Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 1 to 2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 18 December 2022

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 1 to 2

Itni Muhabbat Karo Na Novel By Zeenia Sharjeel Episode 1 to 2

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Itni Muhabbat Karo Na By Zeenia Sharjeel Episode 1' 2

Novel Name:Itni Muhabbat Karo Na 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ تیز ہوتی  سانسوں اور تیز ھوتی دھڑکن کے ساتھ بہت تیزی سے اس سنسان سڑک پر بھاگ رہی تھی. اسے راستے کا علم نہیں تھا بس اسے یہاں سے کسی بھی صورت نکلنا تھا. اس نے پیچے مڑ کے  نہیں دیکھا تھا 

 اسکی ہمت اب جواب دے گئی تھی پاوں بری طرح دکھ گئے تھے لیکن اسے ہمت نہیں ہارنی تھی وہ نڈھال ھوتے وجود اور ماوف ہوتے زہن کے ساتھ قدم آگے بڑھا رہی تھی.اسکی انکھوں کے  کہ اگے بار بار اندھیرا آرہا تھا مگر اسے یہ موقع نہیں گنوانا تھا. 

اچانک کوئ اس کے سامنےآتا ھے اور وہ اس چٹان نما چیز سے ٹکرا کر گرتی ھے اور اسکی انکھوں کے آگے اندھیرا سا آجاتا ھے. تاریخی میں جاتے ہوے دماغ کےساتھ جو آخری بات اسکو یاد آتی ھے وہ یہ کہ اسکا بھہوش وجود دو مضبوط بازوں کی گرفت میں ھے

************

 تپتی ھوئ دھوپ میں وہ مایوس قدم اوٹھاے چلا جارہا تھا. سنجیدگی ھمیشہ اسکی طبعیت کا خاصاں رہی ہے لیکن آج اس کی انکھوں میں مایوسی بھی ساتھ تھی. اسے نہیں لگتا تھا یہ جاب بھی اس کو ملے گی. ہاتھ میں پکڑی اپنی ڈگریاں کسی ردی کی مانند مہسوس ہو رہی تھیں. سست قدم اٹھاتا ھوا وہ گھر میں داخل ہوا

"اسلام و علیکم اماں"

زین نے نادیہ بیگم کو سلام کیا

"وعلیکم اسلام بیٹا! کیسا رہا انٹرویو"

انہوں نے پرامید لہجے سے پوچھا

"سفارش کے بنا پر سلیکشن ہوگی کسی اور کی"

زین پانی گلاس میں نکالتے ہوے جواب دیا. تھکن کے اثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے

"مایوسی کفر ہے بیٹا ہر چیز کا وقت مقرر ہے مل جاے گی جاب بھی 

جاو منہ ہاتھ دھو کے آو میں کھانا لاتی ہو"

وہ دماغ میں آئ سب سوچوں کو جھٹک کے کمرے سے چلے گیا

    **********

 "حور اٹھ جاو کالج نہیں جانا کیا آج" 

اسما کمرہ سمیٹتے ہوے کہنے لگی

"جی ماما بس اٹھ گئ"

 وہ کسل مندی سے اٹھ گئی ہر روز کی  طرح اس کو سب کا ناشتہ بنانا تھا اس کے بعد اپنے کالج کے لئے نکلنا تھا.

یہ بھی شکر تھا کہ اس کے چچا اور تایا اس کو پڑھا رہے تھے ورنہ باپ کے انتقال کے بعد بہت مشکل وقت انہوں نے گزارہ تھا یہی بہت تھا کہ اس کے چچا اور تایا نے اس کو اور اس کی ماما کو گھر جگہ کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی بھی میسر کردی تھی۔

اسما کے گھر والوں نے وقار صاحب کی انتقال کے بعد صاف لفظوں میں دونوں ماں بیٹی کی ذمہ داری قبول کرنے سے منع کر دیا تھا.

تھوڑا چچا اور تایا کو خوف خدا تھا اور اپنے بھائی کی اکلوتی نشانی سمجھتے ہوئے گھر میں جگہ دی.

 حور اور اسما کے ساتھ تایا اور چچا کا رویہ تھوڑا بہت نرم رویہ تھا. اس کے برعکس تائی اور چچی کو ان دونوں کا وجود بری طرح کھٹکتا تھا 

باقی کزنز بھی سب اپنی اپنی پڑھائی اور  دنیا کے جھمیلوں میں مصروف تھے. موڈ ہوا تو منہ لگا لیا نہیں تو تو کون اور میں کون والا حساب تھا

 صرف ایک خضر ہی تھا جو حور اور اسما کے لیے دل میں نرم گوشاں رکھتا 

   *********

 اسکول کی چھٹی کا وقت تھا شاہ اپنے ڈرائیور کا انتیظار کر رہا تھا. ایسے میں اس کی نظر ایک معصوم سی گڑیا پڑی جو آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو لیے بینچ پر بھیٹی رونے میں مصروف تھی. وہ 1 یا 2 کلاس کی اسٹوڈنڈ ہوگی. بچی نے جب کافی دیر تک اپنا رونے کا مشغلہ جاری رکھا تو شاہ اس کے پاس جا کے بیٹھ گیا 

"کیا ہوا گڑیا تمیں. رو کیوں رہی ھو"

بچی نے اپنا مشغلہ ترک کر کے اپنے برابر میں بھیٹے لڑکے کو دیکھا جو اس کی کلاس کا نہیں تھا حیرت سے بولی

"میرا نام گڑیا تو نہیں. کیا میں تمیں گڑیا جیسی لگی"

بچی نے معصومیت سے پوچھا

اسکی بات سن کر شاہ ہنسا

"گڑیا جیسی نہیں پری جیسی لگی ہو.  گڑیا تو ویسے ہی بولا میں نے. اچھا تو پری یہ بتاو تم رو کیوں رہی تھیں" 

شاہ نے دوبارہ پوچھا

"میں نے ہوم ورک کملیٹ نہیں کیا تو ٹیچر نے مجھے ڈانٹا" 

بچی نے دوبارہ انکھوں میں آنسو لیے کہا

"تو تم نے اپنا ہوم ورک کیوں نہیں کیا"

"ماما گھر کے کاموں میں بزی رہتی ہیں ان کے پاس ٹائم نہیں ہوتا" 

بچی نے اداسی سے جواب دیا اس ہونٹ کے نیچے بائے طرف تل بھی شاہ کو اداس لگا

"کوئی بات نہیں ہوم ورک تمہں میں کروا کرو گا. فرینڈ بنوگی میری"

شاہ نے پری کے اگے ھاتھ بڑھا کر کہا 

جسے پری نے تھام لیا 

اور یوں وہ دونوں دوست بن گئے

_______

آج وہ پھر انٹرویو دینے گیا تھا مگر سفارش کی بنا پر کسی اور کی سلیکشن پہلے ہی ہوگئی تھی. اسے اپنا آپ بے بس محسوس ہوا مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اپنی ہی سوچوں میں گم جب وہ گھر کی طرف واپس آیا تو ایک نیا امتحان اس کے استقبال کے لیے منتظر تھا.

 گھر کے دروازے پر لگا تالا دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اماں اس وقت کہا جا سکتی ہے برابر والوں سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اچانک بے ہوش ہونے کی وجہ سے بلال انہیں قریبی اسپتال لے گیا ہے. وہ وہیں سے اسپتال کی طرف روانہ ہوگیا 

"کیا ہوا اماں کو بلال"

زین نےبلال کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"ثانیہ صبح آنٹی کے پاس گئی تھی تو آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر اچانک وہ بے ہوش ہوگیں. ثانیہ نے مجھے بتایا تو میں انٹی کو  اسپتال لے آیا"

بلال نے تفصیل سے بتایا

"تم بتاؤ تم کہاں تھے؟ساتھ ہی بلال نے زین سے پوچھا 

"کچھ نہیں یار انٹرویو کے لئے گیا تھا وہی سے خوار ہو کر آرہا ہوں. خیر میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں"

 یہ کہ کر زین ڈاکٹر کے روم کی طرف گیا

"می آئی کمنگ"

"آئیے تشریف رکھئے" ڈاکٹر ولید نے کہا

 کیا رشتہ ہے پیشنٹ سے آپکا ؟ 

ڈاکٹر ولید نے زین کے بیٹھتے ہی پوچھا

 "مدر ہیں میری"

زین نے جواب دیا

"مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے وقت پر پراپر ٹریٹمینٹ نہیں کروانے سے ان کی ایک کڈنی فیل ہوچکی ہے اور دوسری افیکٹٹ ہے. آپ ان کا خیال رکھیں اور پراپر ٹریٹمینٹ شروع کروائیں"

ڈاکٹر نے تو اپنی بات ختم کر دی مگر زین کے لیے سوچوں  کے نئے پہلو نکل آئے 

کمرے سے باہر آنے پر زین اپنی اماں کے پاس گیا وہ دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی. زین نے اپنے آپ کو اتنا بے بس اور لاچار پہلے نہیں سمجھا تھا. دو تین چھوٹی موٹی ٹینشن سے دو وقت کی روٹی تو میئسر ہو جاتی تھی مگر اب اماں کا علاج.... یہ اس کے لئے سوالیہ نشان تھا... مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا کیونکہ اس کے لیے دنیا میں واحد رشتہ اس کی ماں کی تھی.

 زین ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوا. ساجد صاحب آئیڈیل شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین باپ بھی تھے. بہترین جاب تھی زندگی سہولیات سے آراستہ  تھی. زین ان کی اکلوتی اولاد تھا جو کہ شادی کے چھ سال بعد پیدا ہوا تھا. اس لئے ساجد صاحب اور نادیہ بیگم نے اس کے لیے بہت خواب دیکھے تھے.

 خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگر آنے والے وقت کا کسی کو نہیں پتہ ہوتا. ساجد صاحب پاٹنرشپ کی بنیاد اپنے دوست ظفر مراد کے ساتھ بزنس اسٹارٹ کیا. جس سے انہیں دن دگنی رات چوگنی ترکی ملی. زندگی خوشگوار گزر رہی تھی کے ایسے میں ایک دن اچانک کار ایکسیڈنٹ میں ساجد صاحب کا انتقال ہوگیا...

اس وقت زین 15سال کا ہوتا تھا ابھی وہ دونوں اس  صدمے سے نہیں نکلے ہوتے کہ ایک دن اچانک ظفر مراد  یہ انکشاف کیا کہ بزنس میں کافی نقصان ہوا اور سارا سرمایا بھی ڈوب گیا ہے. 

اس وقت نادیہ بیگم کو حالات کی سنگینی کا علم ہوتا ہے. ظفر کی باتوں میں انہیں صداقت محسوس نہیں ہوئی  مگر وہ اکیلی عورت ذات کچھ نہیں کر سکتی تھیں.

وہ اپنی زندگی اور حالات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ بلال اس کے پاس آیا

 "کیا کہتے ہیں ڈاکٹر؟

بلال نے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا

زین نے ساری تفصیل بلال کو بتائی

"سمجھ نہیں آرہا کیا کروں" 

وہ اس وقت پریشان دکھ رہا تھا

"پریشان مت ہو آزمائش کا وقت ہے گزر جائے گا کاش میرے بس میں ہوتا تو میں تمہارے لیے کچھ کر سکتا"

بلال اس کا مخلص دوست تھا محلے میں برابر میں ہی رہتا تھا اس کے اوپر بھی تین بہنوں کی  اور معذور باپ کی ذمہ داری تھی وہ زین کی طرح ہی مجبور تھا. جاب اس کی بھی ضرورت تھی جو زین کی طرح اس کے پاس نہیں تھی

        ****** حور جیسے ہی تھکی ہاری کالج سے گھر پہنچی تو سارہ چچی نے اسے کچن بلوالیا

 "آگئی تم"

"جی چچی کوئی کام تھا" حور نے پوچھا

"ظاہر ہے جبھی  تو بلایا ہے. آج ماہم کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں تو شام کے لیئے اچھا سا  ریفریشمنٹ تیار کرو اور پھر کمرے میں ہی رہنا"

یہ کہہ کر وہ چلے گیئں. حور کچن میں بزی ھوگئی

کل اسے اپنا اسائنمنٹ بھی لازمی سبمٹ کروانا تھا تو اب سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا. جلد ہی کچن کا کام فارغ ہوئی.

 آج عام دنوں کی بانسبت موسم اچھا تھا گرمی کا احساس نہیں تھا وہ اپنا اسائنمنٹ لے کر لان میں آ گئی. ماہم کے رشتے والے آ چکے تھے ماہم میک اپ  میں لبریز مسکرا مسکرا کر انہیں ناشتہ دے رہی تھی اور چاچی بات بات پر مسکرا مسکرا کر بتا رہی تھی کہ

"یہ کباب لیں ماہم نے بنائے ہیں۔۔۔میکرونی تو ٹیسٹ  نہیں کی آپ نے اس کے ہاتھ کی میکرونی گھر میں سب کو بہت پسند ہے"۔

جب رشتے والی خاتون جانے لگیں تو ان کی نظر باہر نکلتے ہوئے لان پر پڑیں انہوں نے سارا چچی سے پوچھا

 "کون ہے یہ لڑکی" وہ اپنی بیزاری چھوپائے مسکرا کر بتانے لگ گئی 

"یہ میرے جھیٹھ کی بیٹی ہے"

ان کے جانے کے بعد چچی حور کی خبر  لینے اس کے سر پر نازل ہوگئی

"میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ کہ کمرے سے باہر نہیں نکلنا"

خونخوار نظروں سے گھورتے ھوئے انہوں نے حور سے کہا

"مگر میں تو وہاں نہیں آئی چچی میں تو یہاں لان میں اپنے کالج کا کام کر رہی تھیں"

حور کے جواب دینے پر ساہ چچی نے غصے میں اس کا اسائنمنٹ پھاڑ دیا 

"آئندہ اگر میری بات نہ مانی اور زبان چلائی اگے سے تو ان کاغذ کی طرح تمہارا حال کرو گی"

 حور بے بسی سے آنسو بہاتی انہیں دیکھ رہی تھی اب دوبارہ اس کو اتنی محنت کرنی پڑے گی. شور کی آواز سن کر آسماء (حور کی امی) وہی آگئ

"کیا ہوا بھابھی"

"اپنی بیٹی کو قابو میں رکھو اور اسکی زبان کو بھی"

یہ کہہ کر وہ چلے گئیں

 "حور تم نے زبان چلائی ہے"حور  روتی ہوئی

" نہیں ماما میں نے تو انہیں صرف یہ کہا کہ میں ان خاتون کے سامنے روم میں تو نہیں آئی میں یہاں بیٹھ کر اپنا کام کر رہی تھیں"

"دیکھیں چچی نے میری ساری محنت ضائع کر دی "

آسماء لمبی سانس بھر کر رہ گئے 

"دیکھو حور آئندہ اپنی چاچی یا کسی کو آگے سے جواب نہیں دوں گی تم"

"مگر ماما میں نے تو" 

"حور میں کیا کہہ رہی ہو" اسماء نے حور کی بات کاٹتے ہوئے کہا

"جی ماما"

حور بھی اپنے نوٹس لے کر اندر چلے گئی.  

اسماء آسمان کی طرف دیکھ کر یہ دعا کرنے لگی "اللہ پاک میری حور بہت معصوم ہے. آگے اس کا واسطہ اچھے لوگوں سے پڑھے اور اس کے نصیب میں محبت کرنے والا شخص لکھ دینا"

       ******

اگلے دن شاہ کو ہاف ٹائم میں پری نظر آگئی وہ اپنے دوستوں کے پاس سے اٹھ کے اس کے پاس جا بیٹھا 

"کیسی ہو پری "

 شاہ نے پوچھا

"میں ٹھیک ہوں"

اس نے خفگی سے جواب دیا. ساتھ میں تل بھی خفا ہو جیسے

"ارے یہ تمہارا منہ کیوں بنا ہوا ہے"

شاہ نے پھولے ہوئے گال دیکھ کر پوچھا 

"آج ماما نے مجھے لنچ میں بسکٹ رکھ دیئے مجھے وہ نہیں کھانے"

جیسے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی پریشانی بتائی 

"اس میں کون سی بڑی بات ہے تم میرا لنچ باکس لے لو اس میں سینڈوچ ہیں۔تمیں سینڈوچ پسند ہے ؟

شاہ نے سینڈوچ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا

"ہے یہ تو اچھے ہیں شاہ پھر تم یہ بسکٹ کھا لو"

شاہ مسکراتے ہوئے ٹشو سے پری کا منہ صاف کرنے لگا جہاں کریم لگی ہوئی تھی اور وہ سینڈوچ سے انصاف کرنے لگی

______

زین نادیہ بیگم کو اسپتال سے گھر لے کر جارہا تھا اچانک اس کی نظر گاڑی میں بیٹھے اس وقت پر پڑی جس سے زین کی رگیں تن گی ۔یہ وہی شخص تھا جس کی وجہ سے آج وہ زندگی میں اس مقام پر تھا .اس کے باپ کا دوست ظفر مراد۔زین نے اس گاڑی کا پیچھا کرنا چاہا مگر گاڑیوں کے سمندر میں گاڑی کہاں گئ اسے سمجھ نہیں آیا شکستہ قدم لےکر واپس آیا

"تو یہ واپس اس شہر میں آگیا ہے" اس نے نفرت سے سوچا

       ********   

 وہ کالج سے گھر پہنچی ہی تھی کہ اسے ماحول میں تلخی کا احساس ہوا 

اسماء :"آگئی ہو حور چلو فریش ہو جاؤ میں کھانا لاتی ہوں تمہارے لئے" 

حور: "ماما آپ کی آنکھیں اتنی لال کیوں ہو رہی ہیں؟؟؟

"کچھ نہیں ابھی پیاز کاٹی تھی شاید اس وجہ سے ہو  رہی ہوں"

انہوں نے ٹالنا چاہا ۔

حور: "مجھے لگ رہا ہے آپ روئی ہیں. ماما پلیز مجھے بتائیں کیا بات ہے اور ویسے بھی چچی اور تائی کے تیور دیکھ کر لگ رہا ہے کچھ ہوا ہے پلیز بتائے نہ کیا ہوا ہے"

"کل جو لوگ ماہم کو دیکھنے آئے تھے وہ تمہیں پسند کر گئے ہیں انہوں نے صاف کہہ دیا ہے اگر تمہارا رشتہ دینا ہے تو ٹھیک ہے"

اسماء کپڑوں کی تہ لگاتے ہوئے حور کو بتانے لگی

"تو اس لیے چچی اور تائی نے آپکو باتیں سنائی ہوگیں" وہ افسردگی سے بولی 

"ظاہری سی بات ہے پہلے بھی جو رشتہ آیا تھا وہ اسی طرح سے واپس ہو گیا تھا"

 آسماء نے بولا

"خیر چھوڑو تم فریش  ہوں میں کھانا لاتی ہوں"

وہ حور کو شرمندہ دیکھ کر بولیں ویسے بھی ان کی بیٹی کا تو کوئی قصور نہیں تھا ۔۔۔!

     *******

 بلال زین  کے گھر آیا زین ابھی دوائیاں لے کر گھر آیا ہی تھا

"کیسی طبیعت ہے اب آنٹی کی"

بلال نے پوچھا

اب بہتر ہے. پراپر  ٹریٹمنٹ کروانا ہوگا

اور علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوگی. بس یار یہی سوچو تو ایسا لگتا ہے سارے دروازے بند ہو جاگئے ہیں کیا کروں کہاں سے لاؤں اتنا پیسا"

زین نے لاچاری سے کہا۔۔!

"میں نے اس دن جو تجویز دی تھی اس پر عمل کرو"

بلال نے آرام سے جواب دیا

"دماغ خراب ہے تمہارا ابھی تک دماغ سے نکالی نہیں تم نے وہ فضول بات"

زین نے ڈپٹتے ہوئے اسے کہا

"ٹھیک ہے پھر اس کا کوئی دوسرا حل ہے تو مجھے بتاو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ ساتھ اپنی الجھنوں کو دور کروں"

بلال نے آرام سے کہا 

"یار تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو یہ صحیح نہیں ہوگا میرا دل نہیں مان رہا ہے"

زین نے بلال کو سمجانا چاہا

"وہی تو میں کہ رہا ہوں کوئی دوسرا راستہ ہے تمہارے پاس تو مجھے بھی بتاؤ. نہیں تو یونہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے آنٹی کو سسکتے ہوئے دیکھو"

 بلال ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہوگیا اور زین اپنا سر تھام کے بیٹھ گیا ۔۔۔۔!

     *******

 "مجھے تو نہیں لگتا بھابھی جب تک یہ لڑکی ہمارے سر پر مسلط ہماری بیٹیوں کے نصیب کھولیں گے"

سارہ چچی کو رشتہ ختم ہونے کا تو ابھی تک نہیں بھولا تھا

"مجھے تو کچھ اور ہی فکر کھائے جارہی ہے"

فاطمہ تائی نے کچھ سوچتے ہوئے بولا 

"بھلا وہ کیا ؟؟؟چچی نے پوچھا 

"میں نے کچھ دنوں سے نوٹ کیا ہے خضر حور کے آگے پیچھے رہتا ہے کافی ہمدردی ہو رہی ہے اسے" 

فاطمہ تائی نے جیسے اپنا بوجھ ہلکہ کرنا چاہا

"یہ بات تو میں نے بھی نوٹ کی تھی مگر بولا اس لئے نہیں کہیں آپ کو برا نہ لگ جائے" سارا چاچی نے بھی  ہمدردانہ لہجہ اختیار کیا

"اور ویسے بھی یہ آسماء صرف شکل سے ہی سیدھی ہے. اس نے ہی کوئی  پٹی پڑھائی ہوگی اپنی بیٹی کو"

سارہ چچی نے مزید آگ لگانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوگیں 

"میں اپنے جیتے جی تو ایسا ہرگز بھی نہیں  ہونے  دوں گیں. اس گھر میں صرف نیہا ( بھانجی) ہی میرے بیٹے کی دلہن  بن کر آئے گی اور آب اس حور کا بھی کچھ سوچنا پڑے گا"

 انہوں نے بھڑکتے ہوئے کہا"

"جلد ہی سوچیے گا کہیں بات آگے نہ پڑجائے" سارا چچی اپنا کام دکھا کر مطمئن ہوگیں۔۔۔۔۔!

_____

شاہ کی پری پر نظر پڑی وہ بریک میں اپنی books کھولے مصروف تھی. شاہ اس کے قریب آیا 

"کیا ہورہا ہے پری ؟؟شاہ نے پری سےپوچھا۔ 

"مجھ سے پروبلم ‏solve نہیں ہو رہا" اس نے افسردگی سے کہا

"ذرا دکھاؤ مجھے" شاہ نے ہاتھ میں بک  لیتے ہوئے کہا

"ارے یہ تو بہت ہی ایزی ہے ادھر دیکھو میں سمجھاتا ہوں" 

"آیا نہ سمجھ میں؟شاہ نے پوچھا 

"بالکل نہیں" پری نے ایک ادا سے جواب دیا! 

اس کے بعد ساتویں دفعہ سمجھانے پر پری کو  سمجھ میں آہی گیا 

"وہ کیا ہے نا میرا math تھوڑا ویک ہے" پری نے معصومیت سے کہا

"اسے تھوڑا ویک  نہیں کہتے ہیں بہت زیادہ ویک ہو تم math میں" شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

"جاؤ نہیں ہو تم میرے دوست نہیں بات کرتی میں تم سے"

 پری اچھا خاصا برا مان گئ ۔۔

"ارے میں تو مذاق کر رہا تھا خفا تو نہیں ہو"

اس نےدو انگلیوں سے پری کے گال کو چھوا

آخر پری مان گئی۔ ۔ 

جیسے جیسے دن گزر رہے تھے ان دونوں کی دوستی اور پکی ہوتی جا رہی تھی اور انکی دوستی کی کتنی مدت ہے یہ دونوں ہی اس سے بے خبر تھے ۔۔۔۔۔!

      *******

 حور کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی خضر وہی چلا آیا ۔۔۔۔

"اور کیا بنا رہی ہو ڈیر کزن"

"میں رات کے کھانے کے لئے قیمہ بنا رہی ہوں اور ابھی پلاؤ بنایا ہے.کیا آپ کو کچھ چاہیے؟ 

اس نے کام کرتے ہوئے خضر سے پوچھا

ایک وہی تو تھا جو سارے کزنز میں اسکا خیال رکھتا تھا ورنہ تو سب ضرورت کے وقت ہی اس کو پکارتے تھے"

"اگر مسئلہ نہ ہو تو ایک کپ چائے بنا دو"

 وہ سامنے ہی چیئر پر بیٹھ گیا"

"مسئلہ کیسا خضر بھائی ابھی بنا دیتی ہوں"

وہ چائے کا پانی چڑھانے لگی 

"تمہاری اسٹیڈیز کیسی جا رہی ہے کہیں کوئی پرابلم تو نہیں"

خضر نے سامنے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا 

"نہیں اسٹیڈیز تو اچھی چل رہی ہے ایگزیم بھی ہونے والے ہیں بس اس کی تیاریوں میں مصروف ہوں"

اس نے چائے کا کپ سامنے رکھتے ہوئے کہا

اگر کوئی بھی پرابلم ہو تو بلا جھجگ پوچھ لینا"

"جی اگر کوئی مسئلہ ہوا تو آپ کا  ہی سر کھاؤ گی"  حور نے مسکراتے ہوئے  خضر کو جواب دیا"

خضر بھی مسکرانے لگا اتنے میں ایک فاطمہ تائ آگئ

"تم یہاں کیا کر رہے ہو خضر"

امی چائے پی رہا تھا کچھ کام ہے آپ کو

"ہاں مجھے تہمینہ(خالا) کے گھر جانا ہے اور تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟۔انہوں نے حور سے پوچھا

"جی تائی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی"

حور نے کام ختم کرتے ہوئے جواب دیا 

"ہوگی نہ تیاری؟۔۔تائی نے پوچھا

"جی"حور نے اتنا ہی کہا

"تو جاؤ اپنے کمرے میں" یہ کہتے ہیں وہ بھی چلے گئیں۔۔۔ اور پیچھے حور بھی کچن سے نکل گئی 

خضر وہاں بیٹھ کر افسوس سے اپنے گھروالوں کے رویے کے بارے میں سوچ رہا تھا  ۔۔۔!!!!

رات 12 بجے کا وقت تھا یہ سڑک بہت ہی سنسان تھی جہاں وہ دونوں جھاڑیوں میں چھپے اپنے شکار کے تعقب میں تھے. تھوڑی دیر خاموشی میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے ایک گاڑی جو دور سے آتی دکھتی ہے وہ دونوں چوکنے ہو جاتے ہیں قریب آتے ہی سڑک پر پڑے کانچ سے گاڑی کے ٹائر برسٹ ہوتے ہیں اور گاڑی جھٹکا کہا کر رکتی ہے گاڑی میں بیٹھا وہ شخص گاڑی کا دروازہ کھول کر ٹائر دیکھنے باہر نکلتا ہے اچانک ہی وہ دونوں جھاڑیوں سے نمودار ہوتے ہیں اور اس شخص پر حملہ کر دیتے ہیں. دونوں ہاتھ او پر کرلو اور "خبردار کوئی ہوشیاری دکھائی تو یہی کاٹ کر پھینک دونگا"

نقاب پوش میں سے ایک... جس کے ہاتھ میں چھوٹا سائز کاچاقو ہوتا ہے وہ اپنی طرف سے اس شخص کو دھمکانے کی پوری کوشش کرتا ہے 

"اوکے اوکے میں کچھ نہیں کر رہا لیکن میرے پاس کچھ نہیں ہے پلیز مجھے جانے دو"

اس شخص نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا 

دوسرا نقاب پوش اپنے ساتھی کے کان میں سرگوشی کرتا ہے 

"یار یہ بچارا سچ بول رہا ہے اس کو جانے دیتے ہیں" ۔۔مگر اس کی سرگوشی اتنی آہستہ نہیں تھی جو سامنے کھڑے شخص کو سننے میں نہ آئی ہو. وہ پل میں سمجھ گیا یہ لوگ اس کام میں نئے ہیں یا بالکل اچھے کھلاڑی نہیں ہئں 

"میرے پاس سے تم دونوں کو کچھ نہیں ملے گا. لیکن اگر تم لوگ مجھے نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ کرتے ہو تو گاڑی میں موجود رقم تمھارے حوالے کر دیتا ہو. اس شخص نے بولا

"جلدی کرو بغیر کسی ہوشیاری کے رقم ہمارے حوالے کردو" ایک نقاب پوش بولا

 "ٹھیک ہے"

 اس شخص نے گاڑی کی طرف جا کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے ہوشیاری سے پسٹل نکالا.

وہ دونوں اس کے پیچھے ہی کھڑے تھے وہ ایک دم مڑا 

"اب تم دونوں جلدی سے اپنے اپنے چاقو نیچے رکھ کر ہاتھ اوپر کر لو یہ پستول لوڈڈ ہے"

ان دونوں کے پسینے چھوٹ گئے اور جلدی جلدی اپنے چاکو نیچے رکھ کر ہاتھ اوپر کر لئے

"گڈ اب اچھے بچوں کی طرح ذرا اپنے چہروں سے کپڑا ہٹاو"

ان دونوں نے فرمابرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نقاب ہٹایا. وہ اشعر کے ہم عمر دو لڑکے تھے 

"شاباش اب جلدی سے یہ بتاؤ تم دونوں کو یہی شوٹ کر کے چلا جاؤں یا پولیس کو انفارم کر دوں؟

یہ سن کر ان دونوں کی ہوائیاں اڑ گئی ان میں سے ایک جلدی سے بولا 

"دیکھو پلیز ہمیں جانے دو ہم لوگ کوئی چور نہیں اور یہ سب بہت مجبوری کی بنا پر کیا ہے. وہ بھی پیلی بار... ہم ایسے بلکل نہیں ہیں"

"وہ تو تم دونوں کے چاقو کے سائز اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھ کر مجھے پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا"

"پلیز ہمیں جانے دو ہم بہت مجبور ہیں اب ایسا نہیں کریں گے"

ان میں سے ایک بولا

"چلو پھر تم دونوں اپنی اپنی مجبوریاں بتاؤ پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے

_________

اشعر نے زین اور بلال کی کہانی سنی اور اندازہ لگایا کہ وہ سچ بول رہے ہیں کچھ سوچتے ہوئے اشعر بولا

"چلو تم دونوں کو پولیس کے حوالے نہیں کرتا مگر میری ایک شرط ہے"

زین اور بلال نے ایک دوسرے کو دیکھا.

"اور وہ شرط کیا ہے"

زین نے پوچھا

"اگلی بار تم دونوں اکیلے نہیں ہوں گے ہم تینوں مل کر واردات کریں  گے"

اشعر نے عام سے انداز میں بولا

"کیا "زین اور بلال ایک ساتھ چیخ کر بولے

"اس میں اتنی حیرانی کی کیا بات ہے اور مال بھی برابر کا تقسیم ہوگا"

اشعر نے ان دونوں کو حیرت سے منہ کھولے دیکھ کر نارمل انداز میں کہا

"زین اور بلال عجیب گومگو کی کیفیت میں پڑھ گئے کہ کیا جواب دیں 

"یار اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے"

اشعر دوستانہ انداز میں بولا

"اور ویسے بھی تم دونوں ماہر نہیں لگتے اس کام میں, جو انداز تم دونوں کا اس سے تو کوئی بچہ بھی نہ ڈرے"

اس کا انداز صاف مزاق اڑانے والا تھا

اور یہ بات تو وہ دونوں بھی جانتے تھے یہ کام ان دونوں کے اکیلے کے بس کی بات نہیں

"تمہیں دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ تمہیں اس کام کی ضرورت ہے"

زین نے اسکی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

"ضروری نہیں ہر کام مجبوری  میں کئے جائے کچھ کام کبھی انجوائے منٹ کے لیے یا ایڈونچر کے طور پر بھی کیے جاتے ہیں"

اشعر نے جواب دیا

زین کو اسکی سوچ پر  بہت افسوس ہوا 

"اوکے ہمیں منظور ہے"

جواب بلال کی طرف سے آیا

"لیکن اس کام میں بھی کچھ اصول ہونگیں. ہم کبھی ضرورت مند اور  بےبس انسان کو نہیں لوٹیں گے اور اوزار کا استعمال بھی صرف لوگوں کو ڈرانے کے لیے کرینگے کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے"

زین نے اشعر کے سامنے اصول دھرائے 

"ٹھیک ہے مجھے منظور ہے" 

اشعر بولا

************

شاہ اور پری  لنچ بریک میں لنچ کررہے تھے بلکہ پری لنچ  کر  رہی تھی اور شاہ ٹشوں سے بار بار اسکا منہ صاف کر رہا تھا

"تمہیں پتا ہے شاہ جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو میرا پرنس مجھے لے جائے گا اپنے ساتھ"

پری نے جیسے اسے اہم خبر دی

"ہیییں! یہ پرنسن کون ہے اور تم کیوں جاؤ گی اس کے ساتھ"

شاہ حیرت اور صدمے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولا 

پری  نے  بڑی ادا سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا 

"جیسے اسنو وائٹ کو اسکا پرنس لے جاتا ہے. میں نے ماں سے پوچھا میرا پرنس مجھے کب لے کر جائے گا... تو انہوں نے کہا جب میں بڑی ہو جاؤں گی"

پری نے شاہ کو پوری بات سمجائی

" یہ پرنس ورنس کچھ نہیں ھوتا پری"

زین نے اسے سمجانا چاہا

"مگر میری ماما جھوٹ نہیں بولتی"  پری کو جیسے اسکی بات بری لگی

"اوکے! اپنے پرنس کو کہ دینا شاہ تمہں کہی نہیں جانے دے گا"

شاہ نے بات ختم کردی.

     *******

حور کافی گھبرائی ہوئی خضر کے روم میں آئی

"خضر بھائی پلیز جلدی دیکھیں امی کو کیا ہوگیا ہے"

روتے ہوئے وہ بولنے لگی

خضر بھی تقریبا بھاگتا ہوا اسماء کے روم میں پہنچا تو آسماء بہیوش تھی 

"چلو حور چچی کو ہوسپٹل لے کر چلتے ہیں"

خضر نے سہارا دیتے ہوئے آسماں کو تھاما اور وہ دونوں ہاسپٹل چلے گئے" 

"امی ٹھیک ہو جائیں گی نہ"

وہ روتے ہوئے بولنے لگی

"حور کیا ہوگیا ہے ٹھیک ہیں چچی. گھبرانے کی بات نہیں بس ہم ہاسپٹل پہنچنے والے ہیں"

خضر قریبی اسپتال کی طرف گاڑی لے گیا

 پراپر چیک اپ کے بعد ڈاکٹر سے خضر نے  پوچھا

"ڈاکٹر صاحب کیا ہوا تھا پیشنٹ  کو کوئی گھبرانے کی بات تو نہیں"

"خطرے کی کوئی  بات نہیں لیکن انہوں نے کسی بات کی ٹینشن لی ہے. جس کی وجہ سے ان کی یہ کنڈیشن ہوئی ہے. بس اس بات کا خیال رکھیں کہ پیشنٹ کے سامنے ایسی بات نہ ہو جس سے ان کی طبیعت مزید خراب ہو. یہ دوا لکھ کر دے رہا ہوں وقت پر دے دیئے گا

آپ پیشنٹ کو گھر لے جا سکتے ہیں" ڈاکٹر نے پرچہ تھماتے ہوئے کہا

"تم چچی کے پاس جاؤ جب تک میں یہ میڈیسن لے کر آتا ہوں"

وہ دونوں بات کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک کوئی بڑی تیزی سے آتے ہوئے حور سے ٹکرایا. حور اس سے ٹکرانے پر اپنے آپ کو سنبھال نہ پائی اور لڑکھڑا کر گرنے ہی والی تھی کہ سامنے والے نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو گرنے سے بچایا"

"کیا ہوا مسٹر دیکھ کر چلا نہیں جاتا کیا"

خضر نے تھوڑے تیز لہجے میں بولا 

مقابل پر کوئی فرق نہیں پڑا خضر کی بات کا.... وہ تو ٹکرانے والی ہستی کو ہی دیکھ رہا تھا. 

خضر  کو یہ دیکھ کر غصہ آیا اور اس نے مقابل کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے دوبارہ اس سے کہا 

"ایسے کیا دیکھ  رہے ہو"

اب کے خضر تیز آواز میں بولا 

مقابل بھی ہوش کی دنیا میں واپس آیا 

"سوری "

اس نے فقط اتنا ہی کہا مگر نظریں ابھی بھی حور پر ہی  تھی. جیسے اسے دیکھنا دنیا کا اہم کام ہو

حور بھی نروس تھی اس اجنبی کے اس طرح دیکھنے پر... کبھی گھبرا کر خضر کو دیکھتی کبھی آتے جاتے لوگوں کو

"تم ٹھیک ہو... چلو حور چلتے ہیں"

خضر نے حور کا ہاتھ تھاما اور اگے چلنے لگا

زین نے چونک کر ان دونوں کو ہاتھ تھام کر جاتے ھوئے دیکھا اس ک اندر کچھ ٹوٹ سا گیا

"میں تمیں اپر ڈھونڈ رہا ہوں اور تم یہاں اسٹیچو بن کر کھڑے ہو؟

زین غائب دماغی سے بلال کو دیکھ رہا تھا

"سب ٹھیک ہے زین ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں آنٹی کے بارے میں؟

بلال نے اسکو سن کھڑے دیکھ کر سوال کیا

"ہاں سب ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں"

زین باہر جانے لگا 

"او بھائی باہر نہیں اوپر جانا ہے فرسٹ فلور پر ریپورٹس لینے"

بلال نے یاد دلایا

"مگر وہ تو ابھی  باہر گئی ہے نا"

زین کا دماغ کہیں اور اٹک گیا جیسے

"کون باہر گئی ہے"

بلال نے انکھین پھاڑ کر حیرت سے پوچھا

کوئی نہیں... چلو رپورٹ لینے  چلتے ہیں"

******

خضر نے حور کو گاڑی میں بٹھایا اور خود چاچی کو  لے کر آیا

دواؤں کے زیر اثر وہ آنکھیں موندے ہوئے بیٹھی تھی۔

جب خضر نے آہستہ آواز میں حور سے پوچھا

"کیا تم اس شخص سے پہلے ملی ہو یا جانتی ہوں"؟؟؟؟

حور ایکدم چونکی

"نہیں میں نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا. آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟

"نہیں ویسے ہی پوچھ رہا تھا. خیر چھوڑو یہ بتاؤ گھر میں کیا ہوا تھا چاچی نے کس بات کی ٹینشن لی ہے؟ 

خضر کو اس شخص کا ایسے دیکھنا عجیب لگا تو اس نے دریافت کیا اور نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے بھی بات ختم کرکے چاچی کے بارے میں پوچھا

"مجھے علم نہیں خضر بھائی کالج سے آنے کے بعد روم میں گئیں تو دیکھا ماما ایسی لیٹی ہوئی تھی۔ بار بار آواز دینے پر بھی نہیں اٹھی تو آپ کو بلا لیا"

حور نے افسردگی سے کہا

"پریشان مت ہو چاچی ٹھیک ہوجائیں گیں ان کا خیال رکھو

گھر آچکا تھا وہ لوگ آسماء کو لے کر گھر پہنچے

_______

 وہ تینوں بیٹھے ہوے اپنا پلان دسسکسس کررہے تھے۔

"دیکھو سب سے پہلے تم دونوں اپنے اندار سے ڈر اور گھبراہٹ ختم کردو۔ خیر وہ تو آج کے بعد ختم ہو جانی ہے اور دوسرا یہ دیکھو میں تم دونوں کے لیے کیا لایا ہوں"

اشر نے دو پسٹل  نکال کر ان دونوں کو دی

"کیا اس کی ضرورت ہے"

زین نے سوال کیا 

"تو کیا تم لوگوں کو ننھے سے چاقو لے کر خوفزدہ کرو گے" 

اشر نے جیسے پہلا واقعہ یاد دلایا وہ دونوں چپ ہوگئے۔ بس اب انہیں رات میں صحیح موقع کا انتظار کرنا تھا ۔۔۔۔**** ۔

حور اور خضر جب اسماء کو گھر لے کر پہنچے تو سارا چچی lور فاطمہ تآئی لان میں ہی موجود تھیں۔

"ایسی اچانک کیا  آفت آگئی تھی کتنی دیر سے تمھارا انتظار کر رہی ہوں کہاں گئے تھے تم" دراصل فاطمہ تائی کو اپنے بیٹے کا دونوں ماں بیٹیوں کی خدمت کرنے کا یہ انداز پسند  نہیں آیا۔

"حور چچی کو لے کر اندر جاؤں"

خضر نے حور کی طرف میڈیسن تھماتے ہوئے کہا ۔۔۔

سارا چچی نے معنی خیز نظروں سے ابرو اچکائے اور فاطمہ نے تیز نظروں سے بیٹے کو اور ان دونوں کو گھورا۔

حور اسماہ کو لےکر اندر چلے گئی

"اوور ایکٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی اسماء کو اتنی"

سارا چچی نے منہ بناتے ہوئے فاطمہ  سے کہا 

"جبکہ میں نے تو بھلا ہی سوچا تھا حور کا" 

فاطمہ نے جواب دیا  

"کیا مطلب کیا سوچا تھا آپ نے حور کے بارے میں" خضر کو کچھ سمجھ نہیں آیا

"ارے وہ شائستہ نہیں ہے میری کزن وہ اپنے بیٹے کے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈ رہی ہے اسی سلسلے میں  نے اسماء سے ذکر کیا وہ تو سن کر جیسے حتی سے  اکھڑ گئی"

 فاطمہ تائی نے بیزاری سے جواب دیا 

"آپ ۔۔۔۔امی آپ فیصل بھائی کی بات کر رہی ہیں"۔خضر نے حیرت اور بے یقینی سے پوچھا ؟؟؟

"ہاں نا وہی اس کے بارے میں بتایا کوئی ذمہ داری نہیں حیثیت میں بھی اچھا ہے مگر پھر بھی تمہاری چچی جان کے تو تیور ہی نہیں مل رہے" 

فاطمہ کو جیسے اسماہ پر اب تک غصّہ تھا 

"کیا ہوگیا ہے امی جان آپ کو کچھ تو خدا کا خوف کریں"

خضر نے افسوس سے کہا

"لو ایسا کیا کر دیا میں نے"

وہ شاید برا مان گیں ۔۔

"فیصل بھائی اور حور کا کہا جوڑ بنتا ہے کتنے بڑے ہیں وہ اگر اس بات کو اگنور کر بھی دے تو جو انھوں نے دو سال پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے۔ کیا اس بات کو اگنور  کیا جاسکتا ہے" خضر کو ان کی سوچ پر بہت افسوس ہوا 

"تمہیں اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں" سارا چچی جو کب سے چپ بیٹھی تھی آخرکار بول پڑیں

"آپ لوگوں کو بھی حور  کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں"

یہ کہہ کر خضر رکا نہیں اور لمبے لمبے ڈگ بڑھتے ہوئے اندر چلا گیا

پیچھے چچی اور تائی  ایک دوسرے کو دیکھتی رہ 

گئی ۔۔۔

********************** 

"کیا ہوا تم اتنے چپ کیوں بیٹھے ہو شاہ؟

شاہ بہت اداس لگ رہا تھا ورنہ وہ ہمیشہ وہ خود اس کے پاس آتا تھا آج پری خود بریک میں اس کے پاس آئی۔ "

"بابا کو اپنے افس کے کام کے سلسلے میں دوسرے ملک جانا پڑ رہا ہے ہم لوگوں کو بھی جانا ہوگا"

شاہ نے اپنے اداس ہونے کی وجہ بتائی  

"کیا تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے؟۔۔۔۔پری کی آنکھوں میں ایک دم پانی بھر آیاا

"پلیز شاہ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ ماما سارا دن گھر کے کاموں میں بزی رہتی ہے میرا کوئی دوست نہیں تم بھی چلے جاؤ گے"

وہ باقاعدہ  رونے لگی

"رو مت پری میں جلد ہی تم سے ملنے آؤں گا۔ وعدہ کرو میرا انتظار کروں گی اور کسی پرنس کے ساتھ نہیں جاؤں گی "وہ اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا"

****************

ماما کیسی طبیعت ہے آپکی اب ۔۔۔ کیا ہوگیا آپکو ؟؟

حور بہت اداس تھی

"کچھ نہیں بیٹا بس ویسے ہی طبیعت خراب ہوگئی تھی تم بتاؤ پیپرز کی تیاری ہو رہی ہے؟انہوں نے بات بدلتے ہوئے حور کا دیھان دوسری طرف لگایا 

"پیپرز کی تیاری اچھی ہے۔ مگر ماما پلیز آپ کبھی مجھے چھوڑ کر مت جائے گا"

اس نے ایک  دم رونا شروع کردیا وہ ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے والی  کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو دینے والی 

آسماء نے پیار کرکے اسے گلے سے لگایا "ارے میری جان کچھ نہیں ہوا مجھے بالکل ٹھیک ہوں"

"سب ایسے ہی کرتے ہیں مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں بابا بھی چلے گئے۔

پھر ایک دھندلا سا سایا اس کے دماغ میں نمودار ہوا

"ارے میں نے کہیں نہیں جانے والی جب تک میری پرنسس کا پرنس نہیں آجاتا اسے لینے کے لئے چلو آنسو صاف کرو"

اج بھابھی کی باتوں سے وہ دلبرداشتہ ہوئی تھی مگر اسماہ نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی کر لے مگر اپنی بیٹی کی زندگی داؤ پر نہیں لگاے  گئ۔۔۔۔۔

*******""**""********

بلال جیسے ہی گھر آیا اس نے تانیہ کو آواز دی"

"تانیہ جلدی سے کھانا لاؤ بھوک لگ رہی ہے۔

"آگئی بھائی صبر کریں"تانیہ نے کچن سے ہی آواز دی 

اس کی آواز سن کر وہ اوپر چھت پر چلا گیا وہی اس کا کمرہ تھا یہ ایک متوسطہ علاقہ میں چار کمروں کا مکان تھا جس میں بلال کے ابو جو کے  3 سال پہلے فالج کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے تھے ۔۔۔بلال کی تین بہنیں تھیں سب سے بڑی بہن رانیہ جو کہ شادی شدہ تھی جدہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے بعد ثانیہ خالہ زاد سے دو سال پہلے نکاح ہوا تھا اور سب سے چھوٹی تانیہ جس کا کچھ دنوں پہلے یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوا تھا۔

آہٹ کی آواز پر چونک کر دیکھا تو پیچھے فضا کھانے کی ٹرے لیے کھڑی تھی۔

"تمہیں اپنے گھر میں چین نہیں ہیں جب دیکھو ہمارے گھر پڑی رہتی ہوں" وہ سنجیدہ لہجہ بنا کر بولا

"تو تمھارے لئے تو نہیں آئی۔ میں تو تانیہ سے ملنے آئی تھی اور دوسری بات یہ میرے ماموں کا گھر ہے جب چاہے آسکتی ہو"

اس نے بھی تنک کر جواب دیا اور ٹرے میز پر رکھ کر تیز تیز سیڑھیاں اتر گئی۔

"تیزگام"

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

****** 

وہ تینوں کیفیٹیریا میں بیٹھے تھے۔ ان تینوں کی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی بلال اور زین تو دوست تھے ہی شروع سے مگر اشعر سے دوستی کا سب سے بڑا ہاتھ اشعر کے خلوص اور اپنائیت کا تھا وہ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا بڑا بھائی باہر ملک میں تھا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا بھائی ہر ضروریات اور خواہشات پوری کرتا تھا اس لیے اشعر کی طبیعت میں لاابالی پن تھا۔ فکر معاش کی ایسے فکر نہیں تھی۔

"او بھائی یہ چائے پینے کے لئے منگوائی ہے گھورنے کے لئے نہیں"

اشعر نے مسلسل چائے کے کپ کو گھورتے ہوے زین کو دیکھ کر کہا۔

زین نے اس کی بات پر کب سے نظر ہٹا کر اس کو گھوری دی اور چائے پینے لگا

کیا سوچ رہے ہو یار آنٹی تھی ہوجائیگی فکر نہیں کرو ان کی"

بلال کے کہنے پر اس نے بلال کو دیکھا

"اماں ماشااللہ سے پہلے سے بہتر ہے ڈاکٹر سے ہوئی تھی بات۔ میں کچھ اور سوچ رہا ہوں"

زین  نے ان دونوں کو دیکھ کر جواب دیا

"کیا کوئی اور مسئلہ ہے تو ہم سے شیئر کر سکتے ہو اگر کوئی پروبلم ہے تو بتاو"

آشعر نے خلوص سے کہا

"میں نے تھوڑے دن پہلے ابو کے بزنس پارٹنر ظفر مراد کو دیکھا تھا وہ دوبارہ اس شہر میں آگیا ہے اپنے طور پر معلوم کروایا مگر ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا"

"تو اس کا معلوم کرکے تم کیا کرنے والے ہو؟؟

بلال نے کہا 

"ظاہر سی بات ہے اصل بات بتا لگواؤں گا اگر وہ حق پر ہوا تو ٹھیک۔ لیکن اگر اس نے دھوکہ دہی سے میرے باپ کا پیسہ ہتھیا ہے۔ تو ایسے تو نہیں جانے دوں گا کیس کروں گا اس پر"

زین نے جواب دیا 

"اور تمہیں یقین ہے تمہیں انصاف مل جائے گا یہاں؟؟ اشعر نے پوچھا

"تو کیا میں ساری زندگی یہی کام کرتا رہو گا؟؟۔

زین بولا

"یار میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں چلو کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ان ظفر صاحب کا بھی"

اشعر نے کہا۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Itni Muhabbat Karo Na   Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel    Itni Muhabbat Karo Na    written by Zeenia Sharjeel .   Itni Muhabbat Karo Na   by Zeenia Sharjeel   is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages