Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 110 Online - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 24 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 110 Online

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 110 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 110 

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 110

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 110 

______________؛۔

میرپور 

سر میں کہہ رہا ہوں نہ ضرور یہ کسی نے  ہمیں گمراہ کرنے کے لیے ہمارے ساتھ شرارت کی ہے ۔ 

صدیق خط کو پڑھتے غفار چوہدری سے بولا جو گہری سوچ میں پڑا تھا ، 

نہیں صدیق مجھے نہیں لگتا یہ کسی کی شرارت تھی ، داتا بخش نام میں نے پہلے سنا بھی ہے اور مراد کے ساتھ اس آدمی کو دیکھا بھی ہے ۔ 

میں ابھی یہ سوچ رہا ہوں کہ جب مراد کی وفات ہوئی تھی تب سب نے اس کو مراد کا قاتل قرار دیا تھا 

چونکہ سب کا کہنا تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ نکلا ، اگر یہ قاتل ہے تو یہ ابھی مجھے ایسے یہ سب ۔۔۔؟ 

غفار جو ثگار پی رہا تھا ، اپنی جگہ سے اٹھتے وال گلاسیز سے باہر سڑکوں پر آتی جاتی ٹریفک کو دیکھنا شروع ہوا 

صدیق ذرا یہ برہان شاہ کے بارے میں پتا کرو ، مجھے اُسکو دیکھنا ہے ، میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں 

غفار اک دم سے پلٹا تھا اور صدیق کو حکم دیا تھا ، اگر زر بیٹا نہیں تو کون ہے ۔۔؟ غفار داتا بخش کا خط پڑھتے سوچ میں پھر سے غائب ہوا ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔۔۔؟ بابا سرکار ۔۔۔۔؟  سرشار جو اپنے کتوں کو کھانا ڈال رہا تھا ، 

اپنے باپ کو تیار دیکھ دریافت کر گیا ۔ 

فیصل شاہ کی بیوی وفات پا گئی ہے تمہیں پتا تو ہوگا ۔ وہ میرپور آیا ہوا ہے سوچا اُس کے پاس افسوس کر آؤں ، وقار شیزاری نے آرام سے جواب پاس کیا

تو سرشار نے سر ہلایا ،

ویسے تمہارا یہ بہروز چوہان دوست اور کتنے دن یہاں رہنے والا ہے ۔۔؟ وقار شیزاری جو جانے لگے تھے بہروز چوہان کا پوچھ رکے ۔۔۔

بابا سرکار ابھی تو وہ یہاں آیا ہے ، مجھے اندازہ نہیں تھا برہان شاہ کو ایک بار موت کے قریب بھیجنے والا میرا دوست ہے ، 

یقین جانیں اب برہان شاہ کا جو انجام ہوگا وہ ساری دنیا دیکھے گئی ۔ 

بہروز اپنے بھائی کا بدلا بھی لے گا اور میں ہمارے خاندان کی دشمنی کو نبھاؤں گا ۔ سرشار خند آنکھوں سے بولا تو نادیہ جو وہاں چائے لا رہی تھی باتیں سن گھبرائی ۔ 

وہ جانا چاہتی تھی اپنی خالہ کی وفات پر ۔۔ لیکن کسی نے اُسکو جانے نہیُں دیا تھا ۔ وہ اس قید میں بند تھی 

وہ چاہتی تو آزاد ہو سکتی تھی لیکن وہ خود کو اللہ پر چھوڑ گئی تھی ۔ وہ ہر دن یہاں مرتی تھی اور اُسکے گھر والے بھی یہاں نہیں آ سکتے تھے ؛۔

کیونکہ اگر وہ آتے تو نادیہ کا یہ حال دیکھ فیصل شاہ کو کوئی نہیں چھوڑتا جس نے یہ رشتہ کروایا تھا ؛۔

وہاں کیوں کھڑی ہو گئی ہے ۔۔۔؟ یہاں مر ۔۔۔ سرشار جو اپنے باپ کو گاڑی میں سوار ہوتے دیکھ گیا تھا 

نادیہ کو بھوت بنے دیکھ دھاڑتے گرجا تو وہ کانپتے ہاتھوں سے جلدی سے ٹیبل پر چائے رکھ کپ میں ڈالنا شروع ہوئی 

نیند پوری ہو گئی ۔۔۔۔؟ بہروز جو وہی چلا آ رہا تھا سرشار نے ہاتھ دھوتے سرسری سا اُسکو دیکھتے پوچھا 

بس ہو ہی گئی ، بہروز جو نادیہ کے قریبی چئیر پر بیٹھا تھا اُسکو غیض نظروں سے گھورتے سرشار کو جواب دیا ۔ 

سرشار نے اُسکی نظروں کو اچھے سے نوٹ کیا تھا ۔ 

نادیہ جلدی سے چائے کپوں میں ڈالتے وہاں سے بھاگی، وہ بہروز کی نظروں سے کافی خوفزدہ ہو رہی تھی ، 

یہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔ بہروز کی نظروں نے دور تک نادیہ کا پیچھا کیا تھا

ملازمہ ہی سمجھو اُسکو ۔۔۔۔ سرشار اُسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بولا تو وہ ہلکے سے مسکرا دیا ۔ 

کافی خوبصورت ہے ، آج رات کے لیے کیا میں ۔۔۔۔ وہ اپنے سینے پر ہاتھ پھیرتے آدھی بات چھوڑ گیا تو سرشار ہلکے سے مسکرایا۔۔۔۔ 

کیوں نہیں ۔۔۔۔ وہ اتنا بولتے اٹھا تو بہروز نے چائے کا کپ اٹھاتے اُسکے پیچھے ہی قدم بڑھائے ۔ 

سرشار اتنا دشمنی نفرت میں گرا چکا تھا کہ وہ بھول گیا تھا کہ نادیہ اُسکے بھائی کی بیوی اور ماں بنے والی ہے ، 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میری بیوی کا افسوس کم کرو اور پتا کروا ۔۔۔۔ یہ غفار چوہدری کیا کرنے آیا ہے۔ اور داتا بخش یہاں زندہ بھاگ پھیر رہا ہے ، توں بھول گیا کہ جب ہم نے مراد کو مارا تھا داتا بخش کے پاس ایک کیمرا تھا ۔۔۔؟ 

وقار شیزاری جیسے مرضی کر داتا بخش کو سلطان شاہ کے پاس پہنچنے سے پہلے پکڑ 

میں تو ابھی تک برہان کی باتوں کا مطلب سوچ رہا ہوں وہ کیا جانتا ہے ماضی کا ۔۔۔؟ 

اُسنے مجھے دھمکی لگائی ، یقین نہیں آ رہا مجھے ابھی تک ۔۔۔ فیصل شاہ تو برہان کی چند باتوں پر ہی گھبرا اٹھا تھا :۔

ٹھیک ہے میں اپنے آدمیوں کو لگاتا ہوں داتا بخش والے کام پر ۔۔۔۔۔ 

وقار شیزاری بھی جانتا تھا کہ اگر فیصل شاہ پھنسا تو وہ بھی پکڑا جائے گا اسی لیے وہ تیزی سے بولتے اس کام پر عمل کرنے کے لیے اٹھا ۔۔۔

ویسے تجھے ایک بات بتانی تھی ، جس نے برہان پر حملہ کیا تھا وہ سرشار کا دوست ہے بہروز چوہان ۔۔۔۔ 

اپنے بھائی کا بدلا لینے کے لیے میرپور آیا ہوا ہے ، فکر نہ کر ہم کوئی نہ کوئی راستہ بنا لیں گئے وقار شیزاری فیصل شاہ کو آگاہ کرتے آرام سے گیا 

جمال جو سب باتیں سن چکا تھا ، فون نکالتے کسی کو کال ملا گیا ۔ 

برہان کیا جانتا ہے ۔۔۔۔؟ مجھے پتا لگانا ہوگا ، مگر اس سے پہلے اس داتا بخش کو پکڑنا ہوگا۔۔۔

اُس سے بھی ضروری پہلے ذرا اس بہروز چوہان کو تو دیکھوں ۔ جمال بھی انجانے میں ہی سہی دشمنیوں میں ہاتھ ڈال گیا تھا ۔ 

جمال بھی سوچ چکا تھا اور ابھی اپنی سوچی سوچ پر عمل کرنے کے لیے وہ گاڑی کی طرف بڑھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اے ۔۔۔۔ لڑکی ادھر آ ۔۔۔۔ سرشار جو کیچن ڈور تک پہلی بار آیا تھا ۔،

نادیہ کو آواز لگاتے باہر آنے کا بولا وہ ڈرتی سرسری سی نگاہ سرشار کی بیوی پر ڈالتی باہر اُسکے پاس گئی ؛۔

دودھ کا گلاس میرے دوست کو روم میں دے آو ، وہ اُسکو گلاس کی طرف اشارہ کرتا مہمانوں والے روم کی طرف جانے کا بول گیا تو وہ ڈرتی خاموش سے سوچ میں پڑی ۔ 

سنائی نہیں دیا ۔۔۔ وہ اُسکو ویسے ہی کھڑے دیکھ گرجا تو وہ ڈرتی فورا سے گلاس اٹھا گئی ۔۔۔

آ جاؤ ،۔۔۔ وہ فون پر سرشار کا میسج پڑھ خوش ہو چکا تھا جبکے ساتھ ہی نادیہ کو اندر آنے کے لیے اجازت دی 

وہ گھبرائی سی کانپتے ہاتھوں سے گلاس ٹیبل پر رکھ مڑی ، 

کہاں ۔۔۔۔؟ بہروز جو تیار بیٹھا تھا ، اُسکو بھاگنے کے چکر میں دیکھ دوپٹہ پکڑتے کھینچ گیا تو نادیہ کو لگا جیسے کوئی قیامت گرنے والی ہو ۔۔۔ 

چھوڑو ۔۔۔۔ نادیہ خود کو کمزوربالکل بھی دکھانا نہں چاہتی تھی وہ بھی پوری قوت سے دھاڑی ۔ 

زبان چلاتی ہے ، وہ اُسکو خود سے لڑتے دیکھ بالوں سے پکڑ بیڈ کی طرف پھینک گیا تو نادیہ گھبراتی تیزی سے دوسری طرف سے بھاگنے کے لیے بیڈ سے اتاری ۔

وہ بھی اُسکی طرف لپکا تھا ، آہ ۔۔۔۔ نادیہ جو بھاگنے لگی تھی ٹیبل کے کونے سے ٹکراتی نیچے گری 

جبکے وہ اپنا کھٹنا بھی پکڑ چکی تھی وہ غیض مسکراہٹ لیتے ہنسا ۔ 

مجھے جانے دو ۔۔۔۔۔ تم جانتے نہیں میرا شوہر۔۔۔۔ وہ گھبرائی آواز میں بولتے ساتھ ہی پیچھے کو کھسکی ۔ 

مجھے تمہارے شوہر سے کچھ لینا دینا نہیں ، چپ چاپ آج کی رات یہاں ۔۔۔۔ 

میں تمہارا خون کر دوں گئی وہ دھاڑتے اُسکے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹیبل کو لات مارتے بھاگی 

بہروز جو نیچے ابھی بیٹھا تھا اُسکے ایسے ٹیبل کو مارنے پر زمین پر گرا 

نادیہ تیزی سے بھاگی تھی ، وہ بھاگتے روم سے نکل سیدھی لان میں پہنچی 

عاطف ۔۔۔۔۔۔ وہ عاطف کی گاڑی دیکھ خوشی سے اُسکی طرف لپکی ۔ 

یہ جانے بنا کہ آج اُسکی زندگی اُسکا یہ سفر یہی ختم کر دے گئی ۔،

تم یہاں ۔۔۔ ایسے۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ جو ابھی گاڑی سے نکلا تھا ہاتھوں میں پھول لیے اُسکو کی حالت دیکھ ساکت ہوا ۔

وہ ۔۔۔۔ آدمی۔۔۔ میرے ساتھ زبردستی کر رہا تھا ۔۔۔۔ وہ روتے مشکل سے ہاتھ کرتی بولی 

عاطف کی آنکھوں میں جیسے قہر بھرا تھا ، بہروز جو نادیہ کے پیچھے ہی تھا لان میں پہنچا ۔،

یہی آدمی ۔۔۔ نادیہ ڈرتے عاطف کے پیچھے ہوئی ۔

کیا ہو رہا ہے یہاں ۔۔۔؟ اس سے پہلے عاطف اپنی بیوی کے لیے بہروز کو سبق سکھاتا سرشار تیزی سے وہاں درمیان میں آیا 

میں نے کچھ بھی نہیں کیا ، بہروز تیزی سے سرشار کے سامنے ہوا تو عاطف قہر لیے نادیہ کو چھوڑ اپنے بھائی کے سامنے ہوا ،

بھائی میں اس آدمی کو جان سے مار دوں گا ، اس کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کی طرف نگاہ اٹھانے کی ۔۔۔۔؟ 

وہ دھاڑا تو سرشار نے اُسکو پکڑتے بہروز اے دور کیا ، بس کرو عاطف ۔۔۔۔ سرشار کی آواز بھی بلند ہوئی 

اپنی بیوی سے پوچھو وہ مہمان کے کمرے میں کیا لینے گئی تھی ، قصور تمہاری بیوی کا ہے کوئی بھی عورت ایسے رات کے پہر کسی غیر مرد کے کمرے میں جائے گئی تو شیطان کو دعوت دے گئی ۔

بھائی ۔۔۔۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کھائیں ، آپ نے ہی تو مجھے دورھ دینے بھجیا تھا ، نادیہ سرشار کے الفاظ سن ہل چکی تھی 

چلو ۔۔۔۔ سن لو اپنی بیوی کی ۔۔۔۔۔ وہ مجھ پر الزام لگا رہی ہے ، میں پاگل ہوں اپنی بیوی کو کہیں نکلنے نہیں دیتا تمہاری بیوی کو کیسے کسی غیر کے کمرے میں بھج سکتا ہوں ۔۔۔۔؟ 

یہی دن دیکھنے کو رہ گیا تھا ، سرشار نے بہت ہوشیاری سے بات بنائی ۔ 

عاطف ۔۔۔۔ میری بات سنو ۔۔۔۔ میں سچ بول رہی ہوں مجھے بھائی ۔۔۔ 

چٹاح ۔۔۔۔۔اس سے پہلے وہ آگے کچھ بولتی عاطف کا ہاتھ اٹھا تھا اور اُسکی گال کا زینت بنا ۔۔۔۔۔۔۔

خاموش ۔۔۔۔۔۔ ایک لفظ بھی میرے جان نثار بھائی کے خلاف مت نکالنا ۔۔۔ اگر ایک اور لفظ نکالا تو یہی زندہ دفنا دوں گا وہ اُسکو بالوں سے پکڑتے خود کے ساتھ گھسیٹے پورچ کی طرف بڑھا تو سرشار بہروز کو لیتے آرام سے روم میں چلنے کا بول گیا ۔ 

یہ دیکھو۔۔۔ میں تمہارے لئے کیا لایا تھا ، میں نے سوچا تھا ساری پرانی باتیں بھول کر تمہیں ہمشیہ خوش رکھوں گا کہ تم میرے بچے کی ماں بنے والی ہو ۔ 

لیکن نہیں ۔۔۔۔ وہ پھولوں کو اور بچوں کے کھلونے جو وہ لایا تھا سب گاڑی سے نکال پھینک اپنے بالوں کو نوچ گیا ۔ 

تم نے سب کچھ خراب کر دیا ، تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بھائی پر الزام لگانے کی ۔۔۔؟ 

وہ اُسکو بازوں سے دبوچا گیا تو نادیہ کے درد سے لاتعداد آنسو گرے 

میں سچ بول رہی ہوں ، ایک بار یقین کرو میں جھوٹ نئیں بول رہی نادیہ نے التجا کی تو وہ بے دردی سے اُسکو ایک اور تھپڑ سے نواز گیا ۔۔۔ 

اُسکے نیچے ہونٹ سے خون نکلنا شروع ہوا تھا ، نادیہ شاہ ۔۔۔۔ میں عاطف شاہ تمہیں طلاق دیتا ہوں ، 

طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔ 

طلاق ۔۔۔ دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ وہ دھاڑتے پورے غصے سے اُسکو اپنا فیصلہ سناتے بازو سے پکڑتے حویلی کے گیٹ سے باہر دھکا دے گیا ۔،

وہ لڑکی ۔۔۔۔۔ بہروز پھر سے صرف اتنا ہی بولا تھا ،

یہی میں چاہتا تھا ، سرشار سارا تماشہ انجوائے کرتے غیض ہنسی سے ہنسا تو بہروز چونکا۔۔۔۔

یہ لڑکی ہمارے دشمنوں کے گھر سے آئی تھی ، میرا بھائی پہلے تو اسُکو جوتی کی ناک پر رکھتا تھا لیکن جب سے اُسنے سنا تھا کہ وہ باپ بنے والا ہے 

لاہور میں اپنے پاس اس کو لے جانے کی ضدی کرنے لگا ، یہاں پہلے وہ مجھ سے محبت کرتا تھا وہ اس لڑکی کو وہ مقام دینا چاہتا تھا ۔

بس اسی لیے میں نے سوچ لیا تھا ، کہ اس لڑکی کی کہانی میں اس گھر سے ختم کروں گا۔۔۔۔

سرشار بہروز کو سب کچھ بتاتے مسکرایا تو وہ اُسکے پلان کا سن داد دیتے ساتھ ہی گیا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

عاطف ۔۔۔۔ نادیہ زور زور سے حویلی کا بڑا۔ گیٹ ٹھٹھکاتی رہی اور کوئی نہیں آیا ، اُسکی زندگی ائک ہی پل میں جیسے ختم ہوئی تھی اُسکے پیٹ میں درد شروع ہوا تھا 

وہ ویسے ہی مرتے حویلی کو ایک نظر دیکھ ڈرتے خالی کچی سڑک پر چلنا شروع ہوئی ۔۔۔۔ 

وہ انجان تھی وہ کہاں جانے والی تھی اُسکو کچھ علم نا تھا ، برہان بھائی۔۔۔۔ آیت آپی۔۔۔۔ جیسے ہی خیال آیا کہ میرپور میں آیت اور برہان بھی ہیں تو جیسے اُسکی خشک جان میں جان آئی 

لیکن سب تو ساہیوال میں ہونگے۔۔۔۔؟ وہ سنسان راستہ دیکھ ڈرتی آگے بڑھی ۔

کس لڑکی کو ،،۔۔۔۔؟؟ جمال جو شیزاری ولا پہنچا تھا اُسی حویلی کی ایک ملازمہ اُسکے سامنے ہاتھ جوڑتی بولی ۔ 

سائیں ۔۔۔۔ عاطف سائیں کی بیگم نادیہ بی بی جو آپ کے خاندان سے آئی تھی ، اُسکو نکال دیا ہے ۔

میں آئی تھی ابھی باہر کہ ان کو آج کی رات میں اپنے گھر لے جاتی وہ میرے یہاں آنے سے پہلے ہی چلی گئی 

ملازمہ کانپتی آواز میں بولی تو جمال ایک نظر بند حویلی کے دروازے کو دیکھ تیزی سے گاڑی میں سوار ہوا۔ 

ابھی وہ کچے راستے پر پڑا ہی تھا کہ گاڑی کی روشنی نے اُسکو سامنے ہی تھوڑا سا ایک لڑکی کا وجود دکھایا تھا 

وہ زن سے گاڑی آگے لے جاتے بریک لگا گیا ۔،نادیہ جو اپنے دھیان میں چلی جا رہی تھی اچانک سے طوفان کی طرح گاڑی کو روکتے دیکھ ڈری 

دل میں خوف پھر سے اٹھا تھا وہ ابھی بالکل بھی کسی کا مقابلہ نہں کر سکتی ۔ شدت سے اللہ یاد آیا تھا ۔،

جمال جو گاڑی سے نکلا تھا ، تیزی سے کندھے پر شال درست کرتے اُسکی طرف بڑھا ۔ 

نادیہ کی آنکھیں بند ہو رہی تھی وہ مشکل سے خود پر ضبط کیے کھڑی تھی 

دور ۔۔۔۔ رہو ۔۔۔۔۔ نادیہ اُسکو خود کی طرف بڑھتے دیکھ گھبرائی آواز میں چیخی ۔ 

“ ریلکس ۔۔۔۔۔۔ میں جمال ۔۔۔۔۔ جمال شاہ ۔۔۔۔ اسلم شاہ کا بیٹا ۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو ۔۔۔؟ وہ اُسکو خود سے ڈرتے دیکھ دھیرے سے بولا 

اسلم شاہ ،۔۔۔۔۔ وہ نام سن خود سے بڑبڑائی ، جبکے اُسکو یاد آیا تھا کہ ہاں اسلم شاہ کا بیٹا جمال شاہ ہے ۔ 

مجھے ۔۔۔۔ ساہیوال جانا ہے ، وہ کسی اپنے کو دیکھ آنکھیں بھر گئی ، جبکے مشکل سے خود کے آنسووں کو روکتے بولی 

ساہیوال ۔۔۔۔۔؟ وہ جو مشکل سے اُسکی آواز سن پایا تھا خود سے بڑبڑایا ۔ 

جبکے بنا کچھ آگے بولے اُسکو گاڑی میں بیٹھنے کا بولا ۔،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ کیا کیا تمہارے بیٹے نے ۔۔۔۔؟ فیصل شاہ کو جیسے ہی وقار شیزاری نے فون پر بتایا تھا 

فیصل شاہ بم بنتے وقار شیزاری کے گھر پہنچے ۔ 

مجھے تو کچھ علم بھی نہ ہوا ، بس یہ باتیں سننے کو ملی کہ عاطف نے لڑکی کو طلاق دیتے گھر سے نکال دیا ؛۔

بابا سرکار وہ لڑکی اچھی نہیں تھی ، کل رنگے ہاتھوں پڑی گئی ، جانتے ہیں آپ میرے دوست کے کمرے میں جانے کیا کر رہی تھی ۔۔۔

بس کرو ۔۔۔ سرشار شیزاری ۔۔۔۔ یہ تمہارے خاندان کی لڑکیوں کا کام ہو سکتا ۔ ہمارے خاندان کی لڑکیاں ایسے کام نہیں کرتی ۔۔۔ 

فیصل شاہ کی آواز بلند ہوئی تو سرشار جو آتے ہی چئیر پر بیٹھا تھا اٹھا ۔۔

اپنی زبان سنبھال کر بات کرو ، وہ بھی مٹھیاں بھنچ چکا تھا ؛۔

فیصل شاہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں، وقار شیزاری ماحول کو گرم ہوتے دیکھ دھمیے سے بولا ۔۔ 

کوئی بات نہیں ہوگئی ، تمہارے بیٹے نے ہمیں پورے خاندان کے سامنے ذلیل کروا دیا ۔،

اگر وہ لڑکی گھر نا پہنچی یا پھر وہ مجھے یہاں نہ ملی تو وقار شیزاری اپنی خیر منا لینا ۔ 

اور ایک بات ۔۔۔۔ سرشار شیرازی تمہارے گھر والے تمہارا یہ گدھا بھائی بےوقوف تم سے بن سکتا ہے 

میں نہیں ، وہ انگلی اٹھاتے بولا تو عاطف شاہ جو ابھی وہاں آیا تھا چونکتے فیصل شاہ کو دیکھ اپنے بھائی کو دیکھا ؛۔

کہنا کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟ سرشار بھی سینا تنے کھڑا ہوا تو فیصل شاہ اُسکے بالکل سامنے ہوا ۔۔۔

سب جانتے ہیں کہ تم باپ نہیں بن سکتے اسی لیے جب تم نے دیکھا کہ عاطف کا بچہ دنیا میں آنے والا تو جل کر اپنے ہی بھائی کا گھر برباد کر دیا ۔،

وہ اتنا بولتے بنا سرشار کی سنے اپنی گاڑی کی طرف لپکا ۔ عاطف فیصل شاہ کی باتوں میں چھپی سچائی اچھے سے جانتا تھا 

لیکن کیا اُسکا بھائی یہ سب کر سکتا ہے ۔۔۔؟ وہ خود سے نفی کر گیا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

مجھے دودھ نہیں پینا ۔۔۔۔ سرحان جو حور کے پیچھے تھا حور صوفے کے پیچھے ہوتے منمنائی ۔ 

پری یہ تو پینا ہی پڑے گا ، سرحان گلاس ہاتھ میں پکڑے اُسکے پیچھے ہی لپکا تو زر جو ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا 

اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھ دبی سے مسکراہٹ رینگتے فون پر ویڈیو بنانا شروع ہوا۔۔۔ 

میں نے کہا نہ ۔۔۔۔ مسٹر سرحان شاہ ۔۔۔ نہیں پینا ۔۔۔ حور بچی نہیں ہے ، جو ایسے دودھ پیے ۔ویسے بھی مجھے دودھ پینا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ۔ 

تمہارے تو اچھے اچھے آج دودھ پیائیں گئے ، وہ صوفے پر چڑھتا ہوشیاری سے اُسکو پکڑ گیا تو ساتھ ہی ملازمہ کو دودھ ٹیبل سے اٹھاتے لانے کا بولا 

چھوڑو ۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔ وہ پوری طرح زور لگائے پڑپڑائی تو سرحان نے اُسکو صوفے پر بٹھاتے اچھے سے قابو کیا 

جلدی پیو ۔۔۔۔۔ وہ گلاس ہاتھ میں لیتے زبردستی اُسکے لبوں سے لگا گیا ، تو وہ رونے والے انداز میں گھونٹ گھونٹ پینا شروع ہوئی ۔۔

زر جلدی سے ویڈیو بناتے آرام سے برہان کے نمبر سینڈ کرتے فون پاکٹ میں رکھا ۔ 

شاباش ۔۔۔۔ سرحان محبت سے چور لہجے میں اُسکے گال تھپکاتے بولا تو حور اپنا منہ صاف کرتے گھورتی اٹھی ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ساہیوال 

ایسا کیا فون پر مل گیا ۔۔۔۔؟ جس کو دیکھ کر مسکرائے جا رہے ہو ۔۔۔؟ آیت جو ابھی روم میں داخل ہوئی تھی 

اُسکے کپڑے الماری میں رکھتی پلٹی اور سیدھا اُسکی طرف پلٹی وہ جو صوفے پر لیٹا ہوا تھا آرام سے ہنستے نیلی نشینی آنکھیں اپنی زندگی پر ٹکا گیا 

آہ ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ زیادہ زور سے گرتی برہان کے سینے پر ہاتھ رکھتے  اُس پر جھکی ۔۔۔۔ 

وہ ناٹک کرتے ایسے ہوا جیسے اُسکو تکلیف ہوئی ہو ،

“ ایم سوری ۔۔۔۔ وہ ڈری تھی ،جبکے ساتھ ہی اٹھنے کی کوشش کی ۔

ابھی تو اس اکیلی سوری سے کام چلنے والا نہیں ۔ جو دل کے مقام میں درد اٹھا اُسکی سزا تو ملے گئی ؛۔

وہ پوری طرح ایکٹنگ کرتے اُسکو بولا تو آیت برہان کے چہرے کو دیکھتے گھبرائی ۔ 

برہان مجھے دیکھنے دو وہ جو اُسکے پاس ہی بیٹھی تھی مقابل کی شرٹ کے بٹن کھولنے کا کام شروع کر گئی تو مقابل نے مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا ؛۔

وہ اُسکی شرٹ کے تین سے چار بٹن کھولتے اُسکے گولی والے نشان کو دیکھ گئی 

“ کیا میرا ہاتھ یہاں ۔۔۔۔۔ ؟؟ وہ اُسکے گولی والے نشان کی جگہ نازک سی انگلی رکھتے کالی سیاہ آنکھیں بھیگا گئی 

وہ اُسکی کالی سیاہ آنکھوں میں ناچتے پانی کی بوندوں کو دیکھ لیٹے سے فورا اٹھتے بیٹھا ۔ ۔۔۔۔

“ برہان شاہ کی۔۔۔۔ جانِ زندگی ۔۔۔۔ تمہارے شاہ کا دل اتنا کمزور نہیں ہے کہ اپنی بیوی کی چند شرارتیں برداشت نہ کر سکے ؛۔

وہ محبت سے اُسکے کندھے پر بازو ٹکاتے گھمبیر ہوا تو آیت اُسکو اچانک سے آرام سے بیٹھتے دیکھ حیران ہوئی ؛۔

“ تم ناٹک ۔۔۔۔۔ وہ اپنی کالی سیاہ آنکھیں بڑی کرتی اُسکا دل دھڑکا گئی 

جاؤ میں نہیں بات کر رہی ۔۔۔وہ ناراض ہوتی اٹھنے کے لیے تیار ہوئی 

ایسے کیسے تمہیں ناراض ہونے دے سکتا ہوں ، وہ اُسکو کمر سے پکڑتے خود پر واپس سے گراتا لیٹا تو آیت اُسکی حرکتوں کو دیکھ ڈور کو دیکھ گئی 

یہ دیکھو ۔۔۔۔!! وہ معنی خیز ہوتا اپنا فون اوپن کرتے اُسکے سامنے کر گیا ۔ آیت جو منمنا رہی تھی 

حور سرحان کی ویڈیو چلتی دیکھ اپنی مزاحمت بند کرتی آرام سے اُسکے ساتھ لگتے ویڈیو دیکھنا شروع ہوئی ؛۔

ویسے میں سوچ رہا ہوں مجھے کب موقعہ ملے گا یہ سب کرنے کا ۔۔؟ وہ اُسکا سر خود کے بازو سے اٹھاتے سینے پر رکھتے ساتھ ہی کیچر اتار گیا 

آیت کے گنے لمبے بال مور کی مانند پھیلاتے نیچے زمین پر بکھرے ۔

وہ محبت سے اُسکے سر پر اپنے لب رکھے خوشبو سانسوں میں بھر گیا ؛۔

آیت جو ویڈیو دیکھ گئی تھی ہنستے برہان کے ساتھ سے اٹھنے کی کوشش کی ۔

کیا مسلۂ ہے ۔۔۔؟ دو منٹ اپنے شوہر کے ساتھ لیٹ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔؟ وہ اُسکو واپس سے کھنچتے خود کے ساتھ لگاتے حصار میں قید کر گیا تو وہ منہ بناتی چوٹکی سی نگاہ ڈالتے گھوری سے نواز گئی ۔ 

میں نے کچھ پوچھا تھا ، وہ اُسکے بالوں میں واپس سے انگلیاں چلاتے بولا 

میں نے سنا ہی نہیں تھا ، وہ جو اُسکے سینے پر زخم والی جگہ پر ملائم سی انگلی چلانا شروع ہوئی تھی 

مصروف سی اپنے کام میں مگن جواب پاس کر گئی وہ جو آرام سے لیٹا تھا اُسکے ایسے بولنے پر سرسری سا سر اٹھاتے دیکھا ۔

میں نے پوچھا تھا یہ وقت ہمارے نصیب میں کب آئے گا ۔۔۔؟ وہ معنی خیز ہوتے پھر سے سرگوشی کرتے استفسار کر گیا 

جب اللہ نے چاہا سب کچھ ہو جائے گا ، وہ خود کی آنکھیں بند کرتی دھمی سے آواز میں بولی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages