Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 111 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 27 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 111 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 111 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 111

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 111

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 111

※※※※※※※

نادیہ جس کی آنکھ لگ چکی تھی اچانک سے گاڑی کے جھٹکا لگنے پر آنکھ کھول ڈر سامنے دیکھ گئی 

وہ اپنا منہ ڈھاپے ہوئے تھی ، وہ بوجھل آنکھوں سے سرسری سا روڈ دیکھ خوشی سے مسکرا گئی ؛۔

یہی اتار دو ۔۔۔ میں آگے خود چلی جاؤں گئی ، وہ اپنے کالج کا روڈ دیکھ سرسری سی نگاہ جمال کے چہرے پر ڈال بولی 

وہ جو بہت آرام سے گاڑی چلا رہا تھا اسنگلر دیکھ گاڑی روک اُسکے خود پہ اٹھی نظروں میں دیکھ گیا ۔ 

وہ چہرہ ڈھانپے ہوئے بھوری چھوٹی آنکھوں سوجھی آنکھوں میں پل بھر کے لیے اُسکا کھونے کا احساس بخش گئی ۔

نادیہ جو گاڑی رکتی دیکھ گئی تھی ، جمال کو ویسے ہی چھوڑ گاڑی سی نکلی ، جمال پل میں ہوش میں آیا تھا ؛۔

سنو ،۔۔۔۔ جمال گاڑی سے نکل اُسکے پیچھے لپکا جو خود کی حالت کو اگنور کیے آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی 

نادیہ کے قدم یکدم سے رکے تھے ۔ وہ بھیگی آنکھوں سے سامنے ہی مان کو دیکھ گئی ، ماضی کا پیار تھا یہ غلطی وہ ۔۔۔۔ 

اُسکو دیکھ چونکی تھی ۔ مان جو فون پر برہان سے بات کر رہا تھا ، اچانک سے نادیہ کو دیکھ ساکت ہوا ؛۔

نادیہ کی آنکھیں جو پوری طرح بھیگ چکی تھی، مدھم سی ہوتی بند ہونے کو ہوئی وہ مرے قدموں سے ایک قدم اٹھاتے آگے ہوئی ۔۔۔

نادیہ ۔۔۔۔۔۔!! مان کو لگا تھا جیسے اُسکا دل بیٹھ جائے گا وہ اُسکی حالت دیکھ پوری طرح لرز اٹھا تھا 

تبھی نادیہ کا وجود بے جان ہوتے گرنے کو ہوا مان تیز ی سے لپکتے اُسکو تھام گیا وہ بے جان ہوتی بھیگی آنکھیں اُسکے چہرے پر ٹھکانے بہوش ہوئی 

جمال بھی تیزی سے قریب آیا تھا ، نادیہ ،۔۔۔۔ مان اُسکے ہونٹ کے کنارے پر لگے خشک خون کو دیکھ حیران ہوا تھا ؛۔

ہمیں ہسپتال لے کر جانا ہوگا ، جمال جو مان کو دیکھ حیران ہوا تھا بولتے ساتھ ہی ہوش میں آنے کا بولا تو وہ تیزی سے نادیہ کو اٹھاتے جمال کے ہمراہ ہسپتال کے لیے بھاگا ۔

نادیہ یہاں تمہارے ساتھ آئی ۔۔؟ برہان جو مان کے ساتھ فون پر تھا سب کچھ سن مان سے پوچھ گیا تو مان نے اُسکو ہسپتال آنے کا بولا ۔ 

ابھی مان نادیہ کو دیکھتے روم کے باہر کھڑا تھا اور برہان جمال کے ساتھ کھڑا اُس سے دریافت کر گیا ؛۔

 میرے ساتھ ہی آئی ہے ، میں نہیں جانتا وہاں کیا ہوا ۔ مجھے صرف یہ روڈ پر ملی تھی ۔۔

جمال سرسری سا بتاتے برہان کو بولا تو وہ مان کو دیکھ اُسکی طرف لپکا ۔ 

  مان تم گھر جاؤ میں یہاں نادیہ کے پاس ہوں ، میں نے خالہ اور ماموں کو کال کر دیا ہے وہ لوگ آتے ہی ہونگیں۔ 

برہان مان کو پریشان دیکھ اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا تو وہ غصے سے لال ہوتی آنکھیں برہان کی طرف پھیر گیا ؛۔

“ خدا ایسے ماں باپ کسی بیٹی کو نہ دیں، یہ فیصلہ کیا تھا نادیہ کی زندگی کا ۔۔۔۔؟ وہ دبی آواز میں درد سے بولا 

برہان جانتا تھا سب کچھ جانتا تھا اُسکی آنکھوں میں نادیہ کے لیے وہ ہمدردی دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔

ٹھیک کہا تم نے ۔ لیکن فحال مان تم یہاں سے جاؤ ، برہان نے اُسکو صاف جانے کا بولا تو وہ ایک نظر نادیہ کو شیشے سے دیکھ آرام سے گیا ۔

ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ ابھی مان جانے کے لیے آگے بڑھا تھا کہ ڈاکٹر کو دیکھ ان کے قریب گیا ۔

برہان اور جمال بھی قریب ہوئے تھے ، دیکھیں مریض ابھی بہوش ہے ۔ گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے ، 

ہاں اُن کا اچھے سے خیال رکھیں ، وہ بہت کمزور ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کرے 

ان کے ساتھ ان کا بچہ بھی کافی کمزور ہے ڈاکٹر نے پیشہ وارنہ انداز میں بولا تو سبھی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ؛۔

“ تھینک یو  برہان نے ڈاکٹر کو جواب دیا ، مجھے نہیں لگتا نادیہ کو اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہیے ۔ وہ ضبط کرتے بولا 

مان ۔۔۔۔۔ وہ اُسکے ماں باپ ہیں ، تم کوئی نہیں ہوتے یہ سب فیصلہ کرنے والے ۔ ابھی جاؤ ۔۔۔۔ برہان دو ٹوک بولا تو مان ایک چوٹکی سی نگاہ جمال پر ڈالتے وہاں سے واک آوٹ کر گیا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ بہت افسوس ہوا ۔۔۔ نادیہ بچی کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ اللہ کسی کی بچی کے ساتھ نہ ہونے دے ۔

سلطان شاہ جو ضبط کرتے بیٹھے ہوئے تھے ، دھمیے سے بولتے نادیہ کے ماں باپ کو دیکھا جو شرمندگی سے سر اور نظریں دونوں جھکائے بیٹھے تھے ۔ 

بھائی صاحب فیصل بھائی نے ہمیں اس رشتے کا بولا تھا یقین جانے ہم پہلے کچھ بھی نہیں جانتے تھے ؛۔

نادیہ کی ماں روتے بولی تو ناز بیگم نے خنذ نظروں سے ان کو گھورا ۔ 

شبانہ اور حمیدہ بھی اپنی بہن کے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی ، سب کو جھٹکا لگا تھا نادیہ کی حالت دیکھ کر ؛۔

جو ہونا تھا وہ ہو گیا ، ابھی میں کسی کو کچھ کہنے والا نئیں ہوں، نادیہ کی زندگی کا فیصلہ تم ماں باپ نے کیا تھا 

تمہارا حق بنتا تھا ، اب وہ فیصلہ جو بھی رنگ لایا اُسکو بھول اپنی بیٹی کی آگے کی زندگی کے بارے میں سوچو 

فیصل شاہ سے جو بھی سوال پوچھنے ہوں تم لوگ خود پوچھو جب پہلے بیٹی کے رشتے کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کی تھی 

تو ابھی بھی مجھ سے کوئی شکایت مت کرو ، سلطان شاہ نے صاف ہاتھ اٹھایا تو نادیہ کے ماں باپ نے ایک دوسرے کو دیکھتے باقی سبھی بیٹھے لوگوں کے نفوس دیکھے ۔ 

“ آیت آپی میں نے پوری کوشش کی تھی اس گھر کو بسانے کی ۔ لیکن شاید میری قسمت مجھ سے ناراض ہوئی پڑی ہے ، 

نادیہ روتے آیت کے ساتھ لگے اپنا دل ہلکا کر رہی تھی ، آیت جو اُسکی پشت کو سہلا رہی تھی اُسکی شروع سے لے کر آخر تک کی ساری باتیں سن خود رونے کا کام پڑ چکی تھی ؛۔

“ جب قسمت مجھ پر مہربان ہونے لگی تھی ، اُس انسان نے میرا یقین نہیں کیا ۔ نادیہ اپنا سر اٹھاتے آیت کو دیکھ پھر روئی تو آیت اُسکا درد دیکھ اُسکو خود میں بھنچ گئی ؛۔

بھول جاؤ سب کچھ ۔۔۔۔۔۔ نادیہ ۔۔۔۔۔ شکر کرو تم زندہ سلامت گھر پہنچ گئی ہو ، اللہ ہر چیز کا انصاف کرے گا ۔ 

چھوڑ دو اللہ پر ۔۔۔۔ دیکھنا ان لوگوں کا کیا انجام ہوتا ہے ؛۔

آیت اُسکو صبر کرنے کا بولی تو وہ سرد پڑتی مسکراہٹ چہرے پر رینگ گئی ؛۔

چھوڑ ہی تو دیا ہے آپی سب کچھ ۔۔۔۔! سبھی چاہتیں سبھی راستے ۔۔۔۔ چھوڑ دئیے ۔۔ 

وہ ویسے ہی روتے بولی تو آیت اُسکے الفاظ میں چھپا درد اچھے سے محسوس کر گئی ؛۔

آیت بیٹا تم جاؤ ۔۔۔۔ برہان باہر تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔ ہم لوگ کچھ دیر میں تمہارے ماموں کے ساتھ آ جائیں گئے ۔ 

حمیدہ بیگم آیت کو برہان کے آنے کا بتاتی بولی تو آیت نقاب کرتی نادیہ سے ملتے کہ وہ پھر آئے گئی آرام سے باہر کی راگیری کی اوڑھ چلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔ 

جمال جو ابھی وہاں اسلم شاہ کے ہمراہ آیا تھا ، آیت کو سامنے سے نقاب میں آتے دیکھ روکا ۔ 

کیسی ہو بیٹا ۔۔۔۔؟ اسلم شاہ جو جمال کے ساتھ تھے ، اپنے بیٹے کو خاموش روکتے دیکھ چوٹکی سی نگاہ اُس پر ڈالتے آیت کے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا 

میں ٹھیک ۔۔۔۔ وہ کالی سیاہ آنکھوں کو پوری طرح اسلم شاہ پر ٹکا بولی ۔ 

اسلم شاہ آرام سے آگے بڑھے وہ جانتے تھے جمال کا دل آیت کے لیے دھڑکتا ہے ۔ 

آیت بھی تیزی سے آگے بڑھی ، مبادا کہیں برہان آ نہ جائے آخر اُسنے بھی تو ان لوگوں کو گھر میں آتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ 

آیت جی ۔۔۔۔۔ جمال اُسکو خود کے قریب سے گزرتے دیکھ دھیمے سے پکار اُسکی طرف پلٹا تو آیت جس کے قدم اپنا نام سن رکے تھے ۔ 

پلٹتے بنا ہی سامنے کالی سیاہ آنکھوں کی بھاڑ اٹھاتے دروازے سے باہر لان میں برہان کو فون پر مصروف دیکھ ڈری ؛۔

جانتا ہوں ، ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے ، جس کی نسبت آپ یہاں کھڑی ہو کر میری بات سنے 

میں جان چکا ہوں ، میرا راستہ اور آپ کا راستہ بہت الگ ہے ، اس قدر الگ کہ میں چاہ کر بھی آپ تک پہنچ نہیں سکتا ۔

لیکن کچھ باتیں ہیں جو مجھے بہت اذیت دیتی ہیں ، ایک بار آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ 

کیا ایک بار ۔۔۔ صرف آخری بار آپ مجھے سن سکتی ہیں۔۔۔۔؟ آپ نے کہا تھا نہ ۔۔۔ کہ اللہ سے دل لگاؤ منزل مل جائے گئی ۔۔۔۔ 

وہ ویسے ہی اُسکے پیچھے کھڑا بول رہا تھا اور آیت جو سامنے آنکھیں اپنے شوہر پر ٹکائے کان جمال کی باتیں سنے میں مگن کی ہوئی تھی ۔۔۔

اُسکے ایک بار پھر سے ملنے کی التجا سن اندر تک کانپی ۔ وہ ایک بار پہلے اُس سے ملنے کا نتیجہ دیکھ چکی تھی ؛۔

اگر مناسب لگے تو کیا ۔۔۔۔ جمال اپنی بات مکمل کرتا اُسکے جواب کا منتظر ہوا ۔ 

بالکل بھی نہیں ۔۔۔ وہ تیزی سے بولی تھی اور آگے بڑھی تھی ۔ 

آپ نے کہا تھا کہ کسی کو نیک راستے پر لے جانے کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے تو چلے جانا چاہیے ۔ کیا آپ مجھے ایک بار نیک راستے پر چھوڑ نہیں سکتی ۔۔؟ 

وہ اپنی تھوڑی سے بلند آواز کرتا بولا تو آیت جو گیٹ سے باہر ایک قدم رکھ چکی تھی پھر سے رکی ؛۔

 ٹھیک ہے شاہ ہاؤس میں آپ جب آئے تب بات ہوگئی ، وہ پلٹتے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے بنا مزید کچھ سنے تیزی سے ڈور سے باہر نکل بڑھی ۔

جمال کا چہرہ ہلکے سے مسکرایا تھا، وہ خوش ہوا تھا کہ وہ جیسے بھی ایک بار پھر اُسکو سننے کا موقعہ دے رہی تھی ؛۔

دھیان ۔۔۔۔۔۔۔!! جمال جو آگے بڑھا تھا نادیہ کو اچانک سے گرنے سے بچاتے ساتھ ہی اُسکو سہارا دیتے مظبوطی سے پکڑا ۔

نادیہ جو لاوئج سے نکلی تھی ، گرنے سے بچتے سرسری بھوری آنکھیں جمال کے چہرے پر ٹکا گئی ۔،

شکریہ ۔۔۔۔ وہ جلدی سے سنبھلتی بولی ساتھ ہی اپنا دوپٹہ جو سر سے نیچے سلک گیا تھا سیٹ کر گئی ؛۔

جمال نے غور سے اُسکو دیکھا تھا ، صاف رنگت سے بھرپور چہرہ سوجھی لال ہوتی آنکھیں ہونٹ کے نیچے زخم کا نشان جو سیاہ پڑ چکا تھا ۔ 

مقابل اُسکی لال آنکھوں کو دیکھ جیسے کھونے کو ہوا وہ تیزی سے خود کی نظروں کو پھیر ہوش میں آیا ؛۔ 

کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔؟ نادیہ جو اُسکے ایسے دیکھنے پر حیران ہوئی تھی کنفیوز ہوتی پلٹی کہ اُسکی پھر سے سرگوشی نما آواز سن اُسکا دیکھ گئی ۔

میں ٹھیک ۔۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔۔۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولتے جمال کا چہرہ دیکھ گئی ۔ اُس دن کے لیے آپ کا شکریہ ۔ نادیہ نے موقعہ دیکھتے ساتھ ہی شکریہ ادا کیا ۔ 

میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا ، شکریہ والی اس میں کوئی بات نہیں ہے ، جمال اُسکے ہلکے گلابی ہونٹوں کو آپس میں ملتے دیکھ نظریں ادھر ادھر پھیر گیا ؛۔

نہیں جمال صاحب ۔۔۔۔۔ یہ دنیا بہت گری ہوئی ہے ، ہر راہ گیر اچھا انسان نہیں ہو سکتا ۔ 

نادیہ کی آنکھیں یکدم سے بھری تھی جمال کے دل نے ایک بیٹ مس کی ؛۔

جمال ۔۔۔۔ نادیہ کے پاپا جو جمال کو دیکھ گئے تھے ، وہی آئے تو نادیہ آرام سے آگے بڑھی ۔۔۔ 

جمال کی نظروں نے دور تک اُسکا پیچھا کیا تھا ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چلو ۔۔۔۔۔۔۔ برہان جو روم میں داخل ہوا تھا آیت کو کھڑکی کے پاس کسی سوچ میں ڈوبے دیکھ تیزی سے بازو پکڑتے کبرڈ کی طرف بڑھا ؛۔

کہاں ۔۔۔؟؟ آیت جس کی آنکھیں بھیگی تھی ، جلدی سے اپنے ہاتھ کی مدر سے آنسو صاف کر گئی ؛۔

جلدی سے یہ پہن کر آو ۔۔۔۔ ہم باہر جا رہے ہیں ، وہ آیت کے کپڑوں میں سے ایک ڈریس فائنل کرتے اُسکے ہاتھ میں تھاما گیا ۔۔۔

تو وہ ویسے ہی ڈریس پکڑے چینجگ روم کی اوڑھ چلی ۔ 

جا تو رہی ہوں ۔۔۔۔۔ اُسکے اچانک سے پکڑتے سامنے کرنے پر وہ منمناتی بولی ۔ 

رو رہی تھی ۔۔۔؟ وہ اُسکی گالوں کو انگلیوں سے چھوتے ماتھے پر بل ڈال گیا ۔ 

نہیزززززز ۔۔۔۔ جھوٹ مت بولنا ۔۔ وہ سپاٹ ہوا تو آیت جو جھوٹ ہی بولنے لگی تھی لب بھنچ گئی ؛۔

یہاں بیٹھو ۔۔۔۔ وہ اُسکو لیتے بیڈ کی طرف بڑھا تو وہ خاموشی سے اُسکے ساتھ چلتی آرام سے بیٹھی ؛۔

جلدی سے بتاؤ وجہ ۔۔۔۔ وہ اُسکے ہاتھ سے کپڑے سائیڈ پر رکھتے نیچے اُسکے قدموں میں بیٹھا ۔

نادیہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ نام لیتے خاموش ہوئی اور لمبا سانس بھرتے برہان کو دیکھا ۔ 

نادیہ نے مجھے بتایا کہ وہاں اُسکے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔ تو بس وہ یاد آتے ہی آنکھیں بھر گئی ۔۔ 

آیت جس کو اپنا ماضی یاد آیا تھا ، برہان کو دیکھتے سرسری سی بات بولتے خاموش ہوئی ۔۔۔

بس اتنی سی بات ۔۔۔؟ وہ اُسکو بیڈ سے اٹھاتے خود بھی کھڑا ہوا تھا اور اُسکو زور سے خود سے لگاتے خود کے حصار میں بھنچا ۔۔۔۔ 

آیت ۔۔۔۔ نادیہ کے یہ زخم بھر جائیں گئے ، دیکھنا اللہ نے اُسکے حق میں بہت اچھا کچھ لکھ رکھا ہوگا ،

میں تو شکر کرتا ہوں چلو وہ کسی طرح اُس قید سے رہا ہو گئی جانتا ہوں بہت برا ہوا ہے لیکن اب یہ سوچتے رہنے سے کچھ ٹھیک تو نہیں ہو جائے گا ۔ 

شکر کرنا چاہیے کہ وہ سہی سلامت اپنوں میں واپس پہنچ گئی۔ 

زیادہ سوچو نہیں صرف اُسکے لیے دعا کیا کرنا کہ اللہ اُسکا آگے کا سفر خوشیوں سے بھرا لکھے ۔۔۔ 

ابھی تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔ وہ ویسے ہی اُسکو خود سے لگائے بولا 

میرا دل نہیں کر رہا ، برہان ہم لاہور چلیں ۔۔ حور لوگوں کے پاس ۔۔۔؟ وہ مقابل کے حصار میں آنکھیں بند کیے التجائی لہجا لیے بولی 

کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ہم کل ہی لاہور جائیں گئیں ، وہ اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتے بولا تو آیت اُسکے ایسے مان جانے پر سر اٹھاتے مقابل کو دیکھ گئی ؛۔

اتنی جلدی مان گئے ۔۔۔۔؟ وہ ہنوز تو برہان کے حصار میں تھی لیکن پھر بھی اُسکے چہرے کو دیکھتے آنکھیں سکڑ گئی 

ہاں تو ۔۔۔۔کیا میں اپنی  اکلوتی بیوی کی اتنی سی بھی فرمائش پوری نہیں کر سکتا 

تم جہاں بولو گئی آیت میں تمہارے لیے وہاں چلا جاؤں گا ، تم بولو تو ہم نیو گھر لے سکتے ہیں۔۔۔ 

میرپور چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔!! پھر تم جہاں بولو گئے میں تمہارے ساتھ چلوں گئی چاہیے لندن ہی کیوں نہ ہو ۔ 

آیت کو جیسے موقعہ ملا تھا ، وہ برہان کو بولتے سوچ میں ڈال گئی 

میرپور میں تو رہنا چاہتا ہوں ابھی ، وہاں کے لوگوں کے لیے جو میں نے وعدے کیے ہیں وہ پورے کر دوں 

 آیت پھر چاہو گئی تو کبھی مڑ کر میرپور کو نہیں دیکھوں گا ، وہ اُسکو ویسے ہی حصار میں قید کیے بولا تو آیت اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتی مسکرائی ؛۔

ویسے کون سے وعدے ۔۔۔۔؟ وہ آئی ابراچکائے دریافت کر گئی ؛۔

جانتی ہو ۔۔۔۔۔ مراد چاچو نے میرپور اپنے آبائی گاوں کے لیے کچھ سوچا تھا مگر افسوس وہ پورا نہ کر سکے 

وہاں کے لوگوں کو لگا تھا مراد چاچو کا بیٹا زر آ کر وہ سب کام کرے گا ۔ لیکن سب کو پتا ہے کہ زر کو بتایا نہیں گیا کہ وہ مراد چاچو کا بیٹا ہے ۔۔۔ 

پھر جب میں نے الیکشن وہاں سے جیتا تو میں نے سب سے وہی وعدے جو مراد چاچو نے کیے تھے پورے کرنے کا وعدہ کر دیا ؛۔

بس اُسی کام کے لیے وہاں رہ رہا ہوں ، جیسے ہی آیت وہ سب کام ہو گئے جیسا چاہو گئی ویسا ہی کروں گا ۔ 

وہ محبت سے پاش نظروں سے اپنی زندگی کو بتاتے مسکرایا تو آیت اُسکے ڈمپل گہرے ہوتے دیکھ ہلکے سے خود کے ڈمپل بھی گالوں پر نمایاں کر گئی ؛۔

ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اگر تمہارے اس وعدے کے لیے ہم لاہور سے سیدھے اپنے گھر چلے جائیں گئیں۔۔۔ 

آیت واپس سے اُسکے سینے سے لگتی بولی تو وہ اُسکے انداز پر مسکراتے حصار تنگ کر گیا 

ویسے وہ ہمارا گھر تھوڑی ہے ، مراد چاچو کا ہے، وہ معنی خیز ہوتا ساتھ ہی شرارت سے اُسکو باوچ کروا گیا 

جانتی ہوں ،۔۔۔ آیت اُسکے ایسے بتانے پر خفگی سے سر اٹھاتے مقابل کو دیکھ گئی 

مگر ابھی تو ہم لوگوں کا گھر ہوا نہ ۔۔۔؟ آخر ہم لوگ وہاں رہتے ہیں ۔۔۔؟ وہ  بچوں کی طرح منہ بناتے بولی تو برہان اُسکا کیوٹ سا چہرہ دیکھ شوخ ہوتا دل میں اٹھتی محبت اُسکی گالوں پر مہر لگاتے چھوڑ گیا ۔ 

وہ یکدم سے برسانے والی محبت پر شرم سے لال ہوئی جبکے ساتھ ہی شرماتے مقابل کے سینے میں منہ چھپا گئی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

سر ۔۔۔۔۔ میرے خیال سے آپ کو سرحان شاہ سے ملنے کی ضرورت نہیں ، میں آپ کا پیغام خود ان تک پہنچا دیتا ہوں 

غفار چوہدری جو سرحان کے آفس ابھی پہنچا تھا لفٹ میں داخل ہوا کہ صدیق نے سرسری سا مشورہ دیا ۔ 

صدیق سنا ہے کہ ان صاحبزادے کو بھی ہم سے ملنے کا شوق چڑھا ہے ۔۔۔۔؟ تو بس آج اسکو بھی اپنے ملنے کا شراف بخش دیتے ہیں ۔ 

اور ویسے بھی میرے خیال سے ان کے خاندان میں کافی کچھ ہو رہا ہے ۔، اُسکی خبر بھی لے لیتے ہیں 

غفار جو ہنوز ہاتھ میں ثگار پکڑے کش بھر گیا تھا لفٹ کے کھولتے ہی آگے بڑھا ۔ 

سر ۔۔۔۔۔ وہی برہان شاہ ہے ۔۔۔!! ابھی غفار سرحان کے کیبن کی طرف جانے والا تھا کہ صدیق کے انگلی سے سامنے اشارہ کرنے پر وہ قدم روک سامنے دیکھ گیا ۔ 

چلو پھر پہلے اس سے ملاقات کر لیتے ہیں ، غفار اپنے قدم سیدھے برہان کی طرف بڑھا گیا جو ایک کیبن میں داخل ہوا ؛۔

“ یس کم ان ۔۔۔۔۔۔ برہان جو عماد کے کیبن میں داخل ہوا تھا ۔ ڈور پر ناک کرنے پر بولتے فائل پر جھکا ۔ 

“ سائیں ۔۔۔ کوئی غفار چوہدری آپ سے ملنا چاہتا ہے ، خادم جو ڈور کے پاس کھڑا تھا غفار کا پیغام برہان کو دے گیا ۔ 

غفار چوہدری ۔۔۔؟ برہان چونکا جبکے اک دم سے ذہین میں یاد آیا ۔ 

بھجیو ۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے بولا تھا ۔ جبکے فائل بند کرتے سائیڈ پر رکھی ؛۔

“ ویلکم ۔۔۔۔۔ مسٹر غفار۔۔۔۔۔ برہان اُسکو کیبن میں داخل ہوتے دیکھ شوخ لہجا لیتے بولا 

غفار جو سامنے ہی برہان کو دیکھ گیا تھا ، پل بھر کے لیے ٹھٹھکا ۔۔۔۔

“ کیا ہوا مسٹر غفار ۔۔۔۔۔۔؟؟ آپ بھی پل بھر کے لیے ٹھٹکا گئے ۔۔۔؟ وہ اُسکے چہرے پر لہراتے ثرارت دیکھ ہلکے سے مسکراتے ڈمپل نمایاں کر گیا

غفار اُسکے ایسے ہنسنے پر مراد کو یاد کرتے ہاتھ ملا گیا ۔ 

ایسی کوئی بات نئیں ہے ، بس کسی کی یاد آ گئی ہے ، وہ برہان سے ہاتھ ملاتے ثگار صدیق کے ہاتھ میں دے گیا ۔ 

“ آئی نو ۔۔۔۔۔ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے ، برہان ان کو صوفے پر تشریف رکھنے کا آنکھوں سے اشارہ کرتے خود بھی سنگل صوفے پر براجمان ہوا۔ 

“ جو بھی مجھ سے پہلی بار ملتا ہے آپ کی طرح کسی کی یاد میں گر جاتا ہے ، وہ کیا ہے نہ میری پرسنلٹنی ہی سامنے والے پر اپنا رعب ڈال دیتی ہے ۔ 

وہ شرارت سے ہلکے پھلکے سے شوخ ہوا تو غفار جو برہان کے اسٹائل سے لطیف اندازو ہوا تھا بلند قہقہہ لگا گیا ؛۔

“ ایم ایمپریس ۔۔۔۔۔ مسٹر برہان شاہ ۔۔۔۔ غفار دل سے خوش ہوا تھا ؛۔

اُسکو برہان کا یہ اسٹائل پوری طرح مراد کی یاد میں ڈال گیا ۔ 

کیا لیں گئے ۔۔۔۔؟ وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے دلفریبی سے استفسار کرتے ساتھ ہی خادم کو آنکھوں سے اشارہ کر گیا ؛۔

جو آپ کا دل کرے ۔۔۔ وہ بھی آرام سے سکون سے بیٹھا ؛۔

ویسے آپ مجھے پہلے سے جانتے ہیں ۔۔۔؟ غفار اُسکو ایسے آرام سے اتنے نارمل دوستانہ انداز اپنائے دیکھ ذہین میں آیا سوال پوچھ گیا ۔۔

ظاہری بات ہے ۔ مسٹر غفار ۔۔۔ آپ کو کون نہیں جانتا ۔۔۔ لندن کے مہشور لوئیرز میں سے ایک ہیں ۔ 

آپ کے بارے میں سبھی لوگ اچھے سے جانتے ہیں ، برہان ہلکے پھلکے لہجے میں جواب دے گیا ۔

آپ کو مجھ سے ملنے کا خیال کیسے آیا ۔۔؟ وہ بھی کہاں کسی سے کم تھا ۔ سوال جواب کرنا تو اُسکا پسندیدہ پیش تھا ؛۔

آپ کا کافی نام سنا تھا ، میرپور کے لوگ کافی تعریف کررہے تھے ۔ تو سوچا ذرا اُس انسان سے بھی مل لیں جو مراد کی جگہ سب کے دلوں میں آج راج کر رہا ہے ۔ 

غفار چوہدری خادم کو ویٹر کے ساتھ آتے دیکھ برہان کو دیکھتے بولا 

“ ویسے تو میں کم ہی انجان لوگوں کو ملنے کا شراف بخشتا ہوں۔ آپ یہاں خود چل کر میرے پاس آئے سمجھیں آپ کی خوش قسمتی کا کمال ہے ۔

وہ خادم کو ٹیبل پر چیزیں رکھتے دیکھ وجہیہ انداز میں گویا تو غفار اُسکا انداز دیکھ ہلکے سے مسکرایا ؛۔

برہان ۔۔۔۔ عماد اور سرحان کو اچانک سے کیبن میں داخل ہوئے تھے 

سرحان غفار چوہدری کو برہان کے ساتھ گفتگو میں مصروف دیکھ چونکا ، 

“ سر۔۔۔۔۔ سرحان شاہ ۔۔۔۔۔ صدیق اپنے باس کے قریب تھوڑا سا جھکتے کان میں سرگوشی کر گیا 

مسٹر برہان ۔۔۔۔ ابھی ہمیں اجازت دیں، امید کرتا ہوں آپ سے پھر اگلی ملاقات جلدی ہوگئی ؛۔

حفار جو کافی پی چکا تھا مگ رکھتے برہان سے اجازت مانگی ، تو برہان ایک نظر سرحان کو دیکھ بیٹھے سے اٹھا ۔

“ سیم ٹو یو ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی خوشی سے ہاتھ ملا گیا تو سرحان دونوں کے قریب آیا ۔ 

کیا جان سکتا ہوں آپ یہاں ۔۔۔۔؟ سرحان  جس کا صبر ضبط ہو رہا تھا غفار چوہدری کو مخاطب کیا ؛۔

میں آیا تو تم سے ملنے تھا ، بٹ ابھی جا رہا ہوں چونکہ تمہاری جگہ آج ملاقات برہان شاہ سے ہو گئی 

یہاں آنے کی وجہ میرا سکریڑی تمہیں بتا دے گا غفار اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتے آگے بڑھا تو سرحان صدیق کے اشارے پر اُسکے پیچھے ہی گیا ؛۔

“ ہمممم۔۔۔۔ تو غفار چوہدری یہاں سرحان سے ملنے آیا تھا ۔۔۔۔؟ برہان ان سب کو کیبن سے نکلتے دیکھ خود سے بڑبڑاتے واپس سے بیٹھا تو عماد بھی اُسکے قریب ہی براجمان ہوا ۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

“ ماشااللّہ یہاں تو ڈبل رونق لگی ہوئی ہے ، غفار چوہدری پورے شاہوں خاندان کے افراد کو اکٹھے دیکھ مسکراتے نظروں سے ہی سلام کرتے صوفے پر براجمان ہوا ؛۔

سلطان شاہ جو پہلے سے ہی اپنی نشت پر براجمان تھے ، نخودارنظروں سے غفار چوہدری کی مسکراہٹ دیکھ گئے 

کہو کیا کہنا چاہتے تھے ۔۔۔؟ یہاں پورا خاندان اکٹھا ہے ۔ سلطان شاہ اُسکی سبھی باتوں کو نظرانداز کرتے بولے 

بہت شکریہ سلطان شاہ ۔۔۔۔ میرا کہنا مانے کے لیے ۔۔۔۔

غفار چوہدری سبھی مردوں پر ایک نظر ڈالتے صدیق سے فائل کھولنے کا کہہ گیا ؛۔

غفار کے آدمی نے سرحان سے یہی کہا تھا کہ اگر تم سب چاہتے ہو کہ زر شاہ سے غفار نہ ملے تو اپنے پورے خاندان کو ایک ہی جگہ اکٹھے کرو 

تاکہ زمینوں اور مراد کی جائیداد کا فیصلہ سنانا دیا جائے ۔ سرحان لوگ بھی تو یہئ چاہتے تھے کہ زر کو کچھ پتا بھی نہ چلے اور ساری کاروائی بھی مکمل ہو جائے 

اگلے ہی سرحان لاہور سے ساہیوال پہنچ گیا تھا اور سلطان شاہ نے پورے خاندان کو حویلی میں اکٹھا کیا تھا ؛۔

اسلم شاہ ۔۔۔ سلمان شاہ ۔۔۔۔ اکرام سبھی لوگ وہاں موجود تھے۔ صفدر شاہ بھی میرپور سے یہاں پہنچ چکا تھا 

عورتیں سبھی بھی دروازوں کے ساتھ کان لگائی  کھڑی تھی ۔ تاکہ فیصلہ سن سکیں ۔ 

بات ساری اتنی ہے ۔ کہ میں ساری جائیداد ایسے ہی زر یا پریشے یعنی جو حور ہیں لاپتا مل گئی ہیں ، 

ان کے حوالے نہیں کر سکتا ، مجھے دونوں بچوں سے ملنا ہوگا ۔ 

مسٹر سلطان شاہ میری بات مکمل نہیں ہوئی ، ابھی پہلے خاموشی سے مجھے سن لیں ۔ 

وہ سلطان شاہ کو بولنے سے روکتے بولا تو سلطان شاہ خاموشی سے لب بھنچ گئے ۔ اکرام سرحان سبھی نے غفار چوہدری کو گھورا تھا 

مطلب کہ وہ اپنی بات سے پھیر گیا ۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں غصہ بڑھا تھا ۔ 

زر شاہ ۔۔۔۔۔۔ کی پروزش آپ نے کی ، لیکن افسوس کہ اُسکو ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وہ آپ کا بیٹا نہیں بلکے مراد شاہ کا خون ہے ۔۔۔؟ 

اس جھوٹ کی وجہ کیا تھی یہ جاننا بہت ضروری ہے ، اس کے علاوہ جب لاپتا بچی ملی تب اُسکا اور زر کا ڈی اینے ٹیسٹ کروایا گیا تھا ۔۔؟ 

کیا ثبوت ہے کہ یہ دونوں بچے مراد شاہ کے ہیں۔۔۔؟ 

غفار چوہدری ۔۔۔۔ اپنی زبان کو لگام ڈالو ۔ سلطان شاہ کی آواز بلند ترین ہوئی تو صدیق گھبراتے اپنے باس کو دیکھ گیا ۔ 

وہ دونوں بچے ہمارے مراد شاہ کا خون ہیں ، ہمیں ان کی پہچان کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ، 

تم اپنے کام سے کام رکھو ، زیادہ داخل اندازی کر نے کی ضرورت نہیں ؛۔

وہ سخت بلند آواز میں پھنکارے تو سبھی نے غفار چوہدری کا چہرہ دیکھا جو آرام سے ثگار جلا گیا تھا ؛۔

دیکھیں مسٹر سلطان آپ کے غصہ کرنے سے میں ڈرنے والا نہیں۔،

ایک بات آپ سب جان لیں ، اور اُسکو اپنے دماغ میں بٹھا بھی لیں ۔ کہ زر شاہ جس کی پروزش آپ نے کی ہے وہ مراد شاہ کا خون نہیں ۔ 

صاف لفظوں میں بولوں تو وہ مراد شاہ کا بیٹا نہیں ہے ، غفار چوہدری نے بنا لحاظ رکھے سپاٹ ہوتے سلطان شاہ کی آنکھوں میں دیکھ پورے خاندان پر بم گرایا ۔

غفار چوہدری ۔۔۔۔۔ سلطان شاہ اپنی نشت سے اٹھے تو سبھی مرد پیچھے ہی کھڑے ہوئے ۔ 

اگر ابھی تم ہماری حویلی میں مہمان بن کر نہیں آئے ہوتے تو ہم ابھی اسی وقت تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لے لیتے ۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے سبھی لحاظ بھول جائیں نکل جاؤ ہماری حویلی سے ۔۔۔ 

وہ گرجدار سخت الفاظ میں بولے تو صدیق نے مشکل سے اپنا توک نگلا ۔۔۔۔ 

آپ کے ایسے دھاڑنے سے سچائی بدلنے والی نہیں ، وہ دن دور نہیں جب یہ ثابت کروں گا میں وہ اتنا بولتے اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔

بھائی صاحب یہ کیا بکواس کر گیا ہے ۔۔۔۔؟ غفار کے جاتے ہی صفدر شاہ پھنکارتے بولے ۔

اُسکی بکواس باتوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں، سلطان شاہ دو ٹوک بولتے آرام سے گئے ۔ 

تو سبھی باقی لوگ بھی خاموشی سے بیٹھے ۔

مسٹر غفار چوہدری ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ غفار چوہدری اپنی گاڑی میں بیٹھتا حور جو اُسکے پیچھے ہی آئی تھی ہانک لگاتے اُسکو اپنی طرف متوجہ کر گئی ؛۔

سرحان حور کو اپنے ساتھ لانا نہیں چاہتا تھا لیکن سلطان شاہ کے آثار کرنے پر وہ لے آیا تھا ، 

ابھی سب مردوں میں ہونے والی باتیں وہ بھی باخوبی اچھے سے سن چکی تھی ؛۔

“ ہائے ۔۔۔۔ ایم حور شاہ ۔۔۔۔۔اف ۔۔۔۔ پریشے مراد شاہ ۔۔۔۔ وہ غفار چوہدری کے بالکل سامنے آتے کھڑی ہوئی تو ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھا گئی ؛۔

وہ اُسکے انداز پر ایمپریس ہوا تھا ۔ جبکے ساتھ ہی ہاتھ ملایا ۔ 

جتنا میں جانتا ہوں ان شاہوں لوگوں کو ۔۔۔۔ ان کے گھر کی بیٹیاں اور بہوئیں کبھی کسی غیر کے سامنے نہیں آتی ؛۔

ثگار صدیق کی طرف بڑھاتے دھمیے سے بولا تو حور اُسکی بات سن ہلکے سے مسکرائی ؛۔

“ مسٹر غفار ۔۔۔ آپ کہاں سے آئے ہیں ۔۔۔؟ آئی تھنک ۔۔۔۔ آپ کافی ٹائم بعد پاکستان آئے ہیں۔۔۔۔ 

پاکستان بہت آگے نکل گیا ہے ، جانتی ہوں کہ شاہوں خاندان میں ابھی بھی ان رسموں کو مانا جاتا ہے ۔ 

“ بٹ مسٹر غفار ۔۔۔۔۔ لٹ می کلئیر ۔۔۔ میں حور مراد شاہ ہوں۔ اپنے راستے اور اپنی منزل خود چونتی اور بناتی ہوں ۔، نہ میں نے پہلے ان رسموں کو کبھی مانا تھا اور نہ ہی اب کسی نے مجھے موجود کیا ہے؛۔

“ اینی وے ۔۔۔۔ یہ باتیں تو بہت معمولی سی ہیں، میں جس کام کے لیے آئی تھی ذرا وہ بات بھی سن لیں۔ 

“ شو۔۔۔۔ وہ بھی بہت آرام سے اجازت دے گیا تھا ۔ 

آپ کو ہمیں ثبوت دینے کی کیا ضرورت ہے کہ میں اور زر دونوں سگے بہن بھائی ہیں ۔۔۔؟ آپ خود کو اتنی امپوٹڈ کیوں دے رہے ہیں ۔۔؟ وہ سینے پر بازو باندھتے بہت ہی تہمحل سے دریافت کر گئی 

غفار چوہدری اُسکے اسٹائل پر جتنا حیران ہوتا کم تھا ۔ 

دیکھیں مس ۔۔۔۔۔ حور ۔۔۔۔ آپ کا باپ مراد شاہ میرا جگری دوست تھا ۔ اُسکی جائیداد ایسے ہی میں کسی کو نہیں دے سکتا ۔۔۔ 

بہت سی باتیں ہیں جو وقت آنے پر بتاؤں گا ، اگر آپ کی اجازت ہو تو میں جا سکتا ہوں ۔۔۔؟ وہ دو ٹوک بات کرتا ساتھ اجازت مانگ گیا۔ 

آپ سے ایک گزارش ہے ، کبھی لاہور میں فرصت سے مجھے ملیں ، سبھی گلے شکوے دور کرے گئے ۔،، وہ بھی حور تھی حور ۔۔۔۔ 

ضرور۔۔۔ وہ ہلکے سے مسکراتے بولا تو حور چوٹکی سی نگاہ صدیق پر ڈالتے واپس گھر کی طرف گئی ؛۔

“ سر ۔۔۔ کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔؟ صدیق اپنے باس کو مسکراتے دیکھ چونکتے پوچھ گیا 

“ یہ لڑکی مراد شاہ کی بیٹی ہی ہے ، یہ کنفرم ہو گیا ، وہ ہلکے سے مسکراتے گویا ۔

آپ ایسے کیسے اتنی جلدی ۔۔۔۔۔؟ صدیق حیران ہوا تھا ۔ 

اُسکی آنکھوں میں وہی چمک تھی جو مراد کی آنکھوں میں رہتی اپنی منزل خود بنانے کا دم رکھتی ہے۔ 

اور اتنئ بہادر مراد کی بیٹی ہی ہو سکتی ہے، شاہوں خاندان کی لڑکی ہو کر وہ دنیا جیتنے کا ہنر رکھتی ہے ۔ 

غفار چوہدری ہنوز چہرے پر مسکراہٹ لئے بولا تو صدیق جلدی سے گاڑی کا ڈور کھول گیا ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

ہاں پتر ۔۔۔۔۔۔ داتا بخش جو قادی کو خدا حافظ کرتے رکشہ پکڑنے کے چکر میں نظریں سڑک پر جمائے ہوئے تھا 

انار کی کال اٹھاتے چھوٹا سا فون کان سے لگایا ۔،

ابا کہاں تک پہنچ گئے ہیں ۔۔۔؟ انار جو یونی سے نکلی تھی پریشہ کے ہمراہ رکشے میں بیٹھتے دریافت کیا 

پتر بس آتا ہوں گھر وہ ایک رکشے کو دیکھتے بولا تو انار فون رکھ گئی 

داتا بخش جیسے ہی رکشے میں سوار ہوا اچانک سے دس سے پندرہ آدمیوں کے آتے ہی گھیرنے پر ڈرا ۔ 

بابا سائیں ۔۔۔۔۔۔ سرحان جس کے فون پر کال آئی تھی وہ سن تیزی سے حویلی میں داخل ہوا ۔

کیا ہوا ۔۔۔۔سلطان شاہ جو اکرام اور صفدر شاہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے سبھی ڈرے ۔۔۔۔ 

داتا بخش پکڑ گیا ۔۔۔۔ وہ خوشی سے بتاتے سلطان شاہ سبھی کو حیران کن کر گیا ؛۔

کیا ۔۔۔۔؟ اکرام نے بھی بے یقنی سے دیکھا تھا ۔ 

کہاں ہے وہ خبیث ۔۔۔۔۔ سلطان شاہ کی آواز بلند ہوئی ۔ 

لاہور کے لیے ہمیں نکلنا ہوگا ، سرحان تیزی سے بولتے اوپر کی طرف بھاگا تو سلطان شاہ لوگ بھی تیار ہونے کے لیے گئے 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


1 comment:

Post Bottom Ad

Pages