Rang Diya Terey Ishq Ney By Zainab & Neha Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Rang Diya Terey Ishq Ney By Zainab & Neha Complete Romantic Novel |
Novel Name: Rang Diya Terey Ishq Ney
Writer Name: Zainab & Neha
Category: Complete Novel
"آئدہ۔۔۔۔آئدہ۔۔۔تمہیں پتا ہے ابھی ابھی لالہ نے مجھے فون کیا تھا۔۔۔۔وہ کہہ رہے تھے کے یونیورسٹی میں ہمارا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔۔۔۔اور وہ ہمیں لینے آرہے ہیں ہم ان کے ساتھ کراچی جائیں گے۔۔۔۔"
معصومہ آہل سے فون پر بات کرنے کے بعد بھاگتی ہوئی آئدہ کے پاس آئی اور خوشی خوشی اسے بتانے لگی۔۔۔۔
اسکا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔۔۔۔معصومہ کی بات سن کر آئدہ نے ہاتھ میں پکڑا فون سائڈ ہر پھینکا اور چھلانگ مار کر بیڈ سے اتری۔۔۔
"واقعی میں۔۔۔۔تم سچ کہہ رہی ہو معصومہ۔۔۔"
آئدہ نے معصومہ کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تو وہ اپنا سر ہلانے لگی۔۔۔
"بڑوں نے کراچی جانے پر کوئی شرط نہیں رکھی۔۔۔"
آئدہ نے حیرت سے پوچھا تو معصومہ کچھ سوچنے لگی۔۔۔۔
"وہ۔۔۔لالہ اور بھی کچھ بول رہے تھے پر میں نے خوشی کے مارے پوری بات ہی نہیں سنی اور کال کاٹ کر تمہارے پاس آگئی۔۔۔۔"
معصومہ اپنی چھوٹی سی آنکھوں میں معصومیت سمو کر بولی۔۔۔۔
"اللہ اللہ۔۔۔۔معصومہ تم لالہ کی پوری بات تو سن لیتی ایک بار۔۔۔۔بلکل پاگل ہو تم۔۔۔"
آئدہ جھنجلا کر بولی اور اسکا ہاتھ چھوڑ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔اتنا تو وہ جانتی تھی کہ بڑے انہیں بغیر کسی شرط کے تو کراچی جانے نہیں دیں گے خاص کر ماضی کی وجہ سے کیونکہ ماضی میں جو کچھ ہوا تھا وہ خان حویلی پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا۔۔۔۔
"معصومہ ابھی کھڑی کیا ہو۔۔۔۔فون کرو لالہ کو اور پوری بات پوچھو ان سے۔۔۔۔"
آئدہ نے چڑ کر کہا تو معصومہ آہل کو کال کرنے لگی۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔؟"
آئدہ نے معصومہ کو دوسری بار کال ملاتے دیکھا تو سوال کیا۔۔۔۔۔
"لالہ کا نمبر بزی جارہا ہے۔۔۔۔"
معصومہ بولتے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔آئدہ نے منہ بنایا۔۔۔۔اپنا دھیان بٹانے کے لیے اس نے فون اٹھایا اور اپنے پسندیدہ کام میں مشغول ہو گئی یعنی ناول پڑھنے لگی۔۔۔۔۔
"بی بی جی۔۔۔آجائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔۔"
کچھ دیر بعد ملازمہ نے پیغام دیا تو معصومہ باہر جانے کے لیے اٹھی مگر پھر آئدہ کی طرف مڑی۔۔۔
"رکھو فون اور چل کر پہلے کھانا کھاو۔۔۔"
معصومہ نے آئدہ کو ناول پڑھنے میں مگن دیکھا تو بولی۔۔۔
"ہاں بس۔۔۔یہ پیج ختم ہو جائے آتی ہوں۔۔۔"
آئدہ نے بغیر دیکھے کہا۔۔۔
"آئدہ۔۔۔۔میں جانتی ہوں تمہارا پیج ختم کرنے کا مطلب پورا ناول ختم کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔دیر سے آو گی تو دا جی سے بےعزت ہو جاو گی۔۔۔ابھی چلو۔۔۔"
معصومہ نے اسکے ہاتھ سے فون لے لیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگی ساتھ ہی اسکو دا جی کا خوف بھی دلایا۔۔۔۔
"افففف۔۔۔کیا ہے یار چل رہی ہوں۔۔۔"
آئدہ چڑ کر بولی اور اسکے ساتھ باہر چلی گئی۔۔۔
وہ دونوں سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتی نیچے کھانے کی ٹیبل پر چلی آئیں جہاں گھر کے تقریبا سارے فرد موجود تھے۔۔۔ان دونوں کے آتے ہی کھانا شروع ہوا۔۔۔کھانا کھانے کے بعد داجی نے سب کو اپنے کمرے میں بلایا۔۔۔سب کے چہروں پر سکون تھا۔۔۔آئدہ اور معصومہ پریشان ہوگئیں کے آخر ایسی کیا بات ہے کہ سب کو داجی نے اپنے کمرے میں بلایا ہے۔۔۔دونوں آپس میں کھسر پھسر کرنے لگیں۔۔۔۔ملازمہ نے انکو پیغام دیا کے داجی اور باقی سب دونوں کا کمرے میں انتظار کر رہے ہیں تو وہ دونوں بجلی کی رفتار سے داجی کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔۔۔۔
دروازہ نوک کیا اور اجازت ملنے پر وہ دونوں اندر داخل ہوئی تو کمرے میں سب بڑے موجود تھے۔۔۔۔اگر کوئی اور لیٹ آیا ہوتا تو ضرور داجی کی باتیں سنتا مگر وہ تو داجی کی لاڈلیاں تھیں۔۔۔وہ دونوں خاموشی سے جاکر صوفے پر بیٹھ گئیں اور باری باری سب کے چہروں کو دیکھ کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔آئدہ نے فرحین بیگم(آئدہ کی امی)کی طرف دیکھ کر اشاروں میں سوال کیا مگر انہوں نے سر نہ میں ہلا دیا۔۔۔
"معصومہ بچے۔۔۔۔آہل سے بات ہوئی ہے تمہاری۔۔۔"
داجی نے معصومہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔معصومہ کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ اسکو بتا رہے ہیں یا پوچھ رہے ہیں۔۔
"جی داجی۔۔۔۔وہ کہہ رہے تھے کہ رات تک وہ حویلی پہنچ جائیں گے اور آئدہ اور مجھے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔"
معصومہ نے داجی کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تو وہ سر ہلانے لگے۔۔۔
"ہممم۔۔۔بتا چکا ہے وہ ہمیں۔۔۔۔خیر معصومہ تم تو اپنے لالہ کے ساتھ جا رہی ہو۔۔۔آئدہ کس کے ساتھ جائے گی۔۔۔؟"
داجی نے آئدہ کی طرف سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔۔۔آئدہ جو سر جھکا کر بیٹھی تھی اسنے اس عجیب سے سوال پر داجی کی طرف دیکھا۔۔۔
"داجی۔۔۔آئدہ تو میرے اور لالہ کے ساتھ جارہی ہے نہ۔۔۔میرے لالہ آئدہ کے لالہ بھی تو ہیں نہ۔۔"
کسی کے کچھ بھی بولنے سے پہلے معصومہ نے کہا۔۔۔آخر کو وہ داجی اور آہل کی لاڈلی تھی اسکو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔۔
"معصومہ!۔۔۔آہل تمہارا سگا لالہ ہے۔۔۔اور آئدہ کے چاچو کا بیٹا ہے صرف منہ بولا لالہ ہے وہ آئدہ کا۔۔۔"
داجی نے معصومہ کو ایسے سمجھایا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔۔۔معصومہ نے سر ہلایا اور اپنا سر جھکا کر بیٹھ گئی۔۔۔
"آئدہ بچے۔۔۔ہم نے تمہارے لیے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔۔یا تو تمہیں ہمارے فیصلے کا احترام کرنا ہوگا یا پھر آگے نہیں پڑھو گی۔۔۔فیصلہ تمہارا ہے۔۔"
داجی نے رعب دار آواز میں کہا اور "فیصلہ تمہارا ہے"تو ایسے کہا جیسے اسکو اچھےخاصے آپشنز دیے ہوں۔۔۔
آئدہ کے چہرے کے تاثرات پل میں بدلے۔۔۔۔داجی نے فیصلہ کیا تھا تو کوئی عام فیصلہ تو ہوگا نہیں۔۔۔
"ک۔۔۔کیسا فیصلہ داجی۔۔۔"
آئدہ نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔۔۔معصومہ اور آئدہ دونوں کو تجسس ہو رہا تھا کہ آخر کونسا فیصلہ لیا ہے۔۔۔
"کل تمہارا نکاح ہے۔۔۔۔"
داجی نے ان دونوں کے سروں پر بم ہی تو پھوڑا تھا۔۔۔۔۔آئدہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھئ۔۔۔معصومہ کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔۔۔
"مم۔۔میرا نکاح داجی۔۔۔۔مگر کک۔۔کس سے۔۔"
حیرت کے مارے آئدہ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔
"زاہران سے۔۔۔۔تمہاری پھپو نے تمہارا رشتہ کب سے مانگا ہے اور ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہیں اس لیے کل تمہارا عصر کے بعد نکاح ہے زاہران سے۔۔۔۔شام میں تمہاری پھپو بھی آجائے گئ۔۔۔۔"
داجی نے جواب دیا۔۔۔آئدہ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اسکے کانوں میں گرم سیسہ ڈال دیا ہو۔۔۔۔
آئدہ نے بے اختیار فرحین بیگم کی طرف دیکھا جو اسکی طرف دیکھتے ہوئے اطمینان سے مسکرا رہی تھیں۔۔۔۔آئدہ کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر بےمول ہوا تھا جو کسی کی بھی نظروں میں آنے سے پہلے اس نے صاف کیا تھا۔۔۔۔۔۔
اسکی دماغ کی سکرین پر صرف زاہران گھوم رہا تھا اور کانوں میں یہ الفظ گونج رہے تھے کہ "تمہارا نکاح ہے زاہران کے ساتھ۔۔۔۔"
معصومہ نے اسکا ہاتھ پکڑا تو وہ ہوش میں آئی اور معصومہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے ملےجلے تاثرات تھے۔۔۔وہ خوش کیوں نہ ہوتی زہران تو اس کا فیورٹ لالہ تھا۔۔۔۔۔
"پر دا۔۔۔۔داجی۔۔۔وہ لالہ ہیں میرے میں کیسے۔۔۔"
وہ بول رہی تھی جب داجی نے بات کاٹی۔۔۔۔
"وہ تمہارا سگا بھائی نہیں ہے۔۔۔۔اگر تم اس کو اپنا لالہ مانتی تھی تو وہ پہلے کی بات تھی مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔اور کل ویسے بھی جمعہ ہے آج رات کا وقت ہے فیصلہ کرلو۔۔۔۔"
داجی نے آئدہ کو بغیر دیکھے کہا۔۔۔آئدہ نے بےیقینی سے سب کی طرف دیکھا مگر کوئی اس کو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔اس نے اپنا ہاتھ معصومہ کے ہاتھ سے نکالا اور اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔
"آئدہ تمہارے داجی نے کبھی تمہارے منہ سے انکار نہیں سنا۔۔۔۔انکار کرنا ہو تو معصومہ کو بھیج دینا خود مت آنا کل صبح نو بجے تک کا وقت ہے۔۔۔۔مجھے امید ہے معصومہ کو بھیجنے کی نوبت نہیں آئے گی۔۔۔"
داجی کی آواز پر وہ رک گئی مگر مڑی نہیں۔۔۔داجی نے اپنی بات مکمل کی تو چند لمحے وہ اسی طرح انکی طرف پشت کر کہ کھڑی رہی اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکلی اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
وہ کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔
زاہران کو تو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کتنا چڑتا تھا وہ اس سے۔۔۔۔وہ کیسے بھول سکتی تھی اسکا سرد برف جیسا رویا کتنی مشکلوں سے وہ اسے برداشت کرتا تھا۔۔۔وہ جب حویلی آتا تھا تو وہ کمرے سے نہیں نکلتی تھی کیونکہ زہران کا ہتک آمیز رویہ اسکی برداشت سے باہر تھا۔۔۔۔۔
زاہران کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔کتنی ہی دیر وہ دروازے کے ساتھ بیٹھ کر سسکتی رہی۔۔۔داجی کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔
وہ کسی صورت انکار نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔کیونکہ ایک انکار داجی کا مان اور بھروسہ ایک لمحے میں توڑ سکتا تھا اور جو کچھ ماضی میں ہوا تھا وہ تو اس وجہ سے کبھی انکار نہیں کر سکتی تھی دا جی کا بھروسہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی توڑنے کا نہیں سوچا تھا۔۔۔۔داجی کے کسی فیصلے پر اس نے کبھی اختلاف نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی داجی کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کرتے انہوں نے یہ فیصلہ بھی کافی سوچ سمجھ کر کیا ہوگا مگر داجی اسکا نکاح اس شخص سے کرنا چاہ رہے تھے جو شاید اس سے نفرت کرتا تھا نفرت بھی کم شدید نفرت کہنا بہتر ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ اپنی زندگی کیسے گزارے گی۔۔۔۔یہ ساری سوچیں اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھیں۔۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج وہ پھر سے رات کے دوسرے پہر اللہ کی بارگاہ میں آنسو بہا رہی تھی اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہی تھی ایک دم آنکھوں کے پردوں پر اس کا بھیانک ماضی لہرایا تو وہ زاروقطار رونے لگی اور اپنے گھر والوں کو یاد کرنے لگی روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔۔۔۔۔کاش وہ ماضی میں وہ فحاش غلطی نہ کرتی تو وہ آج یہاں اکیلی نہ ہوتی (سارا قصور ہی تو اس کاش کا ہوتا ہے)کسی بچی کے رونے کی آواز پر وہ ہوش میں آئی اور اپنے آنسو صاف کیے اور بچی کی طرف بڑھی بچی کو اٹھا کر وہ ٹہلنے لگی مگر بچی خاموش نہ ہوئی شاید بچی کو بھوک لگی تھی تو اس نے بچی کو دودھ دیا تو وہ سو گئ وہ بھی بچی کے ساتھ لیٹ گئ اور بچی کو دیکھنے لگی جو کہ چھ مہینے کی تھی اور بلکل اپنی ماں جیسے تھی وہی بڑی بڑی آنکھیں اور چھوٹی ناک اور سفید رنگت اور بھرے بھرے گال بچی کو دیکھتے اس کی لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور اس نے اس کی پیشانی چوم ڈالی یک دم اس کے باپ کا سوچ کر اس کی مسکراہٹ میں ڈھلے لب سکڑ گئے اور اس نے کرب سے آنکھیں بند کی اور سونے کی کوشش کرنے لگی اسے پتا تھا نیند تو آنی نہیں کیونکہ اس کی نیندیں تو کافی عرصے پہلے اس سے روٹھ گئ تھی دیر سے ہی صحیح مگر اس کی آنکھ لگ گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
یہ فرحان ولا کا منظر تھا جہاں ہالے سخت جھنجلائی ہوئی لاونج میں کھڑی تھیں اور اپنی بات منوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی جبکہ فاطمہ بیگم اسکی بات پر کان دھرے بغیر چاول صاف کر رہی تھیں کیونکہ انہیں دن کے کھانے کی تیاری بھی کرنی تھی۔۔۔۔
"امی پلیز مان جائیں نہ۔۔۔"
نور نے منت کرنے والے انداز میں کہا۔۔۔
"نور میں نےکہا نہ نہیں تو نہیں۔۔۔جاو یہ چاول لے جاو اور بھگو کہ آو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے چاولوں کی پرات اس کی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ پیر پٹختی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔اپنی ضد کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے چاول بھگوئے اور واپس لاونچ میں آگئی جہاں فاطمہ بیگم اب نوری سے صفائی کروا رہی تھیں۔۔۔
"امی پلیز نہ۔۔آپ جانتی ہیں نہ مجھےہاسٹل لائف اکسپیرینس(Experience) کرنے کا کتنا شوق ہے۔۔۔"
ہالے انکی پاس جاتے ہوئے جوش سے بولی۔۔۔
"افف ہالے۔۔۔میں تمہاری ان عجیب عجیب خواہشات کا کیا کروں ۔۔"
فاطمہ بیگم نے اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔
"اوہو امی۔۔۔میری خواہشات کا آپ نے کیا کرنا جو کرنا ہے میں نے کرنا ہے آپ صرف ہاں کریں۔۔۔"
ہالے انکی بازو ہلاتے ہوئے بولی کیونکہ وہ اسکی طرف دیھان نہیں دے رہی تھی۔۔۔
فاطمہ بیگم نے مڑ کر ہالے کو دیکھا جسے خوب باتیں بنانا آگئی تھیں انکا دل بس ایک ہی چیز کے لیے کر رہا تھا وہی روایتی ماں بن جائے ان کا جوتا ہو اور ہالے کا سر اور اس کی اچھے سے مرمت کردیا جو فضول کی ضد کر رہی تھی ہوسٹل میں رہنے کی گھر کے ہوتے ہوئے بھی کیونکہ محترمہ کو ہوسٹل لائف اکسیپرینس کرنی تھی عجیب بے تکی سی خواہشات تھی محترمہ کی۔۔۔۔۔
"نور یہاں سے چلی جاوں اس سے پہلے میرا جوتا ہو اور تمہارا سر مجھے کام کرنے دو تنگ مت کرو جا کر اپنا کمرا صاف کرو عجیب کباڑ کھانا بنایا ہوا ہے کمرے کو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے تنگ آکر نور کو اچھا خاصا لتاڑا تو نور کا سارا جوش جھگ کی مانند بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
"نوری وہ دیکھو اس کونے میں کچرا پڑا ہے۔۔۔میں کچن میں جارہی ہوں واپس آوں تو مجھے وہ وہاں نظر نہ آئے۔۔۔۔"
ہالے کچھ بولنے ہی لگی تھی جب فاطمہ بیگم نے نوری کو مخاطب کیا اور ہالے کی سنے بغیر کچن میں چلی گئیں کیونکہ انھیں پتا تھا نور نے اپنا ہاسٹل والی فضول بات کرنی ہیں جب کہ پیچھے نور اپنا سے منہ لے کر رہ گئ۔۔۔۔
"بی بی جی۔۔۔۔"
نوری کی آواز پر ہالے نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
"کیا ہے۔۔۔اور کتنی دفعہ کہا ہے یہ بی بی جی نہ بولا کرو نور یا ہالے بولا کرو۔۔۔"
ہالے نے چڑ کر کہا۔۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے بی بی۔۔۔آہ میرا مطلب نور جی ایک بات تو بتائیں۔۔۔"
نوری بول رہی تھی جب ہالے نے بی بی جی بولنے پر گھورا تو وہ گڑبڑا گئ۔۔۔۔
نور نے آئیبرو اچکا کر اسے بولنے کا اشارہ کیا۔۔۔
"آپ ڈاکٹرنی بن رہی ہیں۔۔۔۔؟"
نوری کے بے تکے سوال پر ہالے نے اس ڈبل گھوری سے نوازا۔۔۔
"نوری اب تمہیں یہ کس نے کہ دیا۔۔۔؟ارحم نے کہا ہے اگر اس نے کہا ہے تو اس کے بات پر کان مت دھرا کرو وہ ایویں فضول بکواس کرتا رہتا ہے۔۔۔"
ہالے نوری کی سنے بغیر اپنی ہی شروع کردی۔۔۔
"نہیں نور جی ارحم نے کچھ نہیں کہا اب بار بار ہاسپٹل جانے کی بات کر رہی ہیں نہ۔۔۔۔بیمار تو آپ لگ نہیں رہی تو۔۔۔۔"
ان پڑھ نوری نے اپنی عقل کے مطابق بولی جب کہ ہالے نے غصے میں اس کی بات کاٹی۔۔۔۔۔۔
"نوری۔۔۔۔تم نا۔۔۔"
ہالے کو سمجھ نہیں آئی نوری کو کیا بولے۔۔۔۔اس نے چند گہری سانسیں لی اور اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔۔۔۔۔۔
"نوری میں نے ہسپتال نہیں ہاسٹل کہا ہے۔۔۔ہاسٹل میں ان لڑکیوں کی رہائش ہوتی ہے جو لڑکیاں کسی مجبوری کے تحت اپنے گھر سے دور ہوتی ہیں۔۔۔"
ہالے نے نوری کو سمجھاتے ہوے کہا تو وہ سر ہلانے لگی۔۔اسنے ایک اور سوال کرنے کے لیے میں کھولا ہی تھا جب ہالے بولی ۔۔۔
"نوری۔۔۔اب چپ کرکے اپنا کام کرو ورنہ امی نے آکر ہم دونوں کی وہ عزت کرنی ہے نہ کے مزہ آہ جانا ہے اور میں تو عزت کروانے کے موڈ میں نہیں ہوں ۔۔۔۔"
ہالے نے جلدی سے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر ایک بار نوری شروع ہو جاتی ہے تو چپ کرتی نہیں ہے پھر۔۔۔
"پھر کیا سوچا اپنے۔۔۔"
فاطمہ بیگم کچھ دیر بعد کچن سے باہر آئیں تو ہالے نے سوال کیا۔۔۔
"کچھ نہیں سوچا میں نے اور اگر دوبارہ اس بارے میں بات کی نہ تو اب سچ میں تمھیں ایک کان کے نیچے لگا دینی۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے غصے سے ہالے کو گھور اور جواب دیا۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔۔میں پاپا سے کہوں گی وہ آپ کو خود ہی منا لیں گے۔۔۔"
ہالے نے کہا اور جانے لگی۔۔۔۔
"مجھے وہ بعد میں منائیں گے پہلے خود تو مان جائیں۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے کہا تو ہالے جاتے جاتے رک گئی اور انکی طرف پلٹی۔۔۔
"اگر وہ بھی نہ مانے تو کیا ہوا۔۔۔میں بھائی جان سے کہوں گی۔۔وہ کبھی میری بات سے انکار نہیں کرتے اس بار بھی نہیں کریں اور آپ دونوں کو خود ہی منالیں گے۔۔۔۔آخر کو انکی اکلوتی بہن ہوں مجھے انکار کر کہ میری ناراضگی ہرگز مول نہیں لیں گے۔۔۔"
ہالے نے اترا کر تفصیل سے کہا اور فاطمہ بیگم کو کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔
"دونوں باپ بیٹے نے اسے سر پر چڑھا رکھا ہے۔۔۔۔بہت زیادہ بگڑ گئی ہے۔۔۔اب اسنے ہاسٹل جانے کی ضد کی ہے تو یہ وہاں جا کر ہی رہے گی چاہے میں منع کروں یا نہ کروں۔۔۔ "
ہالے جہاں سے گئی تھی فاطمہ بیگم اس جگہ کو دیکھتے ہوئے سوچ کر رہ گئیں۔۔۔۔
جی تو یہ تھی ہالے نور جو کہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی ہالے شرارتی،چلبلی اور ضدی تھی جو ہر وقت فاطمہ بیگم کی ناک میں دم کرکہ رکھتی تھی مگر گھر کی رونق بھی اسی سے تھی۔۔۔بڑی بڑی ہیزل بروان آنکھیں،سیدھی کھڑی ناک،کمر تک آتے کالے بال جن میں براون ہائلائیٹس تھیں،سفید رنگت،مناسب قد ،اور بھرے بھرے لال گال تھے۔۔۔ 18 سال کی ہالےنور کسی کے بھی دل پر آسانی سے راج کر سکتی تھی۔۔۔
ہالے کی فیملی زیادہ بڑی نہ تھی فرحان صاحب(ہالے کے والد) جو کے ایک بزنس مین تھے اور انکی بیگم فاطمہ(ہالے کی والدہ) ہاوس وائف تھی۔فرحان صاحب اور فاطمہ بیگم کی تین اولادیں تھی سب سے بڑا سنان جو کہ 22 سال کا تھا اور بی_ایس_کامرس کے آخری سمیسڑ میں تھا، اس سے چھوٹی ہالے نور جس کا داخلہ کچھ دن پہلے ہی کراچی یونیورسٹی میں بی_ایس_انگلش میں ہوچکا تھا۔۔۔سنان اور ہالے دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں تھے۔۔۔۔ان دونوں سے چھوٹا ارحم تھا جوکہ پندرہ سال کا تھا اور نویں جماعت کا طالب علم تھا۔۔۔۔۔ہالے اپنے بھائی سنان کی لاڈلی تھی جبکہ ارحم کے ساتھ اسکی کم کم ہی بنتی تھی۔۔۔۔۔
"آئدہ۔۔۔۔آئدہ دروازہ کھولو۔۔۔۔"
دروازے کی دوسری طرف سے معصومہ کی آواز آئی تو آئدہ سوچوں کے چنگل سے باہر نکلی۔۔۔۔
"آئدہ پلیز یار دروازہ کھولو۔۔۔"
معصومہ التجائی انداز میں بولی۔۔۔۔آئدہ زمین سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور واشروم چلی گئ۔۔۔۔اسنے اپنے آنسو صاف کیے اور منہ دھو کر وہ باہر آئی تو معصومہ کو اپنے کمرے میں پایا جس کے ہاتھ میں ڈپلیکیٹ چابی تھی۔۔۔۔آئدہ نے ایک نظر معصومہ کو دیکھا اور شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئ اور اپنے بکھرے بال بنانے لگی۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے معصومہ۔۔۔؟"
آئدہ نے سوال کیا۔۔۔وہ ایسے رئیکٹ کر رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔وہ کسی کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔۔۔
"رو رہی تھی نہ تم۔۔۔"
معصومہ اسکے پاس آتے ہوئے بولی۔۔۔وہ اسکی سرخ آنکھوں اور سرخ ناک سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ کب سے رو رہی تھی۔۔۔
"معصومہ میرے آنسو اتنے سستے نہیں ہیں کہ ہر چھوٹی بات پر بہاتی رہوں۔۔۔"
آئدہ ہاتھ میں پکڑا برش ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف مڑ کر بولی تو معصومہ اسے گھورنے لگی۔۔۔
"اب ایسے تو مت دیکھو۔۔۔"
آئدہ نے کہا اور جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی ہلک میں آنسوؤں کا گولا پھنستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
"یہ کوئی چھوٹی بات تو بلکل نہیں ہے۔۔اور آئدہ تم سب سے ہر چیز چھپا سکتی ہو مگر مجھ سے کچھ نہیں۔۔۔"
معصومہ نے کمرے کا دروازہ لوک کیا اور اسکے پاس آکر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
"ہاں بلکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔میں تم سے کچھ نہیں چھپا سکتی کیونکہ میرے پیٹ میں کوئی بات تب تک نہیں ٹکتی جب تک میں تمہیں بتا نہ دوں۔۔۔"
آئدہ نے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"تو بتا کیوں نہیں رہی۔۔۔"
معصومہ نے سوال کیا۔۔
"کیا بتاوں میں تمہیں معصومہ۔۔۔؟"
آئدہ انجان بنی۔۔
"کہ تم روئی ہو داجی کے فیصلے پر۔۔۔"
معصومہ نے کہا تو آئدہ کو داجی کی باتیں یاد آئی اور آنکھوں میں خارا پانی جمع ہونے لگا۔۔۔
"تو کیا مجھے انکے فیصلے پر خوش ہونا چاہیے۔۔۔۔؟"
آئدہ نے سوالیہ نظروں سے معصومہ کو دیکھا۔۔۔
"میں نے یہ کب کہا۔۔۔مگر انکے فیصلے میں ایسا بھی کچھ نہیں ہے کہ تم رونے ہی لگ جاؤ۔۔۔"
معصومہ نے اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا۔۔۔
"اور ویسے بھی۔۔کسی نہ کسی سے تو تمہارا نکاح ہونا ہی ہے نہ ایک دن۔۔۔بس تم نے زاہران لالہ کو اس نظر سے کبھی نہیں دیکھا اور نہ کبھی اس بارے میں سوچا ہے اس لیے تمہیں عجیب لگ رہا ہے اور۔۔۔"
معصومہ بول رہی تھی جب آئدہ نے بات کاٹی۔۔۔۔
"تم نہیں سمجھ سکتی معصومہ۔۔۔۔۔میرے لیے یہ بات میٹر نہیں کرتی کہ میں نے زاہران لالہ کو کبھی اس نظر سے دیکھا ہے یہ نہیں۔۔۔۔اگر اس بات کو لے کر رشتوں سے انکار ہونے لگے تو پھر تو شادیاں ہوں گی ہی نہیں کیونکہ ہم لڑکیاں کسی کو اس نظر سے نہیں دیکھتی۔۔۔۔۔"
آئدہ نے معصومہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔۔جو لوگ محبت کرتے ہیں انکی بات الگ ہے۔۔۔۔"
آئدہ نے کہا تو معصومہ اسے شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔
"تو کیا تم کسی سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔"
معصومہ نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا آئدہ کا کیا معلوم ایک کان کے نیچے لگا ہی دے۔۔۔۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا ڈرامے کم دیکھا کرو۔۔۔۔"
آئدہ نے اس کے بازو پر زور سے تھپڑ رسید کیا اور دانت پیس کر بولی۔۔۔۔
"آئے۔۔۔۔ظلم کتنی زور سے مارا ہے صحیح مردانہ ہاتھ ہیں تمہارے۔۔۔۔اور پھر کیا وجہ ہے انکار کی۔۔۔کھل کر بولو نہ آخر ہوا کیا ہے۔۔۔۔غلط ہی کیا ہے زاہران لالہ سے نکاح کرنے میں۔۔۔۔۔"
معصومہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"نکاح کا مطلب صرف ایک کاغذ پر سائن کرنا نہیں ہے۔۔۔۔نکاح یعنی اپنا نام اسکے نام سے جوڑنا ہے۔۔۔اپنی پوری زندگی ایک شخص کے حوالے کرنا اس کے نام سے ہر جگہ جانے جانا ہے۔۔۔مرنے کے بعد بھی اسکے نام سے جانے جانا۔۔۔۔۔"
آئدہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
"اور میں اس شخص کے ساتھ دو لمحے گزارنے کا بھی تصور نہیں کرسکتی جو مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے۔۔۔"
آئدہ ہلکی آواز میں بولی مگر معصومہ کی تیز سماعت تک اسکے الفاظ جا پہنچے۔۔۔۔۔
"کیا کہا تم نے۔۔۔آئدہ تم پاگل ہو کیا"
معصومہ بجلی کی تیزی سے بھاگ کر اسکے پاس آئی۔۔۔
"وہ بھلا تم سے نفرت کیوں کریں گے۔۔۔۔"
معصومہ نے بےیقینی سے پوچھا۔۔۔
"یہ تو وہی شخص جانتا ہے کہ وہ مجھے سے نفرت کیوں کرتا ہے۔۔۔۔"
آئدہ کی آنکھ سے آنسو نکلنے لگے۔۔۔
"آئدہ تم پاگل ہو گئی ہو اور کچھ نہیں۔۔۔یہ صرف تمہارا وہم ہے۔۔۔مجھے تو کبھی یہ نہیں لگا کہ وہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔آخر زاہران لالہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تم سے نفرت کریں یا تم نے انکا کیا بگاڑا ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔۔۔"
معصومہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر آئدہ ایسا کیوں بول رہی ہے۔۔
اوپر سے اسکی ادھوری باتیں۔۔۔معصومہ کا دل کر رہا تھا کہ اسکو ایک تھپڑ لگائے اور آئدہ فرفر اسے سب بتانے لگی کہ آخر اسکے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔
"معصومہ میں جانتی ہوں نہ کہ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔انکا رویہ اور لہجہ چیخ چیخ کر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ میں انکو زہر لگتی ہوں۔۔۔"
آئدہ اب بری طرح سے رونے لگی تھی۔۔۔
"آئدہ پلیز ریلیکس ہو جاؤ یار۔۔۔۔بیٹھو یہاں پہ۔۔۔"
معصومہ نے اسکو صوفہ پر بٹھایا اور خود زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔
"تم نے انکا کیا بگاڑا ہے بھلا جو وہ تم سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے نفرت کرنے کی۔۔۔"
معصومہ نے کہا مگر آئدہ خاموش آنسو بہاتی رہی۔۔
"یقینا بیچ میں کوئی بات ہے جو تم مجھے نہیں بتا رہی۔۔۔"
معصومہ کو خدشہ ہوا کہ کوئی ایسی بات ضرور ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتی۔۔۔۔
"پتا نہیں معصومہ۔۔۔۔پر۔۔۔انکی آنکھوں میں میں نے اپنے لیے نفرت دیکھی ہے۔۔۔جج۔۔جب وہ مجھ سے بات کرتے ہیں تو ان۔۔۔انکا لہجہ مجھے کک۔۔۔کنٹے کی طرح چبھتا ہے۔۔۔"
اسکی سسکیاں بندھ گئی تھیں۔۔۔
"وہ اکثر ڈھکی چھپےالفاظ میں مجھ پر طنز کر جاتا ہے جو مجھے تیر کی طرح چبھتے ہیں۔۔۔۔"
معصومہ کو آئدہ پر ترس آنے لگا۔۔۔وہ ناجانے اپنے دل میں کتنا کچھ دبائے بیٹھی تھی۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ابھی تم رونا بند کرو۔۔۔"
معصومہ نے اسے کہا اور اٹھ کر بیڈ کے پاس آئی سائڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اٹھایا اور واپس اسکے پاس آکر اسے پلایا۔۔۔
"آئدہ ابھی تمہیں آرام کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔تم ایسا کرو کہ سو جاؤ کچھ دیر کے لیے۔۔۔"
جب آئدہ کے آنسو رکے تو معصومہ نے اسے کہا اور اسے بیڈ تک لائی۔۔۔اسنے آئدہ کو آرام کی گولی دی اور تب تک اسکے پاس بیٹھی رہی جب تک آئدہ پر نیند مہربان نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
ہالے اپنے کمرے میں آئی اور فون اٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئ اسنے جلدی سے ماہ روش کو کال کی تا کہ اسے ساری بات بتا سکے دوسری بیل پر کال اٹھا لی گئ۔۔۔۔۔۔
"ہیلو۔۔۔ماہ کیسی ہو۔۔۔۔"
ماہ روش کے کال اٹینڈ کرتے ہی ہالے نے کہا۔۔
"میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو نور۔۔۔"
ماہ نے جواب دے کر اس کا حال پوچھا۔۔۔۔
"میں بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔"
ہالے کے لہجے میں چڑچڑاپن محسوس کر کہ ماہ مسکرا دی اتنا تو وہ سمجھ گئ تھی وہ اپنی ضد پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی(کیونکہ اس کی ضد فضول سی تھی اور جب اسکی بات کوئی نہیں مانتاتھا تو وہ چڑچڑی ہو جاتی تھی۔۔) ۔۔۔۔
"اب کیا ہو گیا نور۔۔۔۔؟"
ماہ روش نے سوال کیا۔۔۔۔
"اب کیا بتاؤں تمھیں۔۔۔صبح سے میں ماما کو ہاسٹل میں ایڈمیشن کے لیے منا رہی ہوں مگر ماما ہیں کہ مان کے ہی نہیں دے رہی۔۔۔۔آگے سے مجھے رج کے ذلیل کر رہی ہیں۔۔۔۔بس تم شام کو میرے گھر آؤں۔۔۔۔"
ہالے نے منہ بنا کر کہا اور ساتھ ہی گھر آنے کا حکم دیا۔۔۔۔ماہ روش ذلیل کرنے والی بات پر بےساختہ ہنس پڑی۔۔۔
"تو تم نے سنان بھائی اور انکل سے بات نہیں کی۔۔؟"
ماہ روش نے ہنسی روک کر ہالے سے پوچھا۔۔۔
"پاپا تو آفس گئے ہیں اور بھائی ابھی تک نہیں آئے دونوں جب شام کو آئینگے تو ان سے بات کروں گی اور تم اب یہاں آنے کی تیاری کرو۔۔۔"
ہالے نے ماہ روش کو جواب دیا ساتھ ہی دوبارہ گھر آنے کی تلقین کی۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے فون رکھو اب اور خالہ کو سلام دینا اور شام کو گھر آنے کی پوری کوشش کروں گی۔۔۔۔۔۔"
ماہ روش نے ٹال مٹول سے کام لیا اور ساتھ ہی فاطمہ بیگم کو سلام دینے کا کہا۔۔۔۔
"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر تم کوشش نہیں کرو گی ضرور آوگی شام کو ورنہ میں تم سے بات نہیں کرونگی اللہ حافظ اپنا خیال رکھنا۔۔۔"
ہالے نے سلام کو جواب دیا اور اس کے گھر آنے پر زور دیا ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی۔۔۔۔
"ہا۔۔۔ہالے۔۔"ماہ روش نے بولنے کی کوشش کی مگر ہالے فون کاٹ چکی تھی۔۔۔
"بلکل پاگل ہے یہ لڑکی۔۔۔"
ماہ روش منہ ہی منہ میں بڑبڑائ اور بیڈ سے اٹھ کر الماری کی طرف آئی تو کہ شام کی تیاری کر سکے۔۔آج صبح سے اسکا کچھ کرنے کو دل نہیں تھا مگر اب اسے ہالے کی طرف جانا تھا۔۔۔۔وہ ہالے کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی کیونکہ وہی تو اس کی بچپن سے دکھ سکھ کی ساتھی تھی جب جب ماہ روش کو اس کی ضرورت پڑی تھی وہ حاضر تھی وہ دونوں بچپن سے ساتھ تھی وہ دوستوں اور کزنوں کی طرح کم بہنوں کی طرح زیادہ تھی ہر جگہ وہ ایک ساتھ پائی جاتی تھی کوئی ان کو جدا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان دونوں کے بیچ اعتماد اور دوستی کا گہرا رشتہ موجود تھا ۔۔۔وہ دونوں ایسے تھیں جیسے دو قلب ایک جان۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آہل اور سنان کب سے سی ویو پر زاہران اور حمزہ کا انتظار کر رہے تھے پر وہ دونوں تھے کہ آکے ہی نہیں دے رہے تھے اور بیٹھے بیٹھے سنان کا صبر جواب دے چکا تھا بلا آخر تنگ آکر سنان بول ہی پڑا۔۔۔۔
"یار آہل یہ دونوں کہاں مر گئے ہیں ہمیں بلا کر۔۔۔"
سنان نے برا سا منہ بنایا۔۔۔
"صبر رکھو یار ابھی آجائیں گے کہاں جائیں گے اور ویسے بھی جو خبر زاہران تمہیں سنانے والا ہے وہ تمہارے چودہ طبق روشن کردے گی۔۔۔"
آہل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
"ایک منٹ۔۔۔اسکا مطلب جو بات زاہران مجھے بتانے والا ہے وہ تجھے پہلے سے پتا ہے۔۔۔آہل میرے بھائی چل اب تو ہی بتا دے مجھے ویسے بھی دیر ہو رہی ہے ہالے گھر پر انتظار کر رہی ہے میرا۔۔۔۔"
سنان نے تفصیل سے منت کرنے والے انداز میں کہا۔۔۔
"ظاہر ہے میں اسکا کزن ہوں مجھے تو پتا ہوگا ہی۔۔۔اور وہ آگیا ہے تو خود اسی سے پوچھ لے۔۔۔"
آہل نے ہاتھ کھڑے کیے اور سامنے سے آتے زاہران اور حمزہ کی طرف اشارہ کیا تو سنان نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔
"فائینلی آپ اپنی تشریف آوری کا ٹوکرا لے کر حاضر ہوہی گئے۔۔۔بڑی جلدی آئے ہیں ویسے۔۔۔"
سنان نے حمزہ اور زاہران سے گلے ملتے وقت طنز کے تیر چلائے جس ہر حمزہ ہنس دیا اور زاہران تو ناجانے کن خیالوں میں گم تھا۔۔۔
"اب تم دونوں جلدی آگئے تھے تو بھلا اس میں ہماری کیا غلطی۔۔۔"
حمزہ کے کہنے کی دیر تھی آہل نے ایک اسکے کان کے نیچے لگائی۔۔۔
"پانچ بجے زاہران نے ہمیں آنے کا کہا تھا اور چھ بجنے والے ہیں۔۔۔اوپر سے ہم لیٹ آئے ہیں۔۔۔"
آہل نے دانت پیس کر کہا ساتھ ہی ایک اور تھپڑ مارا۔۔۔
"ارے بھئی تم دونوں تو چپ کرو۔۔۔یہاں تجسس کے مارے میری جان نکلی جا رہی ہے اور تم دونوں کا جلدی آئے ہیں لیٹ آئے ہیں نہیں ختم ہو رہا۔۔۔"
اس سے پہلے کے حمزہ جوابی کروائی کرتا سنان نے دونوں کو چپ کروایا اور زاہران کو گھورنے لگا جسکا پہلے سے منہ بنا ہوا تھا اور وہ ناجانے کیا سوچ رہا تھا۔۔۔۔
"ابے کونسی محبوبہ کی یادوں میں کھویا ہوا ہے تو۔۔۔"
سنان نے زاہران کے شولڈر پر مکہ مار کر کہا تو وہ اسکی طرف خالی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کسی خواب سے جاگا ہو۔۔۔
" محبوبہ تو نہیں وہ تو ڈائریکٹ منکوحہ بن رہی ہے۔۔۔"
زاہران نے بڑبڑاہٹ کی جو ان تینوں نے سنی۔۔۔حمزہ اور آہل نے ہنسی دبائی جبکہ سنان کو حیرت کا دھچکہ لگا۔۔۔
"ہیں۔۔۔کس کو منکوحہ بنانے چلا ہے تو۔۔۔"
سنان نے سوال کیا تو زاہران نے ایک گہرا سانس کھینچا۔۔۔
"اب بکواس کر بھی دے۔۔۔اور کونسی بات تھی جسے بتانے کے لیے اتنا انتظار کروایا ۔۔۔"
سنان نے پھر سے کہا۔۔۔زاہران کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے کیسے بتائے کہ اسکے ساتھ کیا زیادتی ہونے جا رہی تھی(لڑکے کے ساتھ زیادتی واہ واہ)۔۔۔
"چھوڑ اسے۔۔۔یہ تجھے نہیں بتائے گا میں بتا۔۔"
آہل بول رہا تھا جب سنان نے بات کاٹی۔۔۔
"چپ کر۔۔تب جب میں بول رہا تھا بتا دے تو کچھ پھٹ نہیں رہا تھا منہ سے اب بتائے گا۔۔۔۔ایک لگاؤں گا الٹے ہاتھ کی۔۔۔۔"
سنان نے آہل سے کہا اور ساتھ ایک مکہ بھی دکھایا تو آہل اتنا سا منہ لےکر رہ گیا۔۔۔
"آہل بچے۔۔۔بہت ہوگئی بیٹا آپکی۔۔۔اب آپکو جانا چاہیے۔۔۔۔"
حمزہ آہل کو پکارتے ہوئے بولا۔۔۔اس سے پہلے کہ آہل اسے اپنے ہاتھوں کے جوہر دکھاتا حمزہ وہاں سے بھاگ گیا اور آہل بھی اسکے پیچھے بھاگا۔۔۔
زاہران اور سنان ان دونوں کو دیکھ کر رہ گئے جو کبھی کبھی بلکل بچے بن جاتے تھے۔۔۔۔زاہران نے ان دونوں کو دیکھ کر سر کو نفی میں ہلایا جیسے کہہ رہا ہو ان دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔
"اوہ بھئی۔۔۔اب تو کس مراقے میں چلا گیا ہے بتا بھی دے کیا ہوا ہے تجھے جو اتنا سڑا ہوا منہ بنایا ہے۔۔۔"
سنان نے زاہران کو سوچوں میں گھرا دیکھا تو اپنی عادت کے مطابق ایک رکھ کہ اسکی کمر میں لگائی جس پر زاہران ہڑبڑا کر ہوش میں آیا۔۔۔۔
"بتا رہا ہوں موٹے اور اپنے یہ ہتھوڑے جیسے ہاتھ کم چلایا کر۔۔۔"
زاہران نے سنان کو تیز گھوری سے نوازتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں اور موٹا۔۔۔"
سنان تو اپنے لیے موٹا لفظ سن کر ہی صدمے میں چلا گیا اور زاہران کو منہ کھولے دیکھنے لگا۔۔۔
"اچھا اب سٹار پلس کی بہوؤں کی طرح ایکٹنگ نہ کر اور سن میری۔۔۔"
سنان کی حرکت دیکھ کر زاہران نے بیزر لہجے میں کہا۔۔۔اپنے لیے بہو لفظ سن کر سنان جل کر رہ گیا۔۔۔
"اچھا اب منہ بند کر اور میری سن لے۔۔۔"
زاہران نے سنان کو منہ کھولتے دیکھا تو اسے ٹوکا۔۔۔سنان کا دل شدت سے کیا کہ زاہران کو دو تین سنا دے اور لگا بھی دے پر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خاموش ہو گیا۔۔۔۔
"وہ نہ۔۔۔"
زاہران بولتے بولتے خاموش ہوگیا۔۔
"اب بتا بھی دے زاہران ورنہ میں تیرا منہ توڑنے میں ایک سیکنڈ لگانا ہے۔۔۔"
سنان نے دانت پیس کر کہا۔۔۔
"کل میرا نکاح ہے۔۔۔"
زاہران نے جلدی سے کہا اور اپنی آنکھیں بند کر دی۔۔۔اسکی آنکھوں کے پردوں پر اسکا عکس لہرا گیا تھا۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔کیا۔۔کیا بولا دوبارہ بول۔۔۔"
سنان کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی مگر اگلے ہی پل بات سمجھنے پر وہ حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔
"یہی کہ کل میرا نکاح ہے۔۔۔"
زاہران نے اپنے الفاظ دوہرائے۔۔۔
"اللہ توبہ توبہ۔۔۔۔نہیں نہیں اب بھی نہیں بتانا تھا ضرورت ہی کیا تھی اب بتانے کی۔۔۔جب تمہارے بچے ہوجاتے تب بھی نہ بتاتے۔۔۔ہائے دوست دوست نہ رہا مطلبی دنیا مطلبی دوست۔۔۔۔اور وہ گھنے میسنے انسان دونوں نے بھی نہیں بتایا۔۔۔شرم تو بلکل بھی نہیں آئی مجھ سے باتیں چھپاتے ہوئے۔۔۔بھاڑ میں جاو اب تم سب بات ہی نہیں کر رہا اب میں۔۔۔۔اپنی شادی پر بھی نہیں بلاوں گا۔۔۔۔"
سنان نے دل کھول کر بھڑاس نکالی۔۔اسے خود بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کیا بولتا جا رہا ہے۔۔۔اسکا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا جب وہ اٹھ کر جانے لگا تو زاہران نے اسکا بازو سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا اور اپنی عادت سے ہٹ کر ایک لگائی جس سے سنان کہ منہ کو بریک لگا۔۔۔
"بکواس نہ کر زیادہ اور چپ کرکہ بیٹھ جا۔۔۔پتا نہیں کونسے نمونے کو انکل آنٹی نے پیدا کیا ہے۔۔۔"
اسکی ساری بکواس سن کر زاہران کے منہ میں جو آیا وہ اسنے بول دیا۔۔۔حمزہ اور آہل جو انکی طرف آرہے تھے زاہران کی آخر بات سن کر ان دونوں نے فلک شفاگ قہقہہ لگایا جس پر سنان مزید جل کر رہ گیا۔۔۔۔
"زیادہ سینٹی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔مجھے خود کچھ نہیں پتا تھا کچھ۔۔۔"
زاہران نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
"مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا زرا کوئی چونٹی کاٹنا۔۔۔"
سنان نے کہا۔۔۔۔تو حمزہ جوابھی اس کے پاس ہی بیٹھا تھا اس کو زور سے بازو میں چیونٹی کاٹی تو سنان تو چیخ کر ہی رہ گیا تھا (حمزہ نے کاٹی بھی تو زور سے تھی بھائی)۔۔۔۔۔۔
"تو یقین کرلے نہ اب۔۔"
حمزہ نے مسکرا کر سنان کو کہا تو وہ اسے گھور کر ہی رہ گیا۔۔۔۔
"ویسے میری بھابھی ٹو بی ہے کون اور کتنا گھنا ہے تو کچھ بتایا بھی نہیں اور پیٹ پیچھے عشق کر بیٹھا۔۔۔"
سنان نے اب اپنی ہونے والی بھابھی کا پوچھا۔۔۔
"ہنہہ۔۔۔عشق۔۔۔وہ بھی اس سے۔۔۔کہیں ہو ہی نہ جائے۔۔۔"
زاہران نے جل کر کہا۔۔۔
"کوئی پیار ویار نہیں ہوا مجھے۔۔۔امی اور داجی کروا رہے ہیں۔۔۔"
زاہران نے سنان کو گھورا۔۔۔
"او تیری۔۔۔۔مطلب تیرے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔زاہران ہمدان خان جو کہتا تھا کہ میں اپنے خاندان میں کبھی شادی نہیں کروں گا اسنے آخر کار اپنی گٹھنے ٹیک ہی دیے۔۔۔"
سنان نے مزے لےلے کر زہران کے زخموں پر خوب نمک چھڑکا۔۔۔
"سنان۔۔۔مجھے لگتا ہے تیارا جوتے کھانے کا بہت دل کر رہا ہے۔۔۔چپ کرجا ورنہ زاہران کا جوتا ہونا ہے اور تیرا سر۔۔۔"
آہل نے سنان کے کان میں گھس کر کہا۔۔۔اور زاہران بھی ضبط کے آخری مراحل تہہ کر رہا تھا صبح سے ہی اپنے نکاح کی بات سننے کے بعد اسکا دماغ گھوما ہوا تھا۔۔۔
"اب تم لوگوں کی باتیں اور سنان کا تجسس ختم ہوگیا ہے تو پلیز مجھے بہت بوکھ لگی ہے چل کر کچھ کھا لو۔۔۔"
حمزہ نے کہا۔۔۔
"ہاں۔۔چلو کسی ریسٹورنٹ چلتے ہیں۔۔زاہران کی جیب خالی کرنی ہے۔۔۔"
سنان نے مسکرا کر زاہران کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"بوکھا انسان۔۔۔۔"
زاہرن نے سنان کو دیکھ کر کہا۔۔۔وہ چاروں اپنی گاڑیوں میں بیٹھے اور سنان کے ڈیسائیڈ کیے گئی ریسٹورنٹ کی طرف چلے گئے۔۔۔۔
حیدرآباد کے قریب خان حویلی اپنی پوری شان و شوکت سے موجود تھی جس کے سر پرست دا جی تھے۔دا جی جن کا نام شیر خان تھا دا جی کی شادی انکی چچازاد کزن خالدہ سے ہوئی تھی۔دا جی کی تین اولادیں تھی سب سے بڑی ہادیہ بیگم تھی ان کی شادی انھوں نے اپنے دوست کے بیٹے حمدان سے کی تھی حمدان صاحب اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔
ہادیہ بیگم اور حمدان صاحب کی دو اولادیں تھی بڑا زاہران تھا جو کہ 23 سال کا تھا اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویٹ تھا اور اس کی بعد حمزہ تھا جو کہ 21 سال کا تھا اور وہ بھی کراچی یونیورسٹی سے بی_ایس_کامرس کے ساتویں سمیسڑ میں تھا۔ہادیہ بیگم شادی ہوکر حیدرآباد سے کراچی آئی تھی۔۔۔۔
دا جی کی دوسری اولاد راحیل صاحب تھے جن کی شادی انکی خالہ زاد فرحین سے ہوئی تھی۔راحیل صاحب اور فرحین بیگم کی دو اولادیں تھی۔بڑی اریج جوکہ 22 سال کی تھی اور اس کے بعد آئدہ تھی جو کہ 19 سال کی تھی اور ابھی اس کا ایڈمیشن کراچی یونیورسٹی میں ہوا تھا۔۔۔۔۔
داجی کی تیسری اور آخری اولاد سہیل صاحب تھے۔انکی شادی ان کی یونی فیلو ثانیہ سے پسند کی ہوئی تھی۔سہیل صاحب اور ثانیہ بیگم کی بھی دو اولادیں تھی۔سب سے بڑا آہل تھا جو کہ 22 سال کا تھا اور وہ بھی کراچی یونیورسٹی سے بی_ایس_کامرس کے آخری سمیسڑ میں تھا پھر معصومہ تھی جو کہ 19 سال کی تھی۔
معصومہ اور آئدہ کی پیدائش میں چند مہینوں کا ہی فرق تھا۔ دونوں کا ابھی ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی میں بی_ایس_ایجوکیشن میں ایڈمیشن ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
داجی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے کیونکہ ماضی میں جو کچھ ہوا تھا اس پر وہ آج بھی لوگوں کی باتیں اور طنز سن کر پچھتاتے تھے اس لیے وہ لڑکیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے حق میں نہ تھے اس لیے انھوں نے آئدہ کے نکاح کا فیصلہ کیا تھا نکاح تو وہ معصومہ کا بھی کرنا چاہتے تھے مگر آہل نے ان کو ایسا نہیں کرنے دیا تھا اور ان کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تھا۔آہل دا جی کا لاڈلہ پوتا تھا اس لیے دا جی اس کے آگے ہار گئے تھے۔۔۔۔
زاہران اور آہل اسکول سے ساتھ تھے پھر ان کے ساتھ حمزہ بھی آگیا تھا جبکہ آہل کالج سے ان کے ساتھ تھا۔
ان چاروں نے مل کر بزنس کھولا تھا پر ابھی بزنس کو صرف زاہران دیکھتا تھا جبکہ وہ تینوں یونی کے بعد وہاں جاتے تھے۔۔۔۔صحیح طرح سے بزنس جوائن کرنے کا ارادہ یونی سے گریجویٹ ہونے کے بعد تھا۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
شام کے چھ بج رہے تھے جب ماہ روش فرحان ولا میں داخل ہوئی۔۔۔لاؤنج میں ہی اسے فاطمہ بیگم نظر آئی۔۔۔
"اسلام و علیکم خالہ جانی۔۔۔"
ماہ روش نے اونچی آواز میں فاطمہ کو سلام کیا۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔کیسا ہے میرا بچہ۔۔"
فاطمہ بیگم نے پیار سے ماہ روش کی پیشانی چومی۔۔۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں خالہ جانی۔۔آپ کیسی ہیں۔۔؟"
ماہ روش انکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔اتنے دنوں بعد کیوں آئی ہو۔۔۔؟"
فاطمہ بیگم نے ناراض لہجے میں سوال کیا۔۔۔
"بس کچھ دنوں سے طبیعت تھوڑی خراب تھی دل ہی نہیں کر رہا تھا کہیں آنے جانے کا۔۔۔"
ماہ روش نے جواب دیا۔۔۔
"کیوں۔۔۔کیا ہوا تھا میری بچی کو۔۔؟"
فاطمہ بیگم نے اسکے ماتھے کو چھوا تو وہ مسکرا دی۔۔۔
"اوہو۔۔۔کچھ نہیں ہوا تھا بس نزلہ زکام تھا۔۔۔اب میں بلکل ٹھیک آپ کے سامنے بیٹھی ہوں۔۔۔"
ماہ روش نے انکا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔
"خیال کیا کرو اپنا۔۔۔بلکہ میں تو آج بھی کہوں گی کہ چھوڑو ہاسٹل کو میرے پاس آکر رہو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح اسے ہاسٹل چھوڑنے کا کہا۔۔۔
"ان سب باتوں کو چھوڑیں آپ مجھے یہ بتائیں کہ انکل کہاں ہیں۔۔"
ماہ روش نے بات گھمائی۔۔۔
"آفس ہیں کچھ دیر تک آتے ہی ہوں گے آج تھوڑے لیٹ ہو گئے ہیں۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے جواب دیا تو ماہ سر ہلانے لگی۔۔۔۔۔فرحان صاحب ساڑھے پانج بجے تک گھر آجایا کرتے تھے لیکن آج ان کی بزنس میٹنگ تھی۔۔۔
"ماہ اوپر آؤ۔۔۔"
ہالے کی آواز پر ماہ نے اوپر دیکھا تو ہالے کو کھڑا پایا۔۔۔وہ ضرور ماہ کو اپنے روم کی کھڑکی سے آتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔۔۔
"آرہی ہوں ہالے صبر کرو۔۔۔"
ماہ نے ہالے کو گھورا تو وہ منہ بناتی واپس چلی گئی۔۔۔فاطمہ بیگم ہنس دیں۔۔۔
"بلکل پاگل ہو گئی ہے یہ لڑکی۔۔۔"
انہوں نے بڑبڑاہٹ کی۔۔۔
"کیا بنا رہی ہیں آج۔۔۔اتنے دنوں سے آپ کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا۔۔۔ "
ماہ نے لاڈ سے فاطمہ بیگم کہ گرد بازو پھیلا کر کہا۔۔۔
"تم بھی تو اتنے دنوں بعد آئی ہو۔۔۔جو کہو گی وہ بنا دوں گی۔۔۔"
فاطمہ بیگم مسکراتی ہوئی بولی۔۔۔
"ہمممم۔۔۔۔"
ماہ کچھ سوچنے لگی۔۔۔
"چکن جلفریزی کھاؤ گی آج میں۔۔۔"
ماہ چند لمحوں بعد مسکرا کر بولی۔۔۔فاطمہ بیگم کو بے اختیار اپنی بہن یاد آئی۔۔۔وہ شکل و صورت میں بلکل اپنی ماں فرزانہ جیسی تھی اور اسکی پسند بھی فرزانہ بیگم سے بہت ملتی تھی۔۔۔فاطمہ بیگم ماہ کو دیکھ کر سوچنے لگیں۔۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں خالہ جانی۔۔۔کیا آپ میرے لیے چکن جلفریزی نہیں بنا سکتیں۔۔"
ماہ نے شرارت سے کہا۔۔۔
"ارے۔۔۔ایسا کس نے کہا میری بیٹی جو کہے گی وہ بنا دوں گی میں۔۔۔اچھا چلو ہالے کہ پاس جاو تم ورنہ وہ پھر سے چلائے گئ۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم کی بات سن کر وہ اوپر ہالے کی طرف چلی گئی۔۔۔
ماہ روش اوپر آئی تو ہالے بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر لیٹی ہوئی فون یوز کر رہی رتھی۔۔۔ماہ کو دیکھ کر ہالے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔
"کیسی ہو۔۔۔"
ماہ نے سوال کیا۔۔۔۔
"تمہارے سامنے ہی ہوں۔۔۔"
ہالے نے منہ بنا کر کہا۔۔۔
"سنان بھائی سے بات نہیں کی کیا تم نے۔۔"
ماہ نے پوچھا۔۔۔
"میسج کیا تھا میں نے دوستوں سے ملنے گئے ہیں وہ۔۔۔ڈیڑھ دو گھنٹے لگیں گے انہیں آنے میں۔۔۔"
ہالے کے جواب پر ماہ نے سر ہالایا۔۔۔کچھ دیر وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں اور پھر فرحان صاحب کے آنے پر وہ دونوں نیچے چلی گئی۔۔۔انکو منانا جو تھا۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
رات آٹھ بجے سنان گھر میں داخل ہوا۔۔۔سب اسے ہال میں ہی نظر آگئے سوائے فاطمہ بیگم کہ وہ کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔۔۔
"اسلام و علیکم۔۔"
اسنے سلام کیا تو ہالے نے اسے دیکھا اور اسکی آنکھوں میں چمک آگئی۔۔۔
"وعلیکم السلام بھائی۔۔۔شکر ہے آپ گھر آگئے میں کب سے آپ کا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔"
سب نے سنان نے سلام کا جواب دیا اور ہالے سنان کے سینے سے لگ کر بولی۔۔۔
"سوری نور۔۔۔میں دوستوں کے ساتھ تھا اسی لیے لیٹ ہوگیا۔۔۔"
سنان نے ہالے کو سوری کیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔
"کیسی ہو ماہ۔۔۔تم کب آئی"
سنان نے ماہ روش کو مخاطب کیا۔۔
"ٹھیک ہوں شام میں آئی تھی۔۔"
ماہ نے مسکرا کر جواب دیا تو سنان نے سر ہلایا اور فرحان صاحب کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔۔۔
"کھانا لگ گیا ہے۔۔۔آجائیں"
فاطمہ بیگم نے سب سے کہا۔۔
" میں کھا کر آیا ہوں اب آپ لوگ کھائیں میں چینج کرلوں۔۔۔"
سنان نے کہا تو سب نے سر ہلایا۔۔
"میری بات یاد ہے نہ۔۔"
ہالے نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو سنان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔۔ہالے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔۔۔وہ سنان سے پہلے ہی کال پر بات کر چکی تھی کہ وہ اسکی سفارش کرے۔۔۔
سنان کو منانے میں اسکو بس 5 منٹ لگے تھے۔۔۔۔۔
ماہ روش اور ہالے دونوں مل کر فرحان صاحب کو بھی منا چکی تھی جو کہ زیادہ مشکل نہ تھا۔۔۔
فاطمہ بیگم ہالے سے خفا خفا گھوم رہی تھیں۔۔انکی ایک ہی بیٹی تھی وہ بھی ہاسٹل جانے کی ضد کر رہی تھی۔۔۔انکا دل کسی صورت نہیں مان رہا تھا۔۔۔مگر ہالے جانتی تھی سنان فاطمہ بیگم کو منا لے گا۔۔۔
-------------❤❤--------------
آئدہ کی آنکھوں کھلی تو اسکا سر بھاری ہو رہا تھا وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔سائڈ ٹیبل پر پڑے فون میں ٹائم دیکھا تو رات کے 7 بج رہے تجے۔۔وہ تقریبا ساڑھے 4 بجے کے بعد سوئی تھی۔۔۔اسے کمرے میں معصومہ کہیں نہیں نظر آئی۔۔۔
اس کے دماغ میں پھر سے داجی کی باتیں گردش کرنے لگیں۔۔
"تو کیا داجی مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے۔۔؟"
اسنے دل ہی دل میں خود سے سوال کیا۔۔۔
"اگر انکو مجھ پر بھروسہ ہوتا تو وہ مجھے آہل لالہ کے ساتھ جانے دیتے۔۔۔زاہران سے میرا نکاح ہرگز نہ کرواتے۔۔۔۔ "
وہ دل ہی میں بولی۔۔۔آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔۔۔
"آئدہ۔۔اٹھ گئی تم"
اپنی ماں کی آواز پر اسنے دروازے کی طرف دیکھا جہاں فرہین بیگم کھڑی تھیں۔۔۔وہ اسکے پاس آکر بیٹھیں تو وہ خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔
"کیسی طبیعت ہےمیری شہزادی کی۔۔۔"
انہوں نے آئدہ کی پیشانی چومی مگر وہ بغیر کوئی تاثر دیے خالی نظروں سے فرہین بیگم کو دیکھتی رہی۔۔۔
"ہادیہ باجی آئی ہے۔۔۔۔۔"
انہوں نے مسکرا کر اسکی پھپھو کا نام لیا۔۔۔انکا نام سن کر آئدہ کی آنکھ میں اٹکا ہوا آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلا جو فرہین بیگم نے اپنے انگوٹھے سے صاف کیا۔۔۔
ہادیہ بیگم آئدہ کو شروع سے بہت پسند تھیں۔۔۔وہ آئدہ کو بہت پیار کرتی تھیں مگر اسنے خواب میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ انکی بہو بنے گی۔۔۔ہادیہ بیگم جب بھی حویلی آتی تھی تو وہ بہت خوش ہوتی تھی اور پھر انکے ساتھ ہی چپکی رہتی تھی زاہران کی غیر موجودگی میں۔۔۔مگر اس بار انکے آنے سے اسے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
ہادیہ بیگم کی کوئی بیٹی نہ تھی مگر انکا شروع سے یہی کہنا تھا کہ آئدہ فرہین کی نہیں بلکہ انکی بیٹی ہے۔۔۔
"چلو شاباش اٹھو اور فریش ہو جاؤ۔۔۔کب سے انتظار کر رہی ہے وہ تمہارا۔۔۔"
فرہین بیگم نے کہا اور اسے بیڈ سے اٹھانا چاہا۔۔۔
"کیوں انتظار کر رہی ہیں وہ میرا۔۔۔؟"
آئدہ کے سوال پر انہیں حیرت ہوئی۔۔۔
"کیا مطلب ہے تمہارا پھپھو ہیں وہ تمہاری۔۔۔"
فرہین بیگم نے آئدہ کو آرام سے کہا۔۔۔
"پھپھو ہیں تو پھپھو ہی رہنے دیں۔۔۔کیوں داجی انہیں میری ساس بنانے چلے ہیں۔۔"
نہ چاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تلخ ہوا۔۔۔
"آئدہ۔۔۔یہ داجی کا فیصلہ ہے اور ہم میں سے کسی کو بھی اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"
وہ بول رہی تھیں جب آئدہ بیچ میں بولی۔۔۔
"انکے فیصلے پر کیوں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔"
آئدہ نے اپنے آنسو روک کر سوال کیا۔۔۔
"ہم میں سے کسی کو اس لیے اعتراض نہیں ہے کیونکہ داجی کے فیصلے میں کچھ غلط نہیں ہے اور جو کچھ ماضی میں ہو چکا تم تو جانتی ہو نہ۔۔۔"
فرہین بیگم نے اسکے رخسار پہ اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔
"ہممم۔۔۔آپ میں سے کسی کو اعتراض نہیں ہے مگر مجھے ہے ماما۔۔۔اور یہ میری زندگی کا فیصلہ ہے آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔۔۔"
وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔معصومہ کے سامنے وہ کمزور پڑ گئی تھی مگر اپنی ماں کے سامنے نہیں پڑنا چاہتی تھی مگر یہاں بھی اسکا ضبط جواب دے گیا اور وہ رو پڑی۔۔۔
"میری بچی بس کرو۔۔۔۔صرف نکاح ہی ہو رہا ہے رخصت نہیں کر رہے ہم تمہیں۔۔۔"
فرہین بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔
"ماما جب نکاح ہو رہا ہے تو ایک دن رخصت بھی کر دیں گے۔۔۔امی میں کیسے رہوں گی اسکے ساتھ۔۔۔"
وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔
"تم فکر مت کرو ۔۔اتنی جلدی رخصت تھوڑی کروں گی میں اپنی شہزادی کو۔۔۔اور دیکھنا تم خوش رہوگی جانتی ہو نہ ہادیہ کتنا پیار کرتی ہے تم سے۔۔۔"
انہوں نے مسکرا کر آئدہ سے کہا اسکا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔۔انہوں نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو انہیں ایسا لگا جیسے کسی جلتے ہوئے انگارے ہر ہاتھ رکھ دیا ہو۔۔۔
"آئدہ اتنا تیز بخار پے تمہیں تو میری جان۔۔۔"
وہ فکر مند لہجے میں بولیں مگر آئدہ نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش آنسو بہاتی رہی۔۔۔۔وہ کچھ بولنے ہی لگیں تھیں جب دروازہ نوک ہوا
"کیا میں اندر آجاؤں۔۔۔"
ہادیہ بیگم کی آواز سن کر آئدہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور جلدی سے اٹھ کر واشروم چلی گئی۔۔۔
"ارے بھئی تمہیں بھی اجازت کی ضرورت ہے کیا۔۔۔"
فرہین بیگم نے دروازہ کھول کر کہا تو وہ مسکرا دیں اور اندر داخل ہوئیں۔۔۔
"آئدہ کہاں ہے۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے فرہین بیگم کو سوالیا نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"طبعیت خراب ہوگئی ہے آئدہ کی۔۔۔سوئی ہوئی تھی فریش ہونے واشروم گئی ہے۔۔۔"
فرہین بیگم نے کہا اور کمرہ سمیٹنے لگیں۔۔
"اسلام وعلیکم میری بچی کیسی ہے۔۔۔"
آئدہ واشروم سے باہر آئی تو فرہین بیگم نے اسے گلے لگایا۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔ٹھیک ہوں میں آپ کیسی ہیں۔۔۔"
اسکا دل رو رہا تھا مگر وہ خوش دلی سے ہادیہ بیگم سے ملی۔۔۔۔اسکی طبیعت خراب تھی اسی لیے فرہین بیگم اسکے لیے کھانا لینے چلی گئی تاکہ کچھ کھا کر میڈیسن لےلے۔۔۔
ہادیہ بیگم کافی دیر اسکے پاس بیٹھی رہی اور کھانا بھی انہوں نے ہی اسے زبردستی کھلایا۔۔۔
ہادیہ بیگم سے بات کرتے ٹائیم بار بار اسکی آنکھیں نم ہو رہیں تھیں۔۔۔انہوں نے دو دن پہلے اس سے بات کی تھی تب تک وہ بلکل ٹھیک تھی مگر آج انہیں وہ کسی بھی طرح سے وہ آئدہ نہ لگی جس سے وہ انہوں نے بات کی تھی۔۔۔
وہ اس سے اتنی باتیں کر رہی تھی پر آئدہ بس ہوں ہاں کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ اتنا سمجھ گئی تھی کہ وہ نکاح والی بات ہر بہت اداس ہے۔۔۔اسی لیے انہوں نے اس سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔اور کھالی برتن رکھ کر جب واپس آئیں تو آئدہ بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی کسی غیر مرئی نکتے کو گھور رہی تھی۔۔۔آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھرے ہوئے تھے۔۔۔
"آئدہ بیٹا۔۔۔"
انہوں نے اسے پکارا تو وہ اس نے جلدی سے منہ دوسری طرف کیا اور اپنے آنسو صاف کیے ۔۔۔
"کیا ہوا ہے میرے بچے کو۔۔۔"
انہوں نے آئدہ سے سوال کیا۔۔۔
"کچھ بھی تو نہیں ہوا مجھے پھپھو۔۔۔"
آئدہ نے اداس آنکھوں سے مسکرائی۔۔۔
"اداس ہو آج بہت۔۔۔کسی نے کچھ کہا ہے۔۔۔"
انہوں نے سوال کیا۔۔۔
"کوئی کچھ کہ ہی تو نہیں رہا میرے حق میں۔۔۔ "
آئدہ نے بےاختیار کہا۔۔۔۔۔
"آئدہ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے۔۔۔"
انھوں نے بے اختیار پوچھا۔۔۔
"جی میری پیاری پھپو سب ٹھیک ہے بس ویسے ہی دل اداس ہوگیا تھا۔۔۔۔"
آئدہ نے زبردستی مسکرا کر کہا (وہ اپنی وجہ سے کسی اور کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی)
"اچھا ٹھیک ہے اداس مت ہو میں نہ تمھیں تمہارے نکاح کا جوڑا اور زیور دیکھاتی ہوں رکو میں لاتی ہوں۔۔۔"
ہادیہ بیگم مسکرا کر بولی اور جلدی سے کمرے سے نکل گئ وہ آئدہ کو ٹائم دینا چاہتی تھی کہ وہ خود آ کر ان سے اپنے پروبلم شئیر کرے اس لیے انھوں نے اس کو مزید کریدنا بہتر نہیں سمجھا۔۔۔
ان کے جاتے ہی آئدہ واشروم میں گئ اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی جلدی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تا کہ اس کی سسکیاں واشروم سے باہر نہ جائے۔۔۔۔
"آئدہ بچے کہاں ہو۔۔؟"
ہادیہ بیگم جب کمرے میں آئی تو ہادیہ کو نہ پا کر اسے آواز لگائی۔۔۔
آئدہ نے جلدی سے واش بیسن کا نلکا کھول دیا۔۔۔۔چند لمحوں بعد وہ واشروم سے باہر آئی اور انکے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی تو وہ اسے زیورات دکھانے لگی۔۔
آئدہ کے دل میں بے اختیار خیال آیا کہ ان سب کو یقین ہے کہ آئدہ انکار نہیں کرے گی۔۔۔تبھی تو ہادیہ بیگم اسکے لیے نکاح کا جوڑا اور زیورات بھی اپنے ساتھ لائی تھیں۔۔۔
"اگر میں انکار کردوں تو کیا سب کا مان ٹوٹ جائے گا۔۔۔؟"
اسنے دل ہی دل میں خود سے سوال کی تو اسے جواب "ہاں" میں ملا۔۔۔
"کیا سوچ رہی ہو آئدہ۔۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے جب اسے اپنی طرف متوجہ نہ دیکھا تو سوال کیا۔۔۔
"کک۔۔۔کچھ نہیں۔۔"
آئدہ نے جلدی سے کہا تو ہادیہ بیگم نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔۔
"آئدہ بچے۔۔۔میں جانتی ہوں کہ تم نکاح والی بات پر پریشان ہو اور تماری جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرور اپنے نکاح کی بات سن کر اسی طرح پریشان ہوتا۔۔۔۔"
انہوں نے اسے پیار سے سمجھایا تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔
"زاہران خود بھی تمہارے ساتھ نکاح کی بات سن کر بہت حیران ہوا تھا۔۔۔اسنے کبھی تمہیں اس نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے کہا۔۔
"اس نظر کو تو چھوڑیں وہ مجھے ویسے بھی دیکھتے ہی کہاں ہیں۔۔۔"
آئدہ کی زبان بے اختیار پھسلی تو ہادیہ بیگم مسکرا دیں۔۔۔
"آئدہ بچے میں جانتی ہوں وہ تمہیں کچھ خاص پسند نہیں کرتا۔۔۔اور اسکی وجہ شاید تم جانتی ہو۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے کہا تو آئدہ نے انکی طرف دیکھ کر سر ہاں میں ہلایا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ زاہران اسے کیوں پسند نہیں کرتا۔۔۔
"میری بچی وہ اریج کو پسند کرتا تھا اور اس کے جانے کے بعد سے تم جانتی ہو نہ وہ بکھر گیا تھا اور پھر بڑی مشکل سے سنھبالا تھا وہ۔۔۔۔"
انہوں نے اپنا ہاتھ آئدہ کے رخسار پر رکھا۔۔۔آئدہ کو نہ پسند کرنے کی ایک اور وجہ بھی تھی لیکن ہادیہ بیگم اگر وہ وجہ بتا دیتی تو آئدہ بہت ہرٹ ہوتی اور اسکے دل میں زاہران کے لیے بدگمانی بھی پیدا ہو جاتی اور ہادیہ بیگم ایسا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔
"لیکن یہ پہلے کی بات تھی۔۔۔۔اب اسکی زندگی میں تم آرہی ہو اور نکاح کے دو بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔۔۔دیکھنا زاہران کو تم سے محبت ہو جائے گی۔۔۔اور میری تو پرانی خواہش ہے تمہیں اپنی بیٹی بنانا کی۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو وہ اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔
"اس بارے میں سوچو۔۔۔یہ کوئی زیادہ مشکل فیصلہ نہیں ہے۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے اپنی طرف سے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اب آئدہ انہیں مایوس نہیں کرے گی۔۔۔۔۔
ہادیہ بیگم بہت دیر بیٹھی اس سے باتیں کرتی رہی پھر وہ چلی گئ تو آئدہ نے عشاء کی نماز ادا کی اور اپنے حق میں دعا کرنے لگی کے اللہ جو بھی کرے وہ اس کے حق میں بہتر ہو۔۔۔۔۔
اس نے معصومہ کے نمبر پر مسیج بھیج دیا جس میں اس نے نکاح کے لیے 'ہاں' کی تھی اس نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا تھا اور سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
آج صبح سے حویلی میں گہماگہمی تھی اور سب نکاح کی تیاریوں میں مصروف تھے۔جبکہ آئدہ اپنے کمرے سے ابھی تک نکلی ہی نہیں تھی۔زاہران اور سنان نے نکاح سے تھوڑی دیر پہلا آنا تھا جبکہ حمزہ اور آہل رات کو ہی آگئے تھے تاکہ وہ نکاح کی تیاریوں میں مدد کروا سکے۔
نکاح حویلی میں ہی ہونا تھا کیونکہ صرف گھر کے ہی لوگ نکاح میں شامل تھے۔۔۔
"معصومہ۔۔۔"
معصومہ جو آئدہ کے پاس جارہی تھی اس کو فرحین بیگم نے روکا۔
"جی تائی امی"
"بیٹا آئدہ کے پاس جارہی ہو نہ۔۔۔۔جاو میں ناشتہ اور دوائی بھجوا دیتی ہوں ناشتہ اسے کروا دینا اور پھر دوائی بھی دے دینا۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔"
فرحین بیگم نےپوچھا تو معصومہ نے اثبات میں سر ہلایا تو فرحین بیگم نے ناشتے اور دوائی کا بولا کیوں کے رات سے آئدہ کو بخار اور سر درد تھا۔
"جی ٹھیک ہے۔۔۔"
معصومہ بولتے ساتھ ہی آئدہ کے کمرے میں آگئ۔
اندر آئی تو پورا کمرا اندھیرے میں ڈوبہ ہوا تھا اس نے سائیڈ پر ہاتھ مار کر سوئچ بورڈ سے ایک دو لائیٹ اون کی۔۔۔
"آئدہ یار اٹھ جاو دیکھو صبح کے گیارہ بج گئے ہے اور تم ابھی تک سو رہی ہو۔۔۔"
معصومہ بولتے ساتھ ہی کھڑکیوں کی طرف آئی اور پردے ہٹائے تو پورا کمرا روشن ہوا۔۔۔۔آئدہ نے مندی مندی آنکھیں کھولی اور معصومہ کو گھور کر دیکھا جو اسے تنگ کرنے آگئ تھی۔۔
"معصومہ تنگ مت کرو سونے دو مجھے۔۔۔۔"
آئدہ نے بولتے ساتھ ہی اپنا سر لحاف کے اندر کیا اور دوبارہ آنکھیں موند لی۔۔۔
"اوہ۔۔۔۔میڈم بھول گئ ہو تو بتا دوں تمھارا نکاح ہے آج اور تم ہو کے ابھی تک سو رہی ہو جلدی سے اٹھو تائی امی ناشتہ بھجنے والی ہے۔۔۔۔"
معصومہ نے بولتے ساتھ ہی اس کے اوپر سے لحاف کھنچ لیا جب کے آئدہ کی نیند نکاح والی بات سن کر بھک سے اڑی تھی واقعی اس کے ذہن سے نکل گیا تھا کے اس کا نکاح ہے آج ویسے بھی رات کو وہ سوئی نہیں تھی فجر کی نماز پڑھ کر ہی سوئی تھی آئدہ کسی غیر مرئی نکتے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ اس شخص کو سوچنے لگی جو کچھ ہی گھنٹوں میں اس کے شوہر کے رتبے پر فائز ہونے والا تھا۔۔۔
"او۔۔۔میڈم ہوش میں آجاو اور جاو فریش ہوجاؤ۔۔۔۔"
معصومہ نے اس کا بازو پکڑ کر ہلایا تو وہ ہوش میں آئی اور سائیڈ ٹیبل سے اپنا کیچر اٹھایا اور اپنے بالوں کا جھوڑا بناتے ہوئے واشروم کی طرف بڑھ گئ۔۔۔۔
وہ فریش ہو کر باہر آئی تو معصومہ بیڈ پر ناشتہ لیے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد معصومہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی جبکہ اس کا ساتھ دینے کے لیے آئدہ صرف ہوں ہاں ہی کرتی رہی۔۔۔۔۔۔
پھر معصومہ نیچے چلی گئ تو وہ نہانے چلی گئ اور پھر اس نے ظہر کی نماز پڑھی پھر قرآن کی تلاوت کرنے لگی۔۔۔۔۔قرآن کو شلف پر رکھ کر وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس آئی تب ہی حویلی کا گیٹ کھولا اور زاہران کی سیاہ لینڈ کروزر پورچ میں آکر کھڑی ہوئی (آئدہ کے کمرے سے پورچ کا منظر واضح نظر آتا تھا) تب ہی ڈرائیونگ سیٹ سے زاہران باہر نکالا 6 فٹ سے نکلتا قد،سیاہ آنکھیں،سیاہ گھنے بال،سفید رنگت،کسرتی جسم،چوڑے شانے،گھنی داڑھی مونچھ،اس پر غضب اس کی مسکراہٹ۔وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔آئدہ بے دھیانی میں ہی اسے تکے گئ جب زاہران کو کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو وہ یہاں وہاں دیکھنے لگا جب اس کی نظر اوپر کھڑکی میں کھڑی آئدہ پر گئ ایک لمحہ کے لیے زاہران کی نظر اس پر ٹہر سی گئ۔
(نماز اسٹائل میں گول چہرے کے گرد دوپٹا جو اسے پاکیزہ اور معصوم بنا رہا تھا،گوری رنگت،براون آنکھیں ان پر گھنی پلکوں کا پہرا تھا،قد 4۔5،سیاہ بال جو کندھوں سے نیچے آتے تھے،گلابی ہونٹ،چھوٹی ناک اور اس کے چہرے پر چھائی معصومیت کسی بھی شخص کو اس کا گرویدہ کر سکتا تھا پر ایک وہ سنگدل تھا جس کا دل اس پر پگھل کر ہی نہیں دے رہا تھا)
بس صرف ایک لمحہ زاہران نے اسے دیکھا پھر نفرت سے منہ موڑ لیا اور اندر کی طرف اپنے قدم کرلیے۔۔۔۔۔۔
آئدہ کی آنکھ میں آنسو آئے مگر وہ ضبط کر گئی۔۔۔
"آئدہ جلدی سے یہ کھانا کھاو پھر میں تمھیں تیار کردوں۔۔۔۔"
معصومہ کی آواز پر اسنے پلٹ کر دیکھا تو وہ کھانے کی ٹرے بیڈ پر رکھ رہی تھی تو آئدہ بھی چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اور بیٹھ گئ اور کھانے کو گھورنے لگی۔۔۔۔۔
"اوئے لڑکی کھانا کھانے کے لیے لائی ہوں گھورنے کے لیے نہیں۔۔۔۔چلو جلدی سے کھاؤ۔۔۔۔۔۔"
معصومہ نے بولا تو اس نے چند لقمے ہی زہر مارے ورنہ اس کا دل کر رہا تھا کہی ایسی جگہ چلی جائے جہاں کوئی بھی نہ ہو۔۔۔۔
کھانے کے بعد معصومہ برتن واپس رکھنے گئ تو وہ بھی ہاتھ دھونے گئ۔۔۔۔
"چلو آؤ تمھیں تیار کردوں۔۔۔۔"
جب باہر آئی تو معصومہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی بولی۔۔۔
"نکاح ہے۔۔۔شادی نہیں جو تیار کرو گی۔۔"
آئدہ جب بولی تو لہجہ تلخ تھا۔۔
"بہت جلدی ہو رہی ہے تمہیں رخصتی کی۔۔۔"
معصومہ شرارت سے بولی آئدہ خاموش رہی۔۔۔
"چلو یہ پکڑو کپڑے اور جلدی پہن کر آؤ۔۔۔۔"
معصومہ نے اسے کپڑے پکڑائے اور واشروم میں دھکیل دیا 5 منٹ بعد وہ چینج کر کے نکالی۔۔۔۔
"ماشاءاللہ یار تمھیں تو میک اپ کی ضرورت نہیں ہے پر پھر بھی میں کرونگی۔۔۔"
معصومہ نے جب آئدہ کو واشروم سے نکلتے دیکھا تو بے ساختہ ماشاءاللہ کہا آئدہ نے پاؤں تک آتا وائٹ گھیر دار فراک پہنا تھا فراک پر موتیوں اور شیشوں سے بہت خوبصورتی سے کام ہو رکھا تھا جو اس پر جچ رہا تھا فراک کے نیچے چوڑی دار پاجامہ تھا۔۔۔
"چلو بھئی۔۔۔ادھر بیٹھو۔۔"
معصومہ نے آئدہ کو ویسے ہی کھڑا دیکھا تو اسے بازو سے کھینچ کر شیشے کے سامنے لائی اور آئدہ کے نہ نہ کرنے کہ باوجود اسے ہلاکا پھلکا میک اپ کرنے لگی۔۔۔
بیس منٹ بعد آئدہ تیار تھی۔۔اسنے خود کو شیشے میں دیکھا۔۔۔۔
بالوں کا جوڑا بنا ہوا تھا جس میں سے چند لٹیں چہرے کو چھو رہی تھیں جن کو معصومہ نے لوس کرل کردیا تھا۔۔
آنکھوں میں کاجل اور گھنی پلکوں پر لگا مسکارا اسکی آنکھیں مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔۔۔
گالوں پر ہلکا سا بلش آن اور ہونٹوں ہر لال لپسٹک۔۔۔باقی سب تو ٹھیک تھا مگر لال لپسٹک پر اسنے معصومہ کو گھورا۔۔۔
"پاگل ہوگئی ہو۔۔ریڈ لپسٹک کیوں لگائی ہے۔۔۔"
وہ اسے گھور کر بولی۔۔۔
"نکاح ہے تمہارا۔۔۔دلہن کو ریڈ لپسٹک ہی لگاتے ہیں۔۔۔"
معصومہ نے جیسے اسکی عقل پر ماتم کیا۔۔۔
"زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔میرا نکاح۔۔۔"
آئدہ بول رہی تھی جب معصومہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔
"ارے ہاں بھئی مجھے پتا ہے تمہارا نکاح ہے رخصتی نہیں۔۔۔مگر دلہن تو تم ہی ہو نا۔۔۔"
معصومہ نے کہا اور ٹیبل پر پڑا ٹشو کا باکس اٹھا لیا۔۔۔
"معصومہ تم پاگل ہو مگر میں نہیں۔۔۔ٹشو دو مجھے۔۔"
آئدہ سٹول سے اٹھ کر معصومہ کی طرف مڑی۔۔۔
"بلکل بھی نہیں دوں گی۔۔۔چلو آو میں جیولری اور تمہارا دوپٹہ سیٹ کروں۔۔۔"
معصومہ نے کہا اور ٹیبل پر پڑا جیولری باکس اٹھایا اس میں سے وائٹ کلر کا خوبصورت گلوبند نکالا اور آئدہ کی گردن میں ڈال دیا گلوبند کے ساتھ کے ہی جھمکے اس کے کانوں میں ڈال دیے ساتھ ہی ٹیکا اور جھومر جو سیٹ کے ساتھ کے ہی تھے اس کے بالوں میں سیٹ کردیا پھر بیڈ پر پڑا اسکا دوپٹہ اٹھایا۔۔۔آئدہ کچھ بولنے ہی لگی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔
"میری بچی تیار نہیں ہوئی کیا ابھی۔۔۔"
دروازے پر ہادیہ بیگم نمودار ہوئیں۔۔۔
"ہوگئی ہے پھپھو۔۔۔۔بس دوپٹہ سیٹ کرنا رہ گیا ہے ابھی اور دیکھیں نہ اسے۔۔میں نے اسکو لپسٹک لگائی ہے تو کہہ رہی ہے مٹاو اسے یہ کیوں لگائی ہے۔۔۔"
معصومہ نے انکو تفصیل سے جواب دیا تو ہادیہ بیگم ناراضگی سے آئدہ کو دیکھنے لگی۔۔۔
کیوں بھئی۔۔۔کس خوشی میں لپسٹک نہیں لگانی۔۔۔۔ "
ہادیہ بیگم کہ لہجے میں ناراضگی تھی۔۔۔
"پھپھو جان ریڈ لپسٹک لگائی ہے اسنے اتنی ڈارک ہے۔۔۔"
آئدہ نے معصوم سا منہ بنایا۔۔۔
"ارے تو نکاح ہے دلہن ہو تم ریڈ لپسٹک ہی لگے گی نہ۔۔"
ہادیہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔۔۔
"اچھا چلو اب اسکا دوپٹہ سیٹ کرو۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے معصومہ سے کہا تو وہ دوپٹہ سیٹ کرنے لگی دوپٹہ وائٹ کلر کا ہی فراک سے ملتا جلتا تھا جو معصومہ نے پنوں سے اچھی طرح سیٹ کردیا۔۔۔۔۔
وہ اس وقت داجی کے ساتھ بیٹھا تھا جو اسے بہت کچھ بول رہے تھے مگر اسکا دماغ الگ ہی سوچوں میں گم تھا۔۔۔
اسنے تو اپنی زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکا نکاح آئدہ سے بھی ہو سکتا ہے۔۔۔وہ تو اسے اپنی بہن سمجھتا تھا اور پھر ماضی میں ہوئے واقع کہ بعد سے تو وہ اسے زہر سے بھی بری لگتی تھی اور اب وہ اسکی شریک حیات بننے جارہی تھی۔۔۔
"ارے بھئی کن سوچوں میں گم ہو دلہا صاحب کہ اپنے دوست کہ آنے کی خبر ہی نہیں۔۔۔"
سنان نے اسے کندھے سے ہلایا تو وہ انہیں دیکھنے لگا۔۔۔
"ارے۔۔تم کب آئے۔۔۔"
زاہران نے سنان سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
"بس ابھی ہی آیا ہوں۔۔۔بھابھی کہ بارے میں ذرا کم سوچے گا تو میں تجھے نظر آؤں گا نہ۔۔۔"
سنان نے اسکے کان میں کہا۔۔۔زاہران گھورنے کے علاوہ کچھ کر نہیں سکتا تھا کیونکہ داجی وہیں موجود تھے۔۔۔کچھ دیر وہ لوگ وہیں بیٹھے رہے۔۔۔
داجی کو مولوی صاحب کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سب باہر ہال میں آگے جہاں اور بھی کچھ قریبی رشتہ دار موجود تھے۔۔
"آئدہ کو لے آو تو مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔۔۔"
داجی نے فرہین بیگم سے کہا تو وہ آئدہ کو بلانے چلی گئیں۔۔۔
وہ اوپر آئی تو معصومہ اور آئدہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔
"میری بچی اتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔"
فرہین بیگم نے آئدہ کو پیار کیا تو وہ خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔
"چلو۔۔۔مولوی صاحب آگئے ہیں معصومہ اس کا گھونگھٹ نکال دو۔۔۔"
انہوں نے کہا اور ساتھ ہی آئدہ کا ہاتھ پکڑ کر اسکو بیڈ سے کھڑا کیا۔۔۔ تو معصومہ نے پاس پڑا ریڈ دوپٹہ اٹھایا اور گھونگھٹ کی طرح سیٹ کریا پھر دوسری طرف سے آئدہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ اسے کمرے سے باہر نیچے ہال میں لے آئیں۔۔۔
زاہران نے نظر اٹھا کر جب دیکھا تو چند لمحوں کہ لیے اسکی نظر وہیں ٹک گئی۔۔۔
سفید رنگ کا پاؤں تک آتا فراک اور سر پر لال دوپٹہ تھا جبکہ نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔کلائی میں گجرے اور جیولری پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
زاہران کے دل نے اس بات کا اقرار کیا کے وہ بہت خوبصورت تھی اور معصوم بھی۔۔۔
آئدہ نے نظر اٹھا کر جب دیکھا تو زاہران ہوش میں آیا اور اس پر سے اپنی نظر ہٹائی۔۔۔۔زاہران نے آج وائیٹ شلوار قمیض پہن رکھی تھی ہاتھ میں برینڈ واچ تھی جیل سے بال اچھا طرح سیٹ تھا وہ آج وجاہت کا شہکار لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
معصومہ اور فرہین بیگم نے آئدہ کو زاہران کے ساتھ صوفے پر بیٹھایا تو آئدہ کہ نتھوں سے زاہران کے تیز پرفیوم کی خوشبو ٹکرائی جو اس وقت اسے زہر لگی تھی۔۔۔۔۔
معصومہ صوفے کہ پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی تو اسے خود پر گہری نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔۔اسنے اپنا چہرا موڑ کر دیکھا تو اسکی نظر زاہران سے کچھ فاصلے پر بیٹھے اس شخص پر پڑی۔۔۔
سفید کرتا شلور پہنے وہ شہزادوں کی آن بان رکھے صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔بال نفاست سے سیٹ تھے کلائی میں گھڑی پہنے وہ اپنی تمام تر وجاہت لیے بیٹھا اسے اپنی شہد رنگ آنکھوں سے دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔۔۔
معصومہ کے دیکھنے ہر سنان نے سمائل پاس کی تو معصومہ اپنا چہرا موڑ گئی اس بچاری کے بس میں اور کچھ تھا بھی نہیں۔۔۔
"مولوی صاحب۔۔۔نکاح شروع کریں۔۔"
داجی کے الفاظ سن کر آئدہ کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔۔
آئدہ راحیل ولد راحیل خان آپ کو سکہ رائج الوقت بمع 10 لاکھ حق مہر کے ساتھ زاہران حمدان ولد حمدان خان کے نکاح میں دیا جاتا کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے "
مولوی صاحب کے سوال پر اسکی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔۔۔اسکی پہلو میں بیٹھی فرہین بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
"قق۔۔قبول ہے۔۔"
وہ جب بولی تو زاہران کو اسکی آواز بھرائی ہوئی لگی۔۔۔ اسکی آنکھ سے آنسو نکال کر بےمول ہوا۔۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔"
مولوی صاحب نے اپنا سوال دوہرایا۔۔۔
"قبول ہے۔۔۔"
آئدہ نے بہت ہمت کر کہ جواب دیا۔۔انکے تیسری بار سوال کرنے پر اسنے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔اسکی آنکھوں کہ پڑدوں پر اریج کا چہرہ لہرا گیا۔۔۔
"قبول ہے۔۔۔۔"
اسنے تیسری بار بھی اسے قبول کر لیا۔۔۔زاہران کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔۔۔
آہل نے جب اس کے آگے نکاح نامے اور پین کیا تو دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے اٹھایا اور سائن کرنے لگی سائن کرتے وقت اس کا ہاتھ کپکپا رہا تھا جو کسی اور کی نظر میں تو نہیں پر زاہران کی نظر میں ضرور آیا تھا۔۔۔۔۔
پھر مولوی صاحب زاہران کی طرف متوجہ ہوئے
"زاہران حمدان ولد حمدان خان آپ کو سکہ رائج الوقت بمع 10 لاکھ حق مہر آئدہ راحیل ولد راحیل خان کو آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔"
مولوی صاحب کے بولنے پر اس نے نظر اٹھا کر آئدہ کی طرف دیکھا جو اسکی کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
"قبول ہے۔۔۔"
اس نے نیٹ کے دوپٹے کہ پار موجود آئدہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔"
قبول ہے۔۔۔۔"
اب بھی دونوں نے نظریں ایک دوسرے سے نہیں ہٹائی تھی۔۔۔۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔"
قبول ہے۔۔۔۔"
زاہران کے آخری دفعہ قبول ہے بولنے پر آئدہ کی آنکھوں سے ایک آنسو بہا تھا جو زاہران کی نظروں میں آگیا تھا آئدہ نے آنکھیں بند کرلی۔۔۔۔
مولوی صاحب نے زاہران سے بھی سائن لیے اور باقی کروائی مکمل کی اور پھر اٹھا کر نکاح کی مبارک باد دی۔۔۔۔۔ داجی نے ان دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیں اور سب نے مبارک باد دی۔۔۔
مولوی صاحب کے جانے کے بعد ہادیہ بیگم نے آئدہ کا گھونگھٹ ہٹا دیا اور بے ساختہ ماشاءاللہ کہا تو زاہران نے آئدہ کو دیکھا تو کہی لمحے وہ پلک تک نہ چھپک سکا سنان کے کندھا مارنے پر ہوش میں آیا۔۔۔۔
"بس کر سالے آنکھوں سے کھانے کا ارادہ ہے کیا تمھاری ہی ہے بعد میں آرام سے دیکھ لینا بھابھی کو۔۔۔۔"
سنان نے دانت پیس کر زاہران کے کان میں گھس کر کہا زاہران کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سنان خو کچا چبا جائے پر بات تو یہی تھی زاہران کا بس ہی نہیں چل رہا تھا۔۔۔۔
"زاہران یہ رنگ لو اور آئدہ کو پہناو۔۔۔۔"
ہادیہ بیگم زاہران کے پاس آئی اور خوبصورت سی ڈائمنڈ رنگ زاہران کو دی جو ان کو ایسے دیکھ رہا تھا کے سب کچھ جانتے ہوئی بھی۔۔۔۔ہادیہ بیگم نے گھورا تو آئدہ کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے آگے اپنا ہاتھ کیا تو آئدہ نے بھی اپنا کپکپاتا ہوا مومی ہاتھ اس کی مضبوط ہتھیلی پر رکھ دی۔۔۔ زاہران نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھاما اور رنگ اس کی چوتھی انگلی میں ڈال دی رنگ کے ڈالتے ہی آئدہ نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔۔۔۔ زاہران نے اسے دیکھ تو آئدہ نے بھی دیکھا اور اس خوبصورت لمحہ کی تصویر حمزہ نے لے لی اور دونوں کو واٹس اپ کردی۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد معصومہ آئدہ کو لے کر اس کے کمرے میں چلی گئ اور زاہران بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
سب اِدھر اُدھر ہوگئے مغرب کے بعد وہ چاروں دوبارہ کراچی کے لیے نکلے جبکہ ہادیہ بیگم نے کچھ دن یہی رکنا تھا اور حمدان صاحب نے کل واپس جانا تھا۔۔۔۔۔
یہ دن اسی طرح اپنے اختتام پر پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔
فرحان ولا میں ناشتہ کی میز پر سب موجود تھے سربراہی کرسی پر فرحان صاحب بیٹھے تھے ان کے دائیں طرف فاطمہ بیگم بیٹھی تھی ان کے ساتھ ہی ارحم بیٹھا تھا فرحان صاحب کے بائیں طرف سنان بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ ہالے۔
ہالے نے سب سے نظر بچا کر سنان کو ٹھوکا دیا تو وہ گڑبڑا گیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ہالے نے نظروں ہی اشاروں میں اسے فاطمہ بیگم سے ہاسٹل والی بات کرنے کا کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔
"وہ ماما۔۔۔میں کیا کہا رہا تھا کہ۔۔۔۔"
سنان نے گلا کھنکارا اور بات شروع کی تھی۔۔۔۔
"سنان میں بتا رہی ہوں اگر تم نے اس کی حمایت کرنی ہے ناں تو بات نہ کرنا۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے سنان کی بات کاٹ کر ہالے کی طرف اشارہ کیا تو وہ منہ بسور کر رہ گئ جب کی ارحم نے مسکراہٹ دبائی تو ہالے نے اس کو گھورا۔۔۔۔۔
"ماما ہاسٹل رہنے میں حرج ہی کیا ہے وہ کونسا کہیں اور جارہی ہے یہیں کراچی میں ہی تو ہے۔۔۔۔"
سنان نے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تو ہالے نے اس کی بات پر زور شور سے سر ہلایا تو فاطمہ بیگم نے اس کو زبردست گھوری سے نوازہ۔۔۔۔
"نہیں یہاں اتنا بڑا گھر ہے سب کچھ ہے یہاں تو ہاسٹل رہنے کی کیا تک ہے۔۔۔۔لوگ کیا کہیں گے کے گھر میں جگہ ختم ہوگئ تھی جو اکلوتی بیٹی کو ہاسٹل بھیج دیا اس کی نا فضول کی خواہشات بڑھتی جارہی ہے میں بتا رہی ہوں آپ باپ بیٹے کو اس کو فضول میں سر پر نہ چڑھائے۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے غصے سے کہا اور آخر میں ہالے کو جھڑک دیا تو اب اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کھانے کی میز سے اٹھ کر روتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گئ وہ ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لینے والی اور اس کی آنسو تو تیار ہوتے تھے کب باہر نکلے۔۔۔۔۔
"ماما دیکھا نہ آپ نے اسے ناراض کردیا آپ کو پتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر روتی ہے اب ناشتہ بھی نہیں کرے گی اور دیکھے ہاسٹل میں ماہ روش بھی تو اس کے ساتھ ہے اور ویسے بھی خالہ نے ماہ روش کی ذمہ داری آپ کو دی تھی اب ہاسٹل میں وہ اکیلی ہے یہاں بھی وہ کبھی کبھی آتی ہے جب ہالے جائے گئ تو ہمیں دونوں کی طرف سے تسلی رہے گئ اور ویسے بھی جب آپ کا دل کرے گا میں ہالے کو ملوانے آپ سے لے آونگا نہ پلیز ماما مان جائے نا۔۔۔۔۔"
سنان نے فاطمہ بیگم کو منانے کی پوری کوشش کی تو وہ سوچنے لگی۔۔۔۔
"پلیز بیگم صاحبہ مان جائے نہ ہماری ایک ہی تو بیٹی ہے اس پر بھی آپ روک ٹوک کرتی ہے۔۔۔"
فرحان صاحب جو اس سارے معاملے میں خاموش تھے جب بولے تو ہالے کے حق میں بولے ویسے بھی وہ انکی لاڈلی بیٹی تھی۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے وہ جاسکتی ہے مگر میں جب بھی بلوانگی وہ مجھ سے ملنے آئے گی سنان یہ ناشتہ لے جاؤ اور اسے کروا دوں۔۔۔۔۔"
بالآخر فاطمہ بیگم مان گئ اور آخر میں سنان کو ناشتہ کا بولا۔۔۔
"نہیں بھئی ہم لیٹ ہوگئے ہیں آفس جانا ہے۔۔۔"
فرحان صاحب نے کہا۔۔۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں بابا ابھی ارحم کو سکول بھی چھوڑنا ہے۔۔۔آپ اس کو ناشتہ کروا دے اس طرح وہ آپ سے ناراض بھی نہیں ہوگئ اور ساتھ ہی اس کو خوشخبری کا بھی سنا دے اور آپ دونوں آجائیں میں پورچ میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔"
سنان نے تفچیل سے سب کو مخاطب کیا ساتھ ہی سٹینڈ سے گاڑی کی چابی اٹھائی اور ارحم کو اشارہ کیا تو وہ دونوں پورچ میں چلے گئے۔۔۔۔
"چلو بیگم میں بھی چلتا ہوں اپنا اور میری لاڈلی کا خیال رکھنا۔۔۔۔"
فرحان صاحب بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے گئے تو فاطمہ بیگم نے ناشتے کی ٹرے اٹھائی اور ہالے کے کمرے کی طرف گئ۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔آئدہ ناشتہ کرنے کہ بعد اپنے کمرے میں آگئی تھی وہ بیڈ پر بیٹھی مختلف سوچوں میں گم تھی جب دروازہ کھلا اور معصومہ اندر داخل ہوئی۔۔۔
"آئدہ۔۔اپنی پیکنگ شروع کردو کل صبح پھپھو کے ساتھ ہم کراچی جائیں گے۔۔"
معصومہ نے کہا اور مزے سے اسکے بیڈ پر بیٹھ گئی تو آئدہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔
"افف آئدہ۔۔ایسے تو مت دیکھا کرو اٹھو اور پیکنگ کرو پھر کہیں کچھ رہ نہ جائے۔۔"
معصومہ نے اکتا کر کہا۔۔۔
"ہمم کرتی ہوں۔۔۔"
آئدہ نے کہا اور سائڈ ٹیبل پر پڑا ناول اٹھا کر پڑھنے لگی۔۔۔
"آئدہ کی بچی رکھو اسے اور اٹھو۔۔"
معصومہ نے غصے سے اسکے ہاتھ سے بک کھینچ کر سائیڈ پر رکھی۔۔۔
"معصومہ تم نہ بہت بدتمیز ہو۔۔۔"
آئدہ نے اسے گھوڑا اور بیڈ سے اتر کر الماری کی طرف بڑھی اور اپنا ضروری سامان نکالنے لگی تو معصومہ اسکے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آگئی تاکہ وہ بھی اپنا ضروری سامان نکال لے۔۔۔
-------------❤❤-------------
اسنے اپنے کمرے میں آکر دروازہ بند کردیا اور بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازہ نوک ہوا مگر وہ خاموش رہی۔۔۔
"نور۔۔۔دروازہ کھولو۔"
فاطمہ بیگم نے پھر سے دروازہ نوک کرتے ہوئے کہا تو ہالے نے اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھ کر دروازہ کھولا اور واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔
فاطمہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔
"میری جان ناراض ہے مجھ سے۔۔"
فاطمہ بیگم نے ناشتے کی ڈش سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور اسکے پاس بیٹھ گئیں مگر ہالے خاموش رہی۔۔۔
"اچھا چلو ناشتہ کرو اور پھر میرے ساتھ مارکیٹ بھی چلو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ڈش اٹھا کر درمیان میں رکھا۔۔۔
"مارکیٹ کیوں جانا ہے۔۔۔"
ہالے نے ناراضگی سے بغیر دیکھے سوال کیا۔۔۔
"مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں اور اب تم بھی جاو گی تو اس سے پہلے میرے ساتھ شوپنگ کرلو تھوڑی۔۔۔"
فاطمہ بیگم کے بولنے پر ہالے نے انکی طرف دیکھا۔۔۔اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی تھی۔۔۔
"میں کہاں جاؤں گی۔۔۔"
ہالے نے کنفرم کرنے لے لیے سوال کیا۔۔۔
"ہاسٹل جاو گی اور کہاں چلو اب باتیں کم کرو اور ناشتہ کرو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اسے خوشخبری سنائی اور ساتھ ہی ناشتے کی طرف اشارہ کیا ہالے کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آگئی اور وہ جھٹ سے فاطمہ بیگم کے گلے لگ گئ۔۔۔
"آپ دنیا کی بیسٹ ماما ہے اور کیا سچ میں آپ نے مجھے اجازت دے دی۔۔۔مطلب میں ہاسٹل جا سکتی ہوں۔۔"
ہالے نے خوش ہو کر سوال کیا۔۔۔۔۔
"ہاں تم ہاسٹل جا سکتی ہو مگر ایک شرط پر اور مکھن کم لگاؤ ۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے کہا تو ہالے نے سوالیا نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔
"ہفتے میں ایک دن تم میرے پاس رہو گی۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اپنی شرط ہالے کے سامنے رکھی۔۔۔
"اوہو امی جان بس اتنی سی بات۔۔۔ٹھیک ہے مجھے آپکی شرط منظور ہے۔۔۔۔۔۔"
ہالے نے مسکرا کر کہا اور ناشتہ کرنے لگی۔۔۔فاطمہ بیگم اسکے پاس ہی بیٹھ کر اس سے باتیں کرتی رہیں۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
حویلی میں رات کا کھانا خوشگور ماحول میں کھایا گیا۔۔۔
سب ہی خوش تھے سوائے آئدہ کہ۔۔۔اسنے برائے نام ہی کھانا کھایا اور واپس اپنے کمرے میں آگئی معصومہ بھی اس کے ساتھ ہی آگئی۔۔۔
"آئدہ پھر سے سوچ لو کچھ رہ تو نہیں گیا۔۔۔"
معصومہ نے آئدہ کے سامان کو دیکھ کر کہا۔۔۔
"معصومہ تم نہ جا کر اپنا سامان دیکھو مجھے تنگ مت کرو۔۔دماغ خراب کر دیا ہے۔۔"
آئدہ نے کہا اور اپنے بیڈ میں گھس گئی۔۔۔
"کتنی بدتمیز ہوگئی ہو تم آئدہ۔۔۔اب مجھ سے بات مت کرنا۔۔"
معصومہ نے ناراضگی بھرے لہجے میں کہا اور اسکے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔
آئدہ کو احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوگئی ہے۔۔۔معصومہ صحیح ہی تو کہہ رہی تھی۔۔۔ہمیشہ اس سے کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے اور پھر وہ دوسروں کا سر کھاتی ہے۔۔۔۔
وہ بیڈ سے اٹھی اور اپنا سامان چیک کرنے لگی اور اسکے بعد وہ معصومہ کے کمرے کی طرف چلی گئی تاکہ اسکا موڈ ٹھیک کر سکے۔۔۔
-------------❤❤--------------
ہالے آج بہت خوش تھی۔۔فاطمہ بیگم کے ساتھ شوپنگ کرنے کہ بعد جب وہ گھر آئی تو اسنے کال پر ساری تفصیل ماہ کو سنائی جسے سب کچھ سن کر ماہ بھی کافی خوشی ہوئی۔۔۔اب ہالے بس بے صبری سے ہاسٹل جانے کا انتظار کر رہی تھی۔۔ہاسٹل میں ماہ کے ساتھ ہی اسنے روم شئیر کرنا تھا۔۔۔۔۔۔
کل اسنے سنان کے ساتھ ہاسٹل جانا تھا اور پرسوں یونی وہ بہت خوش تھی کیونکہ اس کی ہاسٹل لائف اکسیپرینس کرنے والی خواہش پوری ہونے والی تھی۔۔۔۔۔۔رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے روم میں آگئ روم میں آکر اس نے اپنی پیکنگ کی پیکنگ کے بعد وہ اپنا موبائل لے کر بیٹھ گئ اور اپنا پسندیدہ کام شروع کیا جو کہ ناول پڑھنا تھا رات دیر تک وہ موبائل میں ہی بیزی رہی اس کے بعد وہ سو گئ۔۔۔۔
صبح کے گیارہ بجے اس کا موبائل بجنا شروع ہوا پر وہ کان لپیٹ کر سوئی رہی فون وفقے وفقے سے بجتا رہا شاید دوسری طرف والا بندا بھی اسی کی طرح ڈھیٹ تھا جو کال پر کال کرتا رہا جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے تکیے کے نیچے ہاتھ مارا اور اپنا فون نکالا اور بغیر دیکھے اٹھا لیا۔۔۔۔
"نہیں بھئی کیا مسلا ہے جو فون پر فون کیے جارہے ہو اتنی صبح کون فون کرتا ہے بندہ سو رہا ہوتا ہے پر نہیں آپ آگے سے اپنا ڈھیٹ پن دیکھا کر فون کر رہے اور میری نیند خراب کر دی بولو بھی اب زبان کیا پڑوسیوں کو تحفے میں دے آئے ہو یا بیچ کھائی ہے۔۔۔۔"
ہالے فون اٹھا کر نون اسٹاپ شروع ہوگئ کیونکہ وہ اپنی نیند کے معاملے میں ایسی ہی تھی اور اگر نیند پوری کیے بغیر اٹھتی تو وہ چڑچڑی ہو جاتی تھی۔۔
"ہالے کی بچی تم ملو مجھے چھوڑنا نہیں میں نے تمھیں اور بہن کونسی صبح گیارہ بج رہے ہے اور زبان کا کیا بول رہی ہو مجھے خود دیکھی ہی اپنی زبان جب سے فون اٹھایا ہے چپڑ چپڑ شروع ہو گئ ہو مجھے بولنے ہی نہیں دے رہی کچھ میں کیا بولوں۔۔۔۔"
ماہ روش کافی غصے میں بولی اور ٹھیک ٹھاک ہالے کو سنائی تو ہالے ہوش میں آئی۔۔۔
"سوری یار مجھے نہیں پتا تھا تم۔۔۔۔"
ہالے بول رہی تھی جب ماہ نے اس کی بات کاٹی۔۔۔
"کوئی سوری وری نہیں جلدی سے بیڈ سے نکلو اور بارہ بجے مجھے ہاسٹل سے پک کرنے آؤ شوپنگ پر جانا ہے۔۔۔اٹھو بھی ابھی تک بستر میں مری ہوئی ہو۔۔۔۔"
ماہ روش نے اسے حکم دیا اور آخر میں اسے ڈپٹا تو وہ جلدی سے بستر سے نکالی۔۔۔۔
"ماہ بدتمیز اب دفع ہو فون بند کرو گی تو ہی میں فریش ہونے جاوں گی نہ کب سے تو میری عزت کیے جارہی دیکھ اب بچی پر رحم کھا الله حافظ۔۔۔۔"
ہالے جو کب سے ماہ روش کی سن رہی تھی تنگ ہو کر بولی اور فون کاٹ دیا۔۔۔۔۔
فون کو ٹیبل پر رکھا اس کے بعد کھڑکی سے پردے ہٹائے پھر کپڑے لے کر واشروم میں گھس گئ پندرہ منٹ بعد وہ فریش سی واشروم سے نکالی پھر اسنے اپنا بیڈ بنایا اور ڈریسنگ کے آگے کھڑی ہوکر ہلکا پھلکا تیار ہوئی اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا پھر کمرے سے نکل گئ اور نیچے کی طرف آئی
"ماما۔۔۔۔ماما جلدی سے ناشتہ دیں۔۔۔۔"
ہالے ڈائیننگ ٹیبل پر آئی اور فاطمہ بیگم کو آواز لگائی۔۔۔
"کیا ہوگیا ہے لڑکی ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہو ناشتہ آرہا ہے اور ایک منٹ یہ کہاں جارہی ہو۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم بولتی ہوئی کچن سے نکلی اور پھر اس کی تیاری دیکھ کر سوال کیا۔۔۔۔
"ماما وہ ماہ کی کال آئی تھی اسے شوپنگ پر جانا ہے اس نے 12 بجے بلایا ہے تو میں جاؤں کیا۔۔۔۔"
ہالے نے انھیں تفصیل بتائی ساتھ ہی جانے کی اجازت لی۔۔۔۔
"تیار ہونے کہ بعد پوچھ رہی ہو کہ جاؤں واہ واہ۔۔۔جاؤ پر آرام سے گاڑی چلنا اور فضول خرچی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ابھی کل ہی تم میرے ساتھ گئ ہو تمھارا ناشتہ لے کر آتی ہو۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اسے تنبیہ کی اور کچن میں اس کا ناشتہ لینے چلی گئ۔۔۔۔ناشتہ لے کر فاطمہ بیگم آئی تو اس نے ناشتہ کیا۔۔۔۔
"ماما باقی سب کہاں ہیں ۔۔۔۔۔؟"
ہالے نے ناشتے کرتے وقت باقی سب کا پوچھا۔۔۔۔
"تمھارے پاپا تو حمدان بھائی کی طرف گئے ہے جب کے ارحم اور سنان سو رہے ہیں ابھی۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اسے تفصیل بتائی(حمدان صاحب اور فرحان صاحب بچپن کے دوست بھی تھے اور بزنس پارٹنر بھی)
"اچھا ٹھیک ہے ماما میں چلتی ہوں۔۔۔۔"
ہالے نے ناشتہ ختم کیا فاطمہ بیگم کے گلے لگی اور ان کا گال چوما گاڑی کی چابی اٹھا کر جلدی سے پورچ میں چلی گئ۔۔۔۔۔۔
"بلکل پاگل ہے یہ لڑکی۔۔۔"
فاطمہ بیگم اس کی جلد بازی پر ہمیشہ کی طرح بڑبڑاہٹ کی۔۔۔۔
"خان بابا گیٹ کھول دیں۔۔۔۔"
ہالے نے خان بابا کو بول کر گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی گھر کے گیٹ سے نکال کر ماہ روش کے ہاسٹل کے راستے میں ڈال دی۔۔۔۔۔پچس منٹ بعد اسنے ہاسٹل کے باہر گاڑی کھڑی کی اور ماہ کو کال ملائی۔۔
آئدہ،معصومہ اور ہادیہ بیگم اگلی صبح 9 بجے حمدان صاحب کے ساتھ کراچی کہ لیے نکل آئے تھے۔۔۔ویسے تو ہادیہ بیگم کا ارادہ کچھ دن اور رکھنے کا تھا مگر آئدہ اور معصومہ کے کراچی جانے کا سن کر وہ بھی ساتھ آگئ تھی۔۔۔۔
زاہران کا آئدہ کے آنے کی خبر سن کر ہلک تک کڑوا ہوا تھا جبکہ آئدہ کا بھی دل بہت اداس تھا۔۔۔وہ آتے ہوئے کسی سے بھی صحیح سے نہیں ملی تھی فرہین بیگم سے بھی نہیں۔۔اصل شکوہ تو اسے فرہین بیگم سے ہی تھا جنہوں نے اسکی ماں ہونے کہ باوجود اسکے حق میں کچھ بھی نہیں کیا تھا۔۔۔اسے اپنے باپ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی وہ ہوتے تو اسکے ساتھ یہ زیادتی کبھی نہ ہوتی۔۔۔
وہ کھڑکی کہ پار دوڑتے نظارے دیکھتے ہوئے مختلف سوچوں میں گم تھی جب گاڑی اچانک رک گئی تو وہ ہوش میں آئی۔۔۔
"کیا ہوا۔۔۔گاڑی کیوں رک گئی۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے حمدان صاحب سے سوال کیا۔۔۔
"پتا نہیں۔۔میں دیکھتا ہوں۔۔"
حمدان صاحب نے جواب دیا اور گاڑی سے نکل گئے۔۔۔
آئدہ نے چہرہ موڑ کر معصومہ کو دیکھا جو سو رہی تھی۔۔۔وہ فجر کے بعد سے اٹھی تھی تبھی اسکی آنکھ لگ گئی تھی جبکہ آئدہ تو ساری رات نہیں سوئی تھی اسکے باوجود بھی اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔
چند لمحوں بعد حمدان صاحب نے گاڑی کا بونٹ بند کیا اور گاڑی میں آکر بیٹھے۔۔۔
"کیا ہوا ہے انکل۔۔۔۔؟"
انکے بیٹھتے ہی آئدہ نے سوال کیا۔۔۔
"پتا نہیں بیٹا کچھ مسئلہ ہوگیا ہے۔۔۔ کراچی سے تھوڑا سا ہی دور ہیں یہاں تو کوئی مکینک بھی نہیں ملے گا۔۔۔"
حمدان صاحب نے جواب دیا اور کچھ سوچنے لگے۔۔۔
"اب کیا کریں گے۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے کچھ دیر بعد کہا۔۔۔
"سوچ رہا ہوں زاہران کو کال کروں۔۔۔"
حمدان صاحب نے کہا اور ساتھ ہی اسے کال ملانے لگے۔۔۔دو بار کال ملانے پر جب زاہران نے کال پک نہ کی تو انہوں نے حمزہ کو فون ملایا جو دوسری بیل پر پک کر لیا گیا۔۔۔۔
"اسلام و علیکم بابا۔۔۔کب پہنچ رہے ہیں۔۔؟"
حمزہ نے کال اٹینڈ کرتے ہی سوال کیا۔۔۔
"وعلیکم السلام۔۔گاڑی خراب ہوگئی ہے حمزہ ہم کراچی سے تھوڑا سا ہی دور ہیں۔۔۔لوکیشن سینڈ کر رہا ہوں گاڑی اور کوئی اچھا سا مکینک لےکر پہنچو۔۔۔"
حمدان صاحب نے حمزہ کو تفصیل سنائی۔۔۔
حمزہ جو مال میں سنان کا انتظار کر رہا تھا وہ جلدی سے باہر کی طرف بڑھا اور سنان کو کال کرنے لگا تاکہ اسے بتا سکے وہ جارہا ہے۔۔۔
-------------❤❤--------------
مال میں انٹر ہوتے وقت ماہ روش کی ٹکڑ ایک لڑکے سے ہوئی جس سے ماہ کا قیمتی موبائل زمین بوس ہوا لڑکا کافی عجلت میں تھا اس لیے معذرت کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔
ماہ روش کو جب ٹکر لگی تو وہ سخت غصہ میں آگئی اور جب اس نے اپنے قیمتی فون کو زمین بوس ہوتے دیکھا تو اس کو گہرا صدمہ لگا لیکن جلد ہی اس صدمہ سے نکل کر اس لڑکے کے پیچھے گئ۔۔۔۔۔۔
"ابے رک تیری تو۔۔۔۔"
ماہ بولتی ہوئی اس کے پیچھے گئ اور کندھے سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔۔اس کے اس طرح بولنے پر اس پاس کے لوگ ان کو کر دیکھنے لگے۔۔۔۔
وہ لڑکا جو اپنے ہی دھیان میں جارہا تھا اس اچانک آنے والے مصیبت پر بوکھلا گیا۔۔۔۔۔ہالے بھی اپنے دھیان میں آگے جارہی تھی وہ بھی رک کر پیچھے آئی اور معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
"آپ مجھ سے مخاطب ہیں۔۔۔"
لڑکے نے کافی مودبانہ انداز میں ماہ سے پوچھا۔۔۔
"اور نہیں تو یہاں تمھارے باپ،چچا،دادا سے مخاطب ہو جو یہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔۔۔"
ماہ نے بھی آگے سے کافی بھگو بھگو کر طنز کیا اور اپنی آستینوں کو اوپر چڑھایا۔۔۔
"ماہ روش چھوڑو اسے اور چلو یہاں سے۔۔۔"
ہالے نے ماہ روش کے کان میں گھس کر کہا اور بازو سے پکڑ کر کھنچا۔۔۔۔
"نور دو منٹ چپ کرو تم"
ماہ نے ہالے کو آنکھیں دکھا کر کہا اور اپنا بازو کھینچا۔۔۔۔
"تمیز میں رہے اور میرے خاندان والوں پر جانے سے تو گریز ہی کرے ورنہ میں آپ کے لڑکی ہونے کا لحظ بھی نہیں کروں گا اور ویسے بھی آپ جیسی لڑکیاں زہر لگتی ہیں۔۔۔"
حمزہ نے کافی مودب انداز میں ماہ کو سنائی اور آخر میں اس کے حلیے کی طرف اشارہ کیا وائٹ شورٹ شرٹ ساتھ ہی بلیک جیکٹ اس کے نیچے بلیک پینٹ اور سر پھر بلیک ہی کیپ تھی اور چھوٹے بالوں کی پونی ٹیل بنی ہوئی تھی جبکہ پاوں میں بلیک سنیکرز پینے تھے اس کا حلیا یہی تھا جو حمزہ کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔۔۔
"نہیں تو کیا کر لو گے اور اگر اتنی ہی زہر لگتی ہوں تو پانی میں گھول کر پی جاو اور دوسری بات تم بھی مجھے شہد نہیں لگ رہے بڑے آئے۔۔۔۔"
ماہ نے بھی آگے سے اپنی زبان کے جوہر دکھائے(سنتی تو وہ کسی کے باپ کی بھی نہیں تھی)۔
"دیکھے محترمہ اپنی زبان کے جوہر تو کم ہی دیکھئے ورنہ میں شروع ہوا تو آپ پھر اپنے بولنے پر پچھتائیں گئ ابھی تو میرے پاس ٹائم نہیں ورنہ آپ کو بتا دیتا۔۔۔۔۔"
حمزہ ماہ کو کافی سنا کر باہر کی طرف بڑھ گیا کیونکہ وہ لیٹ ہو رہا تھا جب کہ ماہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"محترمہ منہ بند کر لے ورنہ مکھی چلی جائے گئ۔۔۔۔"
حمزہ جاتے جاتے پیچھے مڑا اور مسکراہٹ دبا کر بولا تو ماہ نے جلدی سے منہ بند کیا جبکہ اس کے اس طرح منہ بند کرنے پر حمزہ نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور بالآخر باہر چلا ہی گیا۔۔۔۔۔۔
"ماہ چلو آج تمھاری نہ اچھی خاصی ہوگی ہے۔۔۔۔۔"
ہالے نے مسکراہٹ دبا کر کہا اور ماہ کو بولا۔۔۔۔
"جی کیا ہے۔۔۔۔ بنا ٹیکٹ کے جو شو دیکھنے رہے تھے نہ آپ سب وہ ختم ہو گیا اب اپنا اپنا راستہ ناپو اور چھٹی کرو یہاں سے۔۔۔۔"
ماہ جو ہالے کے بولنے پر ہوش میں آئی تو اس نے ارد گرد کے لوگوں کو تالی بجا کر متوجہ کیا اور تنز کے تیر چلا کے ہالے کو بازو سے کھنچا اور آگے بڑھ گئ پر فرش سے اپنا فون اٹھانا نہیں بھولی۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آئدہ اور معصومہ رات کا کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آگئ دونوں ایک ہی کمرا شئر کر رہی تھی۔۔۔گاڑی خراب ہونے کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد حمزہ دوسری گاڑی اور مکینک لے کر وہاں پہنچا تھا اور آئدہ،معصومہ اور ہادیہ بیگم لو لےکر کراچی آگیا تھا۔۔۔
جب سے آئدہ آئی تھی اس نے زاہران کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ابھی تک آفس نہیں آیا تھا اور ویسے بھی آئدہ کا اس کھڑوس کو دیکھنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
"آئدہ میں بہت خوش ہو فائینلی ہم صبح یونیورسٹی جائینگے۔۔۔۔۔۔"
معصومہ نے خوشی کے مارے آئدہ کو بازو سے پکڑ کر گھمایا ڈالا۔۔۔۔۔
"معصومہ پاگل ہوگئی ہو چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔"
آئدہ نے معصومہ کو گھورا اور اس سے اپنے بازو چھڑوائے۔۔۔۔۔
"یاررررر۔۔۔۔۔۔میں بہت خوش ہو نہ۔۔۔او میں نے تو صبح کے لیے کپڑے ہی نہیں نکالے۔۔۔۔۔۔"
معصومہ اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی جب اسے اچانک کپڑے یاد آئے۔۔۔۔۔
"میں نا ابھی کپڑے نکال کر آتی ہوں۔۔۔۔۔۔"
معصومہ بول کر ساتھ ہی ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔۔۔
آئدہ تو بس معصومہ کو دیکھتی ہی رہ گئ جس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی یونیورسٹی چلی جائے۔۔۔۔
آئدہ نے فرحین بیگم کو کال کی اور ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی تھوڑی دیر بعد اس نے فون بند کردیا اور معصومہ کو دیکھنے گئ ڈریسنگ روم میں معصومہ نے اپنے اور آئدہ دونوں کے کپڑے نکالنے تھے اور اب انھیں پریس کر رہی تھی۔۔۔۔۔
"معصومہ میرے کپڑے کیوں پریس کر رہی ہوں ہٹ جاؤ میں خود ہی کر لیتی ہوں۔۔۔۔۔"
آئدہ نے بولتے ساتھ ہی معصومہ کو ہٹایا اور خود کپڑے پریس کرنے لگی۔۔۔۔۔تو معصومہ کندھے اچکا کر ڈریسنگ روم سے نکال گئ اور روم میں جا کر ٹی۔وی اون کرلی۔۔۔۔۔
"معصومہ ٹی۔وی بند کرو اور سو جاؤ پھر صبح نہیں اٹھ سکو گئ اور سونے سے پہلے پانی کا جگ بھر لینا۔۔۔۔۔"
آئدہ ڈریسنگ روم سے نکل کر معصومہ کو بولی۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔آئدہ بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں تم سو جاؤ۔۔۔۔۔"
معصومہ نے معصوم سے شکل بنا کر آئدہ کو کہا تو آئدہ سر ہلایا اور بیڈ پر آ کر اپنی سائیڈ پر لیٹ گئ۔۔۔ وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئ تھوڑی دیر بعد معصومہ بھی ٹی۔وی بند کر کے سو گئ۔۔۔۔۔
آئدہ کی آنکھ رات کو پیاس کی شدت سے کھلی تو اس نے سائیڈ لمپ اون کیا اور سائیڈ ٹیبل پر جگ دیکھا جو کہ خالی تھا تو اس نے سوئی ہوئی معصومہ کو گھورا جو مزے سے سو رہی تھی اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا اس نے اپنے اوپر سے کمبل ہٹایا۔۔۔وہ بستر سے باہر نکلی صوفے سے اپنی شال اٹھا کر کندھوں پر پھیلائی اور جگ لے کر کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔باہر چاروں طرف اندھیرا تھا وہ موبائل بھی ساتھ نہیں لائی تھی اس لیے ہمت کرتی آگے بڑھی اور اندھیرے میں ہی کچن میں پونچھی کچن کی لائیٹ اون کی اور پانی بھرنے لگی۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف زاہران کو کافی کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ وہ جب سے آفس سے آیا تھا کام ہی کر رہا تھا اب وہ کافی بنانے کی نیت سے کمرے سے باہر نکالا اور کچن کی طرف آیا تو اسے کچن کی لائیٹ اون تھی اور اسے کسی کی موجودگی محسوس ہوئی تو وہ دبے پاؤں کچن میں آیا آئدہ اس کی طرف کمر کیے پانی پی رہی تھی زاہران کو حیرت ہوئی کے اس ٹائم گھر میں کوئی لڑکی کیونکہ اس کے ذہن سے آئدہ اور معصومہ کے یہاں آنے والی بات نکل چکی تھی۔۔۔۔
آئدہ جو پانی پی کر مڑی تھی تا کہ ٹیبل سے جگ اٹھا سکے اپنے پیچھے زاہران کو دیکھ کر چیخ پڑتی اس سے پہلے زاہران جلدی سے آگے بڑھ اور ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر اپنی طرف کھنچے جس سے ان دونوں کے بیچ ایک انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا اور آئدہ کی چیخ اس کے منہ میں ہی دبا گئ اور وہ آنکھیں پھڑے زاہران کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
"پاگل ہو کیا سارے گھر والوں کو جگانا ہے کیا اور رات کے اس ٹائم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔"
زاہران نے آئدہ کے کان کے پاس غرا کر کہا اور اس کی کمر پھر دباؤ بڑھایا تو درد کی شدت سے اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر بےمول ہوا۔۔۔۔
"بولو اب جواب کیوں نہیں دے رہی۔۔۔۔"
زاہران نے بولا تو آئدہ نے آنکھوں سے اشارہ اس کے ہاتھ کی طرف کیا جو اس کے منہ پر تھا تو زاہران نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا مگر کمر سے نہیں ہٹایا تھا۔۔۔۔۔
"و۔۔۔وہ۔۔۔میں پانی پینے آئی تھی۔۔۔۔"
آئدہ نے اٹک اٹک کر جواب دیا اور زاہران کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔۔۔۔۔
"تو پانی پی لیا نہ اب جاؤ۔۔۔۔"
زاہران نے بولا تو آئدہ بےبسی سے اسے دیکھتی رہ گئ۔۔۔۔
"کیا ہے۔۔۔"
زاہران نے پھڑ کھانے والے انداز میں پوچھا۔۔۔
"وہ آپ مجھے چھوڑیے گے تو ہی جاونگی نہ۔۔۔۔"
آئدہ بولی تو زاہران کو احساس ہوا کہ اسک ہاتھ آئدہ کی کمر پر ہے۔۔۔زاہران نے اسے چھوڑ تو وہ جگ لے کر جلدی سے کچن سے باہر نکل گئ اور کمرے میں آکر سکھ کا سانس لیا۔۔وہ جلدی سے بیڈ پر لیٹ گئ اور سائیڈ لمپ اوف کرکہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
پیچھے زاہران نے بھی کافی بنائی اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج انکا یونی میں پہلا دن تھا وہ دونوں تیار ہو کر یونی کے لیے پیدل ہی نکلی کیونکہ یونی اور ہاسٹل میں 10 منٹ کا فاصلہ تھا۔یونی میں انٹر ہوتے ہی ہالے اتنے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئ تو ماہ روش نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں سے تسلی دی تو ہالے مسکرا دی اور دونوں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھی انھی وہ جارہی تھی جب کسی لڑکی نے انھیں پکارا۔
"سنو"
وہ لڑکی شاید سینیر تھی۔۔۔۔ماہ روش اور ہالے پیچھے مڑی تو ماہ نے آئیبرو اچکا کر بولنے کا اشارہ کیا۔۔۔
"اس کا ایٹیٹیوڈ تو دیکھو ابھی تو دونوں کو مزہ چکھاتی ہوں۔۔۔۔"
وہ لڑکی تلملا گئ اور غصے سے دل ہی دل میں ہالے اور ماہ سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔
"آپ شاید فرسٹ سمیسڑ کی ہیں اور غالباً آج آپ کا پہلا دن ہے وہ آپ کا ڈپارٹمنٹ کونسا ہے۔۔۔۔۔؟"
ہالے نے سر ہلایا تو وہ آگے بولی جبکہ اس سب کے دوران ماہ روش اسے مشکوک نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔۔
"انگلش۔۔۔۔"
نور نے مختصر جواب دیا۔۔۔۔
"او بی بی یہاں کیا انٹرویو ہورہا ہے۔۔۔ہاں پوچھ گچھ کر رہی ہوں۔۔۔۔"
ماہ روش کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس لڑکی کو سنا دی جو بیچاری گڑبڑا گئ جبکہ ہالے نے اپنے مسکراہٹ دبائی۔۔۔
"چلی۔۔چلیں میں آپ کو راستہ بتا دیتی ہوں۔۔۔۔"
اس لڑکی نے ان کو غلط راستہ بتایا جو کہ واش روم کی طرف جاتا تھا وہ لڑکی جانے لگی جب ہالے نے اسے پکارا۔۔۔۔
"سنو باجی راستہ تو صحیح بتایا ہے مگر کیا ہے نہ آپ نے ہمیں انگش ڈپارٹمنٹ کا راستہ بتانا تھا نا کہ واشروم کا تو آئندہ نا غلط راستہ بتا کر واشروم بھجوانے والی غلطی نہ کرنا کیونکہ آج کل نا سب کو پہلے ہی اپنے ڈیپارٹمنٹ کا پتا ہوتا ہے سو بائے باجی آئے ہوپ آئندہ کبھی نہ ملے اللہ حافظ۔۔۔۔"
جب ہالے نے اس لڑکی کو روک کر پیچھے سے زور زور سے اس کی میٹھی میٹھی عزت کی تو وہ لڑکی شرمندہ ہوگئ اور اس پاس کے لوگ جو ہالے کی اونچی آواز پر متوجہ ہوئے تھے وہ بھی ہنس دیے۔۔۔۔
ہالے اور ماہ روش بھی دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس دی کیونکہ وہ کل ہی سنان کے ساتھ آکر پوری یونی دیکھ گئ تھی تو انھیں اپنے ڈیپارٹمنٹ اور کلاس کا پتا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں اپنی کلاس میں انٹر ہوئی تو کلاس میں کچھ ہی لوگ تھے جو اپنی باتوں میں مصروف تھے وہ صرف ایک پل کے لیے ان کی طرف متوجہ ہوئے پھر اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے وہ دونوں بھی کندھے اچکا کر آخری بینچ پر جا کر بیٹھ گئ اور باتیں کرنے لگی کچھ دیر بعد سر کلاس میں داخل ہوئے تو سب خاموش ہوگئے اور سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ساری کلاسسز میں آج انٹروڈکشن ہی ہوا تھا پڑھائی کل سے اسٹارٹ ہونی تھی۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ دونوں صبح اٹھی اور جلدی سے تیار ہوکر نیچے ناشتے کہ میز پر چلی گئی۔۔۔
وہ نیچے آئی تو سب ناشتے کہ میز پر موجود تھے ان دونوں نے سب کو اونچی آواز میں سلام کیا۔۔
ناشتے کے دوران آئدہ کو ہر تھوڑی دیر بعد زاہران کی نظریں اپنے آر پار ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اسنے مشکل سے ہی ناشتہ کیا۔۔۔زاہران اور حمدان صاحب آفس چلا گئے تو آئدہ،معصومہ اور حمزہ بھی یونی چلے گئے رستے میں انہوں نے آہل کو بھی پک کرنا تھا۔۔۔
وہ چاروں یونی پہنچے تو معصومہ کی نظر گیٹ کے پاس کھڑے اس لڑکے پر گئی جو آئدہ کے نکاح والے دن اسے بار بار گھورا رہا تھا۔۔۔
"ہاں بھئی کیا حال ہے۔۔۔؟"
سنان نے انکے پاس آیا اور حمزہ اور آہل سے بغل گیر ہوتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
"ہم ٹھیک ہیں تو سنا کیسا ہے۔۔۔"
حمزہ نے کہا۔۔۔
"میں۔۔۔۔نظر نہیں آرہا تجھےکتنا ہینڈسم ہوں۔۔"
حمزہ کے بولنے پر ان سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔زنانہ ہنسی سن کر سنان نے اپنا چہرہ موڑا تو اسے وہی اس دن والا چاند سا معصوم چہرہ نظر آیا۔۔۔۔
"وہ ان کو تو تم جانتے ہو پہلا دن ہے آج ان دونوں کا یونی میں۔۔۔"
آہل نے سنان نے اس طرف دیکھنے پر کہا تو سنان نے سر ہلایا۔۔۔
"ماہ اور ہالے کا بھی آج فرسٹ ڈے ہے کچھ دیر تک آتی ہی ہوںگی انہی کا انتظار کر رہا تھا میں۔۔۔"
سنان نے اسکے چہرے سے نظر ہٹا کر کہا۔۔۔۔
"کلاس کب ہے آپ دونوں کی۔۔۔"
سنان نے معصومہ کو دیکھتے ہوئے سول کیا۔۔۔
"دد۔۔دس بجے۔۔"
معصومہ سنان نے اس طرح دیکھنے پر پہلے گھبرا گئی پھر گھڑی میں ٹائم دیکھا کر کہا جہاں نو بجے رہے تھے۔۔۔
"کلاس میں تو ابھی ٹائم ہے تم دونوں انکو اتنی جلدی کیوں لے آئے۔۔۔"
سنان نے حمزہ اور آہل کو دیکھا۔۔۔
"یار ہم نے سوچا یونی اور ڈیپارٹمنٹ وغیرہ دکھا دیں گے۔۔۔۔ "
حمزہ نے جواب دیا۔۔۔
"چلو پھر انکو یونی دکھاتے ہیں۔۔۔۔"
آہل نے کہا تو آئدہ اور معصومہ ان تینوں کے ساتھ چل دیں۔۔۔
کچھ دیر بعد سنان کو ماہ کا میسج ملا کہ وہ دونوں یونی پہنچ گئی ہیں اور اپنی کلاس میں ہیں۔۔
اسکا میسج پڑھ کر سنان بےفکر ہوا۔۔
معصومہ بس انتظار کر رہی تھی کہ یہ ایک گھنٹا بس جلدی سے ختم ہو اور وہ اپنی کلاس میں جائے کیونکہ سنان کی نظروں سے وہ بہت گھبرا رہی تھی۔۔۔۔10 بجنے میں کچھ ہی ٹائم تھا جب آئدہ اور معصومہ اپنی کلاس میں چلی گئی۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آئدہ اور معصومہ کلاس لینے کہ بعد کیفٹرایا آگئی کیونکہ انکی دوسری کلاس میں ابھی ٹائم تھا۔۔۔آہل لوگوں کی کچھ دیر بعد کلاس ختم ہونی تھی۔۔۔۔
وو دونوں جب کیفٹرایا میں داخل ہوئی تو وہاں پر بہت سے سٹوڈنٹس موجود تھے وہ دونوں بھی ایک ٹیبل پر جاکر بیٹھ گئی اور آہل لوگوں کا ویٹ کرنے لگی کچھ دیر بعد وہ تینوں بھی آگئے۔۔۔
سنان نے کچھ یاد آنے پر یہاں وہاں نظریں دوڑائی تو اسے ایک کونے میں ہالے اور ماہ نظر آئی۔۔ہم وقت ہالے کی نظر بھی سنان پر گئی تو اسنے سنان کو ہاتھ ہلایا۔۔۔ سنان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا تو وہ دونوں اس ٹیبل سے اٹھ کر اسکی طرف آئی۔۔۔
"کیسی ہو تم دونوں۔۔۔؟"
سنان نے ماہ اور ہالے کو دیکھ کر کہا۔۔۔
"ہم بلکل ٹھیک ہیں بھائی۔۔۔آپ کیسے ہیں۔۔؟"
ہالے نے مسکرا کر جواب دیا اور سنان سے فاصلے پر پڑے ٹیبل پر بیٹھے شخص کی نظر جب ہالے پر گئی تو وہ اسکی مسکراہٹ میں کھو گیا۔۔۔
میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔اچھا ان سے ملو یہ میرے دوست ہیں"
سنان نے آہل لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو آہل نے ہالے پر سے نظر ہٹائی ۔۔۔
ماہ کی نظر جب حمزہ پر گئی تو اسکو کل والا واقعہ یاد آیا۔۔۔
جبکہ ماہروش کو دیکھ کر حمزہ کا ہلک تک کڑوا ہوا۔۔۔
"تم۔۔۔۔"
ماہ کہ منہ سے بےاختیار نکلا۔۔۔
"تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو۔۔۔"
سنان نے انکے اس طرح ریکٹ کرنے پر سوال کیا۔۔
"یہ تمہاری بہن ہے۔۔۔؟"
حمزہ نے سنان کے سوال کو نظر انداز کرکہ ماہ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
"ہاں کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔۔مطلب میری خالہ کی بیٹی ہے مگر ہوا کیا ہے۔۔"
سنان نے ناسمجھی میں جواب دیا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
"جو بھی ہے بھئی۔۔بہت ہی کوئی بدتمیز لڑکی ہے۔۔۔"
حمزہ نے ایسے کہا جیسے ماہ وہاں پر موجود ہی نہیں ہے اور وہ کھل کر اسکی برائی کر سکتا ہے ۔۔۔
"او ہیلو۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بدتمیز بولنے کی۔۔۔"
ماہ کو پہلے تو حمزہ کے اس طرف بےفکر ہو کر بولنے پر صدمہ ہوا اور پھر بعد میں وہ غصے میں اسکے قریب۔۔۔
"ایک منٹ گائز ہو اکیا ہے آخر ہمیں بھی کچھ بتاؤ۔۔"
سنان نے ماہ کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا اور پھر دونوں کی طرف سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔۔
"میں بتاؤں بھائی۔۔۔۔"
ہالے نے کہا تو سب نے اسکی طرف سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔۔
"وہ نا کل جب ہم مال گئے تھے تب۔۔۔۔۔"
ہالے نے سکون سے چئیر پر بیٹھ کر الف سے یہ تک پوری کہانی سنائی جسے سننے کی بعد ان سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔جبکہ ماہ اور حمزہ کا منہ بنا ہوا تھا۔۔۔
"او مائی گاڈ۔۔۔۔مجھے حمزہ کا تو پتا تھا کہ یہ پاگل ہے مگر ماہ تم نے بھی کم پاگل پن نہیں دکھایا۔۔۔ "
سنان نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
"مجھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ کسی پاگل خانے سے بھاگ کر آئی ہے۔۔۔"
حمزہ نے بڑبڑاہٹ کی مگر وہ اتنی اونچی تھی کہ ان سب نے سنی۔۔۔۔
"سنان اسے کہو اپنا منہ بند رکھے ورنہ میں توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔۔۔"
ماہ نے سنان کو کہا تو وہ مسکرا دیا۔۔۔
"ارے دفع کرو تم اسے بولتا رہتا ہے یہ تم ان دونوں سے ملو۔۔۔یہ ہے معصومہ آہل کی بہن اور یہ آئدہ ہے حمزہ کی بھابھی۔۔۔۔"
سنان نے معصومہ کو دیکھ کر ایک گہرا مسکراہٹ اچھالی جس سے معصومہ گڑبڑا گئی۔۔۔سنان نے تعارف کرواتے ہوئے آخری جملہ شرارت سے ادا کیا جس سے آئدہ کے چہرے پر سرخی پھیل گئی۔۔
"ہیلو۔۔۔میں ہالےنور ہوں اور یہ ماہ روش ہے۔۔۔"
ہالے اور ماہ نے مسکرا کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔۔
"اب مجھے بتاؤ تم لوگ کیا کھاؤ گے۔۔۔"
سنان نے پھر سے سوال کیا۔۔۔
"ماہ اور میں نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا مجھے بہت بھوک لگی ہے آپ ہمارے لیے کچھ اچھا سا لائیں۔۔۔"
ہالے نے کہا تو سنان نے ناشتہ نہ کرنے والی بات پر اسے گھورا اور حمزہ نے آہل کو پاؤں مارا جو مسلسل ہالے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
"تم دونوں کیا کھاؤ گی۔۔۔"
آہل نے پہلے حمزہ کو پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر معصومہ اور آئدہ سے مخاطب ہوا۔۔۔
"کچھ بھی نہیں ہمیں بھوک نہیں لگی۔۔"
آئدہ نے جواب دیا تو معصومہ نے بھی سر اثبات میں ہلایا۔۔۔
سنان اور آہل اٹھ کر آرڈر دینے چلے گئے۔۔۔حمزہ نے فون نکالا اور یوز کرنے لگا مگر ہر تھوڑی دیر بعد سامنے بیٹھی ماہ کو بھی گھور رہا تھا اور ماہ اسے دل ہی دل میں گالیوں سے نواز رہی تھی کیونکہ ابھی وہ لڑنے کی موڈ میں بلکل نہیں تھی۔۔۔
آہل اور سنان آرڈر دے کر واپس آگئے تھوڑی دیر بعد ان کا آرڈر آگیا تو وہ لوگ کھانے لگے۔۔۔۔۔
"ہالے اور ماہ آج میرے ساتھ گھر چلنا ماما نے بلایا ہے۔۔۔"
سنان نے برگر کھاتے ہوئے ان دونوں کو مخاطب کیا۔۔
"جی ٹھیک ہے۔۔۔اچھا بھائی ہم جارہے ہے اگلی کلاس کا ٹائم ہوگیا۔۔۔۔"
ہالے نے سنان کو بولا اور ساتھ ہی ماہ کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
"اوئے موٹی اٹھ جاؤ ورنہ سر نے کلاس میں آنے نہیں دینا۔۔۔۔"
ہالے نے ماہ کو گھور کر بولا اور ساتھ ہی اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا جو کب سے ٹھوس رہی تھی اس کی بات سن کر سب ہنس پڑے جب کے سب سے اونچا قہقہہ حمزہ کا تھا۔۔۔
"اپنا منہ بند کرو بندر ورنہ منہ توڑنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی ہلکے میں مت لینا۔۔۔۔"
ماہ روش نے حمزہ کو پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا ساتھ ہی مکا دکھایا تو ہالے نے اسے جلدی سے بازو سے پکڑا اور اسے کھنچتے ہوئے کیفٹرایا سے باہر لے آئی۔۔۔
"ماہ روش کہیں تو بس کر جایا کرو۔۔۔۔"
ہالے تو اس کی حرکتیں دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیتی تھی۔۔۔وہ دونوں کلاس کی طرف جارہی تھی جب ہالے نے اس کو زبردست گھوری سے نواز کر بولا۔۔۔۔
"او۔۔۔ہیلو تمھاری غلطی ہے مجھے کیوں موٹی بولا۔۔۔"
ماہ روش نے ہالے کو بولا اور ایک رکھ کر اس کی کمر میں لگائی تھی۔۔۔
"ہائے اللہ۔۔۔۔کتنی زور سے مارا ہے تم نہ اپنا یہ بھاری ہاتھ مجھ پر ذرا کم چلایا کرو اب جلدی دفعہ ہو کلاس میں تمھاری بارات نہیں جارہی جو اتنا آہستہ چل رہی ہو"
ہالے نے ماہ روش کو ٹھیک ٹھاک سنائی اور آخری جملہ بول کر بھگ گئ تو ماہ روش بھی اس کے پیچھے بھاگی
وہ دونوں گرتی پڑتی کلاس میں پہنچی تو کلاس شروع ہوئے پانچ منٹ ہوچکے تھے انھوں نے سر سے اجازت لی تو سر نے ان کا پہلے دن کی وجہ سے کلاس میں آنے دیا تو وہ جلدی سے جا کر آخر میں بیٹھ گئ۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
شام کے پانچ بجے رہے تھے سب لان میں موجود تھے اور موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب آئدہ چائے اور دیگر لوازمات لائی اور ٹیبل پر رکھ کر سب کو چائے سرو کرنے لگی۔۔۔۔۔تب ہی گیٹ سے بلیک لینڈ کروزر داخل ہوئی تو بےساختہ آئدہ کی نظر گیٹ کی طرف گئ گاڑی سے زاہران نکلا جو کے آج جلدی آفس سے آگیا تھا
زاہران نے بھی آئدہ کو دیکھا تو آئدہ نظریں پھیر گئی اور اپنی چائے لے کر کرسی پر بیٹھ گئ زاہران ان سب کی طرف ہی چلا آیا سب کو سلام کر کے آئدہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
"خیریت زاہران آج آفس سے جلدی آگئے ہو۔۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے زاہران سے پوچھا کیونکہ وہ رات کو ہی آفس سے واپس آتا تھا۔۔۔
"جی ماما کیونکہ کام جلدی ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔"
زاہران نے بولتے ساتھ ہی آئدہ کے آگے پڑا چائے کا کپ اٹھا لیا اور آئدہ کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا کیونکہ وہ اپنی چائے کسی کو نہیں دیتی تھی وہ چائے کی دیوانی تھی اور چائے اٹھائی بھی اس کے شوہر نما دشمن نے آئدہ نے زاہران کو زبردست گھوری سے نوازہ تھا پر زاہران نے اس کی گھوریوں کو نظر انداز کیا اور مزے سے چائے پیتا رہا۔۔کیونکہ زاہران آئدہ کو تنگ کرنے کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔۔
"یہ میری چائے تھی۔۔۔۔۔"
آئدہ کا جب صبر جواب دے گیا تو اس نے براہراست زاہران سے دانت پیس کر کہا۔۔۔۔
"تو کیا ہوا شوہر بھی تو میں تمھارا ہی ہوں۔۔۔۔۔"
زاہران نے دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ آئدہ کو کہا۔۔۔۔جہاں سب کا قہقہ گونجا وہیں آئدہ تو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھتی رہ گئ کل تک وہ اسے اپنی زندگی میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اور اب دیکھو اِس کی چائے پی رہا تھا۔۔۔۔۔
آئدہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئ تا کہ اپنے لیے دوبارہ چائے بنا سکے۔۔۔۔۔
"زاہران یہ کیا تھا اگر تمھیں چائے پینی تھی تو بول دیتے میں بنوا دیتی اس بچاری کی کیوں پی گئے۔۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے زاہران کو کہا جو چائے پی کر کہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اندر جانے کے لیے۔۔۔۔
"ماما وہ بچاری نہیں ہے اور کیا ہوا اگر میں اسکی چائے پی گیا وہ میری منکوحہ ہے۔۔۔۔"
زاہران بول کر اندر چلا گیا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آیا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔فریش ہونے کہ بعد وہ واپس نیچے آیا اور لان میں جانے کا ارادہ ترک کرتا وہ کچن میں آگیا۔۔۔آئدہ اسکی طرف پشت کرکہ کھڑی چائے بنا رہی تھی۔۔۔زاہران اسکے بلکل پیچھے جاکر کھڑا ہوگا۔۔۔اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کو محسوس کرکہ آئدہ کے چائے بناتے ہاتھ رکے تھے وہ اس شخص کو دیکھنے کے لیے جیسے ہی پلٹی تو اسکا سر زاہران کے سینے سے لگا اور اسکے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تھی کیونکہ وہ اس لمحے کہ لیے بلکل تیار نہ تھی جبکہ زاہران سکون سے کھڑا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہی ہوگا۔۔۔
آئدہ نے اپنا سر پیچھے کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر زاہران کو پیچھے کیا۔۔۔
"کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔۔"
آئدہ نے غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔۔۔
"بدتمیزی کب کی میں نے ۔۔۔"
زاہران نے آئیبرو اچکائی۔۔۔۔
"بدتمیزی نہیں تو اور کیا کیا ہے ابھی آپنے۔۔۔"
آئدہ کا دل کیا کہ چولے پر پڑی چائے اسکے اوپر انڈیل دے۔۔۔۔
"او۔۔۔اسے بدتمیزی تھوڑئی کہتے ہیں۔۔۔وہ "
زاہران ابھی بول رہا تھا
"کیا وہ۔۔۔وہ جب دیکھیں مجھے تنگ کرتے رہتے ہیں۔۔۔"
آئدہ زاہران کی بات کاٹ کر بولی۔۔
"منکوحہ ہو تم میری تمہیں تنگ نہ کروں تو اور کس کو کروں۔۔۔کسی اور کو لےکر آؤں تنگ کرنے کہ لیے"
زاہران نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
"منکوحہ۔۔یاد کریں میں وہی ہوں جو آپکو زہر لگتی ہے جسکا نام سنتے ہی آپکا موڈ خراب ہو جاتا ہے جس کے بارے میں آپ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتے میں وہی ہوں جسکو دیکھ کر آپکی آنکھوں میں خون اتر آتا۔۔۔بھول گئے ہیں کیا میں وہی ہوں جو آپکو ہر غلطی کی زمےدار لگتی ہے۔۔۔"
آئدہ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخسار پر بہہ رہے تھے۔۔۔اسکی تو سمجھ سے باہر تھا یہ شخص جو نکاح کہ بعد ایسے ریکٹ کر رہا تھا جیسے بڑی ہنسی خوشی اسنے آئدہ کو قبول کیا تھا ۔۔۔
آئدہ نے ایک نظر اسکے پتھر وجود کو دیکھا اور کچن سے باہر چلی گئی۔۔۔جبکہ زاہران کے کانوں میں صرف اسکے الفاظ گونج رہے تھے۔۔
"آئدہ بیٹا وہ۔۔۔آئدہ کہاں گئی اور چائے تو دیکھو ابل ابل کر گر گئ ہے اور تم یہاں کیوں کھڑے ہو آئدہ کہاں گئی۔۔۔"
ہادیہ بیگم کچن میں آئی تو آئدہ کو وہاں نہ پاکر انہوں نے پہلے چولہا بند کیا اور پھر زاہران کو مخاطب کیا۔۔۔
"پتا نہیں میں ابھی ابھی کچن میں آیا ہوں میں نے اسے یہاں پر نہیں دیکھا۔۔"
زاہران نے جواب دیا اور کچن سے باہر نکل گیا جبکہ ہادیہ بیگم سر نفی میں ہلانے لگی۔۔۔
-------------❤❤--------------
ہالےنور اور ماہ روش سنان کے ساتھ یونیورسٹی سے سیدھا فرحان ولا آئی تھیں اور ہال میں بیٹھی فاطمہ بیگم سے باتیں کر رہی تھی جبکہ سنان انہیں گھر ڈراپ کر کہ آفس چلا گیا تھا۔۔
"ماہ بیٹا ایک بات بتانی تھی تمہیں۔۔۔"
فاطمہ بیگم باتوں کے درمیان بولی۔۔۔
"جی خالہ بتائیں کیا ہوا۔۔۔"
ماہ روش نے فاطمہ بیگم کو سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔۔
"وہ بیٹا تمہارے ابو کی کال آئی تھی آج وہ تم سے بات۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم بول رہی تھی جب ماہ روش نے بات کاٹی۔۔۔
"وہ جو بھی بول رہے تھے مجھے کچھ نہیں سننا اور اپنے اس شخص کی کال اٹھائی ہی کیوں۔۔۔۔"
ماہ روش غصے میں بولی تھی۔۔۔
"ماہ روش بیٹا وہ تمہارا باپ ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہے۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اسکے ہاتھ پکڑ کر آرام سے کہا۔۔۔
"مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں اور میں انکے پاس جاؤں گی یہ بات تو وہ اپنے دماغ سے نکال لیں تو بہتر ہوگا۔۔۔اور تب ان کی فکر کہا گئ تھی جب میری ماں کو چھوڑ دیا تھا تب میں ایک سال کی بھی نہ تھی اور جب بڑی ہوکر بالغ ہوگئ ہو تب ان کو یاد آیا ہے ان کو بولے کے اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وہاں خوش رہے اور مجھے اپنے پاس بلانے کا تو سوچے ہی مت۔۔۔۔"
ماہ نے غصے سے کہا اور اٹھ کر باہر لان میں آگئی۔۔۔
-------------❤❤--------------
(ماضی)
سراج صاحب کی زندگی ایک عجیب موڑ پر آکھڑی ہوئی تھی۔ایک طرف انکی محبت تھی جبکہ دوسری طرف انکے ماں باپ اور جائداد تھی۔انکے ماں باپ سراج صاحب کی شادی انکی محبت ریحانہ سے کروانے پر کسی صورت نہیں مان رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ سراج صاحب اپنی پھپھو کی بیٹی فرزانہ بیگم سے شادی کریں۔
آخر کار نہ چاہتے ہوئے بھی سراج صاحب کو گھر والوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے کیونکہ فرزانہ بیگم سے شادی نہ کرنے کی صورت میں انہیں خاندان اور جائداد سے عاق کردیا جاتا۔۔۔
سراج صاحب نے اگر فرزانہ بیگم سے شادی کی تھی تو اسکی وجہ صرف اور صرف جائداد تھی۔۔فرزانہ بیگم کے والدین نے اپنی ساری جائداد فرزانہ اور انکی چھوٹی بہن فاطمہ کے نام کر دی تھی۔۔جائداد کی لالچ میں آکر سراج صاحب نے ان سے شادی کرلی اور الگ گھر لے کر رہنے لگے شادی کی رات وہ سارا رات گھر نہیں آئے تھے وہ رات فرزانہ بیگم نے انتظار کرتے ہوئے گزر دی تھی اور ان کو اپنی قسمت پر رونا آرہا تھا۔۔۔
شادی کے تین سال بعد انہیں خوشخبری ملی کہ وہ ماں باپ بننے والے ہیں۔سراج صاحب کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔وہ بہت خوش تھے اور فرزانہ بیگم کا بہت خیال رکھتے تھے۔۔
وقت گزرتا گیا اور ایک دن آیا جب سراج صاحب کو خبر ملی کہ جس کو فرزانہ بیگم تین ماہ بعد جنم دینے والی ہیں وہ بیٹا نہیں بلکہ بیٹی ہے۔۔یہ خبر ملتے ہی انکے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا۔۔
وہ روز فرزانہ بیگم کو تعنے دیا کرتے تھے اور جائداد اپنے نام کروانے پر بھی بہت زور دیا کرتے تھے مگر فرزانہ بیگم نے بھی خود سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی ساری جائداد اپنی بیٹی کی نام کریں گی اگر وہ سراج صاحب کہ نام کرتیں تو انکی اولاد کا سارا فیوچر برباد ہو جاتا۔۔
سراج صاحب رات کو لیٹ گھر آنے لگے کبھی کبھی تو پوری پوری رات گزر جاتی مگر وہ گھر نہیں آتے تھے۔۔۔
پھر کچھ وقت کہ بعد انہوں نے چھوٹے سے سرخ و سفید وجود کو جنم دیا اور اس دن بھی انہیں اپنی قسمت پر خوب رونا آیا تھا کہ سراج صاحب اس دن انکے پاس نہیں تھے۔سراج صاحب جو کہا کرتے تھے کہ سب سے پہلے بچے کو وہ اٹھائیں گے وہ ہی انکے پاس نہ تھے۔۔کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں۔۔
فرزانہ بیگم جب فاطمہ بیگم کے ساتھ ہسپتال سے گھر آئی تو سراج صاحب گھر پر ہی موجود تھے انہیں سکون سے سوتا دیکھ کر فرزانہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔فاطمہ بیگم نے انہیں حوصلہ دیا۔فرزانہ بیگم نے اپنی بیٹی کا نام ماہ روش رکھا تھا۔۔۔۔۔
صبح سراج صاحب کی آنکھ کسی بچی کی آواز سے کھلی جو کے زوروشور سے رو رہی تھی سراج صاحب کے منہ کے زاویے بگڑ گئی اور وہ فریش ہو کر دوسرے کمرے میں آگئے جہاں پر ماہ روش رہ رہی تھی اور فرزانہ بیگم اس کو چپ کروانے میں ہلکان ہورہی تھی۔۔۔۔۔فاطمہ بیگم صبح جلدی چلی گئ تھی کیونکہ سنان چھوٹا تھا۔۔۔۔
"بند کروا اس کا سپیکر صبح صبح دماغ خراب کر رہی ہے۔۔۔۔۔"
سراج صاحب فرزانہ بیگم کے اوپر دھاڑے تھے تو فرزانہ بیگم سہم گئ اور ماہ روش کو لے کر ٹہلنے لگی تھوڑی دیر میں وہ خاموش ہوگئ اور سو گئ ماہ روش کو بیڈ پر لیٹ کر وہ سراج صاحب کے پاس آئی۔۔۔۔
"سراج صاحب آپ اپنی بیٹی کو بھی نہیں اٹھائیں گے۔۔۔"
فرزانہ بیگم نے آنکھوں میں آنسو لے کر انہیں کہا۔۔۔۔
"نہیں ہے میری بیٹی پتا نہیں کس کا گند تم میرے اوپر تھوپ رہی ہو اور مجھے بیٹا چاہیے تھا بیٹا سمجھی۔۔۔۔۔۔"
سراج صاحب پھر سے دھاڑے تھے۔۔۔۔
"اللہ کا واسطہ ہے آپ کو سراج صاحب میرے کردار پر کچڑ مت اچھالے ماہ روش آپ کی ہی بیٹی ہے اور بیٹی ہو یا بیٹا یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے نہ اور بیٹی تو ہوتی بھی اللہ کی رحمت ہے۔۔۔۔۔"
فرزانہ بیگم نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے اور روتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
"جو بھی ہو ویسے بھی میں نے تین سال پہلے ریحانہ سے شادی کر لی تھی جو کہ میری من چاہی بیوی ہے تم نہیں اور میرا ویسے بھی دو سال کا بیٹا ہے اور اب تم میرے کام کی نہیں ہو اس لیے میں تمھیں طلاق دینے والا ہوں۔۔۔۔۔"
سراج صاحب کی بات سن کر فرزانہ بیگم صدمے میں چلی گئ تھی اور آخری بات پر نکل آئی تھی صدمے سے۔۔۔۔۔
"سراج صاحب پلیز ایسا نہ کریں میں آپ کے پاوں پڑتی ہوں میری بیٹی کو ایک باپ کی ضرورت ہے پلیز سراج صاحب۔۔۔۔۔"
فرزانہ بیگم کے آنسو لڑیوں کی صورت بہ رہے تھے وہ بولتی ہوئی ان کے قدموں میں بیٹھ گئ اور ان کے پاؤں پکڑ لیے۔۔۔۔۔۔
"ہٹو پاگل عورت میں سراج احمد تمھیں اپنے پورے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔"
سراج صاحب نے فرزانہ بیگم کو لات مر کر اپنے قدموں سے ہٹایا اور دروازے کو لات مر کر کمرے سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔۔
پیچھے تو فرزانہ بیگم کی زندگی ہی اجڑ گئ تھی کل ہی ان کی بیٹی اس دنیا میں آئی تھی اور آج ان کو طلاق ہوگئ تھی۔۔۔۔۔۔جیسے تیسے کر کے انھوں نے فاطمہ بیگم کو اطلاع دی تو جلدی سے فاطمہ بیگم سنان کو لے کر ان کے گھر آگئ اور اپنی چھوٹی اور لاڈلی بہن کی یہ حالت دیکھ کر ان کا کلیجہ کٹ گیا انھوں نے جلدی سے ماہ روش کو اٹھایا کیونکہ وہ کب سے رو رہی تھی۔۔۔۔۔
"فرزانہ اٹھوں سنبھالوں خود کو اپنے لیے اپنی بیٹی کے لیے۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ان کو فرش سے اٹھا کر بیڈ ہے بٹھایا وہ بےحس سے بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
"فرزانہ ہوش میں آؤ ماہ روش کب سے بھوک سے رو رہی ہے اور تم ہو کے چپ ہو۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے فرزانہ بیگم کو ہوش دلایا تو وہ خالی نظروں سے ان کو اور ماہ روش کو دیکھا۔۔۔۔
"یہ منحوس ہے آپی اس کی وجہ سے سراج نے مجھے طلاق دے دی سب کچھ اس کی وجہ سے ہوا ہے اس کو مجھ سے دور لے جائے۔۔۔۔۔"
فرزانہ بیگم جب بولی بھی تو کیا بولی تھی فاطمہ بیگم حیران ہوگئ تھی۔۔۔۔
"لے۔۔۔۔لے جائے۔۔۔۔"
ابھی فرزانہ بیگم بول ہی رہی تھی جب فاطمہ بیگم نے ایک تھپڑ ان کے گال پر جڑ دیا۔۔۔۔۔
"بکواس بند کرو اپنی فرزانہ جس کو تم نے 9 ماہ اپنے پیٹ میں رکھا اس کو تم منحوس کہ رہی ہو دماغ تمہارا ٹھکانے پر ہے وہ بچی جس نے ابھی کل ہی اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہے اس کو منحوس بول رہی ہو اس کا نہیں سوچا رہی کے اس کو بھی اس کا باپ چھوڑ کر گیا ہے اس نے تو باپ کے پیار کو محسوس بھی نہیں کیا اور تم اس سے ماں کا پیار بھی چھینا چاہتی ہوں اب تمھیں ہی اس کو باپ اور ماں کا پیار دینا ہے اگر اتنا ہی ہے نہ تو ماہ روش کو مجھے دے دو میں اس کو اپنے گھر لے جاؤ اور اپنی بیٹی کی طرح رکھو۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے غصے سے فرزانہ بیگم کو سنائی تو وہ بھی ہوش میں آئی۔۔۔۔۔
"نہیں آپی اس کو کہی نہیں لے کر جائے مجھے معاف کردے پتا نہیں کیا بول رہی ہوں اب یہی تو میرے جینے کی وجہ ہے۔۔۔۔۔"
فرزانہ بیگم نے ماہ روش کو فاطمہ بیگم سے لیا اور اس کو چوم ڈالا اور اس کو سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔
"اچھا چلو اس کو مجھ دو اور اپنی ضرورت کا سامان پیک کرو اور میرے گھر چلو۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ماہ روش کو فرزانہ بیگم سے لیا اور ان کو پیکنگ کرنے کا کہا کیونکہ وہ اپنی بہن کو اور ماہ روش کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں فرزانہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور سامان پیک کرنے لگی۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں فاطمہ بیگم اور فرزانہ بیگم گھر کے دروازے سے باہر نکلی اور گھر کو تالا لگا کر گاڑی میں بیٹھ گئ فرزانہ بیگم اس گھر کو دیکھ رہی تھی جس سے ان کے اچھی اور بری یادیں جڑی تھیں۔۔۔۔۔۔
فرزانہ بیگم فاطمہ بیگم کے ساتھ ہی رہنے لگی فرحان صاحب کو بھی کوئی مسلا نہ تھا فرزانہ بیگم عدت میں تھی اس لیے کمرے سے باہر نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔
عدت کے بعد فرزانہ بیگم نے فاطمہ بیگم کو کہا کے ان کے پرانے گھر کو وہ کرائے پر چڑھا دیں اور ان کو اس ہی علاقے میں ایک گھر لے دیں ان کی جو کچھ زمینے ماہ روش کے نام تھی ان کو بیچ کر فاطمہ بیگم نے ان کو اپنی ہی گلی میں ایک گھر لے دیا تھا فاطمہ بیگم نے ان کو بہت منع کیا تھا الگ گھر کے لیے مگر وہ نہیں مانی تھی انہی دنوں فاطمہ بیگم بھی امید سے تھی۔۔۔۔۔۔
اس ہی طرح دن گزرتے گئے اور فاطمہ بیگم ایک گڑیا کو اس دنیا میں لائی تھی جس کا نام انھوں نے فرزانہ بیگم کے کہنے پر ہالے نور رکھا تھا ان کو بھی یے نام بہت پسند آیا تھا۔۔۔۔۔
اسی ہی طرح کی سال گزر گئے پر سراج صاحب نے مڑ کر اپنی بیٹی کے خبر نہیں لی۔۔۔۔
ماہ روش جب بھی اپنے باپ کا پوچھتی تھی تو وہ اس کو سہولت سے ٹال دیتی تھی ماہ روش اور ہالے دونوں ساتھ ہی پڑھتی تھی بس ماہ روش ہالے سے ایک کلاس آگے تھی وہ دونوں بچپن سے ساتھ تھی دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔۔۔۔
ماہ روش جب کالج کے پہلے سال میں تھی تو اس کو فرزانہ بیگم کی بیماری کا پتا چلا وہ کینسر کی مریض تھی یہ سن کر ماہ روش کو تو جھٹکا لگا ہی لگا تھا مگر باقی سب بھی حیران ہوگئے تھے جلدی سے ان کو اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا مگر سب بےسود تھا کیونکہ کینسر کا لاسٹ اسٹیج تھا مگر ان سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر فرزانہ بیگم کا علاج کروا رہے تھے مگر وہ زندگی کے آگے کس کی چلتی ہے آخری وقت میں ماہ روش ان سے ملی تھی تو اس نے فرزانہ بیگم کا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اور ان کو کہا کے وہ اس کو اپنے باپ کی سچائی بتائے تو ناچار فرزانہ بیگم کو ساری سچائی بتانی پڑی جس کو سن کر ماہ روش شوک میں آگئ تھی کے کوئی باپ اتنا بھی بےحس ہو سکتا ہے جیسے ہی ماہ روش باہر آئی پیچھے سے فرزانہ بیگم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی۔۔۔۔۔
فرزانہ بیگم جاتے وقت ماہ روش کی ذمہ داری فاطمہ بیگم کو دے کر گئ تھی۔۔۔۔۔۔
فرزانہ بیگم کے جانے کے بعد ماہ روش کا پڑھائی کا ایک سال ذائع ہوگیا تھا اس طرح وہ بھی ہالے کے ساتھ ہوگئ تھی
ماہ روش کے زندگی فرزانہ بیگم کے جانے سے رک سے گئ تھی مگر اس وقت میں ہالے نے اس کو سنھبالا تھا اور اس کو دوبارہ سے ہسنا سکھایا تھا۔۔۔۔۔
ماہ روش نے یہ گھر بھی کرائے پے دے کر ہاسٹل شفٹ ہوگئ تھی سب نے روکا تھا اسے مگر اس نے کسی کے نہیں سنی تھی اس دوران اس نے خود کو بہت مضبوط بنا لیا تھا اور اس نے اپنی ڈریسنگ بھی چینج کر لی تھی شورٹ شرٹ،جینز،جیکٹ اور بال بھی اس نے شولڈر تک کٹوا لیے تھے۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
(حال)
ہالے بھی ماہ روش کو پیچھے لان میں آگئ تھی اور اس کو پیچھے سے گلے لگا لیا۔۔۔۔
"ماہ میرا نا بہت دل کر رہا ہے سن سیٹ دیکھنے سی_ویو پر چلے۔۔۔۔چلو چلتے ہے۔۔۔۔۔"
ہالے نے ماہ روش کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔
"نہیں یار۔۔۔کل چلیں گے آج بلکل بھی دل نہیں کر رہا۔۔"
ماہ نے ہالے کو کہا تو ماہ نے اسکو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔
"میں کچھ نہیں سنوں گی تم میرے ساتھ چلو گی بس۔۔اب چلو جاکر اپنا حلیا درست کرو۔۔۔میرا مطلب تیار ہو جاؤ۔۔۔چلو۔۔"
ہالے نے ماہ روش سے کہا اور اسکو اپنے ساتھ اندر لے گئی۔کچھ دیر بعد وہ دونوں تیار ہوئیں اور فاطمہ بیگم سے اجازت لے کر سی ویو چلی گئی۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہ سی_ویو پر موجود تھی سی ویو پر کافی رش تھا مگر جیسے جیسے سورج ڈھلتا جارہا تھا ویسے ہی لوگ اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھی مگر وہ دونوں گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی تھی اور سن سیٹ دیکھ رہی تھی ہالے کو شروع سے ہی سن سیٹ پسند تھا۔۔۔۔ٹھنڈی ہوئیں چل رہی تھی ہالے اور ماہ نے اہبی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
"ہیلو بیوٹیز۔۔۔بہت حسین ہیں آپ دونوں اکیلی کیوں کھڑی ہیں آئیں مل کر انجوائے کرتے ہیں۔۔۔۔"
لڑکوں کی آواز پر ان دونوں نے آنکھیں کھولی۔۔۔
"افف۔۔۔۔کتنے بد تمیز ہیں آپ لوگ ابھی ماہ نے اپنا جوتا اتارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگانا تھا۔۔۔"
ہالے نے سنان،حمزہ اور آہل کو دیکھ کر سکون کا سانس لیا اور ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔
"تمہارا بھائی اور تمہارے ساتھ کھڑی لڑکی بدتمیز ہے اس میں کوئی شک نہیں پر میں اور آہل تو معصوم ہیں ہمیں تو بدتمیز مت کہو۔۔۔"
حمزہ نے ہالے کو دیکھ کر کہا اور بیچ میں ماہ روش کو بھی گھسیٹا۔۔۔
"اوئے بندر۔۔۔بکواس بند کرو اپنی تم ہو بدتمیز میں نہیں اور خبردار جو تم نے میرا نام بھی لیا۔۔۔"
ماہ روش نے غصے سے حمزہ کو گھورا پر وہ ڈھٹائی سے مسکرا دیا۔۔۔
"اتنا اچھا نہیں ہے تمہارا نام جو میں تمہارا نام لوں۔۔۔ہنہہ بندریا"
حمزہ نے مزید آگ لگائی۔۔۔
"حمزہ کے بچے اپنی بکواس بند کرو میں تمہیں۔۔۔۔"
ماہ روش بول رہی تھی جب حمزہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔
"سنان دیکھ اب تیری کزن الزام لگا رہی ہے مجھ پر اور میرے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔۔۔میرے بچے کہاں سے آگئے بھلا یہاں مجھے دو دن کے لیے گرل فرینڈ نہیں مل رہی اور یہ میرے بچوں کو یاد کر رہی ہے یار خدا کا خوف کرو اس شیلا کی بےوفائی کے بعد اتنی مشکلوں سے تو میں نے خود کو سمبھالا ہے۔۔۔اب تم نے مجھے پھر سے یاد دلا دیا کہ میں سنگل ہوں ہائےےےے۔۔۔"
(یہاں شروع ہوگئی حمزہ کی اوور ایکٹنگ۔)
حمزہ جب بولنا شروع ہوا تو ان سب کے ساتھ ساتھ غصے سے بھری ماہ روش کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
"اوئے سالے اپنی بکواس اوور ایکٹنگ بند کر۔۔۔۔"
آہل نے حمزہ کے کمر میں ایک مکا جھڑا اور اسے بولا۔۔۔۔
"اوئے ظالم مار ڈالا تم سب کو میں ہی ملتا ہو مارنے کے لیے ایک کام کرو مجھے مار ڈالو زندہ مت رہنے دو سالوں۔۔۔۔۔"
حمزہ پھر سے اپنی اوور ایکٹنگ شروع کرچکا تھا جبکہ اس دفع سب نے کوفت سے آنکھیں گھمائی تھی۔۔۔۔۔
"اگر تم چاہتے ہوں ہم تمھیں سچ میں نہ ماڑ ڈالے تو پلیز اپنی اوور ایکٹنگ بند کرو۔۔۔۔"
ماہ روش غصے سے بولی تو حمزہ اسے دیکھنے لگا ماہ روش نے اس پر سے اپنی نظریں ہٹائی۔۔۔
"آپ لوگ کب آئے۔۔۔"
ہالے نے تینوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔
"ہم لوگ کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں زاہران کا ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔"
آہل نے اسکے چاند سے چہرے کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
"اس صاحب زادے کا جب سے نکاح ہوا ہے یا تو آفس یا پھر گھر میں ہی مرا پڑا ہوتا ہے۔۔۔"
سنان نے بھی کہا تو ہالے اسکے پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ کر مسکرا دی۔۔
"زیادہ بکواس نہ کرو جب تم لوگ آفس نہیں آؤ گے تو سارا کام مجھے ہی کرنا پڑے گا ناں۔۔۔"
زاہران کی آواز سن کر ان تینوں نے مڑ کر دیکھا تو زاہران کھڑا تھا۔۔۔حمزہ اسے دیکھ کر شوک ہوا جب کے اس کی حالت پر ہالے اور ماہ روش مسکرا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر وہ لوگ کھڑے باتیں کرتے رہے اور پھر ماہ روش اور ہالے نے گھر واپس جانے کا سوچا۔۔۔
"چلیں بھائی آپ لوگ انجوائے کریں۔۔۔ہم گھر چلتے ہیں۔۔۔"
ہالے نے کہا تو سنان نے سر ہلایا۔۔وہ دونوں اللہ حافظ بولتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔۔۔
آہل کی نظروں نے دور تک ہالے کا پیچھا کیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ کب سے بیٹھی اپنی یونی کی اسائمینٹ بنا رہی تھی۔۔۔بیٹھ بیٹھ کر اسکی کمر اکڑ گئی تھی اور اسے تھکن بھی ہو رہی تھی مگر وہ بیٹھی کام کر رہی تھی۔۔معصومہ نے اسے دو دن پہلے ہی کہا تھا کہ اسائمینٹ بنا لو مگر اسنے اسکی ایک نہ سنی تھی اور کل اسائمینٹ جمع کروانی تھی تو اسے یاد آیا کہ اسنے تو اسائمینٹ ہی نہیں بنائی اور اب وہ صبح سے وقفے وقفے سے یہی کام کر رہی تھی۔۔۔
اسنے گھڑی پر وقت دیکھا تو 11 بج رہے تھے ابھی اسے کل کہ لیے کپڑے بھی استری کرنے تھے۔۔۔
اسائمینٹ تھوڑی سی ہی رہتی تھی اسنے جلدی سے ختم کی اور کپڑے اٹھا کر باہر آگئی اور اپنے کپڑے استری کرنے لگی۔۔۔۔۔
زاہران سٹڈی روم سے باہر نکلا تو اسکی نظر آئدہ پر گئی جو اسکی طرف پشت کیے کپڑے استری کر رہی تھی۔اسکے دماغ میں ایک خیال آیا تو ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔
وہ بغیر کوئی ہلچل کیے خاموشی سے اپنے کمرے میں آگیا کہ کہیں آئدہ کو اسکی موجودگی کا احساس نہ ہو جائے۔۔
اسنے الماری سے اپنی ایک شرٹ نکالی اور اسے لےکر کمرے سے باہر آگیا۔۔۔
"کیا کر رہی ہو۔۔۔؟"
اسنے آئدہ سے سوال کیا تو آئدہ ایک پل کے لیے زاہران کی آواز سن ڈر گئ اور ہاتھ اپنے سینے پر رکھا۔۔۔۔۔
"یا اللہ۔۔۔۔۔نظر نہیں آرہا آپ کو کپڑے استری کر رہی ہوں۔۔"
وہ زاہران کے سوال پر چڑ کر بولی اس ٹائم آ کر اس شخص نے اسکی جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔۔۔
"اس ٹائم کیوں کر رہی ہو۔۔۔"
اسکے سوال پر آئدہ نےایک گہرا سانس لیا اور استری سائڈ پر رکھ کر پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
"وہ ناں پہلے میرا دل نہیں کر رہا تھا تو سوچا رات کو چڑیلوں کی طرح اٹھوں گی اور کپڑے استری کر لوں گی۔۔۔"
آئدہ نے بڑے مزے سے کہا تو زاہران مسکرا دیا۔۔۔
"اچھا چڑیل ایک کام کرو۔۔۔مجھے بھی یہ شرٹ آئرن کردو کل آفس جانا ہے ایک ضروری میٹنگ ہے اور کوئی اچھی سے شرٹ آئرن نہیں ہے۔۔"
زاہران نے بول کر شرٹ اسکے ہاتھ میں پکڑائی جو اس نے دانت پیس کر پکڑ لی۔۔۔۔
"کیوں میں کیوں کروں آپ کی شرٹ استری کروں ملازمہ کیا مر گئے ہے۔۔۔۔۔۔"
آئدہ نے گھور کر زاہران کو دیکھا اور بولتے ہوئے شرٹ کو آئرن ٹیبل پر پٹخا۔۔۔
"تمھاری زبان میرے آگے کچھ زیادہ نہیں چل رہی۔۔۔۔"
زاہران نے آئیبرو اچکا کر آئدہ کو دیکھا۔۔۔۔
"چل رہی ہے تو اور میں آخر چپ کیوں رہو۔۔۔۔؟"
آئدہ نے کہا اور اسکی شرٹ سائڈ پر کر کہ اپنے کپڑے پریس کرنے لگی۔۔۔زاہران تو آئدہ کے تیور ہی دیکھتا رہ گیا جو نکاح سے پہلے اس کے آگے زبان نہ کھولتی تھی اور اب تو بولتی ہی اس کے آگے تھی۔۔۔
زاہران دو منٹ اس گھورتے رہا۔۔۔
"گھورنے سے کچھ نہی۔۔۔۔"
ابھی آئدہ بول ہی رہی تھی جب زاہران نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھنچا تو وہ اس کے سینے سے آ لگی۔۔۔ زاہران نے اس کی کمر کے گرد بازو باندھ لیے۔۔۔۔
"ی۔۔یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔"
آئدہ نے غصہ ضبط کرتے ہوئے زاہران سے بولی اور ساتھ ہی اس کے بازو اپنی کمر سے ہٹانے لگی جب کے زاہران نے اور کس کر پکڑ لیا جس سے اس کی انگلیاں آئدہ کے کمر میں پیوست ہوگئ۔۔۔۔
"سسسی۔۔۔۔"
درد سے آئدہ کی سسکی نکلی۔۔۔۔
"یہ بدتمیزی نہیں ہے بیگم صاحبہ اسے رومینس کہتے ہیں اور جو اس دن کیا تھا وہ بھی رومینس تھا۔۔۔۔"
زاہران نے بولتے ساتھ ہی اس کے چہرے پر پھونک ماری جس سے آئدہ نے اپنی آنکھیں بند کی دماغ کی سکریں پر کچن والا سین چلا۔۔۔۔
"کیا ہوا بولتی کیوں بند کرلی۔۔۔۔۔ابھی تو کوئی بہت زیادہ بول رہا تھا۔۔۔۔"
زاہران مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔۔۔۔
"چھو۔۔۔۔۔۔چھوڑیں مجھے پھر بتاتی ہوں۔۔۔۔"
آئدہ دانت پیس کر بولی اور ساتھ ہی دوبارہ زاہران کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی جو کہ ناممکن لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
"چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔مگر میری شرٹ جلدی سے پریس کردو۔۔۔۔۔"
زاہران نے مسکرا کر کہا اور ساتھ ہی اپنے ہونٹ آئدہ کے گال پر رکھے جس سے آئدہ کے پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا اور چہرا پل میں سرخ ہوا۔۔۔وہ منہ کھولے زاہران کو دیکھنے لگی جب کے زاہران نے دوبارہ اس کے دوسرے گال پر بھی اپنے ہونٹ رکھے تو اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھٹ گئ تھی اور زاہران اس کے ایکسپریشن کو انجوائے کرنے لگا اور اس کا دل کر رہا تھا کے آئدہ کی حالت دیکھ کر اونچے اونچے قہقہے لگائے مگر وہ خود کو روکے ہوا تھا کیوں کے رات کا ٹائم تھا۔۔۔۔۔
"میڈم ہوش کی دنیا میں آجاؤ اور جلدی سے میری شرٹ پریس کرو۔۔۔۔۔"
زاہران نے مزے سے بول کر اس کو چھوڑ دیا۔۔۔۔تو وہ ہوش میں آئی۔۔۔۔
"انتہائی بے شرم انسان ہے۔۔۔۔"
آئدہ دانت کچکچا کر بولی اور ساتھ ہی اپنی دونوں گالوں کو رگڑ ڈالا۔۔زاہران پھر سے مسکرا دیا اور اسکا سرخ گال کھینچ کر اپنے کمرے میں آگیا۔۔۔پیچھے آئدہ اپنا سرخ چہرا لیے اسکی شرٹ استری کرنے لگی۔۔۔۔اسکے دماغ میں ایک خیال آیا۔۔۔
"کیوں نہ بدلا لیا جائے۔۔۔"
اسنے مدھم سی بڑبڑاہٹ کی اور استری کا ٹمپریچر فل کرکہ شرٹ کی پشت پر استری رکھ دی۔۔۔
چند لمحوں بعد اسنے استری ہٹائی تو وہاں استری کا نشان بنا ہوا تھا۔۔۔۔نشان زیادہ بڑا اور اتنا واضح بھی نہیں تھا اسنے دعا کی کہ زاہران کو نظر نہ آئے
اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ آگئی۔۔۔اسنے شرٹ کو ہینگر میں کے لایا اور شرٹ کی پشت اپنی طرف کر کہ وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔مسلسل دعائیں کر رہی تھی کہ زاہران کو استری کا یہ نشان نظر نہ آئے۔۔۔
اسکے دروازہ نوک کرنے کی دیر تھی اگلے شخص نے پل میں دروازہ کھولا جیسے وہ اسی کا انتظار کر رہا ہو۔۔۔یوں اچانک دروازہ کھلنے پر آئدہ ڈر گئی اور کچھ شرٹ جلانے کی وجہ سے خوف بھی تھا۔۔۔
اسنے شرٹ کو زاہران کی طرف بڑھایا تو زاہران نے شرٹ نہ پکڑی بلکہ اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔
"بدتمیز نہ ہو تو استری بھی میں کروں اوپر سے صاحبزادا شرٹ بھی نہیں لے رہا۔۔۔"
آئدہ نے دل ہی دل میں سوچا اور اندر آکر شرٹ کو الماری کے باہر لٹکا کر مڑی تو وہ دروازے کہ پاس ہی کھڑا اسکو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جلدی سے اسکے کمرے سے باہر نکل آئی اور اپنے کپڑے استری کرنے کہ بعد وہ سونے چلی گئی۔۔اس دوران اسکے ہونٹوں پر یہی دعا تھی کہ شرٹ جلنے کا زاہران کو پتا نہ چلے۔۔وہ صبح میں اسکا ریکشن دیکھنا چاہتی تھی اور شاید یہی قبولیت کا وقت تھا۔۔۔
-------------❤❤--------------
صبح کے سات بجے اسکی آنکھ کھلی تھی یونی اسنے ساڑھے نو بجے جانا تھا کیونکہ آج پہلی کلاس دس بجے کی تھی۔ اسنے دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر نیند نہ آئی تو اسنے ایک نظر سوئی ہوئی معصومہ کو دیکھا اور اٹھ کر فریش ہونےکی گئی۔۔۔
فریش ہونے کے بعد وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی جب اسے رات والی اپنی حرکت یاد آئی وہ بے اختیار مسکرا دی۔۔۔اسکی شرٹ جلانے کہ بعد وہ کافی خوش تھی۔۔۔اسنے گھڑی پر وقت دیکھا تو آٹھ بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔۔۔وہ نیچے چلی گئی تاکہ ہادیہ بیگم کی ناشتے میں مدد کروا سکے۔۔
"ارے بیٹا اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی۔۔۔"
آئدہ کچن میں داخل ہوئی تو اسکو دیکھتے ہی ہادیہ بیگم نے کہا۔۔
"بس آنکھ کھل گئی اور پھر نیند نہیں آئی تو سوچا آپکی مدد کروا دوں۔۔"
آئدہ نے فریج سے پینے کے لیے پانی نکالتے ہوئے کہا تو ہادیہ بیگم نے سر ہلایا۔۔
"بتائیں کوئی ہیلپ چاہیے آپ کو۔۔۔"
آئدہ نے پانی پینے کہ بعد کہا۔۔۔
"بس چائے کا پانی رکھ دو باقی کا کام تقریبا ہوگیا۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے پراٹھا توے ہر ڈالتے ہوئے کہا تو آئدہ نے چائے کا پانی چڑھایا۔۔
کچھ دیر بعد ان دونوں نے مل کر ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگایا تو حمدان صاحب،آہل اور زاہران بھی آگئے تو بے جبکہ حمزہ نکی طبعیت کچھ خراب تھی جسکی وجہ سے اسنے نہ تو آج آفس جانا تھا اور نہ ہی یونیورسٹی۔۔
زاہران کو اسی شرٹ میں دیکھ کر آئدہ کو بہت ہنسی آئی شرٹ پہنتے ٹائم اسکی نظر نہیں گئی آئدہ نے شکر ادا کیا۔۔۔ناشتے کہ دوران آئدہ ہر تھوڑی دیر بعد زاہران کو دیکھ رہی تھی اور وہ اسکی یہ حرکت بخوبی نوٹ کر رہا تھا۔۔۔آئدہ نے اس بار زاہران کو دیکھا تو زاہران پہلے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔آئدہ کے دیکھنے پر زاہران نے ایک آنکھ دبائی تو آئدہ نے جلدی سے اس پر سے اپنی نظر ہٹائی۔۔۔اسکو زاہران کی رات والی حرکت یاد آئی تو اسکے چہرے پر سرخی دوڑ گئی اسنے دوبارہ نظر اٹھا کر زاہران کو نہ دیکھا۔۔۔
"چلو آہل۔۔۔دیر نہ ہوجائے میٹنگ کے لیے۔۔۔"
زاہران نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا آہل بھی اپنا ناشتی ختم کر چکا تھا تو وہ بھی کرسی سے اٹھا۔۔زاہران نے ہادیہ بیگم کہ ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اپنا کوٹ اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
زاہران کی پلٹنے پر ہادیہ بیگم کی نظر اسکی پشت پر گئی تو پہلے تو انکو سمجھ نہ آیا۔۔
"زاہران رکو ذرا۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے اسے روکا تو زاہران نے پلٹ کر انکی طرف دیکھا۔۔۔۔آئدہ ٹیبل سے اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں کھسک گئی۔۔۔
"جی ماما۔۔کیا ہوا"
زاہران نے سوالیا نظروں سے انکو دیکھا۔حمدان صاحب بھی ناشتہ چھوڑ کر انہیں دیکھنے لگے۔۔۔
"ابے۔۔۔پیچھے سے تیری شرٹ جلی ہوئی ہے"
اس سے پہلے ہادیہ بیگم کچھ کہتی آہل نے غور کرتے ہوئے کہا۔۔
"کیا۔۔۔۔"
زاہران کو حیرت ہوئی۔۔اسنے جلدی سے آئدہ کی کھوج میں یہاں وہاں نظریں دوڑائی تو وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔۔۔
"یہ کیسے جلی ہے۔۔۔اور نظر نہیں آیا تمہیں جو جلی ہوئی شرٹ پہن کر آگئے ہو۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔۔
"نہیں وہ۔۔۔میٹنگ کی وجہ سے جلدی جلدی میں دیکھا نہیں"
زہران نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے نارمل لہجے میں کہا۔۔۔حمدان صاحب مسکرا دیے۔۔۔
"اچھا چلو اب جا چینج کرکہ آجا دیر ہو رہی ہے میٹنگ کہ لیے۔۔۔۔"
آہل نے کہا تو زاہران اپنے کمرے کی طرف بڑھا پیچھے وہ تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔۔۔۔اسنے جلدی جلدی شرٹ چینج کی اور باہر آگیا ایک نظر آئدہ کے کمرے کی بند دروازے کو دیکھا۔۔۔اس ٹائم وہ لیٹ ہو رہا تھا ورنہ اسکو اچھے سے بتاتا کہ اس نے کس کہ ساتھ پنگا لیا ہے۔۔وہ اپنا غصہ ضبط کر کہ رہ گیا اور آہل کی ساتھ آفس چلا گیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
(کچھ وقت بعد)
وقت کے ساتھ ساتھ ان چاروں کی دوستی گہری ہوگئ تھی ل۔۔۔ان کا اب دوسرا سمیسٹر شروع ہوگیا تھا۔۔۔ سنان اور آہل کی یونی ختم ہوگئ تھی تو وہ اب آفس میں ہوتے تھے جبکہ حمزہ کا آخری سمیسڑ تھا۔۔۔۔۔
آج ان کی دن میں ساڑھے تین بجے میں ایک کلاس تھی جو کے پانچ بجے ختم ہونی تھی پر ماہ روش اس کے ساتھ نہیں آئی تھی کیونکہ اسکے سر میں شدید درد اور بخار تھا وہ ہاسٹل میں آرام کر رہی تھی۔۔۔معصومہ اور آئدہ آئی ہی نہیں تھیں کیونکہ ان کی کوئی کلاس نہیں تھی اس لیے نور جلدی جلدی یونیورسٹی کے گیٹ سے انٹر ہوئی یہ جانے بغیر کے کوئی بڑی فرصت سے آنکھوں میں شیطانیت لیا اس کو گھور رہا تھا اور آج اس کو اکیلا دیکھ کر اس کو موقعہ مل گیا تھا۔
اس کی کلاس ختم ہوگئ تھی مگر وہ لیکچر ابھی لکھ رہی تھی سارے سٹوڈنٹس چلے گئے تھے بس ایک دو ہی اس کی طرح لیکچر لکھ رہے تھے اس نے جلدی سے کام ختم کیا اور باہر نکالی ڈپارٹمنٹ کے کوریڈور میں کوئی بھی نہیں تھا کوریڈور پورا سنسان تھا یہ دیکھ کر وہ پوری جی جان سے لزارئی تھی وہ ابھی آگے ہی بڑی تھی جب پیچھے سے کسی انجان لڑکے نے اسے آواز دی۔۔۔۔
"سنیں"
وہ اگنور کیے آگے بڑھ گئ جیسے اس نے سنا ہی نہیں ہو۔۔۔۔
"بات سنیں سر آپکو لائیبریری میں بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔"
وہ لڑکا بول کر تیزی سے وہاں سے نکال گیا۔۔۔۔جب نور نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی دور دور تک نہیں تھا وہ اس لڑکے سے سر کا نام پوچھنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو ابھی 10 منٹ پہلے ہی تو کلاس ختم ہوئی تھی تو سر اسے کیوں بلا رہے تھے؟ لائیبریری جانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ لائیبریری قریب ہی تھی اسے گھبراہٹ بھی ہورہی تھی دل کہہ رہا تھا جاو جب کے دماغ روک رہا تھا کے مت جاو پر اس نے دل کی سنی اور اپنے قدم لائیبریری کی طرف بڑھا دیا کے کیا پتا سر کو کوئی کام ہو وہ جب لائیبریری کے پاس آئی تو آس پاس کوئی نہیں تھا اسے ایک پل کے لیے عجیب لگا مگر دوسرے پل وہ دروازہ کھول کر اندر گئ تو اندر اندھیر تھا وہ تھوڑا اور آگے آئی اور یہی اس نے غلطی کی تھی۔۔۔۔۔ اسے گھبراہٹ کے مارے ٹھنڈے پسینے آگئے اسے سمجھنے میں ایک پل نہ لگا کے کچھ غلط ہونے والا ہے وہ جلدی سے پیچھے مڑی تو کوئی اس کو دروازہ بند کرتا نظر آیا وہ جلدی سے دروازے کے پاس آئی اور ہربڑاہٹ میں اس بندے سے ٹکرائی تو اس کا فون جو اس کے ہاتھ میں تھا وہ نیچے گر گیا اور اسی وقت ماہ کی کال اس کے فون پر آئی مگر فون نیچے گرنے سے بند ہوگیا تھا اس بندے نے اسے بازو سے پکڑ کر سہارا دیے کے وہ گر نہ جائے۔۔۔
"کہاں چلی میڈم آج ہی تو صحیح موقعہ ملا آج تمھاری وہ غنڈی بھی تمھارے ساتھ نہیں ہے تو پھر کیا خیال ہے۔۔۔؟"
اس بندے نے شیطانیت بھرے لہجے میں نور کو بولا اور آخر میں ماہ روش کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
"کو۔۔۔کون ہو تم---؟ چھوڑو مجھے خبیث انسان"
نور نے اٹک کر بولا اور آخر میں اپنا لہجے مضبوط بنا کر اپنا بازو اس کے ہاتھ سے چھڑوا لیا۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
دوسری طرف ماہ روش نے جب دیکھا کے کلاس کا ٹائم ختم ہوئے 10 منٹ ختم ہوچکے اور ہالے نے اسے کال نہیں کی تو اسے تشویش ہوئی کیونکہ اس نے ہالے سے کہا تھا جب کلاس ختم ہو تو کال کر دینا پھر اس نے خود ہی ہالے کو کال کی جو پہلے تو چلی گئی مگر ہالے اٹھا نہیں رہی تھی اس نے دوبارہ اس کے نمبر پر کال کی تو اس کا فون پاور اوف آرہا تھا تو اس کا دل عجیب وسوسوں میں گھرنے لگا تو اس نے جلدی سے سنان کے نمبر پر کال کی جو کے دو بیل کے بعد اٹھا لی گئ تھی۔۔۔۔۔
سنان آہل کے ساتھ آفس سے گھر جا رہا تھا جب اس کے نمبر پر ماہ روش کی کال آئی تو اسنے اٹھائی ماہ روش نے اسے مختصر بات بتائی تو وہ اسنے گاڑی یونی کے راستے پر موڑ دی اسکے چہرے پر پریشانی اتر آئی۔۔
"سنان یہ کہاں چل رہے ہو اور کیا کہہ رہی تھی ماہ۔۔۔"
آہل نے سنان کے چہرے پر پریشانی اور یونی کے راستے پر گاڑی موڑتے دیکھا تو پوچھا۔۔۔
"یونی جا رہے ہیں ہم۔۔۔ایک پرابلم ہوگئی ہے۔۔"
سنان نے مختصر کہا تو آہل نے اسے گھورا۔۔
"کونسی پرابلم اور اس ٹائم یونی میں بھلا ہمارا کیا کام۔۔۔تو کچھ بتائے گا بھی یا میں ماہ کو کال کروں۔۔۔"
آہل نے سنان کو غصے میں کہا۔۔۔۔آہل کے اسرار پر سنان نے اس کو بتا دیا ہالے کا سن کر آہل کے دل کو کچھ ہوا تھا بس وہ یہی دعا کر رہا تھا ہالے جہاں بھی ہو صحیح ہوں۔۔۔۔۔
ماہ روش بھی جلدی سے ہوسٹل سے نکلی۔۔۔۔۔۔
ہاتھ چھڑانے کے بعد ہالے نے رکھ کر ایک تھپڑ اس لڑکے کے گال پر جڑ دیا تھا(وہ لڑکا امیر ماں باپ کے بگڑی ہوئی اولاد تھا یونی کی ہر لڑکی کو گندی نظروں سے دیکھنا جیسے اس پر فرض تھا اس کی کئ دفعہ لڑکیوں نے کمپلین کی تھی مگر وہی بات پیسے کے زور پر یونی کی انتظامیہ خاموش ہی رہتی اس کے خلاف ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا تھا اور اب اس کی نظر ہالے پر تھی مگر اس کو موقعہ ہی نہیں مل رہا تھا ماہ روش کی وجہ سے کیونکہ ہمیشہ ماہ روش اس کی کتوں والی کرتی تھی آج اس کو موقعہ مل گیا تھا اس نے ایک لڑکے کو کچھ پیسے دے کر ہالے کو لائبریری میں بلایا تھا۔۔۔۔)
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی گھٹیا انسان۔۔۔۔۔۔"
ہالے نے تھپڑ لگا کر غصے سے چیخ کر کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"ابے سالی تو زیادہ اڑ رہی ہے تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے تھپڑ لگانے کی لگتا ہے اب تمھارے پر کاٹنے پڑیں گے۔۔۔۔۔"
وہ لڑکا غصہ سے چیخ کر بولا اور جلدی سے ہالے کے ہاتھ قابو کر اس کو سائیڈ کی طرف گھسیٹ کر لے گیا اس دوران ہالے کی شرٹ بازو سے پھٹ گئ تھی پھر اس نے ہالے کا سر پکڑ کر پوری قوت سے دیوار میں مارے اس نے یہ امل 2 سے 3 دفعہ کیا اس دوران ہالے کا سر ہی گھوم گیا تھا اس کے انکھوں کے آگے بار بار اندھیرا چھ رہا تھا اور اس کے سر سے خون بھی بہہ رہا تھا ہالے کو اس ٹائم صرف اپنی عزت کا خیال تھا جو ایک دفعہ چلی گئ تو کبھی نہیں آئے گے اس نے جلدی سے یہاں وہاں ہاتھ مارا تو اس کے ہاتھ ایک ڈنڈا لگا(اس لڑکے کو لگا کے ہالے بے ہوش ہوگئ ہے تو وہ کسی اور لڑکے کو اپنی مدد کے لیے بلا رہا تھا تا کہ یہاں سے لے کر ہالے کو اپنے فلیٹ پر لے جائے اس نے اس بندے کو چند ہدایتیں دی) فون کاٹ کر ہالے کے پاس آیا ہالے اپنے زمین پر گر چکی تھی جیسے ہی وہ ہالے کے قریب آیا ہالے نے جلدی سے ڈنڈا اس کے سر میں مارا کئی دفعہ اس نے اس کے سر میں ڈنڈا مارا اس ٹائم میں اس کی آنکھوں کے آگے کئی دفعہ اندھیرا آیا تھا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری پر اس دوران اس بندے نے اپنی پینٹ سے چھوٹا چاقو نکالا اور اس کو ہالے لے بازو میں گھونپ دیا ہالے درد سے چیخی تھی مگر اس کو تب تک مارتی رہی جب تک اسے لگا کے وہ نیم بے ہوش نہیں ہوگیا پھر جلدی سے ہمت کر کے دروازے کے طرف گئ اور دروازہ کھولنے لگی تھوڑی سی مشقت کے بعد اس نے دروازہ کھولا اور اندھا دھند باہر بھاگی اس کا ڈوپٹہ بھی کہیں گر گیا تھا اور اس کی چپل بھی ٹوٹ گئ تھی اور وہ کئی دفعہ گری تھی مگر اس نے ہمت نہیں ہاری تھی اب تو خون اس کی آنکھوں میں چلا گیا تھا وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکل آئی تھی یہاں اس کی ہمت ختم ہوگئ اور وہ نیچے گر گئی اسے اپنے نام کی پکار سنائی دی تھی مگر اس وقت تک وہ غنودگی میں جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
------------❤❤-------------
وہ تینوں ایک ساتھ ہی یونی پہنچے تھے گارڈ انھیں پہلے تو اندر نہیں جانے دے رہا تھا کہہ رہا تھا کے اس ٹائم یونی میں کوئی نہیں ہے سب چلے گئے ہے مگر ان تینوں نے گارڈ کو کنوینس کیا اور اندر آگئے تھے وہ تینوں سیدھا انگلش ڈپارٹمنٹ کے پاس آئے تھے سب سے پہلے انھوں نے کلاس چیک کی جو کے خالی تھی اس طرح انھوں نے ہر کلاس چیک کی مگر ہالے وہاں نہیں تھی لائیبریری کی طرف تو ان سب کا دھیان نہیں گیا تھا پھر وہ ڈپارٹمنٹ سے باہر ارد گرد چیک کر رہے تھے جب ڈپارٹمنٹ کے سیڑھیوں کے پاس ماہ روش کی نظر پڑی جہاں سے لڑکھڑاتے ہوئے ہالے آرہی تھی اس کی حالت دیکھ کر ماہ روش جہاں تھی وہی کھڑی رہ گئ تھی وہ ہوش میں تب آئی جب ہالے گری تھی ساتھ ہی وہ سیڑھیوں سے بھی گری تھی تو ماہ روش اس کا نام لے کر چیخی تھی اور وہ جلدی سے بھاگ کر ہالے کے پاس آئی تھی سنان اور آہل نے بھی ماہ روش کی چیخ سنی اور جب اس کو بھاگتے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔
ہالے کی حالت دیکھ کر ماہ روش کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ تھیں وی نیچے بیٹھی اور اس نے جلدی سے اپنی چادر (جو وہ ہاسٹل سے آتے ہوئے جلدی سے اپنے اوپر لے کر آئی تھی) وہ ہالے کے اوپر ڈال دی پھر اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اس کے گال کو تھپتھپانے لگی
"ہا۔۔۔۔ہالے آنکھیں کھولو دیکھو میں آگئ ہوں۔۔۔ہا۔۔ہالے۔۔۔۔۔۔"
ماہ روش کے آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے اور وہ ہالے کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی اس سے اپنی دوست کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی سنان اور آہل بھی اب ان کے قریب آگئے تھے۔۔۔۔۔
"ماہ روش ہالے کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔"
سنان نے ہالے کی حالت دیکھ تو اسکو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئا۔۔۔اسنے ماہ روش سے سوال کیا جب کے آہل تو ہالے کی یہ حالت دیکھ کر سکت ہی رہ گیا تھا۔۔۔
"سنا۔۔۔سنان جلدی سے اسے اٹھاو اور ہاسپٹل لے چلو پہلے ہی اس کا بہت خون بہہ گیا ہے اور اس کی نبض بہت سلو ہے جلدی کریں اس کی کچھ ہو نہ جائے۔۔۔۔۔۔"
ماہ روش نے سنان کو جواب دیا اور ساتھ ہی اس کو جلدی ہاسپٹل لے جانے کی تلقین کی۔۔۔
"آہل یہ لے چابی اور جلدی سے گاڑی کو گیٹ کے پاس لے کر آ میں ہالے کو لے کر آتا ہوں۔۔۔۔۔"
سنان نے جلدی سے چابی آہل کو دی تو وہ ہوش میں آیا اور چابی لے کر باہر کی طرف بھاگا۔۔۔۔۔سنان نے جلدی سے ہالے کو بازؤوں میں اٹھایا اور گیٹ کی طرف بڑھا اس کے پیچھے ماہ روش بھی تھی جب وہ گیٹ کے پاس آئے تو آہل گاڑی لے کر کھڑا تھا ماہ روش نے جلدی سے بیک سیٹ کا دروازہ کھولا تو سنان نے ہالے کو وہاں لیٹا دیا دوسری طرف سے ماہ روش بیٹھی اور ہالے کا سر اپنی گود میں کیا سنان آگے جا کے بیٹھا تو آہل نے گاڑی جلدی سے قریبی ہسپتال کی طرف ڈال دی آہل نے انتہائی رایش ڈرائیونگ کی تھی وہ 10 منٹ میں ہاسپٹل کی پارکنگ میں تھے جبکہ اپنی جان سے پیاری بہن کی یہ حالت دیکھ کر سنان کا دماغ ہی ماؤف ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
سنان نے جلدی سے ہالے کو گاڑی سے نکالا اور ہاسپٹل کی طرف بھاگا اس کے پیچھے آہل اور ماہ روش بھی تھے۔۔۔۔۔۔
سنان نے ہالے کو اسٹریچر پر لٹایا
"ڈاکٹر۔۔۔۔۔ڈاکٹر جلدی کریں۔۔۔۔۔ایمرجنسی ہے۔۔۔۔۔"
سنان زور زور سے ڈاکٹر پر چیخ رہا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر جلدی سے ہالے کے قریب آئے اور اس کے اوپر سے چادر ہٹائی۔۔۔۔۔۔
"نرس جلدی سے ان کو ایمرجنسی میں لے چلے ان کا خون بہت ذائع ہو چکا ہے اور ان کے نبض بھی سلو ہے۔۔۔۔۔"
ہالے کو ایمرجنسی میں لے جایا چکا تھا جب کے ہالے کی حالت دیکھ کر وہ تینوں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔۔۔۔۔
ماہ روش کو تو وہ منظر یاد آرہا تھا جب وہ کہ رہی تھی میں کلاس لینے نہیں جارہی کیونکہ تم بھی نہیں چل رہی اور جواب میں ماہ روش نے اسے کہا تھا کے جاؤ بہت ضروری لیکچر ہے تو وہ عجیب عجیب منہ بنا کر روم سے نکل گئ تھی وہ سوچ رہی تھی کاش وہ اس کو نہ جانے دیتی۔۔۔۔۔
"سن۔۔۔۔سنان بھائی گھر کال کر کے خالہ کو بتا دیں۔۔۔۔"
ماہ روش نے سنان کو مخاطب کیا تو اس نے ماہ روش کی طرف خالی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
"کال کر لیں گھر۔۔۔۔"
ماہ روش نے دوبارہ کہا تو سنان نے کال ملائی۔۔۔۔
"امی۔۔۔۔امی وہ ہاسپٹل آجائے۔۔۔۔۔"
سنان نے روتے ہوئے فاطمہ بیگم کو کہا۔۔۔۔۔
"اللہ خیر سنان کیوں رو رہے ہو اور ہاسپٹل کیوں خیریت ہے نہ۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم کو سنان کے رونے کی وجہ نہیں سمجھ آئی اور ہاسپٹل آنے کے بھی۔۔۔۔
"امی کچھ خیریت نہیں ہے آپ جلدی سے ابو کو لے کر ہاسپٹل آہ جائے۔۔۔۔"
سنان نے اپنے آنسو صاف کیے اور فاطمہ بیگم کو ہاسپٹل کا نام بتا کر جلدی سے کال کاٹ دی وہ ان کے سوالات سے بچنا چاہتا تھا۔۔۔اتنے میں ڈاکٹر باہر آئے سنان ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔۔۔
"ڈاکٹر صاحب میری بہن کیسی ہے۔۔۔و۔۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔۔۔"
سنان نے ڈاکٹر کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
"دیکھا ابھی ہم کچھ نہیں کہ سکتے کیونکہ ان کا بلڈ لوس بہت ہوچکا ہے اور ان کا جو بازو کا زخم ہے وہ بہت گہرا ہے اور ساتھ ہی ان کا نروس بریک دوان بھی ہوچکا ہے۔۔۔۔تو پلیز ابھی O+ بلڈ کا انتظام کریں ابھی جو بلڈ ہاسپٹل میں موجود ہے وہ انھیں لگا رہے ہے مگر ہوسکتا ہے اور بلڈ کی ضرورت پڑے تو بلڈ ہونا ضروری ہے باقی آپ ہمت نہ ہارے اللہ ہے نہ سب خیر کرے گا۔۔۔۔۔"
ڈاکٹر نے سنان کو ہالے کی کنڈیشن بتائی جو سن کر ان تینوں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا اور آخر میں ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپا کر اندر روم میں واپس چلے گئے تو سنان اور آہل بلڈ کا بندوبست کرنے چلے گئے۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں فاطمہ بیگم،فرحان صاحب اور ارحم ہاسپٹل آہ گئے تھے ماہ روش نے انھیں ہالے کے بارے میں بتایا تو وہ لوگ اپنی اکلوتی بیٹی کی حالت سن کر ششد رہ گئے تھے فاطمہ بیگم زوروشور سے رو رہی تھی پھر جب کچھ سھنبالی تو وہ پریر روم میں چلی گئ اور اپنی بیٹی کی زندگی کے لیے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئ اور اس کی صحت یابی کے لیے دعا مانگنے لگی۔۔۔۔۔۔
------------❤❤-------------
زاہران پانچ بجے آفس سے گھر آیا جبکہ آہل سنان کے ساتھ تھا۔۔۔۔کچھ دیر ہال میں حمزہ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا رہا اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا۔۔بیڈ پر پڑی جلی ہوئی شرٹ پر اسکی نظر پڑی تو اسکو آئدہ کا کارنامہ یاد آیا۔۔۔۔۔اسنے اپنے کپڑے چینج کیے اور کمرے سے باہر نکل کر آئدہ کو ڈھونڈنے لگا۔۔۔معصومہ سے اسے پتا چلا کہ وہ سو رہی ہے تو وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
وہ روم میں آیا اور دروازہ بند کر کہ بیڈ کے پاس آگیا جہاں وہ دنیا سے غافل خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔۔۔زاہران کی نظر ایک لمحے کہ لیے اس پر ٹک گئی۔۔وہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہی تھی اسکے دل نے گواہی دی۔۔اسنے اس پر سے نظر ہٹائی اور بازو سے کھینچ کر اسے سیدھا کیا۔۔
آئدہ جو پکی نیند میں تھی اس افادے پر اسکی چیخ نکل گئی اور دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا۔۔
"دد۔۔۔دماغ خراب ہو گیا ہے کیا آپکا کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے کیا۔۔۔"
وہ غصے سے بولی تھی۔۔
"تم ہو ایک پاگل جس نے میرا دماغ خراب کر کہ رکھ دیا ہے۔۔"
زاہران نے اسکو بازو سے کھیل کر بیڈ سے اتارا۔۔۔آئدہ کے پاؤں لڑکھڑا گئے اور وہ گرتے گرتے بچی۔۔۔
"بازو چھوڑیں میری۔۔اور میں نے کیا کردیا پاگل تو نہیں ہوگئے۔۔۔"
آئدہ نے اپنی بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے پاگل بولنے کی۔۔۔"
زاہران نے ایک ہاتھ سے اسکا کندھا اور دوسرے ہاتھ سے اسکی کلائی پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا اور اسکو غصے میں اپنے قریب کیا۔۔۔
زاہران کے یوں جنگلیوں کی طرح اٹھانے پر اسکا دل ویسے ہی کانپ گیا تھا اور اسکا ایسا ریکشن دیکھ کر آئدہ کی آنکھ میں آنسو آگئے۔۔
"ہوتی کون ہو تم میرے ساتھ بدتمیزی کرنے والی۔۔تم نے میرے شرٹ کیسے جلائی"
زاہران غصے میں غرایا تھا۔۔
"تو مجھے بھی بتائیں ۔۔۔آپ کون ہوتے ہیں میرے ساتھ فضول حرکتیں کرنے والے مجھ پر یوں حکم چلانے والے۔۔۔۔"
آئدہ نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"کونسی فضول حرکت اور محترمہ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے آپ کا مجازی خدا ہوں۔۔۔"
زاہران نے ایک آئیبرو اچکائی۔۔۔
"و۔۔وہ رات کو آپ نے کیوں۔۔کک۔۔کس کی مجھے۔۔؟کیا سوچ کر کی اور کس سے پوچھ کر کی۔۔۔؟"
آئدہ بھی غصے میں بولی تھی۔۔۔
"میں تمہارا شوہر ہوں اور تم پر پورا حق رکھتا ہوں۔۔کچھ بھی کرنے سے پہلے مجھے کسی کی اجازت یا کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔میرا جو دل کرے گا میں وہ کروں گا"
زاہران نے اسکو جتانے والے انداز میں کہا تو ایک لمحے کے لیے آئدہ خاموش ہو گئی۔۔۔
"تو پھر میرا بھی جو دل کرے گا میں وہ کروں گی۔۔۔"
آئدہ نے کہا تو زاہران اسکی ہمت پر اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔
"آئدہ تم مجھ سے دور رہو تمہارے لیے بہتر ہوگا۔۔۔مجھے تنگ مت کرو تمہیں میں نے قبول کیا ہے یہی کافی ہے مجھے مجبور مت کرو کہ میں تمہیں اذیت دوں۔۔"
زاہران نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔آئدہ کی آنکھ سے آنسو نکل کر رخسار پر بہہ گیا۔۔۔زاہران نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور رخسار پر بہتے آنسو کو چن لیا۔۔نجانے کیوں یہ آنسو اسے بہت برا لگا تھا۔۔
"اچھا چلو۔۔۔سر درد ہے مجھے چائے بنا کر دو۔۔۔"
زاہران نے اپنا لہجا نارمل کرتے ہوئے کہا اور اسکی کلائی چھوڑی تو آئدہ اس سے دور ہو کر کھڑی ہوئی اور اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔ابھی وہ طوفاں کی طرح اس بر برس رہا تھا اور اب اتنے سکون سے اسے کہہ رہا تھا چائے بنا کردو۔۔۔آئدہ کا دل کیا کہ سائڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ اٹھا کر اسکے سر پر مارے۔۔
"زیادہ سوچو مت جاو اور میرے لیے چائے بنا کر کمرے میں لے آنا۔۔"
زاہران نے بیڈ پر پڑا اسکا دوپٹہ اٹھا کر اسکے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا تو اسکو احساس ہوا کہ اتنی دیر سے وہ بغیر دوپٹے کہ کھڑی تھی۔۔اسنہ دوپٹہ کندھوں پر پھیلایا اور جلدی سے واشروم چلی گئی۔۔۔زاہران چند لمحے اسکے کمرے میں کھڑا رہا اور پھر خود بھی وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا۔۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے انھیں مطمئن کردیا تھا کے ہالے خطرے سے باہر ہے مگر ابھی وہ ہوش میں نہیں آئی تھی اگلے کچھ گھنٹوں میں اسے ہوش آجانا تھا۔۔۔۔۔ہالے کے ٹھیک ہونے پر سب نے شکر ادا کیا تھا مگر وہ ہوش میں نہیں آئی تھی اس پر وہ پریشان ہوئے تھے۔۔۔۔۔اگلی صبح 9 بجے کے قریب وہ ہوش میں آئی تھی مگر وہ تب سے ہی خاموش تھی جو پہلے باتیں کرتے چپ نہ ہوتی تھی اب وہ نہیں بول رہی تھی بس ہاسپٹل کے بیڈ پر چت لیٹی تھی اور اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے سب اس سے ملنے آئے تھے اور اس کی حالت دیکھ کر ان کا دل کٹ سا گیا تھا جبکہ ہالے کو اس حالت میں دیکھ کر آہل کہ دل میں ٹھیس سی اٹھی تھی۔۔۔ہالے سنان سے بھی نظریں نہیں ملا رہی تھی بےشک وہ اس کا بھائی تھا مگر تب بھی۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے جب ہالے کو گلے لگایا تو وہ زاروقطار اونچا اونچا رونے لگی اس کی اس حالت پر سب ہی کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔۔فرحان صاحب سے بھی اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی اور انکی آنکھوں میں بھی آنسو چمکے۔۔
"ماما۔۔۔۔ماما مجھ۔۔۔۔مجھے بچا لیں۔۔۔وہ پھ۔۔پھر آجائے گا۔۔۔۔۔"
ہالے ہچکیاں لے کر بول رہی تھی اور کسی چھوٹے بچی کی طرح فاطمہ بیگم کی آغوش میں چھپ رہی تھی۔۔۔۔۔
"ہالے میری بیٹی۔۔۔۔میری جان کچھ نہیں ہوا کوئی نہیں آرہا ماما آپ کے پاس ہیں نا۔۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے پیار سے پیچکارتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"ماما۔۔۔مجھ۔۔۔جسے گھر جانا ہے پلیز لے جائے۔۔۔"
ہالے فاطمہ بیگم کے سینے سے لگتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
"ہاں۔۔۔چلتے ہیں سنان جاؤ ہالے کے ڈسچارج پیپرز بنوا کر لاو۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے سنان کو بولا تو وہ سر ہاں میں ہلا کر باہر چلا گیا ہالے نے تقریبا تین گھنٹوں تک ڈسچارج ہونا تھا۔۔ابھی فاطمہ بیگم نے ہالے کے زد کرنے پر سنان کو ایسا بولا تھا تاکہ ہالے کو تھوڑا حوصلہ ہو۔۔۔آہل بھی اسکے ساتھ ہی باہر آگیا۔۔۔وہ مزید ہالے کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا اسکا دل کر رہا تھا کہ یہ آہل اسکے یہ آنسو چن لے پر وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا اسی لیے باہر آگیا۔۔وہ کل سے ہی سنان کے ساتھ تھا۔۔سنان کے بولنے پر زاہران کو کال کر کہ اسنے یہی بتایا تھا کہ سنان اور وہ کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہے ہیں۔۔۔وہ جانتے تھے کہ حقیقت جاننے کے بعد حمزہ اور زاہران ان سے بہت خفا ہونگے مگر ہالے کی طبعیت سنبھلنے پر سنان نے انکو بتانے کا سوچا۔۔۔
"آہل تم کافی تھک گئے ہوگے۔۔کل شام سے میرے ساتھ خود کو ہلکان کر رہے ہو تم گھر چلے جاؤ آرام کرلو ویسے بھی کچھ دیر تک ہالے ڈسچارج ہو جائے گی۔۔۔"
سنان نے آہل کا تھکا ہوا چہرہ اور تھکن اور نیند سے بھری سرخ آنکھیں دیکھ کر کہا۔۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں فکر نہ کرو تم۔۔ہالے ڈسچارج ہو جائے تو ساتھ ہی گھر چلتے ہیں۔۔"
آہل نے کہا اور بینچ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ کچن میں کھڑی چائے بنا رہی تھی جب حمزہ کچن میں داخل ہوا۔۔۔
"کیا کر رہی ہیں آپ بھابھی جی۔۔۔"
حمزہ کی آواز پر آئدہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دروازے کے پاس کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔حمزہ کے بھابھی جی بولنے پر آئدہ نے ایک لمحہ اسے گھورا۔۔
"چائے بنا رہی ہوں اور یہ آپ مجھے "آپ" کیوں بول رہے ہیں مطلب اتنی عزت۔۔۔خیر تو ہے۔۔"
آئدہ نے لفظ"آپ" پر زور دیا وہ تو ہمیشہ آئدہ کو "تم" کہہ کر مخاطب کرتا تھا تو اسی لیے آئدہ کو اسکا "آپ" بولنا عجیب لگا۔۔
"وہ عمر میں تو آپ مجھ سے چھوٹی ہیں پر درجہ بڑا ہے نہ۔۔۔بھابھی ہیں اب آپ میری تو عزت تو دینی پڑے گی۔۔۔"
حمزہ معصومیت سے بولا آئدہ نے سر نفی میں ہلایا۔۔
"اچھا بتائیں۔۔کس کہ لیے چائے بنا رہی ہیں"
حمزہ نے ایک طرف پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
"زا۔۔۔زاہران کہ لیے۔۔"
وہ پہلی بار زاہران کے لیے کوئی کام کر رہی تھی۔۔اسے حمزہ کو بتاتے ہوئے تھوڑی جھجک ہوئی۔۔
"اہم اہم۔۔۔"
حمزہ مصنوعی کھانسا تو آئدہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔
"اووو۔۔۔بڑی خدمتیں ہو رہی ہیں خیر تو ہے نہ۔۔۔"
حمزہ کے لہجے میں موجود شرارت کو آئدہ نے اچھے طریقے سے محسوس کیا۔۔۔
"زبردستی کی خدمتیں۔۔۔"
آئدہ نے بڑبڑاہٹ کی تو حمزہ ہنس دیا۔۔۔
"آپ،کے شوہر ہیں وہ۔۔۔آپکو انکی خدمت کرنا پسند نہیں ہے کیا۔۔۔"
حمزہ کا لہجہ ایک دم سنجیدہ ہوا۔۔۔
"اوہو حمزہ بھائی۔۔۔مجھے"آپ"کہنا تو بند کریں پلیز اور جہاں تک بات ہے خدمت کی تو۔۔۔"
وہ بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے رکی تھی۔۔۔حمزہ نے اسے غور سے دیکھا۔۔
"جس شخص نے کبھی مجھے عزت نہیں دی، مجھ سے صحیح سے بات نہیں کی،مجھ سے دو منٹ بات کرنے پر ہی جو بیزار ہو جاتا ہے بھلا اسکی خدمت کرنے کا دل کیوں کرے گا میرا۔۔۔شوہر ہیں وہ میرے پر بیویوں والا کوئی حق نہیں ہے میرے پاس۔۔۔"
ناجانے کیوں آئدہ نے اسکے سامنے اپنے دل کی بات کی تھی۔۔وہ کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کرتی تھی سوائے معصومہ اور اپنے باپ کی تصویر کہ مگر حمزہ کے پوچھنے پر وہ بےاختیار بول پڑی شاید دل پر بوجھ بہت تھا اسی وجہ سے وہ خود کو روک نہیں پائی۔۔۔بات کرنے کہ دوران چائے بن گئی تھی جسے وہ کپ میں بھی ڈال چکی تھی۔۔۔
وہ چائے کا کپ لے کر پلٹی اور حمزہ کو دیکھ کر پھیکا سا مسکرائی جو اسکو بہت غور سے سن رہا تھا وہ شاید اسکا درد سمجھ گیا تھا۔۔۔اسنے اپنا رخ دروازے کی طرف کیا تو وہاں موجود شخص کو دیکھ کر اسکا رنگ اڑا۔۔۔
زاہران کب وہاں آیا اور اسنے کیا کیا سنا وہ نہیں جانتی تھی پر زاہران کے بےحد سنجیدہ تاثرات دیکھ کر اسنے اندازہ لگایا کہ وہ اسکی آخری بات سن چکا ہے۔۔۔
"آ۔۔۔آپکی چائے۔۔"
آئدہ نے زاہران کو دیکھتے ہوئے چائے کی طرف اشارہ کر کہ کہا مگر وہ ویسے ہی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔۔
آئدہ نے چائے وہاں موجود ٹیبل پر رکھی اور کچن کے دروازے سے باہر آگئی۔۔باہر آتے وقت اسکا کندھا زاہران کے کندھے سے ٹکرایا تھا۔۔۔
-------------❤❤--------------
کچھ دیر بعد ہالے کو ڈسچارج کردیا گیا تھا تو وہ سب اس کو لے کر گھر آگئے تھے وہ ایک ہی دن میں مرجھا گئی تھی اس کی رنگت میں زردی گھلی ہوئی تھی اور آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے تھے۔۔۔۔۔آہل ہاسپٹل سے اپنے گھر چلا گیا تھا کیونکہ آگے ویک اینڈ تھا ان لوگوں نے حیدرآباد جانا تھا۔۔۔۔۔ہالے گھر آ کر دواؤں کے زیر اثر سو رہی تھی ماہ روش بھی اس کے ساتھ تھی کیونکہ وہ کبھی کبھی چیخنے لگتی تو اس کو سنھبالنا مشکل ہوجاتا تھا۔۔۔۔
اس کی حالت میں تھوڑی بہتری ہوئی تو ماہ روش نے اس سے پوچھا تھا اس دن کیا ہوا تھا پہلے تو وہ بتا نہیں رہی تھی مگر ماہ روش کے فورس کرنے پر اس نے روتے ہوئے ساری بات بتا دی تھی وہ بات پھر ماہ روش نے سنان کو بتائی تھی اور اس کو کہا تھا کے اس لڑکے کو چھوڑے نا کل اس نے ہالے کے ساتھ کیا تھا تو کیا پتا کل کسی اور کی بہن کے ساتھ کرے۔۔۔۔
سنان نے ساری بات آہل سے ڈسکس کی اور ان دونوں نے بھی عہد کر لیا تھا کے وہ اس شخص کو کڑی سے کڑی سزا دلوائے گے چاہئے جو کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔جبکہ حمزہ اور زاہران کو آہل نے بعد میں بتانے کا سوچا۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
کچھ عرصے میں ہالے کے زخم بھی بھر گئے تھے اور وہ اب اس صدمے سے بھی باہر آگئی تھی پر اب ہالے نے ہاسٹل چھوڑ دیا تھا اور فرحان ولا میں رہنے لگی ہالے کی حالت کو مدح نظر رکھتے ہوئے ماہ روش بھی اب فرحان ولا میں شفٹ ہوگئ تھی۔۔۔۔۔ماہ روش اور حمزہ کی لڑائیاں پہلے ہی کی طرح برقرار تھی مگر انکے درمیاں دوسری جیسا خوبصورت رشتہ پیدا ہو چکا تھا۔۔جبکہ معصومہ کو بھی اب سنان تھوڑا تھوڑا اچھا لگانے لگا تھا محبت نے معصومہ کے دل کے دروازے پر دستک دے دی تھی۔۔۔۔۔۔
آج فاطمہ بیگم کی دوست(دریہ بیگم) کے بیٹے کی شادی تھی جس پر وہ ہالے کو لے جانا چاہتی تھی مگر وہ مان کے نہیں دے رہی تھی جس پر انھوں نے ماہ روش کو کہا کے وہ بھی ساتھ چلے اور ہالے کو بھی جانے کے لیے منائے اور ساتھ ہی اس کو انھوں نے ہالے کے کپڑے بھی دیے۔۔۔۔۔۔
ماہ روش جب کمرے میں آئی تو ہالے بیڈ پر بیٹھی ہوئی کہی دور خیالوں میں گم تھی۔۔۔۔
"نور تم خالہ کے ساتھ جا کیوں نہیں رہی۔۔۔۔"
ماہ روش کے بولتے ہی وہ ہوش میں واپس آئی۔۔۔۔
"ماہ تمھیں پتا ہے ابھی کہی جانے کا میرا دل نہیں کرتا اس لیے مجھے نہیں جانا۔۔۔۔"
ہالے نے گہرا سانس کھینچا اور آہستہ آواز میں ماہ روش سے بولی۔۔۔۔۔
"دیکھو میں تمہارے ساتھ جارہی ہوں اس لیے کوئی نکھرے نہیں دکھاو مجھے جاو جلدی سے تیار ہوجاو۔۔۔۔"
ماہ روش نے بول کر اسے جلدی سے اس کے کپڑے تھمائے اور اس کو ڈریسنگ روم میں دھکیل دیا۔۔۔۔ہالے منہ بناتی کپڑے بدلنے چلی گئی۔۔
5 منٹ بعد وہ باہر آئی تھی ماہ روش تو اس کو دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔۔۔۔
پیچ کلر کی گھٹنوں تک آتی کمیز جس پر موتیوں سے بہت نفیس کام ہوا تھا کمیز کا گلا بوٹ تھا اور اس کے سلیوز فل تھے اس کے نیچے کمیز کے ساتھ ہی گھیر دار شلوار تھی۔۔۔
"چلو اب جلدی سے تیار ہوجاو۔۔۔میں بھی تیار ہوکر آتی ہوں۔۔"
ماہ روش نے ہالے کو کہا اور اسکے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
ہالے ڈریسنگ کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی اور بےدلی کے ساتھ ہلکا ہلکا میک اپ کرنے لگی۔۔
ماہ روش اپنے کمرے میں آئی اور کپڑے نکال کر چینج کرنے چلی گئی۔۔۔اسکے بعد اسنے بھی تھوڑا سا میک اپ کیا ویسے بھی اسکو اب سب چیزوں میں کوئی خاص انٹرسٹ نہیں تھا تو تیار ہونے میں اسے مشکل سے بیس منٹ ہی لگے تھے۔۔اسنے تیار ہونے کہ بعد شیشے میں خود کو دیکھا۔۔۔گرے کلر کی کمیز جس پر موتیوں سھ تھوڑا کام ہوا تھا اور ہم رنگ ٹراوزر اور دوپٹہ۔۔بال کندھوں پر بکھرے تھے اور بالکل ہلکا سے میک میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔وہ ہالے کے کمرے میں آئی تو وہ بال بند کر رہی تھی۔۔۔
"ارے پاگل یہ کیا کر رہی ہو۔۔کھول انہیں ایسے اچھے نہیں لگیں گے۔۔کھلے بالوں میں زیادہ اچھی لگو گی۔۔"
ماہ روش اسکے بالوں کا جھوڑا کھولتے ہوئے بولی۔۔
"ارے ماہ یار۔۔۔اتنی مشکل سے بنایا تھا کتنی بدتمیز ہو تم۔۔"
ہالے نے منہ بنایا۔۔
"زیادہ مت بولو۔۔جوتی پہنو اور چلو خالہ ویٹ کر رہی یونگی اور شہزادی صاحبہ نے لپسٹک بھی نہیں لگائی۔۔"
ماہ نے ہالے کو دیکھ کر کہا۔۔
"ہاں تو لپسٹک آخر میں لگاتے ہیں۔۔کھسہ نکالو میرا میں لپسٹک لگاتی ہوں۔۔"
ہالے نے ماہ کو کہا اور لپسٹک لگانے لگی تو ماہ روش اسکا کھسہ نکالنے لگی۔۔
وہ دونوں تیار ہوکر نیچے آئی تو فاطمہ بیگم نے ان دونوں کی دل ہی دل میں نظر اتاری۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ ہال میں ہادیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی باتیں کرنے کہ ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر اپنی یونی کی پریزنٹیشن تیار کر رہی تھی جب معصومہ اس کے پاس آئی۔۔۔
"آئدہ۔۔ہم شوپنگ پر جا رہے ہیں چلو اٹھو"
معصومہ نے اس سر پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔
"کس کے ساتھ اور کیوں۔۔۔"
آئدہ نے سوال کیا۔۔۔
"زاہران اور حمزہ کے ساتھ جا رہے ہو اور کس کے ساتھ جاو گے۔۔دوپہر کے ٹائم جب تم شاور لینے گئی تھی تب پلین بنا تھا۔۔۔"
ہادیہ بیگم نے اسے تفصیل سے کہا۔۔۔
"مگر مجھے تو ابھی بہت کام کرنا ہے۔۔۔پریزنٹیشن ہے پرسو۔۔۔"
آئدہ نے ہادیہ بیگم اور معصومہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"تو کیا ہوا۔۔۔کل بنا لینا ٹائم ہے ابھی"
حمزہ اور زاہران ہال میں داخل ہوئے تو حمزہ نے اسکی بات سن کر کہا۔۔
"ہاں مگر۔۔۔۔"
آئدہ نے بولنے کی کوشش کی۔۔۔
"کوئی اگر مگر نہیں۔۔۔چلو اٹھو اور تیار ہو جاؤ۔۔"
زاہران نے دو ٹوک انداز میں اسکی بات کاٹی تو وہ اسکو دیکھ کر رہ گئی۔۔۔
"اٹھو بیٹھی کیا ہو۔۔۔"
زاہران نے پھر سے کہا تو اسنے پریزنٹیش سیو کی اور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی معصومہ بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔۔۔
آئدہ اور معصومہ نے کپڑے چینج کیے اور بال بنا کر باہر آگئی۔۔۔زاہران اور حمزہ ہال میں بیٹھے ان دونوں کا انتظار کر رہے تھے۔۔انکے آنے پر زاہران نے جب آئدہ کو دیکھا تو اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔۔آئدہ نے بلیک سمپل گٹھنوں تک آتی فراک بلیک ہی ٹراوزر اور دوپٹہ پہنا تھا اور بالوں کا جوڑا بنا تھا جس میں سے چند لٹیں چہرے کو چھو رہی تھی اسکے دل نے تعریف کی وہ سمپل حلیے میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
آئدہ نے زاہران کو مسلسل اپنی طرف دیکھتا پایا تو وہ گڑبڑا گئ۔۔۔
"چچ۔۔۔۔چلیں۔۔۔۔"
آئدہ نے کہا تو زاہران نے اس پر سے اپنی نظر ہٹائی۔۔
"ہاں چلو۔۔۔"
زاہران نے جلدی سے کہا اور وہ تینوں ہادیہ بیگم کو اللہ حافظ بولتے باہر پورچ میں آگئے۔۔۔
"اوہو بھابھی جی۔۔۔۔اب پیچھے بیٹھتی ہوئی آپ اچھی لگیں گی۔۔۔چلیں آگے جا کر بیٹھیں۔۔۔"
حمزہ نے جب آئدہ کو پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے دیکھا تو جلدی سے کہا اور خود پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔آئدہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی معصومہ نے اپنی مسکراہٹ چھپائی جبکہ زاہران نے حمزہ کو گھورا۔۔۔
"کھڑی کیا ہیں اب۔۔۔چلیں بیٹھ جائیں آپ کے شوہر انتظار کر رہے ہیں آپ کے بیٹھنے کا۔۔۔"
حمزہ نے ایک بار پھر سے آئدہ کو کہا۔۔۔
"بیٹھ جاؤ آکر آئدہ جلدی کرو۔۔۔"
زاہران نے سنجیدگی سے کہا تو آئدہ خاموشی سے جاکر آگے بیٹھ گئی۔۔
"میں جو کب سے بول رہا تھا میری ایک نہیں سنی۔۔۔اور شوہر صاحب نے ایک بار کہا تو خاموشی سے اسکی بات مان لی۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے۔۔"
حمزہ نے بڑبڑاہٹ کی تو آئدہ کو زاہران اسکی بات اور انداز پر بے اختیار مسکرا دیے جبکہ معصومہ ہنس دی۔۔۔
زاہران نے سر نفی میں ہلانے ہوئے گاڑی گیٹ سے باہر نکالی۔۔۔
-------------❤❤--------------
شادی میں آکر وہ دونوں تو بور ہورہی تھی فاطمہ بیگم ان کو ٹیبل پر چھوڑ کر دریہ بیگم کے ساتھ چلی گئ تھی۔۔۔۔۔وہ دونوں کب سے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھی ان دونوں کا بس نہیں چل رہا تھا کے کب کا اڑ کر گھر پہنچ جائیں
ماہ روش ابھی فاطمہ بیگم کو بلانے ہی جارہی تھی ہالے کے کہنے پر کیونکہ وہ اتنے لوگوں میں گھبرا رہی تھی اور اب اس کی حالت خراب ہورہی تھی جب فاطمہ بیگم سامنے سے آتے ہوئی نظر آئی ساتھ دریہ بیگم بھی تھی۔۔۔۔
"یہ ہے میری پیاری بیٹی ہالے نور اور یہ میری بہن کی بیٹی ماہ روش ہے مگر مجھے میری بیٹی جتنی عزیز ہے۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ٹیبل کے قریب آ کر ان دونوں کا تعارف دریہ بیگم سے کروایا۔۔۔۔۔
"اسلام و علیکم آنٹی۔۔۔۔"
ہالے اور ماہ روش دونوں نے ساتھ سلام کیا۔۔۔۔۔
"وعلیکم السلام بیٹا ماشاءاللہ سے بہت پیاری ہے دونوں۔۔۔۔"
دریہ بیگم نے سلام کا جواب دیا اور ان کی تعریف کی۔۔۔۔
"شکریہ آنٹی۔۔۔۔"
ہالے نے شکریہ کر کے سر جھکا دیا جب کے ماہ نے سر ہلایا۔۔۔
"خالہ چلیں گھر دیر ہوگئی ہے بہت۔۔۔۔۔"
ماہ نے ہالے کی حالت کے پیش نظر کہا تو ہالے نے بھی سر ہلایا۔۔۔۔
"بیٹا چلے جانا بس مجھے آپ کی ماما سے بات کرنی ہے آپ یہاں صبر کریں ہم آتے ہیں۔۔۔۔"
دریہ بیگم نے ہالے کا گال پیار سے چھو کر کہا اور فاطمہ بیگم کو لے کر چلی گئ جب کے ماہ روش کی پر سوچ نظروں نے ان کا پیچھا کیا جب کے ہالے سر جھکا کر اپنی انگلیاں چٹھک رہی تھی۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
زاہران نے مال کی پارکنگ میں گاڑی پارک کی تو وہ چاروں گاڑی سے نکل کر مال کے اندر چلے گئے۔۔شوپنگ کے ساتھ ساتھ باتیں اور ہسی مذاق بھی جاری تھا۔۔ائدہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ زاہران کے ساتھ اسکا رویہ بلکل نارمل تھا۔۔۔
"آئدہ۔۔اس شوپ میں بیگز بہت اچھے پڑے ہیں۔۔آؤ ادھر چلتے ہیں۔۔"
معصومہ نے آئدہ سے کہا جو کپڑوں کی شوپ میں کھڑی کرتیاں دیکھ رہی تھی۔۔۔
"ہاں معصومہ تم چلو میں یہ شرٹس دیکھ کر آتی ہوں۔۔۔"
آئدہ نے ایک نظر معصومہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ معصومہ نے حمزہ کی طرف دیکھا۔۔۔
"چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔۔"
حمزہ نے اسکی بات سمجھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتی اسکے ساتھ اس شوپ میں چلی گئی۔۔۔زاہران آئدہ کے ساتھ ہی شوپ میں کھڑا مسلسل اسے دیکھ رہا تھا جب اسکا فون بجنے لگا۔۔۔سکرین پر داجی کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر اسنے وقت ذائع کیے بغیر کال اٹینڈ کی۔۔۔
"سلام داجی۔۔کیسے ہیں آپ۔۔۔؟"
زاہران نے سلام کرتے انکا حال پوچھا۔۔۔آئدہ نے زاہران کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔۔۔چند لمحوں بعد داجی نے زاہران سے کچھ کہا جو سن کر وہ آئدہ کے پاس آیا۔۔۔
"آئدہ۔۔فون کہاں ہے تمہارا۔۔"
زاہران نےاس سے سوال کیا تو اسنے اپنے ہینڈ بیگ میں ہاتھ ڈالا مگر اندر فون نہ تھا۔۔اسنے ذہن پر زور ڈالا تو اسے یاد آیا کہ جلدی جلدی میں وہ ہال میں صوفے سے فون اٹھانا ہی بھول گئی۔۔۔
"وہ میں فون لانا بھول گئی ہوں۔۔گھر پر ہے"
آئدہ نے زاہران کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"داجی اسکا فون گھر رہ گیا ہے اسی لیے کالز اٹینڈ نہیں کی اسنے آپکی۔۔۔"
زاہران نے داجی کو جواب دیا آئدہ کی نظریں زاہران پر تھیں۔۔
"گھر رہ گیا ہے۔۔۔تم دونوں کہا ہو۔۔۔۔"
داجی نے زاہران کی بات سن کر کہا۔۔
"ہم۔۔۔۔شوپنگ پر آئے ہیں داجی۔۔۔"
زاہران نے جواب دیا۔۔۔داجی کو اسکی بات ناگوار گزری۔۔۔
"آئدہ سے کہو گھر پہنچ کر اپنی ماں سے بات کرے۔۔۔"
زاہران کو انکا لہجہ کافی عجیب لگا وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا مگر دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی۔۔۔زاہران فون کی بلینک سکرین کو دیکھنے لگا۔۔۔
"کیا کہہ رہے تھے داجی۔۔۔؟اور آہنےان سے یہ کیوں کہا کہ ہم شوپنگ پر آئے ہیں آپ کو ہم چاروں کا نام لینا چاہیے تھا۔۔۔"
آئدہ نے کہا تو زاہران نے فون پوکٹ میں رکھا۔۔۔
"تمہیں کال کر رہے تھے مگر تم نے کال اٹینڈ نہیں کی تو انہوں نےمجھے کال کی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم دونوں کہاں ہو تو میں نے بول دیا شوپنگ پر۔۔اگر وہ پوچھتے کہ کون کون ہے ساتھ تو میں حمزہ اور معصومہ کا نام بھی لے لیتا۔۔۔خیر تم گھر جا کر ممانی کو کال کرلینا داجی کا آرڈر ہے۔۔۔"
زاہران نے لاپرواہی سے کہا مگر وہ جانتی تھی کہ فرحین بیگم سے بات کرنا یعنی اپنی کلاس لگوانا۔۔۔اسکو زاہران پر شدید غصہ آیا تھا جو اب سکون سے کھڑا اپنا فون استعمال کر رہا تھا۔۔۔آئدہ اس شوپ سے بغیر کچھ لیے باہر آگئی تو زاہران بھی اسکے پیچھے ہی آگیا۔۔۔۔
شوپنگ کے بعد وہ چاروں فوڈ کورٹ کی جانب چلے گئے۔۔۔
انہوں نے کھانا آرڈر کیا اور ویٹ کرنے لگے۔۔۔۔کھانے کے بعد وہ گھر واپس آئے پھر شوپنگ ہادیہ بیگم کو دکھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں آرام کے غرض سے چلے گئے تھے۔۔
آئدہ اپنے کمرے میں آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر سوچنے لگی کہ وہ فرہین بیگم کو کال کرے یا نہ کرے کیونکہ وہ جانتی تھی فرہین بیگم اسے بلاوجہ میں لیکچر ہی دیں گی اور اسکو صفائی میں کچھ نہیں بولنے دیں گی۔۔۔
تبھی اسکا فون رنگ کرنے لگا سکرین پر ماما جگمگا رہا تھا۔۔وہ اپنی ماں کی کال اٹینڈ کرنا چاہتی تھی مگر وہ پہلے ہی تھکی ہوئی تھی اب فرہین بیگم کی باتیں سن کر وہ نہیں چاہتی تھی کی اسے زاہران پر پھر سے غصہ آنے لگے اور وہ اپنا سکوں برباد کرے اسی لیے فون کو پاور اوف کیا اور خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور معصومہ جو صوفے پر بیٹھی اپنا فون یوز کر رہی تھی اسے لائٹس بند کرنے کو کہا۔۔۔
-------------❤❤--------------
کچھ دیر میں فاطمہ بیگم واپس آئی تو وہ ہالے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی جبکہ ماہ روش کی جاسوسی والی روح بیدر ہوچکی تھی اب وہ فاطمہ بیگم کو پر سوچ نظروں سے دیکھ رہی تھی جو ہالے کو دیکھ کر مسکرائے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔
"خالہ چلنا نہیں ہیں کیا ہم بور ہورہے ہیں اور آپ بھی آ کر اپنی دوست کے پاس چلی گئ اور یہ محترمہ تو لگتا ہیں یہاں ہوتے ہوئے بھی نہیں ہیں۔۔۔۔"
ماہ روش نے بولا تو ہالے بھی اپنی سوچوں سے باہر آئی اور ہڑبڑا کر ماہ روش کو دیکھا جو تیکھی نظروں سے اسے گھور رہی تھی تو اس نے ماہ روش کو دیکھ کر اپنا کان پکڑا جیسے سوری کر رہی ہوں تو ماہ روش نے سر ہلایا۔۔۔۔
"ہاں چلو میں نے سنان کو مسیج کردیا ہے وہ آتا ہوگا۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ماہ روش کو سنان کا بتایا تو وہ سر ہلا کر رہ گئ جب کے ہالے پھر سے اپنی سوچوں میں گم ہوچکی تھی اسے دیکھ کر ماہ روش نے نفی میں سر ہلایا جیسے اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا جو اس حادثے کے بعد ہر وقت بس سوچ رہی ہوتی تھی پتا نہیں کیا سوچیں اس لڑکی کے دماغ میں چلتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں سنان آیا تو وہ تینوں گھر واپس آگئ ہالے تو آتے ساتھ ہی کمرے میں چلی گئ تھی کیونکہ اسے اب کپڑوں سے الجھن ہورہی تھی اور ماہ روش فاطمہ بیگم کے ساتھ لاونچ میں بیٹھ گئ۔۔۔۔۔۔
"خالہ دریہ آنٹی آپ سے کیا بات کر رہی تھی اور آپ ہالے کو دیکھ کر کیوں اتنا مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔"
ماہ روش نے مشکوک نظروں سے فاطمہ بیگم کو دیکھا تو انھوں نے اس کو گھورا۔۔۔۔۔۔
"شرم کروں لڑکی خالہ کو کس طرح مشکوک نظروں سے گھور رہی ہوں ویسے بھی کل تک تمھیں بات کا پتا چل جانا ابھی میں جارہی ہوں آرام کرنا جاؤ اب تم بھی۔۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اس کا مصنوعی غصے سے دیکھا تو ماہ مسکرا دی اور ان کی آخری بات پر سرہلایا۔۔۔۔۔۔
"چل بھئی ماہ روش اب آرام کروں۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک سوچتی رہی پر خود سے ہی بول کر آپنے کمرے میں چلی گئ پر ہالے کو ایک نظر دیکھنا نہ بھولی اس کے دروازے سے دیکھا تو وہ پرسکون نیند سو رہی تھی وہ آہستہ سے دروازہ بند کر کے مسکرا کر اپنے روم میں آگئ۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
صبح سنڈے تھا فرحان ولا میں معمول کے مطابق ناشتہ لگایا گیا تھا سب ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے سوائے ارحم کے کیونکہ وہ ابھی سو رہا تھا اور فاطمہ بیگم نے اس کو خود نہیں اٹھایا تھا کیونکہ انہیں سب گھر والوں سے ضروری بات کرنی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ناشتے کے دوران سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔سب ان کی طرف متوجہ ہوئے سوائے ہالے کے وہ اب بھی اپنی پلیٹ پر جھکی اس میں چمچ ہلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"کل میں دریہ کی بیٹے کی شادی میں گئ تھی تو وہاں میں نے ہالے اور ماہ روش کو دریہ سے ملوایا تھا تو۔۔۔۔۔۔دریہ کو اپنے چھوٹے بیٹے فرہاد کے لیے ہالے پسند آئی ہے اور اگر ہم ان کو اثبات میں جواب دیتے ہیں تو وہ کچھ دن تک رشتہ لے کر آئے گی اور منگنی کی رسم ادا کرے گی۔۔۔۔۔ویسے مجھے اس رشتے میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی کل میں ملی تھی فرہاد سے اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے اپنی بات مکمل کر کے سب کو دیکھا تو سب ان کو ہی دیکھ رہے تھے جبکہ ہالے کا منہ میں جاتا ہاتھ جس میں چمچ تھا وہ ہوا میں ہی رک گیا مگر جلد ہی اس نے خود کو سنھبال لیا اور پھر سے ناشتہ کرنے لگی جب کہ سنان تو پھٹی نگاہوں سے اپنی مام کو دیکھ رہا تھا جبکہ ماہ روش مسکرا دی کیونکہ اسے یقین تھا کے یہی بات ہو گی کیونکہ کل دریہ بیگم کے آنکھوں میں اس نے ہالے کے لیے پسندیدگی دیکھی تھی۔۔۔۔۔اور فاطمہ بیگم کی مسکراہٹ بھی یہ کہانی سنا رہی تھی۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے آپ انہیں بلوا لے پہلے میں اور سنان اچھے سے چھان بین کریں گے پھر دیکھ لے گے اور دوسری میری بیٹی کی مرضی میرے لیے بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔"
ناشتے کی ٹیبل پر چھائی خاموشی کو فرحان صاحب کی آواز نے توڑا تھا تو فاطمہ بیگم نے سر ہلایا جب کے سنان کے ذہن میں مختلف سوچیں گردش کر رہی تھی اس نے ہالے کی طرف دیکھا تو وہ خاموشی سے ناشتہ کر رہی ہو جیسے یہاں اس کے نہیں کسی اور کے رشتے کی بات ہورہی ہو یہ بات سنان کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث تھی۔۔۔مگر ہالے کے دماغ میں بھی مختلف سوچوں کا ہجوم لگا تھا۔۔۔
-------------❤❤--------------
"سنان۔۔کیا سوچ رہے ہو صبح سے ہی تم پتا نہیں کن سوچوں میں گم ہو۔۔خیر تو ہے نہ؟"
آہل پہلے بھی دو بار سنان کے آفس میں آیا تھا اور اسے تب بھی اسنے نوٹ کیا تھا کہ آہل اسکے ساتھ جو بھی ڈسکس کر رہا ہے سنان کا دیھان اس طرف ہے ہی نہیں اور نہ ہی اسے کچھ سمجھ میں آرہی ہے اور ابھی بھی کسی نئے پروجیکٹ کے بارے میں ڈسکشن کر رہا تھا مگر سنان تو جیسے اس دنیا میں ہی نہیں تھا۔۔۔
"او ہیلو۔۔۔کیا ہوا ہے یارا عشق وغیرہ کے چکر میں تو نہیں پڑ گیا کہیں تو۔۔۔"
آہل کو جب جواب نہ ملا تو اسنے سنان کے آگے چٹکی بجائی اور آخری جملہ شرارت سے ادا کیا۔۔
"کیا ہوا۔۔۔کچھ کہہ رہے تھے تم۔۔"
سنان اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر آتا ہوا بولا آہل نےاپنا ماتھا پیٹا۔۔۔اسنے سامنے پڑی فائل بند کی اور سنان کو گھورنے لگا جس کے سنجیدہ چہرے پر پریشانی کی رمک تھی۔۔
"سنان سب ٹھیک ہے نہ صبح سے تم عجیب الجھے الجھے لگ رہے ہو۔۔۔کوئی بات ہوئی ہے کیا ہالے تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔"
آہل نےپھر سے سوال کیے اور ساتھ ہی ہالے کا بھی پوچھا کہ کہیں اسے تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔
"امم۔۔ہاں سب ٹھیک ہے اور ہالے تو بالکل ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا اسے ۔۔"
سنان نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
" اگر ہالے کو کچھ نہیں ہوا تو کوئی اور پریشانی ہے مجھے بتاؤ کیا پتا میں کوئی ہیلپ کر سکوں۔۔۔"
آہل نے سنان کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"کیسے بتاؤں میں تمہیں۔۔۔اگر میرے خیالات غلط ہوئے تو اور اتنی بڑی بات میں تمہیں کیسے بول دوں۔۔"
سنان یہ بات صرف دل میں ہی سوچ سکا اسکے سامنے وہ یہ بول کر اسکے مزید سوالات کے جواب نہیں دے سکتا تھا۔۔
"یار۔۔۔کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے وہ بس پاپا کے آفس میں کچھ اشوز ہوگئے ہیں تمہیں تو پتا ہے بزنس میں یہ سب ہوتا رہتا ہے تو بس اسی وجہ سے سوچ رہا ہوں کچھ دن پاپا کے آفس چلا جاؤں وہاں کام دیکھ لوں۔۔۔"
سنان نے جلدی سے بہانہ بنایا آہل نے اسے کھوجتی نظروں سے دیکھا ۔۔۔
"ہممم۔۔۔۔تو جا انکل کے ساتھ کچھ دن کام کروا ہم ہیں نہ یہاں سب دیکھ لیں گے اور یہ اتنی بڑی بات نہی ہے جو تو اتنی ٹینشن لے رہا ہے یا پھر بات کوئی اور ہے جو تو بتانا نہیں چاہتا۔۔خیر میں چلتا ہوں۔۔"
آہل نے سنان کو سنجیدگی سے کہا اور اسکے آفس سے نکل آیا۔۔سنان اسکا اکھڑا لہجہ نوٹ کیا تھا مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پایا۔۔ اگر سنان کی سوچ اور بات غلط ہوتی تو وہ نہیں چاہتا تھا کہ آہل کہ سامنے شرمندہ ہو جائے
آئدہ ابھی یونیورسٹی سے آ کر کھانا کھا کر روم میں آرام کے غرض سے آئی تھی جبکہ معصومہ نیچے ہادیہ بیگم کے ساتھ ہی تھی۔۔۔۔۔ابھی وہ کفرٹر لے کر لیٹی ہی تھی جب کوئی آندھی طوفان کے طرح اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا اور دروازہ بند کردیا تھا جب کے اس کاروائی پر آئدہ تو ہڑبڑا کر اٹھی تھی اور نظریں سامنے کھڑے زاہران کی نظروں سے ٹکرائی تھی جو کے آنکھوں میں اشتعال لیے آئدہ کو گھور رہا تھا اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر آئدہ کو ڈر لگ رہا تھا جب اگلے ہی لمحے زاہران اس کے قریب آیا اور بازو سے پکڑ کر آئدہ کو کھڑا کیا جب کے اس کی اتنی مضبوط پکڑ کر آئدہ کو لگا تھا اس کا بازو جڑ سے نکل جائے گا جب کے وہ یہ سوچ رہی تھی اب اس نے کیا کر دیا جو بھوکا شیر پھر سے جاگ گیا۔۔۔۔۔
"کیا کر رہی تھی اس لڑکے کے ساتھ۔۔۔"
وہ اپنی سوچوں سے باہر زاہران کی غصے بھری آواز سے نکالی تھی اور اس کی طرف بےیقینی سے دیکھا جیسے یہ سوال زاہران نے ہی کہا ہے نہ۔۔۔۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے جواب دو۔۔۔۔"
زاہران دانت پیس کر بولا اور ساتھ ہی اس کے بازو پر گرفت مضبوط کی۔۔۔
"سسسی۔۔۔"
زاہران کی اتنی جارحانہ گرفت پر اس سسکی نکلی تو زاہران کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس کا بازو چھوڑ دیا اس سب کے دوران آئدہ کی آنکھوں میں نمکین پانی بھر گیا تھا۔۔۔۔
"کون سا لڑکا۔۔۔؟"
آئدہ نے سوالیہ نظروں سے زاہران کو دیکھا۔۔۔
"وہی جس کے ساتھ آج تم یونیورسٹی میں مسکرا مسکرا کر باتیں کرہی تھی تمہارے کچھ زیادہ ہی نہیں پر نکل آئے کرتا ہو دا جی سے رخصتی کی بات۔۔۔۔"
زاہران نے بات مکمل کی اور آئدہ کی طرف جبکہ آئدہ تو سوچ رہی تھی کی کون تھا لڑکا پھر جھپک سے اس کے ذہن میں یونی کا وہ منظر گھوم گیا جس میں سر نے اس کی پریزنٹیشن ایک لڑکے کے ساتھ رکھی تھی ساتھ میں کچھ اور کلاس فیلو بھی تھے مگر اس ٹائم جب وہ کلاس سے نکل رہی تھی تب اس لڑکے نے اسے پکارا تھا اور کچھ پریزنٹیشن کے پوائنٹس اس سے پوچھ رہا تھا جو آئدہ نے اسے سمجھا دیے تھے اور آخر میں اس نے "تھینک یو سسٹر " کہا تھا جس پر آئدہ مسکرا دی تھی اور زاہران جو آج یونی اپنے فرینڈ سے ملنا آیا تھا جب یہ لمحہ اس کی نظروں نے دیکھا تھا تو اور زاہران کے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی اور وہ اب گھر آتے ہی آئدہ کے سر پر سوار تھا۔۔۔۔
آئدہ کو تو اپنے ارد گرد دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور بے یقین ہو کر زاہران کو دیکھ رہی تھی جس نے اس بات کا کتنا بتنگڑ بنایا تھا۔۔۔۔۔
"سمجھتے کیا ہے آپ خود کو بڑی کوئی مہان ہستی ہے یا کوئی توپ ہے اتنا بڑا بول بول رہے ہے اصل بات آپ کو پتا ہے ہی نہیں اور یہاں آگئے ہے مجھے سے سوال کرنے اتنی کوئی گئ گزری لگتی ہوں آپ کی نکاح میں ہوں اس کا مطلب یے نہیں ہے کے آپ کچھ بھی بولیں گے اور میں سنتی جاوں گئ بس اب بہت ہو گیا میں آپ کو کبھی بھی اپنی کردار کشی کرنے کی اجازت نہیں دونگی آپ کو کیا کسی کو بھی یہ حق نہیں اور وہ لڑکا صرف کلاس فیلو تھا اور پریزینٹیشن کی پوائنٹ سمجھ رہا تھا اور آخر میں اس نے مجھے بہن بولا تھا تب میں مسکرا رہی تھی کیونکہ پہلی دفعہ کسی کی آنکھوں میں اتنی عزت دیکھی تھی ورنہ آجکل تو ہم لڑکیاں باہر جانے اور پڑھنے سے ڈرتی ہیں کیونکہ جگہ جگہ ہوس کے پجاری گھت لگا کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کے کب لڑکی اکیلی باہر نکلے اور وہ اس کو نوچ کھائیں اور میں دیکھتی ہوں کیسے ہوتے ہیں ہماری رخصتی میری پڑھائی ختم ہونے سے پہلے اس بارے میں سوچیے گا بھی مت۔۔۔۔"
آئدہ جو کب سے ضبط کر رہی تھی اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ بولتی ہی گئی جبکہ زاہران اس کو دیکھ رہا تھا کے جو لڑکی اتنا بول رہی ہے وہ آئدہ ہی ہے نہ جو ہمیشہ اس کے آگے چپ رہتی ہے مگر لگتا تھا کے آئدہ نے آج چپ کا روزہ توڑ دیا تھا۔۔۔۔
"ایک منٹ تم چیلنج کر رہی ہو۔۔۔؟ اگر چیلنج کر رہی تو مجھے منظور ہے کیونکہ مجھے چیلنجز بہت پسند ہے اور اب تو دا جی سے رخصتی کی بات کرنی ہی پڑے گئ کیونکہ میری بیگم صاحبہ کے بہت پر نکل آئے ہیں اب تیاری پکڑیں ایک مہینے کے اندر اندر رخصتی کروا کر رہو نگا میں۔۔۔۔"
زاہران نے آئدہ کے آخری بات پر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور پھر مسکرا دیا اور آئدہ کے سر پر رخصتی کا بم پھوڑ کر باہر نکال گیا۔۔۔۔۔
جب کے پیچھے آئدہ کی حالت کاٹو تو بدن میں لہو ہی نہیں والی ہوگئ تھی اسے پتا تھا اگر زاہران رخصتی کی بات کر کے گیا ہے تو اب تو رخصتی ہر ہال میں ہو کر رہے گئ کیونکہ وہ اپنی ضد کا پکا تھا وہ اب پچھتا رہی تھی کے اس نے آخری بات بولی ہی کیوں یہ سب سوچ سوچ کر جب تھک گئ تو ساری سوچوں پر لعنت ڈال کر سونے کے لیے لیٹ گئ کیونکہ رخصتی آج نہیں تو کل ہونی ہی تھی اس لیے وہ سکون سے سو گئ نیند نے بھی اسے تھوڑی دیر میں اپنے آغوش میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
"آہل۔۔کہیں جا رہے ہو کیا۔۔؟"
سنان نے آہل کو آفس سے نکلتے دیکھا تو پوچھا۔۔۔۔۔
"ہاں گھر جا رہا تھا۔۔۔کیوں کیا ہوا؟۔۔۔۔۔"
آہل نے سنان کو جواب دیا اور ساتھ ہی سوال بھی کر ڈالا۔۔۔۔۔۔
"یار وہ مجھے آفس میں دو،تین کام ہیں اور ہالے کو یونی سے لینے جانا ہے ماہ روش یونی سے جلدی نکل گئی تھی اسنے خالہ کی قبر پر جانا تھا۔۔۔۔۔"
سنان نے اسے تفصیل سے بتایا۔۔۔۔
"تو میں پک کر لیتا ہوں اسے تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔"
آہل نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔
"اگر تمہیں کوئی ضروری کا ہے تو کوئی بات نہیں میں خود چلا جاتا ہوں۔۔۔۔"
سنان نے کہا تو آہل نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
"نہیں نہیں مجھے کوئی ضروری کام نہیں۔۔اور نور کے لیے تو میں ضروری سے ضروری کام بھی چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔۔۔"
آہل نے آخری بات ہلکی آواز میں کہی۔۔۔۔
"کیا کہا تم نے۔۔۔۔"
سنان نے آئیبرو اچکائی
"نن۔۔نہیں کچھ نہیں کہا مین چلتا ہوں۔۔۔"
آہل بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔سنان وہیں پر کھڑا اسکی پشت کو دیکھتا رہا۔۔۔آہل کی ہلکی آواز میں کہی گئی بات وہ سن چکا تھا اور اب اسے یقین بھی ہو چکا تھا کہ آہل کی آنکھوں کا نور ہالے نور ہے۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ یونیورسٹی کے گیٹ سے باہر آئی تو اسکی نظر سیدھی آہل پر پڑی جو گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔۔۔
وائیٹ آفس شرٹ اور بلیک پینٹ کوٹ میں آنکھوں پر سن گلاسز لگائے وہ اپنی پوری وجاہت کے ساتھ مسکراتے ہوئے بہت پرکشش لگ رہا تھا۔۔۔ایک لمحے کے لیے ہالےنور کی نظر اس پر رک سی گئی تھی مگر جلد ہی خود کو سنبھالتی وہ اسکی طرف بڑھی۔۔۔
"ہیلو بیوٹیفل لیڈی۔۔۔"
آہل نے مسکرا کر ہالے کو کہا لہجے میں شرارت کی رمق تھی۔۔۔۔۔ہالے اسکے انداز پر ہلکا سا ہنس دی۔۔۔۔
"ہیلو۔۔۔آئدہ اور معصومہ تو چلی گئی ہیں"
ہالے کو لگا کہ وہ ان دونوں کو لینے آیا ہے تبھی بولی۔۔۔۔۔۔۔
"آہ۔۔تمہیں سنان نے بتایا نہیں کیا۔۔اسکوکچھ کام تھا آفس میں اور میں گھر جا رہا تھا تو اسنے کہا تمہیں پک کرتا جاوں۔۔۔۔۔۔"
آہل نے اسے بتایا تو وہ سر ہلانے لگی۔۔آہل نے اسکے لیے بڑی عزت سے گاڑی کا دروازہ کھولا ہالے کو ایک بار پھر ہنسی آگئی جسے روکتی ہوئی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔
آہل نے دروازہ بند کیا اور خود آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔
"کہاں چلیں۔۔۔۔۔؟"
آہل نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے سوال کیا۔۔۔۔۔
"کیا مطلب کہاں چلیں۔۔گھر جانا ہے ناں۔۔۔۔۔"
ہالے نے آہل کو دیکھا۔۔۔۔۔
"نہیں۔۔مجھے بہت بوکھ لگی ہے تمہیں بھی لگی ہوگی کہیں لنچ پر چلتے ہیں۔۔"
آہل نے مسکراتے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
"مگر۔۔ماما ویٹ کر رہی ہونگی میرا۔۔۔۔"
ہالے نے کچھ سوچ کر کہا۔۔۔۔۔۔
"تو کیا ہوا۔۔تم انہیں کال کر کہ بتا دو بلکہ رکو میں خود ہی کرتا ہوں"
آہل نے اپنا فون نکالا ہالے بس اسے دیکھ کر رہ گئی جو شائد سب کچھ پہلے سے پلین کر کہ آیا تھا۔۔۔۔۔
"اسلام و علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ۔۔اللہ کا شکر میں بھی بلکل ٹھیک ہوں۔۔"
ہالے خاموشی سے آہل کو دیکھ رہی تھی جو مسکرا مسکرا کر فاطمہ بیگم سے باتیں کر رہا تھا۔۔چند لمحے یہاں وہاں کی باتین کرنے کے بعد آہل نے اپنے کال کرنے کا مقصد بتایا ۔۔۔۔۔
"وہ دراصل آنٹی ہالےنور اس وقت میرے ساتھ ہے میں اسے یونی سے پک کرنے آیا تھا ۔۔اگر آپ اجزت دیں تو۔۔۔کیا ہم لنچ پر جا سکتے ہیں۔۔ایکچویلی مجھے بہت بوکھ لگی ہے اور نور نے بھی یونی میں کچھ نہیں کھایا۔۔۔"
آہل کو ان سے اجازت لیتے ہوئے کافی عجیب لگا کہ وہ پتا نہیں کیا سوچیں گی۔۔جبکہ ہالے کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے کیونکہ اس نے آہل کو ٹالنے کے لیے یہ بہانا گھڑا تھا۔۔۔۔
"ارے بیٹا کوئی بات نہیں۔۔چلے جاو اور ہالے کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔ "
فاطمہ بیگم نے اسے اجازت سے دی تھی کیونکہ وہ ہالے کی طبعیت سے واقف تھی۔۔وہ بہت کم ہی باہر جاتی تھی اگر وہ آہل کے ساتھ لنچ پر جانے کے لیے تیار تھی تو یہ اچھی بات تھی۔۔۔۔
"جی ٹھیک ہے آنٹی۔۔اللہ حافظ۔۔۔"
آہل نے کال بند کی اور ہالے کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔
"مل گئی اجازت۔۔تم اپنا بتاو کہیں یہ نہ ہو وہاں پر منہ بنا کر بیٹھی رہو کہ میں تمہاری اجازت کی بغیر تمہیں لے آیا۔۔"
آہل نے کہا تو ہالے نے نفی میں سر ہالایا۔۔۔۔۔۔
"نہیں بناتی میں منہ چلیں آپ۔۔۔۔"
آہل نے اسکئ بات سن کر گاڑی سٹارٹ کی اور ریسٹورنٹ کے روٹ پر ڈال دی۔۔۔۔۔۔
زاہران اپنے کمرے میں آکر مسلسل چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔آئدہ کی باتیں اسکے دماغ میں گھوم رہیں تھیں۔۔زاہران نے بغیر سوچے سمجھے پتا نہیں کیا کیا آئدہ کو بول دیا تھا۔۔۔زاہران کو اب اپنی نیگٹو سوچ پر غصہ آرہا تھا آئدہ کی نم آنکھیں بار بار اسکو یاد آرہی تھیں۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھا اور اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا کافی دیر وہ آئدہ کے بارے میں سوچتا رہا اور جب کچھ سمجھ نہ آیا تو گھر سے ہی باہر نکل گیا۔۔
-------------❤❤--------------
مسلسل بجتے ہوئے فون نے آئدہ کی نیند میں خلل پیدا کیا۔۔اسنے بیزاری سے سائڈ ٹیبل پر پڑا فون اٹھا کر دیکھا تو وہاں ماما جگمگا رہا تھا۔۔فون بجتے بجتے بند ہوگیا تو اسنے دیکھا کہ فرہین بیگم اسے تین بار کال کر چکی تھی۔۔وہ اپنی آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھ بیٹھی وقت دیکھا تو ساڑے سات ہو رہے تھے اور وہ 5 بجے سوئی تھی۔۔۔وہ بیڈ سے اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی واپس اکر اسنے اپنا چہرہ خشک کیا اور بال سلجھانے کے بعد فرہیں بیگم کو کال کی۔۔آخر کار انکی باتیں سننی ہی تھی کب تک وہ انسے بات نہ کرتی۔۔پہلی بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی۔۔
"مر گئی ہو کیا آئدہ۔۔۔کوئی ہوش بھی ہے تمہیں۔۔کل سے کال کر رہی ہوں مگر مجال ہے جو ایک بار بھی تم نے میری کال اٹینڈ کی ہو۔۔"
انکی غصہ سے بھری ہوئی آواز آئدہ کے کانوں سے ٹکرائی جسکے لیے وہ پہلے سے ہی تیار تھی۔۔اسنے ایک گہرا سانس لیا۔۔
"کل جب آپ نے کال کی تب میں سو چکی تھی اور آج یونیورسٹی سے واپس آکر بھی کافی تھکی ہوئی تھی تو سوگئی تھی میں"
آئدہ نے انکو کال اٹینڈنی نہ کرنے کی وجہ بتائی۔۔
"ہر وقت سوتی مت رہا کرو۔۔۔کوئی کام بھی کرلیا کرو رخصتی بھی کرنی ہے تمہاری خود کو اڈجسٹ کرو وہاں ہادیہ کی مدد وغیرہ کیا کرو کام میں۔۔"
فرہیں بیگم کی بات پر آئدہ کو غصہ آیا۔۔
"امی کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔۔کام کروانے کی ویسے ہی عادت ہے مجھے پھپھو جان کو کام کرواتی رہتی ہوں میں اور آخر اتنی بھی کیا جلدی ہے رخصتی کی۔۔کون مرا جا رہا ہے میری رخصتی کے لیے۔۔"
آئدہ کو غصہ میں یہ بھی سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔۔
"بکواس بند کرو اپنی آئدہ دماغ خراب ہے تمہارا یہ کیا بولتی جا رہی ہو"
فرہیں بیگم تو سوچ کے رہ گئیں کہ وہ اتنی بدتمیز کب سے ہوگئی ہے۔۔اگر وہ انکے سامنے ہوتی تو ایک تھپڑ وہ اسے ضرور لگاتی۔۔آئدہ کو بھی احساس ہوا کہ کچھ زیادہ ہی بول گئی وہ۔۔
"تم مجھے یہ بتاو۔۔کل کس سے پوچھ کر تم زاہران کے ساتھ گھومتی پھر رہی تھی صرف نکاح ہوا ہے تم دونوں کا۔۔داجی بہت غصہ کر رہے ہیں اور اوپر سے مہارانی صاحبہ آپنا فون بھی گھر چھوڑ کر گئی ہے۔۔۔منع کیا تھا نہ میں نے تمہیں کہ زاہران کے ساتھ اکیلے کہیں مت جانا۔۔۔جانا ہو تو معصومہ حمزہ یا آہل وغیرہ کو بھی ساتھ لے کر جانا مگر مجال ہے جو تمہارے کان پر ایک جوں بھی رینگی ہو تم وہاں گھومتی پھر رہی ہو اور داجی یہاں میری بےعزتی کر رہے ہیں۔۔کتنی بار بولا کہ یہاں یہ سب معیوب سمجھا جاتا ہے اور تمہاری بہن جو گل کھلا کر گئ تھی اس کے بعد تو دا جی کی نظر میں تم ویسے بھی کھٹکتی ہو مگر تم نے تو۔۔۔اب تیار ہوجاؤ رخصتی کے لیے داجی کا حکم ہے یہ کہ رخصتی ہوگی اب اور تم۔۔۔۔۔۔"
فرہین بیگم غصے میں مسلسل بولتی جا رہی تھی اور آئدہ بھی اپنا غصہ ضبط کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر وہ بھئ کب تک برداشت کرتی اسی لیے اسنے فرہیں بیگم کی بات کاٹی۔۔
"امی خدا کا وسطہ ہے بس کریں۔۔تھک گئی ہوں میں ہر کسی کی باتیں سن سن کر۔۔غلطی میری ہو یا نہ ہو ہر کوئی بنا سوچے سمجھے مجھے کیوں الزام دیتا ہے پک گئے ہیں میرے کان یہ سب سن سن کر آپ تو میری ماں ہیں آپ نے بھی یہ نہیں سوچا کہ داجی کو غلط فہمی ہو سکتی ہے۔۔ایک بار مجھ سے پوری بات تو پوچھتی آپ سب لوگوں کو صرف باتیں سنانی آتی ہیں بنا سچائی جانے صرف دوسروں پر اپنا حکم چلانا آتا ہے۔۔ ہنہہ معیوب سمجھا جاتا ہے تو کر دیں رخصتی ابھی بھی اسی گھر میں ہوں کل نہیں تو پرسو بھی اسی گھر آنا ہے تو کیوں نہ آج ہی صحیح۔۔لے آئیں میرا سارا سامان اور چھوڑ جائیں یہاں کوئی دھوم دھام سے رخصتی کرنے کی ضرورت نہیں ہے جلدی کریں میری رخصتی تاکہ میں سکون سے زاہران کے ساتھ عیاشی کر سکوں۔۔۔"
آئدہ فرہین بیگم کی ساری باتیں سن کر مانوں پھٹ ہی پڑی۔۔اسنے اتنے برے لہجے میں اور اتنی بدتمیزی کے ساتھ کبھی بھی فرہیں بیگم سے بات نہیں کی تھی۔۔اسنے روتے ہوئے فون بند کیا اور زمین پر اچھال دیا
اسے تو لگ رہا تھا کہ اسکی زندگی میں سکون نام کا کوئی لفظ ہے ہی نہیں اور اگر وہ چاہتی تو فرہین بیگم کو ساری بات بتا سکتی تھی مگر وہ ہر کسی کو صفائیاں نہیں دینا چاہتی تھی اگر وہ ساری بات بتاتی تو شائد رخصتی نہ بھئ ہوتی۔۔مگر اب وہ بھی چاہتی تھی کہ رخصتی ہو اور وہ زاہران کو بتائے کہ کس طرح کی بیوی ثابت ہوئی ہے وہ۔۔
-------------❤❤--------------
وہ اسکے ہم قدم چلتی ہوئی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔۔آہل نے اسکے لیے چئیر کھینچی تو وہ تھینک یو بولتی ہوئی وہاں پر بیٹھ گئی۔۔اسمئ فل ہی دل مین شکر ادا کیا کہ ریسٹورنٹ مخں اکا دکا لوگ ہی تھے۔۔
"کیا کھاو گی۔۔"
آہل کی آواز پر اسنے سامنے دیکھا تو وہ اسے سوالیا نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
"جو آپ کھائیں گے۔۔می۔۔میرا مطلب کچھ بھی منگوا لیں۔۔"
ہالے نے جلد ہی اپنی بات کی تصیح کی تو آہل نے مسکراتے ہوئے سر ہالایا اور ویٹر کو بلا کر اپنی مرضی کا آراڈر لکھوایا۔۔
"کیسا رہا یونی میں دن"
آہل نے چند لمحوں بعد سوال کیا۔۔
"امم۔۔بس ٹھیک تھا لاسٹ کلاس میں مزہ نہیں آیا کیونکہ ماہ میرے ساتھ نہیں تھی اور آج ایک پریزینٹیشن بھی تھی جو بہت اچھی ہوئی۔۔"
ہالے نے مسکرا کر اسے بتایا تو وہ سر ہلانے لگا۔۔چند لمحوں بعد اسنے ہالے کو دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی تھی۔۔
"کیا سوچ رہی ہو میڈم۔۔۔"
آہل نےاسکے آگے چٹکی بجائی تو وہ ہوش میں آئی۔۔۔
"نن نہیں۔۔کچھ نہیں سوچا رہی تھی"
ہالے نے سر نفی میں ہلایا۔۔۔چند لمحے آہل اسکے پر نور چہرے کو اپنی نظروں میں اتارتا رہا اسے محسوس ہوا ہالے اسکی نظروں سے گھبرا رہی ہے تو آہل نے اس پر سے اپنی نظریں ہٹائی تب تک ویٹر بھی آراڈر کیا ہوا کھانا لے آیا تو ان دونوں نے باتوں کے درمیاں کھانا ختم کیا۔۔۔ہالے اسکے ساتھ کافی ایزی تھی ان دونوں کے درمیان ویسے بھی اچھی دوستی تھی۔۔
کھانا کھانے کے بعد آہل نے اسے گھر ڈراپ کیا اور اپنے گھر کی طرف چلا گیا آج وہ بہت خوش تھا یہ اسکے چہرے سے ہی معلوم ہو رہا تھا۔۔
فاطمہ بیگم نے بھی نوٹ کیا تھا کہ ہالے آج کافی نارمل تھی اور خوش بھی تھی اسکے دل نے گواہی دی تھی آہل کے ساتھ گزرا ہوا وہ تھوڑا سا وقت ہی صحیح مگر بہت اچھا گزرا تھا۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج فرحان ولا میں کافی چھل پہل تھی وجہ دریہ بیگم کا آنا تھا جو آج باقاعدہ فرہاد کا رشتہ ہالے کے لیے لے کر آ رہی تھی اس لیے فاطمہ بیگم ان کی خدمات میں کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی فاطمہ بیگم نے فرحان صاحب سے پوچھ کر ہی انہیں بلایا تھا فرحان صاحب نے اپنے طور پر کچھ معلومات لے لی تھی جس میں انھیں فرہاد میں بظاہر کوئی خامی نظر نہیں آئی تھی مگر وہ بظاہر ہی تھا اور فاطمہ بیگم نے انھیں اور سنان کو مزید فرہاد کے بارے میں معلومات لینے سے منع کر دیا تھا کیونکہ فاطمہ بیگم کا کہنا تھا کے فرہاد ان کی بچپن کی سہیلی کا بیٹا اور وہ خاندانی لوگ ہیں تو اس لیے۔۔۔۔فاطمہ بیگم پہلے سنان کے شادی کرنا چاہتی تھی مگر سنان نے انھیں منع کر دیا تھا اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا تھا کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرے گا اس لیے اس کے لیے فاطمہ بیگم رشتے دیکھنا چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔
"ہالے اور ماہ روش بیٹا تم دونوں تیار ہوئی یا نہیں دیکھو بیٹا دریہ آنے والی ہے اس لیے جلدی سے تیار ہو جاؤ میں سنان اور ارحم کو دیکھ لیتی ہوں۔۔۔۔"
فاطمہ بیگم بولتی ہوئی ہالے کے کمرے میں داخل ہوئی اور جب ان دونوں کو تیار ہوتے دیکھا تو جلدی کی ہدایت دے کر کمرے سے نکل گئ۔۔۔۔۔
وہ سنان کے کمرے میں داخل ہوئی تو ارحم بھی وہیں پر موجود تھا۔۔۔
"تم دونوں تیار ہوگئے ہو۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا۔۔سنان سوچوں میں گم تھا جبکہ ارحم فون یوز کر رہا تھا۔۔
"جب ماما ہم تیار ہوگئے ہیں۔۔۔"
ارحم نے ایک نظر انہیں دیکھ کر کہا۔۔
"سنان بیٹا۔۔۔کیا سوچ رہے ہو؟"
فاطمہ بیگم نے اسے سوچوں میں گم دیکھا تو پوچھا۔۔۔
"جی۔۔۔نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔کب تک آرہی ہیں دریہ آنٹی۔۔۔"
سنان سوچوں کو جھٹکتا ہوا بولا۔۔۔
"بس وہ کچھ دیر میں آنے والے ہیں ابھی بات ہوئی ہے میری دریہ سے۔۔۔"
فاطمہ بیگم کی بات سن کر سنان نے سر ہاں میں ہلایا تو فاطمہ بیگم اسکے کمرے سے نکل گئی۔۔
معصومہ اور آئدہ ناشتہ کرنے کے بعد کافی دیر ہادیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی رہیں آج ہفتہ تھا اور یونی میں کوئی کلاس نہ تھی تو وہ دونوں گھر پر تھی۔۔
جبکہ آہل،زاہران اور حمدان صاحب آفس گئے تھے اور حمزہ نے سر درد کا بہانہ بنا لیا تھا آج اسکی بھی یونی میں کلاس نہیں تھی اور آفس بھی نہیں گیا تھا۔۔۔
معصومہ اٹھ کر کمرے میں آگئی تاکہ تھوڑا پڑھ لے۔۔۔اسے کچھ دیر پی ہوئی تھی جب اسکا فون بجنے لگا سکرین پر سنان کا نام جگمگا رہا تھا اسنے کال اٹینڈ کی اور فون کان سے لگایا۔۔۔۔
"سلام۔۔۔"
کال اٹینڈ ہوتے ہی سنان بولا
"وعلیکم السلام۔۔۔"
معصومہ نے جواب دیا۔۔خاموشی چھا گئی
"کیا کر رہی ہو۔۔۔؟"
سنان نے چند لمحوں بعد سوال کیا۔۔
"میں۔۔۔پڑھ رہی تھی"
وہ اپنے سمانے پھیلی کے کتابوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
"ہمم۔۔۔کب اٹھی ہو"
سنان نے پھر سے سوال کیا جو معصومہ کو عجیب لگا۔۔
"دو گھنٹے ہوئے ہیں تقریبا۔۔۔کیوں کیا ہوا؟"
معصومہ نے جواب دیتے ساتھ سوال کیا
"نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔"
سنان کی بات سن کر معصومہ نے سر اثبات میں ہلایا۔۔پھر سے خاموشی چھا گئی
"امم۔۔۔اپنے کوئی بات کرنی تھی کیا؟"
معصومہ اپنے دماغ میں ابھرتا ہوا سوال زبان پر لائی۔۔۔
"کیوں۔۔۔ہم دوست نہیں ہیں کیا۔۔؟"
سنان نے اسکے سوال کا مقصد سمجھ کر کہا۔۔
"نن۔۔نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔کس نے کہا ہم دوسرے نہیں ہیں"
معصومہ نے جلدی سے بات کی وضاحت دی۔۔۔
"ہمم۔۔۔پھر دوست تو بات کرتے رہتے ہیں نہ اسی لیے میں نے سوچا اپنی دوست سے بات کر لوں۔۔۔"
سنان مسکراتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔
"اوہ۔۔۔تو کریں بات میں سن رہی۔۔"
معصومہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
"ارے یار۔۔۔سمجھ ہی تو نہیں آرہا کیا بات کروں۔۔۔"
سنان کی بڑبڑاہٹ سن کر معصومہ ہنس دی۔۔
"اچھا پھر ہم بعد میں بات کرتے تب تک۔۔آپ سوچ لیں کیا بات کرنی ہے اور میں بھی تھوڑا پڑھ لوں۔۔"
معصومہ نے کچھ سوچ کر کہا۔۔۔سنان خاموش ہوگیا وہ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا مگر کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔۔
"ہمم ٹھیک ہے ہم بعد میں بات کرتے میں ویسےبھی آفس میں ہوں۔۔۔اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ"
سنان نے جواب دیا
"ٹھیک ہے۔۔امم آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا آپ حافظ"
معصومہ نے مسکرا کر کہا اور کال کاٹ کر دوں کو دیکھنے لگی
"اسے کیا ہوگیا۔۔۔"
اسنے سنان کے بارے میں سوچتے ہوئے خود سے سوال کیا۔۔پھر سب خیالات جھٹک کر وہ پڑھائی کرنے لگی۔۔
-------------❤❤--------------
دریہ بیگم تھوڑی دیر میں آگئ تھی ان کے ساتھ ان کی بڑی بہو اور فرہاد آئے تھے تھوڑی دیر وہ سب لاونج میں بیٹھے باتیں کرتے رہی سنان نے بھی فرہاد سے بات کی تھی اسے فرہاد کچھ عجیب سا لگا تھا مگر وہ یہ سوچ کر مطمئن تھا کے فرحان صاحب نے اس کے بارے میں چھان بین کروائی تھی اس لیے وہ مطمئن تھا حمدان صاحب فرہاد سے بہت خوشی سے ملے تھے۔۔۔ کچھ دیر میں ہالے اور ماہ روش بھی آگئ تھی۔۔۔ فرہاد نے جب نظر اٹھا کر ہالے کو دیکھا تو اس کے چہرے کی سادگی اور معصومیت دیکھ کر ٹھٹک گیا اور وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹانے میں ناکامیاب ہوا مگر پھر اس نے اپنے دل کو ڈپٹ کر اس کے چہرے سے نظریں ہٹائی۔۔۔۔۔۔ ہالے تو دریہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گئ تھی جبکہ ماہ روش فاطمہ بیگم اور حمدان صاحب کے ساتھ بیٹھ گئ اور وہ فرہاد کو کڑے تیوروں سے گھورنے لگی کیونکہ وہ بار بار ہالے کو دیکھ رہا تھا جس کی وجہ سے ہالے گھبرا رہی تھی ماہ روش کو بھی فرہاد کچھ عجیب لگا تھا۔۔۔۔۔۔ہالے کو کب سے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھی اور اس تپش سے اس کی ہتھیلی پسینے میں بھیگ رہی تھی اور اسے اچھی طرح پتا تھا کے کون اس کو گھور رہا ہے۔۔۔۔۔۔
نوری نے لاونج میں آکر کھانے کی اطلاع دی تو ہالے نے تشکر نظروں سے نوری کو دیکھا سب لوگ کھانے کی میز کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔ہالے تو کمرے میں جانے کے پر تولنے لگی پھر ماہ روش اس کو بازو سے پکڑ کر کھانے کی میز پرلے گئ۔۔۔
"ماہ۔۔۔۔مجھے نہیں جانا کھانا میں کمرے میں کھالوں گی۔۔۔۔پلیز جانے دو۔۔۔۔"
ہالے نے ہلکی آواز میں ماہ روش کے کان میں کہا۔۔۔۔
جس پر ماہ روش نے اسے زبردست گھوری سے نوازہ۔۔۔
"ہالے بلکل چپ ہو جاؤ۔۔۔خالی جانی اور انکل سے دونوں کو ڈانٹ پڑے گی اگر تم کمرے میں چلی گئی تو اور دریہ آنٹی کیا سوچیں گی۔۔۔"
ماہ روش نے اسکے کام میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا اور اسے کھانے کی میز پر لے گئی۔۔
کھاناخوشگور ماحول میں کھایا گیا مگر ہالے جانتی تھی کہ اسنے کتنی مشکلوں سے کھانا کھایا تھا کیونکہ وہ اس شخص کی نظروں سے بہت گھبرا رہی تھی جو مسلسل اسکو گھور رہا تھا۔۔اسنے اللہ اللہ کرکہ کھانا کھایا اور وہ سب واپس ہال میں آگئے۔۔
" بھائی صاحب اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنی بیٹی کو انگھوٹی پہنا دوں۔۔۔؟"
دریہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے فرحان صاحب کو دیکھا تو فرحان صاحب نے اثبات میں سر ہلایا تو دریہ بیگم نے ہالے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور قیمتی انگھوٹی اس کی انگلی میں ڈال دی۔۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے سب ک منہ میٹھا کیا۔۔۔جبکہ فرہاد کی آنکھوں سے ہی اسکی بےحد خوشی کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔
ہالے اور ماہ دونوں اپنےکمرے میں چلی گئی فرہاد کی نظروں نے دور تک ہالے کا پیچھا کیا اور یہ منظر سنان نے بخوبی دیکھا تھا۔۔۔اسکو فرہاد کچھ خاص اچھا نہ لگا تھا مگر وہ مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا جب ہالے ہی رضامند تھی۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ دونوں کلاس لے کر اپنے ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکل آئی ہالے اور ماہ کے ساتھ انکی ایک دوست بھی تھی۔۔۔اگلی کلاس میں ٹائم تھا تو انہوں نے گراؤنڈ کا رخ کیا ماہ کو دور سے ہی حمزہ نظر آگیا جس کی نظریں ماہ پر ہی تھیں۔۔۔
"یار۔۔مجھے بھوک لگی ہے کیفٹرایا چلتے ہیں۔۔"
ہالے نے چلتے چلتے کہا تو وہ تینوں رک گئی۔۔
"نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔۔تم دونوں جاؤ میں حمزہ کے ساتھ بیٹھی ہوں آجانا وہاں۔۔۔"
ماہ نے بینچ پر بیٹھے حمزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جسکی نظریں ابھی بھی ماہ ہر ہی تھیں۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔آؤ صدف ہم کیفٹرایا چلیں۔۔"
ہالے نے کہا اور کیفٹرایا کی طرف بڑھی تو صدف بھی اسکے پیچھے چلی گئی۔۔۔
ماہ حمزہ کے پاس آگئی۔۔۔
"کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔؟"
ماہ روش حمزہ کے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
"دیکھ رہا تھا یہ کونسی گندی چھپکلی میری طرف آرہی ہے۔۔۔"
حمزہ گندی سی شکل بناتا ہوا بولا۔۔۔
"بکو مت۔۔۔۔۔بدتمیز"
ماہ نے ہاتھ میں پکڑا فائل پوری کوت سے اسکے سر پر ماری۔۔۔
"تم۔۔۔تم نے مجھے مارا"
حمزہ نے اپنے سر پر پڑنے والی فائل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اگلے ہی پل اسنے وہی فائل اٹھا کر ماہ کے شولڈر پر زور سے ماری۔۔۔
"حمزہ کے بچے۔۔۔۔۔"
ماہ اپنا شولڈر مسلتے ہوئے حمزہ کے گھور کر بولی۔۔۔
"توبہ کرو لڑکی۔۔۔ہمارے بچے کہاں سے آئے استغفراللہ "
حمزہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔۔۔
"ہمارے۔۔۔۔؟؟"
ماہ نے اسکی بات پر فور کیا تو آئیبرو اچکا کر حمزہ کو دیکھنے لگی۔۔۔
"مم۔۔میرا مطلب کہ میرے اور میری نامعلوم بیوی کے بچے۔۔۔۔پتا نہیں اس دنیا میں میری بیگم ٹو بی ہے بھی کہ نہیں"
حمزہ نے اپنی بات کی وضاحت دی اور آخر میں بڑبڑاہٹ کی تو ماہ ہنس دی۔۔۔
"پہلے پڑھائی تو مکمل کرو نکمے۔۔۔شادی کی جلدی پڑ گئی ہے تمہیں۔۔۔"
ماہ اپنا فون یوز کرتے ہوئے مسکرا کر بولی۔۔۔
"آخری سمیسڑ ہی تو ہے اور آفس تو ویسے بھی جاتا ہوں۔۔تم اپنا بتاو"
حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
"ہیں۔۔۔کیا مطلب میں کیا بتاؤں۔۔۔"
ماہ نے حمزہ کی طرف سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔"
حمزہ نے کہا اور یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔۔
"اوہو۔۔۔بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے تمہیں اور بولنا کیا چاہ رہے ہو ۔۔"
ماہ نے اسکو شولڈر سے پکڑ کر رخ اپنی طرف کیا۔۔۔حمزہ نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب ایک لڑکا انکے پاس آیا۔۔۔
"کیسی ہو ماہ۔۔۔"
اس لڑکے نے ماہ سے سوال کیا تو اسنے پلٹ کر اس لڑکے کو دیکھا۔۔وہ اسکا کلاس فیلو تھا۔۔۔
"ٹھیک ہوں تم کیسے ہو۔۔۔"
ماہ نے سوال کیا۔۔
"میں بھی ٹھیک۔۔۔"
وہ لڑکا بولتا ہوا ماہ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔۔۔
مزہ نے اس کو پھاڑ کھانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔
"سر عمر والی اسائمینٹ بنائی ہے۔۔۔؟"
اس لڑکے نے ماہ سے سوال کیا۔۔
"ہاں۔۔۔"
"دکھاؤ۔۔۔میری رہتی ہے سمجھ نہیں آرہا مجھے"
اسے لڑکے نے ماہ کی بات سن کر کہا۔۔۔
"ایک منٹ۔۔۔"
ماہ نے کہا اور اپنے بیگ سے ایک فائل نکال کر اسکو پکڑائی وہ دونوں اسائمینٹ سے ریلیٹڈ باتیں کرنے لگے۔۔۔۔حمزہ کا دل کر رہا تھا اس لڑکے کا منہ توڑ دے۔۔۔حمزہ وہاں سے اٹھ گیا ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا تو ماہ بھی اٹھی۔۔۔
"کہاں جا رہے ہو۔۔۔"
ماہ کی آواز پر اسنے پلٹ کر ماہ کو گھورا وہ اسکے قریب آیا
"مرنے۔۔۔۔"
حمزہ نے شدید غصے سے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔
ماہ منہ کھولے اسکی پشت دیکھ کر رہ گئی۔۔۔
-------------❤❤--------------
دو لینڈ کروزر پوری شان و شوکت سے خان حویلی کے گیٹ سے داخل ہوتی پورچ میں آکر رکی۔۔۔
زاہران ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اپنی پور وجاہت لیے باہر نکلا اور زاہران نے گاڑی کا بیک ڈور کھولا اور معصومہ اور عائدہ کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔۔۔وہ دونوں اپنے ہینڈ بیگ اٹھاتی باہر نکلی زاہران نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور حمزہ کو دیکھنے لگا جو خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا تین گھنٹے کے سفر میں بھی وہ سوتا ہوا آیا تھا۔۔زاہران بے اختیار مسکرا دیا۔۔۔
آئدہ کی نظر زاہران پر گئی تو ایک لمحے کے لیے وہیں پر رک گئی معصومہ کی آواز پر وہ خود کو سنبھالتی ہوئی نروس سی اندر کی طرف بڑھی کہ ناجنے اب داجی انکو کونسا فیصلہ سنائیں گے۔۔۔
دوسری گاڑی کی سیٹ حمدان صاحب نے سمبھال رکھی تھی انکے ساتھ آہل اور ہادیہ بیگم اس گاڑی میں بیٹھے تھے۔۔
زاہران نے حمزہ کا کان پکڑ کر پوری قوت سے کھینجا جس سے حمزہ ہڑبڑا کر اٹھا۔۔
"آآآآہ۔۔۔۔"
حمزہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی۔۔۔
"زاہران۔۔۔کیا بچوں والے کام کر رہے ہو۔۔۔"
حمدان صاحب نے زاہران کی طرف دیکھا۔۔۔
"اففف۔۔۔۔جنگلی ہو پورے کے پورے ایسے کون اٹھاتا ہے۔۔"
حمزہ گاڑی سے باہر نکال اور اپنا کان مسلتا ہوا بولا۔۔۔
میں اٹھاتا ہوں ایسے اب چل اندر۔۔۔۔۔"
زاہران نے کہا تو حمزہ نےاسکے شولڈر پر مکہ مارا اور اندر بھاگ گیا زاہران نے سر نفی میں ہلایا۔۔۔کچھ بھی ہو جائے حمزہ کا بچپنا نہیں ختم ہو گا۔۔۔(بچوں والی حرکت تو خیر زاہران نے بھی کی تھی)
سب اندر کی طرف بڑھ گئ اندر جا کر سب سے ملے پھر اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے۔۔۔۔۔۔شام کو چائے کے وقت سب لان میں جمع ہوئے۔۔۔۔
آئدہ اور معصومہ چائے اور کچھ سنیکس لے کر باہر آئیں اور سب کو چائے سرو کر کے وہ بھی اپنی چائے لے کر کرسی پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔
"ہادیہ اور حمدان تم لوگوں کو پتا ہے آج میں نے تم دونوں کو حویلی کیوں بلایا ہے۔۔؟"
چائے پینے کے بعد داجی اپنی گرجدار آواز میں بولے تو سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔
"نہیں دا جی ہمیں نہیں معلوم یقینا کوئی بڑی بات ہوئی ہو گئ تب ہی اپنے بلایا ہے۔۔۔۔"
ہادیہ بیگم بولی تو حمدان صاحب نے بھی اپنا سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔۔
"میں چاہتا ہوں کے اب آئدہ اور زاہران کی رخصتی ہوجانی چاہیے۔۔۔۔۔ویسے بھی وہ دونوں ساتھ ہی ایک گھر میں رہتے ہیں اور مجھے یہ بات ناگوار گزری ہے کل کو لوگوں کو معلوم ہوگا تو وہ بھی سو باتیں بنائیں گے اس لیے میں چاہتا ہوں کے اگلے مہینے ان کی رخصتی کر دیں۔۔۔۔اگر میری بات سے کسی کو اعتراض ہیں تو بولے۔۔۔۔۔"
دا جی نے بول کر سب کی طرف دیکھا تو سب ان کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور سب نے سر نفی میں ہلایا کہ ان کو کوئی اعتراض نہیں اور کسی کی ایسی جرت جو داجی کی بات سے اعتراض کریں۔۔۔۔جبکہ آئدہ خاموشی سے انہیں سنتی رہی۔۔
اور زاہران۔۔۔۔وہ تو خوش ہوگیا تھا کے اس نے تو ابھی داجی سے بات بھی نہیں کی تھی اور ان کی رخصتی ہو رہی ہے۔۔۔اسکی تو دلی خواہش پوری ہو گئی تھی۔۔۔۔اس نے آئدہ کی طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا تو آئدہ آنکھیں گھما کر رہ گئ کیونکہ اس کو پتا تھا ایسا ہی ہونا ہے۔۔۔۔وہ ان سب کے لیے خود کو تیار کر کے آئی تھی اس لیے اس کو کوئی جھٹکا نہیں لگا تھا جبکہ معصومہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کے آئدہ اتنی ٹھنڈی کیسے ہے۔۔۔۔۔
"زاہران۔۔۔تمہیں کوئی مسلہ تو نہیں۔۔۔؟"
زاہران انکا لاڈلا تھا اسکی رضامندی ضروری تھی۔۔۔۔
"نہیں داجی۔۔آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔۔۔"
زاہران نے مسکراہٹ روک کر سنجیدگی سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر فیصلہ ہو گیا ٹھیک ایک مہینے بعد آئدہ اور زاہران کی رخصتی ہوگی۔۔۔۔۔ فرحین،ہادیہ،ثانیہ شادی کی تیاریاں شروع کردوں اور شادی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔۔"
داجی نے تینوں عورتوں کو گرج دار آواز میں مخاطب کیا تو انہوں نے سر اثبات میں ہلایا۔۔
"اور ایک اور فیصلہ کیا ہے میں نے میں تھوڑا اور سوچ لوں پھر اسکے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔۔۔"
داجی نے یہ بات معصومہ کو دیکھتے ہوئے کی تھی معصومہ نے تھوک نگلی(مجھے کیوں ایسے دیکھ رہے)اسنے دل میں سوچا۔۔۔
داجی بول کر اندر کی طرف بڑھ گئے تو پیچھے سب بھی اندر آگئے معصومہ اور آئدہ برتن لے کر کچن میں آگئ۔۔۔۔۔آئدہ نے تو اندر آکر سکون کا سنان لیا کیونکہ ذاہران جن مسکراتی اور چمکتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ گھبرا رہی تھی۔۔۔
-------------❤❤--------------
رات کے بارہ بج رہے تھے آئدہ کروٹیں بدل بدل کر تھک گئی تھی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی تنگ آکر وہ بیڈ سے اٹھی اور ٹیرس میں چلی گئی کالے آسمان پر پورے آب و تاب سے چمکتے چاند کو دیکھتے اسے خود بھی پتا نہ چلا وہ اپنی اپنے والی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
زاہران اسکو کبھی برا نہ لگا تھا وہ شورع سے ہی اسے پسند تھا مگر اچانک ہی زاہران کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ کر وہ بہت ہرٹ ہوئی تھی۔۔۔زاہران کو لہجہ،اسکی باتیں،اسکا رویہ برداشت کرنا اسکے لیے بہت مشکل تھا وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس سے بدگمان ہوگئی۔۔۔
وہ بہت جلد لوگوں کو معاف کرنے والوں میں سے تھی وہ جانتی تھی کہ زاہران اس سے کچھ دن اگر اچھے سے بات کر لے گا تو اسکے دل میں پھر سے اپنی جگہ بنا لے گا اور وہ دونوں ہسی خوشی زندگی گزار سکتے تھے مگر وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ کس طرح کی بیوی ہے اور جب کوئی آپ کے ساتھ برا رویہ رکھتا ہے تو کتنا دل دکھتا ہے اور اس شخص کی وجہ سے وہ لتنا روئ ہے۔۔۔وہ تو تھی بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بات بات پر رونے والی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جسکا دل دکھ جاتا تھا۔۔۔وہ چاہے زاہران یا دوسروں کے سامنے خود کو کتنا ہی مضبوط ظاہر کیوں نہ کرلتی مگر اسکا دل بہت روتا تھا وہ رات کو نم آنکھیں لیے سوتی تھی یہ بات صرف وہ اور اسکا رب جانتا تھا کہ اسکا دل کتنا اداس ہے۔۔۔۔
"یا اللہ۔۔۔زاہران کے دل میں میرے لیے پیار پیدا کر مجھے اس اذیت سے نکال۔۔۔تو تو دلوں کے حال جانتا ہے یا اللہ میرے لیے آسانیاں پیدا کر میری آنے والی زندگی میں خوشیاں لکھ دے"
آئدہ نے اپنی آنکھیں بند کی اور بڑبڑاتے ہوئے اپنے رب سے دعا مانگنے لگی۔۔بند آنکھوں سے آنسو نکل کر رخسار پر بہنے لگے۔۔۔چند لمحے وہ ویسے ہی آنکھیں بند کیے آنسو بہاتی رہی اپنے رخسار پر کسی کا لمس محسوس کرتے اسنے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔وہ ناجانے کب سے اسکے قریب کھڑا تھا اور آئدہ کو اسکی موجودگی کا احساس ہی نہ تھا۔۔۔۔
ہلکے اندھیرے میں اسکے چہرے پر روشنی پڑ رہی تھی سرخ ناک بھیگے رخسار دیکھتے زاہران کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔زاہران نے اسکا چہرا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور آنسو صاف کیے آئدہ خاموشی سے اسکو دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں آج اسے کچھ الگ نظر آیا تھا جو آسکو پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔۔۔
"کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔۔؟"
زاہران نے ہلکی آواز میں اسکی نم آنکھوں میں دیکھتے سوال کیا تھا۔۔آئدہ کو اسکی آواز میں ایک قرب محسوس ہوا۔۔۔
"دل کر رہا تھا۔۔۔؟"آئدہ ہلکی آواز میں بولی۔۔۔
"پاگل تو نہیں ہوگئی ہو۔۔۔"زاہران نے اسکو گھورا۔۔۔
"ہوگئی ہوں پاگل آپ کو نہیں پتا۔۔۔؟"
آئدہ نے بغیر کسی تاثر کے کہا۔۔۔
"آئدہ۔۔۔۔بیوی ہو تم میری میں تمہیں ہرگز اجازت نہیں دونگا کہ یوں رات کی پہر آنسو بہاو۔۔۔"
زاہران نے سنجیدگی سے کہا آئدہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی زخمی مسکراہٹ۔۔
"کہہ کیوں نہیں دیتے کہ سانس بھی میری اجازت سے لیا کرو۔۔۔"
آئدہ کے لہجے میں غصے کی رمق شامل تھی۔۔۔
"میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔(اب کیسے بتاؤں کہ تمہیں یوں روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا)"
زاہران نے اسکے چہرے سے اپنے ہاتھ ہٹانے ہوئے نرمی سے کہا اور آخری بات دل میں ہی سوچ سکا۔
"کیوں آئے ہیں میرے کمرے میں۔۔کوئی دیکھ لے گا تو کتنا تماشہ ہوگا کوئی اندازہ ہے آپ کو"
آئدہ واپس کمرے میں آتے ہوئے بولی تو زاہران بھی اسکے پیچھے چلا آیا۔۔۔۔
"کوئی نہیں دیکھے گا اور اگر دیکھ بھی لے تو کیا۔۔۔جو رخستی ایک ماہ بعد ہونی ہے وہ دو،تین دن بعد ہو جائے گی اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔۔"
زاہران مسکراتا ہوا بولا اور اسکے بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔
"ہاں۔۔آپ کی تو دلی خواہش پوری ہو جائے گی آپ کا بس چلے تو آج ہی رخصتی کروا دیں"
آئدہ غصے میں دانت پیس کر بولی۔۔۔
"قسمے۔۔۔ویسے دیکھ لو دل میں رہتی ہو تبھی دل کی ہر بات جانتی ہو۔۔۔"
وہ چلتا ہوا اسلے قریب آیا۔۔۔۔زاہران کی آنکھوں میں شرارت تھی اور ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ۔۔وہ ایک لمحے کے لیے اسکی آنکھوں میں کھو سی گئی۔۔۔
"ایسے مت دیکھو۔۔۔پیار ہو جائے گا میری جان۔۔"
زاہران نے سیک آنکھ دبا کر کہا۔۔۔آئدہ نے اپنے دل کو ڈپٹا۔۔
"ہنہہ۔۔پیار وہ بھی آپ سے کبھی نہیں ہوگا"
آئدہ نے آنکھیں گھمائی جبکہ دل نے اسکی بات کی نفی کی۔۔۔
"زاہران پلیز جائیں یہاں سے مجھے بہت نیند آرہی ہے اور سر بھی درد کر رہا"
آئدہ بولتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
"اور اگر بہ جاؤں تو۔۔۔؟"
زاہران بھی اسکے ساتھ بیٹھا۔۔۔
"افف۔۔۔پلیز تنگ مت کریں جائیں یہاں سے"
آئدہ نے التجائی انداز میں کہا
"اچھا ٹھیک ہے جا رہا ہوں۔۔۔۔"
زاہران نے کہا اور جانے لگا مگر پھر مڑا اور جھک کر اسکے ماتھے پر لب رکھے آئدہ نے بےاختیار اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔زاہران پیچھے ہوا اسکی بند آنکھیں دیکھتے وہ مسکرایا تھا اور اسکا نرم رخسار کھینچتا باہر نکل گیا۔۔۔آئدہ نے اپنی آنکھیں کھولی دل میں ایک سکون سا اترا تھا۔۔۔کافی دیر وہ ویسے ہی بیٹھی رہئ۔۔۔وہ بیڈ پر لیٹی اور آنکھیں بند کر لی ماتھے پر اسکا دھمکتا لمس ابھی بھی محسوس ہو رہا تھا ہونٹوں کو ہلکی سی مسکراہٹ نے چھوا تھا جسکا احساس آئدہ کو بھی نہ ہوا۔۔۔جلدی ہی اس پر نیند کی دیوی مہربان ہوئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دنوں بعد فاطمہ بیگم کو دریہ بیگم کی کال آئی تھی شادی کی تاریخ کے لیے وہ جلد سے جلد تقریبا ڈیڑھ ماہ کی اندر شادی کرنا چاہتی فاطمہ بیگم نے انہیں کہا کے وہ فرحان صاحب سے بات کر کے جواب دیں گی۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے جب فرحان صاحب سے بات کی تو انھیں کوئی اعتراض نہ ہوا اس طرح ہالے کی شادی بھی ڈیڑھ ماہ بعد طے پائی۔۔۔۔۔۔ہالے کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ ہالے کو اس شادی سے کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا نہ ہی وہ خوش تھی نہ اداس تھی اس کی فیلنگز ہی شاید مر گئ تھی۔۔۔۔۔۔
آئدہ نے ہالے اور ماہ روش کو اپنی شادی کا بتایا تھا وہ دونوں بھی بہت خوش تھی۔۔۔۔۔
سنان نے بھی اپنی خواہش کا ذکر فاطمہ بیگم سے کیا تھا جس پر انہوں نے اس سے کچھ وقت مانگا تھا کہ وہ سوچ پر ہی کوئی فیصلہ کریں گی۔۔
-------------❤❤--------------
ثانیہ بیگم نے داجی کے کمرے کا دروازہ نوک کرکہ کھولا اور داجی کو پکارا۔۔۔
"داجی۔۔۔۔آپ نے مجھے بلایا۔۔۔"
ثانیہ بیگم بولتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔۔۔
"ہاں بہو۔۔۔بیٹھو یہاں اور سہیل کو آنے دو۔۔"
داجی نے ثانیہ بیگم کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سہیل صاحب کا انتظار کرنے لگے۔۔چند لمحوں بعد وہ کمرے میں داخل ہوئے اور ثانیہ بیگم کے ساتھ جاکر صوفے پر بیٹھ گئے۔۔۔
"میں نے تم دونوں سے ایک بات کرنی ہے۔۔"
داجی ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔
"جی داجی۔۔سب ٹھیک ہے نہ۔۔"
سہیل صاحب نے ان سے پوچھا تو وہ سر ہلانے گے۔۔
"ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔میں کچھ سوچ رہا تھا تو سوچا تم دونوں سے ذکر کر لوں پھر ہی کوئی فیصلہ کروں۔۔۔"
داجی نے کہا تو سہیل صاحب اور ثانیہ بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔
"جی داجی آپ حکم کریں کیا ہوا۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے چند لمحوں بعد کہا۔۔۔
" اب ہمارے بچے ماشاءاللہ بڑے ہوگئے ہیں کچھ وقت بعد آئدہ
اور زاہران کی بھی رخصتی ہے۔۔۔"
داجی اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے بولے۔۔۔
"معصومہ بھی اب بڑی ہوگئی ہے اب اسکے بارے میں بھی کچھ سوچو۔۔لڑکیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اتنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔بہو دیکھو اسکے لیے کوئی رشتہ تاکہ آئدہ کی رخصتی پر اسکا نکاح کر دیں۔۔"
داجی کی بات سن کر سہیل صاحب اور ثانیہ بیگم چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگئے۔۔۔
"مگر داجی۔۔۔اتنے کم عرصے میں کیسے کوئی اتنا اچھا رشتہ ملے گا اور اگر مل بھی جائے تو وہ نکاح کہ لیے مانیں یا نہ مانیں۔۔سب کیسے ہوگا"
سہیل صاحب کچھ سوچ کر بولے۔۔۔
"تم فکر مت کرو۔۔۔اچھا رشتہ بھی مل جائے گا اور نکاح بھی ہوجائے گا۔۔۔تم دونوں کو تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"
داجی نے انکی طرف سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔
"نہیں داجی۔۔ہمیں کیا اعتراض ہوگا۔۔۔"
وہ مسکرا کر بولے۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔آج رات کھانے کی میز پر سب کو میں بتا دوں گا۔۔بہو تم جاکر معصومہ سے بات کرو اور رشتہ ڈھونڈو۔۔۔"
داجی نے کہا تو وہ دونوں سر ہلاتے کمرے سے باہر آگئے۔۔
-------------❤❤--------------
زاہران اپنے بیڈ پر لیٹا مختلف سوچوں میں گم تھا۔۔۔
وہ چہرا جو اسے بہت برا لگتا تھا وہ کب اسے اتنا اچھا لگنے لگا تھا اور اتنا عزیز ہوگیا تھا اسے خود بھی پتا نہ تھا۔۔وہ اسکی سوچوں سے جتنا نکلنے کی کوشش کرتا وہ اتنا ہی اسکے سر پر سوار ہوتی۔۔۔
وہ اسکے بارے میں سوچتا تھا یا اسے دیکھتا تھا تو اسے بہت سکون ملتا تھا اسکا دل کرتا تھا کہ بس اسکو دیکھتا رہے وہ اسکے سامنے ہوتی تھی تو وہ چاہ کر بھی اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا۔۔
زاہران نے سوچتے ہوئے آنکھیں بند کی تو اسکا خوبصورت چہرا نظر آیا تھا۔۔
"کیا ہوگیا ہے مجھے۔۔۔میں کیوں اسکے لیے پاگل ہوتا جا رہا ہوں اسکے نام پر میرا دل کیوں ڈھڑکنے لگا ہے۔۔۔"
زاہران دل ہی دل میں خود سے سوال کر رہا تھا مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔۔
"کہیں مجھے محبت۔۔۔"
زاہران نے بڑبڑاہٹ کی۔۔۔اگلے ہی پل وہ چھلانگ مار کر اٹھ بیٹھا۔۔۔
"ہاں۔۔۔مجھے محبت ہوگئی ہے اس سے۔۔۔"
زاہران نے چہکتے ہوئے بڑبڑاہٹ کی اور مسکرا دیا۔۔۔۔
وہ بیڈ سے اٹھا اور وضو کرکہ نفل ادا کرنے لگا۔۔رب نے اسکے دل میں اسکی منکوحہ کے لیے محبت ڈال دی تھی وہ کیسے اس رب کا شکر ادا کرنا بھول سکتا تھا۔۔۔
-------------❤❤--------------
جب ہالے کا رشتہ اور شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی ان دونوں آہل آفس کی میٹنگ کے لیے باہر گیا ہوا تھا اور جب واپس آیا تو ہالے کی شادی کی خبر اسے ملی جسے سن کر وہ اندر ہی اندر ٹوٹ گیا تھا اور اب تو وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اب تو ہالے کی شادی میں کچھ ٹائم ہی باقی تھا بس وہ اب اپنی پہلی محبت کو اللہ پر چھوڑ رہا تھا ہالے کی شادی کی خبر سن کر اسکی آنکھوں میں جو ویرانی اور اداسی آئی تھی وہ سنان نے ناخوبی دیکھی تھی مگر نہ ہی وہ اسے کچھ کہہ سکا اور نہ ہی کر سکا۔۔۔
-------------❤❤--------------
"سنان۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے سنان کے کمرے میں داخل ہوتے اسے پکارا جو بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔۔سنان نے سکرین سے نظریں ہٹائی اور انہیں دیکھا۔۔
"ماما آپ۔۔۔مجھے بلا لیا ہوتا آپ کیعں آگئی۔۔۔"
سنان نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔۔
"بس تم سے ایک چھوٹا سا کام تھا تو آگئی۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے کہا اور اس کے پاس بیٹھ گئیں۔۔
"جی بولیں۔۔کیا ہوا"
سنان نے سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔۔
"مجھے معصومہ کی امی کا نمبر چاہیے۔۔۔تم مجھے دے دو تاکہ میں انسے بات کر لوں اور ہالے کی شادی سے پہلے تمہارا رشتہ تہ کردوں۔۔۔"
فاطمہ بیگم مسکرا کر بولی سنان کہ ہونٹوں پر بھی گہری مسکراہٹ آگئی۔۔۔
"ہائے۔۔۔۔آپ سچ میں میرا رشتہ لے کر جائیں گی ان کے گھر۔۔۔"
سنان نے سوال کیا۔۔۔
"ہاں۔۔ویسے تو تمہاری شادی اپنی پسند کی لڑکی سے کرنے کا سوچا تھا پر معصومہ بھی اچھی لڑکی ہے۔۔۔"
انکے لہجے میں تھوڑی شرارت تھی سنان مسکرا دیا اور فاطمہ بیگم کو گلے لگا لیا۔۔
"اچھا مجھے چھوڑو اب اور معصومہ کی ماما کا نمبر دو۔۔۔"
فاطمہ بیگم کی بات سن کر سنان کچھ سوچنے لگا۔۔۔
"میرے پاس تو آنٹی کا نمبر نہیں ہے۔۔۔"
اسکی بات پر فاطمہ بیگم نے اسکو سنجیدگی سے گھورا۔۔
"اب آپ ایسے نہ دیکھیں نہ۔۔۔میں آئدہ سے لے لوں گا اس سے بات کروں گا۔۔۔۔"
سنان کی بات سن کر فاطمہ بیگم نے سر اثبات میں ہلایا۔۔
"ٹھیک ہے پھر جلدی لے کر دے دینا مجھے نمبر انکا تاکہ میں وقت پر بات کر لوں"
فاطمہ بیگم بولتے ہوئے اٹھی اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیتی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔سنان مسکرا دیا
-------------❤❤--------------
آئدہ کی رخصتی مین 3 ہفتے باقی تھے۔۔۔زاہران کے لیے تو وقت کچھوے کی رفتار سے گزر رہا تھا اور آئدہ کے لیے پنکھ مار کر۔۔۔
آج حویلی میں معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔۔ معصومہ کو دیکھنے کے لیے سنان کی امی نے آنا تھا اس باگ سے سب واقف تھے سوائے معصومہ کے۔۔اسکو صرف یہی پتا تھا کہ اسکو دیکھنے کوئی آرہا مگر سنان کا اسے نہیں معلوم تھا۔۔
سنان نے آئدہ سے اپنی پسند کا اظہار کیا تھا اور آئدہ نے ثانیہ بیگم کا نمبر لے کر فاطمہ بیگم کو دیا اور فاطمہ بیگم نے ثانیہ بیگم اور داجی سے بات کرکہ معاملات تہ کر لیے تھے۔۔انکا تو دل کر رہا تھا کہ آج ہی معصومہ کو انگوٹھی پہنا دیں مگر آج وہ صرف رشتہ تہ کرنے آرہی تھی۔۔داجی نے حمزہ،آہل اور زاہران سے سنان کے بارے میں کافی معلومات لی تھی اور وہ خود بھی اس سے کئی بار مل چکے تھے تو انکو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔۔۔آہل،زاہران اور حمزہ تینوں سنان کی نہ ہی کالز پک کر رہے تھے اور نہ ہی اسکے مسجز کا جواب دے رہے تھے۔۔۔اسکے چھپے رستم نکلنے پر ناراضگی کا اظہار بھی تو کرنا تھا۔۔۔۔دوسری طرف سنان کو ٹینڈن تھی کہ وہ تینوں اسکے ساتھ پتا نہیں کیا کریں گے۔۔۔
"معصومہ۔۔تیار ہوگئی تم وہ آنے والی ہونگی۔۔۔"
آئدہ معصومہ کو بولتی ہوئی کمرے مین داخل ہوئی تو وہ شیشے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔۔
"معصومہ کی بچی۔۔کپڑے بھی نہیں پہنے ابھی تک تم نے اور اس معصوم سی شکل پر بھی کچھ تھوپنا ہے۔۔۔"
آئدہ معصومہ کے ماتھے پر تھپڑ مارتی ہوئی بولی۔۔۔
"کیا ہوگیا ہے۔۔۔کپڑے چینج کر کہ تو آئی ہوں اور لپسٹک لگائی تو ہے۔۔"
اسکی بات پر آئدہ نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر شیشے کے سامنے پڑے سٹول پر بٹھایا۔۔
"لپسٹک لگانے سے کچھ نہین ہوگا تھوڑا سا اور میک اپ کرو گی تو تمہارے فیچرز اور کھل جائیں۔۔ایسے بلکل ماسی لگ رہی ہو۔۔۔نسرین (حویلی میں کام کرمے والی ماسی) بھی تم سے بہتر لگتی ہے۔۔اس حلیے میں جاو گی تو تمہیں پسند کرنے کی جگہ کہیں اسکا رشتہ نا تہ ہو جائے۔۔۔"
آئدہ کی بات پر معصومہ نے اسکو کاٹ کھانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔
"دفع ہو جاو تم۔۔بدتمیز لڑکی۔۔"
معصومہ نے ٹیبل پر پڑا ہئیر برش اسکے بازو پر مارا اور چینجنگ روم میں گھس گئ آئدہ نے سر نفی میں ہلایا۔۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو براون شلوار کمیز پہنی ہوئی تھی۔۔۔
"معصومہ۔۔تم مجھ سے پٹو گی میں بتا رہی ہو"
آئدہ نے کہا اور اسکو بازو سے پکڑتی چینجنگ روم میں لے آئی۔۔اسنے الماری کھولی چند جوڑے آگے پیچھے کرنے کے بعد اسنے ایک لائیٹ پنک کلر کا گھٹنوں تک آتا فراک نکالا جسکے ساتھ وائیٹ ٹراوزر اور پرنٹڈ دوپٹہ تھا۔۔اسنے وہ کپڑے معصومہ کو پکڑائے اور چینج کرنے کے لیے کہا۔۔
معصومہ نے وہ کپڑے پہنے تو وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔آئدہ نے اسکو تھعڑا میک اپ بھی کردیا۔۔
"معصومہ اگر میں نہ ہوتی تو تمہارا کیا ہوتا۔۔۔"
آئدہ معصومہ کو دیکھ کر بولی۔۔
"زیادہ بکو مت۔۔یہ سب مجھے بھی آتا ہے مگر بس دل نہیں کر رہا تھا تیار ہونے کا"
موصومہ منہ بنا کر بولی۔۔
"کیوں بھئی۔۔کیا ہوا تمہارے دل کو"
آئدہ نے اسکے بالوں کی پونی ٹیل کھولتے ہوئے کہا۔۔۔۔
۔
"غصہ آرہا ہے مجھے۔۔پتا نہیں داجی کو اچانک میرا رشتہ کہاں سے یاد آگیا"
اسکے لہجے سے چڑچڑا پن واضح ہورا تھا۔۔۔
"اوہو۔۔۔بس جو قسمت میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔۔اور رشتہ تہ ہونے دو تمہیں بہت خوشی ہوگی
آئدہ نے بات سن کر معصومہ نے آنکھیں گھمائی۔
"خوش ہو جاوں گی۔۔۔جیسے رشتی میرے پسند سے ہو رہا ہے۔۔"
اسنے بڑبڑاہٹ کی۔۔آئدہ آنکھیں چھوٹی کرکہ اسے دیکھنے لگی
"اوہو۔۔۔تو میڈم کسی کو پسند کرتی تھی تبھی اتنا منہ بنا ہوا۔۔۔"
اسکی بات پر معصومہ نے سر انکار میں ہلایا۔۔
"نہیں۔۔میں کسی کو پسند نہیں کرتی یہ پیار ویار کے چکر میں تم ہی پڑو بھئی۔۔"
معصومہ ہاتھ اٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔
"زیادہ مت بولو۔۔۔اور کیا مطلب پیار ویار کے چکروں میں میں ہی پڑوں۔۔میں کسی سے پیار نہیں کرتی۔۔"
آئدہ نے کہا تو معصومہ سٹول سے اٹھی اور اسے دیکھنے لگی۔۔
"بس بس پچپن سے جانتی ہوں تمہیں۔۔۔زاہران لالہ کو تم پسند کرتی تھی تم شروع سے مگر کبھی ظاہر نہیں کیا کیونکہ تمہیں اریج اپیا کی خوشیاں عزیز تھی۔۔پہلے زاہران لالہ سے کتنا اٹیچ ہوتی تھی تم اور اریج اپیا اور لالہ کہ رشتے کے بعد تم انسے دور ہوگئی تھی۔۔کسی اور نے یہ سب محسوس نہیں کیا ہوگا مگر میں نے ہر چیز نوٹ کی تھی تم چاہے جتنے بھی جھوٹ بول لو جتنا کچھ چھپا لو مگر مجھ سے نہ تم کچھ چھپا سکتی ہو اور نہ ہی جھوٹ بول سکتی ہو۔۔۔بیچ میں تم زاہران لالہ سے بدگمان ہوگئی تھی انکی غلط فہمیوں اور برے رویے سے مگر اب تم پھر سے انکے قریب ہو رہی ہو۔۔تمہیں نہین معلوم مگر تمہارا دل انکو معاف کر چکا ہے تمہاری محبت جیت گئی اور نفرت ہار گئی ہے۔۔اور انکے دل مین بھی تمہارے لیے محبت پیدا ہوگئی ہے انکی آنکھوں سے ظاہر ہو رہا ہے وہ تم سے پیار کرنے لگے ہیں۔۔تم ان سب باتوں کو قبول کرلو تمہارے دل مین سکون پیدا ہوگا۔۔"
معصومہ کے ایک ایک لفظ میں سچائی تھی۔۔معصومہ اور اسکی دوستی اس قدر سچی اور مضبوط تھی کہ اسلے بغیر کچھ کہے وہ ہت باگ سمجھ جاتی تھی تھی اسے اب احساس ہوا تھا ورنہ اسے تو لگتا تھا کہ اسکو کوئی نہیں سمجھ سکتا اسکی بچپن کی دوست معصومہ بھی نہیں۔۔
معصومہ نے جو کچھ کہا تھا وہ سب سچ تھا اسکے دل نے اقرار کیا۔۔۔
معصومہ اسکو خاموشی سے کھڑی دیکھ رہی تھی آئدہ آگے بڑھی اور اسے گلے لگا لیا اسکی آنکھیں نم تھی اور ہونٹ مسکرا رہے تھے معصومی بھی مسکرا فی اور چند لمحوں بعد اس سے دور ہوئی۔۔
"چلو اب ڈارمے نہ لگاو زیادہ۔۔میں بال بنا لوں گی تم جاو تیار ہوجاؤ"
معصومہ کی بات سن کر اسنے سر اثبات میں ہلایا اور اسکے کمرے سے باہر آگئی۔۔
رات کی گہری خاموشی میں ہر سو ہوا کا سا سماں تھا گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی اور گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی اس وقت گھر کے سارے مکین سو رہے تھے سوائے ایک کے۔۔۔۔۔
اتنے میں اوپر والے پورشن میں ایک نسوانی وجود نظر آیا جس نے چپل نہیں پہنی تھی تا کی آواز نہ پیدا ہو وہ نسوانی وجود محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا آگے بڑھا اور ایک کمرے کے آگے آ کر رک گیا اور ڈور نوب پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کمرے میں داخل ہوا (ویسے تو اسے یقین تھا کوئی نہیں اٹھے گا کیونکہ اس نے رات کی چائے میں نیند کی گولیاں ڈال دی تھی) اس وجود کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا بیگ بھی تھا وہ وجود چلتا ہوا الماری کے آگے آرکا پر اسے پریشانی نے آن گھیرا کیونکہ الماری بند تھی اس نے اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑائے تو اسے یاد آیا ساری چابیاں بیڈ کے سائیڈ والی ٹیبل میں ہوتی ہے اس نے بیگ کو آہستہ سے کارپیٹ پر رکھا اور ٹیبل کی طرف قدم بڑھائے وہ یہ کرتے ہوئے مسلسل کانپ رہی تھی اسے اپنی چوری پکڑے جانے کا ڈر تھا اس نے آرام سے اوپر والا دراز کھولا اور محتاط نظروں سے بیڈ کی طرف دیکھا کے بیڈ پر سوئے وجود اٹھ نہ جائے اسے اپنی دونوں مطلوبہ چابیاں مل چکی تھیں اس دوران وہ وجود اتنی سردی میں بھی پسینے سے شرابور تھا وہ الماری کے پاس واپس آئی اور کانپتے ہاتھوں سے لوک کھولا الماری کھولتے ہی سامنے اس کی مطلوبہ چیز نظر آئی مطلوبہ چیز میں کچھ سونے کے اور ڈائمنڈ کے زیور تھے اور کچھ لاکھ کیش تھا کیونکہ باقی سامان بینک میں تھا اس وجود کے لیے یہ بھی مال غنیمت تھا اس نے سامان کو بیگ میں ڈالا الماری کا دروازہ بند کیا اور آہستہ قدموں سے چلتی دروازے تک آئی اور پچھے مڑ کر بیڈ پر سوئے دونوں لوگوں کو دیکھا تو اس کی آنکھیں نم ہو گئ کیونکہ وہ جو آج قدم اٹھانے جارہی تھی اس سے بہت سے لوگوں کی زندگی برباد ہونی والی تھی اور وہ جو خود غرضی کرنے والی تھی اس سے اس کی بہن کی زندگی سب سے زیادہ برباد ہونے والی تھی۔۔۔وہ بہن جس نے ہمیشہ اسکا بھلا چاہا تھا جو اسکی خوشی میں اس سے زیادہ خوش ہوتی تھی اور وہ اسکے ساتھ بہت غلط کرنے والی تھی۔۔۔۔
وہ اس کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں واپس آئی اور جلدی جلدی سے اپنے کپڑے اور چند ضرورت کی چیزیں بیگ میں ڈالی اس دوران بھی وہ محتاط انداز میں یہ کام کررہی تھی وجہ پیچھے بیڈ پر سویا ہوا وجود تھا بیگ کی زپ بند کر کے اس نے اپنی شال اٹھائی اور اپنے اوپر اچھی طرح اوڑھ لی جو وہ اکثر باہر جانے کے لیے استعمال کرتی تھی اور فون اٹھا کر کسی کو جلدی گھر کی پیچھلی جگہ پہنچ جانے کا مسیج کیا دوسری طرف سے ١٠ منٹ میں آنے کا مسیج آیا تو وہ اس نے جلدی سے اپنی سائیڈ ٹیبل سے ایک کاغذ نکلا جس پر اس نے پہلے ہی کچھ لکھا ہوا تھا اس کاغذ کو اس نے اپنے تکیے کے پاس رکھا اور اپنا بیگ لے کر اپنے کمرے سے نکل گئ مگر ایک نفرت بھری نگاہ سوئے ہوئے وجود پر ڈالنا نہ بھولی چپل اس نے ہاتھ میں ہی اٹھائی تھی وہ نیچے آکر کچن میں آئی اور کچن کے بیک ڈور کے دروازے کو چابی سے کھولا باہر نکل کر دروازے کو آہستہ سے بند کیا اور دبے قدموں سے گھر کے پچھلے گیٹ کو بھی کھول کر باہر نکل گئ باہر آکر اس نے چپل پہنی اور جلدی سے جلدی مین سڑک تک پہنچی جہاں پر ایک گاڑی میں بیٹھا نفوس اس کے انتظار میں تھا اس کے بیٹھتے ہی گاڑی کو اس نے کراچی جانے والی سڑک پر دوڑا دیا۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آئدہ معصومہ کو نیچے لے کر آئی تو ہال میں بیٹھی ہالے،ماو روش اور فاطمہ بیگم کو دیکھ کر اسکے چلتے قدم رک گئے اسنے آئدہ ہو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔۔آئدہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔معصومہ آگے بڑھی اور ان تینوں سے ملی۔۔فاطمہ بیگم نے اسے اپنے پاس بیٹھایا اور اسکا ماتھا چوما۔۔۔
"ماشاءاللہ میری بچی اتنی پیاری لگتی رہی ہے۔۔۔"
فاطمہ بیگم معصومہ کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی تو معصومہ مسکرا دی۔۔۔وہ ایسے پہلے بھی کئی بار مل چکی تھی مگر آج انکی آنکھوں میں معصومہ کو اپنے لیے جو پیار اور اپنائیت نظر آئی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی۔۔۔اسکے دماغ میں سنان گھومنے لگا۔۔۔۔
"تو کیا یہ سنان بھائی کہ لیے میرا رشتہ لینے آئی ہیں۔۔"
یہ بات سوچتے ہی معصومہ کو جھٹکا لگا۔۔کیونکہ آج اسکے رشتے والی ہی آئے تھے اور فاطمہ بیگم کا یہاں ہونا اسے یقین ہو چلا کہ وہ سنان کے لیے اسکا رشتہ لینے آئی ہیں۔۔
کچھ تیر وہ وہیں پر بیٹھی رہی اور پھر ماہ،ہالے،آئدہ اور معصومہ چاروں باہر لان میں آگئی۔۔۔۔باہر آتے ہی ہالے نے اسے زور سے گلے لگایا۔۔
"ہائے۔۔۔آئ ایم سو آکسائیٹڈ یار تم میری بھابھی بنو گی کتنا مزہ آئے گا۔۔۔"
ہالے کے الفاظ پر معصومہ کا دل بے اختیار ڈھڑکا تھا۔۔۔اسے سمجھ نہ آیا وہ کیا کہے
"لیکن تمہاری بھی تو شادی ہونے والی ہے۔۔۔"
آئدہ کی بات پر ہالے کی مسکراہٹ ہلکی ہوگئی۔۔اسنے کوئی جواب نہ دیا اور چئیر پر بیٹھ گئی تو وہ تینوں بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔۔۔
"سنان بھائی نے میرے لیے رشتہ بھیجا ہے۔۔"
معصومہ نے ہمت کر کہ سوال کیا۔۔ماہ اور آئدہ بے اختیار ہنسی دی۔۔
"اوہو۔۔۔اب وہ تمہارے بھائی نہیں ہیں۔۔۔رشتہ پکا ہوگیا ہے تمہارا اور سنان کا۔۔۔"
ماہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔معصومہ کا تو حیرت کے مارے منہ کھلا رہ گیا ان دونوں کا رشتہ بھی پکا ہوگیا ہے اور اسے تو معلوم ہی اب ہوا ہے کہ سنان کا رشتہ آیا ہے اسکے لیے۔۔
"کہاں کھو گئی میڈم۔۔۔"
آئدہ نے ہالے کو دوسری دنیا میں گم دیکھا تو اسکے آگے ہاتھ ہلایا۔۔۔
"نہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔"
ہالے نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"اچھا ماہ۔۔اب دیکھو میرے بھی رخصتی ہونے والی۔۔۔ہالے کی بھی شادی ہونے والی اور معصومہ کا بھی نکاح ہوجائے شاید میری شادی پر۔۔۔تم بتاؤ کیا ارادہ ہے میڈم کا۔۔۔"
آئدہ نے شرارت بھرے لہجے میں ماہ کو مخاطب کیا۔۔۔
"کوئی خاص ارادہ نہیں ہے ابھی۔۔جب خالہ جانی بولیں گی تو ہی کچھ سوچوں گی۔۔۔"
ماہ کے جواب پر ان تینوں سے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔
"اوہ۔۔۔یعنی مجھے فاطمہ آنٹی سے بات کرنی پڑے گی۔۔۔"
حمزہ کی آواز پر تینوں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ نظر آیا جو پینٹ کوٹ میں کھڑا کافی ہینڈسم لگ رہا تھا شاید آفس سے آیا تھا۔۔حمزہ کی نظریں ماہ روش پر تھی جو بلیک فریش میں بالوں کا جوڑا بنائے اسے سمپل سی بہت ہسین لگی تھی۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔؟؟؟"
ماہ نے اسکو سولیا نظروں سے دیکھا۔۔۔
"لو اب اسکا بھی مطلب سمجھانا پڑے گا۔۔"
حمزہ نے گندا سا منہ بنایا۔۔
"بیٹا جی۔۔ابھی آپ یہاں سے کٹ لیں۔۔اگر داجی آگئے اور انہوں نے آپکو یہاں دیکھ لیا تو سارے مطلب سمجھ آجائیں گے۔۔"
آئدہ نے حمزہ کو دیکھتے ہوئے کہا اسکی بات پر وہ بدمزہ ہوا اور ماہ روش پر ایک گہری نظر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔
ماہ نے محسوس کیا حمزہ کی آنکھوں میں بہت کچھ تھا جسے وہ سمجھ نہ پائی۔۔۔ماہ کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔
اسکے ذہن میں حمزہ کی بات گھومی اور اسکا مطلب سمجھنے کہ بعد وہ مزید الجھ گئی کہ آخر وہ چاہتا کیا ہے۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ سی ویو پر گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا پچھلے ایک گھنٹے میں 3 سگرٹ پی چکا تھا۔۔۔وہ کب سگرٹ پینے لگا کیوں پینے لگا اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔اس وقت اسکے ذہن میں نے وہ چہرا گھوم رہا تھا۔۔۔
کل جب وہ چاروں صحن میں آئی تھی تب آہل اپنے کمرے کی ٹیرس میں کھڑا تھا جب ہالے نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ معصومہ کو گلے لگایا۔۔وہ مسکراہٹ آہل کے دل کو سکون بخش گئی مگر اسکے بعد آئدہ نے اسے کچھ کہا جسکے بعد اسکی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی اور آہل کا دل بھی بیچیں ہوگیا۔۔۔وہ بس ہمیشہ اسکو مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا اور آہل کا دل اسکو ہمیشہ کہتا تھا کہ آہل کا پیار ہی ہالے کی خوشیاں لوٹا سکتا ہے کیونکہ وہ اس سے بےپناہ محبت کرتا تھا اور اسے اپنی محبت پر بھروسہ تھا۔۔۔
"ابے۔۔۔۔تو کب سے سوٹے مارنے لگا۔۔۔"
حمزہ جو آہل کی کال پر وہاں آیا تھا اسکو سگریٹ پیتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔
"ہہہ۔۔۔پتا نہیں بس"
آہل نے سگرٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔
"یہ مجنو کیوں بن گیا ہی تو۔۔کیا ہوگیا ہے تجھے آفس میں بھی تیرا دھیان کام میں نہیں ہوتا۔۔۔"
حمزہ نےاسکو مغور دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"نہیں یار۔۔۔۔ٹھیک ہوں بس آج کل سر درد رہنے لگا ہے اور کچھ کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔۔"
آہل نے سگریٹ کا چھوٹا سا ٹکڑا پھینک کر اسے پاؤں سے مسلتے ہوئے کہا۔۔۔
"لوجی۔۔۔سر درد کو سر میں درد ہونے لگا ہے۔۔۔"
حمزہ کی بات آہل کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی اگلے لمحے ہی اسکی بات سمجھتے آہل نے اسکو ایک زور دار تھپڑ سے نوازہ۔۔۔
"انسان کے بچے بنو۔۔۔"
آہل کی بات پر حمزہ نےاسے گھورا۔۔۔
"جانور کے بچے میرے جیسے ہوتے ہیں۔۔۔؟؟"
حمزہ نے اسکو سوالیا نظروں سے دیکھا آہل نے اسکو ایک نظر دیکھا اور بغیر کچھ کہے سامنے غروب ہوتے سورج کو دیکھنے لگا۔۔۔
حمزہ سوچ کر رہ گیا کہ آہل نے اسکو بلایا کیوں ہے مگر اسنے پوچھا نہیں اور خود بھی خاموشی سے سامنے منظر دیکھنے لگا۔۔
"معصومہ بس کر جاو یار خدا کا واسطہ ہے۔۔اتنی اچھے بھلی شکل ہے میری کیوں باندری بنانے کا ارادہ کیا یہ سب تھوپ تھوپ کر۔۔۔"
آئدہ جب سے مایوں میں بیٹھی تھی تب سے معصوم اسکی شکل پر پتا نہیں کیا کیا لگا چکی تھی۔۔۔ابھی وہ پھر سے باول میں کوئی ماسک بنا کر اسکے سامنے موجود تھی تو آئدہ نے چڑ کر کہا۔۔
"چپ کر جاو۔۔اچھی بھلی شکل کی کچھ لگتی نہ ہو تو۔۔۔باندری نہیں بنا رہی بلکہ باندری سے انسان بنا رہی ہوں۔۔میں نہیں چاہتی شادی کی پہلی رات ہی زاہران لالہ میک اپ کے بغیر تمہیں دیکھ کر ڈر جائیں۔۔"
معصومہ نے بڑے مزے سے کہا مگر پڑنے والے زور دار تھپڑ کے بعد اسکو اپنی چلتی پر افسوس ہوا۔۔۔
"تم نہ زیادہ بکواس نہ ہی کرو تو بہتر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شادی پر تمہارا منہ سوجا ہوا ہو۔۔۔"
آئدہ نے چڑچڑے لہجے میں جواب دیا۔۔پچھلے چار دنوں سے وہ اس کمرے میں بند تھی معصومہ اسکو ٹیرس میں بھی نہیں جانے دیتی تھی اوپر سے یہ روز روز کی تھوپا تھوپی سے بھی الجھن ہو رہی تھی کیونکہ اسکو کبھی یہ سب لگانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔۔
"افف آئدہ اپنے ہاتھ کنٹرول میں رکھو اب تو شادی ہونے والی ہے تمہاری انسان بن جاو۔۔"
معصومہ نے بھی تھپڑ مار کر بدلہ پورا کیا۔۔۔
"یہ بس آخری بار لگوا لو چچی نے کہا ہے کل ویسے بھی مہندی کا فنکشن ہے آج آخر دن ہی مایوں کا ۔۔۔"
معصومہ نے پھر سے کہا اور آئدہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ماسک لگوانہ پڑا کیونکہ وہ جانتی تھی فرہین بیگم اسے ہی باتیں سنائیں گی۔۔
-------------❤❤--------------
اس آفس میں کام کرتے ہوئے اسے تقریبا سال ہونے والا تھا جب سے وہ کراچی آئی تھی اپنی بیٹی کے ساتھ تب اس نے اس کمپنی میں جوب کرنا اسٹارٹ کی تھی پہلے تو یہ کمپنی اس کے بوس چلتے تھے مگر عمر کے تقاضے کی وجہ سے اب ان کا بیٹا اس کمپنی کو دیکھ رہا تھا پہلے تو اسے یہاں جوب کرتے ہوئے کوئی مشکل نہیں تھی مگر اب وقاص سر (بوس کا بیٹا) کی نظروں سے وہ تنگ رہتی تھی وہ سب کے ساتھ تو کھڑوس بوس تھا مگر اریج کے ساتھ بہت ہی نرم تھا اور یہی چیز اریج کے لیے مسلے کا باعث تھی اور دوسرے آفس کے دوسرے کولیگز بھی اسے جن نظروں سے دیکھتے تھے اسے شرمندگی ہوتی تھی اسے آپنا آپ ہی گنہگار لگتا تھا اس کا اردہ جلد یہ جوب چھوڑنے کا تھا پر اگر اسے دوسری اچھی جوب مل جاتی تو کیونکہ وہ مزید خود اور اپنی بیٹی کو آنٹی اور انکل پر بوجھ نہیں بنانا چاہتی تھی یہ جوب اس کی مجبوری تھی۔۔۔
"اریج آپ کو سر اپنے کیبن میں بلا رہے ہیں۔۔۔۔اور ہاں ساتھ خان انڈسٹری والی فائل لیتی جائیں گا۔۔۔۔۔"
کولیگ نے اسے وقاص کا پیغام دیا تو اس نے سر ہلایا اور فائل لیتی کیبن کی طرف بڑھی۔۔۔۔
"سر میں آئے کم ان۔۔۔۔"
اریج نے دروازہ نوک کرکے آنے کی اجازت لی۔۔۔
"یس مس اریج کم ان۔۔۔"
وقاص نے اندر آنے کی اجازت دی۔۔۔
"سر یہ خان انڈسٹری کی فائل اس میں ان کی ساری ڈیٹیل موجود ہے اور کل دن میں 12 بجے آپ کی میٹنگ ہے ان کے ساتھ۔۔۔۔"
اریج نے آتے ہی فائل وقاص کے آگے رکھی اور مختصر اس کو میٹنگ کے بارے میں بتایا۔۔۔۔
"وہ سب تو ٹھیک ہی مس اریج کل میرے ساتھ میٹنگ پر آپ جائیں گی اور آپ جلد ہی پریزنٹیشن کی تیاری کرلیں۔۔۔۔"
وقاص نے بول کر اریج کی طرف دیکھا جو شوکڈ کھڑی تھی۔۔۔۔
"مس اریج سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔"
وقاص نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
"ج۔۔جی سر سب ٹھیک پر کل آپ کے ساتھ تو مس ماہا نے جانا تھا نہ اور ویسے بھی کل میں ہلاف ڈے کی لیو پر ہوں میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ ٹائم اسپنڈ کرنا ہے۔۔۔۔اس لیے سوری سر میں نہیں کرسکتی یے۔۔۔"
اریج نے معذرت کی اور ویسے بھی وہ کبھی بھی خان انڈسٹری نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
"بیٹییی۔۔۔۔مس اریج مس ماہا چھٹی پر ہے اس لیے آپ سے کہ رہا ہوں اور میں آپ کا بوس ہوں اس لیے کل کی آپ کی لیو کینسل کرتا ہوں اور یہ میرا آرڈر ہے کے کل آپ ہی میرے ساتھ جائے گی مس ماہا نے جو پریزنٹیشن بنائی تھی وہ آپ کا آپ کے کیبن میں مل جائے گئ آپ جا کر تیاری کریں۔۔۔۔"
بیٹی کا سن کر وقاص کو ایک جھٹکا ہی لگا تھا مگر جلد ہی جھٹکے سے نکل کر اس نے اریج کو سختی سے کہا تھا۔۔۔۔
"پر سر۔۔۔۔"
"کوئی سر ور نہیں مس اریج یو میں گو ناؤyou may go) now)۔۔۔۔"
ابھی اریج بول ہی رہی تھی جب وقاص نے اس کی بات کاٹ کر اس کو جانے کا کہا تو وہ سر ہلا کر باہر نکل گئ۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج آئدہ کی مہندی کا فنکشن تھا۔۔۔ہر طرف خوشی کا سماں تھا اور زاہران تو خوشی میں پھولے نہ سما رہا تھا۔۔دونوں کے چہرے پر موجود چمک سے ان دونوں کی خوشی واضح ہو رہی تھی۔۔
ہالے،ماہ اور معصومہ نے آئدہ کے چہرے پر موجود رنگ دیکھ کر اسے خوب چھیڑا تھا۔۔
آئدہ نے ہرے اور پیلے رنگ کا لہنگا پہنا تھا۔۔بالوں کو سٹائلش چٹیا بنا کر آگے رکھی تھی۔۔پھولوں کو زیورات اور نیچرل میک اپ میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔
مہندی کا فنکشن میرج ہال میں رکھا گیا تھاسب مہمان آچکے تھے زاہران سٹیج پر بیٹھا اسکو دیکھنے کے لیے بیچین تھا۔۔
کچھ دیر بعد اور اینٹرینس سے اندر آتی ہوئی نظر آئی۔۔۔
پیلے دوپٹے کے چاروں کونوں کو لڑکیوں نے پکڑ رکھا تھا درمیاں میں آئدہ تھی جسکے ایک طرف معصومہ اور دوسری طرف فرہین بیگم تھی۔۔۔آئدہ کو گھونگھٹ میں دیکھ کر زاہران بدمزہ ہوا۔۔۔
وہ قدم قدم چلتی ہوئی سٹیج کے قریب آئی تو زاہران نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکو سٹیج پر چڑھنے میں مدد دی۔۔۔
مہندی کی رسمیں شروع ہوگئی سب خوش تھے اگر کوئی خوش نہ تھا تو وہ تھا آہل۔۔۔
معصومہ نے ہلکے گلابی اور یلو کلر کے کامبینیشن کا لہنگا پہنا تھا۔۔ہالے اور ماہ نے گولڈن اور ڈارک گرین کامبینیشن کا لہنگا پہنا تھا۔۔معصومہ اور ہالے نے بالوں کی چٹیا بنائی تھی جبکہ ماہ نے اپنے مال کھولے ہوئے تھے۔۔ہلکے میک اپ میں وہ تینوں ہی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
ماہ روش رسم کر کہ سٹیج سے اتری تھی جب حمزہ اسکے پاس آیا۔۔
"کیا ہوا۔۔۔"
ماہ نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔جو اسکے چاند سے چہرے کو اپنی نظروں میں اتار رہا تھا۔۔
"کچھ بتانا تھا تمہیں۔۔۔"
حمزہ نے جواب دیا۔۔
"ہاں بتاو۔۔کیا ہوا"
ماہ کی بات سن کر وہ کچھ سوچنے لگا۔۔
"ادھر نہیں۔۔۔"
حمزہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"یہاں نہیں تو اور کہاں۔۔۔"
ماہ نے اسکو عجیب نظروں سے دیکھا۔۔۔حمزہ نے اسکو جواب نہ دیا اور اسکا ہاتھ تھام کر سب کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہوا برائیڈل روم میں لے آیا۔۔۔
"ارے۔۔۔ہوا کیا ہے سب ٹھیک ہے نہ۔۔"
ماہ نے حمزہ سے سوال کیا جو نجانے کیا بتانے کے لیے اسکو یہاں لایا تھا۔۔
"اب بولو بھی میری شکل کیا دیکھ رہے ہو۔۔"
ماہ نے حمزہ کو مسلسل اپنی طرف دیکھتا پایا تو چڑ کر کہا۔۔۔
"وہ۔۔۔"
حمزہ بولتے بولتے رک گیا۔۔۔
"وہ کیا حمزہ۔۔۔"
ماہ کو اب غصہ آنے لگا۔۔۔اسنے حمزہ کو غور سے دیکھا ماہ کو اسکی آنکھوں میں بہت کچھ نظر آیا جسے وہ چاہ کر بھی اگنور نہ کر پائی۔۔۔
"امم۔۔پہلی بار تمہیں اس طرح کی ڈریسنگ میں دیکھا ہے۔۔۔یقین کرو بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔میں چاہ کر بھی تم پر سے نظر نہیں ہٹا پایا۔۔"
حمزہ نے ماہ کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ماہ کو اسکی نظروں سے گھبراہٹ ہوئی اور اسکے لہجے میں کچھ تھا کچھ ایسا جو اسنے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔۔ماہ اسے خاموشی سے دیکھنے لگی وہ کچھ اور ایکسپیکٹ کر رہی تھی۔۔۔
"تت۔۔۔تم یہ بتانے کے لیے یہاں لائے تھے مجھے۔۔۔؟"
ماہ نے خود کو سنبھالا اور اس سے سوال کیا۔۔۔
"بولناتو کچھ اور تھا مگر ہمت نہیں ہوئی۔۔۔"حمزہ دل میں سوچ کر رہ گیا۔۔
"ہاں۔۔یہی بتانا تھا"
حمزہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ماہ نے اسکو خونخوار نظروں سے گھورا۔۔
"دفع ہو جاو تم۔۔بدتمیز انسان"
ماہ نے غصے سے بول کر حمزہ کو دھکا دیا اور باہر چلی گئی پیچھے حمزہ حیران کھڑا اسکو جاتا دیکھتا رہا۔۔۔
-------------❤❤--------------
خان حویلی میں سب سے پہلے آنکھ زاہران نے کھولی تھی اس کے بعد آہل نے اور ساتھ ہی اریج نے اریج خاندان کی پہلی لڑکی تھی اور سب کی لاڈلی زاہران اور اریج کے دوستی بہت گہری تھی جب کہ آہل کی کم ہی اریج کے ساتھ بنتی تھی وہ زاہران کے زیادہ قریب تھا اریج کے تین سال بعد آئدہ نے آنکھ کھولی اور وہ معصوم گڑیا سب کی آنکھ کا تارا بن گئ جو کہ اریج کو ایک آنکھ نا بھایا تھا اور زاہران بھی اب ہر وقت آئدہ آئدہ کرتا تھا یہ سب دکھ کر اریج آئدہ سے جیلس ہوتی تھی اور آئدہ بھی زاہران سے اٹیچ ہوگئ تھی پہلے جو اریج سب کے قریب تھی اب آئدہ سب کے زیادہ قریب ہوگئ تھی اریج کی ویلیو کم ہوگئ تھی جو کے اریج کو ایک آنکھ نہیں بہ رہی تھی آئدہ کے دس ماہ بعد معصومہ پیدا ہوئی جو اپنے بھائی آہل کے زیادہ قریب تھا اس طرح کئ سال گزر گئے مگر اریج کی جیلسی اب بھی آئدہ سے قائم تھی جب کہ زاہران کی دوستی اب بھی اریج سے تھی مگر اس کی اٹیچمنٹ آئدہ سے زیادہ تھی اریج کو جب بھی موقع ملتا وہ آئدہ پر اپنی بھڑاس ضرور نکلتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کچھ اور سال گزر گئے اور اریج کالج میں پہنچ گئ وہاں اس کی دوستی سمبل نام کی لڑکی سے ہوئی جو کہ فطرتاً اچھی نہیں تھی ساری کلاس اس سے دور رہتی تھی مگر اریج اس پر اندھا اعتبار کرتی تھی سمبل نے اریج کی دوستی اپنے بھائی جنید سے کروا دی اور اریج نے بھی خوشی خوشی کر لی اس طرح دن گزرتے گئے اور اریج اور جنید کی دوستی مزید گہری ہوگئ اور بات محبت تک آن پہنچی انہی دنوں خان حویلی میں زاہران اور اریج کے رشتے کی بات چھڑ گئ جسے سن کر زاہران تو بہت خوش تھا کہ اب اس کی دوست ہی اس کی لائف پارٹنر بنے گئ اس کوئی اریج سے دھو دار محبت نہیں تھی مگر اس رشتے سے اسے کوئی اعتراض نہیں تھا اب تو اریج کا کالج بھی ختم ہونے والا تھا اریج اپنی ہر جائز اور ناجائز خواہشات کو زاہران کے آگے رکھتی اور وہ بھی اس کا دوست ہونے کے ناطے پوری کرتا۔۔۔۔۔۔
جنید نے اریج کو کہا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ اریج بھی اس کی ہی یونی میں ایڈمیشن لے تو اریج نے اس کا بتایا تھا کے دا جی کبھی اجازت نہیں دیں گے جب اریج نے اپنے اور زاہران کے رشتے کو بتایا تو جنید بھڑک اٹھا مگر اریج نے اس کا جلد ہی ٹھنڈا کردیا۔۔۔۔۔۔
اریج نے جنید کو بتایا ہوا تھا کے زاہران اس کی ہر بات مانتا ہے تو رشتے والی بات پر جنید نے اریج کو کہا کے وہ زاہران کے آگے شرط رکھے کے اگر منگنی کروانی ہے تو گھر والوں سے اجازت لے کر اس کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلوائے۔۔۔۔۔
زاہران نے اریج کے یہ بات بھی مانی اور اس طرح اریج کے یونیورسٹی میں ایڈمیشن بھی ہوگیا جب منگنی کے بات آئی تو جنید نے کہا ابھی منگنی کر لو جب شادی کے بات آئے تو انکار کر دینا اور بتا دینا کے کسی کو پسند کرتی ہو یہ زاہران کے اوپر کوئی کہانی گھڑ دینا اس طرح اریج اور زاہران کی دھوم دھام سے منگنی کی گئ اس منگنی پر زاہران تو بہت خوش تھا مگر اریج جھوٹی مسکراہٹ لیے بیٹھی رہی اور اس دن آئدہ کا دل بہت بری طرح ٹوٹا تھا اور اَس نے اِس دن زاہران کی محبت کو اپنے دل کے کسی کونے میں دفن کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔
اس دن کے بعد آئدہ زاہران سے دور دور ہی رہنے لگی اور یہ بات سب سے زیادہ اریج کو ہی کھٹک رہی تھی اور اسے معاملا سمجھتے دیر نہ لگی اور اس کی چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔۔۔
منگنی کے بعد اریج اب زاہران سے کھنچی کھنچی رہنے لگی اور یہ بات زاہران کو بھی کھٹک رہی تھی۔۔۔۔۔
انہی دنوں جنید نے اریج کے آگے نیا شوشہ چھوڑ دیا کے اس کی اماں اس کی شادی زبردستی اس کی خالہ کے گھر کروا رہی ہے اور وہ اریج کے ساتھ بیوفائی نے کرسکتا اس لیے وہ خودکشی کر رہا ہے اریج تو اس کی بات سن کر بوکھلا ہی گئ تھی اور جنید کو کہا کے اس کا کوئی ہل نکلے جنید نے بہت سوچنے کے بعد کہا کے بھاگ کر شادی کرلیتے ہیں بعد میں گھر والوں کو منا لیں گے اور اس سب میں سمبل بھی ان کی مدد کرے گئ جنید اور سمبل نے اچھی طرح اریج کا برین واش کر لیا اور اریج بھی ان کے دھوکے میں آگئ اور گھر سے بھاگنے کو تیار ہوگئ۔۔۔۔۔۔
مگر گھر سے بھاگنے سے پہلے اریج نے سوچ لیا تھا کے وہ آئدہ کو مزہ ضرور چکا کر جائے گی اریج نے ساری بات سمبل کو بتا کر رکھی تھی جب بھی جانے کی بات آئی تو سمبل نے ہی اریج کو آئیڈیا دیا کہ سارا الزام آئدہ پر ڈال دے اور پھر کچھ عرصے بعد آکر اپنے گھر والوں سے معافی مانگ لے اریج کو سمبل کی بات صحیح لگی تو اس نے یہ سب ایک مسیج کی صورت میں زاہران کے نمبر پر بھیجنے کا سوچا اسے پتا تھا اتنی رات تک زاہران جاگتا نہیں اور اس ٹائم اس کا فون بھی سائلنٹ پر ہوگا اس نے مسیج لکھ کر زاہران کے نمبر پر سینڈ کیا جس سے پہلے اس نے ایک نوٹ پر لکھا تھا کے "میں اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ رہی ہے لہذا اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جائے اور جب سب ٹھیک ہو جائے گا تو وہ واپس آجائے گئ اور یہ رنگ زاہران کو واپس کر دیجئے گا" اس نے نوٹ اور رنگ کو اپنے تکیے کے پاس رکھا اور زاہران کو مسیج سینڈ کیا آئدہ پر نفرت بھری نگاہ ڈالی اور گھر سے نکل آئی جنید نے اسے گھر کے پیچھلی سائیڈ آنے کا کہا تھا ویاں جنید گاڑی لے کر آیا تو وہ بیٹھ گئ اور جنید نے گاڑی کراچی کی طرف کر دی اریج نے راستے میں ہی فون اور سم کو پھینک دیا تھا اور دوسرا فون اور سم اسے جنید نے دی تھی جو اس کے زیر استعمال تھی اریج کو یہ سب کر کے پچھتاوا تو ہورہا تھا مگر پھر سمبل اور جنید نے باتوں میں اسے الجھا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
سمبل اور جنید صرف پڑھائی کی وجہ سے کراچی آئے تھے ان کا گھر لاہور میں تھا تو ان دونوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اریج کو لے کر لاہور جائے گے کیونکہ کراچی میں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا جنید نے گاڑی کسی سے کرائے پر لی تھا کراچی جا کر گاڑی اس کو واپس کی اور پھر سب سے پہلے اپنے کچھ دوستوں کی گواہی میں اریج سے نکاح کیا اس کے بعد سمبل کو اپنی اور اس کی پیکنگ کرنے کا کہا۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ سمبل اور اریج کو لے کر ریلوے اسٹیشن آیا اور تین ٹیکٹس لاہور کے لیے ٹرین صبح سات کی تھی تب تک وہ تینوں اسٹیشن پر ہی انتظار کرتے رہے اس دوران اریج کو ٹینشن ہی کھائے جارہی تھی کے کہی کوئی انھیں ڈھونڈ نہ لے سات بجے ٹرین آئی اور وہ تینوں اس میں سوار ہوگئے اس طرح اریج کی بربادی اور لاہور کا سفر شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
صبح ہوتے ہی حویلی میں گہماگہمی شروع ہوگئ تھی اس وقت سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے آئدہ اور اریج کے۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف کراچی میں زاہران جاگنگ کر کے آیا تھا اور اب یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہورہا تھا تیار ہو کر وہ نیچے ناشتے کی ٹیبل پر آیا اور سب کو سلام کرنے کے بعد اس نے ناشتہ کیا اور پھر اللہ حافظ کرکے باہر پورچ میں اپنی گاڑی کے پاس آیا اور گاڑی کو گیٹ سے باہر نکالا اور ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس نے خیر اردی طور پر اپنا فون اٹھایا اور انلاک کیا اس نے ایک نظر سب نوٹیفکیشن کو دیکھا تو اس کی نظر اریج کے مسیج پر اٹک گئ وہ ایک نظر موبائل پر دیکھ رہا تھا اور ایک نظر روڈ پر دیکھ کر ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اس نے اریج کے مسیج کو اوپن کیا اور پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
"اسلام وعلیکم امید ہے تم ٹھیک ہوگے میرا یہ مسیج جب تمھیں ملے گا میں تب بہت دور جا چکی ہونگی تم سب سے دور اپنی نئی زندگی میں اور اس سب تمہاری چہتی آئدہ نے مدد کی میری تمھیں آب بھی نہیں سمجھ آیا ہو گا میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں تو چلو بتا دیتی ہوں میں جنید سے پیار کرتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی گھر سے بھاگ رہی ہوں تم ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنا یہ سب تب سے شروع ہوا جب میں کالج میں تھی میری ملاقات جنید سے ہوئی جو کہ میری دوست کا بھائی تھا میری دوستی جنید سے ہوئی اور یہ دوستی خب پیار میں تبدیل ہوئی ہمیں نہیں پتا چلا انہی دنوں گھر تمہارے اور میرے رشتے کی بات چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔"
زاہران نے جیسے ہی مسیج پڑھا تو ایک دم سے گاڑی کو بریک لگائی پھر جلد ہی گاڑی کو سائیڈ پر کیا اور دوبارہ مسیج پڑھنا شروع کیا وہ مسیج جیسے جیسے پڑھتا جارہا تھا اس کی رگے تن تی جارہی تھی اس کے غصے کا گراف بڑھتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔
"یہ بات میں نے آئدہ کو بتائی تو اس نے کہا ابھی تم رشتے کے لیے ہاں کہ دوں اور اپنی خواہشات زاہران سے منوا لو بعد میں کچھ بھی کر کے منگنی توڑ دینا میں نے بھی آئدہ کی باتوں میں آکر تم سے منگنی کر لی انہی دنوں مجھ آئدہ نے بتایا کے وہ تم سے محبت کرتی ہے مجھے تو جھٹکا لگا پھر مجھے آئدہ نے کہا کے آپی بھاگ جاو آپ گھر والے کبھی بھی آپکی شادی جنید سے نہیں کروائے گے اور اس سب میں آئدہ میری مدد کرے گی میں نے آئدہ کو کہا کے یہ غلط ہے تو اس نے کہا کچھ غلط نہیں ہے اور اگر میں گھر سے نہ بھاگی تو وہ زہر کھا لے گی اور سارا الزام مجھ پر ڈال۔دے گی میں بہت ڈر گئ اور گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا آئدہ نے ہی سب زیور اور چابیاں امی کے کمرے سے لا کر دی اور پیچھلے دروازے سے جانے میں مدد بھی کی میں جانا تو نہیں چاہتی پر جارہی ہوں اب آپ آئدہ کو اپنا لیجیے گا اور ہوسکے تو آئدہ کا معاف کر دینا اور یہ بات گھر میں کسی کو نا بتانا میں نہیں چاہتی امی ابو آئدہ سے نفرت کرے یا کوئی بھی۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔۔۔"
جیسے ہی مسیج ختم ہوا زاہران نے زور سے اپنا فون ڈیش بورڈ پر پھینکا اور اپنے بالوں کو مٹھیوں میں زور سے جھکڑ لیا اور اپنی آوازوں کو اندر ہی اندر دبانے لگا اس کا بس نہیں چل رہا تھا دونوں بہنیں اس کے سامنے ہو اور وہ ان کا حشر بگڑ دے۔۔۔۔۔
دو تین گہرے سانس لے کر اس نے خود کو ریلیکس کیااور گاڑی کو سٹارٹ کر کے حیدرآباد کے راستے پر ڈال دیا اور جتنی تیز ڈرائیونگ کر سکتا تھا اس نے کی۔۔۔۔۔
زاہران تھوڑی ہی دیر میں حیدرآباد میں خان حویلی پہنچ چکا تھا وہ سخت تیور لیے اندر داخل ہوا جہاں سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے آئدہ اور اریج کے۔۔۔۔۔
"آئدہ کہاں ہے۔۔۔۔"
اس نے سب کی طرف دیکھا کر سوال کیا سب تو صبح ہی صبح یہاں دیکھ کر حیران تھا اوپر سے اس کی سرخ ہوتی رنگت سب کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھی اور پھر آئدہ کے مطلق زاہران کا پوچھنا سب کو کچھ نہ کچھ کھٹک رہا تھا۔۔۔۔
"لالا وہ تو اپنے کمرے میں ہے۔۔۔"
معصومہ نے اوپر آئدہ کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ جلدی سے سڑھیاں پھلانگتا ہوا آئدہ کے کمرے میں پہنچا اور دھڑام سے دروازہ کھولا آئدہ جو فریش ہو کر واشروم سے نکال رہی تھی اس نے دھل کر اپنا ہاتھ سینے پر رکھ وہ جو زاہران کو دیکھ کر ریلکس ہوئی تو اس کے جارہانہ تیور دیکھ کر پریشان ہوگئ۔۔۔۔۔
"اریج کہاں ہے۔۔۔۔"
زاہران نے دروازہ بند کیا اور آئدہ کی بازو کو اپنی سخت گرفت میں لیا۔۔۔۔
"مج۔۔۔مجھے کیا پتا نیچے ہونگی نا ناشتے کی ٹیبل پر۔۔۔"
آئدہ نے ڈرتے ڈرتے کہا اور ساتھ ہی اپنی بازو زاہران کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
"تمھیں ہی نہیں پتا واہ کیا کہنے پھر بھی آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کے وہ اپنے عشق کے ساتھ بھاگ چکی ہے جس میں اس کے مدد تم نے کی ہے جو کہ اب میرے سامنے معصوم بننے کا ڈھونگ کر رہی ہے۔۔۔۔"
زاہران نے ہر لفظ چبا چبا کر ادا کیا اور ساتھ ہی آئدہ کی بازو پر گرفت مزید سخت کردی۔۔۔۔
"سسی۔۔۔۔۔چھوڑیں میری بازو اور اتنا بڑا الزام مجھ پر لگا رہے ہے کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس اور میں مان ہی نہیں سکتی اریج آپی چلی جائے۔۔۔۔"
زاہران کی سخت گرفت پر آئدہ کی سسکی نکلی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔۔۔۔
"تمھاری اریج آپی چلی گئ ہے اور وہی مجھے ثبوت دے کر گئ ہے یہ لو دیکھ لو۔۔۔۔"
زاہران نے تمسخر اڑاتی مسکراہٹ سے آئدہ کو دیکھ اور اس کی بازو چھوڑی اور موبائل اس کے آگے کیا جس میں اریج کا مسیج تھا جیسے جیسے آئدہ مسیج پڑھتی جارہی تھی ویسے ویسے اس کے آنسو روانی سے بہتے جارہے تھے اور نیچے بیٹھتی جارہی تھی۔۔۔۔۔
اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اریج اس سے اتنی نفرت کرتی تھی جو اس پر اتنا بڑا الزام لگا کر گئ تھی وہ چاہتی تھا اس ٹائم زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے وہ اپنی بہن سے اتنی محبت کرتی تھی اور وہ اس کو دو کوڑی کا کر کے گئ تھی۔۔۔۔۔۔
"ی۔۔یہ۔۔سب جھوٹ ہے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا آپ میرا یقین کریں اریج آپی مجھ سے پتا نہیں کون سے بدلہ لے رہی ہے میں نے ایسے کچھ نہیں کیا نہ میں جنید کے بارے میں جانتی ہوں اور۔۔۔۔۔"
آئدہ روتے ہوئے اٹک اٹک کر جملے بول رہی تھی اور اپنی بےگناہی کا یقین زاہران کو کروا رہی تھی۔۔۔۔
"چٹاخ۔۔۔۔بکواس بند کرو اپنی اتنے بڑے ثبوت کے بعد بھی جھوٹ بول رہی ہوں شرم نہیں آتی تمھیں اور میری بات کان کھول کر سن لو یہ بات تمھارے اور میرے درمیان رہے گی اس بات کی بھنک اگر کسی بھی دوسرے انسان کا پڑی تو تمھیں زندہ نہیں چھوڑو گا۔۔۔آگئ سمجھ۔۔۔۔اور ایک بات یاد رکھنا میں تم سے شدید نفرت کرتا ہوں یہ بات مر کر بھی نہ بھولنا۔۔۔۔"
ابھی آئدہ بول ہی رہی تھی جب زاہران کے بھاری تھپڑ نے اس کی بولتی بند کروا دی اور وہ سہمی نظروں سے زاہران کی طرف دیکھنے لگی جب زاہران نے اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا اور دھڑ کف ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا تو آئدہ نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
"گڈ گرل۔۔۔"
زاہران نے بولتے ساتھ ہی اس کے بالوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور دروازہ کھولا پر اس سے پہلے اس کی نظر تکیے کی طرف گئ جہاں پر ایک کاغذ اور انگوٹھی پڑی تھی انگھوٹی اٹھا کر اس نے جیب میں ڈالی اور کاغذ کو پڑھا اور اس کاغذ کو لے کر دروازہ کھولا جہاں سارے کھڑے تھے۔۔۔
"کیا ہوا زاہران بیٹا سب خیریت ہے نہ۔۔۔۔"
راحیل صاحب نے زاہران کے طرف دیکھ کر پوچھا کیونکہ کمرا ساؤنڈ پروف تھا تو کوئی بھی آواز باہر نہیں گئ تھی۔۔۔۔
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ماموں جان اریج گھر سے بھاگ گئ اپنے عشق کے ساتھ۔۔۔۔۔"
زاہران نے بولتے ساتھ ہی وہ کاغذ راحیل صاحب کی طرف بڑھایا سب کے سب جہاں تھے وہ کھڑے ہوگئے جھٹکا ہی اتنا بڑا تھا گھر کی بڑی بیٹی بھاگ گئ تھی راحیل صاحب نے کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی اور ساتھ ہی ان کا ہاتھ ان کے دل پر گیا اور وہ ساتھ ہی نیچے گر گئے۔۔۔۔۔
"ابو۔۔۔ماموں۔۔۔تایا اور راحیل۔۔۔۔"
جیسی ملی جلی آوازیں ان کو غنودگی میں جانے سے پیلے سنائی دی۔۔۔
آہل اور زاہران نے جلدی سے ان کو گاڑی میں ڈالا اور ہاسپٹل کی طرف گاڑی دوڑا دی۔۔۔
جلدی سے وہ لوگ ہاسپٹل پہنچے اور ڈاکٹر انھیں آئی سی یو کی طرف لے گئے۔۔۔۔۔زاہران نے اس دوران میں ہادیہ بیگم کو کال کر کے مختصر بتا دیا تھا وہ بھی حمزہ اور حمدان صاحب کے ساتھ حیدرآباد کے لیے نکل چکی تھی۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آئی سی یو سے نکل کر زاہران اور آہل کی طرف بڑھا۔۔۔۔
"آئے ایم سوری ہم آپ کے پیشنٹ کو نہیں بچا سکے ہارٹ اٹیک بہت شدید نوعیت کا تھا ان کے بچنے کے چانس کم تھے۔۔۔مم"
ڈاکڑ ان کو بول کر چلا گیا۔۔۔۔۔پیچھے زاہران اور آہل تو شوک میں کھڑے تھے ابھی ایک جھٹکے سے سنبھلے نہ تھے اب دوسرا۔۔۔۔۔
وہ راحیل صاحب کی ڈیڈ باڈی کو لے کر حویلی میں داخل ہوئے تو ایک کہرام سے مچ گیا سب لوگ ابھی ایک جھٹکے سے نہ سنبھلے تھے جب دوسرا اس طرح ایک کے بعد ایک قیامت خان حویلی پر ٹوٹی تھی دا جی کندھے ڈھ سے گئے تھے آئدہ تو رو رو کر بیمار ہوگئ تھی اور بستر پر آگئ تھی کچھ وقت بعد سب کچھ معمول پر آگیا تھا پر ابھی تک سب اس غم میں مبتلا تھے زاہران کی نفرت آئدہ کے لیے ابھی تک ویسی ہی تھے آئدہ نے بھی اس نفرت کی دیوار کو گرنے کی کوشش نہیں کی تھی اب اسے کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔
گھر والوں کو اتنا پتا تھا کہ زاہران آئدہ سے نفرت کرتا ہے پر اس کے پیچھے چھپی وجہ نہیں جانتے تھے۔۔۔۔
دا جی اریج کے واقعے کے بعد آئدہ اور معصومہ سے کھچے کھچے رہتے تھے اور اب وہ لڑکیوں کی آگے پڑھائی کے حق میں نہ تھے اس لیے انھوں نے زاہران اور آئدہ کا نکاح کروا دیا تھا اور معصومہ کے لیے بھی فیصلہ لے لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج آئدہ کی شادی کا فنکشن تھا۔۔ہر طرف گہماگہمی تھی۔۔زاہران کی خوشی کی انتہا نہ تھی آخر کار وہ دن آگیا تھا جسکا اسکو شدت سے انتظار تھا۔۔۔
ان دونوں کی بارات کے فنکشن کے ساتھ ساتھ آج سنان اور معصومہ کا نکاح بھی تھا۔۔۔معصومہ سنان کی منکوحہ بننے والی تھی یہ سوچ کر ہی اسکو عجیب گھبراہٹ ہورہی تھی جبکہ سنان صاحب تو خوشی میں پھولے نہ سما رہے تھے۔۔۔
ماہ اور ہالے بھی ان دونوں کے لیے بہت خوش تھی اور بات بات پر ان دونوں کو چھیڑ رہی تھی۔۔۔
ان چاروں کو حمزہ پارلر چھوڑ گیا تھا۔۔ہالے کے گھر والوں کی رہائش حویلی میں ہی تھی۔۔سات بجے بارات کا فنکشن سٹارٹ ہونا تھا اور سارے چھ بجے تک وہ چاروں تیار تھی۔۔۔معصومہ نے حمزہ کو مسج کیا تو وہ ان چاروں کو لینے آگیا۔۔۔
وہ تینوں پارلر سے ڈائریکٹ میرج ہال آئی تھی جہاں گھر کے کچھ لوگ پہلے موجود تھے۔۔آئدہ کو برائیڈل روم میں بٹھایا اور اسکے ساتھ ہالے تھی جبکہ وہ دونوں تھوڑے بہت کام کروا رہی تھی۔۔
آہستہ آہستہ مہمان آنا شروع ہوگئے تو ماہ آئدہ کے پاس آگئی۔۔ہالے اور معصومہ فرہیں بیگم اور ہادیہ بیگم کے ساتھ مل کر مہمانوں کو رسیو کرنے لگی۔۔
"سنو نہ۔۔۔"
معصومہ ہادیہ بیگم کی طرف جا رہی تھی جب سنان اسکے پاس آیا۔۔معصومہ گڑبڑا گئی ہال میں ہر طرف مہمان تھے اور اگر کوئی دیکھ لیتا تو اسکی کلاس لگنی تھی۔۔
سنان نے اسکی سوچ تک رہائی حاصل کی اور اسکا ہاتھ تھام کر اسکو سٹیج کے پیچھے لے آیا۔۔
"کک۔۔کیا ہوا؟"
معصومہ نے اسکو اپنی طرف دیکھتا پا کر سوال کیا۔۔
"کچھ نہیں۔۔"
سنان کے جواب پر معصومہ نے اسکو عجیب نظروں سے دیکھا۔۔
"تو یہاں کیوں لائے ہیں"
اسکا سوال سن کر سنان کچھ سوچنے لگا۔۔
"ویسے ہی۔۔۔اچھا سنو بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔سوچ رہا ہوں کسی کی نظر میں لگ جائے۔۔"
وہ نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر فلمی انداز میں بولا۔۔معصومہ اپنی نظریں جھکا گئی۔۔
"اب میں جاوں۔۔کک۔۔کوئی دیکھ نہ لے"
معصومہ یہاں وہاں دیکھتی ہوئی بولی۔۔
"بس ایک منٹ"
سنان نے کہا اور اپنی پوکٹ سے چھوٹی سی ڈبیا نکل کر اس میں سے ایک رنگ نکالی اور اسکا ہاتھ تھام کر اس میں پہنائی۔۔۔معصومہ بس اسے دیکھتی رہ گئی۔۔سنان نے ایک پیار بھری نظروں اس پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔۔
-------------❤❤--------------
زاہران سٹیج پر بیٹھا اسکے انتظار میں تھا جب وہ ہال میں داخل ہوئی۔۔۔اسکے ایک طرف فرہین بیگم اور دوسری طرف معصومہ تھی اور کچھ اور بھی رشتے دار تھے۔۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سٹیج کے قریب آئی تو زاہران نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکو سٹیج پر چڑھنے میں مدد دی۔۔۔وہ سرخ جوڑے میں برائیڈل میک اپ کے ساتھ اسکے ہوش اڑا رہی تھی۔۔زاہران نے اسکو صوفے پر بٹھایا اور ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔
"معصومہ۔۔۔برائیڈل روم میں چلو تم فرہین کے ساتھ۔۔۔ہم بھی آتے تمہارا نکاح پڑھوانا ہے۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے معصومہ کو کہا جو ماہ کے ساتھ کھڑی گپے لڑا رہی تھی۔۔انکی بات پر معصومہ نے سر ہلایا اور فرہین بیگم کے ساتھ برائیڈل روم میں آگئی۔۔۔ماہ اور ہالے بھی اسکے ساتھ ہی تھی۔۔وہ روم میں آئی تو آہل اور حمزہ وہاں پر موجود تھا اور سہیل صاحب بھی۔۔۔اسے فرہین بیگم نے صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا اور اور اسکے سر پر دوپٹہ رکھا تب تک ثانیہ بیگم اور ہادیہ بیگم بھی آگئی۔۔۔چند لمحوں بعد داجی مولوی صاحب کے ساتھ روم میں داخل ہوئے۔۔
خیر و عافیت سے نکاح پڑھایا گیا۔۔سنان سے سٹیج پر نکاح پڑھوانا تھا تو سائین کروانے کے بعد وہ برائیڈل روم سے نکل کر سٹیج پر چلے گئے۔۔۔
ان دونوں کے نکاح کے بعد فوٹوشوٹ ہوا اور رخصتی کا وقت آن پہنچا۔۔۔
آئدہ قرآن کے سائن تلے زاہران کے ساتھ رخصت ہوئی۔۔اسنے رخصت ہو کر حویلی ہی آنا تھا اور کل انکی واپسی تھی کیونکہ ولیمہ کراچی میں ہونا تھا۔۔۔
معصومہ آئدہ کو زاہران کے کمرے میں بیٹھا کر چلی گئ تھی۔۔۔۔معصومہ کے جانے کی بعد آئندہ کچھ دیر بیٹھ کر اپنے پیچھلی زندگی کوسوچ رہی تھی اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ زندگی ایسا بھی کبھی موڑ لے گئ کہ جس سے وہ محبت کرتی تھی وہ اس کا مجازی خدا بن جائے گا۔۔۔اس نے زاہران کو ابھی معاف نہیں کیا تھا اور وہ معاف کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتی تھی جب تک ساری سچائی سامنے نہ آجاتی اس لیے وہ زاہران کے آنے سے پہلے چینج کرنا چاہتی تھی وہ اسی نیت سے اٹھا کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئی اور سب سے پہلے اس نے ڈوپٹہ اپنا سر سے اتار کر سائیڈ پر رکھا اور ابھی اس نے جیولری کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی آواز آئی اسے حیرت ہوئی کے زاہران اتنی جلدی روم میں آگیا۔۔۔۔۔ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ اپنی جیولری اتارنے لگی کیونکہ اب اسے ان سب چیزوں سے الجھن ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ شیشے میں دیکھ رہی تھی جب زاہران اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا ان دونوں کا عکس شیشے میں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہو۔۔۔۔
آئدہ نے زاہران کو اگنور کیا اور اپنا کام جاری رکھا۔۔۔
"یہ کیا کر رہی ہوں۔۔۔ابھی تو میں نے تمھیں صحیح سے دیکھا بھی نہیں۔۔۔۔"
زاہران نے آئدہ کو گھورتا ہوئے کہا۔۔۔۔
زاہران کی بات پر آئدہ کے چلتے ہاتھ روکے مگر پھر اس کی بات کو اگنور کر کے اپنا کام جاری رکھا اور اس کی یہ حرکت دیکھ کر زاہران کو صدمہ ہوا تھا مطلب اس کی بات کی کوئی ویلیو ہی نہیں۔۔۔
" آئدہ کیا ہے یار میں کچھ بول رہا ہوں۔۔۔"
زاہران نے آئدہ کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا اور جھنجلا کر بولا۔۔۔۔
"زاہران میرے خیال میں ہمارے بیچ ایسے کوئی خوشگوار تعلقات نہیں ہیں پہلے کی بات الگ تھی جو کچھ ماضی میں ہوا میں بھولی نہیں ہوں ابھی تک اور جب تک سارا سچ سامنے نہیں آجاتا میں آپ کو معاف نہیں کر سکتی اور جس دن سچ سامنے آجائے گا میں اسی دن آپ کا معاف کر دوں گی اور مجھے شدت سے اس دن کا انتظار ہے اور تب تک میں آپ کی اور اپنے رشتے کو ٹائم دینا چاہتی ہوں آپ وعدہ کریں میری بات مانیں گے۔۔۔۔۔"
آئدہ نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کر کے زاہران کے آگے اپنا ہاتھ کیا۔۔۔
"ٹھیک ہے پر وعدہ میں ایک ہی شرط پر کروں گا۔۔۔۔"
زاہران کچھ سوچ کر بولا۔۔۔آئدہ نے آنکھوں سے اسے بولنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
"میں تیار ہوں تمھاری بات ماننے کے لیے مگر جب تک سچ سامنے نہیں آجاتا تمھیں میری چھوٹی موٹی گستاخیاں برداشت کرنی پڑے گئ اگر تمھیں میری بات منظور ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں تمھاری کوئی بات نہیں ماننے والا۔۔۔۔"
زاہران نے آرام سے اپنا شرط بتائی اور آخر میں کندھے اچکا دیے آئدہ تو زاہران کو دیکھتی رہ گئ۔۔۔۔
"ٹھیک ہے اگر نہیں منظور میری شرط تو میں بھی کوئی وعدہ نہیں کر رہا۔۔۔"
کافی دیر تک جب آئدہ کی طرف سے جواب نہیں آیا تو زاہران بولا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا۔۔۔۔
"رکیں۔۔۔منظور ہے مجھے آپکی شرط۔۔۔"
آئدہ بولتے ساتھ ہی ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی تا کے چینج کر سکے اور زاہران اس کی پھرتی دیکھ کر حیران رہ گیا اور پھر بے ساختہ مسکرا دیا۔۔۔۔اب تو زاہران کو بھی بے بڑی سے انتظار تھا کے جلدی سے سچ سامنے آئے کیونکہ اب اس نے جب ماضی کی باتوں پر ہر پہلو سے سوچا تھا تو اس کو لگ رہا تھا کے آئدہ کا کوئی قصور نہیں ہے آئدہ پر سراسر الزام ہے۔۔۔۔۔
وہ انھیں سوچو میں غرق تھا جب آئدہ ڈریسنگ روم سے نکل کر باہر آئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں برش کرنے لگی زاہران آئدہ کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اور آئدہ کے بالوں کو ایک سائیڈ پر کیا ایک نفیس سے نیکلس آئدہ کی گردن کی زینت بنا دیا آئدہ زاہران کے لمس پر ایک دم سے کانپ گئ اور اس کی پلکیں لزرا گئ۔۔۔۔
"تمھاری منہ دکھائی کا تحفہ۔۔۔۔"
زاہران نے آئدہ کے کان میں سرگوشی کی اور آئدہ کو اپنی طرف کر کے سر پر بوسہ دیا آئدہ کے گال شرم سے سرخ ہوگئے اور زاہران اس کے گالوں کی سرخی دیکھ کر مسکرا دیا اور ڈریسنگ روم میں چلا گیا پیچھے زاہران کا کمس محسوس کر کے آئدہ مسکرا دی اور پھر روم کی لائیٹ اوف کر کے اپنی سائیڈ آکر لیٹ گئ اور کمفرٹر لے کر اپنی سائیڈ کی لائیٹ بند کر کے آنکھیں موند گئ۔۔۔۔
زاہران جب فریش ہو کر آیا تو پورا کمرا اندھیرے میں ڈوبہ ہوا تھا صرف اس کی طرف کی سائیڈ لیمپ اون تھی وہ بھی اپنی طرف آ کر لیٹا اور آئدہ کو کھنچ کر اپنے حصار میں لیا اور سے گیا۔۔۔آئدہ جو ابھی نیند کی وادیوں میں کھوئی تھی اسے محسوس ہوا کے کسی نے اسے اپنی طرف کھنچا ہے مگر زاہران کا اطمینان کر کے سکون سے سو گئ۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
اریج جنید کے ساتھ بھاگ کر لاہور تو آگئ تھی مگر جنید کے گھر والوں کو اریج کسی صورت قبول نہیں تھی جنید کی ماں نورین کا کہنا تھا کل کو جو لڑکی جنید کے لیے گھر سے بھاگ آئی ہے وہ آگے کس اور کے لیے جنید کو بھی چھوڑ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔
اریج سے سارے زیور اور پیسے لے لیے گئے تھے اور اس کی حیثیت گھر میں ملازم جیسی تھی اور اریج تو جنید اور سمبل کے بدلنے پر حیران تھی کے وہ لوگ وہاں کیا تھا اور اب یہاں اپنے اصلی رنگ دکھانا شروع کردیے ہے۔۔۔۔۔
آئے روز جنید کی ماں اور سمبل جنید کو اریج کے خلاف بھڑکاتی اور وہ ان کی باتوں میں آکر روز اریج کو مارتا اریج کی رونے کی آوازیں اور چیخیں سن کر نورین اور سمبل کو سکون ملتا اریج سارا دن رات گھر کے کام کرتی اور کوئی بھی چھوٹی غلطی پر اس کے ساس بھی اس پر ہاتھ اٹھاتی اور سمبل بھی ذلیل کرتی جنید کو کہی نوکری نہیں مل رہی تھی اس کا الزام بھی اریج کے سر تھا کے اریج سبز قدم ہے۔۔۔۔۔
اریج کو اپنی زندگی جہنم لگنے لگی تھی وہ لڑکی جس نے کبھی اپنے گھر میں خود اٹھ کر پانی نہیں پیا تھا آج وہ سب کام گھر کے کرتی اور سب کی مار اور طعنے برداشت کرتی۔۔۔۔۔
اریج کو یہ سزا لگ رہی تھی جو کہ اس کو دنیا میں ہی مل گئ تھی وہ اپنے خاندان کی عزت کو روند کر آئی تھی صرف اپنے پیار کے لیے اس پیار نے اُس اِس کی اوقات دیکھا دی تھی اور دو کوڑی کا کردیا تھا۔۔۔۔۔
انہی دنوں اریج کو خوشخبری ملی کی وہ امید سے ہے اس پورے ٹائم میں وہ پہلی دفعہ دل سے مسکرائی تھی۔۔۔۔۔
پر گھر والوں کو کوئی خوشی نہیں ان کے خیال میں ایک اور خرچا بڑھ گیا گھر والے اریج کے امید سے ہونے کا بھی خیال نہیں کرتے تھے اور وہ گدھوں کی طرح دن رات کام کرتی تھی۔۔۔۔
جنید کے گھر والوں نے کسی کو بھی جنید کی شادی کا نہیں بتایا جب کوئی گھر آتا تو وہ اریج کو گھر کی کام والی کہ کے ٹال دیتے نورین کا جنید کا کہنا تھا کے جلد ہی اریج کو طلاق دے کر فارغ کرے اور گھر سے نکال دے تا کہ وہ اس کی شادی اپنے بہن کی بیٹی سے کروا سکے۔۔۔۔۔
نورین نے اپنے بہن سے بھی بات کر لی تھی وہ بھی راضی تھی نورین نے اس کا کہا تھا کہ اپنے شوہر سے کہ کے جنید کو نوکری دلوا دے تو اس کے بہن نے کہا تھا کہ وہ دلوا دے گئ نوکری نورین اسی بات پر خوش تھی اور اب وہ چاہتی تھی اریج جلد ہی دفعہ ہو اس گھر سے اب وہ اور سمبل بہت زیادہ جنید کا ورغلتی تھی اور وہ بھی ان کی باتوں میں آجاتا اور اریج کے امید سے ہونے کا بھی خیال نہیں کرتا اور اسے مارتا۔۔۔۔۔
الٹراساؤنڈ سے پتا چلا کے اریج بیٹی کی ماں بننے والی ہے تو گھر والوں کا رویہ اور تلخ ہو گیا تھا اس طرح کئ مہینے گزر گئے اور اریج کا آخری ماہ شروع ہوا اس سب کی دوران سمبل کی شادی ہوگئ تھی جس کو نورین نے سارا زیور اریج کا دیا تھا۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی جنید کا بھی رشتہ پکا ہو گیا تھا اس کی خالہ کی بیٹی سے اور اس کو کہی سے اریج اور جنید کی شادی کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ رشتہ توڑنے کے در پر تھی پر جنید نے اسے راضی کر لیا تھا اور وہ بھی اس بات پر راضی تھی کے اریج کو ابھی طلاق دے اور جنید بھی راضی تھا کیونکہ وہ اتنا اچھا رشتہ اور نوکری ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔
جنید نے گھر آتے ہی اریج کو کھڑے کھڑے طلاق دی اریج نے کتنا روکنے کی کوشش کی تھی کتنا گڑگڑائی تھی مگر جنید ٹس سے مس نہ ہوا اس دوران نورین تو کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی جنید نے طلاق کے بعد اریج کو گھر سے کچھ کپڑوں سمیت نکل دیا تھا اس ظلم نے تو یہ بھی نہیں سوچا تھا کے وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور وہ اس انجان شہر میں رات کے اس پہر کہاں جائے گی وہ جنید یہ بھی بھول بیٹھا تھا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔۔۔نورین تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی اب جلد از جلد جنید کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کروائے۔۔۔۔
اریج کافی دیر دروازے کے باہر بیٹھی دروازہ کھٹکتی رہی مگر کسی نے نہیں کھولا وہ تھک ہار کر اٹھی اپنی چادر صحیح سے اپنے اوپر لی اور بیگ پر گرفت مضبوط کی اور چل پڑی اسے تو پتا بھی نہیں تھا وہ کہاں جائے گئ اسے تو راستے بھی نہیں پتا تھا وہ ان 10 11 مہینوں میں گھر سے کبھی باہر ہی نہیں نکلی تھی اس نے سب اللہ کے حوالے کیا اور چل پڑی وہ انہی سوچوں میں گہری اردو گرد سے بیگانی روڈ پر چل رہی تھی کہ اسے پیچھے سے گاڑی کا ہارن بھی سنائی نہیں دے رہا تھا جب گاڑی نے اس کے قدموں کے قریب بریک لگائی تو ایک دم سے ہوش میں آئی اور پیچھے مڑ کر دیکھا ایک دم سے اس کے وجود میں درد کی تیز لہر دوڑ گئی اور چیخ کر نیچے بیٹھتی چلی گئ۔۔۔۔
گاڑی میں مسٹر اصغر اور مسز اصغر تھے اور ساتھ ان کا ڈرائیور تھا ڈرائیور نے ساری صورتحال کا مسٹر اینڈ مسز اصغر کو بتایا تو مسز اصغر کا تشویش ہوئی کے رات کے اس پہر باہر سنسان سڑک پر کوئی لڑکی ہے تو انھوں نے باہر نکل کر اریج کو دیکھا اور اس کی حالت پر انھیں رحم آیا اریج درد سے تڑپ رہی تھی اور غنودگی میں جارہی تھی جب مسز اصغر نے ڈرائیور کے مدد سے اریج کو گاڑی میں بیٹھایا اور ساتھ ہی اس کا بیگ لیا اور ڈرائیور کو گاڑی جلدی سے ہاسپٹل کے طرف لینے کا کہا۔۔۔۔
ہاسپٹل پہنچتے ہی اریج کو ایمرجنسی میں لے گئے۔۔۔۔
مسٹر اینڈ مسز اصغر باہر پریشانی سے ٹہل رہے تھے کتنی ہی دفعہ ڈرائیور انھیں کہ چکا تھا کہ چلیں گھر صبح ان کی فلائٹ ہے مگر مسز اصغر کا کہنا تھا جب کہ بچی کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاسکتا جب تک اس کے گھر والے نہ آجائے اریج کے بیگ سے بھی انھیں کچھ خاص نہیں ملا تھا ساری صورتحال کا انھیں اب اریج ہی بتا سکتی تھی۔۔۔۔۔
2 3 گھنٹوں بعد نرس باہر آئی اور ایک ننھی سے جان کو مسز اصغر گود میں ڈال دیا۔۔۔۔
"مبارک کو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔آپ کی بیٹی بھی ٹھیک ہے تھوڑی دیر تک روم میں شفٹ ہوجائے گی۔۔۔"
نرس بول کر واپس چلی گئ۔۔۔۔
جب کہ مسڑ اینڈ مسز اصغر تو خوش ہورہے تھے ان کی شادی کو 12 سال ہوگئے تھے ان کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی وہ یہاں لاہور بھی کسی رشتے دار کی شادی میں آئے تھے اب صبح ان کی فلائٹ تھی کراچی کی۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد اریج کو ہوش آگیا تھا وہ بہت خوش تھی مگر جب اس نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگایا تو وہ زاروقطار رونے دی کے اس کے کیے کی سزا اس کی بیٹی کو مل گئ اور اس کی بیٹی کتنی بدنصیب تھی کہ اس کا اس کے باپ کا پیار بھی نہیں ملے گا۔۔۔۔
مسڑ اور مسز اصغر نے جب اریج سے پوچھا تو اریج نے سب کچھ بتا دیا گھر سے بھاگنے سے لے کر طلاق تک اس سارے وقت میں اس کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے۔۔۔۔۔
اور مسز اصغر تو یہ سوچ رہی تھی کوئی اتنا ظالم بھی کیسے ہوسکتا۔۔۔۔
"اریج بیٹے اب تم کہاں جاؤ گئ اس شہر میں تو تمہارا کوئی اپنا نہیں اور یہاں پر درندے تو گھت لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کب کوئی اکیلی اور بے بس لڑکی انھیں دیکھے اور وہ اسے نوچ کھائیں۔۔میری مانوں تو اپنے گھر واپس چلی جاوں گھر والوں سے معافی مانگ کو گھر والے معاف کردیں گے۔۔۔"
مسز اصغر نے اریج کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سمجھتے ہوئے کہاں اور معاشرے کا ایک تلخ حقیقت بھی دکھائی۔۔۔۔۔
"نہیں آنٹی میں گھر کبھی نہیں جاؤ گی گھر والے تو مجھے معاف کردیں گے مگر میں خود کو کبھی بھی معاف نہیں کر سکتی آپ مجھے اور میری بیٹی کو کسی دارالامان چھوڑ جائے۔۔۔۔"
اریج نے ان کے بات کی نفی کی وہ اتنا سب کرنے کے بعد کسی صورت گھر نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔
"بیٹا ہم تمھیں کیسے دارالامان چھوڑ جائے تمھارے ساتھ ایک ننھی جان بھی ہے۔۔۔۔تم ایک کام کرو ہمارے ساتھ ہمارے گھر کراچی چلو ویسے بھی ہم یہاں شادی کے لیے آئے تھے کل جانے والے ہے تو تم ہمارے لیے دو دن چھوڑ کے چلنا ۔۔۔۔ویسے بھی ہماری کوئی اولاد نہیں اس طرح ہمیں دو بیٹیاں مل جائے گئ۔۔۔۔"
مسز اصغر نے کچھ سوچ کر اریج کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔۔۔۔۔۔
"نہیں آنٹی میں اور میری بیٹی آپ پر بھوج نہیں بننا چاہتے پہلے ہی آپ کی ہمارے اوپر بہت احسان ہے جس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔۔۔۔"
اریج نے پھر آن کی بات کی نفی کی وہ کسی پر بھوج نہیں بننا چاہتی تھی۔۔۔۔
"میں کچھ نہیں سن رہی تم ہمارے ساتھ چل رہی ہوں اور بیٹیوں پر کوئی احسان نہیں کرتا کیوں میں ٹھیک کہ رہی ہوں نہ اصغر صاحب۔۔۔۔"
مسز اصغر نے بول کر مسڑ اصغر سے تائید چاہی۔۔۔
"بلکل صحیح کہ رہی ہے آپ بیگم۔۔۔۔بیٹا اس ننھی گڑیا کا کیا نام رکھو گی۔۔۔۔"
مسڑ اصغر نے اریج کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کی گود سے اس کی بیٹی کو اٹھایا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے انکل۔۔۔اس کا نام آپ دونوں رکھ لیں۔۔۔"
اریج نے نام کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دیا۔۔۔۔
"اس کا نام ہوگا "زارا فاطمہ" اور یہ آج سے ہماری نواسی اور آپ ہماری بیٹی۔۔۔۔"
مسٹر اصغر نے بول کر اریج کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔
اس طرح اریج مسٹر اینڈ مسز اصغر کے ساتھ کراچی انکی بیٹی بن کر آگئ زارا بھی مسڑ اینڈ مسز اصغر کے ساتھ اٹیچ ہوگئ تھی اریج نے عدت کے دوران اور عدت کے بعد چند کمپیوٹر اور دوسرے کورس کر لیے تھے وہ خود اور اپنی بیٹی کو کسی پر بھوج نہیں بنانا چاہتی تھی وہ تو شکر تھا کے وہ گھر سے اپنی میڑک اور ایف اس سی کی سندیں لے آئی تھی جو کہ اس کے بیگ میں ہی تھی کپڑوں کے نیچے تو جب جنید نے اس کا طلاق دے کر فارغ کیا اور بیگ دیا تو اس میں سندیں تھی جو کہ اب اس کے کام آرہی تھی وہ پرائیویٹ بھی پڑھائی کر رہی تھی اور ساتھ ہی جوب بھی ڈھونڈ رہی تھی جوب اس کا تھوڑی جدوجہد کے بعد مل گئ تھی ساتھ ہی اس کی پڑھائی بھی چل رہی تھی اب وہ پانچ وقت کے نماز پڑھائی اور تہجد بھی اللہ نے اسے ٹھوکر لگائی تھی تو اب اس نے اللہ سے دل لگا لیا تھا اور باہر جاتے وقت اسکارف بھی جب اسے ضرورت پڑتی وہ نقاب بھی کر لیتی وہ زیادہ باہر نہیں جاتی تھی صرف آفس سے گھر اور گھر سے آفس زارا باہر جاتی تھی مگر مسٹر اور مسز اصغر کے ساتھ اور وہی اریج کے تمام ضرورت کے چیزیں لے آتے وہ تو اس سب کے بعد زندگی سے منہ ہی موڑ لینا چاہتی تھی مگر اپنی بیٹی کے خاطر وہ ایسا کر نہیں سکی تھی مسڑ اینڈ مسز اصغر اریج کا اور زارا فاطمہ کا سگی اولاد سے بھی زیادہ کرتے تھے اریج تو شکر ادا کرتے نہیں تھکتی تھی کہ اللہ کو اس کی ایسی کونسی نیکی پسند آگئ جو اس کو مسٹر اینڈ مسز اصغر ماں باپ کے روپ میں مل گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔اریج سوچتی تھی کے وہ حویلی جائے اور حویلی والوں سے معافی مانگے پر وہ ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اس دوران اریج کے کئی رشتے آئے تھے کیونکہ مسڑ اینڈ مسز اصغر نے سب لوگوں کو کہاں تھے وہ انکی کزن کی بیٹی ہے اور اپنے شوہر کی وفات کے بعد یہاں آگئی تھی اور دنیا میں کوئی رشتے دار نہیں تھے اور والدین بھی شادی کے بعد چل بسے تھے۔۔۔۔
اریج ان رشتوں کو سہولت سے انکار کرتی تھی کیونکہ اس کی ایک شادی کا ایکسپیرینس ہی اتنا گھٹیا تھا وہ دوسرا نہیں کرنا چاہتی تھی اور دوسری بڑی وجہ اس کی بیٹی تھی جس کے وجہ سے وہ شادی کرنے سے انکاری تھی۔۔۔۔
اب جب سب سیٹ تھا تو وقاص اس کے لائف میں آگیا تھا اور دوسرا خان انڈسٹری وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ خان انڈسٹری کی لوگوں کی ہے اور وہ ابھی ان کا سامنا کرنے کا تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
اریج نے آفس سے لیو لینے کا سوچا تھا مگر وقاص نے اسکی لیو رجیکٹ کردی اور اسے اپنے ساتھ جانے کا آرڈر دیا۔۔۔اریج کو ناچاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ جانا پڑا کیونکہ اسکو اس جاب کی اشد ضرورت تھی اپنی بیٹی کے اچھے فیوچر کے لیے اسکو یہ جاب کرنی تھی کیونکہ اس سے بہتر جاب اسے کہیں نہیں ملی تھی۔۔۔
کوئی ڈیل کرنے کے لیے وقاص کے ساتھ جانا بڑی بات نہیں تھی۔۔۔بلکہ خان انڈسٹری جانا بڑی بات تھی۔۔۔یہ اس خاندان کی انڈسٹری تھی جن سے وہ سارے رشتے ناطے توڑ آئی تھی۔۔۔انکا سامنا کرنے کی ہمت اب اس میں نہ رہی تھی۔۔
آفس سے گھر آنے کے بعد وہ کب سے انہی مختلف سوچوں میں گم تھی جب اسکا فون بجنے لگا۔۔سکرین پر وقار کی اسسٹنٹ کا نام جگمگا رہا تھا جس نے وقاص کے ساتھ ڈیل کرنے جانا تھا۔۔۔وقاص نے اریج کو کہا تھا کہ اسکو کال کر کہ ایک بار سب کچھ ڈسک کر لینا تاکہ کوئی کنفیوژن نہ رہے کیونکہ وہ پہلی بار کوئی ڈیل کرنے اسکے ساتھ جا رہی تھی۔۔اریج اسے کال کرنا بھول گئی تھی تبھی اسنے خود ہی کردی۔۔ اریج نے ایک گہرا سانس لیا اور اسکی کال پک کی۔۔۔۔
وہ صبح سات بجے اٹھی اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔۔۔ابایا اور حجاب کیا اور باہر لاونج میں آگئ۔۔۔۔فائل اور ہینڈ بیگم اٹھا کر اسنے اپنی بیٹی کا ماتھا چوما اور مسز اصغر کے حوالے کر کہ چلی گئی۔۔۔
وہ جیسے ہی اپنی کیبن میں آئی تو وقاص کا بلاوا آگیا وہ اٹھی اور اسکے آفس میں چلی گئی ان دونوں نے میٹنگ سے ریلیٹڈ کچھ پوئنٹس ڈسکس کیے اور ساڑے آٹھ بجے وہ دونوں خان انڈسٹری جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے۔۔۔وقاص اریج کے چہرے پر موجود گھبراہٹ اچھے سے دیکھ رہا تھا اور آنکھوں میں ایک خوف تھا جو اسے عجیب لگا۔۔
"اریج۔۔"
وقاص نے اسے پکارا تو وہ اسکی طرف دیکھنے لگی جو گاڑی میں اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا تھا۔۔۔
"آر یو اوکے؟"
اسکے سوال پر اریج کچھ گڑبڑا گئی۔۔
"جج۔۔جی سر ٹھیک ہوں"
اسنے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔وقاص نے سر ہلایا۔۔۔وہ جب خان انڈسٹری کے باہر پہنچے تو اریج کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔۔۔اسنے چند گہرے سانس لیے اور نقاب کرنے کے لیے بیگ سے پن نکالی اور حجاب کی ایک سائیڈ کو اٹھا کر دوسری سائیڈ پن کردیا۔۔وقاص اسکو غور سے دیکھا رہا تھا۔۔
"یہ کیوں کر رہی ہو۔۔ویسے تو نہیں کرتی۔۔"
اریج کو سمجھ نہ آیا وہ کیا کہے۔۔۔
"ویسے ہی۔۔۔"
اسنے جواب دیا اور گاڑی سے باہر نکلی وقاص بھی خاموشی سے باہر نکلا اور وہ دونوں خان انڈسٹری کے اندر داخل ہوئے۔۔۔اندر قدم رکھتے ہی اریج کے پاؤں لرزئے تھے۔۔۔اسنے اللہ کا نام لے کر خود کو سنبھالا اور وقاص کے ہم قدم ہوتی وہ وقاص کے ساتھ آگے پڑھی تو ایک لڑکی انکو میٹنگ روم تک لے آئی اور دروازہ کھولا تو وہ دونوں اندر بڑھے۔۔۔
اندر بیٹھے شخص کو دیکھتے ہی اریج کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔۔انکھوں میں نمی جمع ہونے لگی اسنے نظریں جھکائی اور نمی ضبط کرنے لگی۔۔۔
وقاص آگے بڑھا تو آہل نے اٹھ کر اسے گلے لگایا۔۔۔زیادہ نہیں پر دونوں میں تھوڑی بہت جان پہچان تھی۔۔۔وقاص اور اریج اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے تو وقاص نے اریج کا انٹروڈکشن کروایا۔۔اسکا نام سن کر آہل کی آنکھوں کے سامنے ایک چہرا گھوم گیا۔۔میٹنگ سٹارٹ ہوئی۔۔۔۔
اریج کی نظر بار بار آہل پر جارہی تھی اور آہل اسکی اس حرکت کو اچھے سے نوٹ کر رہا تھا۔۔۔یہ آنکھیں اسکو جانی پہچانی لگی پر اسنے اگنور کیا۔۔۔کچھ دیر بعد وقاص نے اریج کو اشارہ کیا کہ پریزنٹیشن دے۔۔۔اسنے ایک گہرا سانس لیا اور اٹھ کر کھڑی ہوئی۔۔اسنے ہاتھ میں پکڑی یو ایس بی پروجیکٹر میں لگائی اور پریزنٹیشن دینے لگی اسکی آواز سن کر آہل حیران ہوا۔۔۔اسکے دماغ میں ایک دھندھلا سا چہرا لہرایا اریج کا بولنے کا انداز محسوس کرکہ آہل کے دل میں خواہش ابھری کہ وہ اس نقاب پوش لڑکی کا چہرا دیکھے۔۔۔اسنے اہنے دماغ سے سارے خیالات جھٹکے اور اسکی پریزنٹیشن پر دیھان دینے لگا پریزنٹیشن کے ٹائم اریج نے ایک بار بھی آہل کی طرف نہ دیکھا اور یہی وجہ تھی کہ اس نے کافی اچھی پریزنٹیشن دی تھی۔۔وقاص حیران ہوا تھا۔۔۔۔
"تو پھر ڈیل ڈن سمجھوں۔۔"
چند باتوں کے بعد وقاس نے آہل سے سوال کیا۔۔
"ہاں ڈن کرو۔۔"
آہل نے کہا تو وقاص اٹھ کر اسکے گلے لگا۔۔آہل نے اپنی اسسٹنٹ کو تین کپ کافی لانے کو کہا اریج نے منع کرنا چاہا پر وہ لڑکی جا چکی تھی وہ بس اللہ کا نم لےکر رہ گئی وہ کافی کیسئ پیے گی یہ سوچ سوچ کر اسکی ہتھیلئ عرق آلود ہورہی تھی۔۔۔
"اکسکیوز می۔۔مین یہ کال اٹینڈ کرلوں۔۔۔"
آہل کا فون بجنے لگا تو اسنے کہا اور مینٹنگ روم سے باہر نکل گیا۔۔اسکے جاتے ہی اریج نے نقاب ہٹاکر گہرا سانس لیا اور پانی کا گلاس منہ سے لگا کر پینے لگی۔۔
"مس اریج۔۔۔آپ واقعی میں ٹھیک ہیں نہ۔۔"
وقاص نے ٹینشن سے پوچھا۔ اریج نے بےدیھانی میں سر انکار میں ہلایا اور پھر جلدی سے اثبات میں ہلانے لگی۔۔۔وقاص نے اسکی آنکھوں میں خوف محسوس کیا تو اسکاہ ہاتھ نرمی سے تھاما۔۔
"سب ٹھیک ہے رلیکس ہوجاؤ "
وہ ساری حقیقت جانتا تھا اسی لیے اسکی حالت سمجھ کر وہ اسکو رلیکس کرنے لگا۔۔تبھی دروازہ کھلا اریج نے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچا اور نقاب کیا۔۔۔اندر آتے آہل نے اسکی حرکت اچھے سے نوٹ کی۔۔
کچھ دیر بعد آہل کی اسسٹنٹ کافی لے کر اندر داخل ہوئی اسنے وقاس اور آہل کو کافی دی اور اریج کی طرف آئی۔۔اریج کافی کا مگ تھامنے ہی لگی تھی جب وہ کافی اسکے ہاتھ پر گر گئی یا جان پوچھ کر گرائی گئی۔۔
اسکے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔اسکا ہاتھ گرم گرم کافی گرنے سے جل گیا تھا۔۔۔وقاص نے ٹیشو اٹھایا اور اسکا ہاتھ صاف کرنے لگا۔۔
"کیا ہوگیا ہے حریم۔۔۔ہاتھ جلا دیا تم نے انکا سارا کیا ہوگیا ہے۔۔"
آہل نے اپنی اسسٹنٹ حریم کو غصے مین کہا وہ خاموشی س نظرین جھکا کر کھڑی رہی۔۔۔
"میم آئیں آپ کو واشروم لے چلوں۔۔ٹھنڈے پانی سے ہاتھ دھو لیں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
حریم نے کہا تو وقاص نے اریج کا ہاتھ چھوڑا تو حریم اسکو اپنے ساتھ باہر لے گئی۔۔
اریج نے اپنا ہاتھ دھو کر ٹاول سے خشک کیا تو حریم نے ایک چٹ اسکی طرف بڑھائی اریج نے حیرت سے اس چٹ کو دیکھا اور تھام لی۔۔
حریم نے اریج کو چٹ کھول کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کو کہا تو اریج نے ویسا ہی کیا ۔۔۔
"مس اریج۔۔۔میں آپ کو پہچان چکا ہوں۔"
وہ الفاظ پڑھ کر اسکی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔۔
"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے تو مہربانی کرکہ اپنا نمبر دےدو۔۔۔"
اریج کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اسنے اپنا نمبر حریم کو دے دیا اور اسکے ساتھ واپس میٹنگ روم میں آگئی۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھی اور آہل کے بارے میں سوچنے لگی چند لمحوں
بعد اسکا فون بجبے لگا۔۔۔ان نون نمبر دیکھ کر اسنے کال کاٹ دی مگر کال دوبارہ سے آنے لگی اسنے دوبارہ سے کال کاٹ دی تیسری بار بھی اسی نمبر سے کال آنے لگی۔۔۔کچھ سوچ کر اسنے کال اٹینڈ کی اور فون کان سے لگا دیا۔۔وہ خاموش رہی اور اگلے شخص کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
"ہیلو اریج"
آہل کی آواز سن کر اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔
"جج۔۔۔جی اریج بات کر رہی ہوں"
اسنے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔
"کیسی ہو۔۔۔"
آہل نے سوال کیا تو وہ چند لمحے خاموش ہوگئی۔۔۔
"ٹھیک ہوں۔۔۔آپ کیسے ہیں"
وہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی۔۔۔
"ہمم۔۔۔میں بھی ٹھیک ہوں"
آہل نے جواب دیا تو دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔۔۔
"ملنا ہے مجھے تم سے۔۔"
آہل نے خاموشی توڑی اور کہا۔۔۔اریج جانتی تھی وہ یہی کہے گا۔۔۔
"مگ۔۔مگر کیوں"
آہل کو اریج کا یہ سوال کافی عجیب لگا۔۔
"بہت کچھ پوچھنا ہے اور بہت کچھ بتانا بھی ہے۔۔۔"
"فون پر نہیں بتا سکتے کیا۔۔۔"
اریج نے سوال کیا۔۔
"نہیں۔۔ملنا ضروری ہے تم فکر نہ کرو میں کسی سے تمہارا ذکر نہیں کروں گا۔۔۔"
آہل اسکو یقین دلاتا ہوا بولا۔۔مزید چند باتوں کے بعد اریج آہل سے ملنے کے لیے مان گئی۔۔باہر جاکر ملنا ان سکیور ہے یہی سوچ کر اسنے آہل کو گھر کا ایڈریس دے دیا آہل نے دو دن بعد اسکے گھر جانے کا ارادہ کیا کیونکہ کل آئدہ اور زاہران کا ولیمہ تھا اسی لیے وہ کل نہیں جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج آئدہ اور زاہران کا ولیمہ تھا۔۔۔کیونکہ ولیمہ کراچی مین تھا تو اسی لیے داجی کے مہمان کچھ جوکہ حیدرآباد مین رہتے تھے وہ کم ہی آئے تھے۔۔۔زاہران،حمزہ، اور آہل کے تمام دوست آئے تھے۔۔۔سارے مہمان اور سارے ہال میں آگئے تھے۔۔اب بس دلہا اور دلہن کا انتظار باقی تھا۔۔
ماہ اور ہالے نے آج منٹ کرل کی شارٹ فراک پہنی تھیں اور معصومہ نے منٹ کلر کی میکسی۔۔وہ تینوں ہی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
ماہ ہال کے باہر کھڑی کسی سے کال پر مہو گفتگو تھی جب حمزہ کی نظر اس پر پڑی وہ اسی کی تلاش میں باہر آیا تھا تب اسکی نظر ماہ پر پڑی جو اکیلی کھڑی کسی سے کال پر بات کر رہی تھی۔۔وہ اسکے پاس گیا مگر کچھ ہی فاصلے پر رک گیا۔
"آپکو خدا کا واسطہ ہے آج کے بعد مجھ سے کنٹیکٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔مجھے میری زندگی میں خوش رہنے دیں میں آپ کے پاس نہیں آؤں گی۔۔کسی اور کی شادی کروائیں اپنے دوست کے بیٹھے سے میرا دماغ مت خراب کریں۔۔ ۔"
ماہ روش غصے سے بولی اور فون کے کرکہ جیسے ہی پلٹی تو اپنے پئچھے کھڑی حمزہ کو دیکھ کر ڈر گئی مگر اگلے ہی لمحے اسنے خود کو سنبھالا انکھوں میں موجود نمی کو چھایا اور ایک ناراض نظر حمزہ پر ڈال کر وہ جانے لگی جب حمزہ نے اسکو بازو سے پکڑ لیا۔۔
"کیا ہوا ہے تمہیں۔۔"
حمزہ نے سوال کیا
"کچھ نہیں۔۔بازو چھوڑو میری"
ماہ اپنی بازو اسکی گرفت کروتے ہوئے بولی
"ہوا کہا ہے تمہیں۔۔۔میں نے کیا کیا ہے مجھ سے کیوں ناراض ہو"
حمزہ نے اسکو کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔
"میں نے کب کہا آپنے کچھ کیا ہے اور آپکو کس نے کہا میں آپسے ناراض ہوں"
ماہ بغیر کسی تاثر کے بولی۔۔حمزہ نے اسکا "آپ" کہنا اچھے سے نوٹ کیا۔۔
"تم کچھ نہیں کہہ رہی۔۔مگر تمہاری آنکھیں اور تمہاری خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہیں"
حمزہ نے دانت پیس کر کہا۔۔
"اگر میری آنکھیں اور خاموشی اتنا کچھ کہہ رہی ہیں۔۔تو سمجھ جاو مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو"
ماہ نے کہا اور اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کرواتی وہاں سے چلی گئی۔۔
-------------❤❤--------------
آئدہ کی شادی پر ماہ روش سے ملاقات ہونے کے بعد حمزہ کو ایسا لگ رہا جیسے اسکی زندگی رک سی گئی ہے۔۔۔کیونکہ اس دن کے بعد سے ماہ اس سے بات نہیں کر رہی تھی۔۔وہ اسکو زیادہ سارے مسجز کرتا جسکے رپلائے میں وہ کوئی بونڈا سا جواب دے دیتی اور اسکی یہ خاموشی ہی اسکو چبھ رہی تھی۔۔۔اسکی سمجھ سے باہر تھا کہ آخر اسکو ہوا کیا ہے۔۔۔
کچھ سوچ کر اسنے فون اٹھایا اور ماہ کو کال کی جو چار بیلز کے بعد اٹھائی گئی۔۔
"بولو۔۔۔۔"
وہ سرد لہجے میں بولی۔۔
"ملنا ہے مجھے تم سے۔۔۔"
حمزہ نے بھی اپنے لہجے کو سنجیدہ کیا
"کس خوشی میں"
ماہ نے سوال کیا
"وہ مین تمہیں مل کر بتاؤں گا۔۔۔لوکیشن بھیج رہا ہوں۔۔
خاموشی سے شام پانچ بجے ملو مجھ سے۔۔۔"
حمزہ حکم چلانے والے انداز میں بولا اور کال کاٹ دی۔۔ماہ حیرت سے کالی سکرین دیکھتی رہ گئی۔۔۔
-------------❤❤--------------
خیر و عافیت سے ولیمے کا فنکشن ختم ہوا تو سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔۔۔آئدہ شیشے کے سامنے کھڑی جیولری اتار رہی تھی جب زاہران کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
"کیا کر رہی ہو آئدہ"
زاہران نے اپنا کوٹ اتارنے ہوئے اس سے سوال کیا اور اسکے قریب آیا۔۔۔
"جیولری اتار رہی ہوں۔۔تھک گئی ہوں بہت"
آئدہ نے ہلکی آواز میں شیشے میں زاہران کو دیکھتے ہوئے کہا تو زاہران نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا تو آئدہ اسے خاموشی سے دیکھنے لگی۔۔۔وہ آدھی جیولری اتار چکی تھی باقی کی زاہران نے اتاری تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
"بیٹھو یہاں۔۔۔"
زاہران اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ کے قریب لایا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا
بھوک تو نہیں لگی۔۔۔کچھ کھاو گی؟۔۔"
زاہران نے اس سے سوال کیا۔۔۔
"کیا ہوگیا ہے زاہران۔۔بلکل ٹھیک ہوں میں اور بھوک نہیں لگی مجھے۔۔"
آئدہ اسے دیکھتی ہوئے آرام سے بولی تو زاہران نے سر ہالایا۔۔۔
"چینج کرلو تھک گئی ہو تو۔۔۔"
زاہران نے کہا تو آئدہ نے سر انکار میں ہلایا۔۔۔
"آپ پہلے کر آئیں۔۔۔مجھے ٹائم لگ جائے گا میک اپ بھی ریمو کرنا ہے۔۔۔آپ جائیں میں پھر چلی جاتی ہوں"
اسکی بات سن کر زاہران بیڈ سے اٹھا اور چینج کرنے چلا گیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج ہالے کی مہندی کا فنکشن تھا دو دن پہلے وہ مائیوں میں بیٹھی تھی۔۔۔۔۔صبح سے سب گھر والے رات کے فنکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے ماہ روش تو اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی پر رات سے معصومہ اور آئدہ بھی آئی ہوئی تھی آئدہ کو بڑی مشکل سے زاہران نے اجازت دی تھی اب وہ ایک پل کے لیے بھی آئدہ کا خود سے دور نے کرنا چاہتا تھا۔۔۔وہ تینوں کل رات سے اسے فرہاد کے حوالے سے چھیڑ رہی تھی مگر اسے کچھ فیل ہی نہیں ہورہا تھا اس کا دل کہ رہا تھا بہت کچھ برا اس کے ساتھ ہونے والا ہے وہ یہ خوف دل میں ہی دبائے بیٹھی تھی وہ اس شادی سے بلکل بھی خوش نہیں تھی بس اپنے گھر والوں کی وجہ سے خاموش تھی اسے خود سے زیادہ اپنے گھر والوں کی خوشی عزیز تھی۔۔۔۔۔مہندی کا فنکشن رات آٹھ بجے اسٹارٹ ہونا تھا جو کہ باہر لان میں منعقد کیا گیا تھا پورے لان کو پیلے پھولوں اور چھوٹی اور بھی لائیٹوں سے خوبصورتی سے سجایا دیا گیا تھا لان کے ایک طرف جھولا رکھا تھا جھولے کو بھی پیلے پھولوں اور فیری لائیٹ سے سجا دیا گیا تھا جو کہ فرہاد اور ہالے کے لیے تھا اس کے آگے کانچ کی میز پڑی تھی جس پر مٹھائی اور مہندی وغیرہ رسم کے لیے پڑی تھی۔۔۔جھولے کے دائیں طرف اسٹیج بنایا گیا تھا ڈانس کے لیے اور اس کے ساتھ ڈی جے کا سیٹ اپ تھا۔۔۔۔۔لان میں ارد گرد کرسیاں رکھی گئ تھی لوگوں کے بیٹھنے کے لیے۔۔۔۔اور ایک طرف کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔۔گھر کو اندر اور باہر سے بھی سجایا گیا تھا۔۔۔۔سنان اور حمزہ صبح سے اس کام میں تھے جب کہ زاہران آفس میں تھا اور آہل کو کوئی اتاپتا نہیں تھا اس کا نمبر بھی بند جا رہا تھا۔۔۔۔۔
بیٹویشن کو گھر ہی بلایا گیا تھا کیونکہ ہالے نے پارلر جانے سے منع کردیا تھا اس کا دل ہی چیز سے اچٹ ہوگیا تھا۔۔۔۔
ہالے جب چینج کر کے آئے تو بیٹویشن نے اس پر اپنے ہاتھوں کے جوہر دکھانا شروع کیے ہالے بس بے بنی بیٹھی رہی اور اس کی یہ حالت تینوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھی ایک دو دفعہ ان لوگوں نے پوچھا تھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے مگر اس نے مسکرا کر ٹال دیا تھا تو وہ لوگ بھی مطمئن ہوگئ اور اپنی تیاری کرنے لگی۔۔۔۔
بیٹویشن ہالے کو تیار کر کے جا چکی تھی ہالے کو مہندی کے فنکشن کے بعد لگنی تھی۔۔۔۔
"لڑکیوں جلدی سے تیاری مکمل کرو لڑکے والے آنے والے ہے اور تم میں سے کوئی ایک یہاں رکے باقی دونوں میرے ساتھ نیچے چلو۔۔۔ماشاءاللہ ۔۔"
فاطمہ بیگم بولتی ہوئی ہاکے کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔جب انھوں نے ہالے کو دیکھا تو بے ساختہ ان کے منہ سے ماشاءاللہ نکلا۔۔۔۔۔ہالے لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔۔۔گولڈن کلر کی شورٹ شرٹ جس پر ہلکا سے کام تھا اس کی نیچے گرین اور گولڈن بھاری لہنگا پہنا تھا جو ہالے کے سراپے پر غضب ڈھ رہا تھا بالوں کی چٹیا بنا کر آگے رکھی تھی اور اس میں پھول لگا دیے تھے ساتھ ماتھا پٹی پہنی تھی،گلے میں چوکر اور کانوں میں لائیٹ سے جھمکے۔۔۔ہاتھوں میں گرین اور گولڈن چوڑیاں ۔۔۔گولڈن اور گرین ہی کلر کا ڈوپٹہ سر پر تھا۔۔۔۔۔مہندی کے فنکشن کے مطابق لائیٹ سے ہی میک اپ بیٹویشن کر کے گئ تھی وہ اس وقت خوبصورتی کی جیتی جاگتی مثال لگ رہی تو اور اس کے چہرے کی اداسی اس کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اس کے سر کو چوما۔۔۔۔فاطمہ بیگم اور ہالے دونوں کی آنکھیں نم ہوگئ تھی۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے ہالے نے رونا شروع کردیا تو وہ تینوں بوکھلا گئ اور جلدی سے اس کے پاس آئی اور اس کو چپ کروانے لگی مگر ہالے چپ ہی نہیں ہورہی تھی آخر کار بڑی مشکلوں سے وہ چپ ہوئی۔۔۔۔فاطمہ بیگم نے کئ نوٹ اس کے سر سے وار کر غریبوں کو دیئے۔۔۔۔
"معصومہ اور ماہ روش دونوں میرے ساتھ آؤ اور آئدہ بیٹا آپ اس پاگل کا میک اپ صحیح کردو سارا رو کر خراب کر دیا اور پھر جب میں بولوں تب نیچے لے آنا۔۔۔۔اور ہاں۔۔۔ہالے خبردار اب روئی غضب خدا کا لوگ کہے گے کے زبردستی تمہاری شادی کروا رہے ہے۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔"
فاطمہ بیگم ان دونوں کو لے کر جارہی تھی جب انھیں یاد آیا تو ہالےنور کو خبردار کیا تو وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئ۔۔۔۔۔
"چلو ہالے جلدی سے بیٹھوں میں تمہارا میک اپ صحیح کردوں۔۔۔۔"
آئدہ نے بولا تو وہ بھی چپ کر کے بیٹھ گئ تو آئدہ اس کے میک اپ کو فائنل ٹچ دینے لگی۔۔۔۔۔
آئدہ اور معصومہ کا سیم لہنگا تھا دونوں نے اورنج اور یلو کلر کا لہنگا پہنا تھا اس کے ساتھ لائیٹ سے جیولری اور لائیٹ ہی میک اپ کیا تھا آئدہ نے بالوں کی چوٹی بنائی تھی جب کے معصومہ نے لوس کرل کر لیے تھے۔۔۔۔
ماہ روش تو ویسے ہی ہیوی ڈریسز نہیں پہنتی تھی تو اس نے صرف ہالے کے خاطر آج گرین اور یلو کلر کی شلوار قمیض پہن تھی ساتھ دوپٹہ جس کا سنبھالنے میں ہلکان ہو رہی تھی اس نے بال ایسے ہی کھلے چھوڑے تھے اور بلکل لائیٹ میک اپ کیا تھا۔۔۔۔
لڑکے والے آگئے تھے اور ہالے بھی لان میں آگئ تھی۔۔۔۔ہالے کے آتے ہی مہندی کی رسم شروع ہوئی تھی سب سے پہلے بڑوں نے کی اس کے بعد باقی لوگوں۔۔۔۔آہل مہندی میں بھی نہیں آیا تھا اس کے گھر والے اور دوست سب پریشان تھے تھوڑی دیر بعد سب کو اس کا مسیج ملا تھا کہ اس کے سر میں درد ہے کوئی اس کو ڈسٹرب نہ کرے وہ کل آجائے گے اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ موبائل بند کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
معصومہ،آئدہ اور ماہ روش اور فرہاد کی باقی کزن مل کر ان دونوں کو چھیڑ رہی تھی فرہاد تو ان کو جواب دے رہا تھا مگر ہالے منہ پر قفل لگا کر بیٹھی تھی وہ سب اس کی اندرونی کیفیت سے انجان تھی۔۔۔۔
مہندی کی رسم کے بعد انھوں نے ڈانس کیا تھا۔۔۔۔۔زاہران نے آئدہ کے ساتھ اور سنان نے معصومہ کے ساتھ کپل ڈانس کیا تھا۔۔۔۔۔سب لڑکوں نے مل کر بھنگڑے ڈالے تھے۔۔۔۔کھانے کا دور چلا تو ہالے نے ماہ روش کو پاس بلایا۔۔۔۔۔
"ماہ۔۔مجھے اندر جانا ہے پلیز امی کو کہ دو۔۔۔"
ہالے ماہ کے کان میں منمنائی۔۔۔
"لڑکی مجھے لگتا ہے تمہارے دماغ کے سکریو ڈھیلے ہوگئے ہے۔۔۔۔جب سے آئی ہو شکل پر بارہ بجا کر رکھے ہیں اور اب۔۔۔سب لوگ یہاں پر ہے اور تم منہ اٹھا کر اندر چلی جاؤں۔۔۔کوئی اندر نہیں جارہا شرافت سے یہاں بیٹھی رہو اور منہ سیدھا کروں۔۔۔ورنہ کسی کا لحاظ کیے بغیر ایک رکھ کر لگانی۔۔۔ویسے بھی تھوڑی دیر میں فنکشن ختم ہونے والا۔۔۔۔"
ماہ روش نے پہلے تو ہالے کو غصے سے گھور کر دیکھا اور پھر ایک ایک لفظ چبا کر اسے کان میں کہاں۔۔۔۔۔
"ماہ۔۔۔۔یار میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز۔۔۔۔"
ماہ روش جارہی تھی جب ہاکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو وہ اس کی آنکھوں میں نمی اور التجا دیکھ کر بے بس ہو گئ۔۔۔۔
"ٹھیک ہے کہتی ہوں خالہ کو ایک تو آج ہی سب کی طبیعت خراب ہے ایک طرف تم ہوں دوسری طرف آہل بھائی۔۔۔"
ماہ روش بول کر فاطمہ بیگم کے پاس چلی گئ۔۔۔۔
"یہ آہل کو کیا ہوگیا۔۔۔۔"
پیچھے ہالے خود سے ہی بڑبڑائی تھی۔۔۔۔۔
جب ماہ فاطمہ بیگم سے بات کرنے گئ تو انھوں نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے لے جاؤ کیونکہ اندر مہندی والی آگئ تھی ہالے کو مہندی لگانے۔۔۔۔۔
ماہ روش ہالے کو لے کر اندر آئی تو ہالے فریش ہونے چلی گئ جبکہ ماہ روش اس کے لیے اور اپنے لیے کھانا لینے۔۔۔۔۔نیچے لان میں اس وقت سب کھانا کھا رہے تھے۔۔۔۔۔کھانے کے بعد لڑکے والے چلے گئے تھے اورکچھ اور مہمان بھی جو مہمان دور سے آئے تھے وہ گھر میں ہی رکے تھے۔۔۔۔
ہالے نے چند لقمے بمشکل کھائے تھے اس کے بعد مہندی لگوانے بیٹھ گئ تھی۔۔۔۔۔معصومہ اور آئدہ نے بھی مہندی لگوائی تھی جبکہ ماہ روش نے منع کر دیا تھا یہ سب کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔۔۔۔مہندی والی گئ تو وہ چاروں گپے ہانکنے لگی۔۔۔۔3 بجے وہ سونے کے لیے لیٹ تھی۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ تینوں تو سو گئ تھی مگر ہالے کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔۔وہ آرام سے بستر سے نکلی اور کچن میں چائے بنانے آئی پر اس سے پہلے اس نے مہندی دھو لی تھی اور اسے حیرت ہوئی تھی مہندی کا ڈراک کلر دیکھ کر ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ کچن میں گئ۔۔۔۔۔چائے لے کر وہ اپنے روم کی ٹیرس میں آگئ اور اپنے فیورٹ جھولے پر آکر بیٹھ گئ اور آسمان کو دیکھنے لگی ساتھ ساتھ چائے بھی پی رہی تھی۔۔۔۔اور ساری سوچیں اس کی اپنی زندگی کی طرف تھی کل وہ کسی اور کی ہوجائے گی جس کا نام ہی اسے پتا تھا آج تک ہالے نے اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور وہ یہ سوچ رہی تھی اگر اس کا ماضی اس کے شوہر کے سامنے آگیا تو وہ کیا کرے گی۔۔۔۔۔(اسے کیا پتا تھا جلد ہی اس کے خدشے درست ہونے والے ہیں مگر کون جانے)۔۔۔۔۔انہی سوچوں کو سوچتی وہ جھولے پر ہی نیند کی وادیوں میں اتر گئ۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آہل کل شام سے ساحل پر تھا اس نے یہاں آنے سے پہلے اپنا فون بند کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ یہاں کچھ دیر ہالے کی یادوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔۔۔ساحل پر عجیب سا سکون تھا جب کے آہل کے اندر ایک محبت کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کی محبت میں کیا کمی رہ گئ تھی اس نے تو اپنی محبت کو سو پردوں میں چھپا کر رکھا تھا کسی کو خبر نہ ہونے دی تھی نہ ہونے دینا چاہتا جب تک وہ ہاکے کے ساتھ حلال رشتے میں نہ بند جاتا۔۔۔۔۔وہ آج ایک مرد ہوتے ہوئے بھی اپنی محبت کے لیے رہ رہا تھا کہ اللہ کوئی ایسا معجزہ کردے کے ہالے نور اس کے نصیب میں لکھ دی جائے۔۔۔۔کون کہتا ہے کہ مرد روتا نہیں۔۔۔۔مرد روتے ہے اس کو بھی حق ہے رونے کا۔۔۔۔ آہل نے سوچا کے اگر ہالے اس کے نصیب میں نہیں ہے تو یقینا اس میں اس پاک ذات کی کوئی مصلحت چھپی ہوگئ جو اس وقت نظر نہیں آرہی پر وقت آنے پر نظر آئے گی۔۔۔۔۔(اور وہ وقت جلد ہی آنا تھا)۔۔۔۔وہ ساری رات ساحل پر رہا اور اپنے دل کا بھوج کم کرتا رہا۔۔۔۔۔رات کو ٹائم اس نے سب کو مسیج کر دیا تھا کہ وہ اس کے لیے پریشان نہ ہو وہ آجائے گا۔۔۔۔۔سورج کی پہلی کرن پر وہ واپس گھر کی طرف بڑھا۔۔۔دوسری طرف ہالے کی آنکھ کھلی تو وہ کپ لے کر اندر چلی گئ۔۔اندر جا کر اس نے فون اٹھایا تو اس پر انون نمبر سے مسیج تھا اس نے مسیج کھولا تو اس میں لکھا تھا۔۔۔.huge surprise is waiting for you baby just wait and watch۔۔۔۔۔یہ مسیج ہالے کی سمجھ سے تو باہر تھا وہ سمجھی شاید کسی نے غلطی سے بھیج دیا ہو۔۔۔۔۔اس نے فون رکھ دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئ۔۔۔۔۔
بیل بجی تو اریج جو زارا فاطمہ کے ساتھ بیٹھی کھیل رہی تھی وہ اٹھی اور دروازہ کھولا سامنے کھڑے آہل خو دیکھ کر اسے شاک نہ لگا۔۔۔اج صبح میں اسکی بات آہل سے ہوئی تھی اور اسنے آہل سے ملنے کے لیے اسکو گھر بلا لیا۔۔باہر جاکر وہ رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔۔۔
"اریج بیٹے۔۔کون آیا ہے"
کچن سے مسسز اسغر کی آواز آئی اور ساتھ ہئ وہ خود کچن کے دروازے پر آئی تو انکی نظر آہل پر پڑی۔۔۔
"اسلام و علیکم"
آہل نے دونوں کو دیکھتے ہوئے سلام کیا۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔آپ اندر آئیں"
اریج نے کہا تو وہ سر ہلاتا اندر آیا۔۔اریج اسے لےکر ہال میں آگئی جہاں چھوٹی سی زارا فاطمہ ہر طرف اہنی کھلونے بکھیر کر بیٹھی تھی۔۔۔۔ اس ہر نظر پڑتے ہی آہل کے ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آگئی۔۔۔اسے دیکھتے ہی وہ سمجھ گیا کہ وہ اریج کی بیٹی ہے کیونکہ وہ اسکی کاربن کاپی تھی۔۔
"آپ بیٹھیں۔۔میں چائے کےکر آتی ہوں"
اریج نے کہا اور جانے لگی مگر آہل کی آواز پر رک گئی
"نہیں نہیں تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
"ارے بیٹا تکلف کیسا۔۔۔جاو اریج تم چائے لےکر آو"
مسسز اصغر نے کہا اور صوفے پر براجمان ہو گئی۔۔۔اریج سر ہلاتی کچن میں چلی گئی۔۔۔
"کیسے ہو بیٹا۔۔۔"
مسسز اصغر نے آہل سے سوال کیا
"میں ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسی ہیں"
آہل نے مسسز اصغر کو مسکرا کر جواب دیا اور انکا حال پوچھا۔۔۔
"میں بھی ٹھیک۔۔۔"
مسسز اصغر نے جواب دیا آہل نے قریب ہی زمین پر بیٹھی زارا فاطمہ کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو مزید بڑا کرکہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔
آہل نے مسکرا کر اسکی چھوٹی سی پیشانی چومی۔۔۔کچن سے باہر آتی اریج یہ منظر دیکھ کر مسکرا دی۔۔۔
آہل اس معصوم سے بچی کے ساتھ باتیں کرنے لگا جو بس آنکھوں میں معصومیت سموئے خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"کیا نام ہے اسکا۔۔"
آہل نے بےاختیار اریج سے سوال کیا۔۔۔
"زارا۔۔۔زارا فاطمہ"
اریج نے اپنی کل کائنات کو دیکھ کر کہا اور اٹھ کر چائے لینے چلی گئی۔۔آہل پھر سے اس بچی کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہوگیا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ رونے لگ گئی تو مسسز اسغر اسے لےکر اندر چلی گئی۔۔۔
"کیسی ہو اریج"
آہل نے اسکو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
"ٹھیک ہوں۔۔۔"
اریج نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"آئدہ اور زاہران کے شادی ہوگئی ہے۔۔۔"
اسکی بات کر ایک چند لمحوں کے لیے وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی مگر جلد ہی خود کو سمبھال لیا کہ جو خال ہو اسکے لیے بچھا کر گئی تھی ہونا تو یہی تھا۔۔۔
"نکاح دو سال پہلے ہوا تھا اسکو یونی میں ایڈمیشن لینا تھا اور داجی اسکو بغیر کسی رشتے کے کراچی میں زاہران کے ساتھ رہنے نہیں دے سکتے تھے۔۔۔4 دن پہلے شادی تھی حویلی میں دونوں کی اور کل ولیمہ تھا یہیں پر۔۔۔"
آہل نے اسکو تفصیل سے ساری بات بتائی تو وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔یعنی اسنے جو کیا تھا نکاح اس وجہ سے نہیں ہوا۔۔۔
"کراچی میں ہی ہے وہ اور معصومہ کا بھی نکاح ہوگیا ہے سنان کے ساتھ۔۔۔"
اہل نے معصومہ کا ذکر کیا تو آنجان نام سن کر اسنے آہل سے سوال کیا
"امم۔۔۔سنان کون ہے"
"میرا،زاہران اور حمزہ کا دوست ہے۔۔۔بزنس بھی ساتھ ہے اور یونی میں بھی ساتھ تھے۔۔۔اسکی بہن اور کزن معصومہ اور آئدہ کی دوست ہیں"
آہل نے اسکو تفصیل سے جواب دیا تو سر ہلانے لگی۔۔۔
"امی اور ابو کیسے ہیں۔۔طبیعت ٹھیک ہے نہ انکی"
اسنے بیچینی سے سوال کیا۔۔۔اسکے سوال پر آہل نے چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھا۔۔۔
"چچا کا انتقال تمہارے جانے کے کچھ عرصے بعد ہوگیا تھا۔۔۔"
آہل کی ہلکی آواز میں کہی گئی بات اسکی سر ہر بم کی طرح پھٹی تھی۔۔۔
"کک۔۔۔کیا کہا آپ نے۔۔اب۔۔۔ابا کا انتقال
ہوگیا"
وہ کانپتی ہوئی آواز میں بامشکل بولی تو آہل نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔اریج کئ آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی سورت بہنے لگے۔۔۔
"اور چچی جان ٹھیک ہیں۔۔۔تمہارے اور چچا کے جانے کہ بعد سے انکی طبیعت میں کافی بدلاو آیا ہے۔۔۔چڑچڑی سئ رہنے لگی ہیں پر ٹھیک ہیں۔۔۔"
اسکی بات سن کر اریج نے قرب سے آنکھیں میچ لی۔۔۔وہ انکا خاندان برباد کرکہ گئی تھی اس بقت کا اندازہ تھا اسے اور وہ شرمندہ بھی تھی۔۔۔پر باپ کی موت کی خبر سن کر اسکے دل ڈوب گیا۔۔۔
"یہ سب سننے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئی۔۔۔"
اسنے بڑبڑاہٹ کی جو آہل کی سمجھ میں نہ آئی۔۔۔
"تم حویلی چلو گی۔۔۔مانا کہ ان سب کے لیے تم مر گئی ہو مگر کیا پتا وہ تمہیں۔۔۔"
آہل کی بات سن کر وہ سر نفی مین ہلانے لگی اور اسکی بات کاٹی۔۔۔
"نہ۔۔۔نہیں۔۔مین وہاں جاکر انکے لیے نئی قیامت نہیں کھڑی کرنا چاہتی۔۔۔"
آریج روتے ہوئے بولی۔۔
"اریج اللہ پر بھروسہ رکھو۔۔۔سب ٹھیک ہوگا"
آہل نے اسکو دیکھتے ہوئے کہا جو مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھی۔۔۔
چند لمحے وہ خاموش آنسو بہاتی رہی پھر آہل کے سوال پر اسکے دماغ پر اپنا ماضی لہرانے لگا جو وہ چاہ کر بھی نہیں بھول پاتی تھی۔۔۔
"مجھے یہ بتاو کہ۔۔۔
یہ عورت کون ہے کس کہ ساتھ رہ رہی ہو تمہارا شوہر کہاں ہے"
آہل کے کیے گئی سوال اسکے دک ہر تیر کی طرح لگے تھے۔۔۔وہ اسے کیسے بتاتی کی اسنے اپنی ہستی کھلتی زندگی کا خود گلا گھونٹا ہے۔۔۔مگر اسکو نا چاہتے ہوئے بھی آہل کو ا تا ی ساری کہانی سنانی پڑی۔۔۔ساری بات سننے کہ بعد آہل نے ایک گہرا سانس لیا اور اسکے سر ہر ہاتھ رکھا۔۔
"تم فکر مت کرو۔۔۔سب ٹھیک ہوگا بس صبر کرو اور اچھے کی امید رکھو۔۔۔"
آہل نے اسکو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔
"اپنی بیٹی کے بارے میں سوچو۔۔۔تمھیں جینا ہے اس معصوم سی جان کے لیے۔۔۔اسکا مستقبل تم نے روشن کرنا ہے سمجھی"
آہل کی باے ہر اسنے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔مزید چند باتوں کے بعد آہل وہاں سے چلا گیا۔۔۔اور جاتے جاتے اسکو حویلی چلنے خے لیے دوبارہ سے کہہ گیا۔۔۔اسکے جانے کہ بعد اسنے ساری باتیں مسسز اسغر کے گوشہ گزار کیں تو انہوں نے بھی اس کو حوصلہ دیا اور آرام کی دوا کے کر اسے سونے کی تلقین کی۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ کب سے ریسٹورنٹ میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔ماہ نے اسے آئدہ کے ولیمے کے بعد ملنے کا کہا تھا۔۔جس دن حمزہ نے اسے ملبے کو بلایا تھا اس دن وہ اس سے نہیں ملی تھی اور نہ ہی ولیمے میں اسنے حمزہ سے بات کی تھی بات کرنا تو دور کی بات وہ اسکی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔۔اب وہ کب سے بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا مگر وہاں ماہ روش کا نام نشان بھی نہ تھا۔۔۔۔حمزہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اسنے ماہ کو کال کی جو 4 بیلز کے بعد اٹھائی گئی۔۔۔
"کہاں رہ گئی ہو تم۔۔۔گدھا گاڑی پہ آرہی ہو کیا جو اتنی دیر لگ رہی۔ہے۔۔"
اسکی بات سب کر ماہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔۔۔
"اممم وہ نہ میرا پلین چین ہوگیا۔۔۔میں یونی فیلوز کے ساتھ شاپنگ مال آگئی ہوں ہم کسی اور دن مل لیں گے۔۔۔"
ماہ سکون سے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے مسکرا
کر بولی۔۔۔
"ماہ کی بچی۔۔۔میرا دماغ مت خراب کرو"
حمزہ نے دانت پیس کر غصے سے کہا۔۔
"مین کچھ نہیں کر رہی اور مین بزی ہوں بہت۔۔۔بعد میں بات ہوتی۔
بائےےے"
ماہ نے کہا اور جھٹ سے کال کاٹ دی۔۔حمزہ بس صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج ہالے کی شادی تھی۔۔۔۔شادی شہر کے مہنگے ترین ہوٹل میں ہونی تھی۔۔۔۔صبح سے ہر کوئی تیاریوں میں گھن چکر بنا ہوا تھا۔۔۔۔لڑکے سارے باہر کے انتظامات سنھبال رہے تھے جب کے خواتین گھر کے۔۔۔۔۔سب صبح تقریبا 10 اور 11 بجے اٹھے تھے تو دن 12 بجے تک ناشتے کا دور چلتا رہا۔۔۔۔اس کے بعد سب اپنی تیاریوں میں لگ گئے۔۔۔۔ہالے پانچ بجے پارلر گئ تھی اور اس کے ساتھ معصومہ گئ تھی۔۔۔۔آئدہ اور ماہ روش نے بعد میں آنا تھا۔۔۔۔ہالے کو صبح سے وہ مسیج تنگ کیے جارہا تھا اسے لگ رہے تھا کچھ تو ہے اس مسیج میں جو وہ سمجھ نہیں پا رہی۔۔۔۔۔کچھ تو تھا جو اسے کھٹک رہا تھا مگر وہ سب اس کے سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔۔کچھ دیر میں آئدہ اور ماہ بھی آگئ تھی۔۔۔۔۔تقریبا 7 بجے سنان انھیں پارلر سے پک کرنے آیا تھا۔۔۔۔وہ انھیں لے کر شادی ہال پہنچا تھا۔۔۔۔وہ تینوں ہالے کو لے کر برائیڈل روم میں آگئ تھی۔۔۔۔تھوڑی دیر میں بارات نے آنا تھا تو وہ معصومہ اور آئدہ تو باہر چلی گئ بارات کے ویلکم کے لیے جبکہ ماہ روش ہالے کے پاس ہی تھی۔۔۔۔۔ان تینوں نے آج پاؤں کو چھوتی بھاری میکسی پہنی تھی تینوں کے کلر چینج تھے۔۔۔۔آئدہ کی پنک میکسی تھی اس کے ساتھ اس نے پنک ہی میچنگ جیولری اور ہیلز پہنی تھی اس کے ساتھ پارٹی میک آپ اور ریڈلیپ اسٹک میں وہ غضب ڈھ رہی تھی زاہران کی نظریں تو اس کی طرف سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی اور آئدہ اس کی نظروں سے چھپتی پھر رہی تھی،معصومہ کی گولڈن میکسی تھی اس کے ساتھ ہی میچنگ جیولری اور ہیلز تھی اور ساتھ پارٹی میک اپ ہی کیا تھا وہ بھی سیدھا سنان کے دل میں اُتر رہی تھی اور بار بار اس کی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ماہ روش نے لائٹ بلیو کلر کی میکسی پہنی تھی اس نے بس جھمکے اور چند رنگز ہی پہنی تھی اور میک اپ اس نے بلکل لائیٹ سا کیا تھا ائیز پر صرف لائنر اور مسکارا تھا اور پنک لپسٹک تھی بالوں کو اس نے کھلا چھوڑا تھا بس اتنی سے تیاری میں بھی وہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔حمزہ نے دل ہی دل میں اسکی خوب تعریف کی۔۔۔۔
بارات تھوڑی دیر میں آگئ تھی بارات کا ویلکم شاندار طریقے سے کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
نکاح اسٹیج پر ہونا تھا۔۔۔اسٹیج کو خوبصورتی سے سجایا دیا گیا تھا۔۔۔۔درمیان میں گلاب کے پھولوں کی لڑیاں لگا کر اسٹیج کو دو حصوں میں کیا گیا تھا۔۔۔۔ایک طرف ہالے نے بیٹھنا تھا دوسری طرف فرہاد نے نکاح کی بعد لڑیاں ہٹا کر دونوں کو ساتھ بیٹھنا تھا۔۔۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے آئدہ اور معصومہ کو کہا کے ہالے کو نکاح کے لیے باہر لے آئے تو وہ سر ہلا کر برائیڈل روم کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔۔۔
ہال کی ساری لائیٹوں کو بند کردیا تھا بس ایک سپاٹ لائیٹ انٹرنس کی طرف تھی سب اینٹرینس کی طرف متوجہ ہوئے جہاں سے ہالے آرہی تھی اس کا ایک ہاتھ سنان کے ہاتھ میں تھا دوسرا فرحان صاحب کی ہاتھ میں اردگرد وہ تینوں تھیں۔۔۔۔۔بیک گراؤنڈ میں ڈی جے نے گانا چلا دیا تھا۔۔۔۔آہل کی نظر جب ہالے پر پڑی تو وہ ٹہر گئ کیونکہ ہالے آج لگ ہی اتنی خوبصورت تھی۔۔۔۔ڈراک ریڈ کلر کی میکسی پہنی تھی جس پر مختلف نگینوں سے خوبصورتی سے کام ہوا تھا۔۔۔میکسی کی پیچھے سے لمبی ٹیل بھی تھی۔۔۔۔بیٹویشن نے برائیڈل میک اپ میں اس کی نقوش کو اور ابھر دیا تھا۔۔۔۔بالوں کا اس کا خوبصورتی سے جھوڑا بنا دیا گیا تھا ساتھ مانگ ٹیکہ اور جھومر بھی سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔ناک میں خوبصورت نتھ پہنی تھی جس کا موتی اس کے ڈارک ریڈ لیپ اسٹک سے سجے ہونٹوں کو چھو رہا تھا۔۔۔۔۔صراحی دار گردن میں چوکر پہنا تھا۔۔۔۔کانوں میں ہیوی ائیر رنگز تھے۔۔۔۔ریڈ ہی ہیوی دوپٹہ سر پر سیٹ تھا۔۔۔اور ریڈ ہی نیٹ کے دوپٹے سے اس کا گھونگھٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔پاؤں میں ہائی ہیل پہنی تھی۔۔۔۔نظریں جھکا کر وہ سج سج کر قدم رکھ رہی تھی اور اس کا یہ ہر قدم آہل کے دل کی دھڑکن تیز کر رہا تھا۔۔۔۔آہل نے پہلی بار اسکا ایسا روپ دیکھا تھا ورنہ تو وہ زیادہ تر پپسٹک ہی لگاتی تھی اس سے زیادہ میک آپ میں آہل نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔آہل کی آنکھوں میں نمی چھلکنے لگی۔۔۔۔آہل نے کچھ سوچ کر ہالے سے نظریں ہٹا لی۔۔۔۔ایک دم سے اسے ہال میں گھٹن لگنے لگی۔۔۔اس نے اپنی شروانی کے دو تین بٹن کھولے اور اپنا سینا مسلا اور جلدی سے ہال سے باہر نکلتا گیا۔۔۔۔ہالے کو اسٹیج پر بیٹھا دیا گیا تھا اس نے جب نظریں اٹھائی تو آہل کو ہال سے باہر جاتے دیکھ کر اور سینا مسلتا دیکھ کر ہالے کو تعجب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
"مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔۔۔۔"
سنان نے مولوی صاحب کو کہا۔۔۔۔۔تو مولوی صاحب نے سر ہلایا۔۔۔
"ایک منٹ۔۔۔۔مولوی صاحب اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔۔۔"
ہال کے دروازے سے کوئی لڑکا داخل ہوتا بولا۔۔۔۔تو سب نے اس لڑکے کو دیکھا۔۔۔۔
اور اس لڑکے کو دیکھا کر ہالے کی حالت تو مرنے والی ہوگئ تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو زور شور سے بہنے لگے اور وہ کانپنے لگی کیونکہ یہ وہی لڑکا تھا جس نے یونی میں اس کے ساتھ وہ سب کچھ کیا تھا۔۔۔۔شاک تو سنان بھی ہو گیا تھا کیونکہ سنان اور آہل نے ہی مل کر اس کا جیل میں بند کروایا تھا۔۔۔۔۔سنان کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ اب یہاں کیا کر رہا ہے۔۔۔۔
"کون ہو تم اور نکاح کس خوشی میں روکا ہے۔۔۔۔"
فرہاد نے اس انسان کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا جس نے غلط ٹائم پر انٹری ماری تھی۔۔۔۔
"میں کون ہو دلہا صاحب یہ تو تم اپنی ہونے والی بیوی نہ بلکے نہ ہونے والی بیوی سے پوچھ لینا کہ میں کون ہو۔۔۔۔اس سے پوچھنے سے پہلے یہ دیکھ لو۔۔۔پھر سوچ لو اس جیسی نیچ اور گھٹیا عورت سے شادی کرو گے یہ نہیں۔۔۔۔"
وہ لڑکا (حسیب) بولتا ہو اسٹیج تک آیا اور سب کے حیرت سے بھر پور چہرے دیکھا کر شیطانیت سے مسکرایا اور ہاتھ میں موجود لفافہ فرہاد کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔
"کیا۔۔۔۔بکواس کر رہے ہو گھٹیا انسان میری بہن کے بارے میں منہ توڑ دونگا تمہارا۔۔۔۔۔"
سنان غصے سے آگے بڑھا اور حسیب کہ منہ پر دو گھونسے جھڑ دیے۔۔۔۔وہ اسے اور بھی مارتا مگر حمزہ اور زاہران نے اسے قابو کیا مگر وہ ان دونوں کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا تھا۔۔۔۔۔سب حیرت سے کھڑے ہوکر اس ڈرامے کو انجوائے کر رہے تھے۔۔۔۔۔
معصومہ نے جلدی سے سائیڈ پر جا کر آہل کو کال کی اور ساری سچویشن کا بتایا تو وہ جو پارکنگ میں ہی کھڑا تھا جلدی سے اندر آیا۔۔۔۔اور ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور حسیب کا یہاں دیکھ کر اسے بھی حیرت ہوئی تھی وہ بھی جلدی سے اسٹیج کی طرف بڑھا۔۔۔۔
"تم۔۔۔یہاں کیا کر رہے ہو گھٹیا انسان۔۔۔؟"
آہل نے بھی اسے گریبان سے پکڑا اور جھنجوڑ کر اس سے پوچھا۔۔۔۔۔
"لو بھئی ایک اور اس عورت کا عاشق آگیا۔۔۔۔کتنے عاشق رہ چکے ہے میرے بعد۔۔۔؟"
حسیب نے سیدھا ہالے کی طرف دیکھ کر پوچھا اور ہالے کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔ اس کی رنگت زرد ہو چکی تھی اور بھرے بازار میں اپنے لیے یہ الفظ سن کر ہالے کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔۔۔یا اس کا دل ہی بند ہو جائے نہ وہ رہے گی نہ لوگ اسے کچھ کہیں گے اس نے اپنے والدین کی طرف دیکھا تو وہ کرسیوں پر ڈھ گئے تھے سب انھیں سنھبال رہے تھے۔۔۔۔مگر نہ ہی زمین پھٹی تھی نہ ہی اس کا دل بند ہوا تھا بھی مزید تماشا ہونا تھا جو اس نے دیکھنا تھا۔۔۔۔۔
فرہاد نے وہ لفافہ کھولا تو اس میں ہالے کی کچھ نازیبا تصویریں تھی جو کہ حسیب کے ساتھ تھی۔۔۔۔(وہ تصویریں صاف ایڈیٹڈ تھی پر وہ اس طرح سے ایڈٹ کی گئ تھی کہ لگ رہا تھا وہ ہالے ہے جب کہ وہ کوئی اور لڑکی تھی) فرہاد نے وہ تصویریں دیکھی تو وہ حیران ہو گیا تھا کیونکہ اسے ہالے اسی لڑکی نہیں لگتی تھی فرہاد کی ماں نے اس کے ہاتھ سے وہ تصویریں لی اور دیکھی اس طرح فرہاد کے سارے خاندان نے وہ تصویریں دیکھ لی۔۔۔۔۔
"امی چلے یہاں سے نہیں کرنی میں نے یہ شادی ان لوگوں نے ہمیں دھوکے میں رکھا۔۔۔۔اور آنٹی اگر آپ کی بیٹی کو اتنی ہی آگ لگی تھی تو کروا دیتے نہ اس سے شادی۔۔۔۔اور پتا نہیں کتنے عاشق ہے اس کے اس سے شادی کر کے کل کو میں کیا منہ دکھاؤ گا اپنے خاندان اور گھر والوں کو۔۔۔۔"
فرہاد نے غصے سے اپنی ساری بھڑاس نکالی جب کہ اس کے یہ الفاظ سن کر سب شد رہ گئے تھے۔۔۔
"فاطمہ۔۔۔۔تمہاری بیٹی کا اگر کہی اور چکر تھا تو وہاں اس کی شادی کروا دیتی نہ پر اپنی بدکردار بیٹی کو میرے پاک صاف بیٹے پر تو مسلط نہ کرتے دوستی کا ہی کچھ لحاظ کر لیتی اب ہم یہاں ایک منٹ بھی نہیں روکے گے۔۔۔۔میں بھی اب دیکھتی ہو کون غیرت مند اس جیسی بے غیرت سے شادی کرتا ہے۔۔۔۔۔"
دریہ بیگم نے اپنے دل کی بھڑاس اچھی طرح فاطمہ بیگم پر نکالی اور جانے لگی۔۔۔
"ایک منٹ آنٹی آپ کو کوئی حق نہیں کہ آپ میری بہن کے بارے میں یہ الفاظ بولے اور مجھے تو آپ پر اور فرہاد پر اور ہیاں کھڑے سب لوگوں پر حیرت ہو رہی جو اب میری بہن کے کردار کے بارے میں بولیں گے ایسے زمانے میں جہاں اتنی ترقی ہوگئ ہے وہاں ایڈیٹنگ کرنے کونسا مشکل کام آج کل تو ہر بچہ ایسی ایڈیٹنگ کر سکتا ہے۔۔۔۔اور یہاں رکیں گا ذرا آپ سب آپ کے سامنے ہی میں ذرا اب اپنی بہن کی شادی کسی غیرت مند سے کروا کر دیکھا سکتا ہوں۔۔۔۔جو کم از کم اس فرہاد جیسا تو نہیں ہوگا جو ان جھوٹی تصویروں پر یقین کر رہا ہے نہ کہ ہالے پر جس سے اسکا نکاح ہونے والا تھا۔۔۔۔اور جہاں تک بات ہے اس انسان کی اس کو کون نہیں جانتا یونی کا سب سے گھٹیا انسان ہے کوئی بھی لڑکی اس کی گندی نظروں سے نہیں بچی اور اس کا شکار بھی میری بہن ہوئی تھی پھر میں نے اور آہل نے اس کو جیل میں بند کروا دیا تھا اور اس کا ہی بدلہ لینے یہ آج یہاں آیا ہے کیونکہ آج تک کوئی اس کا بال نہیں بکا کر سکا مگر اب میں نے اور آہل نے اس کی دوسری نا جائز سر گرمیوں کے بارے میں فائل تیار کی ہے تیار رہو آنے والی ہے پولیس اور اب تمھیں پانسی کے پھندے تک پہنچنے والے ہو۔۔اور ہاں میری بہن کل بھی پاکیزہ تھی آج بھی پاکیزہ ہے۔۔۔۔جو جو اس کے کردار پر اب بھی بات کرے گا ذرا اپنے گریبان میں جھانک لینا۔۔۔۔اور ہالے اٹھو بہادر بنو اور لو آج اس سے سب بدلے کوئی نہیں روکے گا تمھیں۔۔۔۔۔۔۔"
سنان نے ساری بات سب کی سامنے رکھی اور اسی وقت ایک فیصلہ کیا۔۔۔۔سب کو سنان جیسے بیٹے پر فخر ہورہا تھا جس
نے اپنی بہن کے کردار پر آئی ہر بات کی تردید کی۔۔۔۔اور ہالے وہ تو اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اپنی بھائی کو دیکھ رہی تھی اس نے تو کبھی سنان کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا اس نے کیا کسی اور نے نہیں۔۔۔وہ ایک اچھا بھائی،بیٹا، اور دوست تھا۔۔۔سب کو اس پر ناز تھا۔۔۔۔فاطمہ بیگم اور فرحان صاحب کی جو گردن جھکی ہوئی تھی وہ سنان کی وجہ سے فخر سے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
ہالے نے کچھ ہمت کی اور اپنی جگہ سے اٹھی۔۔۔سب سے پہلے سنان کے گلے لگ کر روئی۔۔۔۔۔۔
"You are best brother in the world...I am blessed to have you in my life...❤"
ہالے نے سنان کے کان میں کہا۔۔۔۔
"No I am blessed to have a sister like you... now go mera bacha...."
سنان نے ہالے کے گرد گھیرا تنگ کر کیا اور اس کے سر پر بوسہ دے کر بولا۔۔۔۔تو اس نے سر اثبات میں ہلایا اور حسیب کی طرف مڑی جو کہ اب بھاگنے کے چکروں میں تھا مگر اس کا حمزہ اور آہل نے پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔
"چٹاخ۔۔۔۔گھٹیا انسان تمھاری ہمت کسی ہوئی میری کردار کشی کرنے کی۔۔۔چٹاخ۔۔۔ تم ہوتے کون ہو میرے کردار پر کیچڑ اچھالنے والے۔۔۔۔چٹاخ۔۔۔۔تم نے اس دن مجھے کیسے یہ ہاتھ لگایا تھا بولو۔۔۔۔کک۔۔۔ کیسے تم سب لڑکیوں چھوٹے ہو کیسے انھیں تنگ کرتے ہو۔۔۔چٹاخ۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم لڑکیوں کو کمزور سمجھنے کی۔۔۔۔"
ہالے نے حسیب کو گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا اور رکھ کر ایک ساتھ کئی تھپڑ اس کے منہ پر لگائے تھے۔۔۔پھر پولیس آگئ تو وہ پیچھے ہٹ گئ اور سنان کے گلے لگ کر دوبارہ رونے لگی۔۔۔۔پولیس حسیب کو پکڑ کر لے گئ تھی اور اس پر کئی کیس کھول دیے گئے تھے اب اس کا پھانسی سے کوئی نہ بچا سکتا تھا۔۔۔۔
"کافی ٹائم بعد لگی ہو پرانی والی ہالے۔۔۔میری شیرنی۔۔۔۔"
سنان نے ہالے کے کان میں سرگوشی کی تو روتے روتے مسکرا دی اور آنکھیں بند کر لی۔۔۔۔ایک دم ہی سنان کو ہالے کا سارا بھوج خود پر محسوس ہوا تو اس نے ہالے کو دیکھ تو وہ بے ہوش ہوگئ تھی۔۔۔۔ہالے کو اس نے بازؤوں میں اٹھایا اور اندر برائیڈل روم کی طرف بڑھا گیا اس کے پیچھے ہی وہ تینوں اور فاطمہ بیگم گئ تھی۔۔۔۔۔
سنان نے ہالے کو برائیڈل روم میں ان سب کے پاس چھوڑا اور باہر نکل گیا۔۔۔باہر آ کر آہل کو کال کی اور پارکنگ میں آنے کا کہا۔۔۔۔
"میری بہن سے شادی کرو گے۔۔۔۔؟"
آہل جیسے ہی سنان کے قریب پہنچا سنان کا سوال سن کر اپنی جگہ پر فریز ہو گیا۔۔۔۔
"کیا ہے اب فریز کیوں ہوگئے۔۔۔۔جانتا ہوں میں کب سے تم میری بہن سے محبت کرتے ہو۔۔۔میں تو انتظار میں تھا تم کب رشتہ لے کر آؤ گے مگر نہیں فرہاد کے رشتے کے بعد تو تم مجنو ہی بن گئے یہ نہ ہوا کے رشتہ لے آتے تم سے بڑھ کر کوئی نہ ہوتا اب بھی اگر نہیں کرنی شادی تو بتا دو میں کسی اور کو کہ دیتا ہوں۔۔۔۔۔"
سنان نے بات مکمل کر کے آہل کو دیکھا جو اب تک اسٹل ایک ہی جگہ کھڑا تھا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔"
سنان بول کر اندر جانے لگا۔۔۔۔تو آہل بھی ہڑبڑا کر ہوش میں آیا۔۔۔
"رک سالے تیار ہوں میں شادی کے لیے پر رخصتی مجھے آج ہی چاہیے۔۔۔۔"
آہل نے سنان کا بازو پکڑ کر روکا۔۔۔۔
"ابھی سالا بنا نہیں ہوں اس لیے تمیز سے اور سوچتے ہے رخصتی کا بھی۔۔۔پہلے تو اپنی بہن کی رخصتی ایک مہینہ کے اندر دینے کا وعدہ کر پھر ہالے کی رخصتی آج ہی ملے گی۔۔۔۔"
سنان نے بولتے ساتھ ہی آہل کی طرف دیکھا جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
"اپنا کمینہ پن ابھی اپنی جیب میں رکھ اور اندر چل اور سب کو بتا اور اس فیصلے کے لئے راضی کر۔۔۔۔چل اب اندر دفعہ ہو۔۔۔۔"
آہل نے سنان گردن سے دبوچا اور اندر ہال کی طرف بڑھ گیا جب کہ بچارا سنان اس کے بازؤوں میں پھڑ پھڑاتا ہی رہ گیا۔۔۔۔۔
سنان نے اپنے گھر والوں اور آہل کے گھر والوں سے بات کی کسی کو بھی اس نکاح سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
بس دا جی نے آہل سے ایک سوال پوچھا تھا کہ محبت کرتے ہو اس سے تو اس پر آہل نے سر اثبات میں ہلایا تھا تو دا جی آگے سے مسکرا دیے اور اس کو اجازت دے دی۔۔۔۔
ہالے تھوڑی دیر بعد ہوش میں آگئ تھی اس کے ہوش میں آنے کے بعد سنان نے ساری بات اس کو بتائی تھی اور اس سے اجازت لی تھی اس کا نکاح آہل سے کروانے کے لیے جو کہ اس نے خوشی خوشی دے دی تھی کیونکہ وہ اپنے بھائی کا مان نہیں توڑنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہالے نور آہل کے نصیب میں لکھ دی گئ تھی۔۔۔۔نکاح نامہ پر سائن کرتے وقت آہل کی آنکھ سے ایک آنسو کا قطرہ گرا تھا۔۔۔۔۔اور بے ساختہ اس ایک آیت یاد آئی تھی۔۔۔۔
(فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ)
ترجمہ : تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔۔۔۔
اس نے سوچ لیا تھا وہ گھر جا کر شکرانے کے نفل ضرور ادا کرے گا۔۔۔۔۔
ہالے اور آہل کو ساتھ بیٹھا دیا گیا تھا۔۔۔۔کچھ دیر بعد ان کا فوٹو شوٹ ہوا۔۔۔۔۔پھر کھانے کا دور چلا اس کے بعد ہالے کی رخصتی ہوئی سب ہی اداس تھے ارحم تو روئے جارہا تھا جب کے سنان کے آنکھیں نم تھی ہالے بھی رو رہی تھی جب آہل نے اسے سنھبالا تھا سب کی دعاؤں کے سائے میں ہالے نور آہل کے ساتھ رخصت ہوگئ رخصتی ہوتے ہی سب لوگ اپنے گھروں کو رخصت ہونے لگے۔۔۔۔اس طرح ہنگامے کے بعد بخیر و عافیت کے ساتھ شادی ہوگئی ولیمہ ایک ہفتے بعد ہونا تھا۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
معصومہ نے ہالے کو لے جا کر آہل کے روم میں بیٹھا دیا۔۔۔۔
"کیسا لگ رہا ہے بھابھی بن کر۔۔۔۔"
معصومہ نے شرارت سے ہالے سے پوچھا تو ہالے نے اسے گھورا۔۔۔۔
"جیسا تمھیں لگ رہا تھا میری بھابھی بن کر۔۔۔۔"
ہالے نے بھی شرارت سے کہا تو معصومہ گڑبڑا گئ۔۔۔۔
"اچھا اب تم آرام کرو میں چلتی ہو۔۔۔بھائی تھوڑی دیر تک آجائیں گے۔۔۔۔"
معصومہ نے بولا تو ہالے نے سر اثبات میں ہلایا تو معصومہ چلی گئ۔۔۔۔۔
ہالے ابھی بیٹھی سوچوں میں گم تھی جب آہل کمرے میں داخل ہوا اور اسے مختلف سوچوں میں الجھا دیکھ کر اپنی طرف متوجہ کرنے کے کیے گلہ کھنکارا۔۔۔تو ہالے نے آہل کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
"آپ فریش ہوجائے سامنے واش روم اور ڈریسنگ روم ہے۔۔۔"
آہل نے بولا تو ہالے بیڈ سے اٹھی مگر کچھ یاد آنے پر رک گئ۔۔۔
"میرے پاس تو کوئی ڈریس ہی نہیں ہے۔۔۔۔"
ہالے نے انگلیاں چٹھکتے ہوئے آہل سے کہا۔۔۔۔
"اچھا آپ اپنی جب تک جیولری نکلے میں تب تک معصومہ سے ڈریس لے کر آتا ہوں۔۔۔۔"
آہل نے ہالے کو بولا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف چلی گئ جب کہ آہل معصومہ کے پاس ڈریس لینے۔۔۔۔جب آہل ڈریس لے کر آیا تو ہالےنور اپنی جیولری اتار چکی تھی آہل نے ڈریس ہاکے کو تھما دیا تو وہ ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئ۔۔۔۔۔
جب وہ ڈریس چینج کر کے نکالی تو دیکھا آہل جائے نماز بچھا رہا تھا۔۔۔
"آپ کچھ منٹ رکیں میں بھی وضو کر آؤں پھر ساتھ نفل ادا کرتے ہیں۔۔۔۔"
ہالے نے ہمت کر کے آہل سے کہا تو آہل مسکرا دیا اور سر اثبات میں ہلا دیا دل تو اس کا بھی تھا کے ہالے اس کی امامت میں نفل ادا کرے مگر وہ یہ بات ہالے کو نہ کہ سکا۔۔۔۔ہالے وضو کر کے باہر آئی تو آہل دوسرا جائے نماز بھی بچھا چکا تھا جو کہ اس کے جائے نماز سے پیچھے تھا۔۔۔۔ہالے نے دوپٹے کو نماز کے اسٹائل میں بندھا اور اپنی جائے نماز پر آکر کھڑی ہوگئ دونوں نے ایک ساتھ شکرانے کے نفل ادا کیے۔۔۔دونوں کے دل اللہ کے شکر گزار تھے آہل کے ساتھ نکاح کر کے ہالے کو ایک الگ ہی سکوں مل رہا تھا جو کہ اسے کافی ٹائم سے نہیں ملا تھا۔۔۔۔اس لگ رہا تھا اب سب صحیح ہو جائے گا اسے اب مسیج کا بھی سمجھ آگیا تھا جو کہ صبح حسیب نے بھیجا تھا۔۔۔۔
دروازہ نوک ہوا تو معصومہ ان دونوں کو کھانا دے کر گئ دونوں نے ہی کھانا نہیں کھایا تھا۔۔۔۔دونوں نے ساتھ کھانا کھایا پھر اپنی اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئے۔۔۔۔۔
"آپ اگر مجھ سے محبت کرتے تھے تو بتایا کیوں نہیں۔۔۔۔"
ہالے نے چھت کو گھورتے ہوئے آہل سے سوال کیا۔۔۔۔
"آپ۔۔کو کس نے بتایا۔۔۔۔؟"
"سنان بھائی نے۔۔۔۔"
"یہ سالا مر جائے کا کسی دن میرے ہاتھوں۔۔۔۔"
آہل منہ میں ہی بڑبڑایا۔۔۔۔
"کچھ کہا آپ نے۔۔۔؟"
ہالے کو لگا آہل نے کچھ کہا ہے۔۔۔
"نہیں میں نے کچھ نہیں کہا۔۔۔اور محبت کا تو مجھے بھی نہیں پتا تھا بس ہوگئ آپ سے بس کبھی ہمت نہیں ہوئی کے کچھ کہ دیتا پھر فرہاد کا رشتہ آیا آپ کے گھر والے خوش تھے تو میں بس پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔"
آہل نے مختصر سے ہاکے کو بتایا۔۔۔۔۔اور اپنی بازو ہالے کی طرف کی تو ہالے کچھ جھجکتے ہوئے اس کے قریب ہوگئ۔۔۔۔تو آہل نے اس کو اپنے سینے میں بینچ لیا۔۔۔۔ہالے بھی اس کے سینے سے لگتے مسکرا دی۔۔۔۔ساری دن کی تھکان تھی کچھ ہی دیر می وہ دونوں نیند کی وادیوں میں گم ہوگئے۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد ہالے اور آہل کا ولیمہ دھوم دھام سے ہوا تھا۔۔۔۔آہل اریج کے پاس ولیمے کا کارڈ اور اپنی شادی کے مٹھائی لے کر گیا تھا۔۔۔۔مگر اریج نے ولیمے پر آنے سے صاف انکار کردیا تھا۔۔۔آہل نے گھر چلنے والی بات دوبارہ اریج سے کی تھی جس پر اس نے کچھ ٹائم مانگا تھا۔۔۔۔تو آہل نے اسے کہا تھا کے جلدی ہی اسے اپنا فیصلہ سنا دے کیونکہ پہلے ہی بہت ٹائم گزر چکا ہے اب اسے مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔
آہل نے سوچا تھا کہ وہ پہلے زاہران سے اس بارے میں بات کرے گا پھر ہی گھر والوں سے۔۔۔۔
آہل نے زاہران سے بات کی تھی اور اس کو سارا اریج کا ماضی بتایا تھا اور وہ بھی کے وہ کس طرح زاہران کا آئدہ سے بدگمان کر کے گئ تھی۔۔۔۔زاہران کو سارا سچ سن کر حیرت ہوئی تھی مگر وہ حیرت جلدی سے ختم ہوگئ تھی کیونکہ اسے پہلے ہی آئیڈیا ہوگیا تھا کے اریج ہی کچھ کر کے گئ ہے۔۔۔آہل نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کب سے شرمندہ ہے مگر اس میں ہمت نہیں ہے کہ وہ آکر آئدہ،زاہران اور گھر والوں سے معافی مانگ سکے۔۔۔۔۔۔اور آہل نے یہ بھی بتایا تھا کہ اب وہ چاہتا ہے کہ سب پہلے کی طرح ہنسی خوشی رہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اب اریج اور زارا فاطمہ حویلی سے دور غیروں میں رہے بےشک وہ مسڑ اور مسز اصغر کے پاس کب سے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کے وہ اب بھی وہی رہے جب کہ اریج کے گھر والوں کو بھی اس کا پتا چل گیا ہے کہ وہ کہاں رہتی ہے۔۔۔۔
"زاہران اب میں چاہتا ہوں۔۔۔۔یہ بات تم آئدہ سے کرو اور اس سے پوچھ لو کے اس کا کیا فیصلہ ہے اگر وہ اریج کو معاف کر سکتی ہے تو میں اسے حیدرآباد لے جاؤ ویسے بھی اس ویک اینڈ داجی نے ہم سب کو وہاں بلایا ہے۔۔۔"
آہل نے بول کر زاہران کو دیکھا جس نے سر ہلایا تو آہل باہر نکل گیا۔۔۔۔
آفس سے آنے کے بعد زاہران نے کھانا کھایا اور تھوڑا ریسٹ کیا تو آئدہ اس کی اور اپنی چائے لے آئی یہ ان کا روز کا معمول تھا۔۔۔۔
"آئدہ۔۔۔وہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔۔"
زاہران نے چائے کا سپ لیا اور آئدہ سے بولا۔۔۔۔
"بولیں۔۔۔"
"وہ۔۔"
زاہران نے پھر ساری بات جو اس کو آہل نے بتائی تھی وہ آئدہ کا بتائی۔۔۔۔۔
"اب بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے۔۔۔۔تم اریج کو معاف کرو گی یا نہیں۔۔۔۔"
زاہران نے سنجیدگی سے آئدہ کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔۔۔۔
"مجھے افسوس ہوا جو آپی نے کیا خیر میں ان کا معاف کردونگی۔۔۔کردوں گی کیا بلکے کردیا وہ میری بڑی ہیں میں نہیں چاہتی وہ مجھ سے معافی مانگے۔۔۔۔۔"
آئدہ نے اپنی بات پوری کی اور چائے کی کپس اٹھا کر کچن میں رکھ آئی۔۔۔۔
"پھر بھی اریج نے جو تمہارے ساتھ کیا اس کی سزا اسے نہیں دوگی۔۔۔؟"
زاہران نے کچھ سوچ کر آئدہ سے سوال کیا۔۔۔۔
"زاہران سزا دینے والی میں کون ہوتی ہوں۔۔۔وہ پاک پروردگار ہیں نہ اسی کو ہی حق ہے مجھے نہیں اور ویسے بھی ان کو ان کے کیے کی سزا مل چکی ہے اب انھیں مزید نہیں ملنی چاہیے۔۔۔۔اور مجھے نا بہت خوشی ہورہی ہے کہ میں خالہ بن گئ ہوں۔۔۔۔بس اب جلدی سے مجھے زارا سے ملنا ہے۔۔۔۔"
اریج نے مسکرا کر اپنی بات پوری کی۔۔۔۔زاہران تو حیران تھا کے آئدہ کا کتنا بڑا دل تھا اس نے اریج کو بغیر معافی کے معاف کردیا تھا۔۔۔۔۔
"پھر کیا سوچا تم نے۔۔۔۔"
زاہران نے پھر سے سوال کیا۔۔۔۔
"کس بارے میں۔۔؟"
آئدہ نے حیرت سے سوال کیا۔۔۔۔
"کس بارے میں کیا مطلب خود تو خالہ بن گئ ہو۔۔۔۔اب مجھے بابا بنانے کا کب ارادہ ہے۔۔۔۔؟"
زاہران نے مسکراہٹ دبا کر سوال کیا۔۔۔۔۔
"جلد ہی۔۔۔۔۔۔کیا مطلب زاہران شرم نہیں آتی آپ کو فضول بات کرتے ہوئے۔۔۔۔"
پہلے تو آئدہ نے بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا پھر جب سمجھ آیا تو حیا سے اس کے گال لال ہوگئے اور اس نے زاہران کو جھڑک دیا۔۔۔۔زاہران اس کے گالوں کی لالی دیکھ کر زور سے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔
"جائے میں آپ سے بات نہیں کرتی۔۔۔۔؟"
آئدہ منہ بسور کر جانے لگی۔۔۔
"یار میں سیریس ہوں اب اپنے اس مسکین شوہر پر رحم کھا لو۔۔۔۔اور اب تو تم مجھ سے ناراض نہیں ہوں نہ۔۔۔۔؟"
زاہران نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا اور ناراضگی والی بات یاد آنے پر بولا۔۔۔۔
"کس نے کہا میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔۔؟"
آئدہ نے مسکرایٹ دبا کر سوال کیا۔۔۔۔
"تو وہ رخصتی والی رات سے لے کر اب تک کیا تھا۔۔۔۔؟"
زاہران نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔
"وہ۔۔۔وہ تو مذاق تھا۔۔۔۔بس آپ کو تھوڑا سا تنگ کرہی تھی۔۔۔۔اتنا تو حق ہے نا۔۔۔"
آئدہ مسکرا کر بولی جب کہ اس کی بات سن کر زاہران کو صدمہ لگا تھا۔۔۔۔
"وہ۔۔۔۔مذاق تھا لائیک سیریسلی آئدہ میری جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔۔۔روکو زرا۔۔۔۔"
زاہران صدمے سے بولا تو آئدہ اس سے ہاتھ چھڑانے کر بھاگی تھی۔۔۔روم میں آگے آگے آئدہ تھی اور پیچھے زاہران اور دونوں کے قہقے روم میں گونج رہے تھے اور اب یہ ان کی قہقے تاحیات ساتھ رہنے تھے۔۔۔بہت سے غم انھوں نے جھلے تھے مگر اب صرف خوشیاں ہی ان کی منتظر تھی باقی چھوٹی موٹی پریشانیاں تو پر کسی کی زندگی میں ہوتی ہیں۔۔۔۔اب جو بھی مشکلات ان کی زندگی میں آنی تھی ان کا مقابلہ مل کر دوموں نے کرنا تھا۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
وہ بیڈ پر لیٹی اس دن کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اسکے لیے برا ترین دن ثابت ہوتے ہوتے رہ گیا۔۔آہل کے ساتھ نکاح والا لمحہ سوچ کر اسکے ہونٹوں پر مدہم سی مسکراہٹ آگئی وہ بےخودی میں آہل کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
گندمی رنگت،ہلکی داڑھی،لمبا قد،گھنے بال،چوڑا سینہ۔۔وہ وجیہہ سخصیت کا مالک تھا اور ہمیشہ سے ہی وہ ہالے کو اٹریکٹ کرتا تھا۔۔شکل کے ساتھ ساتھ اسکا دل بھی بہت خوبصورت تھا۔۔آہل کے بارے میں سوچتے ہالے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔۔
"اہم اہم۔۔۔کس کے خیالوں میں اتنی گم ہو کہ میری موجودگی کا ہی علم نہیں ہوا جناب کو۔۔۔"
ماہ ہالے کے کمرے میں آئی اور اسکو یوں مسکراتا دیکھ کر شرارت سے بولی۔۔ہلاے جلدی سے سیدھی ہوکر بیٹھی اور خود کو نارمل کیا۔۔
"نن۔۔نہیں تو میں کیوں کسی کے بارے میں سوچوں گی۔۔ویسے ہی لیٹی ہوئی تھی میں تو۔۔۔۔"
ہالے نے جھوٹ سے کام لیا۔۔۔
"ہاں ہاں جھوٹ بول والو بس تم سے۔۔۔کسی کی سوچوں میں گھری مسکرا رہی تھی میڈم اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے۔۔۔۔۔"
ماہ روش مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔
"جج۔۔جی نہیں۔۔۔میں کسی بارے میں نہیں سوچ رہی تھی خود سے پرڈکشنز مت لگاو۔۔۔۔"
ہالے نے ماہ کو گھورا۔۔
"بس بس۔۔۔آئی نو تم جھوٹ بول رہی ہو میرے ساتھ زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے پتا ہے آہل کے بارے میں سوچ رہی تھی تم تمہاری آنکھوں میں صاف نظر آرہا ہے۔۔۔"
ماہ نے اسکو چھیڑا تو وہ نظریں چرا گئی۔۔
"دیکھا میں نے کہا تھا۔۔میری جان تم خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا میں تمہیں جانتی ہوں۔۔۔۔۔"
ماہ بولتی ہوئی اسکے بیڈ پر سکون سے لیٹنے والے انداز میں بیٹھی۔۔۔
"افف۔۔۔۔تم بہت بدتمیز ہو میں تمہارا قتل کر دوں گی"
ہالے نے بولتے ہوئے ماہ کی گردن کو ہلکا سا پکڑا تو وہ ہنس دی۔۔
"کچھ تو خدا کا خوف کرو ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی"
ماہ ہنسی روک کر بولی تو ہالے نے قہقہہ لگایا۔۔۔
"کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے تمہیں شادی کی۔۔"
ہالے نے مسکراہٹ دبا کر ماہ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
"ہاں یار بہت جلدی ہے۔۔۔مجھ سے چھوٹی ہو تم اور معصومہ۔۔۔۔آئدہ کی شادی ہوگئی۔۔۔تمہارا اور معصومہ کا نکاح ہوگیا بچی میں جسکا ابھی تک رشتہ بھی نہیں ہوا۔۔۔"
ماہ نے گندا سا منہ بنایا ہالے نے اسکی بات پر کشن اٹھا کر اسے دو،تین بار مارا تو وہ دونوں ہنسنے لگی۔۔ماہ روش آج ہالے کو بہت ٹائم بعد یوں ہنستا ہوا دیکھ رہی تھی اسکے دل میں سکون سا اترا تھا کہ ہالے کی کھنکتی ہوئی ہنسی تو لوٹ آئی۔۔
"اچھا ایک بات بتاو۔۔"
ماہ نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا تو ہالے بھئ غور سے اسکو دیکھنے لگی۔۔
"تم واقعی خوش ہونا آہل سے نکاح کرکہ۔۔۔؟"
ماہ کے سوال کرنے پر ہالے بےاختیار مسکرا دی۔۔۔
"تم تو مجھے مجھ سے زیادہ نہیں جانتی۔۔۔"
ہالے نے ماہ روش کو اسکی کہی بات یاد دلائی تو ماہ نے اسکو گھورا۔۔۔
"جانتی ہوں مگر اس سوال کا جواب تمہارے منہ سےسننا چاہتی ہوں۔۔۔"
ماہ روش کی بات ہر ہالے نے آنکھیں گھمائی۔۔۔
"بتاو نہ۔۔۔"
"ہمم۔۔۔ بہت خوش ہوں۔۔۔"
ہالے ہلکا سا مسکرا کر بولی تو ماہ نے اسکو گلے لگا لیا تبھی اسکا فون بجنے لگا۔۔سکرین پر آہل جگمگا رہا تھا۔۔۔ماہ روش نے آنکھوں میں شرارت لیے اسکو دیکھا۔۔۔
"اچھا تم بات کرو اپنے شوہر محترم سے۔۔میں بعد میں آتی ہوں۔۔۔"
ماہ روش شرارت سے بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور جاتے ہوئے دروازہ بند کرنا نہ بھولی۔۔۔اسکے جاتے ہی ہالے نے کال اٹینڈ کی اور واپس بیڈ پر سکون سے لیٹ گئی۔۔
"اسلام و علیکم کیسی ہو۔۔۔"
کال اٹینڈ کرتے ہیں آہل نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔۔
"وعلیکم السلام۔۔۔میں بلکل ٹھیک آللہ کا شکر۔۔۔"
"ہمم۔۔۔آئے واز ایکسپیکٹنگ سم تھنگ ایلس۔۔۔"
آہل کی بات سن کر ہالے کو حیرت ہوئی۔۔۔
"کیا ایکسپیکٹ کر رہے تھے آپ۔۔۔"
ہالے نے سوال کیا۔۔۔
"مجھے لگا تم کہو گی کہ تم بہت خوش ہو۔۔"
آہل اپنی مسکراہٹ روک کر سنجیدگی سے بولا تو ہالے کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آئی۔۔
"خوش کا تو نہیں پتا پر مطمئین ہوں"
اسکی بات پر آہل مسکرایا۔۔۔
"ہمم۔۔تم سکون میں ہو یہی کافی ہے"
کچھ دیر وہ دونوں باتیں کرتے رہے پھر فاطمہ بیگم نے اسے کھانے پر بلایا تو وہ کال بند کرتی نیچے چلی گئی۔۔۔وہ نیچے آئی تو ماہ آنکھوں میں شرارت لیے بار بار اسکو دیکھ رہئ تھی اور ہالے سوائے گھورنے کے کچھ نہیں کرپا رہی تھی۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آج کافی ٹائم بعد وہ چاروں باہر آئی تھی شام کی وقت وہ چاروں گھر سے نکالی تھی۔۔۔۔اور سی ویو پر اچھا خاصا ٹائم اسپنڈ کرنا کے اور سن سیٹ دیکھ کر وہ چاروں ڈنر کے لیے ایک ریسٹورنٹ آگئ تھی جہاں انھوں نے کھانا آرڈر کیا اور اس کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔ماہ روش نے کچھ سوچا اور ان تینوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے زور سے ٹیبل بجائی۔۔۔۔۔
"ماہ باہر تو انسان بن جاو سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔۔۔۔جیسے تم کوئی اعلان کرنے لگی ہو۔۔۔۔۔"
ہالے نے پہلے تو ماہ کو گھوری سے نوازہ اور دانت پیس کر بولی۔۔۔۔
"اچھا سوری نہ۔۔۔۔وہ میں کیا کہ رہی تھی کہ۔۔۔۔"
ماہ بول کر ان تینوں کو دیکھنے لگی جو اس کی طرف ہم تن گوش تھی۔۔۔
"کہ۔۔۔"
"کہ۔۔۔"
"ماہ بول بھی دو کیا فضول کا سسپنس پھیلا رکھا ہے۔۔۔۔"
ہالے نے دوبارہ سے ماہ روش کو گھورا جو فضول کا ڈرامہ کر رہی تھی اور بول ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
"کہ یار تم تینوں تو اب شوہروں والی ہوگئ ہو میرا مطلب ہے اب مجھ معصوم کا بھی کچھ سوچ لو۔۔۔۔"
ماہ نے جلدی سے بول کر ان تینوں کی طرف دیکھا جو اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"اچھا مذاق ہے تم اور شادی میں نے بہت انجوائے کیا دوسرا جوک سناؤ نا پلیز۔۔۔۔"
ہالے نے اس کی بات کو ہواؤں میں اڑایا تھا اور مزے سے بولی تھی۔۔۔۔
"میں کوئی مذاق نہیں کر رہی سیریس ہوں میں اور تم تو اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔"
ماہ روش نے ہالے کو غصے سے گھورا اور تھپڑ لگا کر بولی۔۔۔۔
"ویسے یہ تم بول رہی ہو ماہ جس کو ماما نے اتنی دفعہ کہا اور تم ہر وقت انکار کرتی تھی خیر یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے ماما کو بولتی ہو ڈھونڈے کوئی رشتے تمہارے لیے۔۔۔اور منہوس آہستہ مارا کر اپنے ہتھوڑے جیسے ہاتھ۔۔اپنے معصوم شوہر کو تو یہ تھپڑ مار مار کر قبر میں پہنچا دے گی۔۔۔"
ہالے نور نے اس کی مشکل کا حل منٹوں میں نکالا تھا اور اس کی بات سن کر ماہ کا دل کیا تھا کہ کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر دو لگا دے جو اس سے دشمنی کرنے جارہی تھی اور آخری بات سن کر اس نے ایک اور تھپڑ ہالے کو مارا تھا جو کے سسی کر کے ہی رہ گئ تھی۔۔۔۔۔
"تم تو چپ کرو ماما کی چمچی اور تم رہنے دو یار آئدہ تم اور معصومہ ہی دیکھ لو کوئی۔۔۔۔۔۔"
ماہ روش نے ہالے کو جھڑکا جو منہ بنا کر رہ گئ تھی۔۔۔۔اتنے میں ویٹر کھانا لے کر آگیا تو وہ تینوں کھانے کی طرف متوجہ ہوگئیں تھی جب کہ ماہ روش منہ کھولے انھیں کھانا لیتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو اس کی بات کو سیریس ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔اور مزے سے کھانے میں مگن ہوگئ تھی۔۔۔۔۔
وہ بھی ان تینوں پر لعنت بھیج کر کھانا کھانے لگی باقی باتیں بعد میں کرنے کا ارادہ رکھتی تھی وہ۔۔۔۔کیونکہ ماہ میڈم کے مطابق کھانا زندگی ہے کھانے کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہوئی۔۔۔ایک ہی تو زندگی ملتی ہے اس میں بھی بندہ کھانا نہ کھائے تو وہ کیا ہی زندگی جیا۔۔۔ایسی زندگی پر لعنت جو کھانے کے بغیر ہو۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں۔۔۔food is life ۔۔۔۔بلکل صحیح کہتے ہیں۔۔۔۔
کھانا کھا کر بل پے کر کے وہ ریسٹورنٹ سے نکلی اور آئس کریم پارلر آئی تھی آئس کریم لے کر وہ لوگ باہر پارکنگ میں ہی واک کرتے ساتھ آئس کریم سے لطف اندوز ہورہی تھی۔۔۔۔۔
"ویسے ماہ تو واقعی سیریس ہو شادی کے بارے میں۔۔۔۔"
اس دفعہ معصومہ نے بات کی تھی۔۔۔۔
"یار میں واقعی سیریس ہوں تم سب نے تو شادی کرلی میری ہی نہیں ہوئی اب میں نے بھی کرنی ہے۔۔۔۔اور تم تو بکواس بند ہی رکھو خبردار کچھ بولی۔۔۔۔۔اور میری آخری امید اب تم ہی ہو آئدہ۔۔"
ماہ روش بول ہی رہی تھی جب اس نے ہالے کو منہ کھولتے دیکھا تو جھڑک دیا ہالے منہ بنا کر رہ گئی۔۔۔۔
"ہیں۔۔۔۔۔میں کیسے تمہاری آخری امید ہوں۔۔۔۔"
آئدہ نے حیرت سے ماہ روش سے پوچھا جو آنکھیں گھما کر رہ گئ۔۔۔۔۔
"میرا مطلب ہے تمہیں کیا دیورانی کی کمی نہیں معصوم ہوتی دیکھو اپنے معصوم دیور کے بارے میں ہی کچھ سوچ لو۔۔۔۔"
ماہ روش نے جلدی سے بول کر آنکھیں بند کر لی۔۔۔۔
اور وہ تینوں تو اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
"کیا مطلب ہے تمہارا سیدھا بولو۔۔۔۔"
آئدہ نے حیرت سے نکلتے پوچھا۔۔۔۔
"مطلب صاف ہے پاگل مجھے تمہارے دیور سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔۔اور اسے بھی مجھ سے محبت ہے مگر وہ بزدل انسان منہ سے نہیں بولتا۔۔۔۔اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔۔تم تینوں اور اس کا تو کوئی فکر ہی نہیں اب اپنی یہ کشتی میں خود ہی پار لگاؤں گی۔۔اب جلدی چلو گھر چلیں دیر ہو گئی ہے اس سے پہلے تم لوگوں کے شوہر نامدار فون کریں۔۔۔"
ماہ روش بول کر گاڑی کی طرف بڑھ گئ جب کہ وہ لوگ بھی حیرت سے نکل کر اس کے پیچھے گئ۔۔۔۔کیونکہ انھیں پتا تھا ماہ روش الٹی کھوپڑی کی لڑکی ہے اس سے کسی بھی چیز کی امید کی جاسکتی ہے۔۔۔۔
"ویسے ماہ روش تم کرنے کیا والی ہو۔۔۔؟"
گاڑی میں بیٹھ کر آئدہ نے سوال کیا۔۔۔۔
"پرپوز۔۔۔۔"
ماہ نے یک لفظی جواب دیا اور گانے چلا کر گاڑی گھر کی طرف کردی۔۔۔۔
"کییییییییا۔۔۔۔۔۔"
وہ تینوں حیرت سے چیخی تھی۔۔۔۔
"آہستہ میرے کان کے پردے نہ پھاڑ دینا۔۔۔۔اور اس سب میں میری مدد تم لوگ کرو گی اور میں نا سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔۔۔اور اگر کسی نے نہ کی تو پھر میرا کسی سے واسطہ نہیں کبھی زندگی بھر اپنی شکل نا دیکھنا۔۔۔۔"
ماہ سنجیدگی سے بولی اور ان کی طرف دیکھا جو کہ منہ پھاڑ کر اس کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔وہ دل ہی دل میں ان کی شکلیں دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا اونچے اونچے قہقہے لگائے مگر وہ خود کو روکے ہوئی تھی۔۔۔۔۔
"اب بھی کسی کو نہ منظور ہے تو ابھی نکلے گاڑی سے اور پھر خود ہی گھر آئے۔۔۔۔"
ماہ روش نے دوبارہ انھیں دھمکی دی تھی وہ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی رہ گئیں۔۔۔
"ہمیں منظور ہے۔۔۔"
وہ تینوں ساتھ بولی تھی تو ماہ روش نے مسکراہٹ دبائی تھی۔۔۔۔
"گڈ۔۔۔"
پہلے اس نے ان تینوں کو ڈراپ کیا پھر خود گھر آگئ تھی اور اپنے کمرے میں آکر اپنی دل کی جواہش پر لبیک کہ کر ان تینوں کی شکلیں یاد کر کے اونچے اونچے قہقہے لگائے تھے۔۔۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
شام کے پانچ بج رہے تھے وہ گھر کی چھت پر بیٹھا گہری سوچ میں گم تھا۔۔۔اسکی سوچ صرف اور صرف ماہ کے گرد گھوم رہی تھی جو اسکو بلکل ہی بھول چکی تھی۔۔
"کیوں کر رہی ہو ماہ تم ایسا۔۔۔بہت غلط کر رہی ہو تم اگر میں نے تمہیں اگنور کرنا شورع کیا تو تم سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر پاو گی۔۔۔ہو کیا گیا ہے آخر تمہیں"
وہ آسمان کو تکتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھا۔۔۔
معصومہ 12 بجے یونی سے آگئی تھی 2 بجے وہ تھکن کے مارے سو گئی ابھی اسکی آنکھ کھلی تو ٹھنڈی ہوا محسوس کرکہ وہ صحن جانے کے بجائے چھت پر آگئی وہ اکثر چھت پر آجاتی تھی اور گھنٹوں بیٹھی رہتی تھی۔۔۔معصومہ کی نظر حمزہ پرگئی تو وہ اسکے پاس آگئی۔۔۔
"بنا لیا۔۔۔؟"
معصومہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا آواز پر سر اٹھا کر حمزہ نے معصومہ کو دیکھا۔۔۔
"کیا بنا لیا۔۔۔"
حمزہ کو معصومہ کی بات سمجھ نہیں آئی تو سوال کیا۔۔۔
"کشمیر آزاد کرنے کا منصوبہ۔۔؟"
معصومہ سنجیدہ لہجے میں بولی تو حمزہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
"نہیں میں بس ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔"
حمزہ نے ہنسی روک کر سر نفی میں ہلایا تو معصومہ سر ہلاتی فاصلے پر بیٹھ گئی۔۔
"بات نہیں کر رہی نہ وہ۔۔۔"
معصومہ نے حمزہ کو دیکھے بغیر کہا تو حمزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔
"کک۔۔کون؟"
حمزہ نے سوال کیا۔۔۔
"ماہ روش۔۔۔"
اب کی بار معصومہ نے حمزہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔
(اسکو کس نے بتایا۔۔۔)
حمزہ نے دل ہی دل میں خود سے سوال کیا۔۔۔
زیادہ مت سوچیں۔۔۔ماہ روش نے ہی بتایا ہے"
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔
"ویسے بہت چھپے رستم ہیں آپ۔۔۔"
معصومہ شیطانی مسکراہٹ لیے بولی تو حمزہ نے اسے گھور کر دیکھا۔۔
"اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔جناب نے سیدھا نکاح کروا لیا۔۔۔"
اسکی بات پر معصومہ کے چہرا تھوڑا سرخ ہوا۔۔۔
"مم۔۔۔میں نے کچھ بھی نہیں کیا مجھے تو پتا بھئ نہیں تھا کہ انکا رشتہ آیا ہے میرے لیے۔۔۔"
معصومہ نے جلدی جلدی سے کہا۔۔۔
"ہاں ہاں سب پتا ہے مجھے۔۔۔ڈرامے کم کرو "
حمزہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔۔۔
"اللہ کی قسم حمزہ بھائی ایسا ویسا کچھ نہیں تھا جیسا آپ سوچ رہے۔۔۔"
معصومہ کی بات پر وہ ہنس دیا۔۔۔
"ارے بھئی مذاق کر رہا ہوں پتا ہے مجھے تم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔"
وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو معصومہ نے اسے گھورا حمزہ نے ڈبل گھوری سے نوازہ تو وہ اٹھ کر نیچے جانے لگی پر حمزہ کی آواز پر رک گئی۔۔۔
"سنو۔۔۔ماہ کو کیا ہوا ہے"
حمزہ کا سوال معصومہ کو عجیب لگا۔۔۔
"کیوں بھئی۔۔۔اسکو کیا ہوا ہے"
معصومہ واپس بیٹھ گئی۔۔۔
"یہی پوچھ رہا ہوں میں بھی تم سے۔۔۔بات نہیں کر رہی وہ مجھ سے۔۔مسلسل اگنور کر رہی ہے"
"اوووو۔۔۔افسوس ہو سن کر۔۔۔"
معصومہ کے یوں افسوس کرنے پر حمزہ سلگ اٹھا۔۔۔
"زیادہ افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کچھ کرو ملنا ہے مجھے اس سے"
"ارے بھئی میں کیا کروں۔۔آپ خود بات کر لیں اس سے"
معصومہ نے آنکھیں گھمائی۔۔۔
"دیکھو اچھی والی بہن ہو نہ میری۔۔۔اسے کہو نہ کی مجھ سے بات کرے پلیززز"
حمزہ کے یوں منت کرنے پر معصومہ نے قہقہہ لگایا۔۔۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے بات کرتی ہوں میں اس سے۔۔"
معصومہ نے کہا(اس کو ماہ کی بات یاد آگئی تھی) تو حمزہ کی آنکھیں چمکنے لگی۔۔۔معصومہ نیچے چلی گئی تو وہ بھی اسکے پیچھے پیچھے نیچے آگیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
حمزہ آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ کر کام کر رہا تھا جب ماہ روش اسکو کال کرنے لگی اسنے جلدی سے کال پک کی تو دوسری طرف سے ماہ بولی۔۔۔
"کہاں ہو۔۔۔؟"
"تم سے مطلب۔۔۔؟؟"
حمزہ اکڑ کر بولا ماہ نے آنکھیں گھمائی۔۔۔
"بات کرنی ہے مجھے تم سے۔۔۔"
ماہ نے کہا
"مگر مجھے نہیں کرنی۔۔۔"
وہ مسکرایا مگر لہجا سنجیدہ اور ناراض رکھا۔۔
"تو کال کیوں اٹینڈ کی ہے جب بات نہیں کرنی تو۔۔۔ "
ماہ روش نے اسکی بات سن کر دانت پیسے۔۔۔
"میری کال میری مرضی میں اٹینڈ کروں یا نہ کروں۔۔۔"
حمزہ کی بات سن کر چند لمحے وہ خاموش ہوگئی۔۔۔
"اففف۔۔۔حمزہ اتنے سڑیل کیوں بنے ہوئے ہو۔۔۔"
ماہ تنگ ہوئی۔۔۔
"میں سڑیل بنا ہوا ہوں تو تمہیں کیا کیڑا ہے۔۔۔"
حمزہ کی بات پر ماہ کا دل کیا کہ اگر وہ اسکے سامنے ہوتی تو وہ اسکو گنجا کر دیتی۔۔۔
"زیادہ بحث مت کرو۔۔۔۔ملنا ہے مجھے تم سے۔۔۔۔"
ماہ نے اسکی بات اگنور کی اور مدعے کی بات کی۔۔۔۔
"کیوں۔۔۔۔میں کوئی ڈاکٹر ہوں جو تمہیں مجھ سے ملنا ہے۔۔"
"ہاں کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔آج یا کل میں مجھ سے ملو۔۔۔"
ماہ نے کہا اور کال کاٹ دی۔۔۔حمزہ بس فون کو گھور کر رہ گیا۔۔۔
اسنے ٹائم دیکھا تو 4 بج رہے تھے پانچ بجے تک کام ختم ہوجانا تھا اسنے کچھ سوچ کر ماہ روش کو ساڑے پانچ بجے ایک ریسٹورنٹ میں پہنچنے کے لیے کہا اور کام میں مصروف ہوگیا۔۔۔
حمزہ ماہ روش کی بھیجی گئی لوکیشن پر پہنچا وہ اسے کہیں نظر نہ آئی تو اسنے اندر جانے کا سوچا۔۔
"اتنا بڑا ریسٹورنٹ ہے پتا نہیں کہاں ہوگی وہ۔۔۔ "
حمزہ ریسٹورنٹ کو باہر سے دیکھ کر بڑبڑایا اور اسکو کال کی۔۔۔ماہ سکون سے بیڈ پر بیٹھی لیپ ٹاپ پر سیزن دیکھ رہی تھی جب حمزہ کی کال آنے لگی۔۔۔اسنے کال کٹ کی اور لیپ ٹاپ بند کرنے لگی جب حمزہ کی دوبارہ کال آنے لگی۔۔اسنے لیپ ٹاپ شٹ ڈاون کیا اور کال اٹینڈ کی۔۔۔
"ہیلو ماہ۔۔۔کہا رہ گئی ہو یار ویٹ کر رہا ہوں میں تمہارا۔۔۔۔"
حمزہ یہاں وہاں دیکھتا ہوا بولا۔۔۔
"سوری حمزہ۔۔وہ میں سو گئی تھی تو دیر ہوگئی۔۔میں بس تیار ہوگئی ہوں آرہی ہوں بیس منٹ میں۔۔۔"
ماہ نے بولتے ہی کال کاٹ دی کبرڈ سے کپڑے نکالے اور فریش ہونے چلی گئی۔۔۔حمزہ ہمیشہ کی طرح منہ کھولے فون کو دیکھنے لگا۔۔۔اسنے گندا سا منہ بنایا اور اسکا انتظار کرنے لگا کیونکہ اسکے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔کافی دیر انتظار کرنے کے بعد وہ تنگ آکر واپس جاکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔
ماہ فریش ہونے کے بعد شیشے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی جب اسکی نظر ٹائم پر گئی۔۔۔پچھلے آدھے گھنٹے سے حمزہ اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔وہ مسکرا دی
"تمہیں انتظار تو کرنا ہی پڑے گا مسٹر حمزہ۔۔۔صبر کا پھل میٹھا ہی ملتا ہے۔۔۔۔"
ماہ روش نے بڑبڑاہٹ کی اور ہلکا سا میک اپ کرنے لگی۔۔۔
حمزہ اسکا انتظار کرتے کرتے تھک چکا تھا۔۔اسنے ماہ کو کال کی مگر اسکا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔۔۔وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ ماہ اسکو جان پوچھ کر تنگ کر رہی ہے تبھی اسنے تیز والیم مین گانے چلائے اور آنکھیں بند کر کہ سیٹ سے ٹیک لگا لی۔۔۔آنکھوں کے پردوں پر ماہ کا چہرا لہریا تو حمزہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔
ماہ ریسٹورنٹ پہنچی اور حمزہ کو کال کی جو اسنے اٹینڈ نہ کی ماہ نے دوبارہ کال کی دوسری بار بھی کال اٹینڈ نہ ہوئی اور تیسری بار کاٹ دی گئی۔۔۔مای نے گہرا سانس لیا اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کافی آرڈر کی۔۔
ویٹر اسکے لیے کافی لے کر آیا تو اسنے ہاتھ میں پکڑا خوبصورت اور مختلف پھولوں کا بوکے اسکو دیا اور ساتھ کچھ ہدایات دی تو وہ ویٹر وہاں سے چلا گیا۔۔۔اسنے پھر سے حمزہ کو کال کی جو اسنے کاٹ دی۔۔۔
ماہ نے غصے سے فون کو دیکھا اور کافی پینے لگی۔۔۔کچھ دیر بعد اسنے حمزہ کو میسج کیا اور سیکنڈ فلور پر آنے کا کہا۔۔۔آدھے گھنٹے بعد وہ اسکے سامنے موجود تھا۔۔۔
"کہاں رہ گئے تھے۔۔۔"
ماہ نے اس سے سوال کیا۔۔۔
"تمہارا انتظار کرتے کرتے نیند آگئی تھی"
حمزہ سنجیدگی سے بولا ماہ ہنس دی۔۔۔
"ڈرامے کم لگاو۔۔۔"
"اچھا اور تم خود جو اتنے دن سے ڈرامے لگا رہی اسکا کیا۔۔۔"
حمزہ دانت پیس کر بولا۔۔۔
"جی نہیں میں نے کوئی ڈرامے نہیں لگائے اچھا چھوڑو ان باتوں کو بتاو کیا کھاو گے مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔"
اسکی بات سن کر حمزہ نے اسے گھورا اور آرڈر کیا۔۔
"کیوں بلایا ہے؟؟؟"
حمزہ نے ائیبرو اچکائی۔۔۔
"کیونکہ تم مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔۔۔۔"
ماہ نے کندھے اچکائے۔۔۔
"اچھا یعنی تم نہیں ملنا چاہتی تھی۔۔۔"
حمزہ سر ہلا کر طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔
"افف۔۔۔۔میں نے اگر نہ ملنا ہوتا تو آتی ہی نہ۔۔۔"
ماہ نے آنکھیں گھمائی۔۔
"کیسی ہو۔۔۔"
حمزہ نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد سوال کیا۔۔۔
"میں تو بہت پیاری ہوں۔۔"
"کوئی شک۔۔۔"
ماہ مسکرا کر بولی تو حمزہ کا جواب بےاختیار تھا۔۔
"تم کیسے ہو۔۔۔"
"تمہارے سامنے ہوں۔۔۔دیکھ لو کیسا ہوں۔۔۔"
حمزہ اپنی طرف اشارہ کرکہ بولا تو ماہ نے سر ہلایا وہ کچھ بولنے لگی تھی جب ویٹر آرڈر لے آیا اور ساتھ ہی اسکے ہاتھ میں ماہ کا دیا گیا بوکے بھی تھا۔۔۔
"یہ کس نے دیا ہے۔۔۔"
حمزہ نے بوکے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا جو ویٹر ماہ کو تھما رہا تھا۔۔۔
"دیا نہیں ہے کسی نے۔۔میں نے دینا ہے۔۔۔"
ماہ اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی بولی اسنے حمزہ کو کچھ بولنے کا موقعہ ہی نہ دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بوکے اسکے سامنے کیا۔۔۔حمزہ حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔آردگرد ٹیبلز پر بیٹھے لوگ بھی انکی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔۔
"ول یو بی مائن۔۔۔"
ماہ نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا تھا۔۔
"مم۔۔۔ماہ یہ۔۔یہ تم کیا کر رہی ہو۔۔۔۔"
حیرت اور خوشی کے مارے حمزہ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔
"بتاو نہ۔۔۔"
ماہ کی بات سن وہ اپنی جگہ سے اٹھا وہ ابھی بھی بےیقینی سے ماہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
"یس۔۔۔"
حمزہ نے مسکراتے ہوئے بولا ماہ کے ہاتھ سے بوکے لیا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ریسٹورنٹ میں ہر طرف تالیوں اور ہوٹنگ کی گونج تھی اور کچھ لوگ ویڈیو بھی بنا رہے تھے۔۔۔
ماہ خوشی کے مارے اسکے سینے سے آلگی تھی حمزہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔
"ماہ کی بچی پیچھے ہٹو سب دیکھ رہے ہیں"
حمزہ کی بات ہر وہ پیچھے ہٹی اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔
حمزہ کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔۔اسکی خوشی اسکے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔اسنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ماہ اسکو یوں پرپوز کردے گی۔۔۔ماہ نے جتنا اسکو ترسایا تھا آج اتنا ہی خوش بھی کیا تھا یہ دن اسکی زندگی کے یادگار دنوں میں سے ایک تھا۔۔۔وہ جانتا تھا ماہ ایک بولڈ لڑکی ہے مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسے خود پرپوز کر دے گی۔۔۔۔۔۔
دو ماہ بعد ماہ روش اور حمزہ کا نکاح فائینل ہوا تھا اور ماہ کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد رخصتی ہونی تھی یہ ان دونوں کا فیصلہ تھا۔۔۔
حمزہ سے نکاح کرنے کے بعد ماہ کے باپ نے اس سے رابطہ پوری طرح ختم کردیا کیونکہ ماہ نے انکو یہ بولا تھا کہ وہ اپنی ساری پراپرٹی حمزہ کے نام کر رہی ہے اور پھر وہ صرف اس پر چیخنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔۔ماہ نے اپنا نمبر بھی بدل لیا تھا اور اسکے باپ نے اس سے رابطہ کرنے کی دوبارہ کوشش نہ کی تھی۔۔۔
-------------❤❤--------------
کل وہ سب حویلی پہنچ گئے تھے سب ایک ساتھ بہت خوش تھے۔۔۔آج آہل صبح سے حویلی پر نہیں تھا اور وہ کہاں گیا تھا اس کا صرف،آئدہ، زاہران اور ہالے کو پتا تھا۔۔۔آہل نے سب کچھ ہالے کو بتا دیا تھا کیونکہ وہ اس کی دکھ سکھ کی ساتھی تھی۔۔۔ہالے نے اس کا اس کام میں بھر پور ساتھ دیا تھا۔۔۔ناشتے کی ٹیبل پر سب موجود تھے سوائے آہل کے جو کہ کراچی گیا ہوا تھا اریج اور زارا کو لینے۔۔۔۔۔
"نور بیٹا آہل کہاں ہے۔۔۔۔ناشتے کی میز پر نظر نہیں آرہا۔۔۔۔"
داجی نے آہل کی غیر موجودگی محسوس کر کے کہا۔۔تو سب نے سوالیہ نظروں سے ہالے کو دیکھا۔۔۔
"وہ۔۔داجی۔۔۔آہل کسی ضروری کام سے باہر گئے ہیں دوپہر یا شام تک آجائیں گے۔۔۔۔"
ہالے نے جواب دیا تو داجی نے سر ہلایا اور سب ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔۔
ناشتے کے بعد سب اپنے کمروں میں چلے گئے جب کہ معصومہ،ہالے اور آئدہ نے مل کر برتن سمیٹے اور پھر کچن کو صاف کیا اس کے بعد وہ لوگ بھی اپنے کمروں میں چلی گئ۔۔۔۔۔
ہالے نے کمرے میں آتے ہی آہل کو فون کیا۔۔۔۔۔
"اسلام وعلیکم۔۔۔کیسے ہے آپ۔۔۔"
ہالے نے سلام کیا۔۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔۔میں ٹھیک آپ سنائیں۔۔۔اور خیریت آج آپ نے فون کیا کہی غلطی سے تو نہیں کردیا نا بیگم صاحبہ۔۔۔۔"
آہل نے سلام کا جواب دیا ساتھ ہی ہالے کو فون کرنے پر چھیڑا کیونکہ ہالے نے شادی کے بعد سے ہی کبھی آہل کو فون نہیں کیا تھا ہمیشہ آہل ہی اس کو فون کرتا تھا۔۔۔۔۔
"میں بھی ٹھیک ہو۔۔۔۔اور کیوں کیا میں آپ کو فون نہیں کرسکتی۔۔۔۔"
ہالے نے منہ بنا کر پوچھا۔۔۔۔
"کرسکتی ہیں۔۔۔بلکل کرسکتی ہیں۔۔۔۔پھر اگر آپ روز کریں جب میں آفس جاؤں تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔"
آہل نے مسکراہٹ ضبط کر کے کہا۔۔۔
"آہل جی۔۔۔دیکھے۔۔۔۔"
"آہ۔۔۔۔ظلم اس وقت دیکھا ہی تو نہیں سکتا ورنہ دیکھ لیتا۔۔۔۔"
ہالے ابھی بول ہی رہی تھی جب آہل نے اس کی بات کاٹ کر شوخی سے کہا۔۔۔
"آہل اب آپ پٹڑی سے اتر رہے ہیں۔۔۔مجھے یہ بتائے اریج آپی مان گئ یہاں آنے کے لیے۔۔۔۔؟"
ہالے نے آہل کی شوخی پر دانت پیس اور اریج کے مطلق پوچھا۔۔۔۔
"ہاں مان تو وہ گئ ہے کافی مشکلوں سے۔۔۔۔۔ابھی وہ پیکنگ کرہی ہے۔۔تھوڑی دیر تک نکلتے ہیں حیدر آباد کے لیے۔۔۔۔"
آہل نے ہالے کو تفصیل سے بتایا۔۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔دا جی پوچھ رہے تھے آپ کا میں نے ان سے کہ دیا کہ آپ ضروری کام سے گئے ہے دوپہر یا شام تک آجائیں گے۔۔۔۔"
ہالے نے صبح والی بات آہل کو بتائی۔۔۔۔
"ہاں دن تک آجائیں گے۔۔۔۔"
آہل نے مختصر جواب دیا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے اب میں فون رکھتی ہوں۔۔۔۔آپ اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔۔"
"اللہ حافظ۔۔۔"
-------------❤❤--------------
حویلی والے سارے اس وقت باہر لان میں موجود تھے آسمان پر کالے بادل جمع تھے اور ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی موسم بہت اچھا تھا۔۔۔۔۔ ہالے اور آئدہ سب کے لیے چائے اور سنیکس لے آئے ابھی سب لوگ چائے سے لطف اندوز جب آہل کی گاڑی حویلی کی پورچ میں آ کر رکی پورچ کے دائیں طرف ہی لان تھا تو سب نظر آرہا تھا۔۔۔۔آہل گاڑی سے اتارا اور پھر دوسری طرف سے جاکر دروازہ کھولا۔۔۔سب کو تجسس ہوا کے آہل کے ساتھ کون آیا کیونکہ وہ گیا تو اکیلا ہی تھا تو اب اس کے ساتھ کون آیا ہے۔۔۔۔ہالے کو ٹینشن ہورہی تھی کہ اب کیا ہوگا سب گھر والوں کا کیا ریکشن ہوگا اریج کو دیکھ کر۔۔۔۔ٹینشن میں تو آئدہ اور زاہران بھی تھے۔۔۔۔۔سب کی نظریں پورچ کی طرف تھی۔۔۔جب آہل کے پیچھے انھیں کوئی لڑکی برقعے میں نظر آئی اور آہل نے کسی بچی کو اٹھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔سب کو اب تشویش ہورہی تھی کہ یہ لڑکی کون ہے اور آہل کے ساتھ بچی کون۔۔۔۔؟
آہل لان میں آیا تو سب کی سوالیہ نظریں آہل کی طرف تھی۔۔۔۔
"آہل۔۔۔بیٹا یہ لڑکی کون ہے۔۔۔اور یہ بچی کس کی ہے۔۔۔؟"
دا جی نے آہل سے سوال کیا۔۔۔
"دا جی۔۔۔یہ لڑکی میری بہن ہے۔۔۔۔اور یہ بچی۔۔۔"زارا فاطمہ" ہے میری بہن کی بیٹی۔۔۔۔"
آہل نے تحمل سے جواب دیا۔۔۔۔
"آہل تمہاری ایک ہی بہن ہے جو کہ معصومہ ہے۔۔۔اب پہلیاں مت بھجوا اور بتا دو یہ لڑکی کون ہے۔۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے آنکھیں دکھائی آہل کو اور غصے سے بولی۔۔۔اریج نے نقاب کیا ہوا تھا تو اس لیے ابھی کسی کو پتا نہیں چل رہا تھا۔۔۔
"معصومہ زارا کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔۔۔۔اور سب اندر لاونج میں چلیں یہاں بات کرنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔"
آہل نے پہلے معصومہ کو کہا تو اس نے زارا کو آہل سے لیا اور اپنے کمرے میں چلی گئ جب کے باقی سب اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔
"اب تو بتا دو آہل یہ کون ہے۔۔۔؟"
دا جی نے اندر آتے ہی آہل سے سوال کیا۔۔۔۔
"اریج۔۔۔۔نقاب ہٹا دو۔۔۔۔"
آہل نے اریج سے کہا تو اریج نے اپنا نقاب ہٹا دیا۔۔۔۔سب شاک کی کیفیت میں کھڑے اریج کو دیکھ رہے تھے۔۔۔سوائے ہالے،زاہران اور آئدہ کے۔۔۔۔
سب سے پہلے شک سے فرحین بیگم نکلی تھی۔۔۔۔
"چٹاخ۔۔۔۔"
اور اریج کے پاس آکر اس کا تھپڑ لگایا تھا اریج نے ان کے تھپڑ پر صرف آنکھیں بند کی تھی۔۔۔۔
"آہل کیوں لے کر آئے ہو اس بدکردار لڑکی کو یہاں۔۔۔پہلے ہی اس کی وجہ سے ہماری عزت کا جنازہ نکل چکا ہے اب دوبارہ نکلنے آئی ہو کیا۔۔۔۔اور تمہاری وجہ سے میرے سر کا سائبان مجھے اس دنیا میں اکیلا کر گیا اب کسی منہ سے آئی ہو دیکھو بی بی ہم بڑے مشکلوں سے اب خوش ہوئے ہے اب دوبارہ ہماری خوشیوں کا آگ نا لگانا یہ میرے بندھے ہوئے ہاتھ ہے نکل جاؤ یہاں سے اور دوبارہ کبھی مڑ کر یہاں نہ آنا۔۔۔۔"
فرحین بیگم ٹو اریج پر پھٹ ہی پڑی تھی اتنے سالوں کا غبار آج نکل رہا تھا۔۔۔۔آخر میں انھوں نے تو ہاتھ ہی بند لیے تھے۔۔۔
"امی پلیز۔۔۔مجھے اور گناہگار مت کریں۔۔۔"
اریج نے نفی میں سر ہلایا تھا اور ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔۔
"مت بولو مجھے امی جس دن تم یہاں سے گئ تھی اس دن ہی تمہاری ماں مر گئ تھی میری ایک ہی بیٹی ہے جس کا نام آئدہ ہے اب یہاں سے جاسکتی ہو۔۔۔"
فرحین بیگم نے آئدہ کے ہاتھ جھٹک دیے اور ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
"اریج کہی نہیں جائے گی وہ اس گھر کی بیٹی ہے اسے میں اس لیے یہاں نہیں لایا کے اس کو گھر سے نکل دیا جائے۔۔۔۔اور وہ اپنے کئے کی سزا بھگت چکی ہے۔۔۔۔"
آہل نے فرحین بیگم سے کہا۔۔۔۔۔
"بس کرو آہل بہت کرلی تم نے اپنے منمانی۔۔۔۔اور تم نکلو یہاں سے۔۔۔۔"
فرحین بیگم نے آہل کو بھڑک دیا اور اریج کو کو بازو سے پکڑ کے باہر لیے جانے لگی۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
(7 سال بعد)
"سالار۔۔۔میں کہ رہی ہوں۔۔۔۔آرام سے یہ کپڑے پہن لو۔۔۔ورنہ مجھے سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔"
ماہ روش اپنے 4 سالہ بیٹے (سالار) سے مخاطب تھی جو کہ اس کے ہاتھ آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔کب سے کپڑے لے کر وہ اس کے پیچھے تھی پر سالار بھی اپنے نام کا ایک تھا وہ اس کا ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
"ماما آپ سے برا کوئی نہیں ہے۔۔۔"
سالار کھلکھلا کر بولا۔۔۔۔
"شرم نہیں آتی اپنی ماں کو بولتے ہوئے۔۔۔۔ضرور تمہارے اس باپ نے تمہیں سیکھایا ہو گا یہ۔۔۔۔حمزہ۔۔۔۔۔حمزہ۔۔۔۔"
سالار کی بات سن کر ماہ روش کی تو آنکھیں ہی باہر آگئ تھی اسے پتا چل گیا تھا اس کو یہ سب سکھانے والا اس کا باپ ہوگا۔۔۔۔اس لیے اس نے اونچی آواز میں حمزہ کو بلایا۔۔۔۔۔
"کیا ہو گیا۔۔۔۔ماہ میری جان کیوں اس حالت میں اتنا چیخ رہی ہوں۔۔۔؟"
حمزہ جو نیچا تھا ماہ روش کی آواز سن کر جلدی سے کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
"میری حالت کی تو خوب کہی تم نے۔۔۔۔۔ تم دونوں باپ بیٹے اس حالت میں مجھے پاگل کردیتے ہوں۔۔۔یہ لو کپڑے اب خود ہی اپنی اس فتنے اولاد کو سنھبالو۔۔۔غضب خدا کا میری اس حالت کا بھی خیال نہیں کرتا اور اپنے پیچھے دوڑاتا ہے۔۔۔پتا نہیں کس پر چلا گیا ہے یہ شیطان۔۔۔"
حمزہ کے آتے ہی ماہ روش اس پر چڑ دوڑی اور سالار کے کپڑے اس کی طرف اچھال دئے جو کہ حمزہ نے بڑی مہارت سے کیچ کر لیے۔۔۔۔
"اچھا اچھا میں پہنا دیتا ہوں اس کو کپڑے تم اب ریسٹ کرو۔۔۔۔"
حمزہ نے اس کی حالت کا خیال کرتے ہوئے اس کا بیڈ کے پاس لے کر آیا اور اس کا بیٹھا کر پانی کا گلاس دیا۔۔۔جو کہ ماہ نے لے کر پی لیا اور بیڈ پر لیٹ گئ۔۔۔۔
"سالار شرافت سے یہاں آو اور کپڑے پہنو اور پھر نیچے دادی کے پاس جاو۔۔۔۔"
حمزہ نے سالار کو آنکھیں دکھائی تو وہ شرافت سے حمزہ کے پاس آیا وہ سب سے زیادہ حمزہ سے ہی ڈرتا تھا ورنہ ماہ روش کو تو اپنے پیچھے لگائے رکھتا تھا۔۔۔۔حمزہ نے سالار کو چینج کروایا تو وہ نیچے بھاگ گیا۔۔۔۔
حمزہ ماہ روش،سنان معصومہ کی رخصتی معصومہ اور ماہ روش کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد ہوئی تھی۔۔۔۔۔ماہ روش اور حمزہ کا ایک 4 سالہ بیٹا تھا جس کا نام سالار تھا اور اب جلد ہی ان کی گھر دوسری اولاد آنے والی تھی۔۔۔۔۔۔
"آئدہ۔۔۔کہاں رہ گئی۔۔۔چائے لانا بھول گئی ہو کیا۔۔۔"
زاہران نے لیپ ٹاپ بند کرکہ آئدہ کو آواز دی جو کچن میں اسکے لیے چائے بنانے گئی تھی۔۔۔
"آرہی ہوں بس۔۔۔"
آئدہ کی زاہران کی آواز سن کر کچن سے ہانک لگائی تو وہ اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔۔۔
آئدہ ایک ڈش میں دو کپ چائے رکھ کر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔اسنے ٹیبل پر ڈش رکھا اور زاہران کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔
"کچن صاف کر رہی تھی تو بس دیر لگ گئی۔۔۔"
آئدہ زاہران کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
"اچھا۔۔۔۔میں کچھ سوچ رہا تھا"
"کیا سوچ رہے تھے۔۔۔۔"
آئدہ چائے کا سپ لیتے ہوئے بولی۔۔۔
"لندن جانا پڑے گا مجھے۔۔۔"
"کیا۔۔۔۔مگر کیوں؟"
آئدہ زاہران کی بات سن کر سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔۔۔
"وقاص اور میں نے کچھ ڈیلی فائینل کرنی ہیں بس اسی لیے جانا پڑے گا۔۔۔"
زاہران کی بات سن کر آئدہ نے اسکو ناراض نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
"ایسے تو مت دیکھو۔۔۔"
زاہران نے اسے گھورا۔۔۔
"کتنے ٹائم کے لیے جائیں گے۔۔۔"
آئدہ نے چلتی ہوئی ٹی وی بند کرتے ہوئے اس سے سوال کیا۔۔۔
"دو ہفتے شاید۔۔۔"
اسکی بات سن کر آئدہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
"یار۔۔۔۔اچھا نہ میں دیکھتا ہوں تمہارا پاسپورٹ بنوانہ پڑے گا مگر ٹائم لگ جائے گا اس میں۔۔۔"
زاہران نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"ٹائم لگے ہا جو بھی ہو۔۔۔۔یا میں آپ کے ساتھ جاوں گی یا آپ نہیں جائیں گے۔۔۔"
آئدہ نے حکم دینے والے انداز میں کہا تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے تم ناراض تو نہ ہو۔۔۔اسد کو بولتا ہوں جلدی کرے کچھ۔۔"
زاہران نے ائدہ کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔اسکا پاسپورٹ ایکسپائر ہوگیا تھا اسی لیے اسنے اپنے دوست کا نام لیا جو اکثر ان کاموں میں اسکی مدد کرتا تھا۔۔۔
زاہران ہی بات سن کر آئدہ مسکرائی اقر اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا۔۔۔۔
آئدہ کو زاہران کی عادت تھی وہ جہاں کہی بھی جاتا تھا زیادہ ٹائم کے لیے آئدہ اور اپنی بیٹیوں کو ساتھ لے کر جاتا تھا۔۔۔الیزے اور پریشے بھی زیادہ دیر زاہران کے بغیر نہیں رہتی تھی اور زاہران کے بغیر تو وہ آئدہ کے ناک میں دم کر کے رکھتی تھی۔۔۔ان کی بیٹیاں حد کی شرارتی تھی آئدہ تو کبھی کبھی ان کی حرکتوں پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتی تھی۔۔۔
انکو بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب کمرے کے باہر سے پریشے کے رونے کی آواز آئی آئدہ نے گہرا سانس لیا۔۔۔۔
"سکون سے بیٹھنے نہیں دیں گی یہ دونوں مجھے۔۔۔"
آیئدہ بولتے ہوئے اٹھنے لگی جب زاہران نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
"بیٹھو تم میں جاتا ہوں۔۔۔۔"
زاہران نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
"پری۔۔۔ارے کیا ہوا میری شہزادی کو۔۔۔"
زاہران باہر آیا اور روتی ہوئی پریشے کو اٹھایا۔۔۔
"پری چل رہی تھی تو۔۔۔ گر گئی۔۔"
ساڑے پانچ سالہ الیزے نے رک رک کر اپنے پاپا کو بتایا۔۔۔
"ارے میرا بچہ۔۔۔الیزے آپ کھیلو میں اسے ماما کے پاس لےکر جارہا ہوں اوکے۔۔"
زاہران نے الیزے کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا کر کھیلنے میں مصروف ہوگئی۔۔۔
"کیا ہوا میرے بےبی کو۔۔۔"
زاہران پریشے کو لے کر کمرے میں داخل ہوا تو آئدہ اسے اپنی گود میں بٹھاتی ہوئی بولی تو پریشے خاموشی ہوگئی اور اسکے سینے سے لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔
زاہران نے ٹیبل پر پڑے چائے کے برتن اٹھائے اور کچن کی طرف چلا گیا۔۔۔
-------------❤❤--------------
(لندن) London
"زارا بیٹا۔۔۔۔کہاں ہو۔۔۔یہاں آؤ بیٹا۔۔۔۔"
اریج نے اپنے کمرے سے ہی زارا کو آواز دی زارا جو کہ اپنا ہوم ورک کر ہی تھی ماں کی پہلی آواز پر ہی کمرے میں آگئ تھی۔۔۔
"جی ماما۔۔۔۔"
آٹھ سالہ زارا فاطمہ نے کمرے میں آکر کہا۔۔۔
"زارا بلال سو رہا ہے۔۔۔آپ یہاں بیٹھو اس کے پاس کچھ دیر میں کچن سے ہوکر آتی ہوں۔۔۔ٹھیک ہے۔۔"
اریج نے زارا کو بیڈ پر بلال کے ساتھ بٹھائے ہوئے کہا اور پھر سوالیا نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔
"ٹھیک ہے۔۔میں یہیں پر ہوں"
زارا فاطمہ نے سوئے ہوئے بلال کے قریب ہوتے ہوئے کہا تو اریج کچن میں آگئی۔۔۔وقاص کے آنے میں آدھا گھنٹہ تھا کھانا تقریبا بن گیا تھا اسنے جلدی جلدی سیلڈ بنائی اور یہ صاف کرنے لگی جب اسے زارا کی آواز سنائی دی ساتھ ہی بلال کے رونے ہی بھی۔۔۔۔
"ماما۔۔۔بلال رو رہا ہے۔۔۔"
"آرہی ہوں میں زارا۔۔۔"
اریج بولتے ہوئے واپس کمرے میں آئی اور بلال کو خاموش کرویا۔۔۔
"اب آپ جاؤ ہومورک کرو اپنا کچھ دیر میں پاپا بھی آنے والے ہیں"
اریج کی بات سن کر زارا واپس اپنا ہوم ورک کرنے لگی اریج نے ایک نظر بلال کو دیکھا جو اب اپنے ٹوائز سے کھیل رہا تھا۔۔
اریج شیشے کے سامنے جاکر کھڑی ہوئی اور اپنا بکھرا ہلیا درست کرنے لگی۔۔۔
"ماما میں نے ہوم ورک کرلیا آپ دیکھ لینا۔۔"
زارا فاطمہ کچھ دیر بعد کمرے میں آئی اور اریج کو دیکھتے ہوئے کہا جو شیشے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی۔۔۔
"ٹھیک ہے میری جان میں دیکھ لوں گی۔۔۔"
اریج نے پیار سے کہا تبھی دروازہ کھلنے کی آواز پر باہر آئی وہ جانتی تھی وقاص آیا ہے۔۔
"اسلام وعلیکم۔۔"
وقاص نے اسے دیکھتے ہی سلام کیا۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔"
اریج سلام کا جواب دیتی ہوئی اسکے پاس گئی تو وقاص نے اسکو سینے سے لگایا۔۔۔
"آپ فریش ہو آئیں۔۔میں تب تک کھانا لگاتی ہوں۔۔"
چند لمحوں بعد اریج اس سے دور ہوتے ہوئے بولی تو وہ سر ہلاتا کمرے کی طرف چلا گیا اور اریج کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
"بابا۔۔۔۔"
زارا وقاص کو دیکھتے ہی بھاگ کر اسکے پاس آگئی۔۔۔
"کیسی ہے میری جان۔۔۔"
وقاص اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر بولا۔۔۔
"ٹھیک ہوں میں۔۔۔"
زارا نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
"اوہ۔۔۔میرا شیر بیٹا کیسا ہے۔۔۔"
وقاص نے بلال کو اٹھا کر ہوا میں اچھالا تو وہ کھلکھلا دیا۔۔۔۔ساتھ ہی زارا بھی کھلکھلا دی۔۔۔۔۔اریج جو ان سب کو کھانے کے لیے بلانے آئی تھی اس مکمل منظر کو دیکھنے لگی بے ساختہ اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی اور آنکھوں کے پردوں پر 7 سال پہلے کا منظر لہرایا ۔۔۔۔۔
جب اس کو فرحین بیگم گھر سے نکل رہی تھی تب آہل،زاہران اور آئدہ نے مل کر ان کو روکا تھا۔۔۔۔۔آہل نے ان کو اریج کا سارا ماضی بتایا تھا اور یہ بھی کہ وہ اپنے کیے کی سزا بھگت چکی ہے۔۔۔تو اس لیے اب اس کو اور سزا نہیں دینی چاہیے۔۔۔۔۔اریج نے سب سے معافی مانگی تھی سب نے اسے معاف کردیا تھا سوائے فرحین بیگم کے اریج اور زارا حویلی میں ہی رہ رہی تھی۔۔۔۔سب کا دل زارا سے لگ گیا تھا۔۔۔کچھ دنوں بعد وہ لوگ واپس کراچی آگئے تھے۔۔۔۔۔اریج روز فرحین بیگم سے معافی مانگتی تھی کچھ وقت کے بعد انھوں نے اریج کو معاف کردیا تھا وہ ان کی بیٹی تھی وہ کتنے عرصے تک اس سے ناراض رہ سکتی تھی۔۔۔۔کچھ عرصے بعد وقاص کا رشتہ اریج کے لیے آیا تھا۔۔۔اریج نے تو منع کردیا تھا تو سب نے اس کا منع کے دم لیا تھا۔۔۔۔اریج نے وقاص کو اپنا ماضی بتایا تھا یہ سوچ کر کے وہ پیچھے ہٹ جائے مگر وقاص کو تو پہلے ہی اس کے ماضی کا پتا تھا اس لیے وہ پیچھے نہیں ہٹا۔۔۔۔کچھ عرصے بعد اریج اور وقاص کی شادی ہوگئ تھی۔۔۔کچھ عرصہ تو وقاص پاکستان میں رہا پھر اس نے اپنا سارا بزنس لندن میں شفٹ کر لیا تھا اور پھر اپنی فیملی کو لے کر لندن چلا گیا تھا۔۔۔۔اریج سال میں 2 دفعہ آتی تھی پاکستان۔۔۔وہ تو لندن آنا ہی نہیں چاہتے تھی مگر وقاص کی وجہ سے آگئ تھی۔۔۔وقاص اور اریج کی زندگی اب مکمل تھی ان کی 8 سالہ بیٹی زارا فاطمہ اور تین سالہ بیٹے بلال سے۔۔۔۔
دا جی کا انتقال 4 سال پہلے ہوگیا تھا۔۔۔۔سب لوگ کراچی شفٹ ہوگئے تھے کبھی کبھی چھٹیوں میں وہ لوگ حیدر آباد جاتے رہتے تھے۔۔۔۔۔
"اریج۔۔۔کہاں کھو گئ۔۔۔؟"
وقاص نے اریج کو ہلایا جو کب سے ان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
"کہی نہیں آپ جلدی سے فریش ہوکر نیچے آجائے میں نے کھانا ٹیبل پر لگا دیا ہے۔۔۔"
اریج نے ہوش میں آکر وقاص کو جواب دیا۔۔۔تو وقاص نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
"زارا چلو بیٹا نیچے۔۔۔"
اریج نے بلال کو اٹھایا اور زارا کو کہا تو وہ سر ہلا کر اریج کے ساتھ نیچے آگئ۔۔۔
-------------❤❤--------------
صبح کے 7 بج رہے تھے جب سنان کی آنکھ کھلی۔۔اسنے ایک نظر ساتھ سوئی ہوئی معصومہ پر ڈالی اور ماتھے پر بوسہ دیتا وہ اٹھ کر شاور لینے چلا گیا وہ باہر آیا تو معصومہ اٹھ چکی تھی اور کمرہ سمیٹ رہی تھی۔۔۔
"اٹھایا کیوں نہیں آپ نے مجھے۔۔۔"
معصومہ سنان کو دیکھتے ہی بولی۔۔۔
"ہاں تو تم کیوں اٹھی ہو طبیعت ویسے بھی ٹھیک نہیں تمہاری خود ہی نہیں اٹھایا میں نے تمہیں۔۔۔"
سنان ٹاول سے اپنے گیلے بال رگڑتا ہوا بولا۔۔۔
"ٹھیک ہوں میں۔۔۔آپ تیار ہو جائیں میں فریش ہو کر ناشتہ لگاتی ہوں۔۔۔"
معصومہ نے کہا اور واشروم چلی گئی اور پانچ منٹ بعد فریش ہوکر آئی تو سنان سوئی ہوئی آئزہ کے پاس بیٹھا اسے پیار کر رہا تھا۔۔۔۔
"سنان اگر وہ اٹھ گئی تو مجھے بہت تنگ کرے گی مت کریں اسے کچھ۔۔۔"
معصومہ نے آئزہ کو نیند سے بیدار ہوتا دیکھ کر دانت پیسے۔۔۔
"اچھا بھئی نہیں کر رہا میں کچھ۔۔۔"
سنان بیڈ سے اٹھا اور تیار ہونے لگا تو معصومہ ناشتے کی تیاری کرنے نیچے آگئی جہاں فاطمہ بیگم نوری کے ساتھ ناشتہ بنوا رہی تھی۔۔
"تمہیں کیوں اٹھایا ہے سنان نے۔۔۔طبعیت صحیح نہیں ہے تمہاری جاؤ جاکر بیٹھو ہال میں۔۔۔"
فاطمہ بیگم نے معصومہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔
"ماما میں بلکل ٹھیک ہوں آپ جائیں بیٹھیں جاکر میں نوری کے ساتھ ناشتہ بنواتی ہوں۔۔۔"
معصومہ نے فاطمہ بیگم کو کہا۔۔۔وہ وہاں سے نہیں گئی بلکہ نوری کو بھیج دیا اور معصومہ کے ساتھ ناشتہ بنوانے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد معصومہ کو اچانک چکر آنے لگے۔۔۔ قریب پڑی چئیر تھام کر اسنے خود کو سنبھالا اور اس پر بیٹھ گئی۔۔
"معصومہ۔۔۔کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔"
سنان ہم وقت کچن میں داخل ہوا اور معصومہ کو دیلھ کر اسکے پاس آیا۔۔سنان کی آواز پر روٹی بیلتی ہوئی فاطمہ بیگم بھی انکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
"پانی بھر کر دیں ماما"
سنان نے کہا تو فاطمہ بیگم نے پانی کا گلاس بھر کہ معصومہ کہ منہ سے لگیا۔۔۔
"باہر لے کر جاؤ اسے۔۔۔میں نے منع بھی کیا تھا کہ کچن میں مت آؤ میں بنا لوں گی نوری کے ساتھ ناشتہ۔۔"
فاطمہ بیگم ناراضگی سے معصومہ کو دیکھتی ہوئی بولی جس کی رنگت زرد ہورہی تھی۔۔۔سنان اسکو سہارا دیتا باہر لےآیا اور صوفے پر لیٹا دیا۔۔۔
فرحان صاحب بھی باہر آئے اور معصومہ کو یوں دیکھ کر پریشان ہوئے۔۔
"کیا ہوا بیٹا۔۔۔"
فرحان صاحب نے معصومہ کو دیکھ کر سوال کیا تو سنان نے انکو بتایا کہ اسکو چکر آگئی تھے۔۔۔
"آفس سے جلدی آجانا آج اور ڈاکٹر کے پاس لے جانا بچی کو۔۔۔"
فاطمہ بیگم ٹیبل پر ناشتہ لگاتی ہوئی بولی تو سنان نے آثبات میں سر ہلایا۔۔۔
"سنان میں ٹھیک ہوں آپ ناشتہ کریں"
معصومہ سنان کو دیکھ کر بولی جو اسکے پاس بیٹھا اسکے سر میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔
"چپ کرو تم۔۔۔بولا بھی تھا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری مگر مجال ہے جو میری سن لو۔۔۔"
سنان اسے جھڑکتا ہوا بولا تو وہ خاموش ہوگئی۔۔۔
اسکے طبیعت خرابی کی وجہ سے سنان آج آفس لیٹ گیا تھا اور واپس بھی جلدی آکر اسکو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔۔۔
ڈاکٹر نے انہیں دوسری دفعہ ماں باپ بننے کی خوشخبری سنائی تھی جس کو سن کر معصومہ اور سنان دونوں ہی بہت خوش تھے آئزہ کے چار سال بعد یہ خوشخبری آئی تھی۔۔۔۔سنان نے ڈاکٹر سے واپسی پر مٹھائی لی اور وہ دونوں گھر آگئے۔۔۔سب کو تھوڑی دیر تک اس بات کا پتا چل گیا تھا سب ہی بہت خوش تھے۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
آہل آفس میں بیٹھا تھا جب ہالے نے اسے کال کی۔۔۔
"اسلام وعلیکم۔۔۔"
"وعلیکم اسلام۔۔۔کیا ہوا میری جان میری یاد آرہی تھی۔۔۔"
آہل نے سلام کا جواب دے کر شرارت سے کہا تو ہالے ہنس دی۔۔
"جی نہیں۔۔۔میں یہ بول رہی تھی کہ آفس سے واپسی پر مجھے بھائی کی طرف چھوڑ دیجئے گا۔۔"
ہالے کبرڈ سے کپڑے نکالتی ہوئی بولی ۔۔۔
"کیوں خیریت۔۔۔وہاں کیوں جانا ہے"
آہل نے سوال کیا۔۔
"آپ کو نہیں پتا۔۔۔"
ہالے کو حیرت ہوئی۔۔۔۔
"کیا نہیں پتا مجھے۔۔۔"
آہل نے سوچ کر کہا۔۔۔
"آہل۔۔۔آپ پھر سے ماموں بننے والے ہیں۔۔۔"
ہالے نے مسکرا کر کہا۔۔۔
"کیا۔۔۔واقعی تم سچ کہہ رہی ہو مجھےتو سنان یا معصومہ نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔"
دوسری طرف آہل کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔
"مجھے بھی ماما نے ہی بتایا تو بھائی اور معصومہ سے بات ہوئی۔۔۔ابھی نیچے جانے ہی لگی ہوں شاید امی اور فرہین آنٹی کو بھی نہیں پتا۔۔۔اچھا آپ بھائی کو فون کرکے بات کر لیں ان سے میں بچوں کو تیاری کرلوں ویسے بھی 4 بج رہے ہیں جلدی گھر آئیں آللہ حافظ۔۔۔"
ہالے نے تفصیل سے آہل کو جلدی جلدی کہا اور ساتھ ہی کال کاٹ دی تو آہل نے جلدی سے سنان کو کال کی۔۔
ہالے نیچے آئی تو چھ سالہ ہارون اور دو سالہ حورم فرحین بیگم کے ساتھ کھیل رہے تھے۔۔۔
"آنٹی۔۔۔امی کہاں ہیں۔۔؟"
ہالے نے فرحین بیگم کو دیکھ کر ثانیہ بیگم کا پوچھا۔۔۔
"وہ زارون کو لے کر لان میں گئی ہے کچھ دیر پہلے ہی۔۔"
فرحین بیگم نے اسے دیکھ کر کہا۔۔۔
"اچھا۔۔معصومہ یا سنان بھائی سے بات ہوئی ہے آپ کی۔۔۔"
ہالے باہر جانے لگی پھر رک کر ان سے سوال کیا۔۔۔
"ہاں ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہوئی ہو اور ثانیہ معصومہ سے ہی بات کر رہی ہے۔۔۔"
فرہ6ین بیگم نے خوشی سے کہا تو انکی بات پر ہالے مسکرائی تھی۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔"
ہالے نے کہا اور باہر لان میں آگئی جہاں ثانیہ بیگم ڈیڑھ ماہ کے زارون کو گود میں لیے چئیر پر بیٹھی تھی اور فون پر معصومہ سے بات کر رہی تھی انکے چہرے سے ہی انکی خوشی واضح ہورہی تھی۔۔۔ہالے انکے پاس چلی گئی تو انہوں نے کچھ دیر بعد فون بند کردیا۔۔۔
"مبارک ہو۔۔۔پھر سے نانی بن رہی ہیں آپ۔۔۔"
ہلے مسکرا کر خوشی سے بولی تو وہ بھی مسکرا دی۔۔۔۔
"خیر مبارک۔۔۔آہل کو فون کردو اسے بولو کے آفس سے واپسی پر ہمیں معصومہ کی طرف لے جائے۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے اسے دیکھتے ہوے کہا تو ہالے نے سر ہلایا۔۔
"امی میری بات ہو چکی ہے آہل سے وہ آدھے گھنٹے تک آجائیں گے۔۔۔میں سوچ رہی تھی کہ کچھ ٹائم امی کی طرف چلی جاؤں۔۔۔معصومہ کا خیال رکھوں اور پھر واپسی پر اسے اپنے ساتھ کے آؤں ۔۔۔"
ہالے نے تفصیل سے اپنا پلین بتایا۔۔۔
"بات تو ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔ٹھیک ہے سامان پیک کرلو میں بھی تیار ہوجاتی ہوں اور فرحین کو بھی بولتی ہوں۔۔"
ثانیہ بیگم نے کہا اور اٹھ کر اندر جانے لگی۔۔۔
"لائیں اسے مجھے دے دیں۔۔۔"
ہالے نے زارون کی طرف اشارہ کرکہ کہا۔۔۔
"نہیں تم جاؤ ہارون اور حورم کو تیار کرو میں اسکو لے جاتی ہوں ابھی ورنہ تمہیں تنگ کرے گا۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے کہا تو ہالے نے مسکرا کر سر ہلایا اور اندر چلی گئی۔۔۔
"حورم۔۔۔۔ہارون۔۔۔آجاؤ تیار کروں آپ دونوں کو۔۔۔"
ہالے ان دونوں کے پاس آکر بولی۔۔
"کیوں ماما۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔"
ہارون نے ہالے سے سوال کیا۔۔
"ہم نانو کی طرف جارہے ہیں۔۔۔آجاؤ کچھ دیر میں پاپا آجائیں گے۔۔۔"
ہالے نے حورم کو اٹھایا اور ہارون کو کہا۔۔۔
"فرحین بھابھی آپ بھی تیاری ہو جائیں معصومہ کی طرف چلنا ہے۔۔۔"
ثانیہ بیگم نے فرحین بیگم کو کہا تو وہ بھی سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چل دی۔۔۔
ہالے سیڑھیوں کی طرف بڑھی تو ہارون بھی اسکے پیچھے آگیا اور ثانیہ بیگم اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
-------------❤❤--------------
معصومہ کی کال آنے کے بعد آئدہ بھی تیاری ہونے لگی اسنے ماہ روش اور ہادیہ بیگم کو بھی تیار ہونے کے لیے کہا۔۔۔زاہران آفس سے آیا تو وہ الیزے کو تیار کر رہی تھی جبکہ پریشے ہوئی ہوئی تھی۔۔
"آپ فریش ہوجائے میں کھانا لگاتی ہوں۔۔۔"
آئدہ نے زاہران کو دیکھ کر کہا اور باہر جانے لگی تو زاہران نے اسکو ہاتھ تھام لیا۔۔۔
"نہیں بوکھ نہیں لگی مجھے تم بتاؤ۔۔۔کھانا کھایا تھا؟"
زاہران نے اسکو اپنے قریب کرتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
""جی بلکل میں نے کھانا کھا لیا تھا آپ بتائیں کیوں نہیں کھا رہے"
"ویسے ہی بس بوکھ نہیں لگی۔۔۔"
زاہران نے اسکے چہرے پر آئی لٹھ کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"اچھا نہ چھوڑیں مجھے تیار ہونا ہے۔۔۔"
آئدہ نے زاہران کو دیکھتے ہوئے کہا اور پیچھے ہونے ہی کوشش کی جب زاہران نے اپنا حصار مضبوط کیا۔۔۔
"اتنی پیاری تو لگ رہی ہوں اور ۔کیا تیار ہونا ہے۔۔۔"
زاہران اسکا چان سا چہرا دیکھ کر مسکراتا ہوا بولا۔۔۔
"کپڑے تو چینج کرنے دیں ٹائم نہیں ہے یار۔۔۔"
آئدہ نے زاہران کو گھورا۔۔۔
" صرف پانچ منٹ لگتے ہیں کپڑے چینج کرنے میں۔۔۔"
زاہران نے اسے آنکھیں دکھائی تو وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔زاہران جھکا اور اسکے رخسار پر اپنے لب رکھے دیے۔۔۔
"زاہران۔۔۔۔الیزے دیکھ رہی ہے یار۔۔۔۔"
قیدی نے مسکراہٹ دبا کر دانت پیسے۔۔۔
"تو دیکھنے دو اسے کیا پتا میں کیا کر رہا ہوں۔۔"
زاہران نے اسے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
"زاہران۔۔پلیز تنگ مت کریں آپ بھی چینج کریں۔۔۔"
آئدہ نے اپنے گرد بندھا ہوا حصار توڑا۔۔۔
"اچھا میں فریش ہوکر آتا ہوں کپڑے نکالو میرے اور ہاں۔۔پلیز ایک کپ چائے بھی۔۔۔"
زاہران نے کہا اور واشروم چلا گیا۔۔۔آئدہ نے اسکے کپڑے نکالے اور چائے بنانے کے غرض سے کچن چلی گئی۔۔۔
-------------❤❤--------------
آہل جب گھر آیا تو ہالے تیار ہو چکی تھی اور ہارون کو تیار کر رہی تھی۔۔
"ہالے۔۔۔زارون کہاں ہے؟"
آہل فریش ہوکر آیا تو زارون کو نہیں دیکھ کر سوال کیا۔۔۔
"ماما کے پاس ہے وہ۔۔۔آپ کے کپڑے نکال دیے ہیں چینج کر آئیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
ہالے نے مصروف انداز میں کہا تو وہ سر ہلاتا چینج کرنے چلا گیا۔۔۔وہ واپس آیا تو وہ اپنے کپڑے بیگ میں ڈال رہی تھی۔۔۔
"یہ کیوں ڈال رہی ہو بیگ میں۔۔۔"
آہل نے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔۔
"امی کی طرف جا رہی ہوں ایک ہفتہ وہیں رہوں گی۔۔۔"
"کیا۔۔۔۔"
اسکی بات پر آہل کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہ اسکے پاس آیا۔۔۔
"کیا مطلب اتنا کیوں حیران ہو رہے۔۔۔"
ہالے نے ہاتھ میں پکڑا ڈریس بیگ میں ڈالا۔۔
"اچھا۔۔۔اور۔تم نے وہاں جانے کی اجازت کس سے لی ہے۔۔۔"
آہل نے اسکو مصروف دیکھ کر بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کیا۔۔۔
"ماما سے لی ہے میں نے اجازت۔۔۔"
ہالے نے اسکو آنکھیں دکھائی۔۔۔۔
"اور مجھ سے کون لے گا۔۔مجھے تو میڈم نے بتانا بھی گوراہ نہیں سمجھا۔۔۔"
آہل نے اسکو گھورا تو ہالے خاموش ہوگئی۔۔۔
"تم کہیں نہیں جا رہی۔۔۔"
آہل نے کہا تو ہالے حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
"کیا ہے آہل میں جاؤں گی۔۔۔اگر آپ نے مجھے نہیں جانے دیا تو میں پاپا کو شکایت لگا دوں گی آپ کی۔۔۔"
ہالے نے سہیل صاحب کا نام لے کر دھمکی دی۔۔۔
"یار۔۔۔تم جاؤ گی تو میں کیا کروں گا۔۔۔"
آہل نے منہ بنایا۔۔
"آپ مجھ سے کال پر بات کر لینا۔۔۔یا آپ بھی ساتھ چلیں کس نے روکا ہے"
ہالے نے چٹکیوں میں حل نکالا تو آہل اسکو گھور کر رہ گیا۔۔۔
"کال پر ہر ٹائم بات تھوڑئی ہوگی اور مجھے تم اپنی نظروں کے سامنے چائیے ہو۔۔۔"
آہل نے اسکو اپنے قریب کیا۔۔۔
"تبھی تو بول رہی ہوں آپ بھی ساتھ چلے لیں۔۔۔"
ہالے نے آہل کے کرتے کا کھلا ہوا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔
"ارے یار۔۔۔اچھا تھوڑئی لگتا ہے میں اپنے سسرال رہنے چلا جاؤں۔۔۔"
اسکی بات پر ہالے نے قہقہہ لگایا۔۔
"میں بھی تو اپنے سسرال میں رہ رہی ہوں تو آپ کیوں نہیں رہی سکتے۔۔۔"
ہالے کی عجیب سی بات پر پر آہل نے اسکو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ پاگل ہوگئی ہو۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ سکتا تھا۔۔
"ہالےنور۔۔۔مجھے غصہ مت دلاؤ تمہی ںپتا ہے تمہارے اور بچوں کے بغیر مزہ نہیں آتا مجھے۔۔۔"
آہل بےبس ہوا تھا۔۔۔
"آہل آپ بات کو سمجھنے کی کوشش تو کریں معصومہ کا خیال رکھنا ہے واپسی پر اسکو ساتھ لاؤں گی۔۔۔"
ہالے نے اسکو سمجھانے کی کوشش کی۔۔
"تو تمہارے جانے کی کیا ضرورت ہے آج اسکو یہاں لے آتے ہیں۔۔۔"
اہل کی بات پر ہالے کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے۔۔۔
"آہل بلکل بچوں والی ضد کر رہے ہیں آپ اس ٹائم۔۔۔اچھا ایک کام کرتے ہیں۔۔۔چار دن بعد آپ وہاں آجانا
تیں دن وہاں رہ کر واپس آجائیں گے معصومہ کے ساتھ۔۔۔"
ہالے نے ہل نکالا۔۔۔
"یعنی تم وہاں جاؤ گی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔"
آہل نے سنجیدگی سے کہا۔۔
"جی۔۔کیونکہ ماما اکیلے اسکا خیال نہیں رکھ سکتی۔۔سنان بھائی بھی آفس سے جلدی آجائیں گے مگر ہر وقت تو گھر پر نہیں ہوں گے۔۔۔اور بچوں کا تو آپ کو پتا ہی ہے۔۔۔"
ہالے نے تفصیل سے جواب دیا تو آہل نے سر ہلایا۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔مگر صرف تین دن اس سے زیادہ نہیں سمجھ گئی۔۔"
آہل نے کہا تو ہالے نے اس کو آنکھیں دکھائیں۔۔۔
"پر۔۔۔"
"ہالے یار پر ور کچھ نہیں تین دن مطلب تین دن یہاں تم ہوتی ہوں تو بچوں کو امی اور ٹائی سنھبال لیتی ہیں وہاں جا کر بچے تو تمہیں پاگل ہی کردیں گے۔۔۔اس لیے میری جان تین دن اگر اب کچھ بولی تو کوئی کہی نہیں جائے گا سوچ لو۔۔۔۔"
ہالے ابھی بول رہی تھی جب آہل نے اس کی بات کاٹی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہالے کو سمجھایا تو وہ سر اثبات میں ہلا گئ۔۔۔
"صحیح کہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔بچے تو آپ کے بغیر رہتے ہی نہیں ہے۔۔۔اور امی اور آنٹی کا بھی ان کے بغیر دل نہیں لگے گا۔۔۔"
ہالے نے کچھ سوچ کر کہا۔۔۔۔۔فرحین بیگم ٹو بچوں کے بغیر اداس ہوجاتی تھی ان کی وجہ سے ہی تو گھر میں رونق ہوتی تھی۔۔۔۔
"تمہیں پتا ہے نہ تمہاری عادت ہے مجھے دن رات بس تم ہی چاہیے ہو اپنا پاس۔۔۔"
آہل اسکو سینے سے لگا کر بولا تو ہالے کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آگئی۔۔۔
"جی مجھے اچھے سے پتا ہے۔۔چلیں اب ماما اور فرحین آنٹی تیاری ہوگئی ہونگی دیر ہورہی ہے۔۔۔"
ہالے اس سے دور ہوتی ہوئی بولی آہل نے فون،گاڑی کی چابی ہالے کا بیگ اٹھایا اور نیچے چل دیا۔۔۔ہالے نے ایک نظر خود کو شیشے میں دیکھا حورم کو آٹھایا اور ہارون کا ہاتھ تھام کر نیچے آگئی جہاں ثانیہ بیگم اور فرحین بیگم اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔زارون فرحیں بیگم کے پاس تھا اور سو رہا تھا وہ سب پورچ کی طرف گئے۔۔۔سہیل صاحب آفس سے تھوڑے لیٹ ہو گئے تھے انہوں نے وہیں سے معصومہ کی طرف جانا تھا۔۔۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2 Rang Diya Terey Ishq Ney Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rang Diya Terey Ishq Ney written by Zainab & Neha.Rang Diya Terey Ishq Ney by Zainab & Neha is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment