Pages

Friday 20 January 2023

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 1 to 2

Ishq Main Hari Novel By Ana Ilyas Episode 1 to 2

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...



Ishq Main Hari By Ana Ilyas Novel Episode 1'2


Novel Name: Ishq Main Hari 

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"ارے تم تو انٹرويو کے لئيے گئ تھيں اتنی جلدی آ بھی گئيں" ابھی آدھا گھنٹا تو ہوا تھا اسے گھر سے نکلے ہوۓ کہ اتنی جلدی وہ واپس بھی آگئ۔ 

رفيعہ نے ابھی ہانڈی بنانی شروع ہی کی تھی کہ مطيبہ واپس بھی آگئ۔ 

"ہم جيسوں کی قسمت ميں انٹرويو بھی نہيں ہيں" وہ تلخی سے بولتی ہوئ صحن ميں رکھی چارپائ پر بيٹھی۔ غصے سے جوتی اتار کر سامنے ديوار پر ماری۔ 

"ہاۓ ہاۓ يہ کيا ہوگيا ہے۔۔يہ کيا طريقہ ہے" رفيعہ اسکا غصہ ديکھ کر حيرت سے چلائيں۔ 

"يہی طريقہ ہے ميرے پاس۔۔اس۔۔۔اس منحوس جوتے کی وجہ سے ميں آج انٹرويو کے لئيے نہيں جاسکی۔ ابھی بس اسٹینڈ تک پہنچی ہی تھی کہ يہ عین سڑک پر دغا دے گئ۔ اب اس ٹوٹی جوتی کے ساتھ ميں انٹرويو دينے سے رہی۔ بڑی مشکل سے اسے گھسيٹ گھسيٹ کر گھر واپس آئ ہوں۔ انٹرويو کا ٹائم بھی نکل چکا ہے۔" وہ سر پر ہاتھ رکھے اپنی روداد سنا رہی تھی۔ 

"کوئ بات نہيں بيٹے۔ اس طرح دل برا نہيں کرتے" رفيعہ اسکے پاس بيٹھ کر پيار سے اسکا کندھا سہلاتے ہوۓ بوليں۔ 

"رہنے ديں امی۔۔يہ خود کو دھوکا دينے والی بات ہے۔ بس مجھے اندازہ ہو گيا ہے ہماری قسمت ايسی ہی رہنی ہے۔ کبھی خوشحالی کی ہم نے شکل نہيں ديکھنی ،ہم ايسے ہی غربت ميں مر جائيں گے" وہ مايوس کن لہجے ميں بولی۔ 

"بہت بری بات ہے بيٹا ميں تمہيں کتنی مرتبہ سمجھاؤں کہ ايسی کفر کی باتين منہ سے نہيں نکالتے اللہ ناراض ہوتا ہے" وہ زچ ہو کر بوليں۔ 

"امی اللہ نے ہم سے ناراض ہی رہنا ہے" وہ مسلسل خود اذيتی سے بھر پور باتيں کررہی تھی۔

"مطيبہ تجھ سے بات کرنے سے بہتر ہے بندہ خاموش ہی رہے۔۔خود بھی ايسی باتيں کرکے گناہگار ہوتی ہے اور مجھے بھی کرتی ہے" بالآخر رفيعہ اسکی باتوں سے گھبرا کر وہاں سے اٹھ گئيں۔ جانتی تھيں وہ اپنے دل کا غبار ايسی ہی باتوں سے نکالتی تھی۔

مگر وہ مزيد وہاں بيٹھے رہ کر گناہگار نہيں ہوسکتی تھيں۔ 

غربت نے ان کی بيٹی کو تلخ بنا ديا تھا۔ حالانکہ انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ اسکی ہر خواہش پوری کرسکيں مگر شوہر کی بے توجيہی۔ شراب اور نشے کی عادتوں نے اسے تو اس قابل نہ چھوڑا کہ چار پيسے کما کر بيوی اور بيٹی کے ہاتھ پر رکھتا۔ 

مگر رفيعہ نے سلائ کڑھائ کرکے اتنا ضرور کيا کہ مطيبہ کو پڑھا لکھا ديا۔ 

ميٹرک کے بعد مطيبہ نے شام ميں کوچنگ سنٹر ميں ٹيوشن کرکے اپنی گريجويشن تک کا خرچہ اٹھايا۔ اس کے بعد کالج کو تو خير آباد کہہ ديا۔ ايک قريبی سکول ميں ٹيچنگ کرکے پرائيوٹ ماسٹرز کيا۔ 

دونوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح محلے کے بچے گھر ميں ٹيوشن پڑھنے آجائيں مگر فائق کی جوۓ اور شراب کی عادتوں کی وجہ سے کوئ محلے کا بندہ ان کے گھر اپنے بچوں کو بھيجنے کو تيار نہ ہوتا۔ 

کبھی کبھار وہ اپنے گندے دوستوں کو گھر لے آتا اس لمحے رفيعہ مطيبہ کو ايک کمرے ميں بند رہنے کا حکم ديتیں۔ اور خود جيسے تيسے مہمان نوازی کرتی۔ 

فائق بيوی کی تو نہ سنتا لہذا رفيعہ نے محلے ميں موجود طارق صاحب سے درخواست کی کہ فائق کو منع کريں کہ اپنے گھر اپنے بدکار دوستوں کو مت لاۓ۔ 

فائق طارق صاحب کی پھر بھی سن ليتا تھا۔ 

ان کے کہنے کے بعد وہ پھر دوبارہ اپنے دوستوں کو نہيں لايا۔ 

اسے تو احساس ہی نہيں تھا کہ گھر ميں جوان بيٹی ہے مگر رفيعہ کسی قسم کا رسک نہيں لے سکتی تھيں۔

رفيعہ کے اپنے تو والدين حيات نہيں تھے۔ بس ايک بھائ تھا جو بہت سال پہلے دوبئ ايسا گيا کہ اس نے پلٹ کر خبر نہ لی۔ فائق کے گھر والوں ميں بھی ايک بڑا بھائ اور بہن تھے جو فائق کی شادی کروا کر گويا گدھے کے سر سے سينگ کی طرح غائب ہوگۓ۔ ماں باپ اس کے تھے نہيں ان کے بعد ہی وہ ايسا بری کمپنی ميں پڑا کہ بھائ بہن کے منع کرنے کے باوجود نہيں ہٹا۔ 

انہوں نے شادی کروا کر گويا ذمہ داری پوری کی اور پھر بھائ کو اسکے حال پر چھوڑ کر چلے گۓ۔ 

يہ شکر تھا کہ باپ کی جائداد ميں سے ٹوٹا پھوٹا ہی صحيح ايک مکان بھائ کو دے ديا تھا۔ 

سر چھپانے کی جگہ بھی نہ ہوتی تو رفيعہ اپنی بيٹی کو لے کر کہاں جاتيں۔ اور کراۓ کيسے پورے کرتيں۔ 

شروع شروع ميں رفيعہ نے بہت کوشش کی کہ فائق کسی طرح ان غليظ کاموں سے دور رہے۔ مگر رفيعہ کے منع کرنے پر وہ اسے دھنک کر رکھ ديتا۔ 

لہذا اس نے بھی آہستہ آہستہ چپ سادھ لی۔ 

بس اب اسکی زندگی کا مقصد بيٹی کو کسی مقام پر ديکھنا تھا۔ 

مگر قسمت کی ستم ظريفی مطيبہ نے اس آس ميں سکول کی نوکری چھوڑی کہ اب ماسٹرز کر ليا ہے تو کسی اچھی جگہ جاب ملے گی مگر جيسے ہی اس نے مارکيٹ ميں قدم رکھ اندازہ ہوا يہاں تو پی ايچ ڈی والے رل رہے ہيں تو وہ اپنے پرائيوٹ ماسٹرز کے ساتھ کيا تير مار لے گی۔ 

واپس اسی سکول ميں جانا چاہا تو انہوں نے اسکی جگہ فل ہونے کی خبر سنائ مطيبہ بالکل مايوس ہوچکی تھی۔

______________________________

"جاب کا کيا بنا" اگلے دن حريم کے بلانے پر وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی اس سے ملنے چلی گئ۔

اس وقت دونوں کے ايف سی کے ہال ميں آمنے سامنے بيٹھی تھيں۔ 

حريم اسکے بچپن کی دوست تھی۔ اچھے کھاتے پيتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ مگر وہ اپنے اور مطيبہ کی دوستی کے بيچ کبھی اپنی کلاس کو نہيں لائ۔ 

بہت بار اس نے گريجويشن کرکے اسکے يونيورسٹی کے خرچے اٹھانے کا ارادہ کيا مگر مطيبہ کی خودداری ہميشہ آڑے آئ۔ 

"کيا بننا ہے يار ہم جيسے صرف ٹھوکريں کھانے کے لئے پيدا ہوتے ہيں" وہ چپس ادھر سے ادھر کرتی تلخی سے بولی۔

"مطيبہ ايسے نہيں کہتے يار۔ بابا نے کتنی بار تمہيں کہا ہے کہ وہ تمہاری کہيں جاب کرواديتے ہيں ليکن تم ہو کہ مانتی ہی نہيں۔" وہ بےچارگی سے بولی۔

"مجھے سفارش کے بل بوتے پر کچھ نہيں کرنا۔ ميں يہ گوارا نہيں کرسکتی کہ کوئ ميری قابليت ديکھے اور پرکھے بنا مجھے پيسے دے۔ مجھے ايسا پيسہ حلال نہيں حرام لگتا ہے۔ 

ميری ماں نے ساری زندگی مجھے حرام سے دور رکھا۔ اور ميں صرف ايک قسمت کے ہير پھير سے گھبرا کر حرام کی جانب چل دوں۔ نہيں حريم ميں ايسا نہيں کرسکتی" مطيبہ نے آج ہر بات اس پر واضح کردی۔ اور غلط بھی نہيں تھا۔ ہمارے معاشرے ميں لوگ اپنی قابليت کی بجاۓ دوسروں کے نام پر نوکرياں کرتے ہيں۔ چاہے وہ اسکے اہل ہوں يا نہيں۔ اسی لئے تو ہر جگہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

"تو کب تک تم خوار ہوگی" حريم نے کولڈ ڈرنک کا گھونٹ بھرتے کہا۔ 

"جب تک قسمت خوار کرتی رہے گی۔" وہ سر جھکاۓ بے بسی سے بولی۔

"خير تم يہ باتيں چھوڑو يہ بتاؤ شادی کی تياری کہاں تک پہنچی" سر جھٹک کر وہ موضوع ہی بدل گئ۔  

کچھ دير اسکی شادی کی تياری کا احوال سن کر اور دل پر مزيد بوجھ لے کر وہ گھر لوٹی۔ايک انٹرويو کے لئے جانا تھا مگر دل انکاری ہوگيا۔لہذا واپس گھر ہی آگئ۔ مگر وہ سی وی جو اسکے ہاتھ ميں تھا وہ وہيں ٹيبل پر بھول آئ۔ 

اور قسمت کب کيسے آپکو صحيح سمت لے جاۓ يہ نہ ہمارے گمان ميں ہے نہ ہم اسکے بارے ميں کبھی اندازے لگا سکتے ہيں۔ 

اللہ تو بس ہم سے بھول چوک کرواتا ہے اور وہ بھول چوک وہ ہميں ہماری اصل منزل کی جانب لے جانے کے لئے کرواتا ہے۔ 

گھر آکر مطيبہ کو ياد آيا کہ وہ سی وی جو وہ ساتھ لے کر گئ تھی وہ اب اسکے پاس نہيں۔ 

بيگ اچھی طرح کھنگالا مگر وہ ہوتا تو ملتا۔ 

پريشانی الگ لگ گئ کہ اس ميں اسکی ساری ضروری انفارميشن تھی۔ 

سر پکڑ کر وہ کتنی ہی دير بيٹھی رہی۔  

________________________

رئيدنے ايک کلائنٹ سے ملنا تھا۔ ابھی اس سے ملنے ميں وقت تھا اتنی دير ميں وہ اپنی پريزينٹيشن کو کمپيٹ کرنے کے لئے کے ايف سی چلا گيا تاکہ آرام سے بيٹھ کر ايک تو کام کرسکے اور پھر کچھ کھا پی بھی سکے۔ 

ابھی رات کو ہی دبئ سے ايک ميٹنگ کرکے واپس آيا تھا۔ 

صبح جلدی اٹھ کر آفس پہنچ گيا۔ آفس کے معاملات نبٹاتے اتنا وقت نہ ملا کہ ناشتہ کرسکتا۔ صبح کی بس ايک کپ چاۓ پی تھی۔ اس وقت پيٹ ميں چوہے دوڑ رہے تھے۔ 

ايک ٹيبل پر اپنا ليپ ٹاپ بيگ رکھا۔ 

پہلے برگر اور کولڈڈرنک لے کر آيا۔ 

ليپ ٹاپ آن کرتے ہی تيزی سے ہاتھ چلنے لگے۔ 

ساتھ ساتھ اہم پوائنٹس ايک پيپر پر بھی نوٹ کرتا جارہا تھا۔ 

توجہ اس وقت بھٹکی جب اپنے سے اگلی ٹيبل پر بيٹھی ايک نسوانی آواز کا خودداری پر مبنی ليکچر کانوں ميں پڑا۔ 

کچھ لمحوں کے لئے کام روک کر اس نے اس خوددار لڑکی کی پشت ديکھی۔ جو اپنی دوست کو يہ سمجھانے کی کوشش کررہی تھی کہ سفارش پر ہونے والی نوکری اس کو کسی صورت نہيں کرنی۔ 

آج کے دور ميں ايسی سوچ شايد ہی کسی کی ہو۔ اور اس لڑکی کی يہی سوچ رئيد کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگئ۔ 

کام وہ ختم کرچکا تھا لہذا ليپ ٹاپ بند کرکے اب پوری توجہ ان دونوں پر مبذول کی۔ 

نام اسے معلوم ہو گيا مطيبہ۔ سامنے والی لڑکی نے دو تين بار اس کا نام ليا۔ 

اسکی سوچ کی طرح اسکا نام بھی خوبصورت تھا۔

باتوں سے وہ يہ بھی جان گيا کہ اسکی دوست کی چند دنوں بعد شادی تھی۔ 

جيسے ہی وہ اٹھيں۔ رئيد نے ايک سرسری نظر اس پر ڈالی۔ جو بيگ اٹھا کر اب سامنے والی لڑکی کے برابر کھڑی تھی۔ اس کا رخ مکمل طور پر اب رئيد کی جانب تھا۔ 

وہ کوئ بہت پری چہرہ نہيں تھی۔ عام سی گندمی رنگت والی مگر اعتماد اسے نماياں بنا رہا تھا۔ 

خود کو چادر ميں اوڑھے، عام سے کپڑے پہنے بھی وہ ايک شان سے ايسے چل رہی تھی جيسے کہيں کی ملکہ ہو۔ 

رئيد کو اس کا يہ پراعتماد انداز بے حد اچھا لگا۔ 

اپنی کلاس سے آپ بڑے چھوٹے نہيں ہوجاتے۔ ہاں اپنے اخلاق اور اپنی صلاحيتوں سے آپ بڑے چھوٹے ہوتے ہيں۔ 

غربت گناہ نہيں جسے خود پر طاری کرکے آپ دوسروں سے خود کو کمتر محسوس کريں۔ 

رئيد نے نظر ہٹا کر گھڑی پر ٹائم ديکھا۔ جلدی سے باقی کا برگر ختم کرکے اپنی چيزيں سميٹيں کہ نظر سامنے والی ٹيبل پر پڑے چند کاغذات پر پڑی۔ 

اسے يکدم خيال آيا کہ ان دونوں ميں سے کوئ ايک يہ چھوڑ گئ ہے۔ 

وہ اٹھ کر اس ٹيبل کے قريب آيا۔ 

ہاتھ بڑھا کر ٹيبل سے کاغذات اٹھاۓ۔ 

وہ تو کوئ سی وی تھا۔ جس پر جگمگاتا نام ديکھ کر اسے اندازہ ہوگيا کہ يہ اسی باوقار لڑکی کا ہے۔ 

اسکا انداز ياد کرکے وہ ہولے سے مسکرايا۔ 

پھر کچھ سوچ کر وہ سی وی اپنے بيگ ميں رکھا۔ 

اور خود بھی ميٹنگ کے لئے نکل پڑا۔

_________________________

پھر کچھ سوچ کر وہ سی وی اپنے بيگ ميں رکھا۔ 

اور خود بھی ميٹنگ کے لئے نکل پڑا۔

_________________________

"ناشتہ تو کرلو صحيح سے" رفيعہ نے اسے پراٹھے کے ايک دو لقمے زہر مار کرتے ديکھ کر کہا۔ 

"بس اماں اور دل نہيں کررہا" چاۓ کہ آخری گھونٹ ليتے وہ جلدی سے بولی۔ 

آج پھر دو جگہ انٹرويو کے لئے جانا تھا۔ 

"پتہ نہيں کب تک واپسی ہو۔ کچھ کھا پی لو صحيح سے بس کراۓ کے پيسے لے کر جاتی ہو" وہ خفگی سے بوليں۔ 

دونوں اس وقت کچن ميں پيڑوں پر بيٹھی ناشتہ کررہی تھيں۔ 

"اماں جب اللہ غربت ديتا ہے نہ تو صبر بھی دے ديتا ہے۔ جتنا پيسہ آتا ہے ہوس بڑھ جاتی ہے۔ بس دعا کرنا اللہ اتنا ہی دے کہ ضرورتيں پوری ہوں۔ ہوس ميں نہ پڑوں" نجانے آج صبح صبح وہ کيسے اتنی پر اميد باتيں کررہی تھی۔ 

رفيعہ نے خوشگوار حيرت سے اسے ديکھا۔ 

"اللہ بہتر کرے گا" انہوں نے محبت سے اسکے کندھے کو تھپتھاتے کہا۔ 

ابھی وہ آخری گھونٹ بھر رہی تھی کہ کمرے ميں پڑا موبائل بولنے لگا۔ 

وہ تيزی سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھی۔ 

انجان نمبر ديکھ کر بھی اس نے نظر انداز نہيں کيا۔ ہوسکتا ہے کہيں سے کال آئ ہو يہی سوچ کر اٹھا ليا۔ 

"السلام علیکم" مہذب انداز ميں سلام کيا۔ 

"وعليکم سلام۔کيا ميں مطيبہ سے بات کرسکتا ہوں" نہايت دھيما اور پروقار لہجے ميں کوئ مرد بولا

"جی ميں مطيبہ ہی بول رہی ہوں" اس نے بھی اسی انداز ميں جواب ديا۔

"ميرا گڈز اينڈ سرويسز کا بزنس ہے۔ ہميں اپنے آفس کے لئے ايک محنتی اور ايماندار بندے کی ضرورت ہے جو ہماری سروسز کو سپروائز کرسکے۔ آپ اگر بہتر سمجھيں تو آج انٹرويو کے لئے آجائيں" رئيد نے بنا تمہيد اصل بات کی۔ 

"کيا ميں نے آپکی کمپنی ميں سی وی ڈراپ کيا تھا" سی وی کا چونکہ اس نے کوئ نام نہيں ليا اور نہ يہ کہا کہ 'آپ نے ہماری کمپنی کے لئے اپلائ کيا تھا'۔ سيدھا سيدھا اپنی کمپنی کا تعارف کروانے لگا۔ اسی لئے مطيبہ کو حيرت ہوئ۔ 

عموما وہ جہاں سی وی ڈراپ کرتی تھی انٹرويو کال جب آتی وہ يہی کہتے کہ' آپ نے ہمارے يہاں اپلائ کيا تھا انٹرويو کے لئے فلاں دن اور فلاں وقت آجائيں' مگر یہاں تو ايسا کچھ نہ تھا۔ 

"جی آپ نے اپلائ تو نہيں کيا مگر مجھے آپکا سی وی کہيں سے ملا۔ اور وہ ديکھنے کے بعد آپ مجھے اس پوسٹ کے لئے بالکل مناسب لگيں۔ اسی لئے آپ کو کال کردی" وہ مسکراتے ہوۓ بولا۔ کيا لڑکی تھی اس بات سے غرض تھی کہ اپلائ کيا ہے يا نہيں۔ رئيد مسکراۓ بنا نہ رہ سکا۔

"ليکن" وہ ابھی بھی وہيں اٹکی ہوئ تھی۔ 

"آپ کو ميں اسی نمبر پر اپنے آفس کا ايڈريس سينڈ کرتا ہو۔ آپ انٹرويو کے لئے آئيں ميں تفصيل آپ کو انٹرويو کے دوران بتاؤں گا۔ اور يقين رکھيں آپکی کسی نے سفارش نہيں کی۔ حتی کی آپکی بيسٹ فرينڈ نے بھی نہيں" مسکراہٹ روکتا وہ اسے مزيد حيران کرتا فون بند کرچکا تھا۔ وہ کس بات کا حوالہ دے رہا تھا وہ سمجھتے ہوۓ بھی سمجھ نہ پائ۔ 

فون کان سے ہٹاتے وہ مخمصے ميں تھی کہ يہ کون ہو سکتاہے؟ 

اسی لمحے موبائل کی ٹون پھر سے بجی۔

اسی کا ميسج تھا۔ آفس کا ايڈريس اور ٹائم لکھا تھا۔ 

ٹھيک دس بجے اسے وہاں پہنچنا تھا۔ 

اور اس وقت ساڑھے آٹھ کا وقت ہو چکا تھا۔ 

تياری تو اس نے کوئ خاص نہيں کرنی تھی۔ وہی جو چند جوڑے اسکے پاس تھے ان ميں سے ايک گہرے نيلے رنگ کا سادہ سا شلوار کرتا پہن رکھا تھا۔ اس پر ايک بڑی سی کالی کڑھائ والی چادر لے رکھی تھی۔ بيگ پکڑ کر دروازے کی جانب بڑھی۔ 

کشمکش ميں تھی کہ ماں کو يہ سب واقعہ بتاۓ يا نہيں۔ 

پھر کچھ سوچ کر خاموش ہی رہی۔

گھر کے بيرونی دروازے سے نکلتے وقت اونچی آواز ميں سلام کہتی دہليز پار کرگئ۔ 

ابھی روٹ کی بس لينے ميں بھی ٹائم لگنا تھا۔ اسی لئے وہ پہلے ہی نکل کھڑی ہوئ۔ 

دل پريشان بھی تھا کہ نجانے کون بندہ ہے ۔۔صحيح انسان ہے بھی يا نہيں۔ 

دماغ مين تانے بانے بنتی۔ ايک بس پکڑی۔ 

پھر ايک اور سٹاپ پر اتر کر رئيد کے آفس پہنچنے کے لئے دوسری بس پکڑنی تھی۔ 

ٹھيک پونے دس بجے وہ اس عظيم الشان بلڈنگ کے پارکنگ ايريا مين پہنچی۔ 

باہر کھڑے گارڈ سے اندر کا راستہ پوچھا۔ 

اپنے خود اعتماد انداز ميں وہ اندر کی جانب بڑھی۔ 

اندر پہنچ کر وہ ريسيپشن پہ موجود لڑکی کے پاس رکی۔

"جی ميم کس سے ملنا ہے آپکو" وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔ 

"ميرا انٹرويو تھا" مطيبہ نے ٹھہرے ہوۓ لہجے ميں کہا۔

مطيبہ کی بات پر اس لڑکی نے سر سے پاؤں تک حيران نظروں سے اسے ديکھا۔

"آپ مطيبہ ہيں؟" اسے جيسے ابھی بھی يقين نہ آيا۔ کچھ دير پہلے ہی باس نے اسے بتايا تھا کہ کوئ مطيبہ نام کی لڑکی آۓ گی انٹرويوکے لئے اسے آفس بھيج ديا جاۓ۔ 

اب تک تو اس نے يہاں فيشن ايبل لڑکياں ہی انٹرويو کے لئے آتے ديکھی تھيں۔ يہ دقيانوسی حليے والی لڑکی ديکھ کر اس کا حيران ہونا بنتا تھا۔ 

مطيبہ نے کڑی نظروں سے اسے خود کو گھورتے ديکھا۔ 

"اوکے آپ ويٹ کريں" اس نے ايک جانب اسے بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ مطيبہ اس جانب بڑھ گئ۔

ريسيپشنسٹ نے انٹر کام پر باس کو ميسج ديا۔ 

"جی سر وہ آگئ ہيں" اس نے دھيمی آواز ميں کہا۔ 

"اوکے سر" سر ہلا کر اس نے فون بند کيا۔ 

"آپ يہاں سے تھرڈ فلور پر جائيں گی تو آگے سے ايک کاريڈور ہے اسکے اينڈ پر سر کا آفس ہے" اس نے شائستگی سے اسے گائيڈ کيا۔ 

"تھينکس" مطيبہ اس کا شکريہ ادا کرتی سيڑھيوں کی جانب بڑھی۔ 

لفٹ بھی تھی مگر اس نے سيڑھيوں سے جانا مناسب سمجھا۔ 

کچھ ہی دير بعد تيسرے فلور پر پہنچ کر وہ اسکے آفس کے سامنے تھی۔ 

ناک کرنے سے پہلے اس نے اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالا۔ اميد تو تھی کہ اب کچھ بھی برا نہيں ہوگا۔

ہولے سے دروازہ ناک کيا۔

"کم ان" ايک گھمبير آواز دروازے کے اس پار سے آئ۔

مطيبہ نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ 

اسکی توقع کے برعکس وہ جو اس کمپنی کا باس تھا وہ نہايت کم عمر تھا۔ 

تيس کے لگ بھگ باس کی کرسی پر بيٹھا وہ شخص حقيقتا شاندار تھا يا پھر اسکی اميری نے اسے اتنا شاندار بنا ديا تھا۔ مطيبہ فيصلہ نہيں کرسکی۔

بليک ڈريس کوٹ ميں وائٹ کلر کی شرٹ پہنے اور اس پر ڈاٹس والی نيوی بلو ٹائ لگاۓ بھوری داڑھی اور ڈارک براؤن بالوں والا وہ خوش شکل نوجوان طمطراق سے باس کی کرسی پر براجمان تھا۔ 

نقوش کسی قدر تيکھے مگر گہری ہيزل آنکھيں جب مقابل پر پڑيں تو اسے کنفيوز کرکے رکھ ديں۔ 

مطيبہ جو کم ہی کسی سے گھبراتی تھی حقيقت ميں اس بندے سے گھبرائ تھی۔  

"پليز کم ان ميم" اسے وہيں جما ديکھ کر اس نے ميٹھے لہجے ميں کہا۔

اور اپنے سامنے رکھی کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

مطيبہ ميکانکی انداز ميں بيگ پر گرفت مضبوط کرتی اسکی ٹيبل کے اس جانب رکھی دو کرسيوں ميں سے ايک پر بيٹھ گئ۔ 

نظر اٹھا کر ايک بار پھر اسے ديکھا جو ليپ ٹاپ پر کچھ کام وائنڈ اپ کررہا تھا۔ 

دولت آجاۓ تو کيا وہ لوگوں کو اتنا ہی مصروف کرديتی ہے کہ اپنے سامنے بيٹھے شخص کے وقت برباد ہونے کا احساس نہيں رہتا۔ 

مطيبہ نے تلخی سے سوچا۔ 

"آئم رئيلی سوری آپ کو انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ بس يہ فائل ارجنٹ سينڈ کرنی ہے" مطيبہ چونکی اس کی جانب ديکھے بنا وہ شخص اسکی سوچ پڑھ رہا تھا۔ 

اب مطيبہ نے اس پر نظر بھی ڈالنے سے احتراز کيا۔

"کوئ جن تو نہيں" مطيبہ نے چور نظر اس پر ڈال کر سوچا۔ 

"اوکے۔۔ميم۔۔ ناؤ کم ٹو ورڈز يو۔ انٹروڈيوس يور سيلف پليز" يکدم وہ مطيبہ کی جانب گھوما۔ 

اب اس کا پورے کا پورا رخ مطيبہ کی جانب تھا۔ 

مطيبہ نے اعتماد بحال کرتے اور اسکی نظروں ميں ديکھنے سے اجتناب برتتے۔ اپنا اکيڈمک ريکارڈ بتانا شروع کيا۔ 

اس دوران رئيد کی کھوجتی نظريں اسکے چہرے سے ايک پل کو بھی نہيں ہٹيں۔ شايد يہ سب وہ اس کا کانفيڈينس چيک کرنے کے لئے کر رہا تھا۔ 

مطيبہ کو ايسا ہی محسوس ہوا۔ 

"اوکے ميم اگر برا نہ منائيں تو ايک پرسنل کوئسچن" اس نے مطيبہ سے اجازت مانگی۔ مطيبہ تو اسکے اخلاق پر حيران تھی۔ اور کچھ دير پہلے جو اسکے بارے ميں مغرور ہونے کا سوچا تھا۔ 

وہ سوچ اب دم توڑ چکی تھی۔ اس نے کئ جگہ انٹرويو دئيے تھے مگر اتنی عزت سے کوئ بات نہيں کرتا تھا۔ 

"يس پليز سر" اس نے اجازت دی۔ 

"آپ کے گريجوئيشن ميں اتنے اچھے مارکس ہيں تو آپ نے ماسٹرز اکنامکس ميں کيوں نہيں کيا اور ريگولر کيوں نہيں کيا۔ جبکہ بی اے ميں آپکا ميجر سبجيکٹ ہی اکنامکس ہے" اسکی سی وی جو ٹيبل کے ايک جانب رکھی تھی وہ اٹھا کر ديکھتے اس نے حيرت سے پوچھا۔ جس پر مطيبہ کی سب ڈيٹيل موجود تھی۔ 

"اگر اتنے پيسے ہوتے کہ ميں ريگولر کرسکتی تو جاب کے لئے دھکے نہ کھاتی" مطيبہ نے صاف گوئ سے کہا۔ 

اور يہ سچائ ہی رئيد کو اس ميں کلک کی تھی۔ 

"اب ميں ايک کوئسچن کر سکتی ہوں" مطيبہ کے دماغ ميں جو بات کب سے کلبلارہی تھی آخر وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی کہ رئيد کو اس کا سی وی کيسے ملا۔ 

اسکے سواليہ انداز پر وہ مسکرايا جيسے سمجھ گيا ہو کہ وہ کيا پوچھنا چاہتی ہے۔ 

"آپ کل يہ سی وی کے ايف سی ميں بھول گئيں تھيں۔ جہاں آپ اپنی فرينڈ کے ساتھ بيٹھی تھيں۔ ميں نے آپکی چند باتيں سنيں۔ جس سے مجھے لگا کہ آپ کو جاب کی ضرورت ہے" رئيد نے بھی جھوٹ کی بجاۓ سچائ سے کام ليتے کہا۔ 

"اوہ تو آپ نے ہمدردی کی وجہ سے مجھے آج بلايا ہے" وہ يکدم بدگمان ہوئ۔ 

"کيوں آپ کيا اندھی ہيں۔۔بہری ہيں يا اپاہج" وہ رئيد سے اتنے عجيب سوال کی اميد نہيں کررہی تھی۔ 

"کيا مطلب" الجھ کر پوچھا۔

"ميں آفس چلاتا ہوں ٹرسٹ نہيں۔۔ايک بات" وہ اس وقت خطرناک حد تک سنجيدہ ہوچکا تھا۔ کچھ دير پہلے والی مسکراہٹ جس نے اسکے چہرے کا احاطہ کيا ہوا تھا اب مفقود تھی۔ 

"دوسری بات ۔۔۔۔آپ ميں بہت سی صلاحيتيں ہيں جن کا آپ کو خود اندازہ نہيں۔۔غربت ميں رہنے والوں کا کانفيدينس کبھی اتنا اچھا نہيں ہوتا کيونکہ وہ احساس کمتری کی وجہ سے کسی کے ساتھ اعتماد سے بات کرنے کے قابل نہيں ہوتے۔ اور آپ نے جس کانفيڈينس سے يہاں بيٹھ کر اپنا انٹروڈکشن ديا ہے وہ قابل تحسين ہے" وہ انگلی اٹھا کر اسکی جانب اشارہ کرتا اسے سراہ رہا تھا۔ يہ اپنی نوعيت کا عجيب انٹرويو تھا جو آج مطيبہ دے رہی تھی۔ 

"تيسری اور سب سے اہم بات۔ مجھے ايک ايسے بندے کی ضرورت تھی جو ميری سروسز کو نہايت ايمانداری سے ديکھے۔ اور آپ کی کل کی گفتگو کے بات مجھے لگا کہ آپ سے بہترين آپش ميرے پاس نہيں۔ جو شخص نوکری اسی لئے نہ کرے کہ اس ميں سفارش کی آميزش ہو۔ ميرے نزديک اس سے بڑی ايمانداری اور کوئ نہيں۔" پيپر ويٹ کو گھماتا چئيرکے ساتھ ٹيک لگاۓ وہ مطيبہ کو ہر ہر زاويے سے جانچ رہا تھا۔ 

"ميم آپ کو ايک بات بتاؤں۔ جب لوگ يہاں انٹرويو کے لئے آتے ہيں تو وہ خود پر بہت سے نقاب چڑھا کر خود کو بہت اچھا بنا کر پيش کرتے ہيں۔ ابھی جو ميں نے سوال آپ سے کيا کہ آپ نے ايم اے پرائيوٹ کيوں کيا۔ تو کوئ بھی مجھے اتنی صاف گوئ سے يہ نہ بتاتا کہ اسکے حالات نے اسے اجازت نہيں دی۔ بلکہ وہ اپنی غربت کو بڑی آسانی سے چھپاتا۔ مگر آپ نے ايسا نہيں کيا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر طرح کے حالات کام مقابلہ کرسکتی ہيں۔ خير ان سب باتون کو بتانے کا صرف يہ مقصد تھا کہ آپ خود کو انڈر ايسٹيميٹ نہ کريں اور يہ نہ سمجھيں کہ ميں نے کوئ ہمدردی کی ہے۔" آگے کو ہوکر ٹبل پر کہنياں رکھتے اس نے اپنی بات مکمل کی۔ 

"ميں ابھی آپکو تھرٹی تھاؤزنڈ سيلری پيکج آفر کر رہا ہوں۔ تين ماہ کا پروبيشن ہے۔ اور اگر اس دوران آپ نے اچھی پرفارمنس دکھائ تو آپ کی سيلری تھرٹی فائيو ود پک اينڈ ڈراپ فری ہوجاۓ گی۔ اور اگر ان تين ماہ ميں مجھے کوئ گڑ بڑ نظر آئ تو اس پرئيڈ کے دوران ہی ہم آپ کو اللہ حافظ کہہ ديں گے" اب وہ پروفيشنل انداز ميں اسے ساری ٹرمز اينڈ کنڈيشنز بتا رہا تھا۔ 

مطيبہ نے سر ہلايا۔ 

"اينی کوئشچن" رئيد نے بھنويں اچکا کر پوچھا۔ 

"آپ کو ٹيلی پيتھی آتی ہے" اتنے غير متوقع سوال پر وہ قہقہہ لگاۓ بغير نہيں رہ سکا۔ 

"لوگوں کے چہروں کو پڑھنے کے لئے ٹيلی پيتھی کا علم رکھنا ضروری نہيں۔ جو لوگ چہرے پڑھ ليتے ہيں وہ نفع ميں بھی رہتے ہيں اور نقصان ميں بھی۔ کيونکہ کچھ چہروں پر لکھی اپنے بارے ميں تحريريں بہت تکليف سے بھی دوچار کرتی ہيں۔ خير۔۔۔ تجربات انسان کو بہت کچھ سکھا ديتے ہيں آپ بھی جلد سيکھ جائيں گی۔۔۔ بيسٹ آف لک۔ 

کل سے آپ ہميں جوائں کريں گی۔ اپنا اپائنٹمنٹ ليٹر آپ باہر سے لاسٹ ٹيبل پر بيٹھے جواد صاحب سے لے سکتی ہيں۔ ہيو آ گڈ ڈے" اپنی بات ختم کرکے اس نے پھر سے ليپ ٹاپ کھولا۔ 

"تھينک يو سر" وہ اپنی سيٹ سے اٹھتے ہوۓ بولی۔ 

کہاں اميد تھی کہ جاب بھی آج ہی مل جاۓ گی اور وہ بھی اتنے اچھے پے پيکج کے ساتھ۔ 

رئيد کے آفس سے نکل کر اس نے جواد سے اپائنٹمنٹ ليٹر ليا اور اس شاندار آفس سے باہر آگئ۔ 

گھر آنے تک وہ رئيد کی باتوں کے حصار ميں تھی۔ 

کتنا عجيب شخص ہے خشک اور مہربان۔۔ دونوںروپ ايک ساتھ۔۔

"__________________________

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Main Hari  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishq Main Hari  written by Ana Ilyas . Ishq Mian Hari  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link



  

 



No comments:

Post a Comment