Pages

Monday 30 January 2023

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 9 to 10

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do Novel By Maha Abid Episode 9 to 10

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Meri Muhabbaton Ko Qarar Do By Maha Abid Episode 9'10

Novel Name: Meri Muhabbaton Ko Qarar Do

Writer Name: Maha Abid 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

ڈاکٹر آگئی تھی, اور   شانزے کا اب چیک اپ کر رہی تھی, بیڈ کے پاس ہی غازی کھڑا تھا-"

 ان کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے-' آپ انہیں اسٹریس سے دور رکھیں نہیں تو ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے,-" 

لیڈی ڈاکٹر شانزے کے چیک اپ کے بعد غازی سے مخاطب ہوئی-"

 ویسے میں نے انہیں انجیکشن لگا دیا ہے, تو ایک دو گھنٹے میں انہیں ہوش آجائے گا-" ڈاکٹر اپنے پرفیشنل انداز سے گویا ہوئی-" 

غازی کی نظریں ہنوز شانزے کے چہرے کا طواف کر رہی تھی -" 

اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات آپ سے میں پوچھ سکتی ہوں-" ڈاکٹر نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے غازی سے پوچھا-"

 جی پوچھیں-" یہ آپ کی کیا لگتی ہیں-" ڈاکٹر نے شانزے کی طرف اشارہ کرتے غازی سے پوچھا-"

 غازی کو شاید ڈاکٹر سے اس قسم کے سوال کی امید نہیں تھی,  چونک کر ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر جواب دیا-"

 شی از مائی وائف-" غازی نے سپاٹ سے لہجے میں ڈاکٹر کو جواب دیا-" 

سوری آپ شاید مائنڈ کر گئے ہیں-" یہ کہتے ساتھ ہی ڈاکٹر نے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے, غازی ڈاکٹر کو سی آف کرنے کے بعد عمر کے پاس آیا-"  

جب تک شانزے کو ہوش آتا ہے تم نکاح خواں اور گواہوں کا بندوبست کرو جلدی سے فورًا-" غازی نے اپنے سنجیدہ انداز میں عمر سے کہا-" تو عمر غازی کی بات سنتے کرسی سے نیچے گر پڑا-

" کیا-" کان کے پردے پھاڑو گے کیا-"

 غازی نے عمر کے رد عمل پر کانوں میں انگلیاں ٹھونستے کہا-'"

 کس کا نکاح کون سا نکاح-" 

عمر صدمے سے بولا-" میرا اور شانزے کا نکاح تمہیں اس وقت جتنا کہا ہے وہ کرو نہیں تو زمین میں گاڑ دوں گا-" غازی غصے سے عمر کے حیران ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے بولا-"

 جب کے غازی کمرے سے باہر نکل کر شانزے کے پاس جا چکا تھا-" 

___________________________

سر اشعر عرف پاشا انڈر والڈ کا بہت بڑا ڈان جس کے نام سے دنیا پناہ مانگتی ہے, وہ لوگوں کی جان لینے میں ایک منٹ نہیں سوچتا اور انہیں اپنی گولی سے اڑا دیتا ہے-"

 پاشا نے جب غازی کے پاس شانزے کی پک دیکھی تو وہ شانزے کو دیکھتے ساتھ ہی پاگل ہو گیا تھا-"

 اور اسے ہر حال میں بس شانزے چاہیے تھی-" پاشا کو جب پتا چلا کہ غازی شانزے کو پسند کرتا ہے, تو وہ سعودی عرب سے پاکستان آپہنچا-"

 اور سر اشعر بن کے شانزے کے کالج پہنچ گیا-" پھر یہاں سے اسٹارٹ کیا اس کے اپنا پلان شانزے کو اغواء کرنے کا-" 

اس سے پہلے کے پاشا انڈر والڈ کا ڈان شانزے کو اغواء کرتا, غازی نے اس کی بازی پلٹ دی, اور کالج میں فائرنگ کروا کے کالج کو اپنے قبضے میں کر لیا-" 

جس دن پاشا نے شانزے کو اغواء کرنا تھا, اسی دن غازی نے اپنی بازی کھلی-" 

اور غازی نے شانزے  کو اغواء کر لیا-" پاشا نے وہیں سے کالج کی کچھ لڑکیوں کو اٹھاوایا تھا, وہ بھی ہمارے آدمی پاشا کا یہ پلان بھی فیل کر دیا, 

 اور لڑکیاں پاشا کے ہاتھ سے نکال گئی-" اس طرح پاشا کو یہ نا پتا چل سکا کہ لڑکیاں کہاں غائب ہوئی ہیں, اُدھر پاشا غم غصے سے پاگل ہو رہا تھا, اس نے اپنا تیسرا پلان کھیلا, اور کراچی کے سینما ہال میں دھماکہ کروا دیا-" جہاں اس وقت پورے کراچی میں سوگواریت پھیلی ہوئی تھی,

 وہیں پاشا اپنی ایک شکست سے ہار کر دوسری کے جیت کے نشے میں پارٹی کر رہا تھا-" 

اس آفیسر نے الف سے ے تک ساری ہسٹری پاشا کی بیان کر دی تھی-"

 گڈ جاب" ایک سنیئر آفیسر نے اپنے اس جینئس آفیسر کا کندھا تھپکتے شاباشی دی-" 

اور ایک اور بات سر-"

 جبال جو عمر  کے ساتھ رہتا ہے وہ بھی پاشا کا ہی بھیجا گیا آدمی ہے, عمر اور غازی کی پل پل کی خبر کی رپورٹ وہ پاشا تک پہنچاتا ہے-"  سینئر آفیسر فاروق ملک نے اپنے اس  آفیسر سے چند ایک ضروری ہدایت دی اور مینٹگ برخاست کر دی-"

 تو وہ آفسیر بھی سر ہلا کر اپنا موبائل اٹھاتے کمرے سے نکال گیا-"

____________________________

شہیر گھر کے لاؤنج میں اس وقت سب گھر والوں کو اکھٹا کیے ہوئے تھا-" 

کیا ہوا ہے بیٹا سب خیریت تو ہے نا-"

 نعمان صاحب نے شہیر کے پریشان سے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا'" 

بتاتا ہو ماموں یہ بہت ہی سیریس بات ہے اس لیے آپ سب کو میں فاروق انکل کے کہنے پر بتا رہا ہوں, 

پر پھر بھی آپ لوگ بھی احتیاط کریں گے اور یہ بات کہیں بھی باہر نہ جائے-" 

شہیر نے سپاٹ سے لہجے میں سب کی طرف دیکھتے کہا-"

 ایسی کون سی بات ہے جو اتنا تم تہمید بندھ رہے ہو بات کیا ہے-" 

دانیال صاحب نے کہا, تو سب کے چہروں پر پریشانی کی لہر ڈور گئی کہ آخر ایسی کون سی بات ہے-" 

 اور پھر شہیر نے انہیں ساری بات بتا دی اور شانزے کے اغواء کی بھی بابت بتا دیا تھا-"

  تو سب نے کچھ  پر سکون سانس لیا-"

_________________________

شانزے کو ہوش آگیا تھا تو وہ واویلا مچاتے  غازی کو نچا رہی تھی-" 

نہیں میں نہیں کروں گی نکاح کیوں کروں میں آپ جیسے گنیڈے  دہشت گرد سے نکاح-"

 شانزے نے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ غازی سے کہا-"

 کیوں نہیں کروں گی کرنا پڑے گا-" غازی نے بھی شانزے کے لہجے میں کہا-" 

 آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے نکاح کرنے والے, اور میرے گھر والے" پھر شادیاں ایسے نہیں ہوتی, نا کوئی دھوم دھڑکا نہ کچھ نہ ڈھول والا ہے-" شانزے کی بات سنتے غازی نے اپنا سر پیٹ لیا,

 کہ اس لڑکی پہ اس کی کوئی بھی دھمکی نہیں اثر ہونے والی اور اس کی اب شانزے کے ہاتھ سہی سے واٹ لگنے والی ہے-" 

بلکہ اس سوچوئشن میں بھی اسے دھوم ڈھڑکے کی پڑی تھی,  غازی افسوس سے سر ہلاتے اپنے دل میں سوچ رہا تھا-" 

اور پھر جب شانزے نے پھر سے سر اشعر کے بارے میں پوچھا تو غازی کے پاس اس بات کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا, سر اشعر کا لالچ دے کر غازی نے اسے نکاح کے لیے راضی کیا, 

تو پھر شانزے بھی بنا چوں چراں کیے مان گئی-"  اور پھر کچھ ہی دیر میں شانزے اور غازی کا نکاح ہو گیا تھا-" 

____________________________-

غازی نکاح خواں اور باقی سب کو بیھج کر کھانے کی ٹرے لیے کمرے میں آیا جہاں شانزے کمرے میں صوفے پر بیھٹی ہوئی ٹی وی لگائے باربی والے کارٹون دیکھنے میں لگی ہوئی تھی, کھانا کھا لو-" غازی نے شانزے کو دیکھتے کہا-" پر شانزے ٹس سے مس نہ ہوئی اور ہنوز ٹی وی کی طرف ہی دیکھتی رہی-" 

 غازی نے شانزے کو وہیں بیٹھے دیکھ کر پھر سے کہا-"

 کھانا کھا لو-" مجھے نہیں کھانا پہلے یہ بتائیں کہ سر اشعر کالج میں میرے ساتھ تھے, 

پھر وہ کہاں ہیں اب, اور آپ کون ہیں-" غازی نے شانزے کے چہرے کی طرف دیکھا جو مضطرب سی الجھی ہوئی لگ رہی تھی-" 

تو غازی کے پاس اسے اب بتانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا-"

 وہ ایک انڈر والڈ کا ڈان ہے, اس کی نظر تم پر تھی وہ تمہیں کڈنیپ کرنا چاہتا تھا-"  غازی نے اسے پاشا کے بارے میں ساری بات بتا دی تو وہ منہ پہ ہاتھ رکھے حیرت سے غازی کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی-" 

بات سنو" غازی دو قدم چلتا آگے آیا تو شانزے پیچھے ہٹ گئی اس کے چہرے سے اب خوف چھلک رہا تھا, ایک ڈر سا شانزے کو  لگ رہا تھا کہ یہ دہشت گرد اس کے ساتھ اب پتا نہیں کیا کرے گا اب جب کے نکاح بھی ہو گیا تھا-"

  پاس مت آئیے گا میرے-" پہلے مجھے اغواء کیا, پھر مجھ سے نکاح کیا اور اب وہ سر اشعر, وہ بھی انڈر والڈ کا ڈان نکلا, 

آآآآپ مجھے بھی اب بیچ دو گے-" شانزے کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر الفاظ نکلے-" 

غازی سے شانزے کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی اور وہ اسے سچ بتا نہیں سکتا تھا-"

 غازی نے آگے بڑھ کر شانزے کو کھینچ کر گلے سے لگا لیا, تو شانزے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی, پر غازی کی مضبوط گرفت سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکی-" 

پاگل لڑکی میں تمہیں خود سے دور بھی نہیں کر سکتا اور تم کہہ رہی ہو کہ بیچ دوں گا-" کوئی اپنی سانسیں بھی کسی کو دیتا ہے کیا-"غازی شانزے کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے کہا,اور اسے مزید خود میں بھنیچ لیا-"

 آپ بہت ہیں-" شانزے ہلکا سا منمناتے ہوئے بولی-"

 برا ہوں یا جیسا بھی ہوں اب بس تمہارا ہی ہوں, میری سانسوں میں خون کی جگہ بس تم ہی ڈھڑکتی ہو, میرے جینے کی وجہ ہی تم ہوں میری زندگی-"

 غازی نے محبت سے چور لہجے میں کہا-" مم..... مجھے نہیں ہے آپ پر یقین-" شانزے نے روتے ہوئے غازی سے کہا ابھی بھی ہنوز غازی نے اسے گلے سے لگائے رکھا تھا-"

 شانزے کو روتے دیکھ کر غازی سے یہ سب دیکھا نہ گیا اور شانزے کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے اپنے لبوں سے شانزے کے دیوانا وار اس کا چہرہ  چومتا رہا-"

 جبکہ کہ شانزے ششدر سی غازی کے اس پاگل پن دیوانی کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی-"

_________________________

حمزہ کہاں لے جا رہے ہیں, پلیز آنکھوں سے یہ پٹی ہٹائیں-"

 مشا نے حمزہ سے کہاں جو اس کی آنکھوں پہ پٹی بندھ کر کندھوں سے پکڑے لے جارہا تھا-"

 یار صبر کرو جانم ابھی پتا چل جائے گا-" حمزہ نے ہوٹل کے کمرے کے پاس پہنچ کر اس سے کہا اور ایک ہاتھ سے دروازے کا ہینڈل گھما کر اس لیے اندر چلا آیا-"

 اور مشا کی آنکھوں سے پٹی اتار دی-" تو مشا پھٹی پھٹی آنکھوں سے حیران ہوتے چہرے کے ساتھ پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی,

 جو پوری طرح سے ایک دلہن کی طرح سرخ اور سفید پھولوں سے سجا ہوا تھا, پورے کمرے میں گلاب اور موتیے کے پھول ہر طرف بکھرے پڑے تھے, بیڈ پہ گلاب کے پھولوں سے بہت ہی خوبصورت دل بناہوا تھا,

 پورے کمرے میں چاروں طرف غبارے بھی لگائے گئے تھے-" چھوٹی سی سینٹر ٹبیل پر پھولوں کی پیتوں کے بیچوں بیچ چاکیلٹ اور وانیلا کیک رکھا گیا تھا-" پسند آیا-' حمزہ نے مشا کے کان کے پاس سرگوشی کی-"

 بہت خوبصورت ہے حمزہ پر یہ سب کیا ہے-" 

میری جان آج کے ہی دن تمہاری اور میری منگنی ہوئی تھی, تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج کے دن کو اسپیشل بنایا جائے-"

 حمزہ نے مشا کےسفید چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو اس وقت خوشی سے چمک رہا تھا-" 

چلو آؤ کیک کاٹتے ہیں-" حمزہ نے مشا کا ہاتھ پکڑ کر ٹیبل کے پاس لے آیا-"

 اور پھر دونوں نے مل کر کیک کاٹا اور ایک دوسرے کو کھلایا-"

 حمزہ نے اپنے موبائل پر سونگ  لگایا اور مشا کی کمر کے گرد ہاتھ ڈالے دونوں کپل ڈانس کرنے لگے-" 

" بہت آسان سے لفظوں میں بتاتا ہوں,

میرے جینے کی وجہ تم ہو,

جسے ٹوٹ کر چاہا ہے,

وہ وجہ تم ہو,💕💖💞

حمزہ نے مشا کے کان کے پاس آتے اسے شعر سنایا اور اس کی صبیح پیشانی چوم لی-"

__________________________

شانزے جو بیڈ پر سو رہی تھی, نیند میں شاید کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ بڑبڑا رہی تھی, نہیں پلیز مم.... مجھے نہیں جانا.. مجھے چھوڑ دو مما......مما-" 

ایک دم سے ہڑبڑا کر نیند سے اٹھتے چلا پڑی تھی, چیخ کی آواز سنتے غازی جو شانزے کے ساتھ والے روم میں سو رہا تھا بھاگتا ہوا آیا, 

بیڈ پر شانزے اپنے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ رو رہی تھی-"

 کیا ہوا غازی نے اس کے حواس بختہ چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا-' 

مم.... مجھے مما کے پاس جانا ہے وہ مجھے لے جائے گا-" 

شانزے نے روتے ہوئے غازی سے کہا تو غازی شانزے کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے اسے اپنے قریب کیا-"

 کوئی نہیں ہے یہاں اور کوئی نہیں لے کے جائے گا میری جان کو-"

 غازی نے اس کے چہرے پہ آتے بالوں کو ایک ہاتھ سے ہٹاتے کہا-" 

 نہیں مجھے مما کے پاس جانا ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے-" شانزے ایک ہی ضد کیے جارہی تھی, 

اور غازی اسے بچوں کی طرح پچکار رہا تھا-" 

پر شانزے پھر بھی ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی کہ اسے گھر جانا ہے,

 چپ کر جاؤ کوئی نہیں ہے اب اگر ایک لفظ بھی نکالا نا تو یہی چھوڑ جاؤں گا پھر روتی رہنا-" 

غازی کے غصے سے چیخ کر کہنے سے شانزے سہم گئی تھی اور غازی سے دور ہوتے کھڑی ہو گئی-" 

سوری وہ تم چپ نہیں کر رہی تھی تو مجھے غصہ آگیا-"

  شانزے کو سہمتے ہوئے دیکھ کر اسے شرمندگی ہوئی تو بول پڑا-"

 اور شانزے کے پاس آیا پر شانزے جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی پیچھے ہٹ گئی-" دور رہیں مم.... مجھ سے آپ بہت برے ہیں-" 

شانزے نے ہکلاتے ہوئے غازی سے کہا جو قدم قدم چلتا ہوا اس کے پاس آرہا تھا, شانزے کے ایک قدم  پیچھے ہٹتے ہی وہ صوفے پر گر گئی اور غازی جو شانزے کے پاس آگیا تھا شانزے نے غازی کو پکڑنے کے لیے ہاتھ مارا اور غازی بھی اپنا بیلنس نا رکھ سکا اور شانزے کے اوپر صوفے پر گر گیا-"

 غازی کو خود پر گرتے دیکھ کر شانزے نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں زور سے میچ لی تھی-"

 اور غازی خود سے ڈرتی شانزے کو مہبوت سا اس کے گلابی معصوم سے چہرے کی طرف  دیکھ رہا تھا-" 

غازی نے ہاتھ بڑھا کر گرنے سے بال شانزے کے چہرے پر آگئے تھے انہیں سائیڈ پر کیا-" 

غازی کے گرم سانسوں کی تپیش شانزے کے رخساروں سے ٹکرا رہی تھی, 

شانزے کو اپنی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوتی محسوس ہوئی, 

اس کا دل زور زور سے ڈھڑک رہا تھا, کہ غازی کو شانزے کے دل کی ڈھڑکن باخوبی سنائی دے رہی تھی-" 

اتنی معصوم ہو نا تم  کہ بس تمہیں اسے ہی دیکھتے رہنا چاہتا ہوں-" 

غازی نے ہلکے سے سرگوشی کی-" اور اپنے ہونٹوں سے اس کے دونوں گال چوم لیے" پر شانزے ہنوز اپنے آنکھیں بند رکھے ہوئے تھی-"  

مم.... مجھے پانی پینا ہے-" شانزے غازی کی قربت سے ڈرتے ہوئے ہلکی سی آواز میں بولی-"

 غازی جو اس پل دعا کر رہا تھا کہ یہ پل یہیں ٹھہر جائیں اور وہ ایسے ہی شانزے کو تکتا رہے,شانزے کی آواز پر ہوش کی دنیا میں واپس آیا-"

 کیا ہوا-" اور نے ناسمجھی سے شانزے کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا-" 

وہ..... آپ بہت موٹے ہیں اٹھیئے میرے اوپر سے-" 

شانزے نے معصومیت کے سارے رکارڈ توڑتے اس قدر معصوم لہجے میں کہا کہ غازی کو پہلے تو شانزے کی بات سمجھ نا آئی اور پھر گلا پھاڑتے زور سے قہقہہ لگاتے ہنسا کہ اس وقت رات کے تین بجے کوئی اس طرح غازی کو ہنستے دیکھتا تو ضرور پاگل پن کا خطاب دیتا-" 

یار اسے موٹا ہونا نہیں کہتے بلکے ہینڈسم ہونا کہتے ہیں-"  غازی ہنستے ہوئے بولا-"

 اور ایسے رومینٹک ہونا کہتے ہیں جو تم کہہ رہی تھی نا کی میں اغواء ہو گئی ہوں تو ہاؤؤؤؤ رومینٹک ایسے وہی کہتے ہیں-"

 غازی نے اس کی شام والی بات دہراتے یاد کرایا-" 

یہ رومینٹک نہیں ہے, آپ پتا نہیں کیا بول رہے ہیں-' 

شانزے نے ناسمجھی سے کہا-" تو غازی صوفے پر سے احتیاط سے اٹھ کھڑا ہوا کہ کہیں شانزے کو زرا سا بھی ہٹ نہ کر دے-" 

آپ جا رہے ہیں-" شانزے نے غازی کو کھڑا ہوتے دیکھ کر ڈرتے ہوئے پوچھا-"

 ہاں جا رہا ہوں-"  غازی نے شانزے کے ڈرے ہوئے چہرے کی طرف  دیکھ لیا تھا اس لیے اسے شرارت سوجھی تو تنگ کرنے کی غرض سے بولا-"

 مم.... مجھے ڈر لگ رہا ہے یہیں پہ سو جائیں پلیز-" شانزے نے معصوم سے لہجے میں روتے ہوئے کہا-" 

تو غازی شانزے کو روتے دیکھ کر بوکھلا گیا اور فورًا سے شانزے کے پاس آیا-"

 یار چپ کرو پلیز میں بس تمہیں تنگ کر رہا تھا کہیں نہیں جا رہا یہیں ہوں میں-" غازی نے شانزے کے آنسو صاف کرتے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھاتے شانزے کی طرف بڑھایا-" 

پیو اور چپ کرو-" شانزے کے سو سو کرتے کانپتے ہاتھوں سے پانی کا گلاس پکڑا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی ختم کر لیا-" 

غازی نے شانزے کے ہاتھ سے گلاس لیتے رکھا-"

 چلو آؤ بیڈ پر سو جاؤ-" غازی نے شانزے کو بیڈ پر لے جاکر لیٹانا چاہا تو شانزے پھر سے بول پڑی-" 

آپ... یار میں یہیں ہوں میری پرنسس ڈرو مت-" 

غازی نے شانزے کو لیٹا کر اس پر کمبل اڑھا دیا اور خود پاس ہی بیٹھ گیا کیوں نے شانزے نے غازی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے زور سے پکڑ رکھا تھا جیسے میلے میں ایک چھوٹا سا بچہ گم نا ہونے کی صورت میں اپنے ماں باپ کا پکڑکے رکھتا ہے-" 

 شانزے آنکھیں بند کرتے سو گئی تھی,  پر غازی ایک ہاتھ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا-"

__________________________-

روشن سی صبح کمرے میں اتری تو غازی کی آنکھ کھول گئی, 

اس نے اپنے سینے پر سر رکھے شانزے کو دیکھا جو سوتے ہوئے معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی-"

غازی نے سوئی ہوئی شانزے کا سر اپنے سینے سے ہٹا کر تکیے پر رکھا, اور اس کی پیشانی چوم لی-"

اور کتنی ہی دیر تک اس کے معصوم سے چہرے کی طرف دیکھنے لگا, اور آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگا-" 

پر شانزے گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی غازی کے لمس کو محسوس نہ کر پائی-" 

تو غازی کو بھی اسے چھیڑنے میں مزہ آنے لگا-" 

چہرے پر انگلیاں پھیرتے اس کا ہاتھ گلابی ہونٹوں پر آٹھہرا اور اس وقت غازی کا شدت سے دل چاہا کہ اس کے لبوں کو چھو لے پر وہ نیند میں اس کی بے خبری کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا-"

اور اٹھ کر فریش ہونے اپنے کمرے کی طرف چل دیا-"

__________________________

غازی ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد کمرے میں آیا تو شانزے اٹھ چکی تھی, اور فریش ہو کر غازی کا ٹراؤزر شرٹ پہنے اس میں ایک چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی-

غازی مہبوت سا شانزے کو اپنے ان کپڑوں میں دیکھ رہا تھا اور قدم قدم چلتا اس کے پاس آیا-"

 ٹراؤزر شرٹ بہت ہی لوز تھا جسے شانزے نے ٹراؤزر کو پاؤں سے بھی فولڈ کیے ہوئے تھا اور شرٹ کے بازو بھی فولڈ کیے ہوئے تھے-'

یہ..... غازی آہستہ آہستہ چلتے شانزے کے پاس آیا-" 

میں کیا کروں آپ نے اغواء کراتے یہ نہیں کہا تھا کہ اپنے کپڑے بھی لے آنا میں نے تمہیں اغواء کروانا ہے- میرے پاس اور کپڑے نہیں تھے تو یہی آپ کا نظر آیا تو پہن لیا-"

 شانزے نے غازی کی نقل اتارتے منہ بسور کر کہا-" 

شانزے کی بات سنتے غازی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی" جو شانزے کے نظروں سے چھپی نہ رہ سکی-" 

کیا ہنس کیوں رہے ہیں-"  شانزے نے غازی کو ہنستے دیکھ کر پوچھا-' 

دیکھ رہا ہوں کہ تم ان کپڑوں میں بہت پیاری لگ رہی ہو-" غازی نے شانزے کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا تو غازی کی نظر پانی کے قطروں سے بھیگے اس کے  گلابی ہونٹوں تک گئی-" 

غازی خود کو بے خود ہوتے روک نہ سکا اور جھک کر اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں سے چھو لیا-" 

شانزے شاک کے عالم میں جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے-" 

یہ کیا کر رہے ہیں-" شانزے نے غازی کی اس حرکت کے بارے میں پوچھا-'

ہششششششش..... غازی نے اس کے لبوں پر انگلی رکھتے اسے چپ کرایا اور کھینچ کر اپنے قریب کر لیا-" 

اور اپنی انگلیوں سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھونے لگا-" 

اور جھک کر اس کے بال ہٹاتے اس کی گردن پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر دی-"

دور ہٹئیے پلیز"" شانزے غازی کی قربت میں پزل ہو رہی تھی اس لیے اسے خود سے دور ہٹانے لگی تو غازی بھی ہوش کی دنیا میں واپس آیا -'

سارے رومینٹک سین کا ستیاناس کر دیتی ہو-"  غازی نے اسے منصوئی غصہ دیکھاتے کہا-'

آپ بار بار میرے پاس آکر چپک کیوں جاتے ہیں دور رہ کر بات نہیں ہوتی آپ سے-" 

شانزے نے غصے سے غازی کو گھورتے ہوئے کہا-'

میری محبت کی انتہا ابھی تم نے دیکھی نہیں ہے جس دن دیکھ لو گی نہ اس دن خود پر رشک کرو گی,  اور یہ پاس آنا اسے چپکنا نہیں بلکہ محبت کرنا کہتے ہیں-" 

غازی نے محبت سے چور ہوتے لہجےمیں کہا تو شانزے غازی کی لو دیتی آنکھوں میں دیکھنے لگی جہاں پیار کا ایک گہرا سمندر اس کی آنکھوں میں نظر آرہا تھا, ان آنکھوں میں شانزے کا عکس تھا, اور اسی پل شانزے کی دل کی ڈھڑکن ڈھرک اٹھی اور فورًا سے اپنی آنکھیں جھپک لی-" 

پر غازی کی گہری نظروں نے شانزے کو آنکھیں چراتے دیکھ لیا تھا-" 

چلو آؤ آج تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں, اور آج کا پورا دن تمہارے نام-' غازی نے بات بدلتے شانزے سے کہا تو وہ بھی غازی کی بات سنتے تھوڑا ریلکس ہو گئی-'"

پر.... شانزے کچھ کہتے کہتے رک گئی-" 

غازی نے اسے جھجکتے دیکھا تو نرم لہجے میں پوچھا-" 

کیا ہوا""" وہ میرے بال کون بنائے گا ابھی, گھر پہ تو مما بناتی تھی-" شانزے نے معصوم سے لہجے میں اپنا مسئلہ بیان کیا-"

غازی شانزے کی بات سنتے ہنس دیا-" 

چلو آؤ میں ہوں نہ اب میں بنایا کروں گا پھر ناشتہ کریں گے اور پھر شاپنگ کرنے چلتے ہیں-" 

غازی نے شانزے کا ہاتھ پکڑتے اسے لے جا کر صوفے پر بیٹھایا اور ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر اس کے بال بنانے لگا-" 

مجھے آئسکریم بھی پھر کھانی ہے شانزے نے بال بناتے غازی سے کہا-'"

میری سویٹ سی وائف جو جو کہے گی وہ سب کھلاؤں گا-" غازی نے پیار سے شانزے کو کہا تو وہ خوشی سے اچھل پڑی-" 

سچی کھلائیں گے-" شانزے نے غازی کے بازو پکڑتے کہا-' 

تو غازی اپنی اس جھلی کو دیکھ کر ہنس دیا اور سر ہلایا-" 

اور پھر غازی کے لیے حیرت کا جھٹکا تب لگا جب شانزے نے خوشی سے اس کے گال پر بوسہ دیا-" 

اور اس پل غازی کو لگا کہ وہ بے ہوش ہو جائے گا کہ یہ شانزے نے سچ میں اس کی پل پر کِس کی ہے-"

_____________________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

 Meri Muhabbaton ko Qarar Do Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Meri Muhabbaton Ko Qarar Do written by Maha Abid . Meri Muhabbaton Ko Qarar Do  by Maha Abid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

No comments:

Post a Comment