Dil Bereham By Mahi Rajpoot Complete Urdu Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 29 May 2024

Dil Bereham By Mahi Rajpoot Complete Urdu Novel Story

Dil Bereham By Mahi Rajpoot Complete Urdu Novel Story  

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Dil Bereham By Mahi Rajpoot Complete Novel Story


Novel Name :Dil Bereham  
 Writer Name : Mahi Rajpoot

New Upcoming :  Complete 

ماتھے پر بکھرے پسینے سے نم براؤن بال عقاب سی تیز آنکھیں سامنے کھڑے دیو کی سی قدو قامت والے موٹے شخص پر ٹکائے مغرور کھڑکی ناک سے پسینے کا قطرہ نیچے گرا ۔۔۔تو کچھ پیچھے ہوتے وہ  مقابل ریسلر  پر کودا۔۔

وہ شاید حملہ کی توقع کر رہا تھا لیکن خود پر اسے گھٹنوں کے بل گرنے سے وہ بھاری وجود سمیت نیچے گرا۔۔

کچھ ہی دیر بعد ہر طرف سلطان کے نعرے گونج اٹھے ۔۔۔

اور وہ فتح مندی سے مسکراتا اپنی ٹرافی والاہاتھ اوپر لہرایا۔۔

رنگ سے باہر آتے وہ اپنے فین کے درمیان سے گزر رہا تھا لڑکیوں سے وہ کوسوں دور رہنے والا شخص تھا۔۔اب بھی صرف لڑکوں سے ہاتھ ملاتا باہر چلا گیا اپنے روم میں۔۔

"سلطان بہروز آپ کے والد صاحب آئے ہے۔۔"

وہ جو ٹاول سے پسینہ صاف کر رہا تھا گارڈ کے بتانے پر آنکھیں گھماتے باہر گیا اب یقیناً ایک لمبا لیکچر ملے گا۔۔

سلطان بہروز شرٹ لیس اپنے باپ کے سامنے پانی کی بوتل کومنہ لگائے کھڑا تھا اور اس کا باپ افسوس سے اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھ رہے تھے جو نا صرف خود سر بدتمیز بلکہ انتہا کا ڈھیٹ تھا۔۔

"ہم نے آپ کو کہاتھا کہ اس ریسلنگ میں مت آیا کرو لیکن تم زور ادھر ہی مرتے ہوں۔۔۔ " وہ دونوں روم میں اکیلے تھے اس کا باپ صوفہ پر کروفر سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اپنے بیٹے کی حرکات ملاحضہ کر رہے تھے جو سٹینڈ سے ٹیک لگائے پانی کی بوتل کو خالی کر چکا تھا۔۔۔

"ڈیڈ میں کتنی بار کہو ریسلنگ جنون ہے میرا نہیں چھوڑ سکتا میں ۔۔۔"!!

وہ تیوڑی چڑھائے گویا ہوا۔۔

"جنون گیا بھاڑ میں آئے دن کوئی نہ کوئی گہری اندرونی چوٹ تمہیں لگ جاتی ،،،میرے بیٹوں کی یہاں لائن نہیں لگی ہوئی جو تمہیں کچھ ہو گیا تو کچھ فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔انہوں نے گرجتے ہوئے اسے گھورا جو صاحب آرام سے کان کھجاتے ادھر ادھر کا جائزہ لے رہے تھے جیسے اس سے اہم کوئی کام ہی نہ ہو۔۔

ڈیڈ کس نے کہا تھا مجھ اکیلے کو پیدا کرے ،،، تنگ آگیا ہو سن سن کہ اکلوتے ہوں یہ نہ کرو،،، اکلوتے ہوں وہ نہ کرو،،،، بھئی میں کہا تھا مجھے اکلوتا رکھو۔۔۔وہ خاصا چڑتے ہوئے بولا جس پڑ اس کا باپ اس سر پھرے کو دیکھ کر رہ گیا سمجھانا تو فضول تھا اس لیے وہ اٹھے ۔۔

چلو گھر تمہاری ماں کو بتاؤ گا کہ ان کا سپوتر کیا کہہ رہا ہے اور کدھر سے لایا ہوں اسے۔۔۔سٹینڈ سے لٹکی اس کی شرٹ اسے پکڑاتے وہ آرام سے بولے۔۔کہ شرٹ پکڑ کر پہنتا بہروز اچھل ہی پڑا۔۔

ڈیڈ پلیز مام کو بالکل بھی نہیں ورنہ مرے پانچ گھنٹے تو کہی گئے نہیں اور آج تو روئی بھی میری ختم ہو گئی ہے ۔۔۔شرٹ کے بٹن بند کرتے بہروز نے پریشانی سے  باپ کو کہا ۔۔۔

جس پر وہ نہ میں سر ہلاتےباہر نکل پڑے ۔۔

بہروز اپنے باپ کے ساتھ چلتا باہر آیا ۔۔

وہ دونوں ساتھ چلتے وقفہ بہ وقفہ مسکرا رہے تھے ۔۔

"ویسے ڈیڈ پچھلے ماہ سیکرٹری لڑکی تھی نہ ۔۔"؟؟؟؟

حویلی میں داخل ہوتے بہروز نے پر سوچ انداز میں کہا ۔۔۔اس کا باپ سمجھ گیا تھا کہ وہ وارننگ دے رہا ہے کہ اگر میرا بتایا تو وہ بھی بتا دے گا۔۔

دانت پیستے انہوں نے اپنے بیٹے کی پشت کو دیکھا جو سیڑھیاں چڑھتے رکا واپس مڑتے بھر پور مسکراتے فلائنگ کس اپنے باپ کی طرف اچھالتے اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔۔

اس کا باپ تاسف سے سر ہلا گیا کبھی کبھی تو انہیں یقین ہی نہ آتا کہ یہ ان کا ہی بیٹا ہے جو ہمیشہ باپ کو آگے لگائے رکھتا تھا۔۔۔

★★★★★★★

زونیشہ بیٹا دیکھ اپنی امی کی طبعیت تو خراب نہیں ہوئی۔۔رات ساری بخار تھا۔۔

وہ چھوٹے سے کچن میں کھڑی روٹیاں بنا رہی تھی جب اس کا باپ اندر آتے پریشانی سے بولا۔۔

جی ابو ابھی دیکھتی یہ آخری روٹی ہے بس ۔۔۔اس پری پیکر نے مسکراتے کہا جس پر اس کا باپ سر ہلاتا چلا گیا۔۔

دوپٹے سے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتی اس نے گہرہ سانس بھرا ۔۔۔کالے سیاہ بالوں کی چوٹی کمر پر جھول رہی تھی غزالی بڑی بڑی براؤن آنکھیں تھکن سے چور تھی ستوان ناک میں پہنا لونگ اور نازک سرخ پنکھڑیوں والےہونٹ سرخ و سفید رنگت وہ نازک سی لڑکی اپنا کام کرتی اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔

جہاں اس کی چھوٹی بہن ماں کے سر ہانے بیٹھی تھی۔۔

"بنو امی کا بخار کیسا ہے اب۔۔"وہ گیلے ہاتھ صاف کرتی بیڈ پر بیٹھی۔۔

آپی ابھی بھی تیز ہی ہیں ۔۔چھوٹی بہن ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتی بولی تو وہ مسکرا کر اس کے پاس آئی۔۔

"ہو جائے گی ٹھیک امی۔۔"ابھی وہ کہہ ہی رہی تھی کہ اس کی امی کی طبیعت بگڑ گئی۔۔

باباجلدی آئے۔۔۔اس کی چیخوں پکار پر اسلم دوڑتا آیا کچھ ہی دیر میں وہ سب انہیں لے کر ہوسپیٹل پہنچ گئے۔۔

اسلم باہر کھڑا پریشانی سے چکر لگا رہا تھا اس کا مالک اسے نوکری سے نکال دے گا اگر وہ نہ گیا اور یہاں ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ نہیں جانے اگلے دو گھنٹے  ۔۔

وہ ایک معمولی سا مالی تھا جسے سلطان کے باپ نے رکھا تھا جبکہ سلطان کو کوفت تھی ان غریب لوگوں سے۔۔

اپنے باپ کو پریشانی میں دیکھ کر زونیشہ اپنے باپ کے پاس آئی،،اس نے کچھ پوچھا نہیں پریشانی کی وجہ وہ بھی جانتی تھی۔۔

بیٹا اگر یہ نوکری چلے گئی تو تیری ماں کا علاج نہیں ہو پائے گا اور جتنے پیسے یہاں سے ملتے ہے کہی سے نہیں ملنے۔۔

میں چلے جاتی ہوں آپ امی کے پاس رہے ابھی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ حساس دل لڑکی دھیما مسکراتی بولی۔۔

اتنی پریشانی میں بھی اس کے لب مسکرا ہی رہے تھے ۔۔

بیٹا دھیان سے کوئی کام غلط نہ کرنا چھوٹے صاحب غصے کے بہت تیز ہے۔۔اس سمجھاتے وہ بھیج چکا تھا جبکہ خود ڈاکٹرز کے پاس چلا گیا جس نے انہیں بلایا تھا۔۔

★★★★★★

چھوٹے مالک ۔۔ووہ ۔۔۔۔۔"

"یہ ہکلا کیوں رہے ہوں بکو جلدی ۔۔۔"گہری سبز آنکھیں آگ کے شعلے برسا رہی تھی ۔۔اس کی دھاڑ پر ملازم نے حلق تر کرتے اپنے مالک کو دیکھا ۔۔ 

"مالک جی اسلم آج نہیں آیا اس کی بیوی بیمار تھی ہسپتال گیا ہے لے کر ۔۔آپ نے جو پودے منگوائے وہی پیچھے گارڈن میں پڑے ہیں ،،، اس کی دھاڑ پر سہمتے ایک ہی سانس میں سب کچھ بتایا۔۔۔ جس پر اس کی ماتھے پر بلوں کا جال بکھر گیا۔۔۔

"یعنی سلطان بہروز کے حکم کی نافرمانی کی گئی۔۔۔"

میں اس کی سزا خود منتحب کرو گا،،، ایسی مار مارو گا اسلم کو دوبارو کبھی سلطان بہروز کا حکم ٹالنے کا سوچے گا بھی نہیں  ۔۔۔وحشت بھری آنکھیں ملازم پر گاڑھے وہ سفاکیت سے گویا ہوا ۔۔وہ ملازم جانتا تھا کہ اب اسلم کا کیا حال ہو گا ۔۔۔"

" اس کا مالک سلطان بہروز جو اپنی حویلی میں گرتی چمچ کی آواز پر ملازم کے ہاتھ پاؤں توڑ سکتا تھا وہ اپنا حکم نہ ماننے پر کیا حشر کر سکتا تھا ،،ملازم کانپتا ہانپتا وہاں سے چلا گیا۔۔

بہروز اپنے ہاتھ میں چابی گھماتے گیٹ کی طرف چل دیا۔۔اس سے پہلے کہ وہ گیٹ کی دہلیز کو پار کرتا کوئی نازک سا وجود عجلت میں اندر داخل ہوا اور بہروز کے سینے سے ٹکرایا اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی بہروز کا بازو اس کی کمر کو سختی سے جھکڑ گیا۔۔۔۔

ڈرنے کے خوف سے آنکھیں سختی سے بند کیے گہرے سانس بھر رہی تھی لیکن خود کو کسی کی گرفت میں پاتے اس نے اپنی بھوری آنکھیں کھولی جو غصے سے بھری سبز آنکھوں سے ٹکرائی اس کا غصہ محسوس کرتی اس کے وجود میں سرد لہر دوڑ گئی۔۔

بہروز اس نازک روئی جیسے وجود کو جھٹکے سے اوپر کیا جو بامشکل اس جھٹکے سے سنبھلی۔۔

"کون ہوں تم۔۔"اوپر سے لے کر نیچے تک اسے گھورتے اس نے پوچھا۔۔اس کے تیور دیکھ کر ہی اس کے حواس قابو میں نہیں آرہے تھے پھر اب اس کا تشویشی لہجہ اس کی آنکھیں بھرا گئی ۔۔

"سر۔۔ر۔۔جی۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔آپ۔۔کے۔۔ملازم۔۔اسلم۔۔کی۔۔۔بیٹی۔۔ہوں۔۔ان۔۔کی۔جگہ۔۔آئی۔ہوں۔۔کام۔۔کرنے۔۔"!!

اس کا روعب ہی ایسا تھا کہ وہ لڑکھراتی اٹکتی اپنی بات بامشکل مکمل کر پائی۔۔اس کے ہکلانے پر ناگواری سے بہروز نے منہ موڑا لیکن وہ "اسلم کی بیٹی ہے " یہ بات سنتے اس کی آنکھین چمک گئی اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ چھا گئی۔۔

"چلو تمہیں کام بتاؤ امید ہے تمہارا نازک سا وجود اس کام کا بوجھ اٹھا لے گا۔۔" استہزایہ کہتے اس کے بھیگے نین کٹوروں کو دیکھتے وہ پچھلے گارڈن کی طرف بڑھا۔۔

خود کو سنبھالتی وہ اس کے پیچھے چل دی۔۔ایک بڑا سا گارڈن جس میں شاید ہر طرح کا پودا موجود ہو گا اور اس نے پہلی بار اتنا حیران کر دینے والا گارڈن دیکھا تھا ۔۔

"یہ رہے پودے جو سامنے کیاری میں لگانے ہیں۔۔اور ایک بھی پودا خراب نہ ہوں ۔۔اگر ہوا تو تمہارے باپ کی ساری عمر اس پودے کی قیمت ادا کرتے ہی گزر جائے گی۔۔۔" 

اسے یوں پاگلوں کی طرح  گارڈن کو گھورتے دیکھ اس نے اپنے ازلی سرد لہجے میں کہا۔۔

اس کی آواز پر ہوش میں آتی اپنے پاس پڑے پودوں کے گملوں کو دیکھا تقریباً سات گملے جن پر چھوٹے چھوٹے پھول تھے وہ  پھول کو دیکھتی قدرت والے کی بنائی گئی 

اس چیز پر دھنگ رہ گئی ایک پھول سات رنگ کا تھا اور چھوٹا سا پھول  نازک سی پتیوں والا یہ پھول اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔۔۔

وہ اپنے سامنے کھڑی ہستی کو فراموش کیے  اس میں کھو گئی ۔۔

بہروز غور سے اس عجوبے کے ایکسپریشن نوٹ کر رہا تھا  اس کے خیال سے وہ پاگل ہی تھی جو پھول کو دیکھتی مسکرائے جا رہی ۔۔

"ہیلو لڑکی و کام کہا ہے کرو بغیر غلطی کہ۔۔"چٹکی بجاتے اس نے آنکھیں دیکھائی۔۔

"جی۔ی۔سر۔۔او۔۔کے۔۔۔۔" اپنا حجاب درست کرتے وہ نیچے بیٹھ گئی۔۔

"شاید اس کا دماغی توازن درست نہیں۔۔"اپنی سوچ پر مطمئن ہوتا۔۔ وہ تھوڑی دور سائیڈ پر پڑی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔ وہ چاہتا تھا یہ لڑکی کوئی غلطی کرے اور وہ اس کی سزا اس کے باپ کو دے دگنی کر کے۔۔

اسے وہاں سے جاتے دیکھ اس نے جھکتے اس پھول کی

نازک پتیوں پر اپنے سرخ چھوٹے ہونٹ رکھے اسی طرح سب پھولوں کو چومتی وہ کھلکھلا کر ہنسی یہ جانے بغیر کوئی اس کی حرکتیں بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔۔

وہ بھی دلچسپی کے ساتھ اردگرد سے بے نیاز ہو کر۔۔۔

وہ بہت پیار سے ایک ایک گملا اٹھاتی کیاری میں رکھ رہی تھی اب وہ اپنے ہاتھوں سے گیلی مٹی کھودنے لگی جسے دیکھتے بہروز کو الجھن ہوئی۔۔

"اے لڑکی ہاتھوں سے کیوں مٹی کھود رہی ہوں"۔۔۔

اپنے عقب سے گرجدار آواز پر بوکھلاتی جگہ سے اٹھی لیکن جیسے ہی پیچھے مڑی عین سامنے والے کے سینے سے ٹکرائی اور دونوں ہاتھ اس کی وائٹ شرٹ پر نصب ہو گئے۔۔

پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سرخ سفید ہاتھوں مٹی سے بھرے  کو اس کی شرٹ پر دیکھتی اس نے نظریں اٹھائی جو وحشت غصے سے بھری سبز نظروں سے ٹکرائی۔۔یقینا اب وہ اس کا قتل کرے گا۔۔

بہروز اپنی فیورٹ شرٹ کو یوں  گیلی مٹی سے خراب دیکھتے اس کے دونوں  ہاتھوں کو اپنے کھردرے سخت ہاتھوں میں دبوچا ۔۔

"عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم میں کیا ۔۔۔؟؟

بیوقوف لڑکی میری شرٹ خراب کر دی تم نے ۔۔"

وہ سختی سے اسے پکڑے دھاڑا۔۔

می۔۔ں۔۔صا۔۔ف۔۔کر۔۔دیتی۔۔ہوں ۔۔

اس کی دھاڑ پر سہمتی وہ بھیگے لہجے میں بولی ایسی سچوئیشن کا سامنا پہلی بار کر رہی تھی وہ تو کبھی گھر سے نہیں نکلی ایک دو بار اسی محل باپ کے ساتھ آئی تھی۔۔

اچھا کرو صاف۔۔۔

دانت پیستے اس نے ہاتھوں کو چھوڑ پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔۔

سرخ ہاتھوں پر اس کی انگلیوں کے نشان دیکھتی وہ روتی کانپتی اس کی شرٹ کو صاف کرنے کی غرض سے اپنی گندھے ہاتھوں سے ہی جھاڑ نے لگی۔۔۔

مٹی اترنے کی بجائے اور لگ گئی۔۔

"یہ۔۔نہیں۔۔اتر۔۔رہی۔۔آپ ۔۔شرٹ۔۔اتار۔۔دے۔۔میں۔۔دھو۔۔دیتی۔۔۔ہوں۔"پریشانی سے اسے اپنے قریب کھڑا دیکھ کر تھوڑا پیچھے ہوئی۔۔

"تمہیں ادھر میں شرٹ اتار کر دو سوچ لو پھر۔۔۔"بہروز اسے گہری نظروں سے دیکھتے بے تاثر چہرا لیا بولا۔۔

زونیشہ دو قدم اور پیچھے ہوئی۔۔وہ کچھ اور ہی سمجھ رہا تھا خفت سے اس کا چہرہ سرخ ہوا۔۔بے دھیانی میں ایک قدم اور پیچھے کیا اور پاؤں گیا گملے پر۔۔

اس کا پاؤں گملے سے لگتا مڑا خود کو بچانے کے لیے اس نے بے اختیاری میں بہروز کی شرٹ کو دبوچا ۔۔

بہروز جو بے خیالی سے ہی کھڑا تھا اس کے یوں کھینچنے پر ان بیلنس ہوتے اس کے ساتھ ہی پیچھے گرا۔۔

خود پر اتنا وزن برداشت کرتی وہ کراہ اٹھی لیکن ایک لمس پر اس کا دل دھک سا رہ گیا۔۔

بہروز جو اس کے اوپر گرا تھا اچانک اس کے ہونٹ بالکل اس کے گلابی ہونٹوں پر لگے۔۔

ان ہونٹوں کی نازکی پر بہروز نے انجانے میں یہ لمس محسوس کرتے آہستگی سے  اپنے لبوں کو جنبش دی۔۔ 

اور خوف و وحشت سے فق چہرے والی لڑکی کو دیکھا جو کسمساتے اسے پیچھے کرنے کی تگ و دو میں تھی پر اس کے نازک سے ہاتھ کہا اس چٹان جیسے شخص کو ہلا بھی سکتے ۔۔آنکھوں سے آنسو تواتر بہہ رہے تھے ۔۔

بہروز سنبھلتا اٹھا اور ماتھے پر بلوں کا جال بچھالیا۔۔

اٹھوں اب یا یہی  سونے کا ارادہ ہیں۔۔۔؟؟

اور خود پر قابو رکھ لیا کرو ہر وقت ٹکراتی ہی رہتی ہوں۔۔

ابرو اچکاتے اس نے نیچے اسے لیٹا دیکھ کر اس کا شرمندگی سے جھکا سرخ چہرہ دیکھتے بولا۔۔

زونیشہ کہنی کے بل اٹھتی درد برداشت کر گئی ۔۔

اس کی کہنیاں پر جلن ہو رہی تھی جبکہ گملے کا کونا کمر پر لگا تھا۔۔ہونٹ بھینچے وہ شرم سے کانپ رہی تھی۔۔

یہ تم ہر ٹائم وائبریٹ کیوں کرتی رہتی ہوں۔۔اس کے نازک سراپے کو کانپتے دیکھ وہ ناگواری چھپائے بغیر بولا۔۔

کچھ بھی کہے بغیر آنسو صاف کرتی اس کے پاس سے گزرتی وہ باہر بھاگ گئی۔۔۔

عجیب لڑکی۔۔۔

وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا اسر جھٹکتے اس نے نیچے دیکھا جہاں ایک گملا ٹوٹ چکا تھا جبکہ دوسرا کے پھول مٹی میں گرے پڑے تھے۔۔

گہری سانس بھرتا وہ اندر چلا گیا ۔۔۔

شرٹ کو اتار کر پھینکتے بیڈ پر اوندھے منہ گرا۔۔

آنکھوں کے سامنے کچھ دیر کا منظر لہرایا۔۔

تو فوراً آنکھیں کھول لی۔۔۔

نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے تکیہ میں منہ دیے لیٹ گیا۔۔

"ڈیم اٹ یارر۔۔۔" تکیہ غصے سے نیچے پھینکتا وہ اٹھا ۔۔۔

وہ جھنجھلایا سا اپنے جم روم میں چلا گیا۔۔

اس کا ارادہ اب پنچنگ بیگ پر اپنا غصہ اتارنے کا تھا جو بلاوجہ اس لڑکی پر آرہا تھا۔۔

★★★★★★★★

وہ جب سے آئی تھی چھپ چھپ کر روئے جا رہی تھی ایک نا محرم کا لمس اسے کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا۔۔

غلطی اس کی تھی جس نے اس اپنی طرف کھینچ لیا تھا لیکن اسے کیا معلوم ایسا کچھ ہو گا۔۔۔

بیٹا ذونیشہ وہ تمہاری امی کی طبیعت سنبھل گئی ہے اس لیے میں اب حویلی کا چکر لگا آؤ۔۔۔اسلم نے دروازے پر کھڑا ہو کر کہا۔۔

جی ابو ٹھیک ہے ۔۔رونے سے آواز بھاری ہو چکی تھی۔۔ آنسو پونچھتی وہ اپنی ماں کے کمرے میں چلی گئی چھوٹی توسکول گئی تھی اس لیے وہ اکیلی ہی تھی گھر۔۔

اسلم حویلی پہنچا ہی تھا کہ اسے پیغام ملا چھوٹے مالک بھلا رہے تھے۔۔اسلم کچھ ڈرتا اس کے سامنے پیش ہوا جو بڑے کروفر سے کرسی پر پر بیٹھا تھا۔۔

اسلم  کل نہیں آئے تم۔۔عینک کے پیچھے چھپی سبز آنکھوں کے تاثر کیا تھا وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس کا اکھڑ لہجہ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔۔

پرمالک میری بیٹی آئی تھی۔۔اسلم سر جھکائے کھڑا مؤدب سا بولا۔۔

خاموش۔۔۔۔جب میں بولو تو صرف سنا کرو۔۔۔ہاتھ اٹھاتے وہ درشتگی سے گویا ہوا ۔۔ کہ اس کا وجود کانپ اٹھا۔۔

تمہاری اس بیٹی نے دو گملوں کا نقصان کر دیا ہے تم جانتے ہوں وہ پھول کتنے مہنگے ہے۔۔۔ساری عمر بھی لگا دو تو قیمت نہیں دے سکو گے ان کی۔۔۔

اپنی عینک اتارتے اس نے سائیڈ پر رکھی اور کرسی سے اٹھتے اس کے روبرو کھڑے ہوتے افسوس سے کہا۔۔۔

"مالک۔۔"

اسلم نظریں اس کے بوٹوں پر ٹکائے آہستہ سے بولا لیکن سلطان کی آواز پر باقی لفظ حلق میں دب گئے۔۔

میری بات مکمل نہیں ہوئی۔۔۔تمہاری وہ بیٹی کیا نام ہے اسکا۔۔؟؟؟کچھ الجھتے اس نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تو اسلم نے سر اٹھاتے سلطان کو دیکھا جو ہمیشہ کی طرح غصے سے کھڑا تھا۔۔

"ذونیشہ۔۔"

سہی.... تو ذونیشہ سے کہو کہ وہ ادھر کام کیا کرےکل سے ہی۔۔یہ سزا ہے اس کی۔۔

سلطان بے نیازی سے کہتا باہر بڑھنے لگا پر اسلم کی لڑکھڑاتی آواز نے قدم روک دیے۔۔

"مالک وہ اپنی ماں کا خیال رکھتی ہے گھر میں وہ نہیں آسکتی آپ مجھے سزا دے دیں۔۔"

اس کی آواز میں بے بسی نمایا تھی۔۔

میں جو کہتا ہو اسے ہونا ہی پڑتا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے ،،،ذونیشہ کل ادھر حویلی میں چاہیے مجھے ورنہ۔۔۔۔

سفاکیت سے کہتا وارننگ دیتے وہ شان سے چلتا حویلی سے چلا گیا۔۔

اسلم سر پکڑے باہر آیا۔۔۔

اسے ذونیشہ کو بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔

★★★★★★

سنسنان سڑک پر کھڑی اس کی کار اور خود آرام سے جنگل میں شکار کر رہا تھا ۔۔

اس نے کسی جانور کا نشانہ باندھا ہی تھا کہ اپنے عقب سے آواز سنائی دی۔۔

"سلطان واہ تم ادھر۔۔۔۔"!!!

خوش شکل ماڈرن سی لڑکی خوشی سے مسکراتے اس کی طرف بڑھی سلطان دو قدم پیچھے ہٹتے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔

حرا دور رہ کر بات کرو۔۔۔کوفت سے دیکھتے ماتھے پر بل ڈالے بولا۔۔

ساری گرمجوشی پل میں ختم ہوئی سلطان کا روکھا سا انداز اس کا موڈ آف کر گیا۔۔

سلطان ہم بچپن کے دوست اور کزنز بھی ہے پھر بھی تم ایسے ہی بات کرتے ہوں جیسے انجان سے کرتے ہوں۔۔

اسے کار کی جانب بڑھتے دیکھ پیچھے آتی وہ افسردگی سے گویا ہوئی۔۔

تو کس نے کہا ہے مجھے بلاؤ ،،، دور رہو مجھ سے۔۔۔غصہ ہنوز برقرار رکھے وہ کار کے پاس رکتے اسے دیکھا۔۔

تم جانتے بھی ہوں میں محبت کرتی ہوں تم سے۔۔

وہ اس کے لیے دیے انداز پر دانت پیستی بولی۔۔

حرا۔۔۔

سلطان نے ٹوکا۔۔

اپنے اندر کے اشتعال کو دباتے اس نے اپنی خالہ ذاد کزن کو گھورا۔۔جو اس پر کم اور پیسوں پر زیادہ مرتی تھی۔۔

"میں جا رہا ہو یہ فضولیات پھر کبھی سن لو گا۔۔۔"

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی سلطان گاڑی میں بیٹھتے زن سے بھگا لے گیا۔۔۔

★★★★★★

"وہ آئی نہیں ابھی۔۔۔"؟؟

اگلے دن صبح صبح ہی سلطان بغیر ناشتہ کیے خادمہ کے پاس آیا جو سارے گھر کا کام سنبھالتی تھی۔۔

"کون چھوٹے مالک۔۔"خادمہ پہلی بار اسے خود سے مخاطب ہوتا دیکھ حیران ہوئی۔۔

وہ اسلم کی بیٹی نے آنا تھا۔۔نارمل سا کہتے وہ پانی کی بوتل فریج سے نکالے منہ کو لگا گیا۔۔

نہیں چھوٹے مالک ابھی تک کوئی اسلم کی بیٹی نہیں آئی جب آئے تو آپ کو بتا دو گی۔۔۔

نہیں بس ٹھیک ہے۔۔بوتل وہی رکھتے وہ بے چینی سے باہر نکلا۔۔

ایک پل محض ایک پل میں وہ سلطان کا سکون و چین ساتھ لے گئی تھی رات کو سوتے وقت بھیگی بھوری آنکھیں چھن سے سامنے آ جاتی وہ جتنا بھی جھٹکتا اس کا خیال پر وہ سہی پنجے گاڑھ گئی تھی۔۔

اپنی کیفیت کو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہی دل نہیں لگ رہا تھا شکار کرنے کا بھی موڈ نہیں بن رہا تھا سارا دن وہ اسی انتظار میں رہا کہ کب ذونیشہ آتی ہے پر اس کا انتظار رائیگاں ہی گیا۔۔

اسلم نے چھٹی لے لی تھی اس کے باپ سے ورنہ سلطان اسے بلوا کر پوچھ لیتا ۔۔

ایک ہی طریقہ ہے مس ذونیشہ تمھیں قید کرنے کا۔۔

تم نے سلطان کی نیند ،،سکون ،،،چین چرایا ہے اب اس کی سزا تمہیں ملے گی معصوم پری۔۔۔

راکنگ چئیر پر جھولتے وہ خطرناک ارادے لیے سر چئیر کی پشت پر ٹکا گیا۔۔۔

★★★★★

صبح جیسے ہی اسے اطلاع ملی کہ سلطان بہروز نے اسے کام کے لیے حویلی بلایا ہے اس کی طبیعت ہی بگھڑ گئی۔۔

بابا میں۔۔نہیں جا رہی۔۔بیڈ پر لیٹی وہ باپ کا ہاتھ تھامے منت کرتی بولی۔۔

"ٹھیک ہے بیٹا مت جاؤ میں بڑے مالک سے چھٹی لے چکا ہوں اپنی،،چھوٹے مالک غصہ کرے گے پر ان کے والد سنبھال لے گے۔۔مالک کی بات ٹالی ہے اس لیے ،،،تمہیں بتایا تھا ذونیشہ کہ سلطان غصے کا تیز ہے اس لیے ان کی ٹینشن ہے بس۔۔

اس نے سلطان سے بات کرنے کی بجائے اپنے بڑے مالک سے اجازت لے لی تھی۔۔جس پر اس نے آرام سے دے بھی دی تھی۔۔پر سلطان کے غصے کا خوف بھی کھا رہا تھا۔۔

"جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ میرا بہادر بیٹا۔۔"

اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے وہ چلے گئے ۔۔

دو آنسہ تکیے میں جذب ہوئے۔۔

رات طبیعت زرا سنبھلی تو اٹھ کر سب کے لیے کھانا بنا دیالیکن پتی ختم تھی چائے بھی بنانی تھی اس لیے خود ہی دوپٹہ اوڑھتی باہر کونے میں بنی دوکان میں چلی گئی۔۔

ڈبہ پکڑتے وہ جیسے ہی اپنے گھر کے قریب پہنچی اندھیرے میں کسی نےپیچھے سے ناک پر کپڑا رکھا۔۔

وہ تڑپی مچلی پر جلد ہی ہوش ہ حواس سے بیگانہ ہوتی اس کی باہوں میں جھول گئی۔۔

سلطان سے اغواہ جیسا کام بھی تم نے کروا لیا۔۔ چاند کی روشنی میں اس کے چہرے کو دیکھتے وہ مسکرایا پہلی بار اس نے کسی لڑکی کو چھوا تھا ،،، خاموشی سے اپنی کار میں لیٹاتا وہاں سے نکل گیا۔۔

اسے کوئی پرواہ نہ تھی اس کے گھر والے کیا کرے گے۔۔

اس کے محلے والے گمشدگی پر کیا خبریں پھیلائیں گے۔۔

وہ انجان تھا بعد میں ہونے والی صورت حال سے۔۔

وہ نہیں جانتا تھا غریبوں کے پاس انمول چیز عزت ہی ہوتی ہیں جسے وہ رات کے اندھیرے میں اٹھا کر ختم کر آیا تھا۔۔۔

★★★★★

 اس کی آنکھ جیسے ہی کھلی خود کو ایک بند عالی شان کمرے میں پایا۔۔

سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتی اپنےحواسوں میں لوٹتی وہ اٹھی ۔۔۔

آنکھیں وحشت و خوف سے بھرا گئی۔۔

دروازہ کی طرف بڑھتے اپنے بے جان وجود کو گھسیٹا۔۔

وہ کب سے بے ہوش تھی نہیں جانتی تھی ۔۔

اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے دروازہ زور سے بجایا پر کوئی نہ بولا۔۔مسلسل دروازہ بجانے سے ہاتھ سرخ ہو چکے تھے۔۔۔

آنسو گالوں پر بہتے نیچے گر رہے تھے۔۔

کس نے اغواہ کیا اسے۔۔۔؟؟

یہ سوال دماغ میں گردش کر رہا تھا۔۔

چیخنے چلانے پر بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو تھک ہار کر بیڈ کے پاس بیٹھتی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔

ہچکیاں بلند ہوتی گئی اور آنسو بہتے گئے۔۔

چرر کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا ذونیشہ نے بے یقینی سے آنے والی ہستی کو دیکھا۔۔

بہروز مسکراتے ہاتھ میں وائن کاگلاس پکڑے اندر آیا۔۔

ذونیشہ بے ساختہ پیچھے کھسکی اسے خوف آیا اس بہروز سے جس کی سبز آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔۔

ہائے بے بی ڈول۔۔۔۔کیسا لگا پھر یہاں آ کر ،،، میں نے تمہیں پیار سے بلایا بھی تھا پر تم آئی ہی نہیں۔۔۔تم نے بہت تنگ کیا ہے سلطان کو۔۔۔

بہروز اسے نظروں میں رکھتےماتھے پر بل ڈالے مدھم سا ہنسا۔۔

شاید اس کی حالت۔۔۔

ذونیشہ کو بےساختہ اپنی قسمت پر رونا آیا۔۔

پل،ز،،مجھے،، جانےدے ،،،خدا کے لیے،،،، آخر کیا بگاڑا ہے آپ کا،،،میں نے۔۔۔

زمین پر بیٹھی نازک سی ذونیشہ نے اپنے ہاتھ جوڑے  سامنےکھڑے بےحس شخص کے سامنے گڑگڑائی ۔۔

بہروز سکون سے وائن کا گلاس پکڑے تمسخرانہ اس کے وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔

اس کی گڑگڑاہٹ پر اس کا دلکش قہقہ روم کی فضا میں گونجا۔۔

اپنے بھاری قدم اٹھاتا وہ پنجوں کے بل اس کےسامنے بیٹھا اور اپنی سرخ گہری سبز وحشت سے بھر پور آنکھیں اس کی بھوری نم آنکھوں میں گھاڑی۔۔

آہ۔۔معصوم پری۔۔آہ۔۔۔آخر تم اس دیو کی قید میں پھنس ہی گئی اور تمہاری غلطی صرف اتنی ہے کہ تم سلطان بہروز کی نظر کےسامنے آئی ،،، اب تم میری قید میں رہو گی جب تک میں چاہوگا ۔۔اس کا جبڑا اپنے ہاتھ سے جکڑے وہ جنونیت اور وحشت سے بولا۔۔

جبکہ نظریں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی بھوری نم آنکھیں،، چھوٹی سی سرخ ناک،، باریک گلابی کپکپاتے ہونٹ،، شفاف مکمل حسن  اس کی دسترس میں تھے سلطان بہروز کے ہونٹ شان سے مسکرائے۔۔

آپ مجھ سے نکاح کر لے۔۔کوئی بھی فرار کی راہ نظر نہ آئی تو بے بسی سے روتی ذونیشہ بولی۔۔

اس بات پر سلطان بہروز کی آنکھوں کا رنگ بدلا جھٹکے سے جبڑا چھوڑتے وہ اٹھا ۔۔

میں بہروز ہوں،، سلطان بہروز دنیا کو اپنے جوتےکی نوک پررکھتا ہوں ایک عام سے مالی کی بیٹی سے نکاح کر لو  ہونہہ۔۔۔اپنی طرف اشارہ کرتے وہ بے حس پتھر دل والا شخص اسے طنزیہ کہہ رہا تھا اس کے لہجے سے غرور جھلک رہا تھا۔۔۔

"کسی بھی قسم کی خوش فہمی مت پالنا لڑکی،،، تمہیں صرف اپنا دل بہلانے کے لیے لایا ہوں،،،ورنہ مجھے خاص دلچسپی نہیں ہے تم میں ،،، اس لیے رات کو تیار رہنا ،،، تم پہلی خوش نصیب لڑکی ہوں جسے سلطان بہروز اپنے بیڈ روم کی سیر کروائےگا۔۔۔" 

پگلا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیلتے وہ سیٹی کی دھن بجاتے جاچکا تھا لیکن جاتے جاتے  اسے بھی پتھر کی مورت بنا گیا تھا۔۔

"کیا عزت روندنا اتنا آسان ہوتا ہے ان امیر زادو کے لیے ۔۔۔"

"کیا کسی لڑکی کو کچل دینا ان کے لیے شان کا کام ہے۔۔"

"کیا یہ رب سے نہیں ڈرتے۔۔"

"کیا ان کی مائیں بہنیں نہیں ہے۔۔"

"کیا انہیں مکافاتِ عمل سے خوف نہیں آتا۔۔"

"کیا یہ کھلے جرم کر کہ بھی سر اٹھا کر چلتے ہے۔۔"

"کیا ہمیشہ لڑکی اپنی عزت کھونے کے ڈر سے چپ رہے گی۔۔"

"کیا کوئی انصاف والا نہیں ہے۔۔"

"کیا ہر انصاف کا کٹہرہ ان کے پیسوں کے آگے ہار ہوتا ہے ۔۔۔"

ہزاروں باتیں اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھی لیکن اس  کے  پاس کسی ایک کا بھی جواب نہیں تھا ۔۔۔ 

وہ جان چکی تھی آج اس کی زندگی کی بھیانک ترین رات ہو گی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی یہ یہ شخص جو کہتا ہے اسے کرنا اپنے لیے فرض سمجھ لیتا۔۔۔

ایک" آہ " تھی جو اس کے لبوں سے نکلی۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ اپنی موت کی خواہا تھی۔۔

★★★★★★

آج بہروز سلطان نے اپنا فارم ہاؤس دلہن کی طرح سجایا تھا۔۔

کمرے تک جاتا پھولوں کی پتیوں کا راستہ اور اپنے کمرے کو اس نے جس طرز سے سجایا تھا کہ دھنگ ہی رہ جائے دیکھنے والا۔۔

خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔

اس نے ذونیشہ کہ حویلی کے تہہ خانے میں رکھا تھا جہاں صرف وہ ہی جاتا تھا بہت کم ہی کوئی ادھر جاتا ،،اب اس کا ارادہ اسے ادھر لانے کا تھا۔۔

جلدی سے تمام تیاریاں مکمل کرتے  وہ بے چینی کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھتے حویلی کا رخ کیا۔۔

اس کا ارادہ سیدھا حویلی کی بیک پر بنے خفیہ دروازے سے اندر جانے کا تھا پر اس کی مام سامنے سے آتی اسے روک چکی تھی۔۔

"اوہ۔۔ مما مجھے ضروری کام ہے پلیز بعد میں جو کہنا ہو کہہ لے۔۔۔"اس نے ٹالنا چاہا جانے کی خاصی جلدی تھی۔۔

"بہروز میں کہہ رہی ہوں ادھر بیٹھے اور میری بات سنے ۔۔۔

سامنے پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتی انہوں نے سخت پتھریلے تاثرات سے بہروز کو جانچا کہ وہ گڑبڑاتا بیٹھ گیا ایک واحد یہی تو ہستی تھی جس کے سامنے بہروز خاموش رہتا تھا۔۔دنیا میں سب سے زیادہ وہ چاہتا بھی اپنی ماں کو ہی تھا۔۔

ماتھے پر بل ڈالے کوفت سے وہ ان کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔لیکن بیٹھنے سے پہلے اس نے موبائل سے اپنے خاص بندے کو میسج کر دیا تھا کہ لڑکی کو فارم ہاؤس پہنچا دو۔۔

بیٹا بہروز کیا تم نے کسی لڑکی کو حویلی کے تہہ خانے میں رکھا ہے۔۔مبین بیگم نے بیٹے کا متغیر چہرہ دیکھتے  پوچھا۔۔

"نہیں مما۔۔آپ کو کس نے کہا۔۔میں ایسے چونچلے نہیں پالتا۔۔یو نو آئم سلطان بہروز۔۔"!!

بے ساختہ وہ قہقہ لگاتے بول اٹھا۔۔پر دل دھک سا تھا کہی مما نے دیکھ تو نہیں لیا اس لڑکی کو۔۔

"بیٹا  بات تمہاری یا تمہارے شوق کی نہیں بات میری تربیت کی ہے اور میں نہیں چاہتی کوئی میری تربیت پر سوال اٹھائے۔۔۔"

وہ سنجیدگی اس کے تاثرات کی ملاحضہ کر رہی تھی۔۔جو ہمیشہ کی طرح جب جھوٹ بولتا تو ایک گھٹنہ مسلسل ہلائے جاتا تھا اب بھی کرسی پر بیٹھے وہ ٹانگ جھلاتے کہہ رہا تھا۔۔

"مما آپ کو لگتا ہے کہ اگر کوئی آپ پر سوال اٹھائے اور وہ زندہ بچے گا امپوسیبل مما۔۔میں اس کا نام و نشان مٹا دو گا۔۔"!!

 اپنی عادت کے پیشِ نظر بھڑک اٹھا۔۔

"تمہارا غصہ بہت  تیز ہے مجھے ڈر ہے کسی دن تم اپنے غصے سے پچھتاوے کا شکار نہ ہو جاؤ۔۔"

خادمہ کافی لے کر آچکی تھی جسے مبین بیگم پکڑتی ایک کپ بہروز کی طرف بڑھایا جسے وہ تھام چکا تھا۔۔

"ویسے بہروز مرد کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج اگر وہ کسی کی عزت روندھ رہے ہیں تو کل کو ان کی بھی عزت ہو گی اس کی بیوی یا بیٹی تو کیا پتا مکافات کا عمل ہو جائے دنیا تو مکافات عمل ہے لیکن کون مرد سمجھے اس بات کو ۔۔۔"

مبین بیگم کافی پیتے اسے نارمل سے انداز میں کہہ رہی تھی جبکہ سلطان سرخ سبز آنکھیں نیچے گاڑھے بیٹھا تھا  گردن اور ماتھے کی نسیں ابھر چکی تھی۔۔

اوکے مما میں چلتا ہوں۔۔!!

بغیر ان کی طرف دیکھے وہ باہر کو چلا گیا۔۔۔

پیچھے مابین بیگم نے ایک گہری سانس چھوڑی ۔۔

"مجھے امید ہے کہ میرا بہروز کچھ بھی کر سکتا ہے پر کسی لڑکی کو بے آبرو نہیں کر سکتا۔۔"

اسے صبح ہی خادمہ نے بتایا تھا کہ کل اس نے بہروز کے بازوؤں میں ایک نازک سا وجود دیکھا تھا جو تہہ خانے میں لے کر جا رہے تھے۔۔

مبین بیگم نے سوچا کہ اس کا وہم ہو گا لیکن کریم نواز ان کا گارڈ اس سے جب سختی سے مبین نے پوچھا تو سب کچھ بتا دیا کہ اسے چھوٹے مالک رات کو اسے لے کر آئے تھے وہ کون ہے اسے نہیں پتا۔۔

جانے کیوں پر مبین بیگم کے دل میں موہم سی امید تھی کہ بہروز ایسا کچھ نہیں کرے گا جیسا وہ سوچ رہی ہے آخر اب تک جس بہروز نے کسی لڑکی کو ہاتھ نہیں لگایا وہ کیسے کسی لڑکی کو اٹھا کر لا سکتا ہے۔۔

لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی وہی بہروز سلطان اکھڑ بدتیمز اور انتہا کا خود سر لڑکا ایک لا علاج مرض میں مبتلا ہو چکا تھا۔۔

★★★★★★

خود کو پہلے کسی پارلر میں تیار کروانے  پر وہ جتنا رو سکتی تھی روئی پارلر والی نے میک اپ نہیں کیا بس لپ اسٹک لگائی اور جیولری  پہنا دی لیکن پھر بھی وہ دلہن کے عروسی لباس میں ایک اپسرا معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔

اسے وہاں سے آنکھوں پر پٹی باندھے  کہی لے جانے پر وہ سہمی ہرن کی طرح اپنے ساتھ کھڑی عورتوں کے درمیان کھڑی تھی جن کے بولنے کی آوازیں اسے سنائی دے رہی تھی۔۔

"کیا تم پاگل ہو چھوٹے مالک کے کمرے میں گئی اس ملازمہ کا انجام بھول گئی ہو ،،،میں تو نہیں جا رہی اندر۔۔"

دونوں بہروز کے کمرے کے باہر کھڑی تھی تو ایک جھرجھری لیتی بولی۔۔

تو پھر اس لڑکی کو ہی بھیج دیتے ہیں اندر ۔۔

ان کی سرگوشیوں پر ذونیشہ کی روح فنا ہوئی۔۔

نہی۔۔ں ۔۔پلیز۔۔مجھے چھوڑ دے۔۔مھ پر۔۔رحم۔۔کرے۔۔مجھے جانے دے میرے ماں باپ مجھے ڈھونڈ رہے ۔۔ہو گے۔۔۔

عروسی جوڑے میں مبلوس وہ کانپتی بولی۔۔

دونوں عورتوں نے افسوس سے سجی دلہن کو دیکھا جانے کونسی غلطی ہوئی کہ وہ بہروز کے قہر  کانشانہ بننے والی تھی۔۔۔

"چلو اسے کمرے کے اندر تک چھوڑ دیتے ہیں اور ویسے بھی اس کا لہنگا کافی بھاری ہے جتنی نازک سی یہ ہے کہیں گر ہی نہ جائے۔۔"

دوسری تاکید میں سر ہلاتی اس کے لہنگے کو اٹھائے بہروز کے کمرے کا دروازہ کھولتی اندر چھوڑا اور باہر آگئی۔۔

دروازہ باہر سے لاک کرتی وہ جا چکی تھی۔۔۔

جب کسی قسم کی کوئی آواز سنائی نہ دی تو کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری۔۔۔

کمرے کو یو سجا دیکھ وہ پتھرا گئی،،اس نے تو کوئی ایسی حرکت بھی نہیں کی تھی جس کا بدلہ بہروز لے رہا تھا ،،پھر وہ کیوں اس پنجرے میں قید ہو گئی۔۔

بیڈ تک جانے کی اس میں نہ ہمت تھی نہ وہ جانا چاہتی تھی اس لیے اپنے لہنگے کو سنبھالتی ایک سائیڈ پر بیٹھ کر دیورا سے ٹیک لگا گئی۔۔

وہ اب بھی کسی معجزے کے انتظار میں تھی شاید کوئی اسے بچا لے ۔۔حرام موت مرنا اس کے بس میں نہیں سوچتے  ہی روح لرز اٹھتی ۔۔

دیوار سے ٹیک لگائے کب نیند کا غلبہ طاری ہوا اور وہی سو گئی۔۔

★★★★

سلطان بہرز اپنی  سوچوں سے لڑتا سرخ سبز آنکھیں لیے اپنے فارم ہاؤس لوٹا ۔۔

یقینا وہ لڑکی ادھر ہو گی ۔۔

وہ سوچ کر آیا تھا اسے کیا کرنا ہے۔۔

اپنے روم کی طرف بڑھتے اسے نے دروازہ کھولا جو آسانی سے کھل گیا ۔۔

اس کی نظر جیسے ہی دائیں جانب دیوار سے ٹیک لگائے ذونیشہ پر پڑی دل ایک دم دھڑک اٹھا۔۔

قدم قدم چلتا وہ اس کے پاس پنجوں کے بل بیٹھا۔۔

یک ٹک اسے دیکھتے وہ سب بھول گیا۔۔

بھاری لہنگا پھیلا ہوا تھا چہرے دیوار کے ساتھ لگا ایک سائیڈ پر ڈھلک چکا تھا مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان اور غضب ڈھاتی صرف ایک ریڈ لپ اسٹک وہ سادگی میں تھی یا ہتھیاروں سے لیس پر بہروز  کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔ 

ہاتھ بڑھاتے نرمی سے چہرے پر آتی لٹ پیچھے کی۔۔

جس پر ذونیشہ نے نیند میں ہی منہ بسورا۔۔

اس کی حرکت پر بے اختیار بہروز کے ہونٹ مسکرائے۔۔

تیکھی ناک میں پہنا لونگ اس کے حسن کو چار چاند لگا گیا۔۔

بہروز پیچھے بیڈ سے ٹیک لگاتے اب خود بھی نیچے بیٹھ گیا تھا۔۔

اگر وہ ہوش میں ہوتا اور خود کو یوں ایک لڑکی کے سامنے زمین پر بیٹھا دیکھتا تو یقینا وہ اس لڑکی کو پہلی فرصت میں ہی قتل کرتا۔۔

پر اس وقت ایک سکون تھا جو رگ و جان میں سرائیت کر گیا تھا وہ عادت تھی یا سکون تھی یا جنون وہ بے خبر تھا مدہوش تھا کھو کر اس کے حسن میں وہ سب بھول چکا تھا  ،،وہ سب کچھ جو سوچ کر آیا تھا سب کہی پیچھے رہ گیا۔۔ فقط اس کا چہرہ اپنی وحشت بھری آنکھوں میں بسائے  بیٹھا تھا۔۔

دُنیا کا ہر نظارہ نِگاہوں سے چِھین لے

کُچھ دیکھنا نہیں ہے تُجھے دیکھ کر مجھے

بند ہوتی آنکھوں سے اس پری پیکر کا چہرہ دیکھتے اس نے مسکراتے آنکھیں بند کرلی۔۔

★★★★

کسمساتے اس نے اپنی آنکھیں کھولی جو سیدھا دھندلے سے چہرے سے ٹکرائی۔۔

منظر صاف نظر آنے پر وہ سانس تک روک گئی۔۔

کچھ ہی فاصلے پر بالکل اس کے  سامنے نیند میں گم بیڈ سے ٹیک لگائے سویا ہوا تھا۔۔

اس کی کائی جمی آنکھیں اس وقت بند تھی۔۔کشادہ پیشانی پر ہائی لائٹ کیے گئے بال بکھرے ہوئے تھے۔۔تیکھی مغرور کھڑی ناک اور ہلکی بھوری بیئرڈ جو اس کے چہرے پر کافی جچ رہی تھی بھوری گھنی مونچھوں تلے دبے آپس میں پیوست عنابی لب ۔۔اسے دیکھتے کسی ترکش ہیرو کا گمان ہوتا تھا۔۔

ذونیشہ لب سختی سے بھینچے اٹھی ۔۔

وہ جس حلیے میں سوئی تھی بالکل ویسے ہی تھی سکون بھرا سانس لیتی کمرے پر نظر دوڑائی جو ویسے ہی پڑا تھا پر گلاب کی پتیاں مرجا چکی تھی۔۔

اس کے اٹھنے پر کلائیوں میں پہنی چوڑی کھنکی ۔۔جس پر بہروز کے ماتھے پر سوتے ہوئے پھی بل پڑے۔۔

"بس یہ جاگے نہ پلیز اللہ جی۔۔"

دبے پاؤں کمرے کے دروازے تک آتی وہ پیچھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

دروازے کے لاک پر کپکپاتا ہاتھ رکھتی اس نے لاک گھمایا ۔۔

چوڑیاں دغا دیتی ایک ساز سا روم میں بکھیر گئی۔۔

اٹکتی سانسوں سے اس نے پیچھے دیکھا۔۔

بہروز کی سبز نیند سے بوجھل سرخ آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔

نیچے سے اٹھتے اس نے سینے پر بازو باندھے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔۔

پلیز۔۔۔مجھے۔۔۔جانے۔۔۔دے۔۔!!

حواس باختہ ہوتی وہ دروازے سے چپک گئی۔۔

"چلو  میں چھوڑ آتا ہوں تمہیں۔۔"

ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے اپنے بال سیٹ کرتے وہ اس کی طرف آیا جو دروازے کو پکڑے یوں کھڑی تھی جیسے اسے دروازہ اپنے اندر سما لے گا۔۔

ذونیشہ نے بھیگی بھوری آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔

"سائیڈ پر ہو جاؤ میں لاک کھولو۔۔"

دل کو ڈپٹتے وہ بھیگی نرم پلکیں دیکھتا بولا۔۔

ذونیشہ سائیڈ پر ہوئی تو بہروز نے دروازہ کھولا ۔۔

اور باہر چلا گیا ذونیشہ بھی اس کے پیچھے ہی آئی۔۔

"ادھر بیٹھو میں ابھی آتا ہوں۔۔"اسے صوفے کی طرف اشارے کرتے خود کچن میں چلا گیا۔۔

اس دوران وہ اسے دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔۔

بریڈ کی سلائس اور انڈہ ٹرے میں رکھتے ساتھ چائے کے ایک کپ رکھے وہ کچھ دیر بعد ہی کچن سے باہر آیا۔۔

ناشتہ اس کے سامنے رکھتے خود واپس کچن چلا گیا ۔۔

ذونیشہ جسے پہلے ہی  بھوک لگی ہوئی تھی اب ناشتہ سامنے دیکھ کر بھوک بھی چمک اٹھی پر خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے بیٹھی رہی،،،کیا معلوم وہ شخص خود کے لیے رکھ کر گیا ہوا۔۔

گرم گرم بھانپ اڑاتا کافی کا کپ پکڑے وہ اس کے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔

کھاؤ کھانا کیا واپس گھر نہیں جانا کیا۔۔؟؟

ماتھے پر بل ڈالے وہ سختی سے گویا ہوا تو ذونیشہ بریڈ کی ایک سلائس کھاتی چائے کا آدھا کپ پیے رکھ چکی تھی۔۔

اور چور نظروں سے اسے دیکھا جو سکون سے کافی پئے اسی کو دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔۔

"اٹھو اب۔۔"!!

جتنی اس کی صحت تھی یہی امید تھی کہ اتنا ہی کھائے گی ۔۔گاڑی کی کیز اٹھاتے وہ اسے ساتھ لیے باہر گیا۔۔

ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے اس نے انگلیاں چٹخاتی ذونیشہ کو دیکھا جو ابھی بھی باہر ہی کھڑی تھی ۔۔

سلطان نے سٹئیرنگ وہیل پر سختی سے گرفت جماتے اس دیکھا اس کے بازو کی نسیں ابھر چکی تھی۔۔

ذونیشہ مرتی کیا نہ کرتی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولے بیٹھ گئی۔۔

اے۔۔۔لڑکی میں تمہیں کس اینگل سے ڈرائیور نظر آتا ہو۔۔؟؟؟

کائی جمی سرخ آنکھیں اس پر رکھے وہ گردن موڑے حیرت سے مخاطب ہوا۔۔

"وہ۔۔میں آگے کیسے بیٹھو۔۔۔"!!

تب کے روکے آنسو گالوں پر بہہ نکلے۔۔۔

"کیا مطلب جیسے پیچھے بیٹھی ہوں بالکل ویسے ہی آگے بیٹھنا ہے اب جلدی کرو میں فارغ نہیں ہو جو یہ چونچلے برداشت کرو شکر کرو تم زندہ واپس جا رہی ہوں۔۔"

سر جھٹکتے اس نے نے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی۔۔

ذونیشہ بھی بیک سیٹ سے اٹھتی فرنٹ پر بیٹھ گئی ایک تو لہنگا اتنا بھاری تھا کہ مشکل سے اس کا کمزوز وجود وزن برداشت کیے ہوئے تھا۔۔

ترچھی نظر اس پر ڈالتے اس نے گاڑی کو سڑک پر بھگایا۔۔

دل تھامتی خوف سے ذونیشہ آنکھیں سختی سے مینچ گئی۔۔

دونوں اس بات سے انجان کہ ان کی زندگی پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔۔

★★★★★

گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔۔

ذونیشہ گہرہ سانس بھرتی رب کا شکر ادا کیا جس نے اس کی جان بچا لی ورنہ جس سپیڈ سے گاڑی اڑائی تھی اسے موت قریب ہی نظر آئی۔۔

"چلو ۔۔۔!!!

وہی پھاڑ کھانے والی آواز پر ذونیشہ نے اس سر پھرے کو دیکھا جو کار کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔۔۔

یہ۔۔۔تو ۔۔۔میرا گھر نہیں ہے۔۔۔

ذونیشہ لہنگا سنبھالتی اطراف کا جائزہ لیتی سہمی سی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔

"تو میں کیا تمہیں گھر چھوڑنے جا رہا تھا کسی صدی کا پاگل سمجھا ہے مجھے۔۔"

آنکھیں چھوٹی کیے اس نے ابرو اچکایا۔۔

"آپ نے تو کہا تھا چھوڑ آئے گے۔۔۔"آنسو پیتی وہ بھرائی آواز میں بولی۔۔

ہاں ارادہ تھا میرا،،، پھر گاڑی چلاتے چلاتے چینج ہو گیا ،،، وہ کیا ہے نہ ایک گھنٹے میں ساٹھ مرتبہ میں فیصلہ بدلتا ہو،،،،یہ میرا سٹائل ہے یا عادت بھئی میں خود بہت تنگ ہو خود سے۔۔۔

"جیسے ابھی میرا دل کر رہا ہے تمہیں اپنے بازؤں میں اٹھا کر لے کر جاؤ پر ابھی ایک منٹ گزرا اور فیصلہ چینج ہو گیا۔۔ اب دل کر رہا ہے تمہارا یہ روتو چہرہ اسے چھپا کر لے جاؤ اندر  اگر مولوی ڈر گیا تو۔۔۔

وہ بولنا شروع ہوا تو بولتا چلا گیا ذونیشہ رونے بھولے ہونکوں کی طرح اسے دیکھا جو کسی فلیٹ کے سامنے کھڑا اس سے اتنی دلچسپی سے بات کر رہا تھا جیسے اندر کوئی کیس لڑنا ہوں اور وہ گواہ ہوں۔۔۔

"پر ہم ادھر کیوں آئے۔۔۔"

وہ ابھی بھی وہی کی وہی تھی۔۔۔

"توبہ لڑکی کتنا بولتی ہوں ۔۔۔۔۔" بہروز نے گھورتے اس کا دوپٹہ پیچھے سے پکڑتے اچھے سے گھونگٹ کی طرح اوڑھ دیا۔۔

جبکہ وہ یہی سوچتے اس کے ساتھ کھیچتی چلی گئی کہ "واقعی وہ اتنا بولتی ہے"؟؟

"میں آپ سے شادی نہیں کروگی۔۔۔!! "بیچ راستے وہ رکتی پریشانی سے بولی۔۔۔

"تمہیں ایسا ہی لگنا چاہیے کہ میں شادی نہیں کررہا ،،،

میں کچھ دنوں سے بے سکون سا ہوں شاید مجھے تم پسند آگئی ہوں پر بہروز سلطان کو کوئی چیز صرف چند دن تک ہی اپنی جانب کھینچتی ہے بعد میں وہ اپنی کشش کھو دیتی ہے،،، تم بھی بس چند دن میرے پاس رہو جیسے ہی میرا دل بھر گیا تم اپنی راہ میں اپنی راہ۔۔۔!!

بہروز کی باتیں سنتی وہ مرنے کے قریب تھی وہ اسے بکاؤ لڑکی سمجھ رہا تھا پھر یہ نکاح کیوں کر رہا تھا۔۔۔

وہ کتنی آسانی سے یہ بات کر گیا کیا وہ اتنا بے خبر تھا اس مقدس رشتے سے ۔۔۔

"لڑکی کیا تمھارے اندر کوئی ایسا سسٹم فکس ہے جو دو منٹ بعد ہینگ ہو جاتا ہے ۔۔"بہروز نے زچ آتے دوبارہ اسے ساتھ لیے اندر گیا وہ کسی کچی شاخ کی 

مانند ساتھ چلتی گئی۔ ۔

"چلو تم ادھر بیٹھو میں ابھی آیا۔۔۔اور احسان مانو میرا جو نکاح کر رہا ہوں ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔۔!!

اسے کمرے میں بیٹھاتے گلاس میں پڑا پانی غٹاغٹ پیا۔۔۔

ذونیشہ اس کے جاتے ہی گھونگھٹ پلٹا دیواروں پر لگی لڑکیوں کی اور ایک لڑکے کی تصاویر چسپاں تھی۔۔

شاید اس کے دوست کا فلیٹ ہوں۔۔

"چلو میری عارضی دلہن جلدی سے تیار رہو تمہارے نکاح کا وقت ہوا جاتا ہے۔۔۔"

بہروز اندر آتے دلکشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

دو آنسو بے مول ہوئے اور وہ بہروز سلطان کے نام لکھ دی گئی۔۔

" آؤ اب تمہیں اپنی خوابگاہ میں لے چلو کیونکہ پہلے تم بے نام وہاں پڑی تھی پر اب میرے نام کے ساتھ جاؤ گی۔۔!!

ذونیشہ نے اس کو بغیر دیکھے جلدی سے سے اٹھتی کھڑی ہوئی۔۔

لیکن اس تیزی میں لہنگے میں پاؤں اٹکا اپنا توزان برقرا نہ رکھتے وہ گرتی کہ بہروز نے اس کے گرد بازو حائل کرتے کھینچا۔۔

کٹی ڈال کی طرح وہ اس کے سینے سے ٹکرائی۔۔

اس کی ہتھیلی کے عین نیچے بہروز سلطان کا دل دھڑک رہا تھا۔۔۔

حلق تر کرتی اس نے  نگاہیں نیچے جھکائے رکھی۔۔

بہروز نے اس کےکمر کے گرد دونوں بازو حائل کیے اور اپنی گرفت مضبوط کرتے اسے اپنے اور قریب کیا۔۔۔

"کیا بات ہے عارضی بیگم تمہیں خاصی جلدی ہے میرے قریب آنے کی جو یوں پھسلتی میرے سینے سے آلگی ہوں۔۔؟؟

بہروز نے آہستہ سے اس کے چہرے پر پھوک ماری جس سے چہرے کے اطراف میں  بکھرے بال پیچھے ہوئے۔۔

اس کے توانا بازو کے شکنجے میں اس کی سانسیں رک رہی تھی۔۔

اوپر سے اس کی بے باکیاں عروج پر تھی کمر کو سہلاتے اس کے ہاتھ ذونیشہ دل کی دھڑکنوں کو سنبھالتی بامشکل کھڑی تھی۔۔

"نکاح مبارک ہوں ذونی بہروز سلطان ۔۔!!!

اس کی آواز سُر سے بکھیر گئی۔۔بہروز نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے اس پر جھکا ذونیشہ سانس روکے اس کو اپنے قریب تر دیکھ رہی تھی جو مسکراتے اس پر جھکتے سانسوں پر قابض ہوا۔۔

 اس کے رحم و کرم پر کھڑی سختی سے آنکھیں مینچ گئی۔۔

تا دیر روم کی فضا میں دونوں کی دھڑکنیں گوجتی سرگوشیاں کرتی رہی ۔۔

کندھے پر چبھتے ناخن اور سینے پر لگتے مکے اسے ہوش کی دنیا میں لائے ۔۔اور اس سے دور ہوا۔۔

ذونیشہ آنکھوں میں آنسو لیے گہرے گہرے سانس بھرتی پیچھے ہوئی لیکن اپنے گرد اس کا حصار بندھا دیکھ بے بسی سے رو دی۔۔۔

سلطان بہروز بیزاری سے اسے روتا دیکھا۔۔

اپنی گرفت سے آزاد کرتے اپنی شرٹ کا کالر درست کیا۔۔

گردن پر  جلن کا احساس ہوا تو  بہروز نے ڈریسنگ مرر پر کھڑے ہوتے معائنہ کیا۔۔

اس کے ناخنوں کے نشان واضح تھے ۔۔

ٹشو پکڑتے اس نے اپنے ہونٹ صاف کیا۔۔اور وہی ٹشو پھینکتے اس کی طرف بڑھا۔۔

جو کانپتی اس کی حرکات دیکھ رہی تھی دوبارہ قریب آنے پر پیچھے ہوئی ۔

"بہت ہی کوئی سویٹ ہو تم۔۔۔۔۔"!!

بہروز نے سرخ سبز آنکھیوں سے اس کا سراپہ دیکھتے آنکھ ونک کی۔۔

ذونیشہ سرخ پڑتی چہرہ موڑ گئی۔۔

"اب تمہیں لے چلو میں سلطان ہاؤس۔۔۔۔""

اس کی کلائی پورے حق سے تھامتے وہ ساتھ لے گیا۔۔

★★★★★★

ذونیشہ کے گھر میں صفہ ماتم بچھا ہوا تھا۔۔

رات کو ذونیشہ کی ماں وفات پا گئی تھی یہ خبر قہر بن کر ٹوٹی تھی۔۔۔

اس دوران کسی کو ذونیشہ کا ہوش نہیں تھا جبکہ اس کا باپ ذونیشہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا تھا ایک بیوی کی موت کا غم تو دوسرا بیٹی کی گمشدگی دونوں ہی بڑے غم تھے۔۔

بنو تم دروازے کو کنڈی لگائے رکھنا کوئی بھی آیا دروازہ نہ کھولنا چاہے تعذیت کے لیے ہی کوئی عورتیں آجائے پر دروازہ بند ہی رکھنا میں سلطان کی حویلی جا رہا ہوں تاکہ ان سے مدد لے کر ذونیشہ کو ڈھونڈ لو۔۔

جھکے کندھے کے ساتھ وہ سمجھاتا  حویلی چلا گیا۔۔۔

پیچھے اکیلی ماں کے غم پر روتی نڈھال لیٹی رہی۔۔

★★★★

بہروز نے گاڑی حویلی کے اندر داخل کی جبکہ ذونیشہ بیٹھی بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔۔

گاڑی کو روکتے اس نے ذونیشہ کی طرف کا دروازہ کھولا۔۔

اور کسی شہزادے کی طرح تھوڑا سا جھکتے اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلایا۔۔

اس کی پھیلی ہتھیلی دیکھتی وہ گبھرائی۔۔

اور اپنا نازک ہاتھ اس کی ہتھیلی پر رکھا۔۔۔جسے مضبوطی سے پکڑتے بہروز نے سہارا دیتے اسے باہر نکالا۔۔

اتنا مہربان بہروز ذونیشہ کچھ ڈری تھی۔۔

"اب میرا دل کہہ رہا ہے کہ ۔۔۔"بہروز جو خواہش پہلے پوری نہیں کی وہ اب کر لو۔۔"

 اس نے ذونیشہ کے ہاتھ کی پشت پر اپنے سلگتے لب رکھے۔۔

ذونیشہ ابھی سمجھتی کہ وہ کونسی خواہش کی بات کر رہا ہے ۔۔

بہروز نے جھکتے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔

ہلکی سی چیخ اس کے ہونٹوں سے برآمد ہوئی ۔۔۔

جس پر وہ مسکراتے اندر بڑھ گیا جتنا اس کا وزن تھا بہروز سارا وقت اسے اٹھائے گھوم سکتا تھا۔۔۔

حویلی کے اندر کوئی نہیں تھا اس لیے وہ سکون سے اسے اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔۔

انجانے خوف سے ذونیشہ کا دل دھڑک اٹھا۔۔

اس نے پہلے ہی خادمہ سے کال کر کے پوچھا تھا کہ مام کہاں ہے ۔۔

سوچ کے مطابق اس وقت دوائی کے زیرِاثر سو رہی تھی۔۔

شان سے قدم اٹھاتے اپنے کمرے کا دروازہ پاؤں سے کھولتے اندر بڑھا ۔۔

اپنے جہازی سائز بیڈ کے قریب آتے اس نے جھٹکے سے اسے بیڈ پر پھینکا ۔۔۔

ذونیشہ درد سے کراہتی بھوری آنکھوں سے اسے گھورا۔۔۔

اس کے گھورنے پر بہروز نے داد کے انداز میں ابر اچکائے ۔۔

سٹپٹاتے اس نے نظریں روم میں دوڑائی۔۔

ہر دیوار پر سلطان بہروز اپنی ساحر شخصیت کے ساتھ تصاویر میں موجود تھا ۔۔

چاکلیٹ اور وائٹ کلر کے کمیبینشن میں سجا روم اپنی مثال آپ تھا۔۔

ویلکم ڈئیر وائفی۔۔پہلی لڑکی ہو جس نے میرا روم دیکھا ہے۔۔!!

بہروز کی آواز پر ہوش میں آتی کچھ پیچھے کھسکی۔۔

"اوکے میں فریش ہو کر آیا۔۔۔"

سیٹی کی دھن کے ساتھ وہ وہاں سے غائب ہوا۔۔

اس کا یہ نارمل انداز ذونیشہ کو کھٹک رہا تھا ۔۔۔

بیڈ پر بیٹھی اس نے پیچھا دیکھا۔۔۔

لیکن حیرت سے منہ ہی کھل گیا بہروز سلطان شرٹ لیس ریسلنگ رنگ میں  ہاتھ میں ٹرافی پکڑے کھڑا تھا ۔۔

ماتھے پر بلوں کا جال تھا جبکہ ہونٹوں پر مبہم سی مسکان۔۔

وہ اس دیو کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔

میں سلطان بہروز سامنے ہوں تمہارے اور تم میری تصویروں کو گھور رہی ہے مجھے دیکھوں قریب سے اور جتنا چاہے گھور لو ۔۔۔اپنے بالکل قریب سرگوشی پر وہ بدک کر پیچھے ہوئی۔۔

وہ شرٹ لیس اس پر جھکا تھا ۔۔

گیلے بال ماتھے پر بکھرے تھے۔۔

اس کے پھولے مسلز پر ٹھہری پانی کی بوندیں اور اس کے گلے میں جھولتا لاکٹ جس کے ساتھ ایک سرخ چیز لٹک رہی تھی۔۔

بے اختیار اس نے اپنا حلق تر کیا۔۔نظریں جھکائے اس نے خود کو مضبوط کرتے تھوڑا اور پیچھے ہوئی۔۔

"لو اب میں سامنے ہوں اور تم نیچے دیکھ رہی ہوں اب تو حق ہے تمہیں دیکھ لو جی بھر کر کیا پتا کب تم اس سلطان کی قید سے رہا ہو جاؤ۔۔"!!

اپنے ہاتھ بڑھاتے اس نے ذونیشہ کا دودھیا پاؤں پکڑا۔۔۔

"یہ خالی سا پاؤں اچھا نہیں لگ رہا ۔۔"

"ویٹ۔۔۔۔"!!

اس کا پاؤں چھوڑتے وہ سائیڈ ڈرا میں کچھ تلاش کرنے

 لگا۔۔

ذونیشہ نے پاؤں واپس کھینچ لیا۔۔

"مل گئی ۔۔۔"

ایک ڈبی نکالتے وہ مڑا ۔۔

"یہ مجھے مام نے دی تھی کہ اپنی دلہن کو پہنا دینا خیر تم تو عارضی دلہن ہو پر یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ لینا۔۔۔"

عارضی دلہن پر ذونیشہ نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔۔اپنا مطلب پورا کرنے کی خاطر وہ کس حد تک جا رہا تھا۔۔

بیڈ پر بیٹھتے اس نے ذونیشہ کا پاؤں اپنی گود میں رکھا ۔۔

اور پائل پہنا دی۔۔۔

"اب سہی ہے۔۔۔" اس کا پاؤں ذرا ہلاتا اس نے پائل کی چھنکار پر دلچسپی سے اس کا پاؤں پکڑے رکھا۔۔

کیا وہ ہوش میں تھا جو ایک معمولی لڑکی کا پاؤں پکڑے بیٹھا تھا۔۔۔

بہروز کی اگلی حرکت پر ذونیشہ کی جان ہوا ہوئی۔۔

جس نے جھکتے اس کی پائل پر لب رکھے تھے۔۔۔

"آپ غلط کر رہے ہیں۔۔۔"اس کی آواز گلو گیر ہوئی۔۔

"کیا غلط کر رہا ہوں میں۔۔؟؟؟ اب تو نکاح بھی کر لیا ہے تم سے۔۔

اس کی بات پر وہ جلال میں آیا۔۔۔سخت سے اس کا بازو دبوچے قریب کیا ساری نرمی ہوا ہوئی۔۔۔

"آپ مجھے چھوڑ دے گے برباد کرنے کے بعد۔۔۔"اس کا آنسو ٹوٹ کر بہروز کے بازو پر گرا۔۔

"دیکھو لڑکی تمہارا قصور ہے جو میرے سامنے آئی کچھ ہی دن کی بات ہے بہت پیسہ دو گا تمہیں ساری زندگی عیش کرو گی۔۔۔!!

بہروز نے کوفت سے اس کا ڈرامہ دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔ 

"میں ایک غریب لڑکی ہوں یہ پیسوں پر نہیں مرتی بہروز صاحب عزت ہمارے لیے انمول ہوتی ہے آپ نے نکاح کیا ،،،پر اس نکاح کا مزاق تو مت بنائے۔۔۔!!

اس نے تلخی سے کہا تو بہروز کچھ پل کے لیے خاموش رہ گیا۔۔۔

نچلہ لب کچلتے اس نے گہری سانس بھری۔۔

"میں مجبور ہوں،،، ایک نشہ ہے جو سر پر طاری ہے،،، ایک جنون ہے جو مجھے خاک کر رہا ہے،،، ایک ضد ہے جو حد سے گزر جانے پر بضد ہے ،،، ایک سرور ہے جو تمہیں پانے کا سوچتے ہی رگوں میں گردش کر رہا ہے،،، یہ میرے بس سے باہر ہے اب ۔۔۔!!

اس کا گال انگھوٹھے سے سہلاتے وہ طبیعت کے بر خلاف نرمی سے بولا۔۔

"آپ صرف ہوس پوری کرنا چاہتے ہے۔۔۔۔"!!!

اس کا ہاتھ جھٹکتے پہلی بار وہ ذرا تیز لہجے میں بولی۔۔۔۔

اس کی بات پر بہروز کی آنکھوں میں خون اترا ۔۔۔

"تو پھر اس ہوس کو میں جلد پورا کرو گا۔۔۔

پھولے تنفس کے ساتھ اپنے غصہ پر قابو پاتے بیڈ سے اٹھتے اس نے ٹیبل پر پڑا کرسٹل واز اٹھا کر ایل سی ڈی پر پھینکا۔۔۔

جو ٹوٹ کر نیچے کر نیچے گرگئی اور جا بجا کانچ بکھر گیا۔۔۔

سرخ چہرے کے ساتھ اس نے وحشت بھری نظر  بیڈ پر سن وجود پر ڈالتے کھیچ کر دروازہ بند کیا۔۔۔

اس کے غصے پر حواس قابو میں لاتی گھر والوں کی یاد آنے پر خاموشی سے بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا گئی ۔۔۔

وہ بہروز سلطان کے لیے دل بہلانے کا سامان ہو سکتی تھی پر اس کی محبت نہیں۔۔۔

★★★★★

غصے سے بپھرا تمام چیزیں توڑتے وہ طیش و اشتعال میں  اپنی گاڑی لیے باہر نکلا۔۔

ریش ڈرائیونگ کرتے وہ اپنے دوست کے فلیٹ پر پہنچتے سگریٹ پر سگریٹ پیتے اپنے اندر کے درندے کو  سلا رہا تھا۔۔

جس فلیٹ میں اس نے نکاح کیا تھا۔۔وہی موجود تھا ۔۔

جلدبازی میں شرٹ لیس ہی ادھر  آ گیا تھا ،،، سبز آنکھوں میں تیرتی سرخی اور ماتھے کی پھڑکتی رگ اس کے ضبط کی گواہی دے رہی تھی۔۔

جبکہ اس کا دوست اس کے سامنے بیٹھا اسے سوائے گھورنے کے کچھ نہیں کر رہا تھا۔۔

"وہ لڑکی اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی یہ الفاظ بولنے کی۔۔۔۔"میرے سامنے بکواس کر رہی تھی،،،اس کی جان لے لو گا میں ۔۔۔سگریٹ پھینکتے اس نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے۔۔

بہروز یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے جتنی تو بنا رہا ہے اس نے وہ بات تیرے بیہیو کے مطابق کی جس طرح تو اسے ٹریٹ کر رہا تھا تو ایسا ہی کہنا تھا ذونیشہ نے،،،مجھے بھی یہی لگتا ___

وہ جو اپنی دھن میں بول ہی رہا تھا بہروز کے الٹے ہاتھ کا پنچ اس کے ہوش ٹکانے لگا گیا۔۔۔

منہ میں خون کا ذائقہ گھل گیا۔۔اور ہاتھ میں اس کا ایک دانت آگرا جسے صدمے سے دیکھتے اس نے بہروز کو بیچارگی سے دیکھا جس پر وہ بے نیازی سے دیکھتے کسی کو کال ملانے لگا۔۔

"میں ابھی آ رہا ہوں ۔۔۔آج میں ڈون گروپ سے فائٹ کرنا چاہتا ہو ان کو تیار رکھ میں آ رہا ہوں۔۔۔"موبائل کان سے ہٹاتے اس نے سنجیدہ نظر سے اپنے اکلوتے دوست کو دیکھا جو ابھی تک اس کے ساتھ تھاحالانکہ وہ سال میں دو تین دانت اس کے توڑ چکا تھا۔۔

"آئندہ کے بعد منہ کھولنے سے پہلے سوچ لینا ۔۔۔اور میری ذونی کا نام اس زبان پر غلطی سے بھی نہ لانا ورنہ بہروز سلطان کو تم اچھے سے جانتے ہو،،، اپنی ملکیت کا نام کسی اور کے منہ سے سننے سے پہلے اس کی زبان کاٹ کر رکھ دو گا۔۔نیکسٹ ٹائم بی کئیر فل ۔۔

انگشت شہادت سے وارن کرتے وہ باہر نکلا۔۔

سلطان بہروز اتنا پوزیسسو وہ بھی ایک  لڑکی کے معاملے میں وہ ابھی بھی حیرت و بے یقینی سے اس کی چوڑی پشت دیکھ رہا تھا ،،،اس کے لیے یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ سلطان ہی ہے جو لڑکیوں سے سلام لینا گوارہ نہیں کرتا تھا۔۔

★★★★★

ڈون گروپ فائیٹگ میں ہمیشہ  سلطان کے مقابلے میں کھڑا رہتا ۔۔لیکن ہمیشہ مات ہی ملتی ۔۔

آج اچانک سلطان کے بلاوے پر وہ چاروں ایک گراؤنڈ میں موجود سلطان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔

ڈریگن کے ٹیٹو سب کے بازو پر بنے ہوئے تھے ۔۔

ایک شکاری کی طرح وہ سلطان بہروز کی راہ تک رہے تھے

 جس نے آج کھلے عام ان سب کو دعوت دیے بیٹھا تھا ۔۔

پر حیرت کی بات یہ نہیں تھی بلکہ اس بار وہ ایک گراؤنڈ میں ان سب کے ساتھ اکٹھا مقابلہ کرنا چاہتا تھا،،،بغیر کسی رولز کے۔۔۔

سلطان کی گاڑی پوری گراؤنڈ کے چکر کاٹتی ان کے قریب آ رکی۔۔

وائٹ جینز اور شرٹ لیس سلطان سن گلاسس لگائے منہ میں سگریٹ دبائے باہر نکلا۔۔

اپنی گلاسس اتارنے اس نے پیچھے پھینکی۔۔

اور ان چاروں کو اپنی سرخ کائی جمی آنکھوں سے دیکھا۔۔

وہ کسی نہ کسی پر غصہ اتارنا چاہتا تھا اور ان چاروں کے علاوہ اس کوئی اور آپشن بیسٹ نہ لگا۔۔

اس کی گردن کی پھولی رگیں اور آنکھوں کی وحشت دیکھ ایک پل کو وہ گبھرائے لیکن وہ چار تھے اور وہ اکیلا۔۔

"سر سلطان یہ بیوقوفی ہے،،، وہ بھی کم نہیں ہیں چار ہے اور سپر فائٹر میں شمار ہوتے ہیں۔۔ایک بار پھر سوچ لے۔۔!!!

ایک آدمی اسے گلوز پکڑاتے منت آمیز  لہجے میں گویا ہوا۔۔

"تم نئے آئے ہو۔۔۔"خود کو ٹوکے جانے پر اس نے سختی سے پوچھا۔۔

ج۔۔جی۔۔۔

اس کی سرخ رنگت دیکھ وہ گبھرا گیا ۔۔۔

"ابھی غصے میں ہو اس لیے تم مجھ سے تھوڑا دور رہنا اور اس گیم کو دیکھو۔۔"اس کا گال تھپتھاتے وہ ان کی طرف بڑھا جو پہلے ہی تیار کھڑے تھے۔۔

کندھوں تک آتے سب کے بال اور چیل سی آنکھوں سے اسے گھورتے اکھٹے جھپٹے اس پر ۔۔۔

سلطان بھی ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ان پر قہر بن کر برسا۔۔

درپہ در ان پر مکے اور گھونسوں کی برسات کر دی۔۔

وہ جو بڑے جوش سے آئے تھے سلطان کا وحشی روپ دیکھ کر اپنا بچاؤ کرنے لگا۔۔

سلطان کا دھیان دو کی طرف دیکھتے پیچھے کھڑے جیمی نے لکڑی کا تختہ اٹھا سلطان کی پشت پر مارا ۔۔

سلطان لڑکھڑاتے کچھ جھکا منہ سے خون  کا فوارہ نکل پڑا۔۔

اس سے پہلے کے وہ دوسرا وار کرتا  بہروز نے اٹھتے اس کو زور دار لات ماری ۔۔۔

پھر سلطان کا وہ روپ ان سب نے دیکھا جو آج تک پردے میں تھا۔۔

کسی کی آنکھ تو کسی کا ہونٹ زخمی ہو چکا تھا ،،یقینا یہ سلطان بھاری پڑ گیا ان پر جو دم دبا کر بھاگ گئے۔۔

وہ آدمی پاگلوں کی طرح آنکھیں پھاڑے سلطان کو دیکھا جو انگوٹھے سے ہونٹ پر لگا خون صاف کرتے اس کی طرف آیا۔۔

ابرو اچکاتے اس نے پاس پڑی بوتل کو عادت کے مطابق منہ سے لگایا۔۔

وہ سلطان تھا جو  کسی کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتا تھا غصے میں ایک وحشی جانور بن جاتا تھا اب غصہ وہ ان چاروں پر اتار چکا تھا اس لیے کچھ فریش سا محسوس کر رہا تھا۔۔

"دوبارہ ملے گے۔۔۔"ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ وہ دو انگلیاں ماتھے کو لگاتے اسے اشارہ کرتے اپنی گاڑی زن سے بھگائی۔۔

★★★★★

"صاحب جی پرسوں رات کی میری بچی نہیں مل رہی۔۔"

سلطان کے باپ کے سامنے بیٹھا اسلم 

بھیگی آواز میں بولا۔۔

یہ غم کم تو نہ تھا کہ جوان بیٹی دو دن سے غائب ہے۔۔

"اسلم تم پریشان نہ ہو ہم کچھ کرتے ہیں آج ہی میں پولیس سے بات کرتا ہوں وہ تمہاری بیٹی کو ڈھونڈے۔۔"!!

اس نے حوصلے دیتے کہا ۔۔تو اسلم نے تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔

سیٹی کی مخصوص دھن پر ان دونوں نے پیچھے دیکھا۔۔

حویلی کے دروازے سے سلطان سیٹی بجاتے داخل ہوا۔۔

اس کے ہونٹ پر لگا  تھوڑا سا خون بکھری سی حالت دیکھ کر اس کا باپ دانت کچکچا کر رہ گیا ۔۔۔

جبکہ سلطان ذونیشہ کے باپ کو دیکھ کر مسکرایا،،،اور یہ معجزے سے کم نہ تھا اسلم تو کیا سلطان کا باپ بھی حیران تھا ۔۔۔

"ہائے۔۔"سلطان آگے بڑھتے اپنا ہاتھ اسلم کی طرف بڑھایا ۔۔۔شاید اسے ملنے کا طریقہ معلوم نہ تھا تبھی الجھا سا اپنے ہلکی بئیرڈ پر انگوٹھا پھیرا۔۔

اسلم نے اس کا سرخ سفید ہاتھ دیکھا جس کے گرد پٹی بندھی تھی۔۔پھر نرمی سے اپنا ہاتھ اس سے ملایا۔۔

بہت اچھا لگا آپ کو دیکھ کر،،،اچھی بات ہے آپ آئے،،،اوکے آپ باتیں کرے میں فریش ہو کر آتا۔۔۔

مسکراتے اس نے اپنی جانب سے اسلم کی تعریف کی تھی تاکہ وہ خوش ہو جائے لیکن وہ بس اسے دیکھی ہی جا رہا تھا۔۔

 وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔

جپکہ اس کی پشت پر پڑی سرخ لکیریں واضح نظر آ رہی تھی جس دیکھتے سلطان کا باپ افراز افسوس سے سر ہلا گیا یقینا یہ صاحب لڑ کر آیا ہے۔۔

"ٹھیک ہے اسلم تم جاؤ پھر ۔۔۔"

اس کا کندھا تپھتپھاتے وہ باہر چلے گئے۔۔

جبکہ اسلم یہ سوچ رہا تھا آتا تو وہ روز تھا یہ سلطان کو اچھا کیسے لگ گیا۔۔

اب کچھ امید بھی تھی کہ ذونیشہ مل جائے گی۔۔

★★★★

جانم ۔۔۔اوہ میری جانم ،،،،،کمرے کا لاک کھولتے وہ اندر آتے سامنے اسے بیڈ پر سکڑا سمٹا بیٹھا دیکھتے لوفرانہ بولا۔۔۔

نیچے سسر صاحب آئے ہیں ۔۔کہنی کے بل اس کے سامنے بیڈ پر لیٹتے سکون سے بولا۔۔

اس کی بات پر ذونیشہ جو منہ موڑے بیٹھی تھی خوشی

 سے بیڈ سے اترتی باہر جانے لگی ۔۔

لیکن سلطان نے اتنی ہی تیزی سے اس کی کلائی پکڑتے کھینچا۔۔

کہ وہ لہراتی نازک سی گڑیا کٹی ڈال کی طرح اس کے اوپر آ گری۔۔

سلطان نے دونوں بازو اس کی کمر پر لاک کرتے جائے فرار کی تمام راہیں مستود کر دی ۔۔

 سسر جی چلے گئے ہے جانم،،،اس کے دوپٹے کو وجود سے آزاد کرتے پیچھے پھینکا۔۔

اس حرکت پر شرم سے سرخ ہوتی اس نے اٹھنا چاہا۔۔

اتنی بھی کیا جلدی جانم ابھی تو پاس آیا ہوں اور تم جانے کی کر رہی ،،،اس کی خوشبو میں گہرا سانس بھرتے مدہوش ہوتا بولا۔۔

آپ،،،نے بابا سے کیا کہا۔۔۔نم آنکھوں سے وہ اس کے نقوش دیکھتی بولی۔۔

کچھ نہیں کہا ،،میں نے کیا کہنا تھا۔۔۔وہ ڈیڈ سے کچھ بات کر رہے تھے شاید تمہار ی گمشدگی کی،،،آہ ۔۔۔۔بیچارے جس سے کہہ رہے تھے اس کے گھر ہی ان کی چاند سی بیٹی موجود تھی۔۔اس کی تھوڈی پر لب رکھتے وہ تاسف سے سر ہلاتے بولا۔۔۔

آپ کیوں ہے اتنے ظالم..؟؟بتا دیتے نہ کہ میں آپ کے پاس ہوں۔۔۔"شدید بے بسی کے احساس سے اس نے سختی سے اپنے ناخن اس کے بازو پر گاڑھے جو اس کے گرد حائل تھا۔۔

پر اس شخص کو ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ غصے سے اپنے مرمریں ہاتھوں  سے مکے اس کے سینے پر برسانا شروع کر دیے۔۔

"ذونی۔۔۔۔۔!!

اس کے بازو جھکڑتے اس نے سختی سے ڈپٹتے آنکھیں دیکھائی۔۔

"آپ۔۔ بہت ۔۔۔ہی ____!!

بات سنے بغیر اس نے رخ بدلتے اس پر اپنا وزن منتقل کیا۔۔

"جانم کتنا بولتی ہوں تم اور میں ظالم نہیں ہوں ،،،سلطان تمہارے معاملے میں ظالم ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔اس کا لب سہلاتے وہ بھاری لہجے میں گویا ہوا بے ساختہ ذونیشہ نے حلق تر کیا۔۔

اس کے بھاری وجود تلے دبے اس کی سانسیں رک رہی تھی۔۔

اس کے لمس پر سوکھے پتے کی مانند کانپ گئی۔۔

"کہوں تم میری ہو۔۔۔۔" اس کی آواز خمار آلود تھی۔۔

ذونیشہ نے اس کے کندھے پر لرزتا ہاتھ رکھتے پیچھے کرنا چاہا پر اسے اپنی انگلیوں میں الجھاتے تکیے سے لگایا۔۔

میں ،،،آپ کی ہو۔۔۔ ہار مانتی آنکھیں موندیں وہ کپکپائی آواز میں بولی بے ساختہ بہروز کے ہونٹ مسکرائے۔۔

ایسے نہیں،،، یہاں بات حق اور ملکیت کی ہے خود کو میرا کہوں تا عمر کے لیے اس طرح کہ میرے سینے میں موجود دل دھڑک اٹھے اور تمہاری سانسیں بے ترتیب کر دے۔۔اپنے لب سے اس کے کان کی لو چھوتے اس کی سانسیں واقعی بے ترتیب کر گیا۔۔

"میں ذونیشہ اسلم صرف سلطان بہروز کی ہوں تاحیات کے لیے۔۔۔"!!دو آنسو تکیے میں جذب ہوئے اس کی گرفت میں ابھی ابھی پھڑپھڑا رہی تھی۔۔

سلطان نے اس کا وجود کو گہری نظروں سے دیکھتے اس کی بیوٹی بون پر دانت گاڑھے۔۔

وہ تڑپ کر مچل اٹھی۔۔۔

اور اس کی پشت پر ناخن گاڑھ دیے۔۔وہ شخص پل میں تولہ پل میں ماشہ تھا۔۔۔

زخم پر لگتے اس کے ناخن ،،،،تکلیف سے لب بھینچتے بہروز نے گہری سبز نگاہوں سے اسے گھورا۔۔

اپنی ہوس کو پوری تو میں نے کرنا ہی ہیں۔۔۔پھر کیوں مچل رہی ہوں تڑپ رہی ہوں۔۔۔آنکھوں کا رنگ اور لہجہ دونوں ہی اچانک بدلے ۔۔۔

"تمہارے باپ کو اگر پتا چل گیا کہ تم میرے پاس اس وقت میرے بیڈ روم میں میری باہوں میں مچل رہی تو سوچو کیا ہو گا۔۔"بیچارہ تو شرم سے نظریں بھی نہیں اٹھا پائے گا۔۔۔۔

جان بوجھ کر اپنے زہریلے لہجے سے اسے اذیت دیتے وہ طنزیا مسکرایا۔۔

ذونیشہ نے اپنی بھیگی آنکھیں جو اب نم ہی رہتی تھی اٹھاتے اس کو دیکھا سبز کائی جمی آنکھیں سرخی لیے اس سے ٹکرا گئی۔۔

سلطان بہروز کو اپنا آپ ان آنکھوں میں ڈوبتا محسوس ہوا۔۔ سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا۔۔

سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے وہ اس پر سے ہٹتا ڈریسنگ میں بند ہوا۔۔۔

دل پر ہاتھ رکھتے اپنی دھڑکنوں کا شمار کرنے لگی جو سر پٹ دوڑ رہی تھی۔۔

اپنے ہاتھوں پر نظر پڑی تو حواس باختہ سی بیٹھ گئی۔۔

ناخن پر لگا خون دیکھ اس نے ڈریسنگ روم کے بند دروازے کو سہمی نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔

"تم کپڑے چینج کر لو میری کبرڈ سے کچھ بھی نکال کر پہن لو لیکن جب میں آؤ تو یہ کپڑے تم نے نہ پہنے ہوں۔۔بلیو چیک شرٹ کے کف موڑتے اس نے اکھڑ سے لہجے میں کہا۔۔۔

اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔۔

وہ اس وقت خود سے بھاگ رہا تھا اس لڑکی کے سامنے وہ خود کو کمزور پا رہا تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا چاہ کر بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔اس لیے وہاں سے جانے میں ہی بہتری جانی۔۔

★★★★★

سلطان بیٹا کدھر جا رہے ہے آپ ۔۔؟؟

اپنی ساڑھی کا پلو سنبھالتی مبین بیگم نے سوالیہ پوچھا۔۔

مام میں بس ادھر ہی کام سے جا رہا ہو۔۔۔گہری سانس بھرتے اس نے موبائل پر سکرولنگ کرتے جواب دیا۔۔

کل ایک ملازم کا پاؤں ٹوٹ چکا تھا کیا تمہیں معلوم کیسے ٹوٹا۔۔؟؟

کرخت لہجے میں انہوں نے کہا تو سلطان نے مسکراتی نگاہوں سے اپنی ما م کو دیکھا جو ہر بار کی طرح اس بار بھی غصے سے بھری ہوئی تھی۔۔

سلطان نے قریب جاتے انہیں اپنے حصار میں لیتے ماتھے پر لب رکھے۔۔۔

مام ہر بات کی ٹینشن مت لیا کرے آپ اور مجھے کیا پتا کیسے ٹوٹا پاؤں آپ بلاوجہ مجھ شریف پر شک کر رہی ہے۔۔اسے یونہی حصار میں لیے محبت سے اس نے سب سے بڑا جھوٹ چھوڑا۔۔

جسے سنتے پیچھے کھڑا اس کا باپ اس کے قریب آیا اور  سلطان کا کان پکڑتے مڑوڑا کہ بے دھیانی میں کھڑا بہروز اچھل کر پیچھے ہوا۔۔

"بیٹا جی پاگل کسی اور کو بنانا ہم تمہارے ماں باپ ہے ۔۔"اس کا کان چھوڑتے انہوں نے سنگل صوفہ پر بیٹھتے اس میسنے کو گھورا جو ماں کے پاس کھڑا اب بتا رہا تھا کہ اس کی غلطی نہیں تھی ۔۔

"مام قسم سے میں پول میں سویمنگ کر رہا تھا تو اس نے میری گن کو پکڑتے سائیڈ پر رکھ دیا توڑنا ہاتھ تھا یہ تو میں نے بھلا کرتے پاؤں توڑ دیا ہے اس کی بھی ٹینشن نہ لے کچھ دنوں تک ہو جائے گا سہی۔۔"

دانت پیستے اپنے باپ کو دیکھتے اس نے مبین بیگم کو صوفے پر بیٹھاتے شیریں لہجے میں کہا۔۔

اس کا باپ اس ایکٹنگ پر داد دیے بنا نہ رہ سکا۔۔

تم گن رکھتے ہی کیوں ہو اپنے پاس۔۔؟؟

سلطان سے رخ پھیرتی وہ ناراضگی سے گویا ہوئی۔۔

مام گن تو میں خاص استعمال نہیں کرتا،،،بس کھی دن میں دو چار بندوں کو اڑانا ہی پڑ جاتا ہے۔۔۔۔

جتنے آرام سے اس نے کہا تھا اتنی ہی مبین بیگم نے حیرت و بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔

بیٹا دو چار ہی کیوں تم لائن میں لگا کر اڑایا کرو دس دس کو اکھٹے ہی۔۔اس کا باپ حسبِ عادت ٹونٹ کرتے بولا۔۔

واہ ڈیڈ۔۔۔ باپ ہو تو آپ جیسا ورنہ ہو بھی تو آپ جیسا تو نہ ہی ہوں۔۔۔ کیا مشورہ دیا ہے آپ نے آج سے ایسا ہی ہو گا ویسے بھی آج تک کبھی آپ کو مایوس نہیں کیا۔۔۔

سر خم کرتےسلطان نے فروٹ باسکٹ سے سیب اٹھاتے کھانے لگا۔۔

"شاباش پتر ہمارا جھنڈا اونچا رکھنا۔۔"

ان کی بحث پر مبین بیگم اٹھتی کچن میں چلی گئی جبکہ پیچھے جنگِ عظیم ہو رہی تھی۔۔

"ڈیڈ اب مام کے سامنے کچھ نہیں کہنا ورنہ سیکریٹری کا بتا دو گا۔۔سلطاننے ہمیشہ کی طرح والا ٹوٹکا آزماتے شیطانی مسکراہٹ لیے بولا۔۔

یہ جو اوپر کمرے میں لڑکی ہے اس کے بارے میں تیری ماں کو ابھی علم نہیں ہے شیرو۔۔

ڈیڈ۔۔۔۔۔۔آہستہ بولے مام نے توپ لے کر میرے سر پر کھڑے ہو جانا ہے۔۔۔

خاموش رہنے کا کہتے اس نے کچن میں ترچھی نگاہوں سے جھانکا جہاں مبین بیگم ملازمہ کو ہدایات دے رہی تھی۔۔

"کاش تم اتنا اپنے باپ سے بھی ڈر لیتے۔۔۔"سلطان کو مسلسل اندر جھانکتے دیکھ انہوں نے حسرت سے کہا۔۔

میں ڈرتا نہیں ہو ریسپیکٹ کرتا ہو مام کی۔۔ سلطان نے ابرو اچکاتے سیب کی بائٹ لیتے کہا۔۔

"یہ ریسپیکٹ مجھے بھی دے دو۔۔۔"

"یار ڈیڈ کیا بات کر رہے آپ تو جگر ہے ۔۔۔"

سلطان نے فراخ دلی سے سینے پر ہاتھ رکھتے کہا ۔۔

"یہ لڑکی کون ہے۔۔۔"

افروز صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔

"آپ کی بہو ہے۔۔"

اتنا ہی سکون تھا اس طرف۔۔

"کیا تم پاگل ہوں یہ کیا بول رہے ہوں۔۔۔؟؟؟

لہجہ ذراسخت ہوا۔۔

"ہاں شاید پاگل ہو۔۔۔اب وہ پسند آگئی ہے سلطان کو۔۔"،،

اس بے نیازی پر افراز صاحب کا دل عش عش کر اٹھا۔۔

یہ پسند کب تک قائم رہے گی۔۔؟؟

شاید دو دن ،،،دو ہفتے،،، دو سال یا پھر عمر بھر میں خود نہیں جانتا۔۔

اس کے ذکر پر اس کے لب مسکرا رہے تھے انجانے میں ہی۔۔

چبکہ افراز صاحب بغور اس کے چہرے کی چمک دیکھ رہے تھے۔۔

نام کیا ہے لڑکی کا۔۔؟؟

ذونیشہ اسلم اور اب ذونیشہ سلطان بہروز ۔۔۔

لب دباتے اس نے جیسے ہی کہا افراز صاحب نے الجھی نگاہوں سے دیکھا۔۔

"اسلم آج اپنی بیٹی کو ہی ڈھونڈ رہا تھا کیا تم جانتے ہوں یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے تم نے،،،، سلطان کیا تم اسے کڈنیپ کر کے لائے ہو یا یہ خود بھاگ۔۔۔۔""

"میں لایا ہو اٹھا کر اسے بھاگ کر نہیں آئی وہ۔۔۔"

سبز کائی جمی آنکھوں میں سرخی تیر گئی لہجہ تیز تھا۔۔

"سلطان اس کی ماں کل وفات پا گئی ہے" اچانک طبیعت بگڑنے سے ،،،میں نہیں جانتا اس نے اپنی بچی کی گمشدگی کا صدمہ لیا ہے یا کچھ اور پر اب وہ نہیں رہی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ افراز صاحب کچھ اور کہتے پیچھے کسی کے گرنے کی آواز پر دونوں نے مڑتے دیکھا۔۔

آج پہلی بار سلطان بہروز کو معلوم ہوا پاؤں تلے سے زمین سرکنا کسے کہتے ہیں۔۔۔

★★★★

"ذونیشہ۔۔۔"

سلطان کے ہونٹ صرف ہلے  وہ اسے آواز بھی نہ دے سکا ،، بلکہ وہ اپنی جگہ ساکت ہی رہ گیا۔۔

جبکہ مبین بیگم کسی دلہن کے جوڑے میں مبلوس لڑکی کو گرتے دیکھ جلدی سے اس تک پہنچی۔۔۔

سلطان یہ بچی کون ہے ؟؟ اور اس کی حالت بگڑ جائے گی ہوسپیٹل لے کر چلو۔۔

اس کی کلائی تھامے وہ پاس بیٹھی پریشانی سے بولی ۔۔

ان کی آواز پر ہوش میں آتے سلطان آگے بڑھتے اس کے پے جان وجود کو باہوں میں بھرتے باہر کو بھاگا۔۔

فلحال وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ بتا سکتا یہ لڑکی کون ہے۔۔

★★★

نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔۔۔۔۔ کنڈیشن کافی کریٹیکل ہے ان کو سانس نہیں آ رہی اگر اگلے چوبیس گھنٹے تک ہوش نہ آیا تو وہ کومہ میں بھی جا سکتی ہے اور کیا پتا وہ نہ بچیں۔۔

ڈاکٹرز کے الفاظ جیسے ہی نکلے سلطان غصے سے بے قابو ہوتا اس کی طرف بڑھا۔۔

ڈاکٹر کو کا گلہ دباتا اسے مکمل دیوارسے لگایا۔۔

جبکہ ڈاکٹرز کی تو آنکھیں ہی ابل پڑی ایک باڈی بلڈر کی گرفت میں وہ پھڑ پھڑا کر رہ گیا۔۔

"پہلے تو تم اوپر جاؤ باقی کا معاملہ بعد کا۔۔" ڈاکٹر کا سرخ چہرہ دیکھ اس نے گرفت اور سخت کی ۔۔

"سلطان یہ کیا بدتیمزی  ہے ہٹو پیچھے۔۔!!

اس کا باپ اور ماں ابھی ہی پہنچے تھے اس کے پیچھے پر یہاں سلطان کو ڈاکٹر کی جان لیتےدیکھ اور باقی سٹاف کو خوف سے کانپتے دیکھ کر آگے بڑھے ۔۔۔

"ڈیڈ یہ کہہ رہا ہے ذونیشہ نہیں بچیں گی۔۔۔اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی؟؟

بامشکل اس کے باپ نے پیچھے کیا تو ڈاکٹر  کھانستہ اپنی گردن پکڑے ہانپتا کانپتا وہاں سے بھاگا۔۔

کیا ایسا کرنے سے وہ بچ جائے گی۔۔؟؟اس کا ڈیڈ پہلی بار غصے سے دھاڑا کہ پورے ہسپتال میں آواز گونج اٹھی ۔۔

"ڈیڈ صرف نروس بریک ڈاؤن ہی تو ہوا ہے ۔۔!!!

سلطان ماتھے پر بل  ڈالے اردگرد کھڑے ہجوم کو سرخ سرد سبز آنکھوں سے گھورا۔۔

 اس کی آنکھوں کے سرد پن کو محسوس کرتے سب وہاں سے کھسکے۔۔

جبکہ اس کا باپ پھولے سانس کے ساتھ اس کو دیکھ رہا تھا اور مبین بیگم لب بھینچے خاموش تماشائی بنی تھی ۔۔

سلطان نے نکاح کیا ہے اس لڑکی سے یہ خبر افراز صاحب کے منہ سے سن کر ہی وہ چپ سادھ گئی تھی۔۔

کیا تم پاگل ہو سلطان ؟؟؟ تمہارےلیے یہ صرف ہے ؟؟وہ بچی جو اندر موت سے لڑ رہی ہے اس کی جانے کیا حالت ہے اور تم کہہ رہے ہو صرف ۔۔۔واہ سلطان بہروز واہ ۔۔۔

اس کا طنزیا کہتے اس کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھا۔۔

"ڈیڈ کوئی بڑی بات نہیں ہے بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے وہ بھی ٹھیک ہو جائے گی ابھی۔۔"نظریں چراتے اس کے دل نے بھی جیسے خود کو دلاسہ دیا۔۔

"میں کال کر رہا ہوں اسلم کو کہ اس کی بیٹی ادھر موجود ہے۔۔۔"!!

بغیر سلطان کی وارن کرتی نگاہیں پر غور کیے وہ سائیڈ پر چلے گئے۔۔

نچلا لب دبائے اس نے سرخ کائی جمی آنکھوں سے اپنے باپ کی پشت دیکھی۔۔

ماتھے پر بکھرے اس کے بال ہلکے نم تھے۔۔جنہیں پیچھے کرتے وہ  مبین بیگم کے پاس بیٹھا سر جھکائے۔۔

"مام میں نے نکاح کیا ہے۔۔"سلطان نے بات پر زور دیتے کہا تو مبین بیگم نے سخت نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"گھر سے اغواہ کر کہ تم نے اس بچی کے ساتھ زورزبردستی کی ہے ۔۔اور تم کہتے ہو نکاح کیا ہے؟؟

مبین بیگم کا لہجہ انتہا کا کڑوا تھا کہ سلطان جو پہلے ہی طیش و اشتعال کو دبائے بیٹھا تھا اس میں ابال اٹھا۔۔

کیا ہو گیا ہے آخر ؟؟؟؟؟

میں کہہ رہا ہو بیوی ہے وہ میری تو کیوں بڑھا رہی ہے بات۔۔۔

ہسپتال کے بینچ پر  بیٹھا سلطان اس وقت سخت اضطراب کا شکار ہوتے لب بھینچے سختی سے گویا ہوا۔۔

ہمارے خاندان کی شان شوکت اور وقار کو تم نے مٹی میں ملا دیا ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی کچھ ہوش تھا تمہیں۔۔

اردگرد کی  پرواہ کیے بغیر وہ سلطان پر برس پڑی۔۔

"یہ خاندان یہ شان و شوکت کسی کام کی نہیں اگر سلطان کو پسند آجائے کچھ۔۔۔۔"

وہ مغرور تھا ہمیشہ سے ،،،ڈھیٹ تھا،،، اکھڑ تھا ،،،پر اسے خود سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی۔۔

پھر اس لڑکی کی طبیعت جیسے ہی سیٹل ہوتی ہے تم اسے چھوڑ دو گے طلاق دے دو گے۔۔۔

مبین بیگم کی بات پرسلطان نے تیوڑی چڑھاتے روم کے بند دروازے کو دیکھا جس میں ذونیشہ تھی۔۔

ہمم۔۔۔سوچتے ہے کچھ۔۔!!!

وہ خاموش سا اور کچھ نہ بولا۔۔

"سوچنا نہیں کرنا ہے ابھی میں وکیل سے رابطہ کرتی ہوں۔۔"!!

ساڑھی کا پلو سنبھالے وہ اٹھی۔۔

"آپ وکیل سے رابطہ کرے ،،،پر اس وکیل سے پھر کوئی اور رابطہ نہیں کر سکے گا۔۔۔!!

اس نے دھمکی دی تھی یا نہیں پر کائی جمی آنکھوں میں وحشت برپا تھا۔۔

"تم اپنی مام کے خلاف جاؤ گے سلطان ۔۔؟؟مبین بیگم نے صدمے اور افسوس سے کہا۔۔

"جہاں آپ سہی ہوئی آپ کا حکم سر آنکھوں پر "۔۔اور جہاں سلطان کی مرضی نہ ہوئی وہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔۔

شرٹ درست کرتے وہ بھی اٹھ چکا تھا۔۔

"ٹھیک ہے رہو تم ادھر اس لڑکی کے پاس اور دینا جواب اس کے باپ کو کہ سلطان بہروز نے ایک مالی کی بیٹی کو بیوی کیوں بنایا۔۔۔"غصے سے بولتی وہ وہاں سے چلے گئی۔۔

افراز صاحب جو ان کی طرف آ رہے تھے اتنے غصے سے مبین بیگم کو جاتا دیکھ کر اس نے سلطان کو دیکھتے اشارہ کیا جس پر اس نے کندھے چکا دیے۔۔"مجھے معلوم نہیں کدھر  جا رہی ہے" افراز صاحب انہیں اکیلا جاتا دیکھ خود بھی پیچھے چلے گئے۔۔

جبکہ سلطان دیوار سے ٹیک لگاتا آنکھیں موندھ گیا۔۔

"مجھے محبت ہے تم سے ذونیشہ" اتنی کہ اگر میں چاہوں بھی تو بیان نہیں کرسکتا ،،، میں نہیں جانتا کب مجھے تم سے اتنا عشق ہو گیا کہ میں اپنے بس میں نہیں رہا اک

 تمہارا خیال ہر وقت رہتا ہے۔۔۔

تمہاری بھوری کانچ سی آنکھیں رات دیر تک بے چین کر دیتی ہے۔۔

"تمہارے شربتی ہونٹ میرا سکون غارت کر دیتے ہے۔۔

"تمہاری نوز پن میں میرا دل اٹک سا جاتا ہے۔۔

"جب بھی تمھیں چھوتا ہو ایک الگ احساس سے روشناس ہوتا ہو۔۔

اس میں کوئی شک نہیں تم پہلی لڑکی ہو جسے سلطان نے چھوا ہے اور جس نے سلطان کو پاگل کیا ہے۔۔'"

سلطان کہی دور سبزہ زار میں کھڑا خوبصورت گلابی پوشاک میں مبلوس اس لڑکی کا ہاتھ تھامے محبت سے بول رہا تھا ۔۔

اس کی پر حدت گرفت میں وہ سرخ ہوتی مسکرا دی۔۔

اور جھجھکتی آگے بڑھتے تھوڑی سی ایڑھیاں اونچی کی۔۔

سلطان بہروز نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔۔

دلکشی سے مسکراتی وہ اس کے کشادہ پیشانی پر بکھرے بال اپنے مومی ہاتھوں سے سمیٹنے لگی ۔۔

پھر الفت و چاہت سے جھکتی وہاں اپنے لب رکھ گئی۔۔

مدہوشی میں اس کا لمس محسوس کرتے دلکش مسکراہت نے چہرے کا احاطہ کیا۔۔

سر۔۔۔سر۔۔۔۔۔۔۔"!!!!!

وہ جو حسین خواب کی سیر کو نکلا تھا ۔۔

قریب سے آتی آواز پر آنکھیں کھولی۔۔

"میم کو ہوش آ گیا ہے پر وہ بہت شور کر رہی ہے۔۔

نرس نے حلق تر کرتے کہا ۔۔کیا معلوم اسے بھی مار دے کہ کیوں جگایا اسے۔۔۔ پر پیشنٹ زیادہ شور کر رہی تھی۔۔

اس کی بات سنے جلدی سے اس کے کمرے کی طرف بڑھا لیکن اندر جاتے وہ ہک دھک رہ گیا۔۔

ہسپتال کے لباس میں مبلوس وہ نازک حسینہ نرسوں پر جھپٹ رہی تھی ہذیاتی کیفیت میں  چیخ رہی تھی۔۔

کب آیا انہیں ہوش۔۔؟؟پریشانی سے اس کی طرف بڑھتے اس نے پوچھا۔۔

سر پندرہ گھنٹے بعد آیا ہے۔۔سلطان نے حیرت سے اسے دیکھا

 "تو کیا وہ پندرہ گھنٹے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رہا۔۔ہاں شاید اسے اپنے خواب پسند آئے تھے۔۔

"اچھا ان سب کو لے جاؤ اور اب اس کمرے کا رخ بھی مت کرنا۔۔!!

سلطان اس کی بات پر یقین کیے بغیر اکھڑ لہجے میں بولتے دو نرسوں کی طرف بڑھتے ان کے ہاتھ سے ذونیشہ کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے نرمی سے۔۔ 

سب سر ہلاتی باہر کو دوڑی ۔۔

دروازہ جیسے ہی بند ہوا اس نے سنجیدہ نظر ذونیشہ پر ڈالی جو بکھرے بال اور بکھرے حلیے میں تھی اورابھی بھی اپنی دونوں کلائیاں آزاد کرنے کی تک و دو میں تھی۔۔

"چھوڑے مجھے آپ۔۔۔یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے آپ قاتل ہے میری ماں کے۔۔۔!!!

وہ چلاتی اس کے ہاتھ پر اپنے دانت گاڑھ گئی پر سلطان بغیر اثر لیے کھڑا رہا۔۔

سلطان نے اس کی کلائیوں کو  چھوڑتے جھٹکے سے اس کی کمر کو گرد گرفت قائم کرتے کھڑا کیا۔۔

کلائیوں کی رہائی پر وہ پاگل ہوتی اس کے کندھوں پر اپنے نازک ہاتھوں سے مکے مارنے لگی پر اس کے  مضبوط کسرتی پر خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔۔

بلکہ سلطان نے اسے اپنے ساتھ لگاتے حصار تنگ کیا۔۔

وہ دوبارہ جھپٹتی مزاحمت کرتی اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیل رہی تھی ۔۔

جبکہ سلطان سکون کے ساتھ اس کی گردن میں منہ دیے کھڑا تھا ۔۔

اس کی مزاحمت اس کی چیخیں نظر انداز کرتے اسے اپنے گلے سے لگائے رکھا۔۔

آخر تھک ہار کر اس کی ہچکیاں بندھ گئی جو روم کی فضا میں گونج رہی تھی۔۔

"کالم ڈاؤن میرا بچہ ۔۔۔"!!اس کے بال نرمی سے سہلاتے دوسرے سے کمر سہلاتے وہ اسے قابو میں کر رہا تھا۔۔

وہ  اذیت میں ہیں اسے کیسے ہینڈل کرنا ہے وہ جانتا تھا۔۔

ذونیشہ روتی اس کی گردن کے گرد دونوں بازوں حائل کئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔

سلطان اس کا سر اپنے سینے سے لگاتے اس کے بال سہلاتا رہا ۔۔

"میری امی جان اب نہیں رہی سلطان ۔۔!!!

بولتے ہوئے اس کے ہونٹ سلطان کی گردن سے مس ہوئے جس سے سلطان نے اس کے گرد بندھے ہاتھوں کا حصار اور قریب کیا۔۔

اپنے نام اس کے لبوں سے سنتے وہ خاموش رہا پر مسلسل اسے روتا دیکھ اس کی طبیعت دوبارہ بگڑنے کے خیال سے اس کا چہرہ اپنے سینے سے نکالا۔۔

"ایک نہ ایک دن سب نے جانا ہے ہمارے رونے سے کوئی شخص واپس نہیں آتا۔۔"انگلیوں کے پوروں پر اس کے آنسو چنتے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں  کے پیالے میں لیا۔۔

"نہیں سلطان نہیں وہ تمہاری وجہ سے گئی ہے تم ذمہ دار ہو میری ماں کی موت کے"" اگر تم مجھے اغواہ نہ کرتے تو وہ زندہ ہوتی میرا غم انہیں کھا گیا بہروز سلطان،،،مجھے بھی نہیں جینا مار دو مجھے بھی ۔۔۔!!!

پوری شدت سے اس کا کالر دبوچے وہ دھاڑی۔۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا وقت مقرر ہوتا ہے تمہارے یا میرے چاہنے سے کوئی واپس نہیں آسکتا اور نہ ہی کوئی ہمارے چاہنے سے مر سکتا ہے سمجھ آئی۔۔۔

اس کی گردن پیچھے سے پکڑے اس کا چہرہ قریب کرتے لفظوں کو چبا چبا کر بولا۔۔

"مجھے میرے گھر جانا ہے ۔۔۔وحشت بھری سبز آنکھیں دیکھتی وہ نم آواز میں بولی۔۔

"تمہارا گھر اب وہی ہے جو سلطان کا ہے ۔۔"!!

اسے چھوڑتے اس نے اپنے موبائل کو کان سے لگایا۔۔

"سسر صاحب کو ادھر بیٹھا کر رکھے اور کہیں ان کا داماد آ رہا ہے اپنی بیوی کو لے کر۔۔مسکراتی آنکھوں سے اس نے گردن ٹیڑھی کرتے بیڈ پر پاؤں نیچے لٹکائے روتی ہوئی ذونیشہ کو دیکھتے کہا۔۔

سوچ کے بالکل مطابق وہ چونکی اور نم بھیگی پلکیں اٹھاتیں اسے دیکھا جو موبائل پر اب کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔۔

"آپ بہت برے ہے۔۔۔" ذونیشہ نے تلخی سے گھورا۔۔

بالکل میں ایک برا شخص ہوں جو تمہارے پلے 

بندھ چکا ہو۔۔ ""ابرو اچکائے اس نے تسلیم کیا۔۔

"میں آپ کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہو گی۔۔ گھومتا سر اور درد برداشت کرتی وہ غیر مرکزی نقظے کو گھورتے وہ اٹل لہجے میں گویا ہوئی۔۔

"دیکھتے ہے کیا ہوتا ہے۔۔!!طنزیا مسکراہٹ کے ساتھ وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔

تقریبا دس منٹ بعد وہ ہاتھ میں شوپنگ بیگ پکڑے بندر آیا اسے اسی پوزیشن میں بیٹھے دیکھ کر افسوس سے سر ہلاتے بیگ کو بیڈ پر پٹخ کر پھینکا۔۔

ایک پل کو ذونیشہ گھبرا ہی گئی پر دوبارہ اسے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھتی رخ پھیر گئی۔۔

متورنم چہرہ سوجے پیوٹے اور سرخ نم آنکھیں اس کے شدید رونے کی گواہی دے رہے تھے ۔۔

"یہ ڈریس چینج کر لو۔۔"ٹھنڈے ٹھار سرد لہجے میں اس نے کہا۔۔

ذونیشہ نے اپنے پاس پڑا بیگ دیکھا جس میں سے ڈارک براؤن کلر کا کپڑا نظر آ رہا تھا ۔۔

سو سو کرتی ہاتھ بڑھاتے اس نے اندر سے ڈریس کو نکالا۔۔

ملائم سا ڈارک  براؤن کلر کا لانگ فراک جس کے گلے پر سفید موتی سے خوبصورت کام کیا گیا تھا اور  فراک بیلٹ بھی وائٹ تراشے سفید موتی یہ حیران کن تھا وہ کتنا خوبصورت تھا۔۔

"جلدی کرو اب جانا بھی ہے۔۔"

اس کو فراک پکڑے بیٹھے دیکھ اس نے واچ پر ٹائم دیکھتے کہا۔۔

اپنے چکراتے سر کو سنبھالتی وہ نفرت سے اٹھی لیکن چند قدم ہی بڑھائے کہ لڑکھڑا گئی۔۔

"دھیان سے۔۔۔"

اس تک پہنچتے سلطان نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔

پر وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی باہر چلے گئی۔۔

اس کی اس حرکت پر سلطان نے گہری سانس چھوڑی۔۔

فراک کے ساتھ آئے دوپٹے کو حجاب کی طرح لپیٹتے

وہ سر جھکائے اندر آئی۔۔

زرد رنگت اور کمزور سا اس کا وجود جیسے بامشکل ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو ۔۔

"چلو۔۔"!!

اپنے ساتھ لیتے اسے گاڑی میں بیٹھایا۔۔۔

گاڑی سیدھے الٹے راستوں سے ہوتی حویلی کے اندر داخل ہوئی۔۔

اس دوران وہ سر جھکائے اپنے ہاتھوں کو دیکھے جا رہی تھی۔۔

ملازم نے بھاگتے ہوئے سلطان کی طرف کا دروازہ کھولا۔۔

سلطان سنجیدگی سے دوسری طرف آتے اس کا بازو پورے حق سے پکڑتے اندر لے کر گیا۔۔

حویلی میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے اپنے باپ پر پڑی جو سنگل صوفہ پر بیٹھا تھا۔۔

کندھے جھکے ہوئے تھے اور آنکھیں بھی زمین پر مرکوز تھی۔۔

"بابا۔۔"!!! بے اختیار وہ اپنا بازو چھڑواتی روتی ہوئی ان کی طرف دوڑی۔۔

ذونیشہ کی آواز پر اس نے سر اٹھاتے اپنی بیٹی کو شہزادیوں والے لباس میں اپنی طرف آتا دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا۔۔

ان کے پاس آتی سینے پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔

سلطان نے سختی سے مٹھیاں بھینچی جبکہ چہرے کے نقوش تنے ہوئے تھے۔۔

مبین بیگم اور افراز صاحب بھی پاس ہی  کھڑے تھے۔۔

بابا مجھے ۔۔۔ساتھ لے جائے میں یہاں۔۔۔۔نہیں رہنا۔۔ہچکیوں  میں روتی وہ منت آمیز لہجے میں گویا ہوئی۔۔

"بھول جاؤ ہمیں کہ تمہارا کوئی باپ تھا۔۔

بھول جاؤ کہ تمہارا کوئی گھر بھی تھا پیچھا آج سے تم یہی رہوں گی ہمیشہ۔۔"!!!

اس کا باپ بازو سے پکڑے پیچھے کرتا سرد پن سے بولا۔۔

ذونیشہ تو کیا سلطان  بھی حیران ہوا۔۔

پر دل میں کہیں کمینی خوشی بھی تھی۔۔

"بابا یہ۔۔۔آپ ۔۔کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟؟میں بیٹی ہوں آپ کی ۔۔"اس نے مجھے اغواہ کیا اور زبردستی نکاح بھی کیا۔۔"

آنکھوں کی پتلیاں پھیلائے اس نے بے بسی سے کہا۔۔

"وہ اب تمہارا شوہر ہے ۔۔۔خوش رہو ہمیشہ۔۔"!!

سر پر ہاتھ رکھتے وہ حویلی سے چلا گیا۔۔

ذونیشہ نے بے یقین نظروں سے باپ کی پشت کو دیکھا وہی باپ جو جان چھڑکتا تھا آج منہ موڑے چلا گیا۔۔

اس نے دھندلی نگاہوں سے سلطان کا چہرہ نفرت سے دیکھا۔۔

اسے کسی سے اتنی نفرت محسوس نہ ہوئی تھی جتنی آج سامنے کھڑے اس شخص سے ہو رہی تھی۔۔

اپنے آنسو صاف کرتی ایک نظر سب پر ڈالتے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر چلے گئی۔۔

سلطان نے اسے نہیں روکا وہ چاہتا تھا کچھ ریلیکس ہو جائے ویسے بھی معاملہ سنگین ہو رہا تھا۔۔

"اس لڑکی کو تم جلد چھوڑ رہے ہوں یہ ہمارا آخری فیصلہ ہے۔۔"

مبین بیگم نے اپنے بیٹے کو مسلسل اوپر تکتے دیکھ کر کہا ۔۔

تو سلطان نے الجھی نظروں سے دیکھا۔۔

"سلطان اب دنیا چھوڑ سکتا ہے پر ذونیشہ سلطان کو نہیں۔۔۔"!!جنونی لہجے میں باور کرواتے وہ بھی سیڑھیاں  پھلانگتا چلا گیا۔۔

"کیا ایک مالی کی بیٹی ہمارے خاندان کی بہو بنے گی۔۔؟؟

انہوں نے افرازز صاحب کو افسوس سے کہا پر وہ گہری سوچ میں ڈوبے بات نظر انداز کر گئے۔۔

ایک بات تھی جو ان کے دماغ میں گھوم رہی تھی ۔۔

"اسلم آخر اتنی آسانی سے خاموش کیسے ہو گیا"۔۔۔؟؟؟

دروازہ آہستگی سے کھولتے وہ اندر گیا۔۔

اوندھے منہ بیڈ پر لیٹے اس کا وجود ہچکولے لے رہا تھا۔۔

افسوس سے سر نہیں میں ہلاتے اس نے اس کی طرف قدم بڑھائے۔۔

لیکن وہ اس کی آہٹ پر پہلے ہی سیدھی ہوتی پھرتی سے بیڈ سے اترتی دوسری جانب کھڑی ہو گیی۔۔

دوپٹے سے بے نیاز اس کا سراپا دودھیا رنگت پر چھائی ہلکی سرخی وہ اپنے حسن سے بے پرواہ اپنی سرخ بھوری غزالی آنکھوں سے کھڑی تھی۔۔

"میری بات سنو تحمل سے۔۔"سلطان نے ہاتھ سے اسے کالم ڈاؤن  رہنے کا کہا۔۔

"بس کرے سلطان بس کرے بہت ہو گیا آپ کا ظلم ۔۔

پہلے مجھے میرے ماں باپ کا ڈر تھا پر اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے آپ کی وجہ سے میری ماں مر گئی اور میرا باپ مجھے چھوڑ گیا۔۔

اب کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے ۔۔مجھے ابھی اسی وقت مجھے طلاق دے۔۔۔"

وہ زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی آنسو گال سے بہتے نیچے گرے۔۔

سلطان خاموشی سے کھڑا سرخ آنکھوں سے اس کی طرف بڑھا اور ایک ہی جست میں اس کا بازو دبوچتے اپنے پاس کیا ۔۔۔

یہ بات دماغ میں لانا بھی مت ،،،اب تم میرے پاس ہمیشہ کے لیے ہوں ۔۔!!

تم میری روح میں بس چکی ہوں تم سے دستبرداری خود کی جان لینے کے مترادف ہے۔۔۔"

لہجے کی کرختگی سے ذونیشہ سہمی ضرور پر اپنی بات پر رہی۔۔

"میں مر جاؤ گی پھر۔۔۔ اگر آپ مجھے نہیں چھوڑے گے۔۔"

اس کی آنکھیں آج سبز آنکھوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔۔۔

میں تمہیں مرنے ہی نہیں دو گا۔۔پر سرار لہجے میں کہتے اس نے پچھے بیڈ پر اسے دھکا دیا۔۔

ٹھہرا تو وہ ظالم سلطان ہی تھا۔۔خطرناک تیور لیتے وہ اس کی طرف بڑھا۔۔

یہ آپ۔۔۔

اس خود پر جھکتے دیکھ وہ چلا اٹھی پر سلطان کی گرفت میں ہل بھی نہ سکی ۔۔۔

وہ فتح پانا چاہتا تھا چاہے زبردستی ہی کیوں ۔۔

اور آج اس نے ذونیشہ سلطان کو اپنی شدتوں سے باآور کروایا تھا۔۔کہ وہ صرف اور صرف سلطان کی ہے ۔۔۔

اور ذونیشہ قسمت کے ستم پر ہارتی خاموشی سے اپنا آپ اس کے حوالے کر گئی۔۔

★★★★

صبح کی روشن کرنیں کھڑی کے پٹ سے  آتی سلطان کے چہرے پر پڑی۔۔

ماتھے پر ہلکے بل پڑے اور دلکش مسکان نے چہرے کا احاطہ کیا۔۔

وہ حسن کا بادشاہ تھا پر اسے عشق ہو گیا۔۔

اپنے پاس بیڈ پر ہاتھ رکھا لیکن خالی جگہ محسوس کرتے  فورا آنکھیں کھولی۔۔

کسی انہونی کے احساس سے اس کا دل دھڑک اٹھا۔۔

کمفرٹر ہٹاتے جلدی سے اٹھا لیکن باتھ سے پانی گرنے کی آواز پر پر سکون ہوتے کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔

صبح کی دلکشی چاروں اور بکھر گئی تھی۔۔

پرندوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کے گیت وہ مسرور ہوا۔۔

"آخر تم بھی اس محبت جیسی بلا میں پھنس ہی گئے۔۔"

ایک سحر انگیز قہقہ گونجا ۔۔

وہ پاگل معلوم ہو رہا تھا جو خود سے بات کرتے قہقے لگا رہا تھا۔۔

اپنے پیچھے ہلکی آہٹ پر وہ مڑا۔۔

اسے اپنی ریڈ شرٹ اور ٹراؤزر میں دیکھ کر وہ منجمند رہ گیا۔۔

وہ کل سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

ہاں وہ ایک ساحرہ لڑکی تھی جو سلطان کے دل پر نقش کر گئی۔۔

سلطان اس کی طرف بڑھا بے خودی کی کیفیت میں۔۔ 

ذونیشہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

آج اس کی آنکھیں بدل چکی تھی  بے تاثر سی۔۔

ذونیشہ سلطان ۔۔۔ سرگوشی میں کہتے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔

پیچھے ہٹے ۔۔۔اس کا ہاتھ جھٹکتی نفرت سے گویا ہوئی۔۔

دور رہے نفرت ہو رہی مجھے خود سے اور آپ سے اب مجھے چھونے کی کوشش بھی مت کرے۔۔

کیوں بیوی ہو میری پورا حق ہے تم پر۔۔سلطان اس کی بے تکی بات پر غصے سے بولا۔۔

آپ کا دل بہل گیا ہو گا اب مجھے چھوڑ دے ۔۔

"یہ کیا اول فول بول رہی ہو ۔۔۔تمہیں کل رات اچھے سے بتا چکا ہوں کہ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑو گا۔۔"

کیوں اب کیا ہے آپ نے کہا تھا کہ مجھے طلاق دے دے گے آپ اپنے راستے اور میں اپنے ۔۔۔

اس نے سلطان کی کہی بات یاد دلائی تو وہ لب بھینچ گیا۔۔

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔۔سلطان  نے نظریں چرائی۔۔

ہونہہ محبت ۔۔۔سر جھٹکتی وہ باہر کی طرف بڑھی۔۔۔

اس کپڑوں میں باہر جاؤ گی۔۔اس کا ہینڈل پر رکھا ہاتھ وہی رہا ۔۔

میرے خیال سے یہاں میں رخصت ہو کر نہیں آئی تھی جو کپڑے بھی ہوتے اغواہ کر کہ لائی گئی تھی۔۔ آج وہ تلخی سے بول رہی تھی۔۔

ابھی بیٹھو ادھر میں منگوا دیتا ہوں۔۔

سلطان نے پاس پڑے ٹیبل سے کیز اٹھاتے اور شرٹ پہنتے  کہا۔۔

تو وہ بھی صوفے پر سپاٹ چہرہ لیے  بیٹھ گئی۔۔

سلطان کے باہر جاتے ہی اس نے اپنا سر پیحھے ٹکایا۔۔

دروازہ ٹھک سے کھلا ۔۔

ذونیشہ جو ابھی پیچھے اپنی ماں بہن کو یاد کر رہی تھی ۔۔

کسی کے اندر آنے پر آنکھیں کھولی۔۔

مبین بیگم اسے سلطان کے کپڑوں میں دیکھ سر تا پیر سلگ اٹھی۔۔

وہ سلطان جو اپنی چیز کو ہاتھ لگانے پر سامنے والے کو مار دیتا آج یہ لڑکی اس کے کمرے میں پورے حق سے اس کے کپڑوں میں موجود تھی۔۔

اے لڑکی کیا ڈورے ڈالے ہے میرے بیٹے پر جو تمہارے گُن گا رہا ہے۔۔

مبین بیگم اس کے سامنے آتی غصے سے سرخ ہوتے بسے گھورتی بولی۔۔

میں نے جو ڈورے ڈالنے تھے ڈال دیے ہیں اب آپ اپنے بیٹے سے کہیں میری جان چھوڑے۔۔

وہ بھی لحاظ بلائے طاق رکھتی بولی۔۔

وہ تمہاری جان تب چھوڑے گا جب تم یو اپنے حسن کے جلوے دیکھانا بند کرو گی۔۔اسے سرخ شرٹ میں دھمکتا دیکھ وہ جل کر بولی۔۔

"آپ مجھے یہاں سے جانے دے ۔۔"

ان کے الفاظ پر ذونیشہ کی آنکھیں بھرا گئی۔۔

چلی جاؤ تاکہ میرا بیٹا ہمیں ہی غلط سمجھے۔۔؟؟

کیا بات ہے بی بی بڑی شاطر ہوں بھولی معصوم صورت اور ہاتھ کافی بڑی جگہ مارا ہے۔۔

مبین بیگم زہر اگلتی رہی لیکن وہ بے تاثر کھڑی تھی ۔۔

نم آنکھیں تھی جو ہمیشہ ہی ایسی ہی رہنے تھی۔۔

اگر آپ نے بول لیا ہے تو جا سکتی ہے یہاں سے ۔۔۔سختی سے کہتے اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا لیکن وہاں سلطان کھڑا تھا

دیکھا سلطان کیسے مجھے یہاں سے نکل جانے کا کہہ رہی ہے ۔۔فورا مبین بیگم نرمی سے کہتی سلطان کو بیچارگی سے دیکھا۔۔

آپ کیا کہہ رہی ہے یہ بھی بتائے نہ۔۔۔انہیں یوں بدلتے دیکھ اس نے حیرت سے کہا۔۔

میں نے کیا کہا بس یہی کہا کہ نیچے آ کر ناشتہ کر لو۔۔

بے نیازی سے کہتی وہ سنجیدہ ہو گئی۔۔۔۔

سلطان نے کچھ بھی کہے بغیر بیڈ پر بیگز رکھے ۔۔

اوکے مام آپ جائے ہم آ رہے ہیں۔۔انہیں پیار سے کہتے مسکرا کر دیکھا ۔۔

تو ساڑھی کا پلو سنبھالتے وہ باہر چلے گئی۔۔

ذونیشہ نے کانپتے ہوئے سلطان کو دیکھا جو سینے پر بازو باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

"کپڑے چینج کر لو  ۔۔۔"

سپاٹ لہجے میں کہتے وہ اپنے کپڑے لیتا واشروم میں بند ہوا۔۔

اتنے شوپنگ بیگز بیڈ پر پڑے دیکھ کر وہ انگلیاں چٹخاتی سمپل فیروزی فراک لیتی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئی۔۔

کپڑے چینج کرتے اب وہ بیڈ پر کنفیورز سی بیٹھی تھی۔۔

جس طرح سلطان کی ماں کا رویہ تھا یقینا اب اس کا جینا حرام ہو گا۔۔۔

اس نے سوچ لیا تھا یہاں سے بھاگ جائے گی۔۔بہت دور سلطان کی پہنچ سے۔۔ہاں وہ یہی کرے گی۔۔دل ہی دل میں مطمئن تھی ۔۔

سلطان اپنے گیلے بالوں میں  ٹاول رگڑتا باہر آیا اسے سوچوں میں گرا دیکھ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے اپنے بال سیٹ کیے۔۔

پرفیوم سپرے کرتے اس کی طرف بڑھا جو اب بھی کہیں گم تھی۔۔

چلو ۔۔

ہو۔۔۔۔ بے دھیانی میں اس نے اوپر دیکھا جہاں سلطان  نک سک سا تیار کھڑا تھا ۔۔

"میں نے کہا کہ چلو۔۔۔!!!

دوبارہ کہنے پر سر ہلاتی بغیر اس کی طرف دیکھے باہر نکل گئ سلطان اس کے پیچھے چلتا بہت کچھ سوچ رہا تھا۔۔۔

★★★★

بابا۔۔۔۔آپی نہیں آئی۔۔

بنو اکیلے باپ کو ہی گھر آتا دیکھ حیرت سے پوچھا۔۔۔

نہیں۔۔۔۔بنو اب اس کی شادی ہو گئی ہے سلطان صاحب کے ساتھ اب وہ وہی رہے گی ۔۔

کیا۔۔۔بابا یہ کیا کہہ رہے ہے آپ ۔۔؟؟ چارپائی سے اٹھتی وہ اس ٹک آئی۔۔

بیٹا تم نہیں سمجھ سکتی ابھی چھوٹی ہوں۔۔اس کے سر پر پیار دیتے وہ بیٹھ گئے۔۔

بابا آپی خوش تھی۔۔

ہاں بہت خوش تھی ۔۔۔شہزادی لگ رہی تھی ۔۔۔

دل میں اٹھتے درد کو برداشت کرتے مسکراتے کہا ۔۔

آپ نے بتایا نہیں کہ امی چھوڑ گئی ہے ہمیں وہ مجھ سے ملنے بھی نہیں آئی۔۔

اپنے باپ کو پانی پکڑاتی وہ بھیگی آواز میں بولی۔۔

اب وہ کبھی ادھر نہیں آئے گی سلطان کی ملکیت ہے وہ۔۔

پانی ساییڈ پر رکھتے وہ غیر مرکزی نقطے کو گھورتے بولے۔۔

کیا اب آپی کبھی نہیں آئے گی۔۔؟؟

نہیں اب نہیں آئے گی.. دعا کرو وہ خوش رہے۔۔

اسلم چارپائی پر لیٹتا  ہاتھ آنکھوں پر رکھ گیا۔۔

اسے یاد تھا کل جب اسے کال آئی تھی۔۔۔

★★★★

فلش بیک۔۔

سلطان نے اپنے باپ کی پشت دیکھتے اپنے بھوری داڑھی کو انگشت شہادت سے کھجاتے  موبائل نکالا۔۔

کسی کا نمبر بڑی باریکی سے ڈھونڈتے اس نے نچلا لب دباتے ہاسپیٹل کے بند کمرے کو دیکھا ۔۔

بغیر قدموں کی چاپ پیدا کیے وہ باہر نکلا۔۔

اپنی گاڑی کو جہاز کی طرح اڑاتے اس نے ایک گھر کے سامنے روکی۔۔

پرسرار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنا قدم باہر رکھا۔۔

محلہ کا ہر فرد حیران تھا اتنی بڑی گاڑی سے ایک مغرور شہزادے کونکلتے دیکھ کر۔۔

پر وہ بغیر کسی پر ایک بھی نظر ڈالے اپنی موبائل سے کال ملائی جو اٹھا لی گئی۔۔

گہری سبز آنکھیں مسکرا اٹھی۔۔

"اسلم صاحب ذرا آپ اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ سلطان کو دے سکتے ہے۔۔"

ہمیشہ کی طرح کا اکھڑ سا لہجہ لیکن ذرا لفظوں کو طول دیتے کہا۔۔

جی ۔۔۔اسلم صاحب جو افراز صاحب کی بات پر ہی صدمے میں تھے کہ ذونیشہ سلطان کے پاس ہے اب سلطان کو اپنے گھر پر دیکھ وہ خاموش ہی رہے ۔۔

سلطان اسے گاڑی میں بیٹھاتے شہر میں سڑک کے کنارے گاڑی روکی۔۔

اسلم صاحب باہر نکلے تو سلطان بھی باہر آتا کھڑا ہو گیا۔۔

بڑے بڑی اونچے درختوں کے سائے تلے وہ دونوں ہی خاموش تھے۔۔

ذونیشہ میرے پاس ہے ۔۔۔میں نے نکاح کیا ہے ،،بیوی ہے وہ میری ۔۔۔"

سلطان نے بات شروع کرتے اپنی پاکٹس میں دونوں ہاتھ اڑستے اپنی سبز آنکھوں سے ساتھ کھڑے اسلم کا مرجھایا چہرہ غور سے دیکھا۔۔

جی بڑے صاحب نے بتایا ہے ۔۔۔

نظریں نیچے رکھے وہ شاید آنسو ضبط کر رہا تھا۔۔

آپ بے فکر رہے میں ذونیشہ کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاؤ گا۔۔

سلطان کا چہرہ سپاٹ تھا ۔۔۔

پر میری بیٹی کبھی آپ کے ساتھ نہیں رہے گی آپ چھوڑ دے اسے ۔۔۔

اس کے جھکے کندھے اور ایک آنکھ کا بھیگا کونا۔۔۔

آپ کی بیٹی خوش رہے گی میرے ساتھ ،،زندگی کی ہر آسائش اس کے قدموں تلے ہو گی۔۔۔

اسلم خاموش ہو گیا ۔۔لب بھینچے رکھے کاش وہ کہہ سکتا کہ گھر سے اغوہ کر کہ لائی گئی لڑکی کیسے خوش رہے گی۔۔

"جہاں تک بات آپ کے محلے کے چھوٹے لوگوں کی چھوٹی سوچ کی ہے تو میں خود آؤ گا سب کو بتانے کہ ذونیشہ سلطان میری ملکیت ہے۔۔۔"

اپنی طرف سے وہ بالکل ٹھیک کر رہا ریلیکس کھڑے ہو کر سکون کے ساتھ بول رہا تھا۔۔

صاحب آپ میری بیٹی کو میرے گھر سے رخصت کر کے لے جائے تاکہ کوئی بات نہ ہو۔۔میری اور میری بیٹی کی عزت بنی رہے گی۔۔

اس نے نظر اٹھاتے شہزادوں سی آن بان والے خوبرو مرد کو دیکھا جس کے پیچھے جانے کتنے پاگل تھے ۔۔۔

ہممم۔۔پر میرا نہیں خیال اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہیے۔۔

میں ذونیشہ کے ساتھ آؤ گا تو بتا دو گا سب کو سمپل۔۔

سلطان  نے سگریٹ سلگاتے دھواں فضا میں چھوڑا۔۔

سلطان صاحب عزت ہماری بھی ہوتی ہے چاہے ہم غریب سہی پر عزتوں پر جان وار دیتے ہیں۔۔

لوگ یہیں سمجھے گے کہ آپ نے نکاح نہیں کیا اغواہ کیا ہے ۔۔خدارا اگر آپ میری بیٹی کو بیوی بنا کر رکھنا چاہتے ہے تو اسے مکمل طور پر رسم و رواج کے ساتھ لے کر جائے۔۔

اسلم نے دل برداشتہ ہوتے لفظ کہے۔۔

آپ کی بیٹی اب میری محبت بن گئی ہے  اسے چھوڑنا بس میں نہیں رہا۔۔

آپ نے وہ کرنا ہے جو میں کہو گا پھر میں ویسا کرو گا جیسا آپ نے کہا۔۔

جی ٹھیک ہے۔۔

اسلم نے سلطان کی آنکھوں کے جلتے دیپ دیکھ دل ہی دل میں دعا ضرور کی تھی کہ اس کی بیٹی خوش رہے ۔۔۔

وہ اگر سلطان کے خلاف جاتا بھی تو کچھ نہیں کر سکتا ہے وہ اب شرعی اور قانونی طور پر میاں بیوی تھے کچھ بھی کرنا فضول تھا۔۔

لیکن سلطان کی بات سنتے وہ کچھ پل کو حیران ہوا کیا وہ ذونیشہ کو بدزن کرنا چاہتا ہے اس سے۔۔؟؟

لیکن اس نے حامی بھر دی۔۔۔

وہ سب کچھ وہی کہہ کر آیا تھا جو سلطان نے کہا تھا اب اسے انتظار تھا سلطان کے جواب  کا ۔۔

★★★★

رات کے اندھیرے میں وہ چپکے سے بیڈ سے اٹھی 

سلطان  سو رہا تھا آنکھوں پر بازو رکھے ۔۔

اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا پر اسے بھاگنا تھا آج  ہی ۔۔

بغیر جوتا پہنے اس نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے اس دوران ایک ہی ڈر تھا کہ سلطان نہ اٹھ جائے ۔۔

وہ کہا جائے گی نہیں جانتی تھی پر ابھی صرف سلطان کی قید سے نکلنا چاہتی تھی۔۔

اس کی قسمت ساتھ تھی جو مین گیٹ بھی کھلا تھا  اندھا دھند وہ سلطان کے محل سے بھاگی ۔۔

اک ڈری شہزادی کی مانند بغیر جوتے کے دوپٹہ لپیٹے وہ سڑک پر بھاگتی جا رہی۔۔

اس کے پاؤں میں کتنے کانٹے چنبھے اسے علم نہیں تھا ۔۔سانس پھول چکی تھی موسم بھی تیور بدل رہا تھا گرج چمک کے ساتھ بجلی چمکی۔۔

ڈر کہ وہ رکتی کچھ پل کے لیے سانس لیے ذرا جھکتے اس نے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے سانس ہموار کیا۔۔۔

پر جیسے ہی سر اٹھایا دل ھل دھک رہ گیا سیاہ مرسڈیز پوری سپیڈ کے ساتھ پیچھے سے آتی اس کے سامنے رکی۔۔

آنکھوں کی پتلیاں پتھرا گئی۔۔

دل سینے میں ہی بند ہوا۔۔

سلطان کی گاڑی۔۔

اسے واپس بھاگنا چاہیے پر سلطان پورے غصے کے ساتھ گاڑی سے نکلتا اس کی طرف بڑھا۔۔

ایک موت کا فرشتہ ہی ذونیشہ کو لگا جو جان لینے آ رہا ہو اس کا کیا انجام ہو گا ۔۔

وہ قدم پیچھے کو بڑھانا چاہتی تھی پر سلطان نے اس کا بازو کھینچتے اپنے سینے میں بھینچے۔۔

سلطان کا یہ ردِعمل حیران کن تھا ذونیشہ کے لیے ۔۔۔۔

سلطان اس سینے سے لگائے کھڑا اس کے ہونے کی یقین دہانی کر رہا تھا۔۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو پہلو میں کوئی موجود نہ تھا ایک بار دوبارہ سلطان کی سانسیں اٹکی۔۔

اسے لگا کہ باتھروم میں ہو گی پر وہ بھی خالی تھا۔۔

کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔۔

سکینڈ کی بھی دیر کیے بغیر سلیپر پہنتے اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتے وہ باہر کو بھاگا۔۔

گیٹ پر کوئی چوکیدار نہیں تھا یعنی کوئی اور بھی ساتھ تھا پر کون۔۔

گاڑی کو سڑک پر بھگاتے وہ چاروں طرف اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔

ایک لڑکی کو ذرا جھک کر سانس لیتے دیکھ اس کی سانس میں سانس آئی۔۔

گاڑی کو اس کے سامنے روکتے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔

آج اس کے کھو جانے کا خوف اس کا دل دھڑکا گیا۔۔

وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے پر آج معلوم ہوا تھا کہ اسے ذونیشہ سلطان سے عشق ہو گیا تھا۔۔۔

پاگل ہو کیا۔۔؟؟؟

یوں اکیلی گھر سے کیوں نکلی۔۔۔؟؟

اسے خود سے علیحدہ کرتے وہ دھاڑا۔۔

سہم کر حلق تر کرتی اس نے اپنے لب کاٹے۔۔

"ایک لمحہ کو جان نکل گئی تھی میری کیوں کرتی ہو ایسے ۔۔

سلطان نے بے بسی سے اسے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔۔

میں نہیں رہنا چاہتی آپ کے ساتھ میری ماں مر گئی میرا باپ چھوڑ گیا ہے مجھے آپ بھی چھوڑ دے مجھے ۔۔۔

میں نہیں سہہ سکتی آپ کے ستم۔۔

بادل گرجے اور زور و شور سے برسے۔۔بارش نے اردگرد ہر چیز کو بھگو دیا ۔۔۔

"میرا عشق بے حد ہے جاناں۔۔

میں بہت محبت کرتا ہوں۔۔چاہے سلطان نے کتنا ہی ستم تم پر کیا ہو پر اس سلطان نے عشق پورے دل سے کیا ہے۔۔"

بارش کی بوندیں لمحہ بہ لمحہ نیچے گرتی دونوں کو بھیگو کو بہتی چلی جا رہی تھی۔۔

آپ نے مجھے اغواہ کیا میری عزت کو روندھ ڈالا مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا۔۔۔اوپر لی چادر ڈھلک کر کندھوں پر آچکی تھی۔۔

سڑک پر رات کے اندھیرے میں دونوں کھڑے تھے بارش کے زور سے لاپرواہ ہو کر۔۔

"شاید مجھے پہلے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تم عزیز ہو چکی ہوں میرے لیے۔۔"اس نے خود پر ہنستے چہرا بلند کیا بارش کی تیز بوچھاڑ چہرے پر پڑی۔۔

کچھ فاصلے پر کھڑی ذونیشہ  نے چند قدم دور سلطان کی طرف اپنے دو قدم بڑھائے۔۔

سلطان سانس روکے اسے اپنے سے ایک قدم کے فاصلے پر دیکھا۔۔

اس کے لرزتے ہونٹ بھیگا سراپا دیکھتے سلطان کے دل نے بغاوت کی۔۔

جسے سختی سے ڈپٹتے ادھر ادھر نظریں دوڑائی۔۔

تاریک رات میں وہ دونوں کھڑے تھے۔۔

"تم بے رحم ہوں سلطان۔۔۔"

 لفظوں کی گونج سنسان سڑک پر گونجی ۔۔۔

"نہیں ذونی تمہارا سلطان بے رحم نہیں ہے اس کا دل بے رحم تھا اس دلِ بے رحم نے مجھے آج بے بس کر دیا۔۔"سلطان نے اس کے چہرے پر ٹھہری بوندوں کے ساتھ آنسو ملتے دیکھ تڑپ کر باقی کا فاصلہ مٹاتے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا۔۔

"ٹھیک ہے پھر مجھے علیحدگی چاہیے۔۔!!!

آج وہ ظالم بنی کھڑی تھی اس نے اپنی بھوری کانچ سی آنکھیں اس کی سبز کائی جمی آنکھوں میں گاڑھی۔۔

سبز آنکھون کا بدلتا رنگ اور اپنے چہرے کے گرد رکھے اس کے ہاتھوں کی سختی محسوس کرتی اس کی غزالی آنکھیں پھیلی۔۔خوف سے ڈر سے ۔۔۔۔

مجھے مار دوں اور لے لو علیحدگی۔۔۔!! ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہتے وہ گاڑی کی طرف بڑھا ۔۔

گاڑی سے ریوالور نکالتے وہ واپس مڑا۔۔

جبکہ اسے دیکھ ذونیشہ سپید پڑی۔۔

اس کی ہتھیلی سیدھی کرتے اس پر ریوالر رکھی ۔۔۔

کانپتے ہاتھوں پھیلی آنکھ کی پتلیوں سے دیکھتے اس نے بے خوف کھڑے سلطان کو دیکھا۔۔

کیا یہ واحد راستہ ہے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے ۔۔ ؟؟ وہ دل میں سوچتی ریوالور پر پکڑ مضبوط کی پر پھر بھی ہاتھ کانپ رہے  تھے ۔۔

شوٹ می  ۔۔۔ !! اس کے کانپتے ہاتھوں پر اپنے برف کی طرح سرد ہاتھ رکھے گن کی نال اپنے سینے پر رکھی۔ ۔

بلیک شرٹ سینے سے چپکی پڑی تھی اس کا مضبوط کسرتی جسم واضح ہو رہا تھا۔۔

لبوں پر زبان پھیرتی اس نے سلطان کے ہاتھوں میں موجود اپنے ہاتھ دیکھے جس میں گن تھی عین اس کے دل کے مقام پر ۔۔۔

کیا سب ختم ہو جائے گا۔۔

کیا وہ آزاد ہو جائے گی۔۔۔

سہمی نگاہوں سے اس نے سلطان کی مسکراتی سبز آنکھوں میں دیکھا جس نے ساحرانہ مسکان کے ساتھ آنکھیں بند کرتے گن کا ٹریگر دبایا ۔۔

گولی کی گونج پر دونوں کی دھڑکنیں ساکت ہوئی۔۔۔

ذونیشہ نے ڈرتے دل سے آنکھین کھولی سلطان چہرہ موڑے دیکھ رہا تھا دائیں جانب۔۔

ذونیشہ نے اس کے سینے پر رکھی گن کو ہٹایا 

اسے گولی نہیں لگی۔۔یعنی گن خالی تھی۔۔

مبین بیگم نے فضا میں فائر کیا تھا۔۔

وہ کچھ فاصلے پر گاڑی سے باہر کھڑی تھی۔۔

شاید انہیں ہوش نہیں تھا تب ہی گاڑی کی آواز نہ سن سکے یا بارش کے زور میں کہیں دب گئی۔۔

مام آپ ادھر۔۔۔؟؟

سلطان نے ذونیشہ کی سپید پڑتی رنگت دیکھ کر دیا ان کی طرف قدم بڑھائے۔۔

سلطان آج میں اس لڑکی کو مار کر قصہ ہی ختم کر دو گی۔۔

یہ تمہیں مار رہی تھی۔۔

اگر گن میں گولی ہوتی تو۔۔۔۔میں اس فساد کی جڑ کو ہی ختم کر دو گی۔۔ میں نے اس کے لیے آج چوکیدار کو چھٹی دی کہ یہ بھاگ جائے پر تم پھر اس کے پیچھے آ گئے۔۔

وہ ہذیاتی ہو کر خونخوار تیور لیے برستی بارش کی پرواہ کیے بغیر ذونیشہ کی طرف بڑھی ۔۔

سلطان نے اپنی مام کے ہاتھ پسٹل دیکھ کر  ذونیشہ کو اپنی پشت پر چھپایا ۔۔

"مام ۔۔۔۔!!!!

سلطان غصے سے سرخ ہوتا ہاتھ اٹھاتے انہیں رکنے کا کہا ۔۔۔۔

"سلطان تم ایک مالی کی بیٹی کو بیوی نہیں بنا سکتے ہمارے سٹیٹس پر بات ہو گی لوگ کیا کہے گے۔۔!!!

پسٹل نیچے کرتے وہ غصہ سے بولی۔۔۔۔

مام آپ ہی نے تو کہا تھا کسی لڑکی کی عزت پر بات نہ آنے دو ۔۔میں نے نکاح کر لیا ہے اور آپ اب یہ کہہ رہی ہے۔۔۔

سلطان  جو کبھی بھی ماں سے مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اب ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا۔۔

میں نے یہ نہیں کہاں  تھا کہ کسی کو بھی اٹھا کر لے آؤ۔۔

تم نے شوق پورا کر تو لیا ہے اب چھوڑ دو اسے۔۔""

وہ جھنجھلا سی گئی۔۔

مام آپ کیوں نہیں قبول کر پا رہی ہے کہ عام لڑکی نہیں ہے ذونیشہ سلطان ہے ۔۔۔"!!

وہ برستی بارش میں گرج پڑا ۔۔سبز آنکھیں شعلے برسانے لگی۔۔

"اچھا سلطان میرے بیٹے میں اس سے بھی پیاری لڑکی ڈھونڈ کر لاؤ گی۔۔"

اس نے سلطان کی پشت پر مکمل چھپی تھر تھر کانپتی ذونیشہ کو زہر بھری نظروں سے دیکھا۔۔

"مجھے کوئی اور نہیں چاہیے صرف ذونی چاہیے جو میرے پاس ہے۔۔بس ۔۔""

سلطان نے ذونیشہ کو اپنے حصار میں لیتے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا۔۔

گاڑی کا دروازہ بند کرتے اپنی مام کی طرف آیا۔۔

مام چلے گھر جا کر بات کرتے ہے،،،،

سلطان نے انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہا پر وہ اس کا ہاتھ

 جھٹکتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔۔

اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھا۔۔

ذونیشہ ٹھنڈ اور خوف سے کانپتی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں مینچیں بیٹھی تھی۔۔

اتنی ٹینشن میں بھی سلطان کے ہونٹ مسکرائے۔۔

وہ بہت ڈر پوک تھی ۔۔۔۔

ہیٹر آن کرتے اس نے گاڑی وہاں سے نکالی۔۔۔

گھر بہت بڑا ڈرامہ ہو گا جانتا تھا ۔۔

وہ اسلم سے بھی بات کرنا چاہتا تھا۔۔

بہت سے کام تھے جو وہ  کرے گا تاکہ ذونیشہ اس کے پاس رہے بس۔۔۔۔

★★★★

گاڑی رکنے کی آواز پر وہ جلدی سے اترتی اندر کو دوڑی۔۔

سلطان نے سرد آہ بھرتے جیب سے سگریٹ نکالتے سلگایا۔۔

وہ بہت کم سگریٹ پیتا تھا پر اب وہ روزانہ ہی سموکنگ کرتا تھا۔۔

اس عشق کا روگ تھا غم بڑا تھا ۔۔

بوجھل قدموں سے اندر آتے اس نے مبین بیگم کے بند دروازے کو دیکھا وہ پہلے ہی آ چکی تھی پر اب ان کا روم لاک تھا۔۔

اس نے ایک نظر اوپر اپنے بند کمرے کو دیکھا اوپر جانے کے خیال کو جھٹکتے اس نے سٹڈی روم کی جلتی لائٹ دیکھی   اپنے باپ کے سٹڈی روم کی طرف بڑھا یقینا وہ وہی کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔۔

سوچ کے مطابق ناک کرتے جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا افراز صاحب آئے طوفان سے انجان یا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کیے وہ کسی کتاب کو پڑھ رہے تھے ۔۔

"اوہ ۔۔۔سلطان آؤ بیٹھو۔۔۔" 

اپنی عینک اتارتے وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے۔۔

سلطان سٹڈی ٹیبل سے کچھ فاصلہ پر اپنے باپ کے سامنے ایک چئیر رکھتے بیٹھ گیا۔۔

سگریٹ کو مسلتے اس نے اپنے گیلے بال ماتھے سے پیچھے کیے۔۔

"کب تک یوں مجنوں بننے کا ارادہ ہے۔۔"

فراز صاحب نے اس کی بگڑی حالت کے پیش نظر ذرا ناگواریت سے کہا۔۔

ان کی بات پر وہ دھیمہ سا مسکرایا۔۔

اپنی گہری سبز آنکھیں اس نے سامنے بک ریک پر ٹکائی۔۔

پاؤں جھلاتے وہ شدید کسی پریشانی میں گھیرا محسوس ہوا۔۔

"ڈیڈ۔۔یہ سگریٹ ہی تو اب سہارا ہے میرا،،،

اس نے ہنستے ہوئے آنکھ ونک کی پر اس کی آنکھوں نے مسکراہٹ کا ساتھ نہ دیا۔۔

افسوس سے سر ہلاتے افراز صاحب نے چائے کا مگ جو پاس ہی انہوں نے رکھا تھا اٹھاتے لبوں سے لگایا۔۔

جبکہ سلطان کی نظریں کسی غیر مرئی نقظے پر مرکوز تھی۔۔

ڈیڈ کیا واقعی میرا گناہ بہت بڑا ہے ۔۔۔؟؟

وہ ذرا نظریں اٹھاتا اپنے باپ کو دیکھتے الجھا سا بولا۔۔

ہممم۔۔۔سلطان بات لڑکی کی ہے ۔۔۔لڑکیوں کی عزت تو ویسے بھی کانچ کی مانند ہوتی ہے ذرا سی چوٹ پر نشان چھوڑ جاتی ہے تم نے تو اسے اغواہ کیا تھا۔۔سوچوں اس کے محلے والے کیا کیا باتیں بنا رہے ہو گے۔۔ایک دن باہر رہی لڑکی کو یہ معاشرہ قبول نہیں کرتا اور تمہارے پاس وہ کب سے ہے۔۔

افراز صاحب پین کو بک پر گھماتے سنجیدگی سے گویا ہوئے۔۔

"ڈیڈ میں نے نکاح کیا ہے اسے اپنی عزت بنایا ہے کیا یہ کافی نہیں۔۔!!

وہ ابھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہا تھا۔۔

"اچھا ٹھیک ہے تم غلط نہیں ہو۔۔کل کو کوئی اگر تمہاری بیٹی اٹھوا لے۔۔۔۔"

"ہاتھ نہ توڑ ڈالوں اس کے جو سلطان بہروز کی بیٹی کو چھوئے بھی،،،،

افراز صاحب کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا۔۔

"افسوس ہے  ذونیشہ بھی کسی کی بیٹی ہے۔۔۔سوچنا ضرور تم کس جگہ غلط تھے۔۔"

میں خود غرض ہو بہت مجھے میرے خاندان کا عزت و مرتبہ بہت عزیز ہے پر کسی لڑکی کے ساتھ نا انصافی کرنا ۔۔۔میرا ضمیر یہ اجازت نہیں دے رہا۔۔تم اسے سمجھو اس کی خواہشات کو سمجھو۔۔۔تھوڑا وقت لگے گا اسے دوبارہ سہی ہونے میں پر تم کوشش کرتے رہو۔۔"

سلطان لب بھینچتے اپنی دماغ کی پھٹتی رگوں کو سنبھالتے وہاں سے نکلا۔۔

"کپڑے چینج کر لینا بہروز ٹھنڈ لگ جائے گی،،،

اپنے پیچھے آتی آواز کو نظر انداز کرتے وہ غصے سے اپنے اندر کے اشتعال کو دباتے اوپر چھت پر چلا گیا۔۔۔

بارش رک چکی تھی پر ٹھنڈی ہوائیں پسلیوں میں گھس رہی تھی۔۔

اسے پرواہ نہ تھی سگریٹ پر سگریٹ پیتے وہ سرخ انگارہ آنکھوں سے رات کے اندھیرے میں باہر جلتی روشنیوں کو دیکھ رہا۔۔۔

وہ اکلوتا اور لاڈلا تھا،،، بے حد خوبصورت تھا۔۔۔ایک دنیا تھی جو اس پر مرتی تھی۔۔ایک زمانہ تھا اس کا۔۔۔

دل جیتنے کا فن تھا اسے پر اسے اپنے ہی عشق کے ہاتھوں مات ہو رہی تھی ،،، اگر وہ پہلے والا بے حس سلطان بہروز ہوتا تو اسے فرق نہ پڑتا لیکن اب وہ اسیر تھا ذونیشہ کا اسے فرق پڑتا تھا اس کی نفرت سے ۔۔

اپنی جیب سے موبائل نکالتے اپنے اکلوتے دوست کا نمبر ملایا۔۔

جو کچھ ہی دیر بعد اٹھا لیا گیا۔۔

ہیلو۔۔۔!!!!

نیند میں ڈوبی آواز سنتے سلطان نے دانت کچکچائے۔۔

ابھی کہ ابھی اگر تم ادھر حویلی کی چھت پر نہیں آئے تو کہیں جانے کے قابل نہیں رہو گے۔۔۔

سلطان کی اکھڑ تیز دھاڑ سنتے وہ بستر سے بدک کر اٹھا۔۔۔

"تیرے جیسا دوست خدا دشمن کو بھی نہ دے۔۔"

غصے سے بڑبڑاتے کان سے لگے موبائل کو آف کرتے وہ اپنی چادر پکڑے باہر نکلا۔۔

اتنی سردی تو نہیں تھی پر بارش کے بعد چلتی ہوائیں خاصی سرد تھی اور تھا بھی رات کا پہر۔۔۔

اپنی گاڑی کو حویلی کے رستے پر ڈالتا ہزار گالیاں سلطان کو دے چکا تھا جس نے اس کی نیند خراب کی۔۔

"کیا موت پڑ گئی آدھی رات کو جو مجھے ادھر مرنے کو بلا لیا۔۔۔اس ٹائم تو میری گرل فرینڈ بھی فون کر کہ کہتی نہ ۔۔"بے بی آ جاؤ" تو میں اس پر بھی دو حروف بھیج کر سو جاتا۔۔۔

چھت پر آتے ہی اس نے بولنا شروع کر دیا جس پر سلطان نے ایک  ناگوار نظر اس پر ڈالی۔۔

"منہ بند رکھوں ورنہ ایک اور دانت ہاتھ میں آجائے گا۔۔"

تیوڑی چڑھائے اس نے چھت پر بنے کمرے کی جانب رخ کیا۔۔

وہ حویلی کی سب سے آخری منزل پر تھے تیسری منزل پر جس پر صرف ایک ہی کمرہ تھا۔۔

بیڈ پر بیٹھتے اس نے اپنے شوز اتارے۔۔۔

"کیا ہے بیٹھ جاؤ اب۔۔"

سلطان اسے اپنے سامنے کھڑا پاگلوں کی طرح گھورتے دیکھ بولا۔۔۔

میں دیکھ رہا ہو کیا یہ وہی سلطان ہے جس کے کپڑے پر ہلکی سی سلوٹ بھی آ جائے تو حویلی سر پر ہوتی تھی اور آج وہی سلطان بے نیاز سا بیٹھا ہے خیر تو ہے۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے تیری۔۔۔

اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے وہ بے چینی اور پریشانی سے بولا۔۔

"ذلیل انسان میں ادھر پریشان ہو تمھیں مزاق سوجھ رہا ہے ۔۔

اس کا ہاتھ جھٹکتے وہ سختی سے بولا۔۔

"اچھا بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔"

ساحر نے  سیریس ہوتے پوچھا۔۔

یار میں ذونیشہ کو نہیں چھوڑ سکتا اب۔۔۔

نظریں نیچے کیے وہ لب کچلتا بولا۔۔

کسی نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا یہ عشق لاڈلوں کےبس کی بات نہیں۔۔۔۔

اس نے طنزیا اس کی حالت دیکھتے پاس بیڈ پر بیٹھتے کہا۔۔

"میں کہہ رہا ہوں ساحر تیرا دانت ٹوٹ سکتا ہے۔۔۔!!!

بیڈ پر گرتے وہ ذرا سنجیدگی سے بولا۔۔

"اچھا تم بھابھی سے معافی مانگ لو اپنے کیے کی۔۔۔"

اس نے آرام سے مشورہ دیا پر سلطان کے ماتھے پر ڈھیروں بل پڑے۔۔۔

کیا بہروز سلطان نے آج تک کبھی معافی مانگی نہیں نہ تو اب کیوں مانگو۔۔۔؟؟؟

بے نیازی سے کہتے اس نے شانے اچکائے۔۔

تو آج سے پہلے کبھی عشق کیا نہیں نہ تو پھر آرام سے معافی مانگ غلطی تیری ہی ہے زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت ہی کیا تھی آرام سے گھر جا کر رشتہ لیتے پر تم تو کسی فلم کے ہیرو بنے اپنی دلھنیاں کو اٹھا لائے۔۔۔

ساحر نے ہاتھ نچا نچا کر اسے اچھی خاصی تپ چڑھا دی۔۔

ساحر میں کہہ رہا ہوں تیرا دانت ٹوٹ جانا ہے۔۔۔دانت پیستے اس نے بیٹھے ہوئے ساحر کی کمر پر پنچ جڑا۔۔۔

مجھے یہاں مارنے کے لیے بلایا ہے ۔۔؟؟

درد برداشت کرتے وہ صدمے سے بولا۔۔۔

ناچاہتے ہوئے بھی اس کی شکل دیکھتے سلطان کا مسحور کن قہقہ گونجا۔۔۔

"نہیں تجھے یہاں میں نے اس لیے بلایا ہے کہ اسلم مطلب ذونیشہ کے والد صاحب اب ادھر کام پر نہیں آتے تو تم انہیں اچھی سی جاب ڈھونڈ کر دو اور ذونیشہ کی چھوٹی سسٹر اس کے سکول کی فیس بھی ادا کرنی ہے جو تم کرو گے کل۔۔۔"

سلطان نے آنکھیں موندیں اسے کام بتایا جس پر وہ منہ بناتا اٹھتے الماری سے کمفرٹر نکالتے بیڈ پر رکھا۔۔۔

سلطان کپڑے بدل یہ گیلے ہے۔۔۔ساحر اسے یونہی سوتے دیکھ بلند آواز میں چیخا۔۔

غنودگی میں جاتا بہروز ہڑبڑا کر اٹھا۔۔

"تیرا دانت ٹوٹنا ہی ٹوٹنا ہے ۔۔۔"

اس پر جھپٹتے اس نے لڑائی شروع کی۔۔

کئی منٹ تک بیڈ جنگ کا میدان بنا رہا آخر کار دونوں ہی ہار مانتے لیٹ گئے۔۔

سلطان بھی کچھ وقت کے لیے اپنی ٹینشن بھولاتا کپڑے بدل کے سکون سے لیٹ گیا۔۔۔۔

دوست واقعی غم و پریشانی میں اچھے ساتھی ہوتے ہے ۔۔

★★★★

سرخ چہرے سوجھے پیوٹے سفید رنگت میں گھلی زردی وہ بلیک فراک میں مبلوس نازک سی گڑیا خود سے ہی روٹھی روٹھی لگ رہی تھی۔۔

ایک وقت کو اس کا دل خوف سے لرز اٹھا تھا جب سلطان نے ٹریگر دبایا تھا۔۔

اسے کچھ نہیں ہوا جانے کیوں اس کے پورے جسم میں ایک سکون سرائیت کر گیا تھا۔۔

کچھ بھی ہو پر وہ قاتل نہیں بننا چاہتی تھی۔۔

ساری رات وہ انتظار میں تھی شاید بہروز آ جائے پر وہ نہیں آیا۔۔

دل اسے دیکھنے کا خواہا تھا پر وہ خاموش تھی ۔۔

اپنے دل کی بدلتی کیفیت پر وہ حیران تھی جو اس ستم گر کو سہی سلامت آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔۔

ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔۔

گیلے کپڑے تو وہ چینج کر چکی تھی پر اب بخار سے تپ رہی تھی۔۔

ایسے میں سلطان کی بے رخی اسے مار رہی تھی۔۔

دھیمے قدموں سے چلتی وہ باہر آئی۔۔

صبح صبح حویلی میں موت سا سناٹا تھا۔۔

ایک دم ہوا کے جھونکے کے ساتھ اس کی دل کی دھڑکنیں سسٹ پڑی۔۔

سرخ بھوری غزالی آنکھیں جیسے ہی سامنے اٹھی پلٹنا بھول گئی۔۔

سلطان جینز شرٹ اور کوٹ ہاتھ میں پکڑے نک سک سا تیار موبائل میں مگن آرہا تھا۔۔

براؤن بال ماتھے پر بکھرے اس کی وجاہت کو بڑھا رہے تھے،،،ہلکی بھوری داڑھی گھنی مونچھیں اور عنابی لب وہ دل ساکت کر دینے والا حسن رکھتا تھا۔۔

سلطان نے غیر معمولی احساس کے تحت اپنی سبز آنکھیں موبائل سے اٹھاتے سامنے دیکھا جہاں وہ دشمن جاں کھڑی اسے ہی تک رہی تھی۔۔

اچانک اس کے تاثرات سپاٹ ہوئے سبز آنکھے میں سرد پن چھا گیا۔۔

اس کی حالت سے انجان بنا وہ سائیڈ سے گزرتا چلا گیا۔۔

اپنے اندر کچھ ٹوٹتا محسوس کرتے اس کی آنکھیں بھرا گئی۔۔

ایک امید تھی وہ اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھے گا ۔۔۔

ذونیشہ لب کچلتی واپس کمرے میں بھاگ گئی۔۔

کچھ دیر بعد نوکرانی اسے کھانا اور میڈیسنز دے گئی تھی۔۔

مطلب وہ جانتا تھا کہ اسے بخار ہے بس پوچھنا گوارہ نہ کیا۔۔

"میں بھی کچھ نہیں کھانا۔۔۔۔ ہوتا رہے مجھے جو مرضی ،،،،انہیں کونسا پرواہ ہے۔۔۔"

کھانا کی ٹرے پرے دھکیلتی کمفرٹر اوڑھتی لیٹ گئی۔۔

★★★★

"سلطان میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنی حویلی میں کام کرنے والے معمولی سے مالی کی بیٹی سے نکاح کر لیا ہے۔۔؟؟؟

سلطان ابھی اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ حرا کی تمسخرانہ آواز پر ٹھٹھک کر رکا۔۔

اپنی عینک اتارتے وہ اس کی طرف مڑا۔۔

بالکل تمہیں آج پتا چلا،،،،، چلو شکر ہے پتا چلا گیا،،، 

گاڑی سے ٹیک لگاتے اس نے مزاج کے برخلاف خوشگوار لہجے میں کہا۔۔

سلطان خالہ کہہ رہی تمہیں اسے جلد طلاق دے دو گے۔۔

سلطان کو دیکھتی اس نے آبرو اچکاتے پوچھا۔۔۔

"یہ تمہاری خالہ اور تمہاری غلط فہمی ہے مس حرا اسفندخان۔۔۔"

دل جلا دینے والی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اس نے جواب دیا۔۔

میں یہی پر ہوں ایک ماہ تمہاری دلہن کے ساتھ انجوائے کرو گی۔۔میں بھی تو دیکھو آخر کونسی لڑکی ہے جس نے سلطان بہروز کو پاگل کر دیا ہے۔۔۔"!!

سینے پر ہاتھ لپیٹے وہ سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جرات سے بولی۔۔اس کی آنکھیں کچھ اور ہی بول رہی تھی پر سلطان سر ہلاتے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔۔

"ایک بات یاد رکھنا حرا اسفند خان اسے آنچ بھی نہ آئے ،،، بہروز سلطان بہت پوزیسسو ہے اپنی ذونی کے معاملے میں،،،،

جاتے جاتے بھی وہ اسے جلا گیا تھا ۔۔

حسد اور جلن سے اس کا تن من جل اٹھا۔۔

"سلطان صرف میرا ہے کسی مالی کی بیٹی کا نہیں۔۔۔!!

★★★★

"خالہ جان میں بتا رہی ہوں سلطان بہروز صرف میرا ہے ورنہ میں خود کو مار ڈالوں گی۔۔۔

حرا شدید غصے کی کیفیت میں ہذیاتی ہوتی مبین بیگم کے روم میں بیٹھی چیخ رہی تھی۔۔

"بالکل بیٹا وہ صرف تمہارا ہے۔۔۔"مبین بیگم نے پرسرار مسکراتے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔

جلتے دل پر پڑتی ٹھنڈک پر وہ بہت کچھ سوچنے لگی۔۔۔

"خالہ بس اب اس ذونیشہ کو حویلی سے نکالنا ہے۔۔"

اپنے بال انگلی میں لپٹتی آنکھوں میں چنگاریاں لیے وہ نفرت سے بولی۔۔

"ضرور اسے تو نکلنا ہی پڑے گا آخر یہ اس کی جگہ تھوڑی ہے۔۔"

مبین بیگم بھی اس کا ساتھ دیتی شاطرانہ مسکرائی۔۔

★★★★★

"او جاناں ۔۔۔ میری جان نظریں مجھ سے ملانا ۔۔۔"

ساحر خاصی اونچی آواز میں گنگناتے سکول کے باہر گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔

چھٹی ہو چکی تھی اب اسے سلطان بہروز کی سالی صاحبہ کا انتظار تھا۔۔

ایڈمیشن فی اس کی وہ دے آیا تھا ۔۔پر اب ایک بار وہ اس سے معلومات لینا چاہتا تھا ساری پیپرز کی۔۔

اس کی تصویر بھی سکول رکارڈ والی ہی دیکھی تھی اس لیے آنکھیں چھوٹی کیے وہ لڑکیوں کے ہجوم سے اسے تلاش کر رہا تھا۔۔

ساتھ ساتھ گانا بھی گا رہا تھا۔۔

اسے زیادہ وقت نہ لگا اسے ڈھونڈنے میں سامنے ہی وہی لڑکی پر ذرا چینج سی بلیک چادر لیے تقریباً سولہ سال کی وہ نازک سی لڑکی نظریں جھکائے کندھے پر بیگ ڈالے اپنی دوست کے ساتھ چلتی اس کی طرف ہی آ رہی تھی۔۔

"لڑکی بات سنو۔۔۔"!!

ساحر اسے اپنے پاس سے گزرتے دیکھ جلدی سے بولا۔۔

ماتھے پر بل ڈالے وہ اس کی طرف مڑی۔۔

جبکہ اس کی دوست گبھراتی ساحر کو دیکھ رہی تھی۔۔

"کیا ہے بے۔۔۔????

اپنی بڑی بڑی شہد رنگ آنکھوں سے اس نے ساحر کو گھورا۔۔

"مجھے سلطان نے بھیجا۔۔"

چھٹانک بھر لڑکی کے غصیلے تیور دیکھ اسنے گڑبڑاتے کہا۔۔

میری اپیا کے سائیں سلطان ۔۔؟؟؟

خوشی سے اس کی آنکھیں چمکتی ۔۔۔۔

ہاں وہی بہروز سلطان۔۔۔

 اس لڑکی کو نارمل ہوتے وہ سر ہلا گیا۔۔

بنو چلو۔۔۔"

اس کی دوست نے کہنی مارتے دھیمے سے کہا۔۔۔

"تم جاؤ میں اپیا کا پوچھ لو پلیز پلیز۔۔۔"

اس نے اپنا بیگ کندھے پر سہی کرتے چادر ذرا ٹھیک کرتے کہا۔۔جس پر اس کی دوست ساحر کو گھورتی چلے گئی۔۔

"انکل جلدی بتائے مجھے میری اپیا کا،،،،میں لیٹ ہو رہی ہوں گھر جانا ہے۔۔۔۔"

بنو نے اسے بیزاریت سے ادھر ادھر دیکھتے کہا پر اس کی بات پر ساحر کا دل کیا اس کا سر پھوڑ دے۔۔

اس نے ایک نظر خود پر ڈالی۔۔کیمل شرٹ بلیو جینز وائٹ جاگرز اچھی بھلی اس کی لک تھی وہ کچھ بھی لگ سکتا تھا پر انکل نہیں۔۔۔ساحر نے دانت پیستے اسے دیکھا جو بڑے اشتیاق سے اپنی اپیا کا پوچھ رہی تھی۔۔

"لڑکی تیری اپیا کا مجھے نہیں پتا مجھے سلطان نے بھیجا ہے ۔۔۔تم جلدی سے بتاؤ تمہارے پیپر کب ہے زیادہ دماغ کو پکاؤ مت میرے۔۔۔"

غصے سے سرخ ہوتے وہ جل کر بولا۔۔

"انکل غصہ کیوں کر رہے آپ ۔۔۔اگر سلطان جیجو نے بھیجا ہے تو میری اپیا کا بھی پتا ہی ہو گا۔۔میرے پیپر نیکسٹ منتھ ہے۔۔"

منہ بسورتی اس نے کہا۔۔

"اچھا ٹھیک ہے کاکی۔۔۔۔۔"

دانت پیستے بغیر اور بات کا جواب دیے دھواں دھواں چہرہ لیا وہ اپنی گاڑی میں  بیٹھا اور جہاز کی سپیڈ سے وہاں سے بھگائی۔۔

وہ وہی ہونک بنی  کھڑی اس کی دھول اڑاتی گاڑی دیکھی ۔۔۔

"عجیب انکل تھے ،،،ہونہہ ،،،،،مجھے کیا میں اپیا سے جلد ملو گی۔۔۔"

کندھے اچکاتی وہ دوبارہ اپنی راہ چل دی۔۔

★★★★

"میں اسے انکل دیکھ رہا تھا ۔۔۔یعنی میں ساحر خان ڈیڑھ فٹ لڑکی کو انکل لگا۔۔۔"!!

ساحر کا تو غم ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔

سلطان کے پاس بیٹھا پچھلے ایک گھنٹے سے تقریباً سو بار یہ بات دوہرا چکا تھا۔۔

"بس کر ساحر بس کر۔۔۔وہ بچی ہے تجھے انکل ہی کہنا ہے اس نے۔۔۔"سلطان نے سر جھٹکتے اسے گھورا۔۔

کیا کہا بچی ہے۔۔؟؟؟ وہ بنو شنو ٹینتھ کی سٹوڈینٹ ہے وہ بھی اگلے ماہ پیپر ہو رہے اسکے یعنی فرسٹ ائیر کی لڑکی ہے ابھی بچی کہہ رہے ۔۔۔اور پانچ ماہ بعد سترا سال کی ہو جانا ،،،

ساحر نے جلتے ہوئے کہا۔۔

"ساحر یہ غم کب ختم ہو گا۔۔؟؟

تنگ آتے اس نے پوچھا۔۔

"یار سلطان  کیا میں واقعی انکل لگتا ہوں۔۔۔؟؟

ساحر نے خود کو دیکھتے سوالیہ پوچھا ۔۔

"نہیں میرے بھائی تو ہیرو ہے ہیرو ٹینشن نہ لے۔۔!!

گہری سبز آنکھوں میں سنجیدگی لیے اس نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔

بس تیرے بھائی کے پیچھے لڑکیاں پاگل ہے ۔۔ کالر سیدھی کرتے اس نے فخر سے کہا جس کی تاکید میں سلطان نے سر ہلایا۔۔

تم آج واپس کب جا رہے ہوں۔۔۔؟؟ساحر نے اسے خاموش خاموش بیٹھا دیکھ پوچھا۔۔

دل نہیں کر رہا جانے کو حویلی۔۔مام کا سامنا نہیں کرنا چاہتا،،، حرا بھی آچکی ہے اب ،،،بس جانے کا من نہیں۔۔

گہرا کش سگریٹ کا بھرتے اس نے دھواں فضا میں چھوڑا۔۔

سفید کلف لگے سوٹ میں مردانہ شال لیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہا تھا۔۔

حرا آئی ہوئی ہے اور بھابھی بھی اکیلی ہے ادھر ،،،تمہیں جانا چاہیے ۔۔ اپنے بال سہی کرتا وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔۔

دونوں اس وقت فارم ہاؤس میں بیٹھے تھے۔۔

تمہاری بھابھی کافی تیز ہے دروازہ کھولے گی تو ہی کوئی اس سے ملے گا۔۔"

سلطان نے مسکراتے سگریٹ کو پاؤں تلےمسلا۔۔

کیا ارادہ ہے پھر۔۔۔؟؟ساحر نے آبرو اچکاتے پوچھا۔۔

ذونیشہ کو خوش رکھنا چاہتا ہوں ہمیشہ کیا کرو۔۔ وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،،،میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔

اپنے بال مٹھیوں میں جھکڑتے کہا۔۔

بھابھی کو اس کے ابو کے گھر لے کر جاؤ۔۔۔وہ خوش ہو جائے گی،،،تم اس کی خوشی کو سمجھو ایک بار خود کو بھول کر اسے دیکھو وہ کیا چاہتی تھی۔۔

ساحر نے چیئر کی پشت سے ٹیک لگاتے اس کی حالت کو افسوس سے دیکھا۔۔

ہمم کوشش کرو گا ۔۔۔اوکے میں چلتا ہوں۔۔

اپنی جگہ سے اٹھتے اس نے اپنی گاڑی کا رخ کیا جبکہ اس کی چوڑی پشت دیکھتے ساحر نے اس کے لیے آسانی کی دعا کی۔۔

★★★★

 کچن سے آتی آوازوں پر مبین بیگم ماتھے پر بل ڈالے اندر گئی۔۔

ذونیشہ بھوک سے نڈھال چکراتے سر بخار سے تپتی پانی کا گلاس پکڑے باہر کو مڑی  ۔۔۔

کچن کی دہلیز پر مبین بیگم کو کھڑا دیکھ خاموشی سے گزرنا چاہا پر مبین بیگم نے اس کی کہنی سختی سے پکڑتے روکا۔۔

"آہ۔۔۔"ان کی وحشی گرفت پر وہ تڑپ اٹھی پر مبین بیگم نے اسے پیچھے کرتے خود سبزیاں نکالتے باہر رکھی۔۔

"ان سب کو کاٹوں اور رات تک سب تیار ہوں۔۔۔چکن فریج میں پڑا ہے چاول سامنے رکھے ہے۔۔چار پانچ ڈیشز تیار کرنی ہے اگر نہ کی تو ۔۔۔""

مبین بیگم نے اسے زہریلی نظروں سے دیکھتے کہا اور باہر چلے گئی۔۔

اپنا بازو سہلاتی وہ تمام چیزیں ٹیبل پر رکھتی بیٹھ گئی۔۔

سرخ نم آنکھوں سے چھری پکڑیں تمام سبزیاں کاٹنے لگی۔۔۔

بے احتیاطی میں اور چکراتے سر کے ساتھ اس نے تیز چھری سے پیاز کاٹا۔۔

پر تیز دھار چھری اس کا ہاتھ زخمی کر گئی۔۔

 اپنے ہاتھ سے خون نکلتا دیکھ وہ رونے لگی۔۔۔

"ذونیشہ ۔۔۔۔"

سلطان کی تیز دھاڑ پر اس نے ٹپ ٹپ فرش پر گرتے خون سے بھیگی نظریں اٹھاتے سلطان کو دیکھا۔۔۔

جو سرخ چہرہ لیا اس کی طرف بڑھا۔۔

سلطان نے آگے بڑھتے اس کا ہاتھ پکڑا ہتھیلی پر اچھا خاصا کٹ لگا چکی تھی۔۔

"کس نے کہا تھا کچن آؤ۔۔۔ ؟؟؟ ہزاروں ملازم کیا میں نے بھونکنے کے لیے رکھے ہے۔۔۔ !!؛

اس بپھرے شیر جیسی دھاڑ پر حرا اور مبین بیگم بھی وہاں آچکی تھی۔۔

سلطان ذونیشہ کو غصے سے گھورتے اس کا ہاتھ پکڑے ایک گہری سخت نظر حرا پر ڈالتے باہر لے آیا۔۔

"سلطان درد۔۔۔۔"

گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا تکلیف سے وہ روتی چلی گئی۔۔

"کچھ نہیں ہوتا ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔روتے نہیں،،، ہمم۔۔۔"

اپنے ساتھ لگاتے اسے صوفے پر بٹھایا ۔۔

ماتھے پر بوسہ دیتے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اس کے نازک سفید ہاتھ سے اٹھتی حرارت محسوس کرتے لب سختی سے بھینچے۔ ۔۔

"فرسٹ ایڈ باکس  لاؤ۔۔۔"سلطان نے خادمہ کو کہاں جس پر کچن میں رکھا فرسٹ ایڈ باکس لا کر سلطان کو پکڑایا۔۔۔

خادمہ اسے باکس پکڑاتی چلے گئی ۔۔چھوٹے مالک کے غصے سے کون بچا تھا آج تک۔۔۔

جبکہ نفرت سے حرا نے سلطان کا اتنا پوزیسسو انداز دیکھا۔۔

جو محبت سے اس کے بال سہی کرتے اس کا ہاتھ پکڑے پٹی کر رہا تھا۔۔۔

کس نے کہا تھا کچن میں کام کرنے کو،،،،،؟؟

اس کی سرخ گلابی گال سہلاتے اس نے جس انداز میں پوچھا اس کی کائی جمی آنکھوں کی سرخی دیکھ ذونیشہ کانپ گئی۔۔

ڈرتے ڈرتے اس نے کچن کے دراوازے پر کھڑی مبین بیگم کو دیکھا جس نے آنکھوں سے واضح کیا تھا کہ نہ بتائے۔۔

سلطان نے اس کے نظروں کے تعاقب میں اپنی ماں کو دیکھا۔۔

"کیا مام نے کہا تھا۔۔۔؟؟ آبرو اچکائے اس نے ذونیشہ کے جھکے سر کو تھوڈی پر انگلی رکھتے اوپر کیا۔۔

ذونیشہ نے فورا نہ میں سر ہلایا۔۔۔

"نہیں۔۔ں۔۔۔میرا۔۔۔۔دل کر۔۔ر ۔۔۔رہا۔۔۔تھا۔۔۔کو۔۔کنگ کرنے کا۔۔۔"ذونیشہ نے سلطان کے ہاتھ پر نازک ہاتھ رکھتے بامشکل مسکراتے کہا۔۔۔

  ہممم۔۔۔سلطان بغیر رسپانس ظاہر کیے اس کا بازو پکڑے سیڑھیاں چڑھتا اوپر کمرے میں لے گیا۔۔

★★★★★★

طبیعت دیکھی ہے اپنی۔۔؟؟؟بخار سے سرخ پڑی ہو اور دل کوکنگ کا کر رہا ہے۔۔۔کھانا کھانے کی زحمت بھی نہیں کی ہو گی۔۔۔""

اس نے سخت تیور لیے پوچھا پر نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹرے پری پڑی جہاں کھانے کو چھوا تک نہیں تھا اور میڈیسن بھی ویسے ہی تھی۔۔

اسے بیڈ پر بیٹھاتے اپنے ماتھے کو دو انگلیوں سے مسلا۔۔۔

"آئیندہ اگر میں نے تمہیں کچن میں کام کرتے دیکھا تو انجام کی ذمہ دار خود ہو گی۔۔۔"

اسے وارن کرتے اس نے کال ملاتے کسی کو کھانا لانےکا کہا۔۔۔

خادمہ گرم کھانا وہاں رکھتی دوسری ٹرے اٹھا کر لے گئی۔۔

ذونیشہ انگلیاں چٹختی اس کی موجودگی میں اپنی بے ہنگم دھڑکنوں کو سنبھالتی  بیڈ پر پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔۔۔

بہروز قمیض کے کف کہنیوں تک موڑے تھکن سے اور کچھ غصہ سےسرخ سبز جاذب آنکھوں سے اس کا جائزہ لیا۔۔

اس کی نظروں کی تپش پر اس کے خدوخال میں سرخی دوڑ گئی۔۔۔

بہروز مبہم سا مسکراتے وہ بیڈ پر بیٹھا اپنے پاؤں شوز سے نکالتے وہ بیڈ پر رکھی ٹرے کو پکڑے ۔۔چاولوں کا چمچ بھر کر  ذونیشہ کی طرف بڑھایا۔۔

جھجھکتی وہ بھی پاؤں بیڈ پر کرتی اب اس کے پاس بیٹھ گئی۔۔

چاولوں بھرا چمچ اس کے ہاتھ سے کھاتی اپنے ناخن سے بیڈ پر کھرچتی وہ نظریں چرا رہی تھی۔۔

"مجھے بھی بھوک لگی ہے۔۔۔ "سلطان اسے وقفہ بہ وقفہ تین چار چمچ کھلانے کے بعد لب دبائے بولا۔۔

اس واقعے کے بعد سلطان اور اس کے درمیان خاموشی  ٹوٹی تھی ۔۔

"آپ بھی کھا لے۔۔"

کتنی شرمندگی ہو رہی تھی اسے کہ اس نے ایک بار بھی پوچھا تک نہیں۔۔

"تم کھلا دو تو۔۔۔۔۔"

اس کی گہری بولتی نظریں خود پر ٹکی دیکھ اس نے سلطان کے ہاتھ میں پکڑی ایک ہی چمچ کو دیکھا۔۔

"میرے ہاتھ پر چوٹ لگی ہے۔۔۔"

بہانا بناتے اس نے بیچارگی سے کہا۔۔

"وہ بائیں ہاتھ پر کٹ لگا ہے  ،،،،تم دائیں ہاتھ سے کھلاؤ۔۔۔

ٹرے اس کی جانب کھسکاتے اس نے بغور اس کی حرکت دیکھی جو لب سختی سے کاٹتی کنفیوز تھی چور نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی چمچ کو دیکھا۔۔۔

"میں استعمال شدہ چیزیں استعمال نہیں کرتا۔۔۔"

اس کے الفاظوں میں کوئی مزاق نہ تھا بلکہ وہ چمچ کو ٹرے میں رکھتے کندھے اچکا گیا۔۔

"استعمال شدہ چیزیں استعمال نہیں کرنی پر جس نے استعمال کی ہے اس کے ہاتھ سے کھا لینا ہے۔۔۔"

جانے کیوں پر ذونیشہ کو غصہ آیا۔۔

اسی لیے ٹرے سے چاولوں بھری بریانی کی پلیٹ اٹھاتی دائیں ہاتھ سے  چاول سلطان کی طرف بڑھائے۔۔

خوشی سے شاد اور مسرور ہوتے اس کے ہاتھ سے چاول کھائے۔۔۔

اس کے ہونٹ اسکی انگلیوں سے ٹچ ہوئے شرم و گبھراہٹ سے ذونیشہ نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچ گئی ۔۔۔

سلطان نے لب دانتوں تلے دباتے چمچ بھر کر اس کی طرف کیا جسے وہ بامشکل کھانے لگی۔۔

پھر حیرت انگیز انکشاف ہوا سلطان نے اسی چمچ سے چاول کا ایک چمچ کھایا۔۔

ذونیشہ کے ہلتے ہونٹ رکے۔۔۔دل تیزی سے دھڑکا۔۔

"میں نے سوچا جس لڑکی پر بہروز سلطان عاشق ہے اس کا جوٹھا کھانے میں کیا ہے ۔۔۔"

گہرا مسکراتے اس نے کہا۔۔

بس۔۔۔اور نہیں کھانا۔۔۔"

دو چمچ اور کھاتی وہ سر نہ میں ہلا گئی۔۔

بخار سے دکھتا سر وہ بامشکل ہی بیٹھی تھی۔۔

سلطان نے بغیر کچھ کہے اٹھتے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور واپس بیڈ پر بیٹھی ذونیشہ کی طرف بڑھا ۔۔۔

جھکتے اس نے ذونیشہ کا تکیہ ٹھیک کیا۔۔۔

اس دوران اس کا چہرہ ذونیشہ کے بے حد قریب تھا۔۔

اس کے پاس سے آتی کلون کی خوشبو پر ذونیشہ نے حلق تر کیا۔۔

اس پر کمفرٹر ڈالتے لائٹ آف کرتے پورے کمرے میں اندھیرا کر دیا۔۔۔

قدموں کی چاپ اور دروازہ بند ہونا کی آواز پر اس کا دل بجھ گیا۔۔۔

کمرے میں تمام چیزیں بے رونق ہو گئی اچاٹ دل سے کروٹ بدلتی اس نے نم ہوتی آنکھیں صاف کی۔۔

کسی نے کمر کے گرد بازو حائل کرتے اپنی طرف کھینچا۔۔

آہہ۔۔۔اندھیرے میں اس کی ایک چیخ گونجی۔۔

پھٹی نگاہوں سے اس نے سلطان کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے اس کے سینے سے خود کو لگے دیکھ وہ نگایں جھکا گئی۔۔

سلطان اسے اپنے حصار میں لیتا نرمی سے اس کے بال سہلانے لگا۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ اس کی آغوش میں پرسکون لیٹی سو گٔی۔۔

*********

کھٹ پٹ کی آوازوں  سے اس کے ماتھے پر شکن ابھری۔۔

پر مسلسل آتی آوازوں سے تنگ آکر اس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔

سلطان بہروز ہمیشہ کی طرح بے نیازی کے ساتھ بلیک فور پیس پہنے خود پر پرفیوم سپرے کر رہا تھا ۔۔

وہ شخص مقابل کو پل میں زیر کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔

چند لمحوں کے لیے تو ذونیشہ بھی یک ٹک اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھتی رہی۔۔۔

"جلدی اٹھو اور پانچ منٹ میں ریڈی ہو کر نیچے آجاؤ ۔۔۔!!

اس کی گھمبیر ساحرانہ آواز پر ذونیشہ کی پلکیں بھیگی۔۔

جبکہ سلطان نے ایک نظر اس پر ڈالتے باہر چلا گیا۔۔

وہ اپنے کیے کی معافی مانگنا چاہتی تھی پر سلطان رکے بغیر چلا گیا۔۔

ان دونوں کا رشتہ ایک سوالیہ نشان تھا ہر روز ایک دراڑ آرہی تھی ۔۔

وہ پریشان تھی کہ اب سلطان کیا کرے گا۔۔

سادہ سا سوٹ پہنتی بلیک چادر اوڑھے باہر نکلی۔۔۔

"بات سنو لڑکی۔۔۔!!!!

مبین بیگم کی کڑکڑتی آواز پر اس نے حلق تر کیے ۔۔۔

اپنی ساڑھی کا پلو سنبھالتی وہ اس کے سامنے کھڑی ہوئی جو انگلیاں چٹخاتی ڈری سہمی کھڑی تھی۔۔

" تم جانتی ہو کہ سلطان ہمارے خاندان کا اکلوتا وارث ہے  ،،،

وہ جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے ،،اس کے منہ سے نکلنے والی کوئی بھی بات ہوں پوری ضرور ہوتی ہے تم بھی اس کی ضد ہو ،،،وہ تمہیں چاہتا ہے یا دل لگی ہے میں نہیں جانتی پر میرا بیٹا ان دنوں بہت بکھر سا گیا ہے ،، مجھے میرے سلطان سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں ہے اس کی درگو حالت میں نہیں دیکھ سکتی اس لیے لڑکی ہم تمہیں اپنی بہو بنانے کو راضی ہے ۔۔۔"

چہرہ موڑے وہ خود سرد لہجے سے بولی جبکہ سر جھکائے کھڑی ذونیشہ ان کے آخری الفاظوں پر حیرت سے سر اٹھایا ۔۔۔

کیا اسے خوش ہونا چاہیے ۔۔؟؟

وہ ساکت سی ہی کھڑی تھی ۔۔۔

"پر ایک بات یاد رکھنا میرے بیٹے پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم صرف میرے بیٹے کی پسند ہے میری نہیں۔۔

اپنے لفظوں کا زہر پھینکتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ ذونیشہ دھیمے قدموں سے باہر آئی۔۔

سلطان گاڑی سے ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے ماتھے پر تیوڑی چڑھائے سرخ سبز نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

ذونیشہ چال تیز کرتی گاڑی کا فرنٹ دوازہ کھول کر بیٹھ گئی۔۔

سلطان نے نارمل سپیڈ سے گاڑی چلاتے وقفہ بہ وقفہ اس پر نظر ڈالے رکھی۔۔

اپنی چارد کو انگلی پر لپیٹتی وہ بار بار چور نظر اس پر ڈال لیتی سلطان نے نوٹ کیا وہ  کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔

"سوری سلطان میں وہ سب ۔۔۔۔!!!

ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ سلطان نے گاڑی کو بریک لگاتے اس کی طرف جھکتے سختی سے اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔

سرخ  گہری سبز آنکھیں اس کی غزالی بھوری آنکھوں کے بے حد قریب تھی۔۔

"جو تم نے کرنا تھا کر لیا ،،،، اب اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ مجھے تمہاری خوشی دیکھنی ہے ،، جہاں تم خوش وہاں سلطان خوش  ۔۔۔"

ماتھے کی پھولی رگیں اور برف لہجہ ذونیشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔۔

بڑی بڑی آنکھیں حد درجہ پھیلی تھی اپنے اتنے پاس سے آتی اس کے پرفیوم کی خوشبو حواسو ں پر چھا رہی تھی۔۔

سلطان ایک نظر اس کی بے یقین آنکھوں میں دیکھتے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی ۔۔

پر اب کی بار اس کی سپیڈ حد درجہ تیز تھی۔۔

گاڑی کو روکتے اس نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی۔۔

ذونیشہ اپنے گھر کے سامنے گاڑی رکتے دیکھ حیرانگی سے سلطان کو دیکھا۔۔

سلطان نے دوسری طرف سے دروازہ کھولتے ساییڈ پر ہوا۔۔

ذونیشہ لب کاٹتی باہر نکلے۔۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی ذات سوالیہ نشان بن گئی ۔۔

محلے کے لوگ کس قدر مشکوک نظروں اسے دیکھ رہے تھے۔۔

پر سلطان بے نیازی سے کھڑا تھا ۔۔

جیسے پرواہ ہی نہ ہو کون کیا سوچتا ہے۔۔

ذونیشہ نے جیسے ہی قدم دندر بڑھایا ۔۔۔

بنو دوڑتی  اس سے لپٹی۔۔۔

"آپی۔۔۔۔آپ کو بہت مس کیا میں نے ۔۔۔!!؛

خوشی سے نم آنکھیں لیے وہ چہکتی بولی جس پر وہ اس کا ماتھا چومتی سلطان کے سرد ترین تاثرات کو الجھن ناسمجھی سے جانچتی اندر گئی ۔۔

جبکہ سلطان وہی کھڑا تھا اکیلا۔۔۔

وہ اپنی خوشیاں رکھنے آیا تھا اس چوکھٹ پر ۔۔۔

وہ لڑکی اس کی سانس سانس میں گھل چکی تھی اس سے دور رہنا سوہان روح تھا ۔۔

پر اس کا ایک تھپڑ سلطان کے وحشی پن کو جگا گیا ۔۔۔

وہ اب ذونیشہ کو چھوڑ رہا تھا۔۔

سینے میں مچلتے تڑپتے دل کی فریاد سنے بغیر

 وہ اپنے قدم پیچھے لیتا باہر نکلتا چلا گیا۔۔

اس بار بھی اس نے اپنی مرضی کی تھی رشتے بنانے اور توڑنے میں بہروز سلطان ذرا جلد باز تھا۔۔

گاڑی گاؤں کی کچی سڑک سے نکلتی بہت دور نکل گئی۔۔

★★★★★★

چار ماہ پندرہ دن دس گھنٹے پنتالیس منٹ سولہ سیکنڈ 

کافی وقت ہو گیا ہے تم سے ملے مسز سلطان ،،،"

پر تمہیں ترس نہیں آتا آخر ہو تو بہروز سلطان کی بیوی نہ۔۔"

اندھیرے کمرے میں صبح کی ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں کھڑکی سے آتی ایک خوبصورت تصویر پر پڑ رہی تھی۔۔

ایک لڑکی جو مسکراتے چہرے کے ساتھ چمکتی نگاہوں میں خواہشوں کے جگنو لیے مسکرا رہی تھی۔۔

جبکہ شرٹ لیس صوفے پر بیٹھے سلطان کی نظر یک ٹک اس کے چہرے کو نہار رہی تھی۔۔

یہ تصویر اس نے بہت پہلے لی تھی ۔۔

پر اب روز اس سے باتیں کرنا شکوے کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا تھا۔۔

ان چار ماہ کے دروان بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔

مبین بیگم سلطان کی حالت دیکھتی روتی تھی اس کا بس چلتا تو آج ہی ذونیشہ سے معافی مانگ کر اپنے بیٹے کی خوشیاں لے آتی۔۔

ان کے جگر کا ٹکرا آج بے حس بنا ایک انسان تو رہا ہی نہیں تھا۔۔حرا کو وہ خود دوبئی بھیج چکی تھی واپس اس کے ماں باپ کے پاس۔۔ وہ مزید سلطان کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔۔

ایک ماں اپنے بیٹے کی محبت میں ہار گئی تھی۔۔

ایک ایسا خول تھا جس میں سطان بہروز قید ہو چکا تھا

رات گئے گھر آتا تو کمرے میں بند رہتا صبح جلدی اٹھتے غائب ہو جاتا۔۔

ماں کی ممتا تڑپی تو سلطان سے معافی مانگی پر سلطان نے نرمی سے انہیں سمجھاتے کچھ بھی کرنے سے بعض رکھا۔۔

اب کی بار وہ نہیں چاہتا تھا کہ ذونیشہ سلطان کو اس کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچے۔۔

اپنی شرٹ پہنتے  وہ آج ریسلنگ میں جا رہا تھا۔۔

بیٹا بہروز ۔۔!!!

اسے لاؤنج سے انجان بنا گزرتے دیکھ مبین بیگم نے آواز دی۔۔

بڑھتے قدم رکے تو اپنی گہری سبز وحشت بھری آنکھیں گھماتے سلطان نے آبرو اچکایا۔۔

"بیٹا میں بہو کو گھر لے آتی ہے مجھ سے برداشت ن۔۔۔۔

ابھی وہ کچھ اور کہتی سلطان نے ہاتھ سے مزید بولنے سے منع کیا۔۔

ماتھے پر پڑے بل اور رف سا حلیہ وہ بہروز سلطان تو نہ تھا جو نک سک سا تیار رہتا۔۔

"مام جسٹ کالم ڈاؤن ابھی آپکا سلطان مرا نہیں ہے جو برداشت نہیں ہو رہا،، ٹھیک ہو میں جی رہا ہو میں،،، سب ٹھیک ہے آپ ٹینشن نہ لے۔۔

افراز صاحب کے سرد تاثرات سرے سے نظر انداز کرے وہ کڑوے لہجے میں بولتا بغیر مبین بیگم کی اگلی بات سنے باہر چلا گیا۔۔

★★★★

سلطان ۔۔۔سلطان۔۔۔

پسینے سے نم چہرہ لیے وہ جلدی سے اٹھی۔۔۔

جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتی منہ کو لگایا۔۔

دوپٹے سے چہرہ صاف کرتی اپنے دل کی دھڑکنوں کو معمول پر لا رہی ٹھی۔۔۔

"نہیں ذونیشہ یہ محض خواب ے اور کچھ نہہیں۔۔وہ ٹھیک ہو گے،،،"

کچھ پانی کے چھینٹے منہ پر مارتی وہ باہر آئی۔۔

آج اسے کلینک جانا تھا چیک اپ کے لیے جس کے لیے تیار ہوتی اپنا پرس پکڑتی بڑی سی چادر سے خود کو چھپائے وہ تنگ گلیوں سے گزرتی رکشے پر بیٹھتی کسی کلینک کے پاس رکی۔۔

آنکھیں اب پیلی پڑ چکی تھی ان کی چمک مانند ہوگئی۔۔۔ دھیمے قدم اٹھاتی وہ اندر بڑھی چند لمحوں بعد ویسے ہی سر جھکائے باہر آئی۔۔

پر ہوا کا یک جھونکا آیا اور چہرے سے ذرا پلوں سرکا۔۔

زرد چہرہ تھکن سے چور آنکھیں اوپر اٹھیں تو گہری سبز آنکھوں سے ٹکرائی۔۔

ان کا تصادم اتنا زبردست تھا کہ دونوں کے دل دھڑک اٹھے۔۔

فضا خاموش ہو گئی۔۔

"یہ ٹکراؤ قدرتی تھا ...

ہر طرف سناٹا چھا گیا سنائی دے رہی تھی تو صرف ذونیشہ کی چلتی تیز سانسوں کی آواز۔۔

"ذونی۔۔۔۔۔

سلطان نے آنکھیں موندیں اس کا نام جس محبت سے پکارا ذونیشہ کا روم روم کانپ گیا۔۔

ساڑھے چار ماہ بعد وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔۔

بالکل پہلے کے جیسا خوبرو پر اس کی آنکھیں ۔۔

سبز آنکھیں جن سے اب وحشت ٹپک رہی تھی۔۔

وائٹ شرٹ بلیو کوٹ اور بلیوجینز  میں موجود سلطان بہروز ذونیشہ سلطان کو درد برے ماضی میں کھینچ کر لے گیا۔۔

سلطان نے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے دیوانا وار اس کے چہرے کہ دیکھا۔۔

نظریں اس کے پہلے سے زیادہ کمزور وجود پر تھی۔۔

تم اپنا خیال نہیں رکھتی کیا ذونیشہ دیکھو کتنی کمزور ہو بیمار لگ رہی ہوں۔۔"

سلطان نے  دھیمے سے کہا۔۔

ذونیشہ کو لگا اردگرد کا ماحول اچانک بدل گیا

سناٹا ختم ہو گیا ہر کوئی اپنے اپنے کاموں کو روا تھا۔۔

" آپ کو میری صحت کے بارے میں سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے بہروز سلطان ۔۔۔ "

سپاٹ چہرے کے ساتھ بولتی وہ اپنے قدم دوسری طرف بڑھاتی جانے لگی۔۔

لیکن سلطان نے اس کی کلائی پکڑے روکا۔۔

آج دوبارہ سلطان بے اختیار ہوا تھا جو اتنے مہینوں  سے دل کو تھپک تھپک کر سلا رہا تھا آج اسے سامنے دیکھ دوبارہ دھڑک اٹھا۔۔۔

اس کی جرات پر جہاں ذونیشہ کا دل دھڑکا وہی ہاتھ میں پکڑی فائل نیچے گرتی سلطان بہروز کے قدموں کے پاس گری. ۔۔

تم ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے۔۔!!!

سلطان نے بے چینی سے پوچھا۔۔

پیچھے مڑتے ذونیشہ نے اپنی بھوری آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑھی۔۔

 "یہ خیال ان  چاہ ماہ کے دوران کیوں نہیں آیا مسٹر 

بہروز ۔۔۔اب آپ کو میری ذات سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں۔۔!!

تلخی سے بولتی اپنے کلائی ایک جھٹکے سے چھڑوائی ۔۔

"پل پل تمھارا ہی تو خیال تھا مجھے،،، ایک تمھاری یاد ہی تھی جس سے میں  غافل نہیں ہوتا تھا ۔۔۔

ایک ذونیشہ سلطان ہی تو تھی جو سلطان کے دل و دماغ پر اس طرح حاوی ہوئی کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کی گئی۔۔

اس نے دنیا پر حکمرانی کرنے والی بہروز پر حکمرانی کر لی۔۔

"کیا تمھیں مجھ پر رحم نہیں آتا ذونیشہ۔۔"

کیا تم واپس ،،،،

سلطان بہروز کے لہجے کے بکھرے پن اور آنکھوں کے والہانہ اظہار پر ذونیشہ  طنزیہ مسکرائی۔۔۔

کیا آپ نے مجھ سے میری مرضی پوچھی،،؟؟؟؟

" کیا مجھے چھوڑنے سے پہلے میری رضامندی جانی۔۔

یہ آپ کا ہی فیصلہ ہے اب آپ مجھ سے شکوہ کیونکر کر رہے۔۔؟؟؟

فیصلے آپ کرتے ہے لیکن ان فیصلوں سے نقصان لوگوں کا ہوتا ہے۔۔

ذونیشہ نے بے دردی سے اسے وہ دن یاد دلایا جب وہ خود اسےچھوڑ کر آیا تھا۔۔

نہیں ذونیشہ سلطان تم اب کی بار غلط ہوں،،،،

اس بار سلطان نے نقصان اپنا کیا ہے پر تمھاری خوشی کی خاطر۔۔۔

اس کا ہاتھ پکڑتے وہ بے چینی سے گویا ہوا۔۔

ذونیشہ نے مزاحمت کرتے اپنے ہاتھ کو اس پر تپش گرفت سے آزاد کیا۔۔

گہرے سانس بھرتی  وہ بوکھلا گئی۔۔ 

"آپ نے اگر مجھے چھوڑنا ہی تھا میری خوشی کی خاطر

 تو اپنے نام کی بیڑیاں کیوں میرے پاؤں میں ڈالی ہے ابھی تک۔۔؟؟

ذونیشہ کے سوال پر جہاں سلطان خاموش ہوا وہی ذونیشہ نے نفرت سے منہ پھیرا۔۔۔

''یوں کہوں نہ آج بھی تم وہ ہی  خود غرض بہروز  سلطان ہوں جو صرف اپنی کرتا ہے بغیر دوسرے کی مرضی جانے۔۔!!

ذونیشہ نے تلخی سے کہتے اس کے سرد پڑتے تاثر بغور  دیکھے۔۔۔۔

 "مجھ سے الگ ہونا تمہاری خوشی تھی میری مرضی نہیں ذونیشہ بہروز سلطان ۔۔۔" اگر میں خود غرض ہوتا اور اپنی مرضی کرتا تو تم اس وقت میرے پاس ہوتی میرے قریب تر۔۔۔۔

لفظوں کو چبا چبا کر کہتے سلطان نے اپنی کائی جمی آنکھیں اس کے وجود پر گاڑھی۔۔

فائل ابھی بھی زمین پر پڑی تھی جبکہ وہ دونوں اپنی بحث میں اسے یکسر نظر انداز کر گئے۔۔

استہزایہ مسکراتے ذونیشہ ایک قدم آگے بڑھی۔۔

فائل سے لگتا اس کا پاؤں اس کے چہرے کی رنگت فق کر گیا۔۔

اگر یہ رپورٹس سلطان نے  دیکھ لی تو ،،،،

یہ سوچ اس کے حواس  جنھجنھوڑ گئی۔۔

جبکہ سلطان نے اپنی طرف بڑھتے اس کے قدم کے رک جانے پر اس کی سپید پڑتی رنگت دیکھتے نظریں آہستہ نے نیچے کرتے اس کے پاؤں کے پاس پڑی فائل کو دیکھا۔۔۔

اس سے پہلے کہ ذونیشہ کوئی پھرتی دیکھاتی سلطان نے فورا جھکتے فائل کو پکڑا۔۔

یہ ،،،، فا،،ئل ،، مجھے دے  ۔۔۔۔!!!

ہکلاتےاس نے فائل جھپٹنی چاہی پر سلطان نے اس کی پہنچ سے دور کرتے فائل کو تجسس سے دیکھتے کھولا۔۔

پر جیسے جیسے وہ اندر موجود رپورٹس پڑھتا گیا اس کے آنکھیں بے یقین سی ذونیشہ کی طرف اٹھی ۔۔

جو حلق تر کرتی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔

سلطان نے قہر آلود نظریں اس کے کانپتے وجود پر گاڑھی اور ایک ہی جست میں اس کا ہاتھ پکڑتے اپنے ساتھ کھینچتا چلا گیا۔۔

گاڑی میں بیٹھا وہ ایک غلط نگاہ اس پر ڈالے بغیر گاڑی دوڑائی۔۔

چند ہی منٹ میں سلطان اسے دوبارہ اپنے ساتھ گھسیٹتے کھینچتے اپنے فارم ہاؤس لایا اور جھٹکے سے بیڈ پر دھکیلا۔۔

ایک سسکی ذونیشہ کے لبوں سے نکلی۔۔

پر سلطان کے اندر کے وحشی درندے کو کوئی اثر نہ ہو ا ۔۔۔

کمرے میں چکر کاٹتے وہ خود کو کمپوز کر رہا تھا یقینا اپنے غصے سے آج کوئی شدید نقصان کر سکتا تھا۔۔

اپنے بال ماتھے سے پیچھے کرتے اب قدم قدم چلتا ذونیشہ کے قریب آیا ۔۔

بیڈ پر ذرا پیچھے کھسکتی ذونیشہ کو آج یہ سلطان خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔۔

یہ وہی سلطان کا روپ تھا جو اغواہ کرنے کے بعد تھا۔۔

"بہت غلط کیا ذونیشہ سلطان بہت غلط ۔۔" 

مجھ سے یہ بات کیوں چھپائی کہ میں باپ بننے والا ہوں۔۔۔

یہ بات جاننے کا حق سب سے پہلے میرا تھا صرف میرا اور تم نے مجھ سے ہی چھپایا یہ ۔۔

سلطان نے اسے اپنے مقابل کھڑا کیا اور غصے سے غرایا۔۔

اپنے بازو پر اس کی وحشی گرفت محسوس کرتے اس کی آنکھیں بھیگی۔۔

غزالی آنکھیں گھنی مڑی بھیگی پلکیں کھولے اس نے سلطان کی گہری سبز آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔

کچھ تھا اس کی آنکھوں میں ایک اذیت رقم تھی ان خوبصورت دلنشیں آنکھوں میں کہ سلطان نے بے ساختہ گرفت ہلکی کرتے ان بھیگے نین کٹورے سے گرتا آنسو نرمی سے چن لیا۔۔

یہ عمل اس نے بے اختیار کیا تھا۔۔

جبکہ ذونیشہ آنکھیں بند کیے اس کے لمس سے کانپ گئی۔۔

ذونی ،،، کیا تم نے ابھی تک مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔۔

تمام غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا ۔۔

اس کی گال نرمی سی ہاتھ کی پشت سے سہلاتے وہ بوجھل آواز میں بولا۔۔

اس کے پل پل بدلتے رنگ پر حیرت سے اس کا رویہ دیکھا جو اب محبت سے اس کے بال سنوار رہا تھا بڑی سی چادر اتارتے اس نے بیڈ پر رکھی ۔۔۔

اس کی غزال آنکھوں پر اپنا تپش زدہ لمس چھوڑتے اس کے ماتھے پر ہونٹ ٹکا گیا۔۔۔

آج اس کے تڑپتے دل پر شبنم کی پھوار ہوئی تھی۔۔۔

بے چین دل کو سکون ملا تھا۔۔

"من جانم تمھارے سامنے بہت بے بس ہوجاتا ہو۔۔

اب تمھیں کوئی سزا بھی دینا چاہو تو دل اس خیال سے بند ھونے لگتا ہے کہ اسکی ذونی کو تکلیف پہنچے گی۔۔۔

پر میں خوش ہو آج بہت زیادہ۔۔۔!!

شکریہ جانِ سلطان مجھے یہ خوبصورت تحفہ دینے کے لیے۔۔۔اس اپنے حصار میں لیتے وہ سرگوشی میں بول رہا تھا۔۔۔

جبکہ ذونیشہ آج مہینوں بعد اس کے قریب تھی اس کی خوشبو سانسیوں میں گھل کر اسے نئی زندگی کی نوید لگ رہی تھی۔۔۔

آہ۔۔کتنا مس کیا تھا اس نے یہ محبت بھرا حصار۔۔۔

اس کا نرم رویہ اس کا حصار وہ بے اختیار اس کے گرد اپنا حصار قائم کرتی اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔۔

سلطان نے اس کی کمر سہلاتے اس کے ردعمل پر حیران ہوتے ہولے ہولے لرزتے وجود کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔۔

"میں تب جانا نہیں چاہتی تھی ،،پر آپ مجھے چھوڑ آئے ،،،

میں بابا اور بنو سے مل کر بہت خوش تھی ،،، میں شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی آپکا ،،، میں باہر آئی آپ کو ڈھونڈنے آپ ادھر نہیں تھی گلی میں آپ کی گاڑی بھی نہیں تھی۔۔

اس پل مجھے شدت سے رونا آیا کہ آپ مجھے چھوڑ چکے ہے۔۔

بابا نے خاموشی سے مجھے بتا دیا کہ آپ مچھے یہاں چھو۔۔۔چھوڑ کر گئے ہے۔۔

مجھے لگا آپ سزا دے رہے ہے آپ کو تھپڑ مارا تھا اسکی مجھے لگا یہ سزا جلد ختم ہو گی پر ایسا نہیں ہوا۔۔

چند دن   انتظار میں تھی مجھے امید تھی آپ آئے گے ضرور

 ،، پر میرا وہم تھا یہ آپ آئے ہی نہیں،،،آپ نے تو پلٹ کر دیکھا تک نہیں ،، آپ کے محبت کے دعوے مجھے جھوٹے لگنے لگے۔۔۔

محبوب سے دوری تو جان کا عذاب ہوتی ہے بہروز سلطان ،،

پھر آپ کیسے مجھے بھول گئے ،،، آپ کہتے تھے کہ آپ عشق کرتے ہے مجھ سے تو کیوں میری حالت سے بے خبر رہے۔۔۔

میں رات کو سسکتی تڑپتی کہ مجھے سکون آئے ،،،  آپ کی محبت نے مجھے بھی روگ لگا دیا ،،، مجھے بھی محبت ہو گئی ایک بے رحم دل کے مالک سے ،،،

کتنی عجیب بات ہے نہ جس شخص نے ظلم کیا میں اس کی دیوانی ہو گئی،، ذونیشہ کو سلطان سے محبت ہو گئی۔۔۔

میری حالت بہت خراب تھی ڈاکٹرز نے کہا سٹریس نہ لے ،،

پر میں اذیت سے گزرتی اپنی آنکھوں کو بلا وجہ کے انتظار میں ڈال دیتی تھی۔۔

میری نظریں دروازے پر ٹکی رہتی کہ کبھی تو بے مہر کو رحم آئے گا اور وہ مجھے لے جائے گا۔۔

پر میں غلظ ثابت ہوئی۔۔

میری خوش فہمی دور ہو گئی۔۔اور آپ نہیں آئے ،،،"""

اس کے سینے پر جذب ہوتے اس کے آنسو اور ہچکولے کھاتا وجود اس کا اظہار اس کی تکلیف سلطان نے اس کے بالوں میں لب رکھتے سرخ نگاہوں سے اس کا چہرہ سامنے کیا۔۔

آنسوؤں سے تر اس کا چہرہ اسے دوہری اذیت دے گیا۔۔۔

"سوری فار ایوری تھنگ ،،،میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا تھا مجھے لگا تم میرے ساتھ خوش نہیں ہوں میں نے تمہارے خوشی کو ترجیح دی۔۔"

اس کے چہرے ہاتھوں میں بھرے کہا۔۔

ذونیشہ نے شکوہ کناں آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔

اور اس کے ہاتھ چہرے سے ہٹاتے اپنے آنسو صاف کیے۔۔

"تو ٹھیک ہے سلطان میری خوشی اب بھی یہی ہے ،،، میں نہیں ہوں گی آپکے ساتھ۔۔۔"

بے حسی سے کہتے اسے نے اپنی چادر دوبارہ اوڑھی۔۔۔

"اور تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں تمہیں جانے دو گا۔۔!!"

آبرو اچکاتے اسے پوچھا۔۔

یعنی آپ اب بھی اپنی ہی مرضی کرے گے ،،،؟؟؟

ذونیشہ نے غصے سے اسے دیکھا۔۔

"بس عادت ہو گئی ہے اب کیا کرسکتے ہے میں عادت سے مجبور ھو۔۔۔"

لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔۔

کچھ دیر پہلے ذونیشہ کے اظہار نے اس کو جتنا سکون دیا تھا سلطان تمام چیزیں بھولتا سکون سے کھڑا تھا۔۔۔

چلو آج تم دوبارہ اپنے اصل گھر جاؤ گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ ،،،

اس کا بازو پکڑے اپنے قریب کرتے اس پر جھکتے کان کے قریب سرگوشی کی ۔۔۔ذونیشہ نے بے اختیار اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جھکڑا۔۔

کہ ۔۔؟؟؟؟

ذونیشہ نے آنکھیں کھولے اس سے پوچھا۔۔

جس پر وہ دلکشی سے مسکراتا اسے دیکھنے لگا۔۔۔

کتنی خوبصورت مسکراہٹ تھی اس کی ذونیشہ نے نظریں چرائی۔۔

میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی ذونیشہ کو لینے آؤ اس کے گھر سے تاکہ وہ میرا گھر آباد کر دے۔۔

میں چاہتا ہوں ایک ذونیشہ سلطان کی کھلکھلاہٹیں میری گھر کی دیواروں سے ٹکرائیں۔۔

میں چاہتا ہوں کہ جب میں اسے لینے جاؤ وہ سرخ لباس میں مبلوس میرا انتظار کر رہی ہوں۔۔

میں چاہتا ہوں کہ جب ایک بیسٹ اپنی بیوٹی کو لینے آئے تو پوری دنیا اس بات کو جان لے کہ وہ صرف اس کی ہے۔۔

اور میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کی ماں رخصت ہو کر میرے گھر آجائے۔۔۔

تاکہ ایک بے چین شخص کو راحت مل سکے ایک تڑپتی روح کو سکون ملے۔۔۔

میرے کمرے کو تمہارا انتظار ہے ذونی۔۔

اس کی گھمبیر سرگوشیاں انجانے میں ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔۔۔

سلطان ان گلاب کی پنکھڑیوں کی مسکراہٹ دیکھے تھما۔۔۔

" یہ بہروز سلطان اپنے دل کی ملکہ کو دلہن بنا کر لانا چاہتا ہے۔۔"

دھیمے سے سرگوشی کرتے اس نے ہلکے سے اس کے نیم وا لبوں کو چھوا۔۔۔

جذبات کے سمندر میں وہ ڈوب جانا چاہتا تھا پر فلحال وہ ایسا کچھ کر نہیں سکتا تھا۔۔

اس کی جان لیوا جسارت پر سرخ ہوتی وہ ذرا پیچھے ہوئی۔۔۔

لیکن سلطان اس آنکھوں سے یہی رکنے کا اشارہ کرتا ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔

دو منٹ بعد مسکراتا باہر آیا۔۔

اس کے سامنے جھکتے وہ اس کی جانب دیکھا جو اسے اپنے پاس زمین پر جھکتے دیکھ بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔۔

سلطان نے ایک مخمل کی ڈبی کھولتے اس کی جانب کی۔۔۔

" ول یو میری می مسز بہروز سلطان ۔۔؟؟؟

ایک خوش کن احساس اس کی رگ و جان میں سرائیت کر گیا۔۔۔

یعنی سب ٹھیک ہو چکا ہے ۔۔

ذونیشہ نے نیچے بیٹھے سلطان کو دیکھا پھر اس رنگ کو خوشی سے اس کی آنکھیں نم ہوئی۔۔

" سوری پر میں شادی شدہ ہوں۔۔۔"

لمحوں میں ذونیشہ سلطان آنکھیں گھومائیں بولی۔۔

جس پر سلطان کا ساحرانہ قہقہ گونجا۔۔۔

ذونیشہ دنگ سی آج اس بدلے سے سلطان کو دیکھ رہی تھی۔۔

"پر مجھے یہی شادی شدہ لڑکی چاہیے اب کیا کر سکتے دل ہی الو کا پٹھا ہے جو شادی شدہ لڑکی پر آگیا۔۔۔"

بیچارگی سے کندھے اچکاتے سلطان نے لب دانتون تلے دبایا۔۔

سلطان۔۔۔!!!!!

اس کے کندھے پر مکے مارتی وہ جھنجھلائی،،

جبکہ سلطان ہنستے اسے قابو کر گیا۔۔

اور اس کا ہاتھ پکڑتے رنگ پہنائی۔۔

اور جھکتے عقیدت سے اس کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا۔۔

"وعدہ کرتا ہوں تمھارا سلطان تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا۔۔۔"

کمر کے گرد بازو حائل کرتے اپنے قریب کیا۔۔

اب رونا مت یار ،،، ایک تو تمھارے آنسو اوپر ہی پڑے ہوتے  جو  چھم چھم برسنے لگتے ہے ۔۔۔اس کی نم آنکھوں پر لب رکھتے وہ شرارت سے بولا ۔۔۔

خفگی سے اسے دیکھتے سر اس کے سینے پر ٹکایا۔۔۔

 "سوری میں نے یہ بات چھپائی آپ سے۔۔۔"

اس کی آواز پر سلطان نے گہری سانس بھری۔۔

 "سمجھ سکتا ہوں میں ،، پر اب ہر لمحہ تم میرے ساتھ ہو گی ہمیشہ کے لیے۔۔۔"

تمھارے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہوں ۔۔۔"

اس کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے وہ باہر لایا۔۔

ذونیشہ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی سیٹ کی پشت سے سر ٹکا گئی۔۔

آج اسے کوئی پریشانی نہیں تھی ہر فکر سے آزاد اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔۔

جبکہ نظریں اپنے ہاتھ کی انگوٹھی پر تھی۔۔۔

جسے زندگی ڈھونڈھ رہی ہے ۔۔

کیا یہ وہ مقام میرا ہے ۔۔

یہاں چین سے بس رک جاؤں ۔۔۔

کیوں دل یہ مجھے کہتا ہے ۔۔

جزبات نئے سے ملے ہیں۔۔

جانے کیا اثر یہ ہوا ہے ۔۔

اک آس ملی پھر مجھ کو ۔۔

جو قبول کسی نے کیا ہے ۔۔۔

ہاں ۔۔۔!!!

کسی شاعر کی غزل ۔۔

جو دے روح کو سکون کے پل ۔۔

کوئی مجھ کو یونہہ ملا ہے ۔۔

جیسے بنجھارے کو گھر ۔۔۔

نئے موسم کی سحر ۔۔

یا سرد میں دو پہر ۔۔۔

کوئی مجھ کو یونہہ ملا ہے ۔۔

جیسے بنجھارے کو گھر ۔۔۔

دھیمی آواز میں لگا گانا  گاڑی کے ماحول کو مزید پررونق کر گیا۔۔۔

اسے گھر کے سامنے اتارتے وہ رکا۔۔

کیا ہوا۔۔؟؟؟

ذونیشہ نے باہر نکلتی رک گئی۔۔

 "شرافت کے ساتھ پہلی بار جا رہا ہوں تو عجیب تو لگے گا ہی نہ۔۔ " 

ہلکی بھوری داڑھی پر انگوٹھا پھیرتے وہ ذونیشہ کو کھلکھلانے پر مجبور کر گیا۔۔

جس چہرے پر آج زردی چھائی تھی اس کے سنگ وہ بے تحاشہ پرسکون نظر آرہی تھی۔۔

سلطان نے مسکراتے جان نثار نظروں سے دیکھا اور  اسے ساتھ لیے اندد بڑھ گیا۔۔۔

ویسے ذونی میں سسر صاحب سے یہ کہو گا کہ مجھے میرے بچے کی ماں کی رخصتی چاہیے۔۔۔""

نچلا لب دبائے سلطان نے ہنسی کنٹرول کرتے سنجیدگی سے پوچھا۔۔

ذونیشہ نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا اور کندھے پر مکہ مارتی سرخ ہوتی سر جھکا گئی۔۔

تب تک بنو ان کے پاس آچکی تھی۔۔

اور آج پہلی بار سطان کو اس طرح مسکراتا دیکھ رہی تھی جس نے آگے بڑھتے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے مزید حیرت میں ڈال دیا۔۔

اس کی آپی اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی تھی اس کی خوشی کا اندازہ اس کی بھوری آنکھوں کی چمک سے لگایا جا سکتا تھا۔۔

 "سسر صاحب کدھر ہے۔۔؟؟

ذرا جھکتے اس نے ذونیشہ کے قریب سرگوشی کی۔۔

"بابا کدھر ہے بنو۔۔۔"

ذونیشہ سلطان کو ساتھ لیے کمرے میں آتے پوچھا۔۔۔

اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی اسلم دروازے سے اندر آتا نظر آیا۔۔

بہروز سلطان کروفر سے صوفہ پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا جبکہ ذونیشہ بنو کے پاس کھڑی تھی جو اس سے سطان کے بارے میں سوال پر سوال کر رہی تھی جس پر زچ آتی ذونیشہ نے اسے گھورا۔۔

اسلم صاحب نے تعجب سے سلطان کو دیکھا جس نے ان کی طرف دیکھتے سلام کیا۔۔

جبکہ شان بے نیازی سے ویسے ہی بیٹھا رہا۔ ۔۔

 "صاحب آپ یہاں خیریت سب۔۔۔"!!!

اسلم نے اپنی بیٹی کو دیکھے بغیر اس سے پوچھا۔۔

جبکہ اس کے صاحب جی کہنے پر سلطان نے انہیں سنجیدگی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔

جس پر وہ سامنے پڑی کرسی  بیٹھ گئے۔۔

"سسر صاحب پہلی بات آپ مجھے صاحب مت کہا کرے اب آپ ہماری حویلی کام نہیں کرتے ۔۔!!

دوسری بات میں داماد ہوں آپکا اس لیے مجھے میرے نام سے پکارے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔

اس کی یہ تبدیلی اسلم صاحب کو پریشان کر رتھی جو شہزادوں جیسی آن بان لیے سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔

میرے یہاں آنے کے مقصد سے یقیناً آپ واقف ہوں گے۔۔

میں اپنی امانت لینے آیا ہوں اپنی ذونیشہ کو لینے آیا ہوں۔۔

پر میں اب پوری دنیا کے سامنے اسے اپنانا چاہتا ہوں۔۔

مجھے آپ کی اجازت چاہیے اس کے لیے۔۔۔!!!

ذونیشہ سلطان اب کھڑا ہوتے جواب کا منتظر تھا دل بے چین تھا پر وہ اب ذونیشہ سے مزید دور نہیں رہ سکتا تھا اب تو بالکل بھی نہیں جب وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔۔

"جی بیٹا جب مرضی تم لے جا سکتے ہوں اسے ۔۔

اسلم صاحب نے بھی اٹھتے خوشی سے کہا۔۔

اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا اس کی بیٹی پوری عزت کے ساتھ جائے گی اپنے گھر ۔۔

ذونیشہ کے سر پر پیار دیتے وہ سلطان کو بیٹھنے کا کہہ رہے تھے۔۔

جبکہ سلطان نے ذرا سر جھکاتے اسلم کے سامنے کیا۔۔

ذونیشہ نے بے یقینی سے اس کی حرکت دیکھی ۔۔

وہ اس کی خاطر کتنا بدل چکا تھا۔۔

اسلم بھی اپنی حیرت پر قابو پاتے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔

"بہت جلد تمہیں لینے آؤ گا۔۔"

ذونیشہ کو نظر بھر کر دیکھتے وہ چلا گیا۔ 

جبکہ ذونیشہ آج کھلی فضا میں سانس لیتی پہلی بار اتنی خوش تھی۔۔

اسے محبت تھی اس سے اور بہت جلد وہ اس کے پاس ہو گی۔۔

★★★★

ہر طرف گھما گھمی تھی دلہن کی طرح سجی اس حویلی میں آج خوشیاں رقص کر رہی تھی۔۔

پوری حویلی اس وقت مہمانوں سے بھری پڑی تھی ۔۔

مبین بیگم اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش اس وقت سب تیاریاں کروا رہی تھی۔۔

آج بارات تھی اور سلطان بہروز اپنی سحرانہ شخصیت کے ساتھ مسکراتے سب سے مل رہا تھا۔۔

افراز صاحب اور مبین بیگم اکھٹے کھڑے دور سے ہی اپنے بیٹے کی نظر اتار رہے تھے جس کے چہرے پر آج  مسکراہٹ کا راج تھا۔۔

ہزاروں دل دھڑکاتا وہ بے نیازی سے کھڑا تھا۔۔

ہر جگہ اس بات کی خبر نشر ہو چکی تھی کہ بہروز سلطان شادی کر رہا تھا۔۔میڈیا میں تہلکہ مچ گیا تھا ۔۔۔ ہر کوئی بےتاب تھا سلطان کی دلہن کو دیکھنے کے لیے۔۔

بلیو تھری پیس پہنے برینڈڈ گھڑی کو کلائی پر سجائے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہا تھا۔۔

اسے شیروانی پسند نہیں تھی نہ ہی کسی نے فورس کیا پہنے پر۔۔

مغرور نین نقوش لیے وہ اپنی ملکہ لینے جا رہا تھا۔۔

بارات کے پہنچتے ہی شور اٹھا۔۔۔

اندر کمرے میں بیٹھی ذونیشہ کا دل دھک سا رہ گیا۔۔۔

بیوٹیشن نے جس مہارت سے اسے تیار کیا تھا وہ خود دنگ رہ گئی تھی۔۔۔

اس شخص کی جذبے لٹاتی آنکھیں یاد کرتی جھرجھری سی آئی۔۔

بلڈ ریڈ لہنگے میں مبلوس وہ نازک جان بامشکل اتنا وزن برداشت کیے ہوئے تھی۔۔بھاری دوپٹے جانے کتنی پنز کے ساتھ سیٹ کیا تھا۔۔۔

بنو تیار ہوتی اندر داخل ہوتی بے ساختہ 'ماشاءاللہ' کہہ اٹھی۔۔

"چلے آپی سب انتظار کر رہے آپ کا ۔۔۔"

ذونیشہ نے مسکراتے سر ہلایا۔۔

مبین بیگم اپنے بیٹے کے حکم کے مطابق اس کا گھونگھٹ نکالتی اسے ساتھ لیے باہر آئی۔۔

ہال میں داخل ہوتے ہی تمام سپاٹ لائٹز کا مرکز ذونیشہ سلطان تھی۔۔

ہر کوئی بے چین تھا بہروز سلطان کی بیوی دیکھنے کے لیے پر اس کے چہرے پر گھونگھٹ دیکھ مایوس ہوئے۔۔

سٹیج پر بیٹھا سلطان بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔

سہج سہج کر قدم رکھتی بامشکل ہی چل رہی تھی۔۔۔۔

سرخ سفید ہاتھوں کی مہندی دیکھتے اس کے چہرے پر تبسم بکھرا۔۔

اسلم نے پاس آتے ذونیشہ کو ساتھ لگاتے آگے سٹیج کے قریب رکتے اس نے سلطان کو دیکھا۔۔

جبکہ ذونیشہ کو گھونگھٹ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔

سلطان نے آگے بڑھتے اپنی چوڑی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔۔

کچھ  نظروں میں ستائش تھا تو کچھ نظریں حسد سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

لوگ حسرت سے سلطان کو دیکھ رہے تھے۔۔جو کتنے دلوں پر راج کرتا تھا۔۔ پر اس کے دل کی ملکہ ذونیشہ سلطان تھی۔

اسلم نے ذونیشہ کا کپکپاتا ہاتھ تھامتے سلطان کی ہتھیلی پر رکھا۔۔

جس نے مضبوط گرفت میں لیتے اپنے ہونے کا یقین دلایا۔۔

ذونیشہ کو ساتھ لیتے اسے بیٹھاتے خود بیٹھا۔۔۔

"میں اس وقت کا انتظار نہیں کر پا رہا جب میں یہ حسین چہرہ دیکھو گا۔۔"

سلطان سامنے دیکھتے بغیر اس کا ہاتھ چھوڑے بیٹھا تھا۔۔

اتنے لوگوں کے درمیان اس نے اپنا ہاتھ چھڑاونے کی کوشش کی پر اس کی گرفت مضبوط تھی اس لیے کوشش ترک کرتے وہ خاموش رہی۔۔۔

اس کی بات پر ذونیشہ نے حلق تر کیا۔۔

"یہاں بیٹھ کر ٹائم ہی ویسٹ کرنا ہے چلو ہم چلتے ہے یہ سب آتے رہے گے۔۔!!!

مزید کافی دیر بیٹھتے  سلطان نے غصے سے کہا۔۔

اورذونیشہ کا ہاتھ پکڑے کھڑا ہونے لگا۔۔

"پلیز سلطان بیٹھ جائے ایسا نہ کرے۔۔"!!!

وہ روہانسی ہوتی رو دینے کو تھی۔۔

"اچھا پر ایک گھنٹے سے زیادہ میں ادھر نہیں بیٹھنے والا

تمہیں اٹھا کر لے جانا ہے۔۔۔

جتنی سنجدگی سے وہ کہہ رہا تھا ذونیشہ  گھور کر رہ گئی۔۔

پر گھونگھٹ کے باعث فلحال وہ سلطان کے تاثر نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔

مبین بیگم اور افراز سلطان کے ماتھے کے بل دیکھتے اسلم صاحب سے رخصتی کا کہا۔۔

جس پر حامی بھرتے وہ ذونیشہ اور سلطان کے پاس آئے۔۔۔۔

رخصتی کا شور اٹھا تو ذونیشہ کا دل ڈوب کر ابھر اس شخص کی دسترس میں جانے سے وہ گبھرا رہی تھی۔۔

سب کی دعاؤں کے سائے تلے ذونیشہ سلطان کو رخصت کر دیا گیا۔۔

پوری دنیا کے سامنے آج سلطان اپنی ذونیشہ کو لے کر جا رہا تھا۔۔

خود گاڑی ڈرائیو کرتے جبکہ ذونیشہ کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھاتے وہ وہاں سے غائب ہوا۔۔

جبکہ مبین بیگم اسے خود گاڑی ڈرائیو کے کر لے جاتے تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔۔

پر آج ان کا دل پرسکون تھا۔۔

سلطان نے آج اسے جو خبر دی تھی اس کے بعد تو وہ ذونیشہ کو دل سے تسلیم کر چکی تھی۔۔

وہ دادی بننے والی تھی یہ خبر سنتے ہی اس نے تمام اپنی غلطیوں کی معافی مانگی تھی ۔۔

ذونیشہ نے پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے انہیں معاف کر چکی تھی۔۔۔

★★★★

ساحر جو تمام چیزیں مینج کر رہا تھا کونے میں رکھی کرسی پر لرزتے وجود کو دیکھتے تجسس سے اس کی طرف بڑھا۔۔۔

اس کے قریب جاتے اس نے ہلکی ہلکی آواز میں روتی اس لڑکی کو گھورا۔۔

"اے لڑکی رو کیوں رہی ہ۔۔۔۔

اس کے باقی لفاظ منہ میں ہی رہ گیے جب اس نے سر اٹھاتے اپنی شہد رنگ بھیگی آنکھوں سے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔

"کاکی۔۔۔۔!!!

اچانک اس کی زبان سے پھسلا جبکہ بنو آنسو صاف کرتی جانے لگی تھی اپنے لیے کاکی کا لفظ سنتے اس کی طرف مڑی۔۔

اےےے انکل زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے منہ توڑ دو گی۔۔۔""

انگلی اٹھاتے اس نے آنکھوں سے گھورتے کہا۔۔

جبکہ اس کی بھیگی آنکھیں غضب ڈھا رھی تھی۔۔

جس میں مقابل کو اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا۔۔

جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے ارادے سے اس نے بات کو طول دی۔۔

چڑیل لگ رہی ہوں ،،، کاجل پھیل گیا تمھارا اس وقت کسی بچے کے سامنے مت جانا بیچارے نازک دل کے ہوتے ہے۔۔۔

بلیک سوٹ میں جیل سے بال سیٹ کیے وہ آج کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔

پر بنو کو تو وہ سرے سے ہی نظر نہیں آتا تھا۔۔

یو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!

اس سے پہلے کے وہ چیخ کر ساحر کو بہرہ کرتی وہ قہقہ لگاتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

جبکہ بنو اسے دو چار گالیوں سے نوازتی اپنے بابا کے پاس چلی گئی۔۔۔

 "اچھی ہے پر بچی ہے ۔۔"

لب دبائے دور سے اس تیکھی مرچی کو خود کو گھورتے دیکھ مسکرا دیا ۔۔۔

خیر مستقبل میں سوچا جا سکتا ہے اٹھارہ کی تو ہونے ہی والی ہے ۔۔۔"

بالوں میں ہاتھ پھیرتے سیٹ کی دھن بجاتے وہ باہر چلا گیا۔۔

★★★★★★

سلطان کی گاڑی حویلی داخل ہوئی وہاں موجود سب لوگ استقبال کے  لیے کھڑے تھے۔۔

سلطان نے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولتے اس کی جانب بڑا ذونیشہ کی جانب بڑھتے اس کی گود میں پڑا ہاتھ پکڑتے احتیاط سے اس کی مدد کی۔۔

بھاری لہنگے میں الجھتے پاؤں سے لڑکھڑاتی اس سے پہلے ہی سلطان نے اسے مضبوط بازوؤں میں اٹھاتے اندر بڑھ گیا۔۔۔

اس کا یہ انداز ذونیشہ کے ہاتھ کی بھینچی ہتھلیاں پسینے سے تر ہوئی۔۔

اپنے کمرے میں اسے لے جا کر اتارتے اس کے مٹھی بنی ہتھیلی کو پکڑتا نرمی سے کھولتے اپنی انگلیاں اس کی انگلیوں میں الجھاتے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا جو ابھی بھی گھونگھٹ میں اس کے سامنے تھی۔۔

سلطان نے ہاتھ بڑھاتے اس کا گھونگھٹ الٹا۔۔

منجمد نظروں کے ساتھ اس کے سراپے کو دیکھتے وہ آج دوبارہ اس پر فدا ہوا تھا۔۔

"سلطان۔۔۔"

وہ اس کی پرتپش نظروں سے بچتی سر جھکا گئی ۔۔

"سلطان کی ملکہ۔۔۔"

اس کے ماتھے پر لب رکھتے وہ آنکھوں میں چاہت سموئے بولا۔۔

ذونیشہ اس کے حصار میں کھڑی  تھی۔۔

اس کی آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑتے اس کی ناک میں  پہنی نتھ کے موتی کو گہری نظروں سے دیکھا جو ریڈ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹوں سے ٹکرا رہا تھا ۔۔

ہاتھ پڑھاتے نتھ کو آزاد کیا جو جھولتی لٹک گئی۔۔

ذونیشہ سلطان تم کبھی دوبارہ مجھے چھوڑ کر مت جانا ،، اس کے قریب جاتے سرگوشی کرتا وہ اس کی سانسوں کو الجھا گیا۔۔

یونہی اسے باہوں میں بھرتے بیڈ پر لیٹایا۔۔

چند لمحوں بعد آزادی دیتے وہ اب اس کی جیولری اتارتے سائیڈ پر رکھ رہا تھا۔۔

اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتی ذونیشہ نے اس کی گہری سبز آنکھوں میں جھانکا۔۔

وہ کبھی کہہ نہیں پائی پر اسے بہروز سلطان کی آنکھیں بے حد پسند تھی جن میں اس کے لیے محبت رہتی۔۔

اس کا بھاری دوپٹہ دور کرتے اس پر جھکا۔۔

اس کی گرم سانسیں ذونیشہ کے چہرے پر پڑتی اس کے حواس معطل کر گئی۔۔

اس کی جان لیوا خوشبو اس کی جان لینے کے در پر تھی ۔۔۔

سلطان نے اس کے قریب جھکتے گہری نظروں سے اس کو دیکھتے آنکھیں بند کی۔۔

ذونیشہ اس کی بند آنکھیں دیکھتی جھجکتی ان پر اپنا نرم گرم لمس چھوڑ گئی آج پہلی بار ذونیشہ نے اسے چھوا تھا ۔۔

اس کے لمس سے مدہوش ہوتے سلطان نے خمار آلود نگاہوں سے اس کو دیکھا جو اب اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھتی آنکھیں موند گئی۔۔

" ان تمام چیزوں کے لیے شرمند ہو جس نے تمہیں اذیت دی مجھے معاف،،،،،، 

سلطان کے ہونٹوں سے نکلتے الفاظ باقی تھے جب ذونیشہ نے نازک ہتھیلی اس کے ہونٹوں پر رکھتے مزید بولنے سے روکا۔۔

میں سب بھول چکی ہوں سلطان  تمہاری سنگت میں یہ لمحات حسین ہے صدا تمہاری بن کر رہنا چاہتی ہوں،،،،تم بھی بھول جاؤ سب اور نئی زندگی کا آغاز کرو ۔۔

جہاں صرف خوشیوں کا راج ہو۔۔

 نم آنکھیں لیے وہ مسکراتی بولی۔۔

اس کی دلکش مسکراہٹ دیکھتے اس کے الفاظ سنتے  سلطان اس مسکراہٹ کو چنتے اپنے لمس سے مہکایا۔۔

اس کی شدتوں سے گبھراتی شرماتی ذونیشہ سلطان کے حصار میں لرز گئی۔۔۔۔

رفتہ رفتہ اس پر اپنے نام کی مہر لگاتا اسے نازک موم وجود کو اپنی آغوش میں لیتا پرسکون نیند سو گیا۔۔

جبکہ ذونیشہ اپنی قسمت پر نازان تھی آج۔۔

کل جو شخص اسے وقت گزاری کا سامان سمجھتا تھا آج وہ اس کے لیے کتنی عزیز تھی۔۔

بے اختیار اس پر پیار آیا جو سویا ہوا تھا۔۔

اس کی ہلکی بھوری داڑھی پر لب رکھتی وہ آنکھیں موند گئی۔۔

ایک نئی صبح ان کا انتظار کر رہی تھی۔۔

خوشیوں سے بھری صبح۔۔۔

سلطان بہروز کو آخرکار اس کا عشق مل ہی گیا۔۔

کہانی ختم ہو چکی تھی پر اس بار اختتام خوبصورت تھا۔۔

ختم شد

★★★★


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about

'' Nafrta Se barhi Ishq Ki Inteha '' is her first long novel . The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ❤️.There are many lessons to be found in the story.This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lasson to be learned from not leaving....,many social evils has been repressed in this novel.Different things which destroy today’s youth are shown in this novel . All type of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second best long romantic most popular novel.Even a year after the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is a best novel ever 3rd Novel. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that, but also how sacrifices are made for the sake of relationships.How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

 

Dil Bereham Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil Bereham  written Mahi Rajpoot Dil Bereham by Mahi Rajpoot is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Madiha Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Madiha Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages