Meri Dulhan Novel By Umm Umayr Complete Short Novel Story 4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 20 August 2023

Meri Dulhan Novel By Umm Umayr Complete Short Novel Story 4

Meri Dulhan Novel By Umm Umayr Complete Short  Novel Story 4

 Read ONLINE Free Famous Urdu Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading

Meri Dulhan Novel By Umm Umayr Complete Short Novel Story 4


عمر نہایت مؤدب دین دار اپنے والدین کی اکلوتی اولاد،والدین کی آنکھوں کا تارا،تمام دوست احباب اسکے اعلی اخلاق کے گرویدہ،اللہ نے اس کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔

عمر پڑھائی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا ۔۔

مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم عمر نہایت ذہین  اور ہونہار اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کا پسندیدہ طالب علم جسکو دن رات مفید علم پا لینے کی جستجو رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا اور امی جان کی ہر فون کال پہ ایک ہی رٹ ہوتی،بیٹا اپنا گھر بسا لے نکاح کر لے !!!تیرا دین مکمل ہو جائے گا انشاءاللہ!!!!ہماری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں نا جانے کب زندگی کی بازی ہار جائیں،ہم چاہتے ہیں تیرے لئےاپنے ہاتھوں سے  دین دار نیک لڑکی بیاہ کر لائیں جو تیری دین و دنیا کا کل سرمایہ ہو گی ۔ تیری آنے والی نسل کو پروان چڑھاے گی انشاءاللہ ۔۔۔

عمر جو نہایت ادب سے والدین کی نصیحتوں کو سن رہا تھا آخر کار اس کو ہتھیار ڈالنے پڑ گئے ۔۔ 

لمبی سانس لے کر بولا  ٹھیک ہے بابا جان! جیسے آپ کی خواہش ہے میں خوش ہوں لیکن میں صرف 2 ہفتے کی چھٹی کے لیے آ سکتا ہوں مجھے واپس آ کر اپنے امتحانات  کی تیاری کرنی ہے انشاء اللہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر بیٹا ایک بہت اچھا رشتہ ہے میرے بہت قریبی دوست کی بھانجی ہے تمھاری ماں مل چکی ہے اس سے بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلی صفات کی مالک ہے ۔ تیرے لیے بہترین جیون ساتھی ہو گی اور میں اپنی تحقیق کروا چکا ہوں الحمدللہ ۔۔۔۔۔۔عمر کا دل تھوڑی دیر کے لیے خیالی تصورات میں چلا گیا ۔تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد ٹھیک ہے بابا جان جو آپ کو مناسب لگتا ہے کر گزریں،مجھے پورا یقین ہے آپکا یہ فیصلہ خیر سے خالی نہیں ہو گا ۔ آپ نے ہمیشہ میری بہترین رہنمائی کی ہے اور مجھے آپ کی پسند پہ کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیٹا تو نے میرا مان رکھ لیا ہے مجھے تم سے یہی امید تھی؛بابا بھرائی ہوئی آواز میں بولے ۔ فرحت جذبات سے لبریز بابا بولے بیٹا!اللہ تجھے دین اور دنیا میں کامیاب کرے میرے بچے آمین ۔

بابا کی آنکھیں شدت جذبات سے امڈ آئیں ۔ 

یہ لے میرے بچے ماں سے بات کر، ماں کی مامتا جوکہ پہلے ہی نچھاور تھی اپنے فرمانبردار بیٹےپہ، سلام اور دعا  کے طویل  سلسلے کے بعد امی بولیں  میرے چاند تو جمعرات کو آ رہا ہے تو کیا ہم نکاح جمعہ کی نماز کے بعد طے کر لیں؟؟؟؟

میرے لعل تو ادھر زیادہ دنوں کے لیے نہیں ہوگا تو ہم چاہتے ہیں تو اپنی دلہن کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارے  ۔  ۔۔۔۔۔۔ 

پر میرے بچے تو نے ابھی تک زلیخا کو تو دیکھا ہی نہیں ہے؟! جی امی نہیں دیکھا ہے میں نے زلیخا کو ؛آپ نے دیکھا میں نے دیکھا ایک ہی بات ہے۔۔۔ مجھے آپ دونوں پر مکمل بھروسہ ہے میری طرف سے آپ دونوں کو مکمل اختیار ہے!

آپ اپنے فیصلے کو پایا تکمیل تک پہنچائیں انشاءاللہ ۔۔۔۔

ایک دم عمر کے دل کے نرم گوشے نے انگڑائی لی ۔زلیخا اس کی ہونے والی جیون ساتھی جسکو نہ کبھی اس نے دیکھا نہ سنا لیکن پھر بھی دل اس کو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔

☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_

جوں جوں وقت گزر رہا تھا عمر کی دعاؤں  میں  دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا ۔ سوچا جانے سے پہلے عمرے کی ادائیگی کی جائے ۔اللہ کے گھر عمر نے اپنے ہونے والی جیون ساتھی کے لیے ہاتھ پھیلا دیئے،تقوی اور خیر و برکت کی دعائیں مانگی،چونکہ یہ اسکی زندگی کا ایک بہت اہم فیصلہ تھا ۔۔۔۔۔۔

دل میں سنت کی تڑپ اور لگاؤ نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے تھے ۔۔۔۔۔۔

مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت،6 فٹ کا  قد ،کشادہ  سینہ ۔۔۔

سرخ و سپید عمر چہرے پہ سنت رسول سجائے کسی بھی لحاظ سے کم نہ تھا ماشاءاللہ ۔۔۔۔

موتیوں جیسےدانت جو کثرت مسواک سے اور دمکتے تھے ،خوبصورت روشن آنکھیں اور کشادہ پیشانی کسی بھی دین دار دوشیزہ کے لیےایک عظیم نعمت سے  کم نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان آمد پر والدین کی خوشی دیدنی تھی،ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا ۔نکاح کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ۔ 

بابا جان نے صبح کے انتظامات سے آگاہ کیا 

راولپنڈی سے جھلم دو سے اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے اور ہم سیدھا مسجد جائیں گے،نماز جمعہ کی ادائیگی اور پھر نکاح انشاءاللہ ۔ 

عمر کے دل میں زلیخا کے دیدار نے ایک بار شدت سے انگڑائی لی ۔ ان دیکھی انجان زلیخا اس کی زندگی کا حصہ بننے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

وہ وقت بھی آن پہنچا دعائیہ کلمات اور مبارکباد کی پر جوش آوازیں بلند ہو رہی تھیں ۔

چھوارے اور مٹھائی کا دور دورہ چل رہا تھا،فضا میں مسرت بھرے قہقہے بلند ہو رہے تھے ۔ طے پایا رخصتی نماز عصر کے بعد انشاءاللہ ۔ 

چند قریبی لوگوں کی بارات رخصتی کے لیے پر تول رہی تھی کہ سر سے پاؤں تک ڈھکی زلیخا کو امی نے اپنے پہلو میں بٹھایا ۔ بابا جان نے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالا اور پھر عمر اگلی سیٹ پر بابا جانی کے ساتھ براجمان ہو گیا ۔

کچھ دیر بعد گاڑی جی ٹی روڈ پر فراٹے لے رہی تھی،بابا جانی اور عمر ملکی حالات پر مہو  گفتگو تھے ۔ عمر کی بھاری مردانہ آواز زلیخا کو بہت بھا گئی جبکہ امی جان زلیخا کو ساتھ لگا کر بار بار دعائیہ کلمات دہرا رہی تھیں ۔ 

مسافت کو مد نظر رکھتے ہوئے بابا جان نے کہا کیوں نہ کسی جگہ پہ رکا جائے لیکن امی بضد تھیں کہ مغرب سے پہلے گھر  پہنچا جائے ۔

دھیرے دھیرے سورج اپنی تپش کھو رہا تھا ۔ 

زلیخا کا دل دھک دھک کر رہا تھا لیکن دل ہی دل میں دعائیہ کلمات دہرا رہی تھی ۔ اجنبی منزل کا عجیب مزا، تڑپ،شوق اور تجسس کے ملے جلے جذبات کا امتزاج!!

ٹھیک آدھا گھنٹہ مغرب سے قبل وہ اپنے گھر کے دروازے پہ تھے امی سے چابی لے کر عمر نے مین گیٹ کھولا چنانچہ موقع غنیمت جان کر زلیخا نے دلہا جی کو دیکھنے کی ٹھانی لیکن گیٹ کھولتے ہی دلہا میاں اندر تشریف لے جا چکے تھے

بابا جانی نے کھلے گیٹ سے گاڑی گھر کے بڑے صحن میں پارک کی ۔۔ 

جبکہ دلہا میاں گھر کے تالے اور گھر کی بتیاں جلانے کی تگ و دو میں دکھائی دیئے ۔۔۔۔

زلیخا کا دل مچلا اور جی چاہا وقت ادھر ہی رک جائے اور وہ اپنے دلہا جی کو دیکھتی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔

واپڈا کی کرم نوازی کے کیا کہنے،بجلی کا جنازہ اٹھ چکا تھا ۔" واپڈا کے کارنامے ہر وقت لوگوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے میں کارفرماں "

پورے گھر کے دروازے کھل چکے تھے لیکن ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا ۔ 

امی نے آواز لگائی عمر موبائل کی بیٹری لے آؤ تو دلہن اور سامان کو کمرے تک لے چلیں ۔ بابا واش روم جا چکے تھے اپنے موبائل کی بیٹری کے سہارے سے 

جی امی آیا عمر کی مؤدب آواز گونجی ۔ 

بیٹے زلیخا کو اندر لے چلو میں تمھارے بابا کے ساتھ سامان نکالتی ہوں ۔ نہیں امی میں کرتا ہوں آپ جائیں ۔ 

ارے نہیں نہیں بیٹا دلہن لمبے سفر سے آئی ہے اس کو کمرے میں لے چلو ________

عمر نے اپنے دایاں ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا آ جائیں میں آپ کو اندر لے چلوں ۔ 

زلیخا کا دل بلیوں اچھل رہا تھا،خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ دین دار،خوبصورت اور خوب سیرت شخص اس کی زندگی کا ہم سفر ہے ۔ دل میں بسم اللہ بول کر اس نے اپنا دستانے والا ہاتھ آ گے بڑھا دیا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب ہو، زلیخا نے دل ہی دل میں سوچا ۔ 

چند لمحوں میں وہ اپنے کمرے میں آن پہنچے ۔ آپ ادھر رکیں میں کچن سے موم بتیاں لے کر آتا ہوں اور آپ اپنا برقعہ(عبایہ ) اتار لیں 

چند لمحوں بعد عمر دو موم بتیوں سمیت ان کو جلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا،پھر بولا میں ایک موم بتی واش روم میں رکھ رہا ہوں اور ایک کمرے کے لیے ہے ۔

مغرب کی اذان کا وقت ہوا چاہتا ہے اور میں وضو کر کے مسجد جا رہا ہوں ۔ 

زلیخا نے دھیرے سے بولا جی ۔۔۔۔۔

دستانے اور برقعہ اتارا ہی تھا کہ عمر واش روم سے  باہر  نکلا، اچانک نظر اس کے مرمری پتلے ھاتھوں پہ پڑی ۔ بہت پتلے اور نازک ہاتھ لیکن رنگت کا اندازہ کرنے سے قاصر تھا 

جی وہ مجھے وضو کرنا ہے،زلیخا دھیمے لہجے میں بولی ۔

جی جی ضرور لیکن آپ اس لباس میں کیسے وضو کریں گی؟؟؟ عمر نے اچٹتی نگاہ ڈال کر استفسار کیا 

جی وہ میں کر لوں گی مجھے عادت ہے اکثر برقعے میں بھی وضو کرنے کی جی ۔۔۔۔

عمر لمبی سانس کھینچ کر چلیں جیسے آپ کو مناسب لگتا ہے میں مغرب کے لیے جا رہا ہوں السلام علیکم!

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکتہ زلیخا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔ 

نکاح کے دو بولوں نے اس کی ساری سوچوں کا مرکز عمر کو بنا دیا ۔ اس نے تو کبھی نہ کسی غیر محرم مرد کو چاہا ، نہ دیکھا اور نہ ہی کھبی کسی کو چھوا ، لیکن یہ شخص تو ابھی سے ہی اس کے دل میں ڈیرہ ڈال چکا ہے ۔ ایک الگ سا اطمینان ، تحفظ کا احساس اور شدید کشش کا احساس اسکو سرشار کیے جا رہا تھا 

وضو سے سارا بناؤ سنگار،اور میک اپ پانی کی نظر ہو چکا تھا لیکن زلیخا اس چیز کی پرواہ کیے بغیر جائے نماز پہ کھڑی تھی، اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھی اور گڑا گڑا کر دعائیں مانگ رہی تھی ۔

دروازے پہ آہٹ نے زلیخا کے دل کو ایک اور بار تیزی سے دھڑکنے پر مجبور کر دیا، خود سے بولی یقینا عمر واپس آگئے ہیں ۔ باہر سے امی کی آواز آئی بیٹی میں ہوں!

زلیخا دروازے کی طرف لپکی اور امی کا استقبال کیا۔ 

امی اس حلیے میں بہو کو دیکھ کر صدقے واری ہو رہی تھیں

میری بچی، میری بہو کا اپنے رب سے مضبوط تعلق ہے ماشاءاللہ ۔ پیار سے گلے لگایا،ماتھا چوما اور ڈھیروں دعائیں دیں ۔ 

میری بچی کھانا لگاؤں؟ نہیں امی مجھے بھوک نہیں آپ ان سے پوچھ لیں شاید وہ کھائیں ۔ 

واپڈا کی کرم نواز یوں کے کیا کہنے؟!بجلی کے نزول کے ساتھ عمر اور بابا جان کمرے میں داخل ہو چکے تھے ۔قدرے اونچی آواز سے سلام بولا، اچانک نظر دلہن کے سانولے ہاتھوں پہ پڑی تو  ایک دم دل بجھ سا گیا لیکن اپنے جذبات کو  نا ظاہر کرنے میں کامیابی کا جھنڈا گاڑا۔ 

بابا جان نے بھی خوب محبتیں نچھاور کی اور کھانے کے لیے بلایا لیکن عمر نے بھی صاف انکار کر دیا کہ بھوک نہیں ہے ۔ 

بابا جان نے بولا بیگم پسے بادام اور دودھ لے آئیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا اس سنت کو پورا کرے۔ 

امی ٹھیک دو منٹ بعد ٹھنڈے دودھ کا گلاس لیے عمر کو تھماتے ہوئے بولیں بیٹا پہلے خود پیو اور پھر زلیخا کو پلاؤ 

اور دودھ کی دعا یاد دلائی ۔ عمر نے غٹا غٹ دودھ کا آدھا گلاس پیا اور باقی زلیخا کو پکڑایا ، اس نے بھی عظیم دقت کے ساتھ چند گھونٹ نیچے اتارے اور امی بابا کی طرف دیکھا تو دونوں مسرت بھرے جذبات سے بولے اور پیو  بیٹی، لیکن زلیخا کے مسلسل انکار پر عمر کو بقیہ دودھ ختم کرنے کا حکم صادر ہوا ۔ اس کے بعد امی بابا کو لے کر کمرے سے جا تے ہوئے بولیں بیٹی میں نے تمھاری ضرورت کا سارا سامان اس کونے میں رکھ دیا ہے، وہ دونوں جا چکے تھے، کمرے میں خاموشی کا راج تھا ۔ 

زلیخا شرم سے سر جھکائے کھڑی تھی تو عمر بولا آپ تشریف رکھیں اور خود وہ اپنی کتابوں کو اوپر نیچے کرنے لگا ، پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ گود میں ہاتھ رکھے سر ضرورت سے زیادہ جھکائے بیٹھی تھی ۔ 

چہرہ تو ٹھیک طرح سے دکھائی  نہیں  دیالیکن ہاتھوں کی رنگت بتا رہی تھی محترمہ کافی سانولی ہیں 

جس کےغم نے عمر کو اندر ہی اندر چاٹا ۔ 

اس کا دل بجھ سا گیا کہ آخر امی بابا نے اس کا انتخاب کیوں کیا؟؟؟ میرا اور اس کا بھلا کیا جوڑ ہے؟؟؟؟؟وہ خود ہی دل میں سوال و جواب کیے جا رہا تھا ۔ 

عمر کا دل ٹوٹ چکا تھا اس کو اپنے والدین سے ایسے انتخاب کی امید نہ تھی، آخر ظاہری حسن بھی کوئی چیز ہے؟؟؟؟ 

اتنے سال خود کو عورت کے فتنوں سے بچائے رکھا، زنا کاری کے گند سے خود کو بچایا تو کس کے لیے؟؟؟ ایک حلال رشتے کے لئے ایک دل کو موہ لینے والی بیوی کے لیے لیکن  اس میں تو کشش ہی نہیں ہے، سانولی سی مریل ککڑی ۔

عمر کے اندر سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا ، دماغ جیسے ماؤف ہو رہا ہو۔ 

لیکن اس کا ضمیر بار بار  ملامت کر رہا تھا 

احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم 

"""دنیا ایک پونجی ہے اور دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے ""(صحیح مسلم )

"""کسی عورت سے  ان چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے:

1-اس کا مال 2-اس کا حسب نصب 3- اس کا حسن و جمال 

لیکن دیکھو!!!!!

تم دین والی کو ترجیح دینا """(بخاری،مسلم،ابو داؤد،نسائی،بیہقی )

کتابوں کی ترتیب کے بعد عمر زلیخا کی طرف پلٹا اور بولا دیکھیں میں کتابی کیڑا ہوں،کتابوں میں رہنے والا لہذا محدود وقت کی بنا پر آپ کے لیے ایک کتاب کا انتخاب کیا ہے" تحفتہ العروس "یہ صنف نازک کے موضوع پر پہلی جامع اور دلکش کتاب ہے ۔ امید ہے آپ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گی انشاءاللہ ۔۔۔۔

زلیخا جھکے چہرے اور دھیمے لہجے سے صرف "جی "کر پائی ۔

میرے خیال میں آپ یہ بھاری بھرکم لباس تبدیل کر سکتی ہیں، عمر کو جیسے اس کے بناؤ سنگار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن اس نے اس احساس کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی ۔۔۔ 

زلیخا بھی جوان، جذبات، احساسات رکھنے والی لڑکی تھی ۔

اسکے رویے کو سمجھ گئی اور لباس تبدیل کرنے کے لئے کونے میں پڑے سوٹ کیس کا رخ کیا اور سفید کاٹن کا سادہ سا شلوار قمیض نکالا جسکے اوپر ہلکے گلابی اور کالے رنگ کی کڑھائی تھی اور ساتھ بڑا سا چھوٹے چھوٹے پھولوں والا دوپٹہ ۔۔۔۔۔

""اللهم انی أعوذ بك من الخبث و الخبایث "

دعا پڑھتے ہی وہ  واش روم کے اندر تھی اور پھر دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے بے قابو آنسوؤں کی جھڑی کو نہیں روک سکی ۔ 

خوب آنسو بہا کر شاور لیا اور باہر نکلنے سے پہلے چاروں طرف دوپٹا لپیٹ کر ماتھے پہ ہلکا سا گھونگھٹ نکال لیا۔ 

باہر آئی تو عمر عشاء کے لیے جا چکا تھا تو اس نے بھی عافیت نماز میں ہی جانی اور پورے خشوع کے ساتھ نماز شروع کر لی، اپنی ہمیشہ کی عادت کو اپناتے ہوئے لمبی سورتوں کا انتخاب کیا اور اپنی نماز کو تسلی سے مکمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔

اپنے مرمریں ھاتھوں کو اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری سے پھیلا دیا ۔۔۔

"اے میرے رب میرے خاوند کے دل میں میرے لیے محبت اور الفت پیدا کر، مجھے ان کی نظر میں پر کشش بنا دے۔"آمین 

بنا کسی دقت کے آنسوؤں کی جھڑی زلیخا کے گالوں کو بھگوےء جا رہی تھی ۔ 

نا چاہتے ہوئے بھی آنسو سارے بند توڑ کر لگا تار اس کے سوتی دوپٹے کو  گیلا کیے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دم سے آہٹ سن کر اس نے اپنے چہرے کو رگڑ ڈالا اور بستر پہ پڑی تحفتہ العروس کے اوراق الٹنا پلٹنا شروع کر دئیے ۔

دوبارہ سے مردانہ سلام نے اس کے دل پہ دستک دی ۔ 

پھر وہی دھیما انداز اور جکھی جکھی گردن سے جواب آیا ۔

سنیں!!!!عمر پکارا!

جی زلیخا کا جواب ۔ 

آپ نے کھانا کھانا ہے؟؟؟؟؟؟؟میں امی کو بولتا ہوں آپ کو گرم کر دیں ۔۔۔۔

جی نہیں شکریہ مجھے بھوک نہیں ہے،!زلیخا بولی۔۔۔۔۔۔۔

چلیں آپ نہیں کھاتی تو میں بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔

میں سونے کے لیے جا رہا ہوں، دو دنوں سے سفر کی تھکاوٹ ہے اور آپ بھی لمبے سفر سے آئی ہیں آرام کریں ۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کسی روبوٹ کی طرح اٹھی اور بستر کے ایک کونے میں لیٹ کر خود کو اپنے  دوپٹے میں لپیٹا اور" اذکار مسنونہ "میں مشغول ہو گئی ۔

ادھر دوسری طرف بھی یہی سلسلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔

نیند کے آثار دونوں طرف دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔۔۔۔ 

لیکن راہ فرار کا یہی ایک ذریعہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر بند آنکھیں لیکن دل دماغ شدت  غم سے چور تھا ۔ زلیخا بار بار اس نقطہ کو سوچے جا رہی تھی کہ کیا میری نادرا والی تصویر عمر کو نہیں دکھائی گی؟؟جبکہ امی جان نے ممانی سے خاص درخواست کر کے  عمر کو دیکھانے کے لیے لی تھی ، پھر آخر کیا ہوا ہے؟؟؟؟؟

جو ان کی آنکھوں میں میرے لئے کسی قسم کے جذبات نہیں ہیں؟مجھے تو ان لوگوں نے تصویر دکھا دی پر اپنے بیٹے کو کیوں نا دکھائی؟؟؟؟

میں تو رشتوں  سے ترسی ہوئی ہوں،بچپن میں والدین کا انتقال،نا کوئی بہن اور نا کوئی بھائی اور اب خاوند ملا ہے وہ اتنا قریب ہو کے بھی کوسوں دور ۔ 

دل میں ٹھیس اٹھی اور آنکھوں نے کھل کر برسنا شروع کر دیا، کیا ہوا جو میرا رنگ سانولا ہے؟؟؟ دل ودماغ تو نہیں ہے ؟!!!۔ آنکھوں میں برسات کا سلسلہ تسلسل سے جاری تھا ۔ دل شدت غم سے نڈھال تھا اور اپنے پسندیدہ شعر کو دہرا رہا تھا ۔ 

عجب رنگوں میں گزری ہے زندگی اپنی 

دلوں پہ  راج کیا پھر بھی پیار کو ترسے 

سفید کاٹن کا دوپٹہ زخموں پہ مرہم کا کام کر رہا تھا آنکھوں سے برستی برسات کو کافی حد تک جزب کر چکا تھا ۔ نیند کوسوں دور تھی، دل کر رہا تھا زور زور سے  دھاڑیں مارےلیکن وہ عمر کو اپنی کمزوری نہیں دکھانا چاہتی تھی ۔ 

اگر وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں تو میں کبھی ان کو مجبور نہیں کروں گی  ہاں اپنے حقوق ضرور پورے کروں گی جو کہ میری تربیت کا حصہ ہیں ۔ میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابیات کی رضی اللہ علیھن کی سنت پہ عمل پیرا ہوں گی انشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

بے شک خاوند کی فرمانبردار عورتیں ہی جنت جائیں گی ۔

کمرے میں دیوار پہ لگےگھڑیال کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی ۔ واپڈا کی آنکھ مچولی جاری تھی، کمرے میں لگا زیرو واٹ  کا بلب بھی بجھ چکا تھا ۔ 

زلیخا انتظار میں تھی کہ لائٹ آئے تو وہ وقت کا تعین کر سکے اور اپنی روزانہ کی روٹین" تہجد "کے نوافل شروع کرے ۔ تقریبا آدھے گھنٹے کے لگ بھگ بجلی کا نزول ہو چکا تھا ۔ 

رات کے دو بج رہے تھے،زلیخا چپکے سے دھیمی چال سے کمرے سے نکل کر واش روم میں جا چکی تھی ۔

اچھی طرح سے وضو کیا  چہرے پہ  ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اور واپس خاموشی سے کونے میں پڑے جائے نماز پہ کھڑی ہو گئی ۔ 

نوافل میں طویل قیام کے بعد اپنے مرمری ہاتھ اپنے رب کے سامنے پھیلا دیئے 

پھر وہی برسات کا سلسلہ اور سینے میں تڑپ،چار و ناچار خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی  لیکن بے سود ۔۔۔

اپنی پیشانی کو سجدہ ریز کر دیا اور خوب گڑگڑائی، میرے مالک میری اس آزمائش کو آسان کر،بے شک تو ہی مشکل کشا ہے ۔ 

طویل دعاؤں کے بعد دل میں اطمینان محسوس کیا،اتنے میں فجر کی آذان سنائی دی ۔۔۔

عمر تو نجانے رات کےکس پہر نیند کی گہری وادی میں جا چکا تھا ۔۔۔ 

اب زلیخا اس شش و پنج میں تھی کہ ان کو اٹھاؤں یا نا اٹھاؤں اور اگر اٹھاوں تو کیسے؟؟؟؟؟؟

5 منٹ کی سوچ بچار کے بعد زلیخا نے عمر کے پاؤں کو ہلکا سا جھنجھوڑا لیکن وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا ۔ آخر تیسری کوشش پہ ہڑ بڑا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھیں ملیں تو دیکھا زلیخا اسے کی پالتی پہ کھڑی تھی،فورا بولی    ج ج جی وہ آپ کی فجر کی جماعت نکل جائے گی اذان ہو چکی ہے ۔

عمر دل ہی دل میں خوش ہوا چلو محترمہ نماز کی تو پابند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

فورا اٹھ کھڑا ہوا،وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا نے فجر ادا کی اور تلاوت کلام پاک شروع کر دی ۔۔۔۔

خوبصورت آواز اور قواعد التجويد ،اور مخارج سے بخوبی واقف زلیخا رقت آمیز لہجے میں تلاوت میں مشغول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کی تلاوت نے عمر کو  دروازے  پہ ہی سننے پر  مجبور کر دیا 

اتنی خوبصورت آواز اور شیریں لہجہ اس نے آج دن تک نہ سنا ۔۔۔۔ماشااللہ 

وہ دل ہی دل میں داد دے گیا 

عمر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بابا نے آواز لگائی، جی بابا جان فرمایئے،وہ بیٹا مجھے لگتا ہے ہمیں کل اتوا کا ولیمہ ملتوی کرنا پڑے گا؟؟؟ 

سب خیریت ہے نا بابا جان؟؟؟؟؟

تھوڑی دیر پہلے تمھارے پھوپھا کا فون آیا تھا،تمھاری پھپھو کافی بیمار ہیں اس لیے مجھے کھاریاں جانا پڑے گا ہو سکتا ہے کچھ دن رکنا بھی پڑھ جا ئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا جیسے آپ بہتر سمجھتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔۔

پیچھے سے امی کی آواز آئی میں بھی جاؤں گی اتنا اچھا وقت گزرا ہے ہمارا باجی نصرت کے ساتھ،زندگی موت کا کچھ پتا نہیں لہذا میں جاؤں گی ۔۔۔ 

پر عمر کی ماں پیچھے دلہن اکیلی ہے اس کو گھر کی کسی چیز کا پتا نہیں ہے کونسی چیز کدھر پڑی ہے ۔۔۔

مجھے اپنی زلیخا پہ پورا بھروسہ ہے یہ مجھے کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گی، امی فاتحانہ انداز میں مسکرائیں ۔۔۔۔۔۔۔

آخر بابا کو ماننا ہی پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا میری بچی ادھر آ میں تجھے ضرورت کی ساری چیزیں دکھاؤں، زلیخا قرآن مجید کو رکھ کر فورا ان کے پاس آن پہنچی ۔۔۔۔۔

امی بابا کی دعاؤں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا ۔

بابا بولے عمر کی ماں پھر سے سوچ لو ، 

ارے آپ کیوں گھبراتے ہیں؟؟؟؟ میرا عمر ہے نا زلیخا کا خیال رکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔

ایک دم سے زلیخا کے دل میں  ٹھیس اٹھی اور آنکھوں کی نمی کو چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔۔

چند سیکنڈوں میں امی اور زلیخا کیچن میں جا چکے تھے ۔۔۔

انکے جاتے ہی بابا نے لمبی سانس لی اور سمجھانے کے انداز میں بولے؛ دیکھو بیٹا ہمارے پیچھے تم نے بہو کا خاص خیال رکھنا ہے اس بچی نے یتیمی کی زندگی گزاری ہے اور بہت مشکلات دیکھی ہیں ۔۔۔۔

جی بابا آپ گھبرائیں نہیں میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا انشااللہ ۔۔۔۔مجھے تم سے یہی امید تھی میرے بچے اللہ تیرا دامن خوشیوں سے بھر دے آمین ۔۔۔۔۔

اور ہاں میں گاڑی چھوڑے  جا رہا ہوں پیچھے سے تمہیں ضرورت پڑ سکتی ہے، بہو کو تھوڑی دیر باہر لے جانا یا ایک چکر مری کا لگا لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچوں میں گم عمر  جی جی بابا جانی ۔۔۔۔۔

اچھا بیٹا ہم ابھی ناشتےکے  بعد نکلیں گے انشاءاللہ، تم آرام کرو ۔۔۔۔ جی بابا جانی 

امی اور زلیخا کی ہنسنے کی آوازیں کیچن سے آ رہی تھیں جیسے ایک دوسرے کو سالوں سے جانتی ہیں

عمر دوبارہ سونے کے لئے پر تولنے لگا جبکہ زلیخا امی کے ساتھ گوش گپیوں میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ ہر چیز کا جائزہ بھی لے رہی تھی ، ماموں کے گھر کتنی غربت تھی اور یہاں ہر چیز کتنی نفیس ہے ۔۔۔۔۔۔

کاش ان چیزوں کا مالک بھی میرا ہو جائے، دل میں دوبارہ سے ایک ہوک اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا میری بچی جاؤ ناشتےکے لیے عمر کو بھی بلا لاؤ تم دونوں نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا ۔۔۔۔

زلیخا کمرے میں آئی تو دیکھا عمر تو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔

کمرے کی ہلکی سی روشنی میں دل کیا ادھر ہی کھڑی ہو کر ا پنے دل کے مالک کو  اسی طرح  دیکھتی رہے لیکن امی ابو کو خوش کرنے کے لئے چار و ناچار ناشتہ ان کے ساتھ کھایا ۔

ان کی روانگی کا وقت آ گیا، زلیخا کا دل غمگین تھا میں تو اکیلی رہ جاؤں گی عمر کے ساتھ اور ان کو تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے میرے میں، بجھے دل کے ساتھ سوچا ۔۔۔۔

امی بابا کو رخصت کر کے کیچن میں صفائی کی ٹھانی، پھر صحن میں سفید کپڑوں کی ٹوکری سے کپڑے نکال کر ان کو سر ف  میں ڈبو دیا ۔۔۔۔۔

کیچن کو لشکا کر دوپٹے کو ایک سائیڈ پہ رکھا اور کپڑوں کی رگڑائی شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔

کپڑوں کی رگڑائی میں اس قدر مگن تھی کہ آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر نے 5 منٹ خوب جائزہ لیا اور پھر سلام جھاڑا ۔۔۔۔زلیخا ایک دم اپنے خیالوں میں مگن گھبرا گئی اور منہ پہ ہاتھ رکھ کر چیخ کو روک لیا 

بے دھیانی میں صابن والے ہاتھ چہرے کو کافی حد تک میلا کر چکے تھے اور صابن کا جھاگ نمایاں ہو رہا تھا ۔۔۔ عمر نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئےپوچھا  یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟

جی جی جی وہ میں کپڑے دھو رہی ہوں ۔۔۔۔ 

اچھا تو یہ مشین کس خوشی میں پڑی ہے ؟؟؟ صرف گھر کی خوبصورتی کے لیے؟؟؟؟؟؟

آپ کو پتا ہے آپ کون ہیں؟؟؟؟؟ 

جی مجھے پتا ہےمیں زلیخا مراد ہوں !!!!!

عمر ہنسی چھپاتے ہوئے بولا نہیں بالکل غلط بول رہی ہیں آپ!!!

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ پڑنے لگی 

آپ دلہن ہیں اور وہ بھی نئی نویلی ،،، عمر نے زور دےکر بولا 

ایک ٹھیس پھر اٹھی اور آہستہ سے جی بول پائی۔۔۔۔۔

ہوا کے جھونکے نے ماتھے پہ پڑے بالوں کو الجھا دیا پھر بنا سوچے صابن والے ہاتھوں سے انکو پیچھے ہٹایا ۔۔۔۔۔

عمر کی ہنسی چھوٹ گئی یہ کیا حال بنایا ہوا ہے؟؟؟؟ 

شکل دیکھیں آئینے میں اپنی ذرا، 

زلیخا نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آئینہ نظر نہ آیا، 

چھوڑیں آئینہ کو میں خود صاف کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔

عمر نے گیلے ہاتھوں سے صابن سے اٹے بال اور چہرہ صاف کیا اور پھر پوچھا آپ کو کھانا پکانا آتا ہے؟؟؟؟؟؟

بڑے ہی پرجوش لہجے میں جی مجھے سب کچھ آتا ہے زلیخا نے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا ماشااللہ ۔ عمر بولا 

پھر تو آپ مکانوں کی تعمیر کا کام بھی جانتی ہوں گی؟؟؟؟ 

زلیخا حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔

میں سوچ رہا ہوں آپکو اینٹیں، بجری اور ریت منگوا دوں اور آپ مجھے ایک  غسل خانہ تعمیر کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی نکل گئی اور عمر نے بھی زور کا قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں باہر سے کھانا لاتا ہوں آپ یہ سب سمیٹیں ۔۔۔

ارے نہیں نہیں باہر سے کھانا نا لائیں میں نے تو پراٹھوں کے لیے مصالحہ اور آٹا تیار کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔

آپ کچھ بھول رہی ہیں کہ آپ نئی نویلی دلہن ہیں اور نئی دلہنیں ایسے کارنامے سر انجام نہیں دیتی بلکہ نخرے اٹھواتی ہیں ۔۔۔۔۔

زلیخا: دلہن پرانی ہو یا نئی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس احساس ذمہ داری ہونا چاہئے، اور یہ سب میری تربیت کا حصہ ہے اور ویسے بھی مجھے فارغ بیٹھنا پسند نہیں ہے 

فارغ انسان شیطان کا گھر ہے "۔۔۔۔۔۔۔عمر بڑے انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔ اچھا جی جیسے آپ کی خوشی عمر بولا۔۔۔۔۔

یہ دیں میں تار پہ لٹکا دوں عمر نے ہمدردی جھاڑی ۔۔۔

بس میں اچھی طرح کھنگال کے لائی۔۔۔

زلیخا کا پاؤں ایک دم گیلے فرش پر پھیلے سرف سے پھسلا جو کہ اس کے 14 طبق روشن کرنے کیلئے کافی تھا ۔۔۔۔

عمر نے فورا آگے بڑھ کر اس کو مضبوطی سے تھام لیا ۔ 

عمر زلیخا کو تھامے ہوئے بولا سنیں محترمہ آپکے یہ شوق میرا کچومر نکال دیں گے اگر کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی تو بابا نے میری ہڈیاں بھی توڑ دینی تھی لہذا ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔

زلیخا ایک دم سنبھلی اور شرمندگی سے بولی کوشش کروں گی آئندہ شکایت کا موقع نہیں دوں انشااللہ

جائیں جا کر کپڑے بدلیں میں یہ سب فارغ کرتا ہوں جی اچھا زلیخا بولی ۔۔۔۔

اور ہاں سنیں دھیان سے پلیز ۔۔۔۔۔۔۔جی اچھا انشااللہ 

زلیخا کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے تھا کمرے میں آکر لمبی سانس لی 

سوٹ کیس سے سادہ سا فیروزی سوٹ نکالا،شاور لیا اور سیدھی کچن میں پراٹھے بنانے لگ گی ۔۔۔باہر دیکھا تو عمر کپڑوں کو پھیلانے کی تگ و دو میں مصروف تھا ۔۔۔

پراٹھوں کی تیاری کے ساتھ زلیخا دل ہی دل میں ذکر بھی کر رہی تھی جوکہ اس کی عادت کا حصہ تھا ۔۔۔

تیار شدہ پراٹھے اور چائے میز پہ  سجائی اور دھیمے لہجے میں عمر کو پکارا ۔۔

اندر آتے ہی عمر کی نظر زلیخا کے گھٹاؤں جیسے کالے لمبے بالوں پہ پڑی جن سے پانی کی بوندیں موتیوں کی طرح ٹپک رہی تھیں ۔۔۔ دل ہی دل میں بولا سانولی تو ضرور ہے لیکن خوبیوں سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ماشااللہ 

آپ بھی آ جائیں عمر نے پکارا ۔۔

نہیں میں امی اور بابا کے ساتھ کھا چکی ہوں ، میں ذرا کمرہ درست کر لوں، ساری چیزیں سمیٹیں بستر درست کیا، 

باہر سے عمر نے پکارا!!!

آئی جی!!

ادھر بیٹھیں ۔

کرسی کھینچ کر سامنے بیٹھ گئی ۔ 

میری طرف دیکھیں ۔۔۔ عمر نے نرمی سے پکارا 

ایک دم سے نظر یں اٹھائیں اور پھر فورا نیچے جھکا لیں ۔ 

آپ کھانا کھا چکے ہیں تو میں یہ برتن دھو لوں، بڑی مشکل سے پھنسی ہوئی آواز نکالی ۔ 

جی میں کھا چکا ہوں اور بہت مزا آیا ہے آپ کو شکریہ کے لئے بلایا تھا ۔ 

ظہر کے بعد ہم دامن کوہ جائیں گے اور اس کے بعد عصر فیصل مسجد میں انشااللہ ۔۔۔۔

آپ کبھی آئی ہیں پنڈی پہلے؟؟؟؟ 

جی کبھی بھی نہیں، میں تو صرف جھلم سے دینہ اور دینہ سے جہلم تک  ہی محدود تھی

ظہر کے بعد نوبیاہتا جوڑا دامن کوہ کی طرف روانہ تھا ۔۔۔

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی، زلیخا پردے میں لپٹی گہری سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔

عمر نے خاموشی کو توڑ ا آپ بولتی بہت کم ہیں؟!

میں بولتی ہوں  وقت ضرورت !!

اچھا پھر مجھے 1 سے100 تک گنتی سنائیں 

جی؟؟؟؟ زلیخا نےسوالیہ نظروں سے عمر کو دیکھا

اچھا اگر 100 تک نہیں آتی تو 1 سے 10 تک سنائیں اور پھر 10 سے 1 

آپ واقعی مجھ سے گنتی سننا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟

زلیخا سراپا احتجاج تھی 

پھر میں 1 سے 100 تک سناؤں گی کیونکہ مجھے گنتی آتی ہے ۔

زلیخا نے بھی ایک  ہی سپیڈ میں ساری سنا ڈالی ، ابھی اور کچھ سننا ہے آپ نے ؟؟؟؟؟؟؟؟جی 12 کا پہاڑا سنائیں 

اچھا وہ بھی سن لیں کیا یاد کریں گے 

ایک ہی سانس میں سارا سنا دیا، جوکہ عمر کو بھی نہیں آتا تھا ۔۔۔۔

دونوں دامن کوہ پہنچ چکے تھے، گہرے سر سبز سرو اور سفیدے کے درخت، ناہموار زمین پھر دونوں ایک کونے میں جا بیٹھے ۔۔۔۔

زلیخا پھر سے خاموش اور سوچوں میں گم ۔۔۔

عمر نے سوال داغا، آپ کہاں تک  پڑھی ہیں؟؟؟؟؟ اور شادی سے پہلے کیا مصروفیات تھیں؟؟؟؟

پرائیویٹ بی-اے کیا ہے ، مدرسے میں قرآن اور گھر میں ٹیوشن پڑھاتی تھی 

آپکے والدین کو کیا ہوا تھا؟؟؟؟ 

میں دو سال کی تھی تو ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے اور پھر میرے ماموں نے میری کفالت کی ذمہ داری لے لی ۔۔۔ 

بچپن سے آج تک غربت کے باوجود دونوں نے دین کو نہیں چھوڑا اور دینی تربیت کی الحمدللہ ۔۔۔۔

زلیخا دل بول رہی تھی اور عمر پوری توجہ سے اس کو سن رہا تھا ۔۔۔۔

شاعری پسند کرتی ہوں؟؟؟؟؟ 

جی!

پھر سناؤ کچھ!

"نگاہیں میرے  گرد آلود چہرے  پہ  ہین  دنیا  کی 

جو پوشیدہ ہے باطن میں  وہ جوہر کون دیکھے گا

یہاں تو سنگ مر مر کی چمک پہ لوگ مرتے ہیں 

میرے کچے مکان تیرا کھلا در کون دیکھے گا؟!""

واہ واہ ہم ہیں نا آپکا کھلا در دیکھنے کے لیے، عمر نے زور سے قہقہہ لگایا ۔ ۔۔۔

میں آپکو ایک شعر سناتا ہوں 

""ڈبے میں ڈبا،ڈبے میں کیک 

میری زلیخا لاکھوں میں ایک "

بے ساختہ زلیخا کی ہنسی نکل گئی۔۔۔۔۔

سنیں آپ کو میرا سانولا رنگ پسند نہیں ہے اور میں یہ کل ہی جان گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا مراد کل رات تک نہیں تھا ، لیکن تہجد کی نماز اور تلاوت قرآن نے آپ کو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت بنا دیا ہے اور مجھے پتا تھا کہ آپ تہجد کے لیے اٹھی تھیں  مجھےفخر ہے کہ میری مضبوط  عقیدہ اور سنت سے لگاؤ رکھنے والی بیوی  میری مضموط نسل کو پروان چڑھاے گی انشاءاللہ 

میں داد دیتا ہوں امی بابا کی پسند کو 

زلیخا مراد آپ "میری  دلہن " ہیں 

آپ میری پاکیزہ،باکردار اور با حیا دلہن ہیں 

جس کی اعلی تربیت نے میرے دل میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زلیخا کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے بھر آئیں جنکو عمر نے اپنے ہاتھوں میں سمو لیا۔۔ 

ختم شد:


Adhure Rishty Novel By Irsa Rao Complete Short Novel Story 3

لڑکیوں کی لائن لگی ہوئ تھی اور وہ دور سے اپنی بہن کو پکار رہا تھا " عاشی فوٹو کوپی "

اس نے چیختے ہوۓکہا

تبھی اس کی نظر رابعہ پر پڑی جو اس کے لیے انجان تھی

 Excuse me اس نے آہستہ سے کہا

Yes وہ آواز پر پلٹی

"کیا آپ یہ میری بہن کو دے سکتی ہیں وہ وہاں ہے" اس نے اشارہ کرتے ہوۓکہا.

"Yeah sure"

 اس نے سنجیدگی سے کہا اور اس کے ہاتھ سے پیپر لے کر چلی گئ..

آج Admission کی آخری تاریخ تھی اور لڑکیوں کا خوب حجوم لگا ہوا تھا اس نے بڑی مشکل سے Form جمع کروایا اور جلدی سے باہر آکر سکون کی سانس لی تبھی انجانی آواز نے اسے پلٹنے پر مجبور کیا..

"Thank you miss....?" 

اس نے اٹکتے ہوۓ کہا..

" No its OK"

اس نے مصروفیت سے کہا اور اپنےپرس سے Cell phon نکالنے لگی..

وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا

"What's your good name?"

"رابعہ" اس نے نہ چاہتے ہوۓبھی بتا دیا..

"Nice Name"

وہ اسے دیکھ کر مسکراتے ہوۓ پلٹ گیا..

وہ کتنی ہی دیر اس انجان شخص کو سوچتی رہی اور الجھتی رہی...

"رابعی" وہ آواز کو نظر انداز کرتے ہوۓ تیزی سے سیڑھی چڑھنے لگی 

"رابعی بات سنو" اس نے دوبارہ کہا

" ہماد کیا ہے تمہیں پتا ہے میں ابھی کالج سے آئ ہوں اور تم۔۔" رابعہ نے بےرخی سےکہا

" لیکن میری بات تو سنو" اس نے ایک بار پھر کہا

" بعد میں ہماد Please" رابعہ نے اکتاتے ہوۓ کہا

یہ کہکروہ تیزی سے سیڑھی چڑھتے ہوۓ اپنے کمرے میں چلی گئ

" کیا مصیبت ہے " اس نے پرس بیڈ پر پھینکتے ہوۓکہا

" کیا ہوا ہے تمہیں" ردا کی آواز پر وہ پلٹی...

" کچھ نہیں" اس نے Mood ٹھیک کرتے ہوۓ کہا

" بھائ آگۓ" اس نے ردا سے پوچھا

" مجھے کیا پتا بھائ تمھارا ہے تمہیں پتا ہونا چاھیے" ردا نے مسکراتے ہوۓ کہا

" اوہ ہو میڈم تم سے زیادہ کسے پتا ہوگا ان کے بارے میں" رابعی نے چھیڑتے ہوۓ کہا

"سدھر جاؤ اور آ کر کھانا کھاؤ چاچی بلا رہی ہیں" ردا ہنستے ہوۓ کمرے سے چلی گئ

 اور رابعی سوچتی رہی کہ آخر اس زبردستی کے رشتے سے اسے کب چھٹکارہ ملے گا وہ پوری زندگی ہماد کے ساتھ نہیں گزارنا چاہتی جسے وہ پسند ہی نہیں کرتی...


شوہر کے انتقال کے بعد شہنیلہ بی بی بہت اکیلی ہو گئ تھی شوہر کی بیماری پر پیسے لگاتے لگاتے گھر بھی بک چکا تھااب اس کے پاس سات سال کا ارسلان اور پانچ سال کی رابعہ تھی تب انیلہ بیگم اور ان کے شوہر فرقان صاحب نے اسے اپنے گھرمیں آسرہ دیا انیلہ اس کی بہن ہونے کے ساتھ اس کی جیٹھانی بھی تھی اس لیے جب اس نے رابعہ کا ہاتھ اپنے بیٹے ہماد کے لیے مانگا تو وہ انکار نہیں کر سکی یہ رشتہ بچپن میں ہی ہوگیاتھا ہماد شروع سے ہی سنتا آرہا تھا کہ رابعہ اس کی ہے وہ نہ صرف اس رشتے کو قبول کر چکا تھا بلکہ رابعہ کوبہت چاہنے لگا تھا اس بات کا علم رابعہ کو بھی تھا اور گھر والوں کو بھی....

وہ بہت دیر سے کالج کےباہر کھڑی تھی مگر آج اسے گاڑی لینے نہیں آئ تھی تبھی اس کے پاس ایک لڑکی آئ..

"آپ کو بھی ابھی تک کوئ لینے نہیں آیا"

اس نے سوال کیا

وہ جواب میں صرف مسکرائ...

"میرا بھائ بھی لینے نہیں آیا پتا نہیں کہاں رہ گیا" اس نے پریشان ہوکر کہا

"آپ کا نام؟" اس نے دوبارہ سوال کیا

"رابعہ اور آپ کا؟" رابعہ نے پوچھا

"عاشی" اس نے جواب دیا

تبھی ہورن کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا

"میرا بھائ آگیا bye"

عاشی کہتے ہوۓ کھڑی ہوئ

"اگر آپ چاہو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو میں ڈروپ کر سکتی ہوں" عاشی نے دوبارہ کہا

"No its ok thanks"

رابعہ نے مسکرا کر کہا

"آپ کب تک انتظار کرو گی میرے ساتھ چلیں میں اپنے بھائ سے بات کرلونگی وہ ڈروپ کر دیں گے" 

عاشی سمجھانے لگی

" Ok"

رابعہ نے سوچتے ہوۓ کہااور اس کے ساتھ گاڑی کی طرف چل پڑی..

آگے بڑھ کر عاشی نے اپنے بھائ کو کچھ کہا پھر مڑ کر رابعہ کی طرف آئ..

" بیٹھو" اس نے اشارہ کیا

اور وہ بھی رابعہ کے ساتھ پیچھے بیٹھ گئ

" ایسا لگ رہا ہے میں دونوں کا ڈراءیور ہوں" آگے سے آواز آئ

" سہی محسوس کیا" عاشی نے ہنس کر کہا

"آپ کچھ نہیں بولیں گی مس..."

وہ اب رابعہ سے مخاطب تھا

" رابعہ" عاشی نے جواب دیا

" تمہاری دوست بولتی نہیں ہے کیا؟ وہ خود جواب دے گی" اس شرارتی انداز میں کہا

رابعہ نے عاشی کی طرف دیکھا اور مسکرائ

"آپ میری دوست سے بات کرنے کے بہانے مت ڈھونڈیں" عاشی نے چھیڑتے ہوۓ کہا

جواب میں وہ زور سے قہقہانا انداز میں ہنسا..

"میرے بھائ کو مزاق کرنے کی عادت ہےsorry" عاشی نے کہا

رابعہ مسکرائ اور پورے راستے وہ بس ان دونوں بہن بھائ کی باتوں کو سنتی رہی..

کوئ شخص اتنا Attractiveکیسے ہو سکتا ہے اس کی باتیں اس کی ہنسی اسے اپنی طرف ماءل کر رہی تھی وہ ایسی تو کبھی نہیں تھی پھر وہ شخص اسے بار بار کیوں ٹکراۓ جا رہا تھا...

وہ رات دیر تک سوچتی رہی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ناراض ہو" ہماد نے پوچھا

" نہیں" اس نے کہا

" کل تھوڑی دیر ہوگئ تھیSorry"

ہماد نے شرمندگی سے کہا

وہ خاموشی سے بیٹھی تھی

" تم چاہو تو ڈانٹ سکتی ہو" 

"نہیں"

"کیوں"

"یونہی"

" تمہارا حق ہے مجھ پر" اس نے گاڑی روکتے ہوۓ کہا

"مجھے حق جتانے کا کوئ شوق نہیں" رابعہ کہ کر گاڑی سے اترتے ہوۓ رک گئ اس کا ہاتھ ہماد کے ہاتھ میں تھا

" تم مجھ سے محبت نہیں کرتی؟" ہماد نے پوچھا

" مجھے دیر ہو رہی ہے" رابعہ نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا اور گاڑی سے اتر گئ....

وہ اسے جاتے ہوۓ دیکھ رہا تھا....

۔۔۔۔۔۔۔

"کیا کر رہی ہو رابعہ" عاشی اسے کلاس میں اکیلے بیٹھا دیکھ کر پوچھا

" کچھ نہیں تم بتاؤ کیسی ہو " رابعہ نے کہا

" میں ٹھیک تم بتاؤ کینٹین کیوں نہیں گئ"

"بس یونہی"

" چلو چلتے ہیں"

"نہیں تم جاؤ"

" میری کوئ دوست نہیں تمہارے سوا"

" اچھا چلو" رابعہ اٹھ کر اس کے ساتھ کینٹین کی طرف چل دی..

دروازے پر مسلسل کوئ دستک دے رہا تھا اسے نہ چاہتے ہوۓ اٹھنا پڑا..

"کون ہے؟" اسنے دروازہ کھولتے ہوۓ کہا

" کتنی دیر سے بجا رہی ہوں اٹھ کیوں نہیں رہے تھے" ردا نے اندر آتے ہوۓ کہا

"تم صبح صبح تنگ کرنے آجاتی ہو" اس نے بستر پر لیٹتے ہوۓ کہا

"کیا کہا؟ تنگ کرتی ہوں میں تمہیں؟

" نہیں نہیں بلکہ میں تو چاہتا ہوں تم زندگی بھر میرے ساتھ رہو مجھے صبح صبح پیار سے اٹھاؤاور...." 

"بس بس زیادہ Romantic ہونے کی ضرورت نہیں" وہ مسکرا کر کہنے لگی

" تم ہونے کہاں دیتی ہو" 

"اچھا جی"

"اچھا جاؤ چاۓ تو لے آؤ"

" اٹھ کرآؤ چاچی بلا رہی ہیں الیکٹریشن کو لے کر آؤ جاؤ گیزر خراب ہے"

"اب اس کو کیا ہوا" اس نے نظر انداز کرتے ہوۓ کہا

" مجھے کیا پتا"

اچھا میں دیکھتا ہوں" 

"ہاہاہا تم دیکھو گے؟"

" کیوں میں نہیں دیکھ سکتا بلکہ میں ٹھیک بھی کر سکتا ہوں" وہ اس کے قریب آکر کہنے لگا

" Very funny Arsal"

ردا نے مزاق اڑاتے ہوۓ کہا

"تمہارے لیے تو میں کچھ بھی کرلوں" وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہنے لگا

" اور چاچی کے لیے؟"اس نے شرارت سے کہا

"Ohh God"

اس نے اپنا سر پکڑ کر کہا

" میں چاۓ لاتی ہوں" ردا نے ہنستے ہوۓ کہااور جانے کے لیے مڑی.

" خود بنا کر لانا" 

"اور کوئ حکم؟" ردا نے جاتے ہوۓ کہا

" اور..." وہ مسکرایالیکن تب تک وہ جا چکی تھی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 "ماما کیا مجھ میں کوئ کمی ہے؟" اس نے انیلہ کی گود میں سر رکھتے ہوۓ پوچھا 

" کیسی باتیں کر رہے ہو ہماد" انیلہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا

" بتاءیں نہ ماما"

" نہیں میرا بیٹا تو لاکھوں میں ایک ہے تم ایسا کیوں سوچتے ہو"

" I love you mama"

اس نے ماں کے گلے لگتے ہوۓ کہا

" I love you too بیٹا"

وہ مسکرائ..

"رابعی بیٹا" انیلہ بیگم نے پکارا

" جی تائ امی بس آئ" رابعی نے جلدی میں پرس اٹھاتے ہوۓکہا

قریبی رشتے دار کی شادی میں جانا بھی لازمی تھا اس لیے انیلہ بیگم اور ہماد رابعہ کا انتظار کر رہے تھے

 "جی تائ امی میں ready ہوں" رابعی نے سیڑھی اترتے ہوۓ کہا وہ blue فراق کھلے ہوۓ بالوں کے ساتھ بہت جچ رہی تھی

"ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے" انیلہ بیگم نے کہا

"چلیں" ہماد نے مسکراتے ہوۓ رابعی کو دیکھا

"ہاں" اس نے کہا 

                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ارسل کہاں ہو" وہ اسے مسلسل آواز لگا رہی تھی

"کہاں گیا یہ نیچے تو نہیں چلا گیا؟" وہ 3rd floor سے آواز لگاتی ہوئ نیچے آئ مگر پورے گھر میں خاموشی تھی

"چاچی، ارسل کہاں گۓ " وہ پریشانی میں ہر جگہ ڈھونڈ رہی تھی 

اس کےعلاوہ گھر پر صرف شہنیلہ اور ارسلان تھے اور اب وہ دونوں ہی غاءب تھے

تبھی اس کی نظر گیٹ سے اندر آتی ہوئ Ambulance پر پڑی۔۔۔

اس کا دل زور زور دھڑک رہا تھا چاۓ کا کپ اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا جو اس نے ارسلان کے لیے اس کی ضد پر اپنے ہاتھوں سے بنائ تھی

                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہماد یار اپنی گاڑی کی چابی تو دے زرا" ارسل نے ہماد کو کہا 

"کس خوشی میں" ہماد نے بے پرواہی سے کہا

"اچھا تو اب سالے تجھے میں وجہ بتاؤں" وہ ایک دم اچھلا

"سالا" ہماد چونکا

"سالا تو تجھے بناؤں گا ہی" ارسلان نے شرارت سے کہا

"ہاں ہاں تیرے کرتوتوں کو جانتا ہوں یہ لے چابی" ہماد نے جیب سے چابی نکال کر اس کو دیتے ہوۓ کہا

"ردا چلو بھی" اس نے آواز دی

" ابے میری گاڑی لے کر میری بہن کو گھمانے لے کر جا رہا ہے اپنی کہاں ہے تیری" ہماد نے صوفے سے اٹھتے ہوۓکہا

"ماموں لے کر گئے ہیں یار " اس نے کہا

"چلو"ردا نے آتے ہی کہا

"ردا رک بیٹا تم دونوں کا ماما اور چچی کو بتاتا ہوں" ہماد نے شرارت سے کہا

" ان کو پتا ہے بھائ" ردا نے ہنستے ہوۓ کہا۔۔۔

وہ چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھ کر بھاگتے ہوۓ باہر بھاگی...

"بھائ کیا ہوا ہے" اس نے ہماد کے پاس جا کر پوچھا

" بتاتا ہوں اندر چل" ہماد نے اسے پکڑکر اندر لے جاتے ہوۓکہا

" بھائ کیا ہوا ہے مجھے اندر کیوں لے جا رہے ہو" وہ ہماد کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر گھبرائ اور باہر کی طرف بھاگی..

" ردا " وہ اس کے پیچھے بھاگا

گاڑی کے پاس چاچی کھڑی رو رہی تھی اور رابعی  بھی رو رہی تھی اس کے دل میں ماں کا خیال آیا

"ماما کہاں ہیں بھائ ماما" اس نے سوالیہ نگاہوں سے ہماد کو دیکھا

"امی کو کچھ نہیں ہوا ٹھیک ہیں وہ" ہماد کی آنسوں اب بہ رہے تھے

تبھی اس کی نظر اس شخص پر پڑی جو موت کی گہری نیند سو چکا تھا جسے Ambulance سے نکالا جا رہا جو اس کی ایک آواز پر دوڑا چلا آتا تھا اس نے جا نے سے پہلے بتایا تک نہیں....

وہ ان سوچوں میں تھی اس کی آنکھ کب بند ہوئ اسے پتا ہی نہیں چلا...

                     .....................

"آج تو اسے میں گیزر ٹھیک کر کے ہی دکھاؤں گا" وہ باتھ روم کی طرف جاتے ہوۓ کہنے لگا

اسٹول رکھ کر وہ کچھ معاعنہ کرنے لگا اوزار ہاتھ میں لیے وہ خود کو ماہر جاننے لگا جبکہ اسے تو بجلی کے کام کا ج بھی نہیں معلوم تھا

"کر کیا رہے ہو تم نیچے اترو" پیچھے سے آواز آئ

" کچھ نہیں امی" کہتے ہوۓاس کا انجانے میں ہاتھ اس تار پر پڑا جہاں شاید اس کی موت کھڑی تھی.....

جس کو خوش کرنے کے چکر میں وہ موت سے ہاتھ ملا چکا تھا اسے تو 3rd floorپر ہونے کی وجہ سےیہ بھی نہیں پتا کے اس کو ہنسانے والا ہمیشہ کے لیے رلا کر چلا گیا....

                          ...............

"ارسل" اس کی آنکھ جیسے ہی کھلی وہ بستر سے اٹھ کر بھاگی 

سب زاروقطار رو رہے تھے رونے کی آواز گونج رہی تھی ہر طرف...

اس کی نظر صرف اس شخص پر تھی جو سفید کفن میں تھا 

"ارسل" اس نے قریب آکر کہا اس کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگے

"بھائ یہ بول کیوں نہیں رہا "اس نے ہماد کے گلے لگ کر کہا

" یہ ایسے نہیں جا سکتا، ارسل اٹھو ارسل، ارسل۔۔۔۔۔" اس کی چیخوں سے سارا گھر گونج اٹھا 

کاش کے وہ دوبارہ اٹھ جاتا ایک بار اسے دوبارہ سانس آجاتی لیکن یہ سب صرف فلموں میں ہوتا ہے اصل زندگی میں نہیں۔۔۔

وہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا تھا۔۔۔

                       ............

"رابعی اسے ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا اس نے آخری بارمجھ سے بات بھی نہیں کی کیا میں اتنا تنگ کرتی تھی اسے" وہ رابعی سے پوچھنے لگی

جواباً رابعی صرف اسے چپ کروا رہی تھی جبکہ اس کی آنکھیں خود آنسوں سے بھری تھی

"میری زندگی ہی لے گیا وہ، میری خوشیاں، میری ہنسی، میرے خواب سب ادھورے رہ گۓ رابعی ایسا نہیں ہوسکتا وہ واپس آجاۓ اس نے یہ نہیں سوچا کہ مجھے اس کی یاد آۓگی....

وہ گھنٹوں دعا مانگتی رو رو کر کسی سے بات کرنا ہنسنا خوش ہونا جیسے اسے آتا ہی نہیں تھا....

"اس وقت کس کی کال ہے" وہ فون کی آواز پر اٹھ کر سوچنے لگی اور ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا جس پر کوئ انجان نمبر تھا

"ہیلو" اس نے کان سے لگاتے ہوۓ کہا

"ہیلو مس رابعہ" 

"کون" وہ آواز پہچان گئ تھی پر پھر بھی پوچھا

"فیضان! آپ نے پہچانا مجھے کالج میں ملاقات ہوئ تھی اور..."

"دیکھیے مسٹر میں کوئ ایسی ویسی لڑکی نہیں اور پلیز دوبارہ مجھے تنگ مت کیجیے گا" اس نے فون بند کر دیااور سوچنے لگی اس وقت کال کیوں کی اس شخص نے.

دو تین دن سے مسلسل وہ اسے میسج اور کال کر رہا تھا اس بار اس نے دوبارہ کال اٹھا ہی لی..

"دیکھیں مجھے کیوں تنگ کر رہے ہیں مجبورا مجھے آپ کی بہن کو بتانا ہوگا" اس نے غصہ سے کہا

"آپ مجھے اچھی لگتی ہو ?Will u merry me"

دوسری طرف خاموشی دیکھ کر اس نے دوبارہ کہا

"Can u hear me? Hello"

وہ مسلسل بول رہا تھا پر اس کے الفاظوں نے رابعی کو خاموش کروا دیا تھا اس کے پاس جواب نہیں تھا وہ دیر رات سوچتی رہی اس شخص کے بارے میں

اسے اچھا لگتا تھا اس شخص سے باتیں کرنا اپنی تعریف سننا وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوتی جا رہی تھی..

"تم بہت خوبصورت ہو رابعہ" اس نے پیار سےکہا

"وہ تو میں ہوں" وہ کھل کر کہنے لگی اور اچانک چلائ

"Oh my God"

"کیا ہوا رابعہ" اس نے کہا

" ہماد لینے آگیا ہوگا کالج مجھے اور میں یہاں ریسٹورینٹ میں آرام سے بیٹھی ہوں" وہ ایک دم کھڑی ہوئ

"گھبراؤ مت چلو میں چھوڑ دوں گا کہ دینا دوست کے گھر گئ تھی"

"چلو جلدی اٹھو" 

"ہاں ہاں چلو" وہ اس کے چل دیا باہر کی طرف...

                             ............. 

"کہاں گئ تھی" ہماد کی آواز آئ 

"سارہ سے نوٹس لینے تھے تو...." اس گھبراتے ہوۓ کہا

"میں کالج کے باہر انتیظار کر رہا تھا بتا دیتی میں لے جاتا" 

"یاد نہیں رہا next time بتا کر جایا کروں گی"

اس نے بے رخی سے کہا

"میرا وہ مطلب نہیں تھا میں بس...."

"جو بھی ہے خیر میں جا رہی ہوں سونے Good night" اس ٹوکتے ہوۓکہا

"Okay good night"

وہ ہر ممکن کوشش کرتا اسے  خوش رکھنے کی پر اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا کیونکہ وہ جگہ وہ کسی اور کو دے چکی تھی.....

"رابعی" وہ آواز پر پلٹی

"ہاں" سامنے ہماد تھا

"مارکیٹ چلیں"

"کیوں"

"چلو تو راستے میں بتاؤں گا"

"نہیں مجھے Assignment بنانی ہے"

"آکر بنا لینا plzzz"

"نہیں آج نہیں" وہ صوفے سے اٹھ کر کمرے کی طرف جانے لگی

"سنو رابعی" ہماد نے اس کی بے رخی کو جانچتے ہوۓ کہا

"تم مجھ سے اتنا دور کیوں بھاگتی ہو میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم پتا نہیں...."

"ہماد plzz اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں" وہ جواب دیے بنا ہی وہاں سے چلی گئ

                         ................

"مما ایک بات کہوں" رابعہ نے کہا

"جی بیٹا بولو" 

" میں ہماد سے شادی نہیں کرنا چاہتی"

"کیا"

"ہاں مما مجھے ہماد پسند نہیں کیا یہ منگنی ٹوٹ نہیں سکتی"

"پاگل ہوگئ ہو تم اتنا اچھا لڑکا ہے ہماد کماتا بھی اچھا ہے تو مسلہ کیا ہے تمہیں"

"مما وہ مجھے پسند نہیں اور میں کسی....."

"بس یہ بات اپنے دماغ سے نکال دو ایسا کچھ نہیں ہوگا جو تم چاہتی ہو"

"مما یہ رشتے زبردستی کے تو نہیں ہوتے نہ پھر....."

" میں آپا کو کیا جواب دوں گی بچپن سے تم ان کی مانگ ہو ان کے بہت احسان ہیں ہم پر اور تمہیں مسلہ کیا ہے ہماد بہت اچھا لڑکا ہے"

"مما آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں"

"بس رات ہوگئ ہے کافی سوجاؤ"

آج اسے ارسلان بہت یاد آرہا تھا وہ بھائ جو اپنی بہن کو خوش رکھنے کے لیے سب سے لڑجاتا تھا وہ آج اس کی ضد پوری کرنے کے لیے اس کے پاس نہیں تھا وہ ہوتا تو شاید وہ یہ بات بھی پوری کروالیتی....

                          .............

دو دن بعد رابعہ کی سالگرہ تھی وہ مارکیٹ سے گفٹ خریدنے کے لیے رابعی کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر اس کے انکار کرنے پر وہدوسرے دن اکیلا ہی چلا گیا تبھی مارکیٹ میں اس کی نظر رابعہ پر پڑی جو کسی لڑکے کے ساتھ تھی اس کے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئ......

"کہاں سے آرہی ہو؟" ہماد نے باہر سے آتی ہوئی رابعی سے سوال کیا

"وہ میں سارہ.." 

"جھوٹ مت بولنا کیونکہ میں مارکیٹ میں تمہیں دیکھ چکا ہوں" اس نے رابعی کی بات کاٹتے ہوئے کہا

رابعی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے اس کے چہرے کے رنگ جیسے اڑ گئے تھے

"کون تھا وہ لڑکا؟" ہماد نے دوبارہ پوچھا

"اچھا ہوا تم نے خود دیکھ لیا میں بھی بتانا ہی چاہتی تھی" اس بار اس کے لہجے میں بغاوت تھی

"وہ لڑکا کون تھا؟" وہ اس کی طرف غصہ سے دیکھ رہا تھا

"میں اس سے پیار کرتی ہوں اور اسی سے شادی کروں گی" 

اتنا سننا تھا کہ ہماد اس کی طرف لپکا اس کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا اس کے ہاتھ رابعی کے گلے میں پیوست ہوتے چلے جا رہے تھے اور خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی

" چاہوں تو تمہیں ابھی جان سے مار دوں مگر میں ایسا کر نہیں سکتا" اس نے جھٹکے سے اس کا گلا چھوڑ کر ہاتھ ہٹاۓ اور باہر کی طرف جانے کے لیے پلٹا

"ایک بات اور تم نفرت کرتی ہونا مجھ سے؟ تمہاری زندگی سے ہمیشہ کے لیے جا رہاہوں" یہ کہ کر وہ تیز قدموں سے باہر کی طرف چل دیا اور وہ خوفزدہ نظروں سے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی.....

                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارسلان کے جانے کے بعد وہ بہت اکیلا محسوس کر نےلگی سارہ دن بس اکیلی کمرے میں وقت گزار دیتی گھر والوں کے کہنے پر اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا آج اس کا یونیورسٹی میں پہلہ دن تھا اور اسے اپنے Depart کا بھی کوئ idea نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے 

"Excuse me"

اس نے ایک لڑکی کو پکارہ

"Yes"

وہ لڑکی پلٹی

"کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ IT depart کس طرف ہے am new admisn....."

"میں بتاتا ہوں نا" پیچھے سے آواز آئی

"آپ سے پوچھا ہے میں نے؟" اس نے تلخ لحجے میں کہا اور وہاں سے جانے لگی

"ارے ارے بات تو سنو" اس نے راستہ روکتے ہوئے کہا

"دیکھیے مسٹر مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی ہٹیں پیچھے" 

"لیکن میں صرف مدد کرنا چاہتا ہوں" 

"مجھے نہیں چاہیے please"

"مگر....."

وہ اس کی بات سنے بنا ہی وہاں سے چلی گئی......

"میں اتنا معمولی تو نہیں کہ وہ لڑکی مجھے دیکھتی تک نہیں" وہ اداس تھا

"دیکھ بھائ وہ لڑکی سر پھری سی ہے وہ باقی لڑکیوں جیسی نہیں جو تیرے آگے پیچھے گھومے" فرخ نے کہا

"یہی تو بات ہے یار آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ مجھ میں کچھ خاص نہیں"

"ارے اوہ مجنوں اتنا serious کیوں ہو رہا ہے یہ نہیں بھاؤ دے رہی تو دوسری صحیح تجھ پر تو مرتی ہیں لڑکیاں اور ہمیں کوئ مل ہی نہیں رہی" فرخ نے سمجھاتے ہوۓکہا

"نہیں اب تو بس یہی چاہیے" وہ مسکرایا

"تو پٹے گا بھائ" فرخ نے مزاق اڑاتے ہوۓ کہا

اور دونوں اٹھ کر کینٹین کی طرف چل دیے تبھی اس کی نظر ردا پر پڑی جو اکیلی سیڑھیوں پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی

"کیا کر رہی ہیں مس ردا " اس نے اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا

"آپ پھر آگۓ مسلہ کیا ہے آپ کا" وہ ایک دم سے کھڑی ہوگئ

"آپ اتنے غصہ میں کیوں رہتی ہیں" 

"آپ سے مطلب آپ کیوں بار بار تنگ کرتے ہیں مجھے میں آپ کی Complaintکروں گی" وہ بے حد غصہ میں تھی

"میں نے چھیڑا ہے آپ کو کبھی؟"

"نہیں"

"کبھی سیٹی ماری آپ کو دیکھ کر؟"

"نہیں"

"پھر شکایت کیا کرو گی میڈم" اس نے مسکراتے ہوئے کہا

"آپ بار بار میرا راستہ روکتے ہو"

"میں صرف آپ کو اداس دیکھ کر ....."

"Please مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی"

یہ کہ وہ وہاں سے چلی گئی......

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دو دن سے کال کر رہی تھی مگر فیضان کی طرف سے کوئی Response نہیں تھا وہ پریشان بیٹھی تھی تبھی اس کا فون بجنے لگا

"فیضان کہاں ہو دو دن سے نہ کال نہ میسج" اس نے فون اٹھاتے ہی کہا

"رابعہ میں اب تم سے بات نہیں کر سکتا Parents ہماری شادی پر راضی نہیں"

"مگر فیضان تم نے تو کہا تھا کہ تم انہیں منا لوگے"

"وہ نہیں مان رہے اور مجھے ملک سے باہر بھیج رہے ہیں study کے لیے میرا پورا Future ہے"

رابعی کے حواس اس کے قابو میں نہیں رہے وہ بلکل خاموش ہوگئ

" تم ہماد سے شادی کرلو اور مجھے معاف کر دینا میں مجبور ہوں میں اپنے Parentsسے الگ نہیں ہوسکتا Sorry" 

اس کی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے اس نے فیضان سے ایسی امید نہیں کی تھی کہ وہ اتنا آگے لا کر بےوفائ کرے گا اس کا دل کر رہا تھا وہ چیخیں مار مار کر روۓ......

                       .................. 

گھر میں اداسی چھائ ہوئ تھی ایک ہفتہ ہوگیا تھا ڈھونڈتے ہوۓ مگر ہماد کا کچھ پتا نہیں چلا 

"میرا بیٹا کہاں چلا گیا پتا نہیں کس حال میں ہوگا" 

"ماما کچھ نہیں ہوگا بھائ کو جلد ہی مل جاءیں گے آپ رونا بند کریں" ردا ماں کو چپ کروانے لگی

رابعہ وہاں کھڑی سوچنے لگی کہ گھر والوں کے دکھ کی وجہ صرف وہ ہے کیا وہ اتنی مطلبی ہوگئ تھی کہ اسے کسی کی خوشی کا احساس نہیں تھا اور خدا نے اسے سزا دے دی تھی جس کی وجہ سے اس نے ہماد کی محبت کو ٹھوکر ماری تھی وہ تو ایک پل میں چھوڑ گیا......

اور ہماد اس کی خوشی کے لیے اس کی زندگی سے ہی چلا گیا......

                   ..................

"فیضان plzz میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتی" وہ منت کر رہی تھی

"میں نہیں کر سکتا تم سے شادی مجھے تنگ کیوں کر رہی ہو"

"تمہارے وہ وعدے وہ پیار بھری باتیں سب جھوٹی تھیں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے"

"غلطی ہوگئ بس تمہارے لیے میں اپنا Future خراب نہیں کرسکتا مجھے زندگی میں کچھ بننا ہے" یہ کہ کر اس نے کال کاٹ دی اور دوبارہ مڑ کر بھی نہیں دیکھا رابعی کی منتوں اور آنسوں سے کوئ فرق نہیں پڑا اسے......

آج وہ جاۓنماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اسے ہر بات کا احساس ہوگیا تھا جو اس نے ہماد کے ساتھ کیا اس کے گھر والوں کے ساتھ کیا آج وہ سب ہماد کو دیکھنے کے لیے بھی ترس رہے تھے صرف اس کی وجہ سے...

"یا رب میں بہت مجبور ہوں لیکن تو تو نہیں ہے تو سب کچھ کر سکتاہے ہماد کو واپس بھیج دے مجھے پتا ہے میں اس کے لائق نہیں مگر گھر والوں کو اس کی ضرورت ہے " وہ رو رو کر دعا کر رہی تھی

"تیرے خزانے میں کوئ کمی نہیں مالک میرے گناہوں کو بخش دے تو ہی بخشنےوالا ہے مینے تیری نافرمانی کی تونے مجھے دنیا کی ہر محبت کا اصل رنگ دکھا دیا! یا رب! میں بہت بری ہوں لیکن میرے گناہوں کی سزا مت دینا مجھے میں برداشت نہیں کر پاؤں گی میرے اللہ! مجھے ہماد واپس دے دے میں نے اس کا دل دکھایا ہے وہ مجھے پتا نہیں معاف کرے گا یا نہیں؟ بس تو مجھ سے راضی ہوجا سب راضی ہوجائیں گے پروردگار مجھے اپنی رضا میں شامل کرلے مجھ سے راضی ہوجا مجھ سے راضی ہوجا..... "

اس کے آنسوں مسلسل بہ رہے تھے اسے ہماد کی محبت کی قدر ہوگئ تھی وہ رات کے اس پہر بھی رو رو کر اپنا حال دل بیان کر رہی خدا سے.... بیشک خدا ہی سننے والا ہے......

                       ...............

"کیا مسلہ ہے کیوں بار بار تنگ کرتے ہو مجھے آپ کو سمجھ نہیں آ رہا میں آپ سے بات کرنے میں interested نہیں ہوں" وہ غصہ میں بول رہی تھی سب students کی توجہ ان پر تھی 

"سب دیکھ رہے ہیں ردا plzz میری بات ٹھنڈے دماغ سے سن لو بس ایک بار" وہ سمجھاتے ہوئے کہنے لگا

ردا نے آس پاس دیکھا سب ان دونوں کو دیکھ رہے تھے اس نے مزید کچھ کہنا ٹھیک نہیں سمجھا اور جانے کے لیے مڑی تو اسے اپنے ہاتھوں پر گرفت محسوس ہوئ اس نے مڑ کر دیکھا فیضان نے اسے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑا تھا 

"ہاتھ چھوڑو میرا" اس کی آنکھوں میں بہت غصہ تھا 

"میں تم سے پیار کرتا ہوں مجھے نہیں پتہ مجھے کب پیار ہوتا چلا گیا تم سے plzzz ردا بات کا یقین کرومیں......." وہ مسلسل کہتا جا رہا تھا کہ با ت پوری ہونے سے پہلے ہی اس کے گال پر زور دار تھپڑ پڑا یہ ردا کے جواب تھا جو اس نے اس کے اظہار محبت پر دیا تھا......

                       ........................

"ماما کیا میں اتنی بری ہوں کے ہماد مجھے چھوڑ کر ہی چلا گیا اسے میری یاد تو آتی ہوگی نا ماما اس نے مجھ سے سچی محبت کی تھی کیا مجھے ایک موقع نہیں دے گا وہ مجھے پتا ہے ماما میں نے بہت برا کیا اس کے ساتھ پر وہ گھر والوں کے لیے ہی آجاۓ واپس وہ تو میری خوشی کے لیے میری زندگی سے ہی چلا گیا..... "

وہ ماں کے گلے لگ کر رو رو کر کہ رہی تھی آج اسے ہر بات کا احساس ہوگیا تھا مگر ہماد نہیں تھا کہں تھا وہ کسی کو کچھ پتا نہیں لگا ہر جگہ ڈھونڈا پر کچھ معلوم نہیں کر پاۓ کہ وہ کہاں چلا گیا تھا...

ردا تم یونیورسٹی نہیں گئ آج؟"رابعی نے سیڑھی اترتی ہوئی ردا کو دیکھ کر پوچھا

"نہیں" اس نے جواب دیا

"کیوں خیریت؟" 

"بس موڈ نہیں تھا"

"کیوں؟ کوئ بات ہوئ ہے ردا "

"یار ایک لڑکا مجھے بہت تنگ کرتا ہے پتا نہیں یہ برگر typ لڑکے خود کو سمجھتے کیا ہیں"

"اوہو! کیا کہتا ہے وہ لڑکا" وہ دلچسپی سے پوچھنے لگی

"تجھے بڑے مزے آرہے ہیں" اس نے رابعی کی بازوپر مکا رسید کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے جانے لگی

"ارے کیا پتا وہ سچا ہو ایک چانس تو دے کر دیکھ لے" اس مزاق اڑاتے ہوئے کہا

"Shutup رابعی"

رابعی مسکرانے لگی اور سوچنے لگی کہ ردا کو بھی اب life میں آگے بڑھنا چاہیے یہ الگ بات تھی کہ اس نے ہمیشہ ردا کو بھابھی بنانا چاہا تھا مگر ارسل کے جانے بعد وہ بس اب ردا کو خوش دیکھنا چاہتی تھی....

                           ...................

وہ لیب کی طرف جا رہی تھی کہ کسی نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑ کر کھینچا...

"چھوڑو میرا ہاتھ " اس نے گھبراتے ہوئے کہا

"نہیں چھوڑوں گا جب تک تم میری بات نہیں سنو گی"اس کی آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی سفید رنگ ہلکی سی Beared، آج اس نے پہلی بار فیضان کو دھیان سے دیکھا تھا

"ردا میرا کوئ غلط ارادا نہیں تمہیں یہاں لانے کا میں بس اپنی بات سمجھانا چاہتا ہوں" 

ردا نے آس پاس دیکھا وہاں ان دونو کے سوا کوئی نہیں تھا وہ بنا کچھ کہے جانے کے لیے مڑی...

"کسی کے جانے سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی" اس نے پیچھے سے پکارا اور ردا پلٹ کر اسے دیکھنے لگی

"میں جانتا ہوں سب تم کسی سے محبت کرتی تھی جو اب اس دنیا میں نہیں لیکن کسی ایک کے جانے سے زندگی تو نہیں رک سکتی اسے بھول کر زندگی میں آگے بڑھو خوشیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں" وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا اور وہ خاموش تھی

"میں مانتا ہوں میں ایک بگڑا ہوا لڑکا تھا لڑکیوں سے Time pasکرنا میرا شوق تھا لیکن ردا مجھے دیکھو میں ویسا نہیں رہا مجھے تم سے سچی محبت ہوگئی میں بدل گیا ہوں ردا ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ محبت مجھے بھی کبھی ہوگی؛ میں میں رشتہ بھیج دوں گا تب تو تمہیں یقین ہو جائے گا میری محبت کا" وہ اس کی منت کرتے ہوئے کہنے لگا

" محبت؟ کیا ہے محبت؟ کسی کو چاہو اور ہر حال میں حاصل کرلو شادی کرلو بس یہ ہے تمہاری محبت... کتنی آسانی سے تم نے کہ دیا اسے بھول جاؤں جس کو میں نے خود سے زیادہ چاہا تھا ساتھ رہنے کی قسمیں کھائ تھی اپنی پوری زندگی اس کے ساتھ دیکھی تھی میں نے ہم بہت خوش تھے اور پھر......." وہ زارو قطار رو رہی تھی اس کے آنسوں بہتے چلے جا رہے تھے اور آواز میں ہچکچیاں بھر آئ تھی

"پھر پھر وہ چلا گیا مجھے چھوڑ کر اکیلا وہ بےوفا نکلا! وہ کیسے جا سکتا تھا اپنے وعدے پورے کیے بنا؟ میری ہر سانس میں وہ بسا ہے اور تم کہ رہے ہو میں اسے بھول جاؤں اس کی یادیں میرے لیے کافی ہیں" اس نے آنسوں اپنی ہتھیلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا

"اور میری محبت؟ میری محبت بھی ایسی ہی ہے تمہیں اپنے ماضی میں رہنا ہے رہو میں ساری عمر بھی تمہارا انتظار کر سکتا ہوں" یہ کہ کر وہ وہاں سے چلا گیا......

                      ................

 "ماما میں عمرے پر جانا چاہتی ہوں" رابعی نے کہا

"ہاں ضرور بیٹا انشاء اللہ میں آپا اور بھائ سے بات کرتی ہوں" 

"ہاں ماما وہاں کی دعا قبول ہوتی ہے نا مجھے بھی ہماد واپس مل جائے گا اور میرے گناہوں کی معافی بھی"..........

ساری تیاری ہو چکی تھی شہنیلہ بیگم اور رابعی کو ایک ہفتے بعد کی Flightسے جانا تھا عمرے کے لیے....

"کیا سوچ رہی ہو رابعی" شہنیلہ بیگم نے پاس بیٹھتے ہوۓ پوچھا

"کچھ نہیں ماما بس یونہی" وہ اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہنے لگی

"مجھے نہیں بتاؤ گی" 

"ماما آپ ٹھیک کہتی تھی ہماد بہت اچھا تھا میں نے پہچانا ہی نہیں کبھی اسے وہ کہاں ہوگا ماما"

"مل جاۓ گا میری بیٹی کو ہر خوشی ملے گی انشاءاللہ" وہ رابعی کو گلے سے لگاتے ہوۓ دعا دینے لگی

"میری غلطی کی بہت بڑی سزا دی ہے ہماد نے مجھے چھوڑ کر ہی چلا گیا" ماں کے گلے کر آج اس کا دل کررہا تھا ساری دل کی بات کرلے...

                       ....................

اتنا ٹائم ہوگیا تھا مگر فیضان یونیورسٹی میں نظر نہیں آیا اس آج دل کر رہا تھا کہ وہ اس کی خیریت معلوم کرے ....

اسنے موبائل سکرین پر دیکھا اور کال کی مگر ایک بیل جانے پر ہی کاٹ دی فون کو سائڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گئ فیضان کے بارے میں آج پہلی بار اس ۔ے سوچا کہ وہ یونیورسٹی کیوں نہیں آیا کیا وہ ٹھیک ہے؟ اور پھر خیالات کو جھٹکتے ہوئے آنکھیں موند لی......

                   .........................

"وہ کعبہ کے سامنے کھڑی تھی رات کے اس پہر وہ خدا سے باتیں کرنا چاہتی تھی وہ سب کچھ مانگنا چاہتی تھی جو اس نے کھو دیا تھا....

"اے میرے اللہ میں گنہگار ہوں میرے پاس گناہوں کے سوا کچھ نہیں میں یہاں کھڑی ہوں جہاں ہر خوش نصیب آتے ہیں اور میں اتنی گنہگار ہوں یہاں کھڑی بھی تجھ سے اپنی ہی خوشی مانگ رہی ہوں میں بہت گنہگار ہوں مگر میں اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی ہوں تو مجھے معاف کر دے بس مجھے ہماد نہیں ملے گا تو ساری زندگی میں یونہی روتی رہوں گی اپنی غلطیوں کی معافی بھی نہیں مانگ سکوں گی اس سے وہ مل جائے گا تو تو مجھے اور کچھ بھی نہیں مانگنا یا رب! نہیں پتا کہ میں کیا کہوں کیا مانگوں تو سب جانتا ہے تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا میں تجھ سے کچھ مانگوں اور خالی ہاتھ چلی جاؤ٬ اللہ جو مینے گنوا دیا وہ مجھے دے دے پروردگار مجھے ہماد دے دے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے اللہ......" اس کے آنسوں مسلسل گر رہے تھے اور زبان چپ ہو گئی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے وہ بس سسکیاں لے رہی تھی مگر اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کتنی ہی دیر وہ خاموش کھڑی بس روتی رہی.....

وہ بدل چکی تھی اس کو بس عبادت میں سکون ملتا اسے تب سکون ملتا جب وہ ہماد اس رب سے رو رو کر مانگتی اسے یقین تھا کہ اسے ہماد ضرور مل جائے گا بیشک اللہ ہی سب کی سنتا ہے......

آج اسے عمرے سے آئےہفتے سے زیادہ ہوگیا تھا مہمانوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا اس کا دل ہی نہیں لگ رہا تھا

"مما میں پارک جا رہی ہوں" اس نے جاتے ہوئے کہا

"جلدی آجانا بیٹا" 

"جی مما" اس نے کہا اور باہر کی طرف چلی گئی

اب وہ بہت بدل گئی تھی نماز پڑھنا، قرآن پڑھنا خواہ ہر عبادت دل سے کرتی. 

شایداسے ایسی چوٹ لگی تھی جو اسے سیدھے راستے پر لے آئی تھی وہ بس اپنے رب کو راضی کرنا چاہتی تھی...

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩  

" نگاہیں شوک رکھتی ہیں اسےدیکھیں اسے چاہیں

مگر وہ شاید شرماتا ہے جو دیدار نہیں ہوتا" 

وہ بینچ پر بیٹھی تھی اورتھوڑی دور سے آتی آواز سن رہی تھی شاید پارک میں بچوں کا آج فنکشن تھا ادھر ادھر بچے گھوم رہے تھے تھوڑے فاصلے پر کوئی مائک میں بول رہا تھا بچے تالیاں بجا رہے تھے

تبھی اس کی نظر مظہر پر پڑی جو ہماد کا جگری یار تھا وہ اکثر ہماد کے ساتھ ہی گھر آتا تھا 

"مظہر بھائی" اس نے پیچھے سے پکارا

"آپ کون" وہ جو بچوں کے ساتھ کھڑا تھا پلٹتے ہوئے کہا

حجاب میں ہونے کے باعث وہ اسے شاید پہچان نہیں سکا

"میں رابعہ وہ ہماد..." 

"اوہ ہاں پہچانا" اس نے بے رخی سے کہا اور واپس بچوں کے ساتھ مخاطب ہوگیا

"مظہر بھائی ہماد کہاں ہے" اسکی بے رخی سے وہ اندازہ کر چکی تھی کہ وہ سب جانتا تھا

"مجھے نہیں پتا کہاں ہے" اس نے بنا دیکھے ہی کہا

"آپ جانتے ہیں مجھے پتا ہے" 

"میں نہیں جانتا " اس نے غصہ سے کہا

"بھائی مجھے بتا دیجیے وہ کہاں ہے  please"

اس نے منت کی پر اس نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ گیا

"بھائی رکیں میں جانتی ہوں آپ کو پتا ہے میرے لیے نا صحیح اس کی فیملی کےلیے ہی بتا دیں" 

وہ رک گیا تھا

"بھائی میں جا نتی ہوں میں نے اسے بہت تکلیف دی ہے پر"

"پر کیا؟ تمہیں اندازہ نہیں اس نے تمہیں کتنا چاہا اور تم نے..... ارے تم تو لائک ہی نہیں اس کی محبت کے" وہ غصہ میں کہتا چلا گیا

"بھائی مجھے میرے کیے کی سزا مل گئی ہے بلکہ مل رہی ہے مجھے سکون ہی نہیں ملتا ہر وقت ہماد کے بارے میں سوچتی ہوں میں اس سے معافی مانگنا چاہتی ہوں" آنسوں مسلسل اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے

وہ کچھ کہے بنا جانے کے لیے پلٹا 

"بھائی خدا کے لیے بتا دیجیے وہ کہاں میں نا جی رہی ہوں نہ مر رہی ہوں میں ہاتھ جوڑتی ہوں آپ کے سامنے میں اسے بھول نہیں پا رہی بھائی میں....." 

وہ کہتے کہتے رکی

مظہر نے پلٹ کر دیکھا وہ دونوں ہاتھوں کو جوڑے زمین پر بیٹھی رو رہی تھی حچکیوں سے اس کی آواز رک گئی تھی....

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 کینٹین میں وہ اکیلی بیٹھی تھی کہ ایک لڑکا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا

" آپ مس ردا ہیں نا" 

"جی کہیے " اس نے پوچھا

"وہ فیضان ہسپتال میں اپنی زندگی اور موت سے لڑ رہا ہے اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے "

"کیا؟ " ردا چونکی

"جی شاید وہ آئندہ کبھی آپکو تنگ نہ کرے وہ آپ سے سچی محبت کرتا ہے لیکن آپ اس سے نفرت کرتی ہیں یہی بات اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی اس نے آپ کو بہت سمجھایا جب آپ نے نہیں یقین کیا تو وہ غصہ میں ....." 

"کون سے ہوسپیٹل میں ہے وہ" وہ پریشانی میں کھڑی ہوئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

   وہ روم میں بیٹھا جھک کر شوز لیس باندھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ

اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا

"جلدی آگیا تو فنکشن کیسا رہا" کہتا ہوا پلٹ گیا

"ہماد کوئی تجھ سے ملنے آیا ہے" مظہر کی آواز پر وہ پلٹا

"کون؟" اس نے حیرت سے پوچھا

مظہر دروازے سے تھوڑا ہٹا تو پیچھے کھڑا شخص اسے صاف دکھائی دیا 

مظہر دروازے سے واپس چلا گیااور وہ بسدروازے پر کھڑے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جسے اس نے نو مہینےسے نہیں دیکھا تھا...

"کیوں آئی ہو یہاں تم؟"ہماد نے غصہ میں چیخ کر کہا 

"ہماد تمہیں پتا ہے نو مہینے کیسے گزارے میں نے؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا

"جاؤ یہاں سے کیوں تم مجھے جینے نہیں دے رہی سکون سے؟" اس نے دوبارہ زور سے کہا اور پلٹ گیا

"سکون تو مجھے نہیں مل رہا ہماد ہر وقت بس تمہارا خیال......" 

"جاؤ" وہ چلایا

"ہماد میں نے بہت دعائیں کی ہیں تمہارے لیے اپنے رب سے رو رو کر تمہیں مانگا ہے میری غلطی کی اتنی سزا مت دو ہماد" اس نے اس کے قریب آکر کہا 

" میرے لیے نہ صحیح گھر والوں کے لیے چلو ہماد وہاں سب منتظر ہیں تمہارے" اس نے ہماد کا ہاتھ پکڑا پر اسی پل ہماد اس کا ہاتھ جھٹک دیا

" جاؤ یہاں سے مجھے اکیلا چھوڑ دو" اس نے غصہ سے کہا

 "ہماد مجھے معاف کردو مجھے اور سزا مت دو میں نہ جی رہی ہوں اور....اور نہ مر رہی ہوں میری روح کو سکون نہیں مل رہا" اس نے ہماد کی پشت سے سر لگایا 

"ہماد مجھے سکون دے دو ہماد میں تم سے......" سکیوں کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی پر ہماد چپ تھا کیونکہ اگر وہ کچھ بولتا تو شاید اس کے آنسو ظاہر ہوجاتے

  " ہماد مجھے اور سزا مت دو میں شرمندہ ہوں اپنے ہر کیے کے لیے ہماد مجھ سے دور مت جاؤ "

ہماد کا چہرہ بھیگا ہوا تھا پر وہ خاموش تھا رابعہ اس کی پشت سے سر لگائے رو رہی تھی اس نے ہماد کو مضبوطی سے پکڑا تھا وہ اب اسے جانے نہیں دینا چاہتی تھی اسے کھونا نہیں چاہتی تھی.......

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 "ابے وہ آگئی" فرخ بھاگتا ہوا آیا

"کیا؟" وہ چونکا اور جلدی سے آکسیجن مونہہ پر لگاکر لیٹ گیا

"فیضان؟" ردا نے پکارا

"یہ دو دن سے بے حوش ہے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر اسے آج حوش نہیں آیا تو پھر کبھی بھی نہیں آئے گا"فرخ نے سنجیدگی سے کہا

"کیا؟"ردا نے فرخ کی طرف دیکھا

"میرا مطلب ہے کہ اگر اسے آج بھی ہوش نہیں آیا تو میرا دوست زندگی کی جنگ ہار جائے گا" فرخ نے کہا اور باہر چلا گیا شاید وہ اب اپنی ہنسی کنٹرول نہیں کر پارہا تھا

"فیضان تم ٹھیک ہوجاؤ please" اس نے فیضان کی طرف دیکھ کر کہا

" ٹھیک ہے مینے تمہاری محبت پر یقن نہیں کیا پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم خود کو......." وہ اب رو رہی تھی کیوں یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی 

"میری وجہ سے شاید تم اس حال میں ہو مجھے یقین ہو گیا ہے تمہاری محبت کا پر میں کیا کروں میں........." وہ کہ رہی تھی کہ اس کو فون بجنے لگا 

اس نے پرس کو پاس رکھی چیئر پر رکھ کر فون نکالا 

"ہیلو جی مما" اس نے کہا

"جی بس آئی " کہ کر فون بند کر دیا

ایک نظر فیضان کو دیکھا اور باہر نکل گئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"ہماد" گھر پر سب حیران تھے ہماد کو دیکھ کر 

"مما" اس نے ماں کے گلے لگتے ہی کہا اور پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا

" کہاں چلے گئے تھے مجھے چھوڑ کر" 

جواب میں وہ بس روئے جا رہا تھا 

 تبھی انیلہ بیگم کی نظر رابعہ پر پڑی وہ اس کے قریب آئی اسے گلے سے لگا لیا 

"تم نے ہماد کو ڈھونڈ ہی لیا تمہاری دعائیں قبول ہوگئی بیٹا " 

" تم جانتے ہو ہماد یہ کتنا روتی تھی ہر وقت دعائیں کرتی تھی تمہارے لیے...... تم نے مجھے میرا ہماد لوٹا دیا رابعی" انیلہ آنسو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی 

" خبردار جو آئندہ کبھی دور گئے تو ہم سے " 

آج سب خوش تھے کیونکہ انہیں دوبارہ ہماد مل گیا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اس کے روم سے جاتے ہی وہ اٹھ بیٹھا تبھی فرخ اندر آیا

"یار تجھے اب یہ ناٹک بند کردینا چاہیے وہ رو رہی تھی" فرخ نے سنجیدگی سے کہا

" ابھی تو بس یکھتا جا اپنی محبت میں اسے قائل کر کے ہی رہوں گا یار یہ لڑکی..... میں اس کے بنا اپنی زندگی اب تصور بھی نہیں کرنا چاہتا میں ہر حال میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے پتا ہے یہ غلت راستہ ہے پر.... کیا کروں یار "

وہ کچھ سوچتے ہوئے کہہنے لگا

"اور تو سالے کمینے "اب اگر اسے حوش نہیں آیا تو پھر کبھی بھی نہیں آئے گا" اوور ایکٹنگ" اس نے غصے سے کہا

"یار تو جانتا ہے مجھے ایکٹنگ نہیں آتی" فرخ نے اس کو دیکھ کر کہا

"ہاں ہاں اب تو تجھ سے کروانی بھی نہیں پھنسائے گا تو مجھے" اس نے فرخ کو گھورا

اور پھر دونوں کے ہی قہقہے روم میں گونجنے لگے

تبھی دروازہ کھلا اور وہ دونوں خاموش ہوگئے.........

وہ دونوں خاماشی سے ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے وہ چلتی ہوئی قریب آئی تھی فیضان کے اور پاس رکھی چیئر سے اپنا پرس اٹھایا جو شاید وہ جلدی میں بھول گئی تھی فیضان سرخ آنکھوں سے گھورا اور پلٹ کر جانے لگی

"ردا وہ....." 

"Shutup just shut up" 

ردا نے چیخ کر کہا اور باہر کی طرف تیزی سے بڑھ گئی

"ردا میری بات سنو" وہ اس کے پیچھے بھاگا

وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جا رہی تھی وہ اسے آواز دیتا پیچھے آرہا تھا

"میری بات تو سنو" اس نے  ردا کا ہاتھ پکڑا 

" تو یہ تھا تمہارا ایکسیڈنٹ؟" اس نے نم آنکھوں سے غصے میں کہا

"میں صرف تمہارے دل میں اپنے لیے......" 

"اس طرح؟جھوٹ کا سہارا لے کر؟" اس نے بیچ میں بات کاٹی

" تو کیا کرتا تم مجھ سے بات تک نہیں کرتی تھی میں نے سوچا شاید تم مجھے اس حال میں دیکھو تو تمہیں بھی......" 

"I hate you"

اس نے چبا کر کہا اور اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑوایا اور پلٹ گئی

"رکو" فیضان نے پیچھے سے پکارا

"تم یہی چاہتی ہونا کہ میرا جھوٹ سچ ہو جائے تب تو تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی؟" فیضان نے کہا 

وہ چونکی اور پلٹ کر دیکھا تو فیضان نہیں تھا اس نے ادھر اُدھر دیکھا سڑک کے بلکل بیچ میں فیضان کھڑا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ بھاگی مگر اس سے پہلے ہی ایک گاڑی نے فیضان کو ٹکر ماری......

"فیضان" وہ چیخی اس کے پاؤں جیسے وہیں جم گئے تھے

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩ 

رابعی صافے پر بیٹھی تو شہنیلہ بیگم نے اسے دیکھا

"ہماد کہاں ہے؟" 

"اپنے روم میں فریش ہونے گیا ہے" رابعی نے مسکرا کر کہا

"تم خوش ہو؟" شہنیلہ بیگم نے رابعی سے پوچھا 

" ہاں بہت " اس نے مسکرا کر ماں کو دیکھا 

وہ خوش تھی بہت اسے وہ سب واس مل گیا تھا جو اس نے کھو دیا تھا....

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ ہسپتال کے روم کے باہر  بیٹھی تھی تبھی ڈاکٹر باہر آیا وہ بھا گی

" کیسی طبعیت ہے وہ ٹھیک تو ہے نا" ردانے پوچھا

"وہ اب ٹھیک ہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں نیند کی دوا دی ہے تھوڑی دیر میں حوش آجائے گا" ڈاکٹر نے کہا اور اس نے اطمنان کا سانس لیا تبھی ردا کا فون بجنے لگا

" ہیلو" 

" کہاں ہے تو" رابعی نے پوچھا

" بس آرہی ہوں" ردا نے کہا اور فون کاٹ دیا

"آپ جائیں میں یہیں ہوں فیضان کے گھر بتا دیاہے میں نے آپ پریشان نہ ہوں" فرخ نے کہا اور وہ مسکرا دی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩ 

"کہاں تھی اتنی دیر سے؟"ہماد نے اندر آتی ردا کو کہا

"بھائی؟" اس نے ہماد کو دیکھا اور بھاگ کر ہماد کے گلے لگ گئی

"کیسی ہے میری گڑیا؟" ہماد نے کہا

"آپ کہاں چلے گئے تھے بھائی ہمیں چھوڑ کر؟" اس کی آنکھ میں آنسو تھے

"اب تو آگیا ہوں نا چلو ساتھ میں چائے پیتے ہیں" ہماد نے کہا اور وہ مسکرا دی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"جی مما" رابعی نے کچن میں آتے ہی کہا

"یہ دودھ ہماد کو دے کر آجاؤ کچھ نہیں کھایا اس نے" شہنیلہ بیگم نے کہا 

"آپ لے کر گئی تو تھی کھانا؟" رابعی نے پوچھا

"ہاں پر اس نے منا کردیا کہا بھوک نہیں" 

"آپ ڈال دیں میں دے آتی ہوں کیا پتا کھا لے" رابعی نے کہا.....

اس دونوں ہاتھوں سے ٹرے کو پکڑا ہوا تھا اور بنا دستک دیے کمرے میں آگئی لیکن روم میں کوئی نہیں تھا 

اسنے سائیڈ ڈیبل پر ٹرے رکھی اور ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیں تھا بیڈپر ایک کتاب رکھی تھی اس نے کتاب کو اٹھایا اور کھول کر دیکھنے لگی

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" ہماد کی آواز پر وہ چونکی اور کتاب اچھل کر اس کے ہاتھ سے گری

"مم....میں وہ کھانا ....." ہماد اس کے بلکل قریب کھڑا تھا 

ہماد نے جھک کر کتاب اٹھائی اور بیڈ پر رکھ دی

"مجھے بھوک نہیں ہے یہ واپس لے جانا" ہماد نے ٹرے کو دیکھتے ہوئے کہا

"واپس لے جانے کے لیے نہیں لائی" رابعی نے فوراً جواب دیا

ہماد مسکرایا

اسے ہماد کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو فوراً ہڑبڑائی

"آپ کھا لینا یہ اوردودھ بھی رکھ دیا ہے"وہ کہتے ہوئے جانے کے لیے مڑی مگر ہماد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور وہ اس کے قریب آگئی اس کے ہاتھ ہماد کے سینے پر تھے 

"اتنی بھی کیا جلدی ہے؟" ہماد نے اس کے کان کے پاس سرغوشی کی

 "نن...نہیں وہ مجھے کک....کام ہے" رابعی نے پلکیں اٹھائے بنا ہی بمشکل کہا

ہمادبنا کچھ کہے اس پر جھکتا چلا جا رہا تھا رابعی کا حجاب میں لپٹا چہرہ  اس کی جھکی پلکیں کپکپاتے ہونٹ اور پرفیوم کی ہلکی سی خشبو اسے مائل کر رہی تھی

ہماد کا ہاتھ اس کی کمر کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا اور وہ اس کے قریب سے قریب تر تھا کہ وہ ہماد کی سانسوں کو مہسوس کر سکتی تھی اس نےگھبراہٹ سے آنکھیں بند کرلی 

تبھی اسے ہماد کی گرفت ہلکی ہوتے محسوس ہوئی اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تو دیکھا ہماد نے اسے دور ہوکر جگہ دی....

" جاؤ" ہماد نے کہا

وہ ہماد کو ایک ٹک ہو کر دیکھ رہی تھی اور حیران تھی 

"تم نے یہی تو کیا ہے ہمیشہ مجھ سے دور بھاگی ہو" ہماد نے نے مڑ کر سنجیدگی سے کہا 

"ہماد آ....ایسی بات نہیں ہے وہ میں....." رابعہ کچھ کہتے ہوئے رکی

"تم نہیں بدلی آج بھی مجھ سے دور رہنے میں ہی تم خوش ہو کیونکہ تم مجھ سے پیار جو نہیں کرتی میں واپس چلا جاؤں گا بس" ہماد نے لبوں پر آتی مسکراہٹ کو دباتے ہوئےکہا

"نن...نہیں ہماد میں کرتی ہوں آپ سے پیار بہت پیار اور...."وہ یک دم کہتی چلی گئی تبھی اس کی نظر ہماد پر پڑی جو اسے شرارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا

وہ سمجھ گئی تھی کہ ہماد مزاق کر ہا ہے اسے تنگ کرنے کے لیے وہ مسکراتے ہوئے بھاگی 

"سنو " ہماد نے پیچھے سے پکارا

وہ دروازے کے رک گئی اور پلٹ کر دیکھا

"تم حجاب میں بہت خوبصورت لگتی ہو" ہماد نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ جواب دیے بنا وہاں سے بھاگی تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ردا پریشان بیٹھی تھی تبھی رابعہ روم میں داخل ہوئی

"ردا وہ..." رابعہ کچھ کہتے کہتےرکی

" کیا ہوا؟" اس نے ردا سے سوال کیا

" کچھ نہیں" ردا نے کہا

"پریشان کیوں ہے" اس نے پوچھا

اس کے پوچھنے پر ردا نے سب بتا دیا رابعہ کو

"ہمم ردا مجھے لگتا ہے تجھے اس کے بارے میں سوچنا چاہیے اگر وہ سچا ہے تو پھر کیا برائی ہے ویسے بھی ردا تمہیں زندگی میں اب آگےبڑھنا چاہیے" رابعہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

" مگر رابعی تو جانتی ہے....."اس نے بات کاٹی

"میں جانتی ہوں مگر تجھے کسی کے ساتھ ایسا کرنے کا حق نہیں ردا محبت بار بار دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی وہ لڑکا تجھ سے محبت کرتا ہے اس کے بارے ایک بار ضرور سوچنا اور کسی نو کسی سے تو شادی کرے گی نہ میرے کہنےپر ایک بار دل سے ضرورسوچنا"  رابعہ کہ کر وہاں سے چلی گئی اور سوچ میں پڑ گئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"مما میرا ناشتہ" ہماد چلایا

"لا رہی ہوں " کچن سے انیلہ بیگم کی آواز آئی

تبھی ردا آئی کرسی سرکا کر بیٹھ گئی

"مما ناشتہ" ردا چلائی 

ہماد اسے دیکھ کر مسکرایا اسے پہلے کے دن یاد آگئے کیسے وہ اپنی ماں کو تنگ کرتے تھے مل کر

دونوں نے ایک دوسرے شرارت بھری نظروں سے دیکھا اور چمچ اٹھائی تبھی انیلہ اور شہنیلہ ناشتہ لے کر آگئی اور ٹیبل پر لگانے لگی

"خبردار جو تم لوگوں نے شور مچایا" انیلہ بیگم نے کہا

 ہماداور ردا ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے تبھی رابعہ آئی وہاں....

"ان دونوں کی تو عادت ہے پرانی شور شرابا کرنے کی" ابعہ نے چڑاتے ہوئے کہا

"ہا بھائی یہ دیکھو میری بلی مجھے ہی میاؤں" ردا نے ہماد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

""ہمم کچھ سوچنا پڑے گا اس کے بارے میں" ہماد نے رابعہ کو گھورتے ہوئے کہا

"اچھا میں تو ڈر گئی" رابعی نے ہماد کو چڑایا

 "بیٹا میرے شیر جیسے بھائی سے ڈر کر ہی رہنا" ردا نے کہا

 بدلے میں رابعہ نے گھورا

"مما میں کیا کہتی ہوں کہ اس کا نکاح کروادو بھائی سے ورنہ یہ ہاتھ سے نکل جائے گی" ردا نے اسےتپاتے ہوئے کہا

اس کی بات پر سب ہنس دیے اور ہماد نے ردا کو مسکراتے ہوئے دیکھا.... 

"کیوں کیا ایسا تم نے؟" ردا نے خفگی سے پوچھا

"صرف یہ بتانے کے لیے کہ میں تمہاری خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں" فیضان نے کہا

" دوبارہ کبھی ایسا مت کرنا مجھے پسند نہیں " ردا صاف گوئی کی 

"کون میں؟" فیضان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا

" میں نے ایسا تو نہیں کہا" ردا نے اسے دیکھ کر کہا

"تو پسند ہوں؟" اس نے شرارت بھری نظروں سے پوچھا

"اب ایسی بھی بات نہیں" ردا نے نظریں چراتے ہوئے کہااور اٹھ گئی 

"میں چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے" ردا نے کہا

"  تھوڑی دیر اور رک جاؤ" فیضان نے  پیار سےکہا

"پھر آؤں گی" وہ مسکرا کر کہنے لگی اور با ہر نکل گئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 " ہماد تم نے کیا سوچا پھر؟" انیلہ بیگم کے کہنے پر وہ ٹی وی بند کرتے ہوئے مخاطب ہوا

" کس بارے میں میں مما؟" ہماد نے حیرانی سے پوچھا

"رابعی سے شادی کے بارے میں؟" 

" آپ کو جیسا ٹھیک لگے مما" اس نے مسکرا کر کہا

"پھر میں شہنیلہ سے بات کرتی ہوں" اس نے ہماد کو پیار کیا

اور ہماد دل ہی دل میں خوش ہوا....

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ روم میں بیٹھی لیپ ٹوپ پر انگلیاں چلا رہی تھی کہ ردا روم میں داخل ہوئی

" کیا کر رہی ہے میری بھابھی؟" ردا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا

" بھابھی؟" اس کا دماغ اسی الفاظ پر ٹھہر گیا

" ہاں ابھی نیچے سے تو سن کر آرہی ہوں میں امی اور چچی بھائی کی اور تمہاری شادی کی بات کر رہی ہیں" ردا نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا

"کیا؟ کک....کب" رابعی نے حیرت سے کہا

" اوئے ہوئے لڈڈو پھوٹ رہے ہیں من میں " اس نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا

تیری وجہ سے ہوا ہے سب تجھے کیا ضرورت تھی بکواس کرنے کی صبح؟" اس نے ردا کی طرف کشن پھینکا

" ارے ارے بھلائی کا زمانہ ہی نہیں تجھے تو تھینکس بولنا چاہیے الٹا تو مجھے ہی سنا رہی ہے" اس نے اور تپایا

" بیٹا تو رک تیرا مسلہ بھی حل کرواؤں گی" رابعی نے بدلے میں کہا

" میرا کون سا مسلہ؟" ردا چونکی

" تیری شادی کا" اس نے مسکراتے ہوئے کہا

" مجھے کوئی نہیں کرنی ابھی شادی"ردا نے لا پرواہی سے کہا

"وہ لڑکا کیسا ہے اب؟" رابعی کو کچھ یاد آیا

" آ...ہاں اب ٹھیک ہے" ردا نے سوچتے ہوئے کہا اور سوچ کر مسکرانے لگی کہ کیا چیز ہے وہ کیا کر جاتا ہے اسے خود نہیں پتا ہوتا.........

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 فیضان اب کافی حد تک ٹھیک ہوگیا تھا وہ کافی ٹائم بعد  آج یونیورسٹی آیا تھا پر ردا اس کی طبیعت معلوم کرنے گھر گئی تھی اس کے.....ردا کو اب اس سے ملنا باتیں کرنا اس کا ہنسی مزاق کرنا بہت اچھا لگتا تھا 

وہ اس سے باتیں کر کے خوش خوش رہتی تھی شاید فیضان کی محبت نے اسے سماپنی طرف مائل کر لیا تھا

اس کے گھر والوں کو بھی ردا بہت پسند آئی تھی 

" ردا تم نے اپنے گھر والوں کو میرے بارے میں بتایا؟" فیضان نے پوچھا

" ہاں رابعی کو" ردا نے جواب دیا

" میں امی ابو کو بھیجوں تمہارے گھر؟" فیضان کے پوچھنے پر وہ چونکی

"نن....نہیں ابھی نہیں" ردا نے گھبراتے ہوئے کہا

"یار تم ہر بار یہی جواب دیتی ہو" فیضان خفا ہوا

" میں نے گھر پر بات نہیں کی" ردا نے بتایا

" تو کرو نا تم نہیں کر سکتی تو میں کرتا ہوں ان سے بات" فیضان نے غصہ سے کہا 

" نہیں میں کرلوں گی" اس نے اور گہری سوچ میں پڑ گئی

اس کا سیل فون بجتا جا رہا تھا پر کمرے میں کوئی نہیں تھا ہماد سیڑھی چڑھتا ہوا اوپر آیا تھی ردا کے کمرے سے آواز آئی وہ مرے کی طرف چل دیا جہاں سے مسلسل فون بجنے کی آواز آرہی تھی

اس نے اندر آکر دیکھا کمرے میں کوئی نہیں تھا اور سائیڈ ٹیبل پر سیل فون رکھا بج رہا تھا وہ قریب گیا فون کو دیکھا سکرین پر فیضان نام چمک رہا تھا اس نے کا رسیو کی کان سے لگایا

" ردا کہاں تھی کال کیوں نہیں اٹھا رہی تھی میں کب سے کال کر رہا تھا " فیضان نے بنا آواز سنے کہا

" میں ہماد ردا کا بھائی" ہماد کی آواز پر وہ چونکا

" آ...آپ....." اس کی آواز جیسے اندر ہی رہ گئی تھی

"جیسا میں سوچ رہا ہوں اگر ویسی بات ہے تو اپنے پیرنٹس کو گھر لے آنا" ہماد نے دو ٹوک بات کی اور فون بند کر دیا تبھی ردا روم میں آئی اس کا فون ہماد کے ہاتھ میں تھا

" بھائی آپ کوئی کام تھا؟" اس نے ہماد کو دیکھ کر کہا

" فیضان کون ہے؟" ہماد نے غصہ سے پوچھا

" بھائی وہ...وہ میرے ساتھ یونیورسٹی میں...." وہ سمجھ گئی تھی اپنا سیل فون ہماد کے ہاتھ میں دیکھ کر اور اس کے اس طرح سوال کرنے پر

"پسند کرتی ہو اسے؟" ہماد نے دوبارہ پوچھا

" ہاں... نن..نہیں...." وہ گھبرا رہی تھی سر جھکائے کھڑی تھی 

" اسے بولو اپنے پیرنٹس کو لے کر آئے بابا اور ماما سے میں بات کرلوں گا" ہماد مسکرا کر کہنے لگا اور سیل فون اس کی طرف بڑھایا

اس نے سیل فون پکڑتے ہوئے بھائی کو دیکھا وہ مسکرا رہا تھا 

ہماد نے اس کا گال تھپتھپایا پیار سے اور کمرے سے نکل گیا

وہ کھڑی مسکرانے لگی پھر ہاتھ میں پکڑے فون کو گھورنے لگی اسے فیضان پر غصہ آیا آخر اس نے اسے پھنسا ہی دیا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"ہماد؟" اس نے پیچھے سے آوز دی

وہ جو کار کی چابی ہلاتا ہوا اپنی دھن میں باہر جا رہا تھا آواز پر پلٹا

وہ پنک کلر کا فراق پہنے چہرے پر حجاب باندھے سفید رنگت میں بہت معصوم لگ رہی تھی

" وہ مجھے کالج ڈراپ کردو گے مجھے وہ...." اس نے ہماد کو دیکھتے ہوئے کہا

"چلو" ہماد نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ اس کے پیچھے باہر چل دی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"تم تو کافی دن سے کالج نہیں جارہی تھی پھر آج کیوں؟" ہماد نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا

"وہ Examination form submit کروانا تھا مجھے"

ردا نے کہا

"اچھا ایک بات پوچھوں؟" ہماد نے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا

"جی " ردا نے اسے دیکھ کر کہا

" ہماری شادی ہونے والی ہے تم خوش ہو؟" ہماد ربعی کی طرف دیکھا وہ مسکرائی

" مجھ سے زیادہ بھی کوئی خوش قسمت ہو سکتا ہے جسے آپ جیسا پیار کرنے والا مل جائے مجھے اور کیا چاہیے میں بہت خوش ہوں" رابعی نے ہماد کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا

 ہماد کو اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کا اظہار نظر آیا وہ بہت خوش تھا.......

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

فیضان اپنے پیرنٹس کو لے کر آگیا تھا ردا کے گھر وہ سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے ردا کے پیرنٹس کو بھی فیضان پسند آگیا تھا

لیکن ہماد اس سے کچھ کھچا کھچا تھا

رابعی گھر نہیں تھی وہ کالج سے سیدھی سارہ کے گھر چلی گئی تھی نوٹس لینے وہ جب شام میں گھر آئی تو فیضان اور اس کے پیرنٹس جا چکے تھے ۔

سب بیٹھے باتیں کر رہے انھوں نے فیضان کی فیملی سے ٹائم مانگا تھا سوچ کر جواب دینے کا....

تبھی ہماد آکر بیٹھا 

" تمہیں کیسا لگا فیضان؟" انیلہ بیگم نے پوچھا

" فیملی بھی اچھی ہے مجھے تو اچھا لگا لڑکا" فرقان صاحب نے اپنی رائے دی

" تو پھر ابھی منگنی کر دیتے ہیں اور ہماد اور رابعی کے ساتھ شادی" شہنیلہ بیگم نے مشورہ دیا

" آپ انھیں انکار کر دیں مجھے یہ رشتہ نہیں پسند" ہماد نے کہا

" مگر کیوں بیٹا لڑکا اچھا ہے فیملی بھی اچھی ہے پھر تمہیں کیوں نہیں پسند" فرقان صاحب نے کہا

" بابا میری بہن ہے ردا میں کچھ سوچ کر ہی انکار کر رہا ہوں نا"  ہماد نے جتایا

"مگر بیٹا ہم ردا کو کیا کہ کر منع کریں گیں تم تو جانتے ہو...." انیلہ نے کہا

" مما میں خود سمجھا دوں گا اسے وہ میری بہن ہے مجھ سے آگے ہوکر فیصلہ نہیں کرے گی وہ" ہماد نے کہا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ کمرے میں بیٹھی کتاب چہرے کے آگے کیے کچھ پڑھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی 

اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ہماد کھڑا تھا

" بھائی آپ" ردا چونکی رات کے 10 بج رہے تھے اور اس وقت ہماد اس کے کمرے میں آیا تھا

" کوئی کام تھا آپ کو بھائی؟" ردا نے پوچھا

" کیوں میں بنا کام کے اپنی بہن کے پاس نہیں آسکتا " 

ہماد نے اندر آتے ہوئے کہا

" کیوں نہیں آسکتے بلکل آسکتے ہیں" ردا نے کہا

"ردا ایک بات بتاؤ؟" ہماد نے ٹوپک پر آتے ہوئے کہا

" جی بھائی" 

"تمہیں اپنے بھائی سے کتنا پیار ہے؟" ہماد نے پوچھا

" بہت زیادہ " ردا نے پیار سے کہا 

"  تو کیا میرے لیے تم فیضان کو بھول سکتی ہو؟" ہماد نے کہا 

" بھائی؟" ردا کی مسکراہٹ جیسے غائب ہوگئی تھی

" بتاؤ؟" ہماد نے دوبارہ پوچھا 

" آپ کو فیضان نہیں پسند؟" ردا نے پوچھا

" نہیں" ہماد نے دو ٹوک جواب دیا

" مگر کیوں بھائی؟" ردا نے حیرت سے پوچھا

" بس نہیں پسند اسے بھول جا میری خاطر تو آئندہ اس سے نہیں ملے گی" ہماد نے فیصلہ سنایا

ردا خاموش رہی

"اپنے بھائی پر بھروسہ ہے نا تجھے میں تیری بھلائی کے لیے ہی کہ رہا ہوں" ہماد نے اس کو قریب کرتے ہوئے کہا

 "ٹھیک ہے بھائی" ردا نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا 

ہماد نے اس کو سینے سے لگایا وہ جانتا تھا کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے ردا کو تھوڑا دکھ ہوگا پر پھر سب ٹھیک ہوجائے گا.......

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ردا کے گھر والوں نے فیضان کی فیملی کو فون کر کے انکار کر دیا تھا اور ردا بھی کچھ دن سے یونیورسٹی نہیں آرہی تھی فیضان کو بہت دکھ ہوا تھا وہ ردا سے بات کرنا چا ہتا تھا مگر ردا کا نمبر بھی بند تھا

ان کے Exams شروع ہوگئے تھے وہ جانتا تھا کہ ردا یونیورسٹی ضرور آئے گی

" ردا میری بات سنو" فیضان کو دیکھتے ہی وہ تیزی سے قدم بڑھانے لگی

" بات سنومیری" اس نے ردا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا

"ہاتھ چھوڑو فیضان سب دیکھ رہے ہیں" ردا نے غصہ سے کہا 

اس نے ادھر اُدھر دیکھا سٹوڈنٹس انھیں ہی گھور رہے تھے اس نے ہاتھ چھوڑ دیا

" ایک بار میری غلطی بتادو کہ کیوں تم میرے ساتھ ایسا کر رہی ہو؟" فیضان نے منت کی

"میں تمہیں جواب دینا ضروری سمجھتی پھر بھی بتا دیتی ہوں میری فیملی کو یہ رشتہ نہیں پسند اس لیے تم مجھے بھول جاؤ" وہ کہتی ہوئی وہا سے نکل گئی اور وہ وہیں  افسردہ  کھڑارہا......🍁🍁

" فرخ یار وہ میرا ساتھ کیسے چھوڑ سکتی ہے؟" فیضان کی آواز میں دکھ تھا

"لیکن یار اس کی فیملی نے انکار ہی کیوں کیا سوچنے کی طرفبات ہے؟" فرخ نے سوچتے ہوئے کہا

" پتا نہیں یار مگر میں اس کے بغیر مر جاؤں گا میں ایسا کیا کروں کہ اس کے گھر والے مان جائیں؟" اس کی آنکھوں میں پہلی بار فرخ کو درد نظر آیا تھا 

"خدا پر بھروسہ رکھ یار سب ٹھیک ہوجائے گا" فرخ نے تسلی دی

" یار فرخ ردا کو تو میرا دل نہیں توڑنا چاہیے تھا میں اسے کتنا چاہتا ہوں وہ جانتی ہے" فیضان نے کہا

" اچھا تو نے بھی تو کتنی لڑکیوں کا دل توڑا تھا بھول گیا؟" فرخ نے جیسے اسے احساس دلوایا وہ اک دم جیسے چونکہ اس نے فرخ کو دیکھا 

"میں نے؟ " وہ جیسے کچھ یاد کر رہا تھا

" Oh my God" 

کچھ یاد اتے ہی وہ چلایا اور اپنا سر ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا

"کیا ہوا؟" فرخ نے حیرت سے پوچھا

" یار تجھے یاد ہے رابعہ نام کی لڑکی؟" اس نے فرخ کو یاد کروایا

" نہیں یار تیرے اتنی جگہ اکاؤنٹ تھے اب سب کو تو میں یاد نہیں رکھوگا" فرخ نے کہا

" ابے وہی عاشی کی دوست جسے تونے میرے ساتھ ریسٹورنٹ میں دیکھا تھا" اس نے یاد دلوایا

" ہاں تو؟" فرخ الجھا

" ہو نا ہو اس کا کوئی کنکشن ہے ردا سے" فیضان نے کہا

" اور تجھے کیسے پتا؟" فرخ نے پوچھا

"کیونکہ رابعہ کو میں اکثر ڈراپ کرتا تھا گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا اس کا کیونکہ وہ بتاتی تھی کہ اس کی فیملی تھوڑی Conservative ہے اس لیے میں اسے پیچھے ہی اتار دیتا تھا.... "

"وہ ملیر میں رہتی تھی اوراسی علاقے میں ردا کا بھی گھر ہے تو " اس نے سوچتے ہوئے کہا اور الجھ گیا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩ 

وہ ردا کے روم میں آئی تو ردا رو رہی تھی ردا نے جلدی سے اپنے آنسوں صاف کیے اور normal ہوئی

"آؤ نا رابعی" ردا نے مسکراتے ہوئے کہا

"تم رو رہی ہو؟" رابعی نے کہا

" نہیں رابعی آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا تو...." ردا نے بہانا بنایا 

 لیکن وہ سس کی بات سنے بنا ہی غصہ اٹھ کر تیزی سے باہر نکلی

" رابعی میری بات سنو" وہ اٹھی اور پیچھے بھاگی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

وہ آئینے کے سامنے کھڑا بالوں میں ککنگھا کر رہا تھا کہ ایک دم سے وہ کمرے میں آئی

"کیاں میں پوچھ سکتی ہوں کہ کیوں تم نے ردا کے اور فیضان کے رشتے سے انکار کیا؟" رابعی نے غصہ سے کہا

ہماد نے ایک نظر اسے دیکھا جو بڑی بڑی سرخ آنکھوں میں غصہ لیے کھڑی تھی

"نہیں" اس نے نظر انداز کرتے ہوئے کہا دوبارہ مڑ کر کنگھا کرنے لگا

"تم جانتے ہو ارسلان بھائی کے جانے کے بعد وہ کتنی مشکل سے دوبارہ Normal ہوئی ہے ورنہ وہ تو ہنسنا ہی بھول گئی تھی وہ خوش رہنے لگی تھی ہماد پھر کیوں تم نے اس کی خوشیوں کو آنے سے پہلے ہی روک دیا؟" اس نے دوبارہ سوال کیا

" وہ میری بہن ہے میری مرضی تمہیں بیچ میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی" اس نے بے رخی سے کہا

"اچھا تو اب وہ صرف تمہاری بہن ہے میری کچھ نہیں ؟" اس کی آنکھ سے آنسوں گرے

اس کے آنسوں دیکھ کر ہماد کو احساس ہوا کہ وہ شاید زیادہ بول گیا مگر وہ اسے نہیں بتانا چاہتا تھا

" رابعی میرا وہ مطلب نہیں تھا یار..." ہماد قریب آکر کہنے لگا

" بس آپ نے بتادیا مجھے کہ آپ کی اور ردا کی کچھ نہیں لگتی.... لیکن پلیز ہماد ردا تو تمہاری بہن ہے نا اس کی خوشیوں کے آڑے مت آؤ اسے اس کی خوشیاں دے دو فیضان کو قبول کرلو آخر کیا کمی ہے فیضان میں سب کو پسند ہے بس تمہیں نہیں" اس نے منت کی 

"ہاں مجھے نہیں پسند وہ" ہماد نے غصہ سے کہا

" کیوں؟" وہ چلائی

" کیوں کہ وہ وہی فیضان ہے جس نے تمہیں دھوکا دیا تھا " ہماد نے غصے سے چیخ کر کہا

رابعی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی اس کا ماضی ایک بار پھر سے اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا وہ خاموش تھی سب کچھ جیسے اس کے سامنے دوبارہ آگیا تھا جسے وہ بھلا چکی تھی.....

فیضان اپنے بیڈ پرچہرے پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھایا اسکرین پر ردا کا نمبر چمک رہا تھا

" ہیلو" فیضان نے کہا

" مجھے تم سے ملنا ہے" ردا کی آواز آئی

"ردا میں..... " فیضان نے کچھ کہنا چاہا مگر ردا نے بات کاٹ دی

" کل پارک میں میں تمہارا انتظار کروں گی" ردا نےکہا اور کال کاٹ دی

وہ سمجھ گیا تھا کہ ردا کیا بات کرے گی پر وہ پریشان تھا کہ اس کو کیا جواب دے اس کے ماضی کے سارے پنے ردا کے سامنے کھل گئے تھے

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

رابعی نے نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اس کا ماضی اس کے سامنے بھیانک تصویر کی طرح آگیا

" یارب میں تو سب بھول چکی تھی پھر......" اس کے آنسوں بہ رہے تھے

" بیشک تو نے مجھے ہر خوشی دی میرے ہر گناہ کو معاف کر کے مجھے ہماد کا پیار واپس دیا اس کا سچا پیار..... مگر ردا وہ بے قصور ہے اس کا کوئی قصور نہیں اس کے وہ نا ہو جو میرے ساتھ کیا تھا فیضان نے ...." اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ردا کب آکر اس کے بیٹھ گئی اسے پتا بھی نا چلا

"رابعی؟" ردا کی آواز پر وہ چونکی

اس نے دائیں جانب دیکھا ردا اس کے پاس زمین پر بیٹھی تھی اس کی آنکھ میں آنسوں تھے

" ردا تو اسے بھول جا" رابعی نے التجا کی

" میں کوشش کر رہی ہوں پر میں کیا کروں رابعی میں اسے بھول نہیں پا رہی" وہ رابعی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ بینچ پر بیٹھا تھا کہ سامنے سے ردا چلتی ہوئی آرہی تھی   وہ کھڑا ہوگیا ردا اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سائیڈ پر لے گئی جہاں کوئی ان کی بات نہ سن سکے

"ردا" فیضان نے کہا

" بس چپ اب میری سنو" ردا نے انگلی اٹھا کر سرخ آنکھوں کے ساتھ کہا

"میں ارسلان کو بھول نہیں پارہی تھی ہر روز مر رہی تھی اس کے بنا زندگی مجھے جیسے عذاب لگتی تھی اور پھر....پھر تم آئے میری  زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں لے کر ہنستے ہنساتے مجھے دوبارہ محبت کرنا سکھا دیا اور اب...." وہ کہتی چلی جا رہی تھی اور آنسوں مسلسل بہ رہے تھے

"اب جب میں خوش رہنے لگی تھی تو..... " وہ اس کا کالر پکڑے ہوئے تھی 

"کیوں کیا تم نے ایسا صرف میرے ساتھ نہیں ان تمام لڑکیوں کے ساتھ جو تمہاری محبت میں اندھی ہوکر تم پر اعتبار کرتی تھی" اس کا کالر چھوڑ کر اب وہ دو قدم پیچھے ہٹی تھی

فیضان کا چہرہ بھیگ گیا تھا

" ردا میں مانتا ہوں مجھ سے غلطیا ہوئی ہیں میں بہت سی لڑکیوں کا دل توڑا ہے پر مجھے دیکھو ردا میں وہ فیضان نہیں رہا مجھے میری غلطیوں کی سزا مت دو مجھے معاف کردو" فیضان نے تڑپ کر کہا

" کر دیتی اگر تم نے یہ صرف میرے ساتھ کیا ہوتا پر تم نے میری جان سے پیاری دوست رابعی کو دھوکا دیا تھا" ردا نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا

" رابعہ؟" فیضان کے مونہہ سے نکلا جو بلکل ردا کے پیچھے آکھڑی ہوئی تھی۔

ردا نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے پیچھے رابعی کھڑی تھی 

وہ فیضان کے پاس آکر رک گئی

"میری ردا سے دور رہنا" اس نے غصے سے کہا

" چلو ردا" اس نے ردا کا ہاتھ پکڑا اور جانے کے لیے مڑی

"رابعی مجھے معاف کردو مجھ سے جو بھول ہوئی اس کی سزا مت دو مجھے میں ردا سے سچی محبت کرتا ہوں" فیضان نے منت کی

" وہی محبت جو تم ہر لڑکی سے کرتے ہو" رابعی نے چبا کر کہا

" نہیں میں بدل چکا ہوں میں ردا کے بنا اپنی زندگی تصور بھی نہیں کر سکتا رابعی میں ویسا نہیں رہا ردا کی محبت نے مجھے بدل دیا" فیضان گڑگڑایا

مگر وہ دونوں کوئی جواب دیے بنا وہاں سے چلی گئی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ہماد اور رابعی کی شادی تہ ہوچکی تھی اگلے مہینے ان کی شادی تھی سب تیاریاں کر رہے تھے

" ہماد بیٹا تم رابعی کو شوپنگ پر لے جانا شادی میں کم وقت بچا ہے اسے جو چاہیے ہو دلوا دینا" انیلہ بیگم نے کہا

" اچھا لے تو جاؤں گا پر یہ دیر نا لگائے مجھے اور بھی بہت کام ہیں" اس نے رابعی کو دیکھتے ہوئے کہا جو اس وقت فروٹ کاٹ رہی تھی

"مجھے نہیں جانا اس کے ساتھ ابھی سے باتیں بنا رہا ہے یہ مجھے شوپنگ نہیں کرنے دیگا جلدی جلدی کر کے" اس نے منہ بناتے ہوئے کہا

" ہماد ایسے نہیں کرتے بری بات اس کی شادی کی شاپنگ ہے تسلی سے ہی کرے گی نا " انیلہ نے سمجھایا

"ارے مما میں تو یونہی چھوڑ رہا تھا اس کو مجھے کیا بازار میں ہی بیٹھی رہے بھلے" ہماد نے رابعی کی پلیٹ سے سیب کا پیس اٹھاتے ہوئے کہا

" دیکھ رہی ہیں آپ تائی امی؟" رابعی نے خفگی سے کہا

" اب دونوں کی شادی ہو نے والی ہے کیسے بچوں کی طرح لڑ رہے ہو" انیلہ نے ڈانٹا تو دونوں چپ ہوگئے 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 وہ ردا کو زبردستی شاپنگ پر لے آئی ساتھ ردا بس چپ تھی پورے ٹائم جو پوچھتے بس جواب دے دیتی اس بات کو ہماد اور رابعی دونوں نے نوٹس کرلیا

" ارے ہماد کیسا ہےتو یار" سامنے سے آتے لڑکے نے کہا

" دانش ؟میں ٹھیک ہوں تو بتا" ہماد نے کہا

" کیا کر رہا ہے آج کل؟" 

" بس یار شادی ہے شاپنگ وغیرہ" ہماد نے مسکرا کر کہا

" Finally توشادی کر رہا ہے "

اور دونوں ہنسنے لگے ہماد ردا اور رابعی کا بھی تعارف کروا چکا تھا وہ اب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ردا کی نظر فیضان پر پڑی جو فرخ کے ساتھ بیٹھا تھا رابعی بھی اسے دیکھ چکی تھی وہ سائیڈ میں گئی اور ہماد کو اشارہ کیا

" Excuse me" 

ہماد کہ کر اٹھا

ٹیبل پر ردا اور دانش بیٹھے تھے 

" یہ لیلہ مجنوں کہاں چلے گئے؟" دانش نے کہا اور ردا ہنسنے لگی تبھی فرخ کی نظر ردا پر پڑی

اس نے فیضان کو بتایا تو فیضان بھی کشمکش میں پڑ گیا

اکیلی ردا وہ بھی ایک لڑکے کے ساتھ نہیں وہ ایسی نہیں ہے فیضان نے سوچا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

رات گئے وہ اپنے کمرے میں بس لیٹی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسو دور تھی تبھی سیل فون بجنے لگا

سکرین پر فیضان لکھا تھا اس نے کال کاٹ دی لیکن مسلسل کال آنے پر اس نے اٹھا لی

"کیا ہے کیوں تنگ کر رہے ہو؟" ردا جھنجھلائی

" کل تمہارے ساتھ کون تھا؟" فیضان نے پوچھا

" کیوں بتاؤں تمہیں میں تم ہو کون پوچھنے والے" رفا نے جھاڑا

" ردا پلیز" فیضان نے کچھ کہنا چاہا پر ردا نے اس سے پہلے ہی کہا

"منگیتر تھا میرا وہ شادی کر رہی ہوں میں" ردا نے جھوٹ کہا

" نہیں تم ایسا نہیں کر سکتی میرے ساتھ" فیضان تڑپا

" کیوں تم نے بھی تو لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا" ردا نے احساس دلوایا

" میں مر جاؤں گا ردا ایسا مت کرو" فیضان کی آواز بھر آئی

"تو مر جاؤ" ردا نے کہا اور فون کاٹ دیا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"اس نے وو کیا نماز پڑھی اور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی اللہ سے آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے کتنی لڑکیوں کا دل توڑا تھا اور ان کی بددعا اس کے سامنے آگئی تھی اس کا ہر گنا طمانچے کی طرح اس کے منہ پر لگ رہا تھا وہ آج بہت رویا پر اسے سکون نہیں ملا 

اس کے زہن میں بس یہی بات گھوم رہی تھی ردا کی شادی ہو رہی کے اسے اس کے گناہوں کی سزا مل گئی 

اس نے ردا کو کھو دیا

وہ اٹھا اور کیچن میں گیا وہا سامنے ہی چھری پڑی تھی اس نے اسے اٹھایا اپنے ہاتھ کی نس پر رکھا

تبھی عاشی میں آئی اور فیضان کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر گھبرائی

" یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ مما؟" وہ چلائی

لیکن اس سے پہلے وہ کچھ کرتی فیضان چھری چلا چکا تھا۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی فیضان کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کے آنسوں بار بار یاد آرہے تھے اسے

" یہ لو گرما گرم چائے" رابعی چائے لے کر آئی

"تھینک یو" ردا نے مسکرا کر کہا

" ردا؟" رابعی نے کہا

" مجھے لگتا ہے فیضان بدل گیا ہے ورنہ وہ اس دن روتا نہیں" رابعی نے سنجیدگی سے کہا وہ خاموش تھی

" اور اگر وہ تمہیں بھی دھوکا دے رہا ہوتا تو وہ رشتہ نہیں بھیجتا" رابعی نے دوبارہ کہا

ردا خاموش رہی تبھی ردا کا سیل فون بجنے لگا  انجانا نمبر تھا اس نےاٹھایااور کان سے لگایا

" ہیلو" ردا نے کہا

" میں عاشی بول رہی ہوں ردا" عاشی کی آواز پر وہ چونکی جس کی آواز بھری ہوئی تھی

" عاشی ؟" ردا نے کہا

" میرا بھائی ہوسپیٹل میں مر رہا ہے ردا اس نے اپنی نس کاٹ لی" عاشی نے روتے ہوئے کہا

" کیا؟" ردا کھڑی ہوئی 

 " کیا اب بھی تمہیں میرا بھائی دھوکےباز لگتا ہے؟ "  ردا کے حواس جیسے روئی کی مانند اڑرہے تھے دو آنسوں اس کے رخسار سے پھسلے

رابعی ردا کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی

" کیا ہوا ہے ردا؟" رابعی نے اس کا بازوں پکڑ کر پوچھا تو وہ وہ حواس میں آئی

" وہ...وہ فیضان نے خود کشی......کک.... کوشش...." ردا کی ہچکیاں بندھ گئی رابعی اس کی بات سمجھ گئی تھی

" جاؤ" اس نے کہا

ردا نے حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا 

"میں کہ رہی ہوں نا جاؤ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے" رابعی نے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

اور تیزی سے بھاگ کر روم سے نکل گئی اور رابعی میں دعا کی کہ سب ٹھیک ہوجائے

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"ہماد " وہ اپنے کمرے سے نکل رہا تھاکہ رابعی کی آواز پر رکا

" ہاں" ہماد نے رابعی کو دیکھ کر کہا

" فیضان ہوسپٹل میں ہے اس نے خود کشی کی کوشش کی ہے" رابعی نے بتایا

ہماد سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا

" ہماد وہ ردا سے سچا پیار کرتا ہے کیا اسے ہم ایک موقع نہیں دے سکتے؟" رابعی نے کہا

" نہیں کل کو اگر اسں نے ردا کو بھی چھوڑ دیا پھر؟" ہماد نے سوالیاں نظروں سے رابعی کو دیکھا

" وہ نہیں چھوڑے گا ردا کو وہ مرنے کو تیار ہے اس کے پیچھے اور بھولو مت ردا بھی اسے چاہتی ہے" رابعی نے جیسے یاد دلوایا ہماد خاموش رہا

" اور جب میں نے اسے معاف کردیا تو آپ کیوں نہیں کر رہے اپنی بہن کی خوشی کے لیے ہی کردو وہ فیضان کے بغیر خوش نہیں ہے ہماد " رابعی نے بتایا

" اور میرے اور اس کے بیچ محبت کبھی تھی ہی نہیں اس نے وقت گزارا اور میں نے ضد تمہاری نفرت میں" رابعی کہتی چلی جا رہی تھی

" محبت کیا ہوتی ہے یہ تو میں نے آپ کو کھونے کے بعد جانا مجھے محبت صرف آپ سے تھی اور ہے جب آپ نے مجھے معاف کردیا تو ردا کی خوشی کے لیے فیضان کو کیوں نہیں؟ ہماد پلیز اسے معاف کردو وہ اپنے کیے کی سزا بھگت چکا ہے" رابعی نے ہماد کو سمجھاتے ہوئے کہا اور ہماد خاموش تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ بھاگتی ہوئی ہسپتال آئی عاشی ردا کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی 

"کیا ہوا فیضان کو؟" ردا نے آتے ہی کہا آنسوؤں سے اس کا چہرہ بھیگا ہوا تھا

"میرا بھائی تمہارے لیے مر رہا ہے ردا دعا کرو وہ ٹھیک ہوجائے" عاشی نے ردا کے گلے لگتے ہوئے کہا

" نن...نہیں اسے کچھ نہیں ہوگا" ردا بڑبڑائی

" اسے معاف کردو بیٹا میرے بیٹے سے نادانیا ہوئی ہیں انجانے میں وہ تم سے بہت پیار کرتا دیکھو تمہارے لیے اس نے اپنی نس کاٹ لی" فیضان کی ماں روتے ہوئے کہنے لگی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

"یا اللہ فیضان کو کچھ نہ ہو میں نے اسے معاف کردیا ارسلان کی طرح وہ بھی چلا گیا تو؟ تو  میں بھی مر جاجؤں گی میں دوبارہ وہ ععزیت برداشت نے کر سکتی اللہ اسے کچھ نہ ہو"  وہ رو رو کر دعائیں کر رہی تھی 

وہ چپ چاپ آکر بینچ پر بیٹھ گئی فیضان کو ابھی تک حوش نہیں آیا تھا

تبھی سامنے سے رابعی اور ہماد آتے ہوئے نظر آئے

"بھائی؟" وہ ان کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی

" کیسی طبعیت ہے فیان کی؟" رابعی نے پوچھا

" پتا نہیں حوش نہیں آیا" اس کی آنکھوں میں نمی تھی ہماد نے ردا کو گلے سے لگایا 

" بھائی وہ میری وجہ مر گیا تو میں خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی" ردا نے روتے ہوئے کہا

"مم..... میں نے اس سے جھوٹ کہ دیا تھا کہ میں شادی کر  رہی ہوں اسی لیے اس نے...." وہ رو رہی تھی تبھی نرس قریب آئی

" انھیں حوش آگیا ہے آپ مل سکتے ہیں" کہ کر وہ چلی گئی

سب اندر چلے گئے پر ردا وہیں کھڑی تھی اس میں ہمت نہیں تھی اسے دیکھنے کی اسے اس کی محبت کا احساس ہوگیا تھا اس نے رب کا شکر ادا کیا⁦

❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ کمرے میں آئی تو فیضان اسے دیکھتے ہی بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا

" ردا " اس نے پکارا وہ اس کے قریب آکر رک گئی

"مم...مجھے معاف کردو ردا" فیضان نے کہا

ردا کی آنکھ سے آنسوں گرا مگر وہ خاموش تھی

" مجھے معاف کردو پلیز مجھ سے ردا کو مت چھینیے پلیز میں جی نہیں سکتا" اس نے رابعی اور ہماد کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے کہا

" ہم تمہیں معاف کردیتے ہیں پر ایک شرط پر" رابعی نے کہا سب اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے

"جو بھی شرط ہو میں سب مان لونگا" فیضان بنا جھجھکے ہوئے کہا

" تم ردا کو ہمیشہ خوش رکھو گے" رابعی نے مسکرا کر کہا

فیضان رابعی بات سن کر بے ساختہ مسکرا دیا اور ردا کو دیکھنے وہ بھی مسکرا دی دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر تھی

وہ آج بہت خوش تھا کیوں کے اسے ردا مل گئی تھی اور معافی بھی....

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

" ردا کتنی خوش تھی نا" اس نے سیڑھی چڑھتے ہوئے کہا

ہماد اسے ایک ٹک دیکھ رہا تھا

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو" رابعی نے پوچھا

وہ وہیں سیڑھی پر رک گئے

" تم نے کتنی آسانی سے سب کچھ ٹھیک کردیا" ہماد نے سنجیدگی سے کہا

"ہماد تمہیں پتا ہے جو رشتے ادھورے رہ جاتے ہیں نا وہ بہت تکلیف دیتے ہیں" اس نے کہا

" جب تم مجھے چھوڑ کر گئے تھے نا تو مجھے ایسا لگا جیسے ہمارا رشتہ کبھی پورا نہیں ہوگا اور" رابعہ کچھ کہتی اس سے پہلے ہی ہماد نے اس کے لبوں پر انگلی رک دی

" آہاں پرانی باتیں بھول جاؤ اب تو ویسے بھی ہماری نئی زندگی شروع ہونے جا رہی ہے " ہماد نے پیار سے کہا وہ مسکرا دی 

"پھر کیا خیال ہے شادی کے بارے میں؟" ہماد نے شرارت بھری نظروں سے کہا 

وہ جیسے سمجھتے ہی اسے گھورنے لگی اور سر جھکا کر مسکرانے لگی

" جا رہی ہوں میں " وہ اوپر چھڑھنے لگی 

" جواب تو دے دو یار" ہماد نے دوبارہ کہا

" منع کردوں تو؟" ردا نے چھیڑا

" تو میں زبردستی کرلوں گا" ہماد نے مسکرا کر کہا اور وہ بنا کچھ کہے تیزی سےسیڑھی چڑھ گئی اور وہ اپنا قہقہہ ضبط نہ کرسکا.....  

       ⁦⁦ختم شد

             

 مزید ناولز کے لئے نیچے جائیں ، یہاں مکمل اور قسط وار سبھی ناولز کے لنکس دئیے گئے ہیں۔

آپ مزید ناول کی پکس دیکھنے کے لیے نیچے جائیں ، اور ہماری ویب سائٹ کو وزٹ کریں ، اگر آپ نے ابھی تک مدیحہ شاہ کے مکمل اور قسط وار ناولز نہیں پڑھے ۔ تو جلدی سے مدیحہ شاہ کے سبھی ناولز کو پڑھیں اور اپنا فیٹ بائک دیں ۔

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

Adhure Rishty Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel     Adhure Rishty written  Irsa Rao.  Adhure Rishty  by  Irsa Rao is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be delete

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages