Pages

Sunday 19 June 2022

Dar e Yaar By Sara Shah Episode 1 Complete

Dar e Yaar  By Sara Shah Episode 1 Complete 

Sara Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Dar e Yaar By Sara Shah Epi 1 

Novel Name: Dar e Yaar 

Writer Name: Sara Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 1

         در یار  

تحریر ؛۔ سارا      شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 1 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

" اسلام علیکم بی جان"

 ڈائینگ ہال میں بھاری گھمبیر آواز گونجی نوری کی طرف متوجہ بی جان نے چونک کر آواز کی طرف دیکھا۔۔ چھے فٹ سے نکلتا قد،چوڑے شانے،وسیع سینہ،ہلکی بھوری آنکھیں، کھڑی اونچی ناک،ہلکی بھوری شیو اور گھنی مونچھوں تلے عنابی ہونٹ،سیاہ ٹکسیڈو،قیمتی چمکتے شوز بائیں کلائی پر رولیکس گھنے لمبے بالوں کو پونی میں باندھے وہ سامنے سے اپنی اسی مغرور چال میں چلتا ہوا آ رہا تھا۔۔"سردار ابران شاہ"مردانہ وجاہت کا شاہکار مگر وہ اپنے اس حسن سے یکسر بے نیاز تھا اب بھی اس نے بے نیازی سے چیئر گھسیٹی اور بیٹھا۔۔۔انھوں نے نثار ہوتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نوری کو جوس لانے کا کہا وہ فورا حکم کی تعمیل میں غائیب ہوئی کہ "چھوٹے شاہ" کو کام میں دیری سخت ناپسند تھی۔۔ وہ بی جان کی طرف متوجہ ہوا جو اسے ہی دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔

"کل رات کہاں تھے آپ؟؟؟ گھر کیوں  نہیں آئے ہمیں فکر ہو رہی تھی!! "

انھوں نے فکرمندی سے پوچھا۔۔اس سے بات کرتے ان کا لہجہ خاصا نرم تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتیں تھیں کہ مقابل برہم لہجوں کا عادی نہ تھا ۔۔وہ بہت سنجیدہ مزاج رکھتا تھا کافی حد تک روڈ اور جنونی جہاں بات اس کی مرضی کے خلاف ہوتی وہ فورا اپنا آپا کھو کر طوفان کھڑا کر دیتا وہ ایک سمندر کی مانند تھا جو کب شدت پکڑ لے کوئی نہیں جانتا تھا۔۔ اس کے قہر سے ہر کوئی پناہ مانگتا تھا اسی لیئے اس بات کرنے میں وہ خاصی اختیاط برتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بھی ان کے سوال پر وہ اپنے مخصوص لب ولہجے میں دو ٹوک بولا۔۔۔

"ضروری کام تھا بی جان لیٹ تھا کافی تو فارم ہائوس پر رک گیا۔۔۔۔"

اس کے دوٹوک جواب پر انھوں نے گہرا سانس لے کر موضوع گفتگو بدل دیا۔۔۔

"اچھا چھوڑیں ناشتا کریں۔۔۔ آج جرگے میں  آپ کی شمولیت لازم ہے ابران"

ان کی یاد دہانی پر اس نے محض اپنا سر ہلایا اور نوری کے لائے ہوئے جوس کو پینے کے بعد نیپکن سے اپنے لب تھپتھپا کر چیئر سے اٹھا اور ان کے سامنے جھک کے اجازت چاہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"چلتا ہوں بی جان۔۔۔جرگے میں جلدی پہنچ جائوں گا"

"جائو بیٹا فی امان اللہ"

اس کی روشن پیشانی کو چوم کر انھوں نے اسے رخصت کیا۔۔۔ وہ اسے جاتے دیکھ ریں تھیں جو ڈائینگ ہال سے نکل کر پورچ کی طرف جا رہا تھا اس کی چوڑی پشت کو دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں دھندھلاگئیں تھیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

------------------------------------------------------------------------

سردار زلفقار عالم شاہ کو اللہ نے بے تحاشا دولت سے نوازہ تھا ۔۔وہ کوئٹہ کے نامی گرامی لوگوں میں شمار ہوتے تھے آٹھ گائوں کے سرپنچ کی حیثیت بھی رکھتے تھے ان کے جاہ و جلال کی ایک دنیا گواہ تھی ۔۔۔ انھوں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا اور اسی ہٹ دھرمی نے ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آغا جان اور بتول شاہ جو ان کی ماموں زاد تھیں۔۔۔ رب نے انھیں  چار اولادوں سے نوازہ تھا

سب سے بڑے اورنگزیب شاہ جن کی شادی ماہم شاہ سے ہوئی جو ان کی چچا زاد تھیں ان کا ایک ہی بیٹا تھا ابران شاہ جس کی پیدائش پر چالیس دن تک حویلی میں جشن منایا گیا

اس کے بعد زکیہ بیگم جو ماہم کے بڑے بھائی سے بیاہی تھیں مگر شادی کے چار سال بعد تین ماہ کی عنایہ کو لیئے بیوہ ہو کر  بابل  کی دہلیز پر آ بیٹھیں اور شوہر سے ایسی وفا نبھائی کہ دوبارہ شادی کے لیئے راضی نا ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر بابر شاہ جن کو آغا جان نے اپنی بہن کی بیٹی عالیہ شاہ سے بیاہ دیا جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد شاہ حویلی میں رہتیں تھیں ان کے تین بچے تھے ۔۔۔ بڑا بیٹا براق جو ابران سے دو سال چھوٹا اور عنایہ کا ہم عمر تھا۔۔۔پھر ماہین جو اس سے ڈیڑھ سال چھوٹی تھی اور پھر سیف جو ماہین سے دس سال چھوٹا تھا اور زوہیب صاحب کے عون اور عدید کا ہم عمر تھا ۔۔۔۔ زوہیب صاحب کی شادی ان کی ایماء پر عائشہ بیگم سے ہوئی جو بتول شاہ کی بھانجی تھیں ان کی لاڈلی بہن رفیہ شاہ کی بیٹی۔۔۔۔۔عائشہ بیگم اور زوہیب شاہ کے دوجڑواں بیٹے تھے عون اور عدید۔۔۔۔۔۔۔۔

تینوں گھر بھر کے لاڈلے اور بے انتہا شرارتی تھے۔۔۔۔

 بتول شاہ کے بھائی صغیر شاہ جن کے ایک ہی بیٹے تھے وہاب شاہ جن کی شادی انھوں نے رفیہ شاہ کی چھوٹی بیٹی نائلہ بیگم سے کر دی۔۔۔ جن کے دو بیٹے تھے آہل اور ضیغم شاہ ۔۔۔۔۔

ضیغم شاہ بچپن میں بیمار ہوگیا تھا اس لیئے اس نے براق اور آہل کے ساتھ اپنا سکول کالج اور یونیورسٹی کلیئر کی تھی۔۔۔ وہ تینوں بہترین دوست تھے۔۔

مگر اس ہنستے بستے خاندان میں طوفان تب اٹھا جب شاہ حویلی میں "ذونیرہ شاہ" کی آمد ہوئی۔۔۔ اس کی آمد نے ناصرف شاہ حویلی کی جڑوں کو ہلایا بلکہ ان خوشیوں کو ماتم میں بدل کر انھیں ایسا زخم دیا جو بیس سالوں میں ناسور بن کر حویلی کے ہر فرد کو خون کے آنسو رولاتا تھا اس خادثے نے ابران کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا وہ نا زندوں میں رہا نا مردوں میں پچھلے بیس سالوں سے وہ ایک لگی بندھی زندگی گزار رہا تھا۔۔ ہنسنا بھول گیا تھا جس کو ہنستے دیکھ کر بی جان جیتیں تھیں ۔۔آج اسکی یہ حالت ان کی برداشت سے باہر تھی۔۔۔۔

اس حادثے نے اسے بے انتہا وحشی اور جنونی بنا دیا اس کے جنون کا مظاہرہ  وہ چار سال پہلے دیکھ دہل گئیں تھیں۔۔۔ جب اس نے " گلشن نگر کو " گلشن بائی سمیت آگ کی نظر کر دیا تھا۔۔۔۔ ان کے پوچھنے پر اس کا جواب آج بھی ان کے کانوں میں گونجتا تھا۔۔۔۔

"قصاص کی اجازت ہمارہ دین دیتا ہے بی جان میں نے بس اپنا قصاص سود سمیت واپس لیا ہے "

اس کے سرد وسپاٹ لہجے میں دیئے گئے بے خوف جواب  کو یاد کر کے آج بھی ان کے ہاتھوں میں لرزش اتر آتی تھی ۔۔۔۔

-------------------------------------------------------------------------

"مجھے ناشتا نہیں کرنا اماں۔۔۔ آپ مان کیوں نہیں جاتیں "

مدھم اواز کا حامل وجود بھی خاصی کمزور صحت رکھتا تھا۔۔ اس کے مسلسل انکار پر اماں بی نے اسے جوس کے لیئے رضامند کرنے کی کوشش کی۔۔۔

"اچھا روحا میری جان۔۔۔ ناشتا نہ سہی جوس پی لیں پلیز ورنہ میں ناراض ہو جائوں گی"

ان کے منت بھرے لہجے پر اس نے گلاس لے کر لبوں سے لگا لیااور پی کر مصنوعی خفگی سے گویا ہوئی۔۔۔

"پی لیا ہے آب حیات۔۔۔۔ آئیندہ آپ یہ دھمکی نہیں دیں گی سن لیا اپ نے"

اس کے غصے پر انھوں نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا

ان کے معصومیت سے سر ہلانے پر وہ ہلکا سا ہنسی جس سے اس کی سیاہ انکھیں چمک اٹھیں ۔۔۔۔

" اب آپ آرام کریں شاہ صاحب بے آرام کا کہا تھا آپ کو"

ان کی بات پر اس کے مسکراتے لب سکڑ گئے انھوں نے افسوس سے اسے دیکھتیے ہوئے اس کی پیشانی چومی اور باہر نکل گئیں۔۔۔۔ پیچھے اس کی سیاہ آنکھوں سے آنسو قطار درقطار بے آواز بہتے اس کی کیپٹیوں میں جذب ہوتے گئے ۔۔۔

کھڑکی سے اسے روتے دیکھ اماں بی کی بوڑھی آنکھیں بھی نم ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔

----------------------------------------------------------------------

"اٹھ جا کمینے کب تک سویا مرا رہے گا!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اٹھ براق !!۔۔۔۔۔۔۔اٹھ منحوس ورنہ تیرا چوکھٹا پھوڑ دوں گا ۔۔۔۔ اٹھھھھھ۔۔۔"

وہ جو خواب میں اس پری پیکر کے چہرے پر جھکنے ہی والا تھا بےدردی سے کھنچے گئے کمبل پر ہڑبڑا  کر اٹھ بیٹھا۔۔۔۔ اپنے حسین خواب میں مداخلت کرنے والے کمینے(آہل) کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھا جو خود بھی اسے گھور رہا تھا ۔۔۔۔

"کیا موت ہے تجھے سونے کیوں نہیں دے رہا کمینے"

وہ اونچی آواز میں چیخا۔۔۔۔

"بعد میں سونا پہلے اٹھ اور مجھے ناشتا بنا کر دے بھوک لگی ہے جلدی کر"

اس کے چیخنے پر وہ بھی اپنے ماتھے پہ آئے بالوں کو دائیں ہاتھ سے سنوارتا چمک کر بولا ۔۔۔

اس کے شاہی فرمان اور تیسرے کمینے(ضیغم )کو سویا دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔

"تو میں کیا کروں تیرے باپ کا نوکر نہیں ہوں کمینے جا دفع ہو۔۔ اور بنا کر کھا لے اب خبردار مجھے چھیڑا تو منہ توڑ دوں گا !! چل نکل اب"

وہ خلق کے بل غرایا۔۔۔۔اس کی غرانے پر ضیغم بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور معاملہ سمجھنے کی کوشش کر نے لگا۔۔۔۔

"نوکر ہی سمجھ خود کو۔۔۔ اب اٹھ ڈراما بند کر "

وہ بھی جوابا چلایا۔۔۔۔

اس کے چلانے پر براق نے پاس پڑا ٹائم پیس اسے کھینچ مارا جو اس کے کندھے پر "ٹھاہ" کر کے لگا ۔۔۔درد سے بلبلاتے اسنے جوابا ایش ٹرے اس ماری جو اس کے جھکنے پر خاموش بیٹے ضیغم کے ماتھے پر لگی۔۔۔ اب وہ تینوں ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے ۔۔۔اور فلیٹ ان کے چلانے کی آوازوں سے گونج اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تینوں جب بھی کراچی آتے اسی فلیٹ میں رہتے ۔۔۔۔۔ باہر کا کھانا پسند ناہونے کی وجہ سے اپنی اپنی باریاں مقرر کرتے تھے۔۔۔۔۔ جس میں سب سے ذیادہ ڈنڈی براق مارتا تھا اور نتیجا مار دھاڑ نکلتا ۔۔۔۔وہ لال ،نیلے، پیلے ہوتے ایک دوسرے سے شام تک کلام نہ کرتے تھے۔۔۔۔

مگر ان کا ایک دوسے کے بغیر گزارہ بھی ممکن نا تھا ۔۔۔۔۔۔

----------------------------------------------------------------------

"صبح بخیر امی" کمرے سے باہر آتے اس نے پیچھے سے ان گلے میں باہیں ڈال کر ان کا گال چوم کر انھیں صبح بخیر کہا تھا ان کے سبزی کاٹتے ہاتھ رک گئے۔۔۔۔

"اتنی جلدی کیسے اٹھ گئی تم؟؟؟چھٹی کے دن تو تمھاری صبھ گیارہ بارہ بجے ہوتی ہے نہیں؟؟؟"

انھوں نے اس کے آٹھ بجے اٹھنے پر میٹھا طنز کیا جس پر وہ آنکیں پٹپٹا کر معصومیت سے گویا ہوئی۔۔۔

"آپ ہی تو کہتی ہیں نا سسرال والے یہ سب برداشت نہیں کرتے۔۔۔ تو اسلئے یہاں اپنی نیند پوری کر رہی ہوں کیا نہیں کر سکتی؟؟؟"

اس کے جواب پر نور بیگم نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔۔۔۔۔

"اپنی عادات بدل لو علینا سسرال میں مشکل ہو گی عادات اتنی جلدی نہیں چھوٹیں"

اپنی عزت افزائی پر وہ ایک لمبی انگڑائی لیتی اور آنکھ میچ کر نور بیگم کو چڑاتی کچن میں بھاگ گئی پیچھے وہ اس کے بچپنے پر بڑبڑا کر رہ گئیں

----------------------------------------------------------



This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Dar e Yaar  Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dar e Yaar  written by Sara  Shah.  Dar e Yaar by Sara Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment