Pages

Monday, 7 October 2024

Raakh By Zehra Qasim New Complete Romantic Novel

Raakh By Zehra Qasim New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Raakh By Zehra Qasim New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Raakh

Writer Name: Zehra Qasim

Category: Complete Novel

" کراچی کے بہت چھوٹے سے علاقے کی تنگ گلی میں اسوقت کچھ بچے کھیل کود میں مصروف تھے

یہ بھٹیاروں کے بچے یونہی روز دوپہر تا شام گلیوں میں گھومتے کھیلتے پھرتے جنکے ماں باپ اسوقت کام پہ لگے ہوتے تھے 

وہ نو سالہ بچی چھپن چھپائ کے کھیل میں کچرے کے ڈبے کے پیچھے چھپی اپنے ساتھی کے انتظار میں تھی کہ وہ کب آ کے اسے ڈھونڈتا ہے مگر اچانک کسی نے پیچھے سے آ کے اسکا منہ کس کے بند کردیا 

اس ننھی جان کو سانس لینا دشوار ہوگیا کچھ دیر بعد وہ ہوش و خرد سے بیگانہ تھی ۔

************************

" ادا سائیں اس بار بھی وہ مخالف قبیلے والے ہاتھا پائی پہ اتر آئے اسی وجہ سے انکے دو اور ہمارے چار بندے مارے گئے 

نصیر نے شاہ جی کے آگے ادب سے سر جھکا کے آج کی روداد بتائی 

حویلی کا یہ حصہ اوطاق کے طور پر استعمال ہوتا تھا

وہ صبح سے کراچی میں تھا حیدرآباد آتے آتے اسے رات ہوچکی تھی 

اس کی غیر موجودگی میں نصیر سارا کام اور معاملات دیکھتا تھا اور اسوقت ساری رپورٹنگ ہوتی تھی 

"میرا خیال ہے ادا سائیں آپ جرگے میں یہ مدعا اٹھائیں 

ہم تشدد کے قائل نہیں اس بات سے سارا علاقہ واقف ہے 

وہ جتوئی کے آدمی جان بوجھ کے ہمارا راستہ کاٹتے ہیں "

شمشیر سخت غصے میں تھا

ہمممم ۔۔۔

" یزداں شاہ نے اسکی بات پہ دائیں ابرو اٹھا کے اتفاق کیا 

اسے اپنے آدمیوں کی جان پیاری تھی 

وہ عام وڈیروں کی طرح قتل و غارت گری کا حامی نہیں تھا

یہی اسکی مقبولیت اور پسندیدہ ہونے کی اہم وجہ تھی 

وہ اپنے باپ اور چچا کی نسبت جوش سے ذیادہ ہوش سے کام لینے میں یقین رکھتا تھا 

گہرا نیلا شلوار سوٹ زیب تن کیے گھنی داڑھی میں الجھا وہ بتیس سالہ نوجوان اب اپنے باپ کی جگہ سنبھال چکا تھا

آبگین شاہ اسکی چچا ذاد جو اسکی بیوی بھی تھی 

اسکی ماں سمیت اس حویلی میں قیام پذیر تھے 

اسی علاقے میں کچھ فاصلے سے اسکے چچا کی حویلی یعنی آبگین شاہ کا میکہ تھا 

جو اس سے عمر میں بارہ سال چھوٹی تھی

یہ بچپن کی شادی ضرور تھی مگر اسے آبگین شاہ سے پیار تھا ۔

************************

" تم نے ماما کو بتادیا کہ کل کہاں انٹرویو لینے جارہی ہو ؟ 

حارث اس کے سر پہ کھڑا چیونگم چبانے میں مصروف تھا

وہ جو پیپر لیے پین منہ میں دبائے کل کے سوالات تیار کررہی تھی 

اسکی بات پہ اسی کو گھورنے لگی 

" مسٹر حارث ، تم اور ماما پلیز میرے پروفیشن ایکچوئلی مائی پیشن ( جنون ) کے بیچ میں مت آؤ 

اور خبردار جو تم نے ماما کو ہوا بھی لگنے دی 

صبیحہ نیازی نے اسٹائل سے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا 

ہائے ۔۔۔ قسمے اتنی بری لگتی ہو کہ دل چاہتا ہے ۔۔۔۔

حارث نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسے آنکھوں سے جذب کیا 

کہ ؟؟؟ 

وہ سننے کو بے قرار ہوئی 

کہ تمھیں اس نیوز آفس سے دھکے دے کہ نکلوا دوں ہر وقت جیمز بونڈ بنی رہتی ہو 

اس نے دل کی بات دبا کر مذاق اڑایا 

حالانکہ وہ دونوں اپنی اپنی محبت سے واقف تھے

وہ اور حارث یونیورسٹی فیلوز تھے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کے بعد دونوں نے ایک ساتھ اس نیوز چینل کو جوائن کیا تھا 

جو سنسنی اور ڈرامائی خبروں کے لیے مشہور تھا

حارث کے گھر والے صبیحہ کو بہت چاہتے تھے اور صبیحہ کے پیرنٹس کو بھی انکے رشتے پہ کوئی اعتراض نہ تھا

مگر صبیحہ کی ماں کو اسکی اس جاب سے چڑ تھی

انکا بس چلتا تو وہ اسے گھر تک سے نہ نکلنے دیتیں ۔

*************************

" بس کریں روشن آراء 

رو رو کے ہلکان ہورہیں ہیں 

صبی آئے گی تو اور پریشان ہوگی آپکو اس طرح دیکھ کے 

ندیم احمد نے بیگم کو تسلی دی جو ایک بچی کی گمشدگی کی خبر سن کے مستقل روئے جارہیں تھیں 

کتنی بار آپکو کہا ہے کہ مت دیکھا کریں خبریں آپ طبیعت خراب کرلیتی ہیں 

بس دعا کریں کہ بچی مل جائے 

ناجانے کتنی ہی بچیاں روز اٹھا لی جاتیں ہیں اللّٰہ غارت کرے ظالموں کو 

خود انکی بھی آواز بولتے بولتے بھرا گئی 

کتنا منع کرتی ہوں آپکو کہ صبیحہ کو کنٹرول کریں گھر بٹھائیں بس شادی کردیتے ہیں اسکی 

مگر آپ دونوں باپ بیٹی میری ایک نہیں سنتے 

انکا سارا نزلہ اب صبیحہ پہ گرا 

ارے بھئی اس ملک کے حالات تو یہی رہیں گے تو کیا ہم اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانا چھوڑ دیں ؟ انکی آزادی چھین لیں ؟

نا نومولود محفوظ ہے نا کوئی بوڑھی عورت 

شادی شدہ خواتین تک اٹھائی جارہیں ہیں 

سب ڈر کے گھر بیٹھ جائیں ؟ 

ندیم احمد غصہ ہوئے 

میں اپنی بیٹی کو بے سہارا یا کمزور نہیں دیکھنا چاہتا روشن بیگم ۔۔

میری صبیحہ ہر طرح کے حالات میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے 

انکے لہجے میں بیٹی کے لیے محبت سمٹ کے آئی 

وہ شوہر کی بات سن کے بھی مطمئن نہ ہوئیں 

بچپن کے تلخ واقعات ماضی کے اوراق اور ان کے دل و دماغ پہ آج تک جلی حروف میں نقش تھے ۔

************************

" وہ حیرت سے اس اونچی حویلی کو دیکھ رہی تھی 

ایسی حویلیاں تو اس نے اپنی ماما سے صرف کہانیوں میں سنی تھیں اور آج وہ حقیقت میں ایسی ہی ایک حویلی میں موجود تھی 

کچھ ہی دیر میں یزداں شاہ نے آنا تھا جسکا اسے انٹرویو لینا تھا

وہ اپنی چوبیس سالہ زندگی میں یہ سب پہلی بار دیکھ رہی تھی اور پروفیشنل لائف میں یہ اسکا پہلا آؤٹ آف سٹی انٹرویو تھا وہ بھی ایک جانے مانے وڈیرے کا 

اس نے یہ بات صرف بابا کو بتائی تھی اور پوری پلاننگ کرلی تھی کہ یہ بات اور اس انٹرویو کی کوریج ماما تک نہ پہنچے 

گو کہ حارث کو بھی اسکے اس انٹرویو پہ اعتراض تھا مگر وہ جاب کی وجہ سے مجبور تھا ورنہ وہ کبھی صبیحہ کو ایسی جگہ نہ جانے دیتا

" آپ کی روٹین کیا ہے ؟ ایک وڈیرہ اپنا دن کیسے گزارتا ہے میں جاننا چاہوں گی "

اس نے اشتیاق سے یزداں شاہ کو دیکھا جو سیاہ شلوار قمیض اور سیاہ واسکٹ میں اپنی خوبرو شخصیت کو دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ مزید چاند لگا رہا تھا

یہاں آنے تک صبیحہ کے دماغ میں ایک موٹا مونچھوں داڑھی والا بڑی توند والا وڈیرہ آرھا تھا مگر یزداں کو دیکھنے کے بعد وہ شاک تھی

وہ محض بتیس سال کا باہر سے ایم بی اے کیے متناسب سراپے کا مالک تھا 

اسکی گردن اٹھی ہوئی داڑھی نفاست سے سجی تھی 

بائیں ہاتھ میں خوبصورت ڈائل والی گھڑی اور دائیں میں کالا پتھر سجا تھا

اسی داہنی کلائی میں بندھا کالا دھاگہ اسکے صاف رنگ پہ خوب کھل رہا تھا 

اسکی آنکھیں کالی اور گہری مگر تیز تھیں 

چہرہ پہ سنجیدگی مگر وقفے وقفے سے آتی مسکراہٹ ۔۔۔

اسے بہت نمایاں کررہی تھی 

ارد گرد اسلحے سے لیس آدمی اسکی حفاظت پہ معمور ضرور تھے مگر اسے دیکھ کر یقین کے ساتھ کہا جاسکتا تھا کہ وہ آرام سے دو تین بندے پچھاڑ سکتا ہے بازؤں کی مضبوطی آستینوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی نمایاں تھی 

" ہم سارا دن عوام کی خدمت میں گزارتے ہیں "

اس نے شرارت سے روایتی سیاسی جواب دیا 

اوہ  ۔۔۔

صبیحہ جو اسکی شخصیت کے جائزے لینے میں گم تھی سنبھل کے بیٹھی

شادی ہوگئی ؟ 

" کب کی ۔۔۔

اب تو دوسری شادی کی عمر ہے "

وہ پھر ہنسا ۔۔

اس بار صبیحہ بھی ہنس پڑی 

" لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟ "

اس نے اپنی طرف سے انٹرویو میں تھوڑا مصالحہ ایڈ کیا 

اسے پتہ تھا یہ لوگ کبھی اس بات کے حامی نہیں ہوتے 

وہ انٹرویو کو تھوڑا متنازع کرسکتی تھی 

کیونکہ ابھی تک بڑا خوشگوار ماحول تھا 

" ہم کہنے نہیں کرنے کے قائل ہیں 

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی جرگے سے فیصلہ منظور کروا کے اسکول کی تعمیر شروع کروا دی ہے اندرون کے شہروں سے اساتذہ کی تقرریاں کروانے میں لگے ہیں 

میٹرک تک یہ اسکول ہے اسکے آگے کالج بنانے کے لیے بھی کوشاں ہیں 

لڑکیوں کو اتنی تعلیم تو دلوانی ہی چاہیے کہ اپنا اور اپنے حالات کا دفع کرسکیں "

اس نے بڑی سنجیدگی سے تفصیلی جواب دیا

صبیحہ کا منہ کھلا رہ گیا 

وہ یا تو جھوٹ بول رھا تھا یا واقعی براڈ مائنڈڈ تھا 

وہ اسوقت سچائی کا پتہ لگانے سے قاصر تھی 

انٹرویو ختم ہوا تو فوراً ہی اسکے آگے کھانا لگنا شروع ہوگیا

وہ صبح ناشتے کے بعد حیدرآباد کے لیے نکلی تھی 

اب سہ پہر میں انہیں نکلنا تھا تو وہ رات تک کراچی پہنچتے 

پوری ٹیم ہی بھوکی ہورہی تھی 

اس نے بنا تکلف کیے کھانا شروع کیا 

یزداں نے مہمان نوازی دکھاتے ہوئے اسے جوائن کیا 

ایک بات کہوں ؟ 

وہ سلاد کی پلیٹ ہاتھ میں لیے رکی

جی ؟؟

اسکی سوالیہ نظریں یزداں پہ ٹھہریں 

آپکی آنکھیں کسی کی یاد دلا گئیں مجھے ۔۔۔

اس نے ہولے سے کہا

وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ بات صبیحہ سے کرے گا مگر کہہ گیا ۔۔۔

کس کی ؟؟

وہ جاننے کے لیے بے تاب ہوئی 

پہلی بار کسی نے اسکی آنکھوں پہ بات کی تھی

اسے تو لگتا تھا وہ اپنے باپ کی طرح معمولی نقش والی لڑکی ہے 

یہ تو حارث کی محبت نے اسے بتایا کہ وہ اسکے لیے کتنی خاص ہے 

مگر کسی اور کے منہ سے پہلی بار وہ اپنے لیے یہ سن رہی تھی 

" آپ نے بتایا نہیں ؟ "

اس نے دوبارہ یزداں سے پوچھا 

" آپ لوگوں کو اور کچھ چاہیے ہو تو ملازم سے کہہ دیجیئے گا

اللّٰہ نگہبان ۔۔۔

وہ فوراً لہجہ بدلتا وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا 

صبیحہ نے حیرانی سے اسے دیکھا

اسے کیا ہوگیا ؟؟ 

************************

" چلے گئے ٹی وی والے  ؟؟

وہ کمرے میں داخل ہوا تو لال سوٹ پہنے شعلہ جوالہ بنی آبگین اسے دیکھ کر لپکی 

" ہاں گئے ۔۔۔ 

اس نے آبگین کے بازو خود سے ہٹائے اور خاموشی سے بیڈ پہ جا لیٹا 

سنا ہے کوئی لڑکی تھی ؟؟ 

وہ اس کے برابر میں لیٹی 

ہممم ۔۔۔

اس نے پھر یک لفظی جواب دیا 

وہ گہری سوچ میں تھا 

کن سوچوں میں ہو شاہ ؟؟

آبگین نے اسکے سینے پہ سر رکھا 

اسے الجھن ہوئی

وہ تنہائی چاہتا تھا مگر وہ کمبل ہوئے جارہی تھی 

کچھ نہیں سونا چاہتا ہوں بس 

اس نے پھر برداشت سے جواب دیا 

میرے ساتھ سوجاؤ شاہ 

آبگین نے دلبری سے اسکے بالوں کو چھیڑا 

کیوں  ؟ 

باقیوں نے دغا دے دی جو پھر میری ضرورت پڑ گئی ؟ 

یزداں نے اسے کھینچ کے جوتا مارا 

وہ غصے سے آگ بگولہ ہوئی 

شاہ ۔۔۔ بس 

غلطی ہوگئی تھی مجھ سے معافی بھی مانگ لی آپ سے ۔۔

اور میں نے کر بھی دیا معاف ۔۔

غیرت کے نام پہ قتل ہونے سے بھی بچا لیا تمھیں نکاح میں بھی رکھا ہوا ہے تمھیں ۔۔

اب دفع ہوجاؤ یہاں سے 

مزید میرا امتحان لیا تو حشر کردوں گا 

تمھارے کرتوت اگر اگل دیے تو میری گولی کا نمبر تو آئے گا ہی نہیں 

تمہارے بھائی ہی بھون ڈالیں گے غیرت مند جو ہیں 

مگر میں بے غیرت ہی ٹھیک ہوں تمھارے قتل سے ہاتھ رنگین کرنے سے بہتر یہ بے غیرتی کا چولہ ہے جو پہنے گھوم رہا ہوں 

وہ غصے سے لال ہوا

آبگین فوراً کمرے سے بھاگی 

اس سے ذیادہ کون واقف تھا اپنے انجام سے 

یہ راز صرف اسکے اور یزداں کے درمیان تھا 

اسکی بدکاریاں اگر خاندان والوں کو پتہ چل جاتیں تو وہ کب کا منوں مٹی تلے سورہی ہوتی 

اسکی سانسیں یزداں کی مہربانی سے قائم تھیں 

وہ صرف اب اسکا نام کا شوہر تھا 

انکے درمیان گہری خلیج حائل ہوچکی تھی جسے وہ اب چاہ کے بھی ختم نہیں کرسکتی تھی 

اسکے سارے ٹھاٹ شاہ کی مرہونِ منت تھے ورنہ اسکی اور ملازمین کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں رہنا تھا 

وہ حویلی کی جیجی تھی یہی عہدہ اسکے لیے کافی تھا

یزداں کے دل کی پوسٹ سے وہ کب کی فارغ ہوچکی تھی ۔

جب تک صبیحہ گھر نہیں آگئی روشن آراء کا دم اٹکا رہا اسے گھر میں داخل ہوتا دیکھ انہوں نے سکھ کا سانس لیا 

" آج اتنی دیر ہوگئی ؟ میں کتنی پریشان تھی 

وہ بہت فکر مند تھیں 

امی ریلیکس رہا کریں 

میں میڈیا پرسن ہوں اس کام میں دیر سویر ہوجاتی ہے اور میرے ساتھ پوری ٹیم ہوتی ہے ان ڈور بھی اور آؤٹ ڈور بھی 

آپ اتنا مت سوچا کریں طبیعت خراب کرلیتی ہیں اپنی 

صبیحہ نے ماں کو کاندھوں سے تھام کر رسان سے سمجھایا

ہر بار اسی طرح وہ اور ندیم صاحب انہیں سمجھاتے مگر انکی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی 

وہ روز ایسے ہی ہولتی رہتیں 

ؤہ خود بھی گھر سے برائے نام ہی نکلتیں تھیں مگر ندیم اور صبیحہ کی مجبوری تھی 

وہ چاہ کر بھی دونوں کو گھر نہیں بٹھا سکتی تھیں 

انہوں نے جلد از جلد حارث کی امی سے شادی کی بات کرنے کا سوچ لیا تھا 

صبیحہ اپنے گھر کی ہوجائے تبھی انہیں چین آئے گا ۔

*************************

" وہ ساری رات پلاننگ میں مصروف رہا 

جو آگ بچپن سے اسکے دل میں لگی تھی اب شاید اسکے ٹھنڈے ہونے کا وقت آچکا تھا

کہانی دہرانے کا وقت آن پہنچا تھا 

بدلے کی آگ دل میں لیے اسکے پیارے دادا اور بابا اس دنیا سے جاچکے تھے 

وہ انکی روح کو شاد کردینا چاہتا تھا 

یزداں شاہ کا جلتا سینہ مسکراتے چہرے کے پیچھے نہاں تھا ۔

*************************

" جی ٹھیک ہے ۔۔

آپ ڈلیور کردیں میرے آدمی ٹھکانے لگا دیں گے 

شپ کی روانگی وہی رات بارہ بجے کے بعد ہوگی 

دوسری طرف سے ناجانے کیا کہا گیا تھا

جی جی  ، وٹو صاحب سے کہیں کام کی فکر نہ کریں اور جتنا مال یہاں روکنا چاہتے ہیں اپنے فارم ہاوسز پہ منتقلی کروا لیں 

چیک پوسٹ والے بھی سب اپنے بندے ہیں 

" سہیل کھانا لگ چکا ہے یار "

وہ جلدی جلدی بات نمٹاتا ہوا پیچھے مڑا 

ہاں ہاں اوکے ۔۔

" کتنی بار کہا ہے کہ جب میں کال پہ ہوا کروں تو مت آیا کرو روم میں 

بزنس سے ذیادہ ضروری نہیں ہے کھانا 

اس نے بیوی کو جھڑکا 

ارے ہاں بس بہت کما لیا آپ نے 

اتنا کرنے کو نہیں کہا تھا آپ سے 

سونیا کا دل خاک ہوا

آپ تو دن رات بزنس کے ہی ہوکے رہ گئے ہیں 

نہ میری فکر نہ گھر کی 

وہ بھی سامنے سے چلائی 

دولت کا نشہ ہی ایسا ہے میری جان 

ڈیل طے ہونے کے بعد وہ مسرور سا تھا

سنو ، وہ جڑاؤ ہار جو تمھیں پسند آیا تھا کل آرڈر دے کہ منگوا لینا 

ہائے سچ ؟؟؟

سونیا خوشی سے پاگل ہوئی

تھینک یو سہیل 

آپ کتنی محنت کرتے ہیں ہمارے لیے 

وہ فوراً چاپلوسی پہ اتری

مسز افنان کی دعوت میں بلیک ساڑھی پہ وہ ہیرے جڑا نکلیس تصور میں پہنے وہ جھوم اٹھی 

سہیل ملک بزنس دنیا کا جانا مانا نام تھا 

بظاہر اسکا بزنس الگ تھا مگر نجی طور پہ وہ جس مافیا سے منسلک تھا

اسکی بدولت گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی 

وہ کئی دھکے کھا کے اس مقام تک پہنچا تھا

یہ سوچے بغیر کہ اسکا انجام کتنا بھیانک تھا ۔

*************************

" خبر دیں گے آپکو کراچی کے علاقے لانڈھی سے جہاں ایک ہی گھر کی دو کم عمر معصوم بچیاں صبح سے تا حال لاپتہ ہیں 

علاقہ مکینوں کا احتجاج جاری

ماں کا غم سے برا حال 

دیگر خبریں اس نیوز بریک کے بعد ۔۔۔

اینکر اسکرین سے غائب ہوچکا تھا

روشن آراء ہکا بکا ٹی وی کو دیکھ رہیں تھیں 

یک دم انکی نظر گھڑی پہ پڑی جو رات کے دس بجا رہی تھی 

اسوقت تو صبیحہ نکل چکی ہوتی ہے آفس سے ابھی تک پہنچی نہیں 

انہیں ہول اٹھنا شروع ہوئے 

ندیم کا معمول تھا وہ اسوقت تک سوجاتے تھے 

وہ اک چھوٹی سی فرم کے منیجر تھے 

سیدھے سادے حلال رزق کھانے والے

یہی تربیت انہوں نے اپنی بیٹی کو دی تھی

صبیحہ کے آجانے تک روشن بیگم جاگتی رہتیں تھیں پھر وہ آتی تو دونوں ماں بیٹی ساتھ کھانا کھاتے 

صبیحہ کو اپنے ماں باپ سے بے حد محبت تھی 

وہ صاف رنگت درمیانے قد کی معصوم نقوش والی لڑکی تھی جرنلزم اسکا جنون تھا 

انہوں نے مزید تاخیر کے بغیر حارث کو کال ملائی 

جی آنٹی ؟ خیریت ؟

حارث اپنے موبائل پہ روشن آنٹی کی کال دیکھ کر حیران ہوا

بیٹا وہ صبیحہ ابھی تک گھر نہیں آئی تم کہاں ہو؟ اسکے ساتھ ؟

اسکا موبائل بھی بند جارہا ہے 

وہ اب رونا شروع ہوچکی تھیں 

ارے رے آنٹی میں دیکھتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں پلیز 

وہ انکا رونا سن کے خود بھی پریشان ہوا

اگر وہ وین میں نہیں آرہی تھی تو یقیناً آٹو کرکے آرہی ہوگی

کیونکہ دفتر والے دوست نے بتایا کہ وہ آج اکیلے جلدی نکلی ہے 

یہ سن کے تو حارث کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے مگر روشن آراء کو یہ سب بتانا گویا مرے پہ سو درے ہوجاتا 

وہ بائیک کی چابی اٹھا کے اسکی تلاش میں نکلا ۔۔

************************

" وہ بے ہوش نہیں تھی ۔۔

اسکے حواس کام کررہے تھے 

" یہ والا کنٹینر وٹو صاحب کے فارم ہاؤس جائے گا

یہ والا شپ تک ۔۔۔

اسکے کانوں میں کچھ غیر مانوس آوازیں آرہیں تھیں 

شپ ، کنٹینر ۔۔۔ فارم ہاؤس ؟ 

وہ سیکنڈوں میں سمجھ گئی کہ کیا ہونے والا ہے 

اسکی بڑی سی آنکھیں لبالب پانی سے بھریں 

آنکھوں پہ بندھا کپڑا بھیگنے لگا وہ ہاتھ پاؤں چاہ کر بھی ہلا نہیں پارہی تھی

بہت کس کے باندھا گیا تھا 

اچانک سے اسے گاڑی چلنے کی آواز آئی

اسکا جسم تھرتھرایا

وہ گاڑی میں تھی ؟ 

یہ گاڑی میں کون ہے ؟ 

وہ کہاں لے جائی جارہی تھی ۔؟؟

یا اللّٰہ 💔😭

اس کے دل نے دہائی دی 

مما ، پاپا ہیلپ ۔۔۔

وہ ڈوبتے دل کے ساتھ بے ہوش ہوئی 

وہ گھر پہنچی تو روشن بلکتی ہوئی اس سے لپٹ گئیں 

میری بچی ، میری دولت 

کہاں رہ گئیں تم ؟؟

وہ زار و قطار رو رہیں تھیں 

سامنے بیٹھا حارث مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کرنے لگا

صبیحہ کو خیریت سے گھر میں دیکھتے ہی وہ ہلکا پھلکا ہوچکا تھا

ندیم صاحب نے ماں بیٹی کو الگ کیا 

ارے اسے سانس تو لینے دو روشن بیگم 

وہ حیران پریشان سی سب کو دیکھ رہی تھی 

یہاں کیا ہورہا ہے ؟ تم یہاں کیسے حارث ؟ 

ابا ؟ 

اس نے اک ساتھ سارے سوال کیے 

تمھارا موبائل آف جارہا تھا اتنی رات ہوگئی تمھارا کوئی پتہ نہیں دفتر سے بھی نکلی ہوئی اکیلی

آنٹی نے گھبرا کے مجھے کال کرلی 

اور میں یہاں ہوں تمھاری تلاش کرنے کے بعد ۔۔

حارث نے اسکے سارے سوالات کے جواب دیے

اوہ امی ۔۔۔

آپ بھی نا یار ۔۔۔

وہ بیگ کرسی پہ رکھ کے صوفے پہ بپٹھی 

میں آج آفس سے دیر سے نکلی شفٹ کے بعد

آٹو میں تھی ، وہ خراب ہوگیا اور موبائل آف تھا کیسے بتاتی

مکینک کے پاس خاصا وقت لگ گیا

میں نے دوسرا آٹو نہیں لیا وہ بیچارہ غریب تھا اسی کے ساتھ آٹو ٹھیک کروا کے آئی بس 

صبیحہ نے بھی ساری روداد بیان کی

اور اس سب میں میرا خیال نہیں آیا تمھیں  ؟

روشن کی آنکھیں ڈبڈبائیں 

ارے یار امی پلیز بی اسٹرونگ

میری فیلڈ ہی ایسی ہے آپ میرے جنون سے واقف ہیں 

وہ انکے خوف و خدشات دیکھ کر چڑی 

موت برحق ہے امی 

اس نے مزید سمجھایا

موت سے ڈر نہیں لگتا مجھے صبیحہ ۔۔۔ جیتے جی جو لڑکیوں کو مار دیتے ہیں ان درندوں سے ڈرتی ہوں 

وہ بولتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئیں 

حارث اور صبیحہ کی نظریں ندیم صاحب پہ تھیں 

جو سر جھکائے بیوی کے پیچھے چل دیے ۔

*************************

" وٹو کے فارم ہاؤس پہ چھاپہ پڑا تھا

کئی لڑکیاں برآمد کی گئی تھیں 

اس خبر کو میڈیا سے دور رکھا جارہا تھا ورنہ کئی بڑے نام بے نقاب ہوتے 

سہیل ملک کا تو غصے سے برا حال تھا پارٹی ڈوب گئی تھی 

شپ کی تاحال کوئی خبر نہیں تھی 

شاید اسے بھی قبضے میں لے لیا گیا ہوگا

اس شیخین کی طرف سے ملنے والا پیسہ بھی ڈوبتا نظر آیا 

یہ پہلی بار ہوا تھا

وٹو فون پہ اس پہ برس رہا تھا

میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا کتے 

سائیں میرا یقین کریں مجھے کیا پتہ کس نے مخبری کی 

میرا تو سارا پیسہ ڈوب گیا سائیں مدد سائیں 

اس نے فوراً وٹو کے آگے بھیک مانگنی شروع کی 

اپنی عورت کو بھیج میرے پاس کرتا ہوں تیری مدد

وٹو نے مکاری سے کہا

سہیل نے کھٹ سے فون بند کیا 

سونیا ۔۔ 

سونیا ۔۔

وہ پاگلوں کی طرح چلاتا ہوا گھر میں بھاگ رہا تھا

کیا ہوگیا سہیل ؟ 

سونیا بالوں میں رولرز سجائے رات کی پارٹی کی تیاری کررہی تھی 

آج کی ڈیل کی خوشی میں سہیل نے سب عزیزوں کو پارٹی دی تھی مگر سونیا اس بات سے بے خبر تھی کہ پلان فیل ہوچکا تھا

عزا کہاں ہے ؟؟

سیلون گئی تھی شام میں 

آتی ہوگی 

اس نے لاپرواہی سے کہا

سہیل نے فوراً بیٹی کے نمبر پہ کال کی 

فون آف جارہا تھا

اسکا دل ڈوب گیا 

وہ سینہ پکڑ کے بیٹھ گیا

سونیا کی چھٹی حس بیدار ہوئی ۔

************************

" خبر دیں گے آپکو اسلام آباد سے معروف بزنس مین سہیل ملک کی اکلوتی صاحبزادی عزا ملک کا اغوا ہوا ہے 

وہ ڈرائیور کے ساتھ نجی سیلون گئی تھی اور اسکے بعد سے لاپتہ بتائی جارہی ہیں ۔۔۔

اینکر چلا چلا کے خبر پڑھ رہی تھی 

یزداں شاہ کے لبوں پہ مخمور سی مسکراہٹ ابھری ۔۔

عزا ۔۔۔

اس نے زیرِ لب پھر سے نام دہرایا🔥

************************

" سب کچھ اسکے پلان کے مطابق ہوا تھا

وہ باقی لڑکیوں کو بچانے میں کامیاب ہوگیا تھا

سہیل ملک کے ڈرائیور کو پولیس کسٹڈی میں لے چکی تھی 

اسکا ایجنسی کا دوست شاہنواز اس سارے معاملے میں اسکا دست راست بنا رہا 

میڈیا سے چھپ کے ہی خواص اور اندرونی ایجنسیوں میں معاملات طے پا گئے تھے 

فارم ہاؤس سے کئی سارا اسلحہ بھی برآمد کیا جاچکا تھا اور تمام لڑکیوں کو دارالامان شفٹ کردیا تھا جہاں آگے کی کارروائی سماجی تنظیموں نے کرنی تھی 

آسان نہیں تھا ۔۔

وہ کئی سالوں سے سہیل ملک کے پیچھے تھا اور آج جا کے اس پہ ہاتھ ڈالا تھا

مگر جنگ تو ابھی شروع ہوئی تھی کئی حساب چکتا کرنے کا وقت آگیا تھا ۔

***********************

" اور کیا کیا ہورہا تھا باہر ؟ "

آبگین نے سر کی مالش کرواتے ہوئے ملازمہ سے پوچھ تاچھ کی 

اس نے حویلی میں اپنے خفیہ ملازم اسی لیے چھوڑ  رکھے تھے تاکہ یزداں شاہ کے معمولات پہ نظر رکھ سکے

" وہ لوگ اس بے ہوش لڑکی کو پیچھے والے حصے میں لے کے جارہے تھے اب میں نے شاہ سائیں کو جاتے دیکھا ہے وہاں 

ملازمہ نے رازداری سے کہا

ہممم ۔۔۔

جانے دو آج ان کو

کل میں جاؤں گی 

دیکھوں تو کیا چل رہا ہے شاہ کے دماغ میں ۔۔

وہ شعلہ بار ہورہی تھی 

دوسری عورت کا تصور ہی کافی ہوتا ہے پہلی کو جلانے کے لیے 

یہاں تو پورا وجود ہی اٹھا کے لے آیا گیا تھا وہ کیونکر چین سے ہوتی ۔

************************

" کمرے میں لیمپ روشن تھے اوپر پورا فانوس جمگما رہا تھا مگر اسے پھر بھی اندھیرا لگا

اتنے گھنٹوں سے آنکھوں پہ بندھی پٹی اب کھل چکی تھی 

جدید سامان سے مزین کمرہ تھا

یقیناً وہ کسی اچھی بڑی جگہ تھی 

مگر کہاں ؟؟

اس نے ذہن پہ زور ڈالا ۔۔

وہ سیلون جانے کے لیے نکلی تھی جب اسکی گاڑی میں کچھ لوگ گھسے تھے 

اسکے بعد وہ آوازیں ، گاڑی کا چلنا اسکا پھر بے ہوش ہونا 

اور اب دوبارہ ہوش آیا تو وہ اس کمرے میں تھی 

کیا یہ اغوا برائے تاوان تھا ؟

یا اللّٰہ 

یہ لوگ تاوان لے لیں پاپا سب دے دیں گے

بس مجھے چھوڑ دیں 

وہ خودکلامی کے انداز میں رو رہی تھی 

انیس سالہ عزا کا نازک وجود ہچکولوں کی زد میں تھا 

وہ گھر سے پاجامے اور لانگ نیلی فراک میں نکلی تھی 

جو اب پسینے سے شرابور ہوکے اس کے جسم سے چپک رہی تھی 

بال بے حال تھے جابجا لٹیں چہرے پہ بکھر چکی تھی

بڑی بڑی شفاف آنکھوں میں کاجل کے ڈورے رو رو کے ہلکے پڑ گئے تھے 

ہونٹوں پہ گلوز مٹا مٹا سا رہ گیا تھا

وہ لوگ کون تھے ؟ کیا کرنا چاہتے تھے ؟

آگے کیا ہوگا ؟

مما ، پاپا ، دوست سوسائٹی اسکا کالج ؟؟

سارے سوالات اسکے ذہن پہ ہتھوڑے برسا رہے تھے

اسکی خوف سے بری حالت تھی عین اسی وقت کسی کے اندر آنے کی آہٹ اسے سنائی دی 

اس نے دبک کے تکیے میں منہ دیا

" سہیل ۔۔۔۔ میری بیٹی ۔۔۔

سونیا پوری قوت سے چلا رہی تھی 

یہ وہ عورت تھی جس کے لیے سہیل نے دن رات ایک کرکے یہ مقام حاصل کیا نام بنایا پیسہ کمایا تاکہ سونیا کو پا سکے 

آج اسکی ہستی بستی زندگی کو آگ لگی تو اسے یاد آیا کہ کتنے ہی گھر اس نے اجاڑے کتنی جوانیاں کھا کے رول کے وہ عیش کررہا تھا آج خود پہ وہی قیامت ٹوٹی تو اسکے لب گنگ تھے 

تم کچھ بھی کرو میری بیٹی کو لے کر آؤ 

وہ بیٹی کی جدائی میں پاگل ہورہی تھی 

پولیس نے تحقیقات شروع کردی تھیں 

مگر وہ جانتا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں 

" سونیا ۔۔

عزا جاچکی ہے وہ اب ہمیں کبھی نہیں ملے گی 

اٹھائی گئی لڑکیاں کبھی واپس نہیں آتی

یا بیچ دی جاتی ہیں یا مار دیا جاتا ہے ۔۔

سہیل کی آواز سونیا کو کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی 

وہ شاکڈ سی اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی 

************************

" امی پلیز کھانا کھا لیں ۔۔

صبیحہ نے پیار سے ماں کو پچکارا 

مجھے بھوک نہیں ہے 

روشن نے منہ موڑ لیا

وہ کافی دنوں سے چپ تھیں ندیم اور صبیحہ کو انکی خاموشی غیر معمولی لگی 

امی کیا ہوگیا ہے آپکو ؟ 

صبیحہ شدید فکرمند تھی 

" اسکی بیٹی کا کیا ہوا ؟ 

انہوں نے یک دم صبیحہ سے پوچھا

کس کی ؟؟ 

اسے حیرانی ہوئی 

وہی بزنس مین سہیل ملک کی 

انکا انداز کھویا کھویا سا تھا

امی وہ لڑکی اسلام آباد کی ہے مشہور ہے اسکا باپ مل جائے گی انشاءاللہ 

صبیحہ کو پوری امید تھی ویسے بھی آج کل یہی ہاٹ ٹوپک تھا سب کے پاس

ضروری نہیں ہر امیر لڑکی بازیاب ہوجائے 

روشن نے مدھم لہجے میں اسکے حواس چھینے 

اسے ہمیشہ سے اپنی ماں پر اسرار سی لگتی تھیں جیسے کئی راز سینے میں دبے ہوں

جیسے کوئی بوسیدہ صندوق جسے کھولو تو کئی پرانی یادیں باہر آجائیں ۔

************************

" کون ہو تم ؟ 

عزا کے تو اوسان اسے دیکھ کر جارہے تھے 

جو سیاہ شلوار قمیض میں سیاہ شال خود پہ ڈالے جارحانہ تیور لیے اسکی طرف آرھا تھا

یزداں شاہ کو لگا سامنے سہیل ملک آگیا ہے 

وہ اس پہ جھپٹا ۔

************************وہ بالکل اسکے سامنے تھا خوف سے عزا کی آنکھیں پھٹ رہیں تھیں 

تمھیں جتنے پیسے چاہیئے میرے بابا دے دیں گے 

وہ اس سے دور ہورہی تھی 

ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔

یزداں نے اسکی معصومیت پہ زوردار قہقہہ لگایا

اس کمرے کو غور سے دیکھو پھر مجھے دیکھو

اس نے ایک ہاتھ سے اسکا منہ دبوچ کے اپنے ہاتھ میں لیا 

تمہیں لگتا ہے کہ مجھے پیسے کے ضرورت ہے ؟ 

اسکی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں عزا کے وجود کو جھلسا رہیں تھیں 

اگر پیسے نہیں چاہیے تو پھر کیا ؟ 

اگلی سوچ نے ہی اسکے اوسان خطا کیے

مم مجھے جانے دو پلیز 

اسکی آواز رندھ گئی

آگے کا بھیانک انجام اسے ابھی سے مار رہا تھا 

ایسے کیسے میری جان ؟ 

اتنی مشقتیں کرکے حاصل کیا ہے 

یزداں نے کمرے میں قبر سا اندھیرا کیا 

*************************

" مما ۔۔۔۔

وہ درد سے بلبلائی 

یزداں نے اسکی نازک دودھیا گردن میں اپنے دانت گاڑے 

بابا ۔۔۔بچائیں ۔۔۔۔

اسکی چیخیں بلند ہوئیں یزداں نے اسکے پھڑپھڑاتے لبوں کو اپنے دہکتے ہونٹوں میں دبایا 

اسکے سارے کپڑے وہ پھاڑ چکا تھا

اسکی عزت تار تار کررہا تھا

اسکی چیخیں یزداں کے کانوں میں رس گھول رہیں تھیں 

وہ وحشت کی انتہاؤں پہ تھا

باپ کی موت ، بیوی کی بیوفائی لوگوں کی باتیں پھپھو کی جدائی ۔۔۔

سارے عوامل اسے درندگی پر آمادہ کرچکے تھے

عزا کا نازک چھلنی وجود اسکے بھاری وجود تلے سانسیں چھوڑ رہا تھا 

" آبگین شاہ ساری رات انگاروں پہ لوٹتی رہی

اسے خبر ملی تھی کہ یزداں حویلی کے پچھلے حصے میں ہے اور صبح کے وقت اسے وہاں سے نکل کر باہر جاتے دیکھا گیا

اسکا خون کھول رہا تھا جس قربت کے لیے وہ سالوں سے ترس رہی تھی کسی انجان لڑکی پہ وہ لٹا رہا تھا

سوتن کا تصور اسے آگ لگا رہا تھا جہاں تک اسے بتایا گیا تھا یزداں نے ذاتی انتقام کے لیے وہ لڑکی اٹھوائی تھی 

کیا وہ شادی کرلے گا ؟ 

آبگین کا دل ڈوبا 

************************

" امی اگر آپ مجھ سے کچھ شئیر نہیں کریں گی تو مجھے کیسے کچھ پتہ چلے گا ؟ 

صبیحہ ماں کی مسلسل خاموشی پہ غصہ ہوئی

ایسا بھی کیا ہوا تھا آپکے ساتھ جو آپ اتنی باہری دنیا سے خائف رہتی ہیں کسی کا اعتبار نہیں کرتی 

صبیحہ نے ان سے اگلوانا چاہا 

میں تمھیں کچھ نہیں بتا سکتی بس تم یہ جاب چھوڑو اور شادی کی تیاری کرو

وہ اپنی بات کے جواب میں یہ سن کے مزید چڑ گئی 

************************

" وہ صبح ہوتے ہی اپنے خاص  ملازمین کے ساتھ اس کمرے جا پہنچی جہاں عزا کو رکھا گیا تھا

وہ جو رات کی لٹی بیٹھی تھکا جسم لیے نیم بے ہوش سی تھی نئی افتاد پہ سہم گئی

ایک نک چڑھی حسینہ سی لڑکی جو شاید اس سے کچھ سال بڑی ہو خونخوار تیور لیے اسے گھور رہی تھی 

مارو اسے ، اتنا مارو کہ یزداں شاہ دوبارہ اسے دیکھنا گوارا نہ کرے مگر بس دھیان رہے کہ یہ زندہ رہنی چاہیے

آبگین نے حکم جاری کیا 

عزا اسکے منہ سے نکلنے والا حکم سن کے چیخنے لگی 

آخر کس بات کی کس گناہ کی سزا دی جارہی تھی ؟

ملازمین نے اسے نیلوں نیل کرنا شروع کیا

وہ پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی

اسکے نازک وجود کو قدموں سے کچلا جارہا تھا

آبگین اطمینان سے اسے پٹتا ہوا دیکھ رہی تھی

اسکے اندر کی آگ کچھ کم ہونا شروع ہوئی 

وہ یزداں کے ساتھ اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کر پارہی تھی اسکا بس چلتا تو عزا کو مروا ہی دیتی 

بی بی ۔۔ سائیں حویلی میں آرہے ہیں 

ایک ملازمہ نے دوڑ کے آ کہ اطلاع دی 

جلدی نکلو یہاں سے 

وہ فوراً حکم دیتی پلٹی 

پیچھے عزا ادھ مری سی پڑی تھی

سر سے خون جاری تھا اسکی آنکھوں کے اندھیرا سا چھا رہا تھا 

جب کسی کے قدموں کی دھمک سنائی دی 

************************

" سنا ہے اس لڑکی کا بوائے فرینڈ تھا بہت غریب 

باپ نہیں مانا تو بھاگ گئی اسکے ساتھ 

جتنے منہ اتنی باتیں 

سوشل میڈیا پہ اسکے دوستوں نے #سیو-عزا ملک کا ٹیگ چلا رکھا تھا

آئے دن رپورٹرز سہیل ملک کے گھر پہنچ جاتے 

پولیس نے صاف ظاھر کردیا کہ لڑکی مرضی سے بھاگی ہے 

لوگوں کے منہ کھل گئے 

گوشت کھلا پڑا ہو تو چیل کوے فوری آجاتے ہیں 

عزا کے کیس میں بھی یہی ہوا تھا

سہیل گوکہ امید ہار چکا تھا مگر پھر بھی اسکے کان منتظر رہتے کہ شاید اغواکاروں کی کال آجائے

سونیا سارا دن روتی رہتی 

اسکے گھر کا چین حرام ہوچکا تھا

وہ اندر ہی اندر اپنے کانٹیکٹ استعمال کرکے پتہ لگوا رہا تھا کہ آیا عزا ملک میں ہی ہے یا باہر اسمگل کردی گئی ہے ؟

اسکا سارا شک منظور وٹو پہ تھا

پرانے دشمن کی طرف اسکا دھیان گیا ہی نہیں 

جو سالوں سے اسکی تاک میں تھا

************************

" کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمھیں کیا ہوا ؟ 

حارث سیدھا اسکے سر پہ جا پہنچا

میری کالز نہیں لیتی ، باہر ساتھ نہیں جاتی ، میسجز اگنور کرتی ہو؟ 

وائے ؟؟ 

صبیحہ نے دھیرے سے اسکی طرف دیکھا

ایسا نہیں ہے تم ذیادہ ہی سوچ رہے ہو ۔۔ بس کام میں لگی رہتی ہوں

اس نے دامن بچایا

رئیلی  ؟ حارث نے بے یقینی سے اسے دیکھا

جب سے تم اس امیر وڈیرے سے مل کے آئی ہو تمھارے رویے میں تبدیلی آگئی ہے 

حارث نے بالآخر اپنا شک اس پہ ظاہر کردیا 

واٹ ؟؟ صبیحہ اچھل گئی

تم یہ سب سوچ رہے ہو میرے بارے میں ؟؟

اسے حارث سے یہ امید نہیں تھی 

تم مجھے مجبور کررہی ہو

وہ بھی بے بس ہوا 

وہ اپنی جگہ سے جانے کے لیے اٹھی 

ہر مرد میں محبوب نظر نہیں آتا حارث ۔۔۔

اس سے بھایئوں جیسا رشتہ لگا مجھے 

صبیحہ روتے ہوئے وہاں سے نکل گئی

حارث نے سر کو ہاتھوں میں گرایا 

************************

"عزا ۔۔۔

ہوش کرو ۔۔

یزداں نے جھک کے اسکا مردہ وجود اپنے بازوؤں میں بھرا

وہ خون میں بھری سانسیں کھینچ رہی تھی 

اس نے فوراً عزا کو بیڈ پر لٹایا

اور گھر پہ ڈاکٹر کو بلوایا 

اسکی حالت خطرناک لگ رہی تھی فوری طبی امداد کی ضرورت تھی

اس لڑکی میں تو پہلے ہی جان نہیں تھی

جس نے بھی اسکی یہ حالت کی ہے فوراً اسے میرے سامنے لاؤ 

شمشیر اور نصیر اسکی آواز پہ لبیک کہہ کے باہر نکلے 

ڈاکٹر پہنچ چکا تھا اور اپنا کام کررہا تھا

یزداں کو اسکی بدحالی پر افسوس ہوا

ٹھیک ہے اس نے بھی رات کم ظلم نہیں کیا تھا اس نازک جان پہ مگر یہ مار پیٹ ؟؟

اسکا شک آبگین پہ تھا غصے سے اس نے مٹھیاں بھینچ لیں

اسکی آنکھ کھلی تو وہ جہان بھر کی فکر چہرے پہ سمیٹے اس پہ جھکا پڑا تھا

عزا کے وجود میں یزداں کو دیکھتے چنگاریاں سی نکل پڑیں اس رات کی اذیت وہ کیسے بھولتی

اس نے سارے ناخن اسکے چہرے پہ گاڑ دیے 

آہ۔۔۔ وہ بلبلایا

ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کے دوسرے ہاتھ سے اک زناٹے دار طمانچہ عزا کے منہ پہ رسید کیا

وہ گھوم کے دوبارہ بیڈ پر گر پڑی

آئندہ یہ ہوا تو اس رات سے کہیں ذیادہ بدترین حشر کروں گا تمھارا 

وہ غرایا مگر عزا پہ اثر نہ ہوا

اب بچا ہی کیا تھا جو کچھ لٹنے کا ڈر ہوتا

جانور ہو تم سور ہو

وہ پھنکاری 

یزداں نے مسکرا کے اسے دیکھا

نیلا سوٹ جو بوسیدہ ہوچکا تھا بکھرے بال ، چہرے پہ زخم سجے ہونے کے باوجود اسکے تیکھے نقش مزید حسین لگ رہے تھے

تمھارا باپ مجھ سے کئی گنا ذیادہ بڑا جانور ہے

وہ تپ گئی

شٹ اپ 

تمھارے ساتھ تو صرف میں نے ذیادتی کی ہے 

مگر وہ تو لڑکیوں کو ایسی جگہ پہنچادیتا ہے جہاں ہر روز ان کے ساتھ چیر پھاڑ ہوتی ہے 

تم کو جانا ہے وہاں ؟؟؟

اس نے دھیرے سے پاس آ کے عزا کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی جو آنکھوں میں بے یقینی لیے سب سن رہی تھی 

یہ ۔۔ یہ کیا بکواس ہے ؟ بابا یہ سب کیوں کرینگے ؟ انکا اپنا بزنس ہے وہ ۔۔ وہ ایسے نہیں 

تم جھوٹے ہو 

وہ یک دم چلائی 

وہ کیا کرتا ہے یہ مجھ سے ذیادہ اچھے سے کوئی نہیں جانتا

لڑکیاں اسمگل کرتا ہے تمھارا باپ ۔۔۔

یزداں کی آواز شدت سے پھٹی

************************

" اسکا پورا ارادہ تھا آبگین کو سبق سکھانے کا 

مگر عزا کو دیکھتے ہی پرانے زخم تازہ ہوگئے 

وہ پے در پے مشروب خود میں انڈیل رہا تھا

اسکی آنکھوں سے مستقل آنسو جاری تھے 

ماضی کی یادیں بے چین سا کرنے لگیں 

آبگین کا وجود اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اسکی آنکھوں میں لہرا رہا تھا

************************

" لال غرارے میں نو سالہ وجود شوخیاں سمیٹے ہلکے ہلکے ہل رہا تھا

وہ ماں ، چچی اور سہیلیوں کے درمیان گھری خوشی سے چہک رہی تھی

آج اسکا نکاح اسکے تایا ذاد یزداں سے طے کیا گیا تھا جو ولایت جانے والا تھا ۲۲ سالہ یزداں مردوں میں موجود تھا وہ ایم بی اے کے لیے جانے سے پہلے نکاح کے بندھن میں بندھ رہا تھا آبگین اسکی بچپن کی منگ تھی اسکے دل میں اسوقت عجیب سی بے چینی سی تھی بس ۔۔

وہ خوش ضرور تھا مگر مطمئن نہیں 

وہ دس سال کا تھا جب اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی پیاری پھپھو کا اغواء دیکھا تھا 

وہ اس آدمی کو پہچانتا تھا وہ مرتے دم تک سہیل ملک کی شکل اور اپنی پھپھو کی چیخیں نہیں بھول سکتا تھا

دادا کی موت بدنامی کے باعث ہوئی تھی اسوقت وہ لوگ گاؤں کے اتنے بڑے لوگوں میں شمار نہیں کیے جاتے تھے 

یہ رتبہ یزداں کے باپ ، چچا کی محنت کا نتیجہ تھا کہ وہ آج پنچایت کے سربراہ تھے اور سیاست میں قدم جما چکے تھے 

وہ نکاح کے بعد ولایت چلا گیا 

پیچھے باپ اور چچا سنبھالنے والے تھے 

آبگین طبعیت کی شوخ اور لاپرواہ لڑکی تھی 

گاؤں کے ہر لڑکے سے اسکی یاری تھی 

اسکے بگاڑ میں اسکی ماں کا بڑا ہاتھ تھا

اسکی پھپھو کی گمشدگی کی خبر بھی آبگین کی ہی ماں نے مرچ مصالحہ لگا کر گاؤں کی عورتوں میں پھیلائی تھی 

اسکے واپس آنے کے بعد اسے قریبی دوستوں سے ہی بیوی کی بدکاریوں کا علم ہوا

وہ آبگین کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہ تھا مگر چچی اسکے قدموں میں گر پڑیں 

اسکے چچا اور آبگین کے بھائی ان باتوں سے لاعلم تھے ورنہ وہ اسے غیرت کے نام پر قتل کروا دیتے

مجبوراً یزداں نے فوری رخصتی لی مگر وہ آبگین کو اپنی حویلی میں اسکی حیثیت باور کروا چکا تھا 

وہ زمینوں اور سیاسی معاملات میں خود کو مصروف رکھتا اور آبگین اسکی خوبرو شخصیت کو تسخیر کرنے میں لگی رہتی مگر نتیجہ صفر تھا ۔

*************************

" وہ لڑکھڑاتا ہوا کمرے میں آیا تھا اسکی چال غیر واضح تھی 

آبگین شاہ اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھی 

یہ کیا ہے شاہ جی ؟ 

اس نے اپنی شال میں اسے سمیٹنا چاہا تو وہ اسے جھٹک کر دور ہوا

آبگین کا منہ بن گیا اسکی نظریں یزداں شاہ کے ہاتھ میں موجود شراب کے گلاس پر تھیں 

" تمھارے ہوتے ہوئے اسے منہ کو لگانا پڑ رہا ہے آبگین شاہ تھو ہے تم پہ "

وہ شعلہ نگاہوں سے ہنستا ہوا صوفے پہ گرگیا

ہنستے ہوئے اسکی گلے سے ابھرنے والی ہڈی مزید نمایاں ہوئی

سیاہ شلوار قمیض میں گھنی مونچھوں تلے اسکے ہنستے لب آبگین کے دل پہ آرے چلا گئے 

شمشیر ؟؟

صبح ہوتے ہی آبگین نے اسے جا لیا جو چھپتا پھر رہا تھا

جی ؟ 

شمشیر نے پیچھے ہاتھ باندھ کے ادب سے کہا 

یہ لڑکی کس کی ہے ؟ 

اس نے براہ راست سوال کیا

جی کون سی لڑکی ؟

ذیادہ معصوم مت بنو میرے آگے 

وہ تنکی 

شمشیر اسکی ادا پہ مرمٹا 

وہ بچپن سے اسی گاؤں کا تھا اور آبگین اسکا خواب تھی مگر یزداں سے وفاداری کے آگے اس نے اپنی محبت کو چپ کروادیا

آبگین اسکی پسندیدگی سے واقف تھی تبھی ہر وقت آزمائش بنتی تھی اسکے لیے

میں کچھ نہیں کہہ سکتا

اس نے صاف انکار کیا

کیا وہ میری سوت تو نہیں بنے گی ؟

بالآخر اسکا خدشہ زبان پر آیا

میں اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا

وہ واقعی یزداں کی آگے کی پلاننگ سے بے خبر تھا

***********************

وہ سب  کے  ساتھ صبح ہی سے 

 اپنی زمینوں پر آیا تھا 

الیکشن سر پر تھے فصل کی کٹائی کا وقت ہوا جاتا تھا اور ابھی تک سہیل والا معاملہ لٹکا ہوا تھا اس کے ذہن کے چاروں خانوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی

سائیں میں  نے سنا ہے کہ وفادار عورت  مرد کا سب سے بڑا خزانہ ہوتی ہے 

نصیر نے مسکراتے ہوئے کسی بات پر کہا

" اس حساب سے تو ہم کنگال ہیں پھر "

یزداں نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی 

اسکی گہری آنکھیں سرخ ہوئیں 

یاور اور نصیر اسکی بات پہ خاموش رہے 

وہ کھیتوں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا

مگر اس مسکراہٹ میں دکھ ، چھبن صاف دکھائی دے رہی تھی شمشیر کیوں نہیں آیا اب تک ؟

اسے فوراً اپنے خاص آدمی کی یاد ستائی 

حویلی سے نکل گیا ہے وہ سائیں

نصیر نے فوری اطلاع دی 

ہممم ۔۔۔ 

وہ گہری ہوں بھر کے رہ گیا اسوقت اسکا ذہن پڑھنا ناممکن تھا ۔

*************************

" روشن اور حارث کی امی شادی کی تاریخیں نکال رہی تھیں جب صبیحہ غصے سے لال گھر میں داخل ہوئی 

وہ بنا سلام دعا کیے سیدھی اپنے کمرے میں جا گھسی 

اسے کیا ہوا ؟ حارث کی امی کو فکر ہوئی وہ کبھی اتنی بدل لحاظ نہیں ہوئی تھی کہ انہیں دیکھ کر سلام دعا حال احوال نہ پوچھے

شاید حارث سے لڑائی ہو

روشن نے فوراً بات سنبھالی

آج کل کے بچے بھی ۔۔۔ شادی سر پہ ہے اور انکے جھگڑے ہی نہیں نمٹ رہے

وہ ہنس دی 

روشن نے شکر ادا کیا کہ وہ برا نہیں مانیں ۔۔ حارث کی امی اچھے مزاج کی خاتون تھیں روشن کی سوئی صبیحہ میں اٹکی ہوئی تھی انہوں نے بے دلی سے چائے پی اور حارث کی والدہ کو رخصت کیا ۔

*************************

" یہ کیا بدتمیزی تھی صبی ؟ شکر کرو وہ روایتی ساسوں جیسی نہیں ہیں 

حد ہوگئ ۔۔ یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری ؟

روشن اس پہ چڑھ دوڑیں 

مجھے نہیں کرنی حارث سے شادی ۔۔ اس نے شک کیا مجھ پہ 

مجھ پہ ؟؟ یقین آئے گا آپکو امی ؟ 

اور آپ نے الگ پریشان کررکھا ہے مجھے اپنی راز بھری خاموشی سے 

وہ الٹا ان پہ چڑھی 

حارث سے کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ ؟ 

انہوں نے پیار سے اسے پچکارا

اپنی بات وہ گول کرگئیں 

" اسے لگتا ہے میں یزداں کو پسند کرنے لگی ہوں اسکی حویلی اور شان و شوکت پہ مرمٹی ہوں تبھی وہ یہ کررہا ہے عجیب 

میں تو بس اک انٹرویو لینے گئی تھی پتہ نہیں کیوں وہ بھائیوں جیسا لگا مجھے افففف امی اسکی شخصیت ۔۔۔

امی ؟؟؟

اسکا جوش یک دم جھاگ ہوا روشن سفید پڑتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہیں تھیں 

کیا کہا ؟ یزداں ؟ حویلی ؟

وہ طوفان کی زد میں تھی

صبیحہ کو انکی حالت غیر محسوس ہوئی ۔۔

وہ حویلی آتے ہی سیدھا عزا کے کمرے میں گیا 

وہ زخموں سے نڈھال دواؤں کے اثر میں سورہی تھی 

اسکی حالت بدتر ہوچکی تھی مگر یزداں کو خاص ترس نہیں آیا

ہیلو ؟ 

شاہنواز کام کہاں تک پہنچا ؟ 

بس ہورہا ہے سہیل نظر بند ہوچکا ہے فی الحال بیٹی کے لیے تگ و دو نہیں کررہا وہ بھی جانتا ہے کہ کس نے ہاتھ ڈالا ہے اس پہ 

ہممم ۔۔۔ 

مجھے پتہ ہے مجھے کیا کرنا ہے 

میری پھپو کے بدلے ہی اسے اسکی بیٹی ملے گی صرف وہی انکے نام و نشان سے واقف ہے 

وقت آگیا ہے کہ سہیل کو ٹریلر دکھایا جائے ۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا گریٹ ۔۔

شاہنواز اسکا دست راست تھا ۔

*************************

" مما ۔۔۔

بابا ۔۔۔ 

اسکی چیخوں بھری وڈیو انکے ہاتھوں میں موجود موبائل میں گونج رہی تھی

سونیا کی آہیں تیز ہورہیں تھیں جبکہ سہیل گنگ تھا ۔۔

ایسی کئی وڈیوز سے وہ آشنا تھا اسکے کام میں یہ سب عام تھا

اس وڈیو میں خاص چیز جو تھی وہ اسکی اپنی بیٹی ، اپنی عزت تھی ۔۔۔

اسکا سر جھک گیا لہو آنکھوں سے رواں ہونے کو بے تاب تھا عین اسی وقت اسے انجان نمبر سے کال آئی۔

************************

" امی آپکو کیا ہوا ہے ؟

اس نے پیلی پڑتی روشن کو سنبھالا 

تم کب اس حویلی گئیں ؟ وہاں یزداں تھا ؟ عارف شاہ کا پوتا ؟

وہ جاننے کو بے تاب تھیں 

امی میں آپکو بنا بتائے اسکا انٹرویو کرنے گئی تھی حارث کو پتہ تھی یہ بات

آپ یہ سب چھوڑیں اور مجھے بتائیں کیا تعلق ہے آپکا اس حویلی سے اور یزداں شاہ سے  ؟ 

صبیحہ کا تجسس عروج پر تھا ۔

************************

" وہ بابا کا بااعتماد دوست تھا اور شہر سے گاؤں ہماری حویلی آتا تھا

بابا کے ساتھ زمینوں سے واپسی پر اکثر کھانا ہمارے ساتھ کھاتا تھا

اسوقت ہماری اتنی حیثیت نہیں تھی چند زمینوں کے مالک تھے بس

بھابھیوں نے گھر سنبھال رکھا تھا

چھوٹی بھابھی کو مجھ سے پتہ نہیں کیا بیر تھا جبکہ بڑی بھابھی اور یزداں مجھے بہت چاہتے میں یزداں کو لے کے گاؤں میں گھوما کرتی بڑا بے فکر دور تھا میں نہیں جانتی تھی سہیل ملک میری تاک میں ہے 

وہ اکثر یزداں کو چاکلیٹس دیتا اور اسے ساتھ گھمانے لے جاتا میں اسوقت جوانی کی حدود میں داخل ہورہی تھی 

ایک دن دھوکے سے وہ مجھے اور یزداں کو اپنے ساتھ زمینوں پر لے گیا کہ ہمارے بابا وہاں بلا رہے ہیں اور پھر اس نے یزداں کے سامنے ہی مجھے بے ہوش کر کے اغواء کیا وہ بہت چھوٹا تھا مزاحمت نہ کرسکا اور میں بے ہوش اسکی گاڑی میں پڑی تھی چشمِ زدن میں وہ مجھے لے اڑا

صبیحہ دم سادھے ماں کو سنتی جارہی تھی جو آنسوؤں کے ساتھ آج اپنا دل کھول کے اسکے آگے رکھ رہیں تھیں 

میری آنکھ کھلی تو میں شاید کسی ٹرک میں تھی میرے جیسی کچھ اور بھی تھیں جو ہنوز بے ہوش تھیں یہ میری خوش قسمتی ہی تھی کہ بارڈر کراس کرنے سے پہلے ہی مجھے ہوش آگیا تھا ورنہ آج میں ناجانے کہاں ہوتی

میں کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلی 

اور دارلامان میں پناہ لے لی 

میرے پس منظر کا سن کے این جی او والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے دوبارہ گاؤں نہیں بھیجا جائے ورنہ مجھے قتل کروایا جاسکتا ہے بھابھی نے مجھے بدنام کر ڈالا تھا ہمارے ماحول میں لڑکی کا غائب ہونا بڑی بدنامی تھی

میں سولہ سال کی تھی اس حادثے نے کسی قابل نہ چھوڑا میں سارا دن چپ چاپ اک کمرے میں گزار دیتی اور روتی رہتی 

مجھے باقی لڑکیوں سے پتہ چلا کہ میں کراچی میں ہوں 

شاید سہیل نے میرا سودا کرنے کے لیے مجھے اغوا کیا تھا ہماری این جی او کے مالکان کی توسط سے ہی میری شادی تمھارے بابا سے ہوئی 

تمھارے بابا اور انکے والدین اللّٰہ کے کرم سے بہت نیک اور ہمدرد دل تھے میری پچھلی زندگی کو بھلا کر مجھے دل سے اپنایا میں نے بھی خود کو اللّٰہ کے حوالے کردیا پھر تم پیدا ہوگئیں اور زندگی نے مگن کردیا مگر آج تک وہ خوف میرے دل میں ہے

میرے اپنے کہاں ہیں ؟ کیسے ہیں ؟ میں کچھ نہیں جانتی اور اب واپسی کا کوئی امکان بھی نہیں 

وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کے رو پڑیں 

صبیحہ کے چہرے پہ ایک کے بعد ایک رنگ آتا جا رہا تھا

" آپکی آنکھیں کسی کی یاد دلا گئیں "

اسکے کانوں میں یزداں کا جملہ گونجا

کیا اسے آج تک امی یاد ہیں ؟

سہیل ملک ؟ عزا ملک کا اغواء ؟ 

کیا اسکے پیچھے یزداں شاہ ہے ؟ 

وہ کڑیاں ملا رہی تھی 

کیا میں امی کو بتادوں کہ انکے والد نہیں رہے ؟ 

صبیحہ نے روتی ہوئی ماں کو مزید رلانے کا ارادہ ترک کردیا 

نہیں ۔۔ پہلے مجھے یزداں شاہ سے رابطہ کرنا ہوگا 

اس نے دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی ماں کو انکے پیاروں سے ملوا کر رہے گی ۔

************************

اس نے کال ملا کر اسپیکر پہ ڈال دی وہ چاہتا تھا عزا آج اپنے باپ کی سچائی جان لے 

ہیلو ؟ 

سہیل ملک کی آواز محتاط تھی 

عزا باپ کی آواز سن کے تڑپ اٹھی مگر یزداں کے خوف سے چپ رہی 

وڈیو کیسی لگی ؟ 

یزداں نے مسکرا کر پوچھا 

تیرے گھر کی ساری عورتیں نہ اٹھوا لیں تو میرا نام بھی سہیل ملک نہیں 

وہ غراہٹ سے بولا 

عزا کے لیے یقین کرنا مشکل  ہوگیا یہ اسکا باپ تھا ؟ 

میرے گھر سے تو نے سالوں پہلے جو عورت اٹھائی تھی اسکا پتہ بتا بس

یزداں بھی طیش میں آگیا 

کون ہو تم ؟ 

سہیل کو مجبوراً جھکنا پڑا اسکی بیٹی کا معاملہ تھا وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا 

یزداں شاہ

عادف شاہ کا پوتا 

روشن آراء کا بھتیجا

مزید تعارف چاہیے ؟؟

اس نے سرد لہجے میں کہا

سہیل کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا

اتنے سالوں کی آگ آج بھی اسکے سینے میں دہک رہی تھی ؟

اس نے کئی لڑکیاں اسمگل کروائی تھیں مگر وہ سب انجان ہوتی تھیں عارف شاہ کی بیٹی اور انکے گھر والوں سے اسکی واقفیت تھی 

روشن کو اٹھواتے ہی وہ کراچی سے اسلام آباد موو کرگیا تھا 

اس دس سالہ بچے نے اسے بے ہوشی میں بھی پہچان لیا ہوگا اسی ڈر سے وہ رفو چکر ہوا

وہ بہت رویا تھا اپنے باپ چچا کے آگے کہ اسکی پھپھو کو زبردستی اٹھوایا گیا ہے مگر کسی نے اسکا یقین نہیں کیا آبگین کی ماں نے جی بھر کے نند کو بدنام کیا کہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ہے 

وہ بے بس اسوقت کچھ نہیں کرپایا مگر بدلے کی آگ نے اسے کبھی چین نہیں لینے دیا اور آج وہ کامیاب ہوا تھا

عزا منہ پھاڑے کبھی اسے کبھی فون کو دیکھتی جس پہ ااسکا باپ بلک رہا تھا 

میرا یقین کرو روشن کو اغوا ضرور کیا تھا مگر وہ فرار ہوگئی تھی خدا جانے کہاں گئی

سہیل نے اعتراف کیا 

جھوٹ مت بولو میں یقین نہیں کرنے والا

میری پھپھو کو لاؤ اور اپنی بیٹی کو لے جاؤ 

اس نے فوراً فون کاٹا 

وہ جارحانہ عزا کی طرف بڑھا

" اگر تمھارے باپ نے میری پھپھو کو صحیح سلامت میرے حوالے نہیں کیا تو میں تمھیں بھی کسی بازار میں بیچ آؤں گا ہر رات لٹو گی تم بھی "

وہ غرا رہا تھا عزا کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے 

تم میں اور میرے باپ میں کوئی فرق نہیں یزداں شاہ

وہ درد سے مسکرائی

تم نے بھی عورت پہ ہی ہاتھ ڈالا اسے ننگا کیا 

اتنے مضبوط تھے تو ڈائریکٹ میرے باپ سے لڑتے 

تم بھی اسکی طرح دلالی پہ اتر گئے

یزداں نے یک دم اسکا بھینچا ہوا چہرہ چھوڑا 

وہ کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا

عزا نے خاموشی سے سر تکیے میں دے دیا 

کیسی آگاہی تھی یہ ؟ کیا وہ دوبارہ اس آدمی کو باپ کہہ سکے گی انکے پاس جاسکے گی جنکی بدولت یہ سب سہنا پڑا اسے 

آگے کا تمام راستہ تاریک تھا 

************************

" الیکشن سر پر ہیں اور تم کن چکروں میں لگے ہو ؟ 

چچا اس پہ برس رہے تھے 

کس لڑکی کو اٹھا لائے ہو ؟ اگر گاؤں میں یہ بات پھیلی تو کتنی بدنامی ہوگی احساس ہے ؟ 

انہیں یزداں سے یہ امید نہیں تھی 

وہ انکے مرحوم بھائی کا بیٹا عزیز بھتیجا داماد سب تھا 

اور سیاسی کیریئر میں وہ اسے آگے دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ گاؤں کے لوگ اسے پسند کرتے تھے اس پہ اعتماد کرتے تھے 

پارٹی میں وہ مقبول تھا 

وہ سہیل ملک کی لڑکی ہے 

یزداں نے سر جھکا کہ کہا 

کیا ؟؟؟ وہ تڑپ گئے 

روشن اور سہیل کی بیٹی ؟ 

سالوں پہلے بھاگی بہن اچانک انکی یادداشت میں آئی وہ تو کب کا اس پہ فاتحہ پڑھ چکے تھے 

فار گاڈ سیک چچا 

پھپھو بھاگی نہیں تھیں انکا اغوا کیا تھا اس سہیل نے بیچ ڈالا ہے انہیں 

وہ سر ہاتھوں میں تھام کے صوفے پہ گرا 

تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟ 

انہیں یزداں کی بات سے جھٹکا لگا

میں بچپن سے یہی سمجھانے کی کوشش کررھا ہوں آپ سب کو کہ پھپھو بے قصور ہیں انکا اغوا ہوا تھا

سہیل نے ہم سب کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا

آپکی بیوی نے آگ لگا کر دادا کو مزید قبر میں اتار دیا

مجھے کچھ سالوں پہلے ہی سہیل اور اسکے بزنس کا پتہ چلا شاہنواز سے 

تب سے اسکی تاک میں تھا اب اسکی بیٹی ہمیں پھپھو تک پہنچائے گی 

وہ پرعزم تھا ۔۔۔

مگر فائدہ ؟ بھاگی ہوئی بہن کا واپس آنا میرے لیے صرف بدنامی ہے اور کچھ نہیں 

وہ اپنی جگہ سیخ پا ہوئے

کسی کو میری پھپھو کا یقین ہو نا ہو مجھے ہے اور اگر آپ نے انہیں قبول نہیں کیا تو میں انہیں سہارا دینے کے لیے تیار ہوں 

وہ فیصلہ سناتا اٹھ کھڑا ہوا 

*************************

" دن اسے صدیوں کے برابر لگ رہے تھے 

وہ یزداں سے رابطہ کرنے کی ہمت نہیں کرپارہی تھی 

ان لوگوں کا کیا ری ایکشن ہوگا ؟ کیا وہ ہمیں قبول کریں گے ؟ 

بہت سارے سوالات اسکے آگے ناچ رہے تھے وہ کئی خدشات کا شکار تھی

یزداں شاہ ایک جانا مانا نام تھا اس تک رسائی اتنی آسان نہیں تھی 

اور حارث جو اسکے سر پر سوار تھا وہ یہ سب برداشت کرلے گا ؟

اففف ۔۔ اس نے درد سے پھٹتا ہوا سر ہاتھوں میں گرایا 

*************************

" یزداں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی تھی انکی پارٹی نے کئی سیٹیں اسمبلی میں حاصل کرلیں تھیں وہ اپوزیشن سے جا ملے تھے 

اسکے دن رات کافی مصروف ہوگئے تھے 

مگر اسکے باوجود عزا اسکے حواسوں پہ سوار رہی وہ حویلی واپسی پر اس سے ملنے کا شدت سے متمنی تھا جسکی باتیں اسے اندر تک ہلا گئیں تھیں 

*************************

" برے وقت میں سب سے پہلے اپنے ساتھ چھوڑتے ہیں سہیل کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا

سونیا نے اسے بیٹی کے اغوا کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس سے علیحدگی اختیار کرلی

اسے تمام ڈیلرز کی طرف سے اور اوپر سے دھمکی آمیز کالز ملتی رہتیں کہ ان کا نام سامنے آنے پر وہ اسکی جان لے لیں گے 

وہ بیوی ، بیٹی دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا

اسکا بزنس ڈاؤن ہوچکا تھا وہ خسارے کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا

اسکے پاس سرینڈر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا 

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Raakh Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Raakh written by Zehra QasimRaakh by Zehra Qasim is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment