Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 10 to 11 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 11 January 2023

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 10 to 11

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 10 to 11 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories  

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 10'11 

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

زین کی آنکھ کھلی تو حور کمرے میں موجود نہیں تھی۔ وہ روم سے باہر نکلا تو کچن سے کام کرنے کی آوازیں آ رہی تھی۔۔۔۔ زین کچن کے اندر داخل ہوا تو حور کھانا بنانے میں مصروف تھی، اس کی پشت پر گیلے بال کھلے ہوئے تھے جو اس کی کمر کو چھپا رہے تھے

"کیا ہو رہا ہے"

زین حور کے قریب جاکر بال سائڈ میں کرتا ہوا حور کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔۔ زین کے ہونٹ حور کے کان سے مس ہوئے تو وہ مزید خود میں سمٹ گئی 

"کھانا بنا رہی تھی رات کے لیے"

حور نے جھجکتے ہوئے دھیمی آواز میں جواب دیا

"کچھ چاہئے تمہیں"

اس کے اتنے قریب کھڑے ہونے سے نروس ہو رہی تھی اس لئے خود سے ہی پوچھا 

"ہاں چاہیے تو"

زین نے حور کے کندھے پر اپنی تھوڑی ٹکاتے ہوئے کہا  

"چائے بنا دیتی ہوں"

حور نے اس سے پوچھا نہیں بلکہ خود ہی چائے کا کہا کیوں کہ اسے توقع تھی کہ وہ کوئی الٹا ہی جواب دے گا

"چائے نہیں تھوڑی سی چاہ چاہیے"

زین نے ہونٹوں سے اس کے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا

زین کی اس حرکت پر حور ایک دم بدک کر پیچھے ہوئی تو حور کی پشت زین کے سینے سے ٹکرائی۔۔۔۔ زین حور کے بالوں میں شیمپو کی خوشبو کو اپنے اندر اتارتا ہوا وہاں  سے چلا گیا۔۔۔۔ حور انکھیں بند کر کے اپنے اپ کو نارمل کرنے لگی 

"بیہودہ انسان"

حور نے زین کو دل ہی دل میں ایک اور لقب سے نوازا 

****

مسعور صاحب کی خیریت پوچھنے زین بلال کے گھر پہنچا تو وہاں رضیہ خالہ (فضا کی امی) بھی موجود تھیں ان سے سلام دعا ہوئی تو باتوں ہی باتوں میں انہوں نے بتایا کہ

"فضا کے رشتے والے شادی جلد سے جلد چاہ رہے ہیں کیونکہ لڑکے کو باہر جانا ہے"

زین نے بے ساختہ بلال کو دیکھا وہ نظریں چرا کر سوتے ہوئے مسعود صاحب کو دیکھنے لگا

****

خضر ظفر مراد کے روم میں آیا 

"مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے"

خضر سنجیدگی سے بولا

"ہاں پوچھو کیا پوچھنا ہے"

انہوں نے اپنی توجہ خضر کی طرف مرکوز کرتے ہوئے کہا

"زین نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا ابو"

خضر نے سوال کیا

"یہ بات تم اسی سے جاکر پوچھو میں نے تو سب کی جان بچانے کے لئے اسے اتنی بڑی رقم دے دی"

انہوں نے اپنی بات کو چھپاتے ہوئے برہمی سے خضر کو جواب دیا

"مجھے ان پیسوں سے کچھ بھی غرض نہیں لیکن مجھے حور واپس چاہیے"

خضر نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا

"یاد رکھو خضر وہ حور کو ایسے ہی سب کے سامنے سے لے کر نہیں گیا۔۔۔۔۔ باقاعدہ نکاح کیا ہے اس نے حور سے، اب تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنی ضد چھوڑو، حور کو بھول جاؤ۔۔۔۔۔۔ تمہاری ماں اس دن صحیح کہہ رہی تھی"

انہوں نے بیٹے کے تیور دیکھتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی 

"یہ ممکن نہیں ہے ابو، حور میری ہونے والی منگیتر تھی اس نے زبردستی چھینا ہے مجھ سے حور کو۔۔۔۔میں حور کو واپس اس گھر میں لاکر رہوگا"

خضر یہ بول کر رکا نہیں  باہر چلے گیا

ظفر مراد اپنے بیٹے کو جاتا دیکھتے رہ گئے، وہ یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے بھی ماضی میں زین اور اس کی ماں سے ان کا پیسہ اسی طرح چھینا تھا 

****

بلال کمرے میں داخل ہوا تو فضا کو مسعود صاحب کے پاس بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک گیا۔۔۔ وہ کافی کمزور اور بجھی بجھی دکھ رہی تھی بلال کے دل کو کچھ ہوا 

"کیسی ہو"

بلال فضا کو دیکھ کر پوچھنے لگا

"بہت خوش! دیکھ کر محسوس نہیں ہو رہا تمیں"

فضا نے تلخی سے جواب دیا 

اس کی بات سن کر بلال چپ ہو گیا۔ اتنے میں تانیہ کمرے میں آئی 

"یہ لو بھی فضا تم بھی گرما گرم شامی  کباب کھاو اور بتاؤ  کل یونیورسٹی جانے کا ارادہ ہے کہ نہیں"

تانیہ نے پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا 

"نہیں کل یونیورسٹی کیسے آسکتی ہوں۔۔۔۔ آب تو مجھے اپنی شادی کی تیاریاں کرنی ہے ویسے بھی وقت بہت کم رہ گیا ہی شادی میں"

تانیہ کے ہاتھ سے فضا پلیٹ لیتے ہوئے بولی 

تانیہ نے ایک نظر افسوس سے فضا کو دیکھا اور پھر بلال کو 

"یہ لیں بھائی آپ بھی لیں آپ نے تو ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا"

تانیہ نے بلال کو دیکھتے ہوئے پلیٹ اس کی طرف بڑھائی

"نہیں تانیہ رہنے دو  ابھی دل نہیں چاہ رہا"

بلال نے انکار کردیا 

"پر بھائی کباب تو آپ کو بہت پسند ہیں نا"

"رہنے دو تانیہ مجبور لوگوں کی کوئی پسند ناپسند نہیں ہوتی"

جواب فضا کی طرف سے آیا

بلال نے ایک شکوہ بھری نظر فضا پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا

****

زین حور کے ساتھ اپنے نیو فلیٹ میں شفٹ ہو گیا یہ تین بیڈرومز کا ایک فرنشڈ اور کشادہ فلیٹ تھا۔۔۔۔اب اسے اشعر اور بلال کے ساتھ اپنے پلان کئے ہوئے بزنس کا آغاز کرنا تھا۔ اشعر کا بھی سرمایہ لگا ہوا تھا پارٹنرشپ کی بنیاد پر ان دونوں نے بزنس کا آغاز کیا بلال نے بھی اس میں بھرپور تعاون کیا۔ وہ تینوں اس برے کام کو چھوڑ کر اپنے نئے بزنس کو وقت دینے لگے۔ لیکن ایک آخری کام جو زین کے دماغ میں تھا وہ اسے انجام دینا تھا

****

خضر نے اپنے طور پر زین کا پتہ معلوم کروایا مگر اس کو جو ایڈریس ملا وہ اس کے پرانے گھر کا تھا تھوڑے دن پہلے ہی وہ کہیں اور شفٹ ہو گیا تھا 

****

زین اسپتال سے نادیہ بیگم کو لے کر اپنے نئے فلیٹ میں آیا۔ انہوں نے حیرت سے زین کو دیکھا تو اس نے بتایا کہ اس نے اپنا بزنس اسٹارٹ کیا ھے۔ اور زین نے دوسرا سرپرایز حور کو سامنے لا کر دیا

"یہ حور ہے اماں آپ کی بہو" 

حور نے بھی حیرت سے سامنے خاتون کو دیکھا پھر زین کو ۔۔ نادیہ بیگم نے حور کو اپنے پاس بلایا ، حور تھوڑا ہچکچائی پھر زین کے اشارے پر وہ نادیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ نادیہ بیگم نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما اور ماتھے پر پیار کیا 

"بہت خوبصورت ہیں میری بہو بالکل اپنے نام کی طرح"

انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دو سونے کی چوڑیاں (جو کہ مشکل وقت میں بھی سنبھال کر رکھی تھی)  اتار کر حور کے ہاتھ میں پہنائیی

"یہ میں نے اب تک زین کی دلہن کے لیے سنبھال کر رکھی تھی۔ تمہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے، اللہ پاک تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے"

انھوں  نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں کو دعا دی

حور نے زین کی طرف دیکھا تو وہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔حور کو زین کی امی بہت اچھی لگی۔ حور جب سب کاموں سے فارغ ہو کر بیڈ روم میں آئی تو زین ٹیرس میں کھڑا ہوا اسموکنگ کر رہا تھا۔۔۔۔ حور کو دیکھ کر روم میں آیا 

"اماں کیا کر رہی ہیں"

زین نے حور کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"ابھی ابھی سوئی ہیں" 

حور جواب دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی

"تمہاری اماں بہت اچھی ہیں" 

حور نے زین سے کہا تو زین مسکرانے لگا 

"اور اماں کا بیٹا؟ وہ کیسا ہے"

زین قریب بیٹھتے ہوئے بولا 

حور خاموش رہی

"کیا ہوا کافی مشکل سوال پوچھ لیا میں نے" 

وہ حور کے ہاتھ میں موجود چوڑی کے ڈیزائن پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے بولا 

زین حور کی دلی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔۔۔ حور کی زندگی میں اتنا اچانک زین کا آ جانا،  ایک نئے رشتے میں بن جانا۔۔۔۔ یہ سب حور کے لئے نیا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ جو اپنے اور حور کے رشتے کو ٹائم دے رہا تھا 

"تمہاری اماں ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتی"

حور نے اس کے سوال کو نظرانداز کرکے دوسرا سوال کیا

"ان کے ہفتے میں دو دفعہ ڈائلیسس ہوتے ہیں اور اسپتال میں اچھی کیئر بھی ہو جاتی ہے"

زین بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا

"تمہاری اماں کو دیکھ کر مجھے میری ماما یاد آ رہی ہیں"

حور نے ڈرتے ہوئے بولا کیا پتا اسے غصہ ہی آجائے

"ملواو گا بہت جلدی ابھی تھوڑے دن صبر کر لو شیڈیول بہت بزی چل رہا ہے"

زین نے حور کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے نرمی سے کہا

زین کو اس بات کا احساس بھی تھا کہ حور کو آپنی آمی یاد آتی ہوگی مگر نیا بزنس ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کاموں میں الجھا ہوا تھا 

****

صبح حور کی آنکھ کھلی تو اس نے برابر میں زین کی خالی جگہ کو دیکھا، وہ فریش ہو کر نادیہ بیگم کے کمرے میں آئی۔۔۔ تو زین نادیہ بیگم کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروا رہا تھا۔ حور کو اپنے دیر سے اٹھنے پر شرمندگی ہوئی 

"یہاں کیوں کھڑی ہو ادھر آؤ یہاں بیٹھو میرے پاس"

حور کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر نادیہ بیگم نے کہا زین نے بھی پلٹ کر دیکھا۔۔۔ حور آہستہ  قدموں سے چلتی ہوئی نادیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئی، زین ناشتے کے خالی برتن اٹھا کر کچن میں چلا گیا 

"میں آج بہت خوش ہوں زین کا میرے سوا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ مگر اب تم آگئی ہوں میرے بیٹے کی زندگی میں، اس لئے میں آج مطمئن ہوں۔  اس کو کبھی بھی خود سے دور مت کرنا وعدہ کرو حور مجھ سے۔۔۔ وعدہ کرو ہمیشہ اس کے ساتھ رہوں گی اور اس کا خیال رکھوں گی"

وہ حور کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہی تھی حور نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اثبات میں سر ہلایا

وہ ان کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی مگر ساری زندگی کرمنل کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ جس نے اس سے زبردستی نکاح کیا ہے۔ ۔۔۔۔ 

"چلیے اماں دیر ہو رہی ہے"

زین پتا نہیں کب سے دروازے پر کھڑا ہوا تھا اس کی آواز پر حور کی سوچوں کا محور ٹوٹا

_______

آج ثانیہ کی برات تھی حور آئینے کے آگے کھڑی تیار ہو رہی تھی۔ زین کمرے میں داخل ہوا اس کی نظر حور پر پڑی   وہ قریب آکر حور کا مکمل جائزہ لینے لگا۔ زین کی نظروں کی تپش سے، حور کے پھرتی سے بال بناتے ہوئے ہاتھوں کی رفتار میں کمی آگئی۔۔۔۔ زین نے حور کو کندھوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔ تھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اونچا کیا دوسرا ہاتھ کمر کے گرد حائل کیا 

"کیا ضرورت تھی مزید خوبصورت لگنے کی؟ اب کس کافر کا کہیں جانے کا دل چاہے گا"

وہ خمار آلود آواز میں کہتا ہوا حور کے اوپر جھکا 

"زین نہیں پلیز"

حور اتنا ہی کہ سکی، زین نے اپنی شہادت والی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھ دی "شش" 

چند لمحوں کی خاموشی کو موبائل کی آواز نے ختم کیا زین پیچھے ہٹا اور کال ریسو کی 

"کیا ہوا یار کب تک پہنچو گے"

دوسری طرف بلال تھا 

"بس گھر سے نکلنے والے ہیں"

زین بلال سے بات کرتا ہوں واڈروب سے کپڑے نکالنے لگا۔ 

حور نے اپنی سانسوں کی روانی بحال کی۔۔۔۔ اور آئینے کے سامنے کھڑی دوبارہ لپ اسٹک لگاتے ہوئے  بڑبڑانے لگی

"فضول انسان نہ ہو تو"

****

اشعر شادی ہال میں اینٹر ہوا وہ بلال کو ہی دیکھ رہا تھا جو سے کافی دور کھڑا کسی کام میں مگن نظر آ رہا تھا۔۔۔ بلال کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگا اچانک کسی سے زور دار ٹکر ہوئی 

"اف میرے خدا کیا آنکھیں نہیں ہیں آپ کے پاس"

تانیہ جو کہ بڑے سے تھال اٹھائے چلی آ رہی تھی کی طرح اشعر سے ٹکرائی اور ہاتھ سے تھام چھوٹ گیا سارے گجرے نیچے  بکھر گئے۔۔۔۔ گجرے  اٹھاتے ہوئی جب سامنے نظر پڑی تو زبان کو بریک لگ گئی 

"او آپ سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں"

تانیہ نے گجرے اٹھاتے ہوئے بولا

"سوری آپ کو نہیں مجھے کہنا چاہیے غلطی میری تھی، دراصل میرا دھیان بلال کی طرف تھا"

اشعر بھی نیچے جھک کر تانیہ کے ساتھ گجرے اٹھاتے ہوئے بولا 

وہ پچھلے دنوں کی بانسبت آج میکپ کئے ہوئی تھی مگر اسکارف اپنی جگہ، آج بھی اس کی شخصیت کا وقار بڑھا رہا تھا

گجرے جب تھال میں ڈال دیے تو تانیہ شکر یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی مگر اشعر اب بھی اس کے شخصیت کے سحر میں کھویا ہوا تھا جب کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 

"یہاں کھڑے کھڑے کیا سو گئے ہو تم" چونک کر اس نے زین کو دیکھا جو شاید ابھی آیا تھا حور بھی اس کے ساتھ تھی

"السلام و علیکم بھابھی کیسی ہیں آپ" 

اشعر زین سے ملنے کے بعد حور سے حال احوال پوچھنے لگا 

"جی الحمدللہ میں ٹھیک ہوں"

حور نے آہستہ سے جواب دیا

"ارے تم دونوں یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو"

بلال ان دونوں کو دور سے دیکھتے ہوئے قریب آیا

"آپ کیسی ہیں بھابھی آئیے آپ کو تانیہ اور رانیہ آپی سے ملواتا ہوں"

زین اور اشعر وہیں کھڑے تھے بلال حور کو لے کر تانیہ کے پاس آیا اور حور کا تعارف کروایا

"ارے اپ زین بھائی کی وائف ہیں اتنی کیوٹ سی" 

تانیہ حور سے بہت خوش دلی سے ملی اور فضا رانیہ آپی سے بھی ملی۔ ۔۔۔سارا وقت تانیہ نے حور کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا، حور کو بھی تانیہ بہت پیاری لگی

"ایسے بھی کوئی اپنی بیوی کو گھور گھور کے دیکھتا ہے بھلا"

زین کی نظریں جو حور پر تھی بلال نے زین کو دیکھ کر ٹوکا 

"چلو میری نظریں تو اپنی بیوی پر ہی ہیں تم یہ بتاؤ تم کس خوشی میں یہاں وہاں دیکھ رہے ہو"

زین نے فضا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلال پر چوٹ کی

"مجھے کیا ضرورت ہے بھلا یہاں وہاں دیکھنے کی"

بلال اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑبڑایا

"میری ایک نظر اپنی بیوی پر ہے تو دوسری نظر اپنے دوستوں پر اس لئے مجھ سے زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں"

زین نے مزید بلال پر چوٹ کی تو بلال نے چپ رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ جبکہ دوسری طرف اشعر نے اپنی نگاہیں تانیہ سے ہٹا کر اپنے موبائل فون میں مرکوز کرکے احتیاط برتی 

ثانیہ کی شادی بخیر خوش اسلوبی کے ساتھ ہوگی اور وہ رخصت ہو کر اسجد کے گھر چلی گئی

****

کپڑے چینج کرکے حور کی تھکن کے باعث فورا ہی آنکھ لگ گئی۔ جبکہ زین کافی دیر تک لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتا رہا کافی دیر بعد اس نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا۔ حور کا بلنکٹ صحیح کر کے وہ بھی لیٹ گیا 

صبح حور کی آنکھ کھلی پہلے تو وہ چھت کو دیکھتی رہی

"آج کتنا برا خواب دیکھا ہے میں نے، اللہ پاک ماما ٹھیک ہو بس"

وہ اداسی سے سوچنے لگی اور زین کو دیکھنے لگی

"کہا بھی تھا میری ماما سے میری بات کروا دو، مگر اپنے ہی کاموں میں بزی رہنا ہے۔۔۔۔ میری تو کوئی فکر ہی نہیں ہے" 

حور نے شکوہ بھری نظر سوتے ہوئے زین پر ڈالی اور دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوئی

سائیڈ ٹیبل پر رکھے موبائل پر حور کی نظر گئی تو زہن میں ایک خیال سا آیا۔۔۔ کیو نہ ماما کو کال کر لی جائے ماما سے بات ہوجائے تو دل کو تسلی ہو جائے گی۔ زین تو گہری نیند میں سو رہا ہے اس کو کیا پتہ چلے گا یہی سوچ کر حور آرام سے اٹھی بلینکٹ ہٹایا اس نے دوپٹہ لینے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ زین کے نیچے دبا ہوا تھا بغیر دوپٹے اور بغیر سلیپرز کے زین کے سائڈ پر آئی، آہستہ سے موبائل اٹھایا جبکہ نگاہیں زین پر تھی دبے پاؤں موبائل لے کر وہ دوسرے روم میں آ گئی دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے موبائل ان لاک کیا اور گھر کا نمبر ملایا دوسری طرف بیل جا رہی تھی مگر کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا

یہ جرات بھی آج اس نے صرف ماما کو خواب میں روتا ہوا دیکھ کر کی۔ دوبارہ نمبر ٹرائی کرنے کے بعد بھی کوئی رسپانس نہیں آیا تو ہمت کرکے خضر کا نمبر ملایا کیوکہ وہی اس کو زبانی یاد تھا۔ اس وقت حور بھول گئی کہ وہ کتنے بڑے مسئلے سے دوچار ہو سکتی ہے بس یاد تھا تو ایک دفعہ ماما کی خیریت مل جائے۔ ۔۔بیلسز جاتی رہی لیکن تیسری بیل پر موبائل اٹھا لیا گیا 

"ہیلو کون"

خضر کی آواز موبائل سے ابھری 

اتنے دنوں بعد کسی اپنے کی آواز سن کے دل بری طرح دھڑکا 

"کون بول رہا ہے"

آواز نہ آنے پر خضر دوبارہ بولا 

"میں۔۔۔۔ میں بول رہی ہوں حور خضر بھا" 

ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز کے ساتھ کوئی چیز دیوار پہ ٹکرائی۔۔۔۔ حور کا دل بری طرح دھڑکا سامنے نظر پڑھتے ہی حور کی روح فنا ہونے لگی۔ زین لب بیچے ہوئے غصے کی حالت میں اسی کی طرف آ رہا تھا ابھی جو وااس اس نے غصے میں آ کر دیوار پر مارا تھا کرچی کرچی ہو کر زمین پر پڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ زین کے قریب آنے سے وہ اس کے چہرے کے تاثرات  دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹی ساری کرچیاں ننگے پاؤں ہونے کے باعث اس کے پاؤں میں چبھی، حور کو اس تکلیف سے زیادہ   اپنے سامنے کھڑے زین کے تاثرات سے خوف آرہا تھا۔۔۔۔ قریب آ کر زین نے حور کے ہاتھوں سے موبائل لے کر اپنے کان پر لگایا جس میں سے خضر کی آواز آ رہی تھی 

"تم ٹھیک ہونا حور یہ کس چیز کی آواز تھی پلیز بات کرو مجھ سے اپنا ایڈرس بتاؤ مجھے کہاں ہو تم"

زین نے موبائل غصے کی حالت میں پوری قوت سے دیوار پہ دے مارا حور کی تو جان ہی نکل گئی زین نے حور کے قریب آ کر اس کے بال مٹھی میں لئے

"کیوں کال کی تم نے خضر کو"

لال آنکھیں لیے سرد تعصورات سے  وہ حور سے سوال کر رہا تھا 

حور کو آج اتنے دنوں بعد زین کو دوبارہ اس روپ میں دیکھ کر خوف آنے لگا اور اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا

"جواب دو"

حور کے کچھ نہ بولنے پر اس نے دوسرے ہاتھ سے حور کا منہ پکڑا اور زور سے دہھاڑا

"مجھے ماما سے بات کرنی تھی"

اس طرح منہ پکڑنے سے زین کی انگلیاں حور کے گالوں میں گڑھ رہی تھی۔۔۔ دوسرے ہاتھ میں حور کے بال جکڑے ہوئے تھے، ان کی گرفت سے بھی حور ، زین کے غصہ کی شدت کا اندازہ لگا سکتی تھی۔۔۔۔ایسے میں جو نیچے اس کے پاؤں میں کانچ کے ٹکڑے چبھ رہے تھے۔۔۔۔ اس کی تکلیف کا احساس زین غصے میں کہی دب گیا 

"ماما سے بات کرنی تھی تو خضر کا نمبر کیوں ملایا" 

زین کی گرفت میں مزید سختی آئی

"زین پلیز چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے" 

حور کی آنکھوں میں اب آنسو آگئے

"مجھے کیسے تکلیف دینے کا سوچا تم نے جواب دو؟ کیوں ملایا خضر کا نمبر"

دونوں ہاتھ نیچے کرتا ہوا اب اسے ایک بازو سے کھینچ کر بیڈروم میں لے کر جا رہا تھا  

"گھر کا نمبر نہیں مل رہا تھا اس لئے خضر بھائی کا نمبر ملایا تھا تاکہ میری ماما سے بات ہوجائے"

حور زین کے ساتھ کھینچتی ہوئی وضاحت دیتی جا رہی تھی

"میرے منع کرنے کے باوجود تم نے کال کی دل تو چاہ رہا ہے تمھیں۔۔۔۔"

بیڈ روم کے دروازے تک لاکر اس نے حور کو زور سے بیڈ پر دھکا دیا بات ادھوری چھوڑ کر اس کو دیکھے بغیر بیڈ روم سے باہر نکل گیا۔  ٹوٹا ہوا موبائل اٹھایا کیز لے کر وہ گھر لاک کر کے باہر چلا گیا...

زین کی آنکھ کھلی تو برابر میں حور کی جگہ خالی تھی۔  وہ رات کو کافی دیر سے سویا تھا نیند کا خمار ابھی بھی آنکھوں میں تھا۔۔۔۔ ٹائم دیکھنے کے لئے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ سے موبائل کا ٹٹولا موبائل وہاں موجود نہیں تھا، آنکھیں کھول کر دیکھا تو یاد آیا یہ مخصوص جگہ تھی موبائل رکھنے کی

"کہا جاسکتا ہے"

سوچتے ہوئے اٹھا دوسری روم میں گیا اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے کیوکہ موبائل حور کے ہاتھ میں تھا کے منع کرنے کے باوجود ۔۔۔۔۔ اسے احساس تھا کہ حور اپنی ماما کو مس کرتی ہوں گی۔۔۔ مگر اپنے نئے بزنس کے چکر میں وہ زیادہ ٹائم دوسری چیزوں کو نہیں دے سکتا تھا اور حور کو اس کی ماما سے ملانے یا بات کرانے کا مطلب ایک نئے چکر کو شروع ہو جانا تھا۔۔ 

وہ فی الحال ان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے حور کو منع کیا تھا مگر اپنا موبائل حور کے ہاتھ میں دیکھ کر اسے ناگوار گزرا، مگر غصہ اسے جب آیا جب اس نے حور کے منہ سے خضر کا نام سنا۔۔۔۔۔ تو غصہ سے اس کی رگیں تن گئیں اور سامنے رکھا ہوا وااس اسنے پوری شدت سے حور کے سامنے دیوار پر دے مارا، وہ بری طرح سہم گئی ۔۔۔۔۔مزید غصہ اسے موبائل کان لگانے کے بعد  خضر کی آواز سن کر آیا۔۔۔ مزید وہ حور کو غصے میں کچھ کہتا ہے اس سے پہلے وہ گاڑی لے کر باہر نکل گیا 

****

خضر اس وقت آفس کے لیے تیار ہو رہا تھا جب ایک اننون نمبر سے اس کے موبائل پر کال آئی۔ نمبر جانا پہچانا نہیں لگ رہا تھا پہلے سوچا اگنور کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر کال ریسیو کر لی۔۔۔۔۔ مگر دوسری طرف حور کی آواز سن کر وہ حیرت میں ڈوب گیا آخر اتنے دنوں بعد حور کی آواز سنی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا، مگر پھر بیک گراؤنڈ سے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی وہ ہیلو ہیلو کرتا رہا، مگر پھر حور کی آواز نہیں آئی۔۔۔۔ کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا وہ جلد سے جلد حور سے ایڈریس معلوم کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ حور تک پہنچ سکے مگر کال ڈسکنکٹ ہوگئی یا کر دی گئی۔۔۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا وہ ابھی بھی شاک کی کیفیت میں تھا مگر کہیں اندر سے خوشی بھی تھی اس بات کی تھی کہ حور نے اس کو کال کی اور وہ اب بھی اس کو یاد کرتی ہے۔۔۔۔ اب خضر کو یقینا حور کو جلد از جلد ڈھونڈنا تھا اور اس کرمنل کے پاس سے آزاد کروانا تھا

****

حور جوکہ زین کے بیڈ پر دھکا دینے سے ایک دم پیچھے جا گری مگر بیڈ کے بجائے سائیڈ ٹیبل کا کونہ لگنے سے اس کے سر پر خون کی ایک لکیر ماتھے سے نمودار ہوئی اور اسے اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا

****

زین بےمقصد سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر تھوڑی دیر بعد نادیہ بیگم کے پاس چلا گیا تھوڑی دیر بعد ان کا ڈائلیسیس ہونا تھا ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد وہ نادیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گیا ہاتھ تھامے ہوئے پوچھا 

"کیسی طبیعت ہے آپ کی اماں" 

"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ میری بہو کیسی ہے"

"بہو کے آتے ہی آپ بیٹے کو بھول گئیں"

حور کا نام سنتے ہی اسے تھوڑی دیر پہلے ہونے والا واقعہ یاد آیا سر جھٹک کر، وہ شرارتا کہنے لگا 

"بیٹا تو میری آنکھوں کے سامنے ہیں اس لئے میں نے بہو کا پوچھا"

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا 

"ٹھیک ہے وہ بھی ملوانے کے لئے لے کر آؤں گا اسے کسی دن، تھوڑے دن آفس کے کاموں میں بزی ہوں"

زین نے جواب دیا 

"بہت پیاری ہے حور ماشاءاللہ سے تمہیں اپنے گھر میں بستا دیکھ کر دل کو اطمینان ہے۔۔۔ کل کو اگر میں نہ رہوں تو تم اکیلے نہیں ہوں گے"

"کیسی باتیں شروع کر دی ہیں آپ نے؟؟ کہاں جا رہی ہیں آپ؟؟ سب رشتے اپنی اپنی جگہ پر لیکن مجھے ہمیشہ آپنی زندگی میں آپکی ضرورت رہے گی" 

نادیہ بیگم کے ہاتھ چوم کرو نے آنکھوں پر لگائے 

"کوئی کسی کے ساتھ ہمیشہ تھوڑی رہتا ہے سب کو ایک نہ ایک دن تو جانا ہوتا ہے۔ حور بہت پیاری بچی ہے مجھے پتہ ہے وہ تمہیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑے گی اور تم بھی ہمیشہ اس کا خیال رکھنا"

****

کہاں ہوتے ہو خضر آج کل، ماں سے بھی بات کرنے کا ٹائم نہیں ہے تمہارے پاس"

فاطمہ بیگم نے خضر کو بیڈروم سے نکلتے دیکھ کر شکوہ کیا 

وہ آج کل رات کو کافی لیٹ گھر آ رہا تھا۔ سارہ منگنی کے بعد آب ماہم کی شادی کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی جبکہ آسماء نے تو اپنے آپ کو کمرے میں ہی بند کر لیا تھا۔۔۔۔ مگر اب اسماء کے بھائی نے ان کے پاس آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ بال بچوں کی شادی کر کے اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے فارغ ہو گئے تھے۔۔  ذمہ داریاں ختم ہوتے انہیں بھولی بسری بہن یاد آ گئی۔۔۔ جسے بہت پہلے مجبوری کا نام دے کر ملنا چھوڑ دیا تھا کبھی کبھی بھائی کے آجانے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے بہل جاتی مگر اس کے بعد پھر اپنے آپ کو کمرے میں قید کرلیتی۔ خضر یا پھر ظفر صاحب ہی انکا حال احوال کر لیتے کبھی کبھی 

"امی آفس کے کام کی وجہ سے بزی ہوں۔ آپ بتائیں طبیعت کیسی ہے آپ کی"

خضر نے ماں سے پوچھا 

"طبیعت وہ کیا ہونا ہے میری۔۔۔ بس اب تم آفس کے کاموں کو ایک طرف رکھو اپنی زندگی کے بارے میں سوچو"

فاطمہ بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولیں

"زندگی کے بارے میں ہی سوچ رہا ہوں"

خضر نے سامنے سجے ہوئے ناشتے کو دیکھ کر کرسی کھینچتے ہوئے بولا 

"کیا بھلا خاک سوچ رہے ہوں میں آجکل میں تہمینہ کے پاس جانے والی ہوں ممکن نائمہ کے لئے رشتے آرہے ہیں" 

فاطمہ نے خضر کو اپنے ارادوں سے آگاہ کیا 

"امی میں آپ کو پہلے ہی منع کر چکا ہوں، حور کے علاوہ میں کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرسکتا" 

خضر نے ناشتے سے ہاتھ کھینچتے ہوئے بولا

"تمہارے سر سے ابھی تک اس حور کا بھوت نہیں اترا خضر۔۔۔ اب وہ شادی شدہ ہے کسی اور کی بیوی ہے تم ابھی تک اس کے پیچھے مجنوں کی طرف پڑے اپنی زندگی کو برباد کر رہے ہو۔۔۔۔ کان کھول کر سن لو میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دوں گی"

فاطمہ کو خضر کی بات سن کر پہلے حیرت ہوئی اور پھر غصہ آنے لگا 

"امی میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں ناعیمہ کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں اور رہی بات حور کی اس کا پتہ میں بہت جلد لگا لوں گا اور وہ شادی شدہ ہو یا کچھ بھی۔۔۔۔ مجھے اس سے غرض نہیں پڑتا۔۔۔ وہ بہت جلد اس گھر میں دوبارہ موجود ہوگی"

اپنی بات کہہ کر روکا نہیں بلکہ بغیر ناشتے کے چلے گیا 

گاڑی میں بیٹھتے تو اس نے اپنے موبائل سے ایک نمبر ڈائل کیا

"ابھی میں ایک موبائل نمبر تمھیں سینڈ کر رہا ہوں جتنی جلدی ہو سکے مجھے اس کی ڈیٹیل چاہیے"

****

ہاسپٹل سے زین اپنے فلیٹ میں پہنچا گھر کا لاک کھولا تو ساری لائٹس بند تھی۔ لائٹس آن کرکے زین بیڈروم کی طرف بڑھا وہ ابھی تک حور کی فون والی حرکت نہیں بھولا تھا۔۔۔۔۔۔غصہ اب زین کا ختم ہو گیا تھا مگر وہ ناراض ہونے کا حق تو رکھتا تھا یہی سوچتا ہوا اس نے بیڈروم کا دروازہ کھولا بیڈ روم کی لائٹ بھی ہنوز اف تھی۔۔۔۔ لائٹ آن کرتے ہیں پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا، مگر سامنے نظر پڑتے ہی وہ بری طرح ٹھٹک گیا "حور" 

زین نے آگے بڑھتے ہوئے حور کو پکارا اور حور کی طرف آگے قدم بڑھائے 

*****

زین کے بارے میں ساری معلومات بمعہ ایڈریس خضر کے سامنے تھی اور خضر فاتحانہ انداز میں مسکراتا ہوا کرسی پر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا 

"بس حور میں آنے والا ہوں"

خضر اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر کال آئی جو خبر اس کو دی گئی وہ فورا افس سے دوڑتا ہوا باہر اپنی گاڑی کی طرف لپکا 

****

"کیا سوچ رہے ہیں بلال بھائی"

وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا جب تانیہ نے آکر اس سے پوچھا 

"کچھ نہیں پانیہ کے جانے کے بعد گھر سونا سونا ہوگیا ہے"

بلال بات بناتے ہوئے بولا

"ہاں یہ بات بھی ہے"

تانیہ کے بولنے پر بلال نے چونک کر تانیہ کو دیکھا 

"بھی، سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔ یہی سوچ رہا ہوں اور کیا سوچوں گا "

بلال بولا 

"ثانیہ کو تو جانا تھا آج نہیں تو کل"

تانیہ اداسی سے بولی 

"ہاں یہ تو ہے تمہاری فائل بھی اوپر آ گئی ہے۔۔۔۔۔ ایک دن تم بھی اسی طرح اپنے گھر چلی جاؤ گی "

بلال نے آنکھوں میں شرارت لیے۔۔۔۔۔ پیار سے تانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ بلال کو اپنی یہ بہن بہت عزیز تھی 

"میں آپ کو اور بابا کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی"

 تانیہ نے ناراضی سے بولا 

"ابھی خود ہی تو کہہ رہی تھی جس طرح ثانیہ کو آج نہیں کل جانا ہے، اس طرح میری گڑیا تمہیں بھی آج نہیں تو کل جانا ہے"

وہ اسے پیار سے سمجھانے لگا

"بھائی آپ نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے پھر"

تانیہ نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا 

"میرا کیا ہے ابو ہیں نا میرے پاس"

وہ اداسی چھپاتے ہوئے بولا 

"بھائی فضا اب بھی آپ سے ۔۔۔"

"بس تانیہ چپ ہو جاؤ بالکل۔۔۔۔ اس کی شادی ہونے والی ہے، میں اب دوبارہ تمہارے منہ سے کوئی ایسی بات نہ سنو" 

بلال نے تانیہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے کاٹ دی اور کمرے سے باہر چلے گئے

________

"حور"

زین آگے قدم بڑھاتا ہوا تیزی سے حور کی جانب بڑھا۔۔۔۔ وہ اوندھے منہ نیچے گری ہوئی تھی زین نے قریب آکر اس کو سیدھا کیا اس کے بال چہرے سے ہٹائے تو تکلیف کی ایک لہر اس کے سینے میں دوڑ گئی

"حور حور اٹھو آنکھیں کھولو پلیز"

وہ جو اس نے سوچا تھا ناراضگی کا اظہار کرے گا وہ تو ختم ہو گئی تھی اب تو اس کی جان پر بن آئی تھی اس نے حور کو بازوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹایا حور کے چہرے پر آنسوؤں کے نشان خشک ہوچکے تھے اور ماتھے پر لگا خون بھی جم گیا تھا پاوں بھی اسکا کانچ لگنے سے زخمی تھا۔۔۔۔۔ حور کی حالت دیکھ کر زین کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا اسے اپنے عمل پر، اپنے اوپر شدید غصہ آیا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر فرسٹ ایڈ باکس لے کر آیا اور پہلے اس کے پاؤں کے زخم کو صاف کرنے لگا اور بینڈیچ کی، ماتھے کے زخم کو صاف کرکے آئنمنٹ لگایا۔۔۔۔ وہ ہلکا سا کسمسای زین نے اپنے لب حور کے ماتھے پر رکھ دیے۔۔۔ زین کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا 

"پانی"

 حور کی نقاہت زدہ آواز پر وہ اٹھا جلدی سے پانی لے کر آیا سہارا دے کر حور کو پانی پلایا حور نے آنکھیں کھول کر زین کو دیکھا اسے صبح والا واقعہ یاد آگیا۔۔۔۔ وہ زین سے دور ہو کر بیٹھنے لگی۔۔۔۔ شاید یہ ناراضگی کا اظہار تھا، یہ ڈر کا۔۔۔۔ مگر زین نے اس کو اپنے پاس سے دور ہوتے ہوئے دیکھ کر اسے خود سے مزید قریب کر لیا 

"پلیز ایم ریلی سوری" 

وہ اس کو خود میں بیچے ہوئے شرمندہ لہجے میں کہنے لگا 

مگر حور نے زین سے فاصلہ قائم کرنا چاہا تو زین کچھ کہے بغیر پیچھے ہوا روم سے باہر چلے گیا باہر سے کھانا ارڈر کیا اور بیڈروم میں ہی کھانا لے کر آیا 

"حور اٹھو کھانا کھا لو شاباش"

اس نے حور کو بچوں کی طرح بہلاتے ہوئے کہا

حور ویسے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹی رہی جیسے اسے زین کی آواز ہی نہ آئی ہو 

"تمہاری ناراضگی میرے ساتھ ہے کھانے سے نہیں ہے کھانا کھا لو پلیز"

وہ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر حور کے قریب بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے بولا

"میں تم سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ ہمارے بیچ ایسا کوئی رشتہ نہیں تو ناراضگی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے"

حور نے بناء ڈرے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

"چلو تو پھر آج ایسا رشتہ بھی قائم کر لیتے ہیں مگر پہلے کھانا کھا لو"

وہ بات کو دوسرے معنوں میں لے گیا اور حور کو اٹھانے لگا 

"میرے اور تمھارے درمیان صرف زبردستی کا رشتہ ہے اور دوسرا کوئی رشتہ نہیں بن سکتا"

اس نے زین کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا

"زبردستی کا رشتہ ہے تو ایسے ہی سہی، اب تم اٹھ رہی ہو یا کھانا بھی زبردستی ہی کھلاؤں  ۔۔۔۔فورا اٹھ جاو" 

زین نے دھونس دکھانا ضروری سمجھا، کہیں کہیں پیار سے بات نہیں بنتی

"مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔ میں پلیز آرام کرنا چاہتی ہوں"

حور کا زرہ برابر دل نہیں چاہ رہا تھا اس شخص کی بات ماننے کا 

"ہہہم۔۔۔۔ مجھے اندازہ ہو رہا ہے تم نخرے ہی اس لیے دکھا رہی ہوں تمھیں میرے ہاتھ سے کھانا کھانے کا دل چاہ رہا ہے"

زین نے پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے کہا                

نہ چاہنے کے باوجود اسے اٹھنا پڑا کیوکہ وہ جانتی تھی وہ اپنی ہی چلائے گا کھانا دونوں نے خاموشی سے کھایا 

"مجھے میری ماما سے بات کرنی ہے"

جب زین بیٹھ پر برابر میں بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ یوز کر رہا تھا کافی دیر سوچنے کے بعد حور نے بولا 

"میں نے کچھ کہا ہے تم سے"

جب زین نے اس کی بات کا کوئی رسپانس نہیں دیا تو وہ دوبارہ بولی

دل میں کہیں ڈر بھی تھا، صبح وہ اس کا غصہ دیکھ چکی تھی۔۔۔ مگر کب تک وہ اپنی ماں سے نہیں ملتی حور نے سوچ لیا اب تو آر یا پھر پار

"حور ہم اس ٹاپک پر بعد میں بات کریں گے پلیز ابھی سو جاؤ تم"

زین نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا کام وہ مکمل کرچکا تھا

"میری زندگی کا مجھ پر اتنا بھی اختیار نہیں کہ میں اپنی ماں سے مل سکوں اتنا حق تو دو مجھے"

حور نے اب غصے میں کہا 

"ٹھیک ہے اگر حق کی بات ہے تو پھر تم مجھے پہلے میرا حق دو"

زین نے حور پر جھگتے ہوئے کہا 

"یہ۔۔۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو"

حور اپنی گردن پر زین کی گرم سانسوں کی تپش سے ایک دم بوکھلائی، زین کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنا چاہا۔۔۔۔

"پلیز حور اب نہیں"

زین اس کی ہلکی سی مزاحمت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، اس کے ہاتھ اپنے سینے سے ہٹا کر اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا، وہ حور کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنیں آسانی سے سن سکتا تھا۔۔۔۔ زین نے پورے استحقاق سے اپنا حق وصول کیا، زین کے جذبوں کی شدتوں کے اگے حور نے بھی اپنی ہلکی پھلکی مزاحمت ترک کرکے خود کو زین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا 

****

خضر کال سن کر گاڑی کی طرف بھاگا جلد سے جلد اسے ہسپیٹل پہنچنا تھا۔ جہاں فاطمہ کو لے کر گئے تھے ابھی صبح ہی تو ٹھیک تھی اچانک کیا ہوا اتنی طبیعت کیسے خراب ہو گئی۔۔۔۔ یہی سوچتے ہوئے وہ ہوسپٹل پہنچا ظفر مراد وہاں پہلے ہی موجود ہے 

"کیا ہوا ابو کیسی طبیعت ہے امی کی"

خضر نے بےقراری سے پوچھا۔۔۔۔ کچھ بھی تھا وہ اس کی ماں تھی اور اسے اپنی ماں سے محبت تھی 

"ٹھیک ہے طبیعت ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں خطرے والی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ بی پی ہائی ہونے کی وجہ سے حالت بگڑ گئی تھی، عبداللہ (نوکر) نے فون کر دیا تو میں اسے ہوسپٹل لے کر آگیا۔۔۔ جاو جاکر مل لو"

 خضر روم کی طرف بڑھا 

"کیسی طبیعت ہے امی اب آپ کی؟ کیا کر لیا آپ نے اچانک"

خضر نے چیئر پر بیٹھے ہوئے پوچھا

"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میں زندہ رہوں یا مرو"

وہ صبح کی بات شاید اب تک دل پہ لئے ہوئے بیٹھی تھی 

"آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔۔ ماں ہیں آپ میری، میرے لیے اہمیت کی حامل۔۔۔  کیا مجھے فرق نہیں پڑے گا"

خضر نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

"اگر اتنی ہی اہمیت ہے میری تو پھر میری بات کو بھی اہمیت دو" 

فاطمہ نے پھر وہی بعد شروع کردی 

"امی یہ کوئی وقت ہے ان باتوں کا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے بات کرنے سے منع کیا ہے آپ کو، آپ پلیز ریسٹ کریں"

خضر کھڑکی سے باہر دیکھ کر بولنے لگا 

****

اشعر کسی کام سے بلال کی طرف جا رہا تھا جب بس اسٹاپ پر ایک منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کوئی لڑکا بہت بدتمیزی سے تانیہ کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور جب وہ جانے لگی تو اس کو روکنے کے چکر میں غیر ارادی طور پر تانیہ کا اسکارف کھینچا۔ ۔۔۔ وہ حلیہ سے ہی کوئی موالی ٹائپ انسان لگ رہا تھا اس لئے لوگ بھی تماشہ دیکھ رہے تھے، اشعر گاڑی سے اتر کر اس لڑکے  پر مکے برسانے لگا تانیہ جو کہ پہلے ہی بہت ہراساں نظر آرہی تھی، اب باقاعدہ رونے لگی

"ابے کون ہے تو"

وہ لڑکا ایک دم پڑنے والی افتاد پر بوکھلا کر کہنے لگا 

"میں جو بھی کوئی ہو، اگر تو نے اپنی ہمشیرہ کا راستہ آئندہ روکا۔۔۔ تو سیدھے راستے سے تو اوپر جائے گا"

مزید اس کا سر گاڑی کی بونڈ پر مارتا ہوا بولا 

"تانیہ آئیے گاڑی میں بیٹھئے" 

اشعر تانیہ کے پاس آ کر بولا، تماشہ دیکھنے والوں کا رش کافی بڑھ گیا تھا تانیہ بھی فورا گاڑی میں بیٹھ گئی

اشعر گاڑی وہاں سے دور لے گیا۔۔۔ وہ ابھی تک اپنے آنسو پوچھ رہی تھی جب اشعر نے ٹشو بوکس سے ٹشو نکال کر اس کو دیا 

"آپ کو اس طرح اکیلے نہیں نکلنا چاہیے تھا"

اشعر نے ایک جگہ گاڑی روک کر بات شروع کی 

"میں روز فضا کے ساتھ یونیورسٹی جاتی ہو، مگر اج کسی وجہ سے فضا نہیں آئی اور وہ مجھے کافی دن سے پریشان کر رہا تھا مگر آج اکیلا دیکھ کر۔۔۔۔۔

تانیہ نے بات ادھوری چھوڑی 

"بلال کو کیوں نہیں بتایا آپ نے"

اشعر کو ابھی بھی اس لڑکے پر غصہ آ رہا تھا اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے بولا 

"میں ڈر گئی تھی۔۔۔۔ اگر بھائی کو بتاتی تو وہ اس لڑکے کو زندہ نہیں چھوڑتے اور اگر بھائی کو کچھ ہو جاتا تو ہمارا کیا ہوتا"

"اور اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا"

وہ بغیر سوچے سمجھے جلدی میں کیا بول گیا یہ بولنے کے بعد احساس ہوا۔ دونوں کی نگاہیں ملیں۔۔۔ مگر بیل کی آواز پر دونوں کی چونکے

"ہاں بلال بولو"

اشعر نے کال اٹینڈ کرکے کہا

"بولو کیا؟؟؟ تم یہاں آنے والے تھے نا۔ ۔۔۔ میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں تمہارا"

بلال میں بولا

"ہاں یار بس پہنچ رہا ہوں"

اس نے تانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا اور کال ڈسکنکٹ کردی 

"چلیں آپ کو گھر ڈراپ کر دو"

اشعر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا

"نہیں آج بہت امپورٹنٹ کلاس ہے۔  مجھے یونیورسٹی جانا ہوگا۔۔۔۔۔ میں یہاں سے چلے جاؤ گی"

تانیہ نے جھجھکتے ہوئے کہا 

"اکیلے کیسے جائیں گیں آپ۔۔۔ میں آپ کو یونیورسٹی ڈراپ کر دیتا ہوں"

اشعر نے کار کا رخ یونیورسٹی کی طرف موڑتے ہوئے کہا..

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages