Hum Ko Humise Chura Lo By Sadia Yaqoob Episode 17 to 18 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 17 January 2023

Hum Ko Humise Chura Lo By Sadia Yaqoob Episode 17 to 18

Hum Ko Humise Chura Lo By Sadia Yaqoob Episode 17 to 18

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Ko Humise Chura Lo By Sadia Yaqoob Episode 17'18

Novel Name:Hum Ko Humise Chura Lo 

Writer Name: Sadia Yaqoob

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

تم لوگ  کیا کر رہے تھے اس وقت جب وہ بھاگا ۔۔۔۔۔

حور سب پر غصے سے چیخ رہی تھی کیونکہ پولیس اسٹیشن سے ایک ملزم بھاگ گیا تھا وہ ملزم رات کے وقت پولیس اسٹیشن سے بھاگ گیا تھا

وہاں کسی کو پتا ہی نہیں چلا 

اب ان سب کی حور کے ہاتھوں کمبختی آئی ہوئی تھی 

وہ سب سر جھکائے اس کے سامنے کھڑے تھے اسکے سامنے بولنے کی بھلا 

کس میں ہمت تھی 

جاو سب یہاں سے اور اسے ڈھونڈ کر لاو ۔۔۔۔۔ حور نے غصے سے ان کو 

جانے کا بولا 

وہ سب اسے سلیوٹ کرتے ہوئے اسکے روم سے چلے گئے 

شکر ہے میم نے  آج صرف غصہ ہی کیا ہے نہیں تو ان کو غصے 

سے لال ہوتا دیکھ میرا دل کہہ رہا تھا انہوں نے آج ہم میں سے کسی ایک کو چھوٹ کر دینا ہے پر شکر ہے اوپر والے کا جو اس نے ہمیں ان سے بچا لیا 

فضل حسین نے حور کے روم سے باہر آتے ہی اللہ کا شکر ادا کیا وہ سب سے زیادہ حور سے ڈ رتا تھا اسکی تو جان جاتی تھی حور کے غصے سے 

واقعی میں یار شکر ہے بچ گئے میم کے ہاتھوں ۔۔۔۔ ایک اور بولا 

چلو اب اسے ڈھونڈتے ہیں فضل حسین ان سب سے بولا 

ان سب کے روم سے جانے کے بعد حور قہقہے لگا رہی تھی اسکا ہنس ہنس کر برا حال تھا 

حور اتنی اچھی ایکٹنگ کرنے پر خود کو داد دے رہی تھی 

حور جانتی تھی کہ وہ ملزم بھاگے گا اور اس لیے حور نے اسے بھاگنے دیا کیونکہ کہ وہ چاہتی تھی کہ وہ وہاں سے بھاگے 

حور کو سب سے زیادہ فضل حسین کی لٹکی ہوئی اور ڈ ری ہوئی صورت سوچ سوچ کر ہنسی آ رہی تھی 

جب وہ ان سب پر غصہ کر رہی تھی تو اس وقت فضل حسین کی کیا حالت 

تھی 

حور کو اپنا پولیس اسٹیشن کا پہلا دن یاد آگیا جب وہ پہلے دن ایس پی کی 

حیثیت سے پولیس اسٹیشن آئی تھی 

جیسے ہی حور کی یعنی کہ نئے ایس پی کی گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہوئی 

سب ایک لائن بنا کر کھڑے ہو گئے 

جب حور گاڑی سے نکلی تو سب اسے سلیوٹ کرنے کی بجائے منہ کھولے 

اسے دیکھ رہے تھے وہ سب تو سمجھ رہے تھے کہ کوئی کافی عمر کا ایس پی 

ہو گا پر یہاں تو ایک نازک سی لڑکی ایس پی کے یونیفارم میں سر حجاب 

لیے ان کے سامنے نئے ایس پی شکل میں کھڑی تھی 

حور نے ان سب کی شکل دیکھ کر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی 

ہیلو ایوری ون آئی ایم یور نیو ایس پی حور علی ۔۔۔۔۔ حور نے خود کو سنجیدہ 

کرتے ہوئے اپنا تعارف رعب دار آواز میں کروایا

سب اسکے بولنے کی وجہ سے ہوش میں آئے اور اسے سب نے ایک ساتھ سلیوٹ کیا 

حور نے بھی ان سب کو سلیوٹ کیا 

ان سب نے اپنا اپنا تعارف اسے کروایا 

میرے کچھ رولز ہیں اور میں چاہتی ہوں کہ میرے انڈر کام کرنے والا ہر 

شخص ان رولز کو فولو کرے 

آج سے کوئی رشوت نہیں لے گا کسی سے اور نا ہی کسی بے گناہ اور غریب کے ساتھ نا انصافی کرے گا جو سچا ہو گا ہم سب کر مل کر اسے انصاف دلوائیں گے 

اوکے ۔۔۔۔ حور سب سے بولی 

یس میم ۔۔۔۔۔ سب ایک ساتھ بولے 

اور اگر کوئی مجھے غلط کام کرتا مل گیا آپ سب میں سے تو مجھ سے برا کوئی 

نہیں ہو گا 

حور نے سب کو وان کیا 

سب نے اسکی بات پر سر ہلایا 

جتنے بھی کیسسز چل رہے ہیں ان سب کی فاعلز لے کر میرے میں روم 

میں آئیں ابھی ۔۔۔۔۔حور انسپکڑ سے کہتی ہوئی وہاں سے اپنے روم میں چلی 

گئی 

حورم فاعلز دیکھ رہی تھی کہ اسے باہر شور سنائی دیا 

وہ اٹھ کر باہر آگئی اسکے پیچھے انسپکڑ بھی آ گیا 

جہاں ایک سپاہی ایک بزرگ پر چیخ رہا تھا 

کیا ہو رہا یہاں ۔۔۔۔۔ حور نے کڑک دار میں آواز میں پوچھا 

وہ میم یہ بابا جی اپنی بیٹی کی گمشدگی کی ریپورٹ لکھوانے آئے ہیں اور اس 

شہر کے بہت بڑے سیاست دان کے بیٹے پر الزام لگا رہے ہیں 

اسکے ماتحت نے اسے وجہ سے آگاہ کیا 

تو لکھیں ان کی ریپورٹ اور اس لڑکے کو گرفتار کر کے لے آئیں سمپل سی 

بات ہے اس میں اتنا شور کرنے کی کیا بات ہے حور غصے سے بولی

لیکن میم وہ بہت بڑے آدمی کا بیٹا ہے ۔۔۔۔ وہ ڈ رتے ہوئے بولا 

بڑے آدمی کا بیٹا ہے تو کیا ہوا آپ ریپورٹ لکھو اور اس لڑکے کے اریسٹ 

وارنٹ تیار کریں میں خود آپ سب کے ساتھ جاوں گی 

اسے گرفتار کرنے حور رعب دار آواز میں بولی

لیکن میم ۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے منمنایا 

 میں اور کوئی بات  نہیں سنو گی ریپورٹ لکھیں چپ کر کے ۔۔۔۔ حور غصے 

سے بولی 

اور بابا جی آپ بے فکر رہیں آپ کی بیٹی آپ تک میں با حفاطت پہنچاوں گی 

حور نے ان کو تسلی دی 

اور اپنے کمرے میں چلی گئی 

پھر اگلے دن حور خود اس لڑکے کو گرفتار کر کے لے کر آئی اور اسکو اپنے ہاتھوں سے مار مار کر اس لڑکے کا وہ حال کیا کہ اسے لڑکے کا کہ 

اس نے طوطے کی طرح اس لڑکی کا بتا دیا 

حور کو اس لڑکے باپ نے بہت دھمکیاں دیں پر وہ اپنے کام سے باز نا 

آئی حور نے لڑکی کو باز یاب کر کے اسے اسکے گھر تک پہنچا دیا 

اس دن کے بعد حور پورے شہر میں مشہور ہو گئی اور اسکے ماتحت بھی اس دن سے اس سے ڈ رنے لگے تھے 

اللہ اللہ میم کتنے غصے والی ہیں اس لڑکے کا کیا حال کیا ہے ان کو دیکھ 

کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ اتنی بری طرح بھی کسی کو مار بھی 

سکتی ہیں دیکھنے میں تو وہ نازک سی ہی لگتی ہیں پر ہیں بہت سخت ۔۔۔۔

فضل حسین جو کہ بیس سال کا تھا اور حور کا ماتحت تھا 

وہ سب سے بولا 

ہاں صیحیح کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک بولا 

حور نے بھی ان کی باتیں سن لی تھیں اور انکی باتیں سن سن کر مسکرا رہی تھی 

کیا ہو رہا یہاں حور ان سب کے سر پر کھڑی ہو کر غصے سے بولی 

کچھ نہیں میم۔۔۔۔ فضل حسین ڈ رتے ہوئے بولا 

چلیں اپنا اپنا کام کریں جا کر سب ۔۔۔۔ حور کے کہنے پر سب اپنی اپنی 

جگہ پر چلے گئے 

حور حال میں واپس آئی تو اسکے لب اپنا پہلا دن یاد کر کے مسکرا رہے تھے 

پھر حور جان بوجھ کر فضل حسین پر مصنوئی غصہ کیا کرتی تھی کیونکہ اسے 

تنگ کرنے میں اسے مزا آتا تھا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاپا ماما اب ہمیں نور کی رخصتی کر دینی چاہیئے آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں ۔۔۔۔ حور نے ان دونوں سے پوچھا

 وہ اس وقت وہ ان کے کمرے میں موجود تھی

لیکن حور تم بڑی ہو پہلی ہی تمھارے کہنے پر ہم نے ان کا نکاح کر دیا ہے

اب تم رخصتی کا کہہ رہی ہو فاطمہ بیگم بولیں

پلیز ماما مجھ سے تو شادی کی بات بھی مت کریں اور یہ دنیا کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ پہلے بڑی بہن کی ہی شادی ہو گی

کیوں تمھاری شادی کی بات کیوں نا کروں تم نے کیا شادی نہیں کرنی

اس کی ماما نے غصے کا اظہار کیا 

نہیں کرنی مجھے کوئی شادی وادی حور کا لہجہ اٹل تھا 

پلیز آپ لوگ اس بات کو یہیں چھوڑ دیں اس پر ہم پھر بات کریں گے

ابھی ہم نور کے بارے میں بات کر لیتے ہیں علی صاحب ماحول کو تلخ ہوتا

دیکھ کر ان دونوں سے بولے

ٹھیک ہے کر لیں اپنی مرضی ۔۔۔۔ فاطمہ بیگم ناراض ہوتے ہوئے بولیں

ماما پلیز ناراض نا ہوں میری قسمت میں جو ہے مجھے مل جائے گا

اور پتا نہیں میرا کیا بنتا ہے اور میری وجہ سے ہم نور کی تو حق تلفی 

نہیں کرنی چاہیئے حور ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ان کو قائل کرنے کی کوشش کی 

چلو ٹھیک ہے میں راضی ہوں آپ بات کر لیں باسل کے پاپا۔۔۔انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی رضامندی دے دی 

تھینکس ماما ۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں بات کرتا ہوں احمد سے ۔۔۔۔۔ علی صاحب مسکراتے ہوئے بولے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی صاحب نے احمد صاحب سے بات کی ان کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا سب کی مرضی سے اس ا گلے ماہ کے لاسٹ کی ڈیڈ فکس کردی گئی

اور گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں

رضا کیسی جا رہیں ہیں باسل کی شادی کی تیاریاں پھر زاوی نے پوچھا

زاوی ، رضا ،حسن ، شیری اور معاذ اس وقت زاوی کے دفتر میں موجود تھے بزنس کے سلسے میں ۔۔۔۔۔

ابھی رضا جواب دینے ہی لگا تھا کہ آفس کا د رازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا

اسلام علیکم آنے والے نے سب کو سلام کیا

وعلیکم اسلام سب نے جواب دیا

آو کبیر ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے حسن نے اس سے ہاتھ ملایا

کبیر سے ان کی دوستی بزنس ڈیل کے بعد ہوئی تھی اب وہ ان سب کا بہت اچھا دوست تھا

ہاں رضا کیسی چل رہی ہیں تیاریاں شادی کی اس نے اپنا سوال پھر دوہرایا

بہت اچھی چل رہی ہیں تیاریاں ۔۔۔۔۔۔ جب دیکھو سب خواتین بازار کے چکر لگا رہی ہوتی ہیں

ہاں یہ تو ہے شادی والے گھر میں یہ تو ہوتا ہی ہے زاوی مسکراتے ہوئے  بولا

اور ایس پی صاحبہ کیا کر رہیں آج کل جن کی وجہ سے یہ شادی ہو رہی ہے وہ تو ملتی ہی نہیں ہیں بھائی کو بھی بھول گئی وہ پولیس میں جا کر

زاوی نےسب سے پوچھا

وہ آج کل بہت مصروف ہوتی ہے اسکا کوئی کیس چل رہا ہے اسی میں بزی ہے وہ میں کل اس کے گھر گیا تھا وہاں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی

جواب شیری کی طرف سے آیا

تم سوچ رہے ہو گے ہم کس کی بات کر رہے ہیں حسن نے کبیر سے پوچھا جو کب سے خاموش  بیٹھا ان سب کی شکلیں دیکھ رہا تھا

ہم حور کی بات کر رہے ہیں وہ ہم سب کی جان ہے ہماری اور ہمارے سب گھر والوں کی جان بستی ہے اس میں آج کل وہ ایس پی ہے ہمارے

علاقے کی ۔۔۔۔۔ حسن نے اسے آگاہ کیا

وہی حور جو شیری کے ساتھ  ساتھ یونی میں پڑھتی تھی اسکی بات کر رہے ہو تم ۔۔۔۔ کبیر نے پوچھا

کبیر نے یہ تو سنا تھا کہ اس علاقے کی ایس پی کا نام حور علی ہے پر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وہی حور علی ہے جو اسکی سٹوڈنٹ رہ چکی ہے 

جی کبیر بھائی وہی حور شیری نے جواب دیا

آفس میں جب کبیر شیری سے پہلی بار ملا تھا تو کبیر نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ اسے سر کی بجائے بھائی کہا کرے تب سے شیری اسے بھائی ہی کہتا تھا اور رضا لوگوں کو یہ بات نہیں پتا تھی کہ شیری کبیر کا سٹوڈینٹ رہ چکا ہے

تم جانتے ہو حور کو ۔۔۔۔ رضا کی طرف سے سوال کیا گیا

ہاں میں نے شیری لوگوں کو یونی میں ایک سمیسڑ پڑھایا تھا

اوکے ۔۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے رضا بولا 

اور تمھیں  ایک بات بتاؤں کبیر میری ، شیری اور رضا کی شادی حور کی ہی وجہ سے ہوئی تھی اس نے ہی ہماری شادی کروائی ہے اور اب باسل کی شادی بھی اسی کی وجہ سے ہو رہی ہے

اس کو ہماری ہر خواہش کا ہمارے بنا بتائے ہی پتا چل جاتا ہے اور ہمارے بنا کہے وہ ہماری خوشی کو وہ پورا کر دیتی ہے

ہماری بہن بہت ہی اچھی ہے حسن کے لہجے میں حور کے لئے بہت محبت اور مان تھا

اور بہت بہاد ر بھی ہے میں نے آج تک اس جیسی بہاد ر لڑکی نہیں دیکھی

معاذ نے حور کی تعر یف کی

اب تم نے باسل کی شادی پر ضرور آنا ہے اس ماہ کے لاسٹ پر شادی ہے

رضا نے اسے شادی پر آنے کی دعوت دی

اوکے ضرور آوں گا میں ۔۔۔۔ اس نے آنے کی حامی بھری 

چلو اب کچھ بزنس کی بات کر لیں حسن نے فاعل کھولی

پھر وہ بزنس کو ڈسکس کرنے لگے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیری  میں نے آپ کے کپڑے نکال دیئے ہیں پہن لیجئے گا میں نور کی 

طرف جا رہی ہوں 

مشال اسکو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ اس سے بولی 

جبکہ شیری تو اپنی آنکھوں میں محبت سموئے اسے دیکھ رہا تھا 

شیری ۔۔۔۔ مشال نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی جس سے وہ ہوش میں آیا 

ہممم ۔۔۔۔۔ کیا کہا تم نے ۔۔۔۔۔ شیری نے اس سے پوچھا 

میں نے بولا ہے کہ میں نے آپ کے کپڑے واشروم میں رکھ دیئے ہیں 

وہاں سے لے لیجئے گا اور اب میں نور کی طرف جا رہی ہوں 

مشال نے اپنی بات دہرائی 

اوکے ۔۔۔۔ شیری بولا

________

میں اب جا رہی ہوں مشال نے ابھی اپنے قدم د روازے کی طرف 

بڑھائے ہی تھے کہ شیری نے اسکا ہاتھ پکڑ اسے روک لیا 

مشال نے اسکی طرف مڑتے ہوئے اسکو سوالیہ نظروں سے دیکھا 

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ شیری نے لو دیتے لہجے میں اسکی تعر یف کی 

تھینکس ۔۔۔۔۔ مشال نے آہستہ سی آواز میں  اس کا شکریہ ادا کیا 

شیری نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا 

آئی لو یو مشال ۔۔۔۔

آئی لو یو ٹو شیری ۔۔۔

شیری نے کچھ دیر کے بعد اسے خود سے الگ کیا 

تو وہ لال ہو رہی تھی شیری نے اسکے گال چوم لیے 

میں اب چلتی ہوں مشال اس سے کہتی ہوئی وہاں سے کسک گئی 

دو سال ہو گئے ہیں ہمیں ایک ساتھ رہتے ہوئے لیکن میری بیگم اب بھی مجھ سے ایسے شرماتی ہے جیسے کل ہی ہماری شادی ہوئی ہو ۔۔۔۔

شیری نے اسے جاتا دیکھ مسکراتے ہوئے دل میں سوچا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ حسن نے عائزہ کو پیچھے سے اپنے حصار 

میں لیتے ہوئے اپنی تھوڑی اسکے کندھے پر ٹکا دی 

وہ نور کی مہندی پر جانے کے لئے آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی جب حسن کمرے میں آیا 

اور آتے ساتھ ہی اسے اپنے حصار میں لے لیا 

تھینکس حسن آپ بھی تیار ہو جائیں پھر اکٹھے چلتے ہیں عائزہ نے اپنا رخ اسکی طرف دیکھا

ٹھیک ہے حسن نے کہتے ہوئے اسے خود میں بھینچ لیا 

پھر اسے خود سے الگ کرتے ہوئے چینج کرنے چلا گیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دعا کدھر ہو ۔۔۔۔۔ رضا کمرے کے د روازے میں کھڑا اسے آوازیں دے 

رہا تھا 

جی کیا ہوا ۔۔۔۔۔ دعا نے کمرے میں آتے ہی اس سے پوچھا 

کدھر تھی ۔۔۔۔ رضا نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا 

اور دعا کی تو ہمیشہ کی طرح اسکے سامنے بولتی ہی بند ہو گئی تھی دو سال ہو گئے تھے ان کی شادی کو پر دعا کی بولتی اب بھی اسکے سامنے بند ہو 

جاتی تھی 

دعا ۔۔۔۔۔ رضا نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اسے پکارا 

وہ میں بے بی کو تیار کرنے گئی تھی آنٹی کے روم میں دعا اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی 

بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔رضا نے ایک پیار بھری شرارت کی

 جس سے دعا کی نظریں جھک گئیں 

دعا ایک بات تو بتاو ویسے تو تم اتنا بولتی ہو میرے سامنے کیا ہو جاتا ہے 

رضا نے اسکا جھکا ہو چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا 

وہ مجھے آپ سے شرم آتی ہے اس لئے میں آپ سے بات نہیں کر پاتی ۔۔۔

خاص طور پر تب جب آپ کچھ ایسا ویسا کرتے ہیں ۔۔۔۔

دعا نے بڑی مشکل سے اسے جواب دیا 

اسکی بات پر رضا کا قہقہہ نے ساختہ تھا 

ایسا  ویسا کیا ۔۔۔۔ رضا نے اس سے شرارت سے پوچھا حالانکہ وہ اسکی بات 

سمجھ گیا تھا 

دعا نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ جھکا لیا 

رضا نے مسکراتے ہوئے اسکی پیشانی چومی 

اچھا اب میرے کپڑے تو دے دو میں بھی تیار ہو جاؤں پھر نور کی طرف چلتے ہیں 

وہ سر ہلاتے ہوئے اسکے کپڑے لے آئی اور اسکے ہاتھ میں تھما دیئے 

وہ چینج کرنے چلا گیا.

ماما حور نہیں آئی ابھی تک کیا ؟ نور نے ان سے پوچھا

آج نور کی مہندی تھی اور حور ابھی تک پولیس اسٹیشن سے نہیں آئی تھی اور

مہندی کا فنگشن شروع ہو گیا تھا اور اس وقت 

فاطمہ بیگم نور کے کمرے میں دعا لوگوں  کو کہنے آئیں تھیں

 کہ وہ نور کو نیچے لے آئیں جہاں مہندی کا فنگشن ارینج کیا گیا تھا

نہیں وہ ابھی تک نہیں آئی میں نے کہا بھی تھا کہ 

نا جاؤ لیکن یہ پولیس اسٹیشن والوں کو بھی چین نہیں ہے

 جب بھی وہ گھر آ جائے پیچھے سے فون آنے شروع ہو جاتے ہیں

میں نے فضل حسین کو فون کر کے پتا کیا ہے وہ کہہ رہا تھا وہ پولیس اسٹیشن سے نکل پڑی ہے فاطمہ بیگم نے اسے مطلع کیا

فضل حسین حور کے تھانے میں حور کا ماتحت تھا

اب تم سب لوگ نور کو نیچے لے کر آو حور بھی آ جائے گی وہ ان سب سے کہتی ہوئی نیچے چلی گئیں

ایک تو یہ حور بھی نا ہر موقعے پر سب سے لیٹ آتی ہے 

اس کو میری ذرا سی پرواہ نہیں ہے آج بھی پولیس سٹیشن چلی گئی

نور نے منہ بنایا

نور  سکن کرتی جس پر ہرے اور پیلے رنگ کا کام کیا ہوا تھا  اور

پیلا لہنگا پہنا ہوا تھا سر پر پیلا ڈوپٹا اوڑھے اور پھولوں کا زیور پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نور  سکن کرتی جس پر ہرے اور پیلے رنگ کا کام کیا ہوا تھا  اور

پیلا لہنگا پہنا ہوا تھا سر پر پیلا ڈوپٹا اوڑھے اور پھولوں کا زیور پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی

باقی سب نے پیلے اور ہرے رنگ کے شرارے پہنے ہوئے تھے اور ساتھ میں پھولوں کا ریور پہنا ہوا تھا

آجائے گی وہ تم چلو نیچے چلتے ہیں اسے کام ہو گا اسی لئے گئی ہو گی

دعا نے اسے  سمجھایا

مشال دیکھو تو ذ را نور کو سمجھا کون رہاہے عائزہ نے مشال کے کندھے سے کندھے ٹکرایا

مجھے پکڑ لو عائزہ میں گرنے لگی ہوں بے ہوش ہو کر مجھے تو یہ بات تو ہضم ہی نہیں ہو رہی ہے کہ دعا بھی سمجھ داری کی بات کر سکتی ہے

مشال نے بے ہوش ہونے کی ایکٹینگ کی

مشال کی بات سن کر نور ،ہانیہ ، زویا اور عائزہ ہنسنے لگیں

تم لوگوں کہنے کا کیا مطلب ہے کہ میں کوئی سمجھ داری کی بات نہیں کر

سکتی  دعا نے ان کی بات پر منہ بنایا

ہاں ہم یہی کہنا چاہتی ہیں کیوں مشال میں صحیح کہہ رہی ہوں نا عائزہ نے مز ید دعا کو تنگ کرنے کے لئے مشال کو بھی اپنی بات میں شامل کیا

بلکل صحیح کہا تم نے عائزہ مشال نےاس کی بات کی تصد یق کی

بس کرو تم لوگ دعا کو اور تنگ کرنا چلو نیچے چلتے ہیں سب ویٹ کر رہے ہوں گے ہمارا زویا نے ان کو احساس دلایا کہ سب نیچے دلہن کا انتطار کر رہے ہوں گے

وہ سب باہر کی طرف چل پڑیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے کبیر تم آ گئے  ۔۔۔۔۔ آو میں تمھیں رضا لوگوں کے پاس لے کر چلتا ہوں حسن اس کو رضا لوگوں کے پاس لے گیا

وہاں شیری ، زاوی ، رضا اور معاذ موجود تھے وہ ان سب سے ملا

تم کس کو فون کر رہے ہو میں کب سے تمھیں دیکھ رہا ہوں زاوی نے شیری سے پوچھا

حور کو کر رہا ہوں وہ آج کے دن بھی پولیس سٹیشن چلی گئی ہے اور وہ ابھی تک نہیں آئی

اسکو تو آ لینے دو اس سے میں پوچھتا ہوں اسکو آج گھر پر چین نہیں ملا

اور پولیس اسٹیشن چلی گئی زاوی بولا

اتنے میں حور اپنی بائیک لے کر گیٹ سے اندر داخل ہوئی

لو آ گئی حور ۔۔۔۔ حسن نے سب کو حور کی طرف متوجہ کیا

حور نے بائیک پارکنگ میں کھڑی کی اور اپنا ہیلمٹ اتار کر ملازم کو دیا اور

زاوی لوگوں کے پاس آ گئی حور اس وقت پولیس یونییفام میں تھی اور سر پر حجاب لیا ہوا تھا

اسلام علیکم کیسے ہیں میرے بھائی ۔۔۔۔ حور نے ان کا حال چال د ریافت کیا

حور کا دھیان ابھی تک کبیر کی طرف نہیں گیا تھا

مل گیا موقع گھر آنے کا ۔۔۔۔۔۔ آج کیا ضرورت تھی آج کے دن جانے کی  زاوی نے اس پر مصنوئی غصہ کیا

میرے پیارے سے بھائی مجھے بہت ضروری کام تھا ورنہ میں کبھی بھی آج کے دن نا جاتی ۔۔۔۔۔ حور  نے صفائی پیش کی

بہت پیاری لگ رہی ہے میری گڑیا پولیس یونی فام میں ۔۔۔ حسن نے اسکی تعر یف کی

تھینکس بھائی

کبیر سر آپ یہاں ۔۔۔۔۔ جیسے ہی حور کا دھیان اس کی طرف  ہوا حور نے اس سے پوچھا

یہ ہمارا دوست ہے اسکو ہم نے ہی شادی پر اینوائٹ کیا ہے جواب رضا کی طرف سے آیا

اوو۔۔۔۔ اچھا کیسے آپ سر ۔۔۔۔ حور نے میزبانی کا فرض نبھایا 

میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں

میں بھی ٹھیک ہوں سر ۔۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی حور مسکراتے 

ہوئے بولی 

اچھا بھائی اب میں چلتی ہوں نہیں تو سب خواتین کے ہاتھوں آج میری خیر نہیں حور ان سے کہتی ہوئی چلی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکر ہے تم آ گئیں نور تمھارا پوچھ رہی تھی ان جلدی سے چینج کر لو اور باہر آو

ٹھیک ہے ماما میں پانچ منٹ میں آئی آپ نور کو بتائیے گا نہیں کہ میں

آ گئی ہوں حور ان سے کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی

جب وہ چینج کر کے نیچے آئی تو دعا لوگ نور کو باہر لے کر ہی جانے والیں تھیں

سٹاپ گلز یو آر انڈر اریسٹ ۔۔۔۔۔ حور نے ان کو پولیس کے انداز میں روکا

وہ سب رک گئیں اور پیچھے مڑ کر حور کو دیکھا

شکر ہے اللہ کا تم آج کی تاریخ میں ہی آگئی واپس مشال نے طنز کیا

ہاہاہاہا  ۔۔۔۔

چلو مجھے طنز کرنے کے بہانے ہی اللہ کا شکر ادا کیا

حور نے اس کے طنز کا بلکل بھی اثر نہیں لیا اور الٹا اسکی بات اس کی طرف ہی لوٹا دی

تم سے تو اللہ کی پناہ ہے ۔۔۔۔ مشال نے کانوں کو ہاتھ لگایا

نور بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اسکے گلے لگ گئی

میری بہن بہت پیاری لگ رہی ہے حور نے اسکو خود سے الگ کیا اور اس کا ماتھا چوما

تم تو مجھ سے بھی پیاری لگ رہی ہو حور نے اسے نظر کا ٹھیکہ لگایا

اے تم لوگ بس کرو یہ بہن چارہ باہر چلو نہیں تو اب سب مہمانوں نے خود ہی نور کو لینے آ جانا ہے دعا نے ان دونوں کو ہوش دلوایا

دعا اور ہانیہ نے ڈوپٹے کا اگلا کونا اور زویا اور عائزہ نے پچھلا کونا پکڑا اور وہ نور کو ڈوپٹے کے سائے میں لے کر باہر کی طرف روانہ ہوئیں

جبکہ حور نور کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی

وہ اسے سیٹج  تک لے کر آئیں جہاں باسل پہلے سے موجود تھا اس نے نور کا ہاتھ پکڑ کر  اسے اوپر سٹیج پر آنے میں مدد کی جس پر سب نے ہوٹینگ کی

جس میں حور سب سے آگے تھی اس نے منہ ہیں ہاتھ ڈال کر

سیٹھی بجائی

بہت پیارے لگ رہے ہو تم دونوں ایک ساتھ حور نے ان کی تعر یف کی

تھینکس حور باسل نے اسکا شکریہ ادا کیا

چلو اب تم لوگ نیچے اترو سٹیج سے  اور اپنے اپنے بچوں کو دیکھو ان کو اپنی اپنی ساس کے پاس چھوڑ کر تم لوگ تو بھول ہی گئی ہو

حور نے ان کو ڈپٹا جو نور اور باسل کو تنگ کرنے میں مصروف تھیں

وہ سب منہ بناتی نیچے چلی گئیں

تھینکس حور بچانے کے لئے باسل نے اسکا شکریہ ادا کیا

کوئی بات نہیں تم لوگ باتیں کروں میں ان لوگوں کے پیچھے جاتی ہوں

ان سے کہتی ہوئی حور چلی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبیر آو ہم تمھیں اپنے ماما پاپا سے ملواتے ہیں حسن ، رضا ، شیری اور زاوی اسے اپنے ساتھ لئے اپنے ماما پاپا کے پاس گئے

ان لوگوں کے پاس پہنچ کر سب نے اپنے ماما پاپا سے کبیر کا تعارف کروایا

ان رضا ، شیری اور حسن کے ماما اور پاپا کو دیکھ کر کبیر کو لگا کہ اس نے ان سب کو پہلے بھی کبھی دیکھا ہوا ہے پر کہاں اسے یہ یاد نہیں آ رہا تھا

ماما علی انکل اور فاطمہ آنٹی کہاں ہیں حسن نے ان سے پوچھا

وہ ابھی تو یہیں تھے اب پتا نہیں کہاں ہوں گے

اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں ان کو کبیر سے ملوانا ہے حسن ان سے کہتا ہوا ان کو ڈھونڈنے چلا گیا

کبیر زاوی کے پاپا سے بات کر رہا تھا جب کچھ دیر کے بعد حسن ان دونوں کےساتھ وہاں آیا

کبیر یہ حور کے ماما اور پاپا اور انکل آنٹی یہ کبیر ہے ہمارا دوست

اس نے ان سب کا تعارف کروایا لیکن کبیر ان دونوں کو دیکھتے ہی پتھر کا بن گیا

________

ماضی ۔۔

فیضان ،علی ، مصطفی اور احمد صاحب کراچی میں ایک دوسرے کے ہمسائے تھے اور ایک دوسرے کے کزن اور دوست تھے ان سب نے ایک ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کی تھی

علی ، مصطفی اور احمد صاحب کے والدین کی ڈیتھ ہو گئی تھی اور فیضان صاحب کے بابا زندہ تھے اور والدہ کا انتقال ہو گیا تھا

اور ان کی شادی ہو چکی تھی ان کی اپنی کافی زمینیں بھی تھیں وہ زمینوں کو ملازموں کے حوالے کر کے خود نوکری کرتے تھے

فیضان صاحب کو لندن کی ایک کمپنی میں نوکری مل گئی اور وہ اپنی بیوی کو لے کر لندن چلے گئے وہ اپنے بابا کبیر صاحب کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا

اچانک کبیر صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی اور فیضان صاحب اپنے بیوی اور تیرہ سالہ بچے روحان کو ساتھ لے کر پاکستان آ گئے

روحان پہلی بار پاکستان آیا تھا ہمیشہ فیضان صاحب اور ان کی بیوی حرا بیگم ہی پاکستان آتے تھے ان کے ساتھ روحان  کبھی نہیں آتا تھا

جب فیضان صاحب واپس آئے تو اس وقت علی صاحب کے تین بچے تھے سب سے بڑی بیٹی حورم ، اس سے چھوٹی نور اور انکا بیٹا شایان

اور مصطفی صاحب کے بھی تین بچے تھے بڑا بیٹا حسن اس سے چھوٹی دعا اور اس سے چھوٹی بیٹی ہانیہ

اور احمد صاحب کے بھی تین بچے تھے بڑا بیٹا رضا اس سے چھوٹی عائزہ اور اس سے چھوٹا بیٹا باسل

فیضان صاحب ان سب سے ملے

کبیر صاحب کو حورم سے بہت پیار تھا ان کی خواہش پر حورم اور روحان کا نکاح کر دیا گیا

کبیر صاحب بہت خوش تھے اس نکاح سے کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور فیضان صاحب اپنا گھر اور زمینیں بیچ کر لندن واپس چلے گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال ۔۔۔۔۔

کبیر ان دونوں کو دیکھتے ہی پتھر کا بن گیا

کیسے ہو آپ بیٹا علی صاحب نے اس کا حال چال د ریافت کیا

کبیر کچھ نہیں بولا بس ان کو دیکھتا ہی رہا

کیا ہوا کبیر تم کچھ بول کیوں رہے انکل تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں کبیر کو خاموش پا کر رضا نے اسکے بازو کو ہلایا

رضا کے ہلانے پر وہ ہوش میں آیا

آپ  آپ یہاں رہتے ہیں میں نے آپ کو کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اور آپ یہاں رہتے ہیں وہ خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات لیے ان سے 

مخاطب ہوا 

کیا باتیں کر رہے ہو بیٹا مجھے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا آپ نے مجھے کیوں ڈھونڈا کیا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں علی صاحب نے اس سے پوچھا

آپ نے مجھے نہیں پہچانا ؟

نہیں بیٹا میں نے آپ کو نہیں پہچانا آپ کون ہو انہوں نے اس سے

د ریافت کیا

میں روحان کبیر ہوں اس نے اپنا تعارف کروایا جسکی وجہ سے سب کئی پل کے لئے کچھ بھی نا بول سکے

تم تم فیضان انکل کے بیٹے ہو جو لندن میں رہتے ہیں سب سے پہلے ہوش رضا کو آیا اس نے پوچھا

ہاں ۔۔۔۔ روحان نے جواب دیا

تمھارا نام تو روحان ہے پھر تم سب کو اپنا نام کبیر کیوں بتاتے ہو حسن نے اس سے استفسار کیا 

لندن میں مجھے سب کبیر ہی کہہ کر بلاتے تھے اس لیے اب عادت سی ہو گئی ہے کبیر نام کی اس لیے میں سب کو اپنا یہی نام بتاتا ہوں  

روحان نے اسکی بات کا جواب دیا 

تم کتنے بڑے ہو گئے ہو جب یہاں آئے تھے چھوٹے سے تھے علی صاحب نے کہتے ہوئے اسے گلے لگایا

پھر وہ فاطمہ بیگم سے ملا انہوں نےاسکے سر پر پیار کیا اور اسکا ماتھا چوما

وہ باری باری سب سے گلے ملا

تمھارے ماما اور پاپا کیسے ہیں انہوں نے اس سے د ریافت کیا

وہ بھی ٹھیک ہیں اس نے جواب دیا

تم تو ہمارے ہی کزن نکلے ہمیں تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا حسن نے دوبارہ اسے گلے لگایا

نور اور باسل کتنے بڑے ہو گئے ہیں جب میں پہلی بار پاکستان آیا تھا تو دونوں چھوٹے چھوٹے تھے اور آج ان کی شادی ہو رہی تھی روحان ان دونوں کو دیکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا 

اور دعا ، عائزہ ،ہانیہ ، آیان  کیسے ہیں وہ لوگ کہاں ان سے بھی تو ملوایں

وہ لوگ بھی بڑے ہو گئے ہوں گے روحان نے ان سب کے بارے میں

د ریافت کیا

ابھی ملواتے ہیں بھائی شیری نے کہتے ساتھ ہی آیان کو آواز دی جو شایان اور ہانیہ کے ساتھ ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا

یہ شایان ہے ، یہ ہانیہ اور یہ ہمارا چھوٹو علی انکل کا چھوٹا بیٹا آیان

اور یہ روحان بھائی ہمارے کزن فیضان انکل کے بیٹے حسن نے ان سب کا تعارف کروایا

ان تینوں نے روحان کو سلام کیا

تم لوگ کتنے بڑے ہو گئے ہو روحان مسکراتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا 

آیان تم دعا لوگوں کو بلا کر لاؤ رضا نے اسے دعا لوگوں کو بلانے بھیجا

وہ اوکے بھائی کہتا ان کو بلانے چلا گیا

کچھ دیر کے بعد وہ لوگ وہاں آئیں

ارے کبیر سر آپ یہاں دعا اسے وہاں دیکھ کر حیران ہوئی

تم جانتی ہو روحان کو ۔۔۔۔ مصطفی نے اس سے پوچھا

جی پاپا یہ یونی میں ہمارے ٹیچر رہے ہیں دعا نے جواب دیا

جی میں یہاں وہ اس کی حیرانگی پر مسکرایا

یہ میری وائف دعا اور اسکی گود میں میرا بیٹا اور یہ عائزہ حسن کی بیوی اور عائزہ کی گود میں  ان دونوں  کی بیٹی اور دعا اور عائزہ یہ روحان لندن والے فیضان انکل کا بیٹا

رضا نے ان کا تعارف کروایا

آپ فیضان انکل کے بیٹے ہیں یعنی آپ ہمارے کزن ہیں عائزہ نے اس سے پوچھا

ہاں جی بلکل آپ کا کزن اور آپ مجھے سر نہیں بھائی کہو گی آج سے

روحان نے ان کے بچوں کو پیار کیا اور اسکی بات کا جواب دیا 

اور یہ شیری کی وائف مشال اور یہ ان کا بیٹا مشال کو تو تم جانتے ہی ہو گے حسن نے اپنی بات کی تصدیق چاہی

ہاں جانتا ہوں میں مشال کو ۔۔۔۔ اس نے مشال کے بیٹے کو پیار کیا

اور یہ زاوی کی وائف زویا اور یہ زاوی کا بیٹا بیٹی حسن نے زویا کا تعارف کروایا

روحان نے زاوی کے بچوں کو بھی پیار کیا

تم لوگوں کے بچے بہت پیارے ہیں روحان مسکراتے ہوئے بولا 

یہ حور کدھر ہے ۔۔۔ رضا نے دعا سے پوچھا

وہ اپنے کمرے میں گئی ہے اسے فون آیا تھا پولیس اسٹیشن سے وہ سننے گئی ہے دعا نے جواب دیا

روحان تم نے حور کو تو پوچھا ہی نہیں ۔۔۔۔ کیا حور یاد نہیں ہے تمھیں رضا نے اس سے پوچھا

حور ۔۔۔۔؟ روحان نے  ابرو اچکائے

رضا حورم کی بات کر رہا ہے فاطمہ بیگم نے روحان کو  آگاہ کیا

حورم ۔۔۔۔ حورم کے کے بارے میں کیا پوچھوں وہ دکھی لہجے میں بولا

کیا مطلب کیا پوچھوں ۔۔۔۔ اس سے نہیں ملو گے کیا حسن نے حیرانگی سے استفسار کیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا مطلب تمھارا وہ زندہ ہے ۔۔۔۔۔ وہ حیرانگی سے بولا

کیا مطلب زندہ ہے وہ زندہ ہے ۔۔۔۔۔ اسے کیا ہونا ہے حسن حیرانگی کا اظہار کیا 

لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہی مجھے تو اسکی قبر تک دکھائی گئی ہے اور تم کہہ رہے ہو وہ زندہ ہو روحان ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں تھا

تمھیں کس نے بتایا بیٹا علی صاحب نے پوچھا

ان کے پوچھنے پر اس نے انہیں ساری بات بتا دی

اس ملازم نے ایسا کیوں کہا اس کو ایسا کرنے سے بھلا کیا ملے گا علی صاحب پریشانی سے بولے

آپ ٹینشن نا لیں میں پتا کروا لوں گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا روحان نے انہیں تسلی دلائی

اسکا خوشی سے برا حال تھا کہ اسکی ہنی زندہ ہے اور وہ کوئی اور نہیں حور تھی جس سے وہ کئی بار مل چکا تھا جس کو دیکھ کر وہ رک جایا کرتا تھا جس میں اسے کشش محسوس ہوتی تھی

اب اسے پتا چلا کہ اسے کیوں حور میں کشش محسوس ہوتی تھی کیوںکہ وہ اسکی ہنی تھی اس کی نظریں اپنی ہنی کو ہی ڈھونڈ رہیں تھیں لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی

چلو چھوڑو سب ان باتوں کو چلو ہم سب نور اور باسل کے پاس چلتے ہیں

رضا نے سب سے کہا اور سب ینگ پارٹی سٹیج کی طرف چل پڑی

سٹیج پر آنے کے بعد حسن نے روحان کا تعارف نور اور باسل سے بھی کروایا

تم لوگوں کو پتا ہے کہ روحان کو بھی وائلن بجانا آتا ہے روحان تم اپنی پسند کی دھن ہی سنا دو آج ۔۔۔۔ رضا نے ان سب کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ روحان سے فرمائش بھی فرمائش کی

کر تو دوں پلے دھن پر میرے پاس ابھی وائلن  نہیں ہے روحان نے اپنا مسلہ بیان کیا وہ باتیں تو سب سے کر رہا تھا لیکن اس کی نظریں حور کو ہی تلاش کر رہی تھیں

لو اس کا کیا مسلہ ہے آیان جاو حور سے وائلن لے کر آو اور اسے بھی بلا لاؤ

وہ جی بھائی کہتا حور کے کمرے کی طرف چلا گیا.

جاری ہے


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Hum Ko Humise Chura Lo Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Hum Ko Humise Chura Lo    written by Sadia Yaqoob .   Itni Muhabbat Karo Na   by Sadia Yaqoob    is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages