Pages

Monday 21 August 2023

Rakhail By Riaz Aqib New Novel Episode 11 to 12

Rakhail By  Riaz Aqib New Novel Episode 11 to 12

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rakhail By Raiz Aqib Episode 11 to 12

Novel Name: Rakhail 

Writer Name: Riaz Aqib  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

خاور شیخ نے اس کے گریبان کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کمرے سے باہر کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی ۔وہ رک کر دروازے کی جانب دیکھنے لگا ۔اور پھر اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی دروازے کے پٹ ایک دھماکے سے کھلے اور کبیردادا ہاتھ میں پستول لیے اندر داخل ہوا ۔ اس کے چہرے پر چھائی وحشت دیکھ کر خاور شیخ لرز کر رہ گیا تھا ۔ایک دم اسے لگا کہ وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھا ہے ۔اس کی ساری شوخی اور مستی ایک منٹ میں ہوا ہو گئی تھی۔

”کک....کبیردادا !....ایک منٹ میں وضاحت کر سکتا ہوں ۔“دفاعی انداز میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے وہ ہکلایا۔

”کر و۔“اطمینان بھرے انداز میں کہتے ہوئے کبیر دادا نے پستول جیب میں رکھ لیا تھا ۔تناوش کو با خیریت دیکھ کر اس کے دل میں جلتی آگ پر جیسے پانی پڑ گیا تھا ۔اس کے تنے ہوئے اعصاب فوراََ ہی پرسکون ہو گئے تھے ۔

”مجھے شاہ جی نے ایسا کرنے کو کہا تھا ۔“خاور شیخ نے یوں کہا جیسے اخلاق حسین کا نام ہی وضاحت کے لیے کافی ہو ۔

”کیا تمھیں معلوم تھا کہ اس لڑکی کے جملہ حقوق میرے نا م محفوظ ہو چکے ہیں ۔“ کبیردادا کا ٹھنڈا ٹھار لہجہ بھی خاور شیخ کے دل کی دھڑکن کو بڑھائے جا رہا تھا ۔یوں بھی کبیردادا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی ۔زیر زمین دنیا میں اس کا نام ہیبت و دہشت کی علامت تھا ۔ جس کام میں اس کے ملوث ہونے کا شبہ بھی ہوتا باقی لوگ اس کام سے یوں دور بھاگتے جیسے موت سے بھاگا جاتا ہے ۔

”جج....جی ....مم....مگر....“کبیردادا کے بھرپور تھپڑ نے اس کی ہکلاتی ہوئی زبان کو لگام دے دی تھی ۔وہ پہلو کے بل زمین پر گر گیا ۔البتہ فرش پر بچھے دبیز قالین کی وجہ سے وہ چوٹ لگنے سے محفوظ رہا تھا ۔

اٹھتے ہوئے اس نے ہونٹوں سے رستا خون ایک جانب تھوکا اور محتاط لہجے میں بولا ۔ ”کبیر دادا !....آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔“

”ہاں ....مگر یہ زیادتی کی ابتداءہے اور گلے شکوے اختتام پر کرنا اگر کچھ بولنے کے قابل رہے تو ....“پرسکون انداز میں کہتے ہوئے کبیردادا اس کی جانب بڑھا ۔خاور شیخ کو معلوم تھا کہ وہ کبیردادا کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔اور پھر کبیردادا کے چار مسلح محافظ سونے پر سہاگا تھے ۔اس نے فوراََ جان بچانے کی تجویز سوچی اور اٹھ کر دیوار کے ساتھ کھڑی تناوش کو پکڑ کرایک ہاتھ اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے اسے اپنے سامنے تھام لیا ۔اس کے ساتھ ہی وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا ۔

”کبیر دادا !....اگر کوئی میرے قریب آیا تو یہ جان سے جائے گی ۔“

”یہ تو ویسے بھی اپنے سانس پورے کروا چکی ہے ،تمھارا کیا خیال ہے اتنی دیر تمھارے ساتھ ایک کمرے میں بند رہنے کے بعد یہ میرے کسی کام کی رہ گئی ہے ۔“

”قق....قس....قسم کھاتا ہوں ،میں نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔“خاور شیخ ہکلا کر صفائیاں دینے لگا ۔

”مجھے تمھاری گواہی کی ضرورت نہیں ۔اور تمھاری زندگی ختم کرنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ تم نے میری چیز کو چھونے کی کوشش کی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے بھی کبیر دادا کے قدم رکے نہیں تھے ۔

خاور شیخ بھی مسلسل الٹے قدم لیتے ہوئے پیچھے کو ہٹ رہا تھا ۔تناوش کا خوفزدہ چہرہ اب پر سکون ہو گیا تھا ۔کبیردادا کی موجودی میں ہر خوف اور ڈر اس کے دل سے رخصت ہو جایا کرتا تھا ۔اپنے متعلق کبیردادا کی تلخ باتیں بھی اسے خفا نہیں کر سکی تھیں ۔کمرے میں داخل ہوتے وقت کبیردادا کے چہرے پر چھائے وحشت بھرے اثرات اسے یہ باور کرانے کے لیے کافی تھے کہ وہ کتنا پریشان تھا ۔اور پھر تناوش کو خیریت سے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر جھلکنے والا سکون بھی اس بات کا مظہر تھا کہ وہ اسے کتنی اہمیت دیتا ہے ۔اس کا بیزاری اور بے توجہی ظاہر کرنا یقینا خود کو تسلی دینے کے لیے تھا ۔

جونھی خاور شیخ کی پیٹھ عقبی دیوار سے ٹکرائی وہ دھمکی امیز لہجے میں بولا ۔ ”کبیردادا!.... میں سچ کہہ رہا ہوں اگر آپ نہ رکے تو میں اس لڑکی کی گردن توڑ دوں گا ۔اگر مجھے مرنا ہے تو زندہ یہ بھی نہیں رہے گی ۔“

کبیردادا ڈیڑھ دو گز دور رکتے ہوئے بولا ۔”خاور شیخ !....اگر اس لڑکی کو کچھ بھی ہوا تو اس کی جگہ رات گزارنے کے لیے عبداللہ شیخ کی یونیورسٹی میں پڑھنے والی بیٹی کو لینا پڑے گی ۔ اب یہ نہ کہنا کہ تم اس لڑکی کو نہیں جانتے ۔آخربہن ہے وہ تمھاری ۔“

”تت....تم ....تم ....میں تمھیں جان سے مار دوں گا ۔“ہذیانی انداز میں کہتے ہوئے اس نے تناوش کو ایک جانب دھکیلااور چیختے ہوئے کبیردادا پر حملہ کر دیا ۔

اپنے سر کو چند انچ حرکت دے کر کبیردادا نے اس کا مکا خطا کیا اور اس سے پہلے کہ خاور شیخ کا ہاتھ واپس پہنچتا کبیردادا نے دائیں ہاتھ سے اس کی کلائی تھام لی تھی ۔اس نے بایاں ہاتھ خاور شیخ کی کہنی پر اس انداز میں رسید کیا کہ بے ساختہ وہ الٹا گھوم گیا تھا ۔اپنا بایاں ہاتھ بھی اس کی کلائی پر منتقل کرتے ہوئے کبیردادا نے ایک پاﺅں اٹھا کر خاور شیخ کی کمر پر رکھا ۔اپنے پاﺅں سے اسے آگے دھکیلتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کے مروڑے ہوئے بازو کو پیچھے کھینچا ۔”کٹاک کی آواز سے خاور شیخ کی کہنی کا جوڑ ٹوٹ گیا تھا ۔اس کے ہونٹوں سے دلخراش چیخ بلند ہوئی وہ گھٹنوں کے بل نیچے گرا اس کا جسم رعشے کے مریض کی طرح کانپنے لگ گیا تھا ۔

کبیردادا اس کی طرف بڑھا ۔وہ خوفزدہ اور سہمی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے گڑگڑایا۔

”مم....مجھے معا ف کر دو کبیردادا !....آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔“

اس کی گڑگڑانے اور تڑپنے سے بے پروا کبیردادا نے قریب پہنچ کر ایک ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھتے ہوئے کہا ۔

”میں غلطی دہرانے کا موقع نہیں دیا کرتا ۔“اس کے ساتھ ہی اس نے مخصوص انداز میں جھٹکا دیا ۔”کٹاک ۔“کی ایک دوسری آواز بلند ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ خاور شیخ چیخ نہیں پایا تھا ۔اوندھے منھ دبیز قالین پر گرتے ہوئے وہ ہاتھ پاﺅں جھٹکنے لگا ۔وہ ایک معصوم اور بے بس لڑکی کی چیخیں سننے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا، حوا کی بیٹی کو اذیت دے کر وہ خود محظوظ کرنے کا سوچے ہوئے تھا اور تقدیر اس ظالم پر خندہ زن تھی ۔

کبیردادا تناوش کی طرف مڑا ۔وہ بھاگ کر اس کے قریب آئی اور یوں وارفتگی سے لپٹی گویا برسوں کی شناسا ہی تو ہو ۔”اتنی دیر لگا دی ۔“اس نے لاڈ بھرے انداز میں شکوہ کیا تھا۔

کبیردادا کے چاروں محافظ یہ منظر دیکھتے ہی فوراََ کمرے سے باہر نکل گئے تھے ۔

اس کے یوں بے ساختگی سے لپٹنے پر کبیردادا ششدر رہ گیا تھا ۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تناوش اس بے باکی کا مظاہرہ کرے گی۔اس نے تناوش کی جسارت پر غصہ کرنے کا سوچا اسے جھڑکنے کا ارادہ کیا ،مگر وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر پایا تھا ۔تناوش کے ملائم اور نرم و نازک وجود نے اسے سن کر دیا تھا ۔تناوش کے بدن کی خوشبو اس کے حواس کو مختل کرنے لگی تھی ۔ کافی کوشش کر کے اس نے اپنی زبان کو بولنے پر آمادہ کیا ۔

”تمھیں یوں کسی کے ساتھ نہیں چلے جانا چاہیے تھا ۔“

”مجھے اگر ذرا بھی امید ہوتی کہ آپ خود مجھے لینے آئیں گے تو شاید قیامت تک انتظار میں بیٹھی رہتی ۔اور پھر مجھے یہ بھی گمان تھا کہ آپ کی بیوی کی طرف کوئی غلیظ ہاتھ نہیں بڑھاپائے گا ۔“

اس کے موخّر الذکر فقرے پر کبیردادا کو سبکی کا احساس ہوا ۔اسے بہ مشکل خود سے علاحدہ کرتے ہوئے وہ دھیرئے سے بولا ۔”میرا بھی یہی گمان ہے ،مگر کچھ لوگوں کو سمجھ میں یہ بات اتنی جلدی نہیں آتی اور میرا سمجھانے کا طریقہ ایسا ہے کہ وہ سمجھ تو جاتے ہیں مگر مستقبل میں اس پر عمل کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔“

تناوش کھل کھلا کر ہنسی ۔”اب مجھے بھی اس طریقے سے سمجھانا نہ شروع کر دینا ۔“

کبیردادا نے بے ساختہ امڈ پڑنے والی مسکراہٹ کو ہونٹ بھینچ کر روکا اور سنجیدہ لہجے میں بولا ۔”چلنا چاہیے ۔“

”ہاں چلیں ،مگر یادر رہے اتفاق سے آپ نے میرا چہرہ تودیکھ لیا ہے ۔منھ دکھائی معاف نہیں کروں گی ۔“

”نکاح پڑھوانے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں تمھارے چونچلے اٹھانا شروع کر دوں ۔ اپنی حیثیت پہچان کر بات کیا کرو ۔“خشک لہجے میں کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف چل دیا ۔

تناوش کے ہونٹوں سے خوشی بھری مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی ۔وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی ۔اپنی حیثیت اسے یاد تھی ۔اس نے خود کبیردادا کو یہی دعوت دی تھی کہ وہ صرف نکاح پڑھوا لے اس بعد وہ بے شک اسے رکھیل سمجھ کر رکھے اور رکھیل ہی سا سلوک کرے۔ اس وقت کبیردادا نے اس سے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ اپنی باتوں سے پھرے گی تو نہیں ؟ اور اس نے اعتماد بھرے لہجے میں کہا تھا کہ وہ اپنے کہے سے ایک انچ بھی نہیں ہٹے گی ۔

اس وعدے وعید کے بعد تناوش کا ایک بیوی کے حقوق کے لیے اصرار کرنا کسی طرح بھی نہیں جچتا تھا ۔یوں بھی کبیردادا کے چہرے پر اپنے لیے پریشانی دیکھ کر اس نے امید کا دامن دراز کیا تھا ۔لیکن کبیردادا نے اسے یہ باورکرانے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں تھی کہ اس کا پریشانی ظاہر کرنا اس کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی عیاشی کی وجہ سے تھا ۔وہ تناوش کو اپنی ملکیت سمجھ رہا تھا اور عورت چاہے بیوی ہویا رکھیل اس میں حصہ دار بنانا مرد کی فطرت میں شامل نہیں ۔ تناوش اس کی ملکیت تھی اور اپنی ملکیت پروہ کیسے کسی دوسرے کا تصرف کا برداشت کر سکتا تھا ۔

ایک محافظ نے کبیردادا کے لیے عقبی دروازہ کھولاہوا تھا ۔اس کے بیٹھنے تک تناوش دوسری جانب سے گھوم کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔

راستے میں کبیردادا سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا رہا ۔تناوش نے بھی کچھ بولنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔کبیردادا کی تلخ بات اسے ابھی تک ہضم نہیں ہو پارہی تھی ۔لیکن گھر پہنچنے تک وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔فی الحال کبیردادا کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔لیکن کوشش سے وہ اس کے دل جگہ بنا سکتی تھی ۔نہ جانے کیوں اس کا دل کبیردادا کے دل میں جگہ بنانے کا خواہاں تھا ۔وہ اس سے علاحدہ ہونے پر خود کو آمادہ نہیں کر پارہی تھی۔

گھر پہنچتے ہی کبیردادا نیچے اتر کر تیز قدموں سے اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا ۔ تناوش ایک مرتبہ پہلے وہاں آچکی تھی ۔اسے خواب گاہ کا رستا معلوم تھا ۔اور کسی سے رہنمائی لیے بغیر وہ آسانی سے وہاں پہنچ سکتی تھی ۔اس کے باوجود کبیردادا کی حرکت پر وہ دل مسوس کرکے رہ گئی تھی ۔نئی نویلی دلھن کا اتنا تو حق بنتا تھا کہ اسے اپنے ساتھ چلا کر لے جایا جاتا ۔

فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے عظیم کو دیکھ کر بھی وہ مسکرا نہیں سکی تھی ۔حالانکہ گزشتا روز اسے دیکھتے ہوئے وہ ہنسی نہیں روک پا رہی تھی ۔کہ تناوش کی وجہ سے اسے کبیردادا کے بھرپور تھپڑ کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اب شاید عظیم کے ہنسنے کی باری تھی ۔بجھے دل سے کار سے اتر کر وہ بوجھل قدموں سے خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی ۔

خواب گاہ میں گھستے ہی اسے کبیردادا منقش دروازے والی ایک الماری کے سامنے کھڑا نظر آیا ۔الماری سے کوئی چیز نکال کر وہ پیچھے مڑا ۔اس کے ہاتھ میں سنہری سیال والی دو بوتلیں دیکھتے ہی تناوش سمجھ گئی تھی وہ کس غلیظ مشروب سے شغل شروع کرنے والا ہے ۔لیکن وہ جیسا بھی تھا اب اس کا شوہر تھا ۔اور وہ جن حالات میں وہاں پہنچی تھی اس کے بعد اپنے شوہر کی کسی بات پر ناک بھوں چڑھانا مناسب نہیں تھا ۔وہ خود ہی تمام کشتیاں جلانے پر آمادہ ہوئی تھی ۔ نکاح سے پہلے ہی اس نے اپنے تمام حقوق کبیردادا کو معاف کر دیے تھے تو اب کوئی واویلا کرنا اسے جچتا نہیں تھا ۔اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کبیردادا کے نزدیک اس کی اہمیت ایک لذیز پکوان جتنی ہی تھی کہ پیٹ بھرنے کے بعد جسے نظر بھر دیکھا بھی نہیں جاتا ۔

کبیردادا نے صوفے پر بیٹھ کر شیشے کا نفیس گلاس بھر ااور ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر دیا ۔اس پر سے نظریں ہٹا کر وہ سبک قدموں سے چلتی ہوئی جہازی سائز بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی ۔اس کے ساتھ ہی وہ پرتعیش خواب گاہ کا جائزہ لینے لگی ۔فرش پر گہرے بھورے رنگ کا دبیز قالین بچھا تھا ۔جہازی سائز بیڈ کے پاﺅں کی طرف کی دیوار پر ایک بڑی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ والی دیوار میں ڈریسنگ روم اور آگے غسل خانے کا دروازہ تھا۔دوسری دو دیواروں پر جنگل کے بادشاہ کی دو بڑی بڑی پینٹنگز آیزاں تھیں ۔چھت میں خوب صورت سیلنگ کی گئی تھی اور ایک ترتیب سے دس بارہ انرجی سیور نصب تھے ۔ان کے جلنے سے خوب تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔بیڈ کے دائیں جانب فائیو سیٹر صوفہ سیٹ رکھا ہوا تھا ۔صوفہ سیٹ کے سامنے شیشے کی خوب صورت میز رکھی تھی جبکہ جوانب میں شیشے کی تپائیاں پڑی تھیں ۔ چھت سے پنکھے لٹکے ہوئے نظر نہیں آرہے تھے ۔اس کے بجائے ایک دیوار میں لگا ہوا اے سی اعلان کر رہا تھا کہ مکین کو پنکھوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ایک کونے میں درمیانہ سا فریج بھی رکھا ہوا تھا ۔ کمرے کو ایک نظر دیکھنے والا بھی آسانی سے اندازہ کر سکتا تھا کہ گھر کا مالک کتنا دولت مند ہے ۔ اس خواب گاہ کو دیکھتے ہوئے تناوش کی نگاہوں میں اپنے گھر کے کمرے کا منظر ابھرا ۔بان کی چارپائی پر بچھی منقش چادر جو زیادہ دھلائی سے اپنے اصل رنگ گم کر چکی تھی ۔لکڑی کی ایک پرانی سی میز جس کا نہ ہونا ،ہونے سے کئی گنا بہتر تھا ۔چھت سے لٹکتا ہوا پرانا پنکھا جو ہوا سے زیادہ آوازیں دیتا تھا ۔ اور واپڈا کی مہربانی سے انھیں وہ آوازیں کم ہی سننے کو ملاکرتی تھیں۔گرد ختم کرنے کے لیے ہر دوسرے دن کچے فرش پر پوچا پھیرنا پڑتا ۔

امارت اور غربت کا تضاد دکھانے کے لیے دو تصویریں کھینچی جاتیں تو اس کے لیے کبیر دادا کی خواب گاہ کے مقابل ان کا کمرہ غربت کی مکمل تصویر پیش کرتا تھا ۔

”تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا ۔“یکے بعد دیگرے تین گلاس حلق میں انڈیل کر وہ چوتھے گلاس سے ہلکی ہلکی چسکیاں لیتے ہوئے تناوش کو مخاطب ہوا ۔اس کے ایک دم پکارنے پر وہ ہڑ بڑا گئی تھی ۔”جی کون سا وعدہ ؟“

”یہی کہ میں نکاح پڑھوا لوں اور اس کے بعد تم کوئی مطالبہ پیش نہیں کرو گی ۔بلکہ رکھیل کی طرح میرے پاس رہو گی ۔“

کبیردادا کی طرف زخمی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ مستفسر ہوئی ۔”بیوی اور رکھیل میں کیا فرق ہوتا ہے ۔“

”میں نہیں جانتا کہ کیا فرق ہوتا ہے اور نہ جاننے کی خواہش ہے ۔البتہ تم یہ جان لو کہ یہاں جتنے دن رہنا ہے اپنی حیثیت اور جگہ پہچان کر رہنا ہوگا ۔آج میرے محافظوں کے سامنے تم پر رومانس کا جو بھوت سوار ہوا تھا آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ دیکھوں ۔“

تناوش کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔اور اس نے شوخ لہجے میں پوچھا۔ ”یہ رومانس والی شرط کمرے سے باہر تک ہی محدود رہے گی یا کمرے میں بھی یہی قانون لاگو رہے گا ۔“

کبیردادا نے اسے غصے بھری نظروں سے گھورا ،مگر وہ نگاہیں چرائے بغیر اس کی جانب متوجہ رہی ۔

”یقینا تم یہاں پر اپنا قیام مختصر کرنا چاہتی ہو ۔“

وہ اطمینان سے بولی ۔”بات طویل اور مختصر قیام کی نہیں ہے ۔بس یہ یاد رہے کہ جتنے دن یہاں رکھو گے اپنے کسی کام سے منع کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔خواب سے باہر آپ مجھے رکھیل کا نام دیتے ہیں ، داشتہ کہہ کرمیرا تعارف کراتے ہیں یا اس سے بھی زیادہ کسی غلیظ لقب سے پکارتے ہیں۔اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں اس خواب گاہ میں اپنا تصرف چاہتی ہوں اور یہاں مجھے بیوی کے حقوق میسر رہنے چاہئیں اور بس ۔“

”تم اس قسم کی کوئی شرط منوانے کی مجاز نہیں ہو ۔“

”یہ شرط نہیں میرا حق ہے ۔یقینا ایک رکھیل اتنا حق تو رکھتی ہے کہ ایک کمرہ اس کے تصرف میں رہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ اس کی طرف بڑھی ۔”اب رات کافی ہو گئی ہے میرا خیال ہے آرام کرنا چاہیے ۔“اس کے سامنے قالین پر بیٹھ کر وہ اس کے بوٹوں کے تسمے کھولنے لگی ۔

”یہ کیا کر رہی ہو ۔“اس نے اپنے پاﺅں پیچھے سمیٹنا چاہے ۔

اس کے دونوں پاﺅں پر اپنی گرفت سخت کرتے ہوئے وہ بولی ۔”کہا ہے نا ،مجھے اپنے کسی کام سے روکنے کی کوشش مت کرنا ،یہاں جتنے دن رہوں گی آپ کو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا یوں بھی یہاں پر آپ کا کوئی محافظ نہیں دیکھ رہا ۔“

کبیردادا صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوابولا۔ ”بے وقوف لڑکی !....ایسی کوششوں سے تمھیں کچھ نہیں ملنے والا ۔“

”میرانام تناوش کبیر ہے ،اگر آپ پیار سے چندا ،گڑیا ،جانو وغیرہ کہہ کر بلانا چاہیں تومجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ،مگر یہ لڑکی وغیرہ بالکل نہیں چلے گا ۔“شوخی بھرے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے بوٹ اتارنے لگی ۔کبیر دادا افسوس بھر ے انداز میں سر ہلا کر رہ گیا تھا ۔وہ الٹی کھوپڑی کی لڑکی نہ تو اس کے غصے کو خاطر میں لا رہی تھی اور نہ اس کے سمجھانے کا کوئی اثر ہو رہا تھا۔ اب اس کا ایک ہی حل کبیردادا کی سمجھ میں آرہا تھا کہ جلد از جلد اسے طلاق دے کر رخصت کر دیتا ۔

اس کی جرابیں اتار تے ہوئے تناوش نے منھ بنایا ۔”شاید ہفتہ بھر سے یہ جرابیں پہنی ہوئی ہیں ۔“

”اگر پسینے کی بو اتنی ہی بری لگ رہی ہے تو میری جرابوں کو ہاتھ نہ لگاتیں ،کسی نے منت تو نہیں کی تھی ۔“کبیر کا لہجہ خفگی کا عنصر لیے ہوئے تھا ۔

وہ وارفتگی سے بولی ۔”ایسا میں نے کب کہا کہ آپ کے پسینے کی بو مجھے بری لگتی ہے ۔ میں نے تو فقط جرابوں کے میلا ہونے کی نشان دہی کی ہے ۔بات کو غلط سمت موڑ نے کی کوشش نہ کریں سمجھے ۔“یہ کہہ کر وہ اس کے بوٹ اور جرابیں اٹھا کر ریک کی طرف بڑھ گئی ۔جوتوں کو ریک میں رکھ کر اس نے بیڈ کے ساتھ پڑی ہوائی چپل اٹھائی اور اس کے پاﺅں کے پاس لا کر رکھ دی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ صوفے پر بیٹھ کر اس کی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرنے لگی ۔کبیر دادا کو اس قسم کی خدمتیں لینے کی عادت نہیں تھی لیکن وہ خاموش بیٹھا رہا ۔ٹائی اس کے گلے سے نکال کر تناوش اس کی قمیص کے بٹن کھولنے لگی ۔

کبیر نے منھ بنایا ۔”یہ بٹن میں ڈریسنگ روم میں جاکر بھی کھول سکتا ہوں ۔“

وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”ہاں ،مگر اس پر وقت صرف ہوگا ۔اور جب میرے جیسی پیاری بیوی موجود ہو تو آپ کو یہ سب کرنے کیا ضرورت ہے ۔“

اس کی قمیص کے بٹن کھول کر تناوش نے اس کے ہاتھ سے گلاس لینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔”بس کریں اتنا اچھا مشروب بھی نہیں ہے کہ آپ دو بوتلیں معدے میں انڈیل لیں ۔“

اس مرتبہ کبیر دادا اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکا تھا ۔ایک ہاتھ سے تناوش کا بازو پکڑ کر اسے دھکا دے کر دور پھینکتے ہوئے وہ بولا۔”تم حد سے بڑھ رہی ہو ۔“

دبیزقالین کی وجہ سے تناوش کو چوٹ تو نہیں لگی ،البتہ توہین کے احساس سے اس کی آنکھوں میں نمی ابھر آئی تھی ۔لیکن جب وہ بولی تو اس کے لہجے میں خفت یا شرمندگی کا کوئی عنصر موجود نہیں تھا ۔”اچھا آپ جلدی جلدی یہ گلاس خالی کریں میں سلپنگ سوٹ لے کر آتی ہوں ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔

کبیردادا اسے حیرانی بھری نظروں سے گھورتا رہ گیا تھا ۔اپنے رویے پر اس کے دل میں ہلکی سی ندامت ابھری تھی مگر وہ ندامت دل ہی دل میں مقید رہی اس کا اثر اس نے چہرے پر نہیں آنے دیا تھا ۔

وہ ڈھونڈ کر اس کا سلپنگ سوٹ لے آئی ۔

”اب میں یہیں لباس تبدیل کرنا شروع کر دوں ۔“کبیر دادا نے بہ ظاہر طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا ۔

وہ بے باکی سے بولی ۔”تو یہاں میرے علاوہ اور کون موجود ہے جس سے آپ کو شرمانے کی ضرورت پڑے اور میں تو آپ کی بیوی ہوں نا ،میرا مطلب جب تک یہاں ہوں ۔“

”تمھاری کوئی کل سیدھی نہیں ہے ۔“ اس کے ہاتھ سے سلپنگ سوٹ جھپٹ کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا ۔اس کے لڑکھڑاتے قدم اعلان کر رہے تھے کہ وہ دو بوتلیں شراب کی اپنے معدے میں انڈیل چکا ہے ۔

اس کے باہر نکلنے پر تناوش اندر گھس گئی ۔اپنا اتارا ہوا سوٹ اس نے نیچے قالین ہی پر پھینک دیا تھا ۔شاید ایسا اس نے تناوش کے خدمت پر بہ ضد ہونے کی وجہ سے کیا تھا یا اس کی عادت ہی یہی تھی ۔

سوٹ کو ہینگر میں ڈال کر اس نے الماری میں لٹکایااور باہر نکل آئی ۔شراب کی دونوں خالی بوتلیں اٹھا کر اس نے کچرہ دان میں ڈالیں اور گلاس اٹھا کر دھونے کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی ۔معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ پہلی رات کی دلھن ہے ۔

کبیردادا بیڈ پر لیٹ گیا تھا ۔گلاس کو میز پر رکھ کر وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔”صبح کس وقت جاگتے ہیں ؟“

”تمھیں فکر کی ضرورت نہیں ملازمہ کو میرے سونے جاگنے کے اوقات معلوم ہیں ۔“

”صبح چھے بجے جگا دوں ؟“اس کی بیزاری کو نظر انداز کرتے ہوئے تناوش نے معصومیت سے پوچھا ۔

وہ زچ ہوتے ہوئے بولا ۔”دس بجے سے ایک منٹ پہلے مجھے ہلایا تو گردن دبا دوں گا ۔“

تناوش کھل کھلا کر ہنسی ۔”یہی بات آپ شرافت سے پہلے ہی بتا دیتے ۔خیر ناشتے میں کیا لیں گے ۔“

اس کی مترنم ہنسی کبیردادا کو بہت بھلی محسوس ہوئی تھی ۔مگر وہ اپنی دلی کیفیات پر بیزاری کا پردہ ڈالتے ہوئے کہنے لگا ۔”جو ناشتا بناتا ہے اسے سب معلوم ہے ۔تمھیں باورچن بننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔“

”کہہ دیا ہے نا ،جب تک میں یہاں ہوں اپنے سارے خدمت گاروں کو بھول جائیں ، آپ کے سبھی کام کرنے کا حق صرف اور صرف مجھے ہے ۔البتہ آپ کو بتانے میں ہرج ہو رہا ہے تو کوئی بات نہیں صبح ملازمہ سے پوچھ لوں گی ۔“یہ کہتے ہوئے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔

وہ اسے منع کیے بغیر خشک لہجے میں گویا ہوا ۔”جانتی ہو تمھاری ساری کوششیں بے کار اور بے فائدہ ہیں ۔ فضول میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہی ہو ۔تمھاری یہاں آمد کا مقصد مجھے بھی معلوم ہے ، تمھیں بھی بھولا نہیں ہو گا ۔اور اگر یاد نہیں ہے تو یادہانی کرادیتا ہوں کہ تم خوب صورت ،پرکشش اور جاذب نظر جسم کی مالک ہو اس لیے کبیردادا کی خواب گاہ میں نظر آرہی ہو ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہ لینا کہ کبیر دادا کو خوب صورت لڑکیوں کی کمی ہے ۔ تم نے خود آفر کی اور ترس کھاتے ہوئے میں نے منظور کر لی ۔اس لیے جو تین دن یہاں گزارنے ہیں آرام سے گزارو۔اس کے بعد تمھیں آزاد کر دوں گا ۔“

تناوش کے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کا عمل جاری رکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بولی ۔”یہ ساری باتیں میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔لیکن آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کی وجہ سے مجھے کس عذاب سے چھٹکارا نصیب ہوا ۔اور پھر میرے غریب خانے پر آپ نے بذات خود آکر جو میرا مان بڑھایا ہے اس احسان کا بدلہ تو میں کبھی نہیں چکا سکتی ۔باقی رہا آپ کی خدمت کرنے کا مسئلہ تو یہ آپ کو متاثر کرنے کے لیے نہیں ہے ہر مشرقی بیوی اپنے شوہر کی خدمت خوش دلی سے کرتی ہے ۔اس لیے میں جب تک یہاں ہوں آپ کے چاہنے ،نہ چاہنے کے باوجود خدمت کرتی رہوں گی ۔اور جب علاحدہ کریں گے تو خاموشی سے گھر چلی جاﺅں گی ۔یہ سوچ کر کہ بس اب آپ کو میری ضرورت نہیں رہی ۔“

”تمھیں سمجھانا ہی فضول ہے ۔“ کبیردادا نے بیڈ سائیڈ پر لگا تیز روشنی کا بٹن بند کر کے زیرو بلب جلا دیا ۔

صبح نہا کر تناوش نے وہی کپڑے دوبارہ پہن لیے تھے کہ گھر سے وہ ایک جوڑا ہی لے کر آئی تھی ۔خواب گاہ اور پھر ڈارئینگ روم میں جائے نماز ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کے بعد وہ باہر لان میں نکل آئی ۔نرم و ملائم گھاس پر نماز پڑھتے ہوئے اسے عجیب سی فرحت کا احساس ہوا تھا۔ نماز پڑھ کر وہ کافی دیر ہاتھ اٹھائے اپنے رب سے ہم کلام رہی ۔نہ جانے وہ اس بے نیاز داتا سے کیا کیا مانگتی رہی کہ جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔دعا مانگ کر وہ ننگے پاﺅں گھاس پر ٹہلنے لگی ۔شیر کے مجسمے کے گرد اڑتا فواروں کا پانی بہت بھلا محسوس ہورہا تھا ۔وہ فوارے کے گرد گھومتی رہی ۔

داخلی دروازے پر دو مسلح چوکیدار موجود تھے ۔جبکہ اندرونی عمارت کے دونوں کونوں پر بھی دوآدمی اپنے ہتھیار گود میں رکھ کر کرسی پر بیٹھے تھے ۔تمام کی نظریں تناوش کی جانب ہی نگران تھیں ۔اسے نماز پڑھتے دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلنے لگی تھی ۔

”دستگیر بھائی !....یہ ملانی کبیردادا کہاں سے پکڑ لایا ہے ۔“ایک چوکیدار دبے لہجے میں دوسرے کو مخاطب ہوا ۔

دستگیر نے دانت نکالتے ہوئے کہا ۔”جانتے ہو گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب مرد پر برا وقت آتا ہے تو وہ کسی عورت کی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔“

”تمھارے کہنے کا مطلب ہے ،کبیردادا اس بالشت بھر کی چھوکری کی محبت میں مبتلا ہو گیا ہے ۔“

دستگیر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔”نیاز بھائی ،کہنے والے تو یہی کہہ رہے ہیں ۔“

”کون کہہ رہا ہے ؟“نیازمستفسر ہوا ۔

”رات کو امتیاز کی زبانی جو تفصیل معلوم ہوئی ہے اس مطابق تو یہی لگتا ہے کہ کبیر دادا اس لڑکی پر بری طرح فریفتہ ہے ۔اس لڑکی کی خاطر اس نے اخلاق حسین شاہ جیسے آدمی پر ہاتھ اٹھایا ہے اور شاہ جی کے خاص آدمی خاور شیخ کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔بلکہ کل عصر کے وقت اس نے خاور شیخ کے چھوٹے بھائی کو بھی اس لڑکی کے ہاتھوں مروا دیا ۔امتیاز اس کا نام دلاور شیخ بتا رہا تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اس لڑکی کو آتے جاتے چھیڑتا تھا ۔“

نیاز نے حیرانی سے پوچھا ۔”اس نے ایک مرد کو قتل کیا ہے ؟“

”ہاں ،دلاور شیخ نے اس کے بھائی کو قتل کیا تھا اس نے ماں کے ساتھ مل کر بدلہ لے لیا اور دلاور شیخ تو اس لیے بھی چوں نہ کرسکا کہ وہاں کبیردادا موجود تھا ۔“

نیاز سمجھنے والے انداز میں سرہلاتے ہوئے بولا ۔”ویسے کبیردادا کو یہ ملی کہاں پر ہے۔“

”دو دن پہلے دن کے چوکیدار رحمت خان کی ڈیوٹی میں آئی تھی ۔خود کو کبیردادا کی دوست بتا رہی تھی ۔“

نیاز بولا ۔” تعلق کے بعد ملنے آئی ہو گی نا ؟....میں پوچھ رہا ہوں کہ دونوں کی آنکھ کہاں لڑی ہے ۔اور کیا اس بے وقوف کو معلوم نہیں کہ کبیردادا کس بلا کا نام ہے۔“

”چھوڑو نیاز بھائی !....خود ہی بھگتے گی ۔کبیردادا دوتین دن سے زیادہ کسی لڑکی کو قریب نہیں چھوڑتا ۔یاد نہیں جلوہ جیسی اداکار کو اس نے تین چار دن بعد ٹھینگا دکھا دیا تھا یہ تو بے وقوف سی گھریلو لڑکی نظر آتی ہے ۔یوں بھی کبیردادا جیسے شرابی غنڈے کی قربت میں کسی نمازی روزہ دار کا کیا کام ۔ “

تناوش ان کی باتوں سے بے خبر گھاس پر ٹہلتی رہی ۔ننگے پاﺅں گھاس پر گھومنا اسے بہت اچھا لگتا تھا ۔ پہلے وہ کبھی کبھار اسکول کے لان میں گھاس پر ٹہل لیتی تھی ۔مگر اسکول کی گھاس کے مقابلے یہ بہت اعلا قسم کی گھاس تھی ۔ یوں محسوس ہو رہاتھا جیسے وہ ریشم پر چل رہی ہو۔

 طلوع آفتاب کے وقت وہ چپل پہن کر اندرکی طرف بڑھ گئی ۔گھر میں وہ صبح سویرے ناشتے کی عادی تھی ۔رات کی باسی روٹی توے پر گرم کر کے وہ چاے کے ساتھ کھالیا کرتی۔اس کے بعد وہ کالج جانے کی تیاری میں لگ جاتی اور ماں اس کے لیے دوپہر کا کھانا تیار کرنے لگتی ۔

اب اسے کالج تو نہیں جانا تھا مگر بھوک تو محسوس ہو رہی تھی ۔کچن کا دروازہ کھانے کے کمرے سے ملحق تھا ۔لمبی چوڑی کھانے کی میز کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اس پر اکیلا کبیردادا بیٹھ کر کھانا کھاتا ہو گا ۔

اس کے ذہن میں خیال آیا ۔”شاید یہاں مہمانوں کی آمد رہتی ہے اور اس وجہ سے کبیردادا کو اتنی بڑی میز لگوانا پڑی ۔“

کھانے کے کمرے کی طرح باورچی خانہ بھی بہت بڑا تھا ۔ایک چھوڑ دو دو فریج وہاں موجود تھے ۔

ملازمہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ کبیردادا کے جاگنے کے اوقات سے واقف تھی ۔ باقی ملازموں کے لیے یقینا ملازموں کے کوارٹرز ہی میں ناشتا بنتا ہوگا ۔لان میں ٹہلتے ہوئے اسے کوٹھی کے عقبی جانب کوارٹر نما کمروں کی جھلک نظر آئی تھی ۔اور لازماََ وہ ملازمین کی رہائش کی خاطر ہی استعمال ہوتے تھے ۔

خانساماں کے جاگنے کا انتظار کیے بغیر وہ باورچی خانے میں گھس گئی ۔ایک کونے میں بنے ہوئے سنک کے ساتھ کافی گندے برتن پڑے تھے ۔ایسے گندے برتن دیکھ کر اسے سخت کوفت ہوتی تھی ۔چولھے پر چائے کا پانی چڑھا کر وہ برتن دھونے لگی ۔برتن صاف کرنے کے ساتھ ساتھ وہ چاے بھی بنا چکی تھی ۔ابھی پراٹھا بنانے کے لیے وہ آٹا گوندنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ ایک ادھیڑ عمر خاتون اندر داخل ہوئی ۔اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی ۔

اس نے چھوٹتے ہی پوچھا ۔”جی آپ کون ؟“

وہ فلسفیانہ لہجے میں بولی ۔”فی الحال تو اس گھر کی مالکن کہہ سکتی ہو ۔“

وہ معنی خیز لہجے میں بولی ۔”اس گھر کی مالکن تو شاید کبھی پیدا نہ ہو،آپ کو شاید صاحب کی نشے میں کی گئی گفتگو سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے ۔“

وہ فوراََ صفائی دیتے ہوئے بولی ۔”خالہ !....آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کل میرا اور کبیر علی خان کا نکاح ہو چکا ہے ۔کیا آپ کو میرے کپڑوں سے اندازہ نہیں ہورہا کہ میں پہلی رات کی دلھن ہوں ۔“

وہ بے پروائی سے بولی ۔”آپ کھانے کی میز پر تشریف رکھیں میں ناشتا لگادیتی ہوں۔ باقی روزانہ نئے نکور اور قیمتی لباس والیاں ہی نظر آتی ہیں آج تک کوئی پھٹے پرانے لباس میں تو نظر آئی نہیں کہ آپ کو انوکھا سمجھوں ۔“

تناوش کو سخت قسم کی توہین کا احساس ہو رہا تھا مگر جھگڑ تو نہیں سکتی تھی کہ وہ اسے کبیردادا کی دلھن سمجھے ۔یوں بھی ایک ملازمہ سے اس بات پر جھگڑنا کہ وہ اسے کبیردادا کی بیوی سمجھے خاصا عجیب تھا ۔وہ چپکے سے باہر نکل آئی ۔تھوڑی دیر بعد ملازمہ اس کے لیے ناشتا لے آئی ۔جوس ،سیب ،ڈبل روٹی ،جیم،مکھن،انڈے اور جانے کیا کیا لوازمات وہ ٹرالی میں بھر لائی تھی ۔

ناشتا شروع کرنے سے پہلے اس نے پوچھا ۔”خالہ !....صاحب ناشتے میں کیا لیتے ہیں؟“

”وہ بھی یہی کچھ لیتے ہیں بی بی جی !....بس مقدار کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔“

”شکریہ خالہ !....آج سے ان کا ناشتا میں خود لے جایا کروں گی بس آپ میری رہنمائی کر دیا کرنا ۔“

”کیا فائدہ بی بی جی !....آج آپ نے یوں بھی واپس چلے جانا ہے ۔“

وہ پر عزم لہجے میں بولی ۔”میں واپس جانے کے لیے نہیں آئی ۔“

ملازمہ نے منھ بنایا ۔”ہونہہ!....یہاں آنے والی ہر دوسری لڑکی یہی کہتی ہے ۔“

”آئندہ بولتے وقت کچھ سوچنے کی زحمت کر لینا ۔میں کوئی بازاری لڑکی نہیں ،کبیرعلی خان کی بیوی ہوں ۔“

”بی بی جی !....آپ تو خفا ہونے لگیں میرا مطلب یہ تھا کہ ........“

وہ قطع کلامی کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولی ۔”چھوڑیں مطلب کو اور جائیں باورچی خانے کی صفائی کر لیں ۔آج تو گندے برتن میں نے دھو لیے تھے ،لیکن اس کے بعد مجھے باورچی خانے میں گندا برتن نظر نہیں آنا چاہیے ۔“

”خواہ مخواہ رعب جھاڑنے کی ضرورت نہیں بی بی جی !....میں صاحب کی ملازمہ ہوں آپ کی نہیں ۔“یہ کہتے ہوئے وہ بڑبڑاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔”ایک رات کے لیے آتی ہیں اور مالکن کی طرح حکم جمانے لگ جاتی ہیں ۔“

اس کی بلند خود کلامی تناوش کے کانوں تک بھی پہنچ گئی تھی ۔مگر اسے برداشت کرنا پڑا۔ گو وہ ایک رات والی نہیں تھی اور نہ اس کا کبیر سے تعلق شریعت کے دائرے سے باہر تھا مگر حقیقت تو یہی تھی کہ اس کا قیام بھی عارضی ہی تھا ۔سر جھٹک کروہ تلخ سوچوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ناشتا کرتے ہوئے بھی اس کی سوچیں اسی مسئلہ میں سرگرداں رہیں ۔کبیر دادا کو جسم و جاں کا مالک ماننے کے بعد وہ اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی ۔وہ کوئی ایسا طریقہ سوچ رہی تھی کہ کبیر دادا صرف اسی کابن کر رہ جاتا ۔مگریہ بیل کسی طرح منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔البتہ اتنا وہ جانتی تھی کہ کوشش کرنے والے ہی حصول کی لذت چکھتے ہیں جبکہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے والے بس مقدر کو کوستے رہتے ہیں ۔دلاور شیخ سے جان چھڑانے کے لیے اگر وہ ہاتھ پیر نہ ہلاتی تو کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پاتی ۔اب کبیر دادا کے معاملے میں بھی وہ اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی ۔

ناشتا کر کے وہ کافی دیر وہیں بیٹھی رہی یہاں تک کہ ملازمہ برتن سمیٹنے پہنچ گئی ۔تناوش کے دماغ سے اب تک اس کی تلخ بات محو نہیں ہوئی تھی ۔

”خالہ!.... بات سنو ۔“وہ جونھی برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف مڑی تناوش بول پڑی۔

”جی بی بی!“وہ رک گئی۔

”میں آج کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کو تنبیہ کر رہی ہوں کہ اس کے بعد اگر مجھے موقع دیا یا کوئی ایسی ویسی بات کی تو نوکری سے فارغ کروا دوں گی ۔“

”اس کے علاوہ آپ کر بھی کیا کر سکتی ہیں ۔اگر ایک غریب کی روزی پر لات مار کر آپ کو خوشی ملتی ہے تو آج ہی فارغ کرادیں بی بی جی !“

”غریب کو بولنے کی تمیز بھی تو ہونا چاہیے ۔“وہ مزید برہم ہونے لگی ۔

”چلیں کچھ دن رہ گئیں تو آپ سے تمیز بھی سیکھ لوں گی ۔“عام سے لہجے میں اس پر چوٹ کرتے ہوئے وہ باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی ۔اس کے دماغ کی سوئی بس اسی بات پر اٹکی تھی کہ وہاں تناوش کا قیام ایک دو دن سے زیادہ نہیں ہونا تھا ۔کبھی کبھی تو خود تناوش کو بھی یہی لگنے لگتا کہ وہ بس ایک دو دن کی مہمان ہے،مگر پھر اس کے اندر ایک انجانا حوصلہ بیدار ہوتا جو اسے یقین دلاتا کہ کبیردادا اسے کسی صورت بھی طلاق نہیں دے گا ۔

وہ اٹھ کر ڈرائینگ روم میں آگئی ۔بڑی سکرین کی ایل ای ڈی کو آن کر کے وہ دھیمی آواز میں خبریں سننے لگی ۔وہ کافی دیر تک وہ وہیں بیٹھی رہی کیونکہ کبیر دادا نے دس بجے سے پہلے جگانے سے منع کیا تھا ۔اور اس سے پہلے اسے جگانے کی ہمت تناوش کو بھی نہیں ہورہی تھی ۔دس بجے اسے ملازمہ خواب گاہ کی طرف بڑھتی نظر آئی ۔اس نے پلیٹ میں شیشے کا گلاس بھی رکھا ہوا تھا۔

”خالہ کہاں جا رہی ہو ۔“اسے دروازے کے قریب روکتے ہوئے وہ مستفسر ہوئی ۔

”صاحب کو جگانا تھا ۔“

”گلاس میں کیا ہے ؟“

”لیموں نچوڑے ہوئے ہیں ۔یہ کھٹا پانی ہی انھیں جگانے میں مدد دیتا ہے ۔“

”اچھا آپ ناشتا تیار کریں میں انھیں جگا دیتی ہوں ۔“

ملازمہ بغیر اصرار کیے بغیر لیموں پانی کا گلاس اس کے حوالے کرتے ہوئے واپس مڑ گئی ۔وہ خواب گاہ میں گھس گئی ۔کبیردادا کے بھاری سانس اس کے گہری نیند میں ہونے کا اعلان کر رہے تھے ۔اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے وہ چند لمحے اس کے چہرے کو گھورتی رہی ملگجی روشنی میں اس کا پر رعب چہرہ پرسکون دکھائی دے رہا تھا ۔

”کاش آپ پر میری ملکیت متعین ہو جائے ۔“اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک تمنا جاگی اور اس کا ہاتھ کبیر دادا کے سر کی طرف بڑھ گیا ۔وہ اس کے گھنے بالوں میں ملائم انگلیاں کنگھی کی طرح پھیرنے لگی ۔اس کے بھاری سانس مدہم پڑنے لگے تھے ۔اور پھر اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں ۔چند لمحے خالی خالی نظروں سے تناوش کو گھورنے کے بعد اس کی نظروں کا زاویہ چھت کی طرف مڑ گیا ۔

بالوں سے ہاتھ نکال کر تناوش نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھاما اور چاہت سے بولی ۔”اٹھ جائیں نا دس بج چکے ہیں ۔“وہ سرجھٹکتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔

تناوش نے فوراََلیموں پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھا دیا ۔

ایک ہی سانس میں کھٹا پانی معدے میں انڈیل کر وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ تناوش ڈریسنگ روم میں گھس کر اس کے لیے لباس نکالنے لگی ۔گہرے نیلے رنگ کا سوٹ الماری سے نکال کر اس نے ہینگر میں لٹکایااور ناشتا لینے چل دی ۔

ملازما ناشتا تیار کر رہی تھی ۔وہ خاموشی سے اسے ناشتا تیار کرتے دیکھتے رہی ۔اس نے جونھی ناشتا تیار کر کے ٹرالی میں ڈالاوہ بول پڑی۔

”آپ رہنے دیں خالہ!.... میں لے جاتی ہوں ۔“

وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی ۔”آپ پہلی لڑکی ہیں جو صاحب جی کے کاموں میں اتنی دلچسپی لے رہی ہیں ،میری مانیں یہ کوشش چھوڑ دیں ۔کبیر علی خان جیسے آدمی کسی ایک کے ہو کر نہیں رہ سکتے ۔آج آپ ہیں کل دوسری ہو گی اور پرسوں تیسری ۔“

”خالہ!....ان شاءاللہ کل بھی میں ہی ہوں گی اور پرسوں بھی کوئی دوسری تیسری آپ کو نظر نہیں آئے گی ۔“یہ کہتے ہوئے وہ ٹرالی دھکیلتے ہوئے باورچی خانے سے باہر نکل آئی ۔ خواب گاہ میں داخل ہو کر اس نے میز پر ناشتا لگایا اور کھڑکی کے پردے ہٹا کر ملگجے اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کر دیا ۔

کبیردادا ڈریسنگ روم میں کپڑے تبدیل کر رہا تھا ۔وہ اسی جانب بڑھ گئی ۔اسے سلپنگ سوٹ سنبھالتے دیکھ کر وہ بولا ۔

”ویسے اس کام کے لیے ملازمہ موجود ہے ۔“

”معلوم ہے ۔لیکن شاید آپ نہیں جانتے کہ ملازمہ کے رحم و کرم پر وہ مرد ہوتے ہیں جو کنوارے ہوں یا جن کی بیویاں پھوہڑ ہوں ۔“

”چند دنوں کی بیوی سے کیا کام لینا ۔“بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے اس نے منھ بنایا ۔

”جب تک نعمت میسر ہو اس سے فائدہ اٹھاتے رہنا چاہیے ۔“

صوفے جانب بڑھتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا ۔”یہ غلط فہمی میں کب کی اپنے دماغ سے نکال چکا ہوں کہ بیوی نعمت ہو سکتی ہے ۔“

اس کے بیٹھنے تک وہ بھی اس کے پیچھے پہنچ گئی تھی ۔وہ سیب اٹھا کر دانتوں سے کترنے لگا ۔اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے تناوش پلیٹ سے انڈہ اٹھا کر چھلکا اتارنے لگی ۔

”یہ کام میں اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتا ہوں ۔“

وہ بے نیازی سے بولی ۔”اچھی عادت ہے ،لیکن جب تک میں موجود ہوں آپ کو یہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔“

”تمھاری ہر بات مجھے تھپڑ مارنے پر اکساتی ہے مگر یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ دو تین دن کی مہمان ہو ۔“

”شاید یہ قیام اتنا بھی مختصر نہ ہو ۔“صاف انڈہ پلیٹ میں رکھ کر اس نے دوسرا انڈہ اٹھا لیا ۔

”تمھاری عادتیں دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا ۔“نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرا پڑا تھا ۔

اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے وہ اس کے بازو سے چمٹ گئی ۔” آپ کی خدمت کرنا بری عادت ہے ۔“

”پھر وہی رومانس ۔“کبیردادا نے بیزاری بھرے لہجے میں کہا مگر اس نے تناوش کو دور نہیں کیا تھا ۔

”کمرے کے اندر تو آپ اجازت دے چکے ہیں نا ۔“

”کب؟“جوس کا گلاس خالی کرکے رکھتے ہوئے اس نے حیرانی سے پوچھا ۔

”رات کو جب آپ مجھے محافظوں کے سامنے ایسا کرنے سے منع کر رہے تھے اس وقت میں نے کمرے کی بابت دریافت کیا تھااور آپ خاموش رہے تھے ۔اورخاموش ہونے کا ایک ہی مطلب بنتا ہے کہ آپ کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔“

”اگر تم کچھ دن اور یہاں رہیں تو میرے پاگل ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہے گا ۔“

وہ شرارت سے ہنسی ۔”یہ نہ ہو مجھے بھیج کر دیوانے ہو جائیں ۔“

 ناشتے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے وہ کھڑا ہو گیا ۔” صرف تم نہیں ،ہر خوب صورت لڑکی یہی سمجھتی ہے کہ اس کے بغیر مرد نہیں رہ پائے گا۔“

”واپس کس وقت لوٹیں گے ۔“وہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی ۔

”اس بارے جاننا تمھارے لیے ضروری نہیں ہے ۔“کبیر دادا نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے ۔

وہ جلدی سے بولی ۔”ایک منٹ رکیں ۔“

”اب کیا ہے ۔“قدم روکتے ہوئے وہ اس کی طرف مڑا ۔

اس کے قریب رک کر تناوش نے زیر لب کچھ بڑبڑا کر اس پر پھونکا ۔”اب جائیں ۔“

”تمھاری یہ حرکتیں مجھے کوفت میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔“بیزاری سے کہتے ہوئے وہ خواب گاہ سے نکل گیا ۔محافظوں نے گاڑیاں قطار میں لگائی ہوئی تھیں ۔ایک محافظ نے اسے آتے دیکھ کر عقبی نشست کا دروازہ کھول دیا ۔کار میں بیٹھتے ہوئے اچانک اس کے دماغ میں خیال آیا۔”محبت کی دعوے دار نے خواب گاہ ہی سے رخصت کر دیا ہے۔“یہ سوچتے ہوئے اس کی نظریں بے اختیار اندرونی عمارت کے دروازے کی طرف اٹھ گئی تھیں ۔تناوش دروازے سے باہر نکل کر اسی طرح دیکھ رہی تھی ۔

”بے وقوف ۔“خود کلامی کے انداز میں کہتے ہوئے اس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہو ئی ۔گیٹ سے نکلتے ہوئے ایک بار پھر اس نے مڑ کر دیکھا وہ ابھی تک وہیں کھڑی اس کی طرف متوجہ تھی۔

_____

کبیردادا کے رخصت ہوتے ہی تناوش گھر جانے کے لیے ڈرائیور کو دیکھنے لگی۔ گیراج میں اسے وہی سفید کار کھڑی نظر آرہی تھی جس میں دودن پہلے وہ گھر تک گئی تھی ۔الٰہی بخش نامی ڈرائیور اسے گھر تک چھوڑ کر آیا تھا ۔ڈرائینگ روم میں آکر اس نے ملازمہ کو آواز دی ۔

”راحت خالہ !....بات سنیں ۔“

”جی بی بی ۔“وہ باورچی خانے سے برآمد ہوئی ۔

”الٰہی بخش کو کہو گاڑی لگائے میں نے گھر تک جانا ہے ۔“

بیزاری بھرے انداز میں سرہلاتے ہوئے وہ باہر نکل گئی ۔

اس کا ارادہ گھر سے اپنے کپڑے وغیرہ لانے کا تھا ۔گو وہ کبیردادا کو بھی کہہ کر نئے کپڑے منگوا سکتی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس بات پر وہ بیزاری کا اظہار بھی نہ کرتا مگر جانے کیوں وہ اسے اپنی کسی بھی ضرورت کے متعلق نہیں بتانا چاہتی تھی ۔

ملازمہ نے اسے گاڑی لگنے کی اطلاع دی اور وہ اٹھ کر باہر کی طرف چل دی ۔تیاری تو کوئی کرنا نہیں تھی کہ اس کے پاس ایک ہی کپڑوں کا جوڑا تھا ۔

اسے قریب آتا دیکھ کر ادھیڑ عمر ڈرائیور نے کار کا عقبی دروازہ کھول دیا ۔پچھلی مرتبہ کے بر خلاف اس دفعہ اس کے دل میں کار میں بیٹھتے ہوئے کوئی جھجک موجود نہیں تھی ۔گھر کے سامنے اترتے ہوئے اس نے ڈرائیور کو تین گھنٹے بعد آنے کا کہا اور گھر میں گھس گئی ۔ماں اسے گھر پر ہی ملی تھی ۔اسے دیکھتے ہی بشریٰ خاتون خوشی سے کھل اٹھی تھی ۔

”ارے میرے شہزادی آئی ہے ۔“ماں نے بھاگ کر اسے گلے سے لگا لیا تھا ۔اسے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بڑے عرصے بعد ماں کو مل رہی ہو ۔

”کبیر بیٹا نہیں آیا۔“ماں اس کی پیشانی چوم کر اسے ساتھ لیے چارپائی پر بیٹھ گئی ۔

”اس کے پاس اتنا وقت کہاں ماں جی ۔“

”اچھا رات کو کیا ہوا تھا ۔جب تم ملازموں کے ساتھ چلی گئی تھیں تو خود یہا ں دلھن لینے پہنچ گیا ۔“

”ہاں ....ماں وہ اصل میں بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔“تناوش جان بوجھ کر اصل بات گول کر گئی ۔

”بیٹی سچ سچ بتاﺅ خوش تو ہونا ۔“

”آپ سنائیں رات کیسی گزری ۔“اس نے ماں کی بات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔

”رات تو اچھی گزری ہے ،مگر میں نے کچھ پوچھا ہے ۔“

”امی جان !....شادیوں اور معاہدوں میں فرق ہوتا ہے ۔کبیر علی خان کا احسان ہے کہ انھوں نے نکاح پڑھوا کر میری عزت رکھ لی ۔“

بشریٰ فلسفیانہ لہجے میں بولی ۔”تو کیا ضرورت تھی آسمان سے گرتے وقت کھجور میں اٹکنے کی ۔“

تناوش تلخی سے بولی ۔”جب سینے میں نفرت کی آگ جل رہی ہو تو وہ کچھ بہتر سوچنے کا موقع نہیں دیتی ۔“

”پچھتا رہی ہو ؟“بشریٰ نے دکھی دل سے پوچھا ۔

”بالکل بھی نہیں ،بس ڈرتی اس بات سے ہوں کہیں وہ مجھے طلاق نہ دے دیں ۔“

”باﺅلی تو نہیں ہوئی ہو۔“ بشریٰ نے حیرانی بھرے لہجے میں پوچھا ۔”ایک غنڈے کے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتی ہو ۔اس سے بہتر تھا اسی دلاور شیخ سے شادی کر لیتیں ۔تمھارا بھائی تو نہ جاتا ۔“

”ماں جی !....میں اس قابلِ نفرت شخص کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزارتی ۔“

”اور یہ کیسا ہے ۔“

”بتایا تو ہے ،ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ۔“

”بے وقوف حرا م کی دولت کی چکا چوند بس عارضی خوشی فراہم کرتی ہے ۔“

تناوش نے منھ بنایا۔”اگر مجھے اس کی دولت سے کچھ لینا ہوتا تو گھر سے اپنے پرانے کپڑے سمیٹنے نہ پہنچ جاتی ۔“

”پھر کیا بات ہے ۔“

”ماں جی !....آپ نے ابوجان سے پسند کی شادی کی تھی نا ں؟“وہ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔

”ہاں بیٹی !....مگر وہ بے وفا ہمیشہ ساتھ رہنے کا عہد نہ نبھا سکا ۔“بشریٰ اپنے محبوب شوہر کی یاد میں کھو گئی تھی ۔

”ابو جان !....آپ کو کیوں اتنا پیارا تھا ماں جی !“

بشریٰ اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے شفقت سے بولی ۔”کسی کا پیارا لگنا اختیار میں تھوڑی ہوتا ہے پگلی ۔“

تناوش نے معنی خیز لہجے میں پوچھا ۔”مطلب آپ جانتی ہیں کہ کسی کو چاہنا بے اختیاری فعل ہے ۔“

”ہاں جانتی ہوں ،مگر برابری اور مسابقت بھی کوئی حیثیت رکھتی ہے چندا!.... کبیر علی خان بہت بڑی شخصیت ہے اور ہم نہایت حقیر ہم کبھی اس کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے ۔تم اس کے نزدیک ایک کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہو ۔اور جب کھلونے سے دل بھرجایا کرتا ہے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے یا کسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔“

وہ عزم سے بولی ۔”فکر نہ کریں ماں جی !....اگر میں اس کے مقا م تک نہیں پہنچ سکتی تو اسے اپنی حیثیت تک لے آﺅں گی ۔“

”بہتر تو یہی ہو گا کہ طلاق لے کر دوبارہ اپنا گھر بسا لو ۔اگر لوگوں کی باتوں سے ڈرتی ہو تو ہم یہ گھر بیچ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔اب تو یوں بھی اس موذی دلاور شیخ سے جان چھوٹ گئی ہے ۔“

ماں جی !....شریف لڑکیاں طلاق کا مطالبہ نہیں کیا کرتیں ۔“

بشریٰ ہنسی ۔”ٹھیک ہے جی شریف لڑکی نہ کرے مطالبہ ۔بدمعاش لڑکا خود ہی طلاق دے دے گا ۔“

”بد دعائیں تو نہ دیں ماں جی !....“

”اچھا کچھ نہیں کہتی میری گڑیا !.... یہ بتاﺅ کھانا کھاﺅ گی کہ نہیں ۔میرا تو دل نہیں چاہ رہا تھا اس لیے کچھ بھی نہیں بنایا ۔اگر تمھارا دل کر رہا ہے تو کچھ اچھا بنا لیتی ہوں ۔“

”ہاں بالکل کھاﺅں گی ،کوئی اچھی سی سبزی بنا لیں اتنی دیر میں میں اپنا سامان سمیٹ لوں ۔“

٭٭٭

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rakhail Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rakhail written by  Riaz aqib Kohlar  .Rakhail  by Raiz Aqib Kohlar is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment