Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq Novel By Toba Amir New Novel Episode 1 And 2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 13 November 2022

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq Novel By Toba Amir New Novel Episode 1 And 2

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq Novel By Toba Amir New Novel Episode 1 And 2 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq By Toba Amir Episode 1 And 2

Novel Name: Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ihsq 

Writer Name: Toba Amir

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اندھیرے کمرے میں بس جو روشنی کی گول کرن تھی وہ اسکے لبوں میں دبی تھی باقی کمرے میں قبر جیسا اندھیرا تھا وہ کمرے کی کھڑکی کے آگے کھڑا تھا جسکے دونوں پٹ کھلے تھے بلیک سینڈوز کی بلیک ہُڈ سر پہ تھی ملتان میں ٹھنڈ بہت پڑتی تھی مگر ہوا زیادہ تیز نہ تھی وہ آسمان کو دیکھتے ہوئے بس کش لگانے میں مصروف تھا آنکھیں لال تھیں ناجانے کیا غم تھے اسکو جنہیں اندر دبارہا تھا وہ تب ہی اسکے فون پہ میسج بجا اسنے نکال کے دیکھا جہاں صبیہہ( اسکی کزن) کا میسج جگمگا رہا تھا 

"جاگ رہے ہو ؟ "    اسنے میسج دیکھتے ہوئے فون سائیڈ پہ ڈال دیا عجیب اس لڑکی سے اب اسے گھٹن سی ہونے لگی تھی وہ شادی شدہ  تھی مگر پھر بھی اس سے فحش باتیں کرنے میں اسے کوئی عار نہیں تھی وقت گزاری کے لیے یہ اسکے لیے بھی اچھا مشغلہ تھی اور پھر کوئی ایک تھوڑی تھی مگر اس وقت وہ کسی کو یاد کررہا تھا.. ہاں اسکی اپنا بھائی جو چند سال پہلے اسے چھوڑ گیا تھا اسکے بعد اسکی دلچسپی ہر چیز سے اٹھ سی گئی تھی راتیں تب سے بھاری ہوگئی تھیں اور سکون ندارد......وہ اسکے آخری پلوں میں اسکا دھیان نہ رکھ پایا یہی غم اسکو سب سے زیادہ تھا اور پھر باقی گھر والے ؟  اسنے سر جھٹکا ساتھ میں سوچیں بھی پھر ایک چھوٹی سی ڈبی سے دو سلیپنگ پلز نکال کے منہ میں رکھ لیں وہ جانتا تھا نیند نے مہربان اب بھی نہیں ہونا مگر کوئی بات نہیں اب تو یہ عادات سی بن گئی تھیں..... 

                                   ¤¤¤¤¤

"تم سب پاکل ہو اور کوئی بات نہیں ہے!  پرے ہٹو اتنی بھوک لگ رہی ہے اور چاہتے ہو میں کچھ بھی نہ کھاوں ؟ "         نور سب سے لڑ بھڑ کے کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ رہی تھی جبکہ سب کا خیال تھا ابھی مزید گھوم لینا چاہیئے آج اسنے اپنی ساری سکول کی دوستوں کو ایکسپو پہ جمع ہونے کا کہا تھا اور آدھی سے زیادہ آئی بھی تھی جو نہیں آئی تھیں ان پہ لعنت بھیج کے وہ لوگ ایکسپو آگئے تھے اور اب اسے فوڈ کورٹ جانے کی پڑرہی تھی مگر باقیوں کا خیال تھا کے بکس خریدی جائیں وہ سب ہی ناولز کی شوقین تھی پر نور کے لیے بھوک زیادہ ضروری تھی اسکے آگے بڑھتے ہی وہ سب پیچھے لپکیں 

"پیسے ملاؤ سب مجھے نہیں پتہ......"        فضہ نے سب کے پیسے ایک ایک کر کے جمع کیے اور دعا کو اپنے ساتھ لیے اسٹال کی طرف بڑھ گئی 

"ٹیبل تو کوئی خالی نہیں ؟"    مبشرہ نے چاروں طرف نظر گھماتے ہوئے کھا 

"کوئی بات نہیں"       نور نے سب کو ریلیکس کیا اور آلتی پالتی مار کے نیچے بیٹھ گئی اسے دیکھ کے پہلے تو سب کنفیوز ہوئی مگر پھر سب ہی بیٹھ گئیں 

                  نور فرحان فرسٹ ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی بڑی بڑی آنکھیں پتلی سی اور چھوٹی سی ناک اور پتلے ہونٹ وہ کوئی (anime) انیمی کریکٹر لگی تھی بلیک ابائے کے ساتھ پنک اسکارف پہنے ہوئے وہ ابھی بھی معصوم لگ رہی تھی سب لڑکیوں نے ہی حجاب لیا ہوا تھا ایک دو نے نقاب بھی لے رکھا تھا تھوڑی دور ان سے لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو زرا قریب آگیا تو سب لڑکیوں کو لگا کے انہیں نے یہاں بیٹھ کے غلطی کی ہے مگر نور ڈٹ گئی اس نے سب کو ملا کے ان لڑکوں پہ خوامخواہ زور زور سے ہنسنا شروع کردیا تو انہیں رفو چکر ہوتے میں پانچ منٹ بھی نہ لگے فضہ کچھ کھانے کو لے آئی تو ان سب کی جان میں جان آئی وہ پھر سے ناولز کی تلاش میں جت گئیں 

                                  ¤¤¤¤¤¤

کمرے میں گھپ اندھیرا تھا باہر چاہے کتنی روشنی کیوں نہ ہو کھڑکیوں پہ ڈلے موٹے پردوں سے انکا آنا ممنوع تھا 4 بجے سونے کے باوجود 8  بجے ہی اسکی آنکھ کھل گئی تھی وہ بے دلی سے بستر سے اٹھ گیا وہ جتنا بھی سو لیتا کوئی فائدہ نہ تھا سکون اسکی زندگی سے غارت ہوگیا تھا پتہ نہیں اتنے وقت میں بھی وہ کتنی بار اٹھ چکا تھا اسنے کمبل پھینکا اور بستر سے اتر کے واشروم میں گھس گیا 

                فریش ہوتے ہی وہ نیچے آگیا جہاں ابو عثمان اور امی ناشتہ کررہے تھے انکے ہاں سب کی صبح جلد ہی ہوتی تھی 

  وہ بھی ٹیبل پہ بیٹھ گیا.  

 " ہاں برخوردار کام کب شروع کررہے ہو ؟ "      وہی سوال جس سے اسے چڑ تھی 

 " ابا ابھی نہیں ہے میرے پاس کچھ بھی."     اسنے سر جھکا کے کہا 

  "ہاں تو سارا تم عیاشی میں اڑا دو ایک یہ بھی تو ہے میرا بیٹا اسنے تو کبھی نہ نہیں کی."        ابا نے عثمان کی طرف اشارہ کیا 

 " تمھاری ضدیں ہی نہیں ختم ہوتی کسی کو سنتے ہوتے تو آج بھائی یہاں"...... وہ آگے مزید سنانے کا ارادہ رکھتے تھے جب غازی ٹیبل چھوڑ کے کھڑا ہوگیا 

"  ہاں سہی ہے میرا بھائی یہاں ہوتا یہی کہنا ہے آپ نے تو یوں کہہ دیں وہ بچ جاتا اور میں مر جاتا!"    وہ غصے سے بولا اور واپس کمرے میں چلا گیا 

  ٹیبل پہ خاموشی چھا گئی یہ واقعہ عام سی بات تھی روز کا ٹریلر پھر عثمان اور ابا اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے 

      ____________________

فرحان صاحب ایک بزنس مین تھے انکی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا سب سے پہلے بیٹی تھی جسکا نام فریحہ تھا پھر بیٹا جسکا نام مزمل تھا اور آخری نور دونوں بڑے سنجیدہ جبکہ نور چلبل سی طبیعت تھی اسی سے ہی گھر میں رونق تھی وہ کبھی اماں کو تنگ کرتی کبھی بہن بھائیوں سے چھیڑکھانی اور اسکے بقول وہ ایسا نہ کرے تو اسے سانسیں نہیں آتی تھیں نہ نیند میں سکون ملتا تھا 

  نور خدا کا واسطہ ہے اٹھ جاؤ.!!!      مسز فرحان اسے پھر سے سوتا دیکھ کے بولیں 

  "امی ابھی فریحہ باجی واشروم سے نکل آئیں پھر میں اٹھ کے چلی جاونگی"          اسنے منہ پہ سے کمبل ہٹائے بغیر کہا اور پھر اسکے بقول وہ فریحہ باجی کب واشروم سے نکل کے چلی بھی گئیں اسے پتہ نہیں چلا اور وہ مزید ایک گھنٹہ سوگئی اور پھر آنکھ تب کھلی جب اماں کی جوتی پڑی 

 " اوہ !"      وہ کمبل پھینکتی بواشروم میں گھسی.. 

                                   ¤¤¤¤¤¤¤¤

"تو تجھے کیا ضرورت تھی ابا کی بات کا جواب دینے کی ؟ "      روحان نے غازی کو دیکھتے ہوئے کہا 

"کیوں نہ دیتا؟ سر میں درد کردیا ہے ہر وقت کام کب کروگے کام کب کروگے اپنے چہیتے کو تو خود اپنے کام میں لگالیا اور چاہتے "ہیں کے میں اپنا کام شروع کرلوں! "      اسنے وہ گھٹیا مشروب اپنے لبوں سے لگائی وہ کوئی دوسری بوتل پی رہا تھا جسکا اثر اب ہونے لگا تھا 

"انہوں نے کہا ہے کہ اپنا کام کر ؟ "     روحان نے اسکی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

نا..نہیں.  اسنے سرخ انگارا آنکھیں اٹھائیں پھر  وہ رک رک کے بولا 

"چچ...چاہتے ہہ... ہونگے... یی..یہی."   وہ پھر سے سر بولا اسکا سر ڈیل ڈول ہورہا تھا  تو روحان نے نفی میں سر ہلایا اسکے پاس شیشتہ رکھا تھا جبکہ اسکا پائپ ہاتھ میں تھا جس سے وہ کش لگاتا اور پھر دھواں فضا میں پھیل جاتا وہ متعدد بار غازی کو منع کرچکا تھا کے وہ شراب نہ پیے مگر وہ ہر بار اسے آب حیات کہہ کے لبوں سے لگالیتا تھا اسے لگتا تھا یہ اسکے غموں سے نجات پانے کا آخری حل تھا 

                                  ¤¤¤¤¤¤

"شانی اس طرف نہ جاؤ ! "       وہ دکان پہ کھڑا سگریٹ لے رہا تھا جبکہ شانزل عرف شانی بائیک کے پاس کھڑا تھا وہ عمر میں بس تین سال کا تھا اسکے ہاتھ میں ایک بال تھی 

          غازی نے اسے مڑ کر دیکھا اور واپس دکان والے کی طرف متوجہ ہوا سگریٹ ہونٹوں میں لگائے وہ اسے جلانے میں مصروف تھا تبھی ایک زوردار چینخ فضا میں بلند ہوئی وہ جیسے ہی مڑا اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکےگا 

        "  شانی!!!!!"     ایک جھٹکے سے اسکی آنکھ کھلی وہ اپنے کمرے میں پڑا تھا پسینے میں شرابور وہ جانتا تھا اسے یہاں چھوڑنے والا روحان ہی ہوگا وہ اکثر اسے گھر چھوڑجاتا تھا جب وہ نشے میں دھت ہوتا تھا اسے نہیں یاد تھا اسنے رات کو کتنی بوتلیں پی تھیں اسکے کپڑوں میں سے  عجیب سی بو اٹھ رہی تھی اسنے گھڑی کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھا وہاں 11 بج رہے تھے ایک آسودہ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گئی یہ آب حیات پینے کا اسے یہ سب بڑا فائدہ تھا کے وہ سو سکتا تھا ہاں سکون کا نہیں مگر سو سکتا تھا!  اسنے موبائل دیکھا جہاں لڑکیوں کے میسجز کی لائن لگی تھی اسنے سب کو گڈمارنگ کا ریپلائی دیا اور موبائل پرے ڈال دیا وہ سب اسکی وقت گزاری تھی ہر ایک یہی سمجھتی تھی کے بس وہ اسکی زندگی میں ہے اور وہ اسی سے سب سے پیار کرتا ہے مگر اسکا کیا جاتا تھا ؟ وہ سب بھی تو پیسے کی پجاری تھیں وہ جانتا تھا پیسہ نا ہو تو ان میں سے کسی ایک نے بھی نہیں ٹکنا وہ سب اس سے پیار جتاتی مگر اسے سب کی باتوں سے کوئی پرواہ نہ تھی خیال تو جیسے ان میں سے کسی کو نہ تھا ابھی بھی وہ 7 کے بجائے 11 بجے ریپلائی دے یہ انکا مسئلہ نہ تھا انکا مسئلہ بس یہ تھا کہ غازی انہیں کب کیسے کس وقت شاپنگ کروائے ہونہہ کبھی کبھی غازی کو لگتا وہ ان نام نہاد اپنوں کے بیچ میں پھنس گیا "پھر سے نہیں!"       اسنے بڑبڑاتے ہوئے سوچوں کو آنے سے روکا   اسکے سر میں ابھی بھی ہلکا سا درد تھا وہ واپس لیٹ گیا اور دس منٹ میں ہی سوگیا اسکے آب حیات کا کمال!  

                               ¤¤¤¤¤¤¤   

یار میرا دماغ مت خراب کرو!   فریحہ اسکی فضول باتوں سے تنگ آگئی تھی 

پہلے سے خراب ہے وہ تو.      نور نے بنا رکے  کہا 

امی اسکو بلالیں یہ مار کھالے گی اب مجھ سے.     فریحہ کی برداشت جواب دے گئی تو وہ چینخی 

اللہ حافظ.      کہتے ساتھ ہی وہ بھاگ نکلی 

کیا کہہ رہی ہو ؟   امی نے  دیر سے سنا 

کچھ نہیں امی میں نے کردیا انکا کام.     نور نے اس سے پہلے آواز لگائی پھر مزمل کے کمرے ک پنکھا خوامخواہ بند کر کے بھاگ گئی اور وہ توقع کے مطابق پیچھے آیا مارنے 

"امی! امی! امی!.  "     وہ تیز تیز بھاگتی اماں کے پیچھے لپکی تب تک مزمل نے آکے اسے ایک جڑ دیا تھا امی نے حسب عادت دیر سے سنا 

"امی آپ بھی ایک تو دیر سے سنا کریں تب تک پٹ پٹا جاتے ہیں ہم پھر کہتی ہیں لڑا مت کرو شکایت کیا کرو ؟ "      وہ منہ بناتی باہر نکلی 

"واہ میرے اللہ اتنی جلدی ماکافات عمل میرا دل سجدہ ریز ہوگیا"         فریحہ نے اسکا مزاق اڑایا 

پاگل!     کہہ کے وہ کمرے میں آئی پھر موبائل اٹھایا جہاں وہ مبشرہ سے باتیں کرنے میں مصروف تھی پھر ساری سوشل ایپز (apps) چیک کر کے اسنے فون بند کردیا وہ موبائل میں زیادہ نہیں لگتی تھی نہ اسے کوئی کام ہوتا تھا کبھی کبھار وہ بس اس پہ ناول پڑھتی تھی مگر اسکے اور مبشرہ کے بقول بک سے پڑھنے کا اپنا مزہ ہوتا ہے ! 

                                     ¤¤¤¤

مستقل فون کی گھنٹی پہ وہ ہڑبڑا کے اٹھا اسنے فون پہ نگا دوڑائی جہاں رمضان کالنگ لکھا آرہا تھا غازی نے آنکھیں صاف کیں اسے معلوم تھا اس نے کسی کام سے ہی فون کیا ہوگا 

سلام باس کیا حال ہیں ؟    آن کرتے ہی اسکی آواز ابھری 

ہونہہ ٹھیک وہ.  ہونٹوں میں سگریٹ رکھتے ہوئے بولا اسکے سر درد کی دوا!    

باس وہ جو پستول لی تھی آپکی وہ فارغ ہوگئی ہے کب پہنچاؤں واپس ؟     غازی نے سگریٹ کا کش لگایا 

ابھی کام نہیں ہے رکھ لے لے لونگا.     پھر جواب دیا 

اوکے باس پھر کب آرہے ہو اپنے اڈے پہ ؟     رمضان کو یقینا پیسے چاہیئے تھے  

شام میں ملتا ہوں.      کہہ کے اسنے فون پرے ڈال دیا 

اسے معلوم تھا آج کا دن بھی خاس نہیں گزرنے والا وہ پھر دیر سے اٹھا ہے پھر عیاشی کے طعنے  اسکے لیے تو یہ ہونا چاہئے بولنے دو جو بولتے ہیں عادت ہے بولنے کی یہ وہ بات ہو جو اسے سوچنی چاہئیے  اور ہر لڑائی سے پہلے وہ سوچتا بھی یہ اسے روحان نے یاد کروائی تھی مگر جب بھی وہ لوگ اسے شانی کے حوالے سے طعنہ دیتے وہ بھڑک اٹھتا 

                                        ¤¤¤¤¤

شام میں اڈے کی طرف جاتے ہوئے وہ تیار ہوا بلیک سینڈوز پہ وائٹ پینٹ اس میں اسکے موٹے موٹے بازو خوب چھلک رہے تھے وہ کمرے سے نکلتے ہی بنا کسی سے ملے ہی باہر آگیا جہاں اسکی آوڈی اے فور کھڑی تھی وہ سیدھا گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اڈے والے راستے پہ ڈال دی ابھی بمشکل آدھا رستہ ہی گزرا تھا کے اسکا فون بجنے لگا غازی نے فون کان سے لگایا جہاں عافیہ کی آواز ابھری وہ رو رہی تھی 

کیا ہوا ہے ؟    وہ ایک دم بولا 

وہ غازی......... غازی کچھ لڑکے مجھے چھیڑ رہے ہیں پلیز ممم....میری مدد کرو وہ روز میرے راستے میں آجاتے ہیں کہتے گھر کسی کو بتایا تو اچھا نہیں ہوگا.       وہ روتے روتے بولی 

میں دیکھلونگا تم مجھے انکے بارے میں بتاو.    وہ ضبط سے بولا عافیہ اسکے لیے بہنوں جیسی تھی اسنے سب کچھ بتایا 

رکو میں تمھیں اسکا نمبر دیتی ہوں.    ہچکیوں کے درمیان بولی تو غازی نے فون کاٹا اور دوسری کال لگائی 

رابطہ ملتے ہی وہ گویا ہوا 

رمضان میری پستول ارینج کرنا ذرا کام ہے اڈے پہ ہی اور ایک نمبر بھیج رہا ہوں یہ لڑکا مجھے آج شام میرے سامنے چاہئیے ! کال کاٹ کے اسنے عافیہ کا بھیجا ہوا نمبر رمضان کو بھیجا اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی... 

 ____________

کیسے موڑ پہ ناجانے لائی ہے یہ زندگی 

روٹھا روٹھا ہے نصیباں روٹھی روٹھی ہر خوشی.. 

دیکھے تھے جو خواب سب ٹوٹ گئے وہ.... 

کہہ رہی ہے آنکھوں سے شاید میری بے بسی ....

فریحہ اپنا فیورٹ ڈرامہ خانی دیکھے میں مصروف تھی جبھی تیز آواز آئی 

بند کردو یہ گانا اللہ کا واسطہ ہے 

سر میں درد ہوگیا ہے سن سن کے میرے یہ!       فریحہ نے گھور کے اسے دیکھا جو گانے کے بیچ میں گانے کی ہی ٹون میں چیخنے لگی تھی 

امی اسے سمجھالیں پٹ جائے گی!      فریحہ غصے سے بولی 

ہاں تو تم ہلکی آواز میں دیکھو امی اسے بھی دیکھلیں 45 منٹ سب اس ڈرامے میں روتے ہیں اور اسکے بعد آدھا گھنٹہ باجی روتی ہے!     وہ مزاق اڑانے والے انداز میں بولی 

نور چپ ہوجاؤ!     امی نے اسے ڈانٹا 

اچھا ٹھیک ہے.   کہہ کے اسنے فون اٹھایا پھر مبشرہ کو میسج لکھا 

مجھے فضہ کا نیا نمبر دو وہ بیغیرت میرا ناول لیکے گئی ہوئی ہے اور پھر واپس نہیں کیا اب تک!          دوسری طرف میسج ڈیلور ہوگیا 

    _____________________

ہاں بھئی لے آنا وہ جسے انگلش میں ایسڈ کہتے ہیں ؟   غازی نے سگریٹ لبوں سے لگائی اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا 

باس وہ...   رمضان اسے شیشی پکڑاتے ہوئے کچھ کہنے لگا تھا مگر غازی نے ہاتھ اٹھا کے روک دیا 

ہاں بھئی لڑکی گھر بتائے گی تو کیا بگاڑے گا تو ؟    غازی نے ایسیڈ کی بوتل کھولی تو وہ لڑکا اسے پاوں میں گر گیا 

سر سر معاف کردو ممم...میں بس ممم...محبت کرتا ہوں وہ چھوڑ رہی ہے.. اور اور... ممم.میرے پاس... بس...یہی.طریقہ تھا....  وہ بے ربط جملے بول رہا تھا جبکہ پورا پورا کانپ بھی رہا تھا غازی نے اسکی حالت کے پیش نظر اسے چھوڑ دیا مگر اسنے سنا نہیں تھا کیونکہ اگر وہ سن لیتا تو شاید اسکا گلا دبادیتا اسکی بہن پہ بات کی تھی کیونکہ اس نے

 اگر تو آئندہ کے بعد اس گلی محلے میں نظر آیا تو لاش ملے گی تیری!        غازی نے گن جیب میں ڈالی اور اسے پاوں سے ٹھوکر مارتا ہوا نکل گیا 

اسکا آج کا دن ادھر بیکار گیا تھا اسنے اڈے پہ لڑکوں کے ساتھ دو چار سگریٹیں پھونکی اور اٹھ کے گھر آگیا سب کے اپنے مسلئے ہیں جہاں جاؤ وہ بس باس باس کر کے کام ہی نکلواتا ہےآج اسکا ڈرنک کرنے کا ارادہ تھا وہ تھوڑی دیر لیٹ گیا تبھی اسکا فون بجا 

ہاہ اب کونسی مصیبت ابھی تو وہ سب لڑکیوں کو گڈ نائٹ کر کے آیا تھا ؟ 

اسنے فون دیکھا جہاں غیر آشنا سا نمبر تھا 

اسنے کچھ سوچتے ہوئے فون کان سے لگایا اس سے پہلے وہ ہیلو کہتا دوسری طرف سے شاید کسی کی ٹرین چھوٹ رہی تھی وہ ایک دم شروع ہوگئی 

کمینی کب سے کہہ رہی ہوں میری کتاب واپس کردے نہیں تمہارے تو جیسے  ابا کی جائداد ہے لوٹ کے بیٹھ گئی ہو میں مری جارہی ہوں پڑھنے کے لیے لیکن ایک تم ہو کہ نا پڑھتی ہو نا دے رہی ہو!                 اسکے غصے بھری آواز آرہی تھی اور غازی کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کون لڑکی جو اس طرح بولے جارہی ہے 

میڈم؟       اسنے مسکرا کے پوچھا 

ہاں ؟ اب لڑکوں کی طرح آواز نکالو تم میں نہیں ڈرتی تم نے وہ نمبر کیوں بند کیا ہے میں پاگلوں کی طرح......      وہ آگے بھی بولنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر غازی کا قہقہہ چھوٹ گیا وہ کافی عرصے بعد ایسے کھل کے ہنسا تھا دوسری طرف اسکی بولتی بند ہوگئی تھی اور ساتھ میں کال بھی غازی نے مسکراہٹ دباتے ہوئے فون ہٹایا پھر میسج لکھا 

میڈم بات تو کر ہی لیں ؟     اسکا کیا ایک اور لڑکی ہاتھ آجائے گی 

دو منٹ بعد ریپلائی آیا.   دیکھیں غلطی سے کال لگ گئی تھی آپ ذرا شرافت کا مظاہرہ کریں اور اب میسج مت کری گا مہربانی!  

غازی میسج پڑھ کے ہنس دیا ایسے ہی اٹیٹیوڈ دکھاتی ہیں سب شروع میں 

اور اگر میں شرافت کا مظاہرہ نہ کروں تو ؟    اسنے ریپلائی دیا 

تو بھاڑ میں جائیں.  وہاں سے ریپلائی آیا غازی نے دو چار میسج اور کیے مگر جواب نہیں آیا اسنے کال کی تو بیل نہ جاتی بس کٹے جارہی تھی وہ سمجھ گیا نمبر بلاک ہوگیا ہے غازی نے اسکا نمبر ڈبل اے (AA) سے سیو کہا تاکہ وہ نمبر سب سے اوپر رہے پھر واٹس ایپ پہ چیک کیا جہاں وہ آنلائن تھی 

اسنے اسے دوبارہ میسج کیا 

میڈم ؟     اور ساتھ ہی اگلا بھی.    اگر اپنے بلاک کیا تو اچھا نہیں ہوگا تب تک جب تک آپ واپس ان بلاک نہیں کریں گی!     غازی نے اسے میسج کیا اور سین ہوتے ہی اسکا آنلائن اسٹیس آنا بند ہوگیا یعنی نمبر بلاک!  غازی نے لبوں میں دبی سگیریٹ کا کش لگایا وہ ہنستے ہوئے یہ بھول گیا کے وہ کسی غم میں غرق تھا وہ ایک دم چونکا آج وہ دوسری دفعہ اپنا غم بھولا تھا ایک دفعہ وہ ایک لڑکی کی وجہ سے بھولا تھا اب دوبارہ ؟    اسنے سر کو جھٹکا دیا پھر ذہن اسکی آواز کو یاد کرنے لگا اسنے مسکراتے ہوئے سلیپنگ پلز نکالیں اور منہ میں ڈال دیں 

 _________________

اوئے پاگل یہ کس کا نمبر پکڑا دیا تم نے مجھے ؟    نور نے غصے سے اسے سنائیں 

کسکا دے دیا میں نے ؟   دوسری طرف مبشرہ کی آواز ابھری 

فضہ کا ہی تھا اسنے اپنی طرف سے یقین دہانی کروائی 

اچھا مرد بول رہا تھا کوئی پھر ایک دم سے اسنے غور کیا نمبر اسنے خود غلط سیو کیا تھا 24 کی جگہ وہ 42  ڈائل کرچکی تھی چونکہ اسنے ہینڈ فری لگائی تھی اسیلیئے وہ دیکھ سکتی تھی 

خیر چھوڑو میں نے بلاک کردیا نور نے گہرا سانس لیکے بات ادھوری چھوڑی پھر ادھر ادھر کی بات کر کے وہ سونے لیٹ گئی 

                                   ¤¤¤¤¤

غازی!!!!    شبیر صاحب کی گرج دار آواز پہ وہ نیچے آیا 

جی کیا ہوگیا شاہ صاحب کو صبح صبح ؟    وہ نیچے آتے ہوئے بولا وہ اکثر انہیں شاہ صاحب کہ دیتا تھا 

تم نے قسم کھائی ہے باپ کہ عزت خاک میں ملانے کی ؟  وہ بری طرح چینخے 

کیوں آب کیا کردیا میں نے ؟    وہ انکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولا 

تم نے عافیہ کے کسی معاملے میں ہاتھ ڈالا تھا ؟ آخر چاہتے کیا ہو تم اپنی عاشقی خاندان سے دور رکھو! میرا نام مت خراب کرو    وہ دہاڑے تو غازی کے دماغ کیا فیوز اڑ گیا 

کیا عاشقی ؟ ارے وہ تنگ کررہا تھا اسکی عقل کی ٹھکانے لگا کے آیا ہوں.     غازی اونچی آواز میں بولا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا بات کیا کی کیا ہوگئی 

ہاں تو تم قومی ہیرو ہو ؟!      وہ پھر سے بولے 

نہیں مگر بیغیرت بھی نہیں ہوں!     وہ بول کے باہر نکل گیا 

                 ¤¤¤¤¤

اگلے دن نور پریشانی سے تڑپ اٹھی اسکے واٹس ایپ کوئی 50 غیر آشنا نمبر سے میسجز تھے اور یہ لکھا تھا جب تک وہ اس نمبر کو ان بلاک نہیں کرے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا نور کا دل کیا وقت کا پہیہ گھمائے اور اس وقت وہ نمبر سہی سے ڈائل کرے مگر پچھتانا کیا اب!  اسنے سارے میسجز ڈیلیٹ کردیے اور فون پرے ڈالا ہی تھا وہ پھر سے بج اٹھا دوبارہ الگ الگ نمبرز سے میسجز اور کالز آنی شروع ہوگئی اسکا دل کی موبائل دیوار پہ دے مارے اور شاید مار بھی دیتی مگر نہیں یار ایک ہی تو بیچاری کے پاس اسنے بلاک لسٹ میں جاکے اس نمبر کو ان بلاک کیا تو میسجز کا سلسلہ رکا مگر ابھی تو کھیل شروع ہوا تھا

غازی اس موبائل کو پرے ڈال دے یار میرے سے بھی بات کرلے بلا تو تو نے لیا ہے 

ہانی یہ نمبر ہےاور اس نے مجھے بلاک کیا ہے کچھ بھی کر  ایسا کے یہ میرا نمبر انبلاک کردے!    غازی نے روحان کے ہاتھ میں موبائل دیا وہ اکثر اسے ہانی کہتا تھا 

اوکے ہوجائے گا کام! اب اس مصیبت کو ہٹا سامنے سے اور مجھے بتا کیوں ہوئی ہے ابا سے بحث ؟    روحان نے فون سائیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا 

اوکے!   غازی نے سر کو خم دیا پھر پوری بات بتائی 

اب شاہ صاحب کی سائیڈ نہیں لے گا تو!     غازی نے اسے وارن کیا تو روحان ہنس کے چپ ہوگیا پھر کبھی سمجھائے گا یہ سوچ کے 

میں نے ہما کو بھی بتایا اور تو یقین کر اسنے یہی کہا ہے کہ میں نے صحیح کیا ہے !  ہما اسکی گرل فرینڈ تھی یقینا اور بھی ایک دو نے یہی کہا ہے  غازی نے فضا میں دیکھتے ہوئے کہا 

اللہ تجھے کوئی عقل سلیم والی بیوی دے!  آمین.  روحان نے ہاتھ اٹھا کے دعا دی 

ہوہنہہ گرل فرینڈ کی حد تک ٹھیک ہے بیوی وغیرہ نہیں میں شادی نہیں کرونگا.       اسنے بات ختم کی تو روحان چپ رہا وہ متعدد بار اس بات پہ بحث کر چکا تھا 

                                      ¤¤¤¤¤¤

شام تک نور خود سے ہار گئی اسے نمبر ان بلاک کرنا پڑا ورنہ اتنی کالز اگر دیکھ لیتا تو کیا حال ہوتا وہ جانتی تھی اسکے ماں باپ پیار بہت کرتے تھے مگر وہ شاید بھروسہ کم ہی کرتے تھے وہ اسکی بات کبھی نہ سنتے اگر وہ دیکھلیتے تو ااکی سنے بغیر ہی موبائل چھین لیتے اور وہ کچھ نہ کہہ پاتی اسے نہیں یاد کہ کبھی اسے ماما یا بابا نے کہا ہو کہ وہ اس پہ بھروسہ کرتے ہیں خیر وہ سب اپنی جگہ تھا 

              نور نے نمبر ان بلاک کیا اور پانچ منٹ بعد ہی وہ کالز اور میسجز والا سلسلہ بند ہوگیا نور سے سب چیٹز ڈیلیٹ کیں اس شخص سے وہ اچھے طریقے سے نبٹ لے گی!  اسنے سوچا پھر موبائل پرے ڈال دیا اسے اسکے میسج کا کوئی انتظار نہیں تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی یہ نبٹنا اسے بھاری پڑنے والا ہے بے حد! 

                                     ¤¤¤¤¤¤

اسکے انبلاک کرنے کے فورا بعد ہی غازی جان چکا تھا مگر وہ ابھی میسج نہیں کرنا چاہتا تھا دوسری اسنے بس اسکی ڈی پی چیک کی جو ایک لڑکی کی تھی جس نے سر پہ حجاب لے رکھا تھا اسکے ہاتھ میں آئیسکریم تھی شاید وہ رینڈم پک تھی غازی نے غور سے دیکھا اسے ایک جھماکے سے کچھ یاد آیا!  

                                     ¤¤¤¤¤¤

نور کمرے میں ساری کتابیں پھلائے بیٹھی تھی مگر وہاں موجود فریحہ گواہ تھی کے وہ پڑھنے کے علاوہ سب کررہی ہے 

نکمی ہو تم سب سے زیادہ اتنی آسان فیلڈ لی یے مجھے دیکھو میں نے میڈیکل لی تھی مزمل کو دیکھو مزمل نے انجینرنگ لی کے اور تم ہو کے بس کمپیوٹر سائنس لیکے بیٹھی ہو.    فریحہ اسے الجھتا دیکھ کے بولی 

بس بس رہنے دو باجی آپ لوگ ہی سب ہو میں ٹہری سدا کی نکمی آپ  نے ماشاءاللہ سے میٹرک میں %81  اور مزمل بھائی نے %83  لی تھی اب میں تو بیچاری ہوں جس نالائق نے %92  لی تھی.       وہ فریحہ پہ طنز کے تیر چلانے لگی تو وہ منہ بنا کے چپ ہوگئی جبکہ نور نے مسکراہٹ دبائی پھر کام کی طرف متوجہ ہوگئی 

                                 ¤¤¤¤¤

چئیر پہ بیٹھے ہوئے وہ سگریٹ کے کش لگا رہا تھا پاوں اسنے اوپر ٹیبل پہ رکھے تھے جہاں روحان بیٹھا تھا وہ دونوں ابھی بھی اڈے پہ تھے انکے بقول یہ انکا دوسرا گھر تھا وہ ایک چار دیواری تھی کھلی اور کشادہ جو اوپر سے بھی کھلی تھی وہاں ایک ٹیبل تھی اور باقی چارپائی اکثر لڑکے وہاں جمع ہوتے وہ جگہ غازی کے ابا کی تھی مگر وہ زیر استعمال نہ تھی تو غازی نے اسے اس کام میں استعمال کرلیا تھا کسی سے نبٹنا ہوتا یا کسی کا مسئلہ سننا ہوتا تو وہ یہی ملنے کا کہتا تھا چاہے کسی بھی نے مسئلہ کہنا ہو وہ چھوٹا ہو یا بڑا سردیوں میں یہاں زیادہ رونق لگتی تھی وہ اکثر لڑکے یہاں آگ جلا کے بیٹھتے یا کوئی باربی کیو کرتا الغرض وہ جگہ ہر کام کے لیے تھی مگر غازی کی اجازت سے ابھی بھی وہ وہاں م سوچوں میں مگن تھا روحان کو پرانا والا غازی یاد آیا ہنستا باتیں کرتا کون جانتا تھا یہ سگریٹ کے علاوہ ہر چیز سے چڑنے والا انسان چار چار بوتلیں شراب کی پئے گا اسنے گہرا سانس لیا 

کیا سوچ رہا ہے بے ؟    غازی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا یعنی وہ اتنا بھی بے خبر نہیں تھا 

یہی کے کیا تو پہلے والا غازی نہیں بن سکتا ؟    روحان سوچ سوچ کے بولا تو وہ ایک جھٹکے سے آگے ہوکے بیٹھا پھر اسنے روحان کو گریبان سے پکڑلیا 

تو مجھے شانی واپس لا کے دیسکتا ہے ؟ نہیں نا ؟   وہ ہذیانی کیفیت میں چینخا 

جتنا ناممکن شانی کا واپس آنا ہے اتنا ہی میرا ہے!  شانی کے ساتھ مر گیا میں!  بس دفنایا نہیں گیا!      وہ پاگلوں کی طرح چینخ رہا تھا روحان نے اپنا گریبان چھڑوایا وہ اس ردعمل کو جانتا تھا وہ غازی کو پچھلے پانچ سال سے جانتا تھا اور غازی کی خوش قسمتی تھی کے اسکے پاس روحان جیسا دوست تھا جو اس کو اس وقت سنتا تھا جب دنیا پاگل کہہ کے چھوڑ دیتی تھی وہ کتنا بھی برا رویہ اپنائے وہ کبھی بھی چھوڑ کے نہیں جاتا تھا ہر بار منانے واپس چلا جاتا تھا اسیلئے غازی کو بھی وہ بڑے بھائی سے بھی بڑھ کر عزیز تھا 

غازی نے اسے جھٹکے سے چھوڑا تو روحان نے گریبان ٹھیک کیا 

اچھا چل....... بس!       وہ آگے بولنے لگا تھا غازی نے بات کاٹی اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا مطلب گھر جائے گا اب اور روکنا فضول ہے روحان جانتا تھا وہ اب نہیں رکنے والا وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھا غصے میں بات اور جگہ دونوں چھوڑ جاتا تھا ہاں یہ عادت اسکی نہیں بدلی تھی نہ شانی سے پہلے نہ شانی کے بعد روحان نے سگریٹ ہونٹوں میں دبائی اور خود بھی بائیک کی طرف بڑھ گیا اب یہاں بیٹھنا بیکار تھا 

                                    ¤¤¤¤¤¤

جان کیا کررہے ہو؟    صبیہہ کا میسج دیکھ کے اسکے ماتھے پہ بل پڑے یقینا اسکا شوہر پھر سے باہر چلا گیا ہوگا جو اسے غازی کی یاد آئی ہے غازی ریپلائی لکھنے ہی لگا تھا کہ اسے یاد آیا اس لڑکی نے اسے بلاک کردیا اسنے اسکی چیٹ کھولی جہاں آنلائن لکھا آرہا تھا 

سلام!        اسنے لکھ بھیجا دوسری طرف ڈیلیور ہوا مگر سین نہیں ہوا غازی نے دو چار میسجز اور بھیجے 

کیا مسئلہ ہے ؟     دوسری طرف سے لٹھ مار جواب آیا 

سلام کا جواب دینا چاہئے.      اگلا میسج بھیجا 

کیوں ؟    وہاں سے پھر جواب آیا 

کیوں کے یہ مسلمانوں پہ فرض ہے.       غازی کے لیے اس لڑکی کے ریپلائی نئے نہیں تھے شروع میں سب ایسی کرتی ہیں 

مسلمانوں پہ یہ بھی فرض ہے کہ وہ کسی کو تنگ نہ کریں اور آپ کررہے ہیں.        ریپلائی آیا غازی اسکی حاضر جوابی پہ ہنس دیا 

بہت عقل مند ہو.     اسنے تعریف کا جال بیچھایا 

پوچھا نہیں تھا.       جھٹ جواب آیا غازی پھر سے ہنس دیا اسے اس سے بات کرنے میں مزہ آرہا تھا 

دیکھئے سر رات کے 12 بج رہے ہیں اس وقت میسج کرنا بد اخلاقی ہوتی ہے!  اب میسج مت کری گا آپ کو کوئی ضروری بات کرنی ہو تو کل کرلی گا.      غازی نے میسج غور سے پڑھا اوپر لکھا آیا وہ آف لائن ہوگئی تھی اور اب ڈی پی بھی چینج تھی مگر غازی وہ پہلے ہی سیو کرچکا تھا 

______________

میرے اللہ!     نور کو ایکدم سے کچھ یاد آیا وہ اٹھ کے بھاگی  اسنے اپنی ڈی پی نہیں ہٹائی تھی اور اسکا نمبر سیو کرلیا تھا اسنے جھٹ پٹ ڈی پی ہٹائی اور سکون کا سانس لیا اللہ کرے اسنے نہ دیکھا ہو اسنے دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچا 

                                  ¤¤¤¤¤¤

پوری رات وہ پھر نہیں سو نا سکا وہ کیا کرتا یہ روز کا معمول تھا اسکی آنکھیں لال ہورہی تھیں اور سر بھاری اسکا دل کرتا تھا جب بھی اس کے ساتھ ایسا ہو وہ اپنا سر کہیں لے جاکے ماردے یا خود کو ختم کرلے پچھتاوے اور مصیبتیں وہ زندگی سے بے زار ہوگیا تھا اسنے گن گن کے وقت گزارا اور بالاخر اسے 4 بجے نیند آہی گئی مگر زیادہ دیر نہیں 6 بجے وہ پھر اٹھ گیا اسنے موبائل کھولا جہاں کسی کے میسج نہیں تھا پھر اس لڑکی کا واٹس ایپ چیک کیا وہ اتنی صبح آنلائن تھی 

واو!    اسنے مسکرا کے میسج لکھا

ہیلو !   اسنے سینڈ کا بٹن دبایا میسج سین ہوکے اگنور ہوگیا 

جواب دے دیں محترمہ!     اگلا میسج پھر ایک کے بعد ایک سوالیہ نشان بھیجے اسنے تب ہی اسکا ریپلائی آیا 

کیا ہے ؟    انداز وہی لٹھ مار 

کیوں جاگ رہی ہو ؟ اتنی صبح ؟      غازی نے لکھ بھیجا 

کیوں اٹھتے ہیں اس وقت ؟     سوال پہ جواب کے بدلے سوال آیا 

سکول کالج یا یونی ؟     غازی نے پوچھا 

نماز!    جھٹ ریپلائی آیا تو غازی واقعی متاثر ہوا 

اچھا پڑھ لی ؟    غازی نے لکھا 

آپ سے مطلب ؟    وہاں سے ریپلائی آیا 

نہیں. اچھا یہ بتاو نام کیا ہے تمھارا ؟  غازی نے پوچھا 

آپ نے اپنی اولاد کا نام رکھنا ہے ؟   اگلا وار غازی نے مسکراہٹ دبائی 

نہیں ابھی میرا ایسا ارادہ نہیں ہے.     غازی نے ہنس کے لکھا 

اچھی بات ہے!    دوسری طرف سے جواب آیا 

                                ¤¤¤¤¤¤¤¤¤

عجیب لیچڑ انسان ہے چپک ہی گیا ہے.   نور نے جھرجھری لیکر سوچا 

نام تو میں اسے اپنا کبھی نہیں بتاونگی نور نے میسج دیکھ کے سوچا پھر موبائل کی طرف متوجہ ہوئی اسکا ارادہ تھا وہ اسکی عقل ٹھکانے لگادے گی. (مگر وہ بھول گئی کے گناہ کے قریب جاو تو اس میں ملوث ہو ہی جاوگے جبھی تو دجال سے دور رہنے کا کہا ہے کے بیشک ایک شخص خود کو مومن سمجھ کے اسکے پاس جائے گا اور اسکے جھانسے میں آجائے گا )

نور الہدیٰ نام ہے تمھارا ایم آئی رائٹ  ؟     اسکا میسج آیا 

نور کو بے اختیار جھٹکا لگا وہ آگے میسج لکھنے لگی تھی کے آگے کامیسج آیا 

لیکن تمھاری دوست تمھیں نور بلاتی ہے ؟  یعنی ھدیٰ تم خود سے لگاتی ہو ؟     وہ قیاس آرائیاں کررہا تھا یا وہ جانتا تھا نور کو سمجھ نہیں آئی وہ کمرے میں اکلیی تھی ابا اکثر کام سے باہر رہتے تھے تو فریحہ امی کے پاس سوجاتی تھی نور کو اپنی جگہ کے علاوہ کہیں نیند نہیں آتی تھی اسیلئے وہ اپنے کمرے میں سوتی 

آپکو کیسے پتہ ؟  وہ بے اختیار پوچھ بیٹھی 

تم جانتی ہو مجھے!    وہاں سے ریپلائی آیا 

ہم مل چکے ہیں!     اگلا میسج 

جھوٹ سراسر جھوٹ!  میں کبھی کسی لڑکے سے نہیں ملی!     نور نے میسج لکھا اسے اب اس شخص پہ غصہ آرہا تھا 

اچھا رکو.     اسکا جواب آیا پھر ایک پکچر آئی نوراسے لوڈ نہ کرتی مگر وہ آتے ہی لوڈ ہوگئی نور نے اسے غور سے دیکھا وہ تصویر ایک لڑکے کی تھی اسکی لائٹ براون رنگ کہ تھی جو دھوپ میں اور بھی حسین لگتی تھی اسنے بلیو شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنی تھی انگلیوں کے درمیان سگریٹ تھی وہ گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھا تھا اور آسمان کو دیکھ رہا تھا نور نے اسے غور سے دیکھا واقعی یہ لڑکا جانا پہچانا تھا وہ سوچنے کی کوشش کرنے لگی اور پھر اسے یاد آگیا! 

                                  ¤¤¤¤¤¤

(6 مہینے پہلے) 

گرمی!!!!!   میرے اللہ!      نور اور مبشرہ پیدل گھر کی طرف رواں تھی اور گرمی سے برا حشر تھا سورج بھوننے کا ارادہ کرچکا تھا وہ اور مبشرہ انسٹیٹیوٹ سے واپس آرہی تھیں 

پہلے میڈیکل پہ رک جاؤ مزمل بھائی کا کل ایکسیڈنٹ ہوا ہے میں نے ڈیٹول کی شیشی  اور باینڈیج لینی ہے نور نے بیگ سے پیسے نکالے اور میڈیکل کی جانب بڑھی 

تم یہاں رکو میں آتی ہوں.      مبشرہ کو اسنے اشارہ کیا وہ چھاوں میں کھڑی ہوگئی نور نے جاکے بینڈیج اور ڈیٹول کی شیشی  لی پھر واپس آئی تو اسے مبشرہ کے چہرے پہ پریشانی کے آثار نظر آئے اسنے نظر دوڑائی تو وجہ بھی معلوم ہوگئی دور ہی دو لڑکے اسے تنگ کررہے تھے نور نے اسکا ہاتھ پکڑا اور آگے چل دی مگر اسکی توقع کے برعکس وہ پیچھے آنے لگے وہ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے اٹھاتے ایک دم بھاگنے لگیں آگے جاکے گلی میں ایک نوجوان نظر آیا اسنے وائٹ ٹی شرٹ کے ساتھ بلیو پینٹ پہنی تھی آنکھوں پہ سن گلاسز لگائے وہ گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا مبشرہ گھسیٹ کے اس طرف لے گئی 

ایکسکیوز می!    اسنے جلدی سے کہا تو وہ لاک کھولتے سے ایک دم مڑا 

وہ لڑکے ہمیں تنگ کررہے ہیں آپ پلیز ہیلپ کریں.     مبشرہ جلدی جلدی بولی جبکہ نور مدد مانگنے کے حق میں نہ تھی مگر وہ واقعی حیران رہ گئی جب اس نوجوان کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا وہ غصے سے انکی طرف بڑھا اور پھر سین دیکھنے والا تھا اسنے کچھ سوچے سمجھے بغیر ان دونوں سے لڑائی شروع کردی مبشرہ کی مانو ٹانگوں سے جان نکل گئی جبکہ نور کو سمجھ نہ آیا وہ بھاگ کے گئی اور اسے روکا وہ دونوں تو موقع پاتے ہی فرار ہوگئے مگر اس کے ماتھے پہ زخم آیا تھا اس نے نور کو اپنی طرف دیکھتا پاکر دیکھا تو دونوں کی نظریں ملی اسکی لائٹ براون آئیز تھیں جن میں بے حد درد تھا نور نے بیگ سے ٹشو پیپر نکال کر اسے تھمایا جس سے اسنے خون صاف کیا پھر اسنے ڈیٹول کی شیشی نکال کر ٹشو اس سے گیلا کر کے اسے دیا وہ نور کو دیکھتے ہوئے صاف کررہا تھا نور نے بیگ سے بینڈیج نکال کے بھی اسے دیدی 

یہ تھینکس سمجھ کے قبول کیجیے.      کہہ کے وہ آگے بڑھ گئی

نور چلو.   مبشرہ نے اسے بلایا تو غازی چونکا 

غازی اسکی پشت کو دیکھنے لگا وہ شانی کی ڈیتھ کے 4 مہینے بعد کراچی آیا تھا اپنے گھر والوں کے طعنوں سے بچ کے ابھی بھی وہ اکیلے پن سے اکتا کے باہر نکلا ہوا تھا مگر اب اس سے مل کے اسے لگا وہ اتنی دیر کے لیےا اپنا غم بھول گیا اسکے بعد غازی نے اسے کراچی میں بہت تلاشا وہ لگاتار ایک ہفتے تک وہیں آیا مگر وہ نظر نہیں آئی خیر قسمت غازی تو بھول بھال گیاتھا مگر اب ڈی پی دیکھ کے وہ اسے پہچان گیا تھا 

                                     ¤¤¤¤¤¤

نام تو میں نے اپنا نہیں بتایا تھا.     وہ یاد آنے پہ بولی

 بلکل نہیں بتایا  تھا.      وہاں سے ریپلائی آیا 

پھر کیسے پتہ؟     اسے اشتیاق ہوا  

اول تو یہ کے تم نے واٹس ایپ نیم نور الہدیٰ رکھا.        اسنے یقینا نمبر ڈیلیٹ کرکے نام چیک کیا تھا 

اور دوئم ؟      نور نے لکھا 

دوسرا یہ کہ تمھارے آئی ڈی کارڈ پہ نور فرحان لکھا تھا خالی اکثر ایسے کرتے ہیں لوگ نام کے ساتھ کچھ بھی لگاتے ہیں پسند سے اپنی.         اسنے جواب دیا 

اوہ تو جناب نے اس دن آئی ڈی کارڈ بھی دیکھا تھا نور سمجھ گئی 

دیکھو میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں بس دوستی کرنا چاہتا ہوں.      اسکا میسج آیا 

بے شک کیجیے پر مجھ سے نہیں اس سے جو کرنا چاہے.      اسنے لکھ بھیجا 

تم سب سے الگ لگی ہو.    وہ بہت ہی کوئی فارغ انسان تھا 

جی بیشک آپ یہ بات کہہ رہے ہیں لیکن میں جانتی ہوں آپکی سوچ ہوگی یہ سب لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں اور آپ کو پتہ ہے ہوتا کیا ہے ؟ تم سب سے الگ ہو سے شروع ہونے والی کہانی تم سب ایک جیسی ہو پہ ختم ہوتی ہے!         میسج لکھ کے وہ آفلائن ہوگئی 

                               ¤¤¤¤¤¤¤¤

غازی کو لگا اسکے سر پہ چھت آگری ہو اسنے اس میسج کو کوئی تیس بار پڑھ لیا تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ لڑکی اسکا مینٹل لیول کیسے سمجھ گئی وہ بھی ایک ہی دن میں وہ واقعی حیران پریشان تھا اسکا دل کیا وہ اس لڑکی سے اور بات کرے وہ بے شک جادوئی تھی مگر اب وہ جواب نہیں دے رہی تھی غازی نے موبائل پرے ڈال دیا اور بستر سے اٹھ گیا اس سے بات کرتے کرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا تھا 8 بج گئے تھے جبکہ وہ 7 بجے کی آفلائن تھی مطلب میں ایک گھنٹے سے اسے سوچ رہا ہوں بس ؟    اسنے خود کلامی کی 

اف......وہ ماتھے پہ ہاتھ مار کے اٹھ گیا 

                                ¤¤¤¤¤¤¤

نور!!!! اٹھو. !!!!    اماں اسے مستقل آوازیں دے رہی تھیں مگر اسے اٹھنے کا دل نہیں تھا وہ ابھی تو سوئی تھی اس منحوس سے جان چھڑوا کے اسکا دل کیا اس شخص کا سر پھاڑ دے اسنے منہ پہ تکیہ رکھا اور اماں کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کیمگر بے سود وہ سر پہ کھڑے ہوکے چینخنے لگیں تھی 

اچھا میری ماں جی یہ لیں اٹھ گئی.      وہ غصے سے کہتی بستر سے اتری 

پھر منہ ہاتھ دھو آئی اسنے موبائل دیکھا جہاں اسکے میسجز پھر سے آئے ہوئے تھے نور کو واقعی اب اس شخص سے پریشانی ہونے لگی تھی 

سلام!      نور نے پہلا میسج پڑھا باقی سوالیہ نشان تھے 

وعلیکم اسلام.      نور نے جواب لکھا 

کیسی ہو ؟       فورا سے ہی ریپلائی آگیا 

آپ سے مطلب ؟    اسنے لکھ بھیجا 

آپ نے میرے علاج کی فیس بھرنی ہے ؟      اسنے دوسرا میسج بھی بھیجا 

کہو تو بھر دوں ؟     وہاں سے ریپلائی آیا 

نہیں شکریہ میرے والدین الحمد للہ حیات ہیں.     نور نے ریپلائی لکھا 

نور کمرہ صاف کرو!      اماں کی آواز پہ اسنے سر اٹھایا 

اچھا امی اسنے کمر تک آتے بالوں کو کیچر میں مقید کیا پھر ایک ہاتھ سے موبائل پکڑے صفائی شروع کی 

اچھا کراچی میں کہاں رہتی ہو ؟    اسنے سوال کیا 

زمین کے اوپر آسمان کے نیچے.     نور نے ریپلائی لکھ بھیجا 

جبکہ وہاں سے ہنسنے والے ایموجی آئے 

اچھا زمین کے اوپر آسمان کے نیچے کہاں ؟    اگلا میسج

گھر میں!     نور نے پھر سے سنجیدہ سا ریپلائی لکھا 

میں تو جیسے باہر ٹینٹ لگا کے سوتا ہوں ؟       اسنے مسکرانے والا ایموجی بنا کے بھیجا 

کیا پتہ ؟      نور نے ریپلائی لکھا 

میڈم میرے ابا کے اپنے شورومز ہیں فقیر نہیں ہیں ہم کسی سے بھی نام لے کے دیکھنا غازی شبیر کا ملتان آکے لوگ جھک نہ جائیں تمھارے آگے تو کہنا..         دوسری طرف سے اسے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی 

باپ کے پیسے پہ کیا فخر کرنا مزہ تو تب آئے جب پیسہ آپکا ہو اور فخر باپ کرے.       اسنے کافی سوچ کے ریپلائی کیا 

سمجھدار ہو لیکن ہرکہانی کی دو سائیڈ ہوتی ہیں.      پھر جواب آیا 

اول تو یہ کہ میں نے پوچھا نہیں تھا دوسرا یہ کے کہانی کی کتنی بھی سائیڈز ہوں اینڈ تو ایک ہی ہوتا ہے!     کہہ کے اسنے کمرہ دیکھا جو وہ کام کرتے کرتے سمیٹ چکی تھی نور نے آخری نگاہ کمرے پہ ڈالی اور باہر نکل گئی


جاری ہے 



If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel   Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq   written by Toba Amir.  Kaisa Yeh Dard Hai Ishq Ishq  by Toba Amir  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages