Taweez E Ishq By Hina Asad Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Taweez E Ishq By Hina Asad Complete Romantic Novel |
Novel Name: Taweez E Ishq
Writer Name: Hina Asad
Category: Complete Novel
فروری کے اواخر چل رہے تھے۔۔۔۔
گہری رات کے سائے ہر طرف پھیل چکے تھے
آسمان پر چاند کی بادلوں سے آنکھ مچولی چل رہی تھی۔۔۔
پر اسرارماحول کے سکوت میں بھاری بوٹوں کی چاپ عجب
ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔۔۔
اس کی سانسیں مسلسل بھاگنے کی وجہ سے پھول چکی تھیں۔
وہ صرف سانس لینے کے لئے لمحہ بھر کے لئے رکا۔۔۔۔
کہ سر پر گن کی پچھلی طرف سے وار ہوا۔۔۔۔
اس چھ فٹ کے ورزشی جسامت والے ایک نقاب پوش نے
مضبوطی سے اس کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا ۔۔۔۔۔
وہ جو اس نقاب پوش کے ابھی پہلے وار سے ہی نہ سنبھل پایا تھا۔۔۔
اب تو پوری طرح ڈگمگا کر رہ گیا۔۔۔
اپنی موت کو سامنے دیکھ کر تمہارے ہوش کیوں اڑ گئے ؟
نقاب پوش کی جاندار غراہہٹ سے اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔۔۔۔
مجھے چھوڑ دو دیکھو میں نے کچھ بھی نہیں کیا رحم کرو مجھ پر۔۔۔۔۔۔
وہ کپکپاتی آواز سے اس نقاب پوش سے رحم کی بھیک
مانگنے لگا۔۔۔۔
اس پر ذرا بھی ترس نہ کھاتے ہوئے یے اس نقاب پوش نے
اس کی گردن کی ایک رگ پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص
ِِٹرک سے ایسے دبایا کہ وہ شخص چند لمحوں میں ہی ہوش
و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔
اس سے نقاب پوش کے باقی ساتھی اپنا ماسک اتار چکے
تھے ۔
مگر اندھیرا ہونے کے باعث کسی کے بھی نقوش واضح نہیں ہو رہے تھے۔۔۔
لے چلو اسے تھوڑی سی خاطرمدارت کے بعد سب اُگل دے گا۔۔۔
یس کیپٹن ! ان تین جواب دینے والوں میں سے ایک نسوانی آواز بھی تھی۔۔۔۔
انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا ۔۔۔۔۔
****
علی ! اٹھ جاؤ دیر ہو جائے گی اسکول سے۔۔۔
اس نے اپنے دس سالہ بھائی کے چہرے سے چادر ہٹا کر اسے جگانا چاہا ۔۔۔۔
میری سوھنی آپی سونے دیے نا ۔۔۔
بس ایک منٹ ۔۔۔۔ اس نے اپنی بند آنکھوں میں سے ایک
آنکھ ہلکی سی کھول کر اس سے منت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
دُھپ سر تے چڑھ آئی اے تے تہاڈے دونواں دے کھیکھن نئیں مکدے پئے۔۔۔۔۔
(دھوپ سر پر چڑھ آئی ہے اور تم دونوں کے نخرے نہیں ختم ہو رہے)
سکول دا ٹیم نکل گیا نا تے ماسٹر جی کولوں جیہڑی چھترول ہونی اے فیر میں نئیں بچاؤن آنا۔۔۔
(سکول کا وقت نکل گیا تو ماسٹر جی سے جو جوتے پڑنے ہیں میں نے نئیں بچانے آنا)
باہر چولہے کے پاس بیٹھی ان دونوں کی اماں زاہدہ کی آواز
ان کے کانوں میں سنائی دیتے ہی وہ دونوں جلدی سے باہر نکلے۔۔۔۔
میری ساری جہان توں سوھنی اماں ۔۔۔
ایویں غصہ نہ کریا کر۔۔
(میری پیاری اماں ایسے غصہ نہ کیا کریں)
اس نے باہر آ کر پیچھے سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال لیں۔۔۔
جنی سوہنی میری دھی اے اللہ سوہنا ایہدے مقدر وی اوہنے
ہی سوھنے لِکھ دے۔۔۔
انہوں نے پیار سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے دعا کی۔
زاہدہ نے روٹی پکا کر سوھنی کے آگے رکھی تو علی بھی
یونیفارم پہنے تیار ہو کر اس کے پاس آ کر بیٹھا۔۔۔
وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے بھائی کو جلدی جلدی ناشتہ کھلانے لگی۔
زاہدہ کا شوہر گاؤں کے چوہدریوں کا مزارع تھا۔
ایک دن فصلوں کو پانی لگاتے ہوئے سانپ کے کاٹنے سے اپنی
زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔۔۔
اب اس کی جگہ زاہدہ فصل کی کٹائی میں مدد کرنے جاتی
تاکہ گھر کا گزر بسر ہو سکے
اس کی ایک بیٹی سوھنی جورج کے سوہنی تھی۔ سکول
میں میٹرک کرنے کے بعد اب ایک سینٹرمیں گیارہویں کی
تیاری کر رہی تھی گاؤں کے سر پنچ شہریار چوہدری نے گاؤں
میں ایک سینٹر بنایا تھا ۔ جہاں لڑکیاں امتحان کی تیاری
کرتیں اور اوپن یونیورسٹی کے تھرو پیپرز دیتیں ۔۔
وہ پہلے علی کو سکول چھوڑ دیتی پھر سینٹر جاتی۔۔
یہ ان کا ذاتی گھر تھا۔ گاؤں میں چھوٹے بڑے ہر طرح کے
گھر موجود تھے۔
ان کا گھر کچا بنا ہوا تھا جو گارے اور مٹی سے تعمیر کیا
گیا تھا۔۔۔
وہ پنجاب کے ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھے
اس لیے وہ دونوں جب بھی آپس میں بات کرتیں ٹھیٹھ
پنجابی زبان کا استعمال کرتیں۔۔
مگر سوھنی سکول اور سینٹر میں اردو زبان ہی استعمال کرتی۔
ان کے گاؤں میں جاگیردارانہ نظام رائج تھا ۔۔
گاؤں کی آدھی سے زیادہ زمینیں چودھریوں کی ملکیت تھیں۔
زاہدہ کام پر جانے سے پہلے روز کی طرح مٹی کی کٹوریوں
کو آج بھی باجرےاور پانی سے بھر رہی تھی۔
اور بنیرے پر رکھنے لگی یہ انہوں نےخاص پرندوں کے کو
سورج کی تپش سے بچانے کی خاطر بنائے تھے ۔
یہاں آ کر پرندے اپنی بھوک اور پیاس مٹا کر اڑ جاتے۔۔۔
زاہدہ اسے صدقہ کہتی۔۔۔ مگر 'غریبوں کا صدقہ' آسانی سے
کی جانے والی نیکی کہتی تھی۔۔۔۔ان کا ماننا ہے کہ جو
ہمارے رب کی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرےگا ۔جب اسے
ضرور پڑے تو خدا وہاں سے اس کے لیےآسانیاں پیدا کر دے
گا جہاں اس نے امید ہی نہ کی ہو۔۔۔۔
سوھنی روز کی طرح انہیں یہ کرتا دیکھ کر سوچ رہی تھی۔
****
اعیان چودھری اس وقت اپنے بابا چوہدری شہریار کی
اسٹڈی روم میں موجود تھا وہ گاؤں کی زمینوں کے
دستاویزات پر نظرثانی کر رہا تھا اس کی مصروفیت میں
دروازے پر ہوتی تھی ہلکی سے دستک نے خلل ڈالا۔۔۔
آنے والی ہستی کو دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری ۔۔۔۔
کیسے ہیں آپ ؟
اس نے میٹھی سی آواز میں کہا۔۔۔
تمہیں دیکھ لیا تو ٹھیک ہوگیا۔۔۔۔
اعیان نے عروج کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔۔۔
اس کے ہاتھ میں موجود گرم چائے کا کپ اعیان کے بازو پر گرا۔۔۔۔
عروج سہم کر پیچھے ہٹی۔۔۔۔
م ۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا بس غلطی سے گر گیا۔۔۔۔
عروج کی ڈر کے مارے جان نکل رہی تھی وہ اعیان کے غصے کے بارے میں بخوبی جانتی تھی ۔
اعیان کی سرد نظروں سے اسے خوف آ رہا تھا۔
بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔ نرم لہجہ اپناکر کہتے ہوئے اس نے پھر سے اپنا
ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ اس کے ساتھ بستر پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
اس کا نازک سا ہاتھ اعیان کے مضبوط ہاتھ میں کپکپا رہا تھا ۔۔۔
اس نے نرمی سے اسے شانےسے تھا م کر اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔
تم جانتی ہو نہ ہمارے رشتے کے بارے میں؟ بچپن سے تم میرے نکاح میں ہو۔۔۔
بیوی ہومیری۔۔۔۔۔ پھر مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟
وہ۔۔وہ میں بس وہ منمناتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا ہوا تم یہاں آئی تمہاری ماں تو تمہیں میرے پاس
پھٹکنے بھی نہیں دیتی ۔۔۔۔
عروج اپنی ماں کے بارے میں یہ سن کر خفا نظروں سے اسے
دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
اچھا کچھ نہیں کہتا ان کو تم ذرا ادھر آؤ۔۔۔۔
اعیان نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا۔۔۔۔۔۔
یہ یہ ۔۔کیا کر رہے ہیں ؟
عروج نے اس کے حصار میں سے نکلنا چاہا۔۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔
اب دوبارہ اتنے دنوں بعد ملنے آئی تو اس سے بھی برا کروں
گا شرافت سے روز آ جایا کرو۔۔۔
اعیان نے اس کے کان کے قریب ہو کر کہا ۔۔۔
******
ٹن ۔ ٹن ۔ ٹن۔
گھنٹی کی مسلسل آواز حویلی کے ایک کمرے میں سے آرہی تھی۔
مگر ہرکسی نے اس آواز کو نظر انداز کیا۔۔۔۔
سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے۔۔۔
انہیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی جگ میں پانی ختم ہو چکا تھا۔
اپنی شریک حیات کے موت کے غم نے انہیں اس حال میں
پہنچا دیا تھا۔
اسی کے بارے میں سوچ سوچ کر بی ۔پی اتنا ہائی ہوا کہ ان
کہ دماغ پر برااثر ہوا۔۔۔۔
جس کے ۔نتیجے میں ان کو فالج کا اٹیک ہوا۔۔
اب وہ پیرالائز ہو چکے تھے۔بولنے میں بھی شدید دِقت کا
سامنا تھا۔
گھر کا سب سے بڑا فرد ہونے کے باوجود کوئی بھی ان پر
توجہ نہ دیتا۔۔۔
بے کار سامان کی طرح انہیں حویلی کے ایک کمرے میں
چھوڑ رکھا تھا۔۔۔۔
چوہدری شجاعت جدی پشتی سردار تھے ۔
وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ اپنے پُرکھوں کی
حویلی میں قیام پذیر تھے۔
حویلی کا نقشہ اگرچہ کافی پرانا تھا۔لیکن وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کرتے گئے۔۔۔
عمارت کے بیرونی حصے پر بہت عمدہ نقش و نگاری کی
گئی تھی جو اپنی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔
آپ کے بڑے بیٹے چودھری شہریار تھے جنہوں نے پڑھائی کے
سلسلے میں اپنی زیادہ تر زندگی شہر میں گزاری تھی۔
وہ پیشے کے لئے لحاظ سے وکیل تھے ۔ چوہدری شجاعت نے
ان کی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک لڑکی نادیہ سے کر دی
تھی۔شادی کے پانچ سال تک ان کے ہاں کوئی اولاد نا تھی۔
ان کی دوسری شادی حیا سے ہوئی۔۔۔۔
نادیہ میں سے ان کے دو بیٹے اعیان اور زیان تھے۔
جبکہ حیا سے ایک بیٹا عالم تھا۔
جو باقی دونوں سے بڑا تھا۔
ان کے دوسرے بیٹے دلاور چوہدری کی بیوی فائزہ کا تعلق
بھی خاندان سے ہی تھا۔
ان کے دو بچے سعد اور عروج تھے۔
چوہدری شجاعت کی بیٹی درِ مکنون تھی۔
شادی کے پہلے سال ہی ان کی اولاد نور کے اس دنیا میں آتے
ہی اس کے شوہر کا شہر جاتے ہوئے ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ۔۔۔
تب سے اس کا شمار بھی حویلی کے مستقل مکینوں میں ہونے لگا۔۔۔۔۔
اعیان چودھری جو حویلی کے باہر کھڑا کسی ٹھیکے دار سے
زمینوں کا حساب کتاب لے رہا تھا ساتھ ساتھ ایک نیا فارم
ہاؤس بنوانے کے لیے ایک دو لوگوں سے اس کے متعلق بات کررہا تھا۔۔۔
زیان چودھری اس کا لاڈلا چھوٹا بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ جیپ سے نیچے اترا۔۔۔
اسلام وعلیکم السلام لالا۔۔۔۔
وعلیکم السلام!اعیان نے اسے جواب دیا۔۔۔۔
کہاں کی تیاریاں ہیں؟اعیان نے اسے تیار دیکھا تو پوچھا۔۔۔۔
اس نے سر کھجاتے ہوئے اس سے نظریں نہ ملاتے ہوئے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔۔۔۔
لالا وہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کھلنے جانا چاہتا ہوں آپ سے اجازت لینی تھی۔
کل تک واپس آجاؤں گا۔۔۔۔
اعیان کچھ دیر خاموش رہا پھر سوچتے ہوئےبولا۔۔۔۔
ٹھیک ہے چلے جاؤ مگر اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔
اور کل مطلب کل ہی ہوتاہے۔۔۔۔
کل ہر حال میں تم مجھے اپنے سامنے چاہیے ہو ۔۔۔آئی بات سمجھ میں؟
You are great Lala....
یہ کہتے ہی وہ اس کے گلے لگا۔۔۔۔۔
پھر اپنے دوستوں کے جیپ میں بیٹھ کر سفر پر نکلا۔۔۔۔
یار زیان تیرا لالا تو مجھے بڑا جلاد لگتا ہے۔۔۔
اس کے دوستوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔
باقی سے دوستوں نے بھی اس کی تقلید کی۔۔۔
اے خبردار !جو میرے لالا کو کچھ بھی کہا۔۔۔
منہ توڑ دوں گا میں تمہارے۔۔۔۔
اس نے غصے سے کہا۔۔۔۔
*****
اس کا اُجلاسفید چہرہ کالی چادر کے ہالے میں میں پر نور لگ رہا تھا۔
چہرہ ابھی تک ہلکا سا نم تھا۔
نماز ادا کرنے کے بعد اب وہ آٹا گوند رہی تھی اسلام علیکم
اماں ! اس نے اپنی ماں کو سامنے کمرے سے باہر آتے دیکھ کر کہا۔۔۔
وعلیکم السلام !
یہ کیا اب بھی تک آٹا ہی گوندھا ہے ۔انہوں نے تحیرسے کہا ۔۔۔
تو کیا ہے روٹیاں اب تم بنا لو نا۔۔۔سارا کچھ میں ہی کروں گی کیا؟
میرے ہاتھ دیکھو۔۔۔۔۔سارے کام میں ہی کروں گی کیا؟
وہ خفگی سے منہ پھلائے گوندھا ہوا آٹا ایک برتن میں نکال کر وہاں سے اٹھی اور ہاتھ دھونے لگی۔۔۔
ایہہ جیہڑی تیری گز بھر لمبی زبان ایہے اینہوں لگام دے۔اگلے گھر جا کہ میرے سر وچ کھیہ پوائیں گیں۔۔۔
(یہ جو گز بھر لمبی زبان ہے اسے کنڑول کرو اگلے گھر جا کر میرے سر میں مٹی پڑواؤ گی)
میں کیہڑا اینا بولنی آں۔؟
(میں کونسا اتنا بولتی ہوں)؟
اچھا چل چھڈ نا اماں تینوں اک چیز وکھانی سی۔۔۔
(اچھا چھوڑیں نا اماں آپ کو ایک چیز دکھانی تھی۔)
اس نے لا کر کولہا پوری چپل ان کے سامنے رکھی۔۔۔
کل بچیاں کولوں جیہڑی فیس ملی سی اوہدی میں ایہہ خریدی اے
کنج دی اے؟
(کل جو بچوں سے فیس ملی تھی اس کی خریدی ہے کیسی ہے؟)
سادی سی کالی چپل اس پر تین چمکتے ہوں سٹون لگے تھے ۔
ٹھیک اے۔۔۔ انہوں نے سرسری ساجواب دیا۔
ٹھیک اے۔۔۔۔ ایہہ کہو جیہا جواب اے۔۔۔
(یہ کیسا جواب ہوا)۔۔۔۔
اس نے تحیر میں لہجے میں پوچھا ۔۔۔
بے عقل ۔۔۔توں سمجھدی کیوں نہیں۔۔۔ جتی دی تعریف نہیں کری دی ۔۔۔
انھوں نے ماتھا پیٹنے کے انداز میں سر پر ہاتھ مار کر کہا ۔۔
او۔۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔۔۔
سوھنی گھر میں بچوں کو سینٹر سے واپس آکر ٹیوشن
پڑھاتی تھی اسے کیا پتا تھا کہ یہی جوتی اس کی قسمت
بدلنے والی تھی اب یہ قسمت خوش قسمتی میں بدلنے والی
تھی یا بد قسمتی میں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرنے والا تھا۔۔۔۔۔
****
دو دنوں سے وہ بھوکا پیاسا اسی حالت میں پڑا ہوا تھا۔
اس پر شاید بے ہوشی میں تشدد کیا گیا تھا
وہ نیم مردہ حالت میں اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔
یہ ایک قدرے تاریک کمرہ تھا۔
جہاں اسے رسیوں سے باندھا گیا تھا
اس نے کمرے میں موجود واحد کھڑکی کی طرف دیکھا اس سے پہلے کہ وہ فرار کا کوئی راستہ ڈھونڈ پاتا۔۔۔۔
وہی افراد دھڑ سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آئے۔
اس کا حلق خشک تھا۔
پانی۔۔۔۔
پانی۔۔۔۔
اس ۔نے بمشکل آواز نکالی۔۔۔۔
بھئی اسے پانی چاہیے۔۔۔۔
لاؤ پانی اس کے لیے۔۔۔۔ایک کی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔
کچھ ہی دیر میں ایک آدمی ہاتھوں میں گرم کھولتا ہوا پانی کا باؤل لے کر آیا۔۔۔۔۔
اسے تیرے حلق سے نیچے اتار دوں گا اگر منہ نا کھولا۔۔۔۔اس کی دھاڑ پھر سے گونجی۔۔۔۔
اسے مار مار کر وہ حشر کیا کہ اس کہ جسم پر نیل کے نشانات پڑ گئے۔۔۔۔۔
جسم پر جگہ جگہ سے خون نکلنے لگا۔۔۔۔
تھوڑی سی خاطرمدارت کے بعد وہ سب کچھ اُگل چکا تھا۔۔۔۔
وہ سب اس سے معلومات اکٹھا کیے وہاں سے جا چکے تھے۔۔۔۔۔
****
نور نے گھر کی لینڈ لائین سے فون ملایا۔۔۔۔
اس نے بڑی مشکل سے عالم کا نمبر حاصل کیا تھا۔
مسلسل بیل جا رہی تھی ۔۔۔
مگر کوئی بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر اس وقت حویلی میں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
نور نے ایک بار پھر سے ہمت کر کہ نمبر ملایا۔۔۔۔
تیسری بیل پر کال ریسیو ہوتے ہی وہ فوراً بولی۔۔۔۔
عالم آپ ڈیرے پر ہیں؟ گاؤں کب آئیں گے؟
اس نے اشتیاق سے پوچھا
کیوں کیا تکلیف ہے ؟
اس نے احساس سے عاری سرد مہری سے کہا۔۔۔
کب سے آپ کو دیکھا نہیں آپ کی بہت یاد آ رہی۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی۔۔۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔۔اس نے کرخت لہجے میں کہتے ہی فون بند کر دیا۔۔۔۔
نور فون کٹ جانے پر حیرانگی سے اسے گھورنے لگی۔۔۔
وہ سست روی سے چل کر کمرے سے باہر نکل رہی تھی کہ
دوسری جانب سے آتے سعد چودھری سے اس کا زور دار ٹکراؤ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ ! نور نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر غصے سے اسے گھورا۔۔۔۔۔
اندھے ہو کیا ؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے؟
آنکھیں کیا ادھار دے چھوڑیں ہیں؟
نہیں دیں تو کبھی ان سے کا بھی لے لیا کرو۔۔۔۔نور نے تنفر سے اسے کہا۔۔۔۔
سعد اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے قدرے خالی جگہ پر لے گیا۔۔۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے؟ چھوڑو میری کلائی ....
تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔۔۔۔
مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔۔
میں نے کہا ہے کہ چھوڑو میرا ہاتھ ورنہ میں اماں کو بتاؤں گی تمہاری بدتمیزی کے بارے میں۔۔۔
اس نے اپنے تئیں اسے ڈرانا چاہا۔۔۔۔
ہا ۔ہا ۔ہا۔۔ وہ طنزیہ انداز میں مسکرایا۔۔۔
تمہاری اور میری اماں دونوں یہی چاہتی ہیں جو ہو رہا ہے۔۔۔۔
اس نے نور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بے خودی سے کہا۔۔۔۔
کیا وہ تمہیں میرے ساتھ یہ بیہودگی کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں؟۔۔۔۔۔
ابھی تو میں نے کوئی بے ہودگی دکھائی ہی نہیں۔۔۔۔۔
زیادہ نخرے دکھائے نا تو تمہیں بیہودگی دکھانے سے مجھے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔۔۔۔
سعد چودھری غرایا۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ ہتک آمیز انداز میں اس کی کلائی کو جھٹکا دے کر چھوڑتے ہوئے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔
*****
پورے گاؤں میں اس وقت شام پھیل چکی تھی سڑک کی
دونوں اطراف میں دور تک دیو قامت درختوں کی قطاریں تھیں۔۔۔۔
اور سڑک کے ساتھ ساتھ نہر بھی تھی۔۔۔
کپاس کی فصل پک کر تیار ہو چکی تھی جو شام کے
دھندلکے میں سحر انگیز منظر پیش کر رہی تھی۔
آج شام وہ تینوں اکھٹے گھر سے نکلے تھے۔۔۔۔
اماں میں نے سنا ہے یہ چودھری بڑے ظالم ہیں آئے دن
چودھری اور ساتھ کے گاؤں والے آرائیں ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہوتے ہیں۔۔۔
عورتیں تو ان کے لیے جیسے بھیڑ بکریاں ہیں
ان کی عزت کرنا تو ان پر جیسے فرض ہی نہیں۔۔۔۔
سوھنی کا غصہ کسی طور بھی کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔
توں پرائے پھڈیاں وچ نہ پے۔۔۔۔
اپنے کم نال کم رکھ۔
(تم دوسروں کے کاموں میں نہ پڑو۔۔۔اپنے کام سے کام رکھو)
جدوں وی کوئی چودھری تیرے کولون لنگھے اوتھوں چپ کر کہ لنگھ جا اوہناں نال کوئی وی گل کرن دی ضرورت نئیں۔عورت دی عزت اوہدے اپنے ہتھ وچ ہندی اے۔
سمجھ وچ آئی میری گل ؟
(جب بھی کوئی چودھری تمہارے پاس سے گزرے وہاں سے چپ کر کہ گزر جاؤ ان سے کوئی بھی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں عورت کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے سمجھ میں آئی میری بات ؟
سوھنی نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
اب وہ تینوں بازار سے تھوڑا سا راشن لینے کے لیے اسی طرف نکل گئے۔۔۔۔
اس وقت وہ اپنے مخصوص خفیہ فلیٹ میں موجود تھے۔
سر۔۔۔۔ اس میں وہ تمام ڈیٹیلیز موجود ہیں جو ہمیں ریڈ کے دوران ملیں تھیں۔۔۔۔
عمر نے فائلز کو سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
سر اس میں اسلحے اور ڈرگز کی تمام معلومات شامل ہیں
کہ وہ یہ اسلحہ اور ڈرگز کہاں سے کہاں تک کن لوگوں کو سپلائی کر چکے ہیں۔
ایجنٹ صالح نے کہا۔۔۔۔
سب سامان جوضبط کیا گیا ہے وہ کہاں ہے؟
اس کی بھاری گھمبیر رعب دار آواز گونجی۔۔۔
سر وہ بیسمینٹ میں بحفاظت موجود ہے۔
ایجنٹ پارسا نے بتایا۔۔۔۔
ہہم۔۔۔۔۔ُگڈ۔۔۔۔
یہ ابھی کامیابی کی طرف ہمارا پہلا قدم تھا اس میں جیت
حاصل کرنے کے لیے ہمیں اسے جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔۔۔۔۔
اس مشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے چاہے ہمیں اپنی
جان بھی قربان کرنی پڑی تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔
یس سر ! ان تینوں نے جزبہ حب الوطنی سے سرشاری سے لبریز بلند آواز سے کہا۔۔۔
ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔۔۔۔
چیف اس کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔اس ملک کے ہر دشمن کواس کے انجام تک پہنچانا ہی ہمارا عزم ہے۔
اس نے صالح اور عمر کے جذبے پر ان کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر ان کے جذبے پر انہیں تھپکی دی۔
کیپٹن کے سامنے پڑا فون رنگ ہوا۔۔۔۔
تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا فون اٹھا کر کان سے لگایا۔۔۔
چند دعائیہ کلمات کے بعد مشن کی تمام تر ڈیٹیلیز ان کے گوشِ گزار کر دیں۔
Ok Captain John Report to the Headquarter
حکمیہ آواز سن کر اس نے مودبانہ انداز میں کہا۔
Roger Sir.
کل ہمیں ہیڈ کوارٹر جا کر رپورٹ کرنی ہے اس کے لیے ہمیں صبح جلدی نکلنا ہو گا۔
آپ سب اپنے رومز میں جا کر آرام کریں۔
اس کی ایک آواز پر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔۔۔
*****
شہریار چوہدری کی بہن درِمکنون بیوگی کا داغ لگتے ہی
حویلی واپس آ چکی تھی۔اس کے ساتھ اس کی بیٹی نور بھی تھی۔
در مکنون سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنے بال سلجھا رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھول کر نور اندر آئی۔۔۔
اماں میں کہے دے رہی ہوں شادی کروں گی تو صرف عالم سے۔۔۔۔۔
آپ کو کسی بھی طرح میری شادی اسی سے کروانی ہو گی۔۔۔۔۔
اپنی آواز آہستہ رکھو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔
انہوں نے سنگھار میز پر برش زور سے پٹختے ہوئے کہا۔۔۔۔
خبردار ! جو اس آوارہ عالم کا نام اپنے منہ سے نکالا۔۔۔۔
سالوں سے ڈیرے پر بھٹکتا رہتا ہے۔۔۔
آ جاتا ہے منہ اٹھا کر اپنے باپ کو ملنے کبھی کبھار۔۔۔
ہم حویلی والوں کو تو وہ منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔۔۔
پتہ نہیں کیا کرتا ہے؟کیسا کردار ہے اس کا؟
تم چلی ہو اس کے ساتھ ساری زندگی کا سودا کرنے۔۔۔۔
اور سب سے بڑی بات وہ ایک ونی کا بیٹا ہے۔
اس کا اس گھر میں کوئی مقام نہیں۔۔
میں نے تمہارے لیے کچھ اور سوچا ہے۔۔۔۔
نور نے الجھن میں مبتلا ہوئے ان کی پوری بات پر غور کیا۔۔۔۔
میں چاہتی ہوں کہ تمہاری شادی میرے چھوٹے بھائی دلاور کے بیٹے سعد سے ہو جائے۔۔۔
سعد کا نام سن کر وہ بدک کر پیچھے ہوئی۔۔۔۔
سعد۔۔۔۔۔واہ ۔۔۔اماں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا آپ کو میرے لیے۔۔۔۔
میں آخری بار کہہ رہی ہوں آپ کو شادی کروں گی تو صرف
وصرف عالم سے ورنہ کسی سے بھی نہیں۔۔۔
اس نے تڑخ کر جواب دیا۔۔۔۔
یہ میری ہی بے جا ڈھیل اور کُھلی چھوٹ کا نتیجہ ہے جو تو میرے سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔
انہوں نے تیز آواز میں کہا۔
مگر وہ ان کی بات پر کان دھرے بنا پیر پٹختی ہوئی وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
*****
اعیان ! یہ مت بھولو کہ میری بیٹی عروج کا بچپن سے ہی تم سے نکاح ہو چکا ہے۔
اس کی چچی فائزہ نے غصے سے کہا۔
سب جانتا ہوں اچھے سے۔۔۔۔
اب اس بات کا مطلب ؟
اس نے ابرو اچکا کر تیکھے لہجے میں کہا
میری بات کان کھول کر سن لو۔۔۔۔
مجھے پہلے بھی تمہاری غیر لڑکیوں کے ساتھ ساری حرکات کے بارے میں پتہ چلا ہے ۔۔۔
اگر اب تم نےگاوں میں کسی بھی لڑکی کے ساتھ کوئی بھی زلیل حرکت کرنے کی کوشش کی نا تو وہ تمہارا میری بیٹی کے ساتھ نکاح کا آخری دن ہوگا۔۔۔۔
ایسا ویسا کچھ کیا نا تو مجھ سے برا کوئی نا ہو گا۔۔۔۔۔
پہلے ہی عروج کے سامنے بہت سے پردے ڈال چکی ہوں تمہاری حرکتوں پر اب مزید نہیں۔۔۔
تمہیں گدی پر داماد سمجھ کر بٹھانا جانتی ہوں تو
تمہاری حرکتیں سب پر ظاہر کر کہ تمہیں گدی سے نیچے
اتارنے میں بھی مجھے ایک منٹ لگے گا۔۔۔
انہوں نے انگلیوں کو ملا کر چٹکی بجائی ایسے اتاروں گی تمہیں۔۔۔۔
انہوں نے تیز آواز میں اسے وارن کیا۔۔۔۔
جس نے جو اُکھاڑنا ہے اکھاڑ لے۔۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔۔۔وہ غصے میں سر جھٹکتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔۔۔
اور وہ اس کی اکڑ پر بس غور کرتی ہی رہ گئیں۔۔۔۔
*****
ایک گھنا ویران جنگل جس میں ہر راہ خار دار اور اس میں
بھٹکتی ہوئی تنہا لڑکی،بھاگنے کی کوشش میں ہر کانٹوں
بھری راہ اس کے نازک پاؤں کو زخمی کر رہی تھی۔
چہرہ چھپائے جیسے وہ کسی درندے سے بچ کر بھاگ رہی
تھی۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پوری طرح لہو لہان تھی۔
اس نے مدد کے لیے اپنا خون سے لتھڑا ہواہاتھ اس کے آگے بڑھایا۔۔۔
وہ اسے دیکھ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا۔۔۔
اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔
اس کا جسم اس وقت پسینے سے پوری طرح شرابور ہو چکا تھا۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگی تھی۔
اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔اس وقت رات کے 2بج رہے تھے۔
کچھ سالوں سے اسے ایسے ہی خواب آرہے تھے۔
اب تو وہ ان سب کا عادی ہو چکا تھا۔۔۔۔
*******
زیان چودھری کی عمر صرف 20سال تھی۔
جو میٹرک بعد یونہی فارغ گھومتا صرف عیاشیاں کرتا۔
زیان اپنی جیپ میں بیٹھا یونہی گاؤں کے چکر لگا رہا تھا۔
سوھنی جو علی کو لے کر پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی اب کچی سڑک پر آچکی تھی۔۔۔۔
سر پر ہمیشہ کی طرح کالی چادر اوڑھے اپنے وجود کو اچھے سے چھپائے ہوئے تھی۔
کالی چادر سے اس نے اپنے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا۔
بس اس کی آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں۔وہ گھر جانے والے راستے پر گامزن تھی۔
کالی چادر والی لڑکی کے پاؤں میں جو چپل تھی اس پر
موجود چمکتےہوئے نگوں پر سورج کی شعاعیں منعکس ہو
کر جیپ کی شیشے پر پڑیں۔۔۔۔
تو زیان چوہدری اس کی طرف متوجہ ہوا....
جیپ کا دروازہ کھول کر ایک ہی جست میں چھلانگ لگا کر نیچے اترا۔۔۔
اسطرح نیچے اترنے سے چاروں طرف دھول اڑی۔۔۔۔
اس کے قریب چودھریوں کی جیپ کے ٹائروں کی چڑ چڑاہٹ
کی آواز آئی تو وہ بدک کر پیچھے ہوئی۔۔۔
وہ چودھریوں کے لڑکے کو سامنےدیکھ کر اپنا نقاب درست کرتی وہاں سے جانے کے لیے مڑی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے دور ہوتی۔۔۔
اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔
اور اسے جانے سے روکا۔۔۔
اور اس کا سر تا پاؤں جائزہ لیا۔۔۔
سفید میدے کی طرح پاؤں۔۔۔جو کالی چپل میں مقید تھے۔
نازک سراپا اور پھر چہرے تک پہنچا تو بھوری کانچ جیسی
آنکھیں جو اس وقت غصے سے انگارے کی مانند دہک رہی تھیں۔
زلیل انسان چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔
اس نے جھٹکے سے اس کی گرفت میں سے اپنا ہاتھ نکالا۔۔۔
وہ تو اس کی دیدہ دلیری اور زبان کے جوہر پر حیران ہوا۔۔۔۔
طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس کے ارد گرد گھومنے لگا۔۔۔
آج تو لگتا ہے گاؤں کی کسی شیرنی سے پالا پڑا ہے۔۔۔
ہہم۔۔۔اچھی بات ہے کمزور ، روتی اور تڑپتی ہوئی عزت کی
بھیک مانگتی ہوئی لڑکیوں سے تو میں اب تنگ آ چکا ہوں ۔۔۔۔
آج جو ڑ برابر کا ملا ہے ۔۔۔
"مزا آئے گا"۔۔۔۔۔
آپی چلو یہاں سے۔۔۔۔ علی نےہاتھ تھام کر چلنے کے لیے کہا۔۔۔
چل ہٹ۔۔۔۔۔اس نے اس کے دس سالہ چھوٹے بھائی کو دھکا
دے کر پیچھے کیا جو اس وقت اس کے ساتھ تھا۔۔۔۔
خبردار ! چودھری۔۔۔۔
اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو گرنے سے بچا کر انگلی سے اسے وارن کیا۔۔۔۔
واہ میری شیرنی ۔۔۔تیرے حسن کو خراج پیش کرنا تواب مجھ پر فرض ہو گیا ہے۔۔
اس نے اسے کمر سے پکڑ کر جیپ کے ساتھ لگایا اور ہوس
زدہ نظریں اس کے نازک وجود پر گاڑیں۔۔۔
اسے تو اس کی اس حرکت پر اپنے تن بدن میں آگ لگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔
اپنے گھر کی عورتوں کی عزت ہے باقی سب گوشت کی دکان ؟
جب جی چاہا بھوکےکتوں کی طرح ان پر جھپٹ پڑے۔۔۔
حویلی جا کر اپنی ماں بہنوں کو خراج بخش۔۔
یہ کہتے ہیں اس نے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پر جڑدیا ۔۔۔۔
دو ٹکے کی چھوری تیری اتنی ہمت کے زیان چوہدری پر ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔
آج تیری اس دو کوڑی کی عزت کو خاک میں نا ملا دیا تو
میرا نام بھی زمان چوہدری نہیں۔۔۔۔وہ چلا کر بولا۔۔۔
میں تو پھر کی دو کوڑی کی ہوں تو، تو وہ بھی نہیں۔۔۔۔
زیان چودھری نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کے سر سے چادر کھینچ کر دور پھینکی۔۔۔
باپ دادا کے پیسوں پر عیاشی کرنے والے گھٹیا انسان۔۔۔۔
بے غیرت بے غیرت ہی رہتا ہے چاہے اسے کتنا ہی رتبہ کیوں نہ مل جائے۔۔۔۔
جس کی خصلت میں کمینگی میں ہو وہ کبھی نہیں سدھر سکتا۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اس کے غصے کو مزید ہوا دے گئی۔۔۔
یہ بات تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے برابر ہوئی۔۔۔۔
وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو کیے اس کے چہرے پر جھکا۔۔۔۔۔
علی جو کب سے یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پاس پڑی ہوئی اینٹ اٹھا کر پوری
قوت سے زیان چودھری کی طرف پھینکی۔۔۔۔
تاکہ وہ اس کی بہن کو چھوڑ دے۔۔۔۔
زیان چودھری اپنے اوپر ہوئے اس حملے کی تاب نا لاتے ہوئے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے نیچے گرا۔۔۔۔
اس کے سر سے خون کی دھاریاں نکلنے لگیں۔۔۔
چند لمحوں میں اس کا وجود خون سے تر بتر ہو گیا۔۔۔۔
علی نے جا کر سوھنی کی چادر اٹھائی اور اسے دی۔۔۔۔
سوھنی فق نگاہوں سے زیان چودھری کو دیکھ رہی تھی۔
جس کی کھلی آنکھوں میں زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا۔
اس کی زندگی میں ایک ایساانجانا طوفان آنے والا تھا
جو اس کا سب کچھ بہا کر لے جانے والا تھا۔۔۔۔
*****
چیف باقی مشنز کی طرح اس مشن کو بھی
ہم پورا کرکے رہیں گے ۔۔چاہے اس کے لیے جتنا
بھی وقت لگے ہمیں ہمارے مقصد کو پورا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
مجھےمیری ٹیم کی ایجنٹس اور ان کی
صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے یہ کہتے ہوئے
جون کی آنکھوں میں چمک تھی جو کرنل
اسد باجوہ سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔۔
آپ کو اس مشن کو پورا کرنے کے لیے کسی
بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو آپ ہیڈ
کوارٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو وہ
فلیٹ بھی جلد سے جلد خالی کرنا ہوگا
کیونکہ وہ جگہ اب خطرے سے خالی نہیں ۔ہیڈ کواٹر نےآپ
کا ٹھکانہ بدل دیا ہے ۔ انہوں اس نئی جگہ کی معلومات انہیں دی۔۔۔
******
اففف کب تک پیدل چلنا ہو گا پچھلے آدھے گھنٹے سے اس کچی آبادی میں لیے گھوم رہے ...
صالح اور پارسا وہاں سے نکل کر سڑک پر پیدل چل رہے تھے.. جب پارسا نے سوال کیا تھا ..
صالح نے پارساکو گُھور کر دیکھا تھا...
تم نے خود کو بہت چالاک سمجھ رکھا ہے
مُحترمہ شہروزخان کے بندے پیچھے ہیں روز تفتیش کرتے کہاں جاتے ہی ہم۔ کراۓ پر گھر لیا ہوا وہی لیکر جا رہا ہوں ...
گہری رات کے پہر وہاں سے پچھلے راستے نکلیں گے... کیوں کہ شہروز خان کے مطابق ہمارایہی گھر ہے....
میں یہ نہیں کہہ رہی اتنی پاگل نہیں ہوں مجھے پتہ ہے سب...
پارسا غصے سے بڑبڑائی تھی.. صالح کے چہرے پر طنزاً ہنسی آئی تھی...
رات گئے وہ نئے گھر آگئے۔۔۔۔
میں یہ کہہ رہی پاس بھی تو لے سکتے تھے نہ گھر اتنی دور لینے کی کیا ضرورت تھی تمھیں ...
اچھا آگیا گھر اُچھلو مت زیادہ اندر آجاؤ... دروازے کو کھولتے پارسا کا ہاتھ پکڑتے صالح نے کہا تھا اورساتھ ہی گھر کے اندر داخل ہوا تھا...
اُففف تیرا شکر اُففف میرے پیر تھک گۓ... نئےگھر میں آتے ہی پارسا نے برقعے سے آزادی لی تھی اور کمرے میں آتے ہی بستر پر لیٹ گئ تھی ...
پارسا.....
بسترکے پاس کھڑے ہو کر صالح نے پارساکو پکارا تھا مگر پارسا کی تھکاوٹ چہرے سے پڑھ کر بستر پر بیٹھتے وہ پارسا کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا تھا...
تمھیں پتہ ہے صالح سر جون ہم سے بہت کام کرواتے ہیں... میں تھک جاتی ہوں... آنکھیں بند کیے سکون محسوس کرتے پارسا، صالح سے مخاطب ہوئی تھی..
صالح کے لبوں پہ مسکراہٹ آئی تھی...
تو پھر جلدی سے ستیاناس کرتےہیں نہ شہروز خان کا ...
آنکھیں کھولے صالح کے ہاتھ پکڑتے پارسا نے اُکتاۓ انداز میں اس سے کہا تھا...
صالح نے بستر پر لیٹتے پارسا کو اپنے بازوؤں کے حصار میں بھرنا چاہا تھا...
یہ کس خوشی میں ؟ دور ہٹو۔۔۔
پارسا نے اسے دھکا دیا۔۔۔۔
تم سے پیار سے بات کیا کر لی تم تو سر پہ چڑھ گئے۔۔۔
موٹی توند والے ایجنٹ۔۔۔
اس نے صالح کے تھوڑے سے باہر نکلے ہوئے پیٹ کو نشانہ بنایا۔۔۔
اوئے سوکھی لکڑی۔۔۔
زیادہ بن مت۔۔۔۔
صالح نے بھی اس کی سمارٹنیس کو نشانہ بنایا۔۔۔ میں تو بس۔۔۔
اچھا چھوڑو یار۔۔۔۔
ویسےیہ کام اتنی جلدی نہیں ہوتے میری جان تم تو ابھی سے تھک گئ...
ہمیں صرف اسکا ستیاناس ہی نہیں کرنا.کئی کالے دندھوں کے ثبوت چاہیے...
جو شہروز خان نے کسی خفیا جگہ چھپا رکھے....
شاید اس وہ ہمیں ثبوت جلد ہی مل جائیں ..
یہ جان کس کو بولا ؟اس نے اٹھ کر اس کے پیٹ میں زوردار پنچ مارا۔۔۔
وہ پیچھے ہوا۔۔۔
اس نے کلمہ شکر ادا کیا۔شکر ہے اندر آتے ہوئے عمر نے نہیں دیکھا۔
اوہ ہاۓ ! بانس کی بہن کیسی ہو؟.... گھر میں داخل ہوتے ہی عمر نے پارسا کو پُکارا کر اس کی لمبی ہائیٹ پر چوٹ کی۔
اپنی اوقات میں رہو .. تمھارے سامنے اس وقت کیپٹن پارسا ہے بچ کر...
گُھور کر کہتے پارسا ،نے عمر کو دھمکی دی جو اندر کچن میں بڑھ رہا تھا اور عمر کے ساتھ صالح کے ہونٹوں پر بھی ہنسی آئی تھی....
جون بھی عمر کے پیچھے پیچھےاندر آیا ۔۔۔
کچھ دیر کے بعد۔۔۔۔
صالح لے آؤ کھانا اب.. بہت بھوک لگی ہے ... کھانے کا انتظار کرتے عمر نے صالح کو آواز لگائی تھی..
لو جی مہمانوں حاضر ہے میجر صالح کے ہاتھوں کی چکن کڑاھی ....
بعد میں اپنا تعارف کروا لینا ادھر پکڑاؤ اتنی بھوک لگی....
پارسا نے جھٹ سے اُٹھتے عمرکی بات ٹوکتے,ٹرے صالح کے ہاتھ سے لیا تھا..اور کیپٹن جون کے آگے رکھتے کھانا بھی شروع کر دیا تھا ...
عمر نے نفی میں گردن ہلاۓ خاموشی سے کھانا کھانے میں اکتفا کیا تھا...
ویسے موٹی توند والے کھانا تم بہت مزے کا بناتے ہو....
تمہاری بیوی کے عیش ہوں گے قسم سے.... کھانا کھاتے پارسا نے صالح کو کہا تھا...
اب ایسی بھی نہیں بات کھانا تو عمر کو بھی بنانا آتا .. اور مجھے بھی.. اب ہر ایک کی قسمت میری طرح پھوٹی نہیں ہوتی....
صالح نے گُھور کر عمر کو دیکھا تھا...
جو اس کا مذاق بنا رہا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب ہے تمھارا... فورک کو صالح کے چہرے کے سامنے کرتے پارسا نے گُھور کر پوچھا تھا...
میرا مطلب ایسا ہو سکتا نہ میرے والی کو کھانا بنانا آتا ہو تمھیں نہیں آتا نہ ...
اپنی اوقات میں.. یہ نہ ہو تمھاری والی کو چلنا بولنا بھی نہ آتا ہو....
توبہ کرو .... صالح نے سوچ کر کانوں کو ہاتھ لگاۓ تھے .
تم دونوں چپ کر کہ کھانا کھاؤ... آواز نہ آۓ مجھے ...
جون کی غصیلی آواز نے سب کو چپ کروا دیا۔۔
سر نہ ہوتے تو میں دیکھتی تجھے ..
منہ میں بڑبڑاتے پارسا کھانے میں مصروف ہو گئ تھی..
****
حویلی میں جب زیان چودھری کی لاش پہنچی تو کہرام مچ گیا۔۔۔۔
حویلی میں اس وقت سوگ کا سماں تھا۔
حویلی میں ہر فرد اس اچانک جوان موت پر ماتم کناں تھا۔
شہریار چوہدری تو بس آج اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر بالکل ہی ڈھ گئے تھے۔
وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر پائے۔۔۔۔
اور وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے ہی بے ہوش ہو گئے۔۔۔۔۔
اعیان چوہدری نے اپنے لاڈلے بھائی کی جوان میت کو کندھا دیتے ہوئے اپنے دل میں بدلے کا پکا عہد کیا۔
****
اس واقعے کو بیتے ایک ہفتہ گزر چکا تھا ۔۔۔
شہریار چوہدری کی علالت کے بعد گاؤں کی ہر طرح کی زمہ داری اعیان چودھری پر تھی۔
گاؤں کا ہر فیصلہ وہی کرتا تھا۔
زیان کی موت کی تفصیلات اسے معلوم ہو چکیں تھیں۔
آج گاؤں میں پنچایت لگنی تھی۔۔۔۔
آس پاس کے گاؤں کے بھی سب معتبر لوگ اس میں شامل تھے۔
جس میدان میں پنچایت لگنے والی تھی اب وہاں پہنچ چکے تھے۔
بس چوہدری اعیان کے آنے کا انتظار تھا۔
کچھ ہی دیر میں اعیان چوھدری کی جیپ اور اس کی
جیپ کے پیچھے چار اور گاڑیاں بھی جواس کے محافظوں کی تھیں۔
وہ بھی دھول اڑاتی ہوئیں رکیں تو اعیان چودھری باہر نکل
کر ان سب کے درمیان آیا اس کے پیچھے پیچھے اس کے
آدمی بھی تھے جنہوں نے بڑی بڑی رائفلز شانوں پر پہن رکھی تھیں۔
یہ مزارع اس قابل ہوگئے ہیں کہ چوہدریوں پر ہاتھ ڈالیں۔
میں ان کمیوں کی نسل ہی ختم کردوں گا میرے دل میں
لگی آگ تب تک نہیں بجھے گی جب تک میں اپنے بھائی کا خون بہا نا لے لوں۔۔۔۔
اب خون کا بدلہ خون سے چاہیے مجھے۔۔۔۔۔
اس نے بلند آواز میں اپنا مدعا بیان کیا۔۔۔
زاہدہ ،سوھنی اور علی بھی جو اس بھیڑ میں شامل تھے۔۔۔۔
اعیان چودھری کی مانگ سن کر تڑپ اٹھے۔۔۔۔
زاہدہ بھاگتی ہوئی آئی اور اعیان چودھری کے قدموں میں گرتے ہوئے گریہ و زاری کرنے لگی۔۔۔
رحم سائیں ۔۔رحم۔۔۔
میرا بیٹے پر رحم کریں۔۔۔۔۔
اعیان چودھری نے لات مار کر اسے دور پھینکا۔۔۔۔۔
مجھے اپنے بھائی کا بدلہ چاہیے۔۔۔۔
وہ سخت تنفر سے دھاڑا۔۔۔۔۔
چودھری صاحب آپ خون بہا کا بدلہ زر یا زن سے بھی لے
سکتے ہیں وہاں موجود ایک معتبر شخص نے رائے دی۔۔۔۔
اس بڑھیا کے پاس زر تو ہے نہیں ہاں زن کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔۔۔۔
اعیان چودھری نے کروفر زدہ لہجے میں کہا۔۔۔
زاہدہ کے تو یہ بات سن کر ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔۔۔۔
اس بڑھیا سے پوچھ لو اپنے بیٹے کی جان دے گی یا بیٹی؟؟؟؟
اعیان چودھری نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
زاہدہ اور سوھنی نے ایک دوسرے کو ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
اماں ۔۔۔۔
اس نے لہجے میں تڑپ لیے انہیں پکارا۔۔۔۔۔
یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔اماں آپ مجھے جانے دیں۔۔۔۔
علی کا خیال رکھیے گا۔۔۔۔
اگر زندگی رہی تو ضرور ملوں گی۔
سمجھنا آج سے تیرا ایک ہی بیٹا تھا۔۔۔
اس کے لہجے میں ٹوٹے ہوئے کانچ کی سی چھنک تھی۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔سوھنی۔۔۔یہ وحشی لوگ جانے تیرے ساتھ کیسا سلوک کریں۔۔۔۔
یہ لوگ میری جان کیوں نہیں لے لیتے تم دونوں کے بدلے۔۔۔۔
آنسو مسلسل ان دونوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔۔
گاڑی میں بٹھاؤ اسے۔۔۔۔
اعیان چودھری نے سوھنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے آدمیوں سے کہا۔۔۔۔۔
مگر سائیں۔۔۔۔۔
وہاں موجود اشخاص میں سے ایک نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔
اعیان چودھری جو جارہا تھا پیچھے مڑا ۔۔۔
اس نے ابرو آچکا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔
جیسے کہہ رہا ہو بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔
آپ ونی کو بغیر نکاح کے کیسے لے جا سکتے ہیں ؟۔۔۔۔
اس کی بات پر اعیان چودھری کے پیچھے کھڑے گن مین نے بندوق اس آدمی کے سر پر تانی۔۔۔۔۔
اعیان چودھری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ایسا کچھ کرنے سے منع کیا۔۔۔۔
میں اپنے باپ کے نقش ِ قدم پر نہیں چلوں گا جیسے اس نے سالوں پہلے ونی سے نکاح کر اسے گھر میں مقام دیا۔۔۔۔
میں اپنے دادا کی سالوں پہلے کی گئی خواہش پر عمل کروں گا۔۔۔۔
بغیر نکاح کہ ونی کو اپنی طاقت کے بل پر یہاں سے لے کر جاؤں گا ۔۔۔۔
جس میں ہمت ہے روک کہ دکھائے مجھے۔۔۔۔۔
گھمنڈ سے کہتے ہوئے وہ اپنی جیپ کی طرف مڑا۔۔۔۔۔
زاہدہ اپنی بیٹی سوھنی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔
علی بھی اس کے گلے لگا۔۔۔۔
مجھے معاف کردے دینا آپی یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ سوھنی کے ساتھ لگا۔۔۔۔۔
وہ تینوں ایک دوسرے سے لپٹے یوں رو رہے تھے جیسے وہاں تازہ تازہ کوئی مرگ ہوئی ہو۔۔۔
ہاں موت ہی تو ہوئی تھی ایک رشتے کی۔
آپ فکر نا کرنا اماں آپ اپنی بیٹی کو اچھے سے جانتی ہیں کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت خود کر سکتی ہے۔۔۔۔
پر جدوں تک عورت دے نال کسے مضبوط محرم مرد ساتھ نا ہوئے اوہ کدی محفوظ نئیں ہو سکدی۔
(پر جب تک عورت کے ساتھ کسی مظبوط محرم مرد کا ساتھ نا ہو وہ کبھی محفوط نہیں ہو سکتی۔)
عورت جنی وی مضبوط ہوئے اوہنوں اپنی حفاظت لئی مرد دا سہارا ضرور لینا پیندا اے۔
(عورت جتنی بھی مضبوط کیوں نا ہو اسے اپنی حفاظت کے لیے مرد کا سہرا ضرور لینا پڑتا ہے)
انہوں نے سوھنی کو ساتھ لگائے ہوئے اس کے سر پر شفقت سے اپنے لب رکھے۔۔۔۔
وہ لوگ اسی کے انتظار میں تھے اس کے سر پر رائفل لیے کھڑے اس کے چلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
میں کجھ نئیں کرسکدی تیرے لئی۔اسی غریب تے ماڑے لوگ اینہاں اُچیاں زاتاں نال کیویں نبڑئیے۔۔۔
(میں کچھ نہیں کر سکی تمہارے لیے۔ہم غریب غرباء لوگ ہیں ان اونچی زات والوں سے کیسے نپٹیں)۔۔۔
دو دیو قامت جسامت کے باڈی گارڈ سوھنی کو بازو سے گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی طرف لے جانے لگے۔۔۔
مگر اس کی زور دار آواز نے انہیں رکنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔
چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔
اس نے ان کی گرفت سے اپنے بازو چھڑوائے۔۔۔۔۔
رب سوہنا فرماندار اے۔۔۔۔
"جدوں کوئی تیرے تے ظلم کرے
توں میرے انتقام تے راضی ہو جا
کیونکہ میرا انتقام تیرے انتقام توں بہتر اے۔"
اس کی یہ بات سن کر مجمے میں موجود لوگ حیران رہ گئے۔۔۔۔
کہ اتنی بڑی مصیبت میں اتنے صبر اور بہادری کا مظاہرہ کر رہی ہے یہ کم عمر لڑکی۔
میں خود جاؤں گی ۔۔۔۔۔
وہ پوری شان سے چلتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھی۔۔۔۔
زاہدہ اور علی اسے تب تک جاتا دیکھتے رہے جب تک ان کی دھول اڑاتی گاڑی نے ان کی آنکھوں میں چبھن سی نا بھر دی۔۔۔۔
میرئیے دھیے تینوں اللّٰہ دی امان وچ دتا۔۔۔
سب سے بڑا صدمہ اعیان کے لیے تھا۔
جس کا لاڈلا بھائی اس سے بچھڑا تھا۔اس کے بنا جینا محال تھا۔جسے بے درد موت نگل چکی تھی۔
تجھے پتا تھا نا کہ تجھ میں جان بسی ہے میری۔۔۔واپس آجا اپنے لالا کے پاس واپس آجا۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کر کہ زیان کو یاد کیا، اپنی ماں کی وفات
کے بعد وہ دونوں بھائی ہی ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔
تمہاری موت کا حساب دینا ہو گا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔
جیپ میں بیٹھے اس نے خود سے کہا۔۔۔۔۔
بخشو ۔۔۔۔۔۔
! اتارو اسے نیچے۔۔۔۔۔
اعیان چوہدری نے جیپ روک کر باہر نکلا۔۔۔۔
وہ جو اس وقت سفید کلف لگے کھدر کے سوٹ میں شانوں
پر سیاہ شال اوڑھے ہوئے تھا۔۔۔اپنی شال کا ایک کونا اٹھا کر
شانے کی دوسری طرف پٹخا۔۔۔۔
سوھنی جو جیپ سے نیچے اتر رہی تھی۔۔۔۔
چہرے پر سیاہ چادر سے کیا گیا عارضی سا نقاب ڈھلک گیا۔۔۔۔۔
بلاشبہ وہ بہت حسین تھی گوری رنگت بھوری کانچ سی
غزالی آنکھیں،اس پر گھنیری پلکوں کی جھالر،بھورے کمر
سے نیچے آتی سیدھے بالوں کی چوٹی ، گلابی پنکھڑیوں
جیسے لب،اور اس کے نیچے بھورا تل جو کسی کی بھی
توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
اعیان چودھری نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔۔۔
شاہانہ انداز میں قدم اٹھاتاہوا اس کے قریب آیا۔۔۔۔۔
اس کی کالی چادر کو اپنے ہاتھ میں لپیٹتے ہوئے جھٹکا دے
کر اسے خود سے قریب کرتے ہوئے کہا
تو پھرتیار ہو میری رکھیل بننے کے لئے۔۔۔۔
سوھنی نے جواب میں ایک آیت پڑھی۔۔۔۔
جس کا ترجمہ کچھ یوں تھا۔۔۔۔
اگر تم بدلہ لو تو اس قدر لو کہ جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو،لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ یقیناً صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔
سورہ نحل۔آیت نمبر 126.
تم جیسے نامرد اور کر بھی کیا سکتے ہیں اس گھٹیا فعل کے علاوہ۔۔۔۔
عورت کے ساتھ سونا مردانگی نہیں،
اس کے سر پر عزت کی چادر اوڑھانا مردانگی ہے۔۔۔
اس نے تن کر کہا۔۔۔۔۔
اپنے لفظوں سے وہ اعیان چودھری کے دماغ میں تو کیا روح میں چھید کر گئی تھی۔۔۔
وہ سخت طیش کے عالم میں اس کے جبڑوں کو اپنے آہنی
ہاتھ میں اتنی زور سے دبوچا کہ اس کے چہرے کی رگیں اُبھرنے لگیں۔
پھر وہ اس کا ہاتھ جکڑتے ہوئے اندر کی طرف بڑھا۔۔۔۔
دوسری طرف عالم چوہدری جو اپنے بابا شہریار چوہدری کو اپنے ساتھ لئے ہسپتال کی طرف جا رہا تھا
اعیان کو کسی لڑکی کے ساتھ اندر بڑھتا دیکھ عالم نے سرسری سی نظر اس پر ڈالی ۔۔
اس وقت اس کے لیے اپنے بابا کی طبیعت سے بڑھ کر اور کچھ بھی جاننا بہتر نا لگا۔۔۔۔
اعیان چودھری نے اسے لاکر ایک جھٹکے سے چھوڑا۔۔۔
وہ لہراتی ہوئی دور گری۔۔۔۔
وہاں پڑے میز کے کنارے سے اس کا سر لگا تو پیشانی سے خون کی لکیر نمودار ہونے لگی۔۔۔۔
اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئےکینہ توز نظروں سے اعیان کو دیکھا۔۔۔۔
حویلی میں رکھے پانی سے بھرے ہوئے گھڑے جن کو تازہ پھولوں سے سجا کر پانی سے بھر کر رکھا گیا تھا۔۔۔
اعیان چودھری نے وہ پانی سے بھرے گھڑے سوھنی پر الٹ دئیے۔۔۔۔
وہ اس وقت پانی سے شرابور ہو چکی تھی۔۔۔
اس کے کپڑے گیلے ہو کر اس کے جسم سے چپک چکے تھے۔
کچھ لمحے تو اعیان اس منظر میں جم سا سا گیا۔۔۔۔۔
در مکنون جو سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھیں۔۔۔
ونی کو سامنے دیکھ تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے نیچے اتری۔۔۔۔
سر جھٹک کر اپنے محسوسات سے باہر نکلا۔۔۔۔آج تیری ساری اکڑ نکالوں گا۔۔۔
تجھے لگتا ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ تو ہے کس جگہ پر۔۔۔
حویلی میں آکر بھی مجھ پر پھنکارتی ہے زہریلی ناگن کی طرح۔۔۔
آج تیرا سارا زہر نا نکال دیا تو پھر کہنا۔۔۔۔
وہ دھاڑا تھا اس پر۔۔۔۔
اس کے قریب آتے ہی درِمکنون نے زور دار طمانچہ اس کے منہ پر جڑ دیا۔۔۔۔
منحوس میرے پتر ورگے بھتیجے نوں کھا گئی۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ ایک اور تھپڑ رسید کرتیں۔۔۔
سوھنی نے ان کی کلائی تھام کر انہیں دوسری بار ایسا کرنے سے روکا۔۔۔
ہاتھ میرے بھی سلامت ہیں اور انہیں استعمال کیسے کیا جاتا ہے وہ بھی میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔۔
اس کی بات سن کر درِ مکنون کے تو تن بدن میں آگ لگی۔۔۔
تیری اتنی ہمت کہ تو میرا ہاتھ روکے۔۔۔۔
عمر دیکھو اور زبان دیکھو اس کی۔۔۔۔۔
انہوں نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں کہا۔
پڑھ لکھ کر گنوایا نہیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھا آتا ہے مجھے۔۔۔۔۔اس نے بلند آواز سے کہا۔۔۔
وہ اس کی بات سن کر غصے سے تلملانے لگیں۔
بخشو !
جاؤ جا کر زنجیریں لاؤ۔۔۔۔
بخشو اعیان چودھری کے حکم کے مطابق پر
فوراً سے پیشتر زنجیروں سمیت حاضر ہوا۔۔۔۔
اس کے جو ہاتھ چل رہے ہیں باندھو اسے ۔۔۔
اوراسے جا کر باہر باڑے میں باندھو مویشیوں کے ساتھ۔۔۔۔
اس کو ایسے ہی ٹھنڈ میں بھیگے ہوئے رہنے دو ساری رات
ٹھنڈ میں رہے گی تو خود ہی اکڑ نکل جائے گی
عقل ٹھکانے آتے ہی پتہ چل جائے گا اس کی اوقات کیا ہے۔۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ڈرائیور نے ان دونوں کو آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔۔۔۔
صاحب جی وہ ۔۔۔وہ چھوٹے چوہدری جی ونی لے کر آئے ہیں حویلی میں۔۔۔
یہ کہتے ہی ان دونوں کے گاڑی میں بیٹھتے ہی ہسپتال جانے کے لے اسی راستے پر گاڑی چلا دی۔
ونی کا لفظ سن کر شہریار چوہدری کی آنکھوں کے پردوں کے سامنے کچھ پچھلے منظر لہرانے لگے۔۔۔۔
آج سے پچیس سال پہلے ۔۔۔۔۔۔
تڑ ۔۔۔۔تڑ ۔۔۔۔تڑ۔۔۔
فائرنگ کی آوازیں سن کر درختوں کی شاخوں پر موجود
آرام کرتے ہوئےپرندے بھی ڈر کے مارے اپنی جگہ چھوڑ کر اڑے۔۔۔۔
یہ رات کا پہر تھا۔
دلاور چوہدری کو جب پتہ چلا کہ ان کے ٹیوب ویل سے
ساتھ کے گاؤں والے آرائیں پانی چوری کر کہ اپنی فصلوں
کو لگا رہے ہیں وہ اکیلا ہی ان سے نپٹنے کے لیے نکلا۔۔۔۔
اسی گاؤں کے چند آدمیوں نے چھوٹے چوہدری کو جب ادھر
جاتے ہوئے دیکھا تو یہ اطلاع گاؤں کے سر پنچ شجاعت
چوہدری کو دی کہ ان کے چھوٹے بیٹے دلاور چوہدری اس طرف گئے ہیں۔
ان کی موت کی خبر پورے گاؤں میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔۔۔۔
سب لوگ جب جائے حادثہ پر پہنچے۔۔۔۔۔
ہر طرف خون ہی خون تھا۔۔۔۔
جیپ وہیں موجود تھی۔
مگر دلاور چوہدری کی لاش کہیں دکھائی نہ دی۔
شاید قاتل بھی تب تک وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔۔۔۔
کہیں دشمنوں نے چھوٹے چوہدری کا نشان مٹانے کے لیے اسے نہر میں تو نہیں پھینک دیا۔۔۔
وہاں موجود دیہاتوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔
چوہدری شجاعت نے اپنے لخت جگر کی موت کا سن کر ایک لمحے کے لیے تو اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔
پر چند ہی لمحوں میں وہ خود کو سنبھال چکے تھے۔۔۔۔۔
شہریار چوہدری نے گاڑی میں بیٹھے آنکھیں بند کیئے وہی منظر پھر سے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔
جی بابا سائیں ! آپ نے یاد کیا۔۔۔۔۔۔
شہریار چوہدری نے اپنے بابا شجاعت چوہدری کے بلاوے پر مردان خانے میں ان کے پاس آکر کہا۔۔۔۔
ہلکے نیلے رنگ کے کاٹن کے سوٹ پر خاکی شال شانوں پر ڈالے ہوئے تھے اس وقت وہ اپنے مخصوص گاؤں والے انداز میں تھے۔
مگر جب وہ شہر جاتے تو باقی وکلاء کی طرح ہی ڈریس اپ ہوتے۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ تم اپنے بھائی کی موت کی وجہ سے رنجیدہ ہو مگر ہم نے تمہارے لیے ایک فیصلہ لیا ہے۔۔۔۔
جس کا جواب ہمیں تم سے ہر قیمت پر ہاں میں چاہیے۔۔۔۔
انہوں نے اپنے ازلی کرخت لہجے میں کہا۔۔۔۔
چودھری شہریار اپنے بابا سائیں کی کوئی بات ٹالیں ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔
****
پنچائیت لگ چکی تھی۔
گاؤں کے سر پنچ شجاعت چوہدری بھی چہرے پر سرد تاثر لیے وہیں موجود تھے۔
ہر بات کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ
چودھریوں کے ایک بیٹے کا قتل آرائیوں کے ہاتھوں ہوا ہے اس لیے انہیں خون بہا میں زر یا زن دونوں میں سے کچھ دینا ہو گا۔۔۔۔
آرائیں جو پہلے سے ہی زر کے غلام تھے انہوں نے زن دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے آج شام تک ونی حویلی پہنچا دی جائے۔۔۔۔۔
گاؤں کے سر پنچ شجاعت چوہدری نے بارعب آواز میں کہا۔
اپنے بابا سائیں کا یہ غیر قانونی فیصلہ ان سے برداشت نہ ہوا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔
بابا ایسے کیسے کسی بھی ونی کو بغیر رشتے کے حویلی میں رکھے گے؟
اپنی طاقت کے بل پر۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر بلند آواز میں کہا۔۔۔
ان کے الفاظ تیز آواز شہریار کے کان کے پردے پھاڑنےلگی۔۔۔۔
شہریار چوہدری پڑھے لکھے تھے وہ تمام اسلامی تقاضوں
سے بخوبی واقف تھے انہیں کسی طور بھی یہ قبول نہ تھا
کسی بھی غیر لڑکی کو بنا رشتے گھر رکھنا۔۔۔۔
مگر بابا ! انہوں نے دلیل پیش کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
چوہدری شجاعت نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا۔۔۔۔۔
اگر اتنی ہی تکلیف ہے تو تم پڑھوا کو نکاح اس سے۔۔۔۔۔
بابا پر میں تو شادی شدہ ہوں۔۔۔اس نے باور کروایا۔۔۔
تو پھر کیا ہوا اسلام میں مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔۔۔۔وہ بولے
ہاں مگر میری ایک بات کان کھول کر سن لو تم اس سے نکاح تو پڑھوا سکتے ہو ۔۔۔۔
مگر بیٹے کے قاتل کی ونی کو پھر حویلی میں جگہ نہیں ملے گی۔۔۔۔
اسے جہاں چاہے رکھنا مگر حویلی میں نہیں۔۔۔
انہوں نے اپنا قطعی اور حتمی فیصلہ سنایا۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کو گواہ بنا کر ایک جائز اور حلال رشتے کی بنیاد رکھوں گا۔۔۔
مجھے امید ہے آپ کو بھی میرا یہ فیصلہ منظور ہو گا۔۔۔۔
*****
رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے گاؤں کی ہر گلی سنسان اور تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی
اکا دکا گھروں کی روشنی جلی ہوئی تھی حیا اپنی ماں کے وجود کے ساتھ لپٹی خوف کے باعث پوری طرح کپکپا رہی تھی۔۔۔۔
پنچائیت کا فیصلہ سب تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
وہ ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی۔
اور دل ہی دل میں خود کے لیے ڈھیروں دعائیں کر رہی تھی جانے اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔۔۔۔۔
اس کا بھائی اسے مصیبت میں گرفتار کر کہ خود جانے کہاں چھپ کر مطمئن تھا۔۔۔۔
اس نے کبھی سوچا نا تھا کہ اس کی زندگی اتنے کٹھن امتحان میں پڑ جائے گی۔
گھڑی کی سوئیاں وہی وقت دکھا رہی تھیں۔
جب وہ لوگ اسے لے جانے کے لیے آنے والے تھے۔
دروازے پر کھٹکھٹاہٹ کی آواز سن کر اس نے اپنی ماں کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا۔۔۔۔۔
اماں ۔۔۔۔وہ لوگ مجھے لے جائیں گے۔۔۔۔۔
مجھے بچا لیں اماں۔۔۔۔۔
اس نے تڑپتے ہوئے فریاد کی۔۔۔۔۔
آنکھوں سے موتی لڑیوں کی مانند رواں تھے۔۔۔۔
اس کی ماں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو۔۔۔۔
چند عورتیں تھیں ۔۔۔۔
چوہدری صاحب کا حکم ہے ونی کو لے کر جانے کا۔۔۔۔
اب یہ شہریار چوہدری کی ونی ہیں۔۔۔۔۔
انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔۔۔۔
مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔۔
چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔اس کی درد بھری آواز آئی۔۔۔
ان عورتوں میں سے ایک عورت کے پاؤں پکڑتے ہی وہ اس کی منتیں کرنے لگی۔۔۔
اللّہ پاک کا واسطہ ہے مجھے اپنی بیٹی سمجھ کر چھوڑ دو۔۔۔
میں نہیں جاؤں گی۔۔۔
وہ دھاڑیں مارمار کر رونے لگی۔۔۔۔۔
لیکن مقابل وفادار غلام تھیں۔۔۔
وہ اسے گھسیٹتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے جانے لگیں۔۔۔
اس نے دروازے کی دہلیز کو پکڑ لیا۔۔۔۔
انہوں نے اسے کھینچا تو اس کے بازو پر نوکیلا کیل چبھا۔۔۔
اور خون کی لکیر نمودار ہونے لگی۔۔۔۔
ماں نے اپنی جاتی ہوئی بیٹی کو دیکھ بھری ہوئی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
اللّہ پاک میری بیٹی پر رحم کرے۔۔۔۔
****
ونی ہمیشہ کالے ملبوس میں آتی ہے۔۔۔۔
اسے اپنے ساتھ لانے والی عورتیں اسے شادی کا سرخ جوڑا دئیے وہاں سے جا چکی تھی۔
چودھری شہریار کا حکم تھا کہ وہ ونی کی طرح کالے کپڑے
نہ پہنے بلکہ عام نکاح کی رسم کی طرح سرخ جوڑا پہنے۔۔۔۔
وہ وہیں گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھ گئی۔۔۔
کچھ دیر بعد نکاح خواں کے ساتھ وہی عورتیں اندر آئیں۔۔۔
اس کے سر پر چادر اوڑھا دی۔۔۔۔
حیا عاصم ولد عاصم حسین آپ کو شہریار چوہدری ولد
شجاعت چوہدری کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟
مولوی صاحب نے جب پوچھا تو وہ ساکت بیٹھی رہی۔۔۔۔۔
اس نم آنکھوں سے نکاح خواں کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔
مگر وہ اس کی التجاؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے رخ پھیر گئے۔۔۔۔۔
جیسے وہ اس سلسلے میں اس کی کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔۔۔۔
انہوں نے پھر سے اپنے الفاظ دہرائے۔۔۔۔۔
حویلی کی ملازمہ جو اس کے قریب کھڑی ہوئی تھیں ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔
تم کیا حلال رشتے سے ونی ہونا چاہتی ہو یا حرام؟
ونی تو تم ہو یہ نا ہو کہ تم حرام طریقے سے یہ رشتہ نبھاؤ۔۔۔۔۔
اس عورت کی بات سے وحشت زدہ ہوتے ہوئے اس کے وجود میں کپکپی سی دوڑ گئی۔۔۔
اس نے حالت ڈر میں ہی سر اثبات میں ہلا کر کہا۔۔۔۔
ق۔۔قبول ہے۔۔۔۔اس نے لرزتی ہوئی آواز میں قبول کیا۔۔۔۔
آج پھر سے ایک بہن اپنے بھائی پر قربان ہو چکی تھی۔۔۔۔
سب کے جاتے ہی وہ کمرے میں تنہا رہ گئی۔۔۔۔
*****
حویلی میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔۔۔۔
شہریار چوہدری کے ونی میں آنے والی لڑکی نو خیز کلیوں سا حسن رکھتی ہے۔۔۔۔
حویلی میں موجود شہریار چوہدری کی پہلی بیوی نادیہ کا تن تو یہ بات سن کر ہی جھلسنے لگا۔۔۔۔
ان کی شادی کو پانچ برس ہو چکے تھے مگر ابھی تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔
****
نکاح کے بعد سےوہ ڈیرے پر ہی تھے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر آئے۔۔۔
سامنے ہی وہ سرخ عروسی لباس میں ملبوس گھونگھٹ اوڑھے کمرے میں موجود واحد چارپائی پر پاؤں لٹکائے اور سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز سے اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوئی۔۔۔
جیسے جیسے ان کے قدم اس کے قریب آرہے تھے اسے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
چوہدری شہریار کے پاس آنے پر اس نے اپنا سر چند پلوں کے لیے اٹھایا۔۔۔۔
پھر سے جھکا لیا۔۔۔۔
گھونگھٹ میں وہ اسے دیکھنے سے قاصر تھے۔
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس کے قریب آتے ہی اس پر ہاتھ
اٹھائیں گے اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لیں گے۔۔۔۔
اسلام وعلیکم !
ان کی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔
حیا کا ڈر کے مارے سانس رکا۔۔۔
کوئی بھی جواب نا پاکر بولے۔۔۔۔
آپ کے ہاں سلام کا جواب دینے کا کوئی رواج نہیں۔
یہ کہتے ہی انہوں نے اپنی شال ایک طرف رکھی۔۔۔
اس کے گلے سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔اپنے گلے میں تھوک نگل کر ہمت کی اور کہا۔۔۔
وعلیکم السلام!
چوہدری شہریار اس کے ساتھ ہی چار پائی پر بیٹھے تو وہ نا محسوس طریقے سے کھسک کر تھوڑا پیچھے ہوئی۔۔۔
شہریار چوہدری کی نظر بری طرح کانپتے ہوئے اس کے مومی ہاتھوں پر پڑی۔۔۔۔
وہ اپنے مخروطی ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کیے جیسے کسی الجھن کا شکار تھی۔
آپ کو مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں
انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔
اب آپ میری عزت ہیں میرے لیے قابل ِاحترام ہیں۔اسلام
میں مرد اور عورت دونوں کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔تو
پھر ہم کون ہوتے ہیں اس میں فرق کرنے والے۔۔۔۔
انہوں نے مظبوط اور سنجیدہ لہجے میں کہا
اسے تو اپنے کانوں پریقین کرنا نا ممکن لگا۔۔۔۔
کہ گاؤں کا کوئی آدمی ایسی بات بھی کر سکتا ہے۔
اس کا ساری زندگی جن باپ بھائی جیسے مردوں سے
واسطہ پڑا تھا وہ تو سب عورتوں کو بھیڑ بکریاں ہی سمجھتے تھے۔۔۔۔
اسے آج علم ہوا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔۔
اس نے ایک ہاتھ سےگھونگھٹ اٹھا کر ایسی بات کرنے والی ہستی کو دیکھنا چاہا۔۔۔۔
اس کا دوسرا ہاتھ جو ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا اس میں سے پسینہ پھوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
اس کے اس عمل پر چوہدری شہریار کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔۔۔۔
وہ شلوار قمیض میں ملبوس کھڑے نقوش اور مسکراتے لبوں سمیت اسی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
جو بمشکل ہی سولہ سال کی ہوگی۔۔۔۔
چہرے پر بلا کی معصومیت،ناک میں باریک سی نتھلی،بڑی بڑی سبز جھیل جیسی آنکھیں جو ان کی توجہ کا باعث بنیں۔۔۔۔
شہریار کی زندگی کا حصہ بننے کے لئے بہت بہت مبارک ہو آپ کو۔۔
انہوں نے اس کی تھوڑی کو نرمی سے چھو کر کہا۔۔۔۔
آپ کی آنکھوں کا رنگ بہت خوبصورت ہے۔انہوں نے کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔۔۔۔۔
وہ اپنی آنکھوں کی تعریف سن کر جھینپ گئی اور پھر سے سر جھکا لیا۔۔۔۔
آپ کا نام کیا ہے؟ نکاح نامے میں وہ نام تو جان چکا تھا مگر اس کو کچھ بولنے پر مجبور کرنے کے لیے پوچھا۔۔۔۔
وہ تو بری طرح مخمصے میں پھنس چکی تھی،
بھلا کیسے کوئی مرد کسی عورت کو آپ کہہ کر مخاطب کر رہا ہے۔۔۔۔
اور اسے اتنی عزت دے رہا ہے۔۔۔۔
وہ دل ہی میں ان کے طرزِ تخاطب کی معترف ہوئی۔۔۔۔
"حیا"۔۔۔۔
اس نے ہولے سے اپنا نام بتایا۔۔۔۔
ہہم۔۔۔آپ کی طرح آپ کا نام بھی بہت پیارا ہے۔۔۔
انہوں نے اس کے چہرے کا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔
میں جانتا ہوں آپ کو یہاں آکر برا لگ رہا ہو گا۔۔۔۔
آپ میری بیوی ہیں آپ کی جگہ حویلی میں ہونی چاہیے۔
مگر بابا سائیں اس بات کے حق میں نہیں۔۔۔
میں کوشش کروں گا جلد ہی انہیں منا لوں۔۔
آپ کو حویلی میں لے جا کر آپ کو آپ کا مقام اور عزت ضرور دلاؤں گا۔۔۔
جیسے میری پہلی بیوی کو ملا آپ کو بھی ضرور ملے گا۔۔۔۔
انہوں نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔
مگر اس سب کے لیے مجھے کچھ وقت درکار ہوگا۔۔۔۔
آپ سمجھ رہی ہیں نا میری بات ؟
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
حیا کے خدشات اب کچھ کم ہو رہے تھے۔۔۔
اس کے سرخ وسفید چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر خود سے قریب ترین کیا۔۔۔
اس کے گال پر اپنے لب رکھے پھر دوسری طرف بھی یہی عمل دہرایا۔۔۔۔
اس کے پہلے سے ہی سرخ گالوں پر اب تو شرم کے مارے خون چھلکنے لگا۔۔۔
وہ انکے عمل پر سانس روک کر رہ گئی۔۔۔۔
شہریار اس کے نام کی طرح اسکی اصل حیا پر اور بھی فدا ہوئے۔۔۔۔
وہ ان کے قریب سے اٹھ کر جانے لگی تو شہریار نے اس کا
ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا وہ کچی ڈالی کی طرح ان کے سینے سے آ لگی۔۔۔
اس کی مڑی خمدار پلکیں شرم و حیا سے لرز رہی تھیں۔۔۔۔
آپ کو کیا لگا؟۔۔۔۔۔۔
انہوں نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
اپنی بیوی کو اس کی مرضی کے بنا چھونا مجھے پسند نہیں۔۔۔۔۔
اگر آپ راضی نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے یہ کہتے اسے بیٹھنے کے لیے جگہ دی اور خود وہاں سے اٹھ کر جانے لگے۔۔۔۔
وہ قریب رکھی اپنی شال اٹھا رہے تھے کہ۔۔۔۔
ان کو اپنے ہاتھ پر اک نازک گرفت کا احساس ہوا۔۔۔۔
انہوں نے حیرانی سے حیا کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
جو نظریں جھکائے ہوئے تھی مگر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے شاید انہیں جانے سے روکنا چاہتی تھی۔
شہریار چوہدری اپنی معصوم سی بیوی کی معصومیت بھری ادا پر دل وجان سے نثار ہوئے۔۔۔۔
اسے اپنے قریب کرتے ہوئے خود میں اس طرح سمو لیا کہ اس کا نازک وجود ان میں چھپ کر رہ گیا۔۔۔۔۔
******
حیا کی ہمراہی میں انہوں نے اپنی زندگی کے دس سال خوبصورت ترین یادگار دن گزارے۔۔۔۔۔
ان سالوں میں ایک دن اچانک دل کا دورہ پڑنے سے شجاعت چوہدری جہان فانی سے کوچ کر چکے تھے۔۔۔
ان کی وفات کے بعد گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے کام کا زمہ چوہدری شہریار پر تھا۔۔۔۔
حیا میں سے ان کا ایک بیٹا عالم تھا۔۔۔۔جس نے سب سے پہلے اس دنیا میں آکر ان کے پہلے وارث کا درجہ حاصل کیا تھا۔۔۔۔
نادیہ میں سے ان کے دو بیٹے اعیان اور زمان تھے جو دونوں عالم سے چھوٹے تھے۔۔۔۔
*****
رات کی سیاہی پر تنی شفاف آسمان کی سیاہ چادر اور اس
پر سجے ستارے اس کے حسن کو مزید نکھار بخش رہے تھے۔
وہ چہار جانب سے لاپرواہ پورے دھیان سے اس منظر میں گم تھی۔
وہ نہایت آہستگی سے اس کے پاس جا کھڑے ہوئے۔۔۔
اس کی سبز آنکھیں اس کے رونے کی گواہی دے رہی تھیں۔
شہریار چوہدری نے اس کا یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔
وہ اس قدر مگن تھی ان کے ہاتھ لگانے پر اچھل کر مڑی۔۔۔
کیا ہوا ڈر گئی؟ وہ ہولے سے ہنس دئیے۔۔۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
آج میں بہت خوش ہوں آپ نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔۔۔۔
مجھے حویلی میں لا کر جو مقام دیا اس پر۔۔۔
اور آپ جیسے فرشتہ صفت انسان کو میرے مقدر میں لکھ
کر میرے مہربان رب العالمین نے میری ہر دلی مراد پوری کردی۔۔۔
پھر اس خوشی کے موقع پر یہ آنسو کیوں؟
مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔اس نے نم آنکھوں سے کہا۔۔۔
وہ کیوں۔۔۔
کہیں میری خوشیوں کو کسی کی نظر نا لگ جائے۔۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہو گا میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔۔۔انہوں نے اس کی ہولے سے ناک دبا کر کہا۔۔۔۔
وہ جو یک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھی جھٹ سے اپنی پلکیں جھپکائیں۔۔۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تو شہریار چوہدری اپنے ماضی کے جھروکوں سے باہر آئے۔۔۔۔۔
عالم انہیں اپنے ساتھ ہسپتال میں لے آیا ڈاکٹر نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں ان کا معائنہ کیا۔۔
فالج بہت سفاک مرض ہے۔اس کے لیے علاج اور پرہیز بہت ضروری ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ ضروری مریض کا ہر وقت خوش اور
مطمئن رہنا،کسی بھی قسم کے نا خوشگوار واقعے سے محفوظ رہنا۔
اگر زرا سی بھی ٹینشن ملے تو دماغ زہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے،اور یہ مرض شدت اختیار کر جاتا ہے۔
شہریار چوہدری جو حویلی کے ماحول سے شدید تناؤ کے
شکار تھے۔
ایک جوان بیٹے کی موت اور دوسرے کا بالکل بگڑ جانا اور ان کی ایک نا سننا۔۔۔
حویلی کے کسی بھی فرد کا ان پر توجہ نا دینا۔۔۔
ڈاکٹر کے پاس سے ساری ہدایات اور ادویات کی سلپ لیے وہ ان کے کمرے سے باہر نکلے۔۔۔
بابا آپ کیوں اتنی ٹینشن لیتے ہیں ؟
عالم نے ان کا ہاتھ تھام کر نرمی سے پوچھا۔۔۔
او۔۔۔اولاد کا غ۔۔غم ہی کا۔۔۔ فی ہوتا ہے۔انہوں نے بے ربط
جملوں میں اپنی بات کہی۔۔۔۔
میرے بابا تو بہت اسٹرانگ ہیں۔۔۔۔۔
انہوں نے اس کی بات پر نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
تم۔۔تمہارا ساتھ چاہیے۔۔۔۔
انہوں نے مان بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
بابا مجھے اس حویلی کے کسی بھی مکین سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا۔۔۔۔
صرف آپ ہی ہیں جس کی وجہ سے میں حویلی میں آجاتا ہوں۔
میں ڈیرے پر ہی ٹھیک ہوں ۔وہاں ہم سب کی پرانی خوشگوار یادوں کے ساتھ۔۔۔۔
میں آپ کو کتنی بار کہہ چکا ہوں میرے ساتھ چلیں ۔۔۔
لیکن آپ مانتے ہی نہیں۔چھوڑ دیں ان سب کو ان کے حال پر۔۔۔
عالم نے کہا۔
اعیان کہ ۔۔۔کیسے اک ۔۔اکیلے سارے گاؤں ذمہ داری ن۔۔۔ نبھائے گا؟
وہ کون۔۔۔ سا پہلے بھی آپ کی سنتا ہے۔۔۔۔
اچھا چلیں چھوڑیں۔۔۔۔
پھر دونوں ہاتھوں سے ان کی وہیل چیئر لیے وہاں سے باہر کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
آج انہیں اپنے بیٹے کے چہرے پر وہی فکر نظر آئی جو
سالوں پہلے اس کی ماں حیا کے چہرے پر اپنے لیے نظر آتی تھی۔
لوگ صحیح کہتے ہیں کہ جواں اولاد کی تربیت کرنا کڑا امتحان ہے۔۔۔۔
عالم انہیں حویلی پہنچا کر خود چلتا ہوا وہاں سے باہر نکلا۔۔۔۔
نور نے عالم کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اس کے
پیچھے پیچھے باہر نکل آئی ۔۔۔۔
باہر نکلتے ہی اس پر نگاہ پڑی۔۔۔
وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ اس نے تیکھے لہجے میں ابرو آچکا کر پوچھا۔۔۔
نور کے قریب آنے پر عالم نے پوچھا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!
نور مسکرا کر بولی۔۔۔۔
عالم نے سیگریٹ زمین پر پھینک کر اسے اپنی کھیڑی سے بجھا دیا۔۔۔
جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔۔۔۔اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔
مجھے بازار تک جانا ہے اماں نے کہا ہے کہ آپ کے ساتھ چلی جاوں۔اا نے جھوٹھ گھڑا۔۔۔۔۔۔
اس کے لبوں پر دھیمی سے مسکراہٹ تھی۔
"میں کسی کا غلام نہیں ہوں جو کسی کے بھی کہنے پر کسی بھی ایرے غیرے کی ڈرائیوری کرتا پھروں"۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مقابل پر اپنا مزید غصہ نکالتا۔۔۔۔
نور کی آنکھوں میں ذلت کے احساس سے آنسو بھر گئیں۔۔۔
فضول میں میرا وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔
وہ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھنے لگا۔۔۔
وہ ایک دم سے پیچھے ہوئی۔۔۔
کہیں اس کے پورے دروازے کو کھولنے سے اسے چوٹ نہ لگ جائے۔۔۔
وہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔
گاڑی کی اڑتی ہوئی دھول میں اسے اپنا آپ بھی کھوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔۔ سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔۔
بدتمیز،ضدی،ہٹ دھرم ،جاہل گنوار نا ہو تو۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی نور نے اسے القابات سے نوازا۔۔۔
اور حویلی کے اندر چلی گئی۔۔۔۔
کیوں نا عروج کے ساتھ چلی جاؤں۔۔۔۔
اس نے سوچا۔
اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر آئی عروج کہاں ہے؟
نور نے فائزہ سے پوچھا۔۔۔
اس کی سہیلی کے گھر میلاد ہے وہی گئی ہے۔۔۔
کیوں کیا کام تھا؟
کچھ نہیں بس بازار تک جانا تھا۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے کوئی بات نہیں پھر کبھی چلی جاؤں گی۔
میں لے جاتا ہوں ۔۔۔سعد نے وہاں آتے ہی کہا۔۔۔
تمہارے ساتھ جاتی ہے میری جوتی۔
نور نے اسے سامنے دیکھ کر برا سا منہ بناتے ہوئے لٹھ مار انداز سے کہا۔۔۔
ایہہ کیہہ طریقہ اے کُڑئیے گل کرن دا؟
(یہ کیا طریقہ ہے لڑکی بات کرنے کا) ؟
فائزہ نے نور کو سعد سے بدتمیزی سے بات کرنے پر ٹوکا۔۔۔
اس نے غصے میں اپنے دوپٹے کا پلو زور سے جھٹکا۔۔۔۔
جس سے سائیڈ پر رکھا کانچ کا گلدان زمیں بوس ہو کر چکنا چور ہو گیا۔۔۔۔
نور کو شرمندگی ہوئی۔۔۔کم از کم چاچی کے سامنے اسے
سعد سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔بےبیشک سعد
اسے ایک آنکھ نا بھاتا تھا اس نے دل میں سوچا۔۔۔
اس نے نیچے جھک کر گلدان کے بکھرے ریزے سمیٹنا چاہے۔۔۔۔
ابھی پہلا کانچ ہی اٹھا تھا کہ بے دھیانی میں وہ اس کے
ہاتھ میں ُچبھ گیا اور وہاں سے خون نکلنے لگا۔۔۔۔
عالم کی بے رخی ابھی بھی اس کے دل میں کچوچکے لگا رہی تھی۔
آنسو اس کے آنکھوں سے جاری ہوئے اتنی چوٹ کی درد نا تھی جتنی اسے عالم کی بے رخی تڑپا رہی تھی۔
وہ سب وہیں چھوڑے بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
ناپسندیدہ شخصیت کو دیکھ کر پھر سے بیزاریت پھیلی۔۔۔۔
میں تمہارے لیے مرہم لایا ہوں۔۔۔
اجازت ہو تو لگا دوں۔۔۔
اس نے نرم لہجے سے کہا۔۔۔۔
اور اس کے پاس بیٹھتے ہی ڈبیہ میں سے مرہم نکال کر اس کے ہاتھ پر لگانے لگا تو۔۔۔۔
نور نے جھٹ سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔۔۔۔
میں خود ہی لگا لوں گی۔۔۔۔تمہارے احسان کی کوئی
ضرورت نہیں۔۔۔۔اس نے درشت لہجے میں کہا۔۔۔۔
بے شک اس وقت اسے شدید درد محسوس ہو رہا تھا مگر وہ کسی کا بھی احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔
وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔
ہر وقت تماشہ لگا کر کیا ملتا ہے تمہیں ؟
اپنا یہ رونا دھونا اور فضول کی ضد بند کرو۔۔۔۔
یہ نا ہو کہ ہاتھ باندھ کر سارا معاملہ نبٹادوں۔۔۔
اس نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں کہا تو ۔۔۔
اس کے درد کی شدت سے بہتے ہوئے آنسو وہیں تھم کر رہ گئے۔۔۔۔
سسی۔۔۔۔آرام سے۔۔۔۔نور نے اسے دیکھ کر کہا۔۔۔
وہ بڑی مہارت سے اس کا خون صاف کیے مرہم لگانے کے بعد پٹی باندھ رہا تھا۔۔۔۔
زخم پر مرہم لگنے سے اس پر جلن اور بھی بڑھنے لگی۔۔۔
جو زخم تم میرے دل پر لگاتی ہو نا میرے علاوہ کسی اور
پر توجہ دے کر ۔۔۔۔اس کا کفارہ تمہیں ادا کرنا پڑے گا۔۔۔۔
اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے کچھ جتایا۔۔۔۔
جسے سن کر بھی اس نے ان سنا کیا۔۔۔۔۔
یہ نا ہو تمہارے اس جرم کا کفارہ اتنا بھیانک ہو کہ تم سے
چکایا نا جا سکے۔۔۔۔سعد اس کے درد کی شدت سے سرخ
ہوتے چہرے اور بیتی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد لہجے سے بولا۔۔۔
اس کے لہجے کی سختی،اس کی بڑی بڑی گھورتی ہوئی آنکھیں،اور اس کا حاکمانہ انداز تو نور کے تن بدن میں آگ ہی لگا گیا۔۔۔۔
تم ہوتے کون ہو مجھ پر حکم چلانے والے میری زاتی زندگی میں دخل اندازی کرنے والے۔۔۔
ابھی جا کر چچی کو تمہاری شکایت لگاتی ہوں۔۔۔اس نے اسے اسکی ماں کا ڈراوا دیا۔۔۔
سعد چودھری کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔
ابھی ابھی میری ماں نے تمہیں مجھ سے بدتمیزی کرنے پر ڈانٹا تھا۔۔۔۔
اگر بھول رہی ہو تو میں تمہیں پھر سے یاد کروا دیتا ہوں۔۔۔۔
میں امید کرتا ہو کہ تم اپنی کی گئی غلطیاں پھر سے نہیں دُھراو گی۔۔۔
اس نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے اپنی بات کی تصدیق چاہی۔۔۔۔
وہ اس کی ساری بکواس پر صرف اسے گھور کر رہ گئی۔۔۔
ابھی کے لیے تمہیں چھوڑ رہا ہوں دوبارہ سے کسی کے آس
پاس بھی دیکھا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔وہ نور
کی غصے کی شدت سے سرخ پڑتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درشت لہجے میں بولا۔۔۔۔
اور اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے وہاں سےاٹھا۔۔۔
یہ لیتے ہوئے جاؤ۔۔۔۔اس نے بستر پر پڑی مرہم کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔ نیم حکیم۔۔۔۔اس نے طنزیہ انداز میں ہنکارا بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
اس نے اس کے سامنے ہی اس کی ہوئی پٹی اتار کر دور پھینکی۔۔۔۔
جس سے درد کی ایک شدید لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔۔
وہ تاسف سے سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔
بڑا آیا۔۔۔۔
مجھے دھمکی دینے والا۔۔۔۔ تیری اینٹ سے اینٹ نا بجا دی تو
میرا نام بھی نور نہیں۔۔۔۔
اس نے تنفر سے کہا۔۔۔۔
***
چاند آسمان پر پورے آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا۔
جیسے جیسے رات گہری ہورہی تھی ٹھنڈ مزید بڑھتی جا رہی تھی۔
باڑے میں موجود مویشیوں کی وجہ سے وہاں ان کے گوبر کی بدبو نے اس کا سانس لینا محال کر دیا تھا۔
اوپر سے ٹھنڈ میں اس کے ابھی تک نم کپڑے
اسے ٹھٹھرنے پر مجبور کر رہے تھے۔۔۔۔
یا اللہ مجھے ہمت دے تو الرحمن ورحیم ہے ۔
اس کل کائنات کا خالق۔
میں خوش ہوں تو جس حال میں مجھےجیسا رکھے۔
اس نے تکلیف دہ لمحوں میں بھی صبر سے کام لیا۔۔۔۔
گھٹنوں میں منہ دئیے ۔۔۔۔وہ سوکھی گھاس پر بیٹھی تھی۔
اس کی نظر سامنے جانوروں کا چارہ کاٹنے والی مشین پر گئی۔۔۔
اس کی تیز دھار سے اس نے اپنی زنجیروں کو کاٹنے کا سوچا ۔۔۔۔
پھر ہمت کر کہ اس پر عمل بھی کیا۔۔۔۔
مگر رات کی خاموشی میں اس کے اس عمل پر اس کی آواز گونجنے لگی تو وہ ایسے ہی بیٹھ گئی۔۔۔۔
کہ اچانک ایک ہیولہ نمودار ہوا۔۔۔۔
سوھنی نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔۔
کوئی چادر اوڑھے دھیرے سے باڑے کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر آیا۔۔۔۔
اور اس کی طرف کھانا بڑھایا۔۔۔۔۔
چاند کی ملگجی سی روشنی میں اس کا چہرہ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
مگر سوھنی کے دونوں زنجیروں سے باندھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تو زنجیروں کو اتنی زور سے باندھا گیا تھا کہ اس کی کلائیاں زخمی ہو چکی تھیں ۔
اس کے ساتھ ایک ملازمہ بھی تھی۔
اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو ملازمہ نے زنجیروں پر لگے تالے کی چابی اسے تھمائی۔۔۔۔
اس نے چابی کو ہاتھ میں لیتے ہی لاک کھولا جو با آسانی کھل گیا۔۔۔
پھر اس نے سوھنی کی کلائیوں سے زخم صاف کیے۔۔۔۔
اور اس کی طرف ملازمہ ہی کے کپڑے بڑھائے تاکہ کسی کو کوئی شک نہ ہو۔۔۔۔
جاؤ اسے تبدیل کر لو۔۔۔۔اس نے آہستہ آواز میں اسے کہا۔۔۔۔
سوھنی دیوار کے پیچھے جا کر کپڑے تبدیل کر آئی ۔۔۔۔پھر اس کا دیا ہوا کھانا کھانے لگی۔۔۔
جانے سے پہلے اس کے ہاتھوں میں دوبارہ سے زنجیریں ڈال
دی گئیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو مگر اس بار زنجیروں کی
گرفت کافی ڈھیلی تھی۔تاکہ اسے زخموں پر درد نا ہو۔۔۔۔۔
اس سب کے لیےسوھنی نے ہاتھ اٹھا کر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔۔۔۔۔
رات کا تیسرا پہر تھا جب اسکی آنکھ موبائل فون کی بیل
پر کھلی۔۔۔۔اسی احساس پر کھلی مندی مندی آنکھوں سے
اس نے اطراف میں دیکھنا ۔۔۔۔
چاہا لیکن کمرے میں اندھیرا ہونے کہ باعث اسے کچھ نا
دکھا تو اس نے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل میں سے موم بتی نکال کر
جلائی۔۔۔۔اس کے جلتے ہی کمرے میں ہلکی روشنی پھیلی۔۔۔
موبائل رنگ کرنےکے بعد شاید بند ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس
نےاپنے گلے پر ہاتھ رکھے اسے پانی کی طلب ہوئی شاید تبھی اسکی آنکھ کھلی تھی۔۔۔
باہر قریبی کھیتوں سے شایدجانوروں کے بولنے کی خوفناک
آوازیں آرہی تھیں۔اس نے سائیڈ ٹیبل پر کانچ کے جگ کو دیکھا تو خالی تھی ۔
اس نے اپنے گرد شال لپیٹی اور پھر کمرے میں موجود واحد گھڑی پر وقت دیکھا تو۔۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ۔موبائل پر لاسٹ کال کا نمبر
چیک کرکہ وہ بنا اردگرد دیکھے ہاتھ میں ایک بیگ لیے آگے
بڑھ رہی تھی جب کوریڈور سے گزرتے یکدم ہی اسے سخت
سردی لگنے لگی جانے یہ اتنی تیز ہوا کہاں سے آرہی تھی ۔
اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی ہوا سے اسکے کھلے بال
پشت پر اٹھکلیاں کرنے لگے یکدم ہی اس نے تھوک نگل کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی
موم بتی کو بجھتے دیکھا لمبا سا دھواں اٹھتا ہوا میں
تحلیل ہو رہا تھا اتنی ٹھنڈ میں بھی اسکی پیشانی عرق
آلود ہوئی تھی ٹانگیں جیسے ہلنے سے انکاری ہوئیں اسے
اکیلے باہر جانے پر اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اتنی رات
گئے نیم اندھیرے کوریڈور میں سفید پردے ہوا کی دوش پر
پھڑپھڑاتے اس کی جان لینے کو تھے۔وہ دھیرے دھیرے قدم
اٹھاتی ہوئی حویلی کی پچھلی جانب آئی۔اسی ہیولے کو
دیکھ کرجیسے اسکی سانس بحال ہوئی تھی۔
اس نے اس ہیولے کے قریب آتے ہی اسے اپنے ہاتھ میں
موجود بیگ اسےتھمایا۔۔۔۔۔
******
کیسے ہیں آپ ؟
اعیان چودھری اپنے بابا شہریار چوہدری کے کمرے میں ان کی عیادت کے لیے آیا تھا۔
انہوں نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
آپ بیمار تھے تو مجھے بتاتے میں آپ کو ہسپتال لے کر جاتا ۔۔
آپ نے مجھے بتانے کی بجائے اس عالم کو بتایا اس کے ساتھ گئے۔۔۔
آپ ہمیشہ عالم کو مجھ پر فوقیت دیتے ہیں۔۔۔
اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔
ت ۔۔تم میرے۔۔پاس آؤ تو تمہیں ۔۔پ۔پتہ چل۔۔ چلے کہ میں
ٹھیک ہوں یا۔یا۔۔۔بیمار۔۔۔
انہوں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا۔۔۔۔
مجھے تمہارا ن۔۔نیا فیصلہ پ۔۔ پتا چلا۔۔۔
ونی کو چھ۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔
جانے دو اسے۔۔۔
یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟۔۔۔
میں اپنے بھائی کے قتل میں آئی ونی کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔
اس نے تیز آواز میں کہا۔۔۔۔
اچھا مگر اس۔۔۔۔ اسے نکالو و۔۔۔ و ۔۔ وہاں سے۔۔۔۔
اس نے حیرت سے اپنے بابا کی طرف دیکھا۔۔۔۔
اب ۔۔۔ابھی گدی پر میرا حق ہے۔
میری ب۔۔۔ بیماری کے بعد میں م۔م۔۔ نے عالم کو دیا۔۔۔۔
اس گدی کا اص۔۔۔ اصل حق دار میرے بعد عا۔۔۔عالم ہے ۔
مگر عالم نے اس۔۔۔ اس گدی کو۔۔۔۔ ٹھوکر ماری دی۔۔۔۔ کہ
اسے ۔۔۔۔۔اس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔
وہ ۔۔۔وہ گاؤں کی رسموں و رواج کے خ۔۔خلاف ہ۔۔ہے۔۔۔
اگر تم نے اس گدی کا۔۔۔۔۔کا غلط استعمال کیا نا تو میں ۔۔۔
میں اسے تم سے۔۔۔۔ واپس لے لوں گا۔۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے تئیں ڈراوا دیا۔۔۔۔
آپ ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ۔۔۔۔۔
وہ کچھ لمحے خاموش رہا پھر بولا۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں اسے وہاں سے باہر نکال دیتا ہوں ۔۔۔
مگر حویلی میں اس کا مقام ایک غلام سے زیادہ نا ہو گا۔۔۔
یہ بات آپ بھی اچھی طرح سمجھ لیجیئے۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ تن فن کرتا باہر آیا۔۔۔۔۔
بخشو۔۔۔۔
او بخشو۔۔۔۔کہاں مر گیا ہے تو؟اس نے اپنے خاص ملازم کو آواز لگائی۔۔۔۔
جی سرکار۔۔۔۔۔
اس نے بھاگ کر اس کے پاس آتے ہی مؤدب انداز میں سر جھکایا۔۔۔۔
جاؤ اس ونی کی زنجیروں کو کھول دو اور اسے اندر لاؤ۔۔۔۔۔
اس کے کچھ دیر بعد اندر آنے کے بعد ....
اس کے اندر آتے ہی اعیان نے اپنی پھپھی درمکنون کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
یہ آج سے آپ کے حوالے جو چاہے سلوک کریں۔
مگر یہ مت بھولنا ۔ اس ونی کو میں لایا۔۔اس پر صرف میرا حق ہے۔۔۔۔
اس نے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور پھر حویلی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
اے چھوری !!!!
کل سے اس حویلی کے سارے کام تیرے ذمے۔۔
حویلی کی صفائی ستھرائی سے لے کر کھانے پکانے کی ساری ذمہ داری تیری۔ فجر کی اذان ہوتے ہی کام پر لگ جانا اور ہاں
پورے سات بجے ناشتہ تیار ملنا چاہیے ورنہ تو ابھی جانتی نہیں مجھے۔۔۔۔
اگر تیری ذرا سی بھی زبان چلی نا میرے سامنے تو زبان گّدی سے کھینچ لوں گی۔۔۔
آئی بات سمجھ میں۔۔۔۔
انہوں نے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
ایک ملازمہ نے اسے کچن کا راستہ دکھایا۔۔۔۔
کچن میں آتے ہی اس نے منہ کے زاوئیے بناتے ہوئے درمکنون کی نقل اتاری ۔۔۔۔
"آئی بات سمجھ میں"۔۔۔۔۔
دل تو کرتا ہے اس کا گلہ گھونٹ دوں۔۔۔۔
وہ منہ میں بڑبڑانے لگی۔۔۔۔۔۔۔
*****
سر ان فائلز میں پوری ڈیٹیل ہے ایک بار شہروز خان
ہیروئن ، کوکین اور اسلحے کی سمگلنگ کرتے ہوئے پولیس
کے ہاتھوں پکڑا بھی گیا تھا۔لیکن پتہ نہیں کیسے وہ جیل سے فرار ہو گیا۔۔۔
اس کا کوئی پتہ نہیں اسوقت وہ کہاں ہے۔
وہ بار بار اپنا اڈا بدلتا رہتا ہے۔
سر اس دوسری فائل میں اس یونیورسٹی کے بارے میں
ساری معلومات ہیں جہاں اس کا فوکس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہیں۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے۔عمر نے کہا۔
ہمیں سب سے پہلے جا کر یونیورسٹی میں ریڈ کرنی چاہیے
شاید ہمیں وہاں سے کوئی ثبوت مل جائے اس کے خلاف۔صالح نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا۔۔۔
نہیں سر مجھے یہ لگتا ہے کہ وہاں ریڈ کرنے سے وہ لوگ الرٹ ہو جائیں گے۔
اور اپنا اڈا بدل بھی سکتے ہیں۔پارسا بولی۔
ہہم۔۔۔۔
اس کا مطلب ہے ہمیں بھیس بدل کر معلومات اکٹھا کرنے کے لیے وہاں جانا چاہیے۔
اگر انہیں پتہ چل گیا تو ہمارے اتنے ماہ سے کی گئی ساری محنت برباد ہو جائے گی۔
جی ٹھیک ہے سر ۔۔
ہم بھیس بدل کر یونیورسٹی میں جائیں گے وہاں کے لوگوں کا اعتماد حاصل کریں گے۔
ان کی مشکوک حرکتوں پر نظر رکھیں گے۔
انہیں شیشیے میں اتار کر سب کچھ کیسے جاننا ہے ہم اچھے سے جانتے ہیں۔
ایجنٹ 105آپ یونیورسٹی میں داخل ہونے کا راستہ نکالیں ۔۔۔
یس سر۔۔۔۔ صبح تک ہو جائے گا۔
ایجنٹ 106آپ یہاں رہ کر کیمرہ کی فوٹیج سے سب چیک کریں گے۔۔۔
یس سر۔۔۔اس نے بھی مؤدب انداز میں کہا۔۔۔
سر کب سے اپنا مشن سٹارٹ کرنا ہے۔ایجٹ 105نے پوچھا۔۔۔۔
ہمیں جلد سے جلد اپنا کام شروع کرنا ہو گا۔۔۔
اس سے پہلے کے ہماری نیو جنریشن کسی بھی مسائل کا شکار ہو۔۔۔۔
پہلے ہی نجانے کتنے گھروں کے چراغ ڈرگز کی بری لت کی وجہ سے بجھ چکے ہیں۔
نوجوان نسل کے لیے ڈرگز لینا آج کل فیشن بن گیا ہے۔
بنا سوچے سمجھے وہ اپنی زندگی کی ڈور ہر اس انجان
شخص کو تھما دیتے ہیں جو انہیں یہ سب مہیا کرتے ہیں۔
والدین جانے کیسے ان کے خواب پورے کرنے کے لیے اپنے
بچوں کی مہنگے یونیورسٹیوں کی فیس ادا کرتے ہیں ۔
وہ کیا جانیں کہ وہی بچے جن کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں ۔
ان کے بچے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔۔۔
وہ جانتے نہیں کہ وہ اپنے والدین کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ اصل میں خود کا ہی نقصان کر رہے ہیں۔
جون نے آزردگی سے کہا۔۔۔۔۔
*****
فجر کی آذانیں اس کے کانوں میں داخل ہوئیں اور اس کی
آنکھیں جھٹ سے کھلیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھی اور سر پر چادر لے لی۔
"حی علی الصلوہ" کی آواز پر وہ آنکھیں پوری کھولتے ہوئے
بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وضو کرکے نماز پڑھی اور دعائیں مانگیں۔
اس سب میں اسے ایک گھنٹہ لگا۔ دعائیں مانگنے بیٹھتی تو بھول جاتی کہ کتنا وقت گزرا ہے۔
اکثر اتنا وقت گزرتا کہ کمرہ صبح کی روشنی سے خود بھی روشن ہوجاتا۔
چادر سے خود کو لپیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس نے گھڑی کی طرف نگاہ ڈالی اور پورے جسم کو چادر
میں ڈھانپتی باہر نکل آئی۔ سخت سردی کے باعث باہر دھند چھائی ہوئی تھی۔
وہ زینے اتر کر نیچے آنے لگی۔ حویلی کے مرد سورہے تھے اور عورتیں جاگ گئی تھیں۔
"ونی تو جا کر چائے بنادے"۔ سوھنی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
کچھ عورتیں کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ کچھ ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔
"اماں کیا باورچی نہیں آئے کیا ابھی؟"۔
عروج نے پوچھا۔
"نہیں کوارٹر میں ہی ہیں ابھی۔ ان کا وقت سات بجے ہے"۔
"اچھا"۔ وہ کچن کی طرف مڑنے لگی کہ درِمکنون نے اسے روکا۔ اس نے پیچھے مڑ کر انہیں دیکھا،
"تجھے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں عروج۔ جو ونی
اندر کھڑی ہے اس سے ہی سارے کام کروانے ہیں"۔ انہوں نے کچن کی جانب اشارہ کیا
اس نے ایک نظر انہیں دیکھا اور کچن میں بڑھ گئی۔
وہ لڑکی کچن میں سخت سردی میں دھلے ہوئے برتن پھر دھورہی تھی۔
عروج کو عجیب سی حیرت ہوئی۔ وہ کوئی سوئیٹر بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اور کپکپارہی تھی۔
"یہ برتن پہلے سے ہی دھلے ہوئے ہیں۔ تم اسے اور کیوں دھو رہی ہو؟"۔ عروج کی آواز پر وہ جھٹکے مڑی۔
وہ مجھے کہا گیا کہ میں۔۔۔رات کے دھلے برتن فجر میں پھر سے دھویا کروں"۔
"چھوڑدو برتن کو"۔ وہ نرمی سے کہتے ہوئے اسے پیچھے کرنے لگی۔
"میں کرلوں گی آپ فکر نا کرو!۔ بس دس منٹ دے دیں "۔
ویسے یہ آپ کی پھپھی کا دل کرتا ہے کہ گلا گھونٹ دوں۔
فضول میں حکم چلاتی ہے ہر وقت وہ بولی۔۔۔
عروج نےاسے دیکھا اور گہری سانس ہوا میں چھوڑی۔
"تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے پیاری۔ تم یہیں میرے
برابر کھڑی ہوجاؤ"۔ یہ کہتے ہوئے عروج خود چائے ڈالنے کے لیے کپ دھونے لگی۔
"یہ آپ کیا کررہی ہیں"۔ وہ اس کے ہاتھ سے برتن پکڑ کر پوچھنے لگی۔
اس کی آواز نہایت باریک تھی اور آواز سے ہی ظاہر ہوتا تھا کہ کوئی چھوٹی بچی بات کررہی ہے۔
"میں تمہارے حصے کے برتن دھورہی ہوں۔ باہر جاکر کہہ دینا کہ سارے برتن تم نے دھوئے ہیں۔ ٹھیک ہے؟"۔
اس کی طرف عروج نے مسکرا کر دیکھا تو سوھنی اسے منہ کھولے حیرت سے دیکھنے لگی۔
نلکے سے ٹھنڈا پانی عروج کے ہاتھ پر پڑا تو عروج کو لگا اس کا خون جم جائے گا۔
اسے برابر میں کھڑی لڑکی پر ترس بھی آیا کہ وہ لڑکی پتا نہیں کیسے یہ کام کررہی تھی۔
"کیا نام ہے تمہارا؟"۔ عروج نے نہایت نرمی سے پوچھا۔
وہ اس کے لہجے پر حیران رہ گئی۔
"سوھنی"۔ اس نے سردی سے کپکپاتے ہوئے بتایا۔
عروج نے اسے کپکپاتے دیکھا تو اپنی موٹی شال اتار کر اسے دے دی۔
"مجھے ضرورت نہیں ہے"۔
بڑی سخت جان ہوں میں ایسے نہیں مرنے والی۔۔۔۔
"پہن لو سوھنی۔ میں جانتی ہوں تمہارے پاس کچھ نہیں"۔
رسوئی میں ذیادہ روشنی نہیں تھی جس کے باعث وہ اس کا چہرہ غور سے نہیں دیکھ پارہی تھی۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں میرے ساتھ؟"۔ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا۔
"جو تمہیں یہاں لے کر آیا ہے نا وہ میرا شوہر ہے۔بچپن سے ہم دونوں نکاح میں ہیں۔
بس اسی کی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش میں ہوں۔
جس کا قتل ہوا وہ آپ کے دیور تھے؟
"ہاں تو؟"۔وہ عام سے لہجے میں بولی۔
"تو آپ مجھ پر غصہ نہیں کریں گی؟"۔
"تم نے قتل کیا تھا؟"۔ اس نے پلیٹیں سلیپ پر سجائیں۔
"ہاں"۔ اس نے لب بھینچے۔
عروج کے حواس جنجھنا اٹھے۔
"پھر سے کہو؟"۔ وہ ششدر ہوکر بولی۔
"میرے بھائی نے کیا یا میں نے! بات تو ایک ہی ہے نا۔ سزا تو
مجھے ہی ملنی تھی۔ بھائیوں کے ہر گناہ کی سزا بہن کے سر
اور بہن کے گناہ کی سزا پر بہن ہی خود ذمہ دار ہوتی ہے"۔
اور میرے بھائی نے میری وجہ سے ہی ایسا کیا تو قاتل میں
ہی ہوئی نا۔۔۔۔وہ دھیمی آواز میں بولی۔
عروج خاموش ہوگئی۔
"میں کچھ نہیں کہوں گی تمہیں سوھنی۔ جس میں تمہاری غلطی ہی نہیں اس میں تمہارا کیا قصور؟
میں کوشش کروں گی کہ تمہیں اس ظلم سے بچاؤں۔
"
"۔ اس نے چولہا جلا کر چائے کا پتیلا چڑھایا۔
وہ چپ رہی۔
"کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ میں عام زندگی نہیں جی
سکتی۔ میں تو ونی ہوں نا؟ مجھ سے زبردستی سب کام
کروائے جائیں گے اب تو یہی میری زندگی ہے"۔
اس کے اس طرح کہنے پر عروج کا دل حلق میں آگیا۔ اس کی باتیں اس کی صورت کی طرح معصوم تھیں۔
"الله پر یقین رکھو۔ ہم لوگوں کے خیالات کو بدل لیں گے"۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
"آپ اس حویلی میں سب اچھی ہیں"۔ اس نے بچوں کی طرح اپنی ناک رگڑی۔
"یہاں اور بھی کوئی بہت اچھا ہے۔ تمہیں بعد میں بتاؤں گی"۔ محبت سے کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا۔
ایک بات پوچھوں آپ سے آپ ناراض تو نہیں ہوں گی۔سوھنی نے کہا۔
ہاں پوچھو۔۔۔اس نے لبوں پر دھیمی سے مسکان لیے کہا۔۔۔۔
آپ اعیان چودھری سے پیار کرتی ہیں ؟
پیار کا تو پتہ نہیں لیکن بچپن سے مجھے بتایا گیا ہے کہ اب وہی میرے سر کا سائیں ہے۔
بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔۔۔اس نے دھیمے سے کہا۔۔۔
روشنی سے باورچی خانہ روشن ہوچکا تھا۔ اس نے بتی بھی جلائی۔
"سب سے کہہ دینا کہ یہ چائے تم نے بنائی یے اور برتن بھی تم نے دھوئے ہیں
". یہ کہتے ساتھ وہ باہر نکل گئی۔
پیچھے کھڑی سوھنی حیران ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
ہاں وہ سب سے منفرد تھی۔
وہ حویلی کے باقی لوگوں جیسی نہیں تھی۔ سوھنی کو وہ بہت اچھی لگی۔
اس کا دل عروج سے ایک اور ملاقات کرنے کا چاہ رہا تھا! بار بار ملاقات چاہ رہا تھا۔
وہ اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔
"چائے بنی یا میں آؤں ادھر؟"۔ باہر سے در مکنون کی آتی آواز آئی۔۔۔
"بن گئی"۔ یہ کہتے ساتھ وہ چائے کو چھاننے لگی۔
"چائے بنا میرے لیے" اور آٹا بھی گوندھ لینا ساتھ ساتھ۔ درمکنون نے اسے اس وقت چاہے کا حکم دیا۔
وہ جو تھک کر کچن کی دیوار سے پشت لگائے زمین پر سوئی بیٹھی تھی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
پوری رات کی جاگی ہوئی تھی اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔
ٹھنڈ سے اس کی رنگت سفید ہورہی تھی۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔
آٹا گوندھنے ہوئے اسے اپنی ماں کی یاد آنے لگی۔۔۔
اماں میرے ہاتھ دیکھو۔۔۔۔
کچھ باتیں سنانے کے بعد وہ اسے پیار سے اپنے ساتھ لگاتیں اور کہتی۔۔۔۔
اچھا چل چھوڑ۔۔۔۔یہ سب میری سوھنی دھی کے ہاتھوں کی نرمائی ہی ختم ہو جائے گی۔
میں تو اپنی بیٹی کو شہزادیوں کی طرح رکھوں گی۔
ایک درد بھری مسکان نے سوھنی کے لبوں کو چھوا۔۔۔۔
اس نے اپنے نرم ہاتھوں کو دیکھا۔۔جو اس وقت آٹے سے بھرے ہوئے تھے۔۔۔
آٹا گوندھ کر اس نے ایک طرف رکھا۔
اماں دیکھ تیری شہزادی رُل گئی۔۔۔۔
آذان شروع ہوئی تو اس نے اپنا پھٹا ہوا ڈوپٹہ سر پر رکھ لیا۔
ٹھنڈی پانی میں ہاتھ ڈالنے کا سوچ کر ہی اس کا دل کانپ اٹھا مگر چائے بنانے کے لیے تو یہ سب کرنا ہی تھا۔
ماحول میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے پتیلی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھایا اور پتی نکالنے لگی۔
پتی کے لیے کیبنٹ کھولا تو وہ کیبینٹ کے اوپر والے حصے میں رکھی تھی۔
شاید کسی باورچی نے رکھ دی ہو۔اس نے سوچا۔۔۔۔
سوھنی نے نکالنے کی کوشش کرنی چاہی، مگر اس کا ہاتھ نہ پہنچا۔
پیچھے سے کوئی اندر داخل ہوا تھا مگر اب رک کر اسے دیکھ رہا تھا۔
تھوڑا سا اچھل کر ہاتھ بڑھانا چاہا مگر بےسود۔
وہ ابھی پریشانی میں کھڑی پتی لینے کا کوئی اور طریقہ سوچ ہی رہی تھی۔
کہ کسی نے اپنے دونوں مظبوط ہاتھ بڑھا اسے کی کمر کے گرد رکھے اور اسے تھوڑا اوپر کیا تاکہ وہ پتی کا ڈبہ اٹھا لے ۔
اس نے پتی کا ڈبہ اٹھا تو لیا پھر جھٹکے سے سوھنی مڑی
مقابل موجود شخصیت کو دیکھ گویا اس کے تن بدن میں
آگ لگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ اس نے وہی ڈبہ اس کے سر پر زور سے مارا۔
اعیان نے اسے جھٹکے سے چھوڑا۔۔۔ اس نے ماتھے پر تیوری ڈال کر اسےدیکھا۔۔۔
سلیب سے پانی کا گلاس اٹھایا اور پانی کا بھرا گلاس اس کے منہ پر اچھالا۔
لگتا ہے اپنی اوقات بھول گئی ہو پھر سے یاد کروانی پڑے گی اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے ہاتھ لگانے کی اوقات نہیں ہے تمہاری۔۔۔
سوھنی نے تلخ لہجے کہا۔
اوقات تو میں تمہیں ایک منٹ میں دکھا دوں تمہاری۔۔۔۔
خوش قسمت ہو جواب تک بچ رہی ہو مجھ سے۔۔۔۔
اس نے استہزایہ انداز میں اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے مزید قریب ہوتا۔۔۔۔
کچن میں اپنی چچی فائزہ کو دیکھ کر پیچھے ہوا۔۔۔۔
تمہیں تو میں بعد دیکھتا ہوں۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ باہر نکلا۔۔۔۔
سوھنی کا رخ چولہے کی طرف تھا۔
"چائے بنی؟"۔ درمکنون کی باہر سے آتی زوردار آواز پر وہ جلدی جلدی کپ میں چائے نکالنے گی۔
"آگگ۔گئی ہے چائے"۔ ٹرے میں چائے سجاتی وہ لاؤنج میں آگئی۔
ایک تو اس عورت کوبھی آرام نہیں۔وہ منہ میں بڑبڑانے لگی۔۔۔۔
دو دن سے اسے کچھ بھی کھانے کو نا دیا گیا اس پر کڑی نگاہ رکھی گئی تھی۔
اسے اس وقت سخت کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔
باہر آتے ہوئےایک دم اس کا ہاتھ کانپا اور چائے کی ٹرے زمین پر گرگئی۔
چائے کا کپ اس کے پاؤں پر گر کر ٹوٹا۔
گرم کھولتی ہوئی چائے اس کے پاؤں پر لگی اور وہ اس کی
تکلیف سے چیخنے لگی اور ہاتھ سے منہ کو دبالیا۔
تاکہ آواز بند ہو جائے۔آنکھیں درد کے باعث بھر گئیں۔۔۔
درمکنون اٹھی اور اسے بالوں سے پکڑ کر دو زور دارچانٹے لگائے۔
وہ پیچھے ہٹی تو ٹوٹے ہوئے کپ کی کرچیاں اس کے پاؤں میں چبھ گئیں۔۔۔
وہ پہلے ہی تکلیف سے دہری ہورہی تھی اب تڑپ ہی اٹھی۔
پاؤں میں کانچ چھبنے کے باعث خون بہہ رہا تھا اور
درمکنون سب چیزوں سے بےخبر اسے ماررہی تھیں۔
"یہ کیاسلیقہ ہے تیرا؟۔ ایک چائے کا کپ مانگا تھا وہ بھی توڑ دیا۔
تیرا باپ کے پیسوں کا نہیں یہ سامان جو تو نقصان پر نقصان کر رہی ہے ۔۔۔
تیرا کوئی نہیں ہے یہاں جو تجھے مجھ سے بچائے گا سمجھی۔۔۔۔!
جان سے ماردیں گے تجھے اور خبر تک نہ ہونے دیں گے ہم"۔
وہ ہر جملہ پر اسے ایک نہ ایک تپھڑ ضرور ماررہی تھیں ۔
اس کے بال درمکنون کے ہاتھ میں تھے اور وہ اسے کھنیچ رہی تھیں۔
کمزوری کے باعث اس میں درمکنون سے مقابلہ کرنے کی اس وقت بالکل بھی سکت نا تھی۔
عالم جو ہاتھ میں اپنے بابا کی دوائیاں تھامے تھامے دروازے
سے اندر آرہا تھا اسے دور کھڑے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
جب تک در مکنون کا دل نہیں بھرا وہ ان کے قابو میں رہی تھی۔
اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زیان کے قتل کی وجہ تھی۔ جو اس دنیا سے جا چکا تھا۔
اور درمکنون اسے مار مار کر تھک چکی تھیں۔ اس کی آنکھیں اب گیلی ہوکر لال ہورہی تھی۔
وہ وہیں زمین پر پڑی رہی کہ اب سکت بھی نہ تھی اٹھنے کی۔
کچھ ہی لمحوں بعد کسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئی۔
سوھنی کی آنکھیں ایک طرف جمائے سن پڑی تھی۔
درمکنون سانس لینے کے بعد اس کے دوبارہ سے بال نوچنے کے لیے اس پر جھپٹنے لگیں تو۔۔۔
سوھنی نے آنے والے کو نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
لمبا قد۔چہرے پر گھنی مونچھیں اور داڑھی
جس کی وجہ سے چہرے کے نقوش تو صحیح سے واضح نہیں ہو رہے تھے پر آنکھیں ہلکی سبز تھیں۔۔۔
جو شاید اس وقت غصے سے اتنی سرخ تھیں جیسے ان میں سے ابھی خون ٹپکنے لگے گا۔
اس کی پیشانی کی رگیں ابھریں ہوئیں تھیں۔
اسے زرا بھی امید نا تھی کہ یہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہو گا۔
عالم نے اپنی مٹھیاں زور سے بھینچ کر خود پر ضبط کیا۔۔۔۔۔۔
یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے یہاں؟عالم کی قہر آلودجاندار غراہہٹ سے درمکنون نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔
پھر سوھنی سے پیچھے ہوتےکچھ بھی کہے بنا وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔
ان کے وہاں سے جاتے ہی عالم بھی بنا اس مظلوم لڑکی پر نظر ڈالےاپنے بابا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
کوئی اس پر تیزی سے جھکا تھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھاتےہوئے کوارٹر کی طرف لے جانے لگا۔
اس نے جاننے کی کوشش کرنی چاہی مگر بےسود۔۔ اس کے جسم کا ہر حصہ تکلیف سے دُکھ رہا تھا۔
وہ جو کوئی بھی تھا دونوں ہاتھوں سے اسے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسلام وعلیکم! کیسے ہیں آپ ؟
وعلیکم۔۔۔اسلام !۔۔۔۔۔۔
ہمم۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔انہوں نے آہستگی سے جواب دیا۔۔۔
بابا یہ باہر آپ کی بہن نے کیا تماشا لگا رکھا ہے؟
اس نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔
شہریار چوہدری جو پہلے ہی کمرے میں باہر سے آتی ساری آوازوں پر پریشان تھے۔
عالم کی بات سن کر مزید رنجیدہ ہوئے۔۔۔۔
میں اع۔۔۔اعیان۔۔۔ سے بات کرتا ہوں۔۔۔
انہوں نے اسے تسلی دینی چاہی۔۔۔۔
"اس گھر میں پہلے بھی ونی کے ساتھ ایسا سلوک ہو چکا ہے
اگر پھرایسا کچھ بھی ہوا تو اس بار میں خاموش نہیں
بیٹھوں چاہے مقابل میرا بھائی ہی کیوں نا ہو"۔۔۔۔۔۔
عالم ۔۔۔ت۔۔۔تمہیں۔۔م۔۔۔میری قسم تم اعیان کو ک۔۔۔کچھ نہیں ک۔۔۔کرو گے اس سے لڑو گے۔۔۔ن۔نہیں۔۔۔
عالم نے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔پھر خاموشی سےباہر نکلنے لگا
ت۔۔۔تم تھوڑی۔ د ۔۔۔دیر میرے پاس رک جاؤ۔۔۔
وہ بولے۔۔۔۔
عالم انہیں دوائی کھلانے کے بعد ان کے قریب رکھی ایزی چئیر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
وہ دونوں ایک ہی کمرے میں موجود تھے۔۔۔۔
اور دونوں ہی ماضی کی بھول بھلیوں میں کُھو رہے تھے۔۔۔۔
ناشتے کی میز پر پر انواع و اقسام کے کھانے لگے تھے۔
شہر یار چوہدری ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگاتی نادیہ کے چہرے کے تاثرات بغور دیکھ رہے تھے۔
وہ شہریار کی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی تھی جب ان کی
بارعب آواز پر اس کے ہاتھ ساکت ہوئے۔۔۔۔۔
آج سے میری پلیٹ میں کھانا حیا ہی نکالا کرے گی ۔
انہوں نے اٹل لہجے میں اپنا حکم سنایا۔۔۔
جو ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے لگی تھی یہ بات سن کر وہی کھڑی رہ گئی ۔۔۔
وہ تو ہمیشہ میٹھے لہجے میں بات کرتے تھے اب کیا ہوا وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔
شہریار چوہدری اس کے منتظر تھے۔۔۔۔
حیا نے ان کی آنکھوں میں دیکھ کر فوراً ان کی پلیٹ میں کھانا سرو کیا۔۔۔۔
شہریار چوہدری کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
نادیہ زہر خند نظریں حیا کے چہرے پر جمائے تنفر سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
بس یہیں سے نادیہ کے دل میں نفرت کا بیج اگا۔۔۔۔
*****
حیا اس وقت کمرے میں تھی عالم
ابھی کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا وہ اس کے پاس بیٹھی اس
کی گھنے بالوں کو پیار سے سہلا رہی تھی کیسی پرسکون
زندگی تھی حویلی میں آنے سے پہلے یہاں آ کر شہریار
چوہدری نے اسے سب کے سامنے اس کا مقام تو دل دلا دیا
تھا مگر نادیہ کی مسلسل چبھتی ہوئی نظریں وہ برداشت
نہیں کر پا رہی تھی جانے اس کی زندگی اور کتنے امتحان لینے والی تھی۔۔۔۔
عالم کے کسمسانے پر وہ سوچوں کے گرداب سے باہر نکلی۔۔۔
آنکھ سے نکلنے والے آنسوؤں کو پونچھتی ہوئی وہ عالم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔
شہریار چودھری کیس کے سلسلے میں زیادہ تر وقت شہر میں گزارتے ۔۔۔
ان کے پیچھے سے نادیہ نے اپنی خاص ملازماؤں کے ساتھ
مل کر حیا پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ۔۔۔ وہ بے چاری
بےیارومددگار تھی چوہدری شہریار سے بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس کے پاس۔۔۔۔
اور ان کے سامنے آتے ہی اس کی ہمت ہی نہ ہوتی کہ وہ نادیہ کے رویے کے بارے میں انہیں کچھ بتا پاتی۔۔۔۔۔
نادیہ اس سے سارا دن کولہو کے بیل کی طرح حویلی کے
سارے کام کرواتی کچن میں کھانا بنواتے وقت گرم گرم ُچمٹا
اس کی سفید بازو پر داغ کر اسے داغدار کر دیتی۔۔۔ تاکہ اس کے ُحسن پر گہن لگ جائے۔۔۔۔
جسمانی تشدد کےساتھ ساتھ زبان کے وار سے بھی ہر وقت اس کی روح کو چھلنی کرتی رہتی ۔۔۔۔
*****
حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی ملازمائیں گھبرائی ہوئی تھیں۔
چوہدری شہریار مردان خانے میں تھے وہ حویلی میں مچی
چیخ و پکار کی آواز سن کر اسی طرف بڑھے۔۔۔۔۔۔
پچھلی جانب سے بنے ہوئے کچن کے دروازے کی طرف تیز رفتار قدموں سے بڑھنے لگے ۔۔۔۔
راستے میں آتی ملازمائیں تیز قدم اٹھاتی مؤدب انداز میں ایک طرف ہو کر کھڑی ہونے لگیں۔۔۔۔
خوف کی لہر ان کے چہرے پر تھی۔۔۔۔۔
جیسے وہ سب اندر ہونے والے حادثے کو دیکھ کر آنے والے طوفان کا سوچ کر خوف زدہ تھی تھیں۔
گھر میں سے ایک فریق ایسا بھی تھا جس کا چہرہ خوف سے زرد ہو چکا تھا۔۔۔
اگر چوہدری شہریار کو حیاکی اس حالت کے ذمہ دار کا پتہ چل گیا تو جانے اس کے ساتھ وہ کیا سلوک کریں۔۔۔۔
اس حویلی میں ایسی ڈھیروں ملازمائیں ایسی بھی تھیں جو نادیہ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔
بے تحاشہ دولت اور زیورات ہونے کے باوجود اگر اس کے پاس کچھ نہیں تھا تو وہ تھی چودھری شہریار کی محبت۔۔۔۔
حیا کو جب سے شہریار کی زندگی میں خاص جگہ پر پایا تب سے اس کے دل میں حیا کے خلاف حسد پلنے لگا تھا۔۔۔۔
حیا کی کی کرب زدہ چیخیں پوری حویلی میں گونجیں۔۔۔
جب شہریار چوہدری کچن کے دروازے تک پہنچے حیا کا جلا
ہوا وجود دیکھ کر وہ ساکت رہ گئے "دل جیسے دھڑکنا بھول
گیا زندہ رہتے جسم سے جان نکلنا کیسا ہوتا ہے یہ انہیں آج معلوم ہوا"۔۔۔۔۔
ان کی محبت ان کی شریک حیات اپنی زندگی کی بازی ہار چکی تھی۔۔
ان کےآنے میں بہت دیر ہو چکی تھی کسی دو آنکھوں نے یہ منظر ہمیشہ کے لئے اپنی نگاہوں میں قید کر لیا۔۔۔۔
****
وہ اپنی نانی اماں کی گود میں سر رکھے مسلسل آنسو بہا
رہا تھا۔۔اپنی ماں کا جنازہ اپنی آنکھوں کے سامنے اٹھتے
دیکھ اس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے ۔۔۔۔
نا۔۔۔رو۔۔۔۔ میرا بہادر بیٹا ۔۔۔ میں ہوں نا اپنے بیٹے کے پاس۔۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر تسلی دی۔
مگرماما۔۔۔۔۔۔ اس کے پھڑپھڑاتے لبوں سے کہا۔۔۔
میں جانتی ہوں کہ تیری ماں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ہے
تو نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھا تھا نا۔۔۔۔۔۔
اس نے ان کی گود میں سے سر اٹھا کر اثبات میں ہلایا ۔۔۔
******
عالم کو اس کی نانی اماں اپنے ساتھ لے جا چکی تھی ۔
چند دنوں بعد اپنے بچوں کی خاطر وہ اس صدمے اور ذہنی دباؤ سے باہر نکلے۔۔۔۔
تو بچوں پر خود توجہ دینے لگے۔۔۔۔
زیان اور اعیان بالکل نادیہ پر گئیے تھے ضدی۔۔۔۔۔
عالم بھی بالکل اپنی ماں حیا کی طرح تھا۔اس کے نقوش حیا سے مطابقت رکھتے تھے۔اور سبز آنکھیں تو بلکل اسی کی پرتو۔۔۔۔
اور درازقد اس نے انہیں سے چرایا تھا۔۔۔۔
مگر عالم جب سے اپنی نانی کے گھر سے واپس آیا تھا ۔۔۔
اس کا رویہ کچھ بدلا بدلا تھا۔۔۔وہ انہیں اپنے آپ سے تھوڑا دور لگا۔۔۔۔
جیسے وہ ان سے بد ظن ہو۔۔۔۔
وہ ان کے پاس آنے سے کتراتا تھا۔۔۔۔
آج وہ خود اس کے کمرے میں آئے تھے۔۔۔
وہ بستر پر لیٹے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
جس عمر میں بچے کھیلتے کودتے ہیں اس عمر میں نو سالہ
عالم کو گہری سوچ میں غرق دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔۔۔۔
کیا سوچ رہا ہے میرا بیٹا ؟۔ انہوں نے اس کے پاس آکر نرمی سے کہا۔۔۔۔
وہ جو نیم دراز سا تھا اٹھ کر بیٹھا۔۔۔۔
شہریار چوہدری نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جو بے تاثر
چہرہ لیے سرد نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔۔
اس نے روکھے لہجے میں کہا۔۔۔۔
شہریار چوہدری نے اس کے آگے اپنی دونوں بانہیں پھیلائیں۔۔۔
پہلے تو وہ چند لمحے ساکت رہا پھر تھوڑا آگے کھسکا اور ان کے ساتھ لگا۔۔۔
انہوں نے اپنی محبت حیا کی آخری نشانی کو خود میں کسی قیمتی متاع کی طرح بھینچ لیا۔۔۔
حیا کی موت کو کافی عرصہ بیت چکا تھا۔
شہریار چوہدری جو شہر سے اپنا کوئی اہم کیس نبٹا کر واپس آرہے تھے۔
اس لیے نادیہ نے آج ان کے آنے پر خاص تیاری کی۔
میرون شیشوں کے کام سے مزین فراک اور چوڑی دار پاجامہ
پہنا لبوں پر گہری لپسٹک لگائی۔بالوں کو کھلا چھوڑے اپنی
تیاری کو مکمل کیے وہ گاڑی رکنے کی آواز سن کر تیزی سے
سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھی کہ اچانک جانے کیا ہوا۔۔۔۔۔
ابھی وہ کچھ سیڑھیاں ہی اتر پائی تھی کہ اپنا توازن کھونے کے بعد نیچے گرنے لگی۔۔۔۔
اتنی سیڑھیوں سے نیچے گرتا ،رگڑتا ،پھسلتا ہوا اس کا بے ڈول وجود بل کھاتا ہوا سر کے بل نیچے گرا۔۔۔۔۔
سر پر گہری چوٹ لگنے کے باعث خون مسلسل بہنے لگا۔۔۔۔
چوہدری شہریار جو اندر قدم رکھ رہے تھے کہ سامنے فرش
پر گری خون سے لے پت نادیہ کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑے۔۔۔
وہ تیز قدموں سے اندھا دھند اس کی طرف دوڑے۔۔۔۔
فوراً لپک کر اس کو اپنی بازوؤں میں بھر کر باہر کی جانب بھاگے۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اسے لے کر ہسپتال پہنچتے گاڑی میں ہی
ان دوسری شریکِ حیات نے بھی آج دم توڑ دیا۔۔۔۔۔
ان کے نڈھال وجود نے گاڑی کی پشت سے اپنا سر ٹکایا۔۔۔۔
اس وقت وہ خود کو بے بسی کے آخری دہانے پر محسوس کر رہے تھے۔
وہ خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگے۔۔۔
پہلے حیا اور اب نادیہ دونوں ان کا ساتھ چھوڑے اس دنیا سے جا چکیں تھیں۔۔۔۔
بس تب سے ہی شدید ڈیریشن اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ
سے انہیں فالج کا اٹیک ہوا اور ان کی یہ حالت ہو ئی۔
*****
اطمینان جیسے رخصت ہو چکا تھا۔
اس کا وجود بے قراریوں کے زیر اثر تھا۔
وہ بستر پر چت لیٹا ہوا تھا کہ اس کی بے اختیاریوں کی سطح حد سے تجاوز کر گئی تھی۔
رات کے اس پہر وہ شدید اظطراب میں مبتلا تھا۔۔۔
اس کا بھرپور گیلا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنےلہرایا۔۔۔۔
اس کا وہ دلکش چہرہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ بھیگے رخسار،۔۔۔وہ دہکتی ہوئی آنکھیں۔۔۔
سب کچھ تو مقابل کو خاکستر کر دینے والا تھا۔۔۔
جب سے اسے چھوا تھا کیسی قیامت مچ گئی تھی دل میں ۔۔۔۔
اسے کچن کا منظر یاد آیا۔۔۔
اس کے دل میں کیا چل رہا ہے وہ خود بھی ٹھیک سے محسوس کرنے سے قاصر تھا۔
اسے تب سے سمجھ نہیں آرہی تھی جانے کونسی اس کی
ایسی چیز ہے جو اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔۔۔
اس کی پر اعتمادی، اسکی نا ڈرنے والی بات ، اس کا اپنی
ذات کو لے کر غرور یا پھر اس کی خوبصورتی۔۔۔۔
وہ اس کی زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی تو نا تھی۔
کیا اس میں سچ میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اعیان چودھری جیسے بندے کو ہلا کر رکھ دے۔
اس کا دل ضدی بچہ بنا اس وقت صرف اس کے وجود کو
کسی بھی طرح پانے کا خواہاں تھا۔۔۔۔
اس کے قرب کی خواہش کر بیٹھا تھا۔
****
اس کی سانسوں کا زیرو بم اتنا دھیما تھا کہ بادی النظر میں
یہی لگتا تھا کہ وہ کوئی زندہ لاش ہے۔جو زرد چہرے اور
ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ وحشت ناک خاموشی کے زیر اثر تھی۔
یکلخت کھڑکی سے ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا۔۔۔جس نے اسے کپکپانے پر مجبور کر دیا۔۔۔
اس مہربان ہستی نے اس پر اپنی شال اوڑھا دی۔۔۔۔
سوھنی آنکھیں واہ کر کہ اس شفیق ہستی کو دیکھنا چاہا۔۔۔۔
آج پھر وہی مہربان ہستی تھی۔۔۔۔اس کے سامنے۔۔۔۔
حویلی میں جب جب اس پر ظلم ہوا۔۔۔
وہی اس کی چوری چھپے مدد کے لیے آئی تھی۔
عروج نے سوھنی کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔۔۔۔
عروج ہی اپنی ملازمہ کے ساتھ مل کر اس ننھی گڑیا جیسی لڑکی کو یہاں لے آئی تھی۔
پھر اس نےاپنی ملازمہ کو اس کے لیے دودھ اور درد کی دوائی لانےکا کہا۔۔۔۔
ہمت کرو سوھنی تم تو بہت بہادر ہو۔۔۔عروج نے اس کی ہمت ںندھائی۔۔
پتہ نہیں میری آنکھ سے وہ آنسو کب بہے گا جو میری تقدیر بدل دے۔۔۔۔
میں بالکل بھی نا امید نہیں سب کے ساتھ ساتھ وہ میرا بھی تو خدا ہے۔
میرے لیے ضرور اس پروردگار نے کچھ اچھا سوچا ہوگا۔۔۔
یہ میرے لیے آزمائش ہے اور میں اس کا مقابلہ صبر سے کروں گی۔۔۔
عروج نے اس خوبصورت چہرے کے ساتھ خوبصورت دل
رکھنے والی لڑکی کی پیار سے پیشانی چوم لی۔۔۔
تمہاری عمر کیا ہے؟عروج نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔
سترہ سال کی ہونے والی ہوں ۔۔۔سوھنی نے جواب دیا۔۔۔۔
اتنی کم عمری میں اتنی بڑی بڑی باتیں کیسے کر لیتی ہو۔۔۔ننھی پری۔۔۔۔اس نے پیار سے کہا۔۔۔
آپ بہت اچھی ہیں آپ نے ہمیشہ میری مدد کی۔کاش آپ میری بہن ہوتیں۔۔۔
مگر نہیں۔۔۔۔
اگر آپ میری بہن ہوتی تو آپ کے ساتھ بھی میرے جیسا
سلوک ہی ہوتا۔۔۔اس نے غمگین لہجے میں کہا۔۔۔
اداس مت ہو۔۔۔دیکھنا تم نے جتنے غم سہے ہیں ایک دن اللّٰہ
تعالیٰ تم پر خوشیوں کی برسات کر دیں گے۔۔۔
اور تمہارے دل سے ہر غم کو مٹا دیں گے۔آمین۔
عروج نے محبت سے چور لہجے میں صدقِ دل سے دعا دی۔۔۔۔
آپ سے ایک بات کہوں۔۔۔سوھنی نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کہو نا۔۔۔۔عروج نے دھیمی سی مسکان لبوں پر سجائے ہوئے کہا۔۔۔
اعیان اچھے انسان نہیں۔۔۔۔
آپ یہ مت سمجھنا کہ میں آپ کو ان کے خلاف بھڑکا رہی ہوں۔۔۔
ایک لڑکی میں یہ حس شاید خدا داد صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے اوپر پڑنے والی ہر نظر پہچان لیتی ہے کہ وہ نظر بُری ہے یا عزت والی ۔۔۔۔
اتنے میں ملازمہ دودھ اور دوائی لائی تو عروج نے اسے دوائی کھلائی۔۔۔۔
سوھنی نے عروج کی دی ہوئی شال سے خود کو لپیٹ لیا۔۔۔
عروج کمرے میں موجود کھڑکی کو بند کرتی ہوئی خاموشی سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
*****
اس ہیولے نے دوسرے ہیولے کو بیگ تھمانا چاہا مگر دوسرے
نے بیگ کی بجائے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کیا اور خود میں بھیینچ لیا۔۔۔۔
ایک کی سسکیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔۔۔۔
تو دوسرے نے اس کی کمر کو تھپتھپاتے ہوئے اسے تسلی دینی چاہی۔
میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔
بہت جلد یہ دن بھی کٹنے والے ہیں ۔۔۔
پھر ہم ساتھ ہوں گے۔۔۔۔
دیکھنا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
چند لمحےدونوں میں مدھم سرگوشیاں ہوتی رہیں۔۔۔۔
پھر ایک کے قدم حویلی کے بیرونی راستے پر تھے جبکہ ایک کے اندرونی راستے پر۔۔۔۔
*****
صبح کے اجالے نے ماحول کو روشن کر رکھا تھا۔۔۔۔
آجا۔۔۔علی سوھنی کو بھی بلا لے آکے روٹی۔۔۔۔۔
زاہدہ ایک دم اپنے ہی منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر غمگین ہوئیں۔۔۔۔
علی جو سکول جانے کے لیے یونیفارم پہنے پز مردہ قدموں
سے چلتا ہوا باہر آرہا تھا وہ بھی دن رات اپنی بہن کی جدائی میں تڑپ رہا تھا۔۔۔۔
اپنی اماں کے سوھنی کا نام لینے پر وہ اور بھی رنج?
صبح کے اجالے نے ماحول کو روشن کر رکھا تھا۔۔۔۔
آجا۔۔۔علی سوھنی کو بھی بلا لے آکے روٹی۔۔۔۔۔
زاہدہ ایک دم اپنے ہی منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر غمگین ہوئیں۔۔۔۔
علی جو سکول جانے کے لیے یونیفارم پہنے پز مردہ قدموں
سے چلتا ہوا باہر آرہا تھا وہ بھی دن رات اپنی بہن کی جدائی میں تڑپ رہا تھا۔۔۔۔
اپنی اماں کے سوھنی کا نام لینے پر وہ اور بھی رنجیدہ ہوا۔۔۔۔
علی نے جب اپنی ماں کو سوھنی کے غم میں روتا ہوا دیکھا تو گلوگیر لہجے میں بولا۔۔۔
اماں آپی کے لیے دعا کرتے ہیں رب اسے جلد ہم سے ملا دے۔۔۔
اللّہ پاک میری دھی دی زندگی آسان کردے۔۔۔
زاہدہ اور علی ساتھ لگے روتے ہوئے ایک دوسرے کو دلاسہ دینے لگے۔۔۔
*****
بھابھی فائزہ سن۔۔۔۔کدھر ہے؟
درمکنون نے اوپر والے پورشن میں آکر انہیں آواز لگائی اور جھانک کر اندر دیکھنے لگی۔۔۔۔
فائزہ جو اپنے کمرے میں لیٹی آرام کر رہی تھی ۔۔۔۔
اپنی نند کی آواز سن کر وہیں سے اسے ہانک لگائی۔۔۔۔
'اندر آجاؤ'۔۔۔۔
وہ چلتی ہوئی ان کے کمرے تک پہنچی۔۔۔۔
دروازے کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
کیا بات ہے آج خود چل کر اوپر آئی ہو ؟
فائزہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
بس ایک ضروری بات کرنی تھی جو سب کے سامنے نیچے
نہیں ہو سکتی تھی بس اسی لیے سوچا کہ اوپر آکر کر لوں ۔۔۔۔
انہوں نے رازداری سے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
فائزہ اس کی بات پر سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔۔۔
اور پوری توجہ اس کی بات پر مبذول کی۔۔۔۔۔
طبیعت کیسی ہے؟درمکنون نے پوچھا
میں ٹھیک ہو مدعے کی بات پر آو۔۔۔
فائزہ کو اس کے لہجے میں کچھ عجیب سا لگا تو کہا۔۔۔
اعیان کے ارادے مجھے کچھ خراب لگ رہے ہیں۔۔۔درمکنون نے کہا
سیدھی سیدھی بات کہو پہلیاں کیوں بجھوا رہی ہو؟
فائزہ نے تیز لہجے میں کہا۔
میری بھی بیٹی ہے ۔۔۔
اور تمہاری بیٹی کو بھی میں اپنی بیٹی ہی مانتی ہوں ۔کل
کلاں کو کچھ غلط ہو گیا تو پھر مجھ سے نا شکایت کرنا کہ میں نے تمہیں آگاہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔
اعیان کی نظر اس ونی پر ہے۔۔۔مجھے کہہ رہا تھا اس پر
صرف میری ملکیت ہے۔۔۔درمکنون نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ہولے سے کہا۔۔۔۔
معًا کوئی سن نا لے ۔۔۔۔
مجھے تو عروج کی حثیت خطرے میں لگ رہی ہے۔۔۔
اعیان بھی کہیں اپنے باپ والی حرکت نا دہرائے ۔۔۔۔ونی کو
اس حویلی میں اپنی بیوی کی حثیت دے کر جیسے سالوں
پہلے اس کے باپ نے ہم سب کی مخالفت مول لے کر کیا تھا۔
اس نے فائزہ کو اعیان کے بارے میں چوکنا کیا۔۔۔
میں اچھے سے جانتی ہوں اعیان کو بچپن سے میں نے ہی
اسے پالا ہے وہ اپنے باپ پر بالکل نہیں گیا۔۔۔مجھے نہیں لگتا
وہ ایسی کوئی حرکت کرے گا۔۔۔۔انہوں نے کہہ تو دیا مگر
درمکنون کی بات سے ان کے دل کو بے چینیوں نے گھیر لیا۔۔۔
میں تو کہتی ہوں جتنا جلدی ہو سکے اعیان سے عروج کی رخصتی کی بات کریں۔۔۔۔
عروج جو اپنی پھپھو کی آواز سن کر باہر آئی تھی۔۔۔کمرے
میں ہوتی ہوئی ان دونوں کی گفتگو پوری طرح سن چکی تھی۔۔۔۔
وہ دبے قدموں اپنے کمرے کی طرف واپس لوٹ گئی۔۔۔۔
****
لالا ! اب میری بھی شادی کردیں۔۔۔۔
پہلے تو کچھ پڑھ لکھ تو لے پھر دیکھنا تیرا یہ لالا کیسے
دھوم دھام سے تیری شادی کرے گا کہ سارا گاؤں بھی کیا
یاد کرے گا کہ زیان چودھری کی شادی ہوئی تھی۔۔۔
کیا لالا مجھے نہیں پڑھنا ہے بس میٹرک کر لیا وہ ہی بڑا ہے میرے لیے۔۔۔۔اس نے منہ پھلا کر کہا۔۔
میں تو چاہتا تھا کہ میرا بھائی پڑھ لکھ جائے۔۔۔اعیان نے
اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر خود سے قریب کیا۔۔۔۔
کیا لالا آپ بھی ایموشنل بلیک میلنگ کرتے ہو۔۔
اچھا ٹھیک ہے یہ سال ریسٹ کروں گا پھر اگلے سال سے پڑھائی پھر سے شروع کروں گا۔۔۔
پر اس کے لیے تو مجھے شہر جانا ہو گا۔۔۔۔
آپ جانے دے گے مجھے۔۔۔اس نے معصوم سا چہرہ بنا کر
اجازت لینا چاہی ۔۔۔اسے پتہ تھا کہ اعیان اسے کبھی خود
سے دور شہر جا کر رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔۔۔
بہت ہوشیار ہو گیا ہے تو زیان لالا کے دل، گردے
پھیپھڑے۔۔۔۔۔اعیان نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
تجھے اچھے سے پتہ ہے کہ میں تجھے اتنے دن خود سے دور
نہیں رکھ سکتا اسی لیے تو مجھے شہر جانے کی دھمکی
دے رہا ہے نا کہ تیری پڑھائی سے جان چھوٹ جائے۔۔۔۔۔
اعیان نے زیان سے کہا۔۔۔۔
Lala you are jenoius.
زیان بولا۔۔۔۔
آخر لالا کس کا ہوں۔۔۔۔
اعیان آج پھر سے قبرستان آیا تھا اور زیان کی قبر پر فاتحہ
پڑھنے کے بعد اسی کی باتیں اور قہقہے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔
****
یونیورسٹی کی ڈین سے بات ہوگئی؟
یس سر!
ایجنٹ 106 نے کہا۔۔۔
پھر کیا ڈیسائیڈ کیا ؟
سر میں اور عمر دونوں سٹوڈنٹس بن کر جائیں گے۔۔۔
اب ہم دونوں ٹہرے سمارٹ اور ینگ ۔۔۔
اور یہ موٹی توند والا ایجنٹ صالح ٹیچر بنے گا۔۔۔
پارسا نے اپنی زندہ دلی والی عادت کے باعث ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
کتنی جھوٹی ہو تم ہم تینوں قریباً ایک ہی عمر کے ہیں
صرف ایک دو انچ پیٹ باہر ہے،تم تو ایسےکہہ رہی ہو
جیسے میں سومو ریسلر ہوں۔۔۔
ہنہہ اس نے خفگی سے سر جھٹکا۔۔۔۔
پارسا نے اس کی خفگی بھرے عمل پر جاندار قہقہ لگایا۔۔۔۔
Behave yourself...
جان کی غصیلی آواز نے ان سب کو خاموش کروایا۔۔۔
Go back to your work now.....
سب وہاں سے باہر نکلے۔۔۔۔۔
ہٹلر!۔۔۔۔۔۔اس نے آہستگی سے منہ میں بڑبڑایا۔۔۔
پارسا کے جان سر کو دئیے جانے والے خطاب پر وہ دونوں
بھی مسکرائے بنا نا رہ سکے۔۔۔۔
*******
رات کا نا جانے کون سا پہر تھا وہ کروٹیں بدل بدل کر تھک
چکی تھی ۔لا تعداد سوچیں اس کے دل ودماغ میں گردش
کرتیں اس کا سکون غارت کر رہی تھیں۔
اس پر صرف میرا حق۔
وہ صرف میرا ہے۔۔۔
مگر میں اسے کیسے روکوں؟
جو میرا ہوکر بھی میرا نہیں رہا۔۔۔
لوگ تو کہیں گے مجھ میں ہی شاید کوئی کمی ہو گی جو
میرا شوہر مجھے چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
اپنا غم کسے سناؤں؟
رونے سےتکیہ بھیگ چکا تھا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا آپ کو ہی اپنا سب کچھ مانا۔۔۔
آپ مجھ سے یوں بے وفائی کریں گے مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی۔۔۔۔
مجھ میں کیا کمی تھی؟
کہاں گئی وہ محبت جو ایک دن مجھے نا دیکھنے پر آپ
مجھے محسوس کرواتے تھے۔
وہ اپنے آپ سے ہی مخاطب تھی۔
اپنی دونوں آنکھوں کو اپنے ہاتھوں کی پشت سے رگڑتے ہوئے اس نے انہیں صاف کیا۔۔۔
میں نہیں روؤں گی۔۔۔
اگر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے میرے مقدر میں لکھا ہے تو وہ میرے پاس ہی لوٹ کر آئے گا۔
اگر نہیں تو چاہے میں کچھ بھی کر لوں وہ میرا نہیں۔۔۔۔۔
مگر میں دعا کرتی ہوں آپ ہمیشہ خوش رہیں چاہے آپ کی زندگی میں میری کوئی جگہ ہو یا نا ہو۔۔۔
محبت میں اپنی خوشی سے زیادہ محب کی خوشی عزیز ہوتی ہے۔
اب مجھے اپنی زندگی بنانےکے لیے بھی کچھ سوچنا ہو گا۔۔۔
عروج نے مطمئن ہو کر اپنی آنکھیں موند لیں۔
*****
ایک ماہ بعد۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم بھائی صاحب!
و ۔۔۔وعلیکم۔۔۔اس اسلام!
کیسے ہیں آپ ؟
فائزہ نے شہریار کے کمرے میں آکر کہا۔۔۔
ٹھ۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔
انہوں نے حیرانگی سے فائزہ کی طرف دیکھا۔۔۔
آج ان کے کمرے میں کیسے آگئی تھی وہ۔۔۔
آپ بھی یہی سوچ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں آپ کے
کمرے میں کیسے اتنے عرصے بعد آگئی۔۔۔
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ دراصل آج میں نے ملازموں سے کہہ کر کھانے کا خاص اہتمام کروایا ہے۔۔۔۔
اور مجھے کچھ خاص بات بھی کرنی تھی اس لیے سوچا
جو بات میں کرنا چاہ رہی ہوں سب کے سامنے ان سب میں
آپ کی موجودگی بھی ضروری ہے۔
چلیے آج ہم سب مل کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔۔۔
وہ دونوں ہاتھوں سے ان کی وہیل چیئر گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئیں۔۔۔۔
سب ڈائینگ ٹیبل کے گردبیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔
ملازمائیں کھانا لگا رہی تھیں۔۔۔۔
جن میں سوھنی بھی شامل تھی۔
سعد اور عروج دونوں بہن بھائی ایک ساتھ بیٹھے تھے۔جبکہ
ان کے بالکل سامنے درمکنون اورنور تھی۔
سوھنی سالن کا باؤل رکھ کر پلٹنے لگی۔
تو نور نے اس پر تفصیلی جانچتی ہوئی نظر دوڑائی۔۔۔۔
جب سے اسے اپنی ماں درمکنون سے پتہ چلا تھا کہ عالم نے
ونی کی طرف داری کر کہ اسے درمکنون کے غضب سے بچایا ہے۔۔۔
نور کو وہ کھٹکنے لگی تھی۔۔۔۔
کم عمر ،خوبصورت ،ڈائن۔۔۔۔۔ہنہہ۔۔۔۔اس نے سوھنی کی طرف دیکھتے ہوئے جل کر کہا۔۔۔۔
درمکنون خاموش تھی ۔۔۔آج وہ فائزہ کو بولنے کا موقع دینے کے لیے چپ تھی۔
اعیان کے وہاں آکر بیٹھتے ہی فائزہ نے بات شروع کی۔۔۔۔
اعیان دراصل مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔
انہوں نے اپنی بات کا آغاز کیا۔
اعیان ان کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
میں یہ چاہ رہی تھی کہ اب عروج کی رخصتی ہو جائے۔۔۔۔
میرے بھائی کو اس دنیا سے گئے ہوئے ابھی ٹھیک سے دو
ماہ بھی نہیں ہوئے اور آپ کو رخصتی کی پڑ گئی ہے۔۔۔۔
مجھے کوئی جلدی نہیں رخصتی کی۔۔۔
فی الحال مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی؟
فائزہ تلخ لہجے میں بولی۔۔۔
اعیان نے ایک نگاہ عروج پر ڈالی جو خاموشی سے نظریں
جھکائے پلیٹ میں موجود تھوڑے سے پلاؤ میں چمچ چلا رہی تھی۔۔۔۔
یہی تو عمر ہے شادی کی۔عروج کے فرض سے فارغ ہوں گی
تو سعد کی بھی کروں گی نا۔۔۔۔
آپ ایسا کریں سعد کی شادی پہلے کر دیں۔۔۔
اعیان نے مشورہ دیا۔۔۔۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔سعد نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر آنکھ دبائی۔۔۔۔
نور نے اس کی حرکت پر غصے میں سر جھٹکا۔۔۔۔
میں تمہاری اور عروج کی بات کر رہی ہوں اور تم مجھے
مفت میں اور مشورے دے رہے ہو۔۔۔۔فائزہ پھر سے اعیان کو تیز آوازمیں کہا۔
دیکھیں بھائی صاحب۔۔۔آپ اپنے بیٹے کو انہوں نے شہریار
چوہدری کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔اب آپ ہی سمجھائیں اسے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ شہریار چوہدری کچھ بولتے۔۔۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بولنے سے روکا
میں نے ایک بار کہہ دیا سو کہہ دیا ۔۔۔۔۔
مجھے نہیں کرنی ابھی شادی تو نہیں کرنی۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر تم اپنی بات پر اب قائم رہنا۔۔۔۔
اگر تمہیں ابھی شادی نہیں کرنی تو پھر اگلے دو سالوں تک
یہ شادی نہیں ہو گی۔۔۔۔
فائزہ بولی۔
ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔
وہ کھانا کھائے بغیر ہی اٹھ کر جانے لگا۔۔۔۔
روکو۔۔۔۔ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی۔۔۔۔۔
فائزہ نے اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
اعیان نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
عروج میری بیٹی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس کی خواہشات کو بھی میں ہی پورا کروں گی۔
اپنی بیٹی کی خواہش کو مدنظر رکھ کر میں نے اس کے لیے
فیصلہ لیا ہے اگر اس کی رخصتی نہیں ہوئی تو وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے شہر جائے گی۔
سعد اپنی یونیورسٹی میں اس کا بھی داخلہ کروا دے گا۔۔۔
وہ گرلز ہاسٹل میں رہے گی۔
اس کا بھائی اس کا خیال رکھے گا۔۔۔
میرا نہیں خیال کہ میرے اس فیصلے سے کسی کو کوئی
اختلاف ہو گا۔۔۔۔فائزہ نے اپنی بات مکمل کر کہ سب کے چہروں پر دیکھا۔۔۔۔
سب خاموش تھے۔۔۔۔۔
اعیان بنا کوئی جواب دئیے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
عروج کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔۔۔۔
اعیان کی بے رخی پر ۔۔۔اب اس کی زندگی میں کیا میری
اتنی بھی اوقات نہیں کہ وہ میرے لیے کیے گئے کسی فیصلے میں اپنی رائے دیتا۔۔۔۔۔
کیا میں اس قابل بھی نا لگی۔۔۔۔وہ اٹھ کر مردہ قدموں سے
چلتی ہوئی اپنے پورشن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
کھانا خاموشی سے کھا یاگیا۔۔۔
پھر سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔۔۔۔۔۔
عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ کچن میں ہی موجود تھی
سونے سے پہلے رات کے سارے برتن دھونا اور کچن کو
شیشے کی طرح چمکانا بھی اس کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔
قریباً بارہ بج چکے تھے۔سب ملازم بھی اپنے اپنے کواٹر میں جا چکے تھے۔
وہ اپنے تمام کاموں سے فارغ ہوئی تھی ۔۔جسم اورسر میں
شدید درد تھا۔آنسو تو کب کے جیسے سوکھ چکے تھے ۔بچا
ہوا کھانا اسے پیٹ بھرنے کے لیے دیا گیا تھا۔۔۔۔وہ فرش پر
بیٹھی ہوئی تھی۔کھانے کے ابھی چند لقمے ہی زہر مار کیے تھے کہ۔۔۔۔
کچن کی طرف آتے ہوئےکسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئی۔۔۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
اعیان چودھری کچن کے دروازے پر کھڑا تھا۔
میرے لیے کھانا نکالو بھوک لگی ہے مجھے۔۔۔
اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔
سوھنی جلدی جلدی سارا کھانا فریج سے نکال کر گرم کرنے لگی۔۔۔۔
اعیان چودھری ابھی تک وہیں کھڑا اس کی پشت پر ٹکٹکی باندھے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کھانا میرے کمرے میں دے جانا وہ حکم صادر کرتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔
کچھ دیر میں سوھنی کھانے کا ٹرے لیے اس کے کمرے تک آئی۔۔۔۔
دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔
آجاؤ۔۔۔۔اندر سے اعیان چودھری کی آواز آئی۔۔۔ایک بار توسوھنی کے قدم لڑکھڑائے۔۔۔۔۔
اعیان چودھری کی ہر وقت اس کے وجود پر پڑتی بے باک نظریں اس سے مخفی تو نا تھیں۔۔۔۔
وہ آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
اس نے اندر داخل ہو کر دیکھا اعیان اسے کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔
اس نے دھیرے سے ٹرے کمرے میں موجود میز پر رکھ دیا اور جانے کے لیے مڑی۔۔۔۔
اعیان جو شاید دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔۔۔
سوھنی کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔
کھانا لائی تھی ۔۔کھا لیں۔۔۔
یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
ابھی مجھے کھانے کی نہیں کسی اور چیز کی بھوک ہے۔۔۔
اعیان نے دروازے کی چٹخنی لگائی۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ ۔۔ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟؟
وہی جو مجھے بہت پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا۔۔۔
اب اور دوری برداشت نہیں ہوتی۔۔۔
آج ساری تشنگی مٹانے کا ارادہ ہے میرا اس نے خمار آلود
آواز میں کہتے ہوئے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے قریب کیا۔۔۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔۔۔وہ اس کی مظبوط گرفت میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔
چھوڑو مجھے گھٹیا انسان ورنہ میں۔۔۔۔۔۔
ورنہ کیا؟
بولو ورنہ کیا کرو گی؟۔۔۔۔۔
شادی شدہ ہو ۔۔۔کچھ شرم کرو۔۔۔۔
بات بنتی نا دیکھ اس نے منت کی۔
دیکھو خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دومجھے۔۔۔۔ اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
ایک لڑکی چاہے کتنے ہی کیوں نا مظبوط ہو اپنی سے دوگنی
طاقت رکھنے والے مرد کے آگے ہمیشہ بے بس ہو جاتی ہے۔
وہ مسلسل اس سے اپنا آپ چھڑوانے میں لگی تھی۔۔۔
دیکھ ہی تو رہا ۔۔۔۔اعیان نے اس کے وجود سے لپٹی چادر
کھینچنے کی کوشش کی۔۔جسے وہ مظبوطی سے تھامے ہوئے تھی۔
شرم کرنا مردوں کا کام نہیں وہ تو تم جیسی لڑکیوں پر اچھی لگتی ہے۔
ابھی جو میں کرنے لگا ہوں پھر جی بھر کر شرماتی رہنا۔۔۔اس نے کمینے پن سے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کر لے گا تو کھائے گا کیا؟
اعیان نے ایک جھٹکے سے اسے بستر پر گرایا۔۔۔۔
سوھنی اس افتاد کے لیے قطعاً تیار نا تھی۔ایک جھٹکے سے
گری۔۔۔۔اسے تو اپنے حواس کھوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔۔۔
یا اللہ پاک میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے آنکھیں بند کیے اپنے رب سے دعا کی۔
ایک وہی ہستی تھی جو اس وقت اس کی مدد کر سکتی تھی۔
آج تیری مدد کے لیے کوئی نہیں آنے والا۔۔۔۔یہ کہتے ہی اعیان اس پر جھکا۔۔۔۔
اس ہمت مجتمع کیے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
اس وقت اسے صرف سوھنی کو پانے کا جنون سوار تھا
اس نے اپنا چہرہ اس کی گردن کے قریب کیا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے وجود کو چھو پاتا۔۔۔
بچاؤ مجھے۔۔۔۔بچاو۔۔۔۔۔
اس نے مدد کے لیے آواز لگائی۔۔۔۔
شاید حویلی میں کوئی اس کی مدد کے لیے آجائے۔۔۔۔
خدا کے قہر سے ڈرو۔۔۔چوہدری خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔
"تم پر بھی ویسے ہی عذاب نازل ہو گا جس طرح خدا کی حکم عدولی کرنے والوں قوموں پر نازل ہوا"۔۔۔
"اس پاک ذات کے قہر سے بچو جس نے بستیوں کی بستیاں
الٹ دیں قوموں کی قومیں صفحہ ِہستی سے مٹا دیں"۔۔۔
حرام ہے یہ سب جانے دو مجھے۔۔۔۔
تم کیا چاہتی ہو اپنے بھائی کے قاتل سے جائز رشتہ بناؤں؟
ہنہ۔۔۔اس نے طنزیہ ہنکارا بھرا۔۔۔
چہ۔۔چہ چہہ۔۔۔
بھول ہے تمہاری۔۔۔۔۔
تم سے پاک رشتہ بنانے کی مجھے بھی کوئی خواہش نہیں۔وہ تنفر سے پھنکاری۔۔۔۔
'چھوٹی موٹی غلطیوں کے سوا میں نے ایسا کوئی گناہ کبیرہ نہیں کیا جس کی بھیانک سزا مجھے تمہارے روپ میں ملے'۔۔۔۔
اللّہ پاک نے فرمایا ہے۔
"ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیے،اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے،اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں،اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے"،
(سورت النور, آیت)26
اعیان چودھری پر تو جیسے شیطان حاوی ہو چکا تھا۔
وہ اس پر جھکا۔۔۔۔۔
میں نے تمہاری تقریر سننے کے لیے نہیں بلایا۔۔۔۔
خاموش ہو جاؤ بالکل۔۔۔۔۔۔۔
اعیان نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروانا چاہا۔۔۔۔
ورنہ کسی اور طرح خاموش کرواؤں گا۔۔۔۔
اب مجھے تمہاری آواز نا آئے۔۔۔۔
مجھے اپنے کام میں کوئی خلل بالکل برداشت نہیں۔۔۔۔
اعیان کی سانسیں بالکل اپنے قریب محسوس کرتے ہوئے اس
نے ایک جاندار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔۔۔۔۔
اس حرکت کی سزا تو تمہیں مل کر رہے گی۔۔
اعیان کو اس سے اس ہمت کی امید نا تھی اس نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
مجھے مارتی ہے سالی اس نے تلملاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اس نے سوھنی کے دونوں ہاتھ قابو کیے اس کے گال پر اپنے دانت گاڑ دیے۔۔۔۔
اس کی درد بھری چیخ کمرے میں گونجی۔۔۔۔
سوھنی کو اپنے گال پر خون جمتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔
ساتھ والا کمرہ جو شہریار چوہدری کا تھا ۔۔۔
وہاں سے کچھ گرنے کی آواز آئی۔۔۔
اعیان فورا اس سے پیچھے ہوا۔۔۔۔
کہیں بابا کو تو کچھ؟
اس کے زہن میں یہ خیال بجلی کی طرح کوندا۔۔۔۔
اس نے برق رفتاری سے دروازے کی چٹخنی کھول کر باہر
دوڑ لگائی اور ایک ہی لمحے میں ان کے کمرے میں پہنچا۔۔۔۔
کیا ہوا بابا ؟
وہ دشمنوں کے معاملے میں چاہے جیسا بھی ہو۔اپنے بابا سے بہت پیار تھا اسے۔۔۔۔
میں ٹھی۔۔۔ ٹھیک ہوں ۔۔۔انہوں نے کہا۔۔۔
بس پ۔پ۔ پانی ڈالنے کی ک۔ک۔۔کوشش میں ج۔جگ نیچے گ۔۔گر گیا۔۔۔
م۔م۔مجھے ابھی کسی۔۔کی چیخ کی ۔۔آ۔۔آواز آ۔۔آئی تھی۔۔۔
نہیں بابا ایسی کوئی بات نہیں ضرور آپ کو کوئی وہم ہوا ہو گا۔۔۔۔
اس نے انہیں تسلی دی ۔۔میں آپ کے لیے پانی لاتا ہوں۔۔۔
یہ کہہ کر وہ واپس اپنے کمرے میں آیا۔۔۔۔
کمرہ خالی تھا۔۔۔۔
اپنے شکار کو کھو دینے پر وہ تلملا کر رہ گیا۔۔۔
وہ جا چکی تھی۔۔۔۔
اس نے غصے سے اپنے کمرے کا حشر بگاڑ دیا۔۔۔
ہر چیز بکھر کر تہس نہس ہو گئی۔۔۔اس کے اندر نا ختم ہونے والی آگ جلنے لگی۔
کھلی ہوئی کھڑکی سے اندر آتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بھی
اس کے اندر لگی آگ کو بجھانے میں ناکام ہوئے۔۔۔
کب تک بچو گی۔۔۔۔اس نے اپنے بالوں کو غصے سے جکڑتے
ہوئے حقارت سے کہا۔۔۔
پھر پانی لے کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
****
اعیان کے کمرے سے باہر جاتے ہی اس نے پہلی فرصت میں
خدا کا شکر بجا لاتے ہوئے وہاں سے دوڑ لگا دی اور اپنے
کواٹر میں آکر دم لیا۔۔۔۔
اس نے آج جو اعیان چودھری کا بھیانک روپ دیکھا تھا اس
کا پورا جسم سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔
وہ مٹی کے فرش پر دھپ سے گرنے کے انداز میں بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
کاش یہ زمین پھٹے اور میں بھی پاک بیبیوں کی طرح اپنی
عزت بچا نے کے لیے مٹی میں سما جاؤں۔۔۔
وقت کے فرعون بنے اعیان سے اس کی رہائی کے لیے اسے
کسی موسیٰ کی ضرورت تھی۔۔۔۔
یا اللّٰہ مدد!
وہ حیوان یا اس سے بھی بد تر مخلوق ہے۔ اس نے تنفر سے سوچا۔۔۔
گرم سیال مادہ اس کے گال بھگونے لگا۔۔۔
درد کی شدت برداشت سے باہر ہوئی تو وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔۔۔۔
کیا یہ درندہ صفت انسان مجھے یونہی نوچ ڈالے گا۔۔۔
وہ اپنے وجود پر ماتم کناں ہوئی۔۔۔۔
اعیان کی دن بہ دن بڑھتی گستاخیاں اس کے اوسان خطا
کرنے لگیں تھیں اور آج تو وہ حد سے تجاوز ہو گئیں تھیں۔
اس بار تو اللہ کی رحمت غالب آگئی اور وہ اس کے ناپاک عزائم سے بچ گئی۔۔۔
اس کا وجود جیسے تنکوں کی طرح بکھر رہا تھا۔
وہ بے جان مورت کی طرح زمین پر سمٹی لیٹی ہوئی اپنے
عزت کی حفاظت کے لیے دعا گو تھی۔۔۔۔۔
*****
سب ناشتے کے لیے میز کے گرد جمع تھے۔
سوھنی کا کل ساری رات جاگ کر گزارنے کی وجہ سے اب
سارے جسم میں درد ہو رہا تھا اور بخار بھی محسوس ہو
رہا تھا مگر وہ کچن میں موجود سب کا ناشتہ بنا چکی تھی۔
اپنے آدھے چہرے کو اس نے اپنے دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔
صبح ہی برتن دھوتے ہوئے اس نے اپنا چہرہ جب سٹیل کی
چمکتی ہوئی پلیٹ میں دیکھا۔
گال پر ابھی بھی اس کے دانتوں کے نشان تھے ۔جو خون
جمنے کی وجہ سے ہلکے نیلے ہو چکے تھے۔
وہ باری باری سارا سامان رکھ رہی تھی۔
اعیان کی نظریں ابھی بھی اسی کے وجود پر جمی ہوئی تھیں۔
وہ تیزی سے کچن میں واپس گئی اور لمبا سانس لیا۔۔۔۔
سب کب تک واپس آئیں گے؟
درمکنون نے فائزہ سے پوچھا۔۔۔
آج ہی تو گئے ہیں۔ایک دو دن لگ جائیں گے۔
سعد عروج کو ساتھ لے کر گیا ہے اس کا یونیورسٹی میں
داخلہ کروانے۔۔۔۔فائزہ نے اعیان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر اس نے ایسے چہرہ رکھا جیسے اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نور بھی عروج کے ساتھ جانے اور شہر گھومنے کی ضد کر
رہی تھی اسی لیے میں نے اسے بھی جانے کی اجازت دے دی۔
در مکنون بولی۔
اچھا کیا۔۔۔
بچے گھوم پھر آئیں۔ان کا بھی دل ہے ورنہ یہاں تو کسی کو
بھی کسی کی پرواہ نہیں ۔۔۔
فائزہ نے نخوت سے کہا۔۔۔۔
اعیان ان کی باتیں خاموشی سے سننے لگا۔۔۔
اس کا ذہن اس وقت اسے پانے کا کوئی نیا شیطانی منصوبہ سوچنے لگا۔۔۔۔
وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔۔۔اور ناشتہ مکمل کیے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
****
شہر گھومنے تو وہ پہلے بھی کئی بار آچکا تھے۔
مگر یہ یونیورسٹی ان دونوں نے پہلی بار دیکھی تھی۔
ہائے اللہ اتنی بڑی یونیورسٹی۔۔۔۔۔نور نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
سعد اس کی بات سن کر مسکرایا۔۔۔۔
اس کے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔
سعد نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا
تم بھی مزید پڑھنا چاہو تو تمہارا ایڈمیشن بھی کروا دیتا ہوں۔
مجھے کوئی شوق نہیں پڑھائی وڑھائی کا۔
اپنا مشورہ تم اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔۔
نور نے بلیک کلر کا عبایا پہنے کر نقاب کر رکھا تھا۔
جبکہ عروج نیوی بلیو کلر کا عبایا پہنے ہوئے تھی۔
ایسا کرو تم دونوں یہاں رکو میں ابھی ایڈمیشن فارم لے کر آتا ہوں۔
سعد جانے لگا۔۔۔
مجھے بھی اسی طرف جانا ہے وہ جگہ مجھے اچھی لگ
رہی ہے میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔
م۔مم میرے پاس کون رہے گا۔۔۔
عروج نے اکیلے رہ جانے کے ڈرسے کہا۔۔۔
لو جی میڈم لڑکے لڑکیوں کے ساتھ پڑھنے نکلی ہیں اور اعتماد نام کو نہیں۔۔۔
یہی وقت ہے چلو ایک تجربہ ہی سہی۔
کھڑی رہو اکیلی ہم ابھی آتے ہیں۔
ہاں عروج پر وقت تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا میرا
ڈیپارٹ الگ ہے خود میں کانفیڈینس پیدا کرو۔۔۔۔
سعد نے اس کی ہمت بندھائی۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔۔۔۔
عروج جو اکیلی کھڑی اپنے قریب سے لڑکے اور لڑکیوں کو
ساتھ ساتھ گزرتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ان کی ڈریسنگ دیکھ کر بوکھلائی۔۔۔
کچھ لڑکیاں تو عبائے میں تھیں،کچھ نارمل شلوار قمیض میں،اور کچھ تو پینٹ شرٹ پہنے ہوئے۔۔۔
لان میں بھی کچھ لڑکے لڑکیاں مل کر بیٹھے ہوئے گپیں لگا رہے تھے جبکہ کچھ پڑھ رہے تھے۔
غرض ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔۔۔۔
ابھی وہ اس ماحول پر ہی غوروفکر کرنے میں مصروف تھی
پلٹی تو کہ اچانک کوئی اس سے ٹکرایا۔۔۔۔۔
وہ جو بھاگتا ہوا اسی طرف آ رہا تھا کسی کے اچانک پلٹ
جانے پر اس سے زور دار ٹکر ہوئی۔۔۔
آہ! وہ کراہ کر پیچھے ہوئی۔۔۔
مقابل کے ٹکرانے سے اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل
چھوٹ کر گرا۔۔۔۔اور دو حصوں میں بٹ گیا۔۔۔۔
اوو۔۔۔سوری !
اس نے نیچے جھک کر ٹوٹے موبائل کے ٹکرے اٹھائے۔۔۔۔
Extremely sorry.
اس نے معزرت خواہانہ انداز میں کہا۔۔۔
بلیو عبائے میں ملبوس بس سیاہ بڑی بڑی خوبصورت
آنکھیں اس کی توجہ کا مرکز بنیں۔۔۔۔
وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔۔۔۔
اس کی سیاہ آنکھوں یکا یک آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔
یہ وہی موبائل تھا جو اعیان نے اس کی برتھ ڈے پر گفٹ کیا تھا۔۔۔۔
آج اس کی دی ہوئی نشانی بھی ٹوٹ گئی۔۔۔
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
آنکھوں کو جھپک کر آنسو پینے کی کوشش کرتے ہوئے سامنے موجود لڑکے پر نظر ڈالی۔۔۔
بلیو جینز پر وائٹ شرٹ پہنے جس کے کف کہنیوں تک فولڈ کیے ہوئے تھے۔
ایک سرسری سی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی اور اپنے ٹوٹے موبائل کے ٹکرے اس کے ہاتھ سے لیے۔۔۔۔
اور غصے سے نیچے پھینک دئے۔۔۔۔
یہ کیا کیا ؟
میرا غصہ اس موبائل پر کیوں نکال دیا یہ ٹھیک ہو سکتا تھا۔۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
وہ اس کی بات پر توجہ دئے بنا دوسری جانب چلنے لگی۔۔۔۔
آپ پلیز یوں ناراض مت ہوں غلطی میری ہے میں آپ کو اس
کی جگہ نیا موبائل لے دوں گا۔۔۔اس نے نرمی سے کہا۔۔۔
آپ پلیز جائیے یہاں سے مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔
اس وقت وہ اعیان کے دئیے گئے تحفے کے ٹوٹنے کے غم میں مبتلا تھی۔۔۔۔
عجیب لڑکی ہے۔۔۔یہ کہتے ہی وہ بھی دوسری طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
******
اُتارو مجھے نیچے ... باہر آتے پارسا اپنے پہلے روپ میں
آچکی تھی... اور لڑنے لگی تھی مگر صالح نے بغیر دھیان
دیے پٹخ کر گاڑی کی فرنٹ سیٹ میں پھینکنے کے انداز میں پھینکا تھا...
اوۓ یہ کیا طریقہ ... پارسا پوری طرح ہل کر رہ گئ تھی...
صالح نے بغیر توجہ دیے گاڑی میں بیٹھتے گاڑی فلیٹ کی طرف موڑی تھی..
تمھیں اندازہ نہیں میں کیپٹن پارسا ہوں تمہارج گِھچّی مڑوڑ کر رکھ دوں گی ... اگر آئندہ یہ حرکت کی...
صالح نے لفظ گِھچّی پر مسکراتی ہوئی نظروں سے پارسا کی طرف دیکھا تھا...
آج بھی کہوں گا کہاں سے سیکھتی ہواس طرح کے لفظ ...
صالح نے بغیر پارسا کو دیکھتے طنزیہ لہجے میں کہا تھا..
ہنہ بدتمیز .. پارسا نے بازو باندھتے غُصے سے کوئی بھی
جواب نا دیتے ہوئے گاڑی سے باہر دیکھنے پر ہی اکتفاکیا تھا...
فلیٹ کے سامنے گاڑی روک کر صالح نے سختی سے پارساکا ہاتھ پکڑے فلیٹ کی جانب رخ کیا تھا..
چھوڑو میرا ہاتھ موٹے ایجنٹ ... مگر صالح کی سختی پارسا کی ہر کوشش ناکام بنا رہی تھی...
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی صالح نے پارسا کو دروازے کے
ساتھ لگاتے ہاتھ چھوڑا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ دروازے پر رکھتے پارسا کا راستہ بند کیا تھا..
پارسا نے آنکھیں دکھانا چاہیں ۔۔۔ مگر صالح کی بے پناہ نزدیکی نے الفاظ دم توڑ دیے تھی...
لو چھوڑ دیے ہاتھ کیا کہہ رہی تھی بولو اب ..
ناک کو ناک سے چُھوتے ہوئے صالح نے اس بار نرم لہجے میں پوچھا تھا ..
ککک کچھ نہیں ہٹو پیچھے ...
پارسا نے ہچکچاتے ہوۓ صالح کے سینے پر ہاتھ رکھتے
پیچھے کرنا چاہا تھا مگر صالح نے دوری مٹاتے اپنا ہاتھ
پارسا کی کمر پر رکھتے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔.
کیوں ہٹوں پیچھے ہاں ....وہاں یونیورسٹی میں جا کر
دوسروں کو جلوےدیکھانا تمھیں اچھا لگتا اور میرا قریب آنا تمھیں بُرا ...
گردن پہ ناک رگڑتے صالح نے ایک ایک لفظ چبا کر قہر آلودہ
لہجے میں بولا تھا... پارسا نے اپنا سانس سینے میں اٹکاۓ رکھا تھا...
وہ ... وہ میں یونیورسٹی میں کام سے ہی گئی تھی ۔تم
بھی تو ٹیچر بن کر لڑکیوں پر لائن مار رہے تھے پارسا نے تھوک نگلتے ہوئےکہا ..
قسم لے لو جو اس دل میں کسی اور کی جگہ ہو۔۔۔
پری اگر تم سے بندھے نکاح کے بندھن کا مجھے احساس نا ہوتا تو آج کی تمہاری اس حرکت تمہیں مزہ چکھا دیتا۔۔۔
پارسا نے صالح کو مسکراتے دیکھ کر غُصے سے گھورا.. اور
پھر میز پر پڑا گلدان اپنے سامنے کھڑے صالح کی طرف اُچھالا ۔۔۔
جسے بروقت اس نے کیچ کر لیا...
ہاہاہا واہ ۔۔۔۔ مطلب کے باولنگ اچھی کروا لیتی ہو...
پارسا اور تیش میں آچکی تھی اور صوفے پر پڑے سارے کُشن صالح کی طرف اچھالے تھے...
بیڈ پر چڑھتا صالح سارے کشن بروقت کیچ کرنے میں لگا تھا..
جب پارسا کو اپنی ہار نظر آئی تو اسنے کشن کی بجاۓ لیمپ اٹھا کر صالح کی طرف پھینکنا چاہا تھا...
اوہ تیری .. صالح بھاگتے ہوئے بیڈ کی دوسری طرف گیا .
مارنا نہیں مارنا نہیں پلیز۔ اس نے منت کی ۔
تم جو مرضی کرو لڑکیوں پر لائن مارو اور میں کسی کو دیکھوں بھی نا۔۔۔۔
تیری تو میں موٹے۔۔۔۔
ٹام اینڈ جیری کی نا ختم ہونے والی لڑائی کافی دیر جاری رہی۔
*****
سعد ،عروج اور نور کو شہر گئے آج دوسرا دن تھا۔
سوھنی معمول کے مطابق اپنے کام نبٹا رہی تھی۔
کل صبح کا گیا اعیان چودھری ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔
سوھنی کو اس کی غیر موجودگی میں کچھ سکون کا سانس ملا۔۔۔
اعیان چودھری اس واقعے کے بعد خاموش تھا۔
یہ خاموشی وقتی تھی یا آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے والی تھی۔
آج ایک اور گلابی دن طلوع ہوا۔۔۔اور ڈھلتا ہوا اداس شام میں ڈھل گیا۔۔۔
سورج اپنی لالی سمیت آسمان کی وسعت میں کھو رہا تھا۔
پورپ کی طرف سے مٹیالی گرد کے آثار نظر آرہے تھے۔
یوں لگ رہا تھا کہ آندھی کا غبار ہر سو چھانے والا ہے
شام بھی سرمئی رنگ بکھیر رہی تھی۔آسمان پر سیاہی مائل بادل بسیرا کرنے لگے۔۔۔۔
اے ونی ۔۔۔دکھائی نہیں دیتا موسم کی کیا حالت ہے جلدی دروازے کھڑکیاں بند کر۔۔۔۔
درمکنون نے اسے حکم دیا اور اپنے سر کی چادر درست کی۔
چلو جلدی نکلو فائزہ یہ نا ہو آنے والے طوفان میں پھنس
جائیں اور وقت پر میت کا چہرہ بھی نا دیکھ سکیں۔
چلو بخشو جلدی گاڑی نکالو۔۔۔
فائزہ نے بھی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے مؤدب کھڑے ہوئے بخشو کو کہا۔۔۔
درمکنون کے سسرال میں فوتگی ہو گئی ہے ہم وہاں جا رہے ہیں
۔موسم زیادہ خراب ہوا تو صبح تک ہی واپسی ہوگی۔
حویلی کی ایک پرانی ملازمہ کو فائزہ نے بتایا۔۔۔۔
اوپر بھائی صاحب اکیلے ہیں رات کو اپنےکواٹر میں جانے
سے پہلے ایک چکر ان کے کمرے میں بھی لگا لینا انہیں کسی
چیز کی ضرورت نا ہو درمکنون نے جاتے ہوئے اس ملازمہ کے
ذمے ایک اور کام لگایا۔
اور باہر نکل گئیں۔۔۔۔
آج وہ لوگ لاہور گھومنے نکلے تھے۔
سعد نے عروج کا یونیورسٹی میں داخلہ بھی کروا دیا اور گرلز ہاسٹل کی بھی بات کر لی تھی۔
پہلے مینارِ پاکستان دیکھا۔۔۔پھر بادشاہی مسجد،میوزیم بھی
گئے اب وہ تینوں فوٹریس پہنچے تھے۔وہاں ان تینوں نے اپنے
لیے اور گھر والوں کے لیے کچھ شاپنگ کی۔
پھر نور نے پلے لینڈ جانے کی ضد کی۔
تم بچی ہو جو وہاں جھولے پر بیٹھو گی۔
سعد نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
تم صاف صاف بتا دو کہ لے کہ نہیں جانا
مجھے باتیں سنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نور نے منہ پھلا کر خفگی دکھائی۔۔۔
چلتے ہیں نا سعد بھائی نور ناراض ہو جائے گی۔عروج بھی بولی۔
ان دونوں کے اصرار پر سعد انہیں اندر لے گیا۔۔۔
مجھے اس میں بیٹھنا ہے۔۔۔نور نے ڈریگن بوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اگر تم نے اس میں بیٹھ کر ڈر سے چیخیں ماری نا تو میں تمہیں وہیں سے نیچے پھینک دوں گا۔
پاگل سمجھا ہے کیا جو چیخیں ماروں گی۔
نور نے اکڑ کر کہا۔۔۔۔
سعد ٹکٹس لے کر آیا۔۔۔
یہ تم ٹکٹس کیوں لے کر آئے ہو بینڈ لے کر آتے وہ دیکھو بچوں نے بینڈ پہنے ہیں۔
تم کیا بچی ہو یار۔۔۔اس نے تاسف سے سر ہلایا۔
یہ یار کس کو بولا تمہارا میں سر پھاڑ دوں گی۔
مجھے اس پارک کے سارے جھولے لینے ہیں وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔
اچھا اگر تم نے یہ ایک جھولا خاموشی سے لے لیا تو میں
تمہیں بینڈ لے دوں گا اگر نہیں تو پھر تم کبھی بھی یہاں آنے کی ضد نہیں کرو گی۔
ٹھیک ہے۔۔۔نور نے کہا۔
پھر وہ تینوں بوٹ پر بیٹھے۔۔۔
جھولا چلنا شروع ہوا۔۔۔
جیسے جیسے جھولا تیز ہو رہا تھا نور کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
اس نے آنکھیں بند کر جھولے کی سیفٹی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔
جیسے ہی بوٹ بالکل الٹی ہوئی ۔۔۔
آنکھیں کھولو۔۔۔سعد کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔
نیچے کا منظر دیکھتے ہی اس کے منہ سے دلخراش چیخ نکلی۔۔۔۔
آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔
بچاؤ۔۔۔۔۔
اس نے سعد کا بازو پکڑ کر پھر سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
عروج اور سعد نے اس کی حالت پر قہقہہ لگایا۔۔۔
******
باہر ہوتی تیز طوفانی بارش ماحول میں ایک عجیب سا
شور برپا کر رہی تھی۔اسے ہمیشہ سے ایسے موسم سے خوف آتا تھا۔
اسے ایسے لگتا یہ کڑکتی بجلیاں اس پر گر کر کے اس کے وجود کو خاکستر کر ڈالیں گی۔
جب تک موسم ٹھیک نا ہو جاتا وہ اپنی اماں کی گود میں سر دئیے بیٹھی رہتی۔
مگر آج اس کے پاس کوئی نا تھا۔
وہ مٹی کے فرش پر دوزانوں بیٹھی ہوئی اپنا سر خوف کے باعث اپنی ٹانگوں میں گھسائے ہوئے کانپ رہی تھی۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے اپنی اماں سے ملے صدیاں بیت چکی ہوں۔
وہ قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی۔۔۔
آج حویلی میں کوئی نہیں میں اماں کے پاس چلی جاؤں ۔۔۔
اس نے سوچا۔۔۔اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔
اگر کسی کو پتہ چل گیا تو کہیں وہ علی اور اماں کو نا
نقصان پہنچائیں۔۔ابھی وہ اسی سوچ میں ہی تھی کہ
حویلی کی پچھلی طرف سے کسی کے کودنے کی آواز آئی ۔۔۔
اس نے اپنی حفاظت کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنی چاہی ادھر
ادھر نظر دوڑائی تو سامنے ہی ایک لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا نظر آیا۔۔
اس نے بھاگ کر اسے پکڑا۔۔۔
اس نے دیکھا مگر اسے کوئی بھی وہاں نظر نہیں آیا۔۔۔۔
اور اپنے قدم تیزی سےواپس لیتی کواٹر میں آئی۔۔۔
کواٹر کی چھت جو بارش کی تیز رفتاری کے باعث ٹپکنا شروع ہو چکی تھی۔۔۔
سوھنی کے کپڑے بھی باہر برستی ہوئی بارش سے بھیگ چکے تھے۔
بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے اس کے ڈر میں مزید اضافہ ہوا۔۔۔۔
جسم ہولے ہولے لرزنے لگا۔۔۔وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی
اس کواٹر کے دروازے پر تو کنڈی بھی نہیں تھی۔
وہ کیسے اس سے بچ پاتی ۔۔۔
کمرے میں دو پرانے لوہے کے صندوقوں پر نظر پڑی جن میں
ملازماؤں کے پرانے کپڑے جو اسے استعمال کرنے کے لیے دئیے گئے تھے وہ ان میں پڑے تھے۔
اس نے بمشکل وہ دونوں صندوق اتار کر دروازے کے آگے رکھ دئے تاکہ کواٹر کا دروازہ نا کھولا جا سکے۔۔۔۔
اس بات سے وہ بے خبر تھی۔کہ آنے والے کے سامنے اس کی یہ کوشش بودی سی ہے۔
*****
بادل کے گرجنے کی آواز نے جیپ کے رکنے کی آواز کو دبا دیا۔۔۔۔
اعیان حویلی میں داخل ہوا تو ہر سو خاموشی تھی۔
حویلی میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
اس نے ملازمین کو آواز دی مگر کوئی وہاں موجود ہوتا تو
اس کی آواز سنتا۔۔۔
اس نے کال ملائی۔۔۔۔
دوسری طرف سے من چاہا جواب پاکر اس کے ہونٹوں پر
شیطانی مسکراہٹ ابھر آئی۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں سے شراب
کی بوتل لیے۔۔۔پہلے شہریار چوہدری کے کمرے کے دروازے
سے جھانک کر دیکھا جو دوائیوں کے نشے میں سو رہے تھے۔
واہ آج تو تمہاری پانچوں گھی میں ہیں۔
شکار کے لیے میدان خالی ہے۔
یہ سوچتے ہوئے اس نے اپنے قدموں کا رخ حویلی سے باہر بنے کواٹر کی طرف کیا۔
اس نے دروازہ کو کھولنے کی کوشش کی ۔۔لیکن وہ اندر سے بند تھا شاید۔۔۔
پرانا سا لکڑی کا دروازہ اعیان کے ایک زوردار جھٹکے کی مار تھا۔
جسے اس نے ایک ہی دھکے سے کھول لیا۔۔۔
وہ ایک کونے میں سکڑی سمٹی دیوار کے ساتھ لگی بیٹھی ہوئی تھی۔
آخر کاروہی ہوا جس کا اسے خوف تھا۔۔۔
جوں ہی اعیان کواٹر میں داخل ہوا۔۔۔
کواٹر میں موجود واحد بلب بھی بجھ گیا۔۔۔۔
لو بتی بھی گُل ۔۔۔۔اعیان نے اچانک لائٹ چلے جانے پر
تمسخرانہ آمیز لہجے میں کہا۔۔۔
اس ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔
آج تو لگتا ہے ساری کائنات ہمارے ملن کوششوں میں ہے۔۔یہ
کہتے ہی اس نے بوتل میں سے ایک گھونٹ بھرا۔۔۔۔
اعیان کہ بھوکی بے باک نظریں سوھنی کے تھر تھر کانپتے
ہوئے وجود کو اپنے حصار میں لے چکی تھیں۔
*****
فوتگی کے گھر میں چیخ و پکار مچی ہوئی تھی عورتیں بین ڈال رہی تھیں۔۔۔۔
ان دونوں نے بھی آگے بڑھ کر تعزیت کی۔
تدفین کے بعد درمکنون اور فائزہ دونوں ابھی وہیں تھیں۔
درمکنون کے سسرالی خاندان میں سے ہی ایک عورت نے اس سے نور کے رشتے کی بات کی۔
مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں نے اس کا رشتہ طےکر دیا ہوا ہے۔
درمکنون نے اپنی ساس سے اپنے شوہر کی جائیداد کے حصے کی بات کی۔
تمہیں اگر حصہ چاہیے تو نور کی شادی اسی خاندان میں کرنی ہو گی۔
انہوں نے درمکنون کے سامنے شرط رکھی۔
فائزہ اس سے پوچھتی رہی کہ وہ عورت اسے کیا کہہ رہی تھی مگر در مکنون نے انہیں نہیں بتایا۔
اپنے سسرالیوں میں تو وہ نور کی کبھی شادی نہیں کریں
گی۔چاہے اسے اپنی شوہر کی جائیداد میں سے کچھ ملے یا نا ملے اس نے دل میں سوچا۔
جب تک وہ نور سے سعد کے رشتے کے بارے میں حتمی رائے
نہیں لے لیتی قبل از وقت وہ فائزہ سے اس سلسلے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسی لیے خاموش رہی۔۔۔۔
فائزہ کے اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی طرف متوجہ
ہوئی۔جہاں کسی کال آرہی تھی۔
حویلی میں اس وقت کوئی نہیں ۔
میں کل تک حویلی واپس آؤں گی ۔
انہوں نے مقابل سے کہا۔۔۔
انہوں نے فون بند کر کے اپنے پرس میں رکھا ہی تھا کہ دوبارہ فون رنگ کرنے لگا۔۔۔۔
*****
سوھنی نے اپنی دونوں مٹھیاں زمینی مٹی سے بھریں۔۔۔۔اور اعیان کے چہرے کی طرف اچھالیں۔۔۔۔
اور خود کو اس سے بچانے کے لیےکواٹر سے باہر کی جانب بھاگنے لگی۔۔۔۔
مگر اندھیرے کی وجہ سے سوھنی کا نشانہ غلط ہوا۔۔۔۔
مجھ سے ہوشیاری۔۔۔۔اعیان نے اس کا ہاتھ کھنچتے ہوئے اس دیوار سے لگایا۔۔۔۔
اس کے جسم میں برقی رو دوڑنے لگی۔
دور رہو مجھ سے۔۔۔۔
سوھنی نے پوری قوت سے اس کو دونوں ہاتھوں سے دھکا دے کر خود سے دور کیا۔۔۔
آج تو تجھے مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا میری پھڑپھڑاتی چڑیا۔۔۔۔
وہ مغرور انداز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔
ابھی تو تیرے تھپڑ کا بدلہ بھی رہتا ہے۔۔۔۔اس نے سوھنی کے
کان کے قریب جا کر رازدارانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
اور اس کے جسم سے چادر نوچ کر دور پھینکی۔۔۔
سوھنی نے اپنی چادر واپس لینے کے بھاگی تھی کہ اعیان
نے اس کے جانے کے سارے راستے مسدود کیے اسے دھکا دے کر دیوار کے ساتھ لگایا۔۔۔
شراب کی بوتل کا ایک اور گھونٹ بھرتے ہی اس نے بوتل سوھنی کے بازو پر مار ی۔
جس وہ بوتل ٹوٹ کر دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔۔۔
اور سوھنی کا بازو لہو لہان۔۔۔۔
وہ درد کی شدت سے کراہ کر رہ گئی۔۔۔اور اپنا دوسرا ہاتھ زخمی بازو پر رکھا۔۔۔۔
بجلی چمک چمک کر اس شیطان کے مکروہ چہرے پر پڑ رہی تھی۔
اعیان دوسری بازو پر بھی اسی کانچ کی بوتل سے وار کیا۔۔۔۔
سوھنی کی دوسری بازو بھی زخمی ہوئی دونوں میں کانچ کے ٹکرے چبھ چکے تھے اور خون بہنے لگا۔۔۔
اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہی زخموں کے خون سے لت پت ہو چکے تھے۔۔۔
تیری اس خوبصورتی کی وجہ سے ہی میرا بھائی اس دنیا
سے گیا نا۔۔۔اس نے اپنے کمر پر ڈالی ہوئی بیلٹ سے گن نکال کر اس کی پیشانی پر رکھی۔۔۔۔
سوھنی نے گن پر اپنا ہاتھ رکھا
چلاؤ گولی۔۔۔۔
ایسی زلت کی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔۔۔
مارو مجھے۔۔۔۔
اس نے بے خوف ہو کر ِچلاتے ہوئے کہا۔۔۔
ایسے کیسے ۔۔۔۔مار دوں تجھے پہلے پہلے ان حسین لبوں کا جام تو پی لوں۔۔۔
اس نے گن کو سوھنی کے لبوں پر پھیرتے ہوئے خمار آلود آواز میں کہا۔۔۔۔
سوھنی کو ایک دم کچھ یاد آیا۔۔۔
اس نے دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہی اپنے قریب رکھے ہوئے ڈنڈے کو ٹٹولنا چاہا۔۔۔۔
اچانک اس کے ہاتھ میں اس کا سرا آیا۔۔۔
اس نے ڈنڈے کو مظبوطی سے اٹھایا اور شراب کے نشے میں دھت اعیان چودھری کو مارا۔۔۔
اس کے ہاتھ سے گن چھوٹ کر دور جا گری ۔۔۔
وہ لڑکھڑانے لگا۔۔۔۔
سوھنی نے بجلی کی سرعت سے بھاگتے ہوئے فرش پر گری گن اٹھائی۔۔۔۔
اچانک لائٹ کی واپسی ہوئی۔۔۔۔
اعیان کی نظر جب سوھنی پر پڑی تو وہ اس کے سامنے اسی کی گن تھامے کھڑی تھی۔
آج سوھنی کی دعاؤں کو شاید کُن کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔۔
جو آج پھر سے وہ ایک بار بچ گئی اس کی عزت محفوظ ہوئی۔۔۔۔
سوھنی کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں گن بھی ہل رہی تھی۔
اس نے کبھی زندگی میں ایسے ہتھیار کو ہاتھ میں نہیں لیا تھا چلانا تو دور کی بات۔۔۔۔
اعیان اس کی حالت دیکھ کر پھر سے ایک بار اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔
بارش اور طوفان تھم چکا تھا۔
مگر سوھنی کی زندگی میں آیا طوفان جانے کب تھمنے والا تھا
رک جاؤ۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں وہیں رک جاؤ۔۔۔۔
سوھنی نے اسے اپنے قریب آنے سے منع کیا۔۔۔۔
اعیان کے قدم نا رکے۔۔۔۔اسے چھوڑ دو اسے چلانا بچوں کا کھیل نہیں۔۔۔۔۔۔
گولی کی تیز آواز حویلی میں گونجی۔۔۔
اعیان لڑکھڑاتا ہوانیچے گرا۔۔۔۔
چند لمحوں میں ہی اس کی کھلی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔۔
سوھنی فق نگاہوں سے کبھی اپنے ہاتھوں اور کبھی اعیان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
********
سیلی سیلی ہواؤں میں جانے کہاں سے نمی کا ظہور ہوا کہ
پورے جسم وجاں میں کپکپی سی دوڑی۔۔۔
فضا میں گھٹن تھی اور وہ گھٹن اس کی بچی کُچی
سانسیں دبا رہی تھی۔فضا میں آکسیجن نہیں تھی۔لیکن
آکسیجن تو تھی مگر سانس نہیں تھی۔
کیا واقعی سانس نہیں تھی؟اس نے جلتی آنکھوں کو رگڑ
رگڑ کر تازہ ترین ہوئے حادثے کو دیکھا۔۔۔۔
گن چھوٹ کر اس کے ہاتھ سے گری۔۔۔۔
شہریار چوہدری جو اپنے کمرے میں دوائیوں کے زیر اثر
سورہے تھے گولی کی آواز سن کر جاگے۔۔۔۔
اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔۔۔۔ان کا بے جان وجود اٹھنے سے انکاری تھا۔۔۔۔
وہ وہیں پڑے باہر ہوئے واقعے کو لے کر پریشان تھے۔۔۔۔ان کے دل میں عجیب و غریب وہم آرہے تھے۔۔۔
جانے باہر کیا ہوا ؟
ان کا دل کچھ نا کچھ برا ہونے کا اندیشہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔
عالم جو اپنے بابا شہریار چوہدری سے ملنے آیا تھا حویلی کے
گیٹ پر ہی پہنچا تھا کہ ساتھ بنے کواٹر سے گولی چلنے کی آواز سن کر اسی طرف بھاگا۔۔۔۔
کواٹر کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔
اندر فرش پر پڑے اعیان کے بے ہوش وجود پر نظر پڑی تو تیز قدموں سے اس کے قریب آیا۔۔۔
اس کے جسم سے نکلتے ہوئے خون سے اس کے کپڑے رنگے ہوئے تھے۔
جلدی سے اپنی جیب سے فون نکال کر نمبر ملایا۔۔۔۔
ہیلو ! حویلی میں ایمرجنسی ہو گئی ہے فوراً
ایمبولینس بھیجو۔۔۔۔
پھر دوبارہ کوئی اور نمبر پریس کیے۔۔۔۔
پولیس اسٹیشن....
جلدی سے سٹی ہاسپٹل پہنچیں میرے بھائی کو گولی لگی
ہے ۔پولیس کیس ہے آپ کی اجازت کے بنا آپریٹ نہیں کیا جائے گا پلیز آپ جلدی وہاں آئیے۔۔۔۔
اس نے اعیان کے گال پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے تھپتھپایا۔۔۔۔
آنکھیں کھولو اعیان۔۔۔۔۔
مگر بے سود۔۔۔۔۔
اس کی نظر دیوار سے لگی۔۔۔ایک لڑکی پر پڑی۔۔۔
مگر وہ یاد کرنے میں ناکام رہا کہ اس نے اسے کہاں دیکھا ہے۔
سوھنی جو اس واقعے کے زیر اثر منجمد ہو چکی تھی۔
اپنے سامنے اسی مسیحا پر نظر پڑتے ہی اسے پہچان گئی
جس نے ایک بار پہلے بھی اس کی جان بچائی تھی۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔اس نے کانپتی ہوئی آواز سے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔۔۔
وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آرہی تھی۔۔۔
اس بات سے بے پرواہ کہ راستے میں پڑے کانچ اس کے ننگے پاؤں کو مزید زخمی کر رہے ہیں ۔۔۔
وہ اسوقت ہوش میں ہوتی تو کچھ محسوس کر پاتی۔۔۔۔
دوپٹے کے بنا ۔۔۔۔وہ اپنے وجود کو ڈھکنے کے لیے اپنےبازؤں
سے نکلتے ہوئے خون پر دونوں ہاتھ جمائے ہوئے تھی۔
ایک ہاتھ اس نے عالم کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔
جو خون سے لت پت تھا۔
مجھے بچا لیں ۔۔۔
میں بے قصور ہوں۔۔۔م۔م۔مں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔
وہی خون سے رنگے ہاتھ۔۔۔
وہی آواز۔۔۔۔
جو جانے کتنے عرصے سے اس کے خوابوں میں آکر اسے بے چین کیے رکھتی تھی۔
تو کیا یہ وہ لڑکی تھی۔جو ہر بار خواب میں اپنے خون سے
لتھڑے ہوئےہاتھ میرے آگے مدد کے لے بڑھاتی تھی؟
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
ایک گہری سانس لیتے ہوئے۔۔۔۔
اس نے اپنی شال اتار کر بنا اس کی طرف دیکھے اس کے وجود کے گرد پھیلا دی۔
عالم نے اپنے ہاتھ میں پکڑا فون پھر سے ملایا۔۔
جلدی گاڑی واپس لو حویلی کی طرف۔۔۔۔
پانچ منٹ میں تم مجھے یہاں چاہیے ہو کسی بھی طرح۔۔۔۔۔
اس نے کسی کو وارن کیا۔۔۔۔
فرش پر پڑی ہوئی گن اٹھائی اور اسے ناک کے قریب لے جا کر سونگھا۔۔۔۔۔
پھر اسے اپنی قمیض کی جیب میں ڈال لیا۔۔۔
وہ جو کوئی بھی تھا واقعی پانچ منٹ میں گاڑی حویلی کے
باہر لا چکا تھا۔۔۔۔
چلو یہاں سے۔۔۔۔
اس نے سوھنی کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
اس نے خود کو شال سے اچھی طرح چھپا لیااور اپنے زخمی
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر بڑھنے لگی۔۔۔۔
اتنی رفتار سے تو تم کبھی نہیں بچو گی۔۔۔۔
یہ کہہ کر عالم نے اسے اپنے دونوں بازوؤں میں اٹھا کر گاڑی تک لایا۔۔۔
اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر دروازے کو زور سے
بند کیا اسے ہسپتال لے جا کر اس کی بینڈیج کرواؤ ۔۔۔
اس نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہا۔۔۔۔۔
ان کی گاڑی ابھی حویلی سے نکلی ہی تھی کے چند منٹوں
کے بعد ایمبولینس وہاں پہنچ گئی۔۔۔
عالم نے ان کے ساتھ مل کر اعیان کو تیزی سے ایمبولینس
میں ڈالا۔۔۔اور ہسپتال کا رخ کیا۔۔۔
پولیس بھی وہاں بروقت پہنچ چکی تھی۔
عالم نے انہیں بتایا کہ جب وہ حویلی پہنچا تو اس کا بھائی زخمی حالت میں وہاں موجود تھا۔۔۔۔
اسے گولی لگ چکی تھی۔اور جائے حادثہ سے یہ گن ملی ہے۔
اس نے وہ گن ان کے حوالے کی۔
پولیس کی اجازت کے ساتھ اعیان کا آپریشن شروع کردیا گیا۔۔۔۔
بس اب انہیں انتظار تھا تو اعیان کے ہوش میں آکر بیان دینے کا۔۔۔۔
عالم اس دوران درمکنون اور فائزہ کو کال کر کہ اعیان کی حالت کے بارے میں آگاہ کر چکا تھا۔۔۔
فائزہ اور درمکنون واپس حویلی پہنچ چکی گئیں۔۔۔۔
ان دونوں نے وہاں پہنچ کر بین ڈالنا شروع کردئیے۔۔۔
آخر کو اعیان ان دونوں کے لیے اہم شخصیت تھا ایک کا بھتیجا اور داماد تو دوسری کا لاڈلا۔۔۔۔
ان دونوں نے شہریار چوہدری کے کمرے میں جا کر انہیں
بھی اعیان کے گزرے ہوئے حادثے کے بارے میں بتایا۔۔۔۔
حویلی میں اس وقت سوگ کا سماں تھا۔۔۔۔
شہریار چوہدری کو جب اپنے بیٹے کی حالت کا پتہ چلا ان کا کلیجہ تو منہ کو آرہا تھا۔
سچ کہتے ہیں جوان اولاد کو کچھ بھی ہو جائے والدین اپنی
موت اس دنیا میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیتے ہیں۔
سب اس کی حالت کو لے کر غم سے نڈھال تھے اور اس کی
صحتیابی کے لیے دعاگو تھے۔۔۔
اپنے ایک بیٹے کو تو وہ کھو چکے تھے دوسرے بیٹے کو کھ دینے کا تصور ہی ان کے لیے سوہان روح تھا۔۔۔
اے میرے مالک میری زندگی بھی اسے لگا دے۔۔۔شہریار چوہدری نے دل میں اپنے بیٹے کے لیے دعا کی۔۔۔۔
****
درمکنون نے سعد کو فون ملایا ۔۔۔
تیسری بیل پر کال ریسیو کرلی گئی۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!
وعلیکم اسلام۔۔۔۔
انہوں نے ہڑبڑی میں کہا۔۔۔۔
تم جلدی نور اور عروج کو لے کر واپس حویلی پہنچو۔۔۔انہوں نے کہا۔۔۔
ہم کل تک آجائیں گے پھپھو۔۔۔۔
نہیں وقت ضائع مت کرو۔۔۔آج ہی واپس آو۔۔۔
کیوں کیا ہوا؟جو آپ ہمیں ایسے بلا رہی ہیں؟
اعیان کو گولی لگی ہے اور وہ اس وقت ہسپتال میں ہے۔
عالم وہاں سب سمبھال رہا ہے تم جلدی پہنچو وہاں تمہارا
ہونا ضروری ہے ناکہ اس ونی کے بیٹے کا۔۔۔۔
یہ تو بہت پریشانی کی بات ہے اچھا ٹھیک ہے ہم بس تیاری کر کہ نکلتے ہیں ابھی۔
اور پھپھو کیا ہوا جو عالم وہاں ہے وہ بھی تو بھائی ہی ہے۔
تم مجھے زیادہ سبق نا پڑھاؤ۔۔۔۔
اور نکلو وہاں سے۔۔۔انہوں یہ کہتے ہی غصے میں فون بند کیا۔۔۔۔
*****
وہ چلتا ہوا ہسپتال کے دوسرے حصے میں آیا جہاں اس کی ٹریٹمنٹ کردی گئی تھی۔
اور اس کے بازوؤں پر بینڈیج بھی ہو چکی تھی۔
وہ سر جھکائے ہوئے وارڈ کے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
اس کا علاج ہو گیا ہے تو اسے واپس حویلی پہنچا دو۔۔۔۔
سوھنی نے عالم کو اسی شخص سے کہتے ہوئے سنا۔۔۔
وہ فق نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
نہیں مجھے اس زندان میں واپس نہیں جانا۔۔۔
وہ اس کے پاس آکر اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔میں نے اسے نہیں مارا میرا یقین کریں۔۔۔
مجھے بچالیں۔۔۔
مجھے واپس نہیں جانا وہاں ۔۔۔۔
وہاں میری عزت محفوظ نہیں۔۔۔اگر وہ بچ گیا تو وہ میرے
ساتھ بہت برا کرے گا۔۔۔۔
عالم نے اس کی آخری بات پر اسے بے یقینی سے اسےگھور کر دیکھا۔۔۔۔
م۔م۔میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔
میں اس پر الزام نہیں لگا رہی ہے۔میں سچ کہہ رہی ہوں۔
وہ اعیان چودھری کی مجھ پر بری نظر ہے۔۔۔۔
جب سے میں ونی ہو کر حویلی میں آئی ہوں ان کی گندی نظریں ہمیشہ مجھ پر رہی۔۔۔۔
مانا کہ میں ونی ہوں بے شک وہ مجھ سے سارے کام کروانے
کا حق رکھتے ہیں مگر میں نےان کے ساتھ حرام رشتہ بنانے
میں کبھی بھی ان کا ساتھ نہیں دیا بس اسی لیے ۔۔۔۔
بات یہاں تک پہنچی۔۔۔۔
ان کی منکوحہ عروج جی میرے لیے باعث احترام ہیں ۔۔۔انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی
آپ کہیں تو میں آپ کے پاؤں بھی پکڑنے کو تیار ہوں مجھے وہاں دوبارہ مت بھیجیے۔۔۔۔
عالم خاموش تھا۔۔۔۔
کچھ سوچ رہا ہو جیسے۔۔۔۔
عالم کو خاموش دیکھ کر سوھنی نے اس کے پاؤں پر اپنے ہاتھ رکھے۔۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو؟
اٹھو یہاں سے۔۔۔۔
عالم اس کے اپنے پاؤں چھونے والے عمل پر دو قدم اس سے پیچھے ہوا۔۔۔۔
سائیں مجھ پر رحم کریں ۔۔۔میری ایک عرضی مان لیں۔۔۔۔
اس نے سر اٹھا کر عالم کی طرف دیکھتے ہوئے التجائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
میری اماں کہتی تھیں کہ مرد کے بغیر عورت کی کوئی زندگی نہیں ۔محرم مرد ہی ایک عورت کی عزت کی حفاظت کر سکتا ہے۔۔۔
آپ مجھ سے نکاح کر کہ پاک رشتہ بنا لیں ۔۔۔
پھر چاہے آپ مجھے اپنی تا حیات غلام سمجھنا یا رکھیل ۔۔۔۔
مجھ سے بس حلال رشتہ جوڑ لیں۔۔۔
یہ پاک رشتہ میرے مقدر میں لکھ دیں۔
آپ جو کہیں گے میں وہ کروں گی مجھے ایک بار یہاں سے بچا لیں۔۔۔
میں اپنی عزت نہیں گنوانا چاہتی۔
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔۔۔
وہ اس کے سامنے گڑگڑانے لگی۔
*****
اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔۔۔۔
کہاں ہے وہ ونی ؟
درمکنون کی جاندار آواز پر سارے ملازم اسے ڈھونڈنے کے لیے دوڑے ۔۔۔۔
اس کے کواٹر میں دیکھا۔۔۔ساری حویلی چھان ماری مگر اس کا کوئی اتا پتا نا چلا۔۔۔۔
ایک تو اعیان کی حالت اور دوسری طرف ونی کا یوں
اچانک غائب ہو جانا ان کے لیے کسی عذاب سے کم نا تھا۔۔۔۔
وہ جلے پیر کی بلی کی مانند ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔
اس مخمصے میں بری طرح پھنس چکی تھی آخر یہ گئی تو کہاں گئی۔۔۔۔
اسے ہاسپٹل کے پچھلے راستے سے میری گاڑی میں بٹھاؤ۔۔۔۔
وہ اپنے کسی آدمی سے کہہ کر وہاں سے باہر نکلا۔۔۔۔
سوھنی نے اپنا چہرہ اور جسم شال سے اچھی طرح چھپا رکھا تھا۔۔۔۔
پاؤں میں زخموں کی وجہ سے ابھی بھی درد تھی۔
ان زخموں سے کانچ نکال کر مرہم لگا دی گئی تھی۔
وہ بمشکل چل رہی تھی بنا جوتے کے۔۔۔
اس کی مدد کے لیے ساتھ آتے شخص نے مدد کے لیے ہاتھ
بڑھایا کہ وہ اسے تھام کے اسکے سہارے چل لے۔۔۔
مگر سوھنی نے یہ کہہ کر اسے منع کردیا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں خود ہی چلوں گی۔۔۔
ایک نامحرم کا ہاتھ نہیں پکڑنا چاہتی تھی۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ گاڑی تک پہنچ گئی۔۔۔
اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔
کچھ دیر بعد اس نے آکر ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی۔۔۔۔
اگنیشن میں چابی ڈال کر گاڑی سٹارٹ کی۔
اس کے دل میں بہت سے سوال اٹھ رہے تھے۔۔۔
جانے اب یہ شخص میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
کیا یہ واقعی مجھ سے نکاح کرے گا؟
کہیں یہ بھی اعیان کی طرح اپنے بھائی کا بدلہ نا لے مجھ سے۔۔۔
جانے کہاں لے کے جانے والا ہے یہ مجھے؟
اس طرح کی کئی لامتناہی سوچیں اس کی سوچ کا مرکز بن رہی تھیں۔
کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں منحوس ہوں؟
آخر کار اس نے زبان پر آیا سوال پوچھ ہی لیا۔۔۔
مگر عالم خاموش تھا۔
پہلے آپ کےایک بھائی کی جان گئی میری وجہ سے اب دوسرا بھی۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا اسے۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتی عالم بول اٹھا۔۔۔۔
اس کے بعد سوھنی پھر سے بولنے کی ہمت ہی نا ہوئی۔
"وہ ایک بے بس سی لڑکی تھی اگر روشنی کی ایک ہلکی
سی ٹمٹماتی لہر کو اپنی منزل بناۓ وہ عزت کی تلاش میں
چل پڑی تھی تو راستے میں آنے والے اتنے بڑے امتحان نے
اسکے پیروں کو ڈگمگا دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
سچائی اور حق کا راستہ ایسا ہی تو ہے ایک طویل سیدھا
راستہ جہاں لوگوں کی بھیڑ نہیں ہوتی ہر قدم ہر پل ایک
آزمائش ہوتا ہے جہاں لوگ راہوں میں کانٹے بچھا کردیتے
ہیں لیکن ہمیں صبر کرنا ہوتاہے۔ وہ یہ بات اچھے سے جانتی
تھی اُسے آگے بھی کتنی آزمائشوں اور امتحانات کے پُل سے
گزرنا ہوگا تبھی زندگی کا یہ راستہ طے پایا جاسکتا۔
وہ چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ بن گئی تھی لیکن جب
کردار اور عزت پر بات آتی ہے تو عورت بکھر جاتی ہے وہ
بھی بکھر گئی تھی وہ پاک تھی لیکن کیا وہ سمجھ پائے گا؟
سفر کے دوران عالم نے کسی کو فون کر کے کسی جگہ کا پتہ بتا کر وہاں آنے کے لیے کہا۔۔۔
اک طویل سفر کے بعد گاڑی رکی تو سوھنی نے نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔
باہر نکلو اور چادر گردن تک کر لو تمہارا چہرہ نظر نا آئے۔۔۔اس نے اپنی بھاری آواز میں کہا۔۔۔
سوھنی باہر آئی تو وہ آگے آگے چلنے لگا سوھنی نے اس کی تقلید کی۔
وہ ہولے ہولے لرزنے قدموں سے اس کے پیچھے مسجد میں داخل ہوئی۔۔۔
وہ ایک طرف کھڑی رہی۔۔۔
عالم کو جس کا انتظار تھا وہ لوگ بھی شاید یہاں پہنچ چکے تھے۔
وہ کسی سے کچھ دیر بات کرتا رہا پھر مسجد کے امام سے بات کی۔
امام صاحب نے اس کے پاس آکر اس کا اور اس کے والد کا
نام پوچھ کر نکاح نامے پر بنی مقررہ جگہ پر لکھا۔
کچھ ہی دیر میں دونوں طرف سےایجاب وقبول کا سلسلہ ختم ہوا۔۔۔
سوھنی کے رگ وپے میں سکون سرائیت کرنے لگا۔۔۔
آج وہ کسی سے مظبوط بندھن میں بندھ گئی تھی۔
مگر دل میں اس بات کا غم بھی تھا کہ اس کی زندگی کا اتنا اہم موقع تھا پر اس کی اماں اور بھائی اس کے ساتھ نا تھے۔
کچھ دیر میں وہ پھر سے گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی ایک بار پھر سٹارٹ ہوئی۔۔۔
سوھنی نے گاڑی کے سائیڈ والے شیشے سے اپنے محرم پر نظر ڈالی۔۔۔
جو ایک ہاتھ سے سٹرینگ تھامے ماہرانہ انداز میں گاڑی چلارہا تھا ۔۔۔
دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ تھامے اسے اپنے
ہونٹوں میں دبا کر لمبا کش بھر کر اس کا دھواں ہوا میں
تحلیل کرتا ہوا شاید کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔۔۔
میری وجہ سے آپ بھی پریشان ہیں؟سوھنی نے اپنی باریک سے آواز سے پوچھا۔۔۔۔
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔
وہ سوھنی کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے اس میں سے باہر نکلا۔۔۔۔
اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
سوھنی بھی اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئی۔۔۔
گھر کافی بڑا تھا۔۔نئی طرز کی چیزوں سے سجا ہوا تھا۔۔۔۔
سامنے وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظر آیا۔۔۔
وہ بھی اس کے پیچھے ادھر ہی جانے لگی۔
وہ کمرے میں آیا اور کھیڑی دروازے کے قریب ہی اتار دی۔
قمیض کے بٹن کھول رہا تھا تاکہ چینج کر لے۔۔۔
اسے اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر بولا
'گھر میں اور بھی کمرے موجود ہیں۔ان میں سے کسی میں چلی جاؤ میرے پیچھے کیوں آرہی ہو؟'
اس نے عالم کی طرف پریشانی سے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مڑوڑ تے ہوئے دیکھا۔۔۔
وہ بنا نیچے دیکھے اندر آرہی تھی اس کا پاؤں اس کی کھیڑی پر پڑا۔۔۔۔جو راستے میں ہی تھی۔۔۔
پھر سے کچے زخموں میں سے خون رسنے لگا۔۔۔
آہ۔۔۔اس نے دھیمی سی درد بھری آواز میں کہا۔۔۔
عالم کی نظر اس کے پاؤں پر پڑی۔۔۔
کیا مصیبت ہے؟اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
اور اس کے قریب آکر پھر سے اسے بازوؤں میں بھر کر کمرے میں موجود بستر پر بٹھایا۔۔۔
سوھنی ایک بار پھر سے اس کے قریب سے اٹھانے پر بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔
اس کے قرب سے اٹھتی مہک سے سوھنی کو اپنے حواس مختل ہوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔۔۔
یہ نکاح کے پاکیزہ بولوں کا اثر تھا،شاید جو اسے عالم کا یوں خود کو چھونا بالکل بھی برا نا لگا۔۔۔۔
نکاح میں بہت طاقت ہے جو دو انجان دلوں میں بھی انسیت پیدا کردیتا ہے۔
میں نے اعیان کو نہیں مارا۔۔۔اس نے عالم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
پھر جانے کیا ہوا وہ رونے لگی۔۔۔۔
اتنی دیر سے جو دل میں بھرا ہوا غبار تھا وہ اس طرح سے نکالنے لگی۔
اور اس کی دوائی نکال کر اسے تھمائی۔۔۔
کمرے میں موجود ڈھانپ کر رکھے گئے جگ میں سے پانی نکال کر اسے دیا۔۔۔
اسے کھا لو درد ٹھیک ہو جائے گا۔
مجھے پتہ ہے تم نے اسے نہیں مارا۔۔۔۔
اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
سوھنی نے بےیقینی سے اس کی سبز آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
کیا سچ میں آپ مجھ پر یقین کر رہے ہیں؟
یا میری حالت پر ترس کھاتے ہوئے مجھے تسلی دے رہے ہیں؟
سوھنی نے بے دھیانی میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔
گن میں سے فائیر نہیں کیا گیا۔۔۔۔
اس میں چھ کی چھ گولیاں موجود تھیں۔۔۔۔
عالم نے گویا اس کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔
اور اپنا ہاتھ اس کی نازک گرفت میں سے نکلوایا۔۔۔۔
دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔
اس کے رونے میں مزید شدت آگئی۔۔۔
عالم بے دھیانی میں اس کے قریب بیٹھا۔۔۔۔
"مجھے جلد سے جلد واپس جانا ہو گا اس وقت اعیان کے ساتھ ساتھ بابا کو بھی میری ضرورت ہے"۔۔۔
وہ اسی سوچ میں تھا۔۔
کہ وہ اس کے شانے کے ساتھ لگی۔۔۔
عالم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر خود سے پیچھے کیا۔۔۔
مگر شاید دوائی کا اثر تھا کہ وہ سو چکی تھی۔
عالم نے اس کے لٹکے ہوئے پاؤں اٹھا کر بستر پر رکھے۔۔۔
اور اس پر کمفرٹر ڈال کر خود چینج کر نے چلا گیا۔۔۔۔
تیار ہو کر آخری نگاہ اس سوئے ہوئے وجود پر ڈالی اور
کمرے کا دروازہ بند کر کے وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
****
میں نے ہمیشہ آپ کی کہی ہر بات کو حرفِ آخر مانا۔
ہر لمحے آپ پر اپنی توجہ کا سایہ کیا۔۔۔
آپ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا بھرپور خیال رکھا۔
آپ کی خواہشات کا احترام کیا۔۔۔
میری اتنی کوششوں کے باوجود بھی آپ مجھ سے دور ہو گئے۔۔۔
مگر خدا گواہ ہے میں نے کبھی آپ کو بدعا نہیں دی۔
ہمیشہ آپ کی سلامتی کی دعا مانگی ہے آپ میرے مقدر میں ہیں یا نہیں۔
میں نہیں جانتی۔
مگر پھر بھی میں آپ کی سلامتی کے لیے اپنے پروردگار سے دعا گو ہوں۔
جب سے عروج کو اعیان کے بارے میں پتہ چلا تھا۔
پہلے تو اسے دھچکا لگا۔۔۔
اس نے تو کبھی سوچا نا تھا کہ اعیان کو کچھ ہو بھی سکتا ہے۔
اپنے آپ کو سنبھالنے کے بعد وہ اعیان کی صحت یابی کے لیے دعا کر رہی تھی۔
*****
اوئے۔۔۔۔۔۔ایس۔ آئی ۔ایجنٹ !
آج تجھے کس چیز کا دورہ پڑا ہے۔جو چھت کو گھورنے کے ساتھ ساتھ مسکرا رہا ہے۔۔۔۔
صالح نے عمر سے کہا۔۔۔۔۔
یہ تیرے کمرے کا اجڑا ہوا نقشہ،یہ تیری حالت اور اس پر سرخ آنکھیں ۔۔۔۔
خدا خیر کرے مجھے تو معاملہ ِ عشق لگ رہا ہے۔۔۔۔
صالح نے اس کی کمر پر زور دار دھپ رسید کی۔
تیری تو۔۔۔عمر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔لگتا ہے ہاتھ زور سے پڑ گیا۔۔۔صالح نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔
سوری یار۔۔۔وہ شرارت سے دانت نکال کر اس کے ساتھ لگا۔۔۔
عمر نے اسے پیچھے دھکا دیا۔۔۔
سوری کے لگتے کسی دن تیرے ہاتھ توڑ دوں گا۔۔۔۔
میری کمر توڑ کر رکھ دی تیرے ان فولادی ہاتھوں نے۔۔۔۔
اف۔۔۔۔
مجھے پر یہ ظلم مت کیجئے گا مسقبل کے رانجھا صاحب۔۔۔
ابھی تو میں نے رخصتی کروا کر تیری بھابھی پارسا کا
گھونگھٹ بھی انہیں خوبصورت ہاتھوں سے اٹھانا ہے۔۔۔۔
بہت بے شرم ہے تو اپنی گولڈن نائٹ کی تیاریاں ابھی سے سوچ لیں۔۔۔۔
تو بھی سوچ لے میں کون سے تیرے دماغ پر قفل لگا رکھے ہیں۔۔۔
ویسے ہے کون جس نے میرے یار کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔۔۔
ہر لمحہ۔ہر گھڑی،ہر سو مجھے بس وہی منظر نظر آنے لگا ہے۔
ہر چہرے پر اسی کا گمان ہونے لگا ہے۔
مجھے تو یار خود بھی سمجھ نہیں آرہا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔
صالح نے اسے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
وہ کس خوشی میں؟ عمر نے حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
تم بھی ہماری طرح عشق کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے۔۔۔اسی لیے۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا نے لگے۔۔۔۔
****
وہ گھر سے نکلا تو آٹومیٹک لاک سے از خود ہی دروازہ بند ہوگیا۔۔۔۔
اس نے گاڑی واپس گاؤں کے راستے پر ڈال دی
راستے میں فجر کی اذان ہوئی تو گاڑی روک کر لاک کی۔
اور مسجد کی طرف بڑھا۔۔۔۔وضو کرنے کے بعد باجماعت نماز ادا کی۔
دعا کے ہاتھ اٹھائے تو اچانک پھر سے اس بے بس لڑکی کا
اس کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر اس سے فریاد کرنے کا منظر یاد آیا۔۔۔۔
وہ دل دہلا دینے والے منظر کو یاد کر کہ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔
"ہم بھی تو آپ سے مدد مانگتے ہیں اور آپ نے کبھی اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔۔۔
ہم بھی تو آپ کے ہی بندے ہیں تو پھر ہم کیسے اپنے غرور میں کو کسی کو خالی ہاتھ لوٹا سکتے ہیں۔"
'اگر انسان کسی کی مدد کرے تو خدا اس کی اس جگہ سے مدد فرماتا ہے جس کا کبھی اس نے تصور بھی نہ کیا ہو۔۔'
"تو رحمٰن ہے تو رحیم ہے تو مالک و قدوس ہے۔دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔
میں نے ایک مظلوم لڑکی کی مدد کرنے کے لیے ایک حلال رشتہ قائم کیا۔
اسے سہارا دینے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔۔۔۔
کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ بے قصور ہے۔
اور یہ معاشرہ ظالم۔۔۔۔
شاید وہ ایک ونی کی رسم کی بھینٹ چڑھی ہوئی ایک بے بس لڑکی ہے۔بالکل میری ماں کی طرح۔۔۔۔
میں خود ایک ونی کی اولاد ہوں۔
جسے میرے باپ نے معاشرے میں مقام دلایا تھا۔۔۔۔
مجھ میں بھی اسے باپ کے خون کی تاثیر ہے۔
میں اسے جلد ہی انصاف دلا کر اس رشتے سے آزاد کر دوں گا۔
قید میں اگر پرندہ بھی رہے تو وہ بھی مر جاتا ہے۔
وہ تو پھر بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہے۔
اے میرے مالک! میرے اس مقصد میں میری مدد فرمانا"۔۔۔۔
اس نے سجدے میں جا کر آخری دعا کی۔۔۔
سجدہ طوالت اختیار کر گیا۔۔۔۔
اسے اسی دوران اونگھ آئی۔۔۔۔
تو آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔۔۔۔
اس نے انہیں چھونے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹ آیا۔۔۔۔۔
صبح ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا ۔ اس سے
پہلے کہ رات کی سیاہی دھیرے دھیرے صبح
کی روشنی میں بدل جائے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔
آج پھر وہ دو ہیولے حویلی کی پچھلی طرف مل رہے تھے۔
کیا مجھے یہاں آجانا چاہیے؟
ایک نے رازداری سے دھیمی آواز میں کہا
نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔
اس نے سخت لہجے میں تنبیہہ کی۔۔۔
ابھی تو شک اس ونی پر ہے یہ نا ہو کہ
پھر ۔۔۔۔سمجھ رہے ہو نا؟
ہہم ٹھیک ہے۔۔۔اس نے حامی بھری پھر کچھ دیر بعد دونوں اپنے اپنے راستے۔۔۔۔۔
*****
عالم نے گاؤں پہنچنے سے پہلے اپنے آدمی کو
کال کی جسے وہ اپنی غیر موجودگی کے
وقت میں ہسپتال اعیان کی دیکھ بھال کے لئے چھوڑ آیا تھا۔۔۔۔
مگر وہ کال ریسیو ہی نہیں کررہا تھا۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر موبائل گاڑی کے ڈیش بورڈ پر پھینکا۔۔۔۔
چند لمحوں بعد ہی میسج کی ٹیون بجتے ہی اس نے اپنا فون واپس اٹھا کر دیکھا تو اسی کا میسج تھا۔
He is out of danger .
And fine now.
یہ میسج پڑھتے ہی اس کے اعصاب پر سکون ہوئے۔۔۔۔
اس نے پہلے ہسپتال جانے سے پہلے حویلی جا کر اپنے بابا سے ملنا زیادہ ضروری سمجھا۔
اور گاڑی حویلی کے راستے پر ڈال دی۔
صبح کی روشنی ہر طرف اجالا پھیلا چکی تھی۔
اس نے حویلی میں قدم رکھا تو سامنے ہی نور تھی۔
وہ عالم کو دیکھ کر اس کے قریب آئی۔۔۔
"آپ آگئے"۔۔۔
وہ نم لہجے میں اس کے شانے کے ساتھ لگی
"کتنی دفعہ کہوں دور رہ کر بات کیا کرو"
وہ نور سے دو قدم دور ہوا اور سرد مہری سے کہا۔۔۔
کیا بات ہے بھئی۔۔۔۔کیوں میری بیٹی پر گرج رہے ہو؟
درمکنون نے دور سے اس کا تیکھا انداز
محسوس کیا تو بولی۔۔۔۔
آپ کی بیٹی آپ کے قابو میں نہیں۔۔۔
باقی کے کام چھوڑ کر اس کی تربیت پر توجہ دی ہوتی تو کب کی سدھر چکی ہوتی۔۔۔
جلد سے جلد اسے رخصت کریں ورنہ نقصان اٹھائیں گی۔۔۔۔
وہ تلخ لہجے میں کہتا ہوا۔۔۔آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
نور روتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔۔
درمکنون پوری بات جاننے کے لیے اس کے پیچھے گئیں۔۔۔
سر کو بیڈ کے گدے پر رکھے ہوٸے وہ گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھی تھی۔ ۔
آج وہ رو رہی تھی۔ اس قدر رو رہی تھی کہ
اپنی آواز کو دبانے کی کوشش کرتی کہ کوٸی
اس کے رونے کی آواز سن نہ لے مگر آواز تھی
کہ دبنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
آنکھوں سے بہتے ہوۓ آنسوٶں کی وجہ سے اس کا سارا چہرہ گیلا ہو چکا تھا۔
وہ کسی کو بتاۓ بھی تو کیا بتاۓ کہ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے۔۔۔۔
نور کے رونے کی آواز سنتے ہی درمکنون پریشانی سے اس کے کمرے میں آٸی۔
کیا ہوا ہے میری گڑیا کو؟؟ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ وہ اس سے پوچھنے لگی۔۔۔
وہ چاہتی تھی کہ نور خود اپنا سر اوپر کرے اور ان کو رونے کی وجہ بتاۓ۔۔۔۔۔
وہ اس انتظار میں تھی کہ کب اس کی بیٹی اپنا سر اوپر کرے گی اور کچھ بولے گی،،
کب وہ اس کے ساتھ اپنا دکھ بانٹے گی اور وہ اس کو تسلی دے کر،،،
اس کی مدد کرکے اسے چپ کرواۓ گی۔۔۔۔۔ نور کچھ تو بولو۔۔۔۔
نور کی خاموشی اس کو بے چین کرنے لگی۔ آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ اس قدر روٸی ہو،،،،
۔اس کے آنسو رکے نہ ہوں،،، اس نے کبھی اپنی ماں کو کچھ بتایا نہ ہو۔
وہ تو ہمیشہ اپنی بات منوانے کی عادی تھی۔
نور مجھے فکر ہو رہی ہے بتاٶ کیا ہوا ہے؟؟
آخر درمکنون نے نور کا سر اوپر کیا اور اس کا چہرہ دونوں
ہاتھوں میں لیتے ہوۓ پھر سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہے میری گڑیا کو؟؟
اپنی ماں کو نہیں بتاٶ گی؟؟
وہ دنیا کے لیے چاہے جیسی ہو اپنی بیٹی کے لیے نرم گوشہ ضرور رکھتی تھی۔
درمکنون کا سوال سنتے ہی نور نے ایک نظر
ان پر ڈالی جس کے چہرے پر پریشانی کے
علاوہ کچھ بھی نہیں تھا اور بیٹی کو روتا
دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آۓ تھے۔
پتا نہیں وہ آنسو کس طرح اس کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوۓ تھے جو بہہ ہی نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔
اماں۔۔۔ میں تو انکو جانتی بھی نہیں ہوں۔۔۔۔
صحیح سے اور پھر بھی۔۔ ان سے مح۔۔۔محبت کرنے لگی تھی۔۔۔۔
وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ؟؟
کانپتے ہونٹوں کے ساتھ وہ بس اتنا ہی کہہ پاٸی اور درمکنون کے گلے لگ کر زور و قطار رونے لگی۔
کیوں کر رہی ہو خود کو اس کی نظر میں رسوا؟؟
درمکنون نے نور کو خود سے دور کرتے ہوۓ سوال کیا۔۔۔۔۔۔
وہ شخص جس نے تمہیں اس قدر توڑ کہ رکھ دیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس سے رشتہ جوڑا جائے،
میں کبھی بھی تمہاری شادی اس ونی کے بیٹے سے نہیں کروں گی۔
یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو ،دفعہ کرو بھول جاؤ اسے،یہ کہہ کر وہ اسے اکیلا چھوڑتی ہوئی باہر نکل گئیں
آپ کیسی ماں ہیں بیٹی کا دکھ نہیں سمجھتی۔؟
سوچتے ہوۓ نور کے دل میں ایک بار پھر درد کی لہر سی دوڑی۔
اورآنکھوں میں آنسو بھر گٸے تھے وہ بھی غاٸب ہوگٸے۔
عروج نے درِمکنون کو نور کے کمرے میں سے غصے سے باہر جاتا ہوا دیکھا تو وہ نور کے کمرے میں آگئی۔۔۔
وہ زمین پر بے حال سی بیٹھی ہوئی تھی۔
کیا ہوا نور؟اس نے پریشانی سے پوچھا۔
مجھے کوئی نہیں سمجھتا تو تم کیا سمجھو گی۔
نور نے ہنستے اور رونے کے ملے جلے جذبات سے کہا۔۔۔۔
بتاؤ نا کیا بات ہے؟ عروج نے پھر سے اصرار کیا۔۔۔
"محبت نہیں ملی" نور نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔
عروج نے اس کی بات سن کر گہری سانس بھری۔۔۔۔
اس کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔
میرا یہ ماننا ہے کہ" شادی اس سے کرو جو آپ سے محبت کرتا ہے۔
ناکہ اس سے جس سے آپ محبت کرتے ہو"
آئی بات سمجھ میں۔۔۔
میرا مطلب ہے جسے آپ چاہتے ہو اس سے شادی کرو گے تو وہ ساری زندگی آپ کے آگے آگے اور آپ اس کے پیچھے۔۔۔
جبکہ جو آپ سے محبت کرتا ہے اس سے شادی کرو گے تو دیکھنا وہ آپ کی کیسے قدر کرے گا اور آپ کے آگے پیچھے پھرے گا۔۔۔یہ کہہ کر وہ دھیما سا مسکرائی۔۔۔ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے۔۔۔
نور نے اپنے آنسو صاف کیے۔۔۔
'بعض باتیں کہنے سننے میں ہی اچھی لگتی ہیں جس کے دل پر گزرے اصل صرف وہی محسوس کر سکتا ہے'۔
نور نے یہ کہہ کر عروج کی طرف دیکھا۔
جو شاید ُاس کی اِس بات سے اتفاق رکھتی تھی۔
اگر آپ پر کبھی ایسا وقت آیا کہ آپ کو اپنی محبت یا پھر کسی اور کی محبت میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو آپ کیا کریں گی۔؟
عروج نور کا سوال سن کر لاجواب ہو گئی۔۔۔۔
یقینا ً ہر انسان اپنی محبت کو چننے کو ہی پہلی ترجیح دیتا ہے۔
باقی سب کتابی باتیں ہیں۔
اسی لیے مجھے کتابیں زہر سے بھی زہر لگتیں ہیں۔
نور کی یہ بات کہتے ہی وہ دونوں ہنسنے لگیں۔۔۔
****۔
عالم شہریار چوہدری کے کمرے میں آیا تو وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔
ان کے آنسو رواں تھے جو تکیے کو بھگو رہے تھے۔۔۔
عالم بھاگ کر ان کے پاس آیا
ان کے قریب بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھے۔۔۔
بابا آپ پریشان نہیں ہوں اعیان ٹھیک ہے اب۔
س۔۔سچ میں۔۔۔
م۔م۔میری تو جا ۔۔۔جان ہی نکل گئی تھی۔۔۔
اسے ہسپتال سے چھٹی ملتے ہی گھر لے آؤں گا۔
پھر آپ اسے دیکھ کر تسلی کر لیجیے گا۔۔۔۔
مجھے بہت افسوس ہے اس بات کا کہ آپ کے اس گھر میں ہوتے ہوئے بھی ایک ونی پر ظلم ہوا۔۔۔۔
جو اعیان نے کیا۔۔
اسے اس کے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔
اللّہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان اپنے کیے گئے گناہوں کی سزا اسی دنیا میں ہی بھگت کر جائے گا۔
مجھے لگتا ہے وہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے کیے گئے گناہوں کی سزا بھی بھگت رہا ہے۔
یہ۔یہ۔ت۔تم کیا کہہ رہے ہو ؟
انہوں نے حیرانی سے کہا۔۔۔
م۔میں۔ن۔نے کیا گناہ کیا ہے؟
اس کے والدین کے ذمرے میں صرف آپ ہی نہیں آتے بلکہ اس کی محترمہ والدہ ماجدہ بھی آتی ہیں جنہوں نے آپ کی غیر موجودگی میں میری مظلوم ماں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ان کا جینا دوبھر کیا۔۔۔
اور آخر کار ان کی جان لے کر ہی دم لیا۔۔۔۔
وہ عالم کی بات سن کر بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا آپ کی بیوی کو کچن میں سلنڈر کا وال کھولتے ہوئے اور پھر میری ماں کو دھوکے سے وہاں بھیج کر مارتے ہوئے۔۔۔۔
وہ منظر یاد آتے آج بھی میری روح کانپ جاتی ہے۔
تب مجھے پتہ ہی نا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ورنہ میں اپنی ماں کو اس حادثے کی کبھی نظر نا ہونے دیتا۔۔۔۔
ت۔تم نے مجھے کی۔کیوں نہیں بتایا۔۔۔۔۔
ویسے تو آپ خود اتنے قابل وکیل تھے یہ بات کیوں نا جان سکے کہ پہلی بیوی دوسری کو اتنی آسانی سے کیسے برداشت کر لیتی؟
آپ نے ایک بار بھی ان دونوں کے آپسی تعلقات کو جاننے کی کوشش نا کی۔
اتنے بے خبر رہے آپ ؟
آپ کو نا بتانا میری طرف سے آپ کو دی جانے والی سزا تھی۔اگر آپ باخبر رہتے تو میری ماں کے ساتھ ایسا کچھ نا ہوتا۔۔۔
اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔
مجھے ہسپتال بھی جانا ہے۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر اٹھا ہی تھا کہ شہریار چوہدری نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
م۔م۔مجھے معاف۔۔۔
نہیں بابا ایسی بات نا کریں ایک باپ اپنے بچے سے معافی مانگتا اچھا نہیں لگتا
میں نے آپ کو کب کا معاف کر دیا۔۔۔۔
And I am also Sorry.
میں غصے میں کچھ زیادہ ہی روڈ ہو گیا۔
ان کے لب دھیمے سے مسکرائے۔۔۔۔
*****
وہ کافی تو اپنی آنکھیں کھول کر ارد گرد کا جائزہ لیا۔
چند لمحوں میں ہی اس کی نظروں کے سامنے رات کے واقعات گھومنے لگے۔۔۔
کیسے بدل گئی تھی ایک ہی طوفانی رات میں اس کی زندگی۔۔۔۔۔
دیوار پر لگے کلاک پر نظر پڑی دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے۔دھوپ زیادہ تیز نہیں تھی۔
ہلکی ہلکی نیلی روشنی آسمان پر چھاٸی ہوٸی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھڑکی سے اندر داخل ہوتے ہوۓ کبھی ایک دیوار سے ٹکراتے تو کبھی دوسری سے۔
تھوڑی ہی دیر بعد ساٸیڈ ٹیبل پر پڑی گھڑی پر الارم بجا۔ الارم کی آواز سنتے ہی اس نے سوچا یہ کس نے لگایا؟
جس کا گھر ہے اسی نے لگایا ہو گا۔۔۔
پھر وہ بیڈ سے اتری اور وضو کرنے چلی گٸی۔
فجر کی نماز ہی رہ گئی آج میری اس نے پریشانی سے سوچا۔۔۔۔
سوھنی کی عادت تھی کہ وہ اپنے دن کا آغاز
اللّٰه کے نام سے کرتی تھی۔ صبح کے وقت
نماز پڑھ کر اللّٰه تعالیٰ سے دعا کرنا بے حد پسند تھا۔
وہ روزانہ اللّٰه تعالیٰ سےباتیں کرتی،،، اللّٰه پاک
کے سامنے اپنی مشکلات بیان کرتی اور جب
کسی بات کی سمجھ نہ آتی تو قرآن پاک کی
تلاوت کرتی کیونکہ قرآن پاک کی تلاوت
کرکے انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
اللّٰه پاک اپنے بندوں سے مخاطب ہے اور اپنی
کتاب میں موجود لفظوں کے زریعے اپنے بندوں کو سیدھی راہ دکھا رہا ہے۔
معمول کے مطابق آج بھی سوھنی واش روم میں جا کر اپنی بینڈیج کھولیں ۔۔۔۔
زخم اب کچھ بہتر لگ رہے تھے۔اس نے وضو کیا پھر سامنے پڑی جائے نماز بھی مل گئی۔
اس نے نماز پڑھی،،، الله پاک سے دعا مانگی،،،
نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو قرآن پاک کی تلاوت کی ۔۔۔۔
پھر فارغ ہو کر آہستہ آہستہ کمرے سے باہر کی جانب گئی۔۔۔۔
سارا گھر خالی تھا۔۔۔گھر میں شاید اس کے علاوہ کوئی زی روح موجود نہیں تھا۔۔۔۔
اسے بھوک محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
آخر کار اسے گھر میں موجود کچن مل ہی گیا۔۔۔
وہ نئی طرز کا خوبصورت سا کچن تھا۔۔۔۔
اس نے سب سے پہلے پانی کا گلاس اٹھا کر
دھویا اور اس میں پانی بھر کر پیا۔۔۔اس نے
تفصیلاً نظر دوڑائی۔۔۔۔
کچن بالکل صاف ستھرا تھا۔اس نے اندر آکر
فریج کھولا تو اس میں دودھ، انڈے اور بریڈ
کے ساتھ ساتھ اور بھی مختلف چیزیں نظر آئیں جیسے کے سبزیاں اور پھل وغیرہ۔۔۔۔
اس نے بریڈ اور جیم نکال کر ایک طرف رکھا۔
پھر بریڈ پر جیم لگا کر ایک دو سلائس کھائے تو پیٹ بھرتے ہی تھوڑا سکون ملا۔۔۔۔
چیزیں سمیٹ کر رکھتے ہی وہ باہر آئی اور گھر کا جائزہ لینے لگی۔
کچھ دیر بعد تھک کر وہیں لاونج میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔
اور اپنی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
******
عالم اپنی گاڑی سےنکلا اور ہسپتال میں زیرِ علاج اپنے
بھائی کے پاس آرہا تھا کہ اچانک اسے کچھ یاد آیا۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔
مجھے تم سے ایک ضروری کام تھا۔
تم باقی کے کا چھوڑو فی الحال اور گھر جاؤ۔۔۔اس نے مقابل موجود شخصیت کو کہا۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔دوسری طرف سے جواب ملا۔۔۔
عالم ہسپتال میں اعیان کے پاس آیا۔۔۔
۔
وہ اپنے بازو پر ہاتھ رکھے درد سے بلبلا رہا تھا شاید فریکچر
کا مسئلہ تھا یا کچھ اور۔۔۔اسکے چہرے پر اسے درد کی جھلک تھی۔۔۔
وہ تکلیف سے بلک رہا تھا ۔۔۔
پاس ڈاکٹر اور نرسیں بھی تھیں۔اس نے چیخ چیخ کر سارا
ہسپتال سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ اسکے گرد کھڑے وہ اسے کسی
بھی طرح پر سکون کرنے کی کوشش میں لگے تھے کہ وہ ہاتھ کے اشارے سے سںب کو منع کر گیا۔۔۔۔
کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا مجھے اعیان چودھری قہر آلود آواز میں دھاڑا۔۔۔۔
عالم قدم اٹھاتا اسکے قریب آتے ہاتھ سے اشارے سے سب کو روک گیا۔۔۔۔
وہاں موجود ڈاکٹرز نے اسے اعیان کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا۔۔۔
میں دیکھتا ہوں۔یہ کہہ کر عالم اس کے پاس آیا۔۔۔
سب حیرتِ سے اس خبطی اعیان چودھری کو دیکھنے
لگے ۔۔۔۔پر اسکی آنکھوں کے جلال کو دیکھتے سب ہی تماشا چھوڑتے جانے لگے۔
دور رہو مجھ سے۔۔۔۔تم نے ہی یہ سب کروایا ہے نا میرے ساتھ۔۔۔۔۔
اعیان چودھری نے تنفر آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔
میں نے کیا کیا ہے؟
۔۔۔۔۔ عالم سنجیدہ سے لہجہ میں بولا اس کے فضول سوال پر
تم نے کوئی پرانی دشمنی نکالی ہے مجھ سے میری بازو کٹوا کر ۔۔۔وہ غصیلی آواز میں بولا
میری بات کا یقین کرو میں نے کچھ نہیں کیا میں تو یہاں
تھا بھی نہیں ابھی ابھی مجھے خود پتہ چلا ہے کہ تمہاری
بازو میں جو گولی لگی تھی ۔۔۔زیادہ وقت گزر جانے سے
گولی پر لگا مخصوص زہر جو تمہارے پورے بازو میں پھیل
چکا تھا اسی وجہ سے بازو کاٹنی پڑی ورنہ زہر پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ تھا۔
دفعہ ہو جاؤ میرے نظروں سے ۔۔۔اعیان نے تیز لہجے میں اسے کہا
ڈاکٹر اسکا چیک اپ کر کے جا چکے تھے۔۔۔
کچھ ہی دیر میں میڈیسنز کے زیر اثر وہ غنودگی میں چلا گیا۔۔۔۔
عالم اسے غنودگی کی حالت میں ہی ہسپتال سے لے کر حویلی واپس آچکا تھا۔۔۔۔
آنکھ کھلی تو سرمئی شام پر پھیلائے ہوئےتھی۔۔۔
اعیان گومگوں کیفیت میں اٹھتا خود کو منظر میں تلاشنے
لگا کہ اب وہ ہسپتال کے کمرے میں نہیں بلکہ اپنے ہی
عالیشان کمرے کے مخملی بستر پر دراز تھا۔۔۔۔۔ کمفرٹر سے
ایک ہاتھ نکال کر دوسرے کو محسوس کرنا چاہا ۔۔۔۔۔۔
اس کا ایک بازو کٹ چکاتھا۔۔۔
،یہ بات ہی جان لیوا تھی۔۔۔۔۔
وہ ہوش میں آیا تو اسے اپنا حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
اس نے پانی پینے کے لیے اپنا داہنا ہاتھ سائیڈ ٹیبل پر
رکھےہوئے پانی سے بھرے جگ کی طرف بڑھایا۔۔۔
مگر یہ کیا اس کا وہی ہاتھ تو اس کے جسم کے ساتھ تھا ہی نہیں ۔۔۔
اسی ہاتھ سے اس نے سوھنی کی عصمت کو پامال کرنے کی کوشش کی تھی۔
وہ منظر یاد کرتے ہوئےغصے کی شدید لہر اس کے وجود میں دوڑی۔۔۔۔
اس نے ملازمین کو آواز یں دیتے ہوئے چلانا شروع کر دیا۔۔۔۔
اس کی آواز سن کر گھر میں موجود تمام افراد اس کے کمرے کی جانب دوڑے۔۔۔۔
اندر آنے والوں میں سب سے آگے عروج تھی۔
دفعہ ہو جاؤ تم سب لوگ اس کمرے سے کیا تم میری بے بسی کا تماشا دیکھنے کے لیے آئے ہو۔۔۔۔
عروج نے پانی کا گلاس بھر کر اس کے منہ کو لگایا۔۔۔
غصے کی شدت سے اعیان کے ناک کے سرخ
نتھنے پھڑپھڑانے لگے۔۔۔۔
وہ اس کی حالت کو دیکھ کر کافی پریشان ہوئی ، عروج کو
اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔۔اسکا دل پھیل کر سکڑا تھا ۔۔یوں لگا کہ کچھ ہی ثانیوں میں روح پرواز کر جائے گی۔
آپ کیسے ہیں اب ؟
اس نے ہمت کر کہ پوچھا۔۔
۔اسکے چہرے کے تاثرات سرد تھے،وہ جو پہلے نرم خو سا محسوس ہوتا تھا اب اس سے سراسر مختلف معلوم ہو رہا تھا ۔
شاید اسے معلوم ہوگیا تھا کہ عروج اس کی منزل نہیں۔
وہ خاموش رہا۔۔۔۔
ونی کہاں ہے؟اعیان کا سیدھا عروج سے ہی یہ بات پوچھ لینا ہی اس کی جان نکالنے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔۔
وحشت و دہشت کے درباروں میں اسکا نام سب سے بلند تھا کہ وہ بندہ جان پہلے لیتا اور،سوچتا بعد میں تھا۔۔۔
عروج کی بھیگی نگاہوں کا مفہوم جان کر
اس نے نفی میں سر ہلایا اوراس پر تاسف بھری نظریں گاڑھی۔
۔۔اس نے بمشکل اپنا حلق تر کیا۔۔
گونگی ہو زبان بھی کام کرتی ہے یا نہیں
اس کو دیکھتے بے رحمی سے اسکی ذات کا تمسخر اڑایا کہ وہ شخص رحم؛جیسے نرم جذبات سے کوسوں دور تھا ۔۔۔۔۔مگر عرصہ پہلے تو عنایتیں کرتا تھا۔۔
تو وہ اذیت سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔
جن قدموں سے آئی تھی بھاگتی ہوئی انہیں قدموں سے واپس لوٹ گئی۔۔۔۔۔
اس کے باہر نکلتے ہی فائزہ جو باہر دروازے کی آڑھ میں موجود تھی اور اعیان کا عروج کے ساتھ رویہ دیکھ کر کسی فیصلے پر جا پہنچی۔۔۔
*****
بابا اعیان حویلی میں آچکا ہے ۔۔۔
عالم نے شہریار چوہدری کے کمرے میں آکر انہیں یہ اطلاع باہم پہنچائی۔۔۔
ان کے چہرے پر طمانیت پھیلی۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے آج میرے بھائی نے مجھ پر کیا الزام لگایا ہے؟
اس نے برہم لہجے میں کہا
شہریار چوہدری نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
کہ اس کی جو بازو ضائع ہوئی ہے اس کا ذمہ دار میں ہوں۔
عالم فون پر پہلے ہی گھر والوں کو اعیان کی موجودہ حالت کا بتا چکا تھا اور اس کا ہسپتال میں ری ایکشن بھی۔اور سب کو اس کے گھر آنے سے پہلے ہی منع کر چکا تھا کہ کوئی بھی اس کے بازو کو لے کر اس سے بات نہ کرے ورنہ وہ چڑ جائے گا۔۔۔شہریار چوہدری تک بھی یہ خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔
بابا میرا ضمیر مطمئن ہے۔
میں نے اس کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا۔۔۔
اب میری زمہ داری ختم۔۔۔
مجھے کچھ ضروری کام ہیں مجھے یہاں سے جانا ہو گا۔
جب بھی آپ کو میری ضروت ہو مجھے بس ایک کال کر دیجئے گا میں فوراً حاضر ہو جاؤں گا۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ شہریار چوہدری کے ہاتھ پر پیار بھرا بوسہ دیتے ہوئے وہاں سے نکلا۔۔۔۔
*****
ایک رات اس نے اکیلے ہی کاٹی گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔
جانے مجھے یہاں چھوڑ کر خود کہاں چلے گئے ہیں؟اس نے پریشانی سے سوچا۔
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا۔۔۔
وہاں سے ایک خوبصورت سی لڑکی اندر آئی۔
اس کے بال شانوں سے تھوڑا نیچے کھلے ہوئے تھے۔
مردانہ طرز کی ڈریسنگ۔۔۔ڈریس پینٹ اور شرٹ ہائی ہیلز۔۔۔جو اس کے اندر آنے سے ماربل کے فرش پر چلنے سے ٹک ٹک کی آواز پیدا کر رہے تھیں۔۔۔
سوھنی نے اس لڑکی کا بغور جائزہ لیا۔۔۔
اوہ۔۔۔ہیلو
کیسی ہو؟اس نے دوستانہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
ٹھیک ہوں ۔۔سوھنی نے نظریں جھکائے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
اسے مقابل موجود لڑکی کے کپڑے تھوڑے عجیب لگ رہے تھے۔ایک لڑکی ہو کر لڑکوں جیسی ڈریسنگ۔۔۔۔
مگر وہ چپ رہی۔
How cute you are....
اس نے کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔۔۔
گاؤں کی گوری۔۔۔تم سچ میں بہت خوبصورت ہو۔۔۔
ایک لڑکی ہو کر ایک لڑکی کو اتنی خوبصورت لگ رہی ہو تو لڑکوں کی تو جان ہی نکل جاتی ہو گی تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔
سوھنی نے تو اس کی یوں اتنی تعریف کرنے پر بوکھلا گئی۔۔۔۔
اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد ایک لیڈی ڈاکٹر بھی اندر آئی۔
یہ میرے ساتھ آئیں تمہارا چیک اپ کرنے۔۔۔۔
لیڈی ڈاکٹر نے اس کے زخموں کا معائنہ کیا اور اس کے لیے پریسکرپشن لکھ دی۔
آپ انہیں استعمال کریں گی تو جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔
وہ اپنے پیشہ ورانہ انداز میں کہتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئی۔۔۔
تم نے کچھ کھایا۔۔۔اس نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔
کل کھایا تھا۔۔۔۔اس نے سر جھکا کر کہا
اچھا ٹھیک ہے۔
اس نے فون پر پزا کا آرڈر دیا۔۔۔۔
اور پھر اس کی پریسکرپشن کی پک لیتے ہوئے کسی کو میسج سینڈ کیا۔۔
ابھی ڈیلیوری آجائے گی اور تم اس شہر کی سب سے مشہور فاسٹ فوڈ کھاؤ گی۔
تم بھی کیا کرو گی کس سخی سے پالا پڑا ہے۔۔۔
اس نے عام سے انداز میں کہا تاکہ سوھنی کو اس اجنبی لڑکی کو دیکھ کر جو جھجھک ہے وہ ختم ہو جائے۔۔۔
جاؤ تم فریش ہو جاؤ۔۔۔۔
سوھنی دوبارہ سے اسی کمرے میں آئی خود کے گرد لپیٹی ہوئی شال اتار کر ایک طرف رکھ دی۔
اس کی پرانی سی قمیض کے بازو کل کے پھٹ چکے تھے۔
اس نے واش روم میں جا کر اپنے منہ پر دونوں ہاتھوں سے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے۔۔۔
رگڑ رگڑ کر اپنی آنکھیں صاف کیں تاکہ اس پانی سے اس پر بیتے ہوئے غم بہہ جائیں ۔۔۔۔
*****
عالم کہاں گیا؟
فائزہ نے درمکنون کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس سے پوچھا۔۔۔
بھائی صاحب سے کوئی کھٹ پٹ کر رہا تھا کہ میں جا رہا ہوں۔
درِمکنون بولی۔
یہ بلا ہمارے سروں پر چھوڑ گیا ہے۔۔۔۔فائزہ غصے سے بولی ۔
کیسی باتیں کر رہی ہو؟
وہ تمہارے بیٹے جیسا ہے تمہارا داماد ہے؟
درمکنون نے کہا۔۔۔
میرا کچھ نہیں لگتا۔۔۔دماغ سے اور حرکتوں سے تو آگے ہی فارغ تھا اب رہی سہی کسر اس کی معزوری نے پوری کردی۔۔۔۔
میں اس سے رشتہ ختم کردوں گی اپنی بیٹی کا۔۔۔۔
یہ گدی نشین نہیں رہے گا اب میرا بیٹا سعد گدی نشین ہو گا۔۔۔
لگے ہاتھ اگر تم میرا مشورہ مانو تو اپنی بیٹی نور کا رشتہ مستقبل کے گدی نشین سے کرلو
حویلی کی مالکن بن کر راج کرے گی تمہاری بیٹی ۔۔۔۔
فائزہ کے لالچ دینے پر درِمکنون گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
*****
تم جاکر دیکھو کون آیا ہے میں زرا واش روم سے ہو آؤں ۔۔۔وہ کہہ کر روم میں چلی گئی۔۔۔
سوھنی نے دروازہ کھولا تو۔۔۔۔
چمچماتی گاڑی کے رکتے ہی اس میں سے بلیک پینٹ میں ملبوس ایک ٹانگ نمودار ہوئی جس میں چمچماتا ہوا بوٹ تھا۔دونوں پاؤں باہر رکھتے ہوئے وہ مکمل طور پر باہر نکلا۔۔۔
وہی درازقد،چوڑی چھاتی کسی ایتھلیٹ کی طرح،کار سے باہر نکل کر اس نے بلیک کوٹ کا ایک درمیان والا بٹن بند کیا۔۔۔
آنکھوں پر لگائے گئے گاگلز اتار کر پاکٹ میں ڈالا۔۔۔
ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈال کر اس نے جھک کر کار کے اندر بیٹھے ہوئے دو افراد سے کچھ کہا۔۔۔
باریک ستواں ناک،پتلے پتلے ہونٹ،ان پر نفاست سے ترشی ہوئی مونچھیں،ہلکی سی بیرڈ،بھرپور مردانہ وجاہت کا شاہکار،
اس نے سگریٹ سلگا کر اپنے باریک ہونٹوں میں دبائی اور ایک لمبا سا کش لے کر گول گول گھومتا دھواں ہوا میں تحلیل کیا۔۔۔
سوھنی نے تحیر سے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔۔۔
جب نظر اس کی گہری سبز آنکھوں پر پڑی تو اسے پہچاننے میں ایک لمحہ لگا۔۔۔۔
وہ شاہانہ چال چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
وہ جو فق نگاہوں اور ادھ کُھلے منہ سے اس کی جانب ہونقوں کی طرح تک رہی تھی۔۔۔۔
اس نے قریب آکر اس کی تھوڑی کو اپنی ایک انگلی سے اوپر کر کہ اس کا کھلا منہ بند کیا۔۔۔
اور ہلکی سی مسکراہٹ اچھال کر اندر آیا۔۔۔
پارسا بھی واش روم سے باہر آچکی تھی۔
عمر اور صالح بھی گاڑی لاک کر کےجان کی تقلید کرتے ہوئے اندر آئے۔۔۔۔
سوھنی نے عالم کے پیچھے آنے والے دو اجنبی لڑکوں کو دیکھ کر اپنے آدھے چہرے کو شال سے ڈھانپ لیا۔۔۔۔
سب کھڑے ایک دوسرے کو نظروں ہی نظروں میں اشارے کرنے لگے۔
جبکہ جون سامنے لاونج میں موجود صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
بیٹھ جاؤ۔۔۔۔
سب فوراً بیٹھے جیسے جون کے اشارے کے ہی منتظر تھے۔
سوھنی بھی پارسا کے ساتھ جگہ ملتے ہی بیٹھ گئی۔۔۔
لاونج میں پانچ افراد موجود ہونے کے بعد بھی گھمبیر خاموشی کا راج تھا۔
جسے دروازے پر ہوتی بیل کی آواز نے توڑا۔۔۔
وہ ڈیلوری بوائے ہوگا میں نے سوچا ہمارا ماسٹر شیف صالح
تو آج پتہ نہیں ہمارے ہتھے چڑھتا ہے یا نہیں تو کیوں نہ
سوھنی کو آج پزا ٹیسٹ کروایا جائے۔۔۔۔
پارسا ہلکے سے مسکرائی۔۔۔۔
عمر نے جا کر دروازہ کھولا اور آرڈر ریسو کرتے ہوئے واپس آیا۔۔۔۔
جاؤ صالح جا کر پلیٹس لاؤ۔۔۔اب کھانا پکایا تو نہیں سرو تو کر ہی سکتے ہونا۔۔۔۔
پارسا نے صالح کو آرڈر جاری کیا۔۔۔۔
سوھنی نے پارسا کو یوں لڑکے پر حکم چلاتا دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔
ہمارے گاؤں میں تو سب کام عورتیں کرتی ہیں مرد گھر کے
کسی کام کو بھی ہاتھ نہیں لگاتے۔۔۔
میں لے کر آتی ہوں۔۔۔
اس سے پہلے کہ صالح اٹھتا سوھنی یہ کہہ کر اٹھنے لگی۔۔۔
تم بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ابھی زخم بھرے نہیں ٹھیک سے۔۔۔۔
عالم کی بھاری رعب دار آواز نے اسے بیٹھے رہنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔
صالح کچن کی طرف بڑھا تو عالم اپنے روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
سوھنی بھی اٹھ کر اس کے پیچھے جانے لگی۔۔۔
ارے تم کہاں جا رہی ہو؟
پارسا نے اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
کچھ کھا لو پھر میڈیسن بھی لینی ہے یہ سب میں نے تمہارے لیے ہی تو آرڈر کیا تھا۔۔۔۔
صالح نےپزا پلیٹس میں نکال کر سب کو سرو کیا سوھنی
بھی سر جھکائے کھانے لگی ایک ہی پیس کھا کر اس کی بس ہو گئی۔۔۔۔
بس اتنا سا؟
پارسا بولی۔۔۔
جی میرا پیٹ بھر گیا۔۔۔اس نے آہستگی سے جواب دیا۔۔۔
ان ندیدوں کو دیکھو کیسے پورے پزے کی ڈیل ہڑپ کر گئے ہیں۔۔۔پارسا نے عمر اور صالح پر چوٹ کی۔۔۔۔
سوکھی لکڑی تجھے تو اَن ساڑ ہے جو بھی کھا لے لگتا ہی
نہیں کہ تو نےکچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔عمر نے بدلہ چکایا۔۔۔۔
اے سڑے کریلے اپنا منہ بند رکھ۔۔۔۔
صالح سمجھا لے اسے میرے ساتھ پنگا ناٹ چنگا۔۔۔۔
ڈیل کے پیسے بھی میں نے دئیے ہیں عمر نے تپ کر کہا۔۔۔۔
تم دونوں اپنی چونچ بند رکھو بھابھی پر پہلا امپریشن ہی
خراب کردیا۔۔۔۔صالح نے کڑے تیوروں سے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
کیسا لگا پزا؟
پارسا بولی۔۔۔۔
بالکل سبزی والا نان۔۔۔۔سوھنی نے جھٹ سے کہا۔۔۔
وہ تینوں اس کی معصوم بات پر اپنی ہنسی ضبط کرنے لگے۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔اب تم جا سکتی ہو اور یہ لو میڈیسن اور آئنٹمینٹ بھی ہے زخموں پر لگا لینا۔۔۔۔
پارسا نے اسے میڈیسن والا ہینڈ کیری تھمایا۔۔۔
وہ میڈیسن لیے کمرے میں آئی۔۔۔
عالم جو کمرے میں موجود واحد بیڈ پر ایسے لیٹا ہوا تھا کہ اس کے پاؤں بستر سےنیچے لٹک رہے تھے۔۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اپنی بند آنکھوں کو کھول کر دیکھا تو اسے دروازے پر ایستادہ پایا۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
میں نے پہلے بھی کہا تھا دوسرے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔
سوھنی نے باہر نکلنے کے لیے اپنے قدم واپس لیے ہی تھے ۔۔۔۔
روکو۔۔۔عالم بولا۔۔۔
باقی تینوں رومز تو پارسا ،صالح اور عمر کے ہیں۔
اب یہ میری منکوحہ ہے وہ تینوں کیا سوچیں گے ۔۔۔۔۔
اس نے سوچا۔۔۔۔
ٹھیک ہے آجاؤ اندر۔۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
سوھنی آہستگی سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے پاؤں سے جوتے نکالنے لگی۔۔۔۔
عالم جو شدید تھکاوٹ کے باعث آدھے سوئے جاگے کی کیفیت میں مبتلا تھا۔۔۔۔
اپنے پاؤں کو جوتوں سے آزاد دیکھا۔۔۔اب تو سوکس بھی وہ اتار چکی تھی۔۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو تم؟
وہ فوراً اٹھ کر بیٹھا۔۔۔۔
وہ میں نے سوچا آپ نے میری اتنی مدد کی ہے تو کیوں نا میں بھی تھوڑی سی ۔۔۔۔اس عالم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میرے ہاتھ سلامت ہیں ۔۔۔۔اپنا کام میں خود کرتا ہوں۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ بستر سے اٹھا اور کبرڈ سے اپنا نائٹ سوٹ لیے چینجنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
وہ واپس آیا تو وہ ابھی بھی اسی جگہ پر کھڑی ہوئی تھی۔
سو جاؤ اب اس کے لیے بھی خاص آرڈر جاری کرنا پڑے گا کیا؟
یہ کہہ کر اس نے کمرے کی لائٹ آف کی اور نائٹ بلب آن کیا۔۔۔۔
وہ کہاں پر سوئے۔۔۔۔۔ابھی اسی سوچ میں ہی مبتلا تھی۔۔۔
بیڈ پر پڑا ہوا تکیہ اٹھا کر اس نے فرش پر رکھا۔۔۔۔
اور خود زمین پر لیٹ کر شال پوری طرح اپنے اوپر پھیلا لی۔۔۔۔
عالم نے چند لمحوں بعد پیچھے مڑ کر دیکھا بستر خالی۔۔۔
اس کی نظر فرش پر پڑی۔۔۔۔
تم وہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟
اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
میں یہاں ہی ٹھیک ہوں میں عادی ہوں فرش پر سونے کی حویلی میں بھی میں فرش پر ہی سوتی تھی۔۔۔۔
عالم نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔۔
آکر بستر پر لیٹو۔۔۔۔اس نے اس بار تھوڑا نرمی سے کہا۔۔۔۔
اس نے اپنے اوپر سے شال اتاری تو اس کے بازوؤں پر زخم ابھی بھی واضح ہو رہے تھے۔۔۔
پاؤں کے زخم بھی مندمل نہیں ہوئے تھے ابھی تک۔۔۔۔
تم نے دوائی کھائی تھی؟
اس نے استفسار کیا۔۔۔
اس نے شرمندگی سے دائیں سے بائیں جانب سر کونفی میں ہلایا۔۔۔۔
حد ہو گئی دوائیاں کیا صرف دیکھنے کے لیے خریدیں
ہیں؟ ۔۔۔۔
اس نے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
عالم نے میڈیسن نکال کر اس کی طرف بڑھائی اور پانی بھی پکڑایا۔۔۔۔
کھاؤ اسے جلدی۔۔۔۔اس نے ٹیبلٹس منہ میں ڈال کر پانی پیا ۔۔۔اور بستر پر ایک طرف ہو کر لیٹ گئی۔۔۔۔
یہ مرہم کون لگائے گا؟؟؟؟
عالم نے آئنٹمینٹ کا رخ اس کی طرف کر کہ پوچھا۔۔۔۔
عالم نے آگے بڑھ کر اس کے پاؤں کے زخموں پر مرہم لگانا شروع کی۔۔۔
میں خود ہی لگا لوں گی۔۔۔اس نے عالم کو اپنے پاؤں پر مرہم لگانے سے روکنا چاہا۔۔۔
کیسے کوئی بھی مرد ایک عورت کے پاؤں کو چھو سکتاہے۔۔۔
خاموش رہو۔۔۔۔عالم کی آواز آئی۔۔۔
ایک مرد کی غیرت کب گوارا کرتی ہے کہ وہ ایک عورت کو اتنی اہمیت و عزت دے۔۔۔
ہمارے گاؤں میں موجود مردوں کے لیے تو یہ بات کسی تازیانے سے کم نا ہے۔۔۔۔
زخموں سے بلکتی مخملی بستر کی زینت بنی وہ نیم وا اکھیوں کو وا کرتی عالم لا شعور سے عالم شعور تک کا سفر طے کر رہی تھی۔۔
گلابی بازو جس پر رستے ابھی کچے زخموں کی وجہ سے بے حال تھی پر اب جیسے درد میں اضافہ ہورہا تھا۔۔جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔۔دل مردہ تھا اور روح گھائل۔۔
"آہ ہہہہہہ۔۔"ایک دلسوز چینخ اسکے منہ سے برآمد ہوئی تو مقابل ٹھٹھکتا اپنے حرکت کرتے ہاتھ روک گیا۔۔
"تمہیں کو تکلیف دینے والے کے ساتھ بھی بہت برا ہوا ہے۔۔۔۔عالم نے دل میں سوچا۔۔۔
گہرا سانس ہوا کے سپردکرتا ہوا کاٹن کو پائوڈین میں بھگو کر وہ اسکے سلگتے زخم پر نرمی سے مسیحائی کرنے لگا۔۔
سوھنی نے پتھرائی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ سیاہ کرتے شلوار میں تھکا تھکا سا وہ خوبرو شخص۔۔
کل رات وہ اسکے عقد میں آئی تھی اور وہ مسیحا سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اسکی مسیحائی کرنے پر تلا ہوا تھا۔۔
پتہ نہیں کس مٹی کا بنا تھا مجال ہے جو اسکی کسی بھی بات کا اثر لیا ہو۔۔یا اس کے ماتھے پر ایک بھی شکن آئی ہو۔۔۔
"چھوڑیں۔۔۔۔چھوڑ دیں مجھے۔۔
!! ۔میں اس قابل کہاں ہوں؟
آپ نے مجھے اتنی عزت دی میرا مان رکھا میری بات مان کر مجھ سے نکاح کیا!اور اب۔۔۔۔۔
اور اب یہ مسیحائی۔۔۔۔
اپنے کریم آلود بازو کو چھڑواتی پوری طاقت سے چلاتے ہوئے وہ عالم کا ضبط آزما رہی تھی۔۔
"زخموں پر تین بار دن میں مرہم لگاؤ گی تو جلد مندمل ہو جائےگا۔۔"
کریم ہلکے ہاتھوں سے اپلائے کرتے وہ اسے کوئی فرشتہ
صفت انسان ہی لگا جو اسکی کوئی بھی بات کو سننے سمجھنے کےلئے تیار ہی نہیں تھا۔۔۔۔
ابھی تک وہ پچھلی گزری ہوئی زندگی کے زیر اثر عجیب و
غریب قسم کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔۔۔۔سخت ڈیپریشن کا
شکار تھی اسے خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے چلی جا رہی تھی۔
عالم نے اس کے پرانے سے اور بازوؤں سے پھٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
چینج کیوں نہیں کیا؟
وہ میرے پاس کپڑے نہیں۔۔۔۔
پارسا سے لے لیتی۔۔۔اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
میں ان جیسے کپڑے نہیں پہنتی۔۔۔اس کا اشارہ پارسا کی پینٹ شرٹ کی طرف تھا۔۔۔۔
عالم نے کریم بند کر کہ رکھی اور خود ہاتھ دھونے کے لئے واش روم میں چلا گیا۔۔۔۔
سوھنی نے اس کی پشت پر نظریں جمائے سوچامجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین ہی نہیں آرہا کہ واقعی اللہ تعالی نے ایک فرشتہ میرے نصیب میں لکھ دیا۔۔۔کیا یہ اسی دنیا کا باسی ہے؟
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
عالم واپس آیا تو اپنی طرف لیٹ گیا۔۔۔۔
اگر آپ نے اپنی بات منوائی ہے۔۔۔
سوھنی کا اشارہ مرہم لگانے پر تھا۔۔۔
تو پھر آپ کو میری بھی کچھ باتیں ماننا ہو گی۔۔۔
عالم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
*****
ایک ماہ بعد۔۔۔۔
نائٹ کلب میں لاؤڈ میوزک کی آواز پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔
ہر طرف شور شرابہ بے ہنگم میوزک۔۔۔۔
سب لوگ تیز میوزک پر شراب کے نشے میں ایک دوسرے کے ساتھ جھوم رہے تھے۔
نشے میں جھومتی وہ نازک کمر کو گھماتی زبرست سا سٹیپ کررہی تھی
کہ وہ اٹھ کر اس کے قریب آیااور اس کی نازک کمر کے گرد دائرہ تنگ کیا۔۔۔۔
لڑکی نے دونوں ہاتھوں کو اوپر لے جا کر کمر کا غضب ناک سٹیپ کیا ..
یوں کے ساری رعنائیاں نمایاں ہوئیں اور یہیں اعیان کا ضبط جواب دیا تھا۔۔
وہ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکو دور سے دیکھ رہا تھا اب شراب کے نشے میں پورا ٹن ہوئے اس دوشیزہ کے گلے کا ہار بنا ہوا تھا۔۔۔۔
وہی سفید بے داغ چہرہ،لبوں کے نیچے تل،وہ بھوری کانچ سی آنکھیں۔۔۔۔ تھوڑا سا دھندلا سا منظر نظر آرہا تھا۔۔لگ رہا تھا جیسے اندھیرا ہی اندھیرا ہو۔۔سوھنی۔۔۔۔۔
سوھنی۔۔۔ونی۔۔۔ونی۔۔۔۔نشے کی حالت میں بھی اس کا چہرہ اور اس کا ہی نام لیے جا رہا تھا۔۔۔اس سے پہلے وہ گرتا اسی ڈانس کرتی دوشیزہ نے اسے تھاما تھا۔۔
وہ اسے نشے میں سوھنی سمجھتے ہوئے۔۔خود سے اور بھی قریب کر گیا۔۔۔۔
اسکی کمر تھامنے سے وہ کچی ڈالی کی مانند اسکے کشادہ سینے سے ٹکراتی اس مظبوط شخص کے وجود کا حصہ بنی تھی۔
"کیوں پکڑا ہے مجھے یو ایڈیٹ۔۔۔۔۔"اٹھتی گرتی مسکارے کے بوجھ س لرزتی پلکوں کی جھالر کو بمشکل زحمت دیتی وہ اسکے کندھے کو تھام رہی تھی کہ کھڑا ہونے کی ہمت اس میں اب نہیں تھی۔۔
"ششش۔۔۔
سوھنی میں تمہیں حاصل کر کے ہی رہوں گا۔تم صرف میری ملکیت ہو اعیان چودھری کی"
اس کے ریڈ لپسٹک سے سجے بھرے بھرے لبوں پر انگلی رکھی کہ وہ اسکی لہو رنگ آنکھوں سے سہم سی گئی۔۔جو یوں تھیں کہ جیسے اسے سالم نگل جائیں گی۔۔
"ایک بات تو بتاؤ۔۔اتنے گڈ لکنگ ہو, ہینڈسم ہو۔۔۔۔"
وہ لڑکھڑاتی بس گرنے کو ہی تھی کہ اسکے آہنی ہاتھوں نے اسکے ڈولتے نازک سے وجود کو بانہوں میں بھرا تھا ۔۔۔
اعیان نے مصنوعی بازو لگوا لی تھی۔اور وہ شانوں پر شال ڈالے رکھتا تھا۔۔۔۔
اس وقت وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو سمبھالے ہوئے تھے۔
ایک بھی بات اس دوشیزہ کے پلے نہیں پڑی تھی کیوں کہ وہ بھی اسی کی طرح ڈرنک کرنے سے دنیا و مافیہا کی سمجھ بوجھ سے الوقت آزاد تھی۔۔
"میں چپ نہیں کروں گی۔۔۔!!!بالکل بھی نہیں کروں گی۔۔!!!
تم میرے سوا کسی اور کا نام نہیں لے سکتے۔۔۔
سرگوشی نما آواز میں بولتی وہ اسکی قمیض کے بٹنوں کو ٹچ کرتی ہوئی اس پر اپنی نازک انگلیاں چلاتی صرف اور صرف اسکے جذبات کے دھارے کو ہوا دے رہی تھی۔۔
یہ جانے بغیر کہ اسکے نتائج اس کے حق میں کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔۔شاید وہ خود بھی یہی سب کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔
؟؟کیا تم شادی شدہ ہو؟؟"اس نے اعیان سے پوچھا۔۔۔۔
تمہیں میرے شادی شدہ ہونے سے فرق پڑتا ہے ؟
اعیان نے ابرو اچکا کر پوچھا
بالکل بھی نہیں ۔۔۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئےوہ اب اس کے سینے سے سر ٹکا گئی۔۔۔
اعیان اس کی ادا پر مسرور سا ہوا۔۔۔۔
وہ اسے اپنے ساتھ لگائے باہر اپنی گاڑی تک لایا۔۔۔۔
گاڑی کا ڈور کھولتے اس کے مدہوش وجود کو فرنٹ سیٹ پر احتیاط سے ڈالتے وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا سٹیرنگ تھام چکا تھا۔۔
"تمممم۔۔نے بتایا نہیں اتنے ہوٹ ہو ۔۔۔۔اتنی اچھی باڈی یے۔۔کتنی گرل فرینڈز ہیں تمھاری۔۔"
ایک انگلی کو تھوڑی پر رکھتی نشیلی آنکھوں کو پورا وا کئے وہ انگلی کے اشارے سے اسکا رخ اپنی طرف موڑنے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔
ان گنت۔۔۔۔اعیان چودھری نے مغرورانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
اور ہاں ابھی کچھ ہی دیر میں میری ہمت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔۔۔۔اعیان نے نشیلی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے خمار آلود آواز میں کہا۔۔۔
اب اس کا رخ ہوٹل کے کمرے کی طرف تھا۔
گاؤں کی زندگی سے اُکتا کر وہ یونہی کبھی کبھار دل بہلانے نائٹ کلب میں آجاتا تھا۔۔۔۔
******
حویلی کو اچھے سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔سارے گاؤں کو بھی اس شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔۔۔سعد اور نور کے نکاح کا فریضہ بھی کچھ دیر پہلے ہی انجام دیا گیا تھا۔۔۔۔
وہ پچھلے ایک گھنٹے سے جلے پیر کی بلی کی مانند کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی ۔۔۔
آج اس کی بارات تھی کئی تدبیریں دماغ میں آئیں تھیں اس سب سے بچنے کے لئے مگر ان میں سے کسی پر بھی عمل کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
اچانک کسی سوچ کے آتے ہی مسکاتے لبوں کے ساتھ اس نے خود کو آئینے میں دیکھا ۔۔۔
بیڈ پر پڑا سرخ عروسی جوڑا جیسے اسے منہ چڑھا رہا تھا ۔۔بالآخر بیوٹیشن کی آمد ہوئی تو وہ مردہ دل کے ساتھ تیار ہوئی تھی۔۔۔۔۔
تھوڑے سے سنگھار سے ہی غضب کا روپ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
درمکنون نے اس کی رخصتی کے وقت اسے اپنے ساتھ لگا کر ڈھیروں دعائیں دیں۔
نور آنسو بہاتی ہوئی سعد کے ساتھ رخصت ہوئی تھی ۔۔۔سفر تو صرف ایک منزل کا تھا ۔
بس نور نیچے سے رخصت ہو کر اوپری منزل پر جا رہی تھی۔
اس سارے عرصے میں اس نے ایک بار بھی سعد پر نظر نہیں ڈالی ۔۔۔
جو بھی ہو رہا تھا زبردستی اس کی مرضی کے خلاف ہو رہا تھا۔۔۔
مگر عالم کی بے رخی اور اس کی ماں درِمکنون اور سعد کی ضد کے آگے وہ ہار مان چکی تھی۔۔۔۔
اس کے ساتھ چلتے ہوئے سعد نے اس نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تو اس نے ہٹ دھرمی سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔۔۔۔
اپنی اہانت پر سب کے سامنے سعد ضبط کئے سرخ ہوا تھا۔۔
اس کا دماغ کیسے سیٹ کرنا تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا۔۔
زبردستی اس کا ہاتھ خودتھامتے ہوئے وہ اسے سنبھلنے کا بھی موقع دیئے بغیر چل دیا۔۔
اس شادی کے سلسلے کی وجہ سے نور نے دو دن سے کچھ کھایا پیا بھی نا تھا۔۔۔
بھوک کی وجہ سےچکر تو اس کو پہلے بھی آرہے تھے ۔۔اب اس کی گرفت میں تو جیسے آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔۔۔۔
مہمان سب رخصت ہو چکے تھے اب صرف گھر کے ہی افراد تھے۔
ایک تو لہنگے کے گھیر میں الجھی تھی؛ساتھ میں بھاری بھرکم ڈریس اوپر سے چکراتا سر وہ زمیں بوس ہونے کو ہی تھی کہ غصہ اور بے بسی سے چلا اٹھی۔۔۔
رکو چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے یہ کہتے ہی سنجیدہ سی نظر سعد پر ڈالی تو وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔وہ آج بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا ۔بلیو رنگ اس کی رنگت پر خوب جچ رہا تھا،ہلکی بیئرڈ ،سرخ ہوتا چہرہ اور اس کو گھورتی ہوئی سرخ آنکھیں۔۔۔
وہ پل میں ہی نظریں پھیرتی ہوئی بولی
میری طبیعت ٹھیک نہیں یے پہلے ہی۔۔۔۔۔۔
وہ ماتھے کو اپنے ہاتھ سے مسلتی ہوئی دھیمی آواز میں بولی تو سعد کے چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ آئی۔۔۔
اس نے پہلی بار اسے خود مخاطب کیا تھا۔۔
سجی سنوری سرخ رنگ لہنگا زیب تن کیے آج قیامت ڈھاتی وہ سعد کو چاروں شانے چیت کر گئی۔۔۔
اس نے پل میں ہی اس کے قریب سرگوشی کی تھی۔۔
حالانکہ ابھی تو میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ تمہاری طبیعت خراب ہو جائے۔۔۔
سعد نے اس کے کان کے قریب سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔
اس نے اس کی طبیعت کے پیش نظر اپنی باہوں میں بھر نے کے لیے اسے کمر سے تھامتے ہوئےکہا تو اس کی بےباکی پر وہ پل میں ہی سرخ ہوئی تھی۔۔۔پلکیں لرزنے لگیں۔۔۔۔
نہ۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ ایسا نا کرو سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتی بولی ۔۔۔
اتنی بھی خراب نہیں ہے میری طبیعت۔۔۔۔
میں خود چل سکتی ہوں۔۔۔۔
اس نے اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی مگر اگلا بندہ بھی اپنے نام کا ایک ہی پیس اس دنیا میں آیا تھا۔۔۔۔
آپ سب سے معزرت میری دلہن کی طبیعت ٹھیک نہیں۔اس لیے میں اسے لیے روم میں جا رہا ہوں آپ سب بھی اب آرام کریں۔۔۔وہ اسے اپنی بازوؤں میں بھرے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر آیا اور ایک ٹانگ مار کر اپنے کمرے کا دروازا کھولا۔۔۔نور نے تنہائی ملتے ہی اس کے سینے پر مکوں کی برسات شروع کردی۔۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔
اگر اب تم نے اب اپنے ہاتھوں کا استعمال کیا نا۔۔۔۔
Then trust me.
تمہارے یہ ہونٹ مجھے ویسے ہی بڑے اپیل کر رہے ہیں مجھے ان کا حال بگاڑنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا۔۔۔۔
اس نے نور پہلی بار اتنے قریب سے دیکھتے ہوئے وہ سخت سے لہجہ میں اس کے بھرے بھرے سرخ لپسٹک سے ستم ڈھاتے لبوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
وہ جو نیچے اتارنے کے لئے اس کے سینے میں مکے مار رہی تھی۔۔کھلے عام دھمکی پر تو جیسے کانپ کر رہ گئی تھی۔۔۔
فورا سے ہاتھ پیچھے کئے تھے زیادہ فکر اسے اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑے کلچ کی تھی کہ کہیں وہ سعد کی نظروں میں نا آجائے۔۔۔
سعد نے اسے نرمی سے بیڈ پر بٹھایا ۔۔۔۔ نورتو کمرے کے ماحول سے ہی بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔۔ گلاب اور موتیےکے پھولوں سے مہکتا عالیشان کمرہ ماحول کو رومان پرور بنا رہا تھا۔
اعیان گھر میں داخل ہوا تو پوری طرح نشے میں تھا۔۔۔اونچی اونچی چلاتے ہوئے وہ ونی ۔۔۔۔سوھنی کی آوازیں لگا رہا تھا پچھلے ایک ماہ سے اس کا یہی دستور تھا آدھی رات کو وہ حویلی اسی طرح نشے میں دھت ہو کر لوٹتا ۔۔۔۔
جب بھی سعد حویلی میں موجود ہوتا اعیان کو اس کے کمرے تک پہنچانے میں سب کی مدد کرتا۔۔۔۔آج بھی اعیان نے ان کی شادی میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔سعد اس کی آواز سن کر روم سے باہر گیا تو نور کی جان میں جان آئی۔۔۔
اس نے اپنا دھیان کمرے چھائے فسوں سے ہٹاتے کلچ کھولتے گولیاں منہ میں ڈالیں۔۔
اب وہ اس کے آنے سے پہلے ہی اپنا کام کر لینا چاہتی تھی۔۔
سب سوچتے پھر سے رونا آرہا تھا کتنا کہا تھا اس نے گر نکاح ہو بھی گیا ہے مگر ابھی رخصتی نا کریں ۔مگر کسی نے بھی اس کی ایک نا سنی۔۔۔۔
بھاری بھرکم لہنگے سے جان چھڑوانے کے لیے کمرے میں موجود الماری میں اپنی مرضی کے سادہ سے کپڑے ڈھونڈھنے لگی
الماری میں بمشکل ایک سفید سادہ سا سوٹ نظر آیا تو کچھ سکون کا سانس لیتے ہوئے چینج کرنے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔
تقریبا دس منٹ بعد وہ اپنے کمرے میں آیا
دروازہ کھولتے ہی اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو سب کچھ اس کی توقعات کے عین مطابق تھا۔۔۔
بستر پر آج رات کی مناسبت سے بچھائی گئی سرخ اور گولڈن ریشمی چادر زمین کو سجدہ پیش کر رہی تھی۔
اور اس پر موجود خوبصورت گلاب کے پھول بھی بے دردی سے مسل کر زمین پر پھینک دئیے گئےتھے۔۔۔
بیڈ سائیڈ ٹیبل اور ڈریسنگ پر موجود گلاب کے پھولوں کی بھی یہی صورتحال تھی۔۔
اس کے پیار بھرے جذبات کا بڑی محنت سے گلہ گھونٹنے کے بعد وہ بےحس لڑکی شاید واش روم میں موجود تھی۔
وہ سرد آہ بھرتا ہوا زمین پر پڑی ہوئی چادر اور کمفرٹر کو اٹھانےلگا۔۔۔
پانچ منٹ بعد وہ سفید سادہ سے سوٹ میں دوپٹہ سے بغیر باہر آئی ۔۔۔۔۔
یوں تھی گویا ابھی تازہ تازہ کسی کے ختم سے ہو کر آئی ہو۔۔۔۔
جیسے اس رشتے میں بندھنے ہی اس کی موت ہو گئی ہو جو وہ اپنی طرف سے کفن پہنے باہر آئی ہو۔۔۔۔
وہ پوری پلاننگ کے تحت اس کو سُلگا کر اس کے جذبات کا گلہ گھونٹنا چاہتی تھی۔۔
رویا رویا سا میک اپ سے مبرا چہرہ چاند کی روشنی کی مانند ہی دمک رہا تھا، غصے اور رونے کی وجہ سے ناک سرخ تھی؛کپکپاتے گلابی ہونٹ اسے متوجہ کرنے کا کام خوب کر رہے تھے۔
بار بار چہرہ دھونے کی وجہ سے چہرہ سے ابھی بھی پانی کے قطرے گر رہے تھے ۔۔۔۔
وہ اس کو مکمل نظر انداز کرتی ہوئی شیشیے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹنے لگی۔۔۔
وہ سلگتی نگاہوں سےاس کی ساری حرکات و سکنات کا پوری طرح جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
سفیدرنگ بھی اس کی رنگت پر خوب جچ رہا تھا۔۔۔
سرخ کیا جچتا وہ تو سفید میں بھی اس کا دل دھڑکا گئی تھی۔
اپنی ساری جیولری ڈریسنگ کے پہلے دراز میں ڈالتے ہوئے اسے زور سے بند کیا۔۔۔
جیسے سارا غصہ اس پر اتارا ہو۔۔۔۔
اس کی حرکات و سکنات پر اس کی پل بھر میں ساری تھکن دور ہوئی۔۔۔۔
وہ اس کی حرکتوں پر مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا کے قریب آ کر اس کے وجود کو اپنی خوشبو سے مہکا گیا۔۔۔۔۔
اس کے بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کرتے بھورے سلکی بال کسی آپشار کی طرح اس کی کمر پر گرتے اس کے اعصاب مفلوج کر گئے ۔۔۔۔۔
اب وہ بالوں کو اپنے ہاتھوں میں آہستگی سے لپییٹتے ان کی نرمائی کو محسوس کرنے لگا۔۔۔
اس کی حرکتوں پر وہ غصہ سے تلملائی تھی مگر آج وہ بھی سب پلاننگ سوچ کر آئی تھی۔۔۔
بالوں کو اخری بار فولڈ کرتے اس نے تھوڑا جھٹکادیا تو وہ اس سے ٹکراتی ہوئی اس کے سینے سے آلگی۔۔
اپنے آہنی بازوؤں کے حصار میں اس نے اسے کمر سے تھامتے اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کے حلیے پر شکوہ نا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی لٹ کو اپنی انگلی پر گھمانے لگا۔۔
آج اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتاتھا،اس کے بھرے بھرے گلابی لبوں پر شہادت کی انگلی رکھتے وہ اس کے کان کے قریب جا کر خمار آلود آواز میں بولا۔۔۔۔
تم کیا سمجھی تھی کہ یوں کرنے سے بچ جاو گی۔۔۔نور جی آپ تو سادگی میں بھی ہماری جان نکالتی ہیں۔۔اس نے اس کے چہرے پر آئی ہوئی آوارہ لٹ کو پھونک مار کر پیچھے دھکیلا۔۔۔
اس سفید پاکیزہ رنگ میں تو میں مزید دیوانہ ہو رہا ہوں میں تمہارا۔۔ ۔۔
اس نے اس کے گال پر اپنا بیرڈ والا گال رگڑ کر کہا۔۔۔نور کواس کی سانسیں بالکل اپنے قریب محسوس ہوتےہی بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی
۔تیز ہوتی دھڑکنوں کو قریب سے محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔۔
سعد نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا۔۔۔
سعد کی آنکھوں کا مرکز دیکھتے ہوئے وہ اگلے ہی پل اس کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔۔۔
سعد نے پریشانی سےاسے بے ہوش دیکھا۔۔۔
تو اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا ۔۔۔
اس کی نبض چیک کی اس کی سانسیں بالکل نارمل تھیں۔۔۔
اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے سائیڈ ٹیبل سے جگ سےگلاس میں پانی بھرا تو اسے سامنے ہی اس کا کھلا کلچ نظر آیا اس نے یوں ہی تجسس میں دیکھا تو اسے سارا مدعا سمجھ آگیا۔۔۔۔
نور نے اس سے بچنے کے لئے یہ ساری کاروائی کی تھی غصہ کی لہر سے اس دماغ کی نسیں پھولیں تھیں ۔۔۔۔۔اس نے ترچھی نظر اس پر ڈالتے ہوئے شیشے کا گلاس فرش پر دے مارا۔۔۔۔
جو ایک ہی جست میں چکنا چور ہو گیا۔۔۔۔
******
گاڑی گیٹ سے اینٹر ہوئی تو سوھنی بھاگ کر دروازے کی طرف آئی۔۔۔
عالم گاڑی سے باہر نکل کر اندر کی طرف آیا تو اسے دیکھ سوھنی کے چہرے پر تبسم بکھرا۔۔۔
آپ آگئے؟
اس نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
نہیں میری روح ہے ۔۔۔میں ابھی تک باہر ہی ہوں۔۔۔۔
اس نے بیزاریت سے کہا۔۔۔۔
سوھنی اس کا بھاری ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ لگی۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے سب کے سامنے چپکا نا کرو۔۔۔۔
سخت زہر لگتی ہیں مجھے یوں چپکنے والی لڑکیاں۔۔۔۔۔
اچھی بات ہے لگنی بھی چاہیے۔۔۔۔
میں باقی سب لڑکیوں کی فہرست میں تھوڑی شامل ہوں میں تو آپ کی بیوی ہوں تو میرا اتنا حق تو بنتا ہے نا۔۔۔
سوھنی نے شرارت سے کہا۔۔۔۔
عالم کمرے میں آیا تو بستر پر بیٹھا ۔۔۔۔
سوھنی فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھ گئی۔۔۔
اب عالم نے اسے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
سوھنی ہی کی خواہش تھی کہ وہ اس کے سارے کام خود کرے گی اور وہ منع نہیں کرے گا۔۔۔۔
اس نے عالم کے شوز اتارے۔۔۔۔
اور شوز ریک میں رکھ کر اس کے سلیپرز اس کے آگے رکھے۔۔۔
عالم سلیپرز پہن کر کھڑا ہوا تو سوھنی اس کے پیچھے پیچھے ہو لی۔۔۔۔
اب کیا واش روم میں بھی ساتھ جاؤ گی۔۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
پھر واپس مڑا کہ چینجنگ ڈریس تو لیا ہی نہیں۔۔۔۔
سوھنی نے کپڑوں والا ہینگر اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
یہ لیں۔۔۔۔
اس نے اس کے ہاتھ سے وہ ہینگر کھینچنے کے انداز میں پکڑا۔۔۔۔۔
رکیے۔۔۔۔۔
سوھنی بولی۔۔۔۔
وہ مڑا تو سوھنی اس کی ڈھیلی کی گئی ٹائی کو زرا سا پاؤں اوپر اٹھا کر اسکے گلے سے نکالا ۔۔۔۔۔
پھر اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔۔۔۔
اب جینچ کروانے کا بھی ارادہ ہے کیا؟
اس نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔۔
کہتے ہیں تو کروا دوں گی۔۔۔
آخر بیوی ہوں آپ کی۔۔۔
وہ تاسف سے سر ہلاتا ہوا واش روم کی طرف بڑھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ چینج کیے باہر آیا۔۔۔۔
سوھنی اسی کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔۔۔
پاکٹ میں سے نکالی گئی چیزوں پر نظر پڑی
تو سیگریٹ کا پیکٹ ندارد۔۔۔۔۔
تمہیں کتنی بار کہوں میری چیزوں کو ہاتھ نا لگایا کرو۔۔۔۔
وہ کیا ہے نا کہ میری اماں کہتی تھی کہ جب شادی ہو جاتی ہے تو تیرا میرا کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔
جو شوہر کا وہ بیوی کا ،جو بیوی کا وہ شوہر کا۔۔۔۔۔
مجھے تمہاری اماں کی باتیں سننے کا کوئی شوق نہیں ۔۔۔۔
نکالو جلدی سے ۔۔۔کہاں چھپایا ہے؟؟؟
اس نے سوھنی کے دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھا وہ مجرموں کی طرح ہاتھ اٹھا کر دکھانے لگی میرے پاس کچھ نہیں۔۔۔۔
اچھا پھر تم جھوٹ بولو گی مجھ سےاب ۔۔۔
مجرموں سے سچ کیسے اگلوایا جاتا ہے اچھے سے جانتا ہوں میں اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
سیگریٹ نوشی آپ کی صحت کے لیے مضر ہے پڑھے لکھے ہیں اس پر واضح لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔
آپ کو اپنی پرواہ نہیں تو کم از کم میرے لیے ہی چھوڑ دیں یہ زہر پھونکنا۔۔۔۔
مجھے آپ کے ساتھ بہت سا جینا ہے۔۔۔اس نے لاڈ سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
ایک تو یہ تم جو فضول قسم کا رومانس جھاڑتی ہو نا قسم سے بڑی کوفت ہوتی ہے۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
اپنا اچھا برا میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔
میرے کاموں میں دخل اندازی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپ میری بات نہیں مانیں گے آپ کو جو پسند ہے اب سے میں بھی وہی کروں گی
میں بھی سیگریٹ پیوں گی۔۔۔۔
دیکھوں تو سہی میری سوتن کا ذائقہ کیسا ہے جسے آپ نا چھوڑنے پر اتنے بضد ہیں۔۔۔۔
عالم نے بیڈ کا میٹریس اٹھایا جس پر کوئی چیز نیچے چھپانے پر ابھار سا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
وہاں سے سیگریٹ کا پیکٹ مل گیا۔۔۔۔
خبردار جو آئیندہ اسے ہاتھ بھی لگایا۔۔۔۔
اب کچھ کھلاؤ گی بھی یا یونہی باتوں سے پیٹ بھرو گی؟
اس نے سرد مہری سے کہا۔۔۔
آئیں نا میں کھانا لگاتی ہوں۔
تم نے کھانا کھایا؟
عالم نے تفکر سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں کھایا آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی آپ کو پتہ ہے نا کہ میں صرف آپ کے ساتھ کھانا کھاتی ہوں ۔۔۔
پھر یہ سوال کیوں؟
یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلتی ہوئی کچن کی طرف بڑھی۔۔۔۔
سالن بنا چکی تھی۔
روٹیاں اس کے آنے پر تازہ بنا کر دینے کے لیے وہ فریج سے آٹا
نکال کر تیزی سے پیڑے بنانے لگی۔۔۔
عالم لاونج میں موجود تھا مگر کچن کا منظر وہاں بیٹھے ہوئے بھی صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔
چہرے پر آئی لٹوں کو بازوں کی مدد سے پیچھے دھکیلتی ہوئی وہ ماہرانہ انداز میں اب روٹی بیل رہی تھی۔۔۔
تم پہلے ہی روٹی بھی بنا کر رکھ لیتی ۔۔۔۔عالم نے کہا۔۔۔۔
یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔سارے دن بعد شوہر گھر آئے اور بھی ٹھنڈی روٹی کھائے۔۔۔۔
گھر میں بیوی کی موجودگی کا کیا فائدہ پھر۔۔۔اس نے سر جھٹک کر کہا۔۔۔۔
بیل کی آواز سن کر سوھنی نے مڑ کر عالم کو دیکھا تو مسکرانے لگی۔۔۔۔
عالم کو بھی بیل کی آواز اور سوھنی کی ہنسی کی وجہ یاد آئی تو اس کی آنکھوں میں وہی پچھلا منظر نظر آیا۔۔۔۔
جب ایک دن یونہی دروازے پر اتنی بیلز ہوئیں کہ بیل بجانے والا شاید بیل پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا ہو۔۔۔۔۔
سوھنی ڈر کے مارے عالم کی پشت کے پیچھے چھپی۔۔۔۔
مجھے بچا لیں۔۔۔پولیس مجھے پکڑ کر لے جائے گی ۔۔۔۔
اس اعیان کی وجہ سے۔۔۔۔اس کا جسم پوری طرح لرز رہا تھا۔۔۔
عالم نے مڑ کر اس کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔۔۔
میں ہوں نا میرے ہوتے ہوئے تمہیں یہاں سے کوئی نہیں لے جا سکتا۔۔۔۔
پولیس سے بھی اوپر تک پہنچ ہے میری۔۔۔۔
اس نے مظبوط لہجے میں کہا۔۔۔۔
سوھنی اس کی بات سن کر اپنا غم بھلائے اچانک نم آنکھوں سے ہنسنے لگی۔۔۔۔
اچھا جی بہت اوپر تک پہنچ ہے آپ کی۔۔۔۔اس نے شرارتی لہجے میں کہا۔۔۔۔
اسے لگ رہا تھا کہ عالم اس سے مذاق کر رہا ہے۔۔۔۔
عالم بھی اس دن کی بات یاد کر کہ مسکراتے ہوئے اٹھا اور ڈور ان لاک کیا۔۔۔
عمر ،صالح اور پارسا تینوں اندر آئے۔۔۔۔
بڑی لذیذ کھانے کی خوشبو آرہی ہے۔۔۔۔
پارسا بولی۔۔۔
بھابھی پلیز ہمارے لیے بھی۔۔۔عمر بولا۔۔۔
شکر ہے میری تو جان چھوٹی کھانا بنانے سے صالح بولا۔۔۔۔
سب اٹھ کر اپنا اپنا کھانا خود بنائیں گے وہ ملازم نہیں کسی کی۔۔۔۔عالم کی تیز آواز سے وہ تینوں کچن میں جانے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے۔۔۔۔
میں بنا رہی ہوں سب کے لیے آپ سب بیٹھ جائیں پلیز۔۔۔۔
سوھنی نے کچن سے آواز دے کر کہا۔۔۔۔
اپنی اماں کے گھر تو میں کام ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔۔پتہ ہے آپ کو مجھے بہت ڈانٹ پڑتی تھی اماں سے۔۔۔
حویلی میں آپ کی پھپھی جی نے مجھ سے کام کروا کروا میری ہڈیوں میں ایسا کام بھرا ہے کہ اب فارغ بیٹھا ہی نہیں جاتا۔۔۔۔
وہ یہ بات کہتے ہوئے ٹیبل پر کھانا لگانے لگی۔۔۔۔
عالم کے علاوہ باقی تینوں اس کی بات سن کر مسکرانے لگے۔۔۔۔
اس ایک ماہ میں وہ ان تینوں سے بھی کافی گھل مل گئی تھی۔اور اس میں زیادہ تر ان تینوں کا ہی ہاتھ تھا۔۔۔
کہ سوھنی جلد ہی اپنی پرانی نارمل زندہ دلی والی زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی۔۔۔۔
*****
فون پر آتی ہوئی کال نے فائزہ کو متوجہ کیا۔۔۔
سعد کے فرض سے تو سبکدوش ہو گئی۔۔۔۔
اس سارے معاملے میں۔۔۔۔۔آپ کو بہت یاد کیا۔۔۔۔
بس اب عروج کے لیے فیصلہ لینا ہے۔۔۔
اس سلسلے میں میری مدد کریں گے۔؟
شہر میں کسی اچھے وکیل سے بات کریں اور عروج کے اعیان سے خلع کے پیپرز تیار کروائیں۔۔۔
یہ کام جلداز جلد ہو جانا چاہیے۔۔۔فائزہ نے مقابل شخصیت سے کہا۔۔۔۔
******
بھرپور نیند لینے کے بعد 10 بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی تھی سر ابھی بھی تھوڑا چکرا رہا تھا اپنا منصوبہ کامیاب ہونے پر لب مسکرا اٹھے۔
تو بالآخر وہ کامیاب ٹھری تھی اس نے شہریار چوہدری کے کمرے سے چرا کر
سکون آور گولیاں کھائی تھیں اس سے ٹکر لینے کے لئے تو وہ جان بھی دے سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
کتنے مزے سے اس نے سعد چودھری کے شوریدہ جزبات کا گلہ گھونٹا تھا۔۔اس نے سارے بدلے یک مشت ہی لے لیے تھے۔۔۔
مسکراتے ہوئے اس نے ہاتھوں کو ذرا ریلیکس ہونے کے لئے پھیلاتے بالوں کا رف جوڑا بناتے اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو9 بجے تھے وہ روم میں نہیں تھا یہ خیال ہی خوش کن تھا ۔۔۔وہ مزے سے فریش ہونے کے لئے اٹھی تھی کہ وہ کمرے میں آیا تھا ۔۔۔
سعد نے تمسخرانہ نظر اس پر ڈالتے وارڈروب سے ہینگ پینٹ ،شرٹ لیتے فریش ہونے گیا تھا وہ انگلیاں چٹختی اسے بس دیکھ رہی تھی فطری طور پر اس کے ریکشن پر خوف سا تھا دل میں۔
اسے اپنا آپ شدید خطرے میں محسوس ہوا تھا
پھر کھڑی ہوتی اپنا ڈریس نکالنے لگی۔۔۔
وہ 15 منٹ بعد فریش سا آیا تھا۔۔۔ صرف پینٹ میں ملبوس ایک ہاتھ میں شرٹ تھی جسے اس نے بیڈ پر پھینکا ۔اور دوسرے ہاتھ سے ٹاول سے بالوں کو رگڑتا وہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آرہا تھا ۔۔۔
ساری دلیری پل بھر میں ہوا ہوئی تھی۔۔
وہ اس کا شوہر تھا سارے حق محفوظ رکھتا تھا ۔۔۔
وہ جو ڈریس بیڈ پر بکھیرے سلیکٹ کر رہی تھی اس کہ پیش قدمی پر ہلکان ہوئی تھی سعد نے ٹاول کو گول مول کر کے اس کے قریب اچھالا تھا۔۔۔۔
نور نے اسے سامنے دیکھ کمرے سے باہر بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔۔
وہ لپک کر دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔۔
سعد ایک ہی جست میں اس کے قریب پہنچا۔۔۔
اس کے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اس کی فرار کی ساری راہیں مسدود کرتا وہ شعلہ بار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
رات والی حرکت کی وجہ ؟
وہ بولا کم دھاڑا زیادہ تھا۔۔۔
وہ اس کی دھاڑ اور اس کے کشادہ باڈی سے باڈی واش کی خوشبو سے سٹپائی تھی ۔۔
نظریں نیچی کرتی وہ مسلسل لب کاٹ رہی تھی۔۔
اس کی ہنوز خاموش دیکھ کر مزید سیخ پا ہوا تھا۔ ۔
تم سمجھتی ہو بچ جاو گی ۔۔۔۔
شرعی حق رکھتا ہوں تم پر۔۔۔۔
سمجھیں یا سمجھاؤں؟۔۔۔
وہ طیش میں اس کی کمر میں انگلیاں گاڑتا اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئےاپنے کشادہ سینے سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
اس کے باڈی سے ٹپکتی پانی کی بوندیں سب کچھ اس کے حواس معطل کرنے کے لئے کافی تھا۔۔۔
اس کی انگلیاں اسے اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔
اپنے ساتھ لگائے جوڑے سے اس کے بال آزاد
چھوڑو مجھے جنگلی انسان۔۔
وہ خود کو اس سے چھڑوانے کی ناکام کوششں کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔۔۔منہ نوچ لو گی میں تمہارا۔۔۔۔چھوڑو ذلیل انسان۔۔۔
وہ ایک پل کو لڑکھڑائی اس سے اپنا آپ چھڑوانے لگی۔۔۔اسی چھینا جھپٹی میں اس کا ریشمی دوپٹہ نیچےگرا۔۔۔
گلا ڈیپ ہونے کی وجہ سے اس کا سینہ نمایاں ہوا۔۔۔سعد کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی۔۔۔۔۔
وہ استہزایہہ ہنسی ہستے رخ پھیر گیا۔۔۔۔جبکہ نور نے خود کو دیکھا تو اسے ڈھیروں شرم آئی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح خود کو وہاں سے غائب کر دے۔۔۔
اس نے جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر اس کوپھیلا کر اپنا سینہ چھپایا تھا۔۔۔اور آنکھوں سے بہتے آنسووں کو بےدردی سے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔۔۔وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا
چاہتی تھی۔۔۔
وہ ایک دم مڑا۔۔۔اور اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بازووں میں لیا۔۔۔اپنی غصے سےلال ہوتی آنکھوں کو اس کی آنکھوں میں گاڑھا۔۔۔
ایک پل کو نور کا دل لرزا تھا۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے اس نے اس کی قمیض کی ڈوری کھول دی تھی۔۔۔نور نے بے یقینی سے اسے دیکھا جبکہ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
د۔۔۔د۔۔۔دیک۔۔۔۔دیکھو سعد ت۔۔۔ت۔۔۔ممممم۔۔۔۔تم۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔
شش۔۔۔۔۔شش۔۔۔۔۔
وہ بے تاثر نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔نور کو اپنی کمر پر اسکی انگلیاں دھنستی محسوس ہوئی۔۔۔۔ایک بار اس نے پھر پوری جان سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔۔۔۔
اب وہ اسکے نچھلے ہونٹ پر انگوٹھا پھیر رہا تھا۔۔۔
بہت شوق ہے نا تمہیں مجھ سے جان چھڑوانے کا تمہاری رات والی حرکت پر تمہاری سزا تو بنتی ہے۔۔۔
اس نے ٹھنڈے بے تاثر لہجے میں اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔۔۔ہمت بھی کیسے ہوئی تمہاری خود کو نقصان پہنچانے کی۔۔۔۔
اب کے وہ حلق کے بل چلایا تھا۔۔۔۔۔ آج کے بعد یہ اس دماغ میں کسی نا محرم کی سوچ آئی تو۔۔۔تمہیں میرے قہر سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔۔۔۔۔
سعد نے پوری شدت سے انگلیاں اس کی نازک کمر میں گاڑھی تھی۔۔۔نور کی درد کی شدت سے آہ نکلی تھی۔۔۔۔وہ بے آواذ آنسووں سے رو رہی تھی۔۔
ممممم۔۔۔۔ می۔۔۔۔میں تمہاری ملکیت نہیں ہوں سعد چودھری۔۔
وہ بامشکل لڑکھراتے لفظ ادا کر پائی تھی۔۔۔۔کیونکہ وہ اس وقت اس کی باہوں کے شکنجے میں تھی۔۔۔اور وہ اس پر اس قدر دباو ڈالے اور دبوچے کھڑا تھا۔۔۔کہ وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اپنا آپ نہیں چھڑوا پا رہی تھی۔۔۔۔
سعد نے جھٹکے سے اسے گردن کے پیچھے سے دبوچا تھا۔۔۔۔اور اس سے بھی تیزی سے اس کے چہرے کو دروازے کے ساتھ لگایا۔۔۔۔
اس طرح کے نور کا چہرہ دروازے سے ٹچ ہو رہا تھا۔۔۔اور پیجھے سے ایک ہاتھ سے سعد نے اس کی گردن اتنی زور سے دبوچی ہوئی تھی کے درد کی شدت سے اسے لگ رہا تھا کے اب وہ کھبی سانس نہیں لے سکے گی۔۔۔
یہ تو تمہیں پچھلے پانچ منٹ میں پتا چل گیا ہو گا کے تم کس کی ملکیت ہو۔۔۔۔اس نے پوری شدت دکھائی۔۔۔۔
اب وہ اسکی گردن پر اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔نور کو اپنے جسم سے صحیح معنوں میں جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔
وہ اسے ایک دم جنونی لگا تھا بہت جنونی۔۔۔۔اسے خوف آیا تھا سعدسے بے حد خوف۔۔۔
سعد۔۔۔۔۔۔ پپپپپ۔۔۔۔۔لللللیزز۔۔۔۔۔چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔۔
اب کے اس کے لہجے میں منت تھی۔۔۔۔وہ ہچکیوں سے رو رہی تھئ۔۔۔۔
سعد نے اس کی گردن کی پچھلی جانب اپنے دانت گاڑتے ہوئے لو بائٹ بنائی۔۔۔۔
اس کی کراہ نکلی۔۔۔۔۔
جب تک یہاں ہوں ایسی نشانیاں ملتی رہیں گی۔۔۔
میں نے کھبی سوچا بھی نہیں تھا کہ شادی کی پہلی صبح اتنی خوبصورت ہوگی۔۔۔۔۔۔ اور اسکی آنے والی شامیں اتنی رنگین ہو گی کے دونوں کی سانسیں ساری رات ایک دوسرے میں الجھیں گیں۔۔۔۔
وہ اس کے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے اپنا ہر لفظ چبا چبا کر ادا کر رہا تھے۔۔۔۔پھر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے اس کی کان کی لو کو دانتوں تلے دبا کر پر حدت لمس چھوڑا تھا۔۔۔۔
نور کو لگا اب اگر وہ اس سے الگ نا ہوئی تو اس کی سانسیں بند ہو جایئں گیں۔۔۔اس کے جسم سے جان نکل جائے گی۔۔۔۔وہ روتے ہوئے کانپ رہی تھی۔۔۔اس کا پورا جسم جل رھا تھا۔۔۔۔کانپ رہا تھا۔۔
نور نے زور سے آنکھیں بند کیں۔۔۔اسکی سانسوں کی خوشبو وہ اپنے ناک میں جاتی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے ان آنسووں سے مجھے کوئی فرق پڑے گا۔۔۔نہیں بالکل نہیں آج تم نے میرے ضبط کی آخری حد کو چھوا ہے۔۔۔۔وہ اب اسکی گردن پر جھک رہا تھا۔۔۔۔
پ۔۔۔پ۔۔۔۔ل۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔پلی۔۔۔۔پلیزززززز۔۔۔سعد چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔
اسکے لہجے میں منت تھی۔۔۔۔گڑگڑاہٹ تھی۔۔۔۔وہ ٹوٹ رہی تھی۔۔۔۔
سعد نے اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔۔۔۔
میں نے سوچا ہے شاید تمہاری دور کی نظر کمزور ہے ۔۔۔قریب سے دیکھ لو اچھا خاصا ہینڈسم ہوں یونیورسٹی کی بے شمار لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر۔۔۔
میرے جیساپڑھا لکھا ہینڈسم بندہ تمہیں اس گاوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملنا تھا۔۔۔۔
سعد کا چہرہ بالکل اس کے چہرے کے قریب تھا۔۔
سعد اس کی بند آنکھوں کو اس کی رضامندی سمجھ کر اس کا سانس روک گیا۔۔۔۔
نور تو گومگو کی کیفیت میں مبتلا اچانک پڑنے والی افتاد پر سمبھل ہی نا پائی آخر یہ ہوا کیا۔۔۔۔
جب کچھ سمجھ آئی تو اسے اپنی پوری قوت سے دھکا دے کر خود سے دور کرنے کی کوشش کی۔
مگر وہ تو جونک کی طرح ایسا چمٹا تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نور کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے اسے بخشا۔۔۔۔
میں نے سوچا شہر جانے سے پہلے کیوں نا کچھ ایسی خوبصورت یاد دے جاؤں جسے سوچ سوچ کر تم شرماتی رہو۔۔۔۔
ت۔۔تم ۔۔۔انتہائی گھٹیا انسان ہو۔۔۔نور نے اپنے گردن پر آئے خون کے چند قطروں کو دوپٹے سے رگڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اف یار ۔۔۔۔
یہ تو ایک چھوٹا سا ڈیمو دیا ہے۔۔
میرا لاسٹ سمیسٹر ہے فائینل پیپرز کے بعد واپس آؤں گا ۔۔
تو مجھے یہ رونی دھونی صورت نا ملے۔۔۔۔
اپنے دماغ سے ساری خرافات نکال دو اب تم پر اور تمہاری سوچ پر صرف میرا حق ہے۔۔۔
ایک ماہ ہے تمہارے پاس اپنا مائنڈ میک اپ کر لو۔۔۔
اس کے بعد کوئی راہ فرار نہیں۔۔۔۔
تم نے میری سچی محبت کو سمجھا نہیں تم نے ہی مجھے یہ وحشی روپ دکھانے پر مجبور کیا ۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ بیڈ سے اپنی شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
نور اب تک اس کی حرکت کے زیر اثر اپنے کانپتے ہوئے وجود کو سنبھالنے میں لگی تھی
اس کے باہر جاتے ہی اس نے کمرے کی ہر چیز اٹھا اٹھا کر پھینکنی شروع کردیں۔
******
سعد واپس شہر جا چکا تھا۔۔۔۔
نور سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی۔۔۔۔
جب بستر پر لیٹتی تو تکیے سے سعد کی استعمال شدہ خوشبو آتی۔۔۔
واش روم میں کبرڈ سے غرض ہر جگہ سے کبھی وہ تنگ آکر ناک بند کر لیتی۔۔۔۔
کیا وہ واقعی میرے حواسوں پراتنا سوار ہو گیا ہے؟ کہ ہر جگہ سے مجھے وہی خوشبو آتی ہے۔۔۔۔
میں اس انسان کا خون پی جاؤں گی۔۔۔۔
اس نے غصے سے جھلاتے ہوئے اس کا تکیہ زمین پر پھینکا۔۔۔
اس کا کہا سچ ہوتا جا رہا ہے کہ میں اس کے سوا کسی کو سوچ ہی نا پاوں۔۔۔۔
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دے سکتی۔۔۔۔
وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چلائی۔۔۔۔۔
*****
تم سب کو پیسے کیا میں جھک مارنے کے دیتا ہوں؟
اعیان نے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوتے کہا۔۔۔۔
رشوت خورو۔۔۔حکومت سے بھی پیسہ لیتے ہو اور مجھ سے بھی ۔۔۔۔
کام کسی ایک بھی ایمانداری سے نہیں کرتے۔۔۔۔
گاؤں میں موجود واحد تھانے میں اس وقت وہ موجود تھا۔۔۔۔
چودھری صاحب ۔۔۔ہم نے بہت ڈھونڈا ہے اس لڑکی کو لیکن کہیں سے بھی اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔۔۔۔۔
اس بڈھی ماں سے بھی اپنے طریقے سے پوچھ ِگچھ کی تھی مگر اسے کچھ نہیں پتہ ایسا اس کا کہنا ہے۔میں نے اس کے گھر کے باہر دو آدمیوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی اس لڑکی نے اپنی ماں سے یا اس کی ماں نے لڑکی سے رابطہ کیا تو میں فورا آپ کو خبر پہنچا دوں گا۔۔۔۔
اگر آپ کا کام ہو گیا تو پھر ہمیں بھی خوش کر دینا۔۔۔۔
انسپکٹر کے چہرے سے اسوقت کمینگی جھلک رہی تھی۔۔۔
ویسے بھی چودھری صاحب آپ نے اپنے بیان میں بتایا تھا۔کہ وہ لڑکی آپ کے سامنے کھڑی تھی اور اس نے آپ پر آپ کی ہی گن سےگولی چلائی۔۔۔
جبکہ آپ کی گن سے تو پوری چھ کی چھ گولیاں برآمد ہوئیں۔۔۔۔
اور آپ پر وار آگے سے نہیں پیچھے سے کیا گیا تھا۔۔۔۔
اس کا مطلب کہ وہ لڑکی قصور وار نہیں۔۔۔۔
انسپکٹر بولا۔۔۔۔۔
تم اپنے دماغ کا استعمال زرا کم کرو اور اس پر ہی مجھ پر حملہ کرنے کا الزام ٹھوک دو۔۔۔
زمین آسمان ایک کردو مجھے کسی بھی صورت میں وہ ونی زندہ سلامت چاہیے ۔۔۔۔اعیان نے کرخت آواز میں کہا۔۔۔۔
اسے ڈھونڈ کر لاؤ چاہے پاتال سے۔۔۔۔۔
وہ سامنے رکھی گئی کرسی کو ٹھوکر مارتا ہوا وہاں سے غصے میں نکل گیا۔۔۔۔۔
*****
کلاس روم میں آج اکاؤنٹس کے لیکچرار کی غیر حاضری کے باعث سب سٹوڈنٹس آپس میں خوش گپیاں کرنے میں مصروف تھے۔۔۔۔
وہ کلاس میں داخل ہوا۔۔۔۔
تو اس کی رعب دار پرسنالٹی کے زیر اثر ساری کلاس میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
مگر عمر ،پارسا اور عروج جو سب سے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔وہ تینوں اپنی باتوں میں ایسے مگن تھے کہ انہیں کسی کے کلاس میں آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔۔۔
باتیں تو پارسا اور عمر کر رہے تھے عروج ان دونوں کی فنی باتوں سے محذوز ہو ہی تھی۔۔۔
Hay....back benches....
صالح نے جو دوسرے لیکچرار کے غیر حاضری پر آج یہ پیریڈ لینے آیا تھا۔۔۔۔
اس نے ان تینوں کو متوجہ کیے اونچی سخت گیر آواز میں کہا۔۔۔
ان تینوں نے اپنی گفتگو روک کر دیکھا۔۔۔۔
Stand up.
سر ہم۔۔۔پارسا نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
جی آپ اور آپ کے ساتھ موجود باقی دونوں بھی۔۔۔۔
سر ہم نے کیا کیا ہے؟
عمر نے معصوم سی شکل بنا کر پوچھا۔۔۔۔
جب کلاس سے باہر جا کر باقی کا دن کھڑے رہ کر گزاریں گے تو اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ آپ نے کیا کیا ہے...صالح نے ہر لفظ کو چبا کر غصے سے کہا۔۔۔
All of you have to leave now !
I said now !
عمر اور پارسا تو صالح کی اس حرکت پر تلملا کر رہ گئے۔۔۔۔
ساری کلاس کے سامنے انہیں کلاس سے باہر نکالنے پر۔۔۔۔
سر لیکن میں تو بول بھی نہیں رہی تھی عروج نے اپنی صفائی پیش کرنا چاہی۔۔۔۔
مگر آپ بھی ان کے ساتھ شامل تھیں۔۔۔
وہ دونوں صالح کو گھورتے ہوئے کلاس سے باہر نکل گئے۔۔۔۔
عروج بھی ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلی۔۔۔
کیونکہ اس کی بھی نا سنی گئی۔۔۔۔
صالح ان کی باہر جاتے ہی بورڈ کی طرف منہ کر کہ کمینی ہنسی ہنسا۔۔۔۔
آج اسے ان دونوں سے بدلہ لینے میں بہت مزہ محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
کیا ہے پارسا تم دونوں کی وجہ سے میرا لیکچر بھی مس ہو گیا۔۔۔عروج نے منہ پھلا کر کہا۔۔۔۔
اب وہ کوئسچن کیسے سولو کروں گی۔۔۔اس نے پریشانی سے سوچتے ہوئے افسردگی سے کہا۔۔۔
تم فکر نا کرو جو بھی کوئسچن سمجھنے ہیں میں سمجھا دیتا ہوں لاؤ نکالو بکس۔۔۔عمر نے اسے آفر کی۔۔۔۔
ایسا کرو تم دونوں سٹارٹ کرو می?
کیا ہے پارسا تم دونوں کی وجہ سے میرا لیکچر بھی مس ہو گیا۔۔۔عروج نے منہ پھلا کر کہا۔۔۔۔
اب وہ کوئسچن کیسے سولو کروں گی۔۔۔اس نے پریشانی سے سوچتے ہوئے افسردگی سے کہا۔۔۔
تم فکر نا کرو جو بھی کوئسچن سمجھنے ہیں میں سمجھا دیتا ہوں لاؤ نکالو بکس۔۔۔عمر نے اسے آفر کی۔۔۔۔
ایسا کرو تم دونوں سٹارٹ کرو میں زرا کینٹین سے پیٹ پوجا کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں۔۔۔پارسا عمر کو کوئی خاص اشارہ کرتی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی۔۔
*****
اس موٹی توند والے کو تو تو سزا ملنی چاہیے عمر نے جل کر کہا۔۔۔۔
ایسا ظلم نہ کرو کل ہماری ویڈنگ انیورسری ہے ۔کل کے دن ایک سال پہلے ہمارا نکاح ہوا تھا۔پارسا نے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے یہ تو اچھی بات ہے پارٹی کی پارٹی اور بدلے کا بدلہ۔۔۔۔
دونوں نے کچھ سوچتے ہوئے شیطانی مسکراہٹ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔
*****
ماشاءاللہ !
سوھنی کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔۔۔
عالم اس کے الفاظ کی ادائیگی پر قہقہہ لگائے بنا نہ رہ سکا۔۔۔۔
وہ جو ڈارک بلیو جینز پہنے اس پر ریڈ ٹی شرٹ جو اس کی سرخ وسفید رنگت پر خوب کھل رہی تھی۔۔۔۔
کلین شیو کیے۔۔۔۔ایک ہاتھ کی کلائی پر مختلف کلرز کے بینڈز پہنے۔۔۔ سلکی بال ہمیشہ کی طرح جیل سے سیٹ کرنے کی بجائے پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔۔۔
آپ اتنا تیار ہو کر کہاں جا رہے ہیں؟جان جی۔۔۔
اف ایک تو جان اوپر سے جی کیا مارنے کا ارادہ ہے؟
آج عالم جانے کس موڈ میں تھا جو اس کی بات کا خوش دلی سے جواب دیا۔۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے آپ کا مجھے مارنے کا ارادہ ہے ۔۔۔سوھنی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
رکیں۔۔۔۔وہ باہر جانے لگا تو سوھنی نے اپنی بازو سے بندھا تعویذ اتارا جسے تین چار سیاہ ڈوری کے بل دے کر بازو سے باندھا گیا تھا۔۔۔
اس نے اس ڈوری کے آخری سرے پر پوری جان سے کھینچتے ہوئے مظبوط گانٹھ لگائی۔۔۔
اور بستر پر چڑھ کر اس کے گلے میں ڈالی۔۔۔۔
کیونکہ وہ اس سے قد میں کافی لمبا تھا اور سوھنی کے کہنے پر وہ جھکنے والا نہیں تھا۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو؟
اتارو اسے ۔۔۔عالم نے اسے اپنے گلے سے نکالنے کے لیے ہاتھ میں پکڑا۔۔۔۔
اسے نا اتارنا پلیز۔۔۔سوھنی نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
کیا ہے یہ ؟
تعویذ عشق۔۔۔۔۔
سوھنی نے مسکراتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔۔
اسے پہننے سے آپ کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔۔۔۔
پکڑو اسے۔۔۔۔
عالم نے اسے غصے میں اتارا۔۔۔۔
اس کا ہاتھ کھول کر ہتھیلی پر رکھا۔۔۔۔
میں مذاق کر رہی تھی۔۔۔سچی۔۔۔آپ کو میری ۔۔۔۔نہیں آپ کو آپ کی اماں کی قسم !
پہن لیں اسے یہ آپ کی حفاظت کے لیے ہے۔۔۔۔
سوھنی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔
اسے وہ پہننا ہی پڑا۔۔۔۔
کتنے روپ ہیں آپ کے کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔۔۔کہیں آپ فراڈ تو نہیں۔۔۔۔
تمہیں میں شکل سے فراڈ لگتا ہوں۔۔۔؟
نہیں ۔۔۔اچھا غصہ تو نا کریں نا۔۔۔۔
پاکٹ میں والٹ ڈالتے وقت اس میں سے ایک کارڈ گرا۔۔۔۔
سوھنی نے اسے پکڑ کر پڑھنا چاہا۔۔۔۔۔
Jaan_e_Alam.
Inter services intell...
عالم نے اس کے ہاتھ سے کارڈ کھینچا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ پڑھتی۔۔۔۔
تمہیں انگلش پڑھنی آتی ہے ؟عالم نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
بتاؤ بھلا آپ ابھی تک مجھے کوئی ان پڑھ جاہل گنوار سمجھ رہے تھے۔۔۔سوھنی نے غصے سے کہا۔۔۔۔
ایف۔اے کر رہی تھی میں۔۔۔۔اس نے عالم کو آگاہ کیا۔۔۔۔
اور یہ کیا ؟جانِ عالم۔۔۔۔
یہ تو سراسر ذیادتی اور نا انصافی ہوئی ہے میرے ساتھ اس پر شکوہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
وہ کیا؟عالم نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔
جانِ عالم ۔۔۔یعنی دنیا کی جان۔۔۔ساری کائنات کی جان۔۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔
عالم جانے کے لیے باہر نکلنے لگا تو سوھنی نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
آپ سے ایک بات پوچھنی تھی....
عالم نے ابرو اچکاتے ہوئے اسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ کیا بات ہے۔۔۔۔۔
کیا آپ کو میں اچھی نہیں لگتی ؟
اس نے اپنی انا کو کچلتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیونکہ جہاں محبت ہو وہاں انا کا کیا کام؟
جیسا تم چاہتی ہو ایسا کچھ نہیں ہو سکتا ہمارے بیچ۔۔۔۔
اس نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔
میں ان مردوں جیسا بالکل نہیں جو بیس بچوں کا ڈھیر پیدا کر کے سب کے آگے رو رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ہائے ہمیں تو سچا پیار نہیں ملا۔۔۔۔
سوھنی شاکی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے منہ بنا کر باہر نکلنے کو تھی کہ اس کے ہاتھ میں ابھی تک عالم کا ہاتھ تھا۔۔۔
جسے اس نے مظبوطی سے تھامے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔
تم بہت اچھی ہو ۔۔۔۔
اور بہت پیاری بھی۔۔۔۔
مگر میں تمہارے قابل نہیں۔۔۔۔
سوھنی نے بے یقین نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔
کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔۔
دروازے پر ہونے والی دستک نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔
سوھنی نے دروازہ کھولا تو باہر پارسا تھی۔۔۔
سر وہ کل یعنی رات بارہ بجے میری اور صالح کی ویڈنگ اینورسری سلیبریشن ہے۔۔۔
آپ دونوں بھی انوائیٹڈ ہیں ۔۔۔
میں نے اور عمر نے مل کر صالح کے لیے سرپرائز پلان کیا ہے۔۔۔۔
اور رات کی پارٹی کے لیے مجھے شاپنگ بھی کرنی ہے۔۔۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو سوھنی کو بھی ساتھ لے جاؤں۔۔۔۔
لے جاؤ اور یہ کارڈ رکھ لو۔۔۔اس نے اے۔ٹی ۔ایم کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
عالم نے سوھنی کی طرف دیکھا جو شاید ابھی پچھلی بات کے ہی زیر اثر تھی۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے یہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں شاید ۔۔۔سوھنی نے دماغ کے گھوڑے دوڑائے۔۔۔۔
تم تیار ہو کر آجاؤ پھر ہم مل کر چلیں گے۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ پلٹ کر چلی گئی۔۔۔۔
آپ کہیں دوسری بیوی کے پاس تو نہیں جا رہے؟
اس نے شکی انداز میں کہا۔۔۔
ہہم۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔۔۔
جان جی ۔۔۔آپ نے اگر ایسا سوچا بھی نا تو۔۔۔
وہ تلملاتے ہوئے ایک ایک لفظ کو چبا کر بولی۔۔۔۔
تو کیا کرو گی۔۔۔۔عالم کو بھی اب اسے چڑانے میں مزہ آنے لگا۔۔۔۔
تو میں ان تینوں کو مار کر خود سولی پر چڑھ جاؤں گی۔۔۔۔
تم نے سولی پر چڑھنا ہے تو چڑھ جاؤ۔۔۔
ان تینوں سے میں خود ہی نبٹ لوں گا۔۔۔۔
عالم مسکرا کر کہتے ہوئے تیز قدموں سے وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
*****
وہ شہر کا کافی بڑا سپا تھا۔۔۔۔
جہاں وہ دونوں اس وقت موجود تھیں۔۔۔۔
وہ چیئر پر بیٹھے ہوئے تھی۔۔۔
اور پہلے دو لڑکیوں نے اس کا مینی کیور پیڈی کیور کیا۔۔۔
اب ایک لڑکی اس کی طرف تھریڈ لے کر بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
آپ کائینڈلی اپنی آنکھیں بند کریں ۔۔۔۔اس لڑکی نے سوھنی سے کہا۔۔۔
پارسا جی یہ آپ مجھے کہاں لے آئی ہیں بس مجھے اب اور کچھ نہیں کروانا۔۔۔
اس نے بے بسی سے ساتھ والی چئیر پر بیٹھی پارسا سے کہا۔۔۔۔
تم نہیں چاہتی کہ سر تمہاری تعریف کریں تمہیں سراہیں۔۔۔۔
پارسا نے اسے آنکھ مارتے ہوئے ترغیب دی۔۔۔
اس نے ہولے سے سر ہلایا۔۔۔۔
چلو تو پھر یہ سب کروانے سے اور بھی اچھی لگو گی۔۔۔
دیکھنا جب سر تم میں تبدیلی دیکھیں گے تو سراہے بنا نہیں رہ سکیں گے۔۔۔۔
پارسا نے شرارتی لہجے میں کہا۔۔۔
سوھنی نے آنکھیں بند کیں ایک ہی بار میں دھاگہ جب اس کی آئی برو پر چلا تو اس کی چیخ پورے سپا میں گونجی۔۔۔۔
سوھنی یار کیا ہے۔۔۔تھوڑی ہمت کرو۔۔۔اس نے کہا
پہلی بار ہے نا۔۔۔۔اس لیے۔۔۔ پارسا نے ہیلپرسے شرمندگی سے کہا۔۔۔۔
اب کی بار اس نے اپنے منہ پر دوپٹے رکھتے ہوئے اپنی چیخوں کا گلہ گھونٹ دیا۔۔۔۔
فارغ ہوتے ہی اس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔۔۔
یہ سب بہت مشکل ہے۔۔۔۔پارسا جی۔۔۔۔
سوھنی نے نم لہجے میں کہا۔۔۔۔
آپ کی سکن تو بہت فریش ہے آپ کو فیشل کی ضرورت نہیں۔۔۔
سکن پالش کردوں؟
بیوٹیشن نے پوچھا۔۔۔۔
کردے دیں کر دیں۔۔۔وہ بھی پھر اچھا سا تیار بھی کردیں۔۔۔۔
تیار ہونے سے پہلے ابھی جو ہم ڈریس لے کر آئے ہیں وہ چینج کر لینا۔۔۔۔پارسا بولی۔۔۔۔
******
سب لوگ تیار ہوئے پارٹی میں پہنچ چکے تھے۔۔۔
پارسا اور عمر نے اپنے اور صالح کے دوستوں کو بھی پارٹی میں انوائیٹ کر رکھا تھا۔۔۔۔
عمر نے صالح کو بھی فون کر کہ کہا کہ اس نے ایک خاص پارٹی دی ہے جس میں اسے ضرور آنا ہے۔۔۔۔
پارسا اور عمر نے عروج کو بھی پارٹی میں شرکت کی دعوت دی مگر اس نے لیٹ نائٹ کا کہہ کر معزرت کر لی کہ اسے ہاسٹل سے اتنی دیر باہر رہنے کی اجازت نہیں ملے گی۔۔۔۔
صالح نے گرے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔
جبکہ پارسا نے پلم کلر کی خوبصورت لانگ گھیردار فراک پہن رکھی تھی۔۔۔اسی کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ۔۔۔آج وہ معمول کے خلاف لڑکوں والی ڈریسنگ سے ہٹ کر فل لڑکیوں والی ڈریسنگ میں تھی۔۔۔۔
ہلکے پھلکے میک اپ کیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
سوھنی کی نظریں جسے ڈھونڈھ رہی تھیں وہ نجانے کہاں تھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد لائیٹس آف ہوئیں تو پارسا اور صالح پر سپاٹ لائٹ پڑی۔۔۔۔
صالح کچھ پل تو حیران ہوا۔۔۔
پھر سمجھ آتے ہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا پارسا کے قریب آیا۔۔۔۔
اور اس کے آگے اپنا ہاتھ پھیلایا۔۔۔۔
پارسا نے بھی دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔۔۔۔
میوزک کی دھن پر وہ دونوں ہلکے ہلکے سٹیپس لینے لگے۔۔۔
کچھ دیر بعد سپاٹ لائیٹس کا رخ تبدیل ہوا۔۔۔
اور روشنی سوھنی پر پڑنے لگی۔۔۔۔
سوھنی نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔
سامنے ہی وہ کھڑا اس کے آگے ہاتھ کیے ہوئے تھا۔۔۔
سوھنی نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھرا۔۔۔
مگر سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔
جان نے ایک لمحے کے لیے اپنی پلکیں جھپک کر جیسے اسے یقین دلایا۔۔۔۔
جیسے کہہ رہا ہو کہ میں ہوں نا۔۔۔۔
اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیکھ کر سوھنی کے دل میں تحفظ کا احساس جاگا۔۔۔۔
ایک ہاتھ اٹھا کر اپنے شانے پر رکھا پھر اس کی کمر کے گرد اپنی بازو کا حصار بنایا۔۔۔۔
میوزک کی دھن پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں سے محو تھے۔۔۔
دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کی دیوانگی کے سوا اور کچھ نا تھا۔۔۔
اس کا اس کے گرد آہنی دیوار باندھ رہا تھا۔۔۔
وہ اسے کیوں خود سے الگ ہونے نہیں دے رہا تھا۔۔۔
ڈی جے نے ایک دم میوزک بدلا۔۔۔
ایک عجب سا جادو فضا میں بکھرا۔۔۔
مدھم دھن نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔۔
آج اس کی سبز آنکھوں میں اسے صرف اپنا عکس دکھ رہا تھا۔۔۔
سوھنی کو اس وقت کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
جانے کیسے وہ جان کے ساتھ قدم سے قدم ملانے لگی اسے خود بھی کہاں ہوش تھا۔۔۔
وہ کسی گڑیا کی مانند ٹرانس کی کیفیت میں اس کے رحم و کرم پر تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد تالیوں کی گونج نے انہیں اس کیفیت سے آزاد کیا۔۔۔۔۔
صالح اور پارسا نے مل کر ویڈنگ اینورسری کا کیک کٹ کیا۔۔۔۔
سب نے انہیں گفٹس اور وشز دیں۔۔۔۔
پھر ڈنر سرو کیا گیا۔۔۔۔
آج کی یادگار پارٹی میں سب نے خوب انجوائے کیا۔۔۔۔
صالح ہوٹل سے نکلنے لگا تو مینیجر نے اسے جانے سے روکا۔۔۔
سر پلیز بل۔۔۔۔۔
صالح کی چہرے کی تو فختائیاں اڑیں۔۔۔۔
ہوٹل کا بل دیکھ کر۔۔۔۔۔
یہ ضرور عمر اور پارسا کا کام ہے۔۔۔اس نے دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے سوچا۔۔۔۔
انہیں اپنے کارڈ سے بل ہے کیا۔۔۔۔اور ان دونوں کے پیچھے بھاگا۔۔۔۔
*****
وہ دونوں ہال سے باہر نکلے تو ہلکی پھلکی پھوار پڑنے لگی۔۔۔۔۔
عالم نے اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھاتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔
گھر پہنچنے تک بارش زور پکڑ چکی تھی۔۔۔۔
سوھنی باہر نکلی تو ۔۔۔۔بولی۔۔۔
اپنی جیکٹ دے دیں میرے کپڑے گیلے ہو جائیں گے۔۔۔
عالم نے جیکٹ اتار کر اس کی طرف بڑھائی پھر خود بھی گاڑی کو لاک کیے باہر نکلا۔۔۔۔
سوھنی نے اپنے سر پر جیکٹ رکھ کر خود کو گیلا ہونے سے بچایا۔۔۔۔
آپ بھی آجائیں نہیں تو آپ بھی بھیگ جائیں گے۔۔۔
سوھنی نے اسے کہا۔۔۔۔
رہنے دو۔۔۔۔
آجائیں نا۔۔۔۔
اس سے جیکٹ دونوں کے گرد پھیلانے کی کوشش کی۔۔۔
دونوں کی نظریں پل بھر کے لیے ملیں۔۔۔۔
عالم نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اس کا چہرہ اپنے قریب کیا۔۔۔۔
دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کو چھو رہیں تھیں۔۔۔۔
سوھنی ساکت سی اسے تکے جا رہی تھی۔۔۔آخر کیا چاہتا تھا وہ۔۔۔
اس کے لب اپنے لبوں پر ہلکے سے مس ہوئے۔۔۔۔
سوھنی نے آنکھیں بند کیں۔۔۔۔
اسے اس کی گرم سانسوں سے اپنی سکن جھلستی ہوئی لگی۔۔۔
سوھنی کے تن بدن میں تو جیسے بھونچال آگیا ہو۔۔۔
وہ دھکا دیتے ہوئے اس سے پیچھے ہوئی۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟
وہی جو اس کے نیچے ہوتا ہے۔۔۔عالم نے اسے جیکٹ کا اشارہ کیا۔۔۔
مجھے کیا پتہ جیکٹ کے نیچے یہ سب ہوتا ہے۔۔۔سوھنی نے خفگی بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
جیکٹ نیچے گر چکی تھی اور وہ دونوں بارش میں پوری طرح بھیگ رہے تھے۔۔۔۔
سوھنی کے لبوں کے نیچے جو تل تھا اس پر بارش کا قطرہ ٹہرا تو عالم نے اسے اپنے لبوں سے دور کیا۔۔۔۔
دل پہلی بار دھڑکا اسے یوں گمان ہوا۔۔۔
ایسی دھڑکنوں کی آواز اس نے پہلے خود بھی کبھی نہیں سنی تھی۔۔۔۔
اس کا ارادہ وہاں سے بھاگ جانے کا تھا۔۔۔۔
مگر شاید وہ اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا۔۔۔
اس نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کرخود سے مزید قریب کیا۔۔۔۔
How Romantic....
پارسا کی آواز سن کر وہ دونوں بھی ٹیرس میں آئے۔۔۔۔
پتہ ہے سر میرا کرش ہیں۔۔۔۔اس نے پر مسرت لہجے میں کہا۔۔۔
عالم نے اس کی گردن سے چپکے ہوئے بال ہٹائے۔۔۔۔
عمر اور صالح نے پارسا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
This scenes are not allowed to girls....
صالح بولا۔۔۔
پارسا نے دونوں کے پیٹ میں کہنیاں ماری۔۔۔
وہ دونوں اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر درد سے بلبلا اٹھے۔۔۔۔
اچھا بھلا لائیو سین چل رہا تھا۔۔۔بے وقوفوں نے سارا مس کروا دیا۔۔۔۔
خود تو تم سے کچھ ہوتا نہیں ۔۔۔دیکھنے کچھ دیتے نہیں۔۔۔۔اس نے صالح پر چوٹ کی۔۔۔۔
ادھر آؤ ابھی تمہاری لائیو سین کی عکسبندی کرتا ہوں۔۔۔
صالح نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی جانب کھینچا۔۔۔
شرم کر جاؤ تم دونوں کوئی اور بھی موجود ہے یہاں کم از کم بندہ اس کا ہی خیال کر لیتا ہے۔۔۔۔
پارسا نے پھر سے نیچے دیکھا۔۔۔۔
اوئے بھاگو اپنے اپنے کمرے میں ہٹلر اندر آرہا ہے۔۔۔۔
اس کی بات پر تینوں نے دوڑ لگائی۔۔۔۔
عالم اسے بانہوں میں بھر کر اندر آرہا تھا۔۔۔۔۔
*****
وہ دونوں چینج کیے بستر پر دراز تھے۔کمرے میں گھمبیر خاموشی کا راج تھا۔
گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک کی آواز کمرے میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
پہلے بھی ایک رات ایسی بارش ہوئی تھی جو اس کی زندگی کی سب سے تاریک رات ثابت ہونے والی تھی۔۔۔
اور آج پھر ویسی ہی بارش تھی۔۔۔
اس رات کی تلخ یادیں ،وہ آج اپنے اندر موجود گھٹن کو باہر نکالنا چاہتی تھی۔کیونکہ اب اور برداشت کرنا اس کے بس سے باہر تھا۔۔۔۔
آنسو اس کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے اور کچھ تکیہ بھگونے لگے تھے۔۔۔
I am sorry.
عالم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے شرمندگی سے کہا۔۔۔
وہ کس بات کے لیے۔۔۔۔سوھنی نے دھیرے سے ہوچھا۔
مجھے پتہ ہی نا چلا میں کب بے اختیار ہو گیا۔۔۔۔
تم ناراض تو نہیں؟
میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔۔۔۔
اس نے اندھیرے میں ہی اپنے آنسو پونچھے تاکہ عالم کو پتہ نا چلے۔۔۔۔
مجھے بھی آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔وہ بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے مطمئن لہجے میں بولی۔۔۔۔
میں پہلے بالکل کبھی اس طرح کی نہیں تھی۔جیسے اب بن گئی ہوں۔۔۔۔
اپنی عزت کو بچانے کےلئے میں نے آپ سے سہارا مانگا۔۔۔۔
آپ نے اس وقت میری مدد کی جب میں بےیارو مددگار تھی۔۔۔۔
میں جیسے تن وتنہا لاچار زمین پر کھڑی تھی۔
آپ نے کسی مسیحا کی طرح مجھ پر سائبان کیا۔۔
آپ کے ساتھ حلال رشتے میں جڑتے ہی میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی۔۔۔۔
آپ کو خوش کرنے کے لیے اپنے غم بھلا کر۔۔۔۔۔
ابھی سوھنی نے اپنی بات مکمل نہیں کی کہ عالم بول اٹھا۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے تم ہنسنے لگی۔۔۔۔
مگر وہ شرارتیں وہ ہنسی کھوکھلی تھی۔۔۔۔
اس ہنسی میں بھی تمہارا غم میں محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔
عالم نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔
سوھنی کا ہاتھ جب اس کے ہاتھ میں آیا تو اسے ایسا لگا جیسے اس نے انگارہ چھو لیا ہو۔۔۔
اس نے پریشانی سے عالم کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔۔۔
جو بخار کی حدت سے تپ رہی تھی۔۔۔
شاید بارش میں بھیگنے سے اسے بخار ہو گیا تھا۔
سوھنی اس کی بات پر متفق تھی۔۔۔اور حیران بھی آخر کتنا گہرا مشاہدہ رکھتا ہے وہ اس کے بارے میں۔۔۔۔۔
وہ شاید بخار کی غنودگی میں تھا جو یوں اپنا حالِ دل بیان کر رہا تھا۔۔۔
ورنہ عالم ہوش میں تو اس سے کبھی اتنی بات نہیں کرتا تھا۔۔۔
مجھے تمہارے غم کا احساس ہے اپنوں سے دور اور غموں سے ستائی ہوئی تھی تم مجھے تمہیں پیار سے برتاؤ کرنا چاہیے تھا۔۔۔
مگر میں نے ہمیشہ تم سے روڈلی بات کی۔۔۔
مجھے ڈر تھا کہ تم کہیں میرے اتنا قریب نا آ جاؤ کہ تمہیں چھوڑنا میرے لیے ناممکن ہو جائے۔۔۔۔
میں نے تمہیں اپنے آپ سےدور رکھنے کے لیے خود کو خول میں بند کر لیا۔۔۔۔وہ ہولے ہولے بڑبڑانے لگا۔۔۔
آپ کو کوئی پریشانی ہے؟
سوھنی نے نرمی سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
اس نے گہری سانس لی ۔۔۔۔
اس نے رخ تبدیل کیا اور دوسری طرف چہرہ موڑے سونے لگا۔۔۔۔
ابھی سوئیے گا مت۔۔۔
وہ اٹھ کر باہر گئی۔اور فریج سے ٹھنڈا پانی اور پٹی ڈھونڈھ کر لائی۔۔۔
پھر بستر پر اس کے قریب بیٹھ کر ٹھنڈے پانی میں پٹیاں بھگو بھگو کر اس کے ماتھے پر رکھنے لگی۔۔۔
آپ ناراض ہیں میری کسی بھی بات سے ؟
"شوہر بغیر کسی وجہ کے بھی ناراض ہوجاۓ تب بھی بیوی کو چاہہۓ کہ اسے مناۓ"
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کے لیۓ شوہر جنت کا دروازہ ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جو عورت اس حال میں مری کہ اس نے فرائض کو پورا کیا یعنی فرض نمازیں پڑھیں،
پردے کا خیال رکھا، فرضوں کو پورا کیا اور اپنے مجازی خدا کو خوش رکھا، اسکے مرتے ہی اللہ تعالیٰ اسکے لیۓ جنت کا دروازہ کھول دیں گا۔
عالم غنودگی میں بھی اس کی بات سننے لگا۔۔۔۔
*****
عروج میں ہاسٹل کے باہر ہوں تم جلدی سے آجاو۔۔۔
سعد نے عروج کو فون پر کہا۔۔۔۔
سعد اسے استعمال کے لیے اپنا پرانا فون دے چکا تھا۔۔۔
اتنی رات گئے۔۔۔اب تو تھوڑی دیر بعد صبح ہونے والی ہے عروج نے فون پر ہی وقت دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا بات ہے ؟جو یوں اچانک بلا رہے ہو؟
اماں کا فون آیا تھا مجھے کہہ رہی تھی تمہیں اپنے ساتھ لیے صبح تک گاؤں پہنچ جاؤں انہوں نے تم سے کوئی ضروری پیپرز سائین کروانے ہیں۔۔۔سعد نے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے میں وارڈن سے بات کر کہ تھوڑی دیر میں آتی ہوں ۔۔۔۔
******
اور میں نے یہ بھی سنا ہےکہ شوہر عورت کے لیۓ جنت کا دروازہ ہے۔ شوہر کا خوش ہوجانا، دروازے کا کھل جانا ہے اور شوہر کا ناراض ہونا دروازے کا بند ہوجانا ہے اس لیۓ
حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی غیر اللہ کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے۔۔۔۔
"مگر میں اس قابل نہیں" عالم اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی ۔۔۔
آپ لیٹے رہیے۔۔۔پلیز سوھنی نے کہا
مجھ سے بھی ایک ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جو ناقابل معافی ہے۔۔۔۔اس نے اٹھنے کی کوشش ترک کیے آنکھیں موندے ندامت سے کہا۔۔۔
۔ اب اس میں یہ تو نہیں کہا کہ نیک خاوند کو سجدہ کریں اور اگر خاوند نیک نا ہو تو سجدہ نا کریں۔ نہیں شوہر کو سجدہ کرے۔ لہذا شوہر نیک ہو یا بد ہو، عورت کو چاہیۓ کہ اسکی عزت کرے۔
اس خدمت کے عوض اللہ تعالیٰ اسکو اپنا قرب عطا فرمایئے گا۔ اس لیۓ میں آپ کی خدمت کو اپنا اعزاز سمجھنے لگی۔ شوہر کو خوش رکھنا جنت کے دروازے کو کھولنا ہے اور شوہر کو ناراض کرنا جنت کے دروازے کو بند کرنا ہے۔آپ مجھ سے ناراض ہو کر میرے لیے اس دروازے کو بند کرنا چاہ رہے ہیں؟
آپ کو پتہ ہے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا عمل کیا ہے؟
عالم نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
اللہ پاک کے نزدیک سب سے برا عمل طلاق کا ہے۔۔۔۔
یہ لفظ سنتے ہی میری تو روح کانپ جاتی ہے۔۔۔۔
جو فعل اللہ تعالی کے نزدیک سب سے نا پسندیدہ ہو میں کیسے وہ کر سکتی ہوں۔۔۔
اس لیے میں نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔۔۔اس نکاح کے بعد ۔۔۔
آپ سے عقد میں آنے کے بعد ایک نئی سوھنی نے جنم لیا جو صرف اپنے مجازی خدا اور حقیقی خدا دونوں کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
اس رشتے کو بر قرار رکھنے کے لیےمیں نے خود کو کتنا بدل لیا آپ نہیں جانتے۔۔۔۔
میری اماں کہتی تھیں کہ ایک عورت کو گھر بنانے کے لیے خود کو بدلنا پڑتا ہے۔
میں نے بھی اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے جو بھی بن پڑا کیا۔۔۔آپ کے دل میں اپنا مقام بنانا چاہا۔۔۔
تاکہ تاعمر ہم اس رشتے سے جڑے رہیں۔۔۔
اگر آپ کو کوئی بھی دکھ تکلیف ،پریشانی ہے تو آپ مجھ سے شئیر کر سکتے ہیں ۔۔۔
یقین مانیں دکھ بانٹنے سے کم ہو جائے گا۔۔۔۔
عالم نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔
کہیں تم میرا گناہ جاننے کے بعد مجھے چھوڑ تو نہیں دو گی؟
عالم اس کا ہاتھ ہولے سے دبا کر پوچھا۔۔۔۔
آپ نے بنا سچ جانے میری پاکیزگی پر یقین کیا مجھے عزت دی مان بخشا۔۔۔۔
کیا میں اتنا بھی نہیں کر سکتی آپ کے لیے۔۔۔
بتائیں گے نہیں کیا بات ہے۔۔۔کیا آپ مجھے اس قابل نہیں سمجھتے؟
ایسی بات نہیں یہ بات آج پہلی بار میں تم سے کرنے لگا جو بات صرف میرے اور میرے اللّٰہ کے درمیان تھی۔۔۔۔۔
سوھنی پوری توجہ سے اس کی بات سننے لگی۔۔۔۔
آج سے سالوں پہلے۔۔۔۔۔اعیان کی والدہ جو میری سوتیلی ماں تھیں ،انہوں نے میری مما پر بہت ظلم کیے۔۔۔حتی کہ انہیں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔۔۔
میں نے خود ان کو میری مما کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔
جب یہ بات میں نے اپنی نانی اماں سے کی تو انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے اپنی مما کی موت کا بدلہ لینا ہوگا۔۔۔۔
بس ان کی بات ایسی میرے ذہن میں بیٹھی کہ میں صبح شام بس اپنی ماں کا بدلہ لینے کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔
ایک دن میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور مجھے موقع ملا تو میں نے سیڑھیوں پر تیل گرا دیا۔۔۔۔
وہ بابا کو دیکھنے خوشی سے تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آرہی تھی اس تیل کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور نیچے گر گئیں۔۔۔۔
بس کچھ دیر بعد جب وہ اس گھر میں مردہ واپس آئیں تو میرے دل کو قرار ملا میں نے اپنی ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیاہے۔۔۔۔
مگر جب کچھ دنوں بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ میں جو بھی کیا وہ سب غلط تھا۔۔۔
اگر وہ غلطی پر تھی تو میں نے بھی غلطی کی۔۔۔
میں کون ہوتا ہوں کسی سے بدلہ لینے والا اصل منصف تو وہ ہے بزرگ وبرتر۔۔۔۔
وہ خود ہی انصاف کرتا۔۔۔
اپنے گناہ کبیرہ پر میں پچھتانے لگا۔۔۔۔
پانچ وقت نماز قائم کی۔۔۔تب سے لے کر آج تک میں اس رحمان و رحیم سے اپنے گناہوں کے لیے بخشش کا طلب گار ہوں۔۔۔
اس نے نم لہجے میں کہا۔۔۔۔
بے شک آپ نے گناہ کیا۔۔۔مگر آپ نے سچے دل سے توبہ کی۔۔۔
اللہ پاک صدق دل سے کی گئی توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔۔۔
دیکھنا وہ آپ کو ضرور معاف کر دیں گے۔۔۔۔
عالم نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں کو مکمل طور پر موند لیا۔۔۔
غنودگی میں وہ بار بار اپنی ماں کو یاد کررہا تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ سو گیا اس کے بخار کی شدت اب کم ہو چکی تھی۔
مگر سوھنی جاگتی رہی اور بار بار اس کا بخار چیک کرتی رہی۔۔۔
فجر کی اذان سن کر اس نے عالم کو شانے سے ہلا کر کہا۔۔۔
اٹھ جائیں نماز کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔
عالم کو ابھی بھی جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
مگر وہ فرض نماز میں قطعاً کوتاہی نہیں برتی سکتا تھا اس لیے ہمت کر کہ اٹھا۔۔۔
وضو کرنے میں سوھنی نے اس کی مدد کروائی۔۔۔۔
عالم آگے کھڑا ہوا اور سوھنی اس کے پیچھے جائے نماز بچھا کر کھڑی ہوئی اور نماز ادا کی۔۔۔۔
دونوں نے ایک ہی وقت میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔اور اپنے رب سے بخشش کے لیے دعا کرنے لگے۔۔۔۔
اس کا دل خدا کےخوف سے سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔۔۔
آنکھوں سے ندامت کے آنسو لڑیوں کی صورت جاری ہوئے۔۔۔۔
یہ ندامت سے چور آنکھ سے ٹپکا آنسو تو ہمیں خدا سے قریب کرتا ہے اور ہماری مغفرت کا باعث بنتا ہے۔۔۔
اے میرے پروردگار میرے گناہوں کا معاف کردے۔۔۔
میں معافی کا طلب گار ہوں،آپ تو رحمان ورحیم ہیں اپنے محبوب حضور پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے مجھے معاف فرمادیں۔۔۔۔عالم نے دل میں دعا کی۔۔۔
سوھنی بھی اسی کے لیے دعا کر رہی تھی دونوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔۔۔۔
فارغ ہو کر جائے نماز تہہ کر کہ ایک طرف رکھ دی۔۔۔
آپ کو پتہ ہے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میری زندگی کا سب سے حسین بیتا ہوا پل کون سا تھا تو میں کیا کہوں گی۔؟
کون سا؟
جب آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔۔۔
اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔۔۔۔
آپ نے میری زندگی میں آکر اسے روشن کر دیا ہے۔۔۔
ہم دونوں ماضی کی تلخ یادوں کو مٹاکر نئی خوبصورت یادیں بنائے گے۔۔۔۔
سوھنی نے جذب سے کہا۔۔۔۔
عالم نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
سوھنی نے محسوس کر لیا کہ شاید وہ اس سے کی گئی باتیں بھول چکا ہے۔۔۔
اگر آپ میری حفاظت کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں تو میں بھی آپ کی اس بات کا پردہ ہمیشہ قائم رکھوں گی۔کبھی بھی نا آپ سے اور نا کسی سے بات کہوں گی۔کہ مجھے یہ بات پتہ تھی کیونکہ اگر شوہر بیوی کو عزت اور مقام دلاتا ہے تو ایک اچھی بیوی کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی بات کا پردہ رکھے اور سب کے سامنے اس کی عزت قائم رکھے۔۔۔
آپ بھی مجھے اپنا سمجھنے لگ گئے ہیں مگر زبان سے کہتے نہیں۔۔
اگر آپ مجھے اپنا نا سمجھتے تو وہ سب مجھے نا بتاتے۔۔۔۔سوھنی نے دل میں سوچا۔۔۔
*****
گاؤں کا ماحول بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
ہر طرف ہریالی ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے درخت اور کھیتوں میں کام کرتے ہوئے لوگ۔۔۔۔
وہی پرسکون ماحول ۔۔۔۔
کتنا اچھا لگ رہا ہے نا واپس گاؤں میں آکر سوھنی نے عالم کے شانے پرہاتھ رکھ کر خوشدلی سے کہا۔۔۔۔
ہاں اچھا لگ رہا ہے۔۔۔وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور سوھنی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
ان کی گاڑی ابھی گاؤں کی حدود میں داخل ہی ہوئی تھی کہ سامنے سے جیپ آتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔۔
بس چند ہی لمحوں میں وہ جیپ سفر طے کرتی ہوئی ان کی گاڑی کے بالکل سامنے آ رکی۔۔۔۔
اس میں سے اعیان باہر نکلا۔۔۔۔۔
وہی اکڑ وہی غرور جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔۔۔۔
عالم بھی گاڑی روک کر باہر نکلا۔۔۔۔
اچھا تو تم اس ونی کو بھگا کر لے گئے تھے ۔۔۔
اس نے تنفر سے کہا۔۔۔۔
نکالو اسے باہر ۔۔۔۔۔
یہ میری ملکیت ہے۔۔۔۔
اعیان نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔
بکواس بند کرو اب یہ میری عزت ہے۔۔۔۔
اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے کی آنکھیں نکال دوں گا۔۔۔۔
سوھنی جو ان دونوں بھائیوں کو آمنے سامنے دیکھ کر پریشان تھی۔۔۔۔
اعیان کی بات پر فق نظروں سے کبھی اعیان کو دیکھتی تو کبھی عالم کو۔۔۔۔
اعیان ،عالم کی بات سن کر طیش میں آیا اور گن نکالی اوراس کے ٹریگر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
میں نے کہا اسے میرے حوالے کردو ورنہ۔۔۔۔اعیان نے قہر آلود آواز میں کہا۔۔۔۔
ورنہ کیا؟۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہی عالم نے سوھنی کو اپنی پشت کے پیچھے کیا۔۔۔
اس نے بھی اپنی گن نکالی۔۔۔۔
اب وہ دونوں ایک دوسرے پر گن تھامے بیچ سڑک میں کھڑے تھے۔۔۔۔
لگتا ہے تم ایسے نہیں ماننے والے۔۔۔۔
اعیان اپنے قدم وہیں روک لو ورنہ۔۔۔۔عالم بولا
اعیان مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔
دونوں ایک دوسرے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔۔۔۔
دونوں گنز سے فائر ہوا۔۔۔۔
درختوں کی شاخوں پر موجود پرندے اس آواز سے ڈرتے ، پھڑپھڑاتے ہوئے ادھر ادھر اڑنے لگے۔۔۔۔
وقت جیسے تھم سا گیا ہو۔۔۔۔
وہ دونوں زمین پر گرے۔۔۔۔۔
دونوں کی آنکھیں ساکت ،
اور وجود خون سے لت پت،
سوھنی ڈھیلے وجود سے انہیں دیکھتے ہوئے وہیں زمین پر گر گئی۔۔۔۔
*******
سورج کی تپش ہر چیز کو جھلسا رہی تھی۔۔۔
عالم کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کرسوھنی کو ایک لمحے کے لیے لگا کہ جیسے اس کے سر سے ایک بار سائباں چھن جائے گا ۔۔۔
وہ بت بنی ساکت سے تھی۔۔۔چند لمحوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے وہ اپنی کیفیت سے باہر آئی تو پاس پڑے عالم کے گال پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے تھپتھپاتے ہوئے ہوئے۔۔۔
کانپتے ہوئے لبوں سے بولی۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے آپ کو؟
آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔
آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔اس بار وہ زور سے چلائی۔۔
آپ مجھے ایسےاکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔۔۔۔وہ روتے چیختے ہوئے عالم کے بے ہوش وجود کو جھنجھوڑ رہی تھی۔۔۔
وہ دھاڑیں مارمار کر رونے لگی۔۔۔
میں کچھ نہیں ہونے دوں گی آپ کو۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
عالم کے سینے سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر وہ مدد کے لیے بھاگی۔۔۔۔۔
دور سے اسے گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی ۔۔۔۔سوھنی کو اس وقت اپنا کچھ ہوش نا تھا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر شانوں پر آچکا تھا۔۔۔
گاڑی اس کے قریب رکی تو اس میں شناسا چہروں کو دیکھ دل کو کچھ ڈھارس بندھی۔۔۔
عروج آپی ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔
مہربانی کر کہ ہماری مدد کریں۔۔۔۔
اس نے گاڑی کے شیشے میں سے جھانکتے ہوئے التجائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
سعد اور عروج گاڑی سے باہر نکلے اور سوھنی کے پیچھے وہاں تک آئے۔۔۔۔
یہ دیکھیں کیا ہو گیا ہے انہیں۔۔۔۔اس نے کرب زدہ آواز میں کہا۔۔۔
عالم کو زخمی دیکھ سعد اور عروج بھی گھبرا گئے۔۔۔۔
کس نے کیا یہ سب؟
سعد کے وجود میں عالم کو اس حال میں دیکھ کر غصے کی شدید لہر دوڑی۔۔۔
وہ۔۔۔وہ ادھر اعیان چودھری۔۔۔۔اس نے دوسری طرف اشارہ کیا جہاں کچھ دیر پہلے اعیان کا خون سے لت پت وجود پڑا تھا۔۔۔
مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں۔۔۔۔
سعد نے حیرانگی سے کہا۔۔۔۔
آپ پلیز انہیں ہسپتال لے چلیں۔۔۔۔سوھنی نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
*****
عالم کو ہسپتال پہنچا کر سعد اب عروج کے ساتھ حویلی پہنچ چکا تھا۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!
عروج نے گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے بیٹھی ہوئی اپنی اماں فائزہ اور درمکنون کو سلام کیا۔۔۔۔
وعلیکم السلام!
دونوں نے مشترکہ جواب دیا۔۔۔
جبکہ سعد ابھی تازہ ہوئے واقع کی وجہ سے خاموش تھا۔۔۔
حویلی میں موجود شہریار چوہدری کے علاوہ اس گھر کے کسی بھی مکین کو عالم کے زخمی ہونے سے کوئی بھی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔۔۔۔
عروج نے راستے میں ہی سعد سے کہا تھا کہ وہ حویلی میں کسی کو بھی سوھنی اور عالم کے بارے میں کچھ نا بتائے۔۔۔۔
سعد بھی اس کی بات سے متفق تھا۔۔۔وہ بھی ان فضول رسم و رواج کے خلاف تھا۔۔۔۔اور لڑائی جھگڑوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔۔۔۔
اس لیے اس نے بھی فی الحال خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
مگر دل ہی دل میں عالم کی حالت کو لے کر پریشان بھی تھا۔۔۔۔
ملازمہ پانی لائی ابھی وہ دونوں بیٹھے ہی تھے کہ فائزہ نے خلع کے پیپرز عروج کے سامنے رکھے۔۔۔۔اس پر تمہارے سائن چاہیے۔۔۔۔
عروج فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔اس سے پہلے کہ عروج کچھ بولتی حویلی میں داخل ہوتا ان کا ہی ملازم ہاتھ میں کوئی لفافا تھامے ہوئےاندر کی طرف آرہا تھا۔
اس نے لاکر کاغذ سعد کو دئے۔۔۔
چھوٹے چوہدری یہ کاغذ عروج بی بی کے نام آئے ہیں۔۔۔۔
سعد نے فوراً سے بیشتر ایک طرف سے لفافا چاک کیا۔۔۔۔
اندر سے جو نکلا۔۔۔۔
اسے پڑھ کر وہ تاسف سے سر ہلاتا ہوا۔۔۔کاغذ عروج کی گود میں ڈال کر تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔۔
اس نے ہاتھ مار کر زور سے دروازہ کھولا تو وہ سامنے بستر پر نیم دراز تھی اپنی آنکھوں پر بازو رکھے۔۔۔۔
سعد اسے نظر انداز کرتے ہوئے کبرڈ سے اپنے کپڑے نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
نور نے سعد کو بازو کے نیچے سے چور نگاہوں سے کمرے میں آتے ہوئےدیکھا تھا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہوئے باہر آیا ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے ہی سر کے بالوں کو سیٹ کرنے لگا۔۔۔۔
جو اس کی پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔۔۔
سامنے ڈریسنگ پر پڑے ہوئے پرفیوم میں سے ایک اٹھا کر خود پر اچھے سے سپرے کیا۔۔۔۔
پورا کمرہ پھر سے اسی مخصوص مہک سے بھر گیا۔۔۔۔
جس سے نور کتنے ہی دنوں سے جان چھڑوانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
وہی خوشبو پھر سے اس کے حواسوں پر چھانے لگی۔۔۔۔
وہ اپنے کام میں مشغول رہا۔۔۔
اپنی کچھ کتابیں اور چیزیں وغیرہ نکال رہا تھا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
نور اس کی حرکت پر تلملا کر رہ گئی۔۔۔۔
اس کے کمرے سے جاتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔
ایسے کر رہا تھا جیسے کمرے میں اس کے سوا کوئی اور موجود ہی نہیں۔۔۔ہنہہ۔۔۔اس نے زور سے سر جھٹکا۔۔۔
سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔۔
نور کو سعد کا اگنور کرنا بری طرح ِکھل رہا تھا۔۔۔
عروج نے پیپرز کھول کر دیکھے تو وہ ساکت رہ گئی۔۔۔۔
طلاق کے پیپرز ہیں نا؟
درمکنون بولی۔۔۔۔
فائزہ نے درمکنون کی طرف شکی انداز میں دیکھا۔۔۔
کہیں تم نے تو اعیان کو نہیں بتایا کہ میں؟
فائزہ تلخ لہجے میں بولی۔۔۔
ہاں میں نے ہی اعیان سے بات کی تھی۔۔۔
اسی نے طلاق نامہ بھیجا ہو گا اس پر اس کے دستخط موجود ہوں گے۔۔۔۔
بس عروج کے چاہیے ۔۔۔۔درمکنون نے ایسے کہا جیسے یہ کوئی بہت عام سی بات ہو۔۔۔۔
میں نے جب اسے بتایا تھا کہ تم عروج کی خلع لینا چاہتی ہو تو اس نے کہا تھا کہ اسے بھی اس رشتے کو قائم رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔۔
شاید اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔۔۔۔
اس لیے اس نے اپنے آپ کو اس رشتے کے بوجھ سے آزاد کروا لیا۔۔۔درمکنون نے کہا۔۔۔۔
عروج کا سر تو سائیں سائیں کرنے لگا درمکنون کی بات سن کر۔۔۔۔
کیا بچپن میں بنائے گئے رشتے کا یہ انجام ہونا لکھا تھا۔۔۔۔
اسے اپنی بے وقعتی پر رونا آیا۔۔۔۔
مگر اس نے خود کو مضبوط بناتے ہوئے۔۔۔
فیصلہ لیا اور ان پیپرز پر سائن کر دئے۔۔۔۔جب اسے ہی اس کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ کب تک اکیلی اس رشتے کے بوجھ تلے دبی رہتی اور سسک سسک کر زندگی گزارتی۔۔۔
اس کی عمر پچپن اور ساٹھ سال کے درمیان تھی۔شاید،
سفید رنگ کے کلف لگے اکڑے ہوئے سوٹ میں شانوں پر جاگیردارانہ انداز میں کالی شال ڈالے ۔۔۔
پاؤں میں کھیڑی پہنے،اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے شاہانہ چال چلتے ہوئے حویلی میں آیا۔۔۔۔۔
وہ دروازے پر کھڑے ہوا تھا۔۔۔
درمکنون ،عروج ،سعد ،فائزہ سب اس وقت وہاں موجود تھے۔
شہریار چوہدری کو بھی ملازم ان کے کہنے پر کمرے سے باہر لے کر آیا تھا۔۔۔۔
جانے کیوں انہیں اپنے دل کو کچھ ہوتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا اس لیے وہ بھی کچھ دیر کے لیے کمرے سے باہر آئے تھے۔۔۔۔
سامنے موجود شخصیت کو دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔۔۔۔
سب کھلی آنکھوں سے بس اسے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔۔۔۔
جیسے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین کرنا نا ممکن لگا۔۔۔۔
سوائے ایک کہ۔۔۔۔جو تھی فائزہ ۔۔۔۔
وہ برسوں پہلے ہی اس بات سے آگاہ تھی کہ اس کے شوہر زندہ ہیں۔۔۔۔۔
برسوں پہلے جب شہریار اور دلاور کے بابا شجاعت چوہدری نے گدی نشین شہریار کو بنایا۔۔۔۔تب سے ہی وہ شہریار کو اس سیٹ سے ہٹانے کے لیے پلاننگ کرنے لگا۔۔۔۔
اور ایک رات اس نے فائزہ کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا کہ وہ ساتھ والے گاؤں میں ایک آدمی ہے جو اس کام میں ہماری مدد کرے گا۔۔۔
دلاور چوہدری نے اپنی جھوٹی موت کا ڈرامہ رچایا اور منظر سے غائب ہو گیا کسی اچھے وقت کے انتظار میں۔۔۔۔۔
بعد میں اس آدمی نے دلاور سے اس کام کی قیمت مانگی تو دلاور نے اس کام ہی تمام کر دیا۔۔۔۔اور وہ شخص تھا حیا کا بھائی۔۔۔۔ونی کا بھائی۔۔۔۔جس ونی نے شہریار چودھری کے دل پر راج کیا۔۔۔۔
اور اس کے خیال میں آج اچھا وقت آچکا تھا۔۔۔اسی لیے اس نے حویلی کا رخ کیا اور سب کے سامنے آنے کا فیصلہ لیا۔۔۔
فائزہ آگے بڑھ کر اس کے قریب آئی۔۔۔
اور مسکرا کر سلام کیا۔۔۔۔
آؤ بچوں ادھر اپنے بابا سے نہیں ملو گے؟
انہوں نے پلٹ کر سعد اور عروج سے کہا۔۔۔
جو ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھے۔۔۔۔
دلاور چوہدری خود ہی چلتے ہوئےان دونوں کے قریب آئے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
ان دونوں نے اپنے بابا کی حویلی میں لگی ان کی تصاویر دیکھ رکھی تھی ۔۔۔۔
جنہیں آج تک وہ مرا ہوا سمجھتے آئے تھے آج وہ زندہ سلامت ان کے سامنے موجود تھے۔۔۔۔
ان دونوں کو تو اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔
اپنے باپ کے مل جانے پر خوش ہونا چاہیے یا
اتنے سالوں سے ان کے چھپے رہنے پر ان کے سامنے نا آنے پر،ان کو اپنی شفقت سے محروم رکھنے پر شکوہ کرنا چاہیے۔۔۔۔
سعد خاموشی سے وہاں سے اٹھا اور بے تاثر چہرہ لیے حویلی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
عروج جو پہلے ہی اپنے تازہ ٹوٹے رشتے کو لے کر پریشان تھی۔۔۔
اٹھ کر اپنے بابا کے گلے لگی۔۔۔
اور زارو قطار رونے لگی۔۔۔اتنے سالوں بعد اپنے بابا کا لمس پاتے ہی وہ پر سکون ہوئی۔۔۔۔
آنسوؤں کے رستے اپنے درد کو بہانے لگی۔۔۔۔
دلاور چوہدری نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار دیا۔۔۔۔
آنسوؤں میں شدت آئی تو منہ دھونے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
در مکنون بھی فق نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
کیا ہوا بہنا ۔۔۔۔۔ملو گی نہیں؟
دلاور نے درِمکنون کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ اٹھ کر اس کے قریب آئی تو دلاور نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
درمکنون خاموش رہی۔۔۔۔پھر چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
دلاور مغرور انداز میں چلتے ہوئے شہریار چوہدری کے پاس آیا۔۔۔
پھر اس کی وہیل چیئر کے دونوں سائیڈ پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھکا۔۔۔۔
اور ان کے کان کے قریب سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔
تم تو اس قابل ہو نہیں کہ اس گاؤں کے سرپنچ کی گدی سمبھالو۔۔۔
اور تمہارے بیٹے کو میں نے اس قابل چھوڑا نہیں۔۔۔۔
اس نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے زور سے کہا۔۔۔۔۔
ہا۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔وہ اونچی آواز میں ہنسنے لگا۔۔۔۔
اب یہ حویلی یہ گدی یہ جاگیر صرف میری۔۔۔۔
صرف دلاور چوہدری کی۔۔۔۔
آپ مجھے تو بھول گئے۔۔۔۔۔فائزہ نے آگے آکر کہا۔۔۔
تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں ۔میری ملکہ۔۔۔۔
تمہاری وجہ سے ہی تو سب ممکن ہوا ہے۔۔۔۔
میں یہاں کا بادشاہ۔۔۔۔۔۔۔ اور تم ملکہ۔۔۔۔۔اس کےانداز میں مغروریت کی جھلک تھی۔۔۔۔
ت۔۔ت۔۔تم نے ۔۔۔۔ک ۔ک۔۔کیا کیا ہے میرے بیٹے کے ساتھ ؟
شہریار چودھری نے پوچھا۔۔۔۔۔
میں تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔۔۔۔۔
کہاں مر گئے ہیں اس گھر کے ملازم ؟
دلاور چوہدری نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔
ملازم کے آتے ہی بولا۔۔۔۔
کان کھول کر سنو ۔۔۔۔اب سے اس حویلی میں صرف میرا حکم چلے گا۔۔۔۔
آئی بات سمجھ میں؟؟؟
ملازم نے مودب انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
لے جاؤ اس بڈھے کو اندر۔۔۔۔۔
اور خبردار جو یہ آئندہ مجھے باہر نظر آیا۔۔۔۔
*****
پارسا ,صالح اور عمر بھی عالم کے بارے میں اطلاع ملتے ہی ہسپتال پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
سوھنی نے ہسپتال پہنچ کر عالم کے فون سے انہیں کال کر کہ اپنی مدد کے لیے بلایا تھا۔۔۔۔
میری اپنی اماں سے ملنے کی خواہش کو پورا کرنے کی اتنی بڑی سزا ملے گی آپ کو۔۔۔۔۔
پلیز اپنے آپ کو مجھ سے دور کر کہ مجھے یہ سزا نا دیں۔۔۔۔
آپ کو ٹھیک ہونا ہی ہوگا میرے لیے۔۔۔۔
اس کچھ ہوش نا تھا کہ وہ ہاسپٹل کب پہنچے۔۔۔
اور عالم کو کب آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔۔۔
وہ آپریشن تھیٹر کی جلتی ہوئی لائٹ کو یک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
ہوش تو تب آیا جب ایک نرس نے اس کے قریب آکر پوچھا۔۔۔۔
آپ پیشنٹ کی کیا لگتی ہیں ؟
میں ۔۔۔میں ان کی بیوی ہوں۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر ان پیپرز پر سائن کردیں تاکہ آپریشن شروع کیا جا ئے۔۔۔۔
سوھنی نے کانپتے ہاتھوں سے اس پر سائن کیے۔۔۔۔
ظہر کی آواز آئی تو وہ نرس سے بولی۔۔۔
نماز کہاں پڑھ سکتے ہیں ؟
نرس نے اس کی رہنمائی کی۔۔۔۔
اس نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔۔۔۔
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔تو گڑگڑا کر رونے لگی۔۔۔
اللہ پاک آپ تو دلوں کے حال خوب جانتے ہیں۔آپ کی رحمت کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔۔۔۔
میرے شوہر صحت والی زندگی عطا فرمائے۔۔
میری عمر بھی انہیں لگا دیں ۔۔۔
یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔
اگر انہیں کچھ ہوا تو میں خود کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔
وہ سجدے میں جا کر تہہ دل سے دعا کرنے لگی اس کی زندگی کے لیے۔۔۔۔
جانے کتنی دیر وہ اسی حالت میں رہی۔۔۔
کسی نے پیچھے سے آکر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
سوھنی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پارسا تھی۔۔۔
سوھنی کسی اپنے کا سہارا ملتے ہی ایک بار پھر سے ٹوٹی۔۔۔۔
اور رونے لگی۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوگا انہیں۔۔۔تم ہمت رکھو۔۔۔۔
پارسا نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھاعمر اور صالح بھی وہاں موجود تھے۔۔۔۔
کافی انتظار کے بعد آپریشن تھیٹر کی لائٹ بند ہوئی تو سوھنی بے چینے سے ڈاکٹرز کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
ڈاکٹر باہر آئے تو عمر اور صالح بھی ڈاکٹر کے قریب آئے وہ بھی عالم کی حالت کو لے کر پریشان تھے۔۔۔
سب ٹھیک ہے نا ڈاکٹر؟
عمر نے ہوچھا۔۔۔۔
سوھنی کا تو ہر عضو کان بن چکا تھا اس کے بارے میں سننے کے لیے۔۔۔
اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔
پریشانی والی کوئی بات نہیں۔۔۔
دراصل گولی ان کے سینے پر لگی تھی۔۔۔
ان کو کافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔۔۔
یہ معجزے والی بات ہے کہ ان کے سینے پر جو پیتل کا جوتعویذ تھا۔۔۔گولی پہلے اس پر لگی۔۔۔پھر اندر گئی۔۔۔
اگر گولی ڈائیریکٹ لگتی تو ان کے بچنے کے چانسز بہت کم تھے۔۔۔
گھاؤ زیادہ گہرا نہیں۔۔۔وہ جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گے۔۔۔
ڈاکٹر نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
سوھنی نے ہاتھ اٹھا کر کلمہء شکر ادا کیا۔۔۔۔
*****
اس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا تھا آنکھیں ہنوز بند تھیں۔۔۔۔
سوھنی نمازِ شکرانہ ادا کرنے کے بعد اندر آئی تو بنا آواز کیے دبے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔۔۔
اسے اس حالت میں دیکھتے ہوئے جانے کیسی بے چینی پھیلی تھی اس کے دل میں۔۔۔
ایسا احساس جسے وہ کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھی۔
بے اختیار ہی اس کے آنسو موتیوں کی لڑیوں کی مانند اس کی کانچ سی آنکھوں سے رواں ہوئے۔۔۔۔۔
عالم کے وجود میں ہلچل ہوئی۔۔۔اسے اپنے ہاتھ پر کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
اسے اپنے ہاتھ پر شفاف موتی نظر آئے۔۔۔۔
آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ سے سب دھندلا رہا تھا۔۔۔
سوھنی نے اپنے پلو سے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں۔۔۔۔
عالم کو کھلی آنکھوں سے خود کو تکتا ہوا پاکر اس نے آنکھیں بند کر کے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہیں؟ زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔۔۔؟
اس نے نرمی سے کہا۔۔۔۔
عالم خاموش رہا لیکن ایک بار اپنی گھنی سیاہ پلکوں کو جھپکایا۔۔۔۔
جو اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ اپنے ٹھیک ہونے کا اشارہ دے رہا ہے۔۔۔
سوھنی کا دل کیا ایک بار اس کی گھنی پلکوں کو چھو کر دیکھے۔۔۔۔
اس کا دل یکبارگی سے دھڑکا۔۔۔۔
مگر دل کی عجیب وغریب خواہش کو ڈپٹ کر سلاتے ہوئے بولی۔۔۔
آپ ٹھیک ہے تو پھر بول کیوں نہیں رہے۔۔۔۔مجھے آپ کی آواز سنی ہے۔۔۔۔اس نے ایک ہاتھ کی پوروں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
میں نے کب کہا تھا کہ مجھے اماں سے ملوانے لائیں؟
آپ کو خود ہی جانے کیا سوجھی۔۔۔جو بیمار ہونے کے باوجود بھی گاوں کے لیے چل پڑے۔۔۔
میں نے کہا بھی تھا کہ یہاں وہ ظالم انسان رہتا ہے۔۔۔مگر آپ نہیں مانے۔۔۔۔
عالم نے اپنے منہ سے ماسک اتارا۔۔۔۔
میں کسی ڈرتا نہیں۔۔۔۔سوائے اپنے رب کے۔۔۔
اس کے لہجے میں اب بھی درد کے اثرات تھے۔۔۔۔
مجھے یقین تھا کہ اگر اعیان مجھے سامنے دیکھے گا تو مجھے کچھ نہیں کہے گا۔۔۔کیونکہ وہ بھائی ہے میرا۔۔۔عالم نے مان بھرے لہجے میں کہا
جو خود اچھا ہو اسے باقی سب بھی اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔
آپ اگر خود اچھے ہیں تو آپ کو کیا لگتا ہے باقی سب بھی آپ کی طرح اچھے ہیں؟
آپ نے تو اسے بھائی سمجھا مگر اس وحشی درندے نے آپ پر گولی چلائی۔۔۔سوھنی نے تنفر سے کہا۔۔۔۔
ہہم۔۔۔اس نے مجھ پر بے شک فائر کیا مگر میں نے نہیں کیا۔۔۔عالم بولا۔۔۔
وہ تینوں اندر آئے عالم کو صحیح سلامت دیکھ کر ان بھی سانس بحال ہوئے۔۔۔
پھر کس نے کیا ہوگا؟؟؟؟؟
عمر نے اندر داخل ہوتے پوچھا۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔۔عالم نے کہا۔۔۔
ماحول میں چھائی افسردگی کو ختم کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔
اگر جون سر فائر کرتے تو ایک ہی فائر بنا چونکے اس کے دل پر لگتا اور وہ دوسرا سانس لینے کے قابل نا رہتا۔۔۔۔
کیونکہ عالم سر فائر شوٹنگ میں ایکسپرٹ ہیں ۔۔۔صالح نے کہا۔۔۔
ہم تینوں کے استاد بھی ہم نے بھی انہیں سے پرفیکٹ نشانہ لگانا سیکھا ہے۔۔۔پارسا بولی۔۔۔
مجھے بھی سیکھنا ہے۔۔۔سوھنی نے ان سب کی باتیں سن کر جوش سے کہا۔۔۔
سٹوڈنٹس سے سیکھ کر کیا کرنا ہے اب سارے کے سارے ماسڑ پر تمہارا حق ہے اپنے اُن سے سیکھنا۔۔۔پارسا نے
سوھنی کے کان کے قریب آتے ہی آہستہ آواز میں شرارت سے کہا۔۔۔
سوھنی نظریں جھکا کر مسکرانے لگی۔۔۔
کچھ یاد آتے ہی سر اٹھا کر دیکھا اور بولی۔۔۔
آپ سب کیا کام کرتے ہیں؟
جو آپ کو یہ سب سیکھنا پڑ گیا؟
کہیں آپ لوگ کوئی چور ،ڈکیت یا دہشت گرد تو نہیں۔۔۔
نہیں۔۔۔صالح۔۔۔۔اس سے پہلے کہ صالح اسے کچھ بتاتا۔۔۔
عالم نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
سوھنی نے عالم کو گھورتے ہوئے دیکھ لیا۔۔۔۔
بتائیں نا بھائی۔۔۔اس نے صالح کو دیکھ کر اصرار کیا۔۔۔
صالح تم اور پارسا اس کے ساتھ جاؤ اور اسے اس کی اماں اور بھائی سے ملوا لاؤ۔۔۔۔
عالم نے بات بدل کر کہا۔۔۔۔
ابھی میں تمہارے ساتھ جانہیں سکتا۔۔۔ورنہ ضرور جاتا۔۔۔۔
عالم کا فون رنگ کرنے لگا۔۔۔۔
عمر نے آگے بڑھ کر اس کا فون اٹھا کر اس کے کان سے لگایا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!
دوسری طرف سے سلامتی کے بعد جانے کیا کہا گیا۔۔۔
عالم نے اس کے جواب میں کہا۔۔۔
یس چیف !
کل شام تک میں پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔
فون آف ہوا تو عالم نے صالح عمر اور پارسا کو آنکھوں میں ہی کوئی اشارہ دیا۔۔۔
سوھنی کو اس کے خفیہ اشارے کی کچھ سمجھ نا آئی۔۔۔۔
تم لوگ جاؤ اور جلدی آنا۔۔۔آج رات ہی ہمیں واپس جانا ہے۔۔۔عمر تم ہاسپٹل سے میری چھٹی کی بات کرو۔۔۔
مگر آپ اس حالت میں کیسے سفر کریں گے۔؟
سوھنی نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم جاؤ مل آؤ ۔۔۔یہ کہہ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔۔۔
سوھنی آہستگی سے قدم اٹھاتی ہوئی ان دونوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔
عالم کو اکیلا چھوڑ کر جانے کا بھی دل نہیں تھا ۔۔۔مگر اپنی اماں اور بھائی سے ملنے کا دل بھی تھا۔۔۔اس وقت وہ عجیب کشمکش میں گرفتار تھی۔۔۔
*****
سعد عالم سے ملنے اسے دیکھنے ہسپتال آیا۔۔۔
اس وقت وہ اکیلا ہی روم میں موجود تھا۔۔۔
کیسے ہیں آپ ؟سعد نے اس کے قریب آتے ہی پوچھا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔تمہیں کیسے پتہ چلا میں یہاں ہوں؟ عالم نے سوال کیا۔۔۔۔
میں اور عروج ہی آپ کو زخمی حالت میں یہاں لے کر آئے تھے۔۔۔۔
حویلی میں پتہ ہے سب کو ؟
نہیں میں نے کسی کو نہیں بتایا۔۔۔
اچھا کیا۔۔۔اب بتانا بھی مت خاص کر بابا کو۔۔۔ان کی پہلے ہی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی مزید پریشان ہو جائیں گے۔۔۔
عالم نے فکر سے کہا۔۔۔
اعیان کیسا ہے؟
چاہے اس نے اس کے ساتھ جو بھی کیا ہو۔۔۔وہ چاہ کر بھی اس کے لیے اپنے دل میں نفرت نہیں پال سکتا تھا۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔میں نےصبح سے انہیں نہیں دیکھا۔۔۔
اسے بھی بُلٹ لگی تھی۔عالم نے بتایا۔۔۔
پھر کہاں گئے وہ؟
سعد نے حیرانی سے کہا۔۔۔۔
کل تک دیکھو کچھ پتہ چلتا ہے اس کا تو ٹھیک ہے ورنہ پولیس میں رپورٹ درج کروا دینا۔۔۔۔عالم نے کہا۔۔۔
میرے پیپرز سٹارٹ ہو رہے ہیں مجھے صبح ہی یہاں سے نکلنا ہے۔۔۔سعد نے کہا۔۔۔۔
میں کسی سے کہہ دوں گا۔۔۔۔اعیان بھائی کو ڈھونڈنے کا۔۔۔۔
ایک بات کہوں۔۔۔سعد بولا۔۔۔
عالم اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
اعیان بھائی اپنی حدوں سے تجاوز کر چکے ہیں میں نے ان کو کئی بار مختلف لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔۔
آپ سمجھ رہے ہیں نا میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔
ہہم۔۔۔اس نے آہستگی سے کہا۔۔۔۔
سعد !
میں کافی مصروف رہوں گا۔۔۔مجھے تمہاری فیور چاہیے۔۔۔عالم نے کہا۔۔۔
بتائے کیا بات ہے؟
تم میرے پیچھے سےبابا کا دھیان رکھنا۔۔۔
کوئی بھی بات ہو مجھے کال کر دینا۔۔۔میں فوراً پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔
آپ فکر نا کریں خود کا دھیان رکھیں۔پیپرز کے بعد جب تک میری جاب نہیں لگتی میں حویلی میں ہی رہوں گا۔۔۔آپ کو فون پر بتاتا رہوں گا۔۔۔۔
سعد نے عالم کے ہاتھ جس پر ڈرپ کی سوئی سفید ٹیپ سے لگی ہوئی تھی اس پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔۔۔۔
عمر ڈسچارج سلپ بنوا لایا تھا۔۔۔
کام ہو گیا۔۔۔اس نے اندر آتے ہی کہا۔۔۔
سامنے کسی انجان لڑکے کو دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کی۔۔۔
عالم کی طرف دیکھا جو اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کر چکا تھا۔۔۔
یہ میرا بھائی ہے ۔۔۔چچا زاد بھائی۔۔۔۔سعد
عالم نے عمر سے اس کا تعارف کروایا۔۔۔
اسلام وعلیکم !
عمر نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔
وعلیکم السلام ! سعد نے یہ کہتے ہی اس سے ہاتھ ملایا۔۔۔
Nice to meet you.
عمر نے کہا
Same here....
سعد بولا۔۔۔
چند ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سعد نے واپسی کی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔
*****
حویلی کے سب سے عالیشان اورپُرآسائش کمرے میں موجود وہی دو نفوس جو کبھی ہیولوں کی طرح ملتے تھے۔آج اس حویلی پر حاکم کی طرح قابض تھے۔۔۔
دلاور چوہدری شال اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے بستر پر نیم دراز ہوئے تو فائزہ بھی آکر اس کے قریب بیٹھی۔۔۔
بہت سال جدائی کا طوق گلے میں ڈالے گھومتے رہے۔۔۔
آج جا کر منزل ملی۔۔۔
فائزہ نے دلاور چوہدری سے کہا۔۔۔
دلاور نے اس کے شانے کے گرد بازو ڈالی اور خود سے قریب کیا۔۔۔
اب ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔۔
یہ سب کچھ ہمارا اور ہمارے بچوں کا ہے۔۔۔۔
اور جن کاغذات پر اعیان کے دستخط چاہیے وہ بھی چند دنوں میں اپنے نام کروا لوں گا۔۔۔۔
پھر شہریار اور اعیان کے نام بھی جو زمینیں ہیں وہ بھی اپنے نام کروا لوں گا۔۔۔۔
اعیان کہاں ہے؟فائزہ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
میرے قبضے میں ہے۔۔۔
پہلے بھی اس پر گولی چلا کر اس کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی مگر اس حرام خور کی قسمت اچھی تھی جوبچ گیا۔۔۔۔
اچھا کیا جو اس کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ ختم کر دیا میں بھی یہی چاہتا تھا۔۔۔۔
اس کی ساری حرکتوں پر نظر تھی میری وہ میری بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔
انہوں نے زہر خند لہجے میں کہا۔۔۔۔
اس بار میں نے اس پر اس طرح فائر کیاکہ بس زخمی ہو۔۔۔اسے مار دیتا تو پیپرز پر سائن کون کرتا؟
وہ استہزایہ انداز میں مسکرائے۔۔۔۔
*****
وہ ایک ٹوٹا پھوٹا سا پرانی طرز کا گھر تھا۔۔۔
جہاں روشنی نا ہونے کے برابر تھی۔
ہر طرف پرانی چیزیں بکھری ہوئی۔۔۔مٹی اور گرد سے اٹی پڑی تھیں۔۔۔
اس نے اپنے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔۔۔
اس کے زخم پر شاید بینڈیج کروا دی گئی تھی۔۔۔
مگر درد ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر جسم میں پھیلے درد کی وجہ سے اٹھنے سے قاصر رہا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد دروازے پر کھٹکا ہوا تو اس نے اسی طرف دیکھا۔۔۔
چند آدمی اندر آئے ہاتھوں میں کچھ پیپرز تھے۔۔۔۔
سائیں کا حکم ہے ان پر سائن کر دے۔۔۔ایک آدمی نے اعیان کے آگے پیپرز کیے۔۔۔۔
یہ کس چیز کے پیپرز ہیں؟
اور تم لوگ کون ہو؟
مجھے یہاں کون لایا؟
کیوں مجھے قید کر رکھا ہے؟
تم مجھے جانتے نہیں۔۔۔۔کون ہوں میں۔۔۔
اس آدمی نے اس کے زخم پر گن سے دباؤ ڈالا۔۔۔
تیرے سوالوں کے جواب دینے کے پابند نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔
چل جلدی سائن کر ان پر۔۔۔۔
میں کبھی بھی نہیں کروں گا،چاہے جو مرضی کر لو۔۔۔۔وہ زور سے چلایا۔۔۔
زخمی ہونے کے باوجود بھی اس کی اکڑ سلامت تھی۔۔۔۔
یہ ایسے نہیں مانے گا سائیں کا حکم تھا یہ ایسے نہیں مانا تو اس کے ساتھ دوسرا حربہ آزمایا جائے۔۔۔اس شخص نے دوسرے کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
*****
رات کے سائے چاروں طرف پھیل چکے تھے۔۔۔
وہ صالح نے سوھنی کے بتائے گئے ایڈریس کے مطابق گاڑی اس کے گھر سے تھوڑی دور روک دی۔۔۔
دو پولیس اہلکار باہر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔۔۔
ہمیں بنا ان کی نظروں میں آئے۔۔۔گھر میں داخل ہونا ہے صالح نے پارسا سے کہا۔۔۔
کیوں ڈرتے ہو ان سے۔۔۔؟
صالح نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں دیکھا۔۔۔
تمہیں ایسا لگتا ہے کیپٹن صالح ایسے للو پنجو سے ڈرے گا؟
ایسے ہزاروں کیپٹن صالح کی ایک ہاتھ کی مار ہے۔۔۔
تم اچھے سے واقف ہو اس بات سے۔۔۔۔
"لیکن جو کام خاموشی سے ہو جائے وہی بہتر ہے۔۔۔۔جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے"۔۔۔۔
ٹھیک ہے جیسا تم بہتر سمجھو۔۔
پارسا نے ہار مانتے ہوئے اسے کہا۔۔۔
گھر کی دیوار چھوٹی سی ہے تم اندر کودو ہوں پھر سوھنی آخر میں میں آتا ہوں۔
پارسا نے ایک ہی جست میں اندر چھلانگ لگائی۔۔۔
اب سوھنی کی باری تھی۔۔۔
اب آپ بھی اسی طرح اندر جائیں۔۔صالح نے سوھنی کو احتراماً مخاطب کیے ہوئے کہا آخر کار وہ اس کے باس کی بیوی کی حثیت رکھتی تھی ۔۔۔
مجھ سے ایسے نہیں ہو گا۔۔۔سوھنی نے کہا۔۔۔
میں آپ کو اوپر اٹھاتا ہوں آپ اندر چلی جائیں۔۔۔
نہیں مجھے ایسے نہیں جانا۔۔۔۔
صالح اس کی جھجھک سمجھ گیا۔۔۔
میں آپ کو اپنی بہن کی طرح سمجھتا ہوں آپ کی بات کا احترام کرتا ہوں اس نے ہلکی سی آواز میں کہا۔۔۔
میں اندر جاتا کر دروازہ کھولتا ہوں پھر آپ خاموشی سے بنا آواز کیے اندر آجائے گا ان دونوں آدمیوں کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔۔
سوھنی نے اس کی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
صالح اندر کودا ۔۔۔
لو تم آگئے۔۔۔سوھنی کدھر ہے ؟
پارسا نے صالح کو سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔
صالح نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روکا۔۔۔۔
پارسا نے اس کی انگلی پر دانتوں سے کاٹا۔۔۔
سسس۔۔۔۔۔صالح نے فورا اپنی انگلی ہٹائی۔۔۔
یہ کوئی وقت ہے رومینس کا؟
پارسا تلملائی۔۔۔
یہ تمہیں رومینس لگتا ہے؟
پاگل چپ رہنے کو کہہ رہا تھا۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ غصے سے دروازے کی طرف گیا اور بغیر آواز کیےچٹخنی ہٹائی۔۔۔
سوھنی اندر آئی۔۔۔۔تو صالح نے پھر سے دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔
ایسا کرو تم اندر جا کر اپنی اماں اور بھائی سے مل آؤ ہم یہیں دھیان رکھتے ہیں۔۔۔جلدی آنا۔۔۔پارسا نے کہا۔۔۔۔
سوھنی اندر بڑھ گئی۔۔۔۔
اب وہ دونوں اکیلے باہر صحن میں موجود تھے۔۔۔
وہاں ایک چارپائی نظر آئی تو پارسا جا کر اس پر لیٹی۔۔۔
توبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھک گئی میں توآج ۔۔۔۔
صالح بھی آکر اس کے ساتھ لیٹا۔۔۔
اے۔۔۔تم کس خوشی میں پھیل رہے ہو؟
کھا نہیں رہا تمہیں ساتھ ہی لیٹا ہوں اس نے منہ پھلا کر کہا۔۔۔
پارسا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔۔
اور اپنا سر اٹھایا۔۔۔۔
صالح نے اس کے سر کے نیچے اپنی بازو پھیلائی۔۔۔
وہ دونوں خاموشی سے آسمان کو تکنے لگے۔۔۔
کھلے آسمان کے نیچے لیٹ کر تاروں بھرا آسمان کا نظارہ کرنا کتنا خوبصورت لگتا ہے نا۔۔۔؟
پارسا نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
ہہم۔۔۔نظارہ تو بہت اچھا ہے۔۔۔صالح نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر جمائیں۔۔۔۔
صالح ادھر دھیان دو۔۔۔۔پارسا نے صالح کو تھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ سیدھا کیا۔۔۔
تم اپنی پسند کا نظارہ کرو مجھے اپنی پسند کا کرنے دو۔۔۔۔صالح نے شرارت سے کہا۔۔۔۔
صالح نا کرو نا۔۔۔اس نے گھبرا کر کہا۔۔۔
کچھ کرنے ہی کہاں دیتی ہو یار۔۔۔۔
اب بس بہت ہو گیا ۔۔۔یہاں سے جاتے ہی رخصتی ہو گی۔۔۔۔
تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟
پارسا نے حیرانی سے کہا۔۔۔
ایک سال سے بھی اوپر ہو گیا ہے ہمارے نکاح کو ابھی یہ جلدی ہے۔۔۔۔
چاند کی روشنی میں پارسا کا چہرہ اور بھی سحر کن لگ رہا تھا۔۔۔
صالح نے اس کے گال پر اپنے لب رکھے۔۔۔
صالح میں تمہارا منہ توڑ دوں گی۔۔۔اس نے غصے میں بھناتے ہوئے کہا۔۔۔
تمہیں توڑنے پھوڑنے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے یا نہیں۔۔۔؟
صالح نے اس پر چوٹ کی۔۔۔
ویسے تو دوسروں کو رومینس کرتے دیکھ کر آہیں بھرتی ہو میں کروں تو بھاگتی ہو....صالح نے جل کر کہا۔۔۔۔
پارسا اس کی بات پر مسکرا کر رہ گئی۔۔۔۔
سوھنی اندر داخل ہوئی تو علی اور اس کی اماں زاہدہ دونوں ایک ہی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔۔۔علی سو رہا تھا جبکہ وہ کھلی آنکھوں سے چھت کو تکتے ہوئے نجانے کن سوچوں میں گم تھیں۔۔۔
اماں۔۔۔۔۔سوھنی نے انہیں آواز دی۔۔۔
وہ جو اسی کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔۔۔
اسے اچانک سامنے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نا ہوا۔۔۔۔
انہیں لگا یہ ان کا وہم ہے۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
سوھنی بھاگتی ہوئی ان کے قریب آئی اور ان کے گلے لگی۔۔۔۔
میری پیاری اماں۔۔۔
انہیں جب لگا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے تو انہوں نے بھی اتنے عرصے بعد ملی بیٹی کو کسی قیمتی متاع کی طرح خود میں بھینچ لیا۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کے گلے لگی آنسو بہارہی تھیں۔۔۔
ان کی آواز پر علی نے بھی رگڑ رگڑ کر اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔
آپی۔۔۔۔
وہ بھی یہ کہتے ہوئے پر جوش انداز میں اس کے ساتھ لپٹا۔۔۔۔
آپ دونوں کیسے ہیں ؟
اماں زاہدہ نے اپنی آنکھیں صاف کیں پھر سوھنی کے آنسو اپنے جھریوں زدہ ہاتھوں سے صاف کیے۔۔۔۔
اسی ٹھیک آں۔۔۔تو سنا میری دھیے۔۔۔تو ٹھیک ایں؟
اماں تینوں معجزیاں تے یقین اے؟
اس کی اماں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا کہ وہ کیا بتانا چاہ رہی ہے۔۔۔۔
میرے نال وی معجزہ ہویا۔۔۔۔
ساڈے خدا نونہہ ساڈی کیہڑی گل پسند آئی کہ اوہنے مینوں اوس جہنم وچوں کڈھ دتا۔۔۔
اک فرشتہ صفت انسان نہونہہ اس دنیا وچ میری مدد لئی بھیجیا۔۔۔۔
(ہمارے پروردگار کو ہماری کونسی بات پسند آئی کہ اس نے مجھے اس جہنم سے نکال دیا اور ایک فرشتہ صفت انسان انہوں نے اس دنیا میں میری مدد کے لیے بھیجا)
اماں میرا نکاح ہو گیا اے۔ہہن میری عزت محفوظ اے۔
ان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔۔۔۔
سوھنی نے حویلی میں جو بھی اس پر بیتا اور پھر عالم سے شادی تک کی ساری روداد انہیں سنائی۔۔۔۔
عالم کے بارے میں سنتے ہی ان کے دل میں سکون اترا۔۔۔۔
اپنے مجازی خدا دا دھیان رکھیں۔۔۔
اماں ہن میں چلنی آں زندگی رہی تے فیر ملاں گے۔۔۔سوھنی نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
اس کی اماں نے جاتے وقت اسے ڈھیروں ڈھیر دعاؤں سے نوازا۔۔۔
پھر وہ علی اور اماں دونوں سے مل کر باہر آئی۔۔۔صالح اور پارس باہر کھڑے اسی کے انتظار میں تھے۔۔۔
پارسا نے چٹخنی کھول کر ایک آنکھ سے باہر دیکھا۔۔۔وہ دونوں سپاہی ابھی بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔۔۔
وہ تینوں دبے قدموں وہاں سے باہر نکل گئے۔۔۔۔
*****
سفید شرٹ براؤن پینٹ پہنے،سرخ آنکھیں اور چہرے پر پتھریلے برف جیسے تاثرات لئے وہ فون پر کسی سے بات کرتا ہواتھری سیٹر صوفے پر دراز ہوا۔۔۔۔
نور نے یوں ہی نگاہ دوڑائی تو سامنے وہ نظر آیا۔۔
دل کی لے بدلی تھی ۔۔
تو بالآخر وہ آگیا تھا۔۔
مگر اسکے چہرے کے تاثرات سے اسے ہیبت سی محسوس ہوئی ۔۔۔
تم واپس جا رہے ہو اس نے بالآخر ہمت کر کہ پوچھ ہی لیا۔۔۔
ہاں۔دھیمی آواز میں جواب دیا
آخر وہ شاہانہ چال چلتا ہوا اسکے سامنے آہی گیا ۔۔۔
آج خیر ہے جو مجھ ناچیز کو مخاطب کرنے کی کرم نوازیاں فرامائی جا رہیں ہیں؟
۔اس نے اپنی بات سے اسےسلگھایا ۔۔
وہ اپنے قدم اٹھاتا ہوا اس کے قریب آیا
وہ ایک لمحے کے لیے اسکے قریب آنےپر ہچکچائی تھی ۔
وہ جاکر واپس بستر پر بیٹھی۔۔۔پھر اسے دیکھا جو سگریٹ نکال رہا تھا۔۔
ساتھ میں ہی اس پر بھی غصیلی نظریں جمائے تھا ۔۔
وہ اسکی نظروں سے اسکے موڈ کی تلخی کا اندازہ کرسکتی تھی ۔۔
آج اتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔اس کے آنے پر خوب تیار ہوئی۔۔۔۔ ان شوخ رنگوں میں ۔۔پھر اسکی تیاری سب سونے پر سہاگہ تھا۔۔
مگر وہ تو اس پر ٹھیک سے نظر بھی ڈالنے کا خواہاں نہیں تھا۔۔۔
وہ بس اسکے ہاتھ کی موومنٹس سے لے کر اسکی ایک ایک ادا ملاحظہ کر رہا تھا مگر عجب غضبناک نظریں تھیں ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ سیگریٹ کو سلگھاتا وہ بولی
تم تو نہیں پیتے تھے ۔۔۔
اپنے کام سے کام رکھو ۔۔پہلے تو میں اور بھی بہت کچھ کرتا تھا مگر اب نہیں۔۔۔
اب میں سب کو ان کے حال پر چھوڑنے کا عہد کر لیا۔۔۔
مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔۔۔
میں خود کو کسی پر تھوپنا نہیں چاہتا کسی پر جان بوجھ کر مسلط نہیں ہونا چاہتا۔۔۔
جاہ رہا ہوں تم جیو اپنی مرضی سے۔۔۔
اتنا اکتایا اور سخت انداز ۔۔۔
نور کو تو اسکے اس انداز کی عادت نہ تھی ۔۔۔
۔۔۔وہ تو ہمیشہ اس کے آگے پیچھے گھومتا تھا۔۔۔
وہ صوفہ پر آدھا دراز لائٹر سے سگریٹ کو جلانےلگا تھا ۔۔۔
وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے ہاتھ سے سیگریٹ لے کر دور پھینکا۔۔۔۔
وہ جھجھکتی اپنے تئیں دلیری کا عظیم الشان مظاہرہ کرتی پھر اس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔۔۔
دماغ کہتا تھا کہ پل میں اسے جھٹک دے مگر یہ دل۔۔۔
سارا مسئلہ ہی تو اس کمبخت دل کا ہی تھا ۔۔
سعد کو شدید خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا مگر وہ خاموش رہا۔۔۔۔
سوری ۔۔
اسکے سینے پر انگلی پھیرتی دھیمے لہجے میں منمنائی تھی ۔۔۔
معاف کر دیں نہ مجھے۔۔۔۔
پلیز ناں۔۔
اسے خاموش دیکھ کر پھر سے التجا آئی ۔۔
فار واٹ؟؟؟۔۔
وہی ٹھٹھراتا لہجہ ۔۔۔
سب چیزوں کے لئے۔۔
وہ بولی تو پتہ نہیں سعد کو کیا ہوا کہ اس کی نظروں کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اگلے الفاظ اسکے لبوں پر ہی روک دئیے۔۔۔۔
کچھ لمحوں بعد اسے آزاد کرتے ہی بولا۔۔۔
بہت ظالم ہو تم۔۔۔۔اتنے دن دوری کی سزا دی۔۔۔۔
نور کو تو پلکیں اٹھانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔۔۔
وہ گھڑی پر وقت دیکھتا اٹھا۔۔۔
اسے نرمی سے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔
میرا انتظار کرنا۔۔۔۔کرو گی نا؟
نور نے بمشکل نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں ہمیشہ اپنے لیے جزبات کا سمندر موجزن نظر آتا اور وہ اسے ہمیشہ نظر انداز کرتی آئی تھی۔۔۔
جانے کیا ہوا تھا کہ دل بار بار اس کی جانب ہمک نے لگا تھا۔۔۔
کیا اس بار اسے سچی محبت ہو رہی تھی تو وہ پہلے کیا تھا؟
عالم کے لیے جو وہ محسوس کرتی تھی۔۔۔
شاید وہ عالم کی خوبصورتی سے متاثر تھی یا اپنے آئیڈیل کی اٹریکشن تھی۔۔۔
مگر جو اب ہو رہا تھا وہ دل کو بہت بھلا لگنے لگا تھا۔۔۔۔
تم نے بتایا نہیں کرو گی نا ؟
نور ایک بار پھر سے اس کے ساتھ لگی۔۔۔
اس کے جانے سے پہلے ایک پھر وہ اسے محسوس کرنا چاہتی تھی۔۔۔اسی خوشبو اسی لمس کو۔۔۔۔
سعد تو نور کے روئیے کو لے کر خوشی سے کسی دوسری دنیا کےسفر میں تھا
مجھے سوپ بنانا نہیں آتا کیا کروں؟؟؟؟
سوھنی پریشانی سے سوچتی ہوئی اکیلی کچن میں کھڑی بڑبڑا رہی تھی۔
کیا ہوا؟؟؟
پارسا جو کچن میں پانی پینے کے لیے آئی تھی اسے پریشان دیکھا تو پوچھ لیا۔۔۔
وہ ڈاکٹر نے کہا تھا انہیں سوپ یا لیکوڈ دینا ہے۔۔۔اب میں سوپ کیسے بناؤں وہ تو میں نے کبھی بنایا ہی نہیں۔۔۔۔
آپ میری مدد کر دیں۔۔۔۔
واہ ! بڑا بندہ چُنا ہے ۔۔۔۔کھانا بنانے میں ہیلپ کے لیے۔۔۔اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے تو خود چائے بنانا نہیں آتی تم سوپ کا پوچھ رہی ہو۔۔۔
اممممم۔۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔
آئیڈیا۔۔۔اس نے فون پر یو ٹیوب پر سوپ کی ریسیپی تلاش کی پھر موبائل اس کے سامنے رکھ دیا ۔۔۔۔
وہ سوپ بنا کر کمرے میں آئی عالم بستر پر دراز تھا۔۔۔
سوھنی نے اندر آکر سائیڈ ٹیبل پر سوپ کا باؤل رکھا۔۔۔
پھر اس کی کمر کے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا۔۔۔
سوپ کے باؤل میں سے چمچ بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
عالم چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔۔۔
سوھنی نے جب دیکھا کہ وہ شاید اس کے ہاتھ سے پینا نہیں چاہتاتو اس نے باؤل ایک طرف رکھ دیا۔۔۔۔
وہ خاموشی سے واپس باہر جانے لگی۔۔۔۔
واپس آو۔۔۔عالم کی آواز سن کر پیچھے مڑی۔۔۔
دوبارہ واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔۔۔۔
عالم نے باؤل اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا۔۔۔
وہ عالم کی سبز گہری آنکھوں میں جھانک کر اس بات کا اندازہ کرنے لگی کہ اب وہ آگے کیا چاہتا ہے؟
عالم نے دائیں ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام کر چمچ اٹھایا پھر اپنے منہ میں ڈالا۔۔۔
سوھنی کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھری۔۔۔۔
میرے کپڑے نکال دو۔۔۔مجھے جانا ہے ۔۔۔عالم نے پہلی بار خود سے اسے اپنا کوئی کام کہا تھا ورنہ وہ سوھنی کے خود سے اس کے کام کرنے پر چڑ جاتا تھا۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔
سوھنی نے ایک اور چمچ بھر کر اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔۔۔
اچھا بنا ہے۔۔۔اس نے پہلی بار تعریف بھی کی۔۔۔
سوھنی کے لیے تو آج کا دن ہی خوش قسمت ثابت ہوا ۔۔۔
مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔۔۔اس نے نظریں جھکائے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
ہممم۔۔۔۔
میں جب اماں کے گھر سے واپس آئی تھی تو اپنے ڈاکیومینٹس لے آئی تھی۔۔۔
مجھے آگے پڑھنا ہے۔۔۔کیا آپ مجھے اجازت دیں گے؟
اس نے ڈرتے ڈرتے آخر کار اپنے دل میں آئی بات کہہ دی۔۔۔
اس میں بھلا مجھے کیا اعتراض ہو گا۔۔بلکہ یہ تو اچھی بات ہے تم نے اپنے بارے میں سوچا۔۔۔
میں ایک دو دنوں میں کسی کالج میں تمہارا ایڈمیشن کروا دیتا ہوں۔۔۔
*****
وہ تینوں اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں موجودگھاس پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
عروج اب ہم کچھ دن ہی ہیں یہاں۔۔۔پارسا نے اسے بتانا ضروری سمجھا۔۔۔
کیا؟
اس نے حیرانی سے کہا۔۔
میں تو آپ دونوں کے علاوہ کسی اور کو جانتی بھی نہیں۔۔۔
میں کیسے اکیلی رہوں گی۔۔۔
ایسا کرو تم مجھے اپنا نمبر دے دو جب بھی ہماری ضرورت ہو ایک کال کر لینا میں آجاؤں گا؟
عمر نے کہا۔۔۔
پارسا نے عمر کو گھوری ڈالی۔۔۔
جواباً اس نے بھی پارسا کو کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورا۔۔۔
عروج نے اپنا نمبر اسے لکھوا دیا۔۔۔
پارسا گرمی نہیں محسوس ہو رہی جاؤ زرا کینٹین سے پانی ہی لادو۔۔۔
عمر نے پارسا کو منظر سے غائب کرنا چاہا۔۔۔
عروج کا دھیان پارسا کی طرف تھا۔
عمر نے ہاتھ جوڑ کر پارسا کو فی الحال وہاں سے جانے کے منت کی۔۔۔
وہ مسکراہٹ اچھالتی ہوئی کینٹین کی طرف چلی گئی۔۔۔
عروج مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
اس نے پوری توجہ عمر پر مرکوز کی۔۔۔
جی۔۔۔
دیکھو عروج میں ایک سٹریٹ فاروڈ بندہ ہوں لگی لپٹی بات کرنے کا قائل نہیں۔۔۔
لوگ کہتے ہیں پہلی نظر کی محبت کچھ نہیں۔۔۔
مگر میرا یہ ماننا ہے کہ تم پہلی نظر میں ہی میرے حواسوں پر چھا گئی تھی۔۔
میں نے کافی دیر اس بات پر یقین کرنے میں گزار دی۔۔۔
مگر اب اور نہیں۔۔۔
تم مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دے دو میں کچھ دنوں میں اپنے پیرنٹس کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔۔۔۔
وہ کس لیے؟ عروج نے کہا۔۔۔
اف۔۔۔تمہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ میں تم سے اظہار محبت کر رہا ہوں اور تم سے شادی کرنے کا خواہاں ہو۔۔۔
مگر مجھے شادی نہیں کرنی ۔۔۔آپ پلیز برا مت مانیے گا۔۔۔
میں آپ کی تذلیل نہیں کرنا چاہتی۔۔۔مگر آپ سے تو کیا میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔
اس انکارکوئی وجہ تو ہوگی؟
عمر نے استفسار کیا۔۔۔
مجھے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھ کر جانے لگی۔۔۔
عمر نے اس کی کلائی تھام کر اسے جانے سے روکا۔۔۔
Don't touch me....
اس نے کہتے ہی اپنی کلائی اس کی گرفت سے چھڑوائی۔۔۔
مرد بہت ظالم شے ہیں۔۔۔دوسری مل جائے تو پہلی کو بھول جاتے ہیں۔۔۔
یہ نہیں جانتے کہ ایک لڑکی جو اپنے خالص جزبات ان کے نام کرتی ہے ساری زندگی ان کے نام پر گزار دیتی ہے۔۔۔اس کا کیا بنے گا۔۔۔
وہ زرا بھی نہیں سوچتے ان سے اپنا رشتہ ختم کرتے وقت۔۔۔اس نے نم لہجے میں کہا۔۔۔
عروج کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر عمر کا دل بے قرار ہوا۔۔۔۔
عروج جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔۔ویسے سب مرد بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔۔
آپ کیا جانتے ہیں میرے بارے میں؟
ہاں۔۔۔۔
میں طلاق شدہ ہوں ۔۔۔اب بتائیے۔۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب جان کر مجھے کوئی فرق پڑے گا؟
یقین کرو مجھ پر میرے جذبات تمہارے لیے سچے ہیں۔۔۔اس نے اٹل لہجے میں کہتے ہوئے اسے یقین دلانا چاہا۔۔۔
اب کسی پر یقین کرنا ہی تو مشکل ہے۔۔۔وہ رندھی آواز میں کہتے ہی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔
عمر اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔۔۔۔
*****
جیسے ہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوئےہی تھے کے دروازے کے سامنے عمر کو چکر لگاتے پایا۔۔۔
وہ کڑے تیوروں سے انہیں ہی گھور رہا تھا۔۔۔
کہاں غائب تھے تم دونوں؟
کیا یار اب بندہ اپنی شادی کی تیاری بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔
تیری نہیں ہورہی تو تو کیوں جل رہا ہے؟صالح نے عمر سے کہا۔۔۔۔
فکر نا کر میری میں خود ہی اپنا معاملہ سلجھا لوں گا۔۔۔عمر نے اپنی شرٹ کے بازو فولڈ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
میری مدد چاہیے تو بتا دینا۔۔۔صالح بولا۔۔۔
اس کی ضرورت نہیں۔۔۔
تم بتاؤ تیاریاں کہاں تک پہنچیں؟
عمر نے پارسا سے پوچھا۔۔۔۔
اسی ویک اینڈ پر رخصتی ہے میرے بھائی ۔۔۔
ہم نے تو ویڈنگ ڈریسز لے لیے۔۔۔
بس سادگی سے رخصتی کا فریضہ انجام دیا جائے گا۔۔۔
ارے ایسے کیسے جان سر نے بھی خاموشی سے شادی کرلی ۔۔۔اب تم بھی ۔۔۔۔عمر بولا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے اپنے سارے ارمان تو اپنی شادی پر نکال لینا۔۔۔صالح نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔
کتنی بار کہوں اپنے ہاتھ کو کنڑول میں رکھا کر۔۔۔عمر نے صالح کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
میرے سارے بدلے میری بہن لے گی۔۔۔
کیوں بہنا؟؟؟
کوئی بہن وہن نہیں میں تمہاری کام کی بات کا وقت آیا تو مجھے دور بھگا رہے تھے۔۔۔
اب میں تمہاری بہن ہو گئی۔۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔تم تو غصہ ہی کھا گئی وہ دراصل مجھے اس وقت عروج سے ضروری بات کرنی تھی۔
زیادہ چالاکیاں نا لگاؤ میرے ساتھ مجھے سب پتہ ہے تمہیں کونسی اس سے ضروری بات کرنی تھی۔۔۔۔اس نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔۔۔
میری بہنا تم میرا ایک کام کردو پلیز۔۔۔
عمر نے پارسا کو منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
پارسا نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائیں۔۔۔۔
وہ ایڈریس۔۔۔۔۔
پارسا کا اس کی بات سن کر قہقہ چھوٹا۔۔۔
اب آئے نا لائن پے۔۔۔۔
*****
اسے ایک ہفتہ ہو چکا تھا کالج جاتے ہوئے۔۔۔
اس کی وہاں ایک دوست بھی بن چکی تھی عروسہ اور سوھنی دونوں کالج کے گیٹ کے باہر کھڑی تھیں۔۔۔
عروسہ تب تک وہاں کھڑی رہتی جب تک عالم سوھنی کو لینے کے لیے آنہیں جاتا۔۔۔
سوھنی کے جاتے ہی وہ لوکل بس پر اپنے گھر جاتی ایک دو بار سوھنی نے عروسہ کو لفٹ کی بھی آفر کی مگر عروسہ کا روٹ مختلف ہونے کی وجہ سے اس نے خود ہی اس کے ساتھ جانے سے منع کردیا۔۔۔
عالم کی گاڑی ان کے قریب رکی تو سوھنی سر پر دوپٹہ ٹھیک سے ٹکاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھی۔۔۔۔
گاڑی گھر کے راستے کی بجائے کسی اور طرف رواں دیکھی تو ۔۔۔سوھنی نے پوچھا۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
صالح اور پارسا کی شادی کے لیے گفٹ بھی لینا ہے اور تم اپنے لیے بھی کوئی ڈریس لے لینا۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ ایک مشہور شاپنگ مال پہنچ چکے تھے۔۔۔
جان ِعالم نے اسے ایک کی بجائے اس کی نانا کرنے کے باوجود جانےکتنے ہی ڈریس لے دیئے۔۔۔
بھر جیولری ، شوز ،پرفیومز۔کاسمیٹکس،سب کچھ خرید لیا۔۔۔
وہ دونوں چلتے ہوئے باہر پارکنگ کی طرف آرہے تھے۔۔۔کہ بازار میں فرش پر بیٹھی ہوئی
ایک قریباً دس بارہ سال کی لڑکی نے اسے آواز دی۔۔۔ اس کے پاس چوڑیوں کا بڑا سا ٹوکرا رکھا ہوا تھا۔۔۔۔
صاحب جی اپنی گھر والی کے لیے لے لو چوڑیاں۔۔۔
ہر رنگ کی ہیں۔۔۔آپ کی بیوی کے گورے ہاتھوں میں خوب جچیں گی۔۔۔
عالم نے سوھنی کی طرف دیکھا جس کی نظر ابھی بھی ٹوکری میں موجود سرخ رنگ کی کانچ کی چوڑیوں پر تھی۔۔۔۔
عالم نے والٹ کھول کر اس میں سے کچھ نوٹ نکالے جو شاید اس ٹوکرے کی چوگنی قیمت تھی۔۔۔۔۔
یہ لو۔۔۔اور یہ مجھے دے دو۔۔۔عالم نے اس سے چوڑیوں کا ٹوکرا لے لیا۔۔۔
صاحب جی اللہ آپ کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔
وہ اسے دعائیں دینے لگی۔۔۔
اتنی ساری کیوں لیں؟
سوھنی نے حیرت سے ٹوکرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عالم نے اس کی بات کا کوئی بھی جواب دئیے بغیر۔۔۔چلتا ہوا گاڑی کے قریب آیا اور اس ٹوکرے کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھا۔۔
خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔۔۔
سوھنی بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔
عالم نے اس ٹوکرے میں سے سرخ چوڑیاں نکالتے ہوئے اپنا رخ اس کی جانب موڑا۔۔
سوھنی کی کلائی میں نرمی سے چوڑیاں پہنانے لگا۔۔۔۔
اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ یہی بات اسے پاگل کیے دے رہی تھی۔۔۔۔
اسے تو کچھ ہوش نا تھا کب عالم نے اس کی خالی کلائی چوڑیوں سے بھر دی۔۔۔۔
وہ آنکھیں بند کیے بس یہی دعا کر رہی تھی کاش یہ پل یہیں رک جائے۔۔۔۔
ہوش تو تب آیا جب عالم نے اس کے ہاتھ کو اپنے چہرے کے قریب کیا۔۔۔
اور نرمی سے ان پر اپنے لب رکھے۔۔۔
سوھنی نے آنکھیں کھول کر یہ منظر دیکھا۔۔۔
مگر عالم کی طرف نظر پڑتے ہی آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔۔۔
جانِ عالم نے اپنے لبوں پر آتی مسکراہٹ دبا کر
گاڑی پھر سے سٹارٹ کی۔۔۔۔
*****
عمر کافی دیر سے صالح کو گائیڈ کر رہا تھا۔۔۔
اب بتا ٹھیک ہے؟
تو نے تو آج میرا دماغ خالی کر دینا ہے صالح۔۔۔
عمر نے بے زاری کر کہا۔۔۔
تجھے کہہ رہا ہوں کہ 90ڈگری پر کیمرہ سیٹ کر اور تجھے پتہ نہیں چل رہا کہ اس طرح کیمرے کو سیٹ کرنے سے مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔
ابے چل فون پر حکم چلا رہا ہے یہاں آکر لگاتا پھر پتہ چلتا تجھے۔۔۔
70ڈگری پر لگا رہا ہے کہ 90ڈگری ہر ۔۔۔
وہاں بیٹھ کر حکم چلانا بڑا آسان ہے۔۔۔۔
صالح نے غصے میں بھنا کر کہا۔۔۔
*****
آج وہ چاروں شہروز خان کے پرانے گھر پر آئے تھے انہیں خبر ملی تھی کہ اس گھر میں خفیہ جگہ ہے جہاں شہروز خان کے کالے دھندوں کے ثبوت موجود ہیں۔۔۔
چہروں پر سیاہ ماسک پہنے۔۔۔وہ بیک سائیڈ سے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔۔جہاں چند روز پہلے وہ کیمرے لگا گئے تھے اور ان لوگوں کی حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔
سب نے مائیکرو فون ڈیوائس لگا رکھی تھی تاکہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں۔۔۔۔
گھر خالی تھا۔۔۔نچلےپورشن کو سارا چھان مارا وہاں کچھ نہیں ملا۔۔۔
جان باہر لگے پائپ کے راستے اوپری منزل پر پہنچا۔۔۔۔
کمرے میں ایک بڑی سے سیف تھی۔۔۔
مگر اس تک پہنچناکافی مشکل کام تھا۔۔۔۔
لیزر شعائیں گزرتی ہوئی واضح ہو رہی تھیں۔۔۔
عمر سیکورٹی سسٹم کو ہیک کرو۔۔۔۔
عالم نے عمر کو حکم دیا۔۔۔۔
اوکے سر۔۔۔۔
عمر اس کام میں ماہر تھا۔۔۔۔
پارسا۔۔۔۔عالم کے پیچھے آئی۔۔۔اسے پتہ تھا آگے کا کام پارسا کرے گی۔۔۔۔
سر یو ہیو اونلی فائیو منٹس۔۔۔۔عمر نے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔
پارسا نے لاک اوپن کیا۔۔۔۔
جاؤ یہاں سے آگے کا کام میں خود کروں گا۔۔۔
مگر سر۔۔۔۔
I said leave....
عالم نے غصے سے پارسا کو وہاں سے واپس جانے کو کہا۔۔۔۔
وہ کسی کی بھی زندگی کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتا تھا۔۔۔
ہاں زندگی پر وہ خود حق رکھتا تھا۔۔۔
عالم نے اپنی پاکٹ میں سے ایک چپ نکالی اوروہاں موجود لیپ ٹاپ میں لگا دی۔۔۔۔
گلوز میں موجود انگلیاں تیزی سے کسی ماہر کی طرح لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر حرکت کر رہی تھیں۔۔۔
مطلوبہ فولڈر نظر آتے ہی اس نے بنا دیر کیے اسے اوپن کرنا چاہا تو اس پر پاسورڈ کے الفاظ ابھرے۔۔۔
اس نے بنا دیر کیے پاسورڈ انسرٹ کیا۔۔۔۔
40% 50% 60%
چند منٹوں میں سارا ڈیٹا اس کی چپ میں کاپی ہو چکا تھا۔۔۔
اس نے وہ چپ اپنی پاکٹ میں محفوظ کر لی۔۔۔
پھر جیسے ہی وہ آیا تھا ویسے ہی باہر نکلنے کو تھا کہ سکیورٹی سسٹم آن ہو چکا تھا۔۔۔
وہاں بجلی کی وائرز۔۔۔
عالم تیزی سے ان کو کراس کرنا چاہا۔۔۔۔
کہ بجلی کا شدید جھٹکا اس کے پورے وجود میں دوڑا۔۔۔
ایک بار تو اس کا خون منجمد ہو کر رہ گیا۔۔۔۔
اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہی باہر کی طرف کود گیا۔۔۔۔
عمر اور صالح نے اسے سہارا دے کر گاڑی تک پہنچایا۔
بجلی کا جھٹکا اتنا شدید تھا کے کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکے واضح ہونے لگے۔۔۔اور جسم بھی نیلا پڑنے لگا۔۔۔۔
مگر ہمیشہ کی طرح اس نے ہمت نا ہاری۔
صالح نے اس کے چہرے سے ماسک اتارا تاکہ وہ ٹھیک سے سانس لے سکے۔۔۔
بس یہی ان کی طرف سے بھی ایک غلطی ہوئی۔۔۔۔
یہ پاکستان آرمی کا ہیڈ کوارٹر تھا۔۔۔
وہ چاروں دروازے کے باہر موجود تھے۔۔۔
جان نے دستک دے کر اندر آنے کی اجازت چاہی۔۔۔۔
یس کم ان !
میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے ہیڈ آفیسر کو سیلوٹ کیا۔۔۔
جواب میں انہوں نے بھی اسی انداز میں سلیوٹ کیا۔۔۔
Have a seat please.....
انہوں نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس کیس کی سب سے مضبوط کڑی شہروز کی صورت میں ہمارے ہاتھ لگ چکی ہے۔۔۔
تو کیپٹن آپ کو اور آپ کی ٹیم کو نہایت ہوشیاری سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔
کل اس کے باقی اڈوں پر ریٹ کی جائے گی۔۔۔
دشمن تلملا کر کوئی غلط قدم ضرور اٹھائے گا۔۔۔
آپ کو اسے اسی کے جال میں الجھانا ہے۔۔۔
شہروز انڈر ورلڈ کے ڈان کا دائیاں ہاتھ ہے۔ایک بار اسے پکڑ لیا تو سمجھو اس ڈان کو پکڑنا بھی ہمارے لیے ناممکن نہیں رہے گا۔۔۔
سر آپ ہماری صلاحیت پر بھروسہ کرسکتے ہیں ہمیں خود پر اعتماد ہے ۔اپنے ملک کے دشمنوں کو ان کے انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔۔۔جانِ عالم نے پختہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
آپ کا اعتماد برحق ہے۔۔۔چیف اسد باجوہ بولے۔۔
*****
شہروز خان کتنی بار وہ ویڈیو چلا کر دیکھ چکا تھا۔۔۔
وہی لوگ تھے۔۔۔اسے یقین ہو چلا تھا۔۔۔۔
اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔۔۔
اب آئے گا مزہ ۔۔۔۔
سر یہ ایجنسیوں کے بندے ہیں یہ ایک بار کسی کے پیچھے پڑ جائیں تو ان کا نام ونشان دنیا سے مٹا کر ہی دم لیتے ہیں۔۔۔۔اس کے ایک خاص آدمی نے کہا۔۔۔
جانتا ہوں سب ۔۔۔یہ پہلی بار نہیں کہ مجھے تلاش کیا جا رہا ہے۔۔۔وہ لوگ مجھے آسان شکار سمجھ رہے ہیں لیکن ابھی وہ مجھے جانتے نہیں۔۔۔
سنا ہے ان فوجیوں کو ملک کی خاطر جان دینے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔۔۔
لگتا ہے ان سب کی موت تو میرے ہاتھوں لکھی ہے۔۔۔
ہا ۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔
وہ جنونی انداز میں ہنسنےلگا۔۔۔۔
یہی اس کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی جنہیں وہ عام فوجی سمجھا تھا ۔۔۔۔
اسے کیا پتہ کہ جنہیں وہ معمولی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔۔
وہ آئی ۔ایس۔آئی کے وہ جوان ہیں جن کے ساتھ پوری قوم کی دعائیں ہیں ان کے اپنی ملک سے محبت کے بے لوث جذبے ہیں۔۔۔
جس آئی۔ایس۔آئی کو ستر سالوں سے راء جیسی طاقتور ایجینساں کوئی نقصان نہیں پہنچا پائیں۔۔۔تو وہ کیا چیز تھا ان کے آگے۔۔۔۔
آئی ۔ایس۔آئی کے جوان دنیا میں اس طرح پھیلے ہوئے کہ کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ یہ کون ہیں۔۔
ان کا مقصد ہی خود کو صیغہ راز میں رکھ کر ملک وقوم کے دشمنوں پر نظر رکھنا اور ان کے برے ارادوں کو خاک میں ملانا ہوتا ہے۔
جنہوں نے اپنی زندگی سخت ٹریننگ میں گزاری ہو۔۔۔
بھاری بوٹوں میں پہاڑوں پر چڑھنا۔۔۔زخموں کی پرواہ کیے بنا اپنے ٹاسک کوکسی بھی قیمت پر پورا کرنا۔۔۔وہ ملک کے محافظ کبھی کمزور ہو ہی نہیں سکتے۔۔۔۔
وہ ایسے شیر تھے جو ملک کے دشمن کا سراغ ملتے ہی کے اڈوں میں گھس کر انہیں جہنم واصل کرنا اچھے سے جانتے تھے۔
******
سعد کے پیپرز ختم ہوئے تو وہ اپنے ساتھ عروج کو بھی چند دنوں کے لیے حویلی واپس لے آیا۔۔۔وہ دونوں آج ہی پہنچے تھے۔۔۔۔
بیٹھک میں کسی کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔۔
سعد اسی طرف گیا۔۔۔۔
بیٹھک میں اس کے والد دلاور اور فائزہ دونوں موجود تھے۔۔۔
ان کے علاوہ اس نے تین لوگ اور بھی تھے۔۔۔
ایک اور شناسا وجود کو دیکھ کر کچھ یاد آیا کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔۔۔۔
چند لمحوں میں ہی اسے یاد آگیا۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!اس نے سب کو مشترکہ سلام کی۔۔۔
اس سے ملیں یہ ہمارا بیٹا سعد دلاور۔۔۔۔
آج ہی پڑھائی ختم کیے شہر سے لوٹا ہے۔۔۔۔دلاور چوہدری نے اس کا تعارف بھی مہمانوں سے کروایا۔۔۔۔
کیا کرتا ہے آپ کا بیٹا؟؟؟دلاور چوہدری نے ان سے پوچھا۔۔۔
میرا کافی بڑا بزنس ہے۔۔۔اسے میرے بعد یہی سمبھالے گا۔۔۔
شہر میں زاتی کوٹھی اور اور دو فیکٹریاں بھی اسی کے نام ہیں۔۔۔۔
عمر نے انہیں اس کے اصل جاب کے بتانے پر منع کیا ہوا تھا۔۔۔اسی لیے انہوں نے ایسا کہا۔۔۔
آپ کیوں اتنے سوال جواب کر رہے ہیں بس ہاں کہہ دیں۔۔۔کہاں طلاق یافتہ لڑکی کو ایسا اچھا رشتہ ملتا ہے۔۔۔فائزہ نے دلاور کے کان کے پاس ہلکی سی آواز میں کہا۔۔۔۔
سعد بیٹا یہ عروج کے رشتے کے لیے آئے ہیں تم کیا کہتے ہو؟
انہوں نے اس سلسلے میں اس کی رائے لینا بھی مناسب سمجھی۔۔۔۔
عالم بھائی اتنے اچھے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ان کے دوست بھی اچھے ہی ہوں گے۔۔۔
اس نے دل میں سوچا۔۔۔
وہ اگر سب کو بتاتا کہ عمر عالم کا دوست ہے یہ بات اس کو کیسے پتہ چلی تو اسے عالم کے بارے میں انہیں بتانا پڑتا۔۔۔
مجھے تو کوئی مسلہ نہیں۔۔۔جیسے آپ سب کو مناسب لگے۔۔۔
سعد بولا۔۔۔
ہمیں یہ رشتہ منظور ہے اس سے پہلے کہ دلاور کوئی اور سوال پوچھ کر رشتے کو مزید لٹکاتے فائزہ نے حامی بھر دی۔۔۔
دلاور نے بھی اس کے فیصلے کا مان رکھا۔۔۔۔
میری طرف سے بھی ہاں ہے۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر اسی ہفتے سادگی سے نکاح کر لیتے ہیں۔۔۔عمر کی والد عنایا نے کہا۔۔۔
بہن جی اتنی جلدی بھی کیا ہے آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمائے ہوئے ہیں۔۔۔
ہم لڑکی والے ہیں سو تیاری کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔
فائزہ بولی۔۔۔
ہمیں عروج کے علاوہ اس گھر سے ایک تنکا بھی نہیں چاہیے۔۔۔
شکر الحمد اللہ ۔۔۔اس پاک ذات کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔۔۔
بس آپ ہماری بیٹی ہمارے حوالے کر دیں۔۔۔انہوں نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔
*****
سعد مہمانوں کے جانے کے بعد اپنےکمرے میں آیا۔۔۔۔
نور کہیں نہیں نظر آئی۔۔۔۔
پیپرز اور سفر کی تھکاوٹ سے وہ بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹا۔۔۔۔
پاؤں بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے۔۔۔۔
واش روم سے پانی گرنے کی آواز بند ہوئی تو کچھ دیر بعد نور باہر آئی۔۔۔
نور نے آج سعد کا فیورٹ کلر بلیو کلر کا پٹیالہ شلوار اور گول گھیرے والی شارٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔
جس پر بلیو اور یلو کلر کا ڈبل ڈائی دوپٹہ شانے کے ایک طرف بے نیازی سے دھرے ہوئے تھی۔۔۔
اپنے بال تولیے سے رگڑ کر خشک کیے۔۔۔
ان میں سے ابھی بھی پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے قریب آئی۔۔۔
کیسے ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اس کا حال پوچھ پاتی۔۔۔
سعد نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔
وہ سیدھا اس پر گری۔۔۔۔
حال بہت برا ہے۔۔۔اسے ٹھیک کرنے کے لیے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔
سعد نے اس کا دوپٹہ ایک طرف رکھا۔۔۔
وہ اس کے بالوں سے اٹھتی مہک میں کھونے لگا۔۔۔
نور نے اس کی خمار آلود آواز سن کر اپنی آنکھیں میچ لیں۔۔
پلیز سعد چھوڑو مجھے نیند آرہی ہے۔نور منمنائی۔۔۔
سعد نے غصے سے منہ پھلائے ہوئے اسے چھوڑا۔۔۔
جاؤ ساری نیندیں آج ہی پوری کر لو۔۔۔۔
خود سیدھا ہو کر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔
لائٹ بند کردو۔۔۔
اور کمفرٹر اوڑھے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔۔
نور اس کے ناراض ہو جانے پر ہونٹ دانتوں تلے چبانے لگی۔۔۔
*****
بھائی ابھی تک آئے نہیں تمہیں لینے۔۔۔عروسہ نے پریشانی سے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے اس کی گاڑی کو ڈھونڈنا چاہا۔۔
بس راستے میں ہی ہوں گے۔۔آجائیں گے تمہیں اگر دیر ہو رہی ہے تو تم چلی جاؤ سوھنی نے اسے کہا۔۔۔
نہیں کوئی بات میں تمہارے ساتھ ہی رکتی ہوں۔۔۔
ابھی وہ دونوں آپس میں باتیں ہی کر رہی تھیں کہ سوھنی کو اپنے بازو پر پر کچھ اتنا تیز چبھا کہ درد کے مارے اس کے منہ سے دردناک چیخ نکلی۔۔۔۔
عروسہ نے دیکھا اس بھدے سے آدمی نے سوھنی کی بازو پر انجکشن ایسے زور سے ٹھوکاجیسے کسی جانور کو بھی نا لگایا جائے۔۔۔
درد سے تڑپتی ہوئی وہ سیکنڈز میں ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہونے لگی عروسہ نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔
اور دوسرے آدمی پر غصیلی نگاہ ڈالی۔۔۔
اس آدمی نےسوھنی کو کلائی سے پکڑ کر کھینچا۔۔۔
اس کے ہاتھوں میں موجود سرخ چوڑیاں۔۔۔
ٹوٹتی ہوئی روڈ پر بکھریں۔۔۔۔۔
چھوڑ دو اسے ۔۔۔۔
عروسہ نے اسے روکنے کے لیے دہائی دی۔۔۔
مگر اس کے ساتھ دوسرے آدمی نے اسے دھکا دیا۔۔۔
وہ بھی لہراتی ہوئی دور گری۔۔۔۔
ان میں سے ایک آدمی نے سوھنی کو اٹھا کر روڈ میں کھڑی کالی مرسڈیز میں ڈالا۔۔۔سوھنی کا دوپٹہ بھی وہیں کہیں سڑک پر گرا۔۔۔۔
******
ہاں جی تو پھر بھتیجے آج مجھے تجھ سے ملنے خود آنا پڑا۔۔۔۔
اعیان کو لگا کہ اس شخص کو اس نے پہلے بھی کبھی دیکھا ہے۔۔۔
ذہن کے پردوں پر وہی شبیہہ لہرائی۔۔۔
ہاں گھر میں لگی چاچا کی تصویر اگر وہ ذندہ ہوتے تو اتنی ہی عمر کے ہوتے۔۔۔۔
اس نے خودی سے دل میں کہا۔۔۔
آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کیا؟
تمہارا ہی چچا ہوں دلاور چوہدری۔۔۔اس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے غرور سے کہا۔۔۔
تمہارے پیدا ہونے سے پہلے ہی میں نے حویلی سے غائب ہونے کا ڈرامہ رچایا تھا۔۔۔
اعیان کو کئی دنوں سے اپنے بدن پر خارش سی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
اب تو جسم پر کئی جگہ عجیب و غریب قسم کے دانے نکل آئے تھے۔۔۔۔
اس نے سوچا شاید گندگی میں رہنے سے اسے الرجک ہو گئی ہے۔۔۔۔
آپ نے مجھے یہاں قید کیوں کر رکھا ہے؟
نکالیں مجھے یہاں سے باہر۔۔۔۔اعیان نے تیز آواز میں کہا۔۔۔
آواز ہولی رکھ پتر۔۔۔۔
(آواز آہستہ رکھو بیٹا)
مجھے پسند نہیں کہ میرے سامنے کوئی بھی اونچی آواز میں بولے۔۔۔انہوں نے اسے سخت لہجے میں وارننگ دی۔۔۔
نکال دوں گا تجھے یہاں سے۔۔۔ ابھی اتنی جلدی بھی کیا ہے؟
انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی۔۔۔
پہلے ان پیپرز پر سائن کر اور وعدہ کر کہ گاؤں کے سرپنچ کی سیٹ سے تیرا کوئی واسطہ نہیں۔۔۔
میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔۔
اس نے واضح طور پر انکار کیا۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر سر یہیں۔۔۔یہ کہہ کر وہ باہر نکلنے لگے۔۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر میری بھی کچھ شرطیں ہیں۔۔۔
اعیان نے پیچھے سے آواز لگائی۔۔۔
انہوں پیچھے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔
جائیداد آدھی آدھی۔۔۔
سر پنچ کی گدی آپ کی۔۔۔بولو منظور ہے۔۔اعیان نے یہاں سے نکلنے کے لیےبیچ کا راستہ نکالا۔۔۔
وہ کچھ دیر سوچ میں پڑ گئے۔۔۔
تھوڑے توقف کے بعد بولے۔۔۔
منظور ہے۔۔۔۔
انہوں نے اعیان سے پیپرز پر سائن لینے کے بعد
اپنے آدمیوں کو حکم دیا اسے نکال دو باہر۔۔۔۔
*****
عالم جو اسے لینے کے لیے آیا تھا اسے عروسہ کے ساتھ نا پا کر اس کی طرف بڑھا جو بے آواز ہچکیوں سے رونے میں محو تھی۔۔۔۔
اس کی نظر روڈ پر پڑی جہاں سوھنی کی سرخ چوڑیاں بکھری ہوئی تھی۔۔۔
بھائی۔۔۔وہ۔۔۔ وہ لوگ سوھنی کو لے گئے۔۔۔۔اس نے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
وہ کالی گاڑی میں عالم کی نظر بلیک کلر کی مرسڈیز پر پڑی۔۔۔جو تیز رفتاری سے سڑک پر رواں ہوئی۔۔۔۔
چند پلوں کے لیے اسے اپنی رگوں میں خون منجمد ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
اگلے ہی پل وہ بنا اک لمحہ بھی ضائع کیے ہوئے گاڑی میں بیٹھا اور اس مرسڈیز کے پیچھے گاڑی دوڑا دی۔۔۔
اس وقت سڑک پر شدید رش تھا۔۔۔کیونکہ یہ سکولز اور کالجز کی چھٹی کا وقت تھا۔۔۔۔ ٹریفک جام ہونے کے برابر تھی۔۔۔
بلیک مرسڈیز بھی ٹریفک جام کی وجہ سے درمیان میں پھنس چکی تھی اور عالم کی گاڑی اس مرسڈیز سے ابھی بھی کافی فاصلے پر تھی۔۔۔۔
وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔۔۔
اب اس کے پاس بس ایک ہی راستہ بچا تھا۔۔۔
وہ روڈ پر موجود گاڑی کے بونٹ پر قدم رکھتا۔پھر اس کی چھت پر۔۔۔
پھر اسی طرح اگلی گاڑی پر۔۔۔
کئی گاڑیاں پھیلانگتا ہوا وہ چند منٹوں میں ہی اس مرسڈیز تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
شہروز خان کے بھاڑے کے غنڈے بھی عالم کو دیکھ کر ہاتھوں میں گنز لیے باہر نکلے۔۔۔۔
روڈ پر موجود ٹریفک پولیس کے وارڈن ان غنڈوں کی طرف لپکے۔۔۔
جبکہ عالم اس کا دروازہ کھولنا چاہا جو شاید اندر سے لاکڈ تھا۔۔۔۔
اس نے پوری قوت سے گاڑی کے سائیڈ والے شیشے پر پنچ مارا۔۔۔۔
چھناکے سے وہ ٹوٹ گیا۔۔۔۔
شہروز خان جو بے ہوش سوھنی کو اپنے ساتھ لگائے بیٹھا تھا۔۔۔۔
عالم نے سائیڈ لاک کھولتے ہی اسے شرٹ کے گریبان سے پکڑ کر باہر پٹخا۔۔۔۔
تیری اتنی ہمت کے میری بیوی کو ہاتھ لگائے۔۔۔۔
ایک ہاتھ اپنی بازو سے جھٹکا دیا کڑک کی آواز اس کے بازو سے آئی۔۔۔۔
دوسرے بازو پر اپنے بوٹ کی ایڑی سے اسے مسلے ہوئے تھا۔۔۔۔
یہی ہاتھ لگایا تھا نا تو نے۔۔۔۔
عالم اس وقت بالکل جنون میں آچکا تھا۔۔۔
اس کا بازو ڈھلک کر جیسے بے جان ہو کر نیچے گرا۔۔۔۔
چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔تم جانتے نہیں کون ہوں میں۔۔۔۔شہروز خان کی اتنی درد میں بھی اکڑ قائم تھی۔۔۔
عالم نے ایک زورا دار گھونسہ اس کے چہرے پر رسید کیا۔۔۔
اس کے ناک اور منہ سے خون کے فوارے چھوٹ گئے۔۔۔۔
پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ چکی تھی۔شاید ٹریفک پولیس کی اطلاع پر۔۔۔۔
دو پولیس اہلکار نے عالم کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر روکنا چاہا۔۔۔
مگر اس وقت عالم کسی کے قابو نہیں آرہا تھا۔۔۔
اس کے پیٹ پر لاتیں برسا رہا تھا۔۔۔جس سے وہ تڑپ رہا تھا۔۔۔۔
عالم نے اپنے دونوں بازوؤں کو جھٹکا دے کر خود کو ان اہلکاروں کی گرفت سے آزاد کروایا۔۔۔۔
لے جاؤ اسے یہاں سے۔۔۔۔
شہروز خان اس وقت ادھ مرا پڑا ہوا تھا۔۔۔
پولیس نے اسے اپنی کسٹڈی میں لے لیا۔۔۔۔
شہروز خان کےآگے کا انجام پولیس اور فوج مل کر کرے گی۔۔۔۔
عالم نے مرسڈیز میں دیکھا ڈرائیور اپنے مالک کی درگت بنتے ہوئے دیکھ کر گاڑی چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔۔۔۔
عالم نے سوھنی کے وجود کو بغیر دوپٹے کے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر سے اس شہروز خان کے لیے چنگاریاں سی بھی گئیں۔۔۔
"نیک، باپردہ ،پرییزگار بیوی آج صرف اس کی وجہ سے بے پردہ ہوئی"۔۔۔
اس کے وجود میں یہ بات سوچ کر ہی کپکپی سی دوڑ گئی۔۔۔
'عالم نے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اتاری '
اور اس سے سوھنی کے چہرے اور آدھے وجود کو ڈھانپ کر اپنی بازوؤں میں بھر روڈ سے گزرتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔۔
سڑک پر موجود ہر ذی روح اس لڑکی کی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔۔۔۔
جسے اتنا پیار اور عزت کرنے والا خوبرو شخص ملا تھا۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
بیڈ پر لیٹتے ہی پارسانے دل میں سوچا۔۔
مہندی والی مہندی پوری کر کے چلی گئیں تو پارسا نے ایک ہاتھ سے جسکی مہندی کافی سوکھ چکی تھی صالح کو کال کرنے لگی۔۔
دوسری بیل پر ہی فون اٹھا لیا گیا ۔۔ اسلام و علیکم !۔۔ پارسا نے دھیمی مسکراتی آواز میں سلام کیا ۔۔
وعلیکم السلام جانِ صالح کیا کر رہی ہیں آپ۔۔ صالح نے محبت سے جواب دیا تو پارسا کے چہرے پر بھی دلفریب مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔
کچھ نہیں مہندی لگوا کر بیٹھی ہوں تھک گئی بہت مگر مہندی بہت پیاری لگی ہے میری۔۔ پارسا نے بتاتے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ کی مہندی دیکھتے ہوئے کہا۔۔
کیا واقعی تو پھر رکو میں ویڈیو کال کرتا ہوں میں بھی تو دیکھوں زرا اپنی پری کے مہندی والے ہاتھ ۔۔ صالح نے پیار سے کہا تو پارسا نے اسے روک دیا۔۔ نہیں تم ویڈیو کال نہ کرنا اگر تم نے ابھی مہندی دیکھ لی تو اسکا رنگ پھیکا پڑجائے گا۔۔
میں نے تو سنا ہے شوہر جتنی محبت کرتا ہے اتنا ہی مہندی کا رنگ گہرا ہوتا ہے ۔۔ صالح نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
لیکن تم کل تک کا انتظار کرو ۔۔ اس نے ادا سے مسکرا کے کہا اور لائن کاٹ دی۔۔
موبائل رکھ کر اسنے آنکھیں موندی ہی تھی کہ پھر سے کال آنے لگی مگر اس بار پارسا نے کال نہیں اٹھائی جانتی تھی کس کی کال ہوگی ۔۔
تیسری بار کال آکر بھی بند ہوگئی اب کی بار میسج آیا تو پارسا نے موبائل پر میسج پڑھا ۔۔
پری ! کال نہ اٹھانے کا اور مہندی نہ دکھانے کا پورا پورا حساب کل لیا جائے گا تیار رہنا۔۔
پارسا نے گلابی گالوں کے ساتھ فون تکیے کے نیچے رکھ دیا
اور اپنی آنے والی زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖💖
شام ہونے کو آئی تھی،آج عمر اور صالح دونوں کی شادی ایک ہی دن ہونا قرار پائی تھی۔اس لیے دونوں ہی ایک دوسرے کی شادی میں شرکت نا کر سکے۔۔۔۔
عالم کو جب پتہ چلا کہ عمر کی شادی عروج سے ہو رہی ہے تو اس نے عمر سے معزرت کر لی۔وہ وہاں جا کر اپنی وجہ سے اس کی شادی میں کوئی بھی بدمزگی نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔
آج صالح اور پارسا کی شادی میں جانا تھا مگر ابھی تک سوھنی کو ہوش ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔
اس نے صالح سے بھی فون پر سوھنی کی حالت بتا کر معزرت کرلی۔۔۔۔۔
اب اسے سوھنی کے اٹھنے کا انتظار تھا۔۔۔۔
بستر پر دراز دنیاں جہان سے بیگانہ وہ نیند کی وادیوں میں پوری طرح گم تھی۔۔۔۔
گھنی پلکوں کی جھالر اس کی سرخ وسفید گالوں کو چھو رہی تھیں۔۔۔
لبوں کے نیچے تل اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔۔۔
جانے کیا کشش تھی۔۔۔وہ بے اختیار سا چلتا ہوا جانے کب اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔
بالوں کی چند آزاد لٹیں جو اس کے چہرے پر بے پرواہی سے بکھری پڑی تھیں انہیں کان کے پیچھے اڑسا۔۔۔۔
اگر آج تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں خود کو کبھی معاف نا کرپاتا۔۔۔
ان چند بیتے لمحوں نے اسے سوھنی سے محبت کا احساس کروادیا تھا۔۔۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کر اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو معتبر کیا۔۔۔۔
سوھنی کو اپنے چہرے پر جب کچھ نرم نرم سا احساس ہوا اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔
وہ اس کے اتنا قریب۔۔۔۔اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔
دل عجب لے پر دھڑکنے لگا۔۔۔۔
عالم نے جب اس کی کانچ کی مانند آنکھوں جھانکا۔۔۔
دونوں کی آنکھوں میں صرف ایک دوسرے کا عکس دکھا۔۔۔۔
جب سے تمہارا ساتھ مجھے میسر ہوا مجھے اس زندگی سے کوئی گلہ نہیں رہا۔۔۔
ابھی بھی عالم نے دونوں ہاتھوں سے اس کے چہرے کو نرمی سے تھاما ہوا تھا۔۔۔۔
"تم میری زندگی میں نویدِصبح ہو جس نے میری تاریک زندگی میں اجالا کر کہ انہیں محبت کے رنگوں سے بھر دیا"۔۔۔
مجھے زندگی کی اصل خوبصورتی سے روشناس کرایا۔۔۔۔
اس نے اپنی ستواں ناک کو اس کی ناک سے ہلکا سا چھو کر کہا۔۔۔۔
"میری زندگی کانٹوں سے بھری تھی بالکل خزاں جیسی، تمہاری راہ گزر نے اسے پھولوں سا مہکا دیا"۔۔۔۔
عالم کی سانسیں اسے اپنے چہرے پر طواف کرتی ہوئی بڑی بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔
"میں بھی ہمیشہ کے لیے صرف آپ کا ساتھ چاہنے لگی ہوں۔۔صرف آپ کو پانا چاہتی ہوں اس کے لیے چاہے مجھے خود کو کیوں نا کھونا پڑے"۔۔۔
اس نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
میں تمہیں کھونے نہیں دوں گا کبھی۔۔۔۔
"میں چاہتی ہوں آپ گزرے ہوئے برے پلوں کو ان درد ناک خوابوں کو بھلا کر صرف مجھے خواب میں دیکھیں"۔۔
سوھنی چھوٹی سے پیار بھری فرمائش کی۔۔۔
"میں بھی آپ کے درد کو اپنا مان کر آپ کے ساتھ رونا چاہتی ہوں آپ کے دل پر لگے زخموں پر میں مرحم بننا چاہتی ہوں"
۔اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے حال ِ دل بیان کیا۔۔۔
"مجھے بھی اپنی دل کی دھڑکن میں صرف تم سنائی دینے لگی ہو۔"۔
"یہ دل تمہارے نام کی مالا جپنے لگا ہے۔۔۔
"جانِ عالم کے دل پر جانے کب تمہارا راج ہوا "۔۔۔
یہ عشق کا روگ پتہ نہیں کب لگا ،مجھے خود بھی خبر نا ہوئی۔۔۔
عالم کی سبز آنکھیں اس وقت پور پور اس کے عشق میں ڈوبنے کی گواہی دے رہی تھیں۔۔
"اس دل نے اللّٰہ اور اس کے رسول کے بعد جس کی عبادت اور خواہش کی ہے وہ صرف آپ ہیں۔مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں خود کو کہیں کھو چکی ہوں میں آپ میں خود کو جینے لگی ہوں"۔
اس کی بھیگی ہوئی پلکوں میں اپنا عکس دیکھنا عالم کے لیےسب سے انمول منظر تھا۔۔۔
اس نے دھیمے سے اس کی کی بھیگی ہوئی پلکوں کو چھو لیا۔۔۔
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے آزاد کیا۔۔۔
"اس دل کے درمیان صرف تم ہو"۔۔۔۔۔
اس نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
"جاوداں ہے عشق تم سے
کبھی نا فنا ہونے والا"
میں اپنی ہر سانس کو تمہاری سانس میں شامل کر کہ اسے میری اور تمہاری سانسوں کی بجائے ہماری سانس کرنا چاہوں تو؟
My Soul !!!!!!!!
اس کی محبت سے چور نگاہوں کی تاب نا لاتے ہوئے۔۔۔سینےسے باہر نکلنے کے لیے مچلتے ہوئے دل کو قابو کیے۔۔۔وہ اس کی فرمائش پر پوری طرح لرز رہی تھی۔
شرم و جھجھک کے باعث گلابی گال سرخی مائل ہوئے۔۔۔
گھنی پلکوں کی جھالر کی لرزاہٹ سحر انگیز لگی۔۔۔
اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا۔۔۔
دونوں کی سانسیں یکجان ہوئیں۔۔۔۔
اس کی شدت برداشت کرنا سوھنی کے بس سے باہر تھا۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہے۔۔۔
اسے جب اپنی شدت کا احساس ہوا تو وہ اسے آزاد کرتے ہوئے اس کی پیشانی سے اپنا ماتھا ٹکا کر گہرے سانس لینے لگا۔۔۔۔
کیا تمہیں آخری دم تک میری ہمراہی قبول ہے؟
عالم نے اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلایا۔۔۔
سوھنی نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر آہستگی سے اپنا سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
عالم نے اسے پوری طرح اپنی آغوش میں چھپا لیا۔۔۔یوں ایک حسین رات ان کے درمیان ٹہری۔۔۔۔
💞💞💞💞💞💞💞💞
عروج کو جب اپنے طے کیے رشتے کا پتہ چلا تو اس نے خوب واویلا مچایا کہ اب اسے اس شادی جیسے بندھن میں بندھنا ہی نہیں۔۔۔
خوب رونا دھونا کیا۔۔۔
مگر کسی نے بھی اس کی ایک نا سنی۔۔۔
بالآخر نور نے آکر اسے سمجھایا۔۔۔
اگر زندگی تمہیں خود آگے بڑھنے کا ایک موقع دے رہی ہے تو اسے مت گنواؤ۔۔۔۔
ایک موقع دے کر تو دیکھو۔۔۔۔
سوچنے سمجھنے کے بعدعروج نے ایک اچھی بیٹی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے شادی کے لیے آخر کار حامی بھر لی۔۔۔۔
نور اور سعد عروج کے کمرے میں داخل ہوئے تو فائزہ نے محبت سے ان تینوں کو دیکھا دل ہی دل میں ان تینوں کی خوب بلائیں لی۔۔
عروج نے بھی اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھا تو دل ہی دل میں ان کی خوشیوں کیلئے ڈھیروں دعائیں کی۔۔
ماشاءاللہ عروج تم اتنی حسین لگ رہی ہو۔۔ نور نے عروج کو دیکھ کے محبت بھرے لہجے میں کہا۔۔
عروج نے آج اناری رنگ کا بھاری کامدار لہنگا زیب تن کر رکھا تھا۔۔اناری میک اپ اس کی کے حسن کو مزید دو آتشہ بنا رہا تھا۔۔۔۔
ایک بات کہوں گی سعدبھائی پلیز نور سے کبھی بے وفائی مت کیجے گا۔۔۔
تمہیں اپنا بھائی ایسا لگتا ہے؟
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں مجھے اپنے بھائی پر پورا بھروسہ ہے وہ کبھی بھی میرا مان نہیں توڑے گا۔۔
سعد نے پیار سے عروج کو گلے لگایا اور اسکے ماتھے پر پیار کیا ۔۔ ماشاءاللہ میری بہن اتنی پیاری لگ رہی ہے ۔بس اس کی خوشیوں کو کسی کی بھی نظر نا لگے۔۔۔۔
سعد نے اسکے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔
فائزہ اور درمکنون کی آنکھیں نم ہوگئیں بھائی بہن کو ساتھ لگے دیکھ کے۔۔
چلو تم دونوں عروج کو باہر لے کرآو سب انتظار میں ہیں۔
سعد اور نور اسے لئے چل دئیے۔۔۔ لان میں بنے اسٹیج تک جانے والے راستے پر عروج نے نور اور سعد کا ہاتھ تھام لیا اور ان کے ساتھ اسٹیج کی طرف جانے لگی۔۔
اسٹیج پر عمر آف وائٹ کلر کی شیروانی کے اوپر میرون رنگ کی شال کو مفلر کی طرح لئے کسی شہزادے کی طرح اپنی شہزادی کا انتظار کر رہا تھا۔۔
سعد اور نور عروج کو اسٹیج تک لے کر گئے پھر اسے عمر کے ساتھ ہی پھولوں سے سجائے گئے جھولے پر بٹھا دیا۔۔
پرنسس بہت حسین لگ رہی ہو۔
عروج کی طرف چہرا کئے عمر نے سرگوشی نما آواز میں بولا تو عروج کا جھکا سر شرم سے اور جھک گیا جسے دیکھ کے عمر کے چہرے پر بھی خوبصورت مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔
کچھ وقت کےبعد جوتا چھپائی کی رسم کا شور ہوا تو نور رسم کرنے لگی جوتے تو عمر نے بہت آرام سے اتار کر دے دئیے۔۔
چلو بھئی عمر بھائی نکالیں پیسےجلدی سے۔۔ نور نے عمر اور عروج کے سامنے ہی بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔
پیسے دینے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ میں اپنی دلہن کو بغیر جوتوں کے بھی لے جاؤنگا آپ لوگ جوتے ہی رکھ لیں۔۔
عمر نے بے نیازی سے کہا۔۔
نہیں ہم اپنی دلہن کو بغیر جوتوں والے دلہا کے ساتھ رخصت نہیں کریں گے۔۔ نور نے شرارت سے کہا۔۔
ٹھیک ہے بیٹھے رہیں پھر بغیر جوتوں کے جتنی دیر آپ لگاؤگے پیسے دینے میں اتنی ہی دیر سے رخصتی ہوگی۔نور مسکرا کر بولی۔۔۔
عمر کی مما نے ہزار ہزار کافی سارے نوٹ نور کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
اب خوش۔۔۔انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔۔۔
جی بالکل خوش۔۔۔
نور نے بھی مسکرا کر ایک لڑکی کو اشارہ کیا وہ جوتے لے کر آئی اور عمر کے سامنے رکھ دئیے۔۔
کچھ دیر بعد رخصتی کا شور اٹھا تو۔۔۔۔
سب کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ عروج کی رخصتی کا سلسل بالخیر انجام پاگیا۔۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
آج وہ خالصتاً مشرقی دلہن بنی ہوئی تھی سر جھکائے بیٹھی تھی کوئی کچھ کہتا تو صرف مسکرا کے جواب دیتی۔۔
اور کچھ فطری گھبراہٹ بھی تھی جو کہ اسے کچھ بولنے ہی نہ دے رہی تھی ویسے بھی اسکے بدلے کا صالح بول تو رہا تھا۔۔
صالح نے آج نیوی بلیو شیروانی پہن رکھی تھی ۔۔۔۔جبکہ پارسا نے لائٹ بلیو اور ڈارک بلیو کمبینیشن کی دیدہ زیب میکسی زیب تن کر رکھی تھی۔۔۔دونوں کے شاندار کپل کو سب نے سراہا۔۔۔۔
نکاح تو ان کا پہلے ہی ہو چکا تھا۔
رخصت ہو کر آج پارسا نے صالح کے گھر جانا تھا۔۔
رخصتی کے وقت پارسا سب کے گلے لگ کر خوب روئی اپنے ماں باپ سے الگ ہونے کا غم بھائی اور بہن سے جدا ہونا بہت مشکل تھا۔۔
بے شک وہ زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتی تھی مگر رخصتی ہمیشہ کی طرح ہر لڑکی کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہی ہوتا ہے۔۔۔جسے ہر حال میں سر کرنا ہی پڑتا ہے۔
رخصتی کے وقت اپنی عادتوں کے برعکس صالح ایک دم خاموش اور سنجیدہ تھا وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت پارسااور اسکے گھر والوں پر کیا گزر رہی تھی۔۔
سب سے مل کر آخر کار پارسا صالح کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے سفر کیلئے روانہ ہوگئی۔۔
💞💞💞💞💞💞
عمر کمرے میں داخل ہوا۔۔
پورے کمرے کو گلاب کے پھول اور لیلیز سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔
ہر طرف سینٹڈ کینڈلز تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جل رہی تھیں۔۔
بیڈ کے چاروں طرف سرخ رنگ کے نیٹ کے پردے تھے اور ان کے اوپر گلاب اور موتیے کے پھولوں کی لڑیاں تھی
عمرنے پھولوں کی لڑیوں سے پوراکمرہ سجوایا ہوا تھا۔۔
فرش پر بھی ہر جگہ پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔
پورا کمرہ ہی ایک خواب ناک منظر پیش کر رہا تھا
بیڈ کے درمیان میں عروج سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔
اسے دیکھ کر عمر کے لبوں پر تبسم بکھر گیا۔۔ اسلام و علیکم ۔۔ عمر نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے سلام کیا ۔۔
عروج نے بس سر ہلا کر جواب دیا۔۔
تم ٹھیک ہو میرا مطلب ہے کمفرٹیبل تو ہو نہ۔۔ عمر کو کچھ نہ سوجھا کہ کیا بات کرے تو یہی پوچھنے لگا۔۔
ہر وقت بولنے والا عمر بھی آج زرا خاموش تھا۔۔
پھر کچھ یاد آنے پر بیڈ سے اٹھا اور سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک مخملی کیس نکالا۔۔
پھر اپنا ہاتھ اسنے آگے بڑھایا عروج کا ہاتھ تھامنے کیلئے عروج نے جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ عمرکے ہاتھ میں دیا۔۔
عمر نے ڈائمنڈ کی خوبصورت سی رنگ عروج کی مخروطی انگلی میں پہنا کر اس پر اپنے لب رکھ دیئے۔۔
خوش ہو تم ۔۔ عمر نے عروج کی جھکی آنکھوں کو دیکھ کے کہا تو عروج نے سر اہستہ سے اثبات میں ہلا دیا۔۔
میں بھی بہت خوش ہوں یہ سوچ کر کہ جس سے محبت کی اسے ہی اپنا ہمسفر بنایا۔۔ میرا رب جانتا ہے عروج کہ میری زندگی میں تم ایک اہم مقام رکھتی ہو۔
میں نے کبھی بھی کسی غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا تمہیں۔۔۔
مگر جب مجھے پتہ چلا تھا کہ تم ہی وہی ہو جس کے ساتھ میں اپنی پوری زندگی گزار سکتا ہوں ۔تو میں نے تمہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لے پاکیزہ بندھن میں باندھ لینا چاہا۔۔
میں آج تم سے وعدہ کرتا ہوں عروج ہمیشہ تم سے ایسے ہی محبت کرونگا اور جتنی محبت کرونگا اتنی ہی تمہاری عزت کرونگا اور تم سے بھی یہی کہوں گا کہ ہمیشہ مجھ سے ایسے ہی محبت کرنا یہ رشتہ ہم دونوں کیلئے بہت اہم ہے اور سب سے بڑھ کر میرے لئے تم۔۔
سعد عروج کا ہاتھ تھامے بول رہا تھا اور عروج کسی سحر میں جکڑی ہوئی اسکی بات سن رہی تھی۔۔
وہ عمر جیسا ہمسفر پا کر خود کی قسمت پر رشک کرنے لگی۔۔۔
میں خواہ مخواہ ہی اپنی قسمت پر نالاں رہی۔ضروری نہیں جو ہم نے سوچا ہو وہی ٹھیک ہو۔۔۔کبھی کبھی خود کی قسمت کو اللّٰہ تعالیٰ کے حوالے کردینا چاہیے۔۔۔کیونکہ وہ ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہترین ہے۔اس نے دل میں سوچا۔۔۔اور گہری سانس لی۔
بولو دوگی میرا ساتھ چلو گی میرے ساتھ زندگی کے اس خوبصورت سفر پر۔۔
عمر نے محبت سے اسکا چہرا اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کرکے اسکی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔
تو عروج نے مسکرا کر ہاں کہا۔۔۔
قریبی مسجد میں فجر کی نمازادا کر کہ وہ گھر واپس آیا تو لان میں موجود سرخ گلابوں پر نظر پڑی جو ہلکی ہلکی ہوا سے لہرا کر اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کا باعث بن رہے تھے۔۔۔
جانِ عالم نے وہاں سے ادھ کھلی کلی توڑی مسکرا کر اور اندر آیا۔۔۔۔
سوھنی کچن میں موجود تھی وہ بھی نماز ادا کرنے کے بعد کچن کا رخ کیے عالم کے لیے ناشتے کی تیاری میں مشغول تھی۔
عالم دبے قدموں سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔۔۔
اور اس کی پشت سے ہاتھ گزار کر اسے اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔
سوھنی اچانک اس کے اسطرح کرنے سے ڈر کر پیچھے مڑی۔۔۔
میں ہوں........... My Soul
آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔
اس نے لمبی سانس لے کر خود کو پر سکون کیا۔۔۔
عالم نے اس کے نم بالوں میں کلی لگائی۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ۔۔۔۔
وہ کس بات کا۔۔۔۔ابھی بھی وہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی۔۔۔
میری زندگی کو مکمل اور خوبصورت بنانے کا۔۔۔
وہ اس کے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے ۔۔۔اس کے بالوں میں سے آتی سحر انگیز خوشبو کو اپنے اندر اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جسارت کرتا دروازے پر ہوتی بیل نے اس کا ارتکاز توڑا۔۔۔
یہ کون ہے اتنی صبح صبح؟اس نے سخت بیزاری سے کہا۔۔۔۔
سوھنی اس کے انداز پر کھکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔
جواباً وہ بھی مسکرا کر دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
دروازہ کھولا تو۔۔۔۔۔
صالح،پارسا،
گڈ مارننگ سر۔۔۔۔۔۔دونوں بیک وقت بولے۔۔۔
تم دونوں کو اپنے گھر میں سکون نہیں۔۔۔۔
شادی کی پہلی صبح بھی۔۔۔۔
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔
سکون تو ہمیں بھی نہیں۔۔۔۔
پیچھے سے عمر اور عروج بھی داخل ہوئے۔۔۔۔
عالم کا غصہ عروج کو سامنے دیکھ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔۔
اگر میری بہن ساتھ نا ہوتی تو پھر دیکھتا تمہیں۔۔۔عالم نے عمر سے کہا۔۔۔۔
اوہو سر اب بیوی کے سامنے تو کچھ لحاظ کر لیں۔۔۔
فرسٹ امپریشن میں ہی بے عزتی کر ڈالی۔۔۔عمر نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
عمر عروج کو رات ہی میں اپنی جاب اور عالم کے بارے میں بھی تفصیل بتا چکا تھا۔۔۔
اس لیے عروج مطمئن تھی۔۔۔۔
اس نے آگے بڑھ کر عالم کو سلام کیا۔۔۔
عالم نے بھی ایک بھائی کی طرح اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
ہمیں بھی پیار دے دیں۔۔۔۔
صالح نے سر آگے کیا۔۔۔۔
اب جان جی آپ سے اتنے بھی بڑے نہیں عمر میں بھائی ۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ عالم صالح کو کوئی جواب دیتا سوھنی
اس کی بات سن کر برا مناتے ہوئے پیچھے سے بولی۔۔۔
صالح خجل سا ہو کر بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔۔۔
عروج کو ایک تو وہ آواز کچھ جانی پہچانی لگی اور دوسرا عالم کے لیے جان جی کا لفظ اتنے پیار سے استعمال کیا گیا تھا کہ اس کا دل کیا اس ہستی کو دیکھنے کا۔۔
اس کی نظر عالم کے پیچھے کھڑی سوھنی پر پڑی۔۔۔
عروج کو سامنے دیکھ کر سوھنی نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
اور اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی۔۔۔۔
عروج کا بھی حال اس سے مختلف نا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں خوشی سے ایک دوسرے کے گلے لگیں۔۔۔
تم یہاں؟
عروج نے سوھنی سے پوچھا۔۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلا کر عالم کی طرف دیکھا۔۔۔
اب یہ تمہاری بھابھی ہے۔۔۔عالم نے عروج سے کہا۔۔۔۔
عروج نے سوھنی کو اس نئے رشتے پر پیار بھری نظروں سے دیکھا
آپ دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں پارسا بولی۔۔۔
جی ہم جانتے ہیں عروج بولی۔۔۔
واؤ پھر تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔ بہت مزہ آئے گا جب مل بیٹھیں گی دیوانیاں تین۔۔۔
پارسا نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے آنکھ بلنک کرتے ہوئےکہا۔۔۔
ہم تو مل کر ناشتہ کرنے آئے تھے۔سچی میں پیٹ میں چوہوں نے دھمال مچا رکھا ہے۔۔۔
پارسا نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر منہ بسورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جاؤ پھر سب مل کر ناشتے کا انتظام کرو۔۔۔صالح بولا۔۔۔۔
واہ جی ! یہ آپ سب کی پہلی شادی کی صبح ہے تو ہم لڑکیوں کی بھی شادی کی پہلی ہی صبح ہے ۔۔۔ہم میں سے کوئی کام نہیں کرے گا
سوھنی بھی نہیں۔۔۔۔ایسا کرو آج آپ تینوں اپنی اپنی مسسز کے لیے ناشتہ تیار کریں ۔۔۔
کہو گرلز کیسا لگا میرا آئیڈیا۔۔۔۔
پارسا نے عروج اور سوھنی کی طرف دیکھتے ہوئے تائید چاہی۔۔۔
میرے خیال میں آئیڈیا برا نہیں۔۔۔عروج نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔۔۔
ایسے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔لڑکیاں بیٹھیں اور لڑکے کام کریں۔۔۔آپ ہمارے مہمان ہیں میں ہی سب کے لیے ناشتہ بناتی ہوں سوھنی نے کہا
پھر وہ اٹھنے لگی تو ۔۔۔
ٹھیک ہے تم سب یہیں رکو۔ ہم سب ناشتہ بناتے ہیں۔۔۔
عالم بولا۔۔۔
سر یہ نا انصافی ہے۔۔۔عمر نے منہ پھلا کر کہا۔۔۔
چلو سیدھے ۔۔۔کچن میں راستہ یاد ہے یا دکھانا پڑے گا۔۔۔۔
عالم کے اٹل لہجے پر انہیں ناچار اپنی جگہ سے اٹھنا ہی پڑا۔۔۔۔
سوھنی آٹا گوندھ چکی تھی۔۔۔عمر نے آٹا دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔۔۔
ورنہ آٹا گوندھنا اس کے لیے دنیا کے مشکل ترین امر میں سے ایک تھا۔
صالح تم پراٹھے بناؤ۔۔۔عمر نے اس پر آرڈر جاری کیا۔۔۔
صالح اس کے حکم پر دانت پیستے ہوئے پراٹھے کے پیڑے بنانے لگا۔۔۔
سر پلیز آپ زرا پیاز کاٹ دیں آملیٹ کے لیے عمر نے ڈرتے ڈرتے پاس کھڑے ہوئے عالم سے کہا۔۔۔
عالم نے چھری اٹھا کر پیاز چھیلا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں میں سے پانی آنے لگا۔۔۔۔
کٹنگ بورڈ پر پیاز رکھ کر اسے کاٹنے ہی لگا تھا کہ آنکھوں میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پتہ ہی نہ چلا اور چھری سے دوسرے ہاتھ پر گہرا کٹ لگا۔۔۔
سوھنی جو بظاہر تو باہر بیٹھی ہوئی تھی مگر نظریں کام کرتے ہوئے عالم پر ہی تھیں۔۔۔
بھاگتی ہوئی کچن میں آئی ۔۔۔
فریج سے ٹھنڈا پانی نکال کر ایک باؤل میں ڈالا اور عالم کا ہاتھ پکڑ کر اس میں ڈبو دیا۔۔۔
جس میں سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔
میں نے کہا بھی تھا کہ میں کر لوں گی۔۔۔۔اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔
کچھ نہیں ہوا مجھے چھوٹا سا زخم ہے ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔تم تو بس ایسے ہی۔۔۔
عالم نے ایک ہاتھ کی پوروں سے اس کی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے۔۔۔
ہہہہہہم۔۔۔۔
پیچھے سے صالح نے کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔۔۔
تم دونوں اپنے کام پر توجہ دو ۔۔۔
اور تم دونوں کی سزا ہے کہ تم جو اپنا کام چھوڑ کر ہم پر توجہ دے رہے تھے۔۔۔
اب سارا ناشتہ تم دونوں ہی بناؤ گے۔۔۔
عالم ان دونوں کو کہتا ہوا سوھنی کے ساتھ کچن سے باہر نکل آیا۔۔۔۔
پیچھے وہ دونوں جلتے کلستے ہوئے باقی کا کام نبٹانے لگے۔۔۔
عالم اور سوھنی بھی دونوں ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھ گئے۔۔۔
آپ کو بھوک لگ رہی ہے تو میں ان کی مدد کروا دیتی ہوں سوھنی نے عالم سے کہا۔۔۔
نہیں مجھے بھوک نہیں۔۔۔عالم بولا۔۔۔
ہاں کرنٹ کھانے کے بعد کسے بھوک لگتی ہے کرنٹ سے ہی پیٹ بھر گیا ہو گا۔۔۔۔پارسا نے اپنی ازلی لا پرواہی سے کہا۔۔۔
عالم نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔
آپ کو کرنٹ لگا تھا۔۔۔سوھنی نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
وہ میں زرا صالح کو دیکھ لوں ۔۔۔پارسا اپنی آنے والی شامت سے بچنے کے لیے کچن میں گئی۔۔۔
میں بھی جا کر دیکھوں انہیں کیا کر رہے ہیں عروج بھی ان کے پیچھے پیچھے چلی گئی۔۔۔
عالم نے ساتھ بیٹھی سوھنی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔۔
ہماری زندگی کی نئی شروعات ہوئی ہے۔اسلامی لحاظ سے ہمارا ریسپیشن تو بنتا ہے۔۔۔
اس کی بات پر سوھنی کے گال شرم کے مارے دھکنے لگے۔۔۔
اس نے نظریں جھکائے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا جو ایک ہی پل میں پسینے سے تر ہو چکا تھا
اور اپنے دوپٹے کے ایک سرے کو اپنی انگلی کے گرد لپیٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔
میں ساری دنیا کے سامنے ہمارے اس رشتے کی سچائی ظاہر کر کہ تمہیں اپنے نام کی پہچان دینا چاہتا ہوں۔
سوھنی نے تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مان بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
آپ اتنے اچھے کیوں ہیں؟
تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں اچھا ہوں؟
اس نے اسی کا سوال دہرایا۔۔۔
میرے دل سے پوچھیں آپ کتنے اچھے ہیں۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو پیار بھری نظروں سےدیکھ رہے تھے۔۔۔
اور تمہارے لیے ایک سرپرائز بھی ہے۔
پارسا نے کہنی مار کر صالح کا دھیان باہر دلوایا۔۔۔۔
ہم سے تو کبھی سیدھے منہ بات نہیں کی ہر وقت رعب جھاڑتے رہتے ہیں۔۔۔
ہٹلر کو دیکھ کے لگتا نہیں تھا اتنے رومینٹک ہوں گے۔۔۔پارسا نے صالح سے کہا۔۔۔
تم زرا مجھ پر توجہ دو۔۔۔جو ظلم مجھ پر ہو رہا ہے شادی کی پہلی صبح ہماری ہے ہم سے کام کروا کر خود آرام سے بیٹھے ہیں۔۔۔صالح نے بھی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔۔۔
دونوں آہستہ آواز میں آپس میں لگے ہوئے تھے۔۔۔
دوسری طرف عروج نے عمر کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر پاس پڑا سیب اٹھا کر واش کیا پھر اس کے منہ کی طرف بڑھایا۔۔۔
عمر نے ہنس کر ایک بائٹ لی۔۔۔۔
حد ہے یار۔۔۔۔تم سب لوگ مجھے ہی جلانے میں کیوں لگے ہو؟
صالح نے عمر کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا۔۔۔
اور پراٹھا توے سے اتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھا۔۔۔
تم ہی کچھ شرم کر لو اس کی بیوی دیکھو کیسے اس کا خیال کر رہی ہے اور تم ہو کہ مارنے دھاڑنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔
صالح نے پارسا کی طرف دیکھتے ہوئے مصنوعی غصے سے کہا۔۔۔
بھئ میرا تو خواب تھا اپنے شوہر سے خدمتیں کروانا اور وہ تم کر رہے ہو۔۔۔
مجھ سے ایسی امید مت رکھنا ۔۔۔پارسا نے اسے چڑانے کے لیے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ناشتہ تیار کیے ان سب نے مل کر باہر لا کر ٹیبل پر رکھا۔۔۔۔
عمر اور صالح دھپ کر کے صوفوں پر بیٹھے۔۔
جیسے کام کر کہ بہت تھک گئے ہوں۔۔۔
عروج کی ہنسی نکلی ان کی بھرپور ایکٹنگ پر۔۔۔۔
چلو کیا یاد کرو ناشتہ بنانے کے انعام میں آپ سب کی ملکہ ِ عالیہ اپنے ہاتھوں سے آپ کو ناشتہ کروائے گی۔۔۔
پارسا بولی۔۔۔اور پہلی بائٹ بنا کر صالح کے منہ کی طرف بڑھائی۔۔۔
پھر عروج نے بھی عمر کے منہ میں ڈالی ۔۔۔
ان کی طرف دیکھتے ہوئے سوھنی نے بھی جھجھکتے ہوئے پہلی بائٹ عالم کی طرف بڑھائی۔۔۔
عالم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسی کے منہ میں پہلی بائٹ ڈالی۔۔۔
صالح کو بھوک لگی تھی اس نے دوسری بائٹ بنا کر خود کھانا شروع کر دیا۔۔۔
پارسا نے اس کے پاؤں پر اپنی ہیل والا والا بوٹ مارا۔۔۔۔
موٹی توند والے بھکڑ صبر نہیں ہو رہا تھا۔۔
میں کھلا رہی تھی نا۔۔۔
اس نے اس کے کان کے قریب جا کر دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
جاؤ اب کھاؤ خودی۔۔۔اس نے منہ پھلائے ہوئے کہا۔۔۔
عمر نے عروج کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔۔۔جسے وہ چھڑوانے کی کوشش میں تھی۔۔۔
وہ دبی مسکراہٹ سے اس کی جھنجھلاہٹ کا مزہ لے رہا تھا۔۔۔
میں تم دونوں کی شادی میں شرکت نہیں کر سکا ۔اس لیے کل ہم سب کا ریسپیشن میری طرف سے۔۔۔
عالم نے اعلان کیا۔۔۔
Superb....
پارسا خوشی سے چلائی۔۔۔
پر ایک بات ہے۔۔۔اس نے چہرے پر افسردگی لاتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ مجھ سے لڑکیوں والے کپڑے نہیں پہنے جاتے رخصتی پر بڑی مشکل سے وہ واہیات میکسی پہنی تھی۔۔۔
کیوں نا تھیم میں پینٹ شرٹ ہی رکھ لی جائے۔۔۔۔
پارسا نے مشورہ دیا۔۔۔۔
Very cheap advice....
عالم نے سرد مہری سے کہا۔۔۔
جسے اس طرح کی ڈریسنگ کرنی ہے کل اسے ریسپیشن میں شرکت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔
پارسا نے صالح کی تھائی پر اپنے تیز ناخنوں سےچٹکی بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہٹلر۔۔۔۔
غصہ اس پر نکالو جس سے بے عزتی ہوئی مجھ بیچارے پر کیوں ؟
اس نے معصوم سا چہرہ بنائے کہا۔۔۔
*****
یہ لو چابیاں ۔۔۔۔دلاور چوہدری نے چابیوں کا گچھا فائزہ کی طرف بڑھایا۔۔۔
یہ کیا ہے؟
فائزہ نے دلاور چوہدری سے پوچھا۔۔۔
اعیان سے میں نے سائن کروا لیے ہیں ۔۔۔جلد ہی اس کی اوپر بھیجنے کی تیاری بھی کروں گا۔۔۔۔
اس کے بعد رہ گیا عالم۔۔۔۔پھر اس کا بھی پتہ صاف ۔۔۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔دلاور چوہدری استہزایہ انداز میں ہنسنے لگے۔۔۔۔۔
اتنے سالوں سے جو چھپ کر پلاننگ کی اس پر اب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔
پھر سب کچھ ہمارے بیٹے سعد کا۔۔۔۔۔
اگر آپ کچھ بھول رہے ہیں تو میں آپ کو بتا دوں کہ سعد بھی ہمارا ۔۔۔۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔انہوں نے فائزہ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروایا۔۔۔۔
دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔۔۔۔
کوئی نہیں سن رہا۔۔۔فائزہ نے بے زاری سے کہا۔۔۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے۔۔۔۔۔
کچھ سال پہلے جب آپ گئے تو میری گود بھرنے والی تھی۔۔۔۔
پھر حیا آئی۔۔۔
اس کی خراب طبیعت کے باعث ساتویں ماہ میں ہی ڈیلیوری ہو گئی۔۔۔اور اس نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا۔۔۔
اور میں نے مردہ بچے کو۔۔۔۔
آپ نے کیسے سب کی نظروں میں آئے بغیر اس کا ایک بیٹا میری جھولی میں ڈال دیا۔۔۔
جس کے نقش شہریار سے ملتے تھے۔۔۔جبکہ عالم کے اپنی ماں حیا سے۔۔۔۔
یہ بات دوبارہ اپنی زبان پر نا لانا۔۔۔۔
دلاور نے سختی سے کہا۔۔۔
سعد میرا بیٹا ہے۔۔۔ساری جائیداد یہ گدی بس سب کچھ اسی کا ہے۔۔۔
یہ سب کچھ تو میں نے اسی کے لیے ہی کیا ہے۔۔۔
سعد جو انہیں یہ بات بتانے کے لیے آیا تھا کہ اسے شہر میں اچھی جاب کی آفر ہوئی ہے اور وہ شہر جارہا ہے ان کی باتیں سن کر باہر کھڑے اس کے قدم لڑکھڑائے۔۔۔۔
ابھی اپنے بابا کی اچانک آمد کے مخمصے میں سے ہی نا نکلا تھا کہ ایک ایک اور صدمہ۔۔۔۔
اس نے لات مار کر دھڑام سے دروازہ کھولا۔۔۔۔
کیوں کیا؟ ۔۔۔۔۔
کیوں کیا آپ دونوں نے ایسا؟؟؟؟؟
وہ تلخ لہجے میں دھاڑا ۔۔۔۔
آپ دونوں نے آج مل کر میری ہستی کو ہی مٹا دیا۔۔۔۔
مجھ سے میری اصل پہچان چھین لی۔۔۔۔
آپ دونوں کتنے خود غرض ہیں۔۔۔
جھوٹ بولتے ہیں آپ۔۔۔
کہ آپ نے یہ سب میرے لیے کیا۔۔۔۔
میرے لیے نہیں یہ سب آپ دونوں نے اپنے لیے کیا صرف اپنے لیے۔۔۔۔
اس کی آواز میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔
ایک بار مجھ سے پوچھ تو لیتے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔
مجھے اس گدی اس عیش و عشرت کی کوئی طلب نہیں۔۔۔۔
ایک بار میری بات تو سنو بیٹا۔۔۔۔فائزہ نے تڑپ کر کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔
آج سےکوئی بیٹا نہیں آپ کا۔۔۔سمجھے مر گیا۔۔۔اس نے ان کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔
سعد تمیز سے بات کرو ہم ماں باپ ہیں تمہارے دلاور چوہدری بولے۔۔۔
مجھے ایسے دوغلے اورجھوٹے ہر وقت چالیں چلتے۔۔۔
دوسروں کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے ماں باپ نہیں چاہیے۔۔۔۔
جا رہا ہوں میں یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔اب بناتے رہیں جتنے بھی منصوبے بنانے ہیں۔۔۔وہ باہر نکلنے لگا۔۔۔
فائزہ نے اس کے آگے آکر اس کا راستہ روکا۔۔۔
سعد مجھے یوں چھوڑ کر مت جاؤ ۔۔۔
تمہاری ماں تمہارے بغیر مر جائے گی۔۔
عروج بھی چلی گئی۔۔۔تم بھی چلے جاؤ گے تو ہم بالکل اکیلے ہو جائیں گے۔۔۔
یہی آپ کی سزا ہے۔۔۔کہ آپ اکیلے رہیں۔۔۔
وہ دوسری طرف سے ہوتے ہوئے باہر نکلا۔۔۔۔
*****
سعد کمرے میں آیا۔۔۔۔
نور بے چینی سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔
سعد بستر پر بیٹھا۔۔۔۔
دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے سسک رہا تھا۔۔۔۔
آج زندگی میں پہلی بار وہ رویا تھا۔۔۔۔
پہلی بار وہ پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔۔۔
خود کو بھری دنیا میں تنہا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
دل کر رہا تھا کہ دھاڑیں مارمار کر روئے۔۔۔۔آخر وہ بھی انسان ہی ہوتا ہے۔
مگر ایک مرد ایسے روئے۔۔۔یہ معاشرے میں کہاں گوارا تھا۔۔۔
آخر مرد بھی حساس دل رکھتا ہے اس کے بھی جزبات ہوتے ہیں۔۔۔
جنہیں وہ کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔۔۔
خود کو مظبوط ظاہر کرنے کے لیے تنہائی میں خود کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے۔۔۔ہمت کیے اپنے جذبات اور مشکلات پر قابو پا لیتا ہے۔۔۔۔
اسے یوں روتے دیکھ نور اس کے ساتھ بیٹھی۔۔۔
اس کے چہرے سے اس کے ہاتھ ہٹائے۔۔۔
رونے کے باعث آنکھیں سرخی مائل تھیں۔۔۔
چہرے پر خالی پن۔۔۔
نور دل ایک بار ڈوب کر ابھرا۔۔۔
نور نے اس کے آنسو اپنے لبوں سے چنے۔۔۔۔
سعد اس وقت کچھ بھی محسوس کرنے سے قاصر تھا۔۔۔۔
سعد۔۔۔۔نور کے آواز دینے پر وہ تھوڑا سا سمبھلا۔۔۔
نور کیا تم میرے فیصلے میں میرا ساتھ دو گی؟
کیسا فیصلہ؟؟
نور نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔مگر یہ جان لو شاید وہاں تمہیں میں اتنی سہولتیں فراہم نا کر سکوں جتنی یہاں ہیں۔۔۔۔
میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔چاہے مجھے سڑک پر کیوں نا ساری زندگی گزارنی پڑی ۔۔۔
تمہارا ساتھ میسر ہو۔۔۔میں وہاں بھی ہنسی خوشی گزار لوں گی۔۔۔
نور نے آسودگی سے اس کے شانے پر اپنا سر ٹکایا۔۔۔
****
شہر کے مشہور ترین شخصیات اور آرمی آفیسرز سب اس ریسپیشن پر مدعو تھے۔۔۔۔۔
عروج اور سوھنی کو تیار کرنے کے لیے ماہر بیوٹیشن پارسا نے ہائیر کر رکھی تھی۔
وہ دونوں تیار تھیں۔
کچھ دیر میں سپاٹ لائٹ کی روشنی میں میں تینوں کی اینڑی ہوئی۔۔۔
ان کی آمد اللّٰہ تعالیٰ کے نام سے ہوئی۔۔۔ڈی ۔جے نے اللّٰہ تعالیٰ کے نام والی آڈیو چلائی۔
جس کام کی شروعات اللّٰہ تعالیٰ کے نام سے کی جائے اسی کام میں برکت اور بہتری شامل ہوتی ہے۔
سوھنی کی نظر اپنے ساتھ چلتی ہوئی پارسا پر پڑی۔۔۔ جو آرمی یونیفارم خاکی ساڑھی میں ملبوس تھی۔اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھا ۔مگر وقت اور ماحول کو دیکھ اپنی حیرانی چھپا گئی۔۔۔
سوھنی نے بلیک کلر کی شیفون کی کامدار ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی جس کے باردڈ پر سلور گرے نفیس موتیوں کا کام کیا گیا تھا۔
عروج نے نیوی بلیو کلر کی خوبصورت ترین ساڑھی پہن رکھی تھی۔۔۔
دونوں بہت دلکش دکھائی دے رہی تھیں ۔۔
جبکہ پارسا تو اپنے یونیفارم کی وجہ سے نمایاں تھی۔
چند ہی لمحوں میں وہ تینوں بھی اپنے مخصوص آرمی یونیفارم پہنے ان کے سامنے آئے۔۔۔۔
صالح نے پارسا کے آگے ہاتھ کیا جسے اس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔۔۔۔
پھر عمر نے بھی عروج کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔
سوھنی کی نظریں جب جانِ عالم پر پڑیں تو پلٹنا بھول گئیں۔۔۔۔
عالم کی چمکدار سبز آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
وہ آرمی یونیفارم میں ملبوس سر پر کیپ پہنے اتنا ہینڈسم لگ رہا تھا جیسے یہ یونیفارم بنا ہی اسی کے لیے ہو۔۔۔
اس چھ فٹ کے جوان پر یہ وردی اتنی خوبصورت لگی کہ اسے اپنی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔
عالم کو بھی سوھنی کو اس نئے روپ میں دیکھ کر حال کچھ مختلف نا تھا۔
جان نے اس کے قریب آکر اس کی بازو میں اپنا بازو ڈالا اور پر اعتماد چال چلتا ہوا آگے بڑھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد لائیٹس آن ہوئیں تو عالم کے کلیگز نے اس کے قریب آکر انہیں شادی کی مبارکباد پیش کی۔۔۔۔
کیسا لگا سر پرائز؟
عالم نے اس کے کان کے قریب آتے ہی سرگوشی نما آواز میں پوچھا۔۔۔۔
سوری جان جی۔۔۔اس نے نظریں جھکائے ہوئے شرمندگی سے کہا۔۔۔۔
میں انجانے میں آپ کو کیا کچھ کہتی رہی۔۔۔
اس کے ہمیشہ سنجیدہ رہنے والے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔
سب نے اس مسکراتے ہوئے شاندار کپل کو سراہتی نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔
دونوں ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے جیسے بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہوں۔
Hey....Saleh....
پارسا نے صالح کے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا ہے؟
سب ان کی طرف متوجہ تھے۔صالح نے پارسا کے ہاتھ دبانے پر دانت پیستے ہوئے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے بھوک لگی ہے یہ کھانا کب لگے گا؟
پارسا نے بے چارگی سے چہرہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ہے۔۔۔۔صالح نے معنی خیز نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آج سے ہم ہیڈ کواٹر کے فلیٹ میں ہٹلر کے گھر نہیں اپنے گھر رہیں گے۔۔۔
صالح نے کہا۔۔۔
وہ کیوں ؟
پارسا نے گھورتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ رات کو بتاؤں گا۔۔۔۔
اس نے شرارت سے اس کے کان میں کہا۔۔۔۔
رات کو کیا بتاؤ گے جو بتانا ابھی بتاؤ۔۔۔۔
زرا نہیں کہ عقل ہو تم میں۔۔۔۔اف کیسی عورت سے پالا پڑا گیا میرا۔۔۔اس نے دہائی دینے والے انداز میں ہلکی سے آواز میں کہا۔۔۔۔
تم نے مجھے عورت بولا؟
وہ تلملائی۔۔۔
Calm down....
اس سے پہلے کہ سب کہ سامنے میرا گلہ دباؤ۔۔۔
Please control your self...
صالح نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔
اس نے گہرا سانس لے کر خود کو پر سکون کیا۔۔۔
گھر تو آج تم چل لو۔۔۔دیکھنا آرمی میں لی گئی ساری
ٹریننگ آج تم پر نا آزمائی تو کہنا۔۔۔
پارسا نے سخت تیوروں سے کہا۔۔۔
بچ کر رہنا پری تمہارے سامنے کیپٹن صالح ہے۔۔۔آج کون کس پر کیا آزماتا رات کو فیصلہ ہو ہی جائے گا۔۔۔
اس نے ہنستے ہوئے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرا۔۔۔
عروج تو عمر کو پاکر بہت خوش تھی ان دو دنوں میں وہ عمر کی ہمراہی میں اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تصور کرنے لگ گئی تھی۔۔۔۔
عمر نے اسے پھولوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے خود کو مکمل محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔
سچ ہے من چاہا اور پیار کرنے والا ہمسفر مل جائے تو زندگی کا سفر کتنا آسان اور دلفریب ہو جاتا ہے۔۔۔۔
اس تقریب میں صالح اور پارسا کے رشتے دار بھی شامل تھے۔۔۔
عمر اور عروج نے بھی اپنے فیملی اور فرینڈز کو مدعو کر رکھاتھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد دلاور چوہدری اور فائزہ بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔
اتنی بڑی اور شاندار تقریب دیکھ کر ان کی تو آنکھیں کھل گئیں تھیں۔
اس پر سونے پر سہاگا کہ انہوں نے جب اپنے داماد عمر کو آرمی یونیفارم میں ملبوس دیکھا تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔۔
عمر اور عروج آکر ان دونوں سے ملے۔۔۔۔
عالم اور سوھنی دونوں ساتھ ساتھ تھے سب سے ملتے ہوئے دھیمے دھیمے باتیں کرتے چل رہے تھے فائزہ اور دلاور چوہدری کی نظر ان دونوں پر پڑی۔۔۔
تو دونوں نے اپنی جگہ حیران تھے۔دلاور چوہدری کو عالم کو اس حلیے میں دیکھتے ہوئے اپنے گلے میں پھندہ لگتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
فائزہ نے حسد بھری نظروں سے سوھنی کی بدلتے ہوئے مقام کو دیکھا۔۔۔
عالم کی طرف اس کے چیف نے ہاتھ بڑھایا۔۔۔
چیف اسد باجوہ کے ساتھ ان کی مسسز نے بھی اس تقریب میں شرکت کی تھی۔۔۔
انہوں نے اپنی مسسز سے ان کا تعارف کروایا۔۔۔
Meet my most eligible Army Officer
Major Jaan_e_Alam.
انہوں نے توصیفی انداز میں اسے دیکھا پھر پیار دیا۔۔۔۔
اور سوھنی کو بھی گلے لگا کر وش کیا۔۔۔۔
یہ عالم میجر ہے فوج میں؟
فائزہ نے حیرانگی سے دلاور کو کہا مگر نظریں ابھی بھی عالم پر تھیں۔۔۔
اس پر تو ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔۔۔بڑی بڑی ہستیاں ہیں اس کے ساتھ۔۔دلاور چوہدری نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہیں کہا۔۔۔۔
******
سعد نور کا ہاتھ تھامے حویلی سے نکلنے لگا تو سعد کو عالم سے کیا گیا وعدہ شہریار چوہدری کے خیال رکھنے کایاد آیا یاد
وہ واپس اندر گیا۔۔۔۔
شہریار چوہدری کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بستر پر بے ہوش پڑے تھے۔۔۔
اس نے غصے سے بخشو کو آواز دی۔۔۔
پھر اس کے ساتھ مل کر انہیں گاڑی میں ڈالا۔۔۔
انہیں سیدھا ہسپتال لے گیا۔۔۔
وہ اور نور دونوں باہر ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
کچھ دیر بعد ان کا چیک اپ کے ڈاکٹر باہر آئے۔۔۔
زیادہ پریشان ہونے والی بات نہیں۔۔۔
مجھے لگتا ہے انہوں نے کچھ دنوں سے اپنی میڈیسن یوز نہیں کیں ۔۔۔اور کھانا بھی نہیں دیا گیا ان کو۔۔۔۔
بس اسی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی۔۔
پلیز اگر آپ پیشنٹ کی زندگی چاہتے ہیں تو ان کی میڈیسن اور ڈائیٹ کا خاص دھیان رکھیں۔۔۔اس عمر میں ان کو کئیر کی سخت ضرورت ہے۔۔۔ڈاکٹر نے ماہرانہ انداز میں مشورہ دیا۔۔۔۔
ٹریٹمنٹ کے بعد انہیں ہوش آیا تو سعد اندر ان کے پاس آیا۔۔۔
ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے عقیدت سے اپنی آنکھوں پر لگایا۔۔۔۔
ان کا پر سکون لمس پاتے ہی اس کی آنکھیں پھر سے بھر گئیں۔۔۔
جب سے اسے ان سے اپنے رشتے کا پتہ چلا تھا۔۔۔۔اپنے دل کی کیفیت وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔۔
ابھی انہیں کچھ بھی بتانا ٹھیک نہیں رہے گا ۔
ان کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں۔۔۔سعد نے دل میں سوچا۔۔۔۔
آپ شہر چلیں گے عالم کے پاس؟
اس نے ان سے پوچھا۔۔۔
وہ سوچ میں پڑ گئے۔۔۔
اعیان کا بھی کچھ پتہ نہیں،اور دلاور نے بھی جو کیا یہ سب ان کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔اانہیں شدت سے عالم کی کمی محسوس ہوئی۔۔۔انہیں فی الحال کچھ عرصے کے لیےیہاں سے جانا ہی بہتر لگا۔۔۔
میں بھی اب شہر میں ہی رہوں گا وہاں میری جاب لگ گئی ہے۔۔۔
حویلی میں آپ کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔۔۔آپ سمجھ رہے ہیں نا؟
انہوں نے دھیرے سے سر ہلایا۔۔۔
وہ ان کی خاموشی کو ہی ان کی رضامندی سمجھ کر انہیں وہاں سے لیے باہر نکلا۔۔۔۔
چند گھنٹوں کی مسافت طے کیے اب وہ شہر میں تھے۔۔۔۔
اس نے عالم کو کال کی۔۔۔
اسلام وعلیکم عالم بھائی!
کیسے ہیں آپ؟
میں ٹھیک تم سناؤ سب ٹھیک ہے۔۔۔اور بابا کیسے ہیں؟
وہ بھی ٹھیک ہیں۔۔میں شہر میں ہی ہوں آپ کا ایڈریس چاہیے۔۔۔۔
میں بس تھوڑی ہی دیر میں گھر پہنچ رہا ہوں میں ایڈریس ٹیکسٹ کرتا ہوں تم وہاں آجاو۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے فون رکھا ہی تھا کہ اس کی نظر اپنی چچی فائزہ کے ساتھ کھڑے ہوئے دلاور چوہدری پر ہڑی۔۔۔
عالم نے اسے پہچاننا چاہا۔۔۔۔
اچانک ہی اس کے مائنڈ میں حویلی میں لگی فیملی پکچر میں اپنے چچا کی شبیہہ لہرائی۔۔۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
اس نے حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔
فائزہ اور دلاور چوہدری اس سے ملے بغیر دور سے واپس چلے گئے۔۔۔
ابھی سعد سے ملاقات ہو گی تو پھر اس سے پوچھوں گا۔۔۔۔اس نے دل میں سوچتے ہوئے خود کو تسلی دی۔۔۔۔
تقریب کا اختتام ہوتے ہی سب باہر نکلے۔۔۔
تھینک یو سر۔۔۔عمر اور صالح نے جان عالم سے آگے بڑھ کر شکریہ ادا کیا۔۔۔۔
Welcome, It's ok.
عالم نے ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ہوئے کہا۔۔۔
سر ہم اپنے گھر واپس جا رہے ہیں ۔۔۔عمر نے اسے اطلاع دینا مناسب سمجھی۔۔۔
جب بھی کوئی کام ہو گا میں پہنچ جاؤں گا فوراً۔۔۔۔
ٹھیک ہے عالم بولا۔۔۔
سر ہم بھی ۔۔۔صالح نے کہا۔۔۔۔
ہیڈ کواٹر نے یہ گھر ہم چاروں کو دیا ہے ناکہ مجھ اکیلے کو۔۔۔عالم نے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ کیا ہے نا سر ہماری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے تو ہم زرا تھوڑا وقت اکیلے۔
As you know Sir....
صالح نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔۔۔
میں تمہارے دانت توڑ دوں گی کسی دن۔۔۔
پارسا نے مکہ بناتے ہوئے صالح کو غصے سے کہا۔۔۔۔
باقی کی لڑائی گھر جا کر کر لینا۔۔۔جاو چھوڑو میری جان۔۔۔
عالم نے بیزاریت سے کہا۔۔۔
وہ سب اپنے اپنے گھروں کو نکل گئے۔۔۔۔
عالم گھر پہنچا تو کچھ دیر بعد ہی سعد بھی آگیا۔۔۔۔
سعد کے ساتھ اپنے بابا کو دیکھ کر خوشی کی انتہا نا رہی۔۔۔
بہت بہت شکریہ بابا جو آپ یہاں آئے۔۔۔
میری تو کبھی بات نہیں مانی آپ نے۔۔۔
اس سعد کی بات مان لی ۔۔۔۔اس نے پیار بھرا شکوہ کیا۔۔۔پھر وہ جھک کر ان کے گلے لگا۔۔۔
سوھنی نے بھی آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا۔۔۔
شہریار چوہدری نے اس کے سر پر پیار دیا مگر حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
بابا یہ آپ کی بہو سوھنی ہے۔میں نے اس سے نکاح کر لیا۔۔۔۔
سوری بابا آپ کو بتا نہیں پایا اتنی بڑی بات۔۔۔
سوری ۔۔۔اس نے پھر سے کہا۔۔۔۔
م۔مجھے۔۔۔خوشی ہ۔ہے کہ تم۔۔نے اسے عزت دی۔۔۔اپ۔۔اپنا نام دیا۔۔۔۔م۔میں بہت خوش ہوں۔۔ت۔۔تمہارے اس د۔۔فیصلے سے۔
وہ بولے۔۔۔
سعد کے ساتھ نور بھی تھی۔
عالم کو دیکھ کر اس نے نظریں جھکائیں۔۔۔
اب اس سے رشتہ بدل چکا تھا اس کا۔۔۔۔
کسی بھی نا محرم کے لیے شادی کے بعد دلی جذبات رکھنا گناہ کہ ذمرے میں آتا ہے۔۔۔یہ سوچ کر اس نے جھر جھری لی۔۔۔
سعد ہی میرا سب کچھ ہیں۔۔اس نے دل کو مضبوط کیا۔۔۔۔
"کئی بار بے خودی میں کی گئی حماقتیں انسان کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیتیں ہیں"۔
وہی آج میرے ساتھ بھی ہوا۔۔۔نا میں کبھی عالم کے ساتھ اتنا فری ہوتی اور نا آج اس کے سامنے اتنا شرمندہ ہوتی۔
جانے کیا سوچے وہ میرے بارے میں نور نے دل میں سوچا۔۔۔
سوھنی کے ساتھ بھی اس نے عالم کی وجہ سے کبھی ڈھنگ سے بات نہیں کی تھی۔
ہمت کر کہ اس نے دونوں کو مشترکہ سلام کیا۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔عالم نے سادگی سے جواب دیا جبکہ
سوھنی اس کے گلے لگی اور ان دونوں کو شادی کی مبارکباد دی۔
نور نے بھی صاف دل سے کہا۔۔۔
آپ دونوں کو بھی شادی کی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔سوھنی بھی مسکرا کر بولی۔۔۔
اب سے آپ میرے پاس ہی رہیں گے۔ہمارے ساتھ ۔۔۔رہیں گے نا ؟
عالم نے ان کا ہاتھ تھام کر مان بھرے لہجے میں کہا۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
سعد اور عالم انہیں ایک کمرے میں لے گئے۔۔۔
اور مل کر انہیں وہیل چیئر سے اٹھا کر بستر پر لیٹایا۔۔۔۔
سوھنی تم بابا کے لیے کچھ کھانے کا انتظام کرو پھر انہیں دوائی بھی دینی ہے۔۔۔۔
سوھنی کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
نور لاونج میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔
بھائی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔۔
عالم اسے اپنے ساتھ لیے دوسرے کمرے میں آیا۔۔۔۔
اب بتاؤ کیا بات ہے؟
عالم نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
کیا بتاؤں؟
اس نے پریشانی سے اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے کہا۔۔۔
بتاؤ یار اب تو مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔۔
آپ نے دلاور چچا کو دیکھا؟
ہاں میں نے دیکھا تھا ۔۔۔
مگر یہ تم انہیں چچا کیوں کہہ رہے ہو ؟وہ تمہارے بابا ہیں۔۔۔۔
وہ زندہ تھے ۔۔۔۔تو کہاں تھے وہ اتنے سالوں سے یوں اچانک سب کے سامنے کیسے۔۔؟
کافی سوال تھے اس کے من میں۔۔۔۔
سعد نے عالم کو دلاور چوہدری کی شروع سے لے کر آخری بات تک سب عالم کو بتا دیا۔۔۔۔
آخری بات بتاتے ہوئے وہ خود کو سنبھال نا پایا۔۔۔
سعد ہمت کرو میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔
عالم نے اسے زور سے اپنے گلے لگاتے ہوئے اسے تسلی دی۔۔۔
ویسے اگر ہم جڑواں بھائی ہیں تو ہم میں سے بڑا کون ہے؟
عالم نے سعد کی افسردہ حالت کے پیشِ نظر ماحول میں چھائی یاسیت کو دور کرنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔
یہ مجھے کیسے پتہ یوگا؟
سعد بولا۔۔۔۔
لگتے تو تم بڑے ہو عالم بولا۔۔۔
جی نہیں جھوٹ ہے بالکل آپ بڑے ہیں۔۔۔۔
اچھا چلو اب تم اتنی عزت دے رہے ہو تو مان لیتا ہوں کہ میں بڑا ہوں ۔۔۔مگر کسی سے پوچھو تو یہی کہے گا کہ تم بڑے ہو۔۔۔۔
بھائی۔۔۔۔آپ بھی نا۔۔۔وہ دونوں پھر سے ایک دوسرے کے گلے لگے۔۔۔۔
اب وہ دونوں خود کو پرسکون محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔
اب ہم چلتے ہیں سعد نے کہا۔۔۔
کہاں جا رہے ہو؟
عالم نے ہوچھا۔۔۔۔
میری یہیں جاب لگ گئی ہے۔۔۔میں نے اپنے ایک دوست سے بات کی تھی اس نے میرے لیے رینٹ پر ایک گھر کا انتظام کروا دیا ہے۔۔۔
بس وہیں رہوں گا۔۔۔
ان شاءاللہ آہستہ آہستہ کوئی نا کوئی اچھا بندوبست کر لوں گا۔۔۔۔
مگر سعد تم میرے ساتھ بھی رہ سکتے ہو۔۔۔
یہاں رہنے میں کیا پرابلم ہے۔۔۔؟
نہیں بھائی بہت شکریہ آپ کا کہہ دینا ہی کافی ہے۔
مگر میں خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔
آپ پلیز مجھے یہاں رکنے پر مجبور نا کریں۔۔۔
میں آتا رہوں گا آپ سے بابا سے ملنے۔۔۔
بابا کی طبیعت سنبھلنے کے بعد آپ صحیح وقت دیکھ کر انہیں سچائی بتا دیجیے گا۔۔۔میں سیٹ ہو جاؤں تو بابا کو اپنے پاس لے جاؤں گا۔
تم ان کی فکر مت کرو۔۔۔فی الحال اپنے کیریئر بنانے پر توجہ دو۔۔عالم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔
****
مجھے جائیداد میں میرا حصہ چاہیے۔۔۔۔۔
درمکنون نے دلاور چوہدری اور فائزہ کے گھر آتے ہی کہا۔۔۔۔
نمک حرام ۔۔۔۔ساری زندگی اس گھر میں بیٹھ کر کھایا ہے تو نے۔۔۔
دلاور چوہدری اس کی بات سن کر اشتعال میں آچکا تھا۔۔۔۔
اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ درمکنون کے منہ پر مارا۔۔۔۔جس کی گونج حویلی میں پھیلی۔۔۔۔
درمکنون دور جا گری۔۔۔۔
پھوٹی کوڑی نہیں ملے گی تجھے آئی بڑی حصہ مانگنے۔۔۔۔
دلاور چوہدری حقارت سے بولا۔۔۔
یہ تیری عمر ہے عیاشیوں کی۔۔۔۔
چپ چاپ پڑی رہ کسی کونے میں۔۔۔۔اور اللہ اللہ کر۔۔۔۔
زیادہ چوں چاں کی نا تو سیدھا اوپر کا ٹکٹ کٹوا دوں گا تیرا۔۔۔۔۔
وہ تنفر سے کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
فائزہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔۔۔۔۔
درمکنون اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر ابھی بھی شاک کی کیفیت میں تھی۔۔۔۔
دلاور نے چھوٹا بھائی ہو کر اس پرہاتھ اٹھایا۔۔۔
یہ شرمندگی ہی اسے زندہ درگور کرنے کے لیے کافی تھی۔
اس جگہ اس نے سوھنی پر ہاتھ اٹھایا تھا اور اس کی بے عزتی کی تھی ۔۔۔
آج وہ خود بھی اسی مقام پر تھی۔
سچ کہتے ہیں دنیا میں کیے گئے گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی چکا کر جانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
******
اب ہم چلتے ہیں۔۔۔سعد نے باہر نکل کر عالم سے کہا۔۔۔
اتنی جلدی بھی کیا ہے تمہاری بھابھی کھانے کا انتظام کر رہی ہے شادی کے بعد پہلی بار دونوں آئے ہو، یوں کھانا کھائے بغیر اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔۔
عالم نے کہا۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی۔۔۔سعد یہ کہتے ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد سوھنی نے ٹیبل پر کھانا لگا دیا۔۔۔۔
شامی کباب پہلے سے بنا کر فریز کیے ہوئے وہ فرائی کیے۔
ایک گھنٹے میں ہی وہ ایک چولہے پربریانی اور ایک پر قورمہ تیار کر چکی تھی۔
رائتہ اور سلاد بنا کر وہ بھی رکھا۔۔۔۔
عالم نے اسے توصیفی انداز سے دیکھا۔۔۔۔
پھر کولڈ ڈرنکس اور پانی کا جگ ان کے پاس رکھا ۔۔۔
گلاسوں میں پانی انڈیل کر ان کے قریب رکھے۔۔۔
آپ بھی ہمارا ساتھ دیں۔۔۔سعد نے سوھنی سے کہا۔۔۔
ابھی ہم ریسپیشن سے واپس آئے ہیں بس وہیں سے کھانا کھا لیا تھا ابھی بھوک نہیں آپ لوگ شروع کریں نا پلیز۔۔۔۔
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔۔۔۔
کھانے سے فارغ ہوتے ہی عالم نے سعد اور سوھنی نے نور کی طرف ایک ایک اینولپ بڑھایا۔۔۔۔
یہ ہماری طرف سے تم دونوں کے لیے شادی کا تحفہ۔۔۔۔
نہیں بھائی یہ ہم نہیں لے سکتے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
سعد نے لینے سے انکار کیا۔۔۔
کیا تم مجھے بھائی نہیں مانتے؟عالم نے سعد کو کہا۔۔۔
سعد خاموش تھا۔۔۔
ویسے تو تم بڑے ہو۔۔۔مگر چھوٹے بڑے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔
بھائی تو بھائی ہوتا ہے عالم نے شرارت سے کہا۔۔۔
جی نہیں آپ بڑے ہیں۔۔۔سعد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
اچھا چلو اگر تم نے مجھے بڑا مان ہی لیا ہے تو بڑے بھائی کو منع کرتے ہوئے شرم نہیں آئے گی تمہیں۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔جیسے آپ خوش۔۔۔سعد نے ہار مانتے ہوئے وہ اینولپ پکڑ لیا۔۔۔۔
سوھنی نے بھی نور کو اینولپ پکڑایا۔۔۔
میں نے کبھی سوچا نا تھا کہ اس لڑکی جس کی کبھی میں کوئی اوقات نہیں سمجھتی تھی اسی کے ہاتھوں سے زندگی میں کبھی پیسے لینے پڑیں گے۔۔۔
آج ایک اور سیکھ ملی مجھے۔۔۔
"کبھی بھی کسی کو خود سے کمتر نا سمجھو۔۔
کیا پتہ زندگی پلٹا کھا جائے اور ایک دن آپ سامنے والے کی جگہ پر آجاؤ"۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔نور نے صاف دل سے ممنون نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
گھر سے باہر نکلے تو عالم نے سعد کو اپنی کار کی چابی پکڑائی۔۔۔
یہ کیا ہے بھائی؟
سعد نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔
فی الحال میری گاڑی لے جاؤ تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔۔۔
ایک بار سیٹ ہو جاؤ تو واپس کر دینا ۔۔۔
Simple....
ہر بات کے منع کرنا سعد کو اچھا نہیں لگا۔۔۔
تھینک یو برو۔۔۔۔
سعد یہ کہتے ہی اس کے گلے لگا۔۔۔
Any thing for you...
عالم نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
سعد اور نور گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئے۔۔۔
آپ نے جو گھر لیا ہے وہاں کوئی سامان ہو گا؟
نور نے پوچھا۔۔۔
نہیں وہاں کوئی بھی سامان نہیں ۔۔آہستہ آہستہ لے لیں گے۔۔۔
گھر سے تو ہم کچھ بھی نہیں لائے نور بولی۔۔۔
مجھے اس گھر سے ایک چیز بھی نہیں چاہیے سعد نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔
سعد کیوں نا ان پیسوں سے ہم کچھ ضرورت کی چیزیں خرید لیں۔۔۔نور کچھ دیر بعد بولی۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔چلو پہلے مارکیٹ ہی چلتے ہیں۔۔۔
رات ہونے کے باوجود بھی شہر کی مارکیٹ میں تیز روشنیوں کی وجہ سے دن کا سما تھا۔۔۔
پہلے کچن کا کچھ سامان اور گروسری لی۔۔۔
مارکیٹ سے گزرتے ہوئے نور نے ڈمی پر نیٹ کی سلیولیس شارٹ شرٹ اور کیپری لگی دیکھی۔۔۔
اف یہ کون پہنتا ہے ؟؟؟
شہر کی کچھ لڑکیاں ایسے ہی ڈریس پہنتی ہیں۔۔۔
سعد نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔۔
آج مجھے پتہ چلا تم بار بار بھاگ کر شہر میں کیوں آتے تھے۔۔۔
نور نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔۔۔
ایسی کوئی بات نہیں اگر مجھے شہر کی لڑکیوں میں انٹرسٹ ہوتا تو میری یونیورسٹی میں ہزاروں تھیں۔۔۔۔
مگر مجھ پر تو شروع سے تم نے جادو کر رکھا تھا۔۔۔
اس نظر میں اور کوئی سمائی ہی نہیں۔۔۔۔
خبردار ! اگر اب بھی کسی آدھی ڈھکی چھپی ہوئی کو دیکھا بھی تو۔۔۔
ایسا کرتی ہوں میں تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہوں تاکہ تم کسی کو دیکھ ہی نا پاؤ۔۔۔۔
یار تم لڑکیاں اتنی شکی مزاج کیوں ہوتی ہو؟ اچھا چلو چھوڑو۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔۔
اس چیز کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔
نور نے سعد کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ۔۔۔۔۔
سعد۔۔۔۔۔اس نے زور سے چلا کر سعد کو شانے پر دھموکا جڑ دیا۔۔۔
تم رکو اپنے نئے گھر میں تنہائی میں۔۔۔۔۔
سعد رکا پھر آنکھ بلنک کرتے ہوئے شرارت سے بولا۔۔۔
شادی شدہ زندگی کی نئی شروعات کریں گے۔۔۔
******
وقت کی ایک عادت بہت اچھی ہے جیسا بھی ہوگزر جاتا ہے،
دیکھتے ہی دیکھتے چند سال جیسے پنکھ لگا کر اڑ گئے۔۔۔
وقت ایسا پرندہ ہے جو ایک بار اڑ جائے تو کبھی ہاتھ نہیں آتا۔۔۔
مگر یہ گزرے ماہ وسال بہت سے چہروں کی حقیقت عیاں کر گئے۔۔۔
زندگی میں کچھ پل ایسے بھی آتے ہیں جنہیں ہم چاہ کر بھی نہیں بھلا پاتے،مجھے سخت اختلاف رائے ہے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں وقت ہر زخم بھر دیتا ہے۔۔۔
موسم بدلا ساتھ میں رشتے بدلےسعد اور نور کی محبت دن بہ دن بڑھتی گئی۔
پھر سعد اور نورکی زندگی میں بھی وہ دن آیا جب انکی دوسری اولاد اس دنیا میں آنے لگی۔۔
سعد لیبر روم کے باہر کھڑا نور اور اپنے ہونے والے بچے کیلئے دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا۔۔
پچھلے 4 گھنٹوں سے نور لیبر روم میں تھی اور اب تک کوئی خبر نہیں آئی تھی۔۔
آپریشن سے نور نے صاف منع کر دیا تھا۔۔
سعد کے ساتھ اس وقت عروج اور سوھنی بھی تھیں عالم تھوڑا دور کھڑا تھا ۔۔۔
شہریار چوہدری پر سوھنی نے پر بھرپور توجہ دی اور اچھے سے ان کا خیال رکھا ۔۔جس کے باعث شہریار چوہدری اب کافی حد تک صحت یاب ہو چکے تھے۔۔۔اب وہ خود چلتے پھرتے تھے اور بات کرنے میں بھی آسانی محسوس کرتے تھے۔۔۔
گھر میں عالم کے بیٹے غازیان عالم کو درمکنون سنبھالتی تھیں۔۔۔
اب سعد اور نور کے ہسپتال جانے کی وجہ سے سعد کی بیٹی غنیہ بھی فی الحال ان کے پاس ہی تھی۔
گزرے ماہ وسال نے ان کا سارا غرور و طنطنہ ختم کر دیا تھا۔۔۔
دلاور چوہدری سے بے عزتی کے بعد وہ غصے میں حویلی چھوڑتی ہوئی باہر نکلیں۔
ان کے پاس دو ہی راستے تھے ۔۔ایک تو اپنے سسرال جانے کا اور دوسرا اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کا۔۔۔۔
انہوں نے اپنے ضمیر کی بات سنتے ہوئے عالم کو کال کی۔۔۔
سلام ہے اس ماں کے بیٹے پر جس نے ایک بار بھی انہیں کسی پرانی بات کا طعنہ دئیے بغیر اپنے گھر میں بزرگ کی حیثیت دی۔
اب وہ اپنے بھائی شہریار اور عالم کے پاس آچکیں تھیں۔
ویسے بھی اب غنیہ ڈیڑھ سال کی تھی اور دوسرے بچوں سے کافی سمجھدار تھی۔۔
وہ بالکل اپنے بابا سعد پر تھی ۔ وہ کسی کو تنگ نہیں کرتی تھی بس اپنے کھیل میں لگی رہتی تھی بھوک لگتی تھی تو کبھی رودیتی تھی ورنہ تو اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہی سب کو اپنی طرف متوجہ کیےرکھتی۔۔
غازیان بالکل عالم کی ڈکٹو کاپی تھا اس کی بھی عالم کی طرح سبز آنکھیں تھیں۔۔سنجیدہ سا بچہ تھا۔۔۔
ڈاکٹر باہر آئیں تو سعد انکی طرف بڑھا ۔۔ ڈاکٹر میری وائف ٹھیک ہیں نہ۔۔ ایک انجانا ڈر تھا سعد کے دل میں جسے وہ نہ کسی کو بتا پارہا تھا نہ چھپا پارہا تھا۔۔
جی وہ مبارک ہو اللہ نے آپکو نعمت سے نوازا ہے بیٹا ہوا ہے اور وہ بھی صحت مند اللہ کے کرم سے۔۔
سب لوگ یہ سنتے ہی خوش ہوگئے مگر سعد کے چہرے پر اب بھی پریشانی تھی۔۔
ڈاکٹر میں نے اپنی وائف کا پوچھا ہے وہ ٹھیک ہے نہ۔۔
دیکھیں سر آپ کی وائف بہت ویک تھیں اسی لئے ہم نے انہیں آپریشن پریفر کیا تھا مگر ان کی ضد تھی کہ وہ آپریشن نہیں کروائیں گی تو۔۔
ڈاکٹر نے بولتے ہوئے تو پر سانس لیا تو سعد کو ایسا لگا جیسے اسکا سانس بند ہونے لگا ہے۔۔
اسے انیمیا کی شکایت تھی غنیہ کی ڈیلیوری کے دوران بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔مگر نور کو بیٹے کی خواہش تھی اس لیے اس نے ایک بار پھر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا تھا۔۔۔۔
تو کیا۔۔ سعد کی آواز کافی طیش بھری اور بلند تھی۔۔
تو یہ کہ سر آپکی وائف تھوڑی کریٹیکل حالت میں ہیں مگر ڈاکٹرز انکے پاس ہیں وہ جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گی۔۔
ڈاکٹر نے بات ختم کی وہ سعد کو کئی مہینوں سے جانتی تھیں وہ ڈاکٹر سونم کی اسسٹنٹ تھی اور ہمیشہ انہوں نے سعد کا دھیما نیچر ہی دیکھا تھا۔۔
ڈاکٹر سونم کہاں ہیں ؟مجھے ان سے ملنا ہے۔۔ سعد نے ضبط سے کہا اور آواز بھی تھوڑی نیچی رکھی مگر اسکے لہجے میں سختی تھی جسے وہ کنٹرول نہیں کر پارہا تھا۔۔
ڈاکٹر شکر مناتے ہوئے منظر سے فوری غائب ہوئی چند منٹ بعد ڈاکٹر سونم بے بی کو ہاتھوں میں لئے باہر آئیں تو سب سے پہلے انہوں نے اسے سعد کو تھمایا۔۔
سعد نے اس ننھی سی جان کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پیار کیا تو دیکھا اسکا بیٹا اسے ہی دیکھ رہا ہے۔۔
اسی پل سعد کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا تو دوسری طرف ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔
مگر نور کے بارے میں سوچ کر اسنے اپنا بیٹا عروج کو دیا اور ڈاکٹر سونم کی طرف متوجہ ہوا
بے بی کو دیکھ کر وہاں موجود پارسا اور صالح بہت خوش تھے ۔۔۔
ڈاکٹر۔۔ وہ نور۔۔۔۔
سعد نے ڈاکٹر سونم سے پوچھا۔۔ دیکھو سعد بیٹا نور ٹھیک ہے مگر اسے ہم انڈر آبزرویشن رکھیں گے فکر نہ کرو اور اللہ سے دعا کرو کہ سب ٹھیک ہوجائے۔۔ تھوڑی دیر میں ہم اسے روم میں شفٹ کر دیں گے تو اس سے مل لینا مگر ڈسچارج ہم اسے تب ہی کریں گے جب میں اسکی طبیعت کے حوالے سے مطمئن ہوجاؤ گی۔۔
ڈاکٹر نے سعد کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔
نہ جانے کیوں مگر سعد مطمئن نہیں تھا ایسی ہی تسلی بھرے جملے اسنے ڈیڑھ سال پہلے بھی سنے تھے۔جب اس کی بیٹی غنیہ اس دنیا میں آئی تھی۔
وہ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا پچھلے کئی گھنٹوں سے وہ بیٹھا نہیں مگر ابھی بھی بیٹھنا نہیں چاہتا تھا بس نور کو دیکھنا چاہتا تھا۔۔
مبارک ہو میرے بھائی بیٹا بہت خوبصورت ہے۔۔ عالم نے سعد کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو سعد ہلکے سے مسکرا دیا ۔۔۔
یہ کتنا پیارا ہے نہ صالح۔
پارسا نے بے بی کو دیکھ کے ستائش سے کہا۔۔
ہاں بہت پیارا ہے دیکھنا ہمارا بے بی بھی نیکسٹ بے بی بہت پیارا ہوگا۔۔
صالح نے پیار سے پارساکے کان میں کہا۔۔
ہیں ہمارا بے بی کہاں سے آگیا ؟۔۔ پارسا نے ایک دم صالح کو دیکھ کے کہا۔۔
بس بچے دو ہی اچھے۔۔۔پارسا بولی۔۔۔
تیسرے کے بارے میں سوچو یار چاہے گندا والا ہی صحیح وہ بھی چلے۔۔۔
بلکہ نہیں دوڑے گا۔۔۔۔۔۔۔صالح نے شرارت سے کہا۔۔۔
صالح آگے ہی ان دونوں کو ممی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں ناک میں دم کر رکھا تھا ۔۔۔
بالکل تم پر گئے ہیں تمہارے دونوں فتنے۔۔۔۔
مجال ہے جو مجھے آرام کرنے دیتے ہوں۔۔۔
پارسا نے منہ پھلا کر مصنوعی ناراضگی سے کہا۔۔۔
شام میں جب نور کو ہوش آیا تو۔۔۔سعد وارڈ میں آیا۔۔۔۔
کیسی ہو تم ۔۔ سعد نے نور کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
ٹھیک ہوں میں کہاں تھے آپ۔۔ نور نے مسکرا کے جواب دیا۔۔۔
تم نے ہمارا بیٹا دیکھا۔۔ سعد نے اپنے بیٹے کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کے کہا۔۔
کہاں کسی نے دکھایا ہی نہیں ۔۔ نور نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔
سعد نے نور کے ساتھ بیٹھ کر اپنا بیٹا اسکی گود میں دیا۔۔
اپنی اولاد کو گود میں لے کر نور کے دل کو ڈھیروں سکون ملا۔۔ اور ساتھ میں آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔۔
******
کہاں ہو شفا میں کب سے آوازیں دے رہی تھیں۔۔
عروج ہانپتے ہوئے شفا اور دعا کے مشترکہ کمرے میں آئی۔۔
مما میں تیار ہورہی تھی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ وقت پر سب ریڈی رہنا ۔ تو میں نے سوچا کہ تیار ہوجاؤں۔۔اس نے اپنی معصوم سی آواز سے کہا۔۔۔
دعا کہاں ہے؟
مما وہ فیس واش کرنے گئی ہے۔۔۔۔آپ ہماری فکر مت کریں ہم ابھی آتے ہیں۔۔۔تھیں تو وہ دونوں چار سال کی مگر باتیں دادی اماں کی طرح کرتیں تھیں۔۔۔شفا اور دعا ۔۔۔۔عمر اور عروج کی جڑواں بیٹیاں تھیں۔۔۔جنہوں نے ان کی زندگی کو رونق بخشی ہوئی تھی۔۔
اسکی دونوں پریوں میں عمر کی جان بستی تھی۔۔
تیار ہوگئے آپ ؟ عروج اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا عمر ڈریسنگ مرر کے سامنے خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔۔
کہاں تھیں تم۔۔ عمر نے ایک نظر عروج کو دیکھ کے کہا۔۔۔
مجھے کہاں جانا ہے یہیں تھیں تیاریاں دیکھ رہی تھی عروج نے عمر کے قریب آکر اسکے کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔
میں ایک گھنٹے سے تمہارا کمرے میں انتظار کر رہا تھا کہا بھی ہے کہ اتنی دیر میری نظروں سے اوجھل مت ہوا کرو۔۔
عروج بس عمرکی بات پر مسکرا دی ایسی باتوں کا وہ جواب صرف مسکرا کر ہی دیتی تھی کیونکہ جتنے جواب دو عمر اتنے ہی سوال کرتا تھا۔۔کہاں تھی تب سے ؟ پاس پاس رہا کرو۔۔۔اس قِسم کے
ویسے میری پریاں کہاں ہیں؟۔۔
عمر نے عروج کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔
آپ کی پریاں اپنے روم میں ہیں ۔۔۔
شفا تو بہت سمجھدار ہے مگر پتہ نہیں یہ دعا کس پر چلی گئی ایک نمبر کی موڈی ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔
آپ کا کچھ وقت ملے گا اس ناچیز کو ۔۔۔۔عمر نے عروج کو اپنے قریب کیے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔۔۔۔
*****
اس نے سلیوٹ کیا۔۔۔
اس کے سنیئر نے کہا۔۔۔۔
LAHORE: Thirty-four cases of vani were reported across the Punjab during the last five years. As per report released by Punjab Commission on the Status of Women (PCSW), three cases of vani were reported from District Rajanpur, three cases from Layyah, two cases from Dera Ghazi Khan and one each case was reported from District Bhakkar, Jhang, Vehari, Sahiwal, Multan, Lodhran, Khanewal, Bahawalnagar and Rahimyar Khan in 2017.
Similarly, seven cases reported from across the province in 2016 included two cases from Bhakkar, one each from Rawalpindi, Khushab, Khanewal, Muzaffargarh and Rahimyar Khan. In 2015, one case of vani from Rahimyar Khan was reported. In 2014, four cases were reported across the province. One case from each district, including Sargodha, Mianwali, Khanewal and Rahimyar Khan were reported.
انہوں نے اسے تفصیلاً بتایا۔۔۔۔۔
ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے مگر ابھی تک ان فضول رسم و رواج جڑ سے ختم کرنے میں نا کامیاب رہا ہے۔۔۔
اتنے قانون بنے مگر ابھی بھی کچھ لوگ ایسی ہی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہمیں مل کر ان رسم ورواج کا خاتمہ کرنا ہو گا۔۔۔زیادہ تر دیہی علاقے ہی ان فرسودہ روایات کی آماجگاہ ہیں۔۔۔
ہمیں وہیں سے شروع کرنا ہو گا۔۔۔اس لیے آپ کی پوسٹنگ پنجاب کے اسی ضلع میں کی گئی ہے جہاں آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔
I hope you will never disappoint me...
Yes Sir...
اس نے سلیوٹ مارا۔۔۔
I will never disappoint you ...
اس نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔
*****
اعیان سے سائن لینے کے بعد دلاور چوہدری اسے آزاد کر چکا تھا۔۔۔۔
اعیان حویلی میں آیا تو وہاں نا عروج نا نور اور سعد بھی نہیں۔۔۔
حویلی ایک دم خالی خالی لگتی۔۔۔۔
فائزہ تو اپنی اولاد کی جدائی کے غم میں ہی آدھی رہ گئی تھی۔۔۔
عروج کو جب اپنے والدین کی اصلیت کا پتہ چلا اس نے بھی اپنے بھائی سعد کی سائیڈ لیتے ہوئے اپنے حقیقی والدین سے قطع تعلق کر لیا۔۔۔ایک بار بھی وہ ان سے ملنے حویلی نا گئی۔۔۔
فائزہ کو تو اولاد کی دوری کی تڑپ نے مار ڈالا۔۔۔ہر وقت بیمار رہنے لگی۔۔۔اسے بھی جامد چپ لگ چکی تھی۔
*****
اعیان ہمت کیے آج پھر سے پولیس اسٹیشن آیا تھا کہ سوھنی کے بارے میں جان سکے۔۔۔
عالم اسے کہاں لے کر گیا ہے؟
دلاور چوہدری اور فائزہ تو اس سے بات کرنا پسند نا کرتے جو اسے عالم اور سوھنی کا بتاتے۔۔۔
وہ خود ہی انہیں ڈھونڈنے میں پولیس کی مدد لے رہا تھا۔۔۔۔
چوہدری صاحب۔۔۔۔اندر مت جائیے۔۔۔
گیٹ پر کھڑے سپاہی نے اعیان چوہدری کو اندر جانے سے روکا۔۔۔
سالے۔۔۔کمینے ۔۔۔۔۔میرے ہی پیسے کھاتے ہو۔۔۔
اور مجھے ہی آنکھیں دکھاتے ہو۔۔۔
کہاں ہو شفا میں کب سے آوازیں دے رہی تھیں۔۔
عروج ہانپتے ہوئے شفا اور دعا کے مشترکہ کمرے میں آئی۔۔
مما میں تیار ہورہی تھی آپ نے ہی تو کہا تھا کہ وقت پر سب ریڈی رہنا ۔ تو میں نے سوچا کہ تیار ہوجاؤں۔۔اس نے اپنی معصوم سی آواز سے کہا۔۔۔
دعا کہاں ہے؟
مما وہ فیس واش کرنے گئی ہے۔۔۔۔آپ ہماری فکر مت کریں ہم ابھی آتے ہیں۔۔۔تھیں تو وہ دونوں چار سال کی مگر باتیں دادی اماں کی طرح کرتیں تھیں۔۔۔شفا اور دعا ۔۔۔۔عمر اور عروج کی جڑواں بیٹیاں تھیں۔۔۔جنہوں نے ان کی زندگی کو رونق بخشی ہوئی تھی۔۔
اسکی دونوں پریوں میں عمر کی جان بستی تھی۔۔
تیار ہوگئے آپ ؟ عروج اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا عمر ڈریسنگ مرر کے سامنے خود پر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔۔
کہاں تھیں تم۔۔ عمر نے ایک نظر عروج کو دیکھ کے کہا۔۔۔
مجھے کہاں جانا ہے یہیں تھیں تیاریاں دیکھ رہی تھی عروج نے عمر کے قریب آکر اسکے کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔
میں ایک گھنٹے سے تمہارا کمرے میں انتظار کر رہا تھا کہا بھی ہے کہ اتنی دیر میری نظروں سے اوجھل مت ہوا کرو۔۔
عروج بس عمرکی بات پر مسکرا دی ایسی باتوں کا وہ جواب صرف مسکرا کر ہی دیتی تھی کیونکہ جتنے جواب دو عمر اتنے ہی سوال کرتا تھا۔۔کہاں تھی تب سے ؟ پاس پاس رہا کرو۔۔۔اس قِسم کے
ویسے میری پریاں کہاں ہیں؟۔۔
عمر نے عروج کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔
آپ کی پریاں اپنے روم میں ہیں ۔۔۔
شفا تو بہت سمجھدار ہے مگر پتہ نہیں یہ دعا کس پر چلی گئی ایک نمبر کی موڈی ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔
آپ کا کچھ وقت ملے گا اس ناچیز کو ۔۔۔۔عمر نے عروج کو اپنے قریب کیے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔۔۔۔
*****
اس نے سلیوٹ کیا۔۔۔
اس کے سنیئر نے کہا۔۔۔۔
LAHORE: Thirty-four cases of vani were reported across the Punjab during the last five years. As per report released by Punjab Commission on the Status of Women (PCSW), three cases of vani were reported from District Rajanpur, three cases from Layyah, two cases from Dera Ghazi Khan and one each case was reported from District Bhakkar, Jhang, Vehari, Sahiwal, Multan, Lodhran, Khanewal, Bahawalnagar and Rahimyar Khan in 2017.
Similarly, seven cases reported from across the province in 2016 included two cases from Bhakkar, one each from Rawalpindi, Khushab, Khanewal, Muzaffargarh and Rahimyar Khan. In 2015, one case of vani from Rahimyar Khan was reported. In 2014, four cases were reported across the province. One case from each district, including Sargodha, Mianwali, Khanewal and Rahimyar Khan were reported.
انہوں نے اسے تفصیلاً بتایا۔۔۔۔۔
ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے مگر ابھی تک ان فضول رسم و رواج جڑ سے ختم کرنے میں نا کامیاب رہا ہے۔۔۔
اتنے قانون بنے مگر ابھی بھی کچھ لوگ ایسی ہی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ہمیں مل کر ان رسم ورواج کا خاتمہ کرنا ہو گا۔۔۔زیادہ تر دیہی علاقے ہی ان فرسودہ روایات کی آماجگاہ ہیں۔۔۔
ہمیں وہیں سے شروع کرنا ہو گا۔۔۔اس لیے آپ کی پوسٹنگ پنجاب کے اسی ضلع میں کی گئی ہے جہاں آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔
I hope you will never disappoint me...
Yes Sir...
اس نے سلیوٹ مارا۔۔۔
I will never disappoint you ...
اس نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔
*****
اعیان سے سائن لینے کے بعد دلاور چوہدری اسے آزاد کر چکا تھا۔۔۔۔
اعیان حویلی میں آیا تو وہاں نا عروج نا نور اور سعد بھی نہیں۔۔۔
حویلی ایک دم خالی خالی لگتی۔۔۔۔
فائزہ تو اپنی اولاد کی جدائی کے غم میں ہی آدھی رہ گئی تھی۔۔۔
عروج کو جب اپنے والدین کی اصلیت کا پتہ چلا اس نے بھی اپنے بھائی سعد کی سائیڈ لیتے ہوئے اپنے حقیقی والدین سے قطع تعلق کر لیا۔۔۔ایک بار بھی وہ ان سے ملنے حویلی نا گئی۔۔۔
فائزہ کو تو اولاد کی دوری کی تڑپ نے مار ڈالا۔۔۔ہر وقت بیمار رہنے لگی۔۔۔اسے بھی جامد چپ لگ چکی تھی۔
*****
اعیان ہمت کیے آج پھر سے پولیس اسٹیشن آیا تھا کہ سوھنی کے بارے میں جان سکے۔۔۔
عالم اسے کہاں لے کر گیا ہے؟
دلاور چوہدری اور فائزہ تو اس سے بات کرنا پسند نا کرتے جو اسے عالم اور سوھنی کا بتاتے۔۔۔
وہ خود ہی انہیں ڈھونڈنے میں پولیس کی مدد لے رہا تھا۔۔۔۔
چوہدری صاحب۔۔۔۔اندر مت جائیے۔۔۔
گیٹ پر کھڑے سپاہی نے اعیان چوہدری کو اندر جانے سے روکا۔۔۔
سالے۔۔۔کمینے ۔۔۔۔۔میرے ہی پیسے کھاتے ہو۔۔۔
اور مجھے ہی آنکھیں دکھاتے ہو۔۔۔
وہ صحیح سے کمزوری کے باعث بول بھی نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔
چوہدری صاحب معاف کیجیے گا سرکار میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ پرانے والے S.H.Oتبدیل ہوگئے ہیں ان کی جگہ آج ہی نئے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کی وہ اپنی بات مکمل کرتا اعیان چوہدری اسے دھکا دے کر اندر آیا۔۔۔
دیکھ لیں گے نئے S.H.Oکو بھی۔۔۔۔
اعیان اندر آیا تو وہ جو کوئی بھی تھا ریوالونگ چئیر کا رخ دوسری طرف گھمائے ہوئے تھا۔۔۔
جس میں اس کی پولیس کی یونیفارم واضح ہو رہی تھی مگر اس کی پشت اس کی طرف ہونے کی وجہ سے چہرہ دوسری طرف تھا۔
دیکھ S.H.O پہلے والے کو بھی میں نے پیسے کھلائے مگر اس حرام خور نے میرا کام نہیں کیا۔۔۔
پہلے تو میرا کام کر پھر ہی تجھے پیسے ملیں گے۔۔۔
مجھے وہ ونی ہر حال میں چاہیے۔۔۔اعیان نے تیز آواز میں ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔
ایک ہی پل میں کرسی کا رخ پلٹا۔۔۔۔۔
اور اعیان کی دنیا بھی۔۔۔۔۔
وقت جیسے رک گیا۔۔۔۔
چند لمحوں کے لیے اعیان کی سانسیں بھی ۔۔
مقابل نے اعیان کے چہرے پر نظر ڈالی۔۔۔۔
جو کبھی خوبرو ہوا کرتا تھا۔۔۔اب کمزور سا چہرہ ،اور چہرے اور ہاتھ جو بھی جسم کا حصہ نظر آرہا تھا وہ عجیب قسم کے دانوں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔۔
اس شخص کو دیکھ کر وہ سب کچھ بھولنا اتنا آسان تو نا تھا جو بھی اس نے اس کے ساتھ کیا تھا۔۔۔۔
مگر آج اس کی حالت دیکھ کر اس نے اسے ترحم بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
کس ونی کی بات کر رہے ہو؟؟؟؟
اعیان نے اس کا سر تا پاؤں پورا جائزہ لیا۔۔۔۔
وہ پہلے والی کمزور سی سوھنی نہیں بلکہ متناسب سراپا،اور پولیس کے یونیفارم میں ملبوس پہلے سے بھی زیادہ پرکشش،اور جاذب نظر لگ رہی تھی۔۔۔
اعیان جو اسے یوں دیکھ کر صدمے کی کیفیت میں مبتلا تھا۔۔۔
سوھنی کے ٹیبل پر سٹک بجانے پر ہوش میں آیا۔۔۔۔
اگر اپنی باقی کی زندگی جیل میں سڑنا نہیں چاہتے تو دفع ہو جاؤ۔۔۔
سوھنی ہاتھ میں پکڑی ہوئی سٹک سے ہی اسے باہر جانے کا راستہ دکھایا۔۔۔۔
جانے اسے کیا ہوا۔۔۔
اعیان ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر فرش پر گر گیا۔۔۔
سوھنی نے دو سپاہیوں کو اسے ہسپتال لے جانے کا حکم دیا۔۔۔۔
اعیان کی حالت دیکھتے ہوئے اس کے خلاف اتنے سالوں کا بھرا ہوا لاوا نا پھٹ سکا۔۔۔
****
آپ کی ٹیم نے ایک مشن میں شاندار کارکردگی دکھائی اور کامیاب ہوئے۔۔۔۔
اس دوسرے مشن میں آپ کو اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟چیف نے عالم سے کہا
جو اسوقت ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔۔
سر شہر میں جگہ جگہ ناکہ بندی کی گئی اچھی طرح سب چیک کیا مگر جہاں تک میری معلومات ہیں یہ اسلحہ کسی گاؤں سے سمگل کیا گیا ہے۔۔۔۔
تو جاؤ جہاں شک ہے وہاں جا کر آپریشن کرو۔۔۔
کسی بھی قسم کی کوئی مدد درکار ہو تو میں ہوں تمہارے پیچھے۔۔۔۔
چیف نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔۔۔
یس سر بس چند روز میں ہی ان شاءاللہ آپ کو اس مشن میں بھی کامیابی کی خبر ملے گی۔۔۔۔
جان ِعالم نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔
پھر وہ چاروں وہاں سے نکلے اور آگے کی پلاننگ ترتیب دینے لگے۔۔۔۔
*****
میڈم وہ چوہدری صاحب کو ہم نے آپ کے کہنے پر دو دن پہلے ہسپتال پہنچا دیا تھا جی۔۔۔۔
سپاہی نے ہنستے ہوئے اس کی چاپلوسی کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
فضول دانت نکالنے سے پرہیز کیا کرو۔۔۔جاو اپنے کام پر لگو۔۔۔۔
سوھنی نے اسے سخت لہجے میں کہا۔۔۔
*****
سوھنی نے گھر آکر عالم کو پولیس اسٹیشن میں ہوئے واقعے کے بارے میں اسے بتایا ۔۔۔
عالم نے مناسب لفظوں میں شہریار کو اعیان کی حالت کے بارے میں بتایا اور پھر وہ اسے دیکھنے کے لیے ہسپتال گئے۔۔۔۔
کمرے میں موت کی طرح چھائے سناٹے نے انہیں کسی انہونی کا سندیسہ دیا۔۔۔
پل بھر کو ان کا ہاتھ اپنے دل پر پڑا۔۔۔
بیڈ پر پڑا وجود جیسا بھی تھا ۔۔۔تھا تو ان کے دل کا ٹکرا۔۔۔
کسی کوڑھ کے مریض کی طرح اس کے جسم سے رستا مادہ بن کہے بہت سے راز افشاں کر گیا۔۔۔
شہریار نے اپنے قدم ڈاکٹر کے کمرے کی طرف لیے۔۔۔
جہاں عالم ڈاکٹر سے اعیان کی کنڈیشن کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔
عالم نے پیچھے کھڑے ہوئے اپنے بابا کو دیکھا تو ان کے لرزتے ہوئے وجود کو ہاتھ تھام کر ڈاکٹر کے پاس پڑی کرسی پر بٹھایا۔۔۔۔
اور پانی کا گلاس بھر کر ان کے ہونٹوں کو لگایا۔۔۔
عالم نے ڈاکٹر کو اشارہ کیا کہ آپ بتائیں مجھ میں ہمت نہیں انہیں بتانے کی۔۔۔
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں اعیان کے HIV.Psositive
ہونے کی اور اس لاعلاج بیماری کی لاسٹ سٹیج پر ہونے کی تصدیق کی۔۔۔
*****
اسلحے سے بھرا ٹرک پکڑے جانے پر وہ حواس باختہ ہو کر اپنے اڈے پر پہنچا۔۔۔۔
جہاں دوسرا ٹرک لوڈ کیا جا رہا تھا۔۔۔
غصے سے اپنے آدمیوں پر برسنے لگا۔۔۔۔
کسی چین سموکر کی طرح ایک سیگریٹ بجھنے سے پہلے دوسرا لگاتا۔۔۔
اور منہ سے گالیوں کے مغلظات بکتے ہوئے۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے اتنے بڑے نقصان کی بھر پائی اب وہ کیسے کرے۔۔۔۔
اس نے اپنے فون پر کال آنے پر جلدی میں سیگریٹ نیچے پھینکا۔۔۔
فون پر بات کرتے ہوئے اسے پتہ چلا کہ یہ سب عالم کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔
اس نے دل میں سوچا کہ عالم کی موت میرے ہاتھوں ہی لکھی ہے۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتاتھا کہ اس ظالم کے ظلم کی دراز رسی خدا کی پکڑ میں آ چکی ہے۔
پیسوں کے لالچ میں اندھا دھند دولت کمانے کا یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا۔۔۔
کونے میں جلتا ہوئے سیگریٹ نے اسلحے سے بھری ہوئی پیٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔
اور ایک بڑے دھماکے سے اسلحے سے بھرا ڈیپو آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔۔اور وہاں موجود ہر ذی روح اپنے کوئلہ وجود سے عبرت کا نشان بن گئے۔۔۔۔
اور یوں سالوں پہلے دلاور چوہدری کی خود کے لیے چُنی گئی ڈرامائی موت آج حقیقت کا روپ دھار گئی۔۔۔۔
یہ خبر جب جنگل کی آگ کی طرح حویلی تک پہنچی تو فائزہ جو پہلے ہی اپنی اولاد کی جدائی کے غم سے ٹوٹ چکی تھی۔یہ خبر اس کے لیے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے برابر ثابت ہوئی۔۔۔۔
وہ حویلی کی دیواروں سے سر ٹکراتے ہوئے لہو لہو لہان سر لیے پاگلوں کی طرح گاؤں کی گلیوں میں نکل گئی۔۔۔
یوں ایک لالچ اپنے انجام کو پہنچا۔۔۔۔
******
اس سانحے کے بعد شہریار چوہدری حویلی آئے تو انہوں نے
سوچا اس حویلی کو بہت سے مظلوموں کی آہ و بکا لگی
ہوئی ہے۔۔۔انہوں نے اس حویلی کو دارلامان بنا دیا۔۔۔۔
شہریار چوہدری نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور ایک اہم
اعلان کیا کہ آج سے اس گاؤں میں ونی کی رسم کا خاتمہ ہوا
آج سے اس گاؤں کی کوئی بھی بیٹی اس رسم کی بھینٹ نہیں چڑھائی جائے گی۔۔۔۔
*****
سوھنی کمرے میں آئی تو عالم چینج کیے ڈریسنگ روم سے باہر آیا۔۔۔
پتہ ہے آج میں اماں اور علی سے ملی تھی ۔مجھے اس طرح دیکھ کر وہ دونوں بہت خوش تھے۔۔۔
اس نے چہرے پر خوشی کے بھرپور تاثرات سجائے کہا۔۔۔
آپ نے پہلے گریجویشن میں پھر سی ۔ایس۔ایس میں میری بہت مدد کی۔
آج میں ایک مضبوط اور باعتماد لڑکی بن چکی ہوں اپنی حفاظت خود کر سکتی ہوں۔۔
یہ خود اعتمادیت صرف و صرف آپ کی بدولت ہے۔
میں جو کچھ بھی ہوں صرف آپ ہی وجہ ہیں۔آپ نہیں جانتے آج میں کتنی خوش ہوں۔
اس کے چہرے سے اس کی خوشی صاف جھلک رہی تھی۔
سوھنی بولنے پہ آئی تو بولتی گئی۔۔ عالم محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر جھک کر اسکی بولتی بند کردی۔۔
یہ کیا ہے۔۔ عالم کو دور کرکے سوھنی نے اسے غصے سے دیکھا۔۔
تم ایسے بولتے ہوئے بہت پیاری لگتی ہو۔۔ عالم نے گہری نظروں سے اپنی زندگی کو دیکھا۔۔
آپ شاید بھول رہے ہیں کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور کوئی دیکھ لیتا تو۔۔ سوھنی نے ناراضگی سے کہا۔۔
دیکھ لیتا تو دیکھ لینے دو میں نے اپنی بیوی کو پیار کیا ہے کسی غیر کو تو نہیں۔۔ عالم نے اس کی صراحی دارگردن پر آہستگی سے اپنی ناک رب کرتے ہوئے کہا۔۔
شرم کریں تھوڑی اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں دیکھیں۔۔ سوھنی نے بے نام سی کوشش کی عالم کو شرم دلانے کی ۔۔۔
اب اتنی بھی عمر نہیں ہوئی میری۔۔۔
تم مجھے اپنے قریب آنے سے نہیں روک سکتی
My Soul...
تم میری ہو میں تمہارا بس یہ سمجھ لو اور یوں شرمانا بھی چھوڑ دو ہمارا ایک بیٹا بھی ہے ۔۔۔ مگر کیا اب ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔۔
عالم نے اب کے تھوڑا سنجیدگی سے کہا تو سوھنی اسے دیکھے گئی۔۔
ویسے آج بہت حسین لگ رہی ہو ۔۔ عالم کا موڈ ایک دم ہی چینج ہوتا دیکھ سوھنی مسکرا دی۔۔
آپ کو میں کس دن حسین نہیں لگتی۔۔ سوھنی نے محبت سے عالم کی سبز آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔۔
تم مجھے ہر دن ہر پل حسین لگتی ہو میری روح میں شامل ہو تم میری نظروں کا نور ہو۔۔
میرے بیٹے کی ماں ہو تم میرا مان ہو تم میری زندگی کا اجالا ہو تم میری دل کی دھڑکن ہو تم تو کیوں نہ لگو گی تم مجھے حسین ؟
بلکہ مجھے لگتا ہے ہر گھڑی وقت کے ساتھ ساتھ تم اور حسین ترین ہوتی جارہی ہو اور میری دیوانگی بھی وقت کے ساتھ ساتھ تمہارے لئے بڑھتی جارہی ہے ۔۔
عالم کے لفظ ہمیشہ سوھنی کو میسمرائز کردیتے تھے۔۔۔۔
وہ دیکھو آسمان پر سات ستارے۔۔۔عالم نے سوھنی کی توجہ کھڑکی سے نظر آتے ہوئے سات ستاروں کے جھرمٹ کہکشاں ہر دلائی۔۔۔
وہ تو ستارے ہیں۔۔۔سوھنی نے اس کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔تو کہا۔۔۔
یہ سب ہمارے پاس کب آئیں گے؟عالم نے اس سے سوال کیا۔۔۔
میں سمجھی نہیں۔۔۔سوھنی نے ناسمجھنے والے انداز میں حیرانی سے کہا۔۔۔
ایک تو ہے ہمارے پاس۔۔۔غازیانِ عالم۔۔۔۔
باقی کے ارحانِ عالم، دعاء عالم، شانِ عالم اور۔۔۔۔
بس بس بس۔۔۔میں سمجھ گئی۔۔۔۔سوھنی نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسے روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کس نیکی کا بدلہ ہیں آپ۔۔ سوھنی نے کئی ہزار بار اپنا دہرایا ہوا جملہ کہا مگر آج تک اسے خود بھی سمجھ نہیں آیا کہ عالم واقعی اسکی کس نیکی کا صلہ ہے۔۔
وہ خوبصورت تو تھی مگر عالم نے اپنی محبت سے اسے مزیدحسین بنا دیا تھا
یوں روز اپنی شوہر کے منہ سے اپنے لئے محبت بھرے الفاظ اسے ایک نئے طریقے سے حسن بخشتے تھے۔۔
خدا سے جتنا شکر ادا کرتی اسے کم لگتا تھا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ عالم کی محبت کو اسنے بڑھتے ہوئے ہی دیکھا تھا تو جیسے جیسے اسکی محبت بڑھی ویسے ہی سوھنی خدا کی اور بھی زیادہ شکرگزار بن گئی تھی۔
*****
اعیان کی وفات بعد عالم اور سوھنی نے مختلف مزار پر جا کر اس کی روح کے ایصال ثواب کے لئےغریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا۔۔۔
سوھنی مزار کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی کہ سبز چولہ پہنے ہوئے ایک بزرگ اس کے قریب آیا۔۔۔۔
جس کی آنکھوں کا رخ اوپر آسمان کی جانب تھا۔۔۔
اس نے سوھنی کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
تیرے ماتھے پر چمکتی یہ نیلی روشنی تیرے روشن مقدر کی نشانی ہے۔۔۔
لیکن تیرا پنجوں کے بل چلنا زندگی کے اونچے نیچے راستوں میں ڈگمگانے کا اشارہ ہیں۔
پر تو فکر نا کر تیرا رب تیرے ساتھ ہے۔۔۔
اس نے ایک تعویذ سوھنی کی طرف بڑھایا۔۔۔
جسے سوھنی نے تھام لیا۔۔۔۔
اس سارے عرصے میں اسے ایسا لگا کہ وہ کچھ لمحوں کے لیے ہیپنٹائز ہو چکی ہے۔۔۔
اس کا دل تو دھڑک رہا تھا مگر اس کا جسم بے جان تھا۔۔۔
جیسے وہ اس لمحے میں مقید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔
عالم نے پیچھے سے آکر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
لمحے کا فسوں ٹوٹا اور اس نے عالم کی طرف دیکھا۔۔۔
کیا ہو؟
عالم نے اس کے حواس باختہ چہرے پر نظر ڈال کر پوچھا۔۔۔
وہ۔۔۔وہ سوھنی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔
مگر پیچھے کوئی نا تھا۔۔۔
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔۔۔۔مگر ندارد۔۔۔۔
سوھنی نے وہ تعویذ عالم کے گلے میں ڈالا۔۔۔
عالم نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔۔
اس سے پہلے کہ سوھنی کچھ بولتی۔۔۔۔
عالم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تعویذ عشق ❤️
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Taweez E Ishq Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Taweez E Ishq written by Hina Asad. Taweez E Ishq by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment