Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 13 to 14 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 14 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 13 to 14

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 13 to 14

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 13'14

Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

تیجے کے بعد مہمان رخصت ہو چکے تھے اب صرف گھر کے فرد ہی باقی تھے شزرا کی خالہ اور خالو بھی تیجے کے بعد واپس چلے گئے تھے جب تک گھر میں مہمان تھے گھر میں زندگی کا احساس ہوتا رہا مگر جب سے گھر خالی ہوا تھا تو یہ گھر بھائیں بھائیں کرنے لگا۔

پورا پورا دن ہوجاتا سب اپنے کمروں میں بند رہتے کوئی کسی سے بات نہیں کرتا اور نہ کھانا ساتھ کھاتے۔

دادو گھنٹوں تخت پہ بیٹھی اپنے آنسو پونچھتی رہتیں اور منال کے لئے دعائیں کرتی رہتیں۔

ایک مہینہ ہونے کو آرہا تھا گھر کے باقی لوگوں کی زندگی بہت حد تک روٹین پہ آنے لگی تھی مگر دو نفوس ایسے تھے جو اس صدمے سے سنبھل نہیں پا رہے تھے۔

آزر اور شزرا اس عرصے میں ایک جگہ قید ہو کے رہ گئے تھے دونوں جانے خود کو کس چیز کی سزا دے رہے تھے۔

آج ناشتے پہ اتفاق سے سب موجود تھے سوائے شزرا اور آزر کے۔تائی امی نے سب کو ایک جگہ دیکھ کے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھے اور آزر کو ناشتے کے لئے بلانے چلی گئیں۔

"آزر نیچے آکے ناشتہ کر لو" وہ آزر کے کمرے میں گئیں تو آزر جاگے ہوئے تھے مگر بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹے تھے انہوں نے ان مے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا انہوں نے آنکھیں کھول کے اپنی ماں کو دیکھا جو ممتا کا پیکر تھیں اور ان کا ہاتھ پکڑ کے اپنی آنکھوں پہ رکھ لیا۔

آزر کی یہ حالت دیکھ کے ان کا دل دکھ سے بھر گیا تھا ایک ہنستا مسکراتا انسان کیسے زندگی سے دور ہوا تھا۔

"میرا دل نہیں کر رہا" آزر نے کروٹ بدلتے کہا اور اپنا منہ تکیئے میں چھپا لیا۔

"اپنی ماں کے لئے اٹھ جاؤ اور نیچے آجاؤ" سلمہ بیگم نے التجا کی انہوں نے گردن گھما کے دیکھا اور اٹھ کے بیٹھ گئے۔

"چلیں" وہ اٹھ کے نیچے چلے گئے سلمہ بیگم ان کے کمرے سے نکل کر شزرا کے روم کی طرف بڑھیں انہوں نے لاک پہ ہاتھ رکھا تو دروازہ بناء کسی آواز کے کھلتا چلا گیا۔

وہ آہستہ روی سے چلتی ہوئیں بیڈ کے پاس پہنچیں شزرا بے خبر سو رہی تھی انہوں نے جھک کے اس کے ماتھے پہ پیار کیا وہ ہلکا سا کسمسائی وہ واپس آنے لگیں مگر اسی لمحے شزرا کی ہچکی کی آواز آئی وہ شاید سوتے ہوئے رو رہی تھی وہ تڑپ کے آگے بڑھیں شزرا نے بھی محبت بھرا لمس پا کے آنکھیں کھول دی تھیں۔

"کیا ہوا بیٹا؟" تائی امی نے اس کے بالوں میں محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

"مجھے لگا آپی ہیں" اس نے ان کے کندھے پہ سر رکھتے ہوئے کہا اور دو قیمتی موتی آنکھوں سے نکل کے بے مول ہوئے۔

"میں ہوں نہ اپنی بیٹی کے پاس" انہوں نے پیار سے کہا۔

"چلو آکے سب کے ساتھ ناشتہ کر لو" انہوں نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔

"تھوڑی دیر میں کرلوں گی" اس نے سر جھکائے کہا۔

"آج سب ناشتہ ساتھ کریں گے اپنی ماں کا کہنا نہیں مانو گی" انہوں نے اس کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔

کچھ دیر بعد وہ نیچے پہنچی تو سب ڈائننگ ٹیبل کے گرد جمع تھے وہ جا کے دادو کے برابر میں بیٹھ گئی آنکھیں اب تک آنسوؤں سے بھری تھیں بلکہ اس کی آنکھیں خشک ہی کب ہوئیں تھیں دادو نے اس کے ماتھے پہ پیار کیا۔

ناشتہ کرتے ہوئے اسے منال شدت سے یاد آئی کہ کس طرح وہ ناشتے پہ ہر چیز اسے کھلا دینا چاہتی تھی اس کے نہ نہ کرنے پہ بھی اس کی پلیٹ بھر دیا کرتی کبھی ڈانٹ کے تو کبھی پیار سے اس سے پوری پلیٹ ختم کرواتی آنسو لڑیوں کی صورت بہنے لگے۔

سامنے ہی آزر بیٹھے ہر چیز سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھے جیسے وہاں کوئی دوسرا تھا ہی نہیں۔

"ارے بیٹا کیوں رو رہی ہو؟" اسے ناشتہ کرتے ہوئے اس طرح روتے دیکھ کے امین صاحب اٹھ کے اس کے قریب آئے۔

"تایا ابو۔۔۔آپی۔۔۔" وہ پھر رونے لگی امین صاحب اسے چپ کروانے لگے سب اس کی یہ حالت دیکھ کے پریشان ہو گئے۔

"پلیز اسٹاپ اٹ شزرا بند کرو یہ ڈرامے" آزر نے چائے کا کپ زور سے ڈائننگ ٹیبل پہ پٹخا سب ششدر سے آزر کی شکل دیکھنے لگے شزرا آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔

"اگر تمہیں اس سے اتنا ہی پیار تھا تو کہاں تھیں تم پانچ سال؟ پلٹ کے اس کی خبر کیوں نہ لی" آزر کی آواز لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی جیسے وہ اپنا سارا غصہ شزرا پہ نکال دینا چاہتے ہوں۔

"مجھے آپی کی بیماری سے لا علم رکھا گیا" شزرا نے بھی پلٹ کے انہی کے لہجے میں جواب دیا۔

"اگر تم ان پانچ سالوں میں یہاں آجاتیں تو تم ہر گز لا علم نہیں رہتیں" آزر بول کے رکے نہیں تیزی سے اپنے روم میں چلے گئے اور شزرا کو ایک بار پھر احساس ندامت کی وادیوں میں دھکیل گئے۔

_____________

منال کو گزرے سال  ہونے کو آیا تھا مگر اب بھی سب روز اول جیسا ہی تھا اس دن کی تلخ کلامی کے بعد آزر اور شزرا کی بیچ میں دوبارہ کبھی بات نہ ہوئی شزرا بات کرنے کی کوشش بھی کرتی تو آزر منہ پھیر لیتے یا گھر سے ہی چلے جاتے اور جب گھر سے جاتے تو دو تین دن سے پہلے واپس نہیں آتے ان کے اس طرح گھر سے غائب ہونے پہ تائی امی ادھ موئی ہو کے رہ گئیں تھیں اس لئے اب شزرا ان سے فاصلے پہ رہتی تھی۔

وہ ان سے بات کرنے کی کوشش بھی کرتی تو ان کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت اور بیزاری واضح محسوس کر سکتی تھی۔

آرزو دوبارہ آفس جانے لگے تھے انہوں نے خود کو زندگی کے جھمیلوں میں مصروف کرلیا اب ان کے پاس کھانے پینے کا وقت بھی نہیں ہوتا تھا۔

ان سب حالات میں شزرا واپس آسٹریلیا جانا چاہتی تھی مگر دلاور صاحب نے اسے واپس جانے نہ دیا ایک بیٹی کو وہ کھو چکے اب دوسری کی دوری برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

انہوں نے شزرا کو ہاتھوں کا چھالا بنا لیا تھا ایک منٹ کے لئے بھی اسے نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔

زندگی کسی نہ کسی حد تک ڈگر پہ آچکی تھی مگر منال کی کمی کو کوئی پورا نہیں کرسکتا تھا۔

اور پھر ایک شام ان لوگوں کی پرسکون زندگی کی جھیل میں کسی نے بے سکونی کا پتھر پھینکا جو ان لوگوں کی پرسکون زندگی میں ہلچل مچا گیا۔

وہ بہت حبس بھری شام تھی چرند پرند سر شام ہی اپنے گھونسلوں میں دبک گئے تھے ایک بے چینی سی تھی جو اس شام میں تھی۔

شزرا معمول کے مطابق سر شام ہی اپنے کمرے میں بند ہو چکی تھی۔

کچھ دیر بعد اس کے کمرے کا دروازہ بجا تو اس نے اٹھ کے دیکھا دروازہ کھولا تو سامنے ہی تائی امی کھڑی تھیں۔

"جی تائی امی؟" شزرا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا کیونکہ اس وقت وہ کبھی بھی اس کے روم میں نہیں آتی تھیں۔

"شزرا بیٹا کچھ مہمان آئے ہیں گھر میں تم اپنا حلیہ درست کر کے نیچے آجاؤ" تائی امی نے اس سے پیار سے کہا اور واپس چلی گئیں اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔

وہ واپس آنے آئینے کے سامنے کھڑی اور آئینے میں ایک بار خود کو دیکھا ہلکے گلابی رنگ کے قمیض شلوار میں دوپٹہ کندھوں پہ ڈلا تھا اور گھنے بالوں کی چوٹی کمر پہ جھول رہی تھی چہرہ میک اپ سے بلکل بے نیاز تھا وہ دوپٹہ شانوں پہ سے ٹھیک کرتی ہوئی نیچے ڈرائنگ روم میں گئی۔

وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو وہاں کچھ اجنبی چہرے بیٹھے تھے۔وہ سب کو سلام کرتی ہوئی جا کے دادو کے برابر میں بیٹھ گئی۔اس نے ایک نظر تایا ابو کے برابر میں بیٹھے آزر پہ ڈالی جو حیرت انگیز طور پہ وہاں موجود تھے جو نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ آنے والے مہمانوں سے باتیں بھی کر رہے تھے۔

"یہ میری پوتی ہے شزرا۔۔۔۔دلاور کی بیٹی" دادو نے اس کا تعارف آنے والے مہمانوں سے کروایا۔

"بہت پیاری بچی ہے" آنے والی مہمان خاتون نے اس کی تعریف کی۔

"یہ مسسز خاقان ہیں۔۔۔خاقان ملک کی وائف" دادو نے ان کے بارے میں بتایا جو ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجائے شزرا کا تنقیدی نگاہوں سے جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔شزرا نے مسکرا کے گردن ہلا دی۔

"کیسی ہو بیٹا؟" اب خاقان ملک بھی اس کی طرف متوجہ تھے اور ان کے برابر میں بیٹھا نوجوان بھی اب شزرا کی طرف متوجہ تھا۔

"ٹھیک ہوں انکل" شزرا کا سب کا یوں اس کی طرف متوجہ ہونا عجیب سا لگا۔مسسز خاقان کے برابر میں بیٹھی دونوں کم عمر لڑکیاں بھی اسے غور سے دیکھ رہی تھیں جو غالباً ان ہی بیٹیاں تھیں اور ان کے برابر میں بیٹھا وہ خوش شکل لڑکا بھی گاہے بگاہے ایک آدھ نظر شزرا پہ ڈال لیتا۔

شزرا کو اپنے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی وہ وہاں سے غائب ہو جانا چاہتی تھی۔

سامنے کانچ کی میز پہ پر تکلف ناشتہ دھرا تھا سب کے ہاتھوں میں چائے کی پیالیاں تھیں وہ سر جھکائے بیٹھی قالین کے رنگین دھاگوں میں الجھ رہی تھیں۔

"سلمہ باجی ہمیں آپ کی بیٹی بہت پسند ہے ہماری طرف سے تو ہاں ہے۔۔۔آپ لوگ اچھے سے سوچ لیں اگر آپ لوگوں کا جواب ہاں میں ہوگا تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔۔۔ہم منگنی کی رسم جلد از جلد رکھنا چاہیں گے" مسسز خاقان نے چائے کا خالی کپ کانچ کی میز پہ رکھتے ہوئے تائی امی کو مخاطب کیا۔

شزرا کے قریب چھوٹا سا دھماکہ ہوا اس نے بے ساختہ نظریں اٹھا کر سامنے بیٹھی خاتون کو دیکھا جو تائی امی کی طرف متوجہ تھیں اور بے اختیار ہی آزر کی طرف دیکھا جو اس سارے معاملے سے بے نیاز اپنے موبائل کی طرف متوجہ تھے ان کے چہرے پہ کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔

اس کی نظروں کی یہ بے اختیاری دلاور صاحب سے چھپی نہ رہ سکی انہیں اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا۔

"کیا شزرا آج بھی۔۔۔۔۔" اس کے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکے ان کی آنکھوں کے سامنے پانچ سال پہلے کا وہ منظر لہرایا جس کی وجہ سے ان کی بیٹی ان سے اتنے سال دور رہی اچانک ہی ان کے ماتھے پہ پسینہ نمودار ہوا۔

انہوں نے بھی آزر کو دیکھا جو اس سارے معاملے سے لاتعلق سے بیٹھے تھے۔

شزرا کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔اس سے وہاں بیٹھنا محال ہوگیا مگر وہ ایسے وہاں سے اٹھ کے نہیں جا سکتی تھی تو خود پہ ضبط کئے وہیں بیٹھی رہی۔

اب مسسز خاقان اٹھ کے اس کے ہاتھ پہ پیسے رکھ رہی تھیں وہ بس ٹکر ٹکر ان کا چہرہ دیکھتی رہی دل تھا کہ پسلیاں توڑ کے آنے کو بےتاب تھا۔

وہ لوگ اب اٹھ کے جا چکے تھے شزرا اب بھی بے بنی وہیں بیٹھی تھی۔سب لوگ اس رشتے کے بارے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔

"آزر تمہیں کیسا لگا یہ رشتہ؟" شزرا کے کانوں سے اپنے بابا کی آواز ٹکرائی جو آزر سے اس رشتے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔دلاور صاحب نے بھی جانے کس انجانی امید کے تحت آزر سے یہ سوال کیا تھا۔

"جی۔۔۔۔" آزر نے کچھ چونک ان کی طرف دیکھا۔

"ارے بیٹا تم تو تیمور کے ساتھ کام کر چکے ہو تو تمہیں کیسا لگتا ہے تیمور؟" اس بار تایا ابو نے آزر سے سوال کیا۔

"جی اچھا ہے۔۔۔۔۔کافی اچھی عادات ہیں تیمور کی۔۔۔۔ہر لحاظ سے اچھا ہے یہ رشتہ" آزر نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا۔شزرا کو لگا کسی نے اس کے سر پہ لاوا انڈیل دیا ہو۔

وہ سر سے پیر تک ایک ان دیکھی آگ میں جلنے لگی۔

"بس تو دلاور ہمیں اس رشتے کے لئے ہاں کردینی چاہیے" تایا ابو نے اپنے چھوٹے بھائی کو مخاطب کیا۔

"تم کیا کہتے ہو آزر" تایا ابو بھی جانے کیوں بار بار آزر سے پوچھ رہے تھے۔

"جی بلکل ہاں کردیں۔۔۔۔بہت اچھی فیملی ہے" آزر نے رسان سے جواب دیا۔

"آپ کون ہوتے ہیں میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے" اور پھر شزرا نے خود کو بولتے سنا تھا مگر اسے اپنی آواز ہی اجنبی محسوس ہوئی اس کی بات پہ آزر نے پہلی بار سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا مگر آنکھوں میں سرد مہری واضح تھی۔

"میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے" آزر نے سپاٹ لہجے میں اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا اور وہاں سے اٹھ کے جانے لگے۔

"بابا آپ سن لیں مجھے یہ شادی نہیں کرنی آپ انکار کریں ان لوگوں کو" شزرا اب دلاور صاحب کی طرف پلٹی جو حیرت سے شزرا کا یہ رویہ دیکھ رہے تھے۔

"کیوں نہیں کرنی شادی؟" آزر کے بڑھتے قدم تھمے تھے اب وہ شزرا کے مقابل کھڑے تھے۔شزرا نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا جن کے چہرے پہ صرف سرد مہری رقم تھی اور آنکھیں ہر تاثر سے خالی تھیں۔پل میں ہی شزرا کی آنکھوں کی پیالے بھرے تھے۔

"یہ میری زندگی ہے۔۔۔۔آپ کو کوئی حق نہیں ہے فیصلہ کرنے کا" شزرا نے بھی انہی کے لہجے میں انہیں جواب دیا۔اس کی بات سن کے آزر کے لبوں پہ ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھری۔شزرا کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔

"اس بیوقوف لڑکی کو سمجھادیں۔۔۔۔۔میرے ان لوگوں سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔۔۔۔اس کی نہ ہمارے رشتے خراب کرے گی" آزر کی آواز قدرے اونچی تھی شزرا پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھتی رہی۔

"کیا مطلب۔۔۔۔۔یہ رشتہ آپ۔۔۔۔۔" اس سے آگے اس سے کچھ بولا نہ گیا اس کے کندھوں پہ کسی نے منوں وزنی بوجھ ڈال دیا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے" آزر نے تحقیر سے کہا۔

"مگر اب جب یہ رشتہ آیا ہے تو انکار نہیں ہوگا" آزر انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا اور حتمی لہجے میں کہا۔

شزرا کو لگا وہ اس آزر کو جانتی ہی نہیں ہے یہ تو کوئی اور ہے۔

"تم دونوں کیوں جھگڑ رہے ہو" تائی امی نے بیچ میں مداخلت کی۔

"تائی امی انہیں بول دیں یہ میرے معاملات سے دور رہیں انہیں کوئی حق نہیں ہے میری زندگی کے فیصلے کرنے کا" شزرا کے آنسو مسلسل اس کا چہرہ بھگو رہے تھے مگر سامنے والے پہ کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔

"تو تمہیں کونسا حق تھا دوسروں کی زندگی کے فیصلے کرنے کا" آزر نے تلخی سے کہا اسے ان کے لہجے کی کڑواہٹ اپنی رگ و پے میں دوڑتی محسوس ہوئی پل بھر کو اس کی سانسیں تھمی تھیں۔

کیا مکافات عمل اسے کی کہتے ہیں جس طرح اس نے برسوں پہلے ان کی زندگی کا فیصلہ کیا تھا آج وہ اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے جا رہے تھے۔

"میں نے کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی" اس نے بیدردی سے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کئے۔

"زبردستی نہیں تھی لیکن کوئی راستہ بھی تو نہیں چھوڑا تھا" آزر نے بھی حساب برابر کیا سب ناسمجھی سے ان کے درمیان بحث ہوتی دیکھ رہے تھے مگر دلاور صاحب لاعلم نہیں تھے انہی سب کچھ نہیں مگر تھوڑا بہت پتہ تھا۔

"اس رشتے سے انکار نہیں ہوگا۔۔۔سن لیا تم نے" سخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ وہاں سے چلے گئے تھے سب ہی آزر کے اس طرح کے رویے پہ حیران تھے۔

امین صاحب نے آگے بڑھ کے شزرا کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسے سینے سے لگا لیا۔

"تایا ابو مجھے نہیں کرنی یہ شادی" شزرا روتے ہوئے ان کے سینے سے لگ گئی۔

دلاور صاحب صوفے پہ سرجھکائے بیٹھے کسی گہری سوچ میں مستغرق تھے۔

___________________

ساری رات اس نے کانٹوں پہ کاٹی تھی ایک پل کو چین نہیں تھا رہ رہ کر اسے آزر کی باتیں یاد آرہی تھیں۔

وہ جانتی تھی وہ آزر کی گناہگار ہے مگر اپنے گناہوں کا کفارہ وہ کسی اور کے نام ہو کر ادا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ہاں یہ صحیح تھا کہ اس کے دل میں آزر کو پانے کی کوئی خواہش نہیں تھی مگر کسی دوسرے کو کیسے وہ جگہ دے سکتی تھی اگر اسے یہ جگہ کسی اور کو ہی دینی ہوتی تو برسوں پہلے وہ برہان کو دے چکی ہوتی وہ اس کی بھی مجرم نہ بنتی۔

مگر آزر کی کیا غلطی وہ لاعلم تھے شزرا کی قربانی سے۔

وہ آزر سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی تھی مگر کیا یہ ضروری تھا کہ وہ کسی دوسرے سے رشتہ جوڑے۔

سوچیں اس کا زہن ماوف کر رہی تھیں۔اس کے زہن میں منال کی وہ ڈائری گھومی جس نے برسوں پہلے دو زندگیاں برباد کی تھیں وہ ڈائری یقیناً آزر نے روم میں ہوگی مگر کہاں وہ یہ نہیں جانتی تھی۔

غم کیسا ہی کیوں نہ ہو نیند آخر مہربان ہو ہی جاتی ہے۔

_______________________

ڈائننگ ٹیبل پہ سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے جب آزر نے دلاور صاحب کو مخاطب کیا۔

"چاچو کیا سوچا ہے آپ نے ان لوگوں کو جواب کب دینا ہے؟" آزر نے دلاور صاحب کو مخاطب کیا شزرا نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کے آزر کے طمانیت زدہ چہرے کو دیکھا جو مکمل اطمینان سے چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے اور دلاور صاحب کی طرف متوجہ تھے جیسے وہاں سے شزرا کو وجود یکسر فراموش کردیا گیا ہو۔

"شزرا کی مرضی نہیں ہے اس رشتے میں" دلاور صاحب نے سنجیدگی سے انہیں جواب دیا اور ان کے چہرے پہ کچھ کھوجنے کی کوشش کی مگر وہاں سرد مہری کے سوا کچھ نہ تھا۔

"اوہ۔۔۔۔کم آن چاچو اب کیا آپ اس کی مرضی سے چلیں گے" آزر نے ناک سے مکھی اڑائی اور کسی قدر طنزیہ لہجے میں کہا۔

"میرا تو خیال ہے انہی فون کر کے ہاں کر دینی چاہیے" آزر نے جیب سے فون نکالتے ہوئے کہا شزرا کا خون یکدم خشک ہوا تھا بے بسی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔

"آزر ایک دو دن صبر کر جاؤ اتنی کیا جلدی ہے" امین صاحب نے ان کی جلد بازی پہ انہیں سرزنش کی تھی آزر نے کندھے آچکا کر فون واپس جیب میں ڈال لیا۔

شزرا نے اس وقت آزر کو تو کچھ نہ کہا مگر وہ ایک فیصلے پہ پہنچ چکی تھی وہ جانتی تھی آزر کو کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ وہاں خاموشی سے اٹھ کے اپنے روم میں آگئی آزر کی سرد نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا.

زرا اس بلند و بالا آفس بلڈنگ کے سامنے کھڑی تھی اس نے زہن میں ایک بار پھر پتہ دہرایا اور مطلوبہ فلور کا لفٹ میں جا کے بٹن دبایا۔

وہ عالیشان آفس اس بلڈنگ کے دسویں فلور پہ بنا تھا اس نے ریسیپشن پہ جا کی سیکریٹری سے تیمور ملک سے ملنے کا کہا سیکریٹری نے تیمور ملک کو فون کر کے کسی شزرا دلاور کے آنے کا بتایا تیمور ملک نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اسے اپنے آفس میں بلا لیا۔

وہ اس وقت تیمور خاقان ملک کے سامنے اس کے آفس میں بیٹھی تھی تیمور انتہائی صبر و تحمل سے اس کے بولنے کا منتظر تھا جو جانے کب سے بیٹھی اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔

"آپ غالباً کوئی بات کرنے آئی ہیں" آخر کار تیمور ملک نے بار کا آغاز کیا۔

"جی وہ میں۔۔۔۔" شزرا کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ بات کا آغاز کہاں سے کرے۔

"جی میں سن رہا ہوں" تیمور نے اسے واپس چپ ہوتے دیکھ کے دوستانہ لہجے میں کہا۔

"وہ آپ پلیز اس رشتے سے انکار کردیں میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی" شزرا نے سر جھکائے دھیمے لہجے میں کہا۔

"کیوں نہیں کر سکتیں" تیمور ملک نے نرم لہجے میں پوچھا۔

"یہ میرا پرسنل میٹر ہے۔۔۔۔امید ہے آپ سمجھیں گے۔۔۔۔آپ پلیز میرے گھر فون کر کے انکار کروادیں" شزرا نے منت بھرے لہجے میں کہا نا چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

"اوکے پلیز آپ روئیں نہیں" تیمور نے فوراً ٹشو باکس اس کے سامنے کیا مگر شزرا سر جھکائے بیٹھی رہی۔

"میں انکار کروا دوں گا۔۔۔آپ ٹینشن نہ لیں" تیمور ملک نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں کہا۔

"بہت شکریہ آپ کا" شزرا کو جیسے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔

"مگر آپ انکار کی وجہ بتا سکتی ہیں۔۔۔ایک دوست سمجھ کر" تیمور ملک نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔

"میں نہیں بتا سکتی" شزرا نے جھکے سر کے ساتھ ندامت سے کہا۔

"چلیں آپ کی مرضی۔۔۔۔مگر امید ہے کہ وہ وجہ آزر امین نہیں ہیں" تیمور نے مسکرا کے ایک چھوٹا سا دھماکہ کیا اس نے بے یقینی سے سر اٹھا کر تیمور ملک کی طرف دیکھا اس کا دل یکبارگی دھڑکا رنگت پل میں پہلی پڑی تھی۔

"اوہوں۔۔۔۔۔ٹینشن نہیں لیں وہ بس جب مما نے رشتے کی بات کی اور آپ نے جس طرح آزر کی طرف دیکھا تھا تو بس" وہ اب سر کھجاتے ہوئے مسکرا کے بتا رہا تھا اور شزرا کے لب سل چکے تھے۔

"آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے" شزرا نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا پسینے کی ننھی ننھی سی بوندیں اس کے ماتھے پہ نمودار ہوگئیں۔

"افف ایک تو آپ بہت جلدی پریشان ہو جاتی ہیں" اس بات تیمور ملک کے لہجے میں جفگی تھی۔

"ہم ابھی ابھی دوست بھی تو بنے ہیں" وہ جیسے اسے یاد دلا رہا تھا شزرا دوست بننے کی بات پہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔

 "لڑکی ضرورت سے زیادہ سیرئیس ہو تم" تیمور کا دل کیا وہ اپنا سر پیٹ لے شزرا ٹکر ٹکر نا سمجھی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

"اچھا یہ بتائیں چائے یا کولڈ ڈرنک؟" تیمور نے فون اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں پلیز کچھ نہیں بس اب میں چلوں گی" شزرا فورا وہاں سے کھڑی ہوئی۔

"آپ تو ایسے ڈر کے کھڑی ہوئی ہیں جیسے خدانخواستہ میں زہر منگوانے لگا تھا" تیمور نے منہ بناتے ہوئے کہا شزرا بے اختیار مسکرائی تھی۔

"اوہہ آپ مسکراتی بھی ہیں" تیمور نے مصنوئی حیرانگی سے کہا۔

"میں چلتی ہوں اور ایک بار پھر شکریہ آپ کا" شزرا کو اپنا وجود ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔

شزرا آفس بلڈنگ سے باہر نکل کر پارکنگ کی طرف بڑھی تو اپنے دھیان میں تھی وہ کسی سے زور دار ٹکرائی مقابل نے اسے گرنے سے بچایا تھا شزرا نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو آزر اپنی پوری وجاہت کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے تھے ایک لمحے کا فسوں تھا جو دونوں کے بیچ ٹہرا اگلے ہی پل آزر نے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا وہ سنبھل کے پیچھے ہٹی اور اگلے ہی پل وہ ان کی طرف دیکھے بغیر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف تیزی سے چلی گئی۔

آزر نے حیرت سے سوچا اس کا یہاں کیا کام اور اگلے ہی پل غصے سے ان کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں وہ شزرا کی گاڑی کو دور جاتا دیکھ رہے تھے۔

______________

شام ہونے کو آئی تھی آزر ابھی تک گھر واپس نہیں آئے تھی شزرا کا دل کسی انجانے خدشے کے تحت دھڑک رہا تھا وہ دل ہی دل  میں دعا کر رہی تھی کہ آزر کو اس بارے میں علم نہ ہو کہ وہ تیمور کے آفس کس کام سے گئی تھی مگر یہ ناممکن تھا آزر نے آج خود اسے وہاں دیکھا تھا اور اب یہ آزر کی خاموشی اسے ہولائے دے رہی تھی۔

تایا ابو اور بابا لاونج میں ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ سیاست پہ تبادلہ خیال کر رہے تھے ان سے کچھ فاصلے پہ دادو ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی تھیں۔

شزرا اس وقت تائی امی کے پاس کچن میں کھڑی تھی جب آزر آندھی طوفان کی طرح گھر میں داخل ہوئے۔

اور سیدھے شزرا کے سر پہ پہنچے شزرا نے سہمی سہمی نگاہوں سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ان کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔

"کیا کرنے گئیں تھیں تم آج تیمور ملک کے آفس؟" آزر نے قدرے چلا کر درشتی سے اس سے پوچھا۔شزرا کوئی جواب نہ دے سکی وہ بس ٹکر ٹکر آزر کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے" آزر نے اس کا بازو پکڑ کر اسے جھٹکا دیا۔

"آزر پاگل ہوگئے ہو کیا؟" تایا ابو نے آگے بڑھ کے شزرا کا بازو آزر کی مضبوط گرفت سے چھڑوایا۔

"پوچھیں اس سے یہ کیا کرنے گئی تھی تیمور ملک کے آفس؟" آزر کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑی اس لڑکی کا دماغ ٹھکانے لگادیں۔

"شزرا تم تیمور ملک کے آفس گئیں تھیں؟" تایا ابو نے کچھ ناسمجھی اور حیرت سے اسے دیکھا وہ زمین میں نظریں جمائے کھڑی تھی آنسو اس کے گال بھگو رہے تھے۔

"کیوں بیٹا۔۔۔۔بتاو مجھے" تایا ابو پیار سے اس سے پوچھ رہے تھے۔

"مجھے نہیں کرنی یہ شادی" شزرا نے روتے ہوئے کہا۔

"کیوں نہیں کرنی شادی۔۔۔۔۔جواب دو" آزر تلخ لہجے میں بول رہے تھے۔شزرا نے نظریں اٹھاکر انہیں دیکھا جن کی آنکھوں میں سفاکیت تھی۔

"یہ میری لائف ہے آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے سوال کرنے والے" شزرا کا ضبط جواب دے گیا تھا۔

"کیوں کیا کمی ہے تیمور میں جو اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں" آزر نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا اس سوال کا جواب تو شزرا کے پاس بھی نہیں تھا۔

"جواب دو ورنہ میں ابھی فون کر کے ہاں کر رہا ہوں" انہوں نے حتمی لہجے میں کہا ان کی بات سن کے شزرا تڑپ ہی اٹھی۔

وہ دلاور صاحب کی طرف بڑھی۔

"بابا مجھے نہیں کرنی شادی" شزرا بے تحاشا رو رہی تھی۔

" آزر اگر تمہیں میری بیٹی کا وجود اس گھر میں اتنا ہی ناگوار گزر رہا ہے تو میں چلا جاتا ہوں یہاں سے اپنی بیٹی کو لے کے" دلاور صاحب نے آزر کو مخاطب کر کے ٹھنڈے لہجے میں کہا آزر نے حیرت سے اپنے عزیز از جان چاچو کی طرف دیکھا۔

"اگر مجھے اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنی ہوتی تو آج سے چھ سال پہلے میں اس کی شادی برہان سے کرچکا ہوتا اسے یہاں سے بھیجتا نہیں" وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے آزر کو بہت کچھ جتا رہے تھے اور آزر تو جیسے سن ہو گئے تھے۔

"شزرا اپنا سامان پیک کرو ہم یہاں نہیں رہیں گے" دلاور صاحب نے ضبط سے کہا ان کے لئے یہ بولنا آسان نہیں تھا مگر جو دل پہ گزری سو گزری۔

"دلاور ہم آرام سے بیٹھ کے بات کرتے ہیں غصے میں کوئی فیصلہ نہیں کرو۔۔۔۔۔اس گھر پہ تمہارا برابر کا حق ہے کیوں جاؤ گے اس گھر سے" امین صاحب نے دلاور صاحب کو سمجھاتے ہوئے رسان سے کہا۔

"نہیں جہاں میری بیٹی کو آنسو ملیں میں وہاں نہیں رہوں گا۔۔۔۔میں کل سے یہ سب تماشا دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔جب شزرا نے ایک بار منع کردیا تو بار بار یہ بات کیوں اٹھائی جا رہی ہے" دلاور صاحب مستقل آزر پہ برس رہے اور آزر ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔

"ایک بیٹی تو چلی گئی کیا دوسری کو جیتے جی ماردوں"ان کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی شاید یہ زندگی میں پہلی بار تھا جب وہ آزر پہ چلا رہے تھے آج سے پہلے انہوں نے آزر سے کبھی سخت لہجے میں بات بھی نہیں کی تھی آزر ان کے لئے بیٹوں سے بڑھ کے تھے مگر آج اپنی بیٹی کے آنسوؤں نے انہیں یہ سب کرنے پہ مجبور کردیا تھا

آزر نے قہر آلود نگاہوں سے شزرا کی طرف دیکھا اور بناء کچھ کہے پلٹ کے گھر سے نکل گئے۔

تائی امی انہیں پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئیں۔

_______________________

جانے رات کے کس پہر آزر گھر لوٹے وہ سیدھا دلاور صاحب کے روم کی طرف بڑھے وہ جانتے تھے وہ اس وقت جاگ رہے ہوں گے انہوں نے دروازے کا لاک گھمایا تو دروازہ بناء آواز کے کھلتا چلا گیا وہ اندر داخل ہوئے تو دلاور صاحب راکنگ چیئر پہ آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور گھٹنوں کے بل ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔دلاور صاحب نے آنکھیں کھول کے انہیں نہیں دیکھا مگر پلکوں سے ایک موتی ٹوٹا تھا اب آزر ان کے گھٹنوں پہ سر رکھے خاموش بیٹھے تھے۔

بہت دیر تک دونوں کے بیچ خاموشی حائل رہی اور ایسا پہلی بار تھا جب چاچو بھتیجے کے بیچ بہت دیر تک خاموش رہی ہو۔

"آئی ایم سوری چاچو۔۔۔۔پلیز آپ ناراض نہ ہوں" آزر نے اسی پوزیشن میں ان کے گھٹنے پہ سر رکھ کے کہا مگر دلاور صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔

"چاچو پلیز ناراضگی ختم کریں" آزر نے سر اٹھا کے منت بھرے لہجے میں کہا دلاور صاحب نے آنکھیں کھول کے انہیں دیکھا انہیں اس وقت وہی دس سالہ آزر جو اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات ان سے شیئر کرتے تھے مگر وقت نے بہت کچھ بدل دیا۔

شزرا کے جانے کے بعد ان دونوں کا رشتہ بھی ویسا نہیں رہا تھا دلاور صاحب کو پوری بات تو نہیں پتا تھی مگر اس رات جب آزر نے شزرا کو یہاں سے جانے کو کہا تھا تو وہ صرف یہی جانتے تھے کہ آزر شاید شزرا کو پسند کرتے ہیں اور آزر اور شزرا کے درمیان ضرور کچھ ہے مگر منال کی شادی شدہ زندگی کا سوچ کے وہ اس بات کو زبان پہ لانے کی ہمت بھی نہ کر سکے اور جب شزرا نے ان سے جانے کی بات کی تو انہوں نے ایک بیٹی کا گھر بچانے کے لئے دوسری بیٹی کو جانے کی اجازت دے دی۔

مگر ہر پل وہ اسی احساس ندامت میں جلے تھے کہ ایک بیٹی کے لئے دوسری کو خود سے دور کردیا۔

مگر آج جب وہ آزر اور شزرا کو ایک دیکھنا چاہتے تھے تو آزر کا شزرا کے ساتھ رویہ انہیں آگے بڑھنے سے روک رہا تھا۔

"چاچو میں نے کبھی نہیں چاہا آپ ہمیں چھوڑ کے جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔اپ جانتے ہیں نہ" آزر ان سے پوچھ رہے تھے یا انہیں بتا رہے تھے۔

"میں اپنی بچی کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا" دلاور صاحب وہ بوڑھے باپ لگ رہے تھے جو اپنے بچوں پہ دنیا کار بیٹھے ہوں۔

شزرا کا تذکرہ سن کے آزر کے لب بھینچے تھے۔

"آپ مجھے معاف کردیں" آزر نے ان کے ہاتھ پکڑ کے کہا۔

"میں تم سے ناراض نہیں ہوں" دلاور صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔

آزر نے اپنے بالوں میں ان کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا تھا۔

___________________

دلاور صاحب اس وقت دادو کے کمرے میں بیٹھے تھے جب دادو نے ان کی خاموشی نوٹ کر کے ان سے سوال کیا۔

"کیا ہوا دلاور؟ اتنے خاموش کیوں ہو بیٹا؟" دادو نے اپنے بیٹے کے اترے چہرے کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں گم سر جھکائے بیٹھے تھے۔

"میں بس شزرا کی وجہ سے پریشان ہوں" انہوں نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔

"کیوں پریشان ہو میری بچی کی وجہ سے" دادو نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے پوچھا.

"اماں اس کی پڑھائی مکمل ہو چکی ہے اور اب اس کی شادی کی عمر بھی ہو چکی ہے مگر وہ کسی بھی رشتے پہ راضی نہیں ہے اور میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتا" دلاور صاحب نے اپنی پریشانی کی اصل وجہ بتائی۔

"ہاں بہت خاموش رہتی ہے میری بچی پتہ نہیں اتنی سی عمر میں کونسا روگ لگائے بیٹھی ہے اس کی عمر کی لڑکیاں کیسے تتلیوں کی طرح ہنستی کھیلتی پھرتی ہیں" دادو نے ایک ٹھنڈی آہ ہوا کے سپرد کی۔

دروازے پہ کھڑی تایا ابو اور تائی امی نے ان کی باتیں سنی تھیں۔

"فکر نہیں کرو دلاور سب ٹھیک ہو جائے گا" امین صاحب نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے انہیں تسلی دی۔

"ہاں بھائی صاحب شزرا بچی ہے مان جائے گی وہ شادی کے لئے" سلمہ نے بھی انہیں تسلی دی۔

"دلاور مجھے تم سے کچھ کرنی تھی" امیں صاحب نے تہمید باندھی۔

"جی بولیں بھائی جان" دلاور صاحب پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھے۔

"ہم آزر کے لئے شزرا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں" امیں صاحب نے سر جھکائے کہا۔

"بھائی صاحب شزرا مجھے بیٹیوں کی طرح عزیز ہے اگر آپ اس رشتے کے لئے ہاں کردیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی" سلمہ تائی نے بھی امید بھرے لہجے میں کہا۔

"بھائی جان آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ مگر اس بارے میں ایک بار آزر سے رائے لے لیں" دلاور نے بغیر کسی حیل حجت کے کہا۔برسوں پہلے جب منال کی محبت میں انہوں نے شزرا کو خود سے دور جانے دیا تھا وہ شاید اس نا انصافی کی بھر پائی کرنا چاہتے تھے۔

امیں صاحب نے آگے بڑھ کے انہیں گلے لگا لیا۔

_________________

"آزر مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" تائی امی دودھ کا گلاس لے کے آزر کے روم میں داخل ہوئیں تو آزر بیڈ پہ ٹانگیں پھیلائے لیپ ٹاپ میں مصروف تھے۔

"جی بولیں امی" انہوں نے سر اٹھائے بغیر مصروف سے انداز میں کہا۔

"تمہیں اب شادی کر لینی چاہیے" تائی امی نے تہمید باندھی۔

"ہوں" آزر نے بے تاثر چہرے کے ساتھ گردن ہلائی۔

"تمہیں کوئی پسند ہے تو بتاو" انہوں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں ۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔" انہوں نے حتمی لہجے میں کہا آج زہن کے پردے پہ کسی کہ شبیہہ نہیں لہرائی تھی یا انہوں نے خود پہ بند باندھ لیا تھا۔

"ہم چاہتے ہیں تم شزرا سے شادی کر لو" تائی امی نے رسان سے کہا آزر نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کے انہیں ان کی آنکھوں میں بے یقینی تھی پھر یہ بے یقینی حیرت میں بدلی اور حیرت کی جگہ طیش نے لے لی۔وہ اپنی جگہ سے کرنٹ کھا کے کھڑے ہوئے تھے اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔

"یہ آپ کیا بول رہی ہیں" وہ شاکی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

"ایسا کیا بول دیا۔۔۔۔۔وہ بچی ہر لحاظ سے تمہارے سے درست ہے" تائی امی اپنی ہی دھن میں تھیں آزر کی نگاہوں کے سامنے برسوں پہلے کا وہ منظر لہرایا جب شزرا نے بیدردی سے انہیں ٹھکرایا تھا اور وہ کسی سوالی کی طرح اس کے راستے پہ کھڑے تھے مگر اب وہ یہ سب بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے اور اس مقام سے پلٹنا ان کے لئے آسان نہیں تھا۔

"آرام سے سوچ سمجھ کے جواب دے دو کوئی جلدی نہیں ہے" تائی امی نے آرام سے کہا اور ان کے روم سے نکل گئیں۔

انہیں لگا کسی نے انہیں بھٹی میں جھونک دیا ہو وہ اپنا روم روم جلتا محسوس کر رہے تھے۔

وحشت ان کے سر پہ سوار ہو چکی تھی۔

وہ نہایت طیش کے عالم میں شزرا کے روم کی طرف بڑھے اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئے کمرے میں اندھیرا چھایا تھا نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی تھی شزرا بیڈ پہ ہر چیز سے بے نیاز سو رہی تھی وہ جھنجھلاتے ہوئے اس کے سر پہ گئے اور اس کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا پکڑ اتنی شدید تھی کہ شزرا کے منہ سے بے اختیار ہی چینخ نکلتے نکلتے رہ گئی آزر اگلے ہی پل اپنا دوسرا ہاتھ اس کے منہ پہ رکھ کے بیڈ پہ جھکے تھے اور ایک ہاتھ سے اس کا بازو زور سے پکڑ رکھا تھا اس اچانک افتاد سے شزرا گھبرا گئی اور آنکھیں پھاڑے اس ملگجے اندھیرے میں آزر کا چہرہ دیکھ رہی تھی جن کے ماتھے پہ پڑے لا تعداد بل نمایاں تھے۔

"میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اتنے گھٹیا پن پہ اتر آؤ گی" آزر نے دبے دبے لہجے میں غراتے ہوئے کہا پہلے ہی جملے کی برچھیاں شزرا کو اپنی رگ و پے میں اترتی محسوس ہوئیں احساس توہین سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

"تم کیا سمجھتی ہو کہ میں تمہاری محبت میں اتنا پاگل ہوں گا برسوں بعد بھی تمہاری راہ میں کھڑا ہوں گا" ان کے لہجے کی درشتی،تلخی اور تحقیر پن اسے صاف محسوس ہو رہا تھا آنکھوں سے آنسو نکل کر آزر کے ہاتھ پہ گر رہے تھے مگر اب تو وہ جیسے پتھر کے ہو چکے تھے۔

"چلی جاؤ میری زندگی سے ہاتھ جوڑتا ہوں تمہارے سامنے" وہ جیسے اب بے بس ہو چکے تھے انہوں نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا وہ اٹھ گہری گہری سانسیں لینے لگی اور سہم کے آزر کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا کیا ہے میں نے؟" اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔

"واو۔۔۔۔۔آپ کی معصومیت کو داد دیتا ہوں میں۔۔۔۔۔آج امی نے مجھ سے تمہاری اور میرے شادی کی بات کی اور محترمہ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کیا کیا ہے میں نے" ان کے ایک ایک جملے سے طنز نمایا تھا شادی کی بات سن کے شزرا کا دل تھم سا گیا۔ 

"داد دیتا ہوں تمہارے گھٹیا پن کو پہلے میں پھر برہان اور اب تیمور۔۔۔۔۔کتنے لوگوں کو اپنے پیچھے لگاؤ گی" اس حد درجہ ہتک پہ اس کا چہرہ سلگ اٹھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہیں" اس نے بھی جواباً چلا کے کہا۔

"چلاؤ مت۔۔۔۔۔۔جھوٹ بول رہا ہوں میں تو ثابت کرو" وہ اس کی طرف گھومے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہے تھے۔

"پہلے تو ایک عرصے تک مجھے پیچھے لگائے رکھا جب مجھ سے دل بھر گیا تو برہان کی طرف متوجہ ہو گئیں اور جب اس سے بھی دل بھر گیا تو آسٹریلیا چلی گئیں پتہ نہیں وہاں کتنوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ زہر اگل رہے تھے اور یہ زہر شزرا کے جسم میں سرایت کرتا جا رہا تھا وہ زمین کی گہرائیوں میں دفن ہو رہی تھی۔

"آپ میرے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے۔۔۔۔۔۔" زبان اس کا ساتھ نہ دے رہی تھی وہ اس حسن کے دیوتا کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں میں سفاکیت اور بے رحمی تھی۔

"اگر میں غلط ہوں تو کرو تیمور سے شادی" انہوں نے جیسے اس کا مذاق اڑایا لہجے میں طنز نمایا تھا۔

آج بات اس کے کردار پہ آئی تھی اگر وہ اب بھی کوئی فیصلہ نہیں۔ لیتی تو شاید پوری زندگی خود سے ہی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتی اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا آزر کی زبان سے نکلا ہر لفظ اس کے سر پہ ہتھوڑے بن کے برس رہے تھے اس نے دھندلی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھا مگر وہ تو جیسے بلکل ہی بدل چکے تھے آج اس پہ اتنے گھٹیا الزام لگاتے ہوئے یہ بھی انہیں یاد نہیں رہا کہ کبھی وہ لڑکی ان کے دل میں بستی تھی۔

مگر اب وہاں کچھ نہیں تھا سارے رشتے جیسے نفرت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔

وہ اب اس کے روم سے جا رہے تھے جب شزرا نے انہیں پکارا۔

"آزر۔۔۔۔۔!!!!" اس کے لہجے میں۔ ارتعاش واضح محسوس کیا جا سکتا تھا انہیں کے بڑھتے قدم رک گئے مگر انہوں نے پیچھے مڑ کے نہیی دیکھا۔

"میں تیمور ملک سے شادی پہ راضی ہوں" شزرا نے بے تاثر لہجے میں کہا مگر ایک آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹ کے گرا تھا وہ آنسو شاید بہت کڑوا تھا اسے یہ کڑواہٹ اپنے اندر گھلتی محسوس ہوئی آزر کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا تھا مگر اگلے ہی پل وہ اس کے روم سے جا چکے تھے۔

____جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages