Anaa Parast Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic New Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 29 June 2024

Anaa Parast Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic New Novel

Anaa Parast Novel By Hamna Tanveer Complete Romantic  New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Anaa Parast By Humna Tanveer Complete Romantic Novel 


Novel Name: Anaa Parast  

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے... "

وہ گیٹ کے وسط میں کھڑی اسے گھور رہی تھی۔

"ہاں بس آ گئی.... "

عائشہ اپنا نقاب ٹھیک کرتی باہر نکل آئی۔


جونہی وہ گیٹ سے باہر نکلی نظر سڑک کے اس پار کھڑے ایک شخص سے جا ٹکرائی۔

آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری۔

دور کھڑے شخص کی آنکھیں اسے دیکھ کر چمکنے لگیں۔


"یار عجیب انسان ہے ویسے یہ... "

حنا دھیرے سے بڑبڑائی۔

چند لمحے یونہی سرک گئے کہ عائشہ نظروں کا زاویہ موڑتی حنا کو دیکھنے لگی۔


"کیا مطلب ہے اس سے تمہارا؟"

آنکھوں کی پتلیاں سکیڑے وہ اسے گھور رہی تھی۔

"مطلب وہ چلا گیا.... "

وہ اسے پیچھے کرتی ہوئی بولی۔


عائشہ نے گردن گھما کر دیکھا تو وہ مانوس انسان جا چکا تھا۔

"ٹھیک...تم بتاؤ عجیب سے کیا مراد تھا؟"

وہ ابھی بھولی نہیں تھی اس کی بات کو۔


"مطلب... تم نقاب میں ہو پھر کیا دیکھنے آتا ہے وہ؟"

وہ آہستہ سے بولی۔

"تم نہیں سمجھو گی.... "

عائشہ مسکراتی ہوئی چلنے لگی۔


"تم ہمیشہ یہی کہتی ہو.... "

وہ اس کے ساتھ قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

"ہاں تو جب تمہیں ہماری محبت سمجھ ہی نہیں آےُ گی تو میں کیا سمجھاؤں تمہیں... "

وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔


"ٹھیک ہے تم جیتی میں ہاری.... "

وہ ہتھیار ڈالتی ہوئی بولی۔

عائشہ اپنی کسی سوچ پر مسکرا دی۔

~~~~~~~~

"کیوں بھائی کس کا انتظار ہو رہا ہے؟"

عقب سے کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

وہ جو ریلنگ پر ہاتھ رکھے جھکا ہوا تھا اس اچانک حملے پر گھبرا گیا۔


"کیا یار ڈرا دیا مجھے.... "

وہ پیچھے ہوتا گھورنے لگا۔

"لگتا ہے بھابھی آئی نہیں آج؟"

وہ ساتھ والی چھت پر دیکھ رہا تھا۔


"تیرا کیا کام ہے یہاں؟"

فہد اس کے سامنے آ گیا۔

"میں تو بس تجھے ملنے آیا تھا۔"

ابتسام شانے اچکاتا پیچھے ہو گیا۔


"اچھا چل پھر روم میں چلتے ہیں.... "

وہ ایک نظر چھت پر ڈالتا چلنے لگا۔

"چہرے پر چھائی مایوسی سب بتا رہی ہے ویسے... "

وہ دونوں کمرے میں آ چکے تھے۔


"جو کام ہے وہ بول.... فضول کی بکواس مت کر...."

فہد نے کشن مارا جو سیدھا ابتسام کے منہ پر جا لگا۔

"بڑا کوئی بے وفا انسان ہے تو.... ویسے میں تیرے رزلٹ کا بتانے آیا تھا۔"

وہ کرسی سنبھال چکا تھا۔


"کیا بنا پھر؟"

وہی ہمیشہ کی مانند لاپرواہ سا انداز۔

"ایک نمبر.... "

ابتسام نے سرد آہ بھری۔


"یار نہ کر اتنا برا بھی نہیں تھا پیپر... "

وہ یکدم سیدھا ہوا۔

چہرے پر حیرانی کا عنصر نمایاں تھا۔


"ایک نمبر سے رہ گیا.... تھوڑا سا اور پڑھ لیتا تو پاس تو ہو جاتا...."

وہ تاسف سے فہد کو دیکھ رہا تھا۔


"ابو تو اسی بات پر خوش ہو جائیں گے کہ باقی سب میں تو پاس ہوں.... "

وہ قہقہ لگاتا ٹوکری سے سیب اٹھانے لگا۔

ابتسام نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔

~~~~~~~~

عائشہ پاؤں اوپر کئے کرسی پر بیٹھی تھی۔

ذہن اسے ماضی کی کچھ خوبصورت یادیں میں لے جا رہا تھا۔

"عائشہ دروازے پے دیکھو کون ہے.... "

کچن سے آواز سنائی دی تو وہ دوپٹہ سنبھالتی کمرے سے نکل آئی۔


صحن عبور کرتی ہوئی وہ دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔

سامنے ایک غیر شناسا انسان کھڑا تھا۔

لمبا قد, صاف رنگ پر ہلکی بڑھی ہوئی شیو, بال جیل لگا کر کھڑے کر رکھے تھے۔ سیاہ آنکھیں عائشہ پر تھیں۔


"جی؟"

عائشہ نا سمجھی سے اس نوجوان کو دیکھ رہی تھی۔

اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا صبیحہ بیگم ادھر آ گئیں۔

"ارے بیٹا تم,, کیسے ہو؟"

وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئیں۔


"میں ٹھیک ہوں آنٹی آپ کیسی ہیں؟"

وہ چاہ کر بھی عائشہ سے نظریں نہ ہٹا سکا۔

"میں بھی بلکل ٹھیک ہوں... آ جاؤ اندر..."

وہ راستہ دیتی ہوئی بولیں۔


عائشہ کی پیشانی پر شکنیں نمایاں تھیں۔

"جاؤ تم چاےُ بناؤ... "

وہ عائشہ سے کہتی اندر چل دیں۔

وہ شانے اچکاتی باورچی خانے کی سمت چل دی۔


"کہاں گم ہو؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں تمہیں.... "

صبیحہ بیگم اسے شانے سے ہلاتی ہوئی بولیں۔

وہ یاد ایک دھواں کی مانند غائب ہو گئی۔


"کہیں نہیں... "

وہ جیسے اب ہوش میں آئی تھی۔

"کھانا ٹھنڈا ہو گیا ہے.... پتہ نہیں کن سوچوں میں گم رہتی ہو۔"

وہ بڑبڑاتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں۔

عائشہ نفی میں سر ہلاتی مسکراتے ہوئے باہر نکل آئی۔

~~~~~~~~

"امی آپ آج کام پر مت جائیں میں چلی جاتی ہوں...."

رانیہ متفکر سی بولی۔

"تمہیں بھیج تو دوں لیکن...."

نقاہت کے باعث وہ خاموش ہو گئیں۔


"میں بیگم صاحبہ کو بتا دوں گی کہ آپ کی طبیعت ناساز تھی...."

وہ چادر ڈھونڈنے لگی۔

"تمہیں کیسے معلوم ہوگا کون سی چیز کس جگہ رکھنی ہے؟"

وہ مطمئن نہیں تھیں۔


"میں کر لوں گی آپ پریشان مت ہوں.... اور ہاں دوائی میں واپس آ کر کھلاؤں گی خود سے مت کھائیے گا۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


"ہاں ہاں... ٹھیک ہے۔ ابھی تو کھلائی ہے تم نے مجھے کیا شوق ہے بار بار منہ کڑوا کرنے کا۔"

وہ برا مان گئیں۔

"ٹھیک ہے پھر میں چلتی ہوں... "

وہ دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔


چہرے پر معدوم سی مسکراہٹ تھی۔

چند ساعتیں بیت گئیں وہ حویلی کے گیٹ کے باہر کھڑی تھی۔

نجانے کس سوچ میں گم تھی وہ۔


"کچھ چائیے تمہیں... "

چوکیدار کی آواز نے اس تسلسل کو توڑا۔

"ہاں... وہ مجھ.. مجھے اندر جانا تھا۔"

وہ چادر درست کرتی ہوئی بولی۔


"تم.... "

وہ بغور اسے دیکھتا خاموش ہو گیا۔

"ٹھیک ہے جاؤ.... "

وہ گیٹ وا کر چکا تھا۔

رانیہ خاموشی سے اندر آ گئی۔


چہرے پر اب ایک اضطراب سا پھیل چکا تھا۔

"مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا شاید.... ایک چھٹی ہو جاتی تو قیامت تو نہیں آنی تھی۔"

وہ اندر بڑھتی خود کو کوسنے لگی۔

~~~~~~~~

عائشہ دم سادھے اس ڈائری کو دیکھ رہی تھی۔

یہ صرف ایک ڈائری ہی نہیں بلکہ اس کی ہم راز تھی۔

ایک سرد آہ بھری وہ ڈائری کے صفحے پلٹنے لگی۔

کچھ سوچ کر اس نے قلم اٹھایا اور لکھنے لگی۔


"آپ آج بہت اچھے لگ رہے تھے... "

لکھتے لکھتے لب مسکرانے لگے۔

"حنا کو یہ سب سمجھ نہیں آتا لیکن میں تو سمجھتی ہوں.... آپ کو بھی اور آپ کی محبت کو بھی۔"

مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی۔


"بس یہی دعا ہے میری سب ٹھیک ٹھیک ہو جاےُ...."

پیشانی پر تین لکریں ابھریں۔

وہ قلم اٹھا چکی تھی۔


اذان کی آواز سنی تو خاموشی سے ڈائری بند کر کے رکھی اور وضو کرنے چل دی۔

~~~~~~~~

"تمہاری ماں کیوں نہیں آئی آج؟"

وہ تفتیشی انداز میں اسے دیکھ رہی تھیں۔

"وہ...امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی..."

رانیہ خواہ مخواہ ہی چادر درست کرنے لگی۔


"پچھلے ہفتے بھی ٹھیک نہیں تھی.... کچھ زیادہ ہی بیمار نہیں رہنے لگی...."

وہی جانچنے والا انداز۔

"کمزوری ہو گئی ہے شاید اس لیے.... "

رانیہ سے کوئی جواب بن نہیں رہا تھا۔


"اچھا اچھا.... جاؤ جا کر پہلے میرے کمرے کی صفائی کرو پھر بتاؤں گی کیا کرنا ہے۔"

وہ ناگواری سے بولیں۔

"جی اچھا.... "

وہ سر جھکائے کمرے کی سمت چل دی۔


"امی... "

فہد کی آواز پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

نظروں کا تبادلہ ہوا۔

فہد کے لب دھیرے سے مسکراےُ۔

"ت... تم کب آئی یہاں؟"

وہ جو دروازے میں کھڑا تھا قدم بڑھا کر اندر آ گیا۔


"وہ... وہ آج امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں آگئی۔"

دوپٹہ سر سے سرک گیا تو وہ فوراً اسے درست کرنے لگی۔

"میں چھت پر انتظار کر رہا تھا.... "

وہ نگاہیں اس کے سراپے پر جماےُ بول رہا تھا۔


"آ... آپ یہاں سے چلے جائیں بیگم صاحبہ نے دیکھ لیا تو...."

گھبراہٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

"تم پہلے میری بات کا جواب دو... "

وہ بضد ہوا۔


"پتہ نہیں مجھے یاد نہیں... "

رانیہ نے ٹالنا چاہا۔

دونوں کے بیچ فاصلہ ہنوز برقرار تھا۔


"اچھا تو اب تم میری باتیں بھی بھولنے لگی ہو؟"

وہ سینے پر بازو باندھتا ہوا بولا۔

"مہ... میں بعد میں بتا دوں گی لیکن ابھی جائیں پلیز.... "

وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


"ایسے تو تم اور بھی معصوم لگتی ہو..."

وہ یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

سرخ و سپید رنگت پر پریشانی ڈیرے جماےُ ہوےُ تھی۔

وہ لب کاٹتی کبھی فہد کو دیکھتی تو کبھی دروازے کو۔


"اچھا اچھا ٹھیک ہے جا رہا ہوں...اب تم رونا مت... "

وہ ہلکا سا مسکرایا۔

رانیہ خاموش رہی۔

وہ ایک نظر اسے دیکھ کر کمرے سے نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی رانیہ نے سکھ کا سانس لیا۔


"بھولتی تو میں کچھ بھی نہیں ہوں... "

وہ خود کلامی کرنے لگی۔

"اس سے پہلے بیگم صاحبہ آئیں میں یہ ٹیبل صاف کر دوں ورنہ ڈانٹ پڑے گی۔"

وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"عائشہ بیٹھو مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے... "

وہ پرسوچ انداز میں بولیں۔

"جی امی... "

وہ کہتی ہوئی ان کے پاس بیٹھ گئی۔


"تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ تمہارے ابو نے آصف کے ساتھ تمہارا رشتہ کیا تھا لیکن اب زکیہ بھی اصرار کر رہی ہے.... تم مجھے بتاؤ کس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو آصف کے ساتھ یا پھر؟"

وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگیں۔


"امی نہ میں آصف سے شادی کروں گی نہ ہی وہاب سے... "

وہ قطعیت سے بولی۔

"کیا مطلب ہے تمہارا؟"

وہ یکدم غصے میں آ گئیں۔


"مجھے یہ دونوں پسند نہیں۔"

وہ منہ موڑتی ہوئی بولی۔

"شادی تو ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی کرنی ہے تمہیں خود بتا دو گی تو اچھا ہوگا۔"

وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولیں۔


"آصف کو آپ جانتیں نہیں کیا؟ امی کون سی برائی ہے جو اس میں نہیں ہے؟....کیا جوڑ بنتا ہے ہمارا؟"

وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔


"تمہاری یہ باتیں مجھے بلکہ سمجھ نہیں آ رہیں... کہنا کیا چاہتی ہو تم؟"

وہ جیسے اس موضوع سے جاں چھڑانا چاہ رہی تھیں۔

"امی مجھے عمر اچھا لگتا ہے.... "

وہ دھیرے سے منمنائی۔


"تمہارا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا؟"

وہ متحیر سی اسے دیکھ رہی تھیں۔

"امی...."

وہ کہنا چاہتی تھی لیکن الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔


"میں تمہیں مار دوں گی عائشہ اگر دوبارہ یہ بات اپنے منہ سے نکالی تو... "

وہ طیش میں آ گئیں۔

"لیکن امی اس میں کیا برائی ہے؟"

وہ احتجاجاً کھڑی ہو گئی۔


"میں تمہاری شادی عمر کے ساتھ ہرگز نہیں کروں گی.... اور یہ بات تم اپنے دماغ میں بٹھا لو تو بہتر ہوگا تمہارے حق میں.... "

آواز دھیرے دھیرے بڑھتی جا رہی تھی۔


"آپ کچھ بھی کہہ لیں میں شادی کروں گی تو صرف عمر سے.... "

وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھی۔


"مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمہارے ساتھ سختی کروں..."

وہ اس کی بازو دبوچتی ہوئی بولیں۔

عائشہ کراہ کر انہیں دیکھنے لگی۔

دو موتی ٹوٹ کر رخسار پر آ گرے۔


"اگر تم ایسے نہیں مانو گی تو میں اپنے طریقے سے سمجھا لوں گی.... تم اچھے سے جانتی ہو تمہارا باپ برادری سے باہر تمہاری شادی نہیں کرے گا۔"

وہ قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔


"کچھ بھی ہو جاےُ اسی بستی میں جانا ہے تمہیں... اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تم عمر کے خواب نہ دیکھو... "

وہ جھٹکے سے اسے پیچھے کرتی چل دیں۔

وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے انہیں جاتا دیکھنے لگی۔


"مر جاؤں گی لیکن کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔"

وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتی ہوئی بولی۔

"مجھے عمر سے بات کرنی ہوگی...."

وہ بد حواسی کے عالم میں کمرے سے باہر نکل گئی۔


"مجھے عمر کو بتانا ہوگا سب.... "

آنسو اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

~~~~~~~~

وہ ہاتھ مسلتی کمرے میں داخل ہوئی۔

"کہیں وہ اندر نہ ہوں... "

وہ لب کاٹتی کمرے میں نگاہ دوڑانے لگی۔


"لگتا ہے باہر ہیں... "

وہ سانس خارج کرتی آگے بڑھ گئی۔

"اب میں آرام سے صفائی کر سکوں گی... "

وہ مسکراتی ہوئی قالین پر گری شرٹ اٹھانے لگی۔


فہد کے پرفیوم کی خوشبو وہ پہچان نہ پاتی ایسا ممکن نہیں تھا۔

اس نے شرٹ چہرے کے قریب کی۔

ایک سانس اندر کھینچ کر اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارا۔


"کیسا عجیب سا رشتہ ہے نہ یہ... "

وہ افسردگی سے اس کی شرٹ کو دیکھنے لگی۔

"سب جانتے ہوےُ بھی میں خود کو روک نہیں پاتی... "

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


"شاید انسان کا اختیار نہیں ہوتا اس جذبے پر.... شاید سب میری ہی مانند اتنے ہی بے بس ہوتے ہیں۔"

وہ شرٹ تہ لگانے لگی۔


دونوں ہاتھوں سے آنکھیں رگڑ کر وہ اپنے کام میں محو ہو گئی۔

فہد نجانے کب وہاں آیا رانیہ کو خبر ہی نہ ہوئی۔

وہ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا نگاہیں رانیہ کے سراپے پر تھیں۔


"اس کمرے میں زیادہ اچھی لگتی ہو ویسے تم مجھے... "

چند لمحے خاموشی کی نذر ہونے کے بعد آخر وہ بول پڑا۔

"آ... آپ... آپ کب آےُ؟"

رانیہ کی زبان لڑکھڑا گئی۔


"جب تم میرے سٹڈ سیٹ کر رہی تھی۔"

چہرے پر بھرپور طمانیت تھی۔

"آپ کو کچھ چائیے تھا؟ مجھے دس منٹ اور لگیں گے؟"

وہ دونوں ہاتھ مسلتی اسے دیکھنے لگی۔


سیاہ شرارتی لٹ چہرے پر جھول رہی تھی۔

"ہاں مجھے تو بہت ضروری کام ہے... "

چہرے پر شرارت نمایاں تھی۔


"صرف تھوڑا سا ٹائم لگے گا... "

وہ روہانسی ہو گئی۔

فہد کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔


"پلیز صرف دس منٹ... بس آپ کے شوز سیٹ کرنے ہیں۔"

وہ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"اور اگر میں کہوں کہ میرے سامنے کروں پھر؟"

وہ کہتا ہوا صوفے پر براجمان ہو گیا۔


"آ... آپ کے سامنے میں کیسے کروں گی؟"

وہ انگلیاں مروڑتی سر جھکا گئی۔

"ہاں تم اپنا کام کرو... میں اپنا کام کرنے لگا ہوں... "

وہ مصروف سے انداز میں کہتا لیپ ٹاپ کی اسکرین کھولنے لگا۔


"پلیز نہ.... "

وہ ملتجائیہ انداز میں بولی۔

"میں تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کر رہا.... "

وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگا۔


"لیکن ایسے مجھ سے کام نہیں ہوگا نہ..."

وہ نروٹھے پن سے بولی۔

"ٹھیک ہے صرف دس منٹ... "

اس سے زیادہ وہ اسے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔


"جی دس منٹ.... "

رانیہ کا چہرہ کھل اٹھا۔

"گڈ بائے...."


وہ مسکراہٹ اچھالتا باہر نکل گیا۔

"بہانے ڈھونڈتے ہیں مجھے تنگ کرنے کے... "

وہ نفی میں سر ہلاتی مسکراتے لگی۔

~~~~~~~~

"عمر سے بات ہو گئی؟"

حنا متجسس تھی۔

"ہاں... "

مختصر سا جواب آیا۔


"کیا ہوا؟ کیا کہا عمر نے؟"

حنا اس کی بازو ہلاتی ہوئی بولی۔

"عمر نے کہا ہے کہ وہ اپنی امی کو بھیجیں گے... "

وہ یاس سے حنا کو دیکھنے لگی۔


"اور تمہارے امی ابو رضامند ہو جائیں گے؟"

وہ بھی فکرمند تھی۔

"ہو سکتا ہے.... عمر کہہ رہے تھے وہ سعودیہ جا کر اپنے بھائی سے کہیں گے پھر وہ وہاں ابو سے بات کریں گے۔"

وہ فون اس کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔


"مجھے امید ہے سب ٹھیک ہو جاےُ گا..."

حنا اسے گلے لگاتی ہوئی بولی۔

"ہاں مجھے الله پر پورا بھروسہ ہے,, مجھے یقین ہے ابو مان جائیں گے۔"

وہ پر امید دکھائی دے رہی تھی۔


"ایک بات پوچھوں عائشہ؟"

وہ دونوں کلاس کی جانب بڑھ رہیں تھیں۔

"ہاں پوچھو... "

وہ کھوےُ کھوےُ سے انداز میں بولی۔


"تمہیں لگتا ہے عمر رشتہ بھیجے گا؟"

وہ متفکر تھی۔

عائشہ لمحہ بھر کو خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔


"ہاں مجھے پورا یقین ہے عمر کی محبت پر,,, وہ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتے اور تم دیکھنا وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔"

وہ معدوم سا مسکرائی۔

"چلو اب جلدی ورنہ ڈانٹ پڑے گی سر سے...."

عائشہ گھورتی ہوئی تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔

حنا منہ بسورتی اس کے عقب میں چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"کس کو سوچ رہے ہو؟"

ابتسام اس کے ہاتھ سے سیگرٹ لیتا ہوا بولا۔

"شرم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے لیکن تمہارا تو دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں اس سے...."

وہ جی بھر کے بد مزہ ہوا۔


"دراصل ساری تجھ میں آ گئی نہ تو میرے لئے بچی ہی نہیں... "

وہ معصومیت سے کہتا سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔


فہد ٹراؤذر کے ساتھ گرے ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا,, بال ماتھے پر منتشر تھے, گندمی رنگ پر بڑھی ہوئی شیو غضب ڈھا رہی تھی۔

"بکواس کروا لو تم سے بس... "

وہ ہنکار بھر کر دوسری سیگرٹ سلگانے لگا۔


"گریجویشن ہوگیا رانیہ کا؟"

ابتسام ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔

"ہاں..."

مختصر سا جواب آیا۔


"تیرے والا حال تو نہیں؟"

ابتسام کا قہقہ سنائی دیا۔

فہد نے گھورنے پر اکتفا کیا۔

"سامیہ آئی تھی آج.... عجیب بیوقوف سی لڑکی ہے۔"

چند پل کی خاموشی کو فہد نے توڑا۔


"اوہ تمہاری منگیتر.... "

ابتسام کے لہجے میں شوخی تھی۔

"کوئی منگیتر نہیں ہے وہ میری.... خود ہی کہتی رہتی ہے سب کو۔ گواہ لے کر آےُ نہ۔"

وہ کش لیتا ہوا بولا۔


سرمئی دھواں ہوا میں معلق ہو گیا۔

ایش ٹرے بھر چکا تھا لیکن فہد کی ٹینشن جوں کی توں برقرار تھی۔

"ہاں تو ٹینشن کیا ہے؟ وہ تو اکثر آتی ہے۔"

ابتسام الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔


"رانیہ کا سوچ رہا تھا۔"

وہ حد درجہ سنجیدہ تھا۔

"تو بھی جانتا ہے اچھے سے کہ جو سوچ رہا نا ممکن ہے۔"

وہ ٹیک لگاتا ہوا بولا۔


کمرے میں سیگرٹ کی بو زور پکڑ چکی تھی۔

"اگر ایسا فضول ہی بولنا کے تو وہ دروازہ ہے سامنے جا سکتا ہے تو... "

وہ جو پہلے ہی فکرمند تھا ابتسام کی بات پر مزید پریشان ہو گیا۔


"اچھا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ دروازہ وہاں ہے.... "

وہ خفگی سے بولا۔

"کھانے میں کیا بنا ہے؟"

فہد نے موضوع تبدیل کیا۔


"تیرے گردے... "

وہ کہاں سنجیدہ ہونے والا تھا۔

"اٹھ....دفع ہو.... عزت راس نہیں تجھے۔"

وہ تپ کر کہتا اسے بازو سے پکڑ کر دروازے تک لا چکا تھا۔


"تیری صحبت کا اثر ہے میرا کیا قصور؟"

وہ مظلومیت سے کہتا باہر نکل گیا۔

اپنے عقب میں اسے زور سے دروازہ بند کرنے کی آواز سنائی دی۔


فہد دروازے سے ٹیک لگائے سامنے کھڑکی کو گھورنے لگا۔

"پتہ نہیں کیا ہوگا... "

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بستر پر گر گیا۔

~~~~~~~~

"امی میری پاکٹ منی؟"

عائشہ بیگ شانے پر ڈالے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"بند ہے اب سے... جب تک تم میری بات سمجھ نہیں جاتی۔"

وہ تلخی سے گویا ہوئیں۔


"امی ایک چھوٹی سی بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی آپ کو؟"

وہ جھنجھلا کر بولی۔

"تمہیں کیوں سمجھ نہیں آتا جب جانتی ہو کہ تمہارے ابو برادری سے باہر تمہارا رشتہ نہیں کریں گے پھر کیوں فضول کی ضد کر رہی ہو؟"

وہ کہتی ہوئیں کھڑی ہو گئیں۔


"وہ کوئی غیر تو نہیں ہیں آپ کے رشتے دار ہیں پھر کیا برائی ہے اس رشتے میں؟"

عائشہ نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔


"میری ماں مت بنو تم... جو کہا ہے مان لو وہی اور بھول جاؤ عمر کو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔"

بولتے بولتے چہرے پر سختی در آئی۔

"کاش امی آپ صحیح کے ساتھ کھڑی ہوتیں تو میں بھی آپکی بات مان لیتی..."

وہ تاسف سے دیکھتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔


"تمہیں شرم آنی چائیے ایسی باتیں کرتے ہوئے....دو چھوٹی بہنیں ہیں تمہاری کیا اثر پڑے گا ان پر؟"

اب کی بار انہوں نے طریقہ بدلا۔


"امی میں نے کچھ غلط نہیں کیا نہ ہی غلط مانگ رہی ہوں... اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے تو پھر آپ لوگ کیوں نہیں؟ ہماری محبت بہت پاک ہے بہت... صرف ایک بار دیکھا ہے عمر نے مجھے,,,جو عزت وہ مجھے دیں گے یہ ان پڑھ لوگ نہیں دے سکتے۔ یہاں کے لوگوں کی جہالت سے آپ بھی اچھے سے واقف ہیں۔"

وہ نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گئی۔


اس سے قبل کہ وہ مزید کچھ بولتی صبیحہ بیگم کے تھپڑ نے اس کے الفاظ کا گلا گھونٹ دیا۔

وہ دائیاں ہاتھ رخسار پر رکھے نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"اپنی جان عزیز ہے نہ تو یہ بے جا ضد چھوڑ دو... اور جاؤ کالج دیر ہو رہی ہے۔"

وہ ناگواری سے گویا ہوئیں۔

تکلیف ان کے تھپڑ نے نہیں لہجے نے دی تھی۔

عائشہ اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔


"کچھ تو کرنا پڑے گا ورنہ یہ لڑکی مجھے یونہی تنگ کرتی رہے گی... "

وہ پرسوچ انداز میں کہتیں باورچی خانے کی سمت چل دیں۔


"کیا ہوا تمہیں؟"

حنا ہق دق سی اسے دیکھ رہی تھی۔

سرخ انگارہ بنی آنکھیں اپنی داستاں آپ سنا رہی تھیں۔

"کچھ نہیں... "

وہ نظریں چراتی آگے چل دی۔


"یار بتاؤ تو... "

وہ متفکر سی بولی۔

"میں نہیں کر سکتی کسی اور سے شادی... میں کیسے سمجھاؤں امی کو مجھے سمجھ نہیں آتا... "

وہ سر جھکائے بولتی جا رہی تھی۔


"کیا آج پھر سے کچھ ہوا ہے؟"

حنا اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہی تھی۔

"میرے بس میں نہیں ہے۔ میں عمر سے محبت کرنا ترک نہیں کر سکتی,, میرا اختیار نہیں ہے۔ میں بہت مجبور ہوں چاہ کر بھی نہیں کر سکتی ایسا.... "

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔


"اچھا تم پریشان مت ہو.... کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے تم پہلے واش روم چل کر منہ دھو لو... ایسے سب کو معلوم ہو جاےُ گا۔"

وہ اس کا شانہ تھپتھپاتی ہوئی بولی۔

عائشہ سر ہلاتی اس کے ہمراہ چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"آج پھر تم آئی ہو؟"

وہ ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"ثناء بی بی نے بلایا تھا... "

جھکا ہوا سر مزید جھک گیا۔


"تمہارا یہاں روز روز آنا جانا مجھے بلکل پسند نہیں..."

وہ تلخی سے کہتی چلنے لگی۔

رانیہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔

"میں اپنی مرضی سے تو نہیں آئی نہ... "

وہ منمناتی ہوئی چلنے لگی۔


"اتنی دیر کیوں لگا دی تم نے؟"

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔

"و...وہ... "

رانیہ مناسب عذر تلاش کرتی اندر آ گئی۔


"اچھا خیر چھوڑو.... لو اب بناؤ میری پریکٹیکل کی کاپی۔"

وہ اس کے سامنے کتابیں رکھتی ہوئی بولی۔

"رکو... "

اس سے قبل کہ رانیہ کتاب اٹھاتی ثناء بول اٹھی۔


"جی؟"

وہ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

"ہاتھ دھو کر آؤ پہلے... اور نہا کر آئی ہو نہ تم؟"

وہ ناگواری سے اس کا جائزہ لے رہی تھی۔

رانیہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


"جی..."

وہ کہہ کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔

"جلدی بنانا... ویسے تم اتنی اچھی ڈائیاگرامز کیسے بنا لیتی ہو؟"

وہ صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی۔

رانیہ کتابیں لے کر زمین پر بیٹھ چکی تھی۔


"مجھے بچپن سے ہی شوق تھا... "

وہ محو سے انداز میں بولی۔

"ویسے مجھے بلکل بھی نہیں پسند یہ..."

وہ ناگواری سے کہتی لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلانے لگی۔


رانیہ خاموشی سے اپنا کام کرنے لگی۔

"کیا میں اپنے ساتھ گھر لے جاؤں؟ ابھی بہت کام باقی ہے؟"

رانیہ فکرمند سی گھڑی کو دیکھتی ہوئی بولی۔


"گھر... پتہ نہیں اچھے سے صاف کرتے بھی ہو گے یا نہیں,,, سمیل بھی ہوتی ہوگی...نہ.. نہیں تم گھر مت لے جاؤ کل دوبارہ آ جانا اور یہاں میرے سامنے بنانا۔"

وہ نیل پینٹ اٹھاتی ہوئی بولی۔


"ٹھیک ہے میں آ جاؤں گی... کہاں رکھنا ہے ان کتابوں کو؟"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

"وہاں ریک میں رکھ دو... "

ثناء آنکھیں چھوٹی کئے اپنے ناخن کو گھور رہی تھی جس پر ابھی اس نے نیل پینٹ لگائی تھی۔


"میں چلتی ہوں... "

وہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔

وسیع راہداری میں دوپہر کے اس وقت کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

رانیہ پر سوچ انداز میں چلتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی۔

~~~~~~~~~

"جیسے آپ کہیں گے وہ بلکل ویسے ہی کرے گی.... "

صبیحہ بیگم بوکھلاہٹ کا شکار تھیں۔

"نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔"

انہوں نے مسکراتے ہوئے تلخی کم کرنا چاہی۔


"اچھا ٹھیک ہے....خدا حافظ۔"

جبراً مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا۔

"عائشہ کس مصیبت میں ڈال دیا ہے تم نے مجھے.... "

وہ ہنکار بھرتی کمرے سے باہر نکل آئیں۔


"تم دعا کرنا میرے پیپرز اچھے ہو جائیں... "

عائشہ اپنے دھیان بیٹھی بول رہی تھی۔

"آپی آپ فکر نہ کریں دیکھنا بہت اچھے نمبر آئیں گے آپ کے.... "

مریم نے مسکراتے ہوئے تسلی دی۔

عائشہ بس مسکرا کر رہ گئی۔


"عائشہ بات سنو میری... "

مریم کو دیکھ کر وہ کچھ نرم پڑیں۔

"جی آتی ہوں... "

وہ اپنی کتابیں بند کرتی کھڑی ہو گئی۔


"جی امی؟"

وہ کمرے میں آتی ہوئی بولی۔

"تمہارے ابو کا فون تھا.... جانتی ہو کتنا غصہ کر رہے تھے عثمان نے تمہارا رشتہ مانگا ہے ان سے۔"

وہ رک کر اسے دیکھنے لگیں۔

عائشہ کا بجھا ہوا چہرہ یکدم کھل اٹھا۔


"پھر؟"

وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتی اپنے تاثرات نارمل رکھنے کی سعی کرنے لگی۔

"دیکھو میری بچی.... مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے عمر پڑھا لکھا ہے سعودیہ میں اچھا کماتا ہے پھر خوبصورت شکل و صورت کا مالک ہے۔ لیکن تم جانتی ہو نہ اپنے ابو کو وہ کسی صورت برادری سے باہر تمہارا رشتہ نہیں کریں گے۔"

وہ اس کے ہاتھ پکڑے نرمی سے کہنے لگیں۔


"تو پھر آپ منائیں ابو کو....وہ اتنے اچھے رشتے کو رد کر کے ایسے انسان سے میرا رشتہ کرنا چاہتے ہیں جس میں سرے سے کوئی اچھائی موجود نہیں ہے۔ میں کبھی بھی خوش نہیں رہ سکوں گی کسی اور کے ساتھ۔"

بولتے بولتے آواز بھرا گئی۔


"تمہارے لئے میں کوشش کروں گی... وہ پاکستان آئیں گے تو پھر ان سے بات کروں گی۔ لیکن تب تک تمہیں انتظار کرنا ہوگا اور کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی جس سے مجھے شرمندگی ہو۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔


"ٹھیک ہے امی.... "

وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔

عائشہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔


"مجھے امید ہے اسی طرح ابو بھی راضی ہو جائیں گے جیسے آپ مان گئیں ہیں۔"

وہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں رگڑتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔

ڈائری نکالی اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔


"عمر میں بہت خوش ہوں.... میں جانتی تھی تم اپنا کہا ضرور پورا کرو گے۔ آج میرے دل میں تمہارے لئے محبت اور عزت اور بھی بڑھ گئی ہیں۔"

آنسو رخسار سے ہوتے ہوئے صفحے پر گر رہے تھے۔


"تم نے جو کہا وہ کیا بھی... میں جانتی تھی تم میرا مان نہیں توڑو گے اور اسی طرح ایک دن ابو بھی مان جائیں گے.... "


"بس میری دعا ہے جلد ہی یہ سب ہو جاےُ.... تم سے دور رہنا کتنا مشکل ہے میں بتا نہیں سکتی۔ ایک ایک لمحہ بھاری لگتا ہے۔ گھڑی تو مانو رک گئی ہے جیسے چلتی ہی نہیں ہے۔"

وہ ڈائری بند کرتی دوپٹے سے چہرہ صاف کرنے لگی۔


"میری دعائیں ضرور قبول ہوں گی مجھے یقین ہے.... اور ایک دن ہم ساتھ ہوں گے۔"

وہ ڈائری کو دیکھتی مسکرانے لگی۔

~~~~~~~~

"آئم سوری بھیا... "

عمر نادم سا ان کے سامنے کھڑا تھا۔

"تم سوری کیوں بول رہے ہو؟"

زبیر نے مسکرا کر ٹالنا چاہا۔


"میری وجہ سے آپ کو اتنا سب سننا پڑا... وہ ساری باتیں جو انکل نے کہیں میں نے سن لیں تھیں۔"

"کوئی بات نہیں... تم پریشان مت ہو۔"

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکراےُ۔


"مجھے بہت برا لگ رہا ہے بھیا میری وجہ سے.... "

"بس اب مزید کچھ نہیں بولو گے تم... جو بھی کہا تم بھول جاؤ۔ تم میرے بھائی ہو تمہارے لئے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں میں۔"

وہ اسے سینے سے لگاتے ہوئے بولے۔

عمر کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔


"تھینک یو سو مچ بھیا... مجھے نہیں پتہ نہیں کیسے۔"

"تم مجھ سے اب غیروں والی باتیں کرو گے؟"

وہ اس کی بات کاٹتے خفگی سے بولے۔


"مجھے سمجھ نہیں آ رہا.... "

وہ لاچاری سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

"تم پریشان مت ہو.... الله بہتر کرے گا۔"

زبیر مسکراتے ہوئے بولا۔


"آپ شاید کہیں جا رہے تھے؟"

وہ ان کے ہاتھ میں چابی دیکھ کر بولا۔

"ہاں کچھ کام تھی بس اسی کے لئے.... پھر میں آ کر تم سے بات کرتا ہوں اس متعلق۔"

وہ اس کا شانہ تھپتھپاتے چل دئیے۔


"ٹھیک ہے... "

آواز قدرے مدھم تھی۔

"آپ جیسا بھائی ملنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اتنا سب سننے کے بعد بھی ماتھے پر ایک شکن تک نہیں آپ کے...."

وہ نم آنکھوں سے مسکرا رہا تھا۔


"انکل نے تو منع کر دیا ہے.... اب کیسے ہوگا یہ سب؟"

وہ متفکر سا بولا۔

"پتہ نہیں تمہیں کچھ علم ہے بھی یا نہیں اس بارے میں۔"

وہ کہتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔


براؤن ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک ٹراؤذر پہنے, بال معمول کے خلاف منتشر تھے۔

وہ داڑھی مسلتا کچھ سوچ رہا تھا۔

اس بکھرے بکھرے سے حال میں بھی وہ خاصا دلکش معلوم ہو رہا تھا۔


"مجھے جلد از جلد تم سے بات کرنی ہے... لیکن آج تو شاید ممکن نہیں۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔

"کل تم کالج جا کر ہی رابطہ کر سکو گی مجھ سے... "

وہ سامنے دیوار کو گھورتا خود کلامی کر رہا تھا۔


"پتہ نہیں کیسے ہوگا یہ سب... "

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔

یہی ایک فکر اسے تب سے کھاےُ جا رہی تھی۔

کچھ سوچ کر عمر نے جیب سے فون نکالا۔


فون خاموش تھا۔

"آہ... یہ انتظار کتنا مشکل ہوتا ہے!!! "

وہ سر صوفے کی پشت پر گراتا ہوا بولا۔

آنکھیں بند کیں تو عائشہ کا سراپا گھوم گیا۔


وہ اک پل جس پل میں اس نے اپنا دل کھویا تھا۔

ایک ہی بار دیکھا تھا اس نے اسے اور وہی چہرہ آنکھوں میں لئے بیٹھا تھا۔

وہ بند آنکھوں سے مسکرانے لگا۔

~~~~~~~~

گرمیوں کی خاموش دوپہر ہر سو چھائی ہوئی تھی۔

اس تپتی دھوپ نے سب کو کمروں تک محدود کر دیا تھا۔

ہوا پتوں کو تنگ کرتی سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی۔

حویلی کے گیٹ کے پاس کھڑے یہ ہرے بھرے درخت دھیرے دھیرے سرگوشیاں کر رہے تھے۔


رانیہ دم سادھے ان پتوں کو دیکھ رہی تھی جو ذرا سی ہوا کے چلنے سے حرکت کرنے لگتے۔

اپنے عقب میں اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔

چند پل وہ دم سادھے باہر دیکھتی رہی پھر دھیرے سے مڑی۔

فہد کو دیکھ کر اس کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔


"آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا... "

وہ لمبا لمبا سانس لینے لگی۔

"تم مجھ سے ملے بغیر جا رہی تھی؟"

وہ آنکھیں چھوٹی کئے اسے گھور رہا تھا۔


"میں تو کام سے آئی تھی... "

جھٹ سے جواب آیا۔

"ہو تو بہت معصوم جواب تو تیار ہوتے تمہارے پاس ہمیشہ...."

وہ خفگی سے دیکھ رہا تھا۔


"میں نے کب جواب دئیے آپ کو؟"

وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگی۔

"مار ڈالو گی ایک دن ایسے ہی مجھے... "

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا مسرور سا بولا۔


"الله نہ کرے... "

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔

"اتنا ڈرتی ہو؟"

وہ لطف اندوز ہو رہا تھا۔


"ایسی باتیں کوئی کرتا ہے؟"

وہ برا مان گئی۔

"اچھا پھر کیسی باتیں کرتے ہیں تم بتاؤ؟"

وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔


وائٹ پینٹ, وائٹ شرٹ کے ساتھ چیک والا کوٹ پہنے وہ پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔ بھورے بال ماتھے پر گرا رکھے تھے۔ بھوری آنکھیں اس پر جمی تھیں۔

"مجھے کیا پتہ... "

وہ آہستہ سے بولی۔


سیاہ سادہ سی شلوار قمیص کے ساتھ جامنی دوپٹہ اس پر جچ رہا تھا۔

گھنی پلکوں کی چادر بار بار اٹھتی اور گرتی۔

"اچھی لگ رہی ہو... "

لب دم بخود مسکرانے لگے۔


"اچھا میں جاؤں اب؟"

وہ مسکراہٹ دبانے کی ممکن سعی کر رہی تھی۔

"تم بلش کر رہی ہو؟ اوپر دیکھو مجھے دیکھنا ہے...."

وہ اشتیاق سے اس کے جھکے سر کو دیکھ رہا تھا۔

"امی میری منتظر ہوں گی... "

وہ ہاتھ مسلتی ہوئی بولی۔

فہد کی نظر اس کے گلابی موٹے موٹے ہاتھوں پر ٹھہر گئی۔


"اور جو انتظار میں کرتا ہوں؟ اس کی کوئی پرواہ نہیں تمہیں؟"

وہ خفا ہو رہا تھا۔

"آپ سمجھا کریں نہ مجھے... "

وہ بے بسی سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"تم جب جب مجھے دیکھتی ہو محبت پھر سے ہو جاتی تم سے... "

وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتا بول رہا تھا۔

"اچھا...خدا حافظ... "

وہ گھبرا کر کہتی مڑ گئی۔


"میں انتظار کر رہا ہوں... بھول مت جانا۔"

وہ اس کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔

رانیہ مسکراتی ہوئی نیچے چلی گئی۔

~~~~~~~~

"میں نے عمر کی امی سے بات کی ہے... "

وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔

"کیا بات؟"

عائشہ رک کر انہیں دیکھنے لگی۔


"میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ رشتہ لے کر آئیں... تم بلکل فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

وہ اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولیں۔


"امی مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیسے آپکی شکریہ ادا کروں..."

عائشہ آنکھوں میں نمی لئے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"تمہیں دیر ہو رہی ہے... جاؤ اب اور پریشان مت ہونا تمہاری امی تمہارے ساتھ ہے۔"

وہ اس کا بیگ اٹھاتی ہوئی بولیں۔

"جی ٹھیک ہے امی... "

وہ ہلکی پھلکی سی ہو گئی۔


"عمر کیسے ہیں آپ؟"

بے قرار سا لہجہ۔

"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ ٹھیک ہو نہ؟"

دوسری جانب بھی فکر نمایاں تھی۔


"ہاں میں ٹھیک ہوں... اور آپ کو پتہ ہے امی میرے ساتھ ہیں وہ ابو سے بات کریں گے... "

اس کی آواز میں خوشی کی رمق تھی۔

"سچ؟"

وہ بے یقینی سے گویا ہوا۔


"ہاں جی... صبح ہی انہوں نے آپکی امی سے بات کی۔ میرا دل کہتا ہے ابو مان جائیں گے۔"

وہ پر امید تھی۔

"شکر ہے... ورنہ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔"

اس کی آدھی فکر دور ہو چکی تھی۔


"اچھا عمر میں آپ کو بریک ٹائم میں فون کرتی ہوں... ابھی لیکچر کا ٹائم ہو رہا ہے۔"

وہ ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا... "

وہ مسکراتا ہوا بولا۔


"آپ بھی... "

عائشہ نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔

چند لمحے مسکراتے ہوئے وہ فون کو دیکھتی رہی۔


"آپ کی آواز سن کر لگتا ہے پھر سے زندہ ہو گئی ہوں میں..."

وہ فون سینے سے لگاتی ہوئی بولی۔

"بس ابو مان جائیں...."

وہ کہتی ہوئی فون بیگ میں رکھتی باہر نکل آئی۔


"پتہ نہیں امی کیسے منائیں گیں ابو کو... "

پریشانی جوں کی توں برقرار تھی۔

"نہیں.. نہیں... مجھے یقین ہے وہ مان جائیں گے۔"

وہ خود کو دلاسے دیتی کلاس میں آ گئی۔


"حنا میں تمہارے بیگ میں ڈال رہی ہوں تمہارا فون... "

وہ سیٹ پر بیٹھتی ہوئی دھیرے سے بولی۔

"ہاں ٹھیک ہے رکھ دو...."

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"امی کب جائیں گیں آپ؟"

عمر نے بے قراری سے استفسار کیا۔

"صبیحہ کہہ رہی تھی کہ کچھ دن رک جاؤں... عائشہ کے بھی پیپرز ہونے والے ہیں وہ فری ہو جاےُ پھر۔"

وہ اس کے انداز پر مسکرانے لگیں۔


"جواب ہاں ہی ہوگا نہ؟"

وہ کچھ سوچ کر بولا۔

"اچھے کی امید رکھو.... سب اچھا ہی ہوگا۔"

وہ پر امید تھیں۔


"چلیں ٹھیک ہے آپ کھانا بنائیں میں پھر فون کروں گا۔"

جونہی یاد آیا وہ بول پڑا۔

فون جیب میں ڈال کر وہ ٹہلنے لگا۔

بے چینی ہی بے چینی تھی۔


"جب تک میرے حق میں فیصلہ نہیں ہو جاتا مجھے سکون نہیں ملے گا... "

وہ ہاتھ مسلتا باہر نکل آیا۔


"مجھے بس اس دن کا انتظار ہے جب تم میرے ساتھ ہو گی... "

لب دم بخود مسکرانے لگے۔

وہ سانس خارج کرتا تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔

~~~~~~~~

"آپ فکر مت کریں عائشہ کا رشتہ تو میں آپ کو ہی دوں گی۔"

وہ بھرپور مسکراہٹ لئے بولیں۔

"مجھے تو انتظار ہے کب میں اسے اپنی بیٹی بنا کر لے جاؤں۔"

وہ جواباً مسکرائیں۔


"آپ سمجھیں اب عائشہ آپ کی امانت ہے میرے پاس... میں خاندان میں کسی کو نہیں دوں گی اس کا رشتہ.... عمر کے ساتھ ہی کرواؤں گی اس کی شادی... "

وہ مسرور سی بولیں۔


"مجھے خوشی ہو رہی ہے.... یقین مانیں میری فکر ختم کر دی آپ نے۔"

وہ تشکرانہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

"ہاں باقی سب تو ٹھیک ہے.... اس کے ابو آ جائیں پھر میں ان سے بات کروں گی۔ ویسے بھی ابھی تو عائشہ کی یونیورسٹی شروع ہوئی ہے۔"

وہ پر سوچ انداز میں بولیں۔


"ٹھیک ہے انتظار تو ہم کر لیں گے.... لیکن ...."

"آپ پریشان مت ہوں... بس ابھی کچھ وقت کے لئے خاموش ہو جائیں۔ عائشہ آپ کے گھر کی بہو بنے گی بے فکر ہو جائیں آپ۔"

وہ گلاس ان کی جانب بڑھاتی ہوئی بولی۔


"بہت شکریہ... "

وہ گلاس پکڑتی ہوئی بولیں۔


عائشہ بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔

"امی؟"

جیسے ہی عائشہ کی نظر ان پر پڑی بول اٹھی۔


"ہاں میں نے بات کر لی ہے تم زیادہ سوچو مت اس بارے میں... اور اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔"

وہ مسکراتی ہوئی باورچی خانے کی سمت چل دیں۔

وہ خاموشی سے دروازے کو گھورنے لگی۔


"کتنا پیچیدہ ہے یہ سب... "

وہ جھرجھری لیتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

سامنے کتاب پڑی تھی جسے اٹھا کر وہ صفحے الٹنے لگی۔

دماغ دور کہیں عمر کے خیالوں میں گم تھا۔

~~~~~~~~

"کہاں جا رہی ہو؟"

آواز سنتے ہی رانیہ چہرہ موڑ کر گاڑی کو دیکھنے لگی۔

فہد کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دیا۔

"کالج جا رہی تھی... "

وہ چادر درست کرنے لگی۔


"اچھا چلو آؤ میں چھوڑ دیتا ہوں... میں بھی شہر کی طرف ہی جا رہا ہوں۔"

وہ سٹیرنگ پر ہاتھ رکھے اس کے جواب کا منتظر تھا۔

"نہ.. نہیں... میں بس لے کر چلی جاؤں گی آپ جائیں... "

وہ اردگرد نگاہ ڈالتی ہوئی بولی۔


"اب اس طرح کہو گی مجھے تم؟"

وہ مصنوعی خفگی سے دیکھ رہا تھا۔

"آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟ کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آ جاےُ گی۔"

وہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔


"تم اس چادر سے نقاب کر لو... اگر کوئی دیکھ بھی لے گا تو معلوم نہیں ہوگا۔"

اس نے سہولت سے حل پیش کیا۔

"نہیں... آپ جائیں میں خود چلی جاؤں گی۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھنے لگی۔


"تم اتنی ضدی کیوں ہو آخر؟"

وہ تنگ آکر بولا۔

"آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ عزت میری خراب ہوگی,,, رسوائی میری ہوگی۔ یہ معاشرہ مرد کو کچھ نہیں کہتا سارے قصور عورت کے حصے میں ڈال دیتا ہے۔ اسی لئے میں ضد کرتی ہوں۔"


آج وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی تھی۔

"تم جانتی ہو میں تمہیں کبھی رسوا نہیں ہونے دوں گا... "

وہ پورے وثوق سے بول رہا تھا۔


"لیکن میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتی... آپ کو بھی سمجھنا ہوگی یہ بات۔"

کہہ کر وہ رکی نہیں اور تیز تیز قدم اٹھاتی اس کی گاڑی سے دور ہوتی گئی۔

فہد افسردگی سے اسے جاتا دیکھنے لگا۔

~~~~~~~~

عمر نے جب سے یہ خبر سنے تھی پھولے نہ سما رہا تھا۔

"مجھے یقین نہیں آ رہا...."

وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔


"اب تم اس اچھی خبر پر یقین نہیں کرو گے؟"

زبیر آبرو اچکا کر بولا۔

"ایسی بات نہیں ہے.... مطلب...."

وہ اپنی کیفیت بتانے سے قاصر تھا۔


چہرے پر ایک نا ختم ہونے والی مسکراہٹ تھی۔

"میں سمجھ رہا ہوں... "

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے۔


"خوشی اتنی ہے سمجھ ہی نہیں آ رہا کیا بولوں.... "

وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔

"الله سے اچھے کی امید رکھو ہمیشہ.... جیسا انسان گمان رکھتا ہے ہوتا بھی ویسا ہی ہے۔"

وہ چاےُ کا مگ اٹھاتے ہوئے بولے۔


"جی بلکل.... مجھے امید ہے بہت جلد وہ دن بھی آ جاےُ گا۔"

وہ مسرور سا بول رہا تھا۔

"ہاں بلکل اور اب تم پریشان مت ہونا,,, ہم سب سنبھال لیں گے تمہیں اس کے لئے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔تم بیٹھو میں یہ کال سن کر آیا۔"

زبیر فون اٹھاتا وہاں سے نکل گیا۔


"کاش اس وقت میں پاکستان ہوتا.... کم از کم تمہیں دیکھ ہی لیتا.... "

وہ حسرت سے گویا ہوا۔

"خیر کوئی بات نہیں... بہت جلد دیکھوں گا تمہیں۔ کتنی باتیں کرنی ہیں تم سے مجھے۔"


وہ مگ کے کنارے پر انگلی پھیر رہا تھا۔

"وہ دن دور نہیں جب تمہیں میرے نام سے پکارا جاےُ گا۔"

لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔

کچھ سوچ کر اس نے مگ اٹھایا اور کمرے کی سمت چل دیا۔

~~~~~~~~

عائشہ فون کان سے لگاےُ خاموشی سے انہیں سن رہی تھی۔

نجانے کون سی وہ گالی ہو گی جو انہوں نے عائشہ کو نہیں دی ہوگی۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔

وہ ضبط کی انتہا پر تھی۔


"میری بات کان کھول کر سن لو تم یہ جو سوچ رہی ہو نہ ایسا کبھی نہیں ہوگا.... آ رہا ہوں میں پاکستان,, اپنے ہاتھوں سے گولی ماروں گا تمہیں۔"

آواز اتنی بلند تھی کہ عائشہ نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔


اس سے قبل کہ وہ لب کھولتی کھٹاک کی آواز کے ساتھ فون بند ہو چکا تھا۔

وہ ہچکیاں لیتی فون کو دیکھنے لگی۔

"یہ سب کیا ہو گیا؟"

وہ وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔


"مجھے تو لگا تھا سب ٹھیک ہو جاےُ گا.... لیکن ابو... "

آنسو لڑی کی صورت میں اس کے رخسار کو بھگو رہے تھے۔

"ابو تو بہت غصے میں ہیں... "

وہ ہچکیاں لیتی پھر سے فون کو دیکھنے لگی۔


"مہ... میں کیا کروں... "

وہ غم و بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں.... "

وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامتی ہوئی بولی۔


"ایسے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا... "

"مہ... میں کسی دوسرے انسان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی... "

وہ سر گھٹنوں پر گراےُ بول رہی تھی۔

"نہیں ہوگا مجھ سے یہ.... میرے بس میں نہیں ہے.... "

وہ دھیرے دھیرے سے سرگوشیاں کرتی زاروقطار رو رہی تھی۔


"پلیز الله میری مدد کریں... مجھے اس مشکل سے نکال لیں۔ میں نے بس وہی ایک انسان مانگا ہے آپ سے,, میں اسے نہیں چھوڑ سکتی میں نہیں رہ سکتی اس کے بغیر.... "

اردگرد کی پرواہ کئے بغیر وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


جانے کتنی دیر وہ یونہی بیٹھی رہی۔

اب کمرے میں صرف عائشہ کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

ایک نہ ختم ہونے والے کرب کا آغاز ہو چکا تھا۔

~~~~~~~~

"عائشہ کچھ بتاؤ گی کیا ہوا ہے تمہیں؟"

حنا گزشتہ آدھ گھنٹے سے یہی ایک سوال پوچھ رہی تھی۔

اور عائشہ ایسے بیٹھی تھی مانو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔

"یار بتاؤ تو.... "

وہ عائشہ کا منہ اپنی جانب موڑتی ہوئی بولی۔


"ابو پاکستان آ رہے ہیں.... پتہ نہیں کیا ہوگا اب.... "

وہ جو صبح سے ضبط کئے بیٹھی تھی چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کچھ کہا ہے انکل نے؟ مجھے بتاؤ تو۔ یار پلیز ایسے مت رو مجھے بھی رونا آ رہا ہے تمہیں دیکھ کر۔"

وہ افسردگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔


"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا.... میں بس اتنا جانتی ہوں میں نہیں رہ سکتی عمر کے بغیر.... "

آواز قدرے مدھم ہو گئی۔


"اچھا تم رونا تو بند کرو... دیکھو سب دیکھ رہے ہیں تمہیں... "

وہ دائیں بائیں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔

وہ دونوں اس وقت کینٹین میں بیٹھیں تھیں۔

عائشہ اثبات میں سر ہلاتی چہرہ صاف کرنے لگی۔


"مہ... میں ٹھیک ہوں... "

اس نے حنا کو تسلی دینا چاہی۔

"ہاں نظر آ رہا ہے.... چلو اب کچھ کھانے کو لیتے ہیں۔"

وہ کھڑی ہوئی تو ناچار عائشہ کو بھی کھڑا ہونا پڑا۔

~~~~~~~~

"امی یہ بڑے لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں نہ؟"

وہ کسی گہری سوچ میں گم ان سے مخاطب تھی۔

"کیوں کیا ہوا اب؟"

وہ چولہا جلاتی ہوئی بولیں۔


"ہم لوگوں کو اچھوت سمجھتے ہیں... ہمیں تو انسان سمجھتے ہی نہیں ہیں ایسے جیسی کوئی گندی چیز ہیں ہم۔"

وہ پیشانی پر بل ڈالے سامنے اس بوسیدہ سی دیوار کو دیکھ رہی تھی۔


"بس بیٹا ایسا ہی ہے یہ زمانہ... یہی سب چل رہا ہے نجانے کب سے۔"

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔

"امی کیوں یہ بڑے لوگ ایسے کرتے ہیں... کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ ہمارے احساسات نہیں؟ ہمیں تکلیف نہیں ہوتی کیا؟"

وہ پے در پے سوال کرنے لگی۔


"کسی نے کچھ کہا ہے کیا تمہیں؟ جو آج اتنے سوال پوچھ رہی؟"

وہ ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگیں۔

رانیہ تلخی سے مسکرانے لگی۔


"اچھا چھوڑیں یہ سب آپ.... میں چھت سے کپڑے اتارنے جا رہی ہوں۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔

"ہاں جاؤ... اور جلدی واپس آ جانا مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔"

وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو چکی تھیں۔


رانیہ اس چھوٹے سے صحن کو عبور کرتی ان ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پر قدم رکھتی اوپر آ گئی۔

"کدھر گم تھی؟"

فہد دیوار پر ہاتھ رکھ کر اِدھر کو جھکا ہوا تھا۔


"کام کر رہی تھی.... "

وہ سپاٹ انداز میں کہہ کر کپڑے اتارنے لگی۔

"کیا ہوا تمہارا چہرہ اترا کیوں ہوا ہے؟"

وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"کچھ نہیں بس تھک گئی ہوں شاید... "

وہ اسے دیکھے بنا بول رہی تھی۔

"چھوڑو یہ کام اور اِدھر دیکھو... "

وہ تحکم سے بولا۔


"کیوں مانوں میں آپ کی؟ اور آپ بھی یہ سب ختم کر دیں تو بہتر ہوگا... "

وہ ایک نظر اس پر ڈال کر وہاں رکی نہیں بلکہ تیزی سے نیچے چلی گئی۔

فہد ہکا بکا رہ گیا۔


"اس کو کیا ہوا؟"

وہ پیچھے ہوتا ہوا بولا۔

"پہلے تو ایسے کبھی بات نہیں کی مجھ سے... "

وہ پر سوچ انداز میں کہتا چیئر پر بیٹھ گیا۔


"آج کچھ عجیب سی لگ رہی تھی.... کہیں امی یا ابو نے تو کچھ نہیں دیا... انہیں علم تو نہیں ہوگیا؟"

وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔


"نہیں... مجھے نہیں لگتا انہیں کچھ بھی معلوم ہوگا ورنہ اب تک عدالت لگا چکے ہوتے ابو... "

وہ نفی میں سر ہلاتی اپنی نفی کرنے لگا۔

"پھر ایسا کیوں کہہ کر گئی یہ.... "

وہ بے چینی سے ٹہلنے لگا۔


"حد ہے.... پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا اسے۔"

وہ اکتا کر بولا۔

"اب سامنے آےُ گی نہیں اور میں ایسے ہی ہلکان ہوتا رہوں گا.... "

وہ ہنکار بھرتا زینے اترنے لگا۔

~~~~~~~~

"حنا وہ عمر ہے نہ؟"

جونہی عائشہ نے گیٹ عبور کیا سامنے عمر کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔

حنا نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔


"ہاں عمر ہی ہے.... یہ پاکستان کب آیا؟ تم نے تو بتایا ہی نہیں۔"

وہ برا مان گئی۔

"مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا... "

نگاہیں ہنوز عمر پر تھیں۔


دونوں یک ٹک ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

عائشہ کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔

وہ جتنا دور اس سے اس وقت تھا حقیقت میں فاصلہ اس سے بھی زیادہ تھا۔


وہ اس سے اتنا دور تھا کہ لگتا تھا شاید یہ عمر کم پڑ جاےُ گی فاصلہ ختم کرتے کرتے۔

عائشہ اداسی سے مسکرانے لگی۔

"کچھ بھی ہو جاےُ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی.... "

وہ دل ہی دل میں خود سے عہد کر رہی تھی۔


عمر ایک نرم مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتا آگے بڑھ گیا۔

محبت کرنے والے رسوا نہیں کرتے وہ بھی ایسا نہیں چاہتا تھا اسی لئے نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر بندھ باندھتا چل دیا۔

وہ سر جھکائے چل رہا تھا۔


"کیسا ستم ہے قسمت کا؟ چند پل کے لئے دیکھ بھی نہیں سکتا تمہیں... "

وہ دھیرے دھیرے سرگوشیاں کر رہا تھا۔


"جب تم میرے گھر آ جاؤں گی پھر دیکھنا اپنے سامنے بٹھا کر رکھوں گا... جی بھر کے دیکھوں گا۔"

وہ اپنی بات پر خود ہی مسکرا دیا۔

دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔

~~~~~~~~

"عمر آپ کو دیکھ کر بہت ہمت ملتی ہے مجھے... "

وہ ڈائری کھولے بیٹھی تھی۔

"حالات کیسے بھی ہوں مجھے یقین ہے ایک دن سب ٹھیک ہو جاےُ گا... "

وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔


صبیحہ بیگم کی آواز سنتے ہی اس نے ڈائری بند کی اور کھڑی ہو گئی۔

"جی امی... "

وہ سرعت سے باہر نکل آئی۔


"کھانا رکھو,,, سب انتظار کر رہے ہیں۔ اور ہاں تمہارے ابو کا فون آیا تھا ایک دو دن میں شاید آ جائیں وہ۔"

عائشہ جو جگ میں پانی ڈال رہی رک کر انہیں دیکھنے لگی۔

صبیحہ بیگم کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔

"الله خیر کرے بس... ابو پتہ نہیں کیا کریں گے.... "

وہ متفکر سی بولی۔

"چلو رکھو اندر.... بچے کب سے انتظار کر رہے ہیں۔"


وہ خفا انداز میں کہتی باہر نکل گئیں۔

"جی آئی... "

وہ اپنے سوچوں کے محور سے باہر نکلتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"امی میں کیوں؟"

رانیہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔

"بیگم صاحبہ نے کہا تھا تمہیں بھی ساتھ لے آؤں... ان کے ہاں کوئی تقریب ہے تو تم ساتھ کام کروا دینا۔"

وہ کچھ تلاش رہی تھیں۔


"امی مجھے نہیں جانا.... "

وہ قطعیت سے بولی۔

فہد کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔

"نہیں مجھے ان کا سامنا نہیں کرنا... "

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


"کیوں؟ تمہیں کیا مسئلہ ہے؟"

وہ اس کی جانب گھومتی ناراضگی سے بولیں۔

"وہ... امی...وہ بیگم صاحبہ مجھے پسند نہیں کرتی نہ... اس لیے۔"

وہ عذر پیش کرنے لگی۔


"ہاں تو اب انہوں نے خود کہا ہے... اگر تمہیں ساتھ نہ لے گئی تو بلاوجہ غصہ کریں گے..."

وہ پھر سے صندوق پر جھک چکی تھیں۔


"اف....کیسے سمجھاؤں انہیں... "

وہ پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی۔

"فہد ضرور بات کرنے کی کوشش کریں گے۔"

وہ انگلی دانتوں تلے دباےُ سوچ رہی تھی۔


"رانیہ چلو بھی.... دیر کر دی تو کتنی باتیں سننی پڑیں گی مجھے معلوم نہیں کیا تمہیں؟"

وہ باہر نکلتی ہوئی بولیں۔


"اچھا... "

رانیہ واقف تھی اسی لیے مزید بحث سے گریز کیا۔

"چادر لے کر آتی ہوں... "

وہ نا چاہتے ہوےُ بھی چل دی۔

~~~~~~~~

"سفر کیسا رہا آپ کا؟"

صبیحہ بیگم ان کے ہاتھ سے بیگ پکڑتی ہوئی بولیں۔

"ہاں ٹھیک تھا... "

وہ تنقیدی نظروں سے عائشہ کو دیکھ رہے تھے۔


عائشہ ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھی لیکن وہ نظر انداز کر کے آگے بڑھ گئے۔

عائشہ ہق دق سی ان کی پشت کو دیکھنے لگی۔

وہ مریم کو گلے لگا رہے تھے۔


عائشہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

"آپ ہمیشہ مجھے گلے سے لگاتے تھے... لیکن آج نہیں... ہاتھ تک نہیں ملایا آج تو.... "

وہ سرد آہ بھرتی انہیں دیکھ رہی تھی۔


وہ ندا اور نبیل سے مل کر اندر جا چکے تھے۔

وہ تنہا صحن میں کھڑی تھی۔

خوف اور بے بسی اس کی آنکھوں میں تیرتی دکھائی دے رہی تھی۔


"ٹھیک ہے.... مجھے ہمت سے کام لینا ہوگا... "

وہ خود کو دلاسہ دیتی آگے بڑھ گئی۔

کمرے میں سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

جونہی عائشہ اندر داخل ہوئی فدا حسین خاموش ہو گئے۔


عجیب سی خاموشی گنگنا رہی تھی کمرے میں۔

"تم دیکھنا میں عمر کو مروا دوں گا... زندہ نہیں چھوڑوں گا اس بے غیرت انسان کو.... "

وہ صبیحہ بیگم کی جانب دیکھتے ہوئے طیش میں چلاےُ۔


ان کی بات پر عائشہ اندر تک لرز گئی۔

وہ تڑپ کر اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔

"تم دونوں کو کبھی ایک نہیں ہونے دوں گا میں دیکھنا تم کیا حشر کرتا ہوں میں اس عمر کا.... "

وہ قہر برساتی نظروں سے عائشہ کو دیکھ رہے تھے۔


عائشہ کا سر جھک گیا۔

ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔

یہ لمحے خاصے بھاری ثابت ہو رہے تھے اس پر۔

"سمجھتا کیا ہے وہ خود... ایسی موت ماروں گا سب یاد رکھیں گے۔"

وہ چلاتے جا رہے تھے۔


کمرے میں موجود تمام نفوس ہونق زدہ سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

"میں سالن کے نیچے چولہا بند کرنا بھول گئی تھی جاؤ عائشہ بند کرو...کہیں جل نہ جاےُ۔"

صبیحہ بیگم نے مداخلت کی۔


عائشہ فوراً سے بیشتر وہاں سے غائب ہو گئی۔

فدا حسین صاحب کی آواز اسے باہر بھی سنائی دے رہی تھی۔

وہ عمر کو کوس رہے تھے گالیاں دے رہے تھے۔


"کاش میں اپنے کان بند کر سکتی... "

وہ سسکتی ہوئی دوسرے کمرے میں آ گئی۔

"میں کیسے برداشت کروں گی یہ سب... ابو سے تو اب اور بھی خوف آنے لگا ہے۔ اگر انہوں نے عمر کو کچھ کر دیا...."

اس سے آگے وہ کچھ سوچ نہ سکی۔


الفاظ دم توڑ گئے۔

"نہ... نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا... عمر کو کچھ نہیں ہوگا۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی خود کو تسلی دینے لگی۔

آنسو کب پلکوں کی باڑ کو توڑ کر اس کے رخسار کو بھگونے لگے اسے علم ہی نہ ہوا۔


"پلیز الله پاک عمر کی حفاظت کرنا... اسے کچھ نہ ہو... ابو کا غصہ وقتی ہو... وہ کچھ نہ کریں عمر کو۔"

وہ اس مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھی جسے پانی سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہو۔


"کچھ نہیں ہوگا عمر کو... مجھے یقین ہے الله پر... وہ کچھ غلط نہیں کرے گا ہمارے ساتھ۔"

وہ سوں سوں کرتی چہرہ صاف کرنے لگی۔

"نماز کا ٹائم ہو گیا ہے.... "

اچانک اس کی نظر گھڑی پر پڑی تو دوپٹہ اٹھاتی باہر نکل آئی۔

~~~~~~~~

"بس اب یہاں سے باہر نہیں جانا میں... "

رانیہ باورچی خانے کے دروازے میں کھڑی باہر دیکھتی ہوئی بولی۔

"یہاں وہ مجھے دیکھ بھی نہیں سکیں گے پھر بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا... "


وہ ہلکی پھلکی سی ہو کر سلیب کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔

"رانیہ ان سب گلاس میں جوس ڈالوں... پھر باہر مہمانوں کو دینا ہے۔ نازو آےُ گی اسے دے دینا مجھے بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔"

وہ سرعت سے کہتیں باہر نکل گئیں۔


"اچھا امی... "

وہ کہہ کر گلاس میں جوس انڈیلنے لگی۔

"اچھا تو یہاں چھپ کر بیٹھی ہو تم... "

وہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔


سیاہ شلوار قمیض پہنے, شانے پر شال رکھے, بال نفاست سے سیٹ کر رکھے تھے۔ شیو معمول کے خلاف بڑھی ہوئی تھی۔جو اس پر چار چاند لگا رہی تھی۔

"آپ؟"

وہ اچھل پڑی۔


"غالباً میں بھوت تو نہیں ہوں... "

وہ برا مان گیا۔

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ کسی نے دیکھ لیا تو... "


"بس بس... تمہیں کسی کی فکر رہتی ہے لیکن میری نہیں۔"

وہ خفا انداز میں کہتا قدم اٹھانے لگا۔

"میں نے اس دن آپ کو بتا دیا تھا...اب پلیز خدا کے واسطے چلے جائیں یہاں سے... کسی نے دیکھ لیا تو مصیبت کھڑی ہو جاےُ گی۔"

وہ روہانسی ہو گئی۔


"اچھا ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں... لیکن اس رویے کی وجہ جان سکتا ہوں؟"

خاصے خشک لہجے میں جواب آیا۔

"آپ بڑے لوگ ہیں اور ہم چھوٹے.... ہمارا کوئی میل نہیں۔"

رانیہ نے کہتے ہوئے رخ پھیر لیا۔


"اس موضوع پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ... "

"آپ نہیں سوچتے ایسا لیکن اس گھر کا ہر فرد ایسا ہی سوچتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔"

وہ کرب سے آنکھیں میچ کر بولی۔


مٹھیاں زور سے بند کر رکھی تھیں۔

"اچھا نہیں کر رہی تم میرے ساتھ.... "

وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

وہ ضبط کی انتہا پر تھی۔


آنسو رخسار سے ہوتے ہوئے سلیب پر گر کر بے مول ہو رہے تھے۔

"یہی چاہی ہو نہ تم... "

وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔


"ہاں یہی چاہتی ہوں میں... دور رہیں مجھ سے۔"

وہ اپنی کیفیت پر قابو پانے کی ممکن سعی کر رہی تھی۔

"ٹھیک ہے....پھر ایسا چاہتی تو یہی سہی... "

وہ ہرٹ ہوا تھا۔


چند لمحے رانیہ آنکھیں بند کئے آنسو بہاتی رہی۔

قدموں کی آہٹ سن کر وہ دوپٹے سے چہرہ صاف کرنے لگی۔

"جوس ڈال دیا تم نے؟"

یہ نازو کی آواز تھی۔


"ہاں بس ڈال رہی ہوں... "

وہ تیز تیز ہاتھ چلانے لگی۔

"جلدی کرو ورنہ بیگم صاحبہ غصہ کریں گے... "

وہ دروازے کی سمت دیکھتی متفکر سی بولی۔


"ہاں بس ہو گیا یہ... "

وہ ٹرے اٹھاتی ہوئی بولی۔

"تمہیں کچھ ہوا ہے؟"

نازو اس کی سرخ ہوئی ناک کو دیکھ رہی تھی۔


"چھینکیں آ رہیں تھیں... "

وہ سوں سوں کرتی ہوئی بولی۔

"اچھا دوائی لے لینا پھر یاد سے.... "


وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی۔

رانیہ لب بھینچے دروازے کو دیکھنے لگی۔

~~~~~~~~

"میں دیکھتا ہوں کیسے تمہاری شادی اس عمر سے ہوتی ہے.... آصف سے شادی کرو گی تم آئی سمجھ.... "

جونہی عائشہ کمرے سے نکلی ان کی گرج دار آواز گونجی۔

وہ جو برقع پہنے یونیورسٹی جانے لگی تھی سہم کر وہیں کھڑی ہو گئی۔


"نہیں ابو.... "

عائشہ بس اتنا ہی بول پائی۔

فدا حسین کے تھپڑ نے اسے مزید بولنے کے قابل نہیں چھوڑا۔

اس اچانک افتاد پر وہ کانپ اٹھی۔

سر دم بخود جھک گیا۔


آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔

"شرم نہیں آتی تمہیں.... یہ اے سی تم لوگوں کو لگوا کر دیا ہے میں,,,کھانے کو اتنا اچھا دیتا ہوں....ان لوگوں کو جا کر دیکھو جن کے گھر میں اے سی نہیں ہے۔ اتنا کچھ کرتا ہوں تم لوگوں کے لئے میں... "

وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے گھور رہے تھے۔


عائشہ کے قدم منجمد ہو چکے تھے۔

آنکھوں میں نمی لئے وہ دونوں ہونٹ آپس میں مبسوط کئے زمین کو گھور رہی تھی۔


"اچھے کالج میں پڑھایا,, اچھا پہننے کو دیتا ہوں,,,کوئی بھی نہیں کرتا یہ سب....."

وہ ہنکار بھرتے ہوئے چارپائی پر آ بیٹھے۔

صبیحہ بیگم بھی یہ سب سن رہی تھیں لیکن خاموش رہیں کیونکہ یہ باتیں پہلی بار نہیں ہو رہی تھیں۔


وہ افسردگی سے عائشہ کو دیکھ رہی تھیں۔

"جاؤ تمہیں دیر ہو جاےُ گی.... "

اس سے قبل کہ وہ مزید کچھ بولتے صبیحہ بیگم نے بت بنی عائشہ کو ہلا کر کہا۔


"جی...جی امی... "

وہ اثبات میں سر ہلاتی چل دی۔

"اتنا سب کرتا ہوں تم لوگوں کے لئے میں مجال ہے جو احساس ہو باپ کا.... "

وہ کہاں خاموش رہنے والے تھے۔


عائشہ آنسو پیتی دروازے سے باہر نکل گئی۔

"میں ناشتہ لاتی ہوں آپ کے لئے.... "

صبیحہ بیگم کو کچھ سمجھ نہ آیا تو باورچی خانے کی سمت چل دیں۔


"کھا کھا کے حرام کر رہے ہیں یہاں تو سب... باپ کما کما کے ان کی جھولیاں بھرتا رہے بس... "

وہ کوفت سے کہتے فون نکالنے لگے۔

~~~~~~~~

"کیا ہوا اتنی خار کیوں کھا رہا ہے؟"

ابتسام اس کے گھورنے پر تھوڑا فاصلے پر بیٹھ گیا۔

"میرا نہ دماغ پہلے ہی خراب ہے اب تو مزید خراب مت کرنا... "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔


"اچھاااااا..... "

وہ اچھا کو لمبا کرتے بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔

"ویسے صحیح کب تھا؟ میرے ناقص علم میں اضافہ کرنا پسند کریں گے آپ؟"

وہ معصومیت سے اسے دیکھ رہا تھا۔


"اپنی جان عزیز ہے نہ تو چلا جا یہاں سے... ورنہ... "

وہ انگلی اٹھا کر بولا۔

"ورنہ کیا میری جان؟"

وہ قہقہ لگاتا پاؤں ٹیبل پر رکھنے لگا۔


"تیرے ابو کو وہ شہر والی رمشا کا بتا دوں گا میں... "

یک دم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"بکواس بند رکھ..... اور اگر خود سے بھی یہ بات کی نہ تو پھر دیکھنا... "

وہ اپنے عقب میں دروازے کو دیکھتا ہوا رازداری سے بولا۔


"اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے.... "

فہد کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"ویسے تجھے تو پہاڑ چلو مان سکتے ہیں... لیکن مجھے اونٹ سے بڑی خراب مشابہت دی ہے تو نے... "

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"یار تو ہمیشہ مجھے تنگ کرنے ہی آتا ہے؟کبھی بندہ حال بھی پوچھ لیتا ہے....."

وہ تنک کر بولا۔


"حال تو بندی پوچھتی ہے ہمارے پوچھنے کی کون سا اہمیت ہے... "

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا دہائی دیتا ہوا بولا۔

"فٹے منہ تیرے.... "

فہد نے کشن اٹھا کر مارا جو ابتسام نے مہارت سے کیچ کر لیا۔


"ہر بار نہیں... "

وہ دانت نکالتا ہوا بولا۔

"فہد...."

آواز پر دونوں نے دروازے کی سمت دیکھا۔


"اوہ... یہ ڈائن میرا پیچھا نہیں چھوڑے گی.... بچا لے یار میرا دماغ ویسے جگہ پر نہیں ہے۔"

وہ منت کر رہا تھا۔


"تو ٹینشن ہی نہ لے.... آخر یہ دوست کس مرض کی دوا ہے؟ اندر آنے دے اسے پھر دیکھنا... "

وہ بائیں آنکھ کا کونا دباتا ہوا بولا۔

فہد مطمئن سا ہو کر اثبات میں سر ہلانے لگا۔

~~~~~~~~

"عمر آپ ٹھیک تو ہیں نہ؟"

وہ گھبراہٹ کا شکار تھی۔

"ہاں... میں تو بلکل ٹھیک ہوں تمہیں کیا ہوا ہے؟"

وہ سیدھا ہوا کر بیٹھ گیا۔


"ابو جب سے آےُ ہیں... آ... آپ کو... "

اس سے آگے عائشہ سے بولا نہ گیا۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبانے لگی۔


"ہوا کیا ہے مجھے بتاؤ؟ تمہاری باتیں مجھے پریشان کر رہی ہیں؟"

وہ متفکر سا بولا۔

"وہ... وہ کہتے ہیں وہ آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.... "

کہتے ہوےُ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔


"میں مر جاؤں گی اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو... مہ... مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے عمر... "

وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔


"پلیز تم رونا تو بند کرو.... مجھے تکلیف ہو رہی ہے عائشہ تم جانتی ہو میں تمہیں روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا.... اور تم پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوگا مجھے... "

اس نے تسلی دینا چاہی۔


"عائشہ میری بات سن رہی ہو نہ؟ مجھے کچھ نہیں ہوگا اور دوبارہ تم رؤ گی نہیں ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا تم سے۔"

اس نے آخری حربہ استعمال کیا۔

وہ جو کچھ دیر سے خاموش تھی فوراً بول اٹھی۔


"ٹھیک ہے نہیں روتی میں... لیکن مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں وہ سچ میں... "

وہ بولتی ہوئی چپ ہو گئی۔


"کچھ نہیں ہوگا تم پریشان مت ہو.... حفاظت کرنے والی ذات الله کی ہے تم بس اس پر بھروسہ رکھو.... جب تک وہ نہیں چاہتا کوئی میرا کچھ نہیں کر سکتا۔"

وہ بھرپور طمانیت سے بولا۔


"اس پر تو یقین ہے لیکن.... "

"لیکن ویکن کچھ نہیں.... خبردار اگر تم نے خود کو دوبارہ پریشان کیا تو۔"

وہ تحکم سے بولا۔


"اچھا ٹھیک ہے.... "

وہ نا چاہتے ہوےُ بھی مان گئی۔

"پانچ منٹ بعد میرا لیکچر شروع ہو جاےُ گا.... "

وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی بولی۔


"اچھا جی مطلب صرف پانچ منٹ ہیں... بہت زیادہ نہیں؟"

وہ شرارت سے بولا۔

عائشہ بے اختیار ہنس دی۔

"جی بہت زیادہ ہیں... آپ پہلے فون بند کر دینا۔"

لب دھیرے سے مسکرا رہے تھے۔


"کیوں بھئی میری مرضی جب کرنا ہوگا تبھی کروں گا میں...."

وہ تکیے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔


"اچھا جی ٹھیک ہے.... "

اس نے سہولت سے ہتھیار ڈال دئیے۔

وہ جانتی تھی پانچ منٹ بعد وہ خود ہی فون بند کر دے گا۔

~~~~~~~~

"فہد تم کیا اندر چھپ کر بیٹھے ہو؟"

سامیہ اندر آتی خفا انداز میں بولی۔

"اور تمہارے ساتھ چپک کر بیٹھوں؟"

وہ جل کر بولا۔


ابتسام کے لیے قہقہ روکنا نا ممکن تھا۔

سامیہ گڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔

"میرا مطلب سب نیچے ہیں اور تم یہاں اپنے کمرے میں... "

وہ سنبھل کر بولی۔


"تمہارے ساتھ بھیج دیتے ہیں کیا خیال ہے؟"

ابتسام کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

فہد کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

سامیہ مسکرا کر ابتسام کو دیکھنے لگی۔


"بڑی پھوپھو کو لینے جانا ہے تم اس کے ساتھ چلی جاؤ باتیں بھی کر لینا راستے میں... "

وہ فہد کو آنکھ مارتا ہوا بولا۔

فہد مٹھیاں بھینچ کر اسے گھورنے لگا۔


اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابتسام کو کھڑے کھڑے گولی مار دے۔

"ہاں بہت اچھا آئیڈیا دیا ہے تم نے... فہد چلو چلتے ہیں؟"

وہ خوشی سے کھل اٹھی۔


ابتسام منہ پر ہاتھ رکھے مسکراہٹ دبانے کی ممکن سعی کر رہا تھا۔اور فہد کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"ہاں فہد جاؤ... نیچے تمہاری امی کو بھی یہی کہہ کر آیا ہوں میں..... "

وہ جلانے والی مسکراہٹ لئے اسے دیکھ رہا تھا۔


"تجھے تو میں بعد میں دیکھ لوں گا اور تم.... چلو اب... "

وہ گاڑی کی چابیاں اٹھاتا ہوا بولا۔

جاتے جاتے ابتسام پر قہر آلود نگاہ ڈالنا وہ بھولا نہیں تھا۔

"بیسٹ آف لک.... "

وہ باہر کو ہوتا اونچی آواز میں بولا۔


فہد دانت پیستا ہوا زینے اترنے لگا۔

ابتسام قہقہ لگاتا اس کے بیڈ پر گر گیا۔

"وہ دوست ہی کیا جو اینجواےُ نہ کرواےُ....جا بیٹا جی لے اپنی زندگی.... "

وہ فہد کی تصویر کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔


"آئم شیور وہ واپس آ کر سب سے پہلے میرا قتل عام کرے گا.... اس لئے مجھے یہاں سے غائب ہونا پڑے گا... "

وہ ہنستا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا۔

~~~~~~~~~

"کیسے ہیں آپ؟"

اسپیکر پر زنانہ آواز ابھری۔

"میں ٹھیک ہوں جمیلہ... "

خشک سا جواب آیا۔


"بھائی صاحب مجھے آپ کو عمر کے متعلق بہت اہم بات بتانی تھی... اس دن بھی پوری بات نہ ہو سکی تھی اسی لیے دوبارہ فون کیا تاکہ آپ کو سب بتا سکوں اس لڑکے کے متعلق... آپ تو کچھ بھی نہیں جانتے ان لوگوں کے بارے میں اپنی بیٹی دے کر غلطی مت کر بیٹھیے گا.... "

ووہ خاصی رازداری سے بول رہی تھی۔

"جی بتائیں میں سن رہا ہوں... "

فدا حسین کمرے میں آتے ہوئے بولے۔

"آپ کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ عمر کے دل میں سوراخ ہے.... ایک مریض سے آپ کی بیٹی کی شادی کرنا چاہتی ہے نسیم...."

وہ توجہ سے ایک ایک لفظ سن رہے تھے۔


"وہ تو ہر وقت بیمار رہتا ہے.... کسی شرط پر بھی اپنی بیٹی کا رشتہ اسے نہ دینا۔ عائشہ کی زندگی برباد ہو جاےُ گی... "

وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔

"ہمممم....یہ باتیں تو ہمیں معلوم نہ تھیں نہ ہی کسی رشتہ دار نے بتائیں... "

وہ خفا انداز میں بول رہے تھے۔


"ایسی اندر کی باتیں کوئی بھی نہیں بتاےُ گا آپ کو... میں تو خیر خواہ ہوں آپ کی اور آپ کی بچی کی تبھی یہ سب پہلے ہی بتا رہی تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔"

"اچھا تو پھر مجھے ان کے گھر کی ساری خبریں دوں گی تم؟"

وہ پر سوچ انداز میں بولے۔


"ہاں ہاں کیوں نہیں.... لیکن پیسے لوں گی میں اس کام کے۔"

وہ سیدھا مدعے پر آئی۔

"ہاں ہاں ٹھیک ہے.... پیسے مل جائیں گے تمہیں لیکن مجھے ہر خبر چائیے اس گھر کی.... چھوٹی سے چھوٹی, بڑی سے بڑی۔"

ہنکار بھرتے ہوئے انہوں نے فون بند کر دیا۔


"عمر کے دل میں سوراخ ہے آج تک کسی اور نے کیوں نہیں بتایا؟"

وہ فون کو گھورتے ہونے سوچنے لگی۔


"خیر یہ لوگ کچھ بھی کر لیں... یہ شادی تو میں نہیں ہونے دوں گا پھر چاہے عائشہ کو مارنا پڑے یا عمر کو... "

وہ آگ بگولہ ہو گئے۔

~~~~~~~~

"امی یہاں بیٹھیں اور مجھے بتائیں اس دن صبیحہ آنٹی نے کیا کہا تھا آپ کو؟"

وہ نسیم بی بی کے ہاتھ پکڑے بول رہا تھا۔

"کیا ہو گیا بیٹا؟"

وہ اسے دیکھتی فکرمندی سے بولیں۔


"پلیز مجھے بتائیں نہ... انہوں نے کیا جواب دیا تھا آپ کو؟"

وہ بے چینی سے گویا ہوا۔

"اس دن تمہیں سب بتایا تو تھا جو گفتگو ہوئی ان سے.... "

وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ جہاں پریشان کا عنصر نمایاں تھا۔


"کیا آنٹی نے کہا تھا کہ عائشہ کا رشتہ میرے ساتھ کریں گیں؟ آپ کو یقین ہے؟ ایسا ہی کہا تھا انہوں نے؟"

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"ہاں عمر.... انہوں نے مجھے بہت بار تسلی دی اور یقین دلایا تھا کہ ہمیں ہی رشتہ دیں گیں عائشہ کا.... "

وہ اس کے رخسار پر ہاتھ رکھے نرمی سے بول رہی تھیں۔


"اچھا... لیکن عائشہ تو بتا رہی تھی کہ انکل بہت ناراض ہیں... امی وہ تو حامی نہیں بھر رہے اس رشتے کے لیے۔"

وہ تڑپ کر انہیں دیکھنے لگا۔


"میرے علم میں یہ بات نہیں تھی.... لیکن تم فکر مت کرو میں صبیحہ کو فون کروں گی اور معلوم کروں گی اس سے...."

وہ نرم لہجے میں کہتی اسے تسلی دے رہیں تھیں۔


"نہیں فون پر نہیں... "

وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

"پھر؟"

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"امی آپ ان کے گھر جائیں... اور بات کریں ہمارے رشتے کی۔"

عمر کی آنکھوں میں کھو دینے کا خوف تیر رہا تھا۔


"ٹھیک ہے تم پریشان مت ہو... میں جاؤں گی اور مثبت جواب ہی لاؤں گی۔"

وہ دھیرے سے مسکرانے لگیں۔

نسیم بی بی اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ نہیں سکتی تھی۔


"کھانا کھایا تم نے؟"

وہ کھڑی ہوتی نرمی سے استفسار کرنے لگیں۔

"نہیں... "

وہ کسی سوچ میں گم تھا۔


"اچھا تم اویس کو بھی بلا لو... میں لے کر آتی ہوں...."

وہ اس کے بالوں میں بوسہ دیتی ہوئی بولیں۔

عمر چاہ کر بھی مسکرا نہ سکا۔


"کیا آنٹی نے جھوٹ بولا تھا اس دن امی سے؟"

وہ جیب سے فون نکالتا ہوا بڑبڑایا۔


"خیر جو بھی تھا... اب امی جائیں گے تو ہر چیز صاف ہو جاےُ گی... "

وہ اثبات میں سر ہلاتا اویس کے کمرے کی جانب چل دیا۔

~~~~~~~~

"یہ کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ابتسام تم نے مجھے...."

وہ کوفت سے کہتا سامنے دیکھنے لگا۔

"الله پوچھے گا تجھے... بدتمیز انسان... "

اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔


"ایک یہ ڈرامے باز میرے پیچھے پڑی رہتی ہے... پتہ نہیں عقل کس کو بیچ کر آئی ہے جو سمجھ نہیں آتی اسے۔"

وہ ہنکار بھرتا سامنے سے آتی سامیہ کو دیکھنے لگا۔


"بیوقوف انسان... "

وہ نخوت سے سر جھٹک کر دوسری سمت دیکھنے لگا۔

"پھوپھو تیار ہیں... چلیں؟"

سامیہ مسکراتی ہوئی سامنے آئی۔


"نہیں اب میرے مرنے کا انتظار کرو.... "

وہ تپ کر کہتا کھڑا ہو گیا۔

شہناز پیچھے ہونے کے باعث اس کی آواز سن نہ سکی۔


"الله نہ کرے... فہد تم ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟"

وہ حونق زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔

"کیا تم اپنی بکواس بند کر سکتی ہو کچھ دیر کے لیے؟"

وہ تمیز کے ہر دائرے کو پار کرتا ہوا بولا۔


سامیہ لب بھینچ کر دروازے کو دیکھنے لگی۔

"نوازش...."

وہ جل کر کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔


"پتہ نہیں ہر وقت منہ میں مرچیں دباےُ رکھتا ہے یہ... "

وہ منمناتی ہوئی شہناز کا ہاتھ پکڑے چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"کہاں سے آ رہی ہو؟"

عائشہ برقع اتار رہی تھی جب صبیحہ بیگم کی آواز سنائی دی۔

"امی بھول گئیں آپ؟ میری سپوکن انگلش کی کلاس ہوتی ہے... "

وہ حیران ہوئے بنا نہ رہ سکی۔


"اچھا... ہاں... بس یاد ہی نہیں رہتا آج کل تو کچھ۔"

وہ سر پر ہاتھ مارتی ہوئی بولیں۔

"ابو کہاں ہیں؟"

آواز دم بخود مدھم ہو گئی۔


"کمرے میں ہیں... "

وہ سپاٹ انداز میں بولیں۔

"مریم نظر نہیں آ رہی... وہ بھی ابو کے پاس بیٹھی ہے کیا؟"

وہ خالی کمرے میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔


"ہاں سب اُدھر ہی ہیں... "

وہ سانس خارج کرتی ہوئیں بولیں۔

"میں چلی جاؤں یا نہیں؟"

آنکھوں میں خوف تیر رہا تھا۔


"ہاں موڈ تو اچھا ہی لگ رہا ہے آج ان کا... چلی جاؤ۔ میں بھی آ رہی ہوں بس... "

وہ باورچی خانے کی جانب بڑھتی ہوئی بولیں۔

عائشہ نے سلیپر پہنی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔

دل کی دھڑکن معمول سے بڑھ گئی۔


وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی۔

پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔

اس وقت وہ سادہ سی سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ بال کیچر کی زد میں تھے۔ صاف رنگت پر کپکپاتے گلابی ہونٹ اسے مزید دلکش بنا رہے تھے۔ سیاہ بڑی بڑی آنکھوں میں خوف کی لکریں تھیں۔


ہمت کرتی ہوئی وہ اندر آ ہی گئی۔

وہ بنا آہٹ پیدا کئے صوفے پر ٹک گئی۔

جونہی حسین صاحب کی نگاہ عائشہ پر پڑی چہرے پر ناگواری در آئی۔


"تم اگر سوچتی ہو نہ کہ اس بے غیرت سے تمہاری شادی ہو جاےُ گی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا... میری یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو... مجھے جس حد تک جانا پڑا میں جاؤں گا۔"

وہ عائشہ کو دیکھتے پھر سے شروع ہو گئے۔


آنکھیں پھر سے نمکین پانیوں سے لبریز ہو گئیں۔

عائشہ نے سر جھکا لیا۔

صبیحہ بیگم کے کھانا لگاتے ہاتھ کپکپانے لگے۔

انہیں عائشہ پر ترس آنے لگا تھا۔


"جیسے تیسے کر کے اگر تم دونوں نے شادی کر بھی لی تو ایک بات یاد رکھنا میں تمہارا گھر کبھی بسنے نہیں دوں گا۔"

وہ ہنکار بھرتے اسے دیکھنے لگی جو خاموشی سے انہیں سن رہی تھی۔


"تمہارا گھر میں خود برباد کروں گا تم دیکھنا....اولاد نہیں ہونے دوں گا تمہیں...کبھی خوش نہیں رہنے دوں گا تمہیں اس.....انسان کے ساتھ۔" جان سے مار دوں گا اس عمر کو... دیکھنا تم کیا حال کرتا ہوں اس کا میں۔"

جب جب وہ اپنے باپ کے منہ سے گالیاں سنتی دل چاہتا تھا زمین پھٹ جاےُ اور وہ اندر دھنس جاےُ۔


ان کا ایک ایک لفظ عائشہ کے دل پر کاری ضرب لگا رہا تھا۔

وہ تھک رہی تھی ضبط کرتی کرتی۔

کوشش کے باوجود دو موتی اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر جھولی میں آ گرے۔


"کہاں جا رہی ہو عائشہ؟"

اسے اٹھ کر جاتا دیکھ کر صبیحہ بیگم بول اٹھیں۔

"امی وہ اسائنمنٹ بنانی ہے مجھے... "

وہ نظریں ملاتے بغیر بول رہی تھی۔


آواز رونے کی چغلی کھا رہی تھی۔

کہہ کر وہ رکی نہیں اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

"جاتی ہے تو جاےُ... تمہیں کیا... "

وہ قہر آلود نظروں سے صبیحہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔


"چلو بچو کھاؤ تم لوگ... "

وہ سہم کر بچوں کو دیکھنے لگیں۔

عائشہ زمین پر بیٹھی تھی۔

کمرے میں صرف اس کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔


"عائشہ میری بچی.... "

صبیحہ بیگم اس کے پاس بیٹھتی ہوئی بولیں۔

"امی آپ مجھے بتائیں؟ کیا میں جو کہہ رہی ہوں اتنا غلط ہے؟ ابو اس قصبے کے رواج دیکھ رہے ہیں,,,برادری سے باہر نہیں کرنا چاہتے لیکن ایک ایسے انسان سے میری شادی کرنے کو تیار ہیں جس کی عمر چالیس ہے,,, ہر غلط کام میں وہ ملوث ہے,,,تعلیم سے تو دور دور تک اس کا کوئی تعلق نہیں۔"


وہ سرخ انگارہ بنی آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھ رہی تھی۔

"مان جائیں گے تمہارے ابو... یہ وقتی غصہ ہے ان کا... تم پریشان مت ہو۔"

وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتی بول رہی تھیں۔


"امی الله گواہ ہے میرے بس میں نہیں ہے ورنہ میں یہ ضد نہ کرتی... عمر میرے دل میرے دماغ میں اس طرح ہے کہ میں چاہ کر بھی اسے نکال نہیں سکتی۔ میں کیسے کروں یہ سب بتائیں؟ میں مجبور ہوں امی بہت مجبور ہوں... آصف میں کوئی ایک اچھائی بھی ہو تو مجھے بتائیں... "

وہ سوں سوں کرتی استفسار کرنے لگی۔


"تم ٹھیک کہہ رہی ہو... میں اپنی بچی کو ایسے انسان کے حوالے نہیں کروں گی۔ تمہارے ابو سے بات کروں گی تم رونا بند کرو اب... انہوں نے سن لیا تو پھر سے شروع ہو جائیں گے۔ بچوں کا بھی خیال نہیں کرتے وہ کیا اثر پڑے گا ان پر..."

وہ تاسف سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔


عائشہ اشک بہاتی دروازے کو دیکھنے لگی۔

"کاش ابو سمجھ جائیں... میرے یہ آنسو انہیں نرم کر دیں۔"

وہ کرب سے آنکھیں میچ کر بولی۔

~~~~~~~~

"فہد کے کمرے میں بچوں نے گند پھیلا دیا ہے وہ صاف کر دو تم پھر چلی جانا.... "

طلعت بیگم اسپیکر پر ہاتھ رکھے اسے کہہ کر پھر سے فون سننے لگیں۔

رانیہ سرد آہ بھرتی انہیں دیکھنے لگی۔


"مجھ سے پوچھا بھی نہیں کہ گھر جا رہی ہو تو کام تو نہیں.... "

وہ نفی میں سر ہلاتی زینے چڑھنے لگی۔

"پیسے تو صرف امی کے کام کرنے کے دیتے ہیں یہ... پھر مجھے کیوں ہر بار بلا لیتے ہیں... "

وہ سخت خفا دکھائی دے رہی تھی۔


"اتنا بڑا گھر ہے گاڑیاں ہیں پھر بھی تنخواہ دیتے وقت ان کے کلیجے منہ کو آتے ہیں... "

وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔

کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر کی ہر شے بکھری ہوئی تھی۔


کشن زمین ہر گرے تھے۔

قالین پر بوتل اور سنیکس گرے ہوئے تھے۔

ڈریسنگ ٹیبل کی ہر چیز منتشر تھی۔

"توبہ.... کمرے کا کیا حال کر دیا ہے ان بچوں نے....."

وہ سر پر ہاتھ مارتی ہوئی اندر آ گئی۔


"ان کے آنے سے پہلے پہلے یہ سب صاف کر کے مجھے جانا ہوگا... جتنے غصے میں وہ آج تھے پہلے کبھی نہیں دیکھا..."

وہ کہتی ہوئی سرعت سے کشن اٹھانے لگی۔


دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

غصے سے بھری یہ آواز فہد کی تھی۔

رانیہ نے آنکھیں زور سے بند کر لیں۔


فہد کی جانب اس کی پشت تھی۔

"میری بکواس سنائی دیتی ہے تمہیں؟"

وہ تپ کر کہتا اس کے عین مقابل آ کھڑا ہوا۔


"وہ... وہ میں یہ سمیٹنے آئی تھی... "

رانیہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

"شٹ اپ.... "

وہ پوری قوت سے چلایا۔


"میری نظروں سے دور ہو جاؤ... مجھے نہیں پتہ میں کیا کر جاؤں تمہارے ساتھ....."

وہ طیش کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔

رانیہ نے خاموشی سے جانے میں ہی عافیت جانی۔


"پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں خود کو سب... "

وہ دروازہ زور سے بند کرتا ہوا چلایا۔

رانیہ چند لمحے آنکھیں میچ کر کھڑی رہی۔


پھر وقت کا احساس ہوا تو تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔

"امی انتظار کر رہی ہوں گی میرا... "

وہ متفکر سی کہتی زینے اترنے لگی۔

~~~~~~~~

"نسیم بیگم کیسی ہیں آپ؟"

وہ فون کان سے لگاےُ عائشہ کے سامنے آ گئے۔

عائشہ بیٹھی اپنی اسائنمنٹ بنا رہی تھی۔

اس کا ہاتھ دم بخود رک گیا۔


"ہاں میں بھی ٹھیک ہوں... مجھے آپ کو بتانا تھا کہ عمر کا رشتہ آپ کہیں اور کر دیں... کیونکہ عائشہ کا رشتہ تو میں اپنی زکیہ کے بیٹے کے ساتھ ہی کروں گا۔"

وہ چبا چبا کر کہتے عائشہ کو دیکھنے لگے۔


عائشہ دم سادھے انہیں سن رہی تھی۔

ان کی باتوں سے دھڑکنیں منتشر ہو رہی تھیں۔

"امید ہے آپ سمجھ گئی ہوں گیں... "

وہ اور بھی کچھ کہہ رہے تھے لیکن عائشہ تو انہی چند لفظوں پر منجمد ہو گئی تھی۔


"سن لیا ہے نہ تم نے... تمہاری شادی عامر سے ہوگی پھر چاہے تمہاری مرضی شامل ہو یا نہ ہو... "

وہ فون بند کرتے چلانے لگے۔


"ابو میں عمر سے شادی کروں گی.... "

عائشہ نے ہمت بندھا کر آخر کہہ ہی دیا۔

لیکن اگلے لمحے رخسار پر پڑنے والا زوردار تمانچہ اسے احساس دلا گیا کہ ایسا کرنا مناسب تھا یا نہیں۔


وہ دائیں رخسار پر ہاتھ رکھے شکوہ کناں نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔

"دوبارہ یہ بکواس کی تو زبان کاٹ دوں گا تمہاری... برادری سے باہر میں مر کر بھی تمہاری شادی نہیں کروں گا۔"

وہ قطعیت سے کہتے فون کو دیکھنے لگے جو شور مچا رہا تھا۔


"ہاں ہیلو.... "

وہ فون کان سے لگاتے ایک قہر آلود نظر عائشہ پر ڈالتے باہر نکل گئے۔

عائشہ نے تھکے تھکے انداز میں سر تکیے پر گرا دیا۔


"اگر عمر کا رشتہ کہیں اور ہو گیا پھر....نہ... نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔"

اس سے آگے اُس سے سوچا نہ گیا۔


"وہ ایسا نہیں کریں گیں... عمر کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔"

آنسو تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔

اذیت تھی ایک نا ختم ہونے والی جو اسے اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے۔


"کیسے مٹا دوں عمر کی محبت کو... کوئی بتا دے مجھے... کیسے مٹا دوں... "

وہ بے بسی کے عالم میں گویا ہوئی۔


"کوئی نہیں سمجھتا مجھے... کوئی نہیں.... کیا مجھے خوشی مل رہی ہے یہ سب کر کے؟ مجھے مزہ آ رہا ہے کیا یہ سب کرنے میں؟ لیکن پھر بھی نہیں سمجھتے کوئی انسان جان بوجھ کر ایسا کیوں کرے گا؟ اس کے بس میں نہیں ہوتا...نہیں ہوتا انسان کے بس میں کہ وہ محبت کرنا ترک کر دے.... ایک بار جو دل کی زمین کو فتح کر لے اس کے بعد نہیں ہوتا یہ.... "

وہ اشک بہاتی بولتی جا رہی تھی۔


"کاش کوئی تو ہوتا جو سمجھتا مجھے,,, میرے جذبات کو سمجھتا.... یہ انسان کے تابع نہیں ہوتے نہیں سنتے ہماری,,,کسی کی نہیں سنتے۔"

یونہی خود کلامی کرتے کب نیند اس پر مہربان ہوئی اسے معلوم ہی نہ ہوا۔

~~~~~~~~

"عمر کو معلوم ہوا تو پریشان ہو جاےُ گا... "

نسیم بی بی متفکر سی بولیں۔

"مجھے خود ہی جا کر بات کرنا ہوگی... "

وہ کچھ توقف کے بعد بولیں۔


"ہاں یہی سہی رہے گا۔"

وہ اثبات میں سر ہلاتی کھڑی ہو گئیں۔

اتفاق سے آج فدا حسین صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔


"میں سمجھتی ہوں آپ کی بات بھی... لیکن ابھی فلحال آپ کچھ وقت کے لئے خاموش ہو جائیں گے.... عائشہ کے ابو ابھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔"

وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھیں۔


"دراصل مجھے اس بات کی فکر ہے کہیں حسین صاحب عائشہ کا رشتہ.... "

"نہیں نہیں آپ بے فکر رہیں۔ عائشہ کا رشتہ تو میں آپ ہی کو دوں گی۔"

صبیحہ بیگم ان کی بات کاٹتی ہوئی بولیں۔

"آپ کہتی ہیں تو ٹھیک ہے.... ہم کچھ وقت کے لئے خاموش ہو جاتے ہیں۔"

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چپ ہو گئیں۔

"عائشہ کی پڑھائی مکمل ہو جاےُ پھر شادی کریں گے اس کی... "

صبیحہ بیگم نے مسکرا کر تسلی دینا چاہی۔


"ٹھیک ہے... پھر میں چلتی ہوں۔ امید کرتی ہوں آپ اس بات پر قائم رہیں گیں۔"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولیں۔

"جی جی... میں تو خود یہی چاہتی ہوں کہ عائشہ کی شادی عمر سے ہو۔"

وہ بھی کھڑی ہو گئیں۔


"خدا حافظ... "

نسیم بی بی مسکراتی ہوئی وہاں سے نکل گئیں۔

صبیحہ بیگم کچھ سوچ کر عائشہ کے کمرے کی جانب چل دیں۔

کمرے میں مریم اور عائشہ دونوں موجود تھیں۔


"مریم تمہاری ٹیوشن کا ٹائم ہو رہا ہے جاؤ... "

وہ اندر آتی ہوئی بولیں۔

"اچھا امی... "

وہ کہتی ہوئی اپنا سامان اٹھانے لگی۔


"تم آج کلاس لینے نہیں جا رہی؟"

وہ عائشہ کے بجھے ہوےُ چہرے کو دیکھتی ہوئی بولیں۔

"نہیں... آج دل نہیں کر رہا... "

وہ مدھم آواز میں بولی۔


وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاےُ بیٹھی تھی۔

آنکھوں کی سوجھن اس کے اشکوں کا پتہ دے رہیں تھیں۔

وہ خاموش تھی لیکن اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر سب بتا رہیں تھیں۔


"عائشہ میری بچی... تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟"

وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتیں نرمی سے بولیں۔

عائشہ خاموش رہی شاید بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں اس کے پاس۔


"اس دن کے لئے نہیں پڑھایا تمہیں کہ ایسے جاہلوں کو سونپ دوں گی.... تم دیکھنا تمہاری شادی عمر سے ہی ہوگی... بہت سلجھا ہوا بچہ ہے وہ,,کہاں عمر اور کہاں یہ آصف, عامر.... "

بولتے بولتے چہرے پر ناگواری در آئی۔


"ابھی تو میری بچی نے پروفیسر بننا ہے...اپنے خواب پورے کرنے ہیں پھر تسلی سے تمہاری شادی کریں گے... تب تک تمہارے ابو بھی مان ہی جائیں گے۔ برداری کے باعث اتنے اچھے رشتے سے انکار کر رہے ہیں۔"

وہ تاسف سے بول رہی تھیں۔


"امی پلیز آپ ابو کو منا لیں... انہیں سمجھائیں پلیز... "

بولی تو آواز بھرا گئی۔

"ہاں ہاں تم پریشان مت ہو.... دیکھنا سب ٹھیک ہو جاےُ گا۔ چلو اب اٹھ کر منہ دھو لو کیسے چہرہ مرجھا گیا ہے۔"

وہ افسردہ سی بولیں۔


عائشہ انہیں دیکھتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔

"صبیحہ.... "

ابھی وہ اندر ہی تھیں کہ حسین صاحب کی آواز سنائی دی۔

"لگتا ہے تمہارے ابو آ گئے میں دیکھتی ہوں انہیں... "

وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔


"صبیحہ کہاں مر گئی ہو.... "

وہ حلق کے بل چلاےُ۔

"آ رہی ہوں... "

وہ کہتی ہوئی سرعت سے ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔


"کب سے آوازیں دے رہا ہوں... بہری ہو گئی ہو کیا؟"

وہ ماتھے پر بل ڈالے انہیں دیکھ رہے تھے۔

"وہ... میں... "

"اب میرا منہ دیکھتی رہو گی کیا؟ دفع ہو کر پانی لاؤ... "

وہ ہنکار بھرتے چارپائی پر بیٹھ گئے۔


"بس کھانے اور کپڑے کا پتہ ہیں ان سب کو.... باپ کو بھی پوچھنا ہے یہ تو معلوم ہی نہیں ہے۔ کھانے کو دیتے رہو انہیں پھر خوش ہیں۔"

وہ مسلسل بولتے جا رہے تھے۔


عائشہ بآسانی ان کی باتیں سن سکتی تھی۔

ایک سرد آہ بھرتی وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔

"اور تم کان کھول کر سن لو... عامر سے شادی ہوگی تمہاری.... اس بے شرم عمر کو تو میں دیکھ لوں گا... میری بیٹی کو میرے خلاف ورغلا رہا ہے۔"

عائشہ پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی جانب آ گئے۔


عائشہ خاموشی سے چلنے لگی۔

"اپنی مرضی نہیں چلا سکتی تم.... وہیں شادی کرو گی جہاں تمہارا باپ کہے گا... کسی راہ چلتے سے بھی کرنی پڑی نہ تمہاری شادی تو کر دوں گا لیکن اس عمر....سے نہیں کروں گا۔"

وہ آگ بگولہ ہوتے بولتے جا رہے تھے۔


عائشہ نے منہ دھویا اور واپس کمرے کی جانب چلنے لگی۔

عائشہ کی چپ انہیں مزید طیش دلا رہی تھی۔

چہرہ غصے کے مارے سرخ ہو چکا تھا۔

جب عائشہ کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو عمر کا نمبر ملا کر فون کان سے لگا لیا۔


وہ بات کم کر رہے تھے اور گالیاں زیادہ دے رہے تھے۔

عمر خاموشی سے ضبط کر رہا تھا۔

وہ عمر کو اس کے خاندان کو نجانے کیا کیا بول رہے تھے۔

"تو تیرا سارا خاندان بے غیرت ہے.... "

عمر حوصلے سے ان کی باتیں برداشت کر رہا تھا۔


عائشہ نے روتے ہوئے دونوں ہاتھ کان پر رکھ لیے۔

کتنا اذیت ناک تھا یہ,, یہ تو وہی جانتی تھی۔

"ابو بس کر دیں... "

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


فون غالباً بند ہو چکا تھا تبھی ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

عمر چند لمحے یونہی فون کی اسکرین کو دیکھتا رہا۔

"پتہ نہیں کیسے سب نارمل ہوگا... "

وہ فون بیڈ پر اچھالتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔


فدا حسین کے اتنا سنانے پر بھی عمر نے ایک لفظ بھی جواب میں نہ کہا بس سنتا رہا انہیں۔

"امی وہاں گئیں تھیں شاید... "

وہ بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔


نسیم بی بی فون پر مصروف تھیں۔

عمر آ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

"ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا... میں بعد میں بات کرتی ہوں..."

وہ عثمان سے بات کر رہی تھی۔


"کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟"

وہ بغور عمر کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولیں۔

عمر اثبات میں سر ہلانے لگا۔

"آپ عائشہ کے گھر گئیں تھیں؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"ہاں... مجھے بھی بات کرنی تھی تم سے اس متعلق... "

وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں۔

"جی بتائیں... "

وہ مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ تھا۔


"عمر میرے بیٹے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا... وہ پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے عائشہ کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے ہمیں خاموش ہونے کو بولا ہے... "

وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔


"اچھا.... "

وہ بس جواب میں اتنا ہی بول پایا۔

"ٹھیک ہو تم؟"

وہ افسردگی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔


"جی... "

کہہ کر وہ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سمت چل دیا۔

"کاش میں تمہاری اس تکلیف کو دور کر سکتی... "

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔

~~~~~~~~

"آپ نے آصف کے لئے منع کب کیا؟"

صبیحہ بیگم ان کے سامنے بیٹھتی ہوئی بولیں۔

"فضول میں بکواس کرتا رہتا ہے... منع کر دیا تھا میں نے اس کی ماں کو... "

وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولے۔


"لیکن آپ کو تو بہت پسند تھا وہ... عائشہ جب تین سال کی تھی آپ نے خود یہ رشتہ کیا تھا۔"

وہ حیران ہوئے بنا نہ رہ سکی۔


"میرے آگے زبان چلاتا ہے وہ... میں اسے سعودیہ لے کر گیا اور وہ مجھے ہی تیور دکھا رہا تھا... یہاں آنے سے قبل ہی میں اس کی ماں کو فون کر کے منع کر دیا تھا۔"

وہ سخت خفا دکھائی دے رہے تھے۔


"اچھا سہی... "

صبیحہ بیگم کو کچھ ڈھارس ملی۔

"اب عامر سے کروں گا میں عائشہ کی شادی... "

وہ فاتحانہ مسکراہٹ لئے بولے۔


"زکیہ نے آپ سے بھی بات کی تھی؟"

جو بات انہیں تنگ کر رہی تھی آخر وہ پوچھ ہی بیٹھیں۔

"ہاں... کیوں تمہاری بہن نے تمہیں بتایا نہیں؟"

وہ تمسخرانہ انداز میں بولے۔


"نہیں مجھے لگا صرف مجھ سے بات کی ہے اس نے.... "

وہ آہستہ سے بولیں۔

"عامر مجھے پسند ہے... اس لیے اسی سے کروں گا... میری بات بھی مانتا ہے وہ۔"

وہ پرسوچ انداز میں بولے۔


"ویسے دیکھا جاےُ تو برائی تو عمر میں بھی کوئی نہیں ہے... "

انہوں نے ہمت کر کے کہہ ڈالا۔

"جتنی تمہاری اوقات ہے نہ اتنی ہی بات کیا کرو... آئی بڑی اس بے غیرت کے حمایت کرنے والی... وہ کیا ہے میں اچھے سے جانتا ہوں لالچی لوگ ہیں تمہیں گھر بیٹھے کیا معلوم...."

وہ نفی میں سر ہلانے لگے۔


"اس قصبے کے لوگ کیسے ہیں آپ بھی جانتے تو ہیں اچھے سے... "

وہ دھیرے سے منمنائیں۔

"اپنا منہ بند رکھو تم.... تم سے مشورہ نہیں مانگا میں نے۔"

وہ تپ کر انہیں دیکھنے لگے۔


"اچھا.... "

وہ سانس خارج کرتی کھڑی ہو گئیں۔

~~~~~~~~~

"بڑے دنوں بعد شکل دکھائی ہے بے مروت انسان.... "

فہد اسے دیکھتا خفگی سے بولا۔

"مجھ سے بات کر رہا ہے؟"

وہ اپنے سینے پر انگلی رکھتا تعجب سے بولا۔


"نہیں میرا دماغ خراب ہے میں دیواروں سے باتیں کرتا ہوں... "

وہ جل کر بولا۔

"اوہ اچھا.... مہلک مرض معلوم ہوتا ہے انکل سے بات کرتا ہوں ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔"

وہ خاصی سنجیدگی سے کہتا کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔


"معلوم ہے ابتسام تو انتہائی بیکار انسان ہے۔"

وہ جل کر بولا۔

"تجھ سے زیادہ نہیں ہو سکتا.... خود کو دیکھ بس اسی کمرے میں پڑا رہتا ہے۔"

وہ جیب سے فون نکالتا دانت نکالنے لگا۔


"ماں صدقے جاےُ.... "

وہ گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔

"ہاں بے شک چلی جاےُ... ویسے اکثر جاتی رہتی ہیں۔"

ابتسام محو سے انداز میں بولا۔


"تو نے کون سے بزنس سٹارٹ کر رکھے ہیں بتا ذرا..."

وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتا ہوا بولا۔

"کیا رشتہ کروانا ہے میرا؟"

وہ آنکھیں چھوٹی کئے اسے دیکھنے لگا۔


"یار میں بہت پریشان ہوں... "

وہ یکدم سنجیدہ ہو گیا۔

"کیا ہوا؟ ایسا باسی منہ کیوں بنا رکھا ہے؟"

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔


"باسی کہنے پر میں تجھے باہر پھینک سکتا ہوں لیکن ابھی مجھے بات کرنی ہے تیری منحوس شکل سے۔"

فہد کا موڈ خاصا خراب تھا۔


"اچھا بتا کیا مسئلہ ہے؟ رانیہ کیا کہتی ہے؟"

وہ جیسے اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔

"یار وہ کہتی ہے دور رہو مجھ سے.... اسے کیسے سمجھاؤں کہ نہیں کر سکتا میں یہ.... "

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"تو نکاح کر لے اس سے... "

ابتسام نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوےُ سہولت سے حل پیش کیا۔

"میں بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہا ہوں..."

وہ کسی گہری سوچ میں دکھائی دے رہا تھا۔


"بس پھر تو کوئی مسئلہ نہیں....اس کے بعد تیرا باپ تجھے اٹھا کر باہر پھینک دے گا رانیہ سمیت.... "

ابتسام کی بات نے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت کر دیا۔


"مانا کہ منحوس شکل ہے لیکن بندہ کم از کم بات ہی اچھے کر لے۔"

وہ جی بھر کر بدمزہ ہوا۔

"اچھی بات کیا؟ جو حقیقت ہے وہی بتائی تجھے.... "

وہ پرسکون تھا۔


"باپ کو بھی دیکھ لوں گا میں.... "

وہ ناگواری سے بولا۔

"سو اگر تو ریڈی ہے بے عزتی کا سیشن کروانے کے لیے تو میں چلوں؟"

وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔


"جس دن میرے سارے کام بن گئے نہ سب سے پہلے تجھے گولی ماروں گا۔"

وہ بندوق اٹھا کر اس کی جانب کرتا ہوا بولا۔

"ہٹا لے بیٹا... غلطی سے بھی چل جاتی ہے۔"

ابتسام بندوق کا منہ دوسری جانب کرتا ہوا بولا۔


"رانیہ سے بات کر.... پھر مجھے ایک چھوٹی سی مسڈ کال دے دینا بندہ حاضر ہو جاےُ گا۔"

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔


"اچھا ٹھیک ہے.... دفع ہو۔"

فہد منہ بناتا ہوا بولا۔

"سیم ٹو یو.... "


وہ قہقہ لگاتا باہر نکل گیا۔

"اب اس مسئلے کا حل نکالنا ہی پڑے گا۔"

وہ کھڑکی کو گھورتا ہوا سوچنے لگا۔

~~~~~~~~

"زکیہ میں نے جب تمہیں منع کر دیا تھا پھر تم نے عائشہ کے ابو سے کیوں بات کی؟"

وہ ناراض ناراض سی بول رہی تھیں۔


"افسوس تو مجھے تم پر ہے.... اپنی بہن کو انکار کر کے نسیم کو رشتہ دے رہی ہو۔ زیادتی نہیں یہ؟"

وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔

"جو میری بچی کی خوشی ہے میں وہی کر رہی ہوں... "

وہ آہستہ سے مگر مضبوط لہجے میں بولیں۔


"پہلا حق تو میرا ہے اور تم ہو کہ عمر کے ساتھ کرنے پر بضد ہو۔"

وہ خفا انداز میں انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"زکیہ میری بات سمجھو... عائشہ کی خوشی عمر ہے اور اپنی خواہش کا اظہار کرنا کوئی گناہ نہیں جس کی سزا میں اسے کسی اور کے حوالے کر دیا جاےُ۔"

وہ تحمل سے سمجھانے لگیں۔


"گھر کی بچی گھر میں جاےُ تو اچھا ہوتا ہے... ان غیر برادری والوں کا کیا بھروسہ کیا سلوک کریں۔"

وہ پھر سے قائل کرنے لگیں۔


"چاہے برادری اور ہے لیکن رشتہ دار ہیں ہم.... اچھے سے جانتی ہوں نسیم کو‍۔ کوئی برائی نہیں اس رشتے میں۔"

وہ قطعیت سے بولیں۔

"بھائی صاحب تو کچھ اور ہی کہتے ہیں... "

وہ طنزیہ مسکرائی۔


"بہرحال تم اب اس متعلق کوئی بات مت کرنا.... میں خاندان میں کسی کو نہیں دوں گی عائشہ کا رشتہ۔"

وہ سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔


"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی... چلتی ہوں اب۔"

وہ منہ بناتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔

"ٹھیک ہے...."

صبیحہ بیگم بھی کھڑی ہو گئیں۔

~~~~~~~~

"بات ہوئی عمر سے؟"

وہ اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"ہاں ہوئی ہے... پتہ نہیں کیا ہوگا ہمارا....."

وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"تم فکر مت کرو انکل مان جائیں گے۔"

حنا نے اسے تسلی دینا چاہی۔

"عمر واپس جا رہے ہیں... آج فون دینے آئیں گے مجھے۔ وہ فون تم اپنے گھر لے جایا کرنا اور یونی آتے ہوئے لایا کرنا۔"

وہ بینچ پر بیٹھتی ہوئی بتانے لگی۔


"اچھا اچھا... ٹھیک ہے سمجھ گئی۔"

وہ اثبات میں سر ہلاتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔

"کچھ کھاؤ گی؟"

حنا سامنے کینٹن کو دیکھتی ہوئی استفسار کرنے لگی۔


"نہیں میرا دل نہیں... تم کھا لو جو کھانا ہے۔"

وہ دور خلا میں دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔

جب دل ہی خوش نہ ہو تو انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے اور وہ اس کیفیت میں گزشتہ کئی ماہ سے جھلس رہی تھی۔


حنا اسے دیکھتی خاموش ہو گئی۔

شاید اس کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جس میں وہ عائشہ کو تسلی دے پاتی۔

~~~~~~~~

"عامر سے کیا تکلیف ہے تمہیں؟"

وہ خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"کل کو آپ کی بہن مجھے جینے نہیں دے گی کہ میرے بیٹے کو انکار کر کے اپنی بہن کے بیٹے سے کر دیا... آپ کو بھی عمر بھر طعنے دے گی اسی لئے میں خاندان میں کسی کو رشتہ نہیں دوں گی عائشہ کا۔"

وہ بنا ڈرے بولنے لگیں۔


فدا حسین نے ناگواری سے انہیں دیکھا۔

لیکن چونکہ ان کی بات میں دم تھا اس لئے لمحہ بھر کو خاموش ہو گئے۔

"اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ اسے انکار کر کے عمر کو ہاں کہہ دوں گا میں تو بھول ہے تمہاری... "

وہ کاٹ دار لہجے میں بولے۔


"لیکن میں خاندان میں کسی کو نہیں دوں گی عائشہ کا رشتہ.... مجھے اپنی زندگی اجیرن نہیں کرنی۔"

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئیں۔


"ہاں ایاز بولو کیسے ہو؟"

وہ فون کان سے لگاتے ہوئے بولے۔

"ہاں ہاں میں بھی ٹھیک ہوں.... تمہیں کس نے بتایا؟"

ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"نسیم رشتہ لے کر آئی تھی میری طرف سے تو صاف انکار ہے۔"

وہ صاف گوئی کرنے لگے۔


"دیکھ بھائی بچی اپنی برادری سے باہر مت دینا...یہ غلطی کبھی نہ کرنا۔"

وہ شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولے۔

"ہاں ہاں مجھے اچھے سے معلوم ہے... "

فدا حسین اثبات میں سر ہلانے لگے۔


"بھلے عمر میرا بھانجا ہے لیکن تمہیں دوست ہونے کے ناطے آگاہ کر رہا ہوں۔ اور بھی کچھ باتیں کرنی ہیں ڈیرے پر آ جانا اطمینان سے کریں گے۔"

وہ میٹھے لہجے میں گویا ہوئے۔


"ہاں ٹھیک ہے... میں آ جاؤں گا۔"

وہ کھانے کی ٹرے اپنی جانب کھسکاتے ہوےُ بولے۔

فون بند کر کے انہوں نے نخوت سے سر جھٹکا اور کھانا کھانے لگے۔


"عمر کی شادی تو تمہیں میری بیٹی کے ساتھ ہی کرنی پڑے گی....سونے جیسا رشتہ میں ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا اس لیے یہ رشتہ تو میں نہیں ہونے دوں گا۔"

ایاز ہنکار بھرتا فون جیب میں ڈالنے لگا۔

~~~~~~~~

"برقع پہنو تمہیں دریا میں پھینک کر آتا ہوں میں.... "

وہ کمرے میں آتے ہوئے بلند آواز میں گویا ہوئے۔

عائشہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"

صبیحہ بیگم ہکا بکا سی انہیں دیکھ رہی تھی۔

"سنا نہیں تم نے کیا کہا ہے میں نے؟"

وہ عائشہ کو گھورتے حلق کے بل چلاےُ۔


عائشہ سہم کر صبیحہ بیگم کو دیکھنے لگی۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"

وہ دونوں کے بیچ حائل ہو گئیں۔


"آج میں اسے مار کر ہی دم لوں گا.... "

وہ کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔

"یہ بیٹی ہے آپ کی.... "

وہ دونوں کے بیچ دیوار بنی ہوئی تھیں۔


"ہاں تو کیا سر پر بٹھا کے رکھوں اسے... اور تم بہری ہو گئی ہو کیا؟ میں نے کہا برقع پہنو... "

اب کہ وہ حلق کے بل چلاےُ۔

"امی.... "

عائشہ گھبرا کر کہتی ان کی پشت کے پیچھے چھپ گئی۔

"اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو اسے کہو جس سے میں کہتا ہوں چپ چاپ شادی کرے اس سے.... "

وہ خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے۔

"اچھا ٹھیک ہے.... "

صبیحہ بیگم نے صورتحال پر قابو پانا چاہا۔


"ابو خدا کے واسطے یہ ظلم نہ کریں مجھ پر... میں نہیں کر سکتی جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔"

وہ اشک بہاتی بولتی رہی تھی۔


عائشہ کو لگا تھا شاید اس کے آنسو باپ کا دل نرم کر دیں لیکن وہ غلط تھی اس کا احساس اسے اگلے ہی پل میں ہو گیا۔

فدا حسین نے صبیحہ بیگم کو پرے کیا اور ایک زوردار تھپڑ عائشہ کے گال کی زینت بنا دیا۔


بھاری مردانہ ہاتھ وہ معصوم کہاں برداشت کر سکتی تھی۔

جتنی قوت سے تھپڑ مارا عائشہ زمین پر جا گری۔

ہونٹ پھٹ چکا تھا جس سے خون بہہ کر تھوڑی تک آنے لگا۔


"تم یہ زبان نہیں سمجھو گی.... برقع لاؤ اس کا آج اسے میں پھینک کر ہی دم لوں گا۔"

وہ جو خود کو سنبھالتی اٹھی ہی تھی کہ دوسرے تھپڑ سے دوبارہ زمین بوس ہو گئی۔


"مت کریں... خدا کا واسطہ ہے آپ کو...."

صبیحہ بیگم عائشہ کے سامنے ڈھال بنتی ہاتھ جوڑنے لگی۔

"باپ کے آگے زبان چلاتی ہے.... ذرا جو شرم آتی ہو اسے اور تم ہٹ جاؤ بیچ سے۔"

وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔


"آپ جیسا کہیں گے وہ کرے گی... جس سے کہیں گے نہ اسی سے شادی کرے گی میں گارنٹی دیتی ہوں آپ کو.... "

وہ بے بسی سے گویا ہوئیں۔


"دیکھتے ہیں... "

دونوں پر ایک نگاہ ڈال کر وہ باہر نکل گئے۔

عائشہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

یہ کیسی آزمائش تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔


"امی خدا گواہ ہے میرا بس نہیں چلتا میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں عمر کو نکال دوں اپنے دل سے... میں مجبور ہوں بہت مجبور ہوں.... نہیں ہوتا مجھ سے۔"

وہ ہچکیاں لیتی صفائی پیش کر رہی تھی۔


صبیحہ بیگم نے ایک افسردہ نگاہ اس پر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔

"اس سے اچھا تو ابو مجھے پھینک آئیں دریا میں... زندہ لاش بننے سے تو موت قبول ہے مجھے۔"

وہ اس بات سے انجان کہ صبیحہ بیگم جا چکی ہیں بولتی جا رہی تھی۔


"مار دیں مجھے لیکن عمر سے دور نہ کریں.... "

وہ فرش پر بیٹھی سسک رہی تھی لیکن یہاں کوئی بھی نہیں تھا اس کی سسکیاں سننے والا۔

~~~~~~~~

"آنٹی میں نہیں چھوڑ سکتا رانیہ کو...."

وہ بے چینی سے گویا ہوا۔

"بیٹا تمہیں کچھ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے... تم جانتے ہو ہم لوگوں کی کیا مجال تم لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی... "

نقاہت کے باعث وہ کھانسنے لگیں۔


"امی پانی.... "

رانیہ کی نظریں فہد پر تھیں۔

"میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابو مان جائیں گے,,,ہاں ناراض ہوں گے لیکن یہ ناراضگی کچھ روز رہے گی آخر انہیں قبول کرنا ہی پڑے گا۔"

وہ پر اعتماد لہجے میں بول رہا تھا۔


"بیٹا تمہاری زندگی کا فیصلہ ہے تم خود ہی بتا دو... میں نہیں چاہتی کل کو تم مجھے ذمہ دار ٹھہراؤ کسی بھی شے کے لیے۔"

وہ رانیہ کو دیکھتی نرمی سے بولنے لگیں۔


رانیہ نے ایک نظر فہد پر ڈالی جس کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔

"آپ جانتے ہیں آپ کے گھر میں کوئی راضی نہیں ہوگا.. "

وہ بولتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔


"تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا نہیں بس اتنا بتاؤ؟ تمہیں الگ رکھنا پڑا تو میں رکھ لوں گا... حویلی نہیں لے جاؤں گا۔"

وہ اسے اعتماد میں لینے کی ہر ممکن سعی کر رہا تھا۔


"ہاں میں رہنا چاہتی ہوں لیکن.... "

وہ پر سوچ انداز میں کہتی خاموش ہو گئی۔

"لیکن کیا؟"

وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔


"لیکن مجھے ڈر لگتا ہے... "

وہ کہتی ہوئی سر جھکا گئی۔

"تمہیں کہہ تو رہا ہوں کہ الگ گھر میں رکھ لوں گا۔ پھر کیا ٹینشن ہے؟"

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"رانیہ لیکن ایک بات یاد رکھنا ایک بار تم اس گھر سے فہد کے ساتھ گئی تو واپسی کے دروازے بند ہو جائیں گے تمہارے لئے... کیونکہ اس قصبے میں کوئی تمہیں نہیں اپناےُ گا۔"

انہوں نے مداخلت کی۔


رانیہ چند پل خاموشی سے فہد کو دیکھتی رہی۔

وہ الجھی ہوئی تھی اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے گھبرا رہی تھی۔

~~~~~~~~

"اختر کی بات کر رہے ہیں آپ؟"

وہ تعجب سے انہیں دیکھنے لگی۔

"ہاں میں سوچ رہا ہوں ابھی صرف نکاح کر دوں.... رخصتی پھر بعد میں کر دیں گے۔"

وہ کسی گہری سوچ میں دکھائی دے رہے تھے۔


"لیکن اختر تو شادی شدہ ہے.... پانچ سال ہو گئے ہیں آپ کو معلوم تو ہے سب۔"

وہ ہق دق سی انہیں دیکھ رہی تھیں۔

"تم میری ماں مت بنو.... اچھے سے جانتا ہوں میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔"

وہ ہنکار بھرتے انہیں دیکھنے لگے۔


صبیحہ بیگم نا چاہتے ہوےُ بھی خاموش ہو گئیں۔

عائشہ کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔

وہ پتھر کی مورت بنے قدم اٹھانے لگی۔


"اگلے ہفتے کا دن سوچ رہا ہوں... جانے سے پہلے یہ کام کر کے جاؤں۔"

وہ کچھ توقف کے بعد بولے۔

"جی اچھا.... "

وہ آہستہ سے گویا ہوئیں۔


"اپنی بیٹی کو بھی سمجھا دینا... چپ چاپ یہ نکاح کر لے ورنہ مجھے سمجھانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آےُ گی۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔


"ابو میرے ساتھ یہ کی... کیا کر رہے ہیں؟"

اس کے لئے بولنا دو بھر ہو چکا تھا۔

"میں یہ نکاح نہیں کروں گی.... "

وہ ہاتھ کی پشت کی رخسار رگڑتی ہوئی بولی۔


لیکن اگلے ہی لمحے اشک اس کے رخسار پر بہتے پھر سے نم کر گئے انہیں۔

"مہ.... میں عمر کے علاوہ کسی کا سوچ بھی نہیں سکتی.... اور اب اس اختر کو لے آےُ ہیں وہ۔"

وہ سر پر ہاتھ رکھے بول رہی تھی۔


دماغ کی نسیں درد سے پھٹنے کو تھیں۔

"مہ... میں کیا کروں؟"

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


"میں اس اختر سے نکاح نہیں کر سکتی.... ابو آپ کیوں یہ سب کر رہے ہیں؟آپ ایک باپ ہو کر اپنی ہی بیٹی کی خوشیوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں.... کیسے اتنے ظالم ہو سکتے ہیں آپ؟"


بے بسی ہی بے بسی تھی۔

وہ خاموش ہوتی اس مشکل سے نکلنے کا حل سوچنے لگی۔

ایک آنسو ہی تھے جو ہر لمحہ اس کا ساتھ نبھا رہے تھے اس کڑے وقت میں۔

~~~~~~~~

"رانیہ میں تمہیں یقین دلا تو رہا ہوں.... کچھ بھی ہو جاےُ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔"

وہ پھر سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

"اور اگر آپ کے گھر والوں نے آپ کو مجبور کیا ایسا کرنے پر پھر؟"


رانیہ کی آنکھوں میں بے یقینی کے ساتھ ساتھ ہزاروں سوالات تھے۔

"زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے؟ تمہیں حویلی میں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے, تو ہم کہیں اور رہ لیں گے۔"

وہ اسے قائل کرنے کی جستجو میں لگا تھا۔

رانیہ کا دل ابھی بھی مطمئن نہ تھا۔


"پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے جیسا ہم سوچ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہوگا... "

وہ اپنے خدشات ظاہر کرنے لگی۔


"تم اتنا کیوں سوچ رہی ہو؟ اور اچھا سوچو...انسان جیسا گمان رکھتا ہے اس کے ساتھ ہوتا بھی ویسا ہی ہے۔"

وہ خفا انداز میں بولا۔

"کوئی بھی نہیں مانے گا.... "

وہ نفی میں سر ہلاتی افسردگی سے اسے دیکھنے لگی۔


"یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو....مجھے بس تمہاری ہاں چائیے۔"

وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

رانیہ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی۔

دونوں کے بیچ فاصلہ ہنوز برقرار تھا۔


"ٹھیک ہے.... آپ کے کہنے پر میں یہ رسک لے رہی ہوں۔"

وہ اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔

"ہاں اور میں ہی ذمہ داری لیتا ہوں ہر بات کی۔"

وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہوا طمانیت سے بولا۔


"کل تم تیار رہنا.... میں تمہیں اور آنٹی کو لینے آؤں گا۔"

وہ نرم مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتا الٹے قدم اٹھانے لگا۔

رانیہ نے سر اثبات میں ہلانے پر اکتفا کیا۔


وہ ہاں تو کر بیٹھی تھی لیکن دل میں ابھی بھی ہزاروں وسوسے جنم لے رہے تھے۔

جن کو ختم کرنے کے لیے اس کے پاس مناسب دلیل موجود نہ تھی۔


"پتہ نہیں کیا ہوگا اس سب کے بعد.... "

فہد وہاں سے جا چکا تھا۔

"بیگم صاحبہ تو شاید مجھے قتل ہی کر دیں..."

وہ متفکر سی کہتی ٹہلنے لگی۔


"اور ان کے ابو.... وہ... پتہ نہیں کیا کریں گے۔"

وہ سر دونوں ہاتھوں سے تھامتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔

"رانیہ تم نے ہاں تو کہہ دیا ہے لیکن اس کے نتائج ممکن حد تک بہت خوفناک ہوں گے۔"


وہ خود کو کوسنے لگی تھی۔

"میں بھی کیا کرتی مجبور ہو گئی ان کے آگے... "

وہ بے بسی سے اپنی صفائی دینے لگی۔

~~~~~~~~

"عائشہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟"

صبیحہ بیگم اس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو ہاتھ مارتی ہوئی بولیں۔

تیزاب کی وہ بوتل زمین پر جا گری۔


"امی کیوں کیا آپ نے یہ؟"

وہ شکوہ کناں نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔

صبیحہ بیگم نے ایک تھپڑ اس کے رخسار کی زینت بنا دیا۔


ابھی وہ سنبھلی نہ تھی کہ ایک اور تھپڑ اس کے گال پر آ لگا۔

اس کے بعد نجانے کتنے تھپڑ انہوں نے مارے عائشہ نے حساب نہ رکھا۔

جب مار کر وہ خود تھک گئیں تو رک کر اسے دیکھنے لگیں۔


"دوبارہ اگر ایسی کوئی حرکت کرنے کا تم نے سوچا تو اس سے برا حال کروں گی تمہارا.... "

وہ طیش کے عالم میں کہتیں وہاں سے چلی گئیں۔


عائشہ لمبے لمبے سانس لیتی بے حال سی دروازے کو دیکھنے۔

آنکھوں سے اشک جاری تھی۔

بال بکھر کر چہرے پر آ رہے تھے۔


چہرے پر ان کے ہاتھ کے نشاں ثبت ہو گئے تھے۔

وہ ہچکیاں لیتی زمین پر گری بوتل کو گھور رہی تھی۔

جسم سے درد اٹھ رہا تھا۔

آنکھیں جل رہی تھیں۔


وہ تکلیف کی انتہا پر تھی۔

کچھ سمجھ نہ آیا تو سوں سوں کرتے ہوئے اس نے سر گھٹنوں پر رکھ دیا۔


یہ کمرہ اس کی ہر اذیت ہر کرب کا گواہ تھا۔ آج بھی اس کی سسکیاں سننے والا صرف یہ کمرہ ہی تھا۔

جسم کا ایک ایک عضو تکلیف سے کراہ رہا تھا۔


جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے، جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے


وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا

انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے


اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا

جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے


وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت

پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے ، جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے


وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا

جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے

~~~~~~~~

"کیا سوچ رہی ہو؟"

وہ کافی دیر سے رانیہ کو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے دیکھتے ہوئے بولیں۔

"سوچ رہی ہوں کیا ہوگا آگے.... "

وہ ایک سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"فہد نے کیا کہا ہے؟"

وہ متجسس تھیں۔

"کل نکاح کے لیے لینے آےُ گا.... "

کہتے ہوئے وہ سر جھکا گئی۔


"ٹھیک ہے پھر کیوں گھبرا رہی ہو؟"

وہ جانتے ہوئے بھی انجان بنیں۔

"آپ اچھے سے جانتی ہیں... "

انداز جتانے والا تھا۔


"ہاں جانتی ہوں.... لیکن خواہش بھی تو تمہاری ہے۔"

وہ زور دے کر بولیں۔

"دل کے ہاتھوں مجبور ہوں... تبھی یہ انتہائی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوئی ہوں۔"

وہ سامنے دیوار کو دیکھنے لگی۔


دونوں کے بیچ چند پل کی خاموشی حائل ہو گئی۔

"اگر فیصلہ لے ہی چکی ہو تو الله پر چھوڑ دو....وہ بہتر کرے گا۔"

وہ کچھ توقف کے بعد بولیں۔


"میں نماز پڑھ لوں.... دیر ہو رہی ہے۔"

وہ اس موضوع سے بھاگ رہی تھی۔

"ہاں پڑھ لو.... "


وہ گھڑی پر نظر ڈالتی ہوئی سر ہلانے لگیں۔

رانیہ انہیں دیکھے بنا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل آئی۔

~~~~~~~~

"واپس جاؤ اپنے کمرے میں... "

صبیحہ بیگم کی گرج دار آواز گونجی۔

عائشہ نقاب اتارتی آنکھوں میں حیرانی لئے انہیں دیکھنے لگی۔


"تم یونیورسٹی نہیں جاؤ گی... "

وہ سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔

"کیوں امی؟ میں سمجھی نہیں.... "

وہ نا سمجھی سے انہیں دیکھ رہے تھی۔


"اب سے تمہاری یونیورسٹی بند.... پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا۔"

انہوں نے بے رخی سے کہتے ہوئے منہ موڑ لیا۔

"لیکن کیوں؟"

وہ ششدر رہ گئی۔


"بس کہہ دیا نہیں جاؤ گی تو مطلب نہیں جاؤ گی۔"

وہ اسے دیکھتی قطعیت سے بولیں۔

"ٹھیک ہے... "

وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔


آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو اس نے پیچھے دھکیلا۔

"میں مر جاؤں گی لیکن کسی اور سے شادی نہیں کروں گی.... "

وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتی ہوئی بولی۔


اس سے قبل کہ صبیحہ بیگم مزید کچھ کہتی وہ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

صبیحہ بیگم نفی میں سر ہلاتی باورچی خانے چل دیں۔

"اب میں کیا کروں؟"

وہ برقع بیڈ پر رکھتی ہوئی بڑبڑائی۔


"عمر تو یہاں ہیں بھی نہیں.... امی یونیورسٹی جانے نہیں دے رہیں میں کیسے عمر کو بتاؤں؟"

وہ انگلی دانتوں تلے دباےُ سوچ رہی تھی۔


"مجھے عمر کو بتانا ہوگا.... سب بتانا ہوگا..."

وہ بے چینی سے کہتی ٹہلنے لگی۔

"اگر میری بات نہ ہوئی عمر سے.... اور ابو نے زبردستی میرا نکاح کروا دیا پھر؟"

وہ حونق زدہ سی سوچنے لگی۔


"نہ... نہیں ایسا نہیں ہوگا... عمر ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے۔"

وہ بولتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔

"لیکن میں انہیں بتاؤں کیسے؟"

وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی۔


سر کا درد دماغ سے ہوتا ہوا کنپٹی تک آ گیا تھا۔

وہ تھکے تھکے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"کچھ سمجھ نہیں آ رہا..."

اس نے کہتے ہوئے سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔


"مجھے کوئی راستہ نکالنا ہوگا...جتنی جلدی ہو سکے۔"

وہ مدھم آواز میں خود سے مخاطب تھی۔

جسم سے اٹھنے والے درد نے اسے لیٹنے پر مجبور کر دیا۔

آنکھوں پر بازو رکھے وہ عمر کے متعلق سوچنے لگی۔

~~~~~~~~

"امی؟"

رانیہ رک کر انہیں دیکھنے لگی۔

"الله تم دونوں کو خوش رکھے.... "

وہ فہد اور رانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔


"میں اب چلتی ہوں حویلی میں بہت سا کام ہے.... تم دونوں آپس میں مشورہ کر لو کیسے کرنا ہے سب.... "

وہ دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔


"آنٹی میں چھوڑ دوں گا آپ کو.... "

فہد اپنی نشست سے کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"ارے نہیں نہیں.... تم کیوں تکلیف کرو گے قریب تو ہے پھر مجھے راستے میں کچھ کام بھی ہے۔"

وہ بہانہ بناتی چلنے لگیں۔


"مبارک ہو بھائی.... "

ابتسام اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔

"تجھے آرام سے شکریہ کہوں گا۔"

وہ اس سے الگ ہوتا ہوا بولا۔


"ہاں ہاں کوئی مسئلہ نہیں.... مولوی صاحب چلیں؟"

ابتسام نظروں کا زاویہ موڑتا انہیں دیکھنے لگا۔

"ہاں بیٹا... "

وہ اثبات میں سر ہلاتے دوسرے گواہ کے ہمراہ دروازے کی سمت بڑھ گئے۔


"اگر کوئی کام ہو تو فون کر دینا بس.... بندہ حاضر ہو جاےُ گا۔"

وہ اس کے کان میں سر گوشی کرنے لگا۔

"جانتا ہوں... "

فہد اثبات میں سر ہلاتا مسکرانے لگا۔


"اوکے ملتے ہیں پھر.... "

وہ ہاتھ ہلاتا آگے بڑھ گیا۔

"ایسی شکل کیوں بنا رکھی ہے؟"

وہ اس کی جانب چہرہ موڑتا ہوا بولا۔


"ڈر لگ رہا ہے.... پتہ نہیں آپ کے گھر والے کیا کریں گے یہ جاننے کے بعد۔"

وہ ہاتھ مسل رہی تھی۔

"جلاد نہیں ہیں وہ جو جان سے مار دیں گے.... "

وہ ہنستا ہوا بیٹھ گیا۔


رانیہ کے چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئیں۔

"تم اتنا مت سوچو.... "

وہ اس کا حونق زدہ چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

رانیہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

"کدھر ہے صاحبزادہ تمہارا؟"

یاسر بلوچ تنک کر بولے۔

"مجھے کیا معلوم.... اس دو کوڑی کی لڑکی کو لے کر چلا گیا ہے یہاں سے... "

وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔


"تمہاری لاپرواہی کے باعث ہوا ہے یہ سب... نظر رکھتی تو معلوم ہوتا چل کیا رہا ہے یہاں... "

وہ نفی میں سر ہلاتے تاسف سے بولے۔

"تو کیا آپ ڈر گئے ہیں اس کی اس حرکت سے؟"

وہ ششدر سی انہیں دیکھنے لگیں۔


"تمہیں لگتا ہے میں اس معمولی سی لڑکی سے ڈر جاؤں گا.... ڈھیل دے رہا ہوں تمہارے بیٹے کو شاید عقل آ جاےُ دو دن میں عشق کا بھوت اتر جاےُ گا تو واپس یہیں آےُ گا۔ صابر سے کہہ کر میں نے اس کا اکاؤنٹ بند کروا دیا یے۔ دیکھتے ہیں کتنے دن تک اس کا والٹ ساتھ نبھاتا ہے.... "

وہ اخبار کھولتے ہوئے طمانیت سے بولے۔


"اچھا.... میں بھی کہوں آپ اتنے پرسکون کیسے ہیں... "

وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔

"بہت دیکھے ہیں ایسے قصے,, دو چار دن کا شوق ہوتا ہے پھر سب سیٹ ہو جاتا ہے۔"

وہ محظوظ ہو رہے تھے۔


"صابر سے پوچھنا تھا ہمارے پوتے کو لے کر واپس کب آےُ گا؟"

وہ خفا انداز میں بولیں۔

"کہہ رہا تھا ایمان کی طبیعت سنبھل جاےُ تو کچھ دن میں آ جاےُ گا۔ تم شہر جا کر مل آنا اپنے پوتے سے۔"

وہ چشمہ اوپر کرتے انہیں دیکھنے لگے۔


"ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی.... کتنا وقت ہو گیا دیکھا نہیں اسے... "

وہ اداسی سے گویا ہوئیں۔

"ناشتہ کدھر رہ گیا ہے؟ مجھے کھیتوں میں جانا ہے...."


وہ گھڑی پر نظر ڈالتے خفگی سے بولے۔

"میں دیکھتی ہوں نازو کو پتہ نہیں کہاں مر گئی ہے.... "

وہ ہنکار بھر کر کہتی وہاں سے اٹھ گئیں۔

~~~~~~~~

"بھیا مجھے پاکستان جانا ہوگا... "

وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے چلے جانا... میں تمہارے واپس جانے کا بندوبست کرتا ہوں.... "

وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔


"مجھے دیر نہیں کرنی.... "

وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔

"سب سے پہلے ہمیں کاغذی نکاح کروانا ہوگا تاکہ ہم عائشہ کو تحفظ فراہم کر سکیں... اس کی حفاظت سب سے اہم ہے۔"

زبیر پر سوچ انداز میں بولا۔


"جی میں فون کر کے عائشہ کو بتاتا ہوں سب... "

وہ فون جیب سے نکالتا ہوا بولا۔

"پریشان مت ہونا سب سنبھال لیں گے ہم.... "

زبیر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔


"تھینک یو بھیا... "

عمر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

زبیر نے مصنوعی خفگی سے اسے دیکھا۔


"میں آتا ہوں... "

وہ معدوم سا مسکرا کر کھڑا ہو گیا۔

زبیر فون پر انگلیاں چلاتا نمبر ڈائل کرنے لگا۔


"جی وکیل صاحبہ! ایک کام ہے آپ سے..."

وہ بولتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔

~~~~~~~~

"کہاں مر گئی ہے تمہاری بیٹی؟"

وہ قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"اتنی دیر تو آج تک نہیں ہوئی.... پتہ نہیں کہاں رہ گئی آج۔"

وہ دروازے کی سمت دیکھتی ہوئی بولیں۔


"مجھے نہیں لگتا وہ آےُ گی.... خاک مل کر چلی گئی ہے میرے منہ پر۔"

وہ میز کو پاؤں مارتے ہوئے غراےُ۔


"آپ نے بھی تو حد ہی کر دی تھی... الله نبی کا واسطہ دیا تھا کہ یہ ظلم مت کریں جوان بچی پر۔ لیکن آپ نے کسی کی نہیں سنی.... "

وہ تاسف سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"مل جاےُ ایک بار مجھے دیکھنا کیا حشر کرتا ہوں.... "

وہ آگ بگولہ ہوتے گھر سے باہر نکل گئے۔


"الله کرے وہ آپ کو کبھی ملے ہی نہ.... میری بچی جہاں بھی ہو بس محفوظ ہو۔"

وہ دل ہی دل میں فدا حسین سے مخاطب تھیں۔

~~~~~~~~

"آپ کو لگتا ہے وہ مان جائیں گے؟"

رانیہ چاےُ کا مگ اس کے سامنے کرتی استفسار کرنے لگی۔

"کیوں نہیں مانیں گے؟ ان کو اپنا بیٹا بہت عزیز ہے۔ دیکھنا تم خود لینے آئیں گے مجھے... "

وہ مگ پکڑتا مسکرانے لگا۔


"آپ نے مجھے بتایا نہیں یہ گھر کس کا ہے؟"

وہ اردگرد نگاہ ڈالتی ہوئی بولی۔

"یار تم نے کیا کرنا ہے جان کر؟ جس کا بھی ہو ہم جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں۔"

وہ بغور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔


"لیکن پھر بھی... "

رانیہ کو ابھی بھی تجسس تھا۔

"اچھا یہ سب چھوڑو اور مجھے یہ بتاؤ کون کون سی چیز چائیے تمہیں؟"

اس نے یکسر موضوع تغیر کر دیا۔


"مجھے؟"

وہ پر سوچ انداز میں بولی۔

"ہاں ظاہر ہے... ہم دونوں کے علاوہ یہاں کوئی تیسرا ہے کیا؟"

وہ دھیرے سے ہنس دیا۔


"مجھے ایک دو سوٹ چائیے... گھر سے لے کر ہی نہیں آئی میں کچھ... "

بولی تو چہرے پر مایوسی در آئی۔


"ہاں تو میں کس لئے ہوں؟ اب سے تمہاری ہر چیز کی ذمہ داری میری ہے.... بلکہ ایسا کرتے ہیں تھوڑی دیر میں مارکیٹ چلتے ہیں تمہیں جو جو چائیے ہو لے لینا... "

وہ بائیں ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔


"ٹھیک ہے... "

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"ایک منٹ میں یہ کال سن کر آیا.... "


فون پر ابتسام کا نمبر دیکھ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

"خدا کرے ایسا ہی ہو جیسا فہد سوچ رہے ہیں... "

وہ سرد آہ بھرتی دل ہی دل میں گویا ہوئی۔

~~~~~~~~

"یہاں پر سائن کر دیں اور یہاں انگوٹھا لگا دیں... "

وہ انگلی رکھے بول رہی تھی۔

جیسے وہ کہتی جا رہی تھی عائشہ کرتی جا رہی تھی۔


"اب آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں... آپ کی حفاظت عمر کے ذمے ہے۔ کوئی بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.... "

وکیل صاحبہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لئے بولیں۔


عائشہ جبراً مسکرانے لگی۔

"اوکے میں چلتی ہوں اب... "

وہ فائل اٹھاتی کھڑی ہو گئی۔


اسے پانچ روز ہو چکے تھے اس دارالامان میں۔

عائشہ واپس کمرے میں آ گئی جہاں اور بھی لڑکیاں تھیں۔

اس نے اپنی ڈائری نکالی اور لکھنے شروع کر دیا۔


"عمر یہ لوگ مجھ سے بہت کام کرواتے ہیں... صبح صبح اٹھا کر فرش پر پوچا لگواتے ہیں میں نے تو کبھی یہ کام کئے بھی نہیں ہیں.... "

اسے لکھتے ہوئے رونا آ رہا تھا۔


"پتہ ہے یہاں کا کھانا بھی بہت گندا ہے۔ بلکل بھی دل نہیں کرتا کھانے کو۔ کچھ بھی اچھا نہیں ہے یہاں۔ بس جلدی سے آ جاؤ اور مجھے یہاں سے لے جاؤ۔"

وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی ڈائری بند کرنے لگی۔


"مجھے بس آپ کا انتظار ہے۔ یہاں ہر وقت ایک ڈر سا لگا رہتا ہے...."

وہ تنقیدی نظروں سے آس پاس دیکھ رہی تھی۔

"تم سے کوئی ملنے آیا ہے.... "

آواز پر وہ چونک کر اس لڑکی کو دیکھنے لگی۔


"مجھ سے؟"

اسے شبہ ہو رہا تھا۔

"ہاں تم سے... "

وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔


"کون ہے؟"

آنکھوں میں خوف تیرنے لگا تھا۔

"امی ہیں شاید تمہاری.... "

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔


"امی... "

عائشہ زیر لب دہراتی کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔

"عائشہ میری بچی.... تم ٹھیک ہو نہ؟"

وہ اسے گلے لگاتی ہوئی بولیں۔


"جی امی میں ٹھیک ہوں... "

وہ ان سے الگ ہوتی ہوئی بولی۔

"چلو واپس گھر چلتے ہیں... تمہارے ابو کو میں سمجھاؤں گی۔"

وہ نرمی سے کہنے لگیں۔


"کیا سمجھائیں گیں آپ ابو کو؟ وہ آپ کی سنتے ہی کہاں ہیں؟"

وہ زخمی سا مسکرائی۔

"میں بات کروں گی ان سے.... تم بس میرے ساتھ واپس چلو,, یہ ضد ختم کرو۔"

وہ خفا انداز میں بولیں۔


"سوری امی... لیکن میں واپس وہاں نہیں جا سکتی۔ عمر آ رہے ہیں اور مجھے اپنے گھر لے جائیں گے یہاں سے۔"

وہ سپاٹ انداز میں بول رہی تھی۔


"عائشہ میں تمہیں لینے آئی ہوں... "

انہوں نے اپنی سی کوشش کی۔

"امی یہ دیکھ رہی ییں؟"

وہ بازو پر بنا زخم دکھانے لگی۔


"اس سے زیادہ زخم میری روح پر لگے ہیں... میں کیسے وہاں واپس چلی جاؤں؟"

وہ سسکتے ہوےُ انہیں دیکھنے لگی۔

"ابو تو مجھے مارنا چاہتے ہیں نہ اسی لئے آپ کو بھیجا ہوگا یہاں... "

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


صبیحہ بیگم خاموش ہو گئیں۔

"میری خوشی کو آپ لوگوں نے میری سزا بنا دیا امی.... کیا کوئی اپنی سگی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے؟"

وہ اشک بہاتی پے دے پے سوال کرنے لگی۔


ان کے پاس عائشہ کے سوالوں کا کوئی جواب موجود نہ تھا سو خاموش رہیں۔

"معاف کر دیں مجھے.... لیکن میں ایک اچھی بیٹی نہیں بن سکی۔ میں ابو کی ضد کی خاطر خود کو ایک زندہ لاش نہیں بنا سکی کیونکہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ابو کی انا کی تسکین کی خاطر میں گھٹ گھٹ کے نہیں جی سکتی۔ سانس لینے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی جینے کا حق حاصل ہے۔"

وہ مدھم آواز میں کہتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔


صبیحہ بیگم نے ایک افسردہ نگاہ اس پر ڈالی اور واپس مڑ گئیں۔

وہ شاید ٹھیک کہہ رہی تھی اور ان کے پاس اس کو غلط ٹھکرانے کے لیے فلحال کوئی دلیل موجود نہ تھی۔

عائشہ آنکھیں رگڑتی اندر چلی گئی۔

~~~~~~~~

"کورٹ جانا ہے؟"

عائشہ اس کے ہمراہ چلتی ہوئی بولی۔

"جی ہاں.... "

وکیل صاحبہ اثبات میں سر ہلاتی تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔


ان کے اردگرد سیکورٹی گارڈ تھے۔

کورٹ پہنچے تو عائشہ کی نظر فدا حسین اور صبیحہ پر پڑی۔

وہ وہیں رک گئی۔


"گھبراؤ نہیں.... کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔"

وکیل صاحبہ اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔

عائشہ اثبات میں سر ہلاتی چلنے لگی۔


"مجھے اپنی بیوی سے بات کرنی ہے۔"

عائشہ بیان دینے کے لئے کھڑی تھی جب عمر کی آواز سنائی دی۔

اس نے گردن گھما کر اس سمت دیکھا۔


بلیک جینز کے ساتھ براؤن کلر کی شرٹ پہنے, بال کھڑے کر رکھے تھے, شیو بڑھی ہوئی تھی, وہ ہمیشہ کی مانند پرکشش معلوم ہو رہا تھا۔

عائشہ کے لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔


عمر چلتا ہوا اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔

"اجازت ہے.... "

جج بغور اسے دیکھتا ہوا بولا۔


"تم ٹھیک ہو نہ؟ کسی نے کچھ کیا تو نہیں؟"

چہرے پر پریشانی کی لکریں تھیں۔

عائشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


عمر نے عائشہ کا ہاتھ پکڑا اور بولنے کے لیے لب وا کئے۔

"یہ میری بیوی ہے.... اور میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔"

وہ بنا خوف و خطر گردن اکٹراےُ بول رہا تھا۔


"بیٹا آپ کس کے ساتھ جاؤ گی؟ اپنے ابو کے ساتھ یا پھر شوہر کے ساتھ؟"

جج صاحب کی آواز پھر سے گونجی۔


عائشہ نے ایک نظر فدا حسین پر ڈالی جو سرخ انگارہ بنی نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

دوسری نگاہ عائشہ نے عمر پر ڈالی جو اس کے ہمراہ ڈھال بنا کھڑا تھا۔


"اپنے شوہر کے ساتھ... "

وہ جج کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک ہے ہم آپ کو سیکورٹی دیں گے...."

جج صاحب کاغذ پر کچھ نوٹ کرتے ہوئے بولے۔


عمر عائشہ کا ہاتھ پکڑے اسی طرح باہر نکل آیا۔

باہر اس کے دوست کزن سب موجود تھے۔

"گاڑی میں بیٹھو... "

عمر نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔


فدا حسین لمبے لمبے ڈگ بھرتے باہر نکلے۔

انہوں نے زمین سے پتھر اٹھاےُ اور ان دونوں پر مارنے شروع کر دئیے۔


عائشہ کے ساتھ ہی عمر بھی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔

لیکن وہ اپنے طیش میں پتھر مارتے جا رہے تھے جو گاڑی کو لگ رہے تھے۔


"گھبراؤ نہیں.... اب میں آ گیا ہوں۔"

عمر عائشہ کا حونق زدہ چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

"آپ کے آنے سے تو مجھے تسلی ہوئی ہے۔"

آنکھیں پھر نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


"رونا مت.... بہت رو لیا اب بس.... اب یہ آنسو نہیں آنے چائیے تمہاری آنکھوں میں۔"

وہ دھیرے دھیرے سرگوشیاں کر رہا تھا۔


عائشہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔

عمر اس سے نظر ہٹاتا باہر دیکھنے لگا۔

دائیں بائیں ان کی اپنی ہی گاڑیاں تھا۔

وہ مطمئن سا ہو گیا۔

~~~~~~~~

"میرا اکاؤنٹ کیسے بند ہو گیا؟"

وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔

"عجیب بات ہے... "

وہ کہتا ہوا ٹہلنے لگا۔


"ہیلو ابتسام؟"

وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔

"یار میرا اکاؤنٹ بند ہو گیا ہے... "

وہ جھنجھلا کر بولا۔


"تیرے ابا کا کام ہوگا... "

وہ طمانیت سے بولا۔

فہد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔


"یہ تو سوچا نہیں میں نے... "

وہ سر پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔

"ہاں تیرے پاس اتنی عقل کہاں سے... "

وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔


فہد نے دانت پیستے ہوےُ فون بند کر دیا۔

"اچھا تو اب یہ حل نکالا ہے آپ لوگوں نے... "

وہ اثبات میں سر ہلاتا گاڑی کی چابیاں ڈھونڈنے لگا۔


"حد ہوتی ہے.... "

وہ برہمی سے کہتا چابی لئے باہر نکل آیا۔

"رانیہ میں حویلی جا رہا ہوں.... دو گھنٹے شاید لگ جائیں..."

وہ اونچی آواز میں کہتا چلنے لگا۔


"اچھا میں کھانا ریڈی رکھوں گی.... "

وہ کچن سے باہر نکلتی ہوئی بولی۔

"ٹھیک ہے.... "

وہ ہاتھ ہلاتا باہر نکل گیا۔


رانیہ چند لمحے دروازے کو دیکھتی رہی۔

"حویلی.... "

اس نے زیر لب دہرایا۔

"گھر سے کسی نے بلایا ہے کیا؟"

وہ واپس کچن میں آتی سوچنے لگی۔


"پتہ نہیں کیا کہنا ہوگا... کیا وہ راضی ہو گئے ہوں گے؟"

دماغ میں ہزاروں سوال جنم لے رہے تھے۔

"پتہ نہیں کس کام سے گئے ہیں... اگر فہد واپس نہ آےُ...."

اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔


"نہیں... ایسا نہیں کریں گے فہد میرے ساتھ۔"

وہ نفی میں سر ہلاتی گوشت اٹھانے لگی۔

"کوئی اور کام ہوگا.... ہو سکتا ہے ابتسام نے بلایا ہو۔"

وہ خود کو مطمئن کرتی کام کرنے لگی۔


"یہ کیا فضول حرکت ہے؟"

وہ اندر آتا حلق کے بل چلایا۔

"تمیز سے بات کرو تمہارا باپ ہوں میں...."

یاسر بلوچ طیش کے عالم میں چلاےُ۔


"باپ ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیسے بند کر دیں آپ... "

وہ چبا چبا کر کہتا ان کے سامنے آ گیا۔

یاسر بلوچ نے اخبار رکھا اور کھڑے ہو گئے۔


"تم کما کر دیتے ہو ہمیں؟"

وہ پر سکون انداز میں اسے دیکھ رہے تھے۔

"میرا اکاؤنٹ بند کرنے کا کیا مطلب ہے.... "

وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔


"یہی کہ خود کماؤ اور اپنی بیوی کو کھلاؤ....ہم نے ساری زندگی کا ٹھیکا نہیں لے رکھا۔"

وہ طمانیت سے کہتے پھر سے بیٹھ گئے۔


"اس سے گھٹیا حرکت نہیں ملی تھی آپ کو؟"

وہ مٹھیاں بھینچ کر بولا۔

"فہد زبان سنبھال کر بولو.... "

طلعت بیگم نے مداخلت کی۔


"اوہ پلیز.... اب آپ بیچ میں مت آئیں...."

وہ اکتا کر بولا۔

"مزاج دیکھ لو اپنے صاحبزادے کے.... اس دو کوڑی کی لڑکی کے لیے کیسے بات کر رہا ہے ہم سے... "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے طلعت کو دیکھ رہے تھے۔


"بلکل ٹھیک کیا ہے تمہارے ابو نے.... اگر اس لڑکی کے ساتھ رہنا ہے تو جاؤ کام کرو..... کماؤ اور کھاؤ دونوں... "

وہ اس کے عین مقابل آ کھڑی ہوئیں۔


"یہ زمینیں میرے دادا کی ہیں... آپ کی نہیں۔"

وہ یاسر بلوچ کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔

"جاؤ میں تمہیں عاق کرتا ہوں....اور یہ گاڑی یہیں چھوڑ کر جانا۔"

وہ اخبار اٹھاتے ہوئے بولے۔


فہد کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو گیا۔

"آپ مجھے عاق کر رہے ہیں؟"

وہ شاک کی کیفیت میں تھا۔


"ہاں بلکل.... ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی تمہیں.... تمہارے دادا کی زمینیں ہیں لیکن میرے نام ہیں اس لئے کچھ نہیں کر سکتے تم۔"

وہ تمسخرانہ انداز میں بولے۔


"ابو یہ بہت غلط ہے... "

وہ احتجاجاً بولا۔

"کیا صحیح ہے اب یہ تم مجھے بتاؤ گے؟"

وہ آگ بگولہ ہو گئے۔

فہد دانت پیس کر رہ گیا۔


"اب جاؤ یہاں سے.... تمہاری طرح آوارہ نہیں ہیں ہم سب۔"

وہ نخوت سے بولے۔

فہد اثبات میں سر ہلاتا دونوں کو دیکھنے لگا۔


"اگر اس نیچ لڑکی کو طلاق دے دو تو یہ جائیداد, گاڑی سب مل سکتا ہے تمہیں... "

فہد کو جاتے دیکھ کر وہ بولے۔


"اپنے پاس ہی رکھیں یہ سب... "

وہ حقارت سے کہتا تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔

~~~~~~~~

"پتہ نہیں عمر کے گھر والے کیسے ہوں گے؟"

عائشہ ہاتھ مسلتی سوچ رہی تھی۔

"اگر اس طرح انہوں نے مجھے قبول نہ کیا پھر؟...."


وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

اب ایک نئی فکر میں گھر چکی تھی وہ۔

عمر فون کان سے لگاےُ محو گفتگو تھا۔


"اب آگے پتہ نہیں کیا ہوگا.... "

وہ تشویش سے کہتی باہر دیکھنے لگی۔

گاڑی تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

شہر سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قصبہ تھا۔

"گھر آ گیا.... "

عمر مسکراتا ہوا گویا ہوا۔

وہ دروازہ کھولے کھڑا تھا۔


عائشہ جھجھکتے ہوےُ باہر نکل آئی۔

نسیم بی بی آگے بڑھ کر تپاک سے ملیں۔

وہ دونوں کو ڈھیروں دعائیں دیتی اندر ہال میں لے آئیں۔


عمر کی دونوں بہنیں بھی وہیں موجود تھیں۔

عائشہ باری باری سب سے مل رہی تھی۔

"جاؤ عمر تم فریش ہو جاؤ... پھر شام میں نکاح کی تقریب ہے۔"

نسیم اس کے سر پر ہاتھ رکھتی نرمی سے بولیں۔


"جی ٹھیک ہے.... "

وہ اثبات میں سر ہلاتا کھڑا ہو گیا۔

جاتے جاتے ایک نظر عائشہ پر ڈالنا وہ نہیں بھولا تھا۔


"تم بھی تھک گئی ہو گی... سب کچھ تھا ہی اتنا عجیب سا.... نور اسے کمرے میں لے جاؤ آرام کر لے۔"

وہ اپنائیت سے بول رہی تھیں۔

عائشہ خاموشی سے نور کے ہمراہ چل دی۔

~~~~~~~~

"کہاں رہ گئے تھے آپ؟"

رانیہ اسے دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کہیں نہیں... "

نہایت بے رخی سے جواب آیا۔


"آپ کو پتہ ہے میں کتنا ڈر گئی تھی.... "

وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔

"مر نہیں گیا تھا میں... "

وہ جل کر بولا۔


رانیہ ایک لحظہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔

"اب ایسے مت دیکھو مجھے... "

وہ گردن گھما کر اسے دیکھنے لگا۔


"آپ ایسے بات کیوں کر رہے ہیں مجھ سے؟"

وہ دھیرے سے منمنائی۔

آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔


"آؤ بتاتا ہوں... "

وہ کہتا ہوا زینے چڑھنے لگا۔

رانیہ میکانکی انداز میں اس کے عقب میں چلنے لگی۔

~~~~~~~~

"اٹھ گئی تم؟"

نور مسکراتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔

"مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی.... "

عائشہ نادم سی ہو گئی۔


"تمہارا اپنا گھر ہے جو دل کرے وہ کرو۔"

وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

عائشہ دونوں ہاتھوں سے بال سمیٹنے لگی۔


"تم چینج کر لو... پھر میں تمہیں تیار کر دوں گی۔"

وہ اس کے سامنے سرخ عروسی لباس لہراتی ہوئی بولی۔

عائشہ کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔

آنکھیں جھلملانے لگیں۔


"کیا ہوا پسند نہیں آیا؟"

وہ اسے خاموش پا کر گویا ہوئی۔

"نہیں نہیں... ایسی بات نہیں ہے۔ بہت پیارا ہے یہ.... "

وہ جوڑے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔


"امی نے پسند کیا ہے... "

نور مسرت سے چہکی۔

"بہت خوبصورت ہے.... "

عائشہ کی آنکھوں میں ستائش تھی۔


"اب تم چینج کرو.... پھر نکاح کا ٹائم ہو جاےُ گا۔"

وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔

چند لمحے بنے پلک جھپکے وہ یونہی اس سرخ جوڑے کو دیکھتی رہی۔


"کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی... "

اس نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔

"نہیں... یہ کوئی خواب نہیں.... ایسا سوچنا بھی نہیں۔"

اس نے خود کو سرزنش کی۔


"عمر صبیحہ کو تم نے مدعو کیا ہے؟"

وہ اسے سائیڈ پر لے جا کر بولیں۔

"جی امی.... آپ انہیں کمرے میں ٹھہرا دیں۔"

وہ سر کو خم دے کر کسی کے سلام کا جواب دیتا ہوا بولا۔


"اچھا ٹھیک ہے.... لیکن اگر کوئی مسئلہ ہو گیا پھر؟"

وہ پریشان تھیں۔

"کچھ نہیں ہوگا....سارے انتظامات میں دیکھ چکا ہوں۔"

وہ مسکراتا ہوا بولا۔


"آپ پریشان مت ہوں۔"

وہ انہیں شانوں سے پکڑتا ہوا بولا۔

"تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے.... "


وہ اثبات میں سر ہلاتی چل دیں۔

صبیحہ بیگم نقاب میں تھیں جس کے باعث کسی کو علم نہ ہو سکا ان کی آمد کا۔

~~~~~~~~

"السلام علیکم!"

عمر سلام کرتا اندر آیا۔

"وعلیکم السلام!"

صبیحہ کہتی ہوئیں اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔


عمر کے عقب میں عائشہ کھڑی تھی,سرخ عروسی لباس پہنے۔

ہونٹ ریڈ لپ اسٹک سے پوشیدہ تھے, بال ایک طرف آگے کو ڈال رکھے تھے, بندیا پیشانی کی زینت بنی ہوئی تھی, ہاتھ مہندی سے سجے ہوئے تھے۔گھنی پلکوں کی چادر جھکی ہوئی تھی۔اس ہلکی پھلکی تیاری سے ہی وہ غضب ڈھا رہی تھی۔


صبیحہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

اس عروسی لباس میں اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔

"ہمیں معاف کر دیں...."

عمر ان کے پاؤں پکڑے بول رہا تھا۔

صبیحہ ششدر سی کبھی عمر کو دیکھتی تو کبھی عائشہ کو۔


"اگر انکل ہمیں مجبور نہ کرتے تو ہم یہ قدم کبھی نہ اٹھاتے.... ہو سکے تو اس کے لئے ہم دونوں کو معاف کر دیں لیکن ہم نے بہت مجبور ہو کر یہ قدم اٹھایا۔"


اس سے قبل کہ وہ مزید کچھ بولتا صبیحہ بیگم نے اسے شانوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

"بیٹا یہ کیا کر رہے ہو؟"

وہ دھیرے سے گویا ہوئیں۔


"میں جانتا ہوں ہم نے بہت دل دکھایا ہے آپ کا... لیکن جیسے حالات تھے یہ ناگزیر تھا۔"

وہ سر جھکاےُ ہوےُ تھا۔


"نہیں... میں بہت خوش ہوں عائشہ کو تمہارے ساتھ دیکھ کر.... میری دلی خواہش بھی یہی تھی وہ تو اس کے ابو کی وجہ سے۔"

انہوں نے اشک بہاتے ہونے بات ادھوری چھوڑ دی۔


"امی.... "

عائشہ آگے بڑھ کر ان کے گلے سے لگ گئی۔

"مجھے کوئی شکایت نہیں تم سے.... تم نے جو کیا بلکل ٹھیک ہے۔ وہ اختر تمہارے قابل نہیں تھا۔ میری دعائیں تم دونوں کے ساتھ ہیں۔"

وہ عائشہ کے سر پر بوسہ دیتی ہوئی بولیں۔


"بہت شکریہ امی... بہت شکریہ آپ کا۔"

سیاہ آنکھوں سے موتی ٹوٹنے لگے۔

"آج نہیں رونا میری بیٹی نے۔"

صبیحہ اس کے گال پر گرے آنسو صاف کرتی ہوئی بولیں۔

عائشہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔


"نکاح کا وقت ہو گیا ہے... "

نسیم دروازہ ناک کرتی اندر آ گئی۔

"جی امی... اویس کو پوچھیں مولوی صاحب کہاں ہیں۔"

عمر آنکھیں صاف کرتا ان کی جانب گھوما۔


"میں پوچھتی ہوں اویس سے... "

وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئیں۔

"نکاح تو ہو نہیں گیا تھا پہلے ہی؟"

صبیحہ دونوں کا چہرہ دیکھنے لگیں۔


"وہ کاغذی نکاح تھا عائشہ کو تحفظ دینے کے لیے۔ آئیں آپ بیٹھیں۔"

وہ ہاتھ سے صوفے کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا۔

صبیحہ اثبات میں سر ہلاتی بیٹھ گئی۔


مولوی صاحب بھی آ گئے نکاح شروع ہوا۔

عائشہ صبیحہ بیگم کے ہمراہ بیٹھی تھی۔ کمرے میں گواہوں کے علاوہ اویس,طفیل صاحب اور نسیم بیگم موجود تھیں۔


عائشہ کی آنکھیں نم تھیں۔

اتنے دکھ سہنے کے بعد آخر اسے خوشی سے نواز دیا گیا تھا۔

"الله تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے...."

وہ دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔


"اب میں چلتی ہوں.... "

وہ عائشہ کو دیکھتی ہوئی بولیں۔

"امی ابھی تو.... "

"تمہارے ابو سے جھوٹ بول کر آئیں ہوں اس لئے رک نہیں سکتی مزید.... "

وہ اسے سینے سے لگاتے ہوےُ بولیں۔

~~~~~~~~~

"مل آئی ہو اپنی بہن سے؟"

وہ تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔

"جی...."

صبیحہ بیگم برقع اتارنے لگی۔


"ایک دفعہ میرے ہاتھ لگ جائیں یہ دونوں دیکھنا اپنے ہاتھوں سے گولی ماروں گا دونوں کو۔"

وہ کوفت زدہ سے کہتے ٹہلنے لگے۔


"اب تو چھوڑ دیں یہ سب باتیں... "

وہ چور نگاہوں سے انہی. دیکھ رہی تھیں۔

"ایسے کیسے چھوڑ دوں؟ میری مرضی کے خلاف گئے ہیں وہ دونوں.... خوش تو میں بھی نہیں رہنے دوں گا اسے۔ تم دیکھتی جانا میں کرتا کیا ہوں ان کے ساتھ۔"

وہ آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولے۔


"میں کھانا گرم کرتی ہوں۔"

وہ انہیں دیکھتی سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔

"یہ کام اگر پہلے ہی کر دیتا تو آج یہ نوبت نہ آئی.... اس عمر کو زندہ رکھ کر بہت بڑی غلطی کر دی میں نے۔"


وہ تاسف سے کہتے خود کلامی کر رہے تھے۔

صبیحہ نفی میں سر ہلاتی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~

عمر نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھا۔

کمرہ پھولوں کی خوشبو سے معطر تھا۔

وہ دروازہ بند کرتا عائشہ کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتا اس جانب بڑھنے لگا۔


لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ رینگ گئی۔

عمر اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔

دونوں جانب سے مکمل خاموشی تھی۔

عمر نے اس کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔


سونے سے بنی نفیس سی بریسلٹ کو اس کے بازو کی زینت بنا دیا۔

عائشہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

آنکھوں میں خوشی کی رمق تھی۔


"بہت خوبصورت ہے.... "

وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئی۔

"ہاں لیکن تم سے زیادہ نہیں... "

وہ اس کی ناک دباتا ہوا بولا۔


عائشہ کا چہرہ کھل اٹھا۔

"اب تم پوری رات ایسے ہی میرے سامنے بیٹھی رہو گی۔ اور میں تمہیں دیکھتا رہوں گا۔"

وہ تکیے سے ٹیک لگاتا شریر لہجے میں گویا ہوا۔


"پوری رات؟"

عائشہ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

عمر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"میں تھکی ہوئی ہوں.... مجھ سے نہیں بیٹھا جاےُ گا۔"

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"بیٹھنا تو پڑے گا۔"

وہ محظوظ ہو رہا تھا۔

"عمر...."

اس نے خفگی سے دیکھا۔


"میں چینج کرنے جا رہی ہوں... "

وہ گھورتی ہوئی بولی۔

"ابھی تو میں نے تمہیں دیکھا بھی نہیں ہے۔"

وہ سیدھا ہوتا اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔


"نہیں دیکھا؟"

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہی تھی۔

عمر نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔


عائشہ کے کان کی لو تک سرخ ہو گئی۔

"امیزنگ.... "

وہ اس کے چہرے پر بکھرے رنگ دیکھتا ہوا بولا۔

~~~~~~~~

"پھر اب کیا ہو گا؟"

وہ متوحش سی اسے دیکھ رہی تھی۔

"گاڑی نہیں لے کر آیا اسی لئے اتنی دیر ہوئی.... "

وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔


"فہد اب کیا کریں گے ہم؟"

وہ اس کی بازو ہلاتی ہوئی بولی۔

"مجھے کیا معلوم کیا کریں گے... "

وہ برہمی سے گویا ہوا۔


رانیہ لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی۔

"آپ کہیں تو میں یہاں کسی کے گھر میں کام کرنا شروع کر دوں؟"

اس نے اپنے طور پر حل پیش کیا۔


"بکواس بند رکھو اپنی.... "

وہ سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔

"نہیں... میں کسی سکول میں پڑھا سکتی ہوں۔ گریجویشن تو پورا ہو گیا تھا میرا۔"

یک دم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔


"رانیہ ان سب سے صرف ضروریات پوری ہوں گی,, زندگی نہیں چل سکتی۔"

وہ تحمل سے بولا۔

"میں نے تو پہلے بھی ضروریات ہی پوری کیں ہیں... تو اب بھی ایسا کرنے میں کوئی دقت نہیں۔"

وہ دھیرے سے بولی۔


"تم کر سکتی ہو لیکن میں نہیں کر سکتا... تم سمجھ کیوں نہیں رہی؟"

وہ تنگ آ کر بولا۔

"سوری... "

اس نے سر جھکا لیا۔


"پلیز مجھے ابھی تنگ مت کرو.... جاؤ مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے۔"

وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔

رانیہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔


"جاؤ یار.... "

اب کی بار آواز قدرے بلند تھی۔

رانیہ گھبرا کر وہاں سے اٹھ گئی۔

"تو مطلب یہ خواب اب ٹوٹنے والا ہے.... "

وہ آنکھوں میں نمی لئے باہر نکل آئی۔


"مجھے ابھی سے خود کو تیار کر لینا چائیے تاکہ جس دن فہد یہ فیصلہ لیں زیادہ تکلیف نہ ہو۔"

وہ خود کلامی کرتی قدم اٹھا رہی تھی۔

"کیسے کیسے لوگ ہیں نہ اس دنیا میں..."

وہ ٹیرس پر آ چکی تھی۔


رات پوری طرح اپنے پر پھیلا چکی تھی۔

وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے اس سیاہ چادر کو دیکھ رہی تھی جن پر دور دور ستارے ٹمٹما رہے تھے۔


"ہم بھی ایسے ہی دور ہو جائیں گے.... اتنے دور کہ پھر فاصلے ختم نہ ہوں گے۔"

دو موتی ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے۔

رانیہ نے آنکھیں بند کر لیں۔


وہ سرد آہ بھرتی اپنے ہاتھ دیکھنے لگی۔

"زندگی کیسے کیسے امتحان لیتی ہے نہ.... "

وہ اشک بہاتی مسکرانے لگی۔


"مجھے بہت ہمت سے کام لینا ہوگا.... بہت ہمت سے... "

وہ خود کلامی کرتی کرسی پر بیٹھ گئی۔

~~~~~~~~

"بھائی صاحب میں تو آج بھی عائشہ کا رشتہ لینے پر آمادہ ہوں.... آپ اسے لے آئیں میں اسے اپنی بہو بنا لوں گی۔"

وہ مسکراتی ہوئی بولی۔

"سکھ سے تو نہیں رہنے دوں گا اسے.... لے کر آؤں گا واپس۔"

وہ پر سوچ انداز میں بولے۔


صبیحہ ناگواری سے زکیہ کو دیکھ رہی تھی۔

"عائشہ کی شادی ہو چکی ہے وہ اپنے سسرال میں ہے تو پھر تم کیوں بار بار یہ بات دہراتی ہو؟"

وہ نا پسندیدگی سے دیکھ رہی تھیں۔


"میں تو اس کے بھلے کی بات کرتی ہوں... کہیں ملے گی تمہیں ایسی بہن کہ ابھی بھی وہ واپس آ جاےُ تو میں اسے عزت سے اپنے گھر لے جاؤں گی۔"

وہ تفاخر سے بولیں۔


"اب یہ باتیں رہنے ہی دو تو بہتر ہے.... "

صبیحہ کو ان کی باتیں ناگوار گزر رہی تھیں۔

"کہنے کو تو تم میری بہن ہو لیکن یہاں بڑی بے مروت ثابت ہوئی ہو۔"

فدا حسین کمرے سے باہر جا چکے تھے۔


"زکیہ مجھے سمجھ نہیں آتا آخر ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟ عائشہ کے ابو پہلے ہی غصے میں رہتے ہیں اور تم ان کے غصے کو مزید ہوا دے رہی ہو.... "

وہ تاسف سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"لو تم کہتی ہو تو میں چپ.... نہیں کہتی بھئی کچھ بھی۔ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔"

وہ منہ بناتی ہوئی چاےُ پینے لگی۔

~~~~~~~~

"کیا ہوا کس سوچ میں گم ہے؟"

ابتسام گزشتہ پندرہ منٹ سے اس کے بولنے کا منتظر تھا۔

"یار.....میں سوچ رہا ہوں.... رانیہ کو چھوڑ دوں.... "

وہ پر سوچ انداز میں بولا۔


"کچھ زیادہ ہی جلدی یہ بات سمجھ نہیں آ گئی تجھے.... "

وہ یکدم غصے میں آ گیا۔

"جب میں پہلے بکواس کرتا تھا کہ یہ سب کسی کام کا نہیں تب جناب پر عشق کا بھوت سوار تھا... اب چند دنوں میں اتر گیا یہ بھوت؟"

وہ آگے کو ہوتا برہمی سے گویا ہوا۔


"یار تو خود دیکھ ابو نے کیسی فضول سی شرط رکھ دی ہے۔ صابر بھائی سے بھی بات کی ہے میں نے وہ بھی ایک پھوڑی کوڑی دینے کو تیار نہیں... ایسے ہوتے ہیں بڑے بھائی.... "

وہ ہنکار بھرتا سیگرٹ سلگانے لگا۔


"تو جاب کر لے کوئی... کیا حرج ہے اس میں؟"

وہ سیگرٹ کی ڈبی کھولتا ہوا بولا۔

"ہونہہ.... فہد بلوچ اب لوگوں کے آفس میں جا کر دھکے کھاےُ گا؟"

وہ کش لیتا نخوت سے بولا۔


"تو یہ بات پہلے کیوں نہیں سوچی؟"

وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"اور جاب دے گا کون مجھے؟ گیا تھا میں ایک دن لیکن کوئی فائدہ نہیں یہ دس پندرہ ہزار سے میرا کیا بنے گا؟"

وہ کوفت سے بولا۔


"ہاں پاس تو ہو نہیں سکا تھا جاب کون دے گا تجھے.... "

ابتسام کے چہرے پر ناگواری در آئی۔

"پتہ نہیں کس مصیبت میں ڈال دیا ہے ابو نے... "

وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتا ہوا بولا۔


"یہ مصیبت تیری اپنی پالی ہوئی ہے... دوسروں کے سر پر مت تھوپ اسے۔"

وہ سخت خفا دکھائی دے رہا تھا۔

"ہاں تو اب کیا کروں؟ سر پھاڑ لوں اپنا..... "

وہ تنگ آ چکا تھا۔


"نہ بیٹا اینجواےُ کر.... "

وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتا کھڑا ہو گیا۔

"کدھر؟"

فہد چہرہ اوپر کرتا اسے دیکھنے لگا۔


"ابو نے ڈی سی او سے ملنے کا کہا تھا... ٹائم ہو رہا ہے۔"

وہ بائیں ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔

"تو تھوڑا جلدی آ جاتا... "

وہ خفا انداز میں بولا۔


"مجھے کیا معلوم تھا تیرے پاس اتنے دکھ جمع ہوں گے... اور یہ رکھ اپنے پاس۔"

وہ والٹ سے کچھ نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھتا ہوا بولا۔


"کتنے دن نکل جائیں گے اس سے.... "

وہ تمسخرانہ انداز میں بولا۔

"لا دے واپس کر دے.... "

ابتسام کو اس پر مزید غصہ آنے لگا۔


"لے لینا واپس.... میرا اکاؤنٹ اوپن ہو جاےُ پھر... "

وہ جیب میں رکھتا طمانیت سے بولا۔


"صحیح بات ہے ویسے تیرے نزدیک بھی رانیہ کی ذرا اہمیت نہیں,,, ورنہ یہ فیصلہ اتنی آسانی سے نہ لیتا تو.... "

وہ تاسف سے کہتا باہر نکل گیا۔

ابتسام خود تو جا چکا تھا لیکن فہد کو گہری سوچ میں ڈال گیا تھا۔


وہ شش و پنج میں مبتلا تھا۔

"کیا کروں میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا...."

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا جھنجھلا کر بولا۔

~~~~~~~~

عائشہ نے کمرے کا دروازہ کھولا تو پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"عمر کہاں گئے؟"

وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔


"جب میں امی کے پاس گئی تب تو کمرے میں ہی تھے.... "

وہ ہال میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔

"فون کرتی ہوں... "

یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔


"فون بند ہے... "

وہ متحیر سی فون کی اسکرین دیکھنے لگی۔

"طلحہ تم نے اپنے بھیا کو دیکھا ہے؟"

وہ صحن میں آتی استفسار کرنے لگی۔


"نہیں بھابھی... "

وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

"بنا بتاےُ کہاں چلے گئے؟"

وہ متفکر سی بولی۔


"ایسا کرتے تو نہیں ہیں پھر آج اچانک کہاں غائب ہو گئے؟"

وہ گیٹ سے باہر دیکھتی ہوئی مدھم آواز میں بولی۔

گھڑی کی سوئی چلتی جا رہی تھی اور عائشہ کی پریشانی میں اضافہ کرتی جا رہی تھی۔

"عمر کہاں چلے گئے ہیں آپ؟"

وہ بس رو دینے کو تھی۔

"الله کرے آپ ٹھیک ہوں,, پتہ نہیں کیوں برے برے خیال آ رہے ہیں۔"

وہ بلی کے جلے پیروں کی مانند اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی۔

"یہ غلط ہے میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا...."

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بول رہے تھے۔

"میں اسے ہرگز عمر کے حوالے نہیں کروں گا... "

فدا حسین دانت پیستے ہوےُ بولے۔


"ہم واپس جا رہے ہیں... گھر چل کر سوچتے ہیں۔"

وہ حتمی انداز میں بولے۔

"تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہا نفیس...."

وہ جھنجھلا کر بولے۔


"جو تم کر رہے ہو یہ اس سب کا حل نہیں ہے.... اور میں تمہیں یہ نہیں کرنے دوں گا۔"

وہ مڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔


"ہونہہ.... "

وہ ہنکار بھر کر چلنے لگے۔

عائشہ بھی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔

گاڑی واپس گھر کی جانب گامزن تھی۔


نفیس کے اس قدم سے عائشہ کی جان میں جان آئی۔ کوئی تو تھا جنہیں احساس تھا کہ کتنا غلط ہو رہا ہے اس کے ساتھ۔

وہ تھک چکی تھی سوچ سوچ کر, خوفزدہ ہو کر۔


عائشہ نے سر سیٹ کی ٹیک سے لگا کر آنکھیں موند لیں۔

سکون نام کی نعمت سے تو وہ محروم ہی ہو چکی تھی۔

ہے لمحے خدشہ ہی لگا رہتا تھا کچھ برا ہونے کا۔


"ابو آپ انہیں پھر واپس لے آےُ ہیں؟"

نادیہ ششدر سی انہیں دیکھ رہی تھی۔

"بیٹا تم نہیں جانتی فدا کیا کرنے جا رہا تھا.... "

وہ سرد آہ بھرتے ہوےُ بولے۔


"لیکن آپ یہ بھی تو سوچیں اگر انکل کے ساتھ ساتھ پولیس نے ہمیں بھی پکڑ لیا پھر؟ ان کو پناہ تو ہم نے دے رکھی ہے نہ.... "

وہ زور دے کر بولی۔


"بات تو تمہاری ٹھیک ہے... حماد کہاں ہے؟"

وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوےُ بولے۔

"پولیس کے جاتے ہی وہ بھی نکل گئے... بتا کر نہیں گئے۔"

وہ لاعلمی سے شانے اچکاتی ہوئی بولی۔


"تم فکر مت کرو میں کچھ کرتا ہوں... "

وہ اسے تسلی دیتے باہر آ گئے۔

"فدا میں تم لوگوں کو دو تین روز کے لئے کسی اور جگہ بھیج دیتا ہوں... وہاں تم محفوظ رہو گے۔"

وہ ان دونوں کے سامنے آتے ہوےُ بولے۔


"ٹھیک ہے.... "

فدا حسین اثبات میں سر ہلانے لگے۔

"لیکن تم دوبارہ ویسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گے... "

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔


"اس مسئلے کا حل ہم سب مل کر نکال لیں گے... ابھی فلحال تم لوگوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ درکار ہے۔"

وہ تحمل سے کہتے ہوےُ بیٹھ گئے۔


"ہاں ہاں ٹھیک ہے.... "

وہ اثبات میں سر ہلاتے کھڑے ہو گئے۔


عائشہ سر اونچا کئے اس جگہ کو دیکھنے لگی۔

چاروں سمت میں بلند و بالا پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔

ہریالی کا دور دور تک تعلق نہ تھا اس جگہ سے۔


سواےُ پہاڑوں کے کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔

وہ چلتے ہوےُ آگے آےُ تو تین چھوٹے چھوٹے مکان دکھائی دئیے۔

وہ دونوں سے ایک مکان میں داخل ہو گئے۔


مکان کے نام پر صرف ایک ہی کمرہ تھا نہ کوئی واش روم نہ باورچی خانہ۔

عائشہ وحشت زدہ سی اس جگہ کو دیکھ رہی تھی۔

"پتہ نہیں ابھی اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے... "


وہ کوفت سے کہتی ایک سائیڈ کو ہو گئی۔

فدا حسین پیشانی پر بل ڈالے فون کو گھور رہے تھے۔

"ابو یہ سب ختم کیوں نہیں کر دیتے آپ؟ اور کتنا ذلیل کریں گے مجھے اس حال میں۔"

وہ زمین پر بیٹھتی ہوئی خود کلامی کرنے لگی۔


"آپ کو بلکل ترس نہیں آتا اپنی اولاد پر... ذرا سا بھی نہیں۔ مجھے ذہنی مریض بنا رہے ہیں آپ ہر پل کچھ برا ہونے کا گمان لگا رہا تھا۔"

وہ سوں سوں کرتی ہوئی بول رہی تھی۔


یہ رات بہت بھاری ثابت ہونے والی تھی اس پر۔

آنکھوں میں خوف تیرتا دکھائی دے رہا تھا۔

گھر میں عجیب سی بدبو تھی۔جس کے باعث اس کے دماغ میں عجیب و غریب نوعیت کے خیالات آ رہے تھے۔


وہ شب آنکھوں میں گزار کر صبح کے انتظار میں تھی۔

آنکھوں کی پتلیاں سرخ ہو چکی تھی۔

آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں لیکن ایسی جگہ پر نیند کا آنا بھی ممکن نہیں تھا۔

~~~~~~~~

"کیا ہوا عمر؟"

وہ اسے آتا دیکھ کر کھڑی ہو گئیں۔


"وہاں سے بھی چلے گئے... "

وہ مدھم آواز میں کہتا بیٹھ گیا۔


"کہاں چلے گئے؟ عائشہ سے ملے نہیں؟"

وہ بے چینی سے استفسار کرنے لگیں۔


"نہیں امی... جب میں وہاں پہنچا پولیس کے ساتھ تو وہ فرار ہو چکے تھے۔کہاں گئے معلوم نہیں۔"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔


"اچھا تم ہمت رکھو... مل جائیں گے جلد ہی۔ میں چاےُ لاتی ہوں تمہارے لیے۔"

وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی کھڑی ہو گئی۔


عمر خاموش رہا۔

ان کے جاتے ہی اس نے جیب سے فون نکالا۔

عائشہ کی تصویر نکالی اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔


آنسو کب پلکوں کی باڑ کو پار کرتے اسکرین پر گرنے لگے اسے علم ہی نہ ہوا۔

"پتہ نہیں کس حال میں ہوگی تم.... "

وہ فون رکھ کر سر تھامتا ہوا بولا۔


"چار دن ہو گئے ہیں تمہیں گئے ہوےُ اور میں کچھ نہیں کر پا رہا.... "

وہ خود کو کوس رہا تھا۔


"خدا کرے تم خیریت سے ہو بس... "

وہ آنکھیں صاف کرتا ہوا بولا۔

وہ بے بس دکھائی دے رہا تھا۔


"یہ لو بیٹا... اور زیادہ سوچو مت الله سب ٹھیک کر دے گا۔"

وہ اسے کپ دیتی ہوئی بولیں۔


"اویس سو گیا؟"

وہ کپ کو گھورتا ہوا بولا۔

"ہاں دوائی لے کر سو گیا ہے... "

وہ کہتی ہوئی بیٹھ گئیں۔


"بھیا کی کال... میں آتا ہوں۔"

وہ فون کو دیکھتا کھڑا ہوا۔

"ہاں تم کر لو بات... "

وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں۔


عمر فون کان سے لگاتا وہاں سے چل دیا۔

اس گھر کے ہر فرد پر سکون کی نیند حرام ہو چکی تھی۔

نسیم گھڑی پر نظر ڈالتی وضو کرنے چل دیں۔

~~~~~~~~

سورج کی نرم کرنیں اندر آنے لگیں تو عائشہ کو تسلی ہوئی۔

فدا حسین فون کان سے لگاتے اٹھ کھڑے ہوےُ۔


"ابرار میری بات مانو تم یہاں آؤ اور ہم کوئٹہ نکل جاتے ہیں۔ رات بھی تمہیں یہی سمجھایا ہے۔ یہاں سے نکلنا ہی بہتر ہے۔"

وہ رازداری سے بول رہے تھے۔

ان کا خیال تھا عائشہ سو رہی ہے۔


"باقی سب کی فکر مت کرو.... تم بس یہاں پہنچو اور ہم نکلیں یہاں سے۔ جو بھی کرنا ہے میں خود اپنی مرضی سے کروں گا۔"

وہ خفا انداز میں بولے۔


"نہیں.. میں نے نفیس کو کچھ نہیں بتایا اور اسے خبر ہونے بھی نہیں چائیے میں اسے آگاہ کئے بغیر جانا چاہتا ہوں یہاں سے۔ اب بس تم جلدی سے آؤ۔"

وہ کوفت سے کہتے فون بند کر گئے۔


عائشہ دم سادھے انہیں دیکھنے لگی۔

"یا الله مجھے بچا لے.... مجھے میرے گھر واپس بھیج دے۔"

وہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے دعا کرنے لگی۔


"اس آزمائش کو ختم کر دے۔"

آواز اتنی مدھم تھی کہ فدا حسین کے لئے سننا ممکن نہ تھا۔

~~~~~~~~ا۔

"اب کیا ہوگا؟عمر کو فون نہ کرتی تو واپس کیسے جاتی؟ اور اب عمر اگر آ گئے تو ابو...."

وہ دل ہی دل میں کہتی چپ ہو گئی۔


"میں آتی ہوں... "

شہناز کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔


"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا.... شاید مجھے فون نہیں کرنا چائیے تھا۔ لیکن منع کرنے کا اختیار ہی کہاں تھا میرے پاس... "

وہ خود کلامی کر رہی تھی۔


پریشانی گھٹنے کی بجاےُ بڑھ گئی تھی۔

"اب پتہ نہیں کیا ہوگا... "

وہ انگلی دانتوں تلے دباےُ پر سوچ انداز میں بولی۔


"اب عمر آےُ گا تو تم فیصلہ کر لینا تمہیں رشتہ چائیے یا چٹی.... "

فدا حسین واپس آ کر بیٹھے تو نفیس نے گفتگو کا آغاز کیا۔


بلوچی ثقافت کے مطابق اس طرح شادی کرنے کے بعد لڑکے والے یا تو رشتہ دیتے ہیں یا پھر چٹی(پیسے)۔


"مجھے چٹی پورے ایک کروڑ چائیے.... وہ پیسے میں کیس پر لگاؤں گا جو ان لوگوں نے مجھ پر کیا ہے‍۔"

وہ ہنکار بھرتے ہوےُ بولے۔


"ہاں ٹھیک ہے وہ آ جاےُ تو ہم بات کریں گے.... "

وہ اثبات میں سر ہلانے لگے۔

عائشہ بت بنی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔


"ہاں جمیلہ بولو؟"

فدا حسین فون کان سے لگاتے ہوےُ بولے۔


"میرے پاس ہی ہے کہاں ہونا ہے عائشہ نے.... "

وہ برہم ہوےُ۔

"بھائی صاحب کسی بھی شرط پر عائشہ کو واپس مت آنے دینا...."

وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔


"ہاں تو میں کہاں بھیج رہا ہوں.... اب واپسی ممکن بھی نہیں۔"

وہ عائشہ کو گھورتے ہوےُ بولے۔


"اگر عائشہ واپس چلی گئی تو یہ آپ کی توہین ہوگی... مطلب آپ عمر سے ہار گئے ہاےُ کتنی شرم کی بات ہوگی کہ اس کے سامنے اگر آپ گھٹنے ٹیک دیں۔"

وہ جلتی پر تیل کا کام کر رہی تھی۔


"ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا.... وہ ہارے گا تم دیکھنا کسی شرط پر بھی جیتنے نہیں دوں گا میں اسے۔"

وہ آگ بگولہ ہوتے فون بند کر گئے۔


"میں بھی دیکھتی ہوں نسیم آخر کیسے تمہارا گھر خوشحال رہتا ہے... "

وہ فون کو دیکھتی شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولی۔

~~~~~~~~

"بھیا اب بتائیں میں کیا کروں؟"

وہ فون کان سے لگاےُ ٹہل رہا تھا۔


"تم وہاں مت جاؤ.... یہ فدا حسین کی چال بھی ہو سکتی ہے۔ خطرے سے خالی نہیں یہ۔"

زبیر پرسوچ انداز میں بولے۔


"مجھے بھی شک گزر رہا ہے.... اب کیسے مان گئے اتنی آسانی سے۔"

وہ تشویش سے بولا۔


"مت جانا وہاں اور ان کے اگلے فون کا انتظار کرو... آخر کب تک چھپتے رہیں گے...."

وہ خفا انداز میں بولے۔


"جی بلکل.... کتنا بھاگ لیں گے آنا تو یہاں ہی ہے۔"

عمر کو کچھ ڈھارس ملی۔


"اچھا میں تمہیں تھوڑی دیر میں دوبارہ کال کرتا ہوں... ایک چھوٹا سا کام ہے۔"

وہ گھڑی پر نظر ڈالتے ہوےُ بولے۔


"جی ٹھیک ہے بھیا.... "

وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔


"بہت جلد تم یہاں پر ہوگی عائشہ دیکھنا تم بہت جلد.... "

وہ فون بند کرتا خود کلامی کرنے لگا۔


"تمہاری آواز سن کر کچھ تو تسلی ہوئی ہے کہ خیریت سے ہو۔"

وہ فون بیڈ پر اچھالتا جیب میں ہاتھ ڈالے ٹہلنے لگا۔

~~~~~~~~

"مجھے نہیں لگتا وہ عمر آنے والا ہے..... "

فدا حسین یہاں سے وہاں چکر لگا رہے تھے۔


"مجھے بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے.... "

نفیس پرسوچ انداز میں بولے۔


"اگر آنا ہوتا اس نے تو اسی دن آ جاتا... کچھ اور کرنا پڑے گا ہمیں... "

وہ کہتے ہوےُ ان کے ہمراہ بیٹھ گئے۔


"کیا مطلب تمہارا؟"

وہ دائیں آبرو اچکا کر بولے۔


"ایک منٹ.... "

وہ فون کو دیکھتے ہوئے بولے۔


"ہاں بولو زکیہ.... "

وہ فون کان سے لگاتے ہوےُ بولے۔


"بھائی صاحب آپ عائشہ کو اپنے ساتھ لے کر آئیں گے نہ؟"

وہ اپنا خدشہ دور کرنا چاہ رہی تھی۔


"ہاں ہاں تم کیوں پریشان ہوتی ہو.... اسے اپنے ساتھ ہی لے کر آؤں گا۔"

وہ ہنستے ہوےُ بولے۔


"مجھے تو بس یہی فکر کھاےُ جا رہی کہیں آپ اسے عمر کے حوالے نہ کر دیں... بھائی صاحب عامر کا کیا ہوگا؟ جو ابھی تک امید لگاےُ بیٹھا ہے؟"

وہ بیچارگی سے پوچھنے لگی۔


"اس عمر کو تو واپس نہیں کروں گا کبھی بھی نہیں... "

وہ دانت پیستے ہوےُ کسی اور ہی سوچ میں گم تھے۔


"بس آپ جلدی سے یہ معاملہ نمٹا کر آ جائیں اور میری امانت میرے سپرد کر دیں۔"

وہ مسکرانے لگی۔


"ہاں ہاں آئیں گے جلد ہی.... "

کہتے ساتھ ہی انہوں نے فون بند کر دیا۔


"ہم کورٹ جائیں گے اور عائشہ سے جھوٹا بیان دلوائیں گے تاکہ وہ کیس ختم ہو جاےُ... "

وہ فون رکھتے ہوےُ ناگواری سے بولے۔


"عائشہ کرے گی ایسا؟"

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔


"دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی.... "

وہ برہمی سے کہتے کھڑے ہو گئے۔


اس سے قبل کہ نفیس کچھ بولتے وہ کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

وہ سرد آہ بھر کر رہ گئے۔

~~~~~~~~

"مبارک ہو بھئی.... "

ابتسام اسے دیکھتا کھڑا ہو گیا۔

فہد نے مسجد سے نکلتے ہوےُ اس پر نگاہ ڈالی۔


"کس بات کی؟"

چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔


"تمہارا رشتہ پکا ہو گیا.... سنا ہے جلدی شادی کرنے کا ارادہ ہے۔"

وہ اسے گلے لگاتا ہوا بولا۔

"مجھ سے زیادہ خبر تو تمہارے پاس ہے۔"

وہ اس سے الگ ہوتا ہوا بولا۔


"تمہیں اس دنیا کی خبر ہو تب نہ... "

وہ منہ بناتا ہوا بولا۔


"ہاں نہیں ہے مجھے خبر اب اس دنیا کی.... "

وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔

"کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا ہے تجھ پر.... "

وہ کہے بنا رہ نہ سکا۔


"تو دوست ہے کہہ سکتا ہے.... تجھ سے زیادہ کون جانتا ہے مجھے؟"

وہ معدوم سا مسکرایا۔

ابتسام نے اس عرصے میں اسے پہلی بار مسکراتے دیکھا تھا۔


"داڑھی بھی بڑی ہو گئی ہے.... کتنے دن کا شوق ہے؟"

وہ ہنس رہا تھا۔

"جب تک معافی نہیں مل جاتی.... "

وہ سرد لہجے میں گویا ہوا۔


ابتسام خاموش ہو گیا۔

"کیا سچ میں تجھے اتنا پچھتاوا ہے؟"

وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔


"اتنا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.... "

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔

کچھ تھا اس کی آنکھوں میں کہ ابتسام نے نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔


"خیر الله تجھے کامیاب کرے... "

وہ سامنے دیکھتا چلنے لگا۔


فہد نے جواب میں کچھ نہ کہا۔

دونوں خاموشی سے حویلی کی جانب بڑھ رہے تھے۔

باقی کا سفر یونہی خاموشی کی نذر ہوا۔

~~~~~~~~

"میں ایسا نہیں کروں گی... میں کوئی جھوٹا بیان نہیں دوں گی۔"

وہ انہیں دیکھتی قطعیت سے بولی۔


"مجھے لگتا ہے تمہیں اپنے بچے سے بلکل پیار نہیں.... "

وہ چبا چبا کر کہتے اس کے سامنے آےُ۔

عائشہ سہم کر پیچھے ہو گئی۔


"کیا مطلب ہے آپ کا؟"

وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی سعی کر رہی تھی۔


"یہی کہ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں تمہارے بچے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا.... اور اسے ہرگز میری دھمکی مت سمجھنا۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔"

وہ مسکرا کر کہتے کمرے سے باہر نکل گئے۔


عائشہ آنکھوں میں پانی لئے دروازے کو دیکھنے لگی۔

"کیا بس یہی رہ گیا تھا دیکھنے کو؟"

وہ کرب سے آنکھیں میچ کر بولی۔


"اتنے سنگدل کیسے ہو سکتے ہیں آپ؟ مجھے تو دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا...."

ضبط کے باوجود اشک پلکوں کی باڑ توڑ کر رخسار پر آ گرے۔


"ہر روز کوئی نیا تماشہ..... جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے آپ میری؟"

وہ چہرے پر ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا۔


"عمر نے کہا تھا جیسے ابو کہتے ہیں ویسے کرتی جاؤ.... "

وہ چہرے سے ہاتھ ہٹاتی ہوئی دھیرے سے بڑبڑائی۔


"ابو کا کوئی اعتبار نہیں وہ جو کہہ رہے ہیں سچ مچ کر گزریں گے.... نہ....نہیں میں اپنے بچے کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔"

وہ نفی میں گردن ہلانے لگی۔


"ابو جیسے کہتے ہیں ویسے ہی بولوں گی میں.... يا الله مجھے معاف کر دینا اس جھوٹی گواہی کے لئے... "

وہ ہاتھ اٹھاےُ بول رہی تھی۔


"میں اپنی اولاد کو نہیں کھو سکتی.... مجھے معاف کر دینا... "

وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔


"بس ہمیں واپس اپنے گھر بھیج دے... یہ آزمائش ختم کر دے۔ اب اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ مزید برداشت کر سکوں۔"

آنسو اس کی ہتھیلی پر گرتے تھے۔

~~~~~~~~

"یہ کیس رفع دفع ہو جاےُ تو پھر واپس چلا جاؤں گا.... "

وہ نفیس کے ہمراہ بیٹھتے ہوےُ بولے۔


"اور عائشہ؟"

نفیس سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

"عائشہ کو عمر کے حوالے کر دو گے؟"

وہ شش و پنج میں مبتلا ہو گئے۔


"کبھی نہیں.... عمر کے حوالے تو نہیں کروں گا میں۔"

وہ نفی میں سر ہلاتے قطعیت سے بولے۔


"تو پھر؟ عمر نے ایف آئی آر کٹوائی ہوئی ہے گھر کیسے لے جاؤ گے؟"

وہ الجھ گئے۔


"میں نے کب کہا اسے ساتھ لے جاؤں گا؟"

وہ مسکرا رہے تھے۔


"میں اکیلا واپس جاؤں گا.... اسے یہیں چھوڑ جاؤں گا۔"

وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوےُ بولے۔


"یہاں کس کے پاس؟"

وہ سیدھے ہو گئے۔


"تمہارے پاس.... چاہے تو بیچ دینا چاہے تو باہر پھینک دینا۔ جو تمہارا دل کرے کرنا لیکن عمر کے پاس نہیں جانے دینا۔"

بولتے بولتے چہرے پر سختی در آئی۔


نفیس ششدر سے انہیں دیکھنے لگے۔

"ایسے مت دیکھو.... صحیح کہہ رہا ہوں میں پیسے چائیے ہوں تو بیچ دینا ورنہ جو مرضی کرنا میری بلا سے.... "

وہ ناگواری سے بولے۔


"مجھے لگتا ہے کورٹ کا ٹائم ہو گیا ہے ہمیں چلنا ہے.... "

انہیں فدا حسین کی بات ہضم نہ ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوےُ۔


"ہاں عائشہ کو بلاتا ہوں میں تم گاڑی نکالو.... "

وہ کھڑے ہوتے ہوےُ بولے۔

نفیس سر اثبات میں ہلاتے باہر نکل گئے۔


گاڑی غیر ہموار راستوں سے گزر رہی تھی۔

فدا حسین آج پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔

راستہ خراب ہونے کے باعث عائشہ کبھی اِدھر کو گر رہی تھی تو کبھی اُدھر کو۔


فدا حسین نے اسے دھکا دیا تو عائشہ کا سر فرنٹ سیٹ سے پشت سے جا ٹکرایا۔

"ابو؟"

آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیل گئیں۔


"مرتا بھی نہیں ہے یہ بچہ.... "

وہ ہنکار بھر کر کہتے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔


ایسا دوسری بار ہو رہا تھا اور اب عائشہ کو سمجھ آیا تھا کہ وہ دھکا اس لئے دے رہے تھے کہ شاید اس کے بچے کو کچھ ہو جاےُ۔

شاید اب اسے حیران ہونا چھوڑ دینا چاہیے تھا۔

عائشہ کا سر گھومنے لگا تھا۔


دماغ میں ہزاروں سوچیں گردش کر رہی تھیں جو مسلسل اسے پاگل کر رہی تھیں۔

"یہ مجھے سچ میں پاگل کر دیں گے.... "

دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔


سکون کی غرض سے اس نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔

فدا حسین کے عزائم سے انجان عائشہ ان کے حق میں بیان دینے جا رہی تھی۔

~~~~~~~~

"کچھ معلوم ہوا عائشہ کے متعلق؟"

وہ اس کے سامنے کھانا رکھتی ہوئی بولیں۔


"جی بلوچستان میں ہی ہے.... اور شاید ٹھیک بھی ہے۔"

عمر ان سے نظریں ملاےُ بغیر بول رہا تھا۔


"الله کرے ٹھیک ہی ہو اور جلد اسے پاس واپس آ جاےُ... "

وہ کہتی ہوئی گلاس میں پانی انڈیلنے لگیں۔


"کھاؤ بیٹا.... "

وہ اسے فون میں مصروف دیکھ کر بولیں۔

"امی بھوک نہیں ہے.... آپ ایسے ہی لے آئیں... "

وہ چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا۔


"میں جانتی ہوں... لیکن پھر بھی کھانا پڑے گا۔ ان سب حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر اپنی صحت کا بھی خیال رکھو۔"

وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔


"اویس جاگ رہا ہے؟"

اس نے یکسر موضوع تبدیل کر دیا۔


"ہاں کھانا دے کر آئی ہوں اسے بھی.... "

وہ مسکراتی ہوئی گویا ہوئیں۔


"میں اسے دیکھ لوں مجھے کچھ کام تھا... "

وہ عذر پیش کرتا اس کے کمرے میں چل دیا۔

نسیم افسردگی سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔


"میری تو بس یہی دعا ہے کہ تو جلد از جلد اس گھر کی مشکلیں دور کر دے... "

وہ نم آنکھوں سے دروازے کو دیکھ رہی تھیں۔


"کیسے ہو؟"

عمر اندر آتا ہوا بولا۔

اسے دیکھ کر کچھ معیوب سا لگ رہا تھا ایسا پوچھنا۔


"بہتر ہوں... "

وہ معدوم سا مسکرایا۔


"کل صبح ملتان جانا ہے پٹی کروانے کے لیے۔"

وہ اسے دیکھنے بغیر بول رہا تھا۔


"ٹھیک ہے میں اٹھ جاؤں گا ٹائم سے...."

وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔


"بھابھی کا کچھ معلوم ہوا؟"

وہ بغور عمر کو دیکھتا ہوا بولا۔


"وہیں ہے.... بھیا نے منع کیا تھا مجھے جانے سے۔ شاید ان کا پلان کچھ اور ہی ہو۔"

وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔


"اس کے بعد کوئی فون نہیں آیا؟"

وہ آبرو اچکا کر بولا۔


"ابھی تک تو نہیں... "

چہرے پر فکر نمایاں تھی۔


اویس جس نے بولنے کے لیے لب وا کئے ہی تھے کہ فون کی رنگ ٹون نے مزید بولنے نہ دیا۔

"میں آتا ہوں.... "

عمر فون دیکھتا باہر نکل گیا۔

~~~~~~~~

"حج صاحب مہ... میں اپنے ابو کو ملنے ان کے گھر آئی ہوئی تھی۔"

عائشہ نے گھبراتے ہوےُ بولنا شروع کیا۔


حج بغور اسے دیکھ رہا تھا۔

"تو میرے سسرال والوں نے اغوا کی ایف آئی آر درج کروا دی۔ اس لئے کیونکہ... "

آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔


"میرے ابو اور میرے دیور اویس کا جھگڑا ہوا تھا...اسی... اسی لئے انہوں نے غلط ایف آئی آر کروا دی۔"

اشک ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے۔


"مہ... مجھے اغوا نہیں کیا کسی نے... "

آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

"دیکھو بیٹا اب آپ ڈرو مت آپ قانون کے دائرے میں آ چکی ہو اس لئے سچ بولو.... کوئی کچھ نہیں کر سکتا یہاں۔"

جج اس کے انداز سے بھانپ گیا۔


عائشہ نے ایک نظر فدا حسین پر ڈالی جو اسے گھورتے ہوےُ نفی میں سر ہلا رہے تھے پھر ایک نظر جج صاحب پر ڈالی جو منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔


عائشہ نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا اور ساری کہانی سنا ڈالی کس طرح اسے اغوا کیا اور یہاں لے آےُ۔


"میں فدا حسین کو اس کی بیٹی واپس نہیں کر رہا...میں اسے پنجاب اس کے شوہر کے پاس بھیج رہا ہوں... "

وہ فدا حسین کو دیکھتے ہوےُ بول رہے تھے۔

فدا حسین خطرناک تیور لئے عائشہ کو دیکھ رہے تھے۔


"بیٹا یہ تینوں اہلکار آپ کو پنجاب لے جائیں گے میری گاڑی میں.... اب آپ بلکل محفوظ ہو اس لئے گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں... "

وہ عائشہ کو دیکھ کر کہتے کھڑے ہو گئے۔


"آپ اپنے شوہر کا نمبر مجھے دے دو.... "

وہ اس کے سامنے آ رکے۔

عائشہ نے فوراً سے عمر کا نمبر انہیں لکھوا دیا۔


"انہیں بحفاظت پنجاب چھوڑ آؤ.... "

وہ اہلکاروں کو دیکھتے ہوےُ بولے۔


فدا حسین مٹھیاں بھینچے یہ سب دیکھ رہے تھے عائشہ ان کے ہمراہ ان کے سامنے سے چلی گئی۔


"سب برباد کر دیا اس لڑکی نے.... "

وہ اس کے نکلتے ہی بولنے لگے۔


"مجھے اس پر اعتبار کرنا ہی نہیں چائیے تھا.... اب یہ لے جا کر عمر کے حوالے کر دیں گے اسے۔"

وہ سخت خفا دکھائی دے رہے تھے۔


"اب کیا کر سکتے ہیں فدا؟ جو ہونا تھا ہو گیا وہ تو.... "

نفیس ٹھنڈی آہ بھرتے ہوےُ بولے۔


"دیکھ لوں گا سب کو.... ہونہہ.... "

وہ ہنکار بھر کر کہتے باہر نکل گئے۔


سفر تمام ہوا تو عائشہ کو پنجاب پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

"ہمارا کام پورا ہوا آپ اپنے شوہر کو کال کر لیں تاکہ وہ آپ کو لے جائیں یہاں سے.... "

اہلکار عائشہ سے مخاطب تھا۔


اس وقت وہ پولیس اسٹیشن کھڑے تھے۔

عائشہ اثبات میں سر ہلاتی فون لے کر نمبر ملانے لگی۔

"ہیلو عمر.... "

فون پہلی ہی بیل پر ریسیو ہو چکا تھا۔


"عائشہ؟"

عمر جواباً بولا۔

"عمر مجھے یہاں سے لے جائیں.... میں پولیس اسٹیشن میں ہوں۔"

وہ آس پاس دیکھتی ہوئی بولی۔


"تم یہاں کے پولیس اسٹیشن میں ہو؟"

وہ حیرت اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔


"جی.... آپ جلدی سے آ جائیں اور مجھے لے جائیں۔"

وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔

"میں بس ابھی آ رہا ہوں... "

عمر سلیپر میں پاؤں ڈالتا ہوا بولا۔


چابیاں اٹھائی اور سرعت سے کمرے سے باہر نکل گیا۔

"کہاں جا رہے ہو عمر؟"

نسیم اسے دیکھتی ہوئی بولیں۔


"امی آ کر بتاتا ہوں... "

چہرے پر خوشی کی رمق تھی۔

کہہ کر رہ رکا نہیں اور باہر نکل گیا۔


کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آیا تو اکیلا نہیں تھا۔

نسیم کے چہرے پر پہلے حیرت اور پھر خوشی کے ڈیرے جما لیے۔

"میری بچی واپس آ گئی؟"

وہ آگے بڑھ کر اسے سینے لگاتی ہوئی بولیں۔


عائشہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔

"کیسی ہو تم؟ ٹھیک ہو نہ؟ خیال رکھتے تھے وہ تمہارا؟"

ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔


"امی آرام سے... اب وہ یہیں ہے جو پوچھنا ہو پوچھ لیں۔"

عمر ان کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"الله کا بہت شکر ہے کہ تم صحیح سلامت واپس آ گئی... "

وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئی بولیں۔


"آؤ بیٹھو... "

وہ اسے ساتھ لئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔

عمر پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے انہیں دیکھ رہا تھا۔

عائشہ آنکھوں میں نمی لئے انہیں سب بتاتی جا رہی تھی۔


"الله پوچھے گا ایسے ظالموں کو... کیا حال کر دیا تمہارا۔"

وہ اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔

"اب میں ٹھیک ہوں امی...."

عائشہ نے مسکراتے ہوےُ تسلی دینا چاہی۔


"اچھا جاؤ تم آرام کرو.... تھک گئی ہو گی سفر سے۔ میں کچھ کھانے کو بناتی ہوں تمہارے لیے۔"

یکدم انہیں خیال آیا۔


"امی اویس کہاں ہے؟"

وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔


"اپنے کمرے میں ہے۔"

وہ اشارہ کرتی ہوئی بولیں۔

عائشہ عمر کے ہمراہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔


اویس بیڈ پر لیٹا تھا۔ ٹانگ پر سفید رنگ کا پلاسٹر تھا۔

وہ احساس ندامت میں گھر گئی۔

"بھابھی آپ کب آئیں؟"

وہ حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔


عمر اثبات میں سر ہلانے لگا۔

"مجھے معاف کر دینا اویس میری وجہ سے.... "

وہ آگے بڑھتی نادم سی بولنے لگی۔


"معاف تو مجھے کر دیں.... میں بچا نہیں سکا آپ کو.... وہ لوگ لے گئے آپ کو۔"

وہ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل بول پڑا۔

عائشہ آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھنے لگی۔


"ٹھیک ہے... باقی باتیں بعد میں اب آرام کر لو۔"

عمر آگے آتا ہوا بولا۔

عائشہ اسے دیکھ کر غمگین سی ہو گئی۔


"میری وجہ سے اویس کا کتنا نقصان ہو گیا.... میرے باعث وہ اس حال میں ہے۔"

وہ دل ہی دل میں کہتی باہر نکل گئی۔

~~~~~~~~

"اب تو خوش ہوں گے نہ آپ لوگ؟"

وہ طنزیہ انداز میں بولا۔


"تمہاری شادی پر خوش نہیں ہوں گے کیا؟"

طلعت اس کے سر پر پیار دیتی ہوئی بولی۔


"اپنی حیثیت کی بہو لا کر آپ کے دل کو تسلی مل گئی ہو گی نہ.... "

وہ یاسر بلوچ کو گھورتا چبا چبا کر بولا۔


"آج بھی تمہاری زبان اس کم ذات کی حمایت میں چل رہی ہے... "

چہرے پر ناگواری در آئی۔


"فکر مت کریں... یہاں بچ بھی جائیں تو اس دنیا میں بچ نہیں سکیں گے آپ۔ وہاں حساب دینا پڑے گا آپ کو۔"

وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔


"یہ کس طرح بات کر رہے ہو اپنے ابو سے؟"

طلعت کلس کر بولی۔

"جس طرح کرنی چائیے.... "

وہ یاسر بلوچ کو گھور رہا تھا۔


"دفع ہو جاؤ ہماری نظروں سے.... "

وہ تنک کر بولے۔


"آپ کو شاید چھوٹ مل رہی ہے اس لیے تیار رہیں ابو.... جب الله آپ سے حساب لے گا تب کے لیے۔"

وہ خود کلامی کرتا چلنے لگا۔


"حد سے زیادہ خود سر اور بدتمیز ہوتا جا رہا ہے یہ... "

وہ نخوت سے سر جھٹکتے ہوےُ بولے۔

~~~~~~~~

"مجھے نہیں لگتا اب تمہاری شادی ہو گی عائشہ سے.... "

زکیہ منہ بناتی ہوئی بیٹھ گئی۔


"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے.... اگر آپ لوگ اسے قائل کر لیتے تو آج وہ اپنے سسرال نہیں بلکہ یہاں ہوتی۔"

وہ برہمی سے گویا ہوا۔


"مجھ پر مت ڈالو... وہ ہے ہی اتنی ہٹ دھرم... سنتی کہاں ہے کسی کی۔ بھائی صاحب نے اسے بیچنے کی دھمکی بھی دی تھی پھر دیکھو کورٹ میں جا کر سب سچ بول دیا۔"

وہ خفگی سے گویا ہوئیں۔


"اب سچ میں ایسا نہیں ہو سکتا؟"

وہ یاس سے زکیہ کو دیکھ رہا تھا۔


"تمہارا دماغ جگہ پر تو ہے نہ؟ وہ عمر اب ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گا کسی کو.....ابھی تو بھائی صاحب کیس کی فکر کریں جو عمر نے ان پر کیا ہوا ہے۔"

وہ دانت پیستی ہوئی بولیں۔


"آپ ہی کے باعث میں عائشہ کے انتظار میں تھا... آپ نے کہا تھا کہ میری شادی کروائیں گیں اس سے۔"

وہ خفا انداز میں بول رہا تھا۔


"تو میں کیا کر سکتی ہوں اب؟ مجھے فدا حسین نے آس دلائی تھی... اتنا سب کرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا....."

وہ شانے اچکا کر کہتی وہاں سے چل دیں۔

~~~~~~~~

"مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے.... "

نرس گود میں بچی کو اٹھاےُ باہر آتی ہوئی بولی۔

عمر آنکھوں میں نمی لئے آگے بڑھا اور بچی کو گود میں لے لیا۔


یہ ننھی سی جان آنکھیں بند کئے سو رہی تھی۔

عمر نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر رخسار پر.... وہ دیوانہ وار اسے چومتا جا رہا تھا۔ آنکھیں برس رہی تھیں۔


"امی یہ دیکھیں... "

وہ ان کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔

"ماشاءالله..... الله نظر بد سے بچائے ہماری اس چھوٹی سی جان کو..."

وہ اسے گود میں اٹھاتی ہوئی بولیں۔


"میری وائف کیسی ہیں؟"

وہ نرس کی جانب متوجہ ہوا۔

"وہ بھی ٹھیک ہیں... کچھ ہی دیر میں آپ ان سے مل سکتے ہیں۔"

وہ پیشہ وارانہ مسکراہٹ لئے بولی۔


"آنکھیں دیکھو بلکل تم پر گئیں ہیں۔"

وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھیں۔

عمر نے مسکراتے ہوےُ سر اثبات میں ہلا دیا۔


"میں بھیا کو فون کر لوں... "

وہ کہتا ہوا سائیڈ پر ہو گیا۔


"ہماری گڑیا سو رہی ہے...."

نسیم اس کے گلابی گال پر بوسہ دیتی ہوئی بولی۔

~~~~~~~~

"عائشہ کی بیٹی ہوئی ہے.... "

صبیحہ ان کے سامنے آتی ہوئی بولی۔


"ہونہہ... میں کیا کروں پھر؟"

وہ چڑ کر بولے۔


"کہیں کا نہیں چھوڑا مجھے ان لڑکوں نے.... تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔"

وہ برہمی سے کہتے ٹہلنے لگے۔


"اگر آپ عائشہ کو اغوا نہ کرواتے تو ایسا نہ ہوتا.... "

وہ دھیرے سے منمنائی۔

"بھائی میرا جیل ہے... تمہاری بیٹی کی وجہ سے۔"

وہ ان پر برس پڑے۔


"عائشہ کی وجہ سے کیوں؟ کیا عائشہ نے کہا تھا اویس کی ٹانگ توڑنے کو.... آپ کی وجہ سے جیل میں ہیں وہ۔"

وہ خفا انداز میں بولیں۔


"اپنی بکواس بند کر لو.... کچھ زیادہ ہی زبان چلنے لگی ہے تمہاری۔"

وہ خطرناک تیور لئے آگے بڑھے۔

اس سے قبل کہ وہ مزید کچھ بولتے صبیحہ بیگم کمرے سے باہر نکل گئیں۔


"اب اور کتنا پیسہ لگاؤں.... پہلے وہ وکیل دو لاکھ کھا گیا ہے۔"

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوےُ بولے۔


"کچھ تو کرنا پڑے گا ورنہ میں سڑک پر آ جاؤں گا.... "

وہ پرسوچ انداز میں کہتے رک گئے۔

~~~~~~~~

"ماشاءالله بہت پیاری ہے ہماری گڑیا.... "

نور اسے گود میں اٹھاتی ہوئی بولی۔


"امی آنکھیں دیکھیں اس کی.... "

وہ نسیم کی جانب متوجہ ہوئی۔

یشفع سیاہ بڑی بڑی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"میں عائشہ کے لیے کھانا گرم کر کے آتی ہوں تم یہیں بیٹھی رہنا.... "

وہ یاد آنے پر اٹھ کھڑی ہوئیں۔


اویس اسٹک کا سہارا لئے اِدھر آیا۔

"تم تو سو رہے تھے؟"

نور مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔


"آپ نے جگا دیا.... "

وہ مسکرا کر کہتا اس سے ساتھ بیٹھ گیا۔


"بھابھی سو رہی ہیں؟"

وہ عائشہ کو دیکھتا ہوا بولا۔

"ہاں شاید.... "

وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔


"مجھے پکڑائیں اس موٹو کو.... "

وہ ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتا ہوا بولا۔

نور نے مسکراتے ہوےُ یشفع کو اس کی گود میں دے دیا۔


"ہاتھ دیکھیں کتنے پیارے ہیں.... "

اویس اس کے موٹے موٹے گلابی ہاتھ دیکھ رہا تھا۔


"پتہ نہیں شاید اسی کا نصیب تھا جو عائشہ نے اتنی مشکلوں کا سامنا کیا۔"

وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھیں۔


"آپی بھول جائیں وہ سب.... ایک برا خواب سمجھ کر۔"

وہ خفا انداز میں بولا۔


"میں تو یہ سوچ رہا ہوں کب یہ چاچو بلاےُ گی مجھے... "

وہ ہنستا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔

"ابھی انتظار کرنا پڑے گا تمہیں بہت... "

نور بھی اس کی بات پر ہنس دی۔


"عمر نظر نہیں آ رہا؟"

وہ کمرے میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔


"شاید کسی کام سے گئے ہیں.... "

عائشہ کہتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔

"ہم نے شاید تمہاری نیند خراب کر دی...."

نور نادم سی بولی۔


"نہیں نہیں... میں کافی دیر سے سو رہی تھی اب کھانے کا ٹائم ہو رہا ہے ویسے بھی... "

وہ گھڑی کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔


"تمہاری طبیعت اب کیسی ہے؟"

وہ اس کے پاس آ بیٹھی۔

"امی اتنا خیال رکھتی ہیں کہ دیکھیں بلکل ٹھیک ہوں میں اب.... "

وہ کھل کر مسکرا رہی تھی۔


"اپنی جان کو دیکھتی ہوں تو ساری تکلیفیں سارے رکھ بھول جاتی ہوں... "

عائشہ کی نگاہیں اویس کی گود میں لیٹی یشفع پر تھیں۔


"بلکل اولاد کی خوشی ہی ایسی ہے.... "

وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔


"مجھے تو یہ ملی بھی بہت مشکلوں سے ہے... آپی میرے لئے میرا کل اثاثہ میری یشفع ہی ہے۔"

وہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھیں۔


"اب رونا مت ورنہ عمر کہے گا میری بیوی پر ظلم ہو رہا ہے.... "

نور آئینے میں عمر کو دیکھ چکی تھی۔ اسی لئے شرارت سے گویا ہوئی۔


"بلکل میری غیر موجودگی میں میری معصوم سی مسز پر ظلم کیا جا رہا ہے.... 

وہ تائیدی انداز میں کہتا آگے آ گیا۔

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Anaa Parast Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Anaa Parast  written by Hamna Tanveer  . Anaa Parast  by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages