Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Complete PDF - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 15 June 2022

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Complete PDF

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1 Complete PDF

RJ  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Rude Hero Tawaif  Based Novel Enjoy Reading...

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Epi 1 

Novel Name: Sulagti Yadon K Hisar Main

Writer Name: RJ

Category: Episode Novel

Episode No: 1

سلگتی یادوں کے حصار میں

ازقلم: آر جے

پہلا حصہ پارٹ 1

”چچ چچ چچ۔۔۔۔تم ہار گئے شاہ میر حسن۔۔۔۔دیکھوتم ہار گئے۔۔۔تم ہار گئے۔۔۔“  وہ سامنے کھڑی چیخ چیخ کر اُسکی شکست کا برملا اظہار کررہی تھی اور پھر ساتھ ہی کھنکھناتی آواز میں بلند ہوتے اُسکے  قہقے مقابل کا ضبط ختم کرچکے تھے۔ 

”آآآآ۔۔۔۔بس بہت ہوگیا۔۔۔۔خاموش ہوجاؤ اب۔۔۔۔ایکدم چُپپپ۔۔۔۔نہیں ہوں میں ہارا۔۔۔۔میں کبھی ہار ہی نہیں سکتا۔۔۔کیونکہ آج تک صرف جیت ہی شاہ میر حسن کا مقدر ٹھہری ہے۔۔۔اور ہمیشہ جیتنے والے کبھی ہارا نہیں کرتے۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔سنا تم نے؟؟؟“  اُسنے شدید غصے کے عالم میں پاس پڑا واز اٹھا کر سامنے نظر آتے عکس پر دے مارا تھا اور چیختے ہوئے اپنی واضح شکست کو چند جذباتی لفظوں کی آڑ میں چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

تب تک واز اُسکے آرپار ہوتا دیوار سے لگ کر چکنا چور ہوچکا تھا جس پر وہ طنزیہ مسکراہٹ سمیت اُسکی بکھری حالت دیکھنے لگی۔

”لیکن تم تو ہارگئے۔۔۔خود کی حالت دیکھو۔۔۔کیا بازی جیت جانے والا شخص ایسا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟ تمھارا ازلی غرور آج تمھیں پوری طرح لے ڈوبا ہے شاہ میر حسن۔۔۔اور یہ بات تم سے بہتر اور کوئی جان ہی نہیں سکتا۔۔۔“ اب کی بار وہ  اُسکے سامنے سے غائب ہوکر اُسکی پشت پر نمودار ہوئی تھی اور اُسکے کان کے قریب جھک کر  زہر اگلتے ہوئے اُسے سخت اذیت سے دوچار کرگئی۔

”آخر تم دفعہ کیوں نہیں ہوجاتی میری زندگی سے۔۔۔۔؟؟؟خدارا تنہا چھوڑدو مجھے اور چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔گیٹ لاسٹ۔۔۔گیٹ لاسٹٹٹ۔۔“  حقیقت سے نظریں چراتا وہ پسینے میں شرابور بےبسی سے حلق کے بل چلایا تھا۔ہاں وہ جانتا تھا کہ وہ صحیح کہہ رہی تھی اُسکے انکار سے ذیادہ اُسکی بات میں حددرجہ وزن تھا لیکن کسی کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرنا اُس اناپرست کے بس کی بات نہ تھی۔چاہے پھر وہ کسی بےضرر سی لڑکی کا عکس ہی کیوں ناں ہو۔۔۔

 شاہ میرحسن کی کھوکھلی دھاڑ پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

”لیکن میں تو خود کو تمھاری خلوتوں کا محرم گردانتی ہوں۔۔۔۔پھر کیسے تمھاری زندگی سے دور ہوجاؤں۔۔۔بات وہ کرو جو میرے بس میں ہو۔۔۔۔“  لبوں پر تمسخرزدہ مسکراہٹ سجائے وہ ہر لحاظ سے اُسکا امتحان لے رہی تھی۔

”فی الحال کے لیے میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔۔۔“  وہ اس سمے بےبسی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا جب وہ نفرت سے اُسکی جانب دیکھتی ہوئی اپنی بائیں کلائی سہلانے لگی اور دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہوتی غائب ہوگئی۔

وہ اندر ہی اندر کلستا اب ہر شے تہس نہس کرنے کے درپے ہوا تھا۔

”آبرو۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔آبرو۔۔۔۔“  اِس نام پر سختی سے دانت کچکچاتے ہوئے اگلے ہی پل وہ اپنی شکست تسلیم کرگیا تھا۔

*****************************

ہر رات کی طرح یہ رات بھی سب کے لیے معمول کے مطابق عام سی ہی تھی لیکن دو وجود ایسے بھی تھے جن پر یہ سیاہ رات قہر بن کر ٹوٹ رہی تھی۔جو اس رات کی بھیانک تاریکیوں اور برستی وحشتوں کو شدتوں سے محسوس کررہے تھے۔خوف سے لمحہ بہ لمحہ اُنکے دل کی کمزور پڑتی دھڑکنیں مزید مدھم ہوتی جارہی تھیں۔

”مت کرو۔۔۔خدارا یہ ظلم مت کرو۔۔۔کیوں جانتے بوجھتے یہ گناہ کمارہے ہو۔۔۔۔؟؟؟اُس خدا کے قہر سے ڈرو جس کی لاٹھی بےآواز ہے۔۔۔مت کرو ایسا۔۔۔“  وہ عورت خود کی پرواہ کیے بغیر گڑگڑا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی معصوم بچی کے لیے اُس ظالم سے رحم کی بھیک طلب کر رہی تھی لیکن شاید مقابل کے سینے میں دل کی جگہ پتھر تھا تبھی وہ روتی بلکتی آٹھ سالہ نیلی آنکھوں والی بچی کو بازو سے پکڑتے ہوئے  پشت پر کھڑے آدمیوں کی طرف بے دردی سے دھکیل چکا تھا۔

”چھوڑو مجھے۔۔۔مما۔۔۔بچاؤ۔۔۔مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔مجھے مما کے پاس جانا ہے۔۔۔چھوڑدو مجھے گندے انکل۔۔۔“  جیسے ہی وہ اُسے کندھے پر ڈالے باہر کی طرف لپکے وہ چیختی ہوئی اُن ظالموں سے 

اپنی ماں کی طرح ہی گڑگڑا کر فریاد کرنے لگی۔

لیکن یہ شاید اُن ماں بیٹیوں کی بدقسمتی ہی تھی جو وہاں اُن کی صدائیں سننے والا کوئی بھی انسان موجود نہیں تھا۔وہ آنسوؤں اور زخموں سے چُور تیزی سے اُٹھ کر اُن نقاب پوش آدمیوں کے پیچھے اپنی بیٹی کو چُھرانے کی نیت سے لڑکھڑاتی ہوئی بھاگی تھی لیکن پاس کھڑے نفوس نے سرعت سے آگے بڑھ کر اُسے بازو سے جکڑتے ہوئے بیچ میں ہی روک لیا۔

”چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔۔۔نہیں تو وہ میری بچی کو لے جائیں گے۔۔۔“  وہ تکلیف سے بمشکل بولتی ہوئی اُسکی آہنی گرفت سے مسلسل اپنا بازو چھڑوانے کی نحیف سی تگ و دو کررہی تھی جب اُسنے اُسے زور سے اپنی اوڑھ جھٹکا دیا۔سرخ آنکھوں میں بجھتی بدلے کی آگ اب سرد پڑنے لگی تھی۔گھنی مونچھوں تلے سیاہ لب ہنوزمسکرا رہے تھے جسے دیکھ کر اُسے شدید قسم کی کراہیت محسوس ہوئی تھی۔

”یہ جو بھی میں نے ابھی کیا وہ کوئی ظلم نہیں تھا۔۔۔بلکہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔۔۔جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔۔۔۔اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ بدلے میں کیا پانا چاہتا ہے۔۔۔“  لہجے میں نفرت و حقارت سموئے وہ اُس پر بہت کچھ جتاگیا تھا۔اگلے ہی پل اُسے بےرحمی سے پڑے دھکیلتا ہوا وہ فتح یاب سا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

اِس بات کی پرواہ کیے بغیرکہ زمین پر ڈھیر  پل پل ساکت پڑتے وجود میں سانسیں باقی بھی تھیں کہ نہیں۔۔۔۔ 

*****************************

وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کا گہری نظروں سے بغور معائنہ کررہی تھی۔

سانولی سی رنگت،مناسب قدوقامت،گہرے جامنی رنگ کے سوٹ میں واضح ہوتا دبلا پتلا سا فگر،کمر تک آتی سیاہ گھنے بالوں کی چوٹی،مہارت سے تراشی ہوئی بھنوؤں تلے گہری کالی آنکھیں جن کے ساتھ پلکوں کے نام پر گنتی کے صرف چند بال جڑے تھے۔تیکھی ناک پر ٹکا بڑے بڑے شیشوں والا چشمہ،بھرے بھرے ہلکے سیاہی مائل لب،پچکے گال اور دائیں گال کے بیچ و بیچ چمکتا ہوا موٹا سا کالا تل لیکن وہ اتنی حسین و جمیل تو ہرگز نہیں تھی جو قدرت نے اُسکی نظر اتارنے کے لیے یہ اتنا بڑا تل اُسے عطا کردیا تھا۔

اپنی صورت دیکھتے ہوئے بےساختہ اُسکے دل میں شکوہ ابھرا تھا۔

”تمھارا یہ خوبصورت تِل تمھارے سلونے چہرے پر بہت جچتا ہے۔۔۔اتنا کہ میں چاہ کر بھی اس پر سے اپنی توجہ نہیں ہٹاپاتا۔۔۔“ معاً کانوں میں رس گھولتی بھاری آواز اُسے اپنے بہت قریب سے سنائی دی تھی۔

بےاختیار اپنے تل کو چھوتے ہوئے وہ کھل کر مسکرائی کہ تبھی اُسکی نظریں آئینے میں دکھائی دیتے اپنے سفید دانتوں پر پڑیں جو بدقسمتی سے قدرے ٹیڑھے تھے۔

”تمھیں معلوم ہے جب تم کھل کرمسکراتی ہو تو مجھے کس قدر حسین لگتی ہو۔۔۔یونہی مسکراتی رہا کرو۔۔۔لیکن صرف میرے لیے۔۔۔“  ایک بار پھر سے وہی دلکش آواز اُسکا دل شدتوں سے دھڑکا گئی تھی۔

سیاہی مائل مگر شفاف ہونٹوں پرمعدوم پڑتی مسکان پھر سے زندہ ہوئی تھی۔

”مجھے یقین ہے کہ تم حجاب کی بانسبت کھلے بالوں میں ذیادہ دلکش لگتی ہوگی۔۔۔“  اپنی بالوں کی چوٹی کو پکڑ کر کندھے سے آگے کرتے ہوئے اُسے اُسکا حسرت زدہ لہجہ یاد آیا۔

”تمھارا یہ ظالم چشمہ اِن حسین آنکھوں کا حسن ہمیشہ چرالیتا ہے۔۔۔۔پلیز اسے میرے سامنے مت لگاکرآیا کرو۔۔۔“  اب کی بار آواز میں خفگی تھی اور انداز دھونس بھرا۔

کنپٹی سے لال دستہ پکڑکر چشمے کو اپنے چہرے سے الگ کرتے ہوئے اُسنے اپنی بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھوں کو جھپکایا تھا۔

”اگر تم خود کو میری نظر سے دیکھو تو اپنے آپ کو اِس دنیا کی سب سے حسین ترین لڑکی تصور کرو۔۔۔۔“   اُسکا دلفریب لہجہ اُسکی بکھرتی دھڑکنوں کو مزید بکھیرگیا تووہ مسکراتی ہوئی خود سے ہی شرماگئی۔

”میں اتنی خوش قسمت کب سے ہوگئی جو مجھے اس قدر چاہنے والا شخص مل گیا۔۔۔؟؟؟“  خود کی جھلک آئینے میں دیکھتے ہوئے جہاں وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی وہی اس سوال کے زیرِاثر بےیقینی کا عنصر بھی شامل تھا۔

لیکن کچھ ہی لمحوں میں وہ ذرہ بھر بےیقینی بھی اُسکے وجود میں آباد خوشیوں کے جہاں تلے دب کر رہ گئی تھی۔

********************************

وہ خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا تو وہ توقع کے عین مطابق  گھٹنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی۔

”تیار کیوں نہیں ہوئی ابھی تک۔۔۔؟؟؟“  وہ سخت تیور لیے قدم قدم چلتا اُس تک پہنچا اور اُسکے بکھرے سراپے کو نظروں میں بھرتے ہوئے سر پر کھڑا بازپرس کرنے لگا۔

وہ ایک پل کو اپنے قریب سے آتی مانوس مگر سخت آواز پر چونکی ضرور تھی مگر ہنوز اُسی پوزیشن میں ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔

”میں تم سے مخاطب ہوں۔۔۔“  اُسکی خاموشی پر چبا چبا کر بولتے ہوئے اُسنے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔

”جہاں ماتم کی صفیں بچھی ہوں وہاں کس خوشی کی تمناء کررہے ہیں آپ صاحب۔۔۔۔؟؟؟  گھٹنوں سے ہلکا سا سر اٹھاکر سامنے پڑے نکاح کے سرخ جوڑے کو تنفر سے دیکھتی ہوئی وہ طنزیہ انداز میں غرائی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

اُسکی طرف دیکھا ابھی بھی نہیں تھا۔جیسے ڈر ہو کہ اگر دیکھے گی تو سارا ضبط کھو بیٹھے گی۔

”فضول کی بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔۔چلو شاباش اٹھو اور دس منٹ کے اندر اندر ریڈی ہوکر کمرے سے باہر نکلو۔۔۔اتنا فالتو وقت نہیں ہے ابھی میرے پاس جو تمھارے بےجا نخرے اٹھاتا پھیروں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔“  اُسکے لب و لہجے اور گریز کو بمشکل نظرانداز کرتا ہوا وہ قدرے بےزاری سے گویا ہوا۔

سر تا پیر آگ ہی تو لگا دی تھی قابل کی باتوں نے اُسے۔دوسرے ہی پل دونوں کی نظروں کا زبردست تصادم ہوا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ اُسکی بھیگی مگر بےخوف آنکھوں میں دیکھتا ہوا اپنے دل کی ایک بیٹ مس کرگیا۔

”مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ سے اپنے نخرے اٹھوانے کا۔۔۔آپ بھی کسی خوش فہمی میں مت رہیے گا۔۔۔نہیں ہونا مجھے تیار۔۔۔اور نہ ہی آپ سے کوئی رشتہ جوڑنا ہے۔۔۔دفع ہوجائیں میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔“  سلگ کر چیختے ہوئے وہ اپنے سامنے رکھے سرخ جوڑے پر جھپٹی اور ایک ہی وار میں اُسے بے دردی سے دور اچھال دیا۔

اُسکی ڈھٹائی اور کھلی بدتمیزی کا نظارہ کرتے ہوئے اُسکی چمکتی پیشانی پر رگیں ابھر آئیں تھیں۔اگلے ہی پل اُسکی مومی کلائی کو سختی سے جکڑتا ہوا وہ جھٹکے میں اُسے اپنے مقابل کھڑا کرگیا تو اس اچانک افتاد پر اپنی چیخ روکنے  کی کوشش کرتی وہ لبوں کو سختی سے دانتوں تلے دبا گئی جبکہ دل ایکدم ہی خوف سے پھڑپھڑایا تھا۔اُسکی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی سرخی اُسکے شدید غصے کا پتا دے رہی تھی۔

”اگر نہیں چاہتی کہ تمھاری ماں صدمے سے کل کی مرتی آج ہی مر جائے۔۔۔تو چپ چاپ وہی کرو جو تم سے کرنے کو بولا جارہا ہے۔۔۔اور سب سے مین بات۔۔۔آئندہ پھر کبھی میرے سامنے ایسی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تو مجھ سے کسی بھی نرمی کی امید مت رکھنا۔۔۔۔گیٹ اٹ۔۔۔“  اُسکی پھٹی پھٹی آنکھوں میں شدت سے دیکھتا ہوا وہ ناپسندیدگی کی کاٹ لیے پھنکارا تھا اور اپنی بات مکمل کرتے ہی اُس کو واپس بیڈ پر پٹختا ہوا تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔پیچھے وہ گرنے کے انداز میں لیٹی اپنی بےبسی پر شدت سے رودی تھی۔

****************************

سیاہ آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کا پھیلا ہوا وسیع جال اور پرسکون سی ٹھنڈی روشنی بکھیرتا چاند قدرت کا حسین ترین منظر پیش کررہا تھا۔

اسی حسین چاندنی رات تلے کوٹھے کا بڑا سا ہال نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا جہاں خوبصورت دوشیزاؤں کا دل بہکا دینے والا رقص اپنے جوبن پر تھا۔اردگرد بیٹھے موصوف اس دلچسپ نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مزے سے جام نوش فرمارہے تھے لیکن بس ایک وہی تھا جس نے کسی بھی قسم کا مشروب لینے سے انکار کردیا تھا۔

”یار کب آئے گی وہ ملکہِ حسن۔۔۔۔؟؟؟اب ہم سے مزید انتظار نہیں ہوتا۔۔۔“  وہاں پر بیٹھے پینٹ کوٹ میں ملبوس پچاس سالہ مرد کے چہرے پر بیزاری سے ذیادہ بے چینی کے تاثرات واضح ہورہے تھے۔اُسکی حالت سمجھتے ہوئے وہاں پر بیٹھے بہت سوں کے چہروں پر حظ اٹھاتی مسکراہٹ بکھرگئی۔

یہ دیکھ کر نجانے کیوں اُسے بھی شدت سے خواہش ہوئی تھی اُس لڑکی کو دیکھنے کی جسکے حسن کے چرچے اس رنگین محفل میں زبانِ زد خاص و عام ہورہے تھے۔

تو کیا بھلا وہ اُسکی حسین و جمیل شریکِ حیات سے بھی ذیادہ خوبصورت ہوسکتی تھی جسے وہ آج ہی پورے حق سے اپنے نام کرکے آیا تھا اورجسکا وہ پوری طرح دیوانہ ہوچکا تھا۔۔۔؟؟؟

اس سوچ پر اُسکے دل میں ہلکی سی بغاوت نے سراٹھایا تھا۔

موسیقی کے اختتام پر ایکدم سے اطراف میں نیم اندھیرا چھایا تھا۔تبھی خاموشی میں گونجتی گھنگھروں کی مخصوص چھنکار نے جہاں سب کو اپنے کان کھڑے کرنے پر مجبور کردیا تھا وہی اُسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔اگلے ہی پل چہار سو  مختلف رنگوں کی روشنیوں کا طوفان برپا ہوا تھا اور وہ چہرے پر سرخ  گھونگھٹ اوڑھے اپنے ہوشربا حسن سمیت سب کے سامنے اپنے دلنشین انداز میں جلوہ ِ افروز ہوئی تھی۔مرد حضرات کی تالیوں اور سیٹیوں کے اختتام پر نئے گانے کے دلنشین سُر شروع ہوئے تو وہ مہارت سے اپنی لچکتی کمر کے ساتھ سارے وجود کو دلنشین انداز میں حرکت دینے لگی۔ 

”ملکہِ حسن کی ہر ادا ہی دلفریب ہے۔۔۔۔کمال ہے۔۔۔۔لاجواب ہے۔۔۔۔“  ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اُس پر بڑے بڑے نوٹوں کی بارش برسادی۔اُسکا رقص مزید تیز ہوا تھا جو کہ قابلِ تعریف تھا۔

 گھونگھٹ کے پار اُسکا نوخیزحسن دیکھنے کو حددرجہ بےتاب ہوتا وہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔معاون لڑکیوں کے بیچ  گول گول گھومتی ہوئی وہ ایکدم ہی گھٹنوں کے بل زمین پر جھکی تھی اور پھر واپس سیدھی ہوتی ایک جھٹکے میں اپنا گھونگھٹ حسین چہرے پر سے اٹھا کر پیچھے دھکیل دیا۔صبر کی گھڑیاں ختم ہوچکی تھیں۔اُسکے دیدار پر جہاں سارے تماشائیوں کی آوارہ سیٹیاں ایک بار پھر سے سپردِ فضا ہوتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بےہنگم ہوئی تھیں وہیں اُس کا زوروں سے دھڑکتا دل بےساختہ بند ہوا تھا۔

*****************************

جاری ہے

لائک کمنٹس اور شیئر کرنا نہ بھولئے گا۔

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.

"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.

Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Yadon K Hisar Main  written by RJ .  Sulagti Yadon K Hisar Main by  RJ is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Rude Hero Tawaif  Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel '' Sulagti Yadon K Hisar Main '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Sulagti Yadon K Hisar Main By RJ Episode 1  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”سلگتی یادوں کے حصار میں “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Sulagti Yadon K Hisar Main Novel By RJ Continue Novels ( Episodic PDF)

  سلگتی یادوں کے حصار میں ناول    از  آر جے (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

 

Islamic True Stories

سچی کہانی 

جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک 

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے

If You Read this STORY Click Link

LINK

 

 

 

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages