Safr E Ulfat Novel By Zara Kanwal Episode 5 to 6 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 16 November 2022

Safr E Ulfat Novel By Zara Kanwal Episode 5 to 6

Safr E Ulfat Novel By Zara Kanwal  Episode 5 to 6  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Safr E Ulfat By Zara Kanwal Episode 5' 6


Novel Name: Safr E Ulfat 

Writer Name: Zara Kanwal

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"صبح جب اُسکی آنکھ کھلی تو بالاج سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا ۔وہ بھی اُٹھ کر بیٹھ گئی زمل کا سر بھاری ہورہا تھا اُس میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی.. لیکن باہر دروازه ناک ہونے کی آواز پر اُٹھ گئی اور شاور لینے چلے گئی تھی "

"شاور لے کر جب وہ باہر آئی تو انعم اور اُسکی کزن موجود تھی اور بالاج بھی وہاں ہی تھا۔ "

"زمل میں تمہیں تیار کروں. "انعم نے اُسکی خاموشی نوٹ کرتے اُسے کہا ۔

"نہیں انعم میں خود ہوجاؤں گی "زمل نے انکار کیا تھا۔ بالاج کو غصہ آیا تھا لیکن وہ خاموش رہا ۔

"انعم تم لوگ چلو ہم آرہے ہیں.. " بالاج نے اُنکو وہاں سے جانے کو کہا ۔

"بالاج بھائی اچھا طریقہ ہے اپنے روم سے نکالنے کا کہا ایک ہی دن میں نظریں پھیر لیں گے یہ امید نہیں تھی آپ سے.. " تانیہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا ۔

" ایسا نہیں ہے تانیہ ہم چلتے ہیں ماما کی بھی ہیلپ کراونی ہے ." انعم بات ختم کرکے تانیہ کا ہاتھ پکڑکر وہاں سے چلے گئی تھی ۔

"آئندہ اگر انعم سے اس بی ہیو سے بات کی تو دیکھنا اچھا نہیں ہوگا. "بالاج نے انعم کے جاتے ہی  زمل کو کہا ۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا انعم کو اور ویسے بھی آپ بھولے نہیں کہ اس رشتے کے علاوہ بھی میرا اُس سے رشتہ ہے " زمل کو حیرانگی ہوئی تھی ۔

"جتنا کہا ہے اُتنا سمجھ لوگی تو بہتر ہوگا تمہارے لیے ۔" اور پھر الماری سے ایک باکس نکال کر بیڈ پر اُسکی طرف پھینکتے ہوئے کہا ۔"یہ پہن لینا ماما نے تمہیں دینے کے لیے کہا تھا اور وہاں سے چلا گیا ۔

"بالاج آپ اب اسطرح سے بدلہ لو گے آپ بہت کم ظرف نکلے.. " زمل نے اس قدر ہتک آمیز لہجے پر سوچا اور اُسکی آنکھ سے آنسو نکل پڑے ۔ جسے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی اپنے بال برش کرنے لگ گئی ۔

                                          ****

"ڈائیننگ ٹیبل پر سب موجود تھے ۔زمل بالاج کی ساتھ والی چئیر پر بیٹھی تھی ۔ نیوی بلیو ایمبرائیڈری ڈریس پہنے وہ لائٹ میک میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔

"زمل بیٹا آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ہے طبیعت ٹھیک ہے آپ کی ..؟ "مدثر صاحب اُسے کھوئے انداز میں بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگے ۔

"جی میں ٹھیک ہوں بس سر میں درد ہے.. " زمل کو لگا آنسوؤں کا گولا اُسکے گلے میں پھنسا ہے اُسکی آواز روہانسی ہوئی تھی ۔

بالاج نے اُسکی طرف رخ موڑ کر دیکھا تھا زمل نے اُسکا دیا چین سیٹ نہیں پہنا تھا ۔ بالاج کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی ۔ 

"زمل کوئی بات ہوئی ہے کیا.. " مدثر صاحب نے بالاج اور زمل کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ۔

"ماموں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں بابا سے ملنے چلیں جاؤں ابھی..؟ " زمل سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ مشکل سے پوچھ پائی تھی آنسو بھی اُسکی آنکھ سے نکل کر ہتھیلی پر گرا تھا  ۔بالاج کی نظر اُس پر ہی تھی ۔

"ماموں کی جان کو کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑگئی زمل تم صرف وہاں سے یہاں آئی ہو لیکن تم ابھی بھی بلکل ویسے ہی رہو گی جیسے رہتی تھی آئندہ ایسے مت کرنا.. شاباش جلدی سے ناشتہ مکمل کرو اور وہاں چلو بلکہ میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ.. " انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔

"ماموں مجھے بھوک نہیں ہے ہم ابھی چلتے ہیں" زمل جلد سے جلد وہاں سے جانا چاہتی تھی ۔

"انسان کبھی بھی حقیقت سے بھاگ نہیں سکتا ہے چاہے وہ کتنی ہی فرار کی کوشش کر لے گھوم پھر کر وہ وہاں ہی پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے"

"اچھا ٹھیک ہے چلو " مدثر صحب نے منع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ 

"آج کے دن بھی باز نہیں آئی نا تم ڈرامہ کوئین.. " حماد نے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا ۔

لیکن مدثر صاحب کے گُھورنے پر خاموش ہوگیا ۔ 

                                            ****

مدثر صاحب اور زمل جب لاؤنج میں آئے تو وہاں پر ثناء اور شہریار چائے پی رہے تھے۔ان کو آتا دیکھ شہریار کھڑا ہوگیا ۔

"خیریت ہے ماموں آپ دونوں اس وقت یہاں..؟ شہریار نے مصاحفہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"کیوں برخودار ہم یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں یا تم اب رشتہ داری بدلنے پر ایسا کرریے ہو..؟  مدثر صاحب کو ناگوار گزرا تھا ۔

"نہیں ماموں ایسی بات نہیں ہے دراصل زمل کو آپ کے ساتھ آتا دیکھ میں سمجھا کوئی بات تو نہیں ہوگئی..؟  شہریار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً بات بنانا چاہی ۔ زمل کو بھی عجیب لگا تھا ۔

"زمل کے آنے سے کیا ہوگیا تم لوگوں نے اسے پرایا کردیا ہے کیا.. ؟ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ زمل کے لیے کچھ بھی نہیں بدلے گا آئندہ ایسے سوال مت کرنا زمل سے " انہوں نے بھرم ہوکر کہا ۔

"ماموں آپ تو غصہ ہی کرگئے ہیں ہم بھی جانتے ہیں یہ دونوں گھر اسکے اپنے ہی ہیں.. " شہریار نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ زمل جو کب سے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہی تھی اُسکے آنسو بہہ نکلے ۔ 

"تم تو رونے ہی لگ گئی ہو آئی ایم سوری یار.. میرا ایسا مطلب ہرگز نہیں تھا۔" شہریار نے اُسے اپنے ساتھ لگانے کے لیے اُسکا ہاتھ پکڑ کر پاس کیا تو زمل چکرا کر اُسکے بازوؤں میں ہی بے ہوش ہوگئی ۔" شہریار بروقت اُسے نا تھام لیتا تو وہ زمین بوس ہوُچکی ہوتی ۔

"اسے تو بہت تیز بخار یے.. " شہریار نے فوراً ہی حماد کو کال ملائی ۔ 

                                           ****

"کمزوری اور بخار کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہیں یہ " حماد نے میڈیسن ثناء کو دیتے ہوئے کہا ۔

"ان دنوں صحیح سے کھا بھی نہیں رہی تھی اور کل تو صرف صبح جوس پیا تھا میں نے جب ہی انعم سے کھانے کا کہا تھا ۔

"بھابھی میں بھول گئی تھی پوچھنا.. "انعم شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ۔

"تمہیں بھی خیال نہیں آیا تھا کہ ایک بار پوچھ لیتے.. " مدثر صاحب نے انعم کو گھورتے ہوئے بالاج سے پوچھا ۔

"مدثر سب بزی تھے کل کچھ نہیں ہوتا بھول جاتا ہے انسان.. " جمال صاحب نے بات کوختم کیا۔

"زمل تھوڑا آرام کرلے پھر انعم کے ساتھ پارلر چلی  جائے گی۔ " ثناء نے بھی بات بدلی ۔

"زمل اب ٹھیک ہے وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہی جارہی ہے ۔" جمال صاحب نے آنکھیں بند کرکے لیٹی زمل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ 

                                             ****

"یہی ڈرامہ کرنے گئی تھی وہاں تم آج دوپہر میں" بالاج روم میں داخل ہوا تو زمل کو بیٹھا دیکھ کر بولا ۔

"زمل کو بالاج کا ایسا آگ برساتا لہجہ برا بہت لگا لیکن وہ برداشت کرگئی وہ ولیمے کے فنکشن سے پہلے ہی کافی تھک چُکی تھی ۔ وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی ۔ 

"زمل چینج کرکے آئی تو بالاج کو وہاں ٹہلتا پایا وہ نظر انداز کرتی اپنی چادر لے کر مُڑی تو بالاج سے ٹکراتے ہوئے بچی ۔" زمل نے اپنی نظریں نیچے کرلی ۔

"ایکٹینگ اچھی کرلیتی ہو تم اور اسطرح خاموش رہ کر تم خود کو معصوم ظاہر نہیں کرسکتی ہو.." بالاج کی نظرہں اُسکے بالوں پر تھی اُسکا چہرہ جھکا ہوا تھا ۔ 

"آپ چاہتے کیا ہیں بالاج..؟" زمل نے بالاج کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

"تمہاری اصلیت سب  کے سامنے آجائے یہ چاہتا ہوں.."

"کون سی اصلیت بالاج اصل دیکھنے کی ضرورت تو آپکی ہے.. جسے آپ پسند کرتے تھے اُسے چھوڑ کر مجھ سے شادی کرنے کا ناٹک جو آپ کررہے ہیں  خود کو بھی اور دوسروں کو بھی صرف دھوکہ دے رہے ہیں اور جس دن آپکو اسکا احساس ہوگا نا تب صرف پچھتاوے کے علاوہ آپکے پاس کچھ نہیں بچے گا اور جس دن سب کو آپ کی یہ حقیقت معلوم ہوگی تب میں پوچھوں گی کہ اصلیت کُھلنے سے کیا ہوگا ۔" زمل کی آواز رندھ گئی تھی ۔

"جسٹ شٹ اپ..  میرے پرسنل میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں.. " بالاج کے غصے سے بولنے پر زمل نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا اور وہ وہاں سے ہٹ گئی.  

                                           ****

"زمل شادی سے پہلے تو تم اتنا بولتی تھی لڑتی تھی اب کیا ہو گیا ہے۔ اچھا چلو یہ بتاؤ بھائی کی محبت میں یہ سب کررہی ہو یا پھر اُنکے ڈر سے..؟ " حماد زمل کے سامنے برجمان ہوتے ہوئے بولا ۔

"اور تم جب بھی بولنا فضول ہی بولنا.. " زمل سے پہلے انعم بول پڑی ۔

"تم چُپ ہی رہو تمہارا بھی انتظام ہورہا ہے بات ہوئی ہے پاپا سے.. کتنا اچھا ہوگا تم بھی زمل کی طرح خاموش ہو جاؤ گی سکون آجائے گا اس گھر میں.. " حماد نے بھی حساب برابر کیا۔

"اتنا تھک جانے کے بعد تمہاری باتوں سے سر میں درد کروانے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے.. " زمل نے رکے بنا جواب دیا ۔

"بے وفا لڑکی.. " حماد زور سے بولا ۔

"تمہارا اثر ہے اُس پر بھی.. "انعم نے ہنستے ہوئے کہا ۔

"تم نے ٹائم دیکھا ہے رات کا ایک بج رہا ہے جاؤ اپنے روم میں اب.. " حماد نے منہ بنا کر کہا ۔ انعم ہنستی ہوئی وہاں سے چلے گئی. 

                                              ****

"زمل تم ناراض ہو ہم سب سے..؟" مدثر صاحب نے اپنے برابر میں ساتھ بٹھاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں.. " زمل نے چہرہ اوپر کیے بنا مختصر سا جواب دیا ۔

"پھر اتنی خاموش کیوں ہو اس بات پر..؟ انہوں نے پوچھا ۔

"کیا کہوں میں ماموں..؟ " زمل نے اُلٹا سوال کیا اُن سے ۔

"میں جانتا ہوں تم یہاں سے جانا نہیں چاہتی ہو میں نے بالاج کو بہت سمجھایا ہے لیکن وہ مان ہی نہیں رہا ہے ضد پر آگیا ہے اسلام آباد ہی جا کر رہنا چاہتا یے.. انعم کی شادی تک ہم نے خاموش رہنے کا سوچا ہے پھر ہم سب وآپس بلوا لیں گے اُسے.. تم پریشان نہیں ہونا میں بہت شرمندہ ہوں تم سے.. "

"مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے ماموں آپ بھی شرمندہ نہیں ہوں.. میں بابا سے بھی مل آؤں پھر صبح جانا بھی ہے.. " زمل وہاں سے اُٹھ گئی تھی ۔

"مدثر صاحب کے دل کو کچھ ہوا تھا یہ وہ زمل تو نہیں تھی جسے وہ جانتے تھے.. شادی کو مہینہ ہوگیا تھا زمل بلکل خاموش ہوچُکی تھی وہ کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی کہ وہ کچھ کرتے اُس کے لیے بالاج کا بی ہیو بھی نارمل تھا ۔ اب بالاج کی اسلام آباد میں رہنے کی ضد نے اُنکو پریشان کردیا تھا اور اُسکی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ زمل کو چھوڑ جائے گا اس لیے اُنکو خاموش ہونا پڑا وہ کوئی بھی فیصلہ غصے یا جذبات میں نہیں کرنا چاہتے تھے.. " 

                                             ****

"مجھے بلکل بھی زمل کی سمجھ نہیں آرہی ہے مجھے لگا تھا کہ اسلام آباد جا کر رہنے والی بات پر وہ خوب واویلا کرے گی.. لیکن وہ تو ایک لفظ نہیں بولی اُلٹا پاپا کے سامنے اپنا آپ عجیب لگ رہا ہے اُنکو دھمکی دے کر منایا یے ورنہ وہ تو اپنی لاڈلی کو دور بھیجنا چاہتے ہی نہیں ہیں۔" بالاج نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا ۔

"بالاج اب بس کر جا .. وہ ایسی نہیں ہے جتنا تُو اُس کے ساتھ کررہا ہے برا.. " باری نے اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ۔

"تم سب اُسکی چالاکی کو نہیں جانتے ہو کیا پتہ یہ بھی اُسکا ایک ڈرامہ ہو.. " 

"بالاج ثناء ہمیں بتا چُکی ہے کہ زمل صرف انکل کے سمجھانے پر خاموش ہوئی تھی اُس نے بہت انکار کرنا چاہا تھا شادی پر بھی.. پھر تم کیسے اُسے الزام لگا سکتے ہو اور اگر وہ ابھی خاموش ہے نا تو بھی اُسکی وجہ یہی ہے تم چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ سب.. "

بالاج خاموش رہا باری کی بات پر.. 

                                           ****

"آپ نے کہا تھا مجھے نیو سیل لادیں گے.. " زمل نے مصروف بیٹھے بالاج سے پوچھا. 

"تمہاری سب سے بات ہو رہی ہے نا پھر کیا مسئلہ یے.. ؟" بالاج نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو یہاں آکر ایک ہفتے سے ہی بیمار تھی ۔ اور سب کو کافی مس کر رہی تھی  ۔

"کہنا کیا چاہتے ہیں آپ بالاج اب آپ کو میرے سیل رکھنے پر بھی پرابلم ہے..؟ زمل نے حیرانگی سے پوچھا ۔

"اگر میں کہوں ہاں ہے تو..؟ " بالاج نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔

"آپ بہت غلط کررہےہیں میرے ساتھ بالاج.. " زمل نے دُکھ سے کہا۔ 

"ابھی تو بہت کچھ برداشت کرو گی زمل تم نے جو بھی سوچ کر شادی کے لیے ہامی بھری تھی نا تمہیں اپنے فیصلے پر پچھتانے پر مجبور نہیں کردیا تو دیکھنا ۔" بالاج نے دل میں سوچتے ہوئے پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔

                                             ****

"بالاج آپ اس حد تک جاسکتے ہو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی.. زمل کو یہاں آئے ایک مہینہ ہوگیا تھا اور وہ یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ چُکی تھی کہ بالاج اُسے یہاں جان بوجھ کر سب سے دور تکلیف دینے کے لے کر آیا ہے اور وہ کہیں نا کہیں کامیاب بھی ہوگیا تھا اُسکی برداشت جواب دے رہی تھی لیکن اُسے برداشت کرنا تھا وہ بالاج کی حد دیکھنا چاہتی تھی وہ اب اُسکی برداشت کی حد ختم کرنا چاہتی تھی ۔

"گھر والوں سے دور کر کے اور سیل جان بوجھ کر توڑ دینے سے اُن سے رابطہ کم کروا کر بالاج نے سچ میں اُسکی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا.. گھر والے اُسکی کمزوری تھے اور اُس نے اُنکو ہی دور کردیا تھا اور اسطریقے سے کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا تھا. 

"جب کسی کی کمزوری کا آپ کو معلوم ہوجائے تو آپ اُسکا فائدہ ضرور اُٹھاتے ہو چاہے محبت میں ہو یا نفرت میں.. " 

                                              ****

"بالاج مجھے گھر میں بات کرنی یے مجھے سیل دے دیں اپنا.. " 

"ابھی مجھے کام ہے بعد میں کرلینا بات.. "بالاج نے اُسے ٹالنا چاہا۔

""مجھے ابھی ہی کرنی یے میں جانتی ہوں آپ جان کر ایسا کر رہے ہیں تاکہ میں کسی سے بات نہیں کرسکوں.. " زمل نے غصہ دباتے ہوئے کہا ۔

"اگر ایسا سمجھتی ہو تو یہی سمجھو.. "بالاج نے اُسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔ اور سیل پر آنے والی کال ریسیو کی ۔

"وعلیکم اسلام.. جی پاپا .." زمل کے برابر  میں مسکراہٹ دیتے ہوئے اُسے دیکھا ۔

"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے پاپا وہ خود نہیں لے رہی ہے اور بزی تو وہ اتنی ہوتی کہ میں خود بات کرنے کے لیے ترس جاتا ہوں کچھ کہوں گا تو آپ تک شکایت آجائے گی.. " بالاج نے اُسکے پیچھے کھڑے ہوکر سامنے مرر میں اُسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھا۔ اور اس پہلے کے زمل کچھ کہنے کے لیے لب کھولتی بالاج نے اپنا ہاتھ اُسکے منہ پر رکھ دیا زمل کوشش کے باوجود اُسکا ہاتھ نہیں ہٹا سکی اور بالاج کے اتنے قریب کھڑے ہونے پر بے بسی سے اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر بالاج کے ہاتھ میں جذب ہوگئے.. 

"پاپا جیسے ہی وہ سوکر اُٹھے گی میں آپ کی بات کروا دوں گا ۔ خدا حافظ ". بالاج نے کال بند کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بھی ہٹالیا ۔

"آئی ایم سوری " بنا اُسکی طرف دیکھے بالاج وہاں سے چلاگیا ۔

زمل قالین پر بیٹھ گئی اور اپنے آنسوؤں کو بہنے دیا ۔

                                             ****

"کھانا تو بہت اچھا بنایا ہے آج آپ نے.. " بالاج نے لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔

"زمل بی بی نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے خود آج.. " رُکیہ بی نے مسکراہتے ہوئے بتایا ۔ بالاج کا منہ تک جاتا ہاتھ رُک گیا اور اُس نے واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے ماتھے پر تیوری لائی اور زمل کی طرف دیکھا ۔زمل نے نظریں جُھکا لی ۔ 

"رُکیہ بی یہ کام آپکا ہے اور آپ ہی کریں گی آئندہ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں پڑے آپ کو اور میرے باقی کام بھی آپ خود کریں گی مجھے نہیں پسند اپنا کام ہر کسی سے کروانا.. " غصے سے کہہ کر بالاج وہاں سے چلاگیا ۔

"زمل سے اس قدر تذلیل پر اپنا چہرہ اوپر نہیں کیا گیا.. آپ کھانا رکھ دیں رُکیہ بی " زمل بنا اُنکی طرف دیکھے وہاں سے چلی گئی ۔

"یہ لو انعم بات کرنا چاہتی ہے تم سے " بالاج نےسیل زمل کی طرف دیتے ہوئے کہا۔ اور خود وہاں سے چلا گیا ۔

"کیسی ہو انعم..؟ 

"میں ٹھیک ہوں اور تم تو ٹھیک ہی ہو گی اپنا بدلہ لے کر.. " انعم کے لہجے کی تلخی زمل کو اپنے اندر تک محسوس ہوئی ۔

"کیا مطلب کیسا بدلہ..؟ " زمل نے نا سمجھی میں پوچھا۔

"زمل مجھ تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اس حد تک جا سکتی ہو. ہم سب اتنے عرصے سے خاموش تھے کہ تمہیں وقت دینا چاہیے لیکن .. اب تو حد ہو گئی تم ہم سب سے ملنا نہیں چاہتی تھی شادی کے بعد یہاں نہیں آئی ہم سب خاموش رہے تم ہم لوگوں کی کال اٹینڈ نہیں کرتی ہم سب خاموش تمہیں ذرا ہماری محبتوں کا خیال نہیں آیا اور پہلی مرتبہ باری آئے اور تم ملی تک نہیں کیا سوچتے ہوں گے وہ تم اپنی مصروفیات سے تھوڑا بھی وقت نہیں نکال سکتی تھی..؟  انعم کے الفاظ اُسکے دماغ پر بلاسٹ کی طرح لگے وہ کیا کہہ رہی تھی یہ سب ۔

"انعم تمہیں غلط فہمی ہورہی ہے  ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے.. "زمل کو اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔

"ہاں صحیح کہا تم نے مجھے غلط فہمی تھی کہ تم صرف محبت کرنا جانتی ہو قربانی دینا جانتی ہو لیکن نہیں تم بدلہ بھی لے سکتی ہو ۔مجھے پہلے بھائی کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا لیکن وہ سچے تھے زمل میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد بھائی تمہیں تنگ کریں گے لیکن تم یہ سب کرو گی سوچا بھی نہیں تھا ۔تم یہ سب کرکے صرف اپنے رشتوں کو اذیت دے رہی ہو اور کچھ بھی نہیں ۔ اب بھی وقت ہے یہ سب چھوڑ دو پاپا،ماما اور انکل کا ہی خیال کر لو باقی تمہیں اپنی کرنے کی عادت شروع ہی سے ہے جو تمہاری مرضی ہو پھر.. الله حافظ.. " زمل کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب انعم نے کہا ہے ۔

                                        ****

"تین دن بالاج کا سامنا نہ کرکے آج وہ خود کو سنبھال پائی تھی اور خلافِ توقع بالاج آج گھر پر ہی تھا نیچے سے آتی آوازوں نے اُسکی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ۔ 

"یہ کیسے گھر پر ہیں آج اور اتنی آوازیں کس کی ہیں..؟"  وہ خود سے کہتی نیچے کی جانب اپنے قدم بڑھائے ۔

ڈرائنگ روم سے آتی نسوانی آوز پر وہ ٹھٹکی لیکن رُکی نہیں 

"رکیہ بی کون آیا ہے..؟ " زمل نے اُنکو کچن میں مصروف دیکھ کر پوچھا. 

"چھوٹے صاحب کے مہمان آئے ہیں..؟ " اُنہوں نے مصروف سے انداز میں کہا ۔

"میں لڑکی کی بات کررہی ہوں.. " زمل کو بے چینی ہوئی تھی ۔

"اگر انویسٹی گیشن ہو گئی ہو تو رکیہ بی کو کام کرنے دو.. " بالاج کی آواز پر وہ پلٹی نہیں کیونکہ وہ بلکل اُسکے پیچھے کھڑا تھا ۔ اور نہ اُس نے بالاج کو پلٹ کر جواب دیا ۔ وہ اپنے روم میں جانے کے لیے بالاج کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ سامنے ایک لڑکی اور دو لڑکوں کو کھڑا پایا ۔ وہ جھنجھلا گئی اور اپنے نیچے آنے پر پچھتارہی تھی ۔

"یہ کون ہے بالاج..؟ " لڑکی نے اُسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔

"یہ میری کزن ہے.. کوئی کورس کرنے کے لیے یہاں آئی ہوئی ہیں ۔" بالاج نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا.. زمل نے حیرانگی کے ساتھ نظریں اُٹھا کر بالاج کی جانب دیکھا ۔ رکیہ بی کے بھی کام کرتے ہاتھ تھم گئے تھے ۔

"اوکے.. اچھا ہوا شہرین ہمارے ساتھ نہیں آئی ورنہ اتنی خوبصورت لڑکی کو تمہارے ساتھ دیکھ کر وہ انکا یا تمہارا قتل ضرور کرلیتی.. " تحریم نے بالاج کو آنکھ مارتے ہوئے مزاق میں کہا ۔

"ویری فنی شہرین کا مقابلہ تم ہر ایک سے نہیں کرسکتی ہو وہ بہت خاص ہے تم جانتی ہو اور اُسے یہاں ضرور آنا چاہیے تھا۔ اُسی نے تو یہاں آکر رہنا ہے اُسکا ہی گھر ہے یہ.. " بالاج نے ہر لفظ کو واضح کرکے سنایا ۔

"ایکسکیوزمی.. " زمل نے وہاں سے جانا چاہا ۔

"ارے آپ کہاں جارہی ہیں آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں نا ہمیں کمپنی دیں مہمان ہیں آخر آپ کے.. " تحریم نے اُسے روکنا چاہا ۔

"آپ جن کی مہمان ہیں وہ ہی آپکو کمپنی دیں گے میں خود یہاں پر مہمان ہوں .. اور ویسے بھی میرے سر میں بہت درد ہے " زمل وہاں رُکے بنا چلے گئی ۔

"بہت پراؤڈی ہے تمہاری کزن.. " تحریم نے برا مناتے ہوئے کہا ۔

"حُسن ہو تو نزاکت آہی جاتی ہے.. " بالاج کے دوست نے کہہ کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا. 

"ویسے یہ کمیٹیڈ ہیں کیا..؟  بالاج کے دوست نے پوچھا ۔

"چھوٹے صاحب کھانا تیار ہے.. " رکیہ بی سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔

"آؤ یار کھانا کھاتے ہیں تم لوگ کن فضول باتوں میں لگ گئے ہو.. " بالاج نے بھی بات بدلی اُسے اپنے دوستوں کے منہ سے زمل کے بارے میں سننا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ 

                                        **** 

"زمل بیٹا آپ نے کل ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا ہے.. کچھ تو کھالو ایسے تو بیمار پڑ جاؤ گی.. " رکیہ بی صبح سے اُسکے پیچھے پڑی تھی ۔

"رکیہ بی مجھے کچھ نہیں کھانا ہے پلیز آپ میری فکر نہیں کریں ۔" 

"زمل جن کی وجہ سے تم نہیں کھا رہی ہو نا اُن کو تمہاری فکر بھی نہیں ہے وہ اپنے کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہیں تین دن تک آئیں گے اور اب اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں بڑے صاحب کو کال کر دوں گی ۔" رکیہ بی نے دھمکی دی۔

"رکیہ بی وہاں کسی کو کچھ نہیں بتانا آپ پلیز.. " زمل نے منت کرتے ہوئے کہا ۔

"آپ کیوں نہیں کسی سے بات کرتی ہیں ایسے تو چھوٹے صاحب کبھی نہیں بدلیں گے.. " 

"آپ ناشتا لگائیں میں آتی ہو.. " زمل نے اُنکی طرف دیکھے بنا کہا ۔

                                    ****

"محبت تسبیح کے دانوں میں پرویا وہ موتی ہے جو اگر اپنی جگہ سے نکل جائے تو اُسکی جگہ کوئی دوسرا موتی تو لے سکتا ہے لیکن پوری تسبیح کے سارے موتی مل کر بھی اُس ایک موتی کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے ہیں. "

"زمل اس بات کو اب مان جاؤ کے بالاج کے دل سے تم اپنے لیے نفرت کبھی نہیں ختم کرسکتی ہو۔

 لیکن ..

پھر کیوں اُس شخص کے ہر عمل سے مجھے تکلیف ہورہی ہے..؟  کیوں کل مجھے ہمارے رشتے کی حقیقت نا بتانے پر دُکھ ہوا کیوں مجھے برداشت نہیں ہورہا یہ سب..  اُنہوں نے تو پہلے دن ہی میری حقیقت مجھ پر واضح کردی تھی ۔ پھر بھی اس دل نے کیوں امید ختم نہیں کی اب تک اور میں کیوں یہ سب برداشت کررہی ہوں میرا دل کیوں اُس شخص کے خلاف نہیں جانا چاہتا ہے. چاہ کر بھی میں کچھ کرنا نہیں چاہتی ہوں.. کیوں الله پاک جو انسان مجھے صرف تکلیف دے کر خوش ہے میرا دل کیوں اُس کی حمایت میں ہے.. میرے دل کو اُس شخص کی محبت کا کوئی حق نہیں ہے ۔ بالاج آپ نے ساری زندگی مجھ سے نفرت کی ہے اس کے بعد بھی میرا دل آپ کے ساتھ کا طلبگار ہے. یہ میری بے بسی کی انتہا ہے کہ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی ہوں۔ لیکن یہ بات میں آپ کو کبھی نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں اپنی محبت کو آپ کے ہاتھوں ذلیل ہوتا برداشت نہیں کر پاؤں گی اس لیے اپنے دل میں ہی دفنا دوں گی ہمیشہ کے لیے ۔

دل کا راستہ کٹھن ہی سہی 

وہ قریب ہو کر دور ہی سہی

دل نے اُس کی خواہش کی ہے 

ملنا نا ملنا ہمارا نصیب ہی سہی  ..  

ذمل نے ڈائری بند کی اور اُس پر ہی جُھک کر اپنے آنسو بہانے لگی.. شاید اب اس محبت میں اُسے ہر دن ایسے ہی رونا تھا کیونکہ لاحاصل کے پیچھے انسان ہمیشہ تڑپتا ہے ۔

                                           ****

"ثناء بھابھی کی ویڈیو کال آئی ہوئی ہیں وہ تم سے بات کرنا چاہتی ہیں جلدی آجاؤ..وہ کہہ کر رُکا نہیں تھا۔" بالاج کی آواز وہ ایک ہفتے بعد سن رہی تھی۔ 

"کیسی ہو چندا..؟ " ثناء نے بخور اُسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔

"ٹھیک ہوں بھابھی آپ کیسی ہیں اور گھر پر سب کیسے ہیں؟ میں آپ سب کو بہت مس کررہی ہوں.  " باری سے نا ملنے والی بات کے بعد بھی ثناء بھابھی کتنے پیار سے بات کررہی تھیں ..زمل کی آواز رندھ سی گئی تھی ۔

"سب ٹھیک ہیں لیکن مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو.. ؟" انہوں نہیں فکر سے پوچھا۔

"بس وہ زکام ہوا تھا اس لیے.. " 

"زمل مجھے تم سے کچھ کہنا تھا چھوٹی بہن سمجھ کر کہہ رہی ہوں میری بات کا مائینڈ نہیں کرنا پلیز.. میں جانتی ہوں تم اس شادی کی وجہ سے ہم سب سے ہی ناراض ہو اس لیے خود کو سب سے دور کر لیا ہے ۔ لیکن تمہیں بالاج کے ساتھ آنا چاہیے تھا کراچی لاسٹ ویک صرف دو دن کی ہی تو بات تھی ہم سب اتنا یاد کرتے ہیں تمہیں..  بابا اتنے اپ سیٹ ہیں تمہاری وجہ سے.. " 

ثناہ نے اُسے جانچنا چاہا ۔

"بھابھی میں کسی سے نہیں ناراض ہوں یقین کریں مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے میں بہت جلد کراچی آرہی ہوں بابا سے کہے وہ پریشان نہیں ہوں اُنکی بیٹی اُن کے پاس آرہی ہے.. " زمل نے روتے ہوئے کہا ۔

"زمل اب رو تو نہیں اس لیے تو نہیں کہا تھا یہ میں نے۔ رونا بند کرو جلدی سے.. " ثناء نے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔

"اب نہیں رؤ گی بھابھی آپ بھی پریشان نہیں ہو.. " زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔

بالاج زمل کے پاس کافی کا مگ رکھتے ہوئے اُسکے روئی ہوئی آنکھوں سے نظریں چُراتا وہاں سے چلاگیا ۔ 

"اور ایک گڈ نیوز ہے کہ انعم کی شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہوگئی ہے ۔اب تم آؤ تو شادی کے بعد ہی جانا پلیز.. " 

"مبارک ہو بہت بہت آپ سب کو.. " زمل نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔

"تمہیں بالاج نے نہیں بتایا کیا لاسٹ ویک جب وہ آیا تب ہی تو ڈیٹ فکس کی وہ آیا ہی اس لیے تھا.. سب نے تمہیں بہت مس کیا لیکن بالاج نے کہا تم بزی ہو اس لیے ابھی نہیں آرہی ہو شادی پر آؤ گی ۔ "

"نہیں بتایا تو تھا انہوں نے میرے ذہہن سے نکل گیا تھا سوری.. " زمل نے کی گھبراہٹ ثناء سے مخفی نہیں رہی ۔

"زمل سب ٹھیک ہے..؟  

"جی بھابھی سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہیں ہوں اور میں آپ سے پھر بات کرتی ہوں بالاج بُلارہے ہیں مجھے.. الله حافظ.. " 

"اچھا ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا ۔ خدا حافظ.. " ثناء کو عجیب لگا لیکن چُپ رہی وہ.

کال بند کرتے ہی زمل کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی ۔

"بالاج آپ نے صحیح کہا تھا کہ میں اپنے آنسو اس دن کے لیے بچا کر رکھوں جب میرا کوئی اپنا نہیں ہوگا میرے ساتھ..  اور آج میرا کوئی اپنا میرے ساتھ نہیں جو میرے آنسو پونچھ سکے یا مجھے تسلی دے سکے.. آپ بہت کم ظرف نکلے.. زمل نے سامنے دھواں اُڑاتا کافی کا مگ اُٹھا کر نیچے پھینک دیا جس کی آواز سن کر بالاج بھی روم میں آگیا ۔ 

"یہ کیا تماشا ہے اب.. " بالاج نے غصے سے پوچھا۔

"تماشہ تو آپ نے بنا کر رکھ دیا ہے میرا اپنی بے وجہ کی نفرت میں آپ نے اپنوں کو تو چھوڑ دیا ہوتا.. " زمل نے بالاج کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔

"کیا بکواس ہے یہ..؟  

"یہ بکواس نہیں ہے بالاج آپ نے اچھا نہیں کیا یہ سب اس حد تک گرگئے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا یہ ۔ " 

"یہ تکلیف جو آج تمہاری آنکھوں میں ہے نا اپنوں کے لیے جو دُکھ تمہارے لفظوں میں ہے یہ ہی دیکھنا چاہتا تھا- مجھے تمہارے ان آنسوؤں سے سکون مل رہا ہے آج زمل مجھے لگ رہا ہے آج میرا بدلہ پورا ہوگیا ہے .." 

"ہوگیا نا بدلہ پورا آپ کا اب آپ مجھے آذاد کردیں چھوڑ دیں مجھے اور وآپس جانے دیں مجھے میری دنیا میں اب.. " زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔

"اتنی آسانی سے کیسے تاکہ تم وہاں جاکر اپنی مظلومیت کا رونا رو سب کے سامنے اور سب مجھے غلط سمجھیں ایسا ہونے نہیں دونگا اب میں.. " 

"بے فکر رہے آپ اب وہاں جاکر ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ نے سب کو دور کرنا تھا وہ آپ کُرچکے ہیں..  اور وہاں اب شاید وضاحت کی ضرورت کسی کو نہ ہو ۔۔میں آپ کے فریب کو ہی آگے بڑھاؤ ں گی اور سب سے کہہ دوں گی میں یہ رشتہ نبھانا نہیں چاہتی ہوں. آپ سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا آپ کو تو شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ آپ نے اپنے ہی گھر میں کیسی آگ لگائی ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے بہت پچھتائے گے آپ بالاج ۔"

"جسٹ شٹ اپ میں تمہاری بکواس سننے کے موڈمیں نہیں ہوں.. "

"مجھے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ آپ سننے سنانے کی حد سے بہت آگے نکل چُکے ہیں اور مجھ میں اب مزید ہمت نہیں کہ میں آپ کا اور بھیانک روپ دیکھ سکوں.. " 

بالاج کا ہاتھ اُٹھا اور زمل کے باقی الفاظ اُسکے منہ میں ہی رہ گئے۔ 

"جانتے ہیں بالاج آج آپ نے مجھ پر ہاتھ اُٹھا کر ثابت کردیا ہے کہ آپ بہت کم ظرف انسان ہیں. بلکل عام مردوں کی طرح عام اور سطحی سوچ رکھنے والے. جو اپنے سامنے بولتی عورت کو برداشت نہیں کرپاتا اُسکے منہ سے نکلنے والی حقیقت نہیں سن سکتا ہے اس لیے اب میرا آپ سے کوئی شکوہ بنتا ہی نہیں ہے " زمل یہ کہہ کروہاں سے گزرنے لگی اُسکے پاؤں پر کانچ کا ٹکڑا لگا لیکن وہ رُکی نہیں اور اپنے کمرے میں آکر بند ہوگئی.. اور اپنے آنسوؤں کو اُس نے بہنے دیا- آج وہ ہمیشہ کے لیے اپنے آنسو ختم کردینا چاہتی تھی آج اُسکی برداشت ختم ہوگئی تھی. ایک ایسے انسان کے سامنے جسکی نفرت کے باوجود بھی وہ اُس سے محبت کر بیٹھی تھی ۔" 

                                         ****

"ثناء ہمارے لیے چائے بناؤ بیٹا ۔" مدثر صاحب نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔

"جی ماموں لاتی ہوں.. " 

"خیریت ہے آج آپ دونوں دوست اتنی لیٹ نائٹ تک باہر تھے..؟ " شہریار نے شرارتی انداز میں پوچھا۔

"کیوں ہمیں منع ہے کیا..؟  ماموں نے بھی مسکرا کر پوچھا ۔

"آپ دونوں کو روکنے کی کس کی مجال ہوگی..؟ " 

"بس بیٹا وقت کے ساتھ یہ دور بھی چلا جاتا ہے جب آپ صرف اپنی مرضی کرسکتے ہو یا چلاسکتے ہو.." مدثر صاحب نے آسودگی سے کہا ۔

"ماموں آپ تو سیریس ہی ہوگئے ہیں میں مزاق کررہا تھا آپ دونوں کا حکم تو سر آنکھوں پر ہے.. " شہریار نے بات کا رخ بدلنا چاہا ۔

"یہ لیجیئے آپ سب کی چائے." ثناء نے چائے اور کباب سامنے ٹیبل پر رکھ دی ۔

"بابا میری زمل سے بات ہوئی تھی کہہ رہی تھی کہ وہ کسی سے ناراض نہیں ہے اور بہت جلد  کراچی آئے گی ۔میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ اب وہ انعم کی شادی کے بعد ہی جائے گی بہت یاد کررہی تھی ہم سب کو.. " 

"ہاں اب تو وہ آجائے گی ضرور.. " جمال صاحب نے رنجیدگی سے کہا ۔

"بابا ایوری تھنگ از اوکے..؟ " شہریار نے پہلے کبھی اتنا اپ سیٹ نہیں دیکھا تھا اُنہیں. 

"شہریار مجھ سے ایک وعدہ کرو گے.. " انہوں نے امید سےدیکھا ۔

"جی بابا آپ بولیں ۔ " پریشانی سے گویا ہوا ۔

"میرے بعد میری بیٹی کا ہمیشہ خیال رکھنا وہ بہت معصوم ہے بس مجھ سے وعدہ کرو۔" 

"جمال کیا ہوگیا ہے بچوں کو کیوں پریشان کررہے ہو ہمت رکھو.. " مدثر صاحب نے تسلی دینا چاہی ۔

"میری بیٹی کے ساتھ بہت برا کیا میں نے ہمیشہ میری زمل.. میری بچی ۔" سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ نیچے کی طرف ہوئے ۔

"بابا .. بابا کیا ہوگیا ہے آپ کو.. " شہریار نے دوڑ کر انہیں تھاما ۔

"شہریار فوراً ہاسپٹل لے چلو انہیں.. " مدثر صاحب نے بھی گھبرا کر کہا ۔ 

                                       **** 

"میں زمل کو لینے جا رہا ہوں تم خیال رکھنا سب کا یہاں پر.. " مدثر صاحب نے  شہریار کو کہا ۔

"لیکن آپ کیوں جارہے ہیں بالاج سے کہیں کہ وہ زمل کو لے آئے ۔" شہریار نے پریشانی سے کہا ۔

"میں نے اُسے ٹیکسٹ چھوڑ دیا ہے کہ جمال کو ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔ وہ میری کال ریسیو نہیں کررہا ہے لیکن مجھے زمل کو لے کر آنا ہے ورنہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوگی یہ.. " 

"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ دونوں کچھ چُپھارہے ہیں..؟  شہریار نے پوچھ ہی لیا ۔

"یہ ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے ابھی جو میں نے کہا ہے بس وہ کرو اور مجھ سے کانٹیکٹ میں رہنا تم ۔" 

"جی ٹھیک ہے

جاری ہے  

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Safr E Ulfat  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Safr E Ulfat   written by Zara Kanwal .  Safr E Ulfat     by Zara Kanwal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages