Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 1 to 2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 5 February 2023

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 1 to 2

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Urdu Novel Episode 1 to 2

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Rimsha Mehnaz Episode 1'2 



Novel Name: Wahshat E Ishq 

Writer Name: Rimsha Mehnaz 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

آج وہ ایک بار پھر پورے پانچ سال بعد اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں دوبارہ نہ آنے کی اس نے قسم کھا رکھی تھی۔

مگر واہ ری قسمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

انسان کو کیسے کیسے دوراہے سے گزارتی ہے کہ انسان کو اپنے زندہ ہونے پہ افسوس ہونے لگتا ہے۔

وہ اپنے ٹوٹے بکھرے سے وجود کے ساتھ اسی گھر کی دہلیز پہ کھڑی تھی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی جیسے کچھ دیر اور کھڑی رہی تو یہیں زمین بوس کو جائے گی۔

اس نے سر اٹھا کر اس سفید محل کو دیکھا جو دن کی روشنی میں پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس کے حلق میں ایک بار پھر آنسوؤں کا گولہ سا اٹکنے لگا۔

اس کا دل کیا وہ یہیں سے واپس بھاگ جائے۔۔۔۔۔ کہیں دور بہت دور جہاں زندگی کی تلخیاں اس کے پیچھے نہ آسکیں مگر وہ جاتی بھی کہاں اس کا اندر جانا ضروری تھا۔

اگر آج وہ اندر نہ جاتی تو پوری زندگی خود سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی۔

وہ لرزتے قدموں سے آگے بڑھی اور آہنی دورازے کو کانپتے ہاتھوں سے پیچھے دھکیلا دورازہ بنا آواز کے کھلتا چلا گیا سامنے ہی ہال لوگوں سے بھرا پڑا تھا وہ اجنبی نظروں سے سب کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی قدم سو سو من کے ہو رہے تھے۔

ہال کے ایک کونے سے رونے اور بین کرنے کی آوازیں آرہی تھی اس نے وہاں نگاہ دوڑائی اور کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

دل تھا کہ تکلیف سے پھٹا جارہا تھا۔

اس کی نظر کفن میں لپٹے بے جان وجود پہ پڑی تو اسے اپنے اندر سناٹا سا اترتا محسوس ہوا۔

اب اس کے اندر سے ہمت ختم ہو چکی تھی وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔

کتنا بڑا زخم دے گئی تھی نہ زندگی۔۔۔۔۔۔۔

اپنوں کی موت انسانوں کو توڑ کے رکھ دیتی ہے مگر اسے تو ایسا توڑا وہ کرچی کرچی بکھر گئی تھی اب اسے سمیٹنا آسان نہیں تھا۔

___________________________________________________ 

"آپی کہاں ہیں آپ" کالج سے آتے ہی اس نے پورے گھر میں شور ڈالا ہوا تھا وہ ایسی ہی تھی اگر کالج سے آنے کے بعد اسے منال کی شکل نہ دیکھے تو پورے گھر کو سر پہ اٹھا لیتی تھی۔

"میں یہاں ہوں تمہارے روم میں" منال نے اسے اس کے روم سے ہی آواز لگائی وہ دوڑتی ہوئی دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر گئی۔

"افف آپی آپ کو میں نے پورے گھر میں ڈھونڈ لیا اور آپ یہاں ہیں" شزرا نے روم میں آتے ہی بیگ بیڈ پہ اچھالا اور شوز ادھر اُدھر پھینک کے اس کے سر پہ جا پہنچی جو اس کی وارڈروب میں گھسی اس کے کپڑے تہہ کرنے میں مصروف تھی۔

"ہزار بار بولا ہے شزرا تمہیں اپنے کپڑے تہہ کر کے رکھا کرو اور یہ کیا حالت بنائی ہوئی تھی اپنے روم کی ہر چیز ادھر اُدھر پھیلی ہوئی ہے مجال ہے کوئی چیز اپنی جگہ پہ دیکھے" منال نے اسے دیکھتے ہی اس کی اچھی خاصی کلاس لے لی۔

شزرا نے چیونگم کے پٹاخے پھوڑتے ہوئے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا اور منہ بنا کے بولی۔

"آپی جب آپ مجھے ڈانٹتی ہیں تو آپ پہ بلکل بھی پیار نہیں آتا" اور منہ بنا کے بیڈ پہ بیٹھ گئی۔

"گڑیا میں تمہیں ڈانٹ نہیں رہی میں تو آپ کے لئے ہی بول رہی ہوں دیکھو نہ روم کی حالت" منال نے اس کے پھولے پھولے گال سکھینچتے ہوئے پیار سے کہا۔

"چلو جلدی سے چینج کر کے آؤ آج تمہاری پسند کی ڈشز بنائی ہیں" منال نے اسے بیڈ سے اٹھا کر اس کے ہاتھ میں کپڑے تھمائے۔

"آئی لو یو آپی " شزرا نے مسکرا کے اس کے گلے میں بازو حمائل کردیئے منال مسکرا دی اور اپنی اس چھوٹی سی بہن کو دیکھا جس میں اس کی جان بستی تھی۔

شزرا نیچے آئی تو دوپہر میں کچن میں خلاف معمول چہل پہل تھی اور آج تو دادو بھی کچن میں موجود تھیں اور ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا کہ دادو کچن میں کچھ اپنے ہاتھوں سے بنائیں اب ان کی عمر ہو گئی تھی تو ان سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا مگر آج تو دادو بھی چاک و چوبند لگ رہی تھیں۔

اور تائی امی جنہیں دوپہر میں کچھ دیر سونے کی عادت تھی آج تو وہ بھی جاگ رہی تھیں شزرا کو خطرے کی بو محسوس ہوئی۔

"کوئی آرہا ہے کیا گھر میں" شزرا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا اور وہ جانتی تھی اس کا جواب کیا ہوگا اور جواب وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔

"بھول گئیں تم بتایا تو تھا آج آزر آرہا ہے " تائی امی نے ممتا بھرے لہجے میں کہا۔

شزرا نے جھنجھلا کے منال کی طرف دیکھا منال نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیئے۔

" کیوں آرہے ہیں؟" شزرا اپنی جھنجھلاہٹ چھپا نہ سکی۔

"کیوں کا کیا مطلب لڑکی وہ اپنے گھر بھی نہ آئے" دادو نے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

"نہیں میرا مطلب کہ وہ۔۔۔۔۔۔"شزرا گڑبڑا گئی۔

"شزرا تم بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں" منال نے فوراً بات سنبھالی شزرا منہ بناتے ہوئے بیٹھ گئی۔

"شزرا کیا مسئلہ ہے اپنا موڈ ٹھیک کرو" منال نے ہنوز اس کا منہ بنا دیکھ کر اسے گھر کا۔

"آپی کیوں آرہے ہیں وہ" شزرا نے منال کے کان میں سرگوشی کی مبادہ کہیں دادو تک آواز نہ پہنچ جائے۔

"ان کا اپنا گھر کے یہاں نہیں آئیں گے تو کہاں جائیں گے" منال نے پیار سے اسے پچکارا۔

" کہیں بھی جائیں بس یہاں نہ آئیں" شزرا نے جھنجھلا کے کہا اور اپنے ہاتھ میں پہنی رنگ کی طرف دیکھا پھر وہاں سے اٹھ کے اپنے روم میں آگئی۔

اس کی آنکھوں کے سامنے سال بھر پہلے کا وہ منظر لہرا گیا جس نے آج تک اس کے دل کی دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھا ہوا تھا۔

____________________________________________________

ایک سال پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

" شزرا تم یہاں ہو میں نے تمہیں پورے گھر میں تلاش کرلیا" آزر اس کے سر پہ کھڑے اسے پکار رہے تھے۔

شزرا نے کوفت سے سر اٹھا کے ان کی طرف دیکھا وہ اس وقت لان میں گھاس پہ بیٹھی اپنی اسائمنٹ کمپلیٹ کر رہی تھی ایسے میں آزر کا اسے بے وقت آواز دینا ناگوار گزرا۔

" جی میں یہاں ہوں آپ کو کوئی کام تھا۔۔۔؟" شزرا نے بیزاری سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں زمانے بھر کی بیزاری تھی اور چاند سے چہرے کے اطراف میں سیاہ بال بکھرے پڑے تھے آزر اس منظر میں کہیں کھو سے گئے جب کافی دیر تک وہ کچھ نہ بولے تو شزرا سر جھٹک کر دوبارہ اپنی اسائمنٹ پہ جھک گئی۔

آزر نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اسے دیکھا اسکے سامنے گھاس پہ بیٹھ گئے۔

"تم مجھ سے اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں رہتی ہو؟" آزر نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

" نہیں تو" شزرا نے مختصر سا جواب دیا۔

"بتاؤ نہ ہم اچھے دوست نہیں بن سکتے کیا؟" آزر نے اس سے پوچھا۔

"بلکل بھی نہیں" شزرا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟" آزر نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔

"کیونکہ جب جب آپ آتے ہیں تو سب آپ میں ہی لگے رہتے ہیں کسی کو بھی میرا خیال نہیں آتا اور تو اور سب کو چھوڑو منال آپی کو بھی میرا کوئی خیال نہیں آتا وہ بھی میری طرف دھیان نہیں دیتیں آپ کی وجہ سے" شزرا نے اپنی آنکھوں نے آنسو بھر کر اس سے اسی کی شکایت کی اتنے الزامات سن کے آزر کا سر ہی چکرا کہ رہ گیا۔

" میری وجہ سے۔۔۔۔۔؟" انہوں نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے  صدمے سے دوبارہ پوچھا۔

"جی آپ کی ہی وجہ سے" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔

" میں صبح سے یہاں بھوکی بیٹھی ہوں اور آپی کو کوئی خیال ہی نہیں وہ آپ کی پسند کا کھانا بنانے صبح سے کچن میں گھسی ہیں" شزرا اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی اور وہ سامنے بیٹھے اپنی مسکراہٹ روکنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

" تم اس وجہ سے مجھ سے خفا رہتی ہوں؟" بالآخر انہوں نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔

"آپ ہنس رہے ہیں مجھ پہ؟" شزرا نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔

اس کی بات پہ آزر اپنی ہنسی نہ روک پائے ان کا قہقہ بے سہتا تھا۔

شزرا نے کچھ غصے سے ان کی طرف دیکھا اور اٹھ کے پیر پٹختے ہوئے اندر کی جانب چلی گئی۔

"شزرا سنو تو سہی یار" آزر اسے آوازیں دیتے ہی رہ گئے مگر اسنے پلٹ کے نہ دیکھا۔

شزرا اپنے روم میں کھڑی تیار ہو رہی تھی جب منال اس کے روم میں آئی۔

"کہاں جا رہی ہو شزرا اس ٹائم؟" منال نے اسے تیار دیکھ کے سوال کیا۔

"آپی میں مریم کی طرف جارہی ہوں اس کی انگیجمنٹ ہونے والی ہے نہ تو اس نے کچھ کام کے لئے بلایا ہے میں جلدی آجاؤں گی" شزرا نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

"لیکن شزرا ٹائم دیکھو اندھیرا ہونے والا ہے اور آج رات آزر کی بھی فلائٹ ہے اور تم ایسے گھر سے جارہی ہو" منال نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

" آپی پلیز جانے دیں نہ میں جلدی آجاؤں گی" شزرا نے ہمیشہ کی طرح اسے منانے کے لیے اس کے گلے میں بازو حمائل کر دیئے۔

"اوکے جاؤ لیکن جلدی آجانا" منال نے بے دلی سے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

منال تیار ہو کہ نیچے آئی تو ہال میں سامنے ہی صوفے پہ دادو اور آزر بیٹھے تھے۔

آزر نے نظر اٹھا کر سہج سہج اترتی اس اپسرا کی طرف دیکھا جو جانے کب سے ان کے دل کے سنگھاسن پہ براجمان تھی مگر کچھ خفا سی تھی ان سے، وہ پلکیں جھپکنا بھول گئے۔

سیاہ لباس میں وہ ہمیشہ سے انہیں اچھی لگتی تھی اور پھر اس کے سیاہ بال جسے وہ ہر وقت پونی میں مقید رکھتی اس کی کمر پہ جھولتے رہتے۔

آزر نے بمشکل اس پہ سے نگاہیں ہٹائیں اتنی دیر میں دونوں دادو کے قریب آگئی تھیں۔

"دادو میں مریم کی طرف جارہی ہوں" شزرا نے ان کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے جاؤ بیٹا جلدی آجانا" دادو نے اجازت دی۔

"میں بھی باہر ہی جارہا تھا چلو شزرا تمہیں چھوڑ دوں" آزر نے خیالوں کے ہجوم سے باہر نکل کر اسے پکارا۔

شزرا نے چونک کر سامنے بیٹھے آزر کی طرف دیکھا شزرا کو وہ آج کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔

" نہیں میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی" شزرا نے ان کی طرف دیکھتے جواب دیا۔

"چلی جاؤ شزرا بیٹا آزر چھوڑ دے گا تمہیں اور دیکھو تو دن بھی ڈھلنے والا ہے جلدی آنے کی کوشش کرنا" دادو نے اسے آزر کے ساتھ جانے کا کہا اور ساتھ ہی اسے تاکید کی۔

"جی دادو" شزرا کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں بولنا پڑا۔

"میں باہر ویٹ کر رہا ہوں آجاؤ" آزر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کے باہر چلے گئے۔

شزرا بھی مرے مرے قدموں سے ان کے پیچھے ہولی۔

وہ باہر آئی تو آزر اسی کا ویٹ کر رہے تھے شزرا خاموشی سے کار کا دروازہ کھول کے بیٹھ گئی آزر نے بنا کچھ کہے کار آگے بڑھا دی۔

دونوں کے درمیان خاموشی حائل تھی۔

آزر کو شزرا کے خود سے گریز کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی وہ جتنا اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی ان سے دور بھاگتی تھی۔

گاڑی ہواؤں سے باتیں کرتی سڑکوں پہ دوڑ رہی تھی ۔

شزرا نے کچھ چونک کے اپنے خیالوں سے باہر سڑک کی طرف دیکھا۔

" مریم کا گھر تو پیچھے رہ گیا" شزرا نے آزر کو مخاطب کیا۔

" ہہہم " آزر نے یک لفظی جواب دیا اور گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھا دی شزرا نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"آزر کہاں جارہے ہیں آپ" اسے رفتار سے گاڑی دوڑاتا دیکھ کر شزرا نے جھنجھلا کے سوال کیا۔

" دو منٹ خاموش بیٹھو" آزر نے سنجیدگی سے کہا شزرا کو ناچاہتے ہوئے بھی خاموش ہونا پڑا۔

کچھ دیر بعد بالآخر گاڑی رک گئی شزرا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا آزر نے گاڑی سے اتر کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا وہ گاڑی سے باہر آئی تو حیرت سے سامنے کا منظر دیکھا۔

سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور اس کے پار ڈوبتا سورج۔

 آزر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کہ آگے بڑھے شزرا نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو گرفت مضبوط کردی گئی۔

اب لہریں ان کے پیروں کو چھو کے گزر رہی تھیں اور دور افق پہ ڈوبتا سورج ماحول کو ایک الگ ہی رعنائی بخش رہا تھا۔

" مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" آزر نے بالآخر ہمت جمع کرتے ہوئے کہا۔

" کیا بات کرنی ہے؟ ایسے آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ مجھے مریم کے گھر کیوں نہیں چھوڑا؟" شزرا نے ایک سانس میں کئی سارے سوالات کئے۔

"آئ لو یو" آزر نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بھاری آواز میں کہا۔ 

شزرا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

وہ اس کے روبرو کھڑی الجھی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

دور افق میں سورج ڈوب رہا تھا اور ادھر شزرا کا دل۔

وہ سن سی کھڑی رہ گئی۔

"شزرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!" آزر نے اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر اسے ہولے سے پکارا۔

شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

"آپ۔۔۔۔۔آپ یہ کیا بول رہے ہیں۔۔۔۔۔؟" شزرا کی زبان بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی دل کی حالت الگ عجیب تھی مانو ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔

"تم سب جانتی ہو شزرے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہو جبھی تم نے ہمارے درمیان میلوں کے فاصلے بنائے ہوئے ہیں تمہیں میرے محبت پہ کوئی شک ہے؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا اور جتا بھی دیا وہ اس کے اس گریز سے بے خبر نہیں تھے۔

"نن۔۔۔۔نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں" شزرا نے ہوا سے اڑتے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔

آزر نے کچھ کہے بنا اپنی پاکٹ سے رنگ نکال کر اس کے ہاتھ میں پہنا دی۔

شزرا نے اپنے ہاتھ میں چمکتی ڈائمنڈ رنگ کی طرف دیکھا اور آزر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال کر رنگ اتارنے کی کوشش کی۔

"آہاں۔۔۔۔اتارنا نہیں اسے" آزر نے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑتے ہوئے کہا۔

"میں آج جارہا ہوں اب ایک سال بعد لوٹوں گا اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کرکے جب تک کے لئے ایک التجا ہے اسے اپنی انگلی مت اتارنا تم میری امانت ہو واپس آکے اپنا جواب لوں گا جب تک اچھے سے سوچ لو کوئی جلدی نہیں" آزر نے رسانیت سے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا جیسے انہیں یقین تھا اب یہ رنگ ہر حالت میں شزرا کے ہاتھ کی زینت بنی رہے گی۔

شزرا نے نہ چاہتے ہوئے بھی رنگ اتارنے کی کوشش ترک کردی۔

آزر کے چہرے پہ دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

سورج ڈوپ چکا تھا۔خانہ بدوش ہوا ان کے اردگرد چکرا رہی تھی 

ہر طرف ملگجا سا اندھیرا پھیل گیا دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے تھے۔

"چلیں۔۔۔۔۔۔" آزر نے ٹھنڈی سانس بھر کے اس کی طرف دیکھا جس نے نہ بولنے کی قسم کھا رکھی تھی۔

آزر گاڑی کی طرف بڑھے شزرا بھی ان کے قدموں کی تقلید میں ان کے پیچھے گئی۔

سارے راستے گاڑی میں خاموشی چھائی رہی شزرا کی نگاہیں اپنی انگلی میں پہنی رنگ پہ ٹکی تھی آزر گاہے بگاہے اس کی طرف ایک آدھ نظر ڈال لیتے مگر وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔

گاڑی پورچ میں رکی تو شزرا نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا اور پلٹ کے دروازہ کھول کے اترنے لگی آزر نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"آزر پلیز۔۔۔۔۔۔" شزرا اب رو دینے کو تھی۔

"اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھوں گا" آزر نے اس کی طرف جھکتے سرگوشی کی اور اپنی انگلی کی پوروں سے ہولے سے اس کا گال چھوا شزرا کی گھنی پلکیں اس کے چہرے پہ سایہ فگن تھیں جو حیا کے بوجھ سے اٹھ ہی نہیں رہی تھیں۔

آزر نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ فوراً گاڑی سے باہر نکلی اور تیزی سے اندر چلی گئی۔

پھر اس رات آزر واپس لندن چلے گئے شزرا کو سوالوں کے نئے گرداب میں الجھا کر۔

"شزرا تم ابھی تک ہیں بیٹھی ہو نیچے کیوں نہیں آرییں۔۔۔؟؟؟" منال نے اس کے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا شزرا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"جی آپی بس میں آرہی تھی نیچے" شزرا نے اپنی پریشانی پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔

"آزر کب کے آئے ہوئے ہیں اور تم یہاں بیٹھی ہو۔ تائی امی اور دادو تمہارا پوچھ رہی ہیں۔ جلدی آو نیچے" منال نے اسے جلدی آنے کی تاکید کی اور نیچے واپس چلی گئی۔

شزرا نے اپنے دانتوں سے ناخن کترتے ہوئے کھلے دروازے کی طرف دیکھا اسے آج سب کا سامنا کرنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا مگر مرتے کیا نہ کرتے وہ بے دلی سے اٹھی آئینے میں ایک بار خود کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھا روشن چہرے پہ سیاہ آنکھیں جگمگا رہی تھیں شاید کسی کے واپس آنے کی خوشی ان سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لے رہی تھی اس نے گھبرا کر پلکیں جھکا لیں وہ یہ حقیقت شاید خود سے بھی چھپانا چاہ رہی تھی۔۔۔دل تھا کہ پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو بیتاب تھا اس نے اپنی بڑھتی دھڑکنوں پہ قابو پا کے نیچے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔

وہ نیچے پہنچی تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے ہر چہرہ آج کھلا ہوا تھا۔

سامنے صوفے پہ آزر اپنی پوری شان سے براجمان تھے شزرا نے اپنی بڑھتی دھڑکنوں پہ قابو پاکے انہیں نیچی آواز میں سلام کیا۔

"السلام وعلیکم" آزر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

"وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔"آزر نے اس کے سراپے پہ نظریں جمائے سلام کا جواب دیا۔

وہ ان کی نظروں سے کنفیوژ سی ہو گئی اور سر جھکائے منال کے برابر میں بیٹھ گئی آزر کی نگاہیں بار بار بھٹک کے اس کے صبیح چہرے پہ ٹک جاتیں۔

اس نے نظروں کی تپش محسوس کرکے سر اٹھا کے دیکھا تو آزر بے خودی سے اسے ہی تک رہے تھے۔

 "جاؤ بیٹا کھانا لگادو" تائی امی نے دونوں کو مخاطب کرکے کہا تو شزرا فورا اپنی جان بچا کے وہاں سے بھاگی۔

کھانے کے دوران بھی آزر نے اسے کئی بار مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ مختصر جواب دے کے خاموش ہوجاتی۔

کھانے کے بعد چائے کا دور چلا مگر شزرا سر درد کا بول کر اپنے روم میں آگئی۔

رات گہری ہوتی جارہی تھی گھر میں سب لوگ سو چکے تھے شزرا کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی وہ بستر پہ کروٹیں بدل بدل کے تھک گئی تو جھنجھلا کے اٹھ بیٹھی اور دوپٹہ کندھے پہ ڈال کر دبے پاؤں روم سے نکل کر باہر لان میں آگئی۔

وہ باہر لان میں ٹھنڈی ہوا میں چہل قدمی کرنے لگی چلتے چلتے وہ سوئمنگ پول کے پاس آگئی پورے چاند کا عکس پانی میں جھلمل کر رہا تھا وہ محویت سے کبھی چاند کو اور کبھی پانی میں پڑتے چاند کے عکس کو تک رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ وہ اس وقت کسی کی نظروں کے حصار میں قید ہے اور کوئی دنیا جہاں سے بے خبر اسے تکنے میں مصروف ہے۔

کچھ دیر بعد اپنی گردن پہ کسی کی سانسیں محسوس کرکے شزرا گھبرا کے پیچھے پلٹی۔

"آپ۔۔۔۔۔۔آپ یہاں۔۔۔؟" شزرا آزر کو دیکھ کے گھبرا ہی تو گئی تھی اسے اپنی دھڑکنیں اپنے کانوں میں محسوس ہوئیں۔

آزر اپنے چہرے پہ دنیا جہاں کی محبت سمائے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"جی میں یہاں" آزر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

شزرا پلٹ کے جانے لگی۔

"رکو تو۔۔۔کہاں جا رہی ہو؟" آزر نے نرمی سے شزرا کا ہاتھ تھاما۔

"کیا سوچا پھر تم نے؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ملائمت سے پوچھا۔

"کس۔۔۔کس بارے میں؟" شزرا کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔

"تم جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں" آزر نے خفگی سے اسے دیکھا۔

"مم۔۔۔۔مجھے نہیں پتا" شزرا نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔

"شزرا میری طرف دیکھو" آزر نے اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا شزرا کی پلکیں جھکی تھیں۔

"کیا ہوا ہے؟ مجھے صحیح سے بتاو۔۔۔۔تم کیا چاہتی ہو۔۔۔؟" آزر کے لہجے میں زمانے بھر کی محبت سمٹی تھی وہ کسی بھی حال میں شزرا کو کھونا نہیں چاہتے مگر اس کی مرضی کے بغیر بھی کوئی قدم اٹھانے پہ ان کا دل راضی نہیں تھا۔

"وہ میں نے آپی سے اس بارے میں بات نہیں کی۔۔۔پتا نہیں ان کا ری ایکشن کیا ہوگا" شزرا نے ڈرتے ڈرتے اپنے دل کی بات بتائی مگر آزر کی طرف دیکھنے سے اب بھی گریز تھا۔

"بس یہی بات ہے۔۔۔؟" آزر نے گھور کے اس کی طرف دیکھا ان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں اس پاگل لڑکی کو تو پتا بھی نہیں ان کا دل کیسے کیسے واہموں کا شکار ہوا تھا۔

"جی۔۔۔" شزرا نے گردن جھکائے جواب دیا اسے احساس بھی نہ ہوا اس نے اپنی آمادگی ظاہر کردی ہے۔

آزر کے لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ ابھری۔

"پاگل۔۔۔۔۔۔" آزر زیر لب بڑبڑائے۔

"جی۔۔۔۔۔!!" شزرا نے سر اٹھا کر ناسمجھی سے ان کی طرف دیکھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔" آزر نے ہنستے ہوئے اس پہ سر پہ ہلکی سے چپت لگائی شزرا نا سمجھی سے ان کی شکل دیکھنے لگی۔

"تم بھی ہنس لیا کو پابندی نہیں ہے تمہارے ہنسنے پہ" آزر نے اسے ہونقوں کی طرح خود کو دیکھتے پا کے کہا شزرا کے گلابی چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

"ویسے تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی۔۔۔؟"آزر نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کچھ شرارت سے پوچھا شزرا نے اچھنبے سے ان کی طرف دیکھا۔

"کس نے کہا مجھے آپ سے محبت ہے" شزرا نے گھبراہٹ سے ادھر اُدھر دیکھتے پوچھا مبادہ کوئی سن ہی نہ لے۔

"تمہاری آنکھوں نے اور آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں" آزر نے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں سرگوشی کی شزرا کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا وہ نظریں چرا گئی۔

چاند بھی بدلیوں کے پیچھے آنکھیں موندے چھپ چکا تھا ہر سو اندھیرا تھا مگر زمین پہ کھڑے وہ دو وجود محبت کی روشنی سے ہمکنار تھے انہیں اب کسی وقتی روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔

_____________________________

منال کا دل ایک عجب ہی لے پہ دھڑک رہا تھا سالوں سے وہ جس محبت کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپاتی آئی تھی شاید اب اسے منزل ملنے والی تھی اس نے تو اس محبت کی ہوا خود کو بھی لگنے نہ دی تھی ۔

اسے تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا وہ کب اس احساس سے روشناس ہوئی تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ احساس پوری شدت کے ساتھ زور پکڑتا گیا اسے نہیں یاد تھا کب اس کا دل پہلی بار آزر کو دیکھ کے دھڑکا تھا اسے بس اتنا پتا تھا آزر اس کے ہیں اور وہ آزر کی۔۔۔۔۔۔!!!!!

آج اتنے سالوں بعد اسے لگا تھا اس کی محبت کو منزل ملنے والی ہے وہ کچھ دیر پہلے ہی دادو اور تائی امی کی باتیں سن کے آئی تھی وہ لوگ آزر سے منال کے متعلق پوچھنے کا زکر کر رہے تھے اس سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی وہ چاہتی تھی ساری دنیا اس کی خوشی میں شریک ہو اور سب کو چلا چلا کے بتائے دیکھو جسے میں نے چاہا وہ میرا ہو جائے گا۔۔۔۔۔

کوئی ہوگا اس روئے زمین پہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت۔۔۔۔۔!!!

وہ بہت حساس تھی چھوٹی عمر میں ہی ماں کا سایہ سر سے چھین گیا تھا کلثوم بیگم شزرا کو جنم دیتے چل بسیں اس وقت منال کہ عمر دو سال تھی مگر اس نے شزرا کو ماں بن کے پالا تھا اس نے تو شزرا کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی مگر خود راتوں کو اٹھ اٹھ کے ضرور روتی تھی  مگر شزرا کی آنکھ میں ایک آنسو اسے برداشت نہ تھا شزرا نے بھی ماں کے روپ میں جسے دیکھا تھا وہ منال ہی تھی۔

مگر جب سے آزر کے ساتھ کا اسے احساس ہوا تھا اس نے خوش رہنا سیکھ لیا تھا اب اس کے ساتھ آزر کا خیال تھا اب وہ نہیں روتی تھی۔

___________________________

اگلے دن صبح سے ہی گھر میں چہل پہل تھی۔آزر کے آنے کی خوشی میں دادو نے سب رشتےداروں کو دعوت دی تھی اب سب لوگ اسی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

تائی امی آزر کے آنے سے بہت خوش تھیں اور کیوں نہ ہوتیں آزر ان کے اکلوتے بیٹے تھے جو ان کی ہر امید پہ پورا اترے تھے۔

تائی امی دادو اور منال تینوں صبح سے ہی کچن میں مصروف تھیں شزرا کچھ دیر پہلے ہی اٹھی تھی اور اب ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھی ناشتہ کرنے میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ دادو سے ڈانٹ کھانے میں بھی مصروف تھی۔

آزر آنکھیں ملتے ہوئے آکے ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گئے۔

"امی ناشتہ دے دیں" انہوں نے وہیں سے آواز لگائی۔

"بہو میں کہتی ہوں اس لڑکی کو کچھ گھرداری سکھا دو" دادو نے شزرا کر گھورتے ہوئے تائی امی کو مخاطب کر کے کہا۔

"امی سیکھ جائے گی وقت آنے پہ ابھی بچی ہے" تائی امی نے مسکرا کے کہا شزرا ان سب باتوں سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔

آزر دلچسپی سے دادو کی باتیں سننے لگے جبکہ شزرا کچھ بیزار سی بیٹھی تھی اس نے آزر کی طرف نہ دیکھا آزر اس کی پلیٹ سے سیب کی قاشیں اٹھا کے کھانے لگے جس پہ شزرا نے کچھ گھور کے انہیں دیکھا۔

"کل کو دوسرے گھر جائے گی تو ناک کٹوائے گی ہماری" دادو نے مصالحہ بھونتے ہوئے کہا۔

پورے گھر میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی تھی۔

"دادو ایک کام کرتے ہیں….." آزر کے چہرے پہ شرارتی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

" کونسا کام۔۔۔۔۔؟" دادو نے ناک پہ اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

"شزرا کو ہم کہیں جانے نہیں دیتے یہں روک لیتے ہیں" آزر نے اپنی مسکراہٹ دبائے کہا۔

شزرا نے جھٹکے سے سر اٹھا اٹھا کے آزر کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اس نے گھبرا کے ان تینوں کی طرف دیکھا۔

"ایسا نہیں ہوتا بیٹا لڑکیوں کو جانا ہی پڑتا ہے اپنے گھر" دادو نے رسان سے انہیں سمجھایا آزر نے شزرا کو دیکھ کے آنکھ دبائی دوسری جانب شزرا کے ماتھے پہ ٹھنڈا پسینہ نمودار ہوگیا تھا۔

وہ آزر کو گھورتی ہوئی وہاں سے اٹھ کے اپنے روم میں چلی گئی پیچھے اسے آزر کا قہقہہ سنائی دیا۔

کچھ دیر بعد آزر اٹھ کے شزرا کے روم کی طرف بڑھے۔

ناک کر کے اندر داخل ہوئے تو شزرا کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی آزر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور سینے پہ ہاتھ باندھے فرصت سے اسے دیکھنے لگے۔

شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کر انہیں دیکھا تو وہ مہویت سے اسے ہی تک رہے تھے۔

شزرا نے ایک آنکھ کی آبرو اٹھا کر انہیں دیکھا آزر نے نفی میں سر ہلا دیا اس نے کوفت سے سر جھٹکا۔

"تم مجھے پاگل کردو گی" آزر اس کے قریب کھڑے اس کے کان میں سرگوشی کر رہے تھے بھوری آنکھوں میں محبت کا دریا آباد تھا شزرا نے کرنٹ کھا کر انہیں دیکھا وہ اسکے بے حد قریب کھڑے تھے  ان کی سانسیں شزرا کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں شزرا نے ان کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے انہیں پیچھے دھکیلا اور پلٹ کے جانے لگی آزر نے اس کا بازو پکڑا اور اسے سامنے دیوار سے لگا دیا۔

"اگر مجھ سے محبت نہیں کرتیں تو ابھی بتا دو میں ختم کردوں گا یہ سب مگر مجھ سے تمہارا نظر انداز کرنا نہیں سہا جاتا" آزر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درشتی سے کہا پل بھر میں سیاہ نگینوں میں نمی نمودار ہوئی۔

اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے آزر نے اسے اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کیا اور جھنجھلا کے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"دیکھو شزرا صاف صاف بتادو جو بھی تمہارے دل میں ہے امی کب سے میرے پیچھے لگی ہیں شادی کے لئے میں انہیں صرف تمہاری وجہ سے ٹال رہا ہوں مجھے کل رات کو لگا تم شادی کے لئے راضی ہو مگر آج پھر وہی تمہاری بیگانگی ۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تم چاہتی کیا ہو" آزر بول بول کے تھک گئے تو بیچارگی سے اس کی طرف دیکھا جو کھڑی زور و شور سے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔

"افف رو کیوں رہی ہو؟" آزر نے تنگ آکے پوچھا.

"آپ نے ڈانٹا ہے مجھے" وہ آنسوؤں کے درمیان بولی۔

"یار ڈانٹ نہیں رہا میں پوچھ رہا ہوں" انہوں نے نرمی سے کہا۔

"مجھے آپ سے اب بات ہی نہیں کرنی" اس نے آنسو پونچھتے کہا اور بھاگتے ہوئے روم سے چلی گئی۔

"بہت سر پہ چڑھا دیا اسے سب لوگوں نے" پیچھے آزر صرف بڑبڑا کے رہ گئے۔

___________

دن ڈھل گیا تھا اور ایک خوبصورت سی رات کا آغاز ہو گیا تھا چاند پورے کروفر سے سیاہ آسمان پہ جگمگا رہا تھا اس کے ارد گرد جھلمل کرتے تارے محویت سے اسے تک رہے تھے تاروں کی محویت اچانک چاند کے بدلیوں میں چھپ جانے سے ٹوٹ جاتی اور وہ جھلمل کرنے لگتے ٹھندی ہوائیں دلوں کو گدگدا رہی تھیں اور جھوم جھوم کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔

پورا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا شاید کہکشاں زمین پہ اتر آئی تھی۔

لان میں لگے پھولوں کی خوشبو ہوا کے دوش پہ سوار ہو کہ سب کی سانسوں میں جیسے رچ بس گئی تھی۔

تقریب میں مہمان آنا شروع ہوچکے تھے تائی امی دادو اور منال سب مہمانوں کا استقبال کر رہی تھیں۔

امین صاحب اور دلاور صاحب مہمانوں کے استقبال کے لئے دروازے پہ موجود تھے۔

آزر تیار ہو کہ نیچے آئے تو تقریباً سب مہمان آچکے تھے بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس ماتھے پہ سلیقے سے سیٹ ہوئے بال اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو وہ بلاشبہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھے۔

انہوں نے شزرا کی تلاش میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں مگر وہ انہیں کہیں دیکھائی نہ دی صبح کی ہوئی تلخ کلامی کے بعد وہ انہیں نہیں دیکھی تھی انہیں خود پہ افسوس ہوا کیوں وہ اس پہ اتنا غصہ کر گئے تھے ابھی وہ بچی ہی تھی اسے یہ سب قبول کرنے کرنے کے لئے شاید وقت چاہیے گا وہ خود کو ملامت کرنے لگے۔

کچھ دیر بعد شزرا نیچے آتی دیکھائی دی سفید رنگ کے سادہ سے سوٹ میں ملبوس اس پہ ہلکا سا میک اپ اس کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا وہ سہج سہج سیڑھیاں اتر رہی تھی مگر اس قدم آزر کو اپنے دل پہ محسوس ہوئے وہ تو شاید پورے حق سے ان کے دل پہ براجمان تھی مگر اپنا حق لینا بھی نہیں چاہتی تھی۔

آزر نے ایک نظر ڈال کر اس پہ سے نگاہیں ہٹا لیں کہیں ان کی نظر ہی نہ لگ جائے۔

شزرا نیچے آکے منال کے پاس چلی گئی آزر بھی سب مہمانوں میں مصروف ہو گئے۔

" شزرا ادھر آؤ بیٹا" تائی امی نے شزرا کو آواز دے کہ بلایا وہ اسے آزر کے ماموں مامی سے ملوانا چاہتی تھیں جو ایک عرصہ کینیڈا میں گزار کے واپس اپنے وطن آگئے تھے ان کے دو ہی بچے تھے بڑا بیٹا برہان اور بیٹی سویرا یہ لوگ بھی آج کی تقریب میں مدعو تھے۔

آزر ان کے پاس ہی کھڑے تھے جب شزرا وہاں آئی شزرا انہیں نظر انداز کر کے ان کی طرف بڑھی۔

" یہ میری چھوٹی بیٹی ہے شزرا" تائی امی نے محبت سے اس کا تعارف کروایا برہان نے خاص دلچسپی سے شزرا کا جائزہ لیا جو آزر کی نگاہوں سے چھپا نہ رہ سکا انہوں نے نہایت ناگواری سے برہان کو دیکھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شزرا کو یہاں سے کہیں دور لے جائیں وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے شزرا سویرا سے باتوں میں مصروف تھی اس نے برہان کی طرف دھیان نہ دیا۔

"شزرا میری بات سننا دو منٹ کے لیے" آزر نے بالآخر شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے چونک کہ ان کی طرف دیکھا اور سر ہلا کے ان کی طرف بڑھی۔

" جی۔۔۔" وہ ان کے سامنے کھڑی سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

" کچھ نہیں"  آزر نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔

" تو بلایا کیوں تھا" شزرا کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی۔

" میرا دل کر رہا تھا تمہیں بلانے کا" آزر  نے مسکراتے ہوئے جواب دیا شزرا نے آزر کی طرف ایسے دیکھا جیسے اسے ان کی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

" ایسے تو نہ دیکھو اب مجھے" آزر نے شرارت سے کہا شزرا نے گھور کے انہیں اور کچن کی طرف چلی گئی۔

کچھ دیر بعد تقریب اپنے اختتام کو پہنچی سب اپنے روم میں سونے جا چکے تھے شزرا کچن میں کھڑی اپنے اور منال کے لئے چائے بنا رہی تھی تبھی پیچھے کھٹکا ہوا شزرا نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو آزر اطمینان سے سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے وہ انہیں نظر انداز کر کے واپس چائے کی طرف متوجہ ہوگئی۔

" چائے ملے گی؟" آزر نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا ان کے لہجے میں ہمیشہ والی بشاشت نہیں تھی شزرا نے ان کے لہجے کی تھکاوٹ محسوس کی شاید اس کا دل بھی اب ان کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔

"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟" شزرا نے پریشان ہو کہ پوچھا۔

"ہہہم ۔۔۔۔" انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا شزرا کچھ نہ بولی۔

"کب تک انتظار کروں میں؟" آزر نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا آج آزر کے ماموں مامی باتوں ہی باتوں میں برہان کے رشتے کے لئے جتا گئے تھے جب سے آزر کو کسی کل چین نہیں تھا کیتلی میں چائے پلٹتی شزرا کا ہاتھ ایک لمحے کے لئے کانپا تھا اس نے آزر کی طرف دیکھا جن کے چہرے پہ صرف سنجیدگی تھی۔

"مجھے آپی سے بات کرنی ہے پہلے" شزرا اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوئے کہا آزر نے ٹھندی سانس بھر کے اس کی طرف دیکھا۔

" ٹھیک ہے کرلو۔۔۔۔لیکن یہ یاد رکھنا اگر دو دن میں تم نے کوئی جواب نہ دیا تو میں خود امی سے بات کر لوں گا" آزر نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا اور چائے کا کپ اٹھا کے باہر نکل گئے ان کے جاتے ہی شزرا کی جیسے جان میں جان آئی۔

وہ چائے کا کپ اٹھائے اپنے روم میں آگئی ساری رات اسے اس بارے میں سوچتے گزر گئی مگر وہ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکی رات اس نے آنکھوں میں کاٹی تھی وہ نہیں جاتی تھی زندگی اسے کس موڑ پہ لے جانے والی ہے.

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Wahshat E Ishq  written by Rimsha Mehnaz  . Wahshat E Ishq    by Rimsha Mehnaz  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages