Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Part 2 Complete PDF - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 18 June 2022

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Part 2 Complete PDF

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Part 2 Complete PDF

RJ  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Tawaif  Based Novel Enjoy Reading...

Sulagti Yadon Ky Hisar Main BY RJ Epi 2

Novel Name: Sulagti Yadon K Hisar Main

Writer Name: RJ

Category: Episode Novel

Episode No: 2

سلگتی یادوں کے حصار میں

ازقلم: آر جے

قسط 1 پارٹ 2

 کون ہے بھئی جسکی کال تمھیں بار بار کٹ کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔؟؟؟“  وہ تینوں فارم ہاؤس میں ٹیبل کے گرد رکھی کرسیوں پر براجمان تھے جب  افروز موبائل اسکرین دیکھنے کی کوشش کرتا ہوا شام سے مخاطب ہوا۔

”ہوگی کوئی حسینہ۔۔۔کیونکہ جناب کی لسٹ میں تو میلز کم ہی نظرآتے ہیں۔۔۔“  فواد نے اُسے دیکھ کر لطیف سا طنز کیا جس پر وہ سرجھٹکتا ہوا مسکرادیا۔

”چل بتا بھی دے۔۔۔اب ہم سے کیا چھپانا برو۔۔۔؟؟؟“  افروز کو لڑکیوں کے نام پر چُپی کسی بھی طور ہضم نہیں ہوتی تھی اور اُسکی اس عادت سے وہ دونوں کیا بلکہ سب ہی واقف تھے۔

”ابے یار۔۔۔رابعہ ہے۔۔۔ٹاپ کی ڈھیٹ۔۔۔اتنی بار اُسکی کال کاٹ چکا ہوں لیکن بجائے سمجھنے کے کہ اگلا بندہ بات کرنے میں ذرا بھی انٹرسٹڈ نہیں ہے ڈھیٹوں کی طرح کال پہ کال کیے جارہی ہے مجھے۔۔۔پاگل۔۔۔“  شام پھر سے اُسکی کال کاٹتا ہوا بےزاری سے بولا اور موبائل پاور آف کردیا جس پر دونوں اُسے دیکھ کر رہ گئے۔

”ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئےتجھے رابعہ سے فرینڈشپ  کیے اور اتنی جلدی بور بھی ہوگیا تُو اس سے۔۔۔۔حد ہے یار۔۔۔“  فواد تاسف سے اُسکا چہرہ  دیکھ کر کہنے لگا۔

”شکر کرو کہ یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن نکال لیے اُسکے ساتھ۔۔۔ورنہ میں تو دو ہی دن میں بور ہوگیا تھا اُس سے۔۔۔چپکو ہے پوری۔۔۔“  سلگتا ہوا سگریٹ لبوں کے بیچ دباتا ہوا وہ لاپرواہی سے بولا۔

”اگر میں تیری جگہ ہوتا تو کم از کم ایک ماہ تک کام چلاہی لیتا۔۔۔پر رابعہ میڈم ہمیں لفٹ کروائے تب ناں۔۔۔“  افروز کو دکھ ہوا تھا رابعہ کی بےقدری پر لیکن اس سے ذیادہ خود کے ٹھکرائے جانے کا افسوس تھا۔کچھ دن پہلے اُسنے رابعہ کو فرینڈ شپ کی آفر کی تھی لیکن اُسنے بنا لگی پٹی رکھے سیدھے سیدھے انکار اُسکے منہ پر دے مارا۔

”ٹرائی کرلے۔۔۔شاید اب کی بار مان جائے۔۔۔۔“  شام بائیں آنکھ کی قدرتی لمبی پلکوں کو آپس میں پل کے لیے میچتے ہوئے بولا۔انداز لطف لینے والا تھا جسکو  اَن دیکھا کرتا ہوا افروز گہری سوچ میں پڑگیا۔

”میں حیران ہوں کہ اتنی لڑکیاں تجھ جیسے فلرٹی ٹائپ بندے پر کیسے مرمٹتی ہیں یار۔۔۔؟؟؟“  ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی فواد نے اپنا وہی سوال دُہرایا تھا۔مانا کہ وہ کافی ہینڈسم تھا۔رئیس تھا۔چھ فٹ کی ہائیٹ پر چہرے کے دلکش نقوش اُسکی شخصیت کو منفرد بناتے تھے۔اور ہر طرح کی ڈریسنگ اُس پر جچتی تھی۔سب سے بڑھ کر وہ اپنی ذات کو لےکر حددرجہ مغرور تھا جو کہ شاید اُسکا خاندانی خاصہ تھا اور اُس پر سوٹ بھی کرتا تھا۔

تو کیا۔۔۔۔؟؟؟

وہ کوئی کوہ قاف کا شہزادہ تھوڑی تھا جولڑکیاں اُسی کے خواب دیکھتی رہتی تھیں۔

”بس دیکھ لے۔۔۔کبھی غرور ہی نہیں کیا تیرے بھائی نے۔۔۔“  جواد کی بات کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہوئے اُسنے  گہرا کش بھرا تھا اوربہت سا دھواں منہ سے خارج کرتے ہوئے فضا میں چھوڑدیا۔

”وہ تو دِکھ رہا ہے۔۔۔لیکن اصل مزہ تو تب ہے اگر تو اُس مولانی کو پھنسا کردیکھائے۔۔۔“  افروز کا انداز چیلنجنگ تھا جس پر شام کی مسکراہٹ پل میں سمٹ گئی۔

”کون۔۔۔؟؟؟وہ جونئیر۔۔۔حرمین زہرا۔۔۔؟؟؟“  جواد نے چونک کراُسکا نام لیا۔

”ہاں وہی۔۔۔پوری یونی میں ریکارڈ ہے اُسکا۔۔۔آج تک کسی سے بھی نہیں پٹائی گئی وہ۔۔۔“  افروز نے پٹانے پر زور دیتے ہوئے شام کی طرف دیکھ کر اپنی آنکھ دبائی۔اب چھیڑنے کی باری اُسکی تھی۔

”چھوڑ یار اُسے۔۔۔اُسے پٹانا بھی کون چاہے گا۔۔۔؟؟؟میں تو اُسے دیکھتے ہی بور ہوجاؤں گا۔۔۔اور ویسے بھی تُو اچھے سے جانتا ہے کہ اُس ٹائپ کی لڑکیوں سے سخت قسم کی الرجی ہے مجھے۔۔۔ “  اُسکا سراپا نظروں میں گھومتے ہی اُسکا دل کھٹا سا پڑگیا۔

”سیدھی طرح بول کہ تو ہار مان رہا ہے۔۔۔۔باقی سب تو  تیرے کھوکھلے بہانے ہیں بس۔۔۔“  افروز نے اس بار اُسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ اور فواد اکثر اُسے اس طرح کے چیلنجز میں الجھادیا کرتے تھے اور پھر تینوں مل کر انجوائے کرتے تھے۔شام تو اس کھیل کا ماہر کھلاڑی ثابت ہوا تھا۔اُس نے تو جیسے کبھی ہارنا سیکھا ہی نہیں تھا۔

اُسکی بات سن کر جہاں شام کے ماتھے پر سلوٹیں ابھری تھیں وہی جواد کے چہرے پر خباثت والی مسکراہٹ پھیل گئی۔

”ہار اور میں۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔امپاسیبل۔۔۔۔اور جہاں تک بات اُس مولانی کی ہے تو۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔جیت ہمیشہ کی طرح میری مٹھی میں قید ہوگی۔۔۔“  بڑی طرح بگڑتے ہوئے وہ پل میں افروز کا چیلنج ایکسپٹ کرگیا تھا۔لہجے میں غرور کی جھلک تو تھی ہی ساتھ میں بلا کا اعتماد بھی شامل تھا جبکہ وہ دونوں اپنا تیر سیدھا نشانے پر لگتا دیکھ کرکمینگی سے ہنس پڑے۔

*********

وہ مکمل ریڈی ہوکر اپنے روم سے باہر نکلا تھا۔چند ہی سیکنڈز میں ساری سیڑھیاں سرعت سے اترتے ہوئے اُسکا کندھے سے لٹکتا بیگ بھی اچھل اچھل جارہا تھا۔دوسرے ہاتھ سے اپنا قیمتی موبائل بلیو جینز کی جیب میں پھنساتے ہوئے اُسنے بیگ کو جھٹکادے کر بیسٹ پوزیشن دی تھی۔

”شام۔۔۔بیٹا رکو ذرا۔۔۔۔“  آئمہ بیگم جو پاس کھڑی ملازمہ کو آج کی دعوت پر جانے کے لیے اپنے کپڑے استری کرنے کا بول رہی تھیں،اپنے لاڈلے بیٹے پر نظریں پڑتے ہی اُسے جانے کا اشارہ کرتی ہوئی اُسکی جانب بڑھیں۔

”جی موم۔۔۔۔؟؟؟“  اپنے نام کی پکار پر وہ مکمل اُنکی جانب مڑا۔

”تم رات پھر گھر لیٹ آئے تھےناں۔۔۔؟؟؟“  تفتیشی انداز میں پوچھتی ہوئی وہ پُریقین تھیں جس پر وہ آنکھیں گھماتا ہوا اُنکے کندھے تھام گیا۔

”کم آن موم۔۔۔فرینڈز کے ساتھ لیٹ نائٹ پارٹی انجوائے کررہا تھا۔۔۔ایسے میں دیرسویر تو ہوہی جاتی ہے۔۔۔اور ویسے بھی میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو رات جلدی گھر آنے کے بےکار سے رولز فالوکروں گا۔۔۔“  وہ قدرے بےزاری سے گویا ہوا تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔

”لیکن عائل کے لیے تو تم ہمیشہ بچے ہی رہوگے ناں۔۔۔جانتے ہو تمھاری ان حرکتوں سے کتنا پریشان ہوتا ہےوہ۔۔۔؟؟؟لیکن تم ہوکہ باز ہی نہیں آتے۔۔۔۔اور تمھارے ڈیڈ۔۔۔اُنکی تو تم بات ہی چھوڑدو۔۔۔ “  ایک تو اُسکا یہ بڑا پرابلم تھا جہاں کہیں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا تو اپنا فون بندکردیتا۔عائل کا نام سن کر شام کے بےزار تاثرات فوراً سے بھی پہلے نرم مسکراہٹ میں ڈھلے تھے جبکہ اپنے ڈیڈ کے ذکر پر اُسنے توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔

وہ اپنے بڑے بھائی سے شروع سے ہی کافی اٹیچ تھا۔اتنا کہ اپنے باپ کو چاہ کر بھی وہ ایسا مقام نہیں دے پایا تھا۔شاید حسن صاحب کا حد سے ذیادہ سخت لہجہ اُسے متنفر کرچکا تھا۔

”بھائی کو پتا ہے میرا۔۔۔وہ چاہ کر بھی اس آزاد پنچھی کو ہتھکڑیاں لگا کر اپنی قید میں نہیں کرسکتے۔۔۔“  عائل کی کارکردگی کو مدِنظررکھتا ہوا وہ آنکھ دباکر مزے سے بولا۔لہجے میں مان سے ذیادہ دعویٰ تھا۔

”تم کبھی نہیں سدھروگے۔۔۔۔“   عائمہ بیگم نے تاسف سے اپنے بگڑے ہوئے لاڈلے کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ والا جملہ دُہرایا۔

”کبھی نہیں۔۔۔“  بدلے میں وہ اُنکی بات کی تصدیق کرتا ہوا ڈھیٹوں کی طرح نفی میں سرہلاگیا جب اچانک اُسکا فون بج اٹھا۔

”اچھا اب میں یونی کے لیے مزید لیٹ نہیں ہونا چاہتا۔۔۔اُممما۔۔۔بائے موم۔۔۔۔“  شاید وہ جانتا تھا کہ اُسکے دوستوں کا فون تھا تبھی بنا کال پِک کیے وہ عائمہ بیگم کو گال پر بوسہ دیتے ہوئے تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔

”ارے۔۔۔ناشتہ۔۔۔۔“  اُسکو جاتا ہوا دیکھ کر عائمہ بیگم کی بات منہ میں ہی دبی رہ گئی۔تبھی اُنکے موبائل کی بھی رنگ بجی جو صوفے پر پڑا عائمہ بیگم کاشدت سے منتظر تھا۔آئل کی کال دیکھتے ہوئے بےاختیار اُنکے لبوں پر مسکراہٹ بکھرگئی۔

**************************

وہ سڑک کے کنارے کھڑی نیناں کے ساتھ مزے لے لے کر گول گپے کھانے میں مصروف تھی۔آج اُسنے نفیسہ بیگم سے ضد کرکے کالج سے چھٹی کی تھی اور ضروری شاپنگ کرنے کے لیے اپنی بیسٹ فرینڈ کے ساتھ مارکیٹ آئی ہوئی تھی۔ابھی اُسنے پلیٹ میں قطار سے لگے گول گپوں میں سے تیسرا گول گپا اٹھاکر کھٹے پانی میں ڈبوتے ہوئے باہر نکالا ہی تھا جب اچانک اُسے اپنے قریب سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔اُسکے منہ کی طرف جاتا گول گپا بےساختہ پلیٹ میں گرا جب وہ اُسکے ایک بار پھر زور سے بھونکنے پر جھٹکا کھا کر پلٹی۔

” کک۔۔۔کک کتا۔۔۔“  خود کی جانب خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے  گھنے بالوں والے براؤن کتے کو دیکھ کر آرزو کی سانس سینے میں اٹک گئی۔اُسے بچپن سے ہی  کتوں اور اندھیرے کا فوبیا تھا۔اُسنے سختی سے نیناں کا ہاتھ پکڑ لیا جو اس صورتحال سے خود بھی گھبرا گئی تھی۔وہ شاید کسی کا پالتو کتا تھا جو اپنے مالک سے خود کا پٹہ چھڑوا کر اُنکی جانب چلاآیا تھا۔شاید نہیں یقیناً اُسکا دماغ گھوم گیا تھا۔

”ارے بیٹیا گھبراؤ نہیں۔۔۔یہ بس ڈرا رہا ہے کہے گا کچھ بھی نہیں۔۔۔“  ریڑھی والے بابا نے اُنھیں ڈرا ہوا دیکھ کر پُرسکون کرنا چاہا کہ تبھی وہ بھونکتا ہوا پیچھے کو سرکتی حاویہ کی جانب تیزی سے لپکا۔اگلے ہی پل اُس نے گول گپوں والی پلیٹ ہوا میں اچھالی تھی اور چیختے ہوئے سرپٹ دوڑلگادی۔

”آآآ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔کتا۔۔۔کوئی تو بچاؤ۔۔۔۔“  وہ مسلسل بولتی ہوئی اندھا دھند آگے کو بھاگتی جارہی تھی یہ جانے بغیر کہ بیچ راستے میں ہی کتے کے مالک نے اُسے پکڑ کر اپنے قابو میں کرلیا تھا۔

لیکن وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی تب ناں۔۔۔

وہاں پر کھڑے لوگ اُسے یوں اکیلے بھاگتے ہوئے دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔

ڈر کے مارے نمکین پانیوں سے بھری آنکھوں نے آگے کا منظر دھندلا کردیا تھا تبھی وہ سامنےصحیح سے دیکھ نہیں پائی تھی اور سیدھا مقابل کی پشت سے جاٹکرائی۔

عائل جو فون پر آئمہ بیگم سے تقریباً بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہہ چکا تھا اچانک پیچھے سے دھکا لگنے پر سرعت سے پلٹا اور اپنے سامنے حجاب میں موجود لڑکی کو زمین بوس ہونے سے پہلے ہی بازوؤں سے تھام لیا۔

حاویہ نے اپنی گھنیری پلکیں زور زور سے جھپکتے ہوئے اپنے سامنے با وردی پولیس آفیسر کو دیکھا جو پوری طرح اُسی کی جانب متوجہ تھا۔پولیس موبائل کی بیک سیٹ پر مجرم کے ساتھ بیٹھا انسپیکٹر باسط بھی آگے کھسک کر باہر کا منظر دیکھتا ہوا چونکا۔ 

”آر یو اوکے میڈم۔۔۔۔؟؟؟“  اُسکا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر عائل نے فکرمندی سے پوچھا تو وہ شدت سے نفی میں سرہلاتی ہوئی اُس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔

”پلیز میڈم۔۔۔آپ مجھے بتائیں۔۔۔کیاکوئی آپکے پیچھے پڑا ہے۔۔۔؟؟؟کیا کوئی آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔؟؟؟“  عائل اپنے پروفیشنل انداز میں تفتیش کرتا ہوا اُسکی جانب رخ موڑگیا جو کافی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔

”جج جی آفیسر۔۔۔۔وہ کتا۔۔۔میرے پیچھے پڑا ہے اور۔۔۔مجھے جان سے مارنا چاہتا ہے۔۔۔پلیز مجھے بچالیجیے اُس سے۔۔۔پلیزززز۔۔۔“  گہرے سانس لیتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ساتھ ہی اُس راستے کی طرف نگاہ دوڑائی جہاں سے وہ بھاگ کر آئی تھی۔لیکن اب اُس خونخوار کتے کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔

”کون ہے وہ۔۔۔؟؟؟اور اس وقت کہاں پر ہے۔۔۔؟؟؟آپ پلیز مجھے ذرا اُسکا حلیہ بتائیں۔۔۔تاکہ ہم مجرم کی باآسانی شناخت کرکے اُسے پکڑسکیں۔۔۔“  عائل کو لگا شاید وہ اُس انسان کو غصے میں گالی دے رہی ہے جو چند لمحے قبل اُسکے پیچھا پڑا ہوا تھا تبھی اُسکا سہما ہوا سلونا روپ نظروں میں رکھتے ہوئے نرمی سے استفسار کرنے لگا۔

”جی بتاتی ہوں۔۔۔وہ بہت خوفناک تھا۔۔۔اُسکے لمبے براؤن بال تھے۔۔۔چار ٹانگیں تھیں۔۔۔ایک عدد ہلتی ہوئی دُم۔۔۔اور منہ سے باہر کی جانب لٹکتی ہوئی لمبی سی زبان۔۔۔“  وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی سوچ سوچ کر بتانے لگی۔

”وہااااٹ۔۔۔۔“  مجرم کی ایسی شناخت پر عائل کو حقیقیتاً جھٹکا لگا تھا۔

اُسکے غیر متوقع ری ایکشن پر وہ آنکھیں پھیلائے اُسے دیکھنے لگی جو اب کافی غصے سے اُسے گھوررہا تھا۔

”تم۔۔۔تم تب سے ایک اصلی والے کتے سے ڈر رہی تھی اور میں سمجھا کہ۔۔۔۔اففف پاگل لڑکی۔۔۔تمھارا دماغ تو سیٹ ہے۔۔۔؟؟؟فری میں میرا اتنا قیمتی ٹائم برباد کرڈالا تم نے۔۔۔حد ہے۔۔۔“  وہ اپنے لہجے کو حد سے ذیادہ سخت بناتے ہوئے دانت پیس کر بولا تو وہ نظریں جھکاتی ہوئی خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔

کسی اجنبی کے ہاتھوں اچھی خاصی بےعزتی ہونے پر خفت کے مارے اُسکا انگ انگ دہک اٹھا تھا۔

اُسکا جھکا ہوا سر دیکھتے ہوئے عائل نے اپنا غصہ ضبط کرنے کے لیے  گہرا سانس بھرا۔

”مجھے کتوں سے اور اندھیرے سے شروع سے ہی بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔“  اپنی صفائی دیتے ہوئے وہ تقریباً منمنائی۔

”یو مین فوبیا۔۔۔۔؟؟؟“  عائل کے صحیح اندازہ لگانے پر وہ اثبات میں سرہلاگئی۔آنسوؤں میں مزید روانی آئی تھی۔

”اوہ گاڈ۔۔۔۔“   بےساختہ اُسکی حالت دیکھتے ہوئے اُسے اپنے سخت لب و لہجے کا احساس ہوا تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

اس سے پہلے کہ عائل واپس سے نرم لہجہ اختیار کرتا کہ تبھی قریب سے آتی نسوانی آواز پر وہ دونوں ہی چونک گئے۔

”حاویہ۔۔۔۔“  نیناں نے اپنی بیسٹ فرینڈ کو پولیس موبائل کے قریب کھڑےکسی آفیسر کے ساتھ محوگفتگو دیکھا تو حیرت سے اُنکی جانب لپکی۔

”نیناں۔۔۔شکر ہے تم آگئی۔۔۔۔“  اُسے ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے اپنی طرف آتا دیکھ  کر وہ بھیگی آنکھوں سمیت مسکراتی ہوئی اُسکی جانب مڑی۔عائل نے اُسکے سانولے سلونے چہرے پر دھوپ چھاؤں کا یہ عالم بغور دیکھا تھا۔

”میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ آخر تم کہاں چلی گئی ہو۔۔۔۔؟؟؟سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔؟؟؟تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟؟“  حاویہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے نیناں نے الجھی نظروں سے عائل کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے اُنہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

”چلو گھر چلیں۔۔۔ماما بہت پریشان ہورہی ہوں گی۔۔۔پہلے ہی کافی دیرہوگئی ہے۔۔۔“  نیناں کے پھرسے ہلتے لب دیکھ کر حاویہ جھٹ سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی اور ساتھ ہی زور سے اُس کا ہاتھ دبایا۔صاف اشارہ تھا کہ ابھی وہ کوئی بھی بات نہ پوچھے۔نیناں نے اُسکی جانب دیکھا تو اُسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے بےبس سی چپ ہوگئی اور دونوں وہاں سے چلتی بنیں۔

”حاویہ صاحبہ۔۔۔خاص آپ کے لیے ایک بہت مفید مشورہ ہے میرے پاس۔۔۔۔تھوڑی سی دور ایک مینٹل ہاسپٹل واقع ہے۔۔۔اگر من ہوا تو وہاں کا چکر ضرور لگائیے گا۔۔۔شاید کچھ افاقہ ہوجائے۔۔۔“  جانے کیوں وہ اپنی سنجیدہ طبیعت کےخلاف جاکرمسکراتی آواز میں اپنا اظہارِ خیال پیش کرگیا تھا جو بغیر تھینک یو یا سوری بولے بےمروتی کا مظاہرہ کرتی ہوئی خاموشی سے اپنی دوست کے ساتھ رفوچکر ہونے کے چکروں میں تھی۔لہجے میں واضح نرمی تھی۔

اپنے نام کی پکار سمیت  اُسکے واضح طنز پر حاویہ صدمے سے رک کر پیچھے مڑی اور اُسے آنکھیں سکیڑ کر محض غصے سے گھورنے پر ہی اکتفا کیا۔ورنہ دل تو بہت کررہا تھا کہ اُس پولیس آفیسر کو ابھی دوچار باتیں سنادے جواُسے دل کھول کر ہرٹ کرچکا تھا۔جواب میں وہ براہِ راست  اُس کی بھوری آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتا ہوا بےنیاز سا کندھے اچکاگیا۔البتہ اُسکے انداز پر عائل کی مسکراہٹ اب مفقود ہوچکی تھی۔اگلے ہی پل وہ کشمکش میں کھڑی نیناں کو ساتھ لےکر وہاں سے تن فن کرتی ہوئی چلی گئی۔

”پاگل۔۔۔۔“  اُسکی حرکت یاد کرتے ہوئے بے اختیار اُسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی تو وہ سر جھٹکتا ہوا فرنٹ سیٹ کی جانب بڑھ گیا۔

***************

وہ تینوں خلاف توقع اس وقت سکینڈ فلور پر موجود تھے۔فواد نے بالوں بھری کلائی میں پہنی واچ کا جائزہ لیا۔لیکچر ختم ہوئے دو تین منٹ گزرچکے تھے۔تبھی وہ کندھے سے لگی سٹرِِپ پر اپنی پکڑ مضبوط کیے اپنی دوست علیزہ کے ساتھ سب سے آخری کلاس سے برآمد ہوئی تھی۔دائیں جانب مڑتے ہی راہداری پارکرتے ہوئے وہ علیزہ کی کسی بات پر ہنستی ہوئی بےاختیار منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔

 ”اوئے شام۔۔۔سامنے دیکھ۔۔۔ہنستا مسکراتا شکار خود چل کر شیر کے پاس آرہا ہے۔۔۔چل جا اب چلادے اس حسینہ پر بھی اپنی سوہنے پن کا جادو۔۔۔“  حرمین کو اپنی سمت آتا دیکھ کر افروز اُسے ٹہوکا دیتے ہوئے جوشیلے انداز میں بولا تو وہ دیوار سے ٹیک ہٹائے بغیر گردن ترچھی کرکے اُن دونوں کی طرح اُسکا تفصیلی جائزہ لینے لگا۔

نیلے رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض پر ہم رنگ دوپٹے کا حجاب کیے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اُن کے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔

”ابے جائے گا بھی یاں تیری جگہ میں کوشش کرکے دیکھوں۔۔۔۔؟؟؟“  اُسے ہنوز اُسی  پوزیشن میں کھڑا دیکھ کر فواد چڑکر بولا۔

”ریلکس بڈی۔۔۔ابھی میری اینٹری کا ٹائم نہیں ہوا۔۔۔۔“  حرمین پر سے نظریں ہٹائے بغیر وہ اپنی آبرو اچکاتا قدرے اطمینان سے گویا ہوا۔

”مطلب۔۔۔۔؟؟؟“  دونوں نے ایک کورس میں پوچھتے ہوئے الجھ کر اُسکی جانب دیکھا تو وہ ہولے سے مسکرایا۔اُسکی تیز نظریں حرمین کے پیچھے لپکتی لڑکی پر پڑچکی تھیں جس سے تھوڑی دیر پہلے ہی وہ دو منٹ کی خفیہ میٹنگ کرکے آیا تھا۔

”مطلب یہ۔۔۔ کہ تُو بس دیکھتا جا آگے ہوتا ہے کیا کیا۔۔۔۔“  اُنکی کیفیت سے حظ اٹھاتا ہوا وہ اپنی آنکھ دباگیا۔

تبھی اُن تینوں کو قندیل کی خاصی بلندغصیلی آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا۔

”او حرمین میڈم۔۔۔میری اسائنمنٹ چرا کر کہاں بھاگی جارہی ہو۔۔۔؟؟؟ذرا اسے تو واپس کرتی جاؤ۔۔۔۔“  طنزیہ لہجہ اپناتے ہوئے وہ اُسکی جانب لپکی تو حرمین اپنا چشمہ صحیح سے ناک پر ٹکاتی ہوئی حیرت اور کچھ صدمے سے پیچھے پلٹی۔علیزہ بھی حیران ہوئی تھی اس بےبنیاد الزام پر۔

”یہ تم کیا بات کررہی ہو۔۔۔۔؟؟؟میں بھلا تمھاری اسائنمنٹ کیوں چوری کروں گی۔۔۔؟؟؟“  اپنی کلاس فیلو کو تیوری چڑھا کر دیکھتے ہوئے وہ اُسکے برعکس تھوڑا مدھم لہجے میں بولی جو اُنکے پاس بھاگتی ہوئی پہنچی تھی اور اب گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔پاس سے گزرتے ابھی چند ایک سٹوڈنٹس کی توجہ ہی اُنکی جانب کھینچی تھی۔

”تم شاید یہ بھول رہی ہو قندیل میڈم۔۔۔۔حرمین زہرا یونی کے ٹاپرز میں سے ایک ہے۔۔۔پھر اُسے تمھاری اسائنمنٹ کی کیا ضرورت۔۔۔جو نجانے کتنی ہی غلطیوں سے پُر ہوگی۔۔۔؟؟؟“  علیزہ نے اُس کو گھورتے ہوئے اپنی فرینڈ کی اہمیت بتائی تھی جبکہ آخری جملہ وہ منہ میں بڑبڑائی جو قندیل نے بمشکل سنا تھا۔اگرچہ حرمین کے فادر کی ڈیتھ کے بعدسے اُنکے اخراجات پہلے کی نسبت محدود ہوکررہ گئے تھے لیکن یہ اُسکی اعلیٰ ذہانت کا ہی کمال تھا جو اُسے اسکولرشپ کے بل بوتے اس بڑی یونیورسٹی میں آرام سے ایڈمیشن مل گیا تھا۔اور ویسے بھی حرمین کے پیرنٹس کی بھی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی تھی کہ اُنکی اولاد ذیادہ سے ذیادہ پڑھ لکھ جائے۔لیکن افسوس کے ٹاپر ہونے کے باوجود بھی وہ ایک دبو سی لڑکی تھی جو کم ہی اپنے لیے سٹینڈ لیتی تھی۔

”تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔؟؟؟ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔واہ بھئی کیا کہنے تم لوگوں کے۔۔۔“  اس ٹھوس دلیل پر پہلے تو وہ گڑبڑائی لیکن پھر اپنے اعتماد کو پل میں بحال کرتی ہوئی تڑخ کر بولی تو اپنی اپنی کلاسوں کی جانب جاتے سٹوڈنٹس رک کر اُنھیں دیکھنے لگے۔

”سنو قندیل۔۔۔بہت ہوگیا ہاں۔۔۔بس کرو اب۔۔۔جب میں کہہ رہی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم تمھاری اسائنمنٹ کا تو تم مان کیوں نہیں لیتی۔۔۔؟؟؟“  تھوڑا گھبرا کر بولتے ہوئے حرمین نے اپنا دفاع کرنا چاہا تو آگے سے وہ مزید بگڑگئی۔

”اچھا۔۔۔میں بس کروں۔۔۔تو ٹھیک ہے پھر۔۔۔ابھی کہ ابھی یہاں چیکنگ کرواؤ مجھے۔۔۔خود ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔۔۔“  ناک کے نتھنے پھیلاتے ہوئے اب وہ پلین کے مطابق اگلی کاروائی پر اتر آئی اور کسی کو بھی کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر اُس کے کندھے سے سلور بیگ جھپٹ لیا۔

شام ٹیک ہٹاتے اب سیدھا کھڑا ہوگیا اور ابھرے ہوئے مضبوط سینے پر بازو باندھے دلچسپی سے سب دیکھنے لگا۔

اہانت کے شدید احساس سے حرمین کا روم روم کانپنے لگا۔وہ چاہ کر بھی قندیل کو ایسا کرنے سے روک نہیں پارہی تھی۔چشمے کے پار تیزی سے بھیگتی ہوئی گہری کالی آنکھیں اطراف میں گھومیں تو شام سمیت اُسکے دوستوں کو اپنی جانب متوجہ پاکر اُسکا رنگ مزید پھیکا پڑا۔وہ اس سمے بلاوجہ یونی کے سب سے ڈیشنگ مگر پلے فل گروپ کی توجہ کا مرکز بنی بیٹھی تھی۔اُنکی آمد کی ٹھوس وجہ جاننے سے فی الحال قاصر تھی۔شرمندگی سے لب کچلتی وہ سرعت سے نظریں پھیر گئی لیکن تبھی اپنے بیگ سے کسی اور کی اسائنمنٹ نکلتی دیکھ کر صحیح معنوں میں اُسکے ہوش اڑے تھے۔

”ی یہ۔۔۔۔کیسے؟؟؟“  بےیقینی اس قدرتھی کہ اُسے بولنا بھی محال لگا۔علیزہ کا بھی منہ کھلا تھا یہ دیکھ کر جبکہ قندیل کے لب شاطرانہ انداز میں مسکرائے۔

”دیکھا۔۔۔میں نہ کہتی تھی کہ میری اسائنمنٹ تمہی نے چرائی ہے۔۔۔اب بولو مس ٹاپر۔۔۔کہاں گیا تمھارا سارا کونفیڈینس۔۔۔؟؟؟نہیں نہیں۔۔۔مس ٹاپر کیوں۔۔۔۔بلکہ مس چورنی۔۔۔“  بنا کسی خطا کے اُسکے ماتھے پر سرعام چورنی کا ٹیگ چپکاتے ہوئے وہ بالکل بھی نہیں جھجکی تھی۔

شام نے اُسے داد دینے والی نظروں سے مسکرا کر دیکھا جوصرف اُسکے ایک بار پیار سے کہنے پر اُسکی مدد کو فوری سے بیشتر تیار ہوگئی تھی۔

سٹوڈنٹس کے درمیان چہ مگوئیاں ہونے لگیں تو حرمین کی نم آنکھیں احساس توہین کی شدت سے چھلک پڑیں۔

”برو۔۔۔یہ سب تیرا پلین تھا کیا۔۔۔؟؟؟“  اُسے دلکشی سے مسکراتا دیکھ   کر فواد نے اُسکے کان میں تقریباً گھس کر تصدیق چاہی۔

”یپپ۔۔۔اور اب اینٹری مارنے کا ایگزیکٹ ٹائم آگیا ہے۔۔۔۔“  شام نے  کندھوں سے بلیک ٹی شرٹ اوپر اچکاتے ہوئے اسٹائل سے جواب دیا تو اپنی بھنویں اوپر اٹھاتے ہوئے اُن دونوں کے لب بےاختیار او کی شیپ میں ڈھلے تھے۔

اگلے ہی لمحے وہ بڑی سنجیدگی سے جینز کی پاکٹس میں ہاتھ پھنسائے قدم قدم چلتا ہوا حرمین کے پہلو میں جاکر کھڑا ہوگیا۔اتنا کہ اُسکا مضبوط کندھا اُسے چھونے لگا۔حرمین جھٹکا کھا کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔اُسکی یہ حرکت شدت سے محسوس کرتے ہوئے شام کی بادامی رنگ آنکھوں میں ناگواری در آئی۔اگلے ہی پل وہ گہرا سانس بھرتا ہوا مجبوراً ضبط کرگیا۔وہ بھلا ایسے گریز کا کہاں عادی تھا۔لڑکیاں تو اُسکے ساتھ چپکے رہنے پر ذیادہ انٹرسٹڈ ہوتی تھیں۔افروز اور جواد وہی پر کھڑے رہ کر لائیو ڈرامہ انجوائے کرنے لگے۔

”ابے یار۔۔۔۔اپنے شام کے پٹانے کا انداز تو اِس بیچاری چڑیا پر کافی بھاری پڑگیا۔۔۔۔“  افروز کمینگی سے بولتے ہوئے دھیما سا ہنسا تو جواد نے بھی مسکرا کر تائیدی انداز میں سرہلاگیا۔

”جانے دو قندیل۔۔۔کیا ہوگیا ہے یار۔۔۔ضروری تو نہیں یہ سب حرمین نے کیا ہو۔۔۔ہوسکتا ہے کسی نے مذاق میں آکر ایسا کردیا ہو۔۔۔“  خود کو بمشکل کمپوز کرتے ہوئے وہ قدرے نرمی سے گویا ہوا  تو جانے کیوں شام کے بولنے پر حرمین کو حیرت کے ساتھ ساتھ مزید رونا بھی آیا۔

”لیکن۔۔۔میری اسائنمنٹ اسی کے پاس سے ملی تھی۔۔۔“  قندیل شام کی بات پر دھیرے سے منمنائی تھی جبکہ اُسکے یار کہنے پر دل میں ہلکی ہلکی گدگدی سی ہوئی۔

”اووو رئیلی۔۔۔اُسکے آنسو دیکھو۔۔۔کیا یہ تمھیں کہیں سے بھی جھوٹے لگتے ہیں۔۔۔؟؟؟نہیں ناں۔۔۔؟؟؟ہم سب جانتے ہیں کہ حرمین ایسی لڑکی نہیں ہے۔۔۔الٹا وہ تو دوسروں کی ہیلپ کرتی ہے۔۔۔۔“  اُسکے انداز سے پل پل ٹپکتی اپنائیت پر حرمین سمیت باقی سب تو حیران ہوئے ہی تھے،قندیل بھی اُسکی ایکٹنگ کی فریفتہ ہوچکی تھی۔

حرمین نے آنکھیں پھیلائے شام کی طرف دیکھا تھا جسکی گہری آنکھیں اُس کے سانولے بھیگے ہوئے نقوش پر ہی ٹھہری ہوئی تھیں۔حرمین کے دل کی دھڑکنوں نے ایکدم ہی تیز رفتار پکڑلی تھی جسکی وجہ یقیناً اُس کا مخصوص انداز تھا۔

کچھ سٹوڈنٹس اپنی اگلی کلاس میں لیٹ پہنچنے کے ڈر سے وہاں سے چپ چاپ کھسک گئے جبکہ کچھ لاپرواہ بنے وہی پر کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔البتہ اُنکی کھسرپھسر میں چند نئی سرگوشیوں کا اضافہ ہوا تھا جو یقیناً شام اور حرمین کے متعلق تھیں۔

شام کی عجیب نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ لب بھینچے اگلے ہی پل اپنی بھیگی نظروں کا رُخ سرعت سے بدل گئی۔دوسری بار اُسکا یہ انداز شام کو اندر ہی اندر پیچ وتاب کھانے پر مجبور کرگیا تھا۔ ماؤف ہوتا دماغ اور شدت سے دھڑکتا دل اس وقت بےشمار الجھنوں کا شکار تھا کہ وہ کچھ سوچنے سمجھے کی حالت میں نہیں تھی۔

پہلے چوری کا الزام۔۔۔

پھر اُسکی تصدیق ہوجانا۔۔۔

اور پھر ایسےلڑکے کا حمایت میں بولنا جسکا دور دور تک اُس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔۔

آگے جانے اور کیا کیا ہنگامے ہونے والے تھے۔۔۔۔؟؟؟

”شام بالکل ٹھیک بول رہے ہیں قندیل۔۔۔ضرور یہ کسی اور کی شرارت ہے۔۔۔۔حرمین بےقصور ہے۔۔۔“ اُسی کے ساتھ ملوث قندیل کی دوست نے بھی ہمددری بانٹتے ہوئے ہلکا سا ٹکڑا لگایا تھا۔ 

”شاید تم سب ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔آئی ایم سوری حرمین۔۔۔۔مجھے تمھیں اس طرح بالکل بھی ٹریٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔“  شام کے نامحسوس انداز میں کیے جانے والے اشارے پر شرمندہ ہونے کی بھرپور اداکاری کرتے ہوئے  قندیل نے حرمین سے جھٹ معذرت کی تو وہ اُسکے ایکدم سے بدلتے تیوروں پر اُسے دیکھ کر رہ   گئی۔

”اٹس اوکے۔۔۔“  کچھ توقف کے بعد کمزور آواز میں بولتی ہوئی وہ برہم سی دکھائی دی اور مزید کچھ بولے بغیر سٹوڈنٹس کے بیچ سے نکلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

”اوور ایکٹنگ۔۔۔۔“  آنکھیں گھماتا ہوا وہ حقارت سے بڑبڑایا اور قندیل کو اُسکی خوش آمد مسکراہٹ سمیت اگنور کرتا ہوا تیزی سے اُسکے ہمقدم ہوا۔

”آپ ٹھیک ہیں مس حرمین۔۔۔۔؟؟؟“  لہجے میں واضح فکر تھی جس پر وہ چونک کر رکی نہیں تھی۔

”جی۔۔۔۔“  اپنے پھر سے بہتے آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اُسنے اپنی موجودہ حالت کے برعکس ایک لفظی جواب دیا تھا۔

” گڈ۔۔۔۔آپ کو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی ٹینشن لینی بھی نہیں چاہیے۔۔۔“  وہ بات بڑھانے کی کوشش میں اُسے مزید الجھا گیا تھا۔

دور سے اس نئے کپل کا بخوبی نظارہ کرتی رابعہ کی آنکھیں جل اُٹھی تھیں۔دوسرے ہی پل وہ دل برداشتہ ہوتے ہوئے پیرپٹختی وہاں سے چلی گئی۔

”تھینک یو۔۔۔۔“  رک کر شام کی جانب مُڑتی ہوئی وہ مروتاً ہلکا سا مسکراکر بولی تو شام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

اس سے پہلے کہ اُسکی دلکشی  کا جادو واقعی حرمین کے کمزور سے دل پر چلتا وہ اُسکے وجیہہ چہرے پر سے اپنی نظریں ہٹاتی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکلتی چلی گئی اس بات سے قطعی بےخبر کہ وہ اپنے گریز کے باعث شام کی بھڑکتی ضد کو مزید ہوا دےچکی تھی۔کچھ فاصلے پر ہوکر چلتی علیزہ بھی اُس کے پیچھے سرعت سے لپکی۔

حرمین کی پشت پر بغور نظریں جمائے شام کے نرم تاثرات یکدم سرد ہوئے تھے۔

”مان گئے برو۔۔۔۔تیرا دماغ پڑھائی سے ذیادہ لڑکیوں کو پٹانے میں تیز چلتا ہے۔۔۔۔“  اُسکے کندھے پر ہاتھ مارتا ہوا طنز کا نشتر چلانے والا یہ جواد تھا جس پر افروز بھی کھل کر ہنسا تھا۔

”ذیادہ بکو مت۔۔۔۔یہ ٹاسک تھوڑا ٹف ضرور ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ دلچسپ لگا ہےمجھے ۔۔۔بس کچھ دن اور۔۔۔پھرمیری جیت کے ساتھ ہی یہ چیپٹر بھی جلد ہی کلوز ہوجائے گا۔۔۔۔“  اُسکے انداز میں شدت تھی جو نجانے آگے جاکر حرمین کی بظاہر خوشنماء زندگی میں کیا رنگ لانے والی تھی۔۔۔

**********

”کر آئی ہو اپنی ساری شاپنگ۔۔۔۔؟؟؟بڑی دیر لگادی آنے میں۔۔۔اور نیناں۔۔۔ وہ تمھارے ساتھ نہیں آئی۔۔۔۔؟؟؟“  وہ پھولے ہوئے منہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو نفیسہ بیگم نے شاپرز پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

”جی۔۔۔کر آئی ہوں اپنی ساری شاپنگ۔۔۔۔اور نیناں کو گھر جلدی جانا تھا اسی لیے وہ نہیں آئی میرے ساتھ۔۔۔“  حاویہ نے جواب دے کر ہاتھ میں پکڑے چند شاپرز باہر رکھے صوفے پر پھیلائے اور دو کمروں کے سامنے سے گزر کر نفیسہ بیگم کے پیچھے کچن میں جاتے ہوئے وہی چیئر پر بیٹھ گئی۔نیناں کے اصرار پر وہ راستے میں اُسے منہ بگاڑکر اپنی اور اُس پولیس والے کی ساری سٹوری بتا چکی تھی۔نیناں کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی اور اوپر سے وہ اُسے اُس کھڑوس کے نام سے چھیڑنے بھی لگی تھی تبھی وہ اُس سے ناراض ہوکر اکیلی گھر واپس چلی آئی۔ایک پل کو تو اُسنے خود کو خواہ مخواہ کالج سے چھٹی کرنے پر بھی کوسا تھا۔

” کیا بات ہے حاویہ۔۔۔سب خیریت تو ہےناں۔۔۔تمھارا منہ کیوں اترا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟“  اُسکی طرف سے ہنوز خاموشی کا احساس پاتے ہوئے چائے بناتی نفیسہ بیگم نے پلٹ کر اُسکا گم سم چہرہ بغور دیکھا۔

”بس تھکاوٹ سی چڑھ گئی ہے ماما۔۔۔اپیہ نہیں آئیں ابھی تک یونی سے۔۔۔“  نفیسہ بیگم کے یوں استفسار کرنے پر حاویہ کو بے ساختہ اُس کتے اور پولیس آفیسر کا خیال ایک ساتھ آیا تو وہ اپنے انداز میں تھکاوٹ ظاہر کرتی اصل بات چھپاگئی اور خود سے دھیان ہٹانے کی خاطر حرمین کی بابت پوچھنے لگی۔

”بس آنے ہی والی ہوگی۔۔۔۔وہ آجائے پھر اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔۔۔“  نفیسہ بیگم اطمینان سے جواب دیتی ہوئی واپس اپنے کام میں مگن ہوگئیں جبکہ حرمین کے ذکر پر اُنکے لب خوشی سے مسکرااٹھے۔آج اُنھیں نسیمہ آپا نے ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی تھی جو وہ اپنی دونوں بچیوں سے ایک ساتھ شئیر کرنا چاہتی تھیں۔

”جی بہتر۔۔۔تب تک میں اپنا سامان کمرے میں رکھ کر آتی ہوں۔۔۔“  اپنی ہی کیفیت میں گم وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی۔

*****************************

جاری ہے 

تو فرینڈز کیسی لگ رہی ہے آپ کو سٹوری ؟ 

اپنی رائے کا اظہار کرنا نہ بھولئے گا   

 

لائک کمنٹس اور شیئر کرنا نہ بھولئے گا۔

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon K Hisar Main  written by RJ .  Sulagti Yadon K Hisar Main by  RJ is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Rude Hero Tawaif  Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel '' Sulagti Yadon K Hisar Main '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1to 10 

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”سلگتی یادوں کے حصار میں “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel By RJ Continue Novels ( Episodic PDF)

  سلگتی یادوں کے حصار میں ناول    از  آر جے (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages