Pages

Monday 21 August 2023

Zindagi Do Pal Ki Novel By Insiya Awan Complete Short Novel Story 5

Zindagi Do Pal Ki Novel By Insiya Awan Complete Short Novel Story 5

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Zindagi Do Pal Ki Novel By Insiya Awan Complete Short Novel Story


ملواتے ہیں آپ کودو  کرداروں سے 

بریرہ: 

ایک چپ چاپ سی لڑکی جو زیادہ تر اپنی دنیا میں مگن رہتی تھی. اس کا کوئی والی وارث نہیں تھا. بس ایک دوست زینب ہی تھی جس سے وہ اپنا دکھ درد بانٹ لیا کرتی تھی لیکن اب وہ بھی جانے والی تھی. اس کی شادی ہو رہی تھی.

سبحان:

 ایک سلجھا ہوا شریف سا لڑکا تھا. وہ اپنی ماں کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا. وہ ہر کسی کو خوش دیکھنا چاہتا تھا اسی لئے ہر طرف خوشیاں بکھیرتا رہتا تھا. اس کا بس چلتا تو وہ رنج والم کا نام ہی مٹا دیتا دنیا سے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ جہاں صرف روشنیاں ہی روشنیاں ہوں وہاں لوگ تنگ آ کر کالے بادلوں کے لئے ترستے ہیں.

یہ کہانی میرے دل کے بےحد قریب ہے. اس کو میں نے بہت محنت کر کے آپ لوگوں تک پہنچایا ہے. اس کو لکھتے لکھتے میں کئ بار انہی کرداروں میں کھو گئی. امید ہے کہ آپ لوگوں کو بھی ان دو کرداروں کی کہانی پسند آئے گی.

ساتھ ہی ساتھ اس کہانی کے ذریعے میں نے ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو آپ کو پڑھ کر ہی سمجھ آئے گا.

                *************************

روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی اُس لڑکی کے پررونق چہرے تک پہنچی جسکی وجہ سے اُسکے آرام میں خلل پڑا. روشنی سے بچنے کیلئے اُس نے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیے لیکن پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ ساتھ ہی اسکا فون بجنے لگا تھا. نیند خراب ہوتے ہی وہ جھٹ سے بستر پر بیٹھی اور فون اُٹھانے لگی پر دیر ہو گئی تھی کیونکہ کال اب بند ہو چکی تھی. اُس نے موبائل فون بستر پہ رکھا اور باتھ روم کی طرف بڑھی لیکن عین اسی وقت کوئی دروازہ کھٹکھٹانے لگا. وہ واپس پیچھے دروازے کی طرف مڑی اور دروازہ کھولا. سامنے اسکی دوست زینب کھڑی تھی جسکی ابھی ابھی کال آئی تھی. 

"اُف حد ہے بریرہ کال کرو پک ہی نہیں کرتی ہو." وہ دروازہ کھلتے ہی کمرے میں آئی.

"یار وہ بس..... "

"ڈونٹ ٹیل می ڈیت کہ تم ابھی تک سو رہی تھی" زینب نے بےترتیب چادر کو دیکھتے ہوئے بریرہ کی طرف آبرو اٹھائی. وہ چپ تھی اور اسکی خاموشی سب کہہ گئی تھی.

"یار آج میری شادی ہے اور تم سونے میں مصروف ہو... " وہ تھوڑا بھرم ہوئی.

"تو کیا ہوا تمہاری شادی ہے میری نہیں" اس نے بات کو جیسے ٹالا تھا. 

"واہ جی واہ.... جگری دوست سے اس بات کی امید ہر گز نہیں تھی" وہ برا مان گئی تھی. 

"یار بات کا بتنگڑ تو مت بناؤ... بتاؤ کیوں آئی تھی؟" 

"تمہارا رشتہ لینے...." بریرہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں. زینب کی لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی.

"ہا..ہا..ہا..پاگل کیا ہو گیا ہے؟..مزاق کر رہی تھی..تم تو سریس ہی ہو گئی" 

"اف ایک پل کے لئے تو تم نے مجھے ڈرا ہی دیا تھا" 

"ہا..ہا. ہا.. اچھا چلو.. تم میرے ساتھ پارلر چل رہی ہو" 

"یار میں کیوں.." بریرہ نے منہ بنایا.

"میڈم میں آپکی سڑی ہوئی شکل دیکھ کر اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گی.. سمجھی.. یہ میرا آرڈر ہے جو تمہیں ہر حال میں ماننا پڑے گا" اسکی دوست نے بھی اسے ساتھ لے جانی کی ٹھانی ہوئی تھی. 

"اچھا ریڈی ہو آؤں؟ُ" اس سے لڑنا بےفائدہ تھا کیونکہ تاریخ گواہ تھی وہ دونوں جب بھی لڑی تھیں جیت ہمیشہ زینب کی ہی ہوئی تھی.

"ہاں..ہاں..جاؤ"

وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم چلی گئی. اسکی دوست دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے خیالوں میں گم تھی. زینب ہمیشہ اسکے ٹالنے کے باوجود اسکو اِدھر اُدھر گھمانے کے لئے لے جایا کرتی تھی. کیونکہ وہ جانتی تھی کہ بریرہ جان پوچھ کر ایسا کرتی ہے.  وہ ہر کسی کو ٹال کر اکیلے سیاہ کمرے میں بیٹھ کر پرانی یادوں کو یاد کر کر کے خود کو کوستی ہے. وہ چاھتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بریرہ کو مصروف رکھے تاکہ وہ پرانی باتوں کو یاد کرکے دل کو اداس نہ کرے. وہ اسکی ایک سچی دوست تھی. اس پر یہ بات بلکل پوری اترتی تھی  "دوست تو وہی ہے جو مصیبت میں کام آئے" اور بریرہ کی سب سے بڑی مصیبت اسکا ماضی ہی تھا اور وہ اسے اُسی سے دور رکھنا چاہتی تھی. وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ کسی نے اسکے سامنے آکر چٹکی بجائی. زینب کے خیالوں کا تسلسل وہیں سے ٹوٹا...

"بریرہ تم آگئی.." وہ تھوری حیرت زدہ تھی

"ہاں کب کی.." اس نے گلے کا دوپٹہ درست کرتے ہوئے بولا. 

"تو پھر چلیں؟" 

"ہاں ہاں.. چلو"

"اچھا سنو بیوٹی پارلر میں ہمیں دیر ہو جائی گی اسلئے میں نے تمہارے اور اپنے کپڑے وہیں پر بھجوا دیئے ہیں.. تم بھی وہیں بدل لینا" وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولی.

"میرے کپڑے....؟" وہ حیرانگی سے زینب کی طرف مڑی. 

"لاک تو لگا لو پہلے آرام سے...پھر بتاتی ہوں" بریرہ کو یاد آیا کہ وہ تالا لگا رہی تھی لیکن زینب کی بات نے اسے الجھا سا دیا تھا. ظاہر ہے کپڑے تو اسی نے بریرہ کے لئے لیے ہونگے پر نہ جانے کیسے رنگ برنگے لئے ہونگے. وہ تو رنگوں سے کتنے سالوں سے دور ہو چکی تھی. شوخ چیزیں تو اب اسے پسند ہی نہیں آتی تھیں. وہ جلدی سے پیچھے مڑی اور کمرے کو تالا لگایا.

"ہاں اب بتاؤ..." اس نے واپس پیچھے مڑتے ہی پہلا سوال کیا.

"ہاں تو میں نے تمہارے لئے کپڑے....خود کی پسند سے لے لئے ہیں"

"وہ مجھے پتہ ہے پر کیوں" اسکی نظروں میں سوالیہ نشان تھا.

"کیوں کیا..  تم میری دوست ہو اور میں نہیں چاہتی کہ میری دوست روکھے پھکے رنگوں کے کپڑے پہنے وہ بھی میری شادی کے دن" وہ صحیح تھی

"یار میں رنگین جوڑا نہیں پہنوں گی" 

"یہ ہم پارلر میں طے کر لیں گے...اب چلیں...؟" وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی. اس نے بریرہ کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا. وہ چپ چاپ کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی. ایک بار پھر سے زینب لڑائی جیتنے والی تھی لیکن اُس نے بھی اِس بار ٹھان لی تھی کہ وہ ڈٹ کر مقابلہ کرے گی شاید اسی وجہ سے وہ جیت جائے اور رنگین کپڑے پہننے سے بچ جائے. وہ سوچتی ہوئی اسکے پیچھے پیچھے جانے لگی.

                    **********************

ماں کی گود میں لیٹا وہ اپنی سر کی مالش کروا رہا تھا. کتنا سکون ہوتا ہے نہ ماں کی گود میں. سبحان سوچوں میں گم اپنی ہی خیالی دنیا بنا رہا تھا جہاں نہ کوئی دکھ تھا نہ ہی کوئی غم. بس وہ تھا اور اسکی ماں تھیں. اس کی یہ دنیا مکمل تھی لیکن حقیقت سے بہت دور تھی. وہ حقیقی دنیا کی غلاظت کو اپنی پاک صاف دنیا میں ہر گز شامل نہیں کرنا چاہتا تھا. اسکی دنیا بےشک حقیقت پہ مبنی نہ ہو پر اس کے لئے وہی ایک انمول تحفے جیسی تھی. وہ سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسکی ماں نے اسے پکارا.

"سبحان بیٹا"

"جی.. جی امی"

"تمہیں جانا نہیں ہے؟"

"ایک تو آپ کو چھوڑ کر جانے کا دل ہی نہیں " گودی سے اُٹھتے ہی اس نے منہ بنایا.

"ارے میرا بچہ...کتنے پیار سے بلایا ہے تمہیں زینب نے اپنی شادی پر"

"ہاں لیکن آپ بھی چلیں نہ" وہ بچوں کی طرح ضد کر رہا تھا.

"میرے بہت سے کام ہیں ورنہ چلتی.. اور تمہیں تو پتہ ہے لمبے سفر سے میرے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے.. اب کہاں لاہور اور کہاں اسلام آباد"

"ہاں کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہی ہیں.. چلیں میں نکلتا ہوں کچھ دیر میں... رات کا فنکشن ہے پہنچ ہی جاؤں گا."

"صحیح ہے میں تمہارا سامان وغیرہ پیک کر دیتی ہوں"

"جی امی کر دیں.." وہ کہتا ہوا چارپائی سے اوپر اٹھا اور باتھ روم چلا گیا. اسکی ماں نے ایک بڑا سا بستہ نکالا اور سبحان کی ضرورت کی چیزیں اس میں ڈالنے لگیں. وہ تقریباً تھوڑی ہی دیر بعد باتھ روم سے نکل آیا تھا. ماں نے بیٹے کی طرف دیکھا اور اسکے پاس آئیں. 

"جانے کے لئے تیار ہو گئے؟..اچھے لگ رہے ہو.." 

"جی سوچا کہ بس نکل جاتا ہوں کہیں دیر نہ ہو جائے اور جہاں تک اچھے لگنے کی بات ہے..." وہ رکا اور ماں کی آنکھوں میں دیکھا "تو آپ کا بیٹا ہوں اچھا تو لگوں گا" ماں کی لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی. ساتھ ہی آنکھیں نم بھی تھیں. انہوں نے اپنی بھیگی پلکوں کو چھپانے کے لئے بیٹے کو باتوں میں مصروف کیا. 

"چلو ڈائیلاگ نہ مارو ماں کے سامنے... اور بھاگو"

"ہاں جا رہا ہوں اللہ حافظ" اس نے جلدی میں ماں کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور بھاگتا ہو ا گھر سے باہر نکل گیا. اسکی ماں اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں. آنکھوں سے بہتے آنسو اب صاف واضح تھے. وہ ہمیشہ ایسے ہی کیا کرتی تھیں. اپنے دل کا بوجھ چھپانے کے لئے اسے کوئی نہ کوئی بات کر دیا کرتی تھیں اور وہ ماں کا لاڈلا اسی وجہ سے انکی ڈھکی چھپی بھیگی پلکوں کو بھانپ نہیں پاتا تھا. شاید وہ سب جانتا تھا اور جان پوچھ کر انجان بنا رہتا تھا.  یا شاید اسکا یہی انداز تھا دکھ درد کو جڑ سے مٹانے کا کیونکہ اِسے جتنا کریدو اتنا ہی بڑھتا ہے اور پرانی باتوں کو یاد کرا کر اور رنجیدہ کرتا ہے. درد کا کمال ہے  یہ صاحب الٹا پڑھو کہ سیدھا رہتا وہ درد ہی ہے   

                         ******************

دلہن مہندی کا جوڑا پہنے کرسی پہ بیٹھی تھی. آئینہ اسکے سامنے تھا. ایک لڑکی پاس کھڑی اس کا برش کے ذریعے میک اپ کر رہی تھی. اس نے ایک نظر اٹھا کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا. کتنی پیاری لگ رہی تھی نہ وہ. شادی پہ لڑکیاں کس قدر حسین لگتی ہیں. وہ سوچوں میں گم دل ہی دل میں اپنی تعریفیں کر رہی تھی. خود کو آئینے میں دیکھتے دیکھتے اسکی نظر پیچھے کھڑی اپنی دوست پر پڑی جو ہاتھ میں اپنا جوڑا لئے اسکو غور غور سے دیکھ رہی تھی

"کیا ہو گیا ہے بریرہ..؟ اتنا غور سے کیا دیکھ رہی ہو؟"

"یہ کیا ہے میں ایک رنگ کے کپڑوں سے بھاگ رہی تھی اور یہ شرٹ..دوپٹہ..لہنگا سب الگ الگ رنگ کا ہے.. وہ بھی اتنے شوخ شوخ"

"تو کیا ہوا ہے...؟" اس نے ہاتھ کے اشارے سے بیوٹیشن کو وہاں سے جانے کو کہا جو دو منٹ بعد وہاں سے چلی گئی تھی.

"کیا ہوا ہے... میں یہ نہیں پہن سکتی" اس نے سنجیدہ لہجے مہں بولا.

"کیوں نہیں پہن سکتی؟ یہ آج کل کا سٹائل ہے یار"

"جو بھی ہے لیکن میں یہ ہر گز نہیں پہنوں گی" اسکے لہجے میں سختی تھی. زینب اپنی دوست کی طرف مڑی

"کیوں سب کو دکھاتی ہو کہ تم خوش نہیں ہو؟"

میں ایسا نہیں کرتی.. میں دنیا کی طرح بناوٹی نہیں ہوں... میں جب ہوں ہی نہیں اندر سے مطمئن تو اس میں دکھانے والی کیا بات ہے؟" اپنی دوست کی بات اسے اچھی نہیں لگی تھی.

"یار پر کوشش تو کر سکتی ہو نہ خوش رہنے کی؟"

"کیوں کروں؟"

"اپنے لئے.. اگر اپنے لئے نہیں بھی کرتی تو میرے لئے کرو.. میں تمہیں ایسے نہیں دیکھ سکتی. کم از کم میری شادی کے دنوں تک بھول جاؤ پرانی باتیں اور کھل کر میری شادی انجوائے کرو" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر ایک بہترین دوست کے جیسے سمجھا رہی تھی. لیکن اسکے سامنے کھڑی لڑکی بالکل چپ تھی. خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی.

"کیا ہوا ہے چپ کیوں لگ گئی؟..اگر تم نہیں پہننا..." زینب نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جملہ مکمل کرنے کی کوشش کی لیکن اسکا جملہ کاٹ دیا گیا.

"نہیں نہیں میں پہن لیتی ہوں تمہاری خوشی کے لئے.." بریرہ نے جھٹ سے بولا. زینب جواباً مسکرا دی. اس نے ایک نظر زینب پہ ڈالی اور پھر چینجنگ روم میں چلی گئی. آج پہلے بار زینب نے اس سے لڑ کر بات نہیں منوائی تھی بلکہ ایک دوست کے جیسے سمجھایا تھا اور اپنی خوشی کے لئے کچھ مانگا تھا. اسکی زندگی کا آج بڑا دن تھا تو کیسے بریرہ اس کا یہ دن خراب کرتی وہ بھی اُسے ناراض کر کے؟ زینب نے اس دن پر بھی صرف اور صرف بریرہ کی خوشی مانگی تھی اور جس اپنائیت اور محبت سے مانگی تھی بریرہ اسکو ٹھکرا نہیں سکتی تھی. کچھ دیر بعد وہ کپڑے پہن کر کمرے سے نکلی. زینب سامنے کھڑی اپنے بال ٹھیک کر رہی تھی پر بریرہ کو دیکھتے ہی وہ ایک دم اسکے پاس آئی.

"ماشااللہ..ماشااللہ..کتنی پیاری لگ رہی ہو.. آؤ ادھر بیٹھو"

اس نے بریرہ آئینے کے سامنے پڑی کرسی پر بٹھایا. اس کی تب جاکر خود پہ نظر پڑی. وہ واقعی خوبصورت لگ رہی تھی. شاکنگ پنک کلر کی شرٹ اس پر کافی جچ رہی تھی. ساتھ ہی سی گرین کلر کا لہنگا اس کے حسن پر چار چاند لگا رہا تھا. اور وہ پیلے رنگ کا چمک دار دوپٹہ جسے اس نے نزاکت سے کندھے پہ اوڑھا ہوا تھا. وہ تو اور ہی اسکے حسن کو دوبالا کر رہا تھا. جو بھی تھا اسکی دوست کی پسند لاجواب تھی. وہ سوچ ہی رہی تھی کہ زینب کی آواز اسکے کانوں میں گونجی..

"سنیے زرا ادھر آئیں میری دوست کا بھی میک اپ کر دیں" وہ بیوٹیشن کو بلا رہی تھی.

"میرا میک اپ...." پر اسکی بات کاٹ دی گئی.

"چپ کرو ہلکا سا کرواؤں گی..سافٹ سافٹ سا"

"اچھا.." اس نے اپنی دوست کو کہہ جو دیا تھا کہ اسکی خوشی کے لئے سب کری گی تو اب وہ اسے کیسے ٹال سکتی تھی؟ 

اتنے میں بیوٹیشن آئی اور بریرہ کا میک اپ کرنے لگی.

                     ***********************

وہ ویگن میں بیٹھا اپنی منزل کا انتظار کر رہا تھا. اسلام آباد کچھ ہی میلوں دور تھا. اسکی زینب سے ملاقات لاہور کے ہی کسی مال میں ہوئی تھی. وہ سامنے سے آرہی تھی اور انکی زوردار ٹکر ہوئی تھی. سبحان کو پرانی باتیں یاد آئیں

"آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے.."

"دیکھ کر چلتا تو یقیناً آپ سے نہ ٹکراتا"

"تو نیکسٹ ٹائم زرا دیکھ کر چلئے گا" اس نے طنزیہ نگاہ سبحان کے چہرے پہ ڈالی تھی جو اسکو آج تک یاد تھی

"دیکھ کر تو سب چلتے ہیں میں تھوڑا وکھرا قسم کا بندہ ہوں" زینب کی شکل پہ بارہ بج گئے تھے وہ کس طرح کا بندہ تھا جو بلاوجہ فری ہوئے جارہا تھا.

"ارے ارے میں نے تو ایسی ہی بات کر دی.. آپ تو سریس ہی ہوگئیں. میں معزرت.... " لیکن وہ لڑکی کچھ سنے بغیر وہاں سے جارہی تھی.

"ارے سنیں تو.." وہ اسکے سامنے آیا تھا

"کیا ہے رستہ چھوڑو"

"میں نے تو صرف جنرل بات کی تھی. آپ تو ناراض ہو کر جا رہی ہیں..." وہ بوکھلا گیا تھا. اسکی اندر کی سچائی اسکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی جو زینب دیکھ چکی تھی.

"اچھا ہٹو تو.." 

"نہیں.. میں آپ کو تب تک جانے نہیں دونگا جب تک آپ مجھے معاف نہیں کریں گی" وہ بچوں جیسے منہ بنا کر اسکے سامنے کھڑا ہو گیا تھا. وہ نفرتیں نہیں پھیلانا چاہتا تھا کیونکہ وہ ان سب چیزوں سے نفرت کرتا تھا. زینب کو اسکے انداز پہ ہنسی آئی. وہ کیسے منہ بنا کر کھڑا ہو گیا تھا.

"نام کیا ہے تمہارا..؟" اس نے لبوں پہ مسکراہٹ لئے اس لڑکے سے پوچھا.

"ہیں....؟" وہ حیران تھا پر اگلے ہی لمحے اس نے جواب دیا "سبحان عالمگیر"

اسکے بعد سے انکی دوستی شروع ہوئی تھی اور آج تک برقرار تھی بھلا ہو اس سوشل میڑیا کا. آج وہ اُسی لڑکی کی شادی میں شرکت کے لئے جا رہا تھا جس سے وہ تقریباً دو مہینے پہلے ملا تھا. وہ سوچوں میں گم اِدھر اُدھر بھی دیکھ رہا تھا. گاڑی رکی اور مسافر گاڑی سے اترنے لگے. وہ سمجھ چکا تھا کہ اسکی منزل آگئی تھی. اس نے اپنا بستہ اٹھایا اور گاڑی سے باہر نکلا. اس نے جلدی سے گاڑی کے ڈرائیور کو کرایہ پکڑیا اور سامنے اس خوبصورت سے شہر پر نظر ڈالی. اسلام آباد کتنا بدل چکا تھا. چھوٹا سا تھا جب وہ پہلی بار یہاں آیا تھا. اب تو وہ اچھا خاصا بڑا ہو گیا تھا. اس نے ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی کو روکا اور زینب کے گھر کی طرف رخ کیا. گھر کا پتہ زینب نے رات کو ہی اسے میسج کے ذریعے بتا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ شادی تک وہ زینب کے گھر میں ہی ریے گا. وہ صحیح معنوں میں ایک اچھی دوست تھی. تھوری دیر بعد ڈرائیور نے گاڑی روکی.

"صاحب آپ کی منزل آ گئی ہے" سبحان نے اسے کرایہ دے کر فارغ کیا اور سامنے اُس عالیشان کوٹھی پہ نگاہ ڈالی. وہ بہت بڑی اور خوبصورت کوٹھی تھی. اس کو معلوم تھا کہ زینب امیر تھی پر اس قدر امیر تھی اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا. لیکن اُسکی بھی غلطی نہیں تھی زینب نے خود بھی کبھی ذکر نہیں کیا تھا. یا شاید وہ پیسوں کا رعب کسی پر نہیں جھاڑتی تھی. اس نے جاکر دروازہ کھٹکھٹایا. ایک بزرگ آدمی نے دروازہ کھولا.

"وہ میں..." وہ اپنا نام بتانے لگا.

"آپ سبحان عالمگیر تو نہیں ہیں؟" 

"جی وہی ہوں..." وہ حیران ہوا.

"زینب بی بی نے بتایا تھا کہ آپ آئیں گے..اندر آئیے" ملازم نے اسے اندر آنے کے لئے راستہ دیا. یہ کوٹھی باہر سے جتنی پیاری تھی اندر سے اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھی. 

"میں نے آپ کا کمرہ درست کر دیا ہے..." نوکر اسے کمرے تک لے کر گیا اور کمرا دکھایا. سبحان نے کمرے پہ ایک نگاہ ڈالی سب کچھ سلیقے طریقے سے اپنی جگہ پر پڑا تھا.

"وہ تو ٹھیک ہے سب گھر والے کہاں ہیں"

"زینب بی بی اپنی دوست کے ساتھ پارلر گئ ہیں اور باقی سب ابھی ابھی شادی ہال کے لئے نکلے ہیں. آپ بھی تیار ہو جائیں. ڈرائیور آپ کو لینے کے لئے آتا ہو گا.."

"اچھا او-کے" ملازم جواب سن کر وہاں سے چلا گیا. سبحان کمرے کے اندر آیا. تھوڑی دیر بستر پر بیٹھ کر کمرے کا نظارہ کیا. مہندی کا فنکشن شروع ہونے میں کم ہی وقت تھا. وہ اٹھا اور موقع کی مناسبت سے کپڑے نکالنے لگا. اس نے نیوی بلیو (Navy Blue) رنگ کی شیروانی نکالی جسکے نیچے سفید شلوار تھی. وہ کپڑے لے کر باتھ روم چلا گیا. پہن کر واپس آیا تو آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنانے لگا. جب وہ مکمل طور پر تیار ہو گیا تو باہر آیا. سامنے کالے رنگ کی گاڑی میں بیٹھا ڈرائیور اسی کا ہی انتظار کر رہا تھا. وہ کچھ کہے بغیر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی چلا دی گئی.

                   ------------------------------------

ہرے, نیلے, پیلے اور نہ جانے کتنے رنگوں سے شادی کا ہال سجا ہوا تھا. دلہن پیلے اور ہرے رنگ کے کپڑے پہنے سٹیج پہ بیٹھی تھی. سب کی نظریں اس پر تھیں اور ساتھ بیٹھی اسکی دوست پر جو نہایت نزاکت کے ساتھ اپنی دوست کا دوپٹہ درست کر رہی تھی. لوگوں کی آمد جاری تھی. کافی لوگ اسکی شادی میں شریک تھے لیکن پھر بھی دلہن کی نظریں کسی کی تلاش میں تھیں.

"کسے ڈھونڈ رہی ہو..؟ جیجو کو؟" دوپٹہ ٹھیک کرتے بریرہ نے آخر پوچھ ہی لیا. 

"نہیں دولہے والوں کو ابھی دیر ہے"

"تو پھرکسے ڈھونڈ رہی ہو؟"

"یار میرے ایک دوست کو آنا تھا پتہ نہیں آیا ہے کے نہیں" زینب کی نظریں ابھی بھی اسے ہی تلاش کر رہی تھیں.

"وہ لاہور والا؟"

"ہاں وہی..بڑی بات ہے تمہیں یاد ہے"

"ہاں ذکر جو کیا تھا تم نے..اور آ جائے گا راستے میں ہو گا"

"مجھے لگتا ہے وہ آیا ہی نہیں."زینب کا منہ بن گیا. بریرہ نے اسکی طرف دیکھا پھر اسکے بدلتے تاسرات کو وہ اب مسکرانے لگی تھی. اسکے لبوں سے بے ساختہ نکلا..

"آگیا ہے وہ.. وہ دیکھو" بریرہ نے زینب کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اس طرف دیکھا تھا. وہ انٹرنس سے اندر آ رہا تھا. بلیو رنگ کی شیروانی, لبوں پہ مسکراہٹ اور چہرے پہ بچپنہ..وہ کافی ہنڈسم تھا. داڑھی کی وجہ سے تھوڑا بہت رعب دار بھی لگ رہا تھا. وہ سامنے کی طرف بڑھتا ہوا سٹیج کے پاس سے گزرا اور زینب نے اُسے آواز دی

"سبحان" اس نے زینب کی طرف دیکھا. نظر ساتھ بیٹھی لڑکی پہ بھی پڑی جو نیچے دیکھ رہی تھی

"او.. کیسی ہو؟ میں تمہاری مما سے مل کر تمہاری طرف ہی آ رہا تھا پر تم نے روک لیا.." وہ سٹیج پہ چڑھا.

"ہاہاہا..چلو کوئی نہیں بعد میں مل لینا.. پہلے اس سے ملو یہ میری دوست ہے.."زینب نے بریرہ کو کہنی ماری اور وہ اوپر دیکھنے لگی. اسکے اوپر دیکھتے ہی سبحان اس کے چہرے میں کھو سا گیا. بڑی بڑی آنکھیں لیکن ان آنکھوں میں بہت زیادہ درد تھا. گلابی ہونٹ جو اس وقت چپ تھے پر وہ چلانا جاہتے تھے. گڑگڑانا چاہتے تھے. اسکے چہرے سے معصومیت ٹپکتی تھی پر جان پوچھ کر چہرے کو سنجیدہ کیا ہوا تھا. سانولی رنگت لیکن کمال کی کشش تھی اس میں. پر نہ جانے وہ اس قدر بجھی بجھی سی کیوں تھی. سبحان نے اپنے تمام  تر خیالات کو پیچھے کرتے ہوئے اس لڑکی سے مخاطب ہونا چاہا

"ہیلو..."

"ہائے.." اسکے ہونٹوں نے حرکت کی. چہرے کے ساتھ ساتھ اسکی آواز بھی پیاری تھی. 

"ویسے زینب تم تو بہت اچھی لگ رہی ہو پر تمہاری دوست بھی عمدہ لگ رہی ہے" اس نے زینب کو دیکھ کر بریرہ کی تعریف کی.

"ارے ہاں..اس نے کتنی دنوں بعد ایسے کپڑے پہنے  ورنہ یہ سادہ لڑکیوں میں سے ہے" زینب نے برہرہ کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی 

"یہ تو اور ہی اچھی بات ہے کیونکہ.." سبحان نے بریرہ کی طرف دیکھا

 "اچھی صورت کو سنورنے کی ضرورت کیا ہے.. سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے" اس کا جملہ مکمل ہوتے ہی بریرہ نے حیرانگی سے اوپر ٹھیک اسکی آنکھوں میں دیکھا. وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا پتہ نہیں کب سے. دو سیکنڈ کے لئے انکی نظریں ملیں

                     آنکھ انکی لڑی یوں میری آنکھ سے

                           دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آگیا

"ڈرامے باز تمہارے ڈائیلاگ مارنے کی عادت گئی نہیں" زینب کی آواز سنتے ہی سبحان کو ہوش آیا اور اس نے اپنی نظریں ہٹائیں. بریرہ نے بھی ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا.

"ہاہاہا..نہیں" سبحان نے فوراً انکار کر دیا اور وہ دونوں ہسنے لگے لیکن بریرہ چپ تھی.

"مجھے ذرا کام ہے میں آتی ہوں زینب" بریرہ نے انکی ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا.

"اوکے" زینب کے جواب دینے پر وہ اُٹھ کر چلی گئ.  اسکے جاتے ہی سبحان دلہن سے باتیں کرنے لگا.

                           ****************

بریرہ پیچھے جا کر کسی کونے میں بیٹھ گئی. اسے کوئی کام نہیں تھا. اس نے بس اپنی دوست سے جھوٹ بولا تھا کیونکہ وہ ان دونوں کے درمیان  بیٹھنا نہیں چاہتی تھی کیسے وہ ہنسے جا رہے تھے. اسے ان سے کوفت ہو رہی تھی. اگر وہ اُداس تھی تو اُنکو ایسے ہنسنا نہیں چاہیئے تھا. چلو اس لڑکے کو تو نہیں پتہ تھا پر اسکی دوست تو سب کچھ جانتی تھی. ٹھیک ہے اس نے زینب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ خوش رہی گی لیکن کیسے رہے؟ اس نے پارلر میں وقتی طور پر اقرار تو کر لیا تھا پر کیسے وہ اب اسے عملی جامہ پہنائے؟ وہ اندر سے مکمل بجھ چکی تھی. اب واپس آنا مشکل تھا. اسکی نظر دور بیٹھی ایک چھوٹی سی بچی پہ پڑی جو زاروقطار رو رہی تھی. اُسے دیکھ کر بریرہ کو  کوئی اور بچی یاد آنے لگی. 

... وہ چھوٹی چھوٹی بھیگی پلکیں. وہ ننھا سا چہرہ جو آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا. وہ پانچ سالا بچی صندوق میں بند, آہستہ آواز میں رو رہی تھی. اسکی آنکھوں میں درد کے سوا کچھ نہ تھا. ساتھ ہی اسکے کانوں میں دو مختلف بندوں کی آوازیں گونج رہی تھیں...

"چلو کام ہو گیا ہے"

"لیکن وہ بچی کدھر ہے؟"

"اُسے ڈھونڈنے کا وقت نہیں.. جلدی کرو نکلتے ہیں" تیز قدموں کی آواز آئی اور پھر مکمل سناٹا چھا گیا تھا...

بریرہ کے سامنے ایک بار پھر سے اسکا وہ ماضی گھوم گیا جس سے وہ دور بھاگ رہی تھی. اُس روتی بچی نے اسے اِس بچی کی یاد دلائی. وہ بےگناہ بچی جس کا کوئی قصور ہی نہیں تھا یا شاید تھا. بریرہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے وہ پھر سے اپنے ماضی کو کوسنے لگی.

                       یاد ماضی عزاب ہے یا رب  

                   چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

سٹیج پہ بیٹھا سبحان زینب سے گپیں لگا رہا تھا. وہ دونوں ہنس رہے تھے. اسی دوران سبحان کو زینب کی دوست کا خیال آیا. وہ کیوں اتنا چپ چپ رہتی تھی؟ اس لڑکی کی آنکھوں میں اتنا درد کیوں تھا؟ اس نے تجسس میں زینب سے آخر پوچھ ہی لیا.

"یار وہ تمہاری دوست.."

"بریرہ نام ہے اسکا"

"پیارا نام ہے.. پر وہ اتنی چپ چپ اور اداس کیوں رہتی ہے؟"

"ایسا تو نہیں ہے.." زینب نے چھپانا چاہا.

"اسکی آنکھوں سے صاف دکھتا ہے"

"چھوڑو اور اسکے سامنے اس بات کا ذکر مت کرنا"

"کیوں؟"

"کیونکہ وہ چڑتی ہے"

"اچھا" 

"تم سناؤ ٹھیک ہو نا؟" زینب نے بات پھیری

" مزے میں ہوں" اسکے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی.

" پکہ نہ؟ کوئی پریشانی تو نہیں" 

"ارے نہیں...." لبوں کی مسکراہٹ اب تک برقرار تھی. زینب نے مزید کوئی سوال نہ کیا. سبحان بیٹھا لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا رہا تھا پھر اسکی نظر اس لڑکی پہ پڑی. اسکی آنکھوں میں آنسو تھے. نہ جانے وہ کیوں گہماگہمی میں منہ لٹکائے رو رہی تھی. سبحان کو آنسوؤں سے بالکل لگاؤ نہیں تھا. وہ کسی کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا.

"زینب میں آتا ہوں تمہاری مما سے مل کر" وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا.

"اچھا" جواب سنتے ہی وہ بریرہ کی طرف جانے لگا. مما کے پاس جانے کا اس نے صرف بہانا کیا تھا.

                       *******************

وہ آنکھوں میں آنسو لئے فرش پر دیکھ رہی تھی. وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے اس فنکشن پہ بیٹھے روتا دیکھے پر اسے کیا معلوم تھا کہ کوئی پہلے سے دیکھ چکا تھا. وہ نیچے فرش پہ نطریں لگائے بیٹھی تھی کہ کسی کی آواز اسکے کانوں میں پڑی.

"آہم..." اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کرنے چاہے

"ایسے نہیں ہونگے صاف.. یہ لیں ٹشو.." بریرہ نے اوپر دیکھا. سبحان اسکے سر پہ کھڑا ٹشو پکڑا رہا تھا.

"میں ٹھیک ہوں ایسے ہی.." اس کے لبوں سے بس اتنا سا نکلا. وہ چاہتی تھی کہ وہ وہاں سے چلا جائے لیکن وہ ڈیرہ جما کر ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گیا تھا.

"اگر آپ برا نہ مانیں تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟"

"نہیں آپ بالکل نہیں پوچھ سکتے.. میں آپکو بتانے کی قائل نہیں." وہ اُٹھ کھڑی ہوئی لیکن سبحان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا. وہ حیران تھی کوئی اس قدر بھی فری ہو سکتا ہے؟ وہ پیچھے مڑی اور اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا. 

"او سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا." اس نے فوراً اسکا ہاتھ چھوڑا کیونکہ وہ اسکا اشارہ سمجھ گیا تھا. وہ جانے لگی.

"رکئے.. بات تو سن لیں.." سبحان نے اسے روکنا چاہا.     اسکی پیٹھ سبحان کی طرف تھی. وہ اسکی آواز سن کر  رکی.

"میں معزرت چاہتا ہوں مجھے آپکا ہاتھ نہیں پکڑنا چاہئے تھا"

"اٹس اوکے اور کچھ" وہ بنا مڑے بولی.

"جی..آپ کیوں یہاں سے جا رہی ہیں؟ میں آیا تھا یہاں پہ آپ بیٹھیں اپنی جگہ" وہ کہتا ہوا چلا گیا. بریرہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کتنا بیوقوف ہے ایک تو کسی لڑکی سے رونے کی وجہ پوچھی اور پھر دوسرا یہ کہ اُسی کا ہاتھ بھی پکڑ لیا. اسے اپنے کئے پر پچھتاوا ہو رہا تھا. اسکے جاتے ہی بریرہ اپنی کرسی پہ بیٹھی اور اپنی سوچوں میں گم ہو گئی. 

                     *******************

بریرہ مہندی کے تھالوں کو ترتیب سے رکھ رہی تھی. زینب کی کوئی بہن نہیں تھی اور یہ سب کام اسی کے ذمے تھے. اس نے تھال میں گلاب کے پھولوں کوسجایا. وہ جتنی بھی اداس ہو گلاب دیکھ کر چہک اٹھتی تھی. جب سجا کر فارغ ہوئی تو اسکی نظر ایک تھال پہ پڑی اسکا دیا بجھ چکا تھا. اس نے ماچس ڈھونڈنی چاہی لیکن ملی ہی نہیں. اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو سٹیج کے ایک کونے میں اسے ماچس دکھی. اس نے جھٹ سے تھال کو اٹھایا اور سٹیج کی طرف جانے لگی.

سبحان موبائل پہ میسج ٹائپ کرتا ہوا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا. اسکا دھیان مکمل موبائل کی طرف تھا. بریرہ بھی تیزی سے آگے جا رہی تھی اسکی ذہن میں ماچس کے علاوہ کچھ نہ تھا. وہ تیز تیز آگے بڑھی لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ کسی سے ٹکرا گئی. ساتھ ہی تھال بھی الٹا اور گلابوں کی بارش ہونے لگی. سبحان نے اوپر دیکھتے ہوئے کچھ بولنا چاہا پر بریرہ کو دیکھ کر اسکی بولتی بند ہو گئی. وہ اسکی نظروں میں ڈوب گیا تھا. وہ بڑی بڑی  آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی. دونوں کی نظروں نے ایک دوسرے کو قید ہونے پر مجبور کر دیا تھا. ساتھ ہی ان پر گلاب برس رہے تھے اور عین اسی وقت یہ گانا پلے ہوا تھا.

"میرا نام.... تیرا نام...میرا نام عشق" دونوں کے کانوں میں گانے کی آواز پہنچی.. گانے کے بول نے انہیں وہاں کھڑے رہنے پر مجبور کر دیا. وہ اور ہی ڈوب گئے ایک دوسرے میں.

"یہ لال عشق.. یہ ملال عشق.. یہ عیب عشق.. یہ بیر عشق" وہ کھوئے ہوئے تھے. وہ سبحان کی نیلی آنکھوں میں اور وہ بریرہ کی ہلکی بھوری رنگ کی آنکھوں میں. اتنے میں گانا تبدیل ہوا. شاید ڈی-جے نے غلطی سے وہ گانا لگا دیا تھا.

"لیمبرگینی چلائی جانے او.. سانو وی چوٹا دے دو.. کتھے کلے کلے جائی جانے او.." دوسرے گانے کی آواز کانوں میں پڑتے ہی دونوں ہوش میں آئے. وہ دونوں کافی حیران تھے لیکن پھر بھی بریرہ نے ہمت کی اور آگے سٹیج کی طرف بڑھی. سبحان بھی اپنے موبائل میں مصروف ہو گیا لیکن ذہن اسی واقعے کی سوچ میں اٹکا ہوا تھا.

                   **********************

وہ کرسی پہ بیٹھی اسی واقعے کے بارے میں سوچ رہی تھی. کیا عجیب سی کشش تھی اسکی آنکھوں میں جس نے اسے وہیں کھڑے رہنے پہ مجبور کیا. اور وہ گانا بھی تو اسی وقت اچانک سے بجا تھا. اسکے ذہن میں گانے کا ایک ہی لفظ جگمگا رہا تھا..."عشق" 

"..نہیں عشق تو دھوکا ہے.."

"عشق فریب ہے.. وہ کئی لوگوں کو ڈوبا دیتا ہے..."

"عشق نے ہی تمہیں تمہاری اوقات دکھا دی ہے.. تم تو کہیں منہ دکھانے کے لائق ہی نہیں رہی.."

"عشق تو وہ سبز باغ ہے جس کا ہر پھل زہریلا ہے بریرہ.."

 اس لفظ کے لبوں پہ آتے ہی بریرہ کے کانوں میں بہت سی پرانی آوازیں گونجیں. اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا. سر میں بھی شدید درد ہو رہا تھا.

"کچھ نہیں ہو گا.. سب کچھ گزر چکا ہے بریرہ.." اس نے خود کو تسلی دینا شروع کی.

"بیٹا... بیٹا..." آواز سنتے ہی بریرہ اپنے ماضی سے نکل کر حال میں آئی. سامنے زینب کی ماں سکینہ بیگم کھڑی تھیں.

"جی جی آنٹی کوئی کام تھا کیا؟" اس نے فوراً پوچھا.

"نہیں بیٹا میں تو تمہیں لینے آئی تھی.. پر تم تو پریشان لگ رہی ہو"

"نہیں نہیں آنٹی کچھ نہیں.. پر لینے کیوں؟"

"زینب نے بولا تھا کہ تم شادی تک ہمارے ہی ساتھ رہو گی اب چونکہ فنکشن ختم ہو گیا ہے تو اسلئے تمہیں لینے آئی ہوں." 

"نہیں آنٹی میں رہ لونگی." بریرہ تھوڑا حیران تھی.

"بیٹا ماں نہیں پر ماں جیسی تو ہوں اور ماں کا کہنا نہیں مانو گی؟"

سکینہ بیگم نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا. بریرہ کی آنکھوں میں آنسو آئے. 

"اب ایسی کہیں گی پھر تو چلنا ہی پڑے گا" وہ آنکھوں

 میں آنسو لئے مسکرائی تھی. سکینہ بیگم بھی جواباً مسکرائیں. ساتھ ہی انکی آنکھیں بھی نم تھیں.

"دیکھو تو سہی کتنی پیاری لگ رہی ہو.. ایسے ہی رہا کرو" سکینہ بیگم نے اسکے کپڑوں پہ غور کیا. 

"یہ سب آپ کی بیٹی کے کام ہیں"

"ہاہاہا.. اچھا ہے... چلو آؤ اب گھر چلتے ہیں..." بریرہ کچھ کہے بغیر انکے پیچھے پیچھے چل دی. زینب کے گھر میں رہنا اسکے لئے بالکل نیا تجربہ ثابت ہونے والا تھا. وہ بیشک اسکی چہیتی دوست تھی لیکن پھر بھی وہ کبھی اسکے گھر میں نہیں رہی تھی. وہ پہلی دفعہ وہاں جا کر رہنے والی تھی. اب تو زینب کی شادی کا بھی موقع تھا اور اسکی ماں نے بھی خواہش کر دی تھی تو وہ ٹال بھی نہیں سکتی تھی. اسلئے وہ چپ چاپ انکے پیچھے پیچھے چل دی. سکینہ بیگم اور بریرہ کالی گاڑی میں بیٹھے اور گھر کے لئے روانہ ہوئے. 

_____________

وہ گہری سوچ میں پڑا اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا. اسکی نظروں میں وہ سین بار بار گھوم رہا تھا. وہ لڑکی اسکے ذہن پہ چھائی ہوئی تھی. اسکے ساتھ ٹکرانا پھر پھولوں کا برسنا اور اسی وقت وہ گانا بجنا. کیا قدرت اسے کوئی اشارہ دے رہی تھی یا یہ سب اچانک ہو گیا تھا. جو بھی تھا اس سین کے بعد سے وہ کافی حیران اور پریشان تھا اور اسی وجہ سے وہ فنکشن سے جلدی واپس آ گیا تھا. اس نے کتنے ہی گھنٹے ایسے لیٹے لیٹے گزار دیئے تھے.

"میں اب اسکے قریب نہیں جاؤں گا... اسکو خود سے دور رکھنے کی کوشش کروں گا" اس نے دل ہی دل میں خود سے بولا تھا. اُسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا. سوچتے سوچتے اسکے کانوں میں گھنٹی بجی. شاید دروازے پر کوئی تھا. وہ گھر میں اکیلا تھا کیونکہ نوکر چاکر سب شادی پر تھے اسی لئے اس نے ہی جا کر دروازہ کھولا.

"آنٹی آپ"

"سبحان تم شادی سے جلدی کیوں آگئے؟"

"وہ بس سر میں درد ہو رہا تھا" بولتے بولتے اسکی نظر پیچھے اُس بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی پہ پڑی. وہ چادر میں لپٹی ہوئی تھی. چادر میں وہ تو اور ہی حسین لگ رہی تھی. 

"زیادہ تو نہیں ہے درد؟" سکینہ بیگم پوچھتے ہی اندر آئیں.

"نہیں نہیں آنٹی" اسکی نظروں کا رُخ بریرہ کی طرف تھا جو سکینہ بیگم کے پیچھے پیچھے اندر آئی.

"ٹھہرو تمہیں چائے بنا دیتی ہوں.."

"نہیں نہیں آنٹی اسکی ضرورت...." اسکے کہنے سے پہلے کسی نے اسکی بات کاٹی.

"آنٹی آپ جا کر لیٹیں.. میں بنا دیتی ہوں انہیں چائے" بریرہ نے سکینہ بیگم کی طرف رُخ کر کے بولا اور سبحان اُسے دیکھتا رہ گیا.

"تم کیوں بناؤ گی بیٹا" 

"ابھی آپ نے مجھے بیٹی کہا تھا اور بیٹی ماں کو کام نہیں کرنے دیتی" سکینہ بیگم کی لبوں پہ مسکراہٹ آئی. سبحان کی بولتی بند تھی. وہ اسکے بولنے کا انداز سبحان کو  اچھا لگ رہا تھا. وہ کچھ چاہ کر بھی نہیں بول پایا تھا.  

"ہاہاہا بہت چلاک ہو.. چلو بنا دو اسے چائے.. میں جا کر سوتی ہوں.." 

"جی بہتر" سکینہ بیگم جواب سن کر وہاں سے چلی گئیں.

بریرہ سبحان کی طرف مڑی. وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا سبحان نے فوراً نظریں ہٹائیں. 

"آپ لاؤنج میں بیٹھیں میں آپکی چائے لاتی ہوں" 

"میں چائے نہیں پیتا"

"تو پھر؟" بریرہ کی آنکھیں بڑی ہوئیں. 

"تو پھر آپ آرام کریں.. تھکی ہوئی ہونگی" 

"نہیں نہیں.. میں بنا دیتی ہوں" 

"کہا نہ چائے نہیں پیتا" اس نے ایک بار پھر ٹالا. سبحان اس سے دور رہنے والی بات پر عمل کر رہا تھا. دل بار بار کہہ رہا تھا.. "بول دے سبحان کہ بنا دو چائے.." پر دماغ بار بار آڑے آرہا تھا. "نہیں سبحان تمہیں اس سے دور رہنا ہے" سبحان دل اور دماغ کی کشمکش میں ہمیشہ کی طرح دماغ کی سن بیٹھا تھا اور دل بیچارہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا تھا. بزرگوں کا بھی تو یہی قول تھا "دل کی نہیں دماغ کی سنو" پر کس کو یہ معلوم کہ دل پہ پتھر رکھ کر دماغ کی سننا کس قدر مشکل ہے. 

"اچھا" بریرہ نے روکھا سا جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی. اسکے جانے کہ بعد سبحان کو پچھتاوا ہوا 

"کاش وہ دل کی ہی سن لیتا" 

                     *****************

"شٹ اپ میں ایک لفظ نہیں سنو گا.. کہا نہ جا رہا ہوں.. نہیں رہ سکتہ تمہارے ساتھ" اس نے غصے میں سامنے کھڑی لڑکی کو دھکا دیا اور وہ دیوار کے ساتھ جا کر لگی.  وہ ظالم انسان اس لڑکی کو روتا اور تڑپتا ہوا دیکھ کر بھی وہاں سے چلا گیا. اس لڑکی نے اسے بہت روکا لیکن اسکی سب کوششیں بےفائدہ ثابت ہوئیں کیونکہ جانے والے مڑ کر نہیں دیکھا کرتے. وہ دیوار کے ساتھ لگی سر پکڑ کر رو رہی تھی. وہ مکمل ٹوٹ چکی تھی. 

"اس نے مجھے سچا پیار ہی نہیں کیا تھا" 

"وہ دھوکے باز تھا"

"میں بیوقوف بنتی رہی اس نے میرا استعمال کیا" بہت سے خیال اسکے ذہن میں آ کر اسے اور ہی زخمی کر رہے تھے. وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی. اِسی دوران اسکے کانوں میں کہیں سے گانے کی آواز آئی تھی.  

"دل امید توڑا ہے کسی نے" گانے کی شاعری اسی کے دل کا حال سنا رہی تھی. یہ کب سے کہیں بج رہا تھا لیکن جب دل کرچی کرچی ہو کر ٹوٹا تب جا کر اس نے شاعری پر غور کیا. گانے کے اندر کے چھپے درد سے وہ صحیح معنوں میں واقف ہوئی. اب سمجھ آئی کہ یہ گانے کیسے دل کا حال بیان کرتے ہیں. "دل امید توڑا ہے کسی نے" اتنی سی سطر میں کتنی بڑی بات کر دی گئی تھی. پہلے تو وہ صرف وقت گزاری کے لئے ایسے گانے سن لیتی تھی پر اب جا کر وہ ان کو سمجھ پائی تھی. 

"دل امید توڑا ہے کسی نے... دل امید توڑا ہے کسی نے" وہ سر پہ ہاتھ رکھے بار بار لائن کو دہرا کر خود کو کوس رہی تھی. اگلے ہی لمحے دوسری لائن اسکے کانوں میں پڑی  

"سہارا دے کہ چھوڑا ہے کسی نے" وہ اور ہی ٹوٹ گئی. اس ظالم نے اسے سہارا دے کر ہی چھوڑا تھا. عادت ڈال کر پھر ایک لاوارث کی طرح چھوڑ دیا تھا. بالکل ایک ٹشو کی طرح استعمال کیا تھا. وہ تو وقت گزاری کر کے دفع ہو گیا لیکن اب اس کا کیا ہو گا. وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی. اس نے دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا. 

"بند کر دو گانے کو... بند کر دو اسے" وہ چیخی تھی پر گانے کی آواز  اب تک آ رہی تھی.

"نہ منزل ہے نہ منزل کا نشان ہے" آنسوؤں کا ریلا اسکی آنکھوں میں تھا. بلکل سچی بات گانے میں بیان کی گئی تھی کیونکہ اسکی منزل وہ شخص ہی تھا جو اب جا چکا تھا.. وہ چلائی"کیوں ہوا ایسا". اس ظالم کے بغیر زندگی بے معنی ہو گئی تھی. نہ منزل تھی کوئی نہ ہی کوئی نشان تھا.

"کہاں پہ لا کر چھوڑا ہے کسی نے" اگلی لائن نے اسے اور زیادہ توڑ دیا. اس کمینے انسان نے اسے بہت بُری جگہ پہ لا کر چھوڑا تھا "پیار کی انتہا عشق پر" 

"..نہیں عشق تو دھوکا ہے"

"عشق فریب ہے.. وہ کئی لوگوں کو ڈوبا دیتا ہے..."

"عشق نے ہی تمہیں تمہاری اوقات دکھا دی ہے... تم تو کہیں منہ دکھانے کے لائق ہی نہیں رہی...."

"عشق تو وہ سبز باغ ہے جس کا ہر پھل زہریلا ہے بریرہ..." وہ خود کو دل ہی دل میں سنانے لگی. وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سر پکڑ کر نیچے بیٹھی. آنسو ابھی بھی اسکی آنکھوں سے رواں دواں تھے.

              رابطہ ٹوٹ چکا ہے تو صدائیں کیسی

                 جو ملنا ہی نہیں تو وفائیں کیسی

 کسی سے عشق کر کے اس نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی. یہ پہلی سزا تھی جو اسے اپنے کئے پہ ملی تھی. ورنہ باقی سزائیں تو اسے بغیر کسی غلطی پر ملی تھیں. 

"کیوں کیا اس نے پیار؟" ایک درد بھری چیخ اس کے منہ سے نکلی اور بریرہ کا خواب ٹوٹا. وہ پسینے سے شرابور پلنگ پر بیٹھی. دو سال گزر چکے تھے اور اب بھی یہ یاد اسے پریشان کر رہی تھی. رات کو سونے نہیں دیتی تھی. ذیشان تو کب کا اسے چھوڑ گیا تھا. وہ کیوں بار بار اسکی یاد میں کڑھتی تھی. کیا وہ سچی میں عشق کر بیٹھی تھی یا اپنے کئے کا پچھتاوا تھا. یہ بات اسے آج تک سمجھ نہیں آئی تھی. رات کے چار بجے تھے اور اس یاد نے اسکی نیند اڑا دی تھی. وہ پلنگ پہ بیٹھی اپنے زندگی کی محرمیوں کا سوچنے لگی.

                      *******************

زینب بھاگتی ہوئی کچن میں آئی

"شکر ہے تم مل گئے..." اس نے کچن میں آتے ساتھ سبحان کو دیکھ کر بولا جو سامنے کھڑا اپنے لئے کافی بنا رہا تھا.

"کیا ہوا ہے..؟ خیریت"

"یار مجھے پارلر چھوڑ دو"

"اتنی جلدی...؟"

"کیا جلدی.. بارہ بج چکے ہیں.. ٹائم لگے گا وہاں"

"اچھا اوکے میں یہ کافی پی کر چھوڑ آتا ہوں" اس نے کافی کپ میں ڈالتے ہوئے بولا.

"اوکے میں ریڈی ہو کر آتی ہوں" سبحان نے جواباً سر کو جنبش دی.

کچھ دیر بعد زینب تیار ہو کر سبحان کے کمرے میں آئی. کمرہ کھلا ہوا تھا اور وہ سامنے بیٹھا جوتے پہن رہا تھا.

"سبحان چلیں...؟"

"ہاں چلو.." وہ کھڑآ ہوا. زینب کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے سوال کیا.

"تمہاری دوست نہیں جائے گی؟" بریرہ کی کمی اسے محسوس ہوئی.

"نہیں اس نے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ وہ گھر میں ہی تیار ہو گی"

"اچھا اور ملازم وغیرہ سب کدھر؟"

"وہ مما کے ساتھ کام کروا رہے ہیں تب ہی تو تمہیں لے جانے کو کہا... واپسی میں ڈرائیور کر لے گا پک"

"ٹھیک ہے" وہ جواب دے کر گاڑی میں بیٹھا. زینب کے بیٹھتے ہی سبحان نے گاڑی چلائی اور وہ دونوں پارلر کے لئے نکلے.

                     *********************

وہ اپنے صندوق کے پاس بیٹھی اپنی چیزیں نکال رہی تھی. کئی سالوں بعد اس نے یہ صندوق کھولا تھا. اس صندوق کے ساتھ بہت سی تلخ یادیں جڑی تھیں. اس نے صندوق میں پڑی چیزوں کو اِدھر اُدھر کیا. وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی. ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسکی نظر ایک لال رنگ کے ڈوپٹے پہ پڑی. اس نے ڈوپٹے سمیت لال رنگ کا سوٹ نکالا. وہ لال رنگ کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں سے گولڈن بھی تھا. یہ اسکی ماں کی شادی کا جوڑا تھا. انہوں نے اسے صرف ایک بار پہنا تھا کیونکہ بعد میں پہننا نصیب میں ہی نہیں تھا. بریرہ اس جوڑے کو ہی ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ اس نے سوچا ہوا تھا کہ بارات کے موقع پر وہ اپنی ماں کا شادی کا جوڑا پہنے. ایک تو یہ جوڑا اسکے دل کے بےحد قریب تھا. دوسرا یہ کہ اس نے زینب سے رات کو ہی یہ کہہ دیا تھا کہ وہ پارلر نہیں جائے گی اور اپنی مرضی سے اچھا سا تیار ہو کر آئے گی. زینب کی آج رخصتی تھی اور بریرہ نے اسکی خوشی کے لئے اچھا سا تیار ہونا تھا. اسی مقصد کے لئے وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں یہی جوڑا لینے آئی تھی. اس نے جوڑے کو ناک سے لگایا. اس میں اب تک وہ خوشبو آرہی تھی جو اکثر اسکی ماں سے آیا کرتی تھی. اسکی آنکھیں بھیگ گئیں. ماں کا پرنور چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے تھا. اسے آج تک وہ دن بھی یاد تھا جب اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتوں سے اپنی ماں کے بےجان چہرے کو چھوہا تھا. اسکی دونوں ہٹھیلیاں ماں کے رخسار پہ تھیں. ساتھ اسکی آنکھوں سے آنسو برس رہے تھے. ننھے ننھے ہاتھ کانپ رہے تھے. لبوں پہ ایک ہی لفظ تھا "مما...مما" لیکن اسکی مما اس جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں. انکا بے جان جسم اپنی چھوٹی سی بیٹی کو سہارا دینے کے قابل نہیں تھا. انکے چہرے پہ تب بھی نور ہی نور تھا. وہ نور اب بھی بریرہ کو خیالوں میں دکھ رہا تھا. وہ ماں کا چہرہ اور وہ چہرے کا نور.  اگلے ہی لمحے اس نے ذہن میں آتے خیالوں کو  فوراً سےجھٹکا. اس نے وہ جوڑا اٹھایا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی. اس نے ڈوپٹے کو سر پہ ڈالا اور خود کو آئینے میں دیکھا. ڈوپٹہ اس پر کافی جچ رہا تھا. 

"دیکھو تو سہی کتنی پیاری لگ رہی ہو... ایسے ہی رہا کرو" سکینہ بیگم کی تعریف اسکے ذہن میں آئی. وہ آج بھی پیاری لگ رہی تھی. سکینہ بیگم نے کتنی اپنائیت کے ساتھ اسے بیٹی بلایا تھا. اسکے لبوں پہ مسکراہٹ آئی پر اگلے ہی لمحے اداسی چہرے پہ چھا گئی. کاش اسکی ماں زندہ ہوتیں. کاش وہ بھی اسکی تعریف کرتیں. سکینہ بیگم نے بیٹی بنایا تو تھا لیکن وہ ماں کی جگہ تو نہیں لے سکتی تھیں. ماں تو ایک ہی ہوتی اور وہ چلی جائے تو اسکی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے. بریرہ کی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا. وہ لال رنگ کا ڈوپٹہ ابھی بھی اسکے سر پہ تھا. وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے عکس میں اپنی ماں کی شکل کو تلاش کرنے لگی.

                      ماں بچوں کی جان ہوتی ہے 

                       وہ ہوتے ہیں قسمت والے

                          جنکی ماں ہوتی ہے 

                       **********************

زینب سٹیج پر بیٹھی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی. بارات کے دن وہ کافی خوبصورت لگ رہی تھی. اچھا خاصا روپ چڑھا تھا اس پر. بارات کے آنے میں ابھی دیر تھی. بریرہ اور سبحان دونوں اِدھر اُدھر کاموں میں مصروف تھے. وہ نکاح پڑھوانے والے مولوی کے پاس بیٹھا انکی آؤبھگت کر رہا تھا. اسکی نظر دور کھڑی لڑکی پہ پڑی جو رسموں کے لئے دودھ اور مٹھائی ٹرے پہ سجا رہی تھی. سبحان نے پہلی بار اس فنکشن پر اسے غور سے دیکھا. اسکے بال لمبے اور سلکی تھے. کھلے بالوں میں وہ کافی پیاری لگ رہی تھی. سر پہ لگی لال بندی بھی کمال لگ رہی تھی. لال رنگ کا لمبا فراک جس پہ جگہ جگہ گولڈن رنگ کا کام ہوا تھا وہ اس پر کافی جچ رہا تھا. ڈوپٹے کو بھی عمدہ طریقے سے کندھوں پہ ڈالا ہوا تھا. ہلکا سا میک اپ کئے وہ کافی حسین لگ رہی تھی. وہ تیار ہوتے ہوئے بھی سادہ لگ رہی تھی. یہ چیز سبحان کی نظروں کو اور ہی بھا رہی تھی. اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا کہ وہ اس سے نظریں ہٹائے.

عجیب سی شے تھی جو اسے اس کی طرف کھنچتی تھی.

 لیکن پھر بھی اس نے اپنی نظریں ہٹائیں اور مولوی کی طرف متوجہ ہوا. دور کھڑی لڑکی ٹرے سجا کر فارغ ہوئی تو اِدھر اُدھر دیکھنے لگی. اسکی نظر سبحان پہ پڑی جو مولوی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا. اسے کل والی بات یاد آئی

"کہا نہ چائے نہیں پیتا" کتنا عجیب برتاؤ کیا تھا اس نے. پتہ نہیں کیا ہوا تھا اسکو. بریرہ کو وقتی طور پر اس پر غصہ آیا تھا لیکن بعد میں وہ نارمل ہو گئی تھی کیونکہ وہ کون ہوتی تھی اس پر غصہ کرنے والی. 

"بریرہ آجاؤ.. بارات آنے والی ہے" سکینہ بیگم کی آواز سے اسکے خیالوں کا تسلسل وہیں ٹوٹا. اس نے فورًا جواب دیا "اوکے" لیکن سکینہ بیگم اسکے جواب سننے سے پہلے ہی جا چکی تھیں. دولہا اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ ہال کے اندر آ رہا تھا. بریرہ فورًا انکے طرف گئی اور دلہے  پہ پھول برسانے لگی. سبحان بھی وہیں کھڑا دلہے پہ پھول پھینک رہا تھا. پھینکتے پھینکتے سبحان کی نظر دولہے کے پیچھے ایک لڑکے پہ پڑی جو کسی کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا. سبحان نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا. اسکی نظریں بریرہ پہ تھیں. سبحان کو کوفت ہوئی کیونکہ وہ بہت گندی نظروں سے بریرہ کو دیکھ رہا تھا. لیکن بریرہ اس سب سے انجان پھول پھینکنے میں مصروف تھی.

 بریرہ سٹیج کے ہاس کھڑی دولہے سے لئے ہوئے پیسوں کو گن رہی تھی. یہ رسم اس نے صرف زینب کی خوشی کے لئے کی تھی. پیسے گن کر وہ سکینہ بیگم کو دینے جانے لگی تو کسی نے اسکا راستہ روکا.

"او ہیلو بیوٹی فل" بریرہ نے آنکھ اٹھا کر اپر دیکھا. سامنے کھڑا شخص دولہے کے دوستوں میں سے ایک تھا.

"جی کوئی کام ہے آپ کو؟" بریرہ نے سخت لہجے میں پوچھا

"نہیں بس پہچان کروانا چاہتا ہو...آئی ایم تیمور" اس نے ہاتھ آگے بڑھایا.

"جی بہتر.." بریرہ نے ہاتھ ملایا. 

"آپ کا نام؟"  دور کھڑے سبحان کی نظر ان دونوں پہ پڑی. وہ فورًا سے ان دونوں کے پاس آیا

"آپ نے اپنا نام نہیں بتایا؟"

"بریرہ.. اور میں سبحان ہوں" سبحان نے آتے ہی جواب دیا. بریرہ نے اسکی طرف دیکھا. پتہ نہیں یہ کہاں سے آگیا تھا.

"او..اچھا" تیمور کے چہرے کا رنگ بدلا.

"میں آتی ہو آپ دونوں باتیں کریں" بریرہ کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

"جی آپ کو کوئی کام ہے" سبحان نے پوچھا.

"نہیں نہیں.." وہ کہتا ہوا وہاں سے گیا. اسکی غرض صرف بریرہ سے تھی اور سبحان کا مقصد اسی لڑکی کی حفاظت تھا کیونکہ وہ تیمور کی غلیظ نظروں کو دیکھ چکا تھا. وہ چاہتا تھا بریرہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے. فنکشن کے ہر لمحے سبحان نے تیمور پہ نظر رکھی. وہ ڈھیٹ پورے فنکشن میں بریرہ کو ہی تاڑتا رہا لیکن پاس جانے کی جرأت نہ کی. شاید وہ کسی موقعے کی تلاش میں تھا. اتنے میں رخصتی کا وقت آیا. سکینہ بیگم کی لاڈلی رخصت ہونے والی تھی. زینب کے ساتھ ساتھ اسکے ماں باپ کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں. ڈی جے نے موقع کی مناسبت سے گانا لگایا

"انگلی پکڑ کے تو نے چلنا سکھایا تھا نہ دہلیز اونچی ہے یہ پار کرا دے" بریرہ جسکی پہلے ہی دوست کی رخصتی پہ آنکھیں نم تھیں گانا سن کر اسکی آنکھیں اور ہی نم ہو گئیں. اسکو اپنے بابا کی یاد آئی. انہوں نے اسے چلنا سکھایا تھا لیکن اب وہ اسکی کسی مصیبت میں کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے. وہ اس جہاں سے جا چکے تھے.

"بابا میں میں تیری ملکہ ٹکڑا ہوں تیرے دل کا ایک بار پھر سے دہلیز پار کرا دے" باپ کے غم میں وہ اور ہی نڈھال ہو گئی. اسکی آنکھوں سے آنسو آنے لگے. وہ سب کی نظروں سے بچ کر دور کسی کونے میں جا کر رونے لگی. باپ کے ساتھ بتایا ہوا وہ وقت اسے یاد آنے لگا. وہ یادیں اسکے ذہن میں چھبنے لگیں. پتہ نہیں کیوں اسے بار بار ٹھوکر لگتی تھی اور وہ پھر سے اپنے ماضی کو یاد کرنے پہ مجبور ہو جاتی تھی. وہ تنہا بیٹھی خود کو تسلیاں دینے لگی.

           اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

          راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

_____________

بریرہ باپ کے غم میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی. بارات ہال سے جا چکی تھی. وہ اکیلی ہال میں بیٹھی رو رہی تھی. 

تیمور اسی وقت ہال کے اندر کچھ لینے کے لئے آیا. اسے کسی لڑکی کی سسکیوں کی آواز آئی. اس نے ہال میں نظر گھمائی. کونے میں بیٹھی بریرہ اسے روتے ہوئے نظر آئی. اسکا شیطانی دماغ چلنے لگا. ایک تو ہال میں کوئی نہیں تھا اور بارات والے بھی بس نکلنے والے تھے. موقع اچھا تھا اور وہ موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لئے آگے بڑھا.

"بریرہ آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں؟" اسکی غلیظ نظریں ابھی بھی بریرہ پہ تھیں..

"وہ.. کچھ نہیں" بریرہ اسکو دیکھ کر تھورا سا سہمی

"آپ تو رو بھی رہی ہیں... " اس نے اسکے چہرے کو چھوہا. بریرہ پیچھے ہوئی.

"کیا ہوا.. میں ڈرانا نہیں چاہتا تھا.." وہ اسے اپنے اعتماد میں لینا چاہتا تھا تا کہ وہ اسے اپنے گھر تک لے جا سکے اور اپنی غرض پوری کرے. 

"آپ یہاں سے چلے جائیں" 

"کیسے جاؤں آپ کو ہی دھونڈتا ڈھونڈتا یہاں آیا ہوں" 

"مطلب؟" بریرہ کی آنکھیں بڑی ہوئیں.

"بارات والے سب جا چکے ہیں میں آپ کو لینے آیا ہوں... آپکی دوست نے کہا کہ آپ کو ڈراپ کر دوں" اس نے جھوٹ بولا.

"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا زینب مجھے کبھی کسی انجان کے ساتھ چھوڑ کر نہیں جائے گی.. آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے" وہ کافی دھوکے کھا چکی تھی اسلئے وہ اب عقل سے کام لیتی تھی.

"ہم انجان تو نہیں ہیں.." اسکی نظریں بریرہ پر ہی تھیں. ایسا لگ رہا تھا وہ اسے کھا جائے گا. تیمور کی نظریں اس قدر غلیظ تھیں کہ ان سے ہی اسکے ناپاک ارادوں کا پتہ لگ رہا تھا. وہ ڈھیٹوں کی طرح اسے تاڑ رہا تھا. بریرہ نے بھی اسکی نظروں پہ غور کیا اور اگلے ہی لمہے اسے دھکا دیا

"ہٹو میرے راستے سے..." وہ جانے لگی کے اس غلیظ شخص نے اسکا ہاتھ پکڑا

"اتنی جلدی تو نہیں جانے دونگا"

"میرا ہاتھ چھوڑو.. " بریرہ غصے سے چلائی.

" صبر..چھوڑ دیتا ہوں" وہ اسکے کافی قریب ہوا. بریرہ نے دوسرے ہاتھ سے اسکو تھپڑ رسید کیا. تھپڑ پڑتے ہی وہ اور ہی آگ بگولا ہو گیا.

"غلط کر دیا بریرہ... اب اپنا ہال دیکھو" اس نے بریرہ کا ہاتھ کھینچ کر اسے قریب کیا اور اپنے کندھے پہ اٹھایا.

"چھوڑ دو مجھے" وہ غصے میں تھی اور آنکھوں سے آنسو بھی آرہے تھے. پتہ نہیں اب اسکا کیا ہو گا. اس نے ہاتھوں کے ذریعے خود کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوئی. کیونکہ اس میں تیمور جیسی طاقت نہیں تھی. وہ کمینہ شخص اسکو ہال کے پچھلے دروازے سے کسی اور ہی گلی میں لے گیا. اس نے بریرہ کو اتارا. بریرہ عین اسی وقت وہاں سے بھاگی لیکن دیوار سے ٹکرا گئی. اندھیرے میں اسے دیوار دکھی ہی نہیں. اسکے تینوں اطراف دیوار تھی. بھاگنے کا راستہ ایک ہی طرف سے تھا لیکن وہاں تیمور کھڑا تھا. وہ بھاگ نہیں سکتی تھی. وہ چیخی گڑگڑائی

 "خدا کا واسطہ میرے قریب نہیں آنا" لیکن تیمور پہ کوئی اثر نہ ہوا وہ اسی کی طرف بڑھ رہا تھا. 

                       *********************

سبحان گاڑی کے پاس کھڑا زینب سے باتیں کر رہا تھا. وہ  تھوڑی دیر میں رخصت ہونی والی تھی. باتوں کے دوران بھی زینب کی نظر چاروں طرف گھوم رہی تھی. 

"سبحان دیکھو تو ذرا بریرہ کدھر ہے... میں اسکے لئے رکی ہوئی ہوں"

"معلوم نہیں.. نظر تو نہیں آرہی" سبحان نے اِدھر اُدھر دیکھا.

" کب سے نہیں دیکھا اسے میں نے" زینب کو فکر ہوئی. یہ بات سن کر سبحان بھی پریشان ہو گیا. اس نے دوبارہ ہر کسی پہ نظر دوڑائی. بریرہ سچ میں وہاں موجود نہیں تھی.

"ایک کام کرو تم جاؤ.. میں اسے ڈھونڈتا ہوں"

"نہیں میں اُسے ملے بغیر نہیں جاؤں گی"

"زینب... بارات پہلے ہی کافی لیٹ ہو گئی ہے... تم جاؤ میں تمہاری کال پر بات کروا دوں گا اس سے"

"نہیں نہ" وہ ضد کرنے لگی.

"اچھا میں اسے تم سے ملوانے لے آؤں گا " سبحان نے سوچ کر بولا

"ٹھیک ہے نہ زینب.. رات کے یارہ بج چکے ہمیں جانا چاہئے اب" ساتھ بیٹھے دولہے نے زینب سے کہا.

"اچھا.. لیکن سبحان اسکا خیال رکھنا اور جب مل جائے تو کال کر دینا مجھے"

"اوکے فکر نہیں کرو.. بھروسہ رکھو مجھ پر"

"بھروسہ ہے تم پر" سبحان جواباً مسکرایا اور وہاں سے چلا گیا. آگے بڑھا تو اسے دولہے کے دوستوں کی ٹولی نظر آئی لیکن اس میں تیمور نہیں تھا. سبحان کا سر ہی چکرا گیا. وہ پورے فنکشن میں اسکی حفاظت کرتا رہا لیکن آخر میں کیسے چوک گیا. وہ اس کمینے شخص کی نظروں سے ہی اسکے اندر کی غلاظت کو پہچان گیا تھا پھر کیوں اس نے بریرہ کو اکیلا چھوڑ دیا. وہ ہمت کر کے آگے بڑھا تا کہ دولہے کے دوستوں سے پوچھے کہ تیمور کدھر ہے. شاید وہ انکے ساتھ ہی ہو. اس نے وہاں پہنچتے ہی سوال کیا.

"تیمور کدھر ہے؟" باتوں میں مصروف وہ سب پیچھے سبحان کی طرف مڑے.

"وہ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے اندر گیا تھا لیکن اب تک واپس نہیں آیا" سبحان کو لگا اسکے پاؤں سے زمین ہی سرک گئی. بریرہ بھی کتنے وقت سے غائب تھی. وہ کچھ کہے بغیر ہال کے اندر بھاگا. لیکن ہال میں کوئی نہیں تھا. وہ اور ہی پریشان ہو گیا.

"اللہ کرے بریرہ ٹھیک ہو"

"اے میرے رب بریرہ کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو" اس نے دل  ہی دل میں دعا کی. دور سے چمکتی ہوئی چیز اسے نظر آئی. وہ اسکے پاس گیا. لال رنگ کی بندی زمین پہ پڑی ہوئی تھی. سبحان نے بندی کو فورًا اٹھایا اور بریرہ کا چہرہ اسکے آنکھوں کے سامنے آیا. یہ لال رنگ کی بندی وہ کیسے بھول سکتا تھا. وہ آج کتنی پیاری لگ رہی تھی اس میں. یہ اسکے ماتھے پہ ہی اچھی لگتی تھی ایسے نیچے گری ہوئی نہیں. "اللہ کرے وہ ٹھیک ہو" اسکے لبوں سے پھر سے دعا نکلی. بِندی کو پا کر اسکا شک بھی یقین میں بدل گیا. تیمور ہی اسے کہیں لے کر گیا تھا. لیکن کہاں؟ سوچتے سوچتے اس نے اوپر دیکھا. سامنے ایک دروازہ نظر آیا.

"شٹ میں اس پیچھے والے دروازہ کو کیسے بھول گیا" وہ جلدی سے اس دروازے سے باہر نکلا. باہر اندھیرا ہی اندھیرا تھا. اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا. اس نے موبائل کی لائٹ لگائی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا. بریرہ کا نام ونشان نہیں نظر آرہا تھا. وہ نا امید ہو گیا. اسے لگا اس نے بریرہ کو کھو دیا. عین اسی وقت اسکے کانوں میں آواز آئی

"خدا کا واسطہ ہے میرے قریب نہیں آنا" یہ تو بریرہ کی آواز تھی جو قریب سے ہی آرہی تھی. سبحان نے اپنا ہوش سنھبالا اور آگے بڑھا. اسے بریرہ کو بچانا تھا.

                       ****************

تیمور بریرہ کے سامنے کھڑا تھا. وہ اسے گھور رہا تھا. بریرہ سہمی ہوئی تھی. ساتھ ہی اسکے لبوں پہ ایک ہی التجا تھی. "مجھے چھوڑ دو" لیکن اس سنگ دل انسان نے اسکی ایک نہ سنی. اس نے جھٹ سے بریرہ کا دوپٹہ کھینچا اور بریرہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا. نہ جانے اسکا کیا ہو گا. وہ پہلی ہی بہت سی تکلیفیں برداشت کر چکی تھی. اب اسکے سر پہ ایک اور مصیبت کھڑی تھی. اسکے آنکھوں میں آنسو آرہے تھے. کاش وہ  لڑکا ہوتی اپنی حفاظت تو کر سکتی. وہ اس کمینے شخص کے سامنے بے بس تھی. ڈوپٹہ اتار کر وہ جونہی اسکے قریب آیا بریرہ کو لگا اس کا سانس ہی نکل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا کسی نے اس کمینے شخص کو آگے بڑھنے سے روک لیا. 

"اب اس سے آگے نہیں بڑھنا تیمور" سبحان نے تیمور کو دھکا دے کر بریرہ سے پیچھے کیا. بریرہ نے آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا. سبحان میں اسکو ایک مسیحا نظر آیا. وہ صحیح وقت پہ اسکی عزت بچانے آیا تھا.

"ہٹ جاؤ میرے راستے سے تم" تیمور نے پوری قوت لگا کر سبحان کو دھکا دیا. وہ جا کر دیوار کے ساتھ لگا.

"دیکھو میں لڑنا..." اسکے جملے سے پہلے ہی تیمور نے اسے مکہ دے مارا. سبحان کو غصہ آیا. اس کے اندر کا شیر جاگا. اس نے تیمور کو کالر سے پکڑا اور ایک ساتھ تین چار مکے مارے. اس کے فوراً بعد سبحان نے اسے لات ماری اور یہ جملہ کہا.

"دوسری عورتوں کی زندگیاں خراب کر کے خود کے لئے پاک بیویاں تلاش کرتے ہو.. کمال کرتے ہو.." تیمور مار کھا کھا کر دیوار کے ساتھ لگا. سبحان اسکے پاس آیا اور پھر سے اسکا کالر پکڑ کر اپنے قریب کیا.

"مرد ہو تم...تمہاری ہستی کا اتنا تو رعب ہو کہ پاس سے گزرے کوئی عورت تو وہ بے خوف ہو...سمجھے"  سبحان نے تیمور کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر سے ایک جملہ کہا

"آئندہ بریرہ تو کیا میں تمہیں کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرتے نہ دیکھوں..." اس نے تیمور کا کالر چھوڑا اور پیچھے ہوا. اسکی نظر بریرہ کے ڈوپٹے پہ پڑی جو لڑائی کے دوران تیمور کے ہاتھ سے پھسل گیا تھا. اس نے دوپٹہ اٹھایا اور بریرہ کی طرف گیا. وہ ڈری ہوئی تھی. ساتھ خوش بھی تھی. اسکی عزت بچ گئی تھی. اللہ نے صحیح وقت پہ سبحان کو بھیجا تھا. سبحان نے اسے دوپٹہ پکڑایا لیکن وہ تو کہیں خیالوں میں گم تھی اس لئے اس نے خود آگے ہو کر اسے سر پہ دوپٹہ کروایا. 

"چلیں بریرہ؟"

"جی" وہ اس وقت اتنا ہی کہہ سکتی تھی.

وہ آہستہ آہستہ چلتے ہال میں آگئے. بریرہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھا وہ کیسے سبحان کا شکریہ ادا کرے. اس نے ہمت کر کے سبحان کو اپنی طرف راغب کیا.

"سبحان" 

"بولو" سبحان اسکی طرف مڑا. بریرہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا. اسے اپنا مسیحا نظر آیا. اس عظیم شخص نے اسکی عزت بچا کر اس کا لڑکوں کے متعلق نقطہ نظر ہی بدل دیا تھا. ذیشان اور تیمور کو دیکھ کر وہ سمجھتی تھی کہ لڑکوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے مگر سبحان بھی ایک لڑکا تھا. وہ ان جیسا ہر گز نہیں تھا. اس کی آنکھوں سے اس کے دل کی صفائی جھلکتی تھی. جو غرض اس نے تیمور اور ذیشان کی آنکھوں میں دیکھی تھی سبحان کی آنکھیں اس سے بالکل پاک تھیں. آج اس نے جانا تھا دنیا میں اچھے برے انسان سب ہوتے ہیں ایسے ہی نہیں کہتے کہ "پانچھوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں" اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہی بریرہ کی بولتی بند ہوئی لیکن آنکھوں سے آنسو برسنے لگے. وہ اسے شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن لبوں پر الفاظ ہی نہیں آ رہے تھے. وہ عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھی. سبحان نے اس پہ بہت بڑا احسان کیا تھا جو وہ کبھی نہیں بھولے گی

"بریرہ تم رو رہی...." اس کے کہنے سے پہلے ہی اس روتی لڑکی نے اسے گلے لگا لیا. سبحان حیران ہوا لیکن اسے جھڑکا نہیں. اسے اس وقت سہارے کی ضرورت تھی.

"سبحان تھینک یو سو مچ" وہ آنکھوں میں دیکھ کر نہیں بول پا رہی تھی اسلئے اس نے کندھے پہ سر رکھے بولا تھا.

"کوئی بات نہیں بریرہ" 

"تم نہیں جانتے تم نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے" 

"احسان نہیں کیا... ایک لڑکی کی عزت بچانا میرا فرض تھا" اس نے بریرہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا. بریرہ جواباً کچھ نہ بول پائی. وہ اس وقت اس سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہی تھی. بریرہ کو عجیب لگ رہا تھا پتہ نہیں وہ کیوں اسکے گلے لگ گئی تھی.

بریرہ زینب پریشان تھی تمہارے لئے.. میں اسے کال کرتا ہوں تم بات کر لو اس سے" بریرہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر سبحان کو لگا کہ دوست سے بات کرے گی تو ٹھیک ہو جائے گی.

"او.کے" وہ ابھی بھی نیچے دیکھ رہی تھی

سبحان  نے زینب کو فون ملایا. تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد اس نے بریرہ کو فون تھما دیا. 

"ہیلو.." بریرہ نے خود پر قابو رکھتے ہوئے کال اٹینڈ کی

"کیسی ہو بریرہ"

"میں ٹھیک..تم؟"

"میں بھی ٹھیک ہوں.. میری طرف آ جاؤ" 

"نہیں زینب میں بہت تھکی ہوئی ہوں" اسکی آواز میں کپکپاہٹ تھی جو زینب سمجھ چکی تھی.

"چلو کوئی بات نہیں ویسے بھی ولیمے پہ ملاقات ہو جائے گی.. خیال رکھنا اپنا...ذرا سبحان کو فون دو"  

"او کے" اس نے کہتے ہی سبحان کو فون پکڑایا.

"سبحان اس کا خیال رکھنا... پلیز" زینب بریرہ کے لئے پریشان تھی.

"بے فکر رہو... رکھوں گا" زینب نے جواب سن کر فون کاٹ دیا تھا. وہ بریرہ کے لئے اداس تھی. سبحان کے کہنے پہ اس نے بریرہ سے کوئی سوال بھی نہیں کیا کہ وہ کہاں تھی. وہ سمجھ دار تھی اسے معلوم تھا کہ اگر سبحان نے منع کر دیا تھا پوچھنے سے تو کوئی معمولی بات نہیں بڑی بات تھی.بریرہ کی زندگی میں پہلے کچھ ٹھیک نہیں تھا. وہ اس سے اس بات کا تذکرہ کر کے اور ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی. اس وقت تو بالکل بھی نہیں.

"بریرہ گھر چلیں" کال بند ہوتے ہی وہ بریرہ سے مخاطب ہوا.

"آپ مجھے میرے ہاسٹل لے جائیں گے"

"ہاسٹل اس وقت" وہ حیران ہوا.

"پلیز میں کچھ وقت وہاں گزارنا چاہتی ہوں" اس نے سبحان سے التجا کی. 

"اچھا ٹھیک ہے" سبحان اسکی آنکھوں سے ہی قائل ہو گیا. 

فورًا ہی وہ دونوں بریرہ کے ہاسٹل کے لئے نکل گئے .بریرہ گاڑی میں بیٹھی اسے ساتھ ساتھ رستہ بتا رہی تھی وہ خاموش بیٹھا گاڑی چلانے میں مصروف تھا. یہ وہی گاڑی تھی جس پہ وہ مہندی والی رات ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا. گاڑی آہستہ آواز میں سنسان سڑک پر چل رہی تھی

                          *****************

بریرہ اپنے صندوق کے پاس بیٹھی تھی. ہاتھوں میں ایک بے جان تصویر پکڑی ہوئی تھی. آدھے گھنٹے سے وہ اسی تصویر کو گھورے جا رہی تھی. سبحان اسکے پاس ہی کھڑا اسے نوٹ کر رہا تھا. بریرہ نے ایک لمحہ بھی اس تصویر سے نظریں نہیں ہٹائیں. سبحان نے آگے ہو کر اس تصویر کو دیکھنا چاہا. تصویر میں چار لوگ کھڑے تھے. ساڑھی میں ملبوس ایک پروقار خاتون. انکے کندھوں پہ ایک رعب دار شخص نے ہاتھ رکھا ہوا تھا. پاس ایک لمبا سا اٹھارہ انیس برس کا نوجوان کھڑا تھا جسکے ہاتھ میں چھوٹی سی بچی اٹھائی ہوئی تھی. دو پونیوں میں وہ بالکل گڑیا کی طرح لگ رہی تھی. بریرہ اب تک ایسے ہی چھوٹی گڑیا کی طرح دیکھتی تھی. وہ بچپن والی معصومیت اب تک چہرے پہ واضح تھی. اسکے ساتھ ساتھ اسکی شکل بالکل ماں پہ تھی. سبحان کو افسوس ہوا. بریرہ اپنی فیملی کی وجہ سے اس قدر بجھی بجھی رہتی تھی. پر نہ جانے اسکی فیملی کے ساتھ کیا ہوا تھا. سبحان سوچنے پہ مجبور ہو گیا. لیکن اس وقت وہ بریرہ سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی اسکی آنکھوں میں چھپے آنسوؤں کو دیکھ چکا تھا.

                 میری قسمت میں گر غم اتنا تھا 

                 تو دل بھی یا رب کئی دیئے ہوتے 

                  --------------------------------------------

وہ ہاتھوں میں تصویر پکڑے اسے کب سے تک رہی تھی. ایک آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر اپنی ماں کے لال ڈوپٹے پہ گرا. کس قدر بے بس تھی وہ آج اسے صحیح معنوں میں پتہ لگا تھا. وہ چاہ کر بھی اپنی فیملی کو مل نہیں سکتی تھی نہ انہیں چلتا پھرتا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتی تھی. ماں باپ کے پیار کے ساتھ ساتھ وہ بھائی کے پیار سے بھی محروم تھی. باری باری کر کے سب اس سے جدا ہو گئے تھے. پھر ذیشان اسکی زندگی میں آیا تھا. لیکن وہ بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا. بریرہ کو اس وقت سہارے کی ضرورت تھی. اس نے ایک نظر اوپر اٹھا کر دیکھا. سامنے کھڑا لڑکا پریشان لگ رہا تھا. اسکی آنکھوں میں افسردگی چھائی ہوئی تھی. بریرہ جو اس وقت سے اسی حال میں بیٹھی اسے سبحان کی موجودگی کا احساس نہ ہوا لیکن اب جا کر وہ ہوش میں آئی تو خبر ہوئی کہ وہ کس وقت سے بریرہ کے لئے پریشان تھا. اسے افسوس ہوا. وہ اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی. 

"سبحان" بریرہ کے بلانے پہ وہ چونکا

"ہم" 

"اب گھر چلتے ہیں" 

"اوکے" وہ کہتا ہوا باہر چلا گیا. وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا. بریرہ نے ایک آخری نظر تصویر پہ ڈالی. اس کے فورًا بعد اس نے اسے اسی صندوق میں بند کر دیا اور ہاسٹل کے کمرے سے نکلی. کون جانے کہ وہ صندوق اب کتنے سالوں بعد کھلے گا. وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی تیز رفتار سے آگے بڑھنے لگی.

                       *****************

بریرہ سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسکا ذہن کہیں اور ہی اٹکا ہوا تھا. وہ ایک ایک پل اسکی نظروں کے سامنے سے گزر رہا تھا جو اس نے سبحان کے ساتھ گزارا تھا. وہ جونہی آنکھیں بند کرتی تھی سبحان کا چہرہ آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگتا تھا. وہ سارے سین اسکی آنکھوں کے سامنے تیزی سے گزر رہے تھے. وہ راستے میں بھی اور اب تک اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی. 

"اچھی صورت کو سنورنے کی ضرورت کیا ہے...سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے" لبوں پہ مسکرہٹ لئے سبحان کا بولتا ہوا چہرہ بریرہ کو یاد آیا. وہ مسکرائی. اسے اسکا یہ ڈائیلاگ اچھا لگنے لگا.

"اگر آپ برا نہ مانیں تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کیوں رو رہی ہیں؟" سبحان پھر سے اسکے سامنے آیا. اسکی آنکھوں کی سچائی بریرہ نے محسوس کی.

"کہا نہ چائے نہیں پیتا". بریرہ کا منہ بنا. "پتہ نہیں اس نے مجھ پہ غصہ کیوں کیا تھا" اس نے خیالوں میں ہی سوچا.

"اب اس سے آگے نہیں بڑھنا تیمور" اسکی دلیری بہادری.. بریرہ اُسی کے بارے میں سوچ رہی تھی. باری باری سب اسکی نظروں سے گزر رہا تھا. 

"دوسری عورتوں کی زندگیاں خراب کر کے خود کے لئے پاک بیویاں تلاش کرتے ہو.. کمال کرتے ہو.." 

"مرد ہو تم...تمہاری ہستی کا اتنا تو رعب ہو کہ پاس سے گزرے کوئی عورت تو وہ بے خوف ہو...سمجھے" بریرہ کو اس نے جتنی بہادری سے بچایا تھا. اسے وہ سب یاد آرہا. اسکی حواسوں پہ سبحان ہی سوار تھا. اگلے ہی لمحے وہ سین اسکے ذہن میں ایا. سر پہ گلاب برس رہے تھے. وہ کانوں میں میٹھی اریجیت سنگھ (Arijit Singh) کی آواز "یہ لال عشق..یہ ملال عشق" بریرہ کے گال سرخ ہو گئے. وہ پھر سے ان نیلی آنکھوں میں ڈوب گئ

                       آپ سمندر کی بات کرتے ہو

                   لوگ آنکھوں میں ڈوب جاتے ہیں

اسکی نیلی آنکھوں میں آج ہی بریرہ کے لئے پریشانی تھی. پتہ نہیں سبحان کے دل میں کیا چل رہا تھا بریرہ نے سوچا. اسی لمحے بریرہ کو وہ گلے لگنے والی بات یاد آئی. وہ مسکرائی. اسے اپنی حرکت پہ پیار آیا. اس نے دونوں ہاتھ اپنے منہ پہ رکھے. وہ شرما رہی تھی. سوچتے سوچتے رات گزر گئی تھی. شکر سے کوئی تو آ گیا تھا جسکی وجہ سے بریرہ اب مسکرانے لگی تھی.

                       *******************

سبحان پینٹ کوٹ پہنے آئینے کے سامنے اپنا جائزہ لے رہا تھا. ولیمہ دن کا تھا اور وہ تیار ہو چکا تھا. اتنے میں سکینہ بیگم اسکے کمرے کے پاس سے گزریں. سبحان پہ انکی نظر پڑی.

"سبحان بیٹا؟"

"جی"

"ذرا بریرہ کو کمرے سے بلا لاؤ" 

"اوکے میں بلا لاتا ہوں"

"ٹھیک ہے...ہم لوگ تم دونوں کا گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں" سبحان نے سر کو جنبش دی اور بریرہ کے کمرے تک بڑھنے لگا.

                      ******************

بریرہ آئینے کے سامنے کھڑی راڈ سے اپنے بال رول کر رہی تھی. آج اسکا موڈ بےحد اچھا تھا. وہ صبح سے کمرے میں ہی گھوم پھر رہی تھی. بار بار لبوں پہ مسکراہٹ آ جاتی تھی. گنگنانے کا دل کرتا تھا. اس بدلاؤ کی وجہ صرف اور صرف سبحان تھا. اسکی نظر خود پہ پڑی. ہلکے ہرے رنگ کی میکسی اور ساتھ سافٹ سافٹ میک اپ اسے آج وہ خود بھی حسین لگ رہی تھی. اس نے شیشے میں دیکھ کر گلابی لپسٹک لگائی اور ساتھ گنگنانے لگی

"میری راہیں تیری تک ہیں.. تجھ پہ ہی تو میرا حق ہے" اس نے آئینے میں دیکھ کر مسکارہ لگایا.

"عشق میرا تو بیشک ہے.. تجھ پہ ہی تو میرا حق ہے" بریرہ مزے سے گا رہی تھی

"ساتھ چھوڑوں گا نہ.. نہ تیرے پیچھے آؤں گا" مردانہ آواز سن کر وہ چونکی. وہ ایک دم پیچھے مڑی. سبحان گاتا ہوا کمرے کے اندر آ رہا تھا. 

"چھین لونگا یا خدا سے منانگ لاؤں گا" اس کی آواز بھی بےحد خوبصورت تھی

"تیرے نال تقدیراں لکھواؤں گا" وہ گاتا ہوا بریرہ کے بالکل پاس آ گیا.

 "میں تیرا بن جاؤنگا" اس نے بریرہ کی آنکھوں میں ڈال کر بولا. بریرہ اس سے نظریں نہ ملا پائی. وہ نیچے دیکھنے لگی. وہ شرما رہی تھی.

"یہ میرا فیوریٹ گانا ہے.. " سبحان کی آواز سن کر اس نے اوپر دیکھا.

"ویسے تمہاری آواز بہت پیاری ہے" بریرہ تعریف سن کر بھی چپ رہی اس سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا. سبحان نے اسکی خاموشی محسوس کی.

"اچھا چلو... سب بلا رہے ہیں... اگر تیار ہو گئی ہو تو آ جاؤ" اس نے جواباً سر ہلایا. سبحان اسکا جواب سمجھ گیا اور آگے جانے لگا. بریرہ بھی اسکے پیچھے پیچھے آنے لگی.

                          ****************   

 ولیمے کا فنکشن کافی شاندار تھا. بریرہ زینب کے پاس ہی بیٹھی اس سے گپیں لگا رہی تھی. زینب خوش تھی کیونکہ بریرہ اسے کافی سیٹ لگ رہی تھی.

"کیسی ہو زینب...  بتاؤ منہ دکھائی میں کیا ملا" بریرہ اس سے مخاطب ہوئی. 

"منہ دکھائی میں نیکلس دیا تمہارے جیجو نے" 

"آئے ہائے" بریرہ نے کہنی مار کر اسے تنگ کیا اور وہ شرمانے لگی. بریرہ کا انداز بالکل الگ تھا.

"ہٹو تنگ نہ کرو... سبحان" زینب نے پاس گزرتے سبحان کو بلا کر بات گول کی. سبحان کا نام سن کر بریرہ کی بولتی بند ہو گئی. 

"ہاں بولو" وہ سٹیج پہ آیا.

"کل تم دونوں میرے سسرال آنا" 

"کیوں؟" سبحان نے پوچھا.

"کیوں کیا.. ناشتہ لے کر آنا میرے لئے... میں تم دونوں کو اپنا کمرہ دکھاؤں گی"

"اچھا ٹھیک ہے.." سبحان مسکرا کر بولا.

"ٹھیک ہے نہ بریرہ؟" زینب اسکی طرف مڑی.

"ہم.." اس نے سر ہلایا. زینب نے اسکی خاموشی نوٹ کی. پہلے تو وہ اتنا بول رہی تھی سبحان کے آتے ہی اسے چپ لگ گئی تھی. باقی کا فنکشن اچھے سے گیا. بریرہ زینب کے پاس پی بیٹھی رہی. زینب نے اسں سے کل کے واقعے کا ذکر ہی نہ کیا. وہ اسکا موڈ نہیں خراب کرنا چاہتی تھی. وہ کتنے وقت کے بعد اس طرح کھلی تھی. پورے فنکشن میں بریرہ زینب کے ساتھ گپیں لگاتی رہی لیکن نظریں اسکی سبحان پہ تھیں جو ہال میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا. زینب نے کئی بار نوٹس کیا لیکن سمجھ نہ پائی وہ کسے دیکھ رہی تھی. تیمور بھی آج بریرہ سے دور دور تھا. وہ بریرہ کے پاس بھی نہ بھٹکا. وہ سبحان کی بات اچھے سے سمجھ گیا تھا.

فنکشن ختم ہو چکا تھا اور اب سب گھر میں تھے. سبحان اپنے بیڈ پہ لیٹا فنکشن میں ہوئی ایک ایک چیز کو یاد کر رہا تھا. اسے بریرہ کا انداز بہت عجیب لگا تھا. اس نے کتنی بار بریرہ کی نظریں خود پہ محسوس کی تھیں. پھر وہ گانے والی بات اسے یاد آئی. سبحان کے آتے ہی بریرہ کی بولتی بند ہوئی تھی. لیکن اس کی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں. سبحان کو ڈر لگا. "کہیں بریرہ اس سے پیار تو نہیں کرنے لگی تھی؟" 

"میں بھی پاگل ہوں...میں نے پتہ نہیں کیوں وہ گانا گا دیا.. پتہ نہیں وہ دل میں کیا کیا سوچ رہی ہو گی" 

"میں نے ہمیشہ اپنے دوستوں سے ایک سپیس رکھی لیکن بریرہ سے وہ سپیس کیوں نہیں قائم ہو رہی؟" وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا.

"بریرہ میری دوست بھی تو نہیں.. پتہ نہیں وہ کیا لگتی ہے میری.."

"کیوں کھیچا چلا جاتا ہوں اسکی طرف"

"مجھے فاصلہ رکھنا چاہیئے اس سے..  میں ان چیزوں میں نہیں پڑ سکتا"

"زینب بھی میری بہترین دوست ہے لیکن میں نے اس سے بھی فاصلہ رکھا.. نہ جابے بریرہ سے کیوں نہیں رکھ پا ریا ہوں" وہ گہری سوچ میں مبتلا تھا. پھر اسے زینب کی بات یاد آئی.

"اب کل زینب نے بلایا ہے.. بریرہ کو بھی ساتھ لے جانا ہے.. زینب کو ٹھکرا بھی نہیں سکتا...کیا کروں؟"

"ہاں میں بریرہ کو نظر انداز کروں گا... سمجھدار ہے سمجھ جائے گی کہ میں پیار نہیں کرتا اس سے" اس نے بریرہ سے دور رہنے کی ترقیب سوچی.

"پر کیا میں واقعی نہیں کرتا؟" اس نے خود سے سوال کیا. لیکن جواب اسکے پاس نہیں تھا...

                    *********************

وہ جیولری اور کپڑے وغیرہ بدل کر بیڈ پہ بیٹھی. اس نے سوچا تھوڑا سا آرام کر لوں. وہ کافی تھک گئی تھی. سونے کے لئے آنکھیں بند کیں مگر نیند کی دیوی اس پہ مہربان نہ ہوئی. بریرہ نے اپنا موبائل اٹھا لیا. وہ اپنی پلےلسٹ میں گئی. پلےلسٹ پہ نظریں دوڑا کر اسے صدمہ ہوا. ذیشان کے جانے کے بعد سے اسکی پلے لسٹ سید (sad) سونگز سے بھری پڑی تھی. اس نے فورُا سے پہلے ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر ساری کی ساری پلےلسٹ کلیر کر دی. کانوں میں ایک ہی گانے کی آواز تھی. اس نے نیٹ لگا کر یوٹیوب پہ وہی گانا چلایا.

"میری راہیں تیرے تک ہیں.. تجھ پے ہی تو میرا حق ہے"

گانے کی شروعات پہ ہی وہ مسکرائی. ایک نئی یاد جڑ گئی تھی اس گانے کے ساتھ..

"میں تیرا بن جاؤں گا" یہ لائن کانوں میں پڑتے ہی بریرہ کو سبحان کی مسکراتی صورت نظر آئی. اسے اب بھی لگ رہا تھا کہ وہی اس کے لئے گانا گا رہا تھا. 

"میں تیرا بن جاؤنگا.." بریرہ نے ہلکی آواز میں گانے کی لائن کو دہرایا.

"وہ میرا بن جائے گا" بریرہ کے ذہن میں خیال آیا. اس نے دونوں ہاتھ اپنے گالوں پہ رکھے. گال شرم کی وجہ سے سرخ پڑ گئے تھے. ایک نرم گوشہ سبحان کے لئے اس کے دل میں بننے لگا تھا. وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا. ایک بار پھر سے اسے محبت ہو رہی تھی یا شاید پہلی بار ہی ہو رہی  تھی.کیونکہ یہ احساس اسے ذیشان کے وقت کبھی نہ ہوا تھا. وہ سوچتے سوچتے گہری نیند سو گئی.

_____________

سبحان اپنے کمرے میں بیٹھا موبائل فون استعمال کر رہا تھا. اس نے اپنی ماں کو کال ملائی.

"اسلام علیکم امی"

"وعلیکم اسلام.. آج کیسی میری یاد آگئی؟" ماں کی آواز سن کر سبحان کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے. اسے اپنی ماں سے بےحد لگاؤ تھا.

"بس آگئی"

"بیٹا کیا ہوا ہے" وہ ماں تھیں. وہ اپنے بیٹے کی آواز سے ہی جان گئیں کہ وہ ڈسڑب تھا.

"کچھ نہیں بس آپ کی یاد آرہی ہے.." 

"تو کب آ رہے ہو؟" انہوں نے اسکا دھیان بٹانا چاہا.

"جلد آؤں گا.. جلد..." اس نے کہتے ہی فون کاٹ دیا. آنکھوں  سے آنسو رواں دواں تھے. سبحان کو ماں کی یاد کے ساتھ ساتھ کوئی اور چیز بھی ستا رہی تھی شاید بریرہ اور اسکی محبت.. نہ جانے وہ اس سے کیوں محبت کر بیٹھی تھی. 

                    ******************

بریرہ ایک جھٹکے سے اوپر اٹھی. اسکی نیند دسٹرب ہوئی. شام کا وقت تھا اور اسے چائے کی شدیر طلب ہوئی. وہ کمرے سے باہر نکلی. سامنے ٹیبل پر اسے زینب کے والدین نظر آئے. وہ لوگ چائے کے لئے ہی بیٹھے ہوئے تھے. بریرہ آگے بڑھی اور سلام کیا. دونوں کا جواب سن کر وہ سکینہ بیگم کی پاس والی کرسی پہ بیٹھ گئی. ذہن پہ اب تک سبحان ہی سوار تھا. اس نے کپ میں چائے انڈیلی اور ساتھ سبحان کے خیالوں میں ڈوب گئی. 

"نہ جانے میں سبحان کا کیوں سوچنے لگی ہوں؟" سوچوں میں گم ہوتی ہی چائے کی پیالی کو منہ سے لگایا. 

"جب وہ قریب آتا ہے تو میری بولتی بند ہو جاتی ہے.. جب دور ہوتا ہے تو اسی کے خیال میں گم رہتی ہوں" اس نے چائے کا گھونٹ لیا. 

                  وہ پاس آئے تو موضوع گفتگو نہ ملے

               وہ دور جائے تو ساری گفتگو اسی سے ملے  

"پورے فنکشن میں اسے میں پاگلوں کی طرح گھورتی رہی" اس نے ایک اور گھونٹ لیا.

"کہیں مجھے اس سے پیار..." بریرہ کو قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی. اس نے ایک آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا. خیالوں والا بندہ ابھی اسی وقت اسکے سامنے سے گزر کر زینب کے بابا کے ساتھ جا کر بیٹھا. 

"سچ کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے.. میں اسی کا سوچ رہی تھی اور وہ سامنے آ گیا" بریرہ گھونٹ لیتے لیتے ہلکا سا مسکرائی. اس نے پھر سے ایک آنکھ اٹھا کر سبحان کو دیکھا. اسکی آنکھیں سرخ تھیں. ولیمے کی تھکاوٹ کا اثر لگ رہا تھا. اس نے کام بھی تو بہت کیا تھا. بریرہ نے سوچا

"بریرہ..." سکینہ بیگم کی آواز سن کر وہ چونکی اور سبحان سے نظریں ہٹائیں

"ج..جی" اسکی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی لیکن کسی نے نوٹس نہیں کی.

"تم جاؤ گی نہ زینب کی طرف؟"

"ہاں جی صبح"

"ہم.. کچھ گفٹ ہیں وہ زینب کو دے دینا میری طرف سے"

"اوکے" 

"چائے ختم کر کے آؤ میں تمہیں دکھا دیتی ہوں.." وہ کہتی ہوئیں وہاں سے چل دیں.

"جی.. جی ٹھیک.." بریرہ نے جلدی جلدی چائے ختم کی اور انکے پیچھے بھاگی.

                       *****************

رات کا ایک بج گیا تھا لیکن بریرہ کو نیند نہیں آ رہی تھی. وہ دن میں اتنا سو گئی تھی تو اب کہاں نیند آنی تھی. وہ خود سے ہی باتیں کرنے لگی.

"اگر محبت ہو گئی ہے مجھے.. تو میری اسکے سامنے بولتی کیوں بند ہو جاتی ہے.. "

"ذیشان کے وقت تو مجھے ایسا احساس ہی نہ ہوا.. میں اس سے محبت بھی کرتی تھی کہ نہیں..؟" وہ خود سے ہی سوال جواب کر رہی تھی.

"ذیشان" اسکی آنکھوں میں غصہ اترا

".. دفعہ کرو اسے.. اس نے اگر میرے بارے میں نہیں سوچا تو میں اسکے بارے میں کیوں سوچوں..." وہ خود کو سمجھانے لگی.

"مجھے جلدازجلد سبحان کو اپنے دل کی بات کہہ دینی چاہیئے. جب خود سے کوشش نہیں کروں گی تو کچھ نہیں ہو گا.." 

"مجھے شرمانے کے بجائے اسے دوستی کرنی چاہیئے" اگلے ہی لمحے وہ اس سے بات کرنے کی ترقیبیں سوچنے لگی.

آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اس سے مخاطب ہونے کی پریکٹس کر رہی تھی. سبحان اسے اپنا اپنا لگنے لگا تھا. وہ اسے جلدازجلد اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی تھی. اسے جینے کی وجہ مل گئی تھی.

                        ***************

صبح سویرے اٹھ کر وہ کچن میں آیا. ملازمہ نے ناشتہ تیار کر دیا تھا. وہ ناشتے کے برتنوں کو ترتیب سے رکھنے لگا. بریرہ نے بھی اسی وقت کچن میں قدم رکھا لیکن سبحان کو دیکھتے ہی وہ واپس پلٹی. دل زور زور سے دھڑک رہا تھا.

"بریرہ حوصلہ رکھو... تم جتنی مشکلات سہہ چکی ہو..اسکے سامنے یہ چھوٹا سا کام ہے.... " وہ تیز قدموں سے لبوں پہ مسکراہٹ لئے سبحان کی طرف بڑھی.

"گڈ مارنگ سبحان" 

"دیکھا مشکل کام نہیں تھا" اس نے دل میں ہی سوچا 

"گڈ مارنگ" اس نے بنا پیچھے مڑے جواب دیا. وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا لیکن بریرہ سمجھ نہ پائی تھی.

"کب جانا ہے؟" 

"ہوں..ابھی.."

"پھر میں ریڈی ہوں...چلیں.." وہ کھلکھلا کر بولی.

"اچھا آؤ" وہ نظر انداز کرتا ہوا آگے چلا گیا. بریرہ کو اس بار عجیب لگا لیکن پھر بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی. گفٹ اسکے ہاتھ میں تھے اور ناشتہ سبحان بے اٹھایا ہوا تھا. اس نے جاتے ہی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور ناشتہ وغیرہ رکھا. پھر وہ بریرہ کا انتظار کرنے لگا. بریرہ نے آتے ہی گفٹ بھی وہیں رکھ دیئے. سبحان کچھ کہے بغیر آگے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا. بریرہ بھی خاموش فرنٹ سیٹ پہ آ کر بیٹھی. اس کے بیٹھتے ہی گاڑی چلا دی گئی. گاڑی میں مکمل خاموشی تھی. بریرہ چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ پا رہی تھی. اسے سبحان کا موڈ خراب لگ رہا تھا. سبحان بھی سامنے کے شیشے سے بریرہ کو ہی نوٹس کر رہا تھا. وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے ہی دیکھتی تھی. سبحان اسے نظر انداز کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا. اب بس اس کے دل سے محبت کو نکالنا تھا. 

                     ****************

زینب اپنے گھر میں بیٹھی بریرہ اور سبحان کا ہی انتظار کر رہی تھی. جواد (زینب کا شوہر) کی کچھ کزنز بھی انہیں کے گھر ٹھہری ہوئیں تھی. وہ انہیں کے ساتھ بیٹھی گپیں لگا رہی تھی. اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی. زینب نے فورًا سے دروازہ کھولا. سامنے وہی دونوں تھے. 

"شکر ہے تم دونوں تو پہنچے.." زینب نے ملازمہ کو بلا کر ان سے سامان وغیرہ لیا.

"آؤ دونوں" وہ دونوں اندر آئے.

"زینب تمہارا گھر کتنا بڑا ہے... " سبحان زینب کے ساتھ بالکل نارمل تھا. بریرہ اس بات پہ چڑی نہ جانے اس بریرہ سے کیا ناراضگی تھی.

"ہاں نہ... " اسے جواب دے کر وہ بریرہ کی طرف مڑی.

"بریرہ کیسی ہو"

"ٹھیک.. " اسکی آواز میں غصہ تھا. وہ سبحان کو ہی دیکھ رہی تھی جو گھر کا کونا کونا دیکھنے میں مصروف تھا. زینب نے بریرہ کی نظروں کا تعاقب کیا. اسے کچھ کچھ بات سمجھ آنے لگی لیکن اس نے نظر انداز کیا.

"اچھا تم دونوں آؤ .جواد کی کزنز سے ملواتی ہوں" وہ ان دونوں کو لاؤنج میں لے گئی.

"او ہیلو گرلز.." سبحان جاتے ساتھ ہی ان جینز میں ملبوس لڑکیوں سے مخاطب ہوا. بریرہ کو غصہ آیا. وہ بلاوجہ ان سے بات کیوں کر رہا تھا.

"ہائے" تینوں نے جواب دیا. 

"ایک کام کرو تم سب بیٹھو میں ناشتہ لگوا کر تم سب کو بلواتی ہوں.." زینب کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی.

"میں تم لوگوں کے ساتھ بیٹھ جاؤں یہاں"

"ہاں ہاں آ جاؤ" سبحان کے کہنے پہ چھوٹے چھوٹے بالوں والی لڑکی نے جواب دیا.

"تمہارا نام کیا ہے؟" وہ اسی لڑکی سے مخاطب ہوا.

"جویریہ" 

"ہائے کتنا پیارا نام ہے" 

بریرہ بھی وہیں بیٹھی انہیں دونوں کو دیکھ رہی تھی. اس کی آنکھوں میں جیلسی کا عنصر نمایاں تھا. سبحان بلاوجہ اس لڑکی کے ساتھ فری ہو رہا تھا جس کی وجہ سے بریرہ تپ رہی تھی. شاید اسکی فطرت ہی ایسی تھی وہ پہلے لڑکیوں کے ساتھ فری ہوتا تھا اور پھر نظر انداز کر دیتا تھا. لڑکوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے. وہ پھر سے لڑکوں کے بارے میں الٹا سوچنے لگی. جس شخص نے اسکا ُلڑکوں کے بارے میں نظریہ بدلا تھا. اسی نے واپس وہی نظریہ پلٹ دیا تھا. بریرہ کو خود پہ افسوس ہو رہا تھا. وہ جب بھی خوشیوں کے قریب آتی تھی اداسیاں اسے پیچھے سے جکڑ لیتی تھیں.

"آ جاؤ سب ناشتہ لگ گیا ہے." زینب کی آواز سے بریرہ کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا.

"اوکے" سبحان جو جویریہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا اس نے جواب دیا. سب اٹھ کر ٹیبل پر آئے. بریرہ سبحان کو ہی نوٹس کر رہی تھی. وہ ناشتے کی ٹیبل پر بھی جویریہ کی کرسی کے ساتھ بیٹھا. وہ دونوں ابھی بھی گپیں لگا رہے تھے اور بریرہ کو کوفت ہو رہی تھی. اسے صحیح معنوں میں تکلیف ہو رہی تھی.

"اوئے آج ہم سب میکڈونلڈ (Macdonald) چلیں" سبحان سب سے مخاطب ہوا.

"ہاں اچھا آئیڈیا ہے.." جواد بولا.

"جویریہ تم چلو گی.." سبحان نے جویریہ سے پوچھا.

"ہاں ہاں کیوں نہیں.." وہ مسکرا کر بولی. بریرہ اور زیادہ تپنے لگی.

"بریرہ تم چلو گی..." بریرہ کے ساتھ بیٹھی زینب نے اس سے پوچھا.

"ہاں چلوں گی. " اس نے غصے میں اونچا سا بولا تاکہ سبحان تک آواز پہنچ پائے. سبحان نے سن کر ان سنا کر دیا. 

وہ جویریہ سے ہی گپیں لگاتا رہا.

                           **************

وہ سب میکڈونلڈ میں بیٹھے اپنے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے. سبحان جویریہ سے باتوں میں مصروف تھا. زینب بھی اپنے شوہر کو کمپنی دے رہی تھی. بریرہ اکیلی بیٹھی سبحان کو ہی دیکھ رہی تھی. فواد کی باقی دو کزنز کسی وجہ سے انکے ساتھ نہیں آ پائیں تھیں. جویریہ کو بھی سبحان اصرار کر کے اپنے ساتھ لے آیا تھا.

"سبحان تم کب تک یہاں ہو...؟" زینب سبحان سے مخاطب ہوئی.

"پرسوں لاہور کے لئے نکل جاؤں گا.." بریرہ نے سبحان کی طرف دیکھا. 

"بریرہ تم تو یہی ہو نہ؟" زینب بریرہ کی طرف مڑی.

"نہیں میں بھی چلی جاؤں گی.. میرا یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں" اس کی آواز میں بے رخی تھی. سبحان نے عین اسی وقت اسکی آنکھوں میں دیکھا. وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی. بریرہ کی آنکھوں میں پھر سے ویرانی چھا گئی تھی. آباد ہو کر وہ پھر سے برباد ہوئی تھی.

"کیا مطلب..." زینب نے پوچھا

"میرا مطلب.. تم تو ہو نہیں..  پھر کیوں رکوں؟"

"ارے یار تین چار دن رک جاؤ"

"دیکھوں گی.." اسکے جواب دیتے ہی انکے برگر آگئے اور سب کھانے میں مصروف ہو گئے. کھاتے کھاتے سبحان سے جویریہ کے ہاتھ پہ کیچپ گر گئی. 

"اوپز سوری.." سبحان نے ایک دم ٹشو نکال کر جویریہ کا ہاتھ صاف کیا.

"کوئی بات نہیں." اس نے جواب دیا. بریرہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی. سبحان نے جونہی جویریہ کا ہاتھ پکڑا وہ تپ کر آگ کا گولا بن گئی. اسکا دل کر رہا تھا وہ وہاں سے اٹھ جائے لیکن وہ مجبور تھی. وہ سب کے درمیان بیٹھی ایسا نہیں کر سکتی تھی. وہ غصے میں تھی لیکن خود کو کنٹرول میں رکھا ہوا تھا. اتنے میں وہ کھانے سے فارغ ہوئے

"بریرہ چلیں." سبحان نے بریرہ کی طرف دیکھا.

"ہم..." وہ بغیر اوپر دیکھے بولی. بریرہ اور سبحان سب سے ملے اور پھر گھر کو جانے لگے.

                           *************

بریرہ گھر میں آتے ہی اپنے کمرے میں بھاگ گئی. اس نے سبحان سے ایک بات نہ کی. سبحان وہیں کھڑا اسے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا. اس نے بریرہ کی ہلکی بھوری آنکھوں میں خود کے لئے بےرخی دیکھی تھی. وہ سمجھ تو گیا تھا کہ بریرہ کو اس سے محبت ہی ہوئی تھی اور آج اس نے ہی اسکی محبت کا گلا گھونٹ دیا تھا. وہ جو ایک دن اسکی وجہ سے خوش ہوئی تھی آج اسی کی بدولت اسکا حال ایسا تھا. وہ ٹوٹ کر بھکر چکی تھی. بریرہ نے کمرے میں آتے ہی رونا شروع کر دیا.

"کیوں کیا سبحان میرے ساتھ ایسا.." 

"کیوں تم نے مجھے نظر انداز کیا... کیوں جویریہ کے ساتھ اتنا فری ہوئے" وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی. وہ ایک بار پھر ٹوٹ چکی تھی. اسکا دل پھر کرچی کرچی ہوا تھا.

                            تم نے فقط سنا ہے 

                               ہم پر بیتی ہے 

                          محبت خون پیتی ہے

                        *****************

وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی. آنکھوں سے آنسو آ رہے تھے. سرمے کی وجہ سے آنکھیں رو رو کے کالی ہو گئیں تھیں. اس نے اپنی گود سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا. سامنے پنکھے کے نیچے ایک کرسی پڑی تھی. بریرہ کی زندگی بے معنی تھی. کیوں نہ وہ خود کو پھانسی لگا لے. نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسوری. شیطان اسکے دل میں عجیب عجیب وسوسے ڈال رہا تھا. اس نے جلدی میں اپنے گلے سے وہ کالے رنگ کا ڈوپٹہ نکالا اور کرسی کی طرف بڑھنے لگی. آنسو اب تک رواں دواں تھے. وہ کرسی پہ چڑھی اور پنکھے پہ دوپٹہ لٹکایا. وہ خود کو ٹانکنے ہی لگی کہ دور کھڑی اسکو اپنی ماں کی پرچھائی دکھی.

"نہ بریرہ بیٹا خودکشی حرام ہے.."

"اللہ تمہیں صبر دے گا.. یہ حرکت ہر گز نہیں کرنا" بریرہ روتی آنکھوں سے ماں کی پرچھائی کو ہی دیکھ رہی تھی.

"مما.." بریرہ نے پرچھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن وہ پرچھائی وہاں سے غائب ہو گئی. بریرہ نے اپنے سامنے اس کالے ڈوپٹے کو لٹکا ہوا دیکھا. اسکی آنکھوں میں خوف اتر آیا. دل اسے بار بار گواہی دے رہا تھا کہ یہ قدم مت اٹھانا.  اگر اٹھا لیا تو پچھتاؤ گی. اس کا ایمان شیطان پر حاوی ہو گیا تھا. وہ کرسی سے نیچے اتری. خودکشی کا پلان اس نے ترک کر دیا. وہ نیچے آتے ہی سجدے میں بیٹھ کر رونے لگی..

"اے رب مجھے سکون عطا کر... یہ وسوسے دور کر دے" وہ سکون کی طلب کر رہی تھی. وہ روئے جا رہی تھی.

"خودکشی ہی حلال کردیجیئے زندگی تو حرام ہو گئ ہے" وہ اونچی آواز میں گلہ کر رہی تھی. آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں. وہ جینا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ مر بھی نہیں سکتی تھی. وہ سجدے سے اوپر اٹھی.

"اپنی کہانے کیسے کہیں گے.. اپنی کہانی.." وہ بار بار یہ لائن دہرانے لگی. ساتھ وہ اپنا ہاتھ زور زور سے فرش پہ مار رہی تھی. اسکے ہاتھ سے خون بہنے لگا تھا لیکن اسے کوئی درد محسوس نہیں ہوا تھا. جب اندر کے زخم گہرے ہوں تو باہر کے زخموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا... 

بریرہ چونک کر اٹھی. وہ روتے روتے کب سو گئی خبر نہ ہوئی لیکن وہ اس یاد کی بدولت اب جاگ  گئی تھی. اس یاد نے اسے اندر تک توڑ دیا تھا. اسکی بدترین یادوں میں سے ایک یاد یہ بھی تھی. ذیشان کے جاتے ہی اس نے خودکشی کا سوچا تھا اور آج سبحان کی بے رخی پہ پھر سے اسے یہ یاد یاد آ گئی تھی. وہ کتنے وقت سے اس سے دور بھاگ رہی تھی پر آج اس نے دوبارہ سے اسی یاد کا سامنا کیا تھا. اُس وقت اسے جتنا درد ہوا تھا اس سے کئی زیادہ درد اسے آج ہوا تھا. وہ آج سمجھ گئی تھی کہ ذیشان سے عشق تو کیا اسے محبت بھی نہیں ہوئی تھی. وہ صرف اسکی عادت تھا اور عادت چھوٹتے وقت تکلیف تو ہوتی ہے. لیکن سبحان تو اسکی محبت تھا اور محبت کے چھوٹنے کا درد عادت سے بھی دو گنا زیادہ ہوتا ہے. بریرہ مسلسل روئے جارہی تھی. "کیوں کیا تم نے ایسا" وہ چلائی.  تکیہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا. آنکھیں لال پڑ گئیں تھیں لیکن پھر بھی رونا بند نہیں ہوا تھا. 

           جو کہتے ہیں یک طرفہ محبت آسان ہوتی ہے 

             کر کے دیکھو یہ ہر زخم کا باپ ہوتی ہے 

______________

سبحان لاؤنج میں بیٹھا ٹی-وی دیکھ رہا تھا. دن کے دو بج چکے تھے بریرہ اسے نہ ناشتے کی ٹیبل پہ نظر آئی نہ ہی کہیں اور. ٹی-وی چل رہا تھا اور وہ بریرہ کے ہی خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا. عجیب عجیب سے وسوسے اسکے دل میں آ رہے تھے. 

"بریرہ اب تک کمرے میں کیا کر رہی ہے؟"

"آئی نو وہ میرے سے نفرت کرنے لگی ہے لیکن خود کو اذیت تو نہیں دے گی؟.." 

"صبح سے نہیں آئی کہیں اس نے اپنے ساتھ کچھ..." اسکے کہنے کی ہی دیر تھی کہ پاس سے بریرہ کے کمرے کے دروازے کی آواز آئی. باہر نکلتے ساتھ ہی اس نے سامنے دیکھا. سبحان صوفے پہ بیٹھا اسے ہی تاڑ رہا تھا. بریرہ کی آنکھیں ویران تھیں اور یہ سب سبحان کی بدولت ہوا تھا. سبحان کو لگا کہ گویا اسکی بھوری آنکھیں اس سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ 

"کون کہتا ہے تیری یاد سے بے خبر ہوں میں..میری آنکھوں سے پوچھ میری رات کیسی گزری ہے"

اسے تب جا کر احساس ہوا کہ وہ کتنا ظالم ہے. اس نے اس معصوم کی دلکش آنکھوں کا بھی لحاظ نہ کیا. وہ سامنے کھڑی لڑکی اسے غصے سے تاڑ رہی تھی. بریرہ کو اسکی نگاہوں سے کوفت ہو رہی تھی.

"کتنا چیپ انسان ہے یہ میرے سامنے کسی اور لڑکی سے عشق لڑاتا ہے اور ساتھ ساتھ مجھے بھی تاڑتا ہے..." وہ سوچتے ہوئے وہاں سے چل دی. سبحان نے اسکی آنکھوں میں آتا غصہ بھی دیکھ لیا. وہ غصہ اسکے باطن مہں لگنے والی آگ کی تصویرکشی کر رہا تھا. وہ سبحان سے صحیح معنوں میں نفرت کرنے لگی تھی.

                        ***************

کچن میں کھڑی وہ چھری سے بریڈ پہ جیم (jam) لگا رہی تھی. اسے عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے.

"سارے مرد ایک ہی حیسے ہوتے ہیں.. انہیں صرف اپنی غرض سے مطلب ہے"

"کیوں سبحان نے میری عزت بچا کر میرے دل میں محبت کا دیا جلایا پھر اسے بےدردی سے بجھا بھی دیا.. لیکن لگایا ہی کیوں تھا...." 

"مرد ذات ایک ہی جیسی ہوتی ہے... وہ کسی کی سگی نہیں ہو سکتی..."

"لیکن میرا بھائی... وہ تو ایسا نہیں تھا... بھائی... بلال محمد"

نام لبوں پہ آتے ہی بریرہ کی آنکھوں سے تین چار آنسو گرے. وہ کیا کر رہی تھی بھول گئی. ایک اور دردناک واقعہ اس کی نظر کے سامنے گھوم گیا.

                        تلواروں پہ سر وار دئیے

                       انگاروں میں جسم جلایا ہے

                       تب جا کہ کہیں ہم نے سر پہ 

                        یہ قیصری رنگ سجایا ہے

بریرہ کی آج سالگرہ تھی اور وہ اپنے شیر جیسے بھائی کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ ہاسٹل آ کر اسکے ساتھ مل کر کیک کاٹیں گے لیکن تیار ہونے سے پہلے ہی اسے ایک کال آئی اور اسکا دل ہی جیسے پھٹ گیا.

"ہیلو... بلال احمد بارڈر پر شہید ہو گئے ہیں.." بریرہ کچھ کہنے کے قابل نہ رہی. اس کے ہاتھ سے فون پھسل گیا. جلدی میں وہ ہاسٹل سے باہر بھاگی.. وہ رو رہی تھی.. اسے بس بارڈر تک پہنچنا تھا....

چاروں طرف سناٹا تھا. بریرہ کے ارد گرد سوٹ میں ملبوس کتنے ہی فوجی کھڑے تھے. وہ سب اس بہادر سپاہی کو سلوٹ کر رہے تھے جس نے کتنے ہی سال اس ملک کی خدمت میں لگا دئیے تھے. بلال احمد کےلبوں پر شہید ہوتے وقت بھی ایک مسکراہٹ تھی. ایک فخر تھا..

                او وطناں وے میرے وطناں وے

                        تیرا میرا پیار نرالا تھا

                      قربان ہوا تیری عصمت پہ

                      میں کتنا نصیبوں والا تھا

لیکن وہ اپنی چھوٹی بہن کو اس ظالم دنیا میں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے تھے. بریرہ انکا بے جان جسم لئے وہیں بارڈر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی. فوج نے ایک عظیم سپاہی کھویا تھا اور بریرہ نے ایک عظیم بھائی. وہ اب کیسے سنھبلے گی؟ اسکا دنیا میں انکے سوا کوئی نہ تھا. 

اِس یاد نے بریرہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب نکال دیا. وہ خود پہ قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی. اس نے خود کے لئے مضبوط ہونا تھا. ایک مضبوط پروقار خاتون بننا تھا جو پھر سے نہ ٹوٹے. اس نے آنسوؤں پہ قابو کیا اور ہاتھ میں پکڑی چھری کو ٹیبل پہ رکھا. دوسرے ہاتھ سے بریڈ کھانے لگی. عین اسی وقت سکینہ بیگم کچن میں آئیں.

"خالدہ..." وہ اونچی آواز میں ملازمہ کو بلا رہی تھیں. 

"بیٹا خالدہ کہاں ہے؟" انہیں خالدہ تو نظر نہ آئی لیکن بریرہ نظر آ گئی.

"پتہ نہیں" بریرہ نے مختصر جواب دیا.

"اچھا وہ جب آئے تو... " ان کے کہنے کی دیر تھی کہ خالدہ کچن کے دروازے سے اندر آئی. سکینہ بیگم نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف رخ کیا.

"خالدہ.. بریانی بنا دینا.. زینب اور فواد کی کچھ کزنز گھر آرہی ہیں.." بریرہ ساتھ کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی. کزنز سے اسے جویریہ یاد آئی اسکا پھر سے خون کھول اٹھا. 

"جی بی بی.." خالدہ کے جواب دینے پہ سکینہ بیگم وہاں سے چلی گئیں. بریرہ انکے جاتے ہی کچن سے نکل کر اپنے روم میں آگئی. وہ آ کر پیکنگ کرنے لگی

"میں جلد از جلد یہاں سے چلی جاؤنگی.. مجھے نہیں رہنا ادھر"

سبحان اب تک لاؤنج میں بیٹھا تھا. اسکا فون بجنے لگا. فون ان لاک کیا تو معلوم ہوا کہ زینب کی کال آ رہی تھی. 

اس نے فورًا سے فون اٹھا کر کان سے لگایا.

"اسلام علیکم.."

وعلیکم اسلام.." زینب نے جواب دیا.

"ہوں کیا بات ہے؟"

"یار کب سے بریرہ کو فون کر رہی ہوں اٹھا ہی نہیں رہی..تم ذرا جا کر بتا دو اسے کہ میں آؤنگی آج"

"تم اپنی امی کو فون کر کے کہو کہ وہ کہہ دیں.." سبحان بریرہ کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا. 

"کیا تھا لیکن وہ بھی بزی ہیں...تم کر دو نہ میرا کام"

"اچھا" اس نے کہتے ہی فون کاٹ دیا. وہ آہستہ قدموں سے بریرہ کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا. دل کی دھڑکن آسمانوں کو چھو رہی تھی. وہ اس لڑکی سے سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا. وہ دروازے کے پاس کھڑا دروازے کو کھٹکھٹانے ہی لگا کہ دروازہ کھل گیا. سامنے وہ بڑا سا بیگ لئے کھڑی تھی. ایک سیکنڈ کے لئے انکی نظریں ملیں لیکن فورًا ہی بریرہ کہیں اور دیکھنے لگی.

"ہٹو میرے راستے سے" اسکی آواز میں غصہ تھا.

"تم کہاں جا رہی ہو...؟"

"جہنم میں... چلنا ہے؟"

"دیکھو زینب کا فون آیا وہ کہہ رہی تھی کہ تم اسکا فون نہیں اٹھا رہی... اس نے پیغام دیا ہے کہ وہ آج آئے گی" اس نے اسکا غصہ نظر انداز کرتے ہوئے بولا.

"ہاں تو میں کیا کروں"

"تو اسکے لئے رک جاؤ"

"تم کون ہوتے ہو میرے پہ حکم چلانے والے.. "

"میں حکم نہیں..." اس کی بات بریرہ نے کاٹ دی

"حکم... ہاں تم حکم نہیں چلاتے.. تم لڑکیوں کے دل کے ساتھ کھیلتے ہو.. کل میں تھی.. آج جویریہ.. پرسوں کوئی اور ہو گی." سبحان اسی بات کی وجہ سے اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا. اس نے اسکی بولتی بند کر دی تھی.

"تم کیوں نہیں چلے جاتے یہاں سے.. مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا" وہ اب تک اسے سنا رہی تھی. وہ کچھ کہنے کے قابل نہ رہا. وہ کچھ کہے بغیر الٹے پاؤں وہاں سے چلا گیا. اسکے جاتے ہی بریرہ کا کچھ غصہ ٹھنڈا ہوا. اس نے پاکٹ سے فون نکالا. زینب کی کتنی ہی کالز آئی ہوئی تھیں. اس نے فورًا زینب کو کال ملائی.

"ہیلو.."

"بریرہ میں کب سے تمہں کال ملا رہی تھی.. تم کہاں تھی.."

"کچن میں تھی.. کیا ہوا؟"

"میں آؤں گی تم سے ملنے آج.."

"لیکن میں تو بس نکلنے والی ہوں"

"ایسا مت کرو مجھ سے مل کر چلی جانا کل"

"اچھا..اوکے" اس نے دل پہ پتھر رکھ کے بولا اور فون کاٹ دیا. وہ بیڈ پہ جا کر لیٹی..

"زینب کی خاطر آخری بار اسکا سامنا تو کر سکتی ہوں پھر وہ کہاں ہو گا میں کہاں.." اس نے دل ہی دل میں سوچا.

                       *****************

دن کے ساڑھے تین بج چکے تھے اور وہ کمرے میں بیٹھا بریرہ کی تلخ باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا.

"حکم... ہاں تم حکم نہیں چلاتے.. تم لڑکیوں کے دل کے ساتھ کھیلتے ہو.. کل میں تھی.. آج جویریہ.. پرسوں کوئی اور ہو گی" یہ بات اسکے دل میں بہت بری طرح سے چبھی تھی. وہ ایسا نہیں چاہتا تھا.

"تم کیوں نہیں چلے جاتے یہاں سے.. مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا" کانوں میں بریرہ کی آواز گونجی.

 "ہاں میں چلا جاؤنگا.. زینب سے ملتے ہی اپنی شکل گم کر دونگا" اس نے دل میں سوچا. اتنے میں اسے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی. سامنے دیکھا تو زینب کھڑی تھی.

"زینب...تم کب آئی؟"

"ابھی کچھ دیر پہلے.. تم نیچے آؤ سب ویٹ کر رہے ہیں"

"سب؟" وہ چونکا

"ہاں..مما..بابا..بریرہ.. فواد کی کزنز جویریہ, فاطمہ اور مشل..وہ سب چائے کی ٹیبل پہ بیٹھے ہیں"

"اچھا" جویریہ کا نام سن کر اسکے چہرے پہ اداسی چھا گئی. 

"کیا ہوا ہے سبحان..؟" زینب نے اسکی اداسی کو نوٹس کیا.

"کچھ بھی تو نہیں..." وہ مرجھایا ہوا تھا.

"تم بریرہ سے محبت کرنے لگے ہو نہ" سبحان نے حیرانگی سے زینب کو دیکھا. زینب کی آنکھوں میں فکر تھی.

"میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا" 

"ہم..آؤ چلیں" وہ اسے ڈسڑب نہیں کرنا چاہتی تھی. وہ دونوں چائے کی ٹیبل پر گئے.

                           ****************

وہ چائے پیتے وقت بھی جویریہ کو دیکھ رہی تھی. جویریہ بار بار سبحان کو ہی دیکھے جا رہی تھی. بریرہ کو کوفت ہو رہی تھی. اس نے نظریں ہٹا کر سبحان کی طرف کیں. وہ چپ چاپ نظریں جھکائے بیٹھا تھا. آج وہ جویریہ کے ساتھ فری بھی نہیں ہو رہا تھا. اسے کس وقت سے چپ لگی ہوئی تھی. سبحان نے نظریں اوپر اٹھائیں بریرہ اسے ہی غصے دے دیکھ رہی تھی. اسکی نظروں سے اسے الجھن ہوئی.

"میں چینی لے کر آتا ہوں. چائے پھیکی لگ رہی ہے.." اس نے بریرہ کی نظروں سے بچنے کی ترقیب سوچی اور کچن میں بھاگ گیا. 

"میں لاؤنج میں جا کر بیٹھتی ہوں..میری چائے فنش" جویریہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دی..

سبحان کچن کے شیلف کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا کہ چھوٹے چھوٹے بالوں والی لڑکی اندر آئی.

"جویریہ تم"

"ہاں" وہ ٹھیک اسکے سامنے کھڑی ہوئی.

"تم یہاں کیا کر رہی ہو..." اسے اسکے وجود سے کوفت ہوئی.

"شش" اس نے انگلی سبحان کے لبوں پہ رکھی.

"تم آج اتنے سٹریس کیوں ہو" اس نے اپنے دونوں ہاتھ سبحان کے گال پہ رکھے.

"یہ تم کیا..." سبحان کہنے ہی والا تھا کہ بریرہ عین اسی وقت کچن میں آئی. اسے سکینہ بیگم نے کپ لینے بھیجا تھا. لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر وہ کپ اٹھانا بھول گئی. اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا. وہ کچھ کہے بغیر الٹے پاؤں وہاں سے بھاگی. 

                 محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے 

‏              تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

"بریرہ......." سبحان چلایا. اس نے جلدی سے جویریہ کو پیچھے کیا اور بریرہ کے پیچھے بھاگا.

"بریرہ... رک جاؤ" لیکن بریرہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی. وہ کوٹھی سے باہر چلی گئی. سبحان نے آ کر اسے روکا اور اپنے سامنے کھڑا کیا. شام کا وقت تھا. اندھیرا ہونے میں کچھ ہی دیر رہتی تھی.

"کیا ہے... " وہ غصے میں اونچا چلائی.

"تم جو سمجھ رہی ہو...." اس نے صفائی دینی چاہی

"میں جو سمجھ رہی ہوں وہی تھا... تم دونوں اسی مقصد کے لئے کچن گئے تھے.." وہ کوئی بات سننے کے موڈ میں نہ تھی. 

"ہاں اگر تھا بھی تو تم کیوں غصہ ہو رہی ہو" وہ بھی آگ بگولا ہو گیا.

"بیکاز (because) ڈیم اٹ آئی لو یو" بریرہ کے ساتھ ساتھ سبحان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے لیکن سبحان نے خود پہ کنٹرول کیا. 

"تم کیوں آئے میری زندگی میں... سب آ کر چلے جاتے ہیں... تم بھی دفعہ ہو جاؤ.. میں نے باقیوں کی طرح تمہیں بھی کھو دیا...." وہ آنکھوں میں آنسو لئے اس سے گلہ کر رہی تھی.

"کیوں آئے میری زندگی میں کیوں آئے..." وہ رو رو کر چلا رہی تھی. 

"شادی والے دن پوچھا تھا نہ میں کیوں رو رہی ہوں.. کیوں جھوٹی فکر کی میری.." 

"ایسے چھوڑنا  ہی تھا تو زندگی میں کیوں آئے... میری زندگی میں پہلے ہی بہت دکھ تھے... سننا چاہتے ہو..." وہ چپ چاپ کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا.

"سن ہی لو.. تمہیں اس بات کا تو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنی بری طرح سے توڑا ہے تم نے مجھے... میں کئی بار جڑ کر واپس ٹوٹی ہوں..." اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں. سبحان خاموش کھڑا کچھ بول نہیں پا رہا تھا. وہ اس لڑکی کو ہینڈل نہیں کر پا رہا تھا. بریرہ اسے اپنی درد بھری کہانی سنانے لگی.. 

   *فلیش بیک*

"میں چھوٹی سی تھی جب میرے ماں باپ کا انتقال ہو گیا. صرف پانچ سال کی ہی تو تھی میں. سردیوں کی بات ہے میرا بھائی اس وقت ہاسٹل میں پڑھ رہا تھا. وہ آرمی میں جانا چاہتا تھا.. اسی مقصد کے لئے وہ تگ و دو کر رہا تھا. گھر میں ہم تین ہی لوگ تھے میں..میری مما اور بابا. اس رات کو کسی آواز کی وجہ سے میری آنکھ کھلی. باہر سے کافی شور آ رہا تھا. میں ننھے ننھے پاؤں لے کے آگے بڑھی. کمرے کا دروازہ کھولا تو میرے اوسان ہی خطا ہو گئے.. دو آدمی سر پہ کالا رومال پہنے کھڑے تھے.. انکے سامنے میرے ماں باپ زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے. یہ منظر دیکھ کر میری ہلکی سی چیخ نکل گئی. وہ دونوں پیچھے مڑے پر میں نے انکے دیکھنے سے پہلے ہی خود کو صندوق میں بند کر دیا. پھر گولیوں اور میرے ماں باپ کی چیخوں کی آواز آئی.. میں ہلکی آواز میں روتی رہی. دو بندوں کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی

"چلو کام ہو گیا ہے"

"لیکن وہ بچی کدھر ہے؟"

"اُسے ڈھونڈنے کا وقت نہیں.. جلدی کرو نکلتے ہیں" تیز قدموں کی آواز آئی اور پھر مکمل سناٹا چھا گیا تھا.. انکے جاتے ہی میں نے صندوق کھولا سامنے دیکھا میری ماں باپ کی لاش زمین پہ پڑی تھی.. میں فورًا سے انکے پاس گئ. انکے بےجان جسم کو چھوہا لیکن وہ جا چکے تھے..." بریرہ یاد کرتے کرتے اور زیادہ رونے لگی. سبحان اسے روک نہ پایا وہ پھر سے بولنے لگی.

"میں ادھر ہی بیٹھ کر روئے جا رہی تھی کہ دروازے کی آواز آئی.. مجھے لگا وہ پھر سے آگئے.. میں چھپنے ہی لگی کہ سامنے دیکھا میرا بھائی تھا. اسے دیکھتے ہی میں اسکے گلے جا لگی. اسکی آنکھوں میں بھی وہی تڑپ تھی جو میری آنکھوں میں تھی.. لیکن اس نے مجھے سنھبال لیا. پھولوں کی طرح رکھا.. مجھے پڑھایا لکھایا. مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا. اپنی محنت اور بھائی کی تگ و دو سے میرا میڈیکل کالج میں اڈمشن ہو گیا. میں ہاسٹل میں ہوتی تھی اور بھائی ڈیوٹی پہ.. ہم نے اپنے گھر کو تالا لگا دیا تھا. ایک بار میں نے میرے بھائی کو فون پہ بات کرتے سنا. وہ کسی کو بتا رہے تھے کہ ہمارے ماں باپ کا قتل ہمارے سگے چچا اور تائے نے کیا. میں نے بھائی سے اس بارے میں پوچھا. اس نے ساری بات بتائی کہ مما اور بابا کی فیملی شادی کے لئے راضی نہ تھی. ان دونوں نے بھاگ کے شادی کر لی. مما کی فیملی نے مما سے رشتہ توڑ دیا لیکن انکی لائف میں دخل نہ دی بابا کی فیملی آئے دن تنگ کرتی تھی. اور انہوں نے بدلے کی آگ میں دونوں کو قتل کر دیا ہم دونوں کا بھی نہیں سوچا... کیا پیار کرنا اتنا بڑا جرم ہے..؟" بریرہ نے سوال کیا لیکن جواب سننے کے بجائے آگے کی کہانی سنائی...

"ہمیں انصاف بھی نہ ملا کیونکہ بابا کی فیملی کافی سٹرانگ تھی.. لیکن سب ٹھیک ہو گیا تھا.. ہم دونوں سنھبل گئے تھے. زینب بھی میڈیکل کالج میں میری دوست بنی.. سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن میری سالگرہ والے دن مجھے فون آیا کہ بھائی شہید ہو گیا. میں پھر سے جڑ کر ٹوٹی لیکن اس وقت زینب ایک اچھی دوست کی طرح  میرے ساتھ تھی. پھر اسکے بعد ذیشان آیا.. وہ میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا.. اس نے مجھے جینا سکھایا. بہت زیادہ ہنساتا تھا.. میں پھر سے سیٹ ہونی والی تھی کہ مجھے پتہ لگا وہ تین چار اور لڑکیوں سے افیر چلا رہا ہے.. اسے صرف اپنا مطلب تھا.

       ادا مطلب نگاہ مطلب زبان مطلب بیان مطلب

     بتا مطلب کہاں جاؤں؟ جہاں جاؤں وہاں مطلب

میں پھر بھی اسے معاف کر دیا لیکن وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا.. اس وقت مجھے لگا میں بہت منحوس ہوں.. خودکسی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی نہ کر سکی.. پھر تم آئے زندگی میں...." بریرہ نے سبحان کی آنکھوں میں دیکھا. 

"پر تم بھی تو جا رہے ہو چھوڑ کر مجھے.. سب چلے جاتے ہیں..." بریرہ روتے روتے طنزیہ ہنسی. سبحان نے آگے ہو کر اسے سہارا دینا چاہا لیکن وہ پیچھے ہوگئی.

"ڈونٹ ٹچ می تم کل کیوں جا رہے ہو آج جاؤ... او ہاں میں تو بھول گئی تمہیں اپنی محبوبہ سے ملنا تھا نہ.." سبحان کو لگا جیسے بریرہ نے گرم لوہا اس کے سینے میں گھسا دیا. 

"اگر مجھ سے محبت کر لیتے.. مجھ پر مر مٹ جاتے تو تمہارا کیا جاتا تھا سبحان" وہ ٹھیک اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی. سبحان مزید برداشت نہ کر پایا.

"محبت اگر مر مٹنے کا نام ہے تو پھر ’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘" وہ غصے سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا. 

      محفل میں تیری ہم نہ رہیں جو غم تو نہیں ہے

          قصے ہمارے نزدکیوں کہ کم تو نہیں ہیں

بریرہ روتے روتے زمیں پر بیٹھ گئی. آسمان پہ اندھیرا چھا رہا تھا. اسکی محبت اسکے سامنے وہاں سے جا رہی تھی. وہ اسے روک بھی نہیں سکتی تھی نہ ہی روکنا چاہتی تھی. ایک لفظ محبت تھا ایک لفظ جدائی تھا ایک وہ لے گیا ایک اسے دے گیا. اسکی ہلکی بھوری آنکھوں میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہ تھا. وہ بےبس تھی وہ بہت زیادہ بے بس تھی.

                  اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا

                جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

             یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے

               آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

_____________

وہ ابھی تک کوٹھی سے باہر زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی. ماں باپ نے بچپن میں ہی ساتھ چھوڑ دیا تھا اور بڑا بھائی جوانی میں چلا گیا. دو محبوب ملے وہ بھی بے وفا نکلے. بریرہ کی زندگی میں جو بھی آتا تھا چلا جاتا تھا. وہ خود کو بدقسمت سمجھنے لگی. آنکھوں سے آنسو اسی طرح رواں دواں تھے. 

"میں ہی منحوس ہوں...." وہ چیخ چیخ کر روئی.

"اے میرے رب مجھے اتنا بدقسمت کیوں بنایا میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا." وہ اپنے پروردگار سے گلہ کرنے لگی.

"میری قسمت میں اتنا درد.. اتنا غم کیوں..؟" وہ خود کو کوسنے لگی. زینب بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی.

"بریرہ...بریرہ.." وہ اسکے پاس آ کر نیچے بیٹھی. بریرہ نے کوئی جواب نہ دیا. وہ بنا آواز نکالے رو رہی تھی.

"بریرہ تم نے سبحان کو کیا کہا ہے.. وہ چلا گیا ہے..." وہ فکرمند تھی.

"تم ابھی بھی سبحان کا سوچ رہی ہو؟" اسے حیرت ہوئی. وہ اسکی پکی دوست تھی کہ سبحان کی.

"بریرہ... کیا ہوا ہے... سبحان نے کیا کیا...؟"

"مت لو اسکا نام میرے سامنے.. دھوکے باز ہے وہ"

 "دھوکے باز اور سبحان... " وہ شاکڈ تھی

"ہاں وہ جویریہ کے ساتھ انوالو تھا...اور میں اس سے محبت کرتی تھی" بریرہ کی آنکھوں میں غصہ تھا.

"بری رہ......." زینب کی آواز میں لڑکھڑاہٹ آئی.

"پتہ کیا زینب... بات معیوب بھی ہے اور بہت خوب بھی ہے میرا محبوب کسی اور کا محبوب بھی ہے" وہ روتے روتے طنزیہ ہنسی.

"بریرہ" زینب نے اسے سہارا دیا.

"چھوڑ دو مجھے..  مجھے سزا ملنی چاہیئے.. میں نے کیوں اس چیپ تھرڈ کلاس انسان سے محبت کی.." 

"بریرہ بس کر دو اتنے گندے لفظ اسکے لئے مت بولو" تھرڈ کلاس لفظ سبحان کے لئے زینب کو پسند نہیں آیا.

"تم اب بھی اسے سپورٹ کر رہی ہو...اس کو جو لڑکیوں کے دلوں کے ساتھ کھیلتا ہے.... ہر کسی کو اپنی طرف راغب کرتا ہے.... حد ہے...." وہ حیران ہوئی.

"سبحان ایسا نہیں ہے..  وہ میرا دوست ہے میں جانتی ہوں اسکو...بہت اچھے سے" 

"ہاں شاید شادی سے پہلے تم بھی اسکے ساتھ افیر میں تھی..." بریرہ غصے میں الٹا بول گئی 

"بریرہ..........بس کر دو کیا اول فول بکے جا رہی ہو" زینب کو یہ بات ناگوار گزری. اس کے جردار پہ بریرہ نے انگلی اٹھا دی تھی.

"رہنے دو.." بریرہ طنزیہ ہنسی..

"میں یہ بتانا تو نہیں چاہتی تھی.. پر تم نے مجبور کر دیا ہے.." زینب کا پارہ اہپر چھڑ گیا.

"کیا..."

"بڑا دعوی کرتی ہو سبحان سے محبت کا.. کبھی اسکی انکھیں دیکھیں ہیں.. کتنی محبت ہے تمہارے لئے.." وہ اب تک غصے میں تھی

"میری لئے... غلط ہو سب لڑکیوں کے لئے.." بریرہ نے ایک اور طز مارا

"وہ اس نے ایسا تمہارے سامنے دکھایا تھا....وہ جان پوچھ کر جویریہ کے ساتھ فری ہوا تا کہ تم اس سے دور چلی جاؤ تا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو" زینب نے پول کھول دی

"کیا کہہ رہی ہو یہ تم..." وہ حیران ہوئی

"جو بھی کہہ رہی ہوں سچ ہے.... اسے کینسر ہے... وہ آخری سٹیج میں اسں بیماری سے لڑ رہا ہے..."بریرہ کی بولتی بند ہوگئی. اسے لگا زمیں پھٹ گئی اور وہ اس کے اندر جا دھنسی..

"بریرہ وہ صرف تمہارے ہی قریب ہوا کیوں کہ وہ تم سے محبت کرنے لگا تھا مگر اسکی بیماری نے اسے اقرار کرنے سے روکے رکھا .. وہ کب اس دنیا سے چلا جائے گا پتہ نہیں.." بریرہ کو اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا. "تم جھوٹ بول رہی ہو"

"نہیں میں کیوں جھوٹ بولوں...وہ تو میرے سے بھی فاصلے پہ رہتا تھا.. اور تم کہہ رہی ہو میرا افیر تھا اسکے ساتھ.... سچی محبت تو وہ تم سے کرتا تھا ورنہ چاہتا تو اقرار کر کے تمہیں لے جاتا لیکن اسے یہ فکر تھی کہ اس کے بعد تم کیا کرو گی..وہ کچھ دن کا مہمان تھا بس.." بریرہ کو اپنی بات پہ شرم آئی. آنکھوں میں آنسو نمایاں تھے

"اس نے مجھے یہ بات تمہیں بتانے سے منع کیا لیکن تمہارے الزام نے میرا منہ کھلوا دیا... وہ بیچارہ اتنا سوچتا رہا اور تم نے اسکے ساتھ ایسا کیا.. وہ غلط تھا تمہیں پہلے ہی بتا دینا چاہیئے تھا ورنہ تم اس کے لئے اتنے گندے لفظ نہ استعمال کرتی..." بریرہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا. ٹھنڈ میں بھی اسے پسینے آ رہے تھے. اس نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی. اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اسکا دل پھٹ جائے گا...

"محبت اگر مر مٹنے کا نام ہے تو پھر ’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘" سبحان کا چہرہ اسکے سامنے آیا.

"’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘...’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘" اس نے بار بار دہرایا.. وہ پھوٹ پھوٹ کر رونی لگی.. آنکھوں سے آنسو ایسے بہہ رہے تھے جیسے کسی نے پانی کا نل کھول دیا ہو. 

"زینب تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا.. کیوں مجھے دھوکے میں رکھا... بتا دیتی تو میں اسے بھیجتی ہی نہ.. سینے سے گلے لگا لیتی.. کبھی خود سے جدا نہ کرتی.." وہ گلہ کرتے ہوئے رو رہی تھی. زینب نے آگے ہو کر بریرہ کو گلے لگایا. بریرہ اسکے ساتھ چپک گئی جیسے بچہ ماں کے ساتھ چپکتا ہے..

"زینب میں تو ایسی لڑکی ہوں کہ ہنس بھی لوں تو مجھے ہنسی کا کفارہ اپنی آنسوؤں سے دینا پڑتا ہے.." اس نے سر اٹھا کر زینب کی آنکھوں میں دیکھا. اس بار بریرہ کے ساتھ ساتھ زینب کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے. زینب نے بریرہ کے آنسو صاف کئے...

"چلو بس.. سب ٹھیک ہو جائے گا.. آؤ اندر چلتے ہیں.." زینب اسے سہارا دے کر اندر لے گئی.

                      *****************

زینب بریرہ کے پاس لیٹی اسکا سر سہلا رہی تھی. بہت مشکل سے بہلا پھسلا کر اس نے بریرہ کو سلایا تھا... وہ ان دونوں کےلئے اداس تھی. اسکے دونوں کلوز فرینڈز عجیب کشمکش میں مبتلا تھے. ایک جینا نہیں چاہتا تھا اور ایک جینے کے لئے زندگی کا محتاج تھا.. اسے سبحان یاد آ رہا تھا. وہ بہت تکلیف میں یہاں سے گیا تھا... اسے وہ سب یاد آنے لگا. 

*فلیش بیک*

سبحان تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا. زینب اسی وقت اسکے پیھے آئی تھی.

"سبحان کیا ہوا ہے..."

"کچھ نہیں میں جا رہا ہوں" اس کی آنکھوں میں ویرانی تھی.. وہ شخص جو کینسر کے بعد بھی ہنسی خوشی رہتا تھا.. آج محبت نہ ملنے کے باعث مرجھا گیا تھا.

"کیا ہوا ہے....اس وقت؟" اسکے پوچھتے ہی سبحان نے ساری کہانی سنا ڈالی.

"مجھے لگ ہی رہا تھا... کہ تم جویریہ کے ساتھ بریرہ کو دکھانے کے لئے فری ہوئے..." 

"ہم... اب سنو بریرہ کے پاس جاؤ اسے کچھ نہیں بتانا میری بیماری کا...  یاد ہے تم نے مہینہ پہلے وعدہ کیا تھا کہ یہ راز تمہارے اور میرے درمیان رہے گا.." 

"ہاں.." اس وقت تو اس نے حامی بھر دی تھی پر وہ اسکا وعدہ توڑ چکی تھی صرف بریرہ کے الزام کی بدولت.. وہ کیا کرتی اسے بریرہ کے الزامات برداشت نہیں ہو رہے تھے. اسے سبحان کی اگلی بات یاد آئی

"ہاں گڈ.. اسکے سامنے بہانا کرنا کہ تمہیں جویریہ والی بات کا بھی نہیں علم..پھر بہلا کر اسے اندر لے آنا.. میں جا رہا ہوں" اس نے کندھوں پہ بیگ لگاتے ہوئے بولا.

"اچھا پر کہا جاؤ گے"

"گھر" وہ کہتا ہوا چلا گیا. زینب سوچ رہی تھی کہ اس نے شروعات تو سبحان نے جیسے بتایا ویسے ہی کی تھی لیکن آگے گڑبڑ ہو گئی تھی. شدید غصے میں وہ وعدے توڑ بیٹھی. معلوم نہیں سبحان اسکے بارے میں کیا سوچے گا پر شاید اللہ کو یہی منظور تھی. کبھی نہ کبھی تو بریرہ کے سامنے یہ اصلیت فاش ہوتی اس نے خود کو تسلی دی..

                        ****************

گھنٹی کی آواز آئی اور مسرت نے جا کر دروازہ کھولا. اپنے بیٹے کو سامنے دیکھ کر انکا دل چیر اٹھا. وہ کمزور لگ رہا تھا. آنکھوں کے گرد ہلکے پڑے ہوئے تھے. آنکھوں میں شدید کرب تھا. سفر کے باعث چہرے پہ تھکاوٹ تھی.  بیماری کے باعث نکاہت بھی تھی.

"امی...." کتنے وقت سے وہ مضبوط بنا ہوا تھا لیکن ماں کے گلے لگتے ہی اس کی مضبوطی دم توڑ گئی.. ایک ماں ہی تو تھی جسکے سامنے وہ اپنی کمزوری ظاہر کر سکتا تھا ورنہ باقیوں کے سامنے تو وہ بہت ہمت والا تھا. 

"سبحان بیٹا کیا ہوا ہے تم اتنی رات کو کیوں آئے ہو؟" وہ فکر مند تھیں. وہ جواب نہ دے پایا. کانوں میں بریرہ کے لگائے گئے الزامات گونج رہے تھے

.

"درد کو مسکرانا کر سہنا کیا سیکھ لیا امی اب سب سمجھتے ہیں مجھے تکلیف نہیں ہوتی؟" جو دل میں آیا اس نے بول ڈالا. اس نے جو کچھ آج سہا تھا. جو کچھ اس پہ بیتی تھی وہ ماں کو دیکھتے ہی خود کو کنٹرول نہ کر سکا. وہ مضبوط ہو ہو کر تھک چکا تھا...

"بیٹا کیا ہوا ہے" مسرت کا اکلوتا بیٹا ٹوٹا ہوا بول رہا تھا.

"امی..مجھے محبت ہو گئی ہے.. اور میری محبت کا کوئی انجام ہی نہیں.. زندگی کے اس آخری موڑ پہ میں محبت نہیں گناہ کر بیٹھا ہوں جسکی سزا مجھے ہر رات کاٹنی پڑے گی.." وہ بھیگی پلکوں سے ماں کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا. مسرت کی آنکھیں بھر آئیں.

"امی میں  اس بیماری کو بھی ہنسی خوشی برداشت کرتا رہا.. ایک شکایت نہ کی.. لیکن آج ممجھے یہ بیماری بہت بری لگ رہی یے.. میں جینا چاہتا ہوں.. مجھے بریرہ کے ساتھ آگے کی زندگی بتانی ہے..." وہ رونے لگا.

"بیٹا سب ٹھیک ہو جائے گا..." سبحان کی امی نے اسے جھوٹا دلاسہ دیا.

"نہیں امی کچھ ٹھیک نہ ہو گا.. میری محبت رائیگاں چلی گئی" وہ اور زیادہ رونے لگا.. ماں نے اسے گلے لگایا.

"بس بیٹا.. بس.." دونوں کی آنکھیں اشک بار تھیں... کچھ دیر بعد مسرت سبحان کو سہارا دے کر کمرے تک لے گئیں. 

"امی فکر نہ کریں.. ٹھیک ہو جاؤں گا.." اسے اپنی ماں کے لئے برا لگا. وہ اسکے لئے بہت پریشان ہو گئی تھیں.

"ہاں انشااللہ" ماں کی آنکھوں میں اب تک آنسو تھے.

"میں آتا ہوں فریش ہو کر.." وہ کہتے ہی واش روم چلا گیا. ماں اسکے بستر پہ بیٹھی انتظار کرنے لگی. 

وہ بیسن پہ ہاتھ رکھے آئینے میں دیکھ رہا تھا. آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے لیکن اس نے خود کو اپنی ماں کے لئے مضبوط کرنا تھا. 

"بس بہت ہو گیا رونا دھونا سبحان...اب نہیں..." لیکن مضبوط ہونا آسان تو نہیں تھا اسے بار بار وہ سب یاد آنے لگتا تھا. اسکی آنکھوں سے پھر ایک آنسو ٹپک کر اس کے ہاتھ پہ گرا اس نے جلدی میں نیچے اپنے ہاتھ کو دیکھا پھر فورًا اوپر ہوا. آنکھوں میں پانی لئے اسے گھورتا ہی رہا وہ آئینے میں کھڑا شخص پریشان بہت تھا. 

میرے دل کا درد کس نے دیکھا ہے

مجھے بس خدا نے تڑپتے دیکھا ہے

ہم تنہائی میں بیٹھ کر روتے ہیں 

لوگوں نے محفلوں میں...! 

مجھے ہنستے ہوئے دیکھا ہے 

                      ***********

بریرہ نیند سے چونک کر اٹھی. ساتھ زینب لیٹی ہوئی گہری نیند میں سو رہی تھی. اس کا ہاتھ اب تک بریرہ کے سر پہ تھا. یہ وہ دوست تھی جس نے ہر مصیبت میں اسکا ساتھ دیا تھا. وہ اسکی زندگی میں ایک ہیرے کی مانند تھی. پھر اسے سبحان کا خیال آیا. نہ جانے وہ کیسا ہو گا؟ کہاں ہو گا؟ پھر اسے وہ الزامات یاد آنے لگے جو اس نے اس مظلوم پہ لگائے تھے....

"کتنا چیپ انسان ہے یہ میرے سامنے کسی اور لڑکی سے عشق لڑاتا ہے اور ساتھ ساتھ مجھے بھی تاڑتا ہے..." نہ جانے وہ اسکی آنکھوں کی سچائی کیوں نہ دیکھ پائی.

"حکم... ہاں تم حکم نہیں چلاتے.. تم لڑکیوں کے دل کے ساتھ کھیلتے ہو.. کل میں تھی.. آج جویریہ.. پرسوں کوئی اور ہو گی." نہ جانے وہ کیوں بولتی چلی گئی. سبحان نے تو اس سے محبت کے دعوے بھی نہ کئے تھے پھر اس نے کیوں اس پہ الزام لگایا. وہ اسے ذیشان کی طرح چھوڑ کے تو نہیں گیا تھا.

"ڈونٹ ٹچ می تم کل کیوں جا رہے ہو آج جاؤ... او ہاں میں تو بھول گئی تمہیں اپنی محبوبہ سے ملنا تھا نہ" اس نے اسے کتنی دفعہ تکلیف پہنچائی تھی وہ بھی اس صورت میں جب وہ اس سے محبت کرتا تھا...

"چیپ تھرڈ کلاس" بریرہ کو وہ لفظ یاد آیا جو اس نے سبحان کے لئے استعمال کیا تھا. اسے اپنے کئے پہ پچھتاوا ہو رہا تھا. سبحان کی یاد نے اسے رونے پہ مجبور کیا. اسے تب محسوس ہوا کہ وہ کس قدر نہ شکری تھی. اس نے ہمیشہ خود کو کوسا. ہمیشہ خود کو منحوس کہا لیکن سبحان اتنی بری بیماری سے گزرتا ہوا بھی خوش تھا. بریرہ کو وہ مہندی.. بارات پہ مسکراتا ہوا سبحان یاد آیا. وہ کس اذیت سے گزر رہا تھا لیکن پھر بھی اس نے کسی کو بھنک نہ لگنے دی. بریرہ ہر وقت سب کے سامنے روتی رہتی تھی. اس کو تو شکر کرنا چاہیئے کہ اسکے پاس صحت جیسی نعمت تھی. اسے اس بات کا بھی شکر کرنا چاہئیے تھا کہ اللہ نے اسے ہر موڑ پہ سنھبالا تھا.زینب کے روپ میں بھی تو اسے اتنی بہترین دوست ملی تھی. اسے اسکا بھی شکر ادا کرنا چاہئیے تھا. اس نے ٹھان لی کہ وہ اب ناشکری نہیں کرے گی. سبحان اسے پھر یاد آنے لگا.. پتہ نہیں وہ کہاں ہو گا. کیسا ہو گا.. کیا کر رہا ہو گا. ٹھیک بھی ہو گا کے نہیں.

"سبحان.." لبوں پہ نام آتے ہی اس کی آنکھوں سے دو چار آنسو نکلے. وہ مکمل سبحان کی یاد میں کھو گئی.

              کہنے کو ساتھ اپنے ایک دنیا چلتی ہے

             پر چھپکے اس دل میں تنہائی پلتی ہے

               بس یاد ساتھ ہے تیری یاد ساتھ ہے

________________

سبحان اپنے بستر پر لیٹا درد سے کراہ رہا تھا. سر میں شدید درد تھا اور صبح سے خون کی الٹیاں ہورہی تھیں. اسکی صحت دن بدن خراب ہو رہی تھی. پہلے وہ خوش خوش رہتا تھا تب قدرِ بہتر تھا لیکن اب اسے محبت کا غم لگ گیا تھا. اسے ہر موڑ پہ بریرہ کی یاد ستاتی تھی. بیماری بھی تیزی سے پھیل رہی تھی. اس میں طاقت نہیں رہی تھی. نہ جانے وہ کیوں زینب کی شادی پہ گیا؟ نہ ہی جاتا کم از کم بریرہ سے ملاقات تو نہ ہوتی. وہ بیڈ کے سہارے سے اوپر اٹھا. پاس ٹیبل پہ پڑا جگ اٹھایا. پانی ڈالنے ہی لگا کہ برہرہ کا ہنستا ہوا چہرہ اسکے سامنے آ گیا. اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب بریرہ کو اس سے نئی نئی محبت ہوئی تھی. اسکی آنکھوں میں درد کے بجائے رونک جگمگائی تھی. لبوں پہ مسکراہٹ چھائی تھی لیکن پل میں سبحان نے اسکا دل توڑ دیا تھا صرف اور صرف اس بیماری کی وجہ سے. سبحان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر جگ کے پانی میں گرے. 

"یہ بیماری... مجھ سے دور کیوں نہیں ہو جاتی..." لبوں پہ شکوہ آیا.

"اے میرے رب مجھے ٹھیک کر دے... میں پھر سب ٹھیک کر دونگا..." وہ آہستہ آواز میں بولا لیکن پھر بھی دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا. ایک درد بھری چھیک اسکے لبوں سے نکلی جس نے ارد گرد ہر چیز کو ہلا ڈالا. چیخ سن کر فوراً مسرت کمرے میں آئیں..

"کیا ہوا ہے میری جان..." وہ بلکل سبحان کے پاس آئیں.

"امی مجھے بہت درد ہو رہا ہے..." اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا. آنکھوں میں ویرانی راج کر رہی تھی.

"امی... میں چلا جاؤں گا... امی مجھے جینا ہے... مجھے بچا لیں.... میں مرنا نہیں چاہتا.." وہ وقفے وقفے سے بولے جا رہا تھا..

"بیٹا کیا ہو گیا ہے..." مسرت نے اسے گلے لگایا. انکی پلکیں بھی بھیگ گئیں.

"امی... مجھے بچا لیں...... امی مجھے کہیں دور لے جائیں...." وہ ماں سے چپک گیا جیسے ڈر کے بچا ماں سے چپک جاتا ہے...

"امی... آپ کچھ بولتی کیوں نہیں ہیں؟.. میں بچ جاؤں گا نہ؟" وہ اونچی آواز میں بولے جا رہا تھا.

"امی جھوٹی تسلی ہی دے دیں..." 

"بیٹا کیا ہو گیا ہے سنھبالو خود کو..." انہوں نے اپنے بیٹے کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا. وہ بالکل خاموش ہو گیا. وہ اندر اندر سے ٹوٹ چکا تھا. مسرت بیٹے کے دکھ کو سمجھ سکتی تھیں. انہوں نے اسے گلے لگائی رکھا. اسے اس وقت سہارے کی بے حد ضرورت تھی. جس بڑھاپے میں انہیں بیٹے کی خوشیاں دیکھنی چاہئے تھیں وہ اسی میں اپنے بیٹے کو تڑپتا ہوا دیکھ رہی تھیں. وہ بری طرح سے ٹوٹ رہا تھا اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں.

                         تیرے عشق نے ساتھیا

                           میرا حال کیا کر دیا

                      ***********************

بریرہ چپ چاپ زینب کے کمرے میں بیٹھی تھی. اسے سبحان سے جدائی برداشت نہ ہو رہی تھی. اسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا. کسی چیز میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی. اسے ناشکری کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن وہ پریشان ضرور تھی اس ہر پل سبحان کی فکر کھائی جا رہی تھی. وہ کتنے بار زینب سے پوچھ چکی تھی سبحان کا لیکن زینب ہر بار ٹال دیتی تھی. وہ ایک اور راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی. زینب کچھ دیر بعد کمرے میں آئی. اس نے ایک نگاہ بریرہ پہ ڈالی جو اب تک وہیں بیٹھی تھی جہاں زینب اسے چھوڑ کر گئی تھی. وہ اسکے پاس آ کر بیٹھی اور شادی کی تصویروں کا البم اسکے سامنے رکھا تا کہ وہ بریرہ کا دھیان بٹا سکے. وہ اس ایک ایک پکچر دکھا رہی تھی لیکن بریرہ پکچر دیکھتے ہوئے بھی کہیں اور گم تھی. پھر البم میں سبحان کی پکچر آئی زینب نے فورُا آگے کرنے کی کوشش کی لیکن بریرہ نے تصویر پہ ہاتھ رکھ دیا.

"سبحان؟" 

"تم کہاں ہو؟" وہ تصویر سے باتیں کرنے لگی

"مجھے چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟" آنکھوں سے آنسو آنے لگے

"میں اتنی بری تو نہیں تھی.." زینب بریرہ کو ہی دیکھ رہی تھی. اسے لگا البم لا کر اس نے غلطی کر دی

"تم ٹھیک تو ہو نہ؟"

"جواب کیوں نہیں دیتے...." آنسوؤں کے بہنے کی رفتار تیز ہوگئی...

"زینب دیکھو یہ مجھے جواب نہیں دے رہا" وہ زینب کی طرف متوجہ ہوئی. 

"بریرہ..." زینب نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن بریرہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا.

"مجھے بتا دو وہ کہاں پہ ہے...." وہ چیخ کر بولی.

"بریرہ سنھبالو خود کو..." 

"تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو کہ وہ کہاں ہے؟..." بریرہ ایک بات پہ آڑ گئی. زینب نے اسے گلے لگانا چاہا لیکن وہ پیچھے ہو گئی. سامنے پڑا البم اس نے خود سے دور کر دیا. وہ روئی چیخی چلائی.. "سبحان...سبحان" 

            تیرے سنگ دو پل کو ہنسنا جو چاہا تو

                        رلا کہ گیا عشق تیرا

                     *************************

بریرہ سفید کپڑے پہنے آہستہ قدموں سے سامنے کی طرف بڑھ رہی تھی. آنکھوں میں نمی تھی.  عین اسی وقت ہوا کا جھونکا آیا اور ایک پل میں سامنے پڑی چادر کو اڑا لے گیا. چادر کے نیچے کا منظر دیکھ کر بریرہ ایک اور قدم بھی نہ اٹھا پائی. وہ سبحان کا پرنور چہرہ نیلا پڑ چکا تھا..ہونٹ پٹھے ہوئے تھے. اسکی نیلی آنکھیں بند تھیں. بیماری کی وجہ سے چہرے پہ کمزوری چھائی ہوئی تھی لیکن اب تک وہ مسکراہٹ جو اکثر اسکے چہرے پہ ہوتی تھی جگمگا رہی تھی. اس کے پاس ایک بوڑھی خاتون بیٹھی روئے جا رہی تھیں. 

"سبحان..." بریرہ کے لبوں نے حرکت کی.

"سبحان...." وہ چلائی.

"تم کچھ بولتے کیوں نہیں ہو....." لیکن سبحان کی طرف سے مکمل خاموشی تھی

"تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے..." وہ روتے زمین پہ بیٹھی

"سبحان......" ایک چیخ اسکے لبوں سے نکلی اور وہ چونک کر بستر پر بیٹھ گئی.

"سبحان....." اسکا بھیانک خواب ٹوٹ چکا تھا لیکن اسکے ذہن میں سبحان کا خیال چھوڑ گیا تھا.

"سبحان.... تم ٹھیک تو ہو نہ..." آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے.   تھوڑی دیر میں بریرہ کا تکیہ گیلا ہو گیا. اسکی محبت دن بدن سبحان کے لئے بڑھتی جا رہی تھی. اسے اپنے فکر کم اور سبحان کی فکر زیادہ ہونے لگی تھی. اپنے پرواہ کئے بغیر وہ سبحان کی صحت یابی کی دعائیں کیا کرتی تھی. اسے محبت نہیں سبحان سے عشق ہو گیا تھا. جس تکلیف میں سبحان تھا اس سے کئی زیادہ تکلیف میں بریرہ تھی. اس کے لئے محبت کا م تو "موت" تھا ہی عشق کا ع بھی "عزاب" بن گیا تھا. اسے کسی طرح اپنی محبت کو بچانا تھا. اسے سبحان کی بے حد ضرورت تھی. اس نے جھٹ سے زینب کو فون ملایا. بغیر سلام دعا کئے اس نے سوال کیا.

"زینب پلیز بتا دو... سبحان کا"

"بریرہ کیا ہے؟ اسی بات پہ لڑ کر تم ہاسٹل چلی گئی اور اب پھر وہی رٹ"

"تم سمجھ نہیں رہی میں اسکے بغیر مر جاؤنگی.." اسکی آواز رندھ گئی.

"کیا کہہ رہی ہو..."

"میری آخری مدد کر دو... میں ایک بار اسے دیکھنا چاہتی ہوں..." وہ رونے لگی.

"اچھا اچھا کیا ہو گیا ہے؟"

"میں نے جو اسکے ساتھ کیا میں اسکی معافی مانگنا چاہتی ہوں... اگر وہ ایسے ہی اس دنیا سے چلا گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کر پاؤنگی.." وہ روتے ہوئے بولی.  زینب جواب نہ دے پائی. وہ سوچوں میں ڈوب گئی. وہ پہلے ہی بریرہ کو بتا کر غلطی کر چکی تھی اور اب اسے اسکے پاس کیسے بھیج سکتی تھی. لیکن بریرہ بھی اس کے سامنے کس وقت سے گڑگڑا رہی تھی. ایک دوست کی مان کر وہ دوسرے کا دل تو نہیں دکھا سکتی تھی.

"زینب کچھ تو بولو..."

"وہ اپنے گھر ہے..." زینب آہستہ آواز میں بولی.

"میں تمہیں گھر کا پتہ ٹیکسٹ کر دیتی ہوں..." 

"ہم..." بریرہ نے جواب دیتے ہی فون کاٹ دیا. زینب کا ٹیکسٹ آتے ہی اس نے ضرروی ساز و سامان رکھا. وہ لاہور کے لئے روانہ ہونے کے لئے تیار تھی. ایک نئی امید اسکے دل میں تھی. "سبحان کو کچھ نہیں ہو گا" وہ کہتے ساتھ کمرے سے نکل گئی.

                      ********************

ڈاکٹر سبحان کے پاس بیٹھی اسکا چیک اپ کر رہی تھیں.

"سبحان تم صحیح سے کھاتے پیتے نہیں ہو نہ؟" 

"کھاتا ہوں نہ.... ڈاکٹر" 

"بالکل نہیں... اگر ایسا ہی رہا تو تم کینسر کا علاج  برداشت نہیں کر پاؤ گے اس کے لئے تمہیں طاقت کی ضرورت ہے..."

"کیا کروں دل ہی نہیں کرتا"

"مسرت آنٹی.." ڈاکٹر نے سبحان کی ماں کو بلایا جو ابھی ہی وہاں سے ڈاکٹر توُبہ کے لئے چائے بنانے گئیں تھیں.

"جی..جی ڈاکٹر" مسرت ڈاکٹر کے پاس آئیں.

"اسکو کھانے کے ساتھ چٹنی دیا کریں... چٹنی کھائے گا تو اسکا دل کھلے گا..."

"ہاں کیوں نہیں میں ضرور بنا دیا کروں گی"

"ہاں جی اسکے کھانے پینے کا سختی سے خیال رکھیں... مشروم سوپ دیں.. وہ کینسر کے لئے فائدے مند ہے.. یہ جب تک کھائے گا پیے گا نہیں کیموتھیراپی ہم نہیں کر سکتے... کینسر کا علاج آپ کو تو پتا ہے سخت ہوتا ہے... اسے طاقت کی ضرورت ہے..." 

"جی... میں خیال رکھوں گی"

"بہتر اب میں چلتی ہوں..." 

"لیکن چائے"

"وہ میں پھر کبھی پی لونگی.. ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے" وہ مسرت سے مل کر گھر سے چلی گئیں.

"سبحان دیکھا وہ کہہ رہی تھیں کہ تم کچھ کھاتے نہیں ہو" وہ بیٹے کی طرف متوجہ ہوئیں

"امی یہ دنیاوی باتیں ہیں... اگر میری قسمت میں زندگی ہوئی تو ضرور ملے گی"

"اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جائیں.. خدا بھی انکی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.." 

"اچھا نہ امی..." سبحان کا منہ بنا.

"میں تمہارے لئے مشروم سوپ بنا کر لاتی ہوں... "

"رہنے دیں ویسے بھی مشروم مہنگے ہیں.."

"تمہاری زندگی سے زیادہ نہیں..."  وہ کہتے ہوئے چلی گئیں.

سبحان سوچوں میں گم ہو گیا. ماں کتنی پیاری چیز ہوتی ہے. اپنے بچوں کا ہر دم خیال رکھتی ہے. انہیں پیار کرتی ہے.. اسے بریرہ کا خیال آیا. اس کا کیا قصور تھا کہ وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں ماں کی فکر اور پیار سے محروم رہی. جو وہ دکھی دکھی رہتی تھی اسکے پیچھے کی وجوہات بھی بڑی تھیں. سبحان نے صرف ایک باپ کھویا تھا اور اسے اب تک ان کی یاد آتی تھی لیکن بریرہ ماں باپ... بھائی.. سب کچھ کھو چکی تھی.

                   *****************

زینب بریرہ کے جاتے ہی اپنے سسرال آ گئی تھی. وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بریرہ کا ہی سوچ رہی تھی. نہ جانے بریرہ کے دل میں کیا چل رہا تھا. نہ جانے وہ وہاں جا کر کیا کرے گی. زینب کو برا لگا اس نے سبحان کا وعدہ توڑ دیا تھا..جو تقریباً اس نے زینب سے ایک مہینہ پہلے کیا تھا اور کچھ دن پہلے ہی سبحان نے اس وعدے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی.

*ایک مہینہ پہلے*

وہ دونوں سنٹارس کے فوڈ ایریا میں بیٹھے ہوئے تھے 

"تم اب تک اپنے دولہے سے میسجنگ پہ بات کر رہی ہو؟" سبحان نے فون میں گم زینب سے پوچھا

"ہاں یار لو میرج کرنا آسان کام تو نہیں.." وہ ہنسی تھی.

"اف تم اور تمہاری لو میرج..." سبحان چڑا.

"تمہیں ہو گا نہ پیار تو پتہ لگے گا"

"ہو ہی نہ جائے کہیں.." وہ نارمل انداز میں بولا.

"ہاہاہا"

"نام کیا ہے تمہارے والے کا" 

"فواد" 

"صحیح ہے بھائی سب کے سین ہیں ایک ہم ہی مسکین ہیں" وہ ہنسا.

"سبحان...." اس نے جونہی سبحان کی طرف نظریں کیں.. اسکی نظر سبحان کی ناک پہ پڑی.

"سبحان.." وہ شاکڈ تھی.

"کیا ہوا ہے"

"تمہارے ناک سے خون بہہ رہا ہے.." سبحان کا رنگ بدلا.

"صبر میں آتا ہوں.." وہ کہتے ہی باٹھ روم بھاگ گیا. زینب فکرمند تھی. کچھ دیر بعد وہ آیا تو زینب نے پوجھ لیا.

"کیا ہوا ہے..خیریت؟"

"نہیں نہیں کچھ نہیں آرڈر اب تک نہیں آیا؟" اس نے بات گول کی.

"نہیں.. سبحان ڈاکٹر کو چلیں؟.."

"نہیں تو کیا ہو گیا ہے"

"یہ نارمل تو نہیں ہے چلے جاتے ہیں..کہیں کچھ"

"بڑا مسئلہ نہ ہو؟" سبحان نے زینب کی بات مکمل کی اور زینب نے سر ہلایا.

"بڑا مسئلہ ہے... لیکن اگر میں نے تمہیں بتایا تو وعدہ کرو کسی کو نہیں بتاؤ گی"

"وعدہ" وہ حیران تھی

"مجھے کینسر ہے..لاسٹ سٹیج" زہنب اس سے آگے کچھ نہ بول پائی اور سبحان بھی خاموش ہو گیا.

یہ واقع کمرے میں بیٹھے بیٹھے زینب کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا.

"سبحان آئی ایم سوری.. میں نے وعدہ خلافی کر دی" وہ دل ہی دل میں التجا کرنے لگی..

                      ******************

بریرہ ویگن میں بیٹھی سبحان کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی. کب سے وہ اس انتظار میں تھی کہ کب جا کر یہ ویگن رکے گی اور وہ سبحان کے گھر پہنچے گی. اسے بس سبحان تک رسائی حاصل کرنی تھی اور اسے کچھ نہیں چاہئیے تھا. سبحان کی ایک ایک یاد اسکے ذہن میں تھی. وہ اسکا ایک ایک لفظ بریرہ کو یاد آ رہا تھا.

 "اچھی صورت کو سنورنے کی ضرورت کیا ہے.. سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے" یہاں سے سفر شروع ہوا تھا اور "محبت اگر مر مٹنے کا نام ہے تو پھر ’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘" پہ آکر ختم ہو گیا. پھر بریرہ کو اسکی سریلی آواز سنائی دی

"ساتھ چھوڑوں گا نہ.. نہ تیرے پیچھے آؤں گا"  

"چھین لونگا یا خدا سے مانگ لاؤں گا"

"تیرے نال تقدیراں لکھواؤں گا" 

 "میں تیرا بن جاؤنگا" اسکی آواز میں بہت مٹھاس تھی. وہ سوچوں میں گم تھی کہ گاڑی رکی. اس نے فورًا بیگ اٹھایا اور ٹیکسی پکڑ کر سبحان کے گھر کا رخ کیا.

                      ********************

مسرت بیٹے کے پاس بیٹھی اسے سوپ پلا رہی تھیں. بیٹے کی تکلیف دیکھ کر انکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا. وہ بے حد مشکل سے اوپر اٹھا تھا. سوپ بھی پیتے وقت کتنی بار اسکے منہ سے درد بھری چیخ نکلی تھی. بیٹے کا درد ان سے برداشت نہ ہو رہا تھا. انکی آنکھیں بھیگنے لگیں. سبحان انکی آنکھوں میں آتے پانی کو دیکھ کر انکے اندر کا درد سمجھ گیا. اس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور انکی آنکھوں میں دیکھ کر یہ بتانا چاہا کہ وہ فکر نہ کریں 

                   او مائی میری کیا فکر تجھے

                   کیوں آنکھ سے دریا بہتا ہے 

                 تو کہتی تھی تیرا چاند ہوں میں

                      اور چاند ہمیشہ رہتا ہے

   لیکن وہ ماں تھیں انہیں فکر تو ہونی تھی. ایک ہی بیٹا تھا اور وہ بھی اس حال میں تھا. اسی دوران دروازے کی گھنٹی بجی.

"میں دیکھ کر آتی ہوں.." مسرت نے اپنے آنکھیں صاف کیں. سبحان کے سر ہلاتے ہی وہ دروازہ کھولنے گئیں. انہوں نے دروازہ کھولا. سامنے ایک نہایت خوبصورت چوبیس پچیس سال کی لڑکی کھڑی تھی. اسکی آنکھیں ہلکی بھوری تھیں اور وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مسرت کو ہی تک رہی تھی.

"آنٹی سبحان سے ملنا چاہتی ہوں...میرا نام بریرہ ہے" 

                   -------------------------------------

"آنٹی سبحان سے ملنا چاہتی ہوں... میرا نام بریرہ ہے" مسرت کو اپنے کانوں پہ یقین ہی نہ آیا.. نہ جانے وہ لڑکی کون تھی اور یہاں کیوں آئی تھی...

"کون ہو تم؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں.

"آپکو سبحان نے نہیں بتایا؟.." وہ حیران ہوئی. مسرت نے اپنے ذہن پہ زور ڈالا.. 

"کہیں تم وہ تو نہیں ہو جس سے سبحان کو محبت ہوئی ہے" وہ خاموشی سے نیچے دیکھنے لگی.. اس کی خاموشی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی.."ہاں میں ہی وہی ہوں" 

"اگر ایسا ہے تو میں تمہیں اندر نہیں آنے دونگی" مسرت نے ان دونوں کی درمیان کی خاموشی کو توڑا...

"کیوں آنٹی..."

"سبحان کی طبیت پہلے ہی خراب ہے میں کیسے

 تمہیں اس سے ملنے دوں؟"

"کیسا ہے وہ..؟" سبحان کا نام سن کر اسکی آنکھیں بھر آئیں..

"بس ٹھیک ہے...."

"آنٹی مجھے پلیز اس سے ملنے دیں.. میں بہت دور سے صرف اور صرف اس سے ملنے آئی ہوں..." اسکی آنکھوں کی نمی صاف ظاہر ہو تھی.. مسرت کا دل پگھل گیا.

"اچھا اندر آؤ.." بریرہ نے گھر میں قدم رکھا.. گھر چھوٹا سا تھا مگر صاف ستھرا. مر کے دو کمرے ہوں گے وہاں.. 

"کہاں ہے سبحان؟"

"کمرے میں اپنے..." مسرت نے اشارہ کیا....

                       *****************

سبحان بستر پہ بیٹھا اپنی خیالی دنیا بنا رہا تھا... بریرہ کے بارے میں سوچتا پھر اسے اپنی بیماری کی یاد آتی.. اسکی بیماری اسکے کندھوں پہ بوجھ بن کر رہ گئی تھی.. اسی کمبخت کی وجہ سے وہ اپنی محبت حاصل نہیں کر پایا تھا.. ماں کی آواز کانوں میں پڑتے ہی اسکے خیاوں کا سلسلہ ٹوٹا...

"سبحان تم سے ملنے کوئی آیا یے..." 

"کون ام." اس لڑکی کو اندر آتے دیکھ کر سبحان کی بولتی بند ہو گئی... ارد گرد سناٹا چھا گیا.. سبحان اس سے نظریں ہٹا ہی نہ پایا... وہ خوابوں والی بریرہ اپنی بھوری آنکھوں سے اس پہ ہی نظریں جمائے ہوئی تھی.. دونوں کی آنکھوں میں نمی تھی.. دل زور زور سے دھڑک رہا تھا.. جو چاہئیے تھا وہ ٹھیک سامنے تھا لیکن چاہ کے بھی حاصل نہ کر سکتے تھے.. یہ بےبسی.. یہ دکھ درد آخر کیوں؟ 

               جتنی تھی خوشیاں سب کھو چکی ہیں

                   بس ایک غم ہے کہ جاتا نہیں.. 

                    سمجھا کہ دیکھا بہلا کے دیکھا

                      دل ہے کہ چین اسکو آتا نہیں 

                  آنسو ہیں کہ ہیں انگارے..

                                  آگ ہے اب آنکھوں سے بہنا

                    کبھی علودہ نہ کہنا

"بریرہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ خود کو سنھبال کر بولا..

"سبحان میں اتنی بری تھی کیا؟" وہ رو کر بولی تھی..

"کس نے کہہ دیا" اس کے لحجے میں تلخی تھی. بیماری نے اسے کڑوہ بنا دیا تھا.. 

"تم نے مجھے اپنی بیماری کا کیوں نہیں بتایا؟" سبحان کو لگا اسکے پیروں سے زمین سرک گئی.. 

"زینب تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گا" اس نے دل میں سوچا....

"کیوں کہ میں اپنی تکلیف تمہیں نہیں دینا چاہتا تھا"

"ہاں جو چھوڑ کر تکلیف دی وہ تکلیف نہیں تھی.. اس سے بہتر تھا بتا دیتے... کم از کم مجھے یقین تو ہوتا کہ تم صرف میرے ہو"

"جو ہو گیا اب ہو گیا...تم جاؤ یہاں سے"

"میں نہیں جاؤں گی میں تمہاری دیکھ بھال کرنا چاہتی ہوں" 

"بریرہ بچوں جیسی باتیں مت کرو...یہ بیماری میرے لئے مشکل مت بناؤ"

"میں نے کیا کیا..."

"تم میرے سامنے رہو گی تو مجھے مرنے..." اسکی بات مکمل کرنے سے پہلے بریرہ نے اسکے لبوں پہ ہاٹھ رکھ دیا...

"تمہیں کچھ نہیں ہو گا" وہ جوابآً طنزاً مسکرایا..

"یہ صرف دلاسے ہیں.. جاؤ شادی کر لو... اچھے سے زندگی گزارو"

"ایسا کیسے کہہ سکتے ہو تم... میں تمہارے ساتھ مر جاؤنگی لیکن شادی نہیں کرونگی..." اس بار سبحان صحیح معنوں میں پریشان ہو گیا... وہ بریرہ کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا...

"کیا بات ہے بریرہ.. زبان سنبھال کر بات کیا کرو"

"پھر مجھے یہاں رہ کر تمہاری خدمت کرنے دو" 

"نہیں رہ سکتی... ہم شریف لوگ ہیں محلے والے سو باتیں کریں گے کہ جوان لڑکی رہ رہی ہے یہاں.." وہ کچھ سوچ کر بولا.. شاید بریرہ اب مان جائے...

"ایسا ہے تو...." اس نے تھوڑا سوچا..

"تم میرے سے نکاح کر لو...بیوی بنا لو اپنی.." سبحان کو اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا.. بریرہ سچ مچ پاگل ہو چکی تھی..

"تمہارا دماغ خراب ہے...؟ ادھر میں آخری سانسیں لے رہا ہو اور تم سے نکاح کر لوں؟"

"میرے بات بالکل جائز ہے.. ایسے میں ٹھیک طریقے سے تمہاری دیکھ بھال بھی کر سکوں گی.." بریرہ کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھی..

"پاگل ہو تم... بھول جاؤ مجھے..."

"سو بار دل سے یہ کہا کہ بھول جاؤں تمہیں لیکن ہر بار یہ جواب آیا کہ تم دل سے نہیں کہتی..." سبحان نے آنکھ اٹھا کر اس کا  چہرہ  دیکھا جو بےحد شفاف تھا.. بریرہ کی بات سبحان کے دل کو لگی تھی...

"اچھا تم رہ جاؤ یہاں..."

"لیکن نکاح؟" سبحان نے سوال کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا.. اس طرح کتنے ہی دن گزر گئے. سبحان بریرہ کے وجود سے خوش تھا.. اسکا وجود اسکی بیماری پر بھی مثبت اثرات مرتب کر رہا تھا لیکن سبحان یہ چیز نوٹس نہیں کر پایا تھا لیکن اسکی ماں یہ بدلاؤ نوٹس کر چکی تھیں.. انجا بیٹا پہلے کی طرح مرجھایا ہوا نہیں لگتا تھا..

                            ******************   

زینب کچن میں تھی جب اسکے فون پہ بیل آئی تھی.. زینب نے فورُا سے فون اٹھایا...

"سبحان کییسے ہو؟"

میں ٹھیک...تم؟" اس کی آواز پر اعتماد تھی..

"ٹھیک... کیوں فون کیا ہے؟" 

"تم بہتر جانتی ہو زینب..."

"سبحان وہ الزام لگائے جا رہی تھی.. مجھے بتانا پڑتا..."

"میرے پہ ہی لگا رہی تھی نہ لگانے دیتی..وعدہ کیوں توڑا؟"

"اس نے مجھ پہ بھی لگایا... برداشت نہ ہوا توڑنا پڑا " 

"اچھا یہاں کا اڈریس کیوں دیا؟"

"میں دوست کے سامنے بےبس ہوگئی تھی.." وہ شرمندہ ہوئی.

اچھا اب شرمندہ نہ ہو..ایک اچھا کام کرو.."

"کیا میں سب کروں گی" وہ تیزی سے بولی

"تو پھر بریرہ کو فون کر کے اسلام آباد بلواؤ.. وہ میری نہیں سن رہی.. تمہاری سن لے گی.." وہ اسے ابھی بھی بھیجنے پہ اڑا ہوا تھا.. اسے لگتا تھا کہ بریرہ کو اپنی زندگی گزارنی چاہئے لیکن اب اسے کون بتائے کہ اسکی زندگی ہی سبحان تھا..

"کوشش کرتی ہوں.. تھوڑی دیر بعد کرتی ہوں کال.."

"کوشش نہیں یقین دلاؤ کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی.." 

"اچھا... ہے کدھر وہ.."

"باہر بیٹھی ہے کمرے میں. میں اسے یہاں سے بھیج نہ پایا... میرے میں اتنی ہمت نہیں ہے...."

"اچھا میں کوشش کرتی ہوں...." اسکے جواب دیتے ہی سبحان نے فون کاٹ دیا..

 بریرہ سبحان کی دوائیاں دیکھ رہی تھی. اس نے میڈیکل پڑھا تھا اسے ہر دوائی کی سمجھ تھی.. عین اسی وقت سبحان باتھروم سے نکلا. بریرہ نے آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا... 

"تم زینب سے بات کر رہے تھے نہ؟" سبحان کے چہرے پہ بارہ بج گئے...

"تم میری باتیں سن رہی تھی.. ؟"

"نہیں اندازہ لگایا.. کہ تم نے اس سے کہا ہو گا کہ وہ مجھے اسلام آباد واپس آنے کا بولے.." سبحان شاکڈ کھڑا تھا..

"تو غلط کیا ہے اس میں"

"سبحان میں زینب کی نہیں سنو گی.. وہ ہمیشہ ہر آرگیو میں مجھ سے جتتی آئی ہے لیکن اس بار نہیں.."

"تم بلاوجہ کی ضد...." بولتے بولتے سبحان کو درد محسوس ہوا... "آہ" بریرہ دوڑ کے اسکے پاس گئی "سبحان"

مسرت بھی بیٹے کی آہ سن کر وہاں آگئیں... بریرہ سبحان کو سہارا دے کر بیڈ تک لائی اور درد کی دوا دی... 

"سبحان سچی... مجھے اپنی خدمت کرنے دو...مت بھیجو یہاں سے مجھے" سبحان خاموش تھا..

"سبحان تم کچھ..." 

"بریرہ میں نہیں کر سکتا تم سے نکاح... سمجھی... اور نہ ہی تم یہاں رہ سکتی ہو..." اس نے ایک بار پھر سے ٹال دیا.. 

"ٹھیک ہے میں چلی جاؤنگی یہاں سے.. اگر تمہیں لگتا ہے تمہارے بغیر میں خوش رہ پاؤنگی تو ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں.. لیکن نہ میں شادی کرونگی نہ میں خوش رہونگی.." وہ اٹھ کر جانے ہی لگی کہ مسرت نے اسکا ہاٹھ پکڑا..

"بیٹا اسکی بات مان لو.." وہ سبحان سے مخاطب ہوں..

"امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں...؟" سبحان حیرانگی میں ماں کو دیکھنے لگا...

"جب سے یہ آئی ہے.. تمہاری آنکھوں کی افسردگی مجھے کم لگی ہے... اسکے وجود سے تمہیں تکلیف نہیں راحت پہنچی گی.. ہمیشہ کی طرح دماغ کی مت سوچو سبحان دل کی سوچو" ماں کی بات نے سبحان کو سوچنے پہ مجبور کر دیا. وہ ٹھیک تھیں وہ دماغ کی ہی سوچ رہا تھا. دل بیجارہ تو کب سے یہی کہہ رہا تھا کہ روک لو بریرہ کو.. کر لو نکاح.. وہ تمہارا سکون ہے.. لیکن وہ پھر بھی وہ دماغ کی بات کو ترجیح دے رہا تھا.. وہ ہر بار دماغ کی سوچ کر تکلیف اٹھاتا تھا اس بار چلو دل کی سن لیتے ہیں. اس نے سوچا

"اوکے میں تیار ہوں..." بریرہ کی آنکھیں کھل اٹھیں.  مسرت بھی مسکرا دیں. سبحان خاموش تھا. وہ سوچ رہا تھا کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے کہ نہیں..

"سادہ سا نکاح ہو گا امی.." وہ دونوں کو دیکھ کر بولا.

"ہاں ٹھیک ہے.. میں مولوی کو بلوا لاتی ہوں" مسرت کے جاتے ہی بریرہ بھی باہر آئی.. اس نے اپنی ماں کا لال ڈوپٹہ سر پہ اوڑھا اور خود کو آئینے میں دیکھا. وہ بے حد خوش تھی لیکن کچھ پریشان بھی.. سبحان کی بیماری کا کیا ہو گا. یہ فیصلہ ٹھیک ہے کی نہیں.. بہت سے سوالات اس کے ذہن میں آئے لیکن اگلے ہی لمحے اس نے دماغ مین آتے خیالوں کو جھٹکا...

"جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا.. ابھی تو میری خواہش پوری ہو رہی ہے..." چمک پھر اسکی آنکھوں میں نمایاں تھی...

اتنے میں مولوی اور کچھ گواہ بھی آگئے.. کچھ دیر انتظار کے بعد نکاح شروع ہوا.. اور ایک قبول ہے بولنے کے بعد رشتے بدل گئے. وہ دوست سے میاں بیوی بن گئے.. ایک دوسرے کے ہمسفر بن گئے.. سبحان نے نظریں اوپر اٹھا کر دیکھا اور اسکی نظریں بریرہ سے جا ملیں..

                         میرے ساتھی میرے دلبر  

                         میرے ساتھ یونہی چلنا

                             بدلے گا رنگ زمانہ

                              پر تم نہیں بدلنا

          مجھے چھوڑ کے نہ جانا وعدے ہزار کر کے

              آئے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے

وہ بہار ہی بن کر آئی تھی اسکی زندگی میں. اسے اس وقت بریرہ پہ بے حد پیار آیا.. وہ مسکرا رہی تھی اور لال رنگ کے دوپٹے میں بے حد حسین لگ رہی تھی. وہ یہی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ دیکھنا چاہتا تھا. اب وہ سکون سے مر سکے گا....

                         *****************

زینب نے گھر بیٹھے بیٹھے بریرہ کو فون ملایا لیکن فون کاٹ دیا گیا. اسکے ذہن میں تھا کہ وہ بریرہ کو واپس آنے کا کہے گی. سبحان کی یہ بات تو پوری کرے گی. کچھ دیر بعد اسکے موبائل پہ کال آئی.. اس نے فون ان لاک کیا تو بریرہ کا فون آ رہا تھا. اس نے جلدی سے کال اٹھائی.

"ہیلو؟"

"ہائے.. بریرہ"

"کیسی ہو.."

"میں ٹھیک تم.."

"ٹھیک ہوں.. تمہاری کال آئی تھی کیا بات ہے؟"

"وہ میں کہہ رہی تھی.. اب تو آ جاؤ واپس سبحان کو تو دیکھ لیا ہو گا"

'نہیں اب اسکی ضرورت نہیں.."

"کیوں"

"کیونکہ یہی میرا گھر.. میں نے سبحان سے نکاح کر لیا ہے'

"کیا... کیا کہہ رہی ہو تم" وہ بالکل شاکڈ تھی.

"سچ ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نکاح ہوا.. "

"سبحان مان گیا؟"

"ہمم اسکی مرضی سے ہوا..." زینب حیرانگی میں کچھ بول نہ پائی 

"اچھا سبحان کی کیموتھیراپی ہے کل.. تم جیجو کے ساتھ اس سے ملنے ضرور آنا.. پوری بات بتاؤں گی" بریرہ نے قائم ہونے والی خاموشی کو توڑا..

"اچھا ضررو.." اس نے کہتے ہی فون کاٹ دیا.. وہ مزید کچھ کہنے کے قابل نہ تھی... زینب سوچوں میں گم تھی کہ نہ جانے یہ کیا ہو گیا تھا. اس نے ایک بار ان دونوں سے ملنا کا سوچا بھی تھا.. اور وہاں بریرہ سبحان کے ساتھ بستر پہ بیٹھی اسکی خدمت کر رہی تھی. سبحان خوشی سے اپنی بیوی کو دیکھے جا رہا تھی. وہ بہت خوش تھا.. اس کی ایک خواہش تو پوری ہو گئی تھی...

                      کیسے مجھے تم مل گئی

                        قسمت پہ آئے بہ یقین

___________

///Don't copy paste without permission ///

                          زندگی دو پل کی 🥰

قسط نمبر گیارہ: (Last Episode)

وہ اپنی نیلی آنکھوں سے اپنی پھول جیسی شریکِ حیات کو دیکھ رہا تھا. اسکی نظروں میں سبحان ہی تھا. اسکی فکر تھی.. وہ سبحان پہ جان چھڑکتی تھی. سبحان اس معاملے میں بے حد خوش قسمت تھا. اسکی بیوی ہیرے سے کم نہ تھی.. بریرہ پاس بیٹھی اسکی فکر میں اس قدر محو تھی کہ وہ اسکی نظر اپنے اوپر دیکھ نہ پائی. کچھ دیر بعد اس نے سبحان کے چہرے پہ نظر ڈالی. وہ اسی طرف دیکھ رہا تھا.

"کیا دیکھ رہے ہیں؟" بریرہ کو الجھن ہوئی.

"ارے واہ.. شادی سے پہلے نو عزت اب عزت دی جا رہی ہے" سبحان نے چھیڑا.

"تو رشتہ بھی تو بدل گیا ہے اب" 

"یعنی دوست کی عزت نہیں کرنی چاہئیے" وہ اسے پکہ چھیڑنے کے موڈ میں تھا..

"اب میں نے ایسا بھی تو نہیں کہا..." وہ تھوڑا روٹھ کر بولی.

"تو کیسے کہا ہے؟"

"ارے آپ تنگ کیوں کر رہے ہیں" وہ پیچھے ہونے لگی کہ سبحان نے اسکا ملائم ہاتھ پکڑ لیا..

"پتہ ہے بریرہ..." وہ بریرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا.

"کیا" بریرہ شرم سے نیچے دیکھنے لگی. سچ میں رشتے اب بدل چکے تھے. سبحان نے تھوڑی پہ ہاتھ رکھ کے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا.

"کچھ چیزیں میرے دل کو سکون دیتی ہیں ان میں تمہارا چہرہ سرفہرست ہے" سبحان بالکل پیار سے بولا اور بریرہ شرما گئی....

"تم بہت شرماتی ہو"

"ہوں ہی ایسی..." وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر بولی. اسکا انداز بےحد پیارا تھا. سبحان نے آگے ہو کر اسکے ماتھے کو چوما

"چلیں سو جائیں بہت رات ہو چکی ہے"

"جو حکم بیگم" دونوں کھکھلا کر ہنسے.. یہ خوشیاں کب تک برقرار تھیں کون جانتا تھا..

                        ****************** 

زینب کا شوہر نیوزپیپر پڑھ رہا تھا جب زینب اسکے پاس آئی تھی.

"جواد" 

"بولو" جواد نے نیوزپیپر میز پہ رکھا

"آپ مجھے لاہور سبحان کے گھر لے چلیں گے؟"

"کیوں خیریت؟"

"میں نے بتایا تھا نہ آپ کو سبحان کا...اسے دیکھنے چلنا ہے"

"ہاں اچھا لڑکا ہے چلیں گے.. لیکن تم کچھ پریشان لگ رہی ہو"

"وہ...." زینب بریرہ کی بات پہ پریشان تھی.

"کیا ہوا ہے زینب کھل کر بتاؤ" بیوی کی پریشانی جواد سے دیکھی نہ گئی..

"وہ سبحان اور بریرہ نے نکاح کر لیا ہے"

"کیا.. تم تو کہہ رہی تھی سبحان کینسر کی لاسٹ سٹیج پہ ہے" جواد بھی حیران ہو گیا

"جی ایسا ہے..."

"پھر تو تمہاری دوست نے غلط فیصلہ نہیں کر دیا؟"

"پتہ نہیں اب" وہ فکر مند تھی.

"چلو.. جو ہونا تھا ہو گیا.. اللہ بریرہ کے حق میں بہتر کرے اور سبحان کو لمبی زندگی عطا کرے.." 

"آمین.." زینب کے لبوں سے اچانک نکلا... سبحان کو اس وقت دعاؤں کی اشد ضرورت تھی...

                       ****************

سبحان بستر پہ لیٹا ہوا تھا اور صبح سے اسکے جسم میں شدید درد ہو رہا تھا. جگہ جگہ دکھ رہی تھی. نہ جانے یہ بیماری اسکا پیچھا کب چھوڑے گی.. بریرہ کچن میں کھڑی اس کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی.. کچھ دیر بعد بریرہ کمرے میں آئی..

"سبحان ناشتہ کر لیں" سبحان کی حالت دیکھ کر بریرہ کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ آئی. اپنے میاں کو درد سے کراہتا دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی. سبحان نے اسکی پریشانی نوٹس کی..

"ابھی سے ہار مان گئی" بریرہ فوراً ٹرے لے کر اسکے پاس آئی .. 

"سبحان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے" 

"وجہ" وہ نارمل انداز میں بولا..

"کچھ دیر بعد آپکی کیموتھیراپی ہے.. اور کینسر کا علاج بہت سخت ہوتا ہے..." 

"اچھا.. تو میری بیگم وہ یقین کہاں گیا جو کچھ دن پہلے آپ کو تھا؟" 

"یقین تو پہلے بھی تھا لیکن ڈر.." اسکی بات کاٹ دی گئی

"جہاں یقین ہو وہاں ڈر نہیں ہوتا اور جس یقین میں ڈر آجائے وہ پورا نہیں ہوتا.. سمجھی" بریرہ نے جواباُ سر ہلایا..

"ناشتہ کروائیں" سبحان مسکرا کر بولا. بریرہ نے آگے ہو کر سبحان کو ناشتہ کروایا... ان کا پیار محبت سب چیزیں انمول تھیں..

                      ******************

دوپہر کا وقت تھا اور وہ دونوں ہاسپٹل کے لئے نکلنے ہی والے تھے. بریرہ بے حد پریشان تھی. سبحان کی فکر اس کے ذہن پہ چھائی ہوئی تھی.. مسرت نے بھی ساتھ ہی ہاسپٹل جانا تھا.. جونہی بریرہ سبحان کو لینے کے لئے آئی سبحان بیڈ سے اٹھ چکا تھا.. بریرہ دوڑ کر پاس آئی..

"آپ مجھے بلا لیتے اٹھ کیوں گئے" 

"ارے بابا ٹھیک ہوں.." بریرہ نے آنکھ اوپر اٹھا کر دیکھا سبحان نے اسکی آنکھوں کی فکر کو محسوس کیا.. 

"چلیں" جواب دینے کے باوجود اس نے بریرہ کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے اسے قریب کیا...

"جانتی ہو بریرہ" وہ اسکی فکر کم کرنا چاہتا تھا...

"کیا" وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی..

"تمہیں اپنی آنکھوں میں نہیں رکھا کہیں آنسوؤں کے ساتھ بہہ نہ جاؤ تمہیں اپنے دل میں رکھا ہے تا کہ ہر دھڑکن کے ساتھ یاد آؤ" بریرہ نے آنکھ اٹھا کر سبحان کا چہرہ دیکھا. وہ رومانٹک انداز میں بولا تھا..

"حد ہے آپ کو اس وقت رومانس سوجھ رہا ہے" وہ صحیح تھی سبحان کو غلط وقت پہ ہی رومانس سوجا تھا.

"ہاں تو کس ماہا پرش نے کہا ہے کہ... ہسپتال جاتے وقت بیوی سے رومانس نہیں کر سکتے؟" وہ چڑ کر بولا..

"کسی نے نہیں ...ہٹیں.." اس نے خود کو سبحان کی گرفت سے چھڑوایا.. دروازے کے پاس پہنچ کر وہ سبحان کی طرف مڑی..

"آ جائیں جلدی سے"

"آ رہا ہوں"

                        *******************

سبحان آپریشن تھیٹر میں تھا..شعاؤں کے ذریعے اسکا علاج کیا جا رہا تھا.. بریرہ اور مسرت ہسپتال میں ہی تھے. دونوں کی دل کی دھڑکنیں تیز تھیں..

"امی میں ذرا آتی ہوں"

"کدھر جا رہی ہو؟"

"سبحان کے لئے دعا کرنے" وہ کہتی ہوئی وہاں سے چل پڑی.. کسی کونے میں جا کر اس نے نفل ادا کئے اور روتی آنکھوں سے سجدے میں گر پڑی. اس نے ہاتھ اٹھا کر لمبی چوڑی دعا کی.

"اے میرے رب تو تو ہر چیز پہ قادر ہے.. تو کچھ بھی کر سکتا ہے.. میری دعا کو قبول کر دے..تو کتنی ہی جاندار کو صحت بخشتا ہے..میرے شوہر کو بھی صحت جیسی نعمت نصیب کر.. تو میرے دل کی گہرائیوں سے واقف ہے.. تو سبحان کے لئے میری محبت کو بھی جانتا ہے.. اسے مجھ سے جدا نہ کر.. میرے ماں باپ میرا بھائی سب چلے گئے میرے شوہر کو مجھ سے جدا نہ کر.. میں تیری شکر گزار ہوں تو نے مجھے ہر موڑ پہ سنھبالا.. زینب کے روپ میں بھائی کی جگہ بہن دی..سکینہ آنٹی کے روپ میں ایک ماں دی.. سبحان کے روپ میں دوسری محبت دی اور اسکو میرا ہمسفر بنایا.. مسرت کے روپ میں ایک اور ماں سے نوازا جو میرے پہ جان چھڑکتی ہیں.. میں تیری بےحد شکر گزار ہوں.. اب اپنے اس گناہگار بندی پہ ایک اور کرم فرما دے.. میرے شوہر کو زندگی عطا کر دے.. میری اس خواہش پہ کُن فَیَکون فرما دے" اس نے اپنے آنسوؤں سے بھیگے چہرے پہ ہاتھ پھیرے اور مسرت کی طرف آئی.. اسکے چہرے پہ ایک یقین تھا.. اللہ پہ پکہ بھروسہ ہو گیا تھا کہ وہ اسکی دعا رد نہیں کرے گا

"امی ڈاکٹر آئی؟" اسکے کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر توُبہ آپریش تھیٹر سے باہر نکلی. بریرہ دوڑ کے انکے پاس آئی..

"سبحان کیسا ہے؟.." 

"ٹھیک ہے ابھی تو... فکر مت کرو.. اب علاج شروع ہوا تو افاقہ ضرور ہو گا.. میں نے کتنے ہی بلڈ کینسر پیشنٹز کو تندرست ہوتے دیکھا ہے..اور سبحان مجھے ویسے بھی پہلے سے نتدرست لگا ہے" 

"آپ کی زبان مبارک ہو" ڈاکٹر کی تسلی بریرہ کو بےحد اچھی لگی..

"اب بات یہ ہے کہ.. دو سے چھ ماہ تک سبحان کی وقفے وقفے سے کیموتھیراپی ہوا کرے گی.. اور ہر کیموتھیراپی سے معلوم ہو گا کہ ہم کس قدر کینسر کو کنٹرول کر پائے.. باقی آپ اللہ سے دعا کرو.. وہی زندگی دینے والا ہے.." 

"ٹھیک ہے" بریرہ نے جواب دیا...

"ڈاکٹر ہم سبحان سے مل سکتے ہیں..." مسرت نے پوچھا.

"جی مل لیں.. کچھ دیر بعد اسے یہاں سے لے بھی جائیں.."

"جی بہتر" وہ دونوں جواب دے کر کمرے میں گئیں.. نیلا لباس پہنے وہ سٹریچر پہ لیٹا ہوا تھا. علاج نے اسے تھکا دیا تھا.. وہ بےحد مشکل سے آنکھیں کھول پایا تھا.

"امی اسکے سامنے روئیے گا نہیں.." اس نے مسرت سے سرگوشی کی اور انہوں نے سر ہلایا.

"سبحان بیٹا..." مسرت نے سر پہ ہاتھ پھیرا...

"جی امی.." وہ بہت مشکل سے بول پایا تھا...

"ڈاکٹر کہہ رہی ہیں تم ٹھیک ہو جاؤ گے..." 

"انشااللہ" وہ آہستہ سا بولا اور بریرہ پہ نظر ڈالی جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی.. سبحان بھی بدلے میں مسکرایا

               تیری مسکراہٹیں ہیں طاقت میری

                   مجھ کو انہیں سے امید ملی

                   **************************  

زینب رستے میں تھی اور وہ بریرہ اور سبحان سے ہی ملنے جا رہی تھی..اس نے بریرہ کو فون ملایا...

"اسلامُ علیکم.." بریرہ نے فورًا کال اٹھا لی تھی.

"وعلیکم اسلام.. کیسی ہو سبحان کیسا ہے؟"

"سب ٹھیک ہے... ابھی ہی بس ہاسپٹل سے واپسی ہوئی ہے" 

"ٹھیک ہی نہ سبحان..." اسکی آواز میں فکر تھی.

"ہاں آرام کر رہا ہے..." 

"چلو صحیح ہے ہم بھی بس پہنچنے والے ہیں..." 

"اوکے خیریت سے آؤ" جواب سن کر زینب نے فون کاٹ دیا..

کچھ دیر بعد وہ پہنچ گئے..بریرہ نے دروازہ کھولا اور زینب نے اسے گلے لگا لیا...

"کیسی ہو میں نے تمہیں بہت مس کیا"

"بالکل ٹھیک...میں نے بھی کیا.. آپ دونوں آئیں نہ اندر" بریرہ نے راستہ دیا..

"کہاں ہے سبحان.." جواد نے پوچھا.

"آئیں میں آپ کو لے چلتی ہوں..."

تھوڑی ہی دیر بعد وہ سبحان کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے..

"یار تم دونوں سے ایک گلہ ہے اپنے نکاح پہ بلایا ہی نہیں"

"کیا کرتے سب جلدی میں ہوا زینب.." سبحان بولا..

"اچھا چلو خیر ہے.. اللہ تم دونوں کو خوش رکھے اور سبحان کو صحت یاب کرے"

جواد, بریرہ اور سبحان تینوں نے ایک ساتھ آمین کہا اور باقی کا وقت باتوں میں گزر گیا.. اور کچھ دیر بعد زینب اور اسکا شوہر وہاں سے چلے گئے...

                           ***************

مہینے گزر گئے تھے اور سبحان کا علاج وقتاً فوقتاً ہو رہا تھا.. علاج سے بیماری کنٹرول میں آ گئی تھی.. آج اسکی آخری کیموتھیراپی تھی.. بریرہ اسکے پاس بیٹھی اسکو ہسپتال لے جانے کے لئے تیار کروا رہی تھی..

"اف پھر سے علاج کا درد ہو گا" وہ منہ بنا کر بولا..

"آخری تھیراپی ہے آج تو اور میں جانتی ہوں کینسر کا علاج سخت ہوتا ہے"

"ہم علاج کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کسے نے کتنی ہی سوئیاں میرے جسم میں کھبو دیں" وہ منہ بنا کر بولا

"آخری بار برداشت کر لیں بس..." 

"ہاں ایک تو میرے بال بھی جھڑتے جا رہے ہیں"

"ہاں کیموتھیراپی کا سائڈایفیکٹ ہے اور آپکو بالوں کی کیا پڑی ہے؟"

"جانتا ہوں.. بالوں کی یہ پڑی ہے کہ آپ کا شوہر گنجا ہو جائے پھر آپ کو پیارا نہیں لگے گا.."

"حد ہے سبحان... ایسا نہیں ہے" 

"ہوا تو" وہ آنکھوں میں دیکھ کر بولا

"نہیں ہو گا... ایک بات بتاؤں..." 

"بتائیں" وہ اب تک بریرہ کی آنکھوں میَ دیکھ رہا تھا.

"آپ سے محبت ہے اسلئے خوبصورت لگتے ہیں...خوبصورت ہیں اسلئے محبت نہیں ہے آپ سے.. تو آپ گنجے بھی ہو جائیں میری محبت میں کمی نہیں آئی گی.." وہ آنکھوں میں دیکھ کر بولی..

"ارے بھئی واہ... میرے بیگم نے دل جیت لیا.." اسکی آنکھوں میں چمک تھی.. بریرہ کے بولنے کے انداز نے اسے بےحد خوشی اور طاقت دی تھی.. اس نے آگے ہو کر بریرہ کا ماتھا چوما..

                      میں تینو سمجھاواں کی

                         نہ تیرے بنا لگدا جی 

                        تو کی جانے پیار میرا

                         میں کراں انتظار تیرا

"اچھا اب اٹھیں نکلتے ہیں..." وہ بستر سے اٹھ کر بولی.. 

"جی اوکے دراز سے میرے دوائیاں بھی نکال لیں.. "

"اوکے" بریرہ نے دراز کھولی اور دوائیوں کے نیچے اسے چمکتی ہوئی چیز نظر آئی.. اس نے وہ چیز اٹھائی.. یہ اسکی وہی لال بندیا تھی جو اس نے زینب کی بارات پہ پہنی تھی..

"سبحان یہ آپ نے اب تک سنھبال کر رکھی..؟" بریرہ نے سبحان کی طرف بندیا کی..

"او ہاں.. آپکی ہر چیز کو سنھبال کر ہی رکھنا تھا..." 

"اتنا پیار کرتے ہیں میرے سے؟"

"بہت زیادہ.. اسی پیار نے مجھے ہمت دی ہے..میری اس دو پل کی زندگی میں خوشیاں لایا یہ پیار" بریرہ کے آنکھوں میں آنسو آئے لیکن اس بار خوشی کے آنسو تھے...

                            *****************

مسرت.. سبحان اور بریرہ ہاسپٹل آ چکے تھے..آپریش تھیٹر میں سبحان کا علاج ہو رہا تھا. آج اسکا کینسر پوری طرح سے مٹ بھی سکتا تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی خدشہ تھا کہ کسی اعضا سے یہ بیماری دوبارہ نہ پھوٹ پڑے.. کچھ دیر بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر تُوبہ نکلیں.. مسرت اور بریرہ دوڑ کر انکے پاس گئی..

"مبارک ہو.. چھ مہینے کے علاج کے بعد سبحان کے سارے کینسر کے سیل (cells) ختم ہو گئے ہیں.. وہ اب ٹھیک ہے آپکی دعاؤں کا اثر ہے کہ اسے نئی زندگی مل گئی.." ڈاکٹر کے الفاظ نے مسرت اور بریرہ کے چہرے پہ چار چاند لگا دئیے..

"شکریہ بہت بہت آپ کا.. اللہ آپکے گھر میں برکت ڈالے..." مسرت ڈاکٹر سے مخاطب ہوئیں...

"ارے اسکی کوئی بات نہیں ہمارا کام ہی لوگوں کی جانیں بچانا ہے..." 

"لیکن آپ نہ ہوتیں..تو نہ جانے میرے شوہر کا علاج کیسے ہوتا.. بہت بہت شکریہ.." ڈاکٹر توبہ کو بریرہ نے گلے لگایا. وہ بہت زیادہ خوش تھی.. اللہ نے اسکی دعا کو قبول کر لیا تھا..

"امی آپ سبحان کے پاس چلیں میں شکرانے کے نفل ادا کر کے آتی ہوں.." بریرہ مسرت سے مخاطب ہوئی...

"اوکے بیٹا" ماں کے آنکھوں کی چمک واپس آگئی تھی.. بریرہ وہاں سے چلی گئی... مسرت بیٹے کے پاس آئیں اور اسکو گلے لگایا.. سبحان بھی بےحد خوش تھا.. اسکی ماں اور خاص کر بیوی کی دعاؤں نے اسے نئی زندگی بخشی تھی..

"امی بریرہ کہاں ہے..." 

"وہ شکرانے کے نفل ادا کرنے گئی ہے..." سبحان کے لبوں پہ مسکراہٹ آئی. اسکو بریرہ پہ بےحد پیار آیا.. اسکا خیال اسکی محبت نہ ختم ہونے کے برابر تھی.. بریرہ اسکے لئے ایک بڑی نعمت تھی.. سبحان کو وہ آیت یاد آئی 

"اور تم اپنے خدا کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے"

"بےشک خدا بڑا بےنیاز اور رحم کرنے والا تھا" اسکے لبوں سے بےساختہ نکلا.. وہ سٹریچر سے اٹھنے لگا..

"بیٹا کہاں جا رہے ہو؟"

"بریرہ کی طرح میں بھی شکرانے کے نفل ادا کروں گا..." وہ کہتا ہوا اٹھا.

"لیکن طبیعت؟"

"میں بالکل ٹھیک ہوں امی..رہی بات درد کی تو برداشت کے قابل ہے" وہ کہتا ہوا چلا گیا.. پہلے اس نے اپنی بیوی کو کونے کونے میں دھونڈا.. پھر ایک کونے میں بریرہ سبحان کو نظر آئی.. وہ جائے نماز پہ سجدہ کر رہی تھی.. سبحان لبوں پہ مسکراہٹ لئے وہاں پہ پہنچا.. اس نے بریرہ کے برابر ہی  تھوڑا سا آگے کر کے جائے نماز بچھائی اور شکرانے کے نفل ادا کرنے لگا.. کچھ دیر بعد جب وہ سلام پھیر رہا تھا اسکی نظر بریرہ پہ پڑی. وہ اسی کو دیکھ رہی تھی..

"سبحان آپ یہاں" 

"شش ابھی مجھے تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھنے دو" بریرہ بدلے میں کچھ نہ بول پائی بس مسکرا دی..سبحان مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا. دونوں کی نظروں میں ایک دوسرے کے لئے بےحد محبت اور ادب تھا.. وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھو چکے تھے.. ان کی  آنکھوں میں ایک دوسرے کے لئے پاکیزہ محبت جگمگا رہی  تھی...

            او کرم خدایا ہے تجھے مجھ سے ملایا ہے

              تجھ پہ مر کے ہی تو مجھے جینا آیا ہے

اس دو پل کی زندگی میں بریرہ اور سبحان کو اللہ پاک نے سنھبال لیا تھا.. بریرہ کی محرمیوں کو پورا کرنے کے لئے اسے سبحان جیسا ساتھی ملا تھا اور سبحان کی زندگی بریرہ کی دیکھ بھال , یقین , اعتماد اور اللہ پہ بھروسے سے بڑھ چکی تھی.. اگر سبحان اسکی عزت بچا کر اسکی زندگی کا مسیحا بنا تھا تو بریرہ نے بھی سبحان کی زندگی کا دیا اپنی دعاؤں کے ذریعے جلا دیا تھا... اگر دعا دل سے اور پکے یقین کے ساتھ مانگی جائے تو قبول ضرور ہوتی ہے.. ایسا ہی اقبال نے نہیں کہا

               دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

                 پر نہیں , طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

ہمیں اللہ سے گلہ کرنے کے باوجود اسکا شکر ادا کرنا چاہئیے.. اس نے ہمیں کتنی ہی نعمتوں سے نوازا ہے...اس کے ساتھ ساتھ محبت کرنا جائز ہے لیکن محبت میں پاکیزگی اور پختگی ہونی چاہئیے. محبت وہی کامیاب ہوتی ہے جو سچی ہو یا دل سے کی گئی ہو. اگر بریرہ ذیشان سے سچی محبت کرتی تو وہی اسکا نصیب بنتا لیکن بریرہ کو سچی محبت سبحان سے ہوئی اور وہ اسے مل بھی گئی...

اللہ کی بارگاہ میں کوئی دل سے کی گئی دعا رد نہیں ہوتی اور جو قبول نہ ہو اسکے بدلے میں انسان کو اس سے بھی بہتر ملتا ہے... لہزا انتظار کیجئے اور اپنے رب پر کامل یقین بھروسہ اور توکل کیجئے..  

                       وہ مولا سب کی سنتا ہے

                       پر کسی کسی کو چنتا ہے 

پڑھنے کا شکریہ اس کہانی سے جو پیغام دینا تھا میں دے چکی ہوں...

                                                       ( ختم شد )


Meri Dulhan Novel By Umm Umayr Complete Short Novel Story 4


عمر نہایت مؤدب دین دار اپنے والدین کی اکلوتی اولاد،والدین کی آنکھوں کا تارا،تمام دوست احباب اسکے اعلی اخلاق کے گرویدہ،اللہ نے اس کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔

عمر پڑھائی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا ۔۔

مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم عمر نہایت ذہین  اور ہونہار اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کا پسندیدہ طالب علم جسکو دن رات مفید علم پا لینے کی جستجو رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا اور امی جان کی ہر فون کال پہ ایک ہی رٹ ہوتی،بیٹا اپنا گھر بسا لے نکاح کر لے !!!تیرا دین مکمل ہو جائے گا انشاءاللہ!!!!ہماری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں نا جانے کب زندگی کی بازی ہار جائیں،ہم چاہتے ہیں تیرے لئےاپنے ہاتھوں سے  دین دار نیک لڑکی بیاہ کر لائیں جو تیری دین و دنیا کا کل سرمایہ ہو گی ۔ تیری آنے والی نسل کو پروان چڑھاے گی انشاءاللہ ۔۔۔

عمر جو نہایت ادب سے والدین کی نصیحتوں کو سن رہا تھا آخر کار اس کو ہتھیار ڈالنے پڑ گئے ۔۔ 

لمبی سانس لے کر بولا  ٹھیک ہے بابا جان! جیسے آپ کی خواہش ہے میں خوش ہوں لیکن میں صرف 2 ہفتے کی چھٹی کے لیے آ سکتا ہوں مجھے واپس آ کر اپنے امتحانات  کی تیاری کرنی ہے انشاء اللہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر بیٹا ایک بہت اچھا رشتہ ہے میرے بہت قریبی دوست کی بھانجی ہے تمھاری ماں مل چکی ہے اس سے بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلی صفات کی مالک ہے ۔ تیرے لیے بہترین جیون ساتھی ہو گی اور میں اپنی تحقیق کروا چکا ہوں الحمدللہ ۔۔۔۔۔۔عمر کا دل تھوڑی دیر کے لیے خیالی تصورات میں چلا گیا ۔تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد ٹھیک ہے بابا جان جو آپ کو مناسب لگتا ہے کر گزریں،مجھے پورا یقین ہے آپکا یہ فیصلہ خیر سے خالی نہیں ہو گا ۔ آپ نے ہمیشہ میری بہترین رہنمائی کی ہے اور مجھے آپ کی پسند پہ کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹا تو نے میرا مان رکھ لیا ہے مجھے تم سے یہی امید تھی؛بابا بھرائی ہوئی آواز میں بولے ۔ فرحت جذبات سے لبریز بابا بولے بیٹا!اللہ تجھے دین اور دنیا میں کامیاب کرے میرے بچے آمین ۔

بابا کی آنکھیں شدت جذبات سے امڈ آئیں ۔ 

یہ لے میرے بچے ماں سے بات کر، ماں کی مامتا جوکہ پہلے ہی نچھاور تھی اپنے فرمانبردار بیٹےپہ، سلام اور دعا  کے طویل  سلسلے کے بعد امی بولیں  میرے چاند تو جمعرات کو آ رہا ہے تو کیا ہم نکاح جمعہ کی نماز کے بعد طے کر لیں؟؟؟؟

میرے لعل تو ادھر زیادہ دنوں کے لیے نہیں ہوگا تو ہم چاہتے ہیں تو اپنی دلہن کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارے  ۔  ۔۔۔۔۔۔ 

پر میرے بچے تو نے ابھی تک زلیخا کو تو دیکھا ہی نہیں ہے؟! جی امی نہیں دیکھا ہے میں نے زلیخا کو ؛آپ نے دیکھا میں نے دیکھا ایک ہی بات ہے۔۔۔ مجھے آپ دونوں پر مکمل بھروسہ ہے میری طرف سے آپ دونوں کو مکمل اختیار ہے!

آپ اپنے فیصلے کو پایا تکمیل تک پہنچائیں انشاءاللہ ۔۔۔۔

ایک دم عمر کے دل کے نرم گوشے نے انگڑائی لی ۔زلیخا اس کی ہونے والی جیون ساتھی جسکو نہ کبھی اس نے دیکھا نہ سنا لیکن پھر بھی دل اس کو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔

☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_

جوں جوں وقت گزر رہا تھا عمر کی دعاؤں  میں  دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا ۔ سوچا جانے سے پہلے عمرے کی ادائیگی کی جائے ۔اللہ کے گھر عمر نے اپنے ہونے والی جیون ساتھی کے لیے ہاتھ پھیلا دیئے،تقوی اور خیر و برکت کی دعائیں مانگی،چونکہ یہ اسکی زندگی کا ایک بہت اہم فیصلہ تھا ۔۔۔۔۔۔

دل میں سنت کی تڑپ اور لگاؤ نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے تھے ۔۔۔۔۔۔

مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت،6 فٹ کا  قد ،کشادہ  سینہ ۔۔۔

سرخ و سپید عمر چہرے پہ سنت رسول سجائے کسی بھی لحاظ سے کم نہ تھا ماشاءاللہ ۔۔۔۔

موتیوں جیسےدانت جو کثرت مسواک سے اور دمکتے تھے ،خوبصورت روشن آنکھیں اور کشادہ پیشانی کسی بھی دین دار دوشیزہ کے لیےایک عظیم نعمت سے  کم نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان آمد پر والدین کی خوشی دیدنی تھی،ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا ۔نکاح کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ۔ 

بابا جان نے صبح کے انتظامات سے آگاہ کیا 

راولپنڈی سے جھلم دو سے اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے اور ہم سیدھا مسجد جائیں گے،نماز جمعہ کی ادائیگی اور پھر نکاح انشاءاللہ ۔ 

عمر کے دل میں زلیخا کے دیدار نے ایک بار شدت سے انگڑائی لی ۔ ان دیکھی انجان زلیخا اس کی زندگی کا حصہ بننے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

وہ وقت بھی آن پہنچا دعائیہ کلمات اور مبارکباد کی پر جوش آوازیں بلند ہو رہی تھیں ۔

چھوارے اور مٹھائی کا دور دورہ چل رہا تھا،فضا میں مسرت بھرے قہقہے بلند ہو رہے تھے ۔ طے پایا رخصتی نماز عصر کے بعد انشاءاللہ ۔ 

چند قریبی لوگوں کی بارات رخصتی کے لیے پر تول رہی تھی کہ سر سے پاؤں تک ڈھکی زلیخا کو امی نے اپنے پہلو میں بٹھایا ۔ بابا جان نے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالا اور پھر عمر اگلی سیٹ پر بابا جانی کے ساتھ براجمان ہو گیا ۔

کچھ دیر بعد گاڑی جی ٹی روڈ پر فراٹے لے رہی تھی،بابا جانی اور عمر ملکی حالات پر مہو  گفتگو تھے ۔ عمر کی بھاری مردانہ آواز زلیخا کو بہت بھا گئی جبکہ امی جان زلیخا کو ساتھ لگا کر بار بار دعائیہ کلمات دہرا رہی تھیں ۔ 

مسافت کو مد نظر رکھتے ہوئے بابا جان نے کہا کیوں نہ کسی جگہ پہ رکا جائے لیکن امی بضد تھیں کہ مغرب سے پہلے گھر  پہنچا جائے ۔

دھیرے دھیرے سورج اپنی تپش کھو رہا تھا ۔ 

زلیخا کا دل دھک دھک کر رہا تھا لیکن دل ہی دل میں دعائیہ کلمات دہرا رہی تھی ۔ اجنبی منزل کا عجیب مزا، تڑپ،شوق اور تجسس کے ملے جلے جذبات کا امتزاج!!

ٹھیک آدھا گھنٹہ مغرب سے قبل وہ اپنے گھر کے دروازے پہ تھے امی سے چابی لے کر عمر نے مین گیٹ کھولا چنانچہ موقع غنیمت جان کر زلیخا نے دلہا جی کو دیکھنے کی ٹھانی لیکن گیٹ کھولتے ہی دلہا میاں اندر تشریف لے جا چکے تھے

بابا جانی نے کھلے گیٹ سے گاڑی گھر کے بڑے صحن میں پارک کی ۔۔ 

جبکہ دلہا میاں گھر کے تالے اور گھر کی بتیاں جلانے کی تگ و دو میں دکھائی دیئے ۔۔۔۔

زلیخا کا دل مچلا اور جی چاہا وقت ادھر ہی رک جائے اور وہ اپنے دلہا جی کو دیکھتی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔

واپڈا کی کرم نوازی کے کیا کہنے،بجلی کا جنازہ اٹھ چکا تھا ۔" واپڈا کے کارنامے ہر وقت لوگوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے میں کارفرماں "

پورے گھر کے دروازے کھل چکے تھے لیکن ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا ۔ 

امی نے آواز لگائی عمر موبائل کی بیٹری لے آؤ تو دلہن اور سامان کو کمرے تک لے چلیں ۔ بابا واش روم جا چکے تھے اپنے موبائل کی بیٹری کے سہارے سے 

جی امی آیا عمر کی مؤدب آواز گونجی ۔ 

بیٹے زلیخا کو اندر لے چلو میں تمھارے بابا کے ساتھ سامان نکالتی ہوں ۔ نہیں امی میں کرتا ہوں آپ جائیں ۔ 

ارے نہیں نہیں بیٹا دلہن لمبے سفر سے آئی ہے اس کو کمرے میں لے چلو ________

عمر نے اپنے دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا آ جائیں میں آپ کو اندر لے چلوں ۔ 

زلیخا کا دل بلیوں اچھل رہا تھا،خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ دین دار،خوبصورت اور خوب سیرت شخص اس کی زندگی کا ہم سفر ہے ۔ دل میں بسم اللہ بول کر اس نے اپنا دستانے والا ہاتھ آ گے بڑھا دیا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب ہو، زلیخا نے دل ہی دل میں سوچا ۔ 

چند لمحوں میں وہ اپنے کمرے میں آن پہنچے ۔ آپ ادھر رکیں میں کچن سے موم بتیاں لے کر آتا ہوں اور آپ اپنا برقعہ(عبایہ ) اتار لیں 

چند لمحوں بعد عمر دو موم بتیوں سمیت ان کو جلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا،پھر بولا میں ایک موم بتی واش روم میں رکھ رہا ہوں اور ایک کمرے کے لیے ہے ۔

مغرب کی اذان کا وقت ہوا چاہتا ہے اور میں وضو کر کے مسجد جا رہا ہوں ۔ 

زلیخا نے دھیرے سے بولا جی ۔۔۔۔۔

دستانے اور برقعہ اتارا ہی تھا کہ عمر واش روم سے  باہر  نکلا، اچانک نظر اس کے مرمری پتلے ھاتھوں پہ پڑی ۔ بہت پتلے اور نازک ہاتھ لیکن رنگت کا اندازہ کرنے سے قاصر تھا 

جی وہ مجھے وضو کرنا ہے،زلیخا دھیمے لہجے میں بولی ۔

جی جی ضرور لیکن آپ اس لباس میں کیسے وضو کریں گی؟؟؟ عمر نے اچٹتی نگاہ ڈال کر استفسار کیا 

جی وہ میں کر لوں گی مجھے عادت ہے اکثر برقعے میں بھی وضو کرنے کی جی ۔۔۔۔

عمر لمبی سانس کھینچ کر چلیں جیسے آپ کو مناسب لگتا ہے میں مغرب کے لیے جا رہا ہوں السلام علیکم!

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکتہ زلیخا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔ 

نکاح کے دو بولوں نے اس کی ساری سوچوں کا مرکز عمر کو بنا دیا ۔ اس نے تو کبھی نہ کسی غیر محرم مرد کو چاہا ، نہ دیکھا اور نہ ہی کھبی کسی کو چھوا ، لیکن یہ شخص تو ابھی سے ہی اس کے دل میں ڈیرہ ڈال چکا ہے ۔ ایک الگ سا اطمینان ، تحفظ کا احساس اور شدید کشش کا احساس اسکو سرشار کیے جا رہا تھا 

وضو سے سارا بناؤ سنگار،اور میک اپ پانی کی نظر ہو چکا تھا لیکن زلیخا اس چیز کی پرواہ کیے بغیر جائے نماز پہ کھڑی تھی، اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھی اور گڑا گڑا کر دعائیں مانگ رہی تھی ۔

دروازے پہ آہٹ نے زلیخا کے دل کو ایک اور بار تیزی سے دھڑکنے پر مجبور کر دیا، خود سے بولی یقینا عمر واپس آگئے ہیں ۔ باہر سے امی کی آواز آئی بیٹی میں ہوں!

زلیخا دروازے کی طرف لپکی اور امی کا استقبال کیا۔ 

امی اس حلیے میں بہو کو دیکھ کر صدقے واری ہو رہی تھیں

میری بچی، میری بہو کا اپنے رب سے مضبوط تعلق ہے ماشاءاللہ ۔ پیار سے گلے لگایا،ماتھا چوما اور ڈھیروں دعائیں دیں ۔ 

میری بچی کھانا لگاؤں؟ نہیں امی مجھے بھوک نہیں آپ ان سے پوچھ لیں شاید وہ کھائیں ۔ 

واپڈا کی کرم نواز یوں کے کیا کہنے؟!بجلی کے نزول کے ساتھ عمر اور بابا جان کمرے میں داخل ہو چکے تھے ۔قدرے اونچی آواز سے سلام بولا، اچانک نظر دلہن کے سانولے ہاتھوں پہ پڑی تو  ایک دم دل بجھ سا گیا لیکن اپنے جذبات کو  نا ظاہر کرنے میں کامیابی کا جھنڈا گاڑا۔ 

بابا جان نے بھی خوب محبتیں نچھاور کی اور کھانے کے لیے بلایا لیکن عمر نے بھی صاف انکار کر دیا کہ بھوک نہیں ہے ۔ 

بابا جان نے بولا بیگم پسے بادام اور دودھ لے آئیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا اس سنت کو پورا کرے۔ 

امی ٹھیک دو منٹ بعد ٹھنڈے دودھ کا گلاس لیے عمر کو تھماتے ہوئے بولیں بیٹا پہلے خود پیو اور پھر زلیخا کو پلاؤ 

اور دودھ کی دعا یاد دلائی ۔ عمر نے غٹا غٹ دودھ کا آدھا گلاس پیا اور باقی زلیخا کو پکڑایا ، اس نے بھی عظیم دقت کے ساتھ چند گھونٹ نیچے اتارے اور امی بابا کی طرف دیکھا تو دونوں مسرت بھرے جذبات سے بولے اور پیو  بیٹی، لیکن زلیخا کے مسلسل انکار پر عمر کو بقیہ دودھ ختم کرنے کا حکم صادر ہوا ۔ اس کے بعد امی بابا کو لے کر کمرے سے جا تے ہوئے بولیں بیٹی میں نے تمھاری ضرورت کا سارا سامان اس کونے میں رکھ دیا ہے، وہ دونوں جا چکے تھے، کمرے میں خاموشی کا راج تھا ۔ 

زلیخا شرم سے سر جھکائے کھڑی تھی تو عمر بولا آپ تشریف رکھیں اور خود وہ اپنی کتابوں کو اوپر نیچے کرنے لگا ، پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ گود میں ہاتھ رکھے سر ضرورت سے زیادہ جھکائے بیٹھی تھی ۔ 

چہرہ تو ٹھیک طرح سے دکھائی  نہیں  دیالیکن ہاتھوں کی رنگت بتا رہی تھی محترمہ کافی سانولی ہیں 

جس کےغم نے عمر کو اندر ہی اندر چاٹا ۔ 

اس کا دل بجھ سا گیا کہ آخر امی بابا نے اس کا انتخاب کیوں کیا؟؟؟ میرا اور اس کا بھلا کیا جوڑ ہے؟؟؟؟؟وہ خود ہی دل میں سوال و جواب کیے جا رہا تھا ۔ 

عمر کا دل ٹوٹ چکا تھا اس کو اپنے والدین سے ایسے انتخاب کی امید نہ تھی، آخر ظاہری حسن بھی کوئی چیز ہے؟؟؟؟ 

اتنے سال خود کو عورت کے فتنوں سے بچائے رکھا، زنا کاری کے گند سے خود کو بچایا تو کس کے لیے؟؟؟ ایک حلال رشتے کے لئے ایک دل کو موہ لینے والی بیوی کے لیے لیکن  اس میں تو کشش ہی نہیں ہے، سانولی سی مریل ککڑی ۔

عمر کے اندر سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا ، دماغ جیسے ماؤف ہو رہا ہو۔ 

لیکن اس کا ضمیر بار بار  ملامت کر رہا تھا 

احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 

"""دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے ""(صحیح مسلم )

"""کسی عورت سے  ان چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے:

1-اس کا مال 2-اس کا حسب نصب 3- اس کا حسن و جمال 

لیکن دیکھو!!!!!

تم دین والی کو ترجیح دینا """(بخاری،مسلم،ابو داؤد،نسائی،بیہقی )

کتابوں کی ترتیب کے بعد عمر زلیخا کی طرف پلٹا اور بولا دیکھیں میں کتابی کیڑا ہوں،کتابوں میں رہنے والا لہذا محدود وقت کی بنا پر آپ کے لیے ایک کتاب کا انتخاب کیا ہے" تحفتہ العروس "یہ صنف نازک کے موضوع پر پہلی جامع اور دلکش کتاب ہے ۔ امید ہے آپ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گی انشاءاللہ ۔۔۔۔

زلیخا جھکے چہرے اور دھیمے لہجے سے صرف "جی "کر پائی ۔

میرے خیال میں آپ یہ بھاری بھرکم لباس تبدیل کر سکتی ہیں، عمر کو جیسے اس کے بناؤ سنگار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن اس نے اس احساس کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی ۔۔۔ 

زلیخا بھی جوان، جذبات، احساسات رکھنے والی لڑکی تھی ۔

اسکے رویے کو سمجھ گئی اور لباس تبدیل کرنے کے لئے کونے میں پڑے سوٹ کیس کا رخ کیا اور سفید کاٹن کا سادہ سا شلوار قمیض نکالا جسکے اوپر ہلکے گلابی اور کالے رنگ کی کڑھائی تھی اور ساتھ بڑا سا چھوٹے چھوٹے پھولوں والا دوپٹہ ۔۔۔۔۔

""اللهم انی أعوذ بك من الخبث و الخبایث "

دعا پڑھتے ہی وہ  واش روم کے اندر تھی اور پھر دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے بے قابو آنسوؤں کی جھڑی کو نہیں روک سکی ۔ 

خوب آنسو بہا کر شاور لیا اور باہر نکلنے سے پہلے چاروں طرف دوپٹا لپیٹ کر ماتھے پہ ہلکا سا گھونگھٹ نکال لیا۔ 

باہر آئی تو عمر عشاء کے لیے جا چکا تھا تو اس نے بھی عافیت نماز میں ہی جانی اور پورے خشوع کے ساتھ نماز شروع کر لی، اپنی ہمیشہ کی عادت کو اپناتے ہوئے لمبی سورتوں کا انتخاب کیا اور اپنی نماز کو تسلی سے مکمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔

اپنے مرمریں ھاتھوں کو اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری سے پھیلا دیا ۔۔۔

"اے میرے رب میرے خاوند کے دل میں میرے لیے محبت اور الفت پیدا کر، مجھے ان کی نظر میں پر کشش بنا دے۔"آمین 

بنا کسی دقت کے آنسوؤں کی جھڑی زلیخا کے گالوں کو بھگوےء جا رہی تھی ۔ 

نا چاہتے ہوئے بھی آنسو سارے بند توڑ کر لگا تار اس کے سوتی دوپٹے کو  گیلا کیے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دم سے آہٹ سن کر اس نے اپنے چہرے کو رگڑ ڈالا اور بستر پہ پڑی تحفتہ العروس کے اوراق الٹنا پلٹنا شروع کر دئیے ۔

دوبارہ سے مردانہ سلام نے اس کے دل پہ دستک دی ۔ 

پھر وہی دھیما انداز اور جکھی جکھی گردن سے جواب آیا ۔

سنیں!!!!عمر پکارا!

جی زلیخا کا جواب ۔ 

آپ نے کھانا کھانا ہے؟؟؟؟؟؟؟میں امی کو بولتا ہوں آپ کو گرم کر دیں ۔۔۔۔

جی نہیں شکریہ مجھے بھوک نہیں ہے،!زلیخا بولی۔۔۔۔۔۔۔

چلیں آپ نہیں کھاتی تو میں بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔

میں سونے کے لیے جا رہا ہوں، دو دنوں سے سفر کی تھکاوٹ ہے اور آپ بھی لمبے سفر سے آئی ہیں آرام کریں ۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کسی روبوٹ کی طرح اٹھی اور بستر کے ایک کونے میں لیٹ کر خود کو اپنے  دوپٹے میں لپیٹا اور" اذکار مسنونہ "میں مشغول ہو گئی ۔

ادھر دوسری طرف بھی یہی سلسلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔

نیند کے آثار دونوں طرف دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔۔۔۔ 

لیکن راہ فرار کا یہی ایک ذریعہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر بند آنکھیں لیکن دل دماغ شدت  غم سے چور تھا ۔ زلیخا بار بار اس نقطہ کو سوچے جا رہی تھی کہ کیا میری نادرا والی تصویر عمر کو نہیں دکھائی گی؟؟جبکہ امی جان نے ممانی سے خاص درخواست کر کے  عمر کو دیکھانے کے لیے لی تھی ، پھر آخر کیا ہوا ہے؟؟؟؟؟

جو ان کی آنکھوں میں میرے لئے کسی قسم کے جذبات نہیں ہیں؟مجھے تو ان لوگوں نے تصویر دکھا دی پر اپنے بیٹے کو کیوں نا دکھائی؟؟؟؟

میں تو رشتوں  سے ترسی ہوئی ہوں،بچپن میں والدین کا انتقال،نا کوئی بہن اور نا کوئی بھائی اور اب خاوند ملا ہے وہ اتنا قریب ہو کے بھی کوسوں دور ۔ 

دل میں ٹھیس اٹھی اور آنکھوں نے کھل کر برسنا شروع کر دیا، کیا ہوا جو میرا رنگ سانولا ہے؟؟؟ دل ودماغ تو نہیں ہے ؟!!!۔ آنکھوں میں برسات کا سلسلہ تسلسل سے جاری تھا ۔ دل شدت غم سے نڈھال تھا اور اپنے پسندیدہ شعر کو دہرا رہا تھا ۔ 

عجب رنگوں میں گزری ہے زندگی اپنی 

دلوں پہ  راج کیا پھر بھی پیار کو ترسے 

سفید کاٹن کا دوپٹہ زخموں پہ مرہم کا کام کر رہا تھا آنکھوں سے برستی برسات کو کافی حد تک جزب کر چکا تھا ۔ نیند کوسوں دور تھی، دل کر رہا تھا زور زور سے  دھاڑیں مارےلیکن وہ عمر کو اپنی کمزوری نہیں دکھانا چاہتی تھی ۔ 

اگر وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں تو میں کبھی ان کو مجبور نہیں کروں گی  ہاں اپنے حقوق ضرور پورے کروں گی جو کہ میری تربیت کا حصہ ہیں ۔ میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابیات کی رضی اللہ علیھن کی سنت پہ عمل پیرا ہوں گی انشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

بے شک خاوند کی فرمانبردار عورتیں ہی جنت جائیں گی ۔

کمرے میں دیوار پہ لگےگھڑیال کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی ۔ واپڈا کی آنکھ مچولی جاری تھی، کمرے میں لگا زیرو واٹ  کا بلب بھی بجھ چکا تھا ۔ 

زلیخا انتظار میں تھی کہ لائٹ آئے تو وہ وقت کا تعین کر سکے اور اپنی روزانہ کی روٹین" تہجد "کے نوافل شروع کرے ۔ تقریبا آدھے گھنٹے کے لگ بھگ بجلی کا نزول ہو چکا تھا ۔ 

رات کے دو بج رہے تھے،زلیخا چپکے سے دھیمی چال سے کمرے سے نکل کر واش روم میں جا چکی تھی ۔

اچھی طرح سے وضو کیا  چہرے پہ  ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اور واپس خاموشی سے کونے میں پڑے جائے نماز پہ کھڑی ہو گئی ۔ 

نوافل میں طویل قیام کے بعد اپنے مرمری ہاتھ اپنے رب کے سامنے پھیلا دیئے 

پھر وہی برسات کا سلسلہ اور سینے میں تڑپ،چار و ناچار خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی  لیکن بے سود ۔۔۔

اپنی پیشانی کو سجدہ ریز کر دیا اور خوب گڑگڑائی، میرے مالک میری اس آزمائش کو آسان کر،بے شک تو ہی مشکل کشا ہے ۔ 

طویل دعاؤں کے بعد دل میں اطمینان محسوس کیا،اتنے میں فجر کی آذان سنائی دی ۔۔۔

عمر تو نجانے رات کےکس پہر نیند کی گہری وادی میں جا چکا تھا ۔۔۔ 

اب زلیخا اس شش و پنج میں تھی کہ ان کو اٹھاؤں یا نا اٹھاؤں اور اگر اٹھاوں تو کیسے؟؟؟؟؟؟

5 منٹ کی سوچ بچار کے بعد زلیخا نے عمر کے پاؤں کو ہلکا سا جھنجھوڑا لیکن وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا ۔ آخر تیسری کوشش پہ ہڑ بڑا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں ملیں تو دیکھا زلیخا اسے کی پالتی پہ کھڑی تھی،فورا بولی    ج ج جی وہ آپ کی فجر کی جماعت نکل جائے گی اذان ہو چکی ہے ۔

عمر دل ہی دل میں خوش ہوا چلو محترمہ نماز کی تو پابند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

فورا اٹھ کھڑا ہوا،وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا نے فجر ادا کی اور تلاوت کلام پاک شروع کر دی ۔۔۔۔

خوبصورت آواز اور قواعد التجويد ،اور مخارج سے بخوبی واقف زلیخا رقت آمیز لہجے میں تلاوت میں مشغول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کی تلاوت نے عمر کو  دروازے  پہ ہی سننے پر  مجبور کر دیا 

اتنی خوبصورت آواز اور شیریں لہجہ اس نے آج دن تک نہ سنا ۔۔۔۔ماشااللہ 

وہ دل ہی دل میں داد دے گیا 

عمر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بابا نے آواز لگائی، جی بابا جان فرمایئے،وہ بیٹا مجھے لگتا ہے ہمیں کل اتوا کا ولیمہ ملتوی کرنا پڑے گا؟؟؟ 

سب خیریت ہے نا بابا جان؟؟؟؟؟

تھوڑی دیر پہلے تمھارے پھوپھا کا فون آیا تھا،تمھاری پھپھو کافی بیمار ہیں اس لیے مجھے کھاریاں جانا پڑے گا ہو سکتا ہے کچھ دن رکنا بھی پڑھ جا ئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا جیسے آپ بہتر سمجھتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔۔

پیچھے سے امی کی آواز آئی میں بھی جاؤں گی اتنا اچھا وقت گزرا ہے ہمارا باجی نصرت کے ساتھ،زندگی موت کا کچھ پتا نہیں لہذا میں جاؤں گی ۔۔۔ 

پر عمر کی ماں پیچھے دلہن اکیلی ہے اس کو گھر کی کسی چیز کا پتا نہیں ہے کونسی چیز کدھر پڑی ہے ۔۔۔

مجھے اپنی زلیخا پہ پورا بھروسہ ہے یہ مجھے کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گی، امی فاتحانہ انداز میں مسکرائیں ۔۔۔۔۔۔۔

آخر بابا کو ماننا ہی پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا میری بچی ادھر آ میں تجھے ضرورت کی ساری چیزیں دکھاؤں، زلیخا قرآن مجید کو رکھ کر فورا ان کے پاس آن پہنچی ۔۔۔۔۔

امی بابا کی دعاؤں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا ۔

بابا بولے عمر کی ماں پھر سے سوچ لو ، 

ارے آپ کیوں گھبراتے ہیں؟؟؟؟ میرا عمر ہے نا زلیخا کا خیال رکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔

ایک دم سے زلیخا کے دل میں  ٹھیس اٹھی اور آنکھوں کی نمی کو چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔۔

چند سیکنڈوں میں امی اور زلیخا کیچن میں جا چکے تھے ۔۔۔

انکے جاتے ہی بابا نے لمبی سانس لی اور سمجھانے کے انداز میں بولے؛ دیکھو بیٹا ہمارے پیچھے تم نے بہو کا خاص خیال رکھنا ہے اس بچی نے یتیمی کی زندگی گزاری ہے اور بہت مشکلات دیکھی ہیں ۔۔۔۔

جی بابا آپ گھبرائیں نہیں میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا انشااللہ ۔۔۔۔مجھے تم سے یہی امید تھی میرے بچے اللہ تیرا دامن خوشیوں سے بھر دے آمین ۔۔۔۔۔

اور ہاں میں گاڑی چھوڑے  جا رہا ہوں پیچھے سے تمہیں ضرورت پڑ سکتی ہے، بہو کو تھوڑی دیر باہر لے جانا یا ایک چکر مری کا لگا لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچوں میں گم عمر  جی جی بابا جانی ۔۔۔۔۔

اچھا بیٹا ہم ابھی ناشتےکے  بعد نکلیں گے انشاءاللہ، تم آرام کرو ۔۔۔۔ جی بابا جانی 

امی اور زلیخا کی ہنسنے کی آوازیں کیچن سے آ رہی تھیں جیسے ایک دوسرے کو سالوں سے جانتی ہیں

عمر دوبارہ سونے کے لئے پر تولنے لگا جبکہ زلیخا امی کے ساتھ گوش گپیوں میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ ہر چیز کا جائزہ بھی لے رہی تھی ، ماموں کے گھر کتنی غربت تھی اور یہاں ہر چیز کتنی نفیس ہے ۔۔۔۔۔۔

کاش ان چیزوں کا مالک بھی میرا ہو جائے، دل میں دوبارہ سے ایک ہوک اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا میری بچی جاؤ ناشتےکے لیے عمر کو بھی بلا لاؤ تم دونوں نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا ۔۔۔۔

زلیخا کمرے میں آئی تو دیکھا عمر تو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔

کمرے کی ہلکی سی روشنی میں دل کیا ادھر ہی کھڑی ہو کر ا پنے دل کے مالک کو  اسی طرح  دیکھتی رہے لیکن امی ابو کو خوش کرنے کے لئے چار و ناچار ناشتہ ان کے ساتھ کھایا ۔

ان کی روانگی کا وقت آ گیا، زلیخا کا دل غمگین تھا میں تو اکیلی رہ جاؤں گی عمر کے ساتھ اور ان کو تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے میرے میں، بجھے دل کے ساتھ سوچا ۔۔۔۔

امی بابا کو رخصت کر کے کیچن میں صفائی کی ٹھانی، پھر صحن میں سفید کپڑوں کی ٹوکری سے کپڑے نکال کر ان کو سر ف  میں ڈبو دیا ۔۔۔۔۔

کیچن کو لشکا کر دوپٹے کو ایک سائیڈ پہ رکھا اور کپڑوں کی رگڑائی شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔

کپڑوں کی رگڑائی میں اس قدر مگن تھی کہ آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر نے 5 منٹ خوب جائزہ لیا اور پھر سلام جھاڑا ۔۔۔۔زلیخا ایک دم اپنے خیالوں میں مگن گھبرا گئی اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر چیخ کو روک لیا 

بے دھیانی میں صابن والے ہاتھ چہرے کو کافی حد تک میلا کر چکے تھے اور صابن کا جھاگ نمایاں ہو رہا تھا ۔۔۔ عمر نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئےپوچھا  یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

جی جی جی وہ میں کپڑے دھو رہی ہوں ۔۔۔۔ 

اچھا تو یہ مشین کس خوشی میں پڑی ہے ؟؟؟ صرف گھر کی خوبصورتی کے لیے؟؟؟؟؟؟

آپ کو پتا ہے آپ کون ہیں؟؟؟؟؟ 

جی مجھے پتا ہےمیں زلیخا مراد ہوں !!!!!

عمر ہنسی چھپاتے ہوئے بولا نہیں بالکل غلط بول رہی ہیں آپ!!!

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ پڑنے لگی 

آپ دلہن ہیں اور وہ بھی نئی نویلی ،،، عمر نے زور دےکر بولا 

ایک ٹھیس پھر اٹھی اور آہستہ سے جی بول پائی۔۔۔۔۔

ہوا کے جھونکے نے ماتھے پہ پڑے بالوں کو الجھا دیا پھر بنا سوچے صابن والے ہاتھوں سے انکو پیچھے ہٹایا ۔۔۔۔۔

عمر کی ہنسی چھوٹ گئی یہ کیا حال بنایا ہوا ہے؟؟؟؟ 

شکل دیکھیں آئینے میں اپنی ذرا، 

زلیخا نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آئینہ نظر نہ آیا، 

چھوڑیں آئینہ کو میں خود صاف کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

عمر نے گیلے ہاتھوں سے صابن سے اٹے بال اور چہرہ صاف کیا اور پھر پوچھا آپ کو کھانا پکانا آتا ہے؟؟؟؟؟؟

بڑے ہی پرجوش لہجے میں جی مجھے سب کچھ آتا ہے زلیخا نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا ماشااللہ ۔ عمر بولا 

پھر تو آپ مکانوں کی تعمیر کا کام بھی جانتی ہوں گی؟؟؟؟ 

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔

میں سوچ رہا ہوں آپکو اینٹیں، بجری اور ریت منگوا دوں اور آپ مجھے ایک  غسل خانہ تعمیر کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی نکل گئی اور عمر نے بھی زور کا قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں باہر سے کھانا لاتا ہوں آپ یہ سب سمیٹیں ۔۔۔

ارے نہیں نہیں باہر سے کھانا نا لائیں میں نے تو پراٹھوں کے لیے مصالحہ اور آٹا تیار کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔

آپ کچھ بھول رہی ہیں کہ آپ نئی نویلی دلہن ہیں اور نئی دلہنیں ایسے کارنامے سر انجام نہیں دیتی بلکہ نخرے اٹھواتی ہیں ۔۔۔۔۔

زلیخا: دلہن پرانی ہو یا نئی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس احساس ذمہ داری ہونا چاہئے، اور یہ سب میری تربیت کا حصہ ہے اور ویسے بھی مجھے فارغ بیٹھنا پسند نہیں ہے 

فارغ انسان شیطان کا گھر ہے "۔۔۔۔۔۔۔عمر بڑے انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔ اچھا جی جیسے آپ کی خوشی عمر بولا۔۔۔۔۔

یہ دیں میں تار پہ لٹکا دوں عمر نے ہمدردی جھاڑی ۔۔۔

بس میں اچھی طرح کھنگال کے لائی۔۔۔

زلیخا کا پاؤں ایک دم گیلے فرش پر پھیلے سرف سے پھسلا جو کہ اس کے 14 طبق روشن کرنے کیلئے کافی تھا ۔۔۔۔

عمر نے فورا آگے بڑھ کر اس کو مضبوطی سے تھام لیا ۔ 

عمر زلیخا کو تھامے ہوئے بولا سنیں محترمہ آپکے یہ شوق میرا کچومر نکال دیں گے اگر کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی تو بابا نے میری ہڈیاں بھی توڑ دینی تھی لہذا ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔

زلیخا ایک دم سنبھلی اور شرمندگی سے بولی کوشش کروں گی آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں انشااللہ

جائیں جا کر کپڑے بدلیں میں یہ سب فارغ کرتا ہوں جی اچھا زلیخا بولی ۔۔۔۔

اور ہاں سنیں دھیان سے پلیز ۔۔۔۔۔۔۔جی اچھا انشااللہ 

زلیخا کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے تھا کمرے میں آکر لمبی سانس لی 

سوٹ کیس سے سادہ سا فیروزی سوٹ نکالا،شاور لیا اور سیدھی کچن میں پراٹھے بنانے لگ گی ۔۔۔باہر دیکھا تو عمر کپڑوں کو پھیلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا ۔۔۔

پراٹھوں کی تیاری کے ساتھ زلیخا دل ہی دل میں ذکر بھی کر رہی تھی جوکہ اس کی عادت کا حصہ تھا ۔۔۔

تیار شدہ پراٹھے اور چائے میز پہ  سجائی اور دھیمے لہجے میں عمر کو پکارا ۔۔

اندر آتے ہی عمر کی نظر زلیخا کے گھٹاؤں جیسے کالے لمبے بالوں پہ پڑی جن سے پانی کی بوندیں موتیوں کی طرح ٹپک رہی تھیں ۔۔۔ دل ہی دل میں بولا سانولی تو ضرور ہے لیکن خوبیوں سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ماشااللہ 

آپ بھی آ جائیں عمر نے پکارا ۔۔

نہیں میں امی اور بابا کے ساتھ کھا چکی ہوں ، میں ذرا کمرہ درست کر لوں، ساری چیزیں سمیٹیں بستر درست کیا، 

باہر سے عمر نے پکارا!!!

آئی جی!!

ادھر بیٹھیں ۔

کرسی کھینچ کر سامنے بیٹھ گئی ۔ 

میری طرف دیکھیں ۔۔۔ عمر نے نرمی سے پکارا 

ایک دم سے نظر یں اٹھائیں اور پھر فورا نیچے جھکا لیں ۔ 

آپ کھانا کھا چکے ہیں تو میں یہ برتن دھو لوں، بڑی مشکل سے پھنسی ہوئی آواز نکالی ۔ 

جی میں کھا چکا ہوں اور بہت مزا آیا ہے آپ کو شکریہ کے لئے بلایا تھا ۔ 

ظہر کے بعد ہم دامن کوہ جائیں گے اور اس کے بعد عصر فیصل مسجد میں انشااللہ ۔۔۔۔

آپ کبھی آئی ہیں پنڈی پہلے؟؟؟؟ 

جی کبھی بھی نہیں، میں تو صرف جھلم سے دینہ اور دینہ سے جہلم تک  ہی محدود تھی

ظہر کے بعد نوبیاہتا جوڑا دامن کوہ کی طرف روانہ تھا ۔۔۔

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، زلیخا پردے میں لپٹی گہری سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔

عمر نے خاموشی کو توڑ ا آپ بولتی بہت کم ہیں؟!

میں بولتی ہوں  وقت ضرورت !!

اچھا پھر مجھے 1 سے100 تک گنتی سنائیں 

جی؟؟؟؟ زلیخا نےسوالیہ نظروں سے عمر کو دیکھا

اچھا اگر 100 تک نہیں آتی تو 1 سے 10 تک سنائیں اور پھر 10 سے 1 

آپ واقعی مجھ سے گنتی سننا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟

زلیخا سراپا احتجاج تھی 

پھر میں 1 سے 100 تک سناؤں گی کیونکہ مجھے گنتی آتی ہے ۔

زلیخا نے بھی ایک  ہی سپیڈ میں ساری سنا ڈالی ، ابھی اور کچھ سننا ہے آپ نے ؟؟؟؟؟؟؟؟جی 12 کا پہاڑا سنائیں 

اچھا وہ بھی سن لیں کیا یاد کریں گے 

ایک ہی سانس میں سارا سنا دیا، جوکہ عمر کو بھی نہیں آتا تھا ۔۔۔۔

دونوں دامن کوہ پہنچ چکے تھے، گہرے سر سبز سرو اور سفیدے کے درخت، ناہموار زمین پھر دونوں ایک کونے میں جا بیٹھے ۔۔۔۔

زلیخا پھر سے خاموش اور سوچوں میں گم ۔۔۔

عمر نے سوال داغا، آپ کہاں تک  پڑھی ہیں؟؟؟؟؟ اور شادی سے پہلے کیا مصروفیات تھیں؟؟؟؟

پرائیویٹ بی-اے کیا ہے ، مدرسے میں قرآن اور گھر میں ٹیوشن پڑھاتی تھی 

آپکے والدین کو کیا ہوا تھا؟؟؟؟ 

میں دو سال کی تھی تو ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے اور پھر میرے ماموں نے میری کفالت کی ذمہ داری لے لی ۔۔۔ 

بچپن سے آج تک غربت کے باوجود دونوں نے دین کو نہیں چھوڑا اور دینی تربیت کی الحمدللہ ۔۔۔۔

زلیخا دل بول رہی تھی اور عمر پوری توجہ سے اس کو سن رہا تھا ۔۔۔۔

شاعری پسند کرتی ہوں؟؟؟؟؟ 

جی!

پھر سناؤ کچھ!

"نگاہیں میرے  گرد آلود چہرے  پہ  ہین  دنیا  کی 

جو پوشیدہ ہے باطن میں  وہ جوہر کون دیکھے گا

یہاں تو سنگ مر مر کی چمک پہ لوگ مرتے ہیں 

میرے کچے مکان تیرا کھلا در کون دیکھے گا؟!""

واہ واہ ہم ہیں نا آپکا کھلا در دیکھنے کے لیے، عمر نے زور سے قہقہہ لگایا ۔ ۔۔۔

میں آپکو ایک شعر سناتا ہوں 

""ڈبے میں ڈبا،ڈبے میں کیک 

میری زلیخا لاکھوں میں ایک "

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی نکل گئی۔۔۔۔۔

سنیں آپ کو میرا سانولا رنگ پسند نہیں ہے اور میں یہ کل ہی جان گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا مراد کل رات تک نہیں تھا ، لیکن تہجد کی نماز اور تلاوت قرآن نے آپ کو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بنا دیا ہے اور مجھے پتا تھا کہ آپ تہجد کے لیے اٹھی تھیں  مجھےفخر ہے کہ میری مضبوط  عقیدہ اور سنت سے لگاؤ رکھنے والی بیوی  میری مضموط نسل کو پروان چڑھاے گی انشاءاللہ 

میں داد دیتا ہوں امی بابا کی پسند کو 

زلیخا مراد آپ "میری  دلہن " ہیں 

آپ میری پاکیزہ،باکردار اور با حیا دلہن ہیں 

جس کی اعلی تربیت نے میرے دل میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے بھر آئیں جنکو عمر نے اپنے ہاتھوں میں سمو لیا۔۔ 

ختم شد:

             

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Adhure Rishty Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Adhure Rishty written  Irsa Rao.  Adhure Rishty  by  Irsa Rao is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

No comments:

Post a Comment