہ پیار کرتا بولا۔

کجھ نہیں۔منہا گہری سانس لیکر بولی۔

ٹیلی می ہاؤ مچ یو لو می؟ماہر اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالتا چہرہ اُپر کیے شدت سے بولا۔

ماہر۔منہا کراہ کر بولی انجانے میں ماہر کی گرفت مضبوط ہوگئ تھی۔

ششش

جو پوچھا ہے وہ بتائے۔ماہر نے اپنی بات پہ زور دیتے کہا۔

بہت پیار کرتی ہوں آپ سے۔منہا درد برداشت کرتی بولی۔

کیا کہا؟ماہر آنکھوں میں چمک لیے بولا۔

آئے لو یو سو مچ۔منہا نے پھر سے کہا۔

آئے لو یو ٹو مور دین یو میری جان۔ماہر اس کے ماتھے پہ بوسہ دے کر بولا۔

یو ہرٹ می۔منہا نے شکوہ کیا۔

بکوز آئے لو یو۔ماہر نے مسکراکر نرمی سے اس کے بال سہلاکر۔

یو ڈونٹ۔منہا منہ بسورا۔

آئے عشق یو۔ماہر مسکراہٹ ضبط کرتا بولا منہا بھی سکون سے مسکراتی اس کے حصار میں سمائی۔

💕💕💕

حیا

حیا

حیا۔

حمزہ آفس سے واپس آیا تو کمرے میں حیا کو ناپاکر پاگلوں کی طرح اُس کو آوازیں دینے لگا حیا جو کچن میں اپنے لیے کافی بنانے آئی تھی حمزہ کی آواز سن کر حیا تپ کے رہ گئ جس کو اگر ایک منٹ دیر حیا نظر نہ آتی تو پورا گھر سر پہ اُٹھالیتا تھا۔

صاحب وہ کچن میں ہیں۔ملازمہ نے سرجھکاکر بتایا۔

واٹ۔۔حمزہ تیز نظر سے اُس کو گھورتا کچن کی طرف آیا جہاں حیا مزے سے کافی پی رہی تھی۔

حیا تم یہاں کیا کررہی ہو تمہیں اِس وقت کمرے میں ریسٹ کرنا چاہیے۔حمزہ حیا کے پاس آتا سخت لہجے میں بولا۔

حمزہ مجھ سے نہیں رہا جاتا کمرے میں۔حیا نے کافی کا گھونٹ بھر کر کہا۔

تو مجھے کال کرتی ہم باہر جاتے پر حیا میں دوبارہ تمہیں کچن کے آس پاس بھی نہ دیکھوں۔حمزہ وارن کرتے ہوئے بولا۔

مجھے بس اپنے ہاتھ کی کافی پسند وہ بنانے تو آیا کروں گی نہ۔حیا نے نروٹھے پن سے کہا۔

بلکل بھی نہیں اپنے بچے پہ اور تمہارے پہ میں تھوڑی بھی لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا۔حمزہ اس کے ہاتھ سے کافی پکڑتا گھونٹ بھر کر بولا۔

ایک کافی بنانے سے کیا ہوتا ہے۔حیا نے کافی کا مگ واپس لیتے گھونٹ بھر کر کہا۔

اللہ اللہ کرکے تمہاری حالت پہ سُدھار آیا ہے اور یہ اب کیا تمہیں کچن میں آنے کا شوق چڑھا پہلے تو کبھی نہیں ہوتا تھا۔حمزہ دوبارہ کافی لیکر پی کر بولا۔

اچھا۔حیا نے آئبرو اُچکائے۔

جی۔حمزہ خالی مگ سنک کے پاس رکھ کر بولا۔

آج ہم ڈنر باہر کریں گے۔حیا نے پلان بنایا۔

گھمانے لیں چلوں گا پر باہر کا کھانا نہیں پچھلی بار بھی کتنی اُلٹیاں کی تھیں۔حمزہ نے فورن سے انکار کیا۔

حمزہ۔حیا نے پیار سے اُس کا نام لیا۔

نو میری جان میں نے کہا نہ تمہاری صحت اور بچے پہ نو کمپرومائز۔حمزہ اس کو اپنے حصار میں لیتا بولا۔

بُرے ہو تم بہت۔حیا نے گھور کر کہا۔

تم بہت پیاری ہو لائیک اینجل۔حمزہ اُس کے پھولے گال پہ چٹکی کاٹ کر بولا۔

حمزہ ہم اپنے بچے کا نام کیا رکھیں گے۔حیا نے اچانک پوچھا۔

کمرے میں چلو پھر بتاتا ہوں۔حمزہ اس کو بانہوں میں بھرتا کمرے کی طرف جانے لگا۔

اب بتاؤ۔حمزہ نے اس کو آرام سے بیڈ پہ بیٹھایا تو حیا نے پوچھا۔

بیٹا ہوا تو حمین اگر بیٹی ہوئی تو حورین۔حمزہ بیڈ کی دوسری طرف آتا اس کا سر اپنے سینے پہ رکھ کر بولا۔

نام تو بہت پیارے ہیں۔حیا نے خوش ہوکر بولی۔

ابھی تو ان کے آنے میں وقت ہے میرا سوچو۔حمزہ نے اُس کا چہرہ اُپر کرکے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

تمہارا کیا سوچوں۔حیا نے مسکراکر پوچھا۔

اچھا تو مجھے پیار کرنے دو۔حمزہ اُس کی پیشانی پہ لب رکھتا بولا

وہ تو بچپن سے کرتے ہو۔حیا نے منہ بگاڑ کر کہا

تم نہیں کرتی؟حمزہ نے پوچھا۔

میں بہت کرتی ہوں تمہیں اندازہ نہیں کتنا ڈرگئ تھی جب تم سے بات نہیں ہورہی تھی تو۔حیا پُرانی بات یاد کرتی بولی۔

مجھے اندازہ ہے کیونکہ میں بھی اُس راہ کا مسافر ہوں۔حمزہ اُس کو اپنے حصار میں لیکر بولا۔

💕💕💕💕💕

کشف واپس گھر آگئ تھی مسز اسحاق کسی پارٹی میں گئ تھی اسحاق ظفر بھی شہر سے باہر تھے وہ اب گھر میں شیراز کے ساتھ اکیلی تھی کجھ سوچ کر کشف کمرے میں آئی۔

آپ کو کجھ چاہیے؟کشف نے شیراز سے پوچھا جو کرکٹ ٹورنامنٹ دیکھ رہا تھا۔

ہممم چاہیے۔شیراز نے سنجیدگی سے کہا۔

کیا چاہیے؟کشف نے پوچھا۔

میں چاہتا ہوں تم مجھ سے طلاق مانگو۔شیراز سفاکی سے بولا۔

یہ کیا بکواس ہے؟کشف غصے سے بولی۔

میں نایاب کو چاہتا ہوں وہ مجھ سے شادی تب تک نہیں کرے گی جب تک میں تمہیں نہ چھوڑدوں اگر میں تمہیں طلاق دوں گا تو ڈیڈ مجھے بزنس سے بے دخل کردیں گے اِس لیے تم مجھ سے خُلا لو۔شیراز اس کا بازوں دبوچ کر بولا۔

دماغ خراب ہوگیا ہے اگر دوسری شادی کرنی ہے تو کرلوں میں نے کونسا روک رکھا ہے تمہاری نایاب کو مجھ سے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔کشف اپنا بازوں آزاد کرواتی بولی۔

میری بات نہیں مانوں گی۔شیراز اس کے بال مٹھیوں میں جکڑتا بولا۔

آآآہ۔

کشف درد سے چلا اُٹھی اُس کو پچھتاوا ہوا کیوں اِس پاگل کے پاس آئی۔

میں چاہوں تو جان سے ماردوں تمہیں۔شیراز اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر بولا۔

دور رہو۔کشف نے نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔

اووہ بُرا لگا مجھے بھی تمہیں چھونے میں دلچسپی نہیں۔شیراز زچ کرتی مسکراہٹ سے بولا۔

جہنم میں جاؤ۔کشف اُس کو دھکادیتی باہر نکل گئ۔

💕💕💕💕💕💕

کشف خوش نہیں ہے۔سومل بیگم نے واحب صاحب سے کہا۔

بے وقوف ہے وہ ناشکری کررہی ہے۔واحب صاحب نے کہا۔

ہم نے اُس کے حق میں غلط فیصلہ تو نہیں لیا۔سومل بیگم کسی خدشے کے تحت بولی۔

نہیں ایسا سوچو بھی مت کشف کو احساس ہوجائے گا ہم نے کیا ہیرا اُس کے لیے چُنا ہے۔واحب صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔

پتا نہیں میرا دل مطمئن نہیں ہوتا کشف تو ہنسنا مُسکرانا بھول گئ ہے کہاں ہر وقت بولتی رہتی تھی اور اب خاموش خاموش سی رہتی ہے۔سومل بیگم پریشان سی بولی۔

تو کیا میں اُس میڈل کلاس لڑکے سے شادی کروادیتا ساری زندگی ہر چیز کے لیے ترستی رہتی۔واحب صاحب ناگواری سے بولا۔

خوش تو ہوتی وہ آپ اُس لڑکے کو سپورٹ کرتے۔سومل بیگم نے کہا

فضول بات مت کرو۔واحب نے سختی سے ٹوکا۔

💕💕💕💕💕💕

اسلام علیکم!!منہا نیچے آئی تو عانیہ مرزا کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ کر سلام کیا۔

یہ ماہر کی بیوی ہے سیر سپاٹوں پہ نکلے تھے اب آگئے ہیں واپس۔عانیہ مرزا نے نخوت سے منہا کا تعارف کروایا۔منہا کو ان کا اِس طرح بات کرنا عجیب لگا۔

اووہ تو یہ ہے وہ۔روبی نے سر سے پاؤں تک اس کا جائزہ لیکر کہا۔

ہمم۔عانیہ مرزا نے بس اتنا کہا۔

میرے لیے فریش جوس لاؤ۔روبی نے منہا سے ایسے کہا جیسے وہ کوئی اُس کی زرخیز ملازم ہو۔

جی لاتی ہوں۔منہا اُس کے مہمان ہونے کا خیال کرتی ہوئی بولی۔

آنٹی اِس میں ہے کیا جو ماہر نے مجھے ٹھکرایا۔منہا کے جاتے ہی روبی نے عانیہ مرزا سے کہا۔

پتا نہیں میں خود اِس سے جان چھڑوانا چاہتی ہوں تم بھی ماہر کو اپنی طرف کرو۔عانیہ مرزا نے اکتاہٹ سے کہا۔

میں ماڈلز کے انٹرویوز پہ ماہر سے ملوں گی ہر وقت اُس کے ساتھ رہوں گی تو ماہر کو مجھ سے محبت ہوجائے گی۔روبی شیطانی منصوبہ بناکر بولی۔

آپ کا جوس۔منہا نے جوس اس کے سامنے کیے کہا۔

کہاں جارہی ہو ہمارے ساتھ بیٹھو روبی میری بیسٹ فرینڈ کی بیٹی ہے۔عانیہ مرزا نے اس کو اندر کی طرف جاتا دیکھا تو کہا۔

ماہر کی کال کرنے کا وقت ہوگیا ہے اگر پہلی بیل پہ ریسیو نہ کی تو پریشان ہوجائے گے اِس لیے اُپر کمرے میں جارہی ہوں۔منہا نے مُسکراکر کہا اُس کی بات پہ دونوں کے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی جس سے انجان منہا کمرے میں آگئ تھی۔

💕💕💕💕

گھر میں سب تمہارے ساتھ ٹھیک ہوتے ہیں نہ؟واحب صاحب نے کال پہ کشف سے پوچھا۔

جی آپ اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے اب میں اور میرا نصیب۔کشف نے سنجیدگی سے کہا۔

ایسے بات کیوں کررہی ہو؟واحب صاحب کو تکلیف ہوئی۔

زندگی میں جو حالات میں دیکھ رہی ہو اُس نے مجھے تلخ بنایا ہے۔کشف نے جواب دیا۔

ناراضگی ختم کرلوں۔واحب صاحب نے کہا

میں ناراض نہیں ہوں۔کشف نے فورن سے کہا

پھر کیا بات ہے؟واحب صاحب نے جاننا چاہا

کوشش کررہی ہو جس بات کا آپ کو مان تھا وہ نہ ٹوٹیں۔کشف نے کہا۔

کیا مطلب ہوا اِس بات سے؟واحب صاحب اُس کی بات سمجھ نہیں پائے۔

کجھ نہیں ڈیڈ زندگی نے ایسا اُلجھایا ہے کے میں کجھ سمجھنے کی حالت میں نہیں۔کشف نے کہا

بہت عجیب باتیں کرنے لگی ہو تم۔واحب صاحب کو تاسف ہوا۔

میرا بھی یہی خیال ہے اپنے بارے میں بہت عجیب باتیں کرنے لگی ہوں میں خود بھی عجیب ہوگئ ہوں باقی سب بھی عجیب لگنے لگے ہیں۔کشف نے ان کی بات کی تائید کی واحب صاحب کو لگا جیسے ان کی بیٹی پاگل ہوگئ ہے


پڑچُکا ہے فرق اتنا کہ

اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔

💕💕💕💕💕

امی جان پلیز معاف کردیں مجھے۔حیا کا پانچواں مہینہ چل رہا تھا وہ آج حمزہ کو بنا بتائے اپنے ماں باپ کے گھر آئی تھی تاکہ ان سے معافی مل سکے رخشندہ بیگم کا دل حیا کی حالت دیکھ کر پِگھل گیا تھا پر وہ ظاہر نہیں کروانا چاہتی تھی۔

آپ ایک دفع معاف کردے پھر میں نہیں آوٴں گی یہاں میرے ہونے والے بچے کے صدقے معاف کردے۔حیا نے پیروں کے پاس بیٹھ کر بولی تو رخشندہ بیگم نے بے ساختہ اُس کو اپنی آغوش میں لیا اپنی ماں کا پیار محسوس کرتی حیا کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی۔

میری بچی معافی تو مجھے بھی مانگنی اتنا مارا جو تھا۔رخشندہ بیگم اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر بولی۔

ہاں مارا تو بہت تھا۔حیا جھرجھری لیکر بولی تو رخشندہ بیگم نے اُس کے ماتھے پہ چپت لگائی۔

اچھا امی جان میں اب چلتی ہوں۔حیا نے وقت دیکھا تو کہا۔

کجھ دن یہی رہو۔رخشندہ بیگم نے اپنے پاس بیٹھاکر کہا۔

حمزہ کو نہیں پتا اُس کے آفس کے آنے کا وقت بھی ہوگیا ہے مجھے نہیں دیکھا تو پورا گھر سر پہ اُٹھالیں گا دوسری بات یہ مجھے ملوانے لاسکتا ہے پر رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔حیا نے مسکراکر بتایا۔

خوش ہو حمزہ کے ساتھ؟رخشندہ بیگم نے اُس کا چمکتا چہرہ دیکھ کر پوچھا۔

بہت زیادہ حمزہ بہت پیار کرتا ہے مجھ سے خیال بھی بہت رکھتا ہے۔حیا نے مسکراکر بتایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیا گھر آئی تو حمزہ کو لان میں چکر لگاتا دیکھا ٹریفک کی وجہ سے اُس کو آنے میں وقت لگ گیا۔

حمزہ۔حیا نے اُس کا نام لیا تو حمزہ ایک جست میں اس کے پاس آتا زور سے گلے لگایا۔

حمزہ کیا ہوا۔حیا اِس اچانک افتادہ پہ پریشان ہوتی بولی۔

جان بوجھ کرتی ہو نہ پتا ہے بہت چاہتا ہوں تمہیں اِس لیے تڑپاتی ہو۔حمزہ اس کا چہرہ ہاتھ کے پیالوں میں بھرتا بولا۔

ایسا نہیں ہے حمزہ میں گھر گئ تھی تمہیں پتا ہے امی نے مجھے معاف کردیا۔حیا نے خوش ہوکر بتایا۔

بتاکر جاسکتی تھی۔حمزہ دیوانہ وار اُس کو دیکھ کر بولا۔

تم منع کرتے تبھی نہیں بتایا۔حیا نے وجہ بتائی۔

آئے لو یو حیا لو یو سو مچ۔حمزہ اس کو اپنے حصار میں لیتا شدت بھرے لہجے میں بولا حیا کو سمجھ نہیں آیا اچانک حمزہ کو کیا ہوگیا۔

💕💕💕💕

منہا نہیں کیا گھر پہ؟ماہر گھر آکر کمرے میں منہا کو نہیں دیکھا تو عانیہ مرزا سے سوال کیا

پتا نہیں مجھے کونسا بتاکر جاتی ہے۔عانیہ مرزا نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ورنہ منہا اُن کو بتاکر گئ تھی کے وہ کشف کی طرف جارہی ہے۔

اچھا میں کال کرتا ہوں۔ماہر پریشان سا جیب میں موبائل نکالتا بولا تو پانچ گھنٹے پہلے منہا کی دس کالز اور پچاس میسجز دیکھ کر اُس کو افسوس ہوا آج کام زیادہ ہونے کی وجہ سے موبائل سلائنٹ پہ کرلیا تھا جس وجہ سے اُس کو پتا نہیں لگا۔

کشف سے ملنے گئ ہے مسیج پہ بتایا تھا مجھے پر میں نے اب دیکھا۔ماہر رلیکس ہوتا بولا۔

ہممم۔عانیہ مرزا نے بس اتنا کہا۔

ماہر ان کو دیکھتا کمرے کی طرف چلاگیا۔

💕💕💕💕💕

شیراز بہت اچھا ہے اُس کو قبول کرلوں۔منہا نے کشف سے کہا۔

میں کر بھی لوں تو وہ نہیں کرے گا تمہارے لیے مجھے سمجھانا ویسے بھی آسان ہے کیونکہ تم اُس کیفیت سے نہیں گُزری جس سے میں گُزری ہوں۔کشف بدگمان ہوتی بولی۔

کشف کیا ہوگیا ہے کیوں بات بات پہ کاٹ کھانے کو ڈورتی ہوں۔منہا نے حیرت سے کہا

تو اور کیا کروں زندگی اجیرن بن گئ ہے میری پڑھائی چھوٹ گئ میری ایک قیدی بن گئ ہوں میں جس کو جو کوئی بھی چاہے جیسا بھی چاہے استعمال کرسکتا ہے پر اُس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی بس دوسروں کے اشارے پہ ناچتے جاوٴ۔کشف پھٹ پڑی۔

شوہر کے بہت حقوق ہوتے ہیں کسی نامحرم کے لیے محرم سے غافل نہ ہو تو اچھا ہے۔منہا نے اس کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔

بار بار یاد کروانا ضروری ہوتا ہے کیا میں اگر بھولنے کی بھی کوشش کروں نہ تو کسی نہ کسی طرح اُس کا ذکر آجاتا ہے۔کشف نے بے بسی سے کہا۔

کیا تھا اُس میں ایسا جو تم اتنا پاگل ہوئی ہو اُس کے لیے۔منہا نے جاننا چاہا۔

اس کی نظروں میں احترام تھا دل میں پاکیزگی تھی مضبوط کردار کا مالک تھا لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا تھا بس میرے معاملے میں سنگدل تھا۔کشف نے کھوئے ہوئے انداز میں بتایا۔

بھول جانا آسان ہے کوشش کرنا۔منہا نے کہا

اب میں اُس کو یاد نہیں کرتی اب جب سامنے آئے گا بھی نہ تو میں پہچاننے سے انکار کردوں گی۔کشف نے مضبوط لہجے میں کہا۔

💕💕💕💕

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿1﴾


اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، اور عدت کو اچھی طرح شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے، ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں، (٢) اور یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدود ہیں اور جو کوئی اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدود سے آگے نکلے، اس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا، تم نہیں جانتے، شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے۔


فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ﴿2﴾


پھر جب وہ عورتیں اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو تم یا تو انھیں بھلے طریقے پر (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا پھر بھلے طریقے سے ان کو الگ کردو، اور اپنے میں سے دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو عدل والے ہوں۔اور اللہ کی خاطر سیدھی سیدھی گواہی دو ، لوگو ! یہ وہ بات ہے جس کی نصیحت اس شخص کو کی جارہی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔


وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴿3﴾


اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے۔ یقین رکھو کہ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ (البتہ) اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔


وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ﴿4﴾


اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو (یاد رکھو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے، اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں، اور جو عورتیں حاملہ ہوں، ان کی (عدت کی) میعاد یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن لیں۔ اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کردے گا۔


ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا ﴿5﴾


یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تم پر اتارا ہے، اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو زبردست ثواب دے گا۔


أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿6﴾


ان عورتوں کو اپنی حیثیت کے مطابق اسی جگہ رہائش مہیا کرو جہاں تم رہتے ہو اور انھیں تنگ کرنے کے لیے انھیں ستاؤ نہیں، (٩) اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو اس وقت تک نفقہ دیتے رہو جب تک وہ اپنے پیٹ کا بچہ جن لیں۔پھر اگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرت ادا کرو، اور (اجرت مقرر کرنے کے لیے) آپس میں بھلے طریقے سے بات طے کرلیا کرو، اور اگر تم ایک دوسرے کے لیے مشکل پیدا کرو گے تو اسے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔


لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ ۖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿7﴾


ہر وسعت رکھنے والا اپنی وسعت کے مطابق نفقہ دے۔ اور جس شخص کے لیے اس کا رزق تنگ کردیا گیا ہو، تو جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے وہ اسی میں سے نفقہ دے، اللہ نے کسی کو جتنا دیا ہے، اس پر اس سے زیادہ کا بوجھ نہیں ڈالتا۔کوئی مشکل ہو تو اللہ اس کے بعد کوئی آسانی بھی پیدا کردے گا۔


وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا ﴿8﴾


اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا، اور انھیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انھوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔


فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا ﴿9﴾


چنانچہ انھوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا، اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔


أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ﴿10﴾


(اور آخرت میں) ہم نے ان کے لیے ایک سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لہٰذا اے عقل والو جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی ہے۔


رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا ﴿11﴾


یعنی وہ رسول جو تمہارے سامنے روشنی دینے والی اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں، اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے، اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں جنتی لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق طے کردیا ہے۔


اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿12﴾


اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے، اور زمین بھی انہی کی طرح اللہ کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے، تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔


سورہ طلاق کی تلاوت کرنے بعد کشف خاموش سی ہوگئ تھی وہ جانتی تھی طلاق کا عمل اللہ کو سخت ناپسند ہے وہ اب سچے دل سے اِس رشتے کو نبھانا چاہتی تھی پر شیراز اس سے جان چھڑوانے چاہتا تھا جس کا اظہار وہ بہت بار کرچُکا تھا۔


معرکہ مار لیا ہو تو میرے لیے ایک کپ چائے بناکر لاؤ سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔شیراز بالکونی میں آتا کشف سے بولا۔

لاتی ہوں۔کشف قرآن پاک پہ غلاف چڑھاتی بولی

شیراز اس کا جواب سن کر کمرے میں آتا رلیکس سا بیٹھ گیا۔

پانچ منٹ بعد کشف کڑک چائے کا کپ اُس کے لیے لائی۔

شکریہ۔شیراز کا موڈ اچھا تھا جبھی بولا۔

زیادہ درد ہے تو سر دباؤ؟کشف نے پوچھا۔

نہیں مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔شیراز اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بیٹھاکر بولا کشف حیرت سے اُس کا نیا روپ دیکھنے لگی۔

کیا بات!کشف نے پوچھا۔

نایاب راضی ہوگئ ہے مجھ سے شادی کرنے کی ڈیڈ اعتراض کریں تو تم ان کو بتانا تمہیں کوئی مسئلہ نہیں۔شیراز کی بات پہ اُس کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔

کہہ دوں گی اِس بات کے لیے دیکھاوا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔کشف اپنا ہاتھ آزاد کرواتی بولی۔

مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔شیراز مسرور سا بولا کشف نے افسوس سے اس کی طرف دیکھا۔

💕💕💕💕

اگر تم دوسری شادی کرنا چاہتے ہو تو میری بیٹی کو ابھی کے ابھی طلاق دو۔واحب صاحب کو جیسے ہی یہ بات پتا چلی تھی وہ کشف کو لینے کے لیے چلے آئے۔

واحب کیا بات کررہے ہو اتنی بڑی بات کیسے کرسکتے ہو۔اسحاق ظفر نے ان کو سمجھانا چاہا۔

بس اسحاق تمہاری دوستی کی وجہ سے میں نے رشتے پہ حامی بھری جانتا نہیں تھا تمہارا بیٹا کسی اور کی محبت میں گرفتار کا ہوگا۔واحب صاحب شیراز پہ اچٹکی نظر ڈال کر گویا ہوئے۔

ڈیڈ میں طلاق نہیں چاہتی اور نہ ہی شیراز کی شادی کرنے پہ کوئی اعتراض ہے ۔کشف نے سپاٹ انداس میں کہا۔

کشف تم خاموش رہو۔واحب صاحب نے سختی سے ٹوکا۔

کیوں خاموش رہوں میں پہلے شادی کروائی اور اب زور زبردستی شادی کے سات ماہ بعد طلاق کا ٹیک میرے ماتھے پہ لگوانے چاہتے ہیں۔کشف سر جھٹک کر بولی۔

میری بیٹی کو ابھی کے ابھی طلاق دو۔واحب صاحب کشف کی بات نظرانداز کرتے شیراز کا گریبان پکڑ کر بولے۔

انکل کنٹرول یوئر سیلف آپ کی عمر کا لحاظ ہے بس ورنہ۔شیراز ان کو خود سے دور کرتا بات ادھوری چھوڑگیا۔

شیراز پلیز مجھے طلاق مت دینا میں تمہارے اور نایاب کے درمیان کبھی نہیں آؤں گی۔کشف منت کرنے والے انداز میں شیراز سے بولی۔

طلاق دو میری بیٹی کو تاکہ میں اُس کو اپنے ساتھ لیں جاسکوں۔واحب صاحب نے غصے سے کہا۔

بھائی صاحب کیوں اپنی بیٹی کا گھر برباد کرنے پہ تُلے ہیں۔مسز اسحاق نے افسوس سے کہا۔

ابھی کونسا آباد ہے۔واحب صاحب طنزیہ بولے۔

سوری کشف پر میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔شیراز کشف کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا کشف زور سے سر کو نفی میں ہلانے لگی۔

میں شیراز اسحاق اپنے پورے ہوش وحواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں

طلاق دیتا ہوں

طلاق دیتا ہوں۔

شیراز کے خاموش ہونے کے بعد سناٹا چھاگیا تھا مسز اسحاق اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ گئ کشف بے یقین سی شیراز کا چہرہ تکنے لگی دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوئی۔


مختصر یہ کہ

اِس بار دل ٹوٹا نہیں مرگیا۔

💕💕💕💕💕💕

پانچ سال بعد!

موم میں نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا اب دوبارہ کہہ رہا ہوں میں دوسری شادی نہیں کروں گا تو مطلب نہیں کروں گا۔ماہر سخت غصے کی حالت میں بولا۔

میں ماں ہوں تمہاری اگر میں نے تمہاری بات مانی تھی پہلے تو تمہارا بھی فرض بنتا ہے میری بات ماننے کا۔عانیہ مرزا نے ایموشنلی بلیک میل کرنا چاہا۔

آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ مگر جو آپ کہہ رہی ہیں وہ میرے اختیار میں نہیں۔ماہر نے کہا

میں پوتا چاہتی ہوں تمہاری بیوی بانج ہیں طلاق دے کر رخصت کرو۔عانیہ مرزا نفرت سے گویا ہوئی۔

موم اگر آپ نے دوبارہ منہا کے بارے میں ایسا کجھ کہا تو میں اس کو اپنے ساتھ لیکر چلا جاوٴں گا۔ماہر ضبط کی حدود چھوتا بولا پانچ سالوں سے عانیہ مرزا کی ایک رٹ پہ وہ جھنجھلا گیا تھا جنہوں نے منہا کو ابھی تک بچہ پیدا نہ کرنے پہ دوسری شادی کا کہا ماہر صاف انکار کرگیا تھا ڈاکٹرز کے مطابق رپورٹس کلیئر جب اللہ چاہے گا تب عطا کردیں گا اولاد کی نعمت پر یہ بات عانیہ مرزا کو سمجھ نہیں آرہی تھی ان کی تو جیسے برسوں کی خواہش پوری ہورہی تھی وہ بس منہا کو ماہر کی زندگی سے نکالنا چاہتی تھی۔

کیوں نہ کہوں میں۔عانیہ بیگم زور سے بولی۔

آپ کی اِن باتوں سے منہا ڈپریشن کا شکار ہورہی ہے ہمیں کوئی نہیں جلدی بچے کی جب اللہ نے دینا ہوا دے گا اگر نہ بھی ہوا تو کوئی بات نہیں پر میں منہا کے علاوہ کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ماہر دو ٹوک کر بولا۔

دیکھتی ہوں میں کیسے نہیں کرتے تم شادی ایک دن خود تم منہا سے اکتا جاوٴ گے۔عانیہ مرزا غرور سے بولی۔

جب ایسا ہوا تو وہ ماہر مٙلک کی زندگی کا آخری دن ہوگا کیونکہ ماہر کی سانسیں منہا ماہر سے جوڑی ہوئی جنہیں سوائے موت کے کوئی چھین نہیں سکتا۔ماہر جنونیت بھرے لہجے میں بولا عانیہ مرزا اپنے بیٹے کو بس دیکھتی رہ گئ جو دیوانہ ہوگیا تھا منہا کا۔

💕💕💕💕💕

وہ تیز قدموں سے جا رہی تھی جب سائیڈ والا دروازہ کھولا اور کسی نے اُس کو اندر کی جانب کھینچا۔

حمزہ۔حیا نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا جب کی حمزہ مسلسل اُس کو گھور رہا تھا۔

کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔حیا نے پوچھا۔

کہاں تھی اِتنا ٹائم پانچ منٹ کا کہا تھا تم نے۔حمزہ نے دیوار پہ دونوں ہاتھ رکھ کر حیا سے سنجیدگی سے پوچھا حیا کا خون خشک ہوا حمزہ کا انداز دیکھ کر۔

حنزہ کو اسکول کے لیے تیار کررہی تھی پتا ہے تو ہے تمہیں کتنا وقت لگاتا ہے۔حیا نے منمناکر کہا۔

یہ حنزہ میرا بیٹا کم ہمارا رقیب زیادہ لگتا ہے جب دیکھو بیچ میں آجاتا ہے۔حمزہ نے دانت پیس کر کہا۔

خبردار جو میرے معصوم بیٹے کو کجھ کہا تو۔حیا کے اندر ماں کا جوش جاگا۔

معصوم سیریسلی۔حمزہ نے معصوم لفظ پہ آئبرو اُچکائے۔

حمزہ یار کیا ہے اب جانے دو حنزہ کو ناشتہ بھی کروانا ہے۔حیا نے آرام سے کہا۔

حنزہ کی پرواہ ہے پر میری نہیں۔حمزہ نے غصے سے کہا۔

حمزہ تم اب بلاوجہ غصے ہوتے ہو حیا نے چڑ کر کہا۔

اپنی حرکتوں کے بارے میں کیا خیال ہے سارا حنزہ کو دوگی تو غصہ تو آئے گا نہ جب سے وہ دنیا میں آیا ہے تم نے میری ذات فراموش کرلی ہے بس حنزہ حنزہ کرتی رہتی ہو۔حمزہ غصے سے پھٹ پڑا۔

ایسا نہیں ہے حنزہ چھوٹا ہے اُس کو میری ضروری ہے۔حیا نے نرمی سے کہا۔

پانچ سال کا ہونے والا ہے۔حمزہ نے یاد کروایا ہے

تو پانچ سال کا ہونے والا ہے کونسا پچاس سال کا۔حیا نے لاپرواہی سے کہا۔

حیا۔حمزہ نے تنبیہہ کی۔

تمہیں آفس نہیں جانا کیا؟حیا نے پوچھا۔

جانا ہے۔حمزہ نے کہا

پھر جا کیوں نہیں رہے مجھے بھی قید کیا ہوا ہے۔حیا نے کوفت سے کہا۔

میں چاہوں تو پورا دن ایسے کھڑا کرسکتا ہوں۔حمزہ نے مسکراکر کہا۔

حمزہ میری جان پلیز جانے دو حنزہ انتظار کررہا ہوگا۔حیا نے حمزہ کے گال پہ کس کرکے کہا جہاں حمزہ فورن پِگھلا گیا اور اپنا دوسرا گال اُس کے سامنے کیا تو حیا نے مسکراکر وہاں پہ بھی لب رکھے۔

اب اِجازت ہے؟حیا نے فرمانبرداری سے پوچھا۔

یس مائے لو۔حمزہ نے اُس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔

جس طرح تم اپنے بیٹے سے جلتے ہو شاید ہی کوئی باپ جلتا ہو۔حیا حمزہ سے دور ہوتی بولی۔

جس طرح بیٹے کے آنے کے بعد تم شوہر کو بھول گئ ہوں اُس طرح بھی شاید ہی کو بیوی کرتی ہو۔حمزہ بھی دوبدو بولا حیا تیز نظر اُس پہ ڈالتی باہر نکل گئ۔

حنزہ نے آپ کو تنگ تو نہیں کیا؟حیا ہما بیگم سے حنزہ لیتی ہوئی بولی۔

نہیں ہم تو باتیں کررہے تھے۔ہما بیگم نے مسکراکر بتایا۔

ممی ناشتہ۔چار سالہ حنزہ حیا کی گود میں چڑھ کر بولا۔

ابھی لاتی ہوں میں اپنی جان کے لیے ناشتہ۔حیا محبت سے اُس کے گال چوم کر بولی۔

حمزہ نہیں اُٹھا کیا اب تک۔ہما بیگم نے حمزہ کو آتے نہیں دیکھا تو کہا۔

اُٹھ گیا آتا ہوگا۔حیا نے جواب دیا۔

ڈیڈ۔حنزہ نے سیڑھیوں کی طرف دیکھ کر بتایا جہاں نک سک سا تیار حمزہ آرہا تھا۔

کیا ہے ڈیڈ کے بیٹے۔حمزہ نے زور سے اُس کا گال کھینچ کر کہا جہاں حیا نے پیار کیا تھا نیچے آتے وقت حمزہ نے دیکھ لیا تھا تبھی ایسا کیا حمزہ کی اِس حرکت پہ حنزہ بھاں بھاں کرتا رونا شروع کرچُکا تھا۔

حمزہ حد کرتے ہو۔حیا حنزہ کو گود میں لیتی حمزہ سے بولی۔

اتنا بیباں بچہ نہیں جو گود میں اُٹھاتی ہو اِس کو۔حمزہ حنزہ اس سے لیتا بولا۔

جانے کیا پرخاش ہے تمہیں میرے بیٹے سے۔حیا نرمی سے حنزہ کے گال سہلاکر کہا جو سرخ ہوگئے تھے۔

کوئی نہیں ہے تم ملازمہ سے کہو ہمارا ناشتہ لائے۔حمزہ نے حنزہ کے آنسو صاف کرتے کہا۔

کہتی ہوں۔حیا کہہ کر کچن کی طرف جانے لگی۔

اتنی سی بات پہ کون روتا ہے۔حمزہ صوفے پہ بیٹھ کر حنزہ کو اپنی تھائی پہ بیٹھا کر بولا۔

درد ہوتا۔حنزہ نے معصوم شکل بناکر بولا۔

اچھا درد ہوتا۔حمزہ نے اپنی ناک اُس کی چھوٹی سی ناک پہ مس کرتے کہا تو حنزہ نے زور سے سر کو جنبش دی۔

میری بیوی سے دور رہو پھر میں روز اچھے اچھے ٹوائیز دوں گا گیم کھیلوں گا ہر بات مانوں گا۔حمزہ نے اپنے بیٹے کو لالچ دے کر کہا ہما بیگم کا منہ کُھل گیا اپنے بیٹے کی بات پہ۔

آپ کی بیوی میری ممی۔حنزہ نے اپنی آنکھوں کو بڑا کرتے ہوئے کہا۔

پہلے میری بیوی ہے تمہارا حق تو بعد میں بنتا ہے۔حمزہ اُس کی بات پہ بدمزہ ہوتا بولا۔

ناشتہ ٹیبل پہ لگ گیا ہے آجائے۔حیا واپس آتی ان سے بولی۔

چلو جی ناشتہ ٹائیم ہوگیا۔حمزہ کھڑا ہوتا بولا۔

💕💕💕💕

ماہر کی نظر منہا پہ پڑی تو سمجھ گیا وہ بہت دیر سے روتی رہی ہے سرخ ناک اور سوجھی آنکھوں کو دیکھ کر ماہر کو تکلیف ہونے لگی۔

وجہ جان سکتا ہوں اِن کو تکلیف دینے کی۔ماہر نے اُس کی آنکھوں کو چھوکر کہا۔

ماہر آپ پھوپھو کی بات مان لیں۔منہا نے دل پہ پتھر رکھ کر کہا۔

منہا دوبارہ یہ بات مت کیجئے گا۔ماہر نے سنجیدگی سے ٹوکا۔

شاید میں آپ کو اولاد کی خوشی نہ دے پاؤں۔منہا نے دُکھ سے کہا۔

اولاد مرد کی قسمت میں ہوتی ہے میری قسمت میں ہوئی تو آپ سے ہوجائے گی اُس کے لیے مجھے دوسری شادی کرنے کے کی ضرورت نہیں میں اُن جاہل مردوں میں سے نہیں جو اولاد نا ہونے کا بہانہ کرکے دوسری تیسری شادی کرتے ہیں۔ماہر منہا کو اپنے ساتھ لگاتا بولا۔

گھر کا ماحول خراب ہوگیا ہے میری وجہ سے آپ اپنی ماں سے سخت ہوجاتے ہیں۔منہا کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگی۔

موم بات ہی ایسی کرتی ہے خود پہ اختیار کھو بیٹھتا ہوں میں۔ماہر گہری سانس بھر کر بولا۔

وہ ماں ہے آپ کی آپ ان کے اکلوتے بیٹے ہیں اُن کے بھی کجھ ارمان ہوگے آپ کو لیکر۔منہا نے نرمی سے کہا۔

میں بے بس ہوں منہا آپ کی جگہ میں کسی کو نہیں دے سکتا۔ماہر نے بے بسی سے کہا۔

میں دعا کروں گی ہمارے درمیان تیسرا ہماری اولاد ہو کوئی عورت نہیں۔منہا خدشے کے تحت بولی اُس کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ماہر اُس سے دور نہ ہوجائے۔

منہا خود کو بلاوجہ کی باتوں پہ پریشان نہیں کریں میں ہوں نہ سب ٹھیک کرلوں گا۔ماہر اُس کا ڈر محسوس کرتا محبت سے بولا۔

اللہ کریں سب ٹھیک ہوجائے۔منہا نے دل میں کہا

💕💕💕💕💕

جہان آپ میرے پاس آئے۔کشف نے مسکراکر جہان کو اپنی طرف بلایا جسے سن کر تین سالہ جہان کِھلکِھلاتا جہان اپنی پھوپھو کی طرف آنے والا۔اِن پانچ سالوں میں ساگر کی شادی ہوگئ تھی اپنی کولیگ لیلا سے جس سے تین سال کا اُس کا بیٹا تھا اور ایک سال کی بیٹی ماہم تھی واحب صاحب اور سومل بیگم نے کشف کی دوسری شادی کروانی چاہی تھی پر کشف نے صاف کہہ دیا تھا اگر دوبارہ شادی کا کہا تو وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی جس پہ اِس بار اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی گئ تھی شیراز کے بعد کشف پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوگئ تھی اب بھی بس جہان اور ماہم کے ساتھ کجھ ہنس بول لیا کرتی تھی ورنہ زیادہ تر اکیلے رہنا پسند کرتی تھی۔

پھوپھو کی جان۔کشف نے اس کو گود میں اُٹھاکر اندر لائی۔

بوت لگی۔جہان نے توتلی زبان میں کہا۔

اووہ بھوک لگی ہے ابھی ہم اِس کا علاج کرتے ہیں۔کشف نے گُدگُدا کر کہا۔

ماہم کہاں ہیں بھابھی؟کشف نے لیلا سے پوچھا

سورہی ہے رات کو ساری رات ٹھیک سے نہیں سوئی تھی۔لیلا نے جواب دیا۔

اچھا میں جہان کے لیے دودہ لیکر جارہی ہوں۔کشف نے بتایا۔

اورینٹ بسکٹ بھی کِھلانا دودہ سے سارا دن تو بس کھیلتا رہتا ہے۔لیلا نے کہا

آپ بے فکر رہے میں کِھلادوں گی اورینٹ تو ویسے بھی جہان کے فیورٹ بسکٹ ہیں۔کشف نے آرام سے کہا۔

پریشان ہیں کجھ؟کشف جہان کو اپنے کمرے بھیجتی ساگر سے پوچھنے لگی جو پریشانی سے اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔

ہاں بس بزنس کی ٹیشن ہیں کجھ۔ساگر نے جواب دیا۔

کیوں کیا ہوا ہے؟کشف نے جاننا چاہا

بس ہمارے شیئرز گِرتے جارہے ہیں ایسا پہلی دفع ہوا ہے مارکیٹ میں ہماری کمپنی کی ویلیو کم ہوگئ ہے دن بدن بزنس میں لوسٹ ہورہا ہے۔ساگر نے پریشانی سے بتایا۔

بزنس میں تو ایسا ہوتا رہتا ہے پریشان نہیں ہو آپ۔کشف نے تسلی کروائی۔

ہمم ایم کے کمپنی بہت عروج پہ پہنچ گئ ہے اگر ہماری اُس کے ساتھ اگر پارٹنرشپ ہوجائے تو ہماری لیے فائدیمند ہوگا۔ساگر نے پرسوچ ہوکر کہا۔

ایم کے یہ کیسا نام ہے؟کشف نے پوچھا

نام سے کیا ہے سنا ہے بہت کم عرصے سے نام کمایا ہے اُس نے میڈیا پہ سوشل میڈیا اخبارات میں بہت چرچے ہیں اُس کے پاکستان میں تو اس کا بزنس ہے دوسرے ملک میں بھی اُس کا بزنس پھیلا ہوا ہے ایک تو ٹی وی چینل کا آفس ہے جہاں اگر رائٹر کا لکھا ہوا اچھا نہ بھی ہو وہ ڈئرائیکشن کے لیے ڈائریکٹر ایسا چوز کرتا ہے کے فلم ہو یا ڈرامہ سوپر ہٹ ہوتا ہے۔ساگر نے مزید بتایا۔

انٹرسٹنگ۔کشف ایمپریس ہوتی بولی۔

سوشل میڈیا سے تم نے بائیکاٹ کرلیا ہے ورنہ پتا ہوتا تمہیں۔ساگر نے کہا۔

تو آپ ایم کے بزنس میں سے رابطہ کریں اگر آپ کو اُس کے ساتھ کام کرنے میں پرافیکٹ ملتا ہے تو۔کشف اُس کی بات نظرانداز کرتی بولی۔

ڈیڈ سے بات کروں گا پھر دیکھتے ہیں کیا کہتے ہیں وہ اگر جیسا میں چاہتا ہوں ویسا ہوجاتا ہے تو ہمارا بزنس اپنا مقام واپس حاصل کرسکتا ہے۔ساگر نے امید سے کہا۔

انشااللہ ہوجائے گا آپ پریشان نہیں ہو۔کشف نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

کمرے میں آکر کشف کی نظر بیڈ پہ پڑے پیپرز پہ پڑی اپنی زندگی پہ لکھی کتاب اُس نے پوری کرلی تھی جس کا اینڈ کیا تھا اُس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا

ٹی وی چینل کا آفس ہے جہاں اگر رائٹر کا لکھا ہوا اچھا نہ بھی ہو وہ ڈئرائیکشن کے لیے ڈائریکٹر ایسا چوز کرتا ہے کے فلم ہو یا ڈرامہ سوپر ہٹ ہوتا ہے۔

ان پیپرز کو دیکھ کر کشف کے کانوں میں ساگر کی آواز گونجی جس کو نظرانداز کرتی وہ ان کو سمیٹ کر سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واحب مجھے کشف کی بہت فکر رہتی ہے۔سومل بیگم نے چائے کا کپ واحب صاحب کی طرف بڑھاکر کہا۔

فکریں تو میرے پاس بھی بہت ہیں اُپر سے کشف کا بچپنا ایک بات کو اپنی انا کا مسئلہ بناکر بیٹھ گئ ہے۔واحب صاحب نے گہری سانس بھر کر کہا

آپ کو شیراز سے طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔سومل بیگم نے کہا۔

کیوں نہ کرتا اگر پسند کی شادی کرلیتا تو میری بیٹی سے کون پوچھتا خود تو وہ خوشی خوشی اب اپنی زندگی گُزار رہا ہے۔واحب صاحب نے نفرت سے شیراز کا ذکر کرتے کہا

پُرانی باتوں کو یاد کرنے کا اب کیا فائدہ آپ کوئی مناسب سا رشتہ تلاش کریں جس پہ کشف بھی انکار نہ کریں۔سومل بیگم نے مشورہ دیتے کہا

ابھی آفس کے کجھ مسئلے مسائل ہیں وہ حل ہوجائے تو سوچتے ہیں۔واحب صاحب نے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی ہو؟حیا کشف کے گلے ملتی بولی۔

تمہارے سامنے۔کشف نے جواب دیا۔

اففف کشف مجھ سے تو اچھے سے بات کرلیا کرو کبھی کبھی ہی یہاں آتی ہوں۔حیا آرام سے اُس کے بیڈ پہ بیٹھ کر بولی۔

حنزہ کو ساتھ نہیں لائی۔کشف اس کی بات ان سنی کرکے بولی۔

حنزہ اپنی دادی کے پاس تھا اِس لیے سوچا میں اکیلے آجاتی ہوں۔حیا نے جواب دیا

ہممم سہی کیا۔کشف نے کہا

سنا ہے تم کوکنگ اچھا کرنے لگی ہو میرے لیے پاستا تو بنالوں۔حیا نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا۔

تم بیٹھو میں بناکر لاتی ہوں۔کشف کھڑی ہوتی بولی۔

کشف کے جانے کے بعد حیا کمرے کی چیزوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگی اُس نے سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا تو کجھ پیپرز اس کے ہاتھ آئے ان میں کشف کی لکھائی اور ٹائٹل دیکھ کر حیا کو تجسس ہوا۔

پڑھوں تو سہی کیا لِکھا ہے محترمہ نہ۔حیا مزے سے پہلا پیج کھول کر بولی اُس نے ابھی ایک پیج پڑھا تھا جب قدموں کی چاپ قریب سنائی دی حیا نے جھٹ سے وہ پیپرز اپنی پرس میں رکھے اور سیدھی ہوکر بیٹھی تاکہ کشف کو شک نہ ہو۔

اتنی جلدی تیار ہوگیا۔حیا نے مسکراکر کہا

بیس منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا ہے۔کشف نے بتایا جس پہ حیا کھسیانی سی مسکرادی۔

💕💕💕💕💕💕

واٹ دا ہیل ایک کام تم لوگوں سے نہیں ہوتا ٹھیک سے۔ایم کے نے ٹیبل پہ موجود ساری فائلز ماربل کے فرش پہ پھینک کر گرجدار آواز میں کہا سامنے کھڑا اُس کا اسسٹنٹ کانپ کے رہ گیا باہر موجود سارا اسٹاف بھی آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔

س سو سوری سس سر۔اسسٹنٹ نے اٹک اٹک کر کہا۔

گیٹ آوٴٹ دوبارہ مجھے اپنی شکل مت دیکھانا۔ایم کے نے غصے سے کہا۔

مس عافیہ میرے کیبن میں آئے۔اسسٹنٹ کے جانے کے بعد ایم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا انٹر کام پہ بولا ایک منٹ بعد عافیہ کیبن میں موجود تھی۔

اخبار میں نیو اسسٹنٹ کا ایڈ دے جلد سے جلد نیا اور قابل اسسٹنٹ چاہیے مجھے داوٴد سے کہے دے شوٹ پہ اُس کو میرے ساتھ ہونا ہے۔ایم کے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

اوکے سر اور میری رائٹر افروزہ سے بات ہوئی تھی انہوں نے کہا کے وہ لاسٹ اپیسوڈ ابھی نہیں لِکھ سکتی کیونکہ کجھ بزی ہیں۔عافیہ نے ڈرتے ہوئے بتایا۔

ان کے ڈرامہ فلحال بند کردے جب کمپلینٹ لکھ لیں گی تم اس پہ ہم کام کریں گے۔ایم کے نے جوابً کہا۔

جیسا آپ کہے۔عافیہ سر اثبات میں ہلایا۔

نیو رائٹرز تلاش کریں جو یونیک لکھتی ہوں ناکہ سانس بہوں کا جھگڑا۔ایم کے نے ایک نیا حکم صادر کیا۔

کیا کہا سر ایم کے نے؟عافیہ واپس آئی تھی سب نے تجسس سے پوچھا۔

بے چارے کو جاب لیس کردیا اور کہا نیو اسسٹنٹ ہائیر کرو اخبار میں اُس ایڈ دینے کا کہا ہے۔عافیہ نے منہ بگاڑ کر کہا

پھر سے اِس کو تو ابھی ایک ماہ ہوا تھا۔دوسرے لڑکے نے حیرت سے کہا

اِن کے تو سارے کام عجیب ہے اب کہا نیو رائٹرز تلاش کرو وہ یونیک لکھتی بھلا نیو رائٹرز کو کہاں ایکسپیرینس ہوتا ہے لکھنے کا اور سر ہیں کے اتنی بڑی کمپنی میں ان کو موقع دینے کا سوچ رہے ہیں۔عافیہ نے رازدانہ انداز میں کہا۔

ہر وقت سڑے ہوئے کیوں رہتے ہیں ویسے وہ؟شمائلا نے کہا

ضرور کوئی محبوبہ ہوگی اس نے دھوکہ دیا ہوگا جس کا بدلا وہ ہم معصوموں سے لے رہے ہیں۔عافیہ نے کہا۔

اگر آپ معصوموں نے گوسپ کرلیا ہو تم بڑائے کرم پانچ منٹ بعد کانفرنس روم میں آئے۔ایم کے کی بھاری آواز سن کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ایم کے سب پہ اُڑتے رنگ دیکھتا واپس چلاگیا۔

توبہ یہ ہٹلر کیسے اچانک آجاتے ہیں۔عافیہ اپنا رکا سانس بحال کرتی بولی۔

اِن باتوں کو چھوڑو میٹنگ کا سوچوں جو انہوں نے اچانک منعقد کی ہے۔دوسرے لڑکے نے کہا تو سب پریشانی سے سوچنے لگے۔

💕💕💕💕💕

عانیہ مرزا آہستہ سے سیڑھیاں اُتر رہی تھی اُسی وقت تیز قدموں سے منہا سیڑھیاں اُتر رہی تھی آج اُس کی ڈاکٹر کے ساتھ اپائمنٹ تھی اِس لئے وہ جلدی جارہی تھی کیونکہ باہر گاڑی میں ماہر اُس کا انتظار کررہا تھا عانیہ مرزا نے جب اپنے پیچھے منہا کو آتا محسوس کیا تھا سامنے گلاس وال ڈور سے ماہر کو آتا بھی دیکھا جس سے ان کے دماغ میں کلک ہوا ماہر جیسے ہی مین ڈور پہنچا عانیہ مرزا رک کر جیسے ہی منہا ان کے کجھ فاصلے پہ ہوئی انہوں نے اپنا پیر موڑا اور سیڑھیوں سے گِرتی چلی گئ ان کے ایسا کرنے سے دور سے یہی ظاہر ہورہا تھا جیسے منہا نے ان کو دھکا دیا ہو۔

پھوپھو

موم

دونوں کے منہ سے بے اختیار یہ لفظ ادا ہوئے۔

پھوپھو آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔منہا پریشان سی پوچھنے لگی حو کراہنے کا ڈرامہ کررہی تھی۔

پڑے ہٹو ایک تو مجھے دھکا دیا اُپر سے اب ماہر کو دیکھ کر ہمدردی کا ناٹک کررہی ہو۔عانیہ مرزا نے جھلا کر کہا منہا ان کی بات پہ ساکت سے دیکھنے لگی۔

موم آپ اندر چلیں۔ماہر پریشان سا ان کو اُٹھانے لگا۔

ماہر میں نے ایسا کجھ نہیں کیا۔منہا نے جلدی سے وضاحت دی تاکہ ماہر اُس پہ شک نہ کریں۔

تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔عانیہ مرزا تپ کے بولی۔

ماہر

منہا نے کجھ کہنا چاہا پر ماہر ہاتھ کے اِشارے کجھ بولنے سے رک دیا عانیہ مرزا یہ دیکھ کر خوش ہوگئ منہا بے یقین نظروں سے ان کو دیکھنے لگی جو اب سہارے سے عانیہ مرزا کو اندر کی طرف لیں جارہا تھا۔

موم آپ بیٹھے میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔ماہر نے کہا

ڈاکٹر کی کیا ضرورت ہلکی سی موچ ہے سہی ہوجائے گی پر منہا نے سہی نہیں کیا تم سے شادی کا کیا کہہ دیا وہ تو اِس طرح کی حرکتیں کرنے لگی پڑی۔عانیہ مرزا جھوٹے آنسو بہاتی بولی۔

موم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی منہا کیوں کرے گی اُس کے دل میں ایسا کجھ نہیں۔ماہر نے رسانیت سے کہا

اووہ تو بیوی ماں سے زیادہ پیاری ہوگئ وہ ٹھیک اور میں غلط۔عانیہ مرزا تپ کے بولی

میں نے ایسا نہیں کہا موم اور نہ میرا ایسا مطلب تھا منہا صاف دل کی مالک ہے وہ ایسا کرنا تو دور سوچ بھی نہیں سکتی میں آپ کو غلط نہیں کررہا پر آپ کو ایسا لگا ہوگا پر منہا ایسا کیوں کرے گی جب کی وہ خود چاہتی ہے میں آپ کا کہا مانوں۔ماہر نے ان محبت سے ان کا ہاتھ تھام کر کہا

میری بات کی تو کوئی اہمیت نہیں جب وہ راضی ہے تو مان لو روبی آج تک کنواری ہے تمہاری وجہ سے۔عانیہ مرزا نے کہا

موم میں دوسری شادی نہیں کرسکتا آپ پلیز بار بار ایک بات نہ کیا کریں آپ کے پیر میں موچ آئی ہے آرام کریں میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔ماہر سپاٹ لہجے میں بول کر کمرے سے باہر نکل گیا عانیہ مرزا اپنے پلان میں فیل ہونے پہ کراہ کے رہ گئ۔

ماہر میرا یقین کریں میں نے پھوپھو کا دھکا نہیں دیا میں بھلا کیوں

شششش

کتنا زیادہ بولنے لگی ہے آپ۔منہا جو ماہر کو کمرے میں دیکھ کر بولنا شروع ہوگئ تھی ماہر نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش کروایا۔

ماہر آپ کو مجھ پہ یقین ہے نہ۔منہا نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر پوچھا

بلکل مجھے پتا ہے آپ ایسا نہیں کرسکتی موم کو غلطفہمی ہوئی ہوگی ورنہ میری منہا تو بہت معصوم ہے۔ماہر مُسکراکر اس کو اپنے حصار میں لیتے بولا۔

شکریہ مجھ پہ یقین کرنے کا۔منہا نے تشکر سے اس کو دیکھ کر کہا۔

اِس میں شکریہ کی کیا بات آپ میری محبت میرا عشق ہے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کے میں آپ کا اعتبار نہ کروں۔ماہر آرام سے بولا۔

آپ بہت اچھے ہیں کبھی کبھی مجھے اپنے آپ پہ رشک آتا ہے کے اللہ نے مجھے آپ جیسا ہمسفر دیا۔منہا خوبصورت مسکراہٹ چہرے پہ سجاکر بولی۔

مجھے تو ہر وقت خود پہ رشک آتا ہے کہ اللہ نے مجھے آپ کے بدولت ایک انمول تحفہ دیا ہے ورنہ میں آپ کے قابل نہیں تھا اِس لیے آپ کو پانے کی چاہ تو کی پر کوشش نہیں۔ماہر اُس کا سر اپنے سینے پہ رکھ کر بولا

ایسا نہیں سمجھا کریں ہم دونوں ایک دوسرے کے قابل ہے تبھی تو خدا نے ہمیں ملوایا۔منہا آنکھیں بند کرکے بولی۔

اِس لیے اپنے دل میں موجود وہم کو آپ اپنے دل سے نکال دے کیونکہ ماہر مٙلک بس منہا کا ہے اور ہمیشہ اُس کا رہے گا۔ماہر نے شدت سے کہا

میں جانتی ہوں ماہر صرف منہا کا ہے اور ہمیشہ اُس کا رہے گا ماہر اگر منہا سے دور ہوا تو منہا مرجائے گی۔منہا اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ کر بولی ماہر اُس کی آخری بات سن کر تڑپ کر اُس پہ اپنی گرفت مضبوط کی۔

💕💕💕💕💕

وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب کوئی اُس کے پاس بیٹھ گیا ایم کے نے چونک کر گردن موڑی تو سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر اُس کے عنابی ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئی۔

بھائی کل پھر آپ لیٹ گھر آئے اتنا بڑا گھر ہے مجھے کبھی کبھار وحشت ہوتی ہے اکیلے رہ کر۔اُس کی بہن نے ناراض لہجے میں کہا۔

اکیلے کہاں اتنے سارے لوگ تو ہوتے ہیں یہاں پھر کیوں آپ کو وحشت ہوتی ہے۔ایم کے نے محبت سے اپنی کو اپنے ساتھ لگاکر کہا۔

یہ جو ملازموں کی فوج آپ نے اکٹھا کی ہے مجھے تو شک گُزرتا ہے کے کہیں یہ ریموٹ سے چلنے والے روبوٹ تو نہیں۔اُس نے منہ بسور کر کہا

میری معصوم بہن روبوٹ تو میرے خیال سے کمپیوٹر سسٹم سے کنٹرول میں ہوتے ہیں آپ انجنیئر پڑھ رہی ہے اِتنا تو پتا ہونا چاہیے۔ایم کے نے اپنی جان سے پیاری بہن کو چھیڑ کر کہا ایک وہی تو تھی اب اُس کی جان۔

میں نے جسٹ آپ کو ایک مثال دی وہ مجھ سے بات نہیں کرتے مجھ سے کھیلتے بھی نہیں۔اپنے بھائی کی بات سن کر منہ بسور کر بولی۔

آپ کونسا بچی ہیں۔ایم کے نے گھور کر کہا۔

دل تو بچہ ہے نہ عمر کو آپ اگنور کریں۔اُس نے آنکھ ونک کرتے کہا جس پہ ایم کے نے نفی میں سر کو جنبش دی

ویسے بھائی آج چھٹی ہے تو کیوں نہ ہم باہر چلیں۔ایم کے انکار کرتا پر اپنی بہن کی معصوم شکل دیکھ کر وہ انکار نہیں کرپایا اور سر کو جنبش دے کر حامی بھری جس پہ اُس کی بہن چہک کر گال چومتی تیار ہونے چل پڑی ایم کے فقط مسکرادیا۔

💕💕💕💕💕

کشف میں مارکیٹ جارہی ہوں تم بھی ساتھ چلو۔لیلا نے کشف سے کہا جو اخبار میں جابز کے ایڈز دیکھ رہی تھی۔

آپ جائے میرا دل نہیں۔کشف نے مسکراکر انکار کیا۔

ساتھ چلتی تو اچھا تھا جہان بھی ساتھ ہوگا اُس کو تم سنبھالتی۔ لیلا نے کہا

اچھا میں چادر پہنوں پھر آتی ہوں۔کشف نے حامی بھرتے کہا

شکریہ۔لیلا خوش ہوکر بولی۔

پھوپھو ہم تہاں جارہے ہیں؟جہان نے گاڑی میں بیٹھ کر توتلی آواز میں سوال کیا۔

ہم شاپنگ پہ جارہے ہیں آپ اچھے اچھے کِھلونے لینا وہاں سے۔کشف نے اس کا ماتھا چوم کر کہا

مجا آئے گا۔جہان چہکتا بولا

مارکیٹ آکر لیلا نے پہلے بچوں کی چیزیں لی جہان نے آئسکریم کی فرمائش کی تو کشف اُس کا ہاتھ پکڑتی دوسری سائیڈ پہ بنے آئسکریم پارلر کی جانب آئی۔

پرس سے پئسے نکالتے وقت کشف کا ہاتھ جہان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا جہان کی نظر کلرفل بلونز پہ پڑی تو اُس کی آنکھوں میں چمک اُبھری وہ بنا کشف کو بتائے بھاگتا بلونز لینے چلاگیا کشف کا دھیان اُس کی طرف نہیں تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی آپ میرا انتظار کریں گے یہاں ساتھ چلیں گے۔گاڑی سے اُترنے سے پہلے اُس نے سوال کیا

میں ایک کال سن کر آتا ہوں۔ایم کے نے سنجیدگی سے کہا جس پہ وہ سرہلاتی مارکیٹ کے اندر چلی گئ۔ایم کے گاڑی سے باہر آتا کال پہ بات کرنے لگا کال سے فارغ ہوا تو اُس بچے کی رونے کی آواز آئی ایم کے یہاں وہاں دیکھا پر بچہ نظر نہیں آیا وہ سر جھٹکتا جیسے ہی مڑا تو نظر چھوٹے سے خوبصورت بچے پہ پڑی جو آنکھیں مسلتا رونے میں مصروف تھا۔

آپ کی مما گم ہوگئ ہیں کیا؟ایم کے اس کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پوچھنے لگا۔

نہیں میں کھوگیا ہوں۔جہان نے روتے ہوئے جواب دیا تو ایم کے نے اس کو گود میں لیا

آپ آئے کس کے ساتھ آئے تھے؟ایم نے دوسرا سوال کیا۔

مما پھوپھو بلونز دیکھے تو یہاں آگیا پر پتا نہیں پھوپھو مما کہاں ہیں۔جہان سوں سوں کرتا بولا

بہت کیئرلیس ہیں آپ کی مما اور پھوپھو۔ایم کے تاسف سے بولا جس پہ جہان مزید زور سے رونے لگا ایم کے اس کے اِس طرح رونے پہ سٹپٹاگیا

اچھا آپ کی مما کو تلاش کرتے ہیں تب تک آپ آئسکریم انجوائے کریں۔ایم کے نے بہلانے کی خاطر کہا

پھوپھو آئسکریم کے پاس۔جہان رونا بھول کر بولا

اچھا وہ وہاں ہیں تو چلتے ہیں۔ایم کے نے اس کی ناک دباکر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشف آئسکریم لیکر جہان کو دینا چاہا تو وہ کہیں نظر نہیں آیا کشف کا رنگ فق ہوا اُس نے آس پاس کے لوگوں سے پوچھا مگر سب نے لاعلمی کا اظہار کیا کشف کو سخت ٹیشن ہونے لگی۔

بھابھی کو تو بتادو۔کشف خود سے کہتی لیلا کو کال ملانے لگی مگر کال ریسیو نہیں ہوئی کشف نے جھنجھلا کر کال کرنا بند کیا۔

پھوپھو۔کشف پریشان چہرہ لیے مارکیٹ جانے کا سوچ رہی تھی جب اپنے پیچھے جہان کی آواز سن کر وہ فورن سے پلٹی جہاں جہان ہاتھ ہلاتا اپنی طرف اشارہ کررہا تھا کشف بھاگ کر اس کے پاس گئ تھی اور دیوانہ وار اس کا چہرہ چومنے لگی۔

کہاں گئے تھے بنا بتائے۔کشف اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھتی بولی۔

گم ہوگیا تھا۔جہان نے معصومیت سے بتایا

اچھا تو پھر مل کیسے گئے؟کشف نے گھور کر پوچھا

یہ انکل

ارے انکل کہاں گئے؟جہان جو ایم کے کی طرف اشارہ کرکے بتارہا تھا اُس کو ناپاکر حیرت سے بولا کشف نے بھی یہاں وہاں دیکھا پر کوئی ان کی طرف متوجہ نہ تھا اِس لیے جہان کو اب کی گود میں اُٹھاتی مارکیٹ کی طرف بڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی دیر کردی آپ نے آنے میں؟ایم کے آیا تو اُس نے پوچھا

چھوٹا بچہ اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا تھا اُس کی مدد کرنے کے چکر میں دیر ہوگئ۔ایم کے نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر جواب دیا۔

اچھا تو مل گئ اُس کو اپنی ماں؟اس نے فکرمندی سے پوچھا

ہاں ایک لڑکی کو پھوپھو کہہ رہا تھا تو میں اُس کو چھوڑتا واپس آگیا۔ایم کے نے کندھے اُچکاکر کہا

اچھا سہی۔اس نے سرہلایا۔ 

حیا نے کشف کی لکھی ساری کہانی پڑھ لی تھی جو اُس کو بہت پسند آئی تھی وہ جان گئ تھی کے یہ اسٹوری سوائے اینڈنگ کے کشف کی زندگی پہ تھی ساری کہانی پڑھ کر حیا نے سوچ لیا تھا وہ یہ فیس بُک پہ ضرور شیئر کرے گی۔

میرا رقیب کہاں ہیں؟حمزہ حیا کے پاس آتا بولا

حنزہ باہر لان میں کِھیل رہا ہے۔حیا نے تاسف سے اُس کی جانب دیکھ کر کہا۔

شکر کبھی تو تمہیں اکیلا چھوڑا۔حمزہ خوش ہوتا اُس کو اپنے ساتھ لگاتا بولا۔

پر اُس کا باپ کبھی نہیں چھوڑتا۔حیا نے منہ بسور کر کہا

وہ کبھی چھوڑے گا بھی نہیں بہت چاہتا جو ہے۔حمزہ نے مزے سے کہا۔

ہمم میں چاہتی بھی نہیں کے مجھے چھوڑے۔حیا اُس کے چہرے پہ بیئرڈ کو چھوتی ہوئی بولی۔

تم چاہو بھی تو مجھ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتی۔حمزہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

ریئلی؟حیا نے آئبرو اچکاکر پوچھا۔

یس مائے لو۔حمزہ اُس کی پیشانی چوم کر بولا

میں نے نیا آفیشل اکاؤنٹ بنایا ہے۔حیا نے بتایا

کوئی نئ بات کرو۔حمزہ نے مسکراہٹ دباکر کہا

بہت مین ہو تم۔حیا نے بُرا مان کر کہا

تمہارا ہوں کبھی تعریف کرلیا کرو۔حمزہ نے معصوم شکل بناکر کہا

تعریف والا کام بھی کرلیا کرو کوئی۔حیا نے کہا

چھ سال ہوگئے ہیں ہماری شادی کو۔حمزہ نے جانے کیا یاد کروانا چاہا۔

اچھا چھوڑو بہت پیارے ہوتم۔حیا اس کا گال چومتی بولی جس پہ حمزہ مُسکراتا اُس کے گال کھینچ لیے۔

💕💕💕💕

ایم کے کو کیا ضرورت ہمارے ساتھ پارٹنرشپ کرنے کی ہمیں بینک سے لون لینا ہوگا۔واحب صاحب نے ساگر کی ساری بات سن کر کہا

بینک ہمیں لون نہیں دے گی ہم پہ پہلے ہی پچاس کروڑ کا قرض ہے۔ساگر نے پریشان لہجے میں بتایا۔

بھائی صاحب سے بات کرتا ہوں۔واحب صاحب نے دوسرا حل بتایا۔

چھوٹے چچا نے پہلے ہی بہت مدد کی ہے سعید چچا تو ابھی پیرس میں ہیں۔ساگر نے بتایا۔

اچھا پھر تم ایم کے کے ساتھ میٹنگ ارینج کرو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔واحب صاحب سرد سانس کھینچ کر بولے۔

میں بات کرتا ہوں انشااللہ بہتر ہوگا۔ساگر پرجوش ہوتا بولا۔

💕💕💕💕💕

ایم کے اپنے کمرے میں بیٹھا سگریٹ سُلگا رہا تھا نظریں سامنے دیوار پہ لگے اسکیچ پہ تھی جہاں کسی کا مُسکراتا عکس تھا جس کو دیکھ کر اُس کو سکون محسوس ہوتا تھا وہ جانتا یہ غلط ہے پر وہ یہ غلطی بار بار کرتا تھا دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایم کے سگریٹ ایش ٹرے پہ رکھتا دیوار کے سامنے کھڑا ہوا۔


میری بے رونق زندگی میں تم بہار تھی

میرے بے حس دل میں تمہاری سلطنت تھی

تمہارے آنے سے یوں لگا مجھے جیسے

تمہارا ساتھ عمر بھر کا ہو

(رمشا حسین)


ایم کے اسکیچ پہ ہاتھ پھیرتا خوبصورت آواز میں شعر پڑھنے لگا۔

یو ناٹ مائین بٹ آیم یوئرز۔ایم کے اُداس بھری مسکراہٹ سے بڑبڑایا۔

💕💕💕💕💕💕

حیا نے بنا کشف کو بتائے فیس بُک پہ ناول بنا کر پوسٹ کردیا تھا پر اُس نے آخری قسط اپلوڈ نہیں کی تھی حیا حیران تھی کے ایک دن میں اتنے ریویوز آگئے تھے کمنٹس لائیکس کمینٹس میں کوئی تعریف کررہا تھا تو کوئی کمپلیٹ ناول کا لنک مانگ رہا تھا جو حیا مزے سے ریڈ کررہی تھی کیونکہ اُس کا کوئی اِرادہ نہیں تھا آخری قسط پوسٹ کرنے کا کشف نے آخری قسط جو لِکھی تھی وہ حیا کو ٹھیک نہیں لگی اُس کے حِساب سے کہانی کا احتتام ہیپی ہونا چاہیے تھا جو کی کشف نے نہیں کیا تھا۔

💕💕💕💕💕

سر یہ اسٹوری دیکھے دو دن میں دس ہزار شیئر تیس ہزار سے زیادہ لائیس اور کمنٹس ہے۔عافیہ نے ایم کے کی طرف لیپ ٹاپ بڑھا کر کہا۔

مجھے ای میل کرئیے گا وقت ملا تو دیکھ لوں گا۔ایم کے نے سپاٹ انداز میں کہا

سر یہ بہت یونیک اسٹوری ہے آپ کو پسند آئے گی اگر ہم اِس پہ ڈرامہ بنائے تو اور بہتر ہوگا آپ دیکھ لیجئے اگر آپ کو پسند آئی تو میں اِس کا آخری اپیسوڈ حاصل کرنے کی کوشش کروں گی۔عافیہ نے کہا

رائٹر کا نام؟ایم کے سنجیدگی سے پوچھا

کے ایم۔عافیہ نے فورن سے جواب دیا ایم کے نے نظریں اُٹھا کر اُس کو دیکھا تو عافیہ گڑبڑاگئ۔

یہی نام تھا سر رائٹر کا ناول کا نام جب کی دل منتظر میرا ہے۔عافیہ نے وضاحت دیتے کہا

ٹھیک ہے تم جاوٴ اب۔ایم کے سرد سپاٹ لہجے میں بولا اُس کے جانے کے بعد ایم کے نے لیپ ٹاپ اپنی طرف کیا جو عافیہ لے جانا بھول گئ تھی ایم کے اُس پہ سرسری سا پڑھ رہا تھا مگر جوں کہانی شروع ہوئی ایم کے کی آنکھیں تحیر سے پھیل گئ تھی گلے میں کانٹے چُبھتے محسوس ہوئے تھے۔

💕💕💕💕💕

منہا کی طبعیت صبح سے خراب تھی ماہر اُس کو ہوسپٹل لیکر آیا تھا جہاں اُن کو پانچ سال بعد خوشخبری ملی تھی جس کو سن کر دونوں کے پاوٴں زمین پہ ٹِک نہیں رہے تھے۔

منہا ایم سو ہیپی۔ماہر منہا کو زور سے گلے لگاتا بولا۔

ماہر ہم ہوسپٹل میں ہیں۔منہا سرخ چہرے کے ساتھ ماہر کو دور کرتی بولی۔

تو کیا ہوا میری جان۔ماہر لاپرواہی سے کہتا دوبارہ اُس کو اپنے گلے لگالیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو آپ خوش ہیں نہ؟ماہر عانیہ مرزا سے بولا جو حیران تاثر لیے ان کی بات سن رہی تھی ان کو لگا تھا منہا کبھی ماں نہیں بن پائے گی پر قدرت نے ان کی سوچ کو غلط ثابت کرلیا تھا۔

ہممم۔عانیہ مرزا بس اتنا بول پائی منہا کو وہ خوش نہیں لگی۔

میں آتا ہوں۔ماہر موبائل جیب سے نکالتا بولا

پھوپھو میں نہیں جانتی آپ کو مجھ سے کیا شکایت ہے پر اتنا ضرور کہوں گی آپ ہمارے بچے کو قبول کیجیے گا مجھے تو شاید آپ نے قبول نہیں کیا۔منہا ماہر کے جانے بعد عانیہ مرزا سے بولی جو اُس کی بات پہ شرمندہ نظر آرہی تھی۔

میں جان گئ ہوں آپ روبی کو بہو بنانا چاہتی تھی پر یہ قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں ہم انسان بس سوچ سکتے ہیں ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور جو اللہ چاہتا ہے وہ بہتر سے بہترین ہوتا ہے میں ماہر کو بہت چاہتی ہوں ماہر بھی مجھے مجھ سے زیادہ چاہتا ہے آپ بھلے مجھے قبول مت کریں پر ماہر کو میرے خلاف کرنے کی کوشش مت کرئیے گا۔منہا نے آہستہ آواز میں کہا جو ماہر نے بخوبی سن لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ اتنی اچھی کیوں ہیں۔منہا کمرے میں آئی تو ماہر اُس کو اپنے حصار میں لیتا بولا۔

کیوں کی میں ماہر کی بیوی ہوں۔منہا اس کے گلے میں بازوں حمائل کرتی بولی

اے لائیک یوئر کانفڈنس۔ماہر اس کی ناک چومتا شرارت سے بولا۔

آپ کی عنایت ہے اگر آپ مجھے نہ ملتے تو شاید میں اتنا خوش نہ ہوتی مجھے لگتا تھا میں نعیم کی ہوں جب آپ اپنی محبت کا اِظہار کرتے تھے تو مجھے عجیب لگتا تھا میں نہیں جانتی آپ میرے ہیں میں آپ کی ہوں اور اب ہماری زندگی میں ننہا سا مہمان آرہا ہے۔منہا نے مسکراکر کہا

آپ میری تھی میری رہے گی کسی اور کا نام آپ دوبارہ مت لیجئے گا۔ماہر سنجیدگی سے بولا

کبھی نہیں لوں گی بس آپ ناراض مت ہوا کریں۔منہا لاڈ سے بولی ماہر مُسکراتا اپنے لب اُس کی پیشانی پہ رکھے۔

💕💕💕💕💕

دو ماہ بعد!

کجھ پتا چلا۔ایم کے سپاٹ لہجے میں پاس کھڑے آدمی سے بولا۔

سر وہ ایف بی اکاؤنٹ بند ہوگیا ہے جو ناول اُس پہ پوسٹ ہوا تو اب تو بہت لوگوں نے کیا ہے پر سہی سے پتا نہیں لگا پہلے کس نے کیا تھا۔آدمی ڈرتے ڈرتے ہوئے بولا۔

باہر نکلو۔ایم کے جلالی لہجے میں بول کر پاس پڑی کرسی کو ٹھوکر ماری۔

میں کیوں تلاش کررہا ہوں تمہیں تم میری نہیں۔ایم کے ہذیاتی انداز میں چیخ کے بولا

💕💕💕💕💕💕

تم میرا لکھا ہوا لیک کیسے کرسکتی ہو حیا۔کشف نے بہت بار کیا ہوا جملا بولا

تم نے اچھا نہیں کیا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کروا کر۔حیا اُس کی بات سن کر نظرانداز کرتی بولی کتنی مشہور ہوگئ تھی وہ پر کشف کو جیسے پتا لگا تھا اُس نے اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنے کا کہا جس کا صدمہ حیا کو ابھی تک تھا۔

بکواس نہیں کرو۔کشف نے گھور کر کہا۔

تمہیں پتا ہے اسلام آباد کا مشہور بزنس میں ایم کے تمہاری ناول کو کتابی شکل دے رہا ہے حیا نے پرجوش آواز میں کہا

وہ ہوتا کون ہے بنا میری اجازت کے میری کتاب کو پبلش کرنے والا۔کشف آگ بگولا ہوتی بولی

شکر مانوں اتنا نام مل رہا ہے تمہیں میری مانوں ایک دو اور لِکھوں عنقریب مشہور ناول رائٹر بن جاوٴن گی۔حیا نے مشورہ دیتے کہا

اُس کے ایم کے سے تو میں نپٹوں گی اتنا بڑا بزنس مین بن کر ایسی حرکتیں کررہا ہے اُس کو شرم آنی چاہیے۔کشف سخت لہجے میں بولی حیا نے اُس کی بات پہ مسکراہٹ ضبط کی کیونکہ اُس نے جھوٹ بولا تھا۔بھلا وہ اسٹوری کونسا اُس نے پوری پوسٹ کی تھی جو پبلش ہوتی کتابی شکل میں

💕💕💕💕💕💕💕

ایم کے ساتھ کل بارہ بجے میٹنگ ہے۔ساگر نے واحب صاحب کو بتایا۔

بہت مغرور بندہ لگتا ہے دو ماہ بعد تمہیں ملنے کا وقت دیا ہے۔واحب صاحب نے کہا

مغرور نہیں مصروف بندہ ہے کام بس کام ہی کرتا ہے اسلام آباد میں تین آفسز ہیں اُس کے اور وہ دن میں تینوں کا وزٹ کرتا ہے۔ساگر نے بتایا۔

ہمم تم جانا اُس سے بات کرنا کوشش کرنا ڈیل فائنل ہو اگر نہ ہوئی تو ہم لاہوار والا پلاٹ بیچ دے گے۔واحب صاحب نے کہا

پر ڈیڈ وہ تو کشف کے نام نہیں۔ساگر نے تصدیق چاہی

ہے پر کیا کریں وقت ایسا آگیا ہے۔واحب صاحب نے افسوس کرتے کہا۔

💕💕💕💕💕💕

تیری تصویر دیکھی تو مچل اُٹھا دل

لگتا تھا مجھے تجھ سے محبت نہیں رہی۔


کشف ساکت سی لیپ ٹاپ پہ ایم کے کی معلومات دیکھ رہی تھی ایم کے کی لاتعداد تصویریں دیکھ کر اُس کو اپنی بینائی پہ شک گُزرا۔

ایم کے دا بزنس ٹائیکون جس نے حال میں اپنا بزنس اسلام آباد میں سیٹ اپ کیا اُس سے پہلے وہ جرمنی میں رہتا تھا کم عرصے میں اُس نے بزنس کی دُنیا میں بہت نام کمایا تھا ایم کے کا کہنا ہے بزنس کے لیے کجھ ہو یا نہ ہو دماغ کا ہونا ضروری ہوتا ہے ساری بات دماغ کی ہوتی ہے ورنہ ہاتھ میں موجود پئسا بھی کسی کام کا نہیں ایم کے کا اصل نام موحد یوسف ہے پر دُنیا اُس کو ایم کے کے نام سے جانتی ہے۔

ساری تحریر پڑھ کر کشف کا گلا خشک ہوا تھا وہ اب تک بے یقین سی تھی اُس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے سوچ سوچ کر پاگل ہوجائے گی۔


تم کروڑوں روپے کی مالک ہو تمہیں کیا لگتا ہے ہم تمہارا رشتہ میڈل کلاس لڑکے سے کریں گے۔


ایم کے کمپنی بہت عروج پہ پہنچ گئ ہے اگر ہماری اُس کے ساتھ اگر پارٹنرشپ ہوجائے تو ہماری لیے فائدیمند ہوگا۔


اُس کے کانوں میں کبھی واحب صاحب کا حقارت بھرا جُملا گونج رہا تھا تو کبھی ساگر کی بات یاد آرہی تھی جو اُس نے کہا تھا

یااللہ ایسا بھی ہوتا ہے آپ نے کیوں دوبارہ یاد کروایا جب کی میں اُس کو مکمل طور پہ بھولنا چاہتی تھی۔کشف کانوں پہ ہاتھ رکھتی شکوہ کرنے لگی۔

یااللہ وہ کبھی میرے سامنے نہ آئے پلیز۔کشف خُدا سے التجا کرنے لگی جب کی دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جس وہ نظرانداز کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

حسابِ عمر کا اتنا گوشوارا ہے

تمہیں نکال کر دیکھا تو سب خسارہ ہے

💕💕💕💕💕

کہاں سے لاوٴں وہ نصیب

جو تجھے میرا کردے


ایم کے (موحد) ٹیرس پہ سگریٹ کے گہرے کش لگا رہا تھا جب اُس کی بہن عروسہ اُس کے پاس آئی ایم کے نے اپنی بہن کو دیکھ کر سگریٹ پیروں کو نیچے مسل دی۔

بھائی آپا سے بات ہوئی تھی کجھ دنوں میں یہاں آرہی ہیں۔عروسہ نے پرجوش آواز میں بتایا

یہ تو بہت اچھی بات ہے صائمہ آپا کے بچوں کے ساتھ وقت گُزارے گی تو کجھ دن آپ کو اکیلے پن کا احساس بھی نہیں ہے ہوگا۔ایم کے نے مسکراکر کہا۔

آپ مستقل کوئی بندوبست کریں نہ۔عروسہ نے درخواست کی۔

وہ کیسے۔موحد کو سمجھ نہیں آیا۔

شادی کرلیں بھائی آپ کی بیگم ہوگی پھر بچے کتنا مزا آئے گا پھر۔عروسہ نے چہکتے کہا موحد کے چہرے کے تاثرات سپاٹ ہوئے تھے۔

رات بہت ہوگئ ہے آپ جاکر سوجائے۔موحد اُس کی بات سرے سے نظرانداز کرتا بولا

ہمیشہ شادی کی بات کو یوں اگنور مت کیا کریں۔عروسہ نے شکوہ کیا۔

میری زندگی میں شادی کی گنجائش نہیں۔موحد سپاٹ لہجے میں بولا

کیوں نہیں بھائی سب کجھ تو پالیا آپ نے پھر شادی کیوں نہیں آپ خوش کیوں نہیں رہتے ہم جب چھوٹے گھر میں رہا کرتے تھے تب بھی آپ پرسکون ہوتے تھے پھر ایسا کیا ہوا ہے جو آپ کے لہجے میں عجیب درشتی آگئ ہے کہاں آپ نرم گُفتار تھے اور اب بات بات پہ غصہ کرنا آپ کی تربیت کا خاصہ بن گیا ہے۔عروسہ نے سوال پہ سوال کیا۔

عروسہ اندر جائے۔موحد نے دو ٹوک کہا

نا بتائے مجھے آپا آئے گی تو وہ خود آپ سے پوچھے گی میرے سوال تو نظرانداز کرلیتے ہیں ان کے نہیں کرپائے گے۔عروسہ ناراض لہجے میں کہتی وہاں سے چلی گئ جب کی موحد آسمان پہ موجود ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھنے لگا جو کالی رات میں چمکدار خوبصورتی کا منظر پیش کررہے تھے۔


درد بھی خود ہوں دوا بھی خود ہوں

اپنے ہر سوال کا میں جواب بھی خود ہوں

💕💕💕💕💕

آج ایم کے (موحد) کے ساتھ ساگر کو میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی پر کسی مسئلے کی وجہ سے ایم کے کو کراچی جانا پڑا تھا یہ بات ساگر کو پتا چلی تو اُس کو غصہ آیا تھا اُس کو وقت دے کر کہیں اور اُس کا جانا ساگر کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی مگر بات ایسی تھی کے اُس کو صبر کرنا پڑا۔

ایسا کرتے ہیں جب وہ آئے تو اُس کا پرسنل نمبر لو پھر ہم اُس کو گھر پہ دعوت دے گے گھر میں ڈسکشن ہو تو ٹھیک ہے کیا پتا اگلی بار بھی ایسا نہ کریں۔ساگر نے واپس آکر واحب صاحب کو ساری بات بتائی تو انہوں نے کہا

پرسنل نمبر میں اس کے اسسٹنٹ سے حاصل کرلوں گا بس وہ ہماری دعوت قبول کریں۔ساگر پُرسوچ انداز میں بولا۔

کرلیں گا ہم نے جو اِس بار کنٹریکٹ بنایا ہے اُس میں بہت پئسا لگایا ہے۔واحب صاحب نے تسلی آمیز لہجے میں کہا تو ساگر بھی کجھ پرسکون ہوا۔

💕💕💕💕💕

آپ اپنا مقصد بھول گئ ہیں کیا؟روبی نے تنک کر عانیہ مرزا سے کہا

بھولنے کی کوشش میں ہوں ماہر بہت خوش ہے منہا کے ساتھ مجھے اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے ناکہ کے اپنی مرضی اُس پہ مسلط کروں جس میں وہ زرہ بھی خوش نہ ہو۔عانیہ مرزا نے آرام سے جواب دیا۔

اتنے سالوں سے آپ نے مجھے ماہر کے خواب دیکھائے اور اب ایسا کہہ رہی ہیں۔روبی مٹھیاں بھینچ کر بولی۔

اتنے سالوں میں تمہیں ماہر سے ملا ہی کیا لاکھ کوششیں کی پر ماہر کو ایمپریس نہ کرپائی۔عانیہ مرزا کا لہجہ مزاق اُڑانے جیسا تھا

آپ کا کوئی حق نہیں میری انسلٹ کرنے کا۔روبی تلملا کر بولی۔

دیکھو روبی میں چاہتی تھی تمہاری شادی ماہر سے ہو پر اب منہا ماں بننے والی ہے ماہر خوش ہے بہت اِس لیے تم اب کسی اور سے شادی کرلوں میں اپنے بیٹے کی خوشیوں کے درمیان نہیں آوٴں گی ویسے بھی میں بہت زیادتی کرچُکی ہوں منہا کے ساتھ یہ جان کر بھی کے کی وہ میری بھتیجی ہے۔عانیہ مرزا نے سنجیدگی سے کہا۔

یہ اچھا ہونے والا ڈرامہ آپ پہ بلکل سوٹ نہیں کررہا۔روبی جھلا کر کہتی واک آوٴٹ کرگئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کام سے جلدی آگئے آپ۔منہا ماہر سے کہا جو اُس کے بیٹھا تھا۔

دل نہیں لگ رہا تھا وہاں سوچا بیگم کے پاس آجاؤں۔ماہر نے مسکراکر کہا

آپ کے دل کا تو کیا ہی کہنا۔منہا نے نفی میں سر کو جنبش دی۔

میرا بے بی کیسا ہے؟ماہر نے اُس کے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

ٹھیک ہے بہت۔منہا نے بتایا

مجھے اب انتظار نہیں ہورہا۔ماہر بے صبری سے بولا

ابھی تو دو ماہ ہوئے ہیں جہاں آپ نے اتنے سال انتظار کیا وہی کجھ مہینے اور صبر کرے۔منہا نے مسکراکر کہا

وہ تو کررہا ہوں۔ماہر نے منہ بناکر کہا

آپ کو کجھ چاہیے میرے ذہین سے نکل گیا پوچھنا۔منہا نے سر پہ ہاتھ مار کر کہا

آپ کی توجہ کے طلبگار ہیں۔ماہر نے آنکھ ونک کرتے کہا

کافی پیتے ہیں نہ اِس وقت اُس کا پوچھ رہی تھی۔منہا نے گھور کر کہا

کمرے میں رہے آپ کچن میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ماہر حکیمہ لہجے میں بولا۔

آپ تو ابھی سے اتنے سینسٹو ہورہے ہیں۔منہا نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا

آپ کے معاملے میں ابھی سے نہیں شروع سے سینسٹو پوزیسیو ہوں۔ماہر نے اُس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر کہا۔

اندازہ ہورہا ہے آہستہ آہستہ۔منہا اُس کے کندھے پہ سر رکھ کر بولی تو ماہر نے اُس کے گرد بازوں حمائل کیے۔

💕💕💕💕

بھائی آجکل لیٹ آتے ہیں نہ گھر۔کشف نے لیلا سے کہا

ہمم بزنس میں لوسٹ جو ہورہا ہے ساگر تو پریشان رہتا ہے بہت دعا کرو ایم کے ان کی دعوت قبول کرلیں۔لیلا نے کہا ایم کے نام پر کشف کا دل زور سے دھڑکا تھا۔

دعوت کیسی؟کشف نے سرسری انداز اپناتے پوچھا۔

گھر پہ اپائیمنٹ تھی ساگر کی اُس کے ساتھ پر کسی وجہ سے اُس کو آوٴٹ کا سٹی جانا پڑا تو میٹنگ گھر پہ رکھی گئ ہے۔لیلا نے بتایا

بزنس کی باتیں اب گھر میں ہوگی۔کشف ناگواری سے بولی

کیا کہہ سکتے ہیں ساگر نے تو مجھ سے کہا تھا جب وہ آئے تو بہت اچھا سا احتمام کیا جائے۔لیلا نے ہاتھ میں پکڑی میگزین ٹیبل پہ رکھ کر کہا۔

کسی فائیو اسٹار ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں بھی تو میٹنگ ہوسکتی تھی نہ۔کشف نے پھر کہا

تمہیں کیا مسئلا ہے وہ سب تو ڈرائینگ روم میں ہوگے۔لیلا نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھ کر پوچھا۔

مجھے کیا مسئلا ہونا ہے بس ایک بات کی۔کشف نے کندھے اُچکاکر خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا

💕💕💕💕

موحد تمہیں اب شادی کرنی چاہیے۔صائمہ نے چائے کا کپ اُس کی طرف بڑھا کر کہا

شادی کرنے سے کیا ہوگا۔موحد نے تلخ سوال کیا

جس لاحاصل کو سوچ کر خود کو تکلیف دیتے ہو اُس تکلیف میں شاید کوئی کمی آجائے۔صائمہ نے سنجیدگی سے کہا افعان کی زبانی ساری بات اُس کو پتا چل چکی تھی۔

آپا کیا ہم کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔موحد نے چڑ کر کہا

ضرور کرسکتے ہیں سوچ رہوں اِس بار تمہاری بات پکی کرلوں کسی لڑکی کے ساتھ۔صائمہ نے مزے سے کہا

پلیز آپا۔موحد بے زار ہوا۔

زندگی اکیلے نہیں گُزاری جاسکتی سمجھنے کی کوشش کرو۔صائمہ نے سمجھانا چاہا

گُزر جاتی ہے ابھی بھی گُزر رہی ہے بعد میں بھی گُزر جائے گی۔موحد لاپرواہی سے بولا

زندگی گُزارنے سے بہتر نہیں اُس کو کُھل کر جیا جائے۔صائمہ نے آس سے اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

شادی کا میرا فلحال کوئی اِرادہ نہیں سو پلیز آپ شادی کرنے کا نہ کہے۔موحد نے کہا

موحد سے ایم کے بن کر کافی روڈ ہوگئے ہو کہاں موحد ہر بات مانتا تھا پر اب ماں کے جانے کے بعد ایم کے بہنوں سے لاپرواہ ہوگیا ہے۔صائمہ افسوس سے کہتی چلی گئ جب کی اُس کی بات موحد کے دل پہ کسی خنجر کی طرح لگی تھی۔

💕💕💕💕

لیلا اور کشف یہ ساتھ بیٹھ کر باتیں کررہی تھی جب سومل بیگم نے ایک تصویر کشف کے سامنے کی۔

کیا ہے یہ۔کشف نے انجان بن کر سوال کیا

لڑکا ہے آمریکا میں جاب کرتا ہے ماں باپ میں کوئی ہے نہیں بہت اچھا لڑکا ہے تم ایک بار مل کر ڈن کرو تو ہم شادی کی بات کریں۔سومل بیگم نے سنجیدگی سے کہا

میرا یہاں رہنا آپ سب کو کٹ رہا ہے تو بتادے میں چلی جاؤں مگر خدا کے واسطے یہ ٹھرڈ کلاس کے رشتے میرے سامنے نہ کیا کریں۔کشف ہاتھ جوڑ کر بولی۔

ہر بات کو غلط رنگ مت دیا کرو کشف۔سومل بیگم نے ٹوک کر کہا

میں کجھ نہیں جانتی اب اگر آپ نے مجھ سے شادی کی بات کی تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاوٴں گی ڈھونڈتے رہیے گا پھر۔کشف تیز آواز میں کہتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئ

کیا ہوگا اِس لڑکی کا۔سومل بیگم سر پکڑ کر بولی۔

آپ پریشان نہ ہو ٹھیک ہوجائے گی خود ہی۔لیلا نے ان کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی کروائی۔

💕💕💕💕💕

ایم کے (موحد) آفس میں بیٹھا راکنگ چیئر پہ جھول رہا تھا جب اس کے کیبن کا دروازہ نوک ہوا۔

کم اِن۔ایم کے نے سنجیدگی سے کہا

سر ساگر مرزا آپ کا پرسنل نمبر چاہتے ہیں اُن کی آپ کے ساتھ میٹنگ بھی جو کینسل کردی تھی آپ نے۔آنے والا اُس کا اسسٹنٹ تھا جس نے ساری بات اُس کے گوش گُزار کی۔

ساگر مرزا سن آف واحب مرزا؟ایم کے (موحد) فورن اپنی جگہ سیدھا ہوکر بولا۔

یس سر وہ آپ سے کجھ بات کرنا چاہتے ہیں شاید ہماری کمپنی کے ساتھ پاٹنرشپ کرنا چاہتے ہیں۔اسسٹنٹ نے مزید بتایا

پارٹنرشپ؟ایم کے (موحد) حیران ہوا۔

جی لگتا کجھ ایسا ہی ہے ان کا بزنس آج کل گھاٹے میں ہے پہلے ورنہ ان کا بزنس سب سے اُپر ہوا کرتا تھا بہت سارے اوارڈز بھی مل چکے ہیں ان کو بیسٹ بزنس مین اور سال میں سب زیادہ کمانے والی کمپنی اُن کی ہی ہوا کرتی تھی پر شاید اب ان کے عروج کا زوال آیا ہے۔اسسٹنٹ نے بڑے افسوس سے بتایا۔

میرا نمبر دو ان کو اور کل اُن کے ساتھ میٹنگ فِکس کرو۔ایم کے (موحد) نے فورن سے کہا

جیسا آپ کہے سر۔اسسٹنٹ نے تابعداری سے کہا

ہممم۔ایم کے نے بس اتنا کہا۔

💕💕💕💕💕

تیار رہنا شام میں ڈنر پہ چلیں گے سب۔ساگر نے لنچ ٹائم سب سے کہا۔

کیوں کیا ہوا بہت خوش لگ رہے ہو؟سومل بیگم نے پوچھا باقی سب بھی اُس کو دیکھنے لگے کشف کا جب کی سارا دھیان کھانے پہ تھا۔

ہمارا ایم کے گروپ آف کمپنی سے رابطہ ہوگیا ہے میٹنگ ہوگی تو انشااللہ ڈیل فائنل ہوگی تو ہمارا بزنس میں ڈوبا ہوا نام پھر سے روشن ہوجائے گا۔ساگر خوشی سے بولا اُس کی بات پہ کشف کا نوالہ گلے میں اٹک سا گیا تھا

اللہ کریں ایسا ہو۔نور احمد صاحب نے کہا

میں بات کروں گا اُس سے نمبر ہے اُس کا میرے پاس اب تو کل اُس نے میٹنگ رکھی ہے تو میں کہوں گا وہ میٹنگ یہاں گھر پہ ہو۔ساگر نے مسکراکر بتایا۔

اچھا کیا اب آگے اللہ جانے۔واحب صاحب نے کہا کشف کا دل ہرچیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُمید ہے آپ کل ہمارے گھر ضرور آئے گے۔ساگر نے کال پہ ایم کے سے کہا

آپ اصرار کررہے ہیں تو ضرور۔ایم کے نے جواب دیا۔

اوکے تو کل آپ کا انتظار رہے گا۔ساگر شکر کا سانس ادا کرتا بولا۔

میں وقت پہ پہنچ جاوٴں گا اِس لیے آپ کو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ایم کے نے سنجیدگی سے کہا

اچھی بات ہے پھر۔ساگر سرہلاتا بولا

💕💕💕💕

کیا واقع ایم کے وہ ہے جس سے تمہیں محبت تھی۔حیا نے حیرت سے کشف سے کہا

ہممم ہمشکل تو نہیں ہوسکتا اُس کا میں نے گوگل پہ اُس کی معلومات حاصل کی تھی۔کشف بے تاثر لہجے میں بولی۔

یقین نہیں ہوتا ویسے لوگ سچ کہتے ہیں وقت ایک سا نہیں رہتا۔حیا کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔

میں کل تمہاری طرف آوٴں گی۔کشف نےفون دوسرے کان کے پاس رکھ کر کہا

تم اُس سے بھاگ کیوں رہی ہو؟حیا نے پوچھا

میں کیوں بھاگوں گی ویسے بھی مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔کشف نے مضبوط لہجے میں کہا

تم کہتی ہو تو مان لیتی ہوں ورنہ مجھے لگا شاید سالوں پُرانی محبت پھر سے جاگ اُٹھی ہے حیا کے شرارت سے کہا

بکواس نہیں کرو۔کشف اپنے دل کی آواز سن کر گھبراکر بولی۔

کشف اگر فرق نہیں پڑتا تو اُس کا سامنا کرو ویسے بھی اُس کی نظر میں تم شادی شدہ ہو کونسا وہ تمہیں چاہتا ہے ہوسکتا ہے اس نے شادی کرلی ہوگی ایک دو بچے بھی ہوگے۔حیا اُس کا صبر آزماتی بولی

دو بچے ہو یا دس مجھے کیا پرواہ میں اب اُس کو اِس لائق بھی نہیں سمجھتی کے اُس کا سامنا کروں۔کشف نخوت سے بولی۔

اچھی بات ہے۔ حیا نے گہری سانس لیکر کہا۔

💕💕💕💕

موحد تیار ہوتا باہر جانے کو نکل رہا تھا جب صائمہ اُس کے سامنے آئی۔

ماشااللہ بہت پیارے لگ رہے ہو۔صائمہ نے مسکراکر کہا

شکریہ۔موحد ہلکی مسکراہٹ سے بولا۔

مرزا خاندان کا لنک اُس لڑکی سے جوڑا ہے نہ۔صائمہ نے پوچھا

آپا پلیز۔موحد بے بس ہوتا بولا

میں بس ایسے پوچھ رہی ہو لڑکی شادی شدہ ہے اب تمہاری کم ہمتی کی وجہ سے تو اُس کے گھر والے کی مدد کیوں کررہے ہو؟صائمہ نے جاننا چاہا

ایسا کجھ نہیں یہ بزنس ہے یہاں پرسنل اور پروفیشنل باتوں کو الگ الگ رکھا جاتا ہے۔موحد نے سنجیدگی سے کہا

ٹھیک ہے ویسے لڑکی پیاری تھی تمہیں

آپا۔موحد ضبط کرتا بولا

اچھا اچھا میں نہیں کہتی کجھ اب جاؤ تم۔صائمہ ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر بولی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشف کو پتا تھا دس بجے موحد یہاں آجائے گا اِس وجہ سے وہ فورن سے اُس کے آنے سے پہلے جانا چاہتی تھی پر اُس کے جانے کا سن کر جہان بھی تیار ہوگیا تھا کے ساتھ چلے گا اِس لیے اُس کو لیٹ ہوگیا تھا

بھابھی جہان ریڈی ہے؟کشف نے عجلت سے کہا

ریڈی ہے پکڑو۔لیلا نے مسکراکر کہا کشف جہان کا ہاتھ پکڑتی باہر جانے لگی سیڑھیاں اُترتے وقت اُس کی نظر جب ساگر کے ساتھ آتے وجود پہ پڑی تو وقت جیسے تھم سا گیا تھا گرے کلر کے کورٹ وائٹ شرٹ کے ساتھ وائٹ پہنے بالوں میں جیل لگائے وہ بہت جاذب نظر آرہا تھا کشف کو وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور پرکشش لگا تھا دل بے ایمان ہوگیا تھا اُس کو دیکھ کر دوسری طرف موحد کی نظر پہ اُس پڑی تو کجھ حیران بھی ہوا تھا پر حیرانی کو بھلائے وہ کشف کو دیکھ رہا تھا جو گلابی کلر کے سادہ سے سوٹ میں تھی کندھوں کے اطراف وائٹ شال پہن رکھی تھی جب کی آنکھیں ویران سی تھی موحد کو جانے کیون وہ اُداس معلوم ہوئی تھی اتنے سالوں بعد وہ اُس کے سامنے تھی پر اُس کے ساتھ بچہ دیکھ کر موحد کو یاد آیا تھا وہ کسی اور کی ہے یہ بات پتا ہوکر بھی اُس کو تکلیف ہوئی تھی کشف چلتی ہوئی بلکل اُس کو نظرانداز کرتی گُزرگئ تھی جیسے پہچانتی ہی نہ ہو موحد کے قدموں کی رفتار دھیمی ہوگئ تھی دل سے اچانک آواز آئی تھی کیا اُس نے پہچانہ نہیں یا وہ اِن چھ سالوں میں بھول چُکی تھی اُس کا انداز تو اُس کو یہی سوچنے پہ مجبور کررہا تھا جو اُس کو بہت بُرا لگا تھا


بہت قریب سے آنجان بن کر گُزرا ہے

وہ جو دور سے۔۔۔۔۔پہچان لیا کرتا تھا۔۔۔!


کیا ہوا اندر چلو نہ۔ساگر نے اُس کو ایک جگہ کھڑا ہوا دیکھا تو کہا۔

کجھ نہیں بس ایسے ہی۔موحد مسکراکر بولا ساگر اُس کو لیکر ڈرائینگ روم میں آیا جہاں واحب صاحب پہلے سے موجود تھے واحب صاحب بہت گرم جوشی سے اُس کے ساتھ ملے

مجھے اندازہ نہیں تھا آپ اتنی کم عمری میں اِتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے میں سمجھا کوئی بڑی عمر کا مرد ہوگا۔واحب صاحب ہنس کر بولے

بس اللہ کا کرم ہے۔موحد نے بس اتنا کہا ملازم ریفریشمنٹ کا سامان بھی لیکر آگیا تھا۔

آپ کے اسسٹنٹ نے تو ساری بات بتائی ہوگی۔ساگر کے موحد سے کہا

جی مجھے ہر بات کا علم ہے۔موحد نے سرہلاتے ہوئے کہا۔

یہ فائل ہے اِس میں ہمارے نیو پراجیکٹ کی ساری انفارمیشن ہے۔ساگر نے فائل اُس کی طرف بڑھاکر کہا۔

موحد نے ساری فائل پہ نظر ڈالی تھی وہ ان کے کام سے ایمپریس ہوا تھا ویسے بھی وہ یہاں ڈیل فائنل کرنے آیا تھا چاہے پھر کام پسند نہ بھی آتا تو۔

آپ۔

موحد نے جیسے بولنا شروع کیا اُس کا فون رنگ کرنے لگا

ایکسکیوز پلیز۔موحد نے ایک نظر اسکرین پہ جگمگاتے نمبر پہ ڈال کر کہا۔

شیور۔ساگر نے کہا

ہیلو۔موحد تھوڑا فاصلے پہ آتا کال ریسیو کیے بولا۔

سر آپ نے جو معلومات حاصل کرنے کا کہا تھا وہ پتا لگ گیا آئے ڈی حیا حمزہ نام لڑکی کی تھی لیکن جو اُس نے ناول پوسٹ کیا تھا کیا تو اُس کے خود کا لِکھا ہوا نہیں تھا اُس کا رائٹر کے ایم تھا مطلب کشف مرزا۔موحد کی دھڑکن تیز ہوئی تھی کہانی پڑھ کر اُس کو شک تو ہوگیا تھا پر اب جیسے اُس کے شک پہ مہر لگ گئ تھی۔

ٹھیک ہے۔موحد بہت دیر بعد بس یہی بول پایا

سر آپ نے یہ بھی کہا تھا جب اُس رائٹر کا پتا لگ جائے تو اُس کا ڈیٹا بھی معلوم کرنا جو میں نے کیا کشف مرزا کی شادی آج سے چھ سال قبل ہوئی تھی پر سات ماہ بعد اُس کے شوہر نے طلاق دے ڈالی تھی اُس کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر میں رہتی تھی ایک دو جگہ جابز بھی کرچکی ہیں پر پھر ریزائن دے دیتی ہے۔لڑکا جانے کیا کجھ موحد سے کہہ رہا تھا جب کی موحد کا سر طلاق لفظ پہ بُری طرح چکرایا گیا تھا اُس کا وجود زِلزلوں کی زد میں آگیا تھا۔

پکی انفارمیشن ہے؟موحد بے یقین سا تھا۔

ہینڈرڈ پرسنٹ۔دوسری طرف سے پرجوش آواز اُبھری موحد ساکت سا موبائل کو ہاتھ میں پکڑتا واپس جگہ پہ پہنچا۔

کیا ہوا از ایوری تھنگ اوکے؟ساگر نے پوچھا

یس مجھے کجھ سوچنے کا وقت چاہیے تھا ایسے ایک دم سے میں ڈیل فائنل نہیں کرسکتا میں کجھ دنوں تک آپ کو جواب دوگا پھر ہم کنٹریکٹ سائن کرے گے۔موحد نہیں جانتا تھا یہ بات اُس نے کیوں کی جب کی وہ سب طے کر آیا تھا پر اب اُس کے اِرادے بدل گئے تھے۔

سوچنا کیسا سب کجھ آپ کے سامنے ہے۔واحب صاحب نے کہا

میں اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی نہیں لیں سکتا میں ایسے ہی آپ کو ففٹی پرسنٹ کا مالک نہیں بناسکتا نہ۔موحد نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا

اِس میں بس ہمارا نہیں آپ کا بھی فائدہ ہوگا۔ساگر کو اُس کی بات بُری لگی۔

ہوسکتا ہے میں کجھ دن سوچوں گا پھر آپ کو جواب دوں گا۔موحد اپنی بات پہ قائم رہا تو مجبورن واحب صاحب اور ساگر کو اُس کی بات ماننی پڑی جس سے موحد کی آنکھوں میں چمک اُبھری۔

💕💕💕💕💕

لاحاصل ہی سہی پر محبت تجھ سے ہی ہے

توں ملے یا نہ ملے فقط چاہت تیری ہی ہے


کیا سوچ رہی ہو؟حیا نے خاموش بیٹھی کشف سے پوچھا۔

یہی کے زندگی میں ایسا کیوں ہوتا ہے جس انسان کا سامنا نہیں کرنا چاہتے جس کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے جن سے ہم ملنا نہیں چاہتے تو وہ لوگ اچانک سے کیوں آجاتے ہیں ہماری زندگی میں؟کشف نے اپنی اُلجھن بتائی۔

یہ زندگی یہ دنیا ایسی ہی ہے یہاں جس سے جتنا بھاگو گے تقدید تمہیں اُس کے روبرو آکر کھڑا کریں گی اِس لیے کسی سے بھاگنا چھوڑ دینا چاہیے۔حیا نے اُس کے برعکس سکون سے جواب دیا۔

اور جس کو پانا چاہتے ہیں اُس کو اُتنا ہی ہماری دسترس سے دور کیا جاتا ہے۔کشف اُداس مسکراہٹ سے بولی

اُداس رہنا چھوڑ دو کشف جو ہونا تھا وہ ہوگیا کب تک اُس بات کا سوگ مناتی رہو گی۔حیا نے رسانیت سے کہا

میں کسی بات کا سوگ نہیں منارہی بس اب پہلے والی بات بھی نہیں میری زندگی میں۔کشف تلخ لہجے میں بولی۔

کیوں نہیں ہے بلکل ہے ہم ہے تمہارے ساتھ تم خود کے لیے ہمارا سوچو ہمارے لیے خود کو پہلے کی طرح کرلوں تاکہ ہم تمہاری فکر سے دور ہوجائے۔حیا نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔

تم لوگوں کا سوچو مطلب شادی کرلوں۔کشف طنزیہ بولی

میں نے ایسا تو نہیں کہا۔حیا بُرا مان کر بولی

مطلب تو وہی تھا نہ۔کشف دوبدو ہوکر بولی

ہر بات کا غلط مطلب مت نکالوں کرو ضروری نہیں جو تم سمجھ رہی ہو حقیقت بھی ویسی ہو۔حیا نے سنجیدگی سے کہا

میں یہاں کجھ پل سکون کے لیے آئی تھی پر شاید میرا سکون اب کہی نہیں۔کشف اُٹھ کر بولی۔

کیا ہوگیا ہے کشف ناراض کیوں ہورہی ہو میں نے جسٹ بات کی تم سے۔حیا اُس کو اٹھتا دیکھ کر پریشان ہوکر بولی۔

میں ناراض نہیں بس مجھے فلحال اکیلے رہنا ہے اِس لیے میں جارہی ہوں۔کشف نے جواب دیا

میرا کیا اب تم پہ حق نہیں تم سے میں بات بھی نہیں کرسکتی۔حیا شکوہ کرتی بولی۔

ایسا نہیں ہے بس میرا دل نہیں لگ رہا یہاں۔کشف اُس کے گلے لگ کر بول کر چلی گئ حیا نے دُکھ سے اُس کو جاتا دیکھا۔

💕💕💕💕

موحد واپس اپنے گھر آیا تو کشف کے بارے میں سوچنے لگا اُس کو وہ بہت خاموش اُداس سنجیدہ لگی تھی پہلے والی چمک اُس میں تھی ہی نہیں اور یہ بات اُس کو پریشان کیے جارہی تھی کہی نہ کہی وہ اِن سب باتوں کا ذمیدار خود کو سمجھ رہا تھا کشف کا اُس کو نظرانداز کرنا یہ بات یاد آتے ہی اُس کو اپنے دل میں تکلیف اُٹھتی محسوس ہوئی وہ کہاں عادی تھا کشف کے اِس انداز سے مگر پانچ سالوں میں بہت کجھ بدل گیا تھا جس کو موحد اب ٹھیک کرنا چاہتا تھا اب ایسی کوئی مجبوری کوئی دیوار نہیں تھی جو اُن کے بیچ آتی ایسا موحد کا ماننا تھا۔


تم تھک نہیں جاتے میری محبت نظرانداز کرتے کرتے اپنا سرد ترین رویہ رکھتے رکھتے۔


ایک دن ایسا آئے گا جب تم میری ان فضول باتیں سننے کے لیے بے قرار اور بے چین رہوگے میری ایک جھلک دیکھنے کو ترسو گے۔


کشف کی کہی پُرانی باتیں دماغ میں گونجی تو چہرے پہ اُداس مسکراہٹ نے بسیرا کیا۔

میٹنگ اچھی نہیں ہوئی کیا؟صائمہ موحد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

اچھی تھی پر ابھی کجھ فائنل نہیں ہوا۔موحد نے جواب دیا۔

کیوں؟صائمہ نے جاننا چاہا

بس میں چاہتا ہوں اتنا بڑا ڈسیشن ایسے نہ لوں ویسے بھی میرے سارے بزنس میں کسی اور کا حصہ بھی ہے۔موحد نے سنجیدگی سے کہا

جیسا تمہیں ٹھیک لگے۔صائمہ اُس کی بات سمجھ کر بولی۔

آپا اگر میں کوئی فیصلہ کروں تو آپ میرا ساتھ دے گی؟موحد نے اپنے اندر بے چین کرتا سوال کیا۔

افکورس دوں گی۔صائمہ نے مسکراکر کہا۔

شکریہ۔موحد تشکر سے بولا۔

کیا بات ہے مجھ سے شیئر کرو۔صائمہ نے اُس کے چہرے پہ اُلجھن دیکھی تو کہا۔

آج مجھے پتا چلا اُس کی طلاق ہوچکی ہے۔موحد آسمان کی طرف دیکھ کر بولا

کشف کی؟صائمہ حیران ہوئی

جی۔موحد بس اتنا بول پایا

خوشی ہورہی ہے یا افسوس۔صائمہ نے عجیب سے سوال کیا

ظاہر ہے افسوس خوشی کیوں ہوگی۔موحد نے فورن سے کہا

افسوس تو مجھے بھی ہوا تم سے خوشی کا اِس لیے کہا کہ شاید خوشی محسوس کررہے ہوگے کے اللہ نے سالوں پُرانی محبت سے ملوایا تمہیں اُس قابل بھی بنایا کے اب تمہیں اپنے قدم بڑھاتے وقت یہ خیال نہیں آئے گا کے تم اُس کے لیے ٹھیک نہیں تم اُس کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے اور نہ یہ سوچو گے کہ تمہارا ساتھ پاکر وہ بس ہرچیز کے لیے ترس جائے گی۔صائمہ نے آرام سے کہا

میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں آپ سے۔موحد ان کی بات پہ گہری سانس لیکر بولا۔

کہو۔صائمہ نے اجازت دی۔

میں کشف سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔موحد نے کہا

یہ فیصلہ کرتے وقت دیر نہیں کردی تم نے۔صائمہ نے افسوس سے کہا

پتا نہیں پر میں مزید دیر نہیں کرنا چاہتا۔موحد نے جواب دیا

میں ساتھ ہوں تمہارے پر مجھے نہیں لگتا وہ لڑکی اب تمہارا ساتھ چاہے گی دوسرا اُس کے گھروالوں کا بھی تو مسئلا ہوگا۔صائمہ نے کہا

میں سب ہینڈل کرلوں گا آپ بس میرے حق میں دعا کریں۔موحد نے کہا

وہ تو میں ہمیشہ کرتی ہوں۔صائمہ نے مسکراکر کہا

💕💕💕💕💕

صبح کشف ناشتے کی ٹیبل پہ آئی تو سب کو خاموشی سے ناشتہ کرتا دیکھا کل وہ لیٹ گھر آئی تھی اور آکر اپنے کمرے میں چلی گئ تھی اِس لیے کل میٹنگ میں کیا ہوا اُس بات سے ابھی وہ ناواقف تھی کشف نے سب پہ ایک نظر ڈالی پھر سرجھٹک کر اپنا ناشتہ کرنے لگی۔

سب خاموش کیوں ہیں آج؟ناشتے کے بعد کشف سے رہا نہیں گیا تو لیلا سے پوچھ لیا۔

ایم کے نے کنٹریکٹ کرنے کے لیے سوچنے کا وقت مانگا ہے ساگر کا ماننا ہے کے شاید ایم کے انکار نہ کردیں اِس کا ڈیل کا ہونا بے حد ضروری ہے اِس لیے سب پریشان ہے۔لیلا نے ساری بات اُس کو بتائی

اور بھی تو ہے ڈیڈ اور بھائی بس ایم کے کی مدد کیوں چاہتے ہیں۔کشف نے کہا

کیوں کے جو فائدہ ایم کے سے کام کرنے پہ ہمیں ہوگا وہ دوسری کمپنیز کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے سے نہیں ہوگا۔لیلا نے جواب دیا۔

اچھا تو ڈیڈ اور بھائی اپنا فائدہ دیکھ رہے ہیں۔کشف عجیب لہجے میں بولی

ایسا ہی سمجھو۔لیلا نے سرہلاتے کہا۔

جتنا ایم کے کا نام ہے پھر مجھے نہیں لگتا وہ ہمارا ساتھ دے گا۔کشف نے اپنا خدشہ بیان کیا

ایسا تو نہیں بولوں اچھا بولو اور سوچو تاکہ سب اچھا ہو۔لیلا نے اُس کی بات سن کر ٹوکتے ہوئے کہا جس پہ کشف طنزیہ مسکرائی۔

💕💕💕💕

حمزہ آج کل آفس سے لیٹ کیوں آتے ہو؟حیا حمزہ کا کوٹ ہینگ کرتی بولی۔

کام زیادہ ہے بہت بڑا کنٹریکٹ ملا ہے اِس وجہ سے لیٹ ہوجاتا ہوں۔حمزہ نے مسکراکر جواب دیا۔

تو تم تو بوس ہو اسٹاف سے کہا کرو نہ۔حیا نے منہ بسور کر کہا

اسٹاف کے ساتھ ساتھ میرے حصے میں بھی تو کام آتا ہے اور بوس ہونے کا یہ مطلب تو نہیں میں سارا کام ان کے حوالے کرکے خود آرام سے بیٹھ جاوٴ۔حمزہ اُس کی بات پہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

اچھا پر کوشش کیا کرو جلدی آنے کی حنزہ بھی بہت بار پوچھتا ہے تمہارا۔حیا نے کہا

اوکے میری جان۔حمزہ مسکراکر اُس ماتھا چوم کر بولا

فریش ہوجاو تب تک میں کھانا لگواتی ہوں۔حیا نے کہا

ٹھیک ہے اور امی کہاں ہیں؟حمزہ نے واشروم کی طرف جاکر سوال کیا۔

وہ تو چچا جان کے ساتھ کیسی بزنس پارٹی میں گئ ہیں۔حیا نے بتایا تو حمزہ سر کو جنبش دیتا واشروم چلاگیا حیا بھی نیچے کھانے کا کہنے جانے لگی۔

💕💕💕💕💕

اپنا خیال نہیں رکھتی اِس لیے ڈاکٹر نے کہا آپ کمزور ہیں۔آج ماہر منہا کو منتھلی چیک اپ کے لیے لیں گیا تھا جہاں ڈاکٹر نے منہا کو اپنا زیادہ خیال رکھنے کا کہا تھا تب سے ماہر منہا سے ناراض ناراض سا تھا کے وہ اُس کی غیرمودگی میں اپنا خیال نہیں کرتی اور منہا سر جھکا کر کسی مجرم کی طرح گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی۔

اِتنا خیال تو کرتی ہوں اپنا۔منہا نے منہ بسور کر کہا جس پہ ماہر نے ایک گھوری سے نوازہ۔

اگر رکھتی تو مجھے کہنا نہ پڑتا۔ ماہر نے کہا

آپ ناراض تو نہ ہو اب میں کونسا لاپروائی کرتی ہوں آپ اِتنا خیال کرتے ہیں تو مجھے کیا ضرورت ہے۔ منہا نے اُس کے ہاتھ پہ اپنا نازک ہاتھ رکھ کر کہا

جو بھی پر آپ خود سے لاپرواہ نہیں ہوگی دوبارہ آپ کے ساتھ ایک اور ننہا وجود ہے جس کا خیال آپ کو رکھنا ہے۔ ماہر نے نرمی سے کہا

میں دوبارہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوگی۔ منہا نے معصومیت سے کہا تو ماہر مسکرایا۔

💕💕💕💕💕💕

ایم کے (موحد) آفس میں تھا جب انٹرکام پہ اُس کو خبر ملی کے واحب صاحب اور ساگر اُس سے ملنے آئے ہیں یہ جان کر موحد کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئ۔

اُن کو میرے کیبن میں بھیجو۔ ایم کے (موحد)نے کہا۔

اسلام علیکم! موحد اپنی جگہ اُٹھ کر مصافحہ کرتا بولا

وعلیکم اسلام!دونوں نے سلام کا جواب دیا۔

ہم کنٹریکٹ کے مطلق آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔ ساگر نے کہا

جی میں بھی آپ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ ایم کے (موحد)نے کہا

تو آپ نے کیا سوچا؟ واحب صاحب نے سنجیدگی سے دریافت کرنا چاہا۔

آپ کا بہت نام بھی تھا آپ جو ہماری کمپنی سے ڈیل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ہمیں پسند ہیں لیکن۔ایم کے (موحد) اتنا کہتا خاموش ہوگیا

لیکن کیا؟ ساگر نے سوال کیا

لیکن میری ایک شرط ہے۔موحد نے کہا

شرط کونسی شرط بزنس شرطوں پہ تو نہیں ہوتے۔ واحب صاحب کو اُس کی بات پسند نہیں آئی۔

میری طرف سے آپ اِس کو ایک ڈیل سمجھ لیں اگر آپ نے میری بات مان لی تو میں آپ کی کمپنی کے شیئرز جو آپ نے بیچ دیئے تھے وہ واپس مل سکتے ہیں آپ کا نام دوبارہ اپنا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ موحد نے کندھے اُچکاکر کہا

صاف صاف سے بتائے۔ساگر نے کہا

میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ میرا پرپوزل ایکسیپٹ کرلیں گے تو میں آپ کا پرپوزل ایکسیپ کروں گا۔ موحد واحب صاحب کی طرف دیکھ کر بولا

کیا بکواس ہے یہ۔ واحب صاحب غصے سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

ہم یہاں آپ سے ڈیل کرنے آئے ہیں اور آپ ہماری عزت پہ بُری نظر ڈال بیٹھے ہیں۔ ساگر بھی غصے سے بولا

کول ڈاوٴن نہ تو میں بکواس کررہا ہوں اور نہ میری آپ کے گھر کی عزت پہ بُری نظر ہے میں تو بس عزت سے آپ کے گھر کی عزت کو اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔ اُن کے برعکس موحد سکون سے بولا۔

ہم لعنت بھیجتے ہیں چلو ساگر۔ واحب صاحب موحد سے کہتے آخر میں ساگر سے مخاطب ہوئے۔

سوچ لیں یہ آفر بہت اچھی ہے آپ کی بیٹی کو بہت خوش رکھوں گا۔ موحد نے ایک بار پھر کہا

ساگر غصہ سے اُس کی طرف بڑھنے لگا پر واحب صاحب نے اُس کا بازوں پکڑلیا ساگر ایک تیکھی نظر اُس پہ ڈالتا وہاں سے چلاگیا ان کے جاتے ہی موحد کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔

💕💕💕💕

تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کے گھروالوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا پھر رشتے کی بات کرتے ایسے تو تم نے سارا معاملہ بگاڑ دیا ابھی تو کشف کو بھی ماننا تھا تمہیں۔ صائمہ کو موحد نے بتایا تو اُس نے افسوس سے کہا

آپا مجھے جو سہی لگا میں نے وہ کیا۔ موحد نے جواب دیا۔

تم یہ بات پانچ چھ سال پہلے کرتے تو اچھا تھا۔ صائمہ نے کہا

تب اُن کا ری ایکشن اِس سے زیادہ بُرا ہوتا اُن کا لگتا میں پئسو کی وجہ سے ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ موحد تلخ انداز میں بولا

وہ جو بھی سوچتے پر تمہیں کوشش کرنی چاہیے تھی اپنی محبت کو کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا عاشق تو اپنے محبوب پہ کسی کا سایہ برداشت نہیں کرتا پر تم نے کیا کیا۔ صائمہ نے تاسف سے کہا

مجھ پہ طنزیہ کرنا آسان ہے میں اُس کو حاصل کر بھی لیتا نہ تو آج جو جتنی تکلیف میں ہوں تب اور زیادہ ہوتا جب وہ تنگی زندگی گُزارنے سے تنگ آکر مجھے چھوڑ کر چلی جاتی میں کبھی برداشت نہیں کرپاتا محبت نہ پانے میں اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پاکر کھونے میں ہوتی ہے۔ موحد اُس کی بات پہ بولا۔

عورت بڑا گھر پئسا نہیں چاہتی وہ ایک مخلص شوہر کا ساتھ عزت دینے والا شوہر مان دینے والے شوہر کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے اگر ایک عورت کو اپنے شوہر سے یہ سب ملتا ہے نہ تو پھر چاہے اُس کا شوہر کسی جھونپڑی میں ہی کیوں نہ رہے عورت بنا اُف کیے خوشی خوشی اس کے ساتھ رہتی ہے۔صائمہ نے سنجیدگی سے کہا

کتابی باتیں ہیں۔ موحد بے یقین سا تھا۔

تمہیں ایسا لگتا ہوگا ورنہ امی کی مثال تمہارے سامنے تھی بُرے حالت میں بھی انہوں نے ابا کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا چار بچوں کی ذمیداریاں الگ سے تھی کبھی کبھی ان کو فاقہ کرنا پڑتا تھا پر کبھی ابا سے شکوہ شکایت نہیں کی مذاق میں بھی یہ نہیں کہا ان سے کے وہ خوش نہیں ہر حالات میں ہر وقت ان کے چہرے پہ سکون ہوتا تھا۔ صائمہ کہہ کر چلی گئ موحد کو اپنی بات پہ شرمندگی ہونے لگی۔

💕💕💕💕💕💕

کشف کو لیلا نے بتادیا تھا موحد کی شرط کے بارے میں جس کو سن کر وہ شاک میں چلی گئ تھی اُس کو نہیں تھا پتا موحد ایسا بھی کرسکتا تھا پر یہ بات جان کر وہ اپنے اندر کوئی احساس محسوس نہیں کرپائی بس ایک خالی پن سا تھا جو اُس کو محسوس ہورہا تھا۔

چچا جان نہیں مانے گے پریشان نہیں ہو۔ حیا نے کشف کو تسلی کروائی۔

کیا میں اتنی بے مول ہوئی جو جب چاہے جو چاہے جیسے چاہے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کشف نے سپاٹ انداز میں کہا

ایسا کیوں بول رہی ہو کشف خود تم نے ہی تو بتایا تھا اسٹیٹس کی وجہ سے وہ تمہاری طرف قدم نہیں بڑھاتا تھا اگر وہ وجہ ختم ہوئی ہے تو اُس نے کوشش کی پر تم نہیں چاہتی تو ایسا نہیں ہوگا کونسا چچا جان اُس کو ہاں کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ حیا نے سنجیدگی سے کہا

بات اُن کی نہیں بات موحد عرف ایم کے کی ہے جس نے پہلے مجھے ٹھکرایا میری محبت کی توہین کی اور اب مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اِسے میں اب کیا سمجھو۔ کشف نے اُس کو دیکھ کر کہا

تم کجھ بھی نہیں سمجھو۔ حیا نے گہری سانس بھر کر کہا

محبت انسان کو بے بس کیوں کرتی ہے کیوں ہم محبت سے پیچھا نہیں چھڑوا سکتے کیوں ہمارا نرم دل کسی پتھر دل رکھنے والے انسان کے ساتھ لگتا ہے کیوں ہم چاہتے ہیں جن سے ہمیں محبت ہے وہ بھی کرے۔ کشف نے ایک ساتھ سوال کیے۔

محبت کو سمجھنا اتنا آسان ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔ حیا نے مسکراکر کہا پر کشف مسکرا بھی نہ پائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیڈ ہمیں ایم کے کی آفر کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ساگر نے کجھ جھجھک کر کہا وہ اِس وقت اسٹڈی روم میں تھے۔

دماغ ٹھیک ہے تمہارا ایک ڈیل کے لیے میں اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کروادوں۔ واحب صاحب نے گھور کر کہا

آپ میری بات سمجھنے کی کوشش تو کریں آپ اور امی بھی تو اُس کی شادی کروانا چاہتے ہیں تو ایم کے کیوں نہیں۔ ساگر نے ایک اور کوشش کی۔

ساگر میں اُس کا رشتہ کسی کنٹریکٹ کے تحت نہیں کرے گے اب دوبارہ یہ بات مت کرنا۔ واحب صاحب نے جیسے بات ختم کی۔

💕💕💕💕💕

کشف آج کجھ چیزیں لینے کے لیے گاڑی لیکر نکلی تھی جب گاڑی آدھے راستے پہ رک گئ تھی

کشف نے دیکھا تو گہری سانس لیکر رہ گئ اُس نے آس پاس دیکھا ایک جگہ کافی سنسان تھی

کشف کو گھبراہٹ ہونے لگی۔

یااللہ اب میں کیا کروں۔ کشف پریشانی سے بڑبڑائی۔

وہ کھڑی ابھی سوچ ہی رہی تھی کے دور سے بائیک آتی نظر آئی جس میں دو لڑکے موجود تھے وہ بائیک سیدھا آتی عین اُس سامنے رکی کشف مدد کا کہنے والی تھی مگر اُن کی نظریں اپنے وجود پہ محسوس کی تو چادر کا کونا مضبوطی سے تھام لیا۔

ہم چھوڑ آتے ہیں بیٹھ جائے۔ایک لڑکا سرتاپا اُس کو دیکھ کر بولا

اپنا راستہ ناپو مجھے ضرورت نہیں۔کشف تڑخ کے بولی

اووو آپ تو غصہ ہوگئ۔ دوسرا خباثت سے ہنستا بولا۔

جاؤ نہیں تو میں شور مچاؤں گی۔کشف نے دھمکی دی۔

ہاہاہاہاہا۔میڈم یہاں کون ہے جو آپ کی آواز سن کر آئے گا۔لڑکا اُس کی بات پہ زور سے ہنستا بولا

کشف ان کو دیکھنے کے بعد بھاگنے کا سوچ کر فورن سے ڈور لگائی۔

ارے فالو کرو اِس کو بچنی نہیں چاہیے۔ لڑکے نے کہا تو دوسرے نے فورن سے بائیک اسٹارٹ کرکے کشف کے پیچھے لگائی۔

کشف ان کو اپنے قریب دیکھ کر گھبراگئ تھی بھاگ بھاگ کر اُس کا سانس پُھول گیا تھا پہلے لڑکے نے اُس کی چادر کو کھینچا تو کشف کا پاؤں چادر میں اٹکا جس سے وہ نیچے گِر پڑی۔

آآآ۔

کشف کی چیخ نکل گئ جب کی وہ دونوں اب قہقہقہ لگاکر رہے تھے۔

ماننا پڑے گا ہو تو بڑی جیدار۔ لڑکا اس کے گال پہ ہاتھ رکھتا بولا مگر کشف نے نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔

تیری تو۔لڑکے نے اس کے بال مٹھیوں میں جکڑے

کمینے انسان چھوڑو مجھے۔ کشف درد ضبط کرتی بولی۔ جب کی دوسرا لڑکا اُس کی چادر اُتار کر دور پھینک چُکا تھا کشف کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سماجائے۔

لڑکی سے دور رہو۔ اپنے پیچھے آتی بھاری آواز سن کر دونوں نے مڑکر دیکھا کشف نے سامنے دیکھا تو اُس کے لب پھڑپھڑائے

موحد۔

کیوں تیرے چاچے کی بیٹی لگتی ہے۔ لڑکے نے بازوں چڑھاکر کہا موحد جو سرخ آنکھوں سے کشف کو دیکھ رہا تھا اُس کی بات پہ تیکھی نظر اُن پہ ڈالی موحد چلتا اُن کے مقابل ہوا اور اپنی ہتیھلی کشف کے سامنے کی جس پہ کشف نے فورن سے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

ابے دور ہٹ۔ لڑکے نے اُس کو دھکا دیا جس پہ موحد نے زوردار مکہ اُس کے منہ پہ مارا لڑکے کو اپنا جبڑا ٹوٹتا محسوس ہوا۔

تیری تو۔ دوسرے لڑکے نے اپنے ساتھی کو مار کھاتا دیکھا تو آگے آیا موحد نے اپنی ٹانگ اُس کی ٹانگ میں اُلجھا کر نیچے گِرادیا کشف حیرت سے موحد کے پیچھے کھڑی سارا منظر ملاحظہ فرمارہی تھی۔

بس یا اور ڈور چاہیے۔ موحد دونوں کی ٹانگوں پہ حملا کرتا بولا جس پہ وہ کراہ کر سامنے ہاتھ جوڑ لیے۔موحد ان کو چھوڑتا دور جاکر کشف کی چادر ہاتھ میں لی اور کشف کے گرد لپیٹی۔

چلو میں چھوڑ دیتا ہوں۔ موحد نے کہا

میں خود چلی جاؤں گی۔کشف بے رخی سے بولی

کشف ضد نہیں کرو۔موحد گہری سانس بھرتا بولا

تم ہوتے کون ہو جس کے ساتھ میں چل پڑو۔ کشف نے طنزیہ کیا

تمہارا محافظ۔موحد اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

میرے محافظ میرا باپ اور بھائی ہے۔ کشف نے نظریں پھیر کر کہا۔

میں بھی بن سکتا ہوں اگر تم چاہوں تو۔ موحد نے کہا

میں کیوں چاہوں گی ایسا۔ کشف اُس کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتی بولی۔

کیوں کی میں چاہتا ہوں ایسا۔ موحد فورن سے بولا۔

جاؤ یہاں سے۔کشف نے کہا

تم بھی چلو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔موحد حکیمہ لہجہ اپناکر بولا

مسٹر ایم کے آپ نے میری جتنی مدد کی اُس کا بہت شکریہ مزید میں آپ کا احسان نہیں لینا چاہتی۔کشف اُس کو دیکھ کر اجنبی پن کا مظاہرہ کرتی بولی۔

احسان نہیں محبت ہے میری۔موحد اُس کے چہرے پہ پھونک مارتا بولا

کاش تم یہ میری محبت میں کرتے۔

کشف کو سالوں پُرانہ اپنا جُملا یاد آیا۔

محبت کا مطلب معلوم بھی ہے۔کشف نے طنزیہ کیا۔

پہلے نہیں تھا جانتا پر تمہارے آنے کے بعد جان گیا ہوں۔

م میری

ح حیات

ب بن جانا

ت تاحیات۔

موحد اُس کی آنکھوں میں یک ٹک دیکھتا محبت بھرے لہجے میں بولا اُس کا محبت بھرا انداز کشف کو فریب لگ رہا تھا کتنی تمنا تھی اُس کو ایک لفظ محبت کا موحد سے سننے کی اور آج اتنے سالوں بعد اُس کی مُراد پوری ہوگئ تھی تو اُس کو تمنا نہیں رہی تھی اور نہ خوشی محسوس ہورہی تھی۔

میرا تم سے کوئی تعلق نہیں محبت کا تو بلکل بھی نہیں کیونکہ محبت کا اصل مطلب میں سہی سے جان گئ ہوں۔

م موت

ح حسرت

ب بربادی

ت توڑ ڈالنا۔

کشف موحد کی بات رد کرتی بولی


تعلق دل آپکی باتوں سے جڑا ہے یہ

آپ خاموش ہوجاؤ تو ٹہیر

جاتی ہے دل کی دھڑکن

موحد کشف کی بات کا بُرا مانے بنا گہری مسکراہٹ سے بولا۔

دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔ کشف بے زار ہوتی بولی۔

دل بھی بے ایمان ہوگیا ہے میرا سچی۔ موحد معصومیت سے بولا

گھر چھوڑ آؤ مجھے تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔کشف تلملا کر کہتی اُس کی گاڑی کی جانب بڑھی موحد بھی مسکراتا بالوں میں ہاتھ پھیر کر اُس کے پیچھے چلنے لگا گاڑی میں بیٹھ کر اُس نے کشف کو دیکھا جو اپنا چہرہ کھڑکی کے پاس کیے پوری طرح اُس کو نظرانداز کرنے کی کوششوں میں تھی موحد کے اندر اُس کو چھیڑنا کا خیال آیا تو اُس نے میوزک آن کردیا۔


Itni Mohabbat karo na

Mai dhoob na jao kahee!!!

Wapas kinnaray p aana

Mai bhool na jao kahee

Dekha jab say hai chahra

Tera mai to hafto say soya nh


Bol do na zara dil mai

Jo hai rah chuppa mai

Kesi say kahu ga nhhhh!!

Mai kesi say kahu ga nh

Mai kesi say kahu ga nahi!!


کشف جو موحد کو نظرانداز کرنے کا سوچتی باہر کا نظارہ دیکھنے میں مصروف ظاہر کرنے کی کوشش کرنا چاہ رہی تھی گاڑی میں بجتے میوزک نے اُس کا دماغ گھمادیا تھا وہ سمجھ گئ تھی موحد یہ جان بوجھ کر کررہا ہے تاکہ وہ اُس سے بحث کرے اِس لیے وہ بھی ڈھیٹ بنتی بیٹھی رہی۔


Hummay neend aati nh hai akelay

Khowabo mai aaaya karo

Nh chal sakho ga tumharay

Bina mai mera tum Sahara bano

Ik tumhay chahnay k alawa

Aur kuch hum say hota nh


Bol do na zara dil mai

Jo hai rah chuppa mai

Kesi say kahu ga nhhhh!!

Mai kesi say kahu ga nh

Mai kesi say kahu ga nahi!!


موحد نے گانے کی آواز مزید تیز کی اور ایک چور نگاہ کشف پہ ڈالی جو خود کو بے نیاز ظاہر کررہی تھی موحد کو کشف کی خاموشی بُری اور اُس کے ساتھ سفر کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا جبھی اُس نے گاڑی کی اسپیڈ سِلو کرلی تھی تاکہ سفر لمبا ہو۔


Hammari kami tum ko

Mahsos hogi

Bhega deingi jab barishin

Mai bhar kar k laya ho

Aankho mai apni adhuri

Si kuch khowaishain

Rooh say chahnay walay

Aashiq baat jismo ki

Kartay nhhhh!!


Bol do na zara dil mai

Jo hai rah chuppa mai

Kesi say kahu ga nhhhh!!

Mai kesi say kahu ga nh

Mai kesi say kahu ga nahi!!


اِس سے زیادہ گھٹیا گانا نہیں ملا چلانے کے لیے۔ گانے کے ختم ہوتے ہی کشف پھٹ پڑی جس پہ موحد نے مسکراہٹ دبائی۔

کیوں اچھا نہیں لگا میرا تو فیورٹ ہے میں سمجھا تمہیں بھی پسند آئے گا۔ موحد نے چہرہ اُس کی طرف کیے کہا

شرم آنی چاہیے تھی کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر ایسے گانے سننے پہ۔کشف نے اُس کو شرم دلانی چاہی۔

کسی لڑکی کے ساتھ ہوتا تو شاید شرم آجاتی پر میں تو اپنے مستقبل کی شریکِ حیات کے ساتھ ہوں تو کسی شرم کسی حیا۔ موحد آنکھ ونک کرتا بولا

دماغ سٹیاگیا ہے تمہارا اِس لیے بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔ کشف اُس کی بات پہ اپنے دل کی آواز کو سُلاتی جھلا کر بولی۔

دل دماغ نے تمہیں پانے کی تمنا کی ہے اِس لیے ایسی باتیں کررہا ہوں۔ موحد نے آرام سے کہا

یہ تمہاری گاڑی ہے یا گدھا گاڑی جو اتنی آہستہ چل رہی ہے۔ کشف کو اب فیل ہوا کے گاڑی آہستہ چل رہی ہے تو کہا

گاڑی ہے موحد نے آرام سے کہا

تو اسپیڈ تیز کرو نہ۔ کشف نے تپ کے کہا

تیز کیوں۔موحد نے سوال کیا

دیکھو موحد اگر تم نے میری بات نا مانی نہ تو میں چلتی گاڑی سے کود جاوٴں گی۔ کشف نے دھمکی دیتے کہا

پلیز ایسا نہ کرنا اگر تمہیں کجھ ہوا تو میں شادی کس سے کروں گا۔ موحد اُس کی دھمکی پہ محفوظ ہوتا بولا۔

موحدددد۔ کشف نے دانت پیس کر اُس کا نام لیا۔

اوکے اوکے کرتا ہوں تیز غصہ نہیں کرو۔ موحد نے مسکراکر کہا۔ کشف نے غور سے اُس کی مسکراہٹ دیکھی تھی اُس نے کبھی موحد کی مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی اب اُس کو لگ رہا تھا شاید ہی کس کی مسکراہٹ اتنی خوبصورت ہوگی جتنی سامنے بیٹھے شخص کی تھی۔

💕💕💕💕💕

کشف گھر آکر ناچاہتے ہوئے بھی موحد کا انوکھا روپ جو دیکھا اُس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

یااللہ آپ نے ایک بار اُس کو میرے سامنے کھڑا کیا آپ کو تو پتا ہے نہ اُس کو دیکھ کر میرا دل بغاوت کرنے پہ اُتر آتا میں اُس کو بھول جانا چاہتی ہوں اُس نے میری محبت کا اعتبار نہیں کیا تھا جب میں اُس کا ساتھ چاہتی تھی تو اُس نے صاف انکار کردیا تھا پھر بھی آپ نے اُس کی محبت میرے اندر سے ختم نہیں کی۔ کشف شکوہ کناں انداز میں رب سے گویا ہوئی۔

شاید اب تمہاری اُس کو پانے کی دعائیں قبول ہوگئ ہو۔اُس کے دل سے آواز آئی۔

میں نے اپنی ساری دعائیں واپس لی تھی۔ کشف دل کی آواز سے گھبراکر بولی۔

میرا اُس کو نظرانداز کرنا اُس کو کھٹک رہا تھا تبھی ایسا کررہا ہے وہ تاکہ میں دوبارہ سے اُس کے پیچھے لگ پڑوں۔ کشف پھر سے بولی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکے میں کوئی خامی ہے جو آپ رشتہ نہیں دے رہے ایم کے کو؟ سومل بیگم نے واحب صاحب سے پوچھا

خامی نہیں ہے کوئی۔ واحب نے جواب دیا

تو آپ مان جائے کشف کا گھر بس جائے گا کیا پتا اب وہ انکار نہ کریں۔سومل بیگم نے جھٹ سے کہا اُن کو کشف کی طرف سے بہت فکر لگی رہتی تھی۔

بیگم میں کیسے اُس کی بات مان لوں اگر وہ اپنے گھر میں کسی بڑے فرد کو بھیجتا تو الگ بات تھی پر وہ شرط کی بنا پہ شادی کرنا چاہتا ہے اُس کو تو شاید کشف کی طلاقِ آفتا ہونے کا بھی نہیں پتا۔واحب صاحب نے سنجیدگی سے کہا

تو آپ اُسے کہے اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیجے کشف کا ہمیں سوچنا چاہیے وہ تو بلاوجہ انکار کررہی ہے۔ سومل بیگم نے کہا

پہلے کشف کو راضی کرو پھر دیکھتے ہیں۔ واحب صاحب اتنا کہہ کر سونے کے لیے لیٹ گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہوتے ہی وہ سب ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے جب سومل بیگم نے واحب صاحب کو بات کرنے کا اِشارہ کیا۔

کشف آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ واحب صاحب نے سنجیدگی سے اُس کو مخاطب کیا۔

جی کہیں۔ کشف نے جوس کا گلاس ہاتھ میں پکڑے کہا

پانچ سال سے بہت رشتے آئے جس پہ آپ نے انکار کیا ہم نے آپ کی بات مان بھی لی مگر اب ہم چاہتے ہیں منہا اور حیا کی طرح خوش وخرم زندگی بسر کررہے۔ واحب صاحب اتنا کہہ کر چُپ ہوئے لیلا نے ساگر کو دیکھا جس پہ اُس نے کندھے اُچکاکر لاعلمی کا اِظہار کیا

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کشف نے پوچھا

ہم چاہتے ہیں آپ کا جو رشتہ آیا ایم کے کی طرف سے اُس کو قبول کرلیں۔ واحب صاحب کی بات پہ اُس کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے محسوس ہوئے باقی سب بھی اپنی جگہ حیران تھے واحب صاحب کا یہ فیصلہ اچانک کا تھا۔

میں شادی کے لیے انکار کرچکی ہوں۔کشف ضبط کرتی بولی۔

پانچ سالوں سے سنتے آرہے ہیں اب ہم اقرار چاہتے ہیں۔ واحب صاحب نے کہا

نو ڈیڈ۔ کشف نے صاف انکار کیا

بہت سنا لیا تمہیں اب ہماری بات سننی ہے۔ سومل بیگم نے کہا

ریئلی آپ کو پتا بھی ہے یہ ایم کے ہے کون اُس کا اصل نام کیا ہے میں بتاتی ہوں اُس کا اصل نام موحد یوسف ہے جس سے میں شادی کرنا چاہتی تھی پر محض اُس کے میڈل کلاس ہونے سے آپ لوگوں نے میری بات کو اگنور کیا اور ایک ایسے انسان سے میرا رشتہ جوڑ دیا جو بس سات ماہ چلا آپ لوگوں نے بہت حقارت سے اُس کا نام لیا تھا ملنا تک گوارہ نہیں کیا میں سب سے منت کرتی رہی پر سب نے کان بند کرلیے تھے اور اب جب وہ امیر ہوگیا ہے اُس کا اپنا بزنس اسٹابلیش ہوا ہے تو آپ میری مرضی کے بنا اُس کو میری زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آج اُس کے حالات ہمارے حالات سے بہت اچھے ہیں پر اُس میں وہ غرور نہیں جو مرزا خاندان میں تھا میں نے اکثر سنا ہے وقت پہ یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وقت کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور دیکھے واقع وقت بدل گیا ہے جہاں کل آپ لوگ تھے وہاں موحد یوسف عرف ایم کے ہے کل آپ اُس کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور آج آپ کو اُس کی ضرورت ہے والدین کو لگتا ہے وہ جو فیصلہ کرتے ہیں وہ سہی ہوتے ہیں پر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا جیسے چچا جان کا فیصلہ غلط ثابت ہوا منہا کے حق میں ویسے ہی آپ لوگوں کا جلدبازی میں لیا فیصلہ میرے لیے بُرا ثابت ہوا شادی پہ رضامندی دینے کی اجازت ہمارے دین نے لڑکی کو دی ہے پر کبھی کبھی والدین یہ بات فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ کشف ایک سانس میں سب کو سناتی اُٹھ گئ تھی باقی سب ساکت سے جہاں تھے وہی کے وہی رہ گئے۔

💕💕💕💕

ماہر آپ نے بے بی کاٹ دوسرے کمرے میں کیوں شفٹ کیا ہے۔منہا نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر ماہر سے سوال کیا۔

کیونکہ وہ دوسرے کمرے میں ہوگا۔ ماہر مسکراہٹ ضبط کرتا بولا۔

ماہر۔ منہا کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا اُس کی بات پہ۔

میری جان مذاق کررہا تھا آپ تو ابھی سے ناراض ہونے لگی۔ ماہر مسکراکر اُس کو اپنی تھائی پہ بیٹھا کر بولا۔

تو وہاں کیوں رکھا ہے۔ منہا سرخ چہرہ لیے بولی

کیوں کی ابھی تو عمان کے آنے میں وقت ہے۔ماہر نے آرام سے کہا۔

عمان کون؟ ماہر منہ سے لڑکی کا نام سن کر منہا نے مشکوک نظروں سے اُس کو دیکھا۔

یار ایسے تو نہ دیکھو عمان ہماری بیٹی اور کون ماہر اس کی پیشانی چومتا بولا

آپ کو کیسے پتا بیٹی ہوگی؟بیٹا بھی ہوسکتا ہے۔ منہا نے کہا

مجھے تو آپ کے جیسی معصوم سی بیٹی چاہیے۔ ماہر نے مزے سے کہا۔

پر مجھے المیر چاہیے۔ منہا نے سکون سے اس کے سینے پہ سر رکھا

المیر کون؟ ماہر کی سفید پیشانی پہ بل نمودار ہوئے۔

المیر ہمارا بیٹا اور کون۔ منہا سر اٹھاتی ماہر کے انداز میں بولی۔

میری بلی مجھ سے ہی میاوں۔ ماہر اُس کی چلاکی سمجھتا بیڈ پہ لیٹاتا گُدگُدا کر بولا

ماہر نہی ہاہاہا

ماہر پلیز

منہا ہنستی ہوئی ماہر کو روکنے کی کوشش کرنے لگی جو اب اس کا لال ہوتا چہرہ دیکھ رہا تھا ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں پانی بھی آگیا تھا۔

اچھا نہیں کرتا پر خبردار جو آپ نے المیر ولمیر کے لیے مجھے اگنور کرنے کا سوچا تو۔ ماہر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا وارن کرنے والے انداز میں کہا جس پہ منہا نے جھٹ سے ہاں میں سرہلایا پھر نفی میں ماہر اُس کی چلاکی پہ اب کی ہنس پڑا۔

💕💕💕💕💕💕

کیا خبر تھی جاناں

ہمیں پیار ہوجائے گا

دل تمہارے لیے بے قرار

ہوجائے گا۔

کشف پورا دن کمرے میں بند تھی صبح جو کجھ ہوا اُس کے بعد وہ باہر کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اب اُس کا فون رنگ ہوا تو بنا نمبر دیکھے کال جیسے ہی ریسیو کی تو دوسری طرف سے خوبصورت آواز میں گانا سنایا گیا اُس نے فون کان سے ہٹاکر اسکرین پہ نظر ڈالی جو کہ انون نمبر تھا پر آواز سے وہ پہچان گئ ہے دوسری طرف کون ہے۔

تم ویلے انسان کوئی کام نہیں کیا کرنے کو۔ کشف نے تپ کے پوچھا۔

ویلہ بھی بول رہی ہو اور کام کا بھی پوچھ رہی ہو اٹس ناٹ فیئر خیر یہ بتاو میری آواز کسی لگی۔ موحد پیپر ویٹ کو گھماتا کشف سے بولا

زہر۔ پھاڑ کھانے والے انداز میں جواب دیا۔

تم نے زہر کب ٹیسٹ کیا؟ موحد اپنے لہجے میں مصنوعی تجسس پیدا کرکے پوچھا۔

فون کیوں کیا ہے؟ کشف نے صبر کا گھونٹ بھر سوال کیا۔

تم سے ملنا چاہتا ہوں کجھ بتائے ہیں جن کو سُلجھانا چاہتا ہوں۔ موحد بھی سنجیدہ ہوکر بولا۔

مجھے نہیں ملنا تم سے نہ آج اور نہ پھر کبھی۔کشف نے انکار کیا

کشف میں جانتا ہوں تم آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہوں۔ موحد نے کہا

غلط ایسا کجھ نہیں۔کشف نے فورن کہا

تمہارے کہنے سے کیا ہوتا ہے محبت اتنی جلدی دل سے نہیں نکلتی اور تم تو میرے عشق کی دعویدار تھی۔ موحد نے سکون سے کہا

تھی ہوں نہیں۔کشف خود کو مضبوط بناتی بولی۔

کس کو یقین دلارہی ہو مجھے یا خود کو۔ موحد نے پوچھا۔

حقیقت بتارہی ہوں۔ کشف نے کہا

میں نہیں مانتا ایسی حقیقت کو۔موحد نے ماننے سے انکار کیا۔

مجھے فرق نہیں پڑتا۔ کشف اکتاہٹ سے بولی۔

تمہیں فرق پڑنا چاہیے۔ موحد دو ٹوک بولا

کیوں پڑے مجھے فرق۔ کشف نے موبائل فون کو گھور کر کہا جیسے سامنے موحد ہو۔

کیوں کہ میں چاہتا ہوں۔ موحد آرام سے بولا

تمہارا مجھے پہ ایسا کوئی حق نہیں جو تم جو چاہوں میں وہ کرو۔ کشف نے نے باور کروایا


یہ بھی اندازِ گفتگو ہے کوئی؟

جب کرو دل دُکھانے والی بات کرو


حق بھی تو نہیں دے رہی اتنی چاہت سے مانگا رہا ہوں۔ موحد نے بے چارگی سے کہا۔

کہاں ملنا ہے؟ کشف نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا

لوکیشن سینڈ کرتا ہوں۔ موحد کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی۔

💕💕💕💕💕💕

کیا بات ہے؟ حمزہ نے حیا کو گم سم دیکھا تو پوچھا۔

کشف کی وجہ سے پریشان ہوں۔ حیا نے بتایا۔

چچا نے غلط کیا ایک تو بنا اُس کی مرضی کے شادی کروائی پھر طلاق بھی۔ حمزہ کا چائے کا گھونٹ پی کر افسوس سے بولا۔

چچا جان نے شادی کروانے وقت بھی کجھ اچھا سوچا ہوگا اور طلاق وقت بھی شیراز دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو تم بتاؤ کشف کا کیا حال ہوتا وہاں۔حیا نے سنجیدگی سے کہا

میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ حمزہ نے کندھے اُچکائے

تم بونگیاں مارسکتے ہو۔ حیا نے طنزیہ کیا۔

اچھا ایسا ہے تو تم بتاؤ وہ تو میں نے تم سے پہلے نکاح کرلیا تھا ورنہ تو تم بھی اُس ولید سے شادی کرلیتی وہ تو اللہ کا کرم ہوا ہماری زندگی میں حنزہ آگیا ورنہ جب میں آتا تو یہ خبر میری منتظر ہوتی کے تمہاری شادی ہوچکی ہے۔حمزہ سخت لہجے میں بولا

ایسی بات نہیں میں کوئی نہ کوئی حل نکالتی پر تمہارے علاوہ کسی سے شادی نہ کرتی۔حیا نے منمناتے کہا

اچھا کیا نکال لیتی۔حمزہ نے رخ اُس کی جانب کیے سوال کیا

ہم پُرانی باتیں کیوں کررہے ہیں رات گئ بات گئ۔حیا نے دانتوں کی نمائش کرتے کہا۔

رات کا معاملہ نہیں اگر ایسا ہوجاتا نہ تو میرے پستول کی پہلی گولی ولید کے سینے پہ اُترتی دوسری تمہاری پھر آخر میں خود کو شوٹ کرلیتا۔حمزہ اُس کا ہاتھ زور سے پکڑ کر بولا۔

تم پاگل ہو جو پُرانی باتیں لیکر بیٹھ گئے ہو۔ حیا اپنا چھڑوانے کی کوشش کرتی بولی۔

یاد آتی ہیں یہ باتیں ہر دن اور ہر دن نئ اذیت اپنے اندر محسوس کرتا ہوں۔ حمزہ اُس کے ہاتھ پہ اپنی گرفت ہلکی کرتا بولا۔

بُری باتوں کو یاد کرنے سے اذیت ہی ملتی ہے بہتر یہ ہے کہ بُری باتوں کو یاد نہ کیا جائے اگر آجائے یاد تو خود کو مصروف کیا جائے ہمارا گُزرا ہوا کل ہمارا آج خراب نہ کرپائے۔حیا حمزہ کے بازوں پہ سر رکھ کر بولی

ہممم۔ حمزہ بس اتنا بولا

💕💕💕💕💕

تمہارے ماننے سے گھر میں جو پریشانی ہے وہ حل ہوجائے گی۔ لیلا نے ٹی وی پہ نظر جمائے بیٹھی کشف سے کہا

مجھے کسی ڈیل کا حصہ نہیں بننا۔ کشف سپاٹ انداز میں بولی

جتنے کرائسس میں ہمارا بزنس ہے نہ اگر ایسا رہا تو جلد ہم سڑک پہ آجائے گے۔ لیلا نے اُس کو سمجھانا چاہا۔

آپ چاہتی ہے میں ایم کے سے شادی کرلوں۔ کشف نے چہرہ اُس کی طرف کرکے سوال کیا۔

ہاں میں کیا سب یہی چاہتے ہیں ویسے بھی تم اُس کو چاہتی تھی نہ اگر اللہ نے تمہاری سن لی ہے تو تم کیوں کفر کررہی ہو۔ لیلا نے کہا

میں کُفر نہیں کررہی۔ کشف نے فورن سے کہا

ضد تو ہے نہ یہ کے میری نہیں سنی گئ تو میں بھی نہیں سنوں گی۔ لیلا نے دو بدو جواب دیا

جس پہ گُزرتی ہے نہ بس وہی جانتا ہے۔ کشف نے تلخ کہا

پتا ہے جس تن لگدی او تن جانے۔ لیلا لاپروائی سے بولی

پھر یہ کہہ رہی ہیں جس انسان نے بار بار میری محبت کو ٹھکرایا اب اُس کا ہاتھ تھام لوں۔ کشف نے جیسے افسوس کیا

تم بھی تو پھر وہی کررہی ہو جو غلطی اُس لڑکے نے کی سوچا جائے تو وہ اپنی جگہ درست تھا اُس کے پاس سبب تھا پر تمہارے پاس ایسا کجھ نہیں۔لیلا نے موحد کی حمایت کی۔

آپ ایسے کیسے کہہ سکتی ہے اور درست کیوں تھا وہ؟ کشف نے پوچھا

پہلے اگر وہ میڈل کلاس تھا تو وہ کیسے تمہارا ہاتھ تھام لیتا تمہارے لیے اسٹینڈ لیتا تو شاید اپنی عزت نفس کھودیتا ہرکوئی اُس کو یہ کہتا کے امیر لڑکی سے پئسو کے لیے شادی کرلی اور یہ طعنہ ایک خوددار اور شریف انسان کے لیے بہت بڑا تماچہ ہے۔ لیلا نے اُس کو سمجھانے کی خاطر کہا

کوئی کجھ بھی کہتا اُس کی پرواہ تھی پر میری محبت میری چاہت اُس کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیا میرے جذبات اتنے بے مول تھے۔ کشف کجھ سمجھنے کی کوشش میں نہیں تھی

سچے جذبات کسی کے بھی بے مول نہیں ہوتے اور ہر ایک بات کا وقت ہوتا ہے ایم کے کا ساتھ پہلے تمہاری قسمت میں نہیں تھا اِس لیے نہیں ملا اب اللہ نے اُس کا ساتھ تمہاری قسمت میں لِکھا ہے تو تم ناشکری کررہی ہو اُس کو ٹھکراکر۔ لیلا نے گہری سانس لیکر کہا۔

میں کون ہوتی ہوں کسی کو ٹھکرانے والی میں تو خود ٹھکرائی ہوئی ہوں۔ کشف طنزیہ انداز میں خود کا مزاق اُڑاتی ہوئی بولی جس پہ لیلا نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔

💕💕💕💕💕

Last Episode


میں معافی مانگنا چاہتی تھی تم سے۔ عانیہ مرزا منہا کے کمرے میں آتی شرمندگی سے بولی

معافی پر کیوں۔ منہا نے حیرت سے کہا

میرا رویہ شروع سے تمہارے ساتھ بہت بُرا رہا یہ جان کر بھی کے تم میرے بھائی کی بیٹی ہو میرا رویہ تمہارے ساتھ غیروں کی طرح رہا۔عانیہ مرزا نے کہا

آپ نے میرا ساتھ کجھ غلط نہیں کیا پھوپھو اِس لیے آپ کو شرمندہ ہونے یا معافی مانگنی کی ضرورت نہیں۔منہا نے سادگی سے کہا

یہ تمہارا ظرف ہے ورنہ میں تو تمہارے سامنے سوتن لانا چاہتی تھی۔ عانیہ مرزا افسوس سے بولی

سوتن لانا چاہتی تھی کیوں آپ کو ماہر کی اولاد چاہیے تھی جو اللہ نے اب دے دی تو آپ نے سوتن کا خیال بھی اپنے دل دماغ سے نکال لیا میرے لیے یہی بہت ہے۔ منہا نے کہا

شکریہ تم واقع بہت اچھی ہو چاہے جانے والی پہلے میں سوچتی تھی ماہر کیوں تمہارے پیچھے اتنے پاگل ہے اب سمجھ آگیا تم ہو ہی اتنی پیاری معصوم سادہ دل کے ہر کوئی پیار کرنا چاہے بس میں ہی تھی جو تمہیں سمجھ نہیں پائی۔ عانیہ مرزا اس کا چھوتی بولی۔

آپ بھی بہت اچھی ہیں۔ منہا نے کہا تو عانیہ مرزا مسکرادی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری لائیف ہیپی ہے نہ۔ ماہر منہا کے کندھے پہ ٹھوری رکھ کر بولا

ماشااللہ کہے۔ منہا نے فورن ٹوکا

ماشااللہ۔ ماہر مسکراکر بولا

ویسے آج یہ خیال کیسے آگیا آپ کو۔ منہا نے جاننا چاہا۔

بس آگیا موم نے بھی آپ کو آج سہی معنوں میں بہو تسلیم کرلیا مجھے آپ کا ساتھ مل گیا ہمارا بچہ اِس دُنیا میں آنے والا ہے اور کیا چاہیے مجھے اللہ کا دیا سب کجھ تو ہے اسپیشلی آپ۔ ماہر جذب سے کہتا اُس کو دیکھنے لگا جو مسکرارہی تھی۔

بلکل اللہ کی دی ہر نعمت ہے ہمارے پاس میرے پاس سب سے ضروری آپ کا ساتھ ہے۔ منہا اُس کے ہاتھوں کو عقیدت سے آنکھوں پہ لگاکر بولی۔

میں سوچتا ہوں اگر آپ نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ ماہر اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر بولا۔

میں کیوں نہ ہوتی مجھے تو ہونا تھا آپ کے پاس۔ منہا نے آرام سے کہا

ہاں کیوں کی منہا سے ماہر ہے۔ ماہر آنکھوں میں چمک لیے بولا۔

اور ماہر سے منہا کی سانسیں ہیں۔ منہا بھی اُس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتی گہری مسکراہٹ سے بولی۔

💕💕💕💕💕

ہیپی برتھ ڈے میری جان۔ حمزہ حیا کے کان میں سرگوشی کرتا بولا جس پہ حیا مسکراکر کروٹ بدل گئ۔

اٹس ناٹ فیئر۔ حمزہ نے اُس کی پشت کو گھور کر کہا

ایوری تھنگ از فیئر مائے لو۔ حیا نے بنا مڑے کہا

ایسا کیا۔ حمزہ شرارت سے کہتا کمبل کھینچ کر دور پھینک دیا۔

حمزہ یہ کیا۔حیا اٹھتی حمزہ کو گھورتی بولی

بارہ بج گئے ہیں کیک کاٹنا ہے ایک تم ہو جس کو بس سونا ہے۔ حمزہ اُس کا دھیان کمرے میں موجود ٹیبل کی جانب کرواتا بولا جہاں شیشے کی ٹیبل پہ گلاب پھولوں کے درمیاں کیک رکھا تھا۔

حمزہ یو آر دا بیسٹ۔حیا خوش ہوتی بولی

یس ایم بیسٹ بکوز آے ہیو حیا۔ حمزہ اُس کے چہرے سے بال ہٹاتا محبت سے بولا

میں حنزہ کو اُٹھا لاؤں۔حیا مسکراکر جانے لگی جب حمزہ نے اُس کا ہاتھ پکڑلیا۔

خبردار حیا یہ ہمارا وقت ہے میں فلحال اپنے رقیب کو دیکھنے کے موڈ میں نہیں۔حمزہ نے کہا

وہ بیٹا ہے ہمارا۔حیا نے دانت پیس کر کہا

جانتا ہوں کل اُس کے ساتھ سیلیبریٹ کرلینا ابھی اپنے مجازی خدا کے ساتھ رہو۔ حمزہ نے آرام سے اُس کو اپنی طرف کرکے کہا

اچھا سہی جیسے ہمارے مجازی خدا چاہے۔ حیا نے فرمانبردای سے کہا

صدقے جاؤں ایسی فرمانبردار بیوی پہ۔حمزہ نے جس انداز میں یہ بات کی اُس پہ حیا کا قہقہقہ چھوٹ گیا۔

💕💕💕💕💕💕

کیوں بلایا مجھے یہاں؟ کشف نے ریسٹورنٹ میں آتے ہی موحد سے سوال کیا

تاکہ لڈو گیم کھیلے۔ موحد نے بڑی سنجیدگی سے کہا

کام کی بات کرو۔ کشف نے گھورتے ہوئے کہا

بیٹھو تو سہی۔ موحد نے بیٹھنے کا اِشارہ کیا

میری بات دھیان سے سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا۔ موحد نے نرمی سے کہا جس پہ کشف نے بس سرہلانے پہ اکتفا کیا

میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے اب سے نہیں سات سالوں سے۔موحد نے بات شروع کی

اِس لیے بار بار میری محبت کی تزلیل کرتے تھے۔ کشف خود کو کہنے سے روک نہ پائی

نہیں اِس لیے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا تم مجھ سے کوئی اُمید لگاؤ میرے پاس تمہیں دینے لیے کجھ نہیں تھا

عزت تھی یقین تھا چھت تھی وفاداری تھی محبت نہ سہی یہ سب دیتے گُزارا کرلیتی میں۔کشف نے ایک بار پھر بیچ میں بولی

ان کے علاوہ بھی بہت چیزیں ہوتی ہیں زندگی میں جس کے بغیر گُزارا نہیں ہوسکتا۔موحد گہری سانس بھرتا بولا۔

عورت سوائے وفاداری کے اور کجھ نہیں چاہتی مرد سے۔ کشف سر جھٹک کر بولی۔

پر جس عورت نے ساری زندگی آسائشوں بھری زندگی گُزاری ہو اُس کے لیے سب مشکل ہوتا ہے تمہارے کالج چھوڑنے کے بعد میں اسکالرشپ پہ جرمنی چلاگیا تھا سوچا تھا پاکستان نہیں آؤں گا اپنی ماں بہنوں کو بھی جرمنی میں بلواؤں گا جرمنی میں مجھے تم بہت یاد آتی تھی وہاں میری دوستی جیک سے ہوئی وہ اکیلا رہتا تھا گھر میں کوئی نہیں ہوتا تھا اُس کے میں وہاں پارٹ ٹائم جاب کرتا تھا جرمنی میں دو سال رہا تھا تو پتا چلا میری ماں اِس دنیا میں نہیں رہی۔موحد بولتے بولتے خاموش ہوگیا کشف بغور اُس کو سن رہی تھی۔

پھر واپس میں پاکستان آیا پھر پاکستان سے دوبارہ جرمنی کا سفر ہوا میں نے اور جیک نے پڑھائی کے ساتھ چھوٹا سا بزنس شروع کیا جس میں ہمیں بہت ترقی ہوئی قسمت اچھی تھی زیادہ دھیان جیک ہی کرتا تھا پڑھائی کے بعد میں نے بھی ساتھ دینا شروع کیا تو وہ چھوٹا بزنس ترقی کی منازل چھونے لگا میں نے آپا صائمہ کی شادی کروادی دوسری بہن جیک کو پسند آگئ تھی جیک مسلمان تھا میں نے کوئی احتراز نہیں کیا اپنی دونوں بہنوں کے فرض سے سبکدوش ہوگیا پر میری ماں نہیں تھی بس ایک چھوٹی بہن عروسہ بچی تھی وہ ابھی چھوٹی ہے میں نے ایک دن ایک اسٹوری پڑھی جس کو پڑھ کر مجھے شک ہوا کے یہ تم نے لکھی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کے تم شادی شدہ ہو پھر بھی میں جاننے میں لگا کے یہ لکھنے والا کون ہے مجھے اُس کا لاسٹ پارٹ پڑھنا تھا اِن چیزون کے بعد مجھے پتا چلا کے تمہاری طلاق ہوگئ ہے اُس وقت میں تمہارے گھر میں ہی موجود تھا مجھے فورن سے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اب تمہیں پالوں اِس لیے میں تمہارے بھائی اور باپ کے سامنے شرط رکھی جس کا مطلب دونوں نے غلط لیا۔ موحد نے گہری سانس لیکر ساری بات بیان کی۔

مجھے یہ سب بتانے کا مقصد۔کشف نے کہا

میں چاہتا ہوں مجھے معاف کردو میں نے تمہاری محبت قبول نہیں کی تھی پر تم مجھے قبول کرلوں۔ موحد نے حسرت سے اُس کا چہرہ دیکھ کر کہا

اب کیوں پہلے کیوں نہیں۔کشف نے چہرہ دوسری طرف کرکے بولی

وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔ موحد کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے جو اتنی ساری تقریر سننے کے بعد بھی پوچھ رہی تھی۔

پہلے تمہارے قابل نہیں تھا اب تمہیں ہر خوشی دینے کی طاقت رکھتا ہوں۔ موحد نے صبر کا گھونٹ بھر کر کہا

کتنا پیار کرتے ہو۔ کشف نے دوسرا سوال کیا

اِتنا کے اگر تم نے ابھی انکار کیا تو میں خود کو شوٹ کرلوں گا۔ موحد ٹیبل پہ پستول رکھتا سنجیدگی سے گویا ہوا کشف آنکھیں پھاڑے سامنے رکھی پسٹول کو دیکھ رہی تھی۔

یہ کیا مذاق ہے۔ کشف نے جھنجھلا کر کہا

میرا دیوانہ پن ہے میں بار بار تمہیں کھونے کی صلاحیت نہیں رکھتا اگر پہلے میرے بس میں ہوتا تو کبھی تمہیں کسی اور کے حوالے نہ کرتا۔ موحد سنجیدگی سے بولا

میں انکار کرنے آئے تھی تمہیں۔کشف نے آہستہ آواز میں کہا

کیا سچ میں تمہارے دل میں موجود میرے لیے محبت ختم ہوگئ ہے؟ موحد نے دُکھ سے سوال کیا۔

محبت تو شاید میرے مرنے کے بعد ختم ہو۔ کشف عجیب انداز میں مسکراتی بولی۔

مجھے ایک موقع دو کبھی تمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا ہمیشہ خوش رکھوں گا ہمیشہ تمہارا بن کر رہوں گا صبح شام رات اپنی محبت کا اظہار کروں گا دن میں پچاس سے زیادہ کالز کروں گا ہزار سے زیادہ میسجز کروں گا بس تم ہاں کہہ دو۔ موحد کی بات پہ کشف نے حیرت سے اُس کو دیکھا۔

ہوش میں ہو۔ کشف نے ہنس کر پوچھا

ہوش تو تمہاری دوری نے ٹھکانے لگائے تھے۔موحد افسردہ لہجے میں بولا

آگ برابر تھی۔ کشف نے کہا

یو لو می؟ موحد نے آس بھری نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

یس آے لو یو۔ کشف مسکراکر اُس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔

وِل یو میری می؟ موحد سرشار سا بولا۔

یس۔کشف نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تو موحد تشکر بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا پھر اپنا دوسرا ہاتھ اُس کے ہاتھ پہ رکھا تو کشف نے بھی مضبوطی سے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کے والدین اپنے بچوں کی منگنیاں بچپن میں طے کرلیتے ہیں جن کا نتیجہ بڑے ہونے کے بعد کسی کا اچھا ہوتا ہے تو کسی کا بُرا کیونکہ بڑے ہونے کے بعد ہر ایک کا اپنا نظریہ ہوتا ہے والدین تو اپنی اولاد کا بھلا چاہتے ہیں پر بچپن میں طے کیے ہوئے رشتے سراسر بے وقوفی ہے کیونکہ بچپن میں جڑے سب رشتوں کا احتتام حمزہ اور حیا جیسا نہیں ہوتا کوئی اپنی بچپن کی منگ سے حمزہ کی طرح جنونی نہیں ہوتا کجھ لوگ نعیم جیسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی من مرضی کرنا چاہتے ہیں پر ہر منہا کی قسمت میں ماہر کا ساتھ نہیں ہوتا اِس لیے والدین کو چاہیے کے رشتہ کرنے کے وقت ایک بار اپنی اولاد سے رائے ضرور لیں اور رشتہ تب کریں جب بچے بالغ ہوجائے اگر دونوں طرف سے زبردستی ہوگی تو انجام کشف کی طرح ہوگا۔

💕💕💕💕💕💕💕


                           ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil Muntazir MeraNovel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Muntazir Mera written by  Rimsha Hussain . Dil Muntazir Mera by Rimsha Hussain is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages