Pages

Monday, 7 October 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 16To 20

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 16To 20

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 16To 20

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

پورے دس منٹ لگا کر آخر کار زرلشتہ اس کے سامنے چاۓ کے کپ کے ساتھ حاظر تھی۔درمان کو لگا تھا اب وہ صبح ہی آۓ گی۔ جو جوس کے سمندر میں ڈوب سکتی ہے وہ چاۓ کے طوفان میں پھنس بھی سکتی ہے ۔اس لیے وہ چاۓ کا پلان کینسل کرچکا تھا۔زرلشتہ کو دیکھ کر وہ چونکا ضرور پر اپنی حالت پر قابو پاگیا۔

زرلشتہ نے کپ اس کی طرف بڑھایا جو شک کی نظروں سے اس کپ کو اور کپ دینے والی دونوں کو دیکھ رہا تھا۔کہ کیا کپ میں چاۓ ہی ہے یا کچھ اور ہے۔یہ بھی ممکن تھا کہ زرلشتہ اس جن سے ایک ہی بار جان چھڑوانے کے لیے چاۓ میں زہر ڈال کر لے آئ ہو۔جسے پیتے ہی درمان ابدی نیند سوجاۓ۔اور اس کی زندگی سے اس جن کا سایہ ہٹ جاۓ۔یہ سارے خیال اس کے ذہن میں زرلشتہ کا معصوم سا چہرہ دیکھتے ہوۓ آۓ۔اس کے سلوک کر بعد وہ اتنی چپ کیوں تھی۔بات تو سوچنے والی تھی۔

"زرلشتہ۔۔۔!!!! دیکھو اس وقت میں کوئ نئ ایجاد چیک کرکے اس ریسیپی کو بیسٹ کہہ کر نیٹ پر اس کی ترکیب اپلوڈ کرنے کے موڈ میں نہیں ہو۔نا میں کوئ یوٹیوبر ہوں نا تم کوئ ورلڈ فیمس شیف ہو جس کی ویڈیوز نۓ ریکارڈ قائم کردیں گی۔۔۔۔!!!!!

نا ہی یہاں ارد گرد کوئ کیمرے لگے ہوۓ ہیں جسے دیکھ کر مجھے اس کپ میں موجود مشروب کی تعریف کرنی ہے۔

 تو بھلائ اسی میں ہے کہ اگر تم نے مجھ سے دو دن پہلے جو ہوا اس کا بدلہ لینے کے لیے اس کپ میں چوہے مارنے والی دوا ڈالی ہے تو مجھے ابھی بتادو۔ کیونکہ اسے پینے سے میرے پیٹ کے چوہے تو نہیں مریں گے میں ہی سیدھا گھر سے قبرستان جاؤں گا۔چار کندھوں کے سہارے۔تم یقیناً بیوہ نہیں ہونا چاہو گی۔یا پھر ہونا چاہو گی۔پتہ نہیں۔۔!!!! اس لیے پلیز سچ سچ بتاؤ کیا ہے اس کپ میں۔کونسی نئ ایجاد ہے یہ۔۔!!!!"

کپ پکڑ کر اس نے کپ میں جھانکا جس میں موجود مشروب کی صورت تو چاۓ سے ہی مشابہت رکھتی تھی۔ رنگ بھی اچھا تھا اور بھاپ میں اڑتی الائچی کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکڑا کر اس بات کا برملا اعلان کررہی تھی کہ زرلشتہ زندگی میں پہلی بار خود کو سونپا گیا کام پورا کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔

یہ چاۓ اس نے بنائ ہے یا نہیں یہ بات میٹر نہیں کرتی۔اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ چاۓ مانگنے پر چاۓ ہی لے کر آئ ہے۔لیکن درمان کو اتنی سمجھداری کی امید اس بیوقوف لڑکی سے نہیں تھی۔تو شک تو ابھی بھی بنتا تھا۔

"چ۔چاۓ ہی ہے۔میں نے بنائ ہے۔ مجھے چاۓ بنانا آتی ہے۔اتنی بھی جاہل نہیں ہوں میں۔اور میں کیوں اس میں زہر ڈالوں گی۔مجھے کیا ضرورت پڑی ہے ایسا کرنے کی۔ انسانی جان اتنی بے وقعت نہیں ہوتی کہ اسے یونہی ختم کردیا جاۓ۔آپ کہتے ہیں تو میں پی لیتی ہوں۔تاکہ آپ کا شک دور ہو۔اگر اس میں زہر ہے تو میں ہی مروں گی۔ اور نہ ہوا تو آپ کا شک دور ہوجاۓ گا۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے اتنی محنت سے چاۓ بنائ تھی جو اس نے بس شوقیہ طور پر ہی اپنی مما سے سیکھی تھی۔ صرف یہ واحد کام تھا جو زرلشتہ کو کرنا آتا تھا۔اور اپنی یہ سپیشل چاۓ وہ اپنے بابا کو بناکر پلایا کرتی تھی۔

لیکن درمان کی باتیں اسے ہرٹ کررہی تھیں۔ اس نے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ سامنے کیا تاکہ وہ اسے چاۓ کا کپ واپس کردے۔ اتنی باتیں سنانے کی اسے کوئ ضرورت نہیں۔

"تم نے بنائ ہے۔۔!!!! انٹرسٹنگ ۔۔۔!!!!

میری بیوی نے پہلی بار میرے لیے کچھ بنایا ہے تو اب اسے ٹیسٹ کرنا تو بنتا ہے۔ اتنا تو میں جانتا ہوں تم مجھے کبھی مارو گی نہیں۔ اتنی شیطانی سوچ تمہارے اس چھوٹے سے دماغ میں آہی نہیں سکتی ۔۔!!"

درمان نے اس کی سنجیدگی نوٹ کی تو گہرا سانس خارج کرکے بظاہر خوش ہوکر پر اندر سے ڈرتے ہوۓ چاۓ کا سپ لیا۔ چاۓ پینے کی دیر تھی کہ وہ شاکڈ رہ گیا۔ 

اتنی اچھی چاۓ تو اس نے پوری زندگی میں نہیں پی تھی۔ صرف ایک گھونٹ پیتے ہی اس کا سردرد فورآ غائب ہوگیا۔

وہ دلکشی سے مسکرایا۔پھر اپنی مصیبت کو دیکھا جو آج خفا خفا سی کھڑی تھی۔پہلے تو وہ اسے روز کوئ نا کوئ الٹی سیدھی بات ویسے ہی سنادیتی تھی۔پر آج اس کا کام کی بات کے علاؤہ کچھ بھی بولنے کا ارادہ نہیں تھا۔

وہ اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا جو لب سی چکی تھی۔

وہیں زرلشتہ کی طبیعت اب بھی خراب تھی اور اسے اس شخص پر غصہ بھی تھا جس کی وجہ سے وہ بیمار ہوئ تھی۔ اس نے آج سوچ لیا تھا کہ کوئ الٹی سیدھی بات نہیں کرے گی۔

اس زبان سے اگر درمان کو چڑ ہے تو وہ اسے فضول میں استعمال کیا ہی نہیں کرے گی۔

"بیٹھو یہاں۔کھڑی کیوں ہو۔میں نے کونسا تمہیں سزا دی ہے۔۔!!!! "

کپ سائیڈ پر رکھ کر اس نے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا جو بغیر کچھ کہے حکم مان کر بیٹھ بھی گئ چہرہ ابھی بھی دوسری طرف ہی تھا۔جیسے اسے درمان کو دیکھنا بھی نہیں ہے۔

"ناراض ہو مجھ سے۔۔۔!!! "

اس نے نرمی سے پوچھا۔زرلشتہ کو اس سوال کی امید نہیں تھی۔اس نے جو ٹرے ہاتھ میں پکڑی تھی اس پر اس کی گرفت سخت ہوئ۔

"میں کیوں ناراض ہوں گی آپ سے۔۔!!! ناراض اپنوں سے ہوتے ہیں۔اور میں آپ کی ملازم ہوں آپ نے خود ہی تو کہا تھا۔میں ونی ہوں اور مجھے ایسے کوئ حق حاصل نہیں ہوتے۔ کہ ناراض ہوتی پھروں آپ سے۔۔!!!"

"تم ونی نہیں بیوی ہو میری۔درمان آفریدی کی بیوی۔۔!!!! تمہارے پاس مجھ سے ناراض ہونے کا پورا پورا حق ہے۔۔۔!!!"

درمان نے بھی ویسے ہی کہا۔تو اس کا غصہ بڑھا ۔کہ یہ بات اس شخص کو پہلے کیوں یاد نہیں آئ تھی۔

"مجھے غلط ٹریک پر نہ چلائیں۔جہاں کانٹوں کے سوا مجھے کچھ نہیں ملے گا۔میں ونی ہوں اور اب یہ بات اچھے سے جان چکی ہوں۔آپ بھی اب یہ بات ختم کریں۔ آپ نے جو پوچھنا تھا اگر پوچھ لیا ہو تو کیا میں اب جاکر سو جاؤں۔۔!!!"

اس نے بھی ویسی ہی اجنبیت دکھائ جیسی وہ روز دکھاتا تھا۔وہ چاہتا تھا زرلشتہ سیریس ہوجاۓ پر ابھی اس کی سنجیدگی اس شخص سے ہی برداشت نہیں ہورہی تھی ۔اپنے کہے گۓ لفظ ہی جب درمان نے واپس سنے  تو اسے دل میں چبھن محسوس ہوئ۔

"نہیں یہیں بیٹھی رہو۔یہ جو تمہارے دماغ میں نیا کیڑا آگیا ہے پہلے میں اسے نکال لوں پھر جاکر سوجانا۔اس سے پہلے یہاں سے اٹھنا بھی نہیں۔۔!!!"

درمان پل میں تھوڑا سا مزاج سخت کرگیا۔زرلشتہ پیار کی زبان بھی الٹے طریقے سے سمجھتی تھی۔اس لیے اسے تھوڑا سا سخت ہونا پڑا۔زرلشتہ نے چہرے کا رخ مزید موڑا۔جیسے یہاں سے بھاگنا چاہتی ہو۔

"مجھے عقل آگئ ہے درمان ۔۔!!!! اب میں اپنی اوقات نہیں بھولوں گی۔اس لیے بات کو مزید طول نہ دیں ۔بے فکر رہیں اب آپ کو مجھ پر غصہ کرنے کاموقع ملے گا ہی نہیں۔مجھے سونا ہے اب۔مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔۔!!!"

جس ٹرے کو وہ ہاتھ میں پکڑ کر دباتی جارہی تھی پہلے تو درمان نے وہ ٹرے اس کے ہاتھ سے واپس لی۔کہیں وہ اسے توڑ ہی نہ دیتی اور زخمی ہوجاتی۔

زرلشتہ ٹرے کے بعد اب ناراضگی کے چلتے اپنے ہاتھ آپس میں ہلکے سے رگڑنے لگی۔یہ وہ اس لیے کررہی تھی کہ کہیں رو نہ پڑے۔

 "صاف جھوٹ۔۔۔۔!!! مصیبت کو عقل نہیں آتی زرلشتہ درمان آفریدی۔۔۔!!!! عقل اس کو آتی ہے جس پر مصیبت آئ ہو۔اور مصیبت مجھ پر آئ ہے تو عقل بھی مجھے آنی چاہیے۔۔!!!

اور تم کب سے اتنی سیدھی ہوگئ کہ میں نے جو بھی کہا تم نے فورا مان لیا ۔۔!!! میں نے کہا تم ملازمہ ہو اور تم نے اسے پتھر پر لکیر سمجھ لیا۔ انٹرسٹنگ۔کبھی کوئ اچھی بات بھی مان لیا کرو۔تم بھی ساری الٹی باتیں ہی مانتی ہو ۔!!!"

وہ بھی اسے تنگ کرنے کا پورا پورا ارادہ کر چکا تھا۔زرلشتہ نے منہ بنایا کہ یہ بندہ اب چاہتا کیا ہے تو جواب تھا یہ بندہ اب اسے چاہتا ہے ۔وہ جان بوجھ کر اسے کچھ الٹا بولنے پر اکسا رہا تھا۔جو وہ بولنا نہیں چاہتی تھی۔

"میں مصیبت نہیں ہوں۔کیوں آپ مجھے تنگ کررہے ہیں ابھی مجھ سے کوئ غلطی ہوگئ تو پھر سزا دیں گے۔ماریں گے ،چیخیں گے ، بےعزتی کریں گے۔۔۔!!!

مجھے اب ٹیرس پر نہیں جانا۔وہاں بہت سردی ہوتی ہے۔سانس بھی لینے نہیں ہوتا۔ آپ تو سکون سے یہاں بیٹھے رہیں گے تکلیف تو مجھے ہو گی نا۔۔۔!!!!"

منہ بناکر کہتے آخر میں اس کی آواز نم ہوگئ۔آنکھوں سے آنسو نکل کر بہنے کو بے چین تھے۔درمان نے اس کا شکوہ سنا تو خود کو ایک بار پھر کوسا۔ اب اسے وہ کیسے بتاتا کہ تکلیف میں تو وہ بھی ہے۔دو دن سے وہ جو بھی کرنے لگتا ہے اسے ہر جگہ وہی نظر آتی ہے۔اس کے آنسو اس کا رونا اسے چین نہیں لینے دے رہا۔

"آۓ ایم سوری زرلشتہ۔۔۔!!!! میں غصے میں تھا۔ اس لیے وہ سب کرگیا ۔میں تمہیں ہرٹ نہیں۔ کرنا چاہتا تھا پر پھر بھی تمہاری تکلیف کی وجہ بن گیا۔ معاف کردوں یار۔۔۔!!! پلیز اس طرف دیکھو تو سہی۔۔!!!"

درمان معافی مانگ ہی گیا۔مشکل تھا زندگی میں پہلی بار کسی سے معافی مانگنا پر ضروری بھی تھا۔ زرلشتہ نے اب کی بار ہمت کرکے اس شخص کے چہرے کی طرف دیکھ ہی لیا۔

آنسوؤں سے بھری سرمئ آنکھیں درمان کی نیلی ملامت کرتی آنکھوں میں گاڑھ کر وہ طنزیہ مسکرائ۔ وہ کسی پر طنز کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔پر کر گئ۔کیا کچھ نہ تھا اس کی اس مسکراہٹ میں طنز،تکلیف،شکوہ، اداسی ،ویرانی کہ درمان ان آنکھوں کے کرب میں کہیں کھوگیا۔ یہ لڑکی جب یہاں آئ تھی تب شاید یہ تکلیف کے معنی بھی نہیں جانتی تھی۔پر آج تو جیسے درد اس کا دل بھی زخمی کرچکا تھا۔

"میں نے بھی کہا تھا مجھ سے غلطی ہوگئ۔مجھے معاف کردیں۔میں باہر کیسے رہوں گی۔آپ نے سنی تھی میری بات۔نہیں نا۔۔۔!!!  آپ نے تو بس اپنی چلائ تھی۔ اور مجھے کمرے سے ہی باہر نکال دیا۔شرٹس ہی تھیں نا جو خراب ہوئ تھیں۔کسی کی جان تو نہیں لی تھی نا کہ یہ نقصان اب پورا ہی نہ ہوتا۔

مت بھولیں آپ نے مجھے مرنے کے لیے باہر چھوڑ دیا تھا۔ کتنے گھنٹے میں اپنی قسمت پر روتی رہی۔موت مانگتی رہی۔صرف آپ کی وجہ سے۔میں تو حیران ہوں کہ آپ نے مجھے بچایا کیوں۔مرنے دیتے نا۔آپ کی جان چھوٹ جاتی مجھ سے۔!!!!"

بغیر پلک جھپکاۓ زرلشتہ نے سختی سے ایک ایک لفظ چبا کر کہا اور اس کی طرف دائیں ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کیا۔جو لب بھینچ گیا۔وہ چاہتا تھا وہ دل کا غبار نکالے ۔جو بھی کہنا چاہتی ہے کہے۔آنسو لکیروں کی صورت میں اس کی رخساروں پر بہتے گۓ۔

جس درمان کے آگے کوی بولتا نہیں تھا وہ یہاں بیٹھا اپنی بیوی سے معافی مانگ کر سزا کا منتظر تھا۔محبت بندے کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ۔

درمان نے وہی اشارہ کرتا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑا۔اور اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔

"کیوں مرنے دیتا۔۔!!! پھر میرا کیا ہوتا۔پہلی بندی ہو تم جو میری ٹکڑ کی ہو۔تمہیں آسانی سے میں مرنے نہیں دوں گا۔۔۔!!!!"

اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ اسے اندازا ہوا اسے اب بھی بحار ہے۔وہ ٹھیک ہوئ ہی نہیں تھی اب تک۔وہ تھوڑا سا پریشان ہوا۔

وہیں زرلشتہ کا غصہ بڑھا۔

"تو کیا تڑپا تڑپا کر ماریں گے۔۔۔!!!! مسٹر درمان آفریدی ظلم بھی اتنا کریں جتنا بوجھ آپ کا ضمیر سہہ سکے ۔۔!!! مجھے مار کر چین سے آپ بھی نہیں بیٹھیں گے۔میں بدروح بن کر آپ کا پیچھا قیامت تک کروں گی۔

آپ کی دوسری شادی بھی نہیں ہونے دوں گی۔کوئ لڑکی آپ کے آس پاس بھٹکی تو اسے گنجا کردوں گی۔اسے کیا میں تو آپ کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑوں گی۔جنت میں بھی آپ کو میں ہی ملوں گی۔کسی حور کو آپ کے پاس بھی نہیں آنے دوں گی۔ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔۔۔!!!!

اپ پٹھان ہیں تو میں بھی پٹھان ہی ہوں۔ جس خون پر آپ کو فخر ہے وہی خون میرے اندر بھی پایا جاتا ہے۔جسے جلا جلا کر آپ ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔مسٹر درمان آفریدی مجھ سے جو پنگا لیا ہے نا آپ نے اس کے نتائج بہت برے ہیں۔۔!!!"

سب بھلا کر اپنے اندر کا غبار اس نے نکال دیا۔یہ دھمکیاں خوفناک تھیں۔وہ تاقیامت اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اس نے اعلان کردیا تھا۔

اس ڈرپوک بلی میں اتنی ہمت بھی درمان کی وجہ سے ہی آئ تھی اسے پتہ تھا اب وہ کچھ بھی کردے درمان اسے آج تو کچھ نہیں کہے گا۔

اتنا غصہ۔۔!!! میری پٹھانی آرام سے یار میں کہیں ڈر ہی نہ جاؤں۔تم نے تو قیامت تک کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔یار یہ جنت میں بھی تم مجھ معصوم کے پیچھے آجاؤ گی یہ کچھ زیادہ ظلم نہیں ہوجاۓ گا۔مطلب وہاں تو مجھے اکیلا رہنے دینا!!!"

اس نے لب دبا کر مسکراہٹ روکی۔زرلشتہ کا غصہ دیکھ کر اس کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔

یہ زرلشتہ کا نیا روپ تھا۔جو خاصہ اٹریکٹو تھا اس کے لیے ۔

"جنت ہو یا جہنم...!!!!! زمین ہو یا مریح ۔۔!!!! زندگی ہو یا موت ۔۔۔!!!! زرلشتہ آپ سے اپنے ایک ایک آنسو کا بدلہ ضرور لے گی۔ مجھے سکون نہیں ملا تو سکون میں اب آپ بھی نہیں رہیں گے۔ آپ کو تو اللہ اب سیدھا جہنم میں پھینکے گا۔میرا دل دکھانے کے جرم میں۔۔!!!"

اس کی معصومیت پر کڑھتے ہوۓ زرلشتہ نے فورا جنت کا ارادہ کینسل کیا۔اور جہنم کی بات شروع کردی ۔اس بندے کو وہ جنت بھی نہ جانے دیتی۔وہ کوشش تو چیخنے کی کر رہی تھی پر آواز آنسوؤں میں دب رہی تھی ۔

 "تم تو غصہ بھی کرتی ہو۔چیختی بھی ہو۔میرے ساتھ رہ رہ کر میرے جیسی جلاد بنتی جارہی ہو ۔مجھے لگا تھا تمہیں بس کام خراب کرنا آتا ہے۔پر مسز درمان تو مسٹر درمان کو بھی ڈانٹ سکتی ہیں۔"

اس کے دبے ہوۓ غصے کا لطف اٹھاتے اس نے ڈرنے کی ایکٹنگ بھی کی۔ مقصد بس اسے بتانا تھا کہ اس کا غصہ کام کررہا ہے۔پھر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کیا۔اس کی پیشانی پر سلوٹیں ابھریں ۔بخار تیز ہورہا تھا۔

"دور رہیں مجھ سے اور ہاتھ چھوڑیں میرا۔۔۔!!!! مجھے جب آپ سے بات کرنی ہی نہیں تو کیوں جونک کی طرح چمٹ رہے ہیں۔ جائیں جا کر کہیں اور اپنا زہر پھیلائیں۔ مجھ بدتمیز کو کھلونا سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔جو آپ کا غصہ بھی برداشت کرے اور پھر آپ کو معاف بھی کرے۔چھوڑیں مجھے۔۔۔!!!!"

اس نے درمان کے ہاتھ میں قید اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا اور رونے لگی۔درمان نے گہرا سانس خارج  کیا یہ اس سے بہت زیادہ بدگمان ہوچکی تھی۔ایسی سیریس زرلشتہ اسے نہیں چاہیے تھی۔ یہ تو بس روتی ہی جارہی تھی۔

"ریلیکس۔۔۔!!!!! رونے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔پاگل لڑکی رونے کی بجاۓ تم مجھ پر غصہ اتار لو۔ یہ سپیشل آفر صرف تمہارے لیے ہے۔ جو سزا دو گی مجھے منظور ہوگی ۔

بدلے میں مجھے معاف کر دینا ۔تو ڈیل ڈن کرو ۔ورنہ صبح تک ایسے ہی یہاں بیٹھی رہو۔جتنی فضول باتیں تم کرتی ہو اتنی نہ سہی پر اس کا کوئ دس سے پندرہ فیصد میں بھی بول سکتا ہوں۔پھر تم سے ہی برداشت نہیں ہوگا ۔اور تم مزید غصہ کرو گی ۔۔!!!"

اس نے دھمکی دے کر سزا مانگی تو زرلشتہ کا منہ حیرت سے کھلا۔یہ معافی مانگنے کا کیا نیا انداز مارکیٹ میں لاؤنچ ہوا تھا۔اوپر سے صبح تک یہیں بیٹھ کر درمان کی باتیں سننے کا خیال ہی غصہ دلانے کو کافی تھا۔وہ تو بس اسے مزید ٹارچر کرتا ۔

"سزا چاہیے نا آپ کو تو جائیں جاکر اسی ٹیرس پر کھڑے ہو جائیں۔جہاں آپ نے مجھے بند کیا تھا۔جب تک میں نہ کہوں کمرے میں واپس نہ آئیے گا۔اگر جم بھی جائیں تب بھی واپس نہ آئیے گا۔اگر منظور ہے آپ کو تو جائیں۔معافی بھی مل جاۓ گی۔۔!!!"

اپنا ہاتھ کھینچ کر آزاد کرواتے ہوۓ زرلشتہ نے ویسی ہی سزا سنادی۔درمان تو سزا ہی چاہتا تھا اگر وہ اسے ٹیرس سے کودنے کا کہتی تو وہ بغیر سوچے سمجھے کود جاتا ۔اپنی شرمندگی کو ختم کرنے کے لیے اس سے جو بن سکتا تھا وہ ضرور کرتا۔

"چلا جاتا ہوں میں ۔اور تم اٹھ کر میڈیسن لو۔حال دیکھو اپنا۔چہرہ بھی زرد پڑرہا ہے۔ ۔۔!!!"

وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سزا پر لبیک کہتا اٹھا۔پر اسے تاکید کرنا نہ بھولا۔

"نہیں کھانی مجھے۔بس آپ جائیں یہاں سے ۔۔!!! خود مارتے ہیں پھر دوا بھی خود ہی کھلاتے ہیں۔"

منہ پھیر کر اس نے اسے جانے کو کہا۔جو سیدھا ٹیرس کی طرف چلا گیا۔

زرلشتہ نے بس غصے میں کہا تھا اسے لگا تھا وہ منع کردے گا۔پر وہ تو جاچکا تھا۔

"جب دس منٹ وہاں کھڑے ہوں گے تو خود ہی سزا والا ارادہ کینسل کردیں گے۔میں بھی انہیں واپس نہیں بلاؤں گی۔وہیں رہیں۔۔۔!!!"

ناراضگی کو قائم رکھنے کا ارادہ کرتے ہوۓ زرلشتہ نے سر جھٹک دیا کہ خود ہی وہ تھک کر واپس آجاۓ گا۔سردی اس پہاڑوں کی آغوش میں واقع علاقے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہتی تھی۔اور آج بھی برف باری کا پورا پورا امکان تھا۔

یعنی یا تو درمان کو سزا ملتی یا اس کی قلفی بنتی۔ کیونکہ زرلشتہ تو اسے واپس لانا چاہتی ہی نہیں تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان سیدھا ٹیرس پر آیا جہاں آتے ہی سرد ہوا اس کے اوسان جھنجھوڑ گئ تھی۔اسے اس لمحے اپنا خیال نہیں آیا تھا بس شرمندگی بڑھتی گئ تھی۔اس کی بیوی میں جان ہی کتنی تھی جو وہ اس سردی میں سروائیو کرتی رہی تھی۔

"درمان ۔۔۔!!!! کب تم اپنے اس غصے پر قابو پانا سیکھو گے۔تمہارے غصے کا شکار اب دوبارہ وہ لڑکی ہوئ تو تم کیا کرو گے۔۔۔!!!!"

سرد ہوا میں سانس کھینچتے ہوۓ اس نے سیاہ چادر میں لپٹے آسمان کو دیکھا ۔ہر سو سناٹا تھا۔اس کا غصہ مستقبل میں بھی اسے ایسی ہی تکلیفوں سے  دوچار ضرور کرتا ۔کیونکہ بری عادتیں جلدی نہیں چھوٹتیں ۔

ایک نرم سی روئ جیسی برف اسی لمحے ہوا کے دوش پر لہراتی ہوئی اس کی آنکھوں کے سامنے آئ۔اس کے خلاف تو یہ ہوائیں بھی ہوچکی تھیں اسے یہاں آۓ ایک منٹ نہیں ہوا تھا اور برف باری شروع بھی ہوگئ تھی ۔

"درمان اب تم چار کندھوں پر اس علاقے سے نکلو گے۔۔۔!!!! اس کی دفعہ تو گھنٹوں بعد برف باری شروع ہوئ تھی میری دفعہ تو ایک منٹ میں ہی شروع ہوگئ۔۔!!!!

وہ دور الگ تھے جب بادشاہ اپنی ملکہ کے لیے محل تعمیر کروایا کرتے تھے۔اس کی یاد میں اس کے نام پر عمارتیں بنوایا کرتے تھے۔مجھ بیچارے کو تو محبت کے آغاز میں ہی سنو مین بنایا جارہا ہے۔ اگر میں عشق تک پہنچ گیا تو جنگلوں میں الٹا لٹکایا جاؤں گا۔۔!!!"

دونوں ہاتھ آپس میں رگڑ کر وہ بھی زرلشتہ کا شوہر ہونے کا پورا پورا ثبوت دے رہا تھا۔دونوں ایک دوسرے کے رنگ میں رنگتے جارہے تھے۔درمان کا غصہ زرلشتہ کے لہجے میں آرہا تھا تو وہیں درمان تو اس کی معصومیت میں بہتا جارہا تھا۔

محبت اسی کا تو نام ہے۔۔۔!!!! یہ آپ کو آپ کا بھی نہیں رہنے دیتی۔کسی اور کا بنادیتی ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

پورے تیس منٹ بعد زرلشتہ تنگ آکر بیڈ سے اٹھ گئ۔اس نے تو بس ویسے ہی کہا تھا اور درمان تو وہاں جاکر جیسے ٹیرس سے ہی کود گیا تھا۔جیسے وہ گیا تھا اسے یقین تھا وہ ایک ہی جگہ جم کر کھڑا ہوگا۔

"یا اللہ۔۔۔!!!!! میری زندگی میں سکون ہے ہی نہیں۔یہ اور ان کی ضد۔۔۔!!!! کسی دن میں ہی پاگل ہوجاؤں گی۔۔۔!!!"

وہ ٹیرس کے دروازے کے پاس آئ۔اور جھنجھلا کر کہا۔دل تو اس کا چاہا کہ خود ہی درمان کو واپس لے آۓ پر وہ اس بندے کے سامنے جھکنا نہیں چاہتی تھی۔

"خود ہی آجائیں گے۔۔۔!!!! میں نہیں واپس بلاؤں گی۔۔۔!!!"

وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔چہرے پر سختی آئ۔

"مانا وہ برے ہیں پر شوہر تو ہیں تمہارے۔۔!!! تم میں انا کب سے آگئ۔تم ایسی تو نہیں ہو۔انہوں نے معافی مانگی تھی تم سے۔۔۔!!!!

ایسا تو مت کرو ان کے ساتھ۔۔۔!!!"

 زرلشتہ کے دل سے آواز آئ تو سب جھٹک کر وہ اب درمان کے پاس جانے لگی ۔جو ہونا تھا دیکھی جاتی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان تو اب تقریبآ جمنے والا تھا۔آدھے گھنٹے سے وہ اس ہلکی ہلکی برف باری میں کھڑا زرلشتہ کا ہی انتظار کررہا تھا جو آنے کو تیار تھی ہی نہیں۔

"درمان تمہارا اب جنازہ ہی اٹھے گا۔۔۔!!!! ایسا کرتا ہوں یہاں سے نیچے چھلانگ لگا جاتا ہوں۔اگر بچ گیا تو نیچے سے اندر چلا جاؤں گا اگر نہ بچا تو خیر ہی ہے یہاں کھڑے رہ کر میں نے کونسا زندہ رہ جانا ہے۔۔۔!!!!"

اس نے نیچے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی تو برف کی اس سفید چادر میں اسے کچھ بھی دکھائ نہ دیا۔ 

"نہیں یہ چیٹنگ ہوگی۔۔۔!!!! جب تک وہ معاف نہیں کرے گی میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔اگر مر بھی گیا تو تاریخ کے اوراق میں درمان آفریدی کا بھی ذکر ہوگا ہو روٹھی بیوی کو منانے کی خاطر ایکسٹریم ویدر میں جم کر اپنی جان دے گیا۔پر اپنے قول سے ہٹا نہیں۔۔!!!"

بھاگنے کا پلان اس نے کینسل کیا آنکھیں اس کی اب بند ہورہی تھیں۔پھیپھڑے بھی اس ٹھندی ہوا کی وجہ سے جم رہے تھے۔ اس کے ہاتھ نیلے ہورہے تھے۔بس درمان دنیا چھوڑنے والا تھا۔

"درمان آجائیں واپس۔۔۔!!! میں نے معاف کیا آپ کو۔۔!!!! یہاں بہت سردی ہے۔۔!!!"

زرلشتہ جب ہاہر آئ تو اسے جو منظر دیکھنے کو ملا وہ ساکت رہ گئ۔

درمان کے بالوں تک میں برف اٹکی ہوئی تھی وہ بت بنا ٹیرس سے نیچے جھانک رہا تھا۔سردی کل کی نسبت آج دگنی تھی۔وہ فورآ آگے بڑھی اور فکر سے کہا۔پر درمان کے کانوں میں یہ آواز پڑی ہی نہیں تھی۔

"درمان۔۔۔۔۔۔!!!!"

اس نے اس کا بازو جھنجھوڑ کر اسے اس کے خیالوں سے نکالا جو ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔

"اندر چلیں مرنا ہے کیا آپ نے۔۔۔!!!! آپ کی مورے مجھے اسی ٹیرس پر الٹا لٹکا دیں گی۔چلیں یہاں سے۔۔۔!!!!"

اس کا بازو پکڑ کر اسے زبردستی اندر لے جانے کی اس نے کوشش کی۔جسے بالکل بھی انداز نہیں تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔اسے آواز تو آئ پر سمجھ کچھ نہ آئ۔۔۔!!!

یہ رانجھا بننے کے پہلے قدم پر ہی جم چکا تھا۔۔۔!!! آگے ناجانے بیچارے کا کیا بنتا۔

اسے اپنے ساتھ گھسیٹ کر کمرے میں لاکر زرلشتہ نے اسے وہیں کھڑا کیا اور دروازہ لاک کرکے واپس پلٹی۔اتنی سی سردی اسے بھی ٹھٹھرنے پر مجبور کرگئی تھی۔

"بیٹھیں یہاں۔۔۔۔!!!! آواز آرہی ہے آپ کو میری یا نہیں آرہی۔۔۔!!!!! درمان میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔!!!"

اس کا بازو پکڑ کر اس نے اسے بیڈ کی طرف بڑھایا۔وہ بس اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اس نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا ۔جو پلک بھی نہیں جھپک رہا تھا۔

"کون ہو تم۔۔۔!!!"

 بامشکل اپنی آنکھیں کھول کر درمان نے اس کے سر پر نیا دھماکہ کیا۔جس کے ہوش ہے اڑ گۓ۔

"میں آپ کی بیوی ہوں سرتاج۔۔۔!!!! زرلشتہ۔۔۔!!! کیا یاد داشت چلی گئ آپ کی۔پر برف میں کھڑے ہونے سے یادداشت تو نہیں جاتی پھر آپ کی کیسے گئ۔ شاید آپ کے دماغ کی نسیں جم گئ ہوں اور آپ مجھے بھول گۓ ہوں۔۔!!! اب اس بات پر میں خوش ہوں یا فکر مند ہوں کہ میرا ظالم شوہر مجھے بھول گیا۔۔۔!!!"

اس کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے درمان کے ساتھ جو ہوا اس کا اندازا لگایا۔درمان معصومیت کی اعلی مثال بنا بیٹھا تھا۔

"تم میری بیوی کیسے ہوسکتی ہو۔میری بیوی اتنی چھوٹی نہیں تھی۔اور اگر تم میری بیوی ہو تو بتاؤ میرے وہ دونوں شہزادے کہاں ہیں۔بابا کے پاس کیوں نہیں ہیں۔۔۔!!!"

درمان اٹھنے لگا پھر سر چکرایا تو واپس بیٹھ گیا۔زرلشتہ حیران ہوئ کہ یہ دو شہزادے اور دوسری بیوی کہاں سے آگئ ان کی کہانی میں۔پھر ذہن میں ثناء کا خیال آیا اور شعیب ملک کا بھی۔۔!!!

کہیں وہ ثانیہ مرزا تو نہیں بن گئ۔

"سرتاج آپ جیسے جن ہو میں ہی برداشت کررہی ہوں۔یہی بہت بڑی بات ہے۔زیادہ بھولے نہ بنیں ورنہ یہ سوتن والی بات سن کر میں نے آپ کی یادداشت جانے کا بھی لحاظ نہیں کرنا۔

اٹھیں اور جاکر ٹیرس پر جمیں۔۔!!!

اٹھیں۔۔۔!!!"

اس نے غصے سے کہا پھر زور لگا کر اسے واپس کھڑا کرنے لگی۔جو بوکھلا گیا ۔

"او مصیبت۔۔۔!!! میں مزاق کررہا تھا۔مجھے اب واپس باہر مت پھینک آنا ۔بہت سردی ہے وہاں۔بس اب معافی دو اور بات ختم کرو۔"

اسے وہیں بٹھاتے اس بندے نے ہتھیار ڈالے۔تو زرلشتہ کی جان میں جان آئ۔سوتن والی بات تو وہ خواب میں بھی برداشت نہ کرتی۔۔۔!!!!

وہیں درمان تو اب اپنا بند ہوتا سانس بحال کررہا تھا۔موت کو وہ بھی قریب سے دیکھ کر آیا تھا۔اب دونوں میاں بیوی برابری پر آچکے تھے۔

"ٹھیک ہے کردیا معاف۔پر وعدہ کریں آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔۔۔!!!"

وہ وہاں سے اٹھ گئ۔نیند تو اب اسے بھی آرہی تھی اس لیے اس نے ہاتھ آگے کیا کہ وہ اب وعدہ کرے تاکہ وہ جاۓ پر یہ وعدے والی بات سن کر اس نے معصوم سی صورت بنائ۔

"وعدہ ٹوٹ جاۓ گا ۔۔!!! میں نہیں کررہا وعدہ۔۔!!!"

"مطلب آپ مجھے پھر سے ایسی ہی تکلیف دیں گے۔۔!!!"

اس نے صدمے سے کہا۔

"کوشش کرسکتا ہوں گارنٹی نہیں دے سکتا کہ میں مستقبل میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔دیکھو بری عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں وقت لگتا ہے۔پر یہ وعدہ کرتا ہوں اگر میں نے ایسا کچھ بھی کیا تو پھر جو سزا تم دو گئ مانوں گا۔۔۔!!!! اور خود کو بھی اتنی ہی تکلیف دوں گا۔محبت نہ سہی تم بیوی تو ہو میری۔۔!!!"

اس نے سنجیدگی سے کہا۔تو زرلشتہ نے تھکا ہوا سانس خارج کیا کہ یہ بندہ نہیں سدھرنے والا۔درمان کو اس لمحے اپنے کوٹ کی پاکٹ میں رکھا پھول اور چاکلیٹ یاد آئ ۔!!!

تو لمحے کی دیری کیے بغیر اس نے وہ چاکلیٹ اور پھول نکالا ۔ہاتھ اس کے سردی سے کانپ رہے تھے۔اور زرلشتہ بخار کی وجہ سے مشکل سے کھڑی تھی۔

پھول کی حالت تھوڑی خراب تھی پر چاکلیٹ سلامت تھی۔زرلشتہ کو تجسس ہوا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔

درمان نے وہ پھول اس کی طرف بڑھایا ۔

"تو میں معافی پکی سمجھوں ...!!! مصیبت۔۔!!!"

زرلشتہ پھول دیکھ کر مسکرائی اس کا شوہر بھی نمونہ تھا۔پورا کا پورا ۔۔۔!!!!! اسے اس بندے سے سوکھۓ ہوۓ پھول کی پتی کی امید نہیں تھی اور یہ صحیح والا پھول دے رہا تھا۔

"جن جی ۔۔۔!!!! آپ کے ظلم کے خوف سے میں آپ کو معاف کررہی ہوں۔اب بتائیں آپ کو پگھلانے کے لیے چاۓ لاؤں یا گرم پانی کی بالٹی آپ پر انڈیل دوں۔۔!!"

پھول پکڑ کر اس نے شرارت سے کہا جواب میں اس نے وہ چاکلیٹ بھی اس کی طرف بڑھائ۔

اس نے وہ بھی پکڑ لی۔

"نہیں میں اب سونے لگا ہوں۔۔!!!!تم بھی جاکر سوجاؤ۔۔۔!!! اور میں نے تم سے معافی مانگی اور سزا بھی بھگتی یہ بات بھول جانا ۔۔۔!!!!

درمان کسی انسان کے سامنے نہیں جھکتا ۔پر یہاں کیوں جھکا ۔۔؟؟؟ مجھے نہیں پتا۔۔!!!

اب طعنے نہ دینا اس بات کے۔۔!! تم طعنے دینے والوں میں سے ہوتو نہیں۔۔!!!

پر پھر بھی بھول جانا یہ سب۔۔!!!"

وہ اوندھے منہ بیڈ پر گرا اور بڑبڑاتا ہوا وہیں سوگیا۔

جو درمان آج زرلشتہ کو دیکھنے کو ملا تھا وہ اس کے دل میں بس گیا تھا۔

"اس پر کمفرٹر ڈال کر وہ بھی صوفے پر بیٹھ گئ اور پھول دیکھنے لگی۔

"میں تو یاد رکھوں گی۔۔ !!! طعنے نہیں دوں گی۔پر آپ کا یہ روپ بھلانے والا نہیں ہے ۔۔۔!!!"

مسکرا کر اس نے وہ پھول اور چاکلیٹ صوفے کے نیچے رکھے چاکلیٹ کے ڈبے میں سنبھال کر رکھ دیں ۔

اور خود بھی سوگئ۔

درمان سدھر تو نہیں سکتا تھا۔پر ظالم بھی بن کر نہیں رہ سکتا تھا وہ جان گئ تھی۔"مجھے فدیان کی لوکیشن اور اسے اغواہ کروانے والوں کے بارے میں ساری معلومات مل گئ ہے۔جلد میں اپنی بے گناہی اب ثابت کردوں گا۔"

دیار نے ایک عزم سے کہا۔وہ اس وقت شہر میں موجود اپنے فلیٹ میں ہی تھا ۔کال پر وہ اپنے خاص آدمی نوریز خان سے بات کررہا تھا۔جس پر اسے سب سے زیادہ یقین تھا نوریز نے بات سنی تو تابعداری سے گویا ہوا۔

"میرے لیے کیا حکم ہے لالہ۔۔۔!!!"

اسے حیرت ضرور ہوئ کہ آخر دیار کو فدیان کی لوکیشن کیسے اور کس سے ملی کیونکہ وہ لوگ تو ہر بار ناکام ہی لوٹے تھے۔پھر اسے یاد آیا وہ دیار درانی ہے ۔اپنی پر آۓ تو کچھ بھی کر گزرے گا۔

دیار یک طرفہ مسکرایا۔اور قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔اپنے پلین پر عمل کرنا وہ شروع کرچکا تھا۔ سرمئ آنکھیں کسی غیر مرعی نقطے کو گھور رہی تھیں۔

"تمام آدمیوں تک یہ خبر پہنچادو کہ وہ سب اب الرٹ رہیں۔اور اپنی تیاری مکمل رکھیں ۔ہم کسی بھی وقت اسے بازیاب کروانے کے لیے نکل جائیں گے۔اور اس بات کا بھی دھیان رکھنا کہ یہ خبر صرف ہمارے آدمیوں تک ہی محدود رہے۔کسی باہر والے کو اس خبر کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔میں کوئ رسک نہیں لے سکتا۔۔!!!"

وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا۔یہ بات کہتے اس کی پیشانی پر ہلکی سی سلوٹیں ابھریں۔اسے جرگے میں ہوئ اپنی کردار کشی سے لے کر خود پر لگے تمام انگنت الزامات یاد آۓ تھے۔

مسکراہٹ کہیں کھو گئ اور چہرے پر سنجیدگی عود آئ۔

نوریز نے بے یقینی سے اپنے فون کو گھورا کہ کیا وہ دیار سے ہی بات کررہا ہے۔۔۔!!!!

یہ دیار کو اچانک کیا ہوگیا کہ وہ اتنی نازک خبر اپنے تمام آدمیوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔یہ جانتے بوجھتے کہ غدار ان کے آدمیوں میں سے ہی کوئ ہے۔پر وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔۔؟؟؟

وہ جان نہ سکا۔اصولا تو انہیں بس بھروسہ مند آدمیوں کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے کر اس جگہ کا محاصرہ خاموشی سے کرنا چاہیے۔تاکہ کسی قسم کی کوئ بھول چوک نہ ہو۔

"لالہ۔۔۔!!!! کیا سب کو یہ بات بتانا مناسب ہوگا ۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ایسے تو خبر پھیل جاۓ گی۔پہلے مشکل سے آپ اس لوکیشن کا پتہ لگواسکے ہیں۔اگر غدار ہمارے وفاداروں میں سے ہی کوئ ہوا تو آپ جانتے ہیں وہ ان کی لوکیشن ہی بدل دیں گے۔باقی جو آپ کہیں گے میں ماننے کو تیار ہوں۔پر ایک بار پھر سوچ لیں ۔۔۔!!!"

نوریز نے وفادار ہونے کا ثبوت دیا۔دیار کو امید تھی کہ وہ یہی کہے گا۔نوریز اسے روکنا چاہتا تھا تاکہ اس کا کوئ مزید نقصان نہ ہو۔ 

"نوریز۔۔۔!!!! مجھے اپنے آدمیوں کی وفاداری پر ہوا یقین ہے۔ میں ان پر شک نہیں کرسکتا ۔وہ سب بھی تو فدیان کو ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں انہیں یہ بات بتانا ضروری ہے ۔اب کوئ سوال نہیں ۔۔۔۔!!!!

جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو۔لیکن اگر تم مطمئن نہیں ہو تو پھر ایسا کرو ابھی کسی کو کچھ مت بتانا۔بات خود تک محدود رکھو۔اور میرے اگلے آرڈر کا انتظار کرو۔جب میں کہوں تب سب کو یہ بات بتادینا۔اس طرح تم بھی مطمئن رہو گے اور میں بھی ۔۔!!!"

دیار نے اسے مطمئن کردیا۔اس کا پلان تھا ہی یہی۔جیسے حالات تھے وہ تو اب اپنے ساۓ پر بھی یقین نہ کرتا تو نوریز پر یقین کرنا تو بہت آگے کی بات تھی۔پہلے اسے نوریز کی وفاداری کو پرکھنا تھا۔باقی بعد کی باتیں تھیں۔

بات گھماکر آخر میں نوریز کو آرڈر دے کے اس نے کال کٹ کی۔اب وہ قدرے پرسکون تھا۔اسے پوری امید تھی کہ جلد سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔سب ٹھیک ہونا پڑے گا۔۔۔!!!!

اسے اب زرلشتہ کو واپس لانا ہی تھا وہیں اس کے خاص آدمی نے دل سے دعا کی کہ دیار جو چاہتا ہے وہ ہوجاۓ۔

دیار کا ارادہ عین ٹائم پر سب کو بتانے کا تھا تاکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر وہ کوئ ایک غلطی کریں۔کوئ ایسی غلطی جو ان کے چہرے سے وفاداری کا ماسک اتار پھینکے۔ عین وقت پر نہ وہ لوکیشن تبدیل کرسکیں گے نا ہی اپنی اس جگہ موجودگی کے ثبوت مٹاسکیں گے۔

پہلا سٹیپ وہ اٹھا چکا تھا اب اسے مناسب وقت کا انتظار تھا جب درمان اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو۔تاکہ اب آگے جو بھی ہو وہ بھی سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے ۔ اسے اس دنیا میں بس اپنے کردار کی صفائ درمان کو ہی دینی تھی کیونکہ وہ اس سے بدگمان جو ہوچکا تھا۔

سالوں کی دوستی جس غلط فہمی کی نظر ہوئ تھی اسے وہ غلط فہمی دور کرنی تھی۔باقی پورا علاقہ کیا سوچتا ہے اس کے بارے میں اسے رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی ۔

"درمان ایک بار میں خود کو بے گناہ ثابت کردوں ۔پھر میرا وقت شروع ہوگا۔۔۔!!!!!

جتنی تکلیف تم نے مجھے مجھ سے آنکھیں پھیر کر دی ہے اتنی ہی تکلیف پھر میں بھی تمہیں انجان بن کر دوں گا۔وعدہ رہا تم سے۔۔ !!!!

جیسے اس دوستی کو تم نے توڑا تھا اسے جوڑ کر اگر میں ویسے ہی نہ توڑ دوں تو پھر میرا نام دیار درانی نہیں۔...!!!!"

اپنا فون سامنے کرکے اس نے ایک نمبر ڈائل کیا۔بدلہ لینے میں دیار بھی درمان جیسا ہی تھا ۔آخر دوست جو تھا وہ اس کا۔۔۔!!!

کال پہلی بیل پر ہی اٹھا لی گئ۔

"بولو کیوں کال کی ہے تم نے مجھے ۔۔ !!!"

ابھی کال ریسیو ہوئ ہی تھی کہ عجلت میں دوسری طرف سے سرد پن سے بھرا سوال سنائ دیا۔جواب دیار کو بھی دینے آتے تھے اور بہت اچھے دینے آتے تھے۔

"اپنے ولیمے کی تمہیں دعوت دینے کے لیے۔  !!!" اس نے ویسے ہی تپ کر جواب دیا۔تو درمان جو فائلوں میں سر گھسا کر بیٹھا تھا اس نے فون کو گھورا کہ دیار کا کیا دماغ ہل گیا ہے اپنی جگہ سے۔جو اسے ولیمے کی دعوت دے رہا ہے۔اسے پتہ تھا وہ اپنے کام کی بات کرنے کے لیے ہی اسے کال کرسکتا ہے۔ویسے نہیں۔۔۔!!!

"ولیمے کی دعوت۔۔۔!!! مطلب تم نے شادی کرلی۔مبارک ہو۔۔!!! عجیب انسان ہو تم۔ جس نے بہن کے بغیر ہی نکاح کرلیا۔سب ٹھیک ہونے کا تو انتظار کرتے۔چلو خیر ہے اگر تم نے نکاح کررہی لیا ہے تو پھر میں تمہاری بہن کو رات میں وہاں لے آؤں گا۔تاکہ بھائ کی شادی نہ سہی ولیمے میں ہی شرکت کرلے۔۔۔۔!!!"

اس نے فائلز پرے کھسکائ اور ناسمجھی سے پوچھنا۔پھر مبارک باد بھی دے دی۔دیار کا طنز تو اس کے ذہن سے گزرا ہی نہیں اسے لگا وہ سچ کہہ رہا ہے۔

 اس کی غائب دماغی پر دیار کا دل اپنا سر پیٹنے  کو چاہا کہ اس میں کسی معصوم سے بندے کی روح کہاں سے آگئ۔جو مبارکباد کے ساتھ ولیمے پر آنے کے لیے راضی بھی ہوگیا۔

اصولا تو اسے کہنا چاہیے تھا کہ کام کی بات کرو۔فضول کی ہانکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔!!!!

 پر یہ موصوف تو پاگل ہوچکے تھے ۔ !!!!

"طنز اچھا تھا۔۔!!! کام کی بات پر آؤ۔جس چیز کا انتظام میں نے تمہیں کرنے کو کہا تھا کیا تم نے کردی ۔۔!!"

دیار نے خود ہی یہ غلط فہمی دور کردی۔اور مدعے پر آیا۔درمان نے سوچا کہ اب اس نے طنز کب کیا تھا اس پر۔ایک تو وہ مبارکباد دے رہا تھا اور دوسرا اس شخص کے لہجے کی سرد مہری بھی برداشت کررہا تھا پھر دیار نے کیوں ایسی بات کی۔

درمان کو غصہ آیا۔اس نے مٹھیاں بھینچیں۔پھر خود کو کوسا کہ اسے اس شخص سے نارمل لہجے میں بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔

"ہوگیا ہے انتظام ۔!!! تم لوکیشن سینڈ کرو۔میں بھجوا دوں گا۔۔!!"

اس نے اب حساب برابر کیا۔ دیار کو غصہ آیا کہ یہ شخص آخر خود کو سمجھتا کیا ہے۔ کیا طنز سے لے کر دوستی ختم کرنے تک کے سارے اختیارات اسی کے پاس تھے ۔

ہر اس وقت اس نے بھی صبر کیا کیونکہ لڑائ ان کا بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی تھی۔

"لوکیشن ہر بھیجنا مناسب نہیں۔۔!! وہ لوگ جتنے ہوشیار ہیں مجھے یقین ہے کہ میرے گھر پر نظر بھی رکھوائ ہوگی انہوں نے۔"

دیار نے کچھ سوچ کر کہا اسے یقین تھا کہ یہ سب بھی ہوسکتا ہے۔ درمان نے اکتاکر اپنی فائلز پھر سامنے کی۔دیار اسے اتنا ہی ہلکے میں آخر کیوں لے رہا ہے۔

"مسٹر دیار درانی۔۔۔!!!! میں اتنا بیوقوف بھی نہیں جتنا تم آج مجھے سمجھ رہے ہو ۔میں اچھے سے جانتا ہوں کہ وہ شخص یقینا تمہارے پیچھے ہوگا تاکہ پل پل کی نظر رکھ سکے تم پر۔

اور جیسے ہی اسے لگے تم اس تک پہنچ سکتے ہو وہ فورا سٹیپ اٹھاۓ اور اپنا پلین ہی بدل دے۔

اس لیے جیسے میں تم تک وہ چپس پہنچواؤں گا تم بھی اندازا نہیں لگاپاؤ گے۔اب اگر تمہاری تفتیش پوری ہوگئ ہو تو فون رکھ دو۔میرا مزید وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ !!!"

غصے سے کہتے درمان نے فون واپس رکھا اسے دیار کی بے مروتی چبھ رہی تھی۔پر وہ خود بھی یہ بات ماننا ہی نہیں چاہتا تھا۔اس کے لہجے کی سردی درمان کا موڈ بھی بگاڑ گئ۔

دیار نے بھی اطمینان کرلیا کہ درمان جو بھی کرے گا ٹھیک ہی کرے گا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"یا تو یہ کوئ خواب ہے یا پھر یہ سب غلط ایڈریس پر آگیا ہے۔۔۔۔ !!!!"

زرلشتہ اپنے سامنے رکھے بے شمار شاپنگ بیگز کو گھو رہی تھی۔جو کچھ دیر پہلے ہی ملازمہ رکھ کر گئ تھی۔ اس کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔اس رات جو روپ اس نے درمان کا دیکھا تھا بدقسمتی سے اسے پھر دوبارا وہ روپ دیکھنے کو نہ ملا۔درمان اور اس کا مزاج دونوں زرلشتہ کی سمجھ سے باہر تھے۔

وہ تو یوں انجان بن گیا تھا۔ معافی اور پھول والی بات سے ۔جیسے وہ سب اس نے نہیں اس کے فرشتوں نے کیا ہو۔زرلشتہ نے بھی بات نہیں دہرائی تھی درمان کو کسی بات کا طعنہ وہ دے ہی نہیں سکتی تھی۔

 "یہ کنجوس لوگ تو یہ سب خریدنے سے رہے۔۔!! پھر یہ سب خریدا تو خریدا کس نے اور اس میں آخر ہے کیا۔۔۔!!!"

اس نے بیگز کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔اس گھر کے مکینوں پر اسے بھروسہ نہیں تھا کیا پتہ شنایہ بیگم نے اسے لالچ دے کر اس کے قتل کا نیا منصوبہ بنایا ہو۔

 وہ لیڈی ہٹلر اسے مارنے کے لیے اپنی ساری دولت بھی قربان کرسکتی تھیں۔اسے اس وقت عقل سے کام لینا تھا ناکہ جوش سے۔

اور عقل اس میں تھی ہی کب ۔ !!!

 "ونی کو شاپنگ کروانا ماننے لائق بات ہے ہی نہیں۔ونی کو لوگ اپنی اترن دیتے ہیں انہیں ملازموں والے کپڑے پہننے کو کہتے ہیں تاکہ وہ پیاری نہ لگے اور ان کے بیٹے کی نظروں سے ہی اتر جاۓ۔

ونی کو لوگ ملازمہ سے بھی بدتر حلیہ دیتے ہیں کیونکہ ایسی ہٹلر ساس کو ہمیشہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ونی اس گھر کی مالکن نہ بن جاۓ اور اس کا تحت نہ الٹ دے۔یہ سوچ بڑی مشکلوں کے بعد میرے زہن میں آئ تھی۔اور مجھے یقین ہے کہ یہی سچ ہے۔!!!!

میں تو اسی وجہ سے اپنے سارے کپڑے پیک کرکے لائ تھی تاکہ مجھے نۓ کپڑوں کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔تو پھر اس عنایت کی وجہ۔۔۔!!!"

کسی ماہر انویسٹیگیٹر کی طرح وہ معاملے کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کرنے لگی ۔ایک انگلی گال پر رکھ کر اس ںے ان بیگز کو مزید گھورا۔ جیسے یہ بیگ تنگ آکر خود ہی اپنے یہاں ہونے کی وجہ بتانا شروع کردیں گے۔

اس نے اپنے دماغ پر زور دیا اور بہت زور دیا اتنا زور کہ اس کے دماغ سے بھی آواز آگئ کہ بہن میں پہلے ہی مٹھی جتنا ہوں اتنا زور نہ دو کہ پچک کر سٹیکر کی طرح پتلا بن جاؤں۔اتنا ہی سوچو جتنا تم سوچ سکتی ہو۔

وہ بیڈ سے اٹھی اور اب جاکر فرش پر رکھے بے شمار بیگز پر کھوجتی نگاہ ڈالنے لگی۔

"کہیں یہ سازش تو نہیں ۔ !!!!ہو سکتا ہے ساسوں ماں نے بیگ میں بومب فٹ کروایا ہو۔میں بیگ کھولو اور کام تمام۔وہ اب مجھے بومب سے مارنا چاہتی ہیں تاکہ کوئ ان پر الزام نہ لگاۓ۔کہہ دیں گی کہ بہو دہشت گردی کے واقعے میں ماری گئ ۔بڑی تیز ہیں وہ۔!!!"

اس نے سر کو افسوس سے نفی میں جنبش دی۔جیسے اس میں بومب ہی ہوگا۔یہ سوچ خوفناک تھی۔بومب پھٹنے سے اگر وہ مرتی تو اس کا چہرہ خراب ہوجاتا۔ زہریلے دھویں میں کھانس کھانس کر اس کا گلا بند ہوجاتا۔اتنی تکلیف دہ اور بری موت کا سوچ کر اس نے استغفرُاللہ کہا۔

اسے تو مرنے کے بعد کی بھی فکر تھی کہ اگر چہرہ خراب ہوا تو وہ بدروح نہیں چڑیل بن جاۓ گی ۔جس سے جان چھڑوانے کے لیے درمان عامل بابا کے آستانوں کا چکر لگاتا پھڑے گا۔

"بومب ہوا تو صرف میں نہیں یہ محل بھی اڑے گا۔بومب کونسا گن کر صرف میرا کمرہ ہی اڑاۓ گا اور باقی سب کو بخش دے گا۔لیڈی ہٹلر بھی میرے ساتھ ہی اوپر کی سیر کو جائیں گی ۔اور یہ کروڑوں کا محل بھی تو صفحہ ہستی سے مٹ جاۓ گا نا۔

یہ کنجوس لوگ تو اپنی بہو کو کھانا تک نہیں دیتے کہیں راشن ہی نہ ختم ہوجاۓ ۔تو مجھ ونی کی خاطر اپنا محل کیوں داؤ پر لگائیں گے۔بومب والا خیال ساسوں ماں کے بجٹ سے باہر کا ہے۔ 

یہ مجھے مارنے کے لیے کراۓ پر سانپ یا بچھو لاسکتی ہیں۔یا چھت سے دھکا دے سکتی ہیں یا کھانے میں زہر ملاسکتی ہیں۔اس سے زیادہ پیسے لگا کر یہ اپنا خزانہ خالی نہیں کریں گی۔"

اپنے مفروضے کر ایک ٹھوس دلیل سے رد کرکے اس نے ہاتھ جھاڑے کہ اس کی سانس اتنی اچھی نہیں جو پیسہ ضائع کرے اسے مارنے کے کیے۔ پھر زبردستی مسکرائ۔

"اس راز سے اب پردہ ہٹانا ہی پڑے گا ۔ہوسکتا ہے اس میں سانپ یا بچھو ہی ہو۔جو بیگ کو ہاتھ لگاتے ہی باہر نکلے اور مجھے ڈس لے۔میں یہیں تڑپتی رہ جاؤں اور کوی بچانے ہی نہ آۓ۔

رات جو درمان واپس آئیں اور سمجھیں کہ میں نے خودکشی کرلی ہے پھر رات کے اندھیرے میں مجھے خاموشی سے دفنا کر میرے گھر والوں کو اطلاع دے دی جاۓ کہ آپ کی لڑکی بھاگ گئ۔۔۔۔!!!!!"

اس نے تیزی سے آنکھیں پٹپٹائیں۔ہونے کو یہ بھی ہوسکتا تھا۔

"چچ چچ چچ آفریدی خاندان۔نام آفریدی اور کام کلرزز چینل کے سستے ڈراموں کے امیر خاندانوں والے ۔ میری کہانی میں اب بس دم تنانانانا والے میوزک کی کمی رہ گئ ہے۔باقی تو یہاں سب برابر ہے۔۔!!!!! 

کیا مجھے مارنا ضروری ہے۔مجھے مار کر ان سب کو کیا کوئ ایوارڈ مل جاۓ گا۔یا آی ایم ایف اس سال پاکستان کو قرضہ ہی اس شرط پر دے رہا ہے کہ اس زرلشتہ نامی لڑکی کو مار کر ہمارے سامنے لاؤ۔

یہ بولتی بہت زیادہ ہے۔اس کے بولنے سے نائس پولوشن پھیل رہا ہے۔اگر اس کی پٹر پٹر کرتی زبان کو قابو نہ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں پوری دنیا تباہ ہوجاۓ گی۔ اور اگر یہ تارے گن کر ورلڈ ریکارڈ بناگئ تو ہمارا کیا ہوگا۔۔۔!!!!"

اوپر سے ذرا سا جھک کر اس نے ایک بیگ میں جھانکنے کی کوشش کی صاف نظر تو اسے نہ آیا کہ اس میں ہے کیا۔پر وہ بڑبڑانا نہ بھولی ۔

وہ ورلڈ ریکارڈ بناسکتی تھی تارے گننے کا نہیں فضول سوچیں سوچنے کا ۔اس کام کا ٹھیکہ لے رکھا تھا اس نے۔کبھی بگ باس والا شو تو کبھی سوتن والا ڈرامہ،کبھی ساس کی دولت کی تجوری تو کبھی شاپنگ بیگز میں سانپ اور بومب ہونے کا وہم۔۔۔!!!!

وہ چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئ اور وہاں رکھی سکن کلر کی شال اٹھا کر اپنے شانوں پر پھیلائ۔وہ درمان کی غیر موجودگی میں اس کی چیزوں پر تبصرے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ استعمال بھی کرتی رہتی تھی۔چاہے اس کی برینڈڈ واچز ہوں یا پھر پرفیومز  حتی کے اس کے کپڑے بھی ۔

جو اس کے سائز کے تو نہیں تھے پر انہیں پہن کر وہ اس کمرے میں درمان بن کر گھومتی تھی اور کمرے کی چیزوں پر غصہ کرکے انہیں ڈراتی بھی تھی۔

شال کو آگے سے مٹھیوں میں دبوچ کر اس نے گہرا اور طویل سانس خارج کیا۔

"یا اللہ مجھے لمبی زندگی دینا۔۔!!! مجھے میری ساس کے شر اور شوہر کے ظلم سے بچا کر رکھنا

ابھی میری عمر ہی کیا ہے بیس سال بس۔۔ !!!! 

اتنی جلدی مجھے نہیں مرنا ۔ابھی تو میرے بال بھی سفید نہیں ہوۓ۔۔۔ !!!!"

 اس نے دعا کی۔اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیگز کے پاس آئ۔شال اس کے پاؤں کو چھوررہی تھی۔جو اس نے اپنے حفاظت کے لیے پہنی تھی تاکہ اگر کوئ سانپ یا بچھو اس پر حملہ کرے تو وہ ظالم پٹھان کی شال کو ڈس کر اس کے زہر سے ہی مرجائے ۔اب تو یہ وقت ہی بتاتا کہ کون کس کے زہر سے مرنے والا تھا۔

لیکن یہ تو ثابت ہوگیا کہ اس لڑکی کے لیے پاگل کا لفظ بھی بہت چھوٹا ہوگا۔یہ اور اس کا دماغ۔۔۔!!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"کم ان۔۔۔ !!!"

فائلز پر جھکے ہوۓ ہی درمان نے سرسری سے انداز میں دروازہ نوک کرنے والے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔پھر فائلز ایک طرف رکھ کر دروازے کی سمت دیکھا۔نیلی آنکھوں میں خوشی ابھری آنے والے نفس کو دیکھ کر۔

"تم جاؤ۔۔۔!!!"

اس کے ساتھ کھڑے اپنے مینیجر کو اس نے باہر جانے کا اشارہ کیا جو سر ہلاکر دروازہ کھول کر جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔

"ڈاکٹر صاحب۔۔۔!!!!! کیسا لگا آپ کو اپنا نیا سکول۔پسند آیا یا نہیں آیا۔۔!!!"

اسے آفس کو حیرانگی سے تکتا پاکر درمان نے ہی بیچ کی خاموشی توڑی تو سامنے کھڑے بچے نے سر ہلا دیا ۔آفس جتنا شاندار تھا وہ اسی منظر میں ہی کھویا ہوا تھا۔

وائٹ شرٹ  اور بلیک سکول پینٹ پہنے ،گلے میں ریڈ سکول ٹائ باندھے ،اچھے سے سیٹ بال اور صاف ستھرے چمکدار سکول شوز پہنے، اپنا سپر میں والا سکول بیگ کندھوں پر پہنے وہ بچہ اپنی معصومیت سنگ درمان کے آفس کو ہی ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"بہت اچھا ہے سکول۔اور یہ آفس بھی ۔کیا یہ سارا آفس آپ کا ہی ہے۔یعنی نیچے سے اوپر تک سارا۔۔۔!!!"

بچہ چلتا ہوا آگے آیا تو درمان اس کے اس سوال پر مسکرا دیا۔اور نفی میں سرہلادیا۔

"صرف میرا نہیں ہے میرے ایک دوست کا بھی ہے۔یعنی میری بیوی کے بھائ کا۔۔۔!!!"

اسے سمجھاتے ہوۓ اس نے ریسیور اٹھایا اور ریسپشن پر کال کرکے اس بچے کے لیے کچھ کھانے کو منگوایا۔

یہ بچہ وہی تھا جو اس دن درمان کو سڑک پر ملا تھا۔اس نے اس کے بارے میں ساری معلومات اکٹھی کروالی تھی۔یہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔باپ  بےروزگار تھا۔اور ان کے حالات بہت برے تھے۔

ماں حالات سے تنگ تھی تو باپ حالات کے آگے مجبور ہوکر دل کا مریض بن چکا تھا۔اور بستر سے لگ چکا تھا۔اس کی ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔اور وہ سڑکوں پر چاکلیٹس اور پھول بیچتا تھا۔

باپ کی بیماری کی وجہ سے اس بچے کو سکول بھی چھوڑنا پڑا ۔اور اپنی معصوم سی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر اتنی سی عمر میں جب اس کے ہم جولی اپنے لاڈ اٹھاتے تھے۔اسے ذمہ دار بن کر ماں کا ہاتھ بھی بٹانا پڑا۔ وہ ذہین بچہ تھا۔ مستقبل کا ایک روشن چمکتا ہوا ستارہ۔۔!!!!

جس کی روشنی حالات چھین رہے تھے۔پھر قدرت کی کرنی ہوئ کہ وہ درمان کو مل گیا۔ 

درمان اور دیار نے مل کر ایک آرگنائشیشن کھولی تھی جو اس جیسے معصوم بچوں کی ناصرف تعلیم کا بوجھ اٹھاتی تھی بلکہ ان کے بچپن کو بھی تباہ ہونے سے بچاتی تھی۔

درمان نے کوئ انوکھا کام نہیں کیا تھا وہ اس جیسے سینکڑوں بچوں کا بڑی راز داری سے محسن بنا ہوا تھا۔آخر ظالم اور اکڑو جو تھا تو کیسے برداشت کرلیتا کہ اس بات کی کسی کو بھنک بھی پڑے ۔۔۔!!!!!

اس نے ناصرف یوسف کو سکالرشپ دلوائی بلکہ اس کے بابا کو اپنے آفس میں اچھی پوسٹ پر جاب بھی دی اور ان کے علاج کا بھی بندوبست کروایا ۔

آج یوسف کا سکول میں پہلا دن تھا جس سے واپسی پر درمان نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔

 "ایک تصویر لو گے تم میرے ساتھ۔۔۔!!!!  جب تم بہت بڑے ڈاکٹر بن جاؤ گے تو میں وہ تصویر دکھا کر تمہارے کلینک میں بغیر اپائنٹمنٹ کے ہی آجایا کروں گا۔ رعب ڈالوں گا نا تمہارے سٹاف پر ۔۔۔!!! اس کے لیے ایک ثبوت بھی ہونا چاہیے کہ یہ کیوٹ سا بچہ بچپن میں میرا دوست بھی تھا۔۔۔۔!!!!!

ٹھیک ہے نا۔۔۔!!!"

اس نے اپنا فون آن کیا اور آکر اس کی کرسی کے پاس کھڑا ہوا۔پھر ایک تصویر کے نام پر اچھی خاصی تصویروں کا سٹاک اکٹھا کرکے وہ ان ساری تصویروں کو دیکھنے لگا۔ وہ اور یوسف ساتھ میں اچھے لگ رہے تھے۔مزے کی بات یہ تھی کہ وہ بھی پٹھان تھا اور دکھنے میں تھوڑا سا درمان جیسا ہی تھا۔ نین نقش بھی اس کے درمان سے ہی مل رہے تھے۔

"بہت کیوٹ ہو تم یوسف۔۔۔۔!!!! اپنے نام کی طرح بہت پیارے۔۔۔!!!"

اس کے بال بگاڑتے ہوۓ وہ جاکر اپنی سیٹ پر واپس بیٹھ گیا۔پیچھے یوسف نے دائیں ہاتھ سے اپنے بال واپس سے سیٹ کیے۔ اس کی اس حرکت پر درمان کا قہقہہ وہاں گونجا۔

"آپ بغیر اپائنٹمنٹ کے ہی آجایا کرنا۔یا پھر مجھے  فون کرکے بلالیا کرنا۔میں آکر آپ کا چیک اپ بھی کرلوں گا۔اور جب میں ڈاکٹر بن گیا تو یہ تصویر آپ مجھے بھی دے دینا میں سب کو بتادوں گا کہ انہیں کوئ نہ روکے۔یہ جب چاہیں مجھ سے ملنے آسکتے ہیں۔۔۔!!!!"

یوسف نے بھی فراخدلی سے کہا۔تو درمان نے تابعداری سے سر ہلا دیا جیسے کہہ رہا ہو آپ سے اسی اچھائ کی امید تھی جناب۔۔۔!!!!

 درمان کا بس غصہ اس کے بس میں نہیں تھا جو اس کی شخصیت کے سارے اچھے پہلو چھپا جاتا تھا۔اسے بس اس غصے پر قابو کرنا تھا پھر سب ٹھیک ہوجاتا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ نے ایک بیگ اٹھایا اور نشانہ باندھ کر بیڈ کی طرف اچھالا۔تاکہ اگر اس میں کوئ سانپ یا بچھو ہو تو وہ راستے میں ہی گرجاۓ۔

بیگ سے ڈریس نکل کر بیڈ پر گرا اور بیگ سیدھا فرش کو سلامی دے گیا۔ اسے لگا اس میں نہیں تو کسی اور بیگ میں تو ضرور کوئ نہ کوئ سانپ ہوگا ۔

پھر کیا تھا اس نے ایک کے بعد ایک بیگ اٹھا کر بیڈ پر اچھالا۔مہارت ایسی تھی کہ ڈریس بیڈ پر گرتا اور بیگ فرش پر گر کر جاں بحق ہوجاتا۔جیسے وہ ایک نۓ طریقے سے بیگ اور ڈریسز الگ کررہی تھی۔

جوں جوں بیگ وہ اچھالتی گئ بیڈ پر خوبصورت پیک شدہ ڈریسز کا انبار لگتا گیا۔صرف ڈریسز نہیں ساتھ میں میچنگ کے دوپٹے اور چادریں بھی تھیں ۔سب درمان نے ارجنٹ بیسز ہر منگوایا تھا۔اور ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔

لیکن جسے ملا تھا اسے تو موت کے خوف نے ہی جھکڑ رکھا تھا ۔تو وہ کہاں ان ڈریسز کو نظر بھر کر بھی دیکھتی ۔پیچھے اب چند ایک ہی بیگز رہ گۓ تھے۔جنہیں دیکھتے اس نے تھکا ہوا سانس خارج کیا کہ جب اُن میں سے کوئ سانپ نہیں نکلا تو اِس میں سے کیوں نکلے گا۔

اس نے جھک کر اگلا بیگ بھی ویسے ہی پھینکا تو اس میں سے چاکلیٹ کے ڈبے نیچے گرے اور ایک چٹ بھی۔۔۔!!!!

باقی بیگز کو وہیں چھوڑ کر وہ اب اس چٹ اور چاکلیٹس کے باکسز کی طرف آئ۔

"کہیں یہ ان سارے کپڑوں کا بل تو نہیں ہے۔۔۔!!!

میں تو خود ظالم پٹھان کے رحم و کرم پر رہ رہی ہوں تو بل کیسے ادا کروں گی۔یا اللہ۔۔۔!!! میرے پاس تو پیسے بھی نہیں۔ایسا کروں گی یہ سب واپس کردوں گی۔

کنجوس لوگ بل ادا کیا ہی نہیں ان لوگوں نے۔تبھی میں کہوں مجھے کچھ لے ہی نہ دیں یہ لوگ۔۔۔۔!!!!" 

چٹ اس نے کھولی نہیں تھی۔اور اس کا خون تو بل کا سن کر ہی کھول اٹھا تھا۔اگر ریسٹورنٹ کا بل ہوتا تو وہ ان کے گندے برتن دھوتی اب یہ مال کا بل تھا تو وہ کیا اب ان کے گندے کپڑے دھوتی۔۔۔!!!

"یہ دن بھی آنے تھے کہ مجھے اب بل بھی خود اداکرنا پڑتا۔کبھی کبھی لگتا ہے میں ونی نہیں ہوئ غریب ہوگئ ہوں۔بس بھیک مانگنے کی کمی رہ گئ ہے اس زندگی میں ۔ شال اتار کر گول گول لپیٹتے اس نے دیوار پر دے ماری اور سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئ۔

"کوئ بات نہیں زرلش تم دھو دینا ان کے کپڑے ۔۔..!!!! اس ظالم پٹھان کی ہی بےعزتی ہوگی کہ اس کی بیوی لوگوں کے گندے کپڑے دھو رہی ہے۔ خود ہی منہ چھپاتا پھرے گا۔"

اس نے چٹ کھولی اب کوئ اور آپشن نہیں تھا۔وہ بھی اتنی محنت کرکے تھک چکی تھی۔چٹ ہر جو لکھا تھا وہ پڑھ کر اس کے دل سے آواز آئ کہ کھودا پہاڑ اور یہاں سے تو چوہا بھی نہیں نکلا۔نکلا تو ظالم پٹھان کا پیغام ۔۔!!!

"یہ کپڑے تمہیں انسانوں والے حلیے میں لے آئیں گے۔اب کارٹون بن کر مجھے گھومتی ہوئ نظر نہ آنا۔سمجھی تم۔۔۔۔!!!! 

ساتھ میں میچنگ کے دوپٹے بھی ہیں۔بغیر دوپٹے کے کمرے سے مت نکلنا آج کے بعد ۔۔!!!

مزید بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئ تو کچھ دن بعد وشہ کے ساتھ جاکر خود لے آنا۔۔!!

اسے حکم سمجھنا ۔ظالم پٹھان کا حکم۔جس کی خلاف ورزی کرنے پر تمہیں سخت سزا بھی دی جاسکتی ہے۔۔۔!!!"

اس نے وہ کاغذ ویسے ہی فولڈ کرکے وہیں بیڈ پر رکھا اور اٹھ کر کمرے کی حالت دیکھی۔

فرش پر خالی بیگز اوندھے منہ گرے تھے۔اور بیڈ پر ڈریسز کے ڈھیر لگے ہوۓ تھے۔

"اگر یہی بات وہ آنٹی صاحبہ بھی مجھے بتا جاتیں تو میرا اتنا وقت تو نہ برباد ہوتا۔نا ہی انرجی ویسٹ ہوتی۔۔۔۔!!!!

مجھے لگا تھا ساسوں ماں میرا قتل کرنا چاہتی ہیں پر یہاں تو شوہر نے دھمکی بھیجی تھی۔"

سارے ڈریسز کو دھکا کر کر بیڈ کے دوسری طرف گراتے ہوۓ وہ منہ بناکر بڑبڑائ۔

اور خود وہیں لیٹ گئ۔ 

"مجھے تو یہ کارٹون ہی سمجھتے ہیں جن کہیں کے۔۔۔!!!! کیا برائ ہے میرے حلیے میں۔بس انہیں مجھ پر رعب جھاڑنا ہی آتا ہے ۔

اب یہ کمرہ بھی صاف کرنا ہوگا۔اور ڈریسز بھی سنبھلا کر رکھنے ہوں گے۔آخر شوہر  نے دیے ہیں تو انہیں یونہی کہیں بھی نہیں رکھ سکتی۔

مما بھی تو بابا کی دی ہوئ ہر چیز کو کتنا سنبھال کر رکھتی تھیں۔مجھے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ۔۔۔!!!!!

اس سے اللہ بھی مجھ سے خوش ہوگا کہ یہ لڑکی اپنے ظالم شوہر کی بھی بہت عزت کرتی ہے۔پر ابھی مجھ میں ہمت نہیں ہے کچھ بھی کرنے کی۔ابھی سوجاتی ہوں شام کو سب ٹھیک کروں گی۔۔۔!!!"

آنکھیں موندے ہوۓ اس نے خود سے کہا اور وہیں سوبھی گئ۔کمرہ تو اپنی حالت پر رورہا تھا۔جسے یہ لڑکی کباڑ خانہ بنا چکی تھی۔اور درمان کا غصہ بھلا کر سوبھی گئ تھی۔

وہ بھول رہی تھی کہ درمان کو کسی بھی بات پر غصہ آسکتا ہے اور بہت آسکتا ہے۔اب تو یہ رات کو ہی پتہ چلتا کہ درمان اس غلطی کی اسے کیا سزا دیتا۔

جیسے گدھے گھوڑے بیچ کر وہ سوئ تھی لگتا نہیں تھا کہ وہ رات کیا آدھی رات کو بھی اٹھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دیار کے فلیٹ کی ڈور بیل بجی۔اسے لگا درمان نے وہ چپس بھیج دی ہوں گی۔

"باتیں تو بڑی بڑی کررہا تھا کہ یوں چپس بھیجے گا کہ مجھے بھی اندازا نہیں ہوگا اور اب۔۔۔۔۔ !!!! یہ بس رعب جما سکتا ہے۔اب اگر اس کی وجہ سے میرا پلین خراب ہوا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔"

آستینیں فولڈ کرتے ہوئے وہ اٹھا۔ درمان پر اسے غصہ آیا تو آنکھیں خود بخود ہلکی سی سرخ ہوگئیں۔ پیشانی پر سلوٹوں کا جال بچھا۔اپنے بکھرے بال ہاتھ سے ہی سیٹ کرکے وہ سیدھا مین ڈور کی جانب جانے لگا۔ بیل مسلسل بجتی جارہی تھی۔جیسے بجانے والا شخص اسے اپنا ہی گھر سمجھ رہا ہو۔

اسے جی بھر درمان پر غصہ آیا جس نے کسی نالائق کو اس کام پر لگایا تھا جو مسلسل بیل بجا کر جان بوجھ کر معاملے کو مشکوک بنارہا تھا۔دل تو اس کا اڑ کر جانے کو کیا تاکہ اس بیل بجانے والے شخص کو خاموش کروا سکے ۔

"اپنا دروازہ سمجھ رکھا ہے کیا اس شخص نے جو گھنٹی توڑنا چاہتا ہے۔ کیا دروازہ توڑ کر اندر آؤ گے۔ذرا صبر کرو میں آ کر تمہاری بے صبری ختم کرتا ہوں ۔۔۔ !!!!"

وہ جتنی سپیڈ سے چل سکتا تھا چلا اور دروازے کے پاس پہنچ ہی گیا۔ ابھی اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ اس کی دائیں آنکھ میں کوئ چیز چلی گئ آنکھ میں ہوتی چبھن کی وجہ سے اس نے آنکھیں میچیں ۔غصہ مزید بڑھا۔

"لو کھل گیا دروازہ۔۔۔!!!!! اب بتاؤ کونسی مصیبت آگئ تھی جو بیل پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گۓ تھے تم۔۔۔!!!!

کوئ عقل ہے تم میں یا نہیں۔جیسے یہاں ٹپک پڑے تھے ایک میسج ہی کردیتے تو میں خود دروازہ کھول دیتا یا انسانوں کی طرح ایک بار دستک دے کر تھوڑا انتظار کر لیتے ۔یا پھر جو دینے آنے تھے یہیں رکھ کر شکل گم کرلیتے۔ اتنا ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی ۔۔۔۔!!!!"

بغیر سامنے دیکھے غصے سے دھارتے ہوۓ دیار نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔چبھن کی وجہ سے اس کی آنکھیں دھندلا گئیں اور پانی نکلنے لگا۔اس کے جو منہ میں آیا تھا اس نے بول دیا۔ یہ جانے بغیر کہ سامنے کھڑا کون ہے۔ 

سامنے کھڑے دو وجود تو اس کی زبان کی مٹھاس کی تاب نہ لاتے ایک ہی جگہ سٹیچو بن گۓ۔کہ اس شخص نے اپنے ہی ماں باپ کا استقبال کتنے میٹھے الفاظ میں کیا ہے۔وہ ششدر تھے کہ کیا ان کا ثبوت یہ سب بھی بول سکتا ہے۔تو جواب تھا کہ وہ بول رہا ہے۔اور یہی سب بول رہا ہے۔

رخمینہ بیگم تو ساکت کھڑی تھیں البتہ بہراور درانی نے آس پاس کا جائزہ لیا پھر دیار کی صورت بھی غور سے دیکھی کہ کیا یہ ان کا ہی بیٹا ہے یا وہ غلط ایڈریس پر آگۓ ہیں۔

"دیار زوۓ کیا ہمیں اب اپنے ہی بیٹے کے گھر آنے کے لیے بھی اجازت لینی پڑے گی۔یا سوچ سمجھ کر دروازے پر دستک دینی پڑے گی۔ کیا ہم محض سامان یہاں رکھ کر اپنی شکل گم کرلیا کریں۔

چلیں بیگم ہم لوگ اب چلتے ہیں ہمارا بیٹا بہت سمجھدار ہوگیا ہے جو اپنے ہی ماں باپ کو پاگل سمجھ رہا ہے۔۔۔۔ !!!!!

یہاں رکنے کا کوئ فایدہ نہیں آجائیں آپ۔۔۔!!!!"

دیار کے ہوش اڑے یہ آواز سن کر۔یہ آواز تو اس کے  بابا کی تھی۔کچھ دیر پہلے تک جو آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں اب صدمے سے وہ کھلیں ۔اس نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں اس کے ماں باپ کھڑے تھے۔

رخمینہ بیگم تو ہلی بھی نہ۔یہ جو پھول ان کے بیٹے نے ان ہر برساۓ تھے ان کے ہوش اڑاگۓ۔

"مما۔۔!!! بابا۔۔۔!!! آپ لوگ یہاں۔۔۔۔۔!!!! واٹ آ سرپرائز ۔۔۔!!!اندر آئیے نا باہر کیوں کھڑے ہیں۔مجھے تو خبر بھی نہیں تھی کہ آپ لوگ مجھ سے ملنے آۓ ہیں"

اس نے جو بکواس کی تھی اس کا اثر زائل کرنے کی خاطر وہ زبردستی مسکرایا۔تاکہ خوشی ظاہر کرسکے پر چہرے پر خوشی کی جگہ شرمندگی ہی تھی۔ کہ کاش وہ بولنے سے پہلے کنفرم کرلیتا کہ باہر کھڑا کون ہے۔

"سردار ۔۔۔!!!! میرے لعل پر کسی کا سایہ ہوگی ہے دیکھیں تو اس کی آنکھیں کتنی سرخ ہورہی ہیں۔اور اس کی زبان بھی کتنی لمبی ہوگئ ہے۔میری مانیں تو اسے کسی ڈاکٹر کو دکھالائیں۔ یہ سب اس کے ساتھ گھر سے دور رہنے کی وجہ سے ہوا ہے۔تنہائ کا شکار ہوگیا ہے یہ۔۔۔!!!!!"

رخمینہ بیگم آگے بڑھیں اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا پھر فکر سے بہراور درانی کو اپنا شک بتایا جو دیار ہو ہی گھور رہے تھے۔ ان کا تو یہی ماننا تھا کہ دیار کا دماغ چل گیا ہے ۔

"بیگم یہ پاگل نہیں ہوا بدلحاظ ہوگیا ہے ۔۔!!! اب ہم بن بلاۓ مہمانوں کو یہی رکھو گے یا اندر بھی لے کر جاؤ گے۔۔۔!!!"

خود ہی اسے راستے سے ہٹا کر بہراور درانی گھر کے اندر چلے گۓ ۔پیچھے دیار نے زبان دانتوں تلے دبائی۔بدتمیزی کچھ زیادہ ہوگئ تھی۔وہ تو ایک لفظ بھی ان کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولتا تھا اور آج انجانے میں بکواس کی حدیں پار کرگیا تھا ۔

دیار بھی رخمینہ بیگم کے ہمراہ گھر کے اندر داخل ہوگیا۔پیچھے دروازے سے کافی دور کھڑے ایک شخص نے جانچتی نگاہوں سے اس منظر کو دیکھا ۔وہ یہاں دیار پر نظر رکھنے کے لیے ہی کھڑا کیا گیا تھا تاکہ اگر ان کا معاملہ بگڑنے لگے تو انہیں پہلے سے ہی خبر ہوجاۓ۔

دیار کو اس کے ماں باپ کے ساتھ دیکھ کر اس نے مزید کچھ کھوجنا ضروری نہ سمجھا۔

"مما ۔۔!! بابا ۔۔!!! سیریسلی مجھے لگا تھا کہ باہر نوریز آیا ہے۔اسے میں نے کسی کام سے بلایا تھا۔وہ لیٹ ہوگیا تو مجھے غصہ آگیا تھا اس پر۔میں سچ میں غصے میں تھا تبھی کچھ بھی دیکھے بغیر بس جو منہ میں آیا میں بول گیا.معاف کردیں مجھے پلیز۔۔۔!!!!آپ دونوں سے اس لہجے میں بات کرنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ سب میں نے اس نالائق کو سنایا تھا!!!"

اس نے اپنی ماں کے ہاتھ تھام کر شرمسار لہجے میں اپنے رویے کی معافی مانگی۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی فضول بکواس سن لیں گے۔اور یہ سمجھیں گے کہ اس نے یہ سب ان سے کہا ہے 

بہراور درانی نے بھنویں اچکائیں.دل ہی دل میں وہ خوش بھی تھے۔ جو کام وہ کرنے آۓ تھے دیار نے خود ہی راستہ آسان کردیا تھا۔اب دیار کو راضی کرنا آسان تھا ان کے لیے۔

"بیگم۔۔!!! اگر لڑکا غصے کا تیز ہوجاۓ، اس کی زبان سے آگ نکلنے لگے ،وہ ماں باپ کو بھی کچھ نہ سمجھے، گھر چھوڑ جاۓ، سب کا جینا خراب کردے تو اس کا تو یہی مطلب ہے کہ لڑکا ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔اب اسے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔۔!!!!

 اس سے پہلے کہ وہ باغی ہوجاۓ اور اپنا ہی دشمن بن جاۓ اس کے ماں باپ کو اس کا سکون ختم کردینا چاہیے جیسے وہ سب کا سکون غارت کرتا ہے ویسے ہی۔"

اسے دیکھ کر دانت پیستے ہوۓ انہوں نے طنز کے تیر چلاکر ساتھ میں دیار کو لاحق اس جان لیوا بیماری کا حل بھی پیش کیا۔

جو پہلے تو شرمندگی سے آنکھیں میچ گیا پھر چونک کر انہیں دیکھا۔اتنا تو اسے بھی پتا تھا اس کے بابا بات کیا کررہے ہیں۔

ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا جب اس کی ماں نے بیچ میں ہی اسے روک دیا۔

"دیار زوۓ۔۔!!!! لڑکے ایسی باتوں کے بیچ میں بولتے اچھے نہیں لگتے..!!! میں ہوں نا تمہاری طرف سے تمہارے بابا سے بات کرنے کے لیے تو تم چپ ہی رہو۔اور سردار آپ اپنے الفاظوں کی درستگی کریں۔یہ گھوڑا نہیں ہے جسے آپ لگامیں ڈالیں گے۔یہ شیر ہے شیر۔۔!!! 

اس کی عزت کا ہی تھوڑا خیال رکھ لیں۔میں مانتی ہوں یہ اپنا دماغی توازن کھو رہا ہے۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اسے گدھا ،گھوڑا، بکرا ، اونٹ ہی بنادیں ۔"

انہیں ڈانٹ کر جب انہوں نے دیار کو باقی جانوروں سے ملایا تو بہراور درانی نے بھی مسکراہٹ دبائ۔

"مما یہ آپ بابا کو ڈانٹ رہی ہیں یا انہیں مزید آپشن دے رہی ہیں۔گدھا ،گھوڑا ،اونٹ کیا ہے یہ سب ۔۔!! میں انسان ہوں انسان۔۔!! جانور نہیں ۔!!!"

اس نے صدمے سے کہا۔یہ شیر جال میں پھنس چکا تھا۔اب جو اس کے ماں باپ چاہتے یہ وہی کرتا۔

"تو چلو تم شیر ہو۔۔!!!! پھر ہم  اسے شیرنی کے پلے باندھ دیتے ہیں۔ یہ اس کے سامنے بھیگا بلا بن کر رہے گا۔وہ اسے دن میں تارے اور رات میں سورج دکھاۓ گی۔جس کے ہاتھ کے کڑوے کریلے اسے میٹھے اور کدو اسے کڑوے لگیں گے۔کیونکہ ہمارے بس کی بات تو نہیں اسے سنبھالنا ۔برخوردار نکاح کروانا چاہتے ہیں ہم تمہارا ۔تو اب پٹڑی پر واپس آجاؤ۔۔!!"

 انہوں نے بھی رعب سے کہا۔پھر بیگم کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لانے کی تگ و دو میں تھیں اس کی ضرورت بھی ابھی کچھ ہی دیر میں پڑنے والی تھی۔

یہ سب زرلشتہ کے ہی سگے رشتے تھے۔سالوں سے اس کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اور تھے بھی اسے کے جیسے ڈرامے باز۔۔!!!

اگر درمان کچھ عرصے میں اس کے ساتھ رہتے رہتے ظالم سے کیوٹ بن سکتا تھا تو یہ سب تو زرلشتہ کے بھی استاد تھے۔ ان کے انداز چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ وہ اسی کے رشتہ دار ہیں۔

دیار نے گہرا سانس خارج کیا۔شادی کا ابھی تو اس کا کوئ ارادہ نہ تھا۔

"دیکھیں مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔ نا آپ ابھی میرے گلے میں کوئ ذمہ داری کا ہار سجائیں نا اس گلے میں لگامیں ڈالنے کا سوچیں ۔معذرت پر میں راضی نہیں ہوں۔۔!!"

ان کے ہاتھ چھوڑ کر وہ انکار کرتے ہی منہ پھیر گیا۔پیچھے بہراور درانی نے آنکوں ہی آنکھوں  میں انہیں تسلی دی کہ یہ کیا اس کا تو باپ بھی مانے گا آج۔باپ کے آگے یہ ٹک ہی نہیں سکتا۔!!!!

تقریبا آدھے منٹ تک سانس رونک کر انہوں نے پہلے تو اپنا سانس پھلایا۔وہ بلڈ پریشر کا شکار تھے تبھی یہ ٹرک ان کی حالت پل میں خراب کرگئ۔۔ ان کے چہرے پر سرخی بھی چھاگئ اور آنکھوں میں پانی بھی آگیا۔جب سانس روکنا مشکل ہوا تو انہوں نے سانس چھوڑا ۔اور ہاتھ سے اپنے دل کے مقام کو رگڑنے لگے۔

"بیگم چھوڑیں اس نالائق کو۔خود غرض ہوگیا ہے یہ۔بھول گیا ہے کہ ماں ،باپ کے حکم کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔نافرنان،بدتمیز لڑکا۔!!!! اٹھائیس کا تو یہ ہوگیا ہے اب بھی اسے شادی نہیں کرنی۔تو کیا بڑھاپے میں کرے گا یہ۔۔!!!!

 یا ہمارے مرنے کے بعد کرے گا۔۔۔! یہ چاہتا ہی نہیں کہ اپنی زندگی میں ہم اپنے خاندان کو آگے بڑھتا دیکھیں۔ اپنے پوتے ،پوتیوں سے کھیلیں، ہم بھی خوش ہوں ۔!! اسے ہماری کوئ فکر نہیں ۔۔!!"

کبھی بھی کسی کو اگر اپنی بات منانی ہو خاص طور پر بچوں کو تو ماں باپ مرنے کی باتیں ضرور کرتے ہیں۔ساتھ میں بچوں کو رج کے ذلیل بھی کرتے ہیں۔ بچے کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن ایموشنل بلیک میلنگ کے آگے ٹک نہیں سکتے۔

دیار صاحب کے تو لفظ ہی ختم ہوگۓ جن سے انہوں نے احتجاج کرنا تھا۔وہیں رخمینہ بیگم نے دل میں اپنے شوہر کی ایکٹنگ کو سراہا۔زرلشتہ کے بابا کسی سے پیچھے نا تھے۔دکھ سے کہتے انہوں نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا اور گہرا سانس خارج کرکے ظاہر کرنے لگے کہ ان کا بلڈ پریشر شوٹ کرگیا ہے اتنی سی بات پر۔دیار 

بوکھلا گیا۔

"بابا۔۔!!!! کیا ہوا ہے آپ کو۔۔!!!"

وہ وہاں سے اٹھنے لگا۔بہراور درانی کی اداکاری اسے ڈرا گئ تھی۔انہوں نے اسے اشارے سے اٹھنے سے روک دیا۔آنکھوں میں وارننگ تھی کہ میرے پاس تو نے آنا۔

"برخوردار۔۔۔!!!! کوئ خوشی تو دے نہیں سکتے تم مجھے۔تو یہ زبانی کلامی فکر بھی نہ کرو۔ اچھا ہے میں ایک ہی بار میں مرجاؤ۔بار بار اپنے یار کی نظروں میں نہ گروں۔پہلے بھی تمہاری بے جا ضد کی وجہ سے میں نے دلاور خان کو زرلشتہ کے لیے دل سخت کرکے منع کیا۔

آج بھی میں اس سے نظریں نہیں ملاپاتا۔ کتنے مان سے اس نے جھولی پھیلائ تھی کہ میں زرلشتہ کو اس گھر کی بیٹی بنادوں ۔پر تم نہ مانے۔۔!!!

چلو تمہیں یشاور پسند نہیں تھا مان لیا ۔لیکن اب دوبارہ میں کیسے اپنے دوست کو انکار کروں گا۔اور کتنا جھکوں گا اس کے سامنے۔اچھا ہے اللہ مجھے موت ہی دے دے۔۔!!!

تمہارے جیسی نالائق اولاد کی وجہ سے میں بار بار رسوا نہیں ہوسکتا ۔۔!!"

اسے روکنے کے بعد انہوں نے اپنا سینہ رگڑا اور دکھ سے بولے ۔دیار کا دل باپ کی تکلیف دیکھ کر پسیج گیا۔ لیکن یہ ایک نیا دھماکہ اس کے سر پر ہوا تھا۔دلاور خان کا داماد بننے کا ۔۔!!

رخمینہ بیگم بھی نادیدہ آنسو پونچھنے لگیں۔

"یشاور کی بہن ۔۔!!!! بابا کیا اس پوری دنیا میں آپ کو ہمارے لیے ایک وہی گھر نظر آتا ہے۔پہلے زرلش اور اب میں۔۔!!!"

اس نے تھکے ہوۓ انداز میں کہا۔بات بن رہی تھی۔اب اگلی باری تھی رخمینہ بیگم کی ۔

"سردار اٹھیں یہاں سے ہمیں چلے ہی جانا چاہیے۔۔!!! ہم پہلے ماں باپ ہیں جو اپنے ہی بیٹے کے در سے ناامید ہوکر جارہے ہیں۔اسے ہم سے زیادہ اپنی انا پیاری ہے۔یشاور سے دشمنی پیاری ہے۔ اپنی ضد پیاری ہے۔۔!!!

ماں باپ چاہے مرجائیں اسے فرق نہیں پڑے گا۔اس کی وجہ سے اپنا دل خراب نہ کریں ۔میرا آپ کے سوا ہے ہی کون۔کیوں اپنا خون جلارہے ہیں آپ۔اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میں دردر کی ٹھوکریں کھاتی پھروں گی۔جو بیٹا باپ کی زندگی میں ماں کو کچھ نہیں سمجھتا۔وہ باپ کے بعد تو مجھے کسی ایدھی سنٹر چھوڑ آۓ گا۔سردار ہماری قسمت میں لائق اولاد تھی ہی نہیں۔آپ اٹھ جائیں ۔ہم مزید اپنی انسلٹ نہیں کروانا چاہتے ۔۔!!!"

وہ اٹھنے لگیں۔ بہراور درانی بھی اٹھ گۓ پیچھے دیار نے اپنے بال مٹھی میں دبوچے کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔اس نے تو ایسا کچھ کہا ہی نہیں تھا کہ اس کے ماں باپ اسے کھڑی کھڑی سنا کر چل پڑتے۔۔!!

"راضی ہوں میں ۔!!! بیٹھ جائیں واپس۔۔!!! جہاں کہیں گے منہ اٹھا کر چل پڑوں گا۔اپنا یہ مہنگا ڈرامہ بند کردیں اب ۔!! میں بھی کبھی کبھی سوچتا تھا کہ میری بہن آخر کس پر چلی گئ ہے۔جو ڈراموں سے کسی کو پاگل بنانے سے لے کر اگلے کو تگنی کا ناچ بھی چٹکیوں  میں نچواسکتی ہے۔تو آج اس بات کا جواب مجھے مل گیا ہے۔۔۔!!!

وہ آپ دونوں کی ہی کاپی ہے۔۔!!"

جل کر کہتے ہوئے دیار نے منہ بنایا ۔اور اس کے ماں باپ خوشی ملتے ہی ڈرامہ بھول گۓ۔ رخمینہ بیگم نے واپس پلٹ کر اپنے بیٹے کو دیکھا اور جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیا۔ 

"میرا لعل۔۔!!!! ماں صدقے جاۓ ۔ماں واری جاۓ۔!!!! ماں قربان ہو تم پر ۔۔۔!!! میرا فرماں بردار بیٹا۔۔!!!"

وہ خوشی سے چہکیں تو دیار بھی مسکین صورت بناکر ہلکا سا مسکرا گیا ۔کہ کچھ دیر پہلے تک یہ بیٹا کسی کام کا نہیں تھا اب اس پر صدقے جایا جارہا ہے۔

بہراور درانی نے بیٹھتے ہی سامنے سے پانی کا گلاس اٹھایا اور پینے لگے۔سانس روکنے کی تکنیک بھاری پڑی تھی انہیں لیکن کام بن گیا تھا ۔

تو کیا ارادہ ہے بیگم آپ کا ۔ڈال دیں اس کے گلے میں ذمہ داری کی لگامیں۔۔!!! اگر متفق ہیں آپ تو سامان سے مٹھائ نکالیں اور اس کی کڑوی زبان کو میٹھا کریں۔اور اسے یہ بھی بتادیں کہ اب جب ہم چاہیں گے اس کے سر پر سہرا باندھ کر لے جائیں گے اور اسے قربان کرآئیں گے۔۔!!!"

مٹھائ کا سن کر دیار نے ماں کو دیکھا جو پوری تیاری کے ساتھ آئ تھیں۔انہوں نے ایک بیگ سے مٹھائ کا ڈبہ نکالا اور اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کے منہ میں گلاب جامن ٹھونس دیا تاکہ مزید وہ کوئ نیا اعتراض نہ کرسکے ۔

"میں تو اپنے بچے کی تنہائ دور کرنا چاہتی تھی۔اگر شہر کی کوئ چڑیل میرے بچے کے پیچھے پڑ جاتی تو ہم کیسے اسے اس سے بچاتے۔اپنی معصومہ بچی تو اتنی پیاری سی ہے۔اسے ہمیشہ خوش رکھے گی۔اللہ میرے بیٹے کے نصیب میں خوشیاں لکھ دے۔۔!!"

ایک گلاب جامن اٹھا کر خود بھی کھاتے ہوۓ انہوں نے باقی کا ڈبہ اپنے شوہر کی طرف بڑھایا جو ایک ہی لمحے میں بالکل ٹھیک ہوچکے تھے۔

"یہ زرلشتہ کو ایکٹنگ کرنا آپ دونوں نے ہی سیکھایا ہے نہ۔۔!!! میری بھولی سی بہن کو ڈرامہ کوئین بنانے والے یقیناً آپ دونوں ہی ہیں۔ایک بات دونوں سن لیں ۔میں ابھی رشتے کے لیے مانا ہوں۔لیکن شادی تب ہی ہوگی جب میری بہن واپس آۓ گی۔اس سے پہلے کچھ بھی کرنے کا سوچیے گا بھی مت۔۔!!!"

زبردستی وہ گلاب جامن نگلتے ہوۓ اس نے دونوں کو گھورا ۔

" بے فکر رہو شادی ہم تبھی کریں گے جب ہماری ڈرامہ کوئین واپس آجاۓ گی۔ابھی بس نکاح ہی کریں۔اور وہ ہمارے جیسی نہیں ہے دیار وہ اپنی پھپھو کی کاپی ہے ۔تم جانتے تو ہو تمہاری پھپھو کتنی بڑی فلم تھی۔اپنے سامنے بولنے والے کا دماغ باخوبی گھمانا آتا تھا اسے۔۔!!

 زرلشتہ تو بس چھوٹا سا ڈرامہ ہے۔۔!!!! مانا وہ تب چھوٹی تھی اسے تو یاد بھی نہیں کہ اس کی پھپھو نے کبھی اسے پیار بھی کیا تھا یا نہیں لیکن بچے خاندان والوں پر ہی جاتے ہیں۔۔۔!!!"

ماحول میں ایک دم سے سکوت چھایا۔ایک وہ واحد نفس تھی زکیہ جس کا ذکر ان کی مسکراہٹ ختم کردیتا تھا۔ وہ ہنستی مسکراتی لڑکی موت کو بھی ہنس کر گلے لگاگئ تھی۔وہ بولتے بولتے رکیں یہ ذکر شاید انہیں یہاں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ان کے شوہر نے انہیں اشارے سے چپ رہنے کو کہا۔دیار کی مسکراہٹ بھی چھین گئ تھی۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اپنے اس بھتیجے کے سر پر سہرا تو میں ہی باندھوں گی۔ اس کی ماں نہیں میں ۔!!! اس کی اکلوتی پھپھو ۔۔۔!!!! اور بہو بھی اپنی پسند کی لاؤں گی۔خبردار تب کسی نے مجھے منع کیا کہ یہ حق ماں کا ہوتا ہے۔میرا ایک ہی ایک بھتیجا ہے۔سارے شوق مجھے اسی پر پورے کرنے ہیں ۔

بھابھی آپ میرے بچوں کی شادی کروادیجۓ گا ۔میں بیچ میں کانٹا نہیں بنوں گی پر یہ دونوں خرگوش میرے ہی ہیں۔ان پر میری مرضی ہی چلے گی۔۔!!! اپنی اس پرنس کے لیے میں کوئ کیوٹ سا پٹھان ڈھونڈوں گی۔اسے شہزادیوں کی طرح رخصت کروں گی۔ کتنا مزہ آۓ گا نا۔۔!!!

آفٹر آل میں فسادن پھپھو ہوں ان کی یہ میری ہی باتیں مانیں گے۔۔!!!"

ایک آواز رخمینہ بیگم کو سنائ دی۔ وہ اسی وقت پر دوبارہ پہنچ گئیں جب زکیہ پورے گھر میں ہوا کے جھونکے کی طرف گھومتی رہتی تھی کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔۔!!!

دیار تب آٹھ سال کا تھا جب زرلشتہ کی پیدائش پر ان دونوں کی شادی اپنی پسند سے کروانے کا حق انہوں نے رعب جھاڑ کر ان میاں بیوی سے لے لیا تھا۔وہ تھی ہی اتنی پیاری کہ رخمینہ بیگم نے زرلشتہ ہی ان کی جھولی میں ڈال دی کہ لو بہن جو کرنا ہے کرتی پھرنا۔۔!!

"پر پھپھو تب تک تو آپ بوڑھی ہو جائیں گی نا۔آپ سٹک پکڑ کر میرے اور پرنس کے لیے پرفیکٹ میچز کہاں سے ڈھونڈتی پھریں گی ۔"

یہ بولنے والا دیار تھا۔جسے فکر تھی کہ اس کی پھپھو بڑھاپے میں کیسے اچھے جوڑ تلاش کرے گی ان کے لیے۔۔!!

یہ بات سن کر زکیہ کا ہاتھ سیدھا اس کے گال کو کھینچ گیا تھا۔

"ننھے کاکے میں تم سے اتنی بھی بڑی نہیں ہوں ابھی میری عمر ہی کیا ہے پندرہ سال بس۔۔!!! جب تک تمہاری شادی کا وقت آۓ گا تب تک میں کوئ تیس سے پینتیس سال تک کی ہوجاؤں گی سمپل ۔۔!!!"

زرلشتہ کے دونوں گال چومتے ہوۓ انہوں نے دیار کو بتایا جس نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلادیا۔یعنی پھپھو بوڑھی نہیں ہوں گیں۔

رخمینہ بیگم تو اس پھل جھری کو دیکھ رہی تھیں جو تھی تو چھوٹی پر آفت کی پرکالہ تھی۔

"اور پینتیس سال کے لوگ ڈنڈے کے سہارے پر نہیں چلتے وہ ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو اپنے آگے چلاتے ہیں۔دیکھنا میرے شہزادے یعنی میرے ان  نے تو مجھے بوڑھا ہونے ہی نہیں دینا وہ مجھے اتنا خوش رکھیں گے کہ میں تمہاری دلہن سے بھی ینگ دکھوں گی۔لوگ دلہن کی بجاۓ میری تعریفیں کریں گے۔۔!!!

ہاں اگر تمہیں کوئ پسند آجاۓ تو بلا جھجھک اس فسادن پھپھو کو بتادینا اتنی جلدی تو عامل بابا آپ کا محبوب بھی قدموں میں نہیں لاسکتا جتنی جلدی میں اس پری کو تمہاری زندگی میں لاؤں گی۔پھپھو کی صلاحیتوں پر شک نہیں کرنا بھتیجے۔۔!!!"

جھک کر دیار کو اپنے نیک ارادے بتاتے وہ بیڈ پر رخمینہ بیگم کے ساتھ زرلشتہ کو رکھ کر ہوا کے جھونکے کی طرح وہاں سے جاچکی تھیں۔پیچھے دیار سوچ رہا تھا کہ یہ محبوب آپ کے قدموں میں کیا ہوتا ہے ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

خیالوں سے نکل کر انہوں نے بہراور درانی کو دیکھا جو خود اسی کی فریادیں سن رہے تھے۔جو روتے ہوۓ کہہ رہی تھی کہ اسے کسی ظالم کو نہ دیں وہ مرجاۓ گی۔پر کسی نے نہیں سنی تھی اس کی۔

"دیار پھپھو کو بھول جانا۔۔!!! میں اب واپس نہیں آؤں گی ۔!! میری زندگی اتنی ہی تھی۔"

دیار کو وہ دن یاد آیا تھا جب ان کے گھر سے نکلتے ہوۓ اس نے آخری بار اسے خود سے لگا کر خود کو بھول جانے کو کہا تھا۔وہ اپنے دادا اور بابا سے پوچھتا رہ گیا تھا کہ اس کی پھپھو کہاں جارہی ہے وہ رو کیوں رہی ہے۔تب کسی نے کچھ نہیں کہا تھا۔

وہ اپنی پھپھو کو کیسے بھولتا جس نے اسے پیدا ہونے کے بعد سے اتنی محبت دی تھی کی اس کے ذہن کے پردوں پر ماں سے زیادہ اس کا عکس چھپاہوا تھا۔

اسے آج بھی یاد تھا وہ سیاہ دن جب اس کے بابا اور دادا اسے قبرستان لے کر گۓ تھے جہاں اس نے کفن میں لپٹا ایک وجود دیکھا تھا۔جو اس کی وہی ہنستی مسکراتی پھپھو تھیں۔قبر کی مٹی اس کے بابا نے اس کے ننھے ہاتھوں سے ڈلوائ تھی تاکہ وہ جان جاۓ اب وہ واپس نہیں آۓ گی۔

"میری زندگی اتنی ہی تھی۔۔!!"

یہ جملہ آج بھی اسے سنائ دیتا تھا۔کتنا مشکل ہوتا ہے اس درد میں جینا کہ جو انسان کبھی آپ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا اب وہ آپ کے مرنے پر بھی نہیں آۓ گا۔اس کی یادیں ،اس کی باتیں آپ کو تڑپاتی رہیں گی۔

"سردار۔۔!!! دیر ہورہی ہے ہمیں۔اب ہمیں چلنا چاہیے۔بیٹا تم بھی اپنا خیال رکھنا ۔اور تمہاری پھپھو بھی آج بہت خوش ہوگی اس کا بڑا ارمان تھا تمہارے سر پر سہرا سجانے کا۔آج اس سے زیادہ کوئ خوش نہیں ہوگا۔۔!!"

اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہوں نے اپنی آنکھ کا نم کونا صاف کیا اور اپنے شوہر کو اٹھنے کا اشارہ کرکے وہاں سے چلی گئیں۔ بہراور درانی نے بھی بیٹے کو چپ ہوتا دیکھا تو بغیر کچھ کہے وہاں سے چلے گۓ۔اس کی موت کے ذمہ دار وہی تھے ۔اگر وہ تب ڈٹ جاتے تو آج ان کی بہن زندہ ہوتی۔انہوں نے خود اسے موت کے منہ میں دھکیلا تھا۔

"خوش تو وہ تب ہوتیں اگر یہ شادی میری مرضی سے ہورہی ہوتی۔۔!! خیر ہے مجھے ویسے بھی کوئ پسند نہیں تھا۔ایک نہ ایک دن شادی ہونی ہی ہے تو اچھا ہے مما کی پسند سے ہی ہوجاۓ۔۔!!"

اس نے گہرا سانس خارج کیا۔اور یادوں کے گہرے بھنور سے  نکلا۔جو تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیتی تھیں۔پھر بیگز کھول کر دیکھنے لگا کہ ان میں آخر ہے کیا۔

اس کی مما اس کے لیے اس کی پسندیدہ چیزیں بناکر لائ تھیں۔

اتنے دنوں سے وہ اپنے ہاتھ کا بنا ہوا بدمزہ کھانا کھا کھاکر پاگل ہوچکا تھا کہ وہ اتنا برا شیف کیوں ہے۔

آج اس نے شکر ادا کیا کہ کچھ انسانوں والا اسے کھانے کو ملے گا۔

ابھی وہ باکسز چیک کرہی رہا تھا کہ ایک باکس سے اسے ٹریکنگ چپس کا پیکٹ ملا۔

"یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔!!!"

پیکٹ نکال کر اس نے بے یقینی سے سوچا ۔

"درمان نے یہ چپس میرے ہی والدیں کے ہاتھوں مجھ تک پہنچائی ہیں۔سٹرینج۔۔!!!!

کسی کو شک بھی نہیں ہوا پر کیسے ۔۔!!!"

وہ اسے داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔اصل میں درمان کے آدمیوں کو پہلے ہی خبر ہوچکی تھی کہ دیار کے والدین اس سے ملنے کے لیے جارہے ہیں۔اس کے آدمیوں نے بغیر کسی کی نظروں میں آۓ پہلے سڑک کچھ دیر کے لیے بلاک کروائی اور ایکسیڈنٹ کا ڈرامہ کیا۔دیار کے بابا اور ان کے گارڈز تو حادثے کا شکار ہوۓ لوگوں کی مدد نے لیے چلے گۓ پیچھے اس کی ماں اکیلی وہاں بیٹھی تھیں۔

گارڈز چونکہ وہاں تھے نہیں۔اس لیے بڑی ہوشیاری سے انہوں نے کار کی ڈکی میں رکھے بیگز میں سے ایک باکس نکال کر خالی کیا اور اپنا کام پورا کردیا ۔

پھر جیسے وہ ڈرامہ شروع ہوا تھا ویسے ہی ختم ہوگیا۔

"درمان تم آخر چیز کیا ہو۔۔!!!! میں جتنا بھی ناراض ہوجاؤں تم سے پھر بھی تمہاری تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔!!"

سر جھٹک کر وہ اب کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔شادی تو اس کی طے ہوگئ تھی اب افسوس کا فایدہ کوئ نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان کو امید تھی کہ زرلشتہ کا بچپنہ تھوڑا تو اب کم ہو ہی گیا ہوگا۔وہ اپنا کارٹونک حلیہ بدل کر کسی میچور لڑکی کی طرح تیار ہوئ ہوگی ۔دیار سے بات کرنے کے بعد جو اس کا موڈ خراب ہوا تھا وہ غصہ آنے سے پہلے ڈیرے پر اپنے ملازموں پر اتار کر آیا تھا۔اور یہاں جو بکھیرا زرلشتہ نے مچایا ہوا تھا وہ اپنی موت کا سامان تیار کرکے بیٹھی تھی ۔

دروازہ کھولتے ہی اس نے سامنے دیکھا۔تو ہکا بکا رہ گیا۔اس کا منہ حیرت سے کھلا کہ وہ کسی غلط ٹھکانے پر تو نہیں آگیا۔

"یہ میں غلط جگہ تو نہیں آگیا۔یہ میرا کمرہ ہے یا کسی مرغی کا ڈربہ۔۔!!!! یہاں کونسا طوفان آیا تھا۔کیا میرے کمرے میں ڈاکہ تو نہیں پڑگیا۔۔!!"

وہ وہیں کھڑا ہوکر صدمے سے بڑبڑایا۔اس کا دل ماننے سے انکاری تھا کہ یہ اسی کا ہی کمرہ ہے۔پر یہ اسی کا ہی کمرہ تھا۔۔۔!!!

"یہ لڑکی انسان ہے بھی یا نہیں۔۔!!! کمرے کا اتنا برا خشر تو میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں کیا جتنا برا خشر اس نے ایک دن میں ہی کردیا۔یہ کیوں مجھے پاگل کرنا چاہتی ہے ۔..!!"

سامنے اسے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی زرلشتہ دکھی تو وہ اسی لمحے سمجھ گیا کہ یہ سب اسی آفت نے کیا ہے۔وہ اسے پاگل کرکے ہی چھوڑنے والی تھی۔ بیڈ کے ایک طرف پیک شدہ کپڑوں کا ڈھیر لگا تھا جو اس نے اتنے دل سے اس کے لیے، لیے تھے۔

بیڈ کے بائیں طرف سے لے کر دروازے تک اور دروازے سے لے کر دیواروں تک فرش پر خالی بیگز گرے ہوۓ تھے۔کمرے کا خشر اس لڑکی کے سگھڑاپے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔یعنی وہ تھوڑی سی بھی سگھڑ نہیں تھی۔پھوہڑ لڑکی۔۔۔!!!!

کمرے کو جنگ کا میدان پھر کوڑے کا ڈھیر بناکر زرلشتہ سکون سے بیڈ پر سوی ہوئ تھی جیسے اس نے بہت بڑا کام کیا ہو۔اور اب وہ یہ سب کرکے تھک گئ ہو۔

"اس نے میرے ہی ہاتھوں سے مرنا ہے۔میں جتنی کوشش کرتا ہوں کہ اس لڑکی کو کچھ نہ کہوں یہ اتنی ہی کوشش کرتی ہے کہ میں اس کو مار ہی دوں ۔یا اللہ مجھے صبر دے۔جب اس لڑکی کو میرے نصیب میں لکھا گیا تھا تب مجھے صبر بھی فری میں ملنا چاہیے تھا۔صبر کی اس وقت مجھے اشد ضرورت ہے۔پاگل، بیوقوف ،مصیبت ۔!!!"

اپنی پیشانی کو مسلتے ہوۓ اس نے اپنے غصے پر قابو پانا چاہا۔جو اس لڑکی کے ہوتے ہوۓ نا ممکن تھا۔ بیگ کے سمندر سے بچتا بچاتا وہ بیڈ پر سوی زرلشتہ کے پاس آیا۔جس کے بال اس کے چہرے پر آدھے بکھرے ہوۓ تھے ۔

ایک ہاتھ تکیے کے نیچے اور دوسرا ہاتھ بیڈ سے ہی نیچے لٹک رہا تھا۔

وہ اس وقت اس جن کی بیوی لگ رہی تھی پوری چڑیل ۔۔!!!!

"زندہ ہو یا مرگئ ہو۔۔!!!! اٹھو زرلشتہ۔۔!!"

جھک کر اس نے اس کے بال چہرے سے ہٹاۓ پھر ناک کے نیچے انگلی کرکے چیک کیا کہ وہ سانس لے رہی ہے یا دوسری دنیا کے دورے پر نکل گئ ہے۔

"زندہ تو ہے یہ۔۔!!! پر یہ پاگلوں کی طرح کیوں سورہی ہے۔ایسے کون سوتا ہے۔۔۔!!!

اوو میں کیسے بھول گیا یہ پاگل اپنے سٹائل میں سورہی ہے۔پاگلوں کی طرح۔۔!!!"

غصہ تو اس کا اسے دیکھتے ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔وہ تو بغیر کچھ بولے ہی اس بندے کا غصہ ٹھنڈا کرگئی تھی۔

"زرلشتہ میڈم۔۔!!! اٹھ جائیں۔کتنا سوئیں گی آپ۔کیا نیند کی گولیاں کھاکر سوئی ہو تم ۔کہیں خود کشی کی کوشش تو نہیں کرلی تم نے۔۔!!!

اٹھو ۔۔۔۔!!!!!!!!!"

اب کی بار اس نے اونچی آواز میں کہا ساتھ اسے جھنجھوڑنا نہ بھولا۔جو نیند میں ہی جانی پہچانی آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

اس کے بال اس کے بال اس کے گرد پھیلے ہوۓ تھے وہ واقعی چڑیلوں جیسی ہی لگ رہی تھی۔ایک پل کے لیے تو درمان جیسا جن بھی ڈر گیا۔

"ظالم ۔۔!! واپس آگیا ۔کوئ بچاؤ مجھے ۔۔!! بیگ میں سانپ ہے۔ساسوں ماں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا ہے۔کوئ بچاؤ مجھے ۔!!!

یہ ماں اور بیٹا میرے قتل کی تیاریاں کررہے ہیں۔پولیس۔۔!! پولیس ہیلپ پلیز۔۔!!"

اٹھ کر بیٹھتے اس نے رونی صورت بنائ اور مدھم سی آواز میں جو دل میں آیا بول گئ ۔

وہیں درمان جان گیا کہ میڈم اب بھی آدھی سوئی اور آدھی جاگی کیفیت میں جھول رہی ہیں۔

"ہاں آگیا ہوں میں تمہارا قتل کرنے۔۔!!!! جان پیاری ہے تو اٹھ جاؤ ۔اور چاۓ بناکر لاؤ۔کوئ تمیز ہے تم میں یا نہیں شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے اور تم چاۓ ،پانی پوچھنے کی بجاۓ یہاں اپنا گدھے گھوڑوں کا پورا کاروبار ایک بار میں ہی بیچ کر سوئ پڑی ہو۔اٹھ جاؤ ورنہ میں آج واقعی تمہیں مار دوں گا۔۔!!"

اسے بازو سے پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں کھڑا کرتے اس نے درشتگی سے کہا ۔زرلشتہ بھی اس قدر ظالمانہ گرفت پر آنکھیں کھول گئ۔

جب اسے درمان اپنے غصے کے ساتھ دکھا تو اس نے بھی دانت پیسے۔

"ظالم انسان خواب میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور حقیقت میں بھی نہیں چھوڑتا۔۔!!"

دل میں کڑھتے ہوۓ اس نے اسے گھورا پھر رونی صورت بنائی ۔

درمان امیجن کرسکتا تھا وہ اسے اس وقت کن القابات سے نواز رہی ہوگی ۔

"ہاتھ چھوڑیں گے تو جاؤں گی نا۔۔۔!!! یا یہ بازو آپ نے اتار کر سکون لینا ہے ۔اگر نہیں چھوڑنا تو ساتھ چلیں ۔یا پھر یہ بازو اکھاڑ کر اپنے پاس ہی رکھ لیں۔ظالم کہیں کے۔۔۔!!!!!!"

زرلشتہ کو ابھی تک نیند آئ ہوئ تھی تبھی اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوۓ اس نے جھنجھلا کر کہا تو دیار نے بھی بازو چھوڑ دیا۔

" تم تو نیند میں بھی مجھے ظالم کہنا نہیں بھولتی ۔کونسے ظلم کے پہاڑ توڑے دیے ہیں میں نے تم پر۔اللہ ہی جانے۔۔!!! جاؤ اور دھیان سے چاۓ بنانا کہیں چینی کی جگہ زہر نہ ڈال کر لے آنا"

اس نے بھی تاکید کرنا ضروری سمجھی۔زرلشتہ جو ابھی آنکھیں مسلتی ہوئی جارہی تھی بغیر جوتا پہنہ۔اس کا پاؤں فرش پر گرے بیگ میں اٹکا اور وہ فرش پر دھرام سے منہ کے بل گری۔

"مصیبت۔۔۔!!!" درمان چیخا اور فورآ اس کے پاس آیا پھر اسے سہارا دے کر بٹھایا۔جس کی ناک اب سرخ ہورہی تھی۔

"اس کمرے کی ہر چیز ہی ظالم ہے۔۔!!! میری ناک توڑ دی اس دو ٹکے کے فرش نے۔درمان اپنے فرش کو سمجھا لیں میرے ساتھ پنگ نہ لے میں یہ ٹائلیں اتروا کر باہر پھینکوا دوں گی۔میری ناک۔۔!!!"

بیٹھتے ہی اس نے دو تین تھپڑ فرش کو مارے اور روتے ہوۓ بولی۔پھر ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔اوپر سے اس کے بال بھی اس کے قابو میں نہیں تھے۔

"فرش ظالم نہیں ہے تم اندھوں کی طرح چل رہی ہو۔دیکھنے تو دو اب کیا ظلم کیا ہے تم نے اپنے ساتھ۔۔!!"

اس کا ہاتھ ہٹاکر درمان نے اس کی ناک دیکھی ۔اس کے اپنے چہرے پر درد کے تاثرات ابھرے۔وہ سیدھا نیچے گری تھی تبھی ناک بھی زخمی ہوگئ تھی اس کی۔

"تم ایسے کرو چاۓ رہنے ہی دو۔اور ان بالوں کو باندھو پہلے۔پھر منہ ہاتھ دھو کر اس ناک پر کچھ لگاؤ۔ تاکہ تمہارے ہوش ٹھکانے لگیں۔"

اسے اس نے سہارا دے کر کھڑا کیا پھر اپنے تئیں اسے بہت بڑی بات بتائ۔جس نے جھٹکے سے اپنا بازو اس کی گرفت سے نکلوایا۔

"سارا فساد اسے چاۓ کا مچایا ہوا ہے۔اب تو میں ضرور بناؤ گی۔"

 لڑکھڑاتے قدموں سے وہ چلنے لگی۔جب ایک بار پھر اس کا پاؤں مڑا۔اس بار درمان نے اسے سنبھال لیا تھا۔

"یہ جو بال تمہاری آنکھوں میں چبھ رہے ہیں انہیں ٹھکانے لگاؤ تو تمہیں کچھ نظر بھی آۓ۔مصیبت۔۔۔!!! آنکھیں دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں بال سنبھالنے کے لیے نہیں ہوتیں۔"

اب کی بار اس کی توپوں کا رخ زرلشتہ کے بالوں کی طرف تھا جو وہ نیند میں بھی برداشت نہ کرتی۔اس سے ذرا فاصلے پر ہوتے زرلشتہ نے اپنے بال چہرے سے ہٹاۓ۔

"آپ کو چاۓ سے مطلب ہونا چاہیے مسٹر نام کے آفریدی ۔!!! پر میرے بالوں پر طنز کرنے کا حق آپ کو کسی نے نہیں دیا ۔آپ شوہر ہیں میرے اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے طعنے دیتے رہیں گے۔میرے بالوں پر بات کرنے سے پہلے اپنی پیشانی پر جھولتے ان بالوں کو ضرور دیکھیں۔آپ کے لیے سب جائز اور میرے لیے سب حرام ۔!! دوغلہ رویہ ہے آپ کا۔"

تنک کر کہتے زرلشتہ نے وہیں دیوار کے ساتھ گول گول ہوئ پڑی شال اٹھا کر اپنے سر پر لی ۔اس سے پہلے وہ اس کے بالوں کو نظر لگاتا اس نے انہیں چھپا ہی لیا۔درمان اس کی ہمت پر عش عش کر اٹھا جو باتوں کا جواب بھی اچھے سے دے رہی تھی۔

"مجھے تو چاۓ بنانے والی سمجھ لیا ہے انہوں نے صبح بھی دو کپ پی کر ان کا دل نہیں بھرا جو ایک کپ انہیں اب مزید چاہیے۔ جب سے انہیں میرا ٹیلنٹ پتا چلہ ہے انہوں نے کچن میں میرے لیے ڈھابہ ہی کھلوادیا ہے۔"

دروازہ پٹخ کر وہ چلی گئ۔

درمان کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔ کہاں کا غصہ کونسی انا۔ !!

وہ تو پگھلتا جارہا تھا اس لڑکی کے لیے۔

محبت ایسے ہی تو ہوتی ہے وہ کونسا کوئ وجہ مانگتی ہے۔کسی کی معصومیت ،کسی کا کوئ انداز انسان کو اپنا دیوانہ بنادیتا ہے پھر انسان کا دل اسی شخص کا اسیر ہوجاتا ہے۔

"بس اب میرا گلہ دبانے کی خواہش ہے اس لڑکی کی۔۔!!!"

اپنا فون نکال کر وہ بیڈ پر بیٹھا۔دیار کا کام وہ کرچکا تھا۔اس نے فون نکال کر دیکھا شاید اس بندے نے کوئ میسج کیا ہو اسے۔ 

واٹس ایپ، میسنجر دور دور تک اس بندے کا کوئ نشان نہیں تھا۔

اسے ایک لمحے کے لیے دیار پر جی پھر کر غصہ آیا۔جب آپ کسی کو اگنور کریں تب آپ کو برا نہیں لگتا لیکن جب کوئ آپ کو ہی اگنور کردے تب جان نکلتی ہے۔

"یہ بہن بھائ میرے صبر کا امتحان لینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔دیار تم کیوں ہو اتنے ڈھیٹ ؟"

کسی کا نمبر ڈائل کرتے اس نے دیار کو کوسا ۔کال پہلی بیل پر اٹھا لی گئ ۔اس نے اپنے بندے سے آج آخری بار پوچھا کہ کہیں سے کیا اسے فدیان کی کوئ خبر ملی جواب تھا نہیں۔۔!!! 

یعنی دیار اس کے بھائ تک پہنچ سکتا تھا اگر کوئ نہیں پہنچ سکتا تھا تو وہ تھا درمان۔۔!!.

"میری قسمت ہی خراب ہے جو مجھے یہ سست اور کام چور لوگ ملے ہیں۔ایک کام نہیں کرسکے یہ لوگ آج تک ۔۔!!!"

اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھایا اور پینے لگا ۔پھر یہ غصہ جو کبھی بھی اس پر حاوی ہوسکتا تھا ازسرنو عود آیا۔

اس نے گلاس پر گرفت سخت کی۔

"کیا کروں میں ان نکموں کی فوج کا۔۔!!"

اس نے ابھی فون بند کرنا چاہا ہی تھا کہ اسے اس کے مینیجر کا میسج دکھا ۔

جس میں اس نے بتایا کہ آفس میں شارٹ سرکٹ ہوگیا ہے۔یہ میسج پڑھتے ہی وہ جھٹکے سے سیدھا ہوکر بیٹھا گلاس اس نے غصے سے سامنے پھینکا۔غصہ ایک بار بندے پر حاوی ہوجاۓ تو وہ کہیں کا نہیں چھوڑتا۔

"کہاں چلا جاؤں میں جہاں مجھے سکون مل جاۓ۔۔۔۔!!!!"

اسے امید تھی کہ اس کا مینیجر جو بھی آفس میں ہوا ہے اسے سنبھال لے گا۔اس لیے فون بیڈ پر اپنے پاس پٹختے ہوۓ اس نے اپنی آنکھیں میچیں اور غصے پر قابو پانے لگا۔

اس وقت اس نے شدت سے خواہش کی کہ زرلشتہ اس کے سامنے نہ آۓ ۔ورنہ وہ فضول میں ضائع ہوجاۓ گی۔

"درمان۔۔!!! کنٹرول کرو خود پر۔۔۔!!! یہ غصہ حرام ہے۔۔!! تم ابھی گھر پر ہو۔کہیں کچھ غلط نہ کر بیٹھنا ۔"

اس نے مٹھیاں بھینچیں کہ اس کا سٹاف زیادہ کام چور ہے یا پھر اس کے انڈر کام کرنے والے باقی ملازم۔

جواب تھا سب کے سب ہی ناکارہ ہیں ۔جو پہلے اسے غصہ دلاتے ہیں اور پھر اس کے غصے کا شکار وہ لڑکی ہوجاتی ہے۔اسے ان سب کو ہی کام سے نکال دینا چاہیے تاکہ زرلشتہ تو محفوظ رہے۔

تاریخ گواہ تھی اس بندے نے جب جب زرلشتہ کو تکلیف پہنچائ وجہ درمان کا سٹاف ہی تھی۔

"کوئ ہے ک۔کیا یہاں یا سارے ہی مرگۓ ہو۔..!!!"

ہر روز کی طرح یشاور نشے میں دھت اپنے گھر میں داخل ہوا۔اس دن کی مار کا اثر بس وقتی تھا وہ تو سب بھول بھی گیا۔اس کے زخم بھی اب بھر چکے تھے تبھی وہ اپنے معمول پر واپس لوٹ آیا۔

یہ بھوت لاتوں سے بھی نہیں سدھر سکتا تھا۔اسے سدھارنا مشکل نہیں ناممکن تھا۔

لڑکھڑاتے قدموں کو سنبھالتے ہوۓ اس نے لاؤنج میں سناٹے کو دیکھا اور بند ہوتی آنکھیں زبردستی کھولیں۔

"لگتا ہے م۔مر گۓ سب۔۔!! کوئ زندہ بچا ہے تو پانی ہی پلادو۔۔!!"

اپنے سن ہوتے دماغ کے ساتھ اس نے ہانک لگائی اس کی آواز لاؤنج میں گونجی۔اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو منہ کے بل نیچے گر گیا ۔

اس کی مورے ہر روز کی طرح اس کی آواز سن کر لاؤنج میں آچکی تھیں۔

یشاور فرش پر اوندھے منہ لیٹا آنکھیں موند گیا۔جیسی اس کی حالت تھی وہ خود اٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ محتاج ہوچکا تھا دوسروں کا اس وقت ۔۔!!!

اس کی مورے نے اس کی غیر ہوتی حالت دیکھی تو لب بھیج کر اس کے پاس آئیں انہیں اس وقت اس پر شدید غصہ تھا دل تو ان کا اسے رکھ کر پانچ سے چھ الٹے ہاتھ کے تھپڑ مارنے کو کیا ۔جسے ماں یا بہن کا کوئ احساس تھا ہی نہیں۔فکر تھی تو بس اپنی عیاشی کی۔۔!!!

اپنے گناہوں کے رجسٹر کو مزید آخر تک بھرنے کی۔۔!!

شام کو بہراور درانی اور رخمینہ بیگم معصومہ کودیار کے نام کی انگوٹھی پہنانے آۓ تھے۔تب انہوں نے یشاور کی غیر موجودگی کو نوٹس کیا تھا۔معصومہ اس کی اکلوتی بہن تھی اس کے اتنے خاص وقت میں اکلوتے بھائ کا نا ہونا عجیب سا لگا انہیں۔

دلاور خان نے تب اتنا کہہ کر بات سنبھالی کہ یشاور بہت ذمہ دار لڑکا ہے وہ ان کا بوجھ بانٹنے کی خاطر ان کے حصے کے کام بھی خود ہی کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور آج بھی کسی کام کے سلسلے میں باہر گیا ہے۔منگنی نہ سہی نکاح پر وہ ضرور موجود ہوگا۔

انہیں اب کون بتاتا کہ یشاور کسی کا بازو کیا خاک بنے گا وہ تو خود اپنی بری صحبت کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھ کا کھلونا بنا ہوا ہے۔

"یشاور۔۔!! کچھ تو شرم کرو ۔گھر میں چھوٹی بہن ہے تمہاری کچھ تو لحاظ کرلیا کرو اس کا۔کیا اثر پڑتا ہوگا تمہاری ان گھٹیا حرکتوں کا اس کے ذہن پر۔۔!! کیا سوچتی ہوگی وہ کہ اس کا بھائ کس قدر آوارہ ہے جسے اپنے سوا کسی کی پرواہ نہیں ۔۔!!"

اسے جھنجھوڑنے کے بعد انہوں نے اسے شرم دلانا چاہی ۔جس کی مسکراہٹ گواہ تھی کہ اسے کوئ فرق نہیں پڑا اس بات سے۔

مشکل سے اسے اپنے سہارے کھڑا کرتے انہوں نے اسے صوفے پر لاکر پٹخا۔۔!!

جو جواب میں ہنسنے لگا۔

"ش.رم ۔۔!! شرم۔۔ !! شرم ۔۔!! یہی بولتی رہتی ہیں آپ۔بیٹی نظر آتی ہے آپ کو بیٹا نہیں دکھتا۔اس کی بجاۓ اگر م.میری شادی کرواتے ہوۓ تھوڑی سنجیدہ ہوجاتیں آپ تو کتنا اچھا ہوتا نا۔آج وہ دیار میرے سامنے جھک کر رہتا۔ !!

پر آپ کو کوئ احساس نہیں میرا۔۔!!"

اپنی طرف بڑھتا ان کا ہاتھ جھٹک کر وہ چلایا۔ جو اس کی ہٹ دھرمی پر اب مزید سلگ چکی تھیں۔

"بدتمیز۔۔!!! میں تو مر کر بھی کسی کی بیٹی کی زندگی نہ تباہ کروں تم سے شادی کروا کر ۔اچھا کیا تھا میں نے جو تمہارے اس خفیہ ٹھکانے کی خبر دیار تک پہنچا دی تھی۔اچھا ہوا اس کی بہن بچ گئ۔

اور تم یہ آنکھیں نیچی کرکے مجھ سے بات کیا کرو۔میں ماں ہوں تمہاری تم باپ نہیں ہو میرے ۔!!!"

اس کا گریبان پکڑ کر وہ اس سے بھی دگنی آواز میں دھاڑیں۔پھر اگلے ہی لمحے اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہے درپے تھپڑ یشاور کے منہ پر مارنے شروع کردیے۔جو ہوش میں نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے کی سمت صوفے پر گرا۔

وہ بھلے ان کا بیٹا تھا پر اس کے ان غلط کاموں میں انہوں نے کبھی اسے سپورٹ نہیں کیا تھا ۔ان کی اپنی بھی ایک بیٹی تھی وہ تو کبھی کسی دوسرے کی بیٹی کو جہنم میں نہ جھونکتیں۔

"کیا کہہ رہی ہو تم سبرینہ ۔۔!!! تم نے دیار تک وہ بات پہنچائ تھی۔بہت پر نکل آۓ ہیں نا تمہارے۔۔!!! اوقات بھول گئ ہو کیا تم اپنی ۔۔!!

اور میرے بیٹے پر تم نے ہاتھ کیسے اٹھایا۔کیا سمجھنے لگی ہو تم خود کو۔!!"

ابھی ان کا ارادہ یشاور کا دماغ مزید ٹھکانے لگانے کا تھا جب انہیں عقب سے دلاور خان کی آواذ سنائ دی۔جو کچھ دیر پہلے ہوا انکشاف سن چکے تھے۔انہیں لگا تھا کہ یہ سب اتفاقیہ طور پر ہوا تھا ۔پر یہ تو پلیننگ تھی ان کی ۔!!

سبرینہ بیگم چونک ضرور گئیں پھر ایک شعلہ برساتی نگاہ اپنے شوہر پر بھی ڈالی۔جسے ان کا تھپڑ تو نظر آگیا تھا پر بیٹے کی حرکتیں نظر نہیں آئ تھیں ۔

"ہاں کیا تھا میں نے۔۔.!! کیا کریں گے ماریں گے مجھے تو شوق سے ماریں ۔!!! آپ جیسے منافق سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے ۔یہ بیٹا ہے میرا تھپڑ کیا میں اس کا منہ بھی توڑ سکتی ہوں۔مجھے آپ نہیں روک سکتے۔۔!!

سنبھالیں اپنے اس گندے خون کو۔۔!!!

جیسا منافق باپ ویسا آوارہ بیٹا۔۔!!! 

میری اور میری بیٹی کے سر پر عزاب بن گۓ ہیں یہ دونوں ۔۔!!!

یا اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔۔!!"

اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاکر وہ انہی کے لہجے میں چیخیں پھر ان کا جواب سننے کی بجاۓ وہاں سے واک آؤٹ کر گئیں ۔

دلاور خان تو صدمے میں تھے کہ کیا یہ ان کی ہی بیوی ہے اتنا غصہ اس میں کہاں سے آگیا ۔سچ تو یہ تھا کہ انسان کی جب برداشت ختم ہوجاۓ تو اسے پھر انجام کی فکر نہیں رہتی اس کا جو دل کرے وہ کرگزرتا ہے۔

سبرینہ بیگم بھی ان منافقوں کے ساتھ رہ رہ کر تھک چکی تھیں۔

"دل جان۔۔!!! یہ بھابھی تم کو زیادہ ذلیل نہیں کرگیا کیا۔۔!! اتنا غصہ آتا ہے بھابھی کو۔ویسے صحیح کھڑا کھڑا سنایا ہے انہوں نے تم کو۔۔!!!

سچ ہی تو کہتا ہے وہ اولاد تمہارا گندی ہے،گٹر کے کیڑے جیسی اور غصہ تم بھابھی پر نکالتا رہتی ہے۔۔!!

کچھ شرم تو کرو دلاور جانا ۔!!! مرد جو بیوی کو پیر کا جوتا سمجھے وہ مرد نہیں جوتے صاف کرنے والا کپڑا ہوتی ہے کپڑا۔۔!!!

تم گندا کپڑہ ہے دلاورا ۔!!! اب تمہارا یہ گندا بچہ ہم اٹھاۓ یا کسی ملازم کو بلواۓ۔۔!! یہ جتنا سانڈ ہے تم سے اٹھایا نہیں جاۓ گا۔ہم گدھا گاڑی منگواتا ہے۔۔۔!!!"

دلاور خان کی بے عزتی اس کے پیچھے کھڑے بادل خان نے بھی سنی تھی۔جس نے سبرینہ بیگم کے جاتے ہی ان کا تپا ہوا چہرہ دیکھتے حساب پورا کردیا تھا۔

اس کی باتیں سن کر دلاور خان کا خون کھولا انہوں نے اسے گھور کر وہیں روکا۔

"بادل خان زبان کو لگام ڈال لو۔۔!!! اس گندے بچے مطلب میری گندی اولاد اففففففف ۔۔!!!! میرا مطلب ہے پشاور کو یہیں رہنے دو اور میرے ساتھ چلو۔اور بتاؤ کیا خبر ملی ہے تمہیں اس فدیان کی۔بھاگنے کی نئ کوشش تو نہیں کی نا اس نے۔!!! "

یشاور کو وہیں چھوڑ کر وہ سٹڈی روم کی طرف جانے لگے۔بادل ان کی لڑکھڑاتی زبان کو دیکھ کر لب دبا گیا۔پھر اپنے سر پر کبوتر کے پر والی ٹوپی سیدھی کرکے ان کے ہی پیچھے چل پڑا ۔

جی ہاں فدیان کو اغواہ کروانے والے دلاور خان تھے۔جو شرافت کا لبادہ اوڑھ کر پورے علاقے کی نظروں میں نمازی ، پرہیز گار انسان تھے اور حقیقت میں دوغلے،مکار اور چالاک انسان ۔

بہراور درانی کیا پورا آفریدی اور درانی خاندان بھی مل کر اب تک ان کے شیطانی دماغ تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ یشاور کے کرتوت بھی اس کی ماں کی بدولت دیار کو پتہ لگے تھے ورنہ دلاور خان نے تو اس پر بھی اچھے سے پردہ ڈالا ہوا تھا۔

"دلاور جانا ۔!!! وہ لڑکا ایک دم اچھے ماحول میں ٹھاٹھ باٹھ والا زندگی جی رہا ہے۔بڑا اچھا اور نیک بچہ ہے وہ ۔روز کا بس پچاس ہزار ہی حرچ کرتا ہے۔اس سے زیادہ نہیں کرتا۔مہنگائ بھی تو بہت ہوگیا ہے نا۔۔!!!باقی اس کے لیے نیا کپڑا اور باقی ضرورت کا سامان ہم بھیج چکا ہے۔بیس لاکھ خرچہ آیا ہے اس سب پر جو ہم آپ کے وہ رنگ برنگے کارڈ سے دے دیا تھا۔آپ فکر نہ کرو ۔ہم نے کہا تھا نا ہم اگر اس کو اچھے سے رکھے گا تو وہ کبھی نہیں بھاگے گا۔وہ تمہارے گندے بچے جیسا تو نہیں ہے جسے باپ کی پرواہ ہی نہیں ۔!!!!"

ان کے پیچھے چلتے اس نے جتاتے ہوۓ کہا ۔اس بیس لاکھ والی بات پر انہوں نے اسے صدمے سے دیکھا جو اب تک کوئ کروڑ روپیہ اس لڑکے پر لگا چکا تھا۔

عجیب لاجک تھی بادل کی کہ اگر وہ اس لڑکے کو اچھے سے رکھیں گے تو وہ نہیں بھاگے گا اور وہ سچ میں نہیں بھاگا تھا۔

اس کے آئیدیاز کی وجہ سے ہی تو دلاور خان اس کی زبان کو سائیڈ پر رکھ کر اس کی باتیں مان لیتے تھے۔

"بادل ۔!!! ہاتھ ذرا ہولہ رکھو ۔۔!!! تم تو مجھے بیچ کر ہی سکون لو گے۔۔!!! اچھا چھوڑو یہ سب معصومہ کا نکاح ہے کچھ دن بعد دیار کے ساتھ۔۔!! تیاریاں دیکھ لینا تم۔اور کوشش کرو کہ یہ یشاور بھی تب تک کوئ الٹی حرکت نہ کرے۔ بڑی مشکل سے وہ دیار ہاتھ آرہا ہے۔ اور بہراور درانی بھی میرے قابو میں آنے والا ہے بہت جلد۔۔!!! 

میں کوئ رسک نہیں لے سکتا۔۔!! مجھے اس خاندان پر پورا کنٹرول چاہیے۔اور وہ لڑکی بھی کیا نام ہے اس کا زرلشتہ ۔!!!

وہ بھی چاہیے مجھے ۔۔۔!!!! یشاور کو جب تک وہ نہ ملی اس کی انا کو سکون نہیں آۓ گا۔ تو اب فدیان کی خدمت کرنا چھوڑ کر تم کچھ اور کرنے کے بارے میں سوچو۔۔۔!!!"

انہوں نے ایک کتاب نکال کر اپنے سامنے کی پھر اسے لے کر صوفے پر بیٹھ گۓ۔بادل نے یہ سب دھیان سے سنا پھر سر ہاں میں ہلادیا۔

"دل جان ۔۔!! تم بے فکر رہو۔۔!! وہ لڑکی بھی جلد واپس آجاۓ گا۔ اور تمہارا بیٹا بھی خوش ہوجاۓ گا۔ باقی معصومہ بچی ہمارا بھی کچھ لگتا ہے اس کی فکر بھی تم نے نہیں کرنی۔ہم کردے گا جو بھی کرنا ہوا۔۔!!!

پچھلی بار تو وہ درمان خانہ خراب ہمارے اتنے اچھے پلان کے باوجود بچ نکلا تھا پر اس بار ہم اس کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گی۔۔!!!

ہم قتل کا ریکارڈ بناۓ گی۔ایک قتل، دو قتل تم جتنا قتل کہے گی ہم کرے گی۔

ٹھیک ہے نا۔۔۔!! اب ہم جاۓ۔۔!!"

سر جھکا کر اسے مسکرا کر دیکھتے بادل نے اجازت چاہی تو دلاور خان نے سر ہاں میں ہلادیا۔بادل پلٹا پھر اس کے چہرے پر اب کچھ دیر پہلے جو چمک تھی لمحے میں غائب ہوئ۔چہرے کے تاثرات تن گۓ۔

اس نے لب بھینچے ۔اور گہرا سانس خارج کیا۔

یہ چاپلوسی والا ڈرامہ کرنا بہت مشکل تھا۔

"تم بھی نہ دلاور کمینہ۔۔۔!!! ہم کو سمجھ نہیں سکتا۔ تم بھی کیا کرے ہم سمجھ میں آنے والی شے نہیں ۔تم سمجھتا ہے کہ تم ہم کو اشاروں پر نچا رہا ہے اصل میں تو تم وہی کرتا ہے جو ہم چاہتا ہے۔!! 

بڑا شاطر سمجھتا ہے تم خود کو پر بھول گیا آستین کا سانپ بھی کوئ شے ہوتا ہے نا۔۔!!! فدیان ،درمان، زرلشتہ ،وشہ، دیار، یشاور اور معصومہ سب کا فیصلہ ہم کرے گا ۔!!! تم نہیں۔۔!!!

بس تم اب دیکھتا جاؤ ہم کیا کرتا ہے ان سب کے ساتھ۔۔۔!!! بادل خان اب کھیل کا رخ پلٹنے کی باری ہے۔۔۔۔!!!!"

ایک پر اسرار سی مسکراہٹ کے سنگ وہ سکون سے وہاں سے نکل گیا۔اس کے انداز میں سرشاری تھی ۔کھیل کا اصل بادشاہ تو وہ تھا۔تو کیوں نہ اکڑ کر چلتا۔۔!!

 دلاور خان اس الجھی کہانی کا ایک شاطر اور منجھا ہوا کھلاڑی تھا۔جو بظاہر کچھ اور اصل میں کچھ اور تھا۔پر بادل خان تو اس سے بھی بڑی فلم نکلا۔۔۔!!!!!

سب جو بھی کررہے تھے سب کے اپنے اپنے مقصد تھے ۔اب جاننا یہ تھا کہ کس کا کیا مقصد ہے۔!!! کون صحیح ہے اور کون غلط ۔۔!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

دیار نے وہ ٹریکنگ چپس اپنے خفیہ بندے کے حوالے کردی تھیں جو ڈیلیوری بواۓ کے گیٹ اپ میں اس تک آیا تھا ۔دیار کو اس لڑکے پر بھروسہ تھا کیونکہ اس نے اس پر سالوں تک ان گنت احسانات کیے تھے۔اسے پتا تھا سب اسے دھوکہ دے جائیں گے وہ نہیں دے گا۔

اسے کچھ دیر پہلے اسی بندے کی طرف سے ڈن کا میسج موصول ہوا تھا ۔اسے تسلی ہوئ تو اس نے فون آف کرکے سائیڈ پر رکھ دیا ۔

اس کے ماں باپ نے بھی اسے انفارم کردیا تھا کہ یہاں سے نکلتے ہی انہوں نے فورا اس کی منگنی کردی ہے اور نکاح ایک ہفتے بعد ہوگا ۔باقی کی رسمیں اور رخصتی زرلشتہ کی واپسی کے بعد ہوگی۔

دیار نے بھی اعتراض نہ کیا کیونکہ شادی تو اسے ایک نہ ایک دن کرنی ہی تھی معصومہ سے نہ سہی تو کسی اور سے۔۔!!!!

اچھا یہی تھا کہ وہ ماں باپ کی مرضی میں ہی خوش ہوجاتا تاکہ بعد میں اگر کوئ مسئلہ ہوتا تو الزام اس پر نہ آتا۔ وہ تو کہہ دیتا کہ آپ کی پسند تھی اب آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔۔ !!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ جونہی چاۓ بناکر لائ اسے درمان بیڈ کراون سے ٹیک لگاۓ دکھا ۔غصے کی زیادتی کی وجہ سے اس کا چہرہ لال ہورہا تھا۔لمحے کے لیے زرلشتہ وہیں رک گئ اسے سمجھ آگئ کہ کچھ تو گڑبڑ ہے یہاں۔فرش پر بکھرا ہوا کانچ دیکھ کر اس نے اپنے شک ہر مہر لگادی ۔

"شاید جو سب میں نے نیند میں انہیں کہا تھا یہ اس بات کی وجہ سے غصے میں ہوں۔ !! کوئ بات نہیں میں سوری کہہ دوں گی۔۔۔!!!"

اپنا دل مضبوط کرکے وہ کانچ سے بچتے بچاتے ڈرتے ہوۓ درمان کے پاس آئ جس کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔زرلشتہ کی ساری بہادری درمان نے بغیر کچھ کہے ہی ختم کردی تھی۔وہ جب کچھ کہتا تو پتہ نہیں اس لڑکی کا کیا بنتا۔شال جو اس کے پاؤں تک پہنچ رہی تھی پہلے وہ اس نے مشکل سے اتاری کہ کہیں ٹرے نہ گرجاۓ۔

پھر ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر زرلشتہ نے کانپتے ہاتھوں سے چاۓ کا کپ اٹھایا۔اور اس کی طرف بڑھایا۔

"آپ کی چ۔چاۓ۔۔!!" وہ ڈرتے ہوۓ بولی ۔

درمان کو اس کی موجودگی کا انداز ہوگیا تھا پر وہ کچھ بولا نہیں تھا۔وہ چاہتا تھا وہ اسے سویا ہوا سمجھ کر خود ہی اسے بلانے کی کوشش نہ کرے۔

زرلشتہ کی آواز سن کر درمان نے آنکھیں کھولیں اور اس کے ہاتھ سے کپ پکڑنا چاہا۔بے دھیانی میں اس کا ہاتھ کپ کو لگ گیا اور گرم گرم چاۓ چھلک کر اس کے ہاتھ پر گرگئ۔ درمان تو پہلے ہی غصے سے بھرا ہوا تھا اب بس پھٹنے کے قریب تھا۔

زرلشتہ کے چہرے پر درد کے آثار آۓ چاۓ اس کے بھی ہاتھ پر گری تھی۔

"پاگل لڑکی۔۔۔!!!! کوئ تمیز ہے تم میں یا نہیں۔۔ !!! ہاتھ جلا دیا تم نے میرا کوئ کام تو تم  ڈھنگ سے کرلیا کرو ۔۔!!!!"

کرنٹ کھاکر اٹھتے ہی وہ اپنا ہاتھ دیکھ کر دھاڑا جو پورا سرخ ہوچکا تھا۔پھر زرلشتہ کے دونوں بازو غصے سے دبوچ کر اس کے خوف سے پیلے پڑتے چہرے کو غصے سے دیکھنے لگا۔

زرلشتہ کے ہاتھوں پر شدید جلن ہورہی تھی اوپر سے درمان کا غصہ ایسا تھا کہ اس کا سانس ہی سونکھ گیا ۔۔!!! وہ حیران تھی کہ درمان کو اچانک ہوا کیا۔آنکھوں سے موتی نکل کر گالوں پر پھسلنے لگے۔

"س۔سوری۔۔!!! مجھے چھوڑیں ۔۔!!! د۔درد ہورہا ہے مجھے۔کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔!!!"

آنکھیں زور سے میچ کر زرلشتہ نے روتے ہوۓ کہا کہ شاید درمان کو اس پر ترس آجاۓ پر درمان تو اس وقت اپنے آپے سے ہی باہر تھا ترس کیا کھاتا۔

"سوری کہنے سے کیا تمہاری غلطیاں ٹھیک ہو جائیں گی۔۔!!!! جاہل ہو تم جسے کسی چیز کی نالج نہیں۔نا ڈریسنگ سینس کا کچھ پتا ہے نا بولنے کی تمیز ۔۔!!! بدلحاظ ہونے کے ساتھ ساتھ عزاب بھی ہو تم میرے سر پر۔جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی تم میری۔میرے سر پر کیوں مسلط ہوگی ہو !!"

اس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اس بات سے بے خبر ہوکر کہ وہ اسے صرف ذہنی نہیں جسمانی اذیت بھی دے رہا ہے۔اس کے لفظ تو تھے ہی تیر جیسے۔اوپر سے بازوؤں میں اٹھتا درد پھر اس کے ہاتھ میں پکڑے کپ سے چاۓ چھلک چھلک کر اس کے ہاتھوں اور کپڑوں پر گرتی جارہی تھی۔

پر زرلشتہ تو شاکڈ تھی کہ درمان کے نزدیک تو وہ کسی عذاب جیسی ہے۔جس سے اسے چھٹکارا چاہیے۔

یہ ازیت سارے دردوں پر غالب آگئ۔

"تو چھڑوا لیں نا مجھ سے پ۔پیچھا۔ کس چیز کا ڈر ہے آپ کو۔۔!!! میں بھی آپ جیسے وخشی کے ساتھ رہتے ہوۓ تھک گئ ہوں۔جسے خود بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا کررہا ہے۔آج اپنی مشکل بھی آسان کریں اور مجھے بھی سکون سے مرنے دیں ۔سامنے کھڑی ہوں آپ  کے دبادیں گلہ اور آزاد ہو جائیں اس بوجھ سے۔۔۔!!!"

زرلشتہ نے اذیت سے کہا کپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرچکا تھا۔کتنے دل سے وہ اس شخص کے لیے چاۓ بناکر لائ تھی اور اس شخص نے اسے ذلیل کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔

درمان کی گرفت اس کے بازوؤں پر مزید سخت ہوئ۔

"کتنی بار کہا ہے کہ یہ زبان قابو میں رکھا کرو میرے سامنے۔میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے۔جب دل کیا تمہیں مار کر دفنابھی دوں گا۔میں بھی تم سے اب تنگ آگیا ہوں۔!!! کبھی کیا یہ شوق ابھی پورا کرلیتے ہیں۔ اس مصیبت کو آج میں سر سے اتار ہی دیتا ہوں۔۔!! بہت شوق ہے نا مرنے کا تو مرجاؤ۔میرے غصے کو ہوا دینا تو فرض ہے نا تم پر۔!!!"

اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ درمان پھنکارا۔غصے نے اسے بھلا دیا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر اس کا دل دھڑکتا ہے اب۔وہ اسے اگر مار گیا تو خود بھی مرجاۓ گا۔

زرلشتہ یہ سن کر زخمی سا مسکرائی اتنی ہی اوقات تھی اس کی درمان کی نظروں میں اسے پتہ لگ گئ۔جس لڑکی کو اس کا شوہر ہی حقیر جانے وہ دوسروں سے کیا شکوہ کرے گی۔

درمان نے اگلے ہی لمحے ہاتھ اس کے گلے کے گرد رکھ دیے تھے۔جو روتے ہوئے آنکھیں بند کرگئ۔وہ بھی تھک گئ تھی اس زندگی سے تو اب موت ہی بہتر لگی اسے۔اس کی گرفت سخت سے سخت ہوتی گئ۔وہ غصے میں پاگل ہوگیا۔زرلشتہ نے مزاخمت نہیں کی۔وہ چاہتی تھی کہ یہ شخص ایک ہی بار میں اپنا غصہ اتار دے۔

درمان نے آنکھیں بند کیں اور گہرا سانس خارج کیا۔

"درمان چھوڑ دو اسے۔۔!!! وہ مرجاۓ گی۔۔ !!! وہ محبت ہے تمہاری۔۔!! کوئ تو لحاظ کرو اس لفظ کا۔شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کی بجاۓ تم تو اسی کے اشاروں پر چلنے لگے ہو۔ڈرو اللہ سے۔ غصہ کھا جاۓ گا تمہیں ۔!!!"

اس کی انگلیوں کی بڑھتی گرفت خود سے آتی اس آواز پر خود ہی کمزور پڑی۔ وہ غصے کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو چکا تھا۔پر اس آواز پر جھٹکے سے ہوش میں آیا تو احساس ہوا کہ وہ کرکیا رہا ہے۔زرلشتہ کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔وہ بس بے ہوش ہونے کے قریب تھی جب درمان نے جھٹکے سے اسے چھوڑا تو وہ پیچھے بیڈ پر گرگئ اور زور زور سے کھانسنے لگی۔

وہ تو چاہتی تھی کہ درمان آج یہ قصہ ختم کردے پر درمان نے جب اسے چھوڑا تھا تو اپنا بند ہوتا سانس بحال کرنے کی خاطر وہ کھانسنے لگی۔

درمان حیران تھا کہ کیا وہ خود یہ سب کررہا تھا۔اگر وہ ہوش میں نہ آتا تو وہ اسے مار چکا ہوتا۔

_______________________

 اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چوکا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو یقیناً وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔

(سورة الاعراف آیت:200)

________________________

"ر۔رک کیوں گۓ ماریں نا۔۔!!! جان سے مار دیں نا مجھے۔۔!!! ماریں۔۔!!"

زرلشتہ مشکل سے اس کے سامنے کھڑی ہوئ اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر دوبارہ اپنے گلے کے گرد باندھے اور روتے ہوۓ بولی۔

اس کی اذیت دیکھتے ہی درمان نے اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالے اور اسے خود میں بھینچ گیا۔

"سوری..!! آۓ ایم ریلی ویری سوری۔۔۔!!! میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا تھا۔میں غصے میں تھا ۔اور غصہ تم پر اتر گیا۔میں تمہیں مار ہی نہیں سکتا۔۔۔!!! پلیز مت رو ۔!!! مت رو زرلشتہ ۔۔!!!"

 اسے خود میں بھینچتے اس کے سر پر بوسہ دیتے درمان نے تڑپ کر کہا۔زرلشتہ کو پتا لگ گیا تھا کہ اس کا غصہ اب ختم ہوگیا ہے تبھی وہ بھی شدت سے رونے لگی ۔

"پہلے ب۔بابا نے مجھے بوجھ کی طرح اپنے سر سے اتار کر آپ کے سر پر مسلط کرگیا اب آپ مجھے مار کر دفنا آئیں۔۔ !!!! سب ختم کردیں ۔!!! آپ کو غ۔غصہ اتارنے کے لیے میں ہی ملتی ہوں تو ایک ہی بار میں غصہ اتار لیں ۔!!! ماریں مجھے ۔۔!! ماریں نا۔۔!!"

اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے زرلشتہ نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔درمان اب کیا کہتا اسے۔اسے تکلیف تو وہ دے گیا تھا۔

"تم بوجھ نہیں ہو مجھ پر ۔۔!!! بیوی ہو تم میری۔۔!!! میں پاگل ہوں بالکل پاگل جو ایسی غلطیاں کردیتا ہوں ۔۔!!! زرلشتہ چپ کرجاؤ نا۔۔!!"

اسے بیڈ پر اپنے ساتھ بٹھاتے اس نے تکلیف سے کہا۔جواب میں زرلشتہ غصے سے اس سے دور ہوئ۔اپنی نم آنکھوں کو اس کی ملامت کرتی آنکھوں میں گاڑ کر اس نے لب بھینچے۔

"مولا تقی علیہ السلام کا فرمان ہے

جو لوگ آپ کے قبضۂ قدرت میں ہوں ان پر غصہ اتارنا کمینگی ہے۔۔۔!!!(بحار الانوار _جلد78)

سمجھے آپ ۔کمینگی ہے یہ۔!!! چلے جائیں یہاں سے مجھے نہیں بات کرنی آپ سے ۔۔!!! جب آپ کو اپنے اس غصے پر قابو پانا آجاۓ تب واپس آئیے گا ۔!!

مجھے کھلونا نا بنائیں درمان جسے جب دل کرے پیار کرلیا جب دل کیا مارنا اور ڈانٹنا شروع کرلیا۔میں انسان ہوں درمان ۔۔!!! انسان ۔!!! مجھے بھی درد ہوتا ہے تکلیف ہوتی ہے ۔میرا بھی دل دکھتا ہے۔!!! مانا میں آپ کو اچھی نہیں لگتی پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے مجھ سے حسیات ہی واپس لے لی ہیں ۔

آپ نے دل توڑا ہے میرا۔۔!!! جائیں یہاں سے ۔۔!! مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔!!!

مجھے نفرت ہورہی ہے آپ سے۔۔۔!!!"

درمان نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا جو اس نے جھٹک دیا پھر درد کرتے بازوؤں کو سہلاتے ہوۓ وہ منہ پھیر گئ۔

درمان نے اسے کیا سے کیا بنادیا تھا۔اسے رلا کر رکھ دیا تھا اس نے۔درمان کی نظر اس کی گردن پر موجود اپنی انگلیوں کی چھاپ پر گئ۔پھر اس کی ناک جو پہلے ہی زخمی تھی، پھر اس کی آنکھیں جن میں اس کے لیے واضح نفرت تھی۔اس کے ہاتھ جو چاۓ گرنے سے سرخ ہورہے تھے پھر انہی ہاتھوں سے وہ اپنے بازو سہلا رہی تھی۔

وہ چاہتی تھی وہ یہاں سے چلا جاۓ پر یہ اس وقت ٹھیک نہیں تھا۔درمان نے اسے تکلیف دی تھی تو مرہم بھی اسے ہی رکھنا چاہیے تھا۔دل تو اس کا کیا کہ خود کو ہی شوٹ کرکے کہ کتنا گرا ہوا اور گھٹیا انسان ہے وہ جو اپنی ہی بیوی کو مارتا ہے۔سب سے زیادہ گری ہوئ حرکت یہی ہے خود سے کمزور کو مارنا۔

اس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر اس نے اس کے چہرے سے آنسو پونچھے جس نے آنکھیں ہی نفرت سے بند کرلیں۔

"دور رہیں مجھ سے۔۔۔!!!" وہ ضبط سے بولی ۔

"دور ہوگیا تو رہ لو گی تم۔۔!!! " وہ بھی ویسے ہی بولا۔زرلشتہ نے جواب ہی نہ دیا۔

پر درمان کو جواب مل گیا تھا وہ آگے بڑھا اور اسے خود سے لگا گیا۔اس کا درد کم کرنا اس کی پہلی ترجیح تھی اب۔

زرلشتہ نے اب کی بار مزاخمت نہیں کی تھی۔بس اس کے رونے میں تیزی آگئ تھی ۔

"پرامس اب مرتا مرجاؤں گا تم پر غصہ نہیں اتاروں گا ۔!!! زرلشتہ چپ کرجاؤ۔۔!!! زیادہ ہورہا ہے کیا۔میں دوا لگادوں ۔۔!!!"

اس کا سر سہلاتے ہوۓ وہ دگنی فکر سے بولا۔فکر اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

"آۓ ہیٹ یو۔۔۔!!!! آ۔آپ مجھے اچھے نہیں لگتے۔ اللہ آپ کو مجھ پر اتنا رلاۓ کہ آپ تڑپ اٹھیں۔ میری دعا ہے میں مرجاؤ اور آپ تڑپ تڑپ کر روتے رہیں۔۔۔۔!!!"

روتے ہوۓ زرلشتہ بھی اسی تکلیف سے غرائ۔ اسے زہر لگ رہا تھا درمان کا یہ انداز یا اسے غصہ تھا کہ یہ شخص پل میں توشہ پل میں ماشہ کیسے بن جاتا ہے۔ابھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کی روح ہی نکال لے۔اور اب اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا درد خود پر لے لے۔۔!!!

"چپ۔۔!!! بالکل چپ ۔۔!!! ایسے نہیں بولو کیوں مجھے تڑپارہی ہو ۔۔!!! اللہ نہ کرے کہ تمہیں کچھ ہو۔۔!! میں اس مصیبت کے بغیر کیسے رہوں گا۔۔!! چپ کرو ۔اب کچھ نہ کہنا۔۔۔!! بہت فضول بولتی ہو تم۔۔!!"

اس کی جان لبوں پر آئ زرلشتہ کی یہ دعا سن کر پچھلی بار بھی زرلشتہ نے یہی کہا تھا اور درمان کی جان نکل گئ تھی اس کی حالت پر۔

آج پھر وہ یہی کہہ رہی تھی۔زرلشتہ کو شراکت سچ میں قبول نہیں تھی تبھی تو وہ چاہتی تھی کہ یہ روۓ بھی تو اس کی وجہ سے ہی روۓ۔

درمان اسے پرسکون کرنے کی خاطر اس کا دکھتا سر دباتا رہا۔جب تک کہ وہ روتے روتے خود ہی تھک کر سو نہ گئ۔ اس کے سوتے ہی اس نے اسے وہیں بیڈ پر لٹا دیا۔اسے ابھی اپنے سٹاف کو بھی الٹا لٹکانا تھا جو اصل میں سزا کے حقدار تھے۔

زرلشتہ کے ہاتھ اور پیر پر چاۓ گری تھی پہلے درمان نے فرسٹ ایڈ باکس لا کر اس کے ہاتھ اور پاؤں پر دوا لگائ۔پھر اس کی ناک جو اس وقت سرخ ہورہی تھی اور سامنے سرخ سا نشان بھی تھا وہاں دوا لگا کر اس پر کمفرٹر درست کرکے وہ اٹھ گیا۔

"یا اللہ میرا دل اس کے معاملے میں نرم کردے۔۔!! میں کم ظرف کیوں ہوتا جارہا ہوں۔یا اللہ پلیز میرا دل نرم کردے۔۔!!"

جھک کر اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا لمس چھوڑتے وہ وہاں سے چلا گیا۔

کمرے سے باہر نکلتے ہی اس کے اعصاب تن گۓ ۔اسے خود پر غصہ تھا کہ وہ اتنا برا کیوں ہے۔۔!! 

راستے میں دیوار پر مکہ مارتے پہلے تو اس نے ان ہاتھوں سے بدلہ لیا جو زرلشتہ کی تکلیف کی وجہ تھے۔

دیوار پر سجاوٹ کے لیے نوکیلی سطح بنائ گئ تھی تبھی اس کے ہاتھوں کی انگلیوں سے خون کے قطرے گرے۔

"اب ٹھیک ہے۔۔!!! ان ہاتھوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔۔!!"

اپنا ہاتھ جھٹک کر درمان نے پاکٹ سے رومال نکال کر اس پر باندھا اور آگے بڑھ گیا۔جب اسے راستے میں ملازمہ دکھی۔

جاتے وقت وہ ملازمہ کو ہدایت دینا نہ بھولا کہ وہ زرلشتہ کو کھانا ٹائم پر دے۔ورنہ انجام برا ہوگا۔پھر تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"تم بھاگ کیوں نہیں جاتے۔۔!!! اگر اغواہ ہونے کے باوجود تم ہم لوگوں سے گدھوں کی طرح کام کرواسکتے ہو تو یقیناً بھاگ بھی سکتے ہوگے۔یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھو اور بھاگ جاؤ تم ۔!! باس کی ہر سزا ہمیں منظور ہوگی پر تمہیں اب ہم نہیں برداشت کر سکتے...!!!"

موٹے اغواہ کار نے آج تنگ آکر اسے بھاگنے کی آفر کی۔ جس نے جواب میں ٹیبل پر انگلی پھیر کر گرد کو دیکھا۔وہ ان دونوں سے اس وقت اپنے کمرے کی صفائ کروارہا تھا۔

"کتنی گرد جمی ہے یہاں پر دیکھو تو سہی۔۔!! کتنے سست ہو تم دونوں۔۔!!! جلدی سے یہ کام ختم کرو ۔ابھی واش روم بھی دھونے والا ہے "

وہ آرام سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

ان دونوں اغواہ کاروں کی یہاں بس ہوگئ تھی انہوں نے ڈسٹنگ والے کپڑے وہیں پھینک دیے۔

"ہمیں بتادو آخر کس جرم کی سزا دے رہے ہو تم ہمیں۔۔!! اتنے کام تو کبھی میری بیوی نے مجھ سے نہیں کرواۓ تھے جتنے اس بندے نے کروالیے ہیں۔ اتنی خدمت تو میں نے اپنی سگی ماں کی نہیں کی تھی جتنی اس کی کی ہے۔آخر چاہتے کیا ہو تم۔اللہ کس واسطہ ہے چلے جاؤ یہاں سے۔!!"

پتلے اغواہ کار نے اسے زبردستی کرسی سے کھڑا کیا اور کمرے سے باہر دھکا دے دیا اور ہاتھ تک جوڑ دیے کہ نکل جاؤ یہاں سے ۔!!!

جو کافی خفا لگا اس حرکت کے بعد۔

"میں نہیں جاؤں گا کہیں بھی۔ !! میرے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں ہے۔اور نا راستہ پتہ ہے مجھے۔ویسے بھی مجھے عادت ہوگئ ہے تم دونوں کی اب تم دونوں کے بنا میرا گزارا مشکل ہے۔۔!! میں تو ہمیشہ اب یہیں رہوں گا۔ بس ہوگئ بات۔۔!! اور پتلو تیری بیوی تجھ سے کام کرواتی ہے تونے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا ۔۔!! یہ تو ظلم ہے تیرے ساتھ ۔!!"

دونوں کے بیچ سے رستہ بناکر وہ واپس کمرے میں آیا۔اور زہریلی مگر ہمدردانہ نگاہ اس پر ڈالی ۔جس نے غصے سے اپنے بال مٹھی میں دبوچ کر کھینچے ۔

"چھوڑ دے ہمارا پیچھا۔۔!!! چلا جا یہاں سے۔ !! نہیں تو میں خود کشی کرلوں گا۔"

وہ روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا۔ اور دہائ دی ۔موٹے اغواہ کار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے رونے سے روکنا چاہا۔

"تو نہ رو یار۔۔!! یہ تو چاہتا ہی یہی ہے کہ ہم دو کسی پنکھے سے لٹک کر مر جائیں ۔یہ بے حس ہے اس میں انسانیت نہیں بچی ۔چل آ ہم چل کر سوتے ہیں ۔رات بہت ہوگئ ہے تو بھی اب آرام کرلے۔۔!!"

اس کی تسلی پر پتلا اغواہ کار اٹھ گیا فدیان نے ہاتھ کی پشت منہ پر رکھ کر جمائ روکی نیند تو اسے بھی آرہی تھی۔

"ہاں ہاں۔۔!! لے جاؤ اسے ۔اور کسی دماغ کے ڈاکٹر کو دکھالاؤ۔ بیوی کے ظلم سہہ سہہ کر پاگل ہوگیا ہے یہ۔بیچارا بیوی کا غلام ۔۔!!! اور کسی پولیس سٹیشن میں اس کی بیوی کے خلاف پرچہ بھی کٹوادو۔ بڑی ہی کوئ ظالم عورت ہے وہ ۔بیچارے کا کیا حال کردیا اس نے"

مصنوعی افسوس دکھاتے اس نے اسے تپانا فرض سمجھا۔پتلے اغواہ کار نے اپنے بال نوچنے اور سر پر تھپڑ مارنے شروع کردیے ۔

"پاگل ہوں میں ۔۔۔!!! میں پاگل ہوں ۔۔ !!! مارو۔ مجھے ۔۔۔!! میں پاگل ہوں"

"نہ کرنا یار ۔دیکھ وہ کیسے ہنس رہا ہے ۔میسنہ کہیں کا ۔چل یہاں سے ۔۔!!"

اسے زبردستی قابو کرکے اس کا دوسرا ساتھی وہاں سے لے گیا۔فدیان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔

"یہ ہے فدیان کا بدلہ۔۔!!! بڑے آۓ تھے مجھے اغواہ کرکے اپنے قابو میں کرنے والے۔ میں تو جارہا تھا اپنے گھر مجھے آخر اغواہ کرنے کے ضرورت ہی کیا تھی ان دونوں کو۔ میرا تو جب اب بھائ آۓ گا مجھے لینے ۔میں تب ہی واپس جاؤں گا۔تاکہ میری بھی کوئ ویلیو بنے گھر میں ۔گھر والے میرے بھی آگے پیچھے پھریں ۔!!"

دروازہ بند کرتے ہوۓ وہ بڑبڑایا ۔اغواہ کار تو اب خود کو مارنے کے درپے تھے۔اس نمانے کو برداشت کرتے کرتے۔

دیار نے صبح نو بجے کے قریب نوریز کو وہ خبر اپنے تمام گارڈز کو دینے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ دن میں ہی اسی جگہ کی طرف نکلیں گے نہ کہ رات کے وقت۔۔!!!!

تو سب الرٹ رہیں اور اس کے اگلے حکم کا انتظار کریں ۔

یہ خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح اس کے تمام آدمیوں تک پہنچ گئ۔دیار کا وہ ساتھی جس کے حوالے اس نے ٹریکنگ چپس کی تھیں وہ پہلے ہی ان چپس کو بڑی ہوشیاری سے اس کے تمام آدمیوں کے ساتھ ہی فٹ کروا چکا تھا۔

اس وقت وہ بیٹھا ان سب کی ہی لوکیشن ٹریس کررہا تھا۔وہی ہوا جس کا دیار کو شک تھا۔

یہ خبر ملتے ہی اس کے آدمیوں میں سے تین بوکھلاہٹ کا شکار ہوۓ تھے۔ انہوں نے یہ خبر فوراً اپنے باس کو دی۔دلاور خان یہ سب سن کر حیران ہوا کہ دیار ان کے اتنے اچھے پلین کے باوجود کیسے اس جگہ تک پہنچ سکتا ہے۔

"صاحب تم فکر کیوں کرتی ہے ایسا کرو کہ فدیان کو کسی دوسرا جگہ تم شفٹ کروادو ۔دلاور جانا وہ کل کا بچہ دیار آسانی سے تم تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔تم چالاک ،مکار ایک نمبر کا کمینہ مطلب کامیاب بندہ ہے۔فکر نہیں کرو. جب اب تک تمہارا سارا کالا کرتوت تمہارا فرشتوں کے سوا کوئ جان نہ پایا تو اب بھی کوئ نہ جانے گا۔

تم بس اس نمک حرام کو بولو کہ وہ جاۓ اور خود اس فدیان کو کسی دوسرا جگہ پہنچا کر آۓ۔باقی تم شیطان پر بھروسہ رکھو۔وہ تم کو جہنم لے کر ہی جاۓ گا۔ ہا نہ اب تمہارا اتنا جرم کے بعد تم اللہ سے امید رکھنے سے تو رہا۔ تو تم شیطان کا بچاری بن جاؤ۔ہم کو بعد میں گھورنا ابھی وہ کرو جو ہم کہتا ہے۔!!!"

 بادل خان جو اسی کے ساتھ موجود تھا ساری صورتحال سننے کے بعد اس نے وفاداری کی انتہا کرتے اسے بچانے کی خاطر فورا حل بھی پیش کرنا چاہا ۔اب تو یہ وقت ہی بتاتا کہ وہ اسے بچا رہا ہے یا پھنسا رہا ہے۔

اسے دیکھتے بادل نے سنجیدگی سے کہا پھر شیطان والی بات پر دلاور خان نے اسے گھورا تو وہ سٹپٹا گیا پھر اسے اپنے بندے کو حکم دینے کو کہا تو وہ گہرا سانس خارج کرکے فون کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم جاؤ اور فدیان کو کسی دوسری جگہ اپنی نگرانی میں شفٹ کرواکے آؤ۔کوئ غلطی نہ کرنا۔۔!!! اس دیار کو تو میں ہی سنبھال لوں گا۔۔!!"

دلاور خان نے فون واپس رکھا پھر اپنے سامنے کھڑے اپنی ٹوپی ٹھیک کرتے بادل خان کو دیکھا۔ جسے اس دنیا میں اس ٹوپی کے علاؤہ کسی دوسری شے کی فکر نہیں تھی۔

"بادل یہ کیا تم پاگلوں والے حلیے میں گھومتے رہتے ہو۔ اتنے پیسے جو تم فدیان پر لگاتے ہو کیا ہی اچھا ہو اگر تم اس میں سے کچھ خود پر لگا کر ڈھنگ کے کپڑے ہی خرید لو۔ اور یہ ٹوپی پر لگا کبوتر کا پر بھی اب اتار دو سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ تمہارے ہی سر پر لگا رہتا ہے۔ نہ خراب ہوتا ہے۔ نا کہیں گرتا ہے۔۔۔!!!!

 تم نے جان بچائ تھی میری ، میری خاطر تم مرنے والے تھے۔ تب سے میری سانسیں تمہاری ہی دین ہیں۔ دلاور خان کے لیے بہت خاص ہو تم۔ پھر مجھ سے پیسے لے کر خود پر لگانا تمہیں کیوں پسند نہیں۔۔!!!"

انہیں بادل خان کا یہ حلیہ بہت کھٹکتا تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی دنیا سے الگ تھلگ نظر آتا تھا ۔ان کی پہلی ملاقات اس سے چار سال پہلے ہوئ تھی۔ جب ان کے ایک دشمن نے ان پر جان لیوا حملہ کروایا تھا اور بادل نے اپنی جان داؤ پر لگا کر انہیں بچایا تھا۔

 وہ شکر گزار تھے اس کے۔ بادل کا کوئ گھر نہیں تھا نا ہی کوئ قریبی رشتہ تھا تبھی انہوں نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ بقول ان کے بادل خان ان کا سب سے زیادہ وفادار تھا۔ 

بادل نے اپنے سر سے وہ ٹوپی اتاری اور اس پر لگا وہ پر نرمی سے چھوا۔پھر زخمی سا مسکرایا ۔

"نا کر نہ دلاور جانا ایسا تو نہ کہہ۔۔!!! تو ہم کو سڑک چھاپ کہہ لے یا کوئ پاگل آوارہ انسان جسے پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ نہیں۔۔!! لیکن اس کو کچھ نہ بول۔۔۔!! یہ جینے کا امید ہے ہماری۔ ہمارا رہا ہی کون ہے اس پنکھ کے سوا۔ اس میں جان ہے ہمارا ۔ یہ کہیں گیا تو ہم بھی نہیں بچے گا۔اس نے کہا تھا کہ اس کو اپنے پاس رکھ لو۔ اگر ہم سے سچا محبت کرتا ہے تو۔۔۔!!! اگر ہم کو سنبھال کے رکھ سکتا ہے تو اس کو سنبھال لو۔ہم نے سالوں سے اس پر کو سینے سے لگا کر رکھا ہے۔ہم اس کو تو سنبھال گیا اس کو نہیں سنبھال سکا تھا۔ اس بات کا درد ہے یارا بہت۔!!

ہم نا جب مرے گا تب تم اس پر کو ہمارا قبر پر لگوادینا۔عاشق ہے ہم تو مر کر بھی اس کو خود سے جدا کیوں کرے گا۔!!!! "

پل میں بادل خان کے خلق میں کانٹے چبھے ۔ اس نے مشکل سے لب بھینچے اور رخ موڑ کر وہ تکلیف خود میں چھپائ جس کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہورہا تھا۔ دلاور خان کو اس کی ناکام محبت کا پہلے سے ہی پتا تھا۔تبھی اس نے اس کی تکلیف کو محسوس کیا۔

"وہ ہے کون یہ تو بتادو جس نے تمہیں دیوانہ بنارکھا ہے۔۔!!! تم نے جان بچائ تھی میری ایک بار بتاؤ تو سہی تم کسے چاہتے ہو۔ وعدہ رہا تم سے میں اسے خود تم تک لے کر آؤں گا۔اتنا تو میں کر ہی سکتا ہوں تمہارے لیے ۔۔۔!!!"

وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے مقابل آۓ۔جس نے وہ ٹوپی واپس احتیاط سے سر پر پہن لی۔اس کی آنکھوں میں سوئیاں چبھتی تھیں سامنے موجود اس شخص کے الفاظ سن کر ۔

ابھی اس کا ارادہ نہیں تھا ورنہ اس شخص کو یہیں مار دیتا۔ اس کا مقصد ادھورا تھا تبھی اس نے خود پر اور سینے میں روتے بلکتے دل پر ضبط کے بندھ باندھے ۔اور زبردستی مسکرایا ۔

"یارا ہم بولا تھا نا وہ مرگیا ہے اب واپس نہیں آۓ گا۔بلکہ ہم اس کے پاس جاۓ گا مر کر ۔۔!!!

بس تھوڑا سا وقت باقی ہے پھر یہ ہجر بھی ختم ہوگا اور درد بھی ۔!!!"

اس نے پراسرار سے لہجے میں کہا اور آخر میں مسکرا بھی اٹھا۔

"ابھی تم ہمارا بارے میں مت سوچو اور خود کا فکر کرو۔ وہ دیار خانہ خراب کا بچہ سکون نہیں لیتی ۔صبح صبح بغیر کچھ کھایا پیے دوڑیں لگوا رہا ہے ہماری ۔خود تو ابھی جوان خون ہے پر ہم بوڑھا ہوگیا ہے احساس نہیں اس کو ہمارا۔

دلاور جانا ہم چلتا ہے ابھی ہم کو ناشتہ بھی کرنا ہے۔ کھانا نہیں کھاۓ گا تو زندہ کیسے رہے گا۔تم بھی کچھ کھالو۔ شرم یا ترس تو تم کھاۓ گا نہیں تو پشاوری قہوے کے بڑے سے تانبیے میں ڈبکی لگالو۔ اچھا لگے گا تم کو۔!! "

اسے اپنے ازلی انداز میں اپنے جانے کا بتاتے وہ باہر نکل گیا۔پیچھے دلاور خان نے بھی گہرا سانس خارج کیا۔ بادل اس کی سمجھ سے باہر کی چیز تھا۔اسے امید تھی کہ اس کا راز فاش نہیں ہونے دے گا وہ۔پر وہ کہاں جانتا تھا کہ بادل تو اس کی آتی جاتی سانسوں سے بھی نفرت کرتا ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"یہ دیار ٹیڑھا ہڈی ہے یا پھر مڑا ہوا پسلی ہے۔ اسے سکون نہیں آنے والا ۔ جب ہم چاہتا ہی نہیں کہ یہ بیچ میں پڑے تو یہ کیوں آرہا ہے درمیان میں۔ اس درمان کو تو ہم اچھے سے سائیڈ پر کیا تھا ہر بات کے بیچ آنا یہ فرض سمجھتا تھا اپنا۔ ایٹم بم کہیں کا۔۔!!! اب لگتا ہے اس کے تندور جیسے دماغ پر اس بچی نے برف والا پانی ڈال دیا ہوگا تبھی ہم کو یہ زیادہ اس معاملے میں الجھا نہیں دکھتا ۔"

باہر آتے ہی اس نے کلس کر سوچا ۔درمان کے بعد اب وہ دیار کو بھی پیچھے کرنے کا سوچ رہا تھا۔

کیا تھی اس کی کہانی یہ ابھی پردے میں ہی تھی۔

جو بھی تھا اس کا مقصد پر اتنا تو واضع تھا کہ وہ دلاور خان سے انتہا کی نفرت کرتا ہے۔وہ اس کا مجرم جو ہے۔۔۔!!!!

" اس دیار کو تو ہم ایسی لگام ڈالے گا کہ یہ خود کو بھی بھول جاۓ گا اب ۔۔!!! بڑا آیا ہم سے آگے نکلنے والا۔ دلاور ہمارا مہرہ ہے صرف ہمارا ۔اس کے اور ہمارے بیچ کسی تیسرا کو آنے کا کوئ حق نہیں پہنچتا۔ یہ بات یہ دوسرا ایٹم بم کیوں نہیں سمجھتا۔

 باقی بہت ہوگیا خدمتیں فدیان صاحب۔ اب گھر کو چلیے آپ کو بھی ہم ٹھکانے لگادے اب۔ سب اپنا اپنا گھر سنبھالو یارا ہمارا گھر اجاڑنے والے سے ہم خود نپٹے گا۔ اس کو مارنا ہمارا حق ہے ۔پھر ہم جانے اور یہ زندگی کے آخری دن جانے۔!!!"

ایک نظر پیچھے اس کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر وہ وہ وہاں سے چلا گیا ۔اس کا پلان تیار تھا۔ آگے جو ہونے والا تھا دلاور خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

قطار میں گارڈز کے دستوں سے لبریز گاڑیاں دن کے ساڑھے گیارہ بجے سنسان سڑکوں پر دوڑتی جارہی تھیں۔ سب کے خیال میں درمیان میں موجود گاڑی میں دیار بیٹھا تھا جس کی حفاظت کرنا ان کا فرض تھا۔ صرف ان کی ہی نہیں دلاور کے آدمیوں کی بھی نظریں اسی گاڑی پر تھیں جو کہ بالکل ہی نئ لوکیشن کی طرف جارہی تھی۔شہر سے بہت دور کسی ویرانے کی طرف۔۔۔!!!! 

پر حقیقت تو کچھ اور تھی ۔دیار ان میں سے کسی گاڑی میں کیا اس جگہ سے ہی میلوں دور اپنی ہی منزل کی طرف ایک عام سی گاڑی میں بغیر کسی گارڈ کے بیٹھا جارہا تھا فدیان کے پاس۔۔۔!!!

ان تینوں میں سے جو آدمی سیدھا فدیان کی لوکیشن پر گیا تھا دیار کے آدمی نے وہ ایگزیکٹ لوکیشن ٹریس کرلی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ جگہ تبدیل کرتے نوریز کا اگلا میسج انہیں موصول ہوگیا جس میں شہر سے دور ایک لوکیشن انہیں بتائ گئ تھی جہاں انہیں جانا تھا۔۔۔۔!!!

وہ تینوں غدار حیران ہوۓ کہ دیار فدیان کی غلط لوکیشن ملنے پر اتنا خوش ہورہا تھا۔اور وہ بھی پاگل تھے جو اتنا ڈر گۓ۔ ان کے پلین کے آگے دیار کچھ بھی نہیں ہے بلا بلا بلا ۔۔!!!؛

دلاور کو بھی جب یہ پتا چلا تو وہ بھی مطمئن ہوگیا اور اس نے اپنا آرڈر جو جگہ بدلنے کا دیا تھا واپس لے لیا۔ سب کچھ بالکل ویسا تھا جیسا دیار چاہتا تھا۔ بڑی ہوشیاری سے وہ بظاہر ان لوگوں کے سامنے تو اسی گاڑی میں بیٹھا پر نوریز کی مدد سے وہ اپنی گاڑی راستے میں ہی تبدیل کرگیا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان صبح گھر واپس جارہا تھا اپنے سٹاف کو مزہ چکھا کر ۔ رات جب وہ آفس پہنچا تو پتا لگا کہ آگ بس نام کی آگ تھی ایک کمرے تک کو پورا نقصان نہیں پہنچا۔ صرف اس کا مینیجر ڈر زیادہ گیا تھا تبھی اس نے بوکھلا کر درمان کو میسج کردیا ۔

درمان نے اس کے بعد اس کی ایک نہ سنی تھی ایسا لاپرواہ انسان اسے اپنے ارد گرد بھی نہیں چاہیے تھا تو اس نے اسے فائر کردیا ۔

باقی اس سب میں جس جس کی بھی غلطی تھی اسے فائر کرکے اپنے سیکرٹری کو نیو سٹاف اپائنٹ کرنے کا کہہ کر وہ جیسے گیا تھا ویسے ہی واپس آنے لگا۔ رات جو سلوک اس نے زرلشتہ کے ساتھ کیا تھا وہ اس پر حد سے زیادہ شرمندہ تھا۔ اسے زرلشتہ کو خوش کرنا تھا کسی بھی طرح سے بس۔۔!!

راستے میں ہی اسے دیار کا میسج آگیا جس نے اسے لوکیشن سینڈ کی کہ وہ وہیں اس سے ملے۔ معاملہ سمجھانے کا وقت آگیا ہے۔ درمان نے سوچا کہ اچھا ہے ایک بار وہ فدیان والا مسئلہ حل کردے پھر سکون سے اپنی مصیبت کو منالے گا۔ہر وہ بے خبر تھا کہ کیا اس کی ماں زرلشتہ کو اس کی غیر موجودگی میں زندہ چھوڑیں گی بھی یا اسے ہی ختم کرچکی ہوں گی۔وہ ایک جنونی اور غصیلی عورت تھیں اور زرلشتہ سے تو انہیں نفرت تھی انتہا کی نفرت ۔!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"تمہیں امید ہے کہ وہ یہیں ہوگا؟یہ رہائشی علاقہ ہے۔کوئ فدیان کو اغواہ کرکے ایسی جگہ پر کیوں رکھے گا؟"

گاڑی ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئ تو درمان نے چونک کر پوچھا ۔یہ متوسط طبقے کا علاقہ تھا یہاں محل نما گھر بھی تھے تو عام سے گھر بھی موجود تھے۔ جگہ جگہ پرچون کی دکانیں تھیں۔ دن کا وقت ہونے کی وجہ سے نقل و حمل بھی زیادہ تھی۔

دیار نے سامنے گوگل میپ کو دیکھا جہاں وہ صحیح لوکیشن کی جانب بڑھ رہے تھے۔

"یہی لوکیشن ہے ۔۔!! ہوسکتا ہے اس شخص نے جان بوجھ کر اسے ایسی جگہ پر رکھا ہو جہاں ہماری سوچ ہی نہ پہنچے۔۔۔!! ہم کبھی ایسے علاقے میں اسے نہ ڈھونڈتے جہاں آبادی زیادہ ہو ۔"

دیار نے جو بات کہی وہ درمان کو ماننے کے قابل لگی۔ اس وقت اسے زرلشتہ کے پاس جانے کی جلدی تھی جو اس کام کے ختم ہونے کے بعد ہی ممکن تھا اب۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"اچھی جگہ ہے یہ بھی بس روشنی کی زرا کمی ہے۔۔!!! تم لوگ لائٹس کا بندوبست کرلو۔میں ایڈجسٹ کرلوں گا۔جگہ انسانوں نہ سہی بھوتوں کے رہنے کے قابل ہے۔میں تو ویسے بھی انسان والی کیٹیگری میں فٹ نہیں آتا ۔اچھا ہے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہ لوں گا ۔!!!

اس تہ خانے کے جنات السلام علیکم ۔۔!! دیکھو آپ سے ملنے کون آیا ہے۔ون اینڈ اونلی فدیان آفریدی۔۔!!! تم لوگوں کے سردار درمان آفریدی کا چھوٹا بھائ۔۔!! صرف میں نہیں آیا تم لوگوں کے لیے گفٹ بھی لایا ہوں۔یہ دو نمونے ۔۔!!

آؤ انہیں کھاؤ اور خوش ہوجاؤ۔۔!!!"

سیڑھیوں سے نیچے تے خانے میں آتے ہوۓ فدیان نے آس پاس کا جائزہ لیا۔ پھر مسکراہٹ دبا کر اپنے موٹو ،پتلو کو جنات کا کھانا بناکر پیش کیا جو بوکھلا گۓ۔ جگہ بھوتیہ تے خانے سے ملتی جلتی تھی۔ سیڑھیوں سے نیچے روشنی کی ایک لکیر آرہی تھی۔ جس میں گرد کے ذرے اڑتے دکھ رہے تھے۔

فدیان نے ٹوٹے پھوٹے سامان کو جانچتی نظروں سے دیکھا۔

"ویسے مجھے یہاں لاۓ کیوں ہو تم دونوں۔اور آج وہ بھکاری جو تم دونوں سے ملنے یا پھر بھیک مانگنے آیا تھا وہ کون تھا؟کہیں تم لوگ بھکاریوں کے لیڈر تو نہیں ہو ؟اور مجھے بھی اسی لیے یہاں لاۓ ہو۔تاکہ میرے ہاتھ پیر توڑ کر مجھے سڑکوں پر کھڑا کرسکوں تو بھول ہے یہ تمہاری ۔میں اتنے لو لیول کا نہیں ہوں۔ مجھے اپنا لیڈر بنالو۔ اچھا خاصہ پڑھا لکھا بزنس مائنڈڈ بندہ ہوں میں۔ تم لوگوں کے حالات بدل دوں گا۔ ایک سے ایک گھٹیا آئیڈیا ہے میرے آئیدیل دماغ میں ۔!!!! 

دیکھو اگر تم لوگ بھکاری ہو تو مجھے بتادو کہ تمہاری گینگ میں لوگ کتنے ہیں۔ اور تم لوگ دن کا کتنا کما لیتے ہو۔ تاکہ میں فیصلہ کرلوں کہ مجھے تمہارا ساتھ دینا بھی ہے یا نہیں ۔۔!!"

وہاں سے ایک کرسی جو ابھی صحیح حالت میں تھی اسے گھسیٹ کر اپنے سامنے لاتے ۔فدیان نے پتلے اغواہ کار کے گلے سے اس کا مفلر کھینچا اور کرسی صاف کرنے لگا۔

اس کی بات سن کر دونوں نے ٹھنڈی آہ بھری۔ اتنی تذلیل کے بعد تو وہ بتاہی دیتے کہ اصل بات کیا ہے۔ اس افلاطون کے سامنے ٹکنا مشکل تھا۔

"تمہارے بھائ کے سالے نے پتہ لگوا لیا تھا تمہاری لوکیشن کا۔اور وہ تمہیں لینے آرہا تھا  اس لیے باس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تمہیں اس جگہ سے کسی دوسری جگہ شفٹ کردیں۔ وہ بندہ یہی بتانے آیا تھا۔ بھیک مانگنے نہیں آیا تھا ۔.!!

بعد میں ہمیں پتہ لگا کہ اسے جو لوکیشن ملی ہے وہ تمہاری ہے ہی نہیں۔تو باس نے آرڈر دیا کہ ہم لوگ تمہیں اسی تے خانے میں اب بند کردیں تاکہ کوئ بھول چوک نہ ہو ۔!! یہی ہے ساری کہانی ۔!!"

 پتلو نے ایک ہی سانس میں مختصراً سب بتادیا۔

یہ سالے والا لفظ سن کر فدیان ٹھٹھکا۔ اس کا بھائ تو سنگل تھا۔ اسے یاد تھا اس کے اغواہ ہونے سے پہلے اس کے بھائ کی زندگی میں غصے کے سوا کوئ نہیں تھا۔

"میرے بھائ کا سالا مطلب۔۔!! گالی دے رہے ہو کیا تم لوگ۔۔!! کمینو زبان نکال لوں گا میں تمہاری۔..!!"

وہ کرسی پر بیٹھا اور غصے سے کہا ۔اس کا غصہ محسوس کرتے ہوۓ وہ دونوں گڑبڑاگۓ۔

"استغفر اللہ ۔۔!! ہم گالی کیوں دیں گے۔اغواہ کار ہیں پر تمہاری طرح بدلحاظ نہیں ہیں۔ تمہارے بھائ کا سالا مطلب brother in law ۔ دیار درانی ۔۔!!!!تمہارے بڑے بھائ کا نکاح صلح کی خاطر دیار درانی کی چھوٹی بہن سے ہوا ہے۔ 

جھگڑا ختم کرنے کے لیے تمہارے گھر والوں نے ونی مانگی تھی۔ سنا ہے دیار اپنی بہن کو واپس لانے کے لیے دن رات ایک کرکے تمہیں ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔!! میں تو چاہتا ہوں کہ وہ تمہیں ڈھونڈ لے اور ہماری جان چھوٹ جاۓ۔۔!"

موٹے اغواہ کار نے اسے شروع سے لے کر جو جو بھی ہوا سب بتادیا۔ دیار پر لگے الزام سے لے کر درمان کے نکاح تک۔۔!!

فدیان تو شاکڈ تھا کہ کتنا کچھ ہوگیا اس کے جانے کے بعد۔ اسے جہاں دیار کے ساتھ ہوئ ناانصافی کا دکھ تھا وہیں اپنے لالہ پر حیرت بھی تھی۔ جنہوں نے ایک بے قصور کو معاملے میں شامل ہونے دیا۔ اس نے گہرا سانس خارج کیا۔ ان فرسودہ روایات سے اسے چڑ تھی۔

ونی ، ونی ، ونی یہ لفظ اسے زہر لگتا تھا۔

"حد ہے ویسے ۔۔!! اغواہ میں ہوا اور سر پر سہرا لالہ کے سج گیا۔ یہاں سے نکل لینے دو مجھے میں اب لالہ کو اغواہ کرکے خود بھی شادی کرلوں گا۔ میرے اکلوتے بھائ نے میرے بغیر نکاح کرلیا اس سے شرمندگی کی بات کیا ہوگی آخر ۔!!! "

اس نے آہ بھری۔ عجیب ہی تھی یہ روایت کہ گنہگار آزاد گھومتا اور بے قصور انسان اس کے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا رہتا ہے۔

"جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔۔!! پتلو یار جاؤ رسیاں لاکر مجھے باندھ دو۔ میں شرمندہ ہوں اپنے سلوک پر جو میں نے تم دونوں کے ساتھ روا رکھا۔ اب سے میں اچھا مغوی بن کر رہوں گا۔ تم دونوں مجھے مارنے ، باندھنے اور ٹارچر کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہو اب ۔۔!!! چلو لگ جاؤ کام پر۔۔!!"

کچھ سوچ کر فدیان نے انہیں نیا حکم دیا۔ پل میں یہ شیر ہتھیار ڈال گیا ۔ اس کی بات سن کر اغواہ کاروں نے صدمے سے اسے دیکھا کہ بھائ اب کیا چاہتے ہو ہم سے۔

یہ کیا نیا مزاق کررہے ہو اب۔۔ !!!

"میں لاطینی نہیں بول رہا اردو ہی بول رہا ہوں۔۔!!! اگلے ایک منٹ کے اندر اندر مجھے باندھ دو۔اور دل کھول کر مارو ۔ورنہ میں تم دونوں کو اسی چھت کے ساتھ الٹا لٹکا کر یہاں کے جنات کا کھانا بنادوں گا ۔!!

جلدی کرو۔۔۔۔!!!"

انہیں ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر اسے غصہ آیا تو وہ دھاڑا ۔ وہ دونوں رونی صورت بناکر اپنے بال نوچتے اب رسیاں ڈھونڈنے نکل گۓ۔

فدیان کو پتہ تھا اس کے لالہ اسے ڈھونڈ چکے ہیں۔ اس لیے اسے مسکینوں والے حلیے میں انہیں ملنا چاہیے ۔ یہ نوابوں والا حلیہ دیکھ کر وہ کہاں اس سے ہمدردی کرتے۔

اس نے اپنے کپڑے دیکھے تو نفی میں سرہلادیا۔

پھر اب واپس سے کمرے میں جاکر وہی سوٹ نکالنے کا ارادہ کیا جو وہ پہن کر یہاں آیا تھا اس نے اس سوٹ کا حلیہ تھوڑا بگاڑ کر اسی دن کے لیے سنبھال کر رکھا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

زرلشتہ صبح دس بجے کے قریب اٹھی تھی۔اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ وجہ تھی بھوک۔۔!!

رات بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اٹھتے ہی اس نے پہلے تو مشکل سے اپنے چاکلیٹ والے باکس سے آخری چاکلیٹ نکال کر کھائ۔ جسے کھاکر اس کے سر درد میں کمی آئ تھی۔ لیکن بے چینی ابھی بھی ویسی ہی تھی ۔

ناشتہ دینے اسے ملازمہ آہی رہی تھی جب شنایہ بیگم نے راستے میں ہی اسے روک دیا اور ڈرا کر واپس بھیج دیا۔

وہ چاہتی تھیں کہ زرلشتہ اب خود نیچے آۓ۔ وہ ویسے بھی انہیں شاز و نادر ہی دکھتی تھی۔ آج نہ وشہ گھر پر تھی نا دراب آفریدی ۔ درمان بھی رات کا گیا لوٹا نہیں تھا۔ ان کا دل تھا کہ آج زرلشتہ کی اچھے سے خبر لیں ۔ جو ہر بار ان کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی نکل جاتی ہے ۔

تنگ آکر بارہ بجے کے قریب وہ خود ہی نیچے جانے لگی۔ چکراتا سر اور اپنی خراب ہوتی حالت اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ اسے رونا آرہا تھا اپنی قسمت پر۔ اس کا تو شوہر بھی آج تک اسے کھلونا ہی سمجھتا آرہا تھا۔

جب چاہا پیار سے بات کرکے اسے خاص بنادیا جب چاہا اس کی تذلیل کرکے اسے اس کی اوقات بتادی۔

اس کا بچپنہ تو یہ لوگ چھینتے جارہے تھے۔

ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر وہ آرام سے نیچے اتری ۔اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ یہاں کوئ اور بھی اسی کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ جب تک وہ ٹھیک تھی وہ اس شخص کو اپنے سامنے ٹکنے بھی نہ دیتی پر آج بات الگ تھی ۔!!

"ذرا شرم نہیں تم میں اب بھی زندہ ہو میرا پورا گھر اجاڑ دیا تمہارے اس بھائ نے اور تمہیں تو موت بھی نہیں آئ۔۔۔!!! مجھے تو لگا تھا اپنے بھائ کا کیا بھگتتی مرگئ ہوگی تم۔پر تم جیسی کو تو موت بھی نہیں آتی۔ !!!

دفع کیوں نہیں ہوجاتی تم میرے گھر سے۔ اپنی منحوس صورت لیے کیوں پھرتی رہتی ہوں یہاں ۔عذاب بن کر نازل ہوگئ ہو تم ہمارے سروں پر۔۔!!!!!"

وہ ابھی نیچے اتری ہی تھی کہ اسے کسی کی نفرت سے چنگھاڑتی ہوئ آواز سنائ دی۔ زرلشتہ نے آنکھیں میچیں کہ کیا ان کا آنا بھی ضروری تھا یہاں پر۔ 

درمان نے شنایہ بیگم کو خود بھی منع کیا تھا کہ زرلشتہ سے دور رہیں ۔وہ خود جیسے چاہے اسے ٹریٹ کرتا تھا پر اسے کسی دوسرے کی ایک سخت نظر بھی اب اس پر گوارہ نہیں تھی۔ شنایہ بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زرلشتہ کو کھڑے کھڑے یہاں سے غائب کروادیں۔

"میرے درمان کی خوشیوں اور اس کے سکون کی دشمن ہو تم۔۔۔!!!! کل کیا ہوا تھا ایسا کہ میرا بیٹا اتنے غصے میں گھر سے نکل گیا؟ کیا کہا تھا تم نے اس سے؟ زبان کہاں گئ ہے اب تمہاری۔پھوٹو بھی اب اس منہ سے کچھ۔۔ !!"

اسے کچھ نہ بولتا دیکھ کر وہ خود ہی تن فن کرتی اس تک پہنچیں اور جھٹکے سے اس کا بازو اپنی طرف کھینچ کر اسے شعلے برساتی نظروں سے دیکھا۔ زرلشتہ کی آنکھیں درد سے دھندلا گئیں۔ پر وہ ہمت کرکے کھڑی ہی رہی۔

جسے آپ کے زندہ رہنے یا مرنے سے بھی فرق نہ پڑتا ہو اس کے سامنے اپنا درد بتانا اپنا مزاق بنانے کے مترادف ہے۔وہ جانتی تھی یہ بات۔

وہ تلخ سا مسکرائی کہ ماں بیٹے کی سوچ ایک جیسی ہی ہے دونوں اسے ہی غلط سمجھتے ہیں۔ دونوں کو لگتا ہے وہی ان کے سر پر عزاب ہے۔

"ہنس کیوں رہی ہو اب۔۔۔!!! تمہاری وجہ سے میرا بیٹا کل کا گیا ابھی تک واپس نہیں آیا۔ نا ہی فون اٹھا رہا ہے۔تم نے اسے اپنے عشق میں پاگل کررکھا ہے ۔تم نے چھین لیا ہے اسے مجھ سے۔۔!!! چاہتی کیا ہو تم ہم سے۔۔!!!

 میرے شوہر کو تم نے میرے خلاف بھڑکا دیا ۔ میرے بیٹے کی نظروں میں مجھے جھوٹا ثابت کردیا ۔میری بیٹی تمہاری وجہ سے مجھ سے لڑتی ہے اسے لگتا ہے میں ظلم کررہی ہوں تم پر ۔۔۔!!! کون سے جادو کیے ہیں تم نے کہ میرے گھر والے تمہارے پیچھے پاگل ہیں۔ ہو کیا تم۔!!!"

اسے جھنجھوڑتے ہوۓ وہ چیخیں ۔زرلشتہ نے لب بھینچے کہ سارے الزام اسی پر ہی کیوں آتے ہیں آخر۔ کرے کوئ اور بھرے وہ کیوں۔۔!! اس نے تو کسی کو نہیں کہا کہ اس کی طرف داری کرے تو پھر یہ سلوک کیوں اس کے ساتھ ۔!!

"سکون تو میرا آپ نے خراب کرکے رکھا ہے۔جب سے یہاں آئ ہوں آپ اور آپ کا بیٹا مجھے اپنی فرسٹریشن نکالنے کا ذریعہ بناکر بیٹھے ہیں۔آپ کا بیٹا آپ کا ہی ہے ۔نہیں کیا میں نے اسے اپنے پیچھے پاگل۔ نا ایسی حرکتیں مجھے آتی ہیں۔ 

اور آپ ایک بات بتادیں کیا میں نے آپ کے بیٹے پر گولی چلائی تھی؟؟؟ کیا میں نے آپ کا لاڈلہ بیٹا اغواہ کروایا ہے؟؟؟ کیا میں نے مرضی سے یہ نکاح کیا تھا ؟؟ کیا میں شوقیہ رہ رہی ہوں یہاں۔۔۔؟؟؟ آج آپ بتاہی دیں کہ میرا قصور کیا ہے جو آپ میری جان کی دشمن بنی ہوئ ہیں۔نام کے مسلمان ہیں آپ سب ۔۔۔۔!!!! صرف نام کے ۔۔!!"

ان سے ہنا بازو چھڑوانے وہ اپنا ضبط کھو گئ اور چیخ پڑی ۔اس کا سانس پھولنے لگا۔ آنکھوں سے آنسو نکلتے گۓ۔شنایہ بیگم بھی لمحے کے لیے بوکھلاگئیں۔

"آپ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں کسی ایک کے کیے جرم کی سزا کسی دوسرے کو دینا گناہِ کبیرہ ہے۔۔۔!!! جب تک کسی کا جرم ثابت نہ ہوجاۓ اس پر الزام تراشی کرکے اسے زبردستی مجرم ثابت کرنا بھی ناقابلِ تلافی جرم ہے۔۔!! 

مجھے قید کیا ہوا ہے آپ لوگوں نے۔کسی کھلونے کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں مجھے۔۔۔۔!!!! یہ گناہ نہیں ہے کیا۔میں انسان نہیں ہوں کیا آپ کی نظروں میں۔۔!!! جواب دیں میرا قصور کیا ہے۔کیوں نہیں بخش دیتیں آپ مجھے۔جان چھوڑ دیں میری  !!"

وہ چیختی گئ۔گھر کے درو دیوار میں اس کی آواز گونجی ۔شنایہ بیگم کو اس کے سوال چبھے جو چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ وہی مجرم ہیں۔ وہ گناہگار ہیں۔تبھی اس کا منہ بند کروانے کی خاطر انہوں نے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔وہ تو پہلے ہی مشکل سے کھڑی تھی تبھی پیچھے کی سمت گری ۔آخری سیڑھی کا کونہ اس کے سر پر لگا ۔درد کی ایک لہر اٹھی اس کے سر میں۔

شنایہ بیگم نے حلق تر کیا جو وہ کر چکی تھیں انجام برا ہوسکتا تھا۔

زرلشتہ خود ہی سیڑھیوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ گئ۔پیشانی کے سرے سے خون بہنے لگا ۔ہونٹ کا کنارہ بھی پھٹ چکا تھا۔ وہ روئ نہیں تھی۔

اسے ان سے اسی جواب کی توقع تھی۔

جب سوال کسی کو چبھنے لگیں اور جواب بھی نہ ملیں تو لوگ منہ بند کروانے کے لیے ایسے گھٹیا طریقے ہی آزماتے ہیں۔

اپنی شال سر پر مشکل سے ٹھیک کرکے اس نے انہیں شعلہ برساتی نگاہوں سے دیکھا۔

"شنایہ بیگم۔۔۔!!!! جواب اچھا دیا آپ نے مجھے۔۔!! گھٹیا پن کی انتہا کردی آپ نے تو۔پر کسی بھول میں نہ رہیے گا کہ میں آپ سے ڈروں گی۔اور منہ بند کرلوں گی۔ اب آپ کا بیٹا میرے عشق میں پاگل بھی ہوگا۔ اور میری ڈھال بھی بنے گا ۔بے فکر رہیں میں کچھ نہیں کروں گی۔سب خود بخود ہوگا۔۔۔!!! آپ بس دیکھتی رہ جائیں گی اور چٹکی بجاتے میں وہ مقام لے جاؤں گی جو میرا حق ہے۔ جو مجھے میرے اللہ نے دیا ہے۔۔۔!!! بیٹا تو اب آپ کا میرا ہی رہے گا۔۔ !!! آخری سانس تک۔۔۔!!!"

اپنی پیشانی سے نکلتے خون کو اس نے ہاتھ سے صاف کیا۔درر اسے ہورہا تھا ۔پر ظاہر کرنا کمزور ہونے کے مترادف تھا۔

شنایہ بیگم اس کا لہجہ دیکھ کر کانپ گئیں۔ ایسا لگا جیسے یہ سب ہوبھی جاۓ گا۔وہ جائز رشتے میں تھی درمان کے ساتھ ۔اگر اللہ درمان کے دل میں زرلشتہ کے لیے محبت ڈال دیتا تو وہ محبت عشق کی منزلیں خود طے کرلیتی ۔

ان کا دل ڈوبا۔ سامنے موجود لڑکی پر تو کوئ بھی فدا ہوسکتا تھا تو درمان کیا چیز ہے۔

"میں کیا میری جوتی بھی نہیں ڈرتی ایسی عورت سے جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ گھر کی بہو ، بیٹیوں کے سلوک کیسا کیا جاتا ہے۔ قانوناً جرم ہے بہو کو مارنا۔ چاہوں تو ایک لمحے میں آپ لوگوں کی سالوں کی بنی بنائ عزت پورے علاقے میں نیلام کروادوں۔

پر کچھ حدود ہیں جن سے باہر نکلنا مجھے گوارہ نہیں ورنہ اس تھپڑ کا میں ایسا کرارہ جواب دیتی کہ اگلی سات صدیاں بھی آپ سب یاد رکھتیں ۔پر آغاجان کی عزت بھی افسوس آپ سے جڑی ہے ۔جسے نیلام کرنا مجھے منظور نہیں ۔

اور افسوس میرے شوہر کی جنت آپ کے پاؤں میں ہے۔ اسی کا ہی کچھ لحاظ کرلیا کریں ۔ ماؤں کے دل پتھر نہیں ہوتے ۔جو اپنی اولاد کے سوا دوسروں کو ٹھوکروں پر رکھیں ۔

لیکن میں بھی کسے سمجھا رہی ہوں ۔۔!!!

میرا جواب تو رات کو آپ سے میرا شوہر لے گا ۔اور ایسا لے گا کہ آپ کو نانی یاد آجاۓ گی ۔آپ بھول گئیں آپ ماں ہیں تو میں بیوی ہوں ان کی۔!!"

وہ وہیں سے واپس پلٹ گئ۔کچھ دیر اگر مزید تکتی تو ضبط کھو کر رو پڑتی ۔اسے درمان شدت سے یاد آرہا تھا جو درد دے کر دوا تو کم از کم خود دیتا تھا۔ اس نے خواہش کی کہیں سے وہ آجاۓ تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے ۔وہ اسے چپ تو کروادیتا ، زخم ہی صاف کردیتا.چاہے ماں سے نہ لڑتا لیکن کچھ تو حوصلہ ہوہی جاتا اسے اس کی موجودگی میں۔

اسے بھوک لگی تھی شوگر لیول لو ہوچکا تھا۔

پر یہاں فکر کسے تھی اس کی۔۔۔!!!

شنایہ بیگم کی تو روح بھی لرز گئ اس کے چٹانوں جیسے لہجے کو سن کر۔ وہ چیز کیا تھی۔ شنایہ بیگم نے اپنی پیشانی پر آیا پسینہ پونچھا ۔

"نورے ۔۔۔۔۔!!!! جاؤ اس لڑکی کو کچھ کھانے کو دے کر آؤ۔ اور زخموں پر دوا بھی لگا دینا اس کے۔۔!!! ساتھ میں ڈرا دھمکا کر اس کا منہ بھی بند کروادینا ۔تاکہ یہ درمان کو کچھ نہ بتاۓ۔۔!!!"

انہوں نے اونچی آواز میں اپنی خاص ملازمہ کو تاکید کی۔جو بوتل کے جن کی طرح ان کی خدمت میں حاضر تھی۔

"نورے اگر تم اوپر آئ تو باخدا مرو گی تم میرے ہاتھوں سے۔میرے زخموں کو ہاتھ لگا کر اپنے ٹکڑے کرواؤ گی۔۔۔!!! اور اپنی بی بی جی کو سمجھا دو کہ زرلشتہ کو ڈرانا ان کے بس کا کام نہیں۔۔!! کھانا بھی اپنا سنبھال کر رکھو۔ میری طرف سے خود بھی جاکر کسی لنگر خانے میں بیٹھا کرو۔ یہاں کے کھانے سے اچھا ہی کھانا ملتا ہوگا وہاں۔۔!! نورے بیبی اب زرلشتہ کو ڈرائیں گی۔مزاق اچھا تھا۔۔۔!!!! "

وہ ابھی سیڑھیوں پر ہی تھی تبھی پلٹ کر غرائ۔ نورے تو اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹ گئ۔ 

شنایہ بیگم نے اپنا اٹکتا سانس سنبھالا۔

"بس میرے شوہر کو آنے دو اس نورے کو بھی ساتھ والے قبرستان میں بھیجتی ہوں میں۔۔۔!!! وہیں قبر بنے گی اس بیبی جی کی چمچی کی۔اور سارے ملازموں سن لو۔ آخری دن ہے تم سارے بیبی جی کے چمچوں کا یہاں۔ کل درمان تم سب کو ساتھ والے صحرا میں شفٹ کروائیں گے۔ لکھ کر رکھ لو سب۔ زرلشتہ درمان آفریدی ہوں میں۔ میں نہیں وہ سمجھائیں گے سب کو!!!"

ان کا منہ بند کرتے ہوۓ وہ واپس کمرے میں چلی گئ۔

ملازمہ تو ڈر کر وہاں سے نو دو گیارہ ہوگئ۔البتہ شنایہ بیگم کسی بہانے کی تلاش میں تھیں تاکہ زرلشتہ کے ساتھ جو انہوں نے کیا ہے وہ سنبھال سکیں ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کمرے میں آتے ہی زرلشتہ بیڈ پر بیٹھی اور رونے لگی۔اپنا خون صاف کرنا بھی اسے اب منظور نہیں تھا۔ شنایہ بیگم بھول گئ تھیں کی اگر درمان شیر ہے تو یہ بلی سوا شیرنی ہے۔ آخر ان کے بیٹے کے ساتھ دو مہینے سے رہ جو رہی ہے۔ اس کا غضہ۔۔۔!!!!

اففف انہیں بھی چپ کروادیا تھا اس نے۔

وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور کمفرٹر ٹھیک کرکے رونے لگی۔

"بچ گئ تو اب اپنے گھر واپس ضرور جاؤں گی۔ بھاڑ میں گیا یہ رشتہ۔۔!! جسے میں پہلے دن سے نبھارہی ہوں اور سواۓ درد کے کچھ نہیں مل رہا۔۔۔۔!! مجھے تو یہ دنیا ہی پسند نہیں ہے۔بہت بری ہے یہ۔۔۔!!!!"

اس نے آنکھیں بند کیں تو آنکھوں کے سامنے درمان کا چہرہ ہی تھا۔ اب وہ اپنی حالت کا کیا کرتی۔دل میں تو وہ ظالم ہی رہتا تھا۔

درمان آجائیں پلیز۔۔۔!!! بہت درد ہورہا ہے۔۔!!! درمان آجائیں نا کہیں سے...!!!! درمان۔۔۔!!!"

روتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی ۔لیکن دل اسے ہی پکار رہا تھا۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment