Pages

Saturday 18 June 2022

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 106 Complete

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Episode 106 Online

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Cousins Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha By Madiha Shah Epi 106 

Novel Name: Nafrat  Se Barhi Ishq Ki Inteha

Writer Name: Madiha Shah

Category: Episode Novel

Episode No: 106

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا 

تحریر ؛۔ مدیحہ شاہ 

قسط نمبر ؛۔ 106 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ جان ۔۔۔ حور جو آیت اور برہان کو روم میں اکیلے دیکھ حیران ہوئی تھی ۔ 

خوشی سے برہان کے قریب جاتے اُسکا ماتھا چوم گئی 

“ جان کی جان تمہاری جان بالکل ٹھیک ہے ، وہ پُرکشی انداز میں بولا تو حور جس کی آنکھیں بھرنے کو آئی تھی ۔ 

ایک بار پھر سے اُسکا ماتھا چوم نرمی سے اپنا ہاتھ اُسکے زخم پر ہلکے سے پھیرتے سرد سانس خارج کر گئی ۔ 

“ ویسے روم لاک کیوں کیا تھا ۔۔۔؟ جانتی ہو میں کب سے باہر ویٹ کر رہی تھی کہ تم اب آو گئی اب آو گئی ۔

جب تم نہیں آئی تو سوچا میں خود ہی اندر چلی جاتی ہوں ، تب اندازہ ہوا کہ روم اندر سے لاک ہے؛۔

حور جو بالکل بھی برہان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی ، آیت کو قریب آتے دیکھ تیکی سی نظر ڈالتے اُسکو شرم دلاتے نظریں جھکانے پر مجبور کیا ۔ 

جبکے اُسکے ایسے شرمانے پر سرحان نے حیرانگی سے چوٹکی سی نگاہ برہان کے چہرے پر ڈالی جس کا چہرہ جہاں بھر کی خوشی عیاں کر رہا تھا ۔۔۔ 

“ جان کیا ہوا تھا یہاں ۔۔۔۔؟ حور بے تابی سے برہان کے قریب ہوئی اُسکا دل جیسے جھوم جانا چاہتا تھا ۔،

ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ، وہ مایوسی سے بچاری شکل بناتے بولا تو آیت لال ٹماٹر کی طرح سرخ ہوتی اُسکی جرات پر حیران ہوئی ۔۔

وہ کیسے بنا خیال کیے سب کے سامنے بول رہا تھا ، تم نے تو اپنے جان کا ماتھا چوم ہی ڈالا۔ اور وہ جو پورے حق لیے ہوئے ہے وہ اتنا بھی نا کر سکی ۔ 

برہان ویسے ہی آنکھوں میں شرارت لیے آیت کو زچ کرنا شروع ہوا تو آیت نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے برہان کو گھور گئی ۔ 

مجھے ایسے فیل کیوں ہو رہا ہے ، جیسے آیت نے آج ضرور کچھ تو کیا ہے جو آپ اُسکو ایسے شرمانے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ 

حور جانتی تھی ، برہان کی شرارت لیکن آیت کا منہ بن چکا تھا ۔ 

سرحان بھی برہان کے قریب ہوا تھا ۔ کون سی دال پک رہی تھی ۔۔؟سرحان اُسکے قریب تھوڑا سا جھکتے کان میں سرگوشی سے دریافت کر گیا 

تو برہان نے مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا چونکہ وہ اگر زور سے ہنستا تو ابھی درد بھی حد سے بڑھتا ۔

تمہیں میری شکل کیا بیاں کر رہی ہے ۔۔؟ وہ نیلی چمکتی آنکھوں سے اتنا کہتے خاموش ہوا ۔ سرحان نے بے یقینی سے پہلے اُسکو تو پھر آیت کی جھکی نظروں کو دیکھا ۔ 

“ اللہ ہمشیہ تمہیں خوش و آباد رکھے شہزادی ، سرحان نے دل میں دعا کی تو ساتھ ہی مسکراتے اپنی بیگم کو دیکھا 

جو پوری طرح برہان کے ساتھ مل آیت کے پیچھے پڑ چکی تھی ۔ 

ابھی بس کرو حور ۔۔۔ برہان کو آرام کرنا چاہیے ، ابھی چلو یہاں سے ۔ سرحان تیزی سے آگے ہوا تھا 

اور حور کو ان دونوں کو اکیلا چھوڑ جانے کا اشارہ کر لیتے باہر گیا تو حور بھی برہان کو صبح کو آنے کا بولتی پیچھے ہی گئی ؛۔

تم کہاں ۔۔۔؟ آیت جو خود بھی پلٹنے لگی تھی ، مقابل کے دوپٹہ ہلکے سے کھنچنے پر وہ خفگی سے اپنی چھوٹی سی ناک پر غصہ لاتے رکی ۔

ابھی اپنی جان کو ہی بٹھا لینا تھا ، آخر اُسنے تمہیں چوم جو لیا تھا ۔ 

میں تو کبھی کچھ کرتی ہی نہیں نہ ۔۔؟ میں یہاں رک کر کیا کروں گئی ۔۔۔؟ 

وہ پوری طرح لڑائی کے موڑ میں آئی تھی ، 

برہان نے دلفریبی سے اپنی زندگی کو ایسے حق سے لڑاتے محبت سے ڈمپل گہرے کیے ۔ 

وہ یہی تو چاہتا تھا ، اُسکی یہی تو خواہش تھی کہ اُسکی محبت اُس پر ایسے ہی حق جتائے ، وہ کب سے ان پلوں کو جینا چاہتا تھا ۔ 

آج وہ پل اُسکے سامنے تھے ، وہ دوپٹہ چھوڑ اُسکا ہاتھ جو بیڈ کے کنارے پر نیچے جھول رہا تھا 

نرمی سے پکڑتے خود کی طرف کھینچ گیا جس سے وہ مقابل کے بالکل قریب آتے جھکی ۔ ۔۔۔

آیت کی سانسیں تیز ہوئی تھی ، وہ کالی سیاہ آنکھیں بڑی کرتی پلکیں کبھی گراتی تو کبھی اٹھاتے اُسکا خوشی سے چہکتا چہرہ دیکھتی ۔ 

“ میں چاہتا ہوں ، جیسے بنا کسی خوف اور پرواہ کئے بنا حور نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا ویسے تم بھی کرو ۔

میں تمہاری چاہت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں ، کیا تم مجھے ایک کس بھی نہیں کر سکتی ۔۔؟ 

وہ محبت سے پاش بھاری گھبمیر آمیز لہجے میں بولا تو آیت نے دھڑکتے دل سے اپنے شوہر کو دیکھا ۔ 

چلو ۔۔۔ اگر شرم آ رہی ہے تو میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں، وہ معنی خیز ہوا تو آیت کی حالت مزید خراب ہوئی ۔

جبکے وہ اتنا بولتے عمل بھی کر گیا ، آیت اُسکی اتنی جلدی بازی پر گھبرائے بچے کی طرح منہ ٹکا گئی ۔ 

آیت جو پوری طرح برہان پر جھکی ہوئی تھی ، اُسکی بند آنکھیں دیکھ گھبراتی کالی سیاہ آنکھوں کی گھنی پلکوں کی بھاڑ کبھی اٹھاتی تو کبھی شرم سے لال ہوتی جھکا دیتی۔ 

وہ دھڑکتے دل کی رقص کرتی دھڑکنوں سے مقابل کے تھوڑا سا مزید قریب ہوا ۔

ہونٹوں کو آپس میں ملائے الجھی ، نظریں ہنوز مقابل کی آنکھوں پہ ٹکائی تھی ۔

مبادا کہیں آنکھیں کھولتے اُسکو دیکھ نا جائے ۔ آیت جو لرزتے دل سے مقابل کے گال کو دیکھ تھوڑا سا اور نزدیک ہوئی 

کہ کالی سیاہ بڑی آنکھیں سرسری سی کھڑکی پر ڈالتے فورا سے ہٹی ۔ عماد سامنے ہی اُسکو نظر آیا تھا ۔

“ برہان چھوڑو ۔۔۔ آیت نے تیزی سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا ۔ 

وہ جو اپنی آنکھیں بند کیے لیٹا تھا اُسکی ہڑبڑی پر نیلی خمار لیتی آنکھیں کھول گیا 

ایسے کیسے چھوڑ دوں ، ابھی تو مزا آنے لگا ہے ، وہ ذومعنی سا آمیز ہوا تو آیت اُسکی ضدی پر رونے جیسی ہوئی ؛۔ 

تمہارا یہ ہم پہ ادھور رہا ، پلیز ابھی چھوڑو عماد آنے لگا ہے ۔ 

وہ التجائی شکل بناتے معصومیت سے بولی تو برہان نے اُسکے سرخ چہرے کو تکا ۔

یاد رکھنا یہ ہمارا ادھور ہے ۔ وہ اب کہ اُسکا ہاتھ چھوڑ آئی ابراچکاتے بولا تو وہ شکر کرتی آرام سے چئیر پر بیٹھی ۔ 

آیت ۔۔۔۔ سرحان لوگ انتظار کر رہے ہیں ، عماد جو روم میں فٹ سے داخل ہوا تھا ساتھ ہی اُسکو آگاہ کیا ؛۔

آیت یہاں میرے پاس رکنے والی ہے  ۔۔۔؟ وہ سوالیہ انداز میں آیت سے گویا تو عماد نے برہان کو ایک نظر دیکھتے آیت کو دیکھا ۔۔۔

جو پہلے تو عماد کی بات سن اٹھنے لگی تھی ، اور اچانک سے برہان کے بولنے پر خاموشی سے واپس بیٹھی۔ 

تم نے ابھی پوچھا ہے ؟ یا پھر اُسکو حکم سنایا ہے ۔۔۔؟ عماد جو خود الجھا تھا ، الجھے لہجے میں ہی پوچھا ؛۔

اُسکو پوچھ رہا ہوں اور تمہیں بتا رہا ہوں کہ وہ یہاں میرے پاس رہنے والی ہے 

برہان نے سرسری سی نگاہ آیت پر ڈالتے غور سے عماد کو بولا ۔

ٹھیک ہے میں سمجھ گیا ضدی شاہ ۔۔۔ عماد آرام سے جیسے آیا تھا ویسے ہی گیا ؛۔

اک دم خاموش ۔۔۔ اس سے پہلے برہان کچھ مزید بولتا آیت نے اُسکے لبوں پر انگلی رکھے اسکو خاموش کروایا ۔

آرام کرو ، تاکہ جلدی سے اٹھ سکو ۔ ابھی آنکھیں بند کرو اور سو جاؤ نہیں تو نرس آئے گئی اور نیند کی گولی دے جائے گئی ۔ 

آیت نے وان کیا تو برہان اُسکے ایسے ڈانٹنے پر مزے لیتے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھرتے آنکھیں بوند گیا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاہور 

پورے یقین ہے نہ ۔۔۔۔؟ کہ یہی گھر ہے ۔۔؟ جمال جو لاہور کے فیروز ٹاون آیا تھا ، ایک چھوٹے سے گھر کو دیکھے اپنے خبری سے کنفرم کیا ۔۔۔!! 

جی ۔۔۔، یہی گھر ہے ؟ ستارہ جہاں کا ، آدمی نے جیسے سنا تھا ویسے ہی بول دیا ۔۔۔۔

جمال بنا دیر کیے اندر داخل ہوا ، جمال نے جس آدمی کو پکڑ تھا ، ُاسکے ذریقے وہ ابھی ستارہ جہاں کے گھر پہنچا تھا 

یہ عورت بھی کبھی جنت کوٹھے میں اُسکی ماں ( آئمہ ) کی خاص ملازمہ تھی ۔ 

جو اُسکا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی ۔ جمال نے جیسے ہی دروازہ ٹھٹکایا تھوڑی دیر بعد ہی ایک درمیانے قد کے دبلے پتلے لڑکے نے دروازہ کھولا 

جی ۔۔۔۔ وہ جمال کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے تاسف سے گویا 

مجھے ستارہ جہاں سے ملنا ہے ، جمال اُس ایک گہری نظر ڈالتے دیکھا 

اماں سے ملنا ہے ۔۔۔؟ کون ہیں آپ ۔۔۔؟ وہ لڑکا حیران ہوا تھا جبکے اپنی ماں کی کھانستی آواز سن سرسری سا پیچھے دیکھا ۔ 

جمال کی نظر بھی اُسی سمیت اٹھی تھی ۔ ان کو بتاؤ جمال شاہ آیا ہے ۔ آئمہ جنت کا بیٹا ۔۔۔۔ 

جمال نے بولتے اُسکو اپنی ماں سے پوچھنے کا گویا ۔

ایک منٹ ۔۔ وہ لڑکا مشکوک نظروں سے دیکھتے واپس روم میں گیا جہاں سے آواز آ رہی  تھی ۔ 

 آ جائیں ۔ وہ لڑکا جیسے گیا تھا اُتنی ہی تیزی سے واپس آتے جمال کو بولا 

ویسے تو اماں کی طبیعت آج کل ٹھیک نہیں رہتی ، لیکن آپ کی اماں کا نام سن وہ خوش ہو گئی ۔

وہ لڑکا جمال کو اپنے ساتھ اندر کی طرف لے جاتے ساتھ ہی بتانا شروع ہوا تو جمال چھوٹا سا سیمنٹ کی دیواریں دیکھ روم میں داخل ہوا ۔

ستارہ جہاں جو ایک عدد چار پائی پر لیٹی ہوئی تھی ، اٹھنے کی کوشش کرتی سامنے ہی نظر آئی تو جمال ایک نظر روم کو دیکھ ستارہ جہاں کے پاس پڑی دوسری چار پائی پر براجمان ہوا ۔۔۔۔

تم ۔۔۔۔ ستارہ کی آنکھیں نمی سے بھری تھی ، وہ عمر سے تو جمال کو زیادہ بوڑھی نہیں لگ رہی تھی ۔ 

لیکن شاید اُسکے حالات نے وقت سے پہلے ہی اُسکو اس قدر بوڑھا بنا دیا تھا ۔ 

تم ہماری جنت کے ۔۔۔۔۔ وہ نم آنکھیں لیے بولی تو جمال خاموش سا صرف سر ہلا سکا ۔۔۔

وہ کہتی تھی ، کہ ایک دن اُسکا خون اُسکو تلاش کرتے اُسکے پاس آئے گا ۔ 

آج میں نے وہ دن دیکھ بھی لیا ، وہ اپنے آنسو دوپٹے کے پلو کے ساتھ صاف کرتے کھانستی بولی 

مجھے جاننا ہے میری ماں کہاں ہے ۔۔۔؟ کیا ہوا تھا ان کے ساتھ ۔۔۔؟ 

وہ اُس جگہ پر کیوں تھی ۔۔۔؟ جمال نے کرب سے آنکھیں بند کرتے لاچارگی سے گویا تو ستارہ نے نمی سے بھری آنکھیں اٹھاتے نوجوان کو دیکھا ۔ 

 وہ جگہ ہی اُسکی پہچان تھی ،  آئمہ نے اپنی آنکھیں کھولی ہی اُس جگہ پر تھی ۔،

لیکن تمہاری ماں کا دل بہت صاف تھا ، وہ کبھی بڑے سپنں نہیں دیکھتی تھی ، 

اللہ جانتا ہے نجانے کہاں سے آئمہ کی ماں سے فیصل شاہ مل گیا تھا ، اُس وحشی انسان نے میری دوست کی زندگی برباد کر ڈالی ۔ 

وہ سب کچھ اُسکا تباد کر گیا ، اب کی بار نفرت سے آنکھیں بھری تھی ، 

اور جمال کو لگا تھا نجانے وہ ابھی کون سی کہانی سننے والا ہے ۔ اور بس پھر ستارہ نے شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ جمال کے آغوش اتارا ۔

جیسے جیسے وہ اپنی ماں کی اذیت سن رہا تھا ، ویسے ویسے رگیں تن غصے سے وہ مٹھیاں بھنچ خود کو ضبط کروانا شروع ہوا ۔

ستارہ یہاں وہی کہانی سنانا شروع ہوئی تھی جو برہان نے زلیخا سے سنی تھی ۔ 

فیصل شاہ تمہیں اُس سے چھین لیا اور جب بچی پیدا ہوئی تو سب کچھ ختم کرنے کا بول دیا ۔۔۔ 

وہ اتنا گر گیا کہ اُسنے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ کبھی اُسکی زندگی کا حصہ تھی ۔،

جمال کی سفاک ہوتی آنکھیں نمکین پانی سے بھری تھی ۔ 

جب فیصل شاہ نے زلیخا کو آئمہ کو ختم کرنے کا بولا تب آئمہ پوری طرح زخمی ہو چکی تھی ۔ 

اُسکو وہاں سے لے کر بھاگنے والی میں ہی تھی ۔۔۔

ہم کوٹھے سے تو بھاگ نکلی تھی ، تب ایک پی سی او سے آئمہ نے کسی کو کال کیا اور اُسکو بلایا تھا ۔ 

وہ شخص آدھے گھنٹے کے بعد وہاں پہنچا تھا ، آئمہ کی سانسیں ٹوٹ رہی تھی وہ مجھے کہہ رہی تھی توں بھاگ جا نہیں تو وہ لوگ تجھے مار دیں گئے ۔

میں وہاں سے بھاگ گئی ، اُس دن کے بعد میں نے کبھی بھی اُس کوٹھے کو نہیں دیکھا ۔،

میری ماں اور بہن کہاں ہیں ۔۔۔؟ جمال تقربیا دھاڑنے والے انداز میں بولا ۔ 

جو شخص وہاں آیا تھا وہ آئمہ کا رشتے دار تھا ، مجھے نہیں پتا ابھی وہ کہاں ہے ، لیکن اتنا جانتی ہوں کہ آئمہ نے اپنی بیٹی اُسکو دے دی تھی ،،

مجھے خبر ملی تھی کہ آئمہ وہی مر گئی تھی ، میں نہیں جانتی کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ لیکن یہی پتا ہے۔ 

ستارہ اتنا بتاتے جمال کی زمین ہلا گئی کیا اُسکی ماں اُسکو دیکھے بنا ہی مر گئی ۔۔۔؟ وہ ایک پل بھی رکا نہیں تو لمبے لمبے قدم اٹھاتے باہر نکلا ۔

ابھی اُسکو صرف اُس شخص کو ڈھونڈنا تھا ۔ جس کا ذکر وہ ستارہ سے سن چکا تھا ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میرپور 

یہ زلیخا والا کام کب ختم ہوگا ۔۔۔؟ کاشف جو ہاشم کو لان میں دیکھ گیا تھا 

ویسے ہی فون پاکٹ میں ڈالتے سیدھا قریب آیا ۔ 

جیسے ہی سر ٹھیک ہوتے ہیں ، میں اُسکو واپس مالک سر کے پاس بھیج دوں گا ۔ ہاشم نے اُسکو ایسے پوچھتے آنکھوں سے ہی وجہ پوچھی ۔

وہ مسلسل ہمارے آدمیوں سے بول رہی ہے ، کہ اُسکو چھوڑ دیا جائے ۔ 

کاشف نے اتنا بولتے اُسکو بس کچھ سمجھایا ۔ جتنے گناہ وہ کر چکی ہے اُسکی سزا تو اُسکو ملنی ہی چاہیے۔ 

ہاشم نے اتنا بولتے جیسے بات ختم کی ۔

ویسے برہان سر کو یہ کب بتانا ہے ، کہ سرحان سر نے مہروز چوہان کو مار دیا ہے ۔۔؟ 

کاشف نے ایک نظر گاڈرز کی طرف دیکھتے ہاشم سے پوچھا 

ابھی تو میں انتظار کر رہا ہوں ، جیسے ہی برہان سر سے میری بات ہوئی میں پہلے یہی بتانے والا ہوں؛۔ 

ہاشم اتنا کہتے آگے بڑھا تھا چونکہ پارٹی کے کچھ لوگ آئے تھے ؛۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

برہان گھر آ چکا تھا ، اور سبھی گھر والے بہت اچھے سے اُسکی دیکھ بھال کر رہے تھے ؛۔

ابھی وہ سوتے سے اٹھا تھا اور بیڈ سے ہلکے سے ٹیک لگائے بیٹھا لیپ ٹاپ خادم سے لیتے اُسکو جانے کو اشارہ کر گیا ؛۔

وہ ایک ہی کمرے میں لیٹے لیٹے بور ہو چکا تھا ، برہان کا زخم ابھی ٹھیک سے بھرا نہیں تھا ۔۔۔

ٹانکے ابھی ویسے ہی لگے ہوئے تھے ، اور پٹی بھی ویسے ہی موجود تھی ۔ 

برہان نے کھولی شرٹ پہنی ہوئی تھی ، اُسکے سبھی بٹن کھولے ہوئے تھے ۔ 

وہ زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا تھا ، لیکن پھر بھی لیپ ٹاپ پر نظریں جما گیا ؛۔

برہان کو سبھی نے بولا تھا کہ نیچے والے کمرے میں ہی کچھ دن آرام کر لو ، لیکن ضدی نے ایک بھی بات نہیں مانی تھی اور سیدھا اوپر آیا تھا، اپنے کمرے میں ۔۔۔ 

وہ جانتا تھا کہ اگر وہ نیچے رہا تھا تو اُسکے پاس ضرور کوئی اور سوئے گا جیسے سرحان یا عماد میں سے ۔۔۔ 

اور برہان چاہتا تھا کہ وہ آیت کے قریب رہے ، اسی لیے وہ مشکل سے ہی سہی اوپر اپنے کمرے میں شیفٹ ہوا ۔ 

لیکن کہتے ہیں ، جو سوچے گئے ضروری تو نہیں پورا بھی ویسا ہی ہو ۔۔۔؟ 

بس پھر آیت کو حور کے ساتھ رہنے کا بول دیا گیا تو عماد اور سرحان برہان کے پاس اس کے کمرے میں سونا شروع ہوئے ؛۔ 

برہان چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہیں سکا تھا ۔ 

تم اٹھ گئے ۔۔۔؟  آیت جو ابھی واش روم سے نکلی تھی ٹاول سے بالوں کو رگڑھتے دیکھ چونکی ۔ 

برہان جو اپنے دھیان میں بیٹھا تھا سامنے نگاہیں اٹھاتے  اُسکے سراپے کو دیکھ ٹائپ کرتی انگلیوں تھما گیا ۔ 

یوں کہ وہ نیلی آنکھیں پوری طرح اُس پر گاڑھ گیا وہ جو بالوں کو ٹاول میں جکڑے ہوئے تھی ویسے ہی چلتے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گئی ۔ 

سنو۔۔۔۔ وہ شائشگی لہجا لیے بولا 

تو وہ پلٹتے مقابل کو دیکھ گئی ، جبکے اُسکے ایسے پکارنے پر ڈرتے کہ کہیں کوئی درد ورد تو نہیں ہو رہا تیزی سے ویسے ہی چلتے قریب آئی ؛۔

کیا ہوا ۔۔۔۔؟ فکر سے پوچھا ۔ 

برہان جو اُسکے ایسے قریب آتے بیٹھنے پر کھویا تھا ، حور سے اُسکو دیکھ گیا :۔

بالوں کو ٹاول میں قید کیے ٹاول کا آدھا حصہ کندھے پر ٹکائے بنا دوپٹے کے وہ اُسکو بہوش کرنا شروع ہوئی تھی 

سہرئی دار گردن جو ابھی بھی پانی کی بوندوں کو چمکا رہی تھی ، چند شرارتی بال جو ٹاول سے نکلتے اُسکی گردن پہ چیکے ہوئے تھے 

مقابل کی نظروں کو وہاں قید کر گئی ۔ وہ سبز گہرے کڑھائی کے اس سوٹ میں قمامیت ڈھا رہی تھی ؛۔

 تھوڑا سا قریب آو ۔۔۔۔ وہ ویسے ہی اُسکو دیکھتے اب کہ نظریں اُسکے چہرے پر ٹکا گیا ؛۔

بھیگا چہرہ ہلکے گلابی ہونٹ بھیگی پلکیں مقابل کو اکسا رہی تھی اور وہ ویسے ہی اُسکے شرارتی بالوں کو دیکھ گیا جو چہرے پر پردہ بنے اُسکو چھوتے اپنے پانی کی بوندیں اُسکے چہرے پر چھوڑ اُسکو تر کر رہے تھے ۔ 

آیت جو فکر سے قریب آئی تھی ، اُسکے ایسے قریب آنے کے کہنے پر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مقابل کو دیکھنے لگی 

جو اُسکو گہری نظروں میں رکھے ہوئے تھا ۔ 

آیت اُسکی گہری سرد نظریں اپنے وجود کے آڑ پار جاتی دیکھ دل کو دھڑکنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔

اُسکو احساس ہوا تھا وہ بنا دوپٹے کے اُسکے سامنے بھیگے وجود سے بیٹھی ہوئی تھی ۔ 

کیا ہوا ۔۔۔۔؟ وہ اُسکو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ بولا 

تو آیت کی شہ رگ اک دم سے سہمے بچے کی طرح تنی ۔ وہ گھبراتی ویسے ہی تھوڑا سا کھسکتے آگے ہوئی 

اور قریب ۔۔۔ وہ ویسے ہی بیڈ سے ٹیک لگائے بولا تو آیت نے کالی سیاہ آنکھیں مزید بڑی کی ۔ 

وہ بالکل بھی نہیں چاہتی تھی کہ برہان کو یہ فیل ہو کہ وہ ابھی بھی ماضی کے خوف میں مبتلا ہے ؛۔

وہ اُسکے مزید قریب آنے کا سن بنا کچھ کہے ویسے ہی تھوڑا سا اور آگے ہوئی ۔ 

وہ ایسے تھوڑا سا مزید قریب ہونے پر پوری طرح مقابل کے نزدیک آئی تھی ۔

مقابل نے غور سے اُسکے نقش کو دیکھا ، جبکے ویسے ہی نظروں کے حصار میں رکھتے اُسکے گردن پر چیکے بالوں کو پیچھے ہٹایا ۔ 

آیت اُسکے لمس کا احساس پاتے ہی آنکھیں بند کر گئی تھی جبکے اپنے ہاتھ جو وہ گود میں رکھ چکی تھی ، اُنکی مٹھی بناتے بھنچ گئی ؛۔

اب رخ اُسکے چہرے کی طرف تھا ، جہاں پر چند شرارتی بالوں کی لٹے اُسکے چہرے کو چھونے کی گستاخی کر رہے تھے ؛۔

وہ ان بالوں کی لٹوں کو پکڑتے زور سے کھینچا گیا ، 

سی۔۔۔۔۔ آیت جس کی آنکھیں بند تھی ، اچانک سے اُسکے ایسے بال کھنچنے پر وہ کڑا اٹھی ۔ 

“ آیت میں ان بالوں کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دوں گا ، وہ پوری طرح جیسے بدمزا ہوا تھا ۔ جبکے اُسکی یہ کیفیت دیکھ آیت نے حیرانگی سے آنکھیں پھیلائی ؛۔

چھوڑو ۔۔۔۔ آیت کو بھی برا لگا تھا ،جبکے تیکی سی نگاہ ڈالتے برہان سے بال چھڑوائے ۔۔۔۔ 

جبکے چہرے پر خفگی سجائے اپنے بالوں کو ٹاول کے اندر کرنا شروع ہوئی 

وہ اُسکا ٹاول ویسے ہی کندھے سے کھنچتے پورا اتار گیا ، وہ کہاں اپنی مرضی کیے بنا رہ سکتا تھا ۔ 

آیت کا منہ پھولا تھا جبکے گھورتے اپنے جاںِ ستمگر کو دیکھا ؛۔ 

مجھے تمہاری بالکل بھی سمجھ نہیں آتی ، ایک طرف کہتے ہو میرے لمبے بال تمہیں پسند بہت ہیں ۔ 

اُس دن تھوڑے سے بال کیا کاٹ دئیے گھر سر پہ اٹھانے کو دوڑ رہے تھے ۔ 

ابھی خود ان چند بالوں کی وجہ سے بال کاٹنے کی باتیں کر رہے ہو ۔۔ 

ایک ہی بار بتا دو کیا کروں ۔۔۔؟ وہ پوری اُسی کے انداز میں ناکل اتارتے بولی تو وہ اُسکے گیلے کندھوں پر بکھرے بالوں کو دیکھتے نیچے اُسکی گود میں اُسکی لہریں پھیلی دیکھ بوندوں کو دیکھ گیا 

جو اُسکے قمیض میں جذب ہو رہی تھی ۔ اب میں ان کو خود ہی کاٹ دوں گئی 

وہ اُسکی گہری ہوتی نظروں سے نروس ہوئی تو تیزی سے بولتے اٹھنے کو ہوئی 

اس سے پہلے وہ اٹھتے دور ہوتی اُسکی بازو کو سخت ہاتھوں میں پکڑتے خود کی طرف کھینچا ۔۔۔۔

آیت جو اُس پر گرنے کو ہوئی تھی ، مشکل سے سنبھلتے اُسکے کسرتی مظبوط ڈولے نما بازو پر ہاتھ رکھتے خود کو اُس پر گرنے سے بچایا ۔ 

یہ سچ ہے مجھے تمہارے گنے ریشمی لمبے بال بہت خوبصورت لگتے ہیں ۔،

لیکن صرف یہ تمہارے پیچھے مور کی طرح پھیلے اچھے لگتے ہیں ، کندھے پر آتے ہیں کوئی مسلۂ نہیں ۔۔۔ 

جب یہ تمہارے چہرے کو چھوتے ہیں تو آگ لگ جاتی ہے ، 

وہ اُسکے گیلے بالوں کو ہاتھ کی مدد سے چہرے سے ہٹاتے گھمبیر بھاری آواز میں بولا 

تو آیت  کے ماتھے پر شکن پڑتے  چند لائن ابھری۔

 جانتی ہو ایسے کیوں ہے ۔۔؟ وہ اب کہ اُسکے چہرے پر چھائی سرد مہری دیکھ سراعت سا دریافت کر گیا ؛۔ 

کیونکہ جب میں برہان شاہ تمہارے چہرے کو پورے حق لیے کبھی چھو نہیں پایا تو ان کی ہمت کیسے کہ یہ مجھ سے پوچھے بنا تمہارے چہرے کا طوائف کرتے ساتھ چھونے کی گستاخی کریں ۔۔۔؟ 

وہ جنوانی انداز لیے شائشگی ہوا تو آیت نے کھولے منہ سے ساکت ہوتے اُسکو غور سے دیکھا ۔ 

وہ تو حیران ہی رہ گئی تھی کہ وہ اُسکے بالوں سے بھی مقابلہ کرے گا ۔۔؟ 

ایسے مجھے دیکھنے سے کیا ہوگا ۔۔۔۔؟ میں سچ ہی تو کہہ رہا ہوں ، وہ اُسکا منہ کھلے دیکھ آہستگی سے ہاتھ سے بند کر گیا 

تو وہ نظریں ادھر ادھر گھوما گئی ۔ ابھی وہ کیا بولتی اُسکو کچھ سمجھ نا آیا تھا ؛۔

یہ تو میرا حصہ ہیں ، تم ان سے ایسے جیلسی کیسے ہو سکتے ہو ۔۔۔؟ وہ کچھ دیر سوچتی سرد آہ بھرتے دھیرے سے بولی 

جانتا ہوں تمہارا یہ ایک حصہ ہے میں نے کب منع کیا ہے ، لیکن یہ بالکل بھی چہرے پر نہیں آ سکتے 

نہ ہی تمہیں چھو سکتے ہیں ، وہ محبت سے پاش ہوتا اُسکے ہونٹوں کو گہری نظروں میں رکھے ساتھ ہی کنارے سے چھوتے گھمبیر ہوا ۔

آیت کی دھڑکن جیسے تیز ہوئی تھی ، پل بھر کے لیے وہ اپنی سانس رک گئی ۔ 

اتنا جنوانی ہونا اچھا نہیں ۔ وہ خود کی نروس ختم کرنے کئلیے موضوع کی طرف مڑی ۔

ابھی میں پورا جنوانی کہاں ہوا ہوں ۔۔۔؟ ابھی تو صرف آیت یہ چند چاہتیں ہیں ۔ سوچ لو اس جنوانی پاگل کے ساتھ ساری عمر تمہیں رہنا ہوگا ۔،

پہلے تو تم نے اظہار نہیں کیا تھا ، لیکن ابھی تو تم میرے دل کی لے میں دھڑک رہی ہو ، تم نہیں جانتی تمہارے اس اظہار نے مجھے  کس مقام پر بٹھا دیا ہے ؛۔ 

میں جن الفاظ کو سننا چاہتا تھا ،وہ تمہارے اظہار کرنے کی صورت میں مجھے تمہاری سلطنت کا مالک بنا گئے ہیں ؛۔

وہ شائستگی سا گھمبیر گویا تو آیت جیسے مقابل کے احساس سن کھوئی؛۔

یہ محبت مجھے تمہارے عشق کا جنوانی بناتی ہے، ایسا لگ رہا ہے مجھے جیسے میں نے دنیا فتح کر لیا ہو ۔ 

یہ محبت بھی کتنی عجیب و غریب ہے ، اگر مل گئی تو دنیا اگر نہ ملی تو بربادی ۔۔۔۔ 

وہ ویسے ہی نیلی نشینی سی آنکھیں اُس پر ٹکائے بولا تو آیت غور سے اُسکا چمکتا چہرہ دیکھ گئی ۔

اُسکو خود پر جیسے رش آیا ، کہ کیا وہ اس قدر اُسکا دیوانہ ہے ۔۔۔!!! 

تم نے جواب نہیں دیا ، کہ سہہ سکتی ہو زندگی بھر میرا جنوانی پن ۔۔۔؟ وہ اب کے اُسکی سہرائی دار گردن میں ناز سے ہاتھ ڈالتے اُسکو جھٹکا دیتے خود کے بے حد قریب کر گیا ۔۔۔

تم ۔۔۔ مجھے ڈرا رہے ہو ۔۔؟ آیت اُسکا یہ جنوانی پن سن تھوڑا سا گھبرائی وہ جانتی تھی وہ اک نمبر کا ضدی ہے 

ساتھ میں جب غصہ آتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ سامنے جان سے پیاری زندگی کھڑی ہے ۔ وہ اُسکی سانسیوں کی تپش چہرے پر محسوس کرتی اندر تک لرزی تھی ۔

مجھ میں کہاں اتنی ہمت کہ تمیں ڈرا سکوں ، میں تو پوچھ رہا ہوں، بہت مان سے ۔۔۔۔ کیا برداشت کر پاؤں گئی میرا ۔۔۔

میں نہیں جانتی تم کیا کہہ رہے ہو ، صرف اتنا جان لو ۔۔۔۔ میرا دل تمہارا مروج سا محتاج ہے ۔ 

آگے آنے والی زندگی میں کیا ہوگا کیا نہیں، وہ اللہ پاک پر چھوڑ دیا ہے ۔ 

ہاں یہ ضرور پورے حق سے کہہ سکتی ہوں ، کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میں کبھی بھی تم سے دور نہیں جاؤں گئی ؛۔

کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔ وہ پوری طرح اُسکی آنکھوں میں دیکھ سراعت سے بولی 

مقابل کے ڈمپل یہ سن ہلکے سے مسکرائے ، ہسپتال والا وعدہ پورا کرو ۔ 

وہ ویسے ہی اسُکو دیکھتے گویا تو آیت جو پہلے ہی اُسکے گردن پر موجود ہاتھ سے لرزتی کرنٹ برادشت کر رہی تھی 

اُسکے ایسے ہسپتال والے وعدے پر گھبرائی ، وہ آنکھیں بند کرتا اُسکے سامنے گال کر گیا ۔ 

آیت اُسکو ایسے دیکھ الجھی تھی ، جبکے دل نے کہا جلدی سے کر دے اور کام فارغ کر کیوں بار بار ایسے لال ہو رہی ہے ؛۔

آیت دل کی سنتے تھوڑا سا آگے ہوئی تو برہان جو پہلے گال کو کیے انتظار کر رہا تھا ، 

اُسکو دیکھنے کے لیے کہ وہ کیا کر رہی ہے ، چہرہ بالکل سامنے کر گیا ۔ 

آیت جو گال پر کس کرنے لگی تھی اچانک سے اُسکے ایسے سیدھا ہونے پر اُسکے لبوں کے بالکل سامنے آتے رکی ۔ 

وہ نیلی آنکھیں لورین سی چمکتی سانسیوں کی ڈور باندھ گیا ؛۔ 

دل نے جیسے کہا تھا کہ جو ہونے لگا ہے ہونے دو ، آیت جو پیچھے ہٹنے لگی تھی برہان نے گردن پر سختی سے دباو دیتے اُسکو ویسے ہی قریب جھکایا ۔ 

آیت کا دل جیسے اچھال کر باہر آنے کو تیار ہوا  ، وہ مقابل کو خود کے ہونٹوں پر نظریں جمائے دیکھ دھڑکتے دل سے آنکھیں بند کر گئی ۔،

وہ بالکل بھی برہان کو اس لمحے سے بدمزا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ جانتی تھی کہ اُسکو اپنے رشتے کو ماضی کی تلخ یادوں سے نکل آگے بڑھنا ہے ؛۔

برہان جو آیت کو ویسے ہی خود کے بے حد کر گیا تھا ، اُسکی سانسیوں کی آہٹ تیز ہوتی اچھے سے سن مہوش ہوا ؛۔

دونوں کے درمیان جیسے فاصلے ختم ہونے کو آئے تھے۔ 

آیت ۔۔۔۔۔ !!! سرحان کی آواز سن آیت اک دم سے ہوش میں آئی تھی

جبکے برہان جس نے گردن میں ہاتھ ڈالا ہوا تھا فورا سے چھوڑ گیا ۔،

آیت جو بھاگنے لگی تھی ، برہان نے دبوچنے والے انداز میں اُسکا ہاتھ دبوچا ۔؛۔

بالکل بھی کہہں نہیں جانے دوں گا ، یہ سب لوگوں نے جو مجھ پر ظلم کرنا شروع کیا ہے نہ۔۔۔؟ 

اس کا بدلا ضرور لوں گا ۔ برہان کا غصے سے برا حال ہوا ،

جو کرنا ہوا کر لینا ، سرحان یہی آ رہا ہے ، پلیز ابھی جانے دو ۔ آیت منمنائی ۔ 

کیا چاہتے ہو وہ مجھے ایسے دیکھے ۔۔۔؟ آیت جس کو اچانک سے اپنے دوپٹے کا خیال آیا تو التجائی کہتے خاموش ہوئی 

تبھی مقابل نے ہاتھ چھوڑا تھا آیت اُسکے انداز پر دل سے مسکرائی ؛۔

اور تیزی سے بھاگتے واپس سے واش روم میں گھسی ؛۔

آیت جس کی حالت مقابل کے ایسے اتنے قریب آتے ہونٹوں کو ہلکے سے چھونے پر ہی خراب ہو گئی تھی 

واش کے ڈور کے ساتھ لگے وہ لال ہوتی خود سے شرما نا شروع ہوئی ؛۔ وہ تھوڑا سا چلتے شیشے کے سامنے ہوئی 

اور دھڑکتے دل سے خود کے لال ٹماٹر کی طرح چمکتے دیکھ خود سے شرماتے اپنا چہرہ اپنے ہی دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی ؛۔ 

آو ۔۔۔۔۔ آو ۔۔۔۔ 

تم لوگوں کا ہی تو کمرہ ہے ، برہان سرحان اور عماد کو ایک ساتھ آتے دیکھ طنزیہ بولا 

ہاہاہاہاہ۔۔۔۔۔

بہت ہی کوئی فنی جوک نہیں تھا ، سرحان اُسکی حالت سے محفوظ ہوتے شرارت سے بولا تو عماد نے اپنے دانت دکھائے ؛۔

ویسے یہ آیت کہاں ہے ۔۔۔؟ مجھے تو لگتا تھا تمہارے پاس ہو گئی ۔۔؟ سرحان جو برہان کے قریب کے دوسری سائیڈ پر آتے ہی گرا تھا ۔ 

نظریں پورے روم میں متلاشی دہراتے مقابل کو دیکھا جو اُسکے آیت پوچھنے پر ہی گاڑھ چکا تھا ۔۔۔

تمہیں کیا کام ہے ۔۔۔؟ مجھے بتاؤ وہ بنا دیر کیے کام پوچھ گیا ۔

مجھے کام اُس سے ہے تو میں اُسکو ہی بتاؤں گا تمہیں کیوں بتاؤں ۔۔۔؟ سرحان جانتا تھا برہان کو کتنی جیلسی ہوتی ہے 

اسی لئے ایسے ہی اُسکا مزہ لینے کے لیے وہ بولا عماد نے مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی ؛۔

آیت جو واش روم میں کھڑی تھی ، ڈور کے ساتھ لگے ہی کان لگاتے سننا چاہا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں ؛۔

میرے خیال سے آج تم لوگوں کو یہاں سے اپنے اپنے کمروں میں شفیٹ ہو جانا چاہیے ۔ 

برہان نے آج سوچ لیا تھا کہ ان کو یہاں سے نکالے گا ۔ 

کیوں ۔۔۔ عماد فورا سے بولا تھا جبکے برہان نے صدمے سے اُسکو دیکھا ؛۔

ایان اور زر بھی روم میں داخل ہوئے تھے اور سیدھے چلتے صوفے پر براجمان ہوئے ۔۔۔۔

میرا مطلب ۔۔۔۔ ابھی تمہیں ہماری ضرورت ہے ، عماد اُسکو ایسے ساکت ہوتے دیکھ جلدی سے گویا 

تو سرحان نے اپنا قہقہہ مشکل سے روکا ۔ 

مجھے تم لوگوں کی نہیں میرے بھائی میری بیوی کے ٹائم کی ضرورت ہے ، رحم کرو مجھ پر وہ بھی کہاں کچھ چھپانے والا تھا ۔ 

ہائاہاہاہ۔۔۔۔۔ 

برہان کی بات سن سبھی کے زندگی سے بھرپور قہقہے گونجے ۔ 

جیسے مرضی ہو اب تمہیں کچھ دن مزید ہمیں برداشت کرنا ہوگا ۔ سرحان اپنی جگہ سے اٹھتے بولا 

تو برہان نے کھا جانے والا منہ بنایا ۔ زر بھی مسکراتے کھڑا ہوا تھا آخر وہ آج سرحان کے ساتھ بڑی حویلی جانے والا تھا ۔ 

ویسے میرے خیال سے تم میری جان کے ڈرائیو ہی بہتر ہو ، برہان نے بھی اُس دن والی بات درمیان میں لاتے اچھالی تو عماد ایان یہاں تک کے زر کا زور سے قہقہہ نکلا ۔۔۔۔

آیت جو واش روم میں کھڑی تھی ، ان لوگوں کی معنی خیز باتیں سن منہ ہاتھ رکھتے ہنسی کو دبا گئی ۔ 

بیٹا کچھ دن انتظار کرو ، شہزادی اگر اپنی کرنے پر آ گئی تو تمہیں ایسے ایسے چنے چھبوائے گئی کہ تمہارے اچھے اچھے یاد رکھیں گئے ۔،

سرحان نے بھی اچھے سے جواب دیا تو برہان کے ڈمپل گہرے ہوئے ، جیسے وہ یہ سن اچھے سے محفوظ ہوا تھا ۔ 

چنے تو تب چھبوائے گئی جب تم لوگ مجھے اکیلا چھوڑو گئے ۔ 

رحم کرو مجھ پر اور مجھے تم لوگوں سے زیادہ میری بیوی کے ساتھ کی ضرورت ہے ، اب تم لوگوں کو واپس چلے جانا چاہیے ۔ 

برہان بھی جیسے پورا فوم میں آیا تھا ۔ جبکے واش روم میں کھڑی آیت مقابل کے ایسے بولنے پر شرم سے لال ہوئی ۔ 

وہ پوری طرح حیران تھی کہ کیسے برہان سب کے سامنے لگا ہوا ہے ،

اچھا ابھی تو مجھے یہاں اکیلا چھوڑ سکتے ہو نا ۔۔؟ وہ سپاٹ سا ہلکے سے چیخا تو سبھی اپنی جگہوں سے اٹھتے کھڑے ہوئے مبادا کہیں ابھی ہمیں باتیں سنانا شروع نہ کر دے 

تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اتنا جنوانی مت بن ۔ سرحان جو آخر پر تھا ڈور بند کرنے سے پہلے ہانک لگائی تو برہان کی نیلی آنکھیں خوشی سے چمکی ۔ 

جیسے ہی وہ گئے روم میں خاموشی چھا گئی ۔ آیت جو ڈور کے ساتھ لگی ہوئی تھی 

اپنے گیلے بالوں کو اٹھاتے جوڑا بناتے ان کو قید کر گئی ۔ 

ہلکے سے ڈور کھولے وہ تیزی سے بھاگتے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس پڑی چئیر سے اپنا دوپٹہ اٹھاتے سر پر اوڑھ گئی ۔ 

برہان نے گہری نظروں سے اسُکو دیکھا تھا ۔ آیت یہاں آنا ۔۔۔ وہ ویسے ہی شائستگی لہجا لیے بولا 

تو آیت جو جانے لگی تھی چوٹکی سی نگاہ مقابل کے آر پار گزاری ۔ 

اس بار تو نہیں آنے والی ، وہ صاف انکاری لہجے میں بولی تو مقابل کے ماتھے پر شکن پڑی ۔۔

تم آ رہی ہو یا میں خود آؤں ۔۔۔؟ وہ دو ٹوک ہوا تو آیت جو روم کا ڈور کھولے باہر جانے لگی تھی 

مقابل کے الفاظ اور سپاٹ چہرہ دیکھ حیرانگی سے منہ لٹکا گئی ۔

جبکے گھورتے تیزی سے قدم اٹھاتے مقابل کے سامنے آتی کھڑی ہوئی 

ایسے مجھ سے بات کیے بنا کیوں جا رہی تھی ۔۔؟ وہ اُسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ساتھ ہی سراعت سے پوچھا گیا 

تو آیت نے پہلے اُسکے ہاتھ کو پھر چہرے کو تکا ، جبکے آرام سے نازک ملائم سے ہاتھ اُسکے ہاتھ پہ رکھا 

تم ابھی سب سے کیسی باتیں کر رہے تھے ۔۔؟ کیا سوچیں گئے وہ سب ۔۔؟ آیت جو برہان کے بالکل سامنے بیٹھ چکی تھی

خفگی سے منہ پھولائے بولی تو برہان نے محبت سے اُسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا ۔ 

آیت مقابل کے اتنے سے عمل پر پوری طرح لرزی ۔ 

تو ان لوگوں کو پھر خود سے عقل ہونی چاہیے ، وہ اُسکو کی حالت سے انجوائے کرتے منصوعی بولا 

وہ ۔۔۔۔ 

“ سر مائے آئی کم ان ۔۔۔۔ اس سے پہلے آیت کچھ بولتی ہاشم کی آواز سن برہان کی طرف دیکھا  

جاؤ ۔۔۔۔ وہ محبت سے اُسکا چھوٹا سا ناک چھوتے گویا تو آیت اُسکے اچانک سے جانے کو بول سن حیرت سے آنکھیں پھیلا گئی؛۔

 ابھی تو تم نے مجھے اپنے قریب بلایا تھا ، اُسکی آواز سن جانے کا بول رہے ہو ۔۔؟ ایسے اتنی مہربانی اُسکے لیے کیوں ۔۔۔؟ 

وہ بھی تیکی سی شکی نگاہ ڈالتے ہلکی آواز میں غرائی تو برہان نے غور سے اُسکے چہرے پر بھڑکتی جیلسی نوٹ کی ۔

وہ میرے کہنے پر آیا ہے ، مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگے گا ، اگر وہ انتظار کرے گا ۔ برہان نے ویسے ہی اُسکے گالوں کو ہلکے سے کھینچا تو وہ مقابل کے ہاتھوں سے سختی محسوس کرتی آنکھیں بند کر گئی ؛۔

اگر یہاں پر سرحان ہوتا تو کیا ۔۔۔ 

آیت جاؤ ۔۔۔ یہ بحث ہم بعد میں کرے گئے ، وہ اک دم سے سینجدہ ہوا تو آیت لب بھنچتے اٹھی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے 




This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Nafrat se barhi Ishq ki inteha written by Madiha Shah.  Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  by Madiha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Cousins Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

 

If you want to download this novel ''Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha '' you can download it from here:

اس ناول کی سب ایپسوڈ کے لنکس

Click on This Link given below Free download PDF

Free Download Link

Click on download

Give your feedback

Episode 1 to 10

Episode 11 to 20

Episode 21 to 35

Episode 36 to 46

 

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  By Madiha Shah Episode 56 to 70  is available here to download in pdf from and online reading .

اگر آپ یہ ناول ”نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا “ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں تو ، آپ اسے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں

لنک ڈاؤن لوڈ کریں

↓ Download  link: ↓

اور اگر آپ سب اس ناول کو  اون لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو جلدی سے اون لائن  یہاں سے  نیچے سے پڑھے اور مزے سے ناول کو انجوائے کریں

اون لائن

Nafrat Se Barhi Ishq Ki Inteha  Novel by Madiha Shah Continue Novels ( Episodic PDF)

نفرت سے بڑھی عشق کی انتہا  ناول    از مدیحہ شاہ  (قسط وار پی ڈی ایف)

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............


 Islamic Ture Stories 


سچی کہانی 


جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی جنگل میں تھا ۔ یکا یک اس نے ایک

بادل میں یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دیے ۔اس آواز کے ساتھ وہ بدلی چلی اور ایک سنگستان 

میں خوب پانی برسا اور تمام پانی ایک نالے میں جمع ہوکر چلا ۔یہ شخص اس پانی کے پیچھے ہولیا ،دیکھتا کیا ہے


If You Read this STORY Click Link

LINK

 

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.


No comments:

Post a Comment