Dhalti Shaam By DJ Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 1 June 2024

Dhalti Shaam By DJ Complete Urdu Novel Story

Dhalti Shaam By DJ  Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Dhalti Shaam By DJ Complete Novel 


Novel Name :Dhalti Shaam
 Writer Name : DJ

New Upcoming :  Complete 

میں آپ کوبتاچکاہوں کہ اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا میں ایڈوانس لے چکا ہوہمارا ایگریمنٹ سائن ہو چکا ہے ،حاشر نے بہت سخت لہجے میں اپنے والد احسان صاحب کو بتایا

تو میں بھی تمھیں صاف بتا چکا ہوں کہ اگر تم اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹے تو زویا کو چھوڑ دو اور پھر جو دل چاہے وہ کرو ،احسان صاحب بھی اسکے ہی باپ تھے جانتے تھے اسے قابو کرنا

،،،،:بابا زویا کا یہاں کیا ذکر اور میں بتا چکا ہوں آپ کو یہ میرا لاسٹ پروجیکٹ ہے  اسکے بعد میں آپ کے ساتھ بزنس میں آجاؤں گا شوبز کی دنیا چھوڑ دونگا،اس بار لہجے میں بلا کی نرمی اور مٹھاس تھی حاشر کے (کیونکہ وہ سب چھوڑ سکتا تھازویا کو نہیں)

احسان صاحب،؛  نہیں تو یہ بھی کیوں جب چھوڑنا ہی ہے تو ابھی سب چھوڑو میں اب اور انتظار نہیں کر سکتا اس سال  مجھے زویا کی شادی کرنی ہے بس میں اپنے مرحوم بھائی کی امانت تمھارے اس شوق کی نظر نہیں کر سکتا 

 بابااپکو اچانک زویا کی شادی کی جلدی کیوں ہو گئی ہے،،،،حاشر جھنجلایا

:نواز نے دوبارہ ذکر کیا ہے مجھ سےوہ اپنے بیٹے کے لئے زویا کا،،،،،،احسان صاحب نے وہ بات کی جو حاشر کو آگ لگا گئی

:  بس بابا اس سے آگے آپ کچھ نہیں کہنگےاور یہ نواز انکل نہیں ہیں یہ احسن ہے وہ شاید بھول چکا ہے کہ دو سال پہلے میں  نے اسکا  زویا کا نام لینے پر کیا حشر کیا تھا 

احسان صاحب نے ایک دم غصے سے اور بیگم احسان جو بہت دیر سے خاموش باپ اور بیٹے کی تکرار سن رہی تھیں حیرت سے اپنی اکلوتی اولاد کو دیکھا 

تم نے تو کہا تھا احسن جھوٹ بول رہا ہے تم تو اپنی شوٹنگ کے لئے اسلام آباد میں تھے ،،،،،احسان صاحب چونکے

اور یہ تمھاری ماں اس نے بھی تمھارا ساتھ دیا تھا 

: مجھے تو یہ ہی پتا تھا یہ،،،،مریم بی بی بھی حیرت سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولیں،،،

،،

، حاشر نے ایک دم بیچ میں بولا،،،،

،اس وقت یہ بات نہیں کر رہے ہم لوگ ،،،

میرے لندن جانے کی بات ہو رہی ہے بابا میں آپ سے پکا وعدہ کر رہا ہوں یہ بلکل لاسٹ ہے میں اقبال صاحب سے کانٹریکٹ کر چکا ہوں انکے بہت احسان ہیں مجھ پر میں انھیں دھوکا نہیں دے سکتا یہ میری پہلی اور آخری فلم ہو گی ،،میں مر جاؤں گا زویا کے بغیر

 اور یہ ڈائیلاگ بولتے ہوے وہ مریم بی بی کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا اور بس کام ہوگیا 

:  اللّٰہ نا کرے بس ختم کریں یہ بحث جب وہ کہہ رہا ہے یہ آخری کام ہے اور پھر جو آپ کہیں گے وہ ہی کرے گا اور احسن کیا زیادہ عزیز ہے آپ کو اپنے بیٹے سے،،،،،،،،مریم بی بی کے دل پر ہاتھ پڑا تھا اکلوتی لاڈلی اولاد کے منہ سے یہ الفاظ  سن کر،،،

بس آپ کے اسی لاڈ نے بگاڑا ہے اسے  بے شرمی دیکھو کیسے ماں باپ کے سامنے ڈائیلاگ بول رہا ہے  یہ اسکا کوئی ڈرامہ ہو،

(احسان خان ملک کے ایک بڑے بزنس مین تھے اور بہت مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے پر حاشر نے شوبز جوائن کر کے انھیں پورے خاندان میں شرمندہ کر دیا تھا اور پھر زویا سے شادی کی ضد نے انھیں اور مشکل میں ڈال دیا تھا وہ اپنے مرحوم بھائی کی روح سے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تھےزویا جیسی شریف اور اچھی بچی کے لئے انھیں حاشر بالکل مناسب نہیں لگتا تھا)

زویا احسان صاحب کے مرحوم بھائی کی بیٹی تھی بہت چھوٹی تھی جب ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے تھے تایا تائی نے ہی پالا تھا،،،

حاشر خان زویا پر اپنا حق سمجھتا تھا اور زویا بھی اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھی

حاشر خان زویا کی پوری کائنات تھا،،،

حاشر بہت غصے سے کمرے سے نکلا اور راستے میں پڑی ہر چیز کو اپنی ٹھوکر سے اڑاتا اپنے بیڈ روم  میں آیا اور بیڈ پر گر گیا،،،،

انکھوں پر ہاتھ رکھے وہ کسی گہری سوچ میں تھا

غصے سے دماغ کی نسیں کھنچی ہوئی تھیں،،،،

 اچانک اسکے اعصاب ڈھیلے ہوئے اور چہرے پر  نرم سی مسکراہٹ نے اسکے چہرے کو اور خوبصورت بنادیا

"اگر دیدار مکمل ہو گیا ہو تو میں  آنکھوں سے ہاتھ ہٹا لوں تاکہ میری آنکھیں بھی سیراب ہو جائیں"

 حاشر نے ویسے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا

زویا ایک دم جانے کے لئے مڑی تو حاشر نے  بیڈ سے چھلانگ لگا کر اسکا ہاتھ کھینچا اور اسے دروازے کے ساتھ لگا دیا

" اب بھاگ کہاں رہی ہو " کیا لگا تھا میں سو رہا ہوں"،حاشر نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

زویا نے اپنا  ہاتھ چھڑاتے ہوے غصے سے کہا ،،،،،

: تم بس یہ بندروں والی حرکتیں کرناحاشر یہ ذندگی ہے کوئی ڈرامہ نہیں تم کیوں میرا تماشہ بنا رہے ہو،،،،،

تماشہ میں بنا رہا ہوں یا وہ تمھارے تایا جان دی گریٹ مین بنا رہے ہیں،،،،، حاشر نے اسکا چہرہ اونچا کرتے ہوئے غصے سے پوچھا

 کیا بکواس کی ہے ابھی تم نے سارے گھر میں آواز گونج رہی تھی تمھاری ،تمھیں شرم ہے،،،،وہ گھور کر بولی،،

حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا:،،،

 تو کیا ہوا,,اور یہ شرم شرم کے چکر میں تمھیں کسی اور کے ساتھ رخصت ہونے دوں تو سورج میں بے شرم ہی ٹھیک ہوں ،،،،

حاشر میں کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہی ہوں سب میرا مذاق اڑاتے ہیں ،،،،وہ جھنجلا کر بولی

 چندا اسے مذاق کرنا کہتے ہیں،،،،پیار سے اسکا چہرہ اونچا کیا،،،،

تم نے پھر مجھے اس نام سے پکارا میں نے منع،،،،،،،زویا کا موڈ ایک دم بگڑا

 تو کیا جان یا سویٹ ہارٹ بولا کروں شرماؤ گی تو نہیں،،حاشر ہنسا تھا 

 مان لو تایا جان کی بات اور سب کچھ چھوڑو اور شادی کر لو مجھ سے پھر جو دل چاہے وہ بولنا،،،،،،زویا نے تھک کر کہا جانتی تھی ڈھیٹ ہے

آوہو دل خوش کر دیا تم نے،،،تمھیں  تومجھ سے بھی زیادہ جلدی ہے

چلو پھر بابا سے بولو میرے جانے سے پہلے ہماری شادی کر دیں،،،،  حاشر اسکا ہاتھ کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے آیا 

زویا نے اسے روکا اور چیخی

حاشر کیا پاگل پن ہے یہ تم بہت بے شرم اور بدتمیز ہو گئے ہو 

 ابھی کی کہاں ہے میں نے بدتمیزی ابھی تو،،،،،،

کرتے رہو اپنی بکواس میں جارہی ہوں،،،وہ جانے کے لئے مڑی،،،

 اچھا سنو پلیز ایک کپ چائے بنا دو اور ساتھ کوئی سر درد کی گولی بھی دے دو بابا سے دماغ کھپایا ہے،،،،حاشر نے سر پکڑ کے کہا

حاشر کیا پھر درد ہے سر میں تم ریسٹ کرو ڈاکٹر کو کیوں نہیں دیکھاتے ہو اچھا جاؤ تم لیٹو میں ابھی چائے،،،،،زویا ایک دم سے پریشان ہوئی

اب ایسے کرو گی تو بندہ تو پٹری سے اترے گا پھر کہتی ہو میں بے شرم ہوگیا ہوں،،،جان لے لوگی گی کسی دن ان اداؤں سے،،،،

،حاشر نے زویا کا ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ احمد ،نادیہ اور کرن نے ایک ساتھ کمرے میں انٹری دی 

کون سی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے یہاں،،،،

 سوری ہمیں پتہ نہیں تھا،،،، کرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا  

 کیا ہے یار بابا اور یہ محترمہ کم ولن کا کردار کرتی ہیں جو تم سب بھی آگئے،،حاشر بد مزا ہوا

تو حاشر تم کیری اون نا ہم کون سا دیکھ رہے ہیں ،نادیہ نے بڑی معصومیت سے کہا 

اور وہ سب ہنسنے لگے

یہ کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کے یہ ان سب کی ساتھ میں آخری ہنسی ہے,,,,,

احمد ،کرن ،نادیہ ،حاشر کے منجھلے چچا کے بچے تھے اور سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے

پھر وہ ہی ہوا جیسا حاشر نے چاہا وہ زویا کو اس سارے معاملے میں گھسیٹ لایا  بابا سے اجازت صرف زویا ہی دلا سکتی تھی

جس رات اسکی فلائٹ تھی وہ  سارا دن باہر گزار کر شام میں گھر آیا تھابہت خوش تھا زویا جسکے آنسوؤں ہی نہیں رک رہے تھے وہ سارے گھر سے چھپی بیٹھی تھی 

حاشر اپنے کمرے میں آیا اسکا سارا سامان پیک رکھا تھا 

اسے چیک کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی جانتا تھا زویا نے ایک ایک ضرورت کی چیز رکھی ہوگی حاشر کے کام وہ کچھ ایسے ہی لگن سے کرتی تھی

وہ باتھ لے کر اب جانے کے لئے مکمل تیار تھا پر اسے زویا کا انتظار تھا

 جب زویا اسکے روم میں آئی

 کہاں تھیں یار  ایک گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں اب تو میں تمھارے کمرے میں آنے والا تھا

میں بھی سارا دن انتظار کر رہی تھی کہاں تھے تم آج کا دن بھی گھر پر نہیں گزار سکتے تھے ،،،اسکی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھیں

 تم روتی رہی ہو سارا دن یار زویا اسطرح نہیں کرو صرف چھ مہینے کی بات ہے ،،حاشر نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے قریب کیا

باہر سے سب گھر والوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تھی 

 میں لیٹ ہو رہا ہوں زویا ،،،میں اس طرح نہیں جا سکتا تم جانتی ہو،،،وہ اسے چپ کرواتے ہوئے بولا،،،

 تو جاؤ اللّٰہ حافظ ،،،وہ اس سے دور ہوئی

 میں ایسے نہیں جاسکتا تمھارا آنسو مجھے کمزور کر رہے ہیں ،،،روتے ہوئے رخصت نہیں کرو ،،،،

زویا نے اپنا چہرہ صاف کیا مسکرانے کی کوشش کی،،، 

 ایئرپورٹ نہیں چلو گی ،،،،حاشر نے اداسی سے پوچھا کچھ دیر والی خوشی اب نہیں تھی

 نہیں اور اب تم جاؤ میں تھوڑی دیر تمھارے کمرے میں ہی رہنا چاہتی ہوں،،،،وہ کمرا ٹھیک کرتے ہوئے بولی جو حاشر تیار ہونے میں ہوتا بگاڑ چکا تھا

 شوق سے جناب ویسے کاش یہ جملہ کبھی میرے کمرے میں ہوتے ہوئے بھی کہہ دیا ہوتا،،وہ زویا کو گلے لگاتے ہو بولا 

اللّٰہ حافظ اپنا خیال رکھنا  تیزی سے کمرے سے نکلا

اور پھر حاشر لندن چلا گیا پر اپنی بات منوا کر واپس آتے ہی اسکی شادی زویا سے ہوگی 

لندن ائیرپورٹ پر اترنے کےبعد حاشر بے چینی سےنظر ادھر ادھر گھوما نے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو

کیا ہوا حاشر کسی کو ڈھونڈ رہے ہو کوئی آنے والا ہے کیا ،اسکے ساتھی ایکٹر جمشید شاہ نے اس سے پوچھا

 نہیں یار پاکستان فون کرنا ہے،،، ،حاشر نے کہا

 تو ابھی ہوٹل چلتے ہیں نہ کر لینا اور اپنا موبائل بھی،،،،

اتنے میں حاشر کو اپنی مطلوبہ چیز نظر اگئی اور وہ ابھی آیا کہتے ہوئے تیزی سے فون بوتھ کی طرف بڑھا

پاکستان میں اس وقت رات کے تین بج رہے تھے 

پہلی ہی بیل پر زویا نے،،،،

 ہیلو کہا،،،

 ہاں میں پہنچ گیا ہو اب تم بھی سو جاؤ،،،،،

:ہاں میں سو ہی رہی تھی تمھارے فون سے ہی آنکھ کھول گئی ،،زویا جلدی سے بولی

حاشر ہنستے ہوئے،،،،

 اوہ سوری میرے فون سے تمھاری نیند خراب ہوئی چلو اب تم دوبارہ سو جاؤ

 نہیں اب میں نماز پڑھ کر ہی سوؤں گی نیند تو ویسے بھی تم نے اڑا دی ہے،،،،

اوکے چلو تم نے آج قبول تو کیا کہ میں نے تمھاری نیندیں اڑا دی ہیں،،،،جملے کو اپنے انداز سے لیا

: اف حاشر باتوں سے اپنی مرضی کے معنی نکالنا کوئی تم سے سیکھے،،،،،،وہ ہنسی

اور دل توڑنا اور جھوٹ بولنا کوئی تم سے ،،حاشر نے فورا حساب برابر کیا

مما کو صبح فون کرونگا اللّٰہ حافظ اور اب سوجانا  رونا نہیں،،، پلیز اپنا خیال رکھنا

زویا : تم بھی ،،،اللّٰہ حافظ

  ########

صبح سب گھر والے ناشتہ کر رہے تھے تو  تائی جان  نے احسان صاحب سے پوچھا،! ،،،

حاشر لندن پہنچ گیا ہو گا فون آیا کوئی اسکا ،،،،

سب کی نظر ایک دم زویا پر گئی جس نے اور ذیادہ آپنی گردن پلیٹ پر جھکا لی تھی،،،،،

  آہستہ سے بولی  ،،،،

جی تائی جان رات ساڑھے تین بجے آیا تھا اسنے کہا آپ کی نیند ڈسٹرب نہیں کر رہا ،، تو میں صبح آپ کو بتا دوں

اللّٰہ کا کرم ہے خیر سے پہنچ گیا کتنا خیال ہے میرے بیٹے کو میری نیند کا،،،مریم بی بی نے شکر کرتے ہوئے کہا،،

ویسے زویا تم اتنی رات کو کیوں جاگ رہی تھیں،،،،،

شاریہ بیگم  جو احسان صاحب کے چھوٹے بھائی رمیض کی بیوی اور احمد اور کرن کی اماں تھیں طنزیہ لہجے میں زویا سے پوچھا 

خیر ہمیں کیا ویسے تمھیں رات کو نہیں تو صبح بھابھی کو بتا دینا چاہیے تھا،،،،،

رمیض صاحب جو کافی دیر سے اپنی بیگم کو آنکھیں دیکھا رہے تھے غصے سے بولے،،،،،

 اگر آپ کا تبصرہ ہو گیا ہو تو ایک کپ گرم چائے لادیں 

اور شازیہ بیگم پاؤں پٹختی کچن میں چلی گئیں

شازیہ بیگم کو بالکل پسند نہیں تھی زویا کیونکہ حاشر کا جھکاؤ انھیں آگ لگاتا تھا ان کی بھی دو بیٹیاں تھیں اور حاشر جیسا خوبصورت اور اکلوتا صاحب جائیداد لڑکا ،،، وہ اس لئے ہی زویا پر طنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں

     ###########

رات کو احسان صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے تھے جب مریم بی بی انکے لیے چائے لائیں  ,,, کیا سوچ رہے ہیں آپ،،،،،

احسان صاحب نے چونک کر اپنی بیوی کو دیکھا

" ہوں ہاں وہ مجھے صبح شازیہ کا رویہ زویا سے کچھ اچھا نہیں لگا "

تو اسلئے ہی تو کہہ رہی ہو ں آپ دونوں کی شادی کا باقاعدہ اعلان کر دیں اور دسمبر میں حاشر کے آتے ہی شادی کر دیں  20 دسمبر تک وہ واپس بھی آ جائے گا ،،،مریم بی بی نے جلدی سے کہا

 پہلے تم اپنے لاڈلے کو آنے دو ابھی کسی شور شرابے کی ضرورت نہیں ہے،،،وہ دو ٹوک لہجے میں بولے

آپ کو ابھی بھی حاشر ہر یقین نہیں ہے،، کیا وہ زویا کے ساتھ کچھ غلط کر سکتا ہے،،،،

 مریم نے افسوس سے کہا 

مجھے اس شوبز کی دنیا پر یقین نہیں ہےجو ان روشنیوں میں ایک بار کھو جائے وہ راستہ بھول جاتے ہیں واپسی کا،،،شہرت کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے مریم،،،،

اللہ نہ کرے آپ میرا دل ہولہ رہے ہیں وہ سب چھوڑ دے گا اور میں شادی کی تیاریاں شروع کر رہی ہوں 

 دونوں کی تیاری مجھے ہی کرنی ہے اور صرف چھ مہینے ہی تو باقی ہیں،،،،انھوں نے ہول کر دل پر ہاتھ رکھا پتا نہیں کسی گھبراہٹ تھی،،،،

ٹھیک ہے پر ہر چیز زویا کی پسند کی ہو ،،،،

 احسان صاحب نے کہا 

مریم بی بی نے گردن تائید میں ہلائی،،،،

: ظاہر ہے،،اور شازیہ کی آپ فکر نہ کریں میں اسکو بھی سیدھا کرتی ہوں 

# ####,

حاشر لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ رہا تھا کانوں میں ھیڈ فون لگے تھےدروازے سے اسکی پیٹھ تھی جب زویا دبے پاؤں اسکے کمرے میں آئی اور خاموشی سے کھڑی ہوگئی،،،

 چندا اگر پیچھے سے میرا دیدار ہو گیا ہو تو چہرہ آگے گھوما سکتا ہوں ،،،،،حاشر نے بڑی معصوم سی شکل بنا کر کہا

 حاشر تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں ہوں ،،،،زویا مسکرائی

اب اگر میں سچ کہونگا تو تم شرما کر بھاگ جاؤ گی  تو بس اتنا کہہ دیتا ہوں کہ

" تیری خوشبو سے پہچان لیتا ہوں"

 ویسے کس لے آئی ہیں آپ وہ بھی رات کے ایک بجے ،،،،

، میں کافی شریف ہوں پر ،،،سامنے جب ایسی قیامت کھڑی ہو تو اچھے اچھے زاہدوں کا ایمان,,,,

وہ شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

میں جا رہی ہوں تم کرتے رہو اپنی بکواس ،،،،،،  

حاشر اچھا نا بتاؤ کیا بات ہے ،،حاشرنے اسکا ہاتھ پکڑا

کچھ نہیں بس میں یہ میگزین دیکھ رہی تھی تم نے فلم سائن کرلی نا ،،،،

یہ تو میں تمھیں پہلے ہی بتا چکا ہوں اور یہ خبر اس میگزین  میں تو آئی ہی نہیں ہے اصل بات کرو زویا کیا پریشانی ہے تمھیں،،،،،

نہیں وہ میں وہ سب مطلب شازیہ چیچی اور میری فرینڈز،،،،،،،،زویا سے کہا ہی نہیں جارہا تھا

میرے اور زرا احمد کے بیچ کچھ نہیں ہے اوریہ جھوٹی خبروں پر دھیان دینا چھوڑ دو کوئی کیا کہہ رہا ہے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے تم کیا سوچتی ہو یہ اہم ہے میرے لئے اب بولو کیا ہوا،،،،،،

حاشر نے میگزین نے کر ہاتھ سے دور پھینکا،،،

تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے حاشر,,,,,ہر وقت اتنی حسین لڑکیاں اور اب تو فلمی دنیا وہاں کا ماحول،،،،،

وہ سب رنگینیاں،،،،وہ ڈر کر اسے دیکھ رہی تھی

تمھارا ان سب سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ان حسیناؤں کی جہاں تک بات ہے  تو

  یہ تو ہے مسئلہ پر کیا کروں یار بچپن سے ایک چڑیل کے چنگل میں ایسا پھنسا ہوں کے کوئی حسین چہرہ دل کو بھاتا ہی نہیں،،،

اور زویا جو اس اظہار ہر آسمان پر پہنچ گئی تھی دھڑم سے نیچے گری"

 اچھا میں چڑیل ہو ں اور وہ حسین پریاں  چھوڑو میرا ہاتھ اور مرو تم "

ہاہاہاہاہاہا مر ہی تو چکا ہوں تم پر اور آج تو پتہ ہے ان لال کپڑوں میں کیسی لگ رہی ہو،،،،

 حاشر نے اسے خود سے تھوڑا قریب کیا 

زویا کی دھڑکنیں تک رک گئیں اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی 

حاشر نے اسکے کان میں کہا

 بالکل اسٹرنگ کی بوتل اور پتہ ہے میرا دل کیا کر رہاہے 

زویا نے پٹ سے آنکھیں کھول دئیں 

اور میرا دل کر رہا ہے پی لوں ،،،،،

زویا نے اسکو دھکا دیا اور دروازے کے پاس آکر بولی،،،،،،

 سب ٹھیک کہتے ہیں تم آوارہ اور بدمعاش لڑکے ہو اور میری توبہ جو اب کھبی تمھارے کمرے میں آؤں ،،،،

ہاہاہاہاہاہا حاشر کے قہقہے نے دور تک اسکا پیچھا کیا،،،

زویا بھی ایک دم سے ہنسی،،،مگر وہ کمرے میں اکیلی تھی

 وہ بیٹھے بیٹھے اس دشمن جاں کے خیالوں میں گم تھی جس نے ایک مہینے سے کوئی فون نہیں کیا تھا بس روز ایک  مسیج کر دیتا تھا کے بہت مصروف ہوں دن رات کا کوئی حساب نہیں بس کام کام,,,,

اور وہ سارا دن میں کتنی بار یہ میسیج پڑھتی تھی

 زویا کو انجانے سے وہم ستانے لگے تھے اتنے دن تو وہ کبھی اس سے بات کرے بغیر نہیں رہا تھا

حاشر کی شوٹنگ کو دو مہینے ہو گئے تھے ابھی بھی وہ اپنا سین اوکے کروا کر بیٹھا تھا لنچ بریک تھی

 اسکی طبیعت صبح سے بوجھل  ہو رہی تھی سر درد سے پھٹ رہا تھا اور زویا بہت یاد آرہی تھی زویا کو سوچتے ہوئے اسنے نمبر ملایا

پہلی ہی بیل پر زویا نے فون اٹھاکر جس بےتابی سے حاشر کا نام لیا اتنی دور بیٹھے حاشر کا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اسکے پاس چلا جائے

"حاشر کچھ بولو تو " ہیلو ہیلو ،،،،،زویا کو لگا لائن کٹ گئ ہے

 جب دوسری طرف سے آواز آئی

کیا فون ہاتھ میں لے کر کوئی چلہ کاٹ رہی تھیں،،جاناں،،، بیل بھی نہیں ہوئی اور فون اٹھا لیا حاشر نے نم آنکھوں اور   بھاری آواز سے پوچھا

بکو مت کہاں ہو جانتے ہو آج پورے ایک مہینے کے بعد فون کیا ہے تم نے،،،،وہ روہانسی ہوئی

"28 دن بعد،"،، حاشر نے اسے یاد دلایا

تو کیا اٹھائیس دن کم ہوتے ہیں مہینہ نہیں ہوتا  پر تمھیں کیا پتہ تم تو وہاں مزے میں ہو عیش کر رہے ہو اور اب کچھ بولو گے اگر فون کرنے کا احسان کر ہی لیا ہے تو: ،،،زویا نے روتے ہوئے کہا

نہیں میں نے صرف سننے کے لئے فون کیا ہے ،،،،

حاشر نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے کہا اسکا درد بڑھ رہا تھا

"بس اب ایسی باتیں کرنا کب واپس آرہے ہو"

جس طرح ندیم صاحب کام کروا رہے ہیں لگتا ہے چھ مہینے کے بجائے چار مہینے میں ہی واپس آجائیں گے

 ارے میں تو تمھیں بتانا ہی بھول گیا انڈیا کے مشہور ڈایریکٹر  سنیل کپور کے سیکرٹری کی کال آئی تھی مجھے کل رات،،،

کیا مطلب کیوں آئی تھی حاشر تمھارا دماغ ٹھیک ہے ،،،،

تم نے منع کر دیا نا انھیں ،،،زویا غصے سے چیخی،،،،

 حاشر کو ایک دم شرارت سوجھی اور کہا 

"نہیں یار میں نے کہا سوچ کر بتاؤں گا میں کیا پاگل ہوں جو اتنا اچھا موقع مس کر،"،،،،،،،،،،،،، ہیلو ہیلو زویا "

زویا نے فون رکھ دیا اور اب اپنا پسندیدہ کام رونا شروع کر چکی تھی

حاشر نے دوبارہ نمبر ملایا پر اسنے نہیں اٹھایا 

اتنے میں جمشید اور زارا آگئے اور اسنے موبائل جیب میں رکھ لیا

 یار تمھارے مزے ہیں فلم میں بھی رومانس اور حقیقی زندگی میں بھی ایک ہم ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا،،، جمشید نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

 بس فلرٹ ہی کرنا ساری زندگی اور حاشر کیا سوچا ہے تم نے سنیل کپور سے میٹنگ کر رہے ہو پھر ،،،،،

یار میں تمھیں بتا چکا ہوں یہ میرا آخری پروجیکٹ ہے اسکے بعد بائے بائے شوبز،،،میں یہ بات مذاق میں بھی نہیں کر سکتا اتنا خوفناک ری ایکشن آتا ہے،،،،

 یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں کیسی میٹنگ اور وہ بھی سنیل کپور کے ساتھ،،،،، جمشید نے حیران ہو کر دونوں کو دیکھا

 ان موصوف کو کال آئی ہے پر یہ ایٹیٹوڈ دیکھا رہے ہیں انکار کر رہے ہیں تم سمجھاؤ اسے یہ موقعے بار بار نہیں آتے ،،،زارا بے زار ہوئی اتنا بے وقوف لگا تھا اسے حاشر،،،

 تم ہوش میں ہو حاشر  ایسی آفر ریجیکٹ کر رہے  وہ بھی صرف ایک لڑکی کے لئے ,,,,،،، جمشید حیران ہوا،،،

وہ صرف ایک لڑکی نہیں ہے میرے لیے اور ختم کرو اب یہ بات اور زارا تم ندیم صاحب سے بات کرو مجھے دو گھنٹے کا بریک دیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے 

اچھا وہ تو میں کہہ دیتی ہوں ہر تم ڈاکٹر کو دیکھاؤ ٹمپریچر بھی ہے تمھیں:,,,,,, زارا ایک دم پریشان ہوئی،،،

ہا کیا قسمت ہے حاشر صاحب کی واہ خیر ابھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پر اس آفر پر سوچنا ضرور اور کون سا کل شوٹنگ اسٹارٹ ہو جائے گی پاکستان جاؤ شادی کرو اور  پھر فلم سائن ایک بار شادی ہو گئی تو،،،کیا کر لیں گی تمھاری منگیتر صاحبہ،،،،،جمشید نے آنکھ مارتے ہوئے حاشر کو ایک نئی رہا دیکھائی زارا کی آنکھوں میں بھی چمک اگئی،،،،، 

حاشر کچھ سوچ رہا تھا اس کے دماغ میں کچھ چل رہا تھا

#########

وہ کسی بہت اونچے پہاڑ پر کھڑی تھی اور بہت زور زور سے حاشر کو آواز دے رہی تھی جو بہت تیزی سے پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا زویا زور سے اسکے پیچھے بھاگتی ہے اور ایک پھتر کی ٹھوکر سے گر جاتی ہے ،،،،

ایک چیخ سے اسکی آنکھ کھل گئی حاشر،،،

:میرے اللّٰہ شکر یہ خواب تھا آف کیا ہو گیا ہے مجھے اللّٰہ حاشر کو جلدی واپس بھیج دیں پلیز اللّٰہ جی ،،،،

وہ نماز کے لئے اٹھ گئی، ،،،

#########

تم یہاں بیٹھے ہو اور میں نے تمھیں کہاں کہاں ڈھونڈا،،جمشید نے پیچھے سے اسکی کمر پر ہاتھ ماراحاشر نے تیزی سے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا اور دوسرا ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر خود کو نارمل کیا,,,,

 کیا ہوا حاشر تم ٹھیک ہو ،،، جمشید کو وہ بہت خاموش اور اداس لگا

کیا ہے یار  تم کیوں ڈھونڈ رہے ہو مجھے،،،،،،حاشر بے زار ہوا وہ اس وقت اکیلا بیٹھنا چاہتا تھا بہت ہمت چاہیئے تھی اسے کچھ فیصلوں کے لئے،،،،

جمشید کو یاد آیا وہ یہاں کیوں آیا تھا سر پر ہاتھ مار کر کہا

 او بھائی ہم یہاں پکنک منانے نہیں آئے ہیں اور صرف میں ہی نہیں پوراسٹاف آپ کو ڈھونڈنے پر لگا ہوا ہے فون بھی تمھارا بند تھا اور ندیم صاحب کو جتنی گالیاں آتی تھیں سب تمھیں دے چکے ہیں اسلئے اب چلو،

 ایک بار میں انڈیا ہو کر آجاؤں پھر اس ندیم سے تو نمٹتا ہوں کافی حساب نکلتے ہیں،،،،،

کیا انڈیا کیوں کیا واقعی جمشید کی سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہہ رہا ہے،،،

تم نے ہی تو کہا تھا ایک بار شادی ہوگئی تو پھر کیسی اجازت اور کوئی بیوقوف ہی ایسی آفر ٹھکرا سکتا ہے اور میں بیوقوف نہیں ہوں  حاشر نے ہنستے ہوئے اس سے کہا 

اور اپنے بابا اور اپنی منگیتر کو کیا کہو گے،،،،جمشید نے ہنس کر کہا

ابھی کچھ سوچا نہیں پہلے میں سنیل کپور سے بات کرتا ہوں یہ نہیں ہو بعد میں رول بھی پسند نہیں آئے اور گھر سے بھی نکلا جاؤں ،،،دیکھتے ہیں ابھی تو چلو ندیم کو بھی دیکھیں

اوہ ابھی تو فلم سائن نہیں کی اور ندیم صاحب کے بجائے ندیم  

دونوں نے تالی ماری اور چل دیے حاشر کے راستے میں ایک چھوٹا سا پتھر آیا اور عادت کے مطابق   اس کو ٹھوکر ماری اور چل دیا بالکل ایسے ہی جیسے وہ زویا کو ٹھوکر مار چکا تھا

سب گھر والے رات کا کھانا کھا کر ایک ساتھ بیٹھے تھے جب نادیہ سب کے لئے چائے بنا کر لائی 

احسان صاحب: بیٹا زویا کہاں ہے  

ن وہ سورہی ہے  تایا ابو طبعیت ٹھیک نہیں ہے ،،نادیہ نے چائے دیتے ہوئے کہا

احسان صاحب نے اپنی بیگم کو دیکھا،،،،،

 آپ نے بتایا نہیں،،،

مریم بی بی نے گھبرا کر جلدی سے کہا

مجھے تو خود ان بچیوں سے پتہ چلا  دوا دی ہے میں نے کھانے کو منع کر رہی تھی تو دودھ دے دیا تھا،،،،

بھائی صاحب آپ کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے زویا کے ماموں کے بارے میں ،،،رمیض صاحب نے احسان صاحب کو یاد دلایا،،،،

سب گھر والوں کے کان کھڑے ہو گے خاص طور پر ینگ پارٹی کے سب سے پہلے احمد بولا

" کیا بات ہے اس بار کینو اور سیب نہیں ائے کافی ٹائم سے "

احسان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ،،،،،اسلئے کے اس بار اکبر خان اور انکی بیگم خود آنا چاہ رہے ہیں اور،،،،،،،،

کیوں وہ کیوں آنا چاہ رہے ہیں پہلے تو کبھی خیال نہیں آیا بس نوکروں کے ہاتھ سامان بھیج کربھا نجی کافرض پورا ہو گیا،،،مریم بی بی تیزی سے بولیں

میں ان سے اس طرح کی باتیں نہیں کر سکتا تھا،،،،احسان صاحب نے گھور کر کہا

پھر بھی بھائی صاحب آپ پوچھتے تو کہیں وہ زویا کے لئے ،،،تو  آنا مطلب ایک بار پہلے بھی تو کہا تھا آپنے بیٹے کے لئے،،،،، شازیہ چچی نے مسکرا کر کہا

، احسان صاحب نے گھور کر شازیہ بیگم کو دیکھا ،،،،،

وہ آئیں گے تو پتا چل جائے گا  اور پھر  بولے میں نے  ان سے کہا ہے وہ جب انا چاہے آجائیں انکا اپنا گھر ہے اور اتوار کو وہ لوگ آرہے ہیں ،،،،

آپ نے انھیں زویا اور حاشر کی شادی کا بتایا،، مریم بی بی نے پوچھا

نہیں مجھے فون پر مناسب نہیں لگا بتانا اب آئیں گے تو پتا چل ہی جائے گا انھیں،،،،احسان صاحب نے لہجے کو سر سری بنا کر کہا

اور مریم بی بی کھوجتی ہوئی نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی جنھوں نے ٹی وی کی آواز تیز کرکے خبریں لگالی تھیں

## 

زویا اپنے کمرے میں بند بار بار نمبر ملا رہی تھی جو کل رات سے یا تو بند ہوتا  یا بیل جارہی ہوتی اور وہ اٹھا بھی نہیں رہا تھا اور نا وہ زویا کے کسی میسج کا جواب دے رہا تھا  زویا ساری رات فون ہاتھ میں۔ لے کر بیٹھی رہی مگر فون نا آنا تھا اور نا آیا اسکے بد ترین خدشات سچ ہونے جا رہے تھےکون سی منت نہیں تھی جو وہ حاشر کو فون اٹھانے کے لئے نہیں کر رہی تھی

 اپنی محبت کے واسطے دے رہی تھی اب تو اسے یقین ہونے لگا تھا کہ حاشر سچ بول رہا ہے

## #####

اور صبح تصدیق بھی ہو گئی سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوگئی  کہ مشہور ایکٹر حاشر خان بہت جلد انڈیا کی فلم میں نظر آئیں گے

گھر میں ایک طوفان آگیا تھا اس خبر سے سب سے پہلے زویا کی پیشی ہوئی تایا جان کے سامنے

 تمھیں کب پتہ چلا اور دیکھو زویا یہ مت کہنا تمھیں کچھ پتہ نہیں ہے ،،،احسان صاحب کو اس کی روتی  شکل دیکھ کر پہلے ہی ہر بات کی تصدیق ہو گئی تھی،،،

تین دن پہلے بتایا تھا اسنے،،،،،

 زویا نے کسی مجرم کی طرح اعتراف جرم کیا،،، ساری غلطی اسکی ہی ہو 

 سن لیا تم نے  یہ میڈیا والے تو جھوٹ بولتے ہیں اپنے پاس سے خبریں بناتے ہیں،،،،احسان صاحب غصے سے بیوی پر دھاڑے تھے،،،

 تم نے بتایا کیوں نہیں زویا،،،،مریم بی بی کا دل ڈوبا

تائی جان مجھے لگا وہ مذاق کر رہا ہے اور پھر وہ اب میرا فون بھی نہیں اٹھا رہا ،،،،وہ شرمندہ ہوئی

 سب گھر والے سن لیں اس دسمبر کی 27 تاریخ کو زویا کی بارات ہے تم اپنے بیٹے سے آج کے آج ہی بات کرو ورنہ میں نواز کو یہ تاریخ دے رہا ہوں کل،،،،،،

 احسان صاحب یہ کہتے ہوے گھر سے نکل گئے

زویا مریم بی بی کے پیروں میں بیٹھ گئی،،،،،

 تائی جان  تایا جان کو سمجھائیں یہ ظلم نہ کریں ہم پر ہم مر جائیں گے میں اس سے بات کروں گی وہ سمجھ جائے گا ،،،،وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی،،،

بیٹا وہ اگر سمجھنے والا ہوتا تو تمھارا فون اٹھا لیتا وہ،،،،،،

 تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اسکے فلموں میں کام کرنے پر ،،،اسے کرنے دیں کام مگر یہ رشتہ نہیں ختم کریں،، میں مر جاؤں گی،،،، وہ رو رو کر بحال ہو رہی تھی 

#########

تائی جان سے حاشر کی بات ہو گئی اور اسنے بتا دیا کے وہ فلم لائن نہیں چھوڑ سکتا ،،اور پانچ سال تک شادی جیسی جھنجٹ میں بھی نہیں پڑ سکتا

رات کو تایا جان زویا کے کمرے میں آئے

  پھر کیا سوچا ہے بیٹا آپ نے میں اگلے ہفتے نواز کی فیملی کو بلا لوں 

تایا جان یہ اسکی آخری فلم ہوگی ،،زویا نے نظر جھکا کر کہا

زویا تمھیں یاد ہے جب اسنے پہلا کمرشل کیا تھا جب بھی تم نے یہ ہی کہا تھا مجھ سے تایا جان بس ایک کمرشل کرنے دیں،،،،

زویا،،،،،:وہ اب کچھ نیا سائن نہیں کرے گا تایا جان

ہاں ایسا اسنے جب کہا تھا جب اسے پہلے ڈرامے کی آفر ہوئی تھی ہیں نا زویا یاد ہے تمھیں،،،،

زویا:،،،،،،وہ شوبز کی دنیا چھوڑ دے گا وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا،،، نظر نیچے رکھ کر کہا

تایا جان ہنسے،،،،" ارے ہاں ایسا تو اسنے لندن جاتے ہوئے کہا تھا بیٹا یاد ہے مجھے ٫،،،،

 تایا جان اگر وہ فلم لائن نا بھی چھوڑے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،،،،اب  زویا نے انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا 

پر اسے ہے اعتراض تم سے شادی پر احسان صاحب نے ایک دم چیخ کر کہا،،،،،

 زویا نے ڈر کر بے یقین نظروں سے انکی طرف دیکھا

وہ اپنی جیب سے کچھ نکال رہے تھے

" میں نہیں چاہتا تھا کہ تمھیں یہ دوں مگر ",,,

  کیا ہے یہ تایا جان ،،،وہ اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھا سکی،،،

یہ میری تربیت ہے بیٹا جو میرے بیٹے نے میرے منہ پر ماری ہے یہ کل میرے آفس نمبر پر مجھے بھیجا ہے اس نے تم اسے پڑھ لو 

اور اپنا فیصلہ مجھے بتادو ویسے تمھارے ماموں بھی اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے آنا چاہ رہے ہیں لیکن آخری فیصلہ تمھارا ہی ہو گا  

اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئے

انکے جانے کے بعد زویا نے وہ کاغذ کھولا 

بابا میں نے بہت سوچا اور اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ میں فلم لائن نہیں  چھوڑ سکتا اور اپنے کیریر کی پیک پر میں شادی جیسا احمقانہ فیصلہ نہیں کر سکتا آپ زویا کو سمجھائیں وہ مجھے فون اور مسیج نا کرے میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا کم از کم پانچ سال تو میں شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور ظاہر ہے اتنے سال آپ زویا کو میرے لیے  بیٹھا تو نہیں سکتے اسلئے آپ نواز انکل سے بات کریں احسن اچھا لڑکا ہے زویا کو پسند کرتا ہے

   حاشر خان

زویا نا جانے کتنی بار رات سے اب تک یہ ای میل پڑھ چکی تھی اور اب تو اسکے پاس  آنسو بھی ختم ہو گئے تھے کتنا ارزاں کر دیا تھا حاشر نے اسے ہلکی پڑ گئی تھی وہ سارے گھر کے سامنے اسے لگا وہ مر گئی ہے نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے

 آج اسے اللّٰہ سے شرم آئی ایک شخص کے پیچھے وہ  دین اور دنیا بھلا بیٹھی تھی اسنے تو کبھی خود کے لئے دعا ہی نہیں کی تھی ہر دعا اس شخص سے شروع ہو کر اس پر ہی ختم ہو جاتی تھی وہ بھول بیٹھی تھی 

" نامحرم محبتیں ایسے ہی رسوا کرتی ہیں کزن تھا زبردستی کا منگیتر تھا محبت تھا پر شوہر تو نہیں تھا جو چھوڑنے سے پہلے ایک بار سوچتا یہ تو زویا کی غلطی تھی نا کہ وہ اپنا ہر رشتہ اس شخص میں ڈھونڈتی تھی   اس شخص کے پاس تو رشتوں اور محبتوں کی کمی نہیں تھی ،،،

 کیا وہ جی سکتی تھی اسکے بغیر وہ جو کہتا تھا اسے وہ ہوا بھی بری لگتی جو زویا کو چھو کر گزر جائے اور اج کتنے آرام سے آج ایک دوسرے مرد کا نام جوڑ دیا تھا زویا کے نام کے ساتھ،،،،،

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اس شخص کے لئے  جو بیچ راستے میں چھوڑ گیا تھا

### ######

اور پھر زویا نے اپنا فیصلہ کر لیا اسنے باتھ لیا اور اپنے کپڑے بدل کر شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوئی اپنے چہرے سے ایک دم نفرت سی محسوس ہوئی

آج آخری بار روئی ہوں تمھارے لئے حاشر آج سے تم میرے لئے کچھ بھی نہیں،،،،

  وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی اور  لاونج میں آکر کھڑی ہوگئی سب اسکو دیکھ کر خاموش ہوگئے 

تایا جان میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں شادی کے لئے تیار ہوں

احسان صاحب نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا پھر کہا

ٹھیک ہے میں نواز کو فون کر دیتا ہوں

نہیں تایا جان اس بار آپکا بیٹا میری ذندگی کا فیصلہ نہیں کرے گا بہت کر لئے اس نے میرے لئے فیصلے آپ ماموں جان کو ہاں کر دیں اور میری بارات 27 دسمبر کو ہی ہو گی ،،،وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی تیزی سے واپس چلی گئی،

اور شازیہ بیگم تو شازیہ بیگم کمرے میں بیٹھے ہر شخص نے زویا کی بے باکی کو حیرت سے دیکھا پر زویا کو اب کسی کی پروا نہیں تھی

####$## 

لندن میں حاشر کو یہ خبر مل گئی تھی سنانے والی نادیہ تھی

حاشر موبائل ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا

 زویا کی پکس کا فولڈر کھولا اسنے،،،

ایک دم تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے ہوئے مسکراہٹ چہرے پر آئی،،،،

 پھر طنزیہ ہنسی ہنسا،،،،

 اچھا تو جانم تمھیں لگتا ہے میں اب تمھاری زندگی کے فیصلے نہیں کر سکتا ان جھمیلوں سے فارغ ہو جاؤں پھر ایک ملاقات تو بنتی ہے "ذندگی" تم سے

اتوار کو زویا کے ماموں ممانی اور انکا بیٹا مہروز اکبر خان آگئے پشاور سے بہت سے پھل , ڈرائے فروٹ اور میٹھائی کے ساتھ زویا کارشتہ لے کر ،،،،،

اکبر خان نے بہت عاجزی سے گزارش کی کہ وہ اپنی مرحومہ بہن کی بیٹی کو اپنے گھر کی عزت بنا نا چاہتے ہیں اور یہ ان کے علاؤہ زویا کی نانی کی بھی خواہش ہے وہ اپنی نواسی کو مہروز خان کی دلہن کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں 

اور اگر احسان صاحب کو اعتراض نہ ہو تو وہ یہ شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بی جان کی طبعیت زیادہ ٹھیک نہیں ہے ،،،،،

احسان صاحب اور رمیض صاحب نے تھوڑی پس و پیش کے بعد ہامی بھر لی 

احسان صاحب کو ویسے تو سب ٹھیک ہی لگ رہا تھا پر انھیں مہروز کا رویہ کچھ عجیب سا لگا وہ حاشرسے شاید ایک دو سال ہی بڑا تھا مگر اسکے چہرے پر غصہ سنجیدگی اسکی عمر سے زیادہ تھی پھر غرور سے تنی گردن اسکے چہرے پر بہت ناگواری تھی جسے اس نے چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی اور کھانا کھاتے ہی وہ جانے کے لیے اٹھ گیا جب رمیض اور احسان صاحب نے ان لوگوں کو روکنے کی درخواست کی تو اکبر خان کے کچھ بھی کہنے سے پہلے اسنے کہا 

نہیں ہمارا ہوٹل میں کمرہ بک ہے اور اب اجازت دیں،،،کہتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے،،،

جاتے وقت ماموں اور ممانی نے زویا کو بہت پیار کیا مگر مہروز خان اور زویا نے ایک بار بھی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھا

## ######$

دونوں طرف شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں تھیں حاشر کو بھی خبر مل چکی تھی پر اسے تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا

احسان صاحب نے دبے لفظوں میں زویا کے سامنے رشتے پر اعتراض اٹھایا تھا وہ زویا کو خود سے اتنی دور بھیجنا نہیں چاہتے تھے،،، پر زویا کی خاموشی نے انھیں بالکل ہی چپ کر دیا تھا

## ######$$

پھر 25 دسمبر کو زویا کو گھر میں ہی مایوں بیٹھا دیا گیا باہر سے زیادہ کسی کو بلایا نہیں گیا تھا کیونکہ پہلے ہی خاندان میں  کافی باتیں بن رہی تھیں احسان صاحب نہیں چاہتے تھے کوئی بات بھی ایسی بات  ہو جائے  جو زویا کے سسرال تک پہنچے اور پھر اسکے لئے مشکلات پیدا ہوں  

## 

زویا  پیلے جوڑے میں خود بھی بلکل پیلی ہو رہی تھی ساری دلکشی ہی کھو گئی تھی  اسکی  وہ خود کو شیشے میں دیکھنے لگی آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے پڑ گئے تھے،،،،

دروازہ بجا کر احسان صاحب کمرے میں آئے 

: تایا جان آپ کیوں ائے مجھے بلا لیا ہوتا ،،،، زویا نے سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے کہا،،،،

 نہیں میرا دل چارہا تھا میں اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ دیر اکیلے بیٹھوں کیا ابھی بھی ناراض ہے میری بیٹی مجھ سے

:  تایا جان میں آپ سے  ناراض ہو سکتی ہوں کیا،، 

میرا آپ لوگوں کے سوا ہے کون اور آپ نے تو تایا جان ہمشہ میرے بابا سے بھی زیادہ پیار کیا ہے اتنا تو شاید میرے بابا نہیں کرتے جتنا آپ نے میرےلیے کیاہے

بیٹا تم وہاں رہے لو گی ایک چھوٹا سا شہر ہے 

زویا:،،،بڑے شہر کے دکھ بہت بڑے ہیں تایا ابا رہے لونگی،،،،

احسان صاحب :پہاڑی لوگ بہت سخت جان ہوتے ہیں ان کے دل بھی سخت ہوتے ہیں بیٹا،،،،،،

 زویا:،،،،ظالم تو سمندر بھی ہوتا  ہے تایا ابا،،،،

مجھ سے ملنے تو ائے گی میری بیٹی احسان صاحب نے بہت حسرت سے دیکھ کر کہا ان کو ایسا لگ رہا تھا بس یہ کچھ دن ہیں انکے پاس پھر وہ زویا کو کھبی نہیں دیکھ پائیں گے اور پھر احسان صاحب ایک دم اٹھے اور زویا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے نکلتے چلے گئے 

 رات سب اپنے کمروں میں سونے چلے گئے بس مریم بی بی نوکروں سے کھانا کچن میں پہنچا رہی تھیں  جب انکو لگا کوئی چپکے سے انکے پیچھے آکر کھڑا ہوا ہے اور مریم بی بی کو لگا وہ کھڑے  کھڑے گر جائیں گی

 کسی نے انھیں اپنے مضبوط بازؤں میں لے لیا مریم بی بی رونے لگیں

 لیکن انھیں یہ ڈر بھی لگا کہ کوئی گھر کا فرد یہاں نہیں آجاے اسلئے جلدی سے وہ حاشر کو کھنچتی ہوئی اسکے کمرے میں لے گیں اور دروازہ بند کیا 

:اب کیوں ائے ہو حاشر یہ دیکھو یہ میرے ہاتھ میں تمھارے سامنے جوڑ رہی ہوں اب کوئی تماشہ مت کرنا مجھے بڑھاپے میں اور زلیل نہیں ہونا تمھارے باپ کے ہاتھوں ،،،،،اب کچھ بولو بھی حاشر کیا ہوا ہے اب کیا چاہتے ہو،،،،،

 انھوں نے حاشر کو خود سے دور کیا جو بس انکے گلے لگا ہوا تھا بالکل چپ تھا،،

کیا اتنا برا ہوں میں کہ میری ماں کو لگتا ہے کے میں آج آیا ہو تو کچھ غلط ہی کرنے آیا ہوں،،،،

حاشر نے بہت دکھ بھری نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا 

اور اسوقت مریم بی بی کی نظر بھی حاشر کے چہرے پر گئی اور وہ ایک دم پریشان ہو گئیں 

:حاشر کیا ہوا ہے تمھیں طبیعت ٹھیک ہے تمھاری کتنے کمزور ہو رہے ہو،،، سب ٹھیک تو ہے نا تو خوش ہے ،،حاشر تم زویا کے بغیر رہے لوگے نا،،،،وہ جلدی جلدی بے ربط بولنے لگیں،،،

اور حاشر نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا

 اف اماں بس اتنی جلدی راضی ہوگئیں ابھی تو تھوڑی ایکٹینگ اور کرنی تھی مجھے بڑے ڈائیلاگ یاد کر کے آیا تھا،،، "کاش ساری دنیا کا دل ماں جیسا ہو تو کتنا مزا آئے" ،،

مریم بی بی نے ہنستے ہوئے ایک تھپڑ اسکی کمر پر لگایا اور کہا ،،

"ماں سے ڈرامے بازی کرتا ہے اچھاابھی جاؤ حاشر زویا کو اس گھر سے رخصت ہو جانے دو میں خود تمھارے بابا سے بات کروں گی وہ معاف کر دئیں گے تمھیں پر ابھی تم چلے جاؤ "

:ماں میں جانے کے لیے ہی آیا ہوں کل دبئی جارہا ہوں سنیل کپور کی فلم سائن کرنے کچھ ضروری چیزیں ہیں میری وہ لینے آیا ہوں،، 

ہاں تو لو میں بیٹھی ہوں یہاں،،،،،،

 مریم بی بی یہ کہہ کر وہیں بیٹھ گئیں 

چلیں ٹھیک ہے آپ یہاں بیٹھ کر مجھ سے ساری رات باتیں کریں،،،،  یہ کہتے ہوئے حاشر نے اپنا سر مریم بی بی کی گود میں رکھ دیا،،،

کیونکہ ماں میں صبح جاؤنگا اس ٹائم کوئی ٹیکسی نہیں ملے گی اور گاڑی نکالی اپنی تو سب کو شک ہوجا ئے گا کہ گاڑی کہاں گئی ویسے اماں با با سوگئے ہیں کیا 

 مریم بی بی: اوہ ہو اگر انکی آنکھ کھلی اور مجھے کمرے میں نہیں دیکھا تو اف اچھا تم دیکھو کمرے سے باہر نہیں نکلنا  میں صبح تمھارے بابا کو کمرے سے باہر نہیں آنے دونگی تم جلدی چلے جانا ،،،،

مریم بی بی اسکے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں

 یہ دیکھے بغیر کے حاشر نیچے منہ کئے ہنس رہا ہے #########

تھوڑی دیر بعد 

حاشر کچن میں چائے بنا رہا تھا کہ اسے آہٹ محسوس ہوئی اور اسکے ہونٹ مسکرا اٹھے  اسے یقین تھا وہ آئے گی

 بالکل ویسے ہی جیسے زویا کو یقین تھا کہ اسکی شادی سے پہلے ایک بار وہ ضرور آئے گا ،،،،

زویا کچن کے دروازے پر حاشر سے پیٹھ کرے کھڑی تھی کیونکہ وہ اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی 

اور حاشر چولہے کی طرف منہ کر کے کھڑا تھا جانتا تھا اگر اسکا چہرہ دیکھ لیا تو واپس نہیں جا پائے گا ،،،

  اب کیوں  ائے ہو میرا تما شہ دیکھنے ،،،وہ کرلائی تھی،،،

 نہیں  تمھیں آخری بار سننے  کوئی بددعا کوئی گلہ  بہت سی گالیاں،،،،،حاشر نے چولہے کی آنچ کم کی،،،

لیکن مجھے کچھ بھی نہیں سنانا،،،، زویا نے زور سے اپنی آنکھیں بند کیں وہ آج اسکے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی

حاشر نے کہا ،:،،،

تو کیا تم نے مجھے معاف کر دیا زویا 

  حاشر ابھی تو میں خود کو معاف نہیں کر پائی ہوں تمھیں کیسے کر دوں ،،،،وہ سختی سے بولی،،،

 میں کل دبئی جارہا ہوں فلم سائن کرنے ،،،،حاشر نے بتایا

زویا ایک دم ہنسی،،،،،،

 کتنا حسین اتفاق ہے کل میں بھی سائن کر کے ہمشہ کے لئے اس گھر سے جا رہی ہوں 

ایک بات کہوں مانو گے،، تم فلم آٹھ بجے سے پہلے سائن کرنا،،،

حاشر:نے حیرت سے کہا،،،،،، کیوں 

 کیونکہ مجھ پر بے وفائی کا کوئی الزام نہیں آئے ،،،زویا نے کہا

میں تمھیں شادی کے گفٹ میں وہ فلیٹ دینا چاہتا ہوں جو ہم نے،،،،،

مجھے اب اسکی ضرورت نہیں ہے اور پھر میں کیا بتاؤں گی اپنے شوہر کو  کس چیز کی قیمت چکائی ہے میرے پرانے عاشق نے،،، 

زویا ،،،،حاشر نے چیخ کر اسے روکا

حاشر بس میرا اور تماشہ مت بناؤ اورایک دن رہے گیا ہے عزت سے گزارنے دو قسم کھاتی ہوں کبھی واپس نہیں آنا  تمھارے شہر میں ،،،،،

حاشر ایک دم اسکے سامنے آیااور کہا

زویا دوبارہ یہ الفاظ مت کہنا  میری محبت کو گالی مت دو جارہا ہوں میں تمھارا تماشہ لگاؤں گا زویا میں ،،،، کیسے کہہ سکتی ہو تم اورجانا ہی تھا مجھے جا رہا ہوں مگر میری محبت،،،،،،

حاشر تمھارے منہ سے تو اب لفظ محبت بھی گالی ہی لگا ہے مجھے،،،،،،، زویا نے کہا

حاشر اسکے پاس سے نکلتا چلا گیا 

زویا کچن میں اکیلی کھڑی رہے گئی،،،،

" تو تم چلے گئے حاشر ہمشہ کے لئے بس اتنی ہی تھی تمھاری محبت" میں نے تو تمھارے شوق سے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا

 پر میں تو تمھاری شاید پسند بھی نہیں تھی،،،،،

زویا نے اسکا کپ اٹھایا جس میں چائے ابھی ہلکی گرم   تھی زویا کپ لے کر کچن کے اسٹول پر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں میں کپ کو جکڑ لیا ,,,,آنسو جو لگا تھا ختم ہو چکے ہیں پھر آگئے تھے یہ شخص روح میں بستا تھا،،،،

زویا تم اسوقت کچن میں کیا کر رہی ہو،،، ،شازیہ چچی نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے حیرت سے پوچھا :: 

فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی،،،،

زویا ؛: چچی سر میں درد تھا تو اپنے لئے چائے بنانے آئی تھی 

زویا تم مایوں بیٹھ چکی ہو  اس وقت تمھیں اپنے کمرے سے نہیں نکلنا چاہیے تھا پتہ ہےمایوں کی دلہن میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے اسلئے اکیلے رات کو باہر نہیں آتے جن عاشق ہو جاتے ہیں،،،،،،

 شازیہ بیگم نے بات تو بہت سنجیدہ کی تھی مگر زویا جو تھوڑی دیر پہلے جن سے ملاقات کر چکی تھی زور زور سے ہنسنے لگی آنسوں بھری آنکھوں سے اسکا قہقہہ شازیہ بیگم کی بھی جان نکال لے گیا وہ تیزی سے زویا کی طرف بڑھیں اسکو گلے لگا کر کہا؛:

کیا ہوا ہے زویا اور دیکھو تمھاری چائے بھی ٹھنڈی ہوگئی ہے اپنے کمرے میں جاؤ میں دوسری چائے بنا کر لاتی ہوں تمھارے لئے،،،، شازیہ بیگم نے اس سے کپ لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ،

زویا نے کپ انکی پہنچ سے دور کیا اور انکے کان کے پاس آکر بولی

" چچی یہ بہت اسپیشل چائے ہے میرے عاشق جن نے بنائی ہے اور کپ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی"  ٫٫٫

شازیہ بیگم نے افسوس سے اسے دیکھا 

"اللّٰہ کیا ہوگا اس بچی کا یہ تو بالکل ہی پاگل ہو گئی ہے"

######

27 دسمبر

وہ دن آگیا جسکے لئے زویا نے بہت دعا کی تھی کہ نا آئے زویا نے خود کو دلہن کے روپ میں دیکھا وہ بہت حسین لگ رہی تھی شیشے میں دیکھتے ہوئے اس نے آخری بار حاشر کو مخاطب کیا؛::؛ 

مجھے کھو کر بہت پچھتائے گا  تو"""

" یہ جان لے میں بھی تیری خواہشوں میں سے ہوں

######## 

دبئی کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس ہو رہی ہے جہاں حاشر اور سنیل کپور نے باضبطہ ایک ساتھ کام کرنے کا اعلان کیا اور پھر حاشر نے کچھ پیپر سائن کئے :: 

موت سے کب انکار ہے ہمیں 

ہاں ذندگی بھی پیاری ہے

فیصلوں سے جوئے میں

میں نے ایک شام ہاری ہے

وہ دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے نیوز رپوڑٹر حاشر سے سوال کر رہے تھے اور وہ مسکراتے ہوئے سب کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا

####

ادھر پاکستان میں زویا کے ایک اقرار سے وہ زویا مہروز خان بن کر میلوں دور چلی آئی تھی پیچھے مڑ کر کھبی نہیں آنے کے لئے

لیکن وہ غلط سوچ رہی تھی اسکو کراچی واپس آنا تھا

زویا رخصت ہو کر پشاور اگئی بہت سی رسموں  کے بعد اسے بی جان کے پاس لایا گیا بی جان بہت کمزور ہو گیں تھیں زویا کو گلے لگا کر وہ بہت دیر اپنی بیٹی کو یاد کر کے روتی رہی زویا کو بھی عجیب سی کشش محسوس ہو رہی تھی ان سے وہ انکے گلے لگی رہی ممانی جان نے اسے الگ کیا اور مہروز کی کزن کو کہا کے اسے میرو کے کمرے میں چھوڑ آئے 

## 

زویا کو کمرے میں بیٹھے آدھا گھنٹہ ہوا تھا وہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی جب اسے اپنے بہت قریب سے آواز آئی  

کمرے کا جائزہ لے چکی ہوں تو مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے  ٫زویا اپنے خیالوں میں ایسی گم تھی کے اسے پتہ ہی نہیں چلا مہروز خان کب آکر بیڈ پر اسکے برابر میں بیٹھ گیا ہے 

زویا نے چونک کر دیکھا اور پھر نظر جھکا لیں

مہروز اس کے بہت قریب بیٹھا زویا کو عجیب نظروں سے گھور رہا تھا،،،

ایک بات مجھے سمجھ نہیں آرہی آخر تمھارے ماموں کو ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ فورا راضی ہوگئے کہاں تو ایسا قبضہ کیا ہوا تھا کہ کبھی بوڑھی نانی سے بھی دو دن کے لئے ملنے نہیں آنے دیا بہت ضد کر کے بلایا بھی تو خود ساتھ آئے اور تھوڑی دیر میں ہی واپس لے گئے اور کہاں ایک بار رشتہ لانے پر ناصرف ہاں کر دی بلکہ چار مہینے میں شادی کے لئے بھی راضی ہو گئے سچ بتاؤ کیا چکر ہے،،،،شکی لہجے میں نہایت بد تمیزی سے پوچھا

ماتھے پر بل چہرے پر سختی زویا صرف حیرت سے دیکھ کر رہ گئی

زویا نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ،،،،،

:تمھیں نہیں لگتا کہ اس سوال کے لیے اب دیر ہو چکی ہے یہ سوال تمھیں پہلے کرنا چاہیے تھا ،،،

 میں مجبور تھا بی جان کی وجہ سے اور مجھے لگتا تھا تمھارے ماموں  کی طرف سے خود انکار ہو جائے گا اور مجھ پر کوئی نام بھی نہیں آئے گا تم شہری لوگ کہاں راضی ہوتے ہو ہمشہ گاؤں میں رہنے کے لئے،،، خیر ایک بات میری یاد رکھنا مجھے تمھارے ماضی سے فرق نہیں پڑتا مگر اب تمھارا حال اور مستقبل صرف مجھ سے وابستہ ہے اسلئے جو پیچھے چھوڑ آئی ہو اسے بھول جاؤ اور یہ تمھارے لئے ہے ،،،

 مہروز نے جیب سے ایک باکس نکالا،،کیس دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا اسمیں چین ہے زویا کی گود میں پھینکا

زویا کو اپنی قسمت پر ہنسی آگئی گویا یہاں بھی اسکی کوئی جگہ تھی نا اہمیت بس ایک بوجھ:،،،،،

میں افسوس ہی کر سکتی ہوں اس بات پر کہآپ کو ہماری طرف سے انکار کی امید تھی  اب تو ہو گئ شادی خیر مجھے چینج کرنا ہے،،زویا نے بیڈ سے قدم نیچے رکھتے ہوئے کہا

کیا ،،،،مہروز نے حیرت سے پوچھا

 کپڑوں کے علاوہ میں اور کچھ چینج نہیں کر سکتی ،،زویا نے بڑے افسوس سے کہا 

اور بیڈ سے اتر گئی اسکی گود میں رکھا رونمائی کا گفٹ زمین پر گر گیا مگر  وہ واش روم چلی گئی،،

 اس کا دماغ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا مہروز کا رویہ صاف کہہ رہا تھا کہ زویا اسکی زندگی میں زبردستی شامل کی گئی ہے

 زویا سمجھ نہیں پارہی تھی کہ پیچھلے غمووں کا ماتم کرے یا آنے والے دکھوں کے لئے خود کو تیار کرے  

مہروز نے بہت چبھتی ہوئی نظروں سے زمین پر پڑے اس گفٹ کو دیکھا ،،،،اور ایک نفرت بھری نظر واش روم کے بند دروازے پر ڈالی

وہ تحفہ اپنی نا قدری پر رو رہا تھا

جسےنا دینے والے کے دل میں کوئی شوق تھا اور نا لینے والی کے دل میں کوئی ارمان ،،،،

محترمہ آنسہ زویا بیگم اب اگر آپ باہر تشریف لے آئیں گی تو آپ کا احسان ہوگا کیوں کے مجھے سونا بھی ہے اس نے دروازہ بجایا

تھوڑی دیر بعد زویا باہر آئی اور ڈریسنگ کے سامنے بیٹھ کر اپنے بال سلجھانے لگی  اور بس مہروز خان کا پارہ چڑھ گیا تیزی سے اٹھ کر اسکے پیچھے گیا،،،،

 کیا تماشہ ہے یہ میں نے کہا نا میں جلدی سوتا ہوں اور صبح جلدی اٹھتا ہوں کراچی والوں جیسی عادت نہیں ہے ہماری،،،،،،،مہروز نے شیشے میں اسے گھور کر دیکھا

 تو آپ سو جائیں میری اجازت کی  ضرورت ہے کیا،،،،زویا نے حیرت سے کہا

  تم کیا پاگل پاگل ہو اتنی معصوم کیوں بن رہی ہو  اگر بھول گئی ہو تو یاد دلا دیتا ہوں کچھ گھنٹوں پہلے نکاح کر کے لایا ہوں بیوی ہو میری،،،،،

،مہروز نے دانت پیسے

"ناپسندیدہ بیوی"،، زویا نے اسکی بات میں اضافہ کیا،

مہروز نے زویا کے چہرے کو  اپنے ہاتھ میں جکڑا اور اپنے چہرے کے قریب کرتے ہوئے  کہا،،، 

بیوی بیوی ہوتی ہے پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ اور ایک بات کان کھول کر سن لو مجھے زبان چلانے والی عورتیں سخت زہر لگتی ہیں فورا بیڈ پر آؤ ،،،،، جھٹکے سے اسکا چہرہ چھوڑ دیا

زویا کو اپنی حیثیت اور مہروز کی زند گی میں اپنا مقام پتہ چل گیا

#####$##

زویا اپنے گیلے بالوں میں برش کر رہی تھی اس نے ڈرتے ڈرتے بیڈ کی طرف نظر کی مہروز سو رہا تھا زویا کو لگا وہ بےحس ہو گئی ہے یا شاید مردہ جو اپنی اتنی تذلیل اس شخص کے ہاتھوں برداشت کر نے کے بعد بھی خاموش تھی ایک آنسوں آنکھ میں نہیں تھا اسنے وہ باکس دیکھا وہ ابھی تک زمین پر گرا ہوا تھا اسمیں سے ایک چین باہر گری ہوئی تھی زویا بےاختیار  اس کی طرف بڑھی جھک کر اسنے وہ چین اٹھائی بہت خوبصورت ڈیزائن کی گولڈ کی چین جس میں چھوٹے چھوٹے گولڈ کے پائپ ڈالے ہوئے تھے ہر پائپ کے بعد ایک چھوٹی گولڈ کی بال تھی اور سینٹر میں ایک چھوٹا سا موتی لٹک رہا تھا زویا کی نظر پھر مہروز پر گئی اس نے جلدی سے چین کیس میں رکھی اور سائیڈ کی ڈرا میں ڈال دی 

تو زویا یہ ہے تمھاری زندگی جہاں اب تمھیں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں دی جائے گی اسکے کانوں میں مہروز کے حقارت بھرے الفاظ گونجے  ،،،، چند گھنٹوں میں ہی اس شخص نے تمھیں تمھاری اوقات بتادی زویا یہ شخص جو اب تمھارا حاکم ہے مہروز اکبر علی خان ،،،

######

حاشر کی فلم کی شوٹنگ شروع ہوگئی تھی اسکے علاؤہ بھی اسنے پاکستان میں بھی ایک دو  پروجیکٹ سائن کر لیے تھے قسمت اس پر مہر بان تھی شہرت کی بلندیوں کو وہ تیزی سے حاصل کر رہا تھا،،،

ہر چینل ہر نیوز پیپر میں اب صرف ایک ہی نام ہوتا تھا سپر اسٹار حاشر خان

 ######

زویا نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے گھر کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا وہ اپنی واپسی کی ساری کشتیاں جلا کر آئی تھی تو بس اس نے یہاں دل لگا لیا،، کبھی وہ بی جان کی خدمت کر رہی ہوتی تو کبھی ممانی جان سے کھانا پکانا سیکھ رہی ہوتی تو کبھی ماموں جان سے اپنی مما کے  بچپن کا  کوئی قصہ سن رہی ہوتی  بس ایک مہروز  خان  سے ہی اسکی جان جاتی تھی کیونکہ بقول بی جان 24 گھنٹوں میں مہروز کا موڈ 23 گھنٹے خراب رہتا ہے 

اور زویا کو تو یہ سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ وہ کون سا ایک گھنٹہ ہوتا ہے جب خان صاحب کا موڈ اچھا ہوتا ہے مہروز کو اپنا نظر انداز ہونا بالکل نہیں بھا رہا تھا اسلئے وہ جان کر زویا سے ہی اپنے سب کام کراتا جب تک گھر میں ہوتا زویا کسی کنیز کی طرح اسکے سامنے کھڑی رہتی ،،،

جان جاتی تھی اس کی مہروز کے سامنے

### ##

مہروز خان ٹی وی دیکھ رہا تھا جب زویا روم میں  آئی   چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا اور واپس جانے لگی ،،،، جب پیچھے سے مہروز کی آواز آئی 

ایسے کون سے سوگ ہیں جو پورے ہی نہیں ہو رہے تمھارے آخر یہ ماتمی شکل بنا کر کیوں گھومتی رہتی ہو گھر میں،،،

نخوت سے مخاطب کیا

زویا: ججی،، جی کیا مطلب،،زویا کے چہرے پر ایک خوف سا آگیا

مہروز نے غصے سے ریمورٹ پھینکا اور زویا کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا

زویا کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ بہت ظلم ہو رہا ہے تم پر ،،،،،، میں بہت ظالم ہوں اتنا ڈرتی کیوں ہو تم،،،،،،

،مہروز نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا 

ایک ناگوار بوجھ کی طرح تم اس رشتے کو نبھا رہی ہو ،،،،،جس طرح کوئی قیدی رہتا ہے اپنی سزا کے دن گنتے ہوئے

 نہیں ایسا نہیں ہے وہ  میں بس،،،،غلط فہمی ہوئی ہے آپ کو میں شروع سے ایسی ہی ہوں

: غلط فہمی،، تمھارا یہ رویہ صاف کہہ رہا ہے تم نے ابھی تک اس رشتے کو قبول نہیں کیا ہے مجھے لگتا ہے میں کسی ربورٹ کے ساتھ رہتا ہوں ،،،جس کی اپنی کوئی مرضی ہے نا خواہش،،بس ایک روٹین ہے،،،،

وہ رونمائی کا تحفہ آج بھی دراز میں بند پڑا اپنی ناقدری پر رو رہا ہے کیا سمجھوں اس بات کو میں

 مجھے دیکھ کر تو تمھارے چہرے پر ایسے تاثرات آجاتے ہیں جیسے میں کوئی خوفناک جانور ہوں جو تمھیں کھا جائے گا

مہروز نے زویا کے کندھے سے اپنے بھاری ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا زویا کو لگا وہ کھڑے کھڑے گر جائے گی

 نہیں ایسا نہیں ہے میں ابھی پہن لیتی ہوں وہ ،،،،،وہ ہکلائی ،،،،

مگر مہروز ایک جھٹکے سے اسے اپنے سامنے سے ہٹاتا ہوا کمرے سے ہی نکلتا چلا گیا

#####

حاشر کی فلم سپر ہٹ ہو گئی تھی اسے انڈیا سے اور بھی آفرز آئیں تھیں مگر اسنے انکار کر کے سب کو حیران کر دیا تھا ندیم صاحب کی فلم بھی کرنے سے منع کر دیا تھا جس پر ندیم صاحب کی ٹھن گئی تھی 

وہ اب ڈرامے اور کمرشلز کر رہا تھا

جب کراچی آتا تو زرا احمد کے فلیٹ پر ہی رہتا تھا کیونکہ احسان صآحب نے اسے گھر آنے کی اجازت نہیں دی تھی

اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ کبھی کوئی زویا نام کی لڑکی اس کی سب سے بڑی خواہش تھی

######### 

 زویا ،مہروز کے کپڑے پریس کر رہی تھی ،،،،،

 مہروز کمرے میں آیا تو زویا نے وہیں سے آواز لگائی

" مہروز کپڑے آئرن کر دیے ہیں "

اور خود کمرے سے جانے ہی لگی تھی کہ مہروز تیزی سے اس کی طرف بڑ ھا اور غصے سے بولا

" کیا کہا تم نے"

" کپڑے آئرن ہو گئے",,,,  زویا نے سر جھکا کر کہا 

سمجھ ہی نہیں آیا تھا اب کیا غلطی ہوئی ہے

"  نہیں اس بات سے پہلے تم نے میرا نام لیا ہے تمھیں شرم ولحاظ ہے ،،اگر کوئی  سن لے"

اور زویا نے دل میں سوچاکہ ایسا نازیبا لفظ  تو نہیں کہا جو شرم اہے ،،،،،،

  کیا کہا ہے میں نے تم اس طرح میرا نام لو گی زویا میں پہلے بھی تمھیں بتا چکا ہوں یہ تمھارا شہر نہیں ہے جہاں بیویاں نام لیتی ہیں اپنے شوہروں کا بلکہ اجکل تو عجیب کتے بلیوں والے نا رکھ لیے ہیں 

وہ گھور کر کہہ رہا تھا،،،

زویا کی ہنسی نکل گئی زھین میں سارے نام آگئے 

 مہروز کا دل جل کر خاک ہو گیا وہ جتنا اسے رعب میں لینے کی کوشش کرے نتیجہ یہ ہی نکلتا تھا

" تمھیں ہنسی آرہی ہے پاگل لگتا ہوں میں تمھیں"

مہروز نے اسے گھورا 

 وہ بڑی معصوم سی شکل بنا کر بولی ،،،،"اچھا مہرو بول لیا کروں "

اور وہ جس کا غصہ زویا کی خوبصورت ہنسی سے پہلے ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ماتھے کے بل کم کئے  مگر اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے بولا 

کیا گود لیا ہے مجھے بچہ ہوں تمھارا" میرو بول لیا کروں" ،،،،وہ اسکی نقل اتارتے ہوئے بولا 

تو پھر آپ ہی بتا دو کیا بولا کروں،،اف اس لڑکی کی معصومیت

" ظالم"مہروز  نے دل میں مخاطب کیا

اس سے بہتر ہے تم مجھے کچھ بولو ہی نہیں،،،،

 مہروز نے اپنی جان چھڑائی

"ہاں یہ ٹھیک ہے " زویا نے شکر کا سانس لیا

###### 

زویا دیکھو بیٹا ڈاکٹر بول رہی ہے  تم اپنا بالکل خیال نہیں رکھ رہی ہو بیٹا ایسا کب تک چلے گا 

ممانی جان رکھتی تو ہو اپنا خیال اور ویسے بھی مجھ سے کچھ کھایا نہیں جاتا،،،

مہروز : اسلام وعلیکم مورئے

ممانی جان نے حیرت سے دیکھا،،،

:وعلیکم اسلام میرو آج جلدی آگئے،،،

"جی بس ایسے ہی" ,,,,,وہ کمرے میں چلا گیا 

ممانی جان نے زویا کو بھی کہا کہ جا کر میرو کو کوئی چائے پانی کا پوچھے 

تو وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی اور چائے بنانے لگی 

مہروز جسکا خیال تھا وہ اسکے پیچھے کمرے میں آئے گی تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد زور سے زویا کو آواز دی

 زویا زویا,,,,,,,

زویا جلدی سے کمرے میں آئی  جی ی ی

 بہری ہو گئی ہو کب سے آوازیں دے رہا ہوں

غصہ اچانک ہی آیا تھا

 وہ میں آپ کے لیے چائے بنا رہی تھی،،،،  زویا نے کہا

مہروز نے اسکے خالی ہاتھ دیکھ کر کہا: ،،،،

اور کہاں ہے وہ چائے ,,,

: وہ دروازے پر رکھی ہے ،،،ڈر کر جلدی سے کہا

مہروز نے حیرت سے کہا،،،،،: دروازے پر 

نہیں دروازے کے پاس جو ٹیبل ہے اس پر  

ابھی لاتی ہوں ،،،،وہ جانے لگی

 پہلے کیوں نہیں لائیں اب کیا ٹھنڈی چائے پلاوگی کہاں گم رہتی ہو ،،،،،لہجہ بہت نرم ہوا تھا

: نہیں وہ میں ڈر گئی تھی ،،میں دوبارہ بنا لاتی ہوں ،،،،،،،

 زویا جانے کے لے مڑی 

 مہروز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا،،،، "

اب رہنے دو چائے کا موڈ نہیں رہا کچھ اور خاطر کرو 

بہت دل سے فرمائش کی

" کچھ اور کیا کروں میں"،،،، زویا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا

مہروز کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اجکل بس وہ سب کچھ بھول کر زویا کے حسن میں گم رہنا چاہتا تھا

  اب یہ بھی میں بتاؤں ،،

تمھیں نہیں پتا،،،مہروز نے اسکی چین کو ہلکے سے چھوا ،،یہ اسکا رونمائی کا تحفہ تھا

یہ تم کراچی شہر سے ہی ہو نہ سنا ہے وہاں کی لڑکیاں تو بہت ذھین ہوتی ہیں،،،،لہجے میں شرارت تھی ،،،مسکراہٹ بھی شاید ہونٹوں سے چپک گئی تھی

زویا نے گھڑی کی طرف دیکھا مہروز نے بھی دیکھا اور پوچھا،:

 "کیا دیکھ رہی ہو  زوئے،،"

زویا نے مسکرا کر گردن جھکا لی تو مہروز نے انگوٹھے سے چہرہ اوپر کیا اور کہا،،،،، "بولو کیا دیکھ رہی تھیں " 

 بی جان کہتی ہیں آپ  24 گھنٹے میں سے صرف ایک گھنٹہ غصے میں نہیں ہوتے تو میں ٹائم نوٹ کر رہی تھی ،،،،زویا نے شرارت سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

 اوہ تو ہماری بیگم کو ہمارے موڈ کی پرواہ ہونے لگی یہ تو بہت نئی خبر ہے میرے لئے،،،،وہ ہنسا

تو کیا نہیں ہونا چاہیئے ،،،زویا نے شرمیلی مسکراہٹ سے کہا

مگر اگلے بندے کے قہقے نے تو کچھ لمحوں کے لئے زویا کو مبہوت کر دیا

کتنا خوبصورت لگتا تھا وہ یوں ہنستے ہوئے اور اپنا بھی

زویا بیٹا تم تو پشاور جا کر ہمیں بھول ہی گئی ہو(مریم بی بی کا کراچی سے فون آیا ہوا تھا) 

نہیں تائی جان آپ اور تایا ابو بہت یاد آرہے ہیں پر ڈاکٹر نے اتنی دور سفر کرنے سے منع کیا ہوا ہے ،اپ لوگ آجائیں نا میں سب کو بہت یاد کر رہی ہوں ،،،،،زویا نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے مہروز اندر آیا تھا اور اشارے سے فون کا بتایا 

مریم بی بی : ہاں یہاں تو سب تیار بیٹھے ہیں بس جیسے ہی وہ خوشی کا دن آیا ہم سب آئیں گے انشا اللّہ 

 اچھا تائی جان سب کو میرا سلام کہیے گا پھر بات کروں گی ابھی خان جی آگئے ہیں ،، اللّٰہ حافظ

مریم بی بی : اللّٰہ حافظ بیٹا 

زویا نے فون رکھ کر مہروز کو دیکھا وہ کوئی کرنٹ افیئر کا پروگرام دیکھ رہا تھا  

 فون رکھ کر جانے لگی مہروز نے آواز دی

زوئے پلیز چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی ،،،مہروز نے مسکرا کر کہا

زویا نے گردن ہلائی اورکمرے سے نکل آئی چائے بنانے رکھی اور کباب نکال کر فرائی کرے 

"یہ خان صاحب آجکل بڑا مسکرانے لگے ہیں کسی نے شاید بتا دیا ہے ظالم مسکراتے ہوئے بڑا قاتل لگتا ہے"

 وہ مہروز کو سوچ رہی تھی اور تعریف کا اسٹائل بھی بالکل مہروز والا ہی تھا ،،، وہ کسی کی تعریف کرتا تو ظالم اور قاتل لفظ ضرور ہوتے،،،

،،تو زویا رنگ چڑھنے لگا ہے آپ پر مہروز خان کا،،،

 ٹرے لے کر کمرے میں آئی مہروز ٹی وی ہی دیکھ رہا 

 خان جی چائے ،،،،

مہروز نے کمرے میں چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور حیرانی سے پوچھا؛ ،"،کون میں "

تو اور کون ہے کمرے میں ،،،زویا نے منہ بنا کر جواب دیا،،،

 سب خیریت ہے نہ طبعیت تو ٹھیک ہے تمھاری"  "خان جی" اللّٰہ یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں،،،مہروز نے مسکرا کر طنز کیا

: بی بی جان کہتی ہیں شوہر کی عزت آنکھ سے شروع ہو کر زبان پر ختم ہوتی ہے ،،،،بڑی معصومیت سے راز کی بات بتائی

: واہ میرے مولا کیا فرمابردار بیوی دی ہے 

 جان ہی لے لی تم نے تو ظالم ویسے محبت کے بارے میں نہیں پوچھا تم نے بی جان سے وہ کہا ں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے  ،،،،،،،،

مہروز نے شرارت سے پوچھا

  یہ تو نہیں بتایا انھوں نے میں ابھی پوچھ کر آتی ہوں ،،،،،،

وہ جانے کے لئے اٹھی تو مہروز نے گھبرا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا،،،،

:پاگل ہو گئی ہو کیا  ،،،،،،

زویا زور زور سے ہنسنے لگی مہروز اسکی شرارت سمجھتے ہو ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ٹی وی پر  بریکینگ نیوز کا میوزک سنائی دیا دونوں کی توجہ ٹی وی کی طرف ہو گئی

 نیوز اینکر بول رہی تھی

"شوٹنگ کے دوران حاشر خان اور ڈائریکٹر ندیم قریشی کا جھگڑا،،،"

ندیم قریشی نے حاشر خان پر قاتلانہ حملے کا الزام لگایا ہے دونوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ زارا احمد بنی ہیں

اب اسکرین پر کلپ بھی چل رہا تھا جس میں حاشر نے ندیم قریشی کو زمین پر گرایا ہوا تھا اور وہ اسے لاتوں اور گھونسوں سے مار رہا تھا

 زویا کی نظر ضرور اسکرین پر تھی مگر وہ خود ماضی میں گم تھی جہاں حاشر ایسے ہی نواز انکل کے بیٹے کو مار رہا تھا وجہ تنازع وہ خود تھی پر الزام وہی تھا جو آج زرا احمد پر لگا تھا

زویا نے مہروز کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھنچا ،،،،،مہروز نے حیرت سے زویا کا انداز دیکھا،،اور ہاتھ دوبارہ پکڑا،،،،

،نیوزاینکر بول رہا تھا،،

 ندیم خان نے زارا احمد اور حاشر خان کے درمیان ناجائز تعلقات کا الزام لگایا ہے

زویا نے مہروز خان کے ہاتھ سے دوبارہ  اپنا ہاتھ کھینچا اور غصے  سے کہا 

بکواس کر رہا ہے یہ،، چینج کریں آپ چینل یہ لوگ تو شروع سے ہی اسکے پیچھے لگے ہیں گھٹیا انسان،، کمینے،،،

مہروز جو پہلے ہی اسکے ہاتھ چھڑانے پر اسے دیکھ رہا تھا اب یہ باتیں سن کر بولا ،،،،،

کیا پاگل ہو گئی ہو کس زبان میں بات کر رہی اور یہ فلمی ایکٹر تو ہوتے ہی گھٹیا  ہیں انکے لئے یہ کونسی بڑی بات ہے ان کا کوئی دین ایمان نہیں ،،،

تم خود ہو گئے گھٹیا خاندان کے  تمھاری ہمت کیسے ،،ہوئی،،،،،

اور اسکا جملہ مہروز نے پورا نہیں ہونے دیا اسکی گردن دبوچ کر بولا،،

 اپنے ہاتھوں سے ذندہ قبر میں گاڑھ دونگا اگر اب زبان سے ایک لفظ بھی نکالا ،،،،،

 زویا کی درد سے آنکھیں باہر آنے لگی اسکا دم گھٹ رہا تھا جس حالت میں وہ ان دنوں تھی اسے لگا اسکا سانس رک جائے گا 

مہروز کو بھی شاید اسکی طعبیت کا ہی خیال آیا تھا اپنے ہاتھ اسکی گردن سے ہٹائےاور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا 

زویا کا سانس بہت پھول رہا تھا اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا مگر وہ اپنے حواس میں نہیں تھی چلا کر بولی،،،،،،،،،،

: بولوں گی دس دفعہ بولوں گی اب کہو تم کچھ بھی حاشر کو جنگلی جانور ،،،،،اپنی گردن کو سہلاتے ہوئے کہا

مہروز نے بہت حیرت سے زویا کی طرف دیکھا اور کمرے سے ہی نکلتا چلا گیا 

زویا حال میں واپس آئی

 ہائے اللّٰہ یہ کیا ہوگیا

زویا کو احساس ہوا کہ وہ کیا کر چکی ہے تو تیزی سے دروازے کی طرف بھاگی  ممانی جان نے  زویا کو  اس حال میں بھاگتے دیکھا تو جلدی سے پکڑا

 زویا زویا کیا ہوا ہے اللّٰہ رحم ابھی کچھ ہو جاتا تو حالت دیکھو اپنی،،،،

ممانی خان جی کو روکیں وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے ہیں 

اور ممانی جان نے اپنا سر پکڑ لیا

 توبہ ہے زویا بس اتنی سی بات پر تم بھاگ رہی تھیں  حد ہے اور یہ تمھارے خان جی کا موڈ ٹھیک ہی کب ہوتا ہے جو تم ڈر رہی ہو اور جائے گا کہاں اجائے گا رات تک جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو شاباش،،،،

پر زویا جانتی تھی یہ اتنی معمولی بات نہیں  تھی اور پھر ایسا ہی ہوا مہروز نے اسکی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا اول تو گھر آتا ہی نہیں بس اپنے ڈیرے پر ہی رہتا اور کبھی آنا بھی پڑتا تو زویا کی طرف نظر بھی نہیں کرتا  زویا اسکے آگے پیجھے پھرتی مگر وہ تو دوبارہ پتھر ہو گیا تھا

مہروز کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا زویا اسکے پاس ہی کھڑی تھی مگر مہروز اسکی طرف نظر اٹھا نا بھی بھول چکا تھا اسنے پرفیوم خود پر اسپرے کیا اور بوتل ڈریسنگ پر پھینکی پھر کمرے سے جانے لگا 

جب زویا تیزی سے اسکے سامنے آگئی اور دروازے پر ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی

خان جی بس کر دیں پلیز مجھ سے غلطی ہوگئی مجھ سے آپ کی ناراضگی اب برداشت نہیں ہو رہی،،،وہ روتے ہوئے بولی،،

راستہ چھوڑو  دیر ہو رہی ہے مجھے،،،،وہ غرایا

 نہیں ہٹوں گی میں پہلے آپ کہیں آپ نے مجھے معاف کیا،،،ضدی لہجے میں کہا

مہروز نے کچھ بھی کہنے کے بجائے اسے دروازے سے کھینچ کر ہٹایا اور تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا،،زویا وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی،، 

زویا کی جان پر بن آئی تھی وہ جو مہروز خان کی محبت کی عادی ہو گئی تھی اب یہ بے اعتنائی برداشت نہیں کر پارہی تھی اسنے کہیں پڑھا تھا عادت محبت سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور آج اسے یقین آگیا تھا اسے نا اب حاشر کی پرواہ تھی نا دوسرا کوئی خیال وہ بس مہروز کو منانا چاہتی تھی ،،،،

#######

زویا کی طبیعت صبح سے بہت خراب تھی مہروز آج رات بھی گھر نہیں آیا تھا اسنے لیٹے لیٹے ہی مہروز کا بےشکن بستر دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گئی اسکے سلیپر نظر نہیں آرہے تھے زویا نے پہلے بیٹھے بیٹھے ہی پاؤں سے سلیپر نکالنے کی کوشش کی جب نہیں نکلے تو جھک کر نکالنے لگی 

مہروز نے کمرے میں آ کر اسکی حالت دیکھی تو بھاگ کر اسکے پاس آیا اور بیڈ پر اسکو بیٹھا کر گھورنے لگا 

زویا کا سانس پھول رہا تھا اسنے پھولی ہوئی سانسوں سے ہی بتایا 

 تو زویا کی آنکھوں نے دنیا کا سب سےحیرت ناک نظارہ دیکھا اسکے شوہر نے زمین پر بیٹھ کر اسکے سلیپر نکالے اور پھر بیٹھے بیٹھے ہی اسکے پیروں میں ڈال دیئے

  زویا کی آنکھوں سے آنسو نکلےاور وہ مہروز کا ہاتھ پکڑ کر اس پر اپنا ماتھا ٹکا کر زور زور سے رونے لگی  

مہروز بس اتنا ہی برداشت کر سکتا تھا اپنا دوسرا ہاتھ زویا کے سر پر رکھا اور کہا  ،،،،،  اچھا اب چپ کرو طبعیت خراب ہو جائے گی  زوئےکیا بول رہا ہوں میں چپ کرو،،،،،

 مہروز نے ہاتھ سے اسکے چہرے پر آئے بال ہٹائے اور آنسوں صاف کئے

زویا نے تیزی سے اپنا سر اٹھایا اور روتے ہوئے ہی مسکرائی کہیں پھر وہ ناراض ہو کر نہ چلا جائے  اور شیشے میں مہروز اور خود کو دیکھ کر مسکرائی تو مہروز نے اسکی طرف دیکھا ،،،،

زویا نے آنکھوں سے شیشے کی طرف اشارہ کیا

زویا بیڈ پر بیٹھی تھی اور مہروز اسکے پیروں میں زمین پر ،،،

 اونچی ناک والا مہروز ایک دم کھڑا ہو گیا اور جانے لگا 

 زویا نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا اور  ہنسنے  لگی

 تمھیں پاگل خانے میں ہونا چاہئے کارٹون ہو پوری اور وہ خود بھی ہسنے لگا

 ظالم لڑکی پاگل کردیا ہے تم نے مجھے بھی،،،دونوں کی ہنسی اس کمرے میں کافی عرصے بعد گونجی تھی،،،،

اسی شام زویا کے گھر ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا

کراچی سے سب آئے تھے تائی جان نے اسکے میکے کا مان رکھا تھا وہ اسکے سسرال کے لئے بہت سے گفٹ اور  بچے کے لئے بہت سارے کپڑے اور کھلونے لائی تھیں سب زویا کو گھیر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ لالائی نے کھانا لگنےکی اطلاع دی 

سب کھانے کے کمرے میں جانے لگے بس کرن اسکے پاس بیٹھ گئی،،،

 کرن تم بھی کھانا کھا لو جا کر 

ہمم ہاں بس  میں جارہی ہوں وہ دراصل عا نیہ تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی بیل دی ہے میں نے وہ فون کرے گی

 تو تم سیل یہاں رکھ جاؤ میں بات کر لونگی،،،، عانیہ ان دونوں کی مشترکہ  دوست تھی 

تھوڑی ہی دیر میں بیل بجی اور عانیہ کا نمبر لکھا نظر آنے لگا 

زویا نے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا ،:،،،،،

 ہاں جی آگئی آپ کو ہماری یاد،،،،،

 زویا کی ہنسی ایک دم سامنے والے کی آواز پر سمٹی

"تمھیں بھولا ہی کب ہوں" 

دوسری طرف حاشر تھا 

زویا تمھیں میری قسم فون مت رکھنا،،،،،،،حکم دینے والے لہجے میں آج منت تھی،،،

 تمھیں لگتا ہے ابھی بھی اس قسم میں اتنی طاقت ہے،،،،،،

 زویا نے اسکا مذاق اڑاتے لہجے میں پوچھا 

اور اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی اگر بات کرنی تھی تو ایسے ہی کر لیتے ،،،

: کیا تم بات کر لیتی ،،،،حیرانی سے پوچھا

 کیوں نہیں ویسے بھی میں آج بہت خوش ہوں دیکھونا تم نے میرے بیٹے کی مبارک باد دینا ہوگی اسلئے ہی فون کیا ہوگا  آخر بڑے ماموں ہو اسکے ،،،،اگ لگاتے لہجے میں کہا

 ہاہاہاہا اف زویا ہاہاہا توبہ استغفار  

شرم کرو استغفر اللّٰہ،،ہاہاہا

تمھیں پتا ہے آج کتنے دن بعد ہنسا ہوں میں

 ہاہاہاہاماموں اف کیا بول رہی ہو یار چندا تم آج بھی اتنی ہی معصوم ہو  پاگل ہاہاہا،، وہ پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا

اور زویا جس نے اسکا دل جلانے کے لئے یہ کہا تھا بد مزا ہو گئی ادھر حاشر کہہ رہا تھا

ایسا کرو میں دو دن بعد کراچی آرہا ہوں تم میرے بھانجے کو لے کر کراچی آجاؤ میں اپنے بھانجے اور اسکی ماں کو جی بھر کے پیار کرنا اور دیکھنا چاہتا ہوں،،ہنسی روک کر کہا

بھول ہے تمھاری کے میں اب کبھی  کراچی آؤنگی میں تمھاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی،،،نفرت سے اسے باور کرایا،،

 زویا تم کراچی بھی آؤ گی اور میرے لیے ہی،،،،

 آ ؤ گی یہ وعدہ ہے حاشر خان کا

زویا اسکو کوئی جواب دیتی اس سے پہلے مہروز کمرے میں آکر بیڈ پر ڈھیر ہو گیا،،،،،

زویا نے آہستہ سے فون نیچے رکھ دیا وہ ایک دم ڈر گئی تھی  اور فون بند کرنا بھول گئی 

کہاں تھے صبح سے خان جی میں آپ کو  یاد کر رہی تھی،،،،بہت لاڈ سے کہا

  اوہ ہو  مجھے کیا پتہ تھا میری جان مجھے یاد کر رہی ہے ظالم جان لے لو گی تم ایسی باتوں سے اپنے خان کی،،،،

اور بس دوسری طرف حاشر کی برداشت ختم ہو گئی اسنے فون دیوار پر کھنچ کر مارا اور پورے کمرے میں طوفان آگیا

ہاں تو کیوں یاد کر رہی تھیں ظلمی ،،،،،مہروز نے مسکراتے ہوئے زویا سے کہا 

وہ میں نے آپ کو سوری اور thank you کہنا تھا زویا نے آہستہ آواز میں کہا،،،،

سوری اور  thank you کیوں بھئی خیریت ہے ویسے کسی کو یاد کرنے کے بعد مس یو اور  love you کہا جاتا ہے پر چلو خیر ہے آپ کی تو ہر ادا ہی الگ ہے،،،،

وہ لیٹے لیٹے ہی مسکرا کر بولا،،،

:میں اپنی اس دن کی حرکت پر شرمندہ ہوں مجھے وہ الفاظ نہیں کہنے چاہیے تھے بس پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا آپ مجھے معاف کر دیں پلیز ،،زویا نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا

 وہ بہت سخت الفاظ تھے اور اگر میں اسوقت گھر سے نہیں چلا جاتا تو شاید اپنا سب سے بڑا نقصان کر چکا ہوتا 

پلیز آپ مجھے معاف ::::::

 بس زویا ،،مہروز نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی

جو ہوا بھول جاؤ مجھے بھی وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا جومیں نے کیا اور ویسے بھی تم نے مجھے اتنا پیارا تحفہ دیا ہے کہ تمھاری ساری غلطیاں معاف کرنے کا دل چاہ رہا ہے ،،،،،

مہروز نے زویا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا 

نادیہ کمرے میں آئی،: سوری وہ میں ،،،،،

مہروز نے زویا کے ہاتھ چھوڑے اور اٹھ کر بیٹھ گیا

  نادیہ جو کمرے سے جارہی تھی اسکو آواز دی 

 نہیں بھائی آپ آرام کریں میں جارہی ہوں،،،نادیہ جلدی سے بولی

آپ بیٹھو اپنی بہن کے پاس بیٹا میں ویسے بھی جا ہی رہا تھا اور مہروز کمرے سے نکل گیا 

نادیہ نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا 

اف زویا مہروز بھائی  میری تو جان نکل جاتی ہے  تم کیسے رہتی ہو انکے ساتھ،،کہیں ناراض تو نہیں ہوگئے ،،،،،

اسنے زویا کی طرف دیکھا جو ہنس رہی تھی 

یہ تمھارے دانت کیوں نکل رہے ہیں ############

زارا احمد حاشر کو بلانے اسکے کمرے میں آئی تھی کیونکہ انکی شوٹنگ آج ختم ہو گئی تھی اور پورا کروو آج پکنک کے موڈ میں تھا مگر کمرے میں آکر وہ حیران رہے گئی کوئی چیز کمرے کی جگہ پر نہیں تھی ایسا لگتا تھا کمرے میں بھونچال آیا ہے

وہ تیزی سے حاشر کی طرف بڑھی جو زمین پر بیٹھا تھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام رکھا تھا

حاشر یہ کیا کیا ہے تم نے اگر کوئی اور روم میں آ جاتا پہلے ہی تم ابھی میڈیا کے نشانے پر ہو کتنی مشکل سے تمھیں ملک سے باہر شوٹنگ کی اجازت ملی تھی  کسی کو اگر پتہ چل گیا تو جانتے ہو کیا ہوگا ،،،زارا نے اسکے کندھے کو ہلا یا

 حاشر تم سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں 

 اسنے مجھے بھلا دیا زارا صرف ایک سال میں وہ کیسے کر سکتی ہے ایسا،،،،وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا

کس نے حاشر کس کی بات کر رہے ہو پاکستان میں سب ٹھیک ہے ،،،،زارا نے پوچھا

وہ اس بلیڈی،،،،،،،گالی  سے اظہار محبت کر رہی تھی اور وہ اسکا شوہر وہ اسے پتہ ہے کیا بول رہا تھا

حاشر  زویا تمھاری زندگی سے نکل چکی ہے ،،زارانے کہا

نہیں نکلی ہے وہ،،،،،  حاشر اتنی زور سے دھاڑا کے زارا کو لگا اسکے کان کے پردے پھٹ جائیں گے 

زارا : آہستہ حاشر ،،،،

: وہ کیسے کر سکتی ہے زارا ایسا ،،،،،

حاشر  زارا کی کوئی بات سن نہیں رہا تھا

 ٹھیک ہے میں نے اس سے شادی نہیں کی پر وہ میری محبت ہے وہ کیسے بھول گئی ،،،،حاشر نے زویا کو کندھوں سے پکڑا

زارا کو وہ ٹھیک نہیں۔ لگا اسکی  سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے 

وہ حاشر کو پانی پلانے کے لیے بیڈ کیے پاس آئی اور گلاس میں پانی نکالنے لگی اسکی نظر بیڈ کے پاس بکھری شیشوں اور پیکٹ پر پڑی اور گلاس اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا

 وہ تیزی سے حاشر کی طرف آئی

یہ کیا ہے حاشر ،،،،،، زارا نے حاشر کو جھنجوڑ ڈالا 

حاشر کب سے کب سے استعمال کر رہے ہو تم یہ سب  یہ کیا ہے حاشر ،،،حاشر،،، 

زارا نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی کو روکا

حاشر کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور تھوڑی دیر میں ہی اسنے بچوں کی طرح زور زور سے رونا شروع کر دیا 

زارا اسکے برابر میں زمین پر ہی بیٹھ گئی اور حاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھا  حاشر کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا اور حاشر کو بہت بڑا سہارا مل گیا وہ اسکے کندھے سے لگا اپنے پتہ نہیں کون سے غم رونے لگا ،،، زارا اسکی کمر تھپتھپاتی رہی،،،

 میں مر جاؤں گا زارا یہ میں نے کیا کر دیا میں نہیں دیکھ سکتا اسے کسی کے بھی ساتھ وہ کیسے بھول گئی وہ وہ  میں نہیں رہے سکتا اسکے بغیر کیا کر بیٹھا ہوں میری سانس رک رہی ہے زارا میرا سر پھٹ رہا ہے

زارا اسکو چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگی تھی

########

سب لوگ زویا کے کمرے میں بیٹھے تھے کرن زویا سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ فون والی بات پر اس سے ناراض ہو گئی تھی

زویا بیٹا تم یہاں خوش ہو نہ مہروز کے ساتھ ،،مریم بی بی نے پوچھا زویا سے تھا مگر جواب ایک دم شازیہ چچی نے دیا

بھابھی اسکو دیکھ کر ہی پتہ چل رہا ہے یہ یہاں بہت خوش ہے دیکھا نہیں آپ نے ساس اور میاں نے کیسا ہاتھ کا چھلا بنا کر رکھا ہوا ہے اور ایک احسان بھائی ہیں کے اسکی وجہ سے بچارے حاشر کو گھر بدر کیا ہوا ہے اور اس بچے کو اس منحوس اداکارہ کے گھر رہنا پڑتا ہے

نادیہ اور احمد  نے ماں کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ شازیہ تھیں چپ ہونا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا

لو تو کیا میں غلط کہہ رہی ہوں ابھی پچھلے دنوں اسی بات پر کتنا بڑا مسئلہ ہوا تھا میڈیا نے کیسی کیسی خبریں  چلائی تھیں  پولیس کیس بن گیا تھا ضمانت پر چھوڑا کر تو وہ ڈرامے والے اسے شوٹنگ پر لے کر گئے ہیں

مما بس اب چپ ہو جائیں کہاں، بیٹھی ہیں یہ تو دیکھ لیا کریں،،،،احمد غصے سے بولا

زویا نے انکو افسوس سے دیکھا بعض لوگ کبھی نہیں بدلتے

زویا نے تائی جان سے کہا

 میں یہاں بہت خوش ہوں تائی جان مہروز مجھ سے بہت محبت کرتا ہے پلیز آپ تایا جان کو میری طرف سے کہیں کے وہ حاشر کو گھر بلا لیں میرا نصیب یہاں تھا یہ اللّٰہ کا فیصلہ تھا اور میرے اللّٰہ نے مجھے بہت  بہت اچھا اجر دیا ہے میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے

مریم بی بی نے اسکو گلے لگا لیا

######### 

حاشر اپنی سارے ٹیم ممبر کے ساتھ ہوٹل کے ڈائنیگ  ہال میں بیٹھاٹیبل بجاکر گانے گا رہا تھا اور مذاق کر رہا تھا جب زارا احمد ہال میں آئی وہ حاشر کو دیکھنے لگی 

جس کے چہرے سے ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ کمرے میں کیا کر رہا تھا مگر اسکی آنکھیں بغاوت کر رہی تھیں وہ ہنستی آنکھیں چپ تھیں 

حاشر کی زارا سے نظر ملی تو حاشر نے اپنی دو انگلیوں کو ہونٹوں پر رکھ کر اسے فلائنگ کس کا اشارہ کیا اور آنکھ ماری  

سب لوگوں نے زارا کو دیکھا اور اوووووو کی آواز نکالی 

زارا نے دو انگلیاں اٹھائیں اور ہاتھ کی گن بنا کر گولی مارنے کا اشارہ کیا تو حاشر اور سب زور زور سے ہنسنے لگے

##########

زویا جیسے لگتا تھا کہ اس شہر میں وقت  نہیں گزرتا اب اسے وقت ہی نہیں ملتا تھا مہروز اور اعیان اسکی کل کائنات تھے 

کراچی سے نادیہ کی شادی کا کارڈ آیا تھا مہروز نے اس سے کہا اگر وہ جانا چاہتی ہے تو وہ چھوڑ  آئے گا پر اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اعیان کو اکیلے نہیں سنبھال سکتی اور پھر بی بی جان کی طبعیت بھی ان دنوں بہت خراب تھی 

ایک دن مہروز نے اسے بتایا کہ حاشر نے شوبز چھوڑ دی ہے اسنے ٹی وی پر آکر کہا ہے کہ وہ صرف اپنے  ادھورےپروجیکٹ پورے کرے گا

پر زویا نے مہروز کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ایک دفعہ پہلے بھی اس شخص کی وجہ سے مہروز اس سے ناراض ہو چکا ہے اور زویا نے وہ دن بہت اذیت میں گزارے تھے اسلئے وہ اب اسکی کوئی بات نہیں کرے گا ،ادھر حاشر خان نے شوبز کو بالکل ہی خدا خافظ کہہ دیا 

زویا کی دنیا بس یہ گھر اسکا شوہر اور بیٹا تھا اسے باہر کیا ہو رہا ہے اس میں دلچسپی نہیں تھی وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی 

#######

زویا کی شادی کو تین سال ہونے والے تھے بی جان کے انتقال کو چھ مہینے ہوگئے تھے

######

کافی دنوں سے تایا جان کے گھر سے کسی کا فون نہیں آیا تھا وہ تو اب کراچی فون کرتی ہی نہیں تھی جب سے اسے پتا چلا تھا کہ حاشر اب گھر اگیا ہے

#$#

زویا عشاء کی نماز پڑھ کر بیٹھی تھی جب مہروز آیا 

اس نے اعیان کو گود میں اٹھا لیا جو اب  چلنے لگا تھا زویا نے اس سے کھانے کا پوچھااور کھانا لینے چلی گئی 

کھانا کھانے کے بعد مہروز نے کہا 

 زوئے کیا ہوا ہے تم نے کھانا بھی نہیں کھایا طبیعت ٹھیک ہے تمھاری

بس پتا نہیں آج دل بہت گھبرا رہا ہے  ،،،وہ آہستہ سے بولی

چلو کہیں باہر چلتے ہیں ،،،مہروز نے اسکا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر سہلایا،،،

کچھ دیر سونا چاہتی ہوں بس اعیان کو سلا دوں ،،،،اس نے اعیان کو دیکھتے ہوئے کہا

 تم اعیان کی فکر مت کرو ہم باپ بیٹا باہر جا رہے ہیں تم آرام سے سو جاؤ،،،،،

اور زویا سونے لیٹ گئی پتہ نہیں کیوں آج اسکو بہت رونا آرہا تھا اسے سب بہت یاد آرہے تھے ابھی  خان جی آجائیں تو کراچی فون کروں گی بہت دن ہوگئے وہاں سے کسی نے فون نہیں کیا اور وہ یہ سوچتے ہوئے سو گئی 

مہروز جب کمرے میں آیا وہ بے خبر سو رہی تھی  اس نے آہستہ سے اعیان کو لیٹا یا اور خود بھی لائٹ اوف کر کے سونے لیٹ گیا

####

زویا تم آگئیں میں کب سے بلا رہا تھا ،،،حاشر نے ہاتھ بڑھایا،،،

حاشر تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے میرے آنے کا 

حاشر ہلکے سے ہنس گیا

 تم نہیں سمجھو گی  چندا

حاشر تمھیں کیا ہوا ہے تم بیمار ہو 

ہاں زویا میں بہت تکلیف میں ہوں ،بیمار ہوں میں بہت دیر کر دی آنے میں 

حاشر حاشر 

زویا کی آنکھ کھل گئی وہ خواب میں ڈر کر اٹھی تھی دور کہیں سے فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی وہ آہستہ سے بیڈ سے نیچے اتری اور نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی

نماز سے فارغ ہو کر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے پھر اسنے ڈرتے ڈرتے "حاشر "کا نام لیا آنکھوں میں ایک سیلاب آگیا وہ اللّٰہ سے اسکے لئے معافی مانگتی رہی زندگی ہدایت اور پتہ نہیں کیا کیا زویا نے پورے تین سال بعد اس شخص کے لئے دعا کی تھی جو پہلے اسکی ہر دعا میں شامل تھا

اے اللّٰہ میں نے حاشر کو معاف کر دیا آپ بھی اسے معاف کر دیں اسے بہت سارا سکون دے دیں اسے کوئی تکلیف چھو کر بھی نہیں گزرے،،،، وہ وہیں جائے نماز پر سو گئی

کہیں فون کی بیل ہو رہی تھی جب زویا کی آنکھ کھلی  اسنے مہروز کو کسی سے بات کرتے دیکھا وہ تیزی سے اٹھ کر اسکے پاس آئی

 جب تک مہروز فون بند کر چکا تھا پر اسکا چہرہ کسی بری خبر کی تصدیق کر رہا تھا اور زویا تیزی سے کمرے سے باہر جانے لگی

زویا بات سنو ادھر آؤ ،،،مہروز نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا

 بس خان جی میں آپ کا ناشتہ بنا کر لاتی ہوں،،،

 وہ بھاگ کر کمرے سے نکل جانا چاھتی تھی

 زوئے،،سب کام چھوڑو اور میرے پاس آکر بیٹھو،،،،نرمی سے کہا

 جی بس آتی ہوں اعیان کے لئے فیڈر بنا لاؤں،،،،،

وہ دروازہ کھول چکی تھی

 جب مہروز کو اسنے کہتے سنا

"زوئے،حاشر کی ڈیتھ ہو گئی ہے  ہمیں کراچی جانا ہے"

  زویا کے قدم تو کیا سانسیں بھی رک گئی

اسے برین ٹیومر تھا اسکے قریبی دوستوں کے علاؤہ کسی کو یہ خبر پتہ نہیں تھی اسنے اپنے گھر والوں سے بھی یہ خبر چھپائی ،،،،،،،،،،، زوئے،،زویا  مہروز کی آواز سے پوری حویلی لرز اٹھی تھی زویا زمین پر بے ہوش پڑی تھی

وہ آئے تو کہنا مسافر تو گیا

زویا کو لگا کوئی بہت دور سے اسے آواز دے رہا ہے زویا نےگھبرا کر آنکھیں کھولیں تو مہروز کو خود پر جھکا ہوا پایا 

زویا  بہت اجنبی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی 

مہروز اسکی طبیعت پوچھ رہا تھا اسے کراچی چلنے کا بول رہا تھا 

  زویا اٹھو ہمیں جلدی نکلنا ہے تم چل رہی ہو سنو،،،،،

 زویا کھڑی ہوگئی 

نہیں اس طرح نہیں پہلے کچھ کھا لو آ ؤ ناشتہ کرو میرے ساتھ ،،،،

مہروز اسے پکڑ کے صوفے تک لایا اور ناشتہ کرانے لگا  وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ بالکل  چپ تھی نا رو رہی تھی نا کچھ بول رہی تھی

ائیرپورٹ سے ماموں جان کے گھر کا راستہ بھی خاموشی سے کٹا 

مگر جیسے ہی گاڑی گلی میں مڑی اور زویا کو اپنا وہ گھر نظر آنے لگا جسمیں اسکا بچپن گزرا تھا تو اسکی برداشت اور ضبط جواب دے گیا پہلے آنسوؤں نے بغاوت کی اور پھر آواز  نے،،،

وہ چیختے ہوئے دیوانہ وار  گاڑی کا دروازہ کھول کر بھاگی اسکی  ایک سینڈل گاڑی میں ہی رہے گیا تھا اور وہ ننگے پیر تھی اسنے یہ بھی نہیں دیکھا کے مہروز اور اسکا بیٹا اسکے ساتھ ہیں بھی یا نہیں بس وہ لوگوں کو ہٹا تی ہوئی گھر میں داخل ہو گئی 

حاشر حاشر اٹھو دیکھو میں اگئی ہوں اب اٹھ جاؤ پلیز حاشر،،،

نادیہ جس کی خود بہت بری حالت تھی اسکو سنبھالنے آگے بڑھی

" زویا حاشر اب نہیں اٹھے گا وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا ہے "

زویا نے اسکے ہاتھ کو جھٹکا اور مریم بی کے پاس گئی 

"تائی میرا یقین کریں وہ ٹھیک ہے اس نے خود بلایا ہے مجھے میں ناراض تھی نا اس سے آپ بولو اسکو یہ اب آٹھ کر بیٹھے  اسکو تو نیند میں بھی میرے آنے کا پتہ چل جاتا تھا"،،،وہ انھیں رونے کا منع کرتے ہوئے کہہ رہی تھی،،،

تایا جان اور احمد تیزی سے اندر آئے کیونکہ زویا کی آواز باہر تک آرہی تھی

 تایا جان نے زویا کے سر پر ہاتھ رکھا اور گلے لگانے کے لئے آگے بڑھے 

زویا ان سے دور ہو گئی 

"میں نے آپ سے کہا تھا نا مت کریں یہ ظلم وہ مرجائے گا میرے بغیر دیکھیں وہ اب اٹھ نہیں رہا "

احمد نے ایک زور کا تھپڑ اسکے لگایا،،،، اور کہا 

ہوش کرو زویا،،،،

 نادیہ اور کرن سے اسے کمرے میں لے جانے کا کہا  کیونکہ لوگوں کی چیمہ گوئیاں شروع ہو چکی تھیں 

اور پھر حاشر کو اسکی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تائی جان کو اپنا ہوش نہیں تھا ایک قیامت تھی جو گھر پر ٹوٹ چکی تھی

مہروز قبرستان سے ہی چلا گیا تھا گھر واپس نہیں آیا تھا احمد کو وہ بہت غصے میں لگا تھا رمیض چچا نے اسکا فون ملایا جو بند جا رہا تھا 

مگر نیند کی دوا کی وجہ سے زویا کو کچھ ہوش نہیں تھا اپنے اوپر آنے والی اس نئی قیامت سے وہ انجان تھی

################ 

حاشر کو گئے چالیس دن ہو گئے تھے زویا نے خود کو بہت حد تک سنبھال لیا تھا اسکا زیادہ وقت اعیان اور تائی جان کے ساتھ گزرتا تھا تائی جان تو بس بستر سے لگ کر ہی رہے گئیں تھیں

 مہروز نے پلٹ کر کوئی خبر نہیں لی تھی اور زویا میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود مہروز کو فون کر لیتی

######$###

 زویا تائی جان کو سوپ پلا رہی تھی جب کرن نے اسکو آکر کہا کہ زارا احمد اس سے ملنے ائی ہے،،،  وہ اٹھ کر باہر آگئی

اسلام وعلیکم،،،،

 زویا نے زارا احمد کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا زارا کھڑی ہو گئی اور اسکے گلے لگی 

آپ ملنا چاہتی تھیں مجھ سے،،،زویا نے حیرت سے زارا احمد کو دیکھتے ہوئے کہا

زارا نے کہا:

ہاں میں تمھیں کچھ بتانا چاہتی ہوں تاکہ تم حاشر کو غلط نہ سمجھو زویا حاشر نے تمھیں صرف اس بیماری کی وجہ سے ہی چھوڑا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ تم جو ساری زندگی بن ماں باپ کے رہی ہو آگے کی ذندگی بھی،،،،،،

زویا نے کہا : ،،،،

 کب ہوئی اسے یہ بیماری اس نے کسی کو بتایا کیوں نہیں ،،،

 لندن جانے سے بھی پہلے ہر وقت سر میں درد اور فلو  رہنے کی وجہ سے اپنے ٹیسٹ کروائے تھے تو رپورٹ میں اسکے دماغ میں گلٹی آئی تھی لیکن اسے یہاں کے ڈاکٹروں  اور رپورٹس پر کوئی بھروسہ نہیں تھا اسلئے جس فلم کے لئےوہ انکار کر چکا تھا اسے پھر حاصل کر لی کیونکہ وہ کچھ عرصہ لندن میں رہے کر اپنا علاج کرانا چاہتا تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکے ماں باپ اور تم یہ صدمہ جھیلو اسلئے وہ فلم کو ایشو بنا کر لندن آگیا مگر وہ تمھیں نہیں چھوڑ سکتا تھا اسلئے تھوڑا خود غرض ہو گیااور شادی کی تاریخ پکی کر والی کہ جیتنی بھی ذندگی ہے تمھارے ساتھ گزارے گا اسوقت تک اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اسکا ٹیومر اتنا پھیل چکا ہے

 میں گواہ ہوں جب انڈیا سے اسے فلم کی آفر آئی حاشر نے صاف انکار کر دیا بلکہ وہ اب کوئی بھی نیا پروجیکٹ سائن نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے میں اس سے ناراض تھی اور اسے بیوقوف کہتی تھی  

لیکن پھر اچانک اسنے فلم سائن کرنے کا اعلان کر دیا اور تمھارا فون اٹھانا بھی چھوڑ دیا میں بہت حیران ہوئی  اور میں جو دل سے چاہتی تھی کے یہ فلم حاشر ضرور سائن کرے مگر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی

اس دن  وہ مجھے بھی بالکل عام مرد ہی لگا کیونکہ مجھے پتہ جو نہیں تھا ،،،،

زویا نے چونک کر اسکی شکل دیکھی 

:ہاں جب مجھے بھی نہیں پتہ تھا لندن میں اسکی رپورٹس بہت خراب آئی تھیں اسکا لاسٹ اسٹیج تھا اسکے پاس مشکل سے ایک دو سال ہی بچے تھے

 اسلئے جب کرن کا مسیج آیا کہ تمھارے ماموں تمھارا رشتہ لے کر آنا چاہ رہے ہیں تو اس نے یہ سارا پلان بنالیا اور نا صرف فلم کی آفر قبول کی خود ہی یہ خبر بھی لیک کروادی  اور اپنے بابا کو خط لکھ دیا جس میں تم سے بیزاری  اور اپنے واپس نہیں آنے کا کہہ دیا 

وہ چاہتا تھا کہ تم اپنے ماموں کے بیٹے سے شادی کر کے پشاور چلی جاؤ،،زارا ابھی کچھ اور بھی کہتی جب زویا نے کہا

: نہیں ایسا نہیں ہے اسے ماموں کا تو پتہ بھی نہیں تھا اور وہ احسن سے میری شادی ،،،،،،،،

زارا ایک دم ہنسی

 ہاں اسلئے ہی اس نے خط میں احسن کا نام لکھا کیونکہ وہ جانتا تھا تم اب اسکی بات نہیں مانو گی اور فوراً اپنے ماموں کے بیٹے کے لئے ہاں کر دو گی

اور زویا کو یاد آیا  کیسے بھرے کمرے میں سب کے سامنے کہا تھا

تایا جان احسن سے نہیں آپ ماموں جان کو ہاں کر دیں اب آپ کا بیٹا میری ذندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتا اور شادی 27 دسمبر کو ہی ہو گی 

ایک دم اسے زارا کی آواز حال میں واپس لے آئی 

وہ تمھیں خوش رکھنے کے لئے جب خود پر اتنا بڑا ظلم کر سکتا تھا تو تم کیسے سوچ سکتی ہو کہ وہ احسن جیسے انسان سے تمھاری شادی ہونے دیتا لیکن وہ یہ بات اپنے بابا کو نہیں سمجھا سکتا تھا اسلئے تمھارے زریعے اس نے کہلوا دیا جیسے ہمشہ کرتا تھا اپنی ہر بات منوانے کے لئے تمھیں اگے

کچھ پوچھنا جاتی ہو زویا ،،،زارا نے کہا

 آپ کو کب پتہ چلا کہ حاشر،،،،،زویا سے بات نہیں مکمل کی گئی وہ اسکی بیماری کا نام بھی منہ پر نہیں لا سکی،،،

 :جس دن تم اپنے شوہر سے محبت کا اظہار کر رہی  تھیں اسے یہ بتا رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر نظر نہ آئے تو تمھاری کیا حالت ہوتی ہے،،،،

 زارا نے جتاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا

زویا کو یاد آ گیا وہ کس دن کی بات کر رہی ہے 

:بہت ٹوٹ گیا تھا وہ بہت رویا تھا اس دن  اور اپنے سارے غم میرے کندھے پر سر رکھ کے بہا دئیےتھے

بس پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کر دیا کام شوبز سب چھوڑ دیا شاید وہ اپنی موت سے پہلے ہی مر گیا تھا,,,,,,,

زارا چلی گئی تھی ،،،زویا نے آنسوں کو بہنے دیا  یہ کیا کردیا تم نے حاشر کیوں ،،،

########

بھابھی کیا کہا پھر مہروز نے کب آرہا ہے شازیہ چچی نے مریم بی بی سے کہا 

مریم بی بی ,,: احسان صاحب بتا رہے تھے وہ کہیں دوسرے شہر گیا ہوا ہے زمینوں کا کوئی مسئلہ ہے  اکبر بھائی سے بات ہوئی تھی 

بھابھی آپ کو نہیں لگتا وہ لوگ بہانا بنا رہے ہیں  وہ اس دن کاجو گیا ہے تو پلٹ کر نہیں آیا نا کوئی فون ہی کیا ہے زویا کو پھر اکبر بھائی اور بھابھی بھی سوئم میں آئے اور اسی دن واپس چلے گئے

 میں نے کہا ہے احسان سے اگر وہ نہیں آتا تو زویا کو وہ خود چھوڑ آئیں خدا نخواستہ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو سمجھائیں گے ان لوگوں کو اس بچی کی ذندگی اس طرح تو برباد نہیں ہونے دے سکتے،،،،، مریم بی بی رونے لگی تھیں  

########

زویا اپنے کمرے میں بیٹھی یہ سب آوازیں سن رہی تھی مگر وہ کیا کر سکتی تھی وہ جانتی تھی وہ اپنا اعتبار کھو چکی ہے  مہروز  اب شاید کبھی اس پر بھروسہ نہیں کرے گا

########$##

زویا عصر کی نماز پڑھ کر لان میں آگئی اعیان کو کرسی پر بیٹھا دیا اور خود آسمان کو دیکھنے لگی تھوڑی دیر میں کرن نے فون لا کر اسکے ہاتھ میں دیا

ھیلو ،:زویا نے فون کان پر لگایا

اسلام وعلیکم ،،مہروز نے سلام کیا 

زویا کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا پھنس گیا 

زویا : میں گھر انا چاہتی ہوں 

مہروز: میں تمھیں لینے آنا چاہ رہا تھا

دونوں نے ایک ساتھ کہا 

مہروز: کل 

زویا ؛ کب

پھر دونوں نے ایک ساتھ کہا 

زویا میں آنے سے پہلے تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ  سنا وہ سب بھولنا ممکن نہیں ہے میرے لئے اسلئے ہی میں چلا گیا تھا ،،،وہ بہت سنجیدہ تھا،

زویا :پھر خان جی اب کیا ہوا

مگر میں نے سوچا اس سب میں میرے بیٹے کا کیا قصور ہے 

زویا نے کچھ بولنا چاہ،،، خان جی،،،،،،،،

مہروز : ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی زویا 

تم تین سال سے میرے ساتھ ہو اور مجھے پورا اعتماد ہے تم پر ایک شوہر سے زیادہ اپنی بیوی کو کوئی نہیں جان سکتا مگر میں نے کہا نا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لو گوں کی نظروں اور انکے سوالوں سے بچ کر میں چلا گیا تھا کبھی نا لوٹ کر آنے کے لئے لیکن میں اعیان کے لئے اپنے اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہوں تم سوچ لو 

ہو سکتا ہے کبھی غصے میں میری زبان سے یا میرے عمل سے کچھ ایسا ہو جائے جس سے تمھیں تکلیف ہو برداشت کر پاؤ گی،،،

 اور ایک وعدہ اور کرنا ہو گا اپنا غم اور آنسو کراچی ہی چھوڑ آنا  یہاں کسی کو کچھ نہیں پتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی کچھ جانے ایک تایازاد بھائی کی موت کا جتنا غم تم نے منانا تھا منا لیا

 میں اپنا کندھا نہیں دونگا تمھیں ،،،،،،،نا مجھے اپنا گھر مقبرہ بنانا ہے،،،،کیا انداز تھا طنز کرنے کا

 زویا کو آج نجانے کتنے دن بعد ہنسی آئی تھی جو اسنے بڑی مشکل سے قابو کی کیونکہ مہروز خان کی آواز سے پتا چل رہا تھا وہ بہت غصے میں ہےاسکا  دماغ بہت گھوما ہوا لگ رہا تھا

زویا:خان جی میں کچھ بھی نہیں بولوں گی کیونکہ شاید آپ کو یقین نہ آئےمیں جانتی ہوں میرے الفاظ اب اعتبار کے قابل نہیں ہیں لیکن میں اپنے عمل سے ظاہر کروں گئی کہ آپ اور آپ کا گھر میرے لئے دنیا میں سب سے ذیادہ اہم ہے ایک گھر کی ضرورت مجھے سب سے ذیادہ ہے

 ایک مضبوط گھر کی بنیاد میں ہی ڈالوں گی آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں۔ ہوگی،،،

اور خاں جی سن کر اعیان نے بابا  بابا کہنا شروع کر دیا

مہروز: میری بات کراؤ اعیان سے،،،، اسی رعب سے کہا گیا زویا نے فون اعیان کو پکڑا دیا

اب وہ باپ بیٹا بات کر رہے تھے

زویا کھل کر مسکرائی،،

زویا نے آسمان پر نظر کی شام ڈھل کر رات میں بدل چکی تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ جلد ایک نئی روشن صبح آنے والی ہے

حا شر کو وہ بھول تو نہیں سکتی تھی پر اپنے دل کے کسی بہت اندر چھپا چکی تھی

ختم شد

★★★★


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Dhalti Shaam Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dhalti Shaam written Dj Dhalti Shaam by Dj is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages