Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 3 to 4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 6 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 3 to 4

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 3 to 4

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 3'4

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

امی جان میں سوچ رہی ہوں اب آزر سے منال کے متعلق بات کر لوں" سلمہ بیگم نے دادو کو مخاطب کر کے کہا دونوں اس وقت لان میں بیٹھی صبح کی دھوپ سینک رہی تھیں۔

" ہاں بیٹا سوچ تو میں بھی یہی رہی تھی اب آزر نے ماشاء اللہ سے تعلیم مکمل کر کی ہے اپنا بزنس سنبھال رہا ہے اب اس کے بارے میں بھی سوچو منال ماشاء اللہ سے گھر کی بچی ہے ایسی بچیاں نصیب والوں کو ملتی ہیں" دادو نے خوشی سے کہا۔

" میں کرتی ہوں بات ایک دو دن میں آزر سے مجھے یقین ہے وہ ہماری خوشی میں خوش ہوگا" سلمہ بیگم کا لہجہ پر مسرت تھا منال تھی ہی لاکھوں میں ایک اور اس کی پرورش بھی سلمہ بیگم نے کی تھی تو کیوں نہ انہیں فخر ہوتا۔

" بس مجھے یہی ڈر ہے آزر باہر سے پڑھ کے آیا ہے اس کی اپنی کوئی پسند نہ ہو ورنہ میری منال کا دل ٹوٹ جائے گا میں جانتی ہوں منال کے دل کی بات وہ خود سے کبھی نہ کہے گی مگر میں تو ماں ہوں اپنے بچوں کے دل کے حال میں کیسے نہ جانوں گی" سلمہ بیگم نے ٹھندی سانس بھرتے کہا۔

" ٹھیک کہہ رہی ہو بیٹا بس اب میری بھی عمر ہوگئی ہے اپنے اکلوتے پوتے کی خوشی دیکھ لوں" دادو نے امید سے کہا۔

" کیسی باتیں کر رہی ہیں امی ابھی آپ نے بہت جینا ہے بہت ساری خوشیاں دیکھنی ہیں" سلمہ بیگم نے پریشانی سے کہتے ہوئے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ دھرا۔

" خوش رہو بیٹا ڈھیروں خوشیاں دیکھو" دادو نے ان کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دعائیں دی۔

________________________

سنہری صبح کا سورج روشن تھا ایسے اس دو منزلہ سفید گھر میں دل معمول کے مطابق نکل آیا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے منال اور تائی امی دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں دادو اپنی روز مرہ کی تسبیحات کر رہی تھیں ان کے برابر میں بیٹھی شزرا کسی رسالے کی ورق گردانہ کر رہی تھی۔

" امی آزر کے ماموں مامی نے آزر کے آنے کی خوشی میں آج رات کو اپنے گھر ہم سب کو کھانے پہ انوائیٹ کیا ہے" سلمہ بیگم نے دادو کے برابر میں تخت پہ بیٹھتے ہوئے انہیں بتایا۔

"ٹھیک ہے بیٹا تیاری کر لینا" دادو نے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا۔

" اور تم زرا جلدی تیار ہو جانا ہمیشہ دیر کرتی ہو" دادو نے برابر میں بیٹھی شزرا کو گھورتے ہوئے کہا۔

"دادو ہو جاؤں گی" شزرا نے لاپرواہی سے کہا اور دوبارہ رسالے پہ جھک گئی۔

کچھ دیر بعد آزر اپنے روم سے تیار ہو کہ نکلے شزرا نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا وہ کچن کے پاس کھڑے تائی امی سے کچھ بات کر رہے تھے۔

شزرا کا دل عجب ہی تال پہ دھڑکا اس نے گھبرا کہ اپنی پلکیں جھکا لیں کہیں اس کی محبت کی ہواؤں کو بھی خبر نہ ہو جائے مگر ہواؤں کو ہو نہ ہو آزر کو ہو چکی تھی۔ اب وقت کہاں پلٹا کھاتا ہے وہ دیکھنا تھا۔

"امی میں شام تک آجاؤں گا" شزرا نے انہیں کہتے سنا اس نے سر اٹھا کہ دیکھا آزر اسی کی طرف متوجہ تھے نگاہوں کا تسادم فسوں خیز تھا۔

وہ دونوں اپنی محبت کی سرشاری پہ کھو چکے تھے اس بات سے بے خبر کہ وہاں موجود ایک اور وجود محبت کے پودے کی آبیاری کر رہا تھا ۔

آزر شام میں گھر لوٹے تو شزرا انہیں باہر لان میں ہی دیکھ گئی وہ سیدھا اس کی طرف بڑھے وہ کھڑی پودوں کو پانی دے رہی تھی آزر خاموشی سے اس کے برابر میں آکے کھڑے ہو گئے اور اس کے کانوں میں پہنی بالیوں کے واحد موتی کو دیکھا جو شاید ہولے سے ہل رہا تھا مگر وہ آزر کی موجودگی سے بے نیاز پودوں کی طرف متوجہ تھی۔

"مجھے پودوں سے حسد کرنے پہ مجبور نہ کرو" آزر نے اس کی بالیوں کے واحد موتی کو چھوتے دھیرے سے سرگوشی کی وہ ساکت ہوئی مگر پلٹ کے نہ دیکھا۔

"پودوں سے کیسا حسد؟" شزرا نے ناسمجھی سے پوچھا مگر ہنوز نگاہیں چرا کے کھڑی تھی۔

"میرے علاوہ تمہاری توجہ جس طرف بھی ہوگی مجھے اس سے حسد ہی ہوگا" ان کی آواز نہایت مدھم تھی مگر شزرا شاید دل کے کانوں سے سن رہی تھی اسے یہ آواز اپنے آس پاس گونجتی محسوس ہوئی وہ گھبرا کے پلٹی سیاہ نگینے بھوری آنکھوں سے ٹکرائے تھے وہ ان آنکھوں میں آباد محبت کے جہان کو دیکھ کے دنگ رہ گئی کیا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کرسکتا ہے اس نے اپنی دھڑکنوں کو شور مچاتے سنا وہ گھبرا کے ایک قدم پیچھے ہٹی آزر ہونٹوں پہ مدھم سی مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

" میں نے کہا تھا نہ مجھ سے محبت ہو جائے گی تمہیں" وہ شاید پتھر کی ہوئی تھی اس کے دل کی بات آزر بناء بولے کیسے سمجھ گئے اس نے گھبرا کے نگاہیں چرائیں۔سامنے پھول پہ شاید کوئی تتلی آکے بیٹھی تھی محبت کے رنگ لئے تمام رنگوں سے مزین۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

ٹھندی ہوا ان کے دلوں کو گدگدا رہی تھی اس نے اپنی شور مچاتی دھڑکنوں کی آواز سنی۔

"کیا میری قسمت میں انتظار لکھا ہے" آزر نے ٹھنڈی سانس بھرتے دور افق میں ڈوبتے سورج کو دیکھا جس کی نارنجی شعائیں انہیں اپنے آس پاس رقص کرتی محسوس ہوئیں۔

"لیکن یہ انتظار بہت خوبصورت ہے" انہوں نے ایک دلکش سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا شزرا جیسے ان کی مسکراہٹ میں کھو سی گئی کیا کوئی انساں ایسے بھی پورے حق کے ساتھ دل پہ قبضہ کر سکتا ہے وہ صرف سوچ سکی اور اگلے ہی پل اپنی سوچ پہ مسکرا دی۔

"اگر انتظار خوبصورت ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے" شزرا نے مسکراتے ہوئے انہیں چھیڑا آزر نے ایک آنکھ کی آبرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"میں تو ساری زندگی انتظار کرنے کو تیار ہوں بس تم یقین دلا دو کہ تم صرف میری ہو" ان کا لہجہ محبت کی تپش لئے تھا شزرا کو اپنے گال دہکتے محسوس ہوئے۔

 "بہت فضول بولتے ہیں آپ" شزرا نے اپنی کیفیت سے تنگ آکے جھنجھلا کے کہا آزر نے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر سمجھ آنے پہ ان کا قہقہہ بے سہتا تھا۔

"تم کچھ نہیں بولو گی تو سب مجھے ہی بولنا پڑے گا نہ" آزر نے شرارت سے کہا۔

"میرے حصے کا بھی آپ بول لیں" شزرا کے گالوں پہ چھائی لالی اس کی محبت کا پتا دے رہی تھی۔

" تم جواب دے دو میں بولنا کم کردوں گا" انہوں نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ٹھندی سانس بھر کہ اسے بیچارگی سے دیکھا۔

" آپ بولنا تھوڑا کم کریں میں جواب دے دوں گی" شزرا نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور وہاں سے اندر جانے کے لئے پلٹی۔

"میرا جواب۔۔۔۔۔" آزر نے اسے اندر جاتے دیکھ کے آواز لگائی۔

" آپ بہت بولتے ہیں" انہیں شزرا کی آواز سنائی دی۔

" پاگل۔۔۔۔۔۔" وہ دور جاتی شزرا کو گھور کہ رہ گئے مگر اس کے گالوں سے پھوٹتی شفق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔

__________

وہ لوگ تیار ہو کہ آزر کے ماموں مامی کے گھر پہنچے تو وہ لوگ پہلے سے ہی ان کے استقبال کے لئے موجود تھے سب خوشگوار موڈ میں بیٹھے باتیں باتیں کر رہے تھے برہان کی نگاہیں بار بار بھٹک کے شزرا کے چہرے پہ جاٹکتیں جانے اس میں ایسی کون سی کشش تھی کہ اس کا دل بار بار اس کی طرف کھینچا چلا جا رہا تھا شزرا اس سے بے نیاز سویرا اور منال کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی اس کی چوڑیوں کی کھنک برہان کا دل کھینچے چلے جا رہی تھی اس خود بھی اپنی کیفیت پہ حیرت ہوئی وہ دل پھینک مردوں میں سے ہر گز نہیں تھا مگر شزرا میں کچھ خاص تھا ایک بار دیکھو تو بار بار دیکھنے کی تمنا دل میں جاگ رہی تھی۔برہان کا شزرا کر دیکھنا آزر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا وہ بمشکل خود پہ ضبط کئے وہاں بیٹھے تھے ورنہ ان کاخود پہ بس نہیں چل رہا تھا وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے وہ شزرا کو وہاں سے غائب کردینا چاہتے وہ چاہتے تھے اپنی شزرا کو دنیا کی نگاہوں سے چھپا لیں مگر کس حق سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

یہ حق تو شزرا نے انہیں دینا تھا مگر وہی اس سب سے بے نیاز تھی اب آزر کو شزرا پہ بھی غصہ آنے لگا مگر یہاں وہ کوئی تماشا نہیں چاہتے تھے۔

کچھ دیر بعد کھانے کا دور چلا کھانے سے فارغ ہو کر وہ لوگ جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

منال اور شزرا سویرا کے روم میں تھیں سویرا انہیں اپنی پینٹنگز دیکھانے لے گئی تھی۔

تائی امی نے دونوں کو آواز دی تو دونوں نیچے جانے کے لئے روم سے نکل آئیں منال اور سویرا باتیں کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں جبکہ شزرا گھر میں لگی پینٹنگز کا محویت سے تک رہی تھی ایک پینٹنگ کے سامنے وہ جا کے رک گئی وہ پینٹنگ اپنی مثال آپ تھی بلاشبہ سویرا ایک بہترین پینٹر تھی۔

"آپ کو پینٹنگز پسند ہیں؟" برہان کی آواز نے اس کی محویت کو توڑا۔

"جی" اس نے یک لفظی جواب دیا.

"مجھے بھی بہت پسند ہیں۔۔۔یہ سب سویرا کے ہاتھ کہ پینٹنگز ہیں" برہان نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا۔

"جی سویرا نے بتایا ابھی۔۔۔۔وہ بہت اچھی پینٹر ہیں" شزرا نے مسکراتے ہوئے سویرا کی تعریف کی۔

"شزرا۔۔۔۔۔۔!!!" آزر نے سیڑھیاں چڑھتے شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے پیچھے پلٹ کے دیکھا تو آزر تیوریوں پہ بل ڈالے اوپر چڑھ چکے تھے۔

"سب نیچے ویٹ کر رہے ہیں اور تم یہاں کھڑی ہو" انہوں نے برہان کو نظر انداز کر کے شزرا سے کہا۔

"جی میں بس آرہی تھی" شزرا کو ان کا لہجہ عجیب سا لگا۔

"چلو" آزر سے پورے حق سے شزرا کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کہ نیچے چلے گئے اپنے اس رویے سے وہ برہان کو بن کہے بہت کچھ جتا چکے تھے۔

پورے راستے وہ بہت خاموش خاموش سے تھے گھر آکے بھی سیدھے اپنے روم میں جانے لگے جب تائی امی نے انہیں مخاطب کیا۔

"آزر بیٹا کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے" تائی امی نے ان کی حالت بھانپتے ہوئے پریشانی سے پوچھا۔

"جی امی ٹھیک ہے بس سر میں تھوڑا درد ہے آرام کروں گا تو صحیح ہو جائے گا" آزر نے دو انگلیوں سے اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے کہا۔

"شزرا جاؤ بیٹا آذر کو کافی بنا دو" تائی امی نے شزرا کو مخاطب کیا جو آرام سے صوفے پہ بیٹھی تھی آزر نے ایک نظر شزرا کی طرف دیکھا اور اپنے روم میں چلے گئے۔

کچھ دیر بعد شزرا آزر کے روم میں کافی لے کہ گئی تو روم میں اندھیرا چھایا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کہ لائٹ کھولی سامنے بیڈ پہ ہی آزر آڑھے ترچھے سے لیٹے تھے آزر نے گردن گھما کہ اس کی طرف دیکھا اور اٹھ کہ بیٹھ گئے۔

شزرا نے کافی ان کی طرف بڑھائی مگر انہوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔

"طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟" شزرا کے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا آزر کی سرخ آنکھیں شدید سر درد کا پتا دے رہی تھیں۔

"میں ٹھیک نہیں ہوں" انہوں نے سر جھکائے کہا۔

"کیا ہوا ہے؟ بتائیں مجھے" شزرا نے ان کا چہرہ اپنی طرف کرتے نرمی سے پوچھا ان کے آسودہ چہرے پہ ایک بے چینی سی تھی آزر نے پل بھر کو جھانک کہ اس کی گہری جھیل سی آنکھوں میں دیکھا وہاں شاید محبت کا سمندر موجزن تھا۔

"بس تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں" آزر نے اپنا سر اس کے کندھے پہ رکھتے کہا پل بھر کو وہ ساکت ہوئی تھی یہ شخص اسے اپنانا چاہتا تھا دنیا سے چھپانا چاہتا تھا پھر کیوں وہ اس کی محبت قبول کرنے سے ڈرتی تھی کیوں وہ اسے ہی قبول نہیں کر پارہی تھی کیا چیز تھی جو اسے روک رہی تھی وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔

"میں یہیں ہوں آزر" وہ صرف اتنا ہی بول سکی آزر نے سر اٹھا کہ اسے دیکھا۔

"اسے میں محبت کا اقرار سمجھوں"پتا نہیں وہ پوچھ رہے تھے یا بتا رہے تھے مگر جو بھی تھا وہ صحیح سمجھے تھے۔

شزرا خاموش رہی تو آزر بھی خاموش تھے۔

"آپ کی کافی ٹھندی ہورہی ہے" شزرا نے ان کی توجہ کافی کی جانب مبذول کروائی۔

"ہہہم" وہ سیدھے ہو کہ بیٹھ گئے اور کافی کا مگ لبوں سے لگا لیا۔

کافی پینے کے بعد شزرا انہیں سردرد کی میڈیسن دے کہ روم سے باہر آگئی.

وہ سونے لیٹی تو نیند بھی اس سے خفا ہو گئی کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتی رہی وہ جتنا سونے کی کوشش کرتی نیند اتنا ہی اس سے دور بھاگ رہی تھی۔

آج کل تو نیندیں بھی اس پہ مہربان نہ تھیں۔

عجیب بے چین سی کیفیت تھی وہ خود بھی اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہی تھی۔

تھک ہار کے وہ اٹھی اور منال کے روم کی جانب بڑھی اس نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو دروازہ بناء کسی آواز کے کھلتا چلا گیا۔

کمرے میں نائٹ بلب روشن تھا منال شاید سو رہی تھی وہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر پلٹ کے آنے لگی تو اس اندھیرے میں اس کی نظر منال کے برابر میں رکھی کھلی ڈائری پہ پڑی وہ دھیرے سے آگے بڑھی اور کھلی ڈائری بند کر کے سائڈ ٹیبل پہ رکھنے لگی مگر بند کرتے ہوئے اس کی نظر شاید آزر کے نام پہ پڑی تھی جو اس ڈائری میں لکھا تھا اس نے اپنا وہم سمجھا اور ڈائری واپس رکھنے لگی مگر کچھ سوچ کے وہ ٹھٹھک گئی اور ڈائری کھول لی۔

ڈائری میں جگہ جگہ آزر کا نام بکھرا پڑا تھا وہ اس اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے آزر کے نام کے جگمگاتے لفظوں کو دیکھ رہی تھی شاید سانسیں ساکن ہوئی تھیں وہ کانپتے ہاتھوں سے ورق پلٹ رہی تھی جسم میں جیسے جان ختم ہو گئی تھی وہ کبھی سوئی منال کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی ڈائری کو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا سوچے کیا سمجھے اس کی دھڑکن تیز اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ واضح تھی یہ خواب تھا یا حقیقت وہ بے یقین ہوئی۔۔۔۔۔۔۔!!!

 اگر یہ حقیقت ہے تو یہ حقیقت اس کی روح کھینچ رہی تھی اس کا ویران چہرہ اس کے اندر کی اذیت بتا رہا تھا چہرے پہ تاریک سائے لہرا رہے تھے ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کے بے مول ہوا تھا اس کے ہاتھ بے جان ہو کہ پہلو میں گرے ڈائری چھوٹ کے فرش پہ گر گئی وہ بے جان مجسمہ بنی کھڑی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ زرا سنبھلی تو اس نے فرش سے ڈائری اٹھائی اور وہاں سے اپنے روم میں آگئی۔

مگر روم میں آتے ہی صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا وہ ٹھنڈے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی آنسو قطار در قطار آنکھوں سے بہہ رہے تھے مگر لب خاموش سے تھے۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے ڈائری اٹھائی اس کا ایک کھلا صفحہ اس کے سامنے تھا شاید وہ صفحہ جو منال لکھتے لکھتے سو گئی تھی۔

اس نے برستی آنکھوں سے وہ پڑھنا شروع کیا۔

"میں نہیں جانتی مجھے آپ سے کب محبت ہوئی مگر جب سے یہ احساس دل میں جاگا ہے نہ مجھے دنیا خوبصورت لگنے لگی میں خوش رہنے لگی مجھے جینے کی وجہ سمجھ آنے لگی،یہ احساس بہت خوبصوربت ہے کسی کو چاہنا اور چاہتے ہی چلے جانا میں نہیں جانتی آپ کو مجھ سے محبت ہے یا نہیں،آپ کے دل میں میرے لئے کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں مگر میں صرف یہ جانتی ہوں میری کل کائنات آپ ہیں اور یہ احساس ہر احساس پہ بھاری ہے میں لفظوں میں شاید بیاں نہ کر سکوں اپنی محبت مگر جو محبت میں نے آپ سے کی ہے وہ کبھی عیاں نہ کر سکوں۔جب پہلی بار آپ سے محبت ہوئی جب میں نے جانا تھا کہ ایک انسان کی محبت ہمیں کتنا بدل دیتی ہے مجھے ہر وہ چیز اچھی لگنے لگی جو آپ کو پسند ہے میں نے پہلی بار جانا کہ موسم بھی خوبصورت ہوا کرتے ہیں ٹھنڈی ہوا دلوں کو کیسے چھیڑتی ہے پورے چاند میں محبوب کا عکس کیسے دیکھتا ہے چاندنی رات میں چاند کو دل کا حال سنانا کیا ہوتا ہے یہ زندگی کے بھید مجھ پہ آپ کی محبت کی وجہ سے آشکار ہوئے شاید آپ کی محبت ہی میرے جینے کا سہارا ہے اگر یہ محبت مجھ سے چھین لی گئی تو میں زندہ تو رہوں گی مگر شاید مردوں سے بدتر زندگی گزاروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!

شزرا نے یہ لائن پڑھ کےخوف سے ڈائری بند کی اور ٹرانس کی کیفیت سے باہر آئی۔

یہ کیسا موڑ لیا تھا زندگی نے۔۔۔۔!!!!

جب اس نے آزر کو اپنے دل میں جگہ دے دی انہیں اپنا سب کچھ ماننے لگی تو اچانک یہ طوفان کیسا۔۔۔۔۔۔

ایسا طوفان جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جانے کی طاقت رکھتا تھا۔

ساری اذیت سمٹ کے اس کے چہرے پہ آگئ تھی اسے زندگی تین لوگوں کی مثلث معلوم ہونے لگی۔

 وہ خاموش رات کہر زدہ سی معلوم ہونے لگی پھر ایک دم جب درد حد سے سوا ہوا تو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کے پھوٹ پھوٹ کے روئی اس کے علاؤہ شاید اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا دل تھا کہ ڈوب ڈوب کے ابھر رہا تھا۔

وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوتی جارہی تھی لب خاموش مگر آنکھیں برستی ہوئیں۔

رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی اور یہاں وہ محبت کے گرداب میں پھنسی اپنی حالت غیر کر چکی تھی۔

قسمت کی اس چال پہ وہ حیرت زدہ تھی۔کیا قسمت بھی کبھی ایسے بے رحم ہوتی ہے۔

ماں کو اس نے کھو دیا تھا کبھی نہ دیکھا تھا مگر ماں کے روپ میں اس کے پاس منال تھی تو اسے کبھی کمی محسوس نہ ہوئی مگر منال کے پاس کون تھا جو اسے سمیٹتا اس کی ذات یکجا کرتا۔

وہ اس تحریر کی آخری لائن پڑھ کے بکھر سی گئی تھی وہ منال کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

اور آزر۔۔۔۔۔۔۔

ان کا کیا؟ وہ کیسے رہ لیتی ان کے بغیر ابھی تو اس نے محبت کرنا سیکھی ہی تھی گلوں میں کیسے رنگ بھرتے ہیں اسے سمجھ آنے لگا تھا تو اب کیسے وہ۔۔۔۔۔

اس کے اندر صحرا سا نمو پا رہا تھا۔

اسے اپنا وجود خالی خالی سا لگنے لگا۔

شاید ساری رات وہ وہیں بیٹھی اپنی محبت کا ماتم کرتی رہی

کہیں قریب سے کہ فجر کی اذانیں سنائی دے رہی تھیں وہ جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹی۔

اس نے برابر میں پڑی ڈائری کو ہاتھ بڑھا کے اٹھایا اور اپنا ٹوٹا بکھرا وجود بمشکل سمیٹ کے اٹھی اور منال کے روم کی جانب بڑھی اس نے ڈائری سائڈ ٹیبل پہ رکھی اور ایک نظر منال کے سوئے چہرے پہ ڈالی جو اس کی اذیت اور تکلیف سے بے خبر سو رہی تھی اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور تیزی سے وہاں سے نکل کے اپنے روم میں آگئی۔

وہ وضو کر کہ جائے نماز پہ کھڑی ہو گئی آنسو مسلسل اس کے گال بھگو رہے تھے رات سے اب تک جانے کتنے آنسو بے مول ہوئے تھے اور اب حساب رکھنا بھی فضول ہی تھا۔

دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کہ رو دی اس کی ذات کی کرچیاں کمرے میں جا بجا بکھری تھیں۔

کیا مانگتی وہ دعا میں آزر کا ساتھ؟ یا منال کہ خوشی؟

اور اس کا دل جو کسی ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا اس کا کیا؟

اس سب میں وہ کہاں تھی؟

اس کی ذات کہاں تھی؟

شاید اب اس کی ذات کے بے مول ہونے کا وقت آگیا تھا۔

وہ اپنے دل سے لڑتی یا دماغ سے۔

اسے اپنا آپ مفلوج سا لگنے لگا وہ بے بسی کے آخری دوراہے پہ تھی۔

اسے لگ رہا تھا وہ تپتے صحرا میں ننگے پیر چل رہی ہے کوئی آسماں اس کے پر پہ نہ تھا،تپتا سورج اس کہ سر پہ کھڑا اسے پگھلا رہا تھا اور وہ جان کنی کی عالم میں چلتی جا رہی تھی۔سب سے بے نیاز سب سے بے خبر۔

روتے روتے جانے کب اس کی آنکھ لگی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔

نیند بھی کبھی کبھی کیسی مہربان ثابت ہوتی ہے۔

وہ نیند کی مہربان بانہوں کی آغوش میں ہر غم اور اذیت سے بے خبر سو چکی تھی۔

 صبح منال اس کے روم میں اسے اٹھانے آئی تو وہ شاید سو رہی تھی منال ایک نظر اسے دیکھ کے چلی گئی اس نے اسے اٹھانا مناسب نہ سمجھا اس نے سوچا شاید کل کی تھکن کی وجہ سے اب تک نہیں اٹھی تو وہ واپس نیچے چلی گئی۔

ہاں شاید تھکن ہی تو تھی محبت کی تھکن،رشتوں کی تھکن اور اپنے آپ سے لڑنے کی تھکن اور اس تھکن میں اس کا وجود چور چور ہو گیا تھا۔

منال نہیں جانتی تھی کل رات اس کا وجود کتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا وہ اس کی اذیت سے بے خبر اپنی محبت کی سرشاری میں مگن تھی۔

"منال بیٹا شزرا کو نہیں اٹھایا؟" تائی امی نے منال کو اکیلے واپس آتے دیکھ کے سوال کیا۔

"نہیں تائی امی وہ سو رہی ہے تو میں نے اسے اٹھایا نہیں" منال نے ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کے بیٹھتے ہوئے کہا۔

آزر جو کب سے بیٹھے شزرا کا ہی انتظار کر رہے تھے سر جھٹک کے دوبارہ ناشتہ کرنے لگے۔

انہیں عادت سی ہو گئی تھی شزرا کو دیکھ کے آفس جانے کی مگر شزرا کو وہاں موجود نہ دیکھ کے انہیں عجیب خالی پن سا لگا وہ بوجھل دل سے ناشتہ کر کے آفس چلے گئے۔

___________________________

دوپہر ہو گئی تھی مگر شزرا اب تک نہیں اٹھی تھی منال اس کے روم میں گئی اور لائٹ آن کی سامنے ہی بیڈ پہ شزرا بے سدھ سو رہی تھی منال نے اس کے قریب جا کے اسے آوازیں دیں مگر اس پہ کوئی اثر نہ ہوا منال نے اس کا ہاتھ ہلایا تو اسکا ہاتھ جلتا ہوا سا محسوس ہوا اس نے گھبرا کے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا تو اس کا ماتھا بخار کی شدت سے دہک رہا تھا۔

منال نے گھبرا کے دادو اور تائی امی کو آوازیں دیں وہ دونوں فورا شزرا کے روم کی طرف گئیں۔

"کیا ہوا بیٹا؟" دادو نے منال کے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"وہ دادو دیکھیں شزرا کو کیا ہوا ہے اٹھ نہیں رہی" منال نے شزرا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بوکھلائے لہجے میں کہا۔

"اسے تو بہت تیز بخار ہے" تائی امی بھی پریشان ہو گئیں۔

"میں بابا کو فون کرتی ہوں" منال نے روتے ہوئے دلاور صاحب کا نمبر ملایا۔

دوسری طرف چند بیلز کے بعد کال پک کر لی گئی۔

"السلام وعلیکم۔۔۔ بیٹا سب خیریت ہے" دلاور صاحب نے فون کان سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

"وہ بابا پتا نہیں شزرا کو کیا ہوا ہے آپ پلیز جلدی گھر آئیں" منال نے روتے ہوئے انہیں بتایا۔

"میں آرہا ہوں بیٹا آپ رو نہیں" وہ فوراً اپنی جگہ سے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

""کیا ہوا دلاور گھر میں سب ٹھیک ہے؟" امین صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"وہ بھائی شزرا کی طبیعت خراب ہے منال بہت رو رہی ہے۔

"چلو پھر جلدی" شزرا کی طبیعت کا سن کے امین صاحب بھی پریشان ہوگئے اور دونوں گھر جانے کے لئے آفس سے نکل گئے۔

آزر اس وقت آفس میں موجود نہیں تھے وہ سائٹ پہ تھے۔

وہ دونوں گھر پہنچے تو ڈاکٹر کو کال کردی گئی کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحب بھی آگئے وہ شزرا کا چیک اپ کرنے لگے اور کچھ انجیکشن دیئے۔

"ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟" دلاور صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔

"پریشانی اور آسٹریس کی وجہ بیہوش ہو گئیں ہیں خیر اب گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے کچھ دیر میں ہوش آجائے گا" ڈاکٹر نے دوائیوں کا نسخہ لکھتے ہوئے کہا۔

امین صاحب ڈاکٹر کو چھوڑنے باہر تک گئے۔

دلاور صاحب شزرا کے برابر میں بیٹھ گئے اور ایک نظر اس کے سوئے ہوئے چہرے پہ ڈالی۔

انہیں اپنی دونوں بیٹیاں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھیں اگر دونوں میں سے ایک کو بھی کچھ ہوتا ان کی جان پہ بن جاتی انہوں نے دونوں کو ماں باپ بن کہ پالا تھا۔

آج کسی پریشانی کی وجہ سے شزرا کی یہ حالت ہوئی تو وہ کیوں بے خبر رہی وہ خود کو بیٹھے ملامت کر رہے تھے۔

"بابا آپ آرام کرلیں کچھ دیر میں ہوں شزرا کے پاس" منال کے ان کے تھکے تھکے سے چہرے کی طرف دیکھ کے کہا۔

"نہیں آپ جاؤ جا کہ آرام کرو صبح سے ہی پریشان پھر رہی ہو میں ہوں یہاں اپنی گڑیا کے پاس" دلاور صاحب نے محبت پاش لہجے میں کہا۔

" میں کچھ بنا دیتی ہوں شزرا کے لئے جب تک یہ اٹھتی ہے" منال نے شزرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے کہا اور کچن کی طرف چلی گئی۔

شام تک شزرا کو ہوش آگیا دلاور صاحب اس کے ساتھ ہی بیٹھے تھے شزرا نے نظر گھما کر اپنے برابر میں بیٹھے شفیق باپ کو دیکھا جو دنیا کی ہر خوشی اسے کے سامنے ڈھیر کردینا چاہتے تھے  پھر سامنے صوفے پہ بیٹھی منال کی طرف دیکھا جو اس سے اس کی واحد خوشی بھی لینے کے درپے تھی۔

اسے اپنا سر گھومتا محسوس ہوا نقاہت سے اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا اسے ہلتا دیکھ کے منال فورا اس کے قریب آئی دلاور صاحب بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے منال نے اسے سہارا دے کہ بٹھایا۔

"کیسی طبیعت ہے اب میری بیٹی کی؟" بابا نے اسے پیار سے پوچھا لمحے بھر میں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں مگر وہ رونا نہیں چاہتی تھی اس نے پلکیں جھپک کہ آنسو اپنے اندر انڈیلنے کی ناکام کوشش کی۔

""میں ٹھیک ہوں بابا" اس نے آہستگی سے کہا۔

"جاؤ منال شزرا کے لئے کچھ کھانے کے لئے لے آؤ" دلاور صاحب نے شزرا کے سر پہ ہاتھ پھیرتے کہا منال فورا شزرا کے لئے کچھ کھانے کے لئے لینے چلی گئی۔

وہ واپس لوٹی تو اس کے ہاتھ میں سوپ کا باؤل تھا منال اس کے سامنے بیٹھ گئی اور ایک چمچ بھر کے اس کی طرف بڑھایا۔

شزرا کی نگاہوں کے سامنے ایک بار پھر رات کا سارا منظر دوڑ گیا وہ ڈائری،وہ اظہار محبت،آزر کا نام سب کچھ۔۔۔۔۔۔۔!!!!

اس کے دماغ پہ جیسے ہتھوڑے سے پڑنے لگے۔

آنکھوں میں مرچیں بھر گئیں ہر منظر دھندلا دھندلا سا لگنے لگا۔

"شزرا منہ کھولو بیٹا" دلاور صاحب نے اسے مخاطب کیا اس نے چونک کے سامنے بیٹھی منال کی طرف دیکھا جو چہرے پہ دنیا جہاں کی محبت لئے اسی کی منتظر تھی شزرا کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔

"مجھے نہیں کھانا یہ" شزرا نے منہ پھیر لیا۔

"تھوڑا سا کھا لو بس" منال نے محبت سے ایک بار پھر اسے کھلانے کی کوشش کی۔

"میں نے کہہ دیا کہ نہیں کھانا تو آپ کیوں میرے پیچھے پڑ گئیں ہیں" شزرا نے بیزاری سے منال سے کہاں اور واپس لیٹ گئی۔منال پل بھر کو ساکت ہوئی تھی شزرا نے ایسے اس سے کبھی بات نہیں کی تھی پھر آج کیوں۔۔۔۔۔!!!

"کوئی بات نہیں بیٹا ابھی نہیں کھانا تو تھوڑی دیر میں کھا لینا" دلاور صاحب نے شزرا کو پچکارتے ہوئے کہا۔

"منال یہ یہں رکھ دو بیٹا"دلاور صاحب نے منال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔

"جی" منال نے یک لفظی جواب دیا اور باؤل رکھ کے روم سے نکل گئی۔

"شزرا کیا ہوا بیٹا آپی سے ایسے کوئی بات کرتا ہے کیا" منال کے جانے کے بعد دلاور صاحب نے شزرا کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھا شزرا نے اپنی سرخ آنکھیں کھول کے انہیں دیکھا مگر کچھ نہ بولی۔

"ابھی طبیعت ٹھیک ہو جائے تو آپی سے سوری بول دینا ٹھیک ہے" وہ محبت سے اسے سمجھا رہے تھے شزرا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

کچھ دیر بعد وہ دوبارہ سو چکی تھی دلاور صاحب خاموشی سے اس کے پاس سے اٹھ کہ منال کے روم کی طرف گئے وہ جانتے تھے منال کا دل بہت نازک سا ہے زرا سی ٹھیس سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

وہ اندر داخل ہوئے تو منال بیڈ پہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔

"بیٹا آپ جانتی ہو نہ شزرا کی طبیعت خراب ہے اس لیے اس نے تھوڑا مس بیہو کردیا اب طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو دیکھنا فوراً تمہارے پاس بھاگی چلی آئے گی" وہ اسے نہایت شفقت سے سمجھا رہے تھے۔

"جانتی ہوں میں بابا اور مجھے برا نہیں لگا وہ میری گڑیا ہے میں کیوں اس کی بات کا برا مانوں گی۔۔۔۔میں اس لئے رو رہی ہوں اس کی طبیعت زیادہ خراب ہے ورنہ وہ ایسے کبھی نہیں کرتی" منال نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

"انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گی.ابھی وہ سو رہی ہے کچھ دیر میں اٹھے گی تو میڈیسن دے دینا" انہوں نے منال کے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔

_______________________

شام میں آزر گھر لوٹے تو تائی امی انہیں لاونج میں ہی دیکھ گئیں۔

"اتنا سناٹا کیوں ہے گھر میں؟" انہوں نے ادھر اُدھر دیکھتے پوچھا ورنہ وہ ہمیشہ گھر آتے تھے تو شزرا انہیں سامنے ہی دیکھ جاتی یا کسی کونے سے شزرا کی ہنسی کی آواز آرہی ہوتی تو کبھی شزرا دادو سے ضد کرتی ہوئی دیکھائی دیتی مگر آج ہر طرف سناٹا چھایا تھا۔

"شزرا کی طبیعت خراب ہے اس لئے سناٹا چھایا ہے" تائی امی نے ان کے ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔

"کیا ہوا اسے؟" انہوں نے پریشانی سے پوچھا آج صبح سے ناجانے وہ شزرا کو کتنے ہی فون کے چکے تھے مگر اس سے رابط نہیں کو پایا ان کا دھیان بار بار جا کے شزرا میں ہی اٹک جاتا ان کا دل آج کچھ پریشان سا تھا انہیں اب اس کی وجہ سمجھ آئی۔

"بخار ہو گیا اسے ڈاکٹر نے کہا ہے اسٹریس کی وجہ سے ہوا ہے" تائی امی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

"اسٹریس"وہ صرف اتنا ہی کہہ سکے۔

"ہاں پتا نہیں کیا ہوا ہے بچی کو صحیح ہو تو زرا کچھ پوچھیں" تائی امی نے پریشان سے لہجے میں کہا۔

"تم آجاؤ چینج کرلو پھر کھانا لگا دیتی ہوں" انہوں نے آزر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

آزر وہاں سے اٹھ کے شزرا کے روم کی طرف گئے انہوں نے ناب گھمائی تو دروازہ بناء آواز کھلتا چلا گیا وہ اندر داخل ہوئے تو ان کی نظر شزرا کے سوئے ہوئے وجود پہ پڑی وہ اس کی طرف بڑھے اور اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا اس کا ماتھا اب بھی دہک رہا تھا آزر  نے اس کے چہرے پہ آئی لٹوں کو نرمی سے پیچھے کیا اس کے چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشان تھے۔

آزر کا لمس پا کے اس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے کھول دیں سامنے ہی آزر چہرے پہ پریشانی لئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"طبیعت کیسی ہے؟" آزر نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتے ہوئے پوچھا۔

جانے کب سے رکے آنسو شزرا کی آنکھوں سے بہنے لگے۔

"کیا ہوا کیوں رو رہی ہو" آزر یک دم اس کے آنسو دیکھ کے پریشان ہو گئے اسے سہارا دے کہ بٹھایا اور خود اسکے برابر میں آکے بیٹھ گئے۔وہ زار و قطار رو رہی تھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

وہ آزر کے سینے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔

"نہیں رو پلیز۔۔۔کیا ہوا ہے؟" آزر نے نرمی سے اس کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا ان کے خوبرو چہرے پہ تفکر ابھرا۔

"آپ کہاں تھے صبح سے؟" شزرا نے آنسوؤں کے درمیان پوچھا آواز بھیگی ہوئی تھی۔

"میں سائٹ پہ تھا ابھی گھر آیا تو پتا چلا" آزر نے اسے اپنے بازوؤں میں سماتے نرمی سے کہا۔

"میں اب آگیا ہوں نہ آنسو صاف کرو اپنے" آزر نے ایک ہاتھ سے اس کے بہتے آنسو صاف کئے۔

"آپ وعدہ کریں مجھے کبھی چھوڑ کے نہیں جائیں گے" شزرا کا دل کسی انہونی سے ڈر رہا تھا وہ خود کو یقین دلا دینا چاہتی تھی۔

"میں نہیں جاؤں گا کبھی اپنی شزرا کو چھوڑ کہ" آزر نے اس کی پلکوں پہ اٹکے موتی اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا۔

کچھ دیر بعد وہ زرا سنبھلی تو سیدھی ہو کہ بیٹھ گئی مگر آنسو اب بھی رواں تھے۔

جب دل کے کورے کاغذ پہ کسی کے نام کی تحریر ابھرنے لگی تھی تو کیسے وہ اس کو مٹا دیتی۔

اب اس راہ کیسے قدم موڑ لیتی۔

"شزرا تم ایسے رو گی تو میں پریشان ہو رہا ہوں" آزر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے محبت سے کہا۔

"میں نہیں رو رہی" اس نے اپنے آنسو ہتھیلی کی پشت سے رگڑتے ہوئے کہا۔

"کیا ٹینشن لی ہے تم نے جو اتنا تیز بخار ہو گیا؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہو رہی تھیں اس لمحے وہ آزر کو اپنے دل کے بہت قریب لگی۔

"کچھ نہیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں" اس نے سر جھکائے آہستگی سے کہا۔

"شزرا کوئی بھی بات ہو تم مجھ سے شیئر کر سکتی ہو" آزر اسے اپنے ساتھ کا یقین دلانا چاہتے تھے۔

"نہیں کوئی بات نہیں ہے۔۔۔بس سر میں تھوڑا درد ہے" اس نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر آنکھیں موندے ہوئے کہا۔

"میں منال کو کہتا ہوں کچھ تمہارے لئے کچھ کھانے کو لے آئے" آزر بول کر اس کے پاس سے اٹھنے لگے آزر کے منہ سے منال کا نام سن کر اس کے دل میں ایک کانٹا سا چبھا۔

"نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا" اس نے آزر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

"آپ میرے پاس بیٹھ جائیں پلیز" آزر نے اچھنبے سے اس کی طرف دیکھا آج وہ منال کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ تھی ورنہ پہلے بھی اس کی طبیعت خراب ہوتی تھی تو اسے صرف منال کی ضرورت ہوتی تھی مگر آج وہ آزر کا ساتھ مانگ رہی تھی

اس کی حالت کے پیش نظر آزر واپس بیٹھ گئے۔

کچھ ہی دیر بعد منال دوباہ اس کے لئے سوپ لے آئی شزرا نے اسے دیکھ کے نگاہیں پھیر لیں۔

"شزرا اٹھو بیٹا کچھ کھاو پھر میڈیسن لینی ہیں" منال نے اسے مخاطب کیا مگر وہ خاموش بیٹھی رہی۔

"منال تم جاؤ میں کھلا دیتا ہوں" آزر نے منال کے ہاتھ سے سوپ کا باؤل لیا اور اسے کھلانے لگے اس بار شزرا نے کوئی ضد نہ کی بلکہ خاموشی سے کھالیا۔

پھر اسے میڈیسن دے کہ آزر نے اسے واپس لٹا کہ اس پہ بلینکٹ اوڑھا دیا کچھ دیر بعد دوائیوں کے زیر اثر ایک بار پھر وہ نیند کی وادی میں چلی گئی۔

آزر نے اس کے روئے روئے سے چہرے کی طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں یہ لڑکی انہیں اپنی جان سے بڑھ کے معلوم ہونے لگی اس کی یہ حالت دیکھ کے وہ خود پریشان ہو گئے تھے۔ 

__________

صبح شزرا کی آنکھ کھلی تو اس کی طبیعت قدرے بہتر تھی بخار کہ شدت کم تھی مگر اب بھی تھا کمزوری شدید ہو چکی تھی وہ آہستگی سے اٹھ کے بیٹھ گئی اسے اپنا دماغ شل سا محسوس ہوا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گھومتا سر تھام لیا ابھی وہ اٹھ کے بیٹھی ہی تھی کہ منال اندر داخل ہوئی اسے دیکھ کے شزرا کا حلق تک کڑوا ہوگیا اس نے منہ پھیر لیا اس کا ایسے منہ پھیرنا منال کی نظروں سے چھپا نہ رہ سکا وہ اپنی جگہ جیسے جم سی گئی اس کے سر پہ شاید حیرت کا پہاڑ ٹوٹا تھا شزرا اس کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھے تھی اسے سمجھ نہیں آیا مگر دوسرے ہی پل وہ خود کو سنبھال کے آگے بڑھی۔

"کیسی طبیعت ہے اب شزرا؟" منال نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے پوچھا شزرا اس کی طرف دیکھے بغیر بیڈ سے اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی وہ ہکا بکا اسے جاتے دیکھتے رہی اس نے اس کی بات کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔وہ سمجھ نہیں پارہی تھی ایسا کیا ہوا ہے جو شزرا اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر رہی ہے آنکھ سے دو آنسو نکل کر بے مول ہوئے وہ سر جھٹکتے ہوئے اٹھی اور شزرا کے لئے ناشتہ لینے چلی گئی۔

شزرا فریش ہو کہ آئی تو روم میں منال موجود نہیں تھی شزرا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی نیچے چلی گئی وہ نیچے پہنچی تو سب ڈائننگ ٹیبل کے گرد موجود تھے۔

"ارے شزرا تم۔۔۔۔آو بیٹا" دادو نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کے اسے اپنے پاس بلایا۔

"جی دادو" شزرا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پاس آئی اور ان کے برابر میں رکھی خالی چیئر گھسیٹ کے بیٹھ گئی۔

منال جو نیچے اس کے لئے ناشتہ بنانے آئی تھی وہ خاموشی سے آکے واپس بیٹھ گئی۔

"طبیعت کیسی ہے اب بیٹا؟" تائی امی نے اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

"ٹھیک ہے اب" شزرا نے سر جھکائے کہا۔

وہ بہت خاموش سی تھی آزر نے اس کی طرف بغور دیکھا جو ہر وقت چہکتی رہتی تھی اب بلکل خاموش تھی اس کی خاموشی میں کچھ تھا جو آزر کو چبھ رہا تھا۔

ناشتے سے فراغت کے بعد سب لوگ ہال میں رکھے صوفوں کے گرد بیٹھے تھے آج چھٹی کا دن تھا تو سب اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

امین صاحب اور دلاور صاحب ایک طرف بیٹھے بزنس کے معاملات ڈسکس کر رہے تھے جبکہ ان کے برابر میں بیٹھے آزر لیپ ٹاپ میں سر دیئے بیٹھے تھے۔

تائی امی ایک طرف بیٹھی کپڑے تہہ کر رہی تھیں جبکہ شزرا دادو کی گود میں سر رکھے خاموش سے لیٹی تھی۔

تھوڑی دیر بعد منال شزرا کے لئے میڈیسن لے کہ آگئی۔

"شزرا اٹھو میڈیسن لے لو" منال نے پانی کا گلاس سامنے رکھی کانچ کی ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا مگر شزرا ان سنی کر کے لیٹی رہی۔

"شزرا میڈیسن" منال نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔

"مجھے نہیں لینی" شزرا نے روکھے لہجے میں کہا۔

"میڈیسن نہیں لو گی تو طبیعت کیسے ٹھیک ہوگی" منال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ 

"کیا مسئلہ ہے آپ کو جب میں نے کہہ دیا نہیں لینی میڈیسن آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتا۔۔۔۔؟ کیوں میرے پیچھے پڑ گئیں ہیں آپ؟"  شزرا نے ایک جھٹکے سے اس سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور اٹھ کے بیٹھ گئی اس کی آواز قدرے اونچی تھی۔

دادو کے تسبیح ودر کرتے ہاتھ رک گئے انہوں نے گردن گھما کر قدرے چونک کر شزرا کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو بھرے منال کو دیکھ رہی تھی۔

" شزرا کیا بدتمیزی ہے یہ" دلاور  صاحب اٹھ کے ان لوگوں کے پاس آ گئے۔

"بابا رہنے دیں" منال نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کچھ بھی کہنے سے روکا۔

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages