Tere Ishq Mein Novel By zumer Ali Episode 3 to 4 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 15 January 2023

Tere Ishq Mein Novel By zumer Ali Episode 3 to 4

Tere Ishq Mein Novel By zumer Ali Episode 3 to 4

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Mein Novel Amber Ali Episode 3'4



Novel Name:Tere Ishq Mein 

Writer Name: Amber Ali

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"ضامن وہ صرف مذاق کررہا تھا"

زمل مسلسل ہنس رہی تھی،جس پہ ضامن مزید تپ رہا تھا

"تم ہنس لو نہیں نہیں ہنس لو"

وہ اس کہ کہنے پہ چپ ہوگئ تو وہ غصے سے بولا

"ضامن صرف مذاق تھا یار"

وہ ایک گھنٹے سے اسے منانے کی کوشش کررہی تھی،مگر اسکی باتوں پہ ہنس جاتی تھی،جس پہ ضامن مزید خفا ہوجاتا تھا

"تو میں نے کچھ کہا ہے کیا"

وہی انداز ہنوز قائم تھا

"یار وہ بیچارا تو۔۔۔۔"

"خبردار جو اس کو بیچارا کہا،کمینہ"

ضامن نے دانت پیسے،زمل نے ہنسی ضبط کی

"ٹھیک ہے جب موڈ صحیح ہوجاۓ آجانا باہر"

"بیٹھی رہو چپ کر کہ کہیں نہیں جارہی تم"

وہ اسے گھورتے ہوا بولا

"یہ صحیح ہے ویسے"

زمل کو ناچار وہیں بیٹھنا پڑا،اب وہ اسے ناراض بھی نہیں کرسکتی تھی،پھر کچھ سوچتے ہوۓ بولی

"ضامن،ایک بات پوچھوں"

"ہوں۔۔بولو"

وہ فائل میں مصروف تھا، فائل سائیڈ پہ رکھ کہ بولا

"اگر کبھی ایسا ہوا،کہ"۔۔۔وہ چپ ہوئ

"کہ۔۔؟" ضامن نے پوچھا

"کہ سب کچھ خراب ہوگیا،مطلب سب کی آپس میں"

وہ چپ ہوگئ، وہ نہیں کہہ سکی کہ تمہارے بھائ اور میری بہن کہ رشتے سے ہمارا رشتہ کتنا اثر انداز ہوگا،مگر وہ ضامن تھا، ضامن جواد احمد جو اسے جاننے کہ دعوے کرتا تھا،جس کو اسکی سوچ تک رسائ تھی۔،تو وہ کیسے نہ جانتا کہ وہ کیا خدشہ لیۓ بیٹھی ہوئ ہے

"ہم کبھی الگ نہیں ہونگے،میں ہونے ہی نہیں دونگا"

وہ یقین سے بولا تو زمل نے مہز مسکرانے پہ اکتفا کیا

"میں جانتا ہوں تمہیں ہر پریشانی یا مسئلے میں میرا 'میں ہوں نا' سننے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ جب تک میرے سامنے من کا غبار نہ نکال لو،زندہ محسوس نہیں کرپاتی

سب کہ لیۓ مغرور سی لڑکی درحقیقت کس قدر کمزور ہے یہ مجھ سے بہتر کوئ نہیں جان سکتا"

وہ اس کا ہاتھ تھامے بول رہا تھا

"یہ بے عزتی تھی کہ تعریف"

زمل نے ناک چڑھا کہ کہا،تو وہ ہسنے لگا

"کچھ بھی سمجھ لو"

تبھی دروازہ ناک کر کہ امل اندر آئ

"اگر رومانس ہوگیا ہو تو چل کہ کھانا کھا لیں"

"زمل تم نے مجھے دھوکہ دیا،افسوس بےوفا لڑکی"

امل کہ پیچھے سے زاویار بھی نمودار ہوتے ہوۓ بولا

"تو رک تیری محبت کہ چاہ میں پورے کرتا ہوں"

ضامن اس تک پہنچتا مگر اس سے پہلے زاویار نے دوڑ لگادی تھی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آپ نے نکاح کا ڈریس لینے جانے سے انکار کیوں کردیا"

ہاشم لیٹا ہوا اپنی سوچوں میں مگن تھا،جب زمل وہاں آئ تھی۔۔،ضامن بھی وہیں موجود تھا

"کیوں کہ میرا دل نہیں چاہا"

"ہاشم بھائ آپکا نکاح ہورہا ہے۔،یہ عید کا سوٹ لینے جانے کی بات نہیں ہورہی"

زمل نے اسے سمجھانا چاہا

"کی فرق پڑتا ہے جب میرے لیۓ یہ سب معنی ہی نہیں رکھتا"

"ایک منٹ۔۔۔کوئ مجھے بتاۓ گا کہ کیا ہورہا ہے"

ضامن نے سوال کیا

"پوچھو انہی سے،بلکہ سمجھاؤ انہیں یہ رشتہ بخوش نبھائیں گے تو ہی یہ شادی ہوگی،ورنہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا،بعد کہ رونے سے بہتر ہے کہ ابھی رولیا جاۓ"

زمل غصے میں سب کہہ کہ چلی گئ

"بھائ یہ سب کیا ہورہا ہے"

ضامن نے پوچھا۔۔،تو ہاشم لفظ بہ لفظ اسے سب بتانے لگ

ا

اور ضامن حیران پریشان سا سب سنتا رہا۔۔

"اور آپ اب شادی کررہے ہیں"

"تو میں کیا کروں ضامن"۔۔۔۔۔وہ بےبس تھا

"دادو سے بات کریں یار"

"تم جانتے ہو وہ نہیں مانیں گی"

"تو پھر۔۔؟"

پھر یہ کہ کوئ چوائس نہیں ہے"

ہاشم سر نفی میں ہلانے لگا

"چوائس ہے بھائ،ابھی آپ کہ پاس چوائس ہے،مگر بعد میں نہیں ہوگی،بزدلوں کی طرح فیصلہ نہ کیجیۓ گا،ابھی بھی وقت ہے"

وہ اسے سوچنے کہ لیۓ چھوڑ کہ باہر نکل آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضامن باہر لان میں آیا،تو زمل کو ان سب کہ بیچ میں بیٹھا ہوا پایا۔۔ وہ ڈائریکٹ اس کا ہاتھ پکڑ کہ وہاں سے لے آیا اور زاویار زور زور سے سیٹی بجانے لگا 

"تم تو منہ بند کرو اپنا"

امل نے اس کہ بازو پہ دھپ رسید کی۔،اور بس پھر امل اور زاویار بن گۓ ٹام اینڈ جیری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں نے بھائ کو سمجھایا ہے"

ضامن نے بات شروع کی

"میں انہیں ہزار دفعہ سمجھا چکی ہوں"

زمل نے جواب دیا

"یار زمل تم جانتی تو ہو ان کیلیۓ یہ سب کتنا مشکل ہے ابھی،اچانک اتنا بڑا چینج۔۔۔۔۔

"ضامن ابھی ان کیلۓ مشکل ہے،بعد میں سب کیلیۓ مشکل ہوجاۓ گا"

وہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولی

"میں جانتا ہوں،مگر تم بھی سمجھو انہیں کچھ اسپیس دو،تم بھی جانتی ہو مجھے یہ سب تمہیں سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دل ہر جگہ نہیں لگتا،لاڈ ہر کسی سے نہیں اٹھواۓ جاتے ،مان ہر کسی پہ نہیں ہوتا،ہر کسی کیلیۓ ہم کھلی کتاب نہیں ہوتے،ہر کسی کی آنکھوں سے پڑھے جانے کی خواہش نہیں ہوتی،کبھی کسی ہجوم پہ نگاہ نہیں رکتی،نظر کسی ایک پہ ہی ٹکتی ہے،دل کوئ نامعلوم جزیرہ نہیں جو ہر کشتی کو پناہ دینا چاہتا ہے۔،سمجھ رہی ہو نہ"

وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوۓ بولا

"ہاں۔،تمہیں تو فلاسفر ہونا چاہیے تھا"

وہ شرارت سے بول کہ ہنسنے لگی ، ضامن بھی سرنفی میں ہلاتے  ہوۓ ہنس دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیا یار آپی آپ کیوں ڈریس لینے نہیں جارہی ہیں"

امل کب سے فجر کو منا رہی تھی،مگر اسکی نہ ہاں میں نہ بدلی،ہاشم کی بےدلی دیکھ کہ اسکا بھی جی-اچاٹ ہوگیا تھا

"مجھے تنگ نہیں کرو امل"

"کیا ہوگیا بھئ،آپ ہی کی شادی ہے یار،تھوڑا سیریئس لے لو شادی کو۔،شادی ہے یہ کالج کی فیئر ویل پارٹی نہیں ہے یار خدا کو مانو"

"امل تم چلو میں انکو لے کہ آتی ہوں"

زمل کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولی

"جلدی آنا،میں ہاشم بھائ کو تیار کرواتی ہوں"

امل اس کہ کان میں سرگوشی کر کہ جلدی سے باہر بھاگی

"کیا ہوا ہے آپی"

زمل اسکا ہاتھ تھام کہ پوچھنے لگی

"مجھے یہ شادی نہیں کرنی زمل"

"کیوں"۔۔۔۔وہ حیران ہوئ

"میں ابھی رو سکتی ہوں،لیکن ساری زندگی نہیں روسکتی"

"نہیں آپی وہ ہاشم بھائ۔۔۔۔۔"

"بس کردو زمل،مجھے سب معلوم ہے،میں ہاشم اور ضامن کہ درمیان ہونے والی گفتگو سن چکی ہوں"

فجر کی آنکھوں میں نمی اتر آئ۔،زمل نے سرجھکا لیا،فجر نے کہنا شروع کیا

"پتا ہے ہم خود کو اذیت میں خود ہی ڈالتے ہیں،کسی ایسے انسان کہ سامنے اپنے جذبات ضائع کر کہ جو ان لفظوں کو سمجھے گا ہی نہیں،اس پہ محبت یا محبتوں بھرے جملے ضائع کر کہ واپسی کی توقع رکھتے ہیں،اور پھر روتے ہیں کہ اسنے ہمیں رلایا۔۔ارے نہیں۔۔! ہماری توقعات ہماری تکلیف کی وجہ بنتی تھی،میں نے خود کو سمجھا لیا ہے اپنی خوشی کو خود میں ڈھونڈنا ہے دوسروں میں نہیں"

فجر کہتے ہوۓ روپڑی تھی،زمل نے فورا اسے گلے سے لگایا

"مگر آپی کسی کو محبت کرنے کیلیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ محبت بھرے جملے نچھاور کر رہے ہیں تو یہ آپکی محبت ہے۔اگر وہ اچھا جواب نہیں دے رہا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ قابل ہی نہیں ہے۔۔۔ پھر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ اس نے تکلیف دی۔ حالانکہ محبت کرنا یا نہ کرنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہ دل کے رشتے ہیں"۔۔۔

"یہ بہت مشکل ہے زمل،کیا تم میرا ساتھ دوگی"

فجر اس کہ گلے سے لگی پوچھنے لگی

"یہ کیسی باتیں کررہی ہیں آپ آپی،میں ہمیشہ آپ کہ ساتھ ہوں"

زمل نے اسےیقین دہانی کروائ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بابا میں آجاؤں"

زمل نے اجازت چاہی۔،

"آجاؤ میری بیٹی"

وہ بہت محبت سے کھڑے ہوتے ہوۓ بولے۔،یہ انکی ہمیشہ کی عادت تھی،وہ اپنی تینوں بیٹیوں پہ جان نچھاور کرتے تھے

"ارے بیٹھیۓ آفندی صاحب کھڑے کیوں ہوگۓ"

زمل شرارت سے بولی

"ہاہاہا بدتمیز"۔۔۔وہ بیٹھے،تو دو منٹ زمل چپ رہی،وہ ڈر رہی تھی۔،اسنے ضامن سے بھی بات نہیں کی تھی جانے اسکا کیا ری ایکشن ہوگا۔۔وہ سوچنے لگی

"کیا بات ہے زمل"

"بابا وہ بات یہ ہے کہ۔۔"

ابھی زمل کچھ بولتی اس سے پہلے مریم بیگم وہاں آئیں

"نیچے چل کہ دیکھیۓ کیا کارنامہ انجام دے کہ آۓ ہیں بھتیجے"۔۔۔

وہ نخوت سے بولیں

"کیا ہوا مما"۔۔۔۔زمل نے پوچھا

"ہاشم لڑکی لے کہ آیا ہے"

"لل۔۔لڑکی کیا مطلب"۔۔۔وہ ٹھٹکی دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی تھی،اور ان دونوں کہ کچھ کرنے،کہنے یا سننے سے پہلے وہ کمرے سے بھاگتے ہوۓ نکلی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بتاؤ برخوردار یہ کون ہے"

وہ لاؤنج میں آئ،تو دادو کی گرج دار آواز گونج رہی تھی

ہاشم ایک لڑکی کہ ساتھ کھڑا تھا،اور ان کہ ساتھ ایک طرف زاویار کھڑا تھا اور طرف ضامن۔۔

زمل نے ضامن کی جانب دیکھا،تو وہ اس پہ سے نظر پھیر گیا

"کیا پوچھا ہے تم لوگوں سے کون ہے یہ"

جواد صاحب غصے سے دہاڑے تھے

امل فجر کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی،جو کسی بھی وقت گرجاتی۔۔

"بابا،بھائ نے آپ لوگوں سے کئ دفع بات کی مگر آپ نے سنا ہی نہیں،تو ہم سے بھائ کا نکاح کروادیا ہے،یہ زینب ہے"

ضامن نے بتایا،سب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا

اور جواد صاحب نے ایک زور دار تھپڑ ہاشم کو لگایا تھا

سب چپ تھے

"یہ تربیت کی تھی ہم نے تمہاری کہ ایک لڑکی کو بھگا لاؤ،اور تم قاضی صاحب بنے بھائ کا نکاح پڑھوا کہ آۓ ہیں،بہت خوب تو اب اس گھر میں کیا کررہے ہو تم لوگ"

انہوں نے ہاشم کہ ساتھ ساتھ ضامن کو دھکا دیا،جو لڑکھڑا کہ دو قدم پیچھے ہٹے

"بس کیجیۓ ابو،زندگی میں نے گزارنی ہے،تو میں کیوں اس سے شادی کروں جسے میں پسند ہی نہیں کرتا،ساری زندگی دادو کہ فیصلے کہ آگے سر جھکایا ہے آپ نے اب کم از کم ہماری تو نہ قربانی دیں"

ہاشم بھی چیخ کہ بولا تھا

"واہ بیٹا بہت خوب،یہ تربیت کی ہے تم نے انکی"

دادو بھی تیز لہجے سے بولیں

"اور تم بہو رانی کس نیچ خاندان سے ہو"

وہ زینب سے مخاطب ہوئیں

"دادو بس بہت ہوا،میں ایک لفظ نہیں کسی کا برداشت کرونگا،بیوی ہے یہ میری سمجھیں آپ"

ہاشم ہر ایک سے لڑرہا تھا،وہ غلط قدم اٹھا چکا تھا تو اب نتائج بھی تو بھگتنے تھے نہ۔۔

"زبان تو دیکھو لاڈلے کی حج کر کہ آۓ ہو نہ،شاباش بہت خوب کیا کہہ سکتے ہیں جب ماں نے ہی ایسی تربیت کی ہے،آج سے میری صرف تین پوتیاں ہیں، کوئ نواسہ نہیں، کوئ پوتا نہیں، مرگۓ سب۔۔" 

"اور مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا نہیں ہے"

اس سب میں آفندی صاحب پہلی مرتبہ بولے 

"آپی"۔۔۔۔امل چلائ۔۔۔فجر اسی کہ بازوؤں میں جھول گئ تھی

سب بھاگے تھے اسکی طرف،

ضامن اور زاویار نے اسے پکڑنا چاہا تو آفندی صاحب بولے

"اسے ہاتھ مت لگانا،ابھی میرے بازوؤں میں اتنا دم ہے کہ اپنی اولاد سنبھال سکوں"

وہ فجر کو لیۓ باہر کی طرف بھاگے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آفندی صاحب،جواد احمد،مریم بیگم اور زمل  ہسپتال کہ کوریڈور میں موجود ڈاکٹر کہ باہر آنے کا انتظار کررہے تھے،جب ڈاکٹر باہر آۓ

"ڈاکٹر میری۔۔میری بیٹی کیسی ہے"

مریم بیگم بولیں

"گھبرانے کی بات نہیں ہے،پیشنٹ کا بی-پی بہت لو ہوگیا تھا جس وجہ سے وہ بیہوش ہوگئیں تھیں،ڈرپ لگا دی ہے، بی-پی نارمل ہوگا تو وہ ہوش میں آجائینگی"

ڈاکٹر نے بتایا تو سب کو تسلی ہوئ

زمل نے مریم بیگم کو تھام کہ وہاں موجود بینچ پہ بٹھایا،جبکہ امل گھر پہ دادو کہ پاس تھی

"مما سب ٹھیک ہوجاۓ گا آپ پریشان نہ ہوں"

"کیسے پریشان نہ ہوں،میری بیٹی کی شادی ٹوٹ گئ ہے،ہسپتال میں پڑی ہے وہ کیسے پریشان نہ ہوں"

وہ کہتے ہوۓ رونے لگیں،ماں تھیں نہ بیٹی کا غم انہیں رلا رہا تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں کمرے میں داخل ہوۓ تو ہاشم سیدھا بیڈ پہ جا کہ لیٹا۔۔

"آئ ایم سوری جو کچھ دادو نے کہا"

ہاشم اسکا ہاتھ تھام کہ بولا

"کوئ بات نہیں،ہم نے جو کیا ہے اس پہ یہ سب سننا تو ملے گا"

وہ پھیکا سا مسکرائ،تو ہاشم نے اثبات میں سر ہلا کہ آنکھیں موند گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمل صبح جواد صاحب کہ ساتھ گھر آگئ تھی،فجر کا بی-پی نارمل نہیں ہوپارہا تھا۔۔وہ ہوش میں آگئ تھی،مگر ابھی کمزوری بہت تھی وہ اٹھ نہیں پارہی تھی جس کہ باعث ڈاکٹر نے دو دن ہسپتال میں رکنے کا ہی کہا تھا 

"کیسی ہیں آپی"

فجر کو دیکھ کہ امل اس کی جانب لپکی۔۔جواد صاحب وہاں سے چلے گۓ تھے

"ٹھیک ہیں اب،تم نے ناشتہ کیا"

زمل نے پوچھا

"نہیں،مجھے کہاں آتا ہے بنانا"

وہ پھیکا سا ہنس کہ بولی

"آؤ چلو میں بناتی ہوں" 

زمل کچن کی جانب بڑھتی ہوئ بولی

تو امل بھی اس کہ پیچھے پیچھے چل دی۔۔۔

وہ دونوں ناشتہ کر کہ کچن سے نکلیں تو سامنے سے ضامن،ہاشم اور زینب کو آتے دیکھا،

وہ دونوں انہیں نظرانداز کر کہ آگے بڑھنے لگیں تو ہاشم نے زمل کو آواز دی۔۔۔

"فجر کیسی ہے"

"کیسی ہونی چاہیے وہ"

زمل نے جواب دینے کہ بجاۓ سوال کیا

"میں شرمندہ ہوں مگر۔۔۔

"آپکی شرمندگی سے بات تو نہیں بنتی مگر اب آپکا کوئ تعلق نہیں کہ وہ زندہ ہیں مرگئیں ہیں"

زمل نے جواب دیا اور ایک نظر زینب کو دیکھ کہ بولی

"شادی مبارک ہو"

اس سب میں وہ ضامن کو مکمل نظرانداز کیۓ ہوۓ تھی

جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے بہت غصہ آرہا ہے زمل"

امل چپس کھاتے ہوۓ بولی

وہ دونوں آج کالج آئیں تھیں،اور اب کلاس نہ ہونے کی وجہ سے کینٹین میں موجود تھیں

گھر پہ وہ کوئ بات نہیں کرسکی تھیں،مستقل وہ دونوں فجر کہ ساتھ موجود تھیں،ہر وقت کوئ نہ کوئ اوٹ پٹانگ باتوں سے اس کو ہنساتی رہتی تھی

"مجھے سب پتہ تھا امل"

"کیا مطلب،یہ مت کہنا کہ تم جانتی تھی ہاشم بھائ شادی کرنے جارہے ہیں"

امل کو اس کی بات پہ دھچکا جبھی آگے ہوتے ہوۓ بولی

"پاگل ہو کیا سر نہ پھاڑ دیتی میں انکا"

زمل غصے سے بولی

"اچھا باقی سب تو مجھے بھی پتہ تھا کہ وہ زینب کو چاہتے ہیں"

"تم کیسے جانتی تھی"۔۔۔وہ پوچھنے لگی

"تم لوگوں سے زیادہ میں ان کہ کلوز تھی شاید،مگر میں ان کو معاف نہیں کروں گی،اور خبردار جو ضامن بھائ سے بات کی ہو تو،بھول جاؤ اب انہیں"

امل یاد آنے پہ بولی،اسکی بات پہ زمل نے تڑپ کہ اسے دیکھا،باقی سب کیلیۓ کتنا آسان ہوتا ہے نہ اسے بھول جانے کا کہہ دینا۔۔

"ہاں میں ناراض ہوں اس سے"۔۔۔زمل اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوۓ بولی۔۔۔امل نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا

وہ سمجھ نہیں سکی کہ زمل خود کو باور کروارہی تھی یا خود کو ہمت دے رہی تھی

"دیکھو زمل جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیۓ تھا،مگر تم اب جانتی ہو کہ شاید ہی ایسا ممکن ہو جو تم چاہتی ہو،ورنہ اب کوئ چانس نظر نہیں آرہا ہے،خود کو سمجھاؤ ہمت کرو"

امل اس کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے رسانیت سے اسے سمجھانے لگی۔۔

زمل آنکھوں میں آتی نمی کو پیچھے دھکیل کہ اٹھ کھڑی ہوئ۔۔"چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا"۔۔تو امل بھی سر ہلاتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سلام پھپھو"

وہ دونوں کالج سے گھر آئیں تو لاؤنج میں ہی دادو اور صباء بیگم موجود تھیں،انہیں سلام کر کہ وہ انہیں کہ پاس بیٹھ کہ باتیں کرنے لگیں۔۔

تھوڑی دیر میں وہاں ضامن اور زاویار بھی آگۓ تھے

جس کا کسی نے بھی خاص نوٹس نہیں لیا،ضامن اپنے سامنے والے صوفے پہ موجود زمل کو ایک ٹک دیکھنے میں مصروف تھا جب زاویار نے اسے کہنی مار کہ اسکا ارتکاز توڑا

"بس کردے کچھ شرم کرلے،سب کہ بیچ میں تاڑ رہا ہے اسے"

"تو اپنا کام کرنہ"۔۔۔وہ جھنجھلا کہ بولا

"دیکھ بھی نہیں رہی وہ تیری طرف"

زاویار نے ہنس کہ کہا

"ناراض ہے نہ اسلیۓ"

"اور وہ مانے گی کیسے"۔۔۔وہ پوچھنے لگا

"اسکو کوئ نہیں منا سکتا جب تک وہ خود نہ ماننا چاہے"

ضامن افسوس سے بولا

"بس کر،افسوس ایسے کررہا ہے جیسے تیرے بھائ نے نہیں اسکی بہن نے بھاگ کہ شادی کی ہے"

"زیادہ بکواس نہ کر"۔۔۔وہ گھور کہ بولا

"اماں جی آجائیں کھانا لگ گیا ہے"

آمنہ بیگم ڈائننگ ٹیبل سیٹ کرتے ہوۓ بولیں

"تم دونوں نے چینج نہیں کیا اب تک،جاؤ چینج کرو جا کہ،اور زمل تم فجر کہ ساتھ کھالینا،وہ تمہارا پوچھ رہی تھی"

مریم بیگم وہاں آتے ہوۓ بولیں،انکی بات پہ ضامن نے زاویار کی جانب دیکھا

"اچھا میں انہیں لے کہ آتی ہوں"

زمل بیگ اٹھاتے ہوۓ بولی،تو امل بھی اٹھ گئ

"اس کو کمرے میں ہی رہنے دو"

زینب اور ہاشم کو آتے دیکھ کہ مریم بیگم نے منع کرنا چاہا

"کیوں،انہوں نے بھاگ کہ شادی کی ہے جو وہ چھپ کہ بیٹھیں"

زمل ناچاہتے ہوۓ بھی تلخ ہو کہ بول پڑی،جبکہ ضامن نے بےیقینی سے اسکی جانب دیکھا،وہ تو کسی قاتل کو بھی قاتل کہتے ہوۓ سودفعہ سوچتی تھی تو اب اتنی تلخ مزاج کیسے ہوگئ وہ۔۔۔جبکہ زینب نے شرمندگی سے سرجھکالیا 

آنکھوں میں فورا آنسو آۓ تھے،جنہیں چھپانے کیلیۓ وہ سرجھکاۓ بیٹھی رہی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آپی چلیں کھانا کھائیں چل کہ سب کہ ساتھ"

وہ کمرے میں آتے ہوۓ بولی

"یہیں لے آؤ،ہم تینوں ساتھ کھالینگے،مجھ سے اٹھا نہیں جارہا"۔۔۔۔فجر بہانہ کرتے ہوۓ بولی

"کب تک اس کمرے میں قید رہیں گی،جنہیں شرمندگی ہونی چاہیۓ وہ سب تو پورے گھر میں دندناتے پھر رہے ہیں"

زمل کو غصہ آیا

"زمل ضد نہیں کرو"

"آپی آپ 5منٹ میں اٹھ رہی ہیں بس بہت ہوا،اور جب ہم خود ہی اس شادی سے انکار کرنے جارہے تھے،پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ کیا ہوا،بس اٹھیں چلیں"

وہ فجر کا ہاتھ پکڑ کہ اٹھانے لگی

"ضامن سے بات ہوئ"۔۔۔۔فجر نے پوچھا

"نہیں"

"اسکو معاف نہیں کرنا زمل،وہ اپنے بھائ کیلیۓ تم سے رشتہ داؤ پہ لگا گیا،تو تم اپنی بہن کیلیۓ وہ رشتہ ختم کردینا"

زمل نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا،ایک پل کو اسے فجر خودغرض لگی،مگر یہاں اسکی خودغرضی جائز تھی

"چلیں کھانا کھاتے ہیں"۔۔۔۔وہ دروازے کی جانب بڑھتے ہوۓ بولی

"مجھے غلط مت سمجھنا زمل،مگر یہاں ہاشم کو پےبیک کرنے دو،وہ اپنے بھائ پہ جان دیتا ہے،میں دیکھنا چاہتی ہوں جب اس کہ بھائ نے اس کیلۓ اپنی بچپن کا عشق داؤ پہ لگا دیا،تو وہ کیا کریگا،اس سے محبت پہ میرے ساتھ تمہیں سزا ملی ہے تو،وہ بھی تو سزا کا حقدار ہوا نہ"

فجر نے کہا تو زمل نے مہز گردن ہلادی

"مت دیکھ کہ وہ شخص گنہگار ہے کتنا

یہ دیکھ کہ تیرے ساتھ وفادار ہے کتنا"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں کھانے کی میز پہ پہنچیں تو تقریبا سب کھانا شروع کرچکے تھے،سواۓ ضامن کہ،وہ زمل کا انتظار کررہا تھا،اور وہاں موجود ینگ پارٹی میں سب جانتے تھے،

یہ ان دونوں کی شروع سے عادت تھی،دونوں میں سے ٹیبل پہ ایک بھی موجود نہ ہوتا،تو تب تک دوسرا کھانا شروع نہیں کرتا تھا۔۔۔

"زمل یہ پانی کا جگ بھر لانا"

صباء بیگم نے اسے جگ تھمایا

"جی پھپھو۔،"

"لاؤ میں لے آتی ہوں"

زینب نے کہا،تو زمل بغیر کوئ جواب دیۓ چلی گئ

سب نے ایک نظر دونوں کو دیکھا پھر دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگۓ

وہ واپس آئ تو فجر اسکی جگہ پہ براجمان تھی،جو کہ ضامن کہ برابر والی کرسی تھی،وہ جانتی تھی فجر جان بوجھ کہ وہاں بیٹھی تھی،جبھی خاموشی سے دوسری طرف جا کہ بیٹھ گئ۔،

کھانے کہ دوران ضامن سے نظر ملی تو وہ اسے دیکھ کہ مسکرایا،جسے نظرانداز کر کہ وہ کھانے میں مصروف رہی

"ہاش ضامن بیٹا،خوب محنت لگنے والی ہے تیری،پاپڑ بیلنے شروع ہوجا"

زاویار اسکا مسکرانا،اور زمل کا نظرانداز کرنا دیکھ کہ بولا

تو ٹیبل کہ نیچے سے ضامن نے اس کہ پیر پہ زور سے اپنا پیر مارا،تو درد سے چیخ اٹھا،سب نے اسکی جانب دیکھا،تو وہ ہنسنے لگا

"مرچ کھالی غلطی سے"

"حالانکہ مرچوں والے کام یہ خود کرتا ہے"

امل زمل کہ کان میں آہستگی سے بولی تو وہ پھیکا سامسکرادی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضامن اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا جب جب سویرا بیگم کے کمرے سے نکلتی ہوئ زمل سے ٹکڑایا۔۔۔۔

زمل کا سر ضامن کے سینے سے ٹکرایا تو اسے لگا جیسے کسی پتھر سے سر ٹکرایا ہو۔۔

"افففف خدا"

زمل اپنا سر پکڑ کہ بولی۔۔۔۔

"دکھاؤ لگی تو نہیں"

ضامن اپنا بازو اس گرد حائل کر کہ اسے گرنے سے بچاتے ہوۓ بولا

"اندھے ہو دکھتا نہیں کیا"

زمل نے سر اٹھا کہ کہا تو،ضامن کو اپنے نزدیک دیکھ کہ

جلدی سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔۔

"اوکے ایم سوری"

وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ نرمی سے بولا،تو زمل جو پہلے ہی ٹکرانے پہ روہانسی ہوگئ تھی،اس کہ اتنے نرم لہجے پہ باقاعدہ آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔

وہ جانتا تھا زمل پریشان تھی،ناراض تھی،جبھی اسے اسپیس دے رہا تھا،تاکہ اسکا غصہ ٹھنڈا ہو تو وہ اسے منالے۔۔۔

وہ وہاں سے جانے لگی جب ضامن نے اس کا بازو پکڑا اور اسے زبردستی اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔۔

کمرے میں لا کر اس نے دروازہ بند کیا اور اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔

"ضامن دروازہ کھولو،مجھے بہت کام ہے"

زمل گھبراتے ہوئے بولی کیونکہ ضامن اس کے نزدیک کھڑے اسے مسلسل دیکھ رہا تھا

"ایک دفعہ میری بات سن لو پھر چلی جانا"

"مجھے نہیں سننی تمہاری کوئ بات"

وہ دیوار کی جانب دیکھتے ہوۓ بولی

"ادھر مجھے دیکھو"۔۔۔وہ اسکا چہرہ پکڑ کہ اپنی طرف کر کہ بولا،تو زمل نے آنکھیں بند کرلیں،کیونکہ آنکھیں برسنے کو تیار تھیں

"ہے ششش رونا نہیں،تم ایک دفعہ میری بات سن لو میں سب ٹھیک کردونگا،ٹرسٹ می" 

"نہیں سننا مجھے کچھ،مجھے کچھ ٹھیک نہیں کرنا،نہیں کرنا مجھے تم پہ ٹرسٹ سمجھے تم،جان چھوڑدو میری خدا کیلیۓ"

وہ چلّا چلّا کہ کہتی،اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے اس سے چھڑوا کہ وہاں سے نکل گئ۔۔،

پیچھے ضامن اس کہ ری-ایکشن پہ ششدر رہ-گیا

بھول سے اگر کوئ بھول ہوئ ہو تو

بھول سمجھ کر بھول جانا

بھولنا صرف بھول کو ہی

بھول کر ہمیں نہ بھول جانا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بس کردو اب کیوں رو رہی ہو،یا تو انکی سن لینی تھی"

امل زمل کہ مسلسل رونے پہ چڑھ کہ بولی

"یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے"

وہ روتے ہوۓ بولی

"لو جی کرے کوئ تو بھرے کوئ،سر پہ گن رکھی تھی تمہارے ہم نے"۔۔۔

امل دونوں ہاتھ کمر پہ ٹکاتے ہوۓ بولی

"تم لوگوں کو میں انسان نہیں لگتی نہ،آپی اپنا حکم سنا کہ چلی گئیں،اسے سزا دینا،تم بول کہ چلی گئ اسے بھول جاؤ،

اور وہ کہتا ہے سب صحیح کردونگا،مجھے بتاؤ میں کیسے اس سے دور رہوں گی،اور ایک ہی گھر میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے"

"ارے یار میں نے تو ایک اپنی طرف سے بات کی تھی،اور آپی کو تم رہنے دو،جو تمہیں صحیح لگتا ہے وہ کرو،کیوں کہ جو بھی نتیجہ ہوگا وہ تمہیں ہی فیس کرنا ہے"

امل اسے سمجھانے لگی

"مگر اتنی آسانی سے معاف نہیں کرونگی اسکو"

زمل نے اپنے آنسو پونچھے

"کیا مطلب ہے پھر تم رو کیوں رہی تھی"

امل کو شدید حیرت ہوئ

"وہ تو غصہ آرہا تھا نہ"

وہ منہ بنا کہ بولی۔۔

"مرو تم پاگل عورت"۔۔۔امل نے غصے سے تکیہ اٹھا کہ اسے مارا

"مار کیوں رہی ہو"۔۔۔زمل نے تکیہ کیچ کیا

"عجیب ہو یار تم لوگ،اس سے لڑنا ہے،مگر اس سے دور نہیں جانا،ناراض بھی رہنا ہے اپنی مرضی سے ہے اور روتے بھی رہنا ہے"

وہ غصے سے چبا چبا کہ بولی تو زمل ہنسنے لگی

"وہ آج ان لوگوں کی خالہ آرہی ہیں اپنے دونوں بچوں سمیت"۔۔۔امل نے بتایا

"کیوں بھئ"

"ہاشم بھائ نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اسکا ولیمہ بھی تو کرنا ہے"۔۔۔

"اچھھھھھھھھھھا پھر تو وہ ردا بھی آۓ گی"    

زمل کچھ سوچتے ہوۓ بولی،امل ہنسنے لگی ردا کا ضامن سے حد سے زیادہ چپکنے پہ زمل کو وہ زہر لگتی تھی

"پریشان نہیں ہو،اس بار ہم دونوں اسکو مزہ چکھائیں گے"

امل شیطانی مسکراہٹ سجاۓ بولی،اسکا اشارہ سمجھ کہ زمل نے بھی ہنستے ہوۓ سر ہلایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اہاں تو آپ لوگ آہی گۓ"

ضامن اپنی خالہ ،ردا اور حسن سے ملتا ہوا زمل کہ ساتھ ٹوسیٹر صوفے پہ آبیٹھا۔۔زمل پہلو بدل کہ رہ گئ

"اور ردا کیسی ہو تم"

ضامن اپنی عادت کہ خلاف مسکراتے ہوۓ بولا

اور ردا تو اس کہ مسکرا کہ بات کرنے پہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی

"میں ٹھیک ہوں ضامن"

"زمل بیٹا جاؤ چاۓ بنالو"

سویرا بیگم نے کہا تو وہ کچن میں جانے کیلیۓ اٹھی

"میں بھی ہیلپ کردیتی ہوں"۔۔۔زینب بھی اٹھی تھی

"بھابھی آپ تھک جائیں گی اسکو کرنے دیں"

ضامن نے زمل کی جانب دیکھ کہ کہا،تو وہ اسے گھور کہ رہ گئ

"کیوں وہ نہیں تھکے گی کیا"۔۔۔۔زینب مسکرا کہ بولی

"نہیں وہ ایلیئن ہے نہ اسلیۓ"۔۔۔

ضامن کہ بولنے سے پہلے ہی ردا بول پڑی

"ہاں نہ جس سیارے سے یہ لوگ ہم بھی وہیں ہوتے تھے"

امل نے جوابی کارروائ پہ کہا

جس پہ زمل نے قہقہہ لگایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

"ارے ٹڈی تم کہاں چلی"۔۔۔۔زاویار نے امل کو سیڑھیوں سے اترتے یکھ کہ پوچھا

"آپ نے مجھے ٹڈی کہا"۔۔۔۔امل اپنی طرف اشارہ کر کہ بےیقینی سے بولی

"نہیں تو تمہارے علاوہ یہاں اور کون ہے۔،اور یہ آپ کہہ کہ اتنی عزت"۔۔وہ صوفے پہ بیٹھا مزے سے بولا

"ہاں تمہیں کہاں عزت راس آتی ہے ،اور میں کوئ ٹڈی  نہیں ہوں"۔۔۔امل ناک چڑھا کہ بولی

"ہو ٹڈی تم ۔۔۔تمہاری جتنی لڑکیاں ساتویں کلاس میں ہوتی ہیں کوئ دیکھ کہ یقین کرے گا ہی نہیں کہ فرسٹ ایئر میں ہو"۔۔۔زاویار اسے مسلسل چڑا رہا تھا۔۔

"کوئ نہیں میری ہائیٹ 5'5 ہے اور بلکل نارمل ہے۔"۔۔۔امل نے کہا

"تو میں کب بولا کہ ابنارمل ہے بس یہ کہہ رہا ہوں کہ اسکول جانے کی عمر میں کالج جارہی ہو"۔۔۔۔زاویار ہنس کہ بولا

"اچھا ایک کپ چاۓ بنادو اور چینی کم رکھنا۔۔۔۔زاویار اس کہ بولنے سے پہلے ہی دوبارہ بولا

زہر نہ ڈال دوں چینی کہ بجاۓ۔۔۔

"وہ تم خود اپنی چاۓ میں ڈال کہ پینا ٹڈی"

"مرو تم"۔۔۔امل پیر پٹخ کہ کہتی کچن کی جانب چلی گئ۔۔۔۔ 

وہ ہنسنے لگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمل اپنے کمرے میں آئ تو وہاں ضامن بیڈ پہ نیم دراز ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ اس کا انتظار کررہا تھا

"تم۔۔۔تم یہاں کیا کررہے ہو"۔۔زمل حیران ہوئ

"تمہیں دیکھنے آیا تھا"۔۔۔وہ قدم قدم چل کہ اس تک آیا

"دیکھ لیا اب جاؤ"

"جی بھر کہ دیکھنے تو دو"

وہ اس کہ قریب ہوتے ہوۓ بولا۔۔زمل گڑبڑاگئ

" کیا بدتمیزی ہے یہ،نکلو یہاں سے چلو"۔۔۔

زمل دروازے کہ پاس کھڑی ہو کہ بولی

"میں تو نہیں جارہا،نکال سکتی ہو تو نکال کہ دکھاؤ"

وہ اپنے دونوں بازو سینے پہ باندھ کہ بولا

"تنگ نہیں کرو،ضامن"

"میں نے کہاں کچھ کیا،تم ہی سب کررہی ہو"

وہ کندھے اچکا کہ بولا 

"اور کچھ"

"اتنی پیاری لگتی ہو تم منہ پھلاۓ ہوۓ"

وہ اپنی انگلیاں اس کہ گالوں سے ٹچ کر کہ بولا

۔۔"ضامن"۔۔۔۔وہ سٹپٹائ

"کیا ضامن،کیوں لاپرواہ ہوتی جارہی ہو میری طرف سے تم جانتی ہو نہ مجھے تمہارے بغیر رہنا نہیں آتا"

وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکاتے ہوۓ بولا

"بولو چپ کیوں ہو،ہم کیوں ان کیلیۓ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں"

اسکی خاموشی پہ وہ دوبارہ بولا

"تمہیں ایک دفعہ سوچنا چاہیۓ تھا،ضامن اس سب سے ہمارا رشتہ کتنا اثرانداز ہوگا"

وہ اسکا ہاتھ تھام کہ بولی

"میں نے کہا تھا نہ ہم کبھی الگ نہیں ہونگے میں ہونے ہی  نہیں دونگا"

وہ دونوں ہنوز اسی پوزیشن میں تھے،زمل نے کچھ کہنے کہ بجاۓ آنکھیں موند لیں تو ضامن کہ چہرے پہ تبسم بکھر گیا

جبھی کوئ کمرے کا دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا تھا

وہ دونوں فورا سے پہلے دور ہوۓ تھے

اور آنے والے کو دیکھ کہ پل میں زمل کا رنگ اڑا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Hum Ko Humise Chura Lo Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Hum Ko Humise Chura Lo    written by Sadia Yaqoob .   Itni Muhabbat Karo Na   by Sadia Yaqoob    is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages