Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 5 to 6 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 22 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 5 to 6

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 5 to 6 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 5'6


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

بے بسی عروج پر تھی۔ وہ کس کے پاس جا کر پناہ کی درخواست کرتی۔ آفس کے احاطے سے باہر نکلی۔ 

قدم رکھتی کہيں تھی اور پڑ کہيں رہے تھے۔ شديد گھبراہٹ ہورہی تھی۔ 

کس کو وہ اپنے دکھ ميں شريک کرتی دکھ بھی وہ جو اسکے اپنے باپ نے ديا تھا۔ 

'کيا بيٹيوں کی يہی وقعت ہے۔ کہ چند ہزار کے عوض ان کا باپ جو بيٹيوں کے سر کا سايہ ہوتا ہے۔۔وہ سايہ اسے يوں تپتی دھوپ ميں لا کھڑا کرے گا۔۔کيا ميں اتنی ہی کم مايہ ہوں۔۔ اے اللہ اس سے بہتر ہے کہ ميں مرجاتی۔ اپنے ہی گھر جانے کا خوف مجھے جکڑ رہا ہے۔ اس کالی سياہ رات ميں ميں کيسے سڑکوں پر رات گزاروں۔ اللہ ميں کہاں جاؤں" آفس کی ديوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوتی وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔

وہ يوں بے اختيار کبھی نہيں ہوئ تھی نہ ہی يوں کبھی حواس چھوڑے تھے۔ مگر اس لمحے وہ بالکل اکيلی تھی۔ باپ نے تو اسے کسی قابل نہيں چھوڑا تھا۔

اور ماں۔۔۔ماں بھی اس وقت اس کی جان بچانے کی خاطر اسے اکيلا چھوڑ گئ تھی۔ 

ديوار کے سہارے ہی وہ نيچے بيٹھتی اپنی لاچاری پر بے اخيار رو پڑی۔ 

چوکيدار گيٹ بند کرکے آگے بڑھا مگر ديوار کے ساتھ مطيبہ کو گٹھڑی بنا ديکھ کر پریشان ہوتا اسکے قريب آيا۔ وہ بالکل ايسے بے جان منہ گھٹنوں ميں دئيے بيٹھی تھی جيسے ہوش و خرد سے بے گانہ ہوچکی ہو۔ 

"بٹيا۔۔ کيا ہوا ہے"

ايک شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر ٹھہرا۔ 

مطيبہ کی سسکياں رکيں۔ سر اٹھا کر سامنے ديکھا تو چوکيدار بابا تھے۔ 

کبھی کبھی کيسا وقت آتا ہے انسان پر وہ احساس جو اسکے باپ کو کرنا چاہئيے تھا وہ احساس ايک غير کے لب و لہجے ميں اسکے لئے تھا۔ 

"ميں اکيلی رہ گئ بابا۔۔۔اس پوری دنيا ميں اکيلی۔۔" وہ مطيبہ جو اپنے اندر پلنے والی تکليفوں تک کو لوگوں پر عياں ہونے نہيں ديتی تھی۔ 

ايک بالکل انجان شخص کے سامنے بکھر گئ۔ 

کبھی کبھی واقعی غير کی جانب سے ملنے والے ہمدردی کے دو بول بھی آپ کو اپنا سب کچھ اس پر ظاہر کردينے کے لئيے بہت ہوتے ہيں۔ اور مطيبہ کے ساتھ آج يہی ہوا تھا۔ 

"کيا ہوگيا بٹيا۔ گھر ميں سب خير ہے" وہ بيچارے يہی سمجھے کہ شايد گھر ميں کوئ فوتگی نہ ہوگئ ہو۔ 

"گھر۔۔۔۔"مطيبہ نے تاثر نظروں سے انہيں ديکھا۔ 

اس گھر نے ہی تو آج اسے بے گھر کر ديا تھا۔ 

"ميرا کوئ گھر نہيں رہا بابا۔۔۔ميں ميں کہاں جاؤں" اپنے گھٹنوں کے گرد بازو باندھتے وحشت سے ادھر ادھر ديکھتے وہ انہيں اپنے حواسوں ميں نہيں لگی۔ 

"بٹيا آپ يہاں سے اٹھو۔ ميرا گھر قريب ہی ہے آپ وہاں چلو۔ ايسے راستے ميں بيٹھ کر بات کرنا مناسب نہيں ميرک بيوی اور بيٹی گھر ميں موجود ہے۔ آپ چلو ميں آپ کو ان سے ملواتا ہوں" شمس نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھايا۔ 

وہ بھی بے جان مورتی کی طرح اٹھ گئ۔ 

اب ان پر اعتبار کرنے کے سوا اسکے پاس کوئ چارہ نہيں تھا۔ 

"اے اللہ اگر ان حالات ميں بھی تو نے ميری يوں عزت ميرے ہی باپ کے کرتوتوں سے بچائ ہے۔ تو آگے بھی تو ہی بچاۓ گا۔ ميں اس بوڑھے شخص پر اعتماد کرکے اسکے ساتھ نہيں جارہی ۔۔ميں تجھ پر اعتبار کرکے اس کے ساتھ جارہی ہوں۔ ميں اپنے آنے والے لمحوں کو جاننے سے قاصر ہوں۔ اندھی ہوں۔ مگر تو تو جانتا ہے۔ کہ اگلے لمحوں ميں ميرے ساتھ کيا ہونے والا ہے۔ آج واقعی سواۓ تيرے ميرا کوئ نہيں اس دنيا ميں۔ 

ماں بے قصور ہے تو باپ قصوروار اور اسکے علاوہ کوئ اور رشتہ نہيں جس کے پاس خود کو چھپا لوں۔ 

مگر تو ۔۔تو تو سب سے بڑا رشتہ ہے نا ہم انسانوں کے لئے تو ہی مجھے بچاۓ گا۔"شمس بابا کے گھر تک جاتے جاتے وہ اللہ سے مخاطب تھی۔ 

وہ جو ستر ماؤں سے بڑھ کر ہم سے محبت کرتا ہے۔ اسکی زمين پر موجود ماں نے تو اسے بچا ليا تھا۔ اب آسمانوں پر موجود ستر ماؤں کی محبت رکھنے والے اللہ نے ہی اسے بچانا تھا۔

_________________________

"کہاں کام کرتی ہے آخر تيری بيٹی۔۔" شہاب اور اسکے بندے کب سے فائق کے گھر ميں ڈيرا ڈالے بيٹھے تھے۔ مگر مطيبہ تھی کہ واپس ہی نہيں آرہی تھی۔ 

شام سے رات اور اب گہری رات ہو رہی تھی۔ 

"ميں نے کچھ دن پہلے بھی پوچھا تھا مگر ميری بيوی (گالی) نے مجھے يہی بتايا تھا کہ وہ کسی اسکول ميں جاب کرتی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی" فائق کو اب پانچ ہزار کی جگہ اپنی موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ شہاب نہ صرف بہت بڑا غنڈہ ہے بلکہ بہت اونچے لوگوں کے ساتھ اسکے مراسم بھی ہيں۔ بہت سی پارٹيوں کے ساتھ وہ کام کرواتا ہے۔ 

"ديکھ فائق تيری بيوی بھی بھاگ کھڑی ہوئ ہے۔ اب يہی ہوسکتا ہے کہ ان کی ايک ايک چيز کھنگال۔ پتہ نہيں کيسا کمينہ باپ ہے تو جسے اپنی بيٹی کا موبائل نمبر نہيں پتہ۔ 

اب ان کی چيزيں کھنگال شايد کوئ ثبوت مل جاۓ۔" شہاب نے غصيلی نظريں اس پر ڈال کر ايک اور حکم ديا۔ 

فائق واقعی کمينہ تھا کمينہ نہ ہوتا تو يوں اپنی بيٹی کو رسوا نہ کرتا۔ 

"اگر وہ نہ ملی۔۔ تو ياد رکھيں پيسے تو تجھے کبھی نہيں مليں گے اس کے علاوہ تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوۓ گا۔ اب يہ ميری غيرت کا مسئلہ بن گيا ہے۔ ايک چھٹانک بھر کی لڑکی اور تيری بيوی نے ميری عزت کا جنازہ تيرے محلے ميں نکلوا ديا ہے۔ اب تو وہ پاتال ميں بھی ہوئ تو اسے نکال لاؤں گا۔۔" اسکی آنکھ جو ہميشہ غصے ميں پھڑکتی تھی اس وقت بھی پھڑک رہی تھی۔ گردن کی رگيں غصے کے مارے تنی ہوئ تھيں۔ جبڑے بھينچے وہ فائق کو تڑياں لگا رہا تھا۔ 

اس نے اب تک جو چاہا تھا تسخير کيا تھا۔مگر آج وہ کيسے ايک چھوٹی سی لڑکی سے چکما کھا گيا تھا۔ 

يہ بات اسے کسی طور ہضم نہيں ہورہی تھی۔ 

فائق کپکپاتے جسم سے اٹھا اور گھر کی ايک ايک چيز کھنگالی۔۔ 

مطيبہ کے ڈاکومنٹس کی فائل کھولی تو پہلا صفحہ ہی جو صفحہ ہاتھ لگا وہ اس کا اپائنٹمنٹ ليٹر تھا۔ 

پوری فائل اٹھاۓ وہ شہاب کے پاس گيا۔ 

"ديکھ لو۔۔مجھے لگتا ہے شايد يہيں وہ جاب کرتی ہے" اس نے ايک صفحہ شہاب کے ہاتھ ميں پکڑايا۔ 

شہاب ميٹرک پاس تھا۔ لہذا اتنی انگريزی تو پڑھ ہی ليتا تھا۔ 

کمپنی کا نام پڑھ کر اس نے مسکراتے ہوۓ اپنی مونچھوں کو تاؤ ديا۔ 

"کچی گولياں تو ہم بھی نہيں کھيلے" مطيبہ کے تصور سے مخاطب ہوا۔ 

"تيری بيٹی کی کوئ تصوير؟" 

"ہاں اس فائل ميں پاسپورٹ سائز تصويريں ہيں اسکی" 

فائق نے جلدی سے اسی فائل ميں ہاتھ ڈال کر ايک لفافہ نکالا جس ميں مطيبہ کی حاليہ تصويريں تھيں۔ 

شہاب نے غور سے ديکھا۔ 

شکل تو معمولی تھی۔ مگر اسے شکل نہيں جسم کی ہوس سے مطلب تھا۔ 

"ٹھيک ہے۔۔۔ ميں يہ فائل ہی لے جاتا ہوں۔ ديکھتا ہوں اب وہ بچ کر کہاں جاۓ گی" تيکھے چتون سے اس نے فائق کو ديکھا۔ 

اور ايک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا وہ ہکا بکا رہ گيا۔ 

"کمينے تجھے معلوم ہی نہيں کہ تيری بيٹی سکول نہيں آفس ميں جاب کرتی ہے" اپنی بات کرکے وہ رکا نہيں گھر سے نکلتا چلا گيا۔

_______________________

شميم کا بيٹا تيزی سے کچی پکی سيڑھيوں سے اتر کر نيچے آيا۔ شميم نے اسے چھت پر بھيجا تھا جہاں سے رفيعہ کے گھر کے صحن کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ 

شميم نے اسے اسی لئے بھيجا تھا کہ وہ سن گن لے کے آۓ کہ شہاب اور اسکے بندے کيا کر رہے ہيں۔ 

"خالہ۔۔امی" علی بھاگتا ہوا اس کمرے کی جانب گيا جہاں شميم اور رفيعہ بيٹھی تھيں۔ 

"کيا ہوا علی" رفيعہ نے اسکے يوں آندھی طوفان کی طرح اندر آنے پر پريشان ہو کر پوچھا۔ 

انہيں يہی ڈر تھا کہ مطيبہ کہيں آنہ جاۓ۔ وہ تھی بھی ايسی نڈر اور بے خوف۔۔ 

اسے فون کرنے کے بعد بھی انہيں يقين نہيں تھا کہ وہ انکی بات مان لے گی۔ 

"خالہ وہ لوگ مطيبہ باجی کے ڈاکومنٹس لے گۓ ہيں۔" علی کے بتانے پر وہ دل تھام کر رہ گئيں۔ 

انہوں نے ہی تو اسکے ڈاکومنٹس ميں مطيبہ کا اپائنٹمنٹ ليٹر رکھا تھا۔ 

"يا اللہ اب کيا کروں" وہ رونے لگيں۔ 

"ہوا کيا ہے رفيعہ" شميم ناسمجھ انداز ميں انہيں ديکھنے لگيں۔

"باجی ميں نے اس ميں مطيبہ کا اپائنٹمنٹ ليٹر ڈالا تھا اب وہ جان گۓ ہوں گے کہ وہ کس کمپنی ميں کام کرتی ہے" انہوں نے روتے ہوۓ مسئلہ بتايا۔ 

"تم ايک کام کرو۔۔ پھر سے مطيبہ کو فون کرو۔ اور اس سے کہو ابھی دو تين دن آفس نہ جاۓ۔۔ اپنے چوکيدار کے ہی گھر رہے" تھوڑی دير پہلے ہی مطيبہ کو فون کرنے پر انہيں معلوم ہواتھا کہ اس کا چوکيدار اسے اپنے گھر لے گيا ہے۔ 

"ہاں يہ ٹھيک ہے" آنسو دوپٹے سے صاف کرتے انہوں نے علی کی جانب ديکھا۔ جو مطيبہ کا نمبر ملا رہی تھا۔

شمس بابا کے ساتھ وہ انکے چھوٹے سے مکان ميں داخل ہوئ۔ 

"آؤ آؤ بيٹا" انہوں نے اسے دروازے پر ساکت ہوتے ديکھ کر کہا۔ 

"منزہ۔۔۔ ارے کو منزہ کی ماں" وہ دو مختلف لوگوں کو پکارتے اندر داخل ہوۓ۔ 

ايک جانب سے ايک لڑکی اور ايک پچاس سے ساٹھ کے لگ بھگ ايک عورت صحن ميں آئيں۔ 

"ارے يہ کون ہے" دونوں نے سر سے پاؤں تک چادر ميں لپٹے اس نسوانی وجود کی جانب اشارہ کيا۔ جس کی آنکھيں رونے کے باعث سوج چکی تھيں۔ 

"ہمارے آفس ميں کام کرتی ہے۔ نجانے کيا ہوا ہے۔ بس آفس سے نکل کر روۓ جارہی تھی۔ سوچا گھر لے آؤں۔ تم ہی پوچھو اس سے کہ کيا ہوا ہے۔ ابھی نئ نئ ہمارے آفس ميں آئ ہے۔ " شمس نے ايک چارپائ پر اسے بٹھاتے ہوۓ۔ منزہ کی ماں کو اتنا بتايا جتنا وہ سمجھ سکا تھا۔ 

"اچھا اچھا۔۔۔ منزہ جا پانی لا بہن کے لئے اور روٹی بھی ڈال۔" انہوں نے چارپائ پر مطيبہ کے قريب بيٹھتے منزہ کو حکم ديا۔ 

"کيا ہوا ميری دھی کو۔۔ ہيں۔ ماں باپ کہاں ہوتے ہيں تيرے گھر کہاں ہيں" اسکے کندھے کو محبت سے ايک ہاتھ سے سہلاتے وہ اسے اندر کا غبار نکالنے پر مجبور کر رہی تھيں۔ 

ماں باپ کے ذکر پر ہی وہ بکھر گئ۔ 

انہوں نے محبت سے اسے سميٹ ليا۔ 

"نہ ميری دھی۔۔ تو پريشان نہ ہو۔ ہمارے لئے تو منزہ کی طرح ہے بتا کيا ہوا ہے" اپنے ساتھ لگاتے انہوں نے پھر محبت سے اسے حقيقت بتانے پر اکسايا۔ 

اور پھر مطيبہ سب بتاتی چلی گئ۔ 

"ارے مار ہو اللہ کی ايسے باپ پر۔۔۔ تف ہے ايسی پريوں سی بيٹيوں کی کوئ بولياں لگاتا ہے۔۔" ان کا بس نہيں چل رہا تھا کہ فائق کہاں سے انکے سامنے آۓ اور وہ اس کا گلہ دبا ديں۔ 

"کيسے کيسے جانور اس دنيا ميں ہيں" شمس جو اندر کمرے ميں بيٹھے اسکی سب روداد سن چکے تھے باہر آتے اس کے سر پر ہاتھ پھيرتے افسردگی سے بولے۔ 

"تو اپنی ماں کو فون کر۔۔ بے چاری پريشان ہوگی تيرے لئے۔ اسے بتا تو اپنوں ميں ہی ہے۔ غم نہ کرے وہ" منزہ کی ماں نے جس محبت سے کہا مطيبہ پھر سے سسک اٹھی۔ 

"آپ کا بہت شکريہ" وہ کہے بنا نہ رہ سکی۔ کيسے انکی محبتوں کا جواب ديتی اسے سمجھ نہيں آرہی تھی۔ 

"لے ۔۔جھلی نہ ہو تو۔۔ ماں باپ کو کون شکريہ کہتا ہے" کچھ لوگ کتنے عظيم ہوتے ہيں۔ چند پلوں ميں کتنے بے لوث رشتے بناليتے ہيں۔ مطيبہ نے محبت سے انہيں ديکھا۔ 

اسی لمحے رفيعہ کا فون آگيا۔ 

اس نے انہيں شمس اور انکی فيملی کے بارے ميں بتا ديا۔ 

"لا ميری بات کروا" منزہ کی ماں (سميرا) نے مطيبہ سے فون ليا۔ 

"بہن تم فکر نہ کرو۔ جب تک حالات بہتر نہيں ہوتے تمہاری بيٹی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ يہ ميرے لئے ميری بيٹی کی ہی طرح ہے بالکل فکر نہ کرو تم" وہ رفيعہ کو تسلياں دينے لگيں۔ 

فون بند کرتے ہی منزہ نے کھانا رکھ ديا۔ 

منزہ کسی قدر باتونی لڑکی تھی۔ جلدی ہی مطيبہ کے ساتھ گھل مل گئ۔ 

ابھی کھانا کھا کر فارغ ہی ہوۓ تھے کا رفيعہ کا ايک بار پھر فون آگيا

"مطيبہ وہ تيرے ڈاکومنٹس لے گۓ ہيں۔ تو ابھی چںد دن آفس نہ جا تيرا اپائنٹمنٹ ليٹر بھی اسی ميں تھا۔ انہيں تيرے آفس کا پتہ چل گيا ہے" رفيعہ کے بتانے پر مطيبہ کو لگا ايک اور مصيبت اسکے سر پر آکھڑی ہوئ ہو۔ 

"اماں مگر ميں سر کو کيا کہوں گی" مطيبہ فکر مندی سے بولی۔ 

"بس تو کچھ بھی بہان لگا دينا۔ مگر ميرا بيٹا ابھی چند دن نہ جا۔ مجھے اميد ہے وہ کل ہی وہاں آئيں گۓ" رفيعہ نے اپنا خدشہ ظاہر کيا۔ 

"اچھا کچھ کرتی ہوں" مطيبہ مخمصے ميں پڑ گئ۔ 

"اب کيا ہوا" فون بند کرتے ہی سميرا نے اسکی پريشان صورت ديکھ کر سوال کيا۔ 

اس نے تمام قصہ بتا ديا۔ 

"تم ايسا کرو۔ اپنے باس کو ابھی فون کرو اور انہيں کہو کہ تمہيں فيملی کے کسی کام کی وجہ سے دو تين دن کے لئے شہر سے باہر جانا پڑ گيا ہے۔" منزہ لگ بھگ اسی کی عمر کی تھی۔ فورا اسے حل بتايا۔ 

"ہاں يہ ٹھيک ہے" سميرا نے بھی اسکی ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

"مگر بابا آپ نے کسی کو نہيں بتانا آفس ميں کہ ميں يہاں ہوں" مطيبہ نے شمس کو ديکھا۔

"ارے پگلی ميں کيوں بتاؤں گا۔ تو فکر نہ کر۔۔" انہوں نے اسے تسلی دلائ۔ 

"اوکے ميں سر کو کال کرتی ہوں" 

مطيبہ نے رئيد کا نمبر ڈھونڈ کر اسے فون ملايا۔

________________________

کچھ دير پہلے ہی وہ رات کا کھانا کھا کر فارغ ہوا تھا۔ اور اب اس وقت ٹی وی پر کوئ سياسی ٹاک شو ديکھنے ميں مصروف تھا۔ 

سفيد شلوار قميض ميں ريليکس انداز ميں صوفے پر بيٹھا تھا۔ 

ٹانگيں سامنے سينٹر ٹيبل پر رکھيں ہوئيں تھيں۔ 

يکدم موبائل کی آواز پر اس نے سائيڈ ٹيبل پر رکھا موبائل پر اٹھا کر کال کرنے والے کا نام ديکھا۔ 

"مس مطيبہ" کا نام ديکھ کر وہ چونکا۔ 

'اس وقت' منہ ہی منہ ميں بڑبڑايا۔ 

خوتھی بيل پر کال اٹھائ۔ 

"ہيلو" رئيد کی گمبھير پر دوسری جانب مطيبہ تھوڑا سا گھبرائ۔ 

"ہيلو سر ميں مطيبہ بات کررہی ہوں"آواز ميں ابھی تک نمی گھلی تھی۔ جو رئيد جيسے ذہين بندے سے ہر گز چھپی نہيں رہ سکی۔ 

"جی جی۔ مس خيريت اس وقت کيوں کال کی" رئيد نے اپن حيرت اس پر آشکار کی۔ 

"وہ۔۔ وہ سر مجھے دو تين دن کی چھٹی چاہئيے کچھ ايمرجنسی ہو گئ ہے ميں اس شہر ميں نہيں ہوں" اپنا لہجہ مضبوط کرتے مطيبہ نے مطلب کی بات کی۔ 

"چھٹی۔۔۔مس ابھی آپکو جوائن کئيے ميہنہ پورا نہيں ہوا۔ اور آپ دوسری بار دو تين دن کی چھٹی لے رہی ہيں۔ ايسے ہی رہا تو جاب کيسے چلے گی" رئيد نے ناگواری سے کہا۔ 

"جی سر ميں جانتی ہوں کہ يہ غلط ہے۔ مگر پليز بس اس کے بعد چھٹی نہيں کروں گی۔ پليز سر" مطيبہ اسے ہر صورت منانا چاہتی تھی۔ 

رئيد چند لمجے لب بھينچے فيصلہ کرتا رہا کہ کيا کرے۔ 

"اوکے بٹ دن از دا لاسٹ ٹائم۔ پروبيشن پيريڈ تک اب آپ کو کوئ چھٹی نہيں ملے گی۔ چاہے آپ کی طبيعت خراب ہو يا فيملی ميں کوئ اور ايشو" رئيد بے لچکے لہجے ميں بولا۔ 

"جی سر۔ آئںدہ نہيں ہوگی" مطيبہ نے يقين دہانی کروائ۔ 

"اوکے گڈ۔ اللہ حافظ" رئيد نے ٹھہرے ہوۓ لہجے ميں خداحافظ کہا۔ 

"مل گئ چھٹی؟" مطيبہ کے فون بند کرتے ہی منزہ نے بے صبری سے پوچھا۔ 

"ہاں مگر بہت غصے ميں تھے" مطيبہ نے منہ لٹکا کر کہا۔ 

"کوئ بات نہيں۔ مگر يہ سب ضروری تھا" سميرا نے اسے تسلی دلائ۔ 

"چلو اب ليٹو تم دونوں" دونوں کو ہدايت کرتے وہ اٹھ کھڑی ہوئيں۔ 

منزہ کے کمرے ميں ايک اضافی چارپائ تھی 

منزہ نے اس پر بسترا بچھا کر وہ مطيبہ کو ليٹنے کے لئے دے دی۔ 

مگر نيند کسی کو آنی تھی۔ 

مطيبہ نے پہلے نماز پڑھ کر شکرانے کے نفل ادا کئيے جس اللہ نے اسکی عزت بچائ تھی اسکا شکريہ تو مطيبہ پر واجب تھا نا۔ 

__________________________"يہ ہنگامہ کيسا ہورہا ہے" رئيد تھوڑی دير پہلے ہی آفس پہنچا تھا۔ جواد کو بلا کر مطيبہ کا کام ہينڈ آور کيا۔ 

"ابھی دو تين دن تک وہ نہيں آئيں گی۔ تم کسی اور سے ان کا يہ کام کروا کر مجھے آج واپسی سے پہلے رپورٹ کرنا" ايش گرے کلر کے سوٹ کے بٹن کھول کر اپنی سيٹ پر بيٹھتے ہوۓ اس نے جواد کو ہدايت دی۔ 

"جی سر" جواد کے منہ ميں ايک سوال آتے آتے رہ گيا۔ 

وہ شروع سے رئيد کے ساتھ کام کررہا تھا۔ اس نے پہلی بار رئيد کو کسی کو اتنی چھوٹ ديتے ہوۓ ديکھا تھا۔ 

نہيں تو جو کوئ بھی ہوتا اگر يوں پہلے مہينے چھٹياں کرتا تو رئيد اسے کبھی بخشتا نہيں تھا۔ 

جواد يہ بھی جانتا تھا کہ دل پھينک بندہ ہر گز نہيں تھا اور نہ ہی مطيبہ کوئ بہت پری وش چہرہ والی لڑکی تھی۔ 

اس سے زيادہ خوبصورت لڑکيوں کے ساتھ رئيد کام کرتا رہا تھا۔ مگر وہ کسی کو معمولی سی چھوٹ بھی کبھی نہيں ديتا تھا تو پھر مطيبہ ميں ايسے کون سے سرخاب کے پر لگے تھے کہ رئيد اسکی غير ذمہ دارانہ طبيعت ک برداشت کررہا تھا۔ 

مگر يہ سب جواد صرف سوچ سکتا تھا کہنے کی ہمت  نہيں تھی۔ 

ابھی رئيد نے کام شروع کيا تھا کہ باہر اسے کسی کے اونچا اونچا بولنے کی آواز آئ۔ 

اس نے فورا مريم کی ايکسٹينشن ڈائل کی۔ 

"ہيلو سر" مريم الرٹ انداز ميں بولی۔ 

"يہ باہر اتنا شور کيوں ہورہا ہے؟" اسکے لہجے سے ناگواری صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ 

"سر وہ مطيبہ کے کوئ رشتے دار آۓ ہيں اور وہ بدتميزی کررہے ہيں" مريم کے بتانے پر وہ يکدم چونکا۔ 

"ان کے رشتے دار يہاں کيا کرنے آۓ ہيں۔ اور آپ نے انہيں بتايا نہيں کہ وہ دو تين دن کی چھٹی پر ہيں" رئيد کو کسی خطرے کی بو محسوس ہوئ۔ 

جی سر ميں نے بتايا ہے مگر وہ بضد ہيں کہ آپ سے ملنا ہے۔" مريم نےگھبراۓ ہوۓ لہجے ميں کہا۔  

"اوکے آپ بھيجيں انہيں اندر" رئيد کی پيشانی پر بے شمار شکنيں در آئيں۔ 

رات کی مطيبہ کی کال ياد آئ۔ 

کچھ دير بعد ہی اسکے آفس کا دروازہ کھول کر تين سے چار آدمی اندر آۓ۔ دو گن مين تھے اور دو شکل سے ہی غنڈے لگ رہے تھے۔ بڑے ہوۓ بالوں کے ساتھ کرخت چہرے۔ 

"جی" رئيد نے انہيں بيٹھنے تک کا نہ کہا۔ 

سپاٹ چہرہ لئيے وہ اپنی کرسی پر آرام دہ انداز ميں بيٹھا انہيں ايسے ديکھ رہا تھا جيسے بمشکل ان کی موجودگی اپنے آفس ميں برداشت کررہا ہو۔ 

"ديکھيں سر جی۔۔۔ميری بيوی يہاں جاب کرتی ہے۔ ميری اجازت کے بغير اسکی ماں نے اسے جاب کرنے دی" اس کی بات کے آغاز نے ہی رئيد کو لحمہ بھر کو گم صم کرديا۔ 

"بيوی؟" باقی کی بات تو اس نے شايد ہی سنی ہو۔ 

"اوہ جی منکوحہ ہے ميری۔ ابھی رخصتی نہيں ہوئ تو کيا ہوا نکاح تو ہو چکا ہے نا" شہاب بنا اجازت کرسی گھسيٹ کر مونچھوں کو تاؤ ديتے ايسے بيٹھا جيسے آفس اسی کا تو ہو۔ 

"مجھے علم نہيں تھا اس بارے ميں" رئيد اب کی بار چہرے کے تاثرات پر قابو پا کر بولا۔ 

"اوہ چھڈو جی۔۔۔ ان زنانيوں کو ويسے ہی در در کی ٹھوکريں کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ منہ ماری کرتی پھرتی ہيں" اسکی بات کا مفہوم سمجھ کر رئيد کے چہرے پر ناگوار تاثرات بکھرے۔ 

مطيبہ ان سب واہيات باتوں کے برعکس تھی۔ 

"تو اب ميں اس ميں کيا مدد کروں۔ يہ آپکا گھريلو مسئلہ ہے۔ اسے وہيں حل کريں۔ ميرے آفس آکر يہ سب ہنگامہ کيوں کررہے ہيں۔ ويسے بھی مطيبہ تو آج آفس ہی نہيں آئيں۔ بلکہ دو تين دن کی چھٹی پر ہيں" رئيد کرسی سيدھی کرکے ٹيبل پر بازو جماتے سنجيدگی سے بولا۔ 

"کمينی۔۔۔" شہاب کے منہ سے گالی نکلی۔

"ايکسکيوزمی" رئيد نے کسی قدر تيکھی نظروں سے اسے ديکھا۔

"ارے او باس اگر وہ گھر ہوتی تو يہاں تمہارے آفس جوتياں چٹخانے کيوں آتا" بہت ہی بدتہذيبی تو کيا بدتميزی کا مظاہرہ کرتے وہ رئيد سے مخاطب ہوارئيد کے چہرے پر پھيلتی ناگواری بتدريج غصے کی شکل اختيار کررہی تھی۔ شہاب تھوڑا دھيما پڑا "

ديکھيں سر جی۔ آپ اس معاملے سے دور رہيں۔ اسکی ماں کے ساتھ مل کر اگر آپ نے کوئ سازش کی ہے۔ تو پھر مجھے بھی گھی ٹيڑھی انگليوں سے نکالنا آتا ہے۔ آپکے آفس کی اينٹ سے اينٹ بجادوں گا" وہ گرج کر بولا۔ شہاب کو سمجھ نہيں آرہی تھی کہ آخر وہ دو ٹکے کی لڑکی، بقول اسکے، گئ تو گئ کہاں اسے رئيد کا پرسکون انداز بھی کھٹکھک رہا تھا۔ 

"اوہ مسٹر۔۔ يہ دھمکياں کسی اور کو دينا۔۔۔ اپنے گھر کے معاملات بيچ چوراہے ميں نمٹانے سے بہتر ہے کہ گھر ميں نمٹائيں۔ اور وہ کہاں ہے کہاں نہيں۔ مجھے اس سے سروکار نہيں۔ وہ ميرے ہاں کام کرتی ہيں ميں انکے ہاں نہيں کہ خبرليتا پھروں۔" شہاب کے انداز ديکھ کر رئيد کا پرسکون انداز آخر شعلے برسانے لگا۔ 

"بہت سن لی آپکی بکواس۔۔ نکليں يہاں سے" رئيد نے کوئ بھی لگی لپٹی رکھے بنا اسکی ٹھيک ٹھاک تواضع کی۔

اسی لمحے شہاب کے گن مينز نے رئيد پر گنز تانيں۔ 

"بس دکھا ليا کرتب۔۔ نکلو يہاں سے ۔۔اس سے پہلے کے ميں کسی بڑے کو فون کروا کر تم لوگوں کو لاک اپ کی ہوا لگواؤں" رئيد کا لہجہ پھر سے ٹھنڈا ٹھار ہو چکا تھا۔ 

مگر لہجے کا سرد پن شہاب کو تيش دلا گيا تھا۔ 

"تم سے تو ميں نبڑ لوں گا"شہاب نے کرسی سے اٹھ کر کندھوں پر لی ہوئ چادر کو دائيں جانب سے جھٹک کر بائيں جانب لی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی شعلہ بار نظروں سے شہاب کو ديکھا۔ 

"جائيں" رئيد نے ہاتھ سے دروازے کی جانب اشارہ کرکے اسکی اچھی خاصی تذليل کی۔ 

"ياد رکھنا اگر وہ تمہارے پاس سے برآمد ہوئ تو اچھا نہيں ہوگا" جاتے جاتے بھی وہ اسے دھمکی دئيے بنا نہ رہا۔ 

"وہ ميرے پاس اگر ہوتی تو کبھی تم جيسے درندوں کو ديتا بھی نہ" رئيد نے اسکی شرر بار نظروں ميں اپنی سرد نظريں گاڑھيں۔ 

"راستہ اس طرف ہے" بھنويں اچکا کر دوبارہ اسے آفس سے جيسے دفعان ہونے کا اشارہ کيا۔ 

"ہونہہ" وہ دھب دھب کرتا آفس سے باہر جاچکا تھا۔ 

رئيد کی پرسوچ نظروں نے اسکا پيچھا کيا۔ 

وہ يہ نہ کہہ سکا کہ'اگر وہ تمہاری بيوی ہے تو پھر تمہارے پاس اس کا موبائل نمبر ہوگا فون کرو يا اگر نمبر نہيں اٹھا رہی تو فون سے ٹريس کرو' 

"کچھ تو گڑ بڑ ہے" رئيد نے آنکھيں سکيڑيں۔ “

____________________________

"کيا بات ہے جب سے آۓ ہو پريشان لگ رہے ہو" شمس شام ڈھلے جب گھر پہنچا تب سے رات سونے تک وہ گم صم تھا۔ روزانہ کی طرح نہ کسی سے خاص بات چيت کی نہ ہی کھانا صحيح سے کھايا۔ ايسے جيسے کسی سوچ ميں ڈوبا ہو۔ 

سميرا کب سے نوٹ کررہی تھيں۔ مگر منزہ اور مطيبہ کے سامنے شمس کو ٹوکا نہيں۔ 

"تم کيسے ميری رگ رگ سے واقف ہو جاتی ہو" شمس نے چارپائ پر ليٹے ليٹے ہی ہولے سے مسکرا کر پوچھا۔ بازو موڑ کر سر کے نيچے رکھا۔ چہرہ دائيں جانب کئيے سميرا کو ديکھا۔ 

وہ اپنی چارپائ پر ليٹی کروٹ شمس کی جانب موڑے پوچھ رہی تھيں۔ 

"اے لو! اتنے سال اکٹھے بيتانے کے بعد بھی نہ سمجھتی۔" چارپائ پر اٹھ کر بيٹھتے جيسے اس نے شمس کی عقل پر ماتم کيا۔ 

"ہاں آج کا دن بہت پريشان کن تھا" شمس ٹھنڈی آہ بھرتے اٹھ بيٹھا۔ 

"کيا مطيبہ کی وجہ سے" سميرا کی بات پر شمس نے سر اثبات ميں ہلايا۔ 

"جن لوگوں ميں اسکے باپ نے اسے بيچا ہے وہ لوگ آج آفس آۓ تھے" شمس نے سرگوشی نما آواز ميں سميرا کو بتايا۔ 

"ہاۓ ميں مر گئ۔۔۔پھر؟" وہ پريشان چہرہ لئے شمس کو ديکھنے لگی۔ 

"خوب ہنگامہ کيا ۔۔کہ مطيبہ کو نکالو۔۔۔کہاں ہے وہ۔۔۔ پھر سر سے ملے۔۔۔ سر نے اچھی طرح جھاڑ پلا کر نکال ديا۔ کہہ رہا تھا کہ مطيبہ اسکی منکوحہ ہے" شمس کے تفصيل بتانے پر سميرا نے حيرت کے مارے انگلی دانتوں ميں دبائ۔ 

"يا اللہ! کيسے کيسے لوگ ہيں دنيا ميں۔ اب کيا ہوگا۔۔ مگر اسکا نکاح تو ہوا ہی نہيں۔ وہ اتنا بڑا جھوٹ کيسے بول سکتا ہے اور يہ جھوٹ تو کھل جاۓ گا" سميرا نے اپنے تئيں پتے کی بات کی۔

"بات تيری درست ہے۔ مگر جو لوگ اس حد تک گر سکتے ہيں وہ کچھ بھی کر سکتے ہيں۔ تيری خيال ميں وہ مطيبہ کے ڈاکومنٹس کيوں لے کر گيا ہوگا؟" شمس کے سوال پر اس نے الجھ کر شانے اچکاۓ۔ 

"اسی لۓ کہ اس ميں مطيبہ کے سائن ہيں اور ايسے لوگ دو نمبر کام ميں ماہر ہوتے ہيں۔ اس نے جعلی نکاح نامہ بنوا کر مطيبہ کے سائن کسی سے بھی کاپی کروا کر کر دئيۓ ہوں گے۔ ورنہ اتنے وثوق سے وہ يہ بات نہيں کرسکتا" شمس کی بات پر وہ دل تھام کر رہ گئ۔ 

"ميرے اللہ لوگ کس قدر شيطانی دماغ والے ہوتے ہيں۔ بھلا بتاؤ بچی نے کيا قصور کرديا۔۔ جو يوں پيچھے پڑ گيا" 

"بس ايسے لوگوں کے دماغ کا ہم کچھ نہيں کرسکتے۔ مجھے جو اصل پريشانی ہے وہ يہ ہے کہ اگر اسکے پاس مطيبہ کا فون نمبر ہوا تو وہ اسے ٹريس کرکے کہيں يہاں تک نہ پہچ جائيں" سميرا کو اب اسکی اصل پريشانی سمجھ آئ۔ 

"اور ميں اور تم ايسے لوگوں کا مقابلہ نہيں کرسکتے" شمس نے مزيد کہا۔ 

"تو کيا ہم اس بچی کو گھر سے نکال ديں۔ ايسے کيسے کر سکتے ہيں" سميرا کو اسکی بات ناگوار گزری۔ 

"ارے بھلی لوگ! ميں نے يہ نہيں کہا کہ اس کو يہاں سے نکال ديں۔ مگر مجھے ايک خيال آيا ہے کہ ميں کيوں نا اپنے صاحب سے يہ سب بات کروں۔ يقينا انکے بہت اونچے لوگوں سے روابط ہيں وہ کوئ نہ کوئ حل ضرور نکال ليں گے" شمس کی بات پر وہ سوچ ميں پڑ گئ۔ 

"اور اگر تمہارے صاحب نے مطيبہ کو انکے حوالے کر ديا؟" سميرا کا سوال جائز تھا۔ 

"نہيں اتنے سالوں ميں انکے ہاں نوکری کرکے اتنا تو اندازہ ہوگيا ہے کہ وہ مددگاروں کی ہميشہ مدد کرنے کو تيار رہتے ہيں۔" شمس کے يقين بھرے انداز پر بھی سميرا شش و پنج ميں تھی۔ 

"چلو پھر اللہ کا نام لے کر کل بتا دو۔۔ ميں بھی اللہ سے دعا مانگوں گی کہ اس بچی کے حق ميں جو بہتر ہے وہ۔۔وہ کردے" سميرا ٹھنڈی سانس بھر کر ليٹ گئ۔ 

شمس بھی دل ميں تہيہ کرکے ليٹ گيا۔

_________________________

"ميں ايسے نہيں چھوڑوں گا اسے" شہاب واپس آکر غصے سے ادھر سے ادھے پھرتے ہوۓ بڑبڑا رہا تھا۔ 

"ابے ميں تو کہتا ہوں دفع کر اسے ۔۔۔کون سی ايسی حور پری ہے کہ تو اسکے لئے پاگل ہوا جارہا ہے" اسکے دوست نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھانا چاہا۔ 

"ارے ہٹ۔۔۔۔۔۔ مجھے چہروں سے کوئ سروکار ہے بھی نہيں۔ مگر مجھے جو چيز طيش دلا رہی ہے وہ ناکامی ہے۔ ميں کبھی کسی کو حاصل کرنے ميں ناکام نہيں ہوا۔ تو اس ۔۔اس غربت کی ماری نے مجھے کيسے اتنا بڑا دھچکا دے ديا" دوست کا ہاتھ کندھے سے بری طرح ہٹاتے ايک ہاتھ کا مکا دوسرے پر مارتے اس نے دانت کچکچاۓ۔ 

"اور اس کا باس ديکھ نا۔۔ وہ کيسے مجھے آنکھيں دکھا رہا تھا۔ ميری دہشت سے لوگ کانپتے ہيں۔ منٹ ميں اڑا کر رکھ دوں ميں ايسوں کو۔۔۔مگر وہ۔۔۔ وہ مجھے لاک اپ ميں بند کرواۓ گا" شہاب کا غصہ رئيد کی باتوں سے کسی طور کم نہيں ہورہا تھا۔ 

"يار ميں صرف اتنا کہوں گا کہ يہ اتنی بڑی بات نہيں کہ تو اس کے پيچھے پڑ جاۓ۔ ہاں مگر ايک بات تجھے ضرور باور کرواتا چلوں" رستم کے خاموش ہوتے ہی شہاب نے سواليہ نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"جب انسان کی کم بختی آئ ہو نا ۔۔۔تو ايسی ہی چھوٹی باتيں وجہ بنتی ہيں۔" اسکی بات پر شہاب طيش ميں آکر اس پر ہاتھ اٹھانے ہی لگا تھا کہ اس کا ہاتھ ہوا ميں معلق رہ گيا۔ 

"زبان سنبھال کر بات کر" وہ رستم پر آنکھيں نکال کر بولا

"اور تو اپنا دماغ سنبھال" استہزائيہ مسکراہٹ اس پر اچھالتا وہ شہاب کے اڈے سے باہر نکل گيا۔ 

______________________

"سر جی آپ سے ايک بات کہنی ہے۔ اگر اجازت ہو تو" اگلے دن لنچ ٹائم پر شمس رئيد کے آفس پہنچ گيا۔ 

"ارے ارے آئيں نا بابا!" رئيد ہميشہ اسے بہت عزت سے بلاتا تھا۔ 

"بيٹھيں نا" اس نے کبھی امتياز نہيں رکھا تھا اپنے اور اپنے ملازموں ميں امتياز نہيں رکھتا تھا۔ شمس کو بھی اس نے اسی لئے رکھا تھا کہ وہ پہلے کسی سرکاری بينک ميں سرکاری نوکری کرتا تھا۔ وہاں سے ريٹائرمنٹ کے بعد اس کے پاس اتنے اخراجات نہيں تھے کہ وہ سکون سے بيٹھ کر کھاتا۔ 

پيٹ کا ايندھن ختم کرنے کو وہ سبزيوں اور پھلوں کی ريڑھی لگاتا تھا۔

رئيد نے ايک بار اس سے پھل لئے۔ اس کے بات کرنے کے انداز سے رئيد کو لگا کہ وہ کچھ پڑھا لکھا ہے۔  دوتين دن مسلسل اسے نہ صرف پھل ليا بلکہ اس سے بات چيت بھی کی۔ 

جس سے اسے معلوم ہوا کہ وہ مجبوری ميں يہ ريڑھی لگاتا ہے۔ 

رئيد نے اسے وہيں اپنے آفس کے گارڈ کے طور پر رکھنے کا سوچا۔ 

اور جلد ہی اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنايا۔ 

آفس کے پاس ہی اسکی رہائش کا بھی انتظام کرديا۔ 

اسکے علاوہ ميڈيکل فری کر ديا۔ اور بھی بہت سی مراعات وہ اسے ديتا رہتا تھا۔ 

شمس اسکی ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر ٹک گيا۔

"سر جی وہ۔۔۔۔مجھے مطيبہ بيٹی کے بارے ميں کچھ بتانا ہے آپکو" شمس کی بات سن کر وہ بری طرح چونکا۔ 

"کيا مطلب ۔۔۔" وہ الجھا۔

"سر جی ۔۔۔وہ مطيبہ بيٹی ۔۔۔مم۔۔ميرے گھر پر ہے" شمس سر جھکاۓ اسے حقيقت بتانے لگا۔

"کيااا؟" رئيد حيرت زدہ سے بولا۔۔

"جی صاحب ۔۔وہ۔۔۔۔۔" اور پھر شمس رئيد کو اس رات کی ہر حقيقت بتاتا چلا گيا۔ 

رئيد سر تھام کر رہ گيا۔ 

يہ کون سا معاشرہ ہے جہاں ہم سانس لے رہے ہيں۔ ايک لڑکی کو اسکے لڑکی ہونے کی سزا مل رہی ہے اور ہم اسے آزادی کا نام دے رہے ہيں۔ يکدم رئيد کو لگا اسے سانس لينے ميں دشواری ہورہی ہو۔ حبس بڑھ رہا تھا۔ 

"آپ نے مجھے اسی دن کال کيوں نہيں کی" رئيد کچھ دير بعد بات کرنے کے قابل ہوا۔ شمس سے شکوہ کيا۔ 

"صاحب مجھے اندازہ نہيں تھا کہ يہ لوگ اس طرح آکر ہنگامہ کريں گے" شمس نے شرمندگی سے کہا۔ 

"خير ابھی بھی کچھ نہيں بگڑا" ميں شام ميں آپکے گھر آؤں گا۔ مگر يہ بات اب آپ نے يہاں کسی کو نہيں بتانی" رئيد نے اسے تنبيہہ کی۔ 

"نہيں صاحب آپ بے فکر رہيں" شمس کہتے ساتھ ہی اٹھ گيا۔

________________________

شام ميں رئيد شمس کے گھر موجود تھا۔ پہلے بھی ايک دوبار وہ گيا تھا۔اسی لئے سميرا اور منزہ اسے پہلے سے جانتی تھيں۔ 

"کيسے ہيں بھائ" منزہ سے پہلی بار ملتے ہی رئيد نے اسے سر يا صاحب کہنے کی جگہ بھائ کہنے کا حکم ديا۔

"بالکل ٹھيک گڑيا تم کيسی ہو" مطيبہ ابھی منزہ کے کمرے ميں تھی جب اسے باہر رئيد کی آواز سنائ دی جو منزہ سے باتيں کرتا ہوا باہر رکھی چارپائ پر ہی براجمان ہو چکا تھا۔ 

"صاحب آپ کيسے آۓ" سميرا بھی دائيں جانب بنے چھوٹے سے کچن سے نکل کر باہر آئيں۔

"بس کچھ ضروری کام تھا" مطيبہ پريشان ہوئ باہر جاۓ کہ نہيں۔ اسے تو وہ کہہ چکی تھی کہ وہ اس شہر ميں ہی نہيں۔ 

کيا پتہ تھا کہ وہ يہاں بھی آتا ہوگا۔ 

شمس بھی اندر آچکا تھا۔ 

"ارے کوئ ٹھنڈا پانی لاؤ نا صاحب کے لئے" شمس نے بيوی کو گھرکا۔ 

"بس ٹھنڈا پانی ہونا چاہئيے۔ ميں بوتل ووتل نہيں پيتا" رئيد نے سميرا کو ہدايت کی۔ 

"چاۓ تو پئيں گے نا" سميرا نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا ۔۔

"جی جی بالکل" رئيد نے فورا سر اثبات ميں ہلايا۔ 

"بابا مطيبہ کو بلائيں" رئيد نے شمس سے کہا۔ 

مطيبہ اسکی بات سن کر ششدر رہ گئ۔ 

وہ کيا کہہ رہا تھا۔ اس کو بلانے کا کيوں کہہ رہا تھا۔ 

وہ پريشان ہوئ۔ اور شمس بابا نے کيا بتا ديا اسے مطيبہ کی موجودگی کا۔ 

مطيبہ پريشان ہو اٹھی۔ 

شمس کمرے کی جانب بڑھا۔

"بٹيا۔۔باہر آئيں" شمس دروازہ کھٹکھٹا کر کمرے ميں داخل ہوا جہاں وہ پريشان چہرہ لئے بيٹھی تھی۔ 

"آپ۔۔۔۔آپ نے سر کو بتا ديا" وہ بے يقين نظريں اس پر گاڑھے دکھی لہجے ميں بولی۔ 

"بٹيا باہر آئيں پھر بتاتا ہوں آپ کو" شمس اصرار کرنے لگا۔ 

مطيبہ کا دل برا ہوگيا۔ بادل نخواستہ وہ باہر آئ۔ 

رئيد نے بائيں جانب موجود کمروں ميں سے ايک ميں سے مطيبہ کو باہر آتے ديکھا۔ 

جو اس وقت منزہ کی ہرے رنگ کی شلوار قميض پر اپنی اسکن چادر لپيٹے مدہم چال چلتی باہر آئ۔ 

"السلام عليکم" مطيبہ نے نظر اٹھا کر سامنے بيٹھے رئيد کو ايک نظر ديکھ کر سلام کيا۔ 

جس کی شکايتی نظريں مطيبہ پر ٹکی تھيں۔ 

"وعليکم سلام" مطيبہ اسکے سامنے رکھی چارپائ پر بيٹھ گئ۔ 

"اگر اتنی ٹارزن نہيں ہيں تو دوسروں کو اپنی مدد کے لئے پکارنے ميں کوئ حرج نہيں ہوتا" رئيد تو جيسے بھرا بيٹھا تھا۔ 

مطيبہ نے اسکے شکايتی انداز پر حيران نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ 

"اس رات اگر آپ مجھے فون پر يہ ساری صورتحال بتا ديتيں تو آپ کو يوں چھپنا نہ پڑتا" رئيد کی بات پر وہ تلخی سے مسکرائ۔ 

"ميں آپ کو جانتی ہی کتنا ہوں۔ کہ يہ سب آپ کو بتاتی" مطيبہ کی بات پر رئيد نے بھنويں اچکا کر اسکی بے اعتباری پر حيرانگی کا اظہار کيا۔ 

"شمس بابا کو جانتی تھيں کيا؟" رئيد کے سوال پر وہ نظريں جھکا گئ۔ 

"بٹيا کل شہاب آفس آيا تھا اور اس نے بے حد ہنگامہ کيا تھا اسی لئے مجھے صاحب کو سب بتانا پڑا" شمس نے مطيبہ کو وہ حقيقت بتائ جس کے سبب اس نے رئيد کو مطيبہ کے ٹھکانے کے بارے ميں بتايا۔ 

"کيا؟" مطيبہ کی ہوائياں اڑيں۔ 

"جی اور وہ آپ کو اپنی منکوحہ بھی ڈکلئير کر رہا تھا" رئيد کے بتانے پر وہ اور پريشان ہوئ۔ 

"مگر ميں تو اس کو جانتی تک نہيں کجا کہ نکاح۔۔۔" مطيبہ نے اپنی بات کلئير کرنا چاہی۔ 

"آج کل کے زمانے ميں کيا نہيں ہوسکتا۔ وہ آپکے ڈاکومنٹس لے کر ہی اسی لئے گيا تھا کہ آپکے سائن کو کاپی کرکے جعلی نکاح نامہ بنوا لے" رئيد کے بتانے پر وہ سر تھام کر رہ گئ۔ 

"اب کيا کروں" اس کا ذہن حقيقت ميں ماؤف ہو چکا تھا۔ 

اسے لگا وہ گرداب ميں پھنستی جارہی ہے۔

"اللہ بہتر کرے گا۔ وہ تو شکر ہے شمس بابا نے آپکے بارے ميں مجھے بتاديا ہے۔ کوئ حل نکالتے ہيں۔۔آپ پريشان نہ ہوں" رئيد نے ايک بے ضرر مگر کسی قدر گہری نگاہ اس پر ڈالی۔

__________________جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages