Pages

Wednesday 4 September 2024

Shiddat E Ashique Novel By Zoya Shah & Umme Arwa Complete Romantic Novel

Shiddat E Ashique By Zoya Shah & Umme Arwa New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Shiddat E Ashique Novel By Zoya Shah & Umme Arwa Complete Romantic Novel 

Novel Name: Shiddat E Ashique

Writer Name: Zoya Shah

Category: Complete Novel

چہرے پر آتے براؤن بالوں کی آوارہ لٹوں کو جلدی سے کان کے پیچھے اڑیستی وہ لوور شیلف سے ناشتے کی ٹرے پکڑتی کچن سے باہر آئی تھی 

"اسلام و علیکم میری پیاری نانوو جان" مسکراتی ہوئی کمرے کا دروازہ کھولتی وہ اندر داخل ہوتے محبت بھرے لہجے میں بولی تھی

"وعلیکم السلام میری بچی آج بڑی جلدی ناشتہ بنا لیا " انفال بی۔بی نے جائے نماز کو رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر شفقت سے کہا تھا 

"جی میری پیاری نانوو جان کیونکہ مجھے یونی کے لئے نکلنا تھا اور آپکو ناشتہ دیئے بنا جاتی تو میرا دل اداس رہتا ناں کہ میری نانو نے کھانا نہیں کھایا ہو گا" ناشتے کی ٹرے کو بیڈ پر رکھتی وہ انفال بی بی کے دونوں ہاتھوں کو تھامتی ان پر لب رکھتے بولی انفال بی بی  نے مسکراتے ہوئے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تھا

"جیتی رہو اللہ میری بچی کے نصیب اچھے کرے اور میری بچی کی ذندگی ڈھیروں خوشیوں سے بھر دے آمین" 

"آمین" وہ مسکرا کر کہتی ہوئی ان سے اجازت لیتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی سر پر کالی شیشوں والی چادر ڈالتی وہ پیشانی پر چادر کھینچ کر درست کرتی ہوئی بیگ اٹھا کر کمرے سے نکلی دروازہ کھولتی وہ چونکی 

"اسلام و علیکم ممانی " وہ پیچھے ہٹتی انکے لئے راہ بناتی بولی تھی عائزہ بیگم مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی انکے پیچھے انکی بیٹی ریحم بھی تھی جو اسے دیکھتی منہ کے ڈیزائن بناتی اندر آئی تھی 

"وعلیکم السلام کدھر کی تیاری ہے صبح سویرے" عائزہ بیگم نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے دلچسپی سے پوچھا جو بلیک سمپل کڑھائی والے شلوار قمیض سوٹ میں  گندمی رنگت کی مالک بہت ہی عام سی لگی 

"یونی ہی جا رہی ہو گی مہا رانی " ریحم نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا جس پر آئیزل نے اسے بےتاثر نظروں سے دیکھا تھا 

"اچھا جاؤ جاؤ میں تو اماں سے ملنے آئی تھی " عائزہ بیگم نے شیریں لہجے میں کہا وہ سر دھیرے سے ہلاتی انہیں انفال بی بی کے کمرے تک چھوڑتی یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوئی تھی 

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ذی دروازہ کھولو اسی وقت" اس سے پہلے انکا ہاتھ دروازے پر دوبارہ اٹھتا دروازہ کھلا تھا اشفاق صاحب نے سرد  اور درشت نظروں  سے اسے گھورا تھا بھورے بال پیشانی پر عجلت سے بکھرے ہوئے تھے  اسکی سفید رنگت مسلسل رننگ مشین پر دوڑنے کی وجہ سے سرخی مائل تھی کسرتی بدن پسینے میں نہایا ہوا تھا  وہ شرٹ لیس کھڑا انہیں سپاٹ نظروں سے دیکھنے لگا اسکے ہاتھوں پر نظر پڑتے اشفاق صاحب سلگ اٹھے

"تم سموکنگ کرنے لگے دماغ خراب ہے تمھارا پہلے گھر کے اور بزنس کے مسائل کم ہیں جو تم نشہ کرنا شروع ہو چکے ہو " اسکے ہاتھ میں سلگتی سگریٹ دیکھ کر اشفاق صاحب طلش سے پھٹ پڑے  جبکے انہیں غصے میں دیکھ کے اسکے ہلکے گلابی لبوں پر تپا دینے والا متبسم بکھرا اور شہد رنگی آنکھوں  میں چمک ابھری اسنے سگریٹ کا کش لیکر ہوا میں دھواں اڑاتے ہوئے دروازے کے ساتھ کندھا لگاتے ہوئے تاسف سے اشفاق احمد کو دیکھا انکا چہرہ سرخ پڑا تھا غم و غصے سے 

"فار گاڈ سیک ذی کب تک ایسے گھر میں پڑے رہو گے کیا اچھا لگتا ہے کیا بوڑھے باپ کی محنت پر مفت کی روٹیاں ٹوڑنا Rizvi Enterprises کا دیوالیہ نکالنا چاہتے ہو تم " اشفاق صاحب پیشانی پر بل ڈالے درشتگی سے بولے

"مائی ڈیئر سوئیٹ سوئیٹ اشفاق احمد صاحب مفت کی روٹیاں اب تک کون توڑتا رہا ہے اس حقیقت کو بیان کرنے میں اپنا اور آپکا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گا میں پہلے ہی اپنے فرسٹ لیکچر کے لئے لیٹ ہو رہا ہوں جہاں تک آفس کے دیوالیہ ہونے کا سوال ہے وہ تو آپکی قابلیت پر انحصار کرتا ہے کہ آپ کتنی محنت کرتے ہیں رائٹ " اشفاق صاحب کو تپا دینے والی نظروں سے دیکھتا وہ دروازہ بند کرتا ہوا سگریٹ کو حقارت سے دیکھ کر نیچے پھینکتا اسے اپنے بلیک سنیکرز سے فرش کیساتھ رگڑ گیا تھا سرد آہ بھرتا ہوا وہ آف وائٹ کبرڈ کا دروازہ کھولتا اس میں سے کپڑے نکالتا ٹاول اٹھا کر واش روم میں بند ہوا تھا اشفاق صاحب سلگتے ہوئے واپس اپنے پورشن کی جانب آ گئے تھے اس ڈیتھ کو سمجھانا اسکے بس کی بات کہاں تھی

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کہاں رہ گئی تھی میں صبح سے یہاں کھڑی ہوں تمھارا انتظار کر رہی ہوں"  حورم نے سر کو جھٹکتے ہوئے منہ پھلائے کہا وہ رکشے والے کو پیسے تھماتی پیشانی سے چادر کھینچتی مسکرائی تھی اسے دیکھ کر 

"بس لیٹ ہو گئی سوری " بیگ کو کندھے پر درست کرتی آئیزل خوشی سے تیز ہوتی سانسوں کے بیچ بولی حورم اسے دیکھتی ہوئی اسکے پیچھے چل دی تھی 

"میں نے فارم لے لئے پہلے ہی کیونکہ اب ٹائم ختم ہونے والا ہے یہ لو " حورم کی بات سنتی وہ خوشی سے چمک اٹھی تھی فارم تھامتی وہ مسکرائی تھی یونیورسٹی کے سٹیمپ پر اسنے مسکراتے ہوئے انگلیاں پھیری تھی اسکا خواب پورا ہونے کو تھا اور مسکراتے ہوئے وہ فارم کو سینے سے لگا چکی تھی 

"پاگل یہ کیا کر رہی ہو " حورم نے چونکتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو مسکرا رہی تھی

"حورم تم نہیں جانتی کتنی کوششوں کے بعد میں یہاں تک پہنچی ہوں کتنی ہمت درکار تھی مجھے میں بہت بار لڑکھڑائی لیکن گرنے نہیں دیا خور کو " فارم کو دیکھتی وہ مسکراتے ہوئے مدھم لہجے میں بولی جس پر حورم نے سر ہلاتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا حوصلہ بڑھایا تھا

"اچھا مجھے بہت بھوک لگی ہے تم وہاں اس ونگ کی طرف جاؤ کہیں بیٹھو  اسے فِل کرو میں کچھ لیکر آتی ہوں دوپہر ہو گئے ہیں لنچ بھی نہیں کیا " آئیزل نے سر ہلایا تھا اور یونیورسٹی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی ایک بڑی بلڈنگ کی طرف بڑھ گئی تھی جہاں کچھ سٹوڈینٹس کھڑے لیکچرز کا سکیجول دیکھ رہے تھے وہ چلتے ہوئے ایک بڑے سے ہال کے سامنے رکی تھی یہ ایک بہت بڑا ہال تھا وہ مسکراتی ہوئی اندر جھانک گئی تھی جہاں سینیئرز کا لیکچر اینڈ ہونے کے بعد سب جانے کی تیاری میں مصروف تھے 

"فائنلی آئیزل میں یہاں ہوں فائنلی " وہ لیکچر ہال کو رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی سوچنے لگی 

"چلو بھی یہاں سینئرز کا ونگ ہے ادھر بھول کر بھی مت آنا میری آپی بتاتی ہیں یہاں کے سینیئر جونیئرز کو بڑا گندا ٹرول کرتے ہیں " اسکا ہاتھ پکڑتی حورم نے اسے وارن کیا جس پر وہ مسکرا کر سر ہلا گئی تھی

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کم آن ذی کب تک ضد کرو گے رضوی انٹرپرائسس کو چھوڑ کر تم یہاں اس یونیورسٹی میں ٹیچنگ کرو گے فار گاڈ سیک مائی سن کیا طریقہ ہے یہ اتنے بڑے بزنس مین کو یہ چیز سوٹ نہیں کرتی ضد چھوڑ دو"  

زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے اسے سمجھانا چاہا جو انکی ریوالونگ چیئر پر بیٹھا سر گرائے جھول رہا تھا 

"ماموں آپ اچھے سے جانتے ہیں اس لالچی شخص کو جسے مجھے باپ کہتے گھن آتی ہے  ناجانے کتنے وقت سے وہ کمپنی کا چیئر مین بننے کی تگ و دو میں تھا فائنلی اب جا کر اسےموقع ملا ہے لیٹ ہم انجوائے لیکن وہ سوچتا ہے یہ عیش وعشرت سب کچھ بےحد آسان ہے ایک ہفتہ بھی نہیں مینج کر پائے گا وہ خود آئے گا میرے پاس  " چیئر پر جھولتا وہ ہاتھ کو اٹھاتا ہوا میں لہراتے لاپرواہی سے بولا 

"فائن جو تمھیں ٹھیک لگے لیکن مہر النساء پریشان ہے تمھیں لیکر " اپنی ماں کا سنتے ہی اسکا دل پگھلا مگر چہرے سے سپاٹ تاثرات ناں ہٹے کیونکہ  جو اسکے دل میں چل رہا ہوتا تھا اسے چہرے پر لا کر وہ دنیا کو دیکھانے کا حامل نہیں تھا 

"آئی تھنک میرے لیکچر کا ٹائم ہو گیا ہے " وہ کلائی پر بندھی سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتا تاسف سے اٹھتا سنجیدگی سے بولا  اور چیئر سے بلیک کوٹ اٹھا کر کندھے پر رکھا زوہیب صاحب نے سر کو دھیرے سے جنبش دی تھی 

"ایک بات تو کہنا ہی بھول گیا " وہ جاتے جاتے بولا تھا زوہیب صاحب نے تاسف سے اسے دیکھا تھا

"مجھے پیپر ورک کے لئے ایک اسسٹنٹ چاہیے آفکورس جیسے آپکے باقی پروفیسرز کے پاس ہیں لہذا آپ ارینج کر لیں  ڈین آف یونیورسٹی " 

زوہیب صاحب نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا تھا وہ دروازے کو کھولتا مغرور سے انداز میں باہر نکل گیا تھا 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"نانو ممانی کیوں آئی تھی" وہ کپڑے پریس کرتی ہوئی پوچھ رہی تھی انفال بی بی کے چہرے پر اضطراری سائے آ جا رہے تھے 

"بیٹا فکر مت کرو کچھ بھی نہیں بس صحت دریافت کرنے آئی تھی "  اس سے نظریں ہٹاتی انفال بی بی نے سرعت سے جھوٹ بولا اور پھر شرمندگی سے لب بھینچ گئی 

"نانو بتا دیں ناں آپ اپنی آئیزو سے بھی چھپائیں گی " وہ استری پھیرتی لاڈ سے بولی  

"کیسے بتاؤں جو عورت تمھیں ناجائز ہونے کے طعنے دیتی تھی آج وہی تمھارا رشتہ لینے آئی تھی کیا چاہتی ہے وہ آخر تم سے میری بچی میں ہرگز یہ رشتہ نہیں ہونے دوں گی تمھیں وقت رہتے مجھے حقیقت سے آگاہ کرنا ہو گا جتنی دیر تم حقیقت سے ناواقف رہو گی اتنا مشکل ہوتا جائے گا میرے لئے " انفال بی بی نے سر اٹھاتے اسے مسکرا کر دیکھتے دل ہی دل میں سوچا وہ ایک پیاری سی مسکان انکی جانب اچھالتی حقیقت سے ناواقف سی دوبارہ کپڑے استری کرنے میں مصروف ہوئی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ہیلوو ذی بھائی کیا چل رہا ہے آج کل" 

اسنے سپاٹ نظروں سے دروازے سے اندر داخل ہوتے اس نکمے کو دیکھا اور دوبارہ پنچنگ بیگ کو فسٹ کرنے میں مصروف ہوا 

"اوہ مائی گاڈ برو کیا سولڈ باڈی ہے آپکی یار " اسکے بیڈ پر بیٹھتا برگر کا بائٹ لیتا وہ اسکے کسرتی وجود کو دیکھتا بولا جو اسوقت مسلسل کسرت کی وجہ سے دودھیا سے سرخی مائل نظر آ رہا تھا وہ بغیر اسکی طرف توجہ دیئے مسلسل پنچنگ بیگ کو پیٹنے میں مصروف تھا 

"ارے ذی بھائی کیوں مار رہے ہو اتنا بیچارہ پھٹ جائے گا " اسنے اپنی طرف سے جوک کریک کرنے کی کوشش کی جس پر وہ سلگ پڑا اور اسکی طرف بڑھتا اسے گردن سے پکڑ گیا 

"ارے ذاویان بھائی آپ تو ایویں ہی ناراض ہو گئے " وہ کھسیانہ ہوتا پھیکی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا بولا جو اسکی شرٹ کا گریبان پکڑے کھڑا تھا ہلکا سا مسکراتا اسے چھوڑ گیا تھا ایک خوبصورت سا ڈمپل اسکی رائٹ سائڈ بیئرڈ میں ظاہر ہو کر معدوم ہوا تھا

"ہائے بھائی آپکی یہی ادائیں کسی دن اس معصوم بچے کی جان لے لیں گی " وہ برگر کا بڑا بائٹ لیتا اسے دیکھتا مسکراہٹ دباتا بولا اسکا شرٹ سیدھا کرتا ہاتھ ساکت ہوا تھا اسنے ترچھی نظروں سے اپنے اس نکمے بھائی کو دیکھا 

"انس" 

"اچھا اچھا جا رہا ہوں بھائی ایسے مت دیکھا کریں ڈر لگتا ہے کہیں پکڑ کر پیٹ ہی ناں دیں" وہ کھسکتا ہوا کہہ کر دروازہ بند کر گیا تھا اسنے سنجیدگی سے شرٹ درست کرتے ہوئے پہنی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"تمھارا لیکچر ہے ناں نو تیس ہو رہے ہیں جلدی سے جاؤ لیفٹ والے ہال میں ،، میں لیکچر کے بعد ملتی ہوں تمھیں" کلائی پر بندھی واچ پر ٹائم دیکھتی حورم بینج سے اٹھی تھی جب اسکی نظر اسکے پاس پڑے ایک فارم پر پڑی تھی

"ارے ایڈمیشن فارم تو آج ہی سبمٹ کروایا تھا یہ کونسا فارم ہے " حورم نے اچھنبے سے اسے دیکھتے استفسار کیا 

 "یہ آر-اے سکیم کا فارم ہے میں اپلائے کرنے کا سوچ رہی تھی " آئیزل نے کہیں غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ حورم نے چونک کر اسے دیکھا 

"تم فنڈز پے نہیں کر سکتی اس لئے اپلائے کر رہی ہو اس کےلئے ؟؟" حورم نے ڈائریکٹ کہنے پر اسے دل میں ٹھیس ضرور محسوس ہوئی مگر وہ چہرے پر مسکان سجا کر سر ہلا گئی تھی

"چلو جیسے ٹھیک لگے دعا کرنا کوئی اچھے پروفیسر مل جائیں ورنہ اس یونیورسٹی سے جتنی امیدیں وابستہ تھی ساری ہی الٹ پلٹ ہو گئی ہیں جب یہاں کے امیر سٹوڈینٹس اور انکی ڈریسنگ دیکھی ہے خدا جانے آگے کیا کیا دیکھنا پڑے گا " سر جھٹکتی حورم کہہ گئی

"اچھا کینٹین کس طرف ہے میں نے صبح جلدی میں ناشتہ نہیں کیا " آئیزل نے بیگ اٹھاتے پوچھا جس پر حورم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا

"تم ناشتہ تو کر لیتی قسم سے حد کرتی ہو یہاں سے سامنے ہی گارڈن کے قریب کینٹین ہے لازمی سے کچھ کھا لینا پلیز میں نہیں چاہتی تم یہاں فینٹ ہو جاؤ"  ناراضگی زے کہہ وہ کر وہاں سے اپنا لیکچر لینے چلی گئی تھی سرد آہ بھرتی وہ  بھی فارم اٹھاتی اپنا لیکچر لینے چلی گئی تھی 

"کس طرف تھا میرا ہال ہائے اللہ میں بھول گئی ,, کونسا ہال کہا تھا حورم نے " آس پاس دیکھتی وہ پذل سی ہوئی تھی اتنی بڑی یونیورسٹی میں گم ہو جانا نیو کمرز کے لئے نئی بات نہیں تھی "

"کسی سے پوچھ لیتی ہوں"   خود سے عہد کرتی وہ ایک بڑے سے ہال میں داخل ہوئی تھی جہاں کا منظر دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی تھی کوئی ڈیسک پر کان پکڑے اٹھک بیٹھک کر رہا تھا تو کوئی اپنے بگڑے حلیے کیساتھ آس پاس مدد کی امید سے نظریں گھماتا محسوس ہوا ٹھنڈے پڑتے پیروں کیساتھ وہ پیچھے پلٹی جب ایک لڑکی سے ٹکرا گئی 

"اندھی ہو کیا اوووووووووہ  "  وہ لڑکی جو اسے ڈریسنگ سے ہی بگڑی ہوئی لگی اسکے لہجے پر وہ اور پزل ہوئی تھی جو اسے سر سے پاؤں تک گھورتی عجیب انداز میں مسکرائی تھی آئیزل سمپل سے وائٹ سوٹ جس پر شیشوں کی کڑھائی کی گئی تھی میں ملبوس تھی 

"تو تم بھی راستہ بھول گئی ہو ڈونٹ وری بچی میں تمھیں پرفیکٹ راستہ دیکھاؤ گی " اسکے ہاتھ سے ایک جھٹکے میں فارم کھینچتی وہ لڑکی مسکرائی آئیزل نے حلق تر کرتے ہوئے اسے بےبس نظروں سے دیکھا تھا اور فارم پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے وہ پکڑ چکی تھی  آس پاس سے کچھ اور سٹوڈینٹس بھی انکی جانب متوجہ ہوئے تھے وہ اکیلی کھڑی بےبس نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی

"چچچ یہ معصوم سی بچی تو پھنس گئی سینیئرز کے بیچ " اسکے اردگرد ٹہلتی وہ لڑکی طنزیہ لب و لہجہ میں بولی آئیزل نے کندھے پر لٹکائے بیگ کو درست کیا تھا اور آس پاس دیکھا تھا جہاں سینیئز باقی نئے اسٹوڈنٹس کی ریگنگ میں مگن تھے وہ بیچاری اکیلی کرتی بھی تو کیا کرتی یہاں تو ان کا پورا گروہ تھا

"اچھا چلو ہم تم سے کچھ الٹا سیدھا نہیں کرواتے  تم تو شکل سے ہی بہت معصوم لگ رہی ہو " اسکی شیشوں والی چادر کو ہاتھ میں لیکر دیکھتی وہ لڑکی منہ کے ڈیزائن بناتی بولی تھی

"سنی کیا کریں تم بتاؤ " وہ پیچھے پلٹتی ایک لڑکے کو دیکھتی بولی جو مسکراتا ہوا ٹیبل سے اٹھ کر انکے پاس آ کر رکا تھا اسنے آس پاس نظریں گھمائی تھی

"وہ لڑکا دیکھ رہی ہو وہاں آفس کے باہر کھڑا ہے جو وائٹ شرٹ والا" سنی نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے تاسف سے کہا تھا آئیزل نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تھا جہاں ایک قد آور شخصیت کا مالک پیپرز ڈیسک پر رکھے جھکا سنجیدگی سے کچھ لکھ رہا تھا مگر وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی اسکا رخ دوسری جانب تھا 

"یہ پھول پکڑو اور جا کر اسے پروپوز کر ڈالو جاؤ شاباش " سنی نے ایک گلاب کا پھول اپنے بیگ سے نکالتے ہوئے اسکی طرف بڑھایا جبکہ اسکی بات سن کر آئیزل کی پیشانی پر چھوٹی چھوٹی پسینےکی بوندیں ابھری اسکی بنفشی آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھیلی تھی

"کک۔۔کیا پپ۔۔پروپوز " وہ لب وا کرتی ہچکچاہٹ کے ساتھ بمشکل بول پائی

"ہاں۔۔پپ۔۔۔پروپوز کرنا ہے جاؤ اور اگر تم نے نہیں کیا میں یہ تمھارا فارم اسی وقت پھاڑ دوں گی" وہ لڑکی اسکے چہرے کے سامنے اسکا فارم لہراتی ہوئی کہہ کر ہنسی تھی آئیزل نے ڈرتے ہوئے آس پاس دیکھا مگر کوئی اسکی مدد کے لئے موجود نہیں تھا وہ کانپتے ہاتھ کو بڑھاتی پھول تھامتی مردہ قدموں سے اس کی طرف بڑھی تھی اسے اپنے پیچھے تالیوں کی اور سیٹیوں کی گونج سنائی دی تھی خوف سے کانپتی ہوئی وہ اس سے کچھ فاصلے پر رکی تھی

"آئیزل تجھے کرنا پڑے گا بہت مشکل کے بعد میں اس یونیورسٹی تک پہنچی ہوں آج ہر صورت مجھے یہ فارم جمع کروانا ہے " خشک لبوں پر گھبراتے ہوئے ذبان پھیرتی وہ سوچتے ہوئے بولی تھی 

"میں کہوں گی آپ یہ لے لیں مجھے ڈیئر ملا ہے فرینڈز سے ہاں یہ ٹھیک ہے " وہ دماغ میں ہی معصوم سا پلان بناتی آگے ہوئی اسکے پیچھے کھڑے وہ تمام اسٹوڈینٹس مزے سے تمام منظر ملاحظہ فرما رہے تھے

"واٹس گوئنگ آن گائز" سنی کا دوست جمی اسکے پاس رکتا آئی برو اٹھاتے بولا تھا سنی نے ہنستے ہوئے اسکی طرف اشارہ کیا تھا اور ساری تفصیل مختصراً بتائی تھی جہاں وہ ڈری سہمی کبھی یہاں دیکھتی تو کبھی وہاں اسے مخاطب کرتے ہوئے اسکی جان جا رہی تھی جمی نے اسی جانب دیکھا تھا جب اسکے جبڑے ڈراپ ہوئے اور آنکھیں خوف سے پھیلی

"ابے عقل کے دشمنو میں ابھی آفس سے پتا کر کے آیا ہوں وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نئے پروفیسر ہیں پروفیسر ظہیر صاحب کی جگہ آئے ہیں  سنا ہے انتہا کے سٹرکٹ ہیں  مزاق سے سخت نفرت ہے انکو آج ہم سب مر گئے بھاگو یہاں سے " جمی تن فن کرتا وہاں سے دوڑا تھا اپنا بیگ اٹھا کر جبکہ اسکے پیچھے سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور پھر آئیزل کو جو اسے مخاطب کر چکی تھی سبھی اپنے بیگز فائلز اٹھا کر وہاں سے رفو چکر ہوئے تھے کینٹین کے ونگ کی جانب ۔۔

آئیزل اپنی جگہ منجمد ہوئی تھی وہ سنجیدگی سے اسکی جانب مڑا تھا 

شہد رنگی آنکھوں نے گلاسز کے پیچھے سے اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا بھورے براؤن بالوں کو جیل سے مخصوص انداز میں بٹھایا گیا تھا لمبی نصف ناک اور سنجیدگی سے بھینچے ہوئے ہلکے گلابی لب ہلکی تراشی ہوئی بیئرڈ  ٫ وہ سختی سے ہونٹ بھینچتی اسے دیکھتی رہ گئی اسنے زندگی میں اتنا حسیں مرد نہیں دیکھا تھا  سونے پر سہاگا اسے پروپوز بھی کرنا تھا وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جب نظر اسکے ہاتھ میں پکڑے پھول پر پڑی نظریں اٹھا کر اسنے ایک کرخت نظر سے اسکے معصوم چہرے کو دیکھا جو سرخ پڑا تھا اسکے یوں دیکھنے پر ۔۔۔

"وو۔۔۔وہ یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ آپ ۔۔۔کے لئے ہے ۔۔۔ وہ۔۔۔  "" 

کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پھول کو آگے بڑھاتی وہ مری ہوئی آواز میں بولی  نظریں جھکا کر وہ بولی تھی جبکے اسکی بات پر اسکا حسین نقوش چہرا ایک منٹ میں سرخ بھبھوکا ہوا تھا اسنے استعجابی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو شکل سے تو ایسی بالکل نہیں لگ رہی تھی 

"پروفیسر ،، سر شاہان آپکے آفس میں آپکا ویٹ کر رہے ہیں وہ لیکچر کا ٹائم ڈسکس کرنا چاہتے ہیں آپ سے وہ  آپکے فرسٹ ٹائم کے لیکچر لینا چاہتے ہیں  " ایک سٹوڈینٹ نے اسے مخاطب کیا تھا آئیذل کے پیروں تلے سے زمین کھسکی تھی اسنے حیرت سے اسے دیکھا تھا آنکھیں خوف سے پھیل چکی تھی گال سرخ پڑ چکے تھے وہ اس سٹوڈینٹ کو واپس جانے کا اشارہ کرتا اسے کرخت نظروں سے دیکھ رہا تھا

"س۔۔۔سر مس ۔۔ مس انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہے ہہ۔۔۔ہم  "  وہ ہچکچاتی سرخ ہوتی الفاظ تلاشتی خوف سے کانپتی ہوئی بولنے کی ہمت کر کے چند الفاظ کہہ پائی تھی جب اسنے اسکی بات کو بیچ میں کاٹا تھا 

 Who gave permission to girls like you to study in this university? How dare you !?

وہ سرخ ہوتے چہرے سے اسے دیکھتا ہوا دبے لہجے میں غرایا تھا وہ خوف سے کانپتی ہوئی سر جھکا چکی تھی 

""آئی ایم سوری سر ،، ہمم۔۔ نہیں کرنا چاہتے تھے یہ سب ہمیں ان لوگوں نے" وہ پیچھے دیکھتی بولی مگر وہاں کوئی ہوتا تو نظر آتا

"Don't even try to explain to me, don't even try to come in front of me from now on, I will suspend you in a minute ...

 اسے سختی سے دیکھتا دو ٹوک لہجے میں وارن کر چکا تھا وہ بےجان سے نظریں جھکائے کھڑی تھی اسکے ہاتھ سے پھول نیچے گرا تھا سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اس پھول کو اپنے وائٹ سنیکرز سے بےدردی سے کچل کر گزر گیا تھا آئیزل نے روتے ہوئے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا اسکے چہرہ آنسوں سے تر تھا ہاتھ کی پشت سے  

آنسوں صاف کرتی وہ وہاں سے ایک جانب چل دی تھی آج اسے خود سے گھن محسوس ہو رہی تھی بےحد شرمندہ تھی وہ خود پر آج۔۔

سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ کر اسنے کندھے سے بیگ اتار کر بینچ پر رکھا تھا چہرے کو ہاتھوں میں گراتی وہ زار زار رو رہی تھی آنسوں اسکی بنفشی آنکھوں سے ٹوٹ کر اسکی بلیک چادر میں جذب ہو رہے تھے

"یہ کیا کر دیا میں نے وہ پروفیسر تھے ہمارے اوہ یہ کیا ہوگیا مجھ سے " وہ روتی ہوئی کانپتے ہاتھ سے آنسوں صاف کرتی ایک جانب دیکھتی سر جھٹک گئی تھی 

"بہت غلط کر دیا ہم نے بہت غلط آئیزل کیسے کر سکتی ہو تم ایسا" وہ خود کو کوستی روتی ہوئی بولی 

"مس آئیزل احمد" 

اپنا نام سنتی وہ سر اٹھا گئی تھی ایک مخصوص یونیفارم میں ملبوس لڑکی نے اسکی سرخ آنکھوں کو حیرت سے دیکھا تھا مگر پھر وہ لب بھینچ کر اس سے رونے کی وجہ دریافت کرنے کا ارادہ ترک کر گئی تھی

"آپکو Dean نے اپنے آفس میں بلایا ہے " 

وہ بےجان ہوئی تھی اسکے الفاظ سن کر ۔ کہیں پروفیسر نے ڈین کو سب بتا تو نہیں دیا یہی سوچ کر وہ اٹھی تھی ہاتھ پیر پہلے ہی ٹھنڈے پڑ رہے تھے بھوک سے اور ٹینشن سے اسکا سر چکرایا تھا 

"کس لئے " کمپوز لہجے میں کہتی وہ بیگ تھامتی اٹھی

" یونیورسٹی کے کسی سکیم کے فارم کو فل کیا تھا آپ نے شاید اسے لیکر آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں " 

وہ سکھ کا سانس لیتی جلدی سے اٹھی اور اس لڑکی کے پیچھے چل دی تھی وہ لڑکی اسے آفس چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی تھی سر جھکائے وہ کافی پریشان لگ رہی تھی

"اسلام و علیکم" 

زوہیب صاحب نے فائل سے نظریں اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا جو فرش پر نظریں جمائے کھڑی تھی 

"وعلیکم السلام آپ نے ایپلیکیشن دی تھی جاب کے لئے حوالہ جات جمع کروائے تھے اور کچھ مضمون لکھے تھے جو واقعی قابلِ تعریف ہیں آپ جانتی ہیں درخواست دینے کے بعد، آپ کو ایک رسمی انٹرویو میں حصہ لینا پڑ سکتا ہے لیکن آپکی کنڈیشن کو دیکھ کر ڈیسائڈ کیا ہے کہ آپ ہینڈل کر لیں گی انٹرویو کی ضرورت نہیں "  

"تھینک یو "

وہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے تشکر بھری نظروں سے انہیں دیکھتی بولی تھی  کیونکہ اسکے پاس اس وقت فارم بھی نہیں تھا جسے لیکر وہ انٹرویو سیشن میں جاتی 

"You are the  assistant of Prof. Zavian Haider Rizvi from today, you can go to his office and get more details from him and implement your time table from tomorrow"

ایک بار پھر سے انکا شکریہ ادا کرتی وہ آفس سے نکلی تھی 

"شکر ہے مجھ سے فارم نہیں مانگا انہوں نے تھینک یو اللہ پاک " وہ تشکر بھری نظروں سے آسمان کو دیکھتی بیگ تھامتی پروفیسر زاویان حیدر کے آفس کی طرف بڑھی تھی 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"پانی کا  خالی گلاس سختی سے ٹیبل پر رکھتا ہوا وہ سرد آہ ہوا کے سپرد کرتے ہوئے پیپرز اٹھاتا انہیں چیک کرنے میں مصروف ہوا تھا اسکا ذہن بار بار اسی واقع کی طرف گردش کر رہا تھا جس کی وجہ سے وہ شدید غصے میں تھا

"ذی کیا ہو گیا ہے یہ یونیورسٹی ہے یار اس لیول پر تقریباً ہی تمام سٹوڈینٹس ایسی حرکتیں کرتے ہیں دل پر کیوں لے رہے ہو "  پروفیسر شاہان نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا جس پر وہ لب بھینچتا پین پیپرز پر پٹختا ایک جانب دیکھنے لگا

"لیکن وہ شکل سے ایسی نہیں لگ رہی تھی خیر میں کیوں جج کر رہا ہوں آج کل لوگوں کی شکل پر کچھ اور دماغ میں کچھ اور ہی دیکھنے کو ملتا ہے ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے مجھے اسے سسپینڈ کر دیتا لیکن جس طرح اسکی ڈریسنگ تھی وہ مجھے کسی شریف گھرانے کی لگ رہی تھی  " وہ سنجیدگی سے شاہان کو دیکھتے ہوئے تاسف سے بولا تھا

"اچھا چھوڑو آئے دن ایسے ڈرامے ہوتے ہیں مجھے تو عادت پڑ گئی ہے شکر ہے تم نے اس لڑکی کو سسپینڈ نہیں کروایا ہو سکتا ہے کسی نے اسکے ساتھ میس کیا ہوا اور فورس کیا ہو ایسا کرنے کے لئے تم جانتے ہو یہاں کے سینیئرز کو " شاہان نے کندھے اچکاتے کہا وہ سنجیدگی سے سر ہلاتا دوبارہ پیپرز کی طرف متوجہ ہوا تھا شاہان اپنا لیکچر دینے جا چکا تھا

 پیپرز چیک کرتا ہوا وک رکا تھا دروازے پر ناک سن کر ۔۔

"Come In " 

اندر سے بھاری گمبھیر آواز سنائی دی تھی ساتھ ہی اسکا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا وہ خود کو بمشکل اندر تک گھسیٹتی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی اسے چیئر پر براجمان دیکھ کر وہ شل ہوئی تھی پیپرز سے تاسف سے نظریں اٹھائے اسنے اسے قہر برساتی نظروں سے دیکھا تھا آئیزل کا دل کیا تھا اسی پل سے چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے بھاگ جائے 

اسلام و علیکم 

"Dean has sent me to your office, I have been given the job of your assistant "

آئیزل خوف سے لرزتی آواز میں بولی تھی لاکھ کوششوں کے بعد بھی اسکا لہجہ کمپوز نہیں تھا کتنی شرمندہ تھی وہ اور دوسری جانب  وہ غصہ ضبط کرتا مٹھیاں بھینچتے ہوئے چیئر سے اٹھا تھا 

"You are not needed. Get out of my office right now before I lose my Calm"

اسے سرد نظروں سے دیکھتا ہوا وہ کاٹدار لہجے میں بولا تھا اسکی بات سن کر وہ شرمندگی سے نظریں جھکا چکی تھی اس قدر شرمندگی اسے ذندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی صحیح کہتے ہیں کہ انسان کی چھوٹی سی غلطی اسے ذندگی بھر کے لئے شرمندہ کر سکتی ہے اور شاید یہاں بھی اسکے ساتھ یہی ہو رہا تھا

"Please professor this job is very important for me I didn't want to do all that" 

وہ شرمندگی سے سر جھکاتی بولی اسوقت اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے 

"آپ وہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن پھر بھی کیا" وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا تھا آنکھیں اسکے معصوم نقوش چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ خود بھی مطمئن نہیں تھا اسکے ایسے رویے سے اسے کہیں سے بھی وہ ایسی لڑکی نہیں لگی تھی اسکا سافہ لباس اس چیز کی گواہی تھا جہاں یونیورسٹی میں سب ٹائٹس جینز اور تنگ لباس میں تھی وہاں وہ اکیلی سب سے منفرد سادہ سے لباس میں پردے کا بھرپور دھیان رکھتی سر پر چادر لئے ہوئے تھی

"ذی کیا کر رہے ہو she is trembling"کانپ رہی ہے وہ  ۔۔۔ اتنی ڈرپوک لڑکی ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گی "

اسنے سوچتے ہوئے اسے دیکھا جسکی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر اسکے چہرے پر جھڑ رہے تھے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی 

"یہ جاب بہت ضروری ہے ہمارے لئے  سر ہم ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں پلیز ہمیں معاف کر دیں اور پلیز ہمیں سسپینڈ مت کروائیے گا  "  وہ روتی ہوئی ہاتھ جوڑ چکی تھی ایک سرد آہ بھری تھی اسنے ۔۔۔

"Who told you to do that?"

کمپوز لہجے میں کہتا ہوا وہ قدرے سنجیدگی سے بولا تھا وہ اتنی جلدی اسکی بات کا یقین کہاں کرنے والا تھا آخر وہ بھی انتہا کا ضدی انسان تھا بغیر یہ سوچے کہ دوبارہ وہی بات دہراتے ہوئے وہ پہلے ہی کتنی شرمندہ ہوئی تھی

"ہمیں لیکچر ہال کا پتا نہیں تھا ہم کسی سے پوچھنے کی غرض سے وہاں گئے تھے ہمیں نہیں پتا تھا وہاں پر نئے آنے والے سٹوڈینٹس کو ٹرول کیا جا رہا ہے  ایک لڑکی نے ہمارا فارم لے لیا اور ایک لڑکے نے ہمیں وہ  روز دیکر آپ کی طرف اشارہ کر کے وہ سب کرنے کے لئے کہا " وہ شرمندگی سے لال ہوتے ہوئی سر جھکائے بولی تھی وہ سر جھٹکتا مسکراہٹ ضبط کر چکا تھا وہ کسی پری نرسری کی چھوٹی بچی کی طرح رو رہی تھی اور ہچکیوں کے بیچ بول رہی تھی چہرہ شرمندگی سے سرخ بھبھوکا ہوا تھا اسکی چھوٹی سی ناک بھی سرخ ہو گئی تھی

"آپکی کہی گئی اس بات میں کتنی سچائی ہے "؟؟ 

وہ پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے چلتا ہوا اسکے قریب رکتا سنجیدگی سے گویا ہوا جبکہ اسے اپنے بالکل سامنے دیکھ کر وہ کپکاتی نظریں مزید جھکا چکی تھی 

"ہم۔۔بالکل سچ کہہ رہے ہیں " ہچکی لیتے ہوئے وہ خشک لبوں پر گھبراہٹ کیساتھ زبان پھیرتی دیوار سے چپکتی بولی مسلسل رونے اور ٹینشن کی وجہ سے اس بیچاری کا سر درد سے پھٹنے کو تھا اور ناشتہ ناں کرنے کی وجہ سے اسے چکر بھی آ رہے تھے 

"ریئلی" 

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسکے قریب رکا تھا مقصد اسے آزمانا تھا تھرتھراتی پلکوں کو اسنے اٹھا کر اسے دیکھا جو اسکے بےحد قریب دیوار پر ایک ہاتھ رکھے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا 

"یہ۔۔یہ آپ کیا کر رہیں ہیں پپ۔۔۔پلیز پیچھے ہٹیں"

حلق تر کرتی وہ سہمے لہجے میں بولی ساتھ ہی فورآ آنکھیں جھپکی شرم و حیا سے اسکا چہرہ بالکل سرخ تھا 

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا پیچھے ہٹا تھا وہ سکھ کا سانس لیتی چادر درست کرنے لگی وہ ایک ہی سیکنڈ میں اسے جان چکا تھا 

"فائن یہ میرا سکیجول ہے مجھے ٹائم پر صبح نو بجے میرے ڈیسک پر میری کافی چاہیے بنا شوگر کے ،، لیکچر کے ٹھیک بعد سارے پیپرز کلیکٹ کریں گی اور وہ مجھے دس(AM) تک میرے ڈیسک پر موجود چاہیے باقی سب اس پیپر میں ہے " 

سر کو خم دیتی ہوئی وہ جلدی سے پیپر تھام چکی تھی وہ پاکٹ سے فون نکالتا ہوا امپورٹنٹ کال ریسیو کرنے کے لئے باہر نکلا تھا 

"افف اللہ شکر آپکا ورنہ مجھے سالم نگلنے کا ارادہ تھا شاید آج کسی کا بس اب کوشش کروں گی ایک بھی غلطی ناں ہو ورنہ کیا ہو گا یہ مجھے بھی نہیں پتا  " وہ سرد آہ بھرتی پیپر کو دیکھتی بڑبڑائی تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اماں اس سانولی لڑکی سے میری شادی کروا رہی ہو اتنے برے دن آ گئے میرے " توصیف کو جیسے ہی پتا چلا تھا وہ تب سے آگ برسانے کو تیار تھا مگر موقع کی تلاش میں اسنے تب بات شروع کی تھی جب گھر میں صرف عائزہ بیگم اور ریحم تھی

"خدا تیرا بیڑا غرق کرے آہستہ بول نالائق " عائزہ بیگم نے پھنکارتے ہوئے اسے دیکھ کر کہا جس پر وہ سر جھٹک گیا 

"جس حالات میں تو اب ہے ناں تجھے تو محلے کی کوئی لولی لنگڑی لڑکی بھی کوئی نہیں دے گا شکر کر تیری شادی کروا رہی ہوں ایک اس بوڑھی کے نخرے ختم نہیں ہو رہے ایک تجھے سمجھا سمجھا کر میرا سر پھٹنے کو ہے" عائزہ بیگم نے ماتھا پیٹا ریحم نے آنکھیں گھمائی تھی اکتا کر ۔۔۔

"کیا ضرورت ہے اماں اس سانولی سے اچھی لڑکی مل جائے گی میرے بھائی کو  بھی اچھا اور کوئی ضروری نہیں اسی کے پیچھے پڑ گئی ہیں آپ بھی " ریحم نے تنک کر کہا جس پر توصیف نے سر ہلایا تھا 

"بےوقوف لڑکی ایک بار سوچ وہ پورا گھر اسکے نام پر ہے پچاس لاکھ سے زائد کی تو اکیلی زمین ہے اور اوپر بنا ہوا وہ گھر تقریباً ایک کروڑ سے تو زیادہ کا ہی ہوگا " توصیف نے دلچسپی سے عائزہ بیگم کی جانب دیکھا تھا ریحم نے بھی غور سے دیکھا تھا اپنی ماں کو

"اور جس حالات میں آج یہ نکما پڑا ہے اسی کا بھلا کر رہی ہوں وہ گھر بیچ کر کوئی کام دھندا شروع کر لے گا اگر نہیں بھی کرتا تو ایک کروڑ سے زائد رقم  بیس بائیس سال تو بیٹھ کر آرام سے کھا ہی لے گا اسکے کون سے خرچ اخراجات ہیں اتنے" عائزہ بیگم نے سرعت سے کہا جس پر ریحم نے توصیف کو دیکھا جو کھڑا ہوا تھا

"کدھر جا رہا ہے اب " عائزہ بیگم نے گھورتے ہوئے پوچھا

"آپکی بہو کو یونیورسٹی سے لینے جا رہا ہوں چھٹی کا ٹائم ہونے ہی والا ہو گا اس بڑھیا کو مناؤ کسی طرح اس رشتے کے لئے " مکروہ مسکراہٹ کیساتھ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر کہتا ہوا بائیک کی چابی لیکر باہر نکلا تھا ریحم نے منہ مروڑتے ہوئے اپنی ماں کو دیکھا تھا جو مسکرا گئی تھی 

"ماننا پڑے گا اماں ہم تو واقعی سیٹل ہو جائیں گے اگر وہ گھر بیچ دیں مگر وہ کرموں جلی کسی صورت وہ گھر نہیں بیچے گی ناں ہی دادی جی مانیں گی "  ریحم نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا 

"تیری دادی کو کیسے منانا ہے مجھے اچھے سے پتا ہے اگر وہ ناں بھی مانی تو بھی تیرے ابا کو میں منا لوں گی یہ رشتہ تو ہر صورت ہو کر رہے گا " عائزہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا 

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اور بس خدا کا شکر ہے میں بچ گئی ورنہ آج ہی مجھے سسپینڈ کر دیا جاتا " سب لیکچرز ختم ہونے کے بعد وہ مین بلڈنگ سے باہر نکلتی گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی اور آئیزل حورم کو سب کچھ بتا رہی تھی جسے وہ غور سے سن رہی تھی

"پوری یونیورسٹی میں تمھارے پروفیسر زاویان حیدر رضوی کے چرچے ہیں میری کلاس کی لڑکیوں نے تو پروفیسر ذی ذی کر کے میرا سر کھپا دیا ویسے ہینڈسم ہیں وہ کافی لیکن انکے غصے سے پوری یونیورسٹی ڈرتی ہے " حورم نے سر ہلاتے ہوئے کہا

"تمھارے پروفیسر،، سے کیا مطلب تھا تمھارا وہ ہم سب کے پروفیسر ہیں ناں"  آئیزل نے اسے  گھورا تھا جس پر وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہنسی تھی 

"یار منہ سے نکل گیا" حورم نے شرارت سے کہا جس پر آئیزل نے بھنویں سکیڑی تھی

"یہ کون ہے آئیزل" حورم نے اچھنبے سے گیٹ کے قریب کھڑے توصیف کو دیکھ کر پوچھا تھا جو اسے دیکھ کر بائیک سے اترا تھا آئیزل کے قدم ٹھہرے تھے اسے دیکھ کر جو اسے ہی دیکھ رہا تھا 

"ماموں زاد بھائی ہیں لیکن یہاں کیا کر رہے ہیں یہ مجھے نہیں معلوم" سنجیدگی سے کہتی ہوئی وہ حورم کو خدا حافظ کہتی ہوئی پیشانی پر چادر درست کرتی باہر نکلی تھی جب وہ بائیک سٹارٹ کرتا اسکے پاس رکا تھا

"میں پہلے بھی رکشے سے آتی جاتی ہوں بھائی آپکا بےحد شکریہ" وہ نظریں جھکائے چلتی ہوئی بولی جس پر توصیف کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"روڈ پر تماشا مت کرو لوگ مجھے کوئی آوارہ لوفر سمجھیں گے جو تمھارے آگے پیچھے دوڑ رہا ہو نوکر نہیں ہوں تمھارا جو نخرے کر رہی ہو بیٹھو چپ چاپ امی نے کہا تھا تمھیں لیکر آنے کے لئے " وہ دانت پیستا غصہ ضبط کرتا بولا تھا آئیزل نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر بائیک پر بیٹھی تھی توصیف نے کندھے سے سر گھما کر پیچھے دیکھا تھا جو نظریں جھکائے بائیک کو مظبوطی سے پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی 

"کیا بیچ راستے میں گرنے کا ارادہ ہے تمھارا؟؟ صحیح سے پکڑ کر بیٹھو " اسکا ہاتھ چادر سے نکالتا وہ اپنے کندھے پر زبردستی رکھ چکا تھا یہی وقت تھا جب آئیزل بائیک سے اتری تھی 

"آپ اسی وقت جائیں یہاں سے نہیں جانا ہمیں آپکے ساتھ" وہ پیشانی پر بل ڈالے کراہت بھرے لہجے میں بولی جا پر توصیف نے مٹھیاں بھینچی تھی آس پاس نظر دوڑاتا ہوا وہ اسکے ہاتھ کو سختی سے پکڑ چکا تھا

"کیا سمجھتی ہو خود کو ہاں نوکر ہوں میں تمھارا" اسکے ہاتھ کو مروڑتے ہوا وہ دانت پیس کر پھنکارا درد سے آئیزل کی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے اس سے پہلے وہ احتجاج کرتی اسکی نظر کچھ دوری پر گیٹ سے باہر نکلتے زاویان پر پڑی تھی جو کندھے پر کوٹ رکھے سنجیدگی سے سمارٹ فون  کان سے لگائے انکی جانب بڑھ رہا تھا اسے دیکھتا وہ رکا تھا اور فون کان سے ہٹایا تھا کیونکہ توصیف نے اسکا ہاتھ پکڑ رکھا تھا

"وہ جلدی سے چہرے پر چھائے آبدیدہ تاثرات کو جھٹکتی اسکے ساتھ بائیک پر بیٹھی تھی زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا اور پھر فون کی طرف متوجہ ہو کر اپنی بلیک BMW میں بیٹھ کر گاڑی اسکے برابر سے گزار گیا تھا آئیزل نے عام سی نظر اسکے اسٹیرنگ ویل پر رکھے خوبصورت  دودھیا رنگ ہاتھ پر ڈالی تھی وہ ہوا کی طرح گزرا تھا انکے قریب سے آئیزل نے سرد آہ بھر کر سر جھکایا تھا 

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"تمھاری بات سمجھ سے باہر ہے عائزہ جس بچی کو تم ناجائز ہونے کے طعنے دیتی تھی جسے تم نے گھر میں رکھنے سے انکار کر دیا تھا اس بچی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لئے کس منہ سے مانگ رہی ہو کیا وہ اب ناجائز نہیں لگتی تمھیں" انفال بی بی کی پیشانی پر شکنوں کا جال ابھرا تھا انکی نورانی آنکھوں میں اضطراب تھا 

"اماں میں ایسا کچھ نہیں کہتی تھی لوگوں کی کہی سنی باتوں پر آپ کیسے یقین کر سکتی ہیں وہ تو میری بیٹی جیسی ہے " عائزہ بیگم نے لہجے میں شیرنی گھول کر کہا انفال بی بی نے سر جھٹکا تھا طنز سے جب دروازے پر دستک ہوئی تھی ریحم منہ کے ڈیزائن بناتی عائزہ بیگم کے اشارے پر اٹھ کر دروازے کی طرف گئی تھی اس کی آلسی بلی کی طرح منہ مروڑ کر کام کرنے کی عادت تھی بغیر کہے تو کوئی کام ہی نہیں کرتی تھی 

"آؤ مہارانی " دروازے سے اسے اندر داخل ہوتے دیکھ وہ بڑبڑائی آئیزل اسکی بڑبڑاہٹ سن چکی تھی لمبا سانس خارج کرتی وہ کندھے سے بیگ ہٹاتی برآمدے تک پہنچی تھی جہاں عائزہ بیگم اسے دیکھ کر چہرے پر مخمور مسکراہٹ سجا چکی تھی

"اسلام و علیکم" 

انفال بی بی اور عائزہ بیگم کو سلام کرتی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی عائزہ بیگم  مسکرائی جبکہ انفال بی بی نے اسکے سلام کا جواب دیا تھا 

"میرا جواب "ناں" ہے اور بہتر ہو گا تم اسی وقت یہاں سے چلی جاؤ یہ رشتہ کبھی نہیں ہو گا " انفال بی بی نے سنجیدگی سے کہا جس پر عائزہ بیگم سلگ پڑی ریحم نے ترچھی نظروں سے انفال بی بی کو دیکھا جو تسبیح پر ورد کرنے میں مصروف ہوئی تھی 

"لیکن چودھری صاحب یہ رشتہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ کر کے رہیں گے آخر کب تک آپ اس کے ساتھ رہیں گی آپکی عمر ہو چلی ہے کیا یہ جوان لڑکی یہاں ہی پڑی رہے گی پوری ذندگی اسے بیاہنے کا خیال نہیں آتا اپکے ذہن میں ؟؟ چودھری صاحب چاہتے ہیں یہ شادی جلد سے جلد ہو جائے کل وہ خود آئیں گے اور اسے انگوٹھی پہنا کر جائیں گے رشتہ بھی پکا کریں گا توصیف کیساتھ ہم سہارا دے رہے ہیں لوگ تو اب تک اسے ناجائز ہی کہتے ہیں کون لے گا اسکا رشتہ آپ سے ؟؟ آپکو تو شکر گزار ہونا چاہیے مگر آپ تو احسان فراموش بنی بیٹھی ہیں " عائزہ بیگم تنک کر کہتی ہوئی ریحم کا ہاتھ پکڑتی باہر چلی گئی ریحم نے سر گھما کر انفال بی بی کو اور پاس کھڑی آئیزل کو طنزیہ نظروں سے دیکھا تھا  انفال بی بی نے سر جھکاتے سرد آہ بھری تھی انکی نظر برآمدے کے پلر سے سر لگائے کھڑی آئیزل کو دیکھا تھا جو انہیں ہی دیکھ رہی تھی 

                              -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" اسلام و علیکم کیسے ہیں آپ بھائی" وہ بیگ کا ہینڈل چھوڑتی ہوئی اسکے چوڑے سینے سے لگتی بولی

" وعلیکم السلام الحمدللہ میری جان تم کیسی ہو بھائی کو مس کیا ہو گا یقیناً" 

 وہ مسکراتے ہوئے اسکے بالوں پر لب رکھتا بولا تھا 

"آفکورس بھائی بہت مس کیا یو نو اتنے ہینڈسم اور ڈیشنگ بھائی ہوں  جس لڑکی کے وہ کیسے بھلا مس کئے بنا رہ سکتی ہے " سیرت نے مسکرا کر کہا جس پر وہ بھی مبہم سا مسکرایا تھا وہ خوشدلی سے پیچھے ہوئی تھی جب اسکے پیچھے سے آتی چاہت نے چہکتے ہوئے اسے گلے لگایا تھا وہ پیچھے ہوا تھا عجیب محسوس کرتے ہوئے سیرت نے آدھا منہ کھولا تھا اور پھر لبوں پر ہاتھ رکھ چکی تھی 

"مجھے مس نہیں کیا کیا مائی لوو"  چاہت نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے اسے دیکھا جس پر وہ لب بھینچ کر رہ گیا تھا 

"کم آن ذی تم تو ہو ہی ان رومینٹک اپنی منگیتر کو گلے لگاتے ہوئے بھی ہچکچا رہے ہو ناٹ فیئر جاؤ نہیں بولتی " وہ خفا ہوتی پیچھے ہٹی جب وہ مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھامتا اسکی ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھتے مسکرایا تھا

"ہائے سو سوئیٹ"  جہاں سیرت نے اپنے بھائی کی تعریف کی وہاں چاہت نے آنکھیں گھمائی تھی اسکا دل نہیں بھرا تھا شاید ۔

سیرت بیگ کا ہینڈل تھامتی گاڑی کی طرف بڑھی تھی 

"یو نو ذی بہت ہینڈسم لگ رہے ہو " چاہت اسکا ہاتھ تھامتی چلتے ہوئے اسے کمپلیمینٹ کرنا ناں بھولی جس پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکی شہد رنگ آنکھوں میں اسوقت ایک چمک تھی جو کیوں تھی وہ کوئی نہیں جانتا تھا 

"ہائے یہ ڈمپل ،، خدا قسم بہت محنت کی ہے تمھیں اپنا بنانے میں زاویان حیدر رضوی تم سے بےپناہ عشق ہے چاہت اشفاق احمد کو " وہ  اسکے ڈمپل کو دیکھتے اور پھر اسے رشک بھری نظروں سے دیکھتی دل ہی دل میں بولی تھی وہ سنجیدگی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور گاڑی کو ایئر پورٹ سے رضوی اپارٹ کی طرف ہوا کی طرح لیکر غائب ہوا تھا " 

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آپ جب پریشان ہوتی ہیں مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا نانوو جان " انکی گود میں سر رکھتی وہ منمنائی انفال بی بی نے مسکرا کر اسکے براؤن بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا جس پر وہ بھی مسکرائے بنا ناں رہ سکی 

"آپکو پتا ہے نانوو جان بس ایک آپ ہی میری اپنی ہیں مجھے سب غیر سے لگتے ہیں کوئی بھی اپنا نہیں لگتا آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیئے گا مجھے اسی طرح سپورٹ کیجیئے گا پلیز  امی کے بعد ایک آپ ہی تو ہیں جو میرے ساتھ رہتی ہیں ہمیشہ مجھے سہارا دیتی ہیں "  آئیزل انکے جھریوں سے بھرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتی رندھی ہوئی آواز میں بولی انفال بی بی کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہونا شروع ہوئے تھے 

"ہم جب بھی تھک جاتے ہیں آپکی گود میں سر رکھ کر بےحد سکون محسوس کرتے ہیں یقیناً اللہ پاک نے آپکو ہمارے لئے ہی سکون کا ذریعہ بنایا ہے جو ہماری بےسکون سی ذندگی میں سکون کے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں " وہ انکے ہاتھوں کو لبوں سے چومتی بولی 

"میری بچی زندگی میں تو سانسوں کا بھروسہ نہیں ہم تو انسان ہیں  ہمیشہ اور میں نے تو عمر گزار دی ہے اور ویسے بھی بزرگ  ہمیشہ آپکے ساتھ نہیں رہ سکتے اس لئے ہم سب کہتے ہیں بچوں کو کہ وقت رہتے سمبھل جاؤ تاکہ ہمارے جانے کے بعد تم لڑکھڑاو ناں اور ذندگی میں آگے بڑھنا سیکھ لو تاکہ تمھیں کسی کے سہارے کی ضرورت ناں پڑے " انفال بی بی نے اسکے بال سہلاتے ہوئے شفقت سے کہا 

"انسان کتنا ہی بڑا ہو جائے نانوو انسان کو ماں کی ضرورت تو ہمیشہ ہی محسوس ہوتی ہے ذندگی میں ایسے وقت بھی آتے ہیں جب انسان ٹوٹ جاتا ہے جب اسے کسی اپنے کی ضرورت ہوتی ہے میری اپنی تو آپ ہیں ناں نانوو آپ تو ایسی باتیں ناں کریں  میں تو بےمول ہوں آپکے بنا آپ میری ماں ہیں نانوو"  وہ نم آنکھوں سے انکے جھریوں سے بھرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھماتی بولی 

"میری بیٹی میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا آپ کو پتا ہے جب آپ چھوٹی تھی اور گر جایا کرتی تھی تو آپکی ماں آپ سے کیا کہتی تھی "  چلو اٹھو کھڑی ہو جاؤ میری بچی بہادر ہے ناں " اس بات کو کبھی مت بھولنا میری بچی تم بہادر ہو میرے ساتھ بھی میرے بغیر بھی " انفال بی بی نے اسکے گندمی گال پر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا وہ آنکھیں صاف کرتی سر ہلاتی انکی پیشانی پر بوسہ دیتی سر ہلا گئی تھی 

"کتنا صاف دل ہے تمھارا میری بچی خدا نے تمھاری قسمت ایسی کیوں لکھی ہو گی کبھی سوچتی ہوں ماں باپ کے سائے سے محروم ہو کوئی محبت کرنے والا نہیں کتنی اذیت سے بھرپور ہے تمھاری ذندگی ،، میں دعا کرتی ہوں میرے مالک سچے دل سے دعا کرتی ہوں میری بچی کے نصیب اچھے کر دے اسے برے اور بےدرد لوگوں کی گندی نظروں سے اور شر سے ہمیشہ محفوظ رکھنا میرے مالک " آئیزل کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے( جو گہری نیند میں سو چکی تھی انکی جھولی میں سر رکھے) وہ نم آنکھوں سے دل ہی دل میں دعا کرتی اپنے رب سے گویا ہوئی شاید خدا نے بھی انکی دعا سنی تھی""

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے بازوں کو کہنیوں تک فولڈ کئے وائٹ سنیکرز میں وہ بہت اٹریکٹیو لگ رہا تھا گاڑی کو پارک کرتا فرنٹ سیٹ سے کچھ پیپرز لیفٹ ہینڈ میں تھماتا وہ سپاٹ سے تاثرات چہرے پر سجائے یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا گارڈ نے اسے سلام کیا تھا وہ سلام کا جواب دیتا ہوا سنجیدگی سے تیز قدموں سے اپنے آفس کی طرف بڑھا تھا آس پاس سے کافی لڑکیاں اسے چوری چپکے دیکھ رہی تھی اتنی ہمت تو کسی کی نہیں تھی کہ وہ اسے نظریں اٹھا کر دیکھے تو وہ تھا ہی اتنا سیریئس سب ڈرتے تھے اس سے پیپرز کا سٹاک تھامے وہ اپنی سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے چل رہا تھا نو بجنے میں دو منٹ باقی تھی وہ آفس کا دروازہ کھولتے ہوئے سنجیدگی سے اندر داخل ہوا تھا اپنے ڈیسک پر اپنا مخصوص بلیک کافی کا مگ دیکھا تھا جس میں سے  فوگ نکل رہی تھی اب تک یعنی کافی بالکل گرم تھی جیسے اسے پسند تھی وہ پیپرز ڈیسک پر رکھتا کافی کا کپ تھامتا ہوا ونڈو کی طرف کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کافی کا سپ لے چکا تھا اسنے سنجیدگی سے کافی کا کپ دیکھا تھا ایک سپ لینے کے بعد کیونکہ کافی بالکل پرفیکٹ تھی جیسے اسے پسند تھی اسنے ونڈو سے باہر ہوتی دھند کو دیکھا تھا جو اتنی بڑی بلڈنگ کو اپنے حصار میں لئے ہوئے تھی اسکی سپاٹ نظروں نے ایک ایک باریکی کا غور سے جائزہ لیا تھا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا لائٹ بلو کلر کے سمپل شلوار قمیض سوٹ میں جس پر سفید پشم کی کڑھائی کی گئی تھے سر پر وہی بلیک شیشوں والی چادر لئے وہ کندھے سے بیگ اتارتی ہوئی اپنے ڈیسک پر رکھ رہی تھی 

"اسلام و علیکم" اسکی نظروں خود پر محسوس کر کے وہ بغیر اسکی جانب دیکھتے نظریں جھکائے اپنے بیگ سے کچھ بکس نکالتی بولی تھی

"وعلیکم السلام" کافی کا خالی کپ وہ ٹیبل پر رکھتا اسکی چیئر سے اٹھا تھا کیونکہ اسکا ڈیسک ونڈو کے قریب تھا وہ روزانہ صبح یہاں بیٹھ کر ہی کافی پیتا تھا اور باہر کے مناظر دیکھتا تھا کیونکہ اکثر یہ ڈیسک خالی ہوا کرتا تھا 

وہ سر جھکاتی اپنی چیئر پر بیٹھی تھی اور کل کے لیسن کو پڑھنے میں مصروف ہوئی تھی 

"لیکن چودھری صاحب یہ رشتہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ کر کے رہیں گے آخر کب تک آپ اس کے ساتھ رہیں گی آپکی عمر ہو چلی ہے کیا یہ جوان لڑکی یہاں ہی پڑی رہے گی پوری ذندگی اسے بیاہنے کا خیال نہیں آتا اپکے ذہن میں ؟؟ چودھری صاحب چاہتے ہیں یہ شادی جلد سے جلد ہو جائے کل وہ خود آئیں گے اور اسے انگوٹھی پہنا کر جائیں گے رشتہ بھی پکا کریں گا توصیف کیساتھ ہم سہارا دے رہے ہیں لوگ تو اب تک اسے ناجائز ہی کہتے ہیں کون لے گا اسکا رشتہ آپ سے ؟؟ آپکو تو شکر گزار ہونا چاہیے مگر آپ تو احسان فراموش بنی بیٹھی ہیں "

عائزہ بیگم کی کہی ہوئی ایک ایک بات اسکے  دل اور ذہن میں ٹھیس پہنچا رہی تھی سر درد سے نجات پانا چاہتا تھا وہ کہنی ٹکاتی ہاتھ کی پشت پر سر رکھتی آنکھیں بھینچ گئی تھی 

"کیسے بدتمیزی کرکے گئی وہ نانوو سے یقیناً انہیں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی مجھے چاہے جو کچھ کہتی رہیں نانوو کو میری وجہ سے شرمندہ ہونا پڑا " آنسوں ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے اسکے دوسرے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا رونے کی وجہ سے سر کا درد مذید بڑھا تھا 

ڈیسک سے پیپرز کا سٹاک اٹھاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جو بک پر سر جھکائے ناجانے کیا ہی کر رہی تھی 

"مس آئیزل احمد" 

وہ جلدی سے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اٹھی تھی 

"جج۔۔جی " وہ بک بیگ میں رکھتی جلدی سے اسکی طرف بڑھی تھی اور اسکے ہاتھ سے پیپرز لئے تھے اسکے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھتا وہ دروازہ کھولتا باہر نکلا تھا وہ پیپر تھامتی اپنا بیگ کندھے پر ڈالتی اسکے پیچھے آئی تھی جب اسکا سر چکرایا تھا آنکھوں کے سامنے کا منظر دھندلایا تھا اس سے پہلے وہ گرتی وہ اسے  تھام چکا تھا اسنے سنجیدگی سے اسکے بخار سے جھلستے چہرے کو تھپتھپایا تھا جو آنکھیں بند کئے حوش و خرد سے بیگانی ہو چکی تھی 

"مس آئیزل " وہ اسکا چہرہ تھپتھاتا ہوا بولا 

"کیا ہوا ہے سر "  بوکھلایا ہوا پیون اسکے پاس رکتا دریافت کرنے لگا

"آپ ڈاکٹر فائزہ کو بلائیں وہ ڈسپنسری روم میں ہوں گی اسوقت" وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا اسے سہارا دیکر اٹھاتا ہوا بولا پیون جلدی سے سر ہلاتا ہوا ڈسپنسری کی طرف بھاگا تھا اسے سائڈ بلیک صوفے پر لٹاتا ہوا وہ سنجیدگی سے اسکے سرخ ہوتے گالوں کو دیکھنے لگا بخار کی وجہ سے اسکا پورا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا 

"آخر کیا ہیں آپ مس آئیزل احمد اتنے شدید بخار میں یونیورسٹی کون آتا ہے" اسکے سادہ سے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ سوچ رہا تھا

"اسلام و علیکم پروفیسر زاویان وٹ ہیپنڈ " ڈاکٹر فائزہ آفس میں آتے ہوئے بولی تھی انکے پیچھے پیون بھی تھا 

"وعلیکم السلام یہ فینٹ ہو گئی شاید بخار ہے آپ چیک کریں پلیز " وہ صوفے پر لیٹی آئیزل کی جانب دیکھتا سنجیدگی سے بولا ڈاکٹر فائزہ سر ہلاتے ہوئے اسکے پاس بیٹھی تھی

"پروفیسر زاویان اتنا سخت بخار ہے اس لڑکی کو اسکے باوجود یہ یونیورسٹی آئی تھی "  اسکی نبض کا معائنہ کرتے ہوئے وہ تشویش سے بولی تھی وہ لب بھینچتا اسکے عام سے گندمی رنگ چہرے کو دیکھ گیا تھا 

"لگتا ہے کھانا نہیں کھا کر آئی تھی اور اوپر سے سخت بخار ہے اس وجہ سے فینٹ ہو گئی یہ میڈیسن میں دے رہی ہوں ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد لے گی تو ٹھیک ہو جائے گی " وہ بریف کیس سے میڈیسن نکال کر اسکی جانب بڑھا گئی جسے وہ سنجیدگی سے لے چکا تھا 

"خدا حافظ ہیوو آ نائس ڈے پروفیسر زاویان" ڈاکٹر فاخرہ مسکراتی ہوئی کہہ کر باہر چلی گئی تھی وہ دھیرے سے آنکھیں وا کر رہی تھی 

" آپ جا کر چکن سوپ اور چائے لیکر آئیں فوڈ ڈییپارٹ سے میرا کہہ کر  " وہ ساکت کھڑے پیون کو مخاطب کرتے بولا 

"سر کینٹین سے کچھ منگوا لیں وہاں تو سٹاف کا کھانا بنتا ہے " پیون نے اسے دیکھتے ہچکچا کر کہا 

"آپکو جتنا کہا گیا ہے آپ اتنا کریں"  وہ اسے دیکھتا کرخت لہجے میں بولا

  پیون سر کو خم دیتا جلدی سے باہر نکلا تھا 

صوفے پر لیٹی آئیزل نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکی جانب مڑا تھا وہ جلدی سے صوفے سے اٹھی تھی

"مس آئیزل "

"سس۔سوری مم۔۔میری وجہ سے آپکا۔۔ لیکچر مس ہو گیا آئی ایم ریئلی سوری پروفیسر " وہ شرمندگی سے نظریں جھکاتی اسکی بات کاٹتی گڑبڑا کر بولی تھی وہ سرد نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا 

"پپ۔۔پیپرز" وہ دروازے کے سامنے بکھرے پیپرز دیکھ کر جلدی سے بوکھلاتے ہوئے اٹھی جب وہ سنجیدگی سے اسکا ہاتھ پکڑتا اسے واپس صوفے پر بٹھا چکا تھا 

"ول یو پلیز ایٹ لیسٹ لسن ٹو می مس آئیزل " وہ کرخت لہجے میں بولا تھا اسکے سخت لہجے پر وہ جھرجھری لے گئی تھی

"سس۔۔سوری " وہ اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھتی بجھی آواز میں بولی

"آپ کو شدید بخار ہے لہذا آپ کو کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں آپ ادھر ہی بیٹھی رہیں  عرفان کو کہہ دیا ہے وہ کچھ دیر میں آپکا بریک فاسٹ آپکو یہاں پر دے دیں گے اور فار گاڈ سیک پلیز آپ ناشتہ کر لیں اور یہ میڈیسن لیں "اسکے پاس میڈیسن رکھتا ہوا وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتا دروازے کی طرف بڑھا جہاں اسکے پیپرز بکھرے پڑے تھے لب بھینچتی وہ شرمندگی سے اٹھی اور اسکے قریب جھکتی پیپرز سمیٹنے میں اسکی مدد کرنے لگی 

"آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی مس آئیزل" وہ اسے دیکھتا بھنویں اچکاتا بولا پیپر سمیٹتے اسکے ہاتھ ساکت ہوئے 

"سوری پروفیسر لیکن یہ معمولی سا بخار ہے اور ویسے بھی یہ پیپرز ہم سے گرے تھے اس لئے جو ہم نے پھیلایا ہے اسے ہم ہی سمیٹ لیں گے " وہ ذو معنی بات کرتی ہوئی پیپر سمیٹنے میں مصروف ہوئی تھی زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا کیوں اسے اپنی بالکل بھی پرواہ نہیں تھیاپنی خوبصورت کلائی پر بندھی سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتا ہوا وہ اٹھا تھا پیپرز کا سٹاک اسکے ہاتھ سے لیکر وہ بغیر ایک لفظ کہے لیکچر ہال کی جانب بڑھ گیا تھا سرد آہ بھرتی وہ صوفے پر ڈھے سی گئی تھی 

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"چاہت یہ کونسا طریقہ ہے ڈریسنگ کا " مہر النساء بیگم نے سرسرائیت سے اسکے لباس کو دیکھا تھا وہ تنگ بلو جینز پر سلیو لیس وائٹ شرٹ پہنے ہوئی تھی گلے میں بلو کلر کا چھوٹا سا مفرل تھا کندھوں تک آتے گولڈن بالوں کو کھلا چھوڑا گیا تھا مہر النساء بیگم کی بات سنتی وہ اپنے ڈریس کو ایک نظر دیکھ کر انہیں ایسے گھورنے لگی جیسے اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا

"میں پیرس میں بھی ایسی ہی ڈریسنگ کرتی تھی مماں اور کیا خرابی ہے اس ڈریسنگ میں " وہ ہاتھ ہلاتی ایسے اکتا کر بولی جیسے یہ الفاظ کہتے ہوئے اسکا حلق دکھ رہا تھا

"یہ پیرس نہیں پاکستان ہے اور تم مسلمان ہو اپنے لباس کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا کرو " مہر النساء بیگم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا اور صوفے سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی 

"آئی ڈونٹ تھنک سو کہ میں آپکے کہنے پر اپنا سٹائل چینج کرنے والی ہوں میں وہی کروں گی جو میرا دل کہے گا ڈیئر ساسو اماں جی" وہ آنکھیں گھماتی بدتمیزی سے کہہ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ناجانے کہاں نکل گئی تھی 

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

دروازے پر دستک سن کر انفال بی بی نے کتاب ایک جانب رکھی اور اٹھ کر دروازہ کھولنے چلی گئی 

"اسلام و علیکم اماں "  وہ دروازے پر کھڑے ممتاز چودھری کو دیکھ کر شل رہ گئی تھی انکے ساتھ انکے بڑے بھائی اور انکی فیملی بھی تھی عائزہ بیگم کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیکھ کر وہ سرعت سے چودھری کو دیکھ گئی 

"وعلیکم السلام" وہ سرد لہجے میں کہتی ہوئی پیچھے ہٹیں تھی سب اندر داخل ہوئے تھے 

"کیسی ہو اماں کوئی پریشانی تو نہیں یہاں پر " ممتاز چودھری نے گھر کو سرعت سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا انفال بی بی نے سر جھٹکا تھا 

"اماں آئیزل کہاں ہے  نظر نہیں آ رہی " عائزہ بیگم نے گھر میں نظریں دوڑائی تھی 

"وہ یونیورسٹی گئی ہے " مختصر سا جواب دیتی وہ واپس برآمدے کی جانب بڑھ گئی ممتاز چودھری نے تاسف سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا یقیناً انہیں ناگوار گزرا تھا عائزہ بیگم مسکراتی ہوئی انفال بی بی کے پیچھے چل پڑی تھی 

"کب تک آئے گی آئیزل " عائزہ بیگم نے انکے قریب چارپائی پر بیٹھتے کہا باقی سب بھی بیٹھے تھے انفال بی بی نے کرخت نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھا 

"میں نے کل ہی اس رشتے سے انکار کیا تھا کیا سوچ کر تم سب کیساتھ یہاں آئی ہو " وہ سنجیدگی سے سب کو دیکھتی بولی تھی ریحم نے منہ کا زاویہ بگاڑا تھا 

"اماں اس انکار کی وجہ جاننا چاہتا ہوں میں آخر کیوں آپ اس رشتے سے انکار کر رہی ہیں" چودھری ممتاز نے سنجیدگی سے پوچھا جس پر انفال بی بی طنزیہ مسکرائی تھی

"کل تک تم سب لوگ اس معصوم بچی کو گھر میں رکھنا تک نہیں چاہتے تھے وہ بے آسرا تھی میری ہزار منتوں کے بعد بھی تم تھے ممتاز پتر جس نے اسے گھر میں رکھنے سے انکار کیا تھا اور مجھے اس بچی کو سہارا دینے کے لئے یہاں رہنا پڑا  اسکے ساتھ اور اب اچانک سے تمھیں اسی بچی کا رشتہ چاہیے " 

"کیونکہ وہ جوان ہو گئی ہے اور "

"وہ مشکل سے انیس سال کی ہو گی عائزہ " انفال بی بی نے اسکی بات کاٹی جس پر عائزہ بیگم نے لب بھینچے تھے 

"اور وہ ابھی پڑھائی کر رہی ہے "

"آپ اپنا بھی سوچیں اماں آپ کب تک اس کے ساتھ رہیں گی وقت رہتے بیاہ دیں ناں اسے ویسے بھی میرے بھائی کو بہت مل جائیں گی لیکن اس کا رشتہ لیکر کوئی نہیں آئے گا آپکے پاس ایک تو سانولی ہے اور " 

عائزہ بیگم نے ریحم کو آنکھیں دیکھائی تھی جس پر وہ آنکھیں پھیرتی سر جھٹک گئی انفال بی بی نے سرعت سے اسے دیکھا تھا 

"اماں میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھوں گا آپ اس رشتے کے لئے راضی ہو جائیں بس " چودھری ممتاز نے انفال بی بی کے ہاتھ تھامتے کہا 

"ممتاز صحیح کہا رہا ہے اماں مانتا ہوں توصیف کوئی نوکری نہیں کرتا مگر وہ اب سے نوکری کرے گا اور کمائے گا بھی میں آپکو تسلی دینا چاہتا ہوں آپ اس بات کو لیکر فکر ناں کریں " آصف صاحب (جو کہ انفال بی بی کے بڑے بیٹے تھے  ) سنجیدگی سے بولے 

"اماں وہ اپنے ہی گھر آ رہی ہے آپ بےفکر رہیں ہم سب اسکا خیال رکھیں گے " آ (صف صاحب کی زوجہ) عروسہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا 

"میں ایک بار اس سے پوچھ لینا چاہتی ہوں " 

"اماں وہ کل یونیورسٹی سے بھی توصیف کیساتھ آئی تھی میں بتانا بھول گئی وہ خوش ہے " عائزہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا انفال بی بی نے سرد نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جس نے بغیر کسی کی پرواہ کئے بات منہ سے نکال پھینکی تھی 

"میں تو انگوٹھی بھی لائی ہوں جب تک آئیزل آتی ہے میں کچھ کھانے کے لئے بنا دیتی ہوں رشتہ پکا کر لیں گے تحمل سے " عائزہ بیگم نے اٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور ریحم کو لیکر کچن کی طرف بڑھ گئی تھی 

"اماں یقین رکھیں ہم سب وہاں ہیں ہم خیال رکھیں گے آئیزل کا " عروسہ بیگم نے انفال بی بی کے ہاتھ تھامتے کہا 

"یہ لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے کتنا قیمتی ہیرا ہے میری آئیزل اللہ پاک میں سب تجھ پر چھوڑ رہی ہوں مجھے اپنی سانسوں کا بھروسہ نہیں یہ زندگی تو فانی ہے کسی بھی وقت سانسیں ساتھ چھوڑ جائیں گی میری بچی کے نصیب اچھے کرنا " انفال بی بی نے دل ہی دل میں دعا کی تھی اور عروسہ بیگم کو دیکھتی دھیرے سے سر ہلا گئی تھی

"ممتاز چودھری خوشی سے موچھوں کو تاؤ دے گئے تھے 

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ اب کافی بہتر محسوس کر رہی تھی دوائی لینے کے بعد اسنے باقی کے لیکچر بھی لئے تھے سوائے پہلے لیکچر کے ۔

"تم نے گھر بتا دیا تھا ناں لیٹ ہو جاؤ گی آج" آخری لیکچر لینے کے بعد حورم گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے سوچوں میں ڈوبی آئیزل کو مخاطب کرتے بولی

"نانوو کو بتایا تو تھا لیکن مجھے انکی فکر ہو رہی ہے آج تو بہت لیٹ ہو گئی ہوں پتا نہیں انہوں نے کچھ کھایا بھی ہو گا یا نہیں یہ ایوننگ کلاسز کا رولا ڈالنا ضروری تھا کیا " آئیزل نے سر جھٹکا تھا اکتاہٹ سے 

"اچھا چھوڑو کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر ٹائم ٹیبل سیٹ ہو جائے گا اچھا خیال رکھنا اپنا بھائی آ گئے مجھے لینے " حورم اسے خدا حافظ کہتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی تھی

آئیزل نے کوفت سے کلائی پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا جس پر سات بج رہے تھے وہ سرد آہ بھرتی ہوئی چادر کو درست کر کے باہر نکل گئی تھی اندھیرا چھا چکا تھا روڈ لائٹس جل رہی تھی وہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتی مین روڈ پر رکی تھی اور اشارے سے رکشے کو روکنے کی کوشش کرنے لگی تھی سردیوں کی سرد رات تھی اس لئے ٹریفک بھی معمول سے کم تھا وہ سردی میں ہلکی ہلکی کانپتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی جب ایک بائیکر اسکے بالکل سامنے بائیک روک چکا تھا وہ خوف سے دو قدم پیچھے لیتی  ڈر سے کندھے پر رکھے بیگ پر گرفت مظبوط کر گئی تھی 

"کہاں جانا ہے میں چھوڑ دیتا ہوں " وہ اس اکیلی لڑکی کو دیکھ کر ہیلمٹ اتار کر بائیک پر رکھتا خباثت سے کہتا ہوا نیچے اترا تھا آئیزل نے خوف سے آس پاس دیکھا تھا اکا دکا لوگ بھی اپنے کام میں مصروف تھے گاڑیاں معمول کے مطابق آ جا رہی تھی 

"کوئی ضرورت نہیں ہے میں چلی جاؤں گی خود دور ہٹو " وہ خشک حلق تر کرتی مظبوط لہجے میں بولی اور دائیں جانب سے جانے لگی جب اس بائیکر نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا 

"میں چھوڑ دیتا ہوں تکلیف کیوں کر رہی ہو اکیلی ہو کہاں جاؤ گی جانِ من " اسے پیچھے کھینچتا ہوا وہ خباثت سے مسکرایا تھا آئیزل کا ہاتھ اپنے آپ اٹھا تھا اسنے ایک زوردار تھپڑ اسکے منہ پر جڑ دیا تھا خوف سے اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا وہ اس چھوٹی سی لڑکی کی اتنی ہمت پر پہلے تو حیران ہوا پھر تلملا اٹھا بےعزتی اور شرمندگی سے 

"مجھے تھپڑ مارا تو نے " وہ اسکی چادر کو ہاتھ میں پکڑتا کھینچتا  اوپر اچھالتا ہوا پھنکارا تھا وہ آنکھیں بھینچ گئی تھی خوف اور شرمندگی سے

 اسکی چادر ہوا میں ہی کوئی اپنے ہاتھ میں تھام چکا تھا اسنے خوف سے جھکی ہوئی نظروں کو اٹھایا تھا ان سے کچھ فاصلے پر وہ اسے اکیلا دیکھ جو رکا تھا  پوری کیفیت کو سمجھتا فوراً بغیر دیر کئے گاڑی سے نکلا تھا اور اسکی چادر کو تھام چکا تھا

وہ بس اسکی چوڑی مظبوط پشت دیکھ سکی تھی وہ چٹان کی مانند اسکے سامنے آیا تھا اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک وہ پہچان چکی تھی وہ لڑکا اسے دیکھتا زرا پیچھے ہوا تھا اسنے تاسف سے چادر اسکے سر پر ڈالی تھی اور بازو کے کف فولڈ کرتا اس لڑکے کی جانب بڑھتا ایک ہی جست میں اسے گردن سے پکڑتا ہوا ایک زوردار فسٹ اسکے منہ پر مار چکا تھا خون کا فوارہ اسکے ناک سے نکلا تھا ساتھ ہی وہ درد سے چیخا تھا کیونکہ وہ اسکا ہاتھ الٹا کرتا مروڑ چکا تھا چادر درست کرتی آئیزل نے عام سی نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ اسے زمین پر پھینکتا اسے لگاتار چہرے پر فسٹیں مار رہا تھا وہ آدھ مرا ہوا اسکے مظبوط ہاتھ کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا طیش اور ضبط سے اسکا حیسں نقوش چہرا سرخ پڑ چکا تھا 

" پپ۔۔پروف۔۔۔سس۔۔۔سر پلیز بس کریں وہ مر جائے گا " اسے خوف سے دیکھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی 

"آج کے بعد اگر کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو دیکھنے کے قابل نہیں رہو گے " اسکے چہرے پر سنیکرز سے زوردار کک مارتا ہوا وہ طیش سے بھرپور لہجے میں غرایا تھا وہ لڑکا اپنا ہاتھ پکڑتا اب تک کراہ رہا تھا شاید اسکا ہاتھ ٹوٹ چکا تھا "

وہ سنجیدگی سے اسکی طرف مڑا تھا جو تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی 

"تھینک"

"گاڑی میں بیٹھیں"  وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا اپنی بلیک BWM کی طرف بڑھا تھا آئیزل نے کچھ کہنے کے لئے لب وا کئے تھے مگر وہ اسکی بات کاٹ چکا تھا

"آئی سیڈ اسی وقت گاڑی میں بیٹھیں مس آئیزل احمد " وہ اسے کرخت نظروں سے دیکھتا بولا وہ لب بھینچتی بیک سیٹ کا گیٹ کھولتی کانپتی ہوئی گاڑی میں بیٹھی تھی وہ روڈ پر تڑپتے اس لڑکے کو آخری بار دیکھتا گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا  اسکی ہلکی مہک پوری گاڑی میں تھی جس نے اسے ایک ان جانا سا سکون بخشا تھا یقیناً وہ مہک اسے اٹریکٹ کر گئی تھی

"یہ یہ ہمیں کیا ہو رہا ہے " وہ سر جھٹکتی اس مہک کو جھٹلا گئی تھی

"ایڈریس بتائیں" 

وہ جو نظریں جھکائے انگلیاں چٹخا رہی تھی اسکی بھاری گمبھیر خوبصورت آواز پر جلدی سے سر اٹھا گئی

"مجھے سپر مارکیٹ کے قریب والے روڈ پر " 

"میں نے ایڈریس پوچھا ہے آپ سے " وہ گیئر شفٹ بدلتا سپاٹ لہجے میں بولا وہ لبوں کو سختی سے کاٹ چکی تھی

"پروفیسر  اگر اسوقت کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو بہت ایشو ہو جائے گا " وہ شرمندگی سے سرخ ہوتی بولی تھی وہ اسکی بات سمجھتا ہوا گاڑی کو سپر مارکیٹ کے قریب روک چکا تھا  جہاں کوئی بھی نہیں تھا بس ہو کا عالم تھا وہ ہلکی سی مسکرائی اور بیگ کو کندھے پر رکھتی نیچے اتری تھی

"تھینک یو" وہ عام سے لہجے میں بولی تھی وہ سنجیدگی سے لب بھینچ گیا تھا وہ ایک چھوٹی سی گلی میں مڑ گئی تھی وہ گاڑی کا گیٹ کھولتا ہوا سنجیدگی سے نیچے اترا تھا اور کچھ فاصلے پر چل دیا تھا اسکے پیچھے ۔۔

"روڈ پر ہلکی ہلکی روشنی تھی وہ سر جھکائے چل رہی تھی اپنے گھر کے سامنے رکتی وہ دروازے پر دستک دے چکی تھی جب ریحم نے دروازہ کھولا تھا وہ اسے صحیح سلامت گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر واپس پیچھے مڑ گیا تھا جبکہ وہ اسکی موجودگی محسوس کرتی ہوئی دروازے سے سر نکالتی اسکی جانب دیکھ چکی تھی مگر وہاں کوئی نہیں تھا سر جھٹکتی وہ اندر داخل ہوتی دروازہ بند کر گئی تھی

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کہاں رہ گئی تھی تم  ہم سب ناجانے کب سے انتظار کر رہےتھے تمھارا" ریحم نے اسے اپنے کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر جھٹکا 

"کون سب " اسکے اٹھتے قدم ساکت ہوئے وہ پیچھے مڑی تھی

"ہم سب یہاں تمھارا رشتہ پکا کرنے آئیں ہیں توصیف بھائی کیساتھ " ریحم نے تاسف سے اسے دیکھتے اسکے سامنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے غرور سے کہا اسنے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا 

"دادی مان گئی ہیں تم جلدی سے تیار ہو کر نیچے آ جاؤ بابا لوگ ویٹ کر رہے ہیں " اسے دیکھ کر مسکراتی وہ ہاتھ سے اشارہ کرتی برآمدے کی دوسری جانب بڑھ گئی تھی آئیزل نے سرد نظروں سے آسمان کو دیکھا تھا جس پر چاند بادلوں میں چھپ گیا تھا 

سفید عام سے لباس میں سر پر دوپٹہ لیتی وہ نیچے آئی تھی سب برآمدے میں اسکا انتظار کر رہے تھے انفال بی بی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی اسے دیکھ کر وہ جان جو تھی انکی آئیزل انکے ہاتھوں کو تھامتی انکے پاس بیٹھی تھی چودھری صاحب نے عائزہ بیگم کو اشارہ کیا تھا وہ بیگ سے انگوٹھی کی ڈبی نکال کر اٹھتے ہوئے اسکے پاس آئی تھی آئیزل نے مٹھی بھینچ لی تھی عائزہ بیگم نے اسے بھویں اٹھا کر دیکھا تھا 

"کل آپ نے جو کچھ اونچی آواز میں نانوو سے کہا آپ اسکی معافی مانگیں ممانی" وہ سرد لہجے میں کہتی سب کو چونکا گئی تھی عائزہ بیگم کے چہرے سے مسکان ایک ہی پل میں سمٹی تھی انہوں نے زہر کند نظروں سے آئیزل کو دیکھا تھا جبکہ چودھری صاحب نے تاسف سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جو انہیں بہلا پھسلا کر ہزار منتوں کے بعد یہاں لائی تھی انکے ارادوں سے کہاں واقف تھے وہ  اور باقی گھر والے سب اسے عام سا رشتہ سمجھ رہے تھے جبکہ یہ تو ایک سودا تھا جو اس معصوم سی لڑکی کی ذندگی برباد کرنے والا تھا انفال بی بی نے سرعت سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا انکے لبوں پر مسکان تھی 

"کیا کہا تم نے اماں سے عائزہ " چودھری صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا

"کچھ بھی نہیں کہا چودھری صاحب بس زرا نوک جھونک ہو گئی تھی ساس بہو میں زیادہ نہیں اماں مجھے معاف کردیں میرے الفاظ کے لئے " عائزہ بیگم نے لہجے میں شیرنی گھول کر کہا انفال بی بی نے فخر سے آئیزل کو دیکھا تھا جو مسکرا گئی تھی انہیں دیکھ کر 

"تیری ساری مسکراہٹیں ناں چھین لی تو میرا نام عائزہ ممتاز چودھری نہیں مجبوری ہے ابھی تو سونے کی چڑیا تجھے بعد میں دیکھ لوں گی " عائزہ بیگم نے دل ہی دل میں کہہ کر اسے گھورا تھا ساتھ ہی انگوٹھی پہنائی تھی 

آئیزل نے سرد نظروں سے انگوٹھی کو دیکھا تھا 

"سونے کی ہے پورے پچیس ہزار کی ہے " عائزہ بیگم نے فخر سے کہا انفال بی بی نے سر جھٹکا تھا آئیزل نے سرد آہ بھری تھی اسکے بعد

 سب میں مٹھائی بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا چودھری صاحب نے اسی مہینے میں شادی کی تاریخ رکھ ڈالی تھی انفال بی بی خاموش رہ گئی تھی عائزہ بیگم کی بات پر کہ کل بھی ہمیں ہی دینی ہے آج بھی ہمیں ہی بیاہ کر دینی ہے تو دیری کیوں ؟! 

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

تیز قدموں کیساتھ وہ آفس سے باہر ہال کی طرف بھاگی تھی رات زیادہ دیر  سے سونے کی وجہ سے آج صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی تھی اسکا دل دھک دھک کر رہا تھا نو چالیس جو ہو رہے تھے یعنی اسکی کافی بھی رہ گئی تھی اور لیکچر بھی شروع ہو چکا تھا وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے جلدی سے ہال میں جھانکا تھا جب  وائٹ بورڈ پر لکھتے ہوئے زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا نگاہوں کا تکرار ہوا تھا ایک پل کے لئے وہ ہچکچاتے ہوئے دروازے میں ہی رک گئی تھی لیکچر ہال میں بیٹھے تقریباً سب سٹوڈینٹس نے اس سادی سی لڑکی کو دیکھا تھا جو لائٹ ییلو سمپل شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس تھی سر پر وہی بلیک چادر تھی وہ متذبذب نظروں سے اسے دیکھ گئی جو بورڈ مارکر پر کیپ لگاتا ہوا اسکو سپاٹ نظروں سے دیکھتے پیںٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال گیا تھا وہ شرمندگی سے ہال کو دیکھنے لگی تھی سبھی سٹوڈینٹ اپنا کام چھوڑ کر اسے ترس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ اس اصولوں کے پکے انسان کو اچھے سے جانتے تھے اور اس معصوم بچی کو بھی اب پنشمینٹ ملنے والی تھی وہ لب بھینچتی دوبارہ اسے دیکھ گئی تھی 

"اسلام و علیکم پروفیسر مے۔۔۔ آئی کم ان" وہ لب کاٹتی شرمندگی سے سر جھکاتی بولی تھی اسنے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

" وعلیکم السلام مس آئیزل احمد آپ پورے دس منٹ لیٹ ہیں" وہ ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا جس پر وہ سرخ ہوتی سر جھکا گئی تھی ہال میں بیٹھے اسٹوڈنٹس نے کھسر پھسر شروع کی تھی مگر اسکی ایک سپاٹ نظر پر سب خاموش ہوئے تھے

"میں آپکو پنشمینٹ تو دیتا مگر آپ ٹیسٹ سے بچ جائیں گی لہزا آپ اندر آ سکتی ہیں اور باقیوں کیساتھ اپنا ٹیسٹ ریمیننگ ٹائم میں لکھ کر مجھے سب مٹ کروائیں " وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا وہ سر ہلاتی ہوئی سرخ ہوتی اندر آئی تھی

"آئیزل کی بچی تیری وجہ سے سب کے سامنے مجھ معصوم کو شرمندہ ہونا پڑا پوری کلاس کے سامنے" وہ خود کو گالیوں سے نوازتی ہوئی اپنی جگہ پر بیٹھی تھی اسکے ہوش ٹھکانے تب لگے جب اسنے بورڈ پر لکھے ہوئے سوال دیکھے تھے جو کل کے لیکچر میں اسنے چھوڑ دیئے تھے اسنے بےبسی سے اسے دیکھا جو سنجیدگی سے فون پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا

"ہائے اللہ کچھ نہیں آتا آج تو مجھے ذندگی میں پہلی بار زیرو ملے گا " وہ ٹیسٹ پیپر پر نظریں جھکاتی شرمندگی سے سوچنے لگی اور کچھ دیر بعد

وہ چور نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی جو موبائل پر ای-میلز دیکھ رہا تھا وہ گال پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے میں محو ہوئی تھی 

"آپ کو شدید بخار ہے لہذا آپ کو کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں آپ ادھر ہی بیٹھی رہیں  عرفان کو کہہ دیا ہے وہ کچھ دیر میں آپکا بریک فاسٹ آپکو یہاں پر دے دیں گے اور فار گاڈ سیک پلیز آپ ناشتہ کر لیں اور یہ میڈیسن لیں "

وہ مبہم سی مسکرائی تھی اسے دیکھتے ہوئے 

"گاڑی میں بیٹھیں"

اسکی آواز اسکے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ خیالوں کیساتھ بہتی جا رہی تھی ناجانے کیا ہو گیا تھا اسکے دل کو اسکی آواز اسے اپنے حصار میں باندھ چکی تھی 

"یہ ہم کیا سوچ رہے ہیں اللہ پاک ہمیں معاف کر دیں پلیز ہمارے ذہن میں ایسے خیالات کبھی ناں آئیں  " وہ سر جھٹکتی شرمندہ ہو کر پیپر پر نظریں گاڑھ گئی تھی مگر صد افسوس وہ بار بار اسکے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ،، ہاتھ میں پکڑی ہوئی پینسل اپنے آپ پیپر پر چل رہی تھی وہ سوچوں میں ڈوبی پچھلے پینتیس منٹوں سے پیپر پر ناجانے کیا ہی لکھ رہی تھی جب اسنے زاویان کو اسٹیج سے اپنی چیئر سے اٹھتے دیکھا وہ چونکی تھی

 گھڑی کو دیکھ  کر کیونکہ لیکچر ختم ہو چکا تھا وہ حیرانی سے اپنے پیپر پر دیکھ گئی تھی جس پر باقاعدگی سے بہت ہی خوبصورت سا اسکا اسکیچ بنا ہوا تھا جس میں وہ سنجیدگی سے شہادت کی انگلی موڑ کر نچلے لب تلے رکھ کر  اسے دیکھ رہا تھا اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ جلدی سے پیپر کو پلٹ گئی تھی آس پاس خوف سے دیکھتے ہوئے  ،،سب اپنے ٹیسٹ پیپر اسکے سامنے ٹیبل پر رکھ کر جا رہے تھے وہ سرخ ہوتی اپنے کارنامے کو دیکھتی لب بھینچ گئی تھی 

"ہائے یہ کیا کر دیا میں نے اففف آئیزل دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا کیا کاریگری بھی پیپر پر دیکھانی تھی تمھیں " وہ اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ہوئی خود سے بڑبڑائی تھی جو سپاٹ نظروں سے سب کے پیپرز کو دیکھ رہا تھا وہ تیز دھڑکتے دل کیساتھ نیچے آئی تھی اور پیپر کو الٹا کر کے پیپرز کے بیچ میں رکھا تھا وہ سنجیدگی سے اسکی یہ حرکت دیکھ گیا تھا وہ تھوک نگلتی وہیں رک گئی تھی 

"آپ جا سکتی ہیں آئی کین مینیج " وہ کہہ کر پیپرز اٹھانے کے لیے جھکا جب وہ جلدی سے پیپرز اٹھا چکی تھی اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو ناجانے کیوں سرخ ہو رہی تھی

"پپ۔۔پروفیسر ابھی ہم فری ہیں ہم رکھ دیں گے آفس میں " وہ حلق تر کرتی بمشکل بولی وہ سر کو خم دیتا بغیر کوئی اور بات کئے اسے راستہ دے گیا وہ بےجان قدموں سے آفس کی طرف بڑھ گئی تھی

"اب کیا کروں اگر میں نے پیپر اٹھا لیا تو سر مسنگ پیپر دیکھ ہی لیں گے کیونکہ اٹینڈینس میں تو میرا رول نمبر ہو گا ہی اللہ جی یہ کیا کر دیا مجھ نکمی نے " وہ لب کاٹتی ہوئی آفس میں داخل ہوئی تھی پیپرز ٹیبل پر رکھ کر اسنے چور نظروں سے پیپرز دیکھے تھے

"مس آئیزل احمد آپ ابھی تک گئی نہیں " 

اسکی آواز پر کرنٹ کھاتی وہ پیچھے مڑی تھی وہ اسے یوں ڈر سے اچھلتا دیکھ کر رکا تھا اسکا چہرہ سرخ بھبھوکا جو ہو رہا تھا وہ حلق تر کرتی اسے دیکھتی ہوئی آفس سے نکلی تھی 

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گاڑی کو پارک کرتے ہوئے وہ آنکھوں سے گلاسز ہٹاتی ہوئی نیچے اتری تھی یونیورسٹی کے سبھی لوفر لڑکوں نے اسے دیکھا تھا وہ تنگ بلیک جینز پر بلیک سلیو لیس شرٹ اور اس پر ہاف سلیوز لیتھر جیکٹ پہنے ہوئے تھی بالوں کی ٹیل پونی کی گئی تھے ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے وہ کافی بولڈ لگ رہی تھی ہائی  بلیک پینسل ہیل پہنے وہ مغرور انداز میں چل رہی تھی جب وہ کسی سے ٹکرائی تھی

"آر یو بلائنڈ ایڈیٹ" وہ غراتی ہوئی اپنی جیکٹ درست کرتے ہوئے بولی آئیزل نے اسکی ڈریسنگ دیکھی اور پھر اسے دیکھا وہ معافی مانگنے کا ارداہ ترک کر گئی 

"نظر نہیں آتا تمھیں سوری بولو مجھے ابھی یو مڈل کلاس " وہ اسے گھورتی ہوئی دانت پیس کر بولی حورم نے آنکھیں گھمائی تھی

"چلو آئیزل لیکچر کے لئے لیٹ ہو رہے ہیں ہم پتا نہیں لوگ دیکھ کر کیوں نہیں چلتے" حورم خاموش کھڑی آئیزل کا بازو پکڑتی بولی چاہت نے غصے سے اسے دیکھا جو اسے لیکر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی 

"بےوقوف سارا موڈ خراب کر دیا میرا" وہ تن فن کرتی ہوئی اسکے آفس کی طرف بڑھ گئی تھی 

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"مماں کیوں پریشان ہیں آپ" سیرت نے لاڈ سے مہر النساء بیگم کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا مہر النساء بیگم نے اسکے بال سہلاتے ہوئے سرد آہ بھری تھی

"سیرت میں چاہت کو لیکر پریشان ہوں زاویان اسکا انتخاب کیسے کر سکتا ہے اسے زرا بھی سلیقہ نہیں " مہر النساء بیگم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا سیرت نے سر ہلایا تھا

"مماں اسنے ہی بھائی کو پروپوز کیا تھا یہ بات میری بھی سمجھ نہیں آئی کیونکہ آپ بھی بھائی کو جانتے ہیں انہیں ریلیشن شپز وغیرہ اور لڑکیوں میں کہاں کوئی دلچسپی ہے مگر چاہت کا پروپوزل انہوں نے کیسے قبول کر لیا ناجانے" سیرت نے انگلیوں سے کھیلتے ہوئے لاپرواہی سے کہا 

"میں چاہتی ہوں میری بہو سلیقہ مند ہو اسے اچھے برے کی تمیز ہو امید ہے ذی چاہت کو سمجھا لے گا مجھے تو اسکی ڈریسنگ سے کراہت محسوس ہوتی ہے اتنے تنگ کپڑے کون پہنتا ہے تم بھی تو پیرس میں رہی ہو تم تو ویسے کپڑے نہیں پہنتی" مہر النساء بیگم نے معصومیت سے کہا جس پر سیرت کھل کر مسکرائی تھی

"ارے آپ ٹینشن مت لو ناں میری مماں ذی بھائی چاہت کو سمجھا لیں گے وہ ایسی ڈریسنگ نہیں کرے گی آپ ٹینشن ناں لو " سیرت نے مسکرا کر کہا مہر النساء بیگم نے سر ہلایا تھا کچھ سوچتے ہوئے 

"سوری مسٹر اشفاق احمد ہمیں یہ ڈیل منظور نہیں" کلائنٹس اٹھے تھے

"ارے آپ ایک بار انویسٹ کرنے کے بارے میں سوچ تو لیں آپ جیسے ایکسپارٹس چاہیں گے ویسے ہی ہوں گے " اشفاق صاحب نے ہچکچاتے ہوئے کہا کلائنٹس نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا 

"سوری مسٹر اشفاق احمد لیکن ہمارے خیال سے اگر  مسٹر ذی یہاں ہوتے تو وہ ذیادہ بہتر طریقے سے سب ڈسکرائب کرتے " کلائنٹس کانفرنس روم سے جا چکے تھے اشفاق صاحب نے چیئر پر بیٹھتے ہوئے سر کو گرایا تھا 

"سر پانی " سیکریٹری نے انکی جانب پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا وہ ایک ہی سیکنڈ میں پورا پانی کا گلاس پی چکے تھے 

"سر آئی تھنک آپکو سر ذاویان کو منا لینا چاہیے یہ تیسری میٹنگ ہے جو ناکامیاب ہو چکی ہے اس طرح تو بہت نقصان ہو جائے گا " سیکریٹری نے سرگوشیانہ انداز میں کہا اشفاق صاحب نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا کیونکہ وہ درست کہہ رہا تھا اس طرح سے تو ایک ہی مہینے میں سب برباد ہو جاتا 

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پیپرز چیک کرتے ہوئے اسنے ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھا تھا چھٹی کا وقت ہونے ہی والا تھا کل کا واقع یاد کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اپنی چیئر سے اٹھا تھا ناجانے کیوں اسے پریشانی لاحق ہو گئی تھی پیپرز کو لاکر میں رکھتے ہوئے اسنے لاک کر کے چابی پینٹ کی پاکٹ میں رکھی تھی وہ پیچھے مڑا تھا 

"چاہت آپ یہاں " اس سے پہلے وہ کچھ کہتا وہ مسکراتی ہوئی اسکی شرٹ کا کالر پکڑ چکی تھی 

"چاہت ایسی حرکتوں سے باز رہا کریں مجھے نہیں پسند" وہ اسکا ہاتھ ہٹاتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ اسکے انکار پر اسکے چہرے پر سرد تاثرات امنڈ آئے تھے 

"پیار کرتے بھی ہو یا نہیں بولو ہمیشہ جھٹک دیتے ہو میں گھر سے ریڈی ہو کر یہاں تمھارے لئے آئی اور تم ہمیشہ کی طرح آج پھر کہہ رہے ہو کہ مجھے یہ سب پسند نہیں " وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں بولی

"چاہت پلیز اسوقت نہیں آئی ایم آل ریڈی ٹائرڈ " وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے سر جھٹک گیا اور ایک جانب سے نکلنے لگا جب وہ اسکا ہاتھ پکڑ گئی 

"تم پیار نہیں کرتے مجھ سے " وہ بغیر اسے دیکھے بےجان آواز میں بولی وہ اپنی جگہ منجمد ہوا تھا وہ اسکا ہاتھ چھوڑتی ہوئی اسکے سامنے رکی تھی

"ایسے لگتا ہے ہر وقت میں تمھارے پیچھے بھاگتی رہتی ہوں نہیں رہنا چاہتے میرے ساتھ تو صاف صاف کہہ دو کیوں میس کر رہے ہو میری فیلینگز کیساتھ ذی میں تو صرف تم سے پیار کرتی ہوں ناں میرا کیا قصور ہے  "  وہ اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا 

"بولو کرتے ہو پیار مجھ سے یا نہیں اگر نہیں تو میں اسی وقت جا کر بریج سے نیچے گود کر اپنی جان دے دیتی ہوں میں تمھارے بغیر تو نہیں رہ سکتی ناں کیونکہ تم میرا پیار ہو میرا جنون ہو تم " وہ اسکی خوبصورتی سے تراشی ہلکی بیئرڈ پر ہاتھ رکھتی ذو معنی لہجے میں بولی تھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے اسکے حسیں لبوں کا احاطہ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہی ڈمپل ظاہر ہوا وہ تو دل ہی ہار بیٹھی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسے کندھے سے تھام گیا تھا

"فائن جاؤ اور مر جاؤ" اسے پیچھے ہٹاتا ہوا سرگوشیانہ انداز میں کہہ کر وہاں سے گزر گیا تھا چاہت تو دیوانگی سے اسے دیکھتی ہی رہ گئی

"ذی تم ذاویان نہیں ظالم ہو  " وہ اسکے پیچھے تیز قدموں سے چلتی ہوئی بڑبڑائی تھی وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا گیٹ سے نکلتے ہوئے اسکی نظر سامنے کھڑی آئیزل پر پڑی تھی وہ اسی لڑکے (توصیف)کیساتھ بائیک پر بیٹھ گئی تھی 

"چلو ناں کہیں چلتے ہیں پلیززز ناں ذی " چاہت نے اسکا بازو پکڑتے ہوئے کہا تھا اسکی آواز سن کر آئیزل پیچھے دیکھ مڑی تھی وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ لئے زاویان کی گاڑی میں بیٹھے تھے آئیزل نے عام سی نظر ڈرائیونگ سیٹ ہر بیٹھے زاویان کو دیکھا تھا 

"اگر ہمارا پیپر دیکھا ہوتا تو یقیناً غصہ کرتے اور موڈ بھی خراب ہوتا  اور ہناری خیر بھی ناں ہوتی مطلب پیپر چیک نہیں ہوئے کل ہی پیپر نکال لیں گے ہم جو ہو گا دیکھا جائے گا پھر " وہ اسے دیکھتی سوچ رہی تھی انکی گاڑی ہمیشہ کی طرح ان سے آگے نکل گئی تھی 

"چلو ریسٹورنٹ چل کر کچھ کھاتے ہیں" توصیف نے خوشگواری سے کہا آئیزل کا دل تیزی سے دھڑکا تھا

"نہ۔۔نہیں پھر کبھی ابھی نانوو گھر پر اکیلی ہیں انہوں نے کچھ کھایا بھی نہیں ہو گا " وہ حلق تر کرتی گڑبڑا کر بولی تھی توصیف کے ماتھے پر شکنوں کا جال ابھرا تھا 

"کچھ نہیں ہو گا انہیں میں کہہ رہا ہوں ناں چلو " وہ کچھ دیر بعد سخت لہجے میں بولا تھا وہ خاموش ہوئی تھی کہنے کو کچھ نہیں تھا جانا وہ اسکے ساتھ چاہتی جو نہیں تھی توصیف نے دانت پیسے تھے اسے گھر ڈراپ کر کے وہ کلب کی رخ مڑ گیا تھا جو اسکا روز کا مشغلہ تھا

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

نماز ادا کر کے وہ انفال بی بی کے پاس آ گئی تھی جہاں اسے سکون ملتا تھا سب سے زیادہ

آ گئی میری بچی " انفال بی بی نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا تھا وہ انکی گود میں سر رکھتے آنکھیں موند گئی تھی 

"نانوو ہم ایک بات پوچھیں آپ سے" وہ بند آنکھوں سے بڑبڑائی انفال بی بی نے سر ہلایا تھا 

"جب آپ حد سے زیادہ کسی کے بارے میں سوچیں تو" وہ آنکھیں کھولتی دھیمے لہجے میں بولی 

انفال بی بی نے اسکے معصوم نقوش چہرے کو دیکھا تھا اور کچھ دیر دیکھتی رہی

"میرا مطلب تھا اگر ایسا کوئی ہو جس کے خیالات بار بار آپکے ذہن میں آ جاتے ہیں آپ ناں بھی چاہیں تو لیکن خیالات برے ناں ہوں تو اسکی کیا وجہ ہو سکتی ہے اور وہ انسان بھی اجنبی ہو " وہ معصومیت سے انفال بی بی کو دیکھتے استفسار کرنے لگی

"بچے اجنبیوں کے خیالات نہیں آیا کرتے اور جس طرح آپ بتا رہی ہو ایسے انسان تو بہت خاص ہوتے ہیں دل میں مخصوص جگہ ہوتی ہے انکی جن کے خیالات کو ہم چاہ کر بھی جھٹک نہیں سکتے" انفال بی بی کی بات پر وہ سر اٹھا کر انہیں دیکھ گئی تھی 

"نہیں ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے وہ بہت اچھے ہیں اس لئے ہم ایسا سوچ رہے ہیں پہلے انہوں نے ہماری غلطی کو معاف کیا اسکے بعد ہمیں جاب بھی دی اور ہمیں اس رات کو بچایا بھی اس لئے بار بار ہم سوچ رہے ہیں کیونکہ وہ واقعی بہت اچھے انسان ہیں " وہ سر ہلاتی خود کو مطمئن کرتی انفال بی بی کے پاس ہی سو گئی تھی انفال بی بی نے مسکراتے ہوئے اسکا معصوم سا چہرہ دیکھا پھر اس پر کمبل درست کر کے ڈالا اور اسکے پاس سو گئی تھی

"میرے مالک میری بچی کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھنا میری بچی پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے میرے ساتھ بھی میرے بعد بھی تو ہی تو وارث ہے میرے مولا اس لاوارث بچی کا " انفال بی بی نے آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کیا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی سو گئی 

                                   -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

دروازے پر ناک سن کر وہ کاؤچ سے شرٹ اٹھا کر پہنتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا تھا دروازہ کھولا تو اسکی پیشانی پر چند شکنیں ظاہر ہوئی وہ مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی 

"چاہت کیا طریقہ ہے یہ دس بجنے والے ہیں جاؤ یہاں سے " اسے اپنے بیڈ پر بیٹھتا دیکھ کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا وہ اسکی شرٹ سے جھانکتے کسرتی بدن کو دیکھ کر معنی خیزی سے مسکرائی تھی اور اٹھ کر اسکی جانب بڑھی تھی

"آئی سیڈ لیوو رائٹ ناؤ" اسکا ہاتھ اس سے پہلے اس تک پہنچتا وہ کچھ ہی فاصلے پر اسکا ہاتھ روک چکا تھا وہ معنی خیزی سے مسکرائی تھی

"کم آن ذی کب تک چھپاؤ گے گھر والوں سے بتا کیوں نہیں دیتے سب کچھ " وہ اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتی دھیمی آواز میں بولی تھی زاویان کے چہرے پر سپاٹ تاثرات چھلک رہے تھے 

"اس سے پہلے کوئی یہاں آئے فورآ باہر نکلو" اسکا ہاتھ پکڑتا وہ اسے باہر نکالنے ہی والا تھا جب اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی اسنے سنجیدگی سے آئینے میں آتے ہوئے شخص کا عکس دیکھا تھا 

"آنے دو جو بھی ہے " چاہت نے اسکے گلے میں بازو حمائل کرتے ہوئے کہا وہ ناجانے کیوں مسکرایا تھا

"لیکن یہ غلط ہے چاہت" وہ ذو معنی سے بولا تھا اسکی کمر میں بازو کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے چاہت کا چہرا چمک اٹھا تھا

"فائنلی تم سمجھ گئے کہ میں نہیں رہ سکتی تمھارے بنا زاویان حیدر رضوی" وہ جارحانہ لہجے میں کہتی ہوئی اسکے چہرے کو تھام چکی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا تھا ایک انجان مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا 

"چاہت" اشفاق صاحب غصے سے دھاڑے تھے چاہت فوراً پیچھے ہوئی تھی جبکہ وہ سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال چکا تھا

"تم سے بعد میں پوچھتا ہوں ابھی اسی وقت اپنے کمرے میں جاؤ" اشفاق صاحب چاہت کو درشت نظروں سے دیکھتے غرائے وہ زاویان کا ہاتھ پکڑ چکی تھی زاویان نے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ اشفاق صاحب کو دیکھا جنکے ہاتھ طیش اور ضبط کے باعث کانپ رہے تھے وہ چاہت کی طرف بڑھتے سختی سے اسکا ہاتھ زاویان کے ہاتھ سے جھٹک گئے تھے

"ڈیڈ میری بات سنیں " 

"جسٹ شٹ اپ ابھی اپنے کمرے میں جاؤ"  بغیر اسکی ایک بات سنے وہ اسے باہر کی جانب دھکیلتے ہوئے اشفاق صاحب پھنکار کر بولے چاہت ڈرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی زاویان نے مسکراتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھ کر اشفاق صاحب کو دیکھا تھا جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا 

"کرنا کیا چاہتے ہو گھٹیا انسان بہن ہے وہ تمھاری اور تم " اشفاق صاحب نے اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھ کر دانت پیس کر کہا وہ ہلکا سا مسکرا گیا تھا

"وہ خود آئی تھی یہاں "  بےفکری سے وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے بولا اشفاق صاحب کا چہرہ سرخ ہوا تھا اسکے بےفکر لہجے پر وہ ہمیشہ ہی یہی کرتا تھا 

"اپنی بیٹی کو کنٹرول میں رکھیں مسٹر اشفاق صاحب میں نے اسے نہیں بلایا تھا" وہ اشفاق صاحب کے قریب ٹہلتا ہوا ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے جارحانہ لہجے میں گویا ہوا تھا اشفاق صاحب نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا مٹھی بھینچے وہ ضبط کر گئے تھے

"بہن تو نہیں ہے وہ میری اشفاق صاحب کیونکہ وہ آپکی بیٹی ہے میری بہن کیسے ہو سکتی ہے پھر" وہ مہلک لہجے میں کہتے ہوئے اشفاق صاحب کے اردگرد ایسے ٹہل رہا تھا جیسے ایک باز اپنے شکار پر جھپٹتے سے پہلے اسے ہر زاویے سے دیکھتا ہے 

"آخر چاہتے کیا ہو تم مجھ سے ذاویان" اشفاق صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے کہا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا 

"میرے پاس تو سب کچھ پہلے سے ہی ہے مسٹر اشفاق احمد آپ بتائیں کیا چاہیے آپکو " وہ انکے روبرو آتا ہوا ایک طائرانہ مسکراہٹ کیساتھ بولا اشفاق صاحب کی برداشت کی حد تھی وہ لب بھینچتے ہوئے وہاں سے واک آؤٹ کر گئے تھے وہ سینے پر ہاتھ باندھتا انکی پشت کو دیکھتا مسکرایا تھا

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ہائے کہاں گیا وہ پیپر یہاں پر ہی تو پڑے ہیں سارے پیپر  پھر میرا پیپر کہاں مر گیا " وہ گھبرائی ہوئی دروازے کو دیکھتی دوبارہ پیپرز ٹٹولنے میں محو ہوئی تھی

"پروفیسر آتے ہی ہوں گے کیا کروں کہاں گیا میرا پیپر " وہ کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتی متذبذب لہجے میں کہتی دوبارہ اوراق کو دیکھنے میں مصروف ہوئی تھی جب آفس کا دروازہ کھلا تھا وہ بےجان ہوتی فوراً سیدھی ہوئی تھی اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک نے اسکی موجودگی کی تصدیق کی تھی وہ لمبا سانس لیتی ریلیکس ہونے کی کوشش کرنے لگی

"اسلام و علیکم" وہ کمپوز لہجے میں کہتی پیچھے مڑی تھی وہ بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے ہوئے تھا ہمیشہ کی طرح بازوں کو کہنیوں تک فولڈ کیا گیا تھا سپید دودھیا مظبوط وجاہت سے بھرپور کلائی پر بلیک سمارٹ واچ بندھی ہوئی تھی وہ اسکا جائزہ لیتی فورآ نظریں جھکا چکی تھی

"وعلیکم السلام آپ کچھ ڈھونڈ رہی تھی مس آئیزل احمد" وہ سنجیدگی سے کھلی ہوئی لاکر کو دیکھتا بولا وہ لب کاٹتی نظریں مزید جھکا گئی

"نہ۔۔نہیں پروف ۔۔۔یسر" وہ نظریں اٹھاتی نفاست سے جھوٹ بولتی سر ہلا گئی 

"ہممم آئی سی اسکا مطلب آپ کچھ نہیں ڈھونڈ رہی تھی " وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اسکے سامنے رکا تھا وہ لب کاٹتی سر ہلا گئی تھی

"اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے بغیر وجہ کے یہ لاکر کھولی تھی" وہ ایک آئی برو اٹھاتا ہوا دلچسپی سے بولا آئیزل کا دل دھک دھک کر رہا تھا وہ معصومیت سے اسے دیکھ گئی تھی لب بھینچے۔۔

"اور چونکہ آپ کچھ نہیں ڈھونڈ رہی تھی اسکا مطلب یہ پیپر بھی آپکا نہیں ہو گا " وہ اسکے سامنے لیفٹ ہینڈ سے پینٹ کی پاکٹ سے ایک پیپر نکال کر ٹیبل پر رکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا آئیزل کی سانسیں اٹکی تھی وہ جھرجھری لیتے ہوئے پیپر کو دیکھ گئی تھی اسکا حلق یکلخت خشک ہوا تھا دل کی دھڑکن سست ہوئی تھی یا یہ کہا جائے کہ رک گئی تھی اسنے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جس کی شہد رنگی آنکھوں میں  بےحد سرد مہری تھی

"ی۔۔۔یہ ممم۔۔۔میرا ہی پپ۔۔۔پیپر ہے " وہ کانپتے لہجے میں کہتے پیچھے ہوتی ہوئی  خوف اور شرمندگی سے کپکپاتی ہوئی وہ سر جھکا چکی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا اچانک اسنے پیپر اٹھایا تھا آئیزل نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اس پیپر کو مٹھی میں بھینچ گیا تھا 

"سس۔۔سوری پروفیسر " وہ سر اٹھاتی بےجان سے لہجے میں بولی تھی وہ پیپر نیچے پھینکتا اسے کرخت نظروں سے دیکھتا ہوا اسکی جانب بڑھا تھا وہ خوف سے مرتی ہوئی پیچھے دیوار سے چپکی تھی 

"اگر یہ مزاق میں بھی کیا ہے آپ نے مس آئیزل تو اسکی سزا آپکو ہر صورت ملے گی " وہ دیوار پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھتا ہوا شفاف سے لہجے میں بولا تھا آئیزل نے تھرتھراتی پلکیں اٹھا کر اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا ...

"پپ،،پروفیسر" اسے مسلسل اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ سرگوشی سے بھی دھیمی آواز میں بولی تھی 

"Why did you do that?"

بھاری گمبھیر سرگوشی تھی وہ تھراتھرتی نظروں سے لب وا کرتی کچھ کہنے کو تیار تھی مگر اسکی نظروں میں پیچیدگی دیکھ کر وہ کچھ ناں کہہ سکی 

"I..I.. Don't...Know"

لب بھینچتی وہ یکلخت خشک حلق کو تر کرتی بےحد مدھم لہجے میں بولی تھی اسوقت دونوں میں کچھ ہی انچ کا فاصلہ تھا آئیزل اسکی طلسماتی ہلکی مہک اور اسکی سحر انگیز آنکھوں کو اتنے قریب سے پہلی بار دیکھ رہی تھی ناجانے کیا تھا اسکی آنکھوں میں جو اپنے سحر کا گھیرا اسکے گرد تنگ کر چکی تھی اسکی خم دار پلکیں اسکی شہد رنگ کی ان شفاف آنکھوں کو بےحد خوبصورتی سے بیان کرتی تھی 

"Was this another prank? "

وہ اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے استفسار کرنے لگا وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتی نظریں یکلخت جھکا چکی تھی کیا کہتی وہ خود اسکا دل انجان تھا ان جذباتوں سے وہ خود گہری کشمکش میں تھی وہ خود اپنے دل سے سوال کرنا چاہتی تھی کہ آخر کیوں کیا تھا اسنے ایسا ۔۔

"Why did you make my sketch Miss Aizal?

اس بار لہجہ بےحد گمبھیر تھا وہ نظریں اٹھاتی جھوٹ بولنے کو تیار تھی جب زاویان کے فون نے بجنا شروع کیا تھا وہ پاکٹ سے فون نکالتے ہوئے دیوار سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا سکھ کا سانس لیتی آئیزل فورآ وہاں سے نکلنے کی تیاری پکڑنے لگی جب اسکی آواز نے اسکے اٹھتے قدموں کو روکا

"I want my coffee on my table in five minutes and you will be punished so that you refrain from doing such pranks again"

فون کو کان سے لگائے وہ اسے بغیر دیکھے کہتے ہوئے آفس کا دروازہ کھولتا ہوا باہر نکل گیا تھا لمبا سانس لیتی ہوئی وہ بھی اسکی کافی تیار کرنے نکل گئی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پچھلے پندرہ منٹ سے اشفاق صاحب سر کو ہاتھوں میں گرائے بیٹھے تھے ایک لفظ نہیں کہا تھا انہوں نے چاہت انہیں دیکھتی اور دوبارہ سر جھٹک جاتی 

"ڈیڈ پلیز ایک بار میری بات ٹھیک سے سن لیں We really love Each other" چاہت نے تیسری بار اپنی کہی گئی بات کو دہرایا اشفاق صاحب نے سر اٹھا کر اسے سخت نظروں سے دیکھا تھا 

"کسی سے پیار نہیں کرتا وہ صرف گیم کھیل رہا ہے تمھارے ساتھ کیوں نہیں سمجھتی میں تمھارا باپ ہوں میری تو سن لو کوئی نظر نہیں آتا تمھیں اسکے سامنے" اشفاق صاحب کرخت لہجے میں کہتے اسے گھور گئے

"وہ گیم نہیں کھیل رہا ڈیڈ ناجانے کیوں لگتا ہے آپ کو ایسا وہ واقعی پیار کرتا ہے مجھ سے اور اسنے باقاعدہ ثبوت دیا ہے اپنی محبت کا مجھے اور مجھے اسکی محبت پر پورا بھروسہ ہے " چاہت نے سرد لہجے میں کہا وہ کسی صورت اسکے بارے میں الٹا سیدھا کہاں سن سکتی تھی

"کونسا ثبوت" اشفاق صاحب چونکے 

"وہ میں آپکو نہیں بتا سکتی لیکن آپ پلیز اپنی چاہت پر بھروسہ رکھیں وہ سچ میں بہت پیار کرتا ہے مجھے" چاہت نے اشفاق صاحب کے پاس بیٹھتے ہوئے انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اشفاق صاحب نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی

"وہ ایک بیسٹ ہے جس کی سیرت سے تم واقف نہیں ہو میں جانتا ہوں وہ کس قسم کا شخص ہے " اشفاق صاحب نے سر جھٹکتے افسردگی سے کہا تھا 

"Enough ڈیڈ آپ کب سے ذی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں میں اور برداشت نہیں کروں گی اسکے بارے میں اگر آپ واقعی ایسا سوچتے ہیں تو بھی مجھے فرق نہیں پڑتا مجھے اس سے محبت ہے That's it 

۔۔ ایک بات جان لیں آپ کہ میں ذی کے بنا نہیں رہ سکتی" 

"دنیا کی نظروں میں وہ تمھارا سوتیلا بھائی ہے کچھ تو شرم کی ہوتی " اشفاق صاحب نے غرا کر کہا 

"بس کریں ڈیڈ بہت ہو گیا کیوں فالتو کے رشتے جوڑ رہے ہیں اسکے ڈیڈ کی بہت پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے اور میں آپکی بیٹی ہوں کیا بار بار مجھے آپکو بتانا پڑے گا " چاہت نے اکتا کر کہا تھا 

"لیکن اب کے حالات کو دیکھو ایک بار مہر النساء تمھاری ماں ہے " اشفاق صاحب نے اسے بےوجہ سمجھانا چاہا

"آپ اسے میرا بھائی کہنا بند کریں میرا سر پھٹنے لگتا ہے جب آپ ایسی باتیں کرتے ہیں " 

چاہت نے دو ٹوک لہجے میں کہا اور اشفاق صاحب کے  سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی 

"کیا چاہتے ہو آخر تم ذاویان حیدر رضوی میری بیٹی میری ہی بات نہیں سمجھ رہی آج تمھاری محبت میں اندھی ہو چکی ہے "

اشفاق صاحب نے چہرے کو ہاتھوں ۔یں گراتے ہوئے سرد آہ بھری تھی

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ویٹنگ روم میں وہ کب سے انٹرویو کے لئے انتظار کر رہی تھی گھڑی کو بےبسی سے دیکھ کر اسنے سرد آہ بھری تھی 

"اور کتنی دیر لگے گی آپکے سر کو میں یہاں پچھلے دو گھنٹوں سے ویٹ کر رہی ہوں " آخر کار اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا وہ تنک کر کہتی ہوئی چیئر سے اٹھتی باہر نکلتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر بولی

"میم سر امپورٹنٹ میٹنگ میں ہیں اور انٹرویو سر خود ہی لیں گے کیونکہ یہ انکی پرسنل سیکریٹری کی جاب ہے " 

اس لڑکی نے خود سے کافی لحاظ سے کہا تھا مگر وہ انتظار کر کر کے تھک گئی تھی لہذا اسکا چھوٹا سا دماغ گرم ہو چکا تھا آفس میں ریوالونگ چیئر پر براجمان شخص کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی جو لیپٹاپ کی سکرین پر کیمرے سے سارا منظر پچھلے دو گھنٹے سے ملاحظہ فرما رہا تھا

"تم جانتی ہو کون ہوں میں سیرت رضوی ہوں میں اور انتظار کرنا میری ڈکشنری میں نہیں ہے انتظار کی بھی ایک حد ہوتی ہے آپکے سر انٹرویو لینا ہی نہیں چاہتے یا پھر انہیں لوگوں کو ذلیل کرنے میں دلی سکون ملتا ہے " 

سیرت نے آنکھیں سکیڑی تھی اسکی ناک سرخ ہوئی تھی غصے کی وجہ سے وہ لڑکی آفس میں داخل ہو گئی تھی کچھ دیر بعد وہ واپس آئی تھی

"میم آپ کو سر نے بلایا ہے "

وہ لڑکی باہر آتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولی تھی سیرت نے تیکھی نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا پھر کوٹ درست کرتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی ریوالونگ چیئر کا رخ دوسری جانب تھا وہ انگلیوں میں پلاٹینم پین کو مہارت سے گھما رہا تھا

"ویلکم مس سیرت رضوی " 

آفس میں بھاری خوبصورت مردانہ گمبھیر آواز گونجی تھی وہ سر جھٹکتی فائل کو ٹیبل پر اسکی جانب بڑھا گئی تھی وہ بھی اسے تپا دینے کے پورے منصوبے بنا چکا تھا لہذا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا تھا سیرت سے جبڑے بھینچ کر اسے دیکھا تھا 

"آئی سی آپ کو انتظار کرنا پسند نہیں مس سیرت رضوی " 

وہ چیئر کا رخ اسکی جانب کرتا ہوا مسکرایا تھا سیرت ساکن ہوئی تھی اپنی جگہ پر بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ شخص براؤن بالوں کو جیل سے بٹھائے ہوئے بےحد بھوری آنکھوں سے اسے دیکھتا ہوا بےحد پرکشش لگا تھا دودھیا رنگت پر اسکی ہلکی بیئرڈ نے اسکی حسیں شخصیت کو مزید سرور بخشا تھا سیرت نے سر جھٹکا تھا 

"پلیز ہیوو آ سیٹ مس سیرت رضوی" وہ سامنے پڑی چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلچسپی سے گویا ہوا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتی کرسی پر بیٹھی تھی مبہم مسکان لبوں پر سجائے اسنے اسکی فائل کا مطالعہ کیا تھا 

"امپریسیو مس سیرت رضوی لیکن آپکی کوالیفیکیشن کم ہے " وہ اسے تپا دینے کے لئے اسکی جانب فائل اچھالتا کرخت لہجے میں بولا سیرت کا چہرہ سرخ پڑا تھا وہ اسکی سولہ ڈگریوں کو کم کیسے قرار دے سکتا تھا وہ سرخ ہوتی اپنی فائل اٹھاتی ہوئی کرسی کو پیچھے دھکیل گئی تھی

"ہاؤ ڈیئر یوو مسٹر فارس احمد ورک سمجھتے کیا ہیں آپ خود کو"  

وہ تنک کر کہتی ہوئی اسے بہت پرکشش لگی تھی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکا غصے سے ہوتا سرخ چہرہ دیکھ کر 

"یو نو واٹ مجھے اپنے بھائی کے آفس میں ہی جاب کرنی چاہیے تھی میرا ہی دماغ خراب تھا جو میں نے یہاں اپلائے کرنے کے بارے میں سوچا" وہ کاٹدار لہجے میں کہتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جسکے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی

"فائن آپ جا سکتی ہیں مس سیرت رضوی مجھے کوالیفائڈ سٹاف چاہیے " وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملاتا سنجیدگی سے بولا تھا سیرت کا پارہ چڑھا تھا وہ ٹیبل پر پڑے پانی کے گلاس کو اٹھاتی اس پر گرانے کا سوچتے ہوئے گلاس اٹھاتی آگے بڑھی تھی وہ اسکے ارداے بھانپتا ہوا ایک ہی جست میں چیئر سے اٹھ کر اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسکے دوسرے ہاتھ سے پانی کا گلاس اسی پر انڈیل چکا تھا وہ سرخ پڑی تھی غم و غصے سے 

"ناؤ یو کین سی کہ کوالیفائڈ سٹاف ایسی حرکتیں نہیں کرتا مس سیرت رضوی اس لئے آپ یہاں جاب نہیں کر سکتی " وہ اسکے بھیگے ہوئے چہرے کو دیکھتا تاسف سے بولا تھا وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی اپنی کلائی چھڑاتی ہوئی اسکے آفس سے واک آؤٹ کر گئی تھی وہ ہلکا سا مسکرایا تھا 

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"Wait Miss Aizal" 

آئیزل جو سرعت سے لیکچر ختم ہونے کے بعد لیکچر ہال سے نکلنے کی تگ و دو میں تھی اسکی آواز سنتی ساکت ہوئی تھی چہرے پر خوف کے سائے لہرائے تھے وہ اسٹیج سے اترتا ہوا گہری سنجیدگی کیساتھ اسکی جانب بڑھا تھا چونکہ لیکچر ختم ہو چکا تھا سب سٹوڈینٹس جا چکے تھے اسوقت وہ دونوں اس کشادہ ہال میں بالکل اکیلے تھے

"Professor Please Forgive Me I didn't make your sketch on purpose, it just came out of nowhere " 

وہ ہمت کرتی ہوئی متذبذب اور شرمندہ لہجے میں بولی تھی اسکا جواب تھا ہی اتنا بےتکا کہ ایک پل کو وہ بھی اہنی جگہ پر ساکت ہوا تھا ہنکارا بھر کر وہ گلہ صاف کرتا ہوا سر جھٹک گیا تھا 

"Professor, can I go"

وہ ڈبڈبی آواز میں اسے دیکھتی معصومیت سے بولی جو لیپ ٹاپ کو اٹھاتا ہوا اسکی بات پر رکا تھا اور اسے سرعت سے دیکھا تھا اسکی جانب جہاں وہ بےحد معصوم شکل بنائے انگلیاں چٹخا رہی تھی

"You will clean the library today, put all the books in their place, after that you can go home"

سنجیدگی سے پیپرز کو لیپٹاپ پر رکھتے ہوئے وہ بےپرواہ انداز میں بولا جبکہ اسکی بات پر آئیزل چونکی تھی مطلب آج اسے لائبریری کی صفائی کرنی تھی اور کتابیں بھی درست جگہ پر رکھنی تھی جن میں تقریباً اسے گھنٹوں لگ جانے تھے 

"پروفیسر ہم کل کر دیں گے پلیز ابھی جانے دیں " وہ معصومیت سے بولی تھی جبکہ وہ پیچیدہ نظروں سے اسے دیکھ گیا جس پر وہ کھسیانہ ہوئی

"اوکے ہم کر دیں گے پروفیسر اینڈ سوری اگین ہم نے آپکا سکیچ بنایا" 

اسکی زبان پر دوبارہ کھجلی ہوئی تھی وہ جاتے جاتے رکا تھا وہ زبان کو لگام دیتی معصومیت سے اسے دیکھ گئی تھی وہ سر جھٹکتا باہر نکلا تھا  بغیر کچھ اور کہے وہ مسکراتی ہوئی لائبریری کی طرف نکل گئی تھی اپنی سزا کاٹنے 

"ہائے یہ مجھے کیا ہو گیا ہے یہ تو سراسر بدتمیزی ہے پروفیسر کچھ نہیں کہہ رہے اسکا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ میں " وہ مسکراتی ہوئی لائبریری میں داخل ہوتی خود سے بڑبڑائی تھی اور کتابوں کے ایک سٹیک کو اٹھایا تھا 

  "I want my coffee on my table in five minutes and you will be punished so that you refrain from doing such pranks again"

اسکی آواز اور پرکشش شخصیت دوبارہ اسکی سماعت و بصارت کے سامنے ایسے آئی جیسے وہ کوئی ہوا کا جھونکا تھا وہ بےساختہ مسکرائی تھی 

"آئیزل تو پاگل ہو چکی ہے پتر" وہ سر ہلاتی خود پر طنز کرتی بک شیلف میں نمبر دیکھتی بکس کو رکھنے میں مگن ہوئی تھی  کسی نے بغیر توجہ کا مرکز بنے باہر سے لائبریری کا دروازہ بند کیا تھا 

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

" پتر توصیف تو کیتھے ویں"  کچن سے نکلتی عائزہ بیگم نے چنگھاڑ کر کہا تھا یہ پانچویں بار تھا وہ اسے بلا رہی تھی اور اسکا نام و نشان تک نہیں تھا گھر میں 

"ریحوو کہاں مر گئے ہیں سارے" عائزہ بیگم نے تیکھی نظروں سے گھر کے خالی صحن کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ریحم آنکھیں مسلتی ہوئی باہر آئی تھی 

"اماں کیوں چلا رہی ہو سونے دو توصیف بھائی اپنے دوستوں کیساتھ باہر گئے ہیں کہہ رہے تھے دیر سے آئیں گے" وہ جمائی لیتی تاسف سے بولی 

"منہوس لڑکی توں روکیا نی اس نوں " عائزہ بیگم نے تنک کر کہا جس پر ریحم نے منہ کا زاویہ بگاڑا

"اماں میری بات کدھر سنتا ہے کونسی بڑی قیامت آ گئی بھلا باہر ہی تو گیا ہے آ جائے گا ناں پہلے کونسا گھر رکتا ہے وہ" ریحم نے لاپرواہی سے کندھے جھٹکے

"اری کرموں جلی اس آفت کو یونیورسٹی سے لینا تھا آدھا گھنٹا اوپر ہو گیا ہائے اللہ ہن کی کراں میں اماں کو کتنی منت سماجت سے رشتے کے لئے منایا تھا " عائزہ بیگم نے چارپائی پر بیٹھتے صدمے سے کہا

"تو کیا ہو گیا اماں" ریحم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا 

"توصیف کا کہا تھا کہ روز اس مصیبت کو یونی سے لے آیا کرے گا وہ ناجانے کدھر ٹر گیا ہے " عائزہ بیگم نے تنک کر کہا ریحم نے سر ہلایا تھا 

"جا فون لیکر آ ملا اسکا نمبر بول اس آفت ماری کو لیکر گھر چھوڑ دے اللہ ناں کرے کوئی حادثہ ہو جائے ہمارے ساتھ خواب ٹوٹ جانے" عائزہ بیگم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا ریحم نے توصیف کا نمبر ملایا تھا جو مسلسل سوئچ آف آ رہا تھا ریحم نے فون اسپیکر پر کیا تھا 

"خدا جانے کہاں رہ گیا ہے " عائزہ بیگم نے فون کو دیکھتے اکتا کر کہا 

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

انفال بی بی نے عشا کی نماز ادا کر کے گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا انہیں فکر لاحق ہو گئی تھی اب تک تو وہ آ جایا کرتی تھی ناجانے کیوں دیر ہو گئی تھی 

"میرے پروردگار میری بچی کو اپنی حفظ و امان میں رکھ دل بہت گھبرا رہا ہے میرا لیکن کیا کروں اسے ان لوگوں کے آسرے نہیں چھوڑ سکتی میں چاہتی ہوں وہ پڑھ لکھ جائے کسی کی محتاج ناں ہو میرے مالک میری بچی کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا"

وہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کو دیکھتی ہوئی دل ہی دل میں دعا گو تھی

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے وہ آفس سے باہر نکلا تھا پیپرز چیک کرنے میں آج وہ کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو چکا تھا اور چھٹی بھی ہو چکی تھی سب گھر جا چکے تھے بےساختہ اسنے پاکٹ پر ہاتھ رکھا تھا کیونکہ اسکا فون مسنگ تھا "ڈیم اٹ" فون کہاں رکھ دیا میں نے " وہ سنجیدگی سے سوچتا ہوا لائبریری کی طرف بڑھا تھا کیونکہ لیکچر سے پہلے وہ لائبریری میں رہا تھا اس لئے خدشہ لاحق ہوا تھا کہ شاید اسکا فون وہیں رہ گیا ہو اسکے قدم ٹھہرے تھے لائبریری پر لاک دیکھ کر 

اسنے ونڈو سے اندر جھانکا تھا جہاں گھپ اندھیرا تھا وہ لاک کو توڑتا ہوا اندر داخل ہوا تھا کچھ ٹوٹنے کی آواز پر آئیزل جو کونے میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی کرنٹ کھاتی سیدھی ہوئی تھی ونڈو کے سامنے سے اسے شفاف فرش پر ایک ہیولا سا نظر آیا تھا 

"آہہہہہہہہ بھوووت" 

وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی پوری شدت سے چیخی تھی جبکہ ٹیبل سے فون اٹھاتا ہوا وہ ساکت ہوا تھا 

"یہ لڑکی اب تک یہاں ہے واٹ دا ہیل" وہ سپاٹ لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے فون کو پاکٹ میں ڈالتے ہوئے اس کونے کی طرف بڑھا جہاں سے اس کی آواز آئی تھی

"ددد۔۔دیکھو بھوت جی مجھے مت کھانا مجھ معصوم نے کچھ بھی نہیں کیا وہ تو پروفیسر نے مجھے یہاں بند کر دیا مجھ معصوم کو لگا تھا وہ مجھ سے صرف صفائی کروائیں گے پپ۔۔پر انہوں نے مجھ معصوم کو بند کر دیا ہاں بہت بڑے ظالم ہیں وہ پپپ۔۔پلیز مجھے مت کھانا میں بہت معصوم ہوں قسم سے " 

وہ تھرتھراتی ہوئی خود سے سمٹتی بجھی آواز میں بولی تھی

اسکے دیئے ہوئے خطاب پر اسکے ہنوز ہونٹوں پر ایک حسیں متبسم بکھرا تھا پورے دن میں وہ اب مسکرایا تھا وہ بھی اسکی بےتکی بات پر مگر  پھر نچلا ہونٹ دباتے ہوئے اسنے مسکراہٹ کو مزید گہرا ہونے سے روکا تھا

"مس آئیزل"

اسکی آواز پر اسے ہرٹ اٹیک آنے کو ہوا اسکی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ابھری وہ لب بھینچتی اٹھی تھی

"پپ۔۔پروفیسر ہم نے کچھ نہیں کہا قسم سے " 

وہ گھبراتی ہوئی منمنائی تھی اسکے کانوں میں اسکے قدموں کی بھاری آہٹ پڑی تھی کیا وہ واپس جا رہا تھا اسے اندھیرے میں چھوڑ کر؟

"پپ۔پروفیسر ہمیں اکیلا مت چھوڑیں ہمیں ڈر لگتا ہے " وہ جلدی سے اٹھتی ہوئی گڑبڑا کر بولی تھی اندھیرے میں کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا دروازے کی طرف بھاگتی ہوئی وہ اسکی چوڑی مظبوط پشت سے ٹکرائی تھی اسنے اپنی ناک کو سرعت سے پکڑا تھا جو اسکی مسکلر پشت سے مانو ٹوٹ گئی تھی

"Miss Aizal, I see that patience is not your thing, isn't it? 

"وہ سنجیدگی سے لائٹ کا سوئچ آن کرتے ہوئے  اسکی جانب مڑتا گویا ہوا وہ شرمندگی سے پیچھے ہوتی سر جھکا گئی تھی مگر اسے باہر جاتے دیکھ 

وہ تیزی سے اسکے پیچھے بھاگی تھی وہ یونیورسٹی کے  بند گیٹ کے سامنے رکا تھا اسنے ایک طائرانہ نظر سے دیوار کو دیکھا تھا اور پھر اپنے پیچھے کھڑی آئیزل کو جو اسکے دیکھنے پر دیوار کو دیکھنے لگی تھی

اسنے سنجیدگی سے گیٹ پر ہاتھ مارا تھا مگر گارڈ شاید اپنے چیمبر میں سو چکا تھا لاک کرنے کے بعد۔

"Miss Aizal, can you jump over the wall?

وہ دلچسپی سے دیوار کو دیکھتے ہوئے بولا تھا آئیزل کے جا ڈراپ ہوئے تھے تعجب سے اسکی آنکھیں پھیلی تھی وہ بازو کے کف موڑتے ہوئے دیوار کی طرف بڑھا تھا ایک جست میں وہ سٹینڈ سے دیوار پر تھا

"پپ۔۔پروفیسر میں کیا کروں گی " وہ حیرت سے اسے دیکھتے بولی جو دیوار پر کھڑا اسے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا تھا

"You will do exactly as I did or you can spend the whole night here shivering in the cold"

وہ طنز سے کہتا ہوا  ہاتھوں کو صاف کرتا دیوار کی دوسری جانب چھلانگ لگا کر اترا تھا 

'پلیززز۔۔پروفیسر ہمیں باہر نکالیں" وہ دیوار سے لگتی معصومیت سے بولی تھی

"مس آئیذل آپکو بالکل ویسے ہی کرنا ہے جیسا میں نے کہا اور میں یہاں ذیادہ دیر آپکا ویٹ نہیں کرنے والا" 

اسکے مغرور انداز پر وہ کڑوے گھونٹ بھرتی تیز دھڑکتے دل کیساتھ فلاورز سٹینڈ پر چڑھتی دیوار پر ہاتھ رکھ گئی تھی دوسری جانب سے اسکا ہاتھ دیکھ کر وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا 

"Come down Miss Aizal" 

وہ اسے دیوار پر خوفزدہ دیکھ کر سپاٹ لہجے میں بولا تھا وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتی سر ہلا گئی تھی

"ہمارے ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں گے پروفیسر" وہ معصومیت سے اونچائی پر کھڑی زمین کو تکتی بولی تھی وہ سرعت سے سر جھٹک کر اسکی طرف بڑھا تھا آئیذل نے رشک بھری نظروں سے اسکے مظبوط ہاتھ کو دیکھا تھا جو اسنے اسکی طرف بڑھایا تھا

"ہم پھر بھی گر جائیں گے پروفیسر" وہ دیوار پر ہی بیٹھتی بولی ذاویان نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا 

"آپ نہیں گریں گی مس آئیزل آپ نہیں آ رہی فائن میں جا رہا ہوں " 

"ننن۔۔نہیں ہم آتے ہیں" اسے پلٹتا دیکھ کر وہ جلدی سے ہڑبڑاتے ہوئے اٹھی تھی 

"اللہ پاک کوئی ہڈی نہیں ٹوٹنی چاہیے میری " وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی کودی تھی اسکے مظبوط کسرتی بازوں نے اسے سکون سے بڑی مہارت سے تھاما تھا اسکے مخصوص پرفیوم کی ہلکی مہک آج آئیذل کو پہلے سے کئی گنا شدت سے محسوس ہوئی تھی وہ سختی سے بھینچی آنکھوں کو کھول گئی تھی اسکی پرکش شہد رنگ آنکھیں چاند کی ہلکی روشنی میں چمک رہی تھی ایک سیکنڈ کے لئے نظروں کا زبردست تکرار ہوا تھا وہ اسے آہستگی سے نیچے اتار چکا تھا جب اسکے پیروں نے نفاست سے زمین کو چھوا تھا وہ شکر کا سانس لیتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جو اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا 

" پروفیسر ہمیں گھر چھوڑ دیں گے آپ پلیز" وہ معصومیت سے بولی تھی گاڑی کا لاک کھولتا وہ رکا تھا

"I thought that having you as my assistant would reduce my problems, but I am sorry to say that it has been completely reversed" 

اسے سنجیدگی سے دیکھتا ہوا  طعنہ دینے کے بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا وہ لب بھینچتی اپنی بےعزتی پر بیک سیٹ پر بیٹھی تھی مگر ناجانے کیوں اسکے لبوں پر ہلکی مسکان آئی تھی

وہ سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا جب گیئر شفٹ کے پاس پڑے فریم میں اسکا فون بجا تھا آئیذل نے سکرین پر چمکتا نام "چاہت" دیکھا تھا وہ عام سی نظروں سے اسے دیکھ گئی جو فون کو سوئچ آف کر چکا تھا

"پروفیسر آپ سے ایک بات پوچھیں ہم اگر آپکو برا ناں لگے" وہ کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی اسنے کوئی جواب نہیں دیا تھا وہ سنجیدگی سے بس ڈرائیونگ کر رہا تھا وہ خاموش ہو گئی تھی گاڑی کو اسکے گھر سے کچھ دور روکا تھا وہ گاڑی سے اترتی ہوئی اسے شکریہ کہنے کے لئے مڑی تھی جب وہ سپاٹ سے انداز میں گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے نکال چکا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا کچھ ہی منٹوں میں اسکا موڈ کسطرح بدلا تھا وہ اسکی گاڑی کو تب تک دیکھتی رہی جب تک گاڑی آنکھوں سے اوجھل ناں ہوئی وہ لب بھینچ کر دروازے پر دھیرے سے دستک دے چکی تھی بغیر یہ دیکھے کہ کسی کی گہری نظر تھی اس پر

 انفال بی بی نے ایک منٹ میں دروازہ کھولا تھا اسے سینے سے لگاتی وہ رونے لگی 

"نانوو" وہ لب وا کرتی ہمدردی سے انہیں گلے لگا گئی 

"آپ ٹھیک ہو ناں بچے اتنی دیر کہاں ہو گئی تھی خدا تیرا لاکھ شکر ہے میری بچی صحیح سلامت ہے" انفال بی بی نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے تشکر بھرے لہجے میں کہا وہ مسکرائی تھی انکے ہاتھ تھامتی ہوئی بولی

"ہم بالکل ٹھیک ہیں نانوو ہم بالکل صحیح سلامت ہیں وہ بس کام تھا تھوڑا سا اس لئے دیر ہو گئی " 

"بیٹا توصیف کے ساتھ آئی ہو " انفال بی بی نے دروازے سے جھانکتے ہوئے فکرمندی سے دریافت کرنا چاہا کیونکہ اسوقت دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا انکے سوال پر آئیذل نے لب بھینچے

"نہیں نانوو وہ ہمیں سر چھوڑ کر گئے ہیں وہ بہت اچھے ہیں جن کے بارے میں بتایا تھا جنہوں نے ہمیں جاب دی وہی چھوڑ جر گئے تھے لیٹ ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے چھوڑ دیا " آئیذل نے جلدی جلدی کہا انفال بی بی نے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا اسے تاسف سے دیکھتے ہوئے جو اسکے ذکر پر خود ہی گڑبڑا رہی تھی ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی

"اچھا نانوو میں ناں کچھ بنا لیتی ہوں بہت بھوک لگی ہے " وہ جلدی سے برآمدے کی جانب بڑھ گئی تھی انفال بی بی دروازہ بند کر چکی تھی

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"چل دور ہٹ"

"اماں "

 ریحم دروازہ کھولتی ہی ہکا بکا رہ گئی تھی وہ لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا تھا اسے دروازے سے دور دھکا دیکر وہ بیچاری خوفزدہ سی دیوار سے چپکی تھی 

"یا میرے مالک یہ کیا حال بنا رکھا ہے توصی" عائزہ بیگم جو کب سے پریشان برآمدے میں یہاں وہاں ٹہل رہی تھی اسے اس حال میں دیکھ کر صدمے سے اسکی طرف بڑھتی بولی جو نشے میں دھت لڑکھڑاتا ہوا رکا تھا 

"اس  گھٹیا لڑکی کو نہیں چھوڑوں گا میں " وہ دانت پیستا بولا اور پلر کو پکڑتا نیچے بیٹھ گیا 

"چل اٹھ ادھر سے آصف صاحب نے یا تیرے ابا نے دیکھ لیا تو جان سے مار ڈالیں گے تجھے بھی اور مجھے بھی " اسے بازو سے پکڑتی عائزہ بیگم نے اسے اٹھا کر کہا وہ سر کو گراتا ہوا بازو جھٹک کر چھڑا گیا

"پوچھو اس شاطر لڑکی سے جاؤ کہ رات کے اس پہر اپنے کونسے یار کیساتھ اتنی بڑی گاڑی سے گھر آئی ہے اللہ قسم اسکو نہیں چھوڑوں گا میں ایک بار سامنے آ جائے اسکا منہ نوچ لوں گا " وہ گرتا سمبھلتا منہ ہی منہ میں لحاظ سے گری گالیاں دیتا ہوا اپنے کمرے میں گھس کر دروازہ بند کر گیا عائزہ بیگم نے نڈھال سی نظروں سے ریحم کو دیکھا جو ہنوز اپنی جگہ کھڑی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی

"اماں کہیں یہ آئیزل کی بات تو نہیں کر رہا تھا " ریحم نے عائزہ بیگم کے قریب چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا عائزہ بیگم نے ایک سرسری نظر سے ریحم کو دیکھا تھا 

"میں تو روز ہی کہتی تھی یہ لڑکی کوئی ناں کوئی چاند چڑھائے گی امیر زادے کو پھنسا لیا سنا تھا بھائی سے کہ گاڑی سے گھر آئی ہے" ریحم نے جلتے میں تیل ڈالا عائزہ بیگم لب بھینچتی ضبط کرتی وہاں سے اٹھ گئی تھی

"کون ہو گا وہ " ریحم نے پرسوچ انداز میں خودکلامی کی اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

انفال بی بی قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے فارغ ہو کر آئیذل کے کمرے کی جانب بڑھی تھی کیونکہ وہ ابھی تک ان سے ملنے نہیں آئی تھی آج سنڈے تھا لہذا یونیورسٹی نہیں جانا تھا انفال بی بی نے چھت پر ہلکی آہٹ سنی تھی اس لئے انکا رخ چھت کی جانب تھا وہ دروازے پر ہی رک گئی تھی آئیذل کو دیکھ کر انکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی وہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے سامنے ڈال رہی تھی پرندے جن میں چڑیا وغیرہ شامل تھے ان روٹی کے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھر رہے تھے 

"ارے نانوو آپ اسلام و علیکم آپ اٹھ گئی" انفال بی بی کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی 

"وعلیکم السلام میری بچی آپ نے ابھی تک خود ناشتہ نہیں کیا اور آپ ان پرندوں کو پہلے کھانا کھلا رہی ہو" انفال بی بی نے مسکراتے ہوئے اسکے قریب رکتے کہا اور ان پرندوں کی طرف دیکھا جو ان سے بالکل خوف نہیں کھا رہے تھے یقیناً وہ یہاں روز آیا کرتے تھے اس لئے کسی اور کی موجودگی سے بھی وہ وہاں سے اڑ کر نہیں گئے تھے 

"ارے نانوو میں تو روز یہ سب کر کے ہی یونیورسٹی جاتی ہوں آج آپ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا مجھے " آئیذل دھیمی سے مسکرائی تھی اور مذید ٹکڑے ان پرندوں کی جانب گرائے تھے 

"کتنا صاف دل ہے تمھارا میری بچی" انفال بی بی نے اسکے گندمی رنگ چہرے کو دیکھ کر شفقت سے کہا جو سردی کے باعث ہلکے ہلکے گلابی پڑ گئے تھے 

"دل تو صاف ہی ہونا چاہیے نانوو جان اگر انسان کا دل ہی صاف ناں ہو تو انسان انسان نہیں کہلایا جا سکتا " وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی وہ انفال بی بی کیساتھ نیچے اتر گئی تھی سر پر دوپٹہ درست کرتی وہ دروازہ کھول چکی تھی جہاں ریحم کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکی تھی وہیں ریحم اسے آج عجیب ہی نظر سے سر سے پاؤں تک گھور گئی تھی 

"اسلام و علیکم دادی" وہ اندر داخل ہوتی بولی تھی آئیذل نے دروازے سے باہر دیکھا تھا یقیناً کوئی نہیں تھا 

"وعلیکم السلام" انفال بی بی نے اسے تاسف سے دیکھا 

"دراصل آج میری سالگرہ ہے اور امی چاہتی تھی کہ تم آؤ" وہ ایک کارڈ اپنے والٹ سے نکالتی اسکی طرف بڑھا گئی آئیذل نے کارڈ لیکر اسے دیکھا تھا انفال بی بی نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا 

"اچھا میں چلتی ہوں بھائی پھوپھو وغیرہ کو کارڈ دینے گئے ہیں ٹائم سے آ جانا " وہ آئیذل کے ہاتھ تھامتی شیریں لہجے میں کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی 

"مجھے تو نہیں جانا نانوو جان آپ چلیں  ہمارے ساتھ کیونکہ ہم اکیلے نہیں جائیں گے" وہ کارڈ ایک طرف لکڑی کی میز پر رکھتی چارپائی پر بیٹھتی بولی 

"بیٹا  پہلے ناشتہ کر لو" انفال بی بی نے اسکے بال سہلاتے کہا وہ سر ہلاتی انکے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف ہوئی تھی 

                                            -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ذاویان ناشتہ کر کے جانا" مہر النساء بیگم کے الفاظ نے مصروفیت سے لاؤنج سے نکلتے ذاویان کے قدموں کو روکا وہ سپاٹ سے انداز میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تھا سب ناشتہ کر رہے تھے اشفاق صاحب شاید پہلے ہی نکل چکے تھے آفس کے لئے وہ کرسی کھینچ کر  اپنی جگہ پر بیٹھا تھا مہر النساء بیگم نے گہری نظروں سے اسکے چہرے پر چھائے سرد مہری کے تاثرات دیکھے تھے چاہت نے بھی اسے غور سے دیکھا تھا جو کافی سنجیدہ لگ رہا تھا 

"بھائی کل کی میٹنگ میں ہینڈل کروں اگر آپ کہیں تو " سیرت نے مسکراتے ہوئے اسکا موڈ بوسٹ کرنے کے لئے بات چھیڑی وہ اسکی جانب دیکھتا ہلکا سا مسکرایا تھا

"کیوں نہیں " وہ اسے تاسف سے دیکھتا بولا جس پر مہر النساء بیگم چونکی اور چاہت بھی

"نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے سیرت ابھی ان چیزوں کی سمجھ بوجھ کہاں ہے تمھیں" مہر النساء بیگم نے اسے ٹوکا سیرت نے منہ بناتے ہوئے اپنے بھائی کو دیکھا

"لیکن ذی کی بات ٹھیک ہے ابھی سے سٹارٹ کر دے گی تو جلدی ہینڈل کرنا سیکھ لے گی " چاہت نے مسکراتے ہوئے کہا مہر النساء نے سیرت کو دیکھا جو خوشی سے چمکی تھی

"اوکے میں میٹنگ کے لئے تیاری کرنے جا رہی ہوں تاکہ کل کوئی ایشو ناں ہو لوو یو بھائی" وہ جلدی سے اٹھتی ذاویان کو چہک کر گلے لگاتی ہوئی اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی 

"ذاویان کیا ضرورت تھی تمھیں پتا ہے اسنے آج تک ایسا کوئی ایوینٹ اٹینڈ نہیں کیا کیسے ہینڈل کرے گی وہ" مہر النساء بیگم نے سر جھٹکتے خفا لہجے میں کہا 

"وہ ہینڈل کر لے گی " نیپکن سے ہاتھ صاف کرتا ہوا وہ اٹھا تھا چاہت نے اسے اٹھتے دیکھ کر فورک پلیٹ میں رکھا اور اٹھ کر اسکے پیچھے چلی گئی مہر النساء بیگم نے سر جھٹکا تھا انہیں کہاں پسند تھا چاہت کا یوں ہر وقت ذی کو چپکنا"

"ذی میری بات سنو" گاڑی کو ان لاک کرتا ہوا وہ رکا تھا چاہت نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا

"ناراض ہو مجھ سے "  چاہت نے اسکی پرکشش آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجا گیا تھا

"کم آن ذی پلیز مجھ سے ناراض مت ہوا کرو ایسے یو نو جب تم مجھ سے ناراض ہوتے ہو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا" وہ اسکے بلیک کوٹ کو لاڈ سے پکڑتی ہوئی اسکے سینے سے لگتی بولی ذاویان نے اسکے کندھے کو پکڑتے ہوئے اسے الگ کیا تھا خود سے جس پر اسکا دل کرچی کرچی ہوا وہ گاڑی ان لاک کرتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ کا گیٹ کھول کر سیٹ پر براجمان ہو کر گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا 

"کیا تم نے مجھے کبھی بھی وہ حقوق دیئے جو ایک شوہر اپنی بیوی کو دیتا ہے " 

اسکی کہی گئی بات پر وہ ساکت ہوا تھا اسکی آنکھوں سے جیسے  چنگاریاں پھوٹنے کو تھی ایک جست میں گاڑی سے نکل کر اسنے اسکی ملائم کلائی میں اپنی سخت انگلیاں پیوست کی تھی وہ درد سے کراہتی ہوئی بےیقینی سے اسکے پتھریلے سپاٹ چہرے کو دیکھنے لگی آج تک اسنے اسکا یہ روپ لہجہ کہان دیکھا تھا اسکے مظبوط ہاتھ نے اسکا جبڑا سختی سے پکڑا تھا درد سے اسکی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے

"اگر آج کے بعد اس ٹاپک کو تم نے اوپن میں ڈسکس کیا آئی سوئیرر تمھاری جان لینے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا انڈرسٹینڈنگ " اسکے چہرے کو ایک جست میں چھوڑ کر پتھریلے لہجے میں کہہ کر وہ ہوا کی طرح اپنی گاڑی لیکر وہاں سے نکلا تھا چاہت نے مٹھیاں بھینچی تھی اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے تھے

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آئیذل چلو تمھیں کچھ دیکھانا ہے " ریحم نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر انفال بی بی کی جانب دیکھا تھا جو عروسہ بیگم کیساتھ محو گفتگو تھی وہ سر ہلاتی ہوئی اٹھ کر ریحم کیساتھ گئی تھی 

"کیا دیکھانا تھا " وہ اسے چھت پر لیکر آئی تھی جس پر آئیذل کو تعجب ہوا تھا اسنے ریحم کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا تھا جب اسکے پیچھے توصیف کو چھت پر دیکھ کر وہ ٹھٹھکی تھی ریحم آئیذل کو دیکھتی نیچے اتری تھی توصیف نے طائرانہ نظر سے اسے دیکھا تھا جو لیمن کلر کے سمپل سے ڈریس میں اور وائٹ کلر کے دوپٹے میں کافی منفرد لگ رہی تھی وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا وہ ڈرتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بھاگی جب توصیف نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے سختی سے کھینچا تھا 

"کیا بدتمیزی ہے یہ ہاتھ چھوڑیں میرا" وہ جھنجھلاتی ہوئی اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی اسے بےتاثر نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی 

"ہاتھ چھوڑوں تمھارا اوہ اچھا مجھ سے کوفت کھا رہی ہے اور رات کو اپنے امیر یاروں کیساتھ گھومتے ہوئے زرا کوفت نہیں ہوتی" اسکی کلائی پر گرفت سخت کرتا ہوا وہ کاٹدار آواز میں بولا آئیذل نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"کیا سوچتی ہے مجھے کچھ نہیں پتا وہ تو دادی نے چاچو سے وعدہ لیا تھا کہ ہر صورت تیری پڑھائی مکمل کروانی ہے انہیں تو یہ پتا ہی نہیں کہ مہارانی کیا گل کھلا رہی ہے " وہ بدلحاضی سے کہتا ہوا اسکے بالوں کو مٹھی میں پکڑتا غرایا آئیذل نے سسکتے ہوئے اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کی تھی جو اسکی گردن دبانے پر تلا تھا اسکے ناخن نے اسکے ہاتھ پر سکریچ لگائے تھے وہ غصے سے ہاتھ پیچھے کھینچتا ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر جڑ چکا تھا وہ ایک پل کو ساکت ہوئی تھی اسکی آنکھوں میں کچھ نہیں تھا وہ بالکل جذبات و احساسات سے عاری ہوئی تھی اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ کو ہونٹ پر رکھا تھا جہاں سے خون بہہ رہا تھا توصیف غصے سے پھنکارتا ہوا نیچے اتر چکا تھا وہ اپنی جگہ بےجان سے ہوئی تھی آج تک اسنے بہت کچھ سنا تھا برداشت کیا تھا مگر کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا آج تک اس پر ،، وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی ہوئی دوپٹے سے ہونٹ سے بہتا خون صاف کرنے لگی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

رکشے سے اترتے ہوئے اسنے چادر کو چہرے پر دیا تھا ایک عام سی نظر آسمان کو دیکھا تھا جو کالے بادلوں سے بھرا ہوا تھا ان بادلوں نے آسمان کیساتھ ساتھ یونیورسٹی کی کشادہ بلڈنگ کو بھی اپنی پناہوں میں لیا تھا سرد ہوا چل رہی تھی

"آئیذل"  اپنے پیچھے حورم کی آواز سننے اور خود کا نام پکارا جانے پر وہ آج رکی نہیں تھی تیز قدموں کیساتھ وہ یونیورسٹی کی طرف بڑھی تھی 

"آئیذل رکوو" حورم تیز قدموں سے اسکے پیچھے چل دی تھی وہ سٹوڈینٹس کے کراؤڈ میں کہیں گم ہو گئی تھی حورم نے ٹھہر کر آس پاس دیکھا تھا اچانک ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی 

"میرے روکنے ہر رکی کیوں نہیں یہ لڑکی کیا ہوا ہو گا بھلا" وہ آس پاس دیکھتی ہوئی بڑبڑائی تھی 

آفس کے سارے کام نپٹا کر وہ کینٹین کی طرف بڑھ گئی تھی پہلا لیکچر لینے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا لیہچرز کا ٹائم ٹیبل لگ چکا تھا ایوننگ کلاسز کا سکیجول دو دنوں بعد ہٹا دیا گیا تھا نئے ویک سے نیا سکیجول لگ چکا تھا سب روٹین پر آ چکا تھا بیگ کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسنے بک نکال کر دونوں ہاتھوں میں چہرے کو گرایا تھا آنکھیں اشک بہانے کے لئے بالکل تیار تھی کتنی مشکل سے وہ ضبط کر کے بیٹھی ہوئی تھی 

"کیا سوچتی ہے مجھے کچھ نہیں پتا وہ تو دادی نے چاچو سے وعدہ لیا تھا کہ ہر صورت تیری پڑھائی مکمل کروانی ہے انہیں تو یہ پتا ہی نہیں کہ مہارانی کیا گل کھلا رہی ہے "

ہاتھ کی پشت کو سختی سے گال پر رگڑتے ہوئے اسنے آنسوں کی پہلی لڑی کو اپنے چہرے سے صاف کیا تھا ضبط کرنا اب بےحد مشکل ہو چکا تھا

"ہاتھ چھوڑوں تمھارا اوہ اچھا مجھ سے کوفت کھا رہی ہے اور رات کو اپنے امیر یاروں کیساتھ گھومتے ہوئے زرا کوفت نہیں ہوتی"

لمبا سانس لیتے ہوئے اسنے دوسرے ہاتھ کی پشت کو گال سے رگڑا تھا 

"آہہہ" 

درد سے بھری ایک سسکاری اسکے لبوں سے خطا ہوئی اسنے اپنے نچلے ہونٹ کو چھوا تھا جس سے خون نکلنا جاری ہوا تھا اشک بار آنکھوں سے اسنے بیگ سے ٹشو نکال کر ہونٹ سے نکلتا ہوا خون صاف کیا تھا 

ورسٹ واچ پر ٹائم کو دیکھ کر اسنے آفس کا دروازہ کھولا تھا سامنے ٹیبل پر اسکی کافی موجود تھی اسنے پورے آفس کو ایک سنجیدہ نظر سے دیکھا کسی کو تلاش رہا تھا اسکے ڈیسک کی طرف نظریں پڑی تو وہاں اسکا سامان موجود نہیں تھا لیکچر کا ٹائم ہو چکا تھا لہذا وہ بغیر دیر کئے لیکچر ہال کی جانب بڑھ گیا تھا پورا لیکچر ہال اسکی موجودگی بھانپتا خاموش ہوا تھا اسنے ایک سپاٹ سی نظر پورے ہال کو دیکھا تھا جہاں وہ سادہ سی لڑکی جو سب سے منفرد لگا کرتی تھی موجود نہیں تھی اسنے لیکچر ضرور  سٹارٹ کیا تھا مگر آج اسے کچھ کمی سی محسوس ہو رہی تھی تیسری بار جب اسنے اسکی خالی چیئر کو دیکھا تو سر جھٹک چکا تھا 

"واٹ نان سینس ذی کیا ہو گیا ہے " وہ خود سے ایسے مخاطب ہوا تھا جیسے وہ اسکے سامنے کھڑی ہو اور وہ اسے ڈانٹنا چاہتا ہو سرد آہ ہوا کے سپرد کرتے ہوئے اسنے لیکچر کی طرف توجہ مرکوز کی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ذاویان کے لیکچر چھوڑ کر اسنے باقی سارے لیکچر لئے تھے ناجانے کیوں دل اسکا سامنا نہیں کر پا رہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی وہ کیوں اس سے چھپتی پھر رہی تھی کندھے پر بیگ درست کرتے ہوئے وہ فری لیکچر کے دوران یونیورسٹی کے پچھلے پورشن کی طرف بڑھ گئی تھی یہ حصہ لائبریری کے بالکل پیچھے تھا اور اکثر خاموش ہی رہتا تھا یہ سب سے پرانی بلڈنگ تھی یونیورسٹی کی وہ سیمنٹ کے بینچ پر بیگ رکھتی ہوئی ایک سوکھے سے درخت کی پناہ میں ایک بوسیدہ سے بینچ پر  بیٹھی تھی اسکی آبدیدہ نظروں نے اس درخت کی سوکھی ٹہنیوں کو بے جوڑ نظروں سے دیکھا تھا کبھی یہ درخت بھی سر سبز و شاداب ہوا کرتا ہو گا اور اب کیا حالت ہو چکی تھی اس درخت کی  ایک طنزیہ مدھم مسکراہٹ نے اسکے سوکھے زخمی لبوں کو چھوا تھا وہ شاید اس درخت کا موازنہ خود سے کر رہی تھی  اسنے سوکھے گھاس پر گرے ہوئے اس درخت کے سوکھے بےجان پتوں کو دیکھا تھا جو اس سے جھڑ گئے تھے 

"موسم بھی کتنا بے رحم ہوتا ہے ناں کس طرح  پھینک دیتا ہے تمھیں تمھارے ٹھکانے سے اکھاڑ کر بغیر یہ پرواہ کئے کہ ایک بار اگر شاخ سے تم ٹوٹ گئے تو دربدر کی ٹھوکریں کھاؤ گے اپنا آپ نہیں رہو گے ہوا کے رحم و کرم پر رہو گے جہاں ہوا لے جائے گی اسی جانب گامزن ہونا پڑے گا " وہ ان پتوں سے ایک کو اٹھا کر ہاتھ میں لیتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی تھی

"میری ذندگی بھی تو تمھارے جیسی ہے دوست ،، دیکھو میں بھی مماں بابا سے الگ ہو گئی ہوں مجھے میرے ٹھکانے سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے وقت نے اور اب میں دربدرکی ٹھوکریں کھا رہی ہوں حالات کے رحم و کرم پر ہوں " وہ اس پتے کو چھوتے ہوئے سرگوشی کرتے ہوئے بولی تھی بغیر یہ جانے کہ کوئی گہری نظر سے اسے دیکھ اور سن رہا ہے وہ بس دل کا بوجھ ہٹانا چاہتی تھی کسی سے بات کر کے

"میں بھی مُرجھا چکی ہوں تمھاری طرح اور مجھے بھی تمھاری طرح اپنا ٹھکانہ نہیں معلوم ناجانے کہاں ہے میری منزل میں بھی تمھاری طرح دربدر کی ٹھوکریں کھا کر ایک دن ٹوٹ کر بکھر جاؤں گی جیسے تم ٹوٹ رہے ہو " وہ اسے پتے کے خشک حصے کو دیکھتی ہوئی بولی تھی

"میں بھی ٹوٹ جاؤں گی تمھاری طرح " 

اسنے ہلکی سرگوشی کی تھی ہوا کا ایک جھونکا اسکے ہاتھ سے وہ خشک پتا دور اڑا لے گیا تھا اسنے آنکھیں میچی تھی  جب آسمان سے بارش ٹوٹ پڑی تھی وہ آنکھیں کھولتی ہوئی بیگ اٹھاتی ہوئی تیز قدموں سے بلڈنگ کی طرف بڑھی تھی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیگ رکھتے ہوئے اسنے باہر برستی بارش ہو دیکھا تھا جو کچھ ہی منٹوں میں سب کچھ بھگو چکی تھی 

"آئی ہوپ کہ اب تم پھر سے سر سبز ہو جاؤ گے پہلے جیسے " وہ بارش اور ہلکی ہوا میں بھیگتے ہوئے اس سوکھے درخت کو دیکھتی ہلکی سی مسکراتی بولی تھی جب اسنے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کو محسوس کیا تھا  اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا بےحد تیزی سے دھڑکا تھا بارش اور مٹی کی ہلکی مہک کیساتھ اسنے ایک اور ہلکی مہک کو محسوس کیا تھا جسے وہ بہت قریب سے جانتی تھی سر اٹھاتے ہوئے اسنے اسکی طرف دیکھا تھا جو سنجیدگی سے اسکے پاس کچھ فاصلے پر سیڑھیوں پر  آ کر بیٹھا تھا بغیر اپنے برینڈڈ کپڑوں کی پرواہ کئے ۔۔

"پروفیسر آپ یہاں " وہ سر جھکاتی بولی تھی وہ سپاٹ نظروں سے باہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا

"ہممممم"

 اسنے سپاٹ سے انداز میں بس اتنا ہی کہا تھا آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا جو کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا

 "کیا ہوا ہے مس آئیزل" بےحد نرمی سے پوچھا گیا تھا آئیذل کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اسکے اس قدر نرم لہجے پر اور اسے بےحد رونا چھی آیا تھا اس قدر نرم لہجہ اسکے دل کو یہ احساس دلا گیا تھا کہ کوئی اسکا ہمدرد بھی ہے

"کک۔۔کچھ بھی نہیں پروفیسر" وہ نظریں جھکاتی عام سے لہجے میں بولی تھی

"مس آئیذل خزاں میں اپنے پتوں کی جدائی کی اذیت کو شجر محسوس کرتا ہے مگر کچھ کر نہیں سکتا " وہ اس درخت کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا آئیذل نے اسکے حسیں نقوش چہرے کو دیکھا تھا مگر کچھ کہہ نہیں پائی تھی وہ ۔۔

"ان گرے ہوئے پتوں سے ایک بہت بڑا سبق سیکھنے کو ملتا ہے آپ جانتی ہیں وہ سبق کیا ہے مس آئیذل" وہ اسکی جانب دیکھتا ہوا بولا تھا کیا تکرار تھا نظروں کا اسکے ہونٹ پر زخم اور گال پر سرخ نشان دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں کو دیکھا تھا جو کرب سے بھری ہوئی تھی وہ نظروں کے اس تعلق کو قائم ناں رکھتے ہوئے نظریں جھکا چکی تھی  

"یہی سبق کے وقت انسان کو اپنوں سے کیسے جدا کر کے دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے " وہ زخمی لہجے میں بولی تھی

"نہیں یہ سبق کہ اگر بوجھ بن جاؤ گے تو اپنے بھی گرا دیں گے " وہ باہر برستی بارش کو دیکھ کر بولا تھا آئیذل نے لب بھینچے تھے 

"مس آئیذل سورج کو بھی ڈوبنا پڑتا ہے ابھرنے کے لئے غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا " وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اٹھا تھا آئیذل نے گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا چھٹی کا وقت ہو چکا تھا 

"پروفیسر "

 وہ رکا تھا اطمینان سے اسکی طرف سرعت سے مڑا تھا وہ کافی پرسکون لگ رہی تھی پہلے سے اسکی بنفشی آنکھوں میں پھر وہی چمک لوٹ آئی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی 

"تھینک یو میں ہار نہیں مانوں گی انشاء اللہ" وہ بیگ کندھے پر رکھتی ہوئی بولی تھی اسنے تاسف سے سر ہلایا تھا اور پھر سنجیدگی سے آگے بڑھ گیا تھا آئیذل کی نظروں نے اسکا تعاقب کیا تھا ناجانے کیا تھا اسکی باتوں میں وہ ناں صرف پرسکون ہو گئی تھی بلکہ وہ خود میں ایک نئی ہمت اور حوصلے کو محسوس کر رہی تھی وہ خود کو اکیلی نہیں کہہ سکتی تھی اب ۔۔

"میں اکیلی نہیں ہوں" وہ ہلکی سی مسکرائی تھی اسے دیکھتے ہوئے جو فون کان سے لگائے مصروف سا دوسری بلڈنگ میں اینٹر ہوا تھا دل سے بہت بڑا بوجھ اٹھ چکا تھا وہ پرسکون سی ہو کر گھر کے لئے روانہ ہوئی تھی 

وہ سر پر چادر کو ٹھیک کر کے یونی سے باہر نکلی تھی کچھ فاصلے پر کھڑے توصیف نے اسے جھنجھلا کر دیکھا تھا جو بغیر اسکی پرواہ کئے رکشے کو روک کر بےپرواہ سی رکشے میں بیٹھی تھی وہ جھلسا دینے والی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بائیک سٹارٹ کر کے آگے بڑھا تھا مگر اسکی بائیک کے بالکل سامنے ایک بلیک گاڑی رکی تھی اسنے دانت پر دانت جما کر اس گاڑی کو دیکھا تھا کوئی پورے دس منٹ گاڑی  وہاں کھڑا کئے بےپرواہ سا فون پر بات کرتا رہا توصیف کا دماغ گرم ہو چکا تھا مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا دس منٹ بعد  اس بندے نے وہاں سے گاڑی نکالی تھی  توصیف سر کو نفرت سے جھٹکتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا

"مجھے ہرٹ کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے اور ناں ہی یہ حق میں کسی کو دوں گی صحیح کہا آپ نے پروفیسر" وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوچ رہی تھی اور پختہ ارادہ کر چکی تھی 

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کشن میں منہ چھپائے وہ ناجانے پچھلے کتنے گھنٹوں سے رو رہی تھی اسکی آنکھیں سرخ پڑ چکی تھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ سر اٹھاتی ایک نظر آنے والے کو دیکھ کر دوبارہ کشن میں سر چھپا چکی تھی 

"اب کیا چاہیے تمھیں" وہ روتے ہوئے سسک کر بولی تھی

" چاہت فار گاڈ سیک سٹاپ دس" وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا چاہت نے کشن سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جواسکے پاس بیٹھا تھا وہ آنکھیں صاف کرتی ہوئی اسے دیکھ گئی 

"میں نے کتنی بار سمجھایا ہےیہ سب ایسے اوپن میں ڈسکس مت کیا کرو  تم جانتی ہو ناں اپنے ڈیڈ کو " وہ اسکے بال سہلاتا ہوا بولا چاہت نے اسے سرد نظروں سے دیکھا تھا 

"تم کب تک چھپاؤ گے گھر والوں سے اگر سچ میں مجھ سے پیار کرتے ہو تو ابھی اسی وقت جاؤ اور سب کے سامنے کہو کے تم نے مجھ سے نکاح کیا ہے چوری چھپ کر" وہ دروازے کی طرف اشارے کرتے ہوئے مفلوج لہجے میں بولی آج وہ اسکی باتوں میں بالکل نہیں آنا چاہتی تھی ذاویان کی نگاہوں میں سرخ ڈورے سے عیاں ہوئے تھے جنہیں بھانپتی چاہت نے لب بھینچے تھے وہ درشت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھا تھا اور دروازے کو دھاڑ سے بند کرتے ہوئے باہر نکلا تھا

 چاہت نے خوف سے دونوں ہاتھوں کو لبوں پر دیا اور جلدی سے اٹھتی ہوئی اسکے پیچھے بھاگی تھی غیر ارادی طور پر وہ اسے غصہ دلا چکی تھی اور اسکے خشم و عصبانیت سے وہ اچھے سے واقف تھی وہ طیش سے سرخ ہوتا ہوا اپنی گاڑی نکال کر کہیں نکل گیا تھا وہ گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی اور بیڈ سے فون اٹھا کر اسکا نمبر ملایا تھا فون پر چمکتے اسکے نام کو دیکھ کر اسنے تمس نظروں سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے روڈ کو دیکھتے ہوئے فون کو سوئچ آف کر دیا تھا

"اللہ یہ کیا ہو گیا میرے سے اوہ نو ذی بہت غصے میں ہے" وہ سر کو ہاتھوں میں گراتی انتسابی لہجے میں بولی تھی اور پھر اسے میسیج ٹائپ کرنے کی سعی میں مصروف ہوئی 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آئیذل میری بات سنو رکو پلیز" وہ جو تیز قدموں کیساتھ گھر کی طرف بڑھ رہی تھی توصیف کے یوں راستے میں روکنے پر اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی رکی تھی

"مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو پلیز " توصیف نے دھیمے لہجے میں کہا تھا تاکہ کوئی آتا جاتا ہوا سن ناں لے 

"واقعی آپ کو افسوس ہو رہا ہے" آئیذل نے اسے دیکھتے ہوئے بےتاثر جواب دیا جس پر وہ افسردگی کا مکھوٹا چہرہ پر چڑھا چکا تھا 

"ہاں مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے بہت مجھے معاف کر دو" توصیف نے والہانہ محبت سے کہا تھا 

چٹاخ!!

وہ گال پر ہاتھ رکھتا ہوا چونکا تھا  اسکی چھوٹی چھوٹی پانچ انگلیاں اسکے منہ پر برابر چھپ چکی تھی آس پاس کے لوگوں نے رک کر انہیں دیکھا تھا اسے آئیذل سے یہ امید نہیں تھی وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا

"مجھے بھی معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی اب مجھے برا لگ رہا ہے " آئیذل نے طنزیہ لب و لہجے میں کہا توصیف کا چہرا سرخ پڑا تھا آس پاس کھڑے لوگوں نے اسے طنزیہ نظروں سے دیکھا تھا جو خود سے اتنی چھوٹی لڑکی سے تھپڑ کھائے کھڑا تھا مگر وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا سوائے مٹھیاں بھینچنے کے کیونکہ لوگوں میں وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا

"تم سے شادی کرے گی میری جوتی " اسے  تیکھی نظروں سے دیکھ کر ایک سخت ادا سے کہتی ہوئی وہ اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی تھی توصیف نے لمبا سانس خارج کے غصہ زائل کیا تھا لوگ اس پر ہنس رہے تھے وہ طیش سے سرخ ہوتا ہوا اپنے گھر کی جانب نکل پڑا تھا 

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پچھلے ایک گھنٹے سے وہ مسلسل رننگ مشین پر دوڑ رہا تھا اسکا کسرتی وجود پسینے میں شرابور تھا شرٹ لیس ہونے کے باعث اسکی پیٹھ پر بنا وہ سکارپین کا بلیک ٹیٹو اسکی کشادہ مظبوط  پشت پر سحر انگیز لگ رہا تھا سرد سپاٹ نظریں کسی ایک غیر مرئی نقطے پر تھی جب اسکے فون نے بجنا شروع کیا تھا وہ بےمزہ ہو کر سر جھٹکتا ہوا ٹاول سے پسینہ صاف کرتا ہوا فون کو کان سے لگا چکا تھا

"سر کل رضوی انٹرپرائسز کیساتھ میٹنگ فائنل ہو چکی ہے " 

اسکے گداز ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ بکھری ساتھ ہی بھوری آنکھیں ایک مہلک سی چمک کیساتھ سرشار ہوئی

"ایکسیلینٹ کتنے بجے کا ٹائم ہے"  کمرے میں اسکی دلکشش مردانہ آواز گونجی تھی

"سر لنچ ٹائم کے بعد" 

وہ کال منقطع کرتا ہوا ویلویٹ کے وائٹ صوفے سے اپنی بلیک شرٹ اٹھاتے ہوئے واٹر بوٹل کو لبوں سے لگا چکا تھا اسکی بھوری آنکھوں میں اب بھی وہی چمک تھی جو آنے والے وقت میں کسی شے کے ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہی تھی

"ویل مس سیرت رضوی آئی تھنک دوسری ملاقات کا وقت ہو چکا ہے " وہ جارحانہ لہجے میں کہتا ہوا ہونٹوں کے کنارے سے مسکراتا بےحد حسیں لگا تھا 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اس منہوس لڑکی نے سب کے سامنے تھپڑ مارا مجھے وہ تو برداشت کر گیا ورنہ دو رکھ کر دیتا اسے میں " وہ غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا 

"اس کم بخت کی اتنی ہمت ہو گئی اماں میرے بھائی کو تھپڑ مارا اس نے" ریحم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے خاموش بیٹھی عائزہ بیگم کو مخاطب کیا تھا 

"صرف تمھارے بولنے پر گیا تھا میں اس سے معافی مانگنے  اماں مگر اس نے مجھے تھپڑ مارا توصیف چودھری کو تھپڑ مارا اسنے اسکی ذندگی برباد ناں کر دی تو توصیف میرا نام نہیں ایک بار میرے ہاتھ آ جائے یاد رکھے گی ہمیشہ " توصیف نے گلہ پھاڑ کر کہا عائزہ بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا

"بہت ہو گیا اماں عزت پر بات آ گئی ہے وہ دو کوڑی کی معمولی لڑکی مجھے تھپڑ مارے گی

 اور میں چپ چاپ بیٹھا رہوں گا کبھی نہیں شادی تو اسی سے ہو گی اب اور پھر دیکھاتا ہوں اس کم ذات کو میں " 

وہ اٹھ کر عائزہ بیگم کو کھری کھری سنا کر گھر سے نکل گیا تھا 

اماں تم بس اب شادی کی تیاریاں کرو ایک بار گھر آ جائے اسے تو میں دیکھ لوں گی ہواؤں میں اڑ رہی ہے منہوس کہیں کی اسے زمین میں ناں گاڑھ پھینکا تو پھر کہنا کیا سمجھتی ہے خود کو پتا نہیں یہ سب صرف دادی کے لاڈ پیار کی وجہ سے ہوا ہے ورنہ دو کوڑی کی بھی عزت نہیں ہے اس کی " ریحم کی بات سن کر عائزہ بیگم نے اسے تلخ نظروں سے دیکھا تھا 

"کیا اماں؟؟ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں میں " ریحم نے سر جھٹکا تھا 

"صحیح کہہ رہی ہے جتنی جلدی شادی ہو جائے اتنا اچھا ہے تیری دادی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں جیسے ہی اسے پتا لگے گا توصی نے تھپڑ مارا ہے اس بد بخت کو وہ اسی وقت رشتہ توڑنے آ جائے گی بیچاری آئیذل پھول کی کلی ہے ناں " عائزہ بیگم نے تاسف سے کہا تھا

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا اسکے چہرے سے ٹکرایا تھا وہ ہلکی سی مسکرائی تھی جب اسنے سامنے سے آتے ہوئے زاویان کو دیکھا تھا وہ تھم سی گئی تھی وہ بلیک پینٹ پر بلیک  شرٹ پہنے ہوئے تھا سپید خوبصورت مظبوط مردانہ وجاہت سے بھرپور بلیک شرٹ میں کافی اٹریکٹیو لگ رہے تھے کیونکہ اسنے شرٹ کے کف کہنیوں تک موڑ رکھے تھے جو شاید اسکی عادت تھی بلیک سمارٹ واچ اسکی خوبصورت کلائی پر ہمیشہ کی طرح بندھی ہوئی تھی آئیذل نے اسکے چہرے کو دیکھا تھا وہ گلاسز لگائے ہوئے تھا جو وہ اکثر کسی بھی بک کا مطالعہ کرتے ہوئے پہنتا تھا یا پھر لیکچر میں ریڈنگ کر دوران وہ گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی اسے دیکھنے میں محو ہوئی تھی اسکی شہد رنگی آنکھیں دھوپ کی تمازت سے چمک رہی تھی وہ اسکے قریب سے گزرا تھا آئیذل نے گردن موڑ کر اسے بے پرواہی سے ایسے دیکھا تھا جیسے وہ اسکا ٹیچر نہیں کوئی اور ہی تھا وہ اپنی جگہ رکا تھا  اور پھر سرعت سے اسکی جانب دیکھا تھا وہ سمپل سے بلیک سوٹ میں ملبوس تھی اسے دیکھنے پر وہ ابل پڑی تھی

 شرم سے چہرہ یکدم سرخ پڑا تھا وہ گال سے ہاتھ ہٹاتی ہوئی فورآ اٹھی تھی اپنی جگہ سے وہ سر جھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا آئیذل نے دوبارہ سر موڑ کر اسے دیکھا تھا وہ شاید اسکی نظریں دوبارہ خود پر محسوس کر چکا تھا اس لئے وہ فون کان سے لگاتے ہوئے دوسری طرف مڑا تھا آئیذل ابھی تک گردن موڑے اسے دیکھ رہی تھی جو دیوار کے پیچھے غائب ہوا تھا وہ اٹھتی ہوئی اسکے پیچھے چل دی تھی وہ ایک گیلری کی طرف مڑا تھا آئیذل کے قدم اپنے آپ اٹھے تھے وہ چلتی ہوئی سامنے دیوار کو دیکھ کر چونکی تھی راستہ یہاں ختم ہو چکا تھا اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑے تھے 

"مس آئیذل کیا آپ میرا پیچھا کر رہی ہیں؟؟"

 وہ کونے سے نکلتے ہوئے تاسف سے بولا تھا وہ لب بھینچتی سرخ چہرے سے اسے دیکھ گئی تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"نن۔۔نہیں تو" وہ نظریں چراتی بولی تھی اسنے دلچسپی سے اسے سٹپٹائے تاثرات سے خود کو محظوظ کیا پھر سر ہلاتا ہوا لیکچر ہال کی طرف بڑھ گیا وہ مسکراہٹ ضبط کرتی اسکے پیچھے ہی چل پڑی تھی 

"میں تو لیکچر لینے جا رہی ہوں پروفیسر" اسکے یوں پیچھے مڑنے پر وہ سیدھی ہوتی بولی تھی وہ اسے  بےتاثر نظروں سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا وہ مسکراتی ہوئی اسکے پیچھے لیکچر ہال میں داخل ہوئی تھی وہ اسٹیج کی طرف بڑھا تھا اور وہ اپنی سیٹ پر پہلے ہی کسی کو بیٹھے دیکھ کر بحث کا ارادہ ترک کرتے ہوئے دوسری سیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی 

"نہیں نہیں اب پھر سے گھورنا نہیں آئیذل افف کتنی گندی عادت ہے تمھاری" وہ اسے وائٹ بورڈ پر لکھتے ہوئے دیکھ کر سر جھٹکتی بڑبڑائی تھی کیونکہ اسکا دھیان کام کی طرف نہیں تھا 

"کتنی عجیب حرکتیں کرنے لگی ہوں میں یہ ہو کیا گیا ہے مجھے بھلا " وہ بک کی طرف دیکھتی خود سے بڑبڑائی تھی پورے لیکچر میں اسنے اسے دیکھنے سے گریز کیا تھا اور لیکچر کی طرف توجہ دی تھی لیکچر اینڈ ہونے میں بس پندرہ منٹ باقی تھے وہ وائٹ بورڈ سے دیکھ کر نوٹ بک پر وہ سب اتار رہی تھی جو اسنے سمجھایا تھا ذاویان کی گشت گزر نظر اس پر رکی تھی براؤن بالوں کی ایک ریشمی لٹ اسکے چہرے پر آئی تھی وہ مصروف سی بس لکھ رہی تھی اسے اس لٹ سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ناں ہی اسنے اسے ہٹانے کی کوشش کی تھی ہوا کے ہلکے جھونکے نے اسکے چہرے سے وہ لٹ اڑائی تھی اسٹیج پر کھڑے اس حسنِ مغرور نے اس آوارہ لِٹ کی ساری کاروائی عمیق نظروں سے دیکھی تھی  مگر پھر وہ سنجیدگی سے سر جھٹکتے ہوئے سب کی نگرانی میں مصروف ہوا جو وائٹ بورڈ سے نوٹ بکس پر کام اتار رہے تھے اسکی ہلکی مہک کو اپنے پاس محسوس کر کے بغیر اسے دیکھے وہ نوٹ بک پر نظریں گاڑھ چکی تھی وہ یقیناً اسکے قریب رکا ہوا تھا  وہ عام سی لڑکی ذاویان کی موجودگی ہمیشہ ہی اسکی مہک سے محسوس کرتی تھی آج بھی اسکے متصل ہونے کی نوید اسکی ہلکی طلسماتی مہک نے اسے دی تھی کیونکہ وہ نظریں نہیں اٹھا پائی تھی

"نہیں عزت رکھ لو اپنی پلیز پینک مت کرنا آئیذل آرام سے کام لکھتی رہو مت دیکھنا اسکی طرف پلیزز" وہ خود کو سمجھاتی ہوئی ورک پلٹ گئی تھی

 پیج بدلتے ہوئے اسکا پین ڈیسک سے نیچے گرا تھا وہ تیکھے تیوروں سے پین کو دیکھنے لگی ذاویان نے سپاٹ نظروں سے دیکھا تھا جو پین اٹھانے کے لئے نیچے جھکی تھی اسکی نظروں نے آئیذل کو نہیں ڈیسک کے کنارے سے نکلے ہوئے نوک دار کیل کو دیکھا تھا  ذاویان نے لب بھینچ کر بغیر دوسری بار سوچے پینٹ کی پاکٹ سے ہاتھ نکال  کر صحیح وقت میں ڈیسک کے کنارے پر رکھا تھا آئیذل کی پیشانی جھکتے ہوئے اسکے ہاتھ سے مس ہوئی تھی اس نے سر اٹھا کر اسکے سپید وجیہ،، صبیح ،، مردانہ وجاہت سے قسیم ہاتھ کو دیکھا تھا جس پر تنی ہوئی اسکی نیلی نسیں بےحد خوبصورتی سے صریح نظر آ رہی تھی  وہ اسے دیکھتے ہوئے پین اٹھا چکی تھی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے اسنے وائٹ بورڈ کو اپنی نظروں کا مرکز بنایا تھا آئیذل کی پیشانی سے اسکے ہاتھ پر دباؤ پڑا تھا جس کے نتیجے میں اسکا ہاتھ کیل میں پچک چکا تھا ذاویان نے محض لب بھینچے تھے اسکے بعد اپنا ہاتھ کیل سے اٹھایا تھا انگلیوں کی مٹھی بھینچ کر  ہتھیلی پر دباؤ ڈالتے ہوئے اسنے خون کو بہنے سے روکا تھا اسکی آنکھیں سامنے وائٹ بورڈ کی نقطہ چینی کر رہی تھی آئیذل نے لب بھینچ کر دوبارہ لکھنا شروع کیا تھا بغیر یہ ساری کاروائی دیکھے جبکہ وہ  زخمی ہاتھ کی مٹھی 

بھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"یہ کیا ہو گیا بھلا" شاہان نے اسے گھورتے ہوئے استفسار کیا جو سنجیدگی سے ہتھیلی  سے نکلتے خون کو ٹشو سے صاف کر رہا تھا اسکے سوال پر اسنے سپاٹ نظروں سے آئی برو اٹھا کر اسے دیکھا تھا اور ٹشو کو ڈسٹ بن میں ڈالا تھا 

"کیا ہوا ہے بتاؤ تو صحیح " اسے ٹشو بکس سے دوسرا ٹشو نکالتے دیکھ کر شاہان نے تیکھے لب و لہجے میں پوچھا تھا 

"کسی نوکیلی چیز سے لگ گیا ہو گا " وہ مرہم لگاتے ہوئے لاعلمی میں بولا

"اتنے لاپرواہ ہو گئے ہو تم ذی کہ نوکیلی چیزیں تمھارے ہاتھ میں دھنس جاتی ہیں اور تمھیں پتا ہی نہیں لگتا " شاہان نے دلچسپی سے پوچھا 

"تمھارا دل کر رہے ہے مجھ سے پٹنے کا شاید" وہ اسے کاٹدار نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا

"چھوٹی چھوٹی بات پر مارنے پر آ جاتے ہو مجھے تو پرواہ ہے تمھاری اس لئے پوچھ رہا تھا

 چلو مرضی ہے بھائی" شاہان نے معصومیت سے کہا اور آفس سے نکل گیا تھا

"اتنے لاپرواہ ہو گئے ہو تم ذی کہ نوکیلی چیزیں تمھارے ہاتھ میں دھنس جاتی ہیں اور تمھیں پتا ہی نہیں لگتا "

شاہان کے کہے گئے الفاظ اسکی سماعت سے ٹکرائے تھے وہ سر جھٹکتا اپنی کتاب کی متوجہ ہوا تھا فارغ وقت میں اسے رومانیہ کی کتابیں پڑھنے کا ذوق تھا              

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"سب کچھ مجھے ہی کرنا پڑتا ہے یہاں آ کر بھی وہ مہارانی تو یونیورسٹی میں اڑنے چلی جاتی ہے " ریحم نے پیاز کاٹتے ہوئے تنک کر کہا تھا 

"اماں بھی خود دادی صاحبہ کیساتھ بیٹھ گئی ہے میں تو نوکرانی بن کر اس دنیا میں آئی ہوں وہاں بھی کام کرو یہاں آؤ تو یہاں بھی کام کرو" پیاز کاٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اسنے ٹماٹر کاٹنے شروع کیے تھے مگر اسکی بڑبڑاہٹ بند نہیں ہوئی تھی 

"عائزہ میں کہہ چکی ہوں آئیذل ہر صورت اپنی پڑھائی پوری کرے گی آصف اور ممتاز نے مجھے زبان دی تھی وہ آئیذل کی پڑھائی ہر صورت پوری کروائیں گے" انفال بی بی نے تاسف سے دو ٹوک انداز میں عائزہ بیگم سے کہا تھا 

"کوئی بات نہیں اماں وہ پڑھتی بھی رہے گی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں بس وہ آ جائے یونیورسٹی سے پھر ہم شادی کے کپڑے وغیرہ لینے روانہ ہو جاتے ہیں آپ سوچ جر مجھے بتا دیں پھر آج لے جاؤں میں آئیذل کو وہ اپنی مرضی کے کپڑے لے آئے گی" عائزہ بیگم نےمسکراتے ہوئے کہا انفال بی بی نے پرسکون نظروں سے عائزہ بیگم کو اٹھ کر کچن کی جانب جاتے دیکھا تھا 

"کیوں میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا میرے پروردگار میری بچی خوش تو رہے گی ناں وہاں پر میں کیا کروں میرے مالک غیروں کو بھلا کیسے اپنی بچی سونپ دوں کم سے کم ممتاز میرا بیٹا ہے اور آئیذل کا ماموں ہے وہ اسکا یقیناً خیال رکھے گا "  انفال بی بی نے گھبراتے دل کو سمجھانا چاہا 

"انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا یہ خوف صرف میرا وہم ہے میری بچی کا نصیب بہت اچھا ہو گا " اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی تھی عائزہ بیگم کو آئیذل کو لے جانے کی اجازت دینے کی غرض سے 

"آپکی اس گھر کی لالچ کے چکر میں یہاں میں گرمی کی شدت سے پگھل جاؤں گی ہاتھ جل گیا میرا بھاڑ میں جائے سب " ریحم نے غم و غصے سے ہاتھ کو چولہے سے پیچھے کھینچتے ہوئے کہا تھا 

"دھیرے بول نالائق سن لے گا کوئی" عائزہ بیگم نے چولہے کی آنچ کم کرتے ہوئے لاعلمی سے کہا تھا

"نہیں سنتا کوئی دادی صاحبہ ہمیشہ برآمدے میں پڑی رہتی ہیں اماں ویسے یہ گھر بہت بڑا ہے میں تو کہتی ہوں اس گھر کو نہیں بیچیں گے اپنا گھر بیچ کر یہاں ہی رہیں گے ہم سب اور اس آئیذل کو  ویسے بھی دھکے مار کر نکال دیں گے بھائی " ریحم نے عائزہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا تھا انفال بی بی کا دروازے کے ہینڈل پر رکھا ہوا ہاتھ کانپا تھا

"منہوس میں نے منا کیا ناں اس بارے میں بات مت کر اگر انہوں نے سن لیا تو ایک سیکنڈ میں رشتہ توڑ ڈالیں گی " عائزہ بیگم نے سر اٹھاتے ہوئے کہا تھا جب انہوں نے دروازے پر کھڑی انفال بی بی کو دیکھا تھا جنکا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھا انکے ہاتھ پیر اسوقت ٹھنڈے پڑ چکے تھے ریحم نے اپنی ماں کو ساکت دیکھ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں انفال بی بی دیوار کا سہارا لیتی ہوئی پیچھے ہٹ رہی تھی انکی کھڑے رہنے کی سکت ختم ہو رہی تھی ریحم نے خوفزدہ نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جن کے چہرے پر خوف کے سائے لہرا رہے تھے 

"قہر ہو خدا کا تم پر " انفال بی بی غمزدہ لہجے میں نڈھال ہوتی ہوئی بےجان آواز میں بولی تھی 

                                  -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اماں میری بات"

"چٹاخ"

 انفال بی بی نے ایک زوردار تھپڑ عائزہ بیگم کے چہرے پر مارا تھا ریحم نے آنکھیں پھیلا کر حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھا تھا

"خبردار جو مجھے اماں کہا نکل جاؤ اس گھر سے اسی پل گھٹیا لوگو میری بچی کیساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو وہ یتیم ہے مسکین ہے یہ تک نہیں سوچا تم نے" عائزہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے انفال بی بی نے ضررغبت بھرے لہجے میں کہا تھا 

"میں ابھی آصف کو فون کرتی ہوں اور تمھاری اصلیت سے آگاہ کرتی ہوں اسے  کیسے گندے ذہن ہیں تم انسان نہیں جانور ہو احساس سے عاری جانور ہو وہ تم سب کو دیکھ لے گا" انفال بی بی پیچھے مڑتے ہوئے بولی انکی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی

عائزہ بیگم تیزی سے انکی جانب بڑھی تھی مگر اچانک دروازے کے پیچھے سے اچانک توصیف سامنے آیا تھا اور انفال بی بی کو گردن سے پکڑا تھا ریحم نے خوف سے اسے انفال بی بی کی گردن دباتے ہوئے دیکھا انفال بی بی  بری طرح کھانس رہی تھی

"اماں روکو اسے وہ مار دے گا دادی کو " ریحم نے تھرتھراتے ہوئے کہا انفال بی بی نے شدت سے کھانستے ہوئے اپنے کمزور ہاتھوں سے اسکا ہاتھ نکالنے کی محروم سی کوشش کی تھی  عائزہ بیگم اپنی جگہ پر گنگ کھڑی رہی تھی

"اماں روکو ۔۔ چھوڑو دادی کو توصیف" ریحم نے توصیف کا ہاتھ جھٹکا تھا اور اسے پیچھے دھکا دیا تھا وہ لالچی ضرور تھی مگر اتنی نہیں کہ اپنے سامنے کسی کو مرتا دیکھ کر بےحس کھڑی رہتی 

"دادو ۔۔ دادو" 

ریحم انکا چہرہ دھیرے سے تھپتھپاتے ہوئے بولی جو سینے پر ہاتھ رکھے بری طرح کانپ اور کھانس رہی تھی 

"اسلام و علیکم کدھر ہیں سب" 

ممتاز چودھری کی آواز سن کر ہنوز کھڑے توصیف اور عائزہ بیگم چونکے تھے 

"ہائے اللہ اماں اٹھو اماں خدا رحم کر یہ کیا ہو رہا ہے اماں کو " 

عائزہ بیگم انفال بی بی کے پاس نیچے بیٹھتی روتے ہوئے بولی انفال بی بی کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر انکے سفید بالوں میں جذب ہوئے تھے توصیف بھی جلدی سے اپنی ماں کے ڈرامے میں شامل ہوا تھا چودھری ممتاز دروازے سے سب منظر دیکھ کر تیزی سے انکی جانب بڑھے تھے اور ایمبولینس کو کال کی تھی انفال بی بی کی آنکھوں کا منظر دھندھلا چکا تھا انکے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے ریحم نے خوفزدہ نظروں سے انکی بند آنکھوں کو اور پھر ساکت کھڑی عائزہ بیگم اور اپنے بھائی کو دیکھا تھا جو اسے درشت نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ خوفزدہ نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئی لب بھینچ گئی تھی

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے گیٹ سے باہر نکلی تھی کچھ فاصلے پر کھڑے توصیف کو دیکھ کر وہ رک گئی تھی کچھ فاصلے سے آتے ہوئے ذاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جو اس لڑکے کو دیکھتی ہچکچاتے ہوئے ایک جانب چل پڑی تھی وہ بائیک سٹارٹ کرتا ہوا اسکی طرف بڑھ گیا تھا ذاویان نے بےساختہ قدم آئیذل کی طرف بڑھائے تھے 

"اپنے ڈرامے بند کرو اور چلو میرے ساتھ"  آئیذل کے سامنے بائیک روکتے ہوئے وہ آس پاس دیکھتا جلدی سے بولا تھا

"نہیں جانا مجھے تمھارے ساتھ جاؤ یہاں سے" وہ اسے متذبذب نظر سے دیکھتی ہوئی ایک طرف چل پڑی تھی 

"میں نے کہا چلو میرے ساتھ دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسپتال میں ہیں وہ " 

توصیف کی بات نے اسکے اٹھتے قدموں کو روکا تھا اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ جلدی سے اسکی طرف پلٹی تھی 

"کک۔۔کیا ہوا نانو کو " وہ ہکلاتے ہوئے بولی تھی

"انکو ہارٹ اٹیک ہوا ہے سب اسپتال میں ہیں " توصیف نے لہجے کو ڈگمگانے سے روکا تھا ورنہ اسکے سوال پر تو اسکا ماتھا ٹھنکا تھا

"چچ۔۔چلو م۔۔مم۔۔مجھے نانو کے پاس لے چلو " وہ سب کچھ بھلاتی جلدی سے اسکے ساتھ بائیک پر بیٹھی تھی انکی جانب بڑھتے زاویان نے اپنے قدموں کو روکا تھا توصیف بائیک سٹارٹ کرتا ہوا تیزی سے وہاں سے دوسرے روڈ پر نکل گیا تھا ذاویان کی سپاٹ نظروں نے انکا کافی دور تک پیچھا کیا تھا ..

"ما۔۔ماموں ۔۔کک۔۔کیا ہوا ہے  نانو کو" وہ تیزی سے آصف صاحب کے ہاتھ پکڑتی استفسار کرنے لگی آصف صاحب نے بےبس نظروں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسوں چمک رہے تھے اسکے چہرے پر بےحد تھکان تھی 

"بچے  میری بات تحمل سے سنو اللہ پاک سے دعا کرو وہ انشاء اللہ سب ٹھیک کریں گے" وہ  اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر گئے تھے اسنے بیٹھتے دل کیساتھ آئی سی یو کے بند دروازے کی طرف دیکھا تھا 

"بب۔۔بتائیں ناں ماموں کک۔۔کیا ہوا ہے نانو کو " وہ ٹوٹے لہجے میں گویا ہوئی تھی آصف صاحب نے عروسہ بیگم کی جانب دیکھا تھا جو شفقت سے اسکے ہاتھ تھماتی اسکے قریب بیٹھی تھی 

"کوئی کچھ بتا کیوں نہیں رہا  بتائیں ہمیں کیا ہوا ہے ہماری نانو کو " وہ اب کی بار چیخی تھی آنسوں ٹوٹ کر اسکے  گندمی گالوں پر بہنے لگے تھے

"بیٹا نانو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے انکے لئے دعا کرو آپریشن ہو رہا ہے انہیں ہم سب کی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے " عروسہ بیگم نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا وہ ایک پل کو ساکت ہوئی تھی اسکے سوکھے لب ساکت ہوئے تھے اسکی نم آنکھوں نے وہاں موجود سب لوگوں کو ایسے دیکھا تھا جیسے وہ اجنبی ہوں 

"نانوو" وہ بےجان سے اٹھی تھی اور تیز قدموں کیساتھ ایک جانب بھاگی تھی عروسہ بیگم اٹھ کر اسکے پیچھے گئی تھی وہ اسے ایک طرف بیٹھے دیکھ کر رکی تھی جو نم آنکھوں سے وضو کر رہی تھی عروسہ بیگم کی آنکھیں بھر آئی تھی وہ لب بھینچتی اسے دیکھتی رہی وہ وضو کر کے نماز کی جگہ ڈھونڈتی ہوئی روتے ہوئے دعا مانگنے میں مصروف ہوئی تھی

"اللہ پاک پلیز میری نانو کو کچھ نہیں ہونا چاہیے انکی ذندگی بخش دیں میرے مالک آپ نے مجھ سے میری مماں اور بابا تو چھین لئے میری نانو کو مجھ سے مت چھینیں میرے مولا میری نانو کو مت چھینیں مجھ سے میں مر جاؤں گی اللہ پاک کون ہے بھلا میرا انکے سوا میرے مولا میری فریاد سن لے میرے مالک میری نانو کی ذندگی بخش دے" وہ دعا میں ہاتھ اٹھائے زار زار روتے ہوئے دعا کر رہی تھی عروسہ بیگم باہر کھڑی لب بھینچے اشک بار آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ آنسوں سے تر تھا وہ اندر ہی اندر تڑپ رہی تھی اسکا دل بوجھ سے دبتا چلا جا رہا تھا  نماز ادا کرنے کے بعد وہ جائے نماز رکھ کر بوجھل قدموں کیساتھ باہر آئی تھی عروسہ بیگم نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھا تھا اسکی بنفشی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ گئے تھے وہ چونکی تھی ڈاکٹرز کے سکواڈ کو آئی سی یو کی طرف تیزی سے جاتا دیکھ کر سب اپنی جگہ سے اٹھے تھے وہ تیزی سے ڈاکٹرز کے پیچھے آئی سی یو میں داخل ہوئی تھی انفال بی بی مشینوں میں جکڑی ہوئی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی 

"نن۔۔۔نانووو" وہ نم آنکھوں سے تڑپتی ہوئی انکی جانب بڑھی تھی اور انکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا انفال بی بی نے نیم وا آنکھوں سے اس بچی کو دیکھا تھا جو انکے لئے رو رہی تھی تڑپ رہی تھی جبکہ یہ سب انکی اولاد کو کرنا چاہیے تھا 

"مس آپ پلیز ہٹیں ڈاکٹرز کو اپنا کام کرنے دیں" نرس نے اسے پیچھے ہٹانا چاہا مگر وہ اسے دھکا دیتی ہوئی انفال بی بی سے لپٹ گئی

""نن۔۔۔نانو مجھے معاف کردیں آپ مجھے چھوڑ کر مت جائیے گا میں مر جاؤں گی آپ کے بنا نانوو " وہ انکے ہاتھ تھامتی روتے ہوئے ٹڑپ تڑپ کر کہہ رہی تھی انفال بی بی کی دھڑکن منتشر ہو رہی تھی ان کی آنکھوں سے آنسوں موتیوں کی طرح ٹوٹ کر انکے سفید بالوں میں جذب ہو رہے تھے

"آئیز۔۔۔۔۔۔آئیز۔۔۔ل۔۔۔یہ۔۔۔شا۔۔۔۔د۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔مم۔۔۔ت۔۔۔ککک۔۔۔کر۔۔۔نا"

وہ اکھڑتی سانسوں کے بیچ بولنے کی کوشش کر رہی تھی آئیزل نے اشک بار آنکھوں نے انکی بات سمجھنی چاہی تھی جب نرس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے انسے کوئی مشینری اٹیچ کی تھی وہ تڑپتی ہوئی کچھ فاصلے پر انفال بی بی کو دیکھتی رہی جو اسکی جانب ہاتھ بڑھائے اکھڑتی سانسوں کے بیچ کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی آصف صاحب اور باقی سب باہر کھڑے گلاس ڈور سے سب دیکھ رہے تھے مشین پر ہارٹ بیٹ کی لکیر سیدھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی بیپ کی آواز نے آئیذل سمیت سب کو منجمد کیا تھا آئیذل کا دل بیٹھ گیا تھا

"آئی ایم سوری بیٹا" ڈاکٹر نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے افسوس سے کہا تھا آئیذل نے بھیگی آنکھوں سے بیڈ پر پڑے انکے مشینری میں جکڑے بےجان وجود کو دیکھا تھا وہ بےجان سے گھٹنوں پر گری تھی 

"نانوووووو" اسکی کرب زدہ چیخ نے سب کے دل دہلا دیئے تھے  عروسہ بیگم نے اسے آ کر سہارا دیا تھا وہ لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی تھی اور انفال بی بی کے بیڈ کے پاس رکی تھی انکے مشینری میں جکڑے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا انکی پرنور آنکھیں بالکل بند تھی 

"اللہ پاک نے آپکو بھی چھین لیا ہم سے نانو" وہ بےجان لہجے میں بولی تھی عروسہ بیگم نے بےساختہ ہو کر آنسوں روکے تھے 

"آپکو بھی چھین لیا ترس نہیں آتا آپکو مجھ پر اللہ پاک " وہ چیخ کر کہتے ہوئے صدمے سے وہیں گر پڑی تھی آصف صاحب اور عروسہ بیگم تیزی سے اسکی طرف بڑھے تھے جو تھکن سے چور وجود کو مزید نہیں سمبھال پائی تھی اور بےہوش ہوئی تھی

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا ہوا ہے ذی "  زوہیب صاحب نے آخر کار پوچھ ہی ڈالا تھا وہ صوفے پر سر گرائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا آنکھیں وا کرتے ہوئے انکی جانب دیکھ گیا

"دل گھبرا رہا ہے کچھ غلط ہو گیا ہو جیسے" وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

"جس چیز کو لیکر پریشانی ہے جا کر کلیئر کر لو ایسے پریشان ہوتے رہو گے یہاں بیٹھ کر"  زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھ کر کہا جو بےحد سپاٹ تاثرات لئے بیٹھا تھا

"کس حق سے جاؤں ماموں" وہ کرخت لہجے میں بولا تھا زوہیب صاحب نے اسے چونک کر دیکھا تھا جیسے انہوں نے غلط سنا ہو

"میرا مطلب تھا کہ میرا حق نہیں بنتا" وہ ایک جانب رخ پھیرتا سنجیدگی سے بولا تھا 

"ذی تم واقعی ٹھیک ہو میرا مطلب ہے طبعیت ٹھیک ہے ناں تمھاری" زوہیب صاحب نے فکرمندی سے پوچھا وہ سر ہلاتا ہوا اٹھا تھا

"آئی تھنک باہر جاؤں گا تو ریفریش ہو جاؤں گا " 

"ہاں صحیح ہے خیال رکھنا اپنا " زوہیب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا وہ سنجیدگی سے باہر نکل گیا تھا 

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا قیامت سا سماں تھا وہ بےجان سی انکی چارپائی سے سر ٹکائے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھی اور سوجن بھی تھی اسکی آنکھوں میں پلکیں ابھی تک بھیگی تھی چہرہ بےتاثر تھا ہر طرح کے جذبات سے عاری ،، لب خشک ہو کر سکڑ گئے تھے  بکھرے ریشمی بھورے بال کالی چادر سے جھانک رہے تھے وہ بےسدھ بیٹھی اس وقت کو یاد کر رہی تھی جب وہ انکی گود میں سر رکھ کر ان سے باتیں کیا کرتی تھی بزرگ بھی بڑا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جب تک ساتھ ہوتے ہیں ہم بےتکلفی سے کبھی تو انکی طرف توجہ نہیں دیتے مگر جب وہ چلے جاتے ہیں تو انکی  چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آتی ہیں اور دل خون کے آنسوں روتا ہے اور انفال بی بی تو اسکی ماں جیسی تھی بچپن سے لیکر اب تک وہی تو اسے سینے سے لگا کر پالتی رہی تھی 

"آپکو پتا ہے نانوو جان بس ایک آپ ہی میری اپنی ہیں مجھے سب غیر سے لگتے ہیں کوئی بھی اپنا نہیں لگتا آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیئے گا مجھے اسی طرح سپورٹ کیجیئے گا پلیز  امی کے بعد ایک آپ ہی تو ہیں جو میرے ساتھ رہتی ہیں ہمیشہ مجھے سہارا دیتی ہیں "

اپنی ہی کہی گئی بات اسے سینے پر خنجر کی طرح لگی تھی آنسوں کا جھرنا اسکی آنکھوں سے بہتا چلا گیا حلق میں بےحد چبھن تھی ورنہ وہ خاموش ناں بیٹھی ہوتی رو رو کر اسکا حلق اس قدر خشک تھا کہ اسکے حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہو رہے تھے کل سے اسنے کچھ نہیں کھایا تھا یہاں تک کہ پانی تک نہیں پیا تھا آصف صاحب اور ممتاز صاحب کچھ مرد حضرات کیساتھ آئے تھے اسنے انکو دیکھتے ہوئے جلدی سے چارپائی پر سر رکھا تھا

"آئیذل میری بچی لے جانے دو نانو کو تدفین کا وقت ہو گیا ہے " عروسہ بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا

"نن۔۔نہیں نانو کو دور مت لیکر جائیں آپکو خدا کا واسطہ ہے میری نانو کو مجھ سے دور مت لیکر جائیں" وہ ہچکیوں کے بیچ روتے ہوئے گڑگڑا رہی تھی عروسہ بیگم نے اسکا ہاتھ چارپائی سے ہٹایا تھا 

"نانو کو مت لیکر جائیں مامو خدا کے لئے ہمیں ہماری نانو سے دور مت کریں" وہ روتے ہوئے عروسہ بیگم کے ہاتھ تھامتی انہیں اشک بار آنکھوں سے دیکھ گئی جو اسکے ہاتھ پکڑتی ہوئی اسکا حوصلہ بڑھانے اور تسلی دینے کی کوشش کر رہی تھی عروسہ بیگم نے اسکے چہرے کو تھامتے ہوئے اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر اسے تسلی دی تھی وہ عروسہ بیگم کے کندھے پر سر رکھتی نم آنکھوں سے انفال بی بی کو آخری بار (خود سے دور جاتے) دیکھ رہی تھی اسکا دل ہر قسم کے جزبات سے عاری تھی 

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"عرفاااان" 

وہ گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے دبے لہجے میں غرایا تھا پیون جلدی سے اندر آیا تھا اسکی کافی لیکر اسنے تلخ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو نو بجے کی کافی بارہ بجے دے رہا تھا

"سوری سر دیر ہو گئی" وہ کافی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا تھا اسکا موڈ آج بےحد خراب تھا وہ ہر شے سے بیزار تھا آج ہر شے میں اسے کمی محسوس ہو رہی تھی پیون کافی دیکر جا چکا تھا اسنے ایک سنجیدہ سی نظر اسکے خالی ڈیسک کو دیکھا تھا اور پھر کافی کا سپ لیتے لیتے رہ گیا اسنے سرد آہ بھر کر کافی کو ویسے کا ویسا وہیں رکھا تھا اور اسے ڈھونڈنے نکل پڑا تھا اسکا خیال تھا وہ آج پھر لیکچر مس کر رہی تھی وہ ٹہلتا ہوا یونیورسٹی کے اسی پورشن میں آیا تھا جہاں اس دن وہ اسے اکیلی بیٹھی ملی تھی مگر یہاں بھی اسے سکوت ہی ملا تھا وہ لب بھینچتا پلٹا تھا جب اسکے کانوں میں سسکیوں کی آواز سنائی دی تھی وہ سرعت سے پیچھے مڑا تھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا اسنے لب بھینچ کر آس پاس دیکھا تھا مگر واقعی وہاں کوئی نہیں تھا وہ واپس لوٹ گیا تھا 

"اب خوش ہیں آپ" ریحم کی اونچی آواز نے ساکت بیٹھی عائزہ بیگم اور توصیف کو چونکایا تھا 

"آپکی وجہ سے دادی"

"بکواس بند کر سنا نہیں تو نے ڈاکٹر نے کہا انکو ہارٹ اٹیک ہوا تھا" توصیف نے دانت پیسے تھے ریحم نے نفرت بھری نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا عائزہ بیگم خاموش تھی

"مجھے گھن آ رہی ہے آج اپنی ہی ماں اور بھائی سے " وہ نفرت بھری نظروں سے انکو دیکھتی بولی عائزہ بیگم کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا وہ اٹھتی ہوئی ریحم کا بازو پکڑ چکی تھی

"اپنی بکواس بند رکھ اپنی ماں اور بھائی پر الزام لگا رہی ہے اب تو تجھے شرم نہیں آ رہی اور تو کونسی اچھی تھی تو بھی تو اونچے خواب دیکھ رہی تھی" ریحم نے لب بھینچ کر نظریں جھکائی تھی 

"لیکن اس حد تک نہیں گری تھی میں جس حد تک آپ اور توصی گر گئے "

"دماغ خراب مت کر نکل ادھر سے" توصیف نے غصے سے لال ہو کر کہا تھا وہ سر جھٹکتی نفرت سے باہر نکل گئی تھی

"اب پریشان ہو کر کچھ نہیں ہو گا اماں ویسے بھی وہ بیمار ہی رہتی تھی ہماری وجہ سے کچھ نہیں ہوا " توصیف نے بےحس لہجے میں کہا عائزہ بیگم نے سر ہلایا تھا

"اب وہ لڑکی یہاں ہی رہے گی ؟؟" توصیف نے استفسار کیا 

"آصف صاحب کہہ رہے تھے اب یہاں پر ہی رہے گی اکیلی تو رہنے سے رہی" عائزہ بیگم نے عام سے انداز میں کہا توصیف نے سر کو خم دیا تھا 

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کانفرنس ہال میں وہ بےبسی سے بار بار گھڑی پر ٹائم دیکھ رہی تھی میٹنگ کا وقت ہو چکا تھا مگر ابھی تک کلائنٹس نہیں آئے تھے

"کہاں مر گئے ہیں یہ سارے افف" وہ اپنے سامنے پڑی لمبی سے لکڑی کی شفاف ٹیبل پر انگلی بجاتے ہوئے بڑبڑائی جب کانفرنس ہال کا دروازہ کھلا تھا وہ چونکی تھی اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر جو بلیک تھری پیس سوٹ میں بالوں کو نفاست سے بٹھائے ہوئے تھا بھوری آنکھوں میں چمک تھی لبوں پر انتہا کی سنجیدگی اور چہرے پر سپاٹ تاثرات وہ سنجیدگی سے چیئر کو کھینچتا ہوا چیئر پر بیٹھا تھا سیرت نے سٹپٹا کر اسے دیکھا تھا وہ اسے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر چکا تھا

"مسٹر فارس آپ پورے پچپن منٹ لیٹ ہیں"  وہ طنزیہ لب و لہجے میں اسے تپانے کی غرض سے بولی جبکہ اسکے گداز ہونٹوں پر ایک بےباک متبسم بکھرا تھا اسکے پیچھے کھڑا اسکا اسسٹنٹ کھنکار کر دبے لہجے میں ہنسا تھا 

"مس سیرت رضوی فارس میں ہوں سر کا اسسٹنٹ" پیچھے کھڑا اسسٹنٹ طنزیہ لہجے میں بولا سیرت کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا تھا اسنے اچھنبے سے سامنے بیٹھے مظبوط جسامت کے شخص کو دیکھا جسکی آنکھوں میں طنز تھا

"حدید رضا عسکری  " وہ اسکی سرمئی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں ڈالتے ہوئے متکبر انداز میں گویا ہوا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنا شروع ہوئے تھے کیونکہ اگر وہ سچ میں حدید رضا عسکری تھا تو آج وہ شرم سے ڈوب مرنے کو تیار تھی کیونکہ اسوقت  برطانیہ کے ٹاپ بزنس رینکس پر اسکی سلطنت قائم تھی وہ بہت بڑا بزنس ٹائیکون تھا جس کی مثالیں وہ آج تک اپنے سینیئرز سے سنتی آئی تھی وہ تو اسکے لئے تقلیدی کردار تھا جس کی طرح بننے کی ہمیشہ اس لڑکی نے کوشش کی تھی 

"فارس باہر ویٹ کرو آئی تھنک مس سیرت تمھاری موجودگی سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہیں " اسنے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے فائل اوپن کی جبکہ اسکے کہے گئے الفاظ سیرت کے سر پر بم کی طرح پھٹے فارس سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا تھا سیرت نے تھوک نگلتے ہوئے اس مغرور رعنا شخصیت کے مالک کو دیکھا جو مخمور نگاہوں سے اسکے خوبصورت نقوش چہرے کی جاذبیت کو بےباکی سے دیکھ رہا تھا اور وہ حلق سمیت خشک ہوتی جا رہی تھی

"مس سیرت میرا خیال ہے میٹنگ اشفاق احمد صاحب کیساتھ تھی آپ غلط جگہ پر غلط وقت آ پہنچی ہیں" وہ چیئر کو پیچھے کرتا ہوا رعب سے اٹھتے ہوئے شریر لہجے میں گویا ہوا سیرت سرخ پڑی تھی اسکے ہونٹوں پر قفل لگ چکا تھا اسکا نام سن کر 

"اینڈ سوری ٹو سے آپ بہت ان ایکسپیریئنسڈ ہیں یہ ڈیل آپ کبھی بھی کامیاب نہیں بنا پائیں گی اور آپکے ڈیڈ کو بہت ڈس اپائنمنٹ ہو گی اگر یہ ڈیل کینسل ہوئی تو رضوی انٹرپرائسز کو پچاس کروڑ کا نقصان ہو گا "وہ اسکے پیچھے ٹیبل پر دونوں ہاتھ ٹکا کر اسکے کان پر جھکتا ہوا ضرر رساں لہجے میں بولا سیرت نے تھوک نگلتے ہوئے حلق تر کیا تھا ایک تو اسکی بات پر اور دوسرا اسکا پراسرار لہجہ اور تیسرا اسکے کلون کی ہلکی مسحورکن مہک اسکے حواسوں پر چھا رہی تھی 

"مسٹر حدید رضا عسکری یہ ڈیل ہرصورت ہو گی " وہ کمپوز لہجے میں کہتی ہوئی بولی مگر اسکی آواز میں ڈگمگاہٹ بھانپ کر اسکے حسیں لب کناروں سے پراسرار مسکراہٹ میں ڈھلے 

"میری تین شرائط ہیں جنہیں آپ کو ماننا پڑے گا اس صورت میں ہی میں ان پیپرز پر سائن کروں گا مس سیرت رضوی" وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا اسکے قریب چیئر کھینچ کر رعب سے بیٹھتا بولا سیرت نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اسکی طلسماتی آنکھوں سے آنکھیں چرائی 

"کیسی شرائط" وہ تحمل سے استفسار کرنے لگی اسکے پوچھنے پر آرایس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی

"پہلی شرط آپ آج رات میرے ساتھ ڈنر کریں گی دوسری شرط آپ مجھ سے اس حرکت کے لئے معافی مانگیں گی جو آپ نے میرے آفس میں کی اور تیسری شرط میں وقت آنے پر آپکے سامنے پیش کروں گا"

سیرت کا منہ حیرت سے کھلا تھا وہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کر چکا تھا کیونکہ سیرت کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا 

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ بےجان سی نیچے بیٹھی ہوئی تھی اسکی نظریں کھڑکی کے سامنے اڑتے سفید پردے کو دیکھ رہی تھی جو ہوا کے زور ہر لہرا رہا تھا اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھی لب سوکھ کر سکڑے ہوئے تھے کمرے میں چاند کی ہلکی ہلکی روشنی تھی اسنے لائٹ تک آن نہیں کی تھی 

""ہم جب بھی تھک جاتے ہیں آپکی گود میں سر رکھ کر بےحد سکون محسوس کرتے ہیں یقیناً اللہ پاک نے آپکو ہمارے لئے ہی سکون کا ذریعہ بنایا ہے جو ہماری بےسکون سی ذندگی میں سکون کے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں ""

ایک آنسوں اسکی سرخ آنکھ کی باڑ توڑ کر اسکے خشک گال پر بہہ کر نیچے گرا تھا

"وعلیکم السلام میری بچی آپ نے ابھی تک خود ناشتہ نہیں کیا اور آپ ان پرندوں کو پہلے کھانا کھلا رہی ہو"

"افسوس میری کسی اچھائی کا صلہ ناں ملا مجھے اس دنیا میں " وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے مردہ لہجے میں بولی جاتی

"ہر اپنے کو مجھ سے اتنی بےدردی بےحسی سے چھینا گیا ہے کہ اب اس دنیا سے بھلائی کی امیدیں وابستہ رکھتے ہوئے ہنسی آتی ہے" نم آنکھوں سے وہ مسکرائی تھی لائٹ آن کر کے اور طنز سے اٹھتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی بکھرے بال ،، اجڑی ہوئی حالت ،، وہ اپنا حلیہ دیکھ کر خود پر ہنسی تھی

"دیکھو خود کو یہ ہے تمھاری ذات ہے آئیذل احمد " وہ اپنے عکس ہر ہاتھ پھیرتی ہوئی کرب زدہ لہجے سے خود کے دل کو مزید زخمی کر رہی تھی

"ٹوٹی ہوئی ہو تم اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہو " وہ اپنے چہرے کے عکس پر انگلیاں پھیرتی بےجان لہجے میں بولی

"قسمت کی ماری بدبخت لڑکی جو اپنے اچھے نصیب کیساتھ اپنوں کا ہی سر کھا گئی " وہ خود کو نفرت سے دیکھتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی

"مجھ جیسی لڑکیاں تو خواب دیکھتی ہیں انکا خوابوں کا ایک جہاں ہوتا ہے اور میں ہائے میری قسمت اللہ پاک " وہ چیختے ہوئے اپنے بکھرے بالوں میں انگلیاں پھنسائے روتی بولی

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اوہ گاڈ تم نے اسکی شرائط مان لی" ساتھ بیٹھی علیشہ نے حیرت سے پوچھا تھا سیرت نے سر ہلایا تھا

"کریپ یار اب کیا ہو گا تم واقعی رات کے اس پہر اسکے ساتھ جاؤ گی اففف تمھارے گھر والوں کو پتا چل گیا تم تو گئی " علیشہ نے ناخن چباتے ہوئے کہا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا مگر وہ ارادہ بنا چکی تھی

" گھر کہا تو ہے کہ آج تمھارے گھر رک جاؤں گی کتنی منتوں کے ساتھ مماں کو منایا ہے اففف مجھے ہی شوق تھا آفس کے معملات میں پڑنے کا وہ شاطر شخص ناجانے مجھ معصوم سے کیا چاہتا ہے اب " سیرت نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے اچھنبے سے کہا

"اور تمھارے ان گارڈز کا کیا جو چوبیس گھنٹے تمھارے بھائی نے تمھارے پیچھے لگا کر رکھے ہیں" علیشہ نے کھڑکی سے باہر کھڑے گارڈز سے کہا جو پورچ میں پھیلے ہوئے تھے

"علیشو تو میری ہیلپ کر دے مجھے کہیں سے چھپا کر باہر بھگا دے ناں" سیرت نے معصومیت سے کہا علیشہ کی حیرت سے آنکھیں چار ہوئیں

"ناں بابا ناں ذاویان بھائی کا غصہ دیکھا ہے میں نے وہ مجھے ذندہ نگل جائیں گے اگر انکو پتا چلا تم اپنے اس حدید رضا کو فون کرو اور کہو کے کسی طرح تمھیں نکالے یہاں سے" علیشہ نے گھبراتے ہوئے اپنی گردن بچا کر اسے مفت کا مشورہ دیا

"ایک تو مجھے خوف آ رہا ہے کہیں وہ حدید رضا کوئی غنڈا بدمعاش ہوا اور تمھیں کڈنیپ کر لیا تو ذاویان بھائی مجھے زندہ دفنا دیں گے " علیشہ نے تھوک نگلتے ہوئے کہا وہاں سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی 

"وہ بزنس مین ہے کوئی غنڈا بدمعاش نہیں ویسے ڈر تو مجھے بھی لگ رہا ہے اچھا تم کپڑے تو دے دو کوئی یارر میں ان کپڑوں میں کیسے جاؤں گی " سیرت نے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے اپنے حلیے کو دیکھا جو سمپل سے وائٹ سوٹ میں ملبوس تھی

"اچھا بابا میں کپڑے دیتی ہوں تم خود منتخب کر لو لیکن مجھ سے کسی اور مدد کی امید مت رکھنا مجھے یہ تمھارا حدید رضا ڈینجرس بندہ معلوم ہوتا ہے " کبرڈ سے کپڑے نکالتی علیشہ نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے کہا جس پر سیرت نے سر جھٹکا تھا اور اپنے پرس سے فون پروڈیوس کرتے ہوئے اسکا بلیک کارڈ پرس سے نکالا جو وہ اسے میٹنگ کے بعد دیکر گیا تھا سیرت نے لب کاٹ کر اسکا نمبر ملایا تھا "کیا ہوا فون اٹھایا کیا اس نے" علیشہ کبرڈ سے اسکی طرف بیڈ پر بڑھتی ہوئی سیرت نے اسکے آنکھیں دیکھاتے ہوئے لبوں پر انگلی دیکر چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا سہ فوراً چپ ہوئی تھی 

"آئی ایم لسٹننگ" 

سیرت اسکی گمبھیر آواز سن کر اچھلی تھی علیشہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ورنہ اسکی ہنسی چھوٹ جاتی سیرت کو یوں تھرتھراتے دیکھ کر اسنے سیرت کو ہاتھ سے بولنے کا اشارہ کیا تھا 

"میں۔۔سیرت۔۔بات کر رہی ہوں" وہ لب کاٹتی شرمندگی سے بولی جیسے اسکا نام اسکے لئے شرمندگی کا باعث ہو

گیلے بالوں میں ٹاول رگڑتے ہوئے اسکے لبوں پر ایک انوکھی مسکان نے احاطہ کیا

"مم۔۔۔میں آ رہی ہوں لیکن مم۔۔میں اپنی فرینڈ کے گھر ہوں اور میرے گارڈز۔۔۔ 

سیرت نے شرمندگی سے سر جھٹکا تھا اور بات کو دوبارہ کنٹینیو کیا

"مجھے پک کر لیں لیکن اگر آپ نے مجھے نقصان پہنچایا تو" سیرت نے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا کبرڈ سے کپڑے نکالتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"اگر مجھے آپکو مارنا ہی ہوتا تو میں آفس میں بلا جھجھک مار سکتا تھا مس سیرت رضوی کیا آپ اتنی ڈرپوک ہیں " 

"نن۔۔نہییں میں ڈرپوک نہیں ہوں لیکن اگر مجھے کچھ ہوا میرے بھائی آپکو نہیں چھوڑیں گے یہ بات یاد رکھئے گا میں ایڈریس بھیج رہی ہوں میرے آٹھ گارڈز کو آپ ہینڈل کیجیئے گا مسٹر حدید رضا عسکری " وہ شرارت سے کہتی ہوئی فون بند کر گئی تھی فون کو پراسرار مسکراہٹ کیساتھ دیکھتے ہوئے وہ کبرڈ سے کپڑے لیکر چینج کرنے چلا گیا تھا

"چلو تم ایڈریس بھیج دو اسے اور ہاں فون اپنے پاس ہی رکھنا اگر وہ کچھ بھی کرے فورا سے مجھے ایک مس کال کر دینا میں ان گارڈز کو بھیج دوں گی " 

علیشہ کی بات سنتی وہ پرجوش سے انداز میں ہنسی تھی

"کہاں جا رہے ہو حدید" ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوا حدید جو لاؤنج سے نکل رہا ہے رکا تھا

"ڈیڈ  امپورٹنٹ میٹنگ ڈسکس کرنی ہے" اسنے بڑی سنجیدگی سے جھوٹ بولا تھا

"اسوقت کونسی میٹنگ ڈسکس کرنی ہے " وہاب صاحب نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا تھا جیسے وہ جھوٹ بول رہا ہو

"ڈیڈ سچ میں میٹنگ ریلیٹڈ ہے آپ چاہیں تو ساتھ چل سکتے ہیں " وہ شانے اچکاتا بولا وہاب صاحب نے سر جھٹکا تھا وہ بھلا آدھی رات کو کہاں میٹنگ کے لئے نکل پڑتے اس ڈیٹھ کے ساتھ ۔

"میں جاؤں ڈیڈ" وہ تاسف سے پوچھ رہا تھا وہاب صاحب نے سر ہلایا تھا وہ مسکراتا ہوا اپنی مرسیڈیز نکالنے چلا گیا تھا چوکیدار نے حویلی کا بھاری دروازہ کھولا تھا وہ اپنی  بلیک مرسیڈیز کو نکال کر ایڈریس دیکھتا ہوا نکل گیا تھا وہاب صاحب اسے گھورتے رہ گئے تھے جانتے تو وہ بھی اچھے سے تھے کہ وہ جھوٹ بول کر گیا ہے 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہوں ناں میں" مرر سے پیچھے ہٹتی سیرت نے بھنویں اٹھا کر پوچھا علیشہ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تھا وہ مہرون کلر کے ویلویٹ ڈریس میں ملبوس تھی جس پر گولڈن کلر کی کڑھائی کی گئی تھی مہرون کلر کی گولڈن شیڈ کڑھائی والی شال سر پر لئے ہوئی تھی چہرے پر لائٹ میک اپ تھا اور لائٹ ہی پنک لپ اسٹک میں وہ انتہا کی حسیں لگ رہی تھی 

"تم ڈنر پر جا رہی ہو یا اسے امپریس کرنے" علیشہ نے منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے پوچھا سیرت نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے شال کو درست کیا تھا 

"اب ان گارڈز کا کیا کرے گی وہ بیچارہ ان آٹھ ہٹے کٹے گارڈز کو کیسے چکما دے گا" علیشہ نے پرسوچ انداز میں کہا سیرت بھی گہری سوچ میں پڑی تھی

"بات تو ٹھیک ہے وہ ویسے بیچارہ لگتا تو نہیں مجھے لیکن پھر بھی" سیرت نے سوچتے ہوئے کہا 

"علیشہ" 

بیڈ کی جانب جاتی علیشہ چونکتے ہوئے اسکی طرف بھاگی تھی جو کھڑکی میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے کھڑی تھی علیشہ نے باہر دیکھا تھا گارڈز نے اسے سلام کرتے ہوئے اسکی مرسیڈیز کا گیٹ کھولا تھا وہ مغرور انداز میں باہر آیا تھا

"ہائے یہ کیا ہو رہا ہے بھلا " علیشہ کی آنکھیں چار ہوئیں اور سیرت مسکرائی تھی

"جاؤ بھی اب ایسے لگتا گارڈز اسے جانتے ہیں " علیشہ نے اسے دھکا دیا وہ مسکراہٹ ضبط کرتی ہوئی باہر آئی تھی گارڈز تو ایسے مطمئن کھڑے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں وہ اسے لاؤنج سے آتا دیکھ کر منجمد ہوا اور وہ اس مغرور رعنا شخصیت کے مالک کو دیکھتی رہ گئی 

وہ وائٹ تھری پیس سوٹ میں انتہا کا حسیں لگ رہا تھا براؤن سلکی بالوں کو اسنے جیل سے مخصوص انداز میں بٹھایا ہوا تھا اسکی وجیہہ آنکھیں سامنے کھڑی سیرت کا بھرپور جائزہ لے چکی تھی وہ شال درست کرتے ہوئے اسکے پاس رکی تھی اسکے کلون کی ہلکی مہک نے سیرت کے گرد اپنا حصار تنگ کیا تھا 

"اسلام و علیکم" وہ نظریں جھکاتی بولی اس رعنا شخصیت کی آنکھوں میں دیکھنا اسکے بس میں نہیں ہو رہا تھا

"وعلیکم السلام چلیں مس سیرت" وہ اسکے لئے راہ سے پیچھے ہٹا تھا 

 اسے ستائشی نظروں سے دیکھتی ہوئی اسکے ساتھ مرسیڈیز کی طرف بڑھی تھی وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اسکے پیچھے لاؤنج سے نکل گیا تھا 

"ان گارڈز نے آپ کو روکا کیوں نہیں " وہ سوال کئے بغیر ناں رہ سکی وہ مرسیڈیز کا فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولتا ہوا رکا تھا 

"کیا میں آپکو مشکوک لگتا ہوں جو گارڈز مجھے روکتے" وہ اسے مخمور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے الٹا سوال داغ گیا سیرت نے لب بھینچ کر مسکراہٹ بھانپ لی

"نہیں آپ مشکوک نہیں ہیں بہت مشکوک ہیں چلیں تو صحیح ایک بار سارا مشکوک پن نکالتی ہوں" وہ گاڑی میں بیٹھتی مسکرائی تھی اور دبے لہجے میں بولی تھی جسے وہ سن نہیں پایا تھا اسکی گاڑی میں بھی اسکی ہلکی مہک پھیلی ہوئی تھی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا تھا

"کہاں چلنا پسند کریں گی آپ مس سیرت" وہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بےحد نرمی سے بولا تھا سیرت نے ایک پل کے لئے اسکی جانب دیکھا تھا جو سنجیدگی سے سیٹ بیلٹ لگا رہا تھا اسکی نظروں کو خود پر بھانپ کر اسکی جانب دیکھ گیا وہ فوراً نظریں پھیر گئی تھی

"جہاں آپ کمفرٹ ایبل ہو کر ڈیل سائن کر دیں مسٹر حدید رضا عسکری" وہ مسکراہٹ دباتی بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اور گاڑی کو مین روڈ کی طرف موڑا تھا سیرت نے تاسف سے اسکے اسٹیئرنگ ویل پر رکھے ہوئے وجیہہ ہاتھ دیکھے تھے

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

روڈ پر گاڑیاں تیزی سے دوڑ رہی تھی وہ بغیر گاڑیوں کی پرواہ کئے بےجان سی روڈ کے کنارے پر چل رہی تھی اسکی پلکیں نم تھی جو اسکے رونے کی گواہی دے رہی تھی چہرہ ہر قسم کے جزبات سے عاری تھا دل پر بہت بوجھ تھا اسکا لباس کندھوں سے پھٹا ہوا تھا لمبے بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں چمک سے محروم تھی اسکا پیر پتھر سے ٹھوکر کھا کر اسکے بےجان وجود کو منہ کے بل گرا چکا تھا 

"آہہہہ"

سسکتے ہوئے وہ ہتھیلیوں کو ٹیک کر اٹھی تھی اسنے ناتواں نظروں سے روڈ پر دوڑتی گاڑیاں دیکھی تھی اور پھر اپنی طرف بڑھتی اس چار سال کی بچی کو دیکھا جو اسکی جانب ہاتھ بڑھائے روتے ہوئے تیز قدموں کیساتھ چلی آ رہی تھی وہ تیزی سے اٹھتی ہوئی روڈ کے بیچ رکی تھی اور آنکھوں کو یکلخت میچا تھا ایک تیز رفتار گاڑی اسے روندتی چلی گئی تھی وہ چار سال کی چھوٹی بچی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی ماں کو دیکھتی رہی جسے گاڑی نے روند ڈالا تھا آس پاس سے لوگ اکھٹے ہوئے تھے وہ بچی کچھ دیر اپنی جگہ بےجان سے کھڑی رہی

"ممااااااں" 

ماحول میں اس بچی کی ایک پرسوز چیخ گونجی تھی اسکے پیروں سے اسکی جوتی چھوٹ چکی تھی وہ چیختے ہوئے اپنی ماں کی طرف دوڑ کر آئی تھی

"امییی"

وہ چیختے ہوئے ٹھنڈے فرش سے سر اٹھاتے ہوئے اٹھی تھی کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا وہ پسینے میں شرابور چہرے کو کانپتے ہاتھوں میں دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے آس پاس دیکھ گئی تھی اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے اسنے خود کو ٹھنڈے فرش پر پایا تھا یعنی وہ روتے ہوئے سہیں سو گئی تھی

"امی"  وہ سسکتے ہوئے گھٹنوں میں سر دیتی اپنی قسمت کو روتی چلی گئی 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا مطلب وہ کہاں ہے آپ منع نہیں کر سکتی تھی اسے " ذاویان نے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھتے ہوئے کرخت لہجے میں کہا

"وہ اپنی دوست کے گھر ہی تو ہے اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے ذی" مہر النساء بیگم نے اسکی جانب دیکھا جو غصے سے لال ہو رہا تھا

"آپ کچھ نہیں جانتی موم" وہ پاکٹ سے فون نکالتا ہوا سرعت سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے پورشن کی طرف بڑھ گیا تھا چاہت نے اسے غصے میں دیکھ کر اسے منانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا

"سیرت کہاں ہے" وہ کال کنیکٹ ہوتے ہی کرخت لہجے میں بولا

"سر وہ اپنی دوست کے گھر ہیں ہم باہر ہی ہیں سب ٹھیک ہے" گارڈ نے مطمئن لہجے میں کہا 

"یاد رکھنا مجھے بار بار اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہے " 

"جی سر سب ٹھیک ہے میم اندر ہی ہیں ہم سب ہیں یہاں پر" 

اسنے فون کو سپاٹ نظروں سے دیکھتے ہوئے کال منقطع کر کے سرد آہ بھری تھی

پچھلے دو دنوں سے وہ کچھ ذیادہ ہی اکھڑنے لگا تھا سب کیساتھ اور وہ خود اپنی اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

مرسیڈیز کے رکنے پر سیرت نے روشنیوں میں چمکتے ریسٹورنٹ کی بلڈنگ کو دیکھا تھا وہ سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے گارڈ کے گیٹ کھولنے پر نیچے اترا تھا گارڈ نے اسکی سائڈ کا بھی گیٹ کھولا تھا وہ رشک بھری نظروں سے روشنیوں میں  چمکتے سوئمنگ پول کو دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ آگے بڑھ گئی تھی 

"ماننا پڑے گا مسٹر حدید رضا آپکی چوائس بھی بری نہیں مجھے لگا تھا آپ کسی نائنٹیز کے زمانے کے ریسٹورنٹ میں لیکر آئیں گے" سیرت نے چلتے ہوئے اسے طعنہ مارا اسکے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ پھیلی 

"آپکو ڈس اپوائنٹ کرنے کے لئے خدمت گزار معافی چاہتا ہے" وہ اسکے ساتھ ریسٹورنٹ میں اینٹر ہوتے گویا ہوا سیرت مسکرائی تھی

"مس سیرت یہاں نہیں میں نے دوسرا زون بک کروایا ہے " اسے لوگوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا سیرت نے رک کر اسکی جانب دیکھا تھا جو اسے رعنایت سے دیکھ رہا تھا وہ اسے دیکھتی ہوئی اسکے پیچھے چل دی تھی جو سامنے سے آتے مینیجر سے ایک بلیک فائل لیکر لفٹ کی طرف بڑھ گیا تھا سیرت بھی اسکے پیچھے لفٹ میں داخل ہوئی تھی اسنے فورتھ فلور کا بٹن پریس کیا تھا سیرت نے اسے تعجب سے دیکھا تھا جو فون پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا

"مس سیرت کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں" لفٹ کھلنے پر اسکے یوں اچانک سوال پر سیرت کی فون پر گرفت مظبوط ہوئی تھی اسکی ہتھیلی میں پسینہ آیا تھا وہ لب بھینچتی اسے دیکھ گئی جو اسکے اڑے ہوئے رنگ دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا

"کک۔۔۔کیا مطلب ہے تمھارا تم نے کہا تھا تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گے " سیرت نے ڈرتے ہوئے لفٹ کی وال سے پشت لگائی تھی اسکے یوں ڈرنے پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا مس سیرت میں نے کہا تھا اگر مجھے آپکو مارنا ہی ہوتا تو میں آفس میں بلا جھجھک مار سکتا تھا" وہ اسکے حواس مزید خستہ وشکستہ کرتے ہوئے بولا سیرت نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے فون پر کال ملانے کی کوشش کی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے فون بڑی مہارت سے نکال چکا تھا

"دد۔۔دیکھو۔۔۔ممم۔۔میں نے بھروسہ کیا تم پر اور تم"

"ریلیکس مس سیرت میں کچھ نہیں کر رہا ڈونٹ پینک اوکے کچھ نہیں کر رہا میں " وہ طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گہرا مسکرایا تھا سیرت نے اسے ہنستے دیکھ کر دانت پیستے ہوئے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا جو ایک ہی منٹ میں اسکی جان ہوا کر چکا تھا

"میں نے صرف استفسار کیا آپ سے کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں" وہ سنجیدگی سے بولا سیرت نے آنکھیں گھمائی تھی

"نہیں کرتی"  اسکے صاف جواب پر وہ پھر مسکرایا تھا اور اسکے پیچھے سٹیپ لیتے ہوئے اسکی آنکھوں پر بلیک ربن باندھا تھا وہ بوکھلاتے ہوئے اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ گئی تھی وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اسکی کمر سے لگا چکا تھا

"اچھی بچی کی طرح میرے ساتھ چلیں اور اگر آپ نے اوور سٹیپ لیا آپ سچ میں گر جائیں گی نیچے " وہ اسے گائیڈ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بولا سیرت کا دل دھک دھک کر رہا تھا

"مم۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے " وہ سٹپٹاتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ چکی تھی حدید نے سنجیدگی سے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا ناجانے کیا ہوا تھا اسے وہ سپاٹ نظروں سے سے دیکھتے ہوئے اسے لیکر آگے چل رہا تھا

"پپ۔۔پلیز یہ ہٹائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے " وہ التجائیہ لہجے میں بولی وہ اسے ایک جگہ روک کر اسکی آنکھوں سے ربن ہٹا چکا تھا سیرت کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی اسنے مسکراتے ہوئے ٹیرس کا وہ منظر دیکھا تھا بہت نفاست سے اس حصے کو سجایا گیا تھا گلاب کے پھولوں کی مہک نے انکا استقبال کیا تھا فرش پر سرخ قالین بچھائی گئی تھی جس کے بیچ و بیچ ایک ٹیبل کو کینڈلز اور گلاب کی پتیوں سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ٹیبل کے آس پاس سفید پردے ہوا کے ہلکے زور پر ہلکا ہلکا رقص کر رہے تھے وہ رشک بھری نظروں سے سب دیکھتی ہوئی آگے بڑھی تھی اور وہ اسے دیکھتا رہ گیا شال اسکے گولڈن بالوں سے ہوا کی وجہ سے سرک گئی تھی اسکے گولڈن بال ہوا میں لہراتے ہوئے اسکے چہرے پر آئے تھے جنہیں وہ لاپرواہی سے کان کے پیچھے اڑیستی ہوئی ڈیکوریشن میں محو ہوئی تھی

"اٹس امیزنگ " وہ اسکی طرف پلٹتی بولی وہ ہلکی مسکان اسکی جانب اچھالتا ہوا اسکے لئے چیئر کو پیچھے کر چکا تھا وہ چیئر پر بیٹھی تھی وہ اسکے قریب چیئر کھینچتا ہوا بیٹھا تھا

"اتنا سب کیوں کیا آپ نے" سیرت نے اسے مخاطب کیا 

"کیا لگتا ہے آپکو"

 وہ الٹا سوال داغ چکا تھا اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سیرت کے گالوں پر سرخی پھیلی تھی 

"مجھے تو لگا تھا آپ مجھے کڈنیپ کر لیں گے" وہ اپنی ہی کہی بات پر  معصومیت سے مسکرائی تھی

"ارادہ تو کچھ یہی تھا مس سیرت لیکن میں نے ارادہ بدل لیا" وہ اسکے سامنے مینیو بڑھاتا ہوا بولا سیرت نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے مینیو لیا تھا

"مسٹر حدید رضا کیا آپ پوائنٹ کی طرف آئیں گے اتنا سب کس لئے بات تو صرف ڈنر تک کی ہوئی تھی ناں" سیرت نے اسے گہری کشیدگی میں دیکھ کر پوچھا

"مس سیرت رضوی کیا آپ جانتی ہیں میں کون ہوں کیا آپ دریافت نہیں کرنا چاہیں گی " وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔ سیرت نے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا اسکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک کیساتھ گہری کشمکش تھی شاید جسے وہ چھپانے کی تگ و دو بھی کر چکا تھا مگر اب تک وہ سیرت سے چھپ نہیں پائی تھی

"ہمارے کاروباری دشمن وہاب اعجاز عسکری کے اکلوتے فرزند ۔۔۔ وہ شال سے پسٹل نکالتے ہوئے اسکی پیشانی پر رکھتی بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکی حرکت پر"

"امپریسیو مس سیرت آپکو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کر دی میں نے آپ ویسی نہیں جیسی آپ نظر آتی ہیں" وہ اسے مخمور نگاہوں سے دیکھتا گویا ہوا سیرت کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی تھی

"کیا چاہتے تھے مجھ سے ابھی اسی وقت بولو ورنہ ساری گولیاں بھیجے میں ڈال دوں گی تم کیا سوچتے ہو تم مجھے یہاں بہلا پھسلا کر لائے ہو نہیں بالکل بھی نہیں تم یہاں پھنس چکے ہو اور تم نے اگر بغیر ایکسپلینیشن کے بھاگنے کی کوشش کی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے " وہ ٹریگر پر انگلی رکھتی ذو معنی لہجے میں بولی اسکے لبوں کی مسکان گہری ہوئی

"رائٹ مجھے ذاویان جیسے شخص کی بہن سے یہی ایکسپیکٹ کرنا چاہیے تھا لیکن میں یہاں خاندانی دشمنی کو لیکر نہیں آیا مس سیرت یہ ایک نارمل ڈیل ہے " وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا سیرت نے اسکے نارمل تاثرات دیکھ کر پسٹل کو نیچے کیا تھا وہ ایک جست میں اٹھ کر اسی کے ہاتھ کو تھامتا پسٹل اسکی گردن پر رکھ چکا تھا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا

"ان فیکٹ اگر میں کسی کی جان لینا چاہوں تو ابھی اسی وقت لے سکتا ہوں اور یہ نازک سی جان سوائے مچلنے کے اور کچھ نہیں کر پائے گی لیکن میں یہاں کسی کو مارنے نہیں آیا مس سیرت اس لئے اپنی حدود میں رہیں حدید رضا عسکری کو پسٹل کے زور پر آپ دھمکانے کی غلطی آج ذندگی میں پہلی اور آخری بار کر رہی ہیں اگر دوبارہ آپ نے بھول کر بھی ایسی حرکت کی تو جان لیتے ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گا" وہ اسکے کان پر جھکتا جھلسا دینے والے لہجے میں بولا سیرت نے لب بھینچے تھے 

"اور اب گڈ گرل کی طرح مجھ سے معافی مانگیں تب ہی میں یہ کانٹریکٹ سائن کروں گا اگر آپکے ڈیڈ کو یہ پتا چلا کہ آپ نے ایسی حرکت کی ہے تو سوچیں کیا ہو گا " وہ پسٹل سے اسکے گلابی گال پر دباؤ ڈالتے ہوئے بولا سیرت نے سر جھٹکا تھا 

"تمھیں میں زندہ نہیں چھوڑوں گی گھٹیا انسان یاد رکھنا" وہ دانت پیستے ہوئے بولی وہ مبہم سا مسکرایا

"میرے کان آپکے سنہری معزرت خواہ الفاظ سننے کے لئے ترس رہے ہیں مس سیرت" وہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے اسے تپا کر بولا

"سوری" 

وہ مغرور سے انداز میں سر جھٹکتی بولی وہ مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے پسٹل لیکر اپنی پاکٹ میں رکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا

"مس سیرت ڈنر کر لیں" 

"دل تو کر رہا ہے تمھیں ہی بھون کر کھا لوں " اسے نوکیلی نظروں سے دیکھتی وہ بڑبڑائی تھی اور اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی جسے اسنے برابر سن کر مسکراہٹ ضبط کی تھی 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی اسکے چہرے پر پڑی تھی وہ ٹھنڈے فرش سے سر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھ گئی اسنے گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا سات بج رہے تھے آج اسکی نماز بھی رہ گئی تھی آنکھیں مسلتے ہوئے وہ اٹھی اور اپنے حلیے پر غور کیا 

"یہ لو چینج کر لو ناشتہ میں نے بنا دیا ہے تمھارا سامان کل ہی لے آئی تھی میں گھر سے " ریحم نے بیڈ پر اسکے کپڑے رکھے اور ساتھ ہی اسکا بیگ اور اسکی چادر بھی آئیذل نے بےتاثر نظروں سے پہلے اپنے سامان کو دیکھا اور پھر ریحم کو

"مجھے ان سب کی ضرورت نہیں ریحم آپ یہ سب باہر پھینک دو مجھے یونیورسٹی نہیں جانا اب " وہ بیزار سے لہجے میں کہتی آنسوں پی گئی ریحم جاتے ہوئے رکی تھی اور اسکے زرد رنگ چہرے کو دیکھا تھا

"آئیذل چاچو نے کہا ہے یونیورسٹی جاؤ دادی سے انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ تمھاری پڑھائی نہیں رکے گی پلیز اپنے لئے نا صحیح تو دادی کے لئے چلی جاؤ" ریحم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا آئیذل نے اسے خفیف نظروں سے دیکھا تھا 

" یہ سب مجھ پر ترس کھا کر کر رہے ہیں اور تم بھی مجھ پر ترس کھا رہی ہو " آئیذل کی بات نے ریحم کے دل پر ٹھیس لگائی تھی

"نہیں آئیذل ایسا نہیں ہے ہمیں تم سے ہمدردی ہے کیونکہ تم ہماری اپنی ہو ترس کھانے والی بات کیوں کر رہی ہو تم" ریحم نے ہمدردی سے کہا آئیذل نے بےجان نظروں سے اسے دیکھا مگر بولی کچھ نہیں تھی 

"تم تیار ہو جاؤ میں ناشتہ لگاتی ہوں " وہ اسے ہمدرد نظروں سے دیکھ کر باہر نکل گئی تھی آئیذل نے اپنی کتابوں کو دیکھا تھا جسے پچھلے کچھ دنوں سے اسنے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا وہ نڈھال سے انداز میں کپڑے لیکر واش روم کی جانب بڑھ گئی تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"پروفیسر میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے معلوم نہیں تھا اندر کوئی ہو گا میں نے اس لئے لائبریری لاک کی تھی" رباب نے سر جھکاتے ہوئے کہا تھا 

"آپ اسکے بعد سے ایبسینٹ تھی اسکی کیا وجہ تھی" زاویان نے متانت زدہ لہجے میں کہا رباب نے خشک حلق تر کیا تھا 

"مجھے کچھ دنوں سے فیور تھا اس لئے میں نے لیکچرز نہیں لئے اور لائبریری کے ٹاسک بھی نہیں دیکھے"  وہ اچھے سے جانتا تھا وہ جھوٹ بول رہی تھی 

"مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے " وہ کرخت لہجے میں کہتا ہوا اسے کانپنے پر مجبور کر گیا

"پ۔۔۔پروفیسر میں نے جان بوجھ کر لائبریری کو لاک کیا تھ۔۔ا میں نےآئیذل کو اندر کام کرتے ہوئے دیکھا تھا آئی ڈونٹ لائک ہر اس لئے میں نے اسے لاک کر دیا " وہ سہمی ہوئی آواز میں بولتی نظریں جھکا گئی ذاویان نے مٹھیاں بھینچی تھی اور ساتھ ہی اسے قہر آلود نظروں سے دیکھا 

"You are being suspended from the university for one month "

رباب نے چونک کر اسے دیکھا تھا اتنی سے غلطی کے لئے اسے ایک مہینے کے لئے یونیورسٹی سے نکالا جا رہا تھا 

"اور اگر اس ایک مہینے میں آپ مجھے یہاں نظر آئی"

" I will suspend you permanently"

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسے باہر جانے کا اشارہ کر چکا تھا

"پروفیسر پلیز ڈونٹ ڈس دس میں نے صرف اسے لاک کیا تھا آئی ڈڈ نتھنگ رانگ پلیز پروفیسر" وہ التجائیہ لہجے میں کہتی اسکے ڈیسک کی طرف بڑھتی بولی

"Leave" 

اسکے دو ٹوک لہجے پر وہ خوفزدہ نظروں سے اسکے طیش سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر وہ خوفزدہ ہو کر فوراً اسکے آفس سے باہر نکلی تھی آئیذل نے اسے عام سی نظر سے دیکھا جو ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسے سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے وہاں سے گزر گئی تھی

آئیذل نے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے آفس کا دروازہ کھولا تھا وہ پیپرز چیک کرنے میں اتنا منہمک تھا کہ اسنے اندر آنے والے پر غور تک ناں کیا

"اسلام و علیکم " 

جانی پہچانی نسوانی آواز سنتا وہ پیپرز سے سر اٹھا چکا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جسکی شہد رنگ آنکھوں میں ایک چمک مترشح ہوئی تھی اسے دیکھ کر 

"وعلیکم السلام" متنفر لہجہ جیسے وہ اس سے بیزار تھا بغیر دوسری نظر اسے دیکھنے کی غلطی کئے وہ دوبارہ پیپرز کی طرف متوجہ ہوا تھا

"پروفیسر ہمیں یہ جاب نہیں کرنی"  وہ ہمت اکھٹی کرتی ہوئی کچھ سیکنڈ بعد بولی جبکہ اسکی بات نے اسکے سکونت پذیر ذہن کو شل کیا تھا وہ کرخت نظروں سے اسے دیکھ چکا تھا

"I'm sorry Professor"

وہ نظریں چرا کر کہتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی تھی

"ویٹ مس آئیزل"

اسکے اٹھتے قدموں کو قفل لگا تھا وہ چیئر کو پیچھے دھکیل کر اٹھا تھا آئیذل نے اسے بےتاثر نظروں سے دیکھا تھا جو اس سے مناسب فاصلے پر رکا تھا 

"آپ ایسا نہیں کر سکتی " وہ تحمل سے بولا آئیذل نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"یہ منتھ آپکو کمپلیٹ کرنا ہو گا آپ بیچ میں چھوڑ کر نہیں جا سکتی " وہ بےتکے بہانے بناتا بولا آئیذل نے لب بھینچ کر اسکی آنکھوں میں تشویش دیکھی تھی 

"میری جگہ کوئی اور لڑکی یہ جاب کر لے گی پروفیسر ویسے بھی بہت سی لڑکیوں نے اپلائے کیا تھا ناجانے مجھے کیسے مل گئی یہ جاب امید ہے وہ دوبارہ اپلائے ضرور کریں گی" وہ عام سے لہجے میں کہتی ہوئی پلٹی تھی جب اسنے ضبط کرتے ہوئے اسکے سامنے دیوار پر ہاتھ رکھ کر اسکا راستہ روکا تھا آئیذل کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا 

"میری جگہ کوئی اور لڑکی یہ جاب کر لے گی پروفیسر ویسے بھی بہت سی لڑکیوں نے اپلائے کیا تھا ناجانے مجھے کیسے مل گئی یہ جاب امید ہے وہ دوبارہ اپلائے ضرور کریں گی" وہ عام سے لہجے میں کہتی ہوئی پلٹی تھی جب اسنے ضبط کرتے ہوئے اسکے سامنے دیوار پر ہاتھ رکھ کر اسکا راستہ روکا تھا آئیذل کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا

"آپ نہیں جا سکتی میں اپنی بات دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا" وہ کٹھور لہجے میں بولا تھا اپنی جگہ پر کھڑی وہ سرد نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی

"میں یونیورسٹی چھوڑ رہی ہوں " 

اسکے یکلخت جواب پر وہ کچھ پل کو ساکت و جامد اسے سپاٹ نظروں سے دیکھتا رہا 

"وجہ" 

آئیذل نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسے اس سوال کی امید ہرگز نہیں تھی وہ لاجواب ہو کر لب بھینچ گئی

"جو کام آپ نے پچھلے دنوں میں نہیں کئے مجھے آج وہ کمپلیٹ چاہیے " وہ ہاتھ ہٹاتے ہوئے پیچھے ہٹتا سنجیدگی سے بولا آئیذل نے مٹھیاں بھینچی تھی

"جب میں جاب کرنا ہی نہیں چاہتی تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے فورس کرنے والے" 

اسکے بات کرنے انداز پر وہ ساکت ہوا تھا

"آپ سوچتی ہیں آپ کا طریقہ درست ہے جس سے آپ اپنے ٹیچر کو مخاطب کر رہی ہیں" وہ اسکی جانب مڑتا سنجیدگی سے بولا

"آپ کو لگتا ہے آپکو حق ہے میرے پرسنل فیصلے لینے کا میری مرضی میں جو کروں جب کروں جب ناں کروں کون ہوتے ہیں آپ" وہ پیشانی پر بل ڈالے بدتمیزی سے گویا ہوئی ذاویان نے سرد آہ بھرتے ہوئے ضبط کیا تھا ورنہ اتنی جرات تو اشفاق صاحب کی بھی نہیں تھی کہ وہ اس سے اس لہجے میں بات کرتے ۔

"آپکی طبعیت ٹھیک ہے مس آئیذل؟" وہ اسکی جانب قدم بڑھاتا سپاٹ لہجے میں بولا 

"میں یہ جاب کبھی نہیں کروں گی چاہے آپ جو بھی کر لیں جو بھی " وہ بےتہزیبی سے کہہ کر آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی وہ مٹھی بھیجچتا دیوار پر مار چکا تھا اسنے ضبط کی خاطر آنکھیں بند کی تھی اسکا چہرا سرخ پڑا تھا مگر اسنے کنٹرول کیا تھا

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

روتی ہوئی وہ تیزی سے اس پرانی بلڈنگ کی جانب بڑھ رہی تھی ٹھنڈی ہوا کسی تیز دھار تلوار کی طرح اس کے کمزور وجود سے ٹکرا رہی تھی وہ بیگ سیڑھیوں پر ڈالتی گھنٹوں میں سر دیتے ہوئے رونے لگی تھی

"آئی ایم سوری پروفیسر " وہ آنکھوں سے آنسوں ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے سسکتے ہوئے بولی تھی

آفس کے دروازے پر ناک ہوا تھا وہ آنکھیں وا کرتے ہوئے خود کو کمپوز کر کے "کم ان" کہہ کر کتابوں کی طرف متوجہ ہوا تھا 

"اسلام و علیکم پروفیسر کیا آئیذل یہاں آئی تھی" حورم نے اندر آتے ہوئے تہذیب سے پوچھا اسکا نام سن کر اسنے سر اٹھایا تھا 

"دراصل وہ میری فرینڈ ہے کچھ دیر پہلے لیکچر ہال میں نظر آئی تھی لیکن اسکے بعد سے اسنے کوئی لیکچر نہیں لیا مجھے اس سے تعزیت کرنی تھی انکی گرینڈ مدر کی ریسینٹلی ڈیتھ ہوئی ہے مجھے لگا یہاں ہو گی  آپ نے کوئی ٹاسک دیا ہو گا اسے آئی ایم سوری اگر میں نے ڈسٹرب کیا آپکو"  

"رکیں"

"جی " حورم چونکتے ہوئے رکی تھی

"کیا ہوا انکی گرینڈ مدر کو " 

"جی وہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا کچھ دن پہلے " حورم نے اچھنبے سے بتایا اسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیوں پوچھ رہا تھا اسنے سنجیدگی سے سر ہلایا تھا اور دوبارہ پیپرز کی طرف متوجہ ہو گیا تھا حورم آفس سے باہر نکل گئی تھی

"جب میں جاب کرنا ہی نہیں چاہتی تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے فورس کرنے والے" 

"آپ کو لگتا ہے آپکو حق ہے میرے پرسنل فیصلے لینے کا میری مرضی میں جو کروں جب کروں جب ناں کروں کون ہوتے ہیں آپ"

"میں یہ جاب کبھی نہیں کروں گی چاہے آپ جو بھی کر ڈالیں جو بھی "

اسکے کہے گئے الفاظ اسکے اردگرد گردش کر رہے تھے  کچھ دیر پہلے کا سارا غصہ زائل ہو چکا تھا سرد آہ بھر کر اسنے فون اٹھا کر سیرت کا نمبر ملایا تھا مگر اس طرف سے بھی اسے مایوسی ہوئی کیونکہ وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی فون کو ٹیبل پر سختی سے رکھتے ہوئے اسنے دو انگلیوں سے پیشانی کو مسلا تھا 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

لمبے سانس لیتی ہوئی وہ پارک کے سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھی پانی کی بوتل کو ہونٹوں سے لگا کر پانی پینے لگی جب اسکی نظر سامنے سے گزرتے حدید پر پڑی تھی جو بلیک ہاف سلیوز بلیٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس کافی اٹریکٹیو لگا مسلسل رننگ کی وجہ سے اسکی رنگت سرخی مائل تھی 

"تمھیں تو نہیں چھوڑوں گی میں ہڈی عرف پسلی " وہ جلدی سے بوتل کا ڈھکن بند کر کے اٹھی اور تیز قدموں سے جاگنگ کرتے ہوئے اسکے پیچھے چل دوڑی تھی

"اور میٹنگ میں ڈیلے نہیں ہونا چاہیے مجھے سب ٹائم پر چاہیے انڈرسٹینڈ" وہ کان میں ائیر پلگ لگائے سنجیدگی سے اپنے سیکریٹری کو آرڈر دے رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا

"ہیلووو کیسے ہو " وہ نچلا لب دانت تلے دبائے مسکراہٹ ضبط کرتی اسکے سامنے آئی تھی حدید کے لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ پھیلی

"آپ یہاں مس سیرت " وہ ایئر پلگ نکالتے ہوئے پاکٹ میں رکھتا بولا سیرت نے بھاگتے ہوئے لمبا سانس لیا تھا

"افف تم دھیرے نہیں بھاگ سکتے کیا میں پہلے ہی تین میل دوڑ چکی ہوں جان نکل رہی ہے میری" وہ رک کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے  پھولی سانسوں کے درمیان بولی وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے رکا تھا اسکے پاس ۔

"ویسے تم زرا بھی ہینڈسم نہیں ہو  " سیرت نے اسکی بےعزتی کرنی چاہی مگر وہ ڈیٹھ تو مسکرا دیا تھا

"مجھے پانی چاہیے تم لا دو گے مجھے" وہ مسکراتے ہوئے شیریں لہجے میں بولی حدید نے سنجیدگی سے ایک آئی برو اٹھایا تھا 

"ہاں صرف پانی کا کہا ہے یار اچھا رہنے دو تم سے نہیں ہو گا " سیرت نے خفا لہجے میں کہا 

"میں لیکر آتا ہوں" وہ مسکراہٹ دباتا ہوا اپنے سپورٹس بیگ کی طرف بڑھ گیا تھا سیرت نے شریر نظروں سے آس پاس دیکھتے ہوئے ٹانگ کو موڑا تھا اور نیچے گری تھی وہ جو پانی کی بوتل اٹھائے اسکی طرف بڑھ رہا تھا اسے یوں نیچے گرا دیکھ کر رکا تھا

"ہائے میرا پاؤں ٹوٹ گیا اففف دیکھ کیا رہے ہو ادھر آؤ اٹھاؤ مجھے" اسے تیکھی نظروں سے دیکھتی وہ تنک کر بولی وہ اسے سپاٹ نظروں سے دیکھتا ہوا اسکے پاس رکا تھا

"ارے ایسے کیوں کھڑے ہو اٹھاؤ ناں مجھے " اسے گھورتی ہوئی وہ ہاتھ اوپر کرتے ہوئے بولی تھی وہ لب بھینچتا اسے سہارا دیکر اسکے پیروں پر کھڑا کر چکا تھا جو ٹھہرتے ہوئے بھی لڑکھڑا رہی تھی

"ہائے نہیں ٹھہرا جا رہا میرے سے" اسکے کندھے کو پکڑتی وہ معصومیت سے بولی حدید نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"میری کار پاس میں ہی ہو گی مجھے اٹھا کر وہاں چھوڑ آؤ ناں " اسکے کندھے کو پکڑتی وہ معصوم شکل بناتی بولی اسے کٹیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اسے اٹھا چکا تھا آس پاس لوگوں نے انہیں حیرت و تعجب سے دیکھا تھا وہ نچلا ہونٹ دباتی اسے دیکھ گئی تھی جو اسے سنجیدگی سے اٹھائے چل رہا تھا

"کار تھوڑی دور ہو گی حدید رضا عسکری آپ چل لیں گے ناں" وہ منہ بسور کر بولی تھی حدید کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی

"کوئی مسئلہ نہیں مس سیرت رضوی" 

"اوہ تم تو بہت اچھے ہو بس دو تین میل دور ہو گی " سیرت نے شرارت سے کہا وہ مسکرا گیا تھا

"تم تھک تو نہیں گئے ناں" سیرت نے سر اٹھاتے ہوئے تاسف سے پوچھا

"نہیں مس سیرت" 

"اوہ پھر ٹھیک ہے " وہ منہ مروڑتی ہوئی بولی 

"مجھے دھمکایا تھا ناں تم نے اب اٹھا کے پھرتے رہو تمھارے تو بازو ٹوٹ جائیں گے آج لیکن میری گاڑی نہیں ملے گی" سیرت نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے سوچا تھا اور مسکرائی تھی

"آپکی گاڑی یہاں نہیں ہے مس سیرت" وہ اسکے بتائے ہوئے راستے پر رکتا ہوا بولا جس پر سیرت نے ایسے آنکھیں پھیلائی جیسے وہ حیران ہوئی تھی

"ہائے میں گاڑی لیکر بھاگ گیا کوئی " وہ واویلا مچانے کو تیار تھی

"مس سیرت اگر آپکا واقعی اتنا دل کر رہا تھا تو آپ مجھے صاف صاف کہہ سکتی تھی میں آپکو ایسے ہی اٹھا کر یہاں تک چھوڑ دیتا جھوٹ بولنا گناہ ہے آپکو نہیں پتا" وہ اسے تپا دینے والے لہجے میں خفیف سا مسکراتے بولا سیرت کی آنکھیں چار ہوئیں تھی

"تم تم سوچتے ہو میں نے بہانہ بنایا میرا پیر ٹوئسٹ ہو گیا تھا یو یو۔۔۔ یو فول تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو " سیرت نے اسے دیکھتے ہوئے صدمے سے کہا 

"الزام کس نے لگایا مس سیرت رضوی اور میں نے کب کہا آپ بہانہ بنا رہی تھی میں نے تو صرف اتنا کہا کہ آپکا واقعی اتنا دل کر رہا تھا تو آپ مجھے صاف صاف کہہ سکتی تھی میں آپکو ایسے ہی اٹھا کر یہاں تک چھوڑ دیتا " وہ شاطرانہ مسکراہٹ کیساتھ بولا سیرت کا پارہ چڑھا تھا وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ گئی تھی وہ تو سوچ رہی تھی یہاں تک اسے اٹھا کرلانے میں اسکا سانس نسیں پھول جائیں گی مگر وہ تو مطمئن سا پرسکون کھڑا تھا 

"مجھے بات ہی نہیں کرنی تم سے فضول انسان" وہ تنک کر کہتی ہوئی اپنا فون پاکٹ سے نکال کر کال لاگ چیک کرنے لگی اور آگے بڑھ گئی ذاویان کی دس مس کالز دیکھ کر اسکی آنکھیں پھیلی وہ سپاٹ خفیف نظروں سے اسے اب تک دیکھ رہا تھا 

"سیٹی بجنے کی آواز " پر سیرت رکی تھی اسنے ابلتی نظروں سے پاس کھڑے لڑکے کو دیکھا تھا جو تقریباً سترہ اٹھارہ سال کا تھا جس نے اسے دیکھ کر سیٹی بجائی تھی کچھ فاصلے پر کھڑے حدید کے مٹھی بھینچنے پر اسکی فسٹ کی نسیں ابھری تھی وہ مٹھی بھینچے آگے بڑھا تھا مگر وہ چونکا تھا سیرت نے ایک زوردار دار فسٹ اس لڑکے کے منہ پر ماری تھی جو ناک کو پکڑے ہاتھ پر لگا خون دیکھ کر چونکا تھا

"بیوقوف بڑی ہوں میں تم سے  کچھ تو شرم کی ہوتی خیر اب بجاؤ سیٹی " اسے گردن سے پکڑتی وہ خونخوار لہجے میں بولی لڑکا جو وہیں شل ہوا تھا اسنے غلط لڑکی پر سیٹی بجا دی تھی

"بجاؤ سیٹی ورنہ ایک اور رکھ کر دوں گی بجاؤ چلو" اسکی گردن کو دباتی وہ طنزیہ لہجے میں بولی حدید نے چونک کر اسے دیکھا تھا جس نے مری ہوئی آواز میں سیٹی بجانے کی کوشش کی تھی مگر بجی نہیں تھی خوف سے۔۔

"چل پتر آج کے بعد تجھ سے سیٹی نہیں بجے گی گاؤں پے جا کے بجائیو اب سیٹی " اسکے کندھے سے دھکا دیتی وہ بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتی ہوئی فون کان سے لگائے آگے بڑھ گئی تھی حدید نے طنز سے سر جھٹکا تھا وہ لڑکی واقعی کوئی عام لڑکی نہیں تھی 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"سیرت کہاں ہو اور کب سے میں کالز کر رہا ہوں " ذاویان نے سپاٹ لہجے میں پوچھا 

"اوہ بھائی میں جاگنگ کرنے آئی تھی بس جا رہی ہوں واپس افف اور گارڈز کا مت پوچھئے گا وہ میرے ساتھ ہی گھوم رہے ہیں ہمیشہ کی طرح" سیرت نے اکتا کر پہلے ہی جواب دیا ذاویان نے لمبا سانس خارج کیا تھا

"آج کے بعد لیٹ نائٹ تک آپ کہیں سٹے نہیں کریں گی چاہے آپکی کتنی ہی اچھی دوست کیوں ناں ہو" ذاویان کی بات پر سیرت ٹھٹھکی تھی 

"کیا کیوں بھائی ایسے تو مت کریں " وہ منمناتی ہوئی اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھی تھی اور گاڑی سٹارٹ کی تھی اسکے پیچھے گارڈز کی دو گاڑیاں بھی سٹارٹ ہوئی تھی

"قسم سے ان گارڈز نے میرا سر کھپا دیا ہے چوبیس گھنٹے میں جہاں جاتی ہوں پیچھے دوڑ رہے ہیں آپ نے اتنی سیکیورٹی خود کو بھی نہیں دی جتنی مجھے دیکر رکھی ہے آئی کین پروٹیکٹ مائی سیلف بھائی" وہ گاڑی چلاتی ہوئی خفا لہجے میں بولی 

"میٹنگ کیسی گئی تھی آپکی" اسکے سوال پر وہ لب بھینچ گئی تھی

"ہاں بھائی میٹنگ ٹھیک ٹھاک گئی تھی ڈیل ہو چکی ہے عسکری کارپوریشن کیساتھ"

ذاویان ساکت ہوا تھا سیرت نے زبان کو دانت تلے دبایا تھا 

"اففف بھائی کچا کھا جائیں گے مجھے یاررر" وہ سر جھٹکتی سوچ رہی تھی 

"بھائی وہ انکے اسسٹنٹ فارس احمد آئے تھے انہوں نے ہی ڈیل کی تھی" وہ سوچتے ہوئے جلدی سے بولی ذاویان کی پیشانی کے کارنرز کی نیلی نسیں ابھر آئی تھی وہ مٹھی بھینچے اشفاق احمد کو آج زندہ نگلنے کی تیاری کر رہا تھا

"بھائی آپ خاموش کیوں ہو گئے" سیرت نے اچھنبے سے پوچھا 

"کچھ نہیں آپ سیدھا گھر جائیں اور جب تک میں نہیں کہتا آفس کا کوئی ٹرم آپ ہینڈل نہیں کریں گی " سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اسنے فون بند کیا تھا سیرت نے لمبا سانس لیکر فون کان سے ہٹایا تھا

"افف یقیناً آج میرے فون کی بھی تلاشی ہو گی جیسے بھائی پہلے لیتے ہیں کریپ یار میں نے اسکے نمبر پر کیا لکھا تھا ہاں یہ رہا۔۔۔ اففف ۔۔ وہ اسکے نمبر پر اسکا نام دیکھتی چونکی تھی گاڑی کی اسپیڈ کم کر کے اسنے اسکے نام کی جگہ ہادیہ لکھا تھا یہ کرتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی 

" حدید رضا عسکری بنا میری پیاری ہادیہ باجی" وہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے شرارت سے بولی تھی

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بہت ہمت جٹا کر وہ اسکے آفس کے باہر کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی اس سے معافی مانگنے کی غرض سے وہ یہاں تک آئی تھی مگر دل تھا جو کانوں میں دھڑک رہا تھا خوف سے اسے اپنی ہی دھڑکنیں سنائی پڑ رہی تھی وہ سرد آہ بھر کر دروازے پر ناک کر چکی تھی "کم ان"  بھاری گمبھیر آواز جس میں بیزاریت تھی وہ پہلے ہی سہمی ہوئی تھی اسکی آواز پر تو اسکی روح ہی پرواز کر چکی تھی کانپتے ہوئے ہاتھ سے دروازے کے ہینڈل کو موڑ کے وہ اندر داخل ہوئی تھی اسے اندر داخل ہوتا دیکھ کر اسنے ایک سپاٹ سی نظر سے اسے دیکھا تھا اور دوبارہ فائلز کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہوا تھا

"آئی ایم سوری پروفیسر" وہ بجھی ہوئی آواز میں نظریں جھکاتے بولی فائل کو بند کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جس کی گھنیری پلکیں لرز رہی تھی اور لب تھرتھرا رہے تھے 

"آپ نے ٹھیک کہا مس آئیذل آپ جب چاہیں جا سکتی ہیں میں کیوں کر روک سکتا ہوں آپکو" وہ درشت نظروں سے اس کانپتی ہوئی لڑکی کو دیکھتا ہوا گویا ہوا اسکے سخت لہجے پر آئیذل کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے اسنے لبوں کو بھینچ کر آنسوں پیئے تھے 

"ان فیکٹ آپ ابھی اسی وقت چلی جائیں" وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا آئیذل کا دل بیٹھتا چلا گیا اسکی آنکھوں سے آنسوں باڑ توڑ کر اسکی ہلکے گلابی گالوں پر بہتے چلے گئے آنکھوں میں وہ جلن دوبارہ محسوس ہونے لگی جو پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل رونے کے باعث اسے ہو رہی تھی وہ جو کچھ مزید کہنے کا سوچ رہا تھا اسے یوں روتے دیکھ کر خاموش ہوا تھا وہ کانپ بھی رہی تھی اور ساتھ ہی اب آفس میں اسکی سسکیوں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی

"مجھے اس سے تعزیت کرنی تھی انکی گرینڈ مدر کی ریسینٹلی ڈیتھ ہوئی ہے مجھے لگا یہاں ہو گی  آپ نے کوئی ٹاسک دیا ہو گا اسے آئی ایم سوری اگر میں نے ڈسٹرب کیا آپکو"  

"رکیں"

"جی "

"کیا ہوا انکی گرینڈ مدر کو " 

"جی وہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا کچھ دن پہلے "

کچھ دیر پہلے کی گئی باتیں اسکے ذہن میں آئی تھی اب وہ اپنے ہی کہے الفاظ واپس لینا چاہتا تھا مگر ایسا ناممکن تھا وہ اسے اشک بار آنکھوں سے دیکھتے ہوئے جانے کے لئے مڑی تھی

"مس آئیزل رکیں"

وہ بغیر اسکی بات سنے تیزی سے بس آفس سے نکل جانا چاہتی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا چیئر کو پیچھے دھکیل کر ٹیبل پر  سے ہاتھ ہٹاتا اٹھا تھا اس سے پہلے وہ دروازے کا ہینڈل پکڑ کر دروازہ کھولتی وہ اسکا ہاتھ نرمی سے پکڑ چکا تھا آئیذل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھی جب اسکے گرم ہاتھ کو اپنی ٹھنڈی کلائی پر محسوس کیا تھا

"آئی ایم سوری مس آئیزل آئی تھنک مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا " اسکے ہاتھ کو چھوڑتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا آئیذل کی اٹکی دھڑکنیں بحال ہوئی تھی اسنے تھرتھراتی نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر اسکے معزرت کرنے پر تمام غصے اور آنسوں کا ذخیرہ جو اسکے حلق میں اٹکا ہوا تھا آنسوں کے سیلاب کی صورت میں اسکی آنکھوں میں جمع ہوا تھا ذاویان نے متحمل نظروں سے اسکی بنفشی آنکھوں میں آنسوں کے بادلوں کو جمع ہوتے دیکھا تھا جو کسی گھٹا کی طرح ان بنفشی نین کٹوروں میں عیاں ہو رہے تھے 

"سب ہمیں ہرٹ کرتے ہیں آپ نے بھی کیا تو کونسی بڑی بات ہو گئی سب ہمیں تکلیف دیتے ہیں کیونکہ ہم اسی لائق ہیں" وہ  استخفاف لہجے میں کہتی ہوئی سختی سے ہاتھ کی پشت کو گال پر رگڑ کر آنسوں صاف کر چکی تھی ذاویان کے دل کو ناجانے کیا ہوا تھا اسے اپنا دل گہری کھائی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اس عام سی لڑکی کی آنکھوں نے ناجانے کیا گہرا طلسم کیا تھا اسکے دل پر ۔

"ہمیں۔۔ہمیں لگا تھا آپ باقی لوگوں جیسے نہیں ہیں ۔۔لیکن آپ بھی باقیوں جیسے ہیں " وہ ہچکی لیتے ہوئے افسردگی سے بولی تھی

وائٹ سلیو لیس شرٹ کے نیچے وائٹ ہی جینز اور ریڈ پینسل ہیل شوز پہنے وہ گاڑی سے اتری تھی یونیورسٹی کی کشادہ بلڈنگ دیکھ کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ ابھری آس پاس سے سٹوڈینٹس نے اسے گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ مسکراتے ہوئے بالوں کو کندھے پر درست کر کے اندر داخل ہوئی تھی 

"ذی آج تو تمھیں منا کر ہی جاؤں گی میں " وہ زیرِ لب بڑبڑاتی ہوئی چہرے پر گہری مسکان سجائے اسکے آفس کی طرف بڑھ رہی تھی 

"Forgive me for my words, I think I was harsh in my tone, but believe me, I didn't mean to hurt you.

(مجھے میرے لفظوں کے لئے معاف کر دیں میرا خیال ہے میں نے لہجے میں سختی برتی لیکن یقین مانیں میرا ارادہ آپکو تکلیف پہنچانے کا نہیں تھا)

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسکی نم آنکھوں میں دیکھتا بولا آئیذل نے سسکی لیتے ہوئے اسے دیکھا تھا 

"لیک۔۔لیکن آپ نے مجھے ڈانٹا" اسکے نرم لہجے پر وہ پھر سے آنسوں بہانے لگی تھی اسکا دل ہی ایسا تھا بیچاری غصے کو نکالنے کی جگہ خود ہی رو پڑتی تھی

"Ok, I will never address you in this tone again. Please stop crying. You look terrible crying like that"  

شائستگی سے کہتے ہوئے اسنے پاکٹ سے اپنا آف وائٹ رومال نکال کر بےاختیاری طور پر اسکے آنسوں صاف کئے تھے آئیذل منجمد ہوئی تھی بنفشی بھیگی آنکھوں نے اسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھا تھا آج ناجانے کیا ہو گیا تھا ذاویان حیدر کے دل کو وہ اسکی آنکھوں کے طلسم میں خود کو جکڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا

 آفس کا دروازہ کھلا تھا چاہت اپنی جگہ جم سی گئی تھی ان دونوں کو کچھ انچ کے فاصلے پر اتنا نزدیک دیکھ کر جبکہ آئیذل نے اسے عام سی نظر سے دیکھا تھا

ذاویان اسے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا کر اسکے ہاتھ میں رومال تھما کر پیچھے ہوا تھا چاہت نے ضبط کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا اور مٹھیاں بھینچ کر واپس پلٹی تھی وہ سنجیدگی سے آئیذل کو دیکھ کر چاہت کے پیچھے آفس سے واک آؤٹ کر گیا تھا آئیذل نے اسکے آف وائٹ رومال کو دیکھا تھا جس کے کونے میں "Z" کا نشان تھا وہ ہلکی سی مسکرائی تھی جب اسنے اسکے رومال سے پھوٹتی ذاویان کی  ہلکی مہک کو محسوس کیا

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"چاہت ویٹ آئی سیڈ رکو" وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی بغیر اسکے لگاتار پکارنے کی پرواہ کئے 

"چاہت رکو"

وہ آنسوں بہاتی ہوئی تیزی سے اپنی گاڑی کا گیٹ کھول چکی تھی جب ذاویان نے اسکی کلائی کو پکڑتے ہوئے اسکا رخ اپنی جان موڑا تھا وہ اشک بار آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی اپنی کلائی چھڑا گئی

"کون تھی وہ لڑکی کیا کر رہے تھے تم اسکے اتنا پاس" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی جھنجھلا کر بولی

"چاہت سٹاپ اٹ روڈ پر تماشا کرنے کی ضرورت نہیں ہے" 

"آج تمھیں جواب دینا ہو گا ذاویان حیدر رضوی ،،بولو کون تھی وہ کیا کر رہے تھے تم  اتنا پاس ہاں بولو جواب دو " چاہت نے اضطراری نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر استفسار کیا 

"وہ صرف میری سٹوڈینٹ ہے اور جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے شی واز جسٹ کرائنگ اینڈ"

"اچھا تو وہ رو رہی تھی اور تمھارا دل پگھل گیا اور تم اسکے آنسوں اپنے رومال سے صاف کر رہے تھے میں بیوی ہوں تمھاری تمھیں مجھ پر ترس آتا ہے ؟؟ کیا کبھی تم نے میرے آنسوں اس طرح صاف کرنے کی کوشش کی ہے ؟ کیا تم نے میرے لئے اتنی کیئر کی ہے کبھی بولو"  اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ کر وہ غصیلے لہجے میں بولی

ذاویان نے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے سر جھٹکا تھا

"enough Is Enough"

"بہت ہو گیا آج یا تو تم ابھی اسی وقت گھر چل کر ہمارے نکاح کے بارے میں سب کو بتاؤ گے یا پھر اسی ویک میں تم ہماری ویڈنگ پلان کر رہے ہو اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا میں  خود گھر جا کر سب کو سب سچ بتا دوں گی کہ تم نے مجھ سے نکاح کیا ہے سب سے چھپ کر اور میں تمھاری افیشیئلی وائف ہوں اور تم مجھے میرے کوئی حقوق نہیں دے رہے " چاہت نے لرزتے ہوئے اسے دیکھا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا اسکی نظر کچھ فاصلے پر توصیف کیساتھ بائیک پر بیٹھتی آئیذل پر پڑی تھی جس نے بائیک پر بیٹھتے ہوئے اسے ی

دیکھا تھا نظروں کا ایک بار پھر تکرار ہوا تھا ذاویان نے سنجیدگی سے رخ بدلا تھا آئیذل کی نظروں کو ایک عجب سی محرومی ہوئی تھی اسکی نظروں کے یوں گریزاں ہونے پر 

"یہ کیا ہو رہا ہے مجھے" وہ سر جھکاتی چادر کو پیشانی پر ٹھیک کرتی نظریں جھکائے سوچ رہی تھی ذاویان اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا بغیر اسے دوسری نظر دیکھے اسکا رخ گھر کی جانب تھا

اسنے سنجیدگی سے اپنی بند آنکھوں کو کھولا تھا جب ہوا کا خنک جھونکا اسے چھو کر گزرا تھا اسنے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا اور ہاتھ میں لئے ہوئے پھولوں کی پتیوں کو قبر پر ڈالا تھا اور آس پاس کی قبروں پر بھی ڈالا تھا

"ڈیڈ بہت اکیلا ہو گیا ہوں میں آپکے جانے کے بعد سے " وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا اپنے بابا کی قبر کو دیکھتا دھیمے لہجے میں بولا تھا 

"میری زندگی میں سب بےرنگ سا ہے وہ رونقیں وہ خوبصورت لمحات وہ سب کہاں چلے گئے ہیں ڈیڈ آپ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے میرا ذی سٹرونگ ہے میں نے ویسا بننے کی کوشش کی ڈیڈ لیکن اس دل کا کیا کروں جسے سکون نہیں مل رہا  جو مجھے مظبوط اور کٹھور نہیں بننے دیتا " وہ سپاٹ لہجے میں اپنی ہی شکایت اپنے بابا سے کر رہا تھا سکون کے لئے وہ اکثر یہاں آتا تھا آج بھی وہ کچھ پل سکون چاہتا تھا اس لئے یونیورسٹی سے سیدھا یہاں آیا تھا 

"سیرت میں جان بستی ہے میری ایک وہ ہی تو ہے میرے پاس آپکی نشانی لیکن وہ میری بات نہیں سنتی ڈیڈ وہ بہت ضد کرتی ہے لمظ کی طرح"  وہ شکایت کرتے ہوئے بہت دور نکل آیا تھا اور اس بات کا اندازہ اسے تب ہوا تھا جب اسکا نام اسکے لبوں پر آیا تھا اسکی شہد رنگ آنکھوں میں ایک طوفان اٹھا تھا

اسنے سنجیدگی سے لب بھینچے تھے اور پھر اٹھتا ہوا واپس اپنی کار کی جانب بڑھ گیا تھا

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پرس کو صوفے پر گراتے ہوئے وہ صوفے پر نڈھال سی ڈھے گئی تھی 

"اب کیا ہوا " کسی نے سنجیدگی سے پوچھا تھا

"بالاج میں بات نہیں کرنا چاہتی" وہ آنکھیں بند کئے بولی تھی اسنے کندھے اچکاتے ہوئے وسکی کا گلاس لبوں سے لگایا تھا

"مجھے بھی چاہیے " وہ آنکھیں کھولتی بولی اسنے دوسرے گلاس میں ڈال کر اسکی جانب بڑھایا تھا جسے وہ جازب نظروں سے دیکھتے ہوئے لبوں سے لگا چکی تھی

"پھر سے اسنے لفٹ نہیں کرائی ہو گی" وہ طنزیہ لہجے میں بولا تھا جبکہ اسکی بات اسے اندر تک کاٹتی چلی گئی

"بالاج حد میں رہو دوست ہو دوست بن کر رہو بکواس کرنے کی ضرورت نہیں" وہ درشتگی سے بولی تھی وہ کندھے اچکا گیا تھا

" اوہ چاہ مائی لوو کیا میں صرف دوست ہوں ؟ ہمارے ریلیشن شپ کو بھول گئی تم ؟!" وہ طنزیہ لہجے میں بولا تھا اسنے خالی گلاس کو غصے سے نیچے پھینکا تھا جو ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا 

"اوکے آئی انڈرسٹینڈ تمھیں اسوقت صدمہ لگا ہوا ہے اوپر سے تم نے پی لی ہے جسٹ ریلیکس بےبی" بالاج نے اسکے بال سہلاتے ہوئے کہا

"تمھیں پتا ہے وہ مجھے قریب نہیں آنے دیتا مجھے شدید غصہ آتا ہے بالاج" وہ دانت پیستے ہوئے تعصب زدہ لہجے میں بولی وہ وسکی پیتے ہوئے اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا

"پھر اسنے نکاح کیوں کیا تھا تم سے میری جان اتنی حسیں چیز سے دور بھاگ رہا ہے دیکھو بےوقوف ہی تو ہے وہ" وہ اسکی تحسین و ستائش کرتے ہوئے بولا تھا

"لیکن مجھے وہی چاہیے ہر صورت اور آج میں نے اسے دھمکی دی ہے کہ گھر بتا دے یا مجھ سے شادی کر لے" چاہت نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تھا

"ہو سکتا ہے ہمارے بارے میں جانتا ہو اور تمھاری بیماری کے بارے میں بھی اور اب تم سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہو" بالاج نے سوچتے ہوئے کہا

"تم میرے ایکس ہو اور یہ بات کبھی مت بھولنا تمھارے پاس صرف اس لئے آتی ہوں کیونکہ تم میری بات سنتے ہو ایک دوست کی طرح سمجھے اور خبردار جو تم نے میری کنڈیشن ایسے اوپن میں ڈسکس کرنے کی حماقت کی مجھے کوئی بیماری نہیں ہے سمجھے" چاہت نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے سختی سے کہا جس پر وہ ہنس پڑا تھا

"تمھارا ٹریٹمنٹ چل رہا ہے مائی لوو پچھلے کتنے سالوں سے چل رہا ہے؟! اور تم ایک دوست کے پاس آدھی آدھی رات کے وقت اپنے غم بانٹنے آتی ہو افف چاہ مائی سوئیٹ کپ کیک میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا تمھیں آخر تم چاہتی کیا ہو مجھ سے" 

"اپنی بکواس بند کرو شراب تمھارے دماغ میں گھس چکی ہے" اسے خشک نظروں سے دیکھتی ہوئی اپنا پرس اٹھا کر وہ کلب سے نکل گئی تھی وہ وسکی کے گھونٹ بھرتا ہنسا تھا

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آئیذل آؤ بیٹا بیٹھو ہمارے پاس" آصف صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے پاس چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا وہ سر پر دوپٹہ درست کرتی ہوئی انکے قریب بیٹھی تھی 

"طبیعت کیسی ہے " آصف صاحب نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا

" ہم ٹھیک ہیں ماموں آپ کیسے ہیں" وہ سر جھکاتی تہزیب سے بولی آصف صاحب مسکرائے تھے

"ہم بھی ٹھیک ہیں بیٹا یونیورسٹی میں سب کیسا چل رہا ہے " آصف صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا

"سب نارمل چل رہا ہے ماموں" وہ مختصر بولی آصف صاحب نے سر ہلایا تھا

"بیٹا یہ فون رکھ لو میں نے آج ہی منگوایا ہے یونیورسٹی میں کبھی دیر ہو جاتی ہے یا کوئی مسئلہ ہو تو فون کر لیا کرو میں خود آ کر لے جایا کروں گا" آصف صاحب نے ایک سادہ سا فون اسکی طرف بڑھایا تھا

"نہیں ماموں اسکی کیا ضرورت ہے " وہ ہچکچائی تھی کیونکہ عائزہ بیگم نے اسے آنکھیں دیکھائی تھی 

"نہیں بیٹا رکھ لو " آصف صاحب نے اسکے ہاتھ میں فون تھمایا تھا وہ لب بھینچ کر عائزہ بیگم کو دیکھ گئی جو کڑوے گھونٹ بھر رہی تھی اسے دیکھ کر 

"شکریہ ماموں" وہ نظریں جھکاتے بولی  آصف صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر سر ہلایا تھا وہ اٹھتی ہوئی وہاں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی بیگ سے کتابیں نکالتے ہوئے وہ منجمد ہوئی جب اسکی نظر اسکے آف وائٹ رومال پر پڑی تھی ایک ہلکی مسکان نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا اسنے مسکراتے ہوئے رومال اٹھایا تھا اسکی ہلکی مہک نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے مسکرا گئی تھی

"Ok, I will never address you in this tone again. Please stop crying. You look terrible crying like that"  

اسکی مسکان مزید گہری ہوئی تھی جب اسکے کہے گئے الفاظ اسکی سماعت سے ٹکرائے تھے وہ مسکراتے ہوئے پینسل اور کچھ پیپر نکال کر کھڑکی کی طرف بڑھی تھی ٹھنڈی ہوا نے اسکا استقبال کیا تھا کرسی کھینچ کر اسنے کھڑکی میں رکھی تھی اور ٹیبل پر پیپر رکھتے ہوئے گہری مصروفیت سے کچھ بنانے میں مصروف ہوئی تھی 

"یہاں تو آپ مجھے نہیں ڈانٹ سکتے میں جتنے چاہوں آپکے سکیچ بنا سکتی ہوں پروفیسر"  وہ ہلکی سی مسکرائی اور خود سے بڑبڑاتے ہوئے مہارت سے پینسل کو پیپر پر پھیرنے لگی

چُھپ چُھپ کر دیکھتی ہے تیری تصویر کو...!!

لگتا ہے کُچھ ہو گیا ہے، رانجھے تیری ہیر کو!!

ناجانے کتنی دیر وہ سکیچ بناتی رہی 

"آئیذل  " ریحم کی آواز سن کر اسنے جلدی سے سکیچ کو بکس میں چھپایا تھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ہمت کیسے ہوئی سیرت کو عسکری کارپوریشن کیساتھ میٹنگ کے لئے بھیجنے کی " وہ درشتگی سے کہتے ہوئے آفس کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر آیا تھا اشفاق صاحب چونکتے ہوئے اپنی چیئر سے اٹھے تھے

"میں نے اسے وہاں نہیں بھیجا ذاویان وہ خود وہاں گئی تھی" اشفاق صاحب نے دھیمے لہجے میں کہا اسکی آنکھوں میں سلگتی چنگاریاں دیکھ کر 

"وہ کبھی بھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولے گی میں نے اسے آر-کے انڈسٹریز کیساتھ میٹنگ دیکھنے کے لئے کہا تھا  اور وہ وہاں عسکری کارپوریشن ہمارے بزنس رائیولز کے ساتھ میٹنگ میں اپنے آپ چلی گئی؟"  اشفاق صاحب کو کرخت نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ غرایا

"ذاویان میں سچ کہہ رہا ہوں مس انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہو گی میں نے اسے آر-کے انڈسٹریز کی میٹنگ میں ہی بھیجا تھا" 

"اگر مجھے پتا چلا اس میں آپکا ہاتھ ہے آئی سوئیر ڈیئر ڈیڈ آپ کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی بہت عیش کر لی آپ نے اب سے سب میں ہینڈل کروں گا اپنے طریقے سے یو گیٹ دیٹ؟" وہ کاٹدار نظروں سے اشفاق صاحب کو دیکھتے ہوئے آفس سے باہر نکلا تھا  اشفاق صاحب نے سرد آہ بھری تھی سب امپلائز نے اسکے طیش سے سرخ چہرے کو دیکھا تھا وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اپنے آفس روم میں داخل ہوا تھا کوٹ کو ریوالونگ چیئر کے پیچھے ڈالتے ہوئے وہ چیئر پر بیٹھا تھا اور اب تک کی ساری فائلز کا مطالعہ کرنے میں مصروف ہوا جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی اسنے فون کق درشت نظروں سے دیکھا مگر اسکرین پر چمکتا نام"پرنسس" دیکھ کر اسکا سارا غصہ ہوا ہوا تھا

"یس مائی پرنسس" 

"بھائی میں گھر بور ہو رہی ہوں کیا شاپنگ جا سکتی ہوں اگر آپکو اعتراض ناں ہو پلیز مجھے گارڈز نہیں چاہیے پلیز پلیز پلیز بھائی"  اسکی فرمائش پر ذی نے لب بھینچے تھے

"پلیز ناں بھائی جانے دیں اپنی پرنسس کو" 

"فائن لیکن بی کیئرفل کسی بھی"

"ہاں ہاں پتا ہے کسی بھی اجنبی سے بات نہیں کرنی اور انجان جگہ پر نہیں جانا اور اپنا خیال رکھنا ہے اور ٹائم سے گھر آنا ہے اور اگر کوئی بھی پریشانی ہو تو آپکو کال کرنی ہے" سیرت نے اسکی بات کاٹتے ہوئے اسے اسکے ہی کہے گئے الفاظ باور کروائے جس پر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے سر جھٹک گیا تھا

"اوکے بھائی لوو یو میں جا رہی ہوں" 

"لوو یو ٹو پرنسس" 

کال منقطع کرتے ہوئے وہ دوبارہ فائلز کے مطالعے میں مصروف ہوا تھا

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اسنے ایئر پلگ پر انگلی رکھتے ہوئے کانفرنس ہال میں بیٹھے سبھی لوگوں کو" ایکس کیوز می" کہا اور سنجیدگی سے چلتا ہوا ونڈو کی جانب بڑھ گیا 

"ہیلوو کیسے ہو" اسکے لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ ابھری تھی اس دھماکہ خیز مواد کی آواز سن کر 

"میں میٹنگ میں ہوں مس سیرت بعد میں بات کرتے ہیں" 

"تمھاری میٹنگ کو آگ لگ جائے میں شاپنگ جا رہی ہوں مجھے کمپنی چاہیے چلو گے" وہ رعب سے ایسے بولی جیسے وہ اسکا ملازم ہو

"میں مصروف ہوں"

"ہاں تو بھاڑ میں جاؤ وقت کیوں ضائع کر رہے ہو صاف صاف کہو نہیں آ سکتے ایک بات یاد رکھنا تمھاری اس انکار کی وجہ سے میرے دل میں تمھارے لئے 0.000000001 پرسینٹ عزت ہے میں اسے بھسم کر دوں گی " سیرت نے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے کہا

"اچھا دس منٹ میں آتا ہوں" 

"پانچ منٹ سے زیادہ میں کسی کا ویٹ نہیں کروں گی آفس کے باہر ہی ہوں نکلو باہر ابھی " 

"فائن میں آتا ہوں"  وہ مبہم سے مسکرا کر کہتا ہوا دس منٹ میں میٹنگ کو نبٹا کر کلائی پر بندھی سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے چیئر سے کوٹ اٹھا کر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر نکلا تھا ایک سائڈ پر اسکی بلیک لینڈ کروزر دیکھ کر وہ فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا تھا

"دس منٹ لگا کر آئے ہو تم " سیرت نے اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا جو بلو تھری پیس سوٹ میں کافی سٹائلش لگ رہا تھا

"میں نے کہا تھا دس منٹ لگ جائیں گے مس سیرت رضوی" وہ الٹا رعب سے بولا اور اسکا بھرپور جائزہ لیا جو بلیک سوٹ میں ملبوس تھی

"چلو خیر ہے تمھیں راستے میں دیکھتی ہوں چلو تو صحیح" وہ دھیمے لہجے میں بڑبڑائی جسے اسنے برابر سنا تھا اور مسکراہٹ دبائی تھی

"تم نے کبھی گول گپے کھائے ہیں " سیرت نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے پوچھا جس پر اسنے تاسف سے سر ہلایا تھا

"آپکو تعجب ہو گا مس سیرت میں یہ نام بھی پہلی بار سن رہا ہوں میری موم برٹش تھی ایز یو نو میں برطانیہ سے ہوں ڈائٹ پلان تھا میرا اور اب تک چل رہا ہے بچپن میں صرف پڑھائی تھی اور میں تھا کبھی وقت ہی نہیں ملا " وہ تاسف سے اسے بتا رہا تھا

"چلو آج کھلاتی ہوں اترو نیچے" وہ سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے بولی 

"میں یہاں روڈ پر رک کر کوئی تھرڈ کلاس چیز نہیں کھانے والا میرا ڈائیٹ پلان ہے جسے میں خراب نہیں کرنے والا" 

"اوکے میں بھی تمھاری کوئی بات نہیں مانوں گی آج کے بعد بھیا ایک پلیٹ بناؤ اور مصالحہ ہلکا کر کے ڈالو"  اسکی بات سن کر حدید نے سر جھٹکا تھا اسنے آج تک سٹریٹ فوڈ نہیں کھائی تھی 

"اب بھی وقت ہے تم میرے ساتھ یہ کھا لو ہم فرینڈز بن جائیں گے مسٹر حدید رضا عسکری" سیرت نے پلیٹ لیتے ہوئے اسے دوبارہ مخاطب کیا وہ سرد آہ بھرتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلا تھا آس پاس سے آتے جاتے لوگوں نے رک کر اس کلاسی شخص کو دیکھا تھا جو اس محترمہ کی وجہ سے روڈ پر ٹھہر کر گول گپے کھانے آیا تھا

"واٹ دا ہیل یہ کیا چیز ہے " وہ منہ خراب کرتے ہوئے اسکے ہاتھ میں تھامی پلیٹ کو دیکھتا گویا ہوا جس پر سیرت نے قہقہ لگایا تھا

"اسکو ایسے کھاتے ہیں" سیرت نے پورا گول گپہ اٹھا کر منہ میں ڈالا تھا حدید نے سر جھٹکا تھا

"میرا ذائقہ خراب ہو رہا ہے  مس سیرت " وہ سر جھٹکتا دوسری جانب دیکھتا بولا 

"سنو اگر آج تم نے یہ کھا لیا پکا تم میرے بیسٹ فرینڈ بن جاؤ گے کھا لو ناں" سیرت نے معصومیت سے کہا حدید نے سرعت سے اس شاطر لڑکی کو دیکھا جو جان بوجھ کر اسے یہاں لائی تھی

"نہیں مجھے ضرورت نہیں" حدید نے صاف انکار کیا جس پر سیرت کا منہ کا زاویہ بگڑا

"اچھا گاڑی میں پانی ہے اٹھا دو پلیز" سیرت نے مسکراتے ہوئے کہا وہ سنجیدگی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا 

"بھیا اس میں ناں دو چمچ مرچیں ڈال دو جلدی سے بھر کے ڈالنا" وہ پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے بولی گول گپے والے نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے ویسا ہی کیا تھا وہ پانی کی بوتل اٹھا کر اسکے پاس آیا تھا

"حدید کھا لو ناں یار اتنے دل سے یہاں لائی ہوں تمھیں دیکھو میں بھی تو کھا ہی رہی ہوں" سیرت نے معصوم سی شکل بنائی جس پر وہ مبہم سا مسکرایا

"اچھا بس ایک کھا لو" سیرت نے پلیٹ اسکی طرف بڑھائی اسکی تو آنکھوں میں خجل سی اٹھی تھی سرخ مرچوں سے بھرے گول گپے دیکھ کر ۔۔۔

"پلیزززززززز" سیرت نے منمنا کر کہا وہ سر جھٹکتا ہوا پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے رہ گیا تھا اسکا جی خراب ہو رہا تھا کیونکہ اسنے آج تک ایسا کچھ نہیں کھایا تھا ناں ہی کوشش کی تھی 

"میں کھلاؤں اپنے ہاتھ سے" سیرت کی پیشکش پر وہ تو چونک ہی پڑا تھا  وہ گول گپہ اٹھا کر زبردستی اسکے منہ میں ڈال چکی تھی یہ اسکی برداشت کی انتہا تھی مرچوں سے اسکی آنکھیں سرخ پڑی تھی 

"ہاہاہاہاہاہا " سیرت کے قہقہے نے اسکے منہ میں لگی آگ کو اور بھڑکایا تھا وہ سرخ ہوتا جلدی سے پانی کی بوتل کو ہونٹوں سے لگا گیا تھا 

"ہاہاہاہا " سیرت کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا کیونکہ اسکی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھی اور ساتھ ہی اسکا چہرہ لال پڑا تھا پانی کی پوری بوتل کو پی کر بھی اسکے منہ میں لگی آگ ناں بجھ سکی تھی 

"ہائے کتنے کیوٹ لگ رہے ہو تم لال ٹماٹر" سیرت نے اسے برابر چھیڑا وہ اسے کرخت نظروں سے دیکھتا ہوا پانی کی بوتل غصے سے وہاں پھینک کر آگے بڑھ گیا تھا سیرت نے گول گپے والے کو پیسے پکڑائے اور گاڑی لاک کرتے ہوئے اسکے پیچھے بھاگ گئی تھی

"ارے رکو تو صحیح تم تو ناراض ہی ہو گئے" سیرت نے منمنا کر کہا مگر وہ سر جھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا

"ارے بات تو سنو میری " سیرت نے اسکے آگے آتے ہوئے کہا وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ گیا سیرت کی ایک بار پھر ہنسی چھوٹی تھی اسکا سرخ چہرہ دیکھا کر وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ کر گزر گیا تھا اور ٹیکسی کو روکا تھا سیرت نے سیریئس ہو کر اسے دیکھا تھا جو سچ میں خفا ہو کر وہاں سے جا چکا تھا

"افف اللہ یہ سڑو تو سچ کا ناراض ہو گیا " وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھتی منہ بنا کر بولی تھی اسے  گاڑی میں جاتے دیکھ کر

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ذاویان ڈنر کر لو بیٹا" لیپ ٹاپ کو سائڈ پر رکھتے ہوئے وہ مہر النساء بیگم کی آواز سن کر باہر نکلا تھا سب ڈائننگ ٹیبل پر اسکا انتظار کر رہے تھے وہ  سنجیدگی سے اپنی چیئر پر بیٹھا تھا 

"موم ذی اور میں شادی کرنا چاہتے ہیں" چاہت نے مسکراتے ہوئے کہا فورک اٹھاتے ذاویان کا ہاتھ ساکت ہوا تھا اسنے درشت نظروں سے اسے دیکھا تھا سب نے چونک کر ذاویان اور چاہت کو دیکھا تھا خاص طور پر اشفاق صاحب نے کیونکہ وہ اسے بہت سمجھا چکے تھے مگر اسکے بعد بھی اسنے یہ بات کہہ کر انکی توہین ہی تو کی تھی ذاویان نے لب بھینچ کر زوہیب صاحب کو دیکھا جو اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے تھے مہر النساء بیگم نے افسردگی سے انہیں جاتے ہوئے دیکھا تھا وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی تھی

"میں آتا ہوں" ذاویان کہہ کر انکے پیچھے چلا گیا تھا 

"کیا بکواس ہے یہ چاہت" اشفاق صاحب سر جھکاتے دبے لہجے میں اسکا ہاتھ مروڑتے غرائے

"جسٹ کام ڈاؤن ڈیڈ کہا ناں میں ذی سے ہی شادی کروں گی" چاہت نے کھانا کھاتے ہوئے لاپرواہی سے کہا

"اشفاق آپ کو اس شادی سے کوئی اعتراض تو نہیں" مہر النساء بیگم نے خاموش بیٹھے اشفاق صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا اشفاق صاحب نے چاہت کو دیکھا تھا 

"مجھے کیا اعتراض ہو گا مہرو میری بیٹی فیصلہ کر چکی ہے" وہ سرد لہجے میں بولے تھے مگر مہر النساء بیگم نے انکے لہجے پر غور نہیں کیا تھا وہ سر ہلا گئی تھی

"آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا مماں ان فیکٹ آپ تو شاید یہی چاہتی تھی" چاہت کی بات نے مہر النساء بیگم کو چونکایا تھا وہ گلہ صاف کرتے ہوئے مسکرا گئی تھی بس کیونکہ ذاویان ان سے مشورہ ہی نہیں کرتا تھا ناں ہی انکی اتنی بات چیت ہوتی تھی وہ تو ماں سے بالکل کنارہ کر چکا تھا ناجانے کیوں

"تم شادی کر رہے ہو ذاویان" زوہیب صاحب نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا ذاویان سنجیدگی سے چلتا ہوا انکے قریب گلاس ونڈو کے قریب رکے تھے 

"ماموں آئی نو آپ"

"تم ٹھیک کر رہے ہو یار کر لو شادی کوئی فائدہ نہیں ہے پاسٹ میں رہنے کا اشفاق شاید بدل گیا ہو امید ہے سب صحیح ہو جائے گا " زوہیب صاحب نے سرد آہ بھر کر کہا تھا

"جی میں یہ شادی کر رہا ہوں انکل " زوہیب صاحب نے سر ہلایا تھا وہ لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتا ہوا گلاس ونڈو سے باہر دیکھنے لگا

"اچھی بات ہے ذی خوش رہو  " زوہیب صاحب نے اسکے کندھے پر تھکی دی وہ سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا سب اسکے ڈائننگ ٹیبل پر منتظر تھے

"شادی کی تیاریاں شروع کریں موم " وہ سنجیدگی سے بولا تھا چاہت کا چہرہ چمک اٹھا تھا وہ  ہنوز بیٹھے اشفاق صاحب کو ایک طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا اشفاق صاحب نے اپنے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا وہ کرسی پیچھے ہٹا کر اٹھے تھے مہر النساء بیگم نے انہیں سنجیدگی سے دیکھا تھا

"مجھے بھوک نہیں ہے مہرو" وہ سرد لہجے میں کہہ کر اٹھ کر وہاں سے چلے گئے تھے چاہت نے آنکھیں گھمائی تھی 

"مبارک ہو بھابھی" سیرت نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر چاہت کھل اٹھی تھی مہر النساء بیگم نے سر جھٹکتے ہوئے نظریں کھانے کی طرف پھیری تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بالکنی میں سنجیدہ کھڑا وہ آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھ رہا تھا اسکا چہرہ بالکل سپاٹ تھا ٹھنڈی ہوا سے اسکے گھنے سلکی بال۔اسکی پیشانی کا طواف کر کے یہاں وہاں اڑ رہے تھے دیوار پر ہاتھ رکھے ناجانے وہ کیا سوچ رہا تھا 

وہ سرد آہ بھرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا تھا اسکے پیچھے بادل تیزی سے گرجا تھا وہ ساکت ہوا تھا بارش کی پہلی بوند نے زمین کا طواف کیا تھا وہ سنجیدگی سے دوبارہ باہر آیا تھا تیز بارش نے اسے بھگویا تھا وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بارش کی ٹھنڈی بوندوں کو محسوس کرنے لگا  اسکی آنکھوں کے سامنے ماضی ہی ماضی تھا آج اسکا دل بیٹھ رہا تھا کرب اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا

بِچھڑتے وقت اُس نے کہا تھا...!!

نہ سوال کرنا، نہ جواب مِلے گا...!!

تُم بُھول جانا سُکوں مِلے گا...!!

نہ سوال کِیا، نہ جواب مِلا...!!

نہ بُھول سکا، نہ سُکوں مِلا

بارش میں بھیگ کر بھی اسے سکون نہیں ملا تھا اسکے جذباتوں کی آگ کو اس بارش نے مزید سلگایا تھا وہ بغیر ایک پل رکے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا بارش اور اس حسیں موسم کو خیر باد کہہ کر

اُداس شب میں شجر سے گِرتے سُوکھے پتوں کی مانند...!!

تُمہارے بعد کئی دِسمبر ہم پہ ایسے بھی گُزرے ہیں...

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" اب کیسی ہو آئیذل " حورم لیکچر کے بعد اسکے پاس گارڈن میں آ کر بیٹھی تھی وہ جو گھاس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی

"میں ٹھیک ہوں حور تم بتاؤ" وہ سر جھکائے عام سے لہجے میں بولی

"میں تو ٹھیک ہوں لیکن تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی اتنی گم سم رہتی ہو کیا ہو گیا ہے میں سوچ رہی تھی کہ شاید تم نانو کی ڈیتھ کے بعد سے ایسی ہو گئی ہو لیکن یار تم جب سے یونیورسٹی میں آئی ہو مجھے تم گہری سوچوں میں ہی نظر آتی ہو کوئی پریشانی ہے تو شیئر کرو " حورم نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر نرمی سے کہا

"تم میری ذندگی کے بارے میں سب کچھ ہی تو جانتی ہو میں سب شیئر کرتی ہوں تم سے " آئیذل نے ایک جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں سٹوڈینٹس یہاں سے وہاں آ جا رہے تھے اور اپنے کام میں مصروف تھے 

"لیکن کچھ ایسا بھی ہے جو تم نے مجھے نہیں بتایا یارر میں دیکھ رہی ہوں کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو " حورم اسے اچھے سے جانتی تھی اور آج اسنے ٹھان لیا تھا کہ وہ اس سے پوچھ کر ہی رہے گی

"میں خود بہت پریشان ہوں حور مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں " آئیذل نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا

"مجھے لگتا ہے میں غلط سوچ رہی ہوں " آئیذل نے مختصر کہا مگر اسکے جواب نے حورم کو چونکایا

"کیا مطلب غلط سوچ رہی ہو کس بارے میں بات کر رہی ہو " حورم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

"پروفیسر زاویان کی بات کر رہی ہوں یہ دیکھو کل کیا کیا میں نے " 

وہ اپنے بیگ سے اسکے سکیچ نکالتے ہوئے بولی حورم نے چونکتے ہوئے اس سے پیپر لیکر اسکے سکیچ دیکھے تھے وہ بیچاری مرتی کیا ناں کرتی بس چونک کر اسے اور سکیچ کو دیکھتی رہ گئی

"آئیذو اگر یونیورسٹی کو اس بارے میں پتا چلا پروفیسر اور تمھیں دونوں کو سسپینڈ کر دیں گے پاگل کیا کر رہی ہو تم" حورم نے جلدی سے سکیچ فولڈ کرتے ہوئے اسکے بیگ میں ڈالے تھے آئیذل نے سرد آہ بھری تھی

"میں کیا کروں وہ بہت اچھے ہیں ہر بار مجھے معاف کر دیتے ہیں میری ہیلپ کرتے ہیں اور میں کیسی چیزیں سوچ رہی ہوں " آئیذل نے شرمندگی سے سر جھٹکا تھا

"لیکن ہم جیسی مڈل کلاس لڑکیوں کی ذندگی میں محبت کا ناں تو وقت ہوتا ہے اور ناں ہی اجازت ہمیں زندگی میں یہ سب آسائشیں نہیں ملتی جذبات دل میں آنے ہی نہیں چاہیے پروفیسر صرف اچھے ہیں اس لئے شاید میں انہیں لائک کرنے لگی ہوں تم شاید ذیادہ ہی سوچ رہی ہو"  آئیذل نے لب بھینچ کر بکس سمیٹی تھی

"تم ان سے محبت کرنے لگی ہو اور جتنی جلدی یہ بات مان لو اچھا ہو گا خود کو بےوقوف مت بناؤ"

حورم کے الفاظ پر وہ بےجان ہوئی تھی اسکا دل اتنی شدت سے دھڑکا تھا جیسے وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتا ہو" کہ ہاں ایسا ہی ہے"

"مم۔۔مجھے نہیں پتا اگلے لیکچر کا ٹائم ہونے والا ہے میں جا رہی ہوں" وہ ہچکچاتے ہوئے جلدی سے بیگ اٹھاتی کھڑی ہوئی حورم نے اسے تعجب سے دیکھا جو تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی 

تیز قدموں کیساتھ وہ لیکچر ہال کی طرف بڑھ رہی تھی دل و دماغ کہیں اٹکے ہوئے تھے 

"تم ان سے محبت کرنے لگی ہو " حورم کے کہے گئے لفظ اب تک اسکے ذہن میں گردش کر رہا تھا 

"آہہہہ" سیڑھیاں چڑھتے اسکا پاؤں سیڑھی سے اٹکا تھا وہ اچانک اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے کا منظر گھوم گیا تھا وہ خوف سے آنکھیں میچ گئی تھی 

"آہہہہ" سیڑھیاں چڑھتے اسکا پاؤں سیڑھی سے اٹکا تھا وہ اچانک اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے کا منظر گھوم گیا تھا وہ خوف سے آنکھیں میچ گئی تھی جب مظبوط بازوں نے اسکی کمر کو حصار میں لیکر اسے گرنے سے بچایا تھا وہ خوف سے اسکے کوٹ کو مٹھی میں پکڑ چکی تھی 

"دھیان کہاں ہے آپکا مس آئیزل اگر آپ گر جاتی تو " وہ اسے دیکھتا ہوا متانت زردہ لہجے میں بولا تھا

"سس۔۔سوری" وہ سر جھکاتی بولی اسے آخری نظر دیکھ کر وہ سنجیدگی سے نیچے اتر گیا تھا آئیزل نے سرد آہ بھری تھی

"یہ کیا ہو گیا ہے ہمیں کیا حورم صحیح کہہ رہی تھی کیا ہمیں پروفیسر زاویان سے محبت ہو گئی ہے لیکن یہ تو غلط ہے وہ تو ہمارے ٹیچر ہیں اور ہماری منگنی توصیف سے ہوئی ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے اللہ پاک " وہ خود سے شرمندہ ہوتی لیکچر ہال کی طرف بڑھ گئی تھی  وہ جاتے ہوئے پیچھے مڑا تھا سیڑھیوں پر گرے ہوئے کچھ پیپرز پر اسکی نظر پڑی تھی اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے پیپرز کو سٹیک کو اسنے سنجیدگی سے دیکھا تھا اور پھر آگے بڑھ کر سیڑھیوں سے وہ پیپرز اٹھا کر پیپرز کے بنڈل پر رکھ کر وہ اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا تھا

"شکر ہے لیٹ نہیں ہوئی ابھی لیکچر میں ٹائم ہے " بک نکالتے ہوئے اسنے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے سکون سے کہا بیگ ٹٹولتے ہوئے اسکی روح پرواز کر گئی تھی

"اوہ نو سکیچ کہاں گئے ڈیم اٹ آئیذل کہیں گرا تو نہیں دیئے " وہ منتشر ہوتی سانسوں کیساتھ متانت سے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑبڑائی تھی

"کہیں سیڑھیوں پر تو نہیں گر گئے " وہ جلدی سے بیگ لیکر ہال سے باہر نکل گئی تھی  اور سیڑھیوں پر جھکتی آس پاس دیکھنے لگی مگر وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا 

"اوہ نو کہاں گئے اگر کسی نے دیکھ لیا تو اور اگر کسی کے ہاتھ لگے تو سیدھے پروفیسر زاویان کے پاس ہی جائیں گے لیکر اور پروفیسر جانتے ہیں میں پہلے بھی بنا چکی ہوں اس بار میں پکی مروں گی " وہ تیزی سے اٹھتی ہوئی آفس کی جانب بھاگی تھی اسکے براؤن بال ہوا میں لہرا گئے تھے

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"میرا خیال ہے ہمیں سادگی سے آئیزل اور توصیف کا نکاح کروا دینا چاہیے ایسے لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی بیچاری بچی پر باتیں کریں گے کہ بغیر کسی رشتے کے یہاں پڑی ہے"عائزہ بیگم کی بات پر جہاں چودھری صاحب متفق ہوئے وہاں آصف صاحب نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا

"کیا مطلب کہ یہاں پڑی ہے یہ اسکے ماموں کا گھر ہے وہ کوئی غیر تھوڑی ہے" آصف صاحب نے سپاٹ نظروں سے عائزہ بیگم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا

"مگر آصف بھائی صاحب آپ لوگوں کو نہیں جانتے کل کو جب کہیں  چار عورتوں میں جا کر ہم بیٹھیں گے تو ہمیں سننی پڑیں گی مرد حضرات کو یہ سب نہیں سننا پڑتا" عائزہ بیگم نے تنک کر کہا آصف صاحب نے سر جھٹکا تھا

"لیکن بہتر ہو گا اگر آئیذل اور توصیف کے نکاح سے پہلے توصیف کوئی نوکری تلاس لے " عروسہ بیگم نے آصف صاحب کو چائے کا کپ دیتے ہوئے کہا آصف صاحب نے سر ہلایا تھا جبکہ عائزہ بیگم کا منہ لٹکا تھا

"جب تک توصیف کو کوئی اچھی نوکری نہیں مل جاتی تب تک اس نکاح کو رہنے دیجیے" آصف صاحب نے چائے کا سپ لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا عائزہ بیگم اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی توصیف کو سکون سے لیٹا دیکھ کر انکا ماتھا گرم پڑا تھا

"کچھ کمانے کے بارے میں سوچا ہے تم نے یا پوری ذندگی ایسے ہی پڑے رہو گے" اسے دیکھ کر تنک کر کہتی ہوئی وہ چارپائی پر بیٹھی تھی توصیف نے بدمزگی سے آنکھیں کھولی تھی

"مجھے کیا ضرورت پڑ گئی کمانے کی بھلا وہ سونے کی چڑیا کس لئے ہے " وہ لاپرواہی سے بولا 

"آصف صاحب اسکا رشتہ ایسے نہیں تھما دیں گے تمھیں کچھ دنوں کے لئے جاؤ اور کماؤ کچھ انہیں مطمئن تو کرو کم سے کم ایسے پڑے رہو گے تو کہیں اور بیاہ دیں گے اسکو وقت سے" عائزہ بیگم کی بات سنتے ہوئے وہ اٹھا تھا

"وہ صرف میری ہے کہیں اور ایسے ہی بیاہ دیں گے دیکھتا ہوں میں بھی " وہ سرگرم لہجے میں بولا عائزہ بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا

"ہاں ہاں جا رہا ہوں کل پتا کروایا تھا مل میں کام چل رہا ہے انہیں حساب کتاب وغیرہ لکھنے کے لئے کچھ لوگوں کی ضرورت ہے میں جا کر پتا کرتا ہوں آج" توصیف نے اٹھتے ہوئے کہا عائزہ بیگم نے سر ہلاتے ہوئے اسے باہر نکلتے دیکھا تھا

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

تیزی سے اسنے آفس کا دروازہ کھولا تھا اندر کسی کو ناں پا کر وہ جلدی سے ٹیبل پر پڑے پیپرز کی طرف لپکی تھی 

"ہائے اللہ" کہہ کر اسنے جلدی سے وہ پیپرز اٹھا کر دیکھے تھے جو پیپرز کے اوپر ہی موجود تھے 

"بس دعا کرتی ہوں یہ پروفیسر نے ناں دیکھے ہوں ورنہ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے " پیچھے پلٹتی وہ ٹھٹھکی تھی بےاختیاری طور پر اسنے پیپرز اپنے پیچھے چھپائے تھے وہ گہری سنجیدگی سے اسکی یہ حرکت نوٹ کر چکا تھا

"آپ یہاں کیا کر رہی ہیں" سپاٹ لہجے میں پوچھتے ہوئے وہ ٹیبل کی طرف بڑھا تھا اور پیپرز کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا

"و۔۔وہ میرا ایئرنگ گر گیا تھا وہی ڈھونڈ رہی تھی " وہ گڑبڑاتے ہوئے نظریں جھکا کر بولی اسنے سنجیدگی سے اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا تھا

"کیا چھپا رہی ہیں آپ" وہ پیپرز سے ہٹتے ہوئے اسے تجسس بھری نظروں سے دیکھتا بولا آئیذل کا حلق خشک ہوا

"پروفیسر یہ وہ یہ وہ کک۔۔کچھ کچھ نہیں ہے آپ نن۔۔نہیں دیکھ سکتے" وہ لال پڑتی یہاں وہاں دیکھتے بولی وہ ششدر رہ گیا تھا 

"مم۔۔میرا مطلب ہے کہ ۔۔کہ کک۔۔کچھ ۔۔۔ آپ۔۔۔آپ کے دد۔۔دیکھنے کی چچ۔۔چیز نہیں ہے کک۔۔کچھ پپپ۔۔پرائیویٹ ہے" اسکا چہرہ سرخ بھبھوکا ہو چکا تھا وہ سر کو خم دیتا ہوا لاتعلقی سے اپنی چیئر پر بیٹھا تھا آئیذل نے ٹھنڈا سانس لیا تھا 

"مم۔۔میں جاتی ہوں " بغیر اسکا جواب سننے کی زحمت کئے وہ تیزی سے باہر بھاگ گئی تھی 

"بےوقوف لڑکی"

 وہ سر کو خم دیکر پیپرز کی جانب توجہ مرکوز کر گیا

"ہائے میں بچ گئی " وہ پیپرز کو سکون سے دیکھتی بولی تھی 

"اب تمھیں چھپا کر رکھوں گی میں" وہ پیپر کو دیکھتی مسکراتے ہوئے بیگ میں نفاست سے رکھ کر لیکچر ہال کی جانب بڑھ گئی تھی

                                   -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"دماغ سڑ گیا ہے تمھارا ایسے کیسے تم اس پر بھروسہ کر کے نکل پڑتی ہو اسکے ساتھ کہیں بھی بےوقوف وہ تمھارے ابو کے دشمن کا بیٹا ہے " علیشہ نے اسے سر میں چپت لگائی 

"لیکن وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر اسنے مارنا ہوتا اس دن ہی مار دیتا" سیرت نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے تھے

"تمھارا دماغ گھاس چرنے نکل گیا ہے کیا وہ صرف مارنے کے ارادے رکھ سکتا ہے اور کچھ نہیں؟؟ بےوقوف لڑکی مجھے یہ بتاؤ وہ اچانک سے تمھارے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے " علیشہ نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے پوچھا 

"میں اسکے پیچھے پڑ گئی ہوں میری پیاری علیشہ جانو میں اسے ذلیل کر رہی ہوں اور وہ بیچارہ بس چپ چاپ سہہ رہا ہے " سیرت نے مسکرا کر کہا

"یہی چیز سمجھو وہ کیوں سہہ رہا ہے کیا دماغ گل سڑ گیا ہے اسکا کہ وہ کتنے میل تمھیں اٹھا کر پارک میں چلتا رہا ؟؟ ایک معمولی ڈنر اسنے اتنا اسپیشل ڈیکوریشن کیساتھ پیش کیا اور اسنے اتنی آسانی سے 60 پرسینٹ شیئرز بھی خرید لئے ان دو معمولی باتوں پر تم بےوقوف ہو وہ ضرور کوئی پلان کر رہا ہے اور ابھی تک اسنے اپنی تیسری شرط بھی نہیں بتائی " علیشہ نے صوفے ہر نیم دراز ہو کر کہا سیرت نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"لیکن یقیناً مجھے نقصان نہیں پہنچائے گا وہ اب تک پہنچا چکا ہوتا اگر پہنچانا ہوتا" سیرت نے کشن کو گود میں رکھتے ہوئے کہا علیشہ نے جھنجھلا کر اسے دیکھا تھا 

"یعنی میرے اب تک بک بک کرنے کا تم پر کوئی اثر نہیں ہوا ایک بات یاد رکھنا ذی بھائی کو پتا لگ گیا ناں تمھاری ٹانگیں کاٹ کر تمھیں گھر بٹھا دیں گے وہ " علیشہ نے فون پر سکرول کرتے ہوئے کہا سیرت نے منہ بنا کر اسے دیکھا تھا 

"میں حدید سے بات کروں اور پوچھوں کہ اسے کیا چاہیے " سیرت نے بھنویں اٹھا کر پوچھا علیشہ نے لمبا سانس لیتے ہوئے اپنے سر پر چپت ماری تھی

"وہ تمھیں کیوں بتائے گا اپنا پلان" 

"تم اوور پروٹیکٹیو ہو رہی ہو ذی بھائی کے جیسے اور وہ ذرا بھی ڈینجرس نہیں لگتا مجھے ہاں تھوڑا مغرور ہے لیکن خطرناک چلو اگر خطرناک بھی ہے تو بھی دیکھ لوں گی " 

علیشہ نے آنکھیں گھمائی تھی کیونکہ وہ بول بول کر تھک چکی تھی اور سیرت بی بی کچھ سننے کو تیار نہیں تھی

                                     -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔-

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

"یہ کونسا طریقہ ہے کھانا کھانے کا لمظ ۔۔۔ بیٹا اٹھاؤ یہ سب نیچے سے " 

اسنے نیچے سے کھانے کی پلٹ اٹھائی تھی مگر ایک چھوٹے سے ہاتھ نے اسکے سر میں تھپڑ مارا تھا

"ممانی مجھے لمظ مار رہی ہے آپ خود اٹھا لیں آ کر یہ مجھے نہیں اٹھانے دے گی" وہ نیچے ہی بیٹھتا بولا چار سال کی چھوٹی سی بچی اسے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اسکے پاس بیٹھی تھی  اور پلیٹ سے چمچ دور پھینکتے ہوئے ہاتھ سے کھانے لگی 

"چھی لمظ گندی بچی اٹھو " اسکا ہاتھ پلیٹ سے نکالتے ہوئے اسنے پیشانی پر بل ڈال کر اسے اٹھایا تھا وہ کھانے والے ہاتھ سے ہی اسکے منہ پر تھپڑ مار چکی تھی

"میری بےبی گرل کو غصہ آ گیا " وہ اسکے بھرے بھرے گال کھینچتے ہوئے مسکرایا جس کا انعام اسے ایک اور چھوٹی سی چپیڑ کی صورت میں گال پر ملا

"لمظ غلط بات ہے بڑے ہیں وہ آپ سے ایسے نہیں کرتے"  کچن سے آتی آواز سن کر اس نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا تھا جو مسکراتے ہوئے اسے ٹیبل پر بٹھا چکا تھا 

"جی گندا ہے گندا ہے گندا ہے بہت گندا ہے چھی چھی" وہ ٹیبل سے چمچ اٹھا کر نیچے گراتے ہوئے بولی تھی وہ بیچارہ نیچے سے چمچ سمیٹنے لگا جب اسنے دونوں ہاتھوں سے پلیٹ اٹھا کر نیچے پھینکی تھی 

(چھنکک) پلیٹ ٹوٹنے کی آواز پر وہ ششدر رہ گیا

"جی گندا گندا گندا"  وہ ہاتھ نچاتے ہوئے اسے چڑھا کر بولی جس پر اسنے آنکھیں سکیڑی تھی

"ممانی ماریں گی اب " وہ پلیٹ کو دیکھنے کے بعد اس شیطان کو دیکھتا ہوا بولا اسنے معصومیت سے اسے دیکھا تھا جیسے اسنے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا

"کیا گرا ہے " کچن سے آتی ہوئی وہ چونکی تھی

"سوری ممانی وہ میرے ہاتھ سے گر گئی" وہ معزرت زدہ لہجے میں بولا ٹیبل پر بیٹھی اس شیطان نے معصومیت سے اسے دیکھا تھا جو اسکے لئے جھوٹ بول گیا تھا

"آج آئیں تمھارے ماموں میں بتاتی ہوں انکو " 

وہ شرمندگی سے نظریں جھکا گیا تھا 

"کہ تم کیسے اس شیطان کے لئے جھوٹ بولتے ہو"  وہ سر اٹھا گیا تھا

 مسکراتے ہوئے وہ نیچے بیٹھ کر پلیٹ کے ٹکڑے سمیٹنے لگی تھی 

"ممانی آپ مجھے لمظ دے دیں مجھے بہت اچھی لگتی ہے " وہ اس شیطان کو دیکھتا ہوا بولا تھا جو اپنے بالوں کی پونیوں کو کھینچ رہی تھی ٹکڑے سمیٹتا انکا ہاتھ ساکت ہوا تھا

"تمھیں سچ میں لمظ چاہیے " 

"جی ممانی" وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے بولا تھا

وہ ہلکی سی مسکراتی ہوئی سر کو ہلا گئی تھی 

                                   -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(𝐏𝐫𝐞𝐬𝐞𝐧𝐭)-

وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے گیٹ کے قریب کھڑی توصیف کا انتظار کر رہی تھی جو ابھی تک نہیں آیا تھا اسنے لب بھینچ کر گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا اور پاس پڑے بینچ پر بیگ رکھتے ہوئے خود بھی بیٹھ گئی تھی

"کیا کروں کیسے بتاؤں گھر کے مجھے وہ لینے نہیں آیا اکیلی چلی جاؤں کیا موبائل تو ممانی نے لے لیا تھا  " وہ لب بھینچتی سوچ رہی تھی جب اسے سامنے سے گزرتا ذاویان نظر آیا تھا 

"ان سے کہوں کیا۔۔۔ ارے نہیں بالکل نہیں گھر کیا جواب دوں گی کہ کون ہیں " وہ فوراً ارادہ ترک کر چکی تھی وہ مخمور نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی گرے کلر کی سمپل شرٹ اور بلیک پینٹ میں وہ اسے بہت پرکشش لگا تھا اور اسکے چہرے پر ہمیشہ سپاٹ تاثرات اسکی پرسنیلٹی پر انتہا کے حسیں لگتے تھے آج بھی وہ سنجیدگی سے پیون کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا آئیذل گہری نظر سے اسے دیکھ رہی تھی جو بولتے ہوئے کبھی ہاتھ اٹھا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا کبھی لب بھینچ کر پیون کی بات سننے لگتا پیون سر ہلاتے ہوئے وہاں سے کلیکٹر آفس کی طرف نکل گیا تھا وہ پینٹ کی پاکٹ میں ایک ہاتھ ڈالے دوسرے ہاتھ سے فون پر سکرول کرنے میں مصروف ہوا تھا پیون ہاتھ میں ایک بلیک کلر کی فائل لیکر اسکی جانب بڑھ گیا تھا اسنے سنجیدگی سے فائل کو لیا تھا اور پیون کو مسکرا کر دیکھا تھا اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلتے ہی کسی اور کے لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ آئی تھی وہ فائل لیکر سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا ہلکی سنہری آنکھیں بنفشی آنکھوں سے ٹکرائی تھی وہ ہمیشہ کی طرح پہلے نظریں چرا چکی تھی وہ اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا تھا 

"اب اور ویٹ نہیں کر سکتی میں خود ہی گھر چلی جاتی ہوں" وہ اٹھتے ہوئے بیگ کندھے پر ڈالتے بولی 

"نہیں ماموں ناراض ہوں گے انہوں نے کہا تھا اکیلی ناں آؤں تھوڑا ویٹ کر لیتی ہوں شاید کوئی لینے آ جائے " وہ سر جھٹک کر دوبارہ بیٹھ گئی تھی

فائل کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ گلاسز لگاتے ہوئے فائل کو کھول کر گہرے مطالعے میں مصروف ہوا تھا 

پنتالیس منٹ ہو چکے تھے اور ابھی تک کوئی لینے نہیں آیا تھا وہ بیگ اٹھا کر گیٹ سے باہر نکل گئی تھی مین روڈ پر گاڑیاں تیزی سے آ جا رہی تھی اسنے ہاتھ بڑھا کر رکشے کو روکنے کی کوشش کی تھی

 رکشے میں بیٹھ کر اسنے بیگ کو گود میں رکھا تھا رکشہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو گیا تھا 

"بھیا یہاں پر روک دیں بس" وہ بیچ راستے میں ہی رکشہ رکوا کر اتری تھی کرایہ دیکر اسنے پیشانی پر چادر درست کی تھی اور سر جھکائے ایک طرف چل دی تھی 

"اسلام و علیکم" وہ قبرستان میں داخل ہوتے ہوئے گیٹ کے قریب بیٹھے بزرگ سے بولی تھی جنہوں نے نظریں اٹھا کر اس عام سی لڑکی کو دیکھا تھا

"وعلیکم السلام" 

وہ سر جھکائے آگے بڑھ گئی تھی ایک قبر پر وہ رکی تھی 

"بابا یہاں کوئی آیا تھا کیا " وہ پیچھے مڑتی ان بزرگ سے مخاطب ہوئی تھی 

"بیٹا ایک نوجوان آتا ہے یہاں اکثر کل بھی آیا تھا شاید اسے نے پھول ڈالے ہوں گے" بزرگ کی بات سن کر اسنے محبت سے اپنی نانو کی قبر کو دیکھ تھا جس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئی تھی

"آپ اپنی آئیذل کو اکیلے چھوڑ کے چلی گئی نانو " وہ انکی قبر کو دیکھتی دھیمے لہجے میں بولی تھی ساتھ ہی آنکھوں میں نمی آئی تھی 

"سب کچھ بہت بدل گیا ہے نانو مجھے تو کوئی پیار بھی نہیں کرتا آپکی طرح ،، کیسے آپ میرے بال سہلایا کرتی تھی اور مجھے کھانا بھی کھلایا کرتی تھی آپ مجھے اس بےحس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لیکر جاتی نانو " وہ روتے ہوئے انکی قبر کو دیکھتی بول رہی تھی بغیر یہ سوچے کہ اس کی باتوں سے کتنی تکلیف ہو رہی تھی انکی روح کو

"کتنی دعا کی تھی میں نے نانو آپ تو کہتی تھی سچے دل سے مانگی ہر دعا قبول ہوتی ہے پھر اللہ پاک نے آپکو مجھ سے کیوں چھین لیا میں نے تو سچے دل سے آپکے لئے دعا کی تھی ناں نانو " وہ انکی قبر کو ہاتھ سے چھوتے بےجان لہجے میں بولی 

"میں بہت اکیلی پڑ گئی ہوں نانو میں کیا کروں دل سے بوجھ نہیں اٹھ رہا ایسے لگ رہا ہے کوئی اپنا ہے ہی نہیں اور اگر کوئی اپنا ہے بھی تو وہ اپنا نہیں لگتا میرا دل بہت دکھتا ہے نانو اللہ پاک کے سوا تو اب میرے پاس کوئی بھی نہیں ہے " ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ دھیمی آواز میں بولی تھی

"آپ اللہ پاک سے میرے لئے آسانیاں پیدا کرنے کو ضرور کہیے گا میں ٹوٹ رہی ہوں نانو اب تو آپ بھی نہیں ہیں ناں کون سمیٹے گا مجھے نانو میں امی کو بہت یاد کرتی ہوں وہ اکثر مجھے خواب میں ملتی ہیں لیکن نانو میں ہمیشہ انکو خود سے دور جاتے ہی دیکھتی ہوں کبھی انہوں نے مجھے مخاطب نہیں کیا وہ مجھ سے ناراض ہیں نانو ۔۔ آپ پلیز ان سے مل کر مجھ سے ملنے کو کہیے گا میں روز یہ سوچ کر سوتی ہوں کہ آج وہ مجھے مخاطب کریں گی مگر وہ تو میری طرف دیکھ کر ہی منہ موڑ لیتی ہیں " وہ لب بھینچتی انکی قبر کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوئی تھی 

"میں چلتی ہوں نانو سب پریشان ہو رہے ہو گے آپ میرے لئے اللہ پاک سے ضرور درخواست کرنا " انکی قبر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سسکی لیتے ہوئے بولی اور پھر چادر سے آنسوں صاف کرتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی تھی

"اللہ تمھیں سکون عطا فرمائے بیٹی" وہ بزرگ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے بولے تھے اسنے آنسوں کو روکتے ہوئے تشکر بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے آمین کہا اور پھر وہاں سے گزر گئی تھی بغیر یہ دھیان دیئے کہ اسکے الفاظ سے کسی کا دل بڑی بےدردی سے رویا تھا

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کچھ دن بعد :- 

"آصف صاحب اب تو توصیف بھی کام کر رہا ہے کیا سادگی سے نکاح کروا دیں" ممتاز صاحب کی بات سن کر سبزی کاٹتی آئیذل کے ہاتھ ساکت ہوئے تھے ریحم نے افسردگی سے اسے دیکھا تھا جو بےجان سی ہو گئی تھی آصف صاحب نے سنجیدگی سے ممتاز صاحب کو دیکھا تھا

"آئیذل بیٹی یہاں آؤ" 

وہ سہمی ہوئی دوپٹہ درست کر کے کچن سے باہر آئی تھی

"جی ماموں  جان" 

"بیٹا آپکو کوئی اعتراض تو نہیں اس نکاح سے اماں نے یقیناً پوچھا ہو گا آپ سے مگر میں آپکی مرضی ابھی جاننا چاہتا ہوں" آصف صاحب نے سپاٹ لہجے میں پوچھا تھا انگلیاں چٹخاتی آئیذل نے سہمی ہوئی نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جو سبزی کاٹتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہی تھی

"اماں نے ہی تو رشتہ طے کیا تھا پھر کیا اعتراض ہو گا" عائزہ بیگم نے  آئیذل کو گھورتے ہوئے کہا آصف صاحب کی درشت نظروں پر وہ خاموش ہوئی تھی

"جج۔۔جی اگر نانو نے یہ رشتہ طے کیا تھا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں " وہ ہچکچاتے ہوئے نظریں پھیر کر بولی آصف صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے سر ہلایا تھا وہ لب بھینچتی واپس کچن کی جانب مڑ گئی تھی

"پرسوں جمعہ ہے نیک دن ہے نکاح پڑھوا دیتے ہیں پھر" آصف صاحب کے الفاظ نے اسے ساکت کیا تھا اسکا دل ڈوبتا چلا گیا تھا

 وہ کچن سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی عائزہ بیگم بھی اسکے پیچھے چلی گئی تھی وہ لبوں پر ہاتھ رکھتی سسکیوں کو روک رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھل کر بند ہوا 

"ذیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں توصی نے مجھے سب بتایا تھا جس وجہ سے اسنے تجھے تھپڑ مارا تھا ہم عزت دار لوگ ہیں سمجھی اپنے سارے یاروں سے کہہ دینا اب کہ رشتہ پکا ہو گیا ہے اور پرسوں نکاح ہے خدا کے لئے ناک ناں کٹوانا ہماری خاندان میں ان دھندوں کو یہیں بند کر دے خدا واسطے"  عائزہ بیگم نے تنک کر کہا 

وہ آنسوں سے بھری آنکھوں سے عائزہ بیگم کو دیکھتی ساکت ہوئی تھی

"چل منہ ہاتھ دھو کر باہر آنا آنسوں سے ہی تو ریجھ لیتی ہے سب کو " عائزہ بیگم نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا وہ انکے جانے کے بعد روتے ہوئے بیڈ سے کپڑے سمیٹ کر الماری میں رکھنے لگی دوپٹہ اٹھانے پر وہ ساکت ہوئی تھی اسکا رومال دیکھ کر 

""Ok, I will never address you in this tone again. Please stop crying. You look terrible crying like that""

"ٹھیک ہے، میں آپ کو اس لہجے میں پھر کبھی مخاطب نہیں کروں گا۔ پلیز رونا بند کر دیں۔ آپ اس طرح روتے ہوئے خوفناک لگ رہی ہیں"

وہ اسکے کہے گئے الفاظ پر سسکتے ہوئے اسکے رومال کو اٹھا کر سینے سے لگاتے ہوئے روتی چلی گئی تھی

"تم ان سے محبت کرنے لگی ہو اور جتنی جلدی یہ بات مان لو اچھا ہو گا خود کو بےوقوف مت بناؤ"  حورم کی باتوں نے اسکے زخموں پر نمک پاشی کی تھی 

"اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے مجھے میں اچھے سے جانتی تھی یہ رشتہ آج نہیں تو کل ہونا ہی تھا پھر کیوں اتنی تکلیف ہو رہی ہے" وہ روتے ہوئے اسکے رومال کو دیکھتی بولی تھی 

"کاش آپ ہمیں ملے ہی ناں ہوتے "  وہ بےجان سے لہجے میں گویا ہوئی تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ڈیڈ کب تک ناراض رہیں گے آپ مجھ سے اور جا کہاں رہے ہیں آپ" چاہت نے جھنجھلا کر کہا اشفاق صاحب ٹائی لگاتے ہوئے اسے دیکھ گئے

"جب تم نے اپنی مرضی ہی کرنی ہے تو اپنے اس باپ سے پوچھ کر کیوں احسان لگانا چاہتی ہو جاؤ جو کرنا ہے کرو " اشفاق صاحب نے درشتگی سے کہا 

"ڈیڈ شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں اور آپ ابھی تک اسی بات کو لیکر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا ناں ذی بہت اچھا ہے وہ شادی کر تو رہا ہے کہا تھا ناں میں نے آپ سے " چاہت نے مسکراتے ہوئے کہا

"لیکن میری بات کان کھول کر سن لو جتنا سیدھا وہ لگ رہا ہے تمھیں وہ اتنا سیدھا نہیں ہے اور جس محبت کی تم بات کر رہی ہو وہ محبت اسکے باپ کے مر جانے کے بعد اسنے ختم کر دی تھی سب کے لئے سمجھی تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اسنے اپنے دشمنوں کا جو حال کیا ہے اور مجھے ڈر ہے وہ تمھیں نقصان ناں پہنچا دے " اشفاق صاحب نے سر جھٹک کر اسہزائیہ لہجے میں کہا 

"لیکن وہ مجھے نقصان کیوں پہنچائے گا ڈیڈ " چاہت کے سوال نے اشفاق صاحب کو ساکت کیا تھا

"بولیں ڈیڈ آپ اس سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں ایسا کیا کیا ہے آپ نے جو آپکو ہمیشہ ایک ہی خوف ستاتا ہے" چاہت نے انکے ہنوز ساکت چہرے کو دیکھ کر پوچھا وہ لب بھینچ کر بریف کیس اٹھا کر کمرے سے نکل گئے تھے چاہت انہیں دیکھتی رہ گئی تھی

پاکٹ سے رومال نکال کر انہوں نے اپنی پیشانی پر آئے پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں صاف کی تھی اور لمبا سانس لیکر وہ گھر سے نکل گئے تھے

                                    -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آفس کا دروازہ جلدی سے کھولتی ہوئی وہ اس سے ٹکرائی تھی کافی اسکی وائٹ شرٹ پر گری تھی 

"سس۔سوری پروفیسر میں ۔۔۔میں کیا کروں" وہ جلدی سے اپنے دوپٹے کو اسکی شرٹ کے سٹین پر رکھ کر سٹین صاف کرنے لگی اسنے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا جب تک آئیذل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا بہت دیر ہو چکی تھی وہ بےجان ہوتی اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا چکی تھی اسکا حلق پورا سوکھ چکا تھا اسکا سرد سپاٹ تاثر چہرا دیکھ کر 

آفس کا دروازہ جلدی سے کھولتی ہوئی وہ اس سے ٹکرائی تھی کافی اسکی وائٹ شرٹ پر گری تھی 

"سس۔سوری پروفیسر میں ۔۔۔میں کیا کروں اب" وہ جلدی سے اپنے دوپٹے کو اسکی شرٹ کے سٹین پر رکھ کر سٹین صاف کرنے لگی اسنے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا جب تک آئیذل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا بہت دیر ہو چکی تھی وہ بےجان ہوتی اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا چکی تھی اسکا حلق پورا سوکھ چکا تھا اسکا سرد سپاٹ تاثر چہرا دیکھ کر 

"سوری وہ ہم جلدی میں تھے۔۔۔  لیٹ۔۔لیٹ ہو گئے اس۔۔لئے" وہ لب کاٹتی شرمندگی سے نظریں چراتے ہوئے بولی تھی وہ سنجیدگی سے لب بھینچ کر زوہیب صاحب کو دیکھ کر کچھ بھی ناں کہہ سکا زوہیب صاحب جو مسکراتے ہوئے چلے آ رہے تھے اسکی وائٹ شرٹ پر کافی کا سٹین دیکھ کر چونکے تھے آئیذل کی تو جان ہی نکل گئی تھی انہیں دیکھ کر

"ذی یہ سب کیا ہے " زوہیب صاحب نے تاسف سے پوچھا تھا اور آئیذل کو بھی دیکھا تھا جو شرمندہ سی نظریں جھکائے کھڑی تھی

"ماموں آپ فلحال تو میرا سپیئر سوٹ لیکر آئیں میں باقی سب بعد میں بتاتا ہوں " وہ کرخت نظروں سے آئیذل کو دیکھتا بولا جو لب بھیجچ گئی تھی زوہیب صاحب نے سر ہلایا تھا اور وہاں سے اپنے آفس کی طرف بڑھ گئے تھے 

"سوری پروفیسر"

"اٹس اوکے مس آئیذل آپ نے اچھا گفٹ دیا ہے مجھے میرے یونیورسٹی میں لاسٹ دن پر " وہ سنجیدگی سے اپنی پاکٹ سے رومال نکال کر شرٹ پر لگا سٹین ہلکا کرتے ہوئے بولا آئیذل کی دھڑکنیں رک سی گئی تھی

"آپ ۔۔۔۔آپ جا رہے ہیں " وہ اضطراری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا جس کی بڑی بڑی بنفشی آنکھوں میں جزع برقراری رنج و ملال تھا ذاویان نے طمانیت سے اسے دیکھا تھا جو اسکے چہرے کو دیکھتی اب تک اسکے جواب کی منتظر تھی

"ڈونٹ وری مس آئیزل پروفیسر شاہان کی اسسٹنٹ کچھ مہینوں کے لئے آف ہیں تو آپ انکی اسسٹنٹ کی جاب کر سکتی ہیں" وہ اطمینان سے بول رہا تھا بغیر یہ سوچے کے اسکا چھوٹا سا دل کس قدر کرچی کرچی ہو رہا تھا اسے جانے کی خبر سن کر 

"ہم۔۔ہماری وجہ سے جا رہے ہیں آپ کیونکہ ہم اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتے " وہ سسکتے ہوئے  جو منہ میں آیا بولی تھی وہ چونک سا گیا تھا  کیونکہ اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر آئی تھی

"ہم آئندہ کوئی بھی غلطی نہیں کریں گے آپ پلیز مت جائیں" وہ بے اختیار لہجے میں بولی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہ گیا

"ذی یہ لو کب تک نکل رہے ہو تم " زوہیب صاحب نے اسکی طرف اسکے سپیئر شرٹ بڑھاتے ہوئے کہا جو اسنے سرعت سے لی تھی

"بس لیکچر کے بعد اوکے میں ملتا ہوں آپکو پھر " وہ آفس میں داخل ہو گیا تھا زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جسکی آنکھوں میں آنسوں تھے

"اٹس اوکے بچے ٹیک اٹ ایزی ہو جاتا ہے جلدی میں۔۔ کیا زاویان نے ڈانٹا آپکو" زوہیب صاحب نے شفقت سے استفسار کیا 

"ن۔۔نہیں پروفیسر نے نہیں ڈانٹا " وہ لہجے کو کمپوز کرتے نظریں جھکائے بولی زوہیب صاحب نے سر ہلاتے ہوئے اسے دوبارہ دیکھا جو ہنوز وہیں کھڑی تھی

"بچے لیکچر نہیں لینا آپ نے " زوہیب صاحب نے تشویش سے پوچھا

"و۔۔ وہ ہمیں پروفیسر سے کچھ پوچھنا تھا" وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے گھبرا کر بولی زوہیب صاحب نے اسے تاسف سے دیکھا تھا اور پھر "اچھا بہتر" کہہ کر وہاں سے گزر گئے تھے آئیذل نے لب بھینچ کر آفس کو دیکھا تھا جہاں سے یہ سب شروع ہوا تھا اور آج وہ یونیورسٹی سے جا رہا تھا ایک کھچاؤ تھا اسکے دل کو جو وہ  فالوقت سمجھ نہیں پا رہی تھی اسے آج ایک عجیب سی برہمی ہو رہی تھی ذاویان سے کہ وہ کیوں جا رہا تھا اور یہی برہمی غم و غصے کی صورت میں اسکی آنکھوں میں آنسوں کی صورت میں مفصّل ہو رہی تھی

وہ لب بھینچتی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی مگر یہ اسکی سب سے بڑی بھول تھی شرٹ کا بٹن بند کرتا ہوا وہ غیر متحرک سا ہوا تھا آئیذل کے گالوں پر سرخی پھیلی  "بےشکن بلیک شرٹ میں سروپ وجیہ وزرشی اوھیکش قابلِ دید مجسمہ " وہ ساکت سی ہو گئی تھی اور کچھ پل بعد آنکھوں کو سکون پہنچانے کے بعد 

وہ ندامت سے سر جھکا گئی تھی وہ افسردگی سے سر جھٹک کر رہ گیا تھا

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اسلام و علیکم" 

کال کنیکٹ ہوتے کی وہ جلدی سے بولی تھی ساتھ لیٹ کر فون چلاتی علیشہ نے پژمردگی سے آنکھیں گھمائی تھی 

"وعلیکم السلام کون " وہ غیر ذمہ داری سے اسے پہچاننے کا ارادہ ترک کر چکا تھا 

"میں سیرت " اسنے بھی ایسے بتایا جیسے وہ سچ میں بھول گیا ہو فون کے دوسری طرف خاموشی چھا گئی تھی سیرت نے بھولپن سے علیشہ کو دیکھا تھا جو اس کو کچا چبانے کے لئے تیار بیٹھی تھی 

"یس مس سیرت کوئی کام تھا آپکو" وہ کچھ دیر بعد پروفیشنل لہجے میں بولا

 جس پر سیرت کو شدید مایوسی ہوئی تھی اچانک سے اسکا غیریت والا یہ اوتار سیرت سے ہضم نہیں ہو رہا تھا

"آپ تو ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے اچھا سوری" جہاں سیرت نے معافی مانگی وہاں علیشہ نے کوفت سے اسے گھورا تھا بھلا وہ کیوں منا رہی تھی اسکو دوسری جانب فائل کو بند کرتے اسکے لبوں پر کار شگفت مسکراہٹ بکھری

"آپ کی حرکت معافی کے قابل نہیں مس سیرت" وہ نچلا ہونٹ دانت تلے دباتے ہوئے پرشکوہ انداز میں بولا جس پر سیرت کا منہ لٹکا تھا

"اچھا معافی مانگ تو رہی ہوں اتنے دن ہو گئے ہیں آپ نے تو شکل ہی نہیں دیکھائی" سیرت نے شکوہ کیا 

" کیا آپ مجھے دیکھنا چاہتی ہیں مس سیرت " 

سیرت نے آدھ منہ کھولا تھا اسکی بات سن کر مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ دوبارہ گویا ہوا

"آپکی یہ خواہش میں کچھ دیر بعد پوری کروں گا ہنی فلحال مصروف ہوں" وہ کال منقطع کرتے ہوئے فون کو کانفرنس ٹیبل پر رکھتے ہوئے مبہم سا مسکرایا تھا اور دوبارہ فائل کی جانب متوجہ ہوا تھا 

"سمجھتا کیا ہے خود کو پیارا ہے تو نخرے کرے گا" سیرت نے فون کو بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا علیشہ نے اففف اللہ کہہ کر سر جھٹکا تھا

"اسنے تمھیں ہنی کہا اور تم اسکی بےرخی پر شکوہ کر رہی ہو تمھیں غصہ نہیں آیا کیا " علیشہ نے تنک کر کہا 

"تو کیا ہوا بھیا بھی تو مجھے پرنسس کہتے ہیں" سیرت نے مسکراتے ہوئے کہا 

علیشہ نے اسے سخت گھوری سے نوازا تھا 

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ فوراً رخ پھیرتی لمبا سانس لیتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے لگی اسکی آنکھیں شرمندگی سے باہر آنے کو تھی 

"یہ کونسا طریقہ ہے مس آئیزل " شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں بولا تھا جس پر اسنے شرمندگی سے لب بھینچے

"سوری مم۔۔میں جان بوجھ کر نہیں آئی تھی اندر " وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے ہکلا کر بولی

"کیا چاہیے اب آپکو" وہ سنجیدگی سے ٹیبل سے فون اٹھاتا بولا آئیذل نے رخ بدل کر اسے دیکھا تھا جو فون پر میسج ٹائپ کر رہا تھا

"آپ کیوں جا رہے ہیں " وہ نظریں جھکائے ہی آبدیدہ سی ہوئی 

"آپ کو اتنا پرسنل سوال پوچھنے کا حق نہیں دیا گیا مس آئیزل" 

اسکے بےپرواہ جواب پر وہ دل پر کسک کھا کر رہ گئی تھی

"اگر ہمیں  کبھی آپکی۔۔۔ ایڈوائس کی یا مدد کی ضرورت پڑی تو ہم کیا کریں گے آپ تو جا رہے ہیں" وہ اسے ایک سیکنڈ دیکھنے کے بعد بولی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا

"آئی تھنک آپکو میری ایڈوائس کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہر بار ہر معاملے میں آپکی مدد نہیں کر سکتا مس آئیزل" وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے آفس سے باہر نکل گیا تھا آئیذل نے بےبس نظروں سے اسے دور جاتے دیکھا تھا بیگ کو کندھے پر درست کرتے ہوئے وہ باہر نکل گئی تھی 

"آئی تھنک آپکو میری ایڈوائس کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہر بار ہر معاملے میں آپکی مدد نہیں کر سکتا مس آئیزل"

اسنے ہاتھ سے آنسوں کو صاف کیا تھا 

"آپ واقعی اس بار اس عام سی لڑکی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے پروفیسر زاویان حیدر رضوی" وہ دھیمی آواز میں کہتے ہوئے لیکچر ہال سے کینٹین کی طرف بڑھ گئی تھی وہ اسکا آخری لیکچر نہیں لینا چاہتی تھی 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ساری شاپنگ تو ہو گئی افف کمر دکھ رہی ہے میری تو چل چل کے " چاہت نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے تھکان زدہ لہجے میں کہا مہر النساء بیگم نے سر جھٹکا تھا اسے چاہت زرا بھی پسند نہیں تھی مگر بیٹے کی ضد کے آگے کیا کرتی بھلا۔

"سیرت آپی زرا پانی لائیں میری بہنا بےہوش ہونے والی ہیں" انس نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا سیرت ہنستے ہوئے ہال میں داخل ہوئی تھی اور آتے ہی سامان کو دیکھنے میں مصروف ہو گئی تھی چاہت نے تیکھی نظروں سے انس کو دیکھا تھا

"بیٹا ذاویان کہاں ہے " مہر النساء بیگم نے صوفے پر بیٹھتے پوچھا 

"امی وہ تو یونیورسٹی گئے ہیں وہاں سے آفس جائیں گے لیکن کہہ کر گئے ہیں کہ مہندی کے فنگشن تک آ جائیں گے " سیرت نے سامان دیکھتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا 

"چلو کوئی بات نہیں کام ہو گا اسے" مہر النساء بیگم نے سر ہلایا تھا چاہت مسکراتے ہوئے فون نکال کر سکرول کرنے میں مصروف ہوئی تھی 

"انس بھائی صاحب ڈیکوریشن والے کب تک آئیں گے" سیرت نے سامان چیک کرنے کے بعد صوفے پر بیٹھ کر پوچھا

"بس آدھے گھنٹے تک پہنچ جائیں گے " انس نے فون پر دیکھتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا سیرت نے دھیرے سے سر ہلایا تھا

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی کینٹین کے ونگ سے نکل رہی تھی جب اسکی نظر لیکچر ہال سے نکلتے زاویان پر پڑی تھی جو پروفیسر شاہان کیساتھ مسکراتے ہوئے مصافحہ کر رہا تھا  آئیذل نے لب بھینچ کر اس کلاسی شخص کو دیکھا تھا جو سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا

"آئی تھنک آپکو میری ایڈوائس کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہر بار ہر معاملے میں آپکی مدد نہیں کر سکتا مس آئیزل"

اسنے خفگی سے سر جھٹکا تھا اور گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی وہ سنجیدگی سے آگے بڑھ گیا تھا

"مس آئیزل"  وہ رکی تھی 

"جی" وہ پیچھے مڑی تھی شاہان چلتے ہوئے اسکے سامنے رکا تھا 

"آپ کے پروفیسر جاتے جاتے آپکے لئے یہ دیکر گئے ہیں" وہ پاکٹ سے ایک بلیک کارڈ نکال کر اسکی جانب بڑھ گیا تھا آئیذل نے چونکتے ہوئے اسکا کارڈ لیا تھا جس پر اسکا نام اور نمبر تھا

"وہ کہہ کر گئے ہیں آپ جب چاہیں میری ایڈوائس لے سکتی ہیں" شاہان نے ہلکی مسکان کیساتھ کہا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا کتنی لاڈلی تھی وہ پروفیسر زاویان کی 

"تھینک یو پروفیسر" اسنے مسکراتے ہوئے پروفیسر شاہان سے کہا وہ مؤدبانہ انداز میں مسکراتا ہوا پیچھے مڑ کر جانے لگا تھا

"پروفیسر زاویان کیوں جا رہے ہیں" وہ کارڈ مظبوطی سے تھامے ہوئے بولی

"انکی شادی ہے مس آئیزل" پروفیسر شاہان نے مسکراتے ہوئے کہا آئیذل کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اسکے بعد دوسری  بیٹ مس ہائی تھی اسکے چہرے سے چمک غائب ہوئی تھی جسے پروفیسر شاہان نے بھی نوٹس کی تھا

"اوکے تھینک یو پروفیسر" وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وہاں سے چل دی تھی کچھ دیر پہلے والی ساری مسرت ایک پل میں ختم ہو چکی تھی وہ دل پر بہت سا بوجھ لئے وہاں سے گھر کے لئے نکل پڑی تھی 

"تم ان سے محبت کرنے لگی ہو " "انکی شادی ہے مس آئیزل" ""آپ کے پروفیسر جاتے جاتے آپکے لئے یہ دیکر گئے ہیں""پروفیسر زاویان کیوں جا رہے ہیں""آپ کو اتنا پرسنل سوال پوچھنے کا حق نہیں دیا گیا مس آئیزل""ہم آئندہ کوئی بھی غلطی نہیں کریں گے آپ پلیز مت جائیں

 اب تک کے تمام واقعات اسکے دماغ میں فلم کی طرح چل رہے تھے اسکا سر بےحد بوجھل ہو گیا تھا وہ لڑکھڑاتے قدموں کیساتھ روڈ تک پہنچی تھی آنکھوں کے سامنے رنگوں کے دھبے سے نظر آ رہے تھے اسنے نیم وا آنکھوں سے رکشہ روکا تھا اور رکشے میں سوار ہوئی تھی آس پاس کا منظر گھوم رہا تھا

"بھیا یہاں پر ہی روک دیں" وہ قبرستان کو دیکھتی بولی رکشے والے نے رکشہ روکا تھا وہ کرایہ دیکر نیچے اتری تھی بےجان قدموں کیساتھ وہ آگے بڑھ گئی تھی اسکے پیچھے ایک بلیک مرسیڈیز بھی رکی تھی مگر وہ دنیا جہاں سے غافل بس چلتی جا رہی تھی قبرستان کا گیٹ کھول کر وہ بےبسی سے چلتی جا رہی تھی وہاں بیٹھے بزرگ نے تشویش سے اس عام سی لڑکی کو دیکھا تھا جو دنیا جہاں سے غافل سی چل رہی تھی انفال بی بی کی قبر کے قریب وہ مٹی پر ڈھے سی گئی گھنٹوں کے بل بیٹھتی وہ انکی قبر پر گرتی روتی چلی گئی

"نانو ہم بہت تھک گئے ہیں اللہ پاک سے کہیں وہ ہمیں بھی اپنے پاس بلا لیں " آنسوں اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر انکی قبر پر گر رہے تھے 

"نانو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہم کیا کریں ہمیں آپکی مدد کی بہت ضرورت ہے ہمیں بتائیں ہم کیا کریں کہاں جائیں " آنسوں جلدی سے صاف کرتے ہوئے وہ انکی قبر کس ایسے مخاطب کر رہی تھی جیسے وہ وہاں موجود تھی اور اسکی بات سن رہی تھی

"ہمیں ایک ایسے شخص سے محبت ہو گئی ہے جو ہمارے نصیب سے بہت دور ہےاب ہم کیا کریں بتائیں نانو ان میں بہت اپنائیت سی ہے ایسا لگتا ہے وہ میرے اپنے ہیں میں کیسے کہوں ان سے نانو میرا نکاح ہے کل توصیف سے نانو میں بہت پریشان ہون آپکی آئیذل بہت پریشان ہے " انکی قبر پر ہاتھ پھیرتی وہ بےجان لہجے میں بول رہی تھی 

"ممانی ہم سے بالکل بھی اچھا برتاؤ نہیں کرتی وہ ہم پر بہت گندے الزام لگاتی ہیں نانو وہ ہمیں بدکردار کہتی ہیں ہمیں اپنے پاس بلا لیں نانو ہم نہیں جینا چاہتے آپ کیوں چلی گئی ہمیں بے آسرا چھوڑ کر" 

کسی نے بےحد کرب سے اسکی ساری باتیں سنی تھی

روتے ہوئے اسکی نظر گھڑی پر پڑی تھی اسے یہاں بیٹھے بیس منٹ ہو چکے تھ وہ نہیں چاہتی تھی پھر سے اس پر گھر دیر سے آنے پر طرح طرح کے الزام لگائے جائیں  

  وہ جلدی سے وہ اٹھی  نظروں کا منظر یکایک دھندلایا تھا وہ بےہوش ہو کر نیچے گری تھی اسنے بند ہوتی آنکھوں سے ایک پرچھائی کو اپنی طرف تیزی سے بڑھتے دیکھا تھا اور اسکی آنکھیں بند ہو چکی تھی وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھا تھا اسکا چہرہ تھپتھا رہا تھا اسکے بخار سے تپتے ہوئے چہرے کو چھوتے ہوئے وہ ساکت سا رہ گیا تھا وہ بزرگ تیزی سے اسکے پاس آئے تھے

"کیا ہوا ہے بیٹے" 

"بخار ہے بابا چکرا کر گر گئی ہیں میری گاڑی پاس میں ہی میں لیکر جاتا ہوں" وہ انہیں پریشان دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے اسے بازوں میں اٹھا چکا تھا 

"میں جانتا ہوں انہیں آپ فکر ناں کریں " وہ انکے اضطراری چہرے کو دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ریحم کہاں رہ گئی ہے چائے" چارپائی پر بیٹھتی عائزہ بیگم نے تنک کر کہا تھا ریحم چائے لیکر ان کے ہاتھ میں تھما چکی تھی 

"وہ مناہل کے لئے دودھ گرم کر رہی تھی چاچی نے کہا اس لئے دیر ہو گئی"  ریحم کی بات سن کر عائزہ بیگم نے سر جھٹکا تھا

"عروسہ خود نہیں کر سکتی کیا ؟ کچھ دن اور بچے اپنی ماں کے گھر ہی رہنے دیتی ہمارے کام بڑھانے آ گئے سب" چائے کا گھونٹ بھرتی عائزہ بیگم نے تنک کر کہا 

"چاچی باہر بہت بڑی کار آئی ہے چاچی " مناہل خوش ہوتے ہوئے باہر سے اندر آتی چہک کر بولی تھی ریحم نے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جو چارپائی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی تھی ریحم دروازے کی طرف دیکھتی ساکت ہوئی تھی عائزہ بیگم کا تو منہ کھل گیا تھا اسے بازؤں میں اٹھائے ایک نوجوان جو اندر داخل ہوا تھا آصف صاحب اور ممتاز صاحب کیساتھ  ریحم نے بےہوش آئیذل کو دیکھتے ہوئے لبوں پر ہاتھ رکھے تھے وہ سنجیدگی سے اسے چارپائی پر لیٹا چکا تھا آس پاس کے لوگ بھی گلی میں اکھٹے ہو گئے تھے کچھ تو دروازے سے اندر جھانک رہے تھے 

"کیا ہوا ہے  " 

آصف صاحب نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا عائزہ بیگم اسے گھور رہی تھی جو بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا اور انہوں نے ایک تیز سی نظر باہر کھڑی مرسیڈیز پر بھی ماری تھی ریحم اسکے ٹھنڈے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھوں سے رگڑ رہی تھی

"باہر فینٹ ہو گئی آپ ڈاکٹر کو کال کریں " وہ آصف صاحب کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا ممتاز صاحب نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تھا جو بےحد پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا

"ہائے منہوس روڈ پر بےہوش ہو گئی تھی یہ " عائزہ بیگم نے بےہوش پڑی آئیذل کو جھنجھوڑ ڈالا وہ سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھ گیا تھا 

"ممتاز جاؤ توصیف سے کہو ٹیکسی لیکر آئے اسپتال جانا ہے " آصف صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے کہا تھا 

"بیٹا آپکا بےحد شکریہ آپ یہاں لے آئے ہماری بچی کو " آصف صاحب نے اسکے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے تشکر بھرے لہجے میں کہا تھا وہ سرد نظروں سے بےہوش پڑی آئیذل کو دیکھ گیا تھا

"میں ڈاکٹر کو کال کر دیتا ہوں وہ کچھ دیر میں ہی یہاں پہنچ جائیں گے " وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا فون نکال کر کال ملا چکا تھا عائزہ بیگم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"اجی یہ ہے کون ہمارے تو جاننے والے نہیں ہے گھر کا پتا کیسے تھا اسکو اور آئیذل کو کیسے جانتا ہے امیر زادہ لگ رہا ہے" عائزہ بیگم نے ممتاز صاحب کے کان میں سرگوشی کی تھی ممتاز صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جو فون پر بات کر رہا تھا

"اسے جانے کا بولئے ناں محلے والے دیکھ رہے ہیں ایسے ہی کوئی بھی منہ اٹھا کر گھر آ جائے گا کیا پہلے ہی بہت سوال کریں گے محلے والے کیسے اٹھا کر لایا ہے اسکو نوجوان لڑکا ہے ایسے کیسے اٹھا کر لے آیا ہے بھلا اس منحوس کو " عائزہ بیگم کی بات پر ممتاز صاحب نے لب بھینچے تھے

"تم دو پل کو چپ کر جاؤ" ممتاز صاحب نے تنگ ہو کر کہا عائزہ بیگم چپ ہوئی تھی ڈاکٹر صاحب کچھ ہی دیر میں آ گئے تھے وہ اسکی نبض دیکھ رہے تھے 

"شدید بخار ہے اور بی پی بھی بہت لو ہو گیا ہے کیا صبح ناشتہ کیا تھا" ڈاکٹر صاحب کے سوال پر آصف صاحب نے سنجیدگی سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا جو انجان بن گئی تھی

"نہیں صبح ناشتہ نہیں کیا آئیذل نے وہ کہہ بھی رہی تھی کہ زکام ہے لیکن امی نے برتن دھونے کو کہا اسے " ریحم کی بات پر آصف صاحب نے کرخت نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھ کر سر جھٹکا تھا عروسہ بیگم نے شفقت سے آئیذل کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا وہ سنجیدگی سے پیچھے کھڑا سب دیکھ رہا تھا اسکا ذہن گہری کشمکش میں تھا 

"یہ دوائی دے دیں کھانے کے بعد میں انجیکشن دے دیا ہے انشاء اللہ بہتر ہو جائیں گی " ڈاکٹر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا اور ذاویان کو ہاتھ ملا کر باہر نکل گئے اسنے ہمدردی سے اس عام نقوش چہرے والی لڑکی کو دیکھا تھا جو آنکھیں میچے پڑی ہوئی تھی

"میں چلتا ہوں " وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا باہر نکلا تھا آصف صاحب اسے دروازے تک چھوڑنے گئے تھے عائزہ بیگم نے منہ کا زاویہ بگاڑ کر بےہوش پڑی آئیذل کو دیکھا تھا

"ناجانے کون تھا وہ اب جسے ہمارے گھر تک کا پتا تھا یہ منہوس اٹھے پھر بتاتی ہوں اسے میں محلے میں ناک کٹا دی ہماری کیسے جھولتی ہوئی آئی تھی اسکے بازوں میں" عائزہ بیگم نے اسکے بخار سے سرخ پڑتے چہرے کو نفرت سے دیکھ کر پھنکار کر کہا تھا ریحم نے سر جھٹکا تھا ممتاز صاحب مٹھیاں بھینچ گئے تھے یقیناً انہیں بھی ذاویان کا یہاں آنا پسند نہیں آیا تھا

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"امی کہاں رہ گیا ذی ابھی تک تو آ جانا چاہیے تھا ناں" مہندی لگواتی چاہت نے جھنجھلا کر کہا تھا مہر النساء بیگم نے اسے سرعت سے دیکھا تھا

"میں فون ملا تو رہا ہوں وہ پک ہی نہیں کر رہے میں کیا کروں بھلا"  فون کان سے لگاتے انس نے چڑھ کر کہا تھا

"ہو سکتا ہے آفس میں کوئی کام پڑ گیا ہو اور لیٹ ہو گئے ہوں ابھی تک بابا بھی تو نہیں آئے ناں " 

"سیرت ٹھیک کہہ رہی ہے شاید آفس میں کام ہو اور بابا کیساتھ ہی آئیں"  انس نے فون کان سے ہٹا کر کہا چاہت نے منہ کا زاویہ بگاڑ کر سب مہمانوں کو دیکھا تھا سب ہی آ گئے تھے بس وہ نہیں آیا تھا

"ہائے منہوس روڈ پر بےہوش ہو گئی تھی یہ "

"نہیں صبح ناشتہ نہیں کیا آئیذل نے وہ کہہ بھی رہی تھی کہ زکام ہے لیکن امی نے برتن دھونے کو کہا اسے "

"ممانی ہم سے بالکل بھی اچھا برتاؤ نہیں کرتی وہ ہم پر بہت گندے الزام لگاتی ہیں نانو وہ ہمیں بدکردار کہتی ہیں ہمیں اپنے پاس بلا لیں نانو ہم نہیں جینا چاہتے آپ کیوں چلی گئی ہمیں بے آسرا چھوڑ کر"

وہ سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا اب تک کے تمام واقعات اسکے دماغ میں گردش کر رہے تھے وہ گہری کشمکش میں بھی تھا اسوقت کیونکہ گھر سے کالز آ رہی تھی مہندی کا فنگشن تھا اور وہ گھر ابھی تک نہیں پہنچا تھا

"وہ لمظ نہیں ہے میں اسکی فائل دیکھ چکا ہوں پھر کیوں مجھے اس سے ہمدردی ہو رہی ہے وہ لمظ نہیں ہے ذاویان نہیں ہے وہ لمظ" سر کو سنجیدگی سے خم دیکر  اسنے سختی سے اسٹیرنگ ویل پر ہاتھ رکھا تھا اسکی بڑی بڑی آنسوں سے بھری بنفشی آنکھیں اسے اپنے حواسوں پر قابض محسوس ہو رہی تھی 

"ڈیم اٹ " ایک ہاتھ کو بالوں میں پھیرتے ہوئے اسنے متذبذب لہجےمیں خود سے شکوہ کیا تھا

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آئیذل میری بات سنو امی تمھارا ہر صورت کل نکاح پڑھوانا چاہتی ہیں بھئی کیساتھ تم یہاں سے بھاگ جاؤ بھائی اچھے انسان نہیں ہیں پلیز تم بھاگ جاؤ یہاں سے" اسے ہوش میں آتا دیکھ کر  کب سے اسکے پاس بیٹھی ریحم نے جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا آئیذل نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا

"تمھیں کوئی اجنبی یہاں چھوڑ کر گیا ہے  تم بےہوش ہو گئی تھی راستے میں  " ریحم نے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا تھا ایک کمزور سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیلی تھی یعنی وہ خود اسے یہاں چھوڑ کر گیا تھا 

"تم بھاگ جاؤ یہاں سے آئیذل سب باہر ہیں اٹھو تم بھاگ جاؤ یہاں سے " وہ اپنی چادر اٹھا کر اسکی طرف بڑھاتی بولی آئیذل نے بےجان نظروں سے اسے دیکھا تھا

"میں نہیں جا سکتی میں کہاں جاؤں گی ریحم" 

"وہ وہ کون تھے جو تمھیں چھوڑ کر گئے ہیں تم انہیں جانتی ہو تم ان سے کہو وہ تمھاری  مدد کر دیں" ریحم کی بات پر اسنے لب بھینچے تھے

" میں جانتی ہوں لیکن وہ میری مدد نہیں کر سکتے وہ میرے پروفیسر ہیں" سر کو خم دیتی وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی 

"تم یہ نکاح مت کرنا آئیذل کیا تم واقعی اس نکاح سے خوش رہو گی " ریحم کے سوال پر وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوئی اور پھر سر ہلایا تھا

"میرے خوش ہونے ناں ہونے سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا " وہ بےجان لہجے میں بولی

"ریحم کہاں رہ گئی ہے"

 ریحم عائزہ بیگم کے پکارنے پر جلدی سے اٹھ کر باہر گئی تھی

"اٹھ گئی مہارانی" عائزہ بیگم نے اسے آنکھیں کھولتے ہوئے دیکھ کر پھنکار کر کہا تھا وہ سر کو پکڑتی بوجھل آنکھوں سے انہیں دیکھ گئی تھی آصف صاحب سنجیدہ سے نظریں جھکائے کھڑے تھے

"اٹھ گئی جب پورے محلے میں بےعزتی کروا لی " عائزہ بیگم نے تنک کر اسکا کندھا پکڑتے جھنجھوڑا وہ درد سے سسک پڑی تھی

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ" 

"میں کیا کہہ رہی ہوں منہوس تجھے پتا ہے کیا ہو گیا تجھے پتا ہے لوگ کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں جوان لڑکا تجھے بانہوں میں بھر کر اٹھا کر یہاں چھوڑ کر گیا ہے کم بخت کہاں بےہوش ہو گئی تھی موت آ جاتی تجھے تو" 

"خدا کا خوف کریں آپا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ" خاموش کھڑے آصف صاحب نے سنجیدگی سے کہا 

آئیذل نے بےبس نظروں سے آصف صاحب کو دیکھا تھا جو قدرے پشیماں لگ رہے تھے

"بچے آرام کرو " آصف صاحب اسکے سر پر تسلی سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولے اور باہر نکل گئے ممتاز صاحب بھی انکے ساتھ ہی بغیر ایک لفظ کہے باہر نکل گئے تھے 

"یاد رکھنا کل تیرا اور توصیف کا نکاح ہے اگر کوئی گڑ بڑ کی کم زات تجھے ذندہ نہیں چھوڑوں گی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے محلے میں " عائزہ بیگم اسے زہر کند نظروں سے دیکھ کر دھاڑ سے دروازہ بند کر کے چلی گئی تھی 

"اب تو یہ دل بھی بند ہو چکا ہے ممانی درد سہتے سہتے اب تو سب کچھ حال پر چھوڑ دینا بہتر ہے کیا ہو گا اگر کچھ اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں گی مجھے تو عادت ہو گئی ہے جب کوئی ہمدرد ناں ہو تو ہمدردی کی امید کیسے رکھ سکتی ہوں" وہ بےجان لہجے میں کھڑکی کی طرف دیکھتی بولی جہاں درخت تیز ہوا کے زور پر رقص کر رہے تھے 

                                            -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

فون کی چمکتی اسکرین کو دیکھ کر اسنے جلدی سے فون اٹھایا تھا مگر سکرین پر چمکتا بالاج نام دیکھ کر اسنے بھنویں سکیڑی تھی

"کہا تھا تمھیں کہ آئندہ مجھے کال مت کرنا " دانت پیستے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولی

"چاہ مائی لوو مائی کپ کیک مجھے ناں تمھاری بہت یاد آ رہی ہے ملنے آؤ ناں" 

"بکواس بند رکھو ورنہ بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گی" اسکی شراب کے نشے میں دھت آواز سن کر چاہت کا ماتھا ٹھنکا

"بولنے کے قابل تو میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا جانم جب تمھیں میری ضرورت پڑتی تھی مجھے پانچ منٹ میں ملنے کا کہتی تھی اور اگر اب مجھے تمھاری ضرورت ہے تو مجھے بکواس بند رکھنے کا کہہ رہی ہو ۔۔۔ اففف چاہ مائی وسکی ۔۔۔ اگر تم اسی وقت مجھے آ کر ناں ملی تو یاد رکھنا تمھارے فوٹوز اور بہت کچھ ہے میرے پاس جسے میں ذاویان کو بھیج کر تمھارے اور میرے رشتے کی اصلیت بتا سکتا ہوں کتنی گھٹیا لڑکی ہو تم اسکے ساتھ نکاح ہونے کے باوجود تم میرے پاس آتی رہی اور میرے ساتھ تعلقات رکھے " 

چاہت کو ٹھنڈا پسینہ آیا تھا اب تک کئے گئے تمام گناہ کے تمام مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائےتھے

"بالاج تم ایسا نہیں کر سکتے"

"میں ایسا ہی کروں گا اگر تم نے میری بات نہیں مانی اب تک میں تمھاری بیماری کی وجہ سے کچھ نہیں کہتا تھا لیکن مجھے اب اندازہ ہو گیا ہے کہ میں تو تم ایک نہایت گھٹیا لڑکی ہو میرے ساتھ ٹائم پاس کیا پھر ذاویان سے شادی کیسے کر سکتی ہو بھلا " چاہت کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھ کر مہندی لگانے والی نے اسے تشویش سے دیکھا جو فون کان سے لگائے ٹھنڈی ہی پڑتی جا رہی تھی

"مم۔۔ میں۔ نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔ تت۔۔۔تم نے ہی وہ سب کیا تھا مم۔۔میرا نکاح ذی سے ہوا ہے اپنی بکواس بند کرو  " وہ لرزتے الفاظ کو جوڑتی بمشکل بولی

"تم نے اس نکاح کا مان کب رکھا نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ہاں سارے الزامات مجھ پر ڈال رہی ہو ؟؟ تمھیں تو سکون چاہیے تھا جو تمھیں زاویان سے نہیں ملا تو تم میرے پاس آ جایا کرتی آدھے گھنٹے میں مجھے آ کر ملو میں روم نمبر اور ایڈریس بھیج رہا ہوں " 

کال منقطع ہوچکی تھی لیکن وہ تھر تھر کانپ رہی تھی

"میم آپکو ٹھنڈ لگ رہی ہے تو اندر چل کر مہندی لگا دوں"  مہندی لگانے والی لڑکی نے اسے تشویش سے دیکھتے ہوئے پوچھا 

"نن۔۔نہیں جج۔۔جلدی سے لگاؤ مم۔۔میں تھک گئی ہوں" وہ لب بھینچتی پشیماں لہجے میں بولی

                                            -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

"مماں آج ہمارا برتھ ڈے تو نہیں ہے پھر گھر کو کیوں سجایا ہوا" ریڈ باربی فراک پہنے وہ آسمان سے اتری کوئی چھوٹی سی پری لگ رہی تھی 

"لمظ میرا بچہ آج بہت بڑا دن ہے آپ چلو باہر سب آپکا ویٹ کر رہے ہیں " اسکا ہاتھ پکڑے اسکی ماں مسکراتی بولی تھی

"ہمارا ویٹ کیوں کر رہے ہیں سب مماں اور ذی کدھر ہے ہمیں کھیلنا ہے اسکے ساتھ وہ اپنے نئےفرینڈز کیساتھ کھیل رہا ہو گا ہمیں بلایا بھی نہیں" وہ خفگی سے آس پاس نظریں گھماتی بولی 

"میرا بچا آج ناں آپ ذی کی بیسٹ فرینڈ بن جاؤ گی پھر وہ صرف آپکے ساتھ کھیلے گا"

"سچی مماں" خوشی سے اسکا گلاب سا چہرہ کھل اٹھا تھا 

"یس میرا بچہ بس آپ سے ایک انکل پوچھیں گے کہ آپکو ذی کا بیسٹ فرینڈ بننا ہے یا نہیں اور آپ کیا کہو گی " 

"یس " وہ چہکتے ہوئے بولی تھی  

"عشق اگر ایک دھاگا ہے تو ایک سرا میں ہوں دوسرا تم ہو"

"کونسا بندھن ہے تم سے اور کونسا رشتہ ہے"

 کبھی غیر سے لگتے ہو کبھی لگتے اپنے تم ہو"

"ناز  کیا میری لمظِ آئیذل مان گئی" زوہیب صاحب مسکراتے ہوئے انکا ہاتھ تھامتے اپنی بچی کو اٹھاتے ہوئے گویا ہوئے 

"جی مان گئی ہے اسے بھلا کیا اعتراض ہو گا دیکھیں کتنی خوش لگ رہی ہے" نازش بیگم نے مسکراتے ہوئے اسکا کھلا ہوا چہرہ دیکھ کر کہا

"بابا ذی کہاں ہے " وہ آس پاس دیکھتی متذبذب سی پوچھ رہی تھی زوہیب صاحب اور نازش بیگم مسکرا دیئے تھے

"بیٹا ذی آپکا ہی ویٹ کر رہا ہے چلیں ذی کے پاس" 

"یس مماں" وہ مسکرائی تھی

اپنی امی کا ہاتھ تھامے وہ چلتے ہوئے اسٹیج پر آئی تھی بےپرواہی سے انکا ہاتھ چھوڑ کر  ذی کو دیکھ کر وہ جلدی سے اوپر چڑھنے لگی لیکن اسکا فراک اسکے پیر کے نیچے آ گیا تھا اس سے پہلے وہ منہ کے بل گرتی کسی نے مہارت سے اسے تھام لیا تھا 

"بےبی گرل بی کیئر فل آپکو چوٹ تو نہیں آئی ناں" اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اسنے فکرمندی سے اسکے گلابی چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو اپنے بیسٹ فرینڈ کو دیکھ کر ہی خوشی سے چمک اٹھی تھی

" نو ہم ٹھیک ہیں ۔۔واؤ ذی یو لک بیوٹیفل" وہ اسے وائٹ ٹکسیڈو میں دیکھ کر خوشی سے اچھلتی ہوئی بولی تھی

ناز بیگم اور زوہیب صاحب مسکرائے تھے ان دونوں کو ساتھ بیٹھتا دیکھ کر انکا نکاح پڑھوایا جا رہا تھا سب کے چہروں پر مسکان تھی 

"مماں کیا میں یس بول دوں" لمظ نے معصومیت سے نازش بیگم کو دیکھتے پوچھا جس پر وہ مسکرا گئی تھی اور سر ہلایا تھا 

"زوہیب کتنا پیار کرتا ہے ناں ذاوی میری بچی سے " نازش بیگم نے مسکراتے ہوئے زوہیب صاحب کو دیکھتے کہا جس پر وہ بھی مسکرا دیئے تھے

"صحیح کہہ رہی ہو اور اس سے بہتر ساتھی شاید ہی ہماری لمظ کو مل سکے اس لئے میں اپنی فیری کو ذاویان کو سونپ رہا ہوں"

"قبول ہے"  اپنی گڑیا کو دیکھتے ہوئے وہ بولا تھا اسنے تو سگنیچر خود ہی کئے تھے اور آئیذل نے ٹیڑھے ترچھے حروف میں اپنا سائن کیا تھا جسے دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا صرف وہ ہی نہیں سب مسکرائے تھے  نکاح 

مکمل ہو چکا تھا اور سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے عاطف صاحب (ذاویان کے والد جو بےحد خوش تھے ) نے مسکراتے ہوئے زوہیب صاحب کو گلے لگایا تھا سب ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دینے میں مصروف تھے

"اب تم ہمارے بیسٹ فرینڈ بن گئے ہو اگر تم کسی اور لڑکی کیساتھ کھیلے تو ہم بہت ماریں گے تم کو " لمظ نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے دھمکی دی جس پر وہ نازش بیگم کو دیکھتا مسکرایا تھا جو لمظ کی بات پر مسکرا گئی تھی

"مجھے بھوک لگی ہے" اسکے وائٹ ٹکسیڈو کوٹ کو پکڑتی وہ منمنائی تھی وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے اسے اٹھا کر کچن میں آیا تھا 

"کیا کھانا ہے میری بےبی گرل کو"اسے چھوٹی شیلف پر بٹھا کر اسنے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا تھا

"وہ"

 بریانی کی جانب انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے وہ مسکرائی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے اس کے لئے پلیٹ میں بریانی ڈالنے لگا 

"ذی اس میں کیا ہے" وہ شیلف سے اترتی ہوئی چولہے پر کھڑی کڑھائی کو دیکھتی بولی ساتھ ہی اسنے ایڑھیاں اٹھا کر اس کڑھائی کو  تجسس کیساتھ پکڑنا چاہا تھا وہ تعجیل سا  اسکی طرف مڑا تھا لائونج سے آتی ناز بیگم وہیں ساکت ہوئی تھی کیونکہ کڑھائی میں گرم تیل تھا 

"لمظ نہیں " 

وہ منفعل سی چیختی ہوئی اسکی طرف بھاگی تھی جو کڑھائی کو الٹ رہی تھی ذاویان نے تیزی سے اسے اپنی جانب کھینچ کر اسے سینے سے لگایا تھا وہ سسکتے ہوئے اسکے سینے پر مکا مار گئی تھی وہ بیچاری ڈر ہی تو گئی تھی اسکے یوں اچانک کھینچنے پر مگر تیل ذی کے ہاتھ پر ضرور گرا تھا وہ اب رونے لگی تھی 

"کچھ نہیں ہوا بےبی گرل " وہ اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے نرمی سے بولا تھا کچن کے دروازے پر کھڑی نازش بیگم نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا جو جلے ہوئے ہاتھ کو  بےفکری سے پیچھے چھپائے دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسوں صاف کر کے اسے چپ کروا رہا تھا وہ مسکرائی تھی اور ساتھ وہ بھی مسکرا رہا تھا بےحد درد میں ہونے کے باوجود۔

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(𝗣𝗿𝗲𝘀𝗲𝗻𝘁)-

چہرے کو چادر سے چھپائے وہ تیز قدموں کیساتھ گھر سے باہر نکلی تھی گاڑی کی لائٹس روشن ہونے پر وہ جلدی سے ایک گلی میں مڑ کر اسکی گاڑی کو رضوی مینشن میں جاتے ہوئے دیکھ گئی تھی تیز قدموں کیساتھ وہ وہاں سے نکل گئی تھی

رات کے بارہ بج رہے تھے وہ گاڑی پارک کر کے گھر پہنچا تھا اب تک وہ آفس میں کمپیوٹر پر ناجانے کیا کرتا رہ گیا تھا پورے گھر میں  مہندی کے فنگشن کے حساب سے لکژری سجاوٹ کی گئی تھی مہمان تو جا چکے تھے مگر وہ بہت دیر تک باہر رہ گیا تھا اسنے سنجیدگی سے سیڑھیوں سے اترتے زوہیب صاحب کو دیکھا تھا جو اسے ہی فون ملا کر اسکے پک کرنے تک فون کان سے لگائے گھوم رہے تھے اسے دیکھ کر وہ تیزی سے اسکے پاس آئے تھے اور اسے سینے سے لگایا تھا

"خدا کا شکر ہے تم ٹھیک ہو ہم سب پریشان ہو گئے تھے کہاں تھے تم " اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے زوہیب صاحب نے دریافت کرنا چاہا وہ سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے سر ہلا گیا تھا

"میں آفس سے آ رہا ہوں " مختصر سا خشک سا جواب جس کی توقع زوہیب صاحب کو پہلے سے تھی 

"ذاویان خدا کا لاکھ شکر ہے میرا بچہ ٹھیک ہے ہم تو پریشان ہو گئے تھے ناں تم فون اٹھا رہے تھے اور ناں ہی تمھاری کوئی خبر تھی" مہر النساء بیگم نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے محبت سے کہا وہ لب بھینچ گیا تھا 

"میں تھک گیا ہوں کل کافی بڑا فنگشن ہے آپ سب بھی آرام کریں کل ملتے ہیں شب بخیر" وہ روکھے لہجے میں کہتا ہوا کوٹ کو بازو پر لٹکا کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے پورشن کی جانب بڑھ گیا زوہیب صاحب نے اسے پرسوچ نظروں سے دیکھا تھا مہر النساء بیگم واپس کچن کی جانب بڑھ گئی تھی 

"کہاں تھے آپ بھائی مجھے کتنی ٹینشن ہو رہی تھی پتا ہے آپکو" وہ کمرے میں ہوا کی طرح داخل ہوئی تھی اسے دیکھ کر اسکی ساری ٹینشن دور ہو گئی تھی

"آفس میں کچھ ضروری کام تھا سوری اپنی پرنسس کی کالز اگنور کر دی"

 اسے سینے سے لگاتے ہوئے اسکے بالوں پر لب رکھے محبت سے بولا سیرت نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا تھا

"میں بہت پریشان ہو گئی تھی بھائی مجھے تو بہت ساری باتیں کرنی ہیں آپ سے آپ میری بک بک سنو گے ناں ہمیشہ کی طرح" وہ مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑتی بولی وہ مبہم سا مسکراتا سر ہلا گیا تھا

"پرنسس میں فلحال بہت ڈیپریس ہوں آئی ریئلی نیڈ مائی پرنسس رائٹ ناؤ" وہ فون سائڈ ٹیبل پر رکھتا گمبھیر لہجے میں بولا سیرت نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا

"آپ بھلا کیوں سٹریس ہو بھائی کل آپکی شادی ہے مجھے بتاؤ مل کو سولوشن ڈھونڈ لیتے ہیں" وہ بیڈ پر بیٹھتی تاسف سے بولی ذاویان مسکرایا تھا ایک وہ ہی تو تھی جس سے وہ کھل کر ساری باتیں شیئر کرتا تھا

                                              -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

۔_____"کتابیں سینکڑوں پڑھ لی مگر یہ رمز ناں جانی۔                           

کوئی اپنا گر بچھڑ جائے تو کیسے صبر کرتے ہیں"____۔                          

ایک نئی صبح تھی نیا دن تھا مگر حالات وہی تھے آئینے کے سامنے بیٹھی وہ اپنے جذبات سے عاری چہرے کو دیکھ رہی تھی جو رونک سے محروم تھا

"آئیذل ایک بار ان کو سب بتا دو کہ تم ان سے محبت کرتی ہو کم سے کم دل پر بوجھ تو نہیں رہے گا ناں" حورم نے کب سے آئینے کے سامنے اپنے عکس کو گھورتی آئیذل کو دیکھ کر تشویش سے کہا 

"نہیں حور میں نے سب بھلا دیا ہے یہ دنیا بڑی ظالم ہے حور خاص طور پر ہم جیسی عام لڑکیوں کے لئے ،،  پتا ہے میں نے کل رات ایک خواب دیکھا  اس میں ایک لڑکی تھی میں اسے پہچان نہیں پائی مگر میں جانتی ہوں وہ کون تھی وہ بہت عجیب لڑکی تھی وہ بہت عام سی تھی بہت خوبصورت نہیں تھی مگر ناں وہ ہر چیز کو مکمل دیکھنا چاہتی تھی وہ لڑکی ہمیشہ گھر کی اشیاء کو سلیقے سے ترتیب دیکر رکھتی تھی کھڑکی کے باہر پڑے پودوں کو سنوارتی رہتی تھی صبح پرندوں کو خود سے پہلے کھانا ڈالتی تھی کہتی تھی ادھوری چیزوں سے الجھن ہوتی ہے وہ ہر کام کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے دیکھا اسکے بال الجھے ہوئے ہیں اسکے کھڑکی میں رکھے گئے پودے سوکھ گئے ہیں شاید ادھورے جذبات اور راہِ حیات کی تلخیاں اسے مکمل کھا گئے " وہ سر کو گراتی بےجان لہجے میں بولی حورم کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے 

"پتا ہے حورم میں ناں غور و فکر کی بھوکی ہوں۔۔۔ حورم مجھ جیسی عام نقوش لڑکی پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا بہت سے لوگوں کے سامنے رہ کر بھی میں انہیں نظر نہیں آتی تھی مگر پروفیسر ۔۔ ان میں ناں ایک اپنا پن سا نظر آتا تھا وہ ایسے تھے کہ دور رہ کر بھی جیسے وہ میری موجودگی کو محسوس کر لیتے تھے شاید اس لئے اس نادان دل میں جذبات پیدا ہو گئے کیونکہ اتنی توجہ مجھے کسی نے ذندگی میں نہیں دی " وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتی دھیمے لہجے میں بولی

"جلدی سے تیار کر دو اسے نکاح کا وقت ہونے والا ہے " عائزہ بیگم کانوں میں جھمکے ڈالتے ہوئے اندر داخل ہوتی بولی حورم نے سر ہلایا تھا

"آنسوں بہانے ناں بیٹھ جانا اب جلدی کر یہ کپڑے پڑے ہیں اور یہ زیورات رکھ کر جا رہی ہوں خیال سے پہننا لاکھوں کا خرچہ کروایا ہے تمھارے چہیتے ماموں نے یہ سوچا نہیں کہ شکل و صورت بھی خاص ہو تو یہ سب اچھا لگتا ہے  "  جاتے جاتے وہ اسے طعنہ دے گئی وہ سر جھکا گئی تھی ایک آنسوں اسکے گال پر ٹوٹ کر بکھرا تھا

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

فون کو اٹھائے وہ آئینے کے سامنے اپنا عکس دیکھنے کے لئے رکا تھا ،،نفاست سے براؤن بالوں کو جیل کیساتھ مخصوص انداز میں بٹھایا گیا تھا بلیک ٹکسیڈو میں وہ مردِ صاحب جاہ اپنی وجیہہ سحرزدہ کر دینے والی طلسمی شخصیت کیساتھ  بےحد حسیں ، رعنا  لگ رہا تھا اسکی ہلکی سنہری آنکھوں میں انتہا کا سرد پن تھا خوشی اسکے چہرے سے کوسوں دور تھی 

زوہیب صاحب جو اسے نکاح کے لئے باہر لیجانے آئے تھے اسے ساکن دیکھ کر رک گئے تھے لب بھینچے وہ آئینے میں اپنا وجیہہ عکس دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں گم ہو گیا تھا

"ہم آئندہ کوئی بھی غلطی نہیں کریں گے آپ پلیز مت جائیں پروفیسر" اسکی آنسوں سے چمکتی ہوئی بنفشی آنکھوں نے اب تک اسے دل کو جکڑ رکھا تھا اسکے کہے گئے الفاظ اب تک وہ بھلا نہیں پایا تھا

"ذاویان تم خوش نہیں ہو پھر کیوں کر رہے ہو یہ شادی" 

زوہیب صاحب کی آواز اسے سوچوں کے سمندر سے باہر لائی تھی اسنے سپاٹ نظروں سے پلٹ کر زوہیب صاحب کو دیکھا تھا جو اسے سنجیدگی سے دیکھ رہے تھے

"انتقام کے لئے کر رہا ہوں برباد کر دینا چاہتا ہوں اس شخص کو اسکی اولاد کو اس سے جڑی ہر چیز کو" وہ کسی زخمی شیر کی طرح دھاڑا تھا زوہیب صاحب نے اسکی سنہری آنکھوں میں پھوٹتی چنگاریاں دیکھی تھی

"ایسا کرنے سے ناں ہی تم ماضی کو سدھار لو گے اور ناں ہی تمھیں تمھاری لمظ اور مجھے میری بیٹی ملے گی کئی زندگیاں برباد ہو جائیں گی"

"ہو جانے دیں یہ آگ جو پھیلی ہے ہر سو اور پھیلے گی سب کو جھلسائے گی سب اس آگ میں جھلسیں گے جس آگ میں میں جھلسا ہوں پچھلے پندرہ سالوں میں جس کرب سے میں گزرا ہوں جس آگ نے مجھے جھلسایا ہے وہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی  " اسکی بھاری مردانہ دلکش آواز  اسوقت بےحد کاٹدار ہو گئی تھی اسکا لہجہ مہلک تھا

"ذاویان مت کرو ایسا"

"آپ مجھے نہیں روکیں گے مجھے میری لمظ نہیں مل سکی میرے ذندہ رہنے کا مقصد ہی نہیں ہے اگر میں مر بھی گیا تو افسوس نہیں ہو گا لہذا مجھے اس تباہی کے راستے پر چلنے دیں اور اگر آپ کو اس آگ کے پھیل جانے کے بعد ملنے والے ماضی کے ناسور زخموں کے دوبارہ ظاہر ہونے کا خوف ہے تو چلے جائیں یہاں سے اسی وقت " وہ کرخت لہجے میں کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا زوہیب صاحب کی آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی تھی وہ سوچ رہے تھے وہ ماضی بھلا کر آگے بڑھ جانا چاہتا ہے مگر یہ انکی بہت بڑی بھول تھی وہ اب تک زخمی شیر کی طرح تھا جو صحیح موقع کی تاک میں تھا  

وائٹ کلر کے ہیوی لہنگے میں ہیوی وائٹ ڈائمنڈ جیولری میں چہرے پر برائڈل میک اپ کیساتھ وہ پور پور سجی ہوئی آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی اسکے لبوں پر مسکراہٹ تھی 

"فائنلی آج تم میرے ہو رہے ہو کتنی کوشش کی تھی تمھیں پانے کی ذاویان حیدر رضوی فائنلی تم میرے ہو رہے ہو چاہت اشفاق احمد کے صرف میرے" ایک مغرور مسکراہٹ وہ لبوں پر سجائے بولی تھی مہر النساء بیگم سیرت کے ہمراہ اسے باہر نکاح کے لئے لینے آئی تھی

وہ اسٹیج پر بیٹھا کرخت نظروں سے ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا جب اسکے فون کی بیل بجی اسنے لاپرواہی سے فون سائلنٹ کر دیا تھا 

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گولڈن کلر کے برائیڈل کرتے میں  ملبوس تھی جس پر کناری کا گولڈن کام کیا گیا تھا حورم نے اسے سر پر گولڈن کناری کے کام والا دوپٹہ رکھا تھا اسنے بند آنکھوں کو کھول کر آئینے میں خود کو جانچتی نظروں سے دیکھا تھا حورم نے اسکے سمپل میک اپ کیا تھا مگر وہ کبھی بھی بناؤ سنگار نہیں کرتی تھی اس وجہ سے آج اسکا چہرہ اس ہلکے سے میک اپ میں بھی بےحد پرکشش لگ رہا تھا اسکے براؤن بالوں کی دو لٹوں کو حورم نے چہرے پر چھوڑا تھا پیشانی کی لیفٹ سائڈ ہر لگا جھومر اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا بالوں کا جوڑا بنایا گیا تھا جن میں سرخ اور سفید پھول لگائے گئے تھے اسنے گود میں رکھے ہاتھ کو اٹھا کر کانوں میں جھمکے ڈالے تھے اسکی چوڑیوں کی کھنک خاموش کمرے میں گونجی تھی 

"آئیذل تم سچ میں یہ نکاح کرنا چاہتی ہو اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی تم اس لڑکے سے شادی کرو گی جو تمھاری زرا بھی قدر نہیں کرتا" حورم نے افسردگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ایک طنزیہ بےجان مسکراہٹ نے اسکے ہلکے گلابی ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا

"اس دنیا نے مجھے اتنے گہرے زخم دیئے ہیں کہ اب لگ رہا ہے یہ تو ان زخموں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں اتنے زخم کھا چکی ہوں چند اور صحیح" وہ ناتواں لہجے میں کہتے ہوئے اٹھی تھی اسکی چوڑیاں کھنک پڑی تھی حورم نے لمبا سانس لیا تھا اور اسے لیکر باہر نکل گئی تھی

                                             -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

اسنے کرخت نظروں سے  عروسی لباس میں پور پور سجی سیڑھیوں زے اترتی چاہت کو دیکھا تھا جو پھولوں کی پتیوں پر چلتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی اسکے لبوں سے مسکراہٹ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی ایک پراسرار مسکراہٹ ذاویان کے لبوں پر بکھری تھی بدلے کی آگ میں جھلستا ہوا اسکا وجود دہک رہا تھا وہ سب برباد کر دینا چاہتا تھا

اشفاق صاحب نے چاہت کے سر پر بوسہ دیا تھا اسکے لبوں پر بکھری مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی 

"آج تمھاری بیٹی بربادی کے دہانے پر خود چل کر آ رہی ہے بربادی کا دن ہے آج تمہاری بیٹی کے لئے اتنے زخم دوں گا جو موت تک بھی نہیں بھریں گے " وہ خفیف مسکراہٹ کیساتھ باپ بیٹی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا 

"ذی بات سنو باہر کوئی آیا ہے گارڈز اسے اندر نہیں آنے دے رہے مگر وہ تم سے ملنا چاہتا ہے " شاہان نے اسٹیج پر آتے ہوئے دھیمے لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کی تھی اسنے سنجیدگی سے شاہان کو دیکھا تھا

"میں جانتا ہوں تمھارا نکاح ہو رہا ہے لیکن اگر کچھ ارجینٹ ہوا تم ایک بار دیکھ لو "

وہ سنجیدگی سے اسٹیج سے اتر کر اسے اشارہ کر کے  باہر گیا تھا زوہیب صاحب نے شاہان سے اسکے جانے کی وجہ دریافت کی تھی اور شاہان نے بتایا تھا زوہیب صاحب نے سر ہلایا تھا ورنہ وہ اسکے یوں جانے پر پریشان ہی ہو گئے تھے

"کہا ناں نہیں مل سکتے جاؤ یہاں سے" گارڈ نے اس آدمی کو دھکا دیا تھا وہ گیٹ کے باہر گرا تھا کرخت نظروں سے اسنے گارڈ کو دیکھا تھا جو اسے وہاں دیکھ کر ساکت ہو گیا تھا وہ گارڈ کو کاٹدار نظروں سے دیکھ کر اس بزرگ بوڑھے کی جانب بڑھ کر انہیں سہارا دیکر اٹھا گیا تھا

"آپ یہاں " وہ اسکے آفس کا بوڑھا جینیٹر تھا جو کافی عرصے سے نہیں آ رہا تھا 

"صاحب میرا بیٹا بہت بیمار ہے آج اسکا دل کا آپریشن ہے خدا کے لئے کچھ پیسے دے دیں  اللہ آپکی ہر دلی مراد پوری کرے گا " وہ ہاتھ جوڑتے اسے دیکھ کر بولا اسنے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جس کا چہرہ کرب سے زرد پڑ رہا تھا

"کتنی رقم چاہیے آپکو بابا" اسنے شائستگی سے کہا تھا گارڈ چونکے تھے اسکے اس قدر نرم لہجے پر 

"چار لاکھ چاہیے صاحب" وہ ہاتھ جوڑتے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھتا بولا اسنے گارڈ کو اشارہ کیا تھا جو کچھ دیر بعد اسکی چیک بک اور پین لیکر باہر آیا تھا اسنے پانچ لاکھ کا چیک اس بوڑھے کے حوالے کیا تھا جسے اسنے کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے لیا تھا

"اللہ تمھاری ہر دلی مراد پوری فرمائے کبھی کوئی غم نصیب ناں ہو جیتے رہو مولا تمھیں دلی سکون عطا فرمائے" وہ اسے دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا 

"خوشیاں بہت پیچھے ماضی میں چھوڑ آیا ہوں میں تو " وہ سنجیدگی سے خودکلامی کرتے ہوئے لاؤنج کی طرف بڑھا تھا بغیر یہ سوچے کے دعا تو قسمت کا لکھا بھی بدل دیتی ہے 

اسکے فون کی اسکرین روشن ہوئی تھی اسنے سپاٹ نظروں سے فون پر نیا نمبر دیکھ کر کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگایا تھا

" پروفیسر زاویان بات کر رہے ہیں"

"جی میں ہی ذاویان ہوں آپ کون" 

"پروفیسر صاحب میں بلال ہوں آپ نے ایک فائل نکالنے کو کہا تھا اس کے لئے معزرت کرنی تھی میں نے آپکو دوسری فائل دے دی تھی نام ملتے جلتے تھے اس لئے غلطی ہو گئی جو لڑکی آپ کی اسسٹنٹ ہے اسکا وہی نام ہے جو آپ مجھے سمجھا رہے تھے مگر میں نے صحیح سے سنا نہیں تھا ۔۔

اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

"لمظ"  اسکے لبوں نے مہارت سے اسکا نام لیا تھا

"جی جی پروفیسر صاحب لمظِ آئیذل  یہی نام تھا جس لڑکی کی فائل آپکو دی تھی وہ آئیذل فاطمہ تھی " 

اسکا دل تیزی سے دھڑکتا چلا گیا دھڑکن منتشر ہوتی جا رہی تھی اسنے کال منقطع کی تھی وہ اب تک ساکن کھڑا تھا

"ذاویان نکاح کا وقت ہو گیا ہے سب انتظار کر رہے ہیں آؤ بھی" شاہان نے اسے سوچوں کے سمندر سے کھینچ کر باہر نکالا تھا وہ سر جھٹکتا اسے تاسف سے دیکھ گیا تھا 

"کیا ہوا میں کہہ رہا تھا نکاح کا وقت ہو گیا ہے چلو" شاہان نے اسے دیکھتے دوبارہ اپنی بات دہرائی تھی وہ بھاری قدموں کیساتھ اسکے ساتھ اندر داخل ہوا تھا

میں نے آپکو دوسری فائل دے دی تھی نام ملتے جلتے تھے اس لئے غلطی ہو گئی جو لڑکی آپ کی اسسٹنٹ ہے اسکا وہی نام ہے جو آپ مجھے سمجھا رہے تھے مگر میں نے صحیح سے سنا نہیں تھا ۔۔

"جی جی پروفیسر صاحب لمظِ آئیذل  یہی نام تھا جس لڑکی کی فائل آپکو دی تھی وہ آئیذل فاطمہ تھی

وہ سوچوں کے بھنور میں پھنسا کب اسٹیج تک پہنچا تھا اسے حوش ہی نہیں تھا 

"وہی بنفشی بڑی بڑی آنکھیں۔۔ اسکا دل ہر بار اسکے طلسم میں ایسے ہی نہیں جکڑ دیا جاتا تھا وہ تو بہت پہلے پہچان چکا تھا وہ اسکی لمظ ہی تھی اسکے دل کا اس انجان لڑکی کی طرف کھنچاؤ ایسے ہی تو نہیں تھا "

"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے "

مولوی صاحب نے دوسری بار خاموش بیٹھے ذاویان سے پوچھا تھا چاہت سمیت سب اسکے جواب کا انتظار کر رہے تھے وہ گہری کشمکش میں تھا ایک طرف اسکی لمظ تھی ایک طرف انتقام کی آگ تھی 

"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے"

مولوی صاحب نے تیسری بار پوچھا تھا 

"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے "

مولوی صاحب نے دوسری بار خاموش بیٹھے ذاویان سے پوچھا تھا چاہت سمیت سب اسکے جواب کا انتظار کر رہے تھے وہ گہری کشمکش میں تھا ایک طرف اسکی لمظ تھی ایک طرف انتقام کی آگ تھی 

"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے"

مولوی صاحب نے تیسری بار پوچھا تھا 

اگر ہمیں  کبھی آپکی۔۔۔ ایڈوائس کی یا مدد کی ضرورت پڑی تو ہم کیا کریں گے آپ تو جا رہے ہیں"  اس کے کہے گئے الفاظ اسکے چوگرد گھوم رہے تھے

"ممانی ہم سے بالکل بھی اچھا برتاؤ نہیں کرتی وہ ہم پر بہت گندے الزام لگاتی ہیں نانو وہ ہمیں بدکردار کہتی ہیں ہمیں اپنے پاس بلا لیں نانو ہم نہیں جینا چاہتے آپ کیوں چلی گئی ہمیں بے آسرا چھوڑ کر"

"ہائے منہوس روڈ پر بےہوش ہو گئی تھی یہ "

"ہمیں۔۔ہمیں لگا تھا آپ باقی لوگوں جیسے نہیں ہیں ۔۔لیکن آپ بھی باقیوں جیسے ہیں "

____"""نہیں""" ____

اسکے جواب نے سب کو ساکت کیا تھا چاہت اپنی جگہ سے اٹھی تھی اسکی آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھیل چکی تھی زوہیب صاحب نے چونک کر اسے دیکھا تھا

"یہ یہ کیا کہہ رہے ہو تم " چاہت نے اسکے سامنے آ کر  حیرانگی سے پوچھا تھا

"بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو تم ہی تو چاہت سے شادی کرنا چاہتے تھے" مہر النساء بیگم نے اسکا ٹھنڈا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

"اور اب میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے یہ شادی نہیں کرنی" وہ کرخت لہجے میں اپنا ہاتھ جھٹکتا بولا تھا چاہت نے اسکا گریبان پکڑنا چاہا مگر وہ ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر مار چکا تھا سب کو سانپ سونگھ گیا تھا اشفاق صاحب کا چہرا سرخ پڑا تھا وہ طیش سے سلگتے ہوئے اسٹیج پر آئے تھے 

"اس کیریکٹر لیس لڑکی کیساتھ میں شادی کیسے کر سکتا ہوں کل ہی تو یہ اپنے ایکس کو آدھی رات کو مل کر آ رہی ہے " وہ طنزیہ لب و لہجے میں بولا  مہمانوں نے حیرت سے  چاہت کو دیکھا تھا چاہت کا چہرہ ساکت ہوا سب نے ایک دوسرے کے چہرے دیکھے تھے

"ہاں پوچھیں اپنی بیٹی سے ہوٹل پر ملنے گئی تھی اپنے ایکس کو میری منگیتر تھی اور تعلقات کسی اور کیساتھ رکھ رہی تھی ایسی لڑکی بیوی بنانے کے قابل تو نہیں ناں اشفاق صاحب" وہ طنزیہ نظروں سے اشفاق صاحب کو وہیں ساکت کر چکا تھا جو درشت نظروں سے چاہت کو دیکھ رہے تھے جو اسے بےحس نظروں سے دیکھ رہی تھی

"اس شخص نے چوری نکاح کیا تھا مجھ سے میرے پاس ثبوت ہے میں بیوی ہوں اسکی یہ جھوٹ بول رہا ہے" چاہت نے سب کو چونکایا تھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا پاکٹس میں ہاتھ ڈال گیا تھا وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی تھی زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے اطمینان سے کھڑے ذاویان کو دیکھا تھا وہ تیزی سے واپس آئی تھی اسکے ہاتھ میں نکاح نامہ تھا جو اسنے اشفاق صاحب کی طرف بڑھایا تھا لوگ حیرانی سے انہیں دیکھ رہے تھے اشفاق صاحب نے نکاح نامے کو سنجیدگی سے دیکھا تھا ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکے حسیں لبوں پر گہری ہو کر پھیلی اشفاق صاحب نے نکاح نامے سے نظریں ہٹا کر چاہت کو دیکھا جو بےبسی سے انہیں دیکھ رہی تھی 

چٹاخ!!

وہ مبہم سا مسکرایا تھا اشفاق صاحب نے ایک زوردار تھپڑ چاہت کے منہ پر مارا تھا وہ گال پر ہاتھ رکھے صدمے سے اشفاق صاحب کو گھور گئی مہر النساء بیگم نے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا

"کس کیساتھ نکاح کر لیا تم نے بےوقوف لڑکی کہاں لکھا ہے اس پر ذاویان کا نام" اشفاق صاحب نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا چاہت نے صدمے سے ذاویان کو دیکھا تھا جو اسکی بربادی پر کھڑا مسکرا رہا تھا چاہت نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ نکاح نامہ دیکھا تھا جس پر کسی اور لڑکے کا نام لکھا تھا اور دستخط بھی کسی اور کے تھے یعنی اسکا نکاح کبھی ذاویان سے ہوا ہی نہیں تھا ؟؟

"تم ۔۔ تم نے دھوکا دیا مجھے " وہ ذاویان کو دیکھتی چیخی 

"تم نے بھی تو ویسا ہی کیا تم جیسی لڑکی بیوی بنانے کے قابل نہیں ہے کیسی پرورش کی ہے تمھارے باپ نے تمھاری چھی چھی " وہ اشفاق احمد کو دیکھتا سر جھٹکتا بولا تھا اشفاق صاحب کا چہرہ شرمندگی سے سرخ پڑا تھا 

"میرے پاس اور بھی بہت ثبوت پڑے ہیں  آپکی عدالت میں پیش کرتے ہیں " 

وہ فون پاکٹ سے پروڈیوس کرتے ہوئے ایک ریکارڈنگ آن کر چکا تھا

"چاہ مائی لوو مائی کپ کیک مجھے ناں تمھاری بہت یاد آ رہی ہے ملنے آؤ ناں"

"بکواس بند رکھو ورنہ بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گی"

چاہت کی آواز سن کر اشفاق صاحب نے کرخت نظروں سے چاہت کو دیکھا تھا جو شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی

"بولنے کے قابل تو میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا جانم جب تمھیں میری ضرورت پڑتی تھی مجھے پانچ منٹ میں ملنے کا کہتی تھی اور اگر اب مجھے تمھاری ضرورت ہے تو مجھے بکواس بند رکھنے کا کہہ رہی ہو ۔۔۔ اففف چاہ مائی وسکی ۔۔۔ اگر تم اسی وقت مجھے آ کر ناں ملی تو یاد رکھنا تمھارے فوٹوز اور بہت کچھ ہے میرے پاس جسے میں ذاویان کو بھیج کر تمھارے اور میرے رشتے کی اصلیت بتا سکتا ہوں کتنی گھٹیا لڑکی ہو تم اسکے ساتھ نکاح ہونے کے باوجود تم میرے پاس آتی رہی اور میرے ساتھ تعلقات رکھے "

اشفاق احمد نے سر جھٹک کر نفرت سے چاہت کا بازو دبوچا تھا اور بےعزتی ضبط نا کرتے ہوئے  اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لیکر گئے تھے مہمانوں کی سرگوشیوں نے انکا گیٹ تک پیچھا کیا تھا آج اشفاق صاحب کو ماضی یاد آیا تھا اور بہت اچھے سے یاد آیا تھا

وہ سنجیدگی سے اسٹیج سے نیچے اتر کر باہر نکل گیا تھا زوہیب صاحب نے اسکے پیچھے جانا چاہا تھا مگر وہ اتنی تیزی سے گیا تھا کہ وہ اس تک پہنچ نہیں پائے تھے مہر النساء بیگم صدمے سے صوفے پر بیٹھ گئی تھی سیرت نے انکے ہاتھوں کو تھاما تھا 

"مماں پلیز ٹینشن نہیں لینی آپکی طبعیت بگڑ جائے گی" سیرت نے انکے ہاتھ دباتے ہوئے کہا تھا مہر النساء بیگم نے سر ہلا کر لمبا سانس لیا تھا

سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے اسنے گاڑی کو تیزی سے نکالا تھا

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

توصیف نے اسے طائرانہ نظروں سے دیکھا تھا جو ہر دیکھنے والے کو پہلی نظر میں ہی بھا رہی تھی وہ سفید کلر کے کرتے میں بن ٹھن کر بیٹھا تھا مولوی صاحب رجسٹر اٹھائے کھڑے تھے عائزہ بیگم تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی آصف صاحب سنجیدہ سے کھڑے ہوئے تھے انکا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے بالاتر تھا

"آپ کو اتنا پرسنل سوال پوچھنے کا حق نہیں دیا گیا مس آئیزل"  ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکے گلابی گال پر لڑھک گیا تھا اضطراری نظروں سے اسنے اپنے گود میں رکھے حنائی ہاتھوں کو دیکھا تھا حورم افسردگی سے اسے دیکھ رہی تھی جس نے سب کچھ حالات پر چھوڑ دیا ہے اور اب وہ بےجان  سی بیٹھی ہوئی تھی

"قبول ہے" توصیف نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا مولوی صاحب آئیذل کی طرف آئے تھے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا عائزہ بیگم آ کر آئیذل کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور اسکا بازو پکڑا تھا اسے احساس دلانے کے لئے کہ اسے کیا کہنا ہے آصف صاحب نے سر جھٹکا تھا عروسہ بیگم نے آصف صاحب کو دیکھا تھا 

"میں مجبور ہوں سب جانتے ہوئے بھی میں اس بچی کو اس عذاب میں دھکیل رہا ہوں میرا رب مجھ پر راضی نہیں ہو گا میں بہت بڑا گناہ کر رہا ہوں" آصف صاحب نے دھیمے لہجے میں کہہ کر سر جھٹکا تھا عروسہ بیگم نے لب بھینچ کر سر ہلایا تھا

"بول ناں کیوں خاموش بیٹھی ہے" عائزہ بیگم نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا جس کا چہرہ آنسوں سے بالکل تر ہو چکا تھا 

"بچے اجنبیوں کے خیالات نہیں آیا کرتے اور جس طرح آپ بتا رہی ہو ایسے انسان تو بہت خاص ہوتے ہیں دل میں مخصوص جگہ ہوتی ہے انکی جن کے خیالات کو ہم چاہ کر بھی جھٹک نہیں سکتے" انفال بی بی کی بات نے اسکے دماغ میں جھماکا کیا تھا وہ رو دی تھی سنجیدہ کھڑے آصف صاحب نے اسے بےبسی سے دیکھا تھا جو روتی ہی چلی جا رہی تھی 

"ڈرامے بند کر اور دستخط کر نکاح نامے پر" عائزہ بیگم نے اسے کندھے سے پکڑ کر اسکے بازو کو زور سے جھٹکا تھا حورم نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا عائزہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ا

 زبردستی اسکی انگلیوں کو مروڑ کر پین پکڑایا تھا ریحم نے شرمندگی سے اپنی ماں کو دیکھا تھا حورم دروازے کو دیکھتی چونکی تھی ڈی آئی جی پولیس آفیسر کیساتھ پولیس کا ایک پورا عملہ گھر میں داخل ہوا تھا عائزہ بیگم کی آنکھیں حیرت و تعجب سے پھیلی تھی روتی ہوئی آئیذل ساکت ہوئی تھی پولیس آفیسر کے درمیان سے اندر داخل ہوتے اس مغرور رعنا شخص کو دیکھ کر 

آصف صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جبکہ ممتاز صاحب کا چہرا سرخ بھبھوکا ہوا تھا 

"ہمت کیسے ہوئی تمھاری میرے گھر میں  گھسنے کی اور پولیس کیوں آئی ہے یہاں" ممتاز صاحب نے چلا کر کہا آئیذل عروسہ بیگم کے سہارے اٹھی تھی اس وجیہہ شخص کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی کلاس اور سٹینڈرڈ کے شادی کے کپڑوں میں ملبوس تھا وہاں آئے مہمان حیرت سے اس حسنِ مغرور کو دیکھ رہے تھے 

"اریسٹ کرو اسے اور چودھری جی کو بھی کرو زرا " ڈی آئی جی صاحب کا حکم ملتے ہی پولیس آفیسر نے توصیف کیساتھ ساتھ ممتاز صاحب کو بھی ہتھ کڑیاں لگائی تھی

"کس جرم کی بیس پر تم اریسٹ کروا رہے ہو کیا حرکت ہے یہ ہو کون تم" آصف صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے درشتگی سے پوچھا

"آئیذل میری بیوی ہے اور آپ زبردستی اسکا نکاح کروانا چاہتے ہیں ؟؟" وہ کرخت نظروں سے آصف صاحب کو دیکھتا بولا عائزہ بیگم نے چونک کر آئیذل کو دیکھا تھا جو ساکت ہوئی تھی اسکی بات پر ۔۔۔

"منہوس ماری نکاح کر لیا تو نے کہتی تھی میں آپ سے یہ کوئی چاند چڑھائے گی کہتی تھی یہ اسکا یار"

"میری بیوی کے کردار پر ایک غلط لفظ برداشت نہیں کروں گا " 

اسکی گرجدار آواز پر عائزہ بیگم بےحس و حرکت رہ گئی تھی

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"میں نہیں جانتی تھی کچھ بھی" وہ ہاتھ چھڑاتی چیخی تھی اشفاق صاحب پیشانی کو مسلتے ہوئے اسے خونخوار نظروں سے دیکھ گئے

"کہا تھا تم سے وہ بیسٹ ہے اسکے اندر کا انسان مر چکا ہے لیکن تم نے میری ایک نہیں سنی صرف تمھاری وجہ سے مجھے بے عزت ہونا پڑا اس شادی میں پورے شہر کے بزنس مین اور رئیس لوگ آئے تھے کیسے نظریں ملاؤں گا میں ان سب سے" اشفاق صاحب نے غرا کر کہا ہچکیاں لیتی چاہت انہیں نم آنکھوں سے دیکھ گئی

"وہ جو چاہتا تھا وہ اسنے تم سے شادی کئے بغیر کر دیا تمھیں اور مجھے اس معاشرے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا اس نے " اشفاق صاحب نے سر جھٹکتے افسوس سے کہا 

"یہ سب آپکی وجہ سے ہوا ہے صرف آپکی وجہ سے آپکی ہی اس سے کوئی ذاتی دشمنی تھی جس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا آپکی بیٹی کی زندگی آپکی وجہ سے برباد ہوئی ہے اور اس بالاج کو میں نہیں چھوڑوں گی اس باسٹرڈ نے ہی وہ سب ذاویان کو بھیجی ہوں گی جان سے مار دوں گی میں اسے" غصے سے لال ہوتی وہ ہتھیلیوں کو ٹیک کر نیچے سے اٹھی تھی اور فون اٹھایا تھا جسے اشفاق صاحب نے اسکے ہاتھوں سے کھینچ لیا

"خبردار جو اگر اب تم نے کچھ بھی کیا چپ چاپ پڑی رہو اس فارم ہاؤس میں یاد رکھنا اگر مجھے تمھاری وجہ سے اور بےعزتی سہن کرنی پڑی تو میں اپنے ہاتھوں سے تمھیں دفنا دوں گا کہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تم نے مجھے " اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھ کر اسکا فون بیڈ پر اچھالتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئے تھے 

"نہیں چھوڑوں گی کسی کو نہیں چھوڑوں گی میں سب کو مار ڈالوں گی" وہ چیختی ہوئی کمرے کا سارا سامان الٹ پلٹ کرنے میں مصروف ہوئی تھی اس وقت وہ اپنے آپ میں نہیں تھی 

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا ثبوت ہے تمھارے پاس کہ آئیذل تمھاری بیوی ہے" آصف صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا ورنہ جانتے تو وہ بھی سب کچھ پہلے سے ہی تھے خاموش کھڑی آئیذل نے اسے سرد نظروں سے دیکھا تھا وہ سوچ رہی تھی شاید وہ اسے بچانے کی غرض سے جھوٹ بول رہا تھا

اسنے نکاح نامے کی کاپی آصف صاحب کو تھمائی تھی آصف صاحب نے نکاح نامے کو دیکھ کر اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا آئیذل حیران ہوئی تھی

"تھانے لیکر چلو انہیں دیکھتا ہوں میں " ڈی آئی جی صاحب نے کرخت نظروں سے کہا

"پلیزز رکیں " 

ڈی آئی جی صاحب جو ممتاز صاحب اور توصیف کے بعد آصف صاحب کو ہتھ کڑیاں لگا رہے تھے آئیذل کی آواز پر رکے تھے

"آپ کسی کو اریسٹ نہیں کر سکتے" آئیذل نے اسے دیکھتے ہوئے سختی سے کہا تھا وہ اسکی جانب ہلکی مسکان کیساتھ پلٹا تھا آصف صاحب نے اسے روکنا چاہا تھا کیونکہ وہ کچھ نہیں جانتی تھی

"یہ جھوٹ بول رہے ہیں ہم انہیں نہیں جانتے ناں ہی ہمارا نکاح ہوا ہے ان کے ساتھ انسپیکٹر" آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے بےجان لہجے میں کہا تھا ڈی آئی جی صاحب نے سنجیدگی سے ذاویان کو دیکھا تھا (کیونکہ وہ نکاح نامہ خود دیکھ چکے تھے) جسکے لبوں پر ہلکی مسکان پھیلی تھی اسکی معصوم بات پر۔۔۔

"آئیذل بیٹا نہیں آپ نہیں جانتی اس بارے میں ہم بعد میں بات کرتے ہیں " آصف صاحب نے آئیذل کو سمجھانا چاہا مگر وہ کہاں سن رہی تھی

"ہم کہہ رہے ہیں ناں ہم ان کو نہیں جانتے اور آپ ہمارے گھر سے اسی وقت نکل جائیں" آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا وہ متمدن نظروں سے اسے دیکھتا مبہم سا مسکرایا تھا جس پر آئیذل سرخ پڑی

"واہ ڈرامے دیکھو اب معصوم بن رہی ہے منہوس لڑکی اور کتنی بےعزتی کروائے گی ہماری کچھ بچ گیا ہے کیا" عائزہ بیگم نے تنک کر کہا مگر آصف صاحب کی کاٹدار نظروں پر وہ چپ ہی ہو گئی تھی آئیذل نے اسے بےجان نظروں سے دیکھا تھا جو اسے شائستگی سے دیکھ رہا تھا

"چلے جائیں یہاں سے آپ" 

"اپنی لمظ کو لئے بغیر نہیں جا سکتا" 

وہ ساکت سی ہوئی تھی اسکے اس قدر نرم لہجے پر اور اسکے کہے گئے لفظ "اپنی لمظ" نے اسکے دل کو جکڑ سا لیا تھا

"اریسٹ تو آپکو بھی ہونا چاہیے تھا ممانی صاحبہ مگر میرا ضمیر گوارا نہیں کر رہا آپ پولیس اسٹیشن میں بارز کے پیچھے بیٹھیں اور وہاں بھی فساد برپا کریں" وہ پراسرار نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھتا گویا ہوا جس پر خوف سے انکا ماتھا ٹھنکا ممتاز صاحب نے مٹھیاں بھینچی تھی وہ سنجیدگی سے توصیف کی طرف مڑا تھا ایک پراسرار مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا

"اسکا ایک ہاتھ اور پیر توڑ دیں اور اچھے سے خاطر داری کریں رہی سہی کسر میں پوری کرتا ہوں آ کر میری لمظ سے نکاح کرے گا ہاں" وہ اسے طنز آمیز نظروں سے دیکھا  دھیمے مگر متحرک لہجے میں سرگوشی کرتا بولا توصیف نے چونک کر اسے دیکھا تھا ڈی آئی جی صاحب نے سر ہلایا تھا اور اسے دھکیلتے ہوئے ممتاز صاحب کے ہمراہ باہر لیجانے لگے

"ذاویان صاحب بات گھر کی چار دیواری میں حل ہو سکتی ہے پولیس اسٹیشن تک جانے کی ضرورت نہیں ہے" آصف صاحب نے اسے دیکھتے مؤدبانہ لہجے میں کہا 

"نہیں چودھری صاحب آپ میرے مسئلے میں مت پڑیں آپ تحمل سے بات کر رہے ہیں اس لئے آپ اسوقت یہاں صحیح سلامت کھڑے ہیں اور بات اب گھر تک نہیں رہے گی " وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر تشویش سے بولا 

"تمھیں واپس آ کر دیکھ لوں گا میں" ممتاز صاحب دھاڑتے ہوئے بولے جس پر وہ خود بینی سے انہیں دیکھتا مسکرایا 

"شوق سے" اسنے لاپرواہی سے کہا تھا جس پر ممتاز صاحب کا خون کھول پڑا تھا پولیس آفیسر انہیں لیکر باہر نکل گئے تھے

"ہائے کھڑی دیکھ کیا رہی ہے روک اپنے یار کو ہائے اللہ تیرے ماموں کو  اور میرے بچے کو پولیس لیکر جا رہی ہے" عائزہ بیگم نے صدمے سے ماتھا پیٹنا شروع کیا آئیذل نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تھا جو آصف صاحب کیساتھ گہری دلچسپی سے کچھ بات کر رہا تھا

"آئیذل میری ذمہ داری ہے چاہے وہ تمھاری منکوحہ ہے تم اسے تب تک یہاں سے نہیں لیکر جا سکتے جب تک اسکے والد صاحب یہاں آ کر ان الزامات کی معافی نہیں مانگتے جو انہوں نے میری بہن پر لگائے تھے میں اپنی بچی کو طریقے سے رخصت کروں گا اور تب تک تم آئیذل سے نہیں مل سکتے ا" آصف صاحب نے سنجیدگی سے کہا آئیذل نے بےیقینی سے انہیں دیکھا تھا 

"یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ماموں ۔۔۔ہمارا نکاح نہیں ہوا ان سے یہ جھوٹ بول رہے ہیں"

"ابھی نہیں میری بچی میں سب بتاؤں گا لیکن ابھی نہیں " آصف صاحب نے اسے شفقت سے دیکھتے خاموش کروایا تھا عائزہ بیگم حیران و سرگردان کھڑی ہوئی اسکو گھور رہی تھی 

"ٹھیک ہے جو بہتر لگے آپکو لیکن میں ابھی اپنی بیوی سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں امید ہے میں کر سکتا ہوں اور ناں ملنے والی بات میری سمجھ سے باہر ہے ۔یرا جب دل کرے گا میں یہاں آ جایا کروں گا چودھری صاحب" وہ مغرور سے انداز میں گویا ہوا اسکی بات پر عائزہ بیگم متنبر ہوئی

"آئیذل کسی سے بات نہیں کرے گی ناں ہی وہ تمھاری بیوی ہے"وہ اسکا ہاتھ پکڑتی تشویش سے بولی تھی آصف صاحب نے سنجیدگی سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا عروسہ بیگم نے سر ہلا کر آئیذل کا ہاتھ انکے ہاتھ سے نکالا تھا اور آصف صاحب کے پاس لیکر آئی تھی

"مم۔۔ماموں ہمیں نہیں کرنی بات کسی سے" وہ کتراتی ہوئی عروسہ بیگم کا ہاتھ پکڑ گئی تھی وہ جو کب سے سنجیدہ کھڑا تھا اسے یوں معصومیت سے کترانے پر مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا

"دس منٹ ہیں تمھارے پاس اور یاد رکھنا میری بچی کو دھمکانے کی کوشش بھی مت کرنا" آصف صاحب نے سنجیدگی سے کہا تھا

"جاؤ بیٹا " عروسہ بیگم نے نرمی سے آئیذل سے کہا تھا وہ لب بھینچتی ہراساں سی  اسے دیکھ گئی تھی

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں فون بھی نہیں اٹھا رہے" سیرت نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے کہا زوہیب صاحب نے سرد آہ بھری تھی مہر النساء بیگم نے پریشانی سے سر کو ہاتھوں میں گرا لیا تھا

"مماں پلیز آپ ایسے ٹینشن ناں لیں بھائی ٹھیک ہوں گے" سیرت نے مہر النساء بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے انکے پاس بیٹھ کر تسلی بخش لہجے میں کہا 

"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیوں کیا ذاویان نے ایسا اگر کوئی بات تھی تو اپنی ماں سے تو شیئر کر سکتا تھا ایسے باہر تماشا کیوں بنایا اشفاق صاحب کتنے شرمندہ ہس کر گئے ہیں" 

"مماں آپ انکل اشفاق کی بات نہیں جانے دیتی تو وہ کیسے آپکو ایسی بات بتاتے کیا آپ انکی بات سنتی" سیرت کی بات نے مہر النساء بیگم کو چونکایا تھا

"میں آپ سے اس لہجے بات کر رہی ہوں اسکے لئے سوری مماں لیکن آپ اپنے بیٹے کو بھول چکی ہیں شاید انکل نے محبت کی ایسی پٹی باندھی دی ہے آپکی آنکھوں پر  کہ آپ یہ بھی بھول گئی ہیں کہ ڈیڈ آپ سے کتنی محبت کرتے تھے " سیرت نے اٹھتے ہوئے کہا مہر النساء بیگم متذبذب سی اسے دیکھ رہی تھی

"سوری فار مائی ورڈز آپ اپنے بیٹے کو نہیں سمجھ پائی لیکن اسکی بہن سمجھتی ہے اسے اور انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا" وہ دھیمے لہجے میں معزرت کرتی کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے مہر النساء بیگم کو دیکھا تھا جن کی آنکھوں میں آنسوں تیرتے نظر آئے تھے 

"میں فون کرتا ہوں اگر اسکا پتا چلتا ہے تو بتاتا ہوں آکر" زوہیب صاحب سنجیدگی سے کہتے اٹھ کر چلے گئے تھے 

"کیا سچ میں ،، میں ایک اچھی ماں نہیں بن پائی اپنے بچے کے لئے" مہر النساء بیگم نے بھرائی ہوئی آواز میں خود سے سوال کیا تھا

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ پچھلے سات منٹوں سے لب بھینچ کر سر جھکائے کھڑی تھی  اور وہ مخمور نگاہوں سے اسکے عروسی چہرے کو بس دیکھے جا رہا تھا خشک ہوتے حلق کو وہ ہر منٹ بعد تر کر رہی تھی جان ہلکان ہو رہی تھی

اسکے آگے بڑھنے پر وہ خوف سے اچھلتی ہوئی پیچھے ہوئی تھی اسے ہراساں دیکھ کر وہ محظوظ ہوتے ہوئے اسکی جانب بڑھتا جا رہا تھا اور وہ خوف سے مرتی ہوئی پیچھے ہوتی جا رہی تھی ٹھنڈی دیوار سے پشت لگاتی وہ بےجان سی ہوئی تھی 

"پپ۔۔پلیز دد۔۔۔دور۔۔۔۔ رہ کک۔۔کر بات کریں" 

"Are You Scared??"

" وہ اس سے کچھ انچ کے فاصلے پر رکتا دیوار پر ہاتھ رکھ کر اس پر ہلکا سا جھکتا گمبھیر لہجے میں بولا  گھنی پلکوں کی جھالر کو گراتے ہوئے وہ ہچکی لے گئی

"ہمم۔۔۔ہمیں ڈڈ۔۔ڈر لگ رہا ہے آپ سے آپ جھوٹے ہیں" وہ خشک لبوں کو بھینچتی سر ہلاتی رندھی آواز میں بولی

"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لمظ یہاں دیکھیں میری طرف" اسکے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھامتے ہوئے وہ دلکش لہجے میں بولا آئیذل کا دل باہر آنے کو تھا ایک تو اسکا لہجہ اسکی جان لے رہا تھا اوپر سے اسکی طلسماتی مہک اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو رہی تھی اسنے سر سری نظر سے اسکے حسین نقوش چہرے کو بےحد قریب سے دیکھا تھا ہلکی سنہری آنکھوں میں بےحد محبّت تھی وہ قریب سے اسکا چہرہ حفظ کر رہا تھا

"پپ۔۔پروفیسر پلیز پیچھے ہٹیں"

سنجیدگی سے اسے دیکھتے ذاویان کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری تھی وہ سسکتے ہوئے سر جھکا گئی تھی

" لمظ آپ اب بھی مجھے پروفیسر کہہ رہی ہیں ریئلی ؟" وہ مبہم سا مسکراتا ہوا اسے شرم سے لال کر چکا تھا وہ خجل سی نظریں تک نہیں اٹھا پا رہی تھی 

"میرا تو ٹائم ختم ہو گیا کوئی بات نہیں کل یونیورسٹی میں پروفیسر صاحب اپنی لاڈلی کو ٹھیک سے سیدھا کر دیں گے ٹیک کیئر مائی بےبی گرل" اسکے ہاتھ  کو اپنے وجیہہ ہاتھ میں تھام کر اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھتا  دھیمے لہجے میں کہہ کر باہر نکل گیا تھا آئیذل نے سرخ پڑتے ہوئے نظریں اٹھا کر اپنے ہاتھ کو دیکھا تھا جس پر وہ مغرور اپنی محبت کی بےباک مہر ثبت کر کے گیا تھا جس کے گداز ہونٹوں کا دہکتا لمس اب تک اسے اپنے ہاتھ پر محسوس ہو رہا تھا

"میرا تو ٹائم ختم ہو گیا کوئی بات نہیں کل یونیورسٹی میں پروفیسر صاحب اپنی لاڈلی کو ٹھیک سے سیدھا کر دیں گے ٹیک کیئر مائی بےبی گرل" اسکی دھمکی نے اس بیچاری کی جان نکال ڈالی تھی 

"ممتاز اور توصیف کو کب تک چھوڑو گے تم" باہر جاتے ذاویان کو آصف صاحب نے روک کر دریافت کیا تھا

"جب میری بیوی کیساتھ اس گھر میں اچھا سلوک ہو گا اس دن چھوڑ دوں گا چودھری صاحب آتا رہوں گا بےفکر رہیں" وہ لبوں کے کنارے سے مسکراتا ہوا کہہ کر باہر نکل گیا تھا آصف صاحب نے سر جھٹکا تھا حورم نے مسکراتے ہوئے اس مرغوب الطبع  شخصیت کے مالک کو دیکھا تھا 

"ہائے اللہ میرے بتر کو لے آئیں آصف صاحب" عائزہ بیگم نے کہتے ہوئے ماتھا پیٹا تھا جس پر حورم ہنسی کا گلا گھونٹ گئی تھی 

"بھائی " 

لیپٹاپ سائڈ پر رکھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے دروازے سے اندر آتی سیرت کو دیکھا تھا جو متذبذب نظر سے اسے دیکھتی اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی تھی

"بھائی آپ نے ایسا کیوں کیا پتا ہے ہم سب بہت ٹینس ہو گئے تھے چاہت نے جو کچھ کیا وہ بہت غلط تھا لیکن آپ نے سب کے سامنے انکی بےعزتی کی کس لئے بھائی آپ تو کبھی اپنا ٹیمپر نہیں کھو سکتے آپ ہمیشہ سوجھ بوجھ کیساتھ سب ہینڈل کرتے ہیں آپ نے چاہت کو سلیپ کیا اور انکل کی انسلٹ کی" اسکا ہاتھ پکڑتی سیرت نے فکرمندی سے پوچھا تھا

"کیونکہ وہ لوگ اسی چیز کے مستحق ہیں پرنسس اور کچھ باتیں آپ کی سمجھ سے باہر ہیں اور میں آپ سے شیئر بھی نہیں کر سکتا ڈونٹ وری سب ٹھیک ہے" اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ متانت سے گویا ہوا سیرت نے ہمدردی سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا شاید جانے انجانے میں اسنے اسے دوبارہ ماضی یاد دلایا تھا

"بھائی پلیز شیئر ود می مجھے جاننا ہے ایسا کیا کیا ہے انکل نے جس وجہ سے آج چاہت کو تھپڑ مارنے کی نوبت آ گئی اور انکل کو اس طرح رسوا کیا آپ نے" سیرت نے اسکے ہاتھ کو دبایا تھا

"سیرو پلیز آپ جا کر سو جائیں"

"نہیں بھائی پلیز مجھے بتائیں" سیرت نے التجائیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جسکی آنکھوں میں سرخی سی واضح ہو رہی تھی

"سیرت اپنے روم میں جائیں اسی وقت" 

اسکے کرخت لہجے پر وہ ساکت ہوئی تھی وہ لب بھینچتا اسکا ہاتھ چھوڑ گیا تھا سیرت نے مشتبہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر مسکرا کر اٹھتے ہوئے چلی گئی تھی اسنے سرد آہ بھری تھی وہ ہرگز اسکے ساتھ ایسا لہجہ نہیں برتنا چاہتا تھا مگر یہ اسکی مجبوری تھی وہ اپنے وقوف کھو بیٹھتا تھا جب بھی وہ ماضی کو یاد کرتا تھا

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

" ایک ۔۔دو چین"

"وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا

"چین نہیں بےبی گرل تین ہوتا ہے"

"ہم چین ہی پڑھیں گے تم کو کیا" وہ خفگی سے گال پھلاتی بولی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا

"لمظ جیسے ذاوی پڑھا رہا ہے ویسے پڑھو ذاوی کوئی ضرورت نہیں ہے اسکو لاڈ سے پڑھانے کی ٹھیک سے پڑھاؤ " ناز بیگم کی آواز پر وہ منہ پھلا گئی تھی

"تم نے اگر ہمیں ڈانٹا ناں کٹی ہو جائیں گے تم سے" وہ اسکو دیکھتی منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے بولی 

" میں تو نہیں ڈانٹ رہا اپنی بےبی گرل کو" وہ محبت سے اسے دوبارہ پڑھانے میں مصروف ہوا تھا

"اسلام و علیکم "

 کچن سے آتی نازش بیگم رکی تھی 

"وعلیکم السلام بھائی صاحب آپ یہاں" اشفاق صاحب کو دیکھ کر وہ زرا متعجب ہوئی تھی 

"نازش صاحبہ ۔۔۔زوہیب نظر نہیں آ رہا اسکے ساتھ آفس کے زرا مسائل ڈسکس کرنے تھے سوچا گھر پر ہی مل لیتا ہوں" صوفے پر براجمان ہوتے اشفاق صاحب مسکرا گئے ذاویان نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا تھا جو گہری نظروں سے نازش بیگم کو دیکھ رہے تھے اور وہ پشیماں سی کھڑی تھی

"بھائی صاحب وہ گھر نہیں ہیں اور رات دیر سے ہی آئیں گے آپ کل آ کر مل لیجئے گا " نازش بیگم نے آراستگی سے کہا اور آئیذل کو کھانا کھلانے لگی اشفاق صاحب کھڑے ہوئے تھے

"اچھا تو پھر میں چلتا ہوں " خفیف نظروں سے نازش بیگم کو دیکھتے ہوئے وہ چلے گئے تھے ذاویان نے سرد نظروں سے انکو جاتے دیکھا تھا

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

لیکچر ہال میں اینٹر ہوتی وہ دنگ رہ گئی تھی کیونکہ لیکچر ہال جو اسوقت سٹوڈینٹس سے کچھا کھچ بھرا ہوتا تھا وہ اسوقت بالکل خالی تھا اسنے پشیمان نظروں سے پورے ہال میں نظریں گھمائی تھی 

"یہ سب کہاں چلے گئے کیا آج چھٹی ہے" اسنے لب بھینچ کر پلٹتے ہوئے سوچا جب اسے دروازے پر حورم نظر آئی جو اسے کنفیوز دیکھ کر ہنس رہی تھی

"ارے ارے پریشان نہیں ہونا آج چھٹی نہیں ہے دراصل سب نئے سال کے فنگشن کے لئے پریپریشنز میں مصروف ہیں اس لئے لیکچرز نہیں ہو رہے آؤ تم بھی چلو سب بیک بلڈنگ کے سامنے ہی جمع ہیں" اسکا ہاتھ پکڑتی حورم نے مسکرا کر کہا آئیذل لب بھینچے اسکے ساتھ چل پڑی تھی

"گھر میں سب ٹھیک ہے عائزہ آنٹی کو ہارٹ اٹیک تو نہیں پڑا ناں کل کے بعد"  حورم کی بات پر آئیذل نے بھنویں سکیڑی تھی 

"ارے مزاق کر رہی ہوں انکے ری ایکشن دیکھںے کے قابل تھے کل جس طرح پروفیسر زاویان آئے اففف" 

"انکا نام کیوں لے رہی ہو" 

اسکی بات کاٹتی آئیذل نے اسے گھورتے ہوئے کہا حورم نے چونک کر اسے دیکھا جو اسکا نام سن کر ہی ابلنے لگی تھی

"ارے تمھیں کیا ہو گیا کل تک تم ٹھیک تھی اور اب کہہ رہی ہو نام ناں لو" 

"میں نے کہا ناں انکا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے " آئیذل نے تنگ ہو کر سر جھٹکا حورم مسکراہٹ کنٹرول کر گئی تھی

آئیذل نے عام سی نظروں سے سامنے دیکھا تھا جہاں کیمپ فائر کے ارگرد سٹوڈینٹس بیٹھے آنے والے ایوینٹس کے لئے ڈسکشن کر رہے تھے 

"آؤ بھی رک کیوں گئی ہو " اسکا ہاتھ پکڑتی حورم آگے بڑھ گئی تھی دھند نے آسمان کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اس لئے اب تک بھی سورج نہیں نکلا تھا اور ہلکی ہلکی خنک ہوا نے سردی کی شدت میں اضافہ کر رکھا تھا آئیذل آگ کے قریب رکتی ہاتھ سیکنے لگی جو ٹھنڈ سے برف کی طرح ٹھنڈے پڑ رہے تھے

"ویسےآج مجھے پروفیسر زاویان نظر نہیں آئے  باقی سٹاف کیساتھ " حورم نے اسکے پاس رکتے آگ سیکتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا آئیذل نے ثبات نظروں سے اسے دیکھا تھا

"میں نے ویسے سنا تھا وہ یونیورسٹی نہیں آئیں گے اب ہو سکتا ہے شاید ناں آئیں" حورم نے اچھنبے سے کہا مگر آئیذل کے دل کو ایک محرومی سی محسوس ہوئی کیا اسکی موجودگی اتنا معنی رکھتی تھی 

"اچھی بات ہے " وہ خفا سے لہجے میں کہتی آگ سیکنے لگی حورم نے اسے گہری نظروں سے دیکھا جس کا منہ لٹک گیا تھا

"میرا تو ٹائم ختم ہو گیا کوئی بات نہیں کل یونیورسٹی میں پروفیسر صاحب اپنی لاڈلی کو ٹھیک سے سیدھا کر دیں گے "

آئیذل نے سر جھٹکا تھا

"میں تو بےوجہ سوچ رہی تھی وہ تو یونیورسٹی سے جا چکے ہیں " وہ لب بھینچتی شکوہ آمیز لہجے میں بڑبڑائی تھی اسے تو ابھی سے اسکی کمی محسوس ہونے لگی تھی 

"ہاں صحیح کہہ رہی ہو پروفیسر ذی کی جگہ کوئی نئے پروفیسر آئے تھے کل کا لیکچر بھی انہوں نے ہی دیا تھا مجھے تو بالکل بھی اچھے نہیں لگے پروفیسر  ذی کا طریقہ بہت مزین تھا انکے جیسے پروفیسر شائد ہی اس سیمسٹر میں ہمیں نصیب ہوں بہت میچور سٹائل ہے انکا پڑھانے کا" دو لڑکیوں کی بات سنتی آئیذل ساکن ہوئی تھی 

"ان فیکٹ وہ خود بھی بہت خاص شخصیت کے مالک تھے مجھے تو بہت پسند تھے افسوس ہوا وہ اچانک چلے گئے میں نے انہیں ٹی وی میں دیکھا تو پتا لگا کہ وہ تو بزنس مین تھے اتنے شائستہ شخصیت کے مالک تھے ہمیں محسوس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ اتنے بڑے بزنس مین ہیں " دوسری لڑکی نے افسردگی سے شکوہ کیا آئیذل نے لب بھینچے

"اوہ ۔۔  وہ دیکھو وہ پروفیسر رضوی ہیں ناں  ۔۔۔  کیا وہ واپس آ گئے "  

 خاموش اسٹوڈینٹس میں جیسے جوش کی لہر دوڑ گئی تھی

آگ سیکتی آئیذل غیر متحرک سی ہوئی تھی سبھی اسٹوڈینٹس جو اسکی غیر موجودگی پر افسردہ تھے انکے مرجھائے چہرے کھل اٹھے تھے پروفیسر شاہان کیساتھ وہ رونق افروز  شخص مزین چال چلتا ہوا سنجیدگی سے محو گفتگو تھا 

آئیذل نے درزدیدہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا جو بلیک پینٹ اور بلیک کلر کے سوئیٹر میں ملبوس تھا بلیک اوور کوٹ کو اسنے بازو میں نفاست سے لٹکایا ہوا تھا وضعدار شفاف طرار کلائی پر بلیک کلر کی برینڈڈ بوویٹ واچ باندھی ہوئی تھی بلیک سنیکرز سے وہ بڑی موزونیت سے ٹہل رہا تھا ایک ہاتھ کو پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے دوسرے ہاتھ میں سمارٹ فون تھامے وہ خوبصورتی سے ٹہل رہا تھا اور پروفیسر شاہان کی بات سنجیدگی سے سن رہا تھا 

"  کیا اللہ پاک نے یہ شخص واقعی میرے لئے بنایا ہے " اسکے دل نے اسپیڈ سے دھڑکتے ہوئے اسے دیکھ کر سوچا تھا اسکے گالوں پر سرخی پھیلتی چلی گئی تھی

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"یہ سڑو تو آج بھی نہیں آیا سمجھتا کیا ہے بھلا خود کو" سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھتی سیرت نے آس پاس دیکھتے ہوئے تشویش سے کہا تھا اسکی نظریں پورے پارک کا جائزہ لے رہی تھی ایک نقطے پر اسکی نظریں ٹھہری تھی جہاں وہ جھکا ہوا وائٹ سنیکرز کے لیسز باندھ رہا تھا ایک شریر مسکراہٹ نے سیرت کے لبوں کا احاطہ کیا وہ مسکراتی ہوئی اٹھ کر اسکی جانب بڑھ گئی تھی گارڈز سے چھپتے چھپاتے ہوئے ۔۔

"ہیلو مسٹر عسکری صاحب" اسکے پیچھے رکتی وہ منہ کا زاویہ خراب کر کے بولی تھی مقصد اسے تپانا تھا لیسز باندھتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا وہ سنجیدگی سے اسکی جانب مڑا تھا جو دونوں ہاتھ مؤدبانہ انداز میں پیچھے باندھے اسے معصومیت سے دیکھ رہی تھی وہ سر جھٹکتے ہوئے سیدھا ہوا تھا کانوں میں ائیر پلگ لگاتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا تھا سیرت نے اسکے راستے میں پیر کو اٹکانا چاہا مگر وہ مہارت سے گزر گیا تھا سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی

"ہیلو سیرو کیسی ہو" اپنے پیچھے سے جانی پہچانی آواز سن کر وہ پیچھے مڑی تھی

"اوہ مائیکل واٹ آ سرپرائز یارر"

 اسکا کلاس میٹ مائیکل مسکراتے ہوئے اسے گلے لگا گیا تھا حدید نے مڑ کر انہیں گلے ملتے دیکھ کر آنکھیں سکیڑی تھی

"لیٹس گو بات چیت ہو جائے" 

"وائے ناٹ" سیرت اسکے ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے آگے نکل گئی تھی حدید نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا تھا جو ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے اسکے فون کی رنگ ٹون بجنے پر اسنے آنکھیں پھیر کر کال کنیکٹ کرتے ہوئے چلنا شروع کیا تھا

"یس ڈیڈ میں سن رہا ہوں" وہ چلتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا سیرت جو اسے جلانے کی غرض سے مائیکل سے فری ہو کر بات کر رہی تھی اسے فون پر بات کرتے مسکراتا دیکھ کر اسکا خون کھول پڑا تھا

"مائیکل میں بعد میں آتی ہوں ویٹ کرو" وہ بغیر اسکی بات سنے بھاگتی ہوئی اسکے پیچھے چل دوڑی تھی جو سنجیدگی سے سر ہلاتا ہوا اپنے والد صاحب سے بات کر رہا تھا

"ضرور کوئی گرل فرینڈ ہو گی اسکی  " اسکے پیچھے چلتی وہ منہ پھلائے بڑبڑائی

"اوکے جلدی واپس آئیے گا لوو یو ٹو" وہ مسکراتا ہوا کال منقطع کرتے ہوئے پیچھے مڑا تھا جہاں سیرت منہ کے ڈیزائن بناتی اسکے گھور رہی تھی

"سوری مس سیرت ارجینٹ کال تھی " وہ فون پینٹ کی پاکٹ میں اڑیستا مسکرایا تھا سیرت ناک سکیڑتی رہ گئی

"اٹس اوکے مسٹر عسکری صاحب میں چلتی ہوں میرا بوائے فرینڈ میرا ویٹ کر رہا ہے" وہ ایک ادا سے کہتی ہوئی پیچھے پلٹ گئی تھی حدید نے لب بھینچ کر اسے مائیکل کے ساتھ جاتے دیکھا تھا

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

اسکے قریب آنے پر سٹوڈینٹس نے جوش سے اسکا استقبال کیا تھا وہ اتنے سرگرم استقبال پر مبہم سا مسکرایا تھا پروفیسر شاہان بھی مسکرائے تھے اسٹوڈینٹس کو اتنا پرجوش دیکھ کر یقیناً اس مختصر دورانیے میں بھی وہ اس یونیورسٹی میں اور یہاں کے لوگوں میں اپنا غائر مقام بنانے میں کامیاب ہوا تھا اسٹوڈینٹس اسکے اردگرد جمع ہو کر اس سے مزاج دریافت کر رہے تھے

"اسلام و علیکم"  اسکے قریب رکنے پر وہ نظریں جھکائے بولی تھی مگر شاید اسٹوڈینٹس کے جمگھٹے میں اسنے سنا نہیں تھا آئیذل افسردہ سی ہوئی تھی سب مسکرا رہے تھے اور اسے گھیرے ہوئے تھے اور ایک وہ اداس سی کھڑی تھی اتنی چھوٹی سی بات پر  

"شاید میں کچھ زیادہ ہی حق جتانے لگی ہوں انہوں نے اتنے لوگوں میں مجھے دیکھا تک نہیں ہو گا تو کیا ہوا کوئی بات نہیں" وہ لب بھینچتی دوبارہ ڈیکوریشن کی لسٹ دیکھنے میں محو ہوئی تھی لیکن اسکے چہرے پر باقاعدگی سے بارہ بجی ہوئی تھی آخر کیوں اسنے جواب نہیں دیا تھا

 کسی کے ٹھنڈے گھل جانے والے ہاتھ کے نرم لمس کو اپنے کندھے پر محسوس کر کے وہ ساکت ہوئی تھی اسنے سر کو خم دیکر اپنے کندھے کی طرف دیکھا تھا جب چہرے کی دوسری طرف سے اسکے کان میں بھاری سرگوشی ہوئی تھی

"وعلیکم السلام بےبی گرل" 

 وہ ساکت رہ گئی تھی جو نرمی سے اسے کندھے سے تھامتے ہوئے اپنے قریب کرتے ہوئے گویا ہوا تھا آئیذل کی معتدل دھڑکنوں نے تیزی پکڑی تھی اسنے ہنوز سہمی نظروں سے اسٹوڈینٹس کی طرف دیکھا تھا یہ جاننے کے لئے کہ کیا کسی نے انہیں اس طرح دیکھ تو نہیں لیا جو پروفیسر شاہان سے ٹاسک لینے میں مصروف تھے اسکے حسیں طرحدار ہاتھ کو اسنے اپنی کلائی پر محسوس کیا تھا کچھ دیر پہلے کی ساری خفگی ایک پل میں وہ ظالم دور کر گیا تھا اور اب کسی کے دیکھ لینے کا خوف اسے کھا رہا تھا حلق تر کرتے ہوئے وہ آنکھیں میچ گئی تھی اسکی سحر انگیز مہک نے اسکے گرد اپنا حصار بےحد تنگ کیا تھا 

"آپ کو اگنور کیسے کر سکتا ہوں بےبی گرل ۔۔۔ میری ہر دھڑکن میری ہر سانس میں صرف آپ ہیں" اسکے کان میں مخمور سرگوشی کرتے ہوئے وہ اسے اپنا اسیر کر گیا تھا جو اسکے لہجے الفاظ اور اسکی مہک پر دل کو ہارتی جا رہی تھی وہ یکلخت پیچھے ہٹ گیا تھا 

"ذاویان چل رہے ہو" پروفیسر شاہان کی آواز پر اسنے آنکھیں کھولی تھی وہ پروفیسر شاہان کیساتھ کیفیٹیریا کی جانب بڑھ گیا تھا آئیذل کی حواس باختہ دھڑکیں اب جا کر معتدل ہوئی تھی 

"آئیذل لسٹ دیکھانا"

"ہاں" 

وہ جاتے ہوئے ذاویان سے نظریں ہٹاتے ہوئے حورم کی طرف متوجہ ہوئی تھی

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کسی صورت وہ توصیف اور چودھری صاحب کو نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ خود انہیں نہیں چھڑانے جاتا میں دوسری بار پولیس اسٹیشن سے ہو کر آ رہا ہوں" 

آصف صاحب کی بات پر عائزہ بیگم نے سر پکڑ لیا تھا

"توصیف کو تو بہت مارا ہے ان لوگوں نے" 

"ہائے میرے بچے کو کیوں مار رہے ہیں کونسی ذاتی دشمنی نکال رہا ہے وہ میرے بچے سے ہائے میرے بچے کا کیا قصور ہے" عائزہ بیگم صدمے سے نڈھال ہوتی بولی عروسہ بیگم نے سر جھٹکا تھا

"توصی گندا ہے اس لئے اسکو مارا ہے" مناہل کی بات نے عائزہ بیگم کو آگ لگائی تھی عروسہ بیگم نے حیرت سے مناہل کو دیکھتے ہوئے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا 

"توصی کی شکل ڈوری مون میں سونیو جیسی ہے  " وہ عروسہ بیگم کا ہاتھ منہ سے ہٹاتی پھر سے بولی عائزہ بیگم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا جبکہ ریحم کی ہنسی چھوٹی تھی 

"منہوس کیا کہہ رہی ہے میرے بیٹے کے بارے میں" عائزہ بیگم نے تنک کر کہا 

"اماں وہ ہینڈسم انکل پھر کب آئیں گے جو کل آئے تھے " وہ عروسہ بیگم کو دیکھتی بولی عائزہ بیگم جل بھن کر اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی تھی

"یو نو چاہت میں تو بہت حیران ہو گیا تھا جب تم نے مجھے لنچ پر ملنے کے لئے بلایا " بالاج نے چیئر کھینچ کر بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا چاہت نے فگار نظروں سے اسے دیکھا تھا اور مسکرائی تھی

"تو کیسی رہی تمھاری شادی ذاویان کیساتھ" کافی کا سپ لیتے بالاج نے خوشدلی سے پوچھا چاہت اسے خونخوار نظروں سے دیکھتی اپنی چیئر سے اٹھ کر گرم کافی اسکے منہ پر پھینک گئی تھی ریسٹورینٹ میں بیٹھے سب لوگوں نے اسے تعجب سے دیکھا تھا چہرے پر جلن محسوس کر کے وہ چیختا ہوا اٹھا تھا

"بےوقوف کیا کیا تم نے" 

"ایکزیکٹلی کیا کیا تم نے ہاں،، آئی تھی ناں تمھارے پاس میں پھر کیوں بتایا تم نے ذاویان کو ہمارے ریلیشن شپ کے بارے میں بولو ہمت کیسے ہوئی تمھاری" اسکے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر بغیر پرواہ کئے وہ اسکا گریبان پکڑتے چیختی بولی 

"دماغ خراب ہے تمھارا سچ میں پاگل ہو چکی ہو تم تمھارا دماغ سڑ چکا ہے " 

بالاج نے چیختے ہوئے اسے پیچھے دھکا دیا تھا وہ جلن سے کراہتا ہوا باہر نکل گیا تھا چاہت نے زہر کند نظروں سے آس پاس دیکھا تھا لوگ اسے حیرت و تعجب سے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ سچ مچ کی پاگل ہو 

ٹیبل سے پرس اٹھاتے ہوئے وہ پیمنٹ ٹیبل پر پھینکتی ریسٹورنٹ سے نکل گئی تھی

"سمجھتا کیا ہے خود کو دماغ خراب کر دیا صبح صبح میرا اسنے" رننگ مشین پر دوڑتی وہ رومال سے چہرہ پر آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولی تھی 

"حدید رضا عسکری تمھیں تو نہیں چھوڑوں گی بہت غرور ہے ناں تمھیں ،، تمھارا یہ غرور خاک میں ملا کر رکھ دے گی سیرت رضوی اب تک تمھارے طریقے سے گیم کھیل رہی تھی میں بہت ہو گیا " پانی کی بوتل کو ہونٹوں سے لگاتی وہ پانی پینے لگی

پینٹ کی پاکٹ سے فون نکالتے ہوئے اسنے کال ملا کر فون کان سے لگایا تھا 

"سیم میں بتا رہی تھی ناں کسی کو پیٹنا ہے اسکی فوٹو بھیج رہی ہوں اپنے دوستوں کیساتھ اسکی اچھی خاطر داری کرو بہت اکڑ ہے اس میں ساری اکڑ نکل جانی چاہیے" شریر مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ تیکھے لہجے میں بولی 

"اوکے ہو جائے گا آج ہی بس فوٹو بھیج دو اور پتا بتا دو کہاں ہو گا رات کو" 

وہ فوٹو اور اسکے آفس کا پتا بھیجنے کے بعد رننگ مشین سے اتر کر رومال سے چہرے کو صحیح سے صاف کرتے ہوئے سپورٹس بیگ اٹھا کر جم سے باہر چلی گئی تھی 

"اب تمھیں پتا لگے گا غرور کس کو دیکھا رہے تھے تم" وہ سر جھٹکتی خفیف سی مسکراتی ہوئی اپنی مرسیڈیز میں بیٹھ کر نکل گئی تھی اسکے پیچھے گارڈز کی دو اور بلیک گاڑیاں بھی روانہ ہوئی تھی

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"ہاں ایسے ہی کر لو وہاں پر لگانا ہے یہ سب اور باقی کے چارٹس کو فرنٹ وال پر "  حورم کیساتھ مل کر وہ اپنے گروپ کی لڑکیوں کو ذمہ داری سے ٹاسک سمجھا رہی تھی 

"آپکو پروفیسر زاویان صاحب نے اپنے آفس میں بلایا ہے" 

پیون کی بات سنتی وہ ساکت ہوئی تھی سارا کانفیڈینس ایک سیکنڈ میں ہوا ہوا تھا حورم نے لب بھینچ کر ہنسی روکی تھی جبکہ باقی لڑکیوں نے اسے تعجب سے دیکھا تھا 

"مجھے؟" وہ خشک لبوں پر زبان پھیرتے گھبرا کر بولی تھی پیون نے سر ہلایا تھا اور چلا گیا تھا

کوئی بات نہیں کل یونیورسٹی میں پروفیسر صاحب اپنی لاڈلی کو ٹھیک سے سیدھا کر دیں گے "

 کل والی دھمکی یاد کر کے اسکی سانسیں اٹک چکی تھی اور صبح کا واقع یاد کر کے وہ مضطر ہوئی

"تمھیں کیوں بلایا ہے پروفیسر زاویان نے" ایک لڑکی نے تعجب سے پوچھا 

"کیونکہ پروفیسر زاویان انکے"

آئیذل نے حورم کے پاؤں پر پیر دیا تھا جس پر اسکی ذبان کو بریکس لگے تھے 

"کیونکہ میں انکی اسسٹنٹ ہوں" وہ حورم کو دیکھتی بھنویں سکیڑ کر بولی حورم نے منہ بنایا تھا 

"اوہ تم اسسٹنٹ ہو پھر تو جاؤ " لڑکی نے شانے اچکاتے ہوئے کہا تھا وہ حورم کو تیز نظروں سے دیکھتی ہال سے نکل گئی تھی

"ہائے یہ میں کہاں پھنس گئی " وہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتی ہوئی جان بوجھ کر دھیمی چال چل رہی تھی

"ایک تو کل سے میں اتنی شرمندہ ہوں اور پروفیسر مجھے جان بوجھ کر اور شرمندہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں " وہ ناخن دانت تلے دباتی بولی

"میں کہاں جاؤں بھلا کہیں چھپ بھی نہیں سکتی وہ تو مجھے آرام سے ڈھونڈ لیں گے اور پھر پنشمینٹ الگ سے دیں گے" تھوک نگلتے ہوئے اسنے رک کر سوچا تھا 

"ہائے مجھے نہیں جانا ڈر لگ رہا ہے مجھے " اسکے آفس کے دروازے کو دیکھتی وہ سوکھتی چلی گئی بڑی ہمت اکھٹی کر کے اسنے دروازے پر ناک کیا تھا اندر سے کوئی جواب نہیں ملا تھا اسنے دوبارہ ناک کیا تھا

"لگتا ہے اندر نہیں ہیں میں بس اندر جا کر واپس بھاگ جاؤں گی اگر کچھ کہا تو بول دوں گی میں آئی تھی آپ نہیں تھے" معصومیت سے سوچتی وہ اندر داخل ہوئی تھی اسے کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر وہ ساکت ہوئی تھی

"دروازہ بند کر دیں باہر ٹھنڈ ہے "  وہ دروازے پر ہی ساکت ہوئی تھی اسکی بات پر فی الفور بنفشی آنکھیں حیرت سے وسیع ہوئی تھی 

"دروازہ بند کریں مس آئیزل" 

وہ اسکے مس آئیذل کہنے پر چونکی تھی پروفیسر شاہان  بک شیلف کے پیچھے سے کچھ بکس اٹھائے نکلے تھے آئیذل فورآً نارمل ہوئی تھی 

"اوہ مس آئیزل۔۔۔۔ ذاویان تمھاری لاڈلی اسسٹنٹ آئی ہے میں نے پرسوں جب بتایا ناں کہ تم اب نہیں آؤ گے منہ ہی لٹک گیا تھا انکا " شاہان نے ہنستے ہوئے کہا آئیذل کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا ذاویان مبہم مسکراہٹ کیساتھ کھڑکی سے ہٹتا اسے دیکھ گیا

"چلو اچھا ہو گیا آپکے فیورٹ پروفیسر نہیں گئے پروفیسر زاویان صاحب تو ویسے ہی سب کے فیورٹ ہو گئے ہیں "  پروفیسر شاہان نے آئیذل کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور پھر بکس اٹھائے باہر نکل گئے

"ہمم۔۔۔ہم بھی جائیں؟؟" آفس کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنتی وہ جلدی سے بولی

"نہیں"

 وہ اسے تخمینہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا آئیذل نے لب بھینچے تھے

"ہمم۔۔۔ہم بھی جائیں؟؟" آفس کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنتی وہ جلدی سے بولی

"نہیں"

 وہ اسے تخمینہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا آئیذل نے اسے پزل نظروں سے دیکھتے ہوئے لب بھینچے

"یونیورسٹی آف ہونے میں پچیس منٹ باقی ہیں اور یہ پچیس منٹ میرے ہیں بےبی گرل" وہ مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کچھ دیر بعد گویا ہوا آئیذل نے تیز ہوتی دھڑکنوں کیساتھ نظریں جھکائی 

"آپ۔۔۔ اس نام سے کیوں بلاتے ہیں ہمیں" 

وہ حلق تر کرتی دھیمے لہجے میں بولی 

"کیونکہ آپ میری بےبی گرل ہیں" وہ ہلکی مگر مشتبہ مسکراہٹ کیساتھ اسے جانچتا ہوا بولا وہ سرخ ہوتی چلی گئی

"آپ یونیورسٹی سے چلے گئے تھے پھر آج آپ" وہ بولتے ہوئے رکی جب اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھا

"پپ۔۔پلیز آپ دور رہ کر بات کیا کریں پروفیسر  " وہ سہمی ہوئی آواز میں بولی 

"پروفیسر ؟؟ ریئلی ؟؟ " بےپرواہ سا اسکی طرف بڑھتا وہ خفیف لب و لہجے میں بولا

اپنے پیچھے ٹیبل پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ منجمد ہوئی وہ اسے خوفزدہ دیکھ کر محظوظ ہوتے ہوئے اسکے نحیف ہاتھ کی باریک انگلیوں کو اپنے رعنا ہاتھ کی مظبوط انگلیوں میں الجھاتا معنی خیزی سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے گندمی گال پر کھردرے ہاتھ کو رکھتے ہوئے اسکا چہرہ اوپر اٹھا گیا وہ منتشر ہوتی سانسوں کیساتھ ٹیبل سے لگتی آنکھیں میچ گئی تھی اسکے چہرے کو آزمائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسکی نظریں اسکے تھرتھراتے لبوں ہر ٹھہری تھی

اسکے فون کی رنگ ٹون سن کر وہ خوف سے آنکھیں کھولتی اسے دیکھ گئی جو مطمئن کھڑا اپنی جگہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہوا تھا

"کک۔۔کال آ رہی ہے آپکی" وہ  بےحد دھیمے لہجے میں بولی تھی

"تو کیا ہوا "

اسکی دھیمی لاپرواہ سرگوشی  پر وہ ششدر رہ گئی اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ بغیر نظروں کا حصار توڑے اسکے تھرتھراتے ہوئے لبوں پر جھکتا چلا گیا دل کی بڑھتی دھڑکن اور اسکے اتنا قریب آنے پر وہ لرزتی چلی گئی 

"You're My Addiction Baby Girl" 

اسکی کی گئی سرگوشی پر وہ لرزتی پلکوں کو اٹھاتی اسکی آنکھوں میں دیکھ گئی ہلکی سنہری آنکھوں میں عشق کی گھٹائیں چھا رہی تھی اسکی دہکتی سانسوں کو اور اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک کو اپنے حواسوں پر چھاتے ہوئے محسوس کرتی وہ ساکن سی ہو گئی تھی دونوں کے چہروں کے درمیان ایک انچ سے بھی کم فاصلہ رہ گیا تھا 

 دوبارہ فون کی رنگ ٹون بجنے پر اسنے ضبط سے فون کو توڑنے سے روکا تھا پیچھے ہٹتے ہوئے اسنے فون کان سے لگایا آئیذل نے سکھ کا سانس لیا تھا 

"سر حدید صاحب آئے ہیں اور آپکا انتظار کر رہے ہیں " 

"کہاں ہے وہ" کرخت لہجے میں پوچھا گیا

"سر آفس میں"

یہ سننے کی دیر تھی وہ کسی انگارے کی طرح سلگ پڑا تھا آئیذل نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا تھا جو چیئر سے کوٹ اٹھاتے ہوئے بغیر ایک لفظ کہے باہر نکل گیا تھا

حیرت سے اسے دیکھتی وہ آفس کے دروازے پر آئی تھی جو تیز قدموں کیساتھ باہر کی جانب بڑھ رہا تھا 

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کیا ضرورت تھی اسے  یہاں آنے کی بھائی کو اب تک تو آفس ورکرز نے بھی بتا دیا ہو گا کہ وہ یہاں آ چکا ہے اور بھائی اگر آ گئے تو حدید انکو بتا دے گا کہ ڈیل میں نے خود حدید عسکری کیساتھ کی تھی ناں کہ اسکے سیکرٹری کیساتھ " پریشان سی آفس میں ٹہلتی وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی 

"میم حدید رضا صاحب ویٹ کر رہے ہیں" اسکی اسسٹنٹ نے دوسری بار آ کر اسے آگاہ کیا تھا جس پر وہ سرد آہ بھرتی سر ہلا گئی

"تم جاؤ میں آتی ہوں" 

"اوکے میم" 

لمبا سانس لیتے ہوئے وہ کانفیڈینس ہو کر کھلے بالوں کا رف سا جوڑا بناتی ہوئی باہر اپنے آفس سے کانفرنس روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسکی نظر اندر آتے ذاویان پر پڑی جس کا چہرہ غصے سے سرخ پڑا ہوا تھا تیز تیز قدم رکھتی وہ اسکے پیچھے چل پڑی تھی

"بھائی بات تو سنیں" وہ معصوم بنتی بولی مگر وہ بغیر جواب دیئے چلتا رہا

"اتنا غصہ اب کیا ہو گا " وہ متذبذب سی سوچتی ہوئی اسکے پیچھے کانفرنس روم میں داخل ہوئی تھی جہاں وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے چیئر پر بیٹھا فائل کو بند کر گیا تھا

"واٹ آ سرپرائز مسٹر ذاویان آپ تو میرے آنے کی خبر سن خود آ گئے مجھے لگا تھا کوئی سیکریٹری ہینڈل کرے گا مجھے " وہ متانت سے چیئر سے اٹھتا ہوا گویا ہوا سیرت نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا جو اسے اگنور کر چکا تھا

"ہمیں عسکری کارپوریشن کیساتھ کوئی ڈیل نہیں کرنی اسی وقت چلتے بنو " پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتا وہ تحمل سے گویا ہوا ایک ہلکی مسکراہٹ حدید کے لبوں پر نمودار ہوئی

"لیکن کانٹریکٹ پیپرز پر سائن ہو چکے ہیں یوو کین چیک" وہ فائل کی کاپی اسکی طرف بڑھاتا گہری دلچسپی سے بولا سیرت نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے نظریں پھیری تھی ذاویان نے سنجیدگی سے فائل کو دیکھا تھا اور اسکے پیجز پلٹے تھے 

"اس میں صاف صاف لکھا ہے ایک بار کانٹریکٹ سائن ہو جانے کے بعد آپ پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ہمارا تو پراجیکٹ بھی شروع ہو چکا ہے اسکے سلسلے میں تو آیا تھا میں ڈسکشن کے لئے" وہ مسکراتا ہوا بولا سیرت نے دانت پیسے تھے 

ذاویان نے سنجیدگی سے سیرت کو دیکھا تھا جو اس کے دیکھنے پر فوراً نظریں پھیر گئی تھی کیونکہ کانٹریکٹ سائن اسنے ہی کیا تھا

"بہتر ،، Have A Seat " ذاویان نے فائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا سیرت نے چونکتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو اسے گہری دلچسپی سے دیکھتا ہوا ذاویان کو سلگا گیا تھا 

"ویل آپ کون ہیں مس؟؟؟"

اسکے پروفیشنل لہجے پر سیرت گڑبڑائی تھی جبکہ ذاویان نے اسے کرخت نظروں سے دیکھا تھا 

"سیرت Wait outside," 

ذاویان کی بات پر سیرت نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جو ہلکی مسکان کیساتھ اسے دیکھ رہا تھا

"I think there is no harm in giving a brief introduction Mr Zaviyan Haider Rizvi" 

اسکی بات پر ذاویان نے ضبط سے مٹھی بھینچی تھی جبکہ سیرت نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا جو جان بوجھ کر انجان بن رہا تھا اور اسکا تعارف مانگ رہا تھا

"Seerat Rizvi, CEO of this company"

اسکے پروفیشنل انداز پر حدید نے اشتیاق بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر اسکے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو ایسے اگنور کیا تھا جیسے اسنے دیکھا ہی نہیں تھا کہ وہ اسکی سمت ہاتھ بڑھ چکی تھی غم و غصے سے اسکی اس حرکت پر سیرت کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا زیرت نے ہاتھ پیچھے کیا تھا انسلٹ اور غصے کی وجہ سے  وہ اسے دو چار سنا دینا چاہتی تھی مگر ذاویان کو دیکھتی وہ سر جھٹکتی باہر نکل گئی تھی حدید نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا

غصے سے سر کو جھٹکتی ہوئی وہ اپنے آفس میں آئی تھی دروازہ بند کر کے وہ اپنی چیئر پر بیٹھی تھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے اسنے ٹھوڑی ہاتھوں پر رکھی تھی

"سمجھتا کیا ہے خود کو کل تک اتنا فری ہو رہا تھا آج ہاتھ تک نہیں ملایا بھائی کے سامنے"  منہ کا زاویہ بگاڑتی وہ تنک پڑی

"بھائی کے سامنے"

"اوہ اسنے تو بتایا ہی نہیں انکو کہ ڈیل میں ںے حدید کیساتھ سائن کی تھی اور مجھے پہچاننے سے بھی مکر گیا " ٹیبل پر ہاتھ رکھتی وہ چونکی تھی

"اسنے یہ ظاہر کیا کہ آج وہ مجھے پہلی بار دیکھ رہا ہے " سیرت نے تعجب سے سوچا تھا

"یعنی اسنے مجھے آج بچا لیا بھائی کی ڈانٹ سے ورنہ انکو پتا چل جاتا کہ میں نے ہی اسکے ساتھ کانٹریکٹ سائن کیا تھا " لمبا سکون کا سانس لیتے ہوئے مسکرائی تھی

                                        -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"آج کے بعد رضوی انٹرپرائزز میں نظر مت آنا" 

دروازے کی طرف بڑھتے حدید کے قدم ٹھہرے

"کیا کرو لو گے ورنہ"

 طنزیہ نظروں سے اسکی بات پر ردعمل ظاہر کیا تھا ذاویان خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا

"اب کونسا پینترا بدل رہے ہو تم پچھلے  کئی سالوں سے چلتی آ رہی خاندانی دشمنی کو تم ایک پل میں بھلا کر یہاں کانٹریکٹ لیکر آ گئے کیا کرنا چاہتے ہو" 

ذاویان کی بات پد غور کرتا وہ طنز کے طور پر  نچلا لب دباتا ہوا  مسکرایا تھا 

"کس نے کہا میں خاندانی دشمنی بھلا کر یہاں آیا ہوں ذاویان رضوی اور دیکھا جائے تو اس آفس میں تمھارے بہت سے عزیز لوگ کام کرتے ہیں جنہیں میں نقصان پہنچا سکتا ہوں اگر میں چاہوں توو لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں فلحال " اسکے مطمئن لہجے مگر سلگتے الفاظ پر ذاویان نے کرخت نظروں سے اسے دیکھا تھا اسکے ادا کئے گئے الفاظ سے ذاویان کو ایک عجب پریشانی لاحق ہوئی تھی وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے سنجیدگی سے ذاویان کو دیکھتا محظوظ ہو رہا تھا

"تم اسے پرسنل بنا رہے ہو" درشتگی سے کہتے ہوئے وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتا بولا تھا

"اس دشمنی کی بیس بھی پرسنل ہے ذاویان حیدر۔۔ تم نہیں جانتے ،، خیر چلتا ہوں ملاقات ہوتی رہے گی " تمسخر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اپنا کوٹ درست کرتا آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا تھا ذاویان نے اسکی چیئر کو تردد نظروں سے دیکھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ براجمان تھا

                                      -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کہاں رہ گئی تھی میں تمھارے لئے پریشان ہو رہی تھی " حورم نے بیگ کندھے پر رکھتے ہوئے اسے دیکھتے کہا جس کے چہرے پر بارہ بجی ہوئی تھی

"کیا ہو گیا کچھ تو بولو " اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی حورم فکرمندی سے بولی

"کچھ نہیں میرے خیال سے پروفیسر ناراض ہو گئے ہیں" وہ سرد آہ بھرتی گیٹ کی طرف دھیمے قدموں کیساتھ چلتی بولی ساتھ چلتی حورم نے اسے خشک نظروں سے دیکھا 

"تم نے اب کیا کر دیا جو وہ ناراض ہو گئے " 

"میں ۔۔۔نے۔۔کچھ نہیں کیا" خشک لبوں پر زبان پھیرتی وہ فورآ سر جھٹک کر بولی

"پھر تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ تم سے ناراض ہو کر گئے ہیں" 

"بس مجھے ایسا لگتا ہے ہو سکتا ہے کوئی اور وجہ ہو"

 "اچھا پریشان ناں ہونا میں پرسوں ملتی ہوں پھر بھائی لینے آ گئے میں چلتی ہوں خدا حافظ" 

"خدا حافظ" 

حورم گیٹ سے باہر نکل گئی تھی وہ آس پاس دیکھتی باہر نکل گئی تھی 

"ایٹ لیسٹ اب توصیف مجھے لینے تو نہیں آ سکتا " وہ مسکراتی ہوئی چلتی بولی تھی رکشے میں بیٹھ کر اسنے بیگ کو گود میں رکھا تھا 

"بھیا یہاں پر روک دیں" وہ قبرستان کے قریب اترتی رکشے والے کو کرایہ دیکر آگے بڑھ گئی تھی 

"اسلام و علیکم" چارپائی پر بیٹھے بزرگ کو سلام کرتی وہ رکی 

"وعلیکم السلام بیٹی آب طبعیت کیسی ہے آپکی" بزرگ نے شفقت سے پوچھا تھا 

"ہم ٹھیک ہیں بابا شکریہ" وہ مسکراتی ہوئی کہہ کر اپنی نانو کی قبر پر آئی تھی جس پر تازی پھولوں کی پتیاں موجود تھی  وہ بزرگ بھی اسکے قریب ہی ٹہل رہے تھے

"بابا ہمارے علاوہ اور کون آتا ہے یہاں اس دن بھی آپ نے مختصر سا بتایا تھا ہم پوچھ ہی نہیں پائے" وہ پیچھے پلٹتی ان کو مخاطب کر گئی

"بیٹی اس دن جب آپ بےہوش ہوئی تھی جو نوجوان آپکو آپکے گھر پہنچانے گیا تھا وہی آتا رہتا ہے اکثر " 

"پروفیسر ۔۔ آپ ہماری نانو کی قبر پر آتے ہیں " وہ ار جھکاتی انکی قبر کو دیکھتی بولی تھی  

"میری بیوی کے کردار پر ایک غلط لفظ برداشت نہیں کروں گا "

 ایک ہلکا متبسم  اسکے لبوں پر بکھرا تھا کس طرح وہ اسکے لئے پورے گھر والوں سے لڑا تھا 

"نانو آپ صحیح کہتی تھی وہ اجنبی نہیں تھے وہ ہمارے اپنے تھے نانو ہم بہت خوش ہیں وہ ہماری بہت کیئر کرتے ہیں ہمارا بھی ہوئی ہمدرد ہے نانو جان" وہ ہلکی مسکان کیساتھ انکی قبر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی

"لیکن آپ نے انکو دیکھا بھی نہیں تھا ہم آپکو ان سے ملوانا چاہتے تھے نانو ،، لیکن وہ تو آپکے پاس بھی آتے رہتے ہیں وہ بہت اچھے ہیں " وہ مسکراتے ہوئے بولی 

آج وہ رونے نہیں آئی تھی آج کسی قسم کا شکوہ نہیں کیا تھا اسنے اپنی نانو سے ناں ہی آج وہ اداس تھی

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"ایک بار میں یہاں سے باہر نکل جاؤں اسکے بعد دیکھ لوں گا اس سالے کو ۔۔۔ آئیذل سے نکاح تو میں ہی کروں گا ابا " 

" کیا دماغ خراب ہے تمھارا اپنی حالت تو دیکھو کتنا مارا ہے ان لوگوں نے اس کے کہنے پر تمھیں کیا بگاڑ لیا تم نے اسکا امیر زادہ ہے وہ تمھاری طرح ناکارہ آدمی نہیں ہے "ممتاز صاحب نے دانت پیسے تھے 

"ابا یہ ناکارہ آدمی آئیذل سے ہی شادی کرے گا ایک بار باہر آ جانے دو پھر دیکھو کیا حال کرتا ہوں اس شخص کا " توصیف نے پھنکار کر کہا تھا ڈی آئی جی صاحب کے ہمراہ وہ انکے سیل کے قریب رکا تھا ممتاز صاحب اسے دیکھ کر چونکے تھے وہاں توصیف نے مٹھیاں بھینچی تھی

"کیا حال ہے چودھری صاحب" وہ ممتاز صاحب کو تاسف سے دیکھتا طنزیہ انداز میں گویا ہوا ممتاز صاحب نے سر جھٹکا تھا

"ایک بار باہر آ جانے دے دیکھ لوں گا تجھے میں " توصیف کے چیخنے پر وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے اسکے حلئے کو دیکھتا مسکرایا تھا

"چچچ،، بہت مارا ہے تمھیں تو ،، ڈی آئی جی صاحب زرا مرہم پٹی کروا دیں بچے کی " وہ اسے تمسخر بھری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا تھا توصیف کے تن بدن میں آگ لگی تھی 

"آئیذل میری ہے سنا تو نے " وہ جو جانے کے لئے پلٹ رہا تھا اسکے کہے گئے الفاظ پر ساکت ہوا 

"شادی تو میں ہی کروں گا اپنی آئیذل کیساتھ" اسکی پیشانی کی نیلی نسین ابھری تھی خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ پیچھے پلٹا تھا ڈی آئی جی صاحب نے اسے روکنا چاہا تھا مگر وہ کانسٹیبل کو اشارہ کرتے ہوئے سیل کھلوا رہا تھا

"نہیں ذاویان رہنے دو پہلے ہی بہت مارا ہے اسے " 

"اگر آپ دیکھ نہیں سکتے تو اسی وقت باہر نکل جائیں " وہ کوٹ کو اتار کر چیئر پر پھینکتا شرٹ کے کف لنکس کھول رہا تھا ڈی آئی جی صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا 

"نہیں ڈرتا میں تجھ سے کیا کر لے گا " توصیف نے سر اٹھاتے ہوئے اسے دوبارہ مخاطب کیا کف لنکس کھولتا وہ وحشت بھری نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا ممتاز صاحب جو دوسری سیل سے سب دیکھ رہے تھے بےحد پریشان ہوئے تھے

"آئیذل سے شادی تو میں ہی"

ممتاز صاحب کا چہرہ خوف سے زرد پڑا تھا جو اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے اسے گردن سے پکڑتا اسکا سر بےدردی سے دیوار میں مار چکا تھا

"لمظ میری ہے"

وہ کسی گھائل شیر کی طرح اسکی گردن پر گرفت بڑھاتا دھاڑا تھا توصیف کا سر پھٹ چکا تھا اور اب مسلسل خون بہہ رہا تھا وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ طیش کھانے کے باعث سرخی مائل ہو چکا تھا 

"اور اگر آج کے بعد اپنی گندی زبان سے میری لمظ کا نام بھی لیا تو ذندہ جلانے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچوں گا " اسکی آنکھوں میں اپنی سرخ وحشت سے بھرپور آنکھیں پیوست کرتے ہوئے وہ جبڑے بھینچے گرج کر بولا 

"ذاویان مر جائے گا وہ چھوڑ دو اسے " ڈی آئی جی صاحب کی آواز اسکے حوش و حواس کو اپنی جگہ لائی تھی توصیف اپنے ہاتھوں سے اسکی گرفت ڈھیلی کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اسکا چہرہ لمبے لمبے سانس لینے کی وجہ سر لال پڑ رہا تھا 

اسکی گردن سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ پیچھے ہٹا تھا توصیف لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے نیچے گر سا گیا تھا ممتاز صاحب اسے کچھ بھی کہنے سے خود کو باز رکھ رہے تھے کیونکہ اسوقت جو ذاویان انکے سامنے تھا وہ ذاویان رضوی نہیں وہ بیسٹ تھا جو اسوقت گھائل شیر کی طرح کسی پر بھی چھپٹ سکتا تھا کوٹ کو اٹھاتے ہوئے وہ تیز قدموں کیساتھ باہر نکلا تھا

کانسٹیبل اور ڈی آئی جی صاحب نیچے گرے ہوئے توصیف کی جانب بھاگے تھے جو بےہوش ہو چکا تھا وہ ممتاز صاحب کے سیل کے قریب رکا تھا ایک درشت نظر ان پر ڈالتے ہوئے وہ تیزی سے وہاں سے گزر گیا تھا 

ممتاز صاحب سیل کے بارز کو ہاتھوں میں پکڑتے توصیف کو فکرمندی سے دیکھنے لگے جسے کانسٹیبل باہر نکال رہا تھا کیونکہ اسکا بےحد خون بہہ چکا تھا

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

اضطرابی کیفیت میں مہر النساء بیگم دوبارہ فون پر نمبر ملاتی فون کان سے لگا گئی تھی

"اسلام و علیکم اشفاق کہاں ہو گھر کیوں"

"مہرو گھر آنے کا مت کہنا میری بیٹی کی اور میری بہت بےعزتی ہو چکی ہے میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہا " اشفاق صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے 

مہر النساء بیگم نے لب بھینچے تھے

"ذاویان نے جو کچھ کیا اسکے لئے میں آپ سے معافی"

"نہیں مہرو تم معافی کیوں مانگ رہی ہو میں تم سے ناراض نہیں ہوں بس پریشان ہوں اگر ایسی ہی بات تھی تو ذاویان یوں سب کے سامنے میری بیٹی کو رسوا تو ناں کرتا " اشفاق صاحب نے اپنے قریب بیٹھی ہوئی لڑکی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا جو مسکرا گئی تھی

"آپ گھر آ جائیں اشفاق"

"نہیں مہرو میں بہت پریشان ہوں اسوقت مجھے سکون چاہیے اور میں گھر آ کر تمھیں بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا " 

"اشفاق آپ گھر آ جائیں بس اور چاہت کو بھی لیکر آئیں جو کچھ ذاویان نے کیا وہ اسکی معافی مانگے گا " جلد بازی میں شاید مہر النساء بیگم ذیادہ ہی بول گئی تھی

"ٹھیک ہے مہرو میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں" ہال منقطع کرتے ہوئے وہ اس لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے جو تیار ہو کر انکی ہی توجہ کا طلبگار بیٹھی ہوئی تھی

"آپ تو بہت بڑے دھوکے باز ہیں آپکی بیوی آپکا انتظار کر رہی ہے اور آپ یہاں میرے ساتھ ہیں " وہ لڑکی مسکراتی ہوئی بولی تھی جس پر اشفاق صاحب کا خباثت سے بھرپور قہقہ کمرے میں گونجا تھا 

                                         -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کر لے گی یا نہیں تجھے تو کام کرتے اب موت آتی ہو گی " عائزہ بیگم کی بات پر کپڑے استری کرتی وہ سر اٹھا کر انہیں دیکھ گئی

"اسکے بعد کچھ ہلکا پھلکا کھانا بنا لینا ہمیں دیر ہو جائے گی آنے میں پیر صاحب دیر سے آتے ہیں مجھے خاص دعا کروانی ہے اپنے پتر کے لئے بس رہائی مل جائے اسے پتا نہیں کونسی نحوست آ پڑی ہے میرے بچے پہ " عائزہ بیگم نے افسردگی سے سر جھٹکا تھا آئیذل نے لب بھینچے 

"ریحم تو آ رہی ہے یا رات لگائے گی " 

"اماں آ رہی ہوں کیا ہو گیا" سر پر چادر لیتی ریحم نے تاسف سے کہا تھا 

"کنڈی لگا کے رکھنا وہی کوئی چور چکا گھس آئے گھر میں آصف صاحب گاؤں گئے ہیں پٹواری کے پاس عروسہ اپنی اماں کے گھر گئی ہے " عائزہ بیگم نے جاتے جاتے اسے گھورتے ہوئے کہا 

"جی میں دروازہ بند کر دوں گی" وہ استری کھڑی کرتی ہوئی بولی عائزہ بیگم اسے تیکھی نظروں سے دیکھتی رکی 

"اور جب تک میں گھر نہیں آتی خبردار جو تو نے دروازہ کھولا جو بھی آئے ٹال دینا  " 

"جج۔۔جی"

 آئیذل نے سر ہلایا تھا عائزہ بیگم ریحم کو ساتھ لیتی باہر نکل گئی تھی آئیذل نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی تھی لب بھیجچ کر اسنے خالی پڑے گھر کو دیکھا تھا ار جھٹکتی وہ واپس کپڑے استری کرنے میں مصروف ہوئی

"میرا تو دل ہی نہیں لگ رہا گھر میں " کپڑوں پر استری پھیرتی وہ افسردگی سے بولی 

"آپ کو اگنور کیسے کر سکتا ہوں بےبی گرل ۔۔۔ میری ہر دھڑکن میری ہر سانس میں صرف آپ ہیں"

ایک دھیمی مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیلی تھی 

"یہ میں کیا سوچ رہی ہوں " کپڑوں پر استری پھیرتی وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کہاں کی تیاری ہے بھیا یونیورسٹی کی تو چھٹی ہے ناں "  سیرت نے اسے گرے بلیک ٹو پیس سوٹ میں دیکھ کر پوچھا 

"یونیورسٹی نہیں جا رہا " وہ مختصر سا جواب دیکر باہر نکل گیا تھا سیرت نے ہونٹ سکیڑے تھے 

"کچھ تو گڑ بڑ ہے آفس جا رہے ہوتے تو صاف صاف بتا دیتے کہاں جا رہے ہیں بھلا" سر کو پلر سے لگاتی وہ ترچھی نظروں سے اسے دیکھتی بولی انس دبے پاؤں اسکے پیچھے آ کر رکا تھا

" دور ہٹو خبردار جو میرے کان میں چیخے " اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر کے وہ تنک کر بولی انس نے اسے آنکھیں گھما کر دیکھا تھا

"تمھیں کیسے پتا لگ جاتا ہے میری بہنا " انس نے چڑھ کر کہا

"ویلے انسان کوئی کام دھندا نہیں ہے پورا دن آتما کی طرح بھٹکتے رہتے ہو " سیرت نے منہ بناتے ہوئے کہا انس کا منہ لٹکا تھا وہ منہ پھلائے اپنے کمرے کی طرف نکل گیا تھا

"پاگل کہیں کا ارے بھیا کہاں گئے یار" سیرت نے افسوس اور غصے سے پھنکار کر کہا کیونکہ وہ گاڑی نکال کر وہاں سے نکل چکا تھا 

" ہادیہ باجی کا کیا حال ہو گا پتا کروں یا نہیں ، نہیں ہر وقت میں کیوں کال کروں اب تو نہیں کروں گی جب تک خود نہیں کرتا سڑا ہوا کریلا ،، مختصر تعارف کیسے مانگ رہا تھا میرا  جب سیم اور اسکے دوستوں سے پٹے گا تب سکون آئے گا " سیرت فون واپس پاکٹ میں رکھتے ہوئے منہ ٹیڑھا کرتی اسکی نقل اتارتے ہوئے بولی 

                                           -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

کپڑے استری کرنے کے بعد وہ کچن میں داخل ہوئی تھی کیونکہ اسنے ناشتہ ابھی تک نہیں کیا تھا 

فریج کو کھولتے ہوئے وہ افسردہ ہوئی تھی سوائے سبزی کے وہاں کچھ نہیں تھا

"میرے لئے کچھ نہیں بچا بھوک سے مر جاؤں گی میں اب" فریج کو بند کرتے ہوئے اسنے سرد آہ بھری تھی

"کچھ بنا لیتی ہوں " بالوں کا رف سا جوڑا بناتے ہوئے وہ مصروف سی فریج سے سبزیاں نکالنے لگی جب دروازے پر دستک ہوئی 

"اسوقت کون ہو گا ماموں تو دیر سے آئیں گے" وہ رف سے حلئے میں جیسی کھڑی تھی دروازے کی طرف بڑھ گئی 

"کون ہے" 

"کون ہو سکتا ہے" 

اسکی گمبھیر آواز سن کر آئیذل کے کان کھڑے ہوئے

"گھ۔۔گھر کوئی نہ۔۔۔نہیں ہے جائیں یہاں سے " 

"یہ تو اور اچھی بات ہے "  اسکی بات سنتی وہ لال ہوئی تھی

"مم۔۔میں دروازہ نہیں کھولوں گی بہتر ہو گا آپ چلے جائیں" 

"چلیں جیسے آپکو بہتر لگے میں دیوار سے آ جاتا ہوں" 

اسکی بات پر وہ ساکت ہوئی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کس طرح وہ یونیورسٹی کی دیوار پھلانگ گیا تھا یہ تو گھر تھا

"آپ مجھے شرمندہ کرنا چاہتے ہیں اگر کوئی آ گیا تو میں کیا جواب دوں گی ایسے کام کریں گے آپ دد۔۔دیوار پھلانگنے کی بات کیسے کر سکتے ہیں آپ " وہ شرمندہ سی ہوئی 

"لیکن اپنی بیوی کے گھر آنا کونسا گناہ ہے"   

اسکے لاپرواہ لہجے پر آئیذل نے دروازے کو گھوری سے نوازا تھا

"دد۔۔دیکھیں میں دروازہ نہیں کھولوں گی ممانی منع کر کے گئی ہیں آپ واپس جائیں جس وقت سب گھر ہوں گے اس وقت آئیے گا" وہ دروازے سے کان لگاتی بولی جس طرف مکمل سناٹا تھا

"کیا آپ چلے گئے ہیں" وہ کچھ دیر بعد تجسس سے بولی تھی اب بھی مکمل خاموشی تھی وہ دروازہ کھول کر باہر جھانکتی چونکی تھی

"لیکن اپنی بیوی کے گھر آنا کونسا گناہ ہے"   

اسکے لاپرواہ لہجے پر آئیذل نے دروازے کو گھوری سے نوازا تھا

"دد۔۔دیکھیں میں دروازہ نہیں کھولوں گی ممانی منع کر کے گئی ہیں آپ واپس جائیں جس وقت سب گھر ہوں گے اس وقت آئیے گا" وہ دروازے سے کان لگاتی بولی جس طرف مکمل سناٹا تھا

"کیا آپ چلے گئے ہیں" وہ کچھ دیر بعد تجسس سے بولی تھی اب بھی مکمل خاموشی تھی وہ دروازہ کھول کر باہر جھانکتی چونکی تھی وہ کہیں بھی نہیں تھا

"پروفیسر"

 وہ حیرت سے آس پاس دیکھتی رہ گئی مگر اسکا نام و نشان نہیں تھا

"کیا میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہوں لیکن آواز تو آئی تھی مجھے " 

اسکی نظریں سامنے پڑے وائٹ کلر کے پیپر بیگ پر پڑی تھی اسنے ایک بار پھر چاروں طرف نظریں گھمائی تھی اور کچھ سوچتے ہوئے پیپر بیگ کو اٹھایا تھا جس میں ایک چھوٹی سی چِٹ رکھی گئی تھی چٹ پر اسکی خوبصورت رائٹنگ میں اپنا نام دیکھتی آئیذل مسکرائی تھی

"کیا ہے اس میں " دروازہ بند کرتے ہوئے وہ خود سے مخاطب ہوتی پیپر بیگ کو ٹٹولنے لگی  اسکا ہاتھ کسی نرم چیز سے ٹچ ہوا تھا ایک پل کے لئے وہ  رک سی گئی تھی لیکن پھر لب بھینچتے ہوئے اسنے پیپر بیگ سے وہ چیز نکالی تھی ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کو چھوا تھا  یہ ایک مہرون کلر کی پشمینہ شال تھی جس پر باریکی سے گولڈن کڑھائی کی گئی تھی 

"تھینک یو پروفیسر " وہ دھیمے لہجے میں شال کو دیکھی بولی تھی اور پھر مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی وہ بھوک تو جیسے بھول ہی چکی تھی 

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"آپکو اسائنمنٹ ٹائم سے سبمٹ کروا دینا چاہیے تھا میں آج آفس نہیں آ رہی میں لیوو پر ہوں اب کل تک ویٹ کریں میں ایک بار دیکھ کر تسلی کر لوں گی اسکے بعد آپ بھیج سکتے ہیں "  کان سے ایئر پوڈ نکالتے ہوئے اسنے پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے تھے ایک سرسری نظر سے آس پاس کا جائزہ لیا تھا سنڈے تھا اس لئے آج پارک میں لوگوں کی تعداد بھی معمول سے زیادہ تھی 

"ہیلو مس سیرت" وہ اسکے یوں مخاطب کرنے پر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتی رہ گئی جو اسکے قریب بینچ پر بیٹھ چکا تھا

"آپکو یہاں بیٹھنے کی پرمیشن کس نے دی مسٹر حدید " وہ اپنی جگہ سے اٹھتی بولی جس پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا جس کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے

"مس سیرت کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں" 

 "کیا  آپکی طبعیت ٹھیک ہے ؟؟مسٹر حدید رضا عسکری آپ بھلا کیا لگتے ہیں میرے جو میں آپ سے ناراض ہونے لگی" وہ خشک لہجے میں کہتی اسے چونکا گئی تھی کل تک تو وہ اتنا فری ہوا کرتی تھی اور آج اچانک ہی اسکے مزاج میں اتنی تبدیلی آ گئی تھی

 "ایکچلی میں سوری کرنا چاہتا تھا کل رضوی انٹرپرائسز میں جو کچھ ہوا میں آپکو اگنور نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن " اسکی بات کاٹتی وہ اسے بےتاثر سی دیکھ گئی 

"اٹس اوکے مسٹر عسکری صاحب اس میں معافی مانگنے والی کیا بات ہے آئی اوور سٹیپڈ میں ہاتھ کیوں ملا رہی تھی بھلا آپ سے کون ہیں آپ " وہ تاسف سے کندھے اچکاتی بولی حدید نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا

"میں سمجھا نہیں" وہ سنجیدگی سے اٹھتا ہے

"میں سمجھا دیتی ہوں کل تک ۔۔۔سوری ۔۔۔ کل کو چھوڑ دیتے ہیں اس سے پہلے آپ میرے ساتھ بےحد فری ہو کر بات کر رہے تھے اور اسکی شروعات آپ نے ہی کی تھی جس دن ہماری میٹنگ ہوئی اس دن میرے سامنے وہ بےتکی شرطیں رکھ کر جسکی تیسری شرط ابھی تک آپ نے ظاہر ہی نہیں کی " وہ سینے پر ہاتھ باندھتی سنجیدگی بولی حدید کو وہ کہیں سے بھی اوور سیرت نہیں لگ رہی تھی 

"اسکے بعد آپکا مجھے سپیشل کینڈل لائٹ ڈنر پر لے کر جانا اینڈ آل میں آپ سے فرینڈلی مینر میں صرف اس لئے پیش آ رہی تھی کیونکہ آپ فرینڈلی بیہیوررر کا مظاہرہ کر رہے تھے کل میرے بھائی کے سامنے آپ نے میری انسلٹ کی مجھے اگنور کیا "

"مس سیرت میں نے یہ سب آپکے لئے ہی کیا ورنہ آپکے بھائی کو ہمارے معاملات میں  آپکی مداخلت سے تشویش ہو سکتی تھی " اسکی بات کاٹتا وہ شائستگی سے بولا سیرت نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا

"نہیں آئی تھنک نہیں آپ جو دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں آپ بالکل بھی ویسے نہیں ہیں ان فیکٹ آپ بالکل بھی اس شخصیت کے مالک نہیں جس شخصیت کو آپ میرے سامنے ظاہر کرتے ہیں میں چھوٹی بچی نہیں ہوں مسٹر حدید رضا لیکن شاید آپ مجھے ہلکے میں لے رہے ہیں " اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتی وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی وہ ساکت رہ گیا تھا

"یہ سب آپ نے سٹارٹ کیا تھا اور کل مجھے میرے ہی آفس میں اس طرح اگنور کر کے آپ نے ہی اینڈ کر دیا اگلی بار مجھے مخاطب کرنے سے پہلے سوچیئے گا اور یہ جو شائستگی کا ماسک لگائے پھر رہے ہیں آپ چہرے پر اسے اتار دیں اچھے سے جانتی ہوں ہمارے فیملی ایشوز کو اور آخری بار کہہ رہی ہوں مجھ سے میرے بھیا سے دور رہیئے گا " اسے تلخ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی کل جس حدید نے ذاویان کو شاک کیا تھا آج وہی اسکی بہن کے لب و لہجے پر شاک ہو کر رہا گیا تھا

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"چاہت"

مہر النساء بیگم کو دیکھتے ہوئے بھی اگنور کر کے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی مہر النساء بیگم اسے فکرمندی سے دیکھتے ہوئے اسکے پیچھے اسکے کمرے میں داخل ہوئی تھی جو اپنا سامان سمیٹ رہی تھی 

"چاہت کہاں جا رہی ہو تم"

"آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں آپ صرف اپنے بیٹے کی فکر کریں یو ۔ایس جا رہی ہوں میں" کبرڈ کا دروازہ کھولتی وہ تیزی سے بولی مہر النساء بیگم نے اسے دیکھا تھا 

"آپکا بیٹا تو خوش ہو گا میری ذندگی برباد کر کے کیسے اسنے سب کے سامنے مجھے تھپڑ مارا تھا " اچٹتی نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئی چاہت تیکھے لہجے میں بولی اور پھر مہر النساء بیگم کو خاموش دیکھ کر دوبارہ پیکنگ کرنے لگی

"ذاویان نے بالکل ٹھیک کیا "  پیکنگ کرتی چاہت کے ہاتھ ساکت ہوئے اسنے نظریں اٹھا کر مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا 

"جو کچھ تم نے کیا اسکے بعد اسکا پورا حق بنتا تھا تمھیں تھپڑ مارنے کا اگر وہ ناں مارتا تو یقیناً میں مار دیتی" 

"آپ تھپڑ مارتی مجھے "  چاہت نے دانت پیستے ہوئے کہا

"ماں ہوں تمھاری تھپڑ مارنے کا حق ہے مجھے " مہر النساء بیگم نے اسے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا وہ ہنس پڑی تھی

" آپ اپنے بیٹے کی طرف داری کر رہی ہیں یہ مت بھولیں اسنے دھوکا دیا مجھے "

"اگر اسکی شادی تم جیسی لڑکی سے ہو جاتی تو مجھے ذندگی بھر افسوس رہتا اسکا نکاح بچپن میں ہی لمظ سے ہو چکا تھا اور میں یہی دعا کروں گی کہ وہ لڑکی میرے بچے کی ذندگی میں لوٹ آئے"

"وہ اب تک اپنی ماں کے ساتھ مر گئی ہو گی کہیں پر " چاہت لمظ کا نام سن کر سرخ انگارا بنی جبکے اسکی بدتمیزی پر مہر النساء بیگم سر جھٹک کر رہ گئی 

" سب کی چہیتی لمظ بدچلن عورت کی بیٹی " بیگ کا ہینڈل ہاتھ میں پکڑتی وہ جاتے ہوئے تنک کر بولی تھی مہر النساء بیگم نے سرد آہ بھری تھی کیونکہ اس کم ظرف سے اب کچھ کہنے کا جواز ہی نہیں بنتا تھا وہ تیکھے تیوروں کیساتھ گھر  سے باہر نکل گئی تھی

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

یہ ایک ایکسپینسیو لکژری نائٹ کلب کا منظر تھا  لاؤڈ پارٹی میوزک چل رہا تھا اور لوگ جن میں  امیر گھروں کی بگڑی ہوئی لڑکیاں اور لڑکے شامل تھے بھی میوزک کی دھنوں پر مدہوش سے رقص کر رہے تھے 

وی آئی پی زون میں ویلوٹ کے بلیک صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا وہ اپنی پریمیم سگار کے کش لگا رہا تھا 

"بہت دن بعد آئے ہو  " اسکے سامنے والے صوفے پر بیٹھا شخص اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا

"ہمم"  

 مختصر سا جواب دیکر سگار کا دوسرا کش لیتے ہوئے وہ سر کو پیچھے گراتا ہے اور لبوں سے دھویں کو ہوا میں ایک ادا سے پھیلاتا ہے اور آنکھیں موند لیتا ہے

"بزنس کیسا چل رہا ہے" 

"اے۔ون" وہ سگار کو انگلیوں میں گھماتا گمبھیر لہجے میں بولا 

"اور وہ لڑکی" 

آنکھیں وا کرتے ہوئے وہ درشت نظروں سے اسے دیکھتا ہے 

"کیا وہ تم پر بھروسہ کرنے لگی ہے "

"وہ مائنڈ گیمز کھیل رہی تھی جیسے میں اسکے ساتھ کھیل رہا تھا اینڈ انٹرسٹنگ فیکٹ از کہ وہ بیوقوف نہیں ہے"  وہ بلیک میٹل کی ایش ٹرے میں سگار کو پھینکتا سنجیدگی سے بولا

"لیکن وہ نادان ضرور ہے وہ بھول رہی ہے میں کون ہوں کبھی انگاروں کو غور سے دیکھا ہے تم نے؟؟ دیکھنے میں یہ بھی سرخ ہوتے ہیں جیسے گلاب کے پھول خوبصورت ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں ہاتھ سے چھونے کی کوشش کی جائے تو یہ ہاتھ کو جلا دیتے ہیں وہ نادان لڑکی بھی آگ سے کھیل رہی ہے بغیر یہ سوچے کہ یہ آگ اسے جھلسا کر خاک کر دے گی " وہ کچھ دیر بعد درشت نظروں سے ایش ٹرے میں سلگتی سگار کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا

"مطلب تم ہر صورت اپنا انتقام لیکر چھوڑو گے" دلچسپی سے پوچھا گیا

"وہ ہر صورت پورا ہو گا سیرت رضوی کو ہر صورت میرا اسیر ہونا ہو گا  میں اسے اپنی عادت ڈال دوں گا " 

"اتنا آسان نہیں ہے اسے امپریس کرنا ہی بہت بڑا چیلنج ہو گا تمھارے لئے کیونکہ تمھارے مطابق وہ بیوقوف نہیں ہے"

"مجھے چیلینجز پسند ہیں " ایک جاندار مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا وہ مغرور لہجے میں بولا تھا جس پر سامنے بیٹھا اسکا دوست اور بزنس پارٹنر مسکرا گیا تھا وہ اسکی عادتوں سے اچھی طرح واقف تھا وہ جو عہد بھی کرتا تھا اسے پورا کرنا جانتا تھا 

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" پچھلے کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں مجھ سے بات کرنے سے پرہیز کر رہے ہو کیا چل رہا ہے اور تم یونیورسٹی چھوڑ چکے تھے اچانک تمھارا واپسی کا ارادہ کیسے بن گیا کیا بزنس سے تنگ آ گئے ہو " زوہیب صاحب نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ذاویان سے استفسار کیا

"یہی سمجھ لیں ماموں " وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا انہیں مزید زچ کر گیا تھا

"کیا چھپا رہے ہو مجھ سے" 

"لمظ مل گئی ہے " وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے عام سے انداز میں بولا مگر زوہیب صاحب کے تاثرات بدلے وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھتے اسکا رخ اپنی جانب کر گئے

"لمظ کہاں ہے بولو ذاوی"

"نہیں ماموں آپکا کوئی حق نہیں بنتا آپ نے کس طرح رسوا کیا تھا ممانی کو اور بغیر انکی ایک بات سنے انہیں گھر سے نکال دیا تھا"

 ذاویان کے الفاظ نے جہاں پرانے ناسور زخموں کو تازہ کیا تھا وہاں اپنی بیٹی کے مل جانے کی خوشی ان زخموں پر مرہم لگا رہی تھی 

"لمظ کہاں ہے ذاویان میں معافی مانگوں گا اس سے اور نازش سے بھی"

"ممانی کی ڈیتھ ہو چکی ہے" وہ سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھتا بولا زوہیب صاحب ساکت رہ گئے تھے

"لیکن انکی موت کے ذمہ دار آپ ہیں آپ نے کاش وہ الزامات ناں لگائے ہوتے ان پر ایک بار انکی بات سنی ہوتی کاش"

"ذاویان میرے بچے"

"پلیز Enough ماموں مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہیے آپ لمظ سے دور رہیں گے آپ کو بتانا میرا فرض تھا کیونکہ وہ آپکی بیٹی ہے "

"ذاویان خدا کے لئے مجھے بتاؤ میں اتنے سالوں سے اپنی بچی سے ملنے کی آس لئے تڑپ رہا ہوں میں اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتا ہوں میں سب سے معافی مانگوں گا تب تک مانگتا رہوں گا جب تک مجھے معاف نہیں کر دیا جاتا مجھے میری بچی سے ملوا دو" زوہیب صاحب نے اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے التجاء کی

آفس کے دروازے پر ناک سن کر زوہیب صاحب خاموشی اختیار کر گئے تھے 

"کم ان" 

پیون چائے لیکر اندر داخل ہو گیا تھا ذاویان سنجیدگی سے زوہیب صاحب کو دیکھتا ہوا باہر نکل گیا تھا زوہیب صاحب چاہ کر بھی اسے روک نہیں پائے تھے

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- نے

"تمھارا سنڈے کیسا گزرا" 

حورم نے اسے دیکھتے ہوئے خوشدلی سے پوچھا

"میں بہت بور ہو گئی تھی گھر میں" 

اسکے ساتھ ٹہلتی آئیذل نے شانے اچکاتے کہا حروم ہنس پڑی تھی

"ہاں بھائی کہاں دل لگتا ہو گا گھر میں اب" وہ اسے چھیڑ کر کچھ قدم اس سے آگے ہو گئی تھی آئیذل نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا تھا

"تمھیں شرم نہیں آتی ہر وقت مجھے طعنے دیتی ہو" اسکا بازو پکڑتی وہ اسے تیکھی نظروں سے دیکھتی بولی حورم نے ہنستے ہوئے اسکے گلابی پڑتے گالوں کو کھینچا تھا 

"تم ناں بلش کر رہی ہو اور تم ایسے بہت پیاری لگتی ہو دیکھو تم نے نوٹس نہیں کیا ہو گا لیکن جب سے یہ واقع ہوا ہے اس دن کے بعد سے تمھارے چہرے پر ایک رونق دیکھ رہی ہوں تم اداس نہیں رہتی شکر ہے اللہ پاک کا " 

 حورم کو دیکھتی وہ مسکرا گئی تھی کیونکہ وہ سچ کہہ رہی تھی اس اداس سی لڑکی کو جینے کی وجہ مل گئی تھی جو بےسہارا ہو چکی تھی

"تمھیں میم فیروزہ نے بلایا ہے تم نے جو چارٹس بنائے تھے انکی وجہ سے ہمیں ڈانٹ پڑی ہے اب وہ تمھیں کریڈٹ دینا چاہتی ہیں" انکے گروپ کی ایک لڑکی حورم کو روکتی بولی آئیذل نے حورم کو دیکھا تھا جس کا رنگ اڑ گیا تھا

"لیکن وہ تم سب نے بنائے تھے میرا نام کیوں لیا تم نے" حورم نے دانت پیسے 

"کیونکہ تم ہماری گروپ لیڈر ہو اس لئے میم تم سے سوال کرنا چاہتی ہیں" لڑکی نے بےپرواہی سے کہا 

"ڈوب کے مر جاؤ اب میری عزت افزائی ہو گی آئیذل میں آتی ہوں " حورم اسے وہیں چھوڑ کر اس لڑکی کیساتھ چلی گئی تھی

"اوہ میں آفس میں کافی رکھنا تو بھول گئی " گھڑی پر ٹائم دیکھتی وہ تیزی سےا الٹے قدم واپس گئی تھی 

                                          -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"اسلام و علیکم" 

آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہوئے بولی

"وعلیکم السلام " وہ مصروف سا لیپٹاپ پر کچھ چیک کر رہا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا یقیناً اسکے روکھے پھیکے جواب پر وہ تھوڑی افسردہ ہوئی تھی پچھلی بار کس قدر محبت سے مخاطب کیا تھا اسنے اور اب ،وہ دروازے میں کھڑی یہی سوچ رہی تھی  

"کہاں تھی آپ"

 بغیر اسکی طرف دیکھے وہ اسے سوچوں کے سمندر سے باہر نکال گیا

"سوری "

 اسکے قریب ٹیبل پر کافی کا کپ رکھتے ہوئے وہ اسکے لیپ ٹاپ کو دیکھتی بولی جس پر وہ آفس کا کام کر رہا تھا بغیر اسے دیکھے وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے ایک سپ لیکر کپ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسے یوں ڈائریکٹ دیکھنے پر

"اس میں شوگر نہیں ہے " وہ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے خشک مزاجی سے بولا 

"پپ۔۔پر آپ نے کہا تھا آپ شوگر کے بغیر "  اسکا سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ ہچکچاتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کرتی رہ گئی تھی

"مم۔۔میں شوگر ایڈ کر کے۔۔۔ آتی ہوں" اسکی جھلسا دینے والی نظروں کو اپنے چہرے کو حفظ کرتے دیکھ کر وہ جلدی سے کپ اٹھاتے ہوئے بولی 

"اسکی ضرورت نہیں " 

دروازے کی طرف بڑھتی وہ رکی 

"All you have to do is just take a sip from this cup"

اسکی بات سن کر وہ نظریں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھ گئی 

"Come on, I'm waiting"

اسکے ہاتھ کانپ سے گئے تھے اسکے کپ کو دیکھتے ہوئے جس میں سے کچھ دیر پہلے اسنے سپ لیا تھا

"لیکن یہ تو آپکی"

"Do It Baby Girl"

اسے دیکھتی وہ ہچکچاتی ہوئی کپ سے ایک کڑوا گھونٹ بھر کر منہ خراب کر گئی تھی

" professor It's, it's so bitter."

(پروفیسر.. یہ ۔۔ یہ بہت کڑوی ہے" 

اسکی شکایت پر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے کپ لے چکا تھا

"ہم ۔۔ہم جاتے ہیں"  وہ فوراً موقع پا کر باہر نکلنے لگی

"رکیں" وہ سپاٹ لہجے میں بولا  

"کہاں پھنس گئی میں "  آنکھیں بند کرتی وہ سرد آہ بھرتی پیچھے پلٹی تھی اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ کافی کا سپ لے گیا 

"This coffee is still bitter, baby girl" 

(یہ کافی اب بھی کڑوی ہے بےبی گرل)

اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہوا وہ گویا ہوا آئیذل کے دل نے اسپیڈ پکڑی تھی

"تت۔۔تو اب"

 اسے دیکھتی وہ گڑبڑا کر بولی

"This means you will have to take another sip of that coffee"

(اسکا مطلب آپکو اس کافی سے ایک اور سپ لینا ہو گا)

اسکی طرف اپنا کپ بڑھاتا ہوا وہ سنجیدگی سے مسکراہٹ ضبط کرتا بولا آئیذل نے کافی کا کپ دیکھتے ہوئے ناک سکیڑی تھی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا شرمندہ ہو کر اسکا کپ لیتے ہوئے وہ دوسرا گھونٹ بھرتی منہ کا زاویہ خراب کرنے سے خود کو روک گئی تھی

"اتنا کڑوا تو بچپن میں نانو کا کھانسی والا شربت ہوتا تھا" اسکی بڑبڑاہٹ سنتا کپ کو پیچھے  ٹیبل پر رکھتا وہ مسکرا گیا تھا آج آئیذل نے غور سے اسکے ڈمپل کو دیکھا تھا  ہلکی بیئرڈ میں وہ ڈمپل جو کبھی کبھار واضح ہو کر معدوم ہو جایا کرتا تھا کتنا دلکش لگتا تھا

ایک آس اٹھی تھی اسکے دل میں اس ڈمپل کو چھونے کی مگر صد افسوس وہ ڈمپل تو ظاہر ہو کر معدوم ہو گیا تھا آئیذل کی نظروں کو وہ بخوبی سمجھ چکا تھا ہلکی مسکراہٹ کیساتھ اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھتے اسکی روح تک رسائی حاصل کرتا وہ ڈمپل کے مقام پر اسکا ہاتھ رکھ گیا تھا اچانک اس کاروائی کی تاب نہ لاتی اسکی دھڑکن رک سی گئی تھی 

"I'm all yours baby girl" 

اسکی بھاری گمبھیر سرگوشی پر اسکا رکا ہوا دل تیزی سے دھڑکا شرم و حیا کی سرخی اسکے گالوں پر پھیلتی چلی گئی اپنا ہاتھ نرمی سے ہٹاتے ہوئے یکلخت خشک ہوتا حلق تر کرتی وہ اسے دیکھتی پیچھے ہوتی دروازے سے لگی تھی

"She said it over and I said,

 look at me

listen to me

my mission is to hustle for success to get me, 

so please,

 stay with me, 

cause you and me 

we make a perfect "WE"

 with a strong combination of two hearts "

گمبھیر بھاری آواز میں کہتا ہوا وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سنجیدگی سے اسکی طرف بڑھ رہا تھا

آنکھیں بند کرتی وہ ساکت سی ہوئی تھی اسکی بھاری دلکش آواز  اسکے دل و دماغ پر حاوی ہو رہی تھی 

"لمظ"

اپنے کان میں اسکی بھاری سرگوشی پر وہ آنکھیں سختی سے میچ گئی تھی اسکا لہجہ اسکا ایک ایک لفظ اسکے ہوش و حواس پر طاری ہو رہا تھا

"یہ کیا ہو رہا ہے ہمیں " وہ سرگوشی سے بھی کم آواز میں بولی تھی مگر اسنے بخوبی اسکی سرگوشی سنی تھی 

"مجھ سے محبت کرتی ہیں آپ لمظ مان لیں آج " اسکے سرخ رخسار پر اپنا  ٹھنڈا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بےحد دھیمے لہجے میں گویا ہوا آئیذل کی منتشر دھڑکنوں کیساتھ سانسیں بھی اتھل پتھل ہوتی جا رہی تھی

"نہیں" 

اسکے تھرتھراتے لبوں نے حرکت کی تھی

"جھوٹ" 

اسکے چہرے کو ٹھوڑی سے اوپر اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا

"صرف تھوڑے دن اور اسکے بعد آپ کسی صورت بھی انکار نہیں کر پائیں گی اب جذبات چھپانا ممکن نہیں میں دیکھ سکتا ہوں یہ منتشر ہوتی دھڑکنیں یہ تیز ہوتی سانسیں بےبی گرل محبت کر بیٹھی ہیں آپ تو اور واللہ آپ تو صاف مکر رہی ہیں" اسکے چہرے پر جھکتا وہ جھلسا دینے والے لہجے میں بولا 

وہ لرز اٹھی تھی یقیناً وہ سچ کہہ رہا تھا

"پندرہ سال دور رہی ہیں آپ ہر ایک سیکنڈ کا حساب دینا ہو گا آپکو تیار کر لیں خود کو کیونکہ اب آپ ذاویان حیدر کے رحم و کرم پر ہوں گی اور صبر کے معاملے میں کافی خراب شخص ہوں میں " اسکی تھرتھراتی پلکوں کو دیکھتا وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا دروازے سے ہاتھ ہٹاتا پیچھے ہٹا تھا وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتی فورآ باہر بھاگ گئی تھی وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے سر کو خم دے گیا

                                       -🅛🅘🅢🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-                                     

"سیرت یہ کس کی کال آ رہی ہے بار بار" علیشہ نے بھنویں سکیڑی تھی سیرت گارڈن سے کچن کے یارڈ تک آئی تھی  سکرین پر چمکتا نمبر دیکھ کر اسنے فون واپس رکھ دیا تھا

"کیا ہوا کون ہے" علیشہ نے جوس کا گلاس ٹرے سے اٹھاتے ہوئے استفسار کیا

"حدید کی کال ہے " وہ فون کے مسلسل بجنے کو اگنور کرتی اسکے ساتھ بیٹھی تھی علیشہ نے اسے حیرانگی سے گھورا تھا

"تم نے اسکا نمبر ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ کل تک تو تم نے اسکا نمبر سیو کیا ہوا تھا اور تم کال پک کیوں نہیں کر رہی" 

"کیونکہ مجھے اس سے بات نہیں کرنی بہت ہو گیا  میں نے بہت جھوٹ بولے ہیں اس شخص کی وجہ سے بھائی سے اور اب میں شرمندہ ہوں اور دوسری بات اس شخص سے مجھے بری فیلنگ آنے لگی ہے خوف سا آتا ہے " سیرت نے لب بھینچے

"میں تو پہلے ہی کہتی تھی مجھے یہ بندہ عجیب لگتا ہے اچھا ہوا تم سمجھ گئی " علیشہ نے جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا

میسج آنے کی آواز پر دونوں نے بیک وقت فون کو دیکھا تھا سیرت نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھاتے ہوئے میسج پڑھا تھا

"فورٹی پرسینٹ شیئرز ابھی بھی پرچیز نہیں ہوئے  اور آپ شاید بھول رہی ہیں میں اب بھی ڈیل کینسل کر سکتا ہوں اور جتنا کچھ آپ انویسٹ کر چکی ہیں کمپنی کو بہت نقصان ہو گا اگر میں نے شیئرز خریدنے سے انکار کر دیا مس سیرت اور آپ نے میری تیسری شرط بھی پوری نہیں کی افسوس "

"اب یہ بلیک میل کرنے پر آ گیا ہے ذی بھائی کو بتا دو میں تو کہتی ہوں " علیشہ نے تنک کر کہا

 "آپکی تیسری شرط کیا ہے" سیرت نے سنجیدگی سے میسج ٹائپ کر کے بھیجا تھا علیشہ سکرین پر نظریں جمائے اسکے ریپلائے کا انتظار کرنے لگی تھی

"ہماری فیکٹری انڈر کنسٹرکشن ہے ایز یو نو ،، میں چاہتا ہوں آپ ایک بار وزٹ کریں " دونوں نے ایک ساتھ میسج پڑھا 

"نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے سیرت وہاں جانے کی یہ شخص کچھ بھی کر سکتا ہے تم کہیں نہیں جا رہی " اسکا ہاتھ پکڑتی علیشہ فکرمندی سے بولی سیرت نے لب بھینچ کر سر ہلایا تھا

"میں نہیں آ رہی" میسج بھیج کر سیرت نے فون سوئچ آف کر دیا تھا 

"کبھی بھی نہیں ،، میں اب تو بالکل تمھاری بات نہیں سننے والی" فون کو گھورتی سیرت نے سر جھٹکا تھا 

" ریحم جا دروازے پر دیکھ کون ہے" 

"جی اماں" سر پر دوپٹہ لیکر کہتی ہوئی وہ دروازے کو کھول گئی تھی 

"ابا آپ ۔۔۔ اماں ابا آ گئے ہیں"

 مسکراتے ہوئے اسنے ممتاز صاحب کو دیکھتے کہا کچن سے باہر آتی عائزہ بیگم چونکی تھی توصیف کی حالت دیکھ کر جسکی پیشانی پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ لنگڑا کر چل رہا تھا آئیذل صحن میں آواز سن کر کمرے سے باہر نکلی تھی توصیف نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا

 آئیذل ساکت ہوئی تھی آصف صاحب توصیف کو سہارا دیکر چارپائی پر بٹھ رہے تھے توصیف نے ایک بار پھر سرسری نظر سے برآمدے میں کھڑی آئیذل کو دیکھا تھا اور ذاویان کی بات یاد آنے پر سر جھٹکا تھا جو اسکے دیکھنے پر لب بھینچ کر باہر نکلی تھی

"کھڑی منہ کیا دیکھ رہی ہے جا کر پانی لیکر آ میرے بچے کی حالت تو دیکھ کیا ہو گئی ہے تیری وجہ سے" عائزہ بیگم نے اسے زہریلی نظروں سے دیکھتے ہوئے تنک کر کہا وہ سر ہلاتی جلدی سے کچن کی طرف بڑھی تھی عروسہ بیگم نے سرد آہ بھری تھی 

"توصی میرا بچہ"

"اماں خدا کے لئے بس کر دیں نہیں مرا ذندہ سلامت ہوں"  عائزہ بیگم کے اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے پر وہ اکتا کر انکا ہاتھ جھٹک گیا تھا عائزہ بیگم نے افسردگی سے ہاتھ ہٹا لیا تھا

"یہ پانی" آئیذل کچھ قدم کے فاصلے پر رکتی پانی کا گلاس عائزہ بیگم کو تھمانے لگی 

"جا خود دیکر آ " عائزہ بیگم اسے تیز نظروں سے دیکھتی بولی آئیزل نے انہیں سرد نظروں سے دیکھا تھا

"آپا رہنے دیں آئیذل توصیف کے کوئی کام نہیں کرے گی " آصف صاحب نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا جو کانپتے ہاتھوں میں گلاس پکڑے کھڑی تھی انکی بات پر سکون کا سانس لے گئی 

"کیوں نہیں کرے گی ہم بہت جلد خلع کا نوٹس بھیج دیں گے اس لڑکے کو اور آئیذل میری بچی ہے ایسے کسی کے پلے نہیں باندھ دیں گے میری نوو ہے "  آئیذل کا ہاتھ پکڑتی وہ حق جتاتے بولی آئیذل نے تاسف سے انہیں دیکھا عروسہ بیگم نے سنجیدگی سے اٹھتے آصف صاحب کو دیکھا تھا

"ایسا کچھ نہیں ہو گا جیسے ہی زوہیب صاحب یہاں آ کر معافی مانگتے ہیں میں اپنی بچی کو رسم و رواج کیساتھ رخصت کر دوں گا ذاویان کیساتھ،، آئیذل بیٹی میری چائے بنا دو "  آصف صاحب دو ٹوک لہجے میں بولے ممتاز صاحب نے انہیں قدرے خشک نظروں سے دیکھا تھا آئیذل نے سر ہلایا تھا

"بیٹی تمھیں فون دیا تھا ناں میں نے کہاں ہے وہ پچھلے کچھ دنوں سے دیکھا نہیں " آصف صاحب کے سوال پر آئیذل نے تذبذب نظروں سے عائزہ بیگم کو دیکھا تھا کیونکہ فون تو اسی دن عائزہ بیگم نے چھین لیا تھا

"بھائی صاحب میں نے لیا تھا فون کرنا تھا میں نے" عائزہ بیگم نے سرعت سے کہا

"آپ نے پھر واپس نہیں کیا آئیذل کو" آصف صاحب نے تشویس سے استفسار کیا

"میں بھول گئی تھی یہ لو بیٹی " تیکھی نظروں سے آئیذل کو دیکھتی عائزہ بیگم نے فون اسکی طرف بڑھایا آئیذل نے لب بھینچ کر فون لیا تھا

 آصف صاحب سنجیدگی سے منہ کے ڈیزائن بناتی عائزہ بیگم کو دیکھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے 

"تسی بس چھیتی نال پیپر بنواؤ میرے بچے کا بیاہ تو اسکی پسند کی لڑکی سے ہی ہو گا " عائزہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا کچن کی طرف بڑھتی آئیذل ایک پل کے لئے رکی تھی 

"کیوں نہیں کرے گی ہم بہت جلد خلع کا نوٹس بھیج دیں گے اس لڑکے کو اور آئیذل میری بچی ہے ایسے کسی کے پلے نہیں باندھ دیں گے میری نوو ہے " سرد آہ بھر کر اسنے عائزہ بیگم کی جانب دیکھا تھا جو توصیف کو تسلیاں دے رہی تھی جو اکتاہٹ کا شکار سر جھٹک رہا تھا اور ممتاز صاحب کچھ بات کر رہے تھے

"زوہیب صاحب کیا وہ ہمارے بابا ہیں ؟ لیکن ہمیں کچھ یاد کیوں نہیں آ رہا ہمیں ماموں سے بات کرنی ہو گی وہ ہمیں سب سچ بتا دیں گے" دھیمے لہجے میں کہتی ہوئی وہ کچن کی طرف بڑھ گئی تھی

                                       -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

فون کی رنگ ٹون نے کمرے کے سکوت کو توڑا تھا

"اب تو میں تمھیں بلاک کر دوں گی حدید رضا " واش روم سے نکلتی وہ گیلے بالوں میں ٹاول رگڑتے ہوئے جل کر بولی اور ساتھ ہی فون اٹھایا تھا مگر سکرین پر علیشہ کا نام دیکھ کر اسنے کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگایا

"سیرت میں ۔۔۔ میں کلب میں ہوں عدنان کیساتھ گئی تھی لیکن۔۔۔ میرے جوس میں کسی نے کچھ ملا دیا مجھے۔۔۔مجھے بہت ڈزی نیس فیل ہو رہی ہے ۔۔۔ میری ہیلپ کر دو مجھے۔۔۔ مجھے پک کر لو عدنان کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ۔۔۔ کال بھی پک نہیں کر رہا " علیشہ کی نشے سے بوجھل ہوتی آواز پر سیرت کو دھچکا لگا تھا

" کیا۔۔۔تم۔۔تمھاری ڈرنک میں کسی نے کچھ ملا دیا تم کہاں ہو مجھے ۔۔۔مجھے ایڈریس بھیجو میں بس پہنچ رہی ہوں " بالوں سے ٹاول نکالتے ہوئے وہ جلدی سے بولی

"میں سارینہ کلب میں ہوں۔۔۔تم۔۔۔تم تم آ رہی ہو ناں" علیشہ نے نڈھال لہجے میں پوچھا

"ہاں میں آ رہی ہوں بس کچھ دیر کے لئے اپنا خیال رکھنا فینٹ مت ہونا پلیز" کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے وہ جلدی سے فون کو پاکٹ میں ڈال کر کبرڈ سے اپنا بلیک کوٹ نکال کر کندھوں پر ڈالتی فون کو پرس میں رکھ کر تیزی سے باہر نکلی تھی شکر سے ذاویان اسے راستے میں نہیں ملا تھا تیز قدموں کیساتھ وہ لاونج سے نکلی تھی اپنی بلیک مرسیڈیز کو نکال کر وہ فوراً اس ایڈریس پر نکل گئی تھی

واش روم سے باہر نکلتی وہ نڈھال سی چال چل رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا وہ ہاتھ جھٹکتی ہوئی پیچھے مڑی تھی جہاں ایک لڑکا اسے بدطینتی سے دیکھ رہا تھا

"زرا خیال سے ابھی تم گر جاتی جب چڑھ جاتی ہے تو پیتی ہی کیوں ہو بےبی ڈول" وہ خباثت سے کہتا ہوا اسکے طرف بڑھا تھا بغیر اس سے الجھنے کی غلطی کئے وہ تیزی سے وی آئی پی زون کی طرف دوڑی تھی اپنے پیچھے ہیوی بوٹس کی ماربل فرش پر بھاگنے کی آہٹ اسکے کانوں میں وائبریٹ ہو رہی تھی بھاگتے ہوئے اسنے پیچھے دیکھا تھا جب وہ کسی سے ٹکرائی تھی وہ اطمینان سے اسے دیکھتے ہوئے رکا تھا جو ہانپ رہی تھی

"سس۔۔سر۔۔۔و وہ لڑکا میرا پیچھا کر رہا ہے " 

پژمردہ چہرے سے اس شخص کے خوش وضع چہرے کو دیکھتی وہ اپنے پیچھے رکتے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی اسکے چہرے پر اطمینان کے تاثرات سنجیدگی میں اور پر درشتگی میں بدلے تھے اسنے کرختگی سے اس لڑکے کو دیکھا تھا جو اسے دیکھ کر رک گیا تھا وہ لڑکا اسکی درشت نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے فورآ الٹے قدم واپس بھاگ گیا تھا 

"حدید صاحب میٹنگ کا وقت ہو گیا ہے" اسکے ساتھ کھڑے شخص نے اسے یاد دلانا چاہا علیشہ نے  لفظ حدید سنتے ہی بدک کر اسے دیکھا تھا

"معاز شی از ڈرنک اس حالت میں ٹیکسی میں جانا ٹھیک نہیں گھر چھوڑ کر آؤ" وہ پیچھے کھڑے شخص کی طرف مڑتا تاسف سے بولا 

"واٹ میں کیوں جاؤں یار"

 وہ علیشہ کو دیکھتے ہوئے بھوچکا کھاتے بولا حدید نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا 

"اچھا میں جاتا ہوں چلو بہن"

 وہ گلا کھنکار کر اسے مخاطب کر گیا جو دونوں کو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہی تھی

"نہ۔۔نہیں میں چلی جاؤں گی ٹیکسی سے" وہ حدید کو دیکھتی سہمے لہجے میں بولی 

"ٹیکسی میں جانا مناسب نہیں معاز چھوڑ دے گا آپ کو " وہ فون پر سکرول کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا علیشہ شرمندہ سی ہوتی اسکے ساتھ باہر نکلی تھی

                                       -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

برآمدے سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتی آئیذل کے کانوں میں کچھ آوازیں پڑی اسنے تحقیقی نظروں سے کچن کی طرف دیکھا تھا جہاں سے دبی دبی آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ کچن کی طرف چل دی تھی

"گھر کے کاغذات کچھ ہی دنوں میں چودھری صاحب تیار کروا دیں گے بس کسی طرح یہ طلاق کروانی ہو گی اسے توصیف سے نکاح کے لئے تو میں منا لوں گی "

دیوار پر ہاتھ رکھتی وہ رکی تھی عائزہ بیگم فون پر غور سے کسی کی بات سن رہی تھی

"کیسی باتیں کرتی ہو نمرہ ،، وہ لڑکا امیر گھرانے سے ہے ناجانے کیا دیکھ لیا اسنے اس منہوس میں پیچھے پڑ گیا ہے اور آصف صاحب بھی کسی صورت راضی نہیں ہو رہے مجھے گھر کی لالچ ناں ہوتی تو اس منہوس کو چلتا کرتی " 

 آئیذل نے مضطرب نظروں سے کچن میں فون پر بات کرتی عائزہ بیگم کو دیکھا آنسوں اسکی ہلکی نیلی آنکھوں میں جمع ہوئے تھے 

"ممانی آپ میرے بارے میں ایسا سوچتی ہوں گی میرے گمان میں بھی نہیں تھا آج تک میں سوچتی تھی آپ کو شاید مجھ سے ہمدردی ہو لیکن یہ سب آپ نے میرے گھر کی لالچ میں آ کر کیا " خود سے شکوہ کرتی ہاتھ کی پشت سے رخسار پر آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ تیزی سے وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی

غم و حزن کے عالم میں وہ بیڈ پر بیٹھی تھی چہرا بے رونق تھا آئیذل نے آنسوں سے تر آنکھوں سے کھڑکی سے باہر تاروں سے بھرے آسمان پر  چمکتے چاند کو دیکھا تھا جو اندھیری رات میں اپنی روشنی بکھیر رہا تھا 

"ان گرے ہوئے پتوں سے ایک بہت بڑا سبق سیکھنے کو ملتا ہے آپ جانتی ہیں وہ سبق کیا ہے مس آئیذل یہ سبق کہ اگر بوجھ بن جاؤ گے تو اپنے بھی گرا دیں گے "  

وہ سر جھٹکتے ہوئے افسردگی سے چاند کو دوبارہ دیکھنے لگی

"آپ نے بالکل درست کہا تھا پروفیسر میں بھی بوجھ بن گئی ہوں اپنوں پر اور وہ مجھے گرا دینا چاہتے ہیں  ٹھیک اسی طرح جس طرح شجر اپنے پتوں سے سارے منافع بخش اجزا کھینچ کر اپنے اندر جمع کر لیتا ہے اور اور انہیں بالکل ناکارہ اور نقصان دہ مواد سے بھر  دیتا ہے جو شجر کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں اور پھر ان بےجان پتوں کے گرنے کا انتظار کرتا ہے درست وقت آنے پر وہ بےجان پتے غیر کار آمد ہو کر زمین بوس ہو جاتے ہیں" چاند کو دیکھتی وہ بےبس لہجے میں بولی تھی

"آپ کے پروفیسر جاتے جاتے آپکے لئے یہ دیکر گئے ہیں"

"وہ کہہ کر گئے ہیں آپ جب چاہیں میری ایڈوائس لے سکتی ہیں"

پروفیسر شاہان کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے وہ بےاختیار سی اٹھی تھی اور درواز کھولتے ہوئے اسکا کارڈ نکالا تھا 

"لیکن اسوقت کال کرنا مناسب نہیں ہو گا" وہ لب بھیجچتی دراز واپس بند کرنے لگی

"وہ کہہ کر گئے ہیں آپ جب چاہیں میری ایڈوائس لے سکتی ہیں" 

مطمئن لمبا سانس لیتے ہوئے اسنے کارڈ نکالا تھا اور فون پر اسکا نمبر ڈائل کیا تھا

                                       -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

گاڑی پارک کر کے تیز قدموں کیساتھ وہ سیرت کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کوٹ کو لیفٹ آرم پر لٹکائے وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب اسکے فون کی رنگ ٹون نے بجنا شروع کیا تھا دروازے کو کھولتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا  سرعت سے اسنے فون پاکٹ سے نکالا تھا ان نان نمبر دیکھ کر اسے تجسس ہوا کال کنیکٹ کرتے ہوئے اسنے فون کان سے لگایا تھا دونوں جانب خاموشی چھا گئی تھی آئیذل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا 

"اسلام و علیکم پروفیسر"

 تیز دھڑکتے دل کیساتھ وہ کچھ سیکنڈ بعد بولی تھی ذاویان جو فون کی دوسری طرف خاموشی چھا جانے پر پہلے ہی اندازہ لگا چکا تھا اپنی لاڈلی کی آواز پر تھوڑا سا مسکرایا تھا

"وعلیکم السلام"

اسکی بھاری سحر انگیز مردانہ آواز اور دل آویز لہجے پر آئیذل کے دل نے ایک بیٹ مس کی

"آپ مصروف تو نہیں اگر آپ مصروف ہیں تو ہم بعد میں بات کر لیں گے"

اسکے  دھیمے بےجان لہجے سے ہی وہ جان چکا تھا وہ گہری پریشانی میں مبتلا تھی

"کیا ہوا ہے لمظ"

اسکے بےحد متحمل لہجے پر اسکی بنفشی آنکھوں میں نمی ابھری تھی وہ اسے کتنے اچھے سے جانتا تھا 

"ہمیں  آج پھر آپکی ایڈوائس چاہیے "

وہ مبہم سا مسکرایا تھا کیونکہ وہ اب تک اسے اپنے ٹیچر کی طرح ہی مخاطب کر رہی تھی یا شاید اسے اسوقت اپنے پروفیسر کی ہی ایڈوائس چاہیے تھی 

"اوکے تو مس آئیزل آپکو کیا ایڈوائس چاہیے "  وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا

وہ  ہلکی مسکرائی تھی کتنے دن بعد اسنے اسے آئیذل کہہ کر پکارا تھا مگر دل پر بوجھ اتنا تھا کہ وہ مسکراہٹ ایک پل میں غائب ہو چکی تھی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر گر پڑے اسکی سسکی سن کر وہ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ساکت رہ گیا تھا

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کہاں ہے یہ لڑکی " اسکا نمبر ملا کر فون کان سے لگاتے ہوئے وہ آس پاس بھی دیکھ رہی تھی مگر علیشہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی اتنی سردی کے باعث بھی لوگوں کی کثیر تعداد اس کلب میں موجود تھی 

"شاید واش روم والی سائڈ پر ہو ایک بار چیک کر لیتی ہوں" فون پرس میں رکھ کر وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی تھی آس پاس دیکھتے ہوئے وہ پرس کو ٹٹولتے ہوئے رکی تھی

" کہاں رکھ دیا میں نے انہیلر ،، افف دم گھٹ رہا ہے میرا " لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے وہ جلدی سے وہاں سے نکلی تھی شراب کی مہک نے اسکا دماغ صلیب کر دیا تھا

"کہاں ہے یہ لڑکی ایک تو فون نہیں اٹھا رہی" دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے وہ وی آئی پی زون کی جانب بڑھ گئی تھی اچانک فائر الارم سسٹم بج اٹھا اور ساتھ ہی لوگوں کا شور سنائی دیا تھا

"اوہ نو کیا ہوا ہو گا" وہ تیزی سے پرس کو کندھے پر درست کرتی وی آئی پی زون سے نکلی تھی  اسکی نظر باہر نکلتے لوگوں میں حدید پر پڑی تھی مگر وہ اسکی موجودگی کو جھٹلا گئی تھی کلب کا سینٹر ہال آگ کی لپیٹ میں تھا اور شراب کے کاؤنٹر پر پہنچنے کے بعد آگ مذید بھڑک اٹھی تھی 

"علیشہ کہاں ہو تم" لوگوں کو باہر بھاگتا دیکھ کر اسکا دل ڈوبتا چلا وہ علیشہ کے بغیر تو باہر نہیں جا سکتی تھی اور اسکی ڈرنک میں کچھ ملانے والی بات پر وہ بےحد پریشانی کا شکار تھی 

"مجھے اسے ڈھونڈنا ہو گا کہیں کچھ غلط ناں ہو جائے" وہ تیزی سے دوسرے ذون کی طرف نکل گئی تھی آگ پھیلتی ہی جا رہی تھی کچھ لوگ باہر نکل گئے تھے اور کچھ باہر نکلنے کی کوشش میں تھے ایک سہ واحد لڑکی آس پاس دیکھتی اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی 

"اللہ پاک پلیز علیشہ کو کچھ ناں ہو اسے اپنی امان میں رکھئے گا " متذبذب نظروں سے اسے ڈھونڈتی ہوئی وہ اللہ سے دعا گو تھی رومز کی جانب بڑھتی وہ رکی تھی لوگ ہڑبڑی میں باہر نکلے تھے اس لئے دروازے کھلے چھوڑ گئے تھے وہ ہر کمرے کو دیکھ رہی تھی اس بات سے بےخبر کے نیچے آگ اس قدر پھیل چکی ہے کہ اب اسکا باہر نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے 

"کیا سب صحیح سلامت باہر آ گئے ہیں " کلب کا مینیجر گارڈن میں جمع ہوئے ڈرے سہمے لوگوں کو دیکھتا بولا 

"کیسے لگی یہ آگ اتنی لاپرواہی اگر کسی کو کچھ ہو جاتا " وہ درشت مزاجی سے مینیجر کے کوٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے غرایا تھا

"حدید صاحب سب صحیح سلامت ہیں کسی کو کچھ نہیں ہوا کسی نے بار کاؤنٹر کے قریب سموکنگ کی شاید اس وجہ سے آگ لگ گئی " مینیجر نے تفصیل بتاتے ہوئے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا 

"سر فائر بریگیڈ کی گاڑی کچھ ہی دیر میں پہنچ جائے گی" مینیجر نے اپنا گریبان درست کرتے ہوئے کہا اسنے تاسف سے سر جھٹکا تھا اور وہاں سے پیچھے پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھ گیا تھا 

"تیز قدموں کے ساتھ وہ پورا کلب چھاننے کے بعد نیچے آتی تھم گئی تھی پورا کاؤنٹر آگ کی لپیٹ میں تھا اسکا چہرہ حرارت کے باعث سرخ پڑا تھا 

"حدید وہ یہاں ہے "

اسکا خیال آنے پر بغیر دوسری بار سوچے اسنے کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ فون نکالا تھا کال لاگ نکالتے ہوئے اسنے جلدی سے نمبر ملایا تھا

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کسی نے کچھ کہا آپ سے "

"نہیں" وہ ہچکی لیتے ہوئے بولی 

"ہمیں بہت ہرٹ ہو رہا ہے اور ہم کسی سے شیئر نہیں کر سکتے اس لئے آپکو کال کر دی لیکن اب ہم سے بتایا نہیں جا رہا"

 آنکھیں صاف کرتے ہوئے وہ خفا لہجے میں بولی 

"Say whatever is on your heart, I am ready to listen to everything you have to say Aizal " 

(جو دل میں ہے کہہ دیں ،، میں آپکی ہر بات سننے کو تیار ہوں آئیذل )

اسکی گمبھیر آواز پر وہ لب بھینچتی سر جھکا گئی تھی ایک سکون تھا اسکی آواز میں اسے اپنائیت سی محسوس ہوتی تھی اسکی آواز سن کر ۔۔

"میں۔۔چاہتی ہوں کہ میں آپ سے کہہ سکوں کہ کاش کوئی لفظ میری اذیت کے معیار پر پورا اترے میں بتانا چاہتی ہوں اسکے بعد کہ درد اور تکلیف اس اذیت سے بہت چھوٹے لفظ ہیں جو میں محسوس کرتی ہوں پروفیسر۔۔۔۔ میں ٹوٹ رہی ہوں میں کچھ نہیں کر سکتی " وہ سسکیوں کے بیچ کرب ناک لہجے میں بولی 

اسکے ایک یک لفظ میں چھپا رنج ذاویان کے دل کو کاٹتا چلا گیا

"یہ رشتے سب دیکھاوا ہیں کوئی ہمدردی نہیں کسی کے دل میں سب خود غرض ہیں ہمیں لگا ماموں ہمیں اس گھر میں ہمدردی کی بنیاد پر لیکر آئے تھے مگر انہیں ہمارا گھر چاہیے تھا اور ممانی اس لئے ہماری شادی اپنے بیٹے سے کروانا چاہتی تھی تاکہ وہ گھر انکا ہو جائے وہ کہہ رہی تھی آپ سے خلع لیکر وہ میرا نکاح اپنے بیٹے سے کروا دیں گی وہ بہت برا ہے اسنے ہمیں تھپڑ بھی مارا تھا " کسی چھوٹی لڑکی کی طرح وہ اس سے شکوہ کر رہی تھی اور روتے ہوئے بتا رہی تھی اسکے دل میں طوفان اٹھ رہا تھا اسکی ایک ایک سسکی اسکے دل پر گہرا اثر چھوڑ رہی تھی مگر وہ تحمل سے اسکی ایک ایک بات سن رہا تھا تاکہ اسکا دل ہلکا ہو جائے

"ہمیں اس کرب سے کیوں گزرنا پڑ رہا ہے ہمیں لگا تھا سب ٹھیک ہو چکا ہو گا لیکن آج ممانی کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے ہم تو اب تک اسی راستے پر ہیں جہاں غم کے سوا کچھ نہیں تھا اللہ پاک اور کتنے امتحان لیں گے ہمارے امی تو کہتی تھی پانچ وقت کی نماز پڑھنے سے اور دعا کرنے سے ذندگی میں کوئی پریشانی نہیں آتی اگر آتی بھی ہے تو فوراً دعا اس پریشانی کو رد کر دیتی ہے لیکن ہماری ذندگی کے عذاب کب ختم ہوں گے " 

"کچھ راستوں کی حقیقت اللہ ہمیں اس لیے دیکھاتا ہے تاکہ ہم نقصان سے پہلے واپس مڑ سکیں لمظ۔۔۔ اور آج وہی ہوا ہے آپ انکی اصلیت جان چکی ہیں ،، میں اب تک خود کو کوس رہا ہوں اتنا مشکل وقت آپ نے تنہائی میں کاٹا ہے اپنوں کو کھویا ہے۔۔۔ اور آپکی گرینڈ مدر کی ڈیتھ کے دورانیے میں بھی میں آپکے ساتھ ہو کر بھی آپکے ساتھ نہیں تھا اس مشکل وقت میں بھی آپ اکیلی تھی میری لمظِ آئیذل اکیلی تھی میں کچھ نہیں کر سکا لیکن اب ایک آنچ نہیں آنے دوں گا میں وعدہ کرتا ہوں جن لوگوں نے آپکو تکلیف پہنچائی ہے ان سب کو انکے انجام تک پہنچانے میں ذرا دیر نہیں کروں گا " 

اسکا نرم لہجہ آئیذل کے دل کو سکون بخش گیا تھا اسنے آنسوں صاف کرتے ہوئے سر ہلایا تھا

"تھینک یو میں ۔۔ بہت لکی ہوں آپ میرے ساتھ ہیں"  

وہ ایک پل کو ساکت ہوا تھا اسکے لہجے سے اسکی مسکراہٹ کا اندازہ جو لگا چکا تھا 

"اللہ حافظ"

وہ جلدی سے فون کان سے ہٹاتے ہوئے کال منقطع کرتی مسکرائی تھی اسنے تاسف سے فون کو دیکھا تھا کال منقطع ہو چکی تھی 

""تھینک یو میں ۔۔ بہت لکی ہوں آپ میرے ساتھ ہیں"" اسکی آخری کہی گئی بات پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اسنے اپنی لینڈ کروزر سٹارٹ کی تھی جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی تھی اسنے سکرین پر چمکتا نام سیرت دیکھا تھا اور تشویش سے کال کنیکٹ کی تھی

"مس سیرت"

"مم۔۔میں۔۔۔ اندر ہوں میں باہر نہیں نکل سکتی ۔۔۔ مجھے باہر "  

وہ آگ سے اٹھتے دھویں کی وجہ سے کھانستے  ہوئے دشواری سے بولی اسکے الفاظ حدید کو ساکت کر چکے تھے سیڑھیوں سے اترتی سیرت کے ہاتھ سے فون نیچے گرا تھا وہ کھانستے ہوئے دیوار سے ٹیک لگاتی کھڑکی کے قریب رکتی لمبے سانس لیتی ہوئی کھڑکی کھولنے لگی دھویں سے اسکا دم گھٹ رہا تھا مگر اسکے خوف سے کانپتے ہاتھوں کی وجہ سے کھڑکی بھی نہیں کھلی تھی وہ تڑپتی ہوئی دوسری کھڑکی کی طرف بھاگی تھی پارکنگ لاٹ سے تیزی سے نکلتے حدید نے سیکنڈ فلور کی کھڑکی سے اسکی پرچھائی دیکھی تھی جو کھڑکی پر ہاتھ مارتے ہوئے تڑپ رہی تھی

"سر آپ کہاں جا رہے ہیں" مینیجر اسے تیزی سے جھلستی بلڈنگ کی جانب بڑھتا دیکھ کر حیرت سے بولا لوگوں نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا جو اختلال حواسوں کیساتھ جھلستی بلڈنگ میں گھسا تھا

دروازہ کھولنے پر تیز بھڑکتی آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا 

"سیرت کیا تم ٹھیک ہو"

 وہ حلق کے بل دھاڑا تھا آگ کی تپش سے اسکا چہرہ سرخی مائل ہو رہا تھا سیڑھیوں کے قریب راستہ ڈھونڈتی سیرت نے اسکی آواز کی سمت دیکھا تھا آگ کا سیک اسے پگھلا رہا تھا اور یہی سوچ کر وہ اسکے لئے پریشان ہو رہا تھا 

وہ جلدی سے نیچے اترنے لگی جب چھت سے جلتا ہوا لائٹنگ سسٹم اسکے سمانے سیڑھیوں پر گرا تھا وہ خوف سے چیختے ہوئے پیچھے ہوئی تھی اسکی چیخ سن کر وہ تیزی سے وی آئی پی زون کی جانب بڑھا تھا وہ اسوقت پسینے میں شرابور تھا ہاتھ کی پشت سے لبوں کو ڈھانپتی وہ کھانستے ہوئے دیوار سے لگی تھی لمبے سانس لیتے ہوئے اسنے آس پاس دیکھا تھا قدموں کی آہٹ اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی مگر وہ ابھی تک فرسٹ فلور پر تھا اسکی آنکھیں بند ہوئی تھی وہ نڈھال سی نیچے گری تھی

باہر فائر بریگیڈ کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا تھا   

سیڑھیوں کے قریب پہنچتا وہ ساکت ہوا وہ سیڑھیوں کے بیچ و بیچ بےہوش پڑی تھی سیڑھیوں کے سامنے جھلستے لائٹنگ سسٹم کو اسنے سرعت سے دیکھتے ہوئے آس پاس دیکھا تھا مگر آس پاس آگ کے سوا کچھ نہیں تھا جو دھیرے دھیرے بلڈنگ کو نگل رہی تھی اسنے آگے بڑھ کر ہاتھوں سے اس سسٹم کو ہٹایا تھا اسکے رعنایت سے بھرپور  سفید ہاتھ اسوقت جل گئے تھے جن پر سرخ چھالے پڑ گئے تھے ہاتھوں پر جلن محسوس کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جس کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہو چکا تھا تیزی سے اسے بازؤں میں اٹھائے وہ نیچے اترا تھا مگر آگ کاؤنٹر سے اب وہاں تک پھیل چکی تھی جہاں سے وہ آیا تھا

"سیرت " 

اسکے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھپتھپاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے آس پاس دیکھ گیا تھا لب بھینچ کر بغیر دوسری بار سوچے اسنے اپنا بلیک اوور کوٹ اتار کر اسے اچھی طرح چھپایا تھا 

"تمھیں مرنے تو نہیں دوں گا میرا انتقام کیسے پورا ہو گا ورنہ بےوقوف لڑکی"

 اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے وہ فرسٹ فلور پر پہنچ کر کھڑکی کو کھولتا ہوا باہر نکل۔گیا تھا مینیجر دوڑتا ہوا انکے پاس آیا تھا اسکے ہاتھ جلے ہوئے تھے اور چہرا بھی بھیانک لگ رہا تھا مگر وہ اسکا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مینیجر اسکے کہنے پر پانی لیکر آیا تھا اسکے چہرے پر پانی کی بوندیں پڑی تھی مگر وہ ہوش و خرد سے بیگانی پڑی تھی اسنے سنجیدگی سے اسکی نبض دیکھی تھی جو چل رہی تھی پھر اسکی سانسیں دیکھی جو بجھ رہی تھی

مینیجر نے اسے تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کیونکہ دھویں کی وجہ سے اسکا سانس بند ہو گیا تھا 

"میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں " مینیجر فون نکال کر تیزی سے ایک جانب بڑھ گیا تھا 

وہ سنجیدگی سے اسکے چہرے کو اوپر اٹھاتے ہوئے اسکے چہرے پر جھکا تھا وہ بالکل سانس نہیں لے رہی تھی سرد آہ بھرتے ہوئے اسنے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسکے لبوں پر لب رکھے تھے اور اپنی سانسیں اس میں اتاری تھی ایک سیکنڈ کے بعد وہ اسکے چہرے سے اوپر اٹھا تھا جس نے دھیرے سے سانس خارج کیا تھا دوبارہ اسکے چہرے پر جھکتا وہ اپنی سانسیں اس کے حوالے کرنے لگا 

اسکے سانس لیتے ہوئے کھانسنے پر پر وہ اسکا سر اپنے گھٹنے سے نیچے رکھتے ہوئے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے اٹھا تھا وہ آنکھیں کھولتی کھانستے ہوئے آس پاس دیکھتی حیران ہوئی تھی سب سے پہلے اسکی نظر اسکے ہاتھوں پر پڑی تھی اور پھر اسکا سرخ چہرہ دیکھتی وہ چونک پڑی تھی

"تم ۔۔۔تم۔۔۔۔نے بچایا مجھے" 

وہ اٹھتے ہوئے  تعجب سے بولی 

"نہیں فائر بریگیڈ کی ٹیم نے بچایا ہے تمھیں لیکن اچھا ہوتا اگر تم مر جاتی میں تمھاری وجہ سے اپنی جان کسی صورت خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا" اسے کرخت نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا

"تم بھی مر جاتے تو کتنا اچھا ہوتا " اسکی چوڑی پشت کو دیکھتی وہ غرائی مگر اپنے کندھوں پر اسکا بلیک اوور کوٹ دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

ایل ای ڈی کو آن کرتے ہوئے وہ ساکت ہوا تھا بریکنگ نیوز میں سارینہ کلب میں آگ لگنے کی خبر چل رہی تھی مگر اسے حیرت تب ہوئی جب اسنے رپورٹر کر بیک گراؤنڈ میں سیرت کی گاڑی وہاں دیکھی تھی 

"ڈیم اٹ یہ لڑکی وہاں کیا کر رہی ہے" 

کرخت لہجے میں کہتا ہوا وہ تیزی سے باہر نکل گیا تھا 

" یہ تمھارے ہاتھ کو کیا ہوا "معاز نے اسے گاڑی کا فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے دیکھ کر تشویش سے التفات کیا

"شاہ انڈسٹری کیساتھ میٹنگ سکسیسفل رہی اٹس گڈ کل آفس میں ملتے ہیں ہمارے سارے انویسٹرز اور شیئر ہولڈرز کل کی میٹنگ میں شرکت کریں گے مجھے سب پرفیکٹ چاہیے" فون پر آفس سے موصول ہونے والا ای میل دیکھ کر وہ اطمینان سے کہتے ہوئے اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر گاڑی وہاں سے نکال چکا تھا معاذ نے سرد نظروں سے اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوتی گاڑی کو دیکھا تھا

"پرنسس آر یو اوکے"

گاڑی پارک کرتے ہوئے اسکی نظر بلڈنگ سے نکلتے دھویں پر پڑی تھی اور فائر بریگیڈ کے عملے پر جو آگ بجھانے میں مصروف تھا ذاویان کا دل تیزی سے دھڑکتا چلا گیا سیرت کا خیال آتے ہی تیزی سے پارکنگ لاٹ سے مین بلڈنگ کی طرف بڑھتا اسے صحیح سلامت دیکھتا سینے میں بھینچتے ہوئے فکرمندی سے بولا سیرت نے مسکراتے ہوئے اسکا کوٹ پکڑتے سر ہلایا تھا

"یس ذاویان بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں" مسکراتے ہوئے وہ ذاویان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی ذاویان نے متانت سے اسکے سرخ رنگ چہرے کو دیکھا تھا جو اب بھی آگ کی طرح گرم تھا

"کیوں آئی تھی یہاں" پیشانی پر شکنوں کا جال سا بچھا تھا 

"میں علیشہ کو ڈھونڈنے آئی تھی کسی نے اسکی ڈرنک میں کچھ ملا دیا تھا اوہ نو علیشہ کہاں ہے" اسکا ذکر کرتے ہوئے جب اسکے ناں ملنے کا خیال آیا تو وہ الجھن سے پیشانی پر ہاتھ رکھتی بولی ذاویان نے متذبذب نظر سے اسے دیکھا تھا اور علیشہ کا نمبر ڈائل کیا تھا

"ہیلو بھائی آپ اسوقت کال کر رہے ہیں کیا سب خیریت ہے" کچھ ہی سیکنڈ بعد کال اٹھاتی علیشہ نے متفکر لہجے میں پوچھا ذاویان نے کرخت نظروں سے سیرت کو دیکھا تھا 

"ایوری تھنگز فائن "مطمئن لہجے میں کہہ کر کال منقطع کرتے ہوئے سیرت کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھا جب راستے میں انہیں مینیجر ملا تھا

"میڈم اب آپ کیسی ہیں جس طرح حدید صاحب نے آپکو باہر نکالا ہم حیران ہیں مجھے تو گہرا تعجب ہوا آپ دونوں صحیح سلامت  خدا کا شکر آپ کو ہوش آ گیا رضا صاحب کہاں ہیں" مینیجر نے حیران کھڑی سیرت سے دریافت کیا سیرت اپنی حیرت کو جھٹکتی جو اسے حدید کے خود کو بچانے کی خبر سے ہوئی ذاویان کو دیکھنے لگی جس نے درشتگی سے سیرت کو دیکھا تھا اور بغیر ایک لفظ کہے پارکنگ لاٹ کی طرف اسکا ہاتھ پکڑتا بڑھ گیا

"بھائی میں سچ کہہ رہی ہوں میں علیشہ کی وجہ سے آئی تھی میں جھوٹ نہیں بول رہی آپ جانتے ہیں میں نائٹ کلبز میں نہیں آتی " سیرت نے دلگیر لہجے میں اپنی صفائی پیش کی مگر ذاویان کو فرق کہاں پڑا تھا اسکے مطابق سیرت نے جھوٹ بولا تھا اور وہ اسکی سیفٹی کو لیکر بےحد سخت گیر موقف رکھتا تھا

"بھیا بابا کی قسم میں یہاں علیشہ کو ڈھونڈنے آئی تھی اور یہ حادثہ ہو گیا مگر میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ بھی نہیں ہوا" سیرت نے رندھی ہوئی آواز میں کہا گاڑی کی طرف بڑھتا ذاویان اپنی جگہ جامد ہو کر اسے الفت سے دیکھتے ہوئے اسکی پیشانی پر بوسہ دے گیا

"میں جانتا ہوں پرنسس آپ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گی آئی واز جسٹ وریڈ اباوٹ یوئر سیفٹی اگر آپکو کچھ ہو جاتا میں ذندگی بھر خود کو معاف نہیں کر سکتا تھا مائی اینجل اگلی بار آپ ایسی کسی جگہ پر نہیں جائیں گی " وہ سنجیدگی سے اسکے بال سہلاتے ہوئے گویا ہوا سیرت ساکت ہوئی تھی کیونکہ وہ اس سے جانے انجانے میں پچھلے دنوں میں کئی جھوٹ بول چکی تھی 

"تھینک یو  ذاویان بھائی" وہ شرمندگی سے نظریں چراتے ہوئے مختصر سا جواب دے گئی ذاویان مبہم سا مسکرایا تھا

"بھائی آپ چلیں میں اپنی گاڑی سے آتی ہوں" وہ اپنی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرائی ذاویان نے سر کو خم دیا تھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا

لمبا سانس لیتی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتی فرنٹ سیٹ پر رکھا ہوا اسکا اوور کوٹ دیکھ کر رکی تھی ناجانے کیوں اسکا دل دھڑک اٹھا تھا اسکے کوٹ کو دیکھ کر اسنے اپنے سویٹر کو سونگھا تھا جس سے اسکے مردانہ کلون کی طلسمی ہلکی مہک پھوٹ رہی تھی

"افف آئی ہیٹ دس پرفیوم اینڈ اٹس اونر " سر جھٹکتی وہ گاڑی سٹارٹ کرتی افسوس کر کے رہ گئی تھی

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی کے لئے تیار ہو رہی تھی آج یونیورسٹی میں نیو ائیر فنگشن اور گالا کی تقریب تھی جسکی تیاریاں وہ پچھلے کچھ دنوں سے کر رہے تھے  الماری  سے پیل ریڈ کلر کا فراک نکالتے ہوئے اسنے مرر میں خود پر رکھ کر دیکھا تھا

"کچھ سمجھ نہیں آ رہا یہ پہنوں یا نہیں " آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے وہ مشتبہ نگاہ خود پر ڈالتی بولی 

آج تک اسے اتنی ہچکچاہٹ کبھی نہیں ہوئی تھی ناں ہی اسنے خود کو سجانے سنوارنے کی کوشش کی تھی لب بھینچ کر اسنے باقی سارے کپڑوں کو جانچتی نظروں سے دیکھا تھا 

"بس یہی ٹھیک ہے باقی کلرز بہت لائٹ ہیں" لمبا سانس خارج کرتے ہوئے وہ ڈریس لیکر چینج کرنے چلی گئی تھی

باہر آ کر اسنے آئینے میں خود کو غور و فکر سے بھرپور نظر سے دیکھا براؤن لمبے بال جو اسکی کمر تک آبشار کی طرح لہرا رہے تھے اسنے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بالوں کا رف سا جوڑا بنا کر کیچر لگایا تھا

"یہ آج اتنی کنفیوژن کیوں ہو رہی ہے پہلے بھی تو میں تیار ہوتی ہوں پھر آج میں اتنی گھبراہٹ کا شکار کیوں ہوں" بیڈ سے ریڈ کلر کا دوپٹہ اٹھا کر سر پر ڈالتی ہوئی وہ شکوہ آمیز لہجے میں بولی جب اسنے خالی پن سے اپنے کانوں کو دیکھا تھا جن میں وہ کچھ نہیں ڈالتی تھی آج پہلی بار اسنے جیولری باکس کھولا تھا اور سلور کلر کے چھوٹے چھوٹے جھمکے کانوں میں ڈالے تھے 

چادر سے خود کو اچھی طرح سے ڈھانپ کر الماری سے شال اٹھاتے ہوئے وہ باہر نکلی تھی عائزہ بیگم اسے تیار دیکھ کر ٹھٹھکی تھی ممتاز صاحب اور توصیف نے اسے دیکھا تھا جبکہ آصف صاحب کے چہرے پر کوئی حیرانی نہیں تھی

"یہ بن ٹھن کر یونیورسٹی جائے گی اب" عائزہ بیگم نے تھال کو ایک طرف رکھتے ہوئے تنک کر کہا جس میں سے وہ دال صاف کر رہی تھی آئیذل نے لب بھینچے

"ماموں آپ مجھے یونیورسٹی چھوڑ دیں گے" آصف صاحب کو دیکھتی وہ دھیمے لہجے  میں بولی آصف صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"اسکی ضرورت نہیں پڑے گی" 

سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا تھا آئیذل نے اسکی آواز سن کر سر اٹھایا تھا 

وہ وائٹ پینٹ کے نیچے وائٹ اور کیمل کلر کے کومبو کے سنیکرز اور سنیکرز سے ملتے کیمل کلر سوئیٹر اور اس پر پیل کیمل کلر اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا بالوں کو جیل سے عمدگی سے بٹھایا گیا تھا  بلیک گلاسز اتارنے پر اسکی ہلکی سنہری آنکھوں نے آئیذل کا شائستہ نظروں سے جائزہ لیا تھا 

"اسلام و علیکم چودھری صاحب " وہ آصف صاحب کی طرف بڑھتا تہذیب سے بولا 

"وعلیکم السلام " آصف صاحب نے بھی تہذیب سے مصافحہ کرتے ہوئے جواب دیا تھا ممتاز صاحب کا ماتھا ٹھنکا تھا اور عائزہ بیگم کو حیرت نے گھیرا 

"چلیں " 

خاموش کھڑی آئیذل چونکی تھی وہ اسے ڈائریکٹ مخاطب کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا آئیذل نے سرعت سے آصف صاحب کو دیکھا تھا جو سر ہلا گئے تھے

"کیا آئیذل کو آپ اسکے ساتھ ایسے ہی بھیج دیں گے " عائزہ بیگم نے سانپ کی طرح سانس چھوڑتے ہوئے کہا

"ممانی صاحبہ میری بیوی کی کتنی پرواہ کرتی ہیں آپ لیکن بےفکر رہیں اپنے شوہر کیساتھ جا رہی ہیں کسی تھرڈ کلاس کے ساتھ نہیں جو آپ پریشان ہوں" توصیف پر گہری نظر ڈالتا وہ تحمل سے بولا جبکے توصیف نے دانت پر دانت جمائے تھے بےعزتی پر عائزہ بیگم نے سر جھٹکا تھا

"آئیذل تمھارے ساتھ نہیں جائے گی" ممتاز صاحب نے پیشانی پر بل ڈال کر اسے دیکھتے ہوئے کہا وہ تاسف سے انہیں دیکھتا ہونٹوں کے کنارے سے مسکراتا آئیذل کے دل پر اثر کر گیا تھا آصف صاحب نے ذاویان کی جانب دیکھا تھا جو ضبط کرتا ہوا بولا

"کچھ بھی کہنے سے پہلے چودھری صاحب کی بات زیرِ غور فرمائیں" ممتاز صاحب کو دیکھتے ہوئے وہ اطمینان سے بولا

"جاؤ بیٹی اگر کوئی پریشانی ہو تو فون کر لینا" آصف صاحب نے آئیذل کو مخاطب کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا آئیذل انہیں حیرت سے دیکھتی سر ہلاتے ہوئے اسکے پیچھے چل دی تھی 

"یہ کیا طریقہ ہے کسی کے ساتھ بھی بھیج دو گے "

"اسکا نکاح ہوا ہے اسکے ساتھ کوئی غیر نہیں ہے وہ اور میری اجازت سے لیکر گیا ہے آج نہیں تو کل آئیذل کو اپنے گھر ہی جانا ہے وہ آج اسے اپنے گھر لیکر نہیں گیا یونیورسٹی لیکر گیا ہے ممتاز صاحب بہتر ہو گا آپ اس معاملے کو لیکر پریشان ناں ہوں آئیذل میری ذمہ داری ہے اور میں اسکے لئے صحیح غلط کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہوں مت بھولیں اسنے کل آپکو جیل سے رہائی دلوانے میں میری مدد کی تھی ورنہ میں جیل کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکا تھا" آصف صاحب چائے کا کپ رکھتے ہوئے سرعت سے اٹھتے بولے عائزہ بیگم نے منہ کا زاویہ خراب کیا تھا 

"پیچھے نہیں لمظ فرنٹ سیٹ پر بیٹھو " 

بیک سیٹ کا گیٹ کھولتی آئیذل رکی تھی وہ سنجیدگی سے کہہ کر اسکے لئے فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھول گیا آئیذل ستائشی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ذاویان عقیدت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گیٹ بند کر کے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا اور گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے نکالی 

"یو لک بیوٹیفل ان ریڈ لمظ" وہ ڈرائیونگ کرتا ہوا محبت سے بولا آئیذل نے ہلکی مسکان کیساتھ اسکی جانب دیکھا تھا

اسکی گاڑی میں بھی اسکے پرفیوم کی دھیمی مہک پھیلی ہوئی تھی جو ہر سانس کیساتھ آئیذل کے روم روم میں گھل کر اسے جدت،روحانی سکون اور  تسکین پہنچا رہی تھی 

کار راستے پر گامزن تھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے آئیذل کے کان کے پیچھے اڑسائے بالوں کی لٹ کو اسکے چہرے پر گرایا تھا ڈرائیونگ کرتے ذاویان نے مخمور نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے اسکے چہرے پر آتی اس لِٹ کو بڑی الفت سے اسکے کان کر پیچھے اڑسایا تھا آئیذل ساکت ہوئی تھی اسکا سرد کھردرا ہاتھ آئیذل کے نرم ریشمی رخسار پر دھیرے دھیرے حرکت کر رہا تھا اسکے ہاتھ کے ٹھنڈے لمس سے آئیذل کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی وہ شہادت کی  انگلی کے پور سے اسکے رخسار کو اسٹروک کر رہا تھا  آئیذل جو اسکے دہکتے لمس پر خود پر قابو کئے بیٹھی تھی اسکی ہر سیکنڈ کیساتھ بڑھتی بےباکی پر مجنون سی خمار آلود آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جو  بےتکلفی سے نظریں روڈ پر جمائے اسے اپنے لمس پر اکسا رہا تھا 

آئیذل کا چہرہ دھک اٹھا تھا اسے  خود سے اٹھتی حرارت کا احساس ہوا اس آگ کا جو اسنے  کچھ ہی سیکنڈ میں بڑی مہارت سے لگائی تھی 

 اپنے کان کےنیچے اسکے ہاتھ کے ٹھنڈے لمس پر وہ لرز گئی اسکے جھمکے کو اسٹروک کرتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا تھا

" پروفیسر ۔۔۔ہم ۔۔۔ہم کب تک پہنچیں گے"  ماحول کی بڑھتی حدت کو کم کرنے کے لئے وہ دھیمے لہجے میں بولی ذاویان نے اطمینان سے اسکے گود میں رکھے ہوئی دونوں ہاتھوں کو کانپتے ہوئے دیکھ کر سنجیدگی سے اپنا ہاتھ واپس گیئر شفٹ پر رکھا تھا 

" کچھ دیر میں" وہ مختصر لہجے میں گویا ہوا سکون کا سانس لیتی آئیذل نے گلاس  ونڈو سے باہر پھیلتی دھند کو دیکھا تھا باقی کا سفر خاموشی میں کٹ گیا تھا

"گاڑی یونیورسٹی سے دور روکیں اگر سٹوڈینٹس ہمیں ساتھ دیکھیں گے تو ہم سے سوال کریں گے"  آئیذل نے سر جھکائے انگلیاں چٹخا کر کہا 

"اور  جواب میں آپ کہہ سکتی ہیں کہ آپ اپنے محرم کیساتھ آئی تھی " وہ گہری متانت سے کہتا ہوا سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے گویا ہوا آئیذل نے  جھکی نظریں اٹھا کر اسے نگاہِ الفت سے دیکھا تھا جو فون کان سے لگائے گاڑی سے نیچے اترا تھا اور اسکی طرف کا گیٹ کھولا تھا

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"یہ کانفرنس میٹنگ آپ ہینڈل نہیں کر سکتے تھے اور ناں ہی آپ آتے یہاں اس لئے میں خود گئی ہوں اتنی سی بات کا مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے آپکے جذبات میں کئے گئے فیصلوں سے کمپنی کا نقصان ہوتا ہے " فون کان سے لگائے بلیک سلک کے ٹو پیس سوٹ میں کندھوں پر گھٹنوں تک آتا وائٹ اوور کوٹ ڈالے وہ کانفرنس روم کی طرف بڑھتے ہوئے تشویش سے بولی تھی 

" جی گارڈز میرے ساتھ ہیں ڈونٹ وری ذی میں بریفلی سب ایکسپلین کرتی ہوں آفٹر میٹنگ لوو یو بھائی"  فون کوٹ کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے سرد آہ بھر گئی تھی کیونکہ وہ پندرہ منٹ لیٹ ہو چکی تھی گارڈ نے آگے بڑھ کر کانفرنس روم کا گلاس ڈور دھکیل کر کھولا تھا کانفرنس روم میں بیٹھے تمام افراد نے اسے دیکھا تھا 

"Sorry for being late Fellows Can we start the meeting now"

اپنی چیئر کو کھینچ کر بیٹھتی ہوئی وہ اعتماد سے بولی کانفرنس ٹیبل کے ٹاپ پر رکھی چیئر پر بیٹھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا جو اسے دیکھ کر بھی ان دیکھا  کر گئی تھی حدید نے دلچسپی سے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا تھا اور بالوں کا رف سا جوڑا دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے سر جھٹک گیا تھا

"So what do you all think is the best strategy to attract customers to your products"

لیپٹاپ سے نظریں اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے سب کو دیکھتا گویا ہوا

"Well The more interesting the packaging of the product, the more people will be attracted to the product "

ایک کلائنٹ نے عام سے لہجے میں کہا حدید نے سیرت کی جانب دیکھا تھا جسکے گداذ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی

So you mean, Shah Sahb, that the quality of the product does not matters?

سیرت نے طنزیہ نظروں سے کلائنٹ کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا جو شرمندہ سا ہوا حدید لیپ ٹاپ کی جانب دیکھتے ہوئے مبہم سا مسکرایا تھا جس نے ایک سیکنڈ میں اس کی بولتی بند کی تھی 

You may not all agree with me but I think the purity of the product is very much in demand in the market ،،Why do people buy the product? So that they can make it a decoration piece in their room? no ... They take the product to use.So I believe if you sell a pure quality product even in a simple packaging, it will be profitable"

اس چوبیس سالہ لڑکی کو سب نے حیرت اور تحسین  بھری نظروں سے دیکھا تھا جو کچھ ہی منٹوں میں سب کو امپریس کر چکی تھی حدید نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر اسے داد دی تھی جسے وہ خفیف مسکراہٹ کیساتھ قبول کرتے ہوئے کلائنٹس کی طرف متوجہ ہوئی تھی

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

یونیورسٹی کو نفاست سے سجایا گیا تھا مین ہال میں ریڈ ربنز کیساتھ وائٹ اور ریڈ بلونز کی ڈیکوریشن کیساتھ لائٹنگ بھی کی گئی تھی کشادہ ہال کے ٹاپ پر اسٹیج تیار کیا گیا تھا وہ دونوں مسکراتے ہوئے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب آئیذل کی نظر اسٹیج پر پڑی

"یہ لڑکی پروفیسر شاہان کیساتھ کیا کر رہی ہے" 

آئیذل نے رباب کو پروفیسر شاہان کیساتھ دیکھتے ہوئے تعجب سے کہا حورم نے سر اٹھا کر اسی سمت دیکھتے ہوئے سر ہلایا تھا

"پروفیسر کی اسسٹنٹ آف ہے کچھ دن کے لئے رباب میں سٹیمنا ہے اس لئے پروفیسر شاہان نے اسے یونیورسٹی بلوا لیا اب انکی اسسٹنٹ کی جاب رباب ہی کرے گی"  حورم کی بات سن کر آئیذل نے اسے غور سے دیکھا جو بہت کانفیڈینٹ لگ رہی تھی اور یونیورسٹی کے ٹیچنگ سٹاف سے گہری گفتگو میں ملوث نظر آ رہی تھی

"ویسے تمھیں بھی وہاں اسٹیج پر ہونا چاہیے  لیکن تم ہو کہ اتنا گھبراتی ہو" حورم نے شکوہ آمیز لہجے میں کہا آئیذل نے آنکھیں گھمائی اسکی نظریں ایک نقطے پر ٹھہری تھی جہاں سے پروفیسر زاویان چیف گیسٹ کیساتھ بڑی طمانیت سے محو گفتگو تھا وہ کچھ دیر کے بعد اسٹیج کی طرف بڑھ گیا تھا آئیذل کی نظروں نے اسکا تعاقب کیا تھا شاہان کیساتھ کھڑی رباب نے اس کی آمد میں گہری دلچسپی لی تھی اور اسکی جانب متوجہ ہوئی تھی جو شاہان سے کچھ بات کر رہا تھا

"یہ رباب بہت اوور انسان ہے" وہ پھنکارتے ہوئے بولی جسے حورم نے سن کر سر اٹھایا

"کیوں ایسا کیا ہو گیا" حورم نے اچھنبے سے اسٹیج کی طرف دیکھتے پوچھا رباب ذاویان کو دیکھتی مسکراتے ہوئے سر ہلا رہی تھی 

حورم نے ہنسی دبائی

"تم بھی تو انکی اسسٹنٹ ہو جاؤ ناں انکے پاس " حورم نے گلہ صاف کرتے ہوئے سرعت سے کہا آئیذل لب بھینچتے ہوئے اٹھی اور اسٹیج کی طرف بڑھ گئی تھی حورم ہنستے ہوئے سر جھٹک گئی تھی

" اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پروفیسر ذاویان اس ٹائم پوری یونیورسٹی کے فیورٹ پروفیسر ہیں " رباب نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جس پر آئیذل کو جلن محسوس ہوئی زاویان نے متذبذب نظر سے ساتھ کھڑی آئیذل کو دیکھا تھا جو آنکھیں گھماتے ہوئے دوسری جانب نظریں پھیر گئی تھی

"پروف ذی اس ڈیوریشن میں میرے کچھ لیکچرز مس ہوگئے آپ اگر برا ناں مانیں تو آپ کوور اپ میں میری مدد کر دیں گے میں آپکا زیادہ ٹائم نہیں لوں گی لیکچر کے بعد آدھا گھنٹا بس" رباب نے کچھ دیر بعد ہلکی مسکراہٹ کیساتھ استفسار کیا آئیذل نے رباب کو تاسف سے دیکھا تھا 

"میرے خیال سے مجھے کوئی اعتراض نہیں" بچے" جہاں اسکے آخری لفظ پر آئیذل نے مسکراہٹ ضبط کی وہاں رباب جو اس سے زیادہ ہی فری ہونے کی کوشش کر رہی تھی کھسیانی ہو کر پھیکی مسکراہٹ کیساتھ"ایکس کیوز می کہہ کر" وہاں سے گزر گئی شاہان نے بےتاثر نظروں سے  اسے دیکھا جو اب تک بڑا اطمینان سے بھرپور چہرہ لئے کھڑا تھا جیسے اسنے کچھ کیا ہی نہیں تھا آئیذل نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ کا گلا گھونٹ گئی تھی شاہان سر جھٹکتے ہوئے ذاویان کو دیکھتا ہوا وہاں سے گزر گیا تھا یقیناً سمجھ تو وہ بھی گیا تھا کہ اسکی اسسٹنٹ کی بےعزتی ہوئی ہے مگر اسے پرواہ کہاں تھی

"مس آئیذل میں آپکو کسی سے ملوانا چاہتا ہوں کم ود می" اسے دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسٹیج سے فرنٹ رو چیئرز کی طرف بڑھا وہ بھی اسکے ساتھ نیچے اتری تھی جہاں ایک لیڈی خوشدلی سے ذاویان کو دیکھ کر اسے گلے لگا گئی تھی

"ذاویان مائی چائلڈ مائی بوائے کتنے ہینڈسم ہو گئے ہو " اسکے حسیں نقوش چہرے کو دیکھتی ہوئی وہ شفقت سے بولی ذاویان مسکرایا تھا

" لمظ یہ میری ٹیچر ہیں اینڈ ٹیچر میٹ مائی وائف مس آئیزل ذاویان حیدر" 

آئیذل نے عقیدت مندی نے اسے دیکھا تھا جب ذاویان نے اپنا نام اسکے نام کیساتھ جوڑا تھا وہ لیڈی مسکراتے ہوئے آئیذل کو دیکھنے لگی

"Gorgeous Girl Zavi You have found a Gem ,,How innocent this girl is, mashAllah mashAllah"

آئیذل کے چہرے کو شفقت سے چھوتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی شرم و حیا سے لرزتی پلکوں کو گراتی وہ مسکرا گئی

کچھ فاصلے پر  اپنے دوستوں کے گروپ میں کھڑی رباب نے حاسد نظروں سے  ذاویان کیساتھ کھڑی آئیذل کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا 

                                       -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"ایکسیلینٹ جاب مس سیرت" خالی کانفرنس ہال کے ماربل فرش پر اسکے چلنے کی آہٹ سنائی دی تھی وہ چلتے ہوئے اسکے قریب چیئر پر ہاتھ رکھتا متانت سے گویا ہوا تھا اسکی بھاری مردانہ آواز سنتی کانفرنس ٹیبل سے فائل اٹھاتی سیرت نے غیر معتاد نظروں سے سر کو اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا فارمل بلو ٹو پیس سوٹ میں ملبوس وہ شخص اسے کانفرنس ہال میں بیٹھے تمام افراد سے منفرد لگا تھا 

"شکریہ" مختصر سا جواب اسکی جانب اچھالتی وہ فائل کو اٹھا کر اپنا سمارٹ فون ٹیبل سے اٹھانے کے لئے جھکی جب اسنے سرعت سے ہاتھ بڑھا کر اسکے فون پر ہاتھ رکھ کر اپنی جانب کیا تھا سیرت نے غضب ناک نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکے سلگ اٹھنے پر مبہم سا مسکرایا تھا

"مس سیرت آپ اتنی سیریئس  اچھی نہیں لگتی " وہ پینٹ کی پاکٹ میں ایک ہاتھ ڈالتے ہوئے اسکی جانب اسکا فون بڑھاتا ہوا تاسف سے بولا سیرت نے لب بھینچ کر اپنا فون کھینچنے کے انداز میں اس سے لیکر کوٹ کی پاکٹ میں رکھا تھا

"مسٹر رضا آپ میری ذات پر تبصرہ کر رہے ہیں ؟" بھنویں سکیڑ کر اسکی گہری بھوری آنکھوں میں دیکھا 

"تعلق تو ہوا ناں مس سیرت چاہے پروفیشنل ہے" سیرت کے غصے سے سرخ ہوتے گالوں کو دیکھتا ہوا وہ دوسرا ہاتھ اسکے قریب والی چیئر پر رکھ گیا سیرت ذرا پیچھے ہوئی تھی اپنی چال کو کامیاب بنانے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھری تھی 

"کل مجھے بچانے کے بعد مجھ سے جھوٹ کیوں بولا تم نے" سیرت کے مظبوط لہجے پر وہ مسکرا گیا

"میں پوچھ رہی ہوں جھوٹ کیوں بولا تم نے" وہ درشتگی سے بولی تھی 

"آپ جاننا چاہتی ہیں میں نے ایسا کیوں کیا" وہ شاطرانہ ذہن کا مالک اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا سیرت نے پیشانی پر بل ڈال کر اسے دیکھا 

"دھویں کی وجہ سے آپ فینٹ ہو گئی تھی کیا میں درست کہہ رہا ہوں" وہ ایک آئی برو اٹھاتا ہوا متانت سے گویا ہوا

"مجھے Asthma ہے سو یس میں فینٹ ہو گئی تھی"

اسنے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا جو سینے پر دونوں ہاتھ باندھے اسکی وضاحت کا انتظار کر رہی تھی

"ویل آپکا انہیلر آس پاس مجھے نظر نہیں آیا اس لئے میں نے " وہ بولتے ہوئے رکا تھا سیرت اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وضاحت کا انتظار کر رہی تھی

"آپ نے کیا مسٹر رضا" 

وہ مطمئن سی اسے دیکھتے ہوئے بولی 

وہ بزنس ٹائیکون جو پوری دنیا کو کنفیوز کر سکتا تھا پہلی بار اس لڑکی کے سامنے الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوا تھا ناجانے کیوں !!

"مسٹر رضا " سیرت نے اسے مخاطب کیا

"I gave you rescue breathing"

 سیرت کا چہرہ سرخ پڑا تھا وہ جو کچھ دیر پہلے ہچکچاہٹ کا شکار تھا اسکے شیرنی موڈ  سے سرخ پڑنے پر ششدر ہو کر رہ گیا تھا

"ہمت کیسے ہوئی تمھاری " اسکے کوٹ کو پکڑتی وہ صدمے سے بولی اسنے سنجیدگی سے اسکے مغموم چہرے کو دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں نمی ابھری تھی اضطراب ہی اضطراب تھا اسکی آنکھوں میں ۔۔

"مس سیرت I'm Sincerely Sorry اگر آپ ہرٹ ہوئی"

"آپکی معزرت سے کچھ ٹھیک نہیں ہو گا مسٹر رضا"  اسکی بات کو بیچ میں ہی کاٹ کر اسکے کوٹ کو کھینچتی وہ چیخی حدید نے اسکی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں کو دیکھا تھا 

"I will never forgive you for this Foolish act of yours Hadid Raza Askari "

اسکے کوٹ کو مایوسی سے چھوڑتی کہتے ہوئے فائل اٹھا کر ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے باہر نکلی تھی وہ تیز قدموں کیساتھ اسکے پیچھے گیا تھا

                                       -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"سنو تمھیں پروفیسر زاویان نے لیکچر ہال میں بلایا ہے" آئیذل پیچھے مڑی تھی اسکی کلاس کی ایک لڑکی اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی

"کیا مجھے اور لیکچر ہال میں کیوں" 

آئیذل کے سوال پر وہ لڑکی جھجھکی تھی

"مجھے نہیں پتا انہوں نے کہا ہے تمھیں اطلاع کر دوں" وہ بےفکری سے کہتے ہوئے چلی گئی تھی

"چلی جاؤ ناں شاید کوئی ضروری کام ہو  " حورم نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا کنفیوز کھڑی آئیذل اسے دیکھ کر سر ہلاتی ہوئی مین ہال سے لیکچر ہال کی طرف چل دی تھی 

"لیکن اس لڑکی  کو بھیج کر کیوں بلایا پہلے تو پروفیسر نے ایسا کبھی نہیں کیا " لیکچر ہال کی بلڈنگ میں اینٹر ہوتے ہوئے وہ  گہرائی سے سوچنے لگی سیڑھیاں چڑھتے وہ لیکچر ہال تک پہنچی تھی لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا

"چچچ دیکھو تو پروفیسر ذی کا نام سن کر کیسے دو منٹ میں آ گئی بغیر عزت النفس کی پرواہ کئے " جانی پہچانی نسوانی آواز پر وہ پیچھے مڑی تھی ہال کے کنارے سے باہر آتی رباب نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا آئیزل کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"تمھیں لگا پروفیسر زاویان نے بلایا ہو گا تمھیں یہاں اکیلے میں اوہ تمھارے تو سنہرے خواب چکنا چور ہو گئے ہوں گے مجھے دیکھ کر نہیں " رباب اسکے سامنے رکتی بھنویں سکیڑ کر بولی تھی

تمھیں لگا پروفیسر زاویان نے بلایا ہو گا تمھیں یہاں اکیلے میں اوہ تمھارے تو سنہرے خواب چکنا چور ہو گئے ہوں گے مجھے دیکھ کر نہیں " رباب اسکے سامنے رکتی بھنویں سکیڑ کر بولی تھی آئیذل نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اسے دیکھا تھا

"اوہ تو تم مجھے ایٹیٹیوڈ دیکھاؤ گی " رباب نے اسکے بازو کو سختی سے پکڑا تھا آئیذل نے اسکے ہاتھ کو اپنے بازو سے اٹھاتے ہوئے سختی سے مروڑا

"اپنی حد سے تجاوز مت کرنا تمیز سے "  

اپنا ہاتھ اس قدر سختی پر جھٹکا جانے پر رباب سلگ پڑی

"سینیئر ہوں تمھاری سمجھتی کیا ہو تم خود کو" وہ بپھر کر اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے بولی آئیذل نے دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے ناگواری سے دیکھا تھا

"سینیئر ہو اس لئے تمیز سے پیش آ رہی ہوں جھوٹ کیوں بولا تم نے " اب کی بار آئیذل کا لہجہ قدرے سخت تھا 

"یہ کہنے کے لئے کہ پروفیسر ذاویان کی اسسٹنٹ کی جاب وقت رہتے چھوڑ دو ورنہ تمھارے لئے اچھا نہیں ہو گا "دھمکی آمیز لہجے کیساتھ اسنے انگلی اٹھاتے ہوئے اسے وارننگ دی تھی

"میرے لئے اچھا برا سوچنے والی تم کون ہوتی ہو نہیں چھوڑتی یہ جاب جاؤ کیا کرو لو گی"  اسکے سامنے کھڑی ہوتی وہ گرج کر بولی ناجانے اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی اس میں آج کہ وہ اپنے لئے سٹینڈ لے رہی تھی

"تم مجھ سے بحث کرو گی " غصے سے بھری رباب نے اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا تھا وہ مسکرائی تھی

" بحث کر تو رہی ہوں ۔۔۔ تم پروفیسر شاہان کی اسسٹنٹ کی جاب سے خوش نہیں ہو تو چلی جاؤ ناں کیونکہ پروفیسر زاویان کی اسسٹنٹ کی جاب تو تمھیں ملنے سے رہی"  کہتے ہوئے آئیذل پیچھے پلٹی تھی غصے سے لال ہوتی رباب کا خود پر قابو رکھنا دشوار ہو چکا تھا وہ غصے سے سلگتی ہوئی اسکے پیچھے گئی تھی

 اطمینان سے سیڑھیاں اترتی آئیذل نے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سن کر گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تھا جب غصے سے سرخ انگارا بنی رباب نے اسے کندھے سے پکڑ کر نیچے دھکا دیا تھا اچانک اس کاروائی کے لئے وہ ہرگز تیار نہیں تھی بیلنس بگڑتے ہی وہ سیڑھیوں سے گری تھی رباب نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو سیڑھیوں سے نیچے فرش پر پیشانی پر ہاتھ رکھے کراہ رہی تھی اسکی پیشانی سے نکلتے سرخ لہو کو دیکھ کر رباب خوف سے آس پاس دیکھتے ہوئے جلدی سے نیچے اترتے ہوئے وہاں سے بھاگی تھی

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

حورم نے اچھنبے سے ذاویان کو شاہان کیساتھ دیکھا تھا 

"اگر پروفیسر زاویان یہاں ہیں تو آئیذل کو کس نے بلایا تھا لیکچر ہال میں ان کا نام لیکر کہیں آئیذل ۔۔۔" خوف سے اسکا چہرہ سفید پڑا تھا 

وہ جلدی سے اٹھی تھی اور انکی جانب بڑھ گئی تھی

"اسلام و علیکم پروفیسر "

شاہان پیچھے مڑا تھا اور ذاویان نے سلام کا جواب دیا تھا

"کیا آپ نے آئیذل کو بلایا تھا میرا مطلب ہے ایک لڑکی آئی تھی آپکا بول کر اسے لے گئی کہ آپ نے بلایا ہے اور آئیذل ابھی تک واپس بھی نہیں آئی " حورم نے جھجھک کر پوچھا تھا شاہان نے سنجیدگی سے ذاویان کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر الجھن اور فکر مندی کے اثرات واضح ہوئے 

"کس طرف گئی ہیں مس آئیذل"  وہ اطمینان سے بولا

"لیکچر ہال کی طرف ،، مجھے چیک کر لینا چاہیے تھا آئی ایم سوری میں ڈائریکٹ آپکے پاس آ گئی میں دیکھتی ہوں" معزرت کرتے ہوئے وہ مین ہال سے باہر چلی گئی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے شاہان کو دیکھا تھا جو فون پر مصروف تھا وہ بھی لیکچر ہال کی طرف بڑھ گیا تھا جب اسے چیخنے کی آواز آئی تھی اسکے قدموں میں تیزی آئی تھی حورم کی چیخ ہال میں بھی سنائی دی تھی کافی سٹوڈینٹس تیزی سے باہر نکلے تھے تیز قدم اٹھاتا ہوا ذاویان سیڑھیوں کے قریب رکتا ساکت رہ گیا تھا وہ لڑکی جو عام نقوش چہرے کیساتھ سرخ جوڑے میں صبح اسکے دل کو لبھا رہی تھی اس وقت اسکا چہرہ سرخ خون سے آلودہ تھا یکلخت ذاویان کا حلق خشک ہوا تھا 

"پروفیسر ۔۔۔"  

آئیذل کے کندھے کو پکڑتی حورم کی رندھی ہوئی آواز اسے حوش و حواس میں لائی تھی وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا تھا

"لمظ"

 کچھ بولنے کی صلاحیت سے محروم وہ اسوقت صرف اسکا نام پکار پایا تھا اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ صدمے سے بےحد بھاری آواز میں گویا ہوا تھا گھبرائی ہوئی حورم نے اسکا چہرہ دیکھا تھا جو آئیذل کو اس حالت میں دیکھ کر لٹھے کی طرح سفید پڑ گیا تھا 

بغیر ایک پل کی دیر کئے اسنے اسے بازوں میں اٹھایا تھا اور باہر نکلا تھا اسوقت پوری یونیورسٹی اسے حیرت و تعجب سے دیکھ رہی تھی جو اس لڑکی کے لئے اس قدر پریشان ہو چکا تھا حورم ڈاکٹر فائزہ کو بلانے گئی تھی 

"شاہان میری گاڑی نکالو ڈاکٹر فائزہ ہینڈل نہیں کر سکتی زخم گہرا ہے ایمرجنسی جانا پڑے گا " وہ سٹوڈینٹس کے کراؤڈ میں شاہان کو دیکھتا اضطرابی لہجے میں بولا شاہان اس سے گاڑی کی چابیاں لیکر گاڑی نکالنے چلا گیا اسکے سر سے مسلسل بہتے خون کو دیکھ کر اسنے پینٹ کی پاکٹ سے اپنا رومال نکال کر اسکے زخم پر رکھا تھا سٹوڈینٹس حیرت و تعجب سے اسکے چہرے پر چھائے اذیت سے بھرپور تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے مگر اسے پرواہ کہاں تھی

"کچھ نہیں ہو گا " وہ سرد آہ بھرتے ہوئے محزونیت سے اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو ہٹاتے ہوئے بولا تھا اور اسے اٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا سٹوڈینٹس سمیت ٹیچنگ  سٹاف اور گیسٹ کی نظروں نے اسکا وہاں تک تعاقب کیا جہاں تک کیا جا سکتا تھا جن میں سہمی ہوئی رباب بھی کھڑی تھی

"تم نے دھکا دیا اسے" اسکی دوست مہوش نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے لیجا کر پوچھا جس ہر اسکا چہرہ زرد پڑا تھا

"میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا غصے میں ہو گیا" رباب نے خوفزدہ نظروں سے آس پاس دیکھتے ہوئے کہہ کر لب بھینچے

"لیکن تم نے دیکھا ناں پروفیسر زاویان اس لڑکی کی کتنی کیئر کرتے ہیں اگر انکو پتا چلا یہ سب تم نے کیا ہے وہ تمھیں صرف سسپینڈ نہیں کریں گے پنشمینٹ بھی دیں گے" مہوش نے گھبرا کر کہا رباب کا باقی گروپ بھی انکے قریب جمع ہوا تھا رباب کا بجھا چہرہ دیکھ کر

"رائٹ پروفیسر کا چہرہ دیکھا تھا تم نے وہ یقیناً اسکی بہت کیئر کرتے ہیں پتا نہیں کیا ہو گا " کرن نے گھبراتے ہوئے کہا رباب نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا

"میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا  وہ خود نیچے گری ہے" رباب نے بےدلی سے کہا جس پر کرن اور مہوش نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

وہ تیز قدموں کیساتھ لفٹ بند ہونے سے پہلے اسکے پیچھے لفٹ میں داخل ہوا تھا لمبے سانس لیتی سیرت نے اسکی موجودگی کو خارج از توجہ کرتے ہوئے رخ بدلا تھا

"گولی چلنے کی آواز اور سسکیوں کی آواز اسکے کانوں میں بجتی چلی گئی"

سیرت نے دونوں ہاتھوں سے سر کو  صدمے سے  پکڑا تھا اور نیچے گرتی چلی گئی 

 وہ ہمدردی سے اسکی جانب بڑھا

اسکے ہاتھ کو جھٹکتی سیرت نے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھیں میچی تھی حدید نے سنجیدگی سے اسکے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا لفٹ کی وال سے لگتی وہ گھٹنوں پر سر رکھتے ہوئے کانپتی چلی گئی 

"دد۔۔دور رہنا ۔۔۔مم۔۔میرے پاس مت آنا" اسے دہشت زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کو چہرے اور آنکھوں پر رکھتے ہوئے سسکیاں لینے لگی سرد آہ بھر کر وہ اسکے قریب نیچے ایک گھٹنا ٹکائے بیٹھا تھا

"مس سیرت میری بات سنیں آپکو پینک اٹیک آ رہا ہے میری بات سنیں سانس لیں ۔۔۔ گہرا سانس لیں " اسکے کانپتے ہاتھوں کو نرمی سے اسکے چہرے سے ہٹاتے ہوئے وہ نرم گوئی سے کام لیتے ہوئے اسے مخاطب کرنے لگا وہ دونوں ہاتھوں کو ہٹاتے ہوئے اسکے خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی

"تت۔۔۔تم۔۔۔ھیں ۔۔۔کک۔۔کچھ نہیں چاہیے ۔۔۔مم۔۔۔جھ۔۔سے؟؟" 

وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی اسکے پرس سے اسکا انہیلر نکالتا حدید ساکت ہوا تھا

"تت۔۔۔تم جھوٹ۔۔بول۔۔رہے۔۔۔ہو۔۔۔تم۔۔۔ھیں۔۔۔بھی۔۔۔مجھ۔۔۔سے۔۔۔کچھ۔۔۔چاہیے" 

وہ نظروں میں ڈھیروں اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے بولی حدید نے تاسف سے اسکی یہ حالت دیکھی تھی جو یقیناً اسکی وجہ سے ہی ہوئی تھی

"اس میں سانس لیں مس سیرت"

"ن۔۔نہ۔۔یں"

اسکے ہاتھ کو جھٹکتی وہ لمبے سانس لیتے ہوئے تڑپ کر بولی

"مجھے معاف کر دیں مس سیرت" وہ متانت ذدہ لہجے میں بولا  خوف سے کانپتی سیرت نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا

"تت۔۔تم معافی مانگ۔۔۔رہ۔۔۔ رہے ہو"  اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولی جیسے اسے معافی کی امید نہیں تھی

"میں معافی مانگ رہا ہوں آپ پلیز اس میں سانس لیں" اسکی طرف انہیلر بڑھاتے ہوئے وہ ہمدردی سے بولا سیرت نے لب بھینچ کر انہیلر کو دیکھا تھا 

"تت۔۔تم کان پکڑو گے؟؟" 

اسکی بات سن کر حدید نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسوقت ہوش میں نہیں تھی اور بغیر ایک پل دیر کئے سرعت سے کان پکڑے تھے اگر اسکے امپلائی یا اسکے  کوورکرز اسے اس حالت میں دیکھ لیتے تو یقیناً صدمے اور حیرت سے بےہوش ہو جاتے کیونکہ وہ کبھی کسی سے معافی نہیں مانگ سکتا تھا 

 سیرت نے ڈرتے ہوئے اسکے ہاتھ سے انہیلر لیا تھا حدید نے افسوس سے اسے دیکھا جو اس میں سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا اسکے ہاتھ سے نرمی سے انہیلر لیتے ہوئے کینسٹر پر ہاتھ رکھ کر انہیلر اسکے لبوں سے لگایا تھا 

"آرام سے" 

اسے گھبراتے ہوئے دیکھ کر وہ نرمی سے بولا سیرت نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیلر سے گہرا سانس لیا تھا تاسف سے اسے گہرے سانس بھرتا دیکھ کر وہ ذندگی میں پہلی بار خود سے بےحد شرمندہ ہوا تھا  ایک لڑکی جو باہر سے اس قدر کٹھور اور سخت تھی وہ کس حالت سے گزر رہی تھی شاید یہی سوچ کر وہ ندامت سے خود کو کوس رہا تھا لفٹ رکنے کا اندازہ اسے ابھی تک نہیں ہوا تھا جو کچھ دیر رکنے کے بعد چل پڑی تھی

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کیا آپ نے آئیذل کو بلایا تھا میرا مطلب ہے ایک لڑکی آئی تھی یہ بول کر اسے لے گئی کہ آپ نے بلایا ہے اور آئیذل ابھی تک واپس بھی نہیں آئی "

ہاسپیٹل کی گیلری میں وہ سپاٹ سے انداز میں ٹہل رہا تھا اسکا ذہن گہری کشمکش میں تھا 

"کچھ نہیں ہو گا زخم معمولی ہے دو تین سٹیچز لگیں گے اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو" ویٹنگ چیئر پر بیٹھے شاہان نے سنجیدگی سے کہا

"جسٹ شٹ اپ ناٹ آ سنگل ورڈ رائٹ ناؤ شاہان"

 اسے درشتگی سے دیکھتا ہوا وہ ہیبت ناک مگر دبے لہجے میں غرایا شاہان نے گھبرا کر اسے دیکھتے ہوئے سر ہلایا تھا

دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر وہ سرعت سے باہر آتے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا

"تین سٹیچز لگے ہیں کافی خون بہہ چکا ہے جسکی وجہ سے ویک نیس ہو گی سکون کا انجیکشن دے دیا ہے آرام کریں گی تو جلدی بہتر ہو جائیں گی" ڈاکٹر نے تسلی بخش لہجے میں کہتے ہوئے اسے مطمئن کیا اور چلے گئے وہ سنجیدگی سے شاہان کو دیکھتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا

"ناجانے کیا چل رہا ہے  " شاہان نے فون پاکٹ میں ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور اٹھ کر اسکی صحت دریافت کرنے اندر چلا گیا 

ان دونوں کو دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھی تھی 

"اب کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ" شاہان نے تاسف سے اسکی پیشانی پر بندھی سفید پٹی دیکھ کر استفسار کیا 

"ہم ٹھیک ہیں پروفیسر " ان دونوں کو دیکھ کر وہ شرمندہ سی ہوئی تھی جو فکرمندی سے اسے دیکھ رہے تھے شاہنا کے فون کی رنگ ٹون بجی تھی

"میں آتا ہوں ڈین صاحب کال کر رہے ہیں" شاہان نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا آئیذل نے فطری نظروں سے اسے دیکھا جو بےحد سنجیدہ لگ رہا تھا

"پروفیسر" 

ذاویان نے سنجیدگی سے سر اٹھایا تھا آئیذل نے اسکی سفاکیت سے بھرپور آنکھیں دیکھی تھی جن میں ایک طوفان سب نیست و نابود کرنے کے بعد دھیرے دھیرے تھم رہا تھا 

" How are you feeling now?"

اسکا بھاری لہجہ اور  مختصر الفاظ کی پختگی سے وہ جان گئی تھی کہ وہ اسوقت تک طیش میں تھا

"I... I'm fine" 

وہ تذبذب لہجے میں بولی سر کو خم دیتے ہوئے سنگین نظروں سے اسے دیکھا جو اسکی سنہری آنکھوں سے آنکھیں ملنے پر دو دلی سے نظریں چرا گئی وہ سنجیدگی سے چلتے ہوئے اسکے مقابل ہوا تھا آئیذل نے اپنے خشک ہونٹوں کو جبراً آپس میں پیوست کیا تھا  اسکے اگلے عمل پر اسکا حلق خشک ہوا تھا جو اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے سختی سے اپنے چوڑے سینے میں بھینچ چکا تھا آئیذل کا دل دھک سےرہ گیا تھا وہ دفعتاً گہرا سانس لیتے ہوئے اسکے کوٹ کو مٹھی میں پکڑتے ہوئے آنکھیں میچ گئی 

 صرف روحانی سکون تھا اسکی ہلکی مہک نے اسکے شل ذہن کو طمانیت بخشی تھی اسکے کوٹ کو انگلیوں میں مزید سختی سے بھینچتی وہ گہرے سانس لیتے ہوئے اسکی ہلکی خوشبو سے اپنے روم روم کو مہکا رہی تھی  اس بےحس دنیا میں وہ سکونِ قلب تھا

"Baby Girl... You are the only source of comfort for me ..You are the only soothing medicine of my restless heart ۔۔۔Without you I am a beast devoid of all emotions "

("بےبی گرل... تم میرے لیے سکون کا واحد ذریعہ ہو.. تم ہی میرے بے چین دل کی تسکین کی دوا ہو۔۔۔ تمہارے بغیر میں ہر قسم کے جذبات سے عاری ایک حیوان ہوں" )

اسکی حدت سے ہوتی بھاری آواز نے آئیذل کی سانسوں کی روانی کو تیز کیا تھا وہ فی الفور آنکھیں وا کرتے ہوئے گھبرا گئی تھی اسکی بےحد بھاری آواز اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ جذباتوں کی آخری حدود میں داخل ہوا چکا تھا اسکے ریشمی بالوں میں انگلیاں الجھائے وہ اسکا چہرہ اوپر اٹھا کر اسکے خشک گداز ہونٹوں کو سرور آلود آنکھوں سے دیکھ رہا تھا

" I was afraid that if something happened to you"

(مجھے ڈر تھا کہ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو)

اسکے چہرے پر جھکتا وہ جھلسا دینے والے لہجے میں فکرمندی سے بولا آئیذل نے لب وا کرتے ہوئے کچھ کہنا چاہا مگر ہمت نہیں ہوئی تھی جب اسکی ذو معنی نظروں کو اپنے لبوں پر ٹھہرا دیکھا تھا

"You're the only reason I'm alive, even a scratch on you makes my blood boil" 

"(میرے زندہ رہنے کی وجہ صرف تم ہو، تم پر ایک خراش بھی میرا خون کھول دیتی ہے")

اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ اپنے چہرے کے مقابل کرتے ہوئے درشتگی سے بولا اسکے ادا کئے گئے الفاظ آئیذل کے دل پر گہرا اثر چھوڑ گئے تھے

You are mine and mine only I did not give myself the right to hurt you, so how dare anyone else hurt you?I will annihilate every human being who dares to look at you with an evil eye"

(تم میری ہو اور صرف میری ہو میں نے خود کو تمہیں دکھ دینے کا حق نہیں دیا تو پھر کسی اور کی جرات کیسے ہوئی تمہیں تکلیف دی میں ہر اس انسان کو نیست و نابود کردوں گا جو تمہیں بری نظر سے دیکھنے کی جرات کرے گا)

"اسکے چہرے کو بےحد قریب کرتے ہوئے وہ اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھتا بربریت سے بولا وہ خاموش تماشائی بنی اسکی ہلکی سنہری  آنکھوں میں اپنے لئے اسکے عشق کی حدود  تلاش رہی تھی جن کا تعین وہ اب تک نہیں کر پائی تھی کیونکہ اسکے عشق کی کائی ئد نہیں تھی 

" You are my madness, I have searched for you like a madman for fifteen years And now you have met me and people want to separate you from me Only I have right on your breath, on your soul, on your existence You're All mine"

(تم میرا پاگل پن ہو، میں نے پندرہ سال کسی دیوانے کی طرح تمہیں ڈھونڈا ہے اور اب تم مجھ سے مل چکی ہو اور لوگ تمہیں مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہیں، بس میرا حق ہے تمہاری سانسوں پر، تمہاری روح پر، تمہارے وجود پر تم پوری میری ہو)

 اسکے لرزتے لبوں کو دیکھتا وہ دیوانگی سے گویا ہوا

 باہر کا ٹیمپریچر اسوقت بےحد کم تھا مگر ان دونوں کی پیشانیاں عرق آلود تھی  جو شاید ایک دوسرے کی قربت کا اثر تھا آج وہ اسکے عشق کی شدت سے آشنا ہو چکی تھی جو دیوانگی سے بھی بہت آگے نکل چکا تھا اسکے عشق میں۔۔۔  آئیذل نے بھاری ہوتی لرزتی پلکوں سے اپنی بنفشی خمار میں ڈوبی آنکھوں کو ڈھانپا تھا اسے اپنے لبوں پر جھکتا دیکھ کر

دروازے کے قریب آہٹ سن کر آئیذل نے گھبرا کر آنکھیں وا کی

"کوئی ہے" 

"بےحد دھیمی سرگوشی"

 کچھ اور کہنے کا ارداہ اسنے تب ترک کیا جب اسنے اپنے خشک لبوں پر ہلکا مہک دار نرم لمس محسوس کیا 

"I don't care "

بےحد بھاری آواز میں کی گئی بےلحاظ سرگوشی!!

اپنے ریشمی بالوں میں پھنستی ہوئی ذاویان کی سرد انگلیوں کے لمس نے اسے عاجز کیا تھا

"یہ۔۔یہ غلط ہے" 

اپنے ہونٹوں پر بڑھتے ہلکے دباؤ پر وہ آوارگی سے بولی 

"لیکن اس غلط میں بےحد سکون ہے لمظ"

بھاری سرگوشی کرتے ہوئے وہ بےحد متانت سے گویا ہوا اسکے لبوں کی نزاکت نے اور دہکتے لہجے نے آئیذل کی دھڑکن تیز کر دی تھی اسکے دوسرے سرد ہاتھ کو اپنے سلگتے گال پر رینگتا محسوس کر کے وہ کانپ گئی

"Tu es ma dépendance"(تم میرا نشہ ہو)

اسکی کسی اور زبان میں کی گئی خمار سے بھرپور سرگوشی وہ سمجھ نہیں پائی تھی مگر اسکا لہجہ اسکی روح تک کو سرشار کر گیا تھا کچھ کہنے کی غرض سے اسنے لب وا کئے تھے

 وہ اسکے تھرتھراتے لبوں پر  مزید جھکا 

"ذاویان"

اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسکی بڑھتی جسارتوں کو روکنے کی غرض سی وہ دھیمی آواز میں بولی مگر اسکی سرگوشی نے اس آگ کو مزید بھڑکایا تھا

وہ ایک پل کو ساکت ہوا تھا اسکے لبوں سے خماری میں پھسلے اپنے نام کو سن کر اسنے گمبھیر نظروں سے اسے دیکھا تھا جو آنکھیں میچے کانپ رہی تھی گیلری میں قدموں کی آہٹ سن کر اسنے سرد آہ بھری تھی

"F**** You Shahan*

دبے لہجے میں غراتے ہوئے وہ شاہان کو الٹے سیدھے القابات سے نوازتے ہوئے آئیذل سے دور ہٹا تھا اسکے یوں اچانک دور ہونے پر آئیذل نے پس و پیش نظروں سے اسے دیکھا تھا جو ضبط کئے پیچھے ہٹا تھا اسے بے قراری سے دیکھتے ہوئے

"کیا چلیں ڈین صاحب پریشان ہو رہے ہیں" شاہان نے اندر آتے ہوئے استہزائیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا

"جی ہم چل سکتے ہیں"

 وہ اٹھتے ہوئے اسکی فکرمند نظروں کو خود پر محسوس کرتے ہوئے عام سے لہجے میں بغیر اسے دیکھ کر اسے مطمئن کرتے ہوئے بولی شاہان سر ہلاتے ہوئے آگے چل دیا تھا آئیذل لب بھینچے دھیمے قدموں کیساتھ اسکے پیچھے چل رہی تھی اور وہ گہری سنجیدگی سے بےحد دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے اسکے پیچھے قریب رہ کر چل رہا تھا تاکہ اسکے قریب رہ کر اگر وہ گرنے بھی لگے تو اسے سہارا دے سکے

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"مجھے نہیں کرنی اس لڑکی سے شادی "

 عائزہ بیگم نے چونک کر توصیف کو دیکھا تھا

"یہ دیکھ رہی ہو اماں یہ اس لڑکی کے اس منہ بولے شوہر نے کیا ہے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کروں گا اور وہ پاگل ہو گیا تھا  " اپنے سر پر بندھی پٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  توصیف سلگ کر بولا 

"اور اس گھر کے لئے آئے دن میں اس سے مار نہیں کھا سکتا میرے لئے کوئی اور لڑکی ڈھونڈ لو لیکن اس مصیبت سے نہیں " 

"تو ڈر گیا اس سے ؟؟" 

عائزہ بیگم نے دانت پیسے 

"خدا قسم اگر آپ نے مجھے اس لڑکی سے شادی کرنے کا کہا ناں میں خود اپنا سر دیوار میں ماروں گا اس سے پہلے وہ آ کر میری قبر کھودے "توصیف نے تنک کر کہا 

"اللہ اللہ کیسی باتیں کر رہے ہو"

"ٹھیک کہہ رہا ہے لالچ میں آکر تم اپنے بیٹے کو مت کھو بیٹھنا پہلی اور آخری بار تم نے توصیف اور آئیذل کے نکاح کی بات چھیڑی ہے آج کے بعد مت کرنا ہم تو چاہتے ہیں وہ آج ہی اس لڑکی کو لیکر چلا جائے ہماری بلا سے جتنا اچھا وہ دیکھتا ہے اندر سے اتنا ہی تباہ کن ہے اگر جیل میں ڈی آئی جی صاحب نے روکتے تو وہ تمھارے اس بیٹے کو مار ڈالتا" ممتاز صاحب نے کوفت سے کہا

 " ہائے اللہ۔۔۔ لیکن گھر کا کیا ہو گا ہمارا حق بنتا ہے گھر پر " 

عائزہ بیگم نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا توصیف نے لمبا سانس لیا تھا 

"گھر کے پیپر کل تک تیار ہو جائیں گے آصف صاحب اسے رخصت کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں ہم گھر اپنے نام کروا لیں گے آرام سے تب تک" ممتاز صاحب نے داڑھی کھجا کر کہا

"منہوس کی قسمت تو دیکھو میں بھی ریحم کی اونچے گھر میں ہی شادی کروں گی ایک دن " عائزہ بیگم نے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے سوچا ممتاز صاحب نے افسوس سے سر جھٹکا تھا 

                                        -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"کیا ہوا ہے سیرت" 

پرس بیڈ پر پھینکتے ہوئے وہ تیزی سے واش روم کی طرف بڑھی تھی صوفے پر بیٹھی علیشہ حیرت سے دیکھتے ہوئے اسکے پیچھے اٹھ کر گئی تھی جہاں وہ سنک پر کھڑی چہرے کو بےدردی سے واش کر رہی تھی

"سیرت کیا ہوا میری جان" 

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے علیشہ نے فکرمندی سے پوچھا سیرت نے اسکا ہاتھ بےحسی سے جھٹکا تھا

"کچھ نہیں ہوا"  خشک لہجے میں کہتے ہوئے وہ اپنے فیس کو ٹاول سے صاف کرتے ہوئے باہر نکلی تھی علیشہ بھی اسکے پیچھے باہر آئی تھی

"تم تو کانفرنس میٹنگ میں گئی تھی کیا حدید نے کچھ کہا دیکھو میری طرف اور بتاؤ" علیشہ نے اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا 

"مجھے لفٹ میں پینک اٹیک ہوا تھا "

"تم ۔۔تم ٹھیک ہو ناں اب۔۔ یہاں بیٹھو۔۔۔ پانی لیکر آتی ہوں میں" اسکے کندھے کو پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھاتی علیشہ نے سٹ پٹا کر کہا سیرت نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا تھا

"میں ٹھیک ہوں بس برا لگ رہا ہے اسنے میری مدد کی اور مجھے اسکی مدد کی ضرورت نہیں تھی میں کبھی نہیں چاہتی تھی اس جیسا شخص مجھ پر ترس کھائے مجھے کوفت ہوتی ہے جب کوئی مجھے کمزور سمجھ کر مجھے افسوس کی نظر سے دیکھتا ہے حدید رضا عسکری جیسے شخص کی ہمدردیاں سمیٹنے سے بہتر تھا میں مر جاتی وہیں پر " سیرت نے اندوہگیں لہجے میں کہتے ہوئے سر جھٹکا تھا

 "اتنی نفرت کیوں کرتی ہو اس سے تمھیں پتا ہے کل رات اگر وہ ناں ہوتا تو میں یہاں اکڑ کر تمھارے سامنے ناں بیٹھی ہوتی" علیشہ کی بات سن کر سیرت نے اسے تاسف سے دیکھا علیشہ اسے کل رات کا سارا واقعہ سنانے لگی سیرت نے پب بھینچ کر اسے دیکھا تھا

اپنے فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ سرعت سے اٹھ کر بیڈ سے پرس اٹھاتے ہوئے اس میں سے فون نکال کر سکرین پر چمکتا نیا نمبر دیکھ کر چونک گئی تھی

"کیا ہوا کون ہے " علیشہ نے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

"پتا نہیں " کہہ کر اسنے کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگایا تھا

اپنے فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ سرعت سے اٹھ کر بیڈ سے پرس اٹھاتے ہوئے اس میں سے فون نکال کر سکرین پر چمکتا نیا نمبر دیکھ کر چونک گئی تھی

"کیا ہوا کون ہے " علیشہ نے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

"پتا نہیں " کہہ کر کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون اسپیکر پر ڈالنا نہیں بھولی تھی

"اسلام و علیکم"

دوسری جانب مکمل خاموشی تھی

"ہیلووو" 

 سیرت پیشانی پر بل ڈالے دوبارہ گویا ہوئی

"مس سیرت فون اسپیکر سے ہٹائیں "

دوسری جانب سے مردانہ بھاری آواز سنائی دی تھی

جہاں اسکی بات پر سیرت چونکی وہاں علیشہ نے تعجب سے آدھا منہ کھولا تھا بھلا اسے کیسا پتا تھا کہ سیرت نے فون اسپیکر پر ڈالا تھا؟؟

"آپکو جو بھی کہنا ہے آپ ایسے ہی کہہ دیں مسٹر حدید رضا" سیرت کے متنفر لہجے پر اپنے آفس میں بلیک ریوالونگ چیئر پر براجمان وہ سنجیدگی سے لمبا سانس ہوا کے سپرد کر گیا تھا

"یقیناً جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں آپ نے اپنی فرینڈ کو نہیں بتایا ہو گا ناں ہی بتانا آپ مناسب سمجھیں گی اسکے باوجود اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں آپکی فرینڈ کے سامنے تذکرہ کروں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں" وہ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے  استحکامیہ لہجے میں بولا سیرت نے خلش نظروں سے علیشہ کو دیکھا جو کبھی فون کو گھورتی تو کبھی سیرت کو اسکے یوں دیکھنے پر وہ "اوکے سوری" کا اشارہ کرتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی تھی

"بولیں مسٹر حدید رضا" فون اسپیکر سے ہٹا کر اسنے کان سے لگایا تھا اسکی نرم مگر تیز آواز اسے ایسے سنائی دی جیسے وہ اسکے مقابل ہی موجود تھی

"کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتی" سیرت نے اسکی بات سن کر بھنویں سکیڑی تھی 

"آپ نے جو کچھ کیا اسکے بعد میں آپکو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کروں گی " وہ بھڑک اٹھی اس رات کا واقع یاد کرتے ہوئے حدید کے لبوں پر شریر متبسم بکھرا تھا وہ چیئر سے اٹھ کر فون کان سےگائے گلاس ونڈو سے سفید ریشمی پردے ہٹاتے ہوئے گہری جاذبیت بھری نظروں سے باہر آسمان پر امنڈتی گھنگھور گھٹائیں دیکھتا رہ گیا

"میں آپکی معافی طلب کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں اینیتھنگ مس سیرت" وہ کچھ دیر بعد گہری سنجیدگی سے بولا سیرت نے لب بھینچے تھے

"مس سیرت آپ اتنی سیریئس  اچھی نہیں لگتی " اسکی کچھ دیر پہلے کہی گئی بات یاد آنے  پر ایک پراسرار مسکراہٹ  سیرت کے لبوں پر پھیل گئی یہ بدلہ لینے کا سب سے مناسب وقت تھا

"ٹھیک ہے آپ  پہلے تو کلین شیو کر لیں مجھے آپکی بیئرڈ بالکل اچھی نہیں لگتی اور آپ اپنا لوک بھی بدل لیں مجھے آپکی پرسنیلٹی بالکل متاثر نہیں کرتی اور آپ اپنا پرفیوم بھی چینج کریں مجھے اسکی مہک سے سفوکیشن ہوتی ہے " کڑواہٹ سے کہتے ہوئے اسنے جل کر فون بند کیا تھا حدید اسکے تیزی سے ادا کئے گئے ایک ایک لفظ پر غور کرنے کے بعد حیرت و استعجاب سے پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلا کر رہ گیا تھا

"کیا ہوا" 

اسکا بزنس بارٹنر صفی اندر داخل ہوتے ہوئے اسے یوں متانت سے پیشانی سہلاتا ہوا دیکھ کر استفسار کرنے لگا

"ایک بات بتاؤ آج کل کلین شیو کا ٹرینڈ چل رہا ہے؟؟؟" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اپنا لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے بولا صفی نے چونک کر اسے دیکھا تھا اسکے اچانک ایسے سوال پر صفی چونک ہی تو پڑا تھا

"نہیں تو کلین شیو سے سخت الجھن ہوتی ہے مجھے تو بہت ادھوری فیلنگ آتی ہے" اپنی ہلکی بیئرڈ پر ہاتھ پھیرتے صفی نے سکون سے کہا جیسے وہ اپنی بیئرڈ لوک سے مطمئن اور خوش تھا 

حدید نے اسکی اس حرکت پر طنزیہ انداز میں سر جھٹکا تھا

"تم کیوں پوچھ رہے ہو ایک منٹ تم کہیں کلین شیو تو نہیں کرنے لگے" صفی نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا لیپٹاپ پر مہارت سے چلتی اسکی رعنا انگلیاں ساکت ہوئی اسنے تاسف سے ایک آئی برو اٹھا کر صفی کو دیکھا تھا

"دیکھو مجھے کوئی شوق نہیں تمھاری تعریف کرنے کا ناں ہی میں نے آج تک کی ہے لیکن تم ایسے بیئرڈ میں بہت اٹریکٹیو لگتے ہو " صفی کی بات پر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے دوبارہ لیپٹاپ پر جھکتا ہوا سنجیدگی سے ٹائپ کرنے لگا

"کسی کو میرا بیئرڈ لوک پسند نہیں ہے صف" وہ لیپٹاپ بند کرتے ہوئے سر اٹھا کر بولا

" اسوقت سوشل میڈیا پر تم ٹرینڈنگ فیشن انفلیواینسر ہو لوگ تمھارے سٹائل سے متاثر ہوتے ہیں اس لئے جو کرنا سوچ سمجھ کر کرنا اتنی اچھی بیئرڈ تو ہے کس کو تکلیف ہو رہی ہے اس سے" صفی نے تاسف سے سر جھٹکا تھا اسکے لبوں پر ایک ذو معنی مسکراہٹ نے رقص کیا تھا تکلیف تو واقعی تھی کسی کو !!

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

وہ بضد تھی کہ اسے گھر نہیں جانا تھا بےحد بحث کے بعد وہ آخر کار اپنی ضد پر یونیورسٹی ہی آئی تھی ذاویان کافی ناراض لگ رہا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا وہ گھر پر آرام کرے لیکن ناجانے کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی آنے پر ہی زور دے رہی تھی شاہان یونیورسٹی کے کسی کام سے نکل گیا تھا وہ نظریں جھکائے اسکے ساتھ دھیمے قدموں کیساتھ ٹہل رہی تھی

"لمظ میں چاہتا ہوں آپ سٹرونگ بنیں "

اسکے یوں اچانک بول پڑنے پر آئیذل نے اسے دیکھا تھا جس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی

"اپنے رائٹ کے لئے لڑنا سیکھیں کسی کو بھی خود کو تکلیف پہنچانے کا موقع دینا نادانی ہے اس لڑکی کو میں کسی صورت معاف نہیں کروں گا لیکن اگر آپ اسوقت اپنے حق کے لئے لڑنا نہیں سیکھیں گی تو میرے ساتھ کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا آپ کمزور نہیں ہیں میں جانتا ہوں لیکن آپ ہچکچاتی ہیں ۔۔ قدم بڑھانے سے پہلے ہی آپ واپس پلٹ جانا چاہتی ہیں ۔۔ جب کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو آپ اسے پلٹ کر جواب نہیں دیتی بلکہ کہی گئی باتوں کو دل سے لگا کر خود کو تکلیف دیتی ہیں۔۔ جب تک آپ پانی میں نہیں اتریں گی آپکو پانی کی گہرائی کا اندازہ کیسے ہو گا" وہ سنجیدگی سے چلتے ہوئے غیر مرئی نقطے کو دیکھتا بولا آئیذل نے گہری نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں پروفیسر لیکن اب تک میں جن حالات سے گزری ہوں انہوں نے مجھے برداشت کرنا ہی سیکھایا ہے آپ اب تو میرے ساتھ ہیں لیکن پہلے نہیں تھے میں اکیلی تھی مجھے بچپن میں لوگوں کی باتوں کو سننا پڑا ان باتوں کو جنہیں ایک پانچ سالہ لڑکی سمجھنے سے بھی قاصر تھی اور پلٹ کر جواب دینا بھی نہیں جانتی تھی کیونکہ اسوقت میں اکیلی تھی بالکل اکیلی " وہ نظریں جھکائے دھیمے لہجے میں بولی اسکے ساتھ چلتے ذاویان نے سرد آہ بھری تھی

"لیکن اب نہیں" ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں سورج کی کرنیں سنہری چمک بکھیر رہی تھی 

"لیکن اب میں اکیلی نہیں " 

وہ نظریں جھکائے کہتی ہوئی کچھ فاصلے پر کھڑی حورم کی طرف بڑھ گئی تھی ذاویان نے شائستہ نظروں سے اسے حورم کو مسکراتے ہوئے گلے لگاتے ہوئے دیکھا تھا 

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

"نازش صاحبہ ایک کپ چائے بنا دیجیئے بڑا سر درد ہے زوہیب تو بڑی تعریفیں کرتا ہے کہ آپکے ہاتھ کی چائے سے ساری تھکن دور ہو جاتی ہے " اشفاق صاحب صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے شوخی سے بولے زوہیب صاحب نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تھا نازش بیگم سر ہلاتے ہوئے کچن میں چائے بنانے چلی گئی تھی  عاطف صاحب فون کوٹ کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے زوہیب صاحب کے برابر صوفے ہر براجمان ہوئے تھے

"کس کا فون تھا " اشفاق صاحب نے دلچسپی سے پوچھا 

"ارے عسکری صاحب کا فون تھا آج آفس میں ملاقات نہیں ہوئی اس لئے مزاج دریافت کر رہے تھے" عاطف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا نازش بیگم نے چائے کی ٹرے میز پر رکھی تھے 

"بہن تکلف کی کیا ضرورت تھی  ہم آفس سے چائے تو پی کر آئے تھے " عاطف صاحب نے خوش مزاجی سے کہا 

"اس میں تکلف کی کیا بات ہے بھائی صاحب" نازش بیگم نے چائے کا کپ اٹھا کر زوہیب صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا عاطف صاحب نے سنجیدگی سے کپ اٹھایا تھا 

"بچے نظر نہیں آ رہے کہاں ہیں" عاطف صاحب نے آس پاس ادھورا پن محسوس کیا تھا

"گارڈن میں کھیل رہے ہوں گے لمظ کو پھولوں کا گلدستہ بنانا تھا ذاویان کیساتھ ہی ہو گی" نازش بیگم نے پُرمسرت لہجے میں کہا جس پر عاطف صاحب  سر ہلاتے ہوئے مسکرائے تھے کیونکہ جب بھی وہ ذاویان کا ذکر کرتی تھیں انکا چہرہ چمک اٹھتا تھا وہ ذاویان کو لمظ جتنی محبت دیتی تھی انکے چمکتے چہرے کو اشفاق صاحب نے گہری سوقیت بھری نظروں سے دیکھا تھا اور کچھ پل دیکھتے ہی رہ گئے تھے

" مجھ کو وہ والا پھول بھی چاہیے " پھولوں کا گلدستہ مظبوطی سے پکڑتے ہوئے کیاری میں لگے سب سے بیچ والے پھول کی طرف اشارہ کیا جس پر ذاویان نے آنکھیں سکیڑی تھی

"وہ بہت دور ہے لمظ " مٹی والے ہاتھ جھاڑتے ہوئے وہ نرم لہجے میں بولا مگر اسکی بات لمظ کو زہر سے بھی کڑوی لگی

"جاؤ توڑ کر آؤ ورنہ نہیں بولوں گی"  بڑی بڑی بنفشی آنکھوں کو مزید بڑا کرتے ہوئے اسنے سرخ پھول کی طرح اشارہ کیا تھا ذاویان سرد آہ بھرتے ہوئے اسے دیکھ کر احتیاط سے کانٹوں کے بیچ لگا وہ پھول تو توڑ لایا مگر اسکے ہاتھ میں کانٹے لگ گئے تھے

" کیا تمھیں پین ہو رہا ہے" آئیذل نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا اسکی بنفشی آنکھوں میں اپنے لئے فکر کے آثار دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے سر کو ناں میں جنبش دے گیا

"اب ٹھیک ہو جائے گا"

اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے اسنے شہادت کی انگلی سے رستے ہوئے خون کو دیکھا اور پھر اسے چہرے کو اور مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے کہا تھا وہ دلکش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا گیا تھا

"چلو مماں سے کہتے ہیں وہ Ointment لگا دیں " اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ جلدی سے لاؤنج کی طرف بڑھ گئی تھی زوہیب صاحب دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر عاطف صاحب کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے گارڈن کی طرف بڑھ رہے تھے 

"بھائی صاحب آپ یہاں" اشفاق صاحب کو کچن میں داخل ہوتے دیکھ کر نازش بیگم نے تعجب سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا

"نازش میری بات سنو "

  اشفاق صاحب انکے مقابل رکتے ہوئے انکا ہاتھ تھام گئے تھے نازش بیگم نے بدحواس ہو کر اپنا ہاتھ کھینچا تھا اور انہیں متعجب نظروں سے دیکھا تھا

"میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے میری بات"

چٹاخ!!

اشفاق صاحب کا چہرہ فق ہوا تھا

"شرم نہیں آئی آپکو ایسے الفاظ زبان پر لاتے ہوئے " 

"ناز"

"خبردار جو آپ نے اس نام سے ہمیں پکارا ہمارے گھر سے اسی وقت نکل جائیں " کانپتے ہوئے ہاتھ سے باہر کی جانب اشارہ کرتی نازش بیگم نے آتشی لہجے میں کہا اشفاق صاحب گال سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے انہیں متنفر نظروں سے دیکھتے ہوئے مٹھیاں ضبط کے باعث بھینچے باہر نکلے تھے

"مماں ذی کے ہاتھ پر کانٹا لگا ہے " اسکا ہاتھ پکڑے وہ کچن میں داخل ہوئی تھی ذاویان نے سرد نظروں سے باہر جاتے اشفاق صاحب کو دیکھا تھا نازش بیگم نے دوپٹے سے پسینے میں تر چہرہ صاف کیا تھا

"بیٹا دھیان سے کھیلنا چاہیے تھا دیکھاؤ ذیادہ تو نہیں لگا" نازش بیگم نے شفقت بھری نظروں سے اسکا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا ذاویان نے تخمینہ نظروں سے انہیں دیکھا تھا جن کا چہرہ ماند پڑا ہوا تھا

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗿𝗲𝘀𝗲𝗻𝘁)-

"آئیذل میری بچی ہے " زوہیب صاحب نے لیپ ٹاپ پر نم آنکھوں سے اسکی پروفائل دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تھا 

لیپٹاپ پر یونیورسٹی کی سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرتے ہوئے انہوں نے رباب کو آئیذل کو دھکا دیتے ہوئے بھی دیکھا تھا 

کرختگی سے لیپٹاپ بند کرتے ہوئے زوہیب صاحب نے پیون کو بلایا تھا اور رباب کو لیکر آنے کا کہا تھا کچھ دیر بعد وہ ڈری سہمی ڈین آفس میں انگلیاں چٹخاتے ہوئے داخل ہوئی تھی زوہیب صاحب نے خصومت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا

"مس رباب چوہان آپ کو اس یونیورسٹی سے معطل کیا جا رہا ہے"

رباب نے بےیقینی سے زوہیب صاحب کی جانب دیکھا تھا جن کا چہرہ طیش سے سرخ پڑ رہا تھا

"آپ اس یونیورسٹی کے ہر اصول سے بخوبی واقف تھی ان فیکٹ یو آر سینیئر، اس کے بعد بھی تم نے ایسی گھٹیا حرکت کرنے کی کوشش کی، تم نے میری بیٹی کو نقصان پہنچانے کا سوچا بھی کیسے"

زوہیب صاحب کے گرجدار لہجے پر رباب نے اچنبھے سے انہیں دیکھا تھا جو آئیذل کو اپنی بیٹی کہہ رہے تھے

"میں... میں معافی چاہتی ہوں۔ میں پوری یونیورسٹی کے سامنے آئیذل سے معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ ڈین براہ کرم مجھے سسپینڈ مت کریں میں نے بڑی محنت سے اپنا CGPA برقرار رکھا ہے، میں سال کے وسط میں کہیں اور داخلہ بھی نہیں لے سکتی۔ اس سے میرا بہت وقت ضائع ہو گا پلیز ڈین مجھے سسپینڈ نہ کریں"

روتے ہوئے رباب نے التجائیہ لہجے میں کہا مگر اسکی ایک بات کا بھی زوہیب صاحب پر اثر نہیں ہوا تھا

"یونیورسٹی چھوڑ کر چلی جاؤ ابھی، تم یہاں قابل قبول نہیں ہو"

درشتگی سے کہتے ہوئے زوہیب صاحب نے اسے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا تھا رباب کی آنکھیں آنسوں سے تر تھی وہ سر جھکائے جانے کے لئے پیچھے مڑی تھی

"میں چاہتی ہوں کہ رباب اس یونیورسٹی میں رہے"

جہاں زوہیب صاحب آئیذل کو دیکھتے ساکت ہوئے وہاں اسکی بات سن کر رباب نے سر اٹھایا تھا

"اس لڑکی نے تمہیں مارنے کی کوشش کی میری بیٹی اور تم چاہتی ہو کہ وہ اس یونیورسٹی میں رہے؟"

زوہیب صاحب نے تشویش سے استفسار کیا آئیذل نے تاسف سے پہلے زوہیب صاحب کو دیکھا تھا جنہوں نے اسے بیٹی کہا تھا اور پھر رباب کو دیکھا تھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی 

"جی، میں چاہتی ہوں کہ یہ لڑکی یہیں رہے"

آئیذل رباب کے مقابل رکتی اسکے زرد پڑتے چہرے پر نظریں جمائے بولی زوہیب صاحب گہری سوچ میں پڑے تھے

"کیوں کر رہی ہو تم ایسا"

 رباب نے دھیمے لہجے میں اسکے مطمئن چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ ہلکی سے مسکرائی تھی

"ٹھیک ہے لیکن مس رباب کو پوری یونیورسٹی کے سامنے آپ سے معافی مانگنی پڑے گی جیسا کہ اس لڑکی نے ابھی کہا تھا"

جہاں زوہیب صاحب کی بات پر رباب نے لب بھینچ کر کٹیلی نظروں سے آئیذل کو دیکھا وہاں آئیذل کے گداز ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی

"ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر رباب ایسا کرنا چاہتی ہے"

آئیذل کے نرمی سے کہنے پر زوہیب صاحب نے شفقت اور محبت سے اسے دیکھا تھا

"چلو باہر فنکشن شروع ہو چکا ہے"

  رباب کو پراسرار مسکراہٹ کیساتھ دیکھتے ہوئے باہر نکلی تھی رباب اسے حیرانی سے دیکھتے ہوئے اسکے پیچھے نکل گئی تھی

"کیوں بچایا تم نے مجھے"

 رباب نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا

"You'll See"

 مختصر سا کہہ کر آئیذل حورم کے بلانے کے اشارے پر اسے وہاں تنہا چھوڑ گئی تھی رباب نے کاٹدار نظروں سے اسے حورم کیساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا تھا

وہ چلتے ہوئے مین ہال کی جانب بڑھ گئی تھی حورم اسے سب بتا رہی تھی کس طرح وہ اسکے لئے بےحد پریشان تھا اور کس طرح وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے اسے اٹھا کر گیا تھا وہ ہلکی مسکان لبوں پر سجائے اسکی بات سن رہی تھی اور سر  کو دھیرے سے ہلا رہی تھی جب سے وہ آئی تھی بہت لوگوں نے اس سے اسکی کنڈیشن دریافت کی تھی اور اسے ویک وشز دی تھی اس لئے اسکی سپرٹس کافی ہائی تھی وہ بالکل بھی اداس نہیں تھی 

"تم چلو میں آتی ہوں" پرائیویٹ آفس سے پروفیسر زاویان کو باہر آتے دیکھ کر آئیذل نے حورم سے کہا وہ سر ہلاتے ہوئے مین ہال کی طرف بڑھ گئی تھی وہ بلیک کلر کا اوور کوٹ بدل کر آیا تھا کیونکہ پہلے والے کوٹ پر خون کے سرخ نشان پڑ گئے تھے 

"لمظ"

اسکی توجہ حاصل ناں کرنے پر مایوس ہوتے ہوئے وہ مین ہال کی طرف بڑھی تھی جب اپنے پیچھے سے اسکی دلکش آواز سنائی دی تھی وہ پیچھے نہیں مڑی تھی بس اپنی جگہ پر رکی تھی وہ سنجیدگی سے چلتے ہوئے اسکے مقابل ٹھہرا تھا اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک کو محسوس کرتے ہوئے وہ مسکرا گئی

کیا میں معزرت کر سکتا ہوں"

آئیذل متعجب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی جانب مڑی تھی

"معزرت کیوں" 

"آپکا ایئرنگ گم ہو گیا تھا مجھ سے "

آئیذل نے اپنے کان کو چھوا تھا اور پھر دوسرے کو جس میں جھمکا غائب تھا 

"جب آپ فینٹ ہوئی تھی اسوقت گرا تھا میں نے اٹھایا تھا لیکن اب مل نہیں رہا شاید راستے میں کہیں گر گیا ہو" وہ سنجیدگی سے اسکے مطمئن چہرے کو دیکھتا ہوا بولا 

"کوئی بات نہیں پروفیسر" وہ اطمینانی سے کہتے ہوئے مین ہال کی طرف بڑھی جب ذاویان نے اسکا ہاتھ تھاما تھا وہ چونکتے ہوئے پیچھے مڑی تھی جو کوٹ کی پاکٹ سے ایک بلیک ویلوٹ کی چھوٹی سی ڈبی نکال کر کھول رہا تھا

"I lost your earring and I have to replace it, baby girl"

(میں نے آپکا ایئرنگ گم کر دیا اسکی بھرپائی تو مجھے کرنی پڑے گی بےبی گرل" 

وہ محبت آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ایک قدم اسکی جانب بڑھاتے ہوئے گویا ہوا تھا ابھی تک اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا اسنے آئیذل نے آس پاس دیکھا تھا کیونکہ مین ہال میں اسوقت فنکشن چل رہا تھا اس لئے باہر کوئی بھی نہیں تھا

"shall I?"

آئیذل نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر اسکی صبیح ہتھیلی پر سورج کی کرنوں سے چمکتے ہوئے دو چھوٹے چھوٹے ٹاپس کو جن میں سورج کی کرنیں انحراف کے بعد ست رنگی چمک بن کر ان کی رعنایت میں بےحد اضافہ کر رہی تھی

 "لیکن" 

 یقیناً وہ بہت نفیس اور نادر تھے جسے سوچ کر وہ لب بھینچ گئی تھی

"لیکن؟؟" وہ اسکی آنکھوں میں جاذبیت سے دیکھتے ہوئے بولا

اسکی درخشاں سنہری آنکھوں کو دیکھتی آئیذل کچھ کہنے سے خود کو باز رکھ گئی تھی اسکے کچھ ناں کہنے کے بعد بھی وہ سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چاہتی تھی اس لئے مبہم مسکان کیساتھ وہ ڈبی اسکے ہاتھ میں تھما چکا تھا

"It's okay I understand"

آئیذل نے ارادت مندی سے اسے دیکھا تھا جو اسکا ہاتھ نرمی سے چھوڑتے ہوئے ان میں وہ ٹاپس محبت سے رکھتے بولا تھا اور مین ہال کی جانب بڑھ گیا تھا 

"یہ میں نے کیا کیا وہ کتنی محبت سے لائے تھے" 

ان قیمتی ہیروں کو اپنی چھوٹی سی ہتھیلی پر چمکتے ہوئے دیکھ کر اسنے مرجھا کر کہا

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

فنگشن کافی دیر سے ختم ہوا تھا کافی ٹھنڈ پڑ رہی تھی یخ بستہ ہوائیں چل پڑی تھی شال اوڑھے وہ حورم کے جانے کے بعد اسکا انتظار کر رہی تھی جو ناجانے کہاں تھا

"ماموں کو کیا بولوں گی یہ چوٹ کیسے لگی ؟؟ وہ تو پروفیسر سے ناراض ہوں گے کیونکہ وہ مجھے لیکر آئے تھے لیکن یہ تو میری لاپرواہی کی وجہ سے ہوا " اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسنے افسردگی سے سوچا ہوا کا ایک سرد جھونکا اسے چھو کر گزرا تھا وہ جھرجھری لیتے ہوئے آس پاس دیکھنے لگی 

"مس آئیذل" 

وہ سر اٹھاتے ہوئے اسے شاہان کیساتھ آتے دیکھ کر بینچ سے اٹھی تھی 

"تم چلو میں ڈراپ کر کے ملتا ہوں" زاویان کی بات سنتا شاہان دونوں کو شک و شبہ سے بھرپور نظروں سے تاڑتا ہوا وہاں سے گیٹ کی طرف واک آؤٹ کر گیا تھا

"وہ شک کریں گے" آئیذل نے گیٹ کی طرف بڑھتے شاہان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا ذاویان نے لاپرواہی سے شاہان کو دیکھا تھا

"چلیں لیٹ ہو رہے ہیں آپکے ماموں ویٹ کر رہے ہوں گے"  کلائی پر مزین بلیک سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے کہا

"آپ چلیں میں آتی ہوں "

 اسکے ساتھ جانے پر لوگوں کے دیکھنے کا خدشہ لاحق ہونے پر وہ سٹپٹا گئی تھی

"ساتھ چلیں بےبی گرل" 

وہ بےفکری سے اسے دیکھتے ہوئے دھیمے قدموں کیساتھ چل پڑا تھا

وہ لب بھینچتی چارو ناچار اسکے ساتھ چل دی تھی وہ سنجیدگی سے ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں رکھے دوسرے ہاتھ میں سمارٹ فون پر انگلیاں سکرول کر رہا تھا یونیورسٹی میں موجود سٹوڈینٹس جو جانے کی تیاری پکڑ رہے تھے رشک سے دونوں کو برابر چلتے ہوئے دیکھ رہے تھے آئیذل کنفیوز سی لب بھینچے چل رہی تھی اسکی پریشانی کو نوٹس کرتے ہوئے اسنے فون پاکٹ میں رکھا تھا

"لمظ اگر آپکے ماموں صاحب نے آپکو اس حال میں دیکھ کر میرا سر پھوڑ دیا تو " وہ گہری متانت سے بولا جس پر پہلے تو دھیمی چال چلتی ہوئی آئیذل ششدر رہ گئی وہ لبوں پر ہاتھ رکھتی سادگی سے ہنس کر اسکے دل کو لبھا گئی تھی

وہ  چلتے ہوئے مبہم سا مسکرایا تھا اسے لبوں پر ہاتھ رکھتے ہنسی روکتے دیکھ کر ۔۔

دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر کافی لڑکیوں کے دل جل چکے تھے وہ تو سیدھا منہ کسی سے بات تک نہیں کرتا تھا اور یہاں وہ اپنی لاڈلی چہیتی لمظ کیساتھ مسکرا رہا تھا یقیناً بہت سی لڑکیوں کو آج آئیذل سے نفرت ہو گئی تھی

وہ خاموش بیٹھی گلاس ونڈو سے باہر  روشنیوں میں چمکتی ہوئی بڑی بڑی بلڈنگز دیکھ رہی تھی گاڑی اپنے راستےپر گامزن تھی روڈ پر گاڑیاں معمول کے مطابق گزر رہی تھی سیر کے شوقین اسوقت روڈ کے کنارے جاذبیت سے سرد رات اور خوبصورت سرد موسم کا لطف سیمٹ رہے تھے کیونکہ دو دن بعد نیا سال تھا

"لمظ"

اسکے دلکشی سے پکارنے پر وہ روڈ سے نظریں ہٹا کر ڈرائیونگ کرتے ذاویان کی جانب دیکھنے لگی 

"کچھ پوچھنا چاہتا ہوں"

"جی" 

"میں اسی ہفتے آپکو لیجانا چاہتا ہوں اپنے گھر ۔۔۔ہمارے گھر  " وہ روڈ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا

آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکتا چلا گیا

"کیا آپکو کوئی اعتراض ہے" 

شرم و حیا کے بوجھ سے بھاری ہوتی پلکوں کو اسنے نیچے جھکایا تھا

"کیا آپ میرا ساتھ دیں گی"

خاموش بیٹھی آئیذل کے ہاتھ کو اسکی گود سے اٹھا کر اسنے گیئر شفٹ پر رکھ کر اپنے مظبوط ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو ڈھانپا تھا

"بولیں لمظ"

اسکے ہاتھ کی پشت کو اپنے رعنا انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے استفسار کیا 

"ہم۔۔ہمیں تھوڑا سا وقت تو دیں آپ" گھنی پلکوں نے بےخود سی جھرجھری لی تھی 

"اور کتنا وقت چاہیے آپکو روحِ قلب" وہ متواضع لہجے میں اسے مہر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے نرمی سے گویا ہوا

"ک۔۔کچھ ۔۔۔۔سال " وہ لب کاٹتے ہوئے اسکی سنہری مہرِ درخشاں آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے بولی

"کچھ سال ؟" وہ استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتا ہلکا سا مسکرا گیا تھا وہ سرخ پڑی تھی

"آپ تھوڑا ویٹ اور کر لیں " 

"کتنا ویٹ لمظ "

"آپ ہمیں کنفیوز تو ناں کریں"  وہ تاسف سے سر کو خم دیتے ہوئے ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے گڑبڑا کر بولی  

اسکے گالوں پر ابھرتی سرخی کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ان فیکٹ آپ جب تک چاہیں گریزاں رہ سکتی ہیں لیکن ایک بات یاد رکھئے گا سکونِ قلب آپ میری امانت ہیں ایک ناں ایک دن آپکو میرے پاس آنا ہے " 

اسکی بات سنتی آئیذل اسکی جانب دیکھتی آنکھیں حیرت سے پھیلا چکی تھی

"اور ہر گزرتے سیکنڈ کیساتھ میرے جذباتوں میں صرف اضافہ ہو رہا ہے بےبی گرل اس لئے محتاط رہئے گا میرا عشق مہلک ثابت ہو گا آپکے لئے یقیناً کیونکہ میں پندرہ سال محروم رہا ہوں آپ سے "

حلق تر کرتے ہوئے آئیذل نے دوبارہ سر کو ونڈو کی جانب پھیرا تھا 

"آپ۔۔۔ہمیں ڈرا نہیں سکتے"

"میں ڈرا نہیں رہا لمظ میں وارن کر رہا ہوں اس تشنہ٘ صُحبت شخص کے عزم کو جان لیں جتنا وقت آپ لیں گی اتنا مشکل ہو جائے گا آپکے لئے " اسکی خمار سے ہوتی دلکش آواز مزید بھاری ہو رہی تھی آئیذل نے حیا سے بوجھل پلکوں کو اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا 

سٹریٹ لائٹس میں چمکتی اسکی سنہری آنکھوں میں اسے پا لینے کا جنون تھا ،، تشنگی کی انتہا تھی ،،  چشم داشت آنکھیں سنجیدگی سے روڈ کو دیکھ رہی تھی 

" میں آپ میں بہت اپنائیت سی محسوس کرتی ہوں  مجھے لگتا تھا آپ اپنے ہیں لیکن کزن ہوں گے یہ مجھے پتہ نہیں تھا" اسکے دیدہ زیب حسیں نقوش چہرے کو دیکھتے ہوئے  دھیمے لہجے میں گویا ہوئی تھی مقصد بات بدلنا تھا 

"میں آپکا ہوں لمظ اپنائیت کیسے محسوس ناں کرتی آپ؟" وہ گمبھیر لہجے میں بولا آسکی بات نے آئیذل کے دل پر گہرا اثر چھوڑا تھا 

"کیا آپکے پاس ہمارے بچپن کی فوٹوز ہیں " وہ مسلسل نظریں اسکے حسین نقوش چہرے پر ٹھہرائے بولی تھی 

"ہممم" بےحد مختصر جواب!!

" لیکن مجھے کچھ یاد نہیں بہت کوشش کی سب یاد کرنے کی مگر کچھ یاد نہیں آتا" وہ جھنجھلا کر سر کو خم دیتے ہوئے بولی تھی  اور بات کا رخ موڑنے میں کامیاب بھی ہوئی تھی

"خود کو بلیم مت کریں بےبی گرل بہت چھوٹی تھی تب آپ " وہ سنجیدگی سے روڈ کو دیکھتے ہوئے تاسف سے بولا

"لیکن مجھے وہ یادیں واپس چاہیے " وہ سر جھکاتی دھیمے لہجے میں بولی وہ بہت دیر بعد مبہم سا مسکرایا تھا  جس پر آئیذل نے سکون کا سانس لیا تھا

گاڑی رکنے پر وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی تھی کتنا مختصر دورانیہ تھا ناں گفتگو کا وہ اسے سننا چاہتی تھی اسکی بھاری گمبھیر آواز اسکے دل کو تراوت بخشتی تھی اسکی موجودگی اسکے لئے باعثِ مسرت تھی اور اپنے جذباتوں سے وہ واقف ہو رہی تھی دھیرے دھیرے!!

"جب تک آپ پوری طرح ریکور نہیں ہو جاتی آپ یونیورسٹی نہیں آ سکتی" سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے وہ متانت سے گویا ہوا آئیذل نے ساکت نظروں سے اسے دیکھا تھا بھلا یہ کیسے ممکن تھا ؟!

"ہم بالکل ٹھیک ہیں"

"بحث نہیں لمظ آپ یونی نہیں آئیں گی دیٹس اٹ" وہ اسکے باہر آنے پر اسکی سائڈ کا گیٹ بند کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا 

" کیا آپ گھر چل رہے ہیں؟؟"

اسے گاڑی لاک کرتے ہوئے دیکھ کر آئیذل نے لب بھینچے

"اسکا جواب آپکے ماموں صاحب مجھ سے طلب کریں گے بےبی گرل" اسکی پیشانی پر زخم کی جانب دیکھتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا اور پھر اسکے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی صحن میں چارپائی پر بیٹھے آصف صاحب آئیذل کے سر پر بندھی سفید پٹی دیکھ کر بےجان سے ہوتے اٹھے تھے عروسہ بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا 

"آئیذل بیٹی یہ کیسے ہوا تم ٹھیک ہو یا اللہ خیر" آصف صاحب اسکی جانب بڑھتے ہوئے فکرمندی سے دریافت کرنے لگے آئیذل نے سنجیدہ کھڑے ذاویان کی جانب دیکھا تھا

"تم لیکر گئے تھے ناں تمھاری ذمہ داری تھی میری بچی کیا ہوا کیسے ہوا یہ سب" ذاویان کے مقابل آتے آصف صاحب کرختگی سے بولے عائزہ بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی  

"ماموں اس میں انکی کوئی غلطی نہیں " آئیذل نے سرعت سے کہا تھا جس پر عائزہ بیگم کا ماتھا ٹھنکا

"عروسہ لیکر جاؤ آئیذل کو " آصف صاحب نے سنجیدگی سے کندھے سے سر موڑ کر عروسہ بیگم کو دیکھ کر کہا عروسہ بیگم سر ہلاتے ہوئے افسردگی سے آئیذل کو لیکر اسکے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی

آئیذل نے جاتے وقت تاسف سے اسے دیکھا تھا جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا

"تمھاری ذمہ داری تھی ناں پھر یہ چوٹ کیسے لگی ایسے سونپ دوں میں اپنی بچی تمھیں ،، ایک دن میں تم نے یہ حال کیا ہے اسکا ناجانے کیا ہو آگے" آصف صاحب نے پیشانی مسلتے ہوئے افسوسناک لہجے میں کہا ذاویان نے سنجیدگی سے سر جھٹکا تھا آئیذل نے کمرے کی ونڈو سے اسے سنجیدگی سے باہر جاتے دیکھ کر لب بھینچے تھے 

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

"مجھے تھپڑ مارنے کی سزا تو تمھیں ہر صورت مل کر رہے گی ناز ، بہت بڑی غلطی کر دی تم نے مجھے تھپڑ مار کر" اشفاق صاحب اہانت آمیز لہجے میں کہتے ہوئے میز پر شیشے کے گلاس میں شراب انڈیل رہے تھے کمرا اسوقت اندھیرے میں غرق تھا وہ شراب کا گھونٹ گھونٹ حلق سے اتار کر اس تھپڑ اور اپنی تذلیل کو بھولنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ذلت کی آگ تھی جو بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر انہوں نے کسی کو فون ملایا تھا 

"جی صاحب"

 نسوانی آواز سنائی دی تھی

"ایک کام کرو گی منہ مانگی رقم دوں گا" 

فون کے دوسری طرف کچھ پل کی خاموشی چھا گئی تھی

"جی صاحب"

جواب سن کر اشفاق صاحب کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ پھیلی تھی

(اگلی صبح)

"لمظ کھانا ٹھیک سے فنش کرنا " 

"یس مماں" 

منہ کا زاویہ خراب کرتے ہوئے اسنے پلیٹ میں بچے ہوئے کھانے کو ٹیبل کے بیچ میں کرتے ہوئے منمنا کر کہا تھا ذاویان نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا تھا جو ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے چپ رہنے کا اشارہ کر گئی تھی

"ممانی لمظ نے کھانا نہیں کھایا" 

"تم مجھ سے بات مت کرنا آئندہ اور تم میرے دوست بھی نہیں ہو" وارننگ کے بعد بھی ذاویان کے بول اٹھنے پر اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ کر وہ اٹھ کر اپنا بےبی پنک بیگ اٹھا کر خفا ہو کر زوہیب صاحب کا ہاتھ تھامے سکول کے لئے نکل گئی تھی ذاویان افسردہ ہوا تھا اسکی بے رخی پر 

نازش بیگم نے ڈائننگ ٹیبل کے قریب کھڑی ملازمہ کو دیکھا تھا جو قدرے پشیماں لگ رہی تھی

"کیا ہوا ہے کنیز طبعیت ٹھیک ہے تمھاری"  نازش بیگم نے اسے انگلیاں چٹخاتے ہوئے دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا

"باجی آج طبعیت کچھ ناساز ہے " وہ سر اٹھاتے ہوئے بجھے لہجے میں بولی

"اچھا تم آرام کر لو گھر جا کر کام میں دیکھ لوں گی" کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے نازش بیگم نے ذاویان کو دیکھا تھا 

"کیا ہوا ذاوی" ناشتے کی میز پر اسے تنہا اداس بیٹھا دیکھ کر نازش بیگم نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا پلیٹ میں فورک کو رکھتے ہوئے اسنے تاسف سے نفی میں سر ہلایا تھا

"زاویان میرے بچے وہ ابھی چھوٹی ہے اسے کچھ سمجھ نہیں ہے میں مانتی ہوں آپ لمظ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن ابھی اسے ان چیزوں کی سمجھ نہیں ہے اسکی ناراضگی بھی کچھ ہی دیر میں خود ہی دور ہو جائے گی وہ زیادہ دیر تک آپ سے خفا نہیں رہ سکتی"  نازش بیگم نے ہمدردی سے اسکا لٹکا ہوا چہرا دیکھ کر کہا 

"جی ،، میں سکول کے لئے نکلتا ہوں دیر ہو رہی ہے" وہ خفگی سے کہتا ہوا اٹھ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا نازش بیگم نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا جو لمظ کی کہی ایک بات پر اس قدر افسردہ ہو گیا تھا 

"لمظ میرا بچہ ایک منٹ بیٹھو میں گاڑی کی چابی گھر بھول گیا ہوں" 

"یس ڈیڈی" 

زوہیب صاحب گاڑی سے باہر نکلے تھے جب انکی نظر فون کان سے لگائے اندر داخل ہوتے اشفاق صاحب پر پڑی تھی

ناز ٹیبل سے برتن  سمیٹ کر کچن کی جانب بڑھ گئی تھی وہ برتن واش کرنے میں اس قدر مشغول تھی کہ انہیں اپنے پیچھے کچن میں کسی کے داخل ہونے کا بھی علم نہیں ہوا تھا اپنی کمر پر کسی کا ہاتھ محسوس کرتے ہوئے وہ ساکت ہوئی تھی 

"زوہیب" 

زوہیب صاحب کے پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے وہ مسکرائی تھی 

"نازش" 

کچن کے دروازے سے آتی گرجدار آواز پر وہ خوف سے لرزتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی اشفاق صاحب نے افسردگی سے کچن سے اندر داخل ہوتے 

زوہیب صاحب کی جانب دیکھا تھا جو خون چھلکاتی نظروں سے اشفاق صاحب اور نازش بیگم کو دیکھ رہے تھے

"زوہیب ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں مجھے "

 زوہیب صاحب نے نازش بیگم کا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے اشفاق صاحب کو قہر برساتی نظروں سے دیکھا تھا 

"زوہیب میں کب سے تمھیں یہی بات کہنا چاہتا تھا یہ عورت مجھ سے محبت کے دعوے کر رہی تھی اور تمھیں بھی دھوکے میں رکھے ہوئے تھی " اشفاق صاحب نے پژمردگی سے شرمندہ لہجے میں کہا زوہیب صاحب نے بےیقینی سے نازش بیگم کی طرف دیکھا تھا جن کا چہرہ فق ہوا تھا حیرت غم و غصے سے!!

"یہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں زوہیب ایسا ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔۔۔  یہ " متعجب نظروں سے اشفاق صاحب کی جامب دیکھتی نازش بیگم نے بدحواس ہو کر کہا 

"یہ دیکھو اب بھی مجھے اسی عورت نے فون کر کے مجبوراً یہاں بلایا تھا میں کیا کرتا زوہیب یہ عورت مسلسل مجھے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی"  اشفاق صاحب نے فون سے کال لاگ نکال کر زوہیب صاحب کی جانب بڑھایا تھا زوہیب صاحب نے سرسری نظر سے کچھ سیکنڈ پہلے کی نازش بیگم کے نمبر سے آئی ہوئی کال دیکھی تھی انہیں وہ لمحہ یاد آیا جب اشفاق صاحب فون کان سے لگائے گھر میں داخل ہو رہے تھے

"نہیں ۔۔ زوہیب یہ الزام لگا رہے ہیں مجھ پر ۔۔میں نے انکو کوئی فون نہیں کیا۔۔۔ کل ۔۔ کل ہی انہوں نے مجھ سے بدتمیزی کی اور جب میں نے انہیں تھپڑ مارا تو یہ گھر سے بغیر کسی کو کچھ کہے چلے گئے ۔۔ زوہیب یہ جھوٹ بول رہے ہیں" اشک بار آنکھوں سے زوہیب صاحب کا سپاٹ چہرا دیکھتے ہوئے نازش بیگم روندھی آواز میں بولی

"صاحب بیگم صاحبہ جھوٹ بول رہی ہیں میں نے خود انہیں صبح کسی کو فون ملاتے ہوئے دیکھا تھا اور آپکی غیر موجودگی میں یہ گھر سے نکل جاتی ہیں "

جہاں ملازمہ کی بات پر زوہیب صاحب نے چونک کر نازش بیگم کو دیکھا وہاں نازش بیگم نے بےیقینی اور اضطراب سے انکی گھر کی ملازمہ کو دیکھا تھا 

"زوہیب یہ عورت تمھارے لائق نہیں ہے ان فیکٹ یہ کسی کے لائق نہیں ہے میں تم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں آج کے بعد میں اس گھر میں کبھی نہیں آؤں گا لیکن جس طرح یہ ملازمہ کہہ رہی ہے اگر ویسا ہے تو اس عورت کے بہت جگہ تعلقات ہوں گے"  ہاتھ جوڑ کر زوہیب صاحب کو شرمندگی سے دیکھتے ہوئے اشفاق صاحب نے ایک تنقیدی نظر سے روتی ہوئی نازش بیگم کو دیکھا تھا اور پھر وہاں سے واک آؤٹ کر گئے تھے

"زوہیب ایسا کچھ نہیں ہے جھوٹ بول رہے ہیں وہ"

"بس کرو نازش" زوہیب صاحب نے سپاٹ لہجے میں کہا

 نازش بیگم نے بےجان نظروں سے ملازمہ کی جانب دیکھا تھا جو شرمندگی سے نظریں بچا گئی

"معاف کرنا بیگم صاحبہ لیکن جو سچ تھا میں نے صاحب کو بتا دیا مجھے ایسے گھر میں نوکری نہیں کرنی جہاں عورت کو اپنی عزت نفس کی بھی پرواہ ناں ہو " 

جہاں ملازمہ کی بات پر زوہیب صاحب نے آنکھیں بند کرتے ہوئے مٹھی بھینچی وہاں نازش بیگم کی آنکھوں میں آنسوں پیدا ہوئے ملازمہ فورآ باہر نکل گئی تھی 

"زوہیب"

"اگر وہ بدتمیزی کر رہا تھا تمھارے ساتھ تو تم پیچھے کیوں نہیں ہٹی مسکرا رہی تھی تم وہاں کھڑی" زوہیب صاحب  گرج دار لہجے میں بولے نازش بیگم نے لرزتے ہوئے صدمے سے انہیں دیکھا تھا 

"اگر میری بچی نہ ہوتی تو یقیناً ایک پل دیر کئے بغیر تمھیں اس گھر سے باہر نکال دیتا"  نفرت بھری نظروں سے آخری بار نازش بیگم کو دیکھ کر وہ اپنے کمرے سے چابی پیکر باہر نکل گئے تھے نازش بیگم نے فق نظروں سے انہیں گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھا تھا

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

دو دن بعد:- 

"تم لیکر گئے تھے ناں تمھاری ذمہ داری تھی میری بچی کیا ہوا کیسے ہوا یہ سب"

"تمھاری ذمہ داری تھی ناں پھر یہ چوٹ کیسے لگی ایسے سونپ دوں میں اپنی بچی تمھیں ،، ایک دن میں تم نے یہ حال کیا ہے اسکا ناجانے کیا ہو آگے"

"اہمممم"

وہ پچھلے کچھ منٹوں سے اسٹیج پر وائٹ بورڈ مارکر سنجیدگی سے تھامے کھڑا تھا جب فرنٹ روز میں بیٹھے سٹوڈینٹس میں کوئی اسکی توجہ حاصل کرنے کے لئے کھانسا تھا

اسنے تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے لیکچر کنٹینیو کیا تھا 

"ٹھیک کہا انہوں نے لمظ میری ذمہ داری تھی یہ سب میری وجہ سے ہوا یقیناً اگر میں نے اسکا خیال رکھا ہوتا تو اسے اتنی گہری چوٹ کبھی ناں آتی"  صاف شفاف سنہری با رونق چمک رکھنے والی آنکھوں سے اسنے گلاسز اتارتے ہوئے افسردگی سے سوچا تھا لیکچر آف ہونے میں کچھ منٹ باقی تھے اسنے مظبوط کلائی پر بندھی سمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے فون نکال کر ڈائس کے قریب رک کر اسکا نمبر ڈائل کیا تھا

"پہلی کال مس ہوئی"

"دوسری کال مس ہوئی"

اسنے سرد آہ بھر کر فون ڈائس پر رکھا تھا

"لمظ کیا آپ ٹھیک ہیں" 

وہ دل ہی دل میں اسے مخاطب کر کے اسکی خیریت دریافت کر رہا تھا اسکی غیر موجودگی میں اسکا دو دن میں برا حال ہو چکا تھا تشنہ نگاہیں اسکے سامنے آنے کے لئے بے قرار تھی دل بےچین تھا وہ اسکی عادت بن چکی تھی اسکی آواز سننے کے لئے وہ تڑپ رہا تھا 

"پروفیسر کیا میں یہ آفس میں رکھوا دوں"  جانی پہچانی نسوانی آواز پر اسنے سر اٹھا کر سنجیدگی سے آواز کی سمت دیکھا تھا جہاں رباب پیپرز کے اسٹیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھا تھا ڈائس سے فون اٹھا کر وہ اسکی سمت بڑھا تھا لیکچر ہال اسوقت خالی تھا ان دونوں کے سوا یہاں کوئی نہیں تھا

" نہیں " وہ کرختگی سے کہتے ہوئے فون پینٹ کی پاکٹ میں رکھ کر اسٹیج سے نیچے اترتے ہوئے گویا ہوا رباب کے چہرے پر کچھ دیر پہلے ابھرنے والی چمک غائب ہوئی تھی

"کوئی بات نہیں میں رکھوا دیتی ہوں ویسے بھی آپکی اسسٹنٹ پچھلے دو دنوں سے آف ہیں انکی جگہ کسی کو تو کام کرنا ہو گا" وہ خوشدلی سے کہتے ہوئے پیپرز اٹھانے کے لئے ٹیبل کی طرف بڑھی تھی 

"مس آئیذل کی جگہ آپ کیسے لے سکتی ہیں ان فیکٹ انکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے پیپرز اٹھا کر باہر نکل گیا تھا رباب اسکی کہی بات پر ششدر رہ گئی تھی

"تو کدھر جا رہی ہے بھلا " 

عائزہ بیگم نے اسے سر پر چادر لئے برآمدے میں آتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے پوچھا

"ممانی میں اپنے گھر جا رہی ہوں کافی دنوں سے وہاں نہیں گئی کل نیا سال شروع ہو رہا ہے اس لئے میں سوچ رہی تھی صفائی کر دیتی ہوں " 

"ہاں بات تو ٹھیک ہے گھر میں کافی مٹی  دھول وغیرہ ہو گئی ہو گی جا کر لے وقت سے واپس آ جانا " عائزہ بیگم نے سر ہلایا تھا آئیذل نے تاسف سے انہیں دیکھا تھا جو گھر کا سن کر لہجہ ہی بدل گئی تھی اور پھر سر کو دھیرے سے ہلاتے ہوئے وہ باہر نکل گئی تھی

"زندگی میں پہلی بار اس کم ذات نے کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے گھر کی صفائی کرنے کا سوچ کر" عائزہ بیگم نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا 

گھر کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی تھی کتنا وقت ہو چکا تھا اسے یہاں آئے ہوئے ۔۔

"نانوو جان"/"ارے میری بچی"

کانوں میں اپنی کھلکھلاہٹیں اور انفال بی بی کی شفقت سے بھرپور آواز سنائی دیتے ہی اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی تھی

"نانو" 

آبدیدہ لہجے میں سنسان پڑے ہوئے گھر کو دیکھتے ہوئے وہ دروازہ بند کرتے ہوئے وہ انکی برآمدے میں پڑی چارپائی کی طرف بڑھتے ہوئے روئی تھی

"ہم جب بھی تھک جاتے ہیں آپکی گود میں سر رکھ کر بےحد سکون محسوس کرتے ہیں یقیناً اللہ پاک نے آپکو ہمارے لئے ہی سکون کا ذریعہ بنایا ہے جو ہماری بےسکون سی ذندگی میں سکون کے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی طرح ہیں "

اپنی ہی کہی گئی باتیں اسے دل میں خنجر کی طرح لگتے ہوئے بےحد تکلیف دے رہی تھی

"میری بچی زندگی میں تو سانسوں کا بھروسہ نہیں ہم تو انسان ہیں  ہمیشہ اور میں نے تو عمر گزار دی ہے اور ویسے بھی بزرگ  ہمیشہ آپکے ساتھ نہیں رہ سکتے اس لئے ہم سب کہتے ہیں بچوں کو کہ وقت رہتے سمبھل جاؤ تاکہ ہمارے جانے کے بعد تم لڑکھڑاو ناں اور ذندگی میں آگے بڑھنا سیکھ لو تاکہ تمھیں کسی کے سہارے کی ضرورت ناں پڑے "

وہ انکی چارپائی کو نم آنکھوں سے  دیکھتے ہوئے آنسوں کو روک نہیں پائی تھی کیونکہ یہاں بیٹھ کر وہ اکثر اسکا انتظار کیا کرتی تھی

"لیکن ہمیں تو سب چھوڑ گئے تھے آپکو نہیں جانا چاہیے تھا اپنی آئیذل کو چھوڑ کر "  ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسنے بوجھل لہجے میں آنکھیں میچتے ہوئے کہا

جیتی رہو اللہ میری بچی کے نصیب اچھے کرے اور میری بچی کی ذندگی ڈھیروں خوشیوں سے بھر دے آمین"   اسکا دل درد سے پھٹ جانے کے قریب تھا

"بہت خوش قسمت ہوں میں پروفیسر زاویان بہت محبت کرتے ہیں لیکن میرا کیا قصور تھا میرے اپنوں نے ہمیشہ مجھے اپنائیت سے محروم کیوں رکھا نانو میرا بالکل دل نہیں کرتا وہاں رہنے کا اس سے بہتر تو میں اکیلی رہ جاتی "

"لمظ میں چاہتا ہوں آپ سٹرونگ بنیں "

اسنے سر اٹھایا تھا جب بادل گرجا تھا اور ساتھ ہی اسکی آواز کانوں میں سنائی دی تھی

"اپنے رائٹ کے لئے لڑنا سیکھیں کسی کو بھی خود کو تکلیف پہنچانے کا موقع دینا نادانی ہے اس لڑکی کو میں کسی صورت معاف نہیں کروں گا لیکن اگر آپ اسوقت اپنے حق کے لئے لڑنا نہیں سیکھیں گی تو میرے ساتھ کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا آپ کمزور نہیں ہیں میں جانتا ہوں لیکن آپ ہچکچاتی ہیں ۔۔ قدم بڑھانے سے پہلے ہی آپ واپس پلٹ جانا چاہتی ہیں ۔۔ جب کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو آپ اسے پلٹ کر جواب نہیں دیتی بلکہ کہی گئی باتوں کو دل سے لگا کر خود کو تکلیف دیتی ہیں۔۔ جب تک آپ پانی میں نہیں اتریں گی آپکو پانی کی گہرائی کا اندازہ کیسے ہو گا" اسنے آنسوں صاف کئے تھے

وہ اشک بار آنکھوں سے اٹھتے ہوئے باہر آئی تھی بارش نے اسکا بازو کھول کر استقبال کیا تھا ہوا میں مٹی اور بارش کی خوشبو پھیل گئی تھی وہ لمبا پرسکون سانس لیتے ہوئے

  آسمان کی جانب چہرہ اٹھاتے ہوئے آنکھیں میچ گئی تھی بارش کی ٹھنڈی بوندوں نے اسکے بےسکوں وجود کو سکون بخشا تھا

                                         -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

رات کا وقت تھا ماحول میں عجب اضطراب تھا سرد اور بےچین رات تھی آئیذل کے بال سہلاتے ہوئے وہ اسے سلانے کی کوشش کر رہی تھی زوہیب صاحب صوفے پر بیٹھے لیپٹاپ پر سنجیدگی سے کام کر رہے تھے جب نازش بیگم کے فون نے بجنا شروع کیا تھا زوہیب صاحب نے کرختگی سے گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا جو رات کے گیارہ بجا رہی تھی نازش بیگم نے زوہیب صاحب کو دیکھتے ہوئے فون اٹھایا تھا جس پر نیا نمبر جگمگا رہا تھا

"ن۔۔نیا نمبر ہے۔۔۔ کیا آپ سنیں گے"  بیڈ سے اتر کر فون زوہیب صاحب کی طرف بڑھاتی نازش بیگم متذبذب لہجےمیں بولی زوہیب صاحب نے سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے فون لیکر کال کنیکٹ کرتے ہوئے کان سے لگایا تھا

"کیسی ہو ناز" 

کسی انجان شخص کی آواز تھی زوہیب صاحب کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا تھا نفرت سے فون کان سے ہٹاتے ہوئے انہوں نے فون رکھا ہی تھا جب دوسرے نمبر سے فون آیا تھا لمظ بھی مسلسل بیل بجنے کی آواز سن کر اٹھ گئی تھی زوہیب صاحب نے کال کنیکٹ کی تھی 

"ناز بڑے دن ہو گئے ملاقات نہیں ہوئی"

یہ ایک اور انجان مردانہ آواز تھی 

زوہیب صاحب نے کرختگی سے اٹھتے ہوئے فون پوری قوت سے فرش پر مارا تھا نازش بیگم نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بےچینی سے انہیں دیکھا تھا لمظ ڈرتے ہوئے زوہیب صاحب کو دیکھ کر بیڈ سے اترنے کا ارادہ ترک کر گئی تھی

"ابھی اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ" زوہیب صاحب دھاڑتے ہوئے بولے ناز بیگم نے متحیر نظروں سے انہیں دیکھا تھا لمظ بھاگتے ہوئے نازش بیگم کا ہاتھ پکڑ گئی تھی

" بابا آپ ایسا کیوں کر رہے ہو" وہ معصومیت سے زوہیب صاحب کو دیکھتے استفسار کرنے لگی زوہیب صاحب نے سختی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے نازش بیگم سے الگ کیا تھا

"زوہیب"

"ابھی اسی وقت میرے گھر سے باہر نکل جاؤ" 

زوہیب صاحب نے روتی ہوئی آئیذل کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ درشتگی سے کہہ کر نازش بیگم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں باہر صحن میں دھکیلا تھا

"زوہیب لمظ کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں وہ ہمیں رسوا کرنا چاہتا ہے "

"ایک لفظ اور نہیں ،، میری بچی کی جھوٹی قسم کھانے کی ہمت کیسے ہوئی" 

"بابا" 

آئیذل نے زوہیب صاحب کا ہاتھ روتے ہوئے پکڑا تھا جو نازش بیگم کی طرف حواس باختگی سے بڑھ رہے تھے 

" اپنے کمرے میں جاؤ لمظ" زوہیب صاحب کے دھاڑنے پر وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹی تھی نازش بیگم نے افسردگی سے اسکی نم آنکھوں کو دیکھا تھا جن سے وہ اپنی ماں کو بےبسی سے دیکھ رہی تھی زوہیب صاحب نے نازش بیگم کو بازو سے پکڑتے ہوئے گھر سے نکال دیا تھا اور وہ انکی جانب ہاتھ بڑھائے روتی چلی گئی تھی

اندھیری رات میں سڑک پر بےحد سناٹا تھا روڈ پر ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ گیٹ سے پشت لگا کر  نیچے بیٹھتے ہوئے گھٹنوں میں سر دیکر روتی چلی گئی

"بابا مماں کے پاس جانا ہے" 

لمظ کے رونے کی آواز اب تک باہر سنائی دے رہی تھی جس سے ایک ماں کا کلیجہ پھٹ جانے کو تھا وہ کبھی اپنی بچی کو اس حال میں روتے نہیں دیکھ سکتی تھی یہاں تو وہ اپنی تذلیل بھی بھول گئی تھی اسکی درد سے بھرپور چیخیں سن کر 

"مماں" 

وہ پھر سے چیخی تھی

آنکھیں سختی سے میچتے ہوئے وہ سسکیوں کے بیچ روتی چلی گئی تھی

بلیک سلک کی شرٹ پر آف وائٹ کروپ ٹاپ اور بلیک لیگی کے نیچے بلیک پینسل ہیل شوز پہنے وہ خوبصورت متاثر کن  شخصیت کیساتھ مرسیڈیز سے باہر نکلی تھی لوگوں نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا تھا 

" آپ لوگ ویٹ کریں باہر"

 وہ گارڈز کو ریسٹورنٹ کے باہر روک کر ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوئی تھی ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے اسنے سرد آہ کھینچی تھی 

یہ اسکا فیورٹ فرینچ ریسٹورنٹ تھا جہاں وہ اکثر آ کر بریک فاسٹ اور لنچ کرتی تھی آج بھی میٹنگ کے فوراً بعد وہ یہاں آئی تھی

"Bonjour Madame Qu'allez-vous prendre dans le menu" ??

(ہیلو میڈم آپ مینیو میں کیا لیں گی؟)

اسکے  گداز لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی ویٹر مینیو تھامے ہوئے مؤدبانہ انداز میں بولا تھا 

(Chaussons aux Pommes Le café aussi)

بغیر مینیو دیکھے وہ ڈیلی روٹین کے مطابق بولی تھی ویٹر سر ہلاتے ہوئے اسکا آرڈر لینے چلا گیا تھا فون پر انگلیاں سکرول کرتے ہوئے اسنے عاقبت اندیشی سے بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑساتے ہوئے ایک مختصر مگر چوکس نظر سے گلاس ونڈو سے باہر رکتی ایک بلیک جیگوار گاڑی کو دیکھا تھا کچھ غلط ہونے کا احساس ہوتے ہی وہ فون پینٹ کی پاکٹ میں اڑسا کر وہ تیزی سے اٹھی تھی جب اس گاڑی سے نکلتے کچھ مشکوک آدمیوں نے گارڈز پر فائرنگ کی تھی پرسکون ماحول میں فائرنگ کی آواز نے سب کو ششدر کر دیا تھا 

"ڈیم اٹ" 

وہ بیک ڈور سے نکلتی سامنے سے بلیک یونیفارم میں ملبوس آدمی کو دیکھ کر دانت پیس کر کہتے ہوئے تیزی سے ایک سٹریٹ میں بھاگی تھی اس آدمی کیساتھ دو آدمی اور بھی شامل ہوئے تھے 

"نو بھائی ناٹ ناؤ" 

فون پر آتی ذاویان کی کال کو دیکھ کر اسنے سرد آہ بھرتے ہوئے بھاگنے کی رفتار کو کم کیا تھا اور ایک تنگ گلی میں مڑ گئی تھی اسکے پیچھے آدمی بھی اس گلی میں داخل ہوا تھا آس پاس ہوشیاری سے دیکھتے ہوئے وہ اسے تلاش کر رہا تھا جب وہ ایک کونے سے نکلتی ٹرائی اینگلر چوک کا استعمال کرتے ہوئے آدمی کی گردن کے شریانوں کے گرد بازو سختی سے تنگ کرتے ہوئے بےحد سختی سے بازو کا مثلث بناتے ہوئے دبا گئی تھی وہ آدمی کچھ ہی سیکنڈ میں بےہوش ہو چکا تھا

"Fool" 

اسکے پیر پر ہیل شوز سے چڑھ کر گزرتے ہوئے طنزیہ انداز میں بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے دوسری گلی میں مڑی تھی

"کام ہو جانا چاہیے مائنر مسٹیک بھی میں برداشت نہیں کروں گا" 

فون پاکٹ سے نکالتے ہوئے اسکے کانوں میں صبح میٹنگ روم میں حدید کی کسی سے فون پر بات کرنے والی آواز پڑی تھی

"اچھا تو تم مجھے ڈرانا چاہتے تھے یہ آدمی تمھارے بھیجے ہوئے ہیں تمھیں تو سبق سکھا کر ہی چھوڑوں گی "  دانت پر دانت جمائے اسنے فون پر سیم کا نمبر ملایا تھا

"میں نے جس چیز سے منع کیا تھا وہ کام آج ہی کرنا ہے پانچ بجے وہ پرائیویٹ پارک سے نکلتا ہے میں ایڈریس بھیج رہی ہوں اپنے گروپ کیساتھ مجھے وہیں پر ملنا " کال منقطع کرتے ہوئے وہ فون پاکٹ میں ڈال کر گہری سیاہ رنگ آنکھوں پر بلیک گلاسز چڑھا کر ذاویان کا نمبر ملاتے ہوئے مین روڈ کی جانب بڑھ گئی تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(𝗣𝗮𝘀𝘁)-

"بےبی گرل"

گھنٹوں میں سر دیئے روتی ہوئی آئیذل نے سر کو اٹھا کر سرخی مائل آنکھوں سے اسے دیکھا تھا کھانے کی ٹرے اٹھائے وہ اسکے قریب نیچے گھٹنا ٹکائے بیٹھا تھا

"ذی مماں کی بہت یاد آ رہی ہے" بڑی بڑی بنفشی آنکھوں نے بےبسی سے اسکی سنہری چمک سے بھرپور آنکھوں میں دیکھ کر شکوہ کیا

 زوہیب صاحب نے ہی اسے یہاں بھیجا تھا کیونکہ وہ ناشتہ نہیں کر رہی تھی اور ناں ہی ان سے بات کر رہی تھی وہ صرف اپنی ماں کے لئے رو رہی تھی جو ناجانے کہاں چلی گئی تھی 

"بےبی گرل ناشتہ کر لیں اسکے بعد سکول بھی جانا ہے"

"ہمیں بھوک نہیں ہے ذی اور ہمیں سکول بھی نہیں جانا ہمیں مماں کے پاس جانا ہے ڈیڈی نے مماں کو گھر سے نکال دیا " اشک بار آنکھوں سے اسنے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھتے ہوئے خفگی سے کہا وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا تھا

"کھانا کھا لیں لمظ پلیز" اسنے بےحد محبت اور عاجزی سے کہا تھا جس پر آئیذل کی آنکھیں دوبارہ آنسوں سے بھر گئی تھی

"ہمیں مماں کے پاس لے چلو ذی تم ہمارے بیسٹ فرینڈ ہو ناں " اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ معصومیت سے التجا کر رہی تھی اور اسکی آنکھوں میں سوجھن دیکھ کر ذاویان کا دل ٹوٹ رہا تھا

"مماں نے کچھ نہیں کیا ذی بابا نے انکو ڈانٹا اور گھر سے نکال دیا ذی مجھے مماں کے پاس لے چلو میں پھر کبھی تم سے فائٹ نہیں کروں گی میں کھانا بھی فنش کروں گی پلیز مجھے مماں بہت یاد آ رہی ہیں مجھے مماں کے پاس"

"چپ ایک دم چپ مر گئی ہے تمھاری ماں نہیں آئے گی وہ واپس " زوہیب صاحب جو کب سے دروازے پر کھڑے اسکی باتیں سن رہے تھے غصے سے دھاڑ سے دروازہ کھول کر غرائے وہ سہم کر ذاویان کے بازو کو چپک گئی تھی

"ماموں یہ آپ کیا کر رہے ہیں لمظ کی کیا غلطی ہے " سسکتی ہوئی لمظ کو ہمدردی سے دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا

"بابا بہت برے ہیں" 

اس سے پہلے زوہیب صاحب کچھ کہتے وہ روتے ہوئے بولی تھی زوہیب صاحب نے مٹھیاں بھینچی تھی 

"چلو لمظ ہم آپکے روم میں چل کر کھانا کھاتے ہیں" اسے اٹھا کر ناشتے کی ٹرے لیے وہ کرخت نظروں سے زوہیب صاحب کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا تھا زوہیب صاحب نے سرد آہ بھری تھی 

اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے اسنے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا بکھرے بال ،، سرخ آنکھیں ،، مسلسل رونے کی وجہ سے سرخ ہوتا چہرہ!! 

اسکے منانے پر وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کھانا کھا رہی تھی 

"لمظ آئی پرومس میں ممانی کو واپس لیکر آؤں گا جسٹ ڈونٹ کرائے اب آپ کبھی نہیں روئیں گی " معصومیت سے نظریں جھکا کر کھانا کھاتی لمظ نے سر اٹھا کر اسے محبت سے دیکھ کر مسکراتے ہوئے سر ہلایا تھا 

کھانا کھلانے کے بعد وہ اسے سکول کے لئے ریڈی کر رہا تھا جب وہ برش اٹھائے اسکے پاس آ کر بیٹھی تھی

"لمظ مجھے نہیں آتا یہ سب" وہ تشویش سے اسکے بکھرے بالوں کو دیکھتے ہوئے تاسف سے بولا تھا جس پر اسنے آنکھیں سکیڑی تھی

"تم کو کچھ بھی نہیں آتا"

 اٹھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ تنک کر بولی تھی افسوس سے سر جھٹک کر اسنے برش لیکر اسکے بالوں میں نرمی سے برش پھیرنا شروع کیا تھا دونوں ہاتھوں کو ہونٹوں پر دیتے ہوئے وہ ہنسی تھی

"اب کیا ہوا" برش کرتے ذاویان نے سرعت سے پوچھا تھا

"اتنے آرام سے تو مماں بھی برش نہیں کرتی" وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے طنز سے بولی تھی ذاویان نے مسکرا کر سر کو خم دیا تھا اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر ایک نئی جان آ گئی تھی اس میں 

 شرمندگی سے سر جھکائے نازش بیگم لب بھینچے ہوئے بیٹھی تھی

"بغیر کسی ثبوت کے تو کوئی الزام نہیں لگاتا " عائزہ بیگم نے شکی نظروں سے ناز کو دیکھتے بڑبڑا کر کہا تھا جس پر انہوں نے مجبوراً  بے اعتنائی برتی تھی 

"تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا"

"سب ٹھیک کیسے ہو گا عروسہ میری بچی وہاں اکیلی ہے کل رات جس درد میں اسے میں چھوڑ کر یہاں آئی ہوں وہ درد اب مجھے اندر ہی اندر کاٹ رہا ہے میری بچی کا کیا قصور تھا وہ میرے بغیر کھانا تک نہیں کھائے گی " 

عروسہ بیگم نے افسردگی سے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تھی 

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

-(Present)-

"اسکے بعد جانتی ہو کیا ہوا وہی عورت جس نے مجھے تھپڑ مارا تھا میرے پاس اس تھپڑ کی معافی مانگنے آئی " اشفاق صاحب کا خباثت سے بھرپور قہقہ کمرے کے سکوت کو توڑ چکا تھا

"تو کیا تم نے اسے معاف کر دیا ؟" گلاس میں شراب ڈالتی لڑکی تعجب سے پوچھ رہی تھی

"نہیں معاف نہیں سزا دی اسے ایک عورت کے لیے اسکی عزت سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے وہ گڑگڑا رہی تھی معافیاں مانگ رہی تھی تاکہ میں زوہیب کو سب سچ بتا دوں مگر جانتی ہو میں نے کیا کیا اسکے ساتھ" نشے میں چور اشفاق صاحب اپنی ہی زبان سے سب کچھ قبول کر رہے تھے اور وہ لڑکی ریکارڈر سے سب ریکارڈ کر رہی تھی 

"کیا کیا آپ نے اشفاق جی"

"میں نے اسے کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا مجھے تھپڑ مارا تھا ناں اس بدکار نے میں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا روتے ہوئے وہ دو کوڑی کی عورت میرے گھر سے بھاگ کر نکل گئی اور مر جانے کو بہتر سمجھا بیچاری کا ایکسیڈینٹ ہو گیا اور خدا کو پیاری ہو گئی اور کیا کرتی میں نے تو کہا تھا اگر سیدھے طریقے سے مان جاتی تو بیچاری آج زندہ ہوتی اور اپنے شوہر کیساتھ ہوتی لیکن نہیں پارسا زندگی گزارنی تھی ناں اسے" صوفے پر سر گرائے اشفاق صاحب بد طینتی سے اپنے ہی کئے گئے گناہوں کو نشے کی حالت میں قبول کر رہے تھے 

"اور اسکی بیٹی کا کیا ہوا اشفاق جی"  لڑکی نے دلچسپی سے انہیں شراب کا گلاس تھما کر پوچھا

"ہاہا اسکے ماموں گاؤں کے چودھری تھے انہوں نے اپنے آدمیوں کو بھیج کر اسے اسکول سے ہی اٹھوا لیا تھا اور کراچی سے اسلام آباد نکل گئے تھے بیچارا زوہیب اسکی تو کل کائنات ختم ہو گئی تھی بیٹی کے گم جانے پر مارا مارا پھرتا رہا مگر ناں بیٹی ملی ناں بیگم اور ذاویان  ہاہاہاہاہا وہ تو غموں سے تار تار جدائی ناں سہہ کر کتنے عرصے بیمار پڑا رہا تنگ آ کر اسکی ماں نے اسے انگلینڈ بھیج دیا پڑھائی کے لئے چچچچ بیچارا بچہ " 

لڑکی نے ریکارڈر چیک کیا تھا جس پر ساری ریکارڈنگ ہو رہی تھی

"اور عاطف صاحب کو کیا ہوا تھا اشفاق جی" انکے قریب صوفے پر بیٹھتی وہ شیریں لہجے میں پوچھ رہی تھی

"وہ ۔۔ وہ بیچارا دشمنی میں مارا گیا ذاویان سمجھتا ہے میں نے اپنے ہی بھائی کو مروا دیا شاید اس لئے اس نے اس دن مجھے اور میری بیٹی کو پورے شہر کے بزنس اتھارٹیز کے سامنے بےعزت کیا  مگر میں ایسا کیوں کروں گا ہاں بہت اچھا تھا عاطف مجھے اکثر برے کاموں سے باز رہنے کو کہتا تھا ہاہاہا لیکن میں نفرت نہیں کرتا تھا اس سے یار اسے کسی نے مروا ڈالا اور مہر النساء سے میں نے شادی کر لی محبت ہو گئی تھی مجھے " 

لڑکی نے اکتاہٹ سے سر جھٹکا تھا 

"تم جیسے شخص کی لاش کو جانور نوچ کھائیں خدا کا قہر ہو تم پر " وہ لڑکی افسوس سے سر جھٹکتے ہوئے بڑبڑائی تھی ناجانے کتنی زندگیوں کو برباد کر چکا تھا وہ

 اشفاق صاحب کے قہقے اب تک کمرے میں گونج رہے تھے

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

بلیک ٹریننگ پینٹ پر بلیک لوز شرٹ پہنے بلیک ہی سنیکرز میں کندھے پر سپورٹس بیگ ڈالے پرائیویٹ پارک سے باہر نکل کر کچھ فاصلے پر کھڑی اپنی بلیک لینڈ کروزر کی جانب بڑھ رہا تھا پیشانی عرق آلود تھی گہرے سیاہ سلکی بال پیشانی پر شتابی سے بکھرے ہوئے بےحد 

خوبصورت لگ رہے تھے چہرہ سرخی مائل تھا یہاں تک کہ شرٹ بھی پسینے میں شرابور تھی گاڑی کا فرنٹ سیٹ گیٹ کھول کر فرنٹ سیٹ پر سپورٹس بیگ اچھالتے ہوئے وہ گاڑی سٹارٹ ہی کر رہا تھا

"اوئے رک"

گاڑی سٹارٹ کرتا وہ ساکت ہوا تھا کیونکہ جن الفاظ کا چناؤ اسے مخاطب کرنے کے لئے کیا گیا تھا وہ اسکی رعب دبدبہ شخصیت کے لیے موزوں نہیں تھے اور دوسرا اس لڑکے کا لہجہ اسکو بھڑکا چکا تھا اسنے اس قدر درشتگی سے مٹھی بھینچی تھی کہ اسکی انگلیوں کے سختی سے بھینچے جانے کی کھنکھناہٹ اس لڑکے نے بھی سنی تھی گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ لڑکا بغیر گھبرائے اسکی جانب بڑھ رہا تھا اور وہ  اسے کرختگی سے دیکھتے ہوئے ضبط کرنے کی کوشش میں ناکام ہو رہا تھا 

"کیوں بے سنا ہے بڑی اکڑ ہے تجھ میں ہاں"

 اسکے مقابل رکتا سیمی طنزیہ لہجے میں گویا ہوا ایک خفیف مسکراہٹ اسکے گداذ ہونٹوں پر بکھری تھی سیمی اسکا بغور جائزہ لے رہا تھا 

"چھے فٹ سے نکلتا دراز قد تیکھے نقوش والا  بےحد پرکشش چہرہ "

"کیا چاہیے "

 وہ بےحد متانت سے گویا ہوا

"کسی نے تیری ہڈیاں توڑنے کا آرڈر دیا ہے " 

سیمی نے بلیک ہوڈ چہرے سے اتارتے ہوئے کہا تھا وہ شاطرانہ انداز میں مسکرایا تھا پینٹ کی پاکٹ سے ہاتھ نکالتے ہوئے!!

"توڑنا چاہتے ہو یا تڑوانا چاہتے ہو Kid" 

جہاں اسکا Kid کہنا سیمی کو آگ لگا گیا تھا وہاں اسکے پیچھے تین اور لڑکوں کو نمودار ہوتے دیکھ کر اسکے لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ ابھری تھی بھوری درخشاں آنکھوں میں چنگاریوں نے چمک بکھیری تھی

"اچھا تو چھوٹے چھوٹے بچے میرے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں ہاؤ سوئیٹ" 

پیشانی پر بکھرے سلکی سیاہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر پیچھے کرتا ہوا استہزائیہ لہجے میں کہتا وہ کسی کو بےحد بھلا لگا تھا  گاڑی میں بیٹھی سیرت گہری نظروں سے اسکی ہر باریکی کا جائزہ لے رہی تھی

وہ چاروں اسکے سامنے آ کر رکے تھے وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو چخٹاتا ہوا  ڈھیلی شرٹ کے کف لنکس کھولتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا تھا 

"کیوں بے ڈر گیا" 

سیمی نے طنز کیا تھا مگر اگلے ہی پل میں اسکے چہرے پر پڑنے والی کک نے اسے کئی میٹر دور پھینکا تھا باقی کے تین لڑکے حیرت سے چونکے تھے کیونکہ اسنے تائی کوان ڈو (جو مارشل آرٹس ٹیکنیک کی سب سے کمپلیکس کک ہے ) کا استعمال کیا تھا  گاڑی میں بیٹھی سیرت نے اچھنبے سے اسے دیکھ کر سر جھٹکا تھا جو شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا شرٹ کو گاڑی کے ہوڈ پر متانت سے گراتے ہوئے اسنے سر کو خم دیکر ان لڑکوں کی جانب دیکھا تھا سیمی کے ناک سے بہتے خون نے ان لڑکوں کو بری طرح خوفزدہ کیا تھا سیرت نے دزدیدہ نگاہوں سے گاڑی سے نکل کر  اسکے ورزشی بدن کا معائنہ کیا تھا 

"اوہ نو ہی از مارشل آرٹس ایکسپرٹ" بےساختہ اسکے لبوں سے الفاظ خطا ہوئے تھے  اسکے ریاضت سے تراشے گئے سکس پیکس اور مظبوط اعصاب اور تناور  جسامت کا بغور جائزہ لینے کے بعد اسکے مظبوط بازوں کی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھی کہنی کے نیچے چھوٹے چھوٹے حروف میں چند الفاظ پر مشتمل ایک مخصوص ٹیٹو بنایا گیا تھا 

"یہ ۔۔ یہ مارشل آرٹس جانتا ہے " 

سیمی نے اسکی مظبوط جسامت سے اندازہ لگا کر غرا کر کہا تھا جس پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا باقی کے تین لڑکوں نے اس پر ایک ساتھ اٹیک کیا تھا وہ کیپوئیرا کے ڈیفینسیو اور آفینسیو ٹیکنیس کا مہارت سے استعمال کر کے انہیں کچھ ہی پل میں زمین چٹا چکا وہ لوگ زمین پر گرے کراہ رہے تھے کوئی اپنی ٹانگ تھامے ہوئے تھا تو کوئی اپنا بازو پکڑے کراہ رہا تھا اسکی آنکھوں نے متانت سے اپنے پیچھے کسی پرچھائی کو دیکھا تھا اور ہلکی چنبیلی کے پھولوں کی مہک نے کسی کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا تھا 

اس سے پہلے وہ اس ہر ٹرائی اینگلر چوک کا استعمال کرتی وہ مہارت سے پیچھے مڑتے ہوئے اسکے چہرے پر زوردار فسٹ جڑ چکا تھا 

"آہہہہ" 

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"ہیلو سر سیرت میم کی گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے باہر ملی ہے اور ان کے گارڈز بھی ڈیڈ ہیں ان پر فائرنگ کی گئی تھی انہیں ایمرجنسی لے جایا گیا مگر وہ وہاں دم توڑ گئے تھے " 

ریوالونگ چیئر سے وہ درشتگی سے اٹھا تھا

"کون تھے وہ لوگ"

"پتا نہیں سر لیکن ان کا ایک آدمی سٹریٹ میں بےہوش ہو چکا تھا  ڈاکٹرز کا کہنا ہے کسی نے اسے چوک سے بےہوش کیا باقیوں کا پتا نہیں چل سکا ہم انویسٹیگیشن کر رہے ہیں بہت جلد ان تک پہنچ جائیں گے " 

"وہ آدمی اسوقت کہاں ہے" وہ چیئر سے اپنا بلیک کوٹ اٹھاتے ہوئے متانت سے گویا ہوا

"سر وہ اس وقت بے ہوشی کی حالت میں  ہاسپیٹل میں ہے "

"مجھے ایڈریس بھیجو اور سیرت کہاں ہے" وہ کوٹ پہنتے ہوئے دروازہ کھول ہر باہر نکلتے ہوئے بولا

"سر وہ اپنے فرینڈز کیساتھ مال کی جانب جاتے دیکھی گئی ہیں میں مال کے باہر ہی ہوں آپ پریشان ناں ہوں وہ ابھی تک باہر نہیں آئی"

"گڈ ٹیک کیئر آف ہر " وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے آفس سے نکل رہا تھا

"شیور سر میم کی گاڑی کچھ دیر میں انکے اپارٹ تک پہنچا دیتا ہوں " 

کال منقطع کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اپنی گاڑی نکال کر ہاسپیٹل کی جانب نکل گیا تھا 

"کون سیرت پر اٹیک کر سکتا ہے کس کی اتنی ہمت ہوئی" وہ اسٹیئرنگ ویل پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے متانت سے سوچ رہا تھا

                                          -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

وہ کراہ کر نیچے گری تھی

نسوانی آواز پر وہ ٹھٹک کر رک گیا تھا نیچے گری سیرت نے ہونٹ پر انگوٹھا رگڑ کر ہونٹ سے بہتے سرخ سیال کو دیکھ کر اسے خون آشام نظروں سے دیکھا تھا  جو بلیک ہوڈی میں چھپے اس چہرے کے ملائم ہونٹوں سے رستے خون کو متانت سے دیکھ رہا تھا 

ایک زوردار کک اسکے سینے پر مارتے ہوئے وہ کسی جنگلی بلی کی طرح اس پر جھپٹی تھی  تیز بارش شروع ہو چکی تھی وہ گہری نظروں سے ان لبوں کو دیکھتا ہوا گاڑی کے ہوڈ سے لگا تھا اسکی کمر میں گاڑی کے ہوڈ سے لگنے کے باعث درد کی ٹھیس اٹھی تھی مگر بےباک نظریں اب بھی ان لبوں پر جمی ہوئی تھی اور اسکے وجود سے پھوٹتی وہ ہلکی چنبیلی کی نکہت اسکے حواسوں پر قابض ہو رہی تھی سیرت حیران ہوئی تھی یا وہ لڑنا بھول گیا تھا یا وہ لڑنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا تھا ایک زوردار فسٹ سیرت نے واپس اسکے چہرے پر مارنی چاہی مگر وہ ہوا میں ہی اسکا خوبصورت ہاتھ پکڑ چکا تھا

ایک تیز ریفلیکس کیساتھ اسکی کمر میں بازو حمائل کرتے ہوئے وہ اسے کھینچ کر اپنے اوپر گاڑی کے ہوڈ پر گرا چکا تھا اپنی کمر پر اسکے مظبوط ہاتھ کے ٹھنڈے لمس نے اسکی دھڑکنیں تیز کی تھی وہ دیوانگی سے اسکے بھیگے گلابی لبوں کو دیکھے جا رہا تھا جس سے سرخ سیال بارش کے پانی کیساتھ مل کر قطرہ قطرہ گر رہا تھا 

سیرت نے گڑبڑا کر ہاتھوں سے احتجاج کرنا چاہا تھا اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے مظبوط ہاتھ میں لیکر اسکی کمر سے لگا کر وہ اسے کھینچ کر بےحد قریب کر گیا تھا

 "Damnnn"

اسکے ہونٹوں کو بےباک نظروں سے دیکھتا وہ بھاری سرگوشیانہ لہجے میں بولا اسکی بھاری مردانہ آواز میں کی گئی سرگوشی سیرت کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گئی تھی اسکا دل تو اسے سو گالیاں دینے کا کر رہا تھا لیکن وہ خود ہی بول کر اپنا راز افشاء نہیں کر سکتی تھی

دوسرے ہاتھ سے اسنے اسکے چہرے سے ہوڈ ہٹایا تھا سیرت نے آنکھیں میچی تھی دوسری جانب وہ جو ان لبوں کو دیکھ کر ہی اسے پہچان چکا تھا اسکے یون خوف سے آنکھیں میچ  جانے پر مبہم سا مسکراتا ہوا اسکے نرم ہاتھ کو دیکھ گیا تھا جو اسنے ڈرتے ہوئے اسکے مظبوط کندھے پر رکھا تھا

 اپنی کلائی پر رینگتی ہوئی اسکی سرد انگلیوں پر وہ آنکھیں کھول گئی تھی

"بےشرم انسان چھوڑو مجھے"

 وہ دانت پیستے ہوئے غرائی تھی وہ استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا ایک خفیف مسکراہٹ لبوں پر سجا گیا تھا سیرت نے سرسری نظر سے اسکی حسیں بھوری آنکھوں کو باریکی سے اور پھر اسکی خم دار پلکوں سے ٹپکتی بارش کی بوندوں کو موتیوں کی صورت میں اسکے چہرے پر بہتے دیکھا تھا کوئی شک نہیں تھا وہ وجاہت اور حسن سے مالا مال تھا 

 وہ سنجیدگی سے اسکے نچلے لب کو انگوٹھے سے سہلا گیا تھا سیرت چونکی تھی

"ہاتھ ہٹاؤ ورنہ جان لے لوں گی" 

گہری سیاہ آنکھوں نے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھمکی دی تھی 

" آپ اور کر بھی کیا سکتی ہیں جان لینے کے علاوہ مس سیرت رضوی"

 اسکے بےخوف و حراس لہجے پر سیرت کی پیشانی پر بل پڑے تھے نظریں جھکانے پر اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ اسوقت شرٹ لیس تھا بارش کی گستاخ بوندیں اسکے کسرتی جسم پر بڑی رغبت سے گر رہی تھی 

 بارش کی بوندوں سے بھیگی سیاہ پلکوں سے  سیرت نے آنکھوں کو ڈھانپا تھا اسکی غائر نگاہ سیرت کے ہونٹوں سے اسکے چہرے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھی جو اسوقت بارش کی بوندوں سے تر تھا اسکے رعنا انگوٹھے کا اسکی قربت اور مردانہ کلون کی ہلکی مہک سے دہکتے رخسار پر رینگنا اسکے بھیگے وجود میں سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا اسکی دھیمی مہک سیرت کی جان لے رہی تھی جسے اسنے کل خراب اور ناجانے کیا کچھ کہا تھا آج وہ اسکے سحر میں مبتلا حرکت کرنے سے قاصر تھی

"بیوٹیفل" 

اسکے ہونٹ کے اوپری کنارے پر مقیم تِل پر انگوٹھا رکھتے ہوئے وہ بےخودی سے بولا سیرت نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ کر اسکی گردن میں اپنے تیز ناخن پیوست کیے تھے

"اپنی حد میں رہو ورنہ تمھارا منہ بھی نوچ لوں گی" اس پر سے اٹھتے ہوئے وہ دبے لہجے میں غرائی تھی اسنے تاسف سے اسے دیکھا تھا جو اپنے دوستوں کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی  سر جھٹکتے ہوئے اسنے شرٹ اٹھا کر پہنی تھی جو بالکل بھیگ چکی تھی

"وہ خود چل کر آ سکتے ہیں آپ جائیں یہاں سے فورآ" اسکی کلائی سے پکڑ کر اسے اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا سیرت نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھ کر اپنی کلائی جھٹکی تھی

"دور رہو ان فیکٹ اسی وقت نکلو یہاں سے  کیا کرنا ہے مجھے مت سیکھاؤ"  سیرت نے پیشانی پر بل ڈالے تنک کر کہا مگر اسکا سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ خاموش ہوئی تھی

"میں نے کہا چلو یہاں سے" اسکے بھیگے سراپے پر نظر پڑتے ہی وہ بلا کا سنجیدہ ہوا تھا ناجانے کیوں اسے بےحد برا لگا تھا اسکا ان لوگوں سے ہمدردی کرنا اور اس حالت میں انکے سامنے رہنا

 اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتا ہوا وہاں سے گاڑی تک لایا تھا

"جاؤ اسی وقت ان کو میں ہینڈل کروں  گا"  اپنی گاڑی کی چابی اسکی جانب اچھالتا ہوا  اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہ درشتگی سے کہہ کر ان لوگوں کی جانب بڑھ گیا تھا

"تمھیں کسی دن سچ میں ناں مار ڈالوں میں  " اسکی چوڑی پشت کو گھورتے ہوئے وہ پھنکار کر بولی اور گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے نکل گئی تھی

گہری نیند میں سوئی ہوئی آئیذل کے فون پر مسیج آیا تھا اچانک وائبریشن ہونے پر وہ خوفزدہ سی ہو کر اٹھی تھی اور فون کو گھورا تھا 

"آدھی رات کو " 

وہ نیند میں بڑبڑاتے ہوئے فون اٹھا کر ٹائم دیکھتے ہوئے بولی اور ساتھ چونکی تھی فون سکرین پر آئے نوٹیفیکیشن کو پڑھ کر 

The new year has begun Rooh-E-Qalb!!

With the beginning of the new year, I promise that I will give my life to erase every problem, sorrow, pain from your life.

 I promise with every passing second in my heart for you (respect and love will grow exponentially)

I promise, baby girl, every breath I take will be yours ۔۔۔Only Yours!!

I will be with you in every good and bad time of life, no matter what the situation is, I will never leave you. 

You're Always Here In My Heart 

Regards : Professor!!

وہ مسکرائی تھی کیونکہ اسنے اپنے نام کی جگہ پروفیسر لکھا تھا

"Thank You" 

مختصر سا میسج ٹائپ کر کے اسے بھیجنے کے بعد وہ مسکراتے ہوئے لیٹ گئی تھی اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر دراز وہ آنکھیں وا کرتے ہوئے

 اسکا میسج پڑھ کر مبہم سا مسکرایا تھا 

"اوہ ہو کیا ہو رہا ہے" سیرت کی آواز سن کر وہ اٹھا تھا دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے وہ شریر نظروں سے اسکے فون کو دیکھ رہی تھی

"پرنسس"

"Happy New Year"

سنو سپرے نکال کر وہ اسے پورا سفید کرتے ہوئے ہنس کر بولی تھی ذاویان نے چہرے پر کہنی دیتے ہوئے تاسف سے آنکھیں سکیڑی تھی  

"سیرت یہ کونسا طریقہ ہے " 

چہرے سے سنو صاف کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا سیرت مسکراتے ہوئے اسے گلے لگا گئی تھی جس پر اسکی ساری ناراضگی ختم ہو گئی تھی

"Happy New Year my Princess"

اسکے بالوں پر لب رکھے وہ محبت سے بولا تھا

"لیکن آپ نے پہلے وش کسی اور کو کیا تھا کون ہے وہ مجھے بھی بتائیں" منمناتے ہوئے وہ اسکا فون کھینچ کر بولی تھی ذاویان نے افسوس سے اسے اپنے فون کی تلاشی کرتے ہوئے دیکھا تھا

"لمظ ۔۔ بھائی لمظ مل گئی" 

اسکا نمبر دیکھ کر وہ خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کیساتھ استفسار کرنے لگی ذاویان نے سنجیدگی سر ہلایا تھا 

"بھائی آئی ایممم سووووو ہیپی فار یوووو" 

وہ مسکراتے ہوئے دوبارہ اسکو گلے لگا چکی تھی وہ سنجیدگی سے اسکے بال سہلا گیا تھا اور افسردہ بھی ہوا تھا جو لڑکی اسے سب کچھ بتایا کرتی تھی آج اتنا بڑا حادثہ ہو گیا تھا اور اسنے اپنے بھائی سے ایک لفظ تک نہیں کہا تھا اس بارے میں!!

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

اگلی صبح:- 

"پروفیسر آپکی کافی یو وائٹ سمتھنگ ایلس؟؟"

اسنے سنجیدگی سے سر اٹھایا تھا رباب چمکتے چہرے کیساتھ اسکی کافی کا کپ لئے اسکے ڈیسک پر رکھ رہی تھی اسکی پیشانی پر شکنوں کا جال ابھرا تھا

"Who asked you to do this?

بے کیف لہجے میں استفسار کرتے ہوئے وہ کرختگی سے لیپ ٹاپ بند کر چکا تھا

"پروفیسر آئیذل نے آپکی اسسٹنٹ کی جاب چھوڑ دی ہے پروفیسر شاہان کی اسسٹنٹ واپس آ گئی ہیں اس لئے میں نے سوچا"

"You Are Not Needed Here Miss Rabab"

اسکی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے وہ پرفیشنل سے لہجے میں کہتے ہوئے سر جھٹک کر گریڈ لسٹ کی طرف متوجہ ہوا تھا

"پروفیسر پلیز " 

کرختگی سے اسنے نظریں اٹھائی تھی رباب نے اسکے ڈیسک کے قریب رکتے ہوئے حسرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ کر کہا تھا

"Miss Aizal is my assistant till now she has not informed me accordingly to leave this job So there is no need for you here"

وہ خشک لہجے میں کہہ کر دوبارہ لسٹ کی طرف متوجہ ہوا تھا

"پروفیسر آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں"

 وہ ڈیسک کر قریب رکتے ہوئے تاسف سے بولی اب کی بار اسنے پین پیپرز پر رکھ کر سنجیدگی سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا اسکی سنہری درخشاں آنکھوں کی توجہ حاصل کر کے وہ رشک بھری نظروں سے اسے دیکھ گئی تھی

"You are my student here, like the rest, why should I ignore you? I do not justify ignoring you Miss Rabab Why would I do that???

وہ متانت سے گلاسز اتارتے ہوئے تشویش سے بولا تھا

"You Can If You Want"

اسکے لہجے پر نظریں جھکائے بیٹھے ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا تھا 

Are you out of your mind?

اب کی بار وہ چیئر سے اٹھتے ہوئے درشتگی سے گویا ہوا تھا رباب اسکے پیچ و تاب کھاتے چہرے کو دیکھتی ایک قدم پیچھے ہٹی تھی 

"اوکے جیسا آپ چاہیں پروفیسر میں صرف آپکی مدد کی غرض سے آئی تھی لیکن شاید آپ مجھ سے بحث کرنا چاہتے تھے بےوجہ کوئی بات نہیں "  کندھے اچکاتے ہوئے وہ کہہ کر پیچھے مڑی تھی ذاویان نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا

"آپکو اندازہ ہے آپ کیا کہہ رہی ہیں مس رباب" 

یہی تو وہ چاہتی تھی دروازے سے قدموں کی آہٹ سن کر وہ نم آنکھوں سے پیچھے مڑی تھی اور اسے دیکھا تھا 

"آپ سمجھ نہیں سک"

تیزی سے قدم باہر کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ جان بوجھ کر پیر مڑنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے اس کے کندھے کو پکڑ گئی تھی وہ بےتاثر سا دروازے کی طرف دیکھ گیا تھا اسے دور ہٹاتے ہوئے

دروازے سے اندر داخل ہوتی آئیذل متعجب نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے رکی تھی

"اوہ آئیذل تم یہاں " وہ آئیذل کو دیکھتی جلدی سے ذاویان  سے پیچھے ہٹی تھی وہ تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے آئیذل کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ بےتاثر تھا

"میں یہ جاب نہیں کر سکتی آپکو آگاہ کرنے آئی تھی پروفیسر ،، رباب اپلائے کرنا چاہتی تھی اس لئے میں نے ابھی سے چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے " وہ بےتاثر لہجے میں بولی رباب نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آئیذل کو دیکھ کر بھنویں اٹھائی تھی 

"مس آئیذل"

"تھینک یو ہیو آ نائس ڈے پروفیسر" وہ ہلکی مسکراہٹ کیساتھ بغیر اسکی بات سنے کہہ کر باہر نکل گئی تھی رباب بھی اسکے پیچھے باہر نکلی تھی ذاویان کی ڈانٹ سے بھاگنے کے لئے

"یار تم غلط ٹائم پر آ گئی"

وہ آئیذل کو روکتے ہوئے اسکے مقابل ٹھہرتی مسکرا کر اسے جلانے کی غرض سے بولی

"چچچ جھوٹ کی بھی انتہا ہوتی ہے روبی میری جان پروفیسر کی اٹینشن حاصل کرنے کے لئے تم اتنا گر جاؤ گی میں نے تو ویسے ہی ری ذائن کرنا تھا تمھیں ناٹک کرنے کی کیا ضرورت تھی پتا ہے کس لئے" 

رباب جو اسکے پلٹ کر جواب دینے پر سلگ پڑی تھی اسکے اپنے چاروں اطراف گھومنے پر چونکی تھی

"بہت اکڑ ہے ناں تمھیں تمھارے CGPA کی تمھاری ساری اکڑ نکال دوں گی میرہ پڑھاکو نازک سی جان تم دیکھتی جاؤ ارے فلحال میں یہ کہنے آئی تھی کہ آج تم نے مجھ سے معافی بھی تو مانگنی ہے ہےناں ایسا کرو فری لیکچر کے ٹائم تم مجھ سے  سب کے سامنے  آرام سے معافی مانگ لینا اوکے باقی سب تو ہوتا رہے گا " اسکے چہرے کر قریب چٹکی بجاتے ہوئے وہ کہہ کر مسکراتے ہوئے وہاں سے گزر گئی تھی کسی نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو پلٹ کر جواب دینا سیکھ گئی تھی رباب نے تیکھی نظروں سے اسے لیکچر ہال کی جانب بڑھتے دیکھا تھا

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"اشفاق آپ آ گئے"

لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی مہر النساء بیگم جلدی سے اٹھتے ہوئے انکی جانب بڑھتی خوشدلی سے بولی تھی 

"ہاں مہرو " 

 محبت سے انکے ہاتھ تھامتے ہوئے وہ لہجے میں شیرنی گھول گئے

"شکر ہے آپ صحیح سلامت ہیں اشفاق لیکن چاہت"

"میں یہاں ہوں موم"  ہینڈ بیگ کیری کئے وہ انکی بات کاٹتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی اسکا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے عاری تھا مہر النساء بیگم نے اسےتعجب سے دیکھا تھا کیونکہ وہ تو کہہ کر گئی تھی کہ وہ یو ایس جا رہی ہے

"میں واپس آ گئی تھی کل رات ہی" انکی سوالیہ نظروں کو جانچتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولی مہر النساء بیگم کی نظر جب اسکی ڈریسنگ پر پڑی تو وہ چونک پڑی تھی وہ سمپل وائٹ شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس تھی کیا اسکی طبعیت ٹھیک تھی وہ تو کبھی ایسی ڈریسنگ نہیں کرتی تھی 

"ڈیڈ سر درد ہو رہا ہے میں روم میں ریسٹ کرنے جا رہی ہوں" 

"جاؤ بیٹا" 

وہ بڑی تہذیب سے سر ہلا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی مہر النساء بیگم کو ششدر چھوڑ کر 

"میں فریش ہو کر ملتا ہوں مہرو چاہت کی طبعیت خراب ہے زرا اسکا خیال رکھنا" محبت سے انہیں دیکھ کر اشفاق صاحب اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے مہر النساء بیگم نے تاسف سے انہیں دیکھا تھا جو اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی نارمل رہنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن چاہت کی حالت نے انکو کہیں ناں کہیں اداس کیا تھا 

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"تم جاب تو ناں چھوڑتی آئیذل پروفیسر کو برا لگ رہا ہو گا " حورم نے اسے جھنجھلا کر دیکھا تھا 

"لگتا رہے برا " آئیذل نے بھنویں سکیڑی تھی رباب انہیں ساتھ بیٹھے باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر انکے قریب والی چیئر پر آ کر بیٹھی تھی اپنے گروپ کیساتھ گپ شپ کرتے ہوئے اسکے کان اور آنکھیں آئیذل کی جانب ہی تھے

"آپکو پروفیسر زاویان نے آفس میں بلایا ہے"  پیون کی بات پر جہاں حورم مسکرائی وہاں آئیذل نے منہ کا زاویہ بگاڑا رباب جل کر کباب ہوئی تھی 

"ان سے کہہ دیں کہ مس آئیزل فری نہیں ہیں"  وہ بےپرواہی سے سر جھٹکتے ہوئے بک کی جانب متوجہ ہوئی حورم نے اچھنبے سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے پیر پر پیر مارا تھا جبکہ اسکے جواب پر رباب تو حیران ہی ہوئی تھی کیونکہ پروفیسر زاویان کے بلانے پر وہ نہیں جا رہی تھی !!

"جاؤ "

حورم نے اسے گھورا تھا

"نہیں" 

آئیذل نے دانت پیسے تھے 

پیون سر ہلا کر چلا گیا تھا 

"تمھاری خیر نہیں اب دیکھ لینا" 

حورم نے تاسف سے سر کو خم دیتے ہوئے کہا

"نہیں ڈرتی میں بھی" 

آئیذل نے ناک چڑھایا تھا 

"یہ پہلا فری لیکچر ہے اور مجھے سکون چاہیے لگاتار تین گھنٹوں سے لیکچر لیتے ہوئے میری کمر دکھ رہی ہے میرا بس نہیں چل رہا یہیں لیٹ جاؤں" آئیذل نے حورم کو دیکھتے ہوئے شکوہ کیا حورم نے اچھنبے سے اسے دیکھا

"یہ تمھیں ہو کیا گیا ہے ہماری آئیذل کہاں ہے یار جو کبھی شکایت نہیں کرتی تھی " حورم نے پیشانی پر بل ڈالے پوچھا 

"وہ گھر پر سلا کر آئی ہوں " 

حورم اور آئیذل دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنسی تھی رباب نے آنکھیں گھمائی تھی سبھی سٹوڈینٹس فری لیکچر کے دوران پروفیسر زاویان کو لیکچر ہال میں داخل ہوتے دیکھ کر چونکے تھے پورے ہال میں سکوت چھا گیا تھا جیسے ہی وہ ہال میں داخل ہوا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جو اسے سبق سیکھانے کے لئے آفس سے خود یہاں آیا تھا اب کی بار اسنے بایک بینی سے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا تھا 

بلیک پینٹ اور بلیک شرٹ پر بلیک کلاسی بلیزر میں وہ ذی وجاہت شخص گہری نظروں سے لیکچر ہال کا جائزہ لے رہا تھا جو اس وقت سبزی منڈی لگ رہا تھا فری لیکچر ہونے کی وجہ سے سٹوڈینٹس کرسیاں یہاں وہاں کھینچ کر گروپس کی شکل میں بیٹھے تھے کچھ آوارہ سٹوڈینٹس نے پیپرز پھاڑ پھاڑ کر نیچے پھینکے تھے وہ سنجیدگی سے پورے ہال کا جائزہ لے رہا تھا

"This lecture hall offers a view of the vegetable market, I am sorry to say that you are all good for nothing It would be my mistake to call you guys seniors "

آنکھیں تاسف سے سکیڑ کر اسنے موزونیت سے بھرپور لہجے میں کہا آئیذل نے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کی تھی حورم نے شرمندگی سے سر جھکایا تھا پورے ہال میں ہو کا عالم تھا سب گردنیں جھکائے شرمندہ سے بیٹھے ہوئے تھے

"مس آئیذل" 

 متانت سے مخاطب کرتے ہوئے ذاویان نے اسے دیکھا تھا

"جی" 

وہ جی پر زور دیتے ہوئے اپنی چیئر سے اٹھی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا جو آج کچھ زیادہ ہی چالاک بن رہی تھی

"You didn't complete the paperwork" 

وہ اپنے دیدہ زیب تراشیدہ لبوں پر خفیف متبسم بکھرنے سے خود کو روکتا ہوا متانت سے پیشانی پر چند بل ڈالے گویا ہوا تھا کام تو وہ بیچاری مکمل کر چکی تھی یہاں مصنوعی غصہ جھاڑنے کا مقصد اسے بلانا تھا

"Oh, I forgot, sorry professor "

سینکڑوں لڑکیوں کی نظریں خود پر محسوس کر کے وہ تاسف سے بولی تھی گلاسز کے عقب میں ان سنجیدہ سنہری آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی

"Then Complete it now Miss Aizal"

وہ سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر آئی برو اٹھا کر کہتے ہوئے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا

لیکچر ہال میں موجود تقریباً دو سو کی تعداد میں سٹوڈینٹس نے سکھ کا سانس لیا تھا

 آئیذل مسکراہٹ دباتے ہوئے اٹھی تھی یقیناً اسکا یہاں اسکے لئے آنا اسے اچھا لگا تھا وہ مغرور سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے پورے لیکچر ہال کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے کانفیڈینس ہو کر باہر نکل گئی تھی

"اس کے پر نکل آئے ہیں پروفیسر ہاسپیٹل کیا لیکر گئے یہ تو ہواؤں میں اڑنے لگی ہے" رباب نے سر جھٹکتے ہوئے دانت پیسے تھے

وہ آفس کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہی ہوئی تھی جب اسکا انتظار کرتا ذاویان ایک سیکنڈ کی دیر کئے بغیر اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے دیورا سے لگا چکا تھا ایک پل میں آئیذل کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اسے اتنا قریب دیکھ کر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ گئی تھی

"مجھے میرے آفس میں آپ ہر روز،،۔ہر صبح،، چاہیے ہیں لمظ"

اسکے چہرے پر جھکتا وہ بےحد دھیمی سرگوشی کرتے ہوئے گویا ہوا اسکی گرم نکہت آلود  سانسوں کی گرمائش کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے اسنے بڑی بڑی بنفشی آنکھوں سے اسکی سنہری مہرِ درخشاں سمندر سی گہری آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں جذباتوں کی لہریں پیدا ہو رہی تھی

"رباب کو بلا لیا کریں پروفیسر"  

وہ طنزیہ لہجے میں اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی اسکے چہرے پر سپاٹ تاثرات تھے

"نام مت لینا اسکا ہمارے بیچ کوئی تیسرا نہیں آ سکتا"  درشتگی سے کہتے ہوئے اسنے دیوانگی سے اسکے چہرے کو دیکھا تھا 

"پھر وہ کیا کر رہی تھی آج آپکے اتنا قریب" 

سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ سوال کر رہی تھی گلاسز کے پیچھے چمکتی سنہری آنکھوں نے تشویش سے اسے دیکھا تھا

"لمظ"

"مجھے وضاحتیں نہیں چاہیے پروفیسر آپ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں آپکی آسانی کے لیے میں نے یہ جاب چھوڑی ہے" وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بےخوف و حراس لہجے میں بولی تھی اور ساتھ ہی جانے کی تیاری پکڑتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی

"میرا گزارہ کیسے ہو گا آپکو دیکھے بغیر ۔۔۔ مجھے آپ میرے بےحد قریب چاہیے ہیں لمظ۔۔۔ بےحد قریب" اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ اسے جانے سے روکتے ہوئے دوبارہ دیوار سے لگا کر ایک ہاتھ دیوار پر ٹکاتا اسکے جانے کا راستہ بند کرتے ہوئے متانت سے گویا ہوا

"پروفیسر میں آپکی سٹوڈینٹ ہوں یہ کونسا طریقہ ہے "  وہ آج اسے تنگ کرنے کا جیسے ارداہ بنا چکی تھی سنہری آنکھوں میں جذباتوں کی ایک لہر اٹھی تھی مہر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اسکے سر سے اوپر دیوار پر اپنے مظبوط ہاتھ سے پن کر چکا تھا  آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکا تھا 

"پھر تو میرا زیادہ حق ہوا مس آئیزل اگر آپ" میری" سٹوڈینٹ ہیں" 

 لفظ میری پر زور دیتے ہوئے وہ خمار لہجے میں کہتے ہوئے اسکے چہرے پر جھکا سرگوشی کر گیا

لمبے سانس لیتے ہوئے وہ اسکی کرامتی آنکھوں میں ڈوب رہی تھی جو ایک بےباک ادا سے اسکی آنکھوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر رہی تھی

 اب وہ پچھتا رہی تھی جو کھیل کچھ دیر پہلے اسنے شروع کیا تھا اس میں اسے ہی مات مل رہی تھی ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی

"اتنی جلدی نہیں مس آئیذل آپ نے جو شروع کیا تھا وہ مکمل ہونے کا انتظار کریں " دروازے کو لاک کرتے ہوئے وہ اسکا ہاتھ تھامے آفس کے بیچ و بیچ لا کر اسکا ہاتھ چھوڑ گیا تھا 

تیز دھڑکن ۔۔ منتشر ہوتی سانسیں۔۔ فلور پر اپنی جانب بڑھتے قدموں کی آہٹ ۔۔۔ اسکی طلسماتی مہک ۔۔۔۔ سنہری جان لیوا مہلک آنکھیں ۔۔۔ 

وہ بےجان ہوتے ہوئے بےساختہ پیچھے قدم لے رہی تھی اور وہ محظوظ نظروں سے اسکی جانب بڑھ رہا تھا ڈیسک سے لگتے ہوئے وہ ساکت ہو گئی تھی وہ صرف ایک چیز دیکھ پا رہی تھی 

 اسکی بے مروت ،، گستاخ نظریں!!

 اس کی جان نکلنے والی تھی

 جو کوٹ کو اتار کر چیئر پر ڈالتے ہوئے بازوں کے کف لنکس کھولتے ہوئے اسکی جانب بڑھ رہا تھا آئیذل نے تھرتھراتی نظروں سے اسے بازوں کے کف فولڈ کرتے ہوئے دیکھا تھا اسکی سپید کلائی پر ابھری نیلی نسیں اسے بےحد خوبصورت لگی تھی اور اسکی بلیک سمارٹ واچ اسکی کلائی کی رعنایت میں اضافہ کر رہی تھی آخری قدم بڑھا کر دونوں کے درمیان کا فاصلہ طے کرتے ہوئے

اسکی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اسے اٹھا کر ڈیسک پر بٹھا چکا تھا گھڑی کی ٹک ٹک آئیذل کے کانوں میں گونج اٹھی تھی اسکی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں نمودار ہوئی تھی وہ ہارٹ اٹیک آنے کا انتظار کر رہی تھی اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک اسکے قریب آنے پر آئیذل کے گرد حصار تنگ کر چکی تھی وہ چونکی تھی اسکا ہاتھ پکڑتا وہ اپنے کندھے پر رکھ کر اسکے چہرے پر جھک  گیا تھا آئیذل نے جھرجھری لی تھی اسکی مہک اسکے حواس بگاڑنے کے لئے کافی تھی اوپر سے اسکی گرم سانسیں!!

وہ پوری طرح اسکے سحر میں مبتلا ہو کر رہ گئی تھی اپنے چہرے پر اسکے ٹھنڈے ہاتھ کے لمس پر وہ دہک گئی

"ذاویان" 

طمانیت میں ڈوبا سرگوشیانہ لہجہ!! 

ایک مغرور مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا یہی تو وہ چاہتا تھا

"مس آئیذل آپ میری سٹوڈینٹ ہیں پھر میرا نام کیسے لے سکتی ہیں آپ  " استہزائیہ لہجے میں کہتا ہوا وہ اسے بےحد شرمندہ کر گیا تھا وہ اپنے ہی کھیل میں بری طرح ناکام ہوئی تھی لب بھینچتی وہ شرمندگی سے نظریں چرا گئی تھی

"بےبی گرل اگلی بار میرے ساتھ ایسی مائنڈ گیمز کھیلنے سے پہلے ضرور سوچئے گا کیونکہ اگلی بار آپکو اتنی آزادی نہیں دی جائے گی اینڈ لاسٹ تھنگ صرف پانچ دن!! اسکے بعد آپ میرے پاس ہوں گی "  جھلسا دینے والے لہجے پر وہ آنکھیں کھولتی اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ کر حلق تر کر گئی

"جسٹ امیجن صرف ہم پھر کیا ہو گا آپکا روحِ قلب" وہ شریر لہجے میں کہتے ہوئے اسکے اوسان خطا کر چکا تھا

وہ شرمندگی سے لال پڑتی ڈیسک سے اتری تھی اور اسے گھورتے ہوئے لاک کھول کر باہر نکل گئی تھی سر کو خم دیتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"آج کے بعد بھول کر بھی میں آپ سے مذاق نہیں کروں گی آپ تو مذاق کرتے ہوئے بھی مجھ معصوم کی جان نکال دیں گے " ہو ہچکی لیتے ہوئے مرے لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے لیکچر ہال کی جانب بڑھ گئی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"ہائے مسٹر بزی کیا حال ہے آج کل کچھ زیادہ ہی مصروف لگتے ہو"

سیرت نے غیر دلچسپی سے گلاس ڈور دھکیل کر اندر آتی لڑکی کو دیکھا تھا جس کا چہرہ ڈارک میک اپ سے بےحد اوور لگ رہا تھا

 وہ خفیف سا مسکراتے ہوئے اسکی جانب دیکھتا سر ہلا کر اسے خوش آمدید کہہ چکا تھا

 اسکے لیفٹ سائڈ کی چیئر کھینچ کر بیٹھتی سونیا جو اسکی فرینڈ اور بزنس پارٹنر تھی دلچسپی سے کچھ فاصلے پر بیٹھی سیرت کو دیکھنے لگی جو فائلز کے مطالعے میں بےپرواہی سے مصروف ہو گئی تھی

"یہ کون ہے عسکری" 

سیرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ غیر دلچسپی سے بولی حدید نے آئی برو اٹھاتے ہوئے سیرت کو دیکھا تھا جو خود کی جانب اشارہ ہونے پر فائل بند کرتے ہوئے سونیا کی جانب متوجہ ہوئی تھی

" سونیا یہ ہماری نئی بزنس پارٹنر مس سیرت رضوی ہیں" حدید نے جاذبیت سے اسکے میک اپ سے پاک چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا 

"اوہ تو یہ ہے وہ لڑکی !! اسے تو میں جانتی ہوں ان فیکٹ میں نے اسے پارک میں دیکھا تھا تمھارے ساتھ تمھاری بانہوں میں " چیئر سے اٹھتی سونیا طنزیہ انداز میں اسکے قریب کانفرنس ٹیبل پر بد تہذیبی سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی سیرت کی آنکھوں میں چنگاریاں حدید نے بھی دیکھی تھی

"عسکری اور میں بیسٹ فرینڈز ہیں یو نو اور مجھے بالکل پسند نہیں تم جیسی چپکو لڑکیاں اسکی اٹینشن اٹریکٹ کرنے کے بعد ایسا نیگیٹیو ایٹیٹیوڈ دیکھاتی پھرو اچھے سے جانتی ہوں تم اسکی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیسے آگے پیچھے دوڑتی رہی ہو کیریکٹر لیس" 

"سونیا"  

حدید کی پیشانی پر بل پڑے تھے جبکہ سیرت کے گداذ ہونٹوں پر پراسرار متبسم بکھرا تھا وہ چیئر کھینچتے ہوئے اٹھی تھی حدید نے گہری نظروں سے اسکا اطمینان سے بھرپور چہرہ دیکھا تھا

"فار یوئر کائنڈ انفارمیشن سونیا چوہان تمھارا یہ بیسٹ فرینڈ  شروع سے ہی میری توجہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا اور یہ بات میں اسکے فیس پر بھی کہہ سکتی ہوں " سیرت نے حدید کو خونخوار نظروں سے دیکھ کر کہا تھا حدید نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"تم نہیں بھاگ رہی تھی عسکری کے پیچھے ؟؟ اوہ اب تم کہہ رہی ہو حدید تمھارے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔ تم جیسی کیریکٹر لیس لڑکیاں ایسا ہی کہتی ہیں جب سچ کا آئنہ دیکھایا جائے" سونیا اسکے مقابل کھڑی ہوئی تھی 

"تمھارے کہنے پر یہ سب کہا جا رہا ہے ناں مجھے بدلہ لینا چاہتے ہو تم مجھ سے کل جو کچھ ہوا" سیرت نے حدید کی جانب دیکھا تھا جو چیئر سے اٹھ گیا تھا اسنے پہلے بار سیرت کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھی تھی

"بہت اچھا کر رہے ہو میں نے ہلکے میں لے لیا تمھیں حدید رضا عسکری ،، مجھے لگا تھا تم  مجھے کسی وجہ سے ٹرول کر رہے ہو، لیکن آج تو بات میرے کیریکٹر لیس ہونے تک پہنچ گئی، پہلے تم نے مجھے آفس سے بے عزت کر کے نکالا اسکے بعد تم خود مجھ سے میٹنگ کرنے آئے مجھ سے فرینڈلی بیہیوررر رکھا تم سے کسی نے سوال نہیں کیا اور یہ لڑکی مجھ سے سوال کر رہی ہے اگر میں نے تمھارے ساتھ فرینڈلی بیہیوررر رکھا ؟" زیرت کی آنکھوں میں پہلی بار وہ نمی دیکھ رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اتنی سٹرونگ لڑکی کبھی رو بھی سکتی تھی سونیا نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آنکھیں گھمائی تھی

"آج کے بعد میں تمھیں یہاں نظر نہیں آؤں گی آج تم نے ثابت کر دیا کہ میں بہت بڑی بےوقوف تھی جو تم سے فرینڈلی بیہیوررر رکھا تم بھی باقی لوگوں جیسے ہی ہو گھٹیا گرے ہوئے بھاڑ میں جائے تمھاری یہ آفر نہیں کرنی ہمیں تمھاری کمپنی کیساتھ کوئی ڈیل "  اسکی آواز لرز رہی تھی جیسے آنسوں کا ذخیرہ حلق میں پھنس چکا تھا وہ حدید کو نفرت سے دیکھتے ہوئے سونیا کی طرف مڑی تھی 

" پہلے دن سے تمھارا یہ بیسٹ فرینڈ میرے ساتھ مائنڈ گیمز کھیل رہا تھا سو واٹ میں نے بھی وہی کر کے دیکھا مگر نہیں میں کیریکٹر لیس ہوں ؟؟  اگر یہ تمھارا اتنا ہی اچھا بیسٹ فرینڈ ہے تو کہہ دو مجھ سے دور رہے کیونکہ مجھے شوق نہیں ہے ایسے لوگوں کی اٹینشن اٹریکٹ کرنے کا ۔۔۔ ون لاسٹ تھنگ ۔۔۔ تم جیسی لڑکیاں چہرے پر اس طرح میک اپ تھوپ کر اپنی نمائش کر کے ایسے مردوں کے پیچھے دوڑتی ہوں گی میں نہیں  "

"مس سیرت"

"اور تم جیسا شخص پوری دنیا کی لڑکیوں کی اٹینشن حاصل کر سکتا ہے کوئی شک نہیں لیکن ایک لڑکی کو اتنا ڈچ کرنا اسے اپنے دوستوں سے کیریکٹر لیس بلوانا ریئیلی یہ تم ہو حدید رضا عسکری؟؟ افسوس بہت نیچ شخص ہو تم" 

اسکے الفاظ حدید کو ساکت کر گئے تھے اگر کسی اور نے اسکے ہی آفس میں اسے یہ سب کہا ہوتا تو شاید بات اور ہوتی مگر یہاں وہ صفائی دینا چاہتا تھا کہنا چاہتا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے مگر وہ بولنے کا موقع کہاں دے رہی تھی 

 "اور یہ بات تمھارا دوست بھی اچھے سے جانتا ہے کہ وہ میری اٹینشن اٹریکٹ کرنے کے لئے ناجانے کب سے کوششوں میں مصروف تھا اور آج مجھے کیریکٹر لیس ہونے کا طعنہ مل رہا ہے۔۔۔کتنا گھٹیا انسان ہے ناں۔۔۔ جو آج مجھے تم سے کیریکٹر لیس بلوا کر میری تزلیل کر رہا ہے ۔۔ آج پہلی بار تم نے مجھے کیریکٹر لیس کہا ہے یاد رکھنا اگر دوبارہ کہنے کی کوشش بھی کی ناں  ایک تھپڑ سے تمھیں بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گی"

شعلہ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے انگلی اٹھا کر درشتگی سے وارننگ دیتے ہوئے وہ ٹیبل سے اپنا ہینڈ بیگ لیکر باہر نکل گئی تھی سونیا اتنی زیادہ انسلٹ پر مٹھی بھینچ کر رہ گئی تھی جبکہ حدید درشتگی سے سونیا کو دیکھتے ہوئے تیز قدموں کیساتھ سیرت کے پیچھے باہر نکل گیا تھا وہ جانتا تھا اتنی تذلیل کے بعد وہ کبھی اسکے آفس میں دوبارہ قدم نہیں رکھنے والی تھی

 سیرت کا رخ لفٹ کی جانب تھا 

"مس سیرت ویٹ"

اسکی بھاری مردانہ آواز سنائی دینے پر اسکے قدموں میں تیزی آئی تھی لفٹ کھلتے ہی وہ اندر اینٹر ہوئی تھی لفٹ کے دونوں جانب ہاتھ رکھتے ہوئے  لفٹ کو بند ہونے سے روک کر وہ زبردستی اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے باہر کھینچ چکا تھا  

"ہاتھ مت لگاؤ" اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ کاٹدار نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ 

کر بولی

"یہاں نہیں سیرت سب دیکھ رہے ہیں"

سیرت نے تشویش سے اسے دیکھا تھا جس نے اسکا نام بےحد عقیدت سے لیا تھا لیکن غصہ اس عقیدت بھرے لہجے پر غالب آ گیا تھا

"تو دیکھنے دو سب کو پتا چلنا چاہیے ناں " وہ پھولی سانسوں کے بیچ چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی حالت مزید زیر کر رہی تھی اسے اسوقت پرواہ نہیں تھی لوگ کیا سوچیں گے 

"سیرت"

"لیٹ می گو مسٹر حدید "

 سلگتے ہوئے وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی اور وہ سرخ انگارا بنا کانفرنس روم کی جانب بڑھ گیا تھا جہاں سونیا اسکا بےصبری سے ویٹ کر رہی تھی اسکے تشویش سے بھرپور چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے وہ چیئر کو دھکیل کر اٹھی تھی

"کیا ہوا"

"ہمت کیسے ہوئی تمھاری اسے یہ سب کہنے کی "

اسکی کلائی میں انگلیاں پیوست کر کے وہ اس قدر غضب ناک لہجے میں بولا کہ سونیا نے خوف سے جھرجھری لی

"تم ۔۔ تم اس لڑکی کے لئے ۔۔۔ مم۔۔مجھ پر غصہ کر رہے ہو "  آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی صلیب ہوتے ذہن کیساتھ اسنے سونیا کی کلائی پر گرفت مذید سخت کی تھی

"ابھی اسی وقت معافی مانگو سیرت سے " جبڑے بھینچے وہ شعلہ آنکھوں سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا سونیا اسکے دیئے گئے حکم پر چونکی 

"میں اس سے معافی نہیں مانگوں گی عسکری " کلائی جھٹکتے ہوئے وہ صدمے سے بولی 

"میں نے کہا ابھی اسی وقت معافی مانگو اور اگر وہ چلی گئی تو اسکے گھر جا کر بھی معافی مانگنی پڑی تو تم مانگو گی مجھے وہ لڑکی کل میرے آفس میں نظر آنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوا تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا آئی سوئیر"

 سونیا نے خوفزدہ نظروں سے اسکی بھوری آنکھوں میں پھیلتی سرخی کو دیکھ کر سر ہلایا تھا اور تیزی سے باہر نکلی تھی مٹھی بھینچ کر کرختگی سے میز پر مارتے ہوئے اسنے سر جھٹکا تھا جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ کال کنیکٹ کرتے ہوئے سنجیدگی سے کالر کی جانب متوجہ ہوا تھا

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"آپکی چائے" 

عروسہ بیگم نے چائے کا کپ آصف صاحب کو تھمایا ہی تھا جب دروازے پر دستک ہوئی تھی

 دستک سن کر آصف صاحب خود اٹھ کر دروازہ کھولنے گئے تھے عروسہ بیگم نے تاسف سے چائے کا کپ لکڑی کی میز پر رکھا تھا 

دروازہ کھولتے آصف صاحب ساکت ہوئے تھے شرمندگی سے سر جھکائے کھڑے زوہیب صاحب نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا آصف صاحب کا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے عاری تھا عروسہ بیگم نے برآمدے سے ہی زوہیب صاحب کو دیکھ لیا تھا 

"یا خدا خیر کر۔۔۔ آصف صاحب غصے میں ہیں" آصف صاحب کا لال پڑتا چہرہ دیکھ کر عروسہ بیگم نے لب بھینچے تھے

"اسلام و علیکم" 

"وعلیکم السلام " آصف صاحب خشک لہجے میں کہہ کر پیچھے ہٹے تھے زوہیب صاحب سر جھکائے اندر داخل ہوئے تھے آصف صاحب کے چہرے سے برہمی ایک پل میں غائب ہوئی تھی جب انہوں نے گاڑی سے باہر آتے ذاویان کو دیکھا تھا

"اسلام و علیکم " 

"وعلیکم السلام آئیے"  آصف صاحب نے تحمل سے جواب دیکر انہیں اندر مدعو کیا تھا زوہیب صاحب ذاویان کو دیکھ کر آصف صاحب کیساتھ بیٹھک کی جانب بڑھ گئے تھے 

"چائے بنا دو" 

"جی" 

سر پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے عروسہ بیگم سر ہلاتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ گئی تھی 

"کون آیا ہے ممانی"

 کچن میں پیاز کاٹتی ہوئی آئیذل نے ہڑبڑی میں عروسہ بیگم کو چائے بناتے ہوئے دیکھ کر استفسار کیا عروسہ بیگم نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا آئیذل ان سے جواب نا پا کر پریشان ہوئی تھی

"بتائیں ناں ممانی کون آیا ہے "

"بیٹا ذاویان آیا ہے" 

اسکا نام تھا یا ایٹم بم جو آئیذل کے رنگ اڑا لے گیا تھا

"صرف پانچ دن!! اسکے بعد آپ میرے پاس ہوں گی " اسکی بات یاد آتے ہی آئیذل کے تیوری پر بل پڑے

"کہیں مجھے لینے تو نہیں آئے نہیں میں ابھی نہیں جاؤں گی " خوف سے بڑبڑاتے ہوئے اس

 نے انگوٹھے کو پیاز کیساتھ کاٹ ڈالا تھا

"آہ"

"بیٹا آرام سے کرو دیکھاؤ زیادہ تو نہیں لگی" عروسہ بیگم نے فکرمند نظروں سے اسکے ہاتھ کو پکڑ کر دیکھتے ہوئے استفسار کیا آئیذل نے لب بھینچے تھے

"بیٹا دھیان کیا کرو تم یہاں رکو میں پایوڈین لیکر آتی ہوں" 

"جی"

اپنے انگوٹھے کو افسردگی سے دیکھتے ہوئے اسنے سکن پر ہاتھ کو واش کرتے ہوئے انگوٹھے کو بھی واش کیا تھا مگر خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

آصف صاحب سنجیدگی سے زوہیب صاحب کو دیکھ رہے تھے جو شرمندگی سے سر جھکائے الفاظ کا درست چناؤ کرنے کی تگ و دو میں نظر آ رہے تھے 

"میں نے نازش کے ساتھ جو کچھ کیا اسکے بعد معافی بہت چھوٹا لفظ ہو گا" نظریں جھکائے ندامت بھرے لہجے میں بولے

"یقیناً"

آصف صاحب سنجیدگی سے کہہ کر انہیں دیکھ گئے تھے 

"میری بہن کی موت کے ذمہ دار تم ہو " 

انکے الفاظ زوہیب صاحب کے دل پر تیز دھار خنجر کی طرح لگے تھے انکی ندامت میں اضافہ ہوا تھا ذاویان نے سنجیدگی سے انکا اضطراب سے بھرپور چہرہ دیکھا تھا

"میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے درخواست کرتا ہوں مجھے میری بچی کو لیجانے دیں " 

"تمھاری وجہ سے میری بہن نے اتنی گھٹیا اور تلخ باتیں سنی ہیں جو ایک عورت کبھی اپنے کردار پر برداشت نہیں کر سکتی تمھاری معافی سے میری مری ہوئی بہن ذندہ نہیں ہو سکتی اتنی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد آخر کار اسنے قبر میں جا کر اس بےحس دنیا سے اپنا دامن بچایا ہے "

زوہیب صاحب کی آنکھوں میں نمی پیدا ہو رہی تھی ذاویان آج کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا  آخر کیوں انہوں نے اپنی بیوی پر بھروسہ نہیں کیا تھا؟؟!

"رو رو کر وہ گڑگڑاتی رہی ہو گی تمھارے سامنے لیکن تم نے ترس نہیں کھایا تھا پھر بھی لیجانے دوں تمھیں تمھاری بیٹی کیا نازش اپنی بیٹی ایسے شخص کے حوالے کرتی جس نے اسکے کردار پر انگلیاں اٹھائی تھی دنیا کیساتھ مل کر " 

"وہ سب غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا میں تب سے لیکر اب تک پچھتا رہا ہوں سزا تو مجھے بھی ملی میں اپنی بچی کا بچپن نہیں دیکھ پایا چار سال کی عمر میں وہ مجھ سے چھین لی گئی اور اب پندرہ سال بعد اس بدقسمت باپ کو اپنی بیٹی کو دیکھنا نصیب ہوا ہے لیکن اس قدر شرمندہ ہوں کہ اسے مخاطب نہیں کر سکتا " 

آصف صاحب نے سنجیدگی سے انکی اشک بار آنکھوں کو دیکھا تھا 

"بہت بڑی اذیت سے گزرا ہوں اپنی اولاد کے بغیر اپنی بچی کو کھو کر میں اپنی سزا بھگت چکا ہوں مجھے میری بچی لوٹا دو آصف"

"تم جیسے شخص کے حوالے میں آئیذل کو کبھی نہیں کروں گا وہ ان باتوں سے ان لوگوں سے بےخبر ہے جنہوں نے اسکی ماں کو بےعزت کیا گھر سے نکالا لیکن آج اسے سب بتا نے کا وقت آ گیا ہے اگر آئیذل نے تمھیں معاف کر دیا تو یقیناً میں بھی کر دوں گا اور اگر نہیں تو میں آئیذل ذاویان کو سونپ دوں گا وہ اسے لیکر بہت دور چلا جائے گا" آصف صاحب اٹھتے ہوئے باہر نکل گئے تھے 

"ذاویان تم آئیذل سے کہو مجھے معاف کر دے"

"نہیں ماموں آپ نے اس دن ممانی کی ایک بات نہیں سنی تھی ۔۔۔وہ بھی اسی طرح گڑگڑا رہی تھی آپ سے معافی مانگ رہی تھی ان گناہوں کی جو انہوں نے کبھی کئے ہی نہیں تھے میں یہاں آپکی سفارش کرنے کی غرض سے نہیں آیا ایک باپ اور بیٹی کے بیچ میں نہیں آؤں گا"  ذاویان نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا تھا جو شرمندگی سے سر جھکا گئے تھے

آصف صاحب کیساتھ وہ متذبذب نظروں سے زوہیب صاحب اور ذاویان کو دیکھتے ہوئے اندر آئی تھی زوہیب صاحب نے اسے شفقت سے دیکھا تھا 

"بیٹھو بیٹی" 

"جی" 

آصف صاحب اور زوہیب صاحب  کو پزل نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ صوفے پر پریشانی سے بیٹھی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکے کنفیوز چہرے کو دیکھ کر آصف صاحب کو دیکھا تھا یقیناً وہ کہنا چاہتا تھا سب تحمل سے کہئے گا آصف صاحب نے سر ہلا کر اسے مطمئن کیا تھا

"بیٹی تم انہیں پہچانتی ہو کیا یہ تمھیں یاد ہیں؟!

 آصف صاحب نے زوہیب صاحب کو جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا آئیذل نے لب بھینچتے ہوئے سر کو خم دیا تھا زوہیب صاحب آبدیدہ ہو رہے تھے انکی اپنی بیٹی انہیں پہچاننے سے انکار کر رہی تھی اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی تھی۔۔

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"رکو میری بات سن لو"  

سب کچھ سمیٹ کر وہ آفس سے نکل رہی تھی اور دل میں یہ عہد کیا تھا کہ آج کے بعد اس آفس میں کبھی نہیں آئے گی مگر سونیا کی آواز پر سیرت کے اٹھتے قدم رک چکے تھے وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی تھی اسکی طرف مڑنے کی تکلیف نہیں اٹھائی تھی اسنے ۔

"میں نے تمھیں جو کچھ کہا اسکے لئے سوری مجھے عسکری نے ایسا کچھ بھی کہنے کے لئے نہیں کہا تھا میں نے فرسٹریشن میں بول دیا کیونکہ حدید میرا بچپن کا فرینڈ ہے اسکی توجہ تمھاری طرف تھی اس لئے میں نے وہ سب کہہ ڈالا"  سونیا اسکے مقابل ٹھہرتی ہوئی بولی تھی سیرت نے پس و پیش نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھا تھا 

"اچھا تو تم اپنا پرسنل فرسٹریشن ایسے دوسروں پر نکالتی ہو " سیرت نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آئی برو اٹھاتے ہوئے کہا تھا

"میں یہاں صرف معافی مانگنے آئی ہوں تم سے بحث کرنے یا تمھاری باتیں سننے نہیں" سونیا نے اسکی بات کاٹی تھی سیرت کی پیشانی پر چند لکیریں کھینچ گئی تھی اسے بالکل پسند نہیں آیا تھا سونیا کا اسکی بات کو بیچ میں کاٹنا 

"اچھا تم اپنا فرسٹریشن مجھ پر نکال سکتی ہو میں نہیں ؟؟ واٹ آ شیم اب میں اپنا فرسٹریشن کس پر نکالوں گی پھر " سیرت نے ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے دبے لہجے میں طنز کیا سونیا نے چبھتی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو باتوں باتوں میں اسے طعنہ دے رہی تھی

"مجھے تو اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ رضا نے تمھیں میرے پاس بھیجا ہے  " سیرت کے گداز ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی وہ اسے سلگانا چاہتی تھی اور یہی ہو رہا تھا اسکا چہرہ دھیرے دھیرے سرخ پڑ رہا تھا 

 "میں یہاں صرف اپنے دوست کے کہنے پر آئی ہوں یو گیٹ دیٹ کوئی شوق نہیں ہے مجھے تم سے معافی مانگنے کا " سونیا نے تنک کر کہا اسکی آواز میں تیزی آئی تھی آفس کے کچھ ورکرز انکی جانب متوجہ ہو چکے تھے سیرت کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی 

"تم سے برداشت نہیں ہوا رضا کا مجھے اٹینشن دینا وہ تو میری بہت کیئر کرتا ہے تم نے اسکے ہاتھ دیکھے اسنے اپنے ہاتھ جلا لئے مجھے بچانے کے لئے ویٹ میں تمھیں دیکھا ہی دیتی ہوں" پرس سے فون پروڈیوس کرتے ہوئے اسنے نیوز اپڈیٹس نکال کر کلب کے جلنے کے واقعے کی خبر نکال کر فون اسکی طرف بڑھایا تھا

A fire broke out in Sarina Club!!

There was no loss of life, but the well-known business tycoon "Hadid Raza Askari" saved "Seerat Rizvi" by risking his life !!

موٹے حروف میں لکھی اپڈیٹس کو دیکھ کر سونیا نے متعجب نظروں سے سیرت کو دیکھا تھا جسکے لب طنزیہ مسکراہٹ متبسم سے مزین ہو چکے تھے

"معافی تو مانگو سونیا چوہان " سیرت نے اسکی پانی سے بھرتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نچلا ہونٹ دباتے ہوئے ایک ادا سے کہا سونیا کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہو چکا تھا

"گو ٹو ہیل یو بچ" 

سونیا کی آواز غم وغصے سے بےحد تیز ہوئی تھی اب کی بار سبھی آفس ورکرز اور امپائز انکی جانب متوجہ ہوئے تھے

"چٹاخ"

ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر پڑا تھا مگر لوگوں کو تعجب نہیں ہوا تھا اسنے جن الفاظ کا استعمال کیا تھا اسکے بعد یہ فطری عمل تھا 

سونیا نے گال پر ہاتھ رکھ کر آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھا تھا 

"Be In Boundary And Learn to keep your personal anger to yourself

Here are all respectable people, not third class like you, who hide their faults by pointing fingers at others' character"

طنزیہ لب و ,لہجے میں کہہ کر اسے پورے آفس ورکرز کے سامنے شرمندہ کرنے کے بعد وہ  سکون سے باہر نکل گئی تھی 

"مجھے تھرڈ کلاس کہا اسنے " سونیا نے گال سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے مٹھی بھینچ کر اسے بلیک گلاسز لگا کر باہر نکلتے دیکھا تھا

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"میں آپکو معاف نہیں کر سکتی" 

زوہیب صاحب نے صدمے سے اسے دیکھا تھا آئیذل کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی آصف صاحب نے سنجیدگی سے ذاویان کی جانب دیکھا تھا جو پہلے ہی انکی جانب دیکھ گیا تھا

"آئیذل اپنے اس گنہگار باپ کو معاف کر دو میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں یہ شرمندگی مجھے جینے نہیں دے گی " 

آئیذل نے اٹھتے ہوئے نم آنکھوں سے زوہیب صاحب کو دیکھا تھا جو ہاتھ جوڑے ہوئے تھے ذاویان کی نظر آئیذل کے لرزتے ہاتھوں پر پڑی تھی وہ پوری ہی لرز رہی تھی 

"آپ نے امی کیساتھ اتنا غلط کیا میں آپکو معاف نہیں کروں گی ۔۔ کبھی نہیں کروں گی میری امی کی موت آپکی وجہ سے ہوئی"  روتے ہوئے ہاتھ کی پشت کو اشک آلود رخسار پر رگڑتے ہوئے اسنے ایک قدم پیچھے لیا تھا 

"میں ذندہ نہیں رہ سکوں گا میری بچی میں شرمندگی سے نظریں نہیں اٹھا پاؤں گا تم تو معاف کر دو مجھے " 

سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھی آنکھوں کا منظر آنسوں کی وجہ سے دھندھلا سا گیا تھا سب یاد تو نہیں آیا تھا لیکن کچھ دھندھلی جھلکیاں اسکی آنکھوں کے سامنے ضرور آئی تھی  

"آئیذل آپکے ساتھ نہیں جائے گی زوہیب صاحب" 

آصف صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے وہ آئیذل کی جانب دیکھ گئے تھے آس بھری نظروں سے کہ شاید انکی بیٹی انکو معاف کر دے آئیذل نے کچھ قدم پیچھے لئے تھے زوہیب صاحب کے دل پر کیا بیت رہی تھی وہ صرف ذاویان جانتا تھا لیکن آئیذل اپنی جگہ ٹھیک تھی کیسے معاف کر دیتی وہ اس شخص کو جس نے اسکی ماں کو بھری دنیا کیساتھ رسوا کیا تھا جس نے اسکی ماں کا ہاتھ اسوقت چھوڑا تھا جب انہیں سہارے کی سب سے ذیادہ ضرورت تھی!!

زوہیب صاحب کی آنکھوں میں چمکتی نمی کو ذاویان نے تاسف سے دیکھا تھا وہ سر جھکائے باہر نکل گئے تھے آئیذل سر کو تھامتے ہوئے بےہوش ہوئی تھی قریب ٹھہرے ذاویان نے اسے تھاما تھا  

"آئیذل" 

آصف صاحب صدمے سے اسے نڈھال دیکھ کر تیزی سے اسکی جانب بڑھے تھے 

"میں آپکو معاف نہیں کر سکتی" 

"آپ نے امی کیساتھ اتنا غلط کیا میں آپکو معاف نہیں کروں گی ۔۔ کبھی نہیں کروں گی میری امی کی موت آپکی وجہ سے ہوئی"

"میں ذندہ نہیں رہ سکوں گا میری بچی میں شرمندگی سے نظریں نہیں اٹھا پاؤں گا تم تو معاف کر دو مجھے "

کانوں میں بیٹی کے کہے گئے لفظ گونج رہے تھے آنکھوں کے سامنے بار بار وہ منظر لہرا رہا تھا جب اسنے ان کو دیکھ کر قدم پیچھے لئے تھے گاڑیاں ہوا کی طرح گزر رہی تھی انکے آس پاس ۔۔۔

"زوہیب ایسا کچھ نہیں ہے جھوٹ بول رہے ہیں وہ"

"ابھی اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ"

"زوہیب لمظ کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں وہ ہمیں رسوا کرنا چاہتا ہے "

فضا میں ایک دلخراش چیخ سنائی دی تھی ڈرائیور نے ونڈو سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھا تھا جو گاڑی کی زد میں آنے کے بعد سڑک پر خون میں لت پت پڑا تھا بغیر ایک منٹ کی دیر کئے ڈرائیور گاڑی نکال لے گیا تھا

"نمبر دیکھو گاڑی روکو کوئی ایمبولینس کو بلاؤ" 

لوگوں کا ایک جھرمٹ خون میں لت پت پڑے شخص کے پاس جمع ہوا تھا گاڑی بہت دور نکل چکی تھی کسی نے ایمبولینس کا نمبر ملایا تھا 

"مماں" 

"مجھے مماں کے پاس جانا ہے بابا" 

آنسوں کا ایک قطرہ انکی آنکھ سے گر کر سڑک پر گرا تھا 

 "میں آپکو معاف نہیں کر سکتی" 

"آئیذل ۔۔۔۔مم۔۔میر۔۔۔ری بچی۔۔۔۔مجھ۔۔۔۔ مجھے معاف" 

آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولے تھے

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"پریشانی کی بات نہیں بی پی لو ہونے کی وجہ سے بےہوش ہو گئی تھی" ڈاکٹر نے اپنا بریف کیس بند کرتے ہوئے تسلی بخش لہجے میں کہا ذاویان نے سنجیدگی سے آئیذل کی جانب دیکھا تھا جو آنکھیں میچے خفا سی نظر آ رہی تھی

"یہ دوائی دے دیجیئے گا کھانے کے بعد انشاء اللہ بی پی نارمل ہو جائے گا"  دوائی عروسہ بیگم نے لی تھی آصف صاحب نے سنجیدگی سے پریشان کھڑے ذاویان کو دیکھا تھا اور ڈاکٹر کو چھوڑنے خود گئے تھے کچھ دیر بعد وہ واپس آئے تھے 

"ذاویان میرا خیال ہے تم جب چاہو آئیذل کو لے کر جا سکتے ہو " 

ذاویان جو اضطراب سے بھرپور نظروں سے آئیذل کو دیکھ رہا تھا آصف صاحب کی جانب دیکھ گیا

"ہم۔۔ہمیں تھوڑا سا وقت تو دیں آپ" اسکی بات یاد آنے پر ذاویان نے سرد آہ بھر کر آصف صاحب کو مخاطب کیا تھا

"میرا خیال ہے آپ لمظ سے ایک بار انکی مرضی جان لیں اسکے بعد ہی میں کچھ کہنے کا حق رکھتا ہوں " وہ مہر آمیز نظروں سے اسکے گندمی چہرے کو دیکھتے ہوئے تاسف سے بولا تھا آصف صاحب نے سنجیدگی سے سر ہلا کر آئیذل کی جانب دیکھا تھا جو آنکھیں وا کرنے کے بعد سب سے پہلے اسے دیکھ گئی تھی سنہری آنکھیں آج چمک سے محروم تھی!!

 فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ جلدی سے فون لیکر برآمدے سے باہر آیا تھا 

"ہیلو سر میں سٹی ہاسپیٹل سے بات کر رہا ہوں زوہیب صاحب کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے انکے فون پر آپکی کالز تھی اس لئے آپکو سب سے پہلے اطلاع کرنا چاہتا ہوں "  ذاویان کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے 

"بلڈ کی ارجینٹ ضرورت ہے آپ جتنی جلدی ہو سکے سٹی ہاسپیٹل پہنچیں "

فون پاکٹ میں ڈالتے ہوئے وہ تیز قدموں سے باہر نکلا تھا آصف صاحب نے بس اسے تیزی سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھ کر وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا تھا

                                           -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"تم اب تک گئے نہیں " لیپٹاپ پر مرکوز نظروں نے گلاس ڈور کو دھکیل کر اندر آتے ہوئے صفی کو دیکھا تھا 

"نہیں کچھ کام تھا تم نہیں گئے ابھی تک" لیپٹاپ کی جانب متوجہ ہو کر وہ مصروف سے لہجے میں بولا صفی جواب دینے کے بجائے اسکے قریب لیپ ٹاپ پر جھکا تھا جہاں پر ایک فیسبک پروفائل کھولے وہ پیپر پر کچھ لکھ رہا تھا

"یہ ڈاکٹر فریال یوسفزئی کون ہیں اب"  صفی نے دلچسپی لی

"سیرت کی ڈاکٹر ہیں "

"اور تم اسکی ڈاکٹر کا ایڈریس کیوں لکھ رہے ہو" صفی نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا جو پیپر پر پین رکھتے ہوئے لیپٹاپ بند کر رہا تھا

"کیونکہ میں جانتا ہوں وہ لڑکی کچھ ناں کچھ چھپا رہی ہے کبھی کبھی وہ بہت اوور ری ایکٹ کرتی ہے آج پتا ہے کیا ہوا سونیا نے اسے دو چار باتیں کر دی اور اسنے اتنا زیادہ اوور ری ایکٹ کیا مجھے گھٹیا انسان اور پتا نہیں کیا کچھ کہہ گئی "

"اور تمھیں لگتا ہے اسکا دماغی توازن خراب ہے" صفی نے ظنز کیا حدید نے آنکھیں گھمائی تھی 

"نہیں لیکن کچھ مسنگ لگ رہا ہے وہ خود کو نارمل دیکھانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اسے ماہر نفسیات ڈاکٹر کی کیا ضرورت ہے؟؟ مجھے اس لڑکی سے جڑی ہر چھوٹی سے چھوٹی انفارمیشن چاہیے میرے بہت کام آ سکتی ہے ہر ڈیٹیل " لائٹر نکال کر سگار جلاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے کہا تھا 

"اگر اسے پتا چل گیا تم کس قسم کے شخص ہو وہ ایک سیکنڈ بھی نہیں لگائے گی بھاگنے میں" صفی نے اسے سگار کا کش لیتے دیکھ کر ہنس کر کہا تھا

"افسوس اب وہ ایسا نہیں کر سکتی در حقیقت کوئی ایسا نہیں کر سکتا جو میں چاہتا ہوں وہ ہر صورت ہو کر رہے گا " لبوں سے دھواں ہوا میں اڑاتے ہوئے وہ آنکھیں موندے گمبھیر بھاری آواز میں گویا ہوا

ویٹنگ چیئر پر دیوار سے سر ٹکائے وہ سنجیدگی سے کچھ سوچ رہا تھا جب آئی سی یو کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر آئے تھے انکے مطمئن چہرے دیکھ کر وہ پرسکون ہوا تھا

"پیشینٹ خطرے سے باہر ہیں لیکن سر پر گہری چوٹ آنے کی وجہ سے بہت خون ضائع ہو گیا ابھی تک ہوش نہیں آیا لیکن کچھ ہی گھنٹوں میں ہوش آ جائے گا ڈونٹ وری مسٹر رضوی" ڈاکٹر اسے تسلی دیکر اپنے سکواڈ کیساتھ چلے گئے تھے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے گلاس ونڈو سے زوہیب صاحب کو دیکھ کر تاسف سے کہا تھا

"آئی ایم سوری ماموں "

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

اگلے دن :-

"میں ویڈیو لنک سے جوائن کر لوں گا ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں " کان سے ایئر پوڈ نکال کر اسنے سرد نظروں سے ڈیسک پر پڑا لیٹر دیکھا تھا لیٹر کھولنے پر اسکی کشادہ پیشانی پر چند لکیریں ابھری تھی کیونکہ وہ اسکی اسسٹنٹ کی جاب سے ری زائن کر چکی تھی بس اسکے سائن باقی رہ گئے تھے جو وہ ہرگز نہیں کر سکتا تھا

"بلال"

"جی پروفیسر صاحب"

"یہ لیٹر"

"یہ آپکی اسسٹنٹ دیکر گئی تھی آپ ابھی آئے نہیں تھے اس لئے ڈیسک پر رکھوا دیا" 

"مس آئیذل کو بھیجیں"  سنجیدگی سے کہہ کر اسنے لیٹر ڈیسک پر پٹخنے کے انداز میں رکھا تھا چیئر پر بیٹھتے ہوئے اسنے دو انگلیوں سے پیشانی کو سہلایا تھا

پہلے ہی زوہیب صاحب کے ہاسپیٹل میں ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کی ساری ذمہ داری اسکے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی ،، آفس کی ٹینشن الگ سے تھی اور یہاں یہ ریزی نیشن لیٹر اسکی فرسٹریشن بڑھا چکا تھا

"اسلام و علیکم" 

ڈین آفس کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی تھی سر اٹھا کر اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھا تھا

"اسلام و علیکم" 

ڈین آفس کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی تھی لیپٹاپ پر مصروف ذاویان نے سر اٹھا کر آئیذل کو کرخت نظروں سے اسے دیکھا تھا

"وعلیکم السلام "

آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا سپاٹ نظروں سے وہ اسکے ریزی نیشن لیٹر کو ناجانے پچھلے کتنے منٹوں سے دیکھ رہا تھا

"لمظ کیا ہے یہ سب"  گمبھیر لہجے میں کہہ کر اسنے لیٹر کی طرف اشارہ کیا تھا

"مجھے یہ جاب نہیں کرنی"

"کیا سوچ کر یہ کرنا چاہتی ہو"

اب کی بار اسنے نظریں اٹھا کر آئیذل کی آنکھوں میں دیکھا تھا تابِ مقاومت ناں لاتے ہوئے آئیذل نے نظریں جھکاتے ہوئے لب بھینچے تھے زاویان کی غائر نگاہ نے سامنے کشمکش میں مبتلا لڑکی کو انگلیاں چٹخاتے دیکھا تھا

کچھ سیکنڈ کے لئے آفس میں خاموش چھا گئی تھی 

وہ چیئر پیچھے دھکیل کر اٹھ کر اسکے روبرو ہوا

"What Happened Please Tell me"

ایک ہاتھ سے اسکی ٹھوڑی سے چہرہ اوپر اٹھا کر وہ اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھ کر اسے مخاظب کر رہا تھا اور وہ اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی

"کچھ بھی نہیں ہوا"  نظریں پھیر کر وہ خشک لہجے میں بولی ذاویان کی نظروں نے باریک بینی سے اسکے اداس چہرے کو دیکھا

"میں جان چکا ہوں اس دن آپکو چوٹ پہنچانے والی لڑکی رباب تھی اور یہ بھی جانتا ہوں اسے سزا کے طور پر سسپینڈ کیا جا رہا تھا لیکن آپ نے اسے سسپینڈ نہیں ہونے دیا"

آئیڈل نے متذبذب نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا وہ سوچ رہی تھی اب تک اسے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا مگر وہ غلط فہمی کا شکار تھی 

" لمظ کیا کرنا چاہتی ہیں آپ" 

اسکے نرم لہجے پر اسکی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا تھا مگر وہ ضبط کر کے آبدیدہ ہونے سے خود کو روک چکی تھی

" میں چھوٹی بچی نہیں ہوں ذاویان ۔۔۔میں اپنی پریشانیوں کا سامنا کر سکتی ہوں مجھے اس طرح ٹریٹ کرنا بند کر دیں" اسکے ہاتھ کو اپنی ٹھوڑی سے ہٹا کر وہ مایوسی سے بولی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کر ہاتھ پیچھے لیا تھا وہ اسے ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا شاءد اس لئے!!

"میں نہیں چاہتی میری ہر پریشانی کا حل آپ مجھے نکال کر دیں مجھے اپنے مسائل کو خود حل کرنے دیں " اسکی آنکھوں میں جہاں کسی چیز کے ہونے کا اندیشہ تھا وہاں اطمینان اور ٹھہراؤ تھا وہ اپنی پریشانیوں کا سامنا کرنا سیکھنا چاہتی تھی

"ایک ریکویسٹ اور کرنا چاہتی ہوں مجھے رباب کو سنبھالنے دیں آپکی پریشانیوں میں مذید اضافہ نہیں کرنا چاہتی لہذا آپ اس لیٹر پر سائن کر دیں " اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھ کر کہتے ہوئے وہ باہر چلی گئی تھی 

اسنے تاسف سے ڈیسک پر پڑے لیٹر کو دیکھا تھا 

" میں چھوٹی بچی نہیں ہوں ذاویان ۔۔۔میں اپنی پریشانیوں کا سامنا کر سکتی ہوں مجھے اس طرح ٹریٹ کرنا بند کر دیں" 

سنجیدگی سے پین ہولڈز سے پین نکال کر اسنے لیٹر پر سگنیچر کرتے ہوئے پیون کو بلایا تھا 

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ اسوقت اپنے کلینک میں بیٹھی پیشینٹ فائلز کا مطالعہ کر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تھی نرس اجازت لیکر اندر آئی تھی اور اسکے قریب ٹیبل پر چائے کا کپ رکھا تھا

" مس کوئی آپ سے ملنا چاہتا ہے" 

ڈاکٹر فریال نے فائل سائڈ پر رکھتے ہوئے نرس کو اسے اندر لیکر آنے کو کہا تھا 

بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ رعنا شخصیت اندر داخل ہوا تھا

اسے دیکھ کر ڈاکٹر فریال اپنی چیئر سے اٹھی تھی 

 وہ یقیناً اسے پہچان چکی تھی یا یوں کہا جا سکتا تھا کہ اسے کون نہیں جانتا تھا اور اسکا یہاں ہونا ڈاکٹر فریال کو حیرت میں مبتلا کر رہا تھا 

"اسلام و علیکم پلیز ہیوو آ سیٹ " وہ ڈاکٹر فریال کے تعجب سے بھرپور چہرے کو دیکھ کر متانت سے گویا ہوا ڈاکٹر فریال سلام کا جواب دیکر چیئر کھینچ کر بیٹھی تھی نظریں اب بھی حیرت و استعجاب سے اس وجیہ شخص کا بھرپور جائزہ لے رہی تھی جسکا یہاں ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا 

" مسٹر رضا میں آپکی کیا مدد کر سکتی ہوں"  

جب وہ کافی دیر تک کچھ نہیں بولا تو استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھ کر ڈاکٹر فریال نے خود اسے مخاطب کیا تھا 

"آپ  سیرت رضوی کی ڈاکٹر ہیں وہ یہاں ہر ہفتے ویکلی چیک اپ کے لئے آتی ہیں " وہ سنجیدگی سے انکے چہرے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے گویا ہوا سیرت کا نام سن کر انہوں نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا تھا

"جی وہ یہاں۔۔ آتی ہیں ۔۔ لیکن آپ انکے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں " حلق تر کرتے ہوئے ڈاکٹر فریال نے دھیمے پن کا مظاہرہ کیا تھا کیونکہ اس شخص کے سامنے اونچی آواز نکالنا شاید نامناسب تھا

"کیونکہ میں انکی ہیلتھ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ڈاکٹر فریال کیا میرے جواب سے آپ مطمئن ہیں" آئی برو اٹھاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے کہا ڈاکٹر فریال پس و پیش کی کیفیت میں لب بھینچ گئی تھی

"مسٹر رضا میں ایسے ہی اپنی پیشنٹ کی ہیلتھ رپورٹ آپکے ساتھ ڈسکس نہیں کر سکتی میں معزرت خواہ ہوں " ڈاکٹر فریال نے ہچکچا کر خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا تھا 

"تو آپکو میرا تحمل سے استفسار کرنا مناسب نہیں لگا ویل ہیوو آ نائس ڈے" اسنے تشویش بھری نظروں سے ڈاکٹر فریال کو دیکھا تھا 

ڈاکٹر فریال نے اسکی بھوری آنکھوں میں بیزاری محسوس کی تھی وہ سنجیدگی سے چیئر سے اٹھا تھا ڈاکٹر فریال کا دل دھک سےرہ گیا تھا مگر وہ ششدر رہ گئی تھی جب وہ بغیر ایک لفظ کہے دروازے کی جانب بڑھا تھا 

"آپ کیا جاننا چاہتے ہیں" 

چیئر سے اٹھتے ہوئے وہ جلدبازی میں بولی تھی اسکے خاموشی سے اٹھ جانے پر وہ اب تک حیران تھی

"وہ یہاں کیوں آتی ہیں ؟؟ کب سے آتی ہیں "

ڈاکٹر فریال نے ہچکچاہٹ کے بعد اسکی فائل اٹھا کر حدید کی جانب بڑھائی تھی جسے اسنے سنجیدگی سے لیکر ایک جانب رکھا تھا ڈاکٹر فریال کا چہرہ فق ہوا تھا

"صرف یہی نہیں مجھے انکے پاسٹ کے بارے میں ڈیٹیل سے سب جاننا ہے " اسنے سنجیدگی سے ڈاکٹر فریال کی جانب دیکھا تھا جو اسکے سوال پر لٹھے کی مانند سفید پڑ گئی تھی

"مسٹر رضا میں اس سے زیادہ آپکی کوئی مدد نہیں کر سکتی مسٹر رضوی کو اگر آپکے یہاں آنے کی اطلاع ملی تو مجھے بہت سے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا " ڈاکٹر فریال نے متذبذب نظر سے اسکے مطمئن چہرے کو دیکھ کر کہا تھا جس پر پرسکون تاثرات تھے

"اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہوں گا ڈاکٹر صاحبہ" وہ تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے کلینک سے واک آؤٹ کر گیا تھا ڈاکٹر فریال نے سکھ کا سانس لیا تھا  لیکن وہ سیرت کی میڈیکل رپورٹ لیکر جا چکا تھا جس پر ڈاکٹر فریال سرد آہ بھر گئی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آج حورم نہیں آئی تھی اس لئے آئیذل کا چہرہ لٹکا ہوا تھا وہ اداس سی بیٹھی ہوئی لیکچر ہال میں دوستوں کے گروپس کو دیکھ کر اپنا موڈ خراب کر رہی تھی

"اٹینشن کلاس میں آپ سب کے سامنے کچھ کنفیس کرنا چاہتی ہوں" 

آئیذل نے گال سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے ڈیسک سے کہنی ہٹا کر اسٹیج پر ڈائس کے قریب کھڑی رباب کو دیکھا تھا پورے ہال کے سٹوڈینٹس رباب کی طرف متوجہ ہوئے تھے آئیذل نے پیشانی پر بل ڈالے اسے گومگو کی کیفیت میں دیکھا تھا

"میں پوری کلاس کے سامنے آئیذل زوہیب احمد سے معافی مانگنا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے ہی آئیذل کو سٹیئرز سے دھکا دیا تھا جس کے لئے میں بےحد شرمندہ ہوں مجھے معاف کر دو آئیذل" آئیذل کی جانب دیکھتی رباب نے افسردگی سے کہا سٹوڈنٹس نے یک بہ یک ایک دوسرے کو دیکھا تھا آئیذل چونک کر رہ گئی تھی کتنی آسانی سے اسنے کہہ دیا تھا

 سبھی سٹوڈینٹس کی نظریں آئیذل پر تھی اور آئیذل اسٹیج پر کھڑی رباب کے چمکتے چہرے کو دیکھ رہی تھی

"اٹس اوکے " وہ پس و پیش لہجے میں بولی تھی معاملہ سنگین نتائج سے پہلے ہی رفع دفع ہو چکا تھا اور یہی تو رباب چاہتی تھی

"شکریہ آئیذل زوہیب احمد"

 رباب اسٹیج سے اتر کر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی آئیذل کی نظریں اب بھی رباب پر تھی اسنے لیکچر ہال میں داخل ہوتے ذاویان پر غور نہیں کیا تھا لیکچر ہال میں سناٹا چھا گیا تھا جیسے ہی وہ اینٹر ہوا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا 

سنجیدگی سے گلاسز لگاتے ہوئے اسنے حسبِ عادت ایک ہاتھ ڈائس کے کنارے پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کو بک پر رکھ کر لیکچر شروع کیا تھا

 بک پر نظریں جھکائے آئیذل تمام خیالات جھٹک گئی تھی

پورے پینتالیس منٹ کے دوران ذاویان نے ایک بار بھی اسکی جانب نہیں دیکھا تھا اور یہی بات آئیذل کو اندر ہی اندر کھا رہی تھی ہمیشہ اسکی نظروں میں رہنے کی عادی لڑکی اچانک اسکے یوں خفا ہو جانے پر مرجھا کر رہ گئی تھی

"Arif Malik, pack your things and leave the hall, I will deal with you after the lecture " 

سنجیدگی سے بک پر نظریں مرکوز کئے اسنے بغیر دیکھے کہا تھا سبھی نے استعجابی نظروں سے اسے دیکھا تھا سٹوڈینٹس کی وسطی قطاروں میں سے ایک لڑکا شرمندگی سے اٹھا تھا 

"I want discipline in my class especially when I am here For the past twelve minutes, you have been creating distractions " 

اس لڑکے کو کرخت نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا پیشانی پر چند شکنیں پڑی تھی وہ لڑکا شرمندہ تو تھا ہی مگر حیران بھی تھا وہ کیسے اسکی غائر نگاہ میں آ گیا تھا آئیذل نے لمبا سانس خارج کیا تھا پوری کلاس کے لئے یہ سبق آموز واقعہ تھا جس سے یہ سیکھنے کو ملتا تھا کہ اسکی نظریں باریک بینی سے سب کا حساب رکھتی تھی

"Sorry Professor"

جہاں اس لڑکے نے معزرت کی تھی وہاں سب نے کتابوں پر ایسے سر جھکایا تھا جیسے انکی گردنیں ٹوٹ گئی ہوں

"I said get out"

دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ درشت لہجے میں بولا تھا وہ لڑکا سر جھکائے باہر نکل گیا تھا آئیذل نے لب کاٹتے ہوئے سر جھٹکا تھا 

 لیکچر اینڈ ہوتے ہی وہ  ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھ کر لیکچر ہال کو بغیر دوسری نظر کا شرف بخشنے کی زحمت کئے  باہر چلا گیا تھا آئیذل نے سرد آہ بھری تھی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اسکی نظر ڈائس پر پڑے اسکے گولڈن سمارٹ فون پر پڑی تھی اس سے پہلے وہ اسکے فون کی جانب بڑھتی رباب نے اسکا فون اٹھایا تھا 

"ڈونٹ وری آئیذل تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں پروفیسر زاویان کی نئی اسسٹنٹ میں ہوں اس لئے یہ سب میرا کام ہوا لہذا یہ میں انہیں دے دوں گی اور میں ویسے بھی ڈین آفس ہی جا رہی تھی" شیریں لہجے میں کہتی رباب اسے زہر سے بھی کڑوی لگی تھی مسکراتے ہوئے وہ اسکا فون لیکر باہر نکل گئی تھی

"وہ رباب کو اسسٹنٹ کیسے بنا سکتے ہیں " خفگی سے کہتے ہوئے وہ بیگ کندھے پر رکھ کر باہر نکلی تھی

اسکا محبت سے بولا گیا ایک ایک لفظ اسوقت آئیذل کے ذہن میں گردش کر رہا تھا اسکا محبت سے آئیذل کو مخاطب کرنا ،، اسکی پرواہ کرنا ،، وہ عادی ہو چکی تھی اسکی اور آج اچانک روٹین چینج کرنے پر وہ خود پر بےحد برہم تھی 

"کوئی بات نہیں انکا غصہ بھی کچھ دیر میں ٹھنڈا ہو جائے گا ،،اب برداشت کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہوں رباب کو پڑھائی سے ڈسٹریکٹ کرنے کے لئے ہی میں نے یہ جاب چھوڑی تھی اب پڑھائی کرنے کے علاوہ کچھ اور سوچنے کا تُک نہیں بنتا " بیگ سے بک نکال کر کہتے ہوئے وہ لائبریری کی جانب مطالعہ کرنے کی غرض سے نکل گئی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" یہ آپ کیا کر رہے ہیں"

مہر النساء بیگم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا بلیک سمپل شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس وہ دھیمی چال چلتے ہوئے قریب پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی انس نے کھنکار کر اسے دیکھا تھا 

"یہ سورج کہاں سے نکلا ہے اتنے تہذیب کے دائرے میں رہ کر کپڑے پہنے ہیں آج میری بہن نے" انس کی بات پر چاہت نے محض اسے دیکھا تھا مہر النساء بیگم نے انس کو آنکھیں دیکھائی تھی جس پر وہ لاپرواہی سے شانے اچکاتے ہوئے دوبارہ کارڈز کی طرف متوجہ ہوا تھا

"یہ کس کی شادی کے کارڈز ہیں مماں" 

ایک کارڈ اٹھاتے ہوئے اسنے گہری نظروں سے اس خوبصورت آف وائٹ کارڈ کو اٹھا کر دیکھا جس کے درمیان میں وائٹ ربن پر لائٹ پرپل کلر کی چمکدار شیٹ کی تتلیاں کارڈ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھی شیشے کے مربع نما فریم میں خوبصورت آف وائٹ اور لائٹ پرپل پیپر کے پھولوں کے بیچ کارڈ رکھا گیا تھا 

   مہر النساء بیگم نے افسردگی سے اسکے چہرے کو دیکھا تھا 

"یہ ذاویان بھائی کی شادی کے کارڈز ہیں " انس نے کارڈ رکھتے ہوئے دوسرا کارڈ اٹھا کر چیک کرتے ہوئے بےپرواہی سے کہا تھا چاہت نے فق چہرے سے انس کو دیکھا تھا اور پھر کارڈ کو نکال کر پڑھا تھا مہر النساء بیگم نے تاسف سے اسکے چہرے کو دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے مطمئن تھا اور کچھ ہی سیکنڈ میں ساری شگفتگی کہیں غائب ہو چکی تھی

"تین دن بعد مہندی ہے اور آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں کیا میں ذی کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتی" کارڈ رکھتے ہوئے چاہت نے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا تھا

"نہیں بیٹا میں بس چاہتی تھی کہ تم ذاویان کی شادی کا سن کر اداس ناں ہو جاؤ"

"میں ذی کی خوشی میں خوش ہوں مماں اور اسکی خوشی لمظ میں ہے میں بھی لمظ سے ملنا چاہتی ہوں "

مہر النساء بیگم نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا جو ہلکی سی مسکرائی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اوکے مں ڈرائیو ریسیو کر کے چیک کرتا ہوں"

کان سے ائیر پوڈ نکال کر اسنے لیپٹاپ بند کیا تھا دونوں ہاتھوں کو باندھ کر ان پر پیشانی ٹکاتے ہوئے اسنے آنکھیں بند کی تھی مسلسل پانچ گھنٹوں سے اسے سکون کا ایک منٹ میسر نہیں ہوا تھا بیک ٹو بیک لیکچرز اور انکے بعد کانفرنس میٹنگ کے بعد اب اسکا ذہن پھٹ جانے کو تیار تھا

دروازے پر ناک سن کر اسنے ہاتھوں کو آزادی بخش کر لیپٹاپ کو کھولا تھا

"کم ان"

اسکے لہجے میں بے مروّتی تو وہ محسوس کر ہی چکی تھی ہچکچاہٹ کیساتھ دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی

" یہ لطیف انکل دیکر گئے ہیں انہوں نے کہا آپکو دے دوں"  مٹھی سے سلور فلیش ڈرائیو نکال کر اسکے قریب ڈیسک پر رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی بغیر اسکی جانب دیکھے اسنے فلیش ڈرائیو اٹھا کر لیپٹاپ سے اٹیچ کی تھی آئیذل نے دزدیدہ نظروں سے اسے لیپٹاپ سے اڈیپٹر اٹیچ کرتے ہوئے دیکھا اسکی امانت کی انگشت میں ٹائٹینیم کی بلیک رنگ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی اسکے سپید ہاتھ کی ابھری ہوئی نیلی نسیں اسکے ہاتھ کی رعنایت میں بےحد اضافہ کرنے کیساتھ ساتھ اسکی توجہ منعطف کرنے کا باعث بن رہی تھی

"آپ جا سکتی ہیں مس آئیذل" 

ڈسپلے پر نظریں مرکوز کئے وہ بےتاثر لہجے میں بولا آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے لیپٹاپ کے قریب رکھے ہوئے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا ہمت اکھٹی کر کے اسنے اسکے مظبوط ہاتھ پر اپنا  نازک ہاتھ رکھا تھا

لیپٹاپ کی سکرین کا سنجیدگی سے جائزہ لیتی اسکی سنہری بےقرار آنکھیں سکون محسوس کرتے ہوئے بند ہوئی تھی دھڑکن میں تیزی آئی تھی اسکا ٹھنڈا طمانیت سے بھرپور لمس اسکی ساری تھکان دور کر چکا تھا 

"سوری" 

اسکی جانب سے اب تک کوئی تاثر ناں پا کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی آہستگی سے آنکھیں وا کرتے ہوئے اسنے اسکے ہاتھ کی جانب دیکھا تھا جو اب تک اسکے ہاتھ پر موجود تھا

"سوری کس لئے مس آئیذل" 

 اسنے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا تھا آئیذل نے لب وا کر کے کچھ کہنا چاہا تھا مگر اسے ہاتھ ہٹاتے ہوئے دیکھ کر وہ لب بھینچ کر اسے دیکھ گئی جو لیپٹاپ کی سکرین کو متانت سے دیکھ رہا تھا

آفس کا دروازہ کھول کر رباب اندر اینٹر ہوئی تھی آئیذل کو اسکے ڈیسک کے قریب دیکھ کر اسنے آئیذل کو استہزائیہ نظروں سے دیکھا تھا ایک ہلکی مسکان رباب کے لبوں پر پھیلی تھی 

"Prepare this list by tomorrow "

رباب کو مخاطب کر کے وہ چیئر سے اٹھا تھا

"sure Prof" 

وہ ہلکی مسکان کیساتھ بولی تھی

لیپٹاپ سے فلیش ڈرائیو نکال کر وہ چیئر سے کوٹ اٹھا کر باہر چلا گیا تھا آئیذل نے بےتاثر نظروں سے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھا تھا 

"تم یہاں کیا کرنے آئی تھی ویسے" 

رباب نے اسے سائڈ پر ہٹا کر ڈیسک پر بیٹھتے ہوئے ہلکی مسکان کیساتھ پوچھا آئیذل نے تیکھی نظروں سے اسے ڈیسک سے ذاویان کا کپ اٹھاتے ہوئے دیکھا تھا

"دراصل اس میں تھوڑی سی کافی بچی ہے میں نے سوچا پی لیتی ہوں" رباب نے کندھے اچکاتے ہوئے کپ کو لبوں سے لگانا چاہا آئیذل نے اسکے ہاتھ سے کپ کھینچا تھا 

 " یہ کپ تمھارے ہاتھوں میں بالکل بھی سوٹ نہیں کر رہا تھا اس لئے میں نے لے لیا اور کل کے ٹیسٹ کی تیاری اچھے سے کر کے آنا کیونکہ ہائسٹ مارکس میرے آنے والے ہیں اچھا گڈ لک تمھیں پڑھائی بھی تو کرنی ہو گی " Miss CGPA "  اسکے گال کو طنزاً تھپتھپا کر وہ باہر نکلی گئی تھی رباب نے اکتاہٹ کیساتھ سر جھٹکا تھا 

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اب آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں "

 انکے قریب بیٹھتے ہوئے ذاویان نے عقیدت سے انکا ہاتھ تھام کر پوچھا

"ذاویان میری بچی کو لے آؤ میں ٹھیک ہو جاؤں گا " 

 آنکھیں وا کرتے ہوئے وہ دھیمی مسکان اسکی جانب اچھالتے ہوئے بولے تھے وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے سر ہلا کر انکو مطمئن کر چکا تھا

"آئیذل پتر چھوڑ دے یہ سب میں کر لوں گی  " عروسہ بیگم نے اسکے ہاتھ سے پلیٹ نکال کر رکھی تھی آئیذل نے انہیں سرعت سے دیکھا تھا 

"لیکن میں فری ہوں ممانی مجھے واش کرنے دیں لائیں"

"نہیں نہیں تم اب کام مت کرنا" ریحم کچن میں داخل ہوتے ہوئے مسکرائی تھی آئیذل نے جانچتی نظروں سے اسکے ہاتھوں کو دیکھا تھا جو اسنے پیچھے چھپا رکھے تھے

"کیوں اور یہ کیا چھپایا ہوا ہے پیچھے" 

"یہ ۔۔ یہ تو سرپرائز ہے ایسے کیسے دیکھا دوں" ریحم نے آئی برو اٹھتے ہوئے کہا تھا آئیذل نے عروسہ بیگم کی جانب التجائیہ نظروں سے دیکھا تھا جو ریحم کو سر ہلا کر دیکھانے کا اشارہ کر گئی

" یہ ہماری لمظِ آئیذل کی شادی کا  سب سے پہلا کارڈ ہے جو جیجو صاحب نے آپکو دیکھانے کے لئے بھجوایا ہے  اور یہ مجھے اتنا پیارا لگا کہ میں اسے تمھیں دیکھانے کے بعد اپنے مرر کے سامنے ڈیکوریشن پیس بنا کر رکھوں گی دیکھو کتنا پیارا ہے "  ریحم نے مسکراتے ہوئے اسے کارڈ دیکھایا تھا آئیذل نے ستائشی نظروں سے کارڈ کو شیشے کے فریم سے احتیاط سے نکالا تھا فریم تھامے کھڑی ریحم مسکرائی تھی کارڈ کھول کر سب سے پہلے اسکی نظر اسکے نام پر پڑی تھی جو اسکے نام کے قریب لکھا ہوا تھا ہر گزرتے سیکنڈ کیساتھ میرے جذباتوں میں صرف اضافہ ہو رہا ہے بےبی گرل اس لئے محتاط رہئے گا میرا عشق مہلک ثابت ہو گا آپکے لئے یقیناً کیونکہ میں پندرہ سال محروم رہا ہوں آپ سے "

اسکی بات یاد آنے پر جہاں اسکی دھڑکنیں تیز ہوئی تھی وہاں ایک پوشیدہ مسکان اسکے گداز لبوں کو چھو کر گزری تھی

"ہائے اللہ چاچی جان یہ تو شرما رہی ہے" ریحم نے اسکا سرخ پڑتا چہرا دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا آئیذل لب بھینچ کر سر جھٹک کر پیچھے مڑتے ہوئے ہلکی سی مسکرائی تھی 

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"سیرت سیرت ادھر آؤ جلدی" علیشہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے لیپٹاپ گود میں رکھتے ہوئے بولی سیرت نے اکتا کر اسے دیکھا تھا

"ارے آؤ تو " 

سیرت صوفے سے اٹھ کر اسکے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے لیپٹاپ کی سکرین پر نظریں مرکوز کر گئی جس پر وہ حدید رضا عسکری کی پروفائل اوپن کئے بیٹھی تھی

"ارے بیٹھو ہچھ دیکھانا ہے" 

سیرت کو اسکا فوٹو دیکھ کر سلگتے ہوئے اٹھ رہی تھی علیشہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے دوبارہ بٹھا کر کہا تھا سیرت نے ناک سکیڑ کر اسکی پروفائل دیکھی تھی

"یہ دیکھو جسے تم سیمی جیسے اناڑی لڑکوں کے گروپ سے مار لگوانا چاہتی تھی وہ ورف مارشل آرٹس ایکسپرٹ نہیں ہے "

سیرت نے اسکی گقد سے لیپٹاپ اٹھا کر اسکی ڈیٹیلز چیک کی تھی 

"یہ تو کراٹے پینکیک سلات کلاریپایاتو آرنس، سامبو جوڈو کیپوئیرا وغیرہ سب جانتا ہے بیچارے سیمی کی ہڈیاں صحیح کر کے ٹوٹی ہوں گی"  علیشہ نے سر پکڑتے ہوئے طنز کیا تھا سیرت نے لب کچلے تھے

"اچھا ہاں میجھے یاد آیا کہ سیمی کا فون آیا تھا وہ ہاسپیٹل سے ڈس چارج ہو گیا ہے پوچھ رہا تھا تمھارا " 

"میرا پوچھ رہا تھا " سیرت نے لیپٹاپ سے نظریں ہٹا کر علیشہ کو دیکھتے ہوئے تعجب سے پوچھا

"تم نے ان لوگوں کو مار پڑوا دی اور ان کا پتا بھی نہیں کرنے گئی سب لوگ پارٹی میں آ رہے ہیں آج رات جیا  اپنی برتھ ڈے پارٹی تھرو کر رہی ہے تم بھول گئی کیا "

سیرت نے سر جھٹکا تھا 

"میں نہیں جا رہی مجھے نائٹ کلبز پسند نہیں" 

"کم آن سیرو جیا کو برا لگے گا بس آج چلو ہمارا پورا گروپ ہو گا وہاں پلیز پلیز" علیشہ نے لاڈ سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے کہا تھا

"مجھے بھیا سے تو پوچھنے دو پیچھے پڑ گئی ہو تم تو " سیرت نے آنکھیں گھمائی تھی علیشہ نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ چھوڑا تھا 

"بھیا میں آ جاؤں" دروازے پر ناک کرتے ہوئے سیرت نے جواب ملنے کا انتظار کیا تھا 

"پرنسس آپ بھی پرمیشن لیں گی ؟؟" 

وہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی فون سائڈ پر رکھتے ہوئے اسے دیکھ کر مسکرا گیا تھا 

"بھیا میں آپکی پرمیشن لینے آئی تھی آج جیا کی برتھ ڈے ہے اس لئے اسنے ہمیں پارٹی میں انوائٹ کیا ہے" اسکے قریب بیٹھتے ہوئے سیرت نے بتانا شروع کیا تھا وہ سنجیدگی سے سر ہلا گیا تھا

"میں جانا نہیں چاہتی لیکن علیشہ ضد کر رہی ہے "

"جیسا آپکو بہتر لگے "

"پارٹی کلب میں ہے بھیا" سیرت نے اسکی جانب دیکھا تھا جو کلب کا نام سن کر سنجیدہ ہوا تھا 

"آپ کہیں نہیں جائیں گی پرنسس"

"اوکے بھیا میں منع کر دیتی ہوں" مسکراتے ہوئے وہ اٹھی تھی ذاویان نے سرد آہ بھری تھی ایک پل میں اسکا چہرہ مرجھا گیا تھا

"پرنسس میں آپکی سیفٹی چاہتا ہوں"

دروازے کی طرف بڑھتی سیرت کو دیکھ کر وہ افسردگی سے بولا

"آئی نو بھائی اس لئے میں نے ضد نہیں کی جیسا آپکو مناسب لگے" وہ مسکراتے ہوئے پیچھے پلٹ کر بولی تھی ذاویان نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا 

"گڈ نائٹ بھائی"

"گڈ نائٹ پرنسس" 

دروازہ بند کرتے ہوئے وہ باہر دیوار کے قریب رکی تھی کچھ سوچ کر اسنے دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا

"پرنسس میں آپکی سیفٹی چاہتا ہوں"

 لب بھینچ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی

"میں بھی نہیں جاؤں گی اگر تم نہیں چل رہی" علیشہ خفگی سے بول کر منہ پر بلینکٹ ڈال کر سو گئی تھی سیرت نے افسوس سے سر جھٹکا تھا بہت ضدی تھی وہ لڑکی!!

سونے کی تیاری پکڑتے ہوئے وہ بلینکٹ درست کرنے لگی جب روم کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا تگا

"بھائی آپ" 

سیرت کے بولنے پر علیشہ نے بلینکٹ سے چہرہ نکالا تھا 

"پرنسس آپ اگر جانا چاہتی ہیں تو میں آپکا نہیں روکوں گا"

"بھائی سیرت کے گارڈز بیچارے سردی میں تھرتھراتے رہیں گے ان کو ریسٹ کرنے دیں ناں " علیشہ نے معصومیت سے کہا سیرت نے لبوں پر بکھرتے متبسم کو روکا تھا ذاویان کے سنجیدگی سے دیکھنے پر علیشہ بھولپن سے مسکرا گئی تھی

"اچھا جیسے آپکو ٹھیک لگے "  

علیشہ نے بےصبری سے کہہ کر اٹھتے ہوئے کہا تھا

"تھینک یو بھائی" اسکے سینے سے لگتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولی وہ محبت سے اسکے بال سہلا گیا

"آپ بہت اچھے ہیں میں بہت لکی ہوں آپ ورلڈ کے بیسٹ بھائی ہیں سب سے بیسٹ بھائی " 

"لکی تو میں ہوں پرنسس " اسکی کنپٹی پر بوسہ دیتے ہوئے وہ الفت سے کہہ کر چلا گیا تھا سیرت مسکرا گئی تھی جتنی پرواہ وہ اسکی کرتا تھا پوری دنیا کی محبت کا نچوڑ بھی اس محبت کے سامنے کم تھا وہ جان چھڑکتا تھا اس پر اپنی!!

"اب ریڈی ہونا ہے یا پھر یہیں کھڑی رہو گی" علیشہ نے کبرڈ کھولتے ہوئے تنک کر کہا سیرت نے تشویش سے اسے اپنے کپڑوں کو ٹٹول کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے دیکھا تھا 

ویلوٹ کے بلیک صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا سر کو پیچھے گرائے آنکھیں موندے وہ گہری سوچ میں لگ رہا تھا 

"بارش میں بھیگے ہوئے وہ ہلکے گلابی لب اسکے حواسوں پر قابض تھے اسکی گہری سیاہ آنکھیں جن کی خم دار پلکوں پر بارش کے قطرے کچھ دیر قیام کے بعد اسکے چہرے پر بہک کر گر رہے تھے اسکے دل و دماغ پر حاوی ہو رہے تھے"

"رضا تم کیا کہتے ہو " 

آنکھیں وا کرتے ہوئے وہ بزنس ڈیلر باسط شاہ کی طرف متوجہ ہوا تھا 

"ہاہاہا رضا سے مت پوچھو اسے لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یہ ہمارے انٹرسٹ کی چیز ہے " دوسرے صوفے پر بیٹھا شہریان طنز سے مسکرایا تھا 

"ویسے آزمانے میں کیا ہرج ہے اور تم جیسے وجیہ شخصیت،، امیر زادے پر تو کوئی بھی لڑکی فدا ہو جائے گی بغیر پیسے کی لالچ کے کیا کہتے ہو پھر "  باسط نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے شریر لہجے میں کہا تھا 

اسنے تاسف سے سر جھٹکا تھا 

"اتنے بھی اچھے مت بنو بتاؤ پھر تمھارا کیا خیال ہے آج رات کسی پر مہربان ہو جاؤ " شہریان نے شوخ لہجے میں کہا تھا

"ایک لفظ اور کہا تو ذندہ نہیں جاؤ گے یہاں سے" وہ برفیلے لہجے میں بولا تھا شہریان اسکے سرد کاٹدار لہجے پر ششدر رہ گیا تھا صفیان نے انہیں نظروں سے مزید کچھ ناں بولنے کا اشارہ کیا تھا

 سرد آہ بھرتے ہوئے باسط اور شہریان چپ ہو گئے تھے سنجیدگی سے اٹھ کر وہ بالکنی کی جانب بڑھ گیا تھا سگار سلگا کر اسنے آنکھیں بند کرتے ہوئے لمبا کش لیا تھا ٹھنڈی ہوا اسکے چہرے کو تھپتھپا کر گزر گئی تھی

"کتنی بار کہا ہے اسکے ساتھ ایسی گفتگو سے پرہیز کیا کرو" صفیان نے تیکھی نظروں سے باسط اور شہریان کو گھور کر کہا تھا 

"آج رات کا کیا پلان ہے پھر  " سیمی کا دوست اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے چنچل لہجے میں بولا تھا

"ابے چپ  کر سیرت آ گئی" اسے تیکھی نظروں سے دیکھنے کے بعد وارننگ دیتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کر مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھ گیا تھا بلیک ویلوٹ کے ڈریس میں شولڈز تک آتے بھورے ریشمی بالوں کو کھلا چھوڑے لائٹ میک اپ میں سب سے منفرد اور دلکش لگ رہی تھی سیمی لبوں پر گہری مسکراہٹ سجائے اسکی جانب بڑھتے ہوئے اسکے اپنی طرف بڑھائے ہاتھ کو ہلا گیا تھا 

"سوری بڈی  یہ سب میری وجہ سے ہوا ناں ویسے اب کیسا محسوس کر رہے ہو" سیرت نے ہلکی مسکان کیساتھ معزرت کی تھی جس پر سیمی کا گروپ قہقہ لگا کر رہ گیا تھا اور سیمی نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تھا

"سکول ٹائم کے فرینڈ ہیں بھائی دوستی کے لئے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں ویسے اس بھلے شخص نے ہمیں اسپتال پہنچا دیا تھا جہاں سے ہماری ٹوٹی ہوئی ہڈیاں واپس جڑ گئی " سیمی کے دوست مائس نے ہنستے ہوئے کہا جس پر سیرت کے ہلکے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی جیا کے آتے ہی اسکی مسکان اور گہری ہوئی تھی

"ہیپی برتھ ڈے مائی لوو " گفٹ باکس اسکی جانب بڑھاتے ہوئے وہ مسکرا کر اسے گلے لگا تے ہوئے بولی تھی جیا کا چہرہ کھل اٹھا تھا اسے دیکھ کر وہ خوشدلی سے اسے گلے لگا کر مسکرائی تھی

گہری نظروں سے سیرت کو دیکھتے سیمی نے ویٹر کو روک کر جوس کا گلاس اٹھایا تھا مائس نے غور سے اسے جوس کے گلاس میں کچھ ڈالتے ہوئے دیکھا تھا وہ گلاس شیک کر کے مسکراتے ہوئے باقی گلاسز کے ساتھ رکھ کر ٹرے اٹھائے اپنے گروپ کے پاس آیا تھا سب کو ایک ایک گلاس تھما کر وہ سیرت کی جانب آیا تھا

"نہیں سوری مجھے نہیں چاہیے" سیرت نے ہلکی مسکان کیساتھ رہنے دو کا اشارہ کیا تھا

"سوفٹ ڈرنک ہے پرنسس کم آن آج تو بنتا ہے" سیمی نے گلاس اسکے ہاتھ میں زبردستی تھمایا تھا وہ انکار نہیں کر پائی تھی

 سیمی مسکراتے ہوئے اسکے قریب والے صوفے پر بیٹھا تھا سیرت نے مسکراتے ہوئے علیشہ اور جیا کو ڈانس فلور کی جانب بڑھتے دیکھ کر جوس کا گھونٹ بھرا تھا

لاؤڈ پارٹی میوزک سے ماحول میں جوش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جیا ڈانس فلور پر علیشہ اور باقی گروپ گرلز کیساتھ ڈانس کر رہی تھی سیمی گہری نظروں سے سیرت کا جائزہ لے رہا تھا جو ہلکی مسکان لبوں پر بکھیرے بےحد حسیں لگ رہی تھی 

"کیا ملایا تو نے سیرت کی ڈرنک میں"  مائس اسکے قریب بیٹھتے ہوئے تشویش سے بولا تھا 

"ڈرگز ہیں کچھ ہی دیر میں لڑھک جائے گی" سیمی نے وسکی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے خباثت سے کہا تھا مائس چونکا تھا 

"ابے بےوقوف ذاویان رضوی کو نہیں جانتا تو ۔۔ اگراسے بھڑک بھی لگی کہ تو نے اسکی بہن کیساتھ ایسا کرنے کی کوشش کی ہے تو تجھے ذندہ نہیں چھوڑے گا" 

" اٹریکشن ہے کیا کروں آج برداشت سے باہر ہو رہا ہے کالج ٹائم سے میں سیرت کو حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر یہ بزنس وومن تو محبت کے نام پر پھنس ہی نہیں رہی لیکن آج رات میں سیرت کو حاصل کر لوں گا " سیمی نے اسے خباثت سے بھرپور نگاہوں سے دیکھا تھا وہ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے پزل نظروں سے آس پاس دیکھ رہی تھی کیونکہ اسکا منظر دھندھلا چکا تھا مائس نے تاسف سے سیمی کو اٹھ کر سیرت کے قریب بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا خوفزدہ تو وہ بھی تھا مگر اسوقت کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا

 سیرت کے قریب بیٹھنے پر سیمی کو اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک نے اٹریکٹ کیا تھا شراب اسکے دماغ پر چڑھ چکی تھی سیرت پس و پیش نظروں سے چاروں اطراف دیکھ رہی تھی کیونکہ اسے سوائے پرپل کلر ہے کچھ نہر نہیں آ رہا تھا جو یقیناً ڈرگز کا اثر تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 فون کان سے لگائے متانت سے وہ ریسٹ روم کی جانب بڑھ رہا تھا

"اوکے ڈیڈ میں دو تین دنوں میں پہنچ رہا ہوں یہاں تھوڑا سا کام باقی ہے آفکورس میں کیسے بھول سکتا ہوں ڈیڈ میرا گھر ہے برطانیہ میں نے واپس تو آنا ہی ہے" مبہم مسکراہٹ کیساتھ وہ اپنے ریسٹ روم کے لاک میں چابی گھماتے ہوئے بولا تھا 

"جی ڈیڈ میٹنگ سکسیسفل رہی آپ کی طبعیت کیسی ہے میڈیسن ٹائم پر لے رہے ہیں ناں آپ" لاک کھول کر اندر داخل ہوتے ہوئے اسنے ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی تھی جب ایک انجان مہک نے اسے متوجہ کیا تھا ہلکی چنبیلی کے پھولوں کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس کرتے ہوئے وہ  ششدر رہ گیا تھا یہ مہک سیرت کی تھی اور یہی سوچ کر سنجیدگی سے سر جھٹک گیا تھا

"خیال رکھیے گا شب بخیر" کال منقطع کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اٹھ کر باہر آیا تھا مہک اندر کے مقابلے میں یہاں کافی ذیادہ تھی اسنے متانت سے پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلایا تھا صبح سے وہ اسکے حواسوں پر ایسی قابض تھی کہ وہ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکا تھا اور اب اسکی مہک اسے بہکانے آ پہنچی تھی

باہر نکل کر وہ رائٹ سائڈ چل پڑا تھا اسوقت ہر طرف بلا کی خاموشی تھی اسکے بھاری قدموں کی ماربل فرش پر چلنے کی آہٹ دور تک سنائی پڑ رہی تھی

روم کا دروازہ بند کرتے ہوئے سیمی نے بیڈ پر سیرت کو گرایا تھا نیم بے ہوشی کی حالت میں سیرت نے بوجھل سر کو اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر سر پر اس قدر بوجھ محسوس ہوا کہ وہ سر دوبارہ گرا گئی تھی

"اففف یہ تمھاری آوارہ زلفیں کتنی گستاخی زے تمھارے چہرے کو چھو رہی ہیں" سیمی کی خباثت سے بھرپور آواز سن کر سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا 

 کچھ غلط ہونے کا احساس اسکے ماؤف ہوتے ذہن کو مذید شل کر رہا تھا آنکھوں میں شدید چبھن محسوس ہو رہی تھی حلق میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا

"تت۔۔تم ۔۔۔ گھٹیا انسان۔۔۔ "

اسکے دھیمے لہجے پر وہ تمسخر نظروں سے اسے خیکھتا ہنسا تھا

"ہاہا ریلیکس جانم تکلیف مت دو خود کو" 

سیرت نے نفرت سے سر جھٹکتے ہوئے ہاتھوں سے آس پاس اپنا فون ٹٹولنے کی کوشش کی تھی کیونکہ اٹھنے کی سکت اسکے کمزور جسم میں باقی نہیں تھی

 دائیں ہاتھ سے سیرت نے بیڈ کے قریب پڑی چھوٹی سی ٹیبل پر موجود شراب کی بوتل کو نیچے گرایا تھا دروازہ لاک کرتے سیمی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو ایک ہاتھ سے سر تھامے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی ٹکائے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی

شیشہ ٹوٹنے کی آواز پر وہ ایک دروازے پر رکا تھا ہاتھ کو اٹھا کر دروازے پر دستک دینے سے اسنے خود کو روکا تھا

"یہ میں کیا کر رہا ہوں وہ یہاں نہیں ہو سکتی۔۔۔ ایسی جگہ پر سیرت نہیں ہوسکتی " تمام سوچوں کو جھٹک کر وہ واپس جانے کے لئے مڑا تھا جب اسے بجھی بجھی آواز میں سسکیاں سنائی دی تھی

اپنی کمر پر کسی کے ہاتھ کو رینگتا محسوس کر کے سیرت نے بےبسی سے تیز ناخن اسکے ہاتھ کی پشت میں پیوست کئے تھے

اسکے ڈریس کا زپر کھولتے ہوئے سیمی نے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکے احتجاج کرنے پر ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر مارا تھا جسکے نتیجے میں وہ  زور سے سسکی تھی

"اور تم جیسا شخص پوری دنیا کی لڑکیوں کی اٹینشن حاصل کر سکتا ہے کوئی شک نہیں لیکن ایک لڑکی کو اتنا ڈچ کرنا اسے اپنے دوستوں سے کیریکٹر لیس بلوانا ریئیلی یہ تم ہو حدید رضا عسکری؟؟ افسوس بہت نیچ شخص ہو تم" 

ناجانے کیوں اسکی بات یاد کر کے وہ پیچھے مڑا تھا

"نہیں سیرت اندر ہے"

اسنے پتھریلی نظروں سے دروازے کو دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا تھا

واپسی کی طرف اٹھتے اسکے قدم ساکت ہوئے تھے بغیر دوسری بار سوچے اسنے دروازے پر  زور سے دستک دی تھی سیرت پر جھکتے سیمی نے خوفزدہ نظروں سے دروازے کو دیکھا تھا نیم وا آنکھوں سے سیرت نے دروازے کو دیکھا تھا

"ہی۔۔لپ" 

وہ حلق کے بل چیخنا چاہتی تھی مگر ڈرگز نے اسکے ذہن کو اس قدر ماؤف کیا تھا کہ بولنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی تھی ایک ہلکی دھیمی سرگوشی کرتے ہوئے اسنے دروازے کی جانب دیکھا تھا 

دستک دینے کے بعد اندر سے کوئی جواب ناں ملنے پر اسکا شک یقین میں بدلا تھا اسنے اس بار قدرے سختی سے دروازے پر ہاتھ مارا تھا

"سیرت" 

اسکی بھاری جانی پہچانی آواز سن کر سیرت نے سر اٹھایا تھا اور اسکی آواز سن کر ہی سیمی کی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں نمودار ہوئی تھی 

"Open The Door I Said" 

درشتگی سے کہتے ہوئے اسنے دروازے پر مٹھی بھینچ کر مارتے ہوئے جبڑے بھینچے

 سیمی خوفزدہ ہو کر اٹھا تھا اسکی آنکھوں میں خوف کے سوا کچھ نہیں تھا خشک حلق تر کرتے ہوئے اسنے آس پاس دیکھا تھا کھڑکی سے وہ فرار نہیں ہو سکتا تھا ورنہ جتنی شدت سے اسوقت سیمی کا دل دھڑک رہا تھا شاید ہی ذندگی میں اسنے کسی سے اتنا خوف کھایا تھا !!

دو قدم پیچھے ہٹ کر وہ پوری قوت سے دروازے کو  کندھا مارتے ہوئے کھول چکا تھا اسکی بھوری آنکھوں نے بیڈ پر ناموزوں حالت میں پڑی سیرت کو دیکھا تھا پیشانی کی نیلی نسیں ابھری تھی آنکھوں میں درشتگی کی جگہ وحشت نے لی تھی سیمی تھوک نگلتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا تھا ایک قدم اٹھانے کیساتھ سارا فاصلہ طے کر کے اس تک پہنچ کر اسنے درشتگی سے اسے گردن سے دبوچا تھا

"How dare you touch Seerat you Bastard"

اسکی سہمی آنکھوں میں وحشت سے بھرپور آنکھیں گاڑھے وہ جبڑے بھینچے بولا 

 اس سے پہلے وہ چیخ کر یہاں لوگوں کو جمع کرتا اسکی گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ہاتھ کی مٹھی بنا کر ایک زوردار فسٹ اسکے چہرے پر رسید کی سیمی دیوار سے ٹکرایا تھا اس کے ہونٹ سے خون بہنے لگا

"ر۔۔۔ض"

سیرت نے ہاتھ بڑھا کر کچھ کہنا چاہا تھا

 جب حدید کی نظر دوبارہ سیرت پر پڑی تھی تو اسکی بھوری آنکھوں میں چنگاریاں پھوٹی تھی

 بوجھل پلکوں کو بمشکل گرنے سے روک کر شبنم سے تر آنکھوں سے وہ بےساختہ اسے دیکھ رہی تھی آنکھوں سے موتی ٹوٹ رہے تھے وہ اس غلیظ کے ٹکڑے کر دینا چاہتا تھا ایک ہی ساتھ ڈھیروں خیالات اسکے دماغ کو شل کر رہے تھے وہ اسے ذندہ جلا دینا چاہتا تھا سیمی نے  نظروں سے اسکی طیش سے سرخی مائل چہرے کو دیکھا تھا

"مائس "

 وہ حلق کے بل دھاڑا تھا  نفرت سے  اسے جھٹک کر وہ پیچھے ہٹا تھا گیلری میں اٹھتے تیز قدموں کی آہٹ اسکے کانوں میں پڑی تھی کوئی اسکی جانب آ رہا تھا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسنے بیڈ شیٹ مٹھی میں بھینچ کر آنکھیں بند کی تھی وہ تیزی سے سیرت کی جانب بڑھا تھا جو اسوقت نامناسب حالت میں تھی

 سیمی تیزی سے اٹھ کر باہر بھاگا تھا قدموں کی آہٹ بڑھتی جا رہی تھی یقیناً سیمی کے چیخنے پر سیکیورٹی گارڈ یا ہوٹل کا کوئی سٹاف ممبر روم کی جامب بڑھ رہا تھا

اپنا کوٹ اتار کر اسکے برہنہ کندھوں پر ڈال کر اسنے ہمدردی سے اسکی نم آنکھوں کو دیکھا تھا 

"کک۔۔کوئی ۔۔آ۔۔رہا۔۔۔ہے ر۔۔رضا" 

اسکے کوٹ کو مٹھی میں بھینچتی وہ خوف سے لرز گئی تھی 

 بغیر ایک پل کی دیر کئے اسے اٹھا کر وہ  تیز قدموں کیساتھ کمرے سے باہر نکلا تھا دروازے کو پیر سے کھول کر وہ اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر چکا تھا باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی کوئی تیزی سے اس روم کی جانب بڑھا تھا سیرت نے سرد آہ بھری تھی 

اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اسنے بلینکٹ سے اسکے لرزتے وجود کو ڈھانپا تھا فون پر کسی کا نمبر ڈائل کر کے وہ کال کنیکٹ ہونے کا انتظار کرنے لگا 

"صف ایک ڈریس ارینج کرو کسی بھی طرح ۔۔۔ سوال نہیں جتنا کہا گیا ہے اتنا کرو" 

 کال جیسے ہی کنیکٹ ہوئی تھی اسنے سنجیدگی  سے کہا تھا

"اچھا میں کرتا ہوں "

 لمبا سانس ہوا کے سپرد کرنے کے ساتھ کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے اسنے پلٹ کر ہمدردی سے اسے دیکھا تھا گہری سیاہ شبنمی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر اب تک بیڈ شیٹ میں جذب ہو رہے تھے 

" He will be punished for what he has done Please Stop Crying Miss Seerat"

 اسکے شارٹ ریشمی بالوں کو جو آنسوں سے تر چہرے پر چپک رہے تھے سنجیدگی  سے ہٹاتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولا سیاہ نم آنکھوں میں بےحد شرمندگی تھی افسوس تھا کرب تھا جسے وہ دیکھ پا رہا تھا 

"ر۔۔۔رضا ۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے ۔۔ مجھے گھر چھوڑ دو پلیز"  سیاہ نیم وا آنکھوں نے درخشاں بےقراری سے بھرپور بھوری آنکھوں سے التجا کی تھی

 وہ حزن نگاہوں سے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھ رہا تھا آنکھوں سے کاجل بکھر چکا تھا اسکے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی کیا یہ وہی سیرت تھی جو ایک پرفیکٹ بزنس وومن تھی حدید رضا کے دل کو آج اس معصوم چہرے نے جکڑ کر رکھ دیا تھا

"باہر کراؤڈ ہے مس سیرت آپ اس حالت میں باہر نہیں جا سکتی کچھ دیر"

دروازے پر دستک سن کر سیرت نے گھبراتے ہوئے اسکی جانب دیکھا تھا بات ادھوری چھوڑ کر وہ تاسف سے دروازے کی سمت دیکھ چکا تھا

"عسکری صاحب دروازہ کھولنے کا تکلف کریں گے آپ" صفی کی آواز سن کر سیرت نے دروازے کی طرف بڑھتے حدید کا ہاتھ پکڑ کر متردد نظر سے اسے دیکھا تھا

"میں دروازہ نہیں کھول رہا ڈونٹ وری" 

 اسکے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چھوڑتے ہوئے وہ دروازے کو زرا سا کھول کر صفی کے ہاتھ سے پیپر بیگ لیکر اسکے منہ پر دروازہ بند کر چکا تھا سیرت نے اطمینان سے سر واپس کشن پر رکھا گیا

"حد ہے یار شکریہ تو کہہ دیتے برے وقت میں میں ہی کام آتا ہوں ہمیشہ" صفی نے تیکھی نظروں سے دروازے کو دیکھا تھا

"مس سیرت آپ چینج کر لیں میں باہر انتظار کر رہا ہوں " 

پیپر بیگ کو اسے قریب بیڈ پر رکھ کر وہ دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا

"ر۔۔۔کیں"

دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اسکے پکارنے پر حدید رکا تھا وہ اسے مخاطب کرنے کے بعد گھبرا کر لب بھینچ گئی تھی اسنے سنجیدگی سے سیرت کو دیکھا تھا جو کچھ کہنے سے ہچکچا رہی تھی 

"و۔۔۔وہ۔۔ مجھے۔۔واش روم جانا ہے" 

سیرت نے شرمندگی سے نظریں جھکائی تھی 

"So what's the point of hesitation?"

کچھ دیر سنجیدگی سے اسے دیکھنے کے بعد وہ نرمی سے گویا ہوا 

"کیا آپ چل سکتی ہیں" 

اسکی جانب بڑھتا ہوا وہ سنجیدگی سے بولا

سیرت نے لب بھینچ کر سر کو نفی میں ہلایا تھا 

 بلینکٹ ہٹاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسکے پینسل ہیل میں مقید سفید دودھیا رنگت پیروں کو دیکھا تھا بائیں پیر میں بلیک ڈوری بےحد خوبصورت لگ رہی تھی

سیرت اسکی باریک بین نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے پیروں کی جانب دیکھ گئی تھی جن پر اسنے کبھی اتنی غور وفکر سے کام نہیں لیا تھا لیکن اسکے پیر بےحد خوبصورت تھے اور اسکا اندازہ آج سیرت کو ہو چکا تھا جو چیز حدید رضا عسکری کی توجہ کو کھینچنے کا باعث بنی تھی یقیناً وہ منفرد تھی !!

سیرت نے اسے گھٹنا ٹکا کر نیچے بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا 

وہ اسکے نازک پیروں کو پینسل ہیل سے نکال رہا تھا نظریں جھکانے پر سیرت کی نظریں اسکے ہاتھ پر پڑی تھی مظبوط دودھیا رنگت کلائی پر بلیک رولیکس واچ مبذولِ توجہ تھی مگر جیسے ہی نظریں اسکے ہاتھ کی پشت پر پڑی سیاہ آنکھوں میں مایوسی پھیلتی چلی گئی اسکے خوبصورت ہاتھ پر جلنے کے نشانات موجود تھے جن کی وجہ سیرت تھی آج پہلی بار سیرت کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

 کمفی وائٹ (Versace) سلیپرز اسکے سفید پیروں کی نزر کرتے ہوئے اٹھا تھا اسکی باریک انگلیوں کو اپنے مظبوط ہاتھ میں لیکر اسکا ہاتھ پکڑ کر کندھوں سے تھام کر بیڈ سے اٹھایا تھا سیرت کی نظریں اب بھی اسکے وجیہ چہرے پر تھی ناجانے کیوں آج وہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پا رہی تھی

(If you need my help, feel free to ask)

اسے واش روم تک چھوڑنے پر بعد پیپر بیگ اسکے ہاتھ میں تھما کر سنجیدگی سے کہہ کر وہ رخ بدل گیا تھا 

"رضا لائٹ سوئچ"

" اوہ آئی ایم سوری" وہ پیچھے مڑتا واش روم کی لائٹ روشن کرتے ہوئے دوبارہ پلٹ گیا تھا 

سیرت کے گداز ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیلی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

رومال سے پسینے میں شرابور چہرا صاف کرنے کے بعد وہ لمبے سانس لیتا ہوا آس پاس دیکھ کر فون کان سے لگا گیا

"مم۔۔مجھ سے ایک غلطی ہو گئی میں نے سیرت کے ساتھ غلط کرنے کی کوشش کی مم۔۔۔مجھ سے نشے میں ہو گیا ڈیڈ ۔۔۔ مجھے بچا لیں وہ مجھے نہیں چھوڑے گا "

آس پاس خوفزدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ ہکلا کر بولا تھا

"کون ۔۔۔ سیم تم اسی وقت کہاں پر ہو "

"ڈڈ۔۔ڈیڈ مم۔۔مجھے لگ رہا ہے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔۔مم۔۔میں کیسے گھر پہنچوں گا " ایک بار پھر اندھیرے میں دور تک نظر دوڑاتے ہوئے وہ سہمی ہوئی آواز میں بولا تھا

"کون پیچھا کر رہا ہے اور آخر تم اسوقت کہاں ہو مجھے ایڈریس بھیجو میں خود آ کر لے جاؤں گا"

"ڈڈ۔۔ڈیڈ میں کچھ ۔۔۔بتانا۔۔۔ چاہتا ہوں مم۔۔۔میں نے کک۔۔کچھ ڈرگز سپلائرز کیساتھ ڈیل کی تھی ۔۔۔ اس دن کے بعد سے میرے ساتھ کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔۔۔کک۔۔کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے ۔۔۔۔ اور اب بھی کوئی میرے آس پاس ہے ۔۔۔ککک۔۔کسی نے مجھ پر نظر رکھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے بچا لیں ڈیڈ "

خوف سے اسکا پور پور کانپ رہا تھا اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پر وہ ساکت ہوا تھا گھپ اَندھیرے میں کسی انجانے وجود کا احساس اسکے وجود میں گردش کرتے خون کو جما چکا تھا 

سامنے ہی سڑک پر روڈ لائٹس کی روشنی کے سبب پیچھے کھڑے شخص کا ایک بہت بڑا سایہ نظر آیا تھا

 فون اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر چکا تھا

"ہیلو ۔۔۔ ہیلو ۔۔ سیم بیٹا جواب دو"

تھوک نگلتے ہوئے اسنے فون کو دیکھ کر بمشکل گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تھا اندھیرے میں چمکتی وحشت سے بھرپور دو مرجانی آنکھیں !!

وہ خوف سے کچھ قدم پیچھے ہٹا تھا سڑک کی ہلکی روشنی میں اسکے دیو ہیکل سائے نے سیمی پر اندھیرا کیا تھا وہ جلدی میں پیچھے دوڑنے کو مڑا جب اسکے شوز کے لیسز اسکے دوسرے پیر کے نیچے آئے اور وہ منہ کے بل گرا تھا

"مم۔۔میں نے ککک۔۔کچھ نہیں کیا" 

دونوں ہتھیلیوں کو سڑک پر رگڑتے ہوئے وہ پیچھے کھسک رہا تھا اور بھاری قدموں کی آہٹ کیساتھ وہ بلیک لیتھر ڈریس میں ملبوس انجان پراسرار وجود اسکی جانب بڑھ رہا تھا جس کا چہرہ اندھیرے کے باعث نظر نہیں آ رہا تھا مگر وہ وحشت سے بھرپور چمکتی سرخ آنکھیں سب کچھ کہہ رہی تھی

 سیمی نے خوفزدہ نظروں سے اسے اپنے چاروں اطراف کچھ گراتے ہوئے دیکھا تھا سونگھنے کی حس تیز کرنے پر سیمی کو ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے اسکے چاروں اطراف شراب کا ایک دائرہ کھینچا گیا تھا

"ننن۔۔نہیں"

اسکے ہاتھ میں جلتے لائٹر کو دیکھ کر وہ چیختے ہوئے اٹھا تھا ایک سیکنڈ میں اسنے لائٹر سے آگ کو جان دی تھی

تیزی سے بھڑکتی ہوئی آگ نے سیمی کو حصار میں لیا تھا لائٹر کو نیچے ڈال کر دوسرے بلیک لیتھر گلو سے ڈھکے ہاتھ میں تھامی ہوئی شراب کی بوتل کو اسنے آگ میں پھینکا تھا دردناک چیخیں اسوقت ماحول کو وحشت ناک بنا رہی تھی

"You will rot in hell"

پینٹ کی پاکٹ سے ایک بلیک کارڈ نکال کر کچھ فاصلے پر پھینکنے کے بعد وہ سایہ بھاری آواز میں طنز کر کے وہاں سے اندھیرے میں کہیں غائب ہو چکا تھا کچھ ہی دیر میں وہ دردناک چیخیں تھم گئی تھی 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

علیشہ اور جیا باقی گروپ کیساتھ سیرت کو پچھلے دو گھنٹے سے ڈھونڈ رہی تھی سیمی بھی مسنگ تھا اور یہی بات علیشہ کو بےحد پریشان کر رہی تھی وہ جانتی تھی اگر سیرت کو کچھ بھی ہوا تو وہ ذاویان کو جواب دہ تھی اور جب سے سیرت نے علیشہ کو کلب والی بات بتائی تھی اسکے دل میں سیرت کے لئے محبت اور بڑھ گئی تھی 

ہولے سے آنکھیں وا کر کے سیرت نے اسے صوفے پر براجمان دیکھا تھا اسکے ہوش میں آنے پر وہ اٹھ کر سیرت سے مناسب فاصلے پر رکا تھا

"How are you feeling now"

اسے غائر نگاہ سے دیکھنے کے بعد اسنے استفسار کیا

"تمھاری دی ہوئی میڈیسن نے واقعی مجھے ٹھیک کر دیا  رضا ویسے میں کتنی دیر سے یہاں سو رہی تھی" بلینکٹ ہٹاتے ہوئے اسنے سوالیہ نظروں سے اسکی جناب دیکھا تھا

"تقریباً ایک گھنٹے سے " اسنے ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھنے کے بعد تاسف سے کہا سیرت جلدی سے نیچے اتری تھی 

"میرا گروپ مجھے ڈھونڈھ رہا ہو گا "

"مس سیرت"

وہ دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے رکی تھی وہ سنجیدگی سے اسکے پیروں کو دیکھتے ہوئے مبہم سا مسکرایا تھا سیرت نے آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے دیکھنے کے بعد اپنے پیروں کو دیکھا تھا جس میں وہ کمفی وائٹ سلیپرز پہنے باہر نکل رہی تھی اسکا چہرہ سرخ پڑا تھا 

"کیا میں کر سکتا ہوں" 

"نہیں" 

وہ ہچکچاتے ہوئے جلدی سے اپنی پینسل ہیل اٹھاتے ہوئے بولی تھی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ  اسے دیکھ کر مسکرا گیا تھا جو جلدی جلدی پیروں میں پینسل ہیل شوز ڈالے باہر نکلی تھی

کاؤچ سے اپنا کوٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے وہ رکا تھا وہ تو جا چکی تھی مگر اپنے پرفیوم کی ہلکی مہک اسکے لئے چھوڑ گئی تھی

وہی جانی پہچانی چنبیلی کی مہک!!

 لمبا سانس لیتے ہوئے اسنے طمانیت سے آنکھیں موند کر اسکی مہک کو سمیٹا تھا 

"ہیلو سیرت کہاں ہو تم کیا تم ٹھیک ہو ہم پچھلے دو گھنٹوں سے تمھیں ڈھونڈ رہے ہیں کہاں گئی تھی تم بتا کر تو جاتی اب کہاں ہو"

جیسے ہی سیرت نے کال کنیکٹ کی تھی علیشہ نے متذبذب لہجے میں بولنا شروع کیا تھا اسکی آواز میں خوف،، پرواہ اور اسکے کال پک کرنے کی خوشی سب شامل تھا

"سوری میرے ڈریس پر جوس گر گیا تھا میں یہاں واش کرنے آئی تو ایک پرانی دوست مل گئی تھی اسنے ضد کی اس لئے اسکے ساتھ بیٹھ گئی میں بس باہر آ رہی ہوں " اطمینان سے کہتے ہوئے وہ گیلری کے قریب رکی تھی ایک لڑکے نے اسے سر سے پاؤں تک دلچسپی سے دیکھا تھا 

"ارے پریشانی والی کوئی بات نہیں جیا سے کہو میں بالکل ٹھیک ہوں میں آ رہی ہوں اچھا" 

کال منقطع کرنے کے بعد فون پرس میں رکھ کر وہ رکی تھی اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پر سیرت پیچھے مڑی تھی 

"آپ ابھی تک گئی نہیں" اسکی جانب قدم بڑھاتے ہوئے حدید نے سنجیدگی سے کہا 

وہ لڑکا جو اسکی طرف بڑھ رہا تھا حدید رضا عسکری کو  اسکے ساتھ دیکھ کر ساکت رہ گیا تھا 

"بس جا رہی تھی اتنی مس کالز آئی ہوئی تھی میں نے سوچا بتا دیتی ہوں سب پریشان ہو رہے ہوں گے" ہلکی مسکراہٹ کیساتھ سیرت نے بتایا تھا اسنے کرخت نظروں سے کچھ فاصلے پر کھڑے لڑکے کو دیکھا تھا جو اسکے درشتگی سے دیکھنے پر گھبرا کر واپس پلٹ گیا تھا

"چلیں میں باہر تک چھوڑ دیتا ہوں" 

آگے بڑھ کر اسنے متانت سے کہا سیرت نے شائستہ نظروں سے اسے دیکھا تھا اور بغیر کچھ بولے اسکے ساتھ چل دی تھی

"رضا "

"ہممم"

"میرے گروپ کو اس بارے میں کچھ مت بتانا اور بھائی تک تو یہ بات بالکل نہیں جانی چاہیے ورنہ وہ بہت پریشان ہو جائیں گے " نظریں جھکائے چلتی سیرت نے مایوسی سے کہا 

"ڈونٹ وری مس سیرت میں اس بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ آپکا پرسنل میٹر ہے جس میں میری دخل اندازی کا کوئی جواز نہیں بنتا آپکو جو مناسب لگے آپ کریں" فون پر انگلیاں سکرول کرتے حدید نے سنجیدگی سے کہا تھا 

"اس دن تمھیں شاید میں نے بہت برا بھلا کہہ دیا تھا کیا مجھے معافی مل سکتی ہے" سیرت نے شرمندگی سے نظریں جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا تھا 

"کیا کہا آپ نے" 

سنجیدگی سے آگے بڑھتے حدید کے قدم ٹھہرے تھے شاید سننے میں اس سے غلطی ہوئی تھی!!

"میں نے سوری کہا" 

سیرت نے تاسف سے اسکی چوڑی پشت دیکھ کر کہا تھا وہ سر جھٹکتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا سیرت نے لب بھینچے تھے

"میں نے مائنڈ نہیں کیا تھا کیونکہ آپ اکثر موقع کی نوعیت سمجھے بغیر کسی کو بھی سنا دیتی ہیں " 

کچھ دیر بعد وہ سنجیدگی سے بولا تھا سیرت نے نظریں اٹھائی تھی

"تم مجھے طعنہ دے رہے ہو" سیرت نے اسکی بات سن کر افسردگی سے کہا تھا 

"نہیں لیکن بہتر ہو گا اگر ہم مزید بحث ناں کریں کیونکہ ہماری بالکل نہیں بنتی اگر پھر لڑائی ہو گئی تو میں کچھ نہیں کر پاؤں گا" 

اسکی بات پر سیرت ہلکی سی مسکرائی تھی  

چلتے ہوئے وہ باہر گارڈن تک آئے تھے جہاں سب بےصبری سے اسکا انتظار کر رہے تھے

"سیرت" 

جیا اور علیشہ اسے دیکھ کر جلدی سے اسے فکرمندی سے گلے لگا چکی تھی پچھلے دو گھنٹے سیرت کو تلاش کرنے میں جتنی محنت اور مشقت انہوں نے کی تھی شاید ذندگی میں انہوں نے کبھی اتنی محنت اپنے لئے کی ہو 

 حدید واپس جانے کی غرض سے ایک قدم پیچھے ہٹا تھا جب جیا اسے دیکھ کر چونکی تھی

" اوہ مائی گاڈ آپ۔۔۔۔آپ حدید رضا عسکری ہیں ناں "

سیرت سے اسکی خیریت دریافت کرتی علیشہ نے جیا کی بات سن کر کچھ قدموں کے فاصلے پر حدید کو دیکھا تھا سیرت نے مڑ کر اسے دیکھا تھا جو ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھ کر جانے کی تیاری پکڑ رہا تھا

"ہاں جیا یہ وہی ہیں لیکن وہ جلدی میں ہیں "

اسے متذبذب نظر سے دیکھ کر سیرت نے جیا کو ٹالنا چاہا 

"مجھے آپ کیساتھ ایک فوٹو چاہیے پلیزززز پلیزز سر میں نے آپکو پچھلے چار سالوں سے آئی جی پر فالو کیا ہوا ہے پلیز آج میری برتھ ڈے ہے ایک فوٹو صرف " جیا فون تھامے  بغیر سیرت کی ایک بات سنے جلدی سے اسکی جانب بڑھتی بولی سیرت نے تاسف سے اسے دیکھا تھا جو سنجیدگی سیرت کی جانب دیکھ گیا تھا سیرت نے ہلکی مسکان کیساتھ کندھے اچکائے تھے 

"سیرت ہماری فوٹو بناؤ ناں جلدی سے " 

جیا نے اسکے ہاتھ میں فون تھمایا تھا سیرت نے سرد آہ بھر کر فون لیا تھا دراصل سیرت سے حدید کو اپنی بیسٹی سے اتنی اٹینشن ملنا کچھ خاص ہضم نہیں ہو رہا تھا 

"سر بس ایک پک ۔۔ مجھے آئی جی پر ڈالنی ہے "

اسکے قریب رکتی جیا مسرت سے بھرپور لہجے میں بولی 

"Sure"

وہ سنجیدگی سے بولا تھا سیرت تاسف سے اسکی جانب دیکھا تھا 

"تھینک یو سر" 

وہ مسکراتے ہوئے اسکے قریب ٹھہری تھی سیرت نے مسکراتے ہوئے پکچر کلک کی تھی کیونکہ جیا کا چہرہ اسوقت خوشی و مسرت سے چمک رہا تھا 

"سر آپ اگر فری ہیں تو ہمارے ساتھ رک جائیں"

جیا فون پکڑتے ہوئے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھتی بولی

"جیا وہ بزی ہیں انہیں جانے دو" 

سیرت کی بات سن کر جیا سیرت کی جانب مڑی تھی

"Excuse Me"

اسکے اجازت مانگنے پر جیا کا چہرہ لٹکا تھا سیرت نے دھیرے سے سر ہلا کر اسے دیکھا تھا وہ دور سے صف کو آتے دیکھ کر اسکے ساتھ سنجیدگی سے باہر واک آؤٹ کر گیا تھا 

"اگر تم حدید کو جانتی تھی تو مجھے تو بتاتی اتنا بڑا فیشن انفلیواینسر ہے اتنا بڑا بزنس مین ہے میں نے فوٹو بنا لی ہائے میرا بیسٹ برتھ ڈے ہے یہ میں تو فوٹو اپلوڈ کر رہی ہوں ابھی اسی وقت " فون کو سینے سے لگاتے ہوئے جیا نے چہک کر کہا سیرت نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تھا 

"سیرت کیا سیم تمھارے ساتھ تھا " مائس کی بات سن کر سیرت نے اسے متذبذب نظر سے دیکھا تھا

"نہیں" 

مائس نے چونک کر اسے دیکھا تھا جو مختصر جواب دیکر جیا اور علیشہ کی جانب بڑھ گئی تھی جو کیک کٹ کرنے کی تیاری کر رہی تھی

"یہاں سے جاتے ہوئے اطلاع کر دینا میں فلحال نہیں جا رہا"

اپنے فون پر اسکا میسج پڑھ کر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی

"کیوں تمھیں تو گھر جانا تھا ایک منٹ کیا میرے لئے رکے ہوئے ہو ابھی تک ؟!"

میسج سینڈ کرتے ہوئے وہ جیا کی طرف بڑھ گئی تھی اسکا میسج پڑھ کر اسنے لبوں پر متبسم بکھرنے سے روکا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پولیس موبائل کے سائرن نے سڑک پر چھائے سکوت کو توڑا 

ایم این اے صاحب تیزی سے گاڑی سے نکل کر سڑک کے وسط میں جم گئے تھے انکے پیچھے ڈی ایس پی صاحب اور باقی پولیس آفیسرز تھے سڑک کے بیچ و بیچ ایک آگ میں جھلسی ہوئی لاش پڑی تھی 

"مم۔۔۔میرا بیٹا۔۔ یہ ۔۔۔ یہ میرا بیٹا ہے"

ایم این اے صاحب صدمے سے اسکی لاش کی طرف بڑھے مگر پولیس آفیسر نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا تھا

"مدثر صاحب صبر سے کام لیں پولیس کو اپنا کام کرنے دیں ہمیں بےحد افسوس ہے لیکن اگر اسوقت حوش سے کام ناں لیا گیا تو ہم آپکے بیٹے کے قاتل تک نہیں پہنچ پائیں گے"  ڈی ایس پی صاحب نے افسردگی سے کہا تھا ایم این اے صاحب صدمے سے اپنے جوان بیٹے کی آگ میں جھلسی ہوئی لاش دیکھتے رہ گئے تھے پولیس کا عملہ علاقے کا گھیراؤ کر چکا تھا پولیس آفیسر نے اسکی لاش کے آس پاس بیریئر ٹیپ کا حصار کھینچا تھا روڈ بلاک ہو چکا تھا 

"سر یہ کارڈ ملا ہے "

ڈی ایس پی صاحب نے حیرانگی سے پولیس آفیسر کے ہاتھ سے وہ بلیک کارڈ لیا تھا 

"سر یہ وہی بلیک لاگو والا کارڈ ہے جو پچھلے مہینے کرائم سین سے ملا تھا " 

ایم این اے صاحب نے پس و پیش نظروں سے ڈی ایس پی صاحب کے چہرے کے اڑے ہوئے رنگ دیکھے تھے

"کیا ہے یہ"

"مدثر صاحب یہ مافیا گینگ موسٹ وانٹڈ لسٹ میں اسوقت سب سے ٹاپ پر ہے صرف ہم ہی نہیں دوسری کنٹریز کے ادارے بھی اس انٹرنیشنل مافیا گروپ کو ڈھونڈ رہے ہیں یہ لوگ بےدردی سے لوگوں کو کاٹ کر کہیں بھی پھینک دیتے ہیں کسی کو ذندہ جلا دیتے ہیں کسی کے جسمانی اعضاء نکال لیتے ہیں ہم پچھلے کئی سالوں سے یہ کیس حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں اب تک ایک سو چالیس اموات ہو چکی ہیں "

ایم این اے صاحب کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا آنکھوں میں خوف و خطر کے آثار واضح تھے 

"لیکن میرے بیٹے کو کیوں مارا گیا ہے اور اتنی اموات ہونے کے بعد بھی وہ گینگ تمھارے ہاتھ نہیں لگ سکا مجھے میرے بیٹے کا قاتل ہر صورت میں چاہیے "

ایم این اے صاحب کی نظر جیسے ہی سیم کی لاش پر پڑی تھی وہ پہلے تو آبدیدہ ہو گئے مگر کچھ دیر بعد وہ گرج پڑے 

"ہمیں لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجنی ہو گی اور اس ایریا کو سرچ کرنا ہے مجھے افسوس ہے " ڈی ایس پی صاحب نے ہیٹ اتار کر افسردگی سے کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے 

"احمد  لیبارٹری سے چیک کراؤ اس پر کسی شخص کے فنگر پرنٹس ہیں یا نہیں"

گاڑی کا گیٹ کھول کر بیٹھتے ہوئے ڈی ایس پی صاحب سنجیدگی سے بولے

"سر پچھلے کیسز میں بھی ہمیں کوئی فنگر پرنٹس نہیں ملے یہ لائٹر بھی ہمیں یہاں سے ملا ہے قاتل کو پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں ہے اگر ہوتا تو وہ اس طرح کارڈ چھوڑ کر اپنے قتل میں ملوث ہونے کے نشانات کبھی نہ چھوڑتا"

ڈی ایس پی صاحب نے سر ہلایا تھا

"یہ کوئی معمولی مافیا گروپ نہیں ہے احمد یہ تو میں جان چکا ہوں" ڈی ایس پی صاحب  نے کچھ دیر بعد تاسف سے سرد آہ بھر کر کہا تھا

"میں صحیح سلامت گھر پہنچ گئی ہوں مسٹر رضا صاحب "

 گھر پہنچ کر اسے میسج بھیج کر وہ فریش ہونے چلی گئی تھی اسکا میسج مل جانے کے بعد وہ ہوٹل کے وی آئی پی زون سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا 

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ٹیسٹ پیپر اسکے سامنے رکھ کر آئیذل کی نظریں بےساختہ اسکی جانب اٹھی تھی ذاویان کی اِغماض نظروں نے اسے دیکھنے سے پرہیز کیا تھا کچھ سیکنڈ ہنوز اسے دیکھتی آئیذل اسکی توجہ حاصل کرنے کی حسرت آنکھوں میں لئے کھڑی رہی وہ عدم التفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے فون پر انگلیاں سکرول کرنے میں مصروف ہوا تھا لب بھینچ کر وہ بیگ کندھے پر درست کرتے ہوئے باہر نکل گئی تھی

" میری طرف دیکھا تک نہیں اور اس رباب کیساتھ کیسے ڈسکشن کر رہے ہیں  " سیمنٹ کے بینچ پر بیگ رکھ کر بیٹھتی آئیذل نے آفس کی طرف بڑھتے ہوئے ذاویان کو دیکھ کر بپھر کر کہا جو رباب سے سنجیدگی سے محو گفتگو تھا

"معافی مانگ لیتی ہوں اور بتا دیتی ہوں کیوں چھوڑی میں نے یہ جاب ورنہ ایسے ہی سلگتے رہیں گے اور وہ اوور ترین لڑکی پروفیسر کے آگے پیچھے بھٹکتی رہے گی " گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسنے افسردگی سے سوچا تھا معافی مانگنے کا عہد کرنے کے ساتھ وہ جلدی سے اٹھ کر آفس کی طرف بڑھ گئی تھی

آف وائٹ سمپل سوٹ میں ملبوس جس پر باریک سفید کڑھائی کی گئی تھی بالوں کو ٹیل پونی میں  قید کئے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ڈین آفس کی طرف بڑھ رہی تھی ہوا کے باعث براؤن بالوں کی ایک لٹ اسکے چہرے پر آئی تھی جسے اسنے کان کے پیچھے اڑسا کر آفس کے دروازے پر ناک کیا تھا دروازہ کھلنے پر وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھی رباب اسے دلچسپی سے دیکھ کر مسکراتے ہوئے باہر نکلی تھی

"تمھارے اس چہرے کا طواف ہو گیا اب پورا دن ہی تمھارے جیسا گزرے گا" اسکی پشت کو گھورتی وہ ناک سکیڑ کر بولتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی ڈین آفس کی بائیں جانب موجود پرسنل بک شیلف سے کتاب نکالتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اندر آتی آئیذل کو ایک نظر دیکھا تھا اور ایک کتاب شیلف سے نکالی تھی 

"اسلام و علیکم"

بلیک پینٹ پر لائٹ براؤن فل سلیوز سوئیٹر اور اس پر ٹین لونگ میچنگ لونگ اوور کوٹ پہنے مبذول توجہ تھا آئیذل نے اسے نگاہِ التفات سے دیکھ کر کہا تھا

"وعلیکم السلام" 

سپاٹ لہجے میں کہہ کر وہ ڈیسک سے پشت لگا کر کتاب کی طرف متوجہ ہوا تھا آئیذل نے افسوس بھری نظروں سے اسے کتاب کی ورک گردانی میں مصروف دیکھ کر سر جھٹکا تھا 

"کیا آپ مجھ سے اب تک خفا ہیں"

اسکے سوال پر ذاویان نے متانت سے نظریں اٹھا کر اسکی سمت دیکھا تھا اسکی سنہری آنکھوں کی توجہ حاصل کرنے پر وہ لب بھینچ گئی تھی نظریں ملانا اسکے جال میں پھنس جانا تھا جو وہ نہیں چاہتی تھی

"نہیں"

خشک لہجے میں کہہ کر اسنے ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھ کر کتاب واپس رکھی تھی 

"لیکن آپ پہلے جیسا بیہیو نہیں کر رہے جس کا مطلب ہے آپ ناراض ہیں" انگلیاں چٹخاتی ہوئی آئیذل تاسف سے اسکی جانب دیکھ کر بولی

گلاسز اتار کر اسنے غائر نگاہ سے اسے دیکھا تھا جو اسکے اندازِ فکر میں معمولی تغیر کو بخوبی پرکھ چکی تھی 

"کوئی ناراضگی نہیں ہے مس آئیزل"  

ذاویان نے فون ٹیبل سے اٹھا کر متانت سے جواب دیا تھا آئیزل اسکے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی

"مس آئیذل میں لیٹ ہو رہا ہوں"

"میں بھی یہی چاہتی ہوں" اسکی آنکھوں میں دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی

سنہری رخشاں پُرنور آنکھوں نے اسے جاذبیت سے دیکھا تھا 

"جب تک آپ میری بات نہیں سن لیتے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گی پروفیسر زاویان صاحب" 

سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے وہ ہلکی سی مسکرائی تھی سنہری آنکھیں آب و تاب سے چمکی تھی ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھیلی تھی

 آئیذل نے نگاہِ حسرت سے اسکے فریفتہ کر دینے والے اس ڈمپل کو دیکھا تھا جو کچھ سیکنڈ کے لئے جھلک دیکھا کر معدوم ہوا تھا 

"ٹھیک ہے کیا کہنا چاہتی ہیں آپ مس آئیزل" ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے آئیذل کی بنفشی آنکھوں میں دیکھا تھا 

"مس آئیذل مت بولیں" خفگی سے آنکھیں سکیڑ کر آئیذل نے لب بھینچے تھے

محظوظ نگاہوں سے اسکے چہرے کو مسلسل تکتے ہوئے وہ ایک قدم آگے بڑھا کر اسکے روبرو ہوا تھا آئیذل نے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں جھانکا تھا 

"تو کیا بولوں ... روحِ قلب" 

آخری لفظ پر دباؤ ڈال کر وہ ایک ہاتھ دیوار پر ٹکاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے کو ٹھوڑی سے اوپر اٹھا کر جذبات سے بوجھل لہجے میں گویا ہوا تھا آئیذل کی دھڑکنوں نے تیزی پکڑی تھی 

"آپ ناراض تھے اس لئے میں آپکو منانا چاہتی تھی"  متذبذب بنفشی آنکھوں نے تاسف سے اسکی محو کر دینے والی سنہری طلسماتی آنکھوں میں دیکھا تھا 

"میں تو اب تک ناراض ہوں کس نے کہا آپ سے کہ میں ناراض "تھا" " سرشار سنہری نگاہوں نے اسکی گھنی سیاہ پلکوں کا رقص دیکھتے ہوئے کہا تھا 

"سوری" 

نظریں جھکائے وہ بےحد معصومیت سے بولی تھی 

"اس بار آپکو اتنی آسانی سے معافی نہیں ملے گی لمظ " 

اسکا کھردرا سرد ہاتھ آئیذل کے گال پر سرد لمس چھوڑتے ہوئے اسکے کان کی طرف بےباکی سے بڑھ رہا تھا آنکھیں بند کرتے ہوئے اسنے گہرا سانس لیکر سر کو دروازے سے ٹکایا تھا 

دوسرا ہاتھ دیوار سے ہٹا کر اسکی کمر میں حائل کرتے ہوئے وہ اسے اپنے بےحد قریب کر چکا تھا اسکا نازک دل شدت سے دھڑک رہا تھا 

 آفس میں اسوقت بلا کی خاموشی تھی

 ہر گزرتے سیکنڈ کیساتھ اپنی تیز ہوتی سانسوں کی روانی اور دل کی دھڑکنوں کی بےقرار تال محسوس کرتی وہ بےتاب نظروں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی

اسکے ریشمی بالوں میں انگلیاں الجھا کر  وہ اسکا چہرہ قریب کر رہا تھا اسکے کلون کی ہلکی مہک نے اسکے روم روم تک ایسے رسائی حاصل کی تھی جیسے اس مہک اور اسکی روح کا آپس میں گہرا تعلق تھا آنکھیں وا کرتے ہوئے وہ لمبے سانس لیتے ہوئے اسکے وجیہ چہرے کو بےحد قریب سے دیکھ رہی تھی 

سنہری بےباک آنکھیں اسکی سہمی آنکھوں کو اکسا رہی تھی یہ گستاخ نظریں ہمیشہ اسے بہکا دیتی تھی آج بھی کچھ وہی ہوا تھا بنفشی چشمِ شوق نگاہیں بیگانگی سے ان سنہری آبشاروں سے جامِ عشق سیمٹ رہی تھی اسکے سحر میں مبتلا نازک وجود شدت سے لرز رہا تھا 

"Let me give you a small punishment so that you avoid making such  mistake again"

اسکی خشک لبوں کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ سرکشی سے کہتے ہوئے اسکے تھرتھراتے لبوں پر جھکا تھا اسکے مظبوط کندھے کو پکڑتی وہ طمانیت سے آنکھیں موند گئی تھی 

"Sorry, but that's your punishment, baby girl"

بھاری گمبھیر سرگوشی!!

اسکے رخسار پر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ ستمگر پیچھے ہٹا تھا آئیذل کا دل بجھ کر رہ گیا تھا وہ بےرحم اسکی تشنہ نگاہوں کو جامِ عشق کے چشمے کے اتنا قریب لانے کے بعد محروم چھوڑ کر  پیچھے ہٹا تھا اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی تھی؟!

آئیذل کا چہرہ غم و غصّے سے سرخ بھبوکا ہوا تھا ذاویان کی شریر نظروں نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگ باریک بینی سے جائزہ لیا تھا اسنے متانت سے ایک آئی برو اٹھا کر بڑی معصومیت سے اسے دیکھا تھا جو سرسری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی

"کیا ہوا مس آئیزل" 

سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ بےحد سنجیدگی سے گویا ہوا

وہ منہ پھلائے اسے تیز نظروں سے دیکھ کر باہر نکلی تھی ذاویان نے نچلا لب دبا کر ایک حسیں متبسم کا گلہ گھونٹا تھا

"کیا ضرورت تھی مجھے معافی مانگنے کی۔۔۔ آج کے بعد میں کبھی معافی نہیں مانگوں گی میرا ہی دماغ خراب ہو گیا ہے " سر جھٹک کر لیکچر ہال کی طرف بڑھتی وہ پھنکار کر رہ گئی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا میرا کام ہو گیا" 

"جی آپکا کام ہو گیا ہے" 

ڈاکٹر گیلری سے نکل کر فون کان سے لگائے دھیمی آواز میں بولا 

"گڈ جاب اپنا اکاؤنٹ چیک کرو وعدے کے مطابق دس لاکھ ٹرانسفر ہو چکا ہے" 

کال منقطع ہو گئی تھی ماسک سے چہرہ ڈھانپے وہ ڈاکٹر اپنے کیبن میں آ کر چہرے سے ماسک ہٹا کر فون پر انگلیاں سکرول کرنے لگا لالچ سے بھری اسکی آنکھیں فون کی سکرین کی تیز روشنی میں چمکی تھی اپنا بینک بیلنس چیک کرنے کے بعد

 کیبن کی روشنی کچھ دیر لغزش کے بعد بالکل بند ہو چکی تھی فون وائٹ کوٹ کی پاکٹ میں ڈال کر وہ ڈاکٹر دروازے کی سمت بڑھا تھا ٹھک سے دروازہ بند ہوا تھا وہ اپنی جگہ پر جم گیا تھا دروازے کے سامنے ایک پرچھائی دیکھ کر ۔۔

"کس کے کہنے پر مارا"

وہ سایہ اسکی طرف بڑھتا ہوا بھاری آواز میں گویا ہوا ڈاکٹر کے حلق کے مقام پر گٹھلی نمودار ہوئی

"کس کے کہنے پر مارا "

دوبارہ وہی سوال!!

ڈاکٹر نے اسکے ہاتھ میں چمکتا تیز دھار خنجر دیکھ کر خوفزدہ ہوکر کچھ قدم پیچھے لئے تھے پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھی

"شاہ انڈسٹری کے چیئرمین شش۔۔شاہزیب کے کہنے پر "

جیسے ہی ڈاکٹر کی پشت ڈیسک سے لگی تھی وہ ایک سیکنڈ میں اسکا نام منہ سے نکال کر اسکے سامنے پیش کر چکا تھا 

"کیوں کیا دشمنی ہے اسکی رضوی انٹرپرائسز کیساتھ"

 اسکی آواز میں طنز تھا سرخ آنکھیں تمسخر اڑا رہی تھی اسے خوف میں مبتلا دیکھ کر!!

"مم۔۔مجھے زیادہ نہیں پتا ۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا جس لڑکی پر اسکے آدمیوں نے حملہ کروایا تھا اس لڑکی نے کسی میٹنگ میں اسکی انسلٹ کی جسکی وجہ سے اسکے انویسٹرز نے وعدے کے مطابق انویسٹ نہیں کیا اور اسے کروڑوں کا نقصان ہوا اس لئے ۔۔۔ وہ اس لڑکی سے بدلہ لینا چاہتا تھا مگر وہ لڑکی بچ گئی اور وہ آدمی۔۔۔پکڑا گیا ذاویان رضوی یہاں آیا تھا لیکن ۔۔۔ وہ آدمی بےہوش تھا اس لئے اس سے تفتیش نہیں کر پایا مجھے شاہزیب صاحب نے اس آدمی کو زہر کا انجیکشن دینے کے لئے کہا تاکہ وہ آدمی اسکا نام نہ لے " ڈاکٹر نے تھوک نگل کر جھٹ پٹ سب بتایا وہ سایہ چیئر کھینچ کر اس پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا ڈاکٹر تھرتھرا کر رہ گیا وہ خنجر کی چمکیلی نوک کو بلیک لیتھر گلو پر رگڑ کر چمکا رہا تھا

"مم۔۔مجھے جانے دو میں قسم کھاتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا" 

"تمھاری زبان کاٹ دیتا ہوں تاکہ تم میرے یہاں آنے کا راز افشاء نہ کر دو کیا کہتے ہو پھر " چیئر کو پیر سے پیچھے دھکیل کر وہ سرعت سے اٹھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولا 

"مم۔۔میں کسی سے کچھ نہیں بولوں گا میں تو ۔۔۔ آپکو جانتا تک نہیں ہوں" ڈاکٹر نے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا کر کہا وہ سایہ اطمینان سے دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا ڈاکٹر نے سکھ کا سانس لیا تھا 

"تم نے ایک سیکنڈ میں اپنے شاہ صاحب کا بھانڈا پھوڑ دیا میری بات کیسے رکھ سکتے ہو "

ڈاکٹر جو فون پر ہڑبڑاہٹ میں کچھ ٹائپ کر رہا تھا یکدم اسکے رکنے پر ساکت ہو کر سر اٹھا کر اسکی سمت دیکھ گیا

دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے بغیر پیچھے مڑے وہ مہارت سے خنجر پیچھے اچھال کر بولا ڈاکٹر سینے پر لگے خنجر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کراہ کر نیچے گرا تھا 

"چچچچ کبھی نہیں سدھر سکتے تھے تم" 

دروازہ بند کرتے کے وہ باہر نکلتے بڑبڑایا تھا 

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گیٹ سے باہر نکلتی آئیذل نے عتابی نظروں سے اسے دیکھ کر سر جھٹکا تھا جو اپنی گاڑی کے قریب اسکا ویٹ کر رہا تھا اسکے یوں سر جھٹک کر آگے بڑھنے پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"روحِ قلب میں چھوڑ دیتا ہوں "

"نہیں شکریہ پروفیسر"

اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ اسکے قریب سے گزرنے لگی

 جب اسنے بغیر کسی کی نظروں میں آنے کی پرواہ کئے ہنوز اپنی جگہ سے ہی قریب سے  گزرتی آئیذل کی باریک کلائی کو نرمی سے تھاما تھا آئیذل ساکت رہ گئی تھی اسکی مظبوط انگلیاں آئیذل کے ٹھنڈے ہاتھ کو ڈھانپ چکی تھی اسے لیکر گاڑی کا فرنٹ سیٹ گیٹ کھول کر ذاویان نے سنجیدگی سے آئیذل کو دیکھا تھا آئیذل لب بھینچ کر گاڑی میں بیٹھی تھی جیسے ہی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا تھا اسکی کراماتی مہک نے آئیذل کو اسکی جانب راغب کرنے کی کوشش کی تھی سر جھٹک کر وہ ونڈو کی جانب دیکھنے لگی 

"یہ۔۔۔یہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔مم۔۔۔ میرا گھر اس طرف نہیں ہے" 

انجان روڈ دیکھ کر اسکی طرف پلٹتی وہ سٹپٹا کر بولی تھی

"آپ اپنے گھر ہی جا رہی ہیں قرارِ من ڈونٹ وری " روڈ کو متانت سے دیکھنے کے بعد وہ تحمل سے گویا ہوا 

"نن۔۔نہیں ۔۔۔آپ ۔۔کہیں ۔۔۔اور لیکر جا رہے ہیں مجھے " 

ونڈو سے دوبارہ باہر کی جانب دیکھ کر وہ پس و پیش لہجے میں بولی ایک دلفریب مسکراہٹ نے اسکے کٹاؤ دار لبوں کا احاطہ کیا تھا

"بب۔۔بتائیں ناں کہاں لے جا رہے ہیں آپ" 

گیئر شفٹ پر رکھے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ متذبذب لہجےمیں بولی بہت دیر بعد سنہری آنکھوں نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا حیرت و استعجاب سے پھیلی بنفشی آنکھیں بےقراری سے ان سنہری آنکھوں کو دیکھ گئی تھی

" پلیز بتائیں ہم کہاں جا رہے ہیں "

"ہمارے گھر"

وہ ششدر رہ گئی تھی اسکی بات سن کر 

"بب۔۔بتائیں ناں کہاں لے جا رہے ہیں آپ" 

گیئر شفٹ پر رکھے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ متذبذب لہجےمیں بولی بہت دیر بعد سنہری آنکھوں نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا حیرت و استعجاب سے پھیلی بنفشی آنکھیں بےقراری سے ان سنہری آنکھوں کو دیکھ گئی تھی

" پلیز بتائیں ہم کہاں جا رہے ہیں "

"ہمارے گھر"

وہ ششدر رہ گئی تھی اسکی بات سن کر 

"کیوں۔۔۔ آپکے گھر کیوں" 

 آئیذل اسے تذبذب نظروں کے حصار میں لئے بولی جبکہ اسکے "آپکے گھر" کہنے پر وہ تاسف سے سر جھٹک کر رہ گیا تھا 

"پہلے وعدہ کریں آپ میری بات تحمل سے سنیں گی" ڈرائیونگ کرتے ذاویان نے سنجیدگی سے کہا آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا 

"ماموں کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے"

آئیذل کا دل بیٹھ کر رہ گیا تھا حیرت و الم کی کیفیت میں آنکھیں پھیلائے وہ اسے دیکھ گئی 

"بابا کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے ۔۔۔ اور آپ۔۔۔ آپ مجھے اب بتا رہے ہیں" 

رندھی آواز میں بول کر وہ صدمے سے اسے دیکھنے لگی

"لیکن وہ اب ٹھیک ہیں لمظ "

"آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا " 

وہ تیز آواز میں بولی تھی ذاویان نے تاسف سے اسے دیکھا تھا بنفشی آنکھوں میں آنسوں جمع ہو گئے تھے 

 "لمظ میں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا آپکو"

"تو اب بتا کر کیا کیا ہے آپ نے  ۔۔۔اللہ پاک یہ کیا ہو گیا۔۔۔ بابا کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے  " 

لمبے سانس لیتے ہوئے وہ لبوں پر کانپتا ہوا ہاتھ رکھ کر بجھے لہجے میں بولی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ سے ڈھانپا تھا اسکا ہاتھ پکڑنے پر وہ چونکا تھا کیونکہ آئیذل کا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا تھا

"لمظ ریلیکس میری جان کچھ نہیں ہوا انکو وہ بالکل ٹھیک ہیں ہم چل رہے ہیں ناں آپ خود دیکھ کر تسلی کر سکتی ہیں"

اسکی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں دیکھ کر وہ اسکے ہاتھ پر دباؤ ڈال کر اطمینان سے بولا ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی آئیذل نے اسے افسردگی سے دیکھا تھا 

"وہ بالکل ٹھیک ہیں لمظ سر پر چوٹ لگی تھی کچھ دنوں میں ریکوور ہو جائیں گے پوری طرح  "

اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھتے ہوئے وہ شائستگی سے بولا آئیذل نے سکھ کا سانس لیا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"Bonjour"

(سلام)

 گلاس ڈور دھکیل کر اندر داخل ہوتی سیرت نے ہلکی مسکان سے کانفرنس ہال میں نظریں گھمائی تھی بلیک مائناڈیر پرس کانفرنس ٹیبل پر رکھ کر اسنے سب کو سلام کیا تھا

کانفرنس روم میں سب نے رشک بھری نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا بلیک سٹرپس جمپ-سوٹ میں ملبوس جاذب نظر شولڈرز پر فیشن ایبل بلیک کوٹ ڈالے ،، سفید پیروں میں سلنک بلیک ہیلز پہنے ہوئے تھی سلام کا جواب ملنے پر وہ لبوں پر دھیمی مسکان سجا کر اپنی چیئر پر بیٹھی تھی

  رضا کی پیشانی پر چند لکیریں ایک پل کو ابھر کر ندارد ہو چکی تھی وجہ اسکے بالوں کا شاٹ باب تھا کندھوں تک آتے ریشمی بالوں کو اسنے  کٹنگ کر کے مزید چھوٹا کر دیا تھا اور یہ بات رضا صاحب کو ناگوار گزری تھی رضا کی غائر نگاہوں کا سیرت کا یوں باریک بینی سے جائزہ لینے پر شاہزیب صاحب کا ماتھا ٹھنکا تھا

"Can we start the meeting, Mr. Askari?"

شاہزیب  نے ہنکارا بھر کر اسکی توجہ حاصل کی تھی متانت سے سر کو خم دیکر اسنے لیپٹاپ اوپن کیا تھا سیرت نے اسکی جانب ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا وہ اپنے لیپٹاپ پر نظریں مرکوز کئے اس بات سے بالکل بے خبر تھی کہ شاہزیب خانزادہ کی نظریں سیرت کا گہرائی سے جائزہ لے رہی تھی حدید کی عمیق نظروں نے شاہزیب  کو ایک پل کو درشتگی سے دیکھا تھا جو مسلسل سیرت کو تکے جا رہا تھا

حدید کی گرفت بلیک(بوہمی پیپلن) جیسے ایکسپینسیو پین پر اس قدر سخت ہوئی تھی کہ پین سے تڑخنے کی ہلکی آواز آئی تھی لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے اسنے نگاہوں کا مرکز لیپٹاپ کو بنایا تھا 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آئیذل نے لب بھینچ کر سامنے کشادہ رقبے پر پھیلی وائٹ حویلی کو دیکھا تھا گارڈ نے گاڑی کو دیکھ کر میٹل کا براؤن بھاری دروازہ کھولا تھا گاڑی اندر داخل ہوئی تھی آئیذل استعجابی نظروں سے وسیع رقبے پر محیط اس کیسٹل نما حویلی کو دیکھتے ہوئے گاڑی سے نیچے اتری تھی وسیع و عریض زمین پر ایک بہت بڑا گارڈن تھا اسکے سامنے ایک کشادہ رقبے پر جلوہ افروز سفید حویلی تھی گارڈن کے فرشِ زمردی کے بیچ و بیچ ایک فائونٹین تھا جس سے شفاف پانی فاؤنٹین کے حلقے میں گر رہا تھا ذاویان جو اسے مخاطب کرنے کی غرض سے اسکی جانب مڑا تھا اسے محوِ حیرت دیکھ کر رک گیا تھا 

بہت سے مالی گارڈن کی دیکھ بھال میں مصروف تھے کچھ گارڈن کے کنارے پر اگے پودوں کو پانی دے رہے تھے کچھ پھولوں کی کیاریوں میں پانی ڈال رہے تھے 

"چلیں لمظ "

وہ جلدی سے اسکی جانب مڑ گئی تھی 

"ہمیں اندر نہیں جانا " اسکا ہاتھ پکڑتی وہ ہچکچا کر خشک لبوں کو بھینچ کر بولی تھی ذاویان نے مبہم مسکان کیساتھ اسکا ہاتھ تھاما تھا اور اسے لیکر حویلی کے اندر داخل ہوا 

آئیذل  ستائشی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے اسکے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی تھی فرش پر مہرون کلر کا ویلوٹ کا قالین بچھایا گیا تھا شیشے کا فانوس جس میں قوس قزح کے سارے رنگوں کی نمائش کی جا سکتی تھی اپنی آب وتاب سے لاؤنج کے بیچ و بیچ لٹک رہا تھا لاؤنج کے وسط میں ویلوٹ کے بلیک صوفے پڑے ہوئے تھے جن کے درمیان میں شیشے کی میز پر اینٹیک پیسز لاؤنج کی رونق بڑھا رہے تھے کمرے سے باہر آتی مہر النساء بیگم ذاویان کیساتھ آئیذل کو دیکھ کر انکی جانب بڑھی تھی 

آئیذل نے مہر النساء بیگم کو دیکھ کر اسکا ہاتھ جلدی سے چھوڑنا چاہا تھا مگر وہ اسکے ہاتھ پر دباؤ ڈال کر اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھام گیا تھا مہر النساء بیگم نے متعجب نظروں سے آئیذل کو دیکھا تھا جو ہچکچاہٹ کا شکار انہیں شرمندگی سے دیکھ رہی تھی

"امی لمظ ماموں کی صحت دریافت کرنے آئی ہیں"

آئیذل نے شرمندگی سے نظریں چرائی تھی جبکہ ذاویان کی بات سن کر مہر النساء بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکے پاس آئی تھی اور اسے شادمانی سے گلے لگایا تھا آئیذل کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا نئے چہروں کو دیکھ کر وہ بہت انکمفرٹ ایبل محسوس کرتی تھی آج بھی وہی ہو رہا تھا

"ماشاءاللہ میری بہو کو نظر ناں لگے پہلی بار یہاں آئی ہو ماشاءاللہ ماشاءاللہ آؤ اندر آؤ میں نے تو اندر آنے کا کہا ہی نہیں " 

مہر النساء بیگم نے اسکے سر سے کچھ نوٹ گزار کر ملازمہ کی طرف بڑھائے تھے آئیذل نے لب بھینچ کر ذاویان کا ہاتھ چھوڑ کر اسے دیکھا تھا 

" وہ بابا سے ملاقات کر کے  " 

"ہاں بیٹا لے جاؤ زوہیب کمرے میں ہی ہے "آئیذل کو ہچکچاتے دیکھ کر مہر النساء بیگم نے آئیذل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت سے کہا وہ لب بھینچے ذاویان کے ساتھ چل دی تھی 

"ہائے اللہ تیرا لاکھ شکر ہے میرے بیٹے کی ذندگی میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں میرے مالک تو رحیم ہے تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے دونوں کی جوڑی بنائے رکھنا " دونوں کو ساتھ جاتے دیکھ کر مہر النساء بیگم نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں دعا کی تھی

"گھر کوئی آیا ہے کیا مماں" 

لاونج میں آتی چاہت نے راہداری کی طرف دیکھ کر استفسار کیا 

"ہاں بیٹا لمظ آئی ہے ذاویان کیساتھ زوہیب کا پتا کرنے" 

مہر النساء بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا چاہت نے گہری نظروں سے زوہیب صاحب کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر سر ہلایا تھا

 "اسلام و علیکم"

زوہیب صاحب نے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی دروازے سے ذاویان کیساتھ اندر آتی آئیذل کو دیکھ کر وہ جلدی  سے اٹھنے لگے آئیذل نے جلدی سے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام کر بیڈ کے کراؤن سے کشن ٹکا کر انہیں آہستگی سے کشن کے سہارے بٹھایا تھا زوہیب صاحب کی آنکھوں میں آنسوں تھے

" میری پرنسس "

اسکے ہاتھ تھماتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئے تھے آئیذل کی آنکھوں میں آنسوں جو انکے ایکسیڈینٹ کا سن کر ہی جمع ہوئے تھے انکے پرنسس کہنے پر لڑیوں کی صورت میں ٹوٹ کر رخسار پر بہتے چلے گئے 

"مجھے معاف کر دو پرنسس اپنے اس گنہگار باپ کو معاف کر دو تمھارے بغیر اس گنہگار آدمی کا کوئی نہیں ہے ایک بیٹی کا آسرا ہے ایک بیٹی ہی تو ہے جو میرے جینے کی وجہ ہے مجھ سے میرے جینے کی وجہ مت چھینو میری بچی " 

ہاتھ جوڑ کو زوہیب صاحب روتے ہوئے بولے تھے آئیذل نے انکے ہاتھ کھولتے ہوئے انکے ضعیف ہاتھوں کو پہلے آنکھوں سے اور پھر لبوں سے لگایا تھا

"بابا ایسا مت کریں ہاتھ مت جوڑیں مجھے معاف کر دیں میں نے آپکا دل دکھایا میری وجہ سے آپ گھر سے باہر گئے تھے بابا آپ اپنی پرنسس کو معاف کر دیں"  انکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی زوہیب صاحب نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر اسے سینے سے لگایا تھا آئیذل انکے سینے سے لگنے پر روتی چلی گئی تھی

"امی کے بعد آپ بھی مجھ سے دور جانا چاہتے تھے اتنے سالوں بعد مجھے میرے بابا کو دیکھنا نصیب ہوا تھا آپ اپنی بیٹی کو والد جیسی نعمت سے محروم کرنا چاہتے تھے اتنی بڑی سزا دینا چاہتے تھے آپ ہمیں" 

انکے ضعیف چہرے کو اور پھر انکی پیشانی پر موجود گہرے گھاؤ کو شبنمی آنکھوں سے دیکھتی آئیذل نے سسکی لیکر شکایت کی زوہیب صاحب نے شفقت سے اسکے آنسوں سے تر چہرے کو دیکھا تھا

"ماموں آپ نے میری لمظ کو رلا دیا " 

خاموش کھڑے ذاویان نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا جس پر

زوہیب صاحب دھیمے سے مسکرائے تھے جبکہ ذاویان کے زوہیب صاحب کے سامنے "میری لمظ" کہنے پر وہ شرم سے نظریں جھکا گئی تھی

"ذاویان مہرو سے کہو چائے بنا دے" 

زوہیب صاحب نے کشن سے سر اٹھا کر کہا تھا 

"میں بنا دیتی ہوں "

آئیذل نے ہلکی مسکان کیساتھ کہا تھا

"نہیں بیٹا آپ نہیں"

"بابا اپنی بیٹی کے ہاتھ کی چائے نہیں پیئیں گے آپ" 

ذاویان مبہم سا مسکرایا تھا وہ خوشدلی سے کہہ کر اٹھی تھی زوہیب صاحب کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی اسکے بابا کہنے پر ۔۔

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ویٹ مس سیرت "

 کانفرنس ٹیبل سے اپنا بلیک پرس اٹھاتی سیرت نے آئی برو اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا ڈارک بلو فارمل سوٹ میں ،، کف لنکس کہنیوں تک فولڈ کئے دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں رکھے وہ سنجیدگی سے اسکا جائزہ لے رہا تھا شرٹ کا پہلا بٹن کھلا ہونے کی وجہ سے سیرت کی نگاہ اسکی شرٹ سے اسکی سپید گردن پر پڑی تھی جہاں ایک مخصوص ٹیٹو کیساتھ اسکے چبھائے گئے ناخن کی خراشیں واضح تھی لب بھینچ کر اسنے نظریں اسکے وجیہ چہرے کی طرف اٹھائی تھی 

"جی بولیں مسٹر عسکری" 

اسکی بھوری آنکھوں میں ایک پل دیکھ کر اسنے پروفیشنل لہجے میں کہا تھا جس پر اسنے تعجب کا اظہار کرنے کے لئے ایک آئی برو ہلکا سا لفٹ کیا تھا 

"مسٹر عسکری؟؟ نشے کی حالت میں ہی صحیح لیکن کل آپ مجھے رضا کہہ رہی تھی اور اب ایک دن میں سب بدل دیا"؟؟ 

سنجیدگی سے اسکی جانب قدم بڑھاتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا سیرت نے پیشانی پر ایک بل ڈالے اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا

"مسٹر عسکری دور رہ کر بات کریں" 

ایک قدم پیچھے ہو کر وہ سرسری نظر سے اسکا جائزہ لیکر بولی تھی نظرِ استہزاء سے اسکا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے وہ بےپرواہی سے اسکی جانب قدم بڑھا رہا تھا ٹھنڈی دیوار سے ٹیک لگاتی سیرت نے دانت پیس کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مناسب فاصلے پر اسے روکا تھا

" اپنی حد میں رہیں٫٫آپکی انہی چھچھوری حرکتوں کی وجہ سے لوگ مجھے پوائنٹ آؤٹ کرتے ہیں مسٹر عسکری  آپ نے میری مدد کی اسکے لئے آپکا بےحد شکریہ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھ سے فری ہوں  " پھنکار کر اسکے کندھے پر دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹاتی سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی 

"I just ...I wanted to ask what was the reason for cutting such beautiful silky hair"

("میں صرف... میں پوچھنا چاہتا تھا کہ اتنے خوبصورت ریشمی بالوں کو کاٹنے کی وجہ کیا ہے؟")

اسکے قریب دیوار پر ہاتھ رکھ کر سیرت کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے استفسار کیا تھا سیرت نے سرسری نظروں سے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا تھا

"اففف یہ تمھاری آوارہ زلفیں کتنی گستاخی سے تمھارے چہرے کو چھو رہی ہیں"

سیمی کی کہی بات یاد آنے پر وہ سلگ پڑی تھی اس ایک بات کی وجہ سے اسنے اپنے بالوں کو شارٹ کر دیا تھا اور یہاں حدید کے سوال پر اسے کل رات کا واقعہ پھر سے یاد آیا تھا

"You have no right to ask such personal questions, you are Just my business partner, so please refrain from interfering with my personal Affairs"

("آپ کو ایسے ذاتی سوالات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، آپ صرف میرے بزنس پارٹنر ہیں، اس لیے براہ کرم میری ذاتی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں")

اسکی بھوری آنکھوں میں زہر کند نظروں سے دیکھتی وہ اسے پیچھے دھکا دیتی بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا کیونکہ سیرت کا چہرہ اسوقت غم و غصّے سے سرخ پڑ چکا تھا 

"اگر یہی الفاظ میں نے کسی اور لڑکی سے کہے ہوتے تو شاید اسکا ری ایکشن کچھ اور ہوتا " اسکے قریب ٹہلتے ہوئے اسنے سرعت سے کہا تھا دروازے کی طرف مڑتی سیرت نے مٹھیاں بھینچی تھی وہ اسے سلگانا چاہتا تھا اور وہی ہوا تھا پیشانی پر بل ڈالے وہ اسکی جانب مڑی تھی

"تو پھر جاؤ اور انکی خوشامد کرو جو تمھاری خوشامد کی بھوکی ہیں مجھے تمھاری تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے بھی باقی لڑکیوں کے جیسا سمجھا ہے تم نے جو تمھارے اشاروں پر ناچتی ہیں " اسکی بھوری آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے وہ جبڑے بھینچ کر بولی تھی سیرت کے ہاتھ کو پکڑ کر اسنے اسکی کمر کانفرنس ٹیبل سے لگائی تھی اسکے کندھے کو مظبوط ہاتھ میں جکڑتے ہوئے اسنے درشتگی سے اسکی سیاہ آنکھوں میں آنکھیں گاڑھی تھی سیاہ آنکھوں میں خالی پن تھا جبکہ بھوری آنکھوں میں طوفان برپا ہوا تھا 

"تم جانتی بھی ہو تم نے ابھی کیا کہا ہے"

اسکے کندھے پر گرفت سخت کرتے ہوئے وہ جبڑے بھینچے دبے انداز میں غرایا تھا

"کیا ہوا سچ سن کر غصہ آ گیا ۔۔  تم جیسے امیر زادے تو روز نئی لڑکی کیساتھ ہوتے ہیں اور اتنے پارسا بن کر گھومتے ہیں جیسے ان کے جیسا پرہیزگار کوئی نہیں ۔۔۔ اور ہاتھ مت لگانا  " اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹک کر وہ بےخوف لہجے میں بولی تھی مٹھیاں بھینچے وہ ضبط کرنے کی تگ و دو میں تھا مگر وہ چپ نہیں ہونا چاہتی تھی

"اتنی ہی پاکیزہ زندگی گزار رہے ہو تو کیا کر رہے تھے وہاں تم"

"تم نے دیکھا  تھا مجھے  وہاں کسی کے ساتھ ؟؟ نہیں۔۔۔ بولو دیکھا تھا"

اسکے بالوں میں انگلیاں پھنسائے وہ غرایا تھا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اسکی بھاری آواز میں غرانے پر سیرت نے بےساختہ جھرجھری لی تھی

 "جانتی ہی کیا ہو میرے بارے میں تم ۔۔۔۔ اب ایک لفظ اور مت کہنا ورنہ جان لے لوں گا"

اسکے بالوں کو مٹھی سے نکال کر درشت نظروں سے اسے دیکھ کر وہ پیچھے مڑا تھا

"ٹھیک ہے اگر تم اتنے ہی مزہبی ہو تو اپنے خدا کو حاضر وناظر جان کر بولو کہ تمھارا میری ذندگی میں آنے کے پیچھے کوئی مقصد نہیں ہے یہ محض اتفاق ہے " 

اسکی بات سن کر حدید کے دروازے کی جانب اٹھتے قدم ٹھہر چکے تھے 

"اگر تم خدا کو موجود جان کر ہر لمحہ دیکھنے والا سمجھ کر آج کہہ دیتے ہو کہ تمھارا کوئی مقصد نہیں تو میں تمھاری ہر کہی بات کا یقین کر لوں گی " 

اسکے سامنے سینے پر ہاتھ باندھتی سیرت نے اسکے پس و پیش کیفیت میں مبتلا چہرے کو دیکھ کر کہا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آئیذل کسل نظروں سے چولہے پر ابلتے پانی کو دیکھ رہی تھی جب اسے اپنی کلائی پر گرم لمس محسوس ہوا اسکا چہرہ دہک اٹھا تھا جب اپنی نحیف و ناتواں کمر پر پرتپش ہاتھ کے رینگنے کا احساس ہوا ہلکی مسحورکن مہک نے اسکے گرد اپنا گھیراؤ تنگ کیا تھا 

"ذاویان"

آنکھیں بند کرتی وہ لمبا سانس خارج کرتے ہوئے تشفی آمیز لہجے میں بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکے بےقرار لبوں سے اپنا نام سن کر!!

"اطمینانِ قلب.!!

کیسے بھی کریں مگر میرے رُوبرو آئیں میری اِس ڈھیر اُداسی کا بس ایک آپ ہی حل ہیں "

اسکے کان کی لو کو لبوں سے چھو کر وہ جذبات سے بوجھل لہجے میں بولا آئیذل نے آنکھیں وا کی تھی اسکی گمبھیر آواز نے آئیذل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی تھی ایک قدم بڑھا کر وہ اسکے بےحد قریب ہوا تھا اسکے مظبوط وجود سے سرائیت کرتی حرارت کو محسوس کر کے وہ لب بھینچتی نظریں جھکا گئی تھی

اسکی دہکتی انگشتِ شہادت کے لمس کو اپنی کلائی پر محسوس کر کے وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھی اسکے چوڑے سینے سے لگتی وہ ساکت رہ گئی تھی اسکی کلائی کو اپنی جانب کھینچ کر وہ رہا سہا فاصلہ بھی مٹا چکا تھا آئیذل کی سانسیں اٹک چکی تھی سرور سے بوجھل ہوتی پلکیں سمیٹ کر وہ سکون سے آنکھیں بند کر گئی تھی

"تمھارے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا 

گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی 

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا 

یوں بھی گزر گئی شب فرقت کبھی کبھی"

اسکی باریک گردن سے بازو گزار کر اسکے چہرے کو ایک جانب سے اوپر اٹھا کر وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

"کک۔۔کوئی۔۔ دیکھ ۔۔۔" 

نیم مدہوشی کے عالم میں وہ دھیمے لہجے میں بس اتنا ہی کہہ پائی تھی اسکا رخ اپنی جانب مبذول کرتے ہوئے وہ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھام چکا تھا

"جسے دیکھنا ہے دیکھ لے آئی ڈونٹ کیئر" 

خمار میں ڈوب کر اسکی آواز بےحد بھاری ہو چکی تھی ۔۔ مخمور نگاہوں سے وہ اسکی بنفشی خمار کش آنکھیں دیکھ رہا تھا جو مدہوشی سے بند ہو رہی تھی پیشانی عرق آلود ہو چکی تھی ٹانگیں اسکی قربت میں تاب نہ لا کر کانپ رہی تھی

"آپ۔۔۔ آپ پھر سے وہی کریں گے جو آپ نے ۔۔۔ صبح کیا تھا۔۔۔ آپ صرف۔۔۔ کھیلنا چاہتے ہیں ۔۔۔ بہکانا چاہتے ہیں آپ۔۔۔ اور پھر سے دور ہو جائیں گے  " 

آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ خفا لہجے میں بولی تھی ذاویان کے لبوں پر ایک دلکش متبسم بکھرا تھا

 "نیورر لمظ صبح کی گئی غلطی میں دوبارہ نہیں دہراؤں گا" 

اسکی لرزتی پلکوں کو خمار آنکھوں سے دیکھ کر وہ اسکا چہرہ اوپر اٹھا کر اپنے تشنہ لب اسکے لرزتے لبوں پر رکھ گیا تھا اسکا نازک وجود اس قدر  پرتپش شدت سے بھرپور لمس پر لرز گیا تھا آئیذل کی اکھڑتی سانسیں قطرہ قطرہ طمانیت سے اپنے اندر کھینچتا ہوا وہ سکون سے آنکھیں موند گیا تھا اسکے مظبوط  کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ اسکے کوٹ کو مٹھی میں بھینچ چکی تھی 

کچن میں داخل ہوتی چاہت اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی تھی اسکے لبوں پر جھکا وہ شدت سے اپنی پیاس بجھا رہا تھا چاہت کا چہرہ فق ہو چکا تھا

" لمظ بی کیئر فل "

خماری میں ڈوبی وہ بےقرار ہو کر پیچھے چھوٹی شیلف کے قریب ابلتے ہوئے پانی کے بالکل قریب ہاتھ رکھ گئی تھی اسکے لبوں کو بےساختہ آزادی بخش کر اسنے سنجیدگی سے اسکا ہاتھ گرم ابلتے ہوئے پانی سے دور ہٹایا تھا نیم وا آنکھوں سے اسنے ذاویان کی جانب دیکھا تھا جو نظروں میں فکر سموئے اسکی لاپرواہی پر افسردگی سے اسے دیکھ رہا تھا

"آپ ٹھیک ہیں ناں"

اسکے ہاتھ کو فکرمندی سے دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا سرخ پڑتی آئیذل نے لب بھینچ کر سر ہلایا تھا جس پر اسنے سکھ کا سانس لیا تھا 

"میں آتا ہوں" 

کال کنیکٹ کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہہ کر لاؤنج کی جانب بڑھ گیا تھا

چاہت مٹھیاں بھینچے وہاں سے پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی آئیذل چائے بنانے میں مصروف ہوئی تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"بولو تمھاری خاموشی کو کیا سمجھوں میں حدید رضا عسکری" 

"نہیں"

اسکے جواب پر وہ تذبذب نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھتی رہ گئی

"کس حق سے تم نے اتنا پرسنل سوال پوچھا ہے مجھ سے ،، اور میں تمھیں جواب دہ کب سے ہو گیا ۔۔۔۔ہو کون تم " 

سیرت نے تاسف سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا 

" ہاں بہت لڑکیاں میسر ہیں مجھے اور کیوں ناں ہوں ؟؟"

اسکی جانب قدم بڑھا کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا

سیرت کی آنکھوں میں حیرت تھی 

"تمھاری سوچ سے بھی زیادہ میسر ہیں " 

اسکی جانب ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا سیرت اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی  لیکن اسکی آنکھوں میں ایک عجیب مایوسی کے آثار واضح ہونے لگے تھے اور وہ اسکی جانب بڑھتا جا رہا تھا

"لیکن حدید رضا عسکری اتنا گرا ہوا نہیں کہ حرام چیزوں کی طرف مائل ہو جائے" 

اسکے کان پر جھکتا وہ پرتپش لہجے میں گویا ہوا سیرت نے سر کو خم دیکر شرمندگی سے اسکی جانب دیکھا تھا 

"تمھارا کوئی قصور نہیں سیرت،، لیکن آج ایک سوال کرتا ہوں تم نے میری ذات پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ تم بھی تو کل رات وہاں موجود تھی میرا بھی حق بنتا تھا میں تمھارے کردار پر انگلی اٹھا کر تم سے سوال کرتا لیکن میں نے نہیں کیا کیونکہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا میں کسی کے کردار پر انگلی اٹھاؤں آخر کسی کے کردار پر تبصرہ کرنے  والا میں کون ہوتا ہوں" 

سیرت نے نظریں جھکائی تھی 

" کل رات نشے کی حالت میں میرے ہی روم میں میرے ہی بیڈ پر تم ڈیڑھ گھنٹہ پڑی رہی اگر میں اتنا گرا ہوا ہوتا یا کوئی بھی مقصد حاصل کرنے کی حسرت رکھتا تو کل رات کر سکتا تھا "

"بس کرو" 

سر جھٹک کر سیرت نے اسکی بات کاٹی تھی 

"اگر اب بھی ہمارے پروفیشنل دوستانہ تعلق سے مطمئن نہیں ہو تو اس پروجیکٹ کو اسی وقت کینسل کر کے چلی جاؤ میرے ساتھ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے " پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر وہ کرخت لہجے میں بولا تھا سیرت کانفرنس ٹیبل سے پرس اٹھا کر جانے کے لئے مڑی تھی مگر وہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ چکا تھا

"وہ کیا ہے حقیقت پسند لڑکی ہوں ،، بےکار کے تعلق رکھنے میں موت پڑتی ہے مجھے چاہے وہ ڈسٹنٹ،، پرفیشنل،، یا پھر دشمنی پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں"  اسے نیم طنزیہ نظروں سے دیکھنے کے بعد سیرت نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تھا اسنے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ واپس لیا تھا سیرت نے کچھ پل اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھا تھا یہ وہی چہرہ تھا جس نے کل رات اسے اتنی بڑی مشکل سے بچایا تھا وہ چاہ کر بھی باہر نہیں جا پائی تھی عجیب کشمکش تھی دل میں ،، خود سے ہی بیزاریت سی ہو رہی تھی وہ سنجیدگی سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا

"میں وہ سب نہیں کہنا چاہتی تھی" 

نظریں پھیر کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی حدید نے متانت بھری نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا

"اور میں بھی " 

وہ نظریں پھیرتے ہوئے تاسف سے بولا تھا سیرت نے لب بھینچ کر اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا نا چاہتے ہوئے وہ سر جھٹک کر رہ گیا تھا سرد آہ بھر کر وہ شرمندہ سی باہر نکلی تھی پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے اسنے آنکھیں بند کی تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"میں نے تم سے کہا تھا نہ تم گھر کے کام مت کیا کرو لاؤ میں دھو دیتی ہوں "

 ریحم نے آئیذل کے ہاتھوں سے کپڑے لیکر خفگی سے کہا تھا

"لیکن اس میں میرے کپڑے بھی ہیں " آئیذل نے متعجب نظروں سے اسے دیکھ کر کہا تھا ریحم مسکرائی تھی

"چلو کوئی نہیں"

"نہیں میں دھو سکتی ہوں"

"جب وہ کہہ رہی ہے وہ دھو لے گی تو ضد کیوں کر رہی ہے دھونے دے اسکو اپنے کپڑے بھی تو ہیں اسکے " عائزہ بیگم نے تنک کر کہا ریحم نے افسوس سے سر کو خم دیا تھا

"آ جاؤ ساتھ دھو لیتے ہیں" ریحم نے مسکرا کر کہا آئیذل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا تھا اور اسکے ساتھ چل دی تھی عائزہ بیگم نے تیکھی نظروں سے دونوں کو ساتھ جاتے دیکھا تھا ریحم کا آئیذل سے ہمدردی کرنا کہاں برداشت ہوتا تھا ان سے!!

"عائزہ کب تک بضد رہو گی دو دنوں میں آئیذل کی رخصتی ہو جائے گی " عروسہ بیگم نے عائزہ بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا 

"اچھا ہو گا گھر سے نحوست ختم ہو گی میرا بچہ تو چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا اس منہوس کی جب سے آمد ہوئی ہے کچھ اچھا نہیں ہو رہا گھر سے جا کر ساری منہوسیت اپنے ساتھ لے جائے گی اماں کا تو سر کھا گئی ہے اب ہمارے سکون کی دشمن بنی ہوئی ہے" عائزہ بیگم نے پیچھے پلٹ کر کہا آصف صاحب کو دیکھ کر وہ چونک پڑی تھی جو سنجیدگی سے انہیں دیکھ رہے تھے یقیناً انہوں نے انکی ساری باتیں سنی تھی ۔۔

"سیرت"

"ہاں بولو"

فون کی سکرین پر انگلیاں چلاتی ہوئی سیرت مصروف سے لہجے میں بولی علیشہ صوفے سے اٹھ کر اسکے قریب بیٹھی تھی نیوز اپڈیٹس چیک کرنے میں وہ اتنی مصروف تھی کہ علیشہ کی جانب دیکھا تک نہیں تھا علیشہ پچھلے کچھ منٹوں سے نظریں جھکائے اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے اسکے اچانک سسکنے پر سیرت نے فون سے نظریں ہٹا کر اسکی جانب دیکھا تھا  

"تم رو کیوں رہی ہو اِدھر دیکھو کیا ہوا میری جان۔۔۔۔ مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا تم سے " 

اسکی ٹھوڑی کو اوپر اٹھا کر محبت سے اسے گلے لگاتے ہوئے وہ فکرمندی سے بولی تھی اسکے کندھے پر سر ٹکا کر علیشہ نے روتے ہوئے آنکھیں میچ کر سر کو خم دیا تھا

"بولو میری جان کیا ہوا ہے کیا عدنان سے پھر سے لڑائی ہوئی ہے تمھاری" 

اسکے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو دباتی سیرت نے اسکی شبنمی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا اسکے اس قدر محبت سے بھرپور لہجے پر علیشہ کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی

"تم ٹھیک کہتی تھی سیرت سب ایک جیسے ہوتے ہیں عدنان بہت برا ہے سیرت " 

سیرت کے ہاتھ کو پکڑتی وہ ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ بولی سیرت کی پیشانی پر شکنیں ابھری تھی 

"اور اب وہ مجھے بلیک میل کر رہا ہے تمھیں یاد ہے اس دن میں نے کلب سے تمھیں فون کیا تھا کہ میری ڈرنک میں کسی نے کچھ ملا دیا "

 وہ کچھ سیکنڈ کے لئے اسے دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کر گئی تھی سیرت نے اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو ہٹاتے ہوئے سر ہلایا تھا 

"وہ عدنان ہی تھا اسنے ہی کچھ ملایا تھا لیکن صحیح وقت پر میں گھر آ گئی ورنہ ناجانے وہ میرے ساتھ کیا کرتا وہ اب مجھ سے اپنی غلط ڈیمانڈز پوری کروانا چاہتا ہے کل رات اسنے مجھے بلایا بھی تھا لیکن تم گم ہو گئی تھی اس لئے میں جا نہیں سکی میں نے اسے منع کر دیا تھا اب اسنے مجھے ایک لنک بھیجا ہے اسنے کسی ویب سائٹ پر میری فوٹوز کو ایڈٹ کر کے ڈال دیا ہے میں کیا کروں سیرت " 

علیشہ کی اشک بار آنکھوں نے حسرت سے سیرت کو دیکھا تھا سیرت کا چہرہ طیش و الم سے سرخ پڑ رہا تھا 

"تم فکر مت کرو ہم فوٹوز ڈیلیٹ کروا دیں گے "

"نہیں ہو سکتے میں نے بہت کوشش کی ہے نہیں ہو رہے میں آئی ٹی ایکسپرٹ کے پاس بھی گئی تھی لیکن وہ ویب سائٹ گلچ نہیں ہو سکتی اس سے کچھ بھی ڈیلیٹ نہیں ہو سکتا سیرت مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی میں نے عدنان پر بھروسہ کیا ۔۔ میں ۔۔ کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہی میں مر جانا چاہتی ہوں " 

علیشہ نے شرمندگی سے نظریں جھکا کر بےجان لہجےمیں کہا تھا سیرت ٹوٹ کر رہ گئی تھی وہ اسکی چھوٹی بہن جیسی تھی اسے اس حالت میں کیسے دیکھ سکتی تھی!!

"ایسا مت بولو میں وعدہ کرتی ہوں تمھاری فوٹوز ڈیلیٹ ہو جائیں گی تم بیٹھو میں میرال کو کال کرتی ہوں اسے ان سب کی کافی نالج ہے"

سیرت نے اسکے بال سہلاتے ہوئے اسے تسلی دی اور فون اٹھا کر میرال کا نمبر ڈائل کیا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" لالا ایس پی صاحب آئے ہیں"

مدثر صاحب نے سن کر نیوز پیپر شیشے کی میز پر رکھا تھا ڈی ایس پی صاحب سلام کرتے ہوئے پورچ میں داخل ہوئے تھے راہداری کے احاطے سے گزرتے ہوئے وہ لاؤنج میں اینٹر ہوئے تھے مدثر صاحب کا چہرہ جزبات و احساسات سے عاری تھا 

"آئیے ایس پی صاحب " 

 سلام کے جواب کے بعد انہیں صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ نیوز پیپر پر نظریں جمائے سنجیدگی سے بولے تھے ایس پی صاحب کی نظریں نیوز پیپر پر پڑی تھی جس میں پہلی خبر ہی سیمی کی موت کے بارے میں چھپی تھی ایس پی صاحب نے سرد آہ بھری تھی

"پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا کیا آپکے بیٹے کی کسی سے ذاتی دشمنی تھی جس کی بنا پر اسے مارا گیا ہو اور وہ کارڈ وہاں پولیس کو گمراہ کرنے کے لئے قاتل نے چھوڑ دیا ہو " ایس پی صاحب نے سنجیدگی سے استفسار کیا تھا مدثر صاحب کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا 

"سیم کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی میرا بیٹا لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کرتا تھا "

"آپکی بات ٹوکنے کے لئے معزرت ایم این اے صاحب لیکن اگر سچ میں آپکے بیٹے کو اس مافیا کے گروپ نے ہی مارا ہے تو یقیناً آپکا بیٹا انکے ساتھ منسلک رہا ہے "

ایم این اے صاحب نے مٹھیاں بھینچی تھی 

"پچھلے کچھ مہینوں سے ہماری انویسٹیگیشن ایجنسی نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جو میں آپکے سامنے رکھ رہا ہوں اس میں اس گینگ کا پورا ریکارڈ ہے جو ہم اب تک جان پائے ہیں یہ گینگ پچھلے کئی سالوں سے منظرِ عام پر آئے بغیر بےدردی سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے یہ لوگ تعداد میں کتنے ہیں ہم نہیں جانتے لیکن پچھلے مہینے یورپی ممالک میں بھی کچھ اسی نوعیت کے کیسز سامنے آئے ہیں کرائم سین سے عجیب و غریب خبریں سننے کو ملی اور وہاں سے ایسے ہی کارڈرز برآمد ہوئے ہیں یہ کارڈ قاتل وہاں کیوں چھوڑ جاتا ہے ہم اب تک اندازہ نہیں لگا سکے "

مدثر صاحب نے سر کو خم دیا تھا 

"کچھ کرائم ایکسپارٹس کا کہنا ہے کہ یہ مافیا ڈارک ویب سے منسلک ہے حال ہی میں ڈارک ویبز کی کچھ ویڈیوز لیک ہوئی ہیں جن میں وکٹمز کو  ریڈ رومز میں بےدردی سے ٹارچر کیا جا رہا ہے اور ان اموات کا ریکارڈ دیکھ کر دھیان انہی ویڈیوز کی طرف جاتا ہے میں آپکو ان سب باتوں سے اس لئے آگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ ہماری مدد کریں اگر آپ اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ بھی ایسا جانتے ہیں جس سے پولیس کو مدد مل سکے تو ہمارے ساتھ شیئر کریں "

مدثر صاحب نے خشک لبوں پر زبان پھیر کر سر جھکایا تھا

"ڈڈ۔۔ڈیڈ میں کچھ ۔۔۔بتانا۔۔۔ چاہتا ہوں مم۔۔۔میں نے کک۔۔کچھ ڈرگز سپلائرز کیساتھ ڈیل کی تھی ۔۔۔ اس دن کے بعد سے میرے ساتھ کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔۔۔کک۔۔کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے ۔۔۔۔ اور اب بھی کوئی میرے آس پاس ہے ۔۔۔ککک۔۔کسی نے مجھ پر نظر رکھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے بچا لیں ڈیڈ "

مدثر صاحب کی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ابھری تھی ہاتھ کی پشت پیشانی پر رگڑ کر انہوں نے سر جھٹکا تھا 

"میں کچھ نہیں جانتا ایس پی صاحب" 

ایس پی صاحب نے تاسف سے انکی حالتِ غیر دیکھی اور پھر لب بھینچ کر اٹھ کر انہیں مصافحہ کر کے لاؤنج سے واک آؤٹ کر گئے تھے 

 بھوری متانت سے بھرپور نظریں اسوقت گلاس ونڈو سے باہر سڑک پر رفتار سے حرکت کرتی گاڑیوں کی نکتہ شناسی میں محو تھی ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں تھا جبکہ دوسرا ہاتھ ونڈو کے شیشے پر تھا 

"مسٹر عسکری پینک اٹیکس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے

ڈیپریشن کے حملوں کی خاندانی ہسٹری مثلآ یہ بیماری پیشینٹ کے خاندان میں عام ہو

زندگی کا بڑا تناؤ، جیسے کسی عزیز کی موت یا سنگین بیماری جیسے اگر ہمارا کوئی قریبی دوست یا عزیز چل بسے تو اس صورت میں بھی صدمے کے باعث پینک اٹیکس ہو سکتے ہیں۔

ایک تکلیف دہ واقعہ، جیسے جنسی حملہ یا کوئی سنگین حادثہ / ہماری ذندگی کا کوئی ایسا بھیانک واقعہ جو یاد آنے پر ہم ڈپریس ہو جاتے ہیں ۔۔

تمباکو نوشی یا کیفین کا زیادہ استعمال بھی پینک اٹیکس کا باعث بنتا ہے اور آخری وجہ

بچپن میں جسمانی ہا جنسی استحصال ہو سکتی ہے "

اسنے ڈاکٹر کی جانب پلٹ کر سرد آہ بھری تھی 

"ہو سکتا ہے یہ لڑکی کسی مینٹی ڈسٹربنگ ٹراما سے گزری ہو جسکی وجہ سے ڈیپریشن کی صورت میں وہ سٹورڈ مناظر اسکی میموری سے باہر اسے نظر آتے ہوں اور سنائی دیتے ہوں" 

ڈاکٹر نے پروفیشنل لہجے میں تصدیق کی حدید نے سر کو خم دیا تھا

"اپنی حساسیت کھو چکی ہے وہ لڑکی ضرور ماضی میں کسی حادثے نے اسے توڑا ہے وہ سلجھی ہوئی نظر آتی ہے مگر وہ الجھی ہوئی ہے " 

اسنے  دھیمے لہجے میں خود سے ہم کلامی کی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"تم فکر مت کرو وہ کوشش کر رہا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا"

سیرت نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسی دی تھی سر ہاتھوں میں گرائے علیشہ نے آنکھیں وا کی تھی اسنے سیرت کے لیپٹاپ کی جانب دیکھا تھا

"سیرت اپنا لیپٹاپ لیکر آؤ"

اسکے یوں اچانک سے مخاطب کرنے پر سیرت نے متفکر نظروں سے علیشہ کو دیکھا تھا اور اپنا لیپٹاپ اٹھا کر اسکے قریب صوفے پر بیٹھی تھی سیرت کی گود سے لیپٹاپ اٹھا کر اسنے حلق تر کیا تھا سیرت نے اسکے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھے تھے

"یہ کیا کر رہی ہو تم" 

اسے ٹار براؤزر اوپن کرتے  دیکھ کر سیرت نے بوکھلا کر اسکے فق چہرے کو دیکھا تھا 

"میں ڈیپ ویب پر جا رہی ہوں میں نے پڑھا تھا ڈیپ ویبز میں ایسے ہیکرز موجود ہیں جو کچھ پیسوں کے عوض کسی بھی ویب سائٹ کو ڈیلیٹ کر سکتے ہیں "

"تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے ڈیپ ویبز پر اللیگل کام ہوتے ہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گی "

سیرت نے اسے تیز نظروں سے دیکھ کر لیپٹاپ اٹھانا چاہا جب علیشہ نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا سیرت نے تاسف سے اسکی مسلسل رونے کے باعث سوجی سرخ آنکھوں کو دیکھا تھا

"کوشش کرنے میں کوئی برائی نہیں سیرت میرال سے کچھ نہیں ہو گا " اسکے ہاتھ کو ہٹاتے ہوئے علیشہ نے بوجھل لہجےمیں کہا اور لیپٹاپ کی جانب متوجہ ہو گئی سیرت نے سرد نظروں سے لیپٹاپ کی سکرین پر بلنک کرتے ہوئے الفاظ دیکھے تھے 

Warning:- 

You are About to enter the dark web, your privacy may be disturbed, do you want to continue even after knowing the possible risk??

وارننگ:-

(آپ ڈارک ویب میں داخل ہونے والے ہیں، آپ کی پرائیویسی میں خلل پڑ سکتا ہے، کیا آپ ممکنہ خطرے کو جاننے کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں)

"علیشہ نہیں مت کرو"

علیشہ نے اینٹر پر کلک کیا تھا سیرت کا حلق خشک ہو رہا تھا ایک ہی بار میں سکرین پر بہت سارے نوٹیفیکیشن آ چکے تھے جن میں "کلک می" "اوپن می" وغیرہ جیسے بولڈ لیٹرز جگمگا رہے تھے کینسل کے بٹن پر کلک کر کے وہ تیزی سے آتے نوٹیفیکیشن دیکھ کر رکی تھی سکرین کی ایک جانب کوڈز سپیڈ سے دوڑ رہے تھے 

ایک دردناک چیخ!!

علیشہ اچھل پڑی تھی سیرت نے فق نظروں سے لیپٹاپ کی سکرین پر دیکھا تھا جہاں دو بلیک ہوڈ میں ملبوس آدمی ایک لڑکی کے ہاتھ کی انگلیاں ادھیڑ رہے تھے اور وہ درد سے چیخ رہی تھی علیشہ نے چیختے ہوئے لیپٹاپ صوفے پر ڈالا تھا سیرت نے ویب کو کلوز کرنا چاہا تھا مگر کلوز نہیں ہو رہا تھا سکرین ہینگ ہو چکی تھی 

ایک اور دردناک چیخ!!

علیشہ نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کی تھی لیپٹاپ پر جھکی سیرت کا یکلخت حلق خشک ہوا تھا لیپٹاپ کی سکرین اپنے آپ بلینک ہو چکی تھی علیشہ نے آنکھیں وا کرتے ہوئے ایک قدم لیپٹاپ کی جانب بڑھایا تھا سیرت کے حلق پر ایک گٹھلی نمودار ہو کر معدوم ہوئی تھی اچانک سے لیپٹاپ کی سکرین روشن ہوئی تھی علیشہ اپنی جگہ جم گئی تھی سیرت نے لب بھینچ کر لیپٹاپ کی سکرین پر دیکھا تھا 

 یہ منظر ایک سرخ کمرے کا تھا جس میں سرخ روشنی تھی کمرے کے بیچ و بیچ ایک بلیک چیئر پر براجمان ایک بلیک ہوڈ شخص تھا جس کی مرجانی آنکھیں پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی سیرت نے سر پھیر کر پیچھے تھرتھراتی علیشہ کو دیکھا تھا تھوک نگلتے ہوئے وہ لیپٹاپ کی جانب مڑی تھی

"We want to delete a website, will you do it"

"ہم ایک ویب سائٹ کو ڈیلیٹ کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ ایسا کریں گے؟"

سیرت نے ہمت جمع کر کے کمپوز لہجے میں کہا تھاجہاں سیرت کی بہادری اور بیوقوفی پر علیشہ کا ماتھا ٹھنکا وہاں سرخ آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی 

"And what will I get"

("اور مجھے کیا ملے گا")

لیپٹاپ سے بھاری گمبھیر آواز سنائی دی تھی سیرت نے حلق تر کیا تھا اس قدر بھاری آواز  غضب سے بھرپور آواز اسنے شاید ذندگی میں نہیں سنی تھی!!

"whatever you want I am willing to pay any amount, I just want to delete a website Can you do it?

"آپ جو چاہیں میں کوئی بھی رقم ادا کرنے کو تیار ہوں، میں صرف ایک ویب سائٹ ڈیلیٹ کرانا چاہتی ہوں کیا آپ یہ کر سکتے ہیں؟

سیرت نے ان سرخ آنکھوں میں اب کی بار غور سے دیکھا تھا ایک خاص چمک تھی ان میں!!

"Why not but I want a huge price in return"

("کیوں نہیں لیکن مجھے بدلے میں بھاری قیمت چاہیے")

مہر درخشاں مرجانی آنکھوں نے اسکی باریک گردن میں چمکتے ہارٹ شیپ نفیس نیکلس کا باریک بینی سے جائزہ لیا تھا جو اسکی دودھیا رنگت پر خوب روئی کی علامت تھا علیشہ نے سیرت کو ٹوکنا چاہا تھا 

"No problem I am ready to pay as much as you want,, Shall I share the link"??

("کوئی بات نہیں میں آپ جتنا چاہو ادا کرنے کو تیار ہوں، کیا میں لنک شیئر کروں؟")

لیپٹاپ کے کیبورڈ پر جھکتی وہ سنجیدگی سے بولی وہ گولڈن کلر کے ریشمی نائٹ روب میں جاذبِ نظر تھی

 اسکی بےباک نظریں اسکی بیوٹی بون سے اسکے نیکلس کو اور اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھ رہی تھی

"Your data is already leaked little girl, I can access the link" 

("آپ کا ڈیٹا پہلے ہی لیک ہو چکا ہے چھوٹی لڑکی، میں لنک تک رسائی حاصل کر سکتا ہوں")

نظر استہزاء سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے رعنا ہاتھوں نے کمپیوٹر کیبورڈ پر کچھ ٹائپ کیا تھا سیرت نے باریک بینی سے اسکے ہاتھ میں ٹائٹینیم کی سلور رنگ دیکھی تھی جو اسکے رعنا انگوٹھے میں بےحد خوبصورت لگ رہی تھی

 جہاں ڈیٹا لیک والی بات پر سیرت نے علیشہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ڈری سہمی علیشہ نے افسوس سے سر جھٹکا تھا بھلا اسے کہاں پتا تھا کہ سیرت کا ڈیٹا ہی لیک ہو جائے گ!!

"Here You Go..., I will be in touch shortly to get my Amount "

("یہ لو تم...، میں اپنی رقم لینے کے لیے جلد ہی رابطہ کروں گا")

لیپٹاپ کی سکرین نارمل ہو چکی تھی سیرت نے نیچے بیٹھتے ہوئے لیپٹاپ گود میں رکھ کر وہ ویب سائٹ کھولنے کی کوشش کی تھی جس پر علیشہ کی فوٹوز تھی لیکن وہاں تو ایسی کسی ویب سائٹ کا نام و نشان تک نہیں تھا سیرت نے سکھ کا سانس لیا تھا  علیشہ نے اسے گلے لگایا تھا

"شکر ہے ڈیلیٹ ہو گئی" 

سیرت نے ہلکی مسکان کیساتھ کہا تھا 

"تھینک یو سیرت تھینک یو" اسے گلے لگاتی علیشہ نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھ کر کہا

"لیکن اب میرے لیپٹاپ کا ڈیٹا اس کے پاس ہے اور ناجانے کتنا اماونٹ چاہیے ہو گا اسے" سیرت نے سرد آہ بھر کر اسکے بال سہلاتے ہوئے کہا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"Why did you help this girl D??"

"تم نے اس لڑکی کی مدد کیوں کی (ڈی)!

بلیک چیئر سے اٹھ کر باہر جاتے ہوئے وہ رکا تھا 

"Are you in  position to question me?

("کیا تم مجھ سے سوال کرنے کی حیثیت رکھتے ہو")؟

بغیر مڑے وہ بھاری سرگوشیانہ لہجے میں بولا تھا سرد آہ بھر کر اس بلیک ہوڈ شخص نے دوبارہ اپنی توجہ کمپیوٹرز کی اسکرینز کی جانب مرکوز کی تھی

"Next time avoid showing such videos to any new visitors or you will be the next dead body found hanging from the fan in  red room"

("اگلی بار کسی بھی(ویب سائٹ پر) نئے آنے والوں کو ایسی ویڈیوز دکھانے سے گریز کرنا ورنہ اگلی لاش تمھاری ہو گی جو سرخ کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی جائے گی"

برفیلے لہجے میں کہہ کر وہ باہر نکل گیا تھا 

"Bad Day Dev .... Don't worry he is in a bad mood"

(""برا دن  ہے (Dev).... فکر مت کرو اس کا موڈ خراب ہے)"

اسکے قریب چیئر پر بیٹھتے شخص نے اسکے کندھے پر تھپکی دیکر حوصلہ افزائی کی تھی 

"No worries Mac!!, he's always in a terrible mood"

("کوئی فکر نہیں میک!!، وہ ہمیشہ خوفناک موڈ میں رہتا ہے")

تاسف سے شانے اچکاتا وہ کمپیوٹر کی سکرین پر چمکتے ہرے رنگ کوڈز کو دیکھتے ہوئے بولا تھا 

"تم رک جاتی ناں اتنی رات کو واپس جا رہی ہو" 

سیرت نے اسے روکنا چاہا مگر وہ سکارف لیتے ہوئے مسکرائی تھی

"نہیں ناں سیرو یہاں نہیں رک سکتی کل بھی لیٹ آئی تھی اس وجہ سے رک گئی اب روز یہاں رک کر تمھاری پریشانی میں اضافے کا باعث نہیں بننا چاہتی"

سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی

"تم میری بہن ہو بھلا پریشانی بڑھانے والی بات کہاں سے آ گئی ہمارے بیچ"

علیشہ محض مسکرا کر رہ گئی تھی اور سیرت کو سکون ملا تھا پورا دن تو وہ آنسوں بہاتی رہ گئی تھی اب جا کر وہ مسکرائی تھی 

"اچھا میں چلتی ہوں خدا حافظ"

"خدا حافظ" 

اسے گلے لگا کر وہ سکارف سیٹ کرتے ہوئے باہر چلی گئی تھی سیرت نے نیوز اپڈیٹس چیک کرنے کے لئے فون اٹھایا تھا جب اسکی نظریں پہلی خبر پر پڑی تھی

"سس۔۔سیم"

لبوں پر ہاتھ رکھتی وہ چونکی تھی اسکی آگ میں جھلسی ہوئی لاش دیکھ کر سیرت کا دل بند ہونے لگا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بک کو اپنے مہرون کلر بیک پیک میں رکھتی آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا جو اسٹیج سے نیچے اتر رہا تھا 

"چلیں"

حورم نے بیگ کی سٹریپس کندھے پر ڈالتے ہوئے پوچھا تھا آئیذل نے سر ہلایا تھا 

"رکیں مس آئیزل"

اسکے قریب سے گزرتی آئیذل نے گہری مسکان کو لبوں پر بکھرنے سے روک کر اسکی جانب دیکھا تھا 

"میں باہر ویٹ کر رہی ہوں" حورم جلدی سے باہر نکل گئی تھی آئیذل نے خالی لیکچر ہال کو ایک نظر دیکھ کر اسکی جانب دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے لیکچر کے دوران اس قدر سنجیدہ تھا اب لبوں پر ہلکی مسکان کیساتھ اسے نگاہِ مہر سے دیکھ رہا تھا آئیذل نے سوالیہ نظروں سے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھا تھا کیونکہ اسے روکنے کے بعد وہ کچھ بول ہی نہیں رہا تھا بس اسے دیکھے جا رہا تھا 

"I wanted to give you something, I would have given it long ago but I couldn't give it to you because of my busy schedule"

'’میں آپکو کچھ دینا چاہتا تھا، بہت پہلے دے دیتا لیکن مصروفیت کی وجہ سے تمہیں نہیں دے سکا۔‘‘

بلیک کوٹ کی پاکٹ سے اسنے ایک وائٹ باکس نکال کر آئیذل کے حوالے کیا تھا بیگ کے سٹریپ سے ہاتھ ہٹاتی آئیذل نے متفکر نظروں سے اسے دیکھ کر اسکے ہاتھ سے باکس لیا تھا 

"But this۔۔۔. It is very expensive how can I !?"

یہ حال ہی میں لانچ کیا گیا بےحد ایکسپینسیو سمارٹ فون تھا اور بالکل ویسا تھا جیسا وہ استعمال کرتا تھا گولڈن کیسنگ اور موبائل کی اسیسریز سب اسکے سمارٹ فون جیسے ہی تھے آئیذل نے لب بھینچ کر اسکی جانب دیکھا تھا جو اسکے ہچکچانے پر سنجیدگی سے اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا

"کون ہوں میں ؟! اور کیا رشتہ ہے ہمارا"

اسکے سوال پر آئیذل کے عِذار سرخ پڑتے چلے گئے 

"شکریہ"

شرم و حیا سے لال ہوتی وہ جلدی سے بولی تھی وہ مبہم سا مسکرایا تھا آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسے خوشمنا سپید ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا

"آپ نے ایک بار کہا تھا آپکو وہ ساری یادیں واپس چاہیے جو آپ بھلا چکی ہیں میں وہ یادیں تو واپس نہیں لیکر آ سکتا لیکن اس موبائل میں ہماری بچپن کی کچھ بہت خوبصورت یادیں ہیں جو آپ میرے حوالے کر کے گئی تھی جو میرا اسوقت سہارا بنی جب میں بالکل تنہا تھا جب مجھے میری فیری کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ان یادوں نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا آج یہ میں آپکو لوٹانا چاہتا ہوں کیونکہ اب میری لمظ میرے پاس ہے "

آئیذل نے اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں غرور تھا اسے پا لینے کا جیسے ایک وہی تھی جو پوری دنیا میں معنی رکھتی تھی!!

"آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں"

"ہممم"

"ایسا کیا ہے مجھ میں ذاویان اتنی محبت کیوں کرتے ہیں آپ!! میں دوسری لڑکیوں جیسی نہیں ہوں مجھے بناؤ سنگار کرنا نہیں آتا مجھے کچھ نہیں آتا اور میں اتنی خوبصورت نہیں ہوں ناں ہی کبھی بننے کی کوشش کی ہے پھر بھی آپ مجھ جیسی لڑکی سے محبت کرتے ہیں" 

آئیذل نے اسکی آنکھوں میں گہرائی سے جھانکا تھا

"وہ بہت خُوبصورت تھی...!!

مگر اُن لڑکیوں کی طرح نہیں جو ٹی۔وی، اخباروں یا میگزینز میں ہوتی ہیں، وہ اپنے سوچنے کے انداز میں خُوبصورت تھی جب وہ اپنی کِسی محبوب چیز کے بارے میں بات کرتی تب وہ اپنی آنکھوں میں نمُودار ہونے والی خُوبصورت چمک کے ساتھ خُوبصورت تھی، وہ خُود اُداس ہو کر بھی لوگوں کو مُسکرانے پر مجبور کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خُوبصورت تھی، نہیں اُس کے پاس نقُوش و نگار جیسی عارضی چیزوں کی خُوبصورتی نہ تھی بلکہ وہ تو اپنی رُوح کی گہرائیوں میں خُوبصورت تھی...!!

اُس کا قلب خُوبصورت تھا...!!

اُس کی رُوح خُوبصورت تھی...!!

اور جب کوئی اُس کو دیکهتا یا جانچتا تو بے اِختیار کہہ اُٹھتا...!!

مَنّ دَرّ عِشقِ بَاشُمَا ہَسّتَمّ...!!

مُجھے تُم سے مُحبت ہو گئی ہے"

 اسکی دلفریب آنکھوں میں دیکھتی وہ ساکت رہ گئی تھی یہ دنیا جو اسے کبھی عزابِ جاں لگتی تھی آج اسکے لئے ایک سپنوں کا جہاں بن گئی تھی جہاں سب حقیقت تھی وہ شخص حقیقت تھا اسکی محبت حقیقت تھی!!

" لمظ میں چاہتا ہوں آپ مجھ پر بھروسہ کریں ،، مجھے ایک اچھا دوست سمجھیں جو ہر موڑ پر آپکے ساتھ رہے گا جو کبھی آپ پر آنچ نہیں آنے دے گا جو کبھی آپکی آنکھوں میں آنسوں نہیں آنے دے گا میں آپ کو مجبور نہیں کر رہا کہ میری محبت کے بدلے مجھ سے محبت کریں جتنا وقت چاہیے آپ لے سکتی ہیں ان فیکٹ میں پوری زندگی آپکا انتظار کر سکتا ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف آپکو حاصل کرنا نہیں ہے میں اپنی وہ دوست واپس چاہتا ہوں جو مجھ پر بھروسہ کرتی تھی جو ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی تھی جو میری روح کا حصہ تھی جو مجھے تنگ کر کے مسکرایا کرتی تھی مجھے میری بےبی گرل چاہیے لمظ"

آئیذل نے مہر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا آئیذل کے رخساروں پر پھیلتی سرخی وہ جاذبیت سے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا وہ نظریں جھکائے تیز دھڑکتے دل کو اعتدال میں لانے کی کوشش کر رہی تھی اسے

 دونوں کندھوں سے نرمی سے تھام کر وہ اسے  اپنے توانا مظبوط بازوں کی پناہ میں لے چکا تھا اسکے بلیک کوٹ کو مٹھی میں بھیجچتی اسکی مخصوص مہک کو سانسوں سے اپنے اندر کھینچ کر پرسکون ہو گئی تھی کچھ دیر بعد وہ شرمندگی سے پیچھے ہٹی تھی 

"حور۔۔ باہر ویٹ کر رہی ہو گی کیا میں جا سکتی ہوں"

اسکے وجیہ ہاتھ میں اپنے ہاتھ کو ہولے سے پیچھے کرتی وہ تذبذب لہجے میں بولی تھی 

"ہمم"

اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھ کر عقیدت بھرا لمس چھوڑنے کے بعد وہ سنجیدگی سے بولا تھا آئیذل لب بھینچ کر دروازے کی طرف مڑی تھی مگر دروازے پر قریب کھڑی رباب کو دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے ایک آگے قدم بڑھایا تھا مگر اسکی نظریں بھی دروازے پر رک گئی تھی جہاں رباب فق چہرہ لئے آئیذل اور اسے دیکھ رہی تھی

"حور۔۔ باہر ویٹ کر رہی ہو گی کیا میں جا سکتی ہوں"

اسکے وجیہ ہاتھ سے اپنے ہاتھ کو ہولے سے پیچھے کرتی وہ تذبذب لہجے میں بولی تھی 

"ہمم"

اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھ کر عقیدت بھرا لمس چھوڑنے کے بعد وہ سنجیدگی سے بولا تھا آئیذل لب بھینچ کر دروازے کی طرف مڑی تھی مگر دروازے پر کھڑی رباب کو دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے ایک قدم بڑھایا تھا مگر اسکی نظریں بھی دروازے پر رک گئی تھی جہاں رباب فق چہرہ لئے آئیذل اور اسے دیکھ رہی تھی  

محبت بھری نگاہ سے آئیذل کی جانب دیکھ کر وہ باہر واک آؤٹ کر گیا تھا رباب نے گردن پھیر کر دور تک نظروں سے اسکا تعاقب کیا تھا جن نظروں سے ذاویان آئیذل کو دیکھ کر گیا تھا رباب کے لئے کافی تھی اسکا مکدر چہرہ محظوظ نظروں سے دیکھتی آئیذل نے بیگ کی زپ کھولی تھی رباب نے باریک بینی سے اسکے ہاتھ میں ذاویان کے جیسا سمارٹ فون دیکھا تھا جو لبوں پر تمسخر بھری مسکان سجائے بیگ میں رکھ رہی تھی آئیذل بیگ میں باکس رکھنے کے بعد طنزیہ نظروں سے رباب کو دیکھ کر باہر واک آؤٹ کر گئی تھی رباب تیز قدموں سے باہر نکل گئی تھی اسکا چہرہ دیکھنے لائق تھا 

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بلیک ٹو پیس سوٹ زیب تن کئے وہ سنجیدگی سے ہاسپیٹل کی گیلری میں داخل ہوا تھا لوگوں نے رشک بھری نظروں سے اس وجاہت شخصیت کو دیکھا تھا ڈی آئی جی صاحب اسکے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل رہے تھے

"سب آپکی نگرانی میں تھا پھر کیسے ہو گئی اتنی بڑی غلطی ڈی آئی جی صاحب"  سنجیدگی سے چلتے ہوئے وہ برفیلے لہجے میں بولا 

"ذاویان ہاسپیٹل کے ڈاکٹر نے ہی اسے زہر کا انجیکشن دیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس ڈاکٹر کو بھی کسی نے مار ڈالا " ڈی آئی جی صاحب نے ذاویان کی جانب دیکھ کے تاسف سے بتایا 

وہ کرخت نظروں سے اس روم کا جائزہ لے رہا تھا جہاں ڈاکٹر کو مارا گیا تھا

"حیرت کی بات ہے ذاویان جس وقت میں یہ مرڈر ہوا ہاسپیٹل کے کونے کونے میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے اور قاتل کسی کیمرے کی نظر میں نہیں آیا اسی ہفتے میں ہونے والا یہ دوسرا مرڈر ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کون کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے"

ڈی آئی جی صاحب نے سر جھٹکا تھا ذاویان پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کافی دیر سے خاموشی اختیار کئے کھڑا تھا 

 فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ سنجیدگی سے فون پاکٹ سے نکال کر باہر نکلا تھا 

"بھائی میرا ڈے آف ہے آج کہیں باہر لنچ کرتے ہیں کتنا وقت ہو گیا آپ نے میرے ساتھ ٹائم سپینڈ نہیں کیا"

سیرت کی باریک مسرور آواز اسکے کانوں میں رس گھول گئی تھی 

"پرنسس میں فلحال"

"آپ ہر وقت ہی بذی ہوتے ہیں اپنی پرنسس کے لئے وقت کہاں ہے آپکے پاس" وہ خفگی سے کہہ کر کال منقطع کر چکی تھی 

"اچھا پرنسس ایڈریس بھیج دیں میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں"

اسنے مبہم مسکان لبوں پر سجا کر اسے میسج بھیجا تھا اور بلیک سن گلاسز لگا کر باہر نکل گیا تھا سیرت اسکا میسج پڑھ کر مسکرا گئی تھی

"میں کسی کا ویٹ کر رہی ہوں تھوڑی دیر میں آرڈر کرتی ہوں" 

ویٹر نے عاجزی سے سر ہلایا تھا اور اسکی ٹیبل سے چلا گیا تھا گھڑی پر ٹائم دیکھتی وہ ریسٹورنٹ کے دروازے کی جانب دیکھ کر کھل اٹھی تھی وہ پورے دس منٹ میں یہاں پہنچا تھا ریسٹورنٹ میں بیٹھی لڑکیوں نے اس جاذبِ نظر شخص کو دیکھا تھا جو  اسے سینے سے لگا کر اسکی کنپٹی پر لب رکھت مسکرایا تھا

"بھائی سب دیکھ رہے ہیں"

وہ سر جھٹکتے ہوئے مسکرا کر چیئر پر بیٹھی تھی 

"تو کیا ہوا پرنسس" 

اسنے شانے اچکاتے ہوئے فون سامنے ٹیبل پر رکھ کر کہا تھا اور چیئر کھینچ کر بیٹھا تھا سیرت کا چہرہ اسوقت خوشی و مسرت سے چمک رہا تھا 

"آپ مجھے پرنسس کہنا بند کر دیں اب میں بڑی ہو گئی ہوں "

اسنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے معصومیت سے اسے دیکھ کر شکوہ کیا تھا جس پر وہ مبہم سا مسکرا کر رہ گیا تھا

"لیکن میرے لئے آپ اب بھی  میری وہی پرنسس ہیں جو بھیا بھیا کہہ کر مجھ سے وہ باتیں منوا لیا کرتی تھی جن پر امی کو اور مجھے اختلافات ہوتے تھے " 

ذاویان نے اسکے ہاتھ کو تھام کر مہر آمیز لہجے میں کہا سیرت مسکرا کر اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھ کر سر ہلا گئی تھی 

"کچھ آرڈر کریں مجھے بہت بھوک لگی ہے" 

سیرت نے مینیو اسکی جانب بڑھایا تھا

"آپ جو کھانا چاہیں آرڈر کر لیں پرنسس "

اسکی جانب مینیو بڑھاتا وہ محبت سے بولا سیرت نے مینیو  لیکر پڑھنا شروع کیا تھا

"پرنسس کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں"

 اسنے سنجیدگی سے سیرت کا چہرہ دیکھ کر پوچھا تھا 

"جی بھیا پوچھیں" 

وینیو پر نظریں جمائے وہ مسکرا کر بولی تھی

"عسکری کا برتاؤ کیسا ہے آپکے ساتھ"

ذاویان نے متانت سے اسکے چہرے پر بدلتے آثار دیکھے تھے وہ مینیو ٹیبل پر رکھ کر لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی

"بھیا وہ نارمل انسان ہیں اور میرے ساتھ بھی پروفیشنل بزنس لائک برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ اپنے آفس کے باقی ورکرز کیساتھ رکھتے ہیں" 

سیرت نے اسے الفت سے دیکھ کر دھیمے لہجے میں جواب دیا تھا اسکی سنہری آنکھوں میں اپنے لئے فکر دیکھ کر وہ پگھل جاتی تھی!!

"بھائی کی جان!! مجھ سے کبھی کچھ مت چھپائیے گا جانتی ہیں کہ بھائی بعد میں پہلے میں آپکا ایک اچھا دوست ہوں جس سے آپ ہر سیگریٹ شیئر کرتی ہیں" 

اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ شائستگی سے بولا سیرت کو  بےحد افسوس ہوا تھا وہ لب بھینچ کر سر جھکا گئی تھی ذاویان نے شائستہ نظروں سے اسے دیکھا تھا

"بھیا ایکچلی مجھے کچھ بتانا تھا آپکو" وہ نظریں اٹھا کر دھیمے لہجے میں بولی ذاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا سیرت نے لب وا کئے تھے مگر اسکے فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ خاموش ہوئی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکے پرس میں بجتے فون کو دیکھا تھا

سیرت نے متعجب نظروں سے فون کی اسکرین پر جگمگاتا ان نان نمبر دیکھا تھا

"بھیا میں آتی ہوں بس ایک سیکنڈ"

ذاویان نے سنجیدگی سے سر کو جنبش دی تھی وہ چیئر سے اٹھ کر ایک جانب بڑھ گئی تھی ذاویان کی نظروں نے متانت سے اسکا پیچھا کیا تھا

 فون کے مسلسل چیخنے پر اسنے کال کنیکٹ کر کے فون کان سے لگایا تھا دونوں جانب مکمل خاموشی تھی

کچھ سیکنڈ کی مستقل خاموشی کے بعد سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی!!

"Clair de lune How long will you pay ?"

(چاندنی!!  رقم کب تک ادا کرو گی")

وہ اچھل پڑی تھی اسکی بھاری آواز سن کر!!

 اتنی بھاری آواز اور اس قدر گمبھیر لہجہ تھا کہ مطمئن بیٹھی سیرت کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اور دوسری بات اسکے پاس اسکا نمبر کہاں سے آیا تھا یہی سوچ کر اسکا شدت سے دل دھک دھک کر رہا تھا

"How much amount do you need?"

("کتنی رقم چاہیے تمہیں؟")

سیرت نے تیز دھڑکتے دل کیساتھ استفسار کیا تھا فون کی دوسری جانب مکمل خاموشی چھا گئی تھی 

"How much can you pay?"

("آپ کتنی رقم ادا کر سکتی ہیں")

سیرت نے تعجب سے فون کو دیکھا تھا اسنے کوئی ڈیمانڈ ہی نہیں رکھی تھی الٹا اس سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کتنا دے سکتی ہے!! 

"If you don't want payment then what's the purpose of calling me and how did you get my number?

("اگر آپ ادائیگی نہیں لینا چاہتے تو مجھے کال کرنے کا کیا مقصد ہے اور آپ کو میرا نمبر کیسے ملا؟)

پیشانی پر بل ڈالے وہ تذبذب مگر توازن لہجے میں بولی تھی دوسری جانب سرد آہ بھری گئی تھی چھوٹی چھوٹی بات پر جھلس پڑنا تو سیرت کی عادت تھی!!

"I want 10 Lacs"

("مجھے 10 لاکھ چاہیے")

سیرت نے آنکھیں گھمائی تھی یقیناً وہ اسی جواب کی منتظر تھی

"Okay Fine.. tell me your bank account and I will transfer"

("ٹھیک ہے.. اپنا بینک اکاؤنٹ بتاؤ میں ٹرانسفر کر دوں گی)

سیرت نے گردن بچانی چاہی بحث فضول تھی ایسے بھیانک انسان کیساتھ!!

"Do I look silly to you I want payment in cash !! Arrive at the old bridge tomorrow at nine o'clock if you try to play tricks on me .. My behavior will change which you will not like"

("کیا میں تمہیں پاگل لگ رہا ہوں مجھے کیش میں ادائیگی چاہیے!!  کل رات نو بجے پرانے پل پر پہنچ جانا اگر تم نے میرے ساتھ چالیں چلنے کی کوشش کی تو.. میرا رویہ بدل جائے گا جو تمہیں پسند نہیں آئے گا")

سیرت نے لب بھینچ  کر فون کو دیکھا تھا جس میں رضا صاحب کی کال آ رہی تھی دونوں کی ٹائمنگ ایک دم خراب تھی جس پر وہ سلگ کر رہ گئی تھی

"You'll get paid, but don't even try to intimidate me, I'm not afraid of You ...And next time  Don't you  Dare call me Claire de Lune.."

("تمہیں رقم مل جائے گی، لیکن مجھے ڈرانے کی کوشش بھی مت کرنا، میں تم سے نہیں ڈرتی...اور اگلی بار مجھے چاندنی کہنے کی ہمت مت کرنا"

سیرت نے دانت پیس کر کال منقطع کی تھی اسکے لینگوج پر وہ بھنویں تن کر رہ گیا تھا کیا چیز تھی!!

کال منقطع کر کے اسنے رضا کی کال کنیکٹ کی تھی

"آپ آج آفس نہیں آئی مس سیرت "

"میں آج نہیں آ رہی معزرت"

سیرت نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا تھا 

"کیا کوئی پریشانی ہے"

سنجیدگی سے پوچھا گیا تھا 

"نہیں میں زرا مصروف ہوں آج کے دن " 

اسکے خاموش ہونے پر وہ سوچ رہی تھی کہ شاید وہ معافی مانگے گا مگر کال منقطع ہونے پر سیرت نے فون کو گھورا تھا 

"تمھارا یہ ایٹیٹیوڈ" 

 تیکھے لب و لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے وہ فون لیکر واپس اپنی ٹیبل پر آئی تھی

"کس کی کال تھی پرنسس"

"بھیا عسکری صاحب تھے "

ذاویان کی پیشانی پر دو شکنیں پڑی تھی سیرت نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اسے دیکھا تھا

"وہ پوچھ رہے تھے آج کی میٹنگ میں کیوں نہیں آئی"

ذاویان نے سنجیدگی سے سر ہلایا تھا سیرت نے تاسف سے اسے دیکھا تھا جو عسکری کا نام سن کر ہی سنجیدہ ہو گیا تھا اس کے غصے کے ڈر سے وہ علیشہ والا واقعہ اسے بتانے کا ارادہ ترک کر چکی تھی!!

"پرنسس میں سوچ رہا تھا آپ کچھ دنوں کے لئے ویکیشن پر پاکستان سے باہر چلی جائیں"

کافی کا کپ اٹھاتی سیرت کا ہاتھ ساکت ہوا تھا

"لیکن پرسوں سے آپکی شادی سٹارٹ ہے میں کیسے جا سکتی ہوں"

متحیر سی سیرت نے اسے پس و پیچ نظروں سے دیکھا تھا

"جن لوگوں نے آپ پر اٹیک کیا تھا وہ اب تک مجھے نہیں ملے اور میں نہیں جانتا کون ہے جو آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لئے بہتر ہو گا اگر آپ بغیر کسی کو بتائے کچھ دنوں کے لئے برطانیہ میں بی جان کے پاس چلی جائیں "

"لیکن میں آپکے ساتھ زیادہ محفوظ رہوں گی"

سیرت نے بےصبری سے اسکی بات کاٹی تھی

" میرے ساتھ آپ محفوظ نہیں ہیں پرنسس اور یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں یہ سب میری وجہ سے ہوا میرے بزنس افیئرز کی بدولت آپکی جان خطرے میں ہے میں فلائٹ کی ٹکٹ بک کر چکا ہوں آج رات ہی آپ برطانیہ جا رہی ہیں وہاں آپ سیٹل رہیں جب تک میں نہیں کہتا آپ واپس نہیں آئیں گی "

سیرت کی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی تھی لب بھینچے وہ سر جھکا گئی تھی ذاویان نے چیئر کھینچ کر اسکے پاس رکھی تھی اور اسکے ٹھنڈے ہاتھوں کو نرمی سے تھاما تھا نم آنکھوں میں ڈھیروں بیزاریت لئے وہ اسے دیکھتی رہ گئی

"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں بھیا کتنی تیاریاں کی تھی میں نے آپکی شادی کے لئے اور آپ مجھے برطانیہ بھیج رہے ہیں میرا پورا بچپن وہیں گزرا ہے اور اب جا کر مجھے یہاں رہنے کا موقع ملا تھا آپکے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتی تھی بھابھی سے ملنا چاہتی تھی  " اسکے کوٹ کو مٹھی میں پکڑتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی

"ہاں مجھے پتا ہے یہ بھی آپ میری سیفٹی کے لئے کر رہے ہیں اور یقیناً میں وہاں محفوظ رہوں گی کیونکہ وہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا لیکن مجھے اپنی فیملی کیساتھ رہنا ہے مجھے آپکے ساتھ رہنا ہے بھائی " وہ نظریں جھکائے بیزار ہو گئی تھی ذاویان نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا

"اوکے آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہو گا" کچھ دیر بعد ہلکی مسکان لبوں پر سجا کر وہ سر اٹھا کر بولی ذاویان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی

"لیکن بس کچھ دن پھر میں واپس آ جاؤں گی اپنے بھائی کے پاس اور آپ مجھے زیادہ دن دور نہیں رکھ سکتے میری بھابھی سے" سیرت نے آنکھیں سکیڑ کر کہا تھا جس پر ذاویان نے اسکے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو تھاما تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ڈور بیل بجنے پر اسنے خمار میں ڈوبی سرخ آنکھوں کو وا کیا تھا بیڈ کے قریب سے چنگھاڑنے کی آواز پر اسنے اکتاہٹ کیساتھ آنکھیں گھمائی تھی

"arrête de te plaindre leo"

"شکایت کرنا بند کرو لیو"

بدمزگی سے آف وائٹ بلینکٹ ہٹا کر بھاری لہجے میں کہہ کر وہ بیڈ سے نیچے اترا تھا بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ کمرے سے باہر نکلا تھا گیلری سے ہو کر وہ مین ہال تک آیا تھا اسکے پیچھے قدموں کی آواز برابر پیچھا کر رہی تھی

"Je t'ai dit de ne pas me suivre"

("میں نے تم سے کہا تھا کہ میرے پیچھے مت چلو")

دروازہ کھولنے سے پہلے وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑتا بولا تھا دو سفید آنکھوں نے معصومیت سے اسے دیکھا تھا جس پر اسکے بھینچے ہوئے لبوں پر خفیف مسکراہٹ رینگ گئی تھی

"ڈیمئن میں کب سے۔۔۔۔ آآہ"

دروازے سے اندر داخل ہوتا میک اپنے پیچھے دروازہ بند کر کے اسکی جانب پلٹ کر خوشگوار لہجے میں گویا ہوا مگر  اسکے قریب بیٹھے بیسٹ کو دیکھ کر اچھل کر پیچھے ہوا مگر وہ بلیک ولف اس کو ایک سیکنڈ میں گردن پر پنجا رکھ کر دبوچ چکا تھا 

پیچھے کھڑے شخص نے چچچ کرتے ہوئے سر جھٹکا تھا

"ڈڈ۔۔۔ڈیمئن تم نے گھر میں بھیڑیا پال رکھا ہے یارر "

اپنی گردن پر اسکے ناخن چبھنے پر میک نے سٹپٹا کر کہا تھا سفید آنکھوں نے میک کے بھیڑیا کہنے پر وحشت سے اسے دیکھ کر غراہٹ بھری تھی جس پر وہ ٹھٹھک کر رہ گیا تھا

"Now That's Enough Leo Step Back"

("اب یہ کافی ہے لیو قدم پیچھے")

اسنے سنجیدگی سے حکم صادر کیا تھا وہ بھیڑیا میک کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر پیچھے ہٹا تھا میک نے گردن پر ہاتھ رکھ کر سکون کا سانس لیا تھا

"آج کے بعد میں تمھارے گھر کبھی نہیں آؤں گا "  شرٹ کا گریبان درست کرتے میک نے لیو کو گھور کر تاسف سے کہا جس پر ڈی نے طنزاً سر جھٹکا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" یہ کیا ہے " 

بک کو بند کر کے بیڈ کے کنارے پر رکھتی آئیذل نے آنکھیں پھیلا کر ریحم کو دیکھا تھا جو ایک باؤل میں کچھ لیکر اندر آئی تھی دروازہ بند کرنا نہیں بھولی تھی

"یہ تمھارے لئے ہے بیٹھو تمھیں فیشل کرتی ہوں"

"کیا کرنا ہے " آئیذل نے اسے متعجب نظروں سے دیکھا تھا ریحم کے گداز ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی 

"یہ فیشل ہے میری معصوم سیدھی سادھی لڑکی تمھاری شادی ہے ناں تو تمھیں اپنی سکن کا خیال رکھنا چاہیے" ریحم نے اسکے معصوم چہرے کو دیکھ کر بھنویں اٹھاتے ہوئے کہا آئیذل نے تاسف سے باؤل کو دیکھ کر سر جھٹکا تھا

"نہیں میں نہیں لگاؤں گی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں"

آئیذل نے اسے ٹالنا چاہا اور بک اٹھا کر بھنویں سکیڑ کر بولی ریحم نے اسکے ہاتھ سے کتاب کھینچ کر اپنے قریب رکھی تھی

"چپ کر کے لگاؤ پتا نہیں کیسی لڑکی ہو تم ،،تمھیں سجنے سنورنے کا شوق نہیں ہے " 

اسکے احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں کو اسکی گود میں رکھتے ہوئے ریحم نے پیشانی پر بل ڈالے مصنوعی غصے کا اظہار کیا تھا جس پر آئیذل نے سرد آہ بھری تھی

"پتا نہیں تم پر ذاویان بھائی کا دل کیسے آ گیا  انکو دیکھا ہے تم نے کتنے ڈیشنگ ہیں اور تم اتنی سادگی میں رہتی ہو کہ اب میں کچھ کہہ کر تمھارا دل نہیں دکھانا چاہتی " اسکے چہرے پر فیشل کرتی ریحم نے شکایت کی آئیذل کی بند آنکھیں کے سامنے اسکا وجیہ چہرہ آیا تھا!!

"مجھے بھی نہیں پتا" وہ دھیمے لہجے میں بول کر ہلکی سی مسکرائی تھی ریحم بھی مسکرائی تھی

" ہممم ان کیساتھ تمھارا نکاح بچپن میں ہی ہو گیا تھا تم نے کبھی سوچا ہے کیسے گزارے ہوں گے انہوں نے یہ سال تمھارے بغیر "

ریحم کی بات سن کر آئیذل نے سرد آہ بھری تھی ناجانے یہ پندرہ سال کیسے گزار دیئے تھے اسنے اسکے بغیر اسکی یادوں کے سہارے!!

"دیکھو اگر تمھیں کوئی بھی بات کرنی ہو مجھ سے بلا جھجک کر سکتی ہو مجھے اپنی بڑی بہن سمجھ لو ویسے میں اس قابل تو نہیں ہوں میں نے تم سے کبھی بھی اچھا برتاؤ نہیں کیا اب تم جا رہی ہو تو میرا دل بہت اداس ہو رہا ہے میں معافی بھی مانگنا چاہتی ہوں تم سے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے میرا رویہ بہت خراب تھا تمھارے ساتھ لیکن تم نے کبھی مجھ سے بدتمیزی نہیں کی"

"تم بڑی ہو مجھ سے اس لئے معافی کبھی مت مانگنا" اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی آئیذل دھیمی مسکان کیساتھ بولی تھی

"ناز پھوپھو نے بہت اچھی پرورش کی تھی تمھاری کوئی شک نہیں " 

ریحم کا چہرہ چمک اٹھا تھا اتنے صاف دل کی مالک تھی وہ!!

اپنی ماں کا نام سنکر آئیذل نے لب بھینچے تھے ریحم نے اسکے ہاتھ تھامے تھے وہ نظریں جھکائے اپنی ماں کی یادوں میں کھو گئی تھی!!

"ریحم کاش امی میرے ساتھ ہوتی کتنی خوشی ہوتی ناں وہ اور نانو بھی میری شادی دیکھنا چاہتی تھی"  

نظریں اٹھا کر وہ ریحم کو دیکھ کر افسردگی سے بولی تھی ریحم کی آنکھوں میں نمی پیدا ہو گئی تھی انفال بی بی کا نام سن کر!!

"کاش دادی ہمارے ساتھ ہوتی"  اسے تسلی دینے کے بجائے وہ خود آبدیدہ ہو گئی تھی آئیذل نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تھا ریحم کی آنکھوں میں آنسوں چمک رہے تھے مگر آئیذل کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر اسنے جلدی سے آنسوں صاف کر کے اسے گلے لگایا تھا 

" میں تو تمھیں بہت یاد کروں گی مجھے ملنے آتی رہنا "

وہ آنسؤں پی کر رہ گئی تھی آنسوں کا ذخیرہ حلق میں ہی دفن ہی پھنس گیا تھا آئیذل نے دھیرے سے اسکے کندھے پر سر ٹکا کر سر کو جنبش دی تھی 

"اللہ پاک تمھیں ڈھیروں خوشیوں سے نوازیں گے انشاء اللہ ،، بہت خوش قسمت ہو تم آئیذل اتنی محبت کرنے والے ہمسفر بہت کم لڑکیوں کو ملتے ہیں قدر کرنا اس رشتے کی ،، ذاویان بھائی کی!! اور یہ بات تم سے تمھاری بڑی بہن کہہ رہی ہے وعدہ کرو تم اب سے اپنا بھی خیال رکھو گی  "

آئیذل اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا گئی تھی ریحم بھی مسکرائی تھی 

بہت دنوں بعد آئیذل نے کھل کر کسی سے بات کی تھی بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا اس تنہا لڑکی کے دل سے آج!!

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

سیرت نے مایوسی سے پیچھے مڑ کر ذاویان کی جانب دیکھا تھا وہ سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکے پلٹنے پر وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا تھا

"بھیا میں اب بھی نہیں جانا چاہتی میں سب چھوڑ سکتی ہوں بس مجھے دور نہ بھیجیں" لب کاٹتے ہوئے وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اسکے کوٹ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتی رندھی آواز میں بولی ذاویان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اسکی سنہری آنکھوں میں پھیلتی سرخی دیکھ کر وہ جلدی سے اس سے الگ ہوئی تھی

"بچے بس کچھ دن اسکے بعد میں خود آپکو لینے آؤں گا"

اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھام کر وہ مہر آمیز نظروں سے اسے دیکھ کر گویا ہوا

"مجھے پتا ہے بھائی آپ اپنی سیرت کے بغیر نہیں رہ سکتے" اسکے ہاتھ کو تھامتی وہ شبنمی آنکھوں سے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھ کر مسکرائی تھی

"We will keep in touch as soon as I find those people I will come to pick you up myself Princess"

("ہم رابطے میں رہیں گے جیسے ہی مجھے وہ لوگ ملیں گے میں خود آپکو لینے آؤں گا شہزادی")

 اسکی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے کہا تھا سیرت نے پرسکون نظروں سے اسے دیکھ کر اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھ کر سر ہلایا تھا

" بہت مس کروں گی میں آپکو"

اسکے ہاتھ کو چھوڑتی وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی ذاویان کا دل کھینچتا چلا گیا تھا جیسے جیسے وہ ایئرپورٹ کی طرف بڑھ رہی تھی

بہت مشکل سے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا واپس مڑ گیا تھا

"بھائی"

ذاویان جاتے ہوئے پیچھے مڑا تھا وہ مسکراتے ہوئے بھاگتی ہوئی ایک نازک سا گلاب کا  پھول اٹھائے اسکے پاس آئی تھی 

"I Love You So Much "

وہ مبہم سا مسکرایا تھا اس کے ہاتھ سے وہ چھوٹا سا پھول لیکر!!

"I Love You Too Princess"

وہ محبت سے اسے سینے میں بھینچتے ہوئے بولا تھا اسے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ دیکھتی  اندر ہی اندر وہ بھاری ہوتے دل کیساتھ فلائٹ کے ٹیک آف کرنے کی اپڈیٹ سن کر تیز قدموں کیساتھ اپنا بیگ لئے اندر داخل ہو گئی تھی ذاویان نے افسردگی سے اسکے دیئے ہوئے پھول کو دیکھا تھا جو سیرت کی طرح نازک اور حساس لگ رہا تھا تیز ہوا کی وجہ سے اسکی نازک پنکھڑیاں اس سے جدا ہونے کی کوشش کر رہی تھی 

 سنہری آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی تھی وہ ستاروں بھرے آسمان کو سنجیدگی سے دیکھ کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا

سکارف درست کر کے وہ فلائٹ میں داخل ہوئی تھی اپنی سیٹ ڈھونڈ کر وک سرد آہ بھر کر

 اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی آنکھوں میں ڈھیروں نمی تھی سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اسنے گلاس ونڈو سے باہر دیکھا تھا فلائٹ ٹیک آف کر رہی تھی اسکا دل بیٹھتا جا رہا تھا کتنی مشکل سے وہ اپنی فیملی کے پاس واپس آئی تھی اور اب اسے مجبوراً واپس جانا پڑ رہا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

(برطانیہ):-

رات بارہ بجے وہ ایئرپورٹ پر پہنچی تھی ائیرپورٹ پر لوگ اپنے پیاروں کے استقبال کے لئے موجود تھے لگیج ساتھ دھکیلتے ہوئے وہ آس پاس دیکھتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی 

"مجھے پک کرنے تو کوئی نہیں آیا ہو گا خود ہی ٹیکسی سے جانا پڑے گا لیکن رات کے بارہ بجے ٹیکسی کیسے ملے گی" 

ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھتی سیرت نے مایوسی سے کہا یہاں کا موسم اس قدر سرد تھا کہ اسے بلیک ونٹر اوور کوٹ اور گلوز  میں بھی ٹھنڈ لگ رہی تھی!!

"اہممم"

سیرت کے کان کھڑے ہوئے تھے کیا اسنے جانی پہچانی آواز سنی تھی حیرت و مسرت کے ملے جلے تاثرات کیساتھ وہ پیچھے پلٹی تھی بلیک  پینٹ پر بلیک سوئیٹر اور بلیک اوور کوٹ پہنے وہ جاذب نظر اسکے قریب بڑی متانت سے دونوں ہاتھ رگڑتے ہوئے رکا تھا

"تم "

سیرت نے چونک کر اسے دیکھا تھا 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 لو جی عسکری صاحب آ گئے پیچھے پیچھے کوئی ذاویان کو بتا دو بس جا کر اب !!

"اہممم"

"آپکو کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی ڈیڈ میں  بچہ تھوڑی ہوں آ جاتا!! جی میں جانتا ہوں لیکن اس وقت آپکو یہاں اتنی سردی میں نہیں آنا چاہئے تھا"

سیرت کے کان بےیقینی سے کھڑے ہوئے تھے کیا اسنے جانی پہچانی آواز سنی تھی حیرت و مسرت کے ملے جلے تاثرات کیساتھ وہ پیچھے پلٹی تھی بلیک پینٹ پر بلیک سوئیٹر اور بلیک اوور کوٹ پہنے وہ جاذب نظر اسکے قریب بڑی متانت سے دونوں ہاتھ رگڑتے ہوئے رکا تھا!!

"تم "

سیرت نے چونک کر اسے دیکھا تھا جانی پہچانی نسوانی آواز سن کر وہ بےساختہ اسکی جانب متوجہ ہو گیا تھا سیرت چہرے پر حیرانی و تعجب کے آثار سجائے اسے دیکھے جا رہی تھی 

" مس سیرت آپ یہاں"

وہ متحیر نگاہوں سے اسکے ٹھنڈ سے سرخ پڑتے رخساروں کو دیکھ کر گویا ہوا تھا سیرت کی پیشانی پر آڑھی ترچھی لکیریں ابھری تھی

"تم میرا پیچھا کرتے ہوئے آئے ہوں ناں یہاں"

بھنویں سکیڑ کر اسے پھاڑ کھانے والی نظروں سے گھورتی وہ دبی آواز میں دانت پیس کر بولی اس کے الگ پڑنے پر ایک تمسخر بھری مسکراہٹ اسکے لبوں کے کناروں کو چھو کر گزر گئی تھی کتنا سکون ملتا تھا اسے تپا کر حدید رضا عسکری کو!! 

"اتنی بڑی خوش فہمی،،  مس سیرت کہ ۔۔۔میں ۔۔۔۔ یہاں آپکے پیچھے آیا ہوں۔۔ جتنی حیران آپ اسوقت ہیں اس سے زیادہ تعجب مجھے ہو رہا ہے آپکو یہاں دیکھ کر ۔۔ میں آپکے پیچھے برطانیہ آؤں گا ۔۔۔سیریئسلی ؟"

ایک آئی برو اٹھا کر اسنے طنزیہ لب و لہجے میں کہا سیرت نے خجل نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر لگگیج کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھنے لگی وہ 

ایک قدم بڑھا کر اسکے راستے میں حائل ہو چکا تھا سیرت کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"اب تم کہو گے میں غلطی سے تمھارے سامنے آ گیا" 

 اب کی تمسخر بھری نظروں سے اسکے بےحد وجیہ چہرے کو دیکھتی سیرت نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی تھی

"میں چھوڑ دیتا ہوں کہاں جانا ہے آپ نے،، اسوقت اکیلے جانا مناسب نہیں"

اسنے سادہ سے لہجے میں کہا تھا مگر سیرت کو وہ اب بھی 

زہر ہی لگا تھا!!

"ہاہ!! مجھے نہیں چاہیے تمھاری لفٹ میں کونسا تمھیں جانتی ہوں تمھارے ساتھ جانا یا ٹیکسی میں جانا برابر ہے لیکن میں اپنے آپ جا سکتی ہوں میرا بچپن یہاں گزرا ہے بیلفاسٹ میرا شہر ہے"

سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹتی وہ متکبر انداز میں بولی اسکے سفید رنگت خوبصورت ہاتھوں کو غائر نگاہ سے دیکھنے کے بعد وہ قدرے سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھ گیا 

"جیسا آپ مناسب سمجھیں مس سیرت اگر آپکو اب بھی مجھ پر بھروسہ نہیں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا" 

وہ کندھے اچکاتے ہوئے اپنا لگگیج ساتھ گھسیٹتے فون پر انگلیاں سکرول کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا سیرت نے زہر کند نظروں سے اسکی چوڑی پشت کو گھورا تھا کیا وہ واقعی اسے یہاں اکیلے چھوڑ کر جا رہا تھا؟؟

"آپ اب بھی میری مدد درکار ہے تو میں حاضر ہوں ہیں مس سیرت "

 وہ بغیر مڑے سنجیدگی سے گویا ہوا سیرت نے دانت پیس کر اسے دیکھا تھا اور لگگیج گھسیٹتے ہوئے اسکی جانب بڑھ گئی تھی

"مجھے ایک کال کرنی ہے اپنا فون دے دو اور تب تک یہ سنبھالو"

اسنے تاسف سے سیرت کو دیکھا تھا جو اسے اپنا لگگیج اٹھانے کا کہہ رہی تھی اسکے دیکھنے پر سیرت نے معصومیت سے آنکھیں جھپک کر دونوں ہاتھوں کو بلیک کوٹ کی جیبوں میں اڑسایا تھا کیا تھی وہ لڑکی!!

وہ سرد آہ بھر کر اپنا فون اسکی جانب بڑھا کر اسکا سامان بھی اپنے ساتھ لے چکا تھا سیرت کے ہلکے گلابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی نمبر ڈائل کر کے وہ اسکے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے خارجی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی

"اوکے شکریہ روز میں ویٹ کر رہی ہوں تمھارا" کال منقطع کر کے سیرت نے فون اسکی جانب بڑھایا تھا جسے سنجیدگی سے لیا تھا اسنے!!

دونوں خاموشی اختیار کئے ساتھ چل رہے تھے سرد و تند ہوا چل رہی تھی حدید نے سنجیدگی سے اسکے شارٹ کٹ بالوں کو ہوا میں رقص کرتے دیکھا تھا نظریں سامنے مرکوز کئے وہ سادہ سی چال چل رہی تھی

 وہ متانت سے اسکے ساتھ چلتے ہوئے ایئرپورٹ کے خارجی دروازے پر رکا تھا سیرت نے متفکر نظروں سے  رک جانے پر اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا

"ڈیم"

اسکے دھیمے لہجے میں بڑبڑانے پر سیرت نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا تھا جو تاسف سے سرد آہ بھر کر پلٹا تھا 

"کیا ہوا"

"معزرت لیکن مجھے جانا ہو گا "

سیرت کے لگگیج کو اسکی جانب بڑھاتے ہوئے وہ عجلت سے گویا ہوا سیرت نے چونک کر اسے دیکھا تھا کوٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے  وہ خارجی دروازے سے باہر نکلا تھا سیرت کی نظر سامنے دروازے پر پڑی تھی جہاں میڈیا کا ایک جھرمٹ اسکے باہر آنے پر اسکی طرف لپکا تھا

"اففف اتنی اٹینشن!! میں کیسے بھول گئی مسٹر برطانیہ کے ٹاپ ریٹڈ انفلیواینسر پلس بزنس ٹائیکون ہیں "

سیرت  دلچسپی سے اسے میڈیا سے گردن بچا کر نکلتے دیکھ کر بڑبڑا کر رہ گئی تھی سیکیورٹی گارڈز میڈیا کو اس سے مناسب فاصلے پر روکے ہوئے تھے وہ پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے متانت سے کیمراز کی فلیش لائٹس میں اپنی وجاہت سے بھرپور شخصیت کیساتھ وہاں سے بےنیازی سے پارکنگ لاٹ کی طرف واک آؤٹ کر گیا تھا

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ارے آئیے ناں اشفاق احمد صاحب"

اشفاق صاحب جو اسے آفس میں دیکھ کر دروازہ بند کر کے واپس جانے کے لئے پلٹ رہے تھے اسکے استہزائیہ لہجے پر رک گئے تھے اپنی چیئر سے کوٹ اٹھا کر بازو پر پھیلا کر وہ متانت سے چلتے ہوئے انکے روبرو آ کر ٹھہرا تھا

"فرصت مل گئی آپکو یہاں آنے کی ارے مجھے تو حیرت ہے آپ اور آپکی بیٹی اتنی انسلٹ کے بعد بھی واپس آ گئے"

پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ طنزیہ لب و لہجے میں بولا تھا اشفاق صاحب نے مٹھیاں بھینچی تھی

"میری بیٹی اسوقت جس حالت میں اسکے ذمہ دار صرف تم ہو ۔۔۔۔ کیا دیکھی ہے اسکی حالت تم نے" اشفاق صاحب کے ہونٹ پھڑک اٹھے تھے کاٹدار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ گرجدار لہجے میں بولے

"اچھا کس حالت میں ہے آپکی بیٹی مجھے اسے دیکھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا ابھی تک لیکن آپ کہہ رہے ہیں تو دیکھ لیتا ہوں اپنی ایکس منگیتر کو"

تمسخر بھری نظروں سے اشفاق صاحب کا سرخ پڑتا چہرا دیکھ کر وہ زہریلے لہجے میں بولا اشفاق صاحب کی آنکھیں غیض و غضب سے سرخ پڑ رہی تھی 

 "میری بیٹی کے بارے میں بکواس مت کرنا "

اشفاق صاحب آتش فشاں کی طرح پھٹنے کو تیار تھے

"کیوں ایکس سسر جی آپ اب تک خفا ہیں اپنے ایکس داماد سے"

ایک قدم آگے بڑھا کر وہ استہزائیہ لہجے میں بولا اشفاق صاحب کا ضبط جواب دے رہا تھا مگر وہ کرتے بھی تو کیا کرتے!!

 "آپکی بیٹی سے ملاقات ہی نہیں ہوئی لیکن اب گھر جا رہا ہوں جاتے ہی سب سے پہلے فرصت سے ملاقات بھی کر لوں گا غور سے دیکھ بھی لوں گا امید پے آپکو اعتراض نہیں ہو گا "

انکی شرٹ کا گریبان درست کر کے وہ ایک آئی برو لفٹ کر کے بےباکی سے کہہ کر باہر نکلا تھا

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"روز تم کہاں جاب کر رہی ہو آج کل"

سیٹ بیلٹ لگا کر سیرت نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی روز کو دیکھ کر پوچھا

"وہ تو سرپرائز ہے میں تمھیں اپنے بارے میں سب بتاؤں گی لیکن پہلے تم بتاؤ کیسی ہو اور تم نے بتایا نہیں کہ ہمارے باقی گروپ میمبرز کیسے ہیں علیشہ ،، سیم ،، وغیرہ"

 گاڑی سٹارٹ کرتی روز نے پُرمسرت لہجے میں استفسار کیا لیکن سیم کا نام سن کر ہی سیرت کی آنکھوں سے چمک ندارد ہو گئی تھی

"سب ٹھیک ہیں "

مختصر سا جواب دیکر سیرت نے روشنیوں میں نہائی آسمان کو چھوتی بلڈنگز کو جاذبیت سے دیکھا تھا 

"تمھارا فون سوئچ آن ہو چکا ہے ذی بھائی کو اطلاع کر دو وہ پریشان ہوں گے "

"ہمم"

چارجر سے فون نکال کر اسنے ذاویان کو میسج کیا تھا سکرین پر چمکتی کال کی ناٹیفیکشنز دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی تھی علیشہ کی بیس مس کالز آ چکی تھی علیشہ کا نمبر ڈائل کر کے وہ بےصبری سے  کال پک ہونے کا انتظار کر رہی تھی مگر اسے ڈھیروں مایوسی ہوئی کیونکہ اسکا فون سوئچ آف تھا

"کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو"

روز نے فکرمندی سے استفسار کیا مگر وہ لب بھینچ کر سر کو نفی میں ہلاتی علیشہ کے گھر کی لائن پر فون کرنے لگی مگر کسی نے بھی فون اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی

روز نے گاڑی اسکے ایڈریس پر روکی تھی 

"کاش کچھ غلط نہ ہوا ہو میرا دل بہت گھبرا رہا ہے" 

گاڑی سے اتر کر سیرت نے مہر آمیز نظروں سے اس چھوٹے مگر خوبصورت مکان کو دیکھا تھا جہاں اسنے بچپن گزار دیا تھا گھر کے سامنے وہ چھوٹا سا گارڈن آج بھی چنبیلی کے پھولوں سے مزین تھا سیرت پھولوں کی ہلکی مہک کو محسوس کر کے ہلکی سی مسکرائی تھی 

"تم بھی چلو ناں بی جان بہت خوش ہوں گی "

روز کی جانب مڑتی وہ مسکرا کر بولی

"نہیں سیرت پھر کبھی آؤں گی ابھی تو بہت لیٹ ہو گیا ہے تم بھی آرام کرو اور یہ نمبر کس کا تھا جس سے تم نے مجھے اطلاع کی تھی"

روز نے گاڑی سٹارٹ کی تھی سیرت جلدی سے اسکے پاس آئی تھی

"مجھےوہ نمبر نوٹ کرنے دو"

"ہاں کیوں نہیں" 

"شکریہ روز اسوقت وہ بھی اتنی ٹھنڈ میں مجھے پک کرنے آئی تم "

روز نے اپنا فون اسکی جانب بڑھایا تھا سیرت نے نمبر لکھ کر تشکر بھرے لہجے میں کہا جس پر وہ ہلکی مسکان سیرت کے حوالے کر کے گاڑی کو سٹارٹ کر کے وہاں سے لیجا چکی تھی

ڈور بیل بجاتے ہوئے اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا کتنے وقت بعد آئی تھی وہ اپنی بی جان کے پاس!!

"کون ہے"

اندر سے دھیمی مگر شفقت سے بھرپور آواز سنائی دی تھی سیرت کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا

"بی جان میں سیرت ہوں"

آنکھوں میں نمی سی ابھری تھی یہ کہتے ہوئے!!

دروازہ کچھ سیکنڈ بعد کھل چکا تھا سیرت نے نم آنکھوں سے بی جان کو دیکھا تھا جن کی  بجھی بجھی آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی چمک ابھر آئی تھی انکے ہاتھ تھامتی لبوں سے لگانے کے بعد وہ انہیں گلے لگا گئی

"سیرت!! ۔۔میری۔۔۔ میری بچی کیا یہ تنہا ضعیفہ خواب دیکھ رہی ہے میری بچی میرے پاس واپس آ گئی ہے میری سیرت "

خوشی و مسرت سے انکے ضعیف ہاتھ کانپ گئے تھے بی جان نے بےیقینی سے اسکا چہرہ تھام کر دیکھا تھا وہ حقیقت میں انکے پاس آ گئی تھی انکی آنکھوں میں نمی تھی سیرت انکی محبت سمیٹنے کے لئے نیچے جھک گئی تھی اسکی پیشانی کو جھک کر بوسہ دیتی وہ آبدیدہ ہو گئی تھی سیرت کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر اسکے گلابی گالوں کو تر کر گئے تھے

"آؤ ۔۔ میری بچی ۔۔۔اندر آؤ باہر سردی ہے"

اسکا ہاتھ محبت سے تھام کر وہ سیرت کو اندر لیکر آئی تھی 

"بیٹا ذاویان نہیں آیا"

بیسمنٹ میں رکھے نرم صوفے پر سیرت کو بٹھا کر وہ چھڑی جس کے سہارے وہ چل رہی تھی ایک جانب رکھتی محبت سے بولی

 "نہیں بی جان لیکن اب مجھے یہاں آ کر برا لگ رہا ہے آدھی رات کو میں ایسے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو گئی ہوں آپ یقیناً آرام کر رہی ہوں گی" سیرت نے افسردگی سے انہیں اپنے قریب صوفے پر بیٹھتے دیکھ کر شائستگی سے کہا سیرت کے ہاتھ تھام کر وہ اب بھی بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی آنکھوں میں ڈھیروں محبت تھی!!

"میرے پاس رہو گی"

اسے حَسرت سے دیکھتی بی جان آرزو سے بھرپور لہجے میں استفسار کرنے لگی

"جی اپنی بی جان کے پاس رہنے آئی ہوں"

انکے جھریوں سے بھرے ہوئے ہاتھوں کو نرمی سے تھام کر وہ مسکرا کر بولی تھی بی جان مسکرا گئی تھی

"تم نے کچھ کھایا میری بچی میں کچھ بنا کر آتی ہوں"

"ارے نہیں بی جان میں کھانا کھا کر آئی تھی بھوک نہیں ہے آپ اسوقت پریشانی نہ اٹھائیں آپ بس میرے پاس بیٹھیں مجھے بہت ساری باتیں کرنی ہیں آپ سے"

بی جان کے ہاتھ محبت سے  تھام کر انکو روک کر سیرت انکی گود میں سر رکھ کر بولی بی جان کی آنکھیں آنسوں سے چمک رہی تھی اسکے بال سہلاتے ہوئے وہ نم آنکھوں سے مسکرا گئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

یہ بیلفاسٹ کے سب سے لکژری نائٹ کلب کا منظر تھا نائٹ تھیم نی-اون لائٹس نے منظر کو دلفریب اور نفیس بنایا ہوا تھا نازنین چہرے،، چمکدار نائٹ کلب ڈریسنگ میں ملبوس حسینائیں بہت سی نظروں کو جذب کر رہی تھی ریمپ پر بےپرواہی سے ڈانس کرتی حسینائیں بہت سے لوگوں کی نظروں کا مرکز تھی مگر وہاں موجود حسیناؤں کی نظروں کا مرکز وہ دل کو رجھا لینے والی بھوری آنکھیں تھی وہ بےحد وجیہ چہرا تھا 

 فل بلیک فارمل سوٹ میں بار کاؤنٹر کے قریب وہ مستغنٰی نظروں سے وسکی کے گلاس کو دیکھ رہا تھا 

 "ر۔۔رضا لائٹ سوئچ"

"بیوٹیفل" 

"اپنی حد میں رہو ورنہ تمھارا منہ بھی نوچ لوں گی"

وسکی کے گلاس پر گرفت بڑھا کر اسنے پانچواں شاٹ ختم کر کے گلاس کاؤنٹر پر رکھا تھا ایک لڑکی اشتیاق بھری نظروں سے اسے دیکھ کر اسکے قریب والی چیئر پر آ کر بیٹھی تھی اسکے مسک کے پرفیوم کی تیز مہک آنے پر اسنے سنجیدگی سے سر جھٹکا تھا وسکی کا چھٹا گلاس اٹھا کر اسنے لبوں سے لگایا تھا

"Why are you drinking so much, handsome, if life is colorless, let me color it"

("اتنا کیوں پی رہے ہو ہینڈسم!!، زندگی اگر بے رنگ ہے تو مجھے رنگ دینے دو)

اسنے وسکی کے گلاس کو سختی سے تھاما تھا وہ لڑکی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکی شرٹ کا کالر پکڑ کر اپنی جانب کھینچ کر مدہوشی کے عالم میں بڑبڑائی تھی

"Remove your hands and get Lost"

("اپنے ہاتھ ہٹاؤ اور دفع ہو جاؤ")

اسے ہاتھ لگانے سے بھی گھن محسوس کر کے اسنے برفیلے لہجے میں کہہ کر وسکی کا گلاس کاؤنٹر پر رکھا تھا وہ لڑکی اسکے وجیہ چہرے کو رشک بھری نظروں سے دیکھ کر دوسرا ہاتھ بھی اسکے سینے پر رکھ چکی تھی

"Hadid Raza Askari, how cruel you are!! , do me a favor for one night ۔۔ Just for tonight"

("حدید رضا عسکری، تم کتنے ظالم ہو!!، مجھ پر ایک رات کا احسان کرو بس آج رات کے لیے")

اسکی ہلکی تراشیدہ بیئرڈ پر ہاتھ رکھ کر وہ لڑکی خمار آنکھوں سے اسکی بھوری آنکھوں کو دیکھ کر بڑبڑائی اسکے ہاتھ کو اپنے سینے سے ہٹا کر اسنے کراہت سے جھٹکا تھا وہ بیزاریت سے اسکے ہاتھ کو پکڑتی دوبارہ اسکے قریب ہوئی تھی اسکی ڈریسنگ سے ہی اسکی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے تھے سلیو لیس وینیلا کلر کے سلک کے چمکیلے گھٹنوں تک آتے ڈریس میں جس کا وی نیک گلا کافی دیپ تھا بیک لیس ہونے کی وجہ سے اسکی دودھیا رنگت کمر واضح نظر آ رہی تھی اسکے تیز مسکی پرفیوم کی مہک اسکے ذہن کو صلیب رہی تھی

How leisurely God has made you, these deep brown eyes, these sharp lips, this sharp nose. This light beard Damnn ...This cruel handsomeness and your arrogant attitude enslaves every girl who catches a glimpse of you ,,How handsome you are, cruel man"

کتنی فرصت سے بنایا ہے رب نے تمہیں، یہ گہری بھوری آنکھیں، یہ تیز ہونٹ، یہ تیز ناک۔ یہ ہلکی داڑھی ۔۔۔اففف... یہ ظالمانہ خوبصورتی اور آپ کا متکبرانہ رویہ ہر اس لڑکی کو اپنا غلام بنا لیتا ہے جو آپ کی ایک جھلک دیکھتی ہے، آپ کتنے حسین ہیں ظالم انسان"

خمار آلود لہجے میں بڑبڑا کر اسکے مظبوط ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھ کر وہ اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسکے لبوں کی جانب پیش رفت کر گئی تھی

"کیا ہوا سچ سن کر غصہ آ گیا ۔۔  تم جیسے امیر زادے تو روز نئی لڑکی کیساتھ ہوتے ہیں اور اتنے پارسا بن کر گھومتے ہیں جیسے ان کے جیسا پرہیزگار کوئی نہیں"

 سیرت کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے ایک سیکنڈ کے لئے آیا تھا اس لڑکی کو بےحد سختی سے دور جھٹک کر وہ پیچھے ہٹا تھا وہ لڑکی خجل نظروں سے اسے دیکھ کر کاؤنٹر پر ہاتھ رکھ کر گرنے سے خود کو بچا گئی کلب میں موجود ہر ایک فرد کی نظریں اس پر تھی کتنی بےدردی سے اسنے اس لڑکی کو جھٹکا تھا نفرت سے سر جھٹک کر وہ کاؤنٹر پر کیش پھینک کر ریمپ سے گزر کر باہر کی جانب بڑھ گیا تھا

"ڈیم اٹ یہ میں نے کیا کر دیا اتنا اوور ری ایکٹ " 

اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر اسنے پیشانی کو مسلا تھا 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 ہاتھوں کو موئسچرائزر لگاتی سیرت نے اچھنبے سے کھڑکی کی طرف دیکھا تھا جہاں سے کچھ گرنے کی آواز آئی تھی موئسچرائزر سٹینڈ پر رکھ کر وہ اٹھ کر کھڑکی کے قریب آئی تھی کھڑکی کھول کر اسنے نیچے دیکھا تھا 

"آہہہ۔۔۔مممم"

اسکی آنکھوں میں نمی جاگ اٹھی تھی کھڑکی سے اندر کود کر اچانک کسی نے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسکی چیخ کا گلہ گھونٹا تھا

"ممممم۔۔۔ممممم"

اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے لبوں سے وہ ہاتھ ہٹانے کی تگ و دو میں تھی 

"Sssh Be Quite"

وہی بھاری گمبھیر آواز سن کر سیرت کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے سارے احتجاج بھول کر وہ کسی لاش کی طرح ساکت ہو گئی تھی

"How dare you leave without paying me. What do you think, silly girl, that I will leave you like this without payment"

("تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بغیر معاوضہ دیئے چھوڑ کر جانے کی ، تمہیں کیا لگتا ہے، پاگل لڑکی، کہ میں تمہیں بغیر معاوضے کے اس طرح چھوڑ دوں گی۔"

اسکے لبوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ اسے دیوار سے پن کرتے ہوئے برفیلے لہجے میں بولا سیرت نے کاٹ کھانے والی نظروں سے ان سرخ آنکھوں کو دیکھا تھا

"fool .. I asked my friend to pay, but you followed me to Britain with your ugly face"

"بے وقوف .. میں نے اپنے دوست سے رقم ادا کرنے کو کہا، لیکن تم نے اپنے بدصورت چہرے کے ساتھ میرا برطانیہ تک پیچھا کیا"

پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے سیرت اچاٹ لہجے میں بولی جاذبیت سے اسنے سیرت کو بلیک نائٹ روب میں دیکھا تھا اسکی نظروں کو اپنا جائزہ لیتے دیکھ کر سیرت کا چہرہ سرخ پڑا تھا

"Youuuu !!! ? Stop staring at me like that"

"تممممممم !!!؟ مجھے ایسے گھورنا بند کرو"

اپنے ویلوٹ کے نائٹ روب پر نظر پڑنے پر سیرت خجل ہو کر اسے پیچھے دھکا دیکر دانت پیس کر بولی اکتاہٹ کیساتھ آنکھیں گھما کر وہ پیچھے پڑے بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا سیرت نے حیرت سے اسے دیکھا جو بےنیازی سے اسکے کمرے کا جائزہ لے رہا تھا 

"Get up from my bed... What A Psycho You're....Get Out ... You will get your money by tomorrow, leave my house right now"

("اٹھو میرے بستر سے... کیا ایک سائیکو ہو تم.... باہر نکلو... تمہیں کل تک تمہارے پیسے مل جائیں گے، ابھی میرا گھر چھوڑو")

اسے باہر کی راہ دیکھاتی سیرت چونکی تھی وہ سنجیدگی سے اٹھ کر اسکی جانب بڑھا تھا سیرت نے بےاختیار قدم پیچھے لئے تھے اسکے دائیں بائیں دیوار پر ہاتھ رکھ کر وہ اسکے چہرے پر جھکا تھا

"Clair de Lune ..., I don't need to be honored with titles ...And what can I do with you at this time, you can't even think because I am a person with a very bad mentality, you are not aware of me."

"چاندنی!! مجھے القابات سے نوازنے کی ضرورت نہیں...اور میں اس وقت آپ کے ساتھ کیا کر سکتا ہوں، آپ سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ میں بہت بری ذہنیت کا آدمی ہوں، میری ذات سے واقف نہیں آپ "

اسکے نائٹ روب کو بیوٹی بون پر درست کرتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا سیرت کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا 

"Next time don't wear such clothes otherwise I am not responsible for the results"

("اگلی بار ایسے کپڑے مت پہننا ورنہ میں نتائج کا ذمہ دار نہیں ہوں")

اسکے سرخ پڑتے رخسار کو انگوٹھے سے چھو کر وہ کھڑکی کی جانب بڑھا تھا سیرت نے تھوک نگل کر اسے نیچے اترتے ہوئے دیکھا تھا ایک منٹ میں ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا

"گھٹیا شخص کل سارے پیسے تمھارے منہ پر ماروں گی بےوقوف جاہل انسان "

آتش فشاں بنی سیرت نے کھڑکی بند کرتے ہوئے تنک کر کہا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" بس تھوڑا سا اور"

لائبریری کی شیلف سے بک نکالتی آئیذل نے ایڑھیاں اٹھائی تھی کتاب سے انگلیاں ٹچ ہونے پر وہ خود کی حوصلہ افزائی کرتی مزید ایڑھیاں اٹھا گئی تھی لائبریری کی داہنی جانب چیئر پر بیٹھے ذاویان کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیلی تھی آئیذل کے براؤن بال اسکی کمر پر آبشار کی طرح پھیلے ہوئے تھے سنہری درخشاں آنکھوں نے جاذبیت سے ان ریشمی بالوں کو لہراتے ہوئے دیکھا تھا بک میں نشانی چھوڑ کر ٹیبل پر رکھ کو وہ متانت سے اٹھ کر اسکی جانب بڑھا تھا

"رکیں لمظ"

اسکی بھاری گمبھیر آواز سن کر کتاب تک پہنچتا آئیذل کا ہاتھ ساکت ہوا تھا اسکی کرامتی مردانہ کلون کی مہک نے آئیذل کو اپنی پناہوں میں لیا تھا پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتی ہوئی وہ ایک قدم پیچھے ہو کر اسکے چوڑے سینے سے لگتی ساکت ہو کر رک گئی تھی 

"بس ایسے ہی کھڑی رہیں میرے قریب"

اسکے کان کر قریب بھاری سرگوشی کی گئی تھی!!

آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اسکے بےحد قریب آکر ٹھہرتے ذاویان نے ہاتھ بڑھا کر کتاب پر رکھا تھا

"کیا یہ والی"

آئیذل کی جانب سر جھکائے اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے استفسار کیا آئیذل نے سر اٹھا کر خود پر جھکے ذاویان کی جانب دیکھا تھا سنہری آنکھوں کا بنفشی آنکھوں سے ٹکراؤ ہوا تھا!!

 اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھ کر آئیذل نے سر کو دھیرے سے خم دیا تھا اسکے ہاتھ میں بک تھما کر وہ ایک قدم پیچھے ہٹا تھا تاکہ وہ پیچھے ہو سکے آئیذل نظریں جھکائے ہلکی مسکان لبوں پر سجائے باہر نکل گئی تھی پیر پٹختی رباب لائبریری کے دروازے سے لیکچر ہال کی طرف مڑ گئی تھی  

ڈائس کے قریب ٹھہری وہ کلاس کی اٹینڈینس لگانے میں مصروف تھی 

 بےبی پنک کلر کے سوئنگ ڈریس جسکے فلاونس فل سلیوز تھے وائٹ سکنی ٹراؤزر میں بالوں کا رف سا جوڑا بنائےوہ آج کافی منفرد لگ رہی تھی ورنہ سب نے آج تک اسے سادہ ڈریسنگ میں ہی دیکھا تھا رباب اپنی بکس سمیٹ کر اسکی جانب پیش رفت کر رہی تھی 

"چلو ناں مجھے بھوک لگی ہے"

حورم نے تاسف سے آئیذل کو اٹینڈینس رجسٹر کا ورک پلٹتے دیکھ کر سرد آہ بھر کے کہا تھا 

"بس پانچ منٹ میری جان"

پین اٹھا کر عجلت سے کہہ کر آئیذل دوبارہ رجسٹر کی طرف متوجہ ہو گئی تھی حورم نے دونوں ہاتھوں کو اکتاہٹ کیساتھ اٹھا کر واپس گھٹنوں پر رکھا تھا رباب طعنہ تشی پر اترنے ہی والی تھی جب ڈائس پر رجسٹر کے قریب پڑا آئیذل کا فون بجنے لگا تھا حورم نے سر اٹھا کر اسکے فون کی سکرین پر چمکتا نام "پروفیسر" دیکھا تھا اور ہنکارا بھرا تھا رباب نے سرعت سے اسکے فون کو دیکھا تھا رجسٹر بند کر کے آئیذل نے پیپرز پر رکھا تھا فون اٹھا کر کال کنیکٹ کر کے اسنے فون کان سے لگایا تھا حورم نے اسکے کان کیساتھ کان لگانا چاہا جب آئیذل نے اسے جھٹک کر آنکھیں دیکھائی تھی ہنستے ہوئے وہ اسٹیج سے نیچے اتری تھی رباب کا تو دل جل کر رہ گیا تھا 

"I've been waiting for you for the past twenty minutes, baby girl"

(’’میں پچھلے بیس منٹ سے آپکا انتظار کر رہا ہوں بےبی گرل‘‘)

اسکی بھاری دلفریب آواز سن کر وہ مبہم سی مسکرائی تھی رباب نے بھنویں سکیڑی تھی

"Sorry, I was busy, just five minutes. professor"

("معاف کیجئے گا، میں مصروف تھی، صرف پانچ منٹ۔ پروفیسر۔")

"حور تم چلو میں تمھیں کچھ دیر میں کینٹین میں ملتی ہوں"

کال منقطع کر کے فون بیگ میں رکھ کر رجسٹر اٹھا کر وہ رباب کو دیکھ کر حورم کو تنبیہ کرنے کے بعد باہر نکلی تھی حورم نے طنزیہ نظروں سے رباب کا فق چہرا دیکھ کر ہنسی روکی تھی

 ڈین آفس کے دروازے پر ناک کر کے اسنے اجازت مانگی تھی اجازت ملنے پر وہ رجسٹر تھامے اندر داخل ہو گئی تھی چیئر پر بیٹھے شاہان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"اففف آپکی کمی تھی"

پروفیسر شاہان کو سلام کر کے رجسٹر ڈیسک پر رکھ کر وہ دل ہی دل میں بڑبڑا کر رہ گئی تھی ذاویان نے دیوانہ وار نگاہوں سے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا تھا بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا کر اسنے رجسٹر ڈیسک پر رکھا تھا اسکی گلاسز کے عقب میں چمکتی ان سنہری آنکھوں کو دیکھنا نہیں بھولی تھی وہ!!

"مس آئیذل کیا آپ کچھ دیر انتظار کریں گی" 

اسکی جانب دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے کہا تھا آئیذل نے معصومیت سے سر کو ہلایا تھا نچلا ہونٹ دبا کر مسکراہٹ بھانپ کر وہ شاہان کی جانب متوجہ ہوا تھا

"کتنے معصوم بنتے ہیں آپ سب کے سامنے اور ویسے تو حد ہے"

اسے سنجیدگی سے شاہان کو کچھ ایکسپلین کرتے دیکھ کر وہ لب بھینچ کر سوچ رہی تھی شاہان سر ہلا کر اٹھ کر باہر نکل گیا تھا وہ لیپٹاپ بند کر کے ریوالونگ چیئر کا رخ اسکی جانب کر کے ستائشی نظروں سے اسکا بھرپور جائزہ لے رہا تھا

"You know how beautiful this color looks on you." 

"آپکو پتا ہے یہ رنگ آپ پر کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔"

غائر نگاہوں سے اسکا بھرپور جائزہ لینے کے بعد اسکی بنفشی آنکھوں میں براہ راست دیکھ کر دلفریب لہجے میں گویا ہوا تھا 

"کیا یہی کہنے کے لئے آپ نے یہاں بلایا تھا پروفیسر"

سینے پر دونوں بازوں کو الجھا کر باندھنے کے بعد وہ شرارت سے ایک آئی برو اٹھا کر بولی ذاویان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی کہاں سے سیکھ رہی تھی وہ یہ ادائیں!!

"کہنا تو بہت کچھ تھا لیکن "

"لیکن؟؟"

اسے چیئر سے اٹھتے دیکھ کر وہ نچلا لب دبا کر ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے شرارت سے بولی تھی ذاویان نے ایک آئی برو اٹھایا تھا

"اچھا تو پروفیسر ذاویان کی لاڈلی اسسٹنٹ آج پھر مزاق کے موڈ میں ہے"

اسکی جانب ایک قدم بڑھا کر وہ متانت سے گویا ہوا وہ مسکرا کر اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھ گئی تھی

"افسوس یہ مذاق آپکو بہت غلط وقت پر سوجھتا ہے لمظ "

دوسرا قدم اسکی طرف بڑھا کر وہ سرد مہری سے دوبارہ گویا ہوا اب کی بار وہ

لبوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر گئی تھی

"بہت ہنسی آ رہی ہے ناں "

اسکی کمر میں بازو حمائل کر کے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا اسکے بےحد قریب آنے پر آئیذل کا چہرہ پھیکا پڑ گیا تھا مسکراہٹ ایک سیکنڈ میں اڑ گئی تھی 

"دد۔۔دروازہ"

آئیذل نے اسے یاد دِہانی کروا کر لب بھینچے تھے

"مجھے پرواہ نہیں" 

آئیذل نے جھرجھری لی تھی اپنے رخسار پر رینگتی ہوئی اسکی انگشت شہادت کے ٹھنڈے لمس پر!!

"دل تو کر رہا ہے اسی وقت غائب کر لوں ابھی اسی وقت پوری دنیا سے چھپا کر اپنے پاس رکھ لینا چاہتا ہوں  "

آئیذل نے خوفزدہ نظروں سے اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھا تھا جو آنے والے طوفان کی پیشگوئی کر رہی تھی

"ان آنکھوں کو جھکا کر رکھا کریں روحِ قلب!! بہت کیف آور ہیں اور مہلک بھی!! میرے حوش و حواس پر طاری ہو جاتی ہیں کسی نشے کی طرح"

اسکی بنفشی آنکھوں میں جھانک کر وہ بےحد بھاری لہجہ میں بولا

آئیذل نے شرم و حجاب سے نظریں جھکائی تھی

"لیکن اب ان ایمان شکن لبوں کا کیا کروں"

اسکے ہلکے گلابی ہونٹوں کو انگوٹھے سے چھو کر وہ خمار آلود لہجے میں بولا آئیذل نے تھرتھراتی پلکوں کو اٹھا کر اسکی شفاف تاباں آنکھوں کو دیکھا 

"کل نہیں آؤ گی"

اسکے تیکھے نقوش چہرے کو عالم دیوانگی میں باریکی سے دیکھتے ہوئے وہ گمبھیر آواز میں گویا ہوا

"نن۔۔نہیں ممانی آج بھی یونی آنے سے۔۔۔۔ روک ۔۔۔۔رہی تھی "

نظریں جھکائے وہ متذبذب لہجےمیں بولی جس پر ذاویان نے سرد آہ بھری تھی

"میں گھر چھوڑ دیتا ہوں" 

آئیذل کے نظریں اٹھانے پر وہ مہر آمیز لہجے میں بولا 

"نہیں آپ نہیں "

التجائیہ نظروں سے اسکے رعنایت سے بھرپور چہرے کو دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی 

"کیوں نہیں"

اسکے قریب دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جو بڑی مشکل سے اپنے جذباتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوا تھا

"ماموں لے جائیں گے آپ فکر نہ کریں" 

وہ گہرا سانس ہوا کے سپرد کرنے کے بعد ہاتھ ہٹاکر پیچھے ہٹا تھا 

"کیا میں جا سکتی ہوں"

اسکی وجیہ آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا 

" چاہ کر بھی روک بھی نہیں سکتا"

اپنے ڈیسک کی طرف بڑھتے ہوئے اسکے قدم ساکت ہوئے تھے اسنے جاتے ہوئے اجازت مانگ کر اسے گہری نظروں سے دیکھا تھا جس پر وہ پس و پیش لہجے میں بولا تھا

آئیذل  تشف نظروں سے اسے دیکھ کر باہر نکل گئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(𝐇𝐞𝐥𝐞𝐧'𝐬 𝐁𝐚𝐲 𝐁𝐞𝐚𝐜𝐡)-

         (𝐁𝐞𝐥𝐟𝐚𝐬𝐭) 

صبح کاذب کا یہ منظر تھا کڑکڑاتی سردی تھی نہایت سرد ہوا جسم پر کسی تیز دھار کی طرح آ کر لگتی تھی اسکے (چن-لینتھ) ریشمی بال ہوا کے زور پر سست روی سے جھوم رہے تھے دونوں بازوں کو سینے پر لپیٹے وہ بیچ کے کنارے پر دھیمی چال چل رہی تھی اسکا مہرون کلر کا اوور کوٹ ہوا کے باعث لہرا رہا تھا کچھ فاصلے پر اسکا پرس ،، فون اور  مہرون ویج ہیل شوز پڑے ہوئے تھے وہ ننگے پاؤں ٹھنڈی ریت پر بےپرواہی سے چل رہی تھی

بیچ کی لہریں کچھ وقت کے وقفے کے بعد آ کر اسکے سفید پیروں کا طواف کرتی تھی اب بھی ایک ٹھنڈی لہر اسکے پیروں کو بےباکی سے چھو کر نظریں چرا کر واپس لوٹ گئی تھی 

"کتنے پُرسکون ہو ناں تم اور میں اپنی ذات سے بھی خوش نہیں ہوں کبھی کبھی مجھے زندگی سے بیزاری سی محسوس ہوتی ہے ،، بھلا یہ بھی کوئی ذندگی ہوئی ؟؟ دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلی جاؤں لیکن پھر سوچتی ہوں کیا فایدہ؟؟ اپنی ذات سے تو نظریں نہیں چرا سکتی!! چاہے دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ چلی جاؤں"

بیچ کے شفاف پانی کو دیکھتی وہ منہمک لڑکی خود سے ایسے ہم کلامی کر رہی تھی جیسے اسکی ذات کے علاؤہ کوئی اسکا ہم راز نہ تھا!!

"اب کسی سے بحث کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا لگتا ہے اپنی حساسیت کھو چکی ہوں کسی بھی بات پر خود کو غلط قرار دے کر  بات کو ختم کرنا مناسب سمجھتی ہوں ،، ہم انسان کتنے نادان ہوتے ہیں نہ سکون کی تلاش میں اکثر ان راستوں کو اپناتے ہیں جو مزید بَے سکونی کی وجہ بنتے ہیں" ساحل سمندر پر اٹھتی پانی کی لہر دیکھ کر وہ الجھ کر بولی تھی کتنی بیزاریت تھی اسکی آواز میں،، آرزو کے ننھے ننھے دیئے اب تک اسکی آنکھوں کے کسی کونے میں روشنی بکھیرنے کی تمنا رکھتے تھے مگر وہ مجبور تھی کون جانتا تھا وہ لڑکی کن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچی تھی!!

 آنکھوں میں اُمنڈتے ہوتے آنسوں نے اسکا منظر دھندلا دیا تھا انگلیوں کے پور سے آنسوں صاف کر کے وہ بےحد بھاری دل کیساتھ واپس لوٹ آئی تھی سکون کی تلاش میں آئی اس لڑکی 

کو بےسُکونی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا تھا!!

         ❥❥"  𝒞𝓇𝓎𝒾𝓃𝑔 𝒶𝓁𝑜𝓃𝑒 𝒹𝑜𝑒𝓈 𝓃𝑜𝓉 𝓈𝒽𝑜𝓌 𝓉𝒽𝒶𝓉 𝓎𝑜𝓊 𝒶𝓇𝑒 𝓌𝑒𝒶𝓀 𝒷𝓊𝓉 𝒾𝓉 𝓈𝒽𝑜𝓌𝓈 𝓉𝒽𝒶𝓉 

                                         𝓎𝑜𝓊 𝓉𝑜𝑜 𝒽𝒶𝓋𝑒 𝑒𝓂𝑜𝓉𝒾𝑜𝓃𝓈."!!  ❥❥۔  

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں"

کال منقطع کر کے وہ کچن سے بریک فاسٹ کی ٹرے تھامے متوازن چال چلتی ہوئی لابی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اسکے کمرے کے دروازے کے قریب رکی تھی تعصُبانہ نظر اسنے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تھا واش روم کے بند دروازے کو دیکھ کر ایک شریر مسکراہٹ اسکے لبوں پر بےاختیار بکھری تھی 

کاؤچ پر پڑے اسکی بلیک شرٹ دیکھ کر وہ استہزائیہ نظروں سے واش روم کے بند دروازے کو دیکھ گئی تھی کلک کی آواز کیساتھ دروازہ کھلا تھا لبوں کو بھینچ کر اسنے مسکراہٹ چھپائی تھی وہ ساکت ہوا تھا اسے دیکھ کر!!

 چاہت کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو کر رہ گئی تھی 

 اسکی آنکھوں نے بےحیائی کا جیسا جامع پہن لیا تھا نظریں ہنوز وہیں کی وہیں تھی  ریاضت سے ترتیب و تشکیل پایا گیا کسرتی بدن!!  دل آویز سکس پیکس جان فشانی سے عمل میں لائے گئے تھے وہ جسمِ مثالی دیدہ زیب ہونے کے علاوہ گردن کی دائیں جانب سپیریچوئل عقاب کا ٹیٹو ایمان شکن بھی تھا!

حلق کے مقام پر گلٹی ابھر کر معدوم ہو گئی چہرہ تمتما اٹھا تھا نظروں میں ابھرتے ستائش کے آثاروں کو اسنے نظریں پھیر کر چھپایا تھا

  وہ غضب ناک نظروں سے اسے دیکھ کر کاؤچ سے شرٹ اٹھا کر پہن رہا تھا 

"وہ مماں نے کہا تھا آپکو ناشتہ دینے کے لئے وہ خود شادی کی شاپنگ کر لئے گئی ہیں کچھ ضروری سامان رہ گیا تھا میں انکے کہنے پر آئی تھی مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ"

اسے شرٹ کے بٹن بند کرتے دیکھ کر لبوں کے کناروں سے پھیلتی مسکراہٹ کو مزید گہرا ہونے سے روکتے ہوئے وہ جلدی سے بولی

"مجھے بھوک نہیں یہ اٹھا کر باہر نکلو"

بازوں کے کف لنکس درست کرتے ہوئے اسنے بغیر دیکھے سنجیدگی سے کہا 

"جیسا آپکو بہتر لگے"

درزدیدہ نظر سے اسے دیکھنے کے بعد وہ دھیمے لہجے میں کہہ کر ناشتے کی ٹرے اٹھائے باہر نکل گئی تھی

"افففف ظالم نے باہر نکال دیا"

باہر آ کر اسنے آنکھیں گھما کر کہا تھا 

"ہیں مستِ بادہِ حُسنِ صَنَم کیا رُخ کریں سُوئے میخانہ

نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ"

نچلا ہونٹ دانت تلے دبائے وہ ایک ادا سے دروازے کو دیکھ کر بڑبڑانے کے بعد وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بلیک پینٹ پر بلیک لانگ سلیوز شرٹ اور اس پر گھنٹوں تک آتا بلیک اوور کوٹ پیروں میں ہائی ہیلز بلیک بوٹس پہنے اپنی بلیک بی ایم ڈبلیو سے ایک بریف کیس نکال کر وہ پرانے بریج کی جانب بڑھ رہی تھی

"بس آج اس مصیبت سے تو نجات مل جائے گی مجھے"

بریف کیس پر گرفت مظبوط کرتے ہوئے کوفت سے بڑبڑا کر وہ آگے بڑھ گئی تھی

 اسے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی پینٹ کی پاکٹ میں دوسرا ہاتھ پسٹل پر رکھ کر اسنے بغیر رکے پسٹل ری لوڈ کیا تھا

"کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے لیکن روز گاڑی میں ہے وہ باہر نہیں نکلے گی یہ کوئی اور ہے"

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سیرت نے شل ہوتے ذہن کیساتھ سوچا تھا

 قدموں کی آہٹ دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی ٹریگر پر انگلی رکھ کر وہ ایکدم پلٹی تھی مگر پیچھے کوئی نہیں تھا وہ چونکی تھی یکدم کسی نے اسکے لبوں پر مظبوط ہاتھ رکھ کر اسے ایک جانب کھینچا تھا بریج کے نیچے ٹھنڈی دیوار سے لگتی وہ آنکھیں پھیلا کر اس دیو ہیکل پرچھائی کو دیکھ رہی تھی جس کی سرخ آنکھیں اندھیرے میں شعلے کی طرح چمک رہی تھی اسکے لبوں سے ہاتھ ہٹا کر اسنے پسٹل کھینچ کر کچھ فاصلے پر بہتی ندی میں پھینکا تھا سیرت نے تنک کر اسکے بڑھائے ہوئے ہاتھ میں بریف کیس تھمایا تھا

"Now, I have nothing to do with you. Don't even try to follow me."

سرد لہجے میں کہہ کر آگے قدم اٹھاتی سیرت چونکی تھی وہ بےپرواہی سے بریف کیس  نیچے بےپرواہی سے پھینک کر اسکی جانب بڑھ رہا تھا سیرت کی آنکھوں کے نیچے موت کا نقشہ پھر گیا تھا اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے وہ اسکا چہرہ بےحد قریب کر گیا سیرت نےغصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا

"Impressive"

بھاری سرگوشی کی گئی تھی

"مجھے صرف کیش نہیں چاہیے Clair De Lune مجھے کچھ اور چاہیے بہت خاص"

اسکے اردو بولنے پر سیرت کا ماتھا ٹھنکا تھا  ڈھیروں حیرت اور خوف نے اسکے ذہن کو صلیب کرنا چاہا تھا!!

"لیکن تم نے صرف کیش کہا تھا" 

سیرت نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھا تھا 

"اور اب میرا رادہ بدل گیا ہے میرے پاس تمھاری ہر چھوٹی سے چھوٹی ڈیٹیل ہے اگر مجھے انکار کرو گی تو نقصان اٹھاؤ گی " 

اسکے قریب ٹوٹی ہوئی دیوار پر ہاتھ رکھتا وہ بھاری سرگوشیانہ لہجے میں بولا سیرت نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ جانتی تھی اس شخص کا دماغ خراب تھا مگر اتنا خراب تھا یہ نہیں معلوم تھا!!

" اب کیا چاہیے تمھیں"

سیرت نے آنکھیں میں ڈھیروں اکتاہٹ لیے پوچھا تھا

"مجھ سے نکاح کر لو"

سیرت کا چہرہ فق ہوا تھا !!

"ہمت کیسے ہوئی تمھاری"

اسکا لیدر بلیک کوٹ مٹھیوں میں پکڑ کر وہ غضب ناک لہجے میں چیخی تھی 

"ٹھیک ہے اگر نہیں کرنی تو میں ازی وقت تمھیں مار دیتا ہوں"

سیرت کی گنگ نظروں نے اپنی پیشانی پر رکھی اسکی پسٹل کو دیکھا تھا حلق کے مقام پر ایک گِلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی اسنے ٹریگر پر انگلی دبائی تھی

"آہ"

آنکھیں وا کرتی سیرت لمبے لمبے سانس لیتی آس پاس خوف و ہراس سے دیکھ کر سکون کا سانس لیکر رہ گئی تھی کانپتے ہوئے ہاتھ سے اسنے پسینے میں شرابور چہرہ صاف کیا تھا 

"یا اللہ خیر وہ کتنا بھیانک ہے اگر میں اکیلی وہاں گئی اور اسنے ایسا ہی کچھ کرنے کی ڈیمانڈ کی توو"

انگلی کو لبوں میں دبائے وہ پس و پیش لہجے میں بولی

"اب میں کیا کروں"

"آپ کو اب بھی میری مدد درکار ہے تو میں حاضر ہوں ہیں مس سیرت "

عسکری کی بات یاد جر کے سیرت نے کوفت سے سر جھٹکا تھا ہونٹ اپنے آپ سکڑ گئے تھے آنکھوں میں ناگواریت ابھری وہ شخص ہمیشہ غلط وقت پر یاد آتا تھا 

"لیکن اکیلے جانے سے بہتر ہے میں عسکری کیساتھ چلی جاؤں لیکن اسکے لئے تو اسے سب کچھ بتانا پڑے گا"

گال پر ہاتھ رکھ کر اسنے سرد آہ بھری تھی

"نہیں سیرت دماغ سڑ گیا ہے تمھارا!! میں اسکی ہیلپ کبھی نہیں لوں گی "

بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح اپنے موروثی چڑچڑے پن کی طرف لوٹ آئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گھر میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے برآمدے کے احاطے میں ایک چھوٹی سی اسٹیج بنائی ہوئی تھی جسکے پیچھے گیندوں کے پھولوں کی لڑیاں لگی ہوئی تھی باہر بھی لائٹنگ کی ہلکی پھلکی ڈیکوریشن تھی گھر کی عورتیں کاموں میں مصروف تھی 

"آئیذل تم نے چینج کر لیا"

ریحم دروازہ کھلا دیکھ کر اندر داخل ہوئی تھی

ہیوی ییلو لہنگا مسکراتے ہوئے اٹھا کر وہ حورم کی جانب دیکھتے ہوئے اٹھی تھی حورم نے پُرستائش نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی!!

لمبے کمر سے نیچے تک آتے براؤن سلکی بال اسکے حُسن کو چار چاند لگا رہے تھے 

" ماشااللہ ماشااللہ ابھی تو پوری ریڈی بھی نہیں ہوئی اور اتنی پیاری لگ رہی ہو"

 ییلو شرارے میں مسکراتی ریحم مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھی تھی اسے گلے لگاتے ہوئے اسکا چہرہ چمک پڑا تھا آئیذل نے مسکراتے ہوئے اسکی پشت پر بازو پھیلا کر اسے گلے لگایا تھا

"ریحم میں نے آئیذل کو لیکر آنے کو کہا تھا اور تم"

عروسہ بیگم دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے دونوں کو گلے لگاتے ہوئے دیکھ کر مزید ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر کے مسکرا گئی تھی انکے پیچھے سے حورم گولڈن شرارے میں ملبوس آئی برو اٹھاتے ہوئے آئیذل کو دیکھ کر مسکرائی تھی آئیذل کا چہرہ چمک اٹھا تھا حورم کو دیکھ کر!! 

"اچھا مل لو اور تیار بھی کر دو اپنی سہیلی کو تھوڑی دیر تک باہر لیکر آنا ہلدی کی رسم پوری کرنی ہے پھر مہندی لگانے والی آ جائے گی"

عروسہ بیگم مسکراتے ہوئے کہہ کر باہر چلی گئی تھی حورم نے چہکتے ہوئے آئیذل کو گلے لگایا تھا

"آئیذل میرا دل ناچنے کو کر رہا ہے " 

اسے گلے لگا کر وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولی تھی ریحم نے لبوں پر ہاتھ رکھ کر سر جھٹکا تھا 

"میری ہیلپ کر دو اسے چھیتی نال تیار کروا لو"

"ہاں چلو" 

دونوں نے اسکو پکڑ کر مرر کے سامنے چیئر پر بٹھایا تھا آئیذل نے ترچھی نظروں سے دونوں کو دیکھا تھا ریحم نے اسکے بالوں میں برش پھیرنا شروع کیا تھا اور حورم نے میک اپ کِٹ کھولی تھی اسکے فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ لہنگا اٹھا کر جلدی سے فون کی طرف لپکی مگر ریحم نے جلدی سے اسکا فون اٹھایا تھا

"جیجو آئیذل تیار ہو رہی ہے فون مت کریئے گا" ریحم نے کال کنیکٹ کر کے بےصبری سے بغیر دوسری جانب کی بات سنے کہا تھا

آئیذل نے چہرہ سرخ پڑا تھا ریحم نے فون بیڈ پر اپنے قریب رکھا تھا حورم کو بری طرح ہنسی چھوٹی تھی!!

"بیٹا بھول جاؤ آج اور کل تو پروفیسر سے بات نہیں ہو پائے گی کل رات کو آرام سے گفتگو کر لینا "

حورم نے اسے کندھے پر تھپکی دی تھی آئیذل سرخ پڑتے چہرے کیساتھ اسے تاسف سے دیکھ کر رہ گئی تھی ریحم اور حورم نے تالی بجاتے ہوئے اسے مزید شرمندہ کیا تھا

"ذی بھائی مسنگ یو انا سارا اور وائٹ کرتے میں اففففف کتنے ڈیشنگ لگ رہے ہیں میرے بھائی "

پرفیوم رکھ کر وہ فون کی جانب دیکھ کر  مبہم سا مسکرایا تھا سیرت نے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھ کر ایک فلائنگ کس فون کی اسکرین کی جانب اچھال کر کہا تھا

"مس یو ٹو پرنسس لیکن سب سے پہلے یہ بتائیں بی جان کیسی ہیں ؟؟ اور آپکو کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی ناں"

" بی جان بالکل ٹھیک ہیں آپکا پوچھ رہی تھی اور میں بھی ٹھیک ہوں مس کر رہی ہوں پر اب سینٹی نہیں کرنا چاہتی آپکو اچھا مجھے گھر کی ڈیکوریشن دیکھائیں" سیرت نے پُرمسرت لہجے میں پوچھا اسکی بےتابی دیکھ کر وہ مسکرا کر فون اٹھائے باہر آیا تھا اور اسے گھر دیکھانے لگا تھا جس میں وائٹ اور ریڈ پھولوں کی ڈیکوریشن اب تک ہو رہی تھی ڈیکوریٹرز ڈیکوریشن پیسز اٹھائے لگن سے اپنے کام میں محو تھے

"بیوٹیفل بھائی "

سیرت نے ستائشی نظروں سے پورے گھر کو دیکھا تھا

اسکے چمکتے چہرے کو دیکھ کر وہ پرسکون ہو گیا تھا 

"بھیا مجھے پکس لازمی بھیجئے گا بیسٹ آف لک"

کال منقطع کر کے وہ انس کیساتھ لابی کی جانب بڑھ گیا تھا

"ماشاءاللہ"

مہر النساء بیگم نے اسکی پیشانی پر بوسہ دینے کے بعد اسکی بلائیں لی تھی وہ انکی  الفت اور شفقت پر ہلکا سا مسکرایا تھا 

"میں ماموں سے ملاقات کر لیتا ہوں"

مہر النساء بیگم نے اسے محبت سے دیکھ کر سر ہلایا تھا وہ زوہیب صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا پیل گرین کلر کے ہیووی لہنگے میں چاہت اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے باہر نکلی تھی وائٹ کرتے میں وہ وجاہت کا شاہکار سنجیدگی سے زوہیب صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا

"وللہ"

"ہے ناں"

چاہت نے ناک سکیڑی تھی انس نے اسکے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر اسکے "وللہ" کا بےباکی سے جواب دیا تھا جس پر وہ ابل پڑی تھی

"تمھارا دماغ سڑ گیا ہے کیا" اسے جھٹکتی ہوئی چاہت تنک کر بولی انس نے طنزیہ نظروں سے اپنی اوور بہن کو سر سے پاؤں تک دیکھا تھا جو آج پھر میک اپ کی دکان بنی ہوئی تھی 

"اتنا کیسے تھوپ لیتی ہو میری بہن"

"تمھاری زبان کھینچ لوں گی میں انس" 

چاہت نے اسے انگلی دیکھا کر صدمے سے کہا انس قہقہ لگا کر سر جھٹکتے ہوئے زوہیب صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

پچھلے دس منٹوں سے وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی مہکتے گلاب کے پھولوں کی جیولری کی وجہ سے اسکا عنابی سراپا گلاب کے پھولوں کی مسحورکن نکہت سے مہک رہا تھا چہرے پر لائٹ میک اپ!!

باریک لبوں پر ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائی گئی تھی آنکھوں پر ہلکی گولڈن شمری اور لائنر تھا!! کہنے کو بہت سادہ سا میک اپ تھا مگر اس سادے سے میک اپ سے بھی آج وہ بےحد حسیں لگ رہی تھی کیونکہ اسنے کبھی ذندگی میں بناؤ سنگار نہیں کیا تھا آج اسکا عنابی حُسن کھل کر سامنے آیا تھا!!

ریحم اور حورم نے مسکراتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کے گجرے پہنائے تھے 

"ریحمم"

"جی امی آتی ہوں"

ریحم عائزہ بیگم کے بلانے پر جلدی سے باہر نکل گئی تھی فون پر میسج آیا تھا آئیذل نے حورم کو اپنے فون پر مصروف دیکھ جلدی سے اپنا فون اٹھایا تھا

"Can I see how beautiful my baby girl is looking now??

 ذاویان کا میسج پڑھ کر دھیمی مسکان اسکے گلابی لبوں پر بکھری تھی

"نہیں"

نچلا لب دبا کر اسنے میسج بھیجا تھا انس کیساتھ پورچ میں مہمانوں کا استقبال کرتا ذاویان اسکا میسج پڑھ کر مبہم سا مسکرایا تھا

"اتنا بڑا ظلم"

 کچھ ہی سیکنڈ میں اسکا میسج آیا تھا آئیذل اسکا میسج دیکھ کر  بےاختیار مسکرائی تھی

کچھ دیر بعد ایک اور میسج آیا تھا

"اچھا آپ نے کسی کو بھی ہلدی لگانے کی اجازت نہیں دینی ، پہلا حق میرا ہے کیونکہ آپ میری ہیں اور میں ہی لگاؤں گا ‘‘۔

اسکا میسج پڑھ کر وہ چونک کر حورم کو دیکھ گئی جو موبائل پر انگلیاں سکرول کر رہی تھی

"اپ یہاں نہیں آ سکتے"

معصومیت سے اسنے میسج بھیجا تھا جسے پڑھ کر اسکی مسکان گہری ہوئی تھی

"Let's See Baby Girl"

آئیذل نے لب بھینچ کر اسکا میسج پڑھا تھا حورم نے اسکے ہاتھ سے فون کھینچنا چاہا مگر وہ جلدی سے فون پیچھے کر گئی تھی

"مجھے بھی پڑھنے دو ناں کیوں ہنس رہی تھی فون کو دیکھ کر"

"آرام سے بیٹھو"

آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا  ساتھ ہی اسکا چہرہ سرخ پڑا تھا 

جس پر حورم ہنس پڑی تھی

"آئیذل چلو باہر سب انتظار کر رہے ہیں" 

ریحم اندر آتے ہوئے بولی تھی آئیذل نے لب بھینچے تھے کیونکہ ہلدی کی رسم  شروع کرنی تھی!!

" اسلام و علیکم!! ماموں جان آپ نے بلایا ہمیں"

سر پر دوپٹہ درست کر کے آصف صاحب کی چارپائی کے قریب رکتی وہ نظریں جھکائے مؤدب لہجے میں بولی آصف صاحب نے نظرِ التفات سے آئیذل کو دیکھا تھا وہ لڑکی کبھی بھی نظریں اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی  اس تہذیب یافتہ لڑکی میں انکی بہن نازش کی ساری خوبیاں تھی!!

" وعلیکم السلام!! آؤ بیٹی بیٹھو یہاں"

آصف صاحب نے شفقت سے اسے بلایا تھا سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ سامنے پڑی چارپائی پر بیٹھی تھی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی 

"کوئی شکایت ہے اپنے ماموں سے تو کہہ ڈالو بیٹی دل میں کوئی بات لیکر مت جانا یہاں سے!!"آئیذل کی جانب دیکھتے آصف صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے مگر انکے لہجے میں حزن و ملال تھا اسکے حالاتِ زندگی سے وہ اچھی طرح واقف تھے کتنی مشکلوں سے ذندگی کاٹی تھی اس لڑکی نے ماں باپ کے سائے کے بغیر کتنی تکلیفوں سے اکیلے مقابلہ کیا تھا اس معصوم لڑکی نے چھوٹی سی عمر میں!!

"نہیں ماموں جان آپ سے کیسے شکایت ہو سکتی ہے آپ نے اسوقت سہارا دیا مجھے جب کوئی اپنا نہیں تھا میرے پاس"

گود میں رکھے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے وہ دھیمے لہجے میں بولی آواز بھرا گئی تھی حلق میں آنسوں کا ذخیرہ پھنس چکا تھا 

"ہم سب کی وجہ سے بہت بار دل دُکھا ہے تمھارا میری بچی ہو سکے تو ہمیں معاف کر دینا ان تمام طعنوں کو بھلایا نہیں جا سکتا جو تمھیں سننے کو ملے لیکن پھر بھی ایک بار ہمیں معاف کرنے کی کوشش ضرور کرنا جیسا برتاؤ عائزہ اب تک تمھارے ساتھ کرتی آئی اسکے لئے ہم بےحد شرمندہ ہیں"

بنفشی آنکھوں میں نمی تو بہت پہلے سے چمک رہی تھی مگر عروسہ بیگم کے نرم لہجے پر دلِ سوزاں حَزن کے عالم میں بند ہونے لگا لبوں کو سختی سے آپس میں پیوست کر کے اسنے آنکھیں میچی تھی پہلا آنسؤں اسکے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا  

"ممانی جب اولاد کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو ذندگی میں ٹھوکریں کھانا اولاد کا مقدر بن جاتا ہے آپ نے مجھ پر کبھی طعنہ تشی نہیں کی،، کبھی تکلیف نہیں دی معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں"

اشکِ ریزاں آنکھوں نے آصف صاحب کو شائستگی سے دیکھا تھا آصف صاحب کی آنکھوں میں آنسوں تھے بےحد شرمندہ تھے وہ

"سلامت رہو میری بیٹی اللہ ڈھیروں خوشیوں سے نوازے "

اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر آصف صاحب آبدیدہ ہو گئے آئیذل نے ڈوبتے دل کیساتھ آمین کہا تھا عروسہ بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تھی ہاتھ کی پشت سے اشک بار آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے اسنے سر ہلایا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

براؤن بوکل نِٹ سویٹر اور سفید سکنی جینز پہنے گلے میں وائٹ کرنکل سکارف پہنے صوفے پر نیم دراز وہ بڑی دلچسپی سے انگلش ناول پڑھنے میں مصروف تھی بی جان قریب پڑے صوفے پر بیٹھی نظروں والا چشمہ لگائے سوئیٹر بُننے میں مصروف تھی سیرت کے فون نے بجنا شروع کیا بک میں پیج کے کنارے کو موڑ کر نشانی چھوڑ کر ٹیبل پر رکھنے کے بعد  اسنے فون کی سکرین پر چمکتا نام"عسکری" دیکھا بی جان نے استفہامیہ نگاہوں سے سیرت کو دیکھا تھا جو فون کے مسلسل چیخنے پر کال سننے کے بجائے بےنیازی سے بیٹھی سکرین کو تک رہی تھی

"بی جان آفس سے کال ہے میں آتی ہوں"

بی جان کے مسلسل دیکھنے پر وہ لب بھینچ کر انکی جانب دیکھ کر بولی

"اچھا بیٹی"

کال کنیکٹ کر کے وہ اٹھ کر گارڈن کی جانب پیش رفت کر گئی 

"اسلام و علیکم عسکری صاحب"

 غیر ارادی طور پر وہ قدرے خشک لہجے میں بولی تھی 

"وعلیکم السلام کیسی ہو"

وہ اسکی بھاری گمبھیر آواز بڑے وقت بعد سن رہی تھی 

سیرت نے اسکے خیریت دریافت کرنے پر پیچ و تاب نظروں  سے آسمان پر امنڈتی کالی گھٹاؤں کو دیکھا تھا جنہوں نے سورج کو پناہوں میں لے لیا تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی موسم خاصا خوشگوار تھا وہ تو بھول ہی گئی تھی اسنے اب تک اسے جواب نہیں دیا تھا اور وہ بھی خاموش بیٹھا اسکی سانسوں کی روانی کو سن رہا تھا!!

"ٹھیک ہوں یاد کرنے کی وجہ"

منھ چڑھے لہجے میں کہہ کر وہ پھولوں کی کیاری کی جانب بڑھ گئی جہاں سے بھینی بھینی مہک صحن میں پھیلی ہوئی تھی

"ایک جگہ چلو گی "

 پھولوں کو ہلکی مسکان سے ہاتھوں کیساتھ چھوتی سیرت  نے نظریں اٹھائی تھی

"تمھارے ساتھ؟؟ ۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں "

 اسکے دو ٹوک جواب پر سرد آہ بھری گئی تھی دوسری جانب!!

"کہاں لیکر جانا چاہتے ہو اب "

ہوا کے تیز ٹھنڈے جھونکے پر وہ ٹہلتی ہوئی گارڈن سے گھر کی جانب بڑھتی تذبذب لہجے میں گویا ہوئی تھی اتنے دن منظرِ عام سے غائب رہنے کے بعد آج وہ اسے شرف رفاقت بخشنا چاہتا تھا جو سیرت سے ہضم نہیں ہو رہا تھا

"میری کمپنی پچھلے پانچ سالوں سے کچھ آرگنائزیشنز کی نگرانی کر رہی ہے ٫٫جن کے ذریعے ہم این جی اوز کو عطیات کر رہے ہیں میں ایک این جی او وزٹ کرنا چاہتا تھا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ساتھ چل سکتی ہیں"

خاموشی اختیار کرنے کے بعد وہ اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا سیرت نے سرسری نظروں سے ٹھنڈی ہوا میں لہلہاتے گارڈن میں لگے درختوں کو دیکھا ہوا کے زور پر جھومتے وہ بےحد خوبصورت لگ رہے تھے

"ٹھیک ہے کب تک جانا ہے "

سیرت کے آمادہ ہو جانے کی اسے ایک فیصد بھی امید نہیں اسکے مان جانے پر وہ کافی دیر تک خاموش رہا!!

"میں  پک کرتا ہوں ایڈریس میسج کر دینا "

"ہممم"

کال منقطع کر کے اسے ایڈریس میسج کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی بلیک ویسٹرن اوور کوٹ بازو پر پھیلائے وائٹ ہیلڈ بوٹس میں منی بلیک پرس میں فون رکھ کر وہ بی جان کے پاس آئی تھی

"کہیں جا رہی ہو بیٹی"

اسے کوٹ درست کر کے کندھوں پر ڈالتے دیکھ کر بی جان نے استفسار کیا

"جی کیا میں جاؤں؟؟ تھوڑی دیر تک آ جاؤں گی " انہیں الفت سے دیکھتی وہ دھیمی مسکان لبوں پر بکھیر گئی بی جان مسکرا کر اسکی جانب دیکھ گئی وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اجازت مانگ رہی تھی!!

"چلی جاؤ میری بچی لیکن اندھیرا ہونے سے پہلے آ جانا موسم خراب ہے"

بی جان نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا انکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھ کر مسکراتے ہوئے وہ سر ہلا گئی تھی باہر گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی تھی اور ساتھ ہی ہارن بھی بجا تھا

"صبر کا مظاہرہ تو تم کبھی نہیں کر سکتے عسکری"

بھنویں سکیڑ کر طنزیہ لب و لہجے میں خود سے بڑبڑانے کے بعد وہ باہر کی جانب واک آؤٹ کر گئی تھی

"Bonjour Miss Seerat"

اسکے مُروت سے لب لباب لہجے پر فرنٹ گیٹ کھول کر سیٹ پر بیٹھتی ہوئی سیرت ایک پل کو ساکت ہوئی تھی لب بھینچ کر گیٹ بند کر کے سیٹ بیلٹ لگا کر اسنے درزدیدہ نگاہوں سے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا تھا فارمل بلیک پینٹ پر  بےشکن بلیک شرٹ جسکا اوپر کا بٹن ہمیشہ کی طرح کھلا ہوا تھا سرمئی کلر کا کوٹ ،، سپید کلائی پر رولیکس کی سلور کلر واچ جلوہ افروز تھی گاڑی اسکے مخصوص کلون(ڈائر ساویج) کی پُرکیف مہک سے معطر تھی!!

"Suis-je autorisé à démarrer la voiture ?

"کیا مجھے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی اجازت ہے"

وہ استفہامیہ نگاہوں سے سیرت کے سردی کے باعث سرخی مائل گالوں کو نگاہِ برق سے دیکھ کر گویا ہوا 

"شکریہ، ہاں گاڑی اسٹارٹ کرو"

نگاہوں کا مرکز روڈ کو بنا کر بےمروتی سے جواب دیکر لب بھینچ چکی تھی سر کو دھیرے سے جنبش دیکر اسنے گاڑی سٹارٹ کی تھی 

"I Think This one's my coat if I'm not mistaken"

"میرے خیال سے یہ میرا کوٹ ہے اگر میں غلط نہیں ہوں"

براؤن سوئیٹر پر بلیک ویسٹرن کوٹ جو یقیناً اسکا ہی تھی نگاہِ غائر سے دیکھ کر وہ ڈرائیونگ کرنے کے دوران سنجیدگی سے بولا تھا

سیرت نے نچلا لب بےساختہ دبایا تھا 

"I wanted to give it back to you. Good thing you reminded me. You know your stuff well"

"میں آپ کو یہ واپس دینا چاہتی تھی اچھی بات ہے کہ آپ نے مجھے یاد دلایا آپ اپنی چیزوں کی اچھی سمجھ رکھتے ہیں"

سینے پر بازؤں لپیٹ کر وہ نظریں چرا کر بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" ارے آؤ بیٹھو میرے پاس"

دروازے پر ناک کر کے وہ دھیمی سی مسکرائی تھی کبرڈ سے کپڑے نکالتی ریحم نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا تھا اسکے دمکتے چہرے کو پُرمسرت نگاہوں سے دیکھ کر وہ اندر آئی تھی

"ناشتہ کیا تم نے"

کبرڈ بند کر کے کپڑے بیڈ پر رکھ کر ریحم اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولی

"ہاں تھوڑا سا"

نظریں جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی 

"کیا ہوا اداس ہو"

اسکی ٹھوڑی کو ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے ریحم نے اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا سر کو خم دیکر وہ لب بھینچتی نظریں جھکا گئی

"پریشان لگ رہی ہو اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ اب یہاں سے اداس ہو کر تو نہیں جانے دوں گی"

ریحم کی جانب دیکھ کر وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی

"نانو اور امی کی بہت یاد آ رہی ہے "

ریحم نے اسکا اداس چہرہ ہمدردی سے دیکھا تھا دل کیا تھا کہ اسے توصیف اور اپنی ماں کی ساری اصلیت بتانے کے لئے مگر اسے مزید اداس نہیں کرنا چاہتی تھی وہ!!

"تھوڑا سا وقت باقی ہے پھر تو ذاویان بھائی لے جائیں گے"

 ریحم نے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کر اسے چھیڑا تھا آئیذل کے گالوں پر سرخی پھیلی تھی اسکا نام سن کر ناجانے اسکے دل کو کیا ہوا تھا ایک عجب احساس تھا آج جسے آج سے پہلے محسوس نہیں کیا تھا اس لڑکی نے!!

"میں بہت کنفیوز ہوں ریحم وہاں سب کیسے ہینڈل کروں گی سب اتنی جلد بازی میں ہو رہا ہے کچھ دیر میں رخصتی ہے اور میرا دل بہت گھبرا رہا ہے بہت عجیب سے فیلنگ آ رہی ہے ایسے دل میں ناں ۔۔۔۔ عجیب سی پریشانی ہو رہی ہے ۔۔۔ ایسے لگ رہا ہے کہ میں بتا بھی نہیں سکتی میں اسوقت کیسا محسوس کر رہی ہوں"

دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اسنے اپنی الجھی ہوئی کیفیت سمجھانے کی کوشش کی تھی ریحم مسکرا کر سر ہلا گئی تھی

"میری جان تمھاری شادی ہے آج اس لئے ایسی فیلنگ آ رہی ہے اِدھر دیکھو میں تمھیں کچھ سمجھا رہی ہوں غور سے سننا اور عمل بھی کرنا"

آئیذل نے معصومیت سے سر ہلایا تھا ریحم نے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا تھا

"یار تم اتنی معصوم کیوں ہو تم سے بات کرتے ہوئے مجھے شرم آ رہی ہے "

ریحم نے ماتھا پیٹ کر کہا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا

"کیوں ایسا کیا کہنے والی تھی تم مجھ سے"

آئیذل نے بھنویں سکیڑی تھی ریحم کی ہنسی چھوٹنے والی تھی اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر

"یار تمھیں امی ہی سمجھائیں گی"

ریحم نے الجھ کر بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا تھا اچانک ہنس پڑی تھی وہ جس پر آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا مگر زیادہ دیر وہ بھی ہنسی نہیں روک پائی تھی دونوں کی ہنسی سن کر برآمدے سے گزرتی عائزہ بیگم کا دل جل گیا تھا 

"قہقے سنو موصوفہ کے اپنی شادی کے دن  توبہ توبہ"

زہر کند نظروں سے دونوں کو دیکھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"انس بیٹا ذاویان کہاں ہے"

ڈیکوریٹرز سے گفتگو کرتا انس مہر النساء بیگم کے استفسار پر چلتا ہوا کچن کی جانب بڑھ گیا تھا 

"وہ ڈی آئی جی صاحب کی کال آئی تھی انکے ساتھ ہی گئے ہیں کہیں میں تو بڑا روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے ایک نہیں سنی"

انس نے شانے اچکاتے ہوئے فریزر سے سیب اٹھا کر بائٹ لیتے ہوئے تاسف سے کہا مہر النساء بیگم نے سرد آہ بھری تھی

" اپنی شادی کے دن بھی کام کر رہا ہے "

"کوئی بات نہیں ایک بار بھابھی آ گئی پھر تو بھائی باہر ہی نہیں آئیں گے"

انس نے ہنستے ہوئے سر جھٹک کر کہا تھا مہر النساء بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا جب کہ کچن میں داخل ہوتی چاہت کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی مہر النساء بیگم نے ہمدردی سے چاہت کا زرد رنگ چہرا دیکھا تھا انس نے چاہت کا دیکھ کر سیب کا بڑا سا بائٹ لیا تھا 

"کم کھایا کرو پیٹ پھٹ جائے گا ایک دن تمھارا"

چاہت نے انس کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا جس پر اسکا منہ لٹک گیا تھا مہر النساء بیگم نے اسے محبت سے دیکھا جو ٹوسٹر سے بریڈز نکال کر پلیٹ میں رکھ رہی تھی

"چاہت کیا تم شادی میں شرکت کر رہی ہو"

چاہت نے سر اٹھا کر ہلکی مسکراہٹ کیساتھ مہر النساء بیگم کس دیکھ کر سر ہلایا تھا مہر النساء بیگم نے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا

"میں بریک فاسٹ لگا دیتی ہوں ڈائننگ ٹیبل پر"

بریک فاسٹ کی چیزیں اٹھائے وہ باہر نکل گئی تھی انس بھی باہر نکل گیا تھا مہر النساء بیگم سیرت کا یاد کرتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گئی تھی ذاویان نے مختصر کہہ کر اسے بی جان کے پاس بھیج دیا تھا اور اس سے وضاحت طلب کرنے کا حق وہ نہیں رکھتی تھی نہ ہی ماں بیٹے کے تعلقات اتنے اچھے تھے!!

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

جیول نیک لائن ٹین کلر سلک کی شرٹ جسکی سلیوز سلٹ تھی پر مہرون اوور کوٹ پہنے سفید پیروں کو بلیک لوئس ووٹن میں محبوس کئے وہ معتدل چال چل رہی تھی گلے میں بلیک شفان سکارف تھا بالوں کا ہیلو ہیڈ بینڈ بنایا گیا تھا وہ بَےخوفی سے ایک ہاتھ میں کلچ بیگ اور دوسرے ہاتھ میں بریف کیس اٹھائے سنسان سڑک پر تنہا چل رہی تھی

تند و تیز ہوا کے باعث اسکا چہرہ سرخی مائل تھا گالوں پر سردی کی سرخی پھیلی ہوئی تھی ناک کی نوک بھی سرخ پڑ چکی تھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے چہرے کو تھپتھپا کر گزر جاتا تھا مگر یہ سردی بھی اسکے لئے ناخوشگوار نہیں تھی 

بریج کے روڈ پر دونوں ہاتھ ٹکائے وہ  آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے نیلے شفاف پانی کو  دیکھ رہا تھا جس چاند کی ہلکی روشنی میں چمک رہا تھا اسے عقب میں قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی

"یہ لو"

باریک نسوانی آواز سن کر وہ پیچھے مڑا تھا سیرت کا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے عاری تھا اسنے مختصر نظروں سے اسکی خوبصورت ڈریسنگ کا اور پھر بریج لائٹس میں ا

سیرت کے سردی کے باعث سرخی مائل پڑتے چہرے کا جائزہ لیکر ہاتھ بڑھا کر بریف کیس لیا تھا

"چیک کر لو پورے دس لاکھ ہیں"

سینے پر بازؤں لپیٹتی وہ متکبر نظروں سے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر گویا ہوئی بریف کیس کا جائزہ لیتی مرجانی آنکھیں بےساختہ اسکے چہرے کی طرف اٹھی تھی 

"مجھے دھوکا دیکر کیا کرو گی پورا ہی ہو گا"

بریف کیس کو متانت سے دیکھتے ہوئے وہ سرد مہری سے گویا ہوا سیرت نے تاسف سے سر ہلایا تھا کیونکہ اسکی بات بالکل درست تھی کون اسکے ساتھ ایسا مزاق کرنے کی ہمت کر سکتا تھا!!

وہ بریف کیس تھامے سنجیدگی سے بریج کی دوسری جانب بڑھ گیا تھا سیرت نے بازوں کو ڈھیلا چھوڑ کر اسے دیکھا تھا وہ تو سہم کر یہاں آئی تھی مگر اسکی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی لیکن اچانک اسکے ذہن میں جھماکا ہوا تھا اسنے جانے انجانے میں اسکے ساتھ اردو بولی تھی اسکی پشت کو گھورتی ہوئی وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھی تھی اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر اسکے بھاری قدم ٹھہرے تھے

"تم نے ابھی میھ سے اُردو میں بات کی"

 پس و پیش کیفیت میں مبتلا وہ جلدی سے اسکے راستے میں ٹھہرتی بولی تھی اسنے راستے سے نظریں اٹھا کر اسکے پرتعجب چہرے ایک سرد آہ کھینچ کر  دیکھا تھا 

"اس میں کونسی بڑی بات ہے مجھے ساری لینگویجز آتی ہیں "

لہجے میں خشکی،،بےپرواہی،، سرد مہری سب تھا سیرت نے لب بھینچ کر سر ہلایا تھا 

"مجھے ایک اور کام کروانا تھا"

قدم اٹھاتے ہوئے وہ سیرت کے مخاطب کرنے پر رکا تھا سرخ آنکھوں نے استفہامیہ انداز سے اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھا تھا

"مجھے کسی کو ڈھونڈنا ہے اگر تم اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہو تو میں تمھیں ڈبل پیمنٹ کروں گی"

سیرت نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر کہا جن میں اکتاہٹ ابھری تھی 

"نہیں"

وہ عدمِ دلچسپی سے کہہ کر آگے بڑھ گیا

"ٹھیک ہے اگر تم نہیں کر سکتے تو"

نظرِ استہزاء سے اسکی چوڑی پشت کو تکتی وہ انگلیاں چٹخا گئی مقابل کے قدموں پر بریکس لگے تھے کیا اسے چیلنج کیا گیا تھا ؟! 

" میں بخوبی تمھاری چال سمجھ رہا ہوں "

اسنے ایک اور قدم بڑھایا تھا مگر کچھ سوچ کر وہ واپس پلٹا تھا

"کسے ڈھنوڈنا ہے"

سیرت نے کوٹ کی جیب سے فون نکال کر اس پر انگلیاں سکرول کی تھی ایک فوٹو نکال کر وہ سکرین کا رخ اسکی جانب کر گئی اسنے دلچسپی سے اس فوٹو کو دیکھا تھا جس میں ایک لڑکا تھا

"کیا کرنا ہے اسکا"

اپنا فون نکال کر اسنے سیرت کے فون سے فوٹو بنائی تھی 

"بس ڈھونڈنا ہے"

سیرت نے جلدی سے کہا تھا اسکی بےصبری پر وہ کچھ دیر خاموشی سے فوٹو دیکھتا رہ گیا سیرت کے لہجے سے لگ رہا تھا بڑی آرزو تھی اسکے دل میں!!

"ٹھیک ہے کچھ دنوں میں بتاتا ہوں"

سر کو دھیرے سے جنبش دیکر وہ پیچھے مڑی تھی 

"تمھارا سرنیم کیا ہے"

اسکی طرف پلٹتی وہ ناجانے کیا سوچ کر پوچھ گئی تھی

"کیا میں تمھیں بےوقوف لگتا ہوں" 

اسکی جانب پلٹتا وہ تضحیک آمیز لہجے میں گویا ہوا سیرت کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی وہ کچھ کہنا تو چاہتی تھی لیکن نچلا ہونٹ دباتے ہوئے وہ کندھے اچکاتے ہوئے آگے بڑھ گئی 

"میں تو ایسے ہی پریشان ہو رہی تھی پروفیشنل ہیکر لگ رہا ہے دھمکی کا د بھی استعمال نہیں کیا اسنے تو ہاؤ سوئیٹ  "

سیرت نے شانے اُچکا کر سر جھٹک کر سوچا تھا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی تھی اسے گاڑی میں بیٹھ کر نکلتے دیکھ کر وہ بھی وہاں سے اپنی گاڑی لیکر نکل چکا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ہیوی چنری دوپٹے کو کندھے سے کھسکا کر بستر پر ڈال کر وہ دونوں ہاتھوں کو دیکھ کر سرد آہ بھر گئی مہندی ابھی تک سوکھی نہیں تھی اور چہرے پر لگی ہلدی بھی وہ دھو نہیں پائی تھی

لہنگے کو انگلیوں سے اوپر اٹھائے وہ اٹھ کر مرر کے قریب آ کر ٹھہری تھی فون کی سکرین روشن تھی اسنے جھک کر میسج پڑھنا چاہا تھا فون تو اٹھا نہیں سکتی تھی ہاتھوں میں مہندی جو تھی!!

فون کی سکرین بلنک کر کے آف ہو چکی تھی اوب کر ناک سکیڑتی اپنے حنائی ہاتھوں کو افسردگی سے دیکھ کر وہ فون سے سر اٹھا گئی اور کر بھی کیا سکتی تھی!!خود پر کسی کی غائر نگاہ مرکوز محسوس کر کے وہ ساکت ہوئی تھی بےساختہ فون سے سر اٹھایا تھا

 اسکے آنے کی نوید اسکے کرامتی مردانہ کلون کی مہک نے آئیذل کو  سب سے پہلے دی تھی دروازے کی جانب پیٹھ کئے وہ اہنی جگہ جامد ہو گئی تھی قدموں کی آہٹ اب سنائی دی تھی کسی ہوا کے جھونکے جیسا تھا وہ اسکی موجودگی کا احساس طمانیت بخش تھا 

"کیا کہا تھا میں نے"

کان میں بھاری سرگوشی ہوئی تھی دل کی دھڑکنوں نے اسپیڈ پکڑی تھی 

 بستر پر پڑے دوپٹے کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چار ہوئیں تھی شرم و حیا سے چہرہ دہک پڑا 

سنہری آنکھوں نے محبت پاش نظروں سے بھورے سلکی بالوں کو دیکھا جو اسکی کمر پر پھیلے ہوئے تھے بےساختہ ہاتھ بڑھا کر اسکی کمر پر رکھتا ہوا وہ اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا اسکے چوڑے سینے سے پشت لگتے ہی وہ ساکت ہوئی تھی دل بیٹھ سا گیا تھا اور

  کمر پر گرم ہاتھ کے لمس نے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی مسحور کن مہک نے اسے اپنے طمانیت کے حلقے میں کھینچا تھا

"لمظ"

پرتپش شدت اختیار کرتا اسکا بےحد بھاری لہجہ!!

وہ لرز گئی تھی اسکی گرم سانسوں کو اپنی گردن پر محسوس کر کے!!

اسکے  نازک سراپے  سے اٹھتی گلاب کے پھولوں کی اور پرفیوم کی ہلکی مہک نے ذاویان کے اعصاب سلب کئے تھے آئینے میں آئیذل کا دہکتا چہرا دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

"This fragrance is taking over my senses" 

("یہ خوشبو میرے حواس پر قبضہ کر رہی ہے")

 اسکے کان کی لو کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہ گمبھیر بھاری آواز میں گویا ہوا تھا

حلق تر کرتی آئیذل نظریں اٹھا کر مرر میں اسکا وجیہہ سحرزدہ عکس دیکھتی رہ گئی تھی پہلی بار وہ اسے وائٹ کرتے میں دیکھ رہی تھی وجاہت کا شاہکار تھا وہ شخص!!

 دوسرے ہاتھ کو بھی اسکی باریک کمر پر رکھ کر وہ اسکی نکہت آلود زلفوں میں چہرا چھپا گیا تھا سرشاری کی کیفیت تھی اسکی قربت اسے پگھلا رہی تھی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں نمودار ہوئی تھی 

"Your closeness is like heaven "

("تمہارا قرب جنت جیسا ہے")

اسکے بدن سے پھوٹتی گلاب کے پھولوں کی مہک کو سانسوں میں کھینچتے ہوئے وہ خمار آلود لہجے میں بولا اس قدر بھاری لہجہ اسکے جذبات میں بہکنے کا ثبوت تھا 

"آپ کو یہاں۔۔۔۔۔ نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔ اگر ماموں کو پتا چل گیا ۔۔۔"

اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہٹانے کی کوشش کرتی وہ تذبذب لہجے میں بولی حقیقت تو یہ تھی کہ وہ بہک رہی تھی اسکی قربت پر!!

"Let me feel this sense of peace First...My Love"

"پہلے مجھے سکون کا یہ احساس محسوس کرنے دو...میری محبت"

خمار آنکھوں سے اسنے مرر میں آئیذل کے عکس کو دیکھ کر بھاری سرگوشی کی عنابی گھنی پلکوں نے جھرجھری لیکر خماری میں بنفشی آنکھوں کو ڈھانپا تھا اسکی کمر کو شائستگی سے تھام کر اسنے اپنے سینے سے لگایا تھا اسکے سینے سے لگ کر لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا اسنے!!

"دروازہ"

آنکھیں بند کرتی وہ سرگوشی کر گئی

"دروازہ بند ہے لمظ ۔۔۔ کوئی نہیں آئے گا"

بھاری سرگوشی کرتے ہوئے وہ اسکے کان کی لو کو لبوں سے چھو کر گویا ہوا

وہ بےخودی کی کیفیت میں سر اسکے سینے سے لگا گئی تھی اسکے اتنا قریب آنے پر آج  اس لڑکی کی سانسیں بےترتیب ہو کر رہ گئی تھی

اسکی بھینی مہک کو سمیٹ لینے کے بعد وہ آہستگی سے پیچھے ہٹا تھا آئیذل نے سکون بھرا سانس ہوا کے سپرد کیا 

مرر کے سامنے پڑی ہلدی کی تھالی کو دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا آئیذل کی رہی سہی سانسیں اٹک چکی تھی اسے ہلدی کی تھالی اٹھاتے دیکھ کر!!

"نہ۔۔نہیں یہ یہ نہیں لگانی" 

اسے ہلدی کی تھالی اٹھاتے دیکھ کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بھاگی مگر وہ 

اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے سینے سے لگا گیا آئیذل کا چہرہ اسوقت دیکھنے کے قابل تھا گال اس قدر سرخ پڑ چکے تھے اسکے لب کناروں سے پراسرار مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے آئیذل کا دل دھک دھک کر رہا تھا احتجاج کرنے سے قاصر آئیذل کے حنائی ہاتھ اسوقت اسکی طرح بےبس تھے

سنہری آنکھوں کا اسے بےباکی سی دیکھنا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ کسی شرارت کے لئے بالکل تیار تھا 

"نہیں پلیز "

 ہلدی کی تھالی کی طرف بڑھتا اسکا رعنایت سے بھرپور ہاتھ دیکھ کر وہ گڑبڑا کر بولی تھی

"میرا حق ہے یہ "

اسکی ٹھوڑی کو انگشت شہادت سے اوپر اٹھا کر وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے دھیمے لہجے میں گویا ہوا آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے نظریں چرائی تھی 

"۔۔لگا لیں اور۔۔۔جج۔۔جائیں جلدی" 

نظریں جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی 

ذاویان نے اسکے کندھے کو نرمیت سے تھام کر اسے بیڈ پر بٹھایا تھا آئیذل نے مہر آمیز نظروں سے اسے دیکھا تھا کتنی احتیاط برتی تھی اسنے اسے بٹھانے میں!!

اپنے چہرے کی جانب بڑھتے اسکے ہاتھ کو دیکھ کر وہ آنکھیں میچ گئی تھی دھڑکنوں نے شدت پکڑی تھی اسکی لرزتی پلکوں کا رقص نگاہِ غائر سے دیکھا تھا اسنے!!

دہکتے رخساروں پر ہلدی کے ٹھنڈے لمس اور اسکی گرم سانسوں کی آمیزش نے ایک کیف طاری کیا تھا نیم وا آنکھوں سے اسنے خماری میں اسکا وجیہ چہرا دیکھا تھا اسکے کانپتے ہاتھوں کو وہ نظرِ استہزاء سے اسے دیکھ گیا ایک پرمتکبر مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا دوسرا ہاتھ اسکے قریب رکھ کر اس پر جھکا تھا

اسکے ہاتھ نے مہارت سے اسکے چہرے سے اسکی بیوٹی بون تک آہستگی سے طمانیت بخش انداز میں حرکت کی تھی خود کو خود میں سمیٹ کر آئیذل نے جھرجھری لی تھی بیوٹی بون کے قریب مقیم تِل پر نظریں مرکوز کئے وہ تھم گیا تھا

 آنکھیں وا کرتے ہوئے آئیذل نے بےخودی میں اپنی بیوٹی بون کو چھوا تھا جس پر ہلدی لگی ہوئی تھی دوسرے ہاتھ سے اسکے دوسرے رخسار پر آہستگی سے ہلدی لگاتے وہ محظوظ نظروں سے اسکے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا بنفشی آنکھوں میں خماریت کی گھٹائیں پوری آب و تاب کیساتھ چھا رہی تھی سانسیں بےترتیب ہو چکی تھی اسکے دہکتے لمس پر وہ پگھلتی جا رہی تھی اسکی کمر میں اپنا توانا مظبوط بازو حمائل کر اسے عالمِ کیف میں بیڈ پر لیٹنے سے بچایا تھا اسنے!!

"کہا تھا میں نے!! تیار کر لیں خود کو یہ تو کچھ بھی نہیں ہے لمظ میرے عشق کی حدوں سے واقف نہیں ہیں آپ ابھی"

اسکے تھرتھراتے لبوں کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے  وہ متانت زدہ لہجے میں گویا ہوا جس کے نتیجے میں اسکی نکہت بیر سانسیں آئیذل کے بےحد قریب ہونے کی وجہ سے اسکے عنابی لبوں کو جھلسا گئی اسکی قربت نے آج آئیذل کے حواسوں کو سلب کیا تھا 

"اس حُسن کو کل فرصت سے سراہوں گا خیال رکھئے گا اپنا "

بھاری سرگوشی کرتے ہوئے اسکی کمر سے ہاتھ ہٹا کر وہ سنجیدگی سے پیچھے ہٹا تھا 

اسکی پیشانی پر الفت سے لب رکھ کر دوپٹہ اسکے کندھوں پر ڈال کر وہ باہر نکل گیا تھا

آئیذل نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا تھا  اسے کھڑکی سے کودتے دیکھ کر بےساختہ آئیذل نے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا وہ جلدی سے کھڑکی کے پاس آئی تھی اپنی گاڑی کی جانب وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے بڑھ رہا تھا بےاختیار آئیذل کے لبوں پر مسکراہٹ پھسلی تھی یعنی وہ دیوار سے آیا تھا محبت کیا کچھ کروا رہی تھی اس سے!!

آئیذل کھڑکی بند کرتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کر گئی تھی

                                            -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"چھ۔۔چھوڑ دو مجھے عرش پپ۔۔پلیز"

"تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت کرتی ہو پھر ہچکچاہٹ کیسی میں تمھارا ہی تو ہوں اپنے قریب آنے دو کیونکہ جیسے میں تمھارا ہوں ویسے تم بھی میری ہوئی مائی سوئیٹ کپ کیک"

اسکے آنسؤں سے تر چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھر کر وہ پرتپش لہجے میں کہہ کر شدت سے اسکے تھرتھراتے لبوں کی جانب جھکا تھا اسکے کندھوں پر پورا زور لگا کر اسے دھکا دیکر وہ لیبارٹری سے باہر کی جانب بھاگی تھی

"بےوقوف تم نے مجھے دھکا دینے کی ہمت کیسے کی"

وہ پٗراشتعال آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے پیر پٹخنے کے ساتھ اسکی طرف بڑھا تھا

بند دروازے پر بےدردی سے ہاتھوں سے احتجاج کرتی اس چودہ سالہ لڑکی کی سیاہ گھٹاؤں جیسی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر اسکے گالوں پر بہتے جا رہے تھے

"عرش۔۔۔۔۔ آپ نے کہا تھا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔پپ۔۔پھر میرےساتھ  زبردستی ۔۔۔کک۔۔۔کیسے کر سکتے ہیں آپ"

دیوار سے پشت لگا کر پیچھے مڑتی وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے اسے دیکھ کر بولی تھی عرش کے لبوں پر ایک خباثت بھری مسکراہٹ پھیلی تھی اسکے چہرے کو بےرحمی سے دبوچ کر اوپر اٹھا کر وہ دوسرا ہاتھ اسکی لرزتی کمر پر رکھ گیا

"محبت  تو کرتا ہوں سیرت میری جان لیکن تم اس محبت کو مانتی ہی نہیں ہر بار میں نے تم پر اپنی بیش بہا محبت لٹانے کی کوشش کی اور تم ہو کہ دور ہی بھاگتی چلی جاتی ہو میری جان مجھے محبت تو کرنے دو " 

اسکے لرزش کرتے لبوں کو انگلیوں سے چھو کر وہ بھاری لہجے میں بولا 

"آ۔۔۔آریا کک۔۔کہتی ہے۔۔۔تت۔۔۔تم اچھے لڑکے نہیں ہو۔۔۔تت۔۔۔تم مجھ سے محبت ۔۔۔نہیں کرتے تم ۔۔۔ کسی سے محبت ۔۔۔نہیں کرتے"

سیاہ آنکھوں نے معصومیت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جس پر وہ ہنس پڑا تھا

"آریا کی کہی بات ہماری محبت سے بڑی ہو گئی کیا سیرت ،، میں تو جان دے سکتا ہوں تمھارے لئے میری چھوٹی سی جان!!"

اسکے آنسؤں سے تر چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر وہ شیریں لہجے میں بولا تھا ڈبڈبی نظروں سے اسنے عرش کو دیکھا تھا

"مجھ سے انتظار نہیں ہوتا سیرت میں بس تمھیں پا لینا چاہتا ہوں"

"لل۔۔لیکن میں۔۔بہت۔۔چھوٹی ہوں"

"میری محبت کو ٹھکرا رہی ہو کیا"

سیرت نے حلق تر کر کے اسے دیکھا تھا جو بغیر اسکے رونے کی پرواہ کئے اسکے لرزتے وجود کو غائر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور چھو رہا تھا

"مم۔۔میں محبت نہیں کرتی تم سے ۔۔۔تت۔۔تم ۔۔پپ۔۔پیچھے ہٹو مجھ سے ۔۔۔ تت۔۔تم اچھے نہیں ہو"

اسے دور ہٹاتے ہوئے اسکے چہرے پر تھپڑ مارتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی مگر وہ تو قہقہ لگا کر اسکی کلائی کو سختی سے پکڑ چکا تھا

"اب تو بہت دیر ہو گئی ہے سیرت رضوی میں واقعی تمھاری آریا آپی کے مطابق بےحد گھٹیا لڑکا ہوں افسوس کہ اسوقت یہاں کوئی نہیں ہے اور جو کچھ تمھارے ساتھ ہونے والا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی عرش جباری کو ٹھکرانے کی حماقت کیسے کی تم نے"

اسکے چہرے کو ہاتھ میں جکڑ کر وہ زہریلے لہجے میں کہہ کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسے بےدردی سے ٹیبل کی طرف دھکا دے چکا تھا 

گرتے سمبھلتے وہ لیبارٹری کی شیلف  سے ایسڈ کی شیشی اٹھا چکی تھی

"مم۔۔میرے پاس مت آنا ورنہ۔۔۔میں یہ"

چٹاخ!!

گال پر ہاتھ رکھ کر وہ نیچے گری تھی ایسڈ کی شیشی ٹیبل پر گری تھی جسے اٹھا کر ایک طرف رکھتے ہوئے وہ قدموں کو گھسیٹتے ہوئے اسکی جانب بڑھ رہا تھا ہتھیلیاں ٹکائے وہ خوفزدہ نظروں سے اس درندے کو دیکھتی تھرتھراتے وجود کو پیچھے گھسیٹ رہی تھی 

"ممم۔۔میں ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔پپ۔۔پلیز مجھے جانے دو "

اسے سامنے نیچے بیٹھتے دیکھ کر وہ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے رونے لگی مگر اسکے رونے پر بھی اسے ترس نہیں آیا تھا اسکی گردن سے اسکارف کھینچ کر دور پھینک کر وہ اسکے کانپتے ہوئے کندھوں کو بےحسی سے پکڑ چکا تھا

"اللہ کے لئے ایسا مت کرو ۔۔۔ میں نے محبت کی تھی تم سے ۔۔۔ بھروسہ کیا تھا۔۔۔تم پر ۔۔۔"

"بھروسہ ہی تو نہیں کرنا چاہیے تھا نہ سیرت بےبی تم جیسی کچی عمر کی بیچاری چھوٹی چھوٹی لڑکیاں کم عمری میں یہی تو غلطی کرتی ہیں محبت کا شوق انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا اور یہی حال ہوتا ہے جو آج تمھارا ہو رہا ہے بےوقوووف!!"

اسکے چہرے پر دوسرا تھپڑ رسید کر کے وہ قہقہ لگا کر اسکی بےبسی پر ہنسا تھا سیرت نے اس کے وجود سے کراہت محسوس کر کے سر جھٹکا تھا

"تمھیں تو کسی کے محبت کرنے لائق نہیں چھوڑوں کا عرش جباری کو تھپڑ مارا تھا تو نے ہاں"

اسکے کندھے سے شرٹ کو پھاڑ کر وہ اسکے لمبے بالوں کو کھینچ کر دھاڑا اسے خود سے دور کرتے ہوئے وہ سسکیاں لیتی رہ گئی تھی

"محبت کرے گی کر نہ اب محبت ۔۔کر نہ محبت"

خوف سے کانپتی ہوئی وہ وہ اسکے چیخنے پر دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں میچ گئی تھی 

"کیریکٹر لیس تجھ جیسی لڑکیاں خود ہوتی ہیں جو ہم جیسے لڑکوں کی محبت میں گرفتار ہوتی ہیں کیریکٹر لیس تو ہے اور آج کے بعد سب تجھے وہی کہیں گے کیونکہ تو کیریکٹر لیس ہے ۔۔۔کیریکٹر لیس "

اسکی پسینے سے تر پیشانی پر نیلی نسیں ابھر آئی تھی کان کچھ بھی سننے سے عاری ہو گئے تھے آنکھیں آنسوں سے اس قدر بھر گئی تھی کہ وہ ہولناک مناظر دیکھنے سے محروم ہو گئی تھی

"مجھ پر ایسڈ ڈالنا چاہتی تھی تو ہاں "

وہ بےجان ہو کر زمین پر گری تھی ایسڈ کی شیشی اٹھا کر وہ ہنس پڑا تھا اسے برباد کرنے کے بعد بھی اسے سکون نہیں ملا تھا

"آآہ"

"بھیاااا"

کرب ناک لہجے میں  پکارتے ہوئے وہ نیند سے بیدار ہوئی تھی چہرہ پسینے میں شرابور تھا پورا وجود جھٹکوں کی زد میں تھا کانپتے ہاتھوں سے بلینکٹ ہٹا کر وہ واش روم کی جانب بھاگی تھی دروازہ بند کرتے ہوئے اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے شاور آن کیا تھا آدھی رات کے وقت وہ شاور کے نیچے کھڑی بےدردی سے اپنا جسم کھروچ رہی تھی اور ٹھنڈ کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہی تھی

"محبت کرے گی کر نہ اب محبت ۔۔کر نہ محبت"

اپنے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں بےحسی سے پکڑ کر وہ ماربل فرش پر بیٹھتی چلی گئی 

"کیریکٹر لیس تجھ جیسی لڑکیاں خود ہوتی ہیں جو ہم جیسے لڑکوں کی محبت میں گرفتار ہوتی ہیں کیریکٹر لیس تو ہے اور آج کے بعد سب تجھے وہی کہیں گے کیونکہ تو کیریکٹر لیس ہے ۔۔۔کیریکٹر لیس "

اسکا گولڈن نائٹ گاون اسوقت پورا گیلا ہو کر اسکے جسم کو چپک گیا تھا ٹھنڈے پانی میں تھرتھراتی ہوئی وہ گھٹنوں کے گرد بازوں کا حصار بنائے ہچکیوں کے بیچ رو رہی تھی شارٹ کٹ بال گیلے ہو کر اسکے چیرے سے چپک گئے تھے

"تم نہیں بھاگ رہی تھی عسکری کے پیچھے ؟؟ اوہ اب تم کہہ رہی ہو حدید تمھارے پیچھے پڑ گیا تھا۔۔ تم جیسی کیریکٹر لیس لڑکیاں ایسا ہی کہتی ہیں جب سچ کا آئنہ دیکھایا جائے"

"کیریکٹر لیس ۔۔ کیریکٹر لیس ۔۔ کیریکٹر لیس"

دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ لمبے سانس کھینچتی ماربل کے فرش پر لیٹ گئی تھی

"ڈیڈ۔۔۔ ٹھ۔۔۔ٹھیک کہتے۔۔۔تھے۔۔۔آپ ۔۔۔ ککک۔۔۔کبھی ۔۔کسی۔۔۔پر۔۔۔بھروسہ۔۔ مت۔۔۔کرنا۔۔"

آنکھیں موند کے بےجان لہجے میں وہ ٹھنڈے پانی میں ٹھٹھرتے ہوئے بولی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"تم سوئے نہیں ابھی تک ڈی"

کافی کا کپ اسکے ڈیسک پر رکھتے میک نے کمپیوٹر کیبورڈ پر چلتی اسکی انگلیوں کو الجھ کر دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا بغیر اسکا جواب دیئے وہ کمپیوٹر اسکرین پر دوڑتے ہرے رنگ کوڈز کو دیکھ تھا جو اسکے گلاسز کے لینز پر بھی ریفلیکٹ ہو رہے تھے اسکرین پر ایک پروفائل اوپن ہوئی تھی جسکے ساتھ فنگر پرنٹ اور ضروری معلومات پر مشتمل چند سطروں پر مشتمل ایک پیراگراف بھی اسکرین کے وسط میں نظر آیا کیبورڈ پر مہارت سے چلتی اسکی انگلیاں ایک پل کو ساکت ہوئی تھی

"میک فلیش ڈرائیو دینا"

"ہمم یہ لو"

دوسرے کمپیوٹر سے فلیش ڈرائیو نکال کر اسکے ہاتھ میں تھماتے میک نے دونوں ہاتھ ڈیسک پر رکھ کر دلچسپی سے اسکرین پر چمکتے چہرے کو دیکھا تھا ایک پیپر اٹھا کر اس پر رف رائٹنگ میں وہ کچھ ٹائپ کر رہا تھا میک نے ماؤس پر انگلی سکرول کر کے اسے نام کو زوم کیا تھا

"عرش جباری یہ کون ہے"

میک نے پیپر پر کچھ لکھتے ڈی کی جانب دیکھا کر سنجیدگی سے استفسار کیا تھا

"پتا نہیں "

متانت سے کہہ کر وہ  ڈائری کا پیج پلٹ کر دوسری سائڈ پر ایڈریس لکھنے لگا میک نے الجھ کر اسے دیکھا تھا پیپر کو پھاڑ کر فولڈ کر کے پینٹ کی پاکٹ میں رکھ کر وہ دوسرے کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہو گیا تھا 

"میرا فون چارجنگ سے نکالنا"

کافی کا کپ لبوں سے لگا کر اسنے دوسرے ہاتھ سے وہ فلیش ڈرائیو سپیئر کمپیوٹر میں لگائی تھیمیک چارجر سے اسکا فون نکال کر اسکی جانب بڑھا گیا تھا فون کی گیلری کھول کر اسنے فون کی سکرین کو کمپیوٹر کی سکرین کے برابر کیا تھا اسکی سرخ آنکھوں میں چمک ابھری تھی دونوں چہرے ایک ہی شخص کے تھے

"میں تمھارا ایسر ایسپائر لیجا رہا ہوں"

مائک نے شریر نظروں سے اسے دیکھ کر کہا تھا مقصد اسے اسکے کام سے بھٹکانا تھا

"ہمم"

میک نے اکتا کر پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا اسنے پلٹنے کی بھی زحمت کئے بغیر جواب دیا تھا یا شاید صحیح سے سنا بھی نہیں تھا

"میں نے کہا میں تمھارا ایسپائر لیجا رہا ہوں"

"Go and F****"

"ہاہا ریلیکس بڈی نہیں لے رہا"

میک اسکے تلملانے پر قہقہ لگا کر  باہر نکل گیا تھا سر جھٹک کر وہ دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو چکا تھا

" اسلام و علیکم!! ماموں جان آپ نے بلایا ہمیں"

سر پر دوپٹہ درست کر کے آصف صاحب کی چارپائی کے قریب رکتی وہ نظریں جھکائے مؤدب لہجے میں بولی آصف صاحب نے نظرِ التفات سے آئیذل کو دیکھا تھا وہ لڑکی کبھی بھی نظریں اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی  اس تہذیب یافتہ لڑکی میں انکی بہن نازش کی ساری خوبیاں تھی!!

" وعلیکم السلام!! آؤ بیٹی بیٹھو یہاں"

آصف صاحب نے شفقت سے اسے بلایا تھا سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ سامنے پڑی چارپائی پر بیٹھی تھی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی 

"کوئی شکایت ہے اپنے ماموں سے تو کہہ ڈالو بیٹی دل میں کوئی بات لیکر مت جانا یہاں سے!!"آئیذل کی جانب دیکھتے آصف صاحب سنجیدگی سے گویا ہوئے مگر انکے لہجے میں حزن و ملال تھا اسکے حالاتِ زندگی سے وہ اچھی طرح واقف تھے کتنی مشکلوں سے ذندگی کاٹی تھی اس لڑکی نے ماں باپ کے سائے کے بغیر کتنی تکلیفوں سے اکیلے مقابلہ کیا تھا اس معصوم لڑکی نے چھوٹی سی عمر میں!!

"نہیں ماموں جان آپ سے کیسے شکایت ہو سکتی ہے آپ نے اسوقت سہارا دیا مجھے جب کوئی اپنا نہیں تھا میرے پاس"

گود میں رکھے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے وہ دھیمے لہجے میں بولی آواز بھرا گئی تھی حلق میں آنسوں کا ذخیرہ پھنس چکا تھا 

"ہم سب کی وجہ سے بہت بار دل دُکھا ہے تمھارا میری بچی ہو سکے تو ہمیں معاف کر دینا ان تمام طعنوں کو بھلایا نہیں جا سکتا جو تمھیں سننے کو ملے لیکن پھر بھی ایک بار ہمیں معاف کرنے کی کوشش ضرور کرنا جیسا برتاؤ عائزہ اب تک تمھارے ساتھ کرتی آئی اسکے لئے ہم بےحد شرمندہ ہیں"

بنفشی آنکھوں میں نمی تو بہت پہلے سے چمک رہی تھی مگر عروسہ بیگم کے نرم لہجے پر دلِ سوزاں حَزن کے عالم میں بند ہونے لگا لبوں کو سختی سے آپس میں پیوست کر کے اسنے آنکھیں میچی تھی پہلا آنسؤں اسکے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا  

"ممانی جب اولاد کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو ذندگی میں ٹھوکریں کھانا اولاد کا مقدر بن جاتا ہے آپ نے مجھ پر کبھی طعنہ تشی نہیں کی،، کبھی تکلیف نہیں دی معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں"

اشکِ ریزاں آنکھوں نے آصف صاحب کو شائستگی سے دیکھا تھا آصف صاحب کی آنکھوں میں آنسوں تھے بےحد شرمندہ تھے وہ

"سلامت رہو میری بیٹی اللہ ڈھیروں خوشیوں سے نوازے "

اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر آصف صاحب آبدیدہ ہو گئے آئیذل نے ڈوبتے دل کیساتھ آمین کہا تھا عروسہ بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تھی ہاتھ کی پشت سے اشک بار آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے اسنے سر ہلایا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

براؤن بوکل نِٹ سویٹر اور سفید سکنی جینز پہنے گلے میں وائٹ کرنکل سکارف پہنے صوفے پر نیم دراز وہ بڑی دلچسپی سے انگلش ناول پڑھنے میں مصروف تھی بی جان قریب پڑے صوفے پر بیٹھی نظروں والا چشمہ لگائے سوئیٹر بُننے میں مصروف تھی سیرت کے فون نے بجنا شروع کیا بک میں پیج کے کنارے کو موڑ کر نشانی چھوڑ کر ٹیبل پر رکھنے کے بعد  اسنے فون کی سکرین پر چمکتا نام"عسکری" دیکھا بی جان نے استفہامیہ نگاہوں سے سیرت کو دیکھا تھا جو فون کے مسلسل چیخنے پر کال سننے کے بجائے بےنیازی سے بیٹھی سکرین کو تک رہی تھی

"بی جان آفس سے کال ہے میں آتی ہوں"

بی جان کے مسلسل دیکھنے پر وہ لب بھینچ کر انکی جانب دیکھ کر بولی

"اچھا بیٹی"

کال کنیکٹ کر کے وہ اٹھ کر گارڈن کی جانب پیش رفت کر گئی 

"اسلام و علیکم عسکری صاحب"

 غیر ارادی طور پر وہ قدرے خشک لہجے میں بولی تھی 

"وعلیکم السلام کیسی ہو"

وہ اسکی بھاری گمبھیر آواز بڑے وقت بعد سن رہی تھی 

سیرت نے اسکے خیریت دریافت کرنے پر پیچ و تاب نظروں  سے آسمان پر امنڈتی کالی گھٹاؤں کو دیکھا تھا جنہوں نے سورج کو پناہوں میں لے لیا تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی موسم خاصا خوشگوار تھا وہ تو بھول ہی گئی تھی اسنے اب تک اسے جواب نہیں دیا تھا اور وہ بھی خاموش بیٹھا اسکی سانسوں کی روانی کو سن رہا تھا!!

"ٹھیک ہوں یاد کرنے کی وجہ"

منھ چڑھے لہجے میں کہہ کر وہ پھولوں کی کیاری کی جانب بڑھ گئی جہاں سے بھینی بھینی مہک صحن میں پھیلی ہوئی تھی

"ایک جگہ چلو گی "

 پھولوں کو ہلکی مسکان سے ہاتھوں کیساتھ چھوتی سیرت  نے نظریں اٹھائی تھی

"تمھارے ساتھ؟؟ ۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں "

 اسکے دو ٹوک جواب پر سرد آہ بھری گئی تھی دوسری جانب!!

"کہاں لیکر جانا چاہتے ہو اب "

ہوا کے تیز ٹھنڈے جھونکے پر وہ ٹہلتی ہوئی گارڈن سے گھر کی جانب بڑھتی تذبذب لہجے میں گویا ہوئی تھی اتنے دن منظرِ عام سے غائب رہنے کے بعد آج وہ اسے شرف رفاقت بخشنا چاہتا تھا جو سیرت سے ہضم نہیں ہو رہا تھا

"میری کمپنی پچھلے پانچ سالوں سے کچھ آرگنائزیشنز کی نگرانی کر رہی ہے ٫٫جن کے ذریعے ہم این جی اوز کو عطیات کر رہے ہیں میں ایک این جی او وزٹ کرنا چاہتا تھا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ساتھ چل سکتی ہیں"

خاموشی اختیار کرنے کے بعد وہ اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا سیرت نے سرسری نظروں سے ٹھنڈی ہوا میں لہلہاتے گارڈن میں لگے درختوں کو دیکھا ہوا کے زور پر جھومتے وہ بےحد خوبصورت لگ رہے تھے

"ٹھیک ہے کب تک جانا ہے "

سیرت کے آمادہ ہو جانے کی اسے ایک فیصد بھی امید نہیں اسکے مان جانے پر وہ کافی دیر تک خاموش رہا!!

"میں  پک کرتا ہوں ایڈریس میسج کر دینا "

"ہممم"

کال منقطع کر کے اسے ایڈریس میسج کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی بلیک ویسٹرن اوور کوٹ بازو پر پھیلائے وائٹ ہیلڈ بوٹس میں منی بلیک پرس میں فون رکھ کر وہ بی جان کے پاس آئی تھی

"کہیں جا رہی ہو بیٹی"

اسے کوٹ درست کر کے کندھوں پر ڈالتے دیکھ کر بی جان نے استفسار کیا

"جی کیا میں جاؤں؟؟ تھوڑی دیر تک آ جاؤں گی " انہیں الفت سے دیکھتی وہ دھیمی مسکان لبوں پر بکھیر گئی بی جان مسکرا کر اسکی جانب دیکھ گئی وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اجازت مانگ رہی تھی!!

"چلی جاؤ میری بچی لیکن اندھیرا ہونے سے پہلے آ جانا موسم خراب ہے"

بی جان نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا انکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھ کر مسکراتے ہوئے وہ سر ہلا گئی تھی باہر گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی تھی اور ساتھ ہی ہارن بھی بجا تھا

"صبر کا مظاہرہ تو تم کبھی نہیں کر سکتے عسکری"

بھنویں سکیڑ کر طنزیہ لب و لہجے میں خود سے بڑبڑانے کے بعد وہ باہر کی جانب واک آؤٹ کر گئی تھی

"Bonjour Miss Seerat"

اسکے مُروت سے لب لباب لہجے پر فرنٹ گیٹ کھول کر سیٹ پر بیٹھتی ہوئی سیرت ایک پل کو ساکت ہوئی تھی لب بھینچ کر گیٹ بند کر کے سیٹ بیلٹ لگا کر اسنے درزدیدہ نگاہوں سے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا تھا فارمل بلیک پینٹ پر  بےشکن بلیک شرٹ جسکا اوپر کا بٹن ہمیشہ کی طرح کھلا ہوا تھا سرمئی کلر کا کوٹ ،، سپید کلائی پر رولیکس کی سلور کلر واچ جلوہ افروز تھی گاڑی اسکے مخصوص کلون(ڈائر ساویج) کی پُرکیف مہک سے معطر تھی!!

"Suis-je autorisé à démarrer la voiture ?

"کیا مجھے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی اجازت ہے"

وہ استفہامیہ نگاہوں سے سیرت کے سردی کے باعث سرخی مائل گالوں کو نگاہِ برق سے دیکھ کر گویا ہوا 

"شکریہ، ہاں گاڑی اسٹارٹ کرو"

نگاہوں کا مرکز روڈ کو بنا کر بےمروتی سے جواب دیکر لب بھینچ چکی تھی سر کو دھیرے سے جنبش دیکر اسنے گاڑی سٹارٹ کی تھی 

"I Think This one's my coat if I'm not mistaken"

"میرے خیال سے یہ میرا کوٹ ہے اگر میں غلط نہیں ہوں"

براؤن سوئیٹر پر بلیک ویسٹرن کوٹ جو یقیناً اسکا ہی تھی نگاہِ غائر سے دیکھ کر وہ ڈرائیونگ کرنے کے دوران سنجیدگی سے بولا تھا

سیرت نے نچلا لب بےساختہ دبایا تھا 

"I wanted to give it back to you. Good thing you reminded me. You know your stuff well"

"میں آپ کو یہ واپس دینا چاہتی تھی اچھی بات ہے کہ آپ نے مجھے یاد دلایا آپ اپنی چیزوں کی اچھی سمجھ رکھتے ہیں"

سینے پر بازؤں لپیٹ کر وہ نظریں چرا کر بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" ارے آؤ بیٹھو میرے پاس"

دروازے پر ناک کر کے وہ دھیمی سی مسکرائی تھی کبرڈ سے کپڑے نکالتی ریحم نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا تھا اسکے دمکتے چہرے کو پُرمسرت نگاہوں سے دیکھ کر وہ اندر آئی تھی

"ناشتہ کیا تم نے"

کبرڈ بند کر کے کپڑے بیڈ پر رکھ کر ریحم اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولی

"ہاں تھوڑا سا"

نظریں جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی 

"کیا ہوا اداس ہو"

اسکی ٹھوڑی کو ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے ریحم نے اسکی بنفشی آنکھوں میں دیکھ کر استفسار کیا سر کو خم دیکر وہ لب بھینچتی نظریں جھکا گئی

"پریشان لگ رہی ہو اگر کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ اب یہاں سے اداس ہو کر تو نہیں جانے دوں گی"

ریحم کی جانب دیکھ کر وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی

"نانو اور امی کی بہت یاد آ رہی ہے "

ریحم نے اسکا اداس چہرہ ہمدردی سے دیکھا تھا دل کیا تھا کہ اسے توصیف اور اپنی ماں کی ساری اصلیت بتانے کے لئے مگر اسے مزید اداس نہیں کرنا چاہتی تھی وہ!!

"تھوڑا سا وقت باقی ہے پھر تو ذاویان بھائی لے جائیں گے"

 ریحم نے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کر اسے چھیڑا تھا آئیذل کے گالوں پر سرخی پھیلی تھی اسکا نام سن کر ناجانے اسکے دل کو کیا ہوا تھا ایک عجب احساس تھا آج جسے آج سے پہلے محسوس نہیں کیا تھا اس لڑکی نے!!

"میں بہت کنفیوز ہوں ریحم وہاں سب کیسے ہینڈل کروں گی سب اتنی جلد بازی میں ہو رہا ہے کچھ دیر میں رخصتی ہے اور میرا دل بہت گھبرا رہا ہے بہت عجیب سے فیلنگ آ رہی ہے ایسے دل میں ناں ۔۔۔۔ عجیب سی پریشانی ہو رہی ہے ۔۔۔ ایسے لگ رہا ہے کہ میں بتا بھی نہیں سکتی میں اسوقت کیسا محسوس کر رہی ہوں"

دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اسنے اپنی الجھی ہوئی کیفیت سمجھانے کی کوشش کی تھی ریحم مسکرا کر سر ہلا گئی تھی

"میری جان تمھاری شادی ہے آج اس لئے ایسی فیلنگ آ رہی ہے اِدھر دیکھو میں تمھیں کچھ سمجھا رہی ہوں غور سے سننا اور عمل بھی کرنا"

آئیذل نے معصومیت سے سر ہلایا تھا ریحم نے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا تھا

"یار تم اتنی معصوم کیوں ہو تم سے بات کرتے ہوئے مجھے شرم آ رہی ہے "

ریحم نے ماتھا پیٹ کر کہا تھا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا

"کیوں ایسا کیا کہنے والی تھی تم مجھ سے"

آئیذل نے بھنویں سکیڑی تھی ریحم کی ہنسی چھوٹنے والی تھی اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر

"یار تمھیں امی ہی سمجھائیں گی"

ریحم نے الجھ کر بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا تھا اچانک ہنس پڑی تھی وہ جس پر آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا مگر زیادہ دیر وہ بھی ہنسی نہیں روک پائی تھی دونوں کی ہنسی سن کر برآمدے سے گزرتی عائزہ بیگم کا دل جل گیا تھا 

"قہقے سنو موصوفہ کے اپنی شادی کے دن  توبہ توبہ"

زہر کند نظروں سے دونوں کو دیکھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"انس بیٹا ذاویان کہاں ہے"

ڈیکوریٹرز سے گفتگو کرتا انس مہر النساء بیگم کے استفسار پر چلتا ہوا کچن کی جانب بڑھ گیا تھا 

"وہ ڈی آئی جی صاحب کی کال آئی تھی انکے ساتھ ہی گئے ہیں کہیں میں تو بڑا روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے ایک نہیں سنی"

انس نے شانے اچکاتے ہوئے فریزر سے سیب اٹھا کر بائٹ لیتے ہوئے تاسف سے کہا مہر النساء بیگم نے سرد آہ بھری تھی

" اپنی شادی کے دن بھی کام کر رہا ہے "

"کوئی بات نہیں ایک بار بھابھی آ گئی پھر تو بھائی باہر ہی نہیں آئیں گے"

انس نے ہنستے ہوئے سر جھٹک کر کہا تھا مہر النساء بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا جب کہ کچن میں داخل ہوتی چاہت کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی مہر النساء بیگم نے ہمدردی سے چاہت کا زرد رنگ چہرا دیکھا تھا انس نے چاہت کا دیکھ کر سیب کا بڑا سا بائٹ لیا تھا 

"کم کھایا کرو پیٹ پھٹ جائے گا ایک دن تمھارا"

چاہت نے انس کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا جس پر اسکا منہ لٹک گیا تھا مہر النساء بیگم نے اسے محبت سے دیکھا جو ٹوسٹر سے بریڈز نکال کر پلیٹ میں رکھ رہی تھی

"چاہت کیا تم شادی میں شرکت کر رہی ہو"

چاہت نے سر اٹھا کر ہلکی مسکراہٹ کیساتھ مہر النساء بیگم کس دیکھ کر سر ہلایا تھا مہر النساء بیگم نے اسکے اداس چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا

"میں بریک فاسٹ لگا دیتی ہوں ڈائننگ ٹیبل پر"

بریک فاسٹ کی چیزیں اٹھائے وہ باہر نکل گئی تھی انس بھی باہر نکل گیا تھا مہر النساء بیگم سیرت کا یاد کرتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گئی تھی ذاویان نے مختصر کہہ کر اسے بی جان کے پاس بھیج دیا تھا اور اس سے وضاحت طلب کرنے کا حق وہ نہیں رکھتی تھی نہ ہی ماں بیٹے کے تعلقات اتنے اچھے تھے!!

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گاڑی کا گیٹ بند کر کے اسکی نظر سب سے پہلے گارڈن میں کھیلتے چھوٹے چھوٹے بچوں پر پڑی تھی سیاہ آنکھوں میں رنج و افسوس کے آثار واضح تھے کیونکہ یہ سب لاوارث تھے 

"چلیں مس سیرت"

اسکی آواز میں محوِ سوچ سیرت ان چھوٹے معصوم بچوں کو نظروں کے حصار میں لئے ناجانے کب اندر داخل ہوئی تھی این جی او کی گارڈین نے انکا استقبال کیا تھا 

"ہیلو ڈیڈ"

سیرت نے سر جھٹک کر اسکے لبوں پر بکھرتی ایک فریفتہ کر دینے والی مسکراہٹ کو دیکھا جو ایک چھوٹی بچی کے اسے ڈیڈ کہنے پر نمودار ہوئی تھی جھک کر اس تین سے چار سال کے درمیان عمر کی بچی کو اٹھائے وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"یہ لیڈی کون ہیں"

سیرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ اسکی جانب دیکھ کر استفسار کرنے لگی سیرت نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا 

"میں آپکے ڈیڈ کی فرینڈ ہوں اینجل"

انکی جانب قدم بڑھاتی سیرت لبوں پر ہلکی مسکان سجائے بولی تھی وہ بچی سوالیہ نظروں سے حدید کی جانب دیکھ گئی تھی اسنے دھیرے سے سر ہلایا تھا جس پر وہ مسکراتے ہوئے سیرت کی طرف ہاتھ بڑھا گئی سیرت نے مسکرا کر اسکا ہینڈ شیک کیا تھا

"ڈیڈ میں نے آپکے لئے ڈرائنگ بنائی ہے میں ابھی لیکر آتی ہوں مجھے نیچے  اتاریں"

اسے نیچے اتار کر وہ سیرت کی جانب دیکھ گیا جو اسے شائستگی سے دیکھ رہی تھی

"تمھیں ڈیڈ کہتی ہے وہ" 

اسے این جی او کی ریزیڈینشئل بلڈنگ کی جانب خوشی سے بڑھتے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی حدید نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تھا

"ہممم۔۔۔ میں اکثر یہاں آتا ہوں یہ بچی مجھے روڈ سے ملی تھی مس سیرت اور بہت چھوٹی تھی تب ان فیکٹ نیو بورن تھی "

"لوگ کتنے بےرحم ہوتے ہیں"

اسکی بات کاٹ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی وہ دھیرے سے سر جھٹک گیا تھا

"اور وہ تمھیں ڈیڈ کہتی ہے"

اسکے وجیہ چہرے کی طرف پلٹتی وہ آہستگی سے بولی بھوری آنکھوں کا سیاہ آنکھوں سے ایک پل کے لئے ٹکراؤ ہوا 

"ڈیڈ"

اس بچی کی جانب متوجہ ہو کر وہ سنجیدگی سے اسکے پاس گھٹنا ٹکائے بیٹھا تھا 

"آپ بھی دیکھو گی"

سیرت مسکراتے ہوئے اسکے قریب بیٹھی تھی وائٹ چارٹ پر ایک گھر بنایا گیا تھا جس کے پاس ایک چھوٹی لڑکی نے اپنے بابا کا ہاتھ تھام رکھا تھا

"سوری اس میں آپ نہیں ہو لیکن میں آپکو بھی ڈرا کر دوں گی ہمارے ساتھ"

سیرت کی جانب دیکھتی وہ معصومیت سے بولی سیرت نے بےساختہ اسکی جانب دیکھا تھا جو اسکے دیکھنے پر لب وا کئے کچھ کہنے کی غرض سے اسے دیکھ رہا تھا یا شاید بچی کو ٹوکنا چاہتا تھا

"اوکے اینجل میں ویٹ کروں گی "

وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تھی حدید نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا تھا فون کی رنگ ٹون بجنے پر سیرت نے پرس سے فون نکالا تھا 

"اسلام و علیکم بھائی "

اٹھ کر وہ لان کی جانب بڑھتی خوشگوار لہجے میں بولی تھی حدید رضا کی نظریں کافی دیر اسے حفظ کرتی رہی تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آنکھیں وا کر کے اسنے لائٹنگ فریم سے مزین آئینے میں اپنا عکسِ عنابی دیکھا تھا کھلتی گندمی رنگت پر گولڈن اور سفید نگینوں سے آراستہ بھاری عنابی لباس جاذب نظر تھا بیوٹیشنز نے اسے تیار کرنے میں جی جان کی محنت کی تھی

 ہیوی برائیڈل میک اپ میں سجی اسکی بڑی بڑی بنفشی آنکھیں جو بغیر بناؤ سنگار کے دل موہ لینے کے خواص رکھتی تھی اسوقت رہزن لگ رہی تھی لبوں پر مہرون لپ اسٹک لگائی گئی تھی نازک گلاب کی پنکھڑیاں اسوقت گہرے رنگوں میں ڈھل کر قیامت ڈھا رہی تھی اسکی نفیس نتھ کا گہرا مرجانی موتی اسکے لبوں کو شگفتگی سے چھو رہا تھا باریک گردن میں ہیوی ڈائمنڈ جیولری سیٹ ،، کانوں میں میچنگ ہیوی ایئرنگز ،، پیشانی پر عالمِ تاب بندیا اور  اپنی آب و تاب بکھیرتا وہ جھومر!!

بیوٹیشن نے اسکے لمبے بالوں کا واٹرفال ڈیزائن بنا کر پیچھے لمبے براؤن بالوں کو آزاد چھوڑ دیا تھاسر پر ہیوی نگینوں سے آراستہ سرخ دوپٹہ ڈال کر بیوٹیشن اب اسے پِنوں سے سیٹ کر رہی تھی

"اس حُسن کو کل فرصت سے سراہوں گا خیال رکھئے گا اپنا "

اسکی خمار آلود آواز میں کی گئی سرگوشی کانوں میں جیسے رس گھول گئی تھی ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں مبتلا ہو چکی تھی تھی وہ گھنی پلکیں بےساختہ شرم و حیا سے جھک گئی تھی

ماڈرن نیوی بلیک ٹکسڈو ڈریس میں ملبوس وہ جاہ و حشمت شخصیت کا مالک بلیک بَو درست کرنے کے بعد کف لنکس اور سٹنڈز درست کرتے نظریں اٹھا کر آئینے میں اپنا وجیہ عکس دیکھ پومپادِور کریو ہیئر سٹائل میں بال مخصوص انداز میں جیل سے سیٹ کئے گئے تھے میڈیم سٹبل تراشیدہ بیئرڈ میں اسکا دلفریب ڈِمپل دل موہ لینے کو تیار تھا!!

ڈاور راجر ڈوبیس (Excalibur) واچ کلائی پر باندھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے ٹائم دیکھا تھا سات بج چکے تھے لبوں پہ ایک استَکبار متبسم بکھرا تھا سنہری درخشاں آنکھوں میں چمک ابھری تھی بلو امواج پرفیوم اٹھاتے ہوئے اسکی مسکان گہری ہوئی تھی

"ہم۔۔ہمیں تھوڑا سا وقت تو دیں آپ"

"اور کتنا وقت چاہیے آپکو روحِ قلب"

"ک۔۔کچھ ۔۔۔۔سال "

"آپ تھوڑا ویٹ اور کر لیں " 

سائڈ ٹیبل سے اپنا سمارٹ فون لیکر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا تھا 

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

یہ ایک لکژری رائل ہال کا منظر تھا سفید اور بےبی پنک کلر کے پھولوں سے آراستہ یہ ہال سفید لائٹنگ سسٹم سے مزین رات میں بھی دن کا سا منظر پیش کر رہا تھا ماربل فرش پر ریڈ کارپٹ بجھایا گیا تھا جہاں تک نظر جاتی تھی صرف روشنیاں تھی اوپن گارڈن ایریا میں اسوقت سب بےصبری سے انتظار میں تھے

  میوزک چل پڑا تھا سب نے ستائشی نظروں سے وائٹ لینڈ کروزر سے نکلتی عروسی لباس میں سجی دلہن کو دیکھا تھا حورم اور ریحم ریڈ چنری کے کونے تھامے فرنٹ پر تھی باقی لڑکیوں کے ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں سے سجی تھالیاں تھی لہنگا سمبھال کر وہ نظریں اٹھا کر روشنیوں میں چمکتے ہال کو دیکھ رہی تھی 

"مجھ سے دور کہیں نہ جا ۔۔۔

بس یہی کہیں رہ جا ۔۔۔

میں تیری دیوانی رے ۔۔۔۔

افسوس تجھے ہے کیا۔۔۔"

دھیمی چال چلتے ہوئے وہ ریڈ کارپٹ پر چلتی پھولوں سے آراستہ اسٹیج کی جانب بڑھ رہی تھی آنکھوں میں  ایک چمک تھی

"تیری میری کہانی نئی بن گئی ۔۔۔

تو میرا ہو گیا ۔۔۔ میں تیری ہو گئی۔۔۔

جہاں جائے تو سنگ مجھے لے جا"

کھلے آسمان پر کیسے قوسِ قزح پگھل گئی تھی شفاف سیاہ آسمان پر آتش بازی نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا ساتھ ہی اس پر پھولوں کی پتیوں کی برسات بھی شروع ہو چکی تھی 

میوزک ایک پل کو رکا تھا لائٹنگ بجھ چکی تھی پریشانی سے آس پاس دیکھتی وہ پیچھے مڑی تھی ریڈ کارپٹ کے دائیں بائیں جانب لگے واٹرفال اور مائن فائر ورکس جل اٹھے تھے دن سی روشنی پھیلی تھی سرخ رنگ کے ہارٹ شیپ بلونز فرش سے کھلے آسمان میں اڑ گئے تھے

"بارشیں آ گئی اور چلی بھی گئی

کوئی دل میں سوا تیرے آیا نہیں

جو بھی سجدہ کیا نام تیرا لیا 

بھول جانا تجھے ہم کو آیا نہیں"

میوزک دوبارہ چل پڑا تھا اور لائٹنگ دوبارہ روشن ہو چکی تھی 

"ہائے اللہ آئیذل وہ دیکھوو"

حورم نے ستائشی نظروں سے اس وجیہ شخص کو ریڈ کارپٹ پر استکباریت سے قدم اٹھاتے ہوئے دیکھ کر  آئیذل سے چہک کر کہا درزدیدہ نگاہوں سے اسکی ایک جھلک دیکھ کر وہ تاب نہ لاکر نظریں جھکا گئی تھی 

"یہ دعا ہے میری رب سے "

"تجھے عاشقوں میں سب سے "

"میری عاشقی پسند آئے"

جیسے جیسے وہ پُرحشمت شخصیت اسکی جانب بڑھ رہی تھی دل کی دھڑکن شدت پکڑ رہی تھی اوپن گارڈن میں کھڑے افراد ستائشی نظروں سے اس جوڑی کو دیکھ رہے تھے شرم و حیا سے جھکی نظریں بےساختہ اٹھی تھی اسکی جانب اپنا رعنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے سنہری آنکھوں نے قیامت خیز حسن کو نظروں نظروں میں ہی سراہا تھا کچھ سیکنڈ ہچکچاہٹ کے بعد وہ اسکی سپید کلائی پر چمکتی گھڑی کو دیکھ کر اسکی ہتھیلی پر اپنا حنائی ہاتھ رکھ چکی تھی!!

پھولوں کی کلیوں کی برسات میں وہ اسکا ہاتھ تھامے اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی اسکے پرفیوم کی کیف آور مہک اسکے روم روم کو معطر کر چکی تھی اسٹیج کی جانب بڑھتی وہ بےساختہ رکی تھی اسکے رک جانے پر!!

فی میل فوٹوگرافر کیمرہ اٹھائے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ دونوں کو دیکھ رہی تھی

"میم آپ پلیز سر کے قریب ہو جائیں زرا"

جہاں آئیذل کے گال سرخ پڑے تھے وہاں اسنے مسکراہٹ چھپائی تھی سینکڑوں لوگوں کی نظروں کو خود پر مرکوز محسوس کر کے وہ پزل نظروں سے فوٹوگرافر کو دیکھتی اسکے قریب آ کر رکی تھی

"میم تھوڑا سا اور"

حلق تر کرتے ہوئے وہ پس و پیش نظروں سے اسے دیکھ کر ایک قدم اسکی جانب بڑھا گئی اسکی نازک انگلیوں میں انگلیاں الجھائے وہ اسکا ہاتھ دبا گیا تھا 

"اتنی گھبراہٹ بےبی گرل!! تھوڑا اور پاس ہو جائیں "

آئیذل نے لب بھینچ کر اسے ترچھی نظروں سے دیکھا تھا جو استہزائیہ نظروں سے اسکا سرخی مائل چہرہ دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا تیز دھڑکن مزید تیز ہوئی تھی اسکی سنہری آنکھوں کو دیکھنے پر!!

نگاہوں میں ابھرتے الجھن کے بیش بہا تاثرات چھپا کر وہ اسکے روبرو کھڑی ہوئی تھی اسکی دلیری کو نظروں سے سراہا تھا اسنے!!

"یہ تو محض فورمیلٹی ہے"

آئیذل نے نظریں اٹھائی تھی اسکے روبرو کھڑا وہ بےحد دھیمے لہجے میں گویا ہوا تھا

"ہمارا پرائیویٹ فوٹو سیشن تو روم میں ہو گا "

آئیذل کے رخساروں پر رنگِ حیا کا فروغ رنگینیِ حسن کو اس قدر بڑھا گیا تھا کہ سنہری آنکھوں میں خماریت کی گھٹائیں چھا گئی حلق تر کر کے اسنے شرم و حیا سے بوجھل پلکوں کر جھکایا تھا ذاویان نے غائر نگاہوں سے اسکی لمبی گھنی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو دیکھا تھا رخساروں پر پھسلی سُرخی کچھ کم ہو گئی تھی فوٹو سیشن ختم ہوتے ہی آئیذل نے سکھ کا سانس لیا تھا مگر اسکے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر اسنے بےساختہ اسکی سنہری ماہ تاباں آنکھوں کو دیکھا تھا اسکے ہاتھ میں ہاتھ تھمائے وہ اسٹیج کی طرف بڑھ گئی تھی

"کھانا یاد سے کھلا دینا "

"جی پروفیسر"

 ویلوٹ کے وائٹ صوفے پر بیٹھی آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو اسے بٹھانے کے بعد حورم کو سنجیدگی سے حکم صادر کر کے اسٹیج سے اتر رہا تھا نظروں کو جھکا کر وہ لب بھینچ چکی تھی 

"اداس ہونے کی ضرورت نہیں وہ جینٹس سائڈ گئے ہیں میڈیا نے شور مچا رکھا تھا گیٹ پر تھوڑی دیر تک آ جائیں گے "

آنکھوں کو گھما کر وہ ریحم کو دیکھ گئی جو مسلسل اسے چھیڑ چھیڑ کر سرخ کرنے کا ذمہ اپنے سر لیکر بیٹھی تھی

"دیکھو سب کو کیسے رشک بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں تمھیں،، یہ ہے ہماری آئیذل جس سے سب رشک کرتے ہیں،، یہ ہے ہماری آئیذل  جس کو اللہ پاک نے بہتر سے بھی بہتر سے نوازا ہے"

آئیذل نے نظریں اٹھا کر پورے ہال کو سرسری نظروں سے دیکھا تھا سب کی توجہ کا مرکز وہی تھی ایک ہلکی مسکان اسکے لبوں کو چھو کر گزری تھی ریحم کو تشکر بھری نظروں سے دیکھ کر اسنے نظریں جھکا لی تھی آنکھوں میں اشک جمع ہونا شروع ہوئے تھے اپنی ماں کی یاد آتے ہی!!

"میری بیٹی میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا آپ کو پتا ہے جب آپ چھوٹی تھی اور گر جایا کرتی تھی تو آپکی ماں آپ سے کیا کہتی تھی "  چلو اٹھو کھڑی ہو جاؤ میری بچی بہادر ہے ناں " اس بات کو کبھی مت بھولنا میری بچی تم بہادر ہو میرے ساتھ بھی میرے بغیر بھی "

انفال بی بی کی بات یاد آتے ہی اسنے دونوں سختی سے الجھائے ہاتھوں کو کھولا تھا

"دعائیں گہرا اثر رکھتی ہیں نانو آپ نے ہمیشہ میرے اچھے نصیب کی دعائیں مانگی تھی مولا نے مجھے اچھے سے نہیں بلکہ بہتر سے نواز دیا ہے یہ آپکی دعاؤں کا نتیجہ ہے نانو آپکی آئیذل تہہ دل سے شکر گزار ہے آپکی اور اللہ پاک آپ سے کبھی کبھاری شکوہ کر لیتی تھی میں ۔۔۔ نادان تھی ۔۔۔ لیکن میری قسمت تو قابلِ رشک لکھی ہے آپ نے میرے مولا آپ رحمنٰ ہیں جب جب میں نا امید ہوئی آپکی راہ پر سکون حاصل ہوا میرے مالک میں گنہگار ۔۔۔ ادنیٰ درجے کی گنہگار لڑکی آپکی شکرگزار ہے میرے پروردگار!! "

آنکھیں بند کر کے اسنے دل ہی دل میں کہا تھا

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ابر آلود موسم میں آسمان پر بادلوں کا راج تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سڑک کے کنارے پر لگے درخت ہوا کے زور پر جھومتے ہوئے عام سے نظارے کو بھی قابلِ دید بنا رہے تھے یا پھر یہ اسکے نظریے کی خوبصورتی تھی کہ وہ آب و ہوا میں معمولی تغیر کو بھی کھل کر جینا اور دیکھنا چاہتی تھی سیاہ آنکھیں جاذبیت سے گاڑی کی ونڈو سے سڑک کو بھگوتی بارش کو دیکھ رہی تھی 

"کافی؟"

اسکے لبوں کو بےساختہ ایک دھیمے متبسم نے چھوا تھا بارش میں کافی کو انکار کیسے کر سکتی تھی وہ سیاہ بےنور آنکھوں میں چمک ابھری تھی اسکی جانب رخ کرتی وہ دھیرے سے سر ہلا گئی تھی 

"Let's Go Then"

گاڑی کو سٹریٹ کیفے کے سامنے روک کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا سیرت کوٹ درست کرتے ہوئے گیٹ کھول کر باہر نکلی تھی بارش کی ٹھنڈی پھنوار چہرے پر پڑتے ہی اسنے بےساختہ جھرجھری لی تھی اور دونوں بازوں کو لپیٹے وہ اسکے قریب دھیمے قدموں کیساتھ کیفے کی جانب بڑھ گئی تھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد کرسیوں پر بیٹھی گرم چائے اور بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی 

" آج میں دوسری بار ڈس اپوائنٹ ہوا ہوں مس سیرت ،، مجھے لگا تھا آپ انکار کریں گی"

چیئر کھینچ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ دیکر وہ اپنی چیئر درست کرتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا پرس ٹیبل پر رکھتی سیرت نے گہری نظروں سے اسکی بھوری ماہ تاباں آنکھوں کی خوبصورتی کو سراہا اور چیئر پر براجمان ہوئی 

" سوری ٹو سے لیکن آپکو ڈس اپوائنٹنٹ کر کے مجھے دلی تسکین پہنچتی ہے مسٹر عسکری" 

ایک آئی برو اٹھا کر اسکی جانب دیکھتی وہ محکم لہجے میں بولی وہ بےساختہ مسکرا کر سر کو دھیرے سے جنبش دینے میں کامیاب ہوا تھا

"میرا خیال ہے مجھے رضوی انٹرپرائزز کیساتھ ریمیننگ 40٪ ڈیل کو مکمل کر لینا چاہیے"

ویٹر کو اپنے لئے بلیک ٹی اور سیرت کے لئے گرین ٹی لانے کا کہہ کر وہ فون پر ضروری ای میلز چیک کرتے ہوئے متانت زدہ لہجے میں گویا ہوا تھا فون پر علیشہ کا نمبر ڈائل کرتی سیرت نے متعجب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بھنویں اچکائی تھی

"اور تمھاری تیسری شرط کا کیا ہوا"

فون کو پرس میں رکھتے ہوئے سیرت نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کرنا چاہا تھا جس پر وہ ایک پل کے لئے فون سے نظریں اٹھا کر اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانک گیا

"تمھیں یاد ہے"؟

اسکے دلچسپی سے استفسار کرنے پر سیرت کے لبوں پر مخفیانہ مسکراہٹ پھیلی 

"بھولنا میری فطرت میں شامل نہیں ہے"

نگاہِ برق سے اسکی خود پر مرکوز نگاہوں میں دیکھ کر وہ بےتکلفی سے بولی ویٹر نے دونوں کی کافی کے کپ  سامنے ٹیبل پر رکھے تھے سیرت نے کافی کا کپ اٹھایا تھا مگر اسکے فون پر بےنیازی سے انگلیاں سکرول کرنے پر وہ سپ لیتے لیتے رہ گئی تھی

"مس سیرت!! میں نے کسی کو آپکی کافی میں کچھ  بھی ملانے کا آرڈر نہیں دیا لہذا بےفکر رہیں ہماری دشمنی کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپکی کافی میں کچھ ملانے جیسی کم ظرفی کا مظاہرہ کروں گا"

فون کی سکرین کو متانت سے دیکھتے ہوئے وہ اسکی نظریں خود پر مرکوز محسوس کر کے بغیر اسکی جانب دیکھے سنجیدگی سے بولا سیرت نے بھنویں سکیڑ کر کپ ٹیبل پر رکھا تھا فون ٹیبل پر رکھ کر وہ سنجیدگی سے اسکے کپ سے اٹھتی بھاپ کو دیکھ کر اسکی جانب دیکھ رہا تھا 

"میں نہیں مانتی"

سیرت نے اسے پس و پیش نظروں سے دیکھا تھا جس پر وہ سرد آہ بھر گیا

"ٹھیک ہے ہو سکتا ہے کہ آپ اب میرا یقین کر لیں"

اسکی کافی کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا تھا اسنے!! سیرت نے آنکھیں پھیلائی تھی وہ اسکی کافی سے سپ لے چکا تھا

"میں اب یہ ہرگز نہیں پیئو گی مسٹر عسکری"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر وہ مٹھی بھینچ کر بولی تھی 

"ایز یو وش مس سیرت "

سیرت کا کپ اسکے سامنے رکھ کر اپنے کپ کو اٹھائے وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا سیرت نے پیشانی پر بل ڈالے اپنے کپ کو دیکھا تھا

"میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم"

 سرد آہ بھر کر آخر کار سیرت نے اپنا کپ اٹھایا تھا

"اور میں آپکو تجویز کر رہا تھا کہ جب تک آپ یہاں ہیں میرے آفس میں وی پی کی جاب کر لیں"

کافی کا سپ لیتی سیرت نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا 

"یہ ریکویسٹ ہے یا آرڈر "

سیرت نے بھنویں اٹھا کر دلچسپی سے استفسار کیا وہ سر کو دھیرے سے خم دیکر مبہم سا مسکرایا تھا طعنہ دینے کا ایک موقع بھی نہیں چھوڑتی تھی یہ لڑکی!!

فون کی رنگ ٹون بجنے پر سیرت نے کپ سائڈ پر رکھ کر پرس سے فون نکالا تھا ان نان نمبر دیکھ کر وہ لب بھینچ کر کال کنیکٹ کر کے دوسری جانب سے بولنے والے کا انتظار کرنے لگی 

"سیرت میں میرال ہوں"

"ہاں بولو میں سن رہی ہوں"

سکھ کا سانس لیکر اسنے عسکری کی جانب دیکھ کر کہا تھا جو اپنے فون پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا 

"دراصل تم سے اس ویب سائٹ کو لیکر کچھ بات کرنی تھی اگر مناسب سمجھو"

"ابھی نہیں میر"

لب کاٹتے ہوئے اسنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر کہا تھا جس پر میرال متفق ہو گیا تھا کال منقطع کر کے اسکی نظر میسج بار پر پڑی تھی 

"جس شخص کی تمھیں تلاش تھی وہ مل چکا ہے"

"مجھے اسکا ایڈریس چاہیے"

سیرت کی انگلیاں تیزی سے کیبورڈ پر حرکت کر رہی تھی وہ سنجیدگی سے فون سے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھ گیا تھا سیرت کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے آنکھیں بےتاب تھی 

"میں اسوقت باہر نہیں آ سکتا اگر تمھیں ڈیٹیل چاہیے تو میرے اپارٹ تک آؤ ورنہ رات تک کا ویٹ کرو تمھاری وجہ سے میں کسی کی نظروں میں آنے کا کوئی رسک نہیں لے سکتا"

"تمھیں پیمنٹ کس چیز کی مل رہی ہے"

بےزاریت سے میسج ٹائپ کر کے سیرت نے سینڈ کیا تھا وہ سنجیدگی سے کبھی اسکے فون کی سکرین پر تیزی سے حرکت کرتی اسکی گلابی انگلیوں کو دیکھتا تو کبھی اسکے اشتعال سے سرخ پڑتے چہرے کو!!

"ایڈریس بھیج رہا ہوں آ جانا"

میسج پڑھ کر سیرت نے مٹھیاں بھینچی تھی وہ فون پرس میں رکھتی جلدی سے پرس اٹھا کر "سوری مجھے ضروری کام ہے کہہ کر"  مین روڈ کی جانب بڑھی تھی  مینیو پر کیش ڈال کر وہ تیز قدموں کیساتھ اسکی جانب بڑھ گیا تھا پیر پٹختے ہوئے وہ سرخ بھبھوکا چہرا لئے مین روڈ پر بغیر سگنلز دیکھے چل پڑی تھی ایک تیز رفتار گاڑی کو اسکی سمت بڑھتے دیکھ کر بےساختہ اسکے قدموں کی رفتار میں اضافہ ہوا تھا 

اسے کلائی سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا اسنے۔۔ وہ اسکے توانا مظبوط بازو کے زور پر اسکے چوڑے سینے سے آ کر لگی تھی ہوا سے بھی تیز رفتار میں وہ گاڑی ٹھیک اس جگہ سے گزری تھی جہاں کچھ دیر پہلے وہ تن فن کرتی ہوئی چل رہی تھی اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ اسکی تیز دھڑکنوں کو محسوس کرتی رہی اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا اسکا دل!!

 لب بھینچ کر اسنے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھا تھا  

" کیا دماغ خراب ہے تمھارا۔۔۔ دیکھ کر نہیں چل سکتی تم"

جبڑے بھینچے وہ ضبط سے مٹھی بھینچ کر دوسرے ہاتھ میں اسکا کندھا پکڑتے ہوئے دبے لہجے میں غرایا سیرت نے متعجب نظروں سے اسکی آنکھوں میں فکرمندی کے آثار دیکھے تھے چہرا غصے کے عالم میں سرخی مائل پڑ چکا تھا

"سوری"

اسکے غیض و غضب کے باعث سرخی مائل چہرے کو دیکھتی وہ بجھے لہجے میں بولی تھی اسکے معزرت کرنے کی امید نہیں تھی اسے لہٰذا وہ اسے استفہامیہ نگاہوں سے دیکھ کر اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر پیچھے ہوا تھا

"چلو"

اسکے تذبذب نگاہوں سے خود کو گھورتے دیکھ کر وہ پلٹ کر اسکی جانب دیکھ کر سنجیدگی سے بولا سیرت نے حلق تر کرتے ہوئے سر ہلایا تھا اور اسکے ساتھ چل دی تھی ناجانے کیا ہو چکا تھا اسے!!

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

" نہیں یہ ہماری رسم ہے آپکو یہ دودھ پینا پڑے گا ورنہ میری بہن نہیں جائے گی آپکے ساتھ"

ریحم نے خفگی سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کہا تھا حورم نے لبوں پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی تھی آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو تاسف سے سر جھٹک گیا تھا

"ارے بیٹا پی لو نہ"

عروسہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا مہر النساء بیگم نے مسکرا کر سر جھٹکا تھا بھلا وہ جہاں دنیا کا ڈیٹھ جس چیز سے اسے سخت چڑھ تھی کیسے پی سکتا تھا!!

"آپکو جتنا کیش چاہیے میں دے سکتا ہوں لیکن یہ نہیں"

"میں نے بہت محنت سے بنایا ہے آپکو پینا پڑے گا "

ریحم نے اسکی بات کاٹتے ہوئے افسردگی سے ناک سکیڑی تھی انس نے چڑھ کر اس نک چڑھی لڑکی کو دیکھا تھا جو اسکے چڑھ کر آنکھیں دیکھانے پر اسے گھور گئی تھی

"بیٹا پی لو تھوڑا سا رسم ہے "

مہر النساء بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس ڈیٹھ کی منتیں کی تھی 

"ورنہ میری بہن نہیں جائے گی آپکے ساتھ سوچ لیں"

ریحم نے دودھ کا گلاس پکڑتے ہوئے اسے دھمکی دی تھی 

"بھابھی تو ہمارے ساتھ ہر صورت جائیں گی دھمکیاں دینے کی کوشش بھی مت کرنا" انس نے تنک کر کہا ریحم نے دانت پر دانت جمائے آنکھیں سکیڑی تھی اسنے ہاتھ بڑھا کر گلاس تھاما تھا آئیذل نے اسکے تیکھے نقوش چہرے کو دیکھ کر سر دھیرے سے جھٹکا تھا 

"پی لو بیٹا "

افسردگی سے اسنے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کر گلاس واپس رکھا تھا حورم بےساختہ مسکرائی تھی کیونکہ آئیذل ریحم کو دیکھتی سر دھیرے سے ہلا گئی تھی جو دودھ کا گلاس اٹھائے اسکی جانب پلٹی تھی

"چلو اب تمھاری باری"

آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا تھا ریحم گلاس اسکے لبوں کے قریب کر گئی تھی گھنی پلکوں کو جھکا کر اسنے ایک ہاتھ گلاس پر رکھ کر ایک گھونٹ بھرا تھا 

"یہ لو تمھارا ایک لاکھ اب ہمیں جانے دو" 

انس نے نوٹوں کا سٹیک ریحم کی طرف بڑھا کر تنک کر کہا ریحم نے منہ بسورا تھا اسے زہر سے بھی کڑوا لگا تھا انس اشفاق احمد!!

"امی آپ ہی دے دیں "

انس نے ریحم کو گھور کر پیسے مہر النساء بیگم کی جانب بڑھا کر کہا تھا مہر النساء بیگم نے پیسے لیکر ریحم کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھائے تھے 

"نک چڑھی عورت "

اسے پس و پیش نظروں سے مہر النساء بیگم سے پیسے لیتے دیکھ کر انس نے ہننکارا بھرا 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"آہ"

پھولوں کی باسکٹ کو دور پھینکتے ہوئے اسنے کراہ کر انگلی کو دیکھا تھا جس میں کانٹا چھب گیا تھا سرخ سیال کا ایک موتی انگلی کی نوک پر ابھرتے ہوئے چمکا تھا

پرُاشتعال آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی بیڈ پر بکھرے پھولوں کو التہابی نگاہوں سے دیکھتی جلے دل کیساتھ وہ دروازے کی سمت بڑھی تھی مگر پھر پلٹ کر انہدامیت آمیز نگاہوں سے پھولوں سے آراستہ کمرے کو دیکھا تھا

رخصتی کا وقت ہو چکا تھا سب ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں کو لئے ریڈ کارپٹ کر دائیں بائیں کھڑے تھے  آئیذل کا دل ڈوب سا گیا تھا آصف صاحب کو دیکھ کر جو اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا چکے تھے آنسوں کا ذخیرہ حلق میں پھنس چکا تھا سسکی لیکر اسنے گھنی پلکوں کے باڑ کو اٹھا کر آصف صاحب کو دیکھا جو دل برداشتہ ہو کر آنکھوں میں ڈھیروں نمی لئے خوش گوار چہرے سے اسے دیکھ کر اسے ایک باپ کی طرح سینے سے لگا گئے تھے انکے سینے سے لگ کر وہ سسک پڑی تھی کچھ دیر بعد اسکے سر پر شفقت اے ہاتھ رکھ کر وہ اس سے پیچھے ہٹے تھے آئیذل کا دل بےحد بھاری ہو چکا تھا عروسہ بیگم نے اسے سینے سے لگا کر اسے تسلی دی تھی ریحم نے مسکرا کر اسے گلے لگایا تھا

"رونا نہیں پاگل ہاں مجھے بھے بہت یاد آئے گی تمھاری لیکن"

اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ مسکرا کر بولی تھی آئیذل نے لب بھینچ کر حورم کو دیکھا تھا جو نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی مگر یہ آنسوں خوشی اور مسرت کے تھے اسے گلے لگاتے ہوئے وہ رو پڑی تھی ریحم ایک تھالی اٹھا کر آئی تھی جس میں چاولوں کے دانے تھے دونوں ہاتھوں میں چاول بھر کر اسنے سر سے پیچھے اچھالے تھے ہاتھ کانپ رہے تھے گھنی پلکیں لرز رہی تھی حورم نے ڈارک ریڈ گولڈن کناری والی شال اسے اوڑھا دی تھی نرم کانپتے ہاتھ کو اسنے اپنے مظبوط پرتپش ہاتھ سے ڈھانپا تھا دھیمے قدموں کیساتھ وہ ہال سے باہر کی جانب بڑھ رہی تھی لوگ رشک و ستائش بھری نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے 

وائٹ لمو کا گیٹ کھول کر اسنے اسکا ہاتھ شائستگی سے پکڑ کر اسے آہستگی سے گاڑی میں بٹھایا تھا حورم ریحم کیساتھ کچھ فاصلے پر کھڑی مسرت سے چمکتے چہرے کیساتھ اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا گئی تھی نم آنکھوں سے اپنوں میں وہ ان اپنوں کو تلاش رہی تھی جو اپنے تھے ہی نہیں!! 

عائزہ بیگم ،، ممتاز صاحب اور توصیف ناجانے بیچ شادی میں کہاں چلے گئے تھے آئیذل نے مہر آمیز نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکا بھاری لہنگا نیچے سے اٹھا کر گاڑی میں اسکے قریب پھیلا کر رکھتے ہوئے محبت سے اسے دیکھ رہا تھا نظریں جھکائے وہ گولڈن برائڈل پرس پر گرفت مظبوط کر گئی تھی لمو کا گیٹ بند کر کے وہ گاڑی میں بیٹھا تھا آسمان پر آتش بازی کے حسیں مناظر مبذول توجہ تھے گاڑی کے گلاس پر ہاتھ کر اسنے ریحم کو دیکھا تھا جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھی گاڑی سٹارٹ ہو چکی تھی حزن نگاہوں سے وہ کب تک اپنوں کو دیکھتی رہ گئی تھی روشنیوں میں نہائی ہال کی بلڈنگ اب چھوٹے چھوٹے چمکتے موتیوں کی شکل اختیار کر چکی تھی گاڑی روڈ پر گامزن کافی دور نکل آئی تھی

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

"یہ آپکا کوٹ"

اسٹیئرنگ ویل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکی جانب متوجہ ہوا تھا گاڑی سے اتر جانے کے بعد وہ کندھوں سے کوٹ ہٹا کر اسکی جانب بڑھائے گویا ہوئی تھی بھوری آنکھوں نے گہری نظروں سے اسکے تیکھے نقوش چہرے کو دیکھا تھا شارٹ بال ہوا کے دوش پر پیچ و خم کھا کر کبھی اسکے لبوں کو تو کبھی اسکے رخساروں کو چھو رہے تھے 

"لوٹانا ضروری نہیں تھا"

بھوری آنکھوں نے اسکے دودھیا ہاتھ کو غائر نگاہوں سے دیکھا تھا جو بےباک زلفوں کو چہرے کو چھونے سے روک رہا تھا اور لبوں نے عجب سا شکوہ کیا تھا جس پر سیرت نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا 

"یہ آپکا تھا اور مجھے لوٹانا تھا مسٹر عسکری"

وہ بیزاریت سے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھ گئی ایک سرد آہ بھر کر اسنے اسکے ہاتھ  بڑھانے کیساتھ اپنا کوٹ لیا تھا بغیر ایک لفظ کہے وہ پلٹ کر بازوں کو سینے پر باندھے روڈ سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گئی تھی

فرنٹ سیٹ پر پڑا اسکا سمارٹ فون دیکھ کر کوٹ رکھتے ہوئے اسکا ہاتھ ساکت رہ گیا تھا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گئی تھی اسکا فون اٹھائے وہ گاڑی کو لاک کر کے اسکے گھر کی جانب پیش رفت کر گیا تھا 

"بی جان میں چینج کر کے آتی ہوں بہت سردی لگ رہی ہے"

لابی میں داخل ہو کر وہ جلدی سے بولی تھی

"ناجانے کوٹ کہاں چھوڑ آئی یہ لڑکی اتنی سردی میں"

بی جان نے اسے  سردی سے ٹھٹھر کر عجلت سے اپنے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا کر افسوس سے سر جھٹکا تھا دروازے پر دستک سن کر بی جان اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی تھی دروازہ کھول کر وہ استفہامیہ نگاہوں سے اس وجیہ شخص کو دیکھنے لگی جو انہیں دیکھ کر ساکت رہ گیا تھا

" کیا چاہیے بیٹا"

"سیرت اپنا فون گاڑی میں بھول گئی تھیں"

بی جان نے سر کو ہلا کر اسکے ہاتھ سے فون لیا تھا

"بیٹا کون ہو تم"

 وہ سنجیدگی سے پلٹا تھا مگر بی جان کے مخاطب کرنے پر گاڑی کی جانب اسکے اٹھتے قدم رکے کشمکش کا شکار وہ متانت سے انکا ضعیف چہرہ دیکھتا رہا

"بی جان یہ ہمارے بزنس پارٹنر عسکری صاحب ہیں "

اسنے سنجیدگی سے لابی سے باہر آتی سیرت کو دیکھا تھا جو سرد نظروں سے اسے دیکھ کر گویا ہوئی تھی اور انکی جانب ہی بڑھ رہی تھی بی جان کے چہرے اور آنکھوں میں بےیقینی کے عجب تاثرات تھ بی جان کی آنکھوں میں اپنا پن دیکھ کر وہ سیرت کے قریب آنے پر بےساختہ قدم پیچھے لے گیا تھا 

"بیٹا "

بی جان نے اسے پیچھے قدم لیتے دیکھ کر اسے شائستہ نظروں سے دیکھ کر مخاطب کیا تھا انکے اس قدر نرم لہجے پر اسکا دل ناجانے کیوں ایک بیٹ مس کر گیا تھا

"سوری میری ارجینٹ میٹنگ ہے" 

متفکر نظروں سے بی جان کو دیکھ کر بغیر ان سے ایک لفظ لئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا بی جان کی نظروں نے اسکی بلیک لینڈ کروزر کا دور تھا تعاقب کیا تھا سیرت کے کندھے پر ہاتھ رکھنے پر وہ دروازہ بند کر کے اسکی جانب پلٹ گئی تھی

"کیا ہوا بی جان"

"کچھ نہیں میری بچی"

اسکے چہرے کو شفقت سے چھو کر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہو گئی تھی ذہن ماؤف ہو رہا تھا طرح طرح کے خیالات ذہن میں گھر کر رہے تھے

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢- 

رضوی مینشن آج قوسِ قزح کی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا سفید کیسٹّل نما حویلی کے سامنے وسیع اور آراستہ احاطے میں بجلی کے لیمپ روشن تھے درختوں پر لائٹنگ کی گئی تھی حویلی کے وسط میں جلوہ افروز حوض کا شفاف چمکتا پانی لیمپوں کی روشنی میں پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا فاؤنٹین کی ہلکی پھنواریں رنگین لیمپوں سے رنگین ہو کر ایسے دلفریب مناظر پیش کر رہی تھی جیسے قوسِ قزح پگھل کر رس رہی ہو یہ سب اس سادہ لوح لڑکی کے لئے ایک خواب نگر سا تھا ایک خوبصورت فیری ٹیل جیسا!!

اسکا ہاتھ تھامے وہ لان سے بیسمنٹ کی جانب بڑھ رہا تھا بیسمنٹ میں موجود مہمان اس نئے جوڑے کو ستائش اور رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے آسمان پر آتش بازی کا حسین امتزاج ،، ہلکی ٹھنڈی ہوا ،، اور اس وجیہ شخص کے ساتھ نے  حسیں رات کو چار چاند لگا دیئے تھے پھولوں کی پتیوں کی برسات ہو رہی تھی یہ لمحات اسکی ذندگی کے سب سے خوبصورت لمحات میں سے تھے انکے یہاں پہنچنے سے قبل فیملی انکے وارم ویلکم کے لئے پہنچ چکی تھی مہر النساء بیگم نے دونوں کی بلائیں لیکر آئیذل کا استقبال کیا تھا زوہیب صاحب آنکھوں میں نمی لئے اپنی بیٹی کو سینے سے لگا گئے تھے آخرکار انکی بیٹی انکے واحد جینے کی وجہ انکے پاس آ گئی تھی ورنہ ندامت نے اس بےبس باپ کو اس قدر خجل کیا تھا کہ وہ اندر ہی اندر صدمے سے گھلتے جا رہے تھے

"ابھی ایک اور رسم باقی ہے بھابھی"

سب نے انس کی جانب دیکھا تھا جو ایک سنہری تھال اٹھائے ٹیبل پر رکھ چکا تھا مہر النساء بیگم نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تھا 

"بھابھی آپکو ہی انگوٹھی ہر صورت ڈھونڈ کر دیکھانی ہے بھائی سے پہلے "

انس نے ایک انگوٹھی اسے دیکھا کر شریر نظروں سے ذاویان کو دیکھا تھا اور پھر انگوٹھی تھال میں ڈال چکا تھا دودھ سے بھرے اس سفید تھال میں پھولوں کی پتیاں بھی تھی 

"بھابھی بسمہ اللہ کریں"

انس نے خوشگواری سے کہا

آئیذل نے لب بھینچ کر مہر النساء بیگم میں جانب دیکھا تھا وہ سر ہلا کر مسکرائی تھی

"بیٹا یہ رسم ہے جو پہلے انگوٹھی ڈھونڈ لے گھر میں اسکی چلتی ہے چلو شاباش ڈھونڈو"

مہر النساء بیگم نے مسکرا کر کہا تھا آئیذل نے تھال کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا مگر وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنا دوسرا ہاتھ تھال میں ڈال چکا تھا

"بھائی یہ چیٹنگ ہے"

انس نے اسے آئیذل کا ہاتھ پکڑتے دیکھ ناک چڑھایا تھا وہ مسکراتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے انگوٹھی تلاش رہا تھا آئیذل نے ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی مگر اسکی گرفت مظبوط تھی

"چچچ بےبی گرل"

اسکے کان کے قریب جھک کر وہ دھیمے لہجے میں اس پر طنز کر گیا تھا

"آپ چیٹر ہیں پروفیسر"

اسکے دبے لہجے میں خفگی کا اظہار کرنے پر وہ مسکرا کر اسکا ہاتھ چھوڑ گیا تھا تھال کی جانب ہاتھ بڑھاتی وہ نظریں جھکائے انگوٹھی ڈھونڈنے میں محو ہوئی تھی سب ہلکی مسکان کیساتھ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے سوائے ایک چہرے کے جس پر عجب تاثرات تھے جن میں حسد ،، نفرت ،، خجالت سب تھا

 آئیذل نے انگوٹھی پر ہاتھ پڑتے ہی جلدی سے اسے اٹھایا تھا مگر وہ تھال کے اندر ہی بغیر کسی کی  توجہ حاصل کئے مطمئن چہرے کیساتھ اسکا ہاتھ پکڑ گیا تھا آئیذل نے پس و پیش نظروں سے اسے دیکھا تھا 

آئیذل نے الجھی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکا ہاتھ سختی سے دبا گیا 

"Open your fist baby girl"

("اپنی مٹھی کھولو بےبی گرل")

 وہ مبہم مسکان لبوں پر سجائے دھیمے لہجے میں بولا تھا آئیذل کے ناگواری سے آنکھیں سکیڑی تھی

"I will not open, otherwise remove your hand and accept your defeat cheerfully"

("میں نہیں کھولوں گی، ورنہ ہاتھ ہٹا کر اپنی ہار کو خوش دلی سے قبول کریں")

اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھتی وہ استہزائیہ لہجے میں بولی تھی ایک خفیف مسکراہٹ بےساختہ اسکے کٹاؤ دار لبوں پر پھسلی تھی

"ابھی تک نہیں ملی کیا"

انس نے بھنویں اٹھا کر دونوں کو گھورتے ہوئے استفسار کیا تھا ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے وہ دونوں انس کی جانب دیکھ گئے تھے مہر النساء بیگم نے دونوں کو تفتیشی نگاہوں سے دیکھا تھا جبکہ وہاں موجود ایک چہرے پر ناگواریت کے آثار ابھرے تھے دونوں کے ہاتھوں کا بغور جائزہ لینے اور اب تک انگوٹھی نہ ملنے کی اصلیت جاننے کے بعد ...

"پروفیسر ہاتھ ہٹائیں اپنا"

آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا

"Give me the ring my chocolate chip"

("مجھے انگوٹھی دے دو چاکلیٹ چپ")

ذاویان مطمئن نگاہوں سے سب کو دیکھ کر اسکے کان کے قریب دھیمی آواز میں گویا ہوا

آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھ کر سر کو نفی میں ہلایا تھا 

"I have no choice, baby girl"

("میرے پاس کوئی چارہ نہیں بےبی گرل")

آئیذل نے اسے ناسمجھی میں پزل نظروں سے دیکھا تھا جبکہ اپنے ہاتھ کی پشت پر رینگتی اسکی ٹھنڈی انگلیوں پر اسکی مٹھی کھل گئی تھی انگوٹھی اٹھا کر سنہری آنکھوں نے متکبرانہ انداز میں اسے دیکھا تھا آئیذل نے افسردگی سے لب بھینچ لئے تھے 

"اوہ رنگ تو بھائی کو مل گئی "

انس نے افسردگی سے زاویان کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر سرد آہ بھری تھی جبکہ آئیذل نے خفگی سے اسے دیکھ کر سر کو خم دیا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بلینکٹ کو اٹھا کر صوفے پر رکھنے کے بعد وہ کشن درست کر کے صوفے پر بلینکٹ اوڑھ کر بیٹھی تھی جاڑے کا یہ مہینہ تھا باہر تند و تیز خنک ہواؤں کا راج تھا جن کے سبب اسکے رخساروں پر سرخی پھیلی ہوئی تھی کتاب کھولنے کا ارادہ اسنے فون کے بجنے کے بعد ترک کیا تھا ٹیبل پر کتاب رکھ کر اسنے فون اٹھا کر کال کنیکٹ کی تھی

"وعلیکم السلام سوری میر میں نے کال بیک نہیں کیا"

شرمندگی سے پیشانی سہلاتی ہوئی وہ آتش دان میں جلتی آگ کی جانب دیکھ کر گویا ہوئی تھی جب سے وہ موبائل دیکر گیا تھا بی جان کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھی اور سیرت کو انکا پریشان ہونا پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا

"اٹس اوکے سیرت میں اسوقت کال ہرگز نہ کرتا لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کیا تمھارا علیشہ سے رابطہ ہوا ہے"

علیشبہ کا نام سن کر سیرت نے سرد آہ بھری تھی پچھلے کئی دنوں سے وہ مسلسل اس سے رابطے کی کوشش میں تھی 

"نہیں میرا کافی وقت سے اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا نہ میری کال اٹھا رہی ہے نہ میسیجز کا ریپلائے کر رہی ہے ان فیکٹ میں تم سے اسکے بارے میں پوچھنے والی تھی "

کتاب کو گود میں رکھ کر اسنے ورق پلٹتے ہوئے کہا تھا لہجے میں خفگی تھی اور فکرمندی بھی۔

"یقیناً،، کیونکہ میں نے تمھارے جانے کے ٹھیک بعد اس ویب سائٹ پر ری سرچ کی تھی لیکن وہ تو پہلے ہی ڈیلیٹ ہو چکی تھی اور اسکے بعد علیشہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اسنے میری کالز ریسیو نہیں کی"

میر کی بات سن کر بلینکٹ ہٹاتی سیرت کے ہاتھ ساکت رہ گئے تھے اسکا اچانک منظر عام سے غائب ہونا سیرت کو بےحد عجیب لگ رہا تھا آج تک وہ کبھی بھی سیرت کو بغیر بتائے کہیں نہیں گئی تھی اور اب اچانک ہی وہ سب سے رابطہ منقطع کر کہ ناجانے کہاں چلی گئی تھی

"ہاں ویب سائٹ تو میں نے ڈیلیٹ کروائی تھی اسکا یوزر نیم شائد ڈی تھا!! مجھ سے دس لاکھ لئے تھے اسنے یہ ویب سائٹ ڈیلیٹ کرنے کے"

سیرت نے عام سے لہجے میں کہا مگر اسکے کہے گئے الفاظ میر کے سر پر بمب کی طرح پٹھے

"ایک منٹ سیرت ابھی کیا کہا تم نے؟؟ کیا تم ڈی کو جانتی ہو"

 میرال نے چونک کر دریافت کرنا چاہا اسکا خیال تھا اسنے غلط سنا تھا  

"میں اسے پرسنلی نہیں جانتی لیکن اسے یہ ٹاسک میں نے دیا تھا علیشہ نے نادانی میں میرے لیپٹاپ سے ڈارک ویب اسیس کر لی تھی وہاں سے ہی میرا لیپٹاپ اسکے کمپیوٹر آپریٹر سے منسلک ہو گیا تھا میرال تم خاموش کیوں ہو ۔۔ کیا ہوا"

سیرت کے مسلسل بولنے پر بھی دوسری طرف سے خاموشی کا راج برقرار تھا جس پر سیرت کو حیرت ہوئی تھی

"اوہ گاڈ سیرت کیا تم مجھ سے مزاق کر رہی ہو؟؟ سیریئسلی !! ڈی نے تم سے دس لاکھ لیکر وہ ویب سائٹ ڈیلیٹ کی اور تم کہہ رہی ہو تمھارا  اسکے ساتھ رابطہ بھی ہوا تھا تم جانتی بھی ہو ڈی کون ہے ؟؟"

سیرت کی پیشانی پر چند لکیریں کھینچ گئی تھی میرال کے ہنسنے پر بھلا ہنسنے والی کیا بات تھی ؟!!

" ایک ہیکر ہے اور کون  ہو سکتا ہے"

سیرت نے سر کو خم دیکر کتاب کا دوسرا ورق پلٹا تھا

"آئی ٹی لفظ اس واحد شخص کے گرد گردش کرتا ہے اگر میں اسکے بارے میں بتانے پر آ جاؤں تو پوری رات ختم ہو جائے گی ڈارک ویبز ایون ایم۔وی اور نیٹورکنگ سسٹم پر جتنی بھی لیگل یا الیگل ایکٹیویٹیز ہو رہی ہے وہ اس شخص کے زیر نگرانی ہوتی ہیں تم جسے دس لاکھ دینے کی بات کر رہی ہو وہ دس کروڑ کی پیشکش پر بھی منظر عام پر نہیں آئے گا پوری دنیا اسکے بارے میں جاننا چاہتی ہے مگر اسکے کوڈ نیم کے علاوہ کسی کو اسکا نام تک نہیں پتا اور ایک سیکنڈ کیا تم جانتی ہو ڈارک ویب کے زریعے وہ کتنا کما رہا ہو گا کم آن یار میں تمھیں سمجھدار لڑکی سمجھتا تھا مجھ سے ایسا مزاق"

سیرت کا حلق یکلخت خشک ہوا تھا

"اچھا میں آج آفس کے بعد علیشہ کے اپارٹ پر جا کر اسکا پتا کرتا ہوں ویسے جوک بہت اچھا تھا"

کال منقطع ہو گئی تھی سیرت نے اچھنبے کی کیفیت میں فون کان سے ہٹایا تھا

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

وہ کمرے میں جیسے ہی داخل ہوئی تھی پھولوں کی بھینی بھینی مہک نے اسکا استقبال کیا تھا اور ایرومیٹڈ کینڈلز کی تیز مہک ماحول کو پُرکیف بنا رہی تھی دروازہ کھل کر بند ہوا تھا آئیذل کا دل تیزی سے دھڑک کر بیٹھ گیا تھا

 قدموں کی آہٹ۔۔۔ اسکے مردانہ کلون کی مہک۔۔۔ اسکی موجودگی کا احساس !!

اسکے حواس باختہ کرنے کے لئے کافی تھی ہیوی لہنگے کو مٹھی میں پکڑتی وہ لب بھینچ کر پیچھے مڑی تھی دروازہ بند کر کے وہ ورسٹ واچ کو کھولتے ہوئے وارفتہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا

"اسلام و علیکم"

"وعلیکم السلام"

اسے پس و پیش نظروں سے دیکھتی وہ جلدی سے نظریں پھیر کر جواب دے گئی واچ اتار کر بیڈ کے قریب پڑے نائٹ سٹینڈ پر رکھ کر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتی وہ مرر کے سامنے ٹھہری ناجانے کیا سوچ رہی تھی

"لمظ"

"جی"

اسکی سمت دیکھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی 

"چینج کر لیں آپکی وارڈروب سیٹ کروا دی تھی"

آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا متانت سے ٹکسیڈو کے کف لنکس کھول رہا تھا مرر کی جانب بڑھ کر وہ برائڈل بینگلز اتارنے لگی اسکی چوڑیوں کی ہلکی کھنک سن کر موبائل نائٹ سٹینڈ پر رکھتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

"آرام سے کریں لمظ"

سنہری آنکھوں میں نامرغوبیت کے آثار لئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ کر مخاطب ہوا

 شتابیت سے کان کا ایئرنگ اتارتی آئیذل اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر رکی تھی 

"Let Me"

("مجھے کرنے دیں")

اسکے حنائی ہاتھ کو نرمی سے تھام کر ایئرنگ سے ہٹا کر آزادی بخشتا وہ ایک قدم بڑھا کر اسکے روبرو رک کر بولا آئیذل نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تھا 

کان کی لو سے مس ہوتی اسکی ٹھنڈی انگلیوں کے لمس پر بےقصد ہوتی وہ جھرجھری لے گئی 

"I will do it myself, Professor"

(’’میں خود کرلوں گی پروفیسر‘‘)

دوسرے ایئرنگ کی طرف بڑھتے اسکے ہاتھ کو دیکھ کر وہ عجلت سے ہاتھ ایئرنگ پر رکھتی سٹپٹا کر بولی جبکہ اسکے پروفیسر کہنے پر سنہری آنکھوں نے ہزار حیف کا ورد کیا تھا

وارڈروب سے اپنا نائٹ سوٹ لیکر وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا سکھ کا سانس لیتی وہ جلدی سے اپنی جیولری اتارنے لگی

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

""Leo mon ami, je suis très fatigué en ce moment, alors ne me dérange pas"

("لیو میرے دوست، میں اس وقت بہت تھکا ہوا ہوں، اس لیے مجھے پریشان مت کرو")

بلیک کوٹ کاؤچ پر اچھال کر وہ بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موندے متانت ذدہ لہجے میں گویا ہوا مگر اسکا تحمل کا مظاہرہ کرنا اسکے لیو کو پسند نہیں آیا تھا لہٰذا وہ اسکے بیڈ پر چڑھ چکا تھا 

"اممم"

بیزاریت سے آنکھوں کو وا کرتے ہوئے وہ بھاری آواز میں جنگھاڑ کر کہنی سر کے نیچے سے ہٹا کر اٹھا تھا اسکے بیڈ پر چڑھنے سے!! 

"Pourquoi mâchons-tu mon manteau, mon garçon, as-tu faim ?"

("بیٹا تم میرا کوٹ کیوں چبا رہے ہو، کیا تم بھوکے ہو؟")

اسکے سر کی نرم کھال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے استفسار کر گیا مگر وہ سر جھٹک کر دوبارہ اسکے کوٹ کو دانتوں میں دبا گیا

" ce manteau ne vaut même plus la peine d'être vendu aux enchères à bas prix"

" یہ کوٹ اب سستی نیلامی کے قابل بھی نہیں رہا"

وہ معصومیت سے کوٹ کو جبڑوں سے نکال اسکے قریب گرا کر پیچھے ہٹا تھا اپنے کوٹ کو ریزہ ریزہ دیکھ کر وہ تاسف سے اس شیطان کو آنکھیں دیکھا کر بڑبڑایا تھا 

Mais l'odeur est toujours présente, oups l'odeur !!

("لیکن خوشبو اب بھی موجود ہے، افوہ یہ خوشبو")

کوٹ کو اٹھائے چنبیلی کے پھولوں کی ہلکی مہک سانسوں میں کھینچ کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا اسکے پالتو جانور نے اکتا کر سر جھٹکا تھا اس میٹھی خوشبو کی وجہ سے تو اسنے کوٹ کو کھانے کی چیز سمجھ کر تار تار کیا تھا 

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

مہرون کلر کے نائٹ ڈریس میں لمبے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے وہ باہر آئی تھی پورے کمرے میں اسے تلاشنے کی غرض سے نظریں گھمائی تھی چلتے ہوئے وہ روم کی گیلری کی جانب بڑھ رہی تھی کمرے کے اس حصے میں بوہیمین لیمپس کی ہلکی روشنی تھی

"پروفیسر"

وائٹ پردہ ہٹا کر اسنے گھبرا کر اسے پکارا تھا کمرے میں اکیلے ہونے کا احساس اسے پریشان کر رہا تھا ایک عجیب سے گھبراہٹ ہو رہی تھی مگر پردہ ہٹانے کے بعد وہ ونڈو سے شہر  کی روشنیوں کا خوبصورت منظر دیکھ کر تھم گئی تھی چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے وہ اسکے قریب رکا تھا کھڑکی سے ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا آئیذل کے چہرے کو چھو کر گزر گیا تھا پورے وجود میں سردی کی لہر دوڑ گئی تھی مگر اپنے پیچھے اسکی موجودگی محسوس کر کے وہ ساکت رہ گئی لب وا ہوئے تھے کچھ کہنے کے لئے!!

ایک قدم بڑھا کر اسکے بےحد قریب رک کر سردی سے گلابی پڑتے اسکے ریشمی گال کو اپنے ہاتھ کی پشت سے بےخودی میں چھوا تھا  اسکے سرد ہاتھ کے لمس پر وہ جھرجھری لے کر رہ گئی گلابی لبوں نے لرزش کی تھی سانسیں بہک پڑی تھی دلِ مضطر بےتابی سے دھڑک پڑا 

"پروفیسر"

"ذاویان"

اسنے بات سنجیدگی سے ٹوکی تھی لہجے میں بیزاریت،، ناگواریت تھی اسکے دو ٹوک انداز پر لب بھینچے تھے اسنے!!

"Say Zavian"

"کہو زاویان"

اسکی گھنی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کا دیوانگی سے دیکھ کر وہ بےساختہ ایک قدم اسکی سمت بڑھا کر گمبھیر آواز میں گویا ہوا تھا اسکی مزید نزدیکی کا احساس ہوتے ہی اسکی دھڑکنیں تیز ہوگئیں کچھ قدم بڑھا کر وہ ونڈو کے قریب ہو گئی تھی

"No"

اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ تیز دھڑکتے دل کیساتھ یکلخت خشک ہوتے حلق کو تر کر کے دھیمی آواز میں بولی اپنی جگہ سے کچھ قدم پیچھے لئے تھے اسنے!!

"  کہاں جاؤ گی آج رات"

اسکے پیچھے اٹھتے قدموں پر وہ سنہری آنکھوں میں ڈھیروں استکباریت لئے پرسکون لہجے میں کہہ کر ایک اور قدم اسکی سمت بڑھا گیا اسے حراساں نظروں سے دیکھتی وہ لب بھینچ کر ایک اور قدم پیچھے اٹھا گئی مگر صد افسوس پیچھے ٹیبل تھی اسکے ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھ میں تھامے وہ اسے گرنے سے بچا کر اپنی جانب کھینچ چکا تھا اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ شرم و حیاء سے بوجھل گھنی پلکوں کو جھکا گئی 

"ایک نام ہی تو لینا تھا لمظ رضوی کونسا مشکل کام تھا"

ہاتھ بڑھا کر اسکے رخسار کو چھوتی ریشمی بالوں کی لٹ کو چھوتے ہوئے وہ متانت آمیز لہجے میں گویا ہوا آئیذل نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ کے لمس کو اپنے دہکتے رخسار پر محسوس کر کے یکلخت آنکھیں میچی 

"بہت سر پر چڑھا رکھا ہے ان کو آپ نے لمظ کبھی ہونٹوں کو چھونے لگتی ہیں کبھی ان گلابی رخساروں کو ۔۔۔ جبکہ یہ حق تو میرا ہے"

بےحد بھاری آواز میں سرگوشی کر کے وہ براؤن بالوں کی کو اسکے کان کے پیچھے اڑسا کر اسکی بند آنکھوں کو دیکھ کر بولا وہ تھرتھرا کر رہ گئی تھی

"میں ان لبوں سے اپنا نام سننا چاہتا ہوں "

اسکے سختی سے پیوست کئے گئے لبوں کو دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا

"میں نہیں بولوں گی آپ سے"

سختی سے بھینچے لبوں نے حرکت کی تھی بےحد دھیما سہما ہوا لہجہ تھا جس میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا

"میرے پاس اور بھی بہت طریقے ہیں"

سنہری آنکھوں نے فریفتگی سے اسکے تیکھے نقوش چہرے کا جائزہ لیا تھا اسکی دھمکی کا مطلب وہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر سرد لمس کا احساس ہوا جلدی سے آنکھیں وا ہوئی تھی اسکی کمر میں بازو حمائل کئے اپنے قریب کرنے کے بعد وہ دیوانگی سے اسے دیکھ رہا تھا سنہری درخشاں آنکھوں کی تاب نہ لا کر بنفشی آنکھیں بےبسی سے جھکی تھی مگر نظریں جھکاتے ہی اسکے رخسار تمتما اٹھے تھے 

بلیک سلک کے بےشِکن نائٹ روب میں اسکا ریاضت سے تراشا گیا کسرتی بدن جھانک رہا تھا جسمِ مثالی کے سکس پیکس جان فشانی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھے

"Your eyes are saying a lot Lamz"

("آپکی نظریں بہت کچھ کہہ رہی ہیں لمظ")

اسکے کان پر جھک کر وہ دھیمے مگر استکبار لہجے میں بولا تھا وہ اسکی نظریں خود پر مرکوز محسوس کر چکا تھا  بغیر پلکیں جھپکے وہ فریفتگی سے اسے تک رہی تھی اسکی بات سن کر خجل ہو کر آئیذل نے نظروں کو اٹھایا 

"I'm yours, feel free to touch me"

"میں آپکا ہوں، بلا جھجھک مجھے چھوئیں"

 آئیذل کے حلق کے مقام پر گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی کتنی بےباک باتیں کر رہا تھا وہ بغیر اس بیچاری کی پرواہ کئے یہاں اسکی سانسیں اٹکی ہوئی تھی 

"تو اب آپ بات کرنا بھی گوارا نہیں کریں گی"

ٹھنڈی گلاس ونڈو سے کمر لگتے ہی وہ لرز گئی تھی آنکھیں میچی تھی اسنے!!

"آپکی ناراضگی دور کر دینے میں صرف کچھ سیکنڈ لگیں گے مجھے"

 گلاس ونڈو پر اسکے قریب ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے کو ٹھوڑی سے اوپر اٹھایا تھا سانسوں کی روانی میں تیزی آئی تھی اسکے لبوں پر جھکنے پر

"آپکے حق میں شرافت سے مان جانا بہتر تھا لمظ رضوی"

سرد انگلیوں نے اسکی کلائی پر رینگ کر بڑھتی حدت میں مزید اضافہ کیا تھا بنفشی آنکھیں سنہری پرمتکبر آنکھوں کو دیکھ گئی 

"Be strong and face me, face my severity Aizal Zavian Haider"

("مضبوط بنو اور میرا سامنا کرو، میری شدت کا سامنا کرو آئیزل ذاویان حیدر")

اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے اسکا چہرہ اپنے چہرے کے  قریب لا کر وہ بھاری گمبھیر لہجے میں بولا 

""I can face you, I'm not afraid of you."

("میں آپ کا سامنا کر سکتی ہوں، میں آپ سے نہیں ڈرتی۔")

بنفشی آنکھوں نے سرسری نظر سے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھا تھا

"You are Really afraid of me"

("آپ واقعی مجھ سے ڈرتی ہیں")

سنہری آنکھوں نے استفہامیہ نظروں سے بنفشی آنکھوں کو دیکھا تھ

"No"

("نہیں")

خشک لبوں نے حرکت کی تھی

"Yes You Are!!"

("ہاں آپ ہیں!!")

اسکا چہرہ بےحد قریب کرتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا

"I'm Not"

("میں نہیں")

اسکی آنکھوں میں مروت سے دیکھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی

"Fine Kiss Me and Prove It Now"

("ٹھیک ہے مجھے کِس اور اب ثابت کرو")

 آئیذل کا حلق بری طرح خشک ہوا تھا اب کی بار بولنے میں اس قدر دکت پیش ہوئی جیسے حلق میں کانٹے نکل آئے ہوں سنہری درخشاں آنکھوں میں تکبر تھا لبوں پر استہزائیہ متبسم بکھرا ہوا تھا 

"یہ خوف نہیں تو اور کیا ہے لمظ"

اسکے تمتماتے سرخ چہرے کو نظرِ استہزاء سے دیکھ کر اسنے انگوٹھے سے اسکے رخسار کو سہلایا تھا دل شدت سے دھڑک رہا تھا بنفشی آنکھوں میں خفگی تھی

"نہیں کر سکتی؟؟ کیا میں کوئی مدد کروں ۔۔ شروعات میں کرتا ہوں اپنی بہادری ثابت کرو میں تب نہیں رکوں گا جب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کرتی"

اسکی بات سن کر آنکھیں حیرت سے پھیلائے اسنے لب وا کئے تھے مگر وہ اسکے گلابی لبوں پر لب رکھے اسکی سانسوں پر قابض ہوا تھا

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی وہ آنکھیں میچ گئی

 منتشر بہکتی سانسیں التجا کر رہی تھی مگر سب بےسود تھا بنفشی آنکھوں میں آنسوں جمع ہوئے تھے دوسرا ہاتھ اسکے سینے پر رکھے کانپتے وجود کیساتھ وہ اسکے وارفتگیوں پر پگھلتی جا رہی تھی اسکے کندھے میں ناخن پیوست کر کے اسنے دبی دبی سسکی لی تھی دلِ مضطر کی محال ہوتی حالت سے وہ واقف تھا ہر سیکنڈ کیساتھ بڑھتی حدت!!

اسکے مظبوط کسرتی بدن سے سرائیت کرتی حرارت اسے جھلسا رہی تھی دونوں کی پیشانیاں عرق آلود ہو چکی تھی

 اسے حاصل کرنے کی دھن میں وہ بہت دور نکل آیا تھا 

اسکی اکھڑتی سانسوں پر ترس کھا کر وہ اسے آزادی بخش گیا اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹاتی وہ نیم وا آنکھوں سے لمبے سانس لیتی اسے دیکھ گئی منظر تھا جو دھندھلا چکا تھا ہر بھرتی سانس میں اسکی مخصوص مہک کا راج تھا

"I never thought my study bed would host our first night What a shame"

("میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرا مطالعے کا بستر ہماری پہلی رات کی میزبانی کرے گا کتنی شرمناک بات ہے")

اسے گیلری میں پڑے چھوٹے سے بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے وہ نچلا لب دبا کر استہزائیہ لہجے میں گویا ہوا تھا آئیذل نے اسے حراساں نظروں سے اسے دیکھا تھا جو لیمپ آف کر رہا تھا

"یی۔۔۔یہ ۔۔کک۔۔۔کیوں۔۔بجھا۔۔۔رہے۔۔ہیں آپ"

پھولی سانسوں کے بیچ سٹپٹا کر پوچھا گیا تھا لیمپ آف کرتا ہوا وہ لبوں پر خفیف متبسم بکھیرے اسکی سمت دیکھ گیا تھا

"چچچ!! کیا اتنی چھوٹی ہیں آپ لمظ کہ میرا لیمپ بجھانے کا مقصد نہیں سمجھ پا رہی "

اسکی بےباکی میں کہی گئی بات سن کر تھوک نگلتے ہوئے آئیذل نے اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھا تھا ہر گزرتے لمحے کیساتھ کمرے کا ٹمپریچر ہائی ہو رہا تھا یا پھر یہ صرف اسے لگ رہا تھا کیونکہ اسوقت اسکی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو رہی تھی

"اٹس اوکے بےبی گرل!! آج رات اپنی لاڈلی کو پروفیسر زاویان سارے چیپٹر پوری وضاحت ان فیکٹ پریکٹیکل ورک کیساتھ سمجھا دیں گے"

اسکی حیرت سے پھیلتی بنفشی آنکھوں کو محظوظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ بےباک لہجے میں گویا ہوا ناٹ روب کے نچلے بٹن کھولنا شروع کئے تھے اسنے  استعجابی نظروں سے اسے دیکھتی وہ گھبراہٹ سے بلینکٹ مٹھی میں بھینچ گئی 

"پپ۔۔۔پر آپ نے کہا تھا آپ۔۔۔ مجھے ٹائم۔دینا چاہتے ہیں"

ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی

وہ پلٹتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کر گیا تھا آئیذل نے حیرت سے اسے نائٹ روب کاؤچ پر ڈالتے دیکھ کر شرم و حیا سے آنکھیں جھپک کر فورآ نظروں کا زاویہ بدلا

 سنہری ماہ تاباں آنکھوں نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"اور میں نے کہا تھا مجھے ذاویان بولا کریں لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی لہٰذا میں اپنے کہے گئے الفاظ واپس لے رہا ہوں"

آئیذل کے  سارے رنگ اڑ چکے تھے اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اسکا دل دھک دھک کرنے لگا وہ خشک لبوں کو سختی سے بھینچ گئی اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا اس پر جھکا دونوں ہاتھ جن کی ہتھیلیاں ٹکائے وہ بیٹھی تھی کانپ گئے تھے بیڈ پر گرتی وہ آنکھیں میچ گئی اسکے سر کی پچھلی جانب ہاتھ رکھ کر اسنے اسکا سر دیوار میں لگنے سے بچایا تھا

"بی کیئر فل کتنی لاپرواہ ہو گئی ہیں آپ لمظ"

اسکی بھاری گمبھیر سرگوشی پر بےساختہ آنکھیں وا کرتی وہ اسے خود پر جھکے دیکھ گئی

"I know my limits, I can't even touch you without your permission, because I love you to the point of madness, I can't hurt you, baby girl"

("میں اپنی حدوں کو جانتا ہوں، میں تمہاری اجازت کے بغیر تمہیں چھو بھی نہیں سکتا، کیونکہ میں تم سے پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، بےبی گرل)"

بنفشی آنکھوں نے آپ میں ڈھیروں الجھن سمیٹے اسکی سنہری آنکھوں میں جھانکا تھا جن میں عشق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جن میں خماریت کی لہریں شدت اختیار کر رہی تھی

"And I want to make you addicted to me just like I'm addicted to you, sweetheart"

("اور میں آپ کو اپنا عادی بنانا چاہتا ہوں جیسے میں آپ کا عادی ہوں، سوئیٹ ہارٹ")

اسکے دہکتے رخسار پر انگشت شہادت کو مہارت سے پھیرتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا اسکے کیف آور لمس پر بہکتی دھڑکنیں اسکے حسین ڈمپل کو چھونے کی خواہش پیدا کر رہی تھی ناچاہتے ہوئے وہ بہک رہی تھی  بےاختیاری طور پر اسکے حنائی ہاتھ نے اسکے ہلکی تراشیدہ بیئرڈ میں جلوہ افروز اس ڈمپل کو انگلیوں کے پوروں سے چھوا تھا 

"If you keep doing this, it will be difficult for me to control my emotions "

"(اگر تم یہی کرتی رہی تو میرے لیے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا)"

اسکی ٹھنڈی باریک انگلیوں کو اپنی ہلکی بیئرڈ پر ملائم لمس چھوڑتے دیکھ کر وہ خمار آلود لہجے میں اسکی نیم وا آنکھوں کو دیکھ کر گویا ہوا وہ ہلکی سی مسکرائی تھی

"I want to test your patience, Professor "

("میں آپ کے صبر کا امتحان لینا چاہتی ہوں، پروفیسر")

ہلکی مسکراہٹ گلابی لبوں پر سجائے وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی ایک چمک ابھری تھی سنہری آنکھوں میں!!

"Perhaps after every night you forget, Izal Rizvi, what is the relationship between you and me, therefore it is very important for you to spend at least one night with me so that you can remember that you are my Wife"

("شاید ہر رات کے بعد تم بھول جاتی ہو آئیذل رضوی تمہارا اور میرا رشتہ کیا ہے اس لیے تمہارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ کم از کم ایک رات میرے ساتھ گزارو تاکہ تمہیں یاد رہے کہ تم میری بیوی ہو")

آئیذل کے سرخی مائل گالوں کو گرم سانسوں سے دہکا کر وہ بھاری سرگوشیانہ لہجہ اختیار کر گیا آئیذل نے اسکے خماریت سے بھاری ہوتے لہجے پر بےساختہ اپنا ہاتھ اسکی بیئرڈ سے ہٹایا تھا

"Get some rest before I change my mind and you have to endure a whole night of torture "

("تھوڑا آرام کرو اس سے پہلے کہ میں اپنا ارادہ بدلوں اور تمہیں پوری رات اذیت برداشت کرنی پڑے")

 بنفشی آنکھیں اسکی خمدار پلکوں کو غور سے دیکھ رہی تھی اسکے تکبرانہ لہجے پر وہ بھنویں تن گئی تھی مگر کمبخت نظر اسکی آنکھ قریب ایک چھوٹے تِل پر ٹھہری تھی جو آج بےحد قریب آنے پر دیکھا تھا اسنے!!

" Don't want to sleep?? shall i continue "

("سونا نہیں چاہتی؟ کیا میں جاری رکھوں")

اسے اپنے چہرے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے دیکھ کر ایک پراستکبار مسکراہٹ لبوں پر بکھری تھی آئیذل نے لب بھینچ کر آنکھیں میچی تھی اس پر سے اٹھتے ہوئے وہ فون کی چمکتی اسکرین ی طرف متوجہ ہوا مگر دروازے پر زوردار دستک سن کر دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا

"دروازہ کھولا ذاویان حیدر "

اشفاق صاحب کی گرجدار آواز پر جہاں آئیذل چونکتے ہوئے اٹھی وہاں اسکے چہرے پر اشتعال انگیز تاثرات واضح ہونا شروع ہوئے گردن اور پیشانی کی نیلی نسیں ابھر آئی تھی رنگت سرخی مائل پڑی تھی مٹھی بھینچے وہ دروازے کی سمت دیکھ رہا تھا

"Let Me Handle"

آئیذل کو چونک کر بیڈ سے اٹھتے دیکھ کر وہ اسکے چہرے کو نرمی سے چھو کر سنجیدگی سے بولا کاؤچ سے روب اٹھا کر پہنتے ہوئے وہ پیشانی پر بل ڈالے دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا

" میں نے کہا دروازہ کھولو ذاویان"

پرُاشتعال لہجے میں کہہ کر اشفاق صاحب نے مٹھی بنا کر دروازے پر ماری تھی کافی دیر بعد بیزاری سے دروازہ کھولا گیا تھا اشفاق صاحب نے اہانت آمیز نظروں سے اسکا جائزہ لیا تھا نائٹ راب کے شروع کے کچھ بٹن کھلے ہوئے تھے سلکی بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے ساتھ ہی پیشانی پر چند لکیریں ابھری ہوئی تھی سنہری آنکھوں میں ناگواریت تھی 

"بولیے"

 بلیک پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اسنے استکباریت کا مظاہرہ کر کے ایک آئی برو اٹھایا تھا اشفاق صاحب نے مٹھیاں بھینچ گئے تھے مجبوری میں آئے تھے ورنہ اسکے منہ لگ کر کون اپنا دماغ خراب کرتا!!

"چاہت نے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے اور"

"اہممم۔۔ لیکن  میں کیا کروں اشفاق صاحب"

انکی بات کاٹ کر سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ استہزائیہ لہجے میں بولا اشفاق صاحب نے اسکی تمسخر سے بھرپور سنہری آنکھیں دیکھ کر مٹھی مزید سختی سے بھینچی تھی

"اگر اسے کچھ بھی ہوا یاد رکھنا میں"

اشفاق صاحب نے غیض و غضب کی کیفیت میں انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا تھا سنہری آنکھوں میں چنگاریاں پھوٹی تھی

"آواز اور ہاتھ نیچے رکھ کر بات کریں اشفاق صاحب "

اپنی جانب اٹھائی گئی انکی انگلی کو پکڑ کر متکبرانہ انداز میں چھوڑا گیا تھا اشفاق احمد کا سرخی مائل چہرہ محظوظ نگاہوں سے دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے بیڈ پر لیٹی آئیذل کو فریفتہ نگاہوں سے دیکھا تھا اور دوبارہ اشفاق صاحب کی طرف متوجہ ہوا تھا 

"وہ دروازہ نہیں کھولے گی میں ہاتھ جوڑتا ہوں میرے ساتھ چلو وہ کچھ غلط نہ کر لے "

اشفاق صاحب نے عاجزی سے ہاتھ جوڑے تھے وہ نگاہِ برق سے انہیں دیکھ کر ہمت شکن انداز میں مسکرایا تھا اشفاق صاحب کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"چلئے کل میرا ولیمہ ہے میں نہیں چاہتا کسی کی موت کے باعث فنگشن میں رکاوٹ پیش آئے"

اشفاق صاحب نے تیز نظروں سے اسے دیکھا تھا متکبر انداز میں چلتے ہوئے وہ بیسمنٹ کی جانب بڑھ گیا تھا اشفاق صاحب نے حقیر نگاہوں سے اسکی چوڑی پشت دیکھ کر سر جھٹکا تھا 

"دروازہ کھولو میری بچی"

اشفاق صاحب نے دروازے پر دستک دیکر ہمدردی سے کہا تھا مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تھی

"دروازہ کھولو"

دروازے پر دستک دیکر وہ اشفاق صاحب کے فکرمند چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھ کر قطع نظری سے دوبارہ دروازے کی سمت دیکھنے لگا نہ ہی اندر سے جواب آیا تھا اور نہ دروازہ کھولا گیا تھا اشفاق صاحب نے فکرمندی سے دوبارہ دروازے پر دستک دی تھی استغنایت سے لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے اسنے کندھے کے زور پر دروازہ کھولا تھا اشفاق صاحب کا چہرہ فق ہوا تھا بیڈ کے قریب نیچے گری چاہت کو دیکھ کر چہرے پر بھولپن کا چھینٹا پڑ گیا تھا سارا غصہ ایک سیکنڈ میں غائب ہوا چہرے پر ناوبوریت کے آثار واضح تھے وہ سنجیدگی سے پیشانی پر بل ڈالے انکے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا 

"چاہت ۔۔ میری ۔۔ بچی"

ذاویان نے سرد نظروں سے اسکی کٹی ہوئی کلائی سے بہتے خون کو دیکھا تھا جو سفید ماربل فرش پر بھی کثیر مقدار میں پھیلا ہوا تھا اشفاق صاحب نے قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھا تھا

"انس گاڑی نکالو"

اسکی گرجدار آواز رضوی مینشن میں گونجی تھی مہر النساء بیگم جن کا کمرہ چاہت کے کمرے کے بالکل قریب تھا سب سے پہلے کمرے میں آئی تھی انکے پیچھے انس اور گھر کے ملازم بھی ہکا بکا چہرہ لئے سٹپٹائے ہوئے یہاں دوڑے چلے آئے تھے

"دیکھو مہر آج میری بیٹی کی جو حالت اسکا ذمہ دار صرف تمھارا بیٹا ہے"

 اشفاق صاحب نے اسے اشک فشاں نگاہوں سے ذاویان کو دیکھ کر اشتعال انگیز لہجے میں کہا تھا مہر النساء بیگم نے تاسف سے لبوں پر ہاتھ رکھ کر چاہت کو دیکھا تھا جو آنکھیں بھینچے ساکت پڑی تھی مہر النساء بیگم کی نظریں خود پر مرکوز محسوس کر کے وہ

 تیز قدموں کیساتھ کمرے سے باہر نکلا تھا

کروٹ بدل کر وہ متذبذب نظروں سے دروازے کو دیکھ گئی اچانک دروازہ کھلا تھا وہ ہوا کی طرح اندر داخل ہوا تھا اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھی تھی کبرڈ سے سمپل ڈریس نکال کر وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ اٹھ کر مین روم میں آئی تھی کلک سے دروازہ کھلا تھا 

"کیا ہوا آپ کہاں جا رہے ہیں"

نائٹ سٹینڈ سے فون اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکے متفکر چہرے کو دیکھتا رہ گیا اسکی جانب قدم بڑھاتی وہ تذبذب لہجے میں دریافت کر گئی

"بھائی گاڑی باہر نکال لی ہے"

کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوتا انس ہانپتے ہوئے بولا اسکے ہاتھ سے گاڑی کی چابیاں لئے وہ جلدی سے باہر نکلا تھا وہ جلدی سے انس کیساتھ باہر نکلی تھی اسنے حُزن نگاہوں سے چاہت کو اسکے توانا مظبوط بازوں میں جھولتے دیکھا تھا اشفاق صاحب اور مہر النساء بیگم تیز قدموں کیساتھ اسکے پیچھے لاؤنج سے باہر نکلے تھے

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"بی جان دیکھیں نہ میں نے کیا بنایا ہے"

نظر والا چشمہ لگائے سوئیٹر بُنتی بی جان نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا تھا ہاتھ میں چنبیلی کے پھولوں کا گجرا بنائے وہ انکے ضعیف ہاتھ کو تھام کر مسکراتے ہوئے انکے قریب صوفے پر بیٹھی تھی

"سیرت بیٹی"

اسے اپنے ہاتھ میں گجرا ڈالتے دیکھ کر انہوں نے افسردگی سے اسکی جانب دیکھ کر اسے ٹوکنا چاہا تھا جس پر اسنے شیفتگی سے انہیں دیکھا تھا

"بی جان میں نے اتنی محبت سے بنایا تھا آپکے لئے اور آپ انکار کر رہی ہیں"

خفگی سے آنکھیں سکیڑ کر وہ بجھی بجھی آواز میں بولی بی جان نے اسکے بالوں کو شفقت سے سہلایا تھا جس پر وہ مسکرا کر انکی گود میں سر رکھ گئی تھی 

"میری بچی ہماری عمر کہاں ہے ان سب کی تم نے خوامخواہ ہی محنت کی"

اسکی بھورے بالوں کو سہلاتے ہوئے انہوں نے محبت سے کہا

"عمر معنی نہیں رکھتی بی جان محبت کا اظہار تو کسی بھی انداز میں کیا جا سکتا ہے اور یہ میری محبت ہے آپکے لئے اس لئے آپ اسے قبول کریں"

 انکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتی لبوں پر خوشنما مسکراہٹ سجا کر وہ محبت سے بھرپور لہجے میں بولی تھی بی جان نے حزن نگاہوں سے اسکا خوبصورت نقوش چہرا دیکھا تھا آنکھیں موندے وہ سکون محسوس کر رہی تھی

"سیرت تم اس شخص سے دور رہنا"

سیرت نے آنکھیں وا کر کے بی جان کے اداس چہرے کو دیکھا تھا آنکھوں میں ایک خوف تھا جسے وہ سمجھ نہیں پائی تھی 

"کس سے بی جان"

سیرت نے ناسمجھی سے انکی گود سے سر اٹھاتے ہوئے استفسار کیا تھا بی جان نے سرد آہ بھری تھی

"بولیں نہ بی جان کس سے دور رہوں میں"

انکے ہاتھوں کو شائستگی سے تھامے وہ دھیمے لہجے میں بولی بی جان نے ظن و تخمین سے بھرپور نگاہوں سے اسے دیکھا تھا انکے چہرے پر چھائی اداسی نے سیرت کو سوچنے پر مجبور کیا تھا 

"حد۔۔۔۔اس۔۔۔۔ عسکری سے"

بی جان نے الجھ کر کہا سیرت نے پس و پیش نظروں سے انہیں دیکھا تھا جو سر کو خم دیکر دوبارہ سوئیٹر بُننے میں مصروف ہو گئی تھی 

"لیکن کیوں بی جان"

"بحث نہیں سیرت ۔۔۔ تم اس شخص سے دور رہو گی اور خبردار جو وہ آئندہ یہاں آیا"

پیشانی پر بل ڈالے وہ بیزاریت سے کہہ کر صوفے سے اٹھی سیرت نے حزن نگاہوں سے انکو اپنے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آئی سی یو کے باہر گیلری میں پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے اسنے پاکٹ سے فون نکال کر اسکرین پر جگمگاتا اسکا نام دیکھ کر سرد آہ بھری تھی مہر النساء بیگم نے اسکے ہاتھ سے فون کھینچا تھا اسکے کال کنیکٹ کرنے سے قبل!! اسنے متواضع نگاہوں سے اپنی ماں کی چشمِ تر آنکھوں کو دیکھا 

"کیا چاہت نے یہ تمھاری وجہ سے کیا"

اسنے سرد آہ بھر کر مہر النساء بیگم کی جانب خشمگیں نظروں سے دیکھا مگر آج ماں کا غصہ بیٹے کے غصے پر غالب آ رہا تھا 

"کچھ پوچھ رہی ہوں میں تم سے ذاویان"

مہر النساء بیگم نے اسکی مظبوط کلائی پکڑ کر اسے جھٹکتے ہوئے دلدوز لہجے میں پوچھا اسنے نظریں پھیری تھی

"اگر چاہت کو کچھ بھی ہوا تو میں تمھیں ذندگی بھر معاف نہیں کروں گی کیا اس بچی کی ذندگی مذاق ہے تم نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ خود کیا اسکے بعد اس سے شادی توڑ دی لمظ سے شادی کر لی کیا تم نے ایک بار بھی جاننے کی کوشش کی کہ اس بچی کے دل پر کیا بیت رہا ہو گا کس چیز کی سزا بھگت رہی ہے وہ"

دل برداشتہ ہونے کے باعث  مہر النساء بیگم کی آواز بھرا گئی تھی جس حالت میں آج انہوں نے چاہت کو دیکھا تھا انکا دل بند ہونے کے قریب تھا 

"رہنے دو مہرو بہتر ہو گا اگر میں اپنی بیٹی کو لیکر یہ ملک چھوڑ کر یورپ چلا جاؤں جو کچھ ہوا اسکے بعد میں چاہت کو اس گھر میں نہیں رہنے دے سکتا"

اشفاق صاحب نے بدگمانی سے کہا تھا ذاویان نے سرد نظروں سے انہیں دیکھا تھا اسکی تیز نگاہوں پر اشفاق صاحب نے لب بھینچے تھے اسکی سرخی مائل رنگت ،،وائٹ شرٹ کے گریبان سے جھانکتی تنی ہوئی شریانیں ،، مٹھی بھیجچنے کے باعث سپید کلائی پر بھی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھی مہر النساء بیگم ویٹنگ چیئر پر بیٹھ کر تسبیح پر ورد کرنے لگی 

"کبھی اپنے گریباں میں جھانکنے کی ہمت کی ہے اشفاق احمد"

آئی سی یو کی طرف اٹھتے اشفاق صاحب کے قدم ٹھہرے تھے بھاری قدم اٹھاتے ہوئے وہ مطلق نگاہوں سے انکا جائزہ لیکر تضحیک آمیز لہجے میں گویا ہوا

"کیا کہا تم نے"

عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اسے حراساں نظروں سے دیکھ گئے 

"آپکے ہر چھوٹے بڑے کارنامے سے واقف ہوں  اب تک  آپ صحیح سلامت صرف اس لئے ہیں تاکہ اپنے ہر گناہ کا خمیازہ بھگت سکیں"

پرتپش لہجے میں کہہ کر وہ زکیک چال چلتے ہوئے آئی سی یو کی جانب بڑھ گیا جہاں سے ڈاکٹر باہر آئے تھے ڈاکٹر کو دیکھ کر اشفاق صاحب تیزی نے انکی جانب پیش رفت کر گئے 

"پیشینٹ خطرے سے باہر ہیں لیکن کافی خون بہہ گیا ہے رضوی صاحب دیکھنے سے لگ رہا ہے یہ خودکشی کا کیس ہے"

ڈاکٹر نے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا اشفاق صاحب نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا

"یہ ہمارا پرسنل میٹر ہے اگر آپ دخل اندازی کرنے سے اجتناب کریں"

"آفکورس"

ڈاکٹر نے اسکی پیشانی پر پڑتے بلوں کو دیکھ کر متواضع لہجے میں کہا اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے ذاویان کو دیکھا تھا

"کیا ہم گھر لے جا سکتے ہیں"

"سوری پیشینٹ کو ابھی حوش نہیں آیا انکے ہوش میں آتے ہی آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں اور انہیں کچھ انجیکشن دینے ہیں جو بےہوشی کے عالم میں نہیں دیئے جا سکتے ایکس کیوز می"

ڈاکٹر نے پروفیشنل لہجے میں کہا اور گیلری کی جانب بڑھ گئے اسنے سرد آہ بھری تھی

"تم کہیں نہیں جا رہے اگر کوئی ایمرجنسی ہو گئی "

اشفاق صاحب نے اسے گیلری کی جانب بڑھتے دیکھ کر اسکے سامنے رک کر سنجیدگی سے کہا اسنے تضحیک آمیز نظروں سے اشفاق صاحب کو دیکھا تھا 

"اشفاق ٹھیک کہہ رہے ہیں بیٹا رک جاؤ"

مہر النساء بیگم کی جانب دیکھ کر اسنے کرخت نظروں سے اشفاق صاحب کو دیکھا تھا 

                                               -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کانفرنس روم میں اسوقت ہو کا عالم تھا سب کی نظروں کا مرکز وائٹ تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ خوبرو شخص تھا جس کی بہرہ ور شخصیت اسوقت متانت سے فائل کا مطالعہ کرنے میں محو تھی

"In addition to equity, I want twenty percent interest.”

فائل کو بند کر کے چیئر سے اٹھتے ہوئے اسنے  اقبال مندی کا مظاہرہ کیا تھا کانفرنس روم میں بیٹھے تمام افراد نے عرش جباری کی سمت بےساختہ نظریں پھیری تھی

"But I can make a twenty percent equity deal with you, not even one percent interest, Mr. Askari"

پروجیکٹر بند کرتے عرش نے نظروں میں ڈھیروں الجھن لئے اسکی جانب دیکھ کر ہنکارا بھر کر کہا تھا اسنے متانت زدہ نظروں سے عرش جباری کو دیکھا تھا اسکی پُر تمازت نظروں کو دیکھ کر عرش نے نظروں کا زاویہ بدل کر لب بھینچے تھے وہ اپنی کمپنی کے حالات سے بخوبی واقف تھا اور یہ ڈیل اسے ہر صورت کرنی تھی

"Okay Mr Askari This deal is very important to me, if you want interest, you can take it with equity"

اسے ٹیبل سے اپنا سمارٹ فون اٹھاتے ہوئے دیکھ کر عرش جباری ہڑبڑا کر کھڑے ہوتے بولا تھا سمارٹ فون اٹھاتے حدید نے استہزائیہ نظروں سے اسکا جائزہ لیا تھا اسکا متکبر انداز عرش جباری کو اندر ہی اندر کاٹ رہا تھا

"You have made a good decision otherwise your company would have gone bankrupt by next week Arsh Jabari!!

پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر استکباریت سے کہہ کر اسے پورے کانفرنس ہال میں شرمندگی سے نظریں بچانے پر مجبور کر گیا  عرش جباری نے ضبط کے باعث بےحد سختی سے مٹھیاں بھینچی تھی اسنے سنا تو تھا حدید رضا عسکری ایک جاہ و حشم رکھنے والی شخصیت تھی اور وہ اس سے فصاحت کی امید رکھتا تھا مگر پہلی ملاقات میں ہی وہ عرش جباری کو اپنے خلاف کر چکا تھا فائلز سمیٹ کر وہ تیزی سے کانفرنس روم سے باہر نکل کر کسی سے ٹکرایا تھا سیرت نے پیشانی پر بل ڈالے فون سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا تھا 

"I'm Really Sorry Miss"

ماربل فرش پر گری فائلز اٹھا کر نظریں اٹھا کر وہ معزرت زدہ لہجے میں بولا اسکا چہرہ دیکھ کر سیرت کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت رہ گئی تھی فائل سمیٹ کر وہ لفٹ کی جانب بڑھ گیا تھا سیرت نے پلٹ کے بےیقینی سے اسکی جانب دیکھا تھا کافی دیر وہ اسے دیکھتی رہی تھی 

"جس شخص کی تمھیں تلاش تھی وہ مل چکا ہے"

"اسکا مطلب وہ سچ کہہ رہا تھا اسنے سچ میں عرش کو ڈھونڈ لیا تھا"

کانپتے ہاتھ کو اسنے خشک لبوں پر رکھا تھا 

"لیکن۔۔۔لیکن عرش یہاں کیسے ہو سکتا ہے"

"Suis-je autorisé à démarrer la voiture ?"

اسکے ذہن میں اچانک جھماکا ہوا

"Claire De Lune"

"عسکری نے بھی گاڑی میں مجھ سے فرینچ میں بات کی تھی اور وہ ہیکر"

پیشانی پر چند بل پڑے تھے گہری سیاہ آنکھوں میں بےیقینی تھی ہڑبڑاہٹ میں اسنے اپنے بلیک پرس سے فون نکالا تھا مگر پرس میں فون کو نا پا کر اسنے اکتاہٹ کیساتھ آس پاس نظریں گھمائی تھی پرس کو تیزی سے آفس سے باہر نکلی تھا اسکا رخ اپنے گھر کی جانب تھا جہاں وہ فون بھول کر آئی تھی ذہن میں ڈھیروں سوال گردش کر رہے تھے جن کا جواب صرف اسکے فون سے مل سکتا تھا

                                                -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

اگلی صبح:-

آنکھیں وا کر کے اسنے سر پھیر کر اپنے ہاتھ کی پشت پر لگی ڈرپ کی سوئی دیکھی تھی ایک متکبرانہ مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھسلی تھی گلاس ونڈو سے ویٹنگ چیئر پر فون کا التفات سے استعمال کرتے ذاویان کو دیکھ کر نچلا ہونٹ دباتے ہوئے وہ اٹھی تھی نرس اندر داخل ہوئی تھی

"میم اب کیسی طبعیت ہے آپکی"

نرس نے خوشدلی سے پوچھا تھا لبوں پر دھیمی مسکان سجائے وہ سر کو دھیرے سے ہلا گئی نرس نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا

"باہر میرے ہڈبینڈ ہیں انہیں اندر بھیج دو گی"

"جی ضرور"

نرس سر ہلا کر باہر نکل گئی تھی اسکی آنکھوں میں چمک ابھری تھی

"سر آپکی وائف نے آپکو اندر بلایا ہے"

نرس نے باہر آ کر عام سے لہجے میں کہا تھا مہر النساء بیگم نے ذاویان نے سپاٹ چہرے کا جائزہ لیا تھا فون پر انگلیوں کی گرفت مظبوط ہوئی تھی اٹھ کر وہ آئی سی یو کا بھاری دروازہ کھول کر اندر چلا گیا تھا مہر النساء بیگم جلدی سے اٹھی تھی اسکا سرخی مائل چہرہ دیکھ چکی تھی وہ!!

"ذاویان آپ"

"کیا کہا تم نے اس نرس سے"

پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا تھا پتھریلے لہجے میں کہہ کر اسنے پرُاشتعال آنکھوں سے بیڈ پر لیٹی چاہت کو دیکھا تھا مہر النساء بیگم نے تاسف سے چاہت کو دیکھا جس کی آنکھوں میں نمی ابھری تھی

"مم۔۔میں نے اسے کچھ نہیں ۔۔۔ کہا"

ہاتھ کی پشت سے گالوں پر بہتے آنسوں عجلت سے صاف کرتے ہوئے وہ ڈبڈبی نظروں سے مہر النساء بیگم کو دیکھ گئی جو ذاویان کو افسوسناک نظروں سے دیکھ کر چاہت کی جانب بڑھ گئی تھی

"سس۔۔سسوری ۔۔۔ مماں ۔۔۔ میں۔۔۔ بہت شرمندہ تھی ۔۔۔میں تو۔۔۔۔۔  ذاویان سے معافی مانگنا چاہتی تھی میں نے ان سب کاموں کے لئے۔۔۔ جو کچھ۔۔۔ میں نے کیا۔۔۔ اس دن میں ذاویان۔۔کے لئے ۔۔۔ کھانا لیکر بھی گئی تھی ۔۔۔ پپ۔۔پر۔۔۔ ذاویان۔۔۔نے۔۔۔ مجھے روم سے نکال دیا ۔۔۔ اور مجھے معاف بھی نہیں کیا ۔۔۔ اس لئے ۔۔۔ میں نے ۔۔۔  سوچا۔۔۔ کہ ۔۔۔ مر جانا چاہیے مجھے"

سسکتے ہوئے وہ مہر النساء بیگم کے سینے سے لگ کر اٹک اٹک کر بولی مہر النساء بیگم نے اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو درست کیا تھا ذاویان نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے تیکھے تیوروں سے اسے دیکھا تھا

"بیٹا تمھیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے تم وعدہ کرو تم  اپنے ساتھ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرو گی وہ تو اللہ کا لاکھ شکر ہے تمھیں کچھ نہیں ہوا "

مہر النساء بیگم نے ہمدردی سے سسکیوں کے بیچ روتی چاہت کو دیکھ کر کہا 

"لی۔۔۔لیکن ذاویان"

چاہت نے ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھا تھا پیشانی پر بل ڈالے اسنے تاسف سے سر جھٹکا تھا

"ذاویان آج کے بعد ایسا کبھی نہیں کرے گا"

ذاویان نے مہر النساء بیگم کی بات سن کر کرخت نظروں سے انکی سمت دیکھا تھا مہر النساء بیگم پیچ و تابی کی کیفیت میں اسے ایک سخت نظر دیکھ کر دوبارہ چاہت کی طرف متوجہ ہوئی تھی اشتعال اڑاتی نظروں سے چاہت کو دیکھ کر وہ آئی سی یو سے باہر نکل گیا تھا

                                                -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

آفس کا دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے لیپٹاپ سے بےساختہ نظریں اٹھائی تھی اسکی پرمیشن کے بغیر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی کرخت نظروں سے اسنے اندر داخل ہوتی سیرت کو دیکھا تھا بلیک ربڈ سوئیٹر اور بلیک سکنی جینز میں کندھوں پر بلیک اوور کوٹ ڈالے پر اشتعال آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی

سیرت نے پرس ڈیسک پر پٹخنے کے انداز میں رکھا تھا وہ سنجیدگی سے اپنی بلیک ریوالونگ چیئر سے اٹھا تھا وہ لیفٹ سائڈ سے گزر کر اسکے روبرو کھڑی ہوئی تھی بھوری درخشاں آنکھوں نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں کا جائزہ لیا تھا جن میں نمی کیساتھ غیض و غضب کے آثار تھے 

"شرٹ اتارو اپنی"

سیرت نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا مگر اسکے صادر کئے گئے حکم پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"میں نے کہا شرٹ اتارو اپنی"

اسکی بھوری ماہ تاباں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ تذبذب نظروں سے اسے دیکھ کر بولی سیرت کے تمتماتے سرخ چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھا گیا تھا کٹاؤ دار لبوں کے کنارے دلفریب مسکراہٹ میں ڈھل گئے تھے

"تم جانتی بھی ہو کیا کہہ رہی ہو تم سیرت"

ایک قدم اسکی جانب بڑھائے اسکے اپنے مردانہ کلون کی طلسمی مہک سے باور کروائے وہ بھاری گمبھیر آواز میں گویا ہوا تھا 

"شرٹ اتارو ورنہ میں"

شعلہ آنکھوں سے اسے دیکھتی وہ اسکی وائٹ شرٹ کا کالر پکڑتی دبے لہجے میں غرائی تھی

"ٹھیک ہے شوق سے کرو"

دونوں ہاتھوں کو پینٹ کی پاکٹ سے نکالے اسنے استکباریت سے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا سیرت نے تھوک نگل کر اسے کاٹدار نظروں سے دیکھا تھا جو کرخت نظروں سے اسکے چہرے کی باریکیاں حفظ کر رہا تھا حلق تر کر کے اسنے نظریں اسکی شرٹ کے کالر پر جمائی تھی حلق کے مقام پر ایک گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی اسکی وائٹ شرٹ کے تیسرے پلاٹینم بٹن پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسنے خجل نظروں سے اسے دیکھا تھا

"I don't know what you want to do but it's best to continue your act if you don't want to be embarrassed in front of me"

("میں نہیں جانتا کہ تم کیا کرنا چاہتی ہو لیکن اگر تم میرے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تو اپنا عمل جاری رکھنا بہتر ہے")

اسکے شرم سے تمتماتے سرخ چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھ کر وہ بھاری سرگوشیانہ لہجے میں بولا سیرت نے لب بھینچ کر اسکی شرٹ کا تیسرا بٹن کھولا تھا 

"Good Girl"

اسنے تضحیک آمیز لہجے میں اسکی حوصلہ افزائی کی تھی سیاہ آنکھوں نے التہابی نگاہوں سے اسکی بھوری آنکھوں کو دیکھا تھا

"If you are so scared then don't do it and let all the doubts stay in your mind to lick your mind like termites"

"اگر تم اتنا ہی ڈرتی ہو تو ایسا مت کرو اور تمام شکوک و شبہات کو اپنے دماغ 

کو دیمک کی طرح چاٹنے دو"

اسکے ہاتھ پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھے وہ ایک آئی برو اٹھا کر سنجیدگی سے بولا تھا سیرت نے اسکی پرتپش ہتھیلی سے اپنا ہاتھ نکال کر آنکھیں میچی تھی

"How beautiful you look When You're confused Seerat Rizvi"

"کتنی خوبصورت لگتی ہو جب تم کنفیوز ہوتی ہو سیرت رضوی"

اسکے دہکتے سرخ گال کو رعنا  انگوٹھے سے سہلا کر وہ طنزیہ لب و لہجے میں گویا ہوا سیرت نے آنکھیں وا کر کے اسکے ہاتھ کو اپنے چہرے سے جھٹکا تھا اسکی شرٹ کے چوتھے بٹن کا کھولا تھا اسنے!!

"What a shameful act you are doing Seerat,, if any worker of my office sees us like this"

’’کتنی شرمناک حرکت کر رہی ہو سیرت، اگر میرے دفتر کے  کسی کارکن نے ہمیں اس طرح دیکھا لیا"

"مجھے پرواہ نہیں"

اسکی اسکتبار آنکھوں میں دیکھتی وہ کاٹدار لہجے میں بولی ایک دلفریب مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا تھا پانچویں بٹن کی جانب بڑھتی وہ شرمندگی سے اسے دیکھ گئی تھی اسے محظوظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسنے ایک قدم مزید اسکی طرف بڑھا کر اسکے کانپتے ہاتھوں کو اپنے سینے سے ہٹا کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کئے تھے اسکے دودھیا کسرتی بدن سے سرائیت کرتی حرارت اور اسکی کرامتی مردانہ کلون کی مہک اسکے حواسوں کو سلب کر رہی تھی سارے بٹن کھول کر اسکی مغرور دلکش بھوری آنکھوں نے سیرت کی سیاہ آنکھوں کو دیکھا لب بھینچے وہ اسکا توانا مظبوط کسرتی بدن دیکھ کر۔ سرخ پڑی تھی

"What do you want to do now?"

"(اب کیا کرنا چاہو گی")

اسے پزل دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے استفسار کیا سیرت نے کانپتے ہاتھ سے اسکے سینے سے شرٹ ہٹائی تھی جہاں وہی مخصوص کوڈ نیم ٹیٹو دیکھ کر اسکا دل بند ہونے لگا تھا

"Clair De Lune"

"(چاندنی)"

سیرت کا دل شدت سے دھڑکا تھی وہی گمبھیر آواز سن کر!!

"کیا ہوا پہچانا نہیں"

اسکی خوفزدہ سیاہ آنکھوں میں سرسری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ استہزائیہ لہجے میں گویا ہوا تھا

"دور رہو مجھ سے"

اسے اپنی جانب قدم بڑھاتے دیکھ کر اسنے ہاتھ بڑھا کر دو ٹوک لہجے میں کہا تھا مگر سیرت کی جانب اٹھتے قدم بےساختہ اسکی جانب ہی اٹھتے چلے گئے وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی سرخی مائل آنکھوں سے اسے دیکھتی اسے اپنے روبرو دیکھ کر نفرت سے سر جھٹک گئی ٹیبل کی طرف بڑھ کر اپنا پرس اٹھا کر وہ دروازے کی جانب بڑھی اسکی کہنی سے پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا تھا اسنے!!

رالف روسو بلیک شوز میں قید اسکا دایاں پاؤں ٹوئسٹ ہوا تھا اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر خود کو گرنے سے باز رکھ پائی تھی

" میں صرف تمھارے پاسٹ کے بارے میں جاننا چاہتا تھا "

اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں سختی سے تھام کر اپنے چہرے کے بےحد قریب لا کر وہ متانت ذدہ لہجے میں بولا تھا ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی تھی اسنے!!

"اور عرش کو تم نے بلایا یہاں"

اسنے سنجیدگی سے اسکی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا تھا

 "بولوووو"

اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو اپنے رخسار سے ہٹاتے ہوئے وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے کاٹدار لہجے میں بولی  اسنے سنجیدگی سے اسکے سرخ رخساروں پر ڈھلکے ہوئے آنسوں کو دیکھا 

"ہاں"

اسکے بےپرواہ انداز میں دیئے گئے جواب پر پلکوں کی حد کو توڑ کر ایک آنسوں اسکے سرخ رخسار پر گرا تھا کتنی تکلیف ہوئی تھے اس شخص کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر یہ صرف اس دس سالہ لڑکی کا کرچی کرچی ہوا دل جانتا تھا جس نے کم عمری میں اتنی بڑی اذیت برداشت کی تھی!! 

"چھوڑو جانے دو مجھے"

دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اسکے راستے میں حائل ہوا تھا

"کیوں ڈھونڈ رہی تھی اسے جواب دو اور پھر بےشک چلی جاؤ کیا چاہتی ہو اس سے اور کون ہے وہ!!"

کرخت نظروں سے اسے دیکھ کر برفیلے لہجے میں استفسار کیا گیا تھا

"تمھیں جواب دہ"

"ایک لفظ اور نہیں جتنا پوچھا گیا ہے صرف اتنا جواب دو یہاں سے جانے نہیں دوں گا "

اسکی بات کاٹ کر اسکے کندھے کو مظبوطی سے تھامے وہ پتھریلے لہجے میں بولا تھا  سیرت نے حزن نگاہوں سے اسے دیکھا تھا 

" ہوتے کون ہو تم مجھ سے سوال کرنے والے" 

کچھ دیر پہلے جو طیش کے عالم میں اس سے سوال کرنے آئی تھی خود اسے جواب دہ ہو گئی تھی کیسے بیان کرتی سوزِ دل کا حال ۔۔۔ کشمکش میں مبتلا تھی وہ ۔۔۔ جانتی تھی بغیر جواب دیئے نہیں جا سکتی تھی آفس میں خاموشی چھا گئی تھی اسکی پس و پیش آنکھوں میں امنڈتی کالی گھٹاؤں کے سائے وہ سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا 

"مار ڈالنا چاہتی ہوں میں اسے"

اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی 

                                              -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"اسلام و علیکم بابا صبح بخیر"

زوہیب صاحب نے محبت پاش نظروں سے اپنی بیٹی کی جانب دیکھا تھا کاٹن کے وائٹ کڑھائی والے سادہ سوٹ میں سر پر احتیاط سے دوپٹہ لئے دوسرے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے اٹھائے لبوں پر ہلکی مسکان سجائے وہ اندر آئی تھی 

"وعلیکم السلام صبح بخیر بابا کی جان"

آئیذل نے محبت سے انہیں دیکھ کر چھوٹے سٹول پر ناشتے کی ٹرے رکھی تھی بنفشی آنکھوں میں ایک اداسی تھی جو زوہیب صاحب سے چھپ نہیں پائی تھی 

"بیٹھو بیٹی"

 زوہیب صاحب نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کر کے محبت سے کہا نظریں جھکا کر وہ انکے قریب پڑی کرسی پر بیٹھی تھی زوہیب صاحب نے فکرمندی سے اسے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو چخٹاتے ہوئے دیکھا تھا 

"کیا ہوا میری بچی"

آئیذل نے دھیرے سے سر کو خم دیکر انکی جانب دیکھا تھا مگر وہ اسکے بابا تھے یقیناً بیٹی کی آنکھوں میں افسردگی کے تاثرات پرکھنے کی صلاحیت رکھتےتھے 

آئیذل نے لب بھینچ کر انہیں دیکھا تھا متفکر نظروں سے وہ اسکے چہرے پر چھائی اداسی دیکھ رہے تھے سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی زوہیب صاحب نے مغموم نگاہوں سے اسے دیکھا تھا انہیں معاف ضرور کر چکی تھی وہ لیکن دل کی بات اب بھی کہنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی جس کا احساس ہونے پر زوہیب صاحب نے افسردگی سے سرد آہ بھری تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

اسنے سیرت کے چہرے سے بےساختہ ہاتھ اٹھا کر ایک قدم پیچھے لیا تھا سیرت نے ملال سے لب لباب آنکھوں سے اسے دیکھا تھا سپاٹ چہرے سے وہ اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے دروازے کے ہینڈل سے ہاتھ ہٹا چکا تھا سیرت نے حلق تر کیا تھا جانے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہو چکی تھی مگر افسوس یہ تھا کہ کہے گئے الفاظ واپس نہیں لوٹ سکتے تھے نظریں اب بھی آنسوں سے تر ان خوبصورت سیاہ آنکھوں کا جائزہ لے رہی تھی جن میں شرمندگی ،، الم کے تاثرات تھے اُس کی آنکھیں کالے بھنوروں کی حزیں گُنجار لگ رہی تھی اور پلکیں جیسے کوہِ غم کو چُوم کر آئی تھی 

"تم ایسا کچھ نہیں کرو گی"

ٹیبل سے خجالت میں اپنا پرس اور فون اٹھاتی سیرت کے ہاتھ ساکت رہ گئے تھے اسکے فکر سے بھرپور لہجے پر وہ بجھی نظروں سے اسکی جانب پلٹ گئی تھی 

"تمھارے الفاظ کی گنجائش نہیں یہ میری زندگی ہے اور میری ذندگی کا واحد مقصد اس شخص کو اسکے گناہوں کی سزا دینا ہے کسی بھی قانون کی کوئی بھی سزا اسکے لئے کافی نہیں ہو گی میں چاہتی ہوں وہ تڑپے بلک بلک کر روئے ایک اذیت ناک موت دینا چاہتی ہوں اسے"

نفرت سے سرشار لہجہ تھا دل میں بھری ساری نفرت اسکے لہجے میں سموئی ہوئی تھی

اسنے سنجیدگی سے ان پر اشتعال سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔

"انتقام کے لئے اپنی ذندگی برباد کر رہی ہو اسے ختم کر کر کیا ملے گا تمھیں ،، قانون تمھیں قصور وار ٹھہرائے گا"

سرد آہ بھر کر اسنے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے  اسکا دہکتا سرخ چہرہ حزن نگاہوں سے دیکھا تھا

"مجھے پرواہ نہیں"

اسے پیچ و تاب نظروں سے دیکھ کر وہ ایک قدم آگے بڑھی تھی 

"Whatever punishment you want to give to this person, I promise you, I will give Him  even worse death, don't stain your hands with his disheveled blood"

"(تم اس شخص کو جو بھی سزا دینا چاہتی ہو، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، میں اسے اس سے بھی بدتر موت دوں گا، اپنے ہاتھوں کو اس کے گندے خون سے آلودہ نہ کرو")

سیرت نے اضطرابی نظروں سے دیکھا اسکی جانب اسکا سپاٹ چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری تھا آنکھوں میں گہری کشمکش تھی 

" کیا صرف میری ذات کی خاطر تم ایک خون کرنا چاہتے ہو ؟؟"

سیرت نے مستحکم نظروں سے اسے دیکھا تھا 

" کوئی حرج نہیں چاندنی!! یہ میرا روز کا کام ہے"

اسنے بے نیازی سے جواب دیا تھا جبکہ اسکے دیئے گئے لقب پر سیرت کا ماتھا ٹھنکا تھا

 " اتنا تو میں بھی جانتی ہوں تمھارا بہت بڑا مقصد ہے میری ذندگی میں آنے کے پیچھے یہ محض اتفاق نہیں ہے لیکن تم ایسا کیوں کرو گے میرے لئے بغیر یہ جانے کہ میں اسے کیوں مارنا چاہتی ہوں؟؟"

اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھ کر ایک قدم اسکی جانب بڑھایا تھا بےساختہ اسنے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ کر ایک قدم پیچھے لیا تھا ماربل فرش پر اسکے ہیوی بوٹس کی آہٹ سنائی دے رہی تھی اور رالف روسو بلیک شوز کی باریک آواز!!

دروازے سے لگ کر وہ ساکت ہوئی تھی 

"تم ایک سمجھدار ایموشنل مگر مضبوط لڑکی ہو، تمھاری صحبت میں مختصر وقت رہنے سے مجھے اتنا تو اندازہ ہوا ہے کہ تمھیں اس شخص کو ڈھونڈنے میں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہر کسی کی زندگی میں راز ہوتے ہیں، میری زندگی میں بھی راز ہیں،، میں تم سے وجوہات دریافت نہیں کروں گا۔۔۔چلو ایک معاہدہ کرتے ہیں، میں تمھارا کام کروں گا جیسے تم چاہو گی۔۔۔ بدلے میں مجھے کیا دو گی"

سیرت نے مستحکم نظروں سے اسے دیکھا تھا شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے اسکی نظروں کو خود پر مرکوز محسوس کر کے وہ التفات سے بھرپور نظروں سے اسے دیکھ گیا سیرت نے لب بھینچ کر سر جھٹکا تھا ایک شریر مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھسلی تھی

"بند کرو انکو"

"کیا"

سیرت نے اچھنبے سے اسکی جانب دیکھ کر پوچھا تھا اسکی جانب ایک قدم بڑھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا سیرت کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"میں ایسا ہرگز نہیں کروں گی خود کرو اور دور رہو خوف آ رہا ہے مجھے تم سے تمھیں انسان کہنا بھی انسانیت پر ظلم ہو گا"

سینے پر بازو پھیلا کر سمیٹتے ہوئے وہ اسکی بھوری درخشاں آنکھوں کو التہابی نگاہوں سے تکتی کاٹدار لہجے میں بولی

"کھولتے ہوئے شرم نہیں آئی تو بند کرنے میں کیوں ہچکچا رہی ہو"

اسنے متانت سے اسے خجالت کا احساس دلایا تھا سیرت کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے وہ الجھ کر اسکی شرٹ کو پکڑتی دانت پیس کر بٹن بند کرنے لگی اسکے کٹاؤ دار لبوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ پھسلی تھی اسکے مظبوط ہاتھ کو اپنی کمر پر محسوس کر کے وہ شعلہ آنکھوں سے اسے دیکھ گئی 

"ہاتھ ہٹاؤ "

اسکی آگ برساتی نظروں سے محفوظ ہو کر اسنے اسکی مرمری کمر میں اپنے توانا مظبوط بازو کا گھیرا بنا کر اسے اپنے بےحد قریب کرتے ہوئے وہ جاذبیت سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ اس سے چند انچ کے فاصلے پر رکی تھی

"ہاتھ ہٹاؤ ڈیم اٹ"

 ہاتھ کی فسٹ بنا کر اسکے سینے کے مقام پر مارتی ہوئی وہ دبے لہجے میں غرائی تھی بےخود نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتا وہ اسکی کمر سے ہاتھ ہٹا گیا تھا اس سے پیچھے ہٹتی وہ غصیلی نظروں سے اسے دیکھتی اپنا کوٹ درست کر گئی

"کیا کہتی ہو پھر" 

سیرت نے تخمینہ نظروں سے اسے دیکھا تھا

"کیا تم اسے مار سکتے ہو"

اسکے سوال پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"تم بھول رہی ہو میں کون ہوں"

سیرت نے  اسے متذبذب نظروں سے مختصر دیکھا تھا ایک عجیب سا وہم اور خوف بیٹھ گیا تھا اسکے دل میں!!

"کیا چاہیے تمھیں اسکے بدلے میں"

سیرت نے استفہامیہ نگاہوں سے اسکے وجیہ چہرے کو دیکھتے استفسار کیا تھا 

("اپنی زندگی میرے حوالے کر دو، میں تمہارا بدلہ اپنے بدلے کی طرح لوں گا اور اس (.) کو ایسی موت دوں گا جو میں نے کبھی کسی کو نہیں دی، تمہارے ہاتھ اس کے خون سے آلودہ نہیں ہوں گے اور نہ ہی قانون تم سے سوال کرے گا")

اسکے روبرو ہو کر اسنے گمبھیر لہجے میں کہا تھا سیرت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا

"نکاح کر لو مجھ سے"

اسنے بڑی سنجیدگی سے اسکے سر پر ٹائم بم گرایا تھا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا

"What do you want from me?"

("میری ذات سے کیا چاہیے تمھیں")

وہ حراساں لہجے میں بولی تھی سرخی مائل آنکھوں نے سرسری نظروں سے اسکے وجیہ چہرے کا جائزہ لیا تھا 

"I want to get your soul, I want to get access to your soul, to get you is the goal of my life Seerat Rizvi"

("میں تمھاری ذات کو پانا چاہتا ہوں، تمھاری روح تک رسائی چاہتا ہوں، تمھیں حاصل کرنا میری زندگی کا مقصد ہے سیرت رضوی")

اسکے لرزتے کندھوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے وہ پرتپش لہجے میں بھاری سرگوشی کر گیا سیرت نے حیرت سے اسکی بھوری درخشاں آنکھوں کو دیکھا تھا کتنا بڑا جھٹکا لگا تھا اسکی ذو معنی باتوں سے اسے!!

"You can do that without Nikah, you have another goal"

("آپ نکاح کے بغیر ایسا کر سکتے ہیں، آپ کا کوئی اور مقصد ہے")

خشک لبوں سے دھیمی سرگوشی خطا ہوئی تھی اسکے ہونٹ کے اوپری کنارے پر موجود اس تِل کو انگوٹھے سے چھوا تھا اسنے سیرت نے جھرجھری لیکر اسے دیکھا تھا اسکی آنسوں سے تر گھنی پلکیں،، بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں پھیلی سرخی ۔۔ان رہزن آنکھوں نے اسکی توجہ بآسانی حاصل کی تھی

"Is this question more important than your revenge?"

("کیا یہ سوال تمہارے انتقام سے زیادہ اہم ہے؟")

اسکے لبوں کو معنی خیزی سے دیکھ کر ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں گویا ہوا سیرت نے پس و پیش نظروں سے اسے دیکھا تھا

("دباؤ ڈال کر اپنی مانگ پوری کروانا میری فطرت میں نہیں ہے سیرت رضوی،، میں تمھیں بہت سی وجوہات پر خود سے نکاح کرنے پر مجبور کر سکتا تھا،، لیکن میں نے نہیں کیا،، اب بھی مجبور نہیں کروں گا،، فیصلہ تمھارا ہے"

وہ اسکے دہکتے رخسار کو ہاتھ کی پشت سے ہلکا سا چھو کر برفیلے لہجے میں بولا تھا سیرت نے بےیقینی سے اسکی اس بےباک حرکت پر آنکھیں جھپکی تھی

"You have until tonight"

("تمھارے پاس آج رات تک کا وقت ہے")

اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر وہ ایک قدم پیچھے لیکر سنجیدگی سے کہنے کے بعد آفس سے باہر واک آؤٹ کر گیا تھا سیرت کی متفکر نظروں نے اسکا دور تک تعاقب کیا تھا

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے سنہری آنکھوں میں خماریت اور سرخی تھی پیشانی پر دو لکیریں کھینچی ہوئی تھی سلکی سیاہ بال پیشانی پر پھیلے ہوئے تھے بیسمنٹ سے ہوتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا اپنے روم کا بند دروازہ اسنے سنجیدگی سے دیکھا تھا ہینڈل کو احتیاط سے گھمایا تھا اور بغیر آہٹ پیدا کئے اندر داخل ہوا تھا دونوں ہاتھوں کو ساتھ ملائے رخسار کو ہاتھ کی پشت پر ٹکائے براؤن کروّڈ بیک صوفے کے لاسن آرم پر سر رکھے وہ گہری نیند سو رہی تھی براؤن سلکی بالوں کی آوارہ لٹیں اسکے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی 

گھنی پلیں دل نواز اداسی سمیٹے ہوئے تھی اسکے قریب پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسنے بےخودی میں اسکے رخسار کو ہاتھ کی پشت سے چھوا تھا بےحد ٹھنڈا لمس پا کر اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی اسنے افسردگی سے گھنی پلکوں کو اٹھتے دیکھا تھا خماریت سے بھرپور بنفشی آنکھوں نے اسے معصومیت سے دیکھا تھا 

"آپ آ گئے"

صوفے کے آرم پر پھیلا اپنا دوپٹہ اٹھا کر کندھوں پر پھیلا کر وہ جلدی سے بولی تھی سنہری آنکھوں نے اسکے گھنے براؤن بالوں کو اسکے شانوں پر بکھرتے دیکھا تھا اسکی نظروں کا زاویے کا تعین کر کے اسنے لب بھینچ کر بالوں کو سمیٹا تھا

"کھلا رہنے دیں لمظ"

اسنے سنجیدگی سے اسکے ہاتھ کو نرمی سے تھام کر تنبیہ کی آئیذل نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھ کر آہستگی سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا تھا اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے وہ اٹھی تھی اسے کلائی سے تھام کر اپنے حصار میں لیا تھا

"مجھے معاف کر دیں لمظ"

اسکی باہوں کا خُمار عجب تھا سکون کی لہریں پورے وجود میں سرائیت کر گئی تھی اسکی کرامتی مردانہ کلون کی ہلکی مہک اسکے ماؤف ذہن کو طمانیت بخش گئی

"کیا میں ایک بات کہوں"

اسکی شرٹ کو مٹھی میں لیتی وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی

"بولیں روحِ قلب"

"مُجھے لفظ تیسرے سے ہمیشہ سے خوف آتا ہے رِشتوں میں آتا یہ لفظ تو خُوشیاں لے جاتا ہے مُحبت میں آتا ہے تو آسرا لے جاتا ہے دوستی میں آتا تو سُکون لے جاتا ہے اور پِھر جب احساس ہوتا ہے کہ ہمیشہ تیسرا اور کوئی نہیں انسان خود ہوتا ہے تو

خُود اعتمادی بھی لیکر چلا جاتا ہے ۔۔۔ کبھی چھوڑ تو نہیں دو گے نہ مجھے آپکے ساتھ کی عادت ہو رہی ہے اگر کبھی چھوڑا تو میں مر جاؤں گی"

اسکی دھیمی آواز میں بےحد خوف تھا شکوہ تھا اسکے سینے پر سر رکھے کھڑی تھی اسکی اچانک دھڑکن میں آتی تیزی پر آنکھیں میچ گئی تھی اسکے کندھوں کو سختی سے پکڑ کر اسکے چہرے پر جھکا تھا وہ!! گرم پرتپش سانسوں نے اسکے چہرے کو جھلسایا تھا

"اگر میں آپکو اپنی محبت سے باور کروانے پر آجاؤں تو میری محبت سے عشق ہو جائے گا آپکو لمظ اور خبردار جو آئندہ ایسی بات کہی ،، بالکل معاف نہیں کروں گا "

بھاری گمبھیر سرگوشی کرتے ہوئے اسکے تھرتھراتے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا تھا اسنے دھیمی سانسوں کی روانی میں بےحد تیزی آئی تھی 

"گھبرا ۔۔۔ گئی۔۔۔تھی۔۔۔میں"

دھیمے لہجے میں کہہ کر وہ نظریں جھکا گئی اسنے دیوانگی سے اسکی گھنیری پلکوں کو جھکتے دیکھا تھا

"نیند نہیں آ رہی تھی سب بہت نیا تھا "

اسکی سنہری درخشاں آنکھوں میں دیکھ کر اسنے ایک اور شکوہ کیا تھا اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

"مجھے بہت برا لگا ۔۔ اسکا بھائی بھی اسے اٹھا کر لیکر جا سکتا تھا  آپکا جانا ضروری نہیں تھا "

اسکے ہاتھ کو ہٹاتے ہوئے وہ خفا لہجے میں بولی تھی اسنے متحیر نگاہوں سے اسے دیکھا تھا جو ہمیشہ خاموش رہتی تھی اسے لیکر اپنے حق کے لئے لڑنے کو تیار تھی اسکے خاموشی سے دیکھنے پر بنفشی آنکھوں میں نمی جاگ اٹھی تھی

جب آنسو نِکل آتے ہیں تو اِن میں صرف نمک اور پانی نہیں ہوتا.

اِن میں ماضی کی تکلیفیں، دُکھ درد، اپنوں کے سِتم، چاہنے والوں کی بے اعتباری، کبھی نہ لوٹ آنے والوں کا غم، وعدوں کی پامالیاں اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چُھپے ہوتے ہیں اور یہ بات وہ اچھے سے سمجھ سکتا تھا

اسکی ٹھوڑی کو داہنے ہاتھ کی مدد سے بےحد الفت سے اوپر اٹھایا تھا اسنے 

 آئیذل نے سر کو دھیرے سے خم دیکر اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے اجتناب کیا تھا

"یہاں دیکھیں"

اسنے سنجیدگی سے اسکے تیکھے نقوش چہرے کو دیکھا تھا

"نہیں"

نظریں پھیرے وہ خفگی سے بولی تھی ایک سرد آہ بھری تھی اسنے،، اسے کسی صورت خفا نہیں دیکھ سکتا تھا وہ آئیذل نے لب بھینچ کر اسکی سنہری آنکھوں میں پھیلی سرخی کو دیکھا ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جو بےخُوفی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی

"You said you want to make me your addict ۔۔۔I am getting used to your closeness۔۔۔۔ Just Remember.... if I got addicted to you, I will not let you be someone else's.....I am very stingy in your case, I cannot see you with anyone else"

"(تم نے کہا تھا کہ تم مجھے اپنا عادی بنانا چاہتے ہو۔۔۔مجھے تمہاری قربت کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ بس یاد رکھنا مجھے تمھاری لت لگ گئی تو، میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی....  میں تمہارے معاملے میں بہت بخیل ہوں، میں تمھیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی۔")

اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اسنے دھیمے لہجے میں کہا تھا سنہری آنکھوں میں خماریت کی لہریں پیدا ہوئی تھی 

"I am only yours"

"( میں صرف تمھارا ہوں")

اسکی بھاری سرگوشی نے آئیذل کے وجود میں سرشاری کی لہریں پیدا کی تھی آنکھیں بند کر کے وہ اسکے لہجے میں سرائیت کرتی محبت و سمیٹ لینا چاہتی تھی

"ثابت کرو"

اسکے لبوں کو پرسرور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسنے اسکی گھنی پلکوں کو آنکھوں کو ڈھانپتے دیکھا تھا

"سوچ لو"

اسکے ٹھنڈے ہاتھ کا طمانیت بخش لمس گردن پر پا کر اسنے جھرجھری لی تھی اسکی بھاری ہوتی آواز اسکی دھڑکنوں اور سانسوں میں تیزی کا رحجان بڑھا رہی تھی آنکھیں وا کر کے اسنے اسکے وجیہ چہرے کو اپنے چہرے کے بےحد قریب پایا تھا کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھی وہ خوبصورت سنہری آنکھیں اسے بہکانے میں!!

"What happened, did your ex-fiancé forbid you to even come near me?"

("کیا ہوا، کیا تمہاری سابقہ منگیتر نے تمہیں میرے قریب آنے سے منع کیا ہے؟")

آئیذل نے اسکی خمدار پلکوں کو جاذبیت سے دیکھ کر  سنہری خمار آلود آنکھوں کو دیکھ کر سرگوشی کی تھی جن میں پھیلی ہلکی سرخی انکی کشش میں اضافہ بن رہی تھی ذاویان کے لبوں پر ہلکا متبسم بکھرا تھا اسنے طنز کیا تھا اسکی ذات پر جسے اسنے بخوبی سمجھا تھا دروازے سے گزرتی چاہت آئیذل کو کبرڈ سے چپکے دیکھ کر رکی تھی

 "امی کچن میں میرا انتظار کر رہی ہوں گی پیچھے ہٹیں"

اسکے قریب آنے پر اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی وہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ ضبط کر کے بولی تھی اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"Don't even try to play such games with me"

"(میرے ساتھ ایسے کھیل کھیلنے کی کوشش بھی مت کرنا")

اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے اسکا چہرہ بےحد قریب کر کے وہ متانت ذدہ لہجے میں گویا ہوا چاہت نے نفرت سے سر جھٹکا تھا

"شرم کریں آپکی سابقہ منگیتر دیکھ رہی ہے ہمیں"

دروازے کی جانب دیکھتی وہ چاہت کو تضحیک آمیز نظروں سے دیکھ کر بولی تھی چاہت آئیذل کو التہابی نگاہوں سے دیکھ کر وہاں سے گزر گئی تھی آئیذل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھسلی 

"When did you become so clever, you will burn the poor thing to ashes "

"تم اتنی ہوشیار کب سے ہو گئی، بیچاری کو جلا کر راکھ کرو گی"

اسکے گلابی رخسار کو لبوں سے چھو کر وہ سرگوشیانہ لہجے میں گویا ہوا 

"If she even tries to win your sympathy after today, I won't waste a second burning her to ashes "

("اگر آج کے بعد اس نے آپ کی ہمدردیاں جیتنے کی کوشش بھی کی تو میں اسے جلا کر راکھ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کروں گی)"

وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکی بات سن کر 

"بابا آپ"

آئیذل نے دروازے کی جانب دیکھ کر شرمندگی سے کہا تھا ذاویان کبرڈ سے ہاتھ ہٹا کر پیچھے ہٹا تھا لبوں پر ہاتھ رکھ کر وہ باہر بھاگی تھی افسردگی سے اسنے خالی دروازے کی جانب دیکھ کر سرد آہ بھری تھی

                                             -🅢🅘🅐 🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"تم کب آئے"

بلیک سوئیٹر اور بلیک پینٹ میں بالوں کو شانوں پر کھلا چھوڑے اسنے آف وائٹ لکژری سٹائل صوفے پر بیٹھ کر بھنویں اٹھا کر پوچھا تھا

شاہنواز صاحب نے نیوز پیپر سے نظریں ہٹا کر ایک پل کو اسے دیکھ کر دوبارہ اپنی توجہ نیوز پیپر پر مرکوز کی تھی 

"آج صبح پہنچا ہوں اے-ایس-کے انڈسٹریز کیساتھ بہت بڑی ڈیل فائنل ہوئی ہے" 

 عرش نے چائے کا سپ لیتے ہوئے پرجوش لہجے میں جواب دیا تھا فون سے نظریں ہٹا کر سونیا نے اسے اچھنبے سے دیکھا تھا نیوز پیپر شیشے کی میز پر رکھ کر شاہنواز صاحب نے شہادت کی انگلی کو پرسوچ انداز میں موڑ کر ٹھوڑی پر جما کر اسے دیکھا تھا

"عسکری کیساتھ میٹنگ تھی تمھاری بائے گاڈ وہ تمھاری کمپنی میں کیوں انویسٹ کر رہا ہے کل ایم-کے انڈسٹریز کیساتھ بہت بڑی ڈیل تھی پرافٹ بھی تھا لیکن اسنے انویسٹمنٹ سے کچھ وقت قبل انکار کر دیا تمھاری کمپنی میں کیا دیکھ لیا اسنے ایسا "

سونیا نے فون بند کر کے رکھتے ہوئے اسے حیرت سے دیکھ کر پوچھا تھا شاہنواز صاحب نے گہری دلچسپی لی تھی وہ بھی یہی سوال کرنا چاہتے تھے

"یہی تو سمجھ سے باہر ہے کچھ دن پہلے ہی میں بیلفاسٹ آیا تھا اور قسمت دیکھو خود عسکری صاحب نے مجھے اٹینڈ کیا "

شاہنواز صاحب کے چہرے پر ناگواریت کے آثار واضح ہونے لگے سونیا نے عرش کو تیکھی نظروں سے دیکھا تھا 

"پرنسس میں نے ایک کام سونپا تھا تمھیں"

شاہنواز صاحب نے سنجیدگی سے سونیا کی جانب دیکھ کر سنجیدگی سے استفسار کیا

"یس ڈیڈ میں کوشش کر رہی ہوں آپ جانتے ہیں اسکے ساتھ مائنڈ گیمز کھیلنا آسان نہیں"

سونیا نے حلق تر کرتے ہوئے بےبسی سے عرش کی جانب دیکھا جو چائے کا سپ لیتا ہوا دلچسپی سے دونوں کی گفتگو میں ملوث ہونے سے گریز کر رہا تھا

"ویل انکل اگر آپ عسکری کی بات کر رہے ہیں تو میں سون کی بات سے متفق ہوں اسکے ڈسٹریکٹ کرنا ناممکن ہے میں آج اسے ایکویلٹی پر ٹالنا چاہتا تھا مگر اس نے چالاکی سے مجھے سے 20٪ انٹرسٹ کی پارٹنرشپ قائم کرنے پر زور دیا مجبوراً مجھے اسکی بات سے اتفاق کرنا پڑا"

شاہنواز صاحب نے حیرانگی سے عرش کی جانب دیکھا تھا جو گھاٹے کا سودا کر کے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا

"ہممم دیٹس ریئلی لائک عسکری ناکوں چنے چبوا دیتا ہے مجھے تو خوف محسوس ہوتا ہے چلتا پھرتا ٹسار بم ہے کب کسی کے سر پر پھٹ جائے کون جانتا ہے"

سونیا کی بات سن کر شاہنواز صاحب نے تاسف سے سر جھٹکا تھا افسوسناک بات تو یہی تھی کہ وہ انکی بیٹی ہو کر طرف داری انکے بزنس رائیول کی کر رہی تھی شاہزیب لاؤنج میں گفتگو سن کر اپنے کمرے سے نکلا تھا شاہنواز صاحب نے اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا وہ آ کر عرش کے قریب صوفے پر بیٹھا تھا 

"اور جب سے وہ سیرت آئی ہے عسکری کا سارا فوکس اسی پر رہتا ہے"

سونیا نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا شاہزیب نے سیرت کے نام پر سر اٹھایا تھا عرش نے ناسمجھی سے سونیا کی جانب دیکھا تھا اور شاہنواز صاحب کے چہرے پر فکرمندی کے تاثرات تھے

"سیرت رضوی یہاں ہے بیلفاسٹ میں"

سب سے پہلا سوال عرش نے کیا تھا سونیا نے بےفکری سے شانے اچکا کر سر ہلایا تھا شاہزیب نے پرسوچ انداز میں داڑھی کھجائی تھی 

"اور میرے آدمی اسے پاکستان میں ڈھونڈ رہے ہیں بہت شاطر ہے ذاویان کسی کو بھڑک تک نہیں لگنے دی اسنے" 

شاہنواز صاحب نے نخوت سے بھرے لہجے میں کہا عرش نے سرسری نظر پورے لاؤنج میں گھمائی تھی لبوں کو سختی سے بھینچا تھا اسنے!!

"ڈیڈ آپ کے آدمی سیرت کو کیسں ڈھونڈ رہے ہیں"  

شاہزیب نے شاہنواز صاحب کی جانب دیکھ کر سرد لہجے میں پوچھا تھا

"پرانا حساب ہے اسکے باپ کیساتھ میرا زیب ،، ان فیکٹ اسکے بھائی کیساتھ بھی ابھی حساب باقی ہے تم حارث کو اطلاع کر دو کہ مجھے اسکی ضرورت ہے "

"شیور ڈیڈ"

شاہزیب فون اٹھا کر لاؤنج سے واک آؤٹ کر گیا تھا سونیا نے عرش کے سفید رنگ چہرے کو گہری نظروں سے دیکھا تھا

"عرش مائی سن چائے ٹھنڈی ہو جائے گی"

 شاہنواز صاحب اسکی جانب متوجہ ہوئے تھے عرش نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا تھا

"انکل مجھے ضروری کام ہے میں کل آتا ہوں "

سونیا نے گال پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا تھا رومال سے پیشانی پر آیا پسینہ صاف کر کے وہ تیز قدموں کیساتھ لاونج سے نکلا تھا 

"آپ بھی ناشتہ کر کے جاتے"

مہر النساء بیگم نے مسکراتے ہوئے عروسہ بیگم اور ریحم کو روکنا چاہا جو آئیذل کے گھر سے کھانا دینے آئے تھے مگر عروسہ بیگم نے مسکراتے ہوئے معزرت کر لی تھی آئیذل کے پرمسرت چہرے سے انہیں دلی سکون پہنچا تھا 

"جلدی بتاؤ ناں"

ریحم نے لاڈ سے بچوں کی طرح اسکا مہرون کلر دوپٹہ پکڑ کر شریر لہجے میں کہا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھ کر سر جھٹکا تھا 

"دیکھانا نہیں چاہتی تو چلو بتا ہی دو چاچی جان ابھی بلا لیں گی مجھے واپس چلنے کیلئے"

آئیذل نے تاسف سے ریحم کی جانب دیکھا جو اسے فرسٹ نائٹ پر ملنے والے گفٹ کے بارے میں پوچھ پوچھ کر اسکے سر پر سوار تھی کل رات کا سوچ کر ہی وہ افسردہ ہو گئی تھی وہ دل جس میں کسی کے لئے کبھی برا احساس تک پیدا نہیں ہوا تھا چاہت کا سوچ کر اچاٹ ہو چکا تھا

"ریحم چلو بیٹی "

عروسہ بیگم کی آواز سن کر ریحم نے آنکھیں گھمائی تھی اور آئیذل نے سکھ کا سانس لیا 

"میں بعد میں دیکھاؤں گی ابھی نیچے چلو ممانی بلا رہی ہیں تمھیں"

آئیذل نے اسے ٹالنا چاہا تھا ریحم منہ کے ڈیزائن بناتی ہوئی بیسمنٹ کی جانب پیش رفت کر گئی آئیذل بھی اسکے پیچھے چل پڑی تھی ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھتی چاہت نے عدم دلچسپی سے آئیذل کو عروسہ بیگم کو خدا حافظ کہتے دیکھا تھا 

" زوہیب کو کھانا دے دیا تم نے"

مہر النساء بیگم نے ڈائننگ ٹیبل کے قریب کھڑی ملازمہ سے استفسار کیا تھا چاہت نے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے ملازمہ کی جانب دیکھا تھا

"میں نے انہیں ناشتہ دے دیا تھا امی"

ٹیبل کے قریب رکتی آئیذل مسکرا کر بولی تھی مہر النساء بیگم نے مسکرا کر سر ہلایا تھا ذاویان کو سیڑھیوں سے آتے دیکھ کر آئیذل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا آئیذل نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا تھا وائٹ شلوار قمیض میں اسے دیکھ کر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی آج تک اسنے اسے سادہ لباس میں نہیں دیکھا تھا مگر آج اسے دیکھ لینے کے بعد وہ زبردستی نظریں ہٹا گئی تھی ورنہ دل تو اسے مسلسل تکنے کا کر رہا تھا آملیٹ کا پیس منہ میں رکھتی چاہت کا ہاتھ ساکت ہوا تھا 

"بیٹھیں روحِ قلب"

اسکے قریب چیئر کھینچ کر اسنے دھیمے لہجے میں اسے پکارا چیئر پر ہاتھ رکھ کر وہ اسکی جانب دیکھنے لگی اسکی نظریں خود پر مرکوز محسوس کر کے وہ چیئر پر بیٹھا تھا اسکے بیٹھنے کے بعد وہ اسے ناشتہ سرو کرنے لگی مہر النساء بیگم نے اسے پُرافتخار نظروں سے دیکھا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیسی ہو تم "

روز نے پرس اور سمارٹ فون ٹیبل پر رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا مگر سیرت کی جانب دیکھ کر اسکے چہرے پر پریشانی کے تاثرات امنڈنے لگے مسکراہٹ سے عاری چہرہ آنکھیں سرخی مائل تھی چیئر کھینچ کر بیٹھ کر اسنے دونوں ہاتھوں کو الجھا کر ٹیبل پر رکھا تھا

"سیرت،، کیا سب ٹھیک ہے ۔۔۔ اتنی پریشان کیوں ہو"

 روز نے تردد نظروں سے اسے دیکھا کر اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دھیمے لہجے میں پوچھا تھا سختی سے آپس میں پیوست کئے گئے لبوں کو وا کر کے اسنے اضطرابی نظروں سے روز کو دیکھا 

"عرش مل گیا ہے"

سیرت کے ہاتھ پر جما روز کا ہاتھ جس سے وہ اسکے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے دریافت کر رہی تھی ساکت رہ گیا تھا چہرے پر پریشانی اور گھبراہٹ کے آثار اچانک گھٹاؤں کی طرح امنڈتے چلے گئے تھے

"کب اور کہاں"

 یکلخت خشک ہوتے حلق کو تھوک نگلتے ہوئے تر کر کے روز نے تحمل سے استفسار کیا سیرت نے سرد آہ بھر کر اسے آفس کا سارا واقعہ سنانا شروع کیا تھا  اسکی ساری بات سن کر روز نے لبوں کو سختی سے بھینچا تھا 

"تمھیں اس ٹیٹو کے بارے میں کیسے پتا تھا "

روز نے تشویش سے اسکی جانب دیکھا تھا سیرت نے پیشانی سے ہتھیلی ہٹا کر کہنی کو میز پر رکھ کر پرس سے فون نکال کر روز کی جانب بڑھایا تھا روز نے ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ سے فون لیا تھا

"میں نے یہ ٹیٹو پہلے بھی عسکری کی باڈی پر دیکھ رکھا تھا لیکن میں نے غور وفکر سے کام نہیں لیا اور تم اس دن سیم کا پوچھ رہی تھی ،، میں نے بتانا مناسب نہیں سمجھا مگر اسکی ڈیتھ ہو گئی ہے میرے یہاں آنے سے کچھ دن پہلے "

 سیرت کی بات سن فون پر آئے میرال کے ای میلز چیک کرتی روز کے خوبصورت چہرے کا رنگ فق پڑا تھا پورے وجود میں خوف کی برقی لہریں دوڑ گئی تھی 

"کیا"

اسنے صدمے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کیساتھ استفسار کیا تھا سیرت نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا وہ انکا کالج ٹائم کا فرینڈ تھا اور اسکی موت کی خبر نے روز کو گہرے صدمے میں ڈالا تھا جس کا اندازہ اسکے زرد پڑتے چہرے کو دیکھ کر لگایا جا سکتا تھا

"سیم نے جیا کی برتھ ڈے پارٹی میں مجھے ڈرگز دیکر میرے ساتھ ذیادتی کرنے کی کوشش کی تھی عسکری اگر صحیح ٹائم پر نہیں آتا تو  شاید"

بات ادھوری چھوڑ کر سیرت کی رونق سے محروم سیاہ آنکھوں نے کسی غیر مرئی نقطے کو نظروں کے حصار میں لیا تھا روز نے اسکے پژمردہ چہرے کو متفکر نظروں سے دیکھ کر اسکے ہاتھ کو دبایا تھا سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ روز کی طرف متوجہ ہوئی

"جب عسکری سیم اور اسکے گروپ کو  مار رہا تھا تب میں نے یہ ٹیٹو نوٹس کیا تھا مگر میں نے غور نہیں کیا کل میرال نے مجھے "ڈی" کی کچھ ریگولر ڈیٹیلز ای میل کی وہاں ایک بلیک کارڈ پر میں نے بالکل وہی ٹیٹو دیکھا میں پریشان ہو گئی تھی روز اور جس بات کا مجھے ڈر تھا وہی ہوا"

سیرت نے روز کی جانب دیکھنے سے گریز کیا تھا نظریں سامنے کی ٹیبل پر موجود ایک لڑکے پر پڑی تھی جو اسکے دیکھنے پر جلدی سے فون ٹیبل پر رکھ کر مینیو چہرے پر دے گیا روز نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر سیرت کے چیئر سے اٹھنے پر وہ سر اٹھا کر اسے پاس کی ٹیبل کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھنے لگی

"ہماری فوٹوز کیوں لی تم نے"

سیرت نے ٹیبل پر اسکے سامنے فسٹ رکھتے ہوئے برفیلے لہجے میں استفسار کیا ریسٹورنٹ میں موجود آس پاس کی ٹیبلز کے افراد ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے لڑکے نے چہرے سے مینیو ہٹا کر اسے دلچسپی سے دیکھا تھا

"میں نے کوئی فوٹوز نہیں لی ،، آپکو غلط فہمی ہوئی ہے"

لڑکے نے مسکرا کر کہا تھا سیرت کا طیش کے باعث سرخی مائل پڑتا چہرا لیپٹاپ کی سکرین پر کسی نے سنجیدگی سے دیکھا تھا پیشانی کی نیلی نسیں تن گئی تھی 

"فون دو اپنا"

سیرت نے کمپوز لہجے میں ہاتھ بڑھا کر کہا وہ لڑکا کرسی دھکیل کر اٹھا تھا اسے سر سے پاؤں تک دلچسپی سے دیکھتے ہوئے اسنے سینے پر بازؤں لپیٹ کر سر کو نفی میں جھٹکا تھا روز سیرت کا پرُاشتعال سرخ پڑتا چہرا دیکھ کر جلدی سے اسکی جانب پیش رفت کر گئی  

"سیرت سب دیکھ رہے ہیں لیٹس گو"

روز کا ہاتھ کندھے سے ہٹا کر اسنے التہابی سرخ آنکھوں سے اس لڑکے کو دیکھا تھا لیپٹاپ کی سکرین پر مرکوز بھوری درخشاں آنکھیں پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے سنجیدگی سے اسکا ضبط کے باعث سرخ پڑتا چہرا دیکھ رہی تھی

"فون دو آئی سیڈ"

اب کی بار وہ دبے لہجے میں غرائی تھی روز نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا مگر وہ ایک قدم اس لڑکے کی جانب بڑھاتے ہوئے اسکے ہاتھ سے فون کھینچ چکی تھی گیلری اوپن کر کے اسنے اپنی فوٹوز نکالی تھی لڑکا تذبذب نظروں سے آس پاس دیکھ رہا تھا فوٹوز ڈیلیٹ کر کے سیرت نے اسکا فون ٹیبل پر پٹخا تھا

"ہے!! کیا تمھارا دماغ ٹھیک ہے ؟؟ صرف فوٹوز کلک کی تھی اگر میرا فون ٹوٹ جاتا تو"

اپنے فون کو اٹھاتے ہوئے وہ تاسف سے بولا روز کے پرزور اپیل کرنے پر سیرت جو روز کیساتھ جانے کے لئے پلٹی تھی بےساختہ پیچھے مڑی تھی 

"سیرت نہیں پلیز"

روز نے سٹپٹا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر دھیمے لہجے میں کہا تھا 

"ارے لڑکی ہے بات کرنا چاہتی ہے کرنے دو ڈارلنگ گیو اَس سپیس "

 اس لڑکے کی بات سن کر روز نے نفرت سے سر جھٹکا تھا مگر سیرت روز کا ہاتھ اپنی کلائی سے ہٹاتے ہوئے ایک قدم اس لڑکے کی جانب بڑھاتی ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر جُڑ گئی تھی روز نے تاسف سے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا وہ لڑکا شعلہ آنکھوں سے سیرت کو دیکھتا ہوا اسکے کندھے کو پکڑنے کی کوشش میں آگے قدم بڑھا چکا تھا اسکے ہاتھ کو داہنے ہاتھ سے پکڑتی اسکے ہاتھ کو ٹوئسٹ کر گئی 

" آج کے بعد تم اپنی ہم عمر لڑکیوں سے بھی ایسا مزاق کرنے سے قبل ایک بار ضرور سوچو گے عمر میں بڑی ہوں تم سے اس لئے معاف کر رہی پوںث چھوٹا بچہ سمجھ کر ورنہ یہاں سے اپنے پیروں پر چل کر جانا ناممکن تھا تمھارے لئے"

طنزیہ نظروں سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھتی (جس طرح کچھ دیر پہلے اس لڑکے نے اسے گھورا تھا ) اپنی ٹیبل سے اپنا سمارٹ فون اٹھا کر پرس میں رکھنے کے بعد کیش مینیو پر رکھ کر روز کیساتھ باہر نکل گئی تھی اس لڑکے نے تاسف سے اپنی ٹوئسٹڈ کلائی کو دیکھا لوگوں کی ستائشی نظروں نے سیرت رضوی کا دور تک تعاقب کیا تھا وہ لڑکا اپنی دُکھتی کلائی کو تھامے نفرت سے سر جھٹک کر فون اٹھائے باہر نکل گیا تھا

" ویسے اِس لڑکی پر کب سے نظر رکھی ہوئی تھی تم نے"

صفیان کے سوال پر لیپٹاپ بند کر کے اسکی سمت دیکھتا وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"پچھلے تین سالوں سے"

اسنے کرسٹل پین ہولڈر کو اپنی رعنا انگلیوں میں گھماتے ہوئے سنجیدگی سے صفیان کو جواب دیا تھا صفیان نے متعجب نظروں سے اسے گھورا تھا جو اسکا ذکر سن کر گہری سوچ میں محو ہو چکا تھا

"کیا تمہیں یقین ہے کہ تم انتقام ہی لینا چاہتے ہو"

صفیان نے بھنویں اٹھا کر قدرے تشویش سے پوچھا تھا صفیان کی جانب درشتگی سے دیکھ کر اسنے کرسٹل پین ہولڈر ڈیسک پر رکھا تھا

"اس سوال کی امید نہیں تھی تم سے"

کرخت لہجے میں کہہ کر اسنے بیزاریت سے اسے دیکھا تھا بھوری ماہ تاباں آنکھوں میں ناگواری نظر آئی تھی صفیان کو!!

"لیکن میرا خیال ہے وہ لڑکی خود پر کسی کو ظلم نہیں کرنے دے گی تم نے اسکی ول پاور سے اندازہ لگا لیا ہو گا انتقام دور کی بات ہے"

صفیان نے سنجیدگی سے کہا وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

"ظلم کون کرنا چاہتا ہے"

اسکی دھیمے لہجے میں کہی گئی بات سن کر صفیان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا اسکے الفاظ صفیان کی سماعت تک نہیں پہنچے تھے ایک پراسرار مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھسلی تھی جسے کچھ ہی سیکنڈ میں چھپائے وہ لیپٹاپ کھول گیا 

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"رکو مہرو"

مہر النساء بیگم جو ناشتے کے بعد چاہت کے پاس اسکی طبعیت دریافت کرنے آئی تھی اشفاق صاحب کی آواز سن کر کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے جانے کے لئے پلٹتے ہوئے رہ گئی

"چاہت کی اتنی غلطیوں کے باوجود بھی تم اسکا اتنا خیال رکھ رہی ہو بہت خوشی ہوتی ہے تمھیں اپنی بیٹی سے ہمدردی سے پیش آتے دیکھ کر چاہت کی سگی ماں بھی اسے اتنی محبت نہ دیتی جتنی تم دے رہی ہو"

مہر النساء کے دونوں ہاتھوں کو الفت سے تھام کر اشفاق صاحب مَلتجیانہ لہجے میں بولے مہر النساء بیگم نے نظریں اٹھا کر انہیں مختصر دیکھ کر انکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھوں کو نرمی سے نکالا تھا اشفاق صاحب نے نگاہِ استعجاب سے انکا سرد آثار چہرہ دیکھا

"چاہت کے لئے میری ہمدردی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ آپ جانتے ہیں اگر اسکی ذہنی حالت درست ہوتی تو شاید میرا برتاؤ ایسا نہ ہوتا میرے بیٹے کو دھوکا دیا اسنے مجھ سے بدتمیزی کی میں وہ سب نہیں بھولی اشفاق"

مہر النساء بیگم نے مضطرب لہجے میں کہا تھا دل میں ذاویان کو لیکر کہیں نہ کہیں پچھتاوا تھا اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا مہر النساء بیگم انہیں تاسف سے دیکھ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی اشفاق صاحب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تھے فون پر انگلیاں سکرول کرتی چاہت نے انہیں دیکھ کر فون ایک جانب رکھا تھا

"میں نے آپکی ساری باتیں سن لی ڈیڈ"

چاہت نے پیشانی پر بل ڈالے کہا اشفاق صاحب دروازے کو بند کر کے اسے قریب صوفے پر بیٹھے تھے 

"آپ نے میری کنڈیشن انکے ساتھ ڈسکس کیوں کی اگر انہوں نے ذاویان کو بتا دیا تو وہ مجھے یہاں کبھی نہیں رہنے دے گا" 

چاہت نے تنک کر کہا اشفاق صاحب کی تیز نظروں کی تاب نہ لا کر وہ اکتاہٹ کیساتھ شانے اچکاتی خاموشی اختیار کر چکی تھی

"مہر النساء ذاویان سے ایک لفظ نہیں کہہ سکتی کیونکہ دونوں ماں بیٹے کا رشتہ اتنا پختہ نہیں ہے اور میں نے مہر النساء کو تمھاری مینٹل سٹیٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا وہ تو اسپتال میں ڈاکٹر کیساتھ تمھارے کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسنے اتفاقاً سب سن لیا جھوٹ بولنے کا موقع ہی نہیں ملا وہ سب سن چکی تھی لہذا اسے سب بتانا پڑا "

اشفاق صاحب نے سرد آہ بھری چاہت نے الجھ کر کھڑکی کی جانب دیکھا تھا ہوا کے زور پر سفید ریشمی پردہ جھوم رہا تھا اسکے ہونٹوں پر ایک نخوت بھری مسکراہٹ پھیلی تھی  اشفاق صاحب نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا

"کیا ہوا"

"کچھ نہیں ڈیڈ ،، باہر ولیمے کی تقریب شروع ہو چکی ہے میرا خیال ہے ہمیں شرکت کرنی چاہیے"

پراسرار مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ اپنا فون تھام کر اٹھی تھی اشفاق صاحب نے متفکر نظروں سے اسے دیکھا تھا اس مسکان کے اچانک امنڈنے کی وجہ وہ سمجھ نہیں پائے تھے

("میں تمھاری ذات کو پانا چاہتا ہوں، تمھاری روح تک رسائی چاہتا ہوں، تمھیں حاصل کرنا میری زندگی کا مقصد ہے سیرت رضوی")

پیشانی کو سہلا کر اسنے پژمردہ نگاہوں سے سمندر میں اٹھتی پانی کی لہروں کو دیکھا تھا گہری کشمکش میں مبتلا وہ سمندر کے کنارے بیٹھی ٹھنڈی گِیلی ریت پر ہاتھ پھیر رہی تھی ساحل کنارے تیز ہوا کے زور پر اسکے سلکی بال جھوم رہے تھے 

("دباؤ ڈال کر اپنی مانگ پوری کروانا میری فطرت میں نہیں ہے سیرت رضوی،، میں تمھیں بہت سی وجوہات پر خود سے نکاح کرنے پر مجبور کر سکتا تھا،، لیکن میں نے نہیں کیا،، اب بھی مجبور نہیں کروں گا،، فیصلہ تمھارا ہے")

سرد آہ بھر کر اسنے ریت پر لکھا ہوا حرف "ڈی" دیکھا جو اسنے انجانے میں محوِ سوچ لکھا تھا اسکی سیاہ آنکھوں نے کافی دیر اس حرف سے آنکھوں کو ملائے رکھا تھا اسکی کہی گئی ایک ایک بات اسکے ذہن میں ناچاہتے ہوئے بھی گھر کر چکی تھی 

"میں جانتی ہوں تم پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ،،  آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے "

سمندر کی سطح پر اٹھتی پانی کی ایک لہر کو اسنے حُزن نگاہوں سے دیکھ کر سرگوشی کی 

"بی جان نے مجھے اس سے دور رہنے کی نصیحت کی تھی اور میں اس کیساتھ نکاح کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں کیا چاہتی ہے میری ذندگی مجھ سے اس شخص کو سزا دینا بےحد ضروری ہے پر میں عسکری پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتی "

آنکھیں بند کر کے اسنے شکوہ آمیز لہجے میں کہا تھا 

                                        -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ولیمے کی تقریب سے تھک ہار کر آئیذل دونوں ہاتھوں میں ہیوی وائٹ میکسی تھامے بیسمنٹ تک آئی تھی سیڑھیوں کی جانب دیکھ کر اسنے افسردگی سے اپنی میکسی کو دیکھا تھا جو بارات کے لہنگے سے بھی زیادہ بھاری تھی وجہ میکسی پر جڑے ہوئے گولڈن اور سرخ نگینے تھے ہیوی ڈائمنڈ جیولری نے اسکی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہوا تھا حور اور ریحم اسکی مدد کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد اب ناجانے کہاں رہ گئی تھی اکتاہٹ کیساتھ اسنے سر جھٹکا تھا اور میکسی اٹھائے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سننے پر وہ رکی تھی 

پیل مہرون کلر کی ویسٹ پر میچنگ فارمل لیپل ٹکسیڈو سوٹ میں وہ رعنایت کا شاہکار آج دل موہ لینے کا ارادہ رکھ کر تیار ہوا تھا آئیذل نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا جو اسے سر سے پاؤں تک عقیدت سے دیکھنے کے بعد محکم قدم اٹھاتے ہوئے اسکی جانب بڑھ رہا تھا 

"میرے ہوتے ہوئے پریشانی کیوں اٹھا رہی ہیں آپ میری جان"

اسکے روبرو آ کر وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دلفریب مسکراہٹ کیساتھ گویا ہوا آئیذل نے اسکی  اثرِ آفرینی سے بھرپور آنکھوں کو دیکھا تھا 

"اجازت دیں"

"کیسی اجازت"

آئیذل نے اسکے قریب آنے پر اچھنبے سے استفسار کیا اسنے شریر نظروں سے آئیذل کا لائٹ برائیڈل میک اپ میں سجا چہرا دیکھا تھا

" آپکو اپنی بانہوں میں بھرنے کی اجازت لمظ"

اسنے بےباک سرگوشی کی تھی اسنے کان کے بےحد قریب!!

"کبھی بھی نہیں"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر وہ منہ پھلائے بولی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا 

"کیا آپ خفا ہیں مجھ سے"

اسنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے استفسار کیا تھا آئیذل نے پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھا تھا اس سے تحفہ نہ ملنے پر وہ سلگی چنگاری بنی ہوئی تھی اور اس بات سے وہ بخوبی واقف تھا

"آپکو اندازہ ہونا چاہیے"

آئیذل نے آنکھیں سکیڑی تھی 

"مجھے آپکی ناراضگی کا اندازہ ہے سکونِ قلب لیکن"

آئیذل نے تیکھے چَتونوں سے اسے دیکھا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا آج وہ پرانی معصوم آئیذل کہیں سے بھی نہیں لگ رہی تھی آنکھیں سکیڑ کر اسنے سینے پر ہاتھ باندھ کر سر کو خم دیا تھا 

"روم میں چلیں؟؟ آپکو آپکا گفٹ بھی تو دینا ہے"

آئیذل نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر اسکے بڑھائے ہوئے رعنا ہاتھ کی طرف!! نچلا ہونٹ دبا کر اسنے مسکراہٹ چھپائی تھی اسکے ہاتھ میں ہاتھ تھما کر وہ اسکے ساتھ روم کی جانب بڑھ گئی تھی بےبی پنک کلر کے سمپل سوٹ میں چینج کرنے کے بعد وہ واش روم سے باہر آئی تی ڈریسنگ ٹیبل پر ایک پیل ریڈ کلر ویلوٹ کے باکس کو دیکھ کر اسنے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف پیش رفت کی باکس کو اٹھا کر اسنے تجسس سے کھولا تھا جس میں ایک نفیس سلور چین تھی جس میں کرسٹل کے چھوٹے چھوٹے سٹارز بنے ہوئے تھے اپنے پیچھے اسکی موجودگی کا احساس اسکے تھکاوٹ سے چور وجود میں سکون کی لہر کی طرح دوڑ گیا 

"کیا یہ نیکلس ہے"

اسنے عام سے لہجے میں سوال کیا تھا اسکے کان پر جھکتا وہ مبہم سا مسکرایا تھا آئیذل نے مرر میں اسکا عکس دیکھا تھا 

"یہ نیکلس نہیں ہے بےبی گرل"

"تو پھر" 

آئیذل نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"Do you really want to know what it is?"

("کیا آپ سچ میں جاننا چاہتی ہیں کہ یہ کیا ہے")

اسکے لہجے میں سرائیت کرتی آوارگی کو بھانپ کر آئیذل نے لب بھینچ کر وہ چین نما جیولری واپس باکس میں رکھی تھی 

  "I...I think .. I will look into it late"

("میں۔۔۔میرا خیال ہے میں اسے بعد میں دیکھوں گی")

وہ قدرے سٹپٹائے لہجے میں بولی 

"یہ وائسٹ چین ہے بےبی گرل اور میرا ارادہ آپکو ابھی اسی وقت پہنانے کا تھا لیکن آپکے معصوم سے چہرے کو دیکھ کر مجبوراً اپنا ارادہ ترک کر رہا ہوں"

اسکی سرگوشی سن کر آئیذل کا چہرہ تمتما اٹھا تھا اسے خجل نظروں سے دیکھتی وہ لب بھینچ کر وہ باکس کانپتے ہوئے ہاتھ کیساتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر جلدی سے بیڈ کی جانب پیش رفت کر گئی تھی مسکراہٹ ضبط کر کے اسنے سر جھٹکتے ہوئے کلائی سے رولیکس سمارٹ واچ کو اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا  تیز دھڑکتے دل کیساتھ وہ بغیر اسے دوسری نظر دیکھے بلینکٹ منہ تک لیکر اس کی نظروں سے چھپ گئی تھی

"ہائے اللہ یہ دل اتنا کیوں دھڑک رہا ہے ،، تمھارا تو دماغ ہی چل گزرا ہے آئیذل" 

حلق تر کرتے ہوئے اسنے آنکھیں موندتے ہوئے اپنے سر میں چپت لگائی تھی

                                        -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ماہم کیا مسٹر عسکری اندر ہیں"

آفس سے باہر نکلتی سیکریٹری کو اسنے استفہامیہ نگاہوں سے دیکھ کے استفسار کیا تھا

"نہیں میم سر ابھی تک آفس نہیں آئے"

ضروری فائلز اٹھائے وہ مختصر جواب دیکر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی سیرت نے سرد آہ بھر کر اپنے آفس کی جانب بڑھتے ہوئے پرس سے فون نکال کر اسکا نمبر ڈائل کیا تھا کچھ دیر بعد کال کنیکٹ ہوئی تھی دونوں جانب خاموشی تھی کمپنی کے ورکنگ امپائرز نے اسے آفس کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا 

"کہاں ہو تم"

سکن کلر لائنن سلک کا اسمیٹرک ڈریس زیب تن کئے شارٹ بالوں کا بوہیمیئر سٹائل بنائے ہوئے لیفٹ ہینڈ میں سمارٹ فون اٹھائے رائٹ ہینڈ میں فائل تھامے آفس کی گیلری سے مین کانفرنس روم کی جانب بڑھتی پختگی سے گویا ہوئی

فیلو سکن کلر شوز میں قید جاذبِ نظر خوبصورت پیر پروفیشنل انداز میں اپنے آفس کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے 

" کیوں ؟؟مس کر رہی ہو"

فون سے بھاری گمبھیر آواز سنائی دی تھی پیشانی پر چند لکیریں ابھری تھی آنکھیں گھمائی تھی اسنے اکتاہٹ کیساتھ اسکے استکباریت سے بھرپور لہجے پر!!

"عسکری فار گاڈ سیک،، آفس کب تک آ رہے ہو گیارہ بجے میٹنگ ہے"

دودھیا کلائی پر بندھی نفیس ڈائمنڈ واچ پر ٹائم دیکھ کر اسنے مستحکم لہجے میں پوچھا تھا آفس کا دروازہ کھول کر ڈیسک پر فائل رکھ کر اس پر سکن کلچ بیگ رکھ کر اسنے استفسار کیا

"میں نہیں آ رہا"

اسکا لہجہ ناگواریت اور بیزاریت سمیٹے ہوئے تھا سیرت نے بھنویں سکیڑی تھی 

" تمھاری میٹنگز کا کیا"

لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے اسنے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہا دوسری جانب بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے وہ اسکی تحمل بھری باریک آواز سن کر مبہم سا مسکرایا تھا

"کینسل کر دو چاندنی"

نچلا لب دبا کر وہ بھوری درخشاں آنکھیں وا کرتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا تھا لیپ ٹاپکے کیبورڈ پر چلتی اسکی باریک گلابی انگلیاں ساکت ہوئی تھی 

"اگر آج کے بعد مجھے دوبارہ اس نام سے بلایا تم نے "

سیرت نے آنکھیں سکیڑ کر دو ٹوک انداز میں اسے کھری کھری سنانے کا پروگرام بنایا تھا اسکی بےتکی دھمکی پر ایک دلفریب مسکراہٹ بکھری تھی اسکے لبوں پر...

"چاندنی"

لیپٹاپ پر جھکی سیرت نے کھا جانے والی نظروں سے لیپٹاپ کی سکرین کو دیکھا تھا اول تو اسنے اسکی بات کاٹی تھی جس پر وہ سلگ گئی تھی دوم اسنے دوبارہ اسی نام سے پکارا تھا اسے!!

"کیا سوچا تم نے پھر"

وہ گہری سنجیدگی سے بولا تھا لیپٹاپ پر جھکی سیرت نے اسکے اچانک سوال پر بےساختہ لب بھینچے تھے

"تم اس وقت میرے آفس میں ہو سیرت رضوی اسکا مطلب جانتی ہو تم"

اسکی خاموشی سے محظوظ ہوکر وہ خماریت بھرے لہجے میں بولا اسکی بھاری گمبھیر دلفریب آواز جو اسوقت کیفیتِ خُمار کے باعث مزید بھاری ہو رہی تھی سیرت کے تیز دھڑکتے دل کے تار چھیڑ رہی تھی 

"اسکا مطلب یہ ہے کہ تم نکاح کے لئے تیار ہو"

اسنے بھاری سرگوشی بڑی مہارت کیساتھ اسکے کان کے حوالے کی تھی جسکے نتیجے میں اسکا سنجیدہ تاثرات چہرا کچھ ہی زیکنڈز میں دہک پڑا

"سے سمتھنگ"

" سیرت عسکری"

سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا دل کو لبھا لینے والی وہ جاہ و حشمت سے سرشار آواز آج  حواس باختگی کا سبب بن رہی تھی جس انداز میں اسنے اسکا نام اپنے سرنیم کیساتھ لیا تھا

"I can hear the rhythm of your fast beats,, believe me, my heart is also so eager to feel you,, my breath wants to contain your special Fragrance l Claire De Lune"

("میں تمہاری تیز دھڑکنوں کی تال سن سکتا ہوں، یقین جانو، میرا دل بھی تمہیں محسوس کرنے کے لیے بے تاب ہے،، میری سانسیں تمھاری خاص خوشبو کو سمیٹنا چاہتی ہیں چاندنی")

سیرت کا چہرہ سرخ پڑا تھا حلق تر کرتے ہوئے اسنے پس و پیش نظروں سے لیپٹاپ کی سکرین کو دیکھ کر لیپٹاپ بند کیا تھا 

"کیا تم سیرئس نہیں ہو سکتے مجھے میٹنگ کے کچھ اہم معاملات پر نظر ثانی میں تمھاری توجہ دد۔۔درکار تھی"

سیرت نے لہجے کو کمپوز رکھنے کی کوشش کی تھی مگر صد افسوس آخر پر آ کر وہ سٹپٹا گئی تھی اسکا چہرہ دہک پڑا تھا شرمندگی سے وہ لڑکی جو آج تک اسکے سمانے ہچکچائی نہیں تھی اسکے یوں سٹپٹانے  پر اسکے لبوں پر ایک متبسم بکھرا تھا ۔۔

"تھوڑی دیر لگ جائے گی مجھے آنے میں اور"

"میٹنگز کے بعد بہت اہم کام سر انجام دینا ہے ہم دونوں نے اپنی بی جان کو اطلاع کر دینا آج گھر آنے میں تمھیں دیر ہو سکتی ہے لہٰذا وہ پریشان نہ ہوں"

 اسکے لہجے کی بڑھتی خماری دیکھ کر سیرت نے بغیر دیر کئے کال منقطع کی تھی سکھ کا سانس ہوا کے سپرد کر کے وہ اپنی چیئر پر بیٹھ کر عجلت سے لیپٹاپ کو کھول گئی دل ہزارویں حصے کی سپیڈ پر دھک دھک کر رہا تھا ایسے احساسات کبھی محسوس نہیں کئے تھے اس لڑکی نے۔۔۔

"کیا آپ مجھے یونیورسٹی چھوڑ دیں گے"

نیپکن سے ہاتھ صاف کر کے ٹیبل پر سے اپنا سمارٹ فون اٹھاتے ہوئے آئیذل کی بات سن کر اسنے سر کو  دھیرے سے خم دیا تھا مہر النساء بیگم نے متعجب نظروں دونوں کو دیکھا تھا 

"بیٹا ابھی شادی کو ایک دن مشکل سے ہوا ہے کچھ دن گھر پر آرام کرو  یونیورسٹی بعد میں ہوتی رہے گی اور بچے تم بھی گھر پر رہو کچھ دن آفس سے چھٹی لے لو"

مہر النساء بیگم کی بات سن کر جہاں ذاویان نے معنی خیز نظروں سے آئیذل کی جانب دیکھا اور آئیذل نے لب بھینچ کر اسکی جانب دیکھ کر نظریں جھکائی وہیں سکون سے ناشتہ کرتی چاہت کا ماتھا ٹھنکا تھا 

"(بس ایک موقع چاہیے ذاویان!! تمھارے قریب آنے کا پھر لمظ تو کیا کوئی بھی تمھیں مجھ سے الگ نہیں کر پائے گا اور چاہت اشفاق احمد اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دے گی")

آملیٹ کا پیس منہ میں رکھتے ہوئے وہ دل ہی دل میں سوچ گئی

"یونیورسٹی میں ہینڈل نہیں کروں گا تو اور کون دیکھے گا امی ماموں کی صحت ابھی اتنی بہتر نہیں کہ وہ یونیورسٹی کے کام کر سکیں"

ورسٹ واچ پر ٹائم دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے بغیر مہر النساء بیگم کی جانب دیکھے جواب دیا مہر النساء بیگم نے افسردگی سے اسے دیکھا تھا 

"میں باہر ویٹ کر رہا ہوں"

آئیذل کی جانب دیکھ کر کہنے کے بعد وہ ڈائننگ ہال سے واک آؤٹ کر گیا تھا آئیذل نے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا کیونکہ وہ انکی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی تھی مہر النساء بیگم نے خوشگواری سے مسکرا کر اسے جانے کی اجازت دی تھی سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ روم سے اپنا بیگ لینے چلی گئی تھی

فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے وہ سیٹ پر بیٹھی تھی بیگ کو گود میں رکھ کر اسنے گیٹ بند کیا تھا گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اپنے فون کی چمکتی اسکرین کو دیکھا تھا جس پر "پرنسس" نام بلنک کر رہا تھا آئیذل نے درزدیدہ نگاہوں سے فون کی سکرین پر چمکتا نام دیکھ کر ذاویان کو دیکھا تھا کال کنیکٹ کرتے ہوئے اسنے گاڑی سٹارٹ کی تھی آئیذل نے لب بھینچ کر ونڈو کی جانب رخ کیا تھا

"وعلیکم السلام پرنسس کیسی ہیں آپ"

آئیذل نے سختی سے لبوں کو کچل کر سینے پر ہاتھ باندھے تھے ذاویان کا کسی اور کو پرنسس کہنا کہاں ہضم ہونے والا تھا اس سے بھلا۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی کیا میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا آپکو دراصل مجھے آپ کی ایڈوائس چاہیے تھی"

 ذاویان کے لئے سیرت کی آواز کی بےروّنقی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا پیشانی پر دو لکیریں ابھر آئی تھی دوسری جانب سیرت اسکی خاموشی سے اندازہ لگا بیٹھی تھی کہ وہاں کچھ ہے جو ٹھیک نہیں ہے

"بھائی کیا سب خیریت ہے"

 کافی دیر جواب نہ ملنے پر سیرت نے تاسف سے استفسار کرنا مناسب سمجھا تھا سڑک کا سنجیدگی سے جائزہ لیتی اسکی سنہری درخشاں آنکھیں پرسکون ہوئی تھی اب کی بار اسکی آواز نارمل آئی تھی

"ہمم!! لیکن میں سوچ رہا تھا میری پرنسس کو اچانک میری ایڈوائس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی"

ایک ہلکی مسکان لبوں پر سجائے وہ خوشدلی سے بولا تھا آئیذل نے متفکر نظروں سے اسے مختصر دیکھا تھا جبکہ اسکے محبت بھرے لہجے پر سیرت کی آنکھوں میں آنسوں تیرے

"بھائی"

 اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر ذاویان سنجیدہ ہوا تھا 

"اگر آپ نے کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے پوری ذندگی انتظار کیا ہو اور سالوں کے انتظار کے بعد وہ چیز آپکو ملنے والی ہو لیکن اسکی قیمت ایک اور بےحد قیمتی چیز ہو تو کیا اس پہلی چیز کی خاطر دوسری قیمتی چیز کی قربانی دینا مناسب ہے"

اسٹیئرنگ ویل پر ذاویان کی گرپ قدرے سخت ہوئی تھی دل کسی چیز کے غلط ہونے کا اندیشہ ظاہر کرنے لگا 

"کیا ہوا ہے سیرت"

"نہیں بھائی کچھ بھی نہیں ہوا"

آنسوں سے تر چہرے کو اسنے جلدی سے صاف کر کے لہجے کو متوازن کیا تھا ناجانے کیوں ذاویان سے بات کر کے اسکا دل بھاری ہو چکا تھا اسکا دل چیخ چیخ کر اسے شرمندگی کا احساس دلا رہا تھا کہ یہ نکاح کر کے وہ اپنے بھائی کا بھروسہ توڑ رہی تھی 

"سیرت"

ذاویان کی فکرمند آواز نے اسے سوچوں کے سمندر سے کھینچ کر باہر نکالا تھا

"بھائی اگر آپ ایسے ہی سوال کرتے رہیں گے تو میں ایموشنل ہو جاؤں گی،، ویسے بھی مجھے آپ کی بہت یاد آ رہی ہے اور آپ کی بےوجہ کیئر سے میرا دل دکھتا ہے کیا میں چھوٹی بچی ہوں"

اسکی خفگی بھری آواز سن کر ذاویان نے سرد آہ بھری تھی

"اب آپ مجھے ایڈوائس دیں گے یا میں کسی بزرگ ہستی سے یا ماہر قانون سے یہ دریافت کرنے چلی جاؤں"

وہ مبہم سا مسکرایا تھا چشمِ تر آنکھوں سے سیرت نے اسکی مسکراہٹ محسوس کر کے لبوں پر ایک مجبور مسکراہٹ پلاسٹر کر دی تھی

"اگر وہ پہلی چیز واقعی اتنی زیادہ خاص ہے کہ آپ اس کے لئے اپنی دوسری خاص چیز قربان کرنے کی ہمت رکھتی ہیں تو بیشک آپکو وہ چیز حاصل کر لینی چاہیے پرنسس"

"اور اگر اس چیز کو حاصل کر کے کسی بہت قریبی کا دل توڑنا پڑے تو"

سیرت کے جواب نے اسے ساکت چھوڑا تھا فون کی دونوں جانب گہری خاموشی سی چھا گئی تھی

"آل رائٹ تھینک یو بھائی میں پھر رابطہ کرتی ہوں آپ سے بھابھی کا خیال رکھئے گا"

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا کال منقطع ہو چکی تھی آئیذل نے فکرمندی سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا تھا اسنے سنجیدگی سے دوبارہ سیرت کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر اسنے کال کنیکٹ کرنے کی غلطی نہیں کی تھی 

                                        -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 سب لوگ میٹنگ روم میں جمع ہونا شروع ہوئے تھے ورسٹ واچ پر بندھی نفیس ڈائمنڈ واچ پر اسنے ٹائم دیکھ کر سرد آہ بھری تھی سب اپنی چیئرز پر بیٹھ چکے تھے اور  تقریباً سب کی نظروں کا مرکز کانفرنس ٹیبل کے بالکل سامنے خالی پڑی اسکی بلیک ریوالونگ چیئر تھی جہاں وہ جاہ و حشمت شخصیت براجمان نظر آتا تھا عرش نے مسکراہٹ ضبط کئے  شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا سیرت کو تمسخر بھری نظروں سے دیکھا تھا 

"میرا خیال ہے ہمیں میٹنگ کا آغاز کرنا چاہیئے ویسے بھی عسکری انڈسٹریز کی وی پی ہمارے ساتھ ہیں شاید عسکری صاحب کو آنے میں وقت لگ جائے"

 عرش نے محظوظ نظروں سے شک و شبہ کی شکار سیرت کو دیکھ کر طنزیہ لب و لہجے میں کہا تھا سیرت نے پیچ و تاب نظروں سے عرش کو دیکھ کر کانفرنس ٹیبل پر پڑے لیپٹاپ کو نظروں کا مرکز بنایا تھا

"ڈیم اٹ عسکری"

گھڑی پر دوسری بار ٹائم دیکھنے کے بعد وہ جھنجھلا کر دھیمے لہجے میں بڑبڑائی تھی کیونکہ وہ بیس منٹ لیٹ ہو چکا تھا اور اسے اس میٹنگ کی بریفننگ پر غور کر کے پروجیکٹ کے سلسلے میں اہم اعلان کرنا تھا

"I think you should start Mr. Alex Walker"

("میرے خیال سے آپکو شروع کرنا چاہیے مسٹر ایلکس واکر")

کافی سوچ بچار کے بعد اسنے پروجیکٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پروفیشنل انداز میں کہا ایک برٹش شخص کوٹ درست کر کے اپنی چیئر سے اٹھا تھا اور پروجیکٹر کو آن کرتے ہوئے تفصیل سے بریفننگ دینے میں مصروف ہوا عرش نے درزدیدہ نگاہوں سے سیرت کو دیکھا تھا دونوں ہاتھوں کو کانفرنس ٹیبل پر مخصوص انداز میں رکھے وہ لبوں کو بھینچے بریفننگ سن رہی تھی نظریں دلچسپی اور باریکی سے پروجیکٹر کی روشنی پر نظر آتے لفظوں کا جائزہ لے رہی تھی

"Your point of view is admirable Mr. Alex but the business you are targeting for million dollar deals has very little place in marketing. Such things don't sell in the market"

("آپ کا نقطہ نظر قابل تعریف ہے مسٹر ایلکس لیکن آپ جس کاروبار کو ملین ڈالر کے سودوں کے لیے ٹارگٹ کر رہے ہیں اس کی مارکیٹنگ میں بہت کم جگہ ہے۔ ایسی چیزیں مارکیٹ میں نہیں بکتیں")

پراجیکٹر بند کرتے اس برٹش شخص نے متعجب نظروں سے اس کم عمر لڑکی کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر پرافیشنلزم اور کانفیڈینس کے لامتناہی تاثرات تھے سیاہ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی جو اسکے جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہونے کا احساس ظاہر کر رہی تھی 

"But this is quite a modern invention, Miss Seerat"

("لیکن یہ بالکل جدید ایجاد ہے مس سیرت")

مسٹر ایلکس قدرے خشک لہجے میں گویا ہو کر ٹال مٹول سے کام لینے کی کوشش کی تھی کیونکہ عسکری انڈسٹریز سے آج ہر صورت انہیں سرمایہ کاری کرنی تھی جو بےحد منافع بخش ثابت ہو سکتی تھی میٹنگ روم میں موجود تمام افراد نے استفہامیہ نظروں سے سیرت کی جانب دیکھا تھا جو مسٹر ایلکس کے بےصبری سے بول اٹھنے پر ہلکی سی مسکرائی تھی 

"This is what I am trying to explain to you, it is difficult to earn as much profit as you are investing because your Modern Invention is brand new and most people will not even know the name of this brand"

("میں آپ کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں، جتنے اکاؤنٹ کی آپ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اتنا منافع کمانا مشکل ہے کیونکہ آپ کی جدید ایجاد بالکل نئی ہے اور زیادہ تر لوگوں کو اس برانڈ کا نام تک نہیں معلوم ہوگا ")

مسٹر ایلکس جو اسے ہلکے میں لے رہے تھے اسکا  اب پچھتا رہے تھے عسکری کی غیر موجودگی میں  یہ ڈیل کامیاب ہونے کے 100٪ امکانات تھے مگر اسکی کمی اس تیکھے مزاج والی لڑکی نے پوری کر دی تھے سب افراد اب مسٹر ایلکس کو استہزائیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے جو خجل نظروں سے اپنے ہی پروجیکٹ کو تشویش سے دیکھ رہے تھے

"I think you are a woman ۔۔۔happy with trivial things, you have no interest in modern inventions of today That's why your theory is also Dull"

("میرے خیال سے آپ ایک ایسی خاتون ہیں جو معمولی چیزوں میں خوش رہتی ہیں، آپکو آج کی جدید ایجادات سے کوئی دلچسپی نہیں، اسی لیے آپکا نظریہ بھی پھیکا ہے")

مسٹر ایلکس نے بددلی سے کہا تھا عرش جباری کے لبوں پر ایک خفیف مسکراہٹ پھسلی 

"Excuse Me I think you are overstepping your bounds Mr. Alex"

("معاف کیجئے گا مجھے لگتا ہے کہ آپ اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں مسٹر ایلکس")

سیرت کی پیشانی پر بل پڑے تھے چیئر دھکیل کر اٹھتے ہوئے وہ پروفیشنل لہجے میں بولی تھی لبوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ سجائے عرش بھی اٹھا تھا

"میرے خیال سے یہ فیصلہ کمپنی کی وی پی کے بجائے اگر عسکری کارپوریشن کے چیئرمین کریں تو بہتر ہو گا"

سب نے متعجب نظروں سے عرش کی جانب دیکھا تھا جو دلچسپی سے سیرت کو دیکھتے ہوئے اپنی چیئر سے اٹھ کے تضحیک آمیز لہجے میں گویا ہوا تھا سیرت نے مٹھی بھینچی تھی یہاں اسکے فیصلے کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور ٹارگٹ کرنے والا اور کوئی نہیں عرش جباری تھا سیرت کا چہرہ طیش کے باعث سرخی مائل پڑا تھا اسکی موجودگی ہی اسکی نسوں میں دوڑتے خون کی روانی میں تیزی لانے کے پئے کافی تھی عرش نے طنزیہ نظروں سے سیرت کا خشم کے باعث دہکتا سرخ چہرا عصبانیت کے سبب پھیلی سیاہ آنکھیں وہ دِلی شادمانی سے دیکھ رہا تھا

"Is the Disapproval of Miss Rizvi's is not enough"

("کیا مس رضوی کا نامنظور کرنا کافی نہیں؟" )

وہ سحر انگیز جاہ و حشم شخص  بلیک فارمل تھری پیس سوٹ میں میٹنگ روم میں اینٹر ہوا تھا بلیک لیدھر کے پینی لوفرز ماربل فرش پر آہٹ پیدا کر رہے تھے اسکے مخصوص کلون کی مہک نے پورے کانفرنس روم کو اپنی موجودگی سے معطر کیا تھا  اچرج نگاہوں سے اسے دیکھ کر سب اپنی کرسیوں سے اٹھے تھے سیرت نے لب بھینچ کر مسٹر ایلکس کو دیکھا تھا جو اسکے صادر کئے گئے سوال کا جواب فرش پر نظریں گاڑھے تلاش رہے تھے

سب نے اسے سلام کیا تھا جس کا جواب دھیرے سے سر کو خم دیکر وہ سیرت کے قریب اپنی چیئر کی جانب بڑھا تھا 

"اسلام و علیکم"

سیرت نے بغیر اسکی جانب دیکھے عام سے لہجے میں کہا تھا 

"وعلیکم السلام چاندنی"

الفت سے دھیمے لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی گھول کر وہ اپنی چیئر کی جانب بڑھ گیا سیرت نے پیچ و تاب نظروں سے اسکی چوڑی پشت کو گھور کر سختی سے ہونٹ بھینچے تھے 

 "Well, what were you saying, Mr. Jabari, would you like to say it in my presence"

("اچھا، آپ کیا کہہ رہے تھے جناب جباری، کیا آپ میری موجودگی میں یہ کہنا چاہیں گے؟")

 لہجہ عام سا تھا مگر بھوری درخشاں آنکھوں نے عرش پر استہزاء کیا جو اسکے سوال پر سر اٹھاتا لب بھینچ گیا تھا 

"And Mr. Alex Walker, the woman whose temperament you have described as dull, is several levels higher than you in rank and qualification, so you will apologize to Miss Rizvi right now "

"اور مسٹر ایلکس واکر،  جس خاتون کے مزاج کو آپ نے خستہ حال قرار دیا ہے، وہ رینک اور قابلیت میں آپ سے کئی درجے اوپر ہے، اس لیے آپ ابھی مس رضوی سے معافی مانگیں گے۔")

مسٹر ایلکس کی جانب درشتگی سے دیکھ کر وہ مُستحکم لہجے میں گویا ہوا سیرت کی استہزائیہ نظروں نے مسٹر ایلکس کے خجلت کے باعث سرخی مائل پڑتے چہرے کا بھرپور جائزہ لیا تھا

"I am sorry I should not have used such words for you Miss Rizvi"

( "مجھے افسوس ہے مس رضوی مجھے آپ کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے")

سیرت نے استکباریت سے سینے پر بازو پھیلا کر فولڈ کئے تھے مسٹر ایلکس فائل اٹھا کر میٹنگ روم سے باہر واک آؤٹ کر گئے تھے عرش نے فائلز سمیٹنا شروع کیا تھا

"Mr. Jabari I think you have yet to apologize"

("مسٹر جباری مجھے لگتا ہے کہ آپ نے ابھی معافی مانگنی ہے")

سیرت نے اسے کھسیانا ہو کر آفس سے نکلنے کے ارادے کو بھانپ کر اسکے باہر نکلنے سے پہلے سنجیدگی سے کہا تھا عرش کا مطمئن چہرہ یکلخت سفید پڑا تھا سیرت کے مخاطب کرتے ہی اپنے بزنس کولیگز سے مختصر گفتگو کرتا وہ سنجیدگی سے سیرت کی جانب مڑا تھا جو عرش کو کاٹدار نظروں سے دیکھتی ہوئی اسکی سمت بڑھتے ہوئے گویا ہوئی تھی 

سیرت کو نخوت بھری نظروں سے دیکھ کر وہ ضبط کے آخری پیمانے پر تھا مگر سیرت کی پشت پر اسکے اچانک ظاہر ہونے پر وہ ساکت ہوا تھا پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ استکباریت سے اڑسائے وہ سر کو ایک اینگل پر ہلکا سا گھما کر لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا سیرت اسکی اپنے قریب موجودگی سے بےخبر عرش کو تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی

"I apologize Miss Seerat Rizvi"

مٹھیاں بھینچے وہ خوفزدہ نظروں سے اسکی درخشاں سرخی مائل آنکھوں کو دیکھ کر خشک لبوں پر زبان پھیر کر سٹپٹانے کیساتھ گویا ہوا تھا اسکا معذرت کرنا سیرت کے لئے حیران کن تھا عرش نے لب بھینچ کر حراساں نگاہوں سے اسکی خون چھلکاتی بھوری آنکھوں کو دیکھا تھا اور بغیر ایک سیکنڈ کی دیر کئے وہ باقی کولیگز کیساتھ آفس سے باہر نکل چکا تھا 

حیرانی سے اسے جاتے دیکھتی سیرت پیچھے پلٹی تھی اسکے چوڑے سینے سے ناک لگتے ہی اسنے سسک کر اپنا ناک تھاما تھا اپنی جگہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہو کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا سرخ ہوتی ناک کو پکڑے سیرت نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا اسکے لیٹ ہونے کا غصہ ناک چڑھا ہوا تھا اور اب وہ ناک بھی سرخ پڑ چکا تھا

"یو آر لکنگ گارجیس مس سیرت"

اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیکر وہ ایک آئی برو لفٹ کر کے ذو معنی لہجے میں بولا اسکے لفظوں نے سیرت کا غصے سے تمتماتا سرخ چہرے مزید سرخ اناری کیا تھا

"باقی کی میٹنگز میں کینسل کر رہا ہوں جانم!! "

"لیکن کیوں"

سیرت نے اسکے سنجیدگی سے کہنے پر اسکی جانب اچھنبے سے دیکھ کر پوچھا تھا اسکی معنی خیز نظریں اسکے پیچ کلر کی لپ سٹک میں سجے باریک ہونٹوں کا غائر نگاہ سے مطالعہ کر رہی تھی 

"آج نکاح ہے ہمارا"

اسی مرمریں کمر پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھ کر اسے اوپر کو اٹھاتا وہ گمبھیر لہجے میں سرگوشی کر گیا سیرت نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ کر اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے مزید قریب آنے سے روکا تھا

"کیا خوفزدہ ہو مجھ سے"

سیرت نے اسکی بھوری آنکھوں سے نظریں چرا کر لرزیدہ پلکوں کو گرایا تھا اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکائے وہ سرگوشیانہ لہجہ میں استفسار کرنے لگا سیرت کا دل شدت سے دھڑکتا اسکی اعتدال سانسوں کو تیز کر گیا 

"نہیں"

دھیمے لہجے میں کہتی وہ اسکے سینے سے ہاتھ ہٹاتی بولی 

اسکے کلون کی طلسماتی مہک کیساتھ اسکے کسرتی بدن سے سرائیت کرتی حرارت اسے اپنے ہوش و حواس پر طاری ہوتی محسوس ہوئی اسکے شرم و حیا کے باعث دہکتے رخسار کو اسکی پرتپش گرم سانسوں نے جھلسا دیا تھا

"مجھ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے سیرت، تمھیں کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا"

سیرت کی خوفزدہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ سنجیدگی سے بولا

"کیوں نقصان نہیں پہنچا سکتے تم مجھے"

 سیرت کی سہمی نظروں نے اسکی بھوری چمک دار آنکھوں کو دیکھ کر بےاختیاری طور پر

 استفسار کیا تھا  اپنی ہی دھڑکنیں اسکی قربت پر بغاوت پر اتر آئی تھی اسکی دھیمی باریک آواز اسے اپنے کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوئی تھی

" پتا نہیں کیوں!! تمھیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا" اسکی گردن کی پشت پر ہاتھ رکھ کر دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرا لیکر وہ خمار آلود لہجے میں بولا سیرت نے کچھ کہنے کے لئے لب وا کئے تھے مگر دروازے سے اندر آتی سونیا کو دیکھ کر وہ جلدی سے اس سے دور ہوئی تھی سونیا کی پیشانی پر چند لکیریں ابھری تھی عسکری کی جانب متعجب اور حزن نگاہوں سے دیکھتی وہ بغیر ایک لفظ کہے باہر نکلی تھی

"میری کال کا انتظار کرنا"

اسکے خوبصورت چہرے کو سنجیدگی سے دیکھ کر کہنے کے بعد وہ آفس سے واک آؤٹ کر گیا تھا سیرت نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے کانفرنس ٹیبل سے ٹیک لگائے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا

                                        -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

لیکچر کے اوور ہونے میں کچھ ہی منٹ باقی تھے وہ ڈائس پر کھڑا سنجیدگی سے آنسرشیٹس اور رول نمبر لسٹ کو میچ کر رہا تھا ذہن گہری کشمکش میں تھا گلاسز کے عقب میں چمکتی سنہری آنکھوں میں ملال تھا اپنی بہن کو لیکر وہ بےحد پوزیسیو تھا اور آج جو کچھ سیرت نے کہا تھا ہر ایک لفظ کو لیکر اسکا دل بےحد بےچین تھا 

اپنی سیٹ پر حورم کیساتھ دھیمی آواز میں گفتگو کرتی آئیذل نے تاسف سے اسکے سرد تاثر چہرے کو دیکھا تھا لیکچر اینڈ ہوتے ہی تمام سٹوڈینٹس لیکچر ہال سے باہر نکلنا شروع ہوئے تھے کچھ سٹوڈینٹس اس سے لیکچر کے امور پر تبادلہ خیال کیساتھ مختصر گفتگو کے بعد باہر نکل رہے تھے 

"تم چلو میں آتی ہوں"

بیگ اٹھاتی حورم کو دیکھ کر اسنے سرد سے لہجے میں کہا حورم سر ہلا کر باقی سٹوڈینٹس کے پیچھے لیکچر ہال سے باہر نکل گئی تھی اپنا بیگ اٹھائے وہ دھیمی چال چلتی ہوئی اسٹیج کی جانب آئی تھی  

"پروفیسر"

لیکچر ہال میں اسوقت بھی کچھ سٹوڈینٹس موجود تھے لہٰذا اسے مخاطب کرنے میں احتیاط برتی تھی ڈائس سے پیپرز سمیٹتے ہوئے اسکی باریک آواز سن کر وہ ایک پل کو ساکت ہوا سنہری آنکھوں نے استفہامیہ نگاہوں سے سامنے کھڑی لڑکی کا جائزہ لیا تھا 

"یس مس آئیذل"

اسکے پیچھے سے مخاطب کرتے سٹوڈینٹ کو دیکھ کر وہ اجنبیت سے گویا ہوا آئیذل کی بنفشی آنکھوں نے بےقراری سے اسے دیکھا تھا وہ اسکے لبوں سے ادا ہوتے "لمظ" کے لئے اس قدر بےتاب تھی کہ اسکے "مس آئیذل" کہنے پر اسکا دل جیسے ٹوٹ کر بکھرا تھا

 قطع نظری کیساتھ اپنی توجہ کا مرکز پروجیکٹ اٹھائے سٹوڈینٹ کو بنایا جو اس اے کچھ اہم سوالات کے متعلق استفسار کر رہا تھا ناجانے کیوں آئیذل کی آنکھوں میں نمی پھیلی

"یس مس آئیذل"

سٹوڈینٹ کے جاتے ہی وہ لیکچر ہال سے باہر نکلتے سٹوڈینٹس کو مختصر نظر سے دیکھ کر خاموش کھڑی آئیذل کو مخاطب کر گیا شبنمی آنکھوں میں ڈھیروں ناراضگی لئے وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھتی رہی سٹوڈینٹس باہر نکل چکے تھے وہ سنجیدگی سے ایک قدم اسکی جانب اٹھا گیا ہاتھ کی پشت سے پلکوں پر چمکتے موتی صاف کرتی وہ دروازے کی جانب بڑھی تھی اسکی باریک کلائی کو آہنی گرفت میں لیکر اسے جانے سے روکا تھا

"چھوڑیں ہمیں پروفیسر"

بغیر اسکی جانب دیکھتی وہ آزردگی سے بولی 

"سب دیکھ رہے تھے لمظ کیا کرتا میں"

آئیذل نے چشمِ تر آنکھوں سے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا تھا آنسوں ٹوٹ کر اسکے گلابی رخساروں سے گزر کر فرش کی زینت بنے اپنے ماؤف ہوتے ذہن کو ایک طرف کرتا اسکے گرتے آنسوں کو دیکھ کر ٹوٹتا وہ اسکا ہاتھ تھامتا اسے اپنے روبرو لایا 

"کیا لوگوں کے سامنے مجھے اپنی بیوی کہنے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں آپ ۔۔۔ کم تر ہوں آپ سے اس لئے یا پھر میری اس سانولی رنگت کی وجہ سے شرمندہ ہیں آپ"

تیز دھڑکتے دل کیساتھ وہ جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی اپنے بھاری لفظوں کے خطا ہونے کا احساس اسے تب ہوا جب اسکی سرخ پڑتی رنگت کو دیکھا سنہری آنکھوں میں سرخی پھیل رہی تھی پیشانی اور گردن کی نیلی شریانیں خشم و عصبانیت کے باعث ابھر آئی تھی 

"اپنی لمظ کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتا میں سنا تم نے"

اسکی گردن کی پشت کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے اسکا چہرہ اپنے چہرے کے بےحد قریب لا  کر اسکی بنفشی آنکھوں میں اپنی سرخی مائل آنکھیں گاڑھے پتھریلے لہجے بولا تھا آئیذل نے اسکے شدت سے بھرپور لمس پر لرزتے ہوئے اسکی التہابی آنکھوں میں دیکھا تھا  چہرہ بےحد قریب ہونے کے باعث اسکے کٹاؤ دار لبوں نے بولتے ہوئے اسکے تھراتھرتے لبوں کو غیر ارادی طور پر چھوا تھا

"اور شرمندگی سے تم بچنا چاہتی ہو لمظ!! لوگ کیا کہیں گے اسکی پرواہ تمھیں ہے مجھے نہیں اور  پوری کائنات کے سامنے میں نہ صرف تمھارا میری شریکِ حیات ہونے کا اقرار کر سکتا ہوں بلکہ اپنے عشق کا اظہار کرنے سے بھی نہیں ڈرتا"

آئیذل نے سرسری نظروں سے اسکے بےحد قریب وجیہ چہرے کو نم آنکھوں سے دیکھا

"بہت غلط کہا تم نے بےحد تکلیف دی ہے تمھارے لفظوں نے مجھے آج"

بےقرار نگاہوں سے اسے دیکھتا وہ غم زدہ لہجے میں بولا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا اپنے چہرے پر ڈھیلی پڑتی اسکی گرفت کیساتھ آئیذل کا دل بھی ڈوب رہا تھا 

"سس۔۔سوری"

اسکے چہرے کو اپنے چھوٹے ہاتھوں میں لیتی وہ  اسکی سنہری آنکھوں میں پھیلتی سرخی کو  مغموم نگاہوں سے دیکھتی دھیمے لہجے میں بولی اسکے ہاتھوں کو آہستگی سے ہٹانا چاہا تھا اسنے اپنے چہرے سے مگر اسے ڈیسک پر بٹھاتی اسکے قریب بیٹھ کر وہ بغیر اسے ایک لفظ کہنے کی مہلت دیئے اسکے لبوں پر لب رکھ گئی تھی بس یہاں اسکا ضبط ٹوٹ چکا تھا اسکے بالوں میں سختی سے انگلیاں الجھائے وہ اسے پیچھے ہٹنے کی مہلت دیئے بغیر اسکے لبوں پر اپنے تشنہ لب رکھ گیا آئیذل نے اس قدر شدت پر اسکے سلکی بالوں میں انگلیاں الجھائے آنکھیں میچی تھی وقت تھم سا گیا تھا 

"سسس"

اسکے لبوں کو آزادی بخشے وہ اسکی گردن پر لب رکھتا زرا سا جھکا تھا اسکی وائٹ شرٹ کا کالر پکڑتی وہ سسکی 

"بالکل خاموش لمظ!! قریبی کلاس میں لیکچر چل رہا ہے ہمیں بچوں کو ڈسٹرب نہیں کرنا"

اسکی خمار آلود سرگوشی پر وہ سر پیچھے گراتی آنکھیں سختی سے میچتی لب بھینچ گئی اسکی سلونی گردن پر جابجا اپنی محبت کی سرخ مہریں ثبت کرنے کے بعد وہ ضبط کرتا اسکی گردن سے اٹھا تھا نم آنکھوں نے خفگی سے اسے دیکھا تھا

"کیا ہوا"

اسکے سرخی مائل چہرے کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ کر ذاویان نے شائستگی سے پوچھا

"بہت جلن ہو رہی ہے یہاں"

گردن پر ہاتھ رکھتی وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی اسکی بنفشی نمی سے بھری آنکھوں کو محبت سے دیکھ کر اسنے دوبارہ اسکی گردن پر لب رکھے تھے خوفزدہ ہو کر آئیذل نے آنکھیں میچی تھی مگر اب کی بار اسکے دہکتے لب سرخ نشانات سے جلن کو چن رہے تھے اسکے طمانیت بخش لمس پر وہ پرسکون ہو کر لمبے سانس لیتی رہ گئی

"سوری لمظ آئی واز ڈسٹریکٹڈ آئندہ میں خیال رکھوں گا"

اسکے سرخ اناری چہرے کو الفت سے دیکھ کر وہ سنجیدگی سے اٹھا تھا آئیذل نے شرمسار ہو کر اسے دیکھا تھا 

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"میم سر آپکا ویٹ کر رہے ہیں"

دونوں ہاتھوں میں پیشانی کو گرائے سیکریٹری کی آواز سن کر سر اٹھائے  وہ سرخی مائل آنکھوں سے سیکریٹری کی جانب دیکھ گئی جو دروازہ کھول کر اندر آئی تھی اسکی الجھی حالت دیکھ کر پریشان ہو چکی تھی

"میم کیا آپ ٹھیک ہیں"

"یا آفکورس۔۔۔ سردرد ہے ڈونٹ وری ماہم"

تکلیف دہ مسکان کیساتھ وہ سیکریٹری کو دیکھتی بولی 

"آر یو شور"

سیکریٹری نے فکرمندی سے اسے دیکھا تھا سر کو دھیرے سے ہلا کر وہ ڈیسک سے اپنا سمارٹ فون پرس میں رکھ کر اٹھی تھی سیکریٹری کے باہر جانے کے بعد اسنے بےتاثر نظروں سے گلاس ونڈو سے ڈوبتے سورج کو دیکھ کر سرد آہ بھری تھی

"سوری بھائی!! آپکی بےانتہا محبت دینے کے باوجود بھی آپکی پرنسس میں آپکو یہ بتانے کی ہمت نہیں کہ آپکی پرنسس کیساتھ کتنی بڑی ذیادتی ہوئی تھی سوری بی جان!! آپکی سیرت آپکی نصیحت پر عمل نہیں کر پائی"

کرب ناک لہجے میں کہہ کر وہ آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی

"سوری میرا فون سائلنٹ پر تھا آپکی کالز مس ہو گئی"

اسکی باریک پینسل ہیل کی آہٹ سن کر وہ متانت سے اسکی جانب مڑا تھا گھبراہٹ کے سبب حلق تر کیا تھا اسنے اور اسکی استفہامیہ نظروں کا جواب دیا تھا آواز میں بےحد دھیما پن تھا وجہ آنسوں کا ذخیرہ تھا جوحلق میں پھنس کر رہ گیا تھا 

"چلیں"

"کہاں"

متعجب نظروں سے اسے دیکھتی وہ اسکے سوال کے جواب میں سوال کئے بنا رہ نہیں سکی تھی چہرے پر گھبراہٹ کے آثار عیاں تھے

"نکاح آفس میں تو نہیں ہو سکتا "

اسکی حد سے زیادہ بھاری گمبھیر آواز نے سیرت کو لب بھینچنے پر مجبور کیا تھا کچھ دیر پس و پیش نظروں سے دیکھا تھا اسے!!

"اب بھی کسی شک کی گنجائش ہے کیا سیرت"

تمام رنجِ زیست ایک پل کے لئے ہی صحیح کہیں دور منہ چھپا گئے اسنے اسکا نام کتنی الفت سے لیا تھا  کیفیتِ چشم ہی کچھ ایسی تھی دنیا جہاں سے غافل وہ اسکے چہرے کو پچھلے کافی سیکنڈ سے دیکھے جا رہی تھی اور وہ اسکی سیاہ آنکھوں میں اپنے لئے جذبات کے تاثر تلاش رہا تھا مگر وہ آنکھیں بالکل خالی تھی آسمان پر بادل گرج کر اسے خیالوں کے سمندر سے کنارے تک لائے تھے سیرت کے بےجان قدم  اسکی بلیک( Bugatti La Voiture Noire) گاڑی کی جانب اٹھے تھے فرنٹ گیٹ کھول کر سیٹ پر بیٹھی تھی آنکھیں میچے اسنے سرد آہ بھری تھی ڈرائیونگ سیٹ کا گیٹ کھلنے کی آواز اسکے دل کو کاٹتی چلی گئی پرس پر گرفت سخت کر کے اسنے آنسوں کو آنکھوں کی باڑ توڑنے سے روکا تھا

"بھیا مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے" 

لب سختی سے بھینچ کر اسنے گاڑی کے گلاس سے باہر دیکھتے ہوئے سوچا تھا گاڑی سٹارٹ ہوئی تھی ہر سیکنڈ کیساتھ کم ہوتے فاصلے کیساتھ ساتھ سیرت کا دل بیٹھتا جا رہا تھا دوسری جانب اسکی بھوری متکبر ماہ تاباں آنکھیں ڈرائیونگ کے دوران روڈ کیساتھ سیرت کے الجھے ہوئے ہاتھوں کی باریک گلابی انگلیوں کے چٹخنے کا جائزہ لے رہی تھی

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"When I forget you

I'm all alone without a place to go

But then played a mirror like a show

The past I used to know

A dream, 'til I see every part of me

Eyes of red following and"

"I wanna live, wanna live

Deep inside I've always been

Reaching out for a hand, so don't let this be the end"

                             "Miss Wanna Die"

(Shinitai-chan - English Cover)

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

گاڑی میں چھایا سکوت اسکی جان سلب کر رہا تھا دل رفتار سے دھڑک رہا تھا اپنی ہی غیر اعتدال دھڑکنیں بےحد قریب سے سن پا رہی تھی وہ!! اسنے بےتاثر نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی کہنے کا ارادہ ترک کیا بھوری آنکھوں نے متعجب انداز میں اسکے خوفزدہ چہرے کو بھرپور جائزہ لیا تھا الفاظ کا تبادلہ نہیں تھا مگر اسکی سہمی آنکھیں سب کہہ رہی تھی کس قدر سہمی ہوئی تھی وہ!! گاڑی ہلکی ساختی لکڑی کے بنے ایک چھوٹے سے آرام دہ گھر کے سامنے رکی تھی دل بند ہونے کے بےحد قریب تھا 

"میں اکثر یہاں آتا ہوں مختصر قیام کے لیے"

اسے خوفزدہ نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیتے دیکھ کر وہ بےحد دھیمے لہجے میں بولا سیاہ آنکھوں نے اسے بےتابی سے دیکھ تھا وہ ایک پل کو ساکت ہوا تھا اس قدر معصومیت تھی اس چہرے پر جیسے کوئی چھوٹی لڑکی کسی غلطی کرنے کے بعد اندھیری گلیوں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہو اور ڈھیروں شرمندگی کے باعث چہرہ سرخی مائل پڑ گیا ہو

"چلو سیرت"

اسکے اب کی بار سنجیدگی مخاطب کرنے پر وہ گاڑی کا گیٹ کھول کر باہر نکلی تھی ٹھنڈی ہوا نے اسکے سرخی مائل چہرے کو چھوا تھا کچھ دیر بعد وہ اسکے پیچھے دھیمے قدموں کیساتھ چل پڑی تھی راہداری کے راستے سے گزرتے ہوئے وہ بیسمنٹ تک آئے تھے گھر میں سکوت چھایا ہوا تھا

"Mac tu es chez toi"

"("میک تم گھر پر ہو")

خاموش بیسمنٹ میں اسکی بھاری رعبدار آواز گونجی تھی 

 کچھ دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس میک سیڑھیوں سے اترتا ہوا نظر آیا تھا سیرت نے متفکر نظروں سے اسے دیکھا تھا

"Est-il ici"

"(کیا وہ یہاں ہیں")

اسنے سنجیدگی سے اسکی سمت بڑھتے ہوئے استفسار کیا تھا سیرت نے جانچتی نظروں سے میک کا جائزہ لیا تھا جو دیکھنے میں ہی کوئی گینگسٹر معلوم ہو رہا تھا

"Dans votre attente"

("تمھارے انتظار میں ہیں")

میک نے سیرت کو ایک نظر دیکھنے کی بھی غلطی نہیں کی تھی اسکی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کئے وہ اسے جواب دیکر اسکے اشارے پر ایک سمت نکل گیا تھا واپس آ کر اسنے کچھ پیپر بیگز رضا کے حوالے کئے تھے جنہیں اسنے دایاں ہاتھ بڑھا کر سنجیدگی سے لیا تھا

"ہممم "

   ماؤف ہوتے ذہن کیساتھ سیرت بےجان قدم اٹھاتی ہوئی اسکے ساتھ چل دی تھی ایک کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا تھا سیرت نے ہچکچاہٹ محسوس کی تھی اسکے ساتھ اندر جانے میں

"سیرت"

اسکے سنجیدگی سے پکارنے پر بےاختیار اسکی بھاری آواز پر اسکے شل قدم اٹھے تھے اسکی کیفیت سے وہ واقف ہو رہا تھا 

"اب تو بہت دیر ہو گئی ہے سیرت رضوی اسوقت یہاں کوئی نہیں ہے اور جو کچھ تمھارے ساتھ ہونے والا ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی"

اسکے پیچھے اٹھتے سیرت کے قدم ٹھہرے آنکھوں کے سامنے آتی ماضی کی کربناک یادیں ،، کانوں میں گونجتی اس شخص کی قابلِ نفرت آواز ،، اسکا ماؤف ہوتا دماغ دھیرے دھیرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہا تھا موتیوں سے نم آنکھوں کے سامنے کے مناظر آنسوں کے باعث دھندھلا گئے تھے

"تیار ہو جاؤ"

بیڈ پر پیپر بیگز رکھ کر وہ بغیر اسکی نم سے تر آنکھوں کو دیکھے دروازے کی سمت بڑھ گیا تھا یقیناً دیکھ لیتا تو شاید اس کرب کا احساس کر پاتا جس زے وہ لڑکی اسوقت گزر رہی تھی

"میں یہ نہیں پہنوں گی"

سیاہ حُزن آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتی وہ دو ٹوک لہجے میں بولی دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر باہر جانے کا ارادہ کرتا ہوا اسکے ناگواریت لئے لہجے پر پیچھے مڑا تھا سیرت نے اسکی بھوری درخشاں آنکھوں میں مخدوشی کے آثار دیکھے مگر وہ اپنے کہے گئے لفظوں پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی تھی

"پہنو اسے"

کرخت نظروں سے اسنے سرخ ہیوی برائیڈل لہنگے کی جانب دیکھ کر استکباریت سے بھرپور لہجے میں حکم صادر کیا تھا 

"یہ نکاح صرف ایک کانٹریکٹ ہے مسٹر عسکری میرے دلہن لگنے نہ لگنے سے کیا فرق پڑتا ہے"

تضحیک آمیز تاثرات چہرے پر سجائے وہ اسے دیکھ کر مستحکم لہجے میں گویا ہوئی بےساختہ اسنے اسکی جانب قدم بڑھائے تھے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی حرکت نہیں کی تھی اسنے!!

"ایک پرفیکٹ بزنس وومن ہونے کے باوجود آپ ایک کانٹریکٹ کے اصول و ضوابط سے واقف نہیں مس سیرت ،،ایک کانٹریکٹ تمام شرائط پر پورا اترنے کے بعد ہی مکمل ہوتا ہے اور میری شرائط میں "آپکا یہ ڈریس پہننا بھی شامل ہے" مجھے اپنے الفاظ دہرانے کی عادت نہیں پہنو یہ ڈریس اور جیولری بھی"

اسے کلائی سے پکڑ کر اپنے قریب لا کر اسنے برفیلے لہجے میں اپنی بات مکمل ہونے سے قبل اسنے مجملاً نظر اسکے چہرے پر ڈالی تھی جو بالکل مطمئن تھا 

"اور اگر میں انکار کروں تو"

اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھ کر اسنے ہر لفظ پر دباؤ ڈال کر طنز کیا تھا اپنی کلائی پر اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے دیکھ کر وہ استفہامیہ نگاہوں سے اسکا پرسکون چہرہ دیکھنے لگی 

"جانتی ہو تمھیں میری ضرورت پڑے گی"

اسنے سنجیدگی سے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر سرگوشیانہ انداز میں اسے یاد دِہانی کروائی تھی سیرت نے دھیرے سے سر کو خم دیا تھا

"جانتی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ تمھیں بھی کسی مقصد کے حصول کے لیے میری بےحد ضرورت ہے"

طنزیہ لب و لہجے میں کہتی وہ اسکے مظبوط ہاتھ کو اپنی کلائی سے ہٹا گئی تھی ایک ہلکا متبسم بکھرا تھا اسکے لبوں پر

"میرے پاس تمھارے ساتھ یہ مائنڈ گیمز کھیلنے کا وقت نہیں ہے جانم ریڈی ہو جاؤ"

سیرت کے رخسار تمتما اٹھے تھے اسنے استہزاء کیساتھ اسکے رخسار کو ہتھیلی سے چھوا تھا اسکے ہاتھ ہو ہٹاتے ہوئے وہ پیشانی پر بل ڈالے پیچھے ہٹی تھی

"اب کیا ہوا"

اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر اسنے استفہامیہ نگاہوں سے اسکی جانب دیکھ کر استفسار کیا اپنے بیگ سے ایک پیپر اور پین نکال کر وہ اسکے ہاتھ کو پکڑ کر اسکی ہتھیلی پر رکھ چکی تھی

"اس پر سائن کرو"

اسنے سنجیدگی سے پیپر کو پڑھنا شروع کیا تھا جیسے جیسے اسکی ماہ تاباں آنکھیں حروف کا مطالعہ کر رہی تھی اسکے لبوں پر بکھرتا دلفریب تبسّم گہرا ہوا رہا تھا سیرت نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی تھی 

"یہی امید تھی تم سے لیکن تمھاری اجازت کیساتھ تو چھو سکتا ہوں نہ تمھیں"

وہ استکباریت سے ایک آئی برو لفٹ کرتے ہوئے پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے پیپر سے قطع نظری کا مظاہرہ کر کے اسکے پیچ و تاب کی کیفیت میں مبتلا چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا 

"میں تمھیں کبھی اجازت نہیں دوں گی"

سیرت نے تنک کر اسے کاٹ کھانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"اگر تم نے سائن نہیں کئے تو یاد رکھنا میں یہ نکاح کسی صورت نہیں کروں گی"

سیرت نے متفکر نظروں سے اسے دیکھ کر پختگی سے کہا تھا جو نگاہِ غائر سے اسکے تیکھے نقوش چہرے کو دیکھ رہا تھا 

"مجھے کوئی اعتراض نہیں چاندنی"

سیرت نے حیرت و استعجاب سے اسے پیپرز پر سائن کرتے دیکھا تھا

"اب مجھے ڈس اپوائنٹ مت کرنا پہنو یہ ڈریس اور اگر مدد درکار ہو تو میں رک سکتا ہوں "

 سائن کرنے کے بعد اسنے متبسم انداز میں اسے مخاطب کیا تھا پیپرز کو جانچتی نظروں سے دیکھتی سیرت نے کاٹ کھانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا اسکے سرخ اناری چہرے کو نظرِ استہزاء کیساتھ دیکھ کر وہ باہر واک آؤٹ کر گیا تھا اسنے زخمی نظر سے سرخ لہنگے کو دیکھا تھا کبھی یہ رنگ اسکا پسندیدہ ہوا کرتا تھا باقی لڑکیوں کی طرح بےحد ارمان تھے اس لڑکی کے مگر ایک غلط فیصلے نے اسکی ذندگی کو ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کیا تھا جہاں سے وہ راستے کا تعین کرنے میں ہربار ناکام ہوئی تھی بہت بڑی سزا ملی تھی اسے محبت کر کے!!

"اللہ کے لئے ایسا مت کرو ۔۔۔ میں نے محبت کی تھی تم سے ۔۔۔ بھروسہ کیا تھا۔۔۔تم پر ۔۔۔"

"بھروسہ ہی تو نہیں کرنا چاہیے تھا نہ سیرت بےبی تم جیسی کچی عمر کی بیچاری چھوٹی چھوٹی لڑکیاں کم عمری میں یہی تو غلطی کرتی ہیں محبت کا شوق انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا اور یہی حال ہوتا ہے جو آج تمھارا ہو رہا ہے بےوقوووف!!"

سیاہ چشم تر میں اسوقت ماضی کے عکس تھے آئینے میں اپنے عروسی ملبوسات میں سجے سراپے کو وہ نفرت سے دیکھ رہی تھی سرخ رخساروں پر آنسوں ڈھلکے تھے درحقیقت اس لڑکی کی ذندگی کی یہی حقیقت تھی یہ کامیابیاں اسکی ذندگی کی ترجمان نہیں تھی صرف یہ آنسوں اسکی زخمی روح کی حقیقت تھے 

تمھیں تو کسی کے محبت کرنے لائق نہیں چھوڑوں کا عرش جباری کو تھپڑ مارا تھا تو نے"

"محبت کرے گی کر نہ اب محبت ۔۔کر نہ محبت"

 دماغ میں گردش کرتے لفظ جیسے آج اسکی ہی ہنسی اڑا رہے تھے سختی سے لہنگے کو مٹھی میں بھینچ کر اسنے اذیت سے آنکھیں میچی تھی یہ آنسوں بےسبب جاری نہیں تھے وہ چھوٹی سی لڑکی اپنے ماضی کے کٹھن راستوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی تھی جہاں سے اُسے مستقبل کی راہ تلاشنے میں بےحد دشواری کا سامنا تھا  ماضی کی تمام یادیں اشکوں میں بہا کر اسنے جیولری باکس سے ایئرنگ اٹھا کر کان کی زینت بتایا تھا خاموش کمرے میں اسکی چوڑیاں کھنک پیدا کر رہی تھی 

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"I'm waiting for the very person,

Who'll wipe off my sorrows,

The one who will give me a hug,

When I have no hope left.

.......

The one who will take me to heights,

The one who will care for me,

Or make me want to live,

When I'm ready to die"

 By

 "(Naila Rais)"

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"سیرت بنتِ عاطف احمد رضوی کیا آپکو حدید رضا عسکری ولد جہانگیر احمد کے ساتھ حق مہر ایک کروڑ روپے سکہ رائج الوقت یہ نکاح قبول ہے"

ایک آنسوں اسکی پلکوں کی حد توڑ کر اسکے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا یہ اشک اسکے اب تک کئے گئے صبر کی توہین تھا لہنگے کو مٹھی میں بھینچے اسنے درد سے پھٹتے دل کو تسلی دینی چاہی تھی

"اگر وہ پہلی چیز واقعی اتنی زیادہ خاص ہے کہ آپ اس کے لئے اپنی دوسری خاص چیز قربان کرنے کی ہمت رکھتی ہیں تو بیشک آپکو وہ چیز حاصل کر لینی چاہیے پرنسس"

 اسنے سرد آہ بھری تھی!!

"قبول ہے"

کچھ دیر بعد خوبصورت باریک آواز سنائی دی تھی

اسکے جواب کا منتظر  سنجیدگی سے اس پر نظریں مرکوز کئے اسکے قبول کہتے ہی مطمئن سا ہوا گھنی پلکوں پر آنسوں خشک ہو چکے تھے آنکھوں سے ان آنسوں کے مراسم بہت پرانے تھے یہ بات وہ اور اسکی تنہائیاں جانتی تھی 

"قبول ہے"

نظریں ایک غیر مرئی نقطے کو ناجانے کب سے تک رہی تھی ہوش میں ہونے کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں تھی کسی پر بھروسہ نہ کرنے کا عہد کرنے والی لڑکی مجبوراً آج کسی اجنبی کیساتھ خود کو جوڑ بیٹھی تھی 

"قبول ہے"

اسکی غیر متحرک سی سیاہ بےنُور آنکھیں ایک نقطے پر جامد تھی لب قبول ہے کہہ رہے تھے دل شکوہ کر رہا تھا سر میں درد کی لامتناہی ٹھیسیں اٹھ رہی تھی

"مجھے معاف کر دیجیئے گا بھائی آپکی سیرت آپکا بھروسہ توڑ رہی ہے لیکن آپکی بہن جو بہت سٹرونگ بنی پھرتی ہے بہت بڑی ڈرپوک ہے بھائی ،، دنیا کی نظروں سے چھپتی پھر رہی ہے اپنے داغدار دامن کو چھپاتی پھر رہی ہے،، آپ کو ہر بات بتا سکتی ہے مگر یہ نہیں بتا پائی نہ کبھی بتا پائے گی نظریں نہیں ملا سکتی آپ کیساتھ ،، کسی کیساتھ نہیں !! 

اور آج کے بعد تو کبھی نظریں نہیں ملا پاؤں گی آپکے بھروسے کو اعتماد کو توڑ رہی ہوں بھائی۔۔۔ لیکن اُس دن اس چودہ سالہ لڑکی نے خود سے یہ عہد کیا تھا کہ اپنے گنہگار کو ایسی دردناک سزا دلائے گی جو کبھی کسی نے کسی کو نہیں دی ہو گی کیونکہ اس دنیا کی کسی عدالت کے کسی قانون کی کوئی بھی سزا اس گھٹیا شخص کے لئے کافی نہیں ہو گی"

آنکھیں وا کئے اسنے نکاح نامے کو حزن نگاہوں سے دیکھا کر پین تھاما تھا نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے اسنے گرم آنسوں آنکھوں میں رچ کر سرخی مائل آنکھوں پر نمک پاشی کر گئے تھے مگر سائن کر چکی تھی وہ!!

                                           -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا مطلب تم نے معافی مانگی سیرت سے اور کس لئے مانگی"

سونیا نے تعجب سے اسکی جانب دیکھ کر تصدیق چاہی تھی خشم سے سر کو خم دیکر عرش نے ڈرنک کا دوسرا شاٹ ختم کیا 

"کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے ،، کیوں معافی مانگی تم نے "

سونیا نے ناگواری سے اسے نشے میں جھومتے دیکھ کر تنک کر کہا

"ارے ریپ کیا تھا میں نے اسکا"

عرش آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا تھا سونیا کا چہرہ فق ہوا تھا عرش نے خجالت سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر صوفے کی پشت سے سر ٹکایا

"اب کیا کرو گے تم"

سونیا نے اسکو گھورتے ہوئے متفکر لہجے میں استفسار کیا تھا 

"آج میں نے عسکری کی وجہ سے معافی مانگی وہ ،، وہ مجھے ایسے وحشت سے دیکھ رہا تھا جیسے میں اسکا دشمن ہوں اس چالاک لومڑی نے عسکری جیسے مکار شخص کو اپنے قابو میں کر لیا"

عرش نے ہاتھ کو اٹھا کر اپنی اکتاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا سونیا نے اسے ڈرنک کا تیسرا شاٹ اٹھاتے ہوئے دیکھ کر تاسف سے پیشانی کو مسلا تھا

"مجھے لگتا ہے وہ عسکری کیساتھ  سو رہی ہے آج کل ،، اس لئے عسکری سے اسکی انسلٹ برداشت نہیں ہوئی"

شاہزیب نے تشویش سے کہا جس پر عرش نے قہقہ لگایا تھا فون پر چلتی سونیا کی انگلیاں ساکت ہوئی آنکھوں میں ناگواریت ابھری یکدم فون سے نظریں اٹھا کر اسنے عرش کی جانب دیکھا جو نشے میں چور جو منہ میں آ رہا تھا بڑبڑا کر ہنس رہا تھا سونیا کے گھورنے پر وہ شاہزیب کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہنسا تھا 

"بےوقوف!! اگر سچ میں اسکا عسکری کیساتھ افیئر ہوا تو"

سونیا نے فون پرس میں رکھ کر عرش کو دیکھ کر سرد لہجے میں کہا تھا ہاتھ کو بےپرواہی سے ہلاتے ہوئے وہ ہنسا تھا سونیا نے پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھا یقیناً شاہزیب کی بات سے وہ جل بھن گئی تھی

"ہہہہہ،،ہاہاہا،،، چھوڑو بھی ۔۔۔ وہ کسی کی محبت کے قابل نہیں رہی ایسڈ گرایا تھا میں نے اس پر اسکی بس شکل اچھی ہے کون محبت کرے گا اس سے"

عرش نے گلاس ٹیبل پر رکھ کر دھیمے لہجے میں کہا سونیا نے حیرت سے لب وا کئے تھے مگر کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی نہ ہی اسے الفاظ مل پائے تھے شاہزیب نے قدرے سنجیدگی سے عرش کو دیکھا تھا

"تمھاری اچانک سے سیرت میں اس عدم دلچسپی کی وجہ دریافت کر سکتا ہوں"

عرش نے طنزیہ نظروں سے شاہزیب کو دیکھا تھا جس پر وہ طنز سے سر کو خم دیتا ہوا ووڈکا کی بوتل اٹھا کر اپنے لئے مشروب انڈیلنے لگا

                                           -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کمرے کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سن کر کھڑکی سے آسمان پر چھائی سیاہ گھٹاؤں میں چمکتی آسمانی بجلی کو دیکھتی وہ پیچھے مڑی تھی بلیک کوٹ کاؤچ پر اچھال کر وہ فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے کبرڈ کی جانب بڑھا تھا مگر سیرت کے فون کی رنگ ٹون کے بجنے پر وہ رکا سیرت نے فون اٹھایا تھا اسکی بھوری آنکھوں نے اسے گھبراہٹ کیساتھ فون سوئچ آف کرتے ہوئے دیکھا

"کیا ہوا کون تھا"

اسنے فون سے نظریں ہٹا کر اسکی جانب دیکھا تھا اسکے یوں غور سے دیکھنے پر وہ خجل ہوئی تھی  یقیناً بھوری آنکھوں کا اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا ہمیشہ سادہ رنگوں میں دیکھا تھا اسنے اس لڑکی کو جو آج تمام تر عروسی حسن کیساتھ ایک عجیب کشش لئے ہوئے تھا

"مجھے چینج کرنا ہے"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا گیا تھا بھنویں اٹھائے وہ اسکے گہرے سرخ رنگ لہنگے کو دیکھتا مبہم سا مسکرایا تھا سیرت نے مٹھی بھینچی تھی اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر!!

"اگر تم نے مجھے ہاتھ بھی لگایا نہ"

سیرت نے عصبانیت سے آنکھیں پھیلا کر اسے انگلی دیکھاتے ہوئے وارننگ دی اور کچھ قدم پیچھے لئے وہ متبسم نظروں سے اسے دیکھتا ہوا اسکی سمت بڑھتا رہا

"Alas, you suppressed all my desires with a few papers Seerat Askari"

("افسوس تم نے میری ساری خواہشات کو چند کاغذوں سے دبا دیا سیرت عسکری")

لکڑی کے فلور پر اٹھتے اسکے قدموں کی آہٹ اسکی دھڑکنیں منتشر کرنے کے لئے کافی تھی

 مگر رہی سہی کسر اسکی بھاری گمبھیر آواز نے پوری کر دی تھی دیوار سے پشت ٹکاتی وہ حلق تر کرتی متذبذب نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو ایک انچ کے فاصلے پر اسکے قریب دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا تھا

" Wishes...? What do you mean ... This Nikah was just a contract, you said it yourself"

("خواہشات...؟ کیا مطلب... یہ نکاح تو بس ایک معاہدہ تھا، تم نے خود کہا")

اسکی تابندہ بھوری آنکھوں میں دیکھ کر وہ آہستگی سے بولی تھی اسکی ڈوبتی آواز پر بےساختہ ایک دلفریب مسکراہٹ نے اسے لبوں کا احاطہ کیا

"You really want to know about these desires, but I'm afraid my words may embarrass and frighten you at the same time Honey"

"(تم واقعی ان خواہشات کے بارے میں جاننا چاہتی ہو، لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے الفاظ تمھیں ایک ہی وقت میں شرمندہ اور خوفزدہ نہ کردیں ہنی۔")

سیرت نے اسکے وجیہ چہرے کی نزدیکی پر گھبرا کر آنکھیں جھپکی تھی ہلکی روشنی میں اسکے خوبصورت چہرے پر لہراتے گھنی پلکوں کے لرزیدہ سائے اس نے وارفتگی سے دیکھے اسکے کلون کی وہ سحر انگیز مہک سیرت کی سانسوں سے اسکی روح تک رسائی حاصل کر گئی 

"I wanted to touch you gently, to feel you, to infuse your soul with my presence. Seerat Askari..... I wanted to pour my passion on your soul I wanted to keep touching you until you were addicted to my love, how attractive you are in these pink lips, I wanted to quench my thirst with their Paradise-Like taste"

("میں تمہیں نرمی سے چھونا چاہتا تھا، تمہیں محسوس کرنا چاہتا تھا، تمہاری روح کو اپنی موجودگی سے متاثر کرنا چاہتا تھا، سیرت عسکری..... میں تمہاری روح پر اپنا جذبہ انڈیلنا چاہتا تھا، میں تمہیں اس وقت تک چھونا چاہتا تھا جب تک تم میری محبت کی عادی نہ ہو جاؤ، تم کتنی دلکش ہو ان گلابی ہونٹوں میں، میں ان کے فردوسی ذائقے سے اپنی پیاس بجھانا چاہتا تھا")

سیرت کی تیز دھڑکن،، بےترتیب سانسیں اسکے بےباک لفظوں پر سرخ اناری پڑتے رخسار اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اسکے سحر انگیز الفاظ نے اسے اپنے سحر میں مبتلا کیا تھا اسکی پرتپش سانسوں نے اسکے سردی کے باعث برف جتنے ٹھنڈے رخسار کو جھلسایا تھا

"S.....stop it Askari"

"(ب۔۔۔بس کرو عسکری") 

آنکھیں سختی سے میچ کر اسنے بےحد دھیمی سرگوشی کی 

"The intensity of my words is beyond your endurance, Seerat!!, I have not even been here for ten minutes and you are drowning in my presence,You will go crazy if you spend even one night of twelve hours in my proximity"

"(میری باتوں کی شدت تمہاری برداشت سے باہر ہے سیرت!! مجھے یہاں آئے دس منٹ بھی نہیں ہوئے اور تم میری موجودگی میں ڈوب رہی ہو، بارہ گھنٹے پر مشتمل ایک رات بھی میرے قرب میں گزارو گی تو پاگل ہو جاؤ گی")

سیرت کے تھرتھراتے گلابی لبوں کو شدت بھری نظروں سے دیکھ کر وہ خمار آلود لہجے میں گویا ہوا اس قدر دھیمے لہجے میں کہا گیا جیسے بہت بڑا راز تھا ان دونوں کے بیچ جو صرف سیرت کو سنانا چاہتا تھا

"تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتی میں"

اسکی بھوری درخشاں آنکھوں میں دیکھ کر سیرت نے بےخُوفی سے کہا تھا اسکی بہادری کو اسنے نظروں سے سراہا تھا 

"کتنی نادان ہو تم جانم!! تم اسوقت میرے پاس میرے روم میں ہو سوچو میں کیا کچھ کر سکتا تھا اگر میں کرنے کی نیت رکھتا "

دیوار پر ٹکائے ہاتھ کو اسکے قریب رکھتے ہوئے وہ تضحیک آمیز لہجے میں گویا ہوا خوفزدہ ہونے کے بجائے وہ مسکرائی تھی

"اور تم مجھے نادان سمجھ کر بہت بڑی نادانی کر رہے ہو میں خود پر اٹھنے والے ہاتھ کو توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اس لئے اگر کبھی ایسی خوش فہمی پالنے کی جانب دھیان بھی جائے تمھارا ،، تو یہ یاد رکھنا کہ وہ خوش فہمی میرے متعلق نہ ہو حدید رضا عسکری"

اسکے ہاتھ کو پر اشتعال آنکھوں سے دیکھ کر وہ اسکے قریب تر چہرے کے مزید قریب ہوتی درشت لہجے میں بولی اسنے متبسم نظروں سے اسے دیکھا تھا نظروں میں ڈھیروں ستائش تھی

"جانتا ہوں!! لیکن تم نہیں جانتی"

سیرت نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکائے وہ التہابی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا سیرت نے حلق تر کیا تھا کیسے کچھ ہی سیکنڈ میں اسکے چہرے کے تمام تر تاثرات وحشتناک حد تک تبدیل ہو چکے تھے 

"اس بات کو اپنی میموری میں سٹور کر لو کہ تمھاری اجازت کے بغیر میں تمھیں ہاتھ تک نہیں لگاؤں گا اور "زبردستی" جیسا چیپ لفظ میری ڈکشنری سے باہر ہے چینج کر لو ،، ڈراپ کر دیتا ہوں!! کافی رات ہو چکی ہے تمھاری بی جان پریشان ہو رہی ہوں گی"

اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ استکبار لہجے میں کہہ کر دروازہ کھول کر کمرے سے واک آؤٹ کر گیا تھا سیرت نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا

زکیک چال چلتی چاہت لیفٹ ہینڈ میں استغنایت سے فون  یوز کرتے ہوئے کچن کی جانب بڑھ رہی تھی آج لیٹ اٹھنے کی وجہ سے اسے ناشتے میں کافی دیر ہو چکی تھی سب ناشتہ کر چکے تھے جب اسے لاؤنج سے آوازیں سنائی دی تھی فون کو پینٹ کی پاکٹ میں اڑسائے وہ تجسس بھری نظروں سے لاؤنج کی جانب دیکھ کر آواز کی سمت چل دی تھی 

"آؤ بیٹا بیٹھو"

مہر النساء بیگم نے اسے لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ مسکرا کر اپنے ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کی مگر اسکی نظریں تو مہمانوں پر ہی مرکوز ہو کر رہ گئی تھی بغیر سلام کرنے کی تکلیف اٹھائے وہ آفت زدہ نظروں سے  کلثوم بیگم جو اشفاق صاحب کے پرانے فرینڈ شاہنواز صاحب کی وائف تھی اور انکے چھوٹے بیٹے شمس کو دیکھنے لگی 

"کیسی ہو تم بیٹی"

کلثوم بیگم نے محبت پاش نظروں سے اسکے تیکھے نقوش چہرے کو دیکھ کر کہا ہاں پیاری تو وہ تھی لیکن اوور میک اپ کی عادت اور کڑوے مزاج نے اسکی شخصیت کو نکھارنے کے بجائے مزید بجھا دیا تھا

"جی میں ٹھیک ہوں آنٹی آپ کیسی ہیں"

اکتاہٹ چھپاتی وہ سر کو دھیرے سے ہلا کر جواب دے چکی تھی کلثوم بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا مگر اسنے شمس کو ایسے نظر انداز کیا تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہیں تھا مہر النساء بیگم نے چاہت کو نظروں سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا انگلیاں چٹخاتے ہوئے وہ مخدوش نظروں سے شمس کو دیکھنے لگی جو اپنی والدہ کی جانب دیکھتا تاسف سے سر جھٹک گیا

" ذاویان اور اسکی دلہن نظر نہیں آ رہے کہیں گئے ہیں کیا وہ"

کلثوم بیگم نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا چاہت نے لمظ کا زکر آتے ہی اکتاہٹ سے آنکھیں گھمائی تھی 

"ہاں کلثوم!! لمظ یونیورسٹی گئی ہے اور ذاویان آفس گیا ہے تم چائے لو نہ ٹھنڈی ہو رہی ہے شمس بیٹا آپ بھی لو"

مہر النساء بیگم نے چائے اور سنیکس کی ٹرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا شمس اور کلثوم بیگم نے کچھ سیکنڈ بعد تہذیب سے کپ اٹھائے تھے

"مہر میں تمھارے پاس بہت پُرامید ہو کر آئی ہوں مجھے امید ہے تم مجھے مایوس نہیں کرو گی مجھے اپنے بیٹے شمس کے لئے چاہت کا رشتہ چاہیے،، میرا بیٹا چاہت کو پسند کرتا ہے اور اِسی آس سے تمھارے پاس آئی ہوں"

کلثوم بیگم نے مہر آمیز نظروں سے چاہت کو دیکھ کر مہر النساء بیگم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے شائستگی سے کہا تھا مہر النساء بیگم کا چہرہ کھل اٹھا تھا وہ تو پہلے ہی چاہت کی شادی کو لیکر پریشان تھی جن حالات میں ذاویان اور اسکی شادی ٹوٹی تھی اس کے بعد شمس جیسے اچھے لڑکے کا رشتہ آنا کسی نعمت سے کم تھوڑی تھا مگر فالوقت چاہت کی جانب دیکھنے پر ساری مسرت چہرے سے معدوم ہوئی تھی دونوں مٹھیاں بھینچ کر وہ  سرخ شعلہ چہرے سے شمس کو دیکھتی ہوئی صوفے سے اٹھی تھی کلثوم بیگم نے اچرج نگاہوں سے اسے دیکھا تھا 

"نکلو ہمارے گھر سے ابھی اسی وقت"

راہداری کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ چیخی تھی مہر النساء بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا اور صوفے سے اٹھتے ہوئے اسکی جانب قدم بڑھا کر اسے روکنا چاہا مگر وہ ٹیبل کی دوسری جانب سے گزر کر شمس کی طرف پیش رفت کر گئی

"اپنی ماں کو لیکر ابھی اسی وقت نکلو میرے گھر سے،، ہمت کیسے ہوئی تمھاری جانتے ہو ذاویان کی منگیتر ہوں میں ،،۔محبت کرتی ہوں میں ذاویان سے سوچ کیسے لیا تم نے میں تم سے شادی کروں گی"

مہر النساء بیگم نے صدمے سے اسکا سرخ رنگ چہرا دیکھا پیشانی پر بل ڈالے چنگاریاں اڑاتی آنکھوں سے شمس کو دیکھتی وہ حلق کے بل چیخ پڑی تھی کلثوم بیگم نے شمس کو مٹھی بھینچتے دیکھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے کوئی ردعمل دینے سے قبل روکا تھا 

"چاہت یہ کیا طریقہ ہے "

مہر النساء بیگم نے اسے آپے سے باہر ہوتے دیکھ کر اسکی جانب قدم بڑھا کر غیض و غضب  کیفیت میں اسے سمجھانا چاہا تھا مگر وہ کانپتے ہوئے ہاتھ سے انہیں رک جانے کا اشارہ کرتی خونخوار نظروں سے کلثوم بیگم کی جانب پلٹی تھی خشم و عصبانیت سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا آنکھوں میں طیش کے عالم میں آنسوں جمع ہوئے تھے

"نکلو میرے گھر سے"

دروازے کی طرف اشارہ کرتی وہ دانت پیس کر بولی تھی شمس نے اسے التہابی سرخ نگاہوں سے دیکھ کر کلثوم بیگم کی جانب دیکھا بغیر ایک لفظ کہے وہ انکا ہاتھ تھام کر لاؤنج سے باہر نکلا تھا مہر النساء بیگم نے شرمندگی سے اسے دیکھا تھا لمبے سانس لیتی ہوئی وہ کانپتے ہوئے ہاتھ کو پیشانی پر رکھ کر پسینہ صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب تیز رفتار قدموں سے بڑھی آج مہر النساء بیگم واقعی اسکی دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے والی بات سے متفق ہو چکی تھی اسنے جو کچھ کیا تھا اسکے بعد اسے نارمل کہنا بہت بڑی غلطی ہو سکتی تھی رشتہ داری کا لحاظ کر کے کلثوم بیگم اور شمس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا لیکن مہر النساء بیگم کو چاہت کے اس عمل سے آج ڈھیروں شرمندگی ہوئی تھی

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بلیک کلر کے بٹرفلائے سلیوز بلیزر کے نیچے بلیک ٹراؤزر کیساتھ میچنگ بلیک ٹی_سٹریپ شوز پہنے لمبے براؤن بالوں کو کلاسی پونی ٹیل میں قید کئے بیگ کندھے پر رکھے وہ تیز قدموں کیساتھ لیکچر ہال کی جانب بڑھ رہی تھی گلے میں پشمینہ بلیک سکارف بلیک چوکر نیکلس کیساتھ بےحد خوبصورت لگ رہا تھا کانوں میں وائٹ نفیس ڈائمنڈ ایئرنگز سورج کی  کرنوں سے پرکشش انداز میں چمک رہے تھے

"ہائے اللہ مہوش زرا اسے تو دیکھو"

لیکچر ہال میں قدم رکھتے ہی اپنی پشت سے آتی رباب کی ناگوار آواز سن کر اسکی پیشانی پر بل پڑے تھے لمبا سانس لیکر تحمل سے وہ پیچھے مڑی تھی سر سے پاؤں تک اسکا حاسد نظروں سے جائزہ لیتی رباب ناک سکیڑے اسے ہی دیکھ رہی تھی

"فرمائیے مس سی جی پی اے صاحبہ"

سینے پر بازو پھیلا کر لپیٹنے کے بعد وہ طنزیہ لب و لہجے میں اسکے ڈارک میک اپ والے مصنوعی چہرے کو دیکھتی لبوں کے کناروں سے مسکرا کر بولی تھی اسے مسکراتے دیکھ کر

 رباب کے تن بدن میں آگ لگی تھی مہوش نے اسکے بدلے تیور دیکھ کر بھنویں اٹھائی تھی

"تم تو خود کو ناجانے کیا ہی چیز سمجھنے لگی ہو"

رباب نے اسکی بنفشی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمسخر بھرے انداز میں کہا مگر برا منانے کے بجائے وہ متبسم نظروں سے اسے دیکھتے شانے اچکا گئی تھی

"کیا حاصل ہوا پروفیسر ذاویان کے آگے پیچھے گھوم کر شادی تس تمھاری کہیں اور ہی ہو گئی چچچچ"

رباب  تاسف سے سر کو خم دیکر مہوش کی جانب دیکھتی ہنسی آئیذل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی  اس کا مزاق اڑاتے ہوئے وہ بیچاری کتنی معصوم لگ رہی تھی

"بس ہو گیا تمھارا"

رباب نے تنک کر اسے دیکھا تھا جو تمسخر اڑاتی آنکھوں سے اسے دیکھتی نچلا ہونٹ دباتے ہوئے لیکچر ہال میں اینٹر ہو گئی تھی مہوش نے استفہامیہ نظروں سے رباب کو دیکھا تھا دونوں ساتھ چلتی ہوئی اپنی سیٹوں پر بیٹھی تھی اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اسنے فون کی چمکتی اسکرین پر میسج کا نوٹیفکیشن دیکھا تھا 

"کیا آپ یونیورسٹی پہنچ گئی"

 اسے آفس میں کوئی ضروری کام تھا جس کی وجہ سے اسنے آج یونیورسٹی لیٹ آنا تھا اس لئے وہ آج یونیورسٹی ڈرائیور کیساتھ آئی تھی لہٰذا وہ اس سے دریافت کر رہا تھا ہلکی مسکان کیساتھ اسنے "جی" لکھ کر میسج سینڈ کیا تھا حورم کو لیکچر ہال میں اینٹر ہوتے  دیکھ کر وہ فون رکھتی ہوئی اٹھ کر لبوں پر  اسے خوشدلی سے گلے لگا گئی تھی

"بیٹھو بیٹھو مجھے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں"

حورم نے چہکتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھام کر اسے بیٹھایا لیکچر ہال میں سناٹا چھا گیا آئیذل نے دلچسپی سے اسے لیکچر ہال میں اینٹر ہوتے دیکھا تھا سب نے متعجب نظروں سے اسے آفس کی ڈریسنگ میں دیکھا تھا فارمل براؤن تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ وجاہت کا شاہکار ایک سنجیدہ سی نظر روز میں بیٹھے سٹوڈینٹس کو دیکھ کر اسٹیج کی جانب بڑھ گیا تھا آئیذل نے حورم کو چپ کروا کر بک پر ہاتھ رکھتے ہوئے نظروں کا مرکز اس وجیہ شخص کو بنایا 

"The results of the last day's test paper... I have to say with great regret that only a few students have got A plus grade, the rest have average marks, I don't expect this from my class"

("گزشتہ روز کے امتحانی پرچے کا نتیجہ میرے ، مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صرف چند طلباء نے اے پلس گریڈ حاصل کیا ہے، باقی کے اوسط نمبر ہیں، مجھے اپنی کلاس سے یہ امید نہیں ہے")

کچھ دیر پہلے جس قدر پرسکون تاثرات لئے وہ اینٹر ہوا تھا ان سے زرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسکا موڈ یکدم اتنا خراب پڑ جائے گا پیشانی پر چند لکیریں ڈالے وہ کرخت نظروں سے لیکچر ہال میں گردنیں جھکائے بیٹھے سٹوڈینٹس کو دیکھ رہا تھا سنہری آنکھوں سے نظروں کا ملاپ ہوتے ہی آئیذل نے لب بھینچ کر سر جھٹکا تھا

"From now on the weekly progress report of this class will be under my supervision instead of Professor Shahan and I want hundred percent progress Have you all understood what I said"

("اب سے اس کلاس کی ہفتہ وار پروگریس رپورٹ پروفیسر شاہان کی بجائے میری نگرانی میں ہوگی اور میں سو فیصد پراگریس چاہتا ہوں کیا آپ سب میری بات سمجھ گئے ہیں؟") 

سنجیدگی سے سب کو نگاہِ غائر سے دیکھ کر اسنے کرخت لہجے میں استفسار کیا سب  سٹوڈینٹس گھبراہٹ اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات کیساتھ اسکی بات سے متفق ہوئے تھے

"I will check all your assignment notebooks after the lecture and also collect your marks sheets from me"

("میں لیکچر کے بعد آپ کی تمام اسائنمنٹ نوٹ بک چیک کروں گا اور اپنی مارکس شیٹ بھی مجھ سے لے لیجیے گا")

 پیپرز ڈائس پر رکھ کر اسنے سنجیدگی سے کہہ کر گلاسز لگاتے ہوئےلیکچر کا آغاز کیا تھا 

"اففف پروفیسر کا موڈ بڑا خراب لگ رہا ہے"

حورم دھیمے لہجے میں آئیذل کے کان پر جھک کر بڑبڑائی تھی آئیذل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا جس پر حورم لب بھینچ گئی تھی اسائنمنٹ کے لئے کلاس کے پانچ سٹوڈینٹس پر مشتمل گروپس بنائے گئے تھے سب گروپس اسکی پرمیشن سے کمبائنڈ ہو کر اپنے ٹاسک ری چیک کرنے کے بعد اسے چیک کروا رہے تھے

"خدا کے لئے بےعزتی مت کروانا سب نے اسائنمنٹ پورا کیا ہے نہ"

حورم آئیذل کیساتھ اپنے گروپ کے پاس آ کر دھیمے لہجے میں بولی سب نے متبسم نظروں سے اسے دیکھ کر سر ہلایا تھا جس پر وہ سکھ کا سانس لیکر بیٹھی تھی 

"یہ کس کی سکیچ بُک ہے"

آئیذل نے ایک کھلی ہوئی بک اٹھاتے ہوئے اپنے گروپ کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھ کر پوچھا تھا جس کے سفید شفاف پیج پر خوبصورتی سے بنایا ہوا اسکیچ نظر آ رہا تھا برہان نے اپنی چوری پکڑے جانے پر شرمندگی سے بالوں میں ہاتھ پھیر کر سرد آہ بھری تھی 

"اوہ تو تم سکیچ بھی بناتے ہو ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا آئیذل کھولو زرا بک ہمیں بھی پتا چلے کتنا ٹیلینٹ ہے ہمارے گروپ میں" 

حورم نے نچلا لب دبا کر اسے چھیڑا تھا جو لڑکیوں کی بلش کرتے ہوئے حورم کی جانب دیکھ کر وہ سرد آہ بھرتے ہوئے سر جھٹک گیا آئیذل نے مسکراتے ہوئے سکیچ بُک کھولی تھی جس پر یونیورسٹی کی بلڈنگز کے بےحد خوبصورت سکیچ بنے ہوئے تھے سب اپنی اسائنمنٹ بکس باری باری اسے چیک کروا رہے تھے بک سے نظر اٹھا کر اسنے آئیذل کو برہان کیساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا تھا جو نوٹ بک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے ایک لڑکی کے اسکیچ کے متعلق کچھ پوچھتے ہوئے اسکے خجل ہونے پر مسکرائی تھی پیشانی پر چند بل پڑے تھے مظبوط انگلیوں میں پکڑے پلاٹینم پین پر دباؤ بڑھا کر اسنے ایک درشت نظر برہان پر ڈالی جو سر کھجاتے ہوئے اسکے ساتھ مسکرا رہا تھا اور اسے بک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کچھ بتا رہا تھا جسے وہ دلچسپی سے سن رہی تھی

"پروفیسر"

رباب نے اسکے قریب رکتے ہوئے اسکی توجہ حاصل کرنی چاہی آئیذل سے نظریں ہٹا کر اسنے سامنے کھڑی رباب کے ہاتھ سے اسائنمنٹ نوٹ بک لی تھی آئیذل کی گزرتی نظریں بےساختہ اسٹیج پر موجود اس وجیہ شخص پر ٹھہری تھی اسے برہان کیساتھ مسکراتے دیکھنے کے بعد اسکا چہرہ اشتعال  سے بےحد سرخی مائل پڑا ہوا تھا مگر وہ وہ ضبط کئے اسائنمنٹ بکس چیک کر کے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کر رہا تھا

"تھینک یو پروفیسر"

رباب نے ہلکی مسکان کیساتھ رشک بھری نظروں سے اسکے مظبوط رعنا شمائل سپید ہاتھ کی پشت پر ابھری ہوئی نیلی نسیں دیکھی سنجیدگی سے اسنے اگلی نوٹ بک لیکر رباب کی بک اسکی جانب بڑھائی تھی اسے مہر آمیز نظروں سے دیکھتی ہوئی وہ اسٹیج سے نیچے اتری تھی

"اور یہ دیکھو"

برہان جو کافی تعریف سمیٹ کر بےحد خوش گوار موڈ میں آ چکا تھا آئیذل کے ہاتھ پر جوش سے غیر ارادی طور پر اسکی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہاتھ رکھ گیا حورم سے بات کرتی آئیذل نے سر کو پھیر کر اسکی نوٹ بک کو مسکراہٹ کیساتھ دیکھا تھا برہان کو پتھریلی نظروں سے دیکھ کر وہ ڈائس سے ہٹا تھا سب نے متعجب نظروں سے اسے اسٹیج سے اترتے ہوئے دیکھا تھا لبوں پر ہاتھ رکھ کر حورم کیساتھ مسکراتی آئیذل کی نظریں اس پر پڑی تھی مسکراہٹ ایک پل میں غائب ہوئی تھی 

"گیٹ اپ"

اسے درشت نظروں سے دیکھ کر وہ سپاٹ لہجے میں بول کر اسے چونکا گیا آئیذل نے گھبرا کر لیکچر ہال میں موجود سب سٹوڈینٹس کو خجل نظروں سے دیکھ کر اسے دیکھا سرخی مائل رنگت،، لہو رنگ آنکھیں ،، پیشانی اور گردن کی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی رباب اور مہوش نے ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھا تھا 

"پروفیسر"

"ناٹ آ سنگل ورڈ مس آئیذل"

اسکی بات کاٹتے ہوئے وہ برہان کی جانب دیکھنے لگا جو ناسمجھی سے اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے سے بھی کتراتا ہوا نظریں جھکائے کھڑا تھا آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے اسے متذبذب نظروں سے دیکھا جو اسکی کلائی کو آہنی گرفت میں لیکر برہان کو پرُاشتعال آنکھوں سے دیکھتے ہوئے لیکچر ہال کے دروازے کی طرف بڑھ گیا لیکچر ہال میں موجود سینکڑوں کی تعداد میں سٹوڈینٹس نے انہیں متفکر نظروں سے دیکھا تھا جو اسے اپنے ساتھ لیکر آفس کی جانب تیز قدموں سے بڑھ رہا تھا آئیذل سہمی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ چل رہی تھی

"Why were you smiling with him"

"تم اس کے ساتھ کیوں مسکرا رہی تھی؟"

اسے آفس میں لیکر داخل ہونے کے بعد دھاڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے اسکی کلائی کو چھوڑتے ہوئے وہ اشتعال انگیز لہجے میں بولا آئیذل نے جھرجھری لیکر اسے دیکھا تھا

"You scolded me in lecture hall for such a Minor Thing"

"(آپ نے مجھے لیکچر ہال میں ایسی معمولی بات پر ڈانٹا)"

آئیذل کی پژمردہ بنفشی آنکھوں نے اسکی سنہری تابانی آنکھوں میں دیکھ کر دھیمے بےرونق لہجے میں کہا گلاسز اتار کر اسنے ڈیسک پر پڑی بک پر رکھ کر سرد آہ بھر کر پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلایا تھا 

"You are only mine and he put his hand on your hand which was the limit of my tolerance "

"(تم صرف میری ہو اور اس نے تمہارے ہاتھ پر ہاتھ رکھا جو میری برداشت کی انتہا تھی)"

 دیوانہ وار نگاہوں سے آئیذل کو دیکھتے ہوئے اسنے اپنی مظبوط ہتھیلی میں اسکے چہرے کو لیکر بنفشی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرگوشی کی آئیذل نے تاسف سے اسکا ہاتھ ہٹایا 

"Is your law applicable only for me?? Not for you did you ask how I feel when Rabab gets your attention and looks at you with appreciative eyes"

("کیا آپ کا قانون صرف مجھ پر لاگو ہوتا ہے؟ آپ کے لیے نہیں ؟؟ کیا آپ نے پوچھا تھا کہ جب رباب آپ کی توجہ حاصل کرتی ہے اور آپ کو تعریفی نظروں سے دیکھتی ہے تو مجھے کیسا لگتا ہے؟")

آئیذل نے مغموم نگاہوں سے اسے دیکھ کر آنکھوں میں ڈھیروں ناراضگی لئے کہا اس نے سنجیدگی سے اسکا گلابیہ چہرہ دیکھا جو طیش و الم کے باعث سرخی مائل پڑ رہا تھا آنکھوں کا تکرار ہوا تھا 

"I don't Know Why But I...I am getting possessive about you but you don't care at all Prof. Zavian Haider Rizvi"

("میں نہیں جانتی کیوں لیکن میں... میں آپ کے بارے میں خود غرض ہو رہی ہوں لیکن آپ کو پرواہ نہیں ہے پروفیسر ذاویان حیدر رضوی")

آئیذل کی بات نے اسے ساکت چھوڑا تھا 

"Are you starting to love me? Look here"

("کیا تم مجھ سے محبت کرنے لگی ہو؟ ادھر دیکھو")

جنونیت سے اسنے اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر اسکی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر خمار سے بوجھل لہجے میں استفسار کیا آئیذل کے دل نے اسکی دلگیر بھاری آواز پر ایک بیٹ مس کی اسکی پرتپش سانسوں کیساتھ آئیذل کی تیز دھڑکنوں کا سنگم ،، سنہری آنکھوں کا سحر اسے اپنی تاثیر کا اسیر کر رہا تھا 

"Look into my eyes and say, have you started loving me?? do you love me I want to hear,,.I have been yearning to hear these words for the last fifteen years,, Lamzz... Say you love me"

("میری آنکھوں میں دیکھو اور بولو کیا تم مجھ سے پیار کرنے لگی ہو؟ کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو میں سننا چاہتا ہوں،،، میں پچھلے پندرہ سالوں سے یہ الفاظ سننے کو ترس رہا ہوں،، لمظ... کہو تم مجھ سے محبت کرتی ہو")

اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوا آئیذل کی دھڑکنیں تیز ہوئی

"I... ...Do۔۔۔....... Love....You"

("میں...کرتی ہوں ......محبت...تم سے")

آئیذل کے لبوں کی تھرتھراہٹ کو خبط الحواسی سے دیکھتی اسکی تشنہ پرسرور نگاہیں اسکے لفظوں کو سننے سے پہلے اسکے لبوں کی حرکت سے ہی اسکے ادا ہونے والے الفاظ کا اندازہ لگا چکی تھی آئیذل کے کہے گئے الفاظ اسکے بےسکون وجود میں طمانیت ،، سرشاری کی لہریں پیدا کر چکے تھے 

"What did you say, say it again, say it again"

(’’تم نے کیا کہا، دوبارہ کہو، دوبارہ کہو‘‘)

آئیذل کے سرخ اناری چہرے کو دیوانگی سے دیکھتے ہوئے وہ خمار میں ڈوبی سرگوشی اسکے کان میں گھول گیا آئیذل کا چہرہ دہک پڑا تھا لبوں کو سختی سے بھینچ کر اسنے بغاوت پر اترتی دھڑکنوں کو محسوس کیا 

"پروفیسر ذاویان حیدر رضوی میں آپ سے پیار کرتی ہوں، لمظِ آئیذل رضوی کو آپ سے محبت ہو گئی ہے"

اسکی سنہری آنکھوں کی پرخم پلکوں کو محبت سے دیکھ کر آہستگی سے بولی تھی اسکے ہاتھ کو تھام کر اپنے دل پر رکھتا وہ پرسکون نظروں سے اسے دیکھنے لگا آئیذل نے اسکے ہزارویں حصے پر دھڑکتے دل کی تیز دھڑکنوں کو سنا 

("تمہیں نہیں پتا آج تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے لمظ!! تمہاری محبت میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے بے بی گرل")

اسکی کنپٹی پر لب رکھے وہ محبت سے بولا اسکی ہلکی بیئرڈ کی چبھن اور دہکتے لبوں کے شدت آمیز لمس پر وہ آنکھیں میچ گئی تھی

"I have had a hard time controlling my emotions, if we were not at the university at that time, you would have been sighing with pleasure at my intensity"

"( مجھے اپنے جذبات پر قابو پانے میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے اگر ہم اس وقت یونیورسٹی میں نہ ہوتے تو تم میری شدتوں پر سرور سے سسک رہی ہوتی")

اپنے دل پر موجود اسکے باریک ہاتھ پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھے وہ پرخمار لہجے میں بولا آئیذل نے سرخ اناری چہرے کیساتھ اسکے سینے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسے خجل نظروں سے دیکھا اسکے یوں شرمندگی سے ہاتھ کھینچنے پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

"(آپ... آپ میرے پروفسیر ہیں، آپ کو یہاں پر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے شرم نہیں آتی)"

 آئیذل نے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے سٹپٹا کر اسے دیکھتے ہوئے شرمندگی سے کہا تھا اسکے نظریں بجا کر بڑبڑانے پر وہ محظوظ نظروں سے اسے دیکھ کر مزید اسے چھیڑنے کی غرض سے وہ اسکے روبرو ہوا آئیذل نے لب بھینچ کر ایک قدم پیچھے لیا

("اگر آپ کو شرم آ رہی ہے تو میں یہ ساری چیزیں آج شام کے لیے محفوظ کر لیتا ہوں میں آج رات آپ کو اپنے بیڈ روم میں ہر ایک تفصیل بتاؤں گا، کیا یہ ٹھیک ہے؟")

اسکے ذو معنی لہجے پر آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکا دروازہ کھول کر وہ ہوا کی طرح باہر نکل گئی تھی

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"بی جان آپ نے پردا کیوں ہٹایا"

 کھڑکی سے اندر آتی سورج کی بےباک تیز کرنوں نے اسکے خوبصورت چہرے کو نزاکت سے چھوا تھا بلینکٹ سے ہاتھ نکال کر آنکھوں کے سامنے دیکر اسنے کروٹ بدل کر کشن میں منہ چھپائے وہ خفگی سے کسمسائی تھی

"سورج سر پر آ گیا ہے اٹھ جاؤ میری بچی"

 دوسری کھڑکی سے سفید ریشمی پردے ہٹاتی بی جان شفقت سے بولی تھی سیرت نے بلینکٹ ہٹا کر اٹھتے ہوئے نائٹ سٹینڈ سے فون اٹھا کر ٹائم دیکھا تھا بی جان اسکے اٹھ جانے پر مسکرائی تھی

"کیا آپ نے ناشتہ کیا"

سیرت نے فون پر اپڈیٹس چیک کرتے ہوئے محبت سے پوچھا 

"میں اپنی بچی سے پہلے ناشتہ کیسے کر سکتی ہوں"

سیرت نے افسردگی سے انہیں دیکھا تھا جلدی سے بلینکٹ ہٹا کر وہ بیڈ سے اتری تھی 

"میں ابھی فریش ہو کر آتی ہوں پھر میری بی جان اور میں ساتھ میں ناشتہ کریں گے"

فون کو نائٹ سٹینڈ پر واپس رکھ کر وہ بی جان کو گلے لگاتے ہوئے دھیمی مسکان کیساتھ بولی بی جان نے اسکے بکھرے ریشمی بالوں کو چہرے سے کان کے پیچھے کرتے ہوئے اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر محبت سے سر ہلایا تھا بالوں کا رف سے جوڑا بناتے ہوئے وہ کبرڈ کی جانب بڑھ گئی بی جان کے باہر جاتے ہی سیرت کا فون بجنا شروع ہوا کبرڈ سے کپڑے نکالتی سیرت نے پیشانی پر بل ڈال کر کپڑوں کو صوفے پر آرم پر پھیلایا اور نائٹ سٹینڈ سے اپنا سمارٹ فون اٹھایا 

"بولو"

کال کنیکٹ کرتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولی 

"کتنی بد تہذیب ہو سیرت!! اپنے شوہر کو کیسے مخاطب کر رہی ہو"

 سنسناہٹ کی ایک تیز لہر نے سیرت کو جھرجھری لینے پر مجبور کیا اسکی بھاری خمارآلود آواز نے ایک سرشاری کی کیفیت طاری کی تھی اس پر۔۔

"کون شوہر"

سیرت نے بھنویں سکیڑ کر صوفے کے آرم سے کپڑے اٹھاتے ہوئے کہا

"اتنی جلدی بھول گئی"

 رننگ مشین سے ہٹ کر اس نے آف وائٹ ٹاول اٹھا کر گمبھیر لہجے میں کہا تھا کاؤچ پر پڑے لیپٹاپ کی سکرین کو جاذبیت سے دیکھا تھا اسنے!!

"تم ایک موقع پرست خود غرض شخص ہو میں یہ نہیں بھولی اور میری طرف سے پاگل اور نفسیاتی ہونے کا خطاب بھی تم رکھ لو"

سیرت نے واش روم کا دروازہ کھولتے ہوئے آنکھیں سکیڑ کر کہا تھا مشقت کے باعث عرق آلود کسرتی بدن کو ٹاول سے صاف کرتے ہوئے اسکی بات پر وہ  لیپٹاپ کی ڈسپلے سکرین کو بند کرتا مبہم سا مسکرایا تھا

"کہاں ہو"

نچلا لب دبا کر وہ مسکراہٹ ضبط کرتا سنجیدگی سے استفسار کر رہا تھا 

"تم سے مطلب"

 بالوں کو کھول کر نائٹ روب کی ربنز کھولتی سیرت نے تنک کر کہا تھا اب کی بار ایک دلفریب متبسم اسکے کٹاؤ دار لبوں پر پھسلا

"میں نے کہا تھا نہ ایسے ڈریسز مت پہنا کرو"

کاؤچ سے اپنی وائٹ شرٹ اٹھاتے ہوئے کان میں لگائے ایئر پلگ پر انگلی رکھ کر وہ متبسم لہجے میں بولا سیرت کا چہرہ فق ہوا تھا

"کک۔۔کیا مطلب ہے تمھارا ،، تم ۔۔۔تم دیکھ رہے ہو مجھے"

نائٹ روب کو درست کرتی وہ تذبذب نظروں سے آس پاس دیکھنے لگی اسکا چہرہ سرخ بھبھوکا ہو چکا تھا

"فکر مت کرو کیمرا صرف تمھارے روم میں ہے وہاں تم بالکل سیف ہو چاندنی"

مسکراہٹ ضبط کرتا وہ سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ اسکی بات نے سیرت کے تن بدن میں آگ لگائی تھی

"عسکری تمھیں چھوڑوں گی نہیں میں"

سیرت نے مٹھی بھینچ کر دانت پیسے تھے صوفے پر بیٹھتا وہ بےساختہ اسکے پرُاشتعال لہجے پر مسکرایا تھا

"آئی سوئیر تمھیں تو میں،، ہمت کیسے ہوئی تمھاری میرے روم میں کیمرا لگانے کی  اور کب لگایا تم نے شرم نہیں آئی تمھیں بےشرم شخص میں چھوڑوں گی نہیں تمھیں "

بیوی سے صبح صبح القابات سن کر کان سے پلگ نکال کر وہ مسکراتے ہوئے سر جھٹک گیا سیرت  شعلہ آنکھوں سے فون کی سکرین کو دیکھ کر پھنکاری تھی

 وہ کیفیٹیریا میں اینٹر ہوئی تھی تیزی سے دھڑکتا ہوا دل اب پرسکون ہوا تھا سکھ کا سانس لیکر وہ حورم اور برہان کو دائیں جانب موجود ایک ٹیبل پر تلاش کرنے کے بعد انکی جانب پیش رفت کر گئی حورم نے فکرمندی سے اسکا خبط الحواس چہرہ دیکھا بیگ کو کندھے سے ہٹا کر ٹیبل پر رکھ کر چیئر کھینچ کر وہ دونوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے کے بعد بیٹھی تھی

"کیا ہوا آفس میں اور تم ہانپ کیوں رہی ہو کیا کہا پروفیسر نے"

"حور پلیز  ابھی کچھ مت پوچھو شکر ہے پروفیسر نے تمھارا لیٹر نہیں دیکھا یہ لو اور اسے احتیاط سے چھپا کر رکھنا اگر یونیورسٹی میں کسی نے بھی دیکھ لیا تو میں ہر بار تمھاری ہیلپ نہیں کر پاؤں گی"

حورم اپنی بات نہ پوری ہونے پر اتنا سا منہ لے کے رہ گئی تھی مگر آئیذل کے بیگ سے نکلتے اپنے لیٹر کو اسنے اچھنبے اور مسرت کے ملے جلے تاثرات کیساتھ دیکھا تھا برہان نے لیٹر لیکر اپنی پینٹ کی پاکٹ میں رکھا تھا 

"کیا پروفیسر نے دیکھ لیا"

حورم نے حیرت سے اسکے زرد رنگ چہرے کو دیکھ کر استفسار کیا آئیذل نے دھیرے سے سر کو جنبش دیکر جوس کا گلاس لبوں سے لگایا تھا حورم نے برہان کو دیکھ کر سکھ کا سانس لیا تھا کل جلد بازی میں برہان کے لئے لکھا ہوا لیٹر اسنے ٹیسٹ پیپر میں چھپایا تھا جو غلطی سے باقی ٹیسٹ پیپرز کیساتھ پروفیسر زاویان کے ہاتھ لگ گیا تھا جسے سوچ کر وہ صبح سے ہلکان ہو رہی تھی اب ہلکے دل کیساتھ سکھ کے سانس لے رہی تھی

"تم نے پروفیسر کی موجودگی میں یہ انکے آفس سے کیسا لیا"

حورم کے سوال پر آئیذل کا چہرا لٹک گیا تھا کھسیانی نظروں سے حورم کو دیکھ کر اسنے لب بھینچے تھے برہان نے اسکی خجلت کو محسوس کیا تھا اس لئے معزرت کر کے وہ دوسری ٹیبل پر اپنے گروپ کے پاس جا چکا تھا

"حور میں نے ان سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا اور اب مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے"

حورم کے ہاتھ پر اپنا برفیلا ہاتھ رکھتی وہ شرمندگی سے دھیمے لہجے میں اپنا راز اسکے ساتھ بانٹ چکی تھی حورم نے حیرت و استعجاب سے منہ کھولا تھا 

"کیاااا تم نے ان سے اظہار کر دیا،، اتنا جلدی کیوں کیا اور یونیورسٹی میں کیوں کیا تم کتنی نا سمجھ ہو آئیذل ان چیزوں کا ایک خاص موقع ہوتا ہے تم تو بالکل نکمی ہو سارا موڈ خراب کر دیا پاگل کہیں کی"

حورم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھنے کیساتھ اسے اسکی غلطی باور کروائی جس پر افسوس سے سر ہلاتی وہ سبک عقلی پر خود کو کوستی رہ گئی

" تمھارے اس لیٹر کی وجہ سے کیا ہے"

آئیذل نے تاسف سے سر جھٹکا تھا

" اب کیا کرو گی گھر پر ناجانے کیا ہو گا آج"

حورم نے استغنایت سے شانے اچکاتے ہوئے جوس کا گھونٹ بھر کر پوچھا آئیذل کا حلق خشک پڑا تھا دماغ میں جھماکا ہوا دل کی دھڑکن الگ تیز ہوئی

("میری آنکھوں میں دیکھو اور بولو کیا تم مجھ سے پیار کرنے لگی ہو؟ کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو میں سننا چاہتا ہوں،،، میں پچھلے پندرہ سالوں سے یہ الفاظ سننے کو ترس رہا ہوں،، لمظ... کہو تم مجھ سے محبت کرتی ہو")

آئیذل کا چہرہ سرخ اناری ہوا حورم نے اچھنبے سے اسکی گومگو کیفیت دیکھی خود سے نظریں بچا کر وہ نچلا ہونٹ مسلسل چباتے ہوئے جوس کے گلاس میں تیرتے ہوئے پیپر سٹرا کو گھما رہی تھی

"حور"

"ہاں"

فون کو ٹیبل پر رکھ کر حورم نے رازداری سے اسے دیکھا جو پس و پیش نظروں سے اسے

 دیکھ رہی تھی عجیب کیفیت میں مبتلا وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے وہ اپنے ہی کہے الفاظ پر شرمندگی محسوس کر رہی تھی حورم نے تھوک نگلتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو آئیذل کا سمارٹ فون جو وہ آفس میں بھول گئی تھی واپس دینے کی غرض سے کیفیٹیریا میں آیا تھا

"میں نے یہ سب تمھارا لیٹر اٹھانے کی وجہ سے بولا اگر میں انکو ڈسٹریکٹ نہ کرتی تو وہ  گلاسز رکھتے ہوئے وہ لیٹر دیکھ لیتے جو ٹیسٹ پیپرز کے بالکل فرنٹ پر پڑا تھا اور میرا ایسا کچھ بھی بولنے کا ارادہ نہیں تھا خدا کی قسم میں پروفیسر سے ایسے لفظ کہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی میری روح کانپ جائے گی ایسی بات کرتے ہوئے پروفیسر زاویان سے"

حورم نے متعجب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے آئیذل کی جانب دیکھا تھا جو اسکے چہرے پر خوف کے لہراتے سائے دیکھ کر پیچھے مڑی تھی کچھ دیر پہلے والا جو خوشگوار چہرہ وہ دیکھ کر آئی تھی اسوقت وہ چہرہ بالکل سپاٹ تھا

"مس آئیذل اپنی چیزوں کو سنبھال کر رکھا کریں"

سنجیدگی سے اسکے قریب ٹیبل پر اسکا فون رکھنے کے بعد وہ متانت ذدہ نگاہوں سے اسکا مرجھایا چہرہ دیکھ کر کیفیٹیریا سے واک آؤٹ کر گیا تھا اسکی پژمردہ سنہری آنکھوں کی ایک جھلک نے آئیذل کے دل کو مٹھی میں جکڑا تھا کتنا کرب چھپائے ہوئے تھی وہ آنکھیں!!

"آئیذل ان کے پیچھے جاؤ ورنہ انکو غلط فہمی ہو جائے گی"

حورم نے اسکا ہاتھ ہلا کر اسے سوچوں کے بھنور سے نکالا آئیذل نے لب بھینچ کر اسے یونیورسٹی کے فرنٹ ونگ کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا 

("تمہیں نہیں پتا آج تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے لمظ!! تمہاری محبت میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے بے بی گرل")

کچھ دیر پہلے اسکی دلفریب لہجے میں کی گئی سرگوشی آئیذل کے دل میں پگھلے سیسے کی مانند کاٹتی اور دھنستی چلی گئی تھی شرمندگی اور افسوس کے باعث گلہ گھٹ کر رہ گیا 

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"چلو چھوٹا پیکٹ!!  پہلے میری بات سن لو میرے آفس میں بالکل بھی شرارت نہیں کرنا اور جب تک میں فری نہیں ہوتی تب تک آپ میرے آفس میں بیٹھی رہیں گی انڈرسٹینڈ"

سیرت نے اسکی سائڈ کا گیٹ کھول کر اسکا سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے متبسم انداز میں اسے دیکھ کر کہا سنہرے بالوں والی چھوٹی لڑکی ،، ہیزل گرین آنکھوں میں ڈھیروں معصومیت سمیٹے سر ہلا کر اسکی شہادت کی انگلی پکڑ کر گاڑی سے نیچے اتری تھی دونوں آفس میں اینٹر ہوئی تھی اسکی شہادت کی انگلی پکڑے بےبی پنک باربی فراک میں وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے سب کو دیکھ رہی تھی 

"مماں کب آئیں گی"

اسنے لوگوں کو اپنی جانب مسکراتے دیکھ کر ناک سکیڑ کر استفسار کیا تھا ایک گھنٹا ہوا تھا روز کو گئے ہوئے اور اسے مماں مماں کی رٹ لگ چکی تھی سیرت نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا تھا جس پر وہ ہونٹوں پر دونوں ہاتھ دیکر معصومیت سے اسے دیکھنے لگی سیرت بےاختیار مسکرا گئی تھی برہمی سے حدید رضا کے آفس سے باہر آتی سونیا نے بھنویں تن کر اس چھوٹی سی لڑکی کو سیرت کیساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا تھا 

"اوہ تو یہ آفس اب بچوں کا پلے گراونڈ بن چکا ہے جس کا دل کرتا ہے منہ اٹھا کر کسی کو

 بھی لیکر آ جاتا ہے"

 سیرت کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی سونیا سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹ کر سیرت کے سامنے آ کھڑی ہوئی ایرا نے ڈبڈبی نظروں سے سونیا کو دیکھا تھا مگر اسکے اوور میک اپ پر وہ ہنس پڑی تھی سونیا نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا سیرت کے گداز ہونٹوں پر مسکراہٹ پھسلی تھی 

"اینجل یہ آنٹی بہت اوور ہیں"

ایرا نے سیرت کے اوور کوٹ کو ہلاتے ہوئے قابلِ سماعت آواز میں کہہ کر منہ پر ہاتھ رکھا تھا

سونیا نے اچھنبے اور غصے سے دانت پر دانت جما کر اسے دیکھا تھا سیرت نے تاسف سے سر جھٹک کر سونیا کو استہزائیہ نظروں سے دیکھا تھا یہاں جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی ایرا پہلے ہی اسکے اوور میک اپ پر کمنٹ کر کے اسکی انسلٹ کر چکی تھی لہٰذا وہ ایرا کا ہاتھ تھامے اپنے آفس کی طرف پیش رفت کر گئی آتش فشاں بنی سونیا نے مٹھی بھینچ کر ایرا کو دیکھا تھا جو جاتے ہوئے اسے ہنستے ہوئے گھور رہی تھی 

"اسلام و علیکم"

آفس کا دروازہ کھول کر اسنے اسے اپنے ڈیسک سے ٹیک لگائے دیکھ کر  سرد سے لہجے میں کہا گہری سوچ میں محو کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتی بھوری آنکھیں اٹھی تھی 

ٹرٹلنیک بلیک سوئیٹر کے نیچے بلیک فلارل سکرٹ تھی سفید خوصورت پیر بلیکڈی اورسے ہیلز میں جاذبِ نظر تھے ایرا نے چھینک کر معصومیت سے ناک پر رومال رکھا تھا فل بلیک ٹو پیس سوٹ میں اس حُسن کے قابلِ ستائش شہکار کا جائزہ لیتی سیرت نے سر جھٹکا تھا

"وعلیکم السلام"

 سیرت پر سے نظریں ہٹا کر اسنے متبسم نظروں سے ایرا کو دیکھ کر کہا جو اسکے دیکھنے پر مسکرائی تھی سیرت کے اشارے پر ایرا شرافت سے چیئر پر ٹانگیں لٹکاتے ہوئے بیٹھی تھی

"Who is this fairy Seerat"

"( سیرت!!یہ پری کون ہے)"

حدید کے سوال کرنے پر ایرا نے مسکراہٹ کنٹرول کرتے ہوئے سیرت کو دیکھا جو حدید کے مخاطب کرنے پر اسے تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی کیونکہ سیرت نے اسے اجنبیوں سے بات کرنے سے منع کیا تھا ورنہ وہ اپنا تعارف کروانے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتی تھی

"یہ میری فرینڈ کی بیٹی ہیں اور افسوس کیساتھ آج پورا دن یہ یہاں رہنے والی ہیں مسٹر عسکری اگر آپکو کوئی اعتراض ہے تو"

سیرت نے تیکھے لب و لہجے میں بات شروع کی تھی

"مجھے کیا اعتراض ہو گا چاندنی"

سیرت کی بات کاٹتے ہوئے وہ مہر آمیز لہجے میں گویا ہوا اسکے چاندنی کہنے پر سیرت نے لب سکیڑے تھے اسکے بدلتے تاثرات کو محظوظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسکے کٹاؤ دار لبوں پر ایک دھیمی مسکراہٹ پھیلی تھی

"سیرت یہ تمھیں چاندنی کیوں بول رہے ہیں"

ایرا نے بھنویں اٹھا کر استفہامیہ نگاہوں سے دونوں کو دیکھا تھا 

"کیونکہ آپکی اینجل بالکل چاند جیسی ہیں بیوٹیفل اینڈ کولڈ"

سیرت کا چہرہ سرخ پڑا تھا ایرا نے اچھنبے سے سیرت کو دیکھا تھا جبکہ سیرت نے حدید کو   زہر کند نظروں سے دیکھا تھا جو استغنایت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

"سسسچ"

ایرا نے حیرت سے دونوں کو دیکھتے ہوئے تصدیق چاہی

"نہیں ایسا کچھ نہیں ہے یہ لو اپنی گیم کھیلو اور خبردار جو تم باہر آئی تو اور مسٹر عسکری بچی کے سامنے کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ"

ایرا کو فون میں مصروف کرنے کے بعد وہ اسکے روبرو آ کر دانت پیستے ہوئے بولی تھی ایرا کو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ کر وہ ایک قدم آگے اٹھاتے ہوئے سیرت کو اپنے سحر انگیز کلون کی طلسمی مہک سے باور کروا گیا سیرت نے لب بھینچ کر اسکا وجیہ چہرہ بےحد باریکی سے دیکھا

"اور کتنی پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہو"

ایک آئی برو اٹھتے ہوئے وہ گرم نکہت بیر سانسوں کے سنگ گمبھیر آواز سے اسکے ٹھنڈے چہرے کو جھلساتے ہوئے گویا ہوا سیرت نے حلق تر کیا تھا دروازے پر ناک سن کر سیرت نے دو قدم پیچھے لئے تھے

"سر بیک لاگ ریفائنمینٹ میٹنگ کے لئے عرش جباری صاحب اور شاہنواز صاحب اہم شخصیات کیساتھ آپکا کانفرنس روم میں  انتظار کر رہے ہیں"

سیکریٹری نے اندر داخل ہو کر دھیمے لہجے میں کہا تھا عرش کا نام سن کر سیرت کی خندہ پیشانی پر چند لکیریں کھینچ گئی 

"ایرا"

"یس یس میں ادھر ہی بیٹھی ہوں"

اپنے گیم ٹیب کی سکرین پر انگلیاں سکرول کرتی ایرا نے دونوں ہاتھوں کو اکتاہٹ کیساتھ اٹھا کر اس پر جھپٹنے کے ساتھ کہا اسے دیکھ کر سیرت مسکرائی تھی 

                                      -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"آئیذل بیٹا ذاویان کہاں ہے"

 سب اسوقت ڈائننگ ہال میں کھانے کی میز پر موجود تھے سوائے ذاویان کے کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہیں آیا تھا جسکے بعد مہر النساء بیگم نے پریشانی سے خاموش بیٹھی آئیذل سے استفسار کیا اپنی چیئر پر بیٹھتی چاہت نے تضحیک آمیز نظروں سے آئیذل کا پژمردہ چہرا دیکھا جو انکے درمیان لڑائی ہونے کی گواہی دے رہا تھا

"امی وہ مجھے ڈراپ کر کے آفس چلے گئے تھے"

انگلیوں کو چٹخانے کیساتھ اسنے تذبذب نظروں سے مہر النساء بیگم کو دیکھ کر جواب دیا چاہت نے مسکرا کر کھانا شروع کیا تھا 

"تو بیٹا فون کر لو اسے"

مہر النساء بیگم کی بات پر لب بھینچ کر اسنے فون اٹھایا تھا پچھلے چار گھنٹوں سے وہ اسے مسلسل کال کر رہی تھی مگر وہ پک نہیں کر رہا تھا اب مہر النساء بیگم کے سوالوں نے آئیذل کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا کال پک نہ ہونے پر اسکی بنفشی آنکھوں میں نمی ابھری تھی حلق تر کرنے کیساتھ اسنے حلق میں پھنستے آنسوں کے ذخیرے کو دھکیلا تھا

"مصروف ہو گا بیٹا کھانا شروع کرو ٹھنڈا ہو رہا ہے"

مہر النساء بیگم نے اسکے اضطراب اور افسردگی کے آثار سمیٹتے چہرے کو دیکھ کر ہلکی مسکان کیساتھ کہا آئیذل چیئر دھیرے سے پیچھے دھکیل کر اٹھی تھی چاہت نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا

"مجھے بھوک نہیں ہے امی"

زبردستی کی مسکان مختصر انکار کے ہمراہ مہر النساء بیگم کے حوالے کر کے وہ فون اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی مہر النساء بیگم نے متفکر نظروں سے اسے دیکھا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"I want you to need me like the air you breath,I want you to hold me in your loving arms, I want you to need me, like i need you!" 

                  - Lamisi Danaba 

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

ٹھنڈی سرد رات میں وہ سنسان سڑک پر تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کر رہا تھا روڈ کی تیز لائٹس میں سنہری درخشاں آنکھوں میں چمکتی نمی اور پرخم پلکوں پر چمکتے موتی ان خوبصورت آنکھوں کی خوبصورتی میں  حد درجہ اضافے کا سبب بنے ہوئے تھے 

محبت دنیا میں سب سے بے اختیار جذبہ ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی خرابی ہے انسان چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتیں اسے توڑ دیتی ہیں

"آپکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لمظ"

اسٹیئرنگ ویل پر گرفت بڑھا کر اسنے کربناک لہجے میں کہا جذبات سے ہوتی بےحد بھاری اسکی اپنی آواز اسکے لئے تکلیف دہ تھی فون مسلسل وائبریٹ ہو رہا تھا مگر وہ فون اٹھانے سے گریزاں تھا

آئیذل نے فون کان سے ہٹایا تھا دروازے کے کھلنے پر اسکے گھر لوٹ آنے کی امید کیساتھ اسکا دل تیزی سے دھڑکا مگر اندر آنے والی چاہت تھی آئیذل نے اسے متذبذب نظروں سے دیکھا تھا 

"کیا ہوا ابھی تک نہیں آیا ذی"

سینے پر بازؤں فولڈ کرتے ہوئے وہ تضحیک آمیز لہجے میں بولی آئیذل نے فون نائٹ سٹینڈ پر رکھ کر اسے نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ مزید اسکی جانب پیش رفت کر گئی آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسکی تمسخر اڑاتی آنکھوں کو دیکھا تھا

"بہت سمجھدار ہو کر بھی تم سمجھدار نہیں ہو لمظ"

سر کو دھیرے سے طنز کیساتھ خم دیکر وہ اسکے گرد ٹہلتے ہوئے بولی آئیذل نے تیز نظروں سے اسے اپنے پیچھے ٹہلتے ہوئے دیکھا 

"پتا ہے محبت کا رشتہ کتنا نازک ہوتا ہے تم نے پھر سے کوئی بےوقوفی کی ہو گی اور ذاویان ناراض ہو گیا افسوس وہ تم سے اتنی محبت کرتا ہے مگر تم چچچ کیوں کر رہی ہو ایسا"

آئیذل کا چہرہ ٹھوڑی سے اوپر اٹھا کر چاہت نے استہزاء کیا

"کیا مطلب ہے تمھارا"

 آئیذل نے اسکا ہاتھ ہٹا کر جھٹکتے ہوئے کہا چاہت نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا

"میرا مقصد تمھیں یہ بتانا ہے کہ میں جانتی ہوں تم ذاویان کو اسکے حقوق سے محروم رکھ رہی ہو اور وہ بھی محبت کے نام پر تمھیں وقت پر وقت دے رہا ہے لیکن سوچو اگر یہی بات میں امی کو بتا دوں تو کیا تم ان سے نظریں ملا پاؤ گی"

آئیذل نے بےتاثر نظروں سے چاہت کو دیکھا مگر دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑی مہر النساء بیگم کو دیکھ کر آئیذل ساکت ہوئی تھی آئیذل کے زرد رنگ پڑتے چہرے کو دیکھ کر چاہت دروازے کی جانب پلٹی تھی مہر النساء بیگم اسے برہمی سے دیکھ رہی تھی 

"مماں"

"اپنے کمرے میں جاؤ"

مہر النساء بیگم نے چاہت کو دیکھ کر خشم زدہ لہجے میں کہا چاہت نے بےساختہ مٹھی بھینچی تھی تیز قدموں کیساتھ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی جاتے ہوئے آئیذل کو پلٹ کر نخوت بھری نظروں سے دیکھنا نہیں بھولی تھی مہر النساء بیگم کو دیکھ کر انگلیاں چٹخاتے ہوئے آئیذل شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

سیرت کے آفس کے سامنے سے گزرتی سونیا ایرا کو دروازے کے قریب ٹیک لگائے دیکھ کر رکی تھی اپنے ٹیبلٹ سے کھیلتی ایرا نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر دوبارہ گیم کھیلنا شروع کیا سونیا نے مٹھی بھینچی تھی

"ایڈیٹ ایک تو تم جس کے ساتھ آئی ہو وہ مجھے زہر لگتی ہے اور اوپر سے تم"

سونیا حسد سے اس چھوٹی سی بچی کو دیکھ کر دھیمے لہجے میں بڑبڑائی جو سیرت کیساتھ یہاں آنے کے باعث شروع سے ہی اسے بری لگ رہی تھی اسکے بعد اس نے نادانی میں جو کچھ کہا اسکے بعد سونیا کا دل جل کر رہ گیا تھا

"آنٹی آپ مجھ سے ناراض ہو کیا"

اسے خود کو گھورتے دیکھ کر ایرا نے دھیمے لہجے میں پوچھا سونیا نے بھنویں سکیڑی تھی مگر ایرا نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا

"میں تمھاری آنٹی نہیں ہوں جسٹ شٹ اپ"

اسے التہابی نگاہوں سے دیکھ کر سونیا نے انگلی اٹھا کر اسے گھورتے ہوئے وارن کیا ایرا کے چہرے سے ہلکی مسکراہٹ اسکی تیکھی نظروں سے نظریں ملتے ہی غائب ہوئی تھی

"تم بہت بری ہو"

پیر پٹخ کر کہتی ایرا نے ناک چڑھایا تھا سونیا نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے بدن میں اٹھتے اشتعال کو تھمنے کی راہ دیکھائی مگر غصہ کسی صورت کم نہ ہوا ایرا چلتے ہوئے کانفرنس روم کی جانب بڑھ رہی تھی سونیا نے کینہ ور نظروں سے اسے دیکھ کر دھیمے قدموں کیساتھ اسکے پیچھے چلنا شروع کیا تھا

چلتے ہوئے فراک کی ربنز ایرا کے پیر کے نیچے آئی تھی ایرا نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر نیچے جھکی تھی سونیا بدخواہ مسکراہٹ کیساتھ گزرتے ہوئے آفس کا دروازہ بند کر گئی تھی 

"مماااااں"

یہ ایرا کی چیخ تھی جو سب نے سنی تھی بریفنگ سنتے حدید اور سیرت نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا تھا چیئر پیچھے دھکیل کر سیرت سبک رو قدموں کیساتھ کانفرنس روم سے باہر بھاگی تھی سب نے متفکر نظروں سے اسے اپنی چیئر سے اٹھ کر سیرت کے پیچھے باہر جاتے ہوئے دیکھا

"ای۔۔۔ایرا"

سیرت کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑا اپنے چھوٹے سے ہاتھ کو دروازے پر رکھے وہ بھاری دروازہ کو دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے رو رہی تھی اسکے ہاتھ سے بہتے ہلکے سرخ سیال کے قطرے ماربل وائٹ فرش پر دیکھ کر سیرت کا دل دھڑکنا بند ہوا بغیر ایک منٹ کی دیر لگائے وہ دوڑتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی دروازے کو کھول کر اسنے روتی ہوئی ایرا کا ہاتھ تھاما تھا خون مسلسل بہہ رہا تھا آفس کے امپلائز اور ورکز سب پشیماں نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے

"خو۔۔۔ن ۔۔۔خون"

دروازے سے آزادی ملنے کے بعد ایرا کی سانسیں بحال ہوئی تھی مگر اپنے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر اسکا سرخی مائل چہرہ زرد پڑا تھا اسکے ہاتھ پر اپنا رومال رکھ کر خون کا اخراج روکتی سیرت کے ہاتھ کانپے تھے مگر ایرا نے چیختے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا تھا سیرت نے اسکا ہاتھ دوبارہ پکڑنا چاہا تھا مگر وہ خون کو دیکھ کر اس قدر خوفزدہ ہو چکی تھی کہ وہ سیرت کو ابھی اپنے ہاتھ کو دیکھنے نہیں دے رہی تھی اور مسلسل روتے ہوئے اپنی ماں کو پکار رہی تھی سونیا نے تاسف سے اسکی غیر ہوتی حالت دیکھی دل میں پچھتاوا ہونا شروع ہوا 

"give me your hand fairy"

"(مجھے اپنا ہاتھ دو پری")

ایرا نے نم آنکھوں سے سسکتے ہوئے اسے اپنے پاس گھٹنا ٹکائے بیٹھتے ہوئے دیکھا ٹینشن اور خبط الحواسی کے زیرِ اثر زبردستی اسکا ہاتھ پکڑتی سیرت نے لب بھینچ کر اپنا ہاتھ واپس لیا تھا ایرا نے ڈرتے ہوئے اسکے مظبوط ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا سیکریٹری کو  فرسٹ ایڈ کِٹ لانے کا وہ پہلے ہی کہہ چکا تھا لہٰذا وہ فرسٹ ایڈ کِٹ اٹھائے اسکے اشارے کا انتظار کر رہی تھی اسکے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ کِٹ تھما کر پیچھے ہٹی تھی

"It, it hurts"

 ("یہ، درد کر رہا ہے")

چشمِ تر سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھ کر ایرا نے اسے اپنے زخم کا معائنہ کرتے دیکھ کر سسکی لی سیرت کی آنکھوں میں نمی تھی فرش پر پھیلے اسکے سرخ سیال کو دیکھ کر سیرت کا نہ صرف دل بند ہوا تھا بلکہ اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ چکے تھے فرسٹ ایڈ کِٹ کھولتے حدید نے ایرا کو ہمدردی سے دیکھا تھا

"Just a little while, all the pain will be gone fairy"

("بس تھوڑی دیر میں سارا درد ختم ہو جائے گا پری")

اسکے نرم رو پرور لہجے نے سیرت کے دل کو طمانیت بخشی ایرا نے لب بھینچ کر اسے دیکھا اپنا آف وائٹ رومال نکال کر اسکی ہتھیلی پر اپنے مظبوط ہاتھ سے براہ راست دباؤ ڈالے وہ ایرا کے تذبذب نظروں سے دیکھنے پر مبہم سا مسکرایا تھا ایرا نم آنکھوں سے مسکرائی تھی سیرت نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

سیرت نے متفکر نظروں سے ڈاکٹر کو گارڈ کے ہمراہ باہر جاتے دیکھا آفس سے آتی ایرا کی کھلکھلاہٹ پر اسے دلی سکون ملا تھا گہرا سانس لیکر کمپوز ہونے کیساتھ وہ دھیمے قدموں کیساتھ آفس میں داخل ہوئی تھی ایرا کو ریوالونگ چیئر پر بیٹھے آئس کریم کھاتے دیکھ کر وہ ایک پل کو ساکت ہوئی تھی 

"سیرت"

ایرا نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے پاس بلایا تھا سیرت کی پشیماں نگاہوں نے اسکے چھوٹے سے ہاتھ پر بندھی سیفد بینڈیج دیکھی تھی لب بھینچ کر وہ اسکے پاس آئی تھی ایرا نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا اسکے گولڈن بکھرے بالوں کو سہلاتی سیرت کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر اسکے گلابی رخسار پر پھسلے 

"آئی ایم سوری!! میں بہت بری ہوں نہ مجھے آپکو ایسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا آپکی مماں نے آپکی ذمہ داری مجھے دی تھی اور میں اتنی لاپرواہ ہوں اپنی اینجل کو معاف کر دو ایرا"

سیرت نے اسکے بالوں پر لب رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا ایرا نے اداسی سے سیرت کو دیکھا تھا جو ان سب کی ذمہ دار خود کو ٹھہرا رہی تھی اسکے ہاتھ سے ٹپکتی خون کی وہ سرخ بوندیں جو قطرہ قطرہ فرش پر گر رہی تھی سیرت کا دل جکڑ چکی تھی ایرا کو سکون کا انجیکشن دیا گیا تھا آنکھیں جھپکتے ہوئے وہ سیرت کو دیکھ رہی تھی

"اس میں تمھاری غلطی نہیں"

واش روم کا ڈور سلائڈ ہوا تھا وائٹ ٹاول سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ باہر آیا تھا سیرت نے اسکی جانب دیکھا وائٹ شرٹ کے کف لنکس کھلے ہوئے تھے جنہیں کہنیوں تک فولڈ کیا گیا تھا سپید مظبوط کلائی کی تنیدہ نیلی نسوں کے ساتھ آرم پر ایک دوسرے کو کاٹتے دو تیروں کے ٹیٹو نے سیرت کی نظروں کو جذب کیا چیئر سے کوٹ اٹھاتے ہوئے اسنے درزدیدہ نگاہوں سے سیرت کو دیکھا تھا جو اسکی نظریں ملنے پر لب بھینچ کر ایرا کی جانب متوجہ ہو چکی تھی مبہم متبسم کو مزید بکھرنے سے روک کر اسنے لب کا کنارہ دبا کر مسکراہٹ بھانپ لی تھی چیئر پر سوئی ایرا کو پرسکون نظروں سے دیکھ کر وہ اسکی جانب پلٹ گئی

"تھینکس الاٹ مسٹر عسکری"

سیرت نے اسکی بھوری آنکھوں کو ایک پل سراہا پھر قدرے سنجیدہ اور پروفیشنل انداز میں بولی ورسٹ پر واچ پہنتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے سیرت کی جانب دیکھا تھا

"کس لئے"

اسنے متانت سے اسکے بجھے چہرے کو دیکھا یقیناً جو کچھ ہوا تھا اس نے سیرت کے دل پر گہرا اثرا چھوڑا تھا جس کے آثار اب تک اسکے چہرے پر تھے

"ایرا کو ہینڈل کرنے کے لئے وہ ڈری ہوئی تھی اور آپ نے اسے تحمل سے ہینڈل کیا"

سیرت نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے اپنے روبرو ٹھہرتے دیکھ کر اب کی بار لہجہ کمپوز کیا تھا اسے لہجے میں اچانک آتے بدلاؤ پر وہ مبہم سا مسکرایا 

" کیا ایک خود غرض شخص کو شکریہ کہنا تمھاری شان کے خلاف نہیں"

صبح کئے گئے اسکے طنز کو اسنے بڑی مہارت سے واپس اسکی جانب اچھالا تھا سیرت جو تہذیب سے پیش آنے کا عزم کر چکی تھی اسکی جانب سے لفظوں کی تیزی پر سلگ پڑی تھی 

"کیا تم خود کو موقع پرست اور خود غرض نہیں سمجھتے"

پیشانی پر بل ڈالے وہ کاٹدار لہجے میں بولی پینٹ کی پاکٹ سے ہاتھ نکال کر وہ اسکے قریب ڈیسک پر دائیں بائیں بازو کی زنجیر بنا کر اس کے تیکھے نقوش چہرے پر جھکا سیرت نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھا تھا

"یہاں سب خود غرض ہیں چاندنی،، میں بھی ،، تم بھی اور رہی بات موقع پرستی کی تو جس طرح میں نے تمھاری مجبوری کا  فائدہ اٹھا کر تم سے نکاح کیا ہے اس طرح تم بھی میرا فائدہ اٹھا رہی ہو لہٰذا یہ میوچل بینی-فیشل ریلیشن شپ ہوا نہ کہ میری خود غرضی"

سیرت نے اسکے لفظوں کی پختگی پر لب کاٹے بھوری تابناک آنکھوں نے اسکے گلابی لبوں کو فریفتگی سے دیکھا 

"آج کیا ہے سیرت"

"آج اپکا برتھ ڈے ہے مسٹر عسکری"

سیرت نے رواروی کی نظر سے اسکے بےحد قریب چہرے کا جائزہ لیکر خشک لہجے میں کہا اسکے لب بےساختہ مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے

"اور میری بیوی نے مجھے وش نہیں کیا"

اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر وہ شکوہ آمیز لہجے میں بولا سیرت نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھ کر اپنا فون اٹھایا تھا اسکا آفیشل اکاؤنٹ نکال کر سکرین کا رخ اسکی جانب کیا

"جہاں آپکو دو کروڑ لوگوں نے اتنی محبت سے وش کر دیا ہو جن میں کثیر تعداد لڑکیوں کی ہے تو وہاں میری بیسٹ وشز کی آپکو ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے مسٹر عسکری" 

سیرت نے آنکھیں سکیڑی اسکا لہجہ صاف برہمی کا اظہار کر رہا تھا اسکے توانا بازؤں نے اپنا گھیرا تنگ کیا سیرت ڈیسک سے لگتی ساکت ہوئی

"آج رات تیار رہنا ایک گرینڈ ایوینٹ ہے جس میں میرے بزنس کولیگز اور قریبی ریلیٹوز شرکت کریں گے اپنی موجودگی کو یقنی بنانا سیرت ورنہ گھر سے اٹھا کر لے جاؤں گا"

سیرت نے تنک کر اسے دیکھا اسکی بےباک نظریں سیرت کے چہرے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہٹ چکی تھی 

"لا چھوڑ یہ سب"

ریحم نے حیرت سے عائزہ بیگم کو دیکھا جو اسے برتن دھونے زے منع کر رہی تھی ڈش واش کرتی عروسہ بیگم نے عائزہ بیگم کو تجسس سے دیکھا تھا عروسہ بیگم کو کھسیانی مسکراہٹ کیساتھ دیکھ کر وہ منہ کے ڈیزائن بناتی ریحم کا بازو پکڑ کر کچن سے باہر لیکر آئی تھی ریحم نے تاسف سے عروسہ بیگم کو دیکھا تھا جو سر کو خم دیکر خود برتن واش کرنے میں مصروف ہو گئی تھی

"کیا ہوا امی"

ریحم نے اپنے بازو پر عائزہ بیگم کی پکڑ ڈھیلی پڑتے ہی پوچھا ریحم کو برآمدے میں لیکر چارپائی پر بٹھانے کے بعد وہ تیکھی نظروں سے آس پاس دیکھنے کے بعد اسکے پاس بیٹھی تھی ریحم نے پریشانی سے انکو دیکھا

"کیا تمھاری آئیذل سے بات ہوتی ہے"

عائزہ بیگم نے رازداری سے پوچھا تھا ریحم نے لب بھینچے تھے 

"ارے بتا ہوتی ہے کہ نہیں"

ریحم کے کندھے کو ہلاتے ہوئے عائزہ بیگم نے ناگواری سے پوچھا ریحم نے سر ہلا کر عائزہ بیگم کے تاثرات دیکھے اسے ڈر تھا وہ انہیں آئیذل سے بات کرنے سے منع کریں گی مگر وہ تو مسکرا رہی تھی

''کل تم جا کر اسکے پاس سے ہو آؤ"

عائزہ بیگم نے ریحم کے بال سہلاتے ہوئے محبت پاش لہجے میں کہا ریحم نے تشویش سے اپنی ماں کو دیکھا تھا ناجانے کیوں لیکن اسے عائزہ بیگم کا یہ کہنا نامناسب معلوم ہوا 

"لیکن کیوں امی میں وہاں کیا کرنے جاؤں"

ریحم نے عام سے لہجے میں کہا عائزہ بیگم کی پیشانی پر بل پڑے تھے

"منہوس کچھ عقل لگا لیا کر تجھے بڑے گھر میں بیاہنے کا سوچ رہی ہوں وہ مہارانی خود تو اس محل میں عیش کر رہی ہو گی یہاں ہم سوکھی روٹی پر گزارہ کر رہے ہیں وہ اسکا دیور ہے نہ کنوارا ہے وہ میں سوچ رہی ہوں"

"بس کریں امی حد ہو گئی ہے لالچ کی"

عائزہ بیگم کو نفرت بھری نظروں سے دیکھ کر وہ چارپائی سے اٹھی تھی اپنے کمرے کی جانب بڑھتے آصف صاحب ریحم کی برآمدے سے آتی بلند آواز پر رکے تھے کچھ سیکنڈ بعد انکے قدم برآمدے کی سمت اٹھنا شروع ہوئے

"کب ختم ہو گی آپکی یہ لالچ امی آپکے بیٹے اور آپکی اسی بےانتہا لالچ کی وجہ سے دادی فوت ہو گئی کتنا بڑا بوجھ دل پر لئے جی رہی ہوں میں جانتی ہیں آپ"

کرب زدہ لیجے میں کہتی ریحم کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹے تھے 

"کیا بکواس کر رہی ہے چپ کر ہماری وجہ سے کب"

عائزہ بیگم نے حیرانگی سے اسے گھورنے کیساتھ اٹھتے ہوئے اسکی کلائی کو سختی سے پکڑ کر اسے چپ کروانا چاہا مگر ریحم روتے ہوئے اپنی کلائی جھٹک گئی تھی

"آپکی وجہ سے ہوا افسوس میری ان گنہگار آنکھوں نے توصیف کو دادی کا گلہ دباتے ہوئے دیکھا اور آپ۔۔۔ آپ خاموش تماشائی بنی سب دیکھتی رہی اتنی لالچ اچھی نہیں ہے اماں اتنی لالچ اچھی نہیں پہلے آئیذل کے گھر کی وجہ سے اور اب چند پیسوں کے عوض اپنی آخرت برباد نہ کریں خدا کو کیا جواب دیں گی آپ کو اپنی ماں کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے مجھے"

ریحم نے ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے رندھی آواز میں کہا تھا

"چٹاخ"

ایک زوردار تھپڑ ریحم کے چہرے پر رسید کرنے کے بعد وہ آصف صاحب کو برآمدے میں داخل ہوتے دیکھ کر ریحم کا بازو پکڑے اسے ساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے کی سمٹ بڑھی تھی آصف صاحب نے بےتاثر نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو کافی دیر تک دیکھا یکلخت انہوں نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا 

"آپکی وجہ سے ہوا افسوس کہ میری ان گنہگار آنکھوں نے توصیف کو دادی کا گلہ دباتے ہوئے دیکھا اور آپ۔۔۔ آپ خاموش تماشائی بنی سب دیکھتی رہی اتنی لالچ اچھی نہیں ہے اماں اتنی لالچ اچھی نہیں پہلے آئیذل کے گھر کی وجہ سے اور اب چند پیسوں کے عوض اپنی آخرت برباد نہ کریں خدا کو کیا جواب دیں گی آپ کو اپنی ماں کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے مجھے"

ریحم کی کچھ دیر قبل کہی گئی بات انکے دل کو چیرتی ہوئی گزری تھی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ہاتھ پیر کانپنے لگے

"عر۔۔۔عرو۔۔۔سہ"

اکھڑتی سانسوں کے بیچ وہ دوسرے ہاتھ کو پلر پر رکھ کر آسرا لیتے ہوئے کچھ قدم آگے چلے تھے کچن سے باہر آتی عروسہ بیگم نے انہیں بےہوشی کے عالم میں سینے پر ہاتھ رکھ کر نیچے گرتے ہوئے دیکھا تھا

"آ۔۔۔۔آصف"

عروسہ بیگم صدمے سے انکی سمت آئی تھی

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کیا جو کچھ چاہت نے کہا وہ سچ ہے لمظ"

مہر النساء بیگم نے  ژولیدہ نظروں سے آئیذل کو دیکھ کر برہمی سے استفسار کیا تھا آئیذل نے ایک پل کو نظریں جھکائی تھی یہاں ذاویان کا موجود نہ ہونا مہر النساء بیگم کے سوالات سے زیادہ پریشان کن تھا اسکی موجودگی میں ایک روحانی سکون سا تھا جس سے آج وہ بالکل محروم ہو گئی تھی وہی بےبسی محسوس کر رہی تھی جو انفال بی بی کے جانے کے بعد اسنے محسوس کی تھی

"کچھ پوچھ رہی ہوں میں تم سے"

مہر النساء بیگم کی پیشانی پر بل پڑے تھے دروازے پر کھڑی چاہت نے سینے پر بازؤں لپیٹ کر تضحیک آمیز نظروں سے آئیذل کو دیکھا جو مہر النساء بیگم کی جانب دیکھ کر کچھ کہنے کا تہیہ کر رہی تھی مگر الفاظ کے چناؤ میں بےحد وقت لے رہی تھی چاہت مٹھی میں کچھ اٹھائے منہ کے ڈیزائن بناتی آئیذل کو طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی

"لمظ کی خاموشی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اس نے اب تک ذاویان کو اسکے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اور آپ لمظ سے کیسی امیدیں لگا رہی تھی کہ یہ لڑکی ذاویان کو خوش رکھے گی واقعی؟؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لڑکی ذاویان کی محبت کے قابل ہی نہیں ہے اپنے شوہر تک کو اپنے قریب نہیں آنے دے رہی"

چاہت نے ناگواری سے اسکے فریم کا جائزہ لیا تھا آئیذل نے چاہت کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھ کر بند ہوتے دل کیساتھ نظریں جھکائی مہر النساء بیگم جو اسے پُرافتخار نظروں سے دیکھا کرتی تھی آج اِحتقار نظروں سے دیکھ رہی تھی

آئیذل کے سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھی اکیلے ہونے کا یہ احساس اسے کاٹ کھا رہا تھا چاہت نے مسکراتے ہوئے اسکی غیر ہوتی حالت دیکھی تھی 

" مجھے افسوس ہے لمظ کو لیکر آپکی پریڈکشن غلط ثابت ہوئی"

چاہت نے تمسخر نظروں سے آئیذل کی جانب دیکھ کر طنز کیا مہر النساء بیگم افسوس سے سر جھٹک کر باہر نکلی تھی چاہت لبوں پر تضحیک آمیز مسکراہٹ سجائے آئیذل کے سامنے آ کر ٹھہری آئیذل مے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا

"چچچچ لمظ تمھیں ریسکیو کرنے کے لئے تو آج ذاویان بھی یہاں نہیں ہے"

چاہت نے جھک کر اسکے سرخی مائل چہرے کو دیکھ کر طنز کیا آئیذل نے مٹھی بھینچ کر غصے کو نا چاہ کر بھی ضبط کیا اسکے قریب ٹہلتی ہوئی چاہت نائٹ سٹینڈ پر پڑے پانی کے گلاس میں ایک سفید ٹیبلیٹ ڈالنے میں کامیاب ہوئی تھی

"ذاویان سے تمھارا طلاق کروا کر رہوں گی میں لمظ تمھاری آنکھوں کے سامنے"

آئیذل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اسکی کلائی میں انگلیاں پیوست کئے آئیذل نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھی تھی چاہت نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا

"تم میں زرا بھی شرم نہیں دراصل نہیں،، تمھیں تمھارے ماں باپ کے بےلوث لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے صحیح غلط میں فرق نہیں کر پا رہی اور سب سے بڑی بات دوسروں کے شوہروں پر ڈورے ڈال رہی ہو اور افسوسناک بات یہ کہ ایسا کرتے ہوئے تمھیں زرا بھی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی"

چاہت نے کاٹدار نظروں سے آئیذل کی جانب دیکھا جو پرُاشتعال لہجے میں کہہ کر اسکی کلائی میں انگلیاں سختی سے پیوست کر گئی چاہت نے اپنی کلائی چھڑانے کے لئے اسکے ہاتھ کر جھٹکا مگر بےسود۔

"ذاویان میرے شوہر ہیں اور اگر انکی جانب تم نے دیکھا بھی تو تمھاری آنکھیں نوچ لوں گی ہمیں الگ کرو گی تم؟؟ افسوس کہ تم اپنی کلائی تک تو میرے ہاتھ سے چھڑا نہیں پا رہی تم کیا ہمیں الگ کرو گی"

چاہت کی ضرر رساں نگاہوں نے نفرت سے آئیذل کو دیکھا تھا بنفشی آنکھوں میں سرائیت کرتا اشتعال،،  خشم کے باعث سرخی مائل پڑتے اسکے رخسار اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ ذاویان کو لیکر کتنی پوزیسیو تھی

''(چاہت تم بچکانے کھیل کیوں کھیل رہی ہو!! ایک بار پھر بتا دیتی ہوں زاویان صرف میرے ہیں،،جو بھی حربہ استعمال کرنا ہے استعمال کرو لیکن آخر میں ناکام رہو گی،، اب ہمارے کمرے سے جا سکتی ہو، زاویان آتے ہی ہوں گے،، ہمیں کچھ وقت ساتھ گزارنا ہے)''

چاہت کی کلائی کو چھوڑ کر تضحیک آمیز لہجے میں کہہ کر وہ پیچھے ہٹی تھی چاہت سبک رو قدموں کیساتھ باہر نکلی تھی اسوقت وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ جانے کو تیار تھی  مگر ناجانے کیا سوچ کر وہ ضبط کر چکی تھی کون جانتا تھا اسوقت اسکے دماغ میں کیا چل رہا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

رات بارہ بجنے میں دس منٹ باقی تھے جب گیٹ کھلنے کی آواز آئی تھی اسکی بلیک مرسیڈیز  اینٹرنس پورچ میں آ کر رکی تھی گارڈ سلام کر کے میٹل گیٹ کو بند کرنے میں مصروف ہوا تھا گاڑی پارک کرنے کے بعد سرد آہ بھر کر بلیک کوٹ بازو پر پھیلائے وہ سنجیدگی سے  بیسمنٹ میں داخل ہوا تھا سیڑھیوں پر چلتے ہوئے اسکے قدموں نے ہلکی آہٹ پیدا کی تھی ہر طرف خاموشی تھی دروازے کو کھول کر وہ اندر داخل ہوا کمرے میں اندھیرا دیکھ کر وہ ایک پل کو ساکت ہوا

"لمظ لائٹس کیوں آف ہیں"

کوٹ کو کاؤچ پر ڈال کر برفیلے لہجے میں کہنے کے بعد سنجیدگی سے اسکی آنکھوں نے کمرے میں لمظ کو تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی جس کے نتیجے میں اسکی پیشانی پر چند لکیریں کھینچی

"لمظ"

اب کی بار لہجے میں پہلے سے زیادہ ناگواری تھی جواب ناں پا کر لمبا سانس ہوا کے سپرد کرنے کے بعد وہ واچ اتارتے ہوئے نائٹ سٹینڈ کی جانب بڑھا نائٹ سٹینڈ پر واچ رکھتے ہوئے وہ رکا تھا گلاب کے پھولوں کی ہلکی مہک کیساتھ فریگرینٹ کینڈلز کی تیز مہک نے اسے ساکت چھوڑا تھا متذبذب نظروں نے دوبارہ اندھیرے میں ڈوبے پورے کمرے کا جائزہ لیا دھیمے قدموں کی آہٹ پر اسنے ونڈو کی جانب دیکھا تھا ہلکی ہوا کے زور پر سفید ریشمی پردے محوِ رقص تھے سنجیدگی سے کھلی ہوئی ونڈو کی جانب بڑھ کر اسنے ونڈو کو بند کیا تھا 

"ہیپی برتھ ڈے ذاویان"

اپنے کان کے قریب کی گئی باریک سرگوشی پر اسکی سنہری بےرونق آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی اسے پیچھے سے سینے سے لگاتی ہوئی وہ متبسم لہجے میں بولی تھی اسنے سنجیدگی سے لب بھینچے تھے آج جو کچھ ہوا تھا اسکے بعد وہ اپنا سالگرہ خود بھول چکا تھا 

"آپکو یاد تھا"

اپنے سینے پر اسکے باریک نازک ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے اپنے سامنے لاکر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا آئیذل نے دھیرے سے سر کو ہلا کر شرمندگی سے اسے دیکھا تھا چاند کی ہلکی روشنی میں دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا

"صبح سے میں اس پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی پروفیسر زاویان صاحب اور آپ کو بھڑک تک نہیں ہوئی آپ اپنی ڈیوٹی صحیح سے سرانجام نہیں دے رہے"

نچلا ہونٹ دباتے ہوئے شریر لہجے میں کہہ کر آئیذل نے سینے پر بازؤں لپیٹ کر اسے دیکھا تھا اسکی غائر نگاہیں آئیذل کا بخوبی جائزہ لے رہی تھی

"ایک منٹ میں لائٹس آن کر دیتی ہوں"

وہ لائٹ سوئچ کی جانب سبک رو قدموں سے بڑھی تھی لائٹس روشن ہوتے ہی اسنے پورے کمرے کا جائزہ لیا تھا روز پیٹلز اور فریگرینٹ کینڈلز کیساتھ ہارٹ شیپ ریڈ بلونز کی ڈیکوریشن میں کمرہ بےحد خوبصورت لگ رہا تھا شیشے کی میز پر سفید کلر کا ہارٹ شیپ کیک روز پیٹلز میں سجا کر رکھا گیا تھا 

"آئیے کیک کاٹتے ہیں"

 آئیذل اسکا اسکا ہاتھ تھام کر میز کی جانب بڑھتے ہوئے پُرمسرت لہجے میں بولی ذاویان نے متانت ذدہ نگاہوں سے اپنے ہاتھ پر آئیذل کا ہاتھ دیکھا تھا لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے ذاویان نے کیک کاٹا تھا وہ کسی صورت اپنی اداسی کے باعث آئیذل کو اداس نہیں کرنا چاہتا تھا اسوقت آئیذل کا خوشی کے ساتھ چمکتا چہرا اسکے بےقرار دل کو سکون بخش رہا تھا آج پھر وہ اپنی تکلیفوں کو اسکی خوشی کی خاطر ایک جانب کر گیا تھا جو وہ بچپن سے کرتا آ رہا تھا اپنی لمظ کے لئے۔۔

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

اندھیرے میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنی سے آپنی آب و تاب بڑھاتی نظروں کو جذب کرتی بیلفاسٹ کی یہ سب سے بڑی اور ایکسپینسیو وینیو پلیس تھی مرکزی دروازہ کھلا ہوا تھا پارکنگ لاٹ میں ہر طرح کی ایکسپینسیو گاڑیاں جن میں کوینیگ سیگ ٹریویٹا،،پننفرینا سرجیو،، ایسٹن مارٹن والکیری آنے والوں کی نظروں کو جذب کر رہی تھی 

وائٹ مخصوص یونیفارم میں ملبوس ایک شخص نے وائٹ لمو کا پیسنجر گیٹ کھولا تھا ریڈ ہائینیس پینسل ہیل شوز میں قید سپید باریک پیر باہر آیا تھا پیل ریڈ کلر ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے وہ پیل ریڈ ہینڈ کلچ بیگ اور سمارٹ فون دوسرے ہاتھ میں فلاور بوکٹ  تھامے باہر آئی تھی بہت سی نظروں کو جاذب کرتی وہ ریڈ کارپٹ پر پروفیشنل انداز میں چلتی ہوئی ایک ہاتھ میں للی فلورز کا بوکٹ اٹھائے انڈور اسٹیج کی جانب بڑھی تھی

شال بلیک ٹکسیڈو میں بالوں کو جیل سے خوبصورتی سے بٹھائے ایک ہاتھ میں ریڈ وائن کا گلاس تھامے سنجیدگی سے اپنے کولیگز سے محو گفتگو تھا چنبیلی کے پھولوں کی مہک نے اسکی روح کو سرشاری بخشی تھی 

"ہیپی برتھ ڈے مسٹر عسکری"

اپنے عقب سے آتی اسکی باریک آواز سن کر وہ مبہم مسکان کیساتھ اسکی جانب مڑا تھا پیل ریڈ ساڑھی میں میچنگ ریڈ کرسٹل جیولری اور لائٹ میک اپ کیساتھ لبوں پر پیل ریڈ لپ اسٹک اسکے دل کو لبھا گئی تھی اسے فریفتہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسنے سیرت کے ہاتھ سے پھولوں کا بوکٹ لیا تھا کم تو وہ بھی نہیں لگ رہا تھا مگر سیرت نے دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی اپنے پسندیدہ پھولوں کی بوکٹ کو اسنے دلفریب متبسم کے ساتھ دیکھ کر گفٹ کلیکٹر کے حوالے کیا 

"یو آر لکنگ"

سیرت نے ایک آئی برو اٹھایا تھا وہ سب کو مصروف دیکھ کر ایک قدم اسکی جانب اٹھاتے ہوئے اسکے کان پر جھکا تھا اسکی مخصوص مہک نے سیرت کو اپنے حصار میں کھینچا 

"فوکسی"

اسکے کان کے قریب بھاری خمار آلود سرگوشی نے سیرت کا دل تیزی سے دھڑکایا اسکے ایک مختصر لفظ نے بہت کچھ کہا تھا سیرت کے سرخی مائل پڑتے رخساروں کو اسنے نظروں سے کافی دیر سراہا 

" ایکس کیوز می"

"ناٹ آ چانس"

اسکے راستے میں حائل ہو کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا سیرت نے پرُاشتعال آنکھوں سے  اسکے بڑھائے ہوئے وجیہ ہاتھ کو دیکھا جو اسکی کہنی کو تھامنے سے قبل ہوا میں ہی ساکت ہوا تھا سیرت کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی

"شکر ہے کسی کو اپنی حدوں کا اندازہ ہے"

اسے استہزائیہ نظروں سے دیکھ کر طنزیہ لب و لہجے میں کہہ کر سیرت آگے بڑھ گئی تھی  سنجیدگی سے سر جھٹک کر اسنے ضبط کیا تھا ورنہ جو کچھ وہ بن کر آئی تھی اسکے بعد دل بغاوت پر اترنے کے عزم کر رہا تھا سیرت  فون پر ذاویان کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کر بعد تقریباً دس بار اسکے ریپلائے کے لئے فون چیک کر چکی تھی مگر اسنے میسج سین تک نہیں کیا تھا جو سیرت کی پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"You're the light, you're the night

You're the color of my blood

You're the cure, you're the pain

You're the only thing I wanna touch

Never knew that it could mean so much, so much"

-Love Me Like You Do-

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

اسکے شولڈرز تک آتے براؤن سلکی بال تند و تیز ہوا کے دوش پر دھیرے دھیرے رقص کر رہے تھے دور اندھیرے میں جگمگاتی روشنیوں کو وہ گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی جو اندھیرے میں کہیں کہیں ٹمٹماتی جنگوں کی مانند معلوم ہوتی تھی ماحول میں ایک اداسی چھائی ہوئی تھی خاموشی اس قدر شدید تھی کہ دل کو کاٹ رہی تھی جب قدموں کی آہٹ نے اسے پیچھے پلٹنے پر مجبور کیا 

"کیا سردی نہیں لگ رہی"

 اسکے دھیمے لہجے میں استفسار کرنے پر سیرت کے لبوں پر دھیمی مسکان پھیلی

"لگ رہی ہے لیکن کیا فائدہ یہاں کا نظارہ اس قدر خوبصورت تھا کہ میں نظر انداز نہیں کر پائی اور یہاں آ گئی اب غلطی کر بیٹھی ہوں تو واپس جانے کا کیا فایدہ "

اسکے بےتکے جواب پر وہ اسکے شولڈرز پر اپنا کوٹ ڈال کر اسکے قریب بالکنی کی ریلنگ پر ہاتھ رکھتا مبہم سا مسکرایا سیرت نے بےتاثر نظروں سے اپنے کندھوں پر اسکا بلیک کوٹ دیکھ کر اسکی سمت دیکھا تھا

''کیوں کر رہے ہو ایسا''

سیرت کے یک بارگی کیساتھ سوال کرنے پر اسنے گھڑی بھر کو اسے بےتاثر نگاہوں سے دیکھا سیرت جو اسکی بھوری درخشاں آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھی اسکے دیکھنے پر زرا جھجھکی

'' میں سمجھا نہیں''

اسکی آنکھیں سے نظریں چرا کر وہ دور روشنیوں میں چمکتی فلک بوس عمارتوں کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا سیرت نے دھیرے سے سر کو خم دیا تھا 

''نہیں کچھ بھی نہیں''

اسکی نظروں کا تعاقب کر کے وہ پرسوچ انداز میں بولی تھی خاموشی اختیار کئے وہ دونوں کافی دیر تک بغیر کسی لفظ کے تبادلے کے روشنیوں کو دیکھتے رہے

"میرا گفٹ کہاں ہے سیرت''

اسکے سنجیدگی سے استفسار کرنے پر سیرت نے متعجب نظروں سے اسکا جائزہ لیا پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ رکھے وہ سنجیدگی سے چاند کی ہلکی روشنی میں اسکا تیکھے نقوش چہرے کو غائر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ہوا کا ٹھنڈا جھونکا بالکنی سے دونوں کو چھو کر گزرا تھا ریشمی بالوں کی ایک لِٹ نے آوارگی سے سیرت کے لبوں کو چھوا بھوری آنکھوں میں خماریت کی گھٹائیں چھا سی گئی بےاختیاری میں اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے سے وہ لِٹ پیچھے ہٹانی چاہی مگر ہاتھ کی مٹھی بنا کر اسنے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ واپس لیا بالوں کو کان کے پیچھے اڑساتی سیرت نے متفکر نظروں سے اسکا ضبط کے باعث سرخی مائل پڑتا چہرا دیکھا 

" بھلا تمھیں کس چیز کی کمی ہو گی یہی سوچ کر میں نے کوئی گفٹ نہیں خریدا''

سینے پر بازؤں لپیٹ کر وہ طنزیہ لب و لہجے میں بولی تھی مگر اسکے بےتکے جواب پر وہ لب بھینچ کر رہ گیا سیرت نے اچھنبے سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا

"کیا تم ناراض ہو گئے"

بھنویں اٹھا کر سیرت نے تجسس سے دریافت کرنے کی کوشش کی تھی اسے کہاں پتا تھا کہ وہ ایسے سنجیدہ ہو جائے گا

"صرف تمھاری کمی ہے سیرت"

 کچھ پل کی خاموشی کو اسنے سنجیدگی سے گویا ہو کر توڑا سیرت نے بےیقینی سے اسکی سمت دیکھا سیرت کی جانب بڑھ کر وہ خمار آلود لہجے میں بولا تھا سیرت نے غیراعتماد نگاہوں سے اسکی خمار آلود آنکھوں کو دیکھا کچھ قدموں کے فاصلے کو اسکے بڑھتے ہوئے سبک رو قدم ہر سیکنڈ کیساتھ گھٹا رہے تھے وہ اس سے ایک انچ کے فاصلے پر رکا سیرت کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا مگر وہ خوفزدہ ہو کر اس پر اپنا ڈر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی

''کیا۔۔مطلب۔۔ہے۔۔۔تمہارا''

اسکی پرکشش آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکے کلون کی طلسمی مہک کے سحر میں مبتلا ہونے سے قبل پختہ لہجے میں بولی اسکا بےدھڑک لہجہ سب کہہ رہا تھا مگر سیرت نے اسکی کی بےبس کیفیت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہوئے سرد لہجے میں استفسار کیا تھا

"Just give me your ten minutes Seerat"

"بس مجھے اپنے دس منٹ دے دو سیرت"

سیرت نے اسکے خطرناک ارادوں سے باور ہو کر حلق تر کیا تھا اسکی بےبسی کی یہ کیفیت تھی کہ وہ دونوں مٹھیوں کو بھینچے اسے سرخی مائل آنکھوں سے طلبگار نگاہوں سے دیکھ رہا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

Fading in, fading out

On the edge of paradise

Every inch of your skin is a holy grail I've got to find

Only you can set my heart on fire, on fire

Yeah, I'll let you set the pace

'Cause I'm not thinking straight

My head's spinning around I can't see clear no more

What are you waiting for?

-Love Me Like You Do-

Song by 

                      (Ellie Goulding)

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

" کیا اس پراجیکٹ کے سلسلے میں آپ میری مدد کریں گے"

آئیذل نے اسے واش روم سے باہر اتے دیکھ کر جلدی سے کہا صوفے کے آرم پر سنجیدگی سے کپڑے رکھ کر وہ بیڈ پر بکس پھیلائے بیٹھی ہوئی آئیذل کی جانب مڑا تھا معصومیت سے وہ اسے پرامید نگاہوں سے دیکھ رہی تھی

"کیا مدد چاہیے آپکو"

آئیذل نے سکھ کا سانس لیکر اپنی جگہ سے پیچھے ہو کر اسکے لئے جگہ بنائی تھی ذاویان نے متانت سے اسے دیکھا تھا دھیمی مسکان کیساتھ آئیذل نے چارٹ کھول کر سامنے پھیلایا تھا 

"یہ ورکفلو سسٹم ہے پروفیسر شاہان نے مجھے اس ٹاسک کی ذمہ دای دی تھی کیا یہ ٹھیک ہے آپ دیکھ کر بتائیں اگر کچھ مسنگ ہے تو آپ بتا دیں تاکہ کل سب مٹ کرواتے وقت ایشو نہ ہو"

وہ سنجیدگی سے چارٹ کے پوائنٹس چیک کر رہا تھا آئیذل کی نظریں اسکے وجیہ چہرے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھی سکون سا محسوس کر رہی تھی وہ اسے اپنے قریب دیکھ کر چارٹ کا مطالعہ کرتی اسکے سنہری آنکھیں آئیذل کی جانب اٹھی آئیذل نے جلدی سے  نظریں پھیری تھی اسنے بھی قطع نظری کیساتھ دوبارہ نظریں چارٹ پر مرکوز کی آئیذل نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا چارٹ کا مشاہدہ کرتی اسکی بےتاب نگاہیں ایک نقطے پر ساکت ہوئی آئیذل کی ٹھنڈی ہتھیلی نے اسکے ہاتھ کی پشت کو سہلانا شروع کیا تھا ذاویان نے لب بھینچے

"آئی ایم سوری"

دھیمے لہجے میں کی گئی آئیذل کی سرگوشی نے ذاویان کے دل کو ایک بیٹ مس کرنے پر مجبور کیا تھا بنفشی آنکھوں نے اسکے بےقرار چہرے کو دیکھا گردن کی شریانیں پھول کر واضح ہوئی اسکی سانسیں آئیذل کے تیز دھڑکتے دل کیساتھ ساتھ چل رہی تھی کمرے کے ٹمپریچر میں ان دیکھا اضافہ ہو رہا تھا آئیذل کی آنکھیں اسکی خمدار پلکوں کو لرزتے ہوئے دیکھ رہی تھی چہرہ بےحد سرخی مائل تھا جو اسکے ضبط کے آخری پیمانے پر ہونے کا ثبوت تھا اسکی جانب سے جواب نہ پاکر آئیذل کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہوئے تھے اسکی مظبوط انگلیوں میں اپنی باریک انگلیاں الجھا کر آئیذل نے ڈبڈبی نظروں سے اسکے ہاتھ سے پین نیچے گرتے ہوئے دیکھا 

" کیا اپنی لمظ کو معاف نہیں کریں گے آپ"

  اسکے رعنا ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر آہستگی سے کہنے کے ساتھ آئیذل نے متذبذب نظروں سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا تھا ذاویان کی خاموشی اسکا نازک دل کاٹ رہی تھی مگر افسوس کہ اسکے دل کی کیفیت شاید وہ اب تک نہیں سمجھ پائی تھی اتنی بڑی خوشی دیکر اسنے ایک پل میں اسے چھین لیا تھا 

"اٹس اوکے بےبی گرل"

ذاویان نے اسکی بنفشی آنکھوں سے ٹوٹتے موتیوں کو دیکھ کر بھاری ہوتے دل کیساتھ کہا آئیذل کی شبنمی آنکھوں نے دیر تک اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر وہ اسکی گردن میں بازو حمائل کر کے اسکے سینے سے سر لگاتی آنکھیں بند کر گئی ذاویان کی مدھم پڑتی دھڑکنوں میں تیزی آئی

'' کیا خود سے محبت کرنے کی یہ سزا دیں گے آپ مجھے"

آئیذل نے رندھی آواز میں شکایت کی دونوں مٹھیوں کو ضبط کے باعث بھینچے وہ ساکت ہوا تھا کیا اسنے ٹھیک سنا تھ؟؟

"کیا کہا تم نے"

اسنے بےقرار لہجے میں پوچھا

"وہی جو آپ نے سنا"

 آئیذل اسکی شرٹ کے بٹن پر انگلی رکھ کر معصومیت سے بولی اسے شانوں سے پکڑ کر وہ سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ گیا

"کیا یہ سب مزاق ہے"

اسنے پتھریلے لہجے میں اسکے بالوں میں انگلیاں  الجھائے استفسار کیا آئیذل نے ڈبڈبی آنکھوں سے اسے دیکھا

"نہیں لیکن میں ڈر گئی تھی جو کچھ آپ نے آفس میں کہا اس لئے میں"

آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے نظریں جھکائی

"اس لئے آپ مکر گئی"

اسے سرد نظروں سے دیکھ کر وہ گمبھیر لہجے میں بولا آئیذل نے تاسف سے اسے دیکھا تھا جو اسے شرمندہ کرنے سے اجتناب کرنے کے بجائے اسے مزید شرمندہ کر رہا تھا

"اور اب اپنی بات پر متفق ہونے کی کیا وجہ تھی یا اب بھی مجھ سے خوفزدہ ہو کر کہہ رہی ہو یہ سب تاکہ میری ناراضگی سے بچ جاؤ"

ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسکی سنہری آنکھوں میں جھانک کر لب بھینچے

"خوفزدہ نہیں ہوں میں"

"کیا واقعی"

اپنی کمر پر اسکے مظبوط ہاتھ کے پرتپش لمس کو پا کر آئیذل نے جھرجھری لی اسکی آنکھوں میں تضحیک آمیز نظروں سے دیکھتا وہ مبہم سا مسکرایا 

"کانپ کیوں رہی ہو پھر"

اسکے چہرے پر جھک کر وہ پرتپش لہجے میں بولا آئیذل نے سختی سے نچلا ہونٹ کاٹ کر اسے دیکھا ساری ہمت کہیں جا کر سو چکی تھی اور اب وہ تھرتھرا رہی تھی

"محبت کا مطلب پتا ہے تمھیں نادان لڑکی"

آئیذل نے اسکے چہرے کو قریب ہوتے دیکھ کر یکلخت آنکھیں میچی گمبھیر لہجے میں کہہ کر اسنے انگوٹھے سے لمظ کے دہکتے گال کو سہلا کر پوچھا

"آپ۔۔۔ آپ بتا دیں اسکا مطلب"

آنکھیں میچے وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی

"سمجھا دیتا ہوں آج تو"

اسے خمار آنکھوں سے دیکھتا وہ مہلک لہجے میں گویا ہوا

"آپکو میرے وقت سے دس منٹ چاہیے"

سیرت نے متبسم نظروں سے اسے دیکھ کر استفسار کیا تھا سر کو دھیرے سے ہلا کر اسنے اپنی ہتھیلی سیرت کی جانب بڑھائی 

"کیا کرنا چاہتے ہیں آپ مسٹر عسکری"

اپنی جانب بڑھی اسکی صبیح ہتھیلی کو سرسری نظروں سے دیکھ کر سیرت نے آئی برو اٹھاتے کر اسکی جانب دیکھا وہ سر کو خم دیکر مبہم سا مسکرایا تھا

"بولو نہ مسکرا کیوں رہے ہو"

 اسکی دل کو لبھا لینے والی مسکراہٹ دیکھ کر بےاختیار سیرت کے لبوں پر بھی ہلکی مسکراہٹ پھسلی تھی 

"اپنے سماجی مقام کو دیکھتے ہوئے میرے دس منٹ مانگنے چاہیے تھے آپکو مسٹر عسکری کیا یہ اہانت آمیز نہیں کہ آپکو میرے دس منٹ چاہیے"

سیرت نے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا استغنایت سے ہلکی مسکان کیساتھ شانے اُچکا کر اسنے اپنی ہتھیلی کی جانب دیکھا تھا سیرت نے پہلی بار اسکی طرزِ دل ربا مسکراہٹ دیکھی تھی جو ناجانے کیسے مگر سیرت کے دل کو لبھا گئی تھی

"کیا آپ میرے ساتھ ڈانس کریں مس سیرت"

اسنے مبہم مسکان کیساتھ دوبارہ استفسار کیا

سیرت نے متبسم نظروں سے اسے دیکھا تھا

"کیا یہاں پر"

سیرت نے دھیمے لہجے میں کہہ کر بالکنی کا جائزہ لیکر کہا اسنے دھیرے سے سر کو جنبش دی تھی سیرت کی مخفی تبسم کے سنگ اسکی سپید ہتھیلی میں اپنا خوبصورت ہاتھ رکھا 

"I walk in (yeah, you did)

Help you get up off that floor (come on)

You ain't gotta be alone no more (no more)

Just know, just know"

میوزک چلنا شروع ہوا سیرت نے متعجب نظروں سے چاند کی روشنی میں اسکا وجیہ چہرہ بےحد قریب سے دیکھا تھا کچھ ہی انچ کا فاصلہ دھیرے دھیرے کم ہو رہا تھا شائستگی سے سیرت کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھنے کے بعد سیرت کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا تھا کلاسک انگلش لرکس چل رہی تھی ہوا کے دوش پر بالکنی کی سفید ریشمی پردے انکے ساتھ دھیرے دھیرے محو رقص تھے 

You could put it all, put it all on me

Yeah, put it all, put it all on me

Yeah, put it all, put it all on me

And if you want to, tell me what you gon' do, yeah

And put it all on me

جذباتوں کے شعلوں کو بھڑکاتی ٹھنڈی تند و تیز ہوا ماحول کو فسوں خیز بنا رہی تھی اسکے بےحد قریب ہونے کا احساس ایک ان جانی آوارگی کی کیفیت پیدا کر رہا تھا اسکے بےحد قریب اس فسوں گر کی دلفریب نگاہوں کے حصار میں اسکے مظبوط بازوں کے حلقے میں اسکے کلون کی طلسمی مہک میں بغیر کسی غور و فکر کے وہ بس ڈوب رہی تھی اسکی تشنہ نگاہیں باریک لبوں کے کنارے پر جلوہ گر اس تِل کو وارفتگی سے دیکھ رہی تھی جو اس دیو مالائی شخص کو اپنا گرویدہ کرنے میں زرا بھی شرم محسوس نہیں کر رہا تھا

"میری مشکلات پہلے ہی بہت زیادہ ہیں سیرت اور  آج تم ان میں اضافہ کر رہی ہو"

لمبا سانس ہوا کے سپرد کرنے کے ساتھ سیرت کو اپنی جانب کھینچ کر وہ مخمور بوجھل لہجے میں بولا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر توازن برقرار رکھتی سیرت کے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ پھیلی تھی حدید کی بھوری آنکھوں میں جذباتوں کا طوفان برپا ہوا  

"جو شخص خود مشکلات میں مبتلا ہونے کا خواہش مند ہو اسے کوئی کیسے روک سکتا ہے عسکری"

سیرت نے بھنویں اٹھا کر استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھ کر کہا  سیرت کے لبوں کو باریکی سے دیکھتی اسکی بےدھڑک نظروں کو ان شگفتگیِ گل لبوں کی ہلکی حرکت نے چھیڑا حدید کی بھوری آنکھیں ذیک پراسرار چمک سے منور ہوئی

"گیٹ ریڈی"

سیرت کے کان کے قریب جھک کر اسنے خمارآلودہ لہجے میں سرگوشی کی سیرت نے حیرت سے اسے دیکھا تھا سلو ڈانسنگ کر درمیان سیرت نے اسکے دوسرے ہاتھ کو اپنی مرمریں کمر کی پیمائش کرتے دیکھا سرشاری کی لہریں سیرت کے پورے وجود میں دوڑ گئی حدید کے توانا بازؤں کے حصار میں سیرت کے وجود نے کانپنا شروع کیا

"عس۔۔عسکری"

اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو کمر پر رینگتا محسوس کر کے سیرت نے بوجھل لہجے میں کہہ کر آنکھیں میچی تھی اسکی گھنی پلکوں کا جھکنا اسنے سنجیدگی سے دیکھا تھا

"Yeah I'm Lost Without It

feels Like I'm Always Waiting

I need You To Come Get Me

Out Of My head and 

Into Your Arms"

"Tonight""

 یکلخت اسنے سیرت کو والٹز کے دوران اوپر اٹھایا تھا سیرت نے آنکھیں وا کی تھی ان دونوں پر گلاب کے پھولوں کی پتیوں کی برسات ہوئی سیرت نے اوپر کی جانب دیکھا تھا جہاں سے سرخ پتیاں گر رہی تھی

"تم واقعی غیر متوقع ہو"

آنکھیں بند کرتے ہوئے اسنے ٹھنڈی ہوا کی تھپکیوں کو محسوس کرتے دھیمے لہجے میں کہا تھا سیرت کے گلاب کی طرح کھلتے چہرے کو فریفتہ نگاہوں سے دیکھتا ہوا وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکے کندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر سیرت نے مسکراتے ہوئے تاروں بھرے آسمان کو دیکھا 

"اٹس بیوٹیفل"

آسمان کو رشک بھری نظروں سے دیکھ کر سیرت نے دھیمے لہجے میں کہا

"واقعی"

سیرت کی روشنی میں چمکتی آنکھوں کو دیکھ کر اسنے بےساختہ کہہ کر اسنے سیرت کو نیچے اتارا تھا جو چمک اسوقت سیرت کے چہرے پر تھی وہ آسمان پر چمکتے چاند سے بھی زیادہ تھی سیرت کی سیاہ آنکھوں میں چمکتے چاند کے عکس کو وہ دیکھتا رہ گیا پھولی سانسوں کے بیچ وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی نظروں کا تکرار شدید تھا اس بار سیرت نے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز نہیں کیا تھا سیاہ آنکھوں کی توجہ حاصل کرنے کے بعد اسکا ضبط ٹوٹا 

"میں ایسے ہی تمھیں چاندنی نہیں کہتا سیرت"

اسکے پیل ریڈ لپ اسٹک میں سجے باریک ہونٹوں کو پراسرار نگاہوں سے دیکھتا وہ بےحد بھاری لہجہ میں گویا ہوا بالوں سے ایئرنگ کو آزاد کرتی سیرت کا ہاتھ ساکت ہوا نظریں اٹھا کر اسنے اسکی ماہ تاباں سمندر جیسی گہری آنکھوں کو دیکھا جن میں جذباتوں کا افسانہ پیش کرتی تیز لہریں پیدا ہو رہی تھی سیرت کا چہرہ سرخ پڑا اسکا حد سے زیادہ بھاری لہجہ کسی انہونی کی طرف اشارہ کر رہا تھا اسے اپنی جانب قدم بڑھاتے دیکھ کر وہ جلدی سے بالکنی کے دروازے کی سمت بڑھی تھی اپنے پیچھے اٹھتے بھاری آہٹ پیدا کرتے قدم سیرت کی دھڑکنیں منتشر کر رہے تھے

"میرے دس منٹ ختم نہیں ہوئے سیرت"

اپنے عقب سے آتی جذبات سے چور پرحدت بھاری گمبھیر آواز سیرت کی پھولی سانسوں کو روک رہی تھی ہال وے میں پہنچ کر اسنے لمبا سانس لیا تھا

" فکر مت کرو تمھارے دس منٹ ابھی ختم ہو جائیں گے عسکری"

لبوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراہٹ بھانپتے ہوئے تضحیک آمیز لہجے میں کہہ کر وہ ہال کی جانب بھاگی تھی 

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"Yeah I'm Lost Without It

feels Like I'm Always Waiting

I need You To Come Get Me

Out Of My head and 

Into Your Arms"

"Tonight""

-"Tonight"-

Into Your Arms 

        By (Witt Lowry)

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

سبک رفتار دھڑکنوں کے ساز پر محوِ رقص تیز اکھڑتی بےترتیب سانسوں کے بیچ اسنے مڑ کر پیچھے ہال وے میں دیکھا ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا سینے پر ہاتھ رکھ کر لمبے سانس لیتی وہ متبسم نظروں سے آس پاس دیکھ رہی تھی دل بےتاب کسی صورت تسکین سے ہم کنار نہیں ہو رہا تھا سانسیں تھی جو ہر گزرتے لمحے کیساتھ تیز ہو رہی تھی ہوا کی ٹھنڈی تھپکی پر وہ ساکت ہوئی براؤن سلکی بالوں نے اسکے حسیں نقوش چہرے کو ایک پل کے لئے چھوا اور پھر دوبارہ محدود ہو کر رہ گئے اسکے کلون کی طلسمی مہک سیرت کی سانسوں میں گھلنا شروع ہوئی دھڑکنوں نے اسپیڈ پکڑی چہرے پر بکھرتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا کر وہ ورسٹ پر بندھی نفیس واچ پر ٹائم دیکھ کر مسکراتے ہوئے تیزی سے ایک جانب بھاگی یہ ہوٹل کا سنسان پورشن تھا ہال وے سے نکل کر وہ باہر گارڈن میں آئی تھی جہاں روشنی کی مقدار دوسرے حصوں کی نسبت کم تھی 

سیرت نے تذبذب نظروں سے آس پاس دیکھا تھا یہ ہوٹل کا بیک ونگ تھا جہاں پرانا سامان رکھا گیا تھا فرش زمرد پر بکھرے خزاں رسیدہ پتوں پر چلنے کی آہٹ پیدا ہوئی سیرت کا اعتدال میں آتا دل تیزی سے دھڑکا ایک مخفی مسکراہٹ نے سیرت کی جانب بڑھتے اس قوی ہیکل شخص کی دلفریب تراشیدہ بیئرڈ میں بیئرڈ میں سجے لبوں کو چھوا 

"سیرت"

اسکی جذبات کی آنچ سے الاؤ بنی پرتپش سانسوں نے سیرت کی گردن کو جھلسایا جھرجھری لیکر سیرت نے آنکھیں میچی اسکی مردانہ وضع داری سے بھرپور انگلیوں نے سیرت کے کندھے سے اسکی کلائی تک رینگتے ہوئے سفر کیا

"اب بتاؤ موقع پرست کون ہے تم یا میں"

سیرت کے کان کی لو کو لبوں سے چھو کر وہ اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے سینے کے قریب کرتا گمبھیر پرتپش لہجے میں بولا

"تم ہو موقع پرست"

سیرت نے بےترتیب سانسوں کے درمیان اپنی ساڑھی کی وائسٹ بیلٹ پر اسکے ہاتھ پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھتے ہوئے اسے مزید آگے بڑھنے سے قبل روک کر مخمور لہجے میں کہا پراسرار متبسم کیساتھ اسنے سیرت کی باریک انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائی

"ایسے کھیل شروع ہی کیوں کرتی ہو جن کے ختم ہونے تک تمھاری حالت غیر متوازن ہو جائے میرے سات منٹ باقی ہیں سیرت اور ان سات منٹوں میں تمھاری حالت غیر ہونے والی ہے "

اسکی انگلیوں کو دباتے ہوئے حدید نے ایک قدم آگے بڑھا کر ایک انچ کا فاصلہ طے کرتے ہوئے کہا اسکی جانب پلٹتی سیرت اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے لبوں پر جھکنے سے باز رکھتی مسکرائی اپنے سینے پر مقیم اسکے ہاتھ کو سنجیدہ نگاہوں سے دیکھ کر اسنے سیرت کو طلبگار نگاہوں سے دیکھا

"تم جانتے بھی ہو کیا کر رہے ہو تم"

ایک آئی برو اٹھا کر وہ عیاری سے بولی سیرت کا بےدھڑک لہجہ اسکی جذباتوں کو مزید سلگا گیا کتنی سہل سے اسنے اسکے دل پر بجلیاں گرائی تھی

"کتنی مکار ہو تم مگر افسوس کہ یہ مکاری میرے سامنے نہیں چلے گی جو حاصل کرنے آیا ہوں وہ ہرصورت حاصل کر کے ہی جاؤں گا سیرت عسکری تم چاہو یا نہ چاہو پہلے ہی مجھے اجازت دیکر بہت بڑی غلطی کر چکی ہو تم"

اسکے ہاتھ کو سفاکیت سے ہٹاتا ہوا اسکی کلائی کو آہنی گرفت میں لیکر اسے اپنی چوڑے سینے سے لگاتا وہ جھلسا دینے والے لہجے میں بولا اسکے کسرتی بدن سے سرائیت کرتی حرارت نے سیرت کے سردی کے باعث لرزتے وجود کو تسکین پہنچائی تھی

"کیا کہتی ہو جو کچھ تم نے شروع کیا اسے ایک سبق آموز واقعہ کیساتھ اینڈ کر دیا جائے"

سیرت کے چہرے سے آوارہ زلفوں کی نرم لٹوں کو اپنی انگشتِ شہادت پر لپیٹتا وہ آتشی لہجے میں بولا سیرت نے نچلا لب کاٹتے ہوئے اسے تذبذب نظروں سے دیکھا اسکی پراسرار چمک سے منور سحرانگیز آنکھوں نے سیرت کی آنکھوں کو فریفتگی سے دیکھا سیرت نے اسکی گرم انگلیوں کو اپنے کان کے راستے سے اسکے سلکی بالوں میں رسائی حاصل کرتے محسوس کیا

"Can i kiss you"

اسکے بےدھڑک لہجے پر سیرت نے حلق تر کیا اسکی استفہامیہ بھوری آنکھیں سیرت کے چہرے پر رضامندی کا کوئی ایک تاثر تلاش رہی تھی سیرت نے سختی سے لب بھینچے وہ سنجیدگی سے اسکی خمار سے بند ہوتی سیاہ آنکھوں کو دیکھتا اسکے چہرے پر مزید جھکا 

"عسکری"

"جسٹ سے یس"

سیرت کے نچلے لب کو انگوٹھے سے سہلاتا وہ فسوں گر سحر انگیز لہجے میں بولا سیرت کی تیز رفتار دھڑکنیں کسی صورت تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی سانسوں میں اسکے کلون کی مہک کیساتھ سرائیت کرتی بےترتیبی اسکے جذباتوں کی آتش کو بھڑکانے کیساتھ ساتھ سیرت  کا سبب بننے لگی وہ عرصے سے پیاسے جانور کی طرح اسکے لبوں پر جھکا سیرت نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ کر بغیر غور وفکر کے ایک قدم پیچھے لیا ضبط سے مٹھیاں بھینچے اسنے ایک قدم سیرت کی جانب اٹھایا سیرت نے لب وا کرتے ہوئے اسکے سرخی مائل چہرے کو دیکھ کر ایک اور قدم پیچھے لیا تھا

" اب میرے ضبط کا امتحان لے رہی ہو تم"

بھوری آنکھوں میں لہو اترا وحشتناک لہجے میں کہہ کر وہ سیرت کی سمت تیز قدم اٹھائے

"ہا۔۔۔ہم ایسا نہیں کر سکتے"

سوکھے پتوں پر اسکے اٹھتے قدموں کی چاپ پر سیرت کا شدت سے دھڑکتا دل ڈوبنے لگا اسکی آنکھوں میں پرامید نگاہوں سے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی اسکے بےحد قریب آنے پر سیرت پام-ٹری کے ٹھنڈے کھردرے تنے سے لگی

"یہ ۔۔یہ غلط پے عسکری"

 درخت کی کھردری چھال نے اسکی کمر پر خراشیں ڈالی تھی آنکھیں سختی سے میچ کر وہ سسکی تھی اسکے قریب کھردرے تنے پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکا سہما چہرا دیکھ رہا تھا

"میرے نکاح میں ہو تم سیرت کچھ غلط نہیں ہے اس میں"

سیرت نے ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھا جو اسکے بےحد قریب ہونے کے باوجود اسے چھونے سے پہلے اسکی رضامندی حاصل کرنا چاہتا تھا

" میں تم سے طلاق لے لوں گی عرش کے ختم ہوتے ہی"

سیرت نے یکلخت خشک ہوتے حلق کو تر کر کے اسے اپنے ارادوں سے باور کروایا تھا اسکی درخشندہ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا مٹھی بھینچ کر اسنے سختی سے سیرت کے قریب کھردرے تنے پر رکھی 

 "تمہاری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں اگلی بار اس لفظ کا استعمال بھی کیا تو جان لے لوں گا اور ایسی جگہ دفنا کر آؤں گا کہ قیامت تک کسی کو نہیں ملو گی جس دن مجھ سے دور جانے کا سوچا بھی تم نے سیرت وہ دن تمھاری ذندگی کا آخری دن ہو گا آئی سوئیر"

بھوری خشم آلود آنکھوں کو اسکی سیاہ آنکھوں میں گاڑھے اسکے کندھے میں انگلیاں پیوست کئے وہ جبڑے بھینچے پرُاشتعال لہجے میں بولا سیرت نے سرسری نظروں سے اس زود خشم شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں اسوقت اپنا رنگ پوری طرح بدل چکی تھی سفاکیت لٹاتی لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھ کر اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹاتا ہوا وہ سبک رو قدموں کیساتھ وہاں سے واک آؤٹ کر گیا سیرت نے تاسف بھری نظروں سے اسے مین ہال وے میں داخل ہوتے دیکھا تھا

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"کسے دیکھ رہے ہو اتنے وقت سے"

بلیک سٹریپ سلیو لیس بلیک ڈریس میں نظریں جذب کرتی سونیا نے عرش کے قریب رکتے ہوئے پوچھا جو ناجانے کتنے وقت سے سیرت کو ہی دیکھ رہا تھا کافی دیر بھی عرش کا جواب نہ پاکر سونیا نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تھا جہاں وہ سرد نظروں سے فون کی سکرین کو دیکھ رہی تھی 

"سیریئسلی تم سیرت کو دیکھ رہے ہو"

سونیا کی پیشانی پر بل پڑے

"کیا غلط ہے اسے دیکھنے میں دیکھو اتنی خوبصورت تو ہے"

ٹیکویلا کا شاٹ ختم کرتے ہوئے وہ سیرت کو سر تا پا دلچسپ نگاہوں سے دیکھ کر  شوخ لہجے میں بولا سونیا نے ڈارک مہرون لپ اسٹک میں سجے ہونٹوں کو اکتاہٹ سے سکیڑا تھا 

"میں سوچ رہا تھا سیرت سے معافی مانگ کر شادی کر لیتا ہوں"

سونیا نے اچھنبے سے اسے دیکھا عرش کی نظریں اب بھی سیرت پر تھی سونیا برہمی سے عرش کے سامنے آئی تھی جس کے نتیجے میں عرش نے ناگواری سے اسے دیکھا کیونکہ وہ اسکے اور سیرت کے عین درمیان میں کھڑی ہوئی تھی

"تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے تم سیرت سے شادی کرنا چاہتے ہو تم نے خود کہا تھا تم نے"

عرش گلاس کاؤنٹر پر رکھ کر پرُاشتعال آنکھوں سے سونیا کی کلائی پکڑتا اسے ایک جانب کھینچ لایا تھا 

"تم پاگل ہو چکے ہو"

سونیا نے تنک کر اپنا بازو اسکے ہاتھ سے نکالا تھا عرش نے پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلا کر سونیا کو دیکھا جو اسکے سیرت کو خوبصورت کہنے کے بعد سے آگ اگلنے کو تیار تھی

" جہاں تک میں اسے جانتا ہوں وہ خود سے اس گناہ کا دھبہ ہٹانے کے لئے تڑپ رہی ہو گی میں سیرت سے معافی مانگ لیتا ہوں اتنی خوبصورت چیز کو کون نہیں پانا چاہے گا یارر"

عرش نے اپنے کندھے سے سر گھما کر سیرت کی جانب دیکھ کر پراسرار لہجے میں کہا سونیا نے آنکھیں سکیڑی تھی اچانک عرش کا ایسا رویہ اختیار کر جانا سونیا سے ہضم نہیں ہو رہا تھا وہ مسلسل اسے گھور رہی تھی

"تم سچ میں سیرت سے شادی کرو گے"

سونیا نے تشویش سے پوچھا 

"حرج ہی کیا ہے مجھے شاید اس سے پھر سے محبت ہو گئی ہے پہلے سے بہت خوبصورت ہو گئی ہے دیکھو تو میں تو روز چھونا چاہتا ہوں اسے"

عرش ہنس پڑا تھا سونیا نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تھا سیرت کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال ہونا اسکے لئے باعثِ مسرت تھا ایک لڑکی ہو کے حسد کے باعث وہ دوسری لڑکی کے کردار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے دیکھنے سے زرا بھی گریزاں نہیں تھی اسکے لئے تو سیرت کی تذلیل باعثِ تسکین ہو گئی تھی

''ٹھیک ہے کرلو شادی اپنی سیرت سے بھلا مجھے کیا اعتراض ہو گا اسی بہانے عسکری سیرت سے دور ہو جائے گا"

بالوں کو ایک ادا سے جھٹک کر وہ کاؤنٹر سے گفٹ اٹھا کر حدید کی جانب بڑھی تھی عرش نے بار کاؤنٹر سے تیسرا ٹیکویلا کا شاٹ اٹھایا تھا اور سیرت کو دیکھتے ہوئے ایک ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے لگا 

"ہیپی برتھ ڈے ہینڈسم"

سیرت  اپنے پیچھے سے آتی سونیا کی مَلتجیانہ آواز پر بےساختہ مڑی تھی حدید کو گلے لگاتے ہوئے وہ پرمُسرت لہجے میں اسے مبارکباد اور گفٹ دیتے ہوئے مخاطب ہوئی سیرت نے ناگواری سے اسے رضا کو گلے لگاتے دیکھ کر سینے پر بازؤں کو لپیٹا تھا حدید سیرت کو سپاٹ نظروں سے دیکھ کر سونیا کی جانب دیکھتا مبہم سا مسکرایا  سونیا نے مڑ کر سیرت کو دیکھا جو سیرت کے تن بدن میں آگ لگا گئی

"حد ہے مجھے کیوں برا لگ رہا ہے وہ بھلا جو مرضی کرے"

نظریں چرا کر وہ دھیمے بددل لہجے میں خود سے بڑبڑائی تھی مگر آنکھوں میں نظر آتی چبھن کچھ فاصلے پر اپنے بزنس کولیگز سے گفتگو کرتے حدید سے چھپ نہیں پائی تھی 

"ایکس کیوز می مس کین آئی بائے یو آ ڈرنک"

اپنے عقب سے آتی مردانہ آواز پر وہ پیچھے مڑی تھی ایک خوش پوش برطانوی شخص جو کافی ڈیسینٹ لگ رہا تھا اسکی توجہ حاصل کرتے ہی مسکرایا تھا سیرت نے درزدیدہ نگاہوں سے حدید کو دیکھا جس کی آنکھوں میں ناگواریت اور اشتعال کے تاثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے سیرت کے لب مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے 

"وائے ناٹ"

اس شخص کی جانب مکمل طور پر مڑتی وہ مسکرا کر خوشگوار لہجے میں بولی حدید نے سنجیدگی سے انہیں بار کاؤنٹر کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا اسنے اپنے اور سیرت کے لئے گولڈن گرین کے دو شاٹس آرڈر کئے سیرت کاؤنٹر سے گلاس اٹھاتے ہوئے زرا ہچکچائی کیونکہ گالوڈن گرین 100٪ الکوہلک ڈرنک تھی اور آج تک اسنے ڈرنک کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا

"کیا ہوا مائی لیڈی"

سیرت نے لبوں کو بھینچ کر ہلکی مسکراہٹ کیساتھ سر ہلا کر اس شخص کو مطمئن کیا جو پہلے ہی گھونٹ میں آدھا گلاس ختم کر گیا سیرت نے استغنایت سے حدید کی جانب دیکھا تھا جو اپنے بزنس پارٹنرز کیساتھ سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہوئے اسے اگنور کر رہا تھا 

"گو ٹو ہیل"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر نظریں ہٹانے کے بعد آنکھیں سکیڑ کر سیرت نے گلاس کو لبوں سے لگایا تھا اس سے پہلے حدید رضا عسکری کے قدم انکی جانب اٹھتے عرش جباری وہاں آ پہنچا تھا حدید کی پیشانی پر دو لکیریں ابھری سیرت کے ہاتھ سے ڈرنک کا گلاس لیکر عرش نے کاؤنٹر پر پٹخنے کے انداز میں رکھا سیرت نے مٹھی بھینچ کر پرُاشتعال نظروں سے اسے دیکھا

"یہ کیا بدتمیزی ہے"

وہ برطانوی شخص اہانت آمیز نظروں سے عرش کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے بولا سیرت کی متفکر نظریں کبھی عرش کو تو کبھی اس برطانوی شخص کو دیکھ رہی تھی

" مسٹر الیگزینڈر آواز نیچے یہ لو اور یہاں سے چلتے بنو"

عرش نے غصیلی نظروں سے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے کچھ کیش نکال کر اس برطانوی شخص کے ہاتھ کو پکڑ کر تھمایا تھا جس سے اسنے ڈرنک پرچیز کی تھی چہرے پر چھلکتے تذلیل کے تاثرات چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ برطانوی شخص وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا سیرت نے نفرت سے عرش کو دیکھ کر وہاں سے جانے کے لئے قدم اٹھائے

" سیرت میری بات سنو"

سیرت کی جانب پلٹتا وہ اسکی راہ میں حائل ہوا سیرت نے جھنجھلا کر اسے دیکھا تھا دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں سختی سے بھینچنے کے باعث سیرت کے نوکیلے ناخن اسکی اپنی ہی ہتھیلیوں کو کاٹنے لگے قدموں کی آہٹ سن کر عرش نے خود کو کچھ بھی کہنے سے روکا سونیا مسکراتے ہوئے کچھ کہنے کی غرض سے حدید کی جانب پلٹی مگر اسے حیرت ہوئی جب اسنے اسے سیرت اور عرش کے قریب دیکھا آتش لٹاتی نگاہوں سے عرش کو دیکھتے ہوئے اسنے اسکی آنکھوں کے سامنے سیرت کے ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھ سے ڈھانپا تھا سیرت نے کچھ کہنے کے لئے لب وا کئے تھے مگر  عرش کو سفاک نگاہوں سے دیکھنے کے بعد وہ ایک تضحیک آمیز مسکراہٹ عرش کی جانب اچھالتا سیرت کو اپنے ساتھ لے گیا تھا سیرت نے مڑ کر عرش کا پرُاشتعال سرخی مائل چہرا دیکھا تھا سونیا نے التہابی نگاہوں سے اسے سیرت کو اپنے بزنس کولیگز سے انٹروڈیوس کرواتے ہوئے دیکھا

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کیک کاٹا جا چکا تھا مگر سیرت کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی اپنے بزنس پارٹنرز اور میڈیا سے بڑی مشکل کے بعد گردن بچا کر وہ اسے ڈھنوڈنے نکل پڑا تھا جب سے اسنے سیرت کو عرش کیساتھ دیکھا تھا تب سے اسکا پارہ چڑھا ہوا تھا اور اب سیرت کا اچانک غائب ہو جانا اسکی پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا 

"ہاہاہا"

اسکے کانوں میں سیرت کی پرجوش آواز گونجی وہ سنجیدگی سے آواز کی سمت سبک رو قدموں سے بڑھا تھا اسے پول کر کنارے پر پانی میں پیر مارتے ہوئے ہنستے ہوئے دیکھ کر وہ ساکت ہوا تھا ساڑھی کو پنڈلیوں تک دونوں ہاتھوں میں اوپر کئے وہ بچوں کی طرح کھلکھلا رہی تھی 

"یہ کیا کر رہی ہو تم"

پیشانی پر بل ڈالے وہ اسکے قریب رکتا سنجیدگی سے بولا سیرت نے منہ کا زاویہ بگاڑ کر اسے دیکھا تھا حدید نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا تھا اسکے ہاتھ سے اپنا بازو نکالتی وہ ناک سکیڑ کر اسے دیکھنے لگی 

"دور رہو بولا تھا نہ ہاتھ مت لگانا"

اسکی جانب انگلی اٹھا کر کاٹدار لہجے میں کہتی وہ اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے خود ہی ہنس پڑی تھی سیرت کی کلائی پکڑ کر اسنے اسکی پیشانی پر ہاتھ کی پشت سے ٹمپریچر چیک کیا سیرت نے بھنویں اٹھا کر اسے دیکھا

"واٹ دا ہیل تم نے شراب پی ہے سیرت"

سیرت کے منہ سے آتی شراب کی سمیل پر اسنے پرُاشتعال آنکھوں سے سیرت کو دیکھا جو معصومیت سے سر کو نفی ہلاتے ہوئے اپنے فون کی جانب بڑھی جس کی رنگ ٹون بجنا شروع ہوئی تھی 

"ہیلووووو"

کال کنیکٹ کرنے کے بجائے منقطع کرتے ہوئے وہ متبسم لہجے میں فون کان سے لگاتی بولی حدید نے دو انگلیوں سے پیشانی کو افسوس کے طور پر سہلایا تھا فون کو لب بھینچ کر دیکھنے کے بعد اسنے اسے پول میں پھینکنا چاہا

"ڈیم اٹ تم چلو یہاں سے فلحال"

اسکے ہاتھ سے فون لیکر اسے ساتھ گھسیٹتے ہوئے وہ تاسف بھرے لہجے میں بولا سیرت نے بھنویں سکیڑ کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی

"سڑیل کہیں کے جہنم میں جاؤ چھوڑو مجھے"

اسکے ہاتھ لی پشت پر اپنے نوکیلے ناخن چبھو کر وہ بپھر کر بولی تھی افسوس سے سر جھٹک کر وہ اسے ساتھ گھسیٹتا ہوا میڈیا کی توجہ سے اسے بچاتے ہوئے اپنی گاڑی تک لایا 

"میں نے کیک نہیں کھایا مجھے کیک لیکر دو پہلے"

سیرت نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر تنک کر کہا فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھول کر اسے سیٹ پر بٹھا کر سیٹ بیلٹ لگاتا وہ کاٹدار نظروں سے اسے دیکھ گیا

"ایک لفظ اور نہیں ورنہ ٹیپ لگا دوں گا ان ہونٹوں پر"

آتشی نظروں سے سیرت کو دیکھ کر گیٹ بند کرتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کی سیرت نے سیٹ بیلٹ کو ہٹاتے ہوئے دانت پیسے تھے

"کدھر لیکر جا رہے ہو تم مجھے"

ونڈو سے باہر دیکھتی سیرت نے مڑ کر اسکی جانب دیکھ کر معصومیت سے پوچھا گیئر شفٹ بدلتے ہوئے وہ ساکت ہوا اسکی گود میں پیر پھیلا کر وہ مسکرائی تھی سیرت کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھ کر اسنے اپنی گود میں پڑے اسکے پیروں کو دیکھا

"یہ بہت جبھ رہا ہے"

اپنے شوز کی جانب اشارہ کر کے وہ لہجے میں ڈھیروں معصومیت سموئے بولی سرد آہ بھر کر اسنے گاڑی کی اسپیڈ کم کی اور ایک ہاتھ سے اسکے شوز کی زپ کھولنے لگا سیرت نے مسکراتے ہوئے اسکی پرخم پلکوں کو دیکھا جو جھکی ہونے کے باعث بےحد خوبصورت لگ رہی تھی اسکے پیر کو شوز سے آزاد کر کے اسنے دوسرے شوز کی زپ کھولنا شروع کی 

"ویسے تم کافی ہینڈسم ہو"

سیرت نے نچلا لب دبا کر دھیمے لہجے میں کہا بھوری درخشاں آنکھوں نے ایک پل کے لئے سیرت کو دیکھا اور پھر سر جھٹک کر وہ اسکے پیر سے شوز نکال کر ہاتھ اسٹیرنگ ویل پر رکھ گیا

"کیا میں ایسے سو جاؤں مجھے نیند آ رہی ہے"

سیرت نے آئی برو اٹھا کر پوچھا لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے اسنے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا سیٹ سے سر ٹکا کر وہ آنکھیں موند گئی تھی

رات کا آخری پہر تھا مگر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی پچھلے دو گھنٹوں سے وہ جاگ رہی تھی منجمند آنکھیں کھڑکی کے قریب ہوا کے زور پر سفید ریشمی پردوں کو جھومتے ہوئے دیکھ رہی تھی شدید سردی میں بھی اسکی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ابھری ہوئی تھی کمرے میں لائٹس آف ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا

بلینکٹ ہٹا کر وہ پاس پڑے دوپٹے کو اٹھا کر گلے میں ڈالتے ہوئے بیڈ سے اتر کر کھڑکی کے پاس آئی تھی آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جھرجھری لیکر سینے پر بازو پھیلا کر اسنے گارڈن کی جانب دیکھا اچانک اسے گارڈن کی دیوار پر ایک بڑا سا سایہ ابھرتا ہوا نظر آیا چیخنے سے قبل کانپتے ہوئے ہاتھ کو اسنے لبوں پر رکھا ہر طرف سیاہ قوی ہیکل سائے امنڈنا شروع ہوئے اسکا سر گھومنے لگا متزلزل سانسوں کے بیچ وہ بوکھلا کر الٹے قدم پیچھے ہٹنے لگی پردے کر ہلنے کے ساتھ ہی وہ ڈر کر پیچھے بھاگی تھی 

"ذذ۔۔۔ذاویان ۔۔۔ اٹھیں ۔۔۔ وہ۔۔۔وہاں ۔۔۔وہاں کوئی ہے"

اسکا کندھا جھنجھوڑ کر وہ خوفزدہ نظروں سے کھڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے سٹپٹا کر بولی پژمردہ آنکھوں سے اسے دیکھ کر وہ بلینکٹ ہٹاتا اٹھا خوف سے اکھڑتی سانسوں کے بیچ وہ اسکے چوڑے سینے سے لگ کر سسکی لیکر رہ گئی 

"لمظ"

اسنے آہستگی سے اسکے بالوں کو سہلا کر دھیمے مہر آمیز لہجے میں کہا تھا اسکے نرم لہجے پر آئیذل کی منجمند آنکھوں میں آنسوں جمع ہوئے تھے اسکے بلیک روب کو مٹھی میں بھینچ کر وہ نفی میں سر ہلا کر آنکھیں میچ گئی 

"لمظ کیا ہوا "

اسکے تھرتھراتے وجود کو اپنے مظبوط بازؤں کے حصار میں لئے وہ فکرمندی سے اسے پچکارنے لگا مگر وہ تو مسلسل کانپ رہی تھی حلق بےحد خشک ہو چکا تھا یہاں تک کہ حلق میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے جن کے باعث وہ بولنے میں مشکل کا سامنا کر رہی تھی

"وہاں۔۔۔ وہاں شیڈو ہیں بب۔۔۔بہت ساری وہ۔۔۔ وہ گارڈن سے پورے گھر میں پھیل رہی تھی اور ۔۔۔ اور ایک۔۔۔ ایک یہاں بھی آئی تھی۔۔۔ اسنے۔۔۔ یہ۔۔۔یہ۔پردہ بھی ہلایا تھا ۔۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔ میرا یقین کریں ۔۔۔ میں نے خود دیکھا"

پردے کی سمت اشارہ کر کے وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں بتانے لگی ذاویان نے سرد آہ بھر کر اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کی لٹوں کو سمیٹا مگر وہ ڈرتے ہوئے دوبارہ پیچھے دیکھنے لگی خوف کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا

"آپ نے برا خواب دیکھا ہو گا لمظ دیکھیں وہاں کچھ بھی نہیں ہے"

اسکی سنہری آنکھوں میں آئیذل نے تاسف سے دیکھا تھا مگر جو کچھ اسنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ سب کوئی خواب نہیں تھا نہ ہی وہ نیند میں تھی اسنے حوش و حواس میں وہ سب دیکھا تھا جو اسکے ذہن میں برے خیال کی طرح گھر کر بیٹھا تھا اور اب اسے خوفزدہ کرنے کا باعث بن رہا تھا

"میں سچ کہہ رہی ہوں"

اسے برہمی سے دیکھ کر وہ اسکے ہاتھ کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے خفا لہجے میں بولی لمبا سانس ہوا کے سپرد کرنے کیساتھ ذاویان نے اسکا ہاتھ تھاما تھا اور اسے لیکر کھڑکی کی جانب بڑھا تھا آئیذل دھیمے سہمے قدموں کیساتھ اسکے پیچھے چل دی تھی

"کچھ بھی نہیں ہے وہاں"

پردہ ہٹا کر وہ سنجیدگی سے بولا آئیذل نے لب بھینچ کر گارڈن میں نظریں دوڑائی تھی جہاں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا ذاویان نے افسردگی سے اسکے بجھے بجھے چہرے کو دیکھا اسکی نظریں اب بھی گارڈن میں کسی شے کو تلاش رہی تھی 

"سوری میں نے آپکی نیند خراب کر دی"

ذاویان کی جانب دیکھ کر وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے متذبذب لہجےمیں بولی ذاویان  اسکا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ کے کنارے پر بٹھا کر اسکے لئے گلاس میں پانی ڈالنے لگا بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا کر وہ خجلت سے فرش کو گھور رہی تھی پانی کا گلاس کانپتے ہاتھ سے لیکر اسنے لبوں سے لگایا ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی غیر ہوتی حالت دیکھی پیشانی عرق آلود تھی آنکھوں میں خوف تھا جسم اب تک دھیرے دھیرے تھرتھرا رہا تھا

"سو جائیں بےبی گرل وہاں کچھ بھی نہیں ہے"

آئیذل کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیکر نائٹ سٹینڈ پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا لب بھینچ کر وہ اٹھی اور اپنی سائڈ پر لیٹ گئی آہستگی سے اسنے خود پر بلینکٹ درست کرتے ذاویان کا ہاتھ تھاما ذاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"مجھے آپکو اس طرح نہیں جگانا چاہیے تھا سوری مجھے معاف کردیں میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی میری وجہ سے آپکی نیند بھی خراب ہو گئی"

ذاویان نے تاسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا وہ اب تک سہمی ہوئی تھی ہاتھ بڑھا کر وہ اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں سہلاتے ہوئے اسکے قریب بیڈ کے کنارے پر بیٹھا آئیذل نے افسردگی سے اسکی گہری نیند سے جاگ جانے کے باعث سرخی مائل آنکھوں کو دیکھا

"آپ کسی بھی وقت مجھے جگا سکتی ہیں بےبی گرل میں کبھی بھی مائنڈ نہیں کروں گا لیکن اگر آپ مجھے اپنی پریشانی نہیں بتائیں گی تو مجھے افسوس ہو گا"

آئیذل نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر سر کو دھیرے سے ہلایا آئیذل پر بلینکٹ اوڑھا کر وہ پیشانی سہلاتا ہوا اپنی جگہ پر آ کر لیٹ گیا تھا آئیذل نے ڈبڈبی نظروں سے کھڑکی کی جانب دیکھا جہاں پردا مسلسل حرکت رہا تھا حلق تر کرتے ہوئے وہ ذاویان کی طرف کھسک گئی تھی  سونے کے لئے پلو درست کرتے ہوئے اسنے آئیذل کی جانب دیکھا جو تذبذب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی

"وہ مجھے ڈر لگ رہا ہے"

شرمندگی سے نظریں بچا کر آئیذل نے لب بھینچے اسکے قریب ہو کر اسنے آہستگی سے آئیذل کا سر اپنے بازو پر رکھا آئیذل کی دھڑکنیں ایک پل کو تیز ہوئی اسکے کلون کی ہلکی مہک آئیذل کی سانسوں میں گھلنے لگی

"افسوس میری لمظ ابھی تک بڑی نہیں ہوئی"

دھیمے لہجے میں کہہ کر اسنے آئیذل کے سلکی بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے مسکرا کر کہا ہلکی مسکان کیساتھ آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ اسکی ٹھنڈی انگلیوں کے طمانیت بخش لمس پر پرسکون ہوتی چلی گئی 

" آپکو پتا ہے جب مجھے نیند نہیں آتی تھی نانو جان بھی میرے پاس بیٹھ کر ایسے ہی میرے بالوں کو سہلایا کرتی تھی"

آنکھیں موندے وہ دھیمے پرسکون لہجے میں بولی تھی ذاویان نے بخوبی اسکی آواز میں کرب اور تکلیف کی شدت محسوس کی انفال بی بی کی موت نے اس لڑکی کے دل کو اس قدر بری طرح گھائل کیا تھا کہ زخم ناسور بن چکے تھے جو گزرے لمحات کو یاد کرنے پر دوبارہ ہرے ہو جاتے تھے ذاویان نے سنجیدگی سے آئیذل کی جانب دیکھا وہ گہری نیند سو چکی تھی مبہم مسکان کیساتھ اسنے آئیذل پر بلینکٹ درست کی 

                                         -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"لالا آپکے لئے خط آیا ہے''

سنجیدگی سے فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے اشفاق صاحب نے نے سر اٹھا کر سیکیورٹی گارڈ کی جانب دیکھا جو خاکی رنگ لفافہ انکی ٹیبل پر رکھ رہا تھا

"کس نے بھیجا ہے"

 بھیجنے والے کا نام معلوم کرنے کی غرض سے لفافہ اٹھا کر پلٹتے ہوئے اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا کیونکہ لفافے پر بھیجنے والے کا نام درج نہیں تھا جس وجہ سے اشفاق صاحب کو تجسس ہوا

"پتا نہیں لالا جی بھیجنے والے نے نام نہیں لکھا صرف آپکا نام لکھا ہے"

سیکیورٹی گارڈ تصدیق کے بعد اشفاق صاحب کے کلینک سے باہر نکل چکا تھا اشفاق صاحب نے سرد نظروں سے لفافے کو دیکھتے ہوئے کھولنا شروع کیا

''کیسے ہیں آپ اشفاق احمد صاحب ؟؟

بڑے دن ہو گئے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی آپکی خدمت میں ایک چھوٹا سا نظرانہ پیش کر رہا ہوں امید ہے پسند آئے گا آپکو اور یہ نظرانہ آپکی بیوی کی خدمت میں بھی حاضر کرنا چاہتا ہوں اگر آپکی اجازت ہو"

"آپکا خیر خواہ"

"___"

 خط پڑھ کر ایک جانب رکھنے کے بعد اشفاق صاحب نے جلدی سے لفافے کو ٹٹولا تھا جس میں نے ایک فلیش ڈرائیو نکلی تھی جلدی سے لیپٹاپ کھول کر فلیش ڈرائیو لگاتے ہوئے انکی انگلیاں کیبورڈ پر چلنے لگی لیپٹاپ کی سکرین روشن ہوئی اشفاق صاحب کا چہرہ فق ہو چکا تھا یہ وہی لڑکی تھی جسکے ساتھ کچھ دن پہلے انہوں نے ہوٹل میں قیام کیا تھا اور شراب کے نشے میں چور ہو کر ماضی کی تمام تر باتیں اسکے حوالے کر دی تھی جن میں نازش بیگم کیساتھ کی گئی زیادتیوں کیساتھ ساتھ ہر اس چھوٹے بڑے گناہ کا زکر تھا جو انہوں نے اب تک کئے تھے 

"سر میٹنگ کا ٹائم ہو گیا ہے"

سیکریٹری کی آواز سن کر انہوں نے بوکھلا جر لیپٹاپ بند کیا سیکریٹری نے اچھنبے سے انک زردی مائل پڑتا چہرا دیکھا اشفاق صاحب نے مطمئن ہو کر سر ہلا کر سیکریٹری کو واپس بھیجا اور ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر ایک ہی بار میں پورا گلاس پی گئے

"کون ہے یہ شخص جو مجھے بلیک میل کر رہا ہے اگر مہر النساء تک یہ ویڈیو چلی گئی تو میری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا وہ جو مجھ پر اندھا بھروسہ کرتی ہے یہ ویڈیو دیکھ کر میرے خلاف ہو جائے گی اور ذاویان۔۔۔ وہ کوئی کسر نہیں چھوڑے گا"

چیئر سے سر ٹکا کر سرد آہ بھرنے کے بیچ بڑبڑا کر انہوں نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا 

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

کھڑکی سے اندر اتی سورج کی کرنوں نے اسے گہری نیند سے بیدار کیا تھا جلدی سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ایک لمحے کو ساکت ہوئی آنکھیں گھما کر دیکھنے پر اسکا چہرہ سرخ اناری ہوا اسکے سینے پر سر رکھے وہ اسکے مظبوط بازوں کے حصار میں تھی اپنے کندھے سے اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ ہچکچائی گہری نیند میں ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی اسکی پناہوں سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئی مگر اسکی پیشانی پر بکھرے لہردار سلکی بالوں کی لِٹوں کو دیکھ کر وہ اٹھتے ہوئے رکی تھی خمدار پلکوں نے سنہری دلفریب آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا ہلکی مسکان لبوں پر سجائے وہ اسکے چہرے پر جھکی شہادت کی انگلی کیساتھ اسکی پیشانی پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرنا شروع کیا

"افسوس میری لمظ ابھی تک بڑی نہیں ہوئی"

اسکی بات یاد آنے پر آئیذل کی مسکان اور گہری ہوئی کروٹ بدل کر اسنے آئیذل کو سینے سے لگایا تھا حیرت سے اسے گھورتی ہوئی وہ آہستگی سے اس کے بازوؤں سے نکلنے لگی آئیذل کے بالوں سے پھوٹتی ہلکی مہک کو سانسوں میں کھینچ کر وہ اسکے بالوں میں چہرہ چھپا گیا آئیذل کے حلق کے مقام پر گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی 

"کیا کر رہی تھی"

ذاویان کی نیند سے بوجھل بھاری گمبھیر سرگوشی پر آئیذل کا حلق یکلخت خشک ہوا متذبذب نظروں سے اسے خود پر جھکتے دیکھ کر وہ بیڈ میں دھنستی چلی گئی 

"وہ میں"

اسکی سنہری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ لب کاٹ کر بہانہ تلاشنے لگی مگر افسوس کہ اسے جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا اور ذاویان کے سامنے جھوٹ بولنا اس قدر مشکل تھا کہ اسکے چودہ طبق روشن ہونے لگتے تھے

"آپ ۔۔۔آپ بہت بھاری ہیں اٹھیں میرے اوپر سے"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر وہ تیکھے لب و لہجے میں بولی ذاویان کے لبوں پر ایک پرکشش مسکراہٹ پھیلی اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور ہٹاتی آئیذل اسکی ہلکی دلفریب بیرڈ میں مبذولِ نظر ڈمپل کے ظاہر ہونے پر ساکت ہوئی 

" آپ کل رات میرے اوپر سوئی رہی کیا میں نے کچھ کہا"

آئیذل کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا اسکے سرخ اناری چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھ کر وہ سرگوشیانہ لہجے میں بولا

"میں آپ سے چھوٹی ہوں میں آپ پر سو سکتی ہوں"

مسکراہٹ ضبط کرتی آئیذل والہانہ معصومیت سے بولی ذاویان نے متبسم نظروں سے اسکا شرم سے تمتماتا چہرا دیکھا جو اسکی نظریں ملنے پر مزید گلابی پڑا

"کتنی چھوٹی ہو یہ معلوم ہے"

ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولا آئیذل نے لب بھینچ کر شرمندگی سے اسے دیکھا اسکا بےحد قریب ہونا آئیذل کی حواس سلب رہا تھا

"مم۔۔مجھے نہیں پتا"

اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے وہ معصومیت سے بولی 

"مجھے کل رات ہی آپکو سب یاد دلا دینا چاہیے تھا لمظ یہ بھی کہ آپ مجھ سے گیارہ سال چھوٹی ہیں مائی بےبی گرل اور یہ بھی کہ ایک بیوی کے حقوق کیا ہوتے ہیں"

ذاویان کے لبوں نے آئیذل کے کان کی لو کو آہستگی سے چھوا ذاویان کی بھاری گمبھیر آواز نے آئیذل کے وجود میں سرشاری کی برقی لہریں پیدا کی تذبذب نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھتی وہ لب بھینچ گئی ذاویان نے سنجیدگی سے ہاتھ بڑھا کر اسکے لبوں کو آہستگی سے وا کیا 

"میرا برتھ ڈے گفٹ کہاں ہے لمظ"

آئیذل نے ڈبڈبی نظروں سے اس فسوں گر کو دیکھا

"کیا چاہیے آپکو"

آئیذل کی دھیمی سرگوشی کیساتھ ذاویان کی آنکھوں میں چمک ابھری ذاویان کی طلبگار نگاہوں نے اسکے لبوں کو فریفتگی سے دیکھا

"گیوو می آ ڈیپ لپ کس لمظ"

آئیذل کے چہرے پر جھولتی ریشمی بالوں کی آوارہ لِٹ کو انگلی پر لپیٹتا وہ بھاری بوجھل لہجے میں بولا 

"مم۔۔میں کیسے"

اسکی خواہش کا اظہار سن کر بےاختیار شرم و حیاء کے باعث آئیذل کی پلکوں نے لغزش کی ذاویان کے لبوں پر نظر پڑتے ہی آئیذل کی دھڑکنیں تیز ہوئی

"فکر مت کرو میں سکھا دیتا ہوں کہ اسے کیسے کرنا ہے"

آئیذل کے نچلے لب کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ پرتپش لہجے میں بولا آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے ڈبڈبی نظروں سے اسکے ہاتھوں کی مظبوط انگلیوں کو اپنی باریک انگلیوں سے الجھتے دیکھا 

"ذذ۔۔ذاویان"

تزلزل سانسوں کے درمیان آئیذل خود میں سمٹنے کیساتھ کشن پر سر رکھتے کر بوکھلائے ہوئے انداز میں بولی اسکے لبوں کو تشنہ نگاہوں سے دیکھتا ہوا وہ ایک پل کو ساکت ہوا آئیذل کے تھراتھرتے لبوں کیساتھ اسکے نازک وجود پر کپکپاہٹ طاری ہوئی

"ہرٹ نہیں کروں گا آئی پرومس جسٹ ڈونٹ بی سکیئرڈ"

 ذاویان کی جذبات کی آنچ پر بھاری پڑتی دلفریب آواز ،، اسکی مظبوط انگلیوں کی گزرتے سیکنڈ کیساتھ سخت پڑتی گرفت ،، الفاظ کا سرگوشیانہ انداز میں ہوتا تبادلہ آئیذل کی جان لبوں پر آئی سختی سے آنکھیں میچی اسنے!!

ذاویان کے لب شائستگی سے آئیذل کے لبوں سے مس ہوکر آخر کر سزاوار ہوئے آئیذل کا غیر اعتدالی سے دھڑکتا دل اس قدر نرم لمس پر دھڑکنا بھول گیا آئیذل کی انگلیوں کی گرفت ذاویان کی انگلیوں کے بیچ ڈھیلی پڑھنے لگی اسکے پرتپش لمس پر وہ پگھلنے لگی آنکھیں بند کئے وہ اسکی بھینی بھینی مہک کو اپنی سانسوں کو مہکاتا رہا پرسرور نگاہوں سے اسکا وجیہ چہرہ دیکھنے کے ساتھ وہ اسکے اس عمل میں اسکا ساتھ دینے لگی ماحول کی حدت اس قدر بڑھی کے دونوں کی پیشانیاں عرق آلود ہوئی تھی آئیذل کے فون کی رنگ ٹون نے دونوں کی توجہ مبذول کی آئیذل کے ہاتھوں کو آزادی حاصل ہونے پر جلدی سے بیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈال کر وہ نائٹ سٹینڈ پر پڑا فون اٹھا کر سکرین پر چمکتا ریحم کا نام دیکھ کر کال کنیکٹ کر گئی 

"آئیذل۔۔ آئیذل ۔۔ کیا تم ہاسپیٹل آ سکتی ہو چاچو کو "

ریحم کی بھرائی ہوئی کرب ذدہ آواز پر آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا

"چاچو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور"

"کک۔۔۔ کیا"

آئیذل کا حلق یکلخت خشک پڑا چہرے سے عیاں ہوتے خوف اور فکرمندی کے ملے جلے تاثرات ذاویان نے سنجیدگی سے دیکھے 

"تم تم جلدی سے سٹی ہاسپیٹل آ جاؤ میں سب بتاتی ہوں"

 آئیذل کو گہرے صدمے میں ڈال کر کال منقطع ہو گئی تھی

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"ناذیہ ذاویان اور آئیذل کو بھی بلا دو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے"

مہر النساء بیگم نے چیئر کھینچ کر بیٹھتے ہوئے تشویش سے کہا پچھلے دس منٹ سے وہ ناشتے کی میز پر انکا انتظار کر رہی تھی آملیٹ کا پیس منہ میں رکھتے ہوئے چاہت رکی

"مماں وہ آج صبح سویرے ہی کہیں چلے گئے بڑی جلدی میں تھے میں نے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا ذاویان کو پسند نہیں میں انکے معملات میں دخل اندازی کروں"

فورک کو پلیٹ میں رکھنے کیساتھ چاہت نے افسردگی سے کہا مہر النساء بیگم نے متذبذب نظروں سے ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا 

"ضرور آئیذل نے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھائی ہوں گی ذاویان کو اس لئے بغیر ناشتہ کئے ہی یونیورسٹی چلے گئے"

درزدیدہ نگاہوں سے مہر النساء بیگم کے سرد تاثر چہرے کو دیکھ کر چاہت نے ناشتہ کرنا شروع کیا مہر النساء بیگم نے تاسف سے سر جھٹکا تھا

"وہ کچھ نہیں کہے گی ذاویان سے"

"وہ ضرور کہے گی اور اسنے بڑھا چڑھا کر کہا ہو گا آج کل ویسے بھی ذاویان اسکی چھوٹی انگلی کا غلام بنا پھر رہا ہے"

چاہت نے طنزیہ لب و لہجے میں کہا مہر النساء بیگم کا دل ناشتہ کرنے سے اچاٹ ہو گیا تھا ناشتے کی پلیٹ ایک جانب رکھنے کے ساتھ انہوں نے متذبذب نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھنا شروع کیا

"میں سوچتی تھی لمظ سمجھدار لڑکی ہے"

مہر النساء بیگم نے بجھے لہجے میں کہا چہرا بالکل سپاٹ تھا چاہت نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے افسوسناک انداز میں شانے اچکاتے ہوئے لب بھینچے 

"آپ فکر مت کریں مماں ویسے کیا آپکا سیرت سے رابطہ ہوا"

چاہت نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا تھا مہر النساء بیگم نے تمام سوچوں کو جھٹک کر چاہت کی جانب دیکھا ان دنوں میں ایک بار بھی اپنی بیٹی کو یاد کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی تھی انہوں نے سر کو دھیرے سے خم دیکر وہ کرسی سے اٹھی تھی

"اگر آپ کہیں تو میں اسے کال کرتی ہوں"

چاہت نے اپنا فون اٹھاتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا مہر النساء بیگم کے دل کا کھچاؤ سیرت کی جانب بڑھا مگر ناجانے کیا سوچ کر انہوں نے انکار کر دیا تھا چاہت نے مسکراتے ہوئے اپنے گلاس میں پانی ڈالا تھا مہر النساء بیگم کچن کی جانب بڑھ گئی تھی انکے لئے یہ سب معمولی تھا سیرت اور ذاویان کی ذندگی میں شاید ماں کی محبت سے محرومی لکھی تھی چاہ کر بھی مہر النساء بیگم کو اپنے بچوں سے لگاؤ نہیں ہو پایا تھا ماضی کے کچھ ناسور زخموں نے آج تک انکے دل و دماغ پر اپنی گرد جما کر رکھی ہوئی تھی

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

(City Hospital)

سبک رو قدموں کیساتھ وہ کاؤنٹر سے پتا کرنے کے بعد آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے آئی سی یو ہی جانب بڑھ رہی تھی آئی سی یو کے باہر ویٹنگ چیئرز کے قریب اپنی فیملی کو پا کر وہ جلدی سے عروسہ بیگم کی جانب پیش رفت کر گئی

" کیا ہوا ہے ماموں کو"

عروسہ بیگم نے بےرونق آنکھوں سے اسکا فکرمندی کے تاثرات بکھیرتا پشیماں چہرا دیکھا عائزہ بیگم نے سر سے پاؤں تک اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لینا ضروری سمجھا تھا ریحم نے تاسف سے اپنی ماں کو دیکھ کر سر جھٹکا اور آئیذل کے کندھے پر ہاتھ رکھا

"بیٹا ماموں کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے"

عروسہ بیگم نے ٹوٹتے لہجے کو متوازن کیا جو کچھ ڈاکٹرز نے کہا تھا اسکے بعد وہ خود اندر ہی اندر ٹوٹ کر رہ گئی تھی مگر آئیذل کو وہ سب بتا کر صدمے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی آئیذل نے لب بھینچ کر عروسہ بیگم کی جانب دیکھا

"اب کیسے ہیں وہ"

بھاری ہوتے دل کیساتھ پوچھنے کیساتھ وہ آئی سی یو کی جانب دیکھنے لگی جس کا دروازہ بند ہونا ڈاکٹرز کے اندر ہونے کی جانب اشارہ کر رہا تھا 

" دعا کرو اللہ پاک سے میری بچی"

عروسہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی ورنہ اسوقت آئیذل کا زرد رنگ چہرا اسکے گہرے صدمے میں ہونے کی پیشگوئی کر رہا تھا ریحم کو آئیذل کو اطلاع دینے سے عروسہ بیگم نے ہی منع کیا تھا مگر ڈاکٹرز کی بات سننے کے بعد انہوں نے خود ریحم کو آئیذل کو یہاں آنے کے لئے کہا تھا وہ چاہتی تھی آئیذل آصف صاحب سے مل لے آئیذل متفکر نظروں سے آئی سی یو کی جانب دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں آصف صاحب کی سلامتی کی دعائیں کرنے لگی اپنے بہت سے پیاروں کو کھو لینے کے بعد اس لڑکی میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ایک اور پیارا کھو دیتی

"آپ میں سے آئیذل کون ہیں"

ڈاکٹر جیسے ہی باہر آئے تھے سب سے پہلے انہوں نے یہی سوال کیا تھا ریحم اور آئیذل نے ایک دوسرے کو دیکھا

"جی میں آئیذل ہوں"

کمزور لہجے میں کہہ کر اسنے ایک قدم آگے بڑھایا

"پیشینٹ آپ سے ملنا چاہتے ہیں انکی کنڈیشن اسوقت بہت کریٹیکل ہے ہارٹ اٹیک کے بعد سے سخت ڈیپریشن کے باعث انکا شوگر لیول بہت ہائی ہو چکا ہے ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن انکی حالت بگڑتی جا رہی ہے"

آئیذل کو لگا جیسے کسی نے اسکا دل جکڑ لیا ہو اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی تھی جب کوئی نہیں تھا اسکے ساتھ تب آصف صاحب اسکے ساتھ کھڑے رہے تھے انکی ایک ایک بات آئیذل کے دل کو کاٹنے لگی ذہن ماؤف ہونے لگا کسی کے مظبوط ہاتھ نے اسکے کندھے پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر اسے تسلی دی تھی آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسنے پیچھے مڑ کر اسے اپنے قریب پایا تھا سنجیدگی سے سر کو دھیرے سے ہلا کر اسنے اسکی ہمت بڑھائی تھی 

"کچھ نہیں ہو گا انکو"

لب بھینچ کر آئیذل نے اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھا اور نرس کیساتھ آئی سی یو میں اینٹر ہو گئی تھی

                                          -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

بھاری قدموں کیساتھ خود کو بمشکل گھسیٹتے ہوئے وہ آئی سی یو میں داخل ہوئی تھی  کمرے میں دوائیوں کی اور ڈس انفیکٹنٹس کی تیز مہک نے آئیذل کے بوجھل ذہن کو مزید ماؤف کیا تھا آصف صاحب نے نیم وا آنکھوں سے آئیذل کو دھیمے قدموں کیساتھ اندر آتے دیکھا مگر ان کو اس حالت میں پاکر اسکے قدم ساکت ہو گئے جیسے اسکے پیروں کے نیچے سے زمین اکھاڑ لی گئی ہو اور وہ اب قدم اٹھانے سے گھبرا رہی ہو آنکھیں نمی سے چمک رہی تھی لب سختی سے بھینچے وہ رونے سے خود کو باز رکھ رہی تھی

"کوئی شکایت ہے اپنے ماموں سے تو کہہ ڈالو بیٹی دل میں کوئی بات لیکر مت جانا"

رخصتی سے قبل آصف صاحب کا اسے اپنے پاس بلانا یاد آتے ہی آئیذل کی آنکھوں سے موتی ٹوٹے سسکی لیکر وہ دھیمے قدموں کیساتھ بیڈ کے قریب آ کر ٹھہری نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی نازش کی بیٹی تھی جو بڑے بھائی سے سر اٹھا کر بھی بات نہیں کرتی تھی بھلا وہ اپنی ماں کی عادتیں اختیار کیسے نہ کرتی آصف صاحب کی آنکھوں میں نمی تھی انہیں آئیذل میں اپنی بہن نظر آ رہی تھی 

"آئیذل"

"جی ماموں جان"

 اپنی جانب بڑھتا انکا ناتواں ہاتھ نرمی سے تھام کر وہ دھیمے لہجے میں بولی  آصف صاحب نے کافی دیر اسے دیکھا 

"بیٹا شادی کے بعد اپنے ماموں سے ملنے نہیں آئی آپ"

 کیساتھ آصف صاحب نے ہلکی کمزور مسکان سے کہا جتنی تکلیف میں اسوقت وہ تھے اس تکلیف میں آئیذل کو نہیں دیکھ سکتے تھے مگر انکی ہلکی مسکان نے آئیذل کی آنکھوں کو آنسوں سے بھر دیا تھا ایسے تو نہیں مسکرایا کرتے تھے وہ۔

"آپ ۔۔ آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میں۔۔۔ اب میں آپکے پاس ہی رہوں گی جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتے میں گھر نہیں جاؤں گی"

آصف صاحب کو نم آنکھوں سے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی 

کیا نہیں تھا اسکے لہجے میں رنج،، افسوس،، شرمندگی،، خوف!!

"نہیں بیٹی ۔۔۔ اس گھر میں تمھیں تکلیفوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔۔۔ یہ گھر نہیں جہنم ہے۔۔۔ میرے سر سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے بیٹا آپکی رخصتی کے بعد کیونکہ ۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔ ذاویان بہت خوش رکھے گا آپکو ۔۔۔ ایک پرسکون ذندگی گزار پاؤ گی تکلیفوں سے دور ۔۔۔ ان اپنوں سے دور ہو کر جو اپنے نہیں ہیں"

آصف صاحب کی نم آنکھوں نے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ کر آہستگی سے کہا آئیذل کا دل کرچی کرچی ہوا انکے الفاظ پر بنفشی آنکھوں سے آنسوں گندمی گالوں پر ڈھلکے 

"آپ۔۔۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ماموں آپ سب میرے اپنے ہیں میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی ماموں جان"

آئیذل نے تڑپ کر انہیں دیکھا 

"نہیں بیٹا آپ نہیں جانتی دولت وہ تیز دھار تلوار ہے جو سب سے پہلے خوبصورت تعلقات کا سر قلم کرتی ہے اگر میں آپکا نکاح توصیف سے کروا دیتا تو ذندگی بھر خود کو معاف نہیں کر پاتا میرے رب کا شکر ہے جس نے مجھے اتنا بڑا گناہ کرنے سے رکنے کی توفیق دی"

آصف صاحب کی بےرونق آنکھوں نے آئیذل کا آنسوں سے تر چہرہ دیکھا کتنا درد تھا جو وہ اپنے دل میں سموئے ہوئے تھے دو ٹکے کی دولت کے حصول کے لئے انفال بی بی کی موت کا درد کوئی انسان کیسے گر سکتا تھا اس قدر!! وہ انسان بھی کتنا کمظرف ہوتا ہے جو دنیاوی  آسائشوں اور بلندیوں کے حصول کے لئے انسانیت سے گر جائے وہ بلندی آخر کس کام کی جو انسان کو اسکی رب کی نظروں میں گرا دے!!

 آصف صاحب نے مسکرا کر دروازے کے قریب کھڑے ذاویان کو اندر آنے کا اشارہ کیا تھا متفکر نظروں سے انہیں دیکھ کر وہ اندر آیا تھا آصف صاحب کا چہرہ اسوقت ہر قسم کے جزبات و احساسات سے عاری تھا آئیذل نے قدموں کی آہٹ پر سر اٹھا کر اپنے قریب کھڑے ذاویان کو دیکھا تھا جو اسکے آنسوں سے تر چہرے کو ہمدردی لٹاتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا آصف صاحب نے ذاویان کا ہاتھ لیکر آئیذل کا ہاتھ اسکی ہتھیلی پر رکھا

"جاؤ بیٹا۔۔۔۔ لے۔۔۔ جاؤ۔۔۔ آئیذل کو"

اکھڑتی سانسوں کے درمیان وہ اٹک اٹک کر بولے 

"ڈڈ۔۔ڈاکٹر"

ہاسپیٹل کی گیلری میں موجود ڈاکٹرز آئیذل کی تیز آواز پر جلدی سے اندر آئے تھے عروسہ بیگم اور انکی باقی فیملی بھی تیزی سے اندر آئے تھے آئیذل ساکت نظروں سے آصف صاحب کے منہ سے نکلتا خون دیکھ رہی تھی ذاویان نے اسکی کلائی کو نرمی سے پکڑ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا آئیذل کا دل بند ہونے لگا اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ تیزی سے آصف صاحب کی جانب لپکی تھی آئی سی یو میں مشینوں کی بیپس کی آوازیں گونجنے لگی آئیذل کا ذہن شل ہونے لگا آصف صاحب سینے پر ہاتھ رکھے کراہتے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے جو نرس کیساتھ بحث کرتے ہوئے انکی جانب بڑھنے کی ضد کر رہی تھی اور نرس مسلسل اسے رکنے کی ہدایت کر رہی تھی ہارٹ بیٹس مانیٹر کی سکرین پر اتار چڑھاؤ کرتی لیکیر یکدم سے سیدھی ہوئی ایک آخری لونگ بیپ کیساتھ کمرے میں سکوت چھا گیا آئیذل کی منجمند آنکھوں نے آصف صاحب کی جانب دیکھا ڈاکٹر افسردگی سے اسٹیتھو سکوپ ہٹا کر پیچھے مڑے تھے

"آئی ایم سوری بیٹا"

آئیذل کے لٹھے کی مانند سفید چہرے کو دیکھ کر وہ افسردگی سے بولے تھے عروسہ بیگم جو صدمے کے عالم میں ساکت کھڑی تھی تیزی سے آصف صاحب کے بیڈ کی جانب لپکی آئیذل کی آنسوں سے بھری آنکھوں سے آنسوں ٹوٹنے لگے رونے کی آوازیں اسکے کانوں میں گونجنے لگی جس میں مناہل کے رونے کی آواز بھی تھی جو اپنی ماں کو روتے دیکھ کر معصومیت سے انکے کندھے کو ہلاتے ہوئے رو رہی تھی اس اے پہلے وہ صدمے سے غش کھا کر گرتی ذاویان نے اسے تھاما تھا 

" کیا مجھے گھورنا بند کرو گی"

دلچسپ نگاہوں سے خود کو مسلسل گھورتی سیرت کو مختصر نگاہوں سے دیکھنے کیساتھ نظریں دوبارہ روڈ پر مرکوز کئے وہ سنجیدگی سے بولا لبوں پر ایک خفیف مسکراہٹ سجا کر سیرت نے گیئر شفٹ پر رکھے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا نچلا ہونٹ دبا کر سیرت نے ایک بار جانچتی نظروں سے اسکا سپاٹ چہرہ دیکھا اسکی نظریں سنجیدگی سے روڈ پر تیز رفتار میں دوڑتی گاڑیوں کا جائزہ لے رہی تھی 

ہاتھ کی پشت  پر کچھ رینگتے ہوئے محسوس کر کے اسنے گیئر شفٹ کی جانب تیوری چڑھا کر دیکھا سیرت نچلا ہونٹ دبائے اسکے ہاتھ پر اپنا پاؤں پھیرتے ہوئے قہقے کا گلہ گھونٹ رہی تھی حلق تر کرتے ہوئے اسنے تاسف سے سیرت کو دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے نظریں روڈ پر مرکوز کی وہ سوچ رہا تھا نظر انداز کرنے سے وہ رک جائے گی ورنہ جو کچھ وہ

 کر رہی تھی  اسکے جیسا ضبط کا پابند شخص بھی بغاوت پر آمادہ ہونے سے خود کو روک نہیں سکتا تھا شدید نظروں سے وہ روڈ کو دیکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کر رہا تھا 

"سڑیل کہیں کے بہت تنگ کرتے ہو نہ تم مجھے آج گن چن کر سارے بدلے لوں گی میں"

سیرت نے اسکی غیر ہوتی حالت محظوظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نچلا لب مزید دبا کر سوچا تھا گیئر شفٹ پر اسکی انگلیوں کی گرفت مزید سخت ہوئی ضبط کے باعث چہرا ہلکا سرخی مائل پڑا اور سیرت کسی صورت رکنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی آخر کار اسکا ضبط ٹوٹا پتھریلی نظروں سے سیرت کی جانب دیکھنے کیساتھ اسنے سیرت کا پیر پکڑ کر دھیرے سے ہٹایا تھا سیرت نے معصومانہ نظروں سے اسے دیکھا اسکی بھوری اخگریہ آنکھوں میں جذباتوں کے شعلے بھڑک رہے تھے ایک فاتحانہ مسکراہٹ سیرت کے لبوں پر پھسلی 

"ہی ہی ابھی سے رونے لگے تم تو"

اسکے ہاتھ پر دوبارہ پاؤں کی چھوٹی انگلی کو رینگا کر وہ طنزیہ نظروں سے اسے دیکھ کر دل ہی دل میں قہقے لگا کر ہنس رہی تھی سختی سے لب بھینچ کر اسنے لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے گاڑی کو بریکس لگائے تھے سیرت نے اچھنبے سے اسے دیکھا جو آتشی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا لب بھینچ کر سیرت نے اپنا پیر واپس لیا تھا اسکی گردن کی پھولی شریانیں اور سرخی مائل چہرا  دیکھ کر وہ محظوظ ہونے کیساتھ ساتھ خوفزدہ ہو چکی تھی ضبط کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا جذباتوں کی آنچ پر اسوقت اسکا چہرہ دہک رہا تھا  سیرت کو دھمکی آمیز نظروں سے دیکھنے کیساتھ اسنے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی تھی اب کی بار سیرت نے کوئی بھی شرارت کرنے سے خود کو باز رکھا تھا گاڑی میں گہری خاموشی کا راج تھا کچھ ہی دیر میں گاڑی سیرت کے گھر کے سامنے تھی سیرت سیٹ سے سر ٹکائے آنکھیں موند گئی تھی

"سیرت"

گاڑی کو بریکس لگا کر اسنے سنجیدگی سے اسے مخاطب کیا مگر وہ عالمِ غش میں گھنی پلکوں کی باڑ گرائے لب بھینچے گہری نیند میں جا چکی تھی حدید کی مفتون نگاہوں نے اسکے خوبصورت چہرے کی باریکیاں حفظ کرنا شروع کی بےاختیاری طور پر ہاتھ بڑھا کر اسنے سیرت کے ٹھنڈ کے باعث سرخی مائل پڑتے رخسار کو ہاتھ کی پشت سے چھوا 

("تمہاری یہ خوبصورتی جان لیوا ہے")

اسے وارفتہ نگاہوں سے مسلسل دیکھتا وہ بھاری سرگوشیانہ لہجے میں خود کلامی کئے بنا نہ رہ سکا جزبات کی آنچ پر اسکی حد سے زیادہ بھاری آواز پر سیرت کی گھنی پلکوں نے جھرجھری لی اپنا ہاتھ واپس لیکر اسکے پرس سے گھر کی سپیئر کیز اٹھا گاڑی سے باہر آنےکےبعد  دھیرے سے پلکوں کی باڑ اٹھا کر چکراتے ہوئے سر کیساتھ سیرت نے اسکے بلیک کوٹ کو مٹھی میں پکڑا اسکی سائڈ کا گیٹ کھول کر اسنے سیرت کو سہارا دیکر گاڑی سے باہر نکالا اسکی حسین مدہوش نگاہوں میں دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے پوچھا

"کیا تم گھر تک چل سکتی ہو"

"ہممم" 

ناسمجھی سے اسے دیکھ کر سیرت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا سرد آہ بھر کر اسنے سیرت کو اپنے توانا بازؤں میں اسے اٹھایا تھا سیرت نے گہری نظروں سے اسکا وجیہ چہرہ دیکھا تھا بہت پراسرار شخصیت تھی اسکی لیکن اب تک جس قدر نرمی سے وہ سیرت سے پیش آ رہا تھا ایک ان دیکھا لگاؤ سا ہو گیا تھا اسے اسکی شخصیت سے جس سے فالوقت وہ واقف نہیں تھی دروازہ کھول کر بیسمنٹ میں داخل ہوتے ہوئے وہ سنجیدگی سے سیرت کی جانب دیکھ گیا جو ٹکٹکی باندھے اسے ہی تکے جا رہی تھی اسکے وا ہوتے لبوں پر سیرت نے جلدی سے ہاتھ رکھا تھا حدید کی استفہامیہ نگاہوں نے سنجیدگی سے اسکا جائزہ لیا 

"ششش بی جان سن لیں گی"

 دھیمے لہجے میں کہنے کیساتھ سیرت نے معصومیت سے آنکھیں جھپکی تھی مبہم مسکان کیساتھ وہ دھیمے ناپے تلے قدم اٹھاتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا سیرت نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا دروازہ کھول کر اسے بیڈ پر لٹانے کیساتھ بلینکٹ اوڑھا کر وہ جانے لگا جب سیرت نے اسکے ہاتھ کو تھاما سیرت کی جانب پلٹ کر وہ استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے کیساتھ زرا سا اس پر جھکا تھا

"تھینک یو"

سیاہ سفاک آنکھوں سے اسکی بھوری آنکھوں کو اپنا گرویدہ بنانے کیساتھ سیرت نے دھیمے لہجے میں سرگوشی کی تھی ساتھ ہی اسکے خود پر جھکے ہونے کے باعث اپنے بےحد قریب موجود اسکے چہرے کو آہستگی سے انگلیوں کے پوروں سے چھوا اسکی شہادت کی باریک انگلی کو اپنی بیئرڈ پر ملائم لمس چھوڑتے ہوئے گردن کی جانب بڑھتے محسوس کر کے اسنے سختی سے سیرت کا ہاتھ تھاما تھا سیرت نے تضحیک آمیز نظروں سے اسے دیکھا آنکھوں میں بلا کی معصومیت تھی لیکن حرکتیں وہ اسے اکسانے والی کر رہی تھی

"اتنی ہمت کہاں سے آئی تم میں سیرت!! جانتی ہو میں کون ہوں پھر بھی ایسی حرکتیں کر رہی ہو کیا خوفزدہ نہیں ہو مجھ سے؟؟ سوچو اگر تمھیں نقصان پہنچا دیا تو کیا کرو گی"

 سیرت کے ہاتھ کو اسکے سینے پر رکھ کر وہ پرتپش لہجے میں بول

 "پتا نہیں کیوں لیکن میں ناچاہتے ہوئے بھی تمھارا بھروسہ کرنے لگی ہوں"

اسکی محبت لٹاتی بھوری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکے کوٹ کو دونوں مٹھیوں میں لیکر  وہ دھیمے لہجے میں بولی مقصد اسے اکسانا تھا اسکا صبر کا امتحان آج وہ پوری دیدہ دلیری سے لے رہی تھی 

"اور اگر میں نے تمھارا بھروسہ توڑ دیا پھر کیا کرو گی"

بھاری تمازت آمیز لہجے کیساتھ پرحدت سانسوں نے سیرت کے چہرے کو استکباریت سے چھوا جس پر سیرت کی ہارٹ بیٹ تیز ہوئی

"جب کوئی انسان کسی کا یقین توڑتا ہے نہ تو وہ اعتماد کے ساتھ ساتھ اس انسان کو بھی توڑ دیتا ہے اور تم نے کہا تھا تم مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچاؤ گے ہاؤ کین یو بریک می "

 مدھم پڑتی سیرت کی باریک آواز اسکے دل و دماغ پر حاوی ہو رہی تھی قریب ہونے کے باعث سیرت کے پرفیوم کی ہلکی فسوں خیز مہک اسکے حواس سلب رہی تھی

"کسی اجنبی پر اتنا بھروسہ اچھا نہیں سیرت تم خود کہتی ہو میں انسان نہیں جانور ہوں  آخر ایک جانور پر بھروسہ کرنے کی کیا وجہ ہے"

اسکے نکہت آلود بالوں میں انگلیاں پھنسائے سیرت کا چہرہ اوپر اٹھائے وہ برفیلے لہجے میں بولا سیرت کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا نشے میں چور وہ اسوقت اپنے حوش و حواس میں نہیں تھی اسکے ہاتھوں سے اپنا کوٹ نکال کر وہ پیچھے ہٹنے لگا  کیونکہ جزبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا

"حدید"

اسکے کوٹ کو مٹھی میں پکڑتی وہ بوجھل لہجے میں بولی اسکی خمار آلود سرگوشی پر اسکی بھوری آنکھوں میں آتشی الاؤ روشن ہوئے پہلی بار  سیرت نے اسکا نام پکارا تھا 

"بتاؤ کیوں نکاح کیا تم نے مجھ سے"

اسکے کوٹ کو کھینچ کر وہ خفا نظروں سے اسکا بےحد قریب چہرہ دیکھتے ہوئے بولی دونوں ہاتھ بیڈ پر ٹکا کر وہ خود کو اس پر گرنے سے روک گیا ورنہ سیرت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اسے کھینچنے میں!!

"پاگل کر دو گی تم مجھے"

 سیرت کے دائیں اور بائیں جانب دونوں ہاتھ رکھ کر اس پر مکمل جھکنے کیساتھ پرخمار لہجے میں کی گئی سرگوشی کے دوران حدید کے لبوں نے سیرت کے لبوں کو آہستگی سے چھوا تھا 

"اگر اب تم نہیں رکی تو میں کچھ بہت غلط کر گزروں گا"

سیرت نے تیکھی نظروں سے اسکی خمارآلود آنکھوں کو دیکھا 

"بتاؤ اور چلے جاؤ"

آنکھیں سکیڑے وہ کاٹدار لہجے میں بولی تھی ایک لمحے کے پئے دونوں ساکت ہوئے سیرت کی آنکھوں میں ڈھیروں سوال تھے جن کا جواب دینے سے گریزاں بھوری مجروح آنکھیں ڈھیروں حزن سمیٹے ناجانے اسکے چہرے کو دیکھ کر کس بات کا ماتم منا رہی تھی ان چمکدار سیاہ آنکھوں میں آنسوں لانے کا باعث بننے والا تھا مگر دل میں ایک رنج سا تھا اسے تکلیف پہنچانے کا سوچ کر غمگین ہوتا دل ناجانے کیا احساس دلانا چاہتا تھا اسے...

"سیرت کیا تم گھر آ گئی ہو"

بی جان کی آواز پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا قدموں کی آہٹ نزدیک سے نزدیک تر ہوتی سنائی دے رہی تھی

"گھور کیا رہے ہو ہٹو بی جان آ رہی ہیں"

اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ کر سیرت نے دبے لہجے میں غرا کر کہا وہ دروازے کی جانب دیکھتا مبہم سا مسکرایا تھا

"چھپ نہیں سکتے کیا تم"

سیرت نے اسکے کوٹ کو پکڑ کر جھنجھوڑا 

" انکو بھی دیکھ لینے دو"

سیرت نے دروازے کی جانب دیکھ کر حیرت سے اسے دیکھا جو بےپرواہ سا اس پر جھکا تھا

"رضا"

سیرت نے بھنویں سکیڑ کر اسے ناگواری سے دیکھا بیڈ سے ہاتھ ہٹا کر نائٹ سٹینڈ پر رکھتے ہوئے اسنے دلفریب مسکراہٹ سیرت کی جانب اچھال کر ایک آئی برو اٹھایا سیرت پرامید نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی کمرے کا دروازہ کھلا تھا نائٹ سٹینڈ پر رکھے ہاتھ سے بڑی دانشوری سے لائٹ کا سوئچ آف کرتے ہوئے وہ استغنایت سے بالکنی کی جانب واک آؤٹ کر گیا بی جان نے اندھیرے کمرے میں نظریں گھمائی

"سیرت تم آ گئی ہو"

اسکے بیڈ کے قریب آ کر انہوں نے فکرمندی سے پوچھا

"جی بی جان سوری میں تھک گئی تھی اس لئے آ کر لیٹ گئی"

 بی جان کی جانب دیکھ کر اسنے شرمندگی سے کہا ساتھ ہی بالکنی میں چاند کی روشنی میں اسکے قوی ہیکل سائے کو دیکھا دیوار پر ہتھیلی رکھے وہ سفید ریشمی پردے کے پیچھے کھڑا سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا سیرت کا دل تیزی سے دھڑکا تھا بی جان اس سے مختصر گفتگو کے بعد کمرے سے باہر چلی گئی تھی سیرت  پیشانی کو تھام کر بلینکٹ ہٹاتے ہوئے اٹھی تھی بی جان سے جھوٹ بولنے کی وجہ وہی تھا اس لئے اسوقت اس پر شدید غصہ آ رہا تھا پردہ ہٹاتے ہوئے وہ چونکی تھی وہ کہیں بھی نہیں تھا اچھنبے سے آس پاس دیکھنے کیساتھ وہ اپنے پیچھے اسکی موجودگی محسوس کر کے پلٹی

اسے پراسرار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ ریلنگ پر اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا سیرت نے پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھا

"چلا جاؤں گا لیکن"

حلق تر کر کے سیرت نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اسکی ٹھوڑی کو اوپر اٹھاتا وہ گمبھیر لہجے میں بولا سیرت نے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھا

"لیکن"

تیز دھڑکتے دل کیساتھ سیرت نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا اسکے سلکی بالوں میں دونوں ہاتھوں کی مظبوط انگلیوں کو نرمی سے الجھائے وہ اسکا چہرہ بےحد قریب کر گیا سیرت نے آزردہ نظروں سے اسے دیکھا دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہروں کو جھلسانے کا باعث بننے لگی

"سیرت"

اسکی پرتپش سرگوشی پر سیرت نے آنکھیں میچی تھی حدید نے گہری نظروں سے چاند کی روشنی میں اسکی گھنی پلکوں کے لرزیدہ سائے دیکھے 

"چلے جاؤ عسکری"

اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے چہرے پر جھکنے سے روک کر وہ سرد لہجے میں بولی

''کیا واقعی چلا جاؤں''

سیرت کی کنپٹی پر لب رکھے وہ آتشی لہجے میں بولا سیرت کی خوشبو اپنی سانسوں میں کھینچنے کیساتھ اسنے پرسکون ہو کر آنکھیں بند کی تھی سیرت کو اپنی سانسیں اسکے بےحد قریب ہونے کے باعث تیز دھڑکتے دل کے سنگم میں چلتی ہوئی محسوس ہوئی

''بولو سیرت''

آنکھیں وا کر کے اسکی آنکھوں میں اپنی سحر انگیز آنکھوں کو ڈالنے کیساتھ اسنے گمبھیر لہجے میں پوچھا اسکے سحر میں ڈوبتی سیرت نے خمار آلود آنکھوں سے اسکی آنکھوں کو دیکھا کتنی کشمکش میں تھا اسکا دل کچھ تو تھا ان دونوں کے درمیان مگر کیا واقعی یہ نفرت تھی یہی سوال حدید رضا کا دل بار بار پوچھ رہا تھا سیرت کو خاموش دیکھ کر حدید نے ریلنگ سے اپنا ہاتھ ہٹا کر ایک قدم پیچھے لیا اسے دور جاتے دیکھ کر سیرت کا دل بھاری ہونے لگا اسے حزن نگاہوں سے دیکھ کر اسنے ایک اور قدم پیچھے لیا تھا وہ جانتی تھی اسکی مرضی کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اسکی طلبگار نگاہوں میں اب طلب کی جگہ حزن نے لے لی تھی ایک قدم اور پیچھے لینے کی آہٹ نے سیرت کا دل جکڑ لیا تھا شرمندگی سے سیرت نے اسکی چوڑی پشت کو دیکھا اب تک کی ساری کہانی جس میں اسنے اسکی مدد بغیر کسی غرض کے کی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی آنکھوں میں نمی پھیلتی چلی گئی  

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"Come stand a little bit closer

Breathe in and get a bit higher

You'll never know what hit you

When I get to you

Ooh, I want you, I don't know if I need you, but

Ooh, I'd die to find out"

"I Want You"

      Song by  

                   (Savage Garden)!!

                                      -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

"رضا"

واپس جانے کی غرض سے آگے بڑھتے اسکے قدم ساکت ہوئے بےتاثر نگاہوں سے اسنے سیرت کی استعانت زدہ سیاہ آنکھوں کو دیکھا اسکی نظریں خود پر مرکوز محسوس کرتے ہوئے وہ ہچکچائی حدید نے سنجیدگی سے اسکے کشمکش میں نظریں جھکاتے اور پھر اٹھاتے ہوئے دیکھا اسکی جواب طلب آنکھوں میں دیکھنے سے اسکا یوں پرہیز کرنا حدید کے لبوں پر ہلکا متبسم بکھرا سیرت نے اسے اپنی جانب قدم بڑھاتے ہوئے دیکھا

"اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے سیرت اور ویسے بھی ڈرگز کی وجہ سے تمہارا ذہن پہلے ہی ماؤف ہو چکا ہے ریسٹ کرو اور وقت دو خود کو۔۔۔۔ اور مجھے بھی"

اس نے قدرے سنجیدگی سے کہا مگر آخری لائن سرگوشیانہ انداز میں ادا کی گئی تھی سیرت نے نظریں اٹھا کر اسکی آخری لائن کا مطلب سمجھتے ہوئے استفہامیہ نگاہوں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا کتنا سحر تھا اسکی آنکھوں میں جو دیکھنے والے کو اپنے طلسماتی بھنور میں جکڑ لیتا تھا

"اور ویسے بھی میں یہاں کسی اور مقصد سے نہیں آیا ۔۔۔ اپنی بیوی کو گھر چھوڑنے آیا ہوں ضروری نہیں تم میری مدد کے بدلے میں مجھے کچھ دو"

اسکے سرخی مائل چہرے کو عقیدت سے دیکھنے کیساتھ وہ دھیمے پرسکون لہجے میں بولا سیرت نے پہلی بار اسے شائستہ نظروں سے دیکھا تھا اسے آخری طویل نظر سے دیکھ کر وہ کمرے سے باہر واک آؤٹ کر گیا تھا کبرڈ سے نائٹ ڈریس لیکر وہ دھیمے قدموں سے واش روم میں بند ہوئی تھی سنجیدگی سے باہر جاتے ہوئے وہ ایک پل کو رکا تھا وہ کسی کی نظریں خود پر مرکوز ہونے کا اندازہ بخوبی لگا چکا تھا کچن کی ڈائننگ ٹیبل پر کتاب رکھ کر بی جان اسکی سمت بڑھی 

"کیا کرنے آئے ہو تم یہاں"

بی جان کی جانب پلٹ کر اسنے سنجیدگی سے انہیں دیکھا جو غیض و غضب کی کیفیت میں پیشانی پر شکنیں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی

"سیرت کو گھر چھوڑنے آیا تھا"

پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈال کر اسنے بی جان کو مختصر دیکھ کر سنجیدگی سے جواب دیا بی جان نے تاسف سے سر جھٹک کر اسکی جانب قدم بڑھائے تھے

" دور رہو میری بچی سے"

اسکے سامنے ٹھہر کر بی جان نے خشم زدہ نظروں سے اسے دیکھ کر سرد لہجے میں کہا بی جان کی بات سن کر بےساختہ وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

"اچھا تو آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپکی پوتی کو آدھی رات کو کسی انجان ڈرائیور کیساتھ یہاں بھیج دیتا"

 اسنے متبسم لہجے میں کہا بی جان نے فکرمندی سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ کر لب بھینچے انکے چہرے پر سیرت کے لئے وہ لامتناہی فکرمندی کے تاثرات دیکھ رہا تھا

"اپنی پوتی کی اتنی فکر دادی جان"

بی جان نے یکلخت نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اسے دیکھتے ہی ان کا دل بیٹھنے لگا 

"مجھے اس نام سے کبھی مت پکارنا چلے جاؤ یہاں سے"

بی جان کی آواز لڑکھڑا گئی آہستہ سے سر کو خم دیکر وہ استکبار قدم اٹھاتے ہوئے بیسمنٹ سے واک آؤٹ کر گیا تھا 

"میرے مالک میری بچی کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا"

بی جان نے تاسف بھری نظروں سے اسکی گاڑی کو گھر سے دور جاتے ہوئے دیکھا تھا

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

''گڈ مارننگ اینجل''

 وائٹ سپلٹ سلیو کے نیچے کیپری،، پیروں میں وائٹ فلپ فلاپس شوز پہنے بالوں کا رف سا جوڑا بناتی سیرت نے مسکرا کر ایرا کو دیکھا 

"گڈ مارننگ میرا بچہ اب ہاتھ کیسا ہے تمہارا" 

سیڑھیاں اتر کر کچن میں آتی سیرت نے اسے بریڈ کھاتے دیکھ کر اپنے پئے چیئر کھینچتے ہوئے استفسار کیا ایرا نے بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا

"اب تھیک اوں"

منہ میں بریڈ کا بڑا بائٹ چباتے ہوئے وہ منمنائی سیرت کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی 

"سیرت ناشتہ کر لو بیٹی"

بی جان سیرت کو دیکھ کر اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی تھی دھیرے سے سر کو جنبش دیکر سیرت نے پہلے انکو ناشتہ سروو کیا کیونکہ وہ جانتی تھی بی جان اسکے بغیر ناشتہ نہیں کرتی تھی 

"اینجل مماں کب آئیں گی''

اپنی پلیٹ میں بریڈ رکھتی سیرت نے ایرا کو دیکھا کیونکہ روز کو آنے میں اب بھی کافی دن لگ سکتے تھے کیونکہ ایرا کی دادی کی ڈیتھ ہو گئی تھی اس لئے وہ ایرا کو سیرت کے پاس چھوڑ کر گئی تھی 

"میرا بچہ مماں جلدی آ جائیں گی آپ ناشتہ کر لو پھر ہم لیک پر چلیں گے''

سیرت کی بات سن کر ایرا کا چہرا کھل اٹھا جلدی جلدی وہ اپنا ناشتہ ختم کرنے لگی بی جان نے تذبذب نظروں سے سیرت کو ناشتہ کرتے ہوئے دیکھا حدید کے متعلق وہ سیرت سے کافی سوالات پوچھنا چاہتی تھی مگر انہیں ڈر تھا کہ سیرت ان سے ہی سوال نہ کر لے لہذا انہوں نے سیرت سے اسوقت گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا 

'''بی جان یہ کس کی فوٹو ایلبم ہے'''

بی جان سوچوں کے سمندر سے باہر آئی سیرت ڈائننگ ٹیبل پر پڑی فوٹو ایلبم اٹھاتے ہوئے بولی بی جان نے تاسف سے اسے دیکھا کل رات فوٹو ایلبم دیکھتے ہوئے وہ اسے رکھنا بھول گئی تھی مگر سیرت فوٹو ایلبم کھول چکی تھی ایرا نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے سیرت کے پاس آئی تھی دونوں نے پہلے فوٹو کو دیکھا سیرت کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی اس میں اسکے بچپن کے فوٹوز تھے اور پہلے فوٹو میں وہ عاطف صاحب کیساتھ تھی 

''ڈیڈ"

اسکے لبوں نے دھیرے سے سرگوشی کی ساتھ ہی سیرت کی انگلیوں نے فوٹو کو ٹریس کیا تھا ایرا نے ڈبڈبی نظروں سے سیرت کی آنکھوں میں پھیلتی نمی کو دیکھ کر فوٹو کس دیکھا تھا بی جان بھی سیرت کو تاسف دیکھ رہی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی اب وہ سیرت سے ایلبم واپس نہیں لے سکتی تھی سیرت نے اگلہ صفحہ پلٹا تھا ایرا نے دلچسپی سے فوٹو کو دیکھا سیرت کی نظریں ایک نقطے پر منجمند ہوئی تھی وہ خیالوں کے سمندر کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی

                                     -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(Past)-

"سیرت بیٹا''

"جی بابا"

بےبی پنک فلوٹر ڈریس کے نیچے بےبی پنک ٹریک،، پیروں میں وائٹ سنیکرز پہنے بنفشی آنکھوں والی اس خوبصورت لڑکی نے دلفریب انداز میں عاطف صاحب کی جانب دیکھا

''بیٹا دعان کو یہ کیک دیکر آؤ''

سیرت نے متذبذب نظروں سے عاطف صاحب کے ہاتھ سے کیک کی پلیٹ لیکر ڈبڈبی نظروں سے عاطف صاحب کو دیکھا 

"کیا ہوا بیٹا"

عاطف صاحب نے اسے پشیماں دیکھ کر محبت سے استفسار کیا 

"جی کچھ نہیں"

عاطف صاحب کو دیکھ کر آہستگی سے مسکرا کر وہ زکیک چال چلتے ہوئے اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی جس کے کمرے میں جاتے ہوئے اس پر سو بار عزاب نازل ہوتا تھا لب بھینچ کر اسنے دروازے پر شہادت کی انگلی سے ناک کیا تھا اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تھا سیرت تیز دھڑکتے ہوئے دل کیساتھ اندر داخل ہو گئی تھی اسکے ہاتھوں نے اچانک لرزش کی سامنے ہی صوفے پر بیٹھا وہ لاپرواہی سے سموکنگ کر رہا تھا اسے قہر برساتی نظروں سے دیکھ کر وہ صوفے سے اٹھا سیرت کا حلق یکلخت خشک ہوا اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ تھوک نگلتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹی تھی

"' کیوں آئی تم میرے کمرے میں؟؟ کہا تھا نہ مجھے نہیں کھانا "

بھوری پرُاشتعال آنکھوں سے اسے دیکھنے کیساتھ اسکی کلائی پکڑ کر اسنے غرا کر کہا بنفشی آنکھوں میں کلائی سے اٹھتے درد کے سبب آنسوں جمع ہونا شروع ہوئے 

"میں تو صرف بابا کے کہنے پر آپکو کیک دینے آئی تھی دد دعان بھائی"

افسردگی سے اسکا خشم زدہ سرخی مائل چہرہ دیکھ کر سیرت نے دھیمے سہمی لہجے میں بولی تھی اسنے لب بھینچ کر شعلے برساتی نظروں سے سیرت کو دیکھا

"آ۔۔۔آپ سموکنگ کرتے ہو ۔۔۔ ممم۔۔میں بابا سے کہوں گی"

شبنمی آنکھوں سے اسے دیکھ کر حلق تر کرنے کیساتھ وہ لڑکھڑاتے لفظوں میں اسے دھمکی دینے لگی سگریٹ کو نیچے پھینک کر اسے اپنے وائٹ سنیکرز سے بےدردی سے مسلتے ہوئے اسنے سیرت کر دائیں بائیں دیوار پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسکی ڈبڈبی آنکھوں میں جھانکا

"اگر تم نے ڈیڈ سے ایک لفظ بھی کہا تو میں تمھاری یہ گلابی چونچ جلا دوں گا بتاؤ اب بھی ڈیڈ سے کمپلین کرو گی میری"

پینٹ کی پاکٹ سے لائٹر جلا کر روشن کرنے کیساتھ اسنے سیرت کے چہرے کو ہاتھ میں جکڑتے ہوئے لائٹر اسکے لبوں کے بےحد قریب لاکر پرتپش لہجے میں کہا  اپنے ہونٹوں کے بےحد قریب  لائٹر سے سلگتی آگ دیکھ کر سیرت کی پتلیاں ساکت رہ گئی

"مم۔۔۔میں کچھ نہیں بولوں گی۔۔۔ مم۔۔مجھے جانے دیں دعان بھائی"

اسے اپنے چہرے پر جھکتے دیکھ کر سیرت نے بھرائی ہوئی آواز میں التجا کی وہ ہمیشہ یہی کرتا تھا اسے دھمکاتا ،، ڈراتا اور اس لئے وہ اس سے بہت ڈرتی تھی اسکے تھراتھرتے گلابی لبوں کو دیکھتے ہوئے اسنے لائٹر آف کر کے پاکٹ میں واپس رکھا تھا سیرت نے سکھ کا سانس لیکر اسے دیکھا

"اگر آج کے بعد تم نے مجھے بھائی بولا تو جان لے لوں گا میں تمہاری"

اسکے ہونٹوں کو التہابی نگاہوں سے دیکھ کر اسنے پتھریلے لہجے میں کہا سیرت نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا 

"لل۔۔لیکن آپ میرے بھائی"

"نکلو میرے کمرے سے ابھی اسی وقت"

اس سے پہلے وہ وضاحتیں پیش کرتی وہ بجلی کی طرح اس پر کڑک پڑا تھا پلیٹ کو مظبوطی سے تھام کر آنسوں سے تر آنکھوں سے ڈرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر بھاگ گئی تھی

"یہ کون ہے اینجل"

ایک بھوری آنکھوں اور سنہرے بالوں والے لڑکے کی جانب اشارہ کر کے ایرا نے جلدی سے پوچھا خیالوں میں ڈوبی سیرت نے پلکیں جھپکی تھی 

''آئیذل بہت رات ہو گئی ہے''

عروسہ بیگم نے اسکے دوپٹے سے جھانکتے بکھرے بالوں کو سہلا کر دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر آہستگی سے رکھ کر نرم لہجے میں کہا بنفشی آنکھوں سے آنسوں اب تک ٹوٹ کر چہرے پر بکھر رہے تھے وہ نیچے زمین پر پلر سے سر ٹکائے بےسدھ ہوکر بیٹھی تھی بےتاثر نگاہوں سے اسنے عروسہ بیگم کو دیکھا تھا 

''ماموں اسوقت گھر آ جایا کرتے تھے ناں ممانی''

 آس بھری نظروں سے دروازے کی جانب دیکھ کر اسنے دل کو کاٹنے والے لہجے میں کہا عروسہ بیگم کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہونا شروع ہوئے تھے لوگ تو آئے تھے مگر کچھ وقت کے لئے دلاسے دو دیئے گئے تھے مگر ان دلاسوں سے دل پر لگی چوٹوں پر مرہم نہیں لگا تھا دن بھر لوگوں کا آنا جانا لگا رہا رات ہوئی تو دل درد کی شدت سے پھٹنے لگا تھا اسوقت صحن میں بیٹھ کر آصف صاحب کا خوشگوار انداز میں گفتگو کرنا انکی چھوٹی چھوٹی باتیں انکے جانے کے بعد دل و دماغ پر چھاپ چھوڑ گئی تھی یہ تو انسانی فطرت ہے جب تک انسان اس دنیا میں ہوتا ہے ہم بےپرواہ سے رہتے ہیں لیکن اسکے چلے جانے کے بعد اس انسان کی چھوٹی چھوٹی بات یاد آنے پر دل اس قدر دکھتا ہے کہ جیسا ابھی درد کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے پھٹ جائے گا اور آصف صاحب کی موت سب سے زیادہ اس لڑکی کو تکلیف دہ لگ رہی تھی جس کے پاس محبت کرنے والے بہت کم تھے نم آنکھوں سے وہ کافی دیر سے دروازے کو تک رہی تھی جیسے ابھی آصف صاحب مسکراتے ہوئے آ کر اسے پکاریں گے اور کہیں گے کہ "آئیذل بیٹا چائے بنا دو''

"ممانی مناہل کہاں ہے"

باپ کے بغیر اس چھوٹی بچی کا خیال آنے پر جو دن بھر آصف صاحب کے لئے روتی رہی تھی آئیذل نے سرخی مائل آنکھوں سے عروسہ بیگم کو دیکھ کر پوچھا

"سو گئی ہے وہ آئیذل"

  عروسہ بیگم جو اسکے قریب بیٹھ کر دروازے کی جانب حزن نگاہوں سے دیکھ کر کچھ سوچ رہی تھی آئیذل کو دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولی آنسوں سے لب لباب آنکھیں اسوقت منجمد تھی آئیذل نے گھٹنوں پر سر رکھ کر آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھا مگر کچن کی جانب سے آتی تیز آواز پر اسنے سر اٹھایا تھا

"منہوس پتا نہیں تجھے تیرا پیئو بی پی کا مریض ہے کچھ تو بنا لیتی کھانے کے لئے مگر نہیں مہارانیوں سے آرام کروا لو بس گھر کے کام کرتے ہوئے تو عزاب نازل ہوتا ہے چل جا  فریج میں سبزی رکھی ہے کچھ ہلکا پھلکا کھانا بنا لے آتے ہی ہوں گے"

ریحم نے افسوس بھری نظروں سے عائزہ بیگم کی جانب دیکھا کمر سے ہاتھ ہٹا کر وہ تیکھے تیوروں سے اسے دیکھنے کے بعد آئیذل کو گھورتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی عروسہ بیگم نے بےتاثر نظروں سے انہیں دیکھا تھا

"بیٹا ذاویان آتا ہی ہو گا بہت رات ہو گئی ہے تم نے کچھ کھایا بھی نہیں گھر جاکر آرام کر لو اور کچھ کھا بھی لینا ورنہ کمزوری ہو جائے گی اٹھو منہ ہاتھ دھو لو میری بچی"

عروسہ بیگم نے بےجان لہجے میں کہہ کر اسکے کندھے کو تسلی بخش انداز میں ہلکا سا دبا کر کہا 

"ممانی مجھے گھر نہیں جانا مجھے کچھ دن یہاں رہنے دیں اپنے پاس"

عروسہ بیگم کی جانب رنجیدہ نگاہوں سے دیکھ کر اسنے انکے ہاتھ تھامے تھے گھر کے حالات سے وہ اچھی طرح واقف تھی عروسہ بیگم اور مناہل کو اس حالت میں اکیلے چھوڑ کر جانے کے بارے میں سوچ کر ہی اسکا دل دکھنے لگا جب اسکے مشکل حالات میں آصف صاحب نے اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا تو وہ کیسے انکی بیوہ اور بیٹی کو چھوڑ کر چلی جاتی یہ اسکے لئے تکلیف دہ تھا عروسہ بیگم نے تشکر بھری نظروں سے آئیذل کو دیکھا 

"یہ تمہارے گھر کی چابیاں ہیں آئیذل جو تم آصف کو دیکر گئی تھی میں اب انکو نہیں سمبھال سکتی میری بچی تم ذاویان کیساتھ گھر چلی جاؤ صبح آ جانا یہاں کے ماحول میں رہو گی تو طبعیت خراب ہو جائے گی میری بات مانو یہ لو"

آئیذل کے ہاتھ کو تھام کر اس میں چابیاں دیکر وہ دھیمے لہجے میں بولی آئیذل نے مٹھی میں ٹھنڈی چابیوں کو دبایا تھا دل بھاری ہونے لگا تھا 

"نہیں بیٹا آپ نہیں جانتی دولت وہ تیز دھار تلوار ہے جو سب سے پہلے خوبصورت تعلقات کا سر قلم کرتی ہے اگر میں آپکا نکاح توصیف سے کروا دیتا تو ذندگی بھر خود کو معاف نہیں کر پاتا میرے رب کا شکر ہے جس نے مجھے اتنا بڑا گناہ کرنے سے رک جانے کی توفیق دی"

 آصف صاحب کی کہی گئی ایک ایک بات اسکے دل پر گہرا اثر چھوڑ گئی تھی جنہیں سوچ کر اسکی تکلیف میں بےحد اضافہ ہو رہا تھا آنکھیں تکلیف سے میچ کر وہ سرد آہ کیساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی 

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

''ذاویان اب تک گھر نہیں آیا اور لمظ بھی''

اشفاق صاحب کی جانب دیکھ کر چاہت نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے دانت پیس کر کہا 

"آئیذل کے ماموں وفات پا گئے ہیں ہو سکتا ہے آج رات وہ وہاں قیام کریں اس میں حرج ہی کیا ہے اور بیٹا آپ اتنی ڈیپریس کیوں ہو رہی ہیں"

دو انگلیوں سے پیشانی کو مسلنے کیساتھ اشفاق صاحب نے چاہت کی جانب دیکھ کر کہا چاہت کا اوور ری ایکٹ کرنا اب انہیں ناگوار گزر رہا تھا پہلے ہی وہ اپنی ہی پریشانی میں مبتلا تھے صبح موصول ہونے والے خط نے انکے رونگٹے کھڑے کر دیئے تھے 

"میں ڈیپریس کیوں نہ ہوں ڈیڈ اس لمظ کو وہ ٹیبلیٹ دینا بےحد ضروری ہے ورنہ پچھلے ایک ہفتے کی محنت پر پانی پھر جائے گا ڈاکٹر نے کہا ایک بھی ناغہ نہیں ہونا چاہیے"

فون کو ٹیبل پر رکھ کر چاہت نے الجھ کر کہا اشفاق صاحب نے ہاتھ کی مٹھی ہونٹوں پر رکھ کر تشویش سے چاہت کو دیکھا تھا چاہت نے سختی سے لب بھینچے تھے

"کونسی ٹیبلیٹ کی بات کر رہی ہو"

اشفاق صاحب نے پیشانی پر بل ڈالے تجسس بھری نظروں سے چاہت کو دیکھ کر استفسار کیا چاہت نے تاسف سے انگلیاں چٹخائی 

" لمظ کے لئے وہ بہت سٹرونگ ٹیبلیٹس ہیں ڈیڈ!! لمظ کا مائنڈ واش کرنے کے لئے ،، دوسرے لفظوں میں ان ٹیبلیٹس سے لمظ پاگل ہو جائے گی۔۔۔ میں پچھلے کچھ دنوں سے اسے وہ ٹیبلیٹس کھانے میں اور پانی میں ڈال کر دے رہی ہوں اور آج وہ وہاں پڑی ہوئی ہے کیسے دوں گی اسے وہ ٹیبلیٹس"

چاہت نے ناگواری سے آنکھیں گھما کر کہا اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا یعنی وہ اب تک باز نہیں آئی تھی اپنے ہتھکنڈوں سے اور یہاں ذاویان کا سوچ سوچ کر اشفاق صاحب کا خون کھول اٹھا تھا  جو خط انہیں موصول ہوا اسکو لیکرانہیں پہلا شک ذاویان پر ہو رہا تھا 

"بیٹا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم ذاویان کو بھول کر شمس سے شادی کر لو ذاویان اب شادی شدہ ہے اٹس ریڈیوکیولس کہ تم اب بھی ذاویان کے بارے میں سوچ رہی ہو" 

اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے اسے سمجھانا چاہا مگر چاہت کا ماتھا ٹھنکا پیشانی پر بل ڈالے اسنے کافی دیر تک اشفاق صاحب کو دیکھا

"ذاویان صرف میرا ہے ڈیڈ اینڈ آئی سوئیر اگر لمظ کو راستے سے ہٹانے کے لئے مجھے اسکی جان بھی لینی پڑی تو میں پیچھے نہیں ہٹوں گی سن لیں آپ"

کاٹدار لہجے میں کہہ کر وہ بیڈ سے اپنا پرس اٹھا کر فون رکھتے ہوئے سبک رو قدموں کیساتھ باہر واک آؤٹ کر گئی اشفاق صاحب نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے صوفے سے پشت لگا کر آنکھیں میچی تھی

چادر اوڑھ کر سر پر درست کرتے ہوئے آئیذل باہر آئی تھی عروسہ بیگم کے ہاتھ میں کچھ تھما کر ذاویان ایک قدم پیچھے ہٹا تھا آئیذل نے دیکھ کر اندازہ لگایا تھا کہ اس میں کھانا تھا بھلا کیسے چھوڑ سکتا تھا وہ اسکی فیملی کو اس حالت میں آئیذل کی حزن نگاہوں میں کہیں محبت بھی دیکھی جا سکتی تھی 

''اگر آپ رُکنا چاہتی ہیں تو ہم یہاں رہ سکتے ہیں لمظ''

ذاویان نے سنجیدگی سے آئیذل کی سرخی مائل آنکھوں کو دیکھا ایک ان دیکھی تکلیف اسے اپنے دل کو کاٹتی ہوئی محسوس ہوئی  آئیذل نے دھیرے سے سر کو خم دیکر عروسہ بیگم کی جانب دیکھا

''اگر آپکو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے بتا سکتی ہیں ممانی میں کل صبح ہی آ جاؤں گی آپ مناہل کا اور اپنا خیال رکھئے گا ''

عروسہ بیگم نے اسے تشکر بھری نظروں سے دیکھ کر سر دھیرے سے ہلایا تھا دھیمے قدموں کیساتھ وہ ذاویان کیساتھ برآمدے سے باہر آئی تھی  اسکے لئے گاڑی کا فرنٹ سیٹ گیٹ کھولا آئیذل خاموشی سے سیٹ پر بیٹھی تھی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو کر اسنے گاڑی سٹارٹ کی تھی 

                                      -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

 آصف صاحب کی وفات کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا مگر سب کچھ معمول پر نہیں آ پایا تھا ہر گزرتے دن کیساتھ اسکی حالت بگڑ رہی تھی نہ کھانا ٹھیک سے کھا رہی تھی نہ ہی کسی سے بات کرتی تھی یہاں تک کہ یونیورسٹی میں بھی اسنے اپنے گروپ سے علیحدہ رہنا شروع کر دیا تھا گھنٹوں اکیلی بیٹھی رہتی تھی اور گہری سوچ میں گم سم رہتی تھی ذاویان نے بہت بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کچھ نہیں کہہ کر کنارہ کش ہو جاتی تھی

 آسمان پر بادلوں کا راج تھا ٹھنڈی ہوا کے زور پر اسکے براؤن بال لہلہا رہے تھے یونیورسٹی کے بیک وِنگ میں سیڑھیوں پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں کو فولڈ کئے وہ سرد نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی آصف صاحب کی وفات کے تیسرے دن ریحم نے اسے سب بتا دیا تھا آصف صاحب کا ریحم اور عائزہ بیگم کی باتیں سننا اور انہیں ہارٹ اٹیک آنا اور یہ بھی بتا دیا تھا انفال بی بی کی موت کی اصل وجہ کیا تھی بےجان نگاہیں پچھلے کچھ منٹوں سے ایک ہی نقطے پر منجمند تھی 

بادل کے گرجنے کی آواز پر اسنے جھرجھری لیکر آسمان کی جانب دیکھا بارش ٹوٹ پڑی تھی لب بھینچ کر اسنے آنکھیں بند کی تھی بارش مٹی اور پانی کی آمزش کے بعد پیدا ہونے والی خوشگوار مہک ساتھ لائی تھی جسے وہ آنکھیں میچے بےسکون دل کو تسکین پہنچانے کے لئے سانسوں میں کھینچ رہی تھی 

'' اللہ پاک اور میرے کتنے امتحان باقی ہیں مجھ سے محبت کرنے والوں کو آپ ایک ایک کر کے مجھ سے الگ کر رہے ہیں ماموں کے جانے کے بعد اندر سے بہت ٹوٹ گئی ہوں میں''

آسمان کی جانب دیکھ کر اسنے دھیمے لہجے میں کہا سر میں درد کی شدت میں اضافہ ہوا پچھلے کچھ دنوں سے وہ ڈیپریشن کے باعث برے سردرد میں مبتلا تھی

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

دروازے پر جانے پہچانے انداز میں ہلکی دستک سن کر زوہیب صاحب نے آئیذل کو اندر آنے کی اجازت دی 

''اسلام و علیکم بابا اب آپکی طبعیت کیسی ہے"

دھیمے قدموں کیساتھ چلتے ہوئے وہ انکے قریب نائٹ سٹینڈ پر انکے ڈنر کی ٹرے رکھ کر محبت سے بولی 

"وعلیکم السلام طبعیت بہتر تھی لیکن میری پرنسس کے آ جانے کے بعد میں باککل تندرست محسوس کر رہا ہوں آو بیٹھو بابا کے پاس''

زوہیب صاحب نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ کر اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا دھیرے سے سر ہلا کر انکے پاس چیئر پر بیٹھی تھی 

''بیٹا کوئی پریشانی ہے''

اسے مسلسل نظریں جھکا کر انگلیاں چٹخاتے دیکھ کر زوہیب صاحب نے تشویش سے پوچھا 

"بابا کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں"

آئیذل نے لب بھینچ کر انکی جانب دیکھ کر آہستگی سے پوچھا

"جی بیٹا پوچھیئے"

زوہیب صاحب نے اسکے بےرونق لہجے پر اسکے اداسی کے تاثرات لٹاتے چہرے کو ہمدردی سے دیکھا انفال بی بی کی وفات کا صدمہ اب تک اسکے دل سے اترا نہیں تھا اور آصف صاحب کی وفات نے پراںے ناسور زخموں کو دوبارہ ہرا کر دیا تھا ایسے ہی تو رہنے لگی تھی وہ چپ چپ سی ،، اداس سی ،، جو کسی سے بات نہیں کرتی تھی تمام رشتوں سے کنارہ کشی کئے تنہائیوں میں گھنٹا گھنٹا بیٹھ کر کچھ سوچتے رہنا اسکی عادت بنتا جا رہا تھا

"بابا کیا واقعی میں ذاویان کے قابل ہوں"

زوہیب صاحب نے متفکر نظروں سے آئیذل کی جانب دیکھا ایسا سوال کیسے کر سکتی تھی وہ آخر کئی برے خیالات زوہیب صاحب کے ذہن میں گردش کرنے لگے کیا ان دونوں کا بچپن میں نکاح کر کے زوہیب صاحب سے کوئی غلطی ہوئی تھی یہی سوچ کر وہ اپنے خیالات کے ساتھ الجھتے چلے گئے

"ہمیں لگتا ہے ذاویان ہمارے ساتھ خوش نہیں رہ پائیں گے"

مہر النساء بیگم اور چاہت کی کہی گئی باتیں اسے اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی وہ کسی سے بات کرنا چاہتی تھی اپنے تمام درد کسی سے بانٹنا چاہتی تھی مگر ذاویان سے نہیں کہہ پائی تھی وہ کچھ بھی اس لئے اپنے والد کے پاس آئی تھی 

"بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے آپ جانتی ہیں ذاویان آپ سے بےپناہ محبت کرتا ہے اور آپ کے علاؤہ اسکی خوشی کسی اور میں نہیں ہے"

زوہیب صاحب نے شفقت سے اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا ایک کمزور مسکراہٹ اسکے لبوں پر رینگ گئی

"لیکن "محبت" سب کچھ نہیں ہوتی بابا اور مجھے لگتا ہے میں ذاویان کے قابل نہیں ہوں وہ مجھ سے بےانتہا محبت کرتے ہیں اور میں ۔۔۔ "

آئیذل کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹنے لگے 

" کیا آپ دونوں کی لڑائی ہوئی ہے"

زوہیب صاحب نے شفقت سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بٹھایا 

"نہیں بابا ذاویان نے کچھ نہیں کہا مجھے اب بھی یاد ہے بابا بچپن میں آپ مجھے شہزادی کہتے تھے آپ کہتے تھے بیٹیاں باپ کے آنگن میں آسمان کا تارا ہوا کرتی ہیں ایک زرا۔۔۔ایک زرا سے آنسوں پر انکے ناز اٹھائے جاتے ہیں مگر آپ نے مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ منظر بدل بھی جاتے ہیں۔۔۔  ہر طرف سے تیز شدید کڑی دھوپ پڑتی ہے شفقت کے سائے چھپ بھی جایا کرتے ہیں آپ۔۔۔ آپ نے مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ ماں باپ کے سائے سے محروم ہونے کے بعد بیٹیوں کیساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے"

وہ ٹوٹ پڑی تھی اسکے لہجے میں بےحد کرب تھا آج تک جتنے درد وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھی ان سب کو لفظوں میں پرو کر کہہ دینا چاہتی تھی زوہیب صاحب کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہوئے تھے

"لوگ کتنی آسانی سے عام سی لڑکیوں کو احساس کمتری کے دلدل میں پھینک دیتے ہیں،، مجھے اب بھی یاد ہے لوگ میرے عام نقوش چہرے کے میری گندمی رنگت کے طعنے دیتے تھے کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے یہ ان لڑکیوں کے لئے جن کو سہارا دینے والا بھی کوئی نہ ہو جن کو تسلی دینے والا بھی کوئی نہ ہو لیکن مجھے لگتا ہے لوگ صحیح کہتے تھے ذاویان  کی مستحق نہیں ہوں میں"

نظریں اٹھا کر اسنے تکلیف دہ لہجے میں کہا

"میری بیٹی باپ کے بعد شوہر اللہ کی جانب سے عورت کیلئے چنا گیا مظبوط ترین سہارا ہوتا ہے بیٹا انسان کو بنانے والی تو وہ پاک ذات ہے بیٹیاں شکل صورت کی عام سی بھی کیوں نہ ہوں اپنے ماں باپ کے لئے تو وہ شہزادیاں ہوتی ہیں تو انکا ہمسفر بھی ایسا ہونا چاہیے جو انکی کمی کو پورا کرے نہ کہ انہیں جتلا کر احساس کمتری میں مبتلا جرے اور ذاویان ایسا لڑکا نہیں ہے ضرورت صرف اس پر بھروسہ کرنے کی ہے لوگوں کی باتوں میں آ کر اسے کبھی گنوا مت دینا"

آئیذل کے ہاتھ تھام کر زوہیب صاحب نے محبت بھرے لہجے میں کہا آئیذل نے ایک پل کو انہیں دیکھا تھا اسنے سب کچھ نہیں کھویا تھا اب بھی اسکا احساس کرنے والے اسے محبت دینے والے بہت پیارے تھے اسکے پاس!!

"میری بیٹی مظبوط ہے اور لوگوں کی باتوں پر ٹوٹنے والوں میں سے نہیں ہے اول تو کسی کو بھی خود پر انگلی اٹھانے کا موقع مت دو اور جب آپ حق پر ہوں اور اسکے بعد بھی آپ پر انگلی اٹھائی جائے تو اس ہاتھ کو توڑ دینا چاہیے"

زوہیب صاحب نے ہلکی سی مسکان کیساتھ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا چاہت کے بارے میں سوچتی آئیذل نے دھیرے سے سر ہلایا تھا

"اور آپکو تو چلنا بھی ذاویان نے سیکھایا تھا یہاں دیکھو یہ ویڈیو بھی ذاویان نے ریکارڈ کی تھی جب آپ نے پہلی بار چلنا شروع کیا"

زوہیب صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنا فون اٹھا کر کہا آئیذل کی توجہ موبائل کی اسکرین نے جذب کی

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

-(Past)-

''لمظ بیٹا اٹھو چلو''

نازش بیگم کچھ فاصلے پر اسکی جانب ہاتھ بڑھائے ہوئے اسے محبت سے پکار رہی تھی مگر وہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکائے کھڑے ہونے سے گھبرا رہی تھی

''بیٹا آپکی عمر کے سارے بچے چلنے لگے ہیں آپ ڈرتی رہیں گی تو کیسے چلیں گی آپ''

نازش بیگم نے افسردگی سے اسے گود میں اٹھایا تھا بڑی بڑی بنفشی آنسوں سے بھری آنکھوں نے معصومیت سے ہونٹ سکیڑ کر نازش بیگم کو دیکھا تھا 

''ممانی مجھے دیں لمظ''

کالج سے وہ ابھی آیا تھا مگر لمظ کو دیکھ کر اسکی ساری تھکان اتر گئی تھی لمظ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی 

''دیکھو کیسے ہنس رہی ہے تمہارے ساتھ ذاوی میں تو کہتی ہوں تم ہی اسے چلنا سیکھا دو میں تو تھک گئی ہوں ایک قدم بھی نہیں اٹھاتی ڈر کر نیچے بیٹھ جاتی ہے'' 

نازش بیگم سے لمظ کو لیکر اسنے مسکرا کر اسے دیکھا تھا لمظ نے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے کو ہاتھ سے چھوا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے ہاتھ واپس لے لیا تھا 

''آپ فکر مت کریں ممانی لمظ چلیں ہم ممانی کو چل کر دیکھاتے ہیں''

لمظ نے ذاویان کو دیکھ کر سر کو ناں میں ہلایا تھا نازش بیگم نے سرد آہ بھر پر ہاتھ پیشانی پر رکھا تھا ذاویان نے مسکراتے ہوئے اسے نیچے اتارا تھا آنکھیں سکیڑے وہ نیچے بیٹھ گئی تھی نازش بیگم نے تاسف سے ذاویان کو دیکھا تھا 

''میرے پاس آؤ''

ذاویان نے گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اسکی جانب ہاتھ بڑھایا ہتھیلیوں کو ٹکا کر وہ اٹھی مگر ڈرتے ہوئے دوبارہ گر پڑی تھی ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھ کر وہ دوبارہ اٹھی تھی مگر وہ کافی ہیلدی تھی اس وجہ سے دوبارہ گر جاتی تھی آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسنے ذاویان کو دیکھا تھا 

''اوکے لمظ میں آپ سے کٹی ہو گیا ہوں نہیں چلنا آپ نے''

مصنوعی خفگی سے اسے دیکھ کر وہ اٹھا تھا نازش بیگم نے تاسف سے سر جھٹکا تھا اور کچن کی جانب بڑھ گئی تھی لمظ نے کافی دیر ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھا جو صوفے پر جا کر بیٹھا تھا اور اب اسے اگنور کر رہا تھا ٹیبل کو پکڑ کر وہ دھیرے سے اٹھی تھی ذاویان درزدیدہ نگاہوں سے لبوں پر ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہا تھا کافی بار وہ اٹھتے ہوئے گری تھی 

دونوں ہاتھوں کو ٹیبل سے ہٹا کر وہ لڑکھڑاتے ہوئے صوفے کی جانب قدم اٹھا رہی تھی کچن سے باہر آتی نازش بیگم اسے چلتے دیکھ کر چونکی تھی کچھ قدم اٹھا کر وہ اس سے پہلے منہ کے بل گرتی ذاویان نے اسے تھاما تھا 

''بس ممانی آپکی یہ شکایت بھی دور ہو گئی؟؟! آج کے لئے اتنا کافی ہے بےبی ڈول آپکی فرسٹ واک تو ہو گئی اب تو کوئی مشکل نہیں ہو گی اور میں نے ریکارڈ بھی کر لی''

اسکے محنت کے باعث سرخی مائل پڑتے گالوں کو سہلاتے ہوئے وہ مسکرایا تھا

                                       -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

''Peace, I just need some peace

If I have to, I'll do anything

Don't need your love or your sympathy

But I cannot go on living without peace''

(Peace)

    Song by

                 (The Isaacs)

                                    -🅤🅜🅜🅔_🅦🅡🅘🅣🅔🅢-

رات گیارہ بجے کا وقت تھا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر آئیذل نے آنکھیں وا کی تھی آج وہ آفس   میں میٹنگ کے باعث کافی لیٹ گھر آیا تھا آئیذل نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا 

''آپ سوئی نہیں''

''مجھے نیند نہیں آ رہی تھی''

مختصر الفاظ کا تبادلہ ہوا ورسٹ سے واچ اتار کر نائٹ سٹینڈ طر رکھ کر اسنے کوٹ صوفے پر ڈالا کبرڈ سے سمپل نائٹ روب لیکر وہ فریش ہونے جا چکا تھا آئیذل نے سرد آہ بھری تھی دل بےحد بےچین ہو رہا تھا سردرد گھٹنے کے بجائے دن بہ دن بڑھ رہا تھا اپنے عزیزوں سے اسنے اچانک ہی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی جس سے وہ خود کو مزید تکلیف دے رہی تھی ایک لمحے کے لئے اسنے آنکھیں بند کی تھی ذہن ماؤف ہونے لگا الجھن کیساتھ اسنے بلینکٹ کو مٹھیوں میں بھینچا بالوں میں انگلیاں پھنسائے اسنے لمبا سانس لیا تھا یہ ہر رات کی روٹین تھی اس ٹیبلیٹ کی وجہ سے اسکا ذہن شل ہونے لگتا تھا 

دروازے کھلنے کی آواز پر اسنے تکلیف کیساتھ مطمئن چہرے کیساتھ اسے دیکھا لیپٹاپ اٹھا کر صوفے پر بیٹھ کر وہ آفس سے ریسیو ہونے والے ای میلز چیک کرنے لگا بیڈ سے اتر کر گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے اسکے ہاتھ سے گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا تھا ذاویان نے متفکر نظروں سے اسکی جانب دیکھا نیچے بیٹھ کر وہ ٹوٹے ہوئے کانچ سمیٹ رہی تھی وہ لیپٹاپ سائڈ پر رکھ کر اٹھا تھا

"لمظ ہاتھ پر لگ جائے گا چھوڑیں رہنے دیں"

 آئیذل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اسکے ہاتھ کو آہستگی سے تھام کر اسنے اسے ہٹانا چاہا اسکی نظروں میں اپنے لئے فکرمندی دیکھ کر وہ ہلکی سی مسکرائی تھی کافی دنوں بعد ذاویان نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا

"نہیں بس ہو گیا ہے"

آہستگی سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ چھوٹے کانچ کے ٹکڑے اٹھانے لگی جب ایک ٹکڑا اسکی شہادت کی انگلی میں چبھ گیا 

"سسس" 

ذاویان نے اسکی سسکی سن کر کرخت نظروں سے اسکی انگلی سے بہتا خون دیکھا اور اسے کہنی سے تھام کر بیڈ کر کنارے پر بٹھایا

"منع کیا تھا نہ میں نے"

فرسٹ ایڈ کِٹ اٹھا کر کھولتے ہوئے اسنے گھمبیر لہجے میں کہا آئیذل نے مہر آمیز نظروں سے اسے زخم پر کاٹن بال رکھتے ہوئے دیکھا اسکی فنگر کی بینڈیج کر کے وہ جانے کے لئے اٹھا مگر آئیذل نے اسکا صبیح ہاتھ تھام کر اسے روکا

"آئی وانٹ یو"

اسکی سنہری ماہ تاباں آنکھوں میں دیکھ کر وہ آہستگی سے بولی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا 

"مجھے سکون چاہیے ذاویان جو صرف آپکے پاس ہے میں اکیلے ہینڈل نہیں کر سکتی یہ سب مجھے آپکا ساتھ چاہیے"

اسکے ہاتھ کو تھامے وہ اٹھی تھی اسے سنجیدگی سے دیکھ کر وہ اسکے کہے گئے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا 

"Make me yours, Zavian, I don't want to be away from you anymore"

("مجھے اپنا بنا لیں زاویان، میں اب آپ سے مزید دور نہیں رہنا چاہتی"

اسکی جانب ایک قدم بڑھا کر وہ دھیمے لہجے میں بولی

"I want to be yours, I just want to"

("میں تمہاری بننا چاہتی ہوں میں صرف")

اسے کندھوں سے تھام کر اپنے بےحد قریب کھینچ کر اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھا اپنی بات مکمل نہ ہونے پر آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا کمرے میں ایک پل کے لئے خاموش چھا گئی تھی جسے آئیذل کی جانب ذاویان کے اٹھتے قدموں کی آہٹ نے توڑا تھا

("آج کے لیے اتنا  کافی ہے")

اسکی اس لائن کیساتھ ہی چیریٹیبل کنٹریبیوشنز کی میٹنگ اختتام پذیر ہوئی

 ریون تھیسل کلر سپلٹ سلیو ٹاپ کے نیچے بپیک فلیئرڈ ٹراؤزر سفید خوبصورت پیر ڈیفوڈائل بلیک ہیل میں مقید کئے وہ لب بھینچ کر اسے بےتاثر نظروں سے دیکھ رہی تھی جو فیڈرل اور فوریجن کمپنیز اور برطانوی حکومت کی اہم شخصیات سے سنجیدگی سے گفتگو کر رہا تھا بلو فارمل پینٹ پر بلیک بےشِکن شرٹ اور اس پر ٹین کلر لونگ سلیوز اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا شرٹ کے اوپر کے دو بٹن ہمیشہ کی طرح کھلے ہوئے تھے سیرت نے سرد آہ بھر کر نظروں کا زاویہ بدلا 

''کیا ہم بات کر سکتے ہیں''

سیرت داہنی جانب چیئر موڑ کر صیادی نگاہوں سے عرش جباری کی جانب دیکھنے لگی بلیک فائل ہاتھ میں تھام کر وہ شائستہ نظروں سے سیرت کو دیکھ رہا تھا سیرت نے جواب دینے کے بجائے استغنایت سے سوالیہ انداز میں ایک آئی برو اٹھایا تھا جباری فیکٹریز کی مانیٹرنگ کی زمہ داری حدید نے جان بوجھ کر سیرت کو سونپی تھی اور اب عرش جباری کو ہر چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ لینے سے قبل سیرت کی اجازت درکار تھی جو اسکے لئے شرمندگی کا باعث بن رہا تھا 

''یہاں نہیں اگر تم مائنڈ نہ کرو''

عرش نے تحمل سے کہا سیرت بھی تحمل سے پروفیشنل انداز میں ٹیبل سے اپنا سمارٹ فون اٹھا کر چیئر سے اٹھی حدید نے سنجیدگی سے اسے عرش کیساتھ باہر جاتے ہوئے دیکھا بےساختہ پیشانی پر دو لکیریں ابھری تھی آنکھوں میں برہمی کے تاثرات تھے 

چلتے ہوئے وہ آفس کی گیلری میں آئے تھے سیرت آنکھوں میں الجھن اور ناگواریت سموئے اسکے بولنے کا انتظار کر رہی تھی اور وہ لفظوں کے مناسب چناؤ کے بارے میں سوچ رہا تھا

''سیرت کیا تم''

''ایک منٹ''

 سیرت کے عرش کی بات بات کاٹنے پر عرش نے متعجب نظروں سے اسے دیکھا سیرت کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اسکے ہاتھ سے اسکا سمارٹ فون نیچے گرا عرش نے لب بھینچ کر جھکتے ہوئے اسکے قدموں کے بیچ پڑا اسکا فون اٹھانا چاہا جب سیرت نے قدم اٹھا کر شوز کی ہیل کو اسکے ہاتھ کی پشت پر رکھا کر دباؤ ڈالا عرش نے نظریں اٹھائی تھی تضحیک آمیز نظروں سے اسکو دیکھتی سیرت کے پب مسکراہٹ میں ڈھلے

''شاید اپنی حیثیت بھول گئے ہو تم اس لئے تمھیں یاد دلانا چاہتی ہوں یہ ہے تمہاری اوقات میرے قدموں میں عرش جباری اسوقت تم میرے ملازم ہو اور ملازم کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہونا چاہیے اگلی بار مجھے کانفرنس ہال میں براہ راست مخاطب کرنے سے پہلے اپنا سماجی مقام ضرور دیکھ لینا''

سیرت نے پرُاشتعال آنکھوں سے دبے لہجے میں کہا عرش کا چہرہ طیش کے باعث سرخ پڑا اس قدر تذلیل پر اسکی آنکھیں ابل پڑی تھی سیرت نے اسکے ہاتھ سے ہیل ہٹائی تھی 

''میرا فون''

اسکی جانب ہاتھ بڑھا کر تضحیک آمیز لہجے میں کہہ کر سیرت نے اسکے زخموں کی نمک پاشی کی عرش نے شل ہوتے ذہن کیساتھ اسے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور اسکے بڑھائے ہوئے ہاتھ میں فون تھمایا 

''جسٹ لائک دیٹ''

اسکے ہاتھ سے فون اٹھا کر استہزائیہ نظروں سے اسکا خشم زدہ سرخ چہرہ دیکھ کر سیرت اسکے کوٹ کو طنزیہ انداز میں درست کرتے ہوئے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی عرش نے مٹھی بھینچ کر اسے گیلری سے نکلتے ہوئے دیکھا سیرت کا عرش کا کوٹ درست کرنا کسی نے ناگوار نظروں سے دیکھا اور پھر لفٹ کی جانب بڑھ گیا 

''مجھے کچھ ڈسکس کرنا تھا تم سے''

لفٹ میں اینٹر ہوتے ہی اسکا سامنا سیرت سے ہوا تھا اسے دیکھ کر وہ فون کوٹ کی پاکٹ میں رکھ کر بولی تھی اسے نظر انداز کر کے اسنے فرسٹ فلور کا بٹن دبایا تھا سیرت نے پیشانی پر بل ڈال کر اسے دیکھا استغنایت سے فون پر انگلیاں سکرول کرتے ہوئے وہ اسے مکمل نظر انداز کر رہا تھا اتنی اچھی تو وہ بھی نہیں تھی کہ اسے دوبارہ مخاطب کرتی  لفٹ اوپن ہوتے ہی وہ اس سے پہلے لفٹ سے باہر نکل گئی تھی اب کی بار حدید نے ناگواری سے اسے پیشانی پر بل ڈالے دیکھا تھا عرش کا کوٹ درست کرنا اس قدر ناگوار گزرا تھا کہ وہ اب آفس سے سیدھا اپنے گھر کی جانب نکل گیا تھا

''کیا ہوا حدید کو ڈھونڈ رہی ہو"

سونیا نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا سیرت سینے پے بازو لپیٹے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ اسے مخاطب کر رہی تھی اسکے آفس کا دروازہ بند کے کے سونیا باہر نکلی تھی

"ہاں اسے ہی ڈھونڈ رہی ہوں لیکن سیکریٹری نے بتایا کہ وہ گھر چلا گیا ہے اب اسکے گھر ہی جا رہی ہوں بہت ضروری کام تھا اس سے"

کوٹ کی پاکٹ میں ہاتھ اڑسا کر سونیا نے شوخ لہجے میں کہا سیرت کی مسکان اور گہری ہوئی تھی وہ بھلا سونیا کے گیمز کیسے نہ سمجھتی جو اسے جیلس کرنے کے لئے الٹے سیدھے حربے استعمال کر رہی تھی

"اچھا تو وہ خود تمہیں بتا کر نہیں گیا جو تم سیکریٹری سے پوچھ رہی ہو"

سیرت نے ایک آئی برو اٹھا کر استہزاء کیا سونیا کی مسکراہٹ غائب ہوئی تیکھے چَتونوں سے سیرت کو دیکھنے کیساتھ وہ وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی فون پاکٹ سے نکال کر اسکا ممبر ڈائل کرتے ہوئے وہ اپنے آفس کی جانب بڑھی تھی

"گھر کب گئے تم مجھے کچھ ڈسکس کرنا تھا"

کال کنیکٹ ہوتے ہی سیرت نے تیوری چڑھا کر کہا 

"تو آ جاؤ گھر کر لیتے ہیں ڈسکس"

اسنے سنجیدگی سے جواب دیا تھا

"ایڈریس بھیجو"

سیرت کا جواب پا کر اسکے کٹاؤ دار لبوں پر حسیں متبسم بکھرا ایڈریس ملتے ہی سیرت نے اپنے ڈیسک سے پرس اٹھایا تھا اور آفس سے باہر نکل گئی تھی

                                      °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

''اتنی انسلٹ"

اپنے کمرے میں آ کر عرش ڈریسنگ ٹیبل سے سب کچھ نیچے پھینک کر دھاڑا دونوں ہاتھوں سے سر کے بال نوچ کر وہ بیڈ پر بیٹھا آنکھیں تزلیل کے باعث سرخی مائل تھی

"نہیں چھوڑوں گا میں تجھے کہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا یو بچچچ عرش جباری کی انسلٹ کی ہے تو نے دیکھتی جا تیرے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے"

پھنکار کر فون اٹھا کر ایک نمبر ڈائل کرنے کے ساتھ وہ دو انگلیوں سے پیشانی مسلتے ہوئے کال کنیکٹ ہونے کا انتظار کرنے لگا

"ہیلو مجھے ایک ویڈیو لیک کرنی ہے لیکن وہ ویڈیو تمہارے چینل کیساتھ ساتھ ہر ویب سائٹ ہر چینل ہر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ٹریڈنگ پر ہونی چاہیے"

زہر کند لہجے میں کہہ کر اسنے خباثت بھری نظروں سے اپنا لیپ ٹاپ کھول کر کیبورڈ پر انگلیاں چلائی تھی

"کام ہو جائے گا سر"

دوسری طرف سے مردانہ آواز سنائی دی عرش کے لبوں پر بدتہزیب مسکراہٹ پھیلی

"ٹھیک ہے تمہیں تمہاری پیمنٹ مل جائے گی"

 آنکھوں میں چمک لئے اسنے دلچسپی سے کہا تھا اور لیپٹاپ میں ایک ڈرائیو نکال کر اپنا کوٹ صوفے سے اٹھا کر گاڑی کی چابی نکالنے کیساتھ سبک رو قدموں کیساتھ گاڑی نکال کر روڈ پر ڈال چکا تھا

"اب دیکھتا ہوں سیرت رضوی جب تمہاری جگ ہنسائی ہو گی تو کون تم سے شادی کرتا ہے میری انسلٹ کی تھی نہ تم نے آج تو تمہارے ساتھ تمہارے خاندان کا نام بھی مٹی میں ملا دوں گا بہت ناز ہے نہ تمہیں خود پر آج تمہارے پورے خاندان کی رسوائی کا سبب تمہاری اپنی ذات ہو گی پھر کہاں منہ چھپاؤ گی"

اسٹیرنگ ویل گھماتے ہوئے وہ قہقہ لگا کر ہنسا تھا

                                      °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

گاڑی پارک کر کے وہ نیچے اتری تھی جانچتی نظروں سے وائٹ پیلس کا جائزہ لیتے ہوئے وہ گیٹ کے قریب آئی تھی گارڈ نے اسے دیکھ کر بغیر کسی سوال کے گیٹ کھولا تھا سیرت کو تعجب ہوا تھا چلتے ہوئے وہ ہال وے میں داخل ہو گئی تھی  کرسٹل ڈیکوریشن پیسز کیساتھ فرش پر بچھا مہرون کارپیٹ لکژری فرنیچر  اس پیلس نما حویلی کا سب کچھ بےحد قیمتی تھا سیرت کے قدم  مخصوص یونیفارم میں ملبوس ایک سروینٹ کو دیکھ کر رکے سروینٹ نے سب سے پہلے سر جھکا کر سلام کیا تھا 

"میم سر آپکا ویٹ کر رہے ہیں آئیے اس طرف"

سروینٹ اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا 

سیرت کے لبوں پر ہلکی مخفی مسکراہٹ پھیلی 

"امپریسیو عسکری تم میرا ویٹ کر رہے تھے"

پرسوچ نظروں سے آس پاس دیکھ کر اسنے استکباریت سے سوچا تھا سروینٹ اسے ایک پورشن میں لیکر آنے کے بعد چلا گیا تھا سیرت نے متعجب نظروں سے آس پاس دیکھا تھا اور سامنے کا دروازہ کھول کر ایک نئے پورشن میں داخل ہو گئی تھی سامنے ایک بہت بڑا سوئمنگ پول تھا سیرت چمکتے نیلے شفاف پانی کو دیکھ کر رکی

''رک کیوں گئی چاندنی''

سوئمنگ پول کوپنگ پر سر رکھ کر آنکھیں موندے وہ بھاری گمبھیر آواز میں گویا ہوا ساتھ ہی ماحول میں پھیلتی اسکے پرفیوم کی ہلکی چنبیلی کے پھولوں کی مہک کو اپنی سانسوں میں کھینچا ماربل فرش پر سیرت کی پینسل ہیل کی باریک آواز سے وہ بخوبی واقف ہو چکا تھا اس لئے اسے پہچاننے میں زرا بھی مشکل درپیش نہیں ہوئی تھی سیرت کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی

''تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ میں ہی ہوں''

سیرت نے اسکے بھورے سلکی بالوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوتے پول کے پانی کی لذت چشیدہ بوندوں کو دیکھا جو اسکے دھوپ سے تمتماتے ہلکے سرخی مائل مشقت کی ریاضت سے تشکیل پائے وضعدار کسرتی بدن پر پھسل رہی تھی کوپنگ پر دونوں کہنیاں ٹکائے اسنے آنکھیں وا کر سیرت کی جانب دیکھا اسکی تابندہ بھوری آنکھوں نے سیرت کو سر سے پاؤں تک نہارنا شروع کیا 

''تمہاری خوشبو''

ایک پرسکون لمبا سانس کھینچ کر اسنے خمار آلود لہجے میں کہا سیرت نے منجمند آنکھوں سے اسے دیکھا تھا اسکی نظریں اب بھی اسکے سراپے کو ہی نہارنے میں مصروف تھی چہرے پر ہوا کے باعث جھولتی بھورے بالوں کی ریشمی لِٹ کو کان کے پیچھے اڑسا کر سیرت نے نظریں پول کے شفاف چمکتے پانی پر مرکوز کی کچھ سیکنڈ بعد اسنے دھیمے لہجے میں اسے پکارا تھا

''عسکری''

''ہممم''

اسکے کان کے نیچے نظر آتے تِل کو پراسرار نگاہوں سے دیکھ کر اسنے بےحد بوجھل سرگوشی کی جس کے نتیجے میں سیرت نے متفکر نظروں سے اسے دیکھا 

''مجھے کچھ چاہیے تم سے''

اسے متذبذب نظروں سے دیکھ کر سیرت نے مطمئن سے لہجے میں کہا اسکی بھوری آنکھوں نے کچھ پل سیرت کے چہرے کے تاثرات پڑھنے چاہے 

''کیا چاہیے چاندنی''

تمام نقوش سے چھلکتے کانفیڈینس کے تاثرات کے ساتھ اسکے کٹاؤ دار لبوں پر ایک حسیں متبسم بکھرا

''تمہارا وہ بلیک کارڈ''

سیرت نے متبسم نظروں سے اسے دیکھ کر عام سے لب و لہجے میں کہا 

''کسی کو مار کر اسکا الزام میرے سر ڈالنا چاہتی ہو سیرت" 

وہ دلفریب تبسم جو کچھ دیر پہلے اسکے لبوں پر پھسلا تھا انتہا پکڑتے ہوئے اس قدر گہرا ہونے کیساتھ دلفریب ہوتا چلا گیا کہ سیرت کے دل کو بھی لبھا گیا مگر جلد ہی اسکے طعنے اور مکاری کو بھانپ کر سیرت نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا

''نہیں دینا تو مت دو''

''آؤ اور لے لو جانم''

سیرت نے ناگواری سے بھنویں تن کر اسے گھورا گیلے بالوں کو ہاتھ سے پیشانی سے پیچھے ہٹا کر پینٹ کی پاکٹ سے بلیک پلاٹینم کارڈ نکال کر شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی میں گھماتے ہوئے وہ دلفریب لہجے میں بولا تھا

''لاؤ دو''

سیرت نے برہمی سے اسے دیکھ کر ہاتھ اسکی جانب بڑھایا تھا 

''تمھیں سوئمنگ آتی ہے''

 وہ استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھ کر بولا سیرت نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ تو بےصبری سے اسکے جواب کا منتظر تھا

''ہاں آتی ہے''

سیرت نے کارڈ کی جانب ہاتھ بڑھا کر تیکھے لب و لہجے میں کہا تھا ایک خفیف مسکراہٹ کیساتھ اسنے عین وقت پر کارڈ پیچھے کیا سیرت جو کارڈ لینے کی کوشش میں کچھ زیادہ ہی جھک چکی تھی چھپاک سے پانی میں گری تھی 

'''چچچ!! سوری لٹل گرل آؤ اور لے لو اگر لے سکتی ہو''

لبوں کے کنارے سے مسکراتا ہوا وہ آہستگی سے اسکے چہرے کو بمشکل انگلیوں کے پوروں سے چھوئے پول کی گہرائی میں اتر گیا تھا 

''فائن لیٹس ڈو اٹ دسوے''

چہرے پر بکھرے گیلے شارٹ باب کٹ بالوں کو سیرت نے پھنکار کر چہرے سے ہٹایا تھا

 پیروں سے ہیل شوز نکال کر وہ اسکے پیچھے پانی کی گہرائی میں اتر گئی 

                                         °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

"You're on my mind

Been there all night

I've been missing seeing my midnight queen

Come have a drink

Or maybe three

And Darling I'll make you my next victim"

I Want To

        Song by :-

                      (Rosenfeld)

                                         °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

سیرت کے بھورے سلکی بال پانی میں سانپ کی طرح بل کھا رہے تھے دیکھنے سے بالکل بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ یہ پول اتنا گہرا ہو سکتا تھا آس پاس دیکھتے ہوئے اسے کہیں بھی نا پاکر سیرت نے تذبذب دھندھلی نظروں سے آس پاس دیکھا شفاف نیلے پانی میں تیرتے ہوئے وہ آس پاس دیکھنے کیساتھ اسے ڈھونڈنے لگی کچھ فاصلے پر اسے متبسم نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ تیرتے ہوئے پیچھے سے اسکے قریب پہنچا اور اسکے کان کے نیچے موجود تِل پر آہستگی سے لب رکھے سیرت کی جان لبوں پر آئی وہ تیزی سے پیچھے مڑی تھی مگر وہ دوسری جانب نکل گیا تھا جس جگہ اسنے لب رکھے وہ جگہ دہکنے لگی تھی سیرت نے پس و پیش نظروں سے آس پاس دیکھا تھا اب اسے اندازہ ہو چکا تھا اسکے پیچھے آ کر اسنے کتنی بڑی غلطی کی تھی درحقیقت اسنے خود کو خود ہی اسکے چنگل میں پھنسایا تھا اور اب رہائی ناممکن لگ رہی تھی 

 سیرت کا باریک لائٹ کلر فیبرک میں بھیگا سراپا اسکے لئے باعثِ دیوانگی بن رہا تھا سیرت کی آنکھوں کا منظر پانی بہت پہلے دھندلا چکا تھا آنکھیں بند کر کے اسنے پانی کی اوپری سطح کی جانب تیرنا شروع کیا باہر آ کر لمبا سانس کھینچ کر اسنے دوبارہ پانی میں اسے ڈھونڈنا شروع کیا 

اسے صیادی نگاہوں سے دیکھ کر وہ سنجیدگی سے دوبارہ اسکی جانب بڑھا تھا سپلٹ سلیوز ٹاپ کے باعث اسکے سفید بازو نظر آ رہے تھے جنہیں پراسرار مسکراہٹ کیساتھ دیکھ کر اسنے شہادت کی انگلی سے اسکی کلائی کو ٹریس کیا سیرت جھرجھری لیکر اسکی جانب پلٹی مگر وہ دوبارہ پیچھے ہٹ گیا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے کارڈ لہرا کر اسنے استکبار نگاہوں سے اسے دیکھا تھا سیرت کی سانسیں دوبارہ اکھڑنے لگی ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ دوبارہ اوپر جانے لگی مگر اسکی کلائی کو کھینچ کر اسنے اسے دوبارہ اوپر جانے سے باز رکھا سیرت نے سر کو ہلا کر اسکے ہاتھ سے اپنی کلائی نکالنی چاہی تھی مگر اسے کوپنگ کے اندرونی ماربل حصے سے لگا کر وہ اسکے چہرے کے بےحد قریب آیا تھا سیرت نے  متذبذب نظروں سے اسے دیکھا تھا اسکی بیوٹی بون کو انگشتِ شہادت سے سٹروک کرتے ہوئے اسکا دوسرا ہاتھ سیرت کی کمر میں حائل ہونے لگا اسکی ایسی بےباک حرکتیں دیکھ کر سیرت  کی رہی سہی جان نکلنے لگی اسکے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ ڈال کر سیرت نے بند ہوتی آنکھوں سے اسے سختی سے اپنی گردن پر لب رکھتے ہوئے دیکھا تیزی سے حرکت کرتے اسکے پیروں اور ہاتھوں میں اعتدال آنے لگا حدید کی گردن کی پچھلی جانب ہاتھ رکھ کر سیرت نے بےساختہ اسکا چہرہ اپنے بےحد قریب کیا وہ چونکا تھا سیرت کے لبوں نے آہستگی سے اسکے لبوں کو چھوا حدید کی انگلیوں کی گرفت سیرت کی کمر پر سخت ہوئی دوسرے ہاتھ سے سیرت نے اسکی سائڈ پاکٹ سے مکاری سے کارڈ نکالنا چاہا جس کا اندازہ اسے ہو چکا تھا اسکے دوسرے ہاتھ کو آہنی گرفت میں لیکر اسنے سیرت کو اپنی جانب کھینچا اسکے چوڑے سینے سے لگ کر سیرت پیچھے ہٹنے لگی مگر اسے پیچھے ہٹنے کی مہلت دیئے بغیر وہ اسکے چہرے کو پہلے ہاتھ سے اوپر اٹھا کر اسکے لبوں پر لب رکھ گیا تھا 

سیرت کی آنکھیں بند ہونے لگی اسکے تیزی سے حرکت کرتے پیر شل ہونے لگے سانس نہ آنے کے باعث اسکا ذہن شل ہونے لگا حدید نے اسکی کمر میں اپنے توانا بازؤ کا حصار بنا کر اسے مزید گہرائی میں ڈوبنے سے قبل اپنی پناہوں میں لیا اسے سینے میں بھینچ کر وہ پانی کی اوپری سطح کی جانب بڑھنے لگا سیرت نے اسکے کندھے کو تھاما ہوا تھا 

"تمہاری جان لینے کا دل کر رہا ہے میرا بےشرم انسان"

کوپنگ پر بیٹھ کر کپڑے نچوڑتے ہوتے سیرت نے اس کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ٹاول اٹھا کر اسکی جانب بڑھاتا وہ مبہم سا مسکرایا سیرت نے اسکے ہاتھ سے کھینچ کر ٹاول لیا تھا اور خود کو لپیٹا 

"کیوں آئی تھی میرے قریب چاندنی"

اسے اپنے قریب بیٹھتے دیکھ کر سیرت نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا مگر اسکے سوال پر سیرت نے آنکھیں گھمائی 

"تم اچھے سے جانتے ہو میں کیا کر رہی تھی"

سینے پر بازؤں پھیلا کر سیرت نے نظریں چرا کر سنجیدگی سے کہا وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا سیرت کا چہرہ سرخ پڑا مگر اسکی وہ دلفریب ہنسی۔۔

 سر کو دھیرے سے جھٹک کر اسنے ٹاول سے بالوں کو رگڑتے ہوئے خشک کیا سیرت نے خجل نظروں سے اسے دیکھا اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے مدد کے لئے سیرت کی جانب ہتھیلی بڑھائی سیرت نے تیوری چڑھا کر اسے دیکھا مگر ایک دلفریب مسکراہٹ کیساتھ اسنے اسکی ہتھیلی میں اپنا ہاتھ دیکر معصومیت سے اسے دیکھا پیچھے سے آتی سونیا کی پیشانی پر بل پڑے تھے جنہیں سیرت نے محظوظ نگاہوں سے دیکھا سونیا کے لئے ہی تو اسنے اسکا ہاتھ تھاما تھا سونیا حاسد نظروں سے ان دونوں کے بھیگے وجود دیکھ رہی تھی

"کیا ڈرائر ہے یہاں پر"

گیلے بالوں کو کندھے سے پیچھے کرتے ہوئے سیرت نے سونیا کو مختصر دیکھ کر دوستانہ لہجے میں کہا حدید نے مڑ کر سونیا کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر چہرے سے جلن کے تاثرات ہٹا کر ہلکی سی مسکرائی تھی

"کیا میں اس حالت میں گھر جاؤں گی"

سیرت نے ایک آئی برو اٹھایا تھا اپنی وائٹ شرٹ اٹھاتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا سونیا کے چہرے سے مسکان ایک پل میں غائب ہو چکی تھی جب حدید نے اسے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا تھا

"ناٹ آ چانس مائی لوو تم اس حالت میں باہر نہیں جاؤ گی میرے روم میں چلی جاؤ وہاں سے کوئی بھی ڈریس لے لو میں فریش ہوکر ملتا ہوں"

اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا سیرت نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھ کر اپنا ہاتھ واپس لیا تھا وہ اسکے سرخ اناری چہرے کو دیکھ کر مسکرایا اسکے درزدیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سیرت سونیا کے قریب سے واک آؤٹ کر گئی تھی اپنی وائٹ شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے وہ سونیا کی جانب بڑھا اسکا سیرت کی ہاتھ کو چومنا سونیا کے تن بدن میں آگ لگا گیا تھا مگر اس بےفکرے کو پرواہ کہاں تھی!؟

"میں تو تمہارے ساتھ ٹائم سپینڈ کرنے آئی تھی لیکن میرے دوست کیساتھ تو پہلے ہی کوئی ہے انجوائے یوئر کمپنی حدید میں بعد میں آؤں گی کبھی"

فگار نظروں سے اسے دیکھ کر وہ بغیر ایک لفظ کہے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی حدید نے سنجیدگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا

                                        °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

بی جان کے پاس بیٹھی سیرت نے نئے نمبر سے کال آنے پر فون سوئچ آف کیا تھا اور مسکراتے ہوئے بی جان کیساتھ ڈنر کرنے لگی بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے اسنے بدمزگی سے آنکھیں وا کی تھی اسکا فون مسلسل رنگ ہو رہا تھا سیرت کے فون پر ٹریکر لگانے کی وجہ سے جتنی کالز سیرت کو آتی تھی اتنی کالز اسکے پاس بھی آتی تھی کال کنیکٹ کر کے اسنے فون کان سے لگایا تھا

"فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی سیرت رضوی اپنے عسکری صاحب کیساتھ تھی کیا ؟؟ لیکن اسوقت عسکری کیساتھ کیا کر رہی ہو  اوہ میں سمجھ گیا میں نے ڈسٹرب تو نہیں کر دیا تم دونوں کو؟؟ ڈونٹ وری تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا بتانا یہ تھا کہ ایک گھنٹے میں تمہاری ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر ٹرینڈنگ ہونے والی ہے روک سکتی ہو تو روک لو"

حدید کی آنکھوں میں سرخی پھیلنے لگی لہو رنگ آنکھوں سے فون کی سکرین کو گھور کر اسنے لیپٹاپ سے فون کنیکٹ کیا اور عرش کی لویکیشن ٹریس کرنے لگا ٹریس ہوتے ہی اسنے کال منقطع کر دی تھی

"بچ!! میری کال ڈسکنیکٹ کر دی"

فون کو دیوار میں مار کر وہ دانت پیستے ہوئے صوفے سے اٹھا تھا کیونکہ ڈور بیل بجی تھی شراب کی بوتل کو پیر مار کر صوفے کے نیچے گرا کر وہ لڑکھڑاتے قدموں کیساتھ دروازے کی جانب بڑھا تھا بجلی تیزی سے کڑکی تھی گھر کی لائٹ جا چکی تھی ٹیبل سے ٹھوکر کھا کر وہ بڑبڑاتے ہوئے دروازے پر آ کر رکا تھا

"کون ہے"

کافی دیر تک کوئی جواب نہیں آیا تھا ناگواری سے دروازے کو گھور کر وہ واپس پلٹا تھا جب دوبارہ دروازے پر دستک ہوئی تھی اب کی بار دستک شدید تھی

"ابے کون ہے"

دروازے کی جانب قدم اٹھاتا وہ  غصے سے چلایا تھا مگر دوبارہ وہی خاموشی تھی دروازے کے آئی ہول سے اسنے باہر دیکھا تھا آسمانی بجلی کی خیرہ کر دینے والی تیز روشنی میں ایک پرچھائی نظر آئی تھی خوف کی لہر اسکے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی دوبارہ دستک ہوئی وہ اچانک اس قدر تیز دستک پر جھرجھری لیکر ایک قدم پیچھے ہٹا تھا 

"Open the door"

"(دروازہ کھولو)"

رونگٹے کھڑے کر دینے والی وحشت سے بھرپور بھاری آواز سنائی دی تھی بادل کے گرجنے پر وہ بےساختہ کھلی ہوئی کھڑکی کی جانب دیکھ کر کھڑکی بند کرنے کی غرض سے اسی سمت میں بھاگا تھا کھڑکی بند کر کے چٹکی چڑھا کر وہ ونڈو سے دور ہٹتے ہوئے حلق تر کرتے ہوئے اپنے پسینے میں شرابور چہرہ بازو کے کف سے صاف کرتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا 

"بہت پی لی ہے میں نے آج"

نشے کی حالت میں پیشانی کو سہلاتے ہوئے وہ تمام واقعہ کو اپنا بھرم سمجھ رہا تھا اس بات سے بالکل ناواقف تھا کہ موت اس سے کچھ ہی قدموں کے فاصلے پر اسے نگاہِ غائر سے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ایک پینتھر اپنے شکار پر جھپٹنے سے پہلے دیکھتا ہے صوفے پر سر گرا کر وہ آنکھیں بند کر گیا جب نائٹ سٹینڈ سے شیشے کا گلاس اور جگ نیچے گرا وہ سٹپٹا کر اٹھا اور آس پاس حراساں نظروں سے دیکھا 

"کک۔۔کون ہے"

 خوف سے سٹپٹا کر اسنے زمین پر ٹوٹ کر بکھرے ہوئے شیشوں کو دیکھنے کے بعد پورے کمرے میں نظریں گھما کر ٹھٹھرتے ہوئے استفسار کیا 

"how can you escape from your death"

بھاری آواز میں کی گئی ہولناک سرگوشی اسکے وجود میں خوف کی برقی لہریں پیدا کر گئی تھی دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر وہ ہڑبڑاہٹ میں اٹھتے ہوئے نیچے گرا تھا بھاری قدموں کی آہٹ جیسے جیسے قریب تر ہو رہی تھی اسکا سانس گھٹ رہا تھا 

"آہ"

حلق کے بل چیخ کر اسنے تھراتھرتے ہوئے صوفے سے لگ کر اپنے سر کے بالوں کو مٹھیوں میں پکڑ کر نوچا تھا اندھیرے میں کچھ بھی نظر آنے سے قاصر تھا اب کی بار دوسرے نائٹ سٹینڈ سے لیمپ نیچے گرا تھا خوفزدہ نظروں سے نیچے گرے لیمپ کی جانب دیکھ کر وہ اٹھا تھا خوف سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں چمک رہی تھی نائٹ سٹینڈ پر ہاتھ رکھ کر وہ ٹوٹے ہوئے لیمپ پر جھکا اپنے پیچھے قدموں کی بھاری چاپ سن کر وہ ساکت ہوا اپنے ہاتھ پر کچھ  بےحد ٹھنڈی اور نوکدار چیز رینگتی محسوس ہوئی پسینہ اسکی پیشانی سے پورے چہرے کو تر کر چکا تھا ہاتھ ہٹانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی نہ ہی اپنے پیچھے دیکھنے کی ہمت ہوئی تھی کھڑکی سے چمکتی بجلی کی روشنی میں اسنے ایک قوی ہیکل پرچھائی کو خود پر کسی بادل کی طرح چھاتے ہوئے دیکھا تھا 

"So You will blackmail Seerat ،، let me tell you in exact words what blackmail means!"

("تو تو سیرت کو بلیک میل کرے گا میں تجھے صحیح الفاظ میں بتاتا ہوں کہ بلیک میل کا مطلب کیا ہے!")

آتش اگلتا لہجہ عرش کی رہی سہی سانسیں بھی اٹکا چکا تھا فرش پر بھاری بوٹس کے چلنے کی آہٹ نے خاموشی میں ڈوبے کمرے میں ہلچل سی برپا کی تھیعرش کے حلق کے مقام پر گلٹی ابھری تھی آنکھوں کی پتلیاں اپنے ہاتھ کی پشت پر رینگتے نوکیلے خنجر کو دیکھ کر ساکت ہوئی

"I really like this finger of yours, can I cut it with a dagger??"

"(مجھے تمہاری یہ انگلی بہت پسند ہے، کیا میں اسے خنجر سے کاٹ سکتا ہوں")

اسکے ارادے جان کر عرش نے خوف سے پیچھے ہٹ کر اپنا ہاتھ کھینچا مگر اسکی شہادت کی انگلی پر خنجر رکھے وہ اپنا کام سر انجام دے چکا تھا خاموش ماحول میں ایک ہولناک چیخ سنائی دی تھی بےیقینی سے اسنے اپنے ہاتھ سے بہتے سرخ سیال کو دیکھا تھا اسکی شہادت کی انگلی اسکے ہاتھ سے الگ ہو کر نیچے گری تھی دل دہل گیا تھا صدمے سے چیخ اسکے حلق میں دم توڑ گئی تھی 

"I will cut you into pieces and feed them to my hungry pets" 

"(میں تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے بھوکے پالتو جانوروں کو کھلاؤں گا)"

جبڑے بھینچے وہ کہر برساتے لہجے میں کہہ کر اسکے قریب سے دروازے کی جانب واک آؤٹ کر گیا تھا بےہوش ہوتے ہوئے عرش نے اس پرچھائی کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تھا  جو جاتے جاتے پیچھے مڑی تھی اندھیرے میں چمکتی وہ مرجانی آنکھیں دیکھنے کے بعد وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا تھ

"لمظ کیا فیورر ہے آپکو" 

 لمظ کے بخار سے دہکتے چہرے کو آہستگی سے چھو کر کر اسکی بنفشی آنکھوں میں جھانک کر ذاویان نے فکرمندی سے کہا آج اس پر ایک عجیب سا سحر طاری ہو رہا تھا بوجھل نگاہوں سے اسنے معصومیت سے آنکھیں جھپک کر ذاویان کو دیکھا تھا 

"پتا نہیں لیکن میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے"

خشک حلق تر کر کے لمظ نے نظریں اسکی سرکش نگاہوں کیساتھ ملائی جن میں کچھ دیر پہلے جذبات کی لہریں اٹھ رہی ان آنکھوں میں اسوقت اسکے پئے بےحد پریشانی تھی

" ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں کتنا شدید بخار ہے آپکو"

لمظ کی ٹھوڑی کو اوپر اٹھا کر اسنے خمار آلود لہجے میں بھاری سرگوشی کی لمظ نے مخمور نگاہوں سے اسکا وجیہ چہرہ دیکھا

"میری پرواہ مت کریں"

سر کو دھیرے سے نفی میںہلا کر اسنے تھکے ماندے لہجے میں کہا ذاویان کو ہر گزرتے سیکنڈ کیساتھ پرہشانی لاحق ہوتی جارہی تھی

 "کون روک رہا ہے آپکو ذاویان میں چاہتی ہوں آپ میرے قریب آئیں"

لمظ نے اسکی گرم نکہت بیر سانسیں گردن پر پڑتے ہی دھیمے کیف آور لہجے میں کہا ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی ٹھوڑی اوپر اٹھائی تھی لمظ کی گھنی پلکوں کی باڑ توڑ کر ایک موتی اسکے رخسار پر پھسلا 

 "میں آپکو چھو کر دیکھنا چاہتی ہوں،میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ محبت پر عبور رکھنے والے شخص کی بانہوں کے گھیرے کا احساس کیسا ہے،اور آپکو یوں اپنے قریب پا کر میں اس بات کا مشاہدہ کرنا چاہتی ہوں کہ کیا واقعی محبت اتنی خوبصورت ہوتی ہے میری ذندگی بہت بدرنگ ہو گئی ہے ذاویان"

اسکی شرٹ کو دونوں مٹھیوں میں بھینچے وہ ڈوبتے لہجے میں بولی اسکی بکھرتی حالت پر ذاویان کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی کیا ہو رہا تھا اسے وہ نہیں جانتا تھا بند ہوتی آنکھوں کیساتھ سر چکرانے کے باعث وہ صوفے پر گرنے لگی ذاویان نے اسکے سر کے پیچھے ہتھیلی رکھ کر اسے سر میں چوٹ لگنے سے بچایا 

"لمظ پلیز میرے ساتھ چلیں"

اسکی آنکھوں میں دیکھ کر ذاویان نے سنجیدگی سے کہا

"نہیں چاہیے تمھاری یہ ہمدردی مجھے صرف تم چاہیے ہو"

اسکے ہاتھ کو ہٹا کر وہ تڑپ کر اسکی شرٹ کا کالر چھوڑ کر بولی صوفے کے آرم پر ہاتھ رکھ کر ذاویان دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو لمظ کے سلکی بالوں میں الجھا کر اسکے لبوں پر قابض ہوا ہوائیں نشہ سا رچانے لگی کمرے میں خاموشی چھا گئی صرف تیز سانسوں کے تبادلے کی ہلکی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھی آخرکار لمظ کی سانسیں اکھڑنے لگی اسکے لبوں کو آزادی بخش کر ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا اور بغیر ایک لفظ کہے ضبط کھونے کے ساتھ اسکی تپتی گردن پر لب رکھے

"ذ۔۔۔ذاویان"

سرشاری میں ڈوبا اسکا نام آئیذل کے لبوں سے خطا ہوا تھا لمبا سانس لیتی وہ سر  صوفے کی پشت پر گرائے سسکی تھی گردن پر اسکی پرتپش سانسیں اس قدر جان لیوا ثابت ہو رہی تھی۔کہ دوسرے ہاتھ سے اسکی کمر پر گرفت میں نرمی لا کر ذاویان نے ان سرخ مہروں پر الفت سے لب رکھے تھے جو اسکی ہی محبت کی بےباک نشانیاں تھی آئیذل مٹھیوں سے شرٹ نکال کر اسکے سلکی بالوں میں انگلیاں پھنسائے اس سے یگانگت کے عالم میں لپٹ کر  سسکی تھی 

"حقیقت تو یہ ہے لمظ کہ تم میری شدتوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتی...اور میں۔۔۔۔ میں رکنا نہیں چاہتا کتنا پیاسا ہوں میں جانتی ہو صرف تمہارے پیپرز کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہا ہوں تمھیں تمہاری پڑھائی سے ڈسٹریکٹ نہیں کرنا چاہتا"

آئیذل کے کان پر جھک کر وہ بےحد بھاری خمارآلود لہجے میں گویا ہوا آئیذل نے سرشاری کے عالم میں آنکھیں میچی بڑھتی حدت کیساتھ اسکی تیز دھڑکنوں میں تیزی آ رہی تھی 

("اور مت بھولو کہ دروازہ کھلا ہے،لیکن  تم  مجھے جانتی ہو جب میں تمھیں حاصل کرنے پر آ گیا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کوئی دیکھے کوئی سنے۔۔۔ اور میں تمہیں کسی کے سامنے شرمندہ بھی نہیں کرنا چاہتا لمظ!! سوچو اگر فیملی کا کوئی فرد تمھیں اس قدر عقیدت سے مجھے سینے سے لگاتے دیکھتا ہےتو کیا سوچیں گے")

اسکے کان کی لو کو لبوں میں دبائے وہ بھاری گمبھیر آواز میں بولا آئیذل نے خماریت میں ڈوبی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا اسکی موجودگی کا احساس،، اسکا ہر گزرتے سیکنڈ کیساتھ حاصل ہوتا پرحدت قرب اسکی بھاری گمبھیر سرگوشیاں اسکے کلون کی طلسمی مہک آئیذل کے حواس باختہ کرنے کا سبب بن رہے تھے

("خود کو دیکھو لمظ!! تمہاری حالت مجھ سے بھی بدتر ہے،، لیکن اچھا ہے اب تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ تمہاری محبت نے میرا کیا حال کیا ہے کیا بنا دیا پے مجھے،، تم میری لت ہو تمھارا عادی ہوں تمھارے ہونے کا احساس میرے جینے کی وجہ ہے میرے صبر کوت آزماؤ لمظ آئی سوئیٹر میں نے بہت مشکل سے قابو میں رکھا ہے خود کو")

بھاری سرگوشی لمظ کے کان میں گھول کر اسنے اسکی گھنی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو خمار آنکھوں سے دیکھا جو سرشاری کے بوجھ تلے گری ہوئی تھی اسکی بھاری گمبھیر آواز پر ہزارویں حصے میں آئیذل کا دل تیزی سے دھڑکا

"اور یاد رکھنا تمھارا سکون صرف مجھ میں ہے تمھیں کسی اور چیز سے سکون حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ تم مجھ سے اور میں تم سے جڑا ہوں"

اسکے دہکتے لبوں نے لمظ کے رخسار کو چھوا لمظ کی پیشانی ابھی سے عرق آلود ہو چکی تھی صوفے کے آرم پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہ اس پر سے اٹھا  اسکا ہاتھ تھامے وہ کبرڈ کی جانب بڑھ گیا لمظ نے متفکر نظروں سے اسے ٹاول نکالتے ہوئے دیکھا اسکا ہاتھ تھام کر وہ واش روم کی جانب بڑھ رہا تھا آئیذل کا دل ہزارویں حصے کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا آخر کیا کرنے والا تھا وہ!!

                                    °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

"کس کا فون ہے"

اشفاق صاحب نے چاہت کو فون اٹھاتے دیکھ کر تشویش سے پوچھا چاہت نے مختصر نظر سے اشفاق صاحب کی جانب دیکھ کر کال کنیکٹ کر کے فون کان سے لگایا

"بی بی جی مجھ سے ایک غلطی ہو گئی آپ نے لمظ بی بی کو جو گولی کھلانے کو کہا تھا میں نے اسکی جگہ انکو دوسری گولی دے دی"

 فون کی دوسری جانب ملازمہ کی ڈری سہمی آواز آئی تھی 

"بلڈی ایڈیٹ تم سے ایک کام ٹھیک سے نہیں ہوتا کونسی ٹیبلیٹ کھلائی ہے تم نے اسے"

چیئر سے اٹھ کر پھنکار کر کہتے ہوئے چاہت ٹیبل سے گارڈن کی جانب واک آؤٹ کر گئی اشفاق صاحب کی پیشانی پر بل پڑے تھے مگر شمس کو آتے دیکھ کر وہ مسکرا دیئے تھے چاہت کو بڑی منت سماجت کے بعد وہ ڈنر پر لیکر آنے میں کامیاب ہوئے تھے اسی بہانے وہ شمس اور اسکی شادی کی بات چلانا چاہتے تھے مگر یہاں بات بننے کے بجائے شاید مزئد بگڑنے والی تھی

"اسلام و علیکم انکل پلیز بیٹھئے" 

بلیک پولو شرٹ کے نیچے بلیک ہی جینز پہنے وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا اشفاق صاحب نے سلام کا جواب دیکر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا 

"کچھ بکو گی کونسی ٹیبلیٹ دی ہے تم نے اسے"

گارڈن میں آ کر چاہت نے دانت پیسے تھے ملازمہ نے سرد آہ بھری تھی اور اسے ٹیبلیٹ کے بارے میں بتانے لگی چاہت نے دو انگلیوں سے پیشانی کو مسلا تھا کیونکہ لمظ نے سیڈیٹیو ٹیبلیٹ کھا لی تھی جو چاہت کی سکون کی میڈیسنز میں سے تھی ناجانے اب کیا ہونے والا تھا کال منقطع کر کے چاہت تیزی سے ٹیبل کی جانب بڑھی مگر شمس کو دیکھ کر اسکا ماتھا ٹھنکا تھا اشفاق صاحب کو آگ اگلتی نظروں سے دیکھ کر اسنے اپنا پرس ٹیبل سے اٹھایا

"رکو"

اشفاق صاحب نے اسکی کہنی سختی سے پکڑ کر اسے جانے سے روکا شمس نے کڑے تیوروں سے چاہت کو دیکھا تھا وہ یہاں صرف اشفاق صاحب کے کہنے پر آیا تھا ورنہ چاہت نے اس دن کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی

"اناف ڈیڈ اگر مجھے پتا ہوتا کہ آپ مجھے یہاں کسی اور وجہ سے لیکر آ رہے ہیں تو میں کبھی نہیں آتی لیکن اچھا ہی ہوا آئندہ کے لئے میں بےوقوف نہیں بنوں گی"

اپنی کہنی چھڑا کر دانت پیستے ہوئے چاہت نے اشفاق صاحب کی جانب دیکھا اشفاق صاحب کی گرفت مزید سخت ہوئی چاہت نے اچھنبے سے انکی جانب دیکھا پرُاشتعال آنکھوں سے چاہت کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ مطمئن چہرا لیکر شمس کی جانب مسکراہٹ اچھال گئے چاہت مٹھی بھینچ کر چیئر پر بیٹھی تھی

                                      °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

"You are getting very hot, let me refresh you Baby Girl"

("تمھیں بہت گرمی لگ رہی ہے، چلو میں تمہیں ریفریش کر دوں ")

آئیذل نے حیرت سے پھیلتی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا آئیذل کے سلکی بالوں سے کیچر نکال کر نائٹ سٹینڈ پر رکھ کر ذاویان نے نکہت آلود بالوں میں چہرہ چھپا کر لمبا سانس لیکر پرخمار لہجے میں سرگوشی کی لمظ کے بخار سے دہکتے گالوں پر شرم و حیا کی سرخی پھیلنے لگی

"ڈونٹ وری بےبی گرل آئی کمپلیٹلی انڈرسٹینڈ اس لئے لائٹ آف کر رہا ہوں"

سنجیدگی سے کہہ کر اسنے لائٹ آف کردی تھی آئیذل کی جان لبوں پر آئی اسے شاور کے نیچے ٹھہرا کر ذاویان نے شاور آن کیا تھا پانی کی ٹھنڈی طمانیت بخش بوندوں نے آئیذل کے جھلستے بدن میں سکون کی لہریں پیدا کی آنکھیں سکون سے بند کر کے وہ آوارگی کی کیفیت میں پیچھے ہٹتی اسکے سینے سے لگی لمظ کی دھڑکنیں تب تیز ہونے لگی جب ذاویان نے اسکے بلیک نائٹ روب کی ربن کو ڈھیلا کرنا شروع کیا اسکے نازک سے کندھے سے گاؤن سُرکاتے ہوئے ذاویان نے عقیدت سے اسکے کندھے پر لب رکھے تھے دھیمے لہجے میں سسکی لیکر لمظ نے سر پیچھے گرا کر اسکے سینے پر رکھا اسکے دہکتے لمس پر لمظ کے گھٹنے لڑکھڑا گئے اسکی ہلکی بیئرڈ کی چبھن کیساتھ نرم لمس لمظ کی کیفیت بد سے بدتر کر رہا تھا وہ غنودگی کے عالم میں پوری طرح ڈوب رہی تھی

" میں صرف تمہارا ہوں ذاویان حیدر صرف لمظ کا ہے"

 ذاویان نے آنکھیں بند کر کے پرتپش سانسوں سے اسکے کندھے سے لبوں کو اسکی بیوٹی بون پر رکھتے ہوئے آتشی لہجے میں کہا لمظ نے آنکھیں میچی رِبن کھول کر ذاویان نے اسکے دوسرے کندھے سے گاؤن آہستگی سے سرکایا 

"ذاویان"

اسکی ٹھنڈی انگلیوں کو اپنی بیوٹی بون کے قریب رینگتے ہوئے محسوس کر کے آئیذل نے ایک اور قدم پیچھے لیا اسکے چوڑے سینے سے پشت لگا کر وہ ساکت ہوئی

"اگر تم ایسے ہی مدہوشی میں میرا نام پکارتی رہی تو میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا"

ذاویان نے اسکی بیوٹی بون کو انگوٹھے سے ٹریس کرتے ہوئے سرکش لہجے میں کہا اسکی بھاری گمبھیر آواز آئیذل کے جسم میں سرشاری کی لہریں پیدا کرنے لگی بےحد قریب ہونے کے باعث اسکی مہک آئیذل کے حواس صلب کرنے لگی ذاویان نے اسکے کندھوں سے ہاتھ ہٹائے تھے بلیک سلکی گاؤن اسکے گندمی بھیگے سراپے سے پھسل کر نیچے گرا تھا لمظ کی سانسیں بھاری ہوئی ذاویان کے ٹھنڈے مظبوط ہاتھوں نے آئیذل کے دونوں کندھوں کو ٹھنڈی ہتھیلیوں سے ڈھانپا تھا

"بہت سٹریٹ فارورڈ ہو گئی ہو اچھی بات ہے لیکن  اگر تمھیں بخار نہ ہوتا تو میرا ارادہ اور بہت کچھ کرنے کا تھا جس بارے میں اگر میں وضاحت سے تمھیں بتاؤں تو تم شرم سے پانی پانی ہو جاؤ گی اس لئے کچھ دن میرا ضبط مت آزمانا خاص طور پر اپنی پڑھائی پر دھیان دو اچھی سٹوڈینٹ بن کر رہو اگر تم نے دوبارہ مجھ سے ایسا کچھ کہا تو"

"توو"

آئیذل نے لب بھینچ کر پرسرور لہجے میں استفسار کیا اسکے کندھوں کو نرمی سے سہلاتی زاویان کی انگلیاں ایک پل کو ساکت ہوئی وہ سنجیدگی سے اسکے کان پر جھکا 

"تو میرا ضبط ٹوٹ جائے گا لمظ"

 اسکی بیوٹی بون کو لبوں میں دباکر ذاویان نے مخمور لہجے میں کہا آئیذل نے لب بھینچ کر سسکی کو خطا ہونے سے قبل دبایا

"تمہارے پیپرز ہو جانے کے بعد میں تمہیں بالکل نہیں چھوڑوں گا یاد رکھنا"

ذاویان کے دونوں ہاتھوں نے اسکی گردن کو اوپر اٹھا کر اسکا چہرا اپنی جانب اٹھایا اسکے سینے سے پشت لگائے کانپتی آئیذل نے آنکھیں وا کر کے اسکی آنکھوں میں دیکھا اسکے چہرے پر جھکا وہ شدت پسند نگاہوں سے اسے اسکے بھیگے لبوں پر پھسلتی پانی کی بوندوں کا بغور جائزہ لے رہا تھا اسکا نائٹ روب گیلا ہو کر اسکے کسرتی بدن سے چپک چکا تھا لمظ نے بےساختہ دوبارہ جھرجھری لی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکے ٹھنڈے پڑتے رخساروں کو ہاتھ کی پشت سے چھو کر لمظ کا باڈی ٹیمپریچر چیک کیا جو دھیرے دھیرے نارمل ہو رہا تھا 

"مم۔۔مجھے سردی لگ رہی ہے"

 لمظ دھیرے دھیرے لرزتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو خود سے لپیٹ کر خود میں سمٹتے ہوئے بولی شاور آف کر کے ذاویان نے اسے خشک ٹاول میں چھپایا لمظ کا چہرا سرخ پڑا جب اسنے اسے اپنے توانا بازؤں میں اٹھایا تھا اسے اٹھائے وہ روم میں آیا اور اسے بیڈ پر بٹھایا لمظ نے درزدیدہ نگاہوں سے اسے کبرڈ سے اسکے لئے سمپل ڈریس نکالتے ہوئے دیکھا

"چینج کر لیں لمظ ورنہ آپکو ٹھنڈ لگ جائے گی"

اسکے گلابی رخسار کو انگوٹھے سے سہلا کر اسنے متبسم لہجے میں کہا کپڑے لیتے ہوئے وہ ہلکی سی مسکرائی تھی اب اسکی حالت پہلے سے کافی بہتر تھی ذہن ہلکا سا ہو چکا تھا

                                    °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

"No one love you like I love ya

Never cheat, never lie

Never put no one above ya

I gave you space and time

And now you're telling me you miss it

And I'm still on your mind

We were one in a million

And love is hard to find"

Feel Me

Song by 

              (Selena Gomez)

                                        °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

وائٹ ڈھیلی شرٹ اور ٹراؤزر میں بالوں کو ٹاول سے خشک کرتے ہوئے وہ باہر آیا تھا اپنے بالوں کو ٹاول سے خشک کرتی لمظ نے اسے کافی دیر دیکھا پانی کی چھوٹی چھوٹی بوندیں اسکے چہرے پر پھسلتے ہوئے اسکی شرٹ میں جذب ہو رہی تھی

"کیا دیکھ رہی ہو"

ٹاول لیڈر پر لگا کر وہ اسکی جانب چلتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا آئیذل نے دھیرے سے سر کو ہلا کر اسے دیکھا 

"شاید میری بات سمجھ نہیں آئی"

اسے سرکش نگاہوں سے دیکھتا ہوا وہ دونوں ہاتھوں کو اسکے دائیں بائیں بیڈ پر رکھتا گمبھیر لہجے میں بولا لمظ نے ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھ کر ہونٹوں کو سی لیا بھلا وہ کہاں اس سے بحث کرنے کی ہمت رکھتی تھی

 "کیا کھایا تھا دن میں"

ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو دیکھا یقیناً اسنے کوئی ڈرگز لئے تھے جنہوں نے اسکے ڈیپریشن سے ماؤف ذہن کو بری طرح متاثر کیا تھا اس بات کا اندازہ ذاویان کو ہو چکا تھا

"کچھ بھی نہیں بس جوس پیا تھا اسکے بعد سے بہت چکر سے آ رہے ہیں اور بہت نیند بھی آ رہی ہے پہلے تو بالکل نہیں آتی "

لمظ نے شانے اچکاتے ہوئے افسردگی سے کہا ذاویان نے سنجیدگی سے اسے کچھ پل دیکھا لمظ نے اسکے چہرے پر پتھریلے تاثرات دیکھے

"ہم صبح ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں اس لئے آرام کریں اور جلدی اٹھنے کی ضرورت نہیں جب تک آپ پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتی آپ یونیورسٹی نہیں جائیں گی اور جہاں تک پڑھائی کی بات ہے وہ گھر پر ہوتی رہے گی"

لمظ کی پیشانی پر لب رکھ کر اسنے سنجیدگی سے کہا اور اسے بلینکٹ اوڑھایا لمظ نے اسکے صبیح ہاتھ کو وقت رہتے تھام کر اسے پیچھے ہٹنے سے روکا

"میرے پاس بیٹھیں"

ذاویان نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو اپنی گرم ہتھیلی سے ڈھانپا لمظ اسکے لئے جگہ بناتے ہوئے تھوڑی سی پیچھے ہوئی تھی اسکے قریب بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکائے بیٹھ کروہ اسکے بالوں میں آہستگی سے انگلیاں چلانے لگا لمظ نے سکون سے آنکھیں بند کی مگر کچھ دیر بعد اسنے چھینکنا شروع کیا تھا آنکھیں وا کر کے اسنے سر اٹھا کر ذاویان کو دیکھا 

"اچھووو"

اس سے پہلے وہ جواب دیتی دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر وہ دوبارہ چھینکی ذاویان نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا 

"آپ کے ہاتھ بہت گرم ہیں"

اسکے دونوں وجیہ ہاتھوں کو تھام کر اپنے ٹھنڈے گالوں پر رکھ کر وہ بےساختہ مسکرا کر بولی ذاویان نے اسے اپنے پرتپش حصار میں لیکر اسنے سنجیدگی سے لمظ کے ہاتھ کو تھاما لمظ کے ٹھنڈ سے تھرتھراتے وجود کو  اچانک حرارت کا احساس ہوا آنکھیں بند کئے وہ اسکے سینے میں چہرا چھپا گئی تھی

"لمظ میری ایک بات مانیں گی آپ"

"جی"

آنکھیں بند کئے وہ پرسکون لہجے میں بول رہی تھی اور وہ دیوانہ وار اسے دیکھ رہا تھا کتنا گھبرا گیا تھا وہ اسے بخار میں دیکھ کر مگر اب وہ بالکل نارمل لگ رہی تھی

"اپنی پڑھائی پر فوکس کریں روحِ قلب جیسے آپ پہلے کر رہی تھی میری جان میں مانتا ہوں یہ سب بہت تکلیف دہ تھا لیکن ہمیں موو آن کرنا پڑتا ہے" 

اسکے سلکی بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا 

"پرومس کریں آپ پڑھائی پر فوکس کریں گی"

"پرومس"

اسکے ہاتھ میں اپنی ہتھیلی رکھتے ہوئے لمظ نے آنکھیں وا کر کے اسے دیکھا

" میں آپ سے بات نہیں کر رہی تھی کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا"

متبسم نظروں سے اسے دیکھ کر ذاویان نے دھیرے سے سر ہلایا تھا لمظ نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کی تھی ذاویان نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر بلینکٹ درست کرتے ہوئے آنکھیں موندی تھی وہ گہری نیند میں جا چکی تھی

                                      °°°( 𝐔𝐀 𝐊𝐡𝐚𝐧 𝐖𝐫𝐢𝐭𝐞𝐬)°°°

کھڑکی سے آتی سورج کی کرنوں کے سبب لمظ نے آنکھیں وا کی ایک جانی پہچانی مسحور کن مہک کا احساس وہ پہلا احساس تھا جو اسنے آنکھیں کھولتے ہی محسوس کیا ناجانے کیوں مگر وہ اس مہک کی اسیر ہو گئی تھی کافی منٹوں تک وہ شیلنگ کو دیکھتے ہوئے اس طمانیت بخش مہک کو سانسوں میں انڈیلتی رہی غنودگی کے عالم سے باہر آ کر اسنے سر اٹھایا تھا آنکھیں منجمند ہوئی سانسیں رک سی گئی اسکی شرٹ کا کالر پکڑے اسکے اوپر سوئی ہوئی تھی حلق خشک ہوا گالوں پر سرخی پھیلنے لگی اسکی شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے پیشانی پر لہردار سلکی بال بکھرے ہوئے تھے آہستگی سے وہ اسکا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتے ہوئے اس پر سے اٹھنے لگی مگر اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کر کے اسے اپنی جانب کھینچا لمظ نے سختی سے لب بھینچ کر دونوں ہتھیلیاں بیڈ پر ٹکائے خود کو اس پر گرنے سے روکا ذاویان نے ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے کو چھوا جو بالکل نارمل تھا 

"شکر ہے بخار نہیں"

لمظ کے چہرے پر جھولتی ریشمی بالوں کی لِٹ کو آہستگی سے کان کے پیچھے اڑسا کر وہ محبت آمیز لہجے میں بولا مسکرانے کے باعث ہلکی بیئرڈ میں اسکا وجیہ ڈمپل نظر آیا لمظ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ذاویان نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا اسکی گلابی باریک انگلیاں اسکے ڈمپل کو ٹریس کر رہی تھی لمظ کے لبوں سے مسکراہٹ ایک پل میں غائب ہوئی جب اسنے اسکے دہکتے چہرے پر ہاتھ رکھا

"آپ۔۔ آپکو بخار ہے"

فکرمند نظروں سے اسے دیکھنے کیساتھ وہ حزن نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی وہ جواباً مبہم سا مسکرایا تھا 

"کچھ بھی نہیں ہے"

"نہیں آپکو بخار ہے میں ۔۔۔میں آپکے لئے ناشتہ لیکر آتی ہوں اور انس سے کہتی ہوں ڈاکٹر کو کال کرے میں بس ابھی آئی"

جلدی سے اس پر سے اٹھتی وہ دوپٹہ اٹھاتے ہوئے بولی 

"میں بالکل ٹھیک ہوں معمولی سا ٹمپریچر ہے ٹھیک ہو جائے گا"

ذاویان نے اسکی کلائی کو آہستگی سے تھام کر اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا آئیذل نے تاسف سے سر ہلایا تھا دروازے پر ناک سن کر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا آئیذل دوپٹہ درست کرتے ہوئے اٹھی تھی

"لمظ ویٹ"

مگر ذاویان کی بات سننے سے پہلے وہ دروازہ کھول چکی تھی ملازمہ ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے اٹھائے کھڑی تھی اور اسکے پیچھے چاہت تھی جس نے تیکھے چَتونوں سے لمظ کا جائزہ لیا تھا ذاویان کبرڈ سے ڈریس لیکر واش روم میں چلا گیا 

"یہاں رکھ دو"

آئیذل نے ملازمہ کو ٹرے ٹیبل پر رکھنے کا اشارہ کیا ملازمہ ٹرے رکھ کر چلی گئی تھی کیونکہ وہ کافی لیٹ اٹھے تھے سب ناشتہ کر چکے تھے اس لئے مہر النساء بیگم نے کھانا انکے کمرے میں ہی بھجوا دیا تھا آئیذل نے سینے پر بازؤں لپیٹ کر چاہت کو استفہامیہ نظروں سے دیکھا جس کی آنکھوں میں انگارے سلگ رہے تھے

"کیا ہوا کچھ چاہیے تمھیں"

آئیذل نے بھنویں اٹھائی اسکی گردن پر سرخ نشان دیکھ کر چاہت نے سختی سے لب بھینچے خشم و عصبانیت کے سبب چہرا سرخ پڑا ہوا تھا آنکھوں کی پتلیاں تو ساکت ہی رہ گئی 

"کیا ہوا میں تم سے سے بات کر رہی ہوں"

آئیذل نے ہلکی مسکان کیساتھ اسکے سرخ چہرے کو محظوظ نگاہوں سے دیکھا چاہت نے پرُاشتعال آنکھوں سے اسے دیکھا سوال کرنے کی گنجائش نہیں تھی وہ سب سمجھ چکی تھی مگر سوال کرتے ہوئے اسے ایک دلی سکون مل رہا تھا قدموں کی آہٹ پر چاہت نے کچھ کہنے سے خود کو باز رکھا

"بیٹا طبعیت تو ٹھیک تھی آج ناشتہ کرنے نہیں آئے آپ"

مہر النساء بیگم نے فکر مندی سے اسے دیکھ کر پوچھا 

"جی امی وہ کل رات کافی لیٹ سونے کی وجہ سے اٹھنے میں دیر ہو گئی"

آئیذل نے چاہت کو دیکھتے ہوئے متبسم لہجے میں جواب دیا مہر النساء بیگم نے کچھ پل کو اسے دیکھا ہلکی مسکان لبوں پر سجائے وہ معصوم تاثرات لئے نظریں جھکائے شرمسار ہو رہی تھی چاہت کا چہرا غصے سے سرخ پڑا مہر النساء بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے آخری بار دیکھا  اسکی بات سمجھتے ہوئے وہ کچن کی جانب بڑھ گئی

"ویسے مجھے تمہیں شکریہ کہنا تھا میری نانو کہا کرتی تھی جس پتھر سے ٹھوکر کھا کر آپکو غلطی کا اندازہ ہوجائے اسے پر افسردہ نہیں ہوتے نہ ہی اسے ہٹایا جاتا ہے وہ ٹھوکر ہمارے ہی فائدے کے لئے ہوتی ہے اگر اس رات تم نے مجھ سے وہ سب نہ کہا ہوتا تو شاید میں کبھی بھی ذاویان کے قریب جانے کی ہمت نہ کرپاتی"

چاہت کی جانب پلٹتی وہ آئی برو اٹھاتے ہوئے بولی چاہت نے کاٹدار نظروں سے اسے دیکھا مگر واش روم کا دروازہ کلک ہوتے ہی چاہت مٹھیاں بھینچی بولنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اسے کبھی مہر النساء بیگم آ جاتی تھی تو کبھی ذاویان۔۔۔ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتے ہی وہ تیز قدموں کیساتھ سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی آفس کے لئے نکلتے اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے اسے اپنے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھا تھا آئیذل نے استہزائیہ نظروں سے چاہت کو اپنے کمرے میں بند ہوتے دیکھا تھا

شاہنواز صاحب دونوں ہاتھ پیچھے فولڈ کئے پیشانی پر بل ڈالے ہاسپیٹل کی گیلری کے چکر کاٹ رہے تھے چہرے پر ناگواریت کے آثار واضح تھے آنکھوں میں آتشی الاؤ جل رہے تھے 

"کون تھا وہ"

شاہزیب کے گیلری میں داخل ہوتے ہی وہ گرجدار آواز میں بولے آس پاس سے کچھ لوگوں نے انکی جانب تشویش سے دیکھا تھا شاہزیب نے انہیں تحمل سے ویٹنگ چیئر کی جانب لایا 

"ڈیڈ کیمرے میں کچھ بھی ریکارڈ نہیں ہوا یہاں تک کہ جب وہ وہاں آیا اسوقت کیمرا بند کر دیا گیا تھا اور پورے گھر کی لائٹس بھی بند تھی اس وجہ سے کچھ بھی نہیں دیکھا جا سکتا عرش کیسا ہے کیا کہا ڈاکٹر نے"

شاہزیب نے تاسف سے بیٹھتے ہوئے شاہنواز صاحب کی جناب دیکھا

"کیسا ہو گا بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گیا کون جانور ایسی حرکت کر سکتا ہے ایک جیتے جاگتے انسان کی انگلی کاٹ دی یہ جس نے بھی کیا ہے اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا میرے بھانجے کی انگلی کاٹی گئی ہے میں اسکی گردن کاٹوں گا"

شاہنواز صاحب نے مٹھی بھینچ کر پرُاشتعال لہجے میں کہا تھا

"ڈیڈ ہو سکتا ہے یہ سیرت نے کروایا ہو"

شاہزیب  پرسوچ نظروں سے ایک نقطے کو دیکھتے ہوئے بغیر سوچ بچار کے بول پڑا تھا شاہنواز صاحب نے چبھتی نظروں کو اٹھا کر اسے دیکھا

"اگر یہ کارستانی اس لڑکی نے کی ہے تو وہ اپنے منہ سے خود قبول کرے گی اور تب میرے آدمی اسکا پورا ہاتھ کاٹیں گے"

فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے وہ زہر کند لہجے میں بولے شاہزیب نے فون کی سکرین کو دیکھا جس پر انہوں نے اپنے آدمیوں کو سیرت کو لانے کا ٹاسک دیا تھا

 "ایک لڑکی ہوکر اتنی ہمت؟؟ گھر بیٹھنے کے بجائے مردوں کے معملات میں دخل اندازی کرے گی تو نقصان تو اٹھائے گی اور ساتھ میں خاندان کا نام بھی مٹی میں ملائے گی"

خباثت سے بھرپور مسکراہٹ لبوں طر سجائے شاہنواز صاحب اٹھ کر کال کنیکٹ کرتے ہوئے گیلری سے ایک طرف واک آؤٹ کر گئے تھے دونوں پاتھوں کو فولڈ کئے دیوار پر رکھ کر شاہزیب نے آنکھیں بند کی تھی

                                     ☆☆(𝓤𝓐 𝓚𝓱𝓪𝓷 𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓼)☆☆

کانچ ٹوٹنے کی تیز آواز براہِ راست اسکے کانوں میں پڑی

بند آنکھوں سے اسنے بیڈ کو ہاتھ سے ٹٹولا تھا مگر کچھ یاد آنے پر دوسرا ہاتھ نائٹ سٹینڈ پر بڑھا کر فون اٹھا کر اسنے نیم وا آنکھوں سے ٹائم دیکھنا چاہا مگر سکرین پر آئی پچیس مس کالز دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھی بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا کر اسنے نوٹیفیکیشن اوپن کئے جن میں ان نان نمبر سے ایک ویڈیو کیساتھ چند میسیجز آئے ہوئے تھے ویڈیو اوپن نہیں ہو رہی تھی مگر نیچے صاف الفاظ میں چند میسج پڑھے جا سکتے تھے جن میں عرش نے اسکی ویڈیو لیک ہونے کی خبر اسے دی تھی ساتھ ہی ویڈیو بھی سینڈ کی تھی سیرت کا حلق خشک ہونے لگا اسکا ہاتھ کپکپا گیا ویڈیو کو کلک کرنا چاہا مگر اوپن اب بھی نہیں ہو رہی تھی مگر بلوئر ایمیج میں لیبارٹری کا منظر دیکھا جا سکتا تھا بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ جلدی سے اس نمبر پر کال ملانے لگی مگر سروس نہ ہونے کے باعث کال منقطع ہو رہی تھی فون کو بیڈ پر پھینک کر وہ پیروں میں وائٹ سلیپرز ڈالے وہ تیز قدموں کیساتھ بالکنی میں آئی تھی جہاں ایک گملہ ٹوٹا ہوا تھا

"عسکری کیا یہ تم ہو"

آس پاس دیکھ کر اسنے دھیمے لہجے میں کہا اپنے پیچھے قدم اٹھنے کی آہٹ پر وہ خبردار ہوئی بغیر اپنی جگہ سے ایک انچ حرکت کئے اسنے نظریں اٹھائی تھی کانوں میں قدم اٹھنے کی آہٹ برابر سنائی دے رہی تھی ایک قدم پیچھے لیکر اسنے پھرتی سے پلٹ کر پیچھے سے آنے والے کے سینے پر کک ماری تھی فل بلیک ڈریس میں ملبوس وہ پراسرار آدمی اچانک حملے پر توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے نیچے گرا تھا پیچھے سے کسی اور آدمی نے سیرت کو بازؤں سے دبوچا تھا بازو کو جھٹک کر آزاد کرانے کی کوشش میں اسنے کہنی اس شخص کے جبڑوں پر ماری تھی ایک دردناک کراہٹ کیساتھ اسنے سیرت کا بازو چھوڑا اسے دور دھکا دیکر پہلے والے شخص کی جانب پلٹتی وہ ساکت ہوئی تیسرا آدمی جو دبے پاؤں اس تک پہنچا تھا کلوروفارم میں ڈبویا ہوا سفید رومال اسکے ناک پر رکھ چکا تھا کچھ ہی سیکنڈ میں وہ ہوش و خرد سے بیگانگی کیساتھ ٹھنڈے فرش پر گری تھی ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد انہوں نے اسے نیچے سے اٹھایا تھا 

"سیرت کیا ہوا کیا کچھ گرا ہے"

بی جان کی آواز سن کر دروازے کی جانب بڑھتے انکے قدم ٹھہرے تھے بی جان نے دروازہ کھولا تھا اپنے سامنے تین قد آوار انجان لوگوں کو دیکھ کر انکی جان لبوں پر آئی بےہوشی کی حالت میں سیرت کو اٹھائے ہوئے آدمی نے دوسرے کو اشارہ کیا تھا دوسرا آدمی بی جان جو گھبراتے ہوئے پولیس کو فون کرنے کا سوچ کر ایک قدم پیچھے لے گئی تھی کی جانب بڑھا وہ تیزی سے لینڈ لائن فون کی طرف سبک رو قدم اٹھانے لگی جب اس آدمی نے انہیں  سیڑھیوں سے دھکا دیا تھا ایرا ٹیبل کے پیچھے دونوں ہاتھ لبوں پر رکھے انہیں سیرت کو لیجاتے ہوئے دیکھتی رہی انکے جانے کے بعد وہ تیزی سی بی جان کے پاس آئی تھی جن کی پیشانیاں سے خون بہہ رہا تھا آنکھیں بند کئے وہ لمبے سانس لے رہی تھی ایرا کی چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں نے انکے چہرے کو چھوا 

"دد۔۔دادو"

آنکھوں سے موتی ٹوٹنا شروع ہوئے وہ انکے چہرے پر جھکتی رونے لگی تھی

                                    ☆☆(𝓤𝓐 𝓚𝓱𝓪𝓷 𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓼)☆☆

میک نے لب بھینچ کر اسے دسویں بار دیکھا کوانٹم کمپیوٹرز پر منجمند اسکی سرخ آنکھیں کب سے ایک ہی نقطے پر ساکت ہونے کے باعث مزید سرخی مائل ہو چکی تھی اس حالت میں اسے مخاطب کرنا زخمی چیتے کو خود پر جھپٹ کر خودکو نوچنے کی اجازت دینے کے برابر تھا میک سمیت اس اندھیری دنیا کا ایک ایک فرد اسوقت اسکے سامنے نظریں اپنے جوتوں پر گاڑھے گردن گرائے کھڑا تھا اسنے اب تک آنکھیں بھی نہیں جھپکی تھی ہال میں اسوقت کاٹ کھانے والی خاموشی رقص کر رہی تھی جو آنے والے طوفان کی پیشگوئی کر رہی تھی اسنے پلٹ کر خون آشام نظروں سے سب کو دیکھا ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اپنے قریب بیٹھے ہوئے بلیک پینتھر کے سر پر نرم کھال کو ہاتھ سے سہلایا اسکی آنکھوں میں اس قدر وحشت تھی کہ کوئی بھی اسکی نظروں میں دیکھنے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا

"Qui a divulgué cette vidéo et à la demande de qui a-t-elle été divulguée"

("یہ ویڈیو کس نے لیک کی اور کس کے کہنے پر لیک کی")

اسکے آتشی لہجے نے سب کو نظریں اٹھا کر دوبارہ جھکانے پر مجبور کیا بلیک ہوڈ میں ملبوس ایک ہیکر نے لائن سے ایک قدم آگے بڑھا کر سر جھکائے خود کو ظاہر کیا تھا سرخ آنکھوں میں طوفون برپا ہوا یہ وہی ہیکر تھا جس نے عرش کے کہنے پر چند پیسوں کے عوض وہ ویڈیو لیک کی تھی

"va le gratter et le manger, je n'ai pas besoin d'explications" 

("جاؤ اسے کھرچ کر کھاؤ، مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے")

پینتھر کے سر سے ہاتھ ہٹا کر اسنے پتھریلے لہجے میں کہا وہاں کھڑے ایک ایک فرد کا حلق خشک ہوا بلیک پینتھر اس شخص کی جانب دھیرے دھیرے ایک قدم اٹھا رہا تھا اس ہیکر کے چہرے پر خوف کے سائے لہرا رہے تھے اس پینتھر کے اس ہیکر پر جھپٹنے کے فورآ بعد ایک خوفناک چیخ خاموش ہال میں اتنی شدت سے گونجی کے سب کے رونگٹے کھڑے ہوئے اسکے بعد دل دہلا دینے والے وہ بھیانک مناظر جس میں وہ پینتھر اس شخص کے وجود سے بوٹیاں نوچ کر چبا رہا تھا سب کے دلوں کو بند کرگیا تھا میک نے تاسف سے سر جھٹک کر اسے اپنے پرائیویٹ روم کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا سبک رو قدم اٹھاتے ہوئے میک اسکے پیچھے دوڑا تھا پرائیویٹ روم سے چیزوں کے گرنے اور ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی میک نے دستک دینے سے قبل ہاتھ کو ہوا میں ہی روکا تھا 

"کچھ نہیں بگڑا ڈی تم نے خود وقت پر ورلڈ وائڈ نیٹورکنگ سسٹم ہیک کر کے وہ ویڈیو وائرل ہونے سے پہلے روک لیا جو اب تک ری اسٹور نہیں ہوا کسی نے وہ ویڈیو ریسیو نہیں کی ۔۔ دیکھو میں نہیں جانتا اس ویڈیو میں کیا تھا یا پھر وہ کس کی تھی ایٹ لیسٹ ریلیکس ہو کر ٹھنڈے دماغ سے سوچو اور نیٹورک کو بحال کرو سب پریشان ہیں افراتفری مچی ہوئی ہے"

میک نے سرد آہ بھر کر تحمل سے کام لیا اور اسے سمجھانا چاہا

"جسٹ شٹ اپ"

اسکی گرج دار غراہٹ پر میک نے سر جھٹکا دیوار سے ٹیک لگانے کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا تھا ایکسپینسیو کمپیوٹرز توڑ کر اسنے بالوں میں انگلیوں کو پھیر کر تاسف بھری نظروں سے بکھرے ہوئے پرائیویٹ روم کو دیکھا دو انگلیوں سے پیشانی کو سہلاتے ہوئے اسنے بیڈ سے لیپٹاپ اٹھایا اور سیرت کے روم کی سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے لگا جس میں کافی دیر اسکی بھوری آنکھیں اسے سکون سے آنکھیں موندے سوتے ہوئے دیکھ کر آگ اگلتے دل و دماغ کو تسکین پہنچاتی رہی جب آدھی رات کے وقت وہ اٹھی تھی اسکے ہاتھ کی گرپ لیپٹاپ پر سخت ہوئی تین لوگوں کو سیرت کو لیجاتے ہوئے دیکھ کر اسکے ماؤف ذہن شل پڑ گیا خشم زدہ وجیہ چہرا مزید ضبط نہ کرتے ہوئے سفید سے سرخی مائل پڑا تھا آج کی رات اسکے صبر کا امتحان لے رہی تھی پہلے وہ ویڈیو اسکے بعد سیرت کا اغوا ہونا لیپٹاپ بند کر کے اسنے دو پسٹل اٹھا کر لوڈ کئے تھے اور بغیر سوچ بچار کئے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا میک اور باقی سب نے اسے اچرج نگاہوں سے دیکھا تھا کسی نے اسے روکنے کی ہمت نہیں کی تھی نہ ہی وہ اسے روک سکتے تھے اسکے چہرے پر نیست و نابود کر دینے والے تاثرات تھے ناجانے آج وہ کس کی تباہی لکھنے جا رہا تھا

                                  ☆☆(𝓤𝓐 𝓚𝓱𝓪𝓷 𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓼)☆☆

چہرے پر ٹھنڈا پانی کثیر مقدار میں پھینکا گیا تھا آنکھیں وا کر کے اسنے دھندھلی نظروں سے دھیمی روشنی میں اپنے سامنے چند پرچھائیاں دیکھی وہ اسوقت ایک انجان کمرے میں تھی جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا بس ایک بلبلی ہلکی روشنی تھی

"کیوں.... ہوش آ گیا"

شاہزیب نے دانت پیستے ہوئے اسکے بالوں کو کھینچ کر اسکا چہرا اوپر اٹھایا سیرت نے آنکھیں جھپک کر اسکے پیچھے کھڑے شاہنواز صاحب اور عرش کو دیکھا عرش چلتے ہوئے اسکے سامنے آ کر رکا تھا نظروں میں نخوت تھا اسے اپنے سامنے کرسی پر بندھے ہوئے دیکھ کر اسے دلی تسکین مل رہی تھی

"کون تھا وہ بتا۔۔۔"

شاہزیب پیچھے ہٹا تو عرش نے اسکے چہرے کو جبڑوں سے پکڑ کر دانت ہچکچا کر پوچھا سیرت کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر وہ حیران ہوا

"کس بارے میں بات کر رہے ہو"

آنکھیں جھپکتے ہوئے وہ بےتاثر لہجے میں بولی نہ لہجے میں ڈر تھا نہ ہی کسی قسم کے جزبات تھے شاہنواز صاحب کی پیشانی پر بل پڑے تھے وہ اسکی آنکھوں میں اپنے لئے خوف دیکھنا چاہتے تھے جو فالوقت نظر نہیں آ رہا تھا

"جس نے تمہارے کہنے پر میرے بھانجے کی انگلی کاٹ دی بول لڑکی ورنہ یہاں سے سلامت واپس نہیں جا پائو گی کون ہے وہ اور کہاں ہے اسوقت"

شاہنواز صاحب نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا سیرت  تضحیک آمیز نظروں سے عرش کے ہاتھ کو دیکھا جس پر شہادت کی انگلی کا نام و نشان نہیں تھا ایک پراسرار مسکراہٹ سیرت کے لبوں پر بکھری شاہنواز صاحب نے حیرت سے شاہزیب کو دیکھا عرش کی آنکھوں میں سیرت کو مسکراتے دیکھ کر آگ لگی

"کچھ نہیں پتا مجھے"

سر جھٹک کر سیرت نے سرد لہجے میں کہا عرش نے اسکے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر اسکا چہرہ اوپر اٹھایا سیرت نے نفرت سے اسے دیکھا 

"بتا دو سیرت ورنہ اس دن سے بھی برا برتاؤ کروں گا آج رات"

عرش نے دھمکی آمیز نظروں سے اسے دیکھا شاہزیب نے سینے پر ہاتھ پھیلا کر سیرت کو دیکھا شاہنواز صاحب بھی بغور جائزہ لے رہے تھے

"میں کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتی تم جیسے حرام زادوں سے تو بالکل بھی نہیں تھو تمھیں دیکھ کر کراہت محسوس ہوتی ہے"

سیرت کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ پھسلی عرش نے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر مارا سیرت کے ریشمی بال اسکے چہرے پر بکھرے جسکے بعد شاہنواز صاحب کا سیرت کے الفاظ پر بڑھتا اشتعال کم ہوا متکبرانہ چال چلتے ہوئے وہ سیرت کے سامنے آ کر ٹھہرے تھے

"کیا رشتہ ہے تمہارا عسکری کیساتھ"

شاہنواز صاحب نے بھنویں اٹھا کر دلچسپی سے پوچھا سیرت نے نفرت آمیز نظروں سے انکو دیکھا کتنی گھن آ رہی تھی اسے اسوقت ان لوگوں سے۔

"میں بتاتا ہوں وہ تمہارا سوتیلا بھائی ہے دعان"

قہقہ لگا کر انہوں نے سر جھٹک کر سیرت کے فق چہرے کو دیکھا نیچے جھکی اسکی نظریں حیرت سے اٹھی تھی اعتدال سے آتا سانس اٹکنے لگا تھا دل کی دھڑکن یکدم تیز ہوئی حلق کے مقام پر بےساختہ ایک گلٹی ابھری تھی سیرت کا زردی مائل چہرا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے شاہنواز صاحب مسکرا پڑے تھے

"ہاں بالکل وہ تمہارا سوتیلا بھائی ہے اور جانتی ہو اسے تم سے کیا چاہیے؟ وہ تم سے انتقام لینا چاہتا ہے تمہارا باپ اسکی ماں کو کینسر کی آخری اسٹیج پر چھوڑ کر بھاگ گیا اور اسکی ماں اسپتال میں تڑپ تڑپ کر مر گئی میری بیٹی تمھیں یاد ہو گا تمھیں عاطف لیکر جاتا تھا ناں اپنے دوسرے گھر"

سیرت کی منجمند آنکھیں ایک نقطے پر ساکت ہوئی بغیر پلکیں جھپکے وہ تیز سانسوں کیساتھ ماضی میں گم ہو رہی تھی پزل کے تمام ٹکڑے اپنی اپنی جگہ گرنا شروع ہوئے تھے اور وہ ان ٹکڑوں کو جوڑنے کی کوشش میں انکے بوجھ تلے دب رہی تھی

"آپ۔۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں"

نظریں اٹھا کر شاہنواز صاحب کی جانب دیکھ کر اسنے متذبذب لہجےمیں کہا اسے اپنی ہی آواز انجان لگ رہی تھی اسکے لئے تیزی سے دوڑتے وقت کی گھڑی کی سوئیاں ساکت ہو گئی 

"تو کیا عاطف تمھیں یسریٰ کے پاس لیکر نہیں جاتا تھا تمھیں دعان یاد نہیں ؟؟

تمھیں یاد نہیں دعان؟ کیا تمھیں کچھ یاد نہیں"

شاہنواز صاحب کی آواز اسکے کانوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی ذہن ماؤف ہونے لگا آنکھوں کے سامنے ماضی کی کتاب کے اوراق تیزی سے آگے پیچھے الٹنے لگے جن کی کھرکھراہٹ نے اسکے ذہن پر عجیب کیفیت طاری کی وہ دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر چیخنا چاہتی تھی شاہنواز صاحب اسکی بگڑتی صورتحال دیکھ کر دلدوز سے مسکرا رہے تھے

"اور تمہارے باپ کو بھی دعان نے مارا تھا یعنی تمہارے عسکری صاحب نے جس کے ساتھ تم خوش گپیاں مناتے ہوئے پھرتی ہو کیا اسنے تمھیں بتایا کہ وہ دعان ہے ؟ نہیں ۔۔۔ وہ تمھیں نہیں بتائے گا کیونکہ وہ تم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اپنی اصلیت کبھی نہیں بتائے گا اور تم اس پر بھروسہ کر رہی ہو سیرت ؟؟ اپنے باپ کے قاتل پر بھروسہ کر رہی ہو "

شاہنواز صاحب نے افسردگی سے سیرت کی سمت جھک کر دیکھ کر افسردگی سے منہ دبا کر ہنستے ہوئے کہا سیرت کے ذہن میں جھماکے ہو رہے تھے چاروں اطراف سے گولی چلنے کی آوازوں کیساتھ کئی آوازیں سنائی دے رہی تھی جن میں ایمبولینس کا سائرن ،، چیخنے کی آوازیں اور پولیس کی وین کے سائرن کی آوازیں تھی

"بس کرو"

وہ حلق کے بل چیخی شاہنواز صاحب سینے پر بازؤں لپیٹ کر اسکی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں دیکھنے کے بعد عرش اور شاہزیب کو اشارہ کر کے باہر واک آؤٹ کر گئے تھے ان لوگوں کے باہر آتے ہی روم میں  دم گھٹنے والی اسموک ریلیز کی گئی تھی سیرت نے کھانستے ہوئے کمرے میں عجیب سا دھواں پھیلتے ہوئے دیکھا جو اسکی آنکھوں میں جلن کیساتھ سانس رکنے کا باعث بن رہا تھا

                                     ☆☆(𝓤𝓐 𝓚𝓱𝓪𝓷 𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓼)☆☆

بےصبرے قدم اٹھتے ہوئے وہ ہاسپیٹل کی گیلری میں الجھن کیساتھ چل رہا تھا بی جان آئی سی یو میں تھی اور انکی حالت کریٹیکل تھی اپنے ہاتھ پر باریک ٹھنڈی انگلیوں کو محسوس کرکے وہ رکا ایرا نے ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھا آنسوں اسکی آنکھوں میں تیر رہے تھے وہ سنجیدگی سے نیچے جھک کر اسکے پاس گھٹنا ٹکائے بیٹھا ایرا نے اسے گلے لگایا 

"وہ اینجل کو کیوں لے گئے"

روتے ہوئے ایرا نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ایرا کے بال سہلاتے ہوئے اسنے خونخوار نظروں سے ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھا تھا

"ڈونٹ وری فیری آپکی اینجل کو لچھ نہیں ہو گا"

 مٹھی ضبط سے بھینچ کر اسنے ایرا کو تسلی دی جو خوف کے باعث ابھی تک کانپ رہی تھی ایرا نے اسکی جانب اپنا چھوٹا سا ہاتھ بڑھایا 

"پرومس کرو میری اینجل کو کچھ نہیں ہو گا اور دادو کو بھی"

اسنے سپاٹ نظروں سے اسکی چھوٹی سی گلابی ہتھیلی کو دیکھا وہ پرامید نگاہوں سے اسکا وجیہ چہرہ دیکھ رہی تھی اسنے سختی سے پب بھینچ کر اپنا ہاتھ اسکی ہتھیلی پر رکھ کر سر کو دھیرے سے ہلایا تھا آئی سی یو کا دروازہ کھل کر بند ہوا اسنے سنجیدگی سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا

"ڈونٹ وری مسٹر عسکری پیشینٹ از آؤٹ آف ڈینجر اور خوشخبری کی بات کہ اُنہیں ہوش بھی آ گیا ہے آپ ان سے مل سکتے ہیں اسکے بعد سکون کا انجیکشن دیا جائے گا"

ڈاکٹر نے ہلکی مسکان کیساتھ اسے دیکھ کر پروفیشنل انداز میں کہا اور گیلری کی دوسری جانب بڑھ گئے ایرا کا ہاتھ پکڑے وہ اندر آیا تھا بی جان نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا ایرا اسکا ہاتھ چھوڑ کر بی جان سے لپٹ گئی بی جان نے اسکے چہرے کو شفقت سے چوما تھا اسے صحیح سلامت دیکھ کر انہیں دلی سکون ملا تھا بی جان کی جانب دیکھ کر وہ شرمندگی سے وہ ایک قدم پیچھے اٹھا گیا انکی کہی گئی بات اب تک نہیں بھولا تھا وہ

"دعان"

دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر باہر کی جانب اٹھتے اسکے قدم ساکت ہوئے لب بھینچ کر اسنے سختی سے آنکھیں میچی تھی پیشانی کی نیلی نسیں ابھر آئی تھی بی جان نے اسے حزن نگاہوں سے پیچھے پلٹتے ہوئے دیکھا ان سے شفقت کی امید میں اسنے ایک پل کو نظریں اٹھائی

"کون تھے وہ لوگ اور کیوں لیکر گئے ہیں میری بچی کو؟؟ تم نے کروایا ہے یہ سب ۔۔۔۔ کیا چاہتے ہو تم میری بچی سے  میری نظروں میں اور کس حد تک گرو گے تم"

ایرا نے تاسف سے سر اٹھا کر اسے ایسا دیکھا تھا جیسے اسنے سیرت کو اغوا کروایا تھا مٹھی بھینچ کر اسنے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا

"میں نہیں جانتا وہ کون تھے"

اسکے جواب پر بی جان کا دل گہری کھائی میں ڈوبتا چلا گیا سیرت کی واپسی کی راہ تکتی وہ اب اس آس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی تھی کہ انکے ڈانٹنے پر وہ انہیں سیرت لوٹا دے گا وہ تو اسکے پاس تھی ہی نہیں وہ خود دیوانوں کی طرح پچھلے دس گھنٹوں سے اسے ڈھونڈتا ہوا مارا مارا پھر رہا تھا

"سیرت کو لے آؤ دعان"

بی جان نے دھیمے لہجے میں کہا اسنے نظریں اٹھا کر انکی جانب دیکھا انکی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ رہے تھے اسکے قدم بےساختہ انکی جانب اٹھے بی جان کی آنکھوں سے ٹوٹتے موتیوں کو اسنے احتیاط سے انگلیوں کے پوروں سے صاف کیا تھا

"کچھ نہیں ہو گا اسے دادی جان میں وعدہ کرتا ہوں اسے صحیح سلامت لیکر آؤں گا"

بی جان کے ضعیف جھریوں والے ہاتھ نرمی سے اپنے مظبوط ہاتھوں میں تھام کر اسنے پختگی سے کہا بی جان نے دھیرے سے سر ہلا کر اسکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیچھے لئے تھے 

جذباتوں سے عاری چہرا لیکر وہ آئی سی یو سے باہر آیا تھا وارڈ سے آ کر باہر انتظار کرتے میک کو بی جان اور ایرا کی سخت سیکیورٹی کا حکم دیا تھا اور واپس ری سرچ سینٹر کی جانب نکل گیا تھا وہ جانتا تھا اسنے کیا کرنا تھا

                                       ☆☆(𝓤𝓐 𝓚𝓱𝓪𝓷 𝓦𝓻𝓲𝓽𝓮𝓼)☆☆

"کم اِن"

 ڈین آفس کے دروازے پر ناک کرتے ہوئے وہ مسکراہٹ ضبط کر گئی سیریئس تاثرات لیکر وہ اندر آئی تھی پروفیسر شاہان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا آئیذل نے پیشانی سے بل ایک جانب دھکیل کر سلام کیا جس کا جواب شاہان نے قدرے سنجیدگی سے دیا 

"مس آئیزل کچھ کام تھا آپکو؟ ہم یہاں اہم معاملہ پر نظر ثانی کر رہے ہیں"

پروفیسر شاہان نے سرد نظروں سے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا 

"جی پروفیسر ذاویان نے بلایا تھا مجھے"

آئیذل نے شانے اچکاتے ہوئے صاف جھوٹ بول کر اسے چلتی بس کے نیچے دھکیلا شاہان نے اچھنبے سے زاویان کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے آئیذل کی جانب دیکھ کر سرد آہ بھر گیا تھا آئیذل کے لبوں پر مسکراہٹ پھسلی جسے اسنے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مزید پھیلنے سے روکا

"فلحال یہ لے جاؤ میں تھرڈ پیریڈ کے بعد دیکھتا ہوں"

بلیک فائل اٹھا کر اسنے سنجیدگی سے شاہان کی طرف بڑھائی شاہان نے ہونٹوں کو ترچھی لکیر میں بھینچ کر فائل تھامی اور اٹھ کر آفس سے واک آؤٹ کر گیا آئیذل دروازے کی جانب دیکھ کر دروازہ بند ہوتے ہی اسکے سامنے ڈیسک پر بیٹھی تھی ذاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا

"مجھے ایک کام تھا آپ سے ڈین صاحب"

اسکے وجیہ چہرے کو دلچسپی سے دیکھ کر اسنے آہستگی سے کہا گلاسز اتار کر بک کوور پر رکھ کر اسنے سنہری سحر انگیز آنکھوں سے آئیذل کو استفہامیہ نظروں سے دیکھا 

"مجھے آج ہونے والے ٹیسٹ کا رزلٹ معلوم کرنا تھا رباب بتا رہی تھی پروفیسر زاویان نے پیپرز چیک کر لئے سوچا آپ سے پوچھ آتی ہوں دو دن تک انتظار نہیں ہو رہا کب لسٹ لگے گی کب دیکھوں گی"

اسکے چہرے پر تھوڑی سی جھک کر وہ شریر لہجے میں بولی ذاویان نے نظریں اٹھا کر اسے متبسم نظروں سے دیکھا

"رزلٹ تو آپکو باقی کلاس کیساتھ ہی معلوم ہو گا مس آئیذل"

سینے پر بازؤں لپیٹ کر اسنے سنجیدگی سے کہا 

"کیا اب بھی نہیں بتائیں گے آپ پروفیسر ذی"

اسکے چہرے پر جھک کر شہادت کی انگلی سے اسکے چہرے کو سٹروک کرتے ہوئے آئیذل نے آئی برو اٹھایا

"اچھا تو  ٹیسٹ پیپر کے لئے آپ مجھے سیڈیوس کریں گی"

اسنے ایک آئی برو اٹھا کر سرکش لہجے میں کہا نظریں بغاوت پر اترنے کو تھی 

"کیا نہیں کر سکتی"

آئیذل نے مسکراتے ہوئے اسکی شرٹ کے پہلے بٹن پر انگلی رکھی تھی اسکے ہاتھ کو کھینچ کر اسنے آئیذل کو اپنی جانب کھینچا اسکی گود میں گرتی وہ شرمساری سے سرخ پڑی

"ایسی حرکتوں سے باز رہنے کو کہا تھا میں نے لمظ"

آئیذل کے چہرے پر جھولتی ریشمی بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا کر اسنے خمار آلود لہجے میں کہا آئیذل نے حلق تر کرتے ہوئے اسکی سنہری درخشاں پرسرور آنکھوں کو دیکھا جو اسکی بنفشی آنکھوں کو چھیڑتی ہوئی اسکی اعتدال دھڑکنوں کو بےترتیبی سے الجھا رہی تھی

"اوکے میں چلی جاتی ہوں"

اسکی مظبوط انگلیوں سے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے وہ سٹپٹا کر بولی ایک دلفریب مسکراہٹ اسکے کٹاؤ دار لبوں پر بکھری

"اب آپ نہیں جاسکتی اپنا کام پورا کریں آپ مجھے سیڈیوس کرنے آئی تھی ڈو اٹ لمظ اور اگر آپ نے نہیں کیا تو میں ضرور سیڈیوس کروں گا آپکو اور مجھے کافی تجربہ ہے حالت بگڑ جائے گی آپکی"

آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اسنے آئیذل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا تھا نچلا ہونٹ دباتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے اسکی شرٹ کے پہلے بٹن کو کھولتے ہوئے مسکرائی تھی اسکی باریک گلابی انگلیوں نے اسکی گردن پر بنے ٹیٹو کو آہستگی سے سٹروک کیا ذاویان کی انگلیوں کی گرفت آئیذل کی کلائی پر سخت ہوئی اسکی پرسکون سانسوں میں تیزی آنے لگی جسے آئیذل نے بخوبی محسوس کیا

"اور آپ اپنی سٹوڈینٹ کو کمتر سمجھ رہے تھے پروفیسر"

ذاویان کا ضبط سے سرخی مائل پڑتا چہرا دیکھ کر آئیذل نے استہزاء کیا سنہری آنکھوں نے اسے ذو معنی نگاہوں سے دیکھا دوسرے بٹن کو کھول کر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جن میں خماریت کی گھٹائیں شدت سے چھا رہی تھی 

"اگر آپ ہار مان لیں تو میں رک سکتی ہوں پروفیسر"

نچلا ہونٹ دبا کر وہ استکبار لہجے میں بولی 

"اور میں سوچ رہا تھا تمھیں پرائیویسی دی جائے"

ذاویان کے دونوں ہاتھوں نے آئیذل کی باریک مرمری کمر کی پیمائش کی آئیذل کی آنکھیں سرور سے بند ہونے لگی سانسوں میں اسکے کلون کی مہک گھلنے لگی

"ہم اسوقت یونیورسٹی میں ہیں روحِ قلب کاش تھوڑی سی شرم کی ہوتی"

آئیذل کے نچلے ہونٹ کو اسنے اپنے رعنا انگوٹھے سے سہلا کر پرخمار لہجے میں اسکے کان کے قریب سرگوشی کی آئیذل نے اسکے انگوٹھے کو لبوں میں دبایا تھا ذاویان کی سنہری آنکھوں میں چھائی گھٹائیں اسکے اس عمل سے اپنی آخری حد پر پہنچ چکی تھی

"آپ سب سے بڑے بےشرم ہیں میں نہیں"

اسکے ہاتھ کو ہٹاتے ہوئے وہ جلدی سے اسکی گود سے اٹھی تھی ذاویان نے ہاتھ بڑھا کر اسکی کلائی پکڑنے کی کوشش کی تھی مگر وہ تیز قدموں کیساتھ دروازے کی جانب بڑھ گئی تھی

"پہلے آپ خود پر کنٹرول کر لیں پروفیسر میرا فوکس پیپرز پر ہی ہے"

اسے تضحیک آمیز لہجے میں کہنے کے بعد وہ آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی لمبا سانس ہوا کے سپرد کر کے اسنے دو انگلیوں سے پیشانی کو سہلایا تھا یہ لڑکی ہر گزرتے دن کیساتھ اسکے جذباتوں کی شدت کو بڑھا رہی تھی

آج اسے قیدخانے میں چھتیس گھنٹے ہوچکے تھے نیم وا آنکھوں سے وہ اونچی دیوار سے اٹیچ ونڈو سے اندر پھوٹتی سورج کی چمکدار کرنوں کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی لبوں کے کناروں سے بہتا خون جم چکا تھا  چہرے پر سرخ نشانات کیساتھ تھکاوٹ اور تکلیف کے لامتناہی تاثرات تھے مسلسل دو دن اور ایک رات کے شدید ٹارچر کے بعد کمزوری کے سبب اسکا جسم ساری توانائیاں کھوچکا تھا سیاہ چمک سے عاری آنکھیں ایک نقطے پر جمی ہوئی تھی وہ بےجان لگ رہی تھی پورا بدن مسلسل ایک کرسی پر بندھے رہنے کی وجہ سے درد کی شدت سے دکھ رہا تھا مگر اسے صرف ایک ہی غم کھارہا تھا نہ اسے ان زخموں کا  درد تھا نہ ہی اپنی لیکڈ ویڈیو سے کوئی غرض تھا  وہ یہ بات دل و دماغ میں بٹھا چکی تھی کہ وہ ویڈیوز لیک ہو چکی تھی۔

اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا کوئی اسے بچانے نہیں آسکتا تھا کیونکہ یہاں کوئی اسکا عزیز تھا ہی نہیں۔

وہ اس دنیا میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی جہاں سب اسے تمسخر بھری نگاہوں سے دیکھتے اور اسکے کردار پر انگلیاں اٹھاتے اسے صرف ایک ہی غم کھارہا تھا اور وہ تھا عاطف صاحب کی موت کا غم، اس واحد شخص کی موت کا غم جو اسکی کل کائنات تھا جس کے شفقت کے دامن میں وہ بیٹوں کی طرح بڑی ہوئی تھی جو اسے بیٹی سی زیادہ بیٹا کہنے پر ترجیح دیتے تھے جن کی موت کو ایکسیڈینٹ قرار دیکر انکا انڈر انویسٹیگیشن گیٹ بند کروا دیا گیا تھا اور قاتل بھی وہ تھا جس پر ابھی اسکے بھروسے کی شروعات تھی۔

یہی بات اسکے دل کو تیز دھار آرے کی طرح کاٹ رہی تھی وہ آنکھیں میچ کر اپنے شفیق والد کا سوچتے ہوئے ماضی کی  خوبصورت یادوں میں گم ہوگئی تھی جن میں صرف رنگینیاں تھی،صرف کھلکھلاہٹیں۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

-Past

بارش ابھی شروع ہی ہوئی تھی گارڈن میں وہ دونوں بازوؤں پھیلائے آسمان کی جانب چہرا کیے بارش میں جھوم رہی تھی  اپنے کمرے کی ونڈو کے پردے ہٹاتے ہوئے وہ ایک لمحے کو ساکت ہوا تھا  اس لڑکی کے لمبے گھنے کمر سے نیچے ہوا کے زور پر لہراتے بال  اور اسکی معصومانہ کھلکھلاہٹیں اسکی تمام تر توجہ جزب کرچکے تھے لائٹر سے  سگریٹ جلاکر اسنے فلٹر لبوں میں دبایا تھا البتہ بھوری آنکھیں اسے بارش میں بھیگتے ہوئے اب تک بڑی دلچسپی اور ذوق سے دیکھ رہی تھی۔

" دعان۔۔؟!""

اپنے عقب سے آتی یسریٰ بیگم کی آواز سن کر اسنے سگریٹ فوراً نیچے گراکر اس پر وائٹ اسنیکرز رکھے تھے

کھڑکی سے آتا ہوا کا تیز جھونکا سگریٹ کی تیز مہک اپنے ساتھ کہیں بہت دور لے گیا تھا سرد آہ بھرکر وہ کھڑکی بند کرنے لگا مگر یسریٰ بیگم نے اسے بند کرنے سے باز رکھا کیونکہ وہ گارڈن میں سیرت کو دیکھ چکی تھی۔

"سیرت کو دیکھ رہے تھے آپ دعان۔۔۔؟!!"

" نہیں امی جان ۔۔۔"

نظریں چراکر اسنے سنجیدگی سے جھوٹ بولا یسریٰ بیگم نے دھیرے سے سرہلایا تھا پینٹ کی جیب میں ہاتھ اڑساکر اسنے اسکتباریت سے دوسری جانب دیکھنا شروع کیا تھا۔

"سیرت کہہ رہی تھی آپ نے کیک نہیں لیا، ایسا کیوں ۔۔۔؟!!"

"میں چھوٹا بچہ نہیں ہوں امی جان جو یہ سب کھاؤں گا"

سینے پر بازؤں لپیٹ کر اسنے سرد لہجے میں جتایا  یسریٰ بیگم نے تاسف سے اسے دیکھا تھا جب بھی وہ سیرت کے معاملے میں اس سے گفتگو کرنا چاہتی وہ اکھڑنے لگتا تھا شاید اب تک  وہ سیرت اور عاطف صاحب کو قبول نہیں کرپایا تھا جسکا اندازہ ہرگزرتے دن کیساتھ یسریٰ بیگم کو ہورہا تھا۔

"دعان، اس میں سیرت کی کیا غلطی ہے اگر آپکو ناراضگی کا اظہار کرنا ہے تو ہم سے کریں"

یسریٰ بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ کر شائستگی سے کہنا چاہا مگر وہ سر جھٹک کر نظر انداز کرنے کیساتھ ہی انکا ہاتھ آہستگی سے اپنے کندھے سے دور ہٹاگیا تھا۔

"محض ناراضگی کے اظہار سے کیا ہوگا ؟!! نہ ہی میں اس شخص کو ڈیڈ  تسلیم کرتا ہوں۔۔ اور نہ ہی اس لڑکی سے میرا کوئی تعلق ہے امی جان اور بہتر یہی ہوگا آپ اس لڑکی کیساتھ میرے تعلقات بہتر کرنے کے لئے ہمارے تعلقات خراب نہ کریں، مجھے اس لڑکی سے شدید الجھن ہوتی ہے جب بھی وہ سامنے آتی ہے "

پیشانی پر بل ڈالے اسنے ناپسندیدگی کا براہ راست اظہار کیا دروازے پر ناجانے کب سے انکی گفتگو ملاحظہ فرماتے عاطف صاحب نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا تھا دروازے پر انکو موجود پاکر یسریٰ بیگم اپنی جگہ ساکت و صامت رہ گئی تھی البتہ وہ بیڈ سے اپنا اسپورٹس بیگ اٹھاکر جم جانے کا مصمم ارادہ کرچکا تھا۔

عاطف صاحب نے  شفقت سے اسکا بازو تھام کر اسے جانے سے قبل روکا تھا۔

"دعان بیٹا  اس میں یسریٰ کی کوئی غلطی نہیں اسے نکاح کی پیشکش میں نے کی تھی۔"

عاطف صاحب مزید کچھ کہنے کے حق میں نظر آتے تھے مگر وہ  داہنے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرچکا تھا۔

"انافف!! عاطف صاحب ، مجھے بیٹا مت کہیے نہ تو میں آپکا بیٹا ہوں، اور نہ ہی ہمیں آپکے سہارے کی کوئی ضرورت ہے، میرے والد صاحب کافی شیئرز چھوڑ کرگئے تھے ہمارے لئے، ناجانے کیوں مام کو یہ احساس ہوا کہ آپ  سے نکاح کرلینے سے مجھے میرے ڈیڈ واپس مل جائیں گے، میرے لئے وہ وفات پا چکے ہیں، انکا مقام آپ کبھی نہیں لے سکتے، اور رہی بات آپکی جانب سے نکاح کی پیشکش کی تو آپ نکاح کرچکے ہیں اور دوسری مضحکہ خیز بات آپ نے ایک اور جگہ بھی نکاح کررکھا ہے، جسے بقول آپ مجبوری کا نام دیتے ہیں، خاندان کے دباؤ میں آکر آپکو کرنا پڑگیا لیکن اس سے بھی بڑی مضحکہ خیز بات آپکی ایک مجبوری کی بیٹی بھی ہے جو اکثر آپ کے ساتھ یہاں آیا کرتی ہے، سوری ٹوسے مگر آپ پر ایک فیصد بھی بھروسہ نہیں"

اپنا بازو انکے ہاتھ سے بےدلی سے نکال کر وہ دل کی ساری بھڑاس نکالنے کے بعد وہ کمرے سے واک آؤٹ کرگیا  یسریٰ بیگم نے افسردگی سے عاطف صاحب کی جانب دیکھا۔

"دعان کو یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا، میں اپنے بیٹے کی طرف سے آپ سے معافی مانگتی ہوں"

"نہیں یسری وہ صرف تمہارا نہیں، میرا بھی بیٹا ہے، میں جانتا ہوں وہ فلحال اس رشتے سے راضی نہیں ہے اور اسے شکوہ کرںے کا پورا حق بھی ہے تم فکر مت کرو میرے لئے وہ میری سیرت کی طرح ہے،

میں نے کبھی اسکی باتوں کا برا نہیں منایا، دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہوجائے گا امید رکھو"

عاطف صاحب نے انکی جانب دیکھ کر الفت سے کہا تھا البتہ لہجے میں تکلیف ضرور تھی  یقیناً اسکی باتوں نے ان پر گہرا اثر چھوڑا تھا سیڑھیوں کے بیچ کھڑی سیرت قدموں کی آہٹ سن کر لب بھینچے سب سن کر واپس لوٹ گئی تھی آج اسے دعان کی نا پسندیدگی کی وجہ کا اندازہ ہوچکا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

-Present

"اٹھ جاؤ مہارانی۔۔۔"

عرش کی آواز سن کر سیرت نے ا آہستگی سے آنکھیں واکی اسکے بالوں میں  سختی سے انگلیاں پھنسائے چہرا اوپر اٹھاکر عرش نے نخوت سے اسے چہرے کو دوسرے ہاتھ سے چھونا چاہا مگر وہ  نفرت خیز نگاہوں سے اسے دیکھ کر اپنا سر جھٹک چکی تھی عرش کی پیشانی پر چند بل پڑے۔

"کہاں ہے تمہارا وہ  حدید؟!! ڈھونڈنے نہیں آیا ؟!!"

عرش نے دانت پیس کر سیاہ متورم آنکھوں میں جھانکا جن میں اسکے زکر پر شرارے پھوٹ پڑے تھے، غم و غصے سے سرخی مائل آنکھوں میں کشیدگی  عود آئی۔

"تمہاری ویڈیو  ملاحظہ کرچکا ہوگا اب کیوں آئے گا بھلا؟!!"

عرش استہزائیہ نگاہوں سے  طیش سے سرخی مائل رنگت چہرے کو دیکھ کر کرسی کے دونوں جانب ہاتھ ٹکاکر مزید اس پر جھکا سیرت  نے ایک انچ بھی حرکت نہیں کی تھی عرش کے زہریلے الفاظ اسکے زخمی قلب پر  برابر اثر انداز ہورہے تھے  اور یہی تو وہ چاہتا تھا۔

" وہ تو سوچ رہا ہوگا تم کبھی واپس نہ لوٹو کتنے بڑا ایمپائر کا مالک ہے وہ، ایسے لوگوں کیلیے ریپوٹیشن سے بڑھ کرکچھ بھی نہیں ہوتا، اور تمہارے جیسی لاکھوں لڑکیاں روز اس کے آگے پیچھے گھومتی ہیں۔۔۔ ہاہاہاہا"

سیرت نے بےحد سختی سے رسیوں میں بندھے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر کرسی پر ماری تھی سیاہ آنکھوں  میں سراٹھاتے طوفون کو دیکھ کر عرش کا جاندار قہقہ اس  ویران چار دیواری میں گونجا تھا۔

"اتنے تشدد کے بعد بھی تمہاری یہ اکڑ ایک انچ بھی کم نہیں ہوئی، سیرت رضوی  یہ غرور ۔۔ یہ غرور خاک میں ملانا چاہتا ہوں، تم پر تمہاری اصل حیثیت واضح کرنا چاہتا ہوں ، دو کوڑی کی عورت۔۔۔"

سیرت نے پر اشتعال نگاہوں سے اسے دیکھا یقیناً اگر اسکے ہاتھ آزاد ہوتے تو شاید اب تک وہ اسکا پور پور توڑ چکی ہوتی، عرش کی باتوں سے  پورے وجود کا لہو جیسے اسکے چہرے پر سمٹ آیا تھا۔

پرانے زخموں پر آج پھر سے بھرپور نمک پاشی کی گئی تھی سیاہ آنکھیں ایک غیر مرئی نقطے پر منجمد تھی، احساسات پر آج اختیار ممکن نہیں تھا کبھی جزباتوں کو خود پر غالب نے آنے دینے والی لڑکی آج پھر سے اوور تھنکنگ کررہی تھی"کیا وہ  میرا ماضی جاننے کے بعد کنارہ کش ہوجائے گا مگر نکاح کیا تھا اسنے مجھ سے"

لامتناہی سوچوں کے گرداب میں وہ ہرگزرتے لمحے کیساتھ دھنستی چلی جارہی تھی۔

"کیا ہوا یہی سوچ رہی ہو کہ تمہاری ویڈیو کو کتنے افراد نے  ملاحظہ فرمایا ہوگا؟!!"

عرش نے معنی خیز  نگاہوں سے سرخی مائل چہرے کے لمحے بھر میں بدلتے تاثرات دیکھے۔

"تمہارے بھائی نے بھی دیکھی ہوگی، تمہارے سارے خاندان نے دیکھی ہوگی سیرت"

سیرت کے ہاتھ پیر پھول کر برف کے ہوگئے، زاویان کا خیال آتے ہی سیاہ آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر سرخ  رخساروں پر پھسلتے چلے گئے، سانسیں اکھڑچکی تھی،  گہرے سانس بھرتی ہوئی وہ یہاں وہاں بےچینی سے دیکھتے ہوئے  اپنے فگار قلب کو اوور تھنکنگ کیساتھ مزید کاٹتی جارہی تھی۔

"کوئی نہیں آئے گا سیرت اور جانتی ہو تمہیں یہاں کیوں رکھا گیا ہے؟!! تمہارا سودا ہوچکا ہے۔۔ ہم بہت جلد تمہیں ماسکو کے مافیاز کو بیچنے والے ہیں، جانتی ہو پھر کیا ہوگا؟!!  ماسکو میں۔۔۔تم ایک کال گرل بنو گی"

عرش نے سیرت کے کان پر جھک کر پگھلا سیسہ اسکے کانوں میں گھول دیا سیرت ساکت و صامت رہ گئی۔

عرش نے مسکرا کر اسکے بالوں کو سختی سے جکڑ کر اسکا چہرا اوپر اٹھایا گھنی پلکوں کی منڈیروں پر جھلملاتے قمقموں کی روشنی میں کمی واقع ہوچکی تھی وہ بےجان  شل ہوچکی تھی۔

"وکی ہاتھ کھول دو اسکے، اور اسکا حلیہ درست کرو کچھ ہی دیر میں وہ لوگ آجائیں گے"

قریب کھڑی لڑکی نے اول تو عرش کی بات پر اعتراض ظاہر کیا کیونکہ وہ  اسے اغواء کرنے کے دوران یہ دیکھ  اور سمجھ چکی تھی وہ لڑکی کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی بہرحال اسنے سیرت کے  ہاتھوں کی رسیاں کھول دی تھی سیاہ آنکھوں کی پتلیاں ایک نقطے کی نگرانی میں  شدت سے ملوث تھی۔

سیرت نے  اپنی سپید کلائیوں پر  رسیوں کے سرخ نشانات کشیدگی سے دیکھے  جب نگاہ کلائی پر بندھی بریسلٹ پر پڑی وہ لڑکی  رسیاں کھول کر کونے کی جانب پیش رفت کرگئی تھی سیرت نے لب بھینچ کر بریسلٹ کو  گھورا جس پر حرف"ڈی"  کر قریب ایک سیاہ چپ سے  مدھم سرخ روشنی پھوٹ رہی تھی۔

""ڈی"" یہ جی۔۔ پی۔۔۔ایس ہے؟!!"

سیرت کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی شدید لہر دوڑ گئی  خشک پڑتے حلق کیساتھ اسنے کلائی پر دوسرا ہاتھ رکھ کر اندر آتے شاہزیب کی نگاہوں سے بریسلٹ کو چھپایا ۔

"ڈیڈ کہاں ہیں۔۔۔ آتے وقت انہوں نے اطلاع کی تھی کہ میرے یہاں پہنچنے سے قبل وہ یہاں موجود ہوں گے،  تمہاری بات ہوئی ڈیلرز سے۔۔۔؟!!"

عرش سرہلاکر شاہزیب کی جانب متوجہ ہوچکا تھا سیرت نے  اس لڑکی کی پینٹ کی جیب میں پسٹل دیکھا تو ایک  پوشیدہ مگر جاندار مسکراہٹ نے  خشک لبوں کا احاطہ کیا ۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

فرنٹیئر، ٹینیسی جیسے سینکڑوں کمپوٹر اور دیواروں میں نصب اسکرینز  کے سامنے سیاہ نی اون کیبورڈ زپر اسکی  قوی خوبصورت انگلیاں پچھلے بیس گھنٹوں سے  مصروف تھی بھوری درخشاں آنکھوں میں تھکاوٹ اور تناؤ کے تاثرات دیکھے جاسکتے تھے پوری دنیا میں جہاں جہاں وہ ویڈو اور اسکے زرائع موجود تھے اسنے انکو جڑ سے اکھاڑنے کیساتھ گلوبل نیٹورکنگ سسٹم کو ہیک کیا تھا اور سب سے بڑی بات اسنے سارا کام اکیلے بڑی صفائی سے کیا تھا پوری دنیا میں نیٹورک کی عدم فراہمی کیساتھ اینڈرائڈ اور ایپل کی ایجنسیوں کا کاروبار ٹھپ ہوچکا تھا جن جن ذرائع پر وہ ویڈیو ابھی  ریسیو ہونی تھی اسنے انکو سوئچ آف کردیا تھا، کئی بڑی ایجنسیوں کے کمپیوٹر سسٹم  کریش کرچکے تھے اسوقت پوری دنیا کا سب سے اہم مسئلہ گلوبل نیٹورکنگ سسٹم کی بحالی  تھا جو پچھلے بیس گھنٹوں سے ناجانے کس ریسورس سے ہیک کرکے بند کردیا گیا تھا۔

بڑے بڑے آئی ٹی کے ادارے اس مسئلے کی تحقیق کیلیے اجلاس بلاچکے تھے  روس اور امریکہ کے قابل ہیکرز کو ایک پیج پرلاکر نیٹورکنگ سسٹم بحال کرنے کی کوششیں پچھلے کئی گھنٹوں سے جاری تھی مگر سب بےسود تھا  دو انگلیوں سے پیشانی کو مسل کر اسنے گہرا سانس  ہوا کے سپرد کیا تھا ذہن مسلسل بیس گھنٹوں سے کوڈز کیساتھ الجھنے کے بعد آخر کار کامیابی حاصل کر چکا تھا یہ آخری زرائع تھے جن سے اسنے ویڈیو ہٹاکر   کمپیوٹر کی اسکرین کی جانب دیکھ کر ایک پرسکون سانس لیا تھا صرف بیس گھنٹوں میں تقریباً  پندرہ ارب زرائع سے وہ ویڈیو ہٹائی گئی تھی پچاس ہزار کے قریب ویب سائٹس اور سسٹمز اسنے تباہ و  برباد کردیئے تھے جس سے ایجینسیوں کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا، گلوبل نیٹورکنگ سسٹم پورے اکیس گھنٹوں بعد بحال کردیا گیا تھا خبروں اور اخبارات میں صرف یہی خبریں شائع تھی، بڑی بڑی ایجنسیاں اس ہیکرر کو ٹریس کرنے میں ناکام ہوچکی تھی، کئی ایک اداروں کے افسران نے تکنیکی خرابی کہہ کر معاملہ رفع دفع کردیںے میں غنیمت جانی تھی جبکہ کئی ایک ایجنسیاں ابھی تک اپنے نقصان کی تلافی کیلیے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہی تھی۔

آنکھوں کو انگلیوں سے مسلنے کے دوران وہ چیئر سے اٹھا اور واش روم کی جانب پیش قدمی کی سکن پر جھک کر اسنے برفیلے ٹھنڈے پانی کو ہتھیلیوں پر لیکر آنکھوں پر پھینکا تو جلن اور چبھن سے بھوری آنکھوں میں  سرخی پھیل گئی آئینے میں اسنے تشویش سے آنکھوں کا بغور جائزہ لیا جو  نیند کی کمی اور مسلسل کام کی وجہ سے انفیکٹ ہوچکی تھی ٹاول سے چہرا تھپتھپا کر وہ سرخی مائل آنکھوں کیساتھ باہر آیا تھا۔

"جے، کہاں مرگئے ہو تم۔۔"

فرینچ میں اسنے چند ایک القابات سے بھی اسے نواز ڈالا جو کچھ ہی سیکنڈ میں بوتل کے جن کی طرح اسکے  کمرے میں حاضر ہوچکا تھا سرخی مائل آنکھوں کو دیکھ کر وہ حیرت سے اسے دیکھتا چلا گیا۔

"تم جانتے ہو تمہیں کیا کرنا ہے۔۔۔؟!"

سیاہ لیتھر جیکٹ پر سیاہ ہوڈ لیکر وہ سیاہ گلووز پہنتے ہوئے  گمبھیر آواز میں بولا سر اثبات میں ہلاکر آنے والا شخص  اسکا سیاہ کوٹ لینے کے بعد سیاہ ہوڈ  چہرے پرڈال کر اسکی کرسی پر  ٹک چکا تھا۔

"اگر کسی کو میری غیر موجودگی کی بھڑک بھی لگی تو تمہارا سر  کاٹ کر۔۔۔"

ٹیبل سے پسٹل اٹھاکر جیکٹ کی جیب میں رکھنے کے دوران وہ کاٹدار لب و لہجہ میں بولا۔

"ڈونٹ وری۔۔ ڈی!! مجھے میری جان بےحد عزیز ہے"

وہ  اسکی مخصوص آواز میں بولا تو ہلکی بیئرڈ میں عنابی لب ہلکے سے ستائشی انداز میں پھیلے۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

دروازے پر ناک کرکے وہ اندر سے اجازت ملنے تک باہر ہی کھڑی رہی اندر سے مہر النساء بیگم کی آواز سنائی دی تو اجازت پاکر وہ چائے کا کپ سنبھال کر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔

"آپکی دوائی کا وقت ہوگیا ہے امی ۔۔۔ "

بیڈ کے قریب نائٹ اسٹینڈ پر چائے کا کپ رکھ کر وہ محبت سے بولی مہر النساء بیگم نے  حزن نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکھا کسی مٹی کی بنی تھی آخر وہ اتنا سب ہونے کے بعد اسکا رویہ گھرکے ہر فرد کیساتھ ویسے کا ویسا تھا جب شرمندگی سے انکا دل بےچین ہونے لگا تو انہوں نے ہاتھ بڑھاکر آئیذل کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب بیڈ کے کنارے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا انکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھی

"بیٹا ملازمہ لے آتی تم نے کیوں زحمت کی۔۔۔؟!"

"اس میں زحمت والی کوئی بات نہیں امی جان۔۔۔"

نظریں اٹھاکر وہ  مسکرا کربولی مہر النساء بیگم کے دل کو ڈھیروں بےچینی نے آن گھیرا۔

"آئیزل۔۔۔ اب بھی  مجھ سے کوئی ناراضگی ہے  بیٹا؟!!"

اسے انگلیاں باہم پیوست کرکے چٹخاتے دیکھ کر انہوں نے استفسار کیا۔

"نہیں امی جان۔۔۔ دراصل آج زاویان کیساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی کچھ ٹیسٹ ہوئے ہیں جن کی رپورٹس کچھ دنوں میں آنا باقی ہیں اس لئے پریشان ہوں۔۔۔"

مہر النساء بیگم نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا، اسکا مطلب وہ سچ میں بیمار تھی، البتہ وہ زاویان کے نام پر تھوڑی پشیماں ضرور ہوئی تھی جو آئیزل سے چھپ نہیں پایا تھا۔

"امی کیا آپکے اور زاویان کے بیچ کوئی غلط فہمی ہے ؟!! اگر ایسا کچھ ہے تو آپ اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں، وہ آپ سے بےحد محبّت کرتے ہیں مجھے امید ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"

آئیزل کی بات پر لمحے بھر کیلئے نظر ثانی کے بعد مہر النساء بیگم نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا۔

"میں ان سے بات کروں۔۔۔اگر آپ چاہیں تو۔۔۔ ؟!!"

آئیزل کی جانب دیکھ کر وہ بےساختہ مسکرا گئی تھی آئیذل کو پہلی بار اپنائیت کا احساس ہوا تھا، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس کیا تھا اسنے۔

"نہیں بیٹا۔۔۔ یہ میری غلطی ہے میں ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گی"

مہر النساء بیگم نے  شفقت سے اسکے چہرے کو چھوا  چاہت دروازے سے سارا منظر دیکھنے کے بعد بےتاثر نگاہوں سے ایک نقطے کو چند ثانیے تک دیکھتی رہ گئی تھی قدموں کی آہٹ پر وہ اپنے کمرے کی جانب مڑگئی تھی آئیزل مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب پیش قدمی کرگئی تھی۔

"اہااں۔۔۔ تو تمہاری رپورٹس آنے والی ہیں۔۔۔ ہممم۔۔۔، لیکن رپورٹس تو میرے خیال سے بالکل کلیئر آئیں گی آئیزل۔۔ پھر کیا کروگی تم۔۔۔  کیسے کرو گی اپنی ساس کو کنوینس ؟!!!"

چاہت فون کی اسکرین پر ٹائپنگ کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہنے کے بعد مسکرائی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"کیا مطلب بھاگ جائے گی وہ۔۔ تم نے حالت دیکھی اسکی چل تک نہیں سکتی وہ"

شاہزیب نے عرش کی وضاحت بالائے طاق رکھتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا وہ کسی صورت اسکے ہاتھ کھولنے کے حق میں نہیں تھا  البتہ کمرے کے بیچ و بیچ پڑی خالی کرسی کو دیکھ کر دونوں کے چہروں نے بیک وقت رنگ بدلا تھا شاہزیب کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھ چکا تھا عرش کو گریبان سے پکڑ کر وہ دھاڑا۔

"حرام زادے کہا تھا بھاگ جائے گی وہ۔۔۔ دیکھ  وہی ہوا"

"شاہزیب کا ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹک کر عرش  چلتے ہوئے کمرے کا جائزہ لینے لگا لائٹ سوئچ آن کرنے پر دونوں کی آنکھیں کمرے کا منظر دیکھ کر چندھیا گئیں کرسی سے کچھ قدموں کے فاصلے پر وہی لڑکی ساکت پڑی تھی جس نے سیرت کی رسیاں کھولی تھی عرش تیزی سے اسکی جانب لپکا شاہزیب نے اسکی نبض دیکھی جو سستی سے چلتے چلتے اب مکمل مدھم ہوچکی تھی عرش نے جلدی سے اسکی گردن کو رسی سے آزاد کیا شاہزیب خانزادہ کی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں چمک رہی تھی۔

"ڈھونڈو اسے زیادہ دور نہیں گئی ہوگی۔۔۔ میں انکل کو اطلاع کرتا ہوں ڈیلرز ہمیں جان سے مار دیں گے اگر انکو اندازہ بھی ہوا کہ وہ بھاگ چکی ہے۔۔۔ ڈیم اٹ منہ کیا دیکھ رہے ہو میرا جاؤ  ڈھونڈو اسے۔۔۔"

شاہزیب سبک روی کا مظاہرہ کرکے تیزی سے کمرے سے باہر نکلا تھا عرش سرد آہ بھرکر قدموں پر آیا۔

گردن پر ٹھنڈی دھات کا احساس عرش کے تن بدن میں برقی لہریں پیدا کرچکا تھا عقب سے بھاری قدموں کی آہٹ ابھری عرش کی نگاہوں کے سامنے فرش پر ایک پرچھائی نمودار ہوئی تھی۔

"ایک معمولی سی حرکت اور گولی تمہارے دماغ کے آر پار ہوگی عرش جباری"

نسوانی آواز میں چٹان جیسا پختہ لہجہ تھا پسٹل کے ری لوڈ ہونے کی آواز کان کے بےحد قریب سن کر عرش کے حلق کے مقام پر گلٹی ابھری عرش کے کپکپاتے ہاتھ نے پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالنے کی جدو جہد کی سیاہ آنکھوں نے  شوق سے ساری کروائی ملاحظہ کرنے کے ساتھ اسکی کمر میں پسٹل کا گرپ پینل بےدردی سے مارا درد سے کراہنے کے  ساتھ وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر زمین بوس ہوا۔

پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکل کر اسکے ہاتھ کے بےحد قریب گرا تھا جسے برق رفتاری سے اسنے ہاتھ بڑھا کر اٹھانا چاہا مگر سیاہ  اینکل بوٹس نے اسکی انگلیوں کو بےدردی سے کچلا تھا۔

"آہہہہ۔۔ مار ڈالیں گے وہ تمہیں اگر مجھے کچھ ہوا یاد رکھنا۔۔"

عرش نے  درد کی شدت سے دانت پیسے ۔

"افسوس کہ مجھے مرتے ہوئے تم نہیں دیکھ پاؤ گے ، یوئر ٹائم از اوور سک باسٹرڈ*"

سیرت ایک گھٹنا اسکے قریب ٹکاکر بیٹھنے کے بعد ٹھیک اسی طرح اسے اسکے بالوں کو کھینچ کر غرائی جس انداز میں کچھ وقت پہلے وہ اسکے زخموں کی نمک پاشی کرتے ہوئے پایا گیا تھا۔

"قاتلہ بن جاؤ گی مجھے مار کر سیرت۔۔۔۔ قانون تمہیں قاتلہ کہے گا"

عرش نے خوف سے لکڑی کی مانند چٹختے حلق سے بمشکل کہا۔

"کونسا قانون۔۔ حرامخور*....وہی قانون جو ایک لڑکی کی عزت کے پرخچے اڑانے والوں کو چند سالوں کی قید اور جرمانے کیساتھ دوبارہ دنیا میں جینے کیلیے چھوڑ دیتا ہے۔۔۔ بغیر یہ سوچے کہ اس لڑکی کی بقیہ زندگی تو داغدار ہو چکی ہے۔۔۔ صرف موت کے مستحق ہیں تم جیسے حرامزادے*"

ایک زوردار تھپڑ عرش کے گال کو سرخ کرگیا تحقیر سے عرش کا پورا چہرا سرخی مائل پڑا۔

"برا لگا تمہیں ایک عورت سے تھپڑ کھاکر۔۔ ہاں۔۔۔ تزلیل پر درد ہوا تمہیں۔۔۔ ؟!!"

سیرت نے جھک کر دانت پیس کر اسکے چہرے پر دوسرا تھپڑ رسید کیا۔

"تمہیں یہ گولی۔۔۔ اپنے باپ کے قاتل پر چلانی چاہیے تھی۔۔۔ مگر افسوس تم تو اسکی معشوقہ ہو"

عرش نے  قریب پڑے پسٹل کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے لفظوں سے اسے بھٹکانا چاہا سیرت نے قدم بڑھاکر پیر سے پسٹل کو دور دھکیلا تھا اور پسٹل کو اسکی پیشانی کے بیچ و بیچ رکھا۔

"ایک اور قتل کرتے ہوئے نہیں ہچکچائوں گی میں۔۔۔ "

ٹریگر پر انگلی رکھ کر وہ گولی چلاچکی تھی عرش کے سنبھلنے سے قبل ہی  گولی اسکی پیشانی کے آر پار ہو گئی تھی وہ بےسدھ ہوکر زمین پر گرا سرخ سیال کا ایک   فوارا اسکی پیشانی سے فرش پر پھیلا تھا۔

"یہ مجھ پر ایسڈ ڈالنے کیلیے۔۔۔ یہ میری تذلیل کرںے کیلیے ۔۔۔"

زخمی شیرنی کی طرح غراکر اسے گریبان سے پکڑ کر سیرت نے دو گولیاں اسکے حلق میں چلائی سرخ سیال کے چھینٹے اڑ کر سیرت کے شکن زدہ کپڑوں پر بھی پڑے عرش کی بھوری  پتلیاں سیرت پر ساکت ہوئی۔

پسٹل پینٹ کی جیب میں اڑساکر وہ تیزی سے کمرے سے باہر پیش قدمی کرگئی پورا بدن فرطِ جذبات سے لبریز تھا ایک ان دیکھی حرارت اسکے تھکے ماندے وجود میں سرائیت کرتی چلی جارہی تھی لہو جما دینے والے جاڑے میں بھی اسکی پیشانی پسینے سے شرابور تھی یکلخت باہر فائرنگ کی آواز نے کہرام برپا کردیا تیزی سے لفٹ پر سیکنڈ فلور کا بٹن دباکر وہ لفٹ میں لپکی فائرنگ کی آوازیں مسلسل کانوں کو چھید رہی تھی۔

لفٹ کے کھلتے ہی اسکے پیر زمین میں دھنس گئے سامنے ہی عرش کے آدمیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھی ۔

قدموں کی چاپ سن کر وہ تیزی سے ایک بڑے سے پلر کے پیچھے چھپ کر پاکٹ سے پسٹل نکال کر ری لوڈ کرکے چہرے کی سید پر رکھ کر دیوار سے پشت لگا کر رک گئی تھی۔

بلیک مخصوص وردیوں میں ملبوس اہلکار وہاں سے  سیڑھیوں کی جانب پیش قدمی کرچکے تھے کسی اپنے کی موجودگی کے احساس نے اسکے بےقرار قلب کو عارضی سکون بخشا مگر ایک بےچینی لاحق ہوتے ہی وہ تیزی سے  دوسری جانب لپک گئی ذہن میں ایک خیال آیا کہیں یہ ماسکو کے لوگ تو نہیں جن سے عرش کی ڈیل ہوئی تھی خوف سے اسکے وجود ہر کپکپی طاری تھی مگر وہ انکے ہاتھ لگنے سے قبل وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھی  لڑکھڑاتے قدموں پر وہ تیزی سے بھاگتی چلی جارہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

شاہزیب کی خوفزدہ نگاہیں فرش پر بےسدھ پڑے اپنے آدمیوں کی لاشوں سے گزرتے ہوئے  عرش کی لاش پر پڑی تھی کچھ ہی لمحات میں موت کی مہیب آندھی نے  سب کو اپنی لپیٹ میں لیکر تباہ و برباد کردیا تھا۔

فق چہرے کیساتھ وہ سیکریٹ پیسیج سے وہاں سے بھاگ نکلا تھا اسنے عرش کی لاش تک کو سنبھالنے کا تکلف نہیں اٹھایا تھا اپنی جان بچانے کی خاطر وہ  بیلفاسٹ کی لہو منجمد کردینے والی سردی میں کتوں کی طرح تنگ گلیوں میں اپنی جان کی سلامتی کیلیے سرپٹ بھاگتا جارہا تھا۔

سیرت کی رہی سہی توانائی سیڑھیاں اترتے ہوئے جواب دے چکی تھی گھٹنوں کے بل اسنے ہتھیلیوں کی مدد سے خود کو فرش پر دھکیلنا شروع کیا  پوری فیکٹری کو محاصرے میں لینے والے اہلکار اسے  پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے تلاش کر رہے تھے  پلر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر وہ قدموں پر آئی جب سامنے سیاہ چرمی لباس میں ملبوس ایک شخص  کی نگاہوں کے حصار میں آئی سیرت نے بیک وقت پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکال کر اسکی جانب کیا وہ شخص دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کرچکا تھا بھوری  آنکھوں میں  اس لڑکی کیلیے حیرت  کیساتھ ستائش تھی لڑکھڑاتے ہوئے سیرت نے اسے پسٹل سے دور ہٹنے کا اشارہ کرنے کیساتھ قدم دروازے کی سمت لینا شروع کیے۔

"دور۔۔۔ ایک قدم مت بڑھانا ورںہ بھون کے رکھ دوں گی تمہیں"

تھرتھراتے ہاتھوں سے پلر کا سہارا لیکر چلتے ہوئے وہ اسے اپنی جانب قدم بڑھاتے دیکھ خوف سے چیخی۔

مگر اسکی جانب بڑھتے قدموں میں محض روانی آئی جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے دوران وہ پلر سے ٹکرا کر منہ کے بل زمین پر گری تھی ہونٹ کے کنارے  پر موجود زخم سے خون رسنا شروع ہوچکا تھا۔

اسکے قریب ٹھہرکر اسنے داہنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا سیرت نے حیرت سے سیاہ گلووز سے نظر آتی قوی انگلیوں کو دیکھا ریڈ اسنیکرز سے نگاہیں اٹھاکر اسنے سیاہ چرمی لباس میں ملبوس اس  قدر آور دیوتا کو گھورا تھا

"دور ہٹو مجھ سے۔۔۔ مجھے خریدنا چاہتے تھے تم لوگ۔۔۔ حرام زادو۔۔۔ تمہارا خون کردوں گی میں"

اسکا ہاتھ دور جھٹک کر کہنے کے ساتھ وہ خون آشام نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے دانت پیس کر گرجی سامنے کھڑے شخص کی  بھوری آنکھوں میں کشیدگی در آئی  سیرت نے اسکے عقب سے سیاہ وردی میں ملبوس اہلکاروں کو دیکھا تو ٹھنڈے پسینے چھوٹ پڑے سیرت کے ہاتھ میں پسٹل  اور پسٹل کا رخ اپنے لیڈر کی جانب دیکھ کر سب نے بیک وقت اسلحہ سنبھال کر اسکا رخ سیرت کی جانب کیا تھا سیرت کے حلق پر سخت گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی  ساری بہادری ایک لمحے میں اڑن طشتری میں کہیں کوچ کرگئی۔

داہنے ہاتھ سے اسنے اہلکاروں کو جانے کا اشارہ کیا سیرت کا دل اس اجنبی کیساتھ وہاں اکیلے ٹھہرنے کے تصور پر ہی دھک دھک کر اٹھا چٹختے حلق کیساتھ وہ پلر سے پشت ٹکائے اسے گھورتی چلی گئی۔

تمام اہلکاروں کے جانے کے بعد اسنے چہرے سے سیاہ ہوڈ ہٹایا سیرت کا  تمام ریکارڈ توڑتا دل اسے اپنے سامنے پاکر جھاگ کی مانند بیٹھتا چلا گیا سیاہ آنکھوں میں شناسی کی گہری چمک ابھرنے لگی۔

"کم آن شوٹ می۔۔۔ چاندنی!!"

بھاری گمبھیر آواز نے اسے سوچوں کے سمندر سے کنارے تک کھینچا ۔

"کیوں آئے ہوتم ۔۔۔"

وہ سرد نگاہوں سے اسے دیکھ کر بولی اسکی جانب قدم بڑھاتے ہوئے وہ  ایک لمحے کیلیے رکا۔

"تو کیا۔۔۔اکیلا چھوڑ دیتا تمہیں۔۔۔؟!"

سحرانگیز بھاری آواز میں کشیدگی نے سراٹھایا۔

سیرت نے نگاہیں اٹھاکر اسکی جانب بےتاثر نگاہوں سے دیکھا۔

"میں۔۔۔ نے ماردیا۔۔۔ اسے۔۔ عرش کو"

نظریں چراکر وہ دھیمے لہجے میں بولی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔ گھر چلو"

متحمل لہجے میں کہہ کر اسنے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔

"میں واپس نہیں جاؤں ۔۔۔ گی"

"کیووں۔۔۔ نہیں جاؤ گی؟!!"

نیلی بےپایاں گہرائی سمیٹتی  آنکھوں میں  تشویش ظاہر کی۔

"میں نہیں جاؤں گی۔۔۔"

وہ تیزی سے کہہ کر بلڈنگ کے انڈر کنسٹرکشن ایریا کی طرف بھاگی  بھاری قدموں نے تیزی سے اسکا پیچھا کیا تھا وہ پسٹل ایک جانب پھینک کراسکی جانب مڑکر قدم پیچھے اٹھاچکی تھی تیز ہواؤں نے اسے اپنی آغوش میں لیا تھا کانوں میں تیز ہواؤں کے جھکڑوں کی سرگوشیاں سنائی  پڑنے لگی، مگر آج اسنے اسے آزمانے کیلیے اپنی جان تک کو داؤ پرلگا دیا تھا بےخوف و خطر وہ ہواؤں کے حصار میں تھی۔

"بےوقوف ....!! دماغ خراب ہے تمہارا؟!!"

اسکے ہاتھ کو داہنے ہاتھ میں سختی سے پکڑکر وہ دبے لفظوں میں غرایا تھا سیرت نے آنکھیں وا کرکے اسے گھورا تھا جو زندگی اور موت کے بیچ اسکا ہاتھ سختی سے تھامے کھڑا تھا۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔  بدتہذیب شخص سکون سے مرنے بھی نہیں دو گے اب..."

"بلاشبہ نہیں۔۔۔۔"

مخروطی انگلیوں میں سختی سے اپنی انگلیاں پھنسائے وہ  سنجیدگی سے گویا ہوا سیرت تیسری منزل سے زمین کی جانب جھول رہی تھی  پیروں کے نیچے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا وہ مکمل طور طر اسکے رحم و کرم پرتھی یہ انتقام لینے ہا بہترین موقع تھا اگر وہ لینا چاہتا تو وہ اس موقع پر اسکا ہاتھ چھوڑ سکتا تھا۔۔۔۔

"بلاشبہ نہیں۔۔۔۔"

مخروطی انگلیوں میں سختی سے اپنی انگلیاں پھنسائے وہ  سنجیدگی سے گویا ہوا سیرت تیسری منزل سے زمین کی جانب جھول رہی تھی  پیروں کے نیچے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا وہ مکمل طور طر اسکے رحم و کرم پرتھی یہ انتقام لینے ہا بہترین موقع تھا اگر وہ لینا چاہتا تو وہ اس موقع پر اسکا ہاتھ چھوڑ سکتا تھا۔۔۔۔

سیرت نے لب چباتے ہوئے گردن موڑ کر نیچے دیکھا۔

تین منزلہ عمارت سے نیچے کے دل دہلا دینے والے مناظر  دیکھ کرسیرت کے پیٹ میں ہول اٹھنے لگا۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ واپس"

پیشانی پر بل ڈالے وہ سردی سے دانت کچکچا کر رہ گئی تھی دوسرے ہاتھ سے اسکی کہنی کو آہنی گرفت میں لیکر وہ اسے اپنی سمت کھینچ لایا سیرت نے گہرا سانس لیکر اسے  شائستہ نگاہوں سے دیکھا۔

"اگر تمہاری ضد پوری ہوگئی ہو تو چلو۔۔  تمہاری بی جان کو اسپتال سے لینا ہے"

سنجیدگی سے کہہ کر وہ اسکی کہنی چھوڑتے ہوئے بولا ساتھ ہی کلائی پر بندھی ریسٹ واچ پر وقت کا تعین کیا  بی جان کا نام سن کر سیرت تیزی سے اسکے راستے میں حائل ہوئی۔

"کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔کیا ہوا تھا انکو۔۔۔۔۔"

جواب دینے کے بجائے اسنے گراؤنڈ فلور کی جانب پیش قدمی کی سیرت  اپنے ذہن میں گردش کرتے تمام سوالات جھٹلا چکی تھی اسے پرواہ تھی تو صرف بی جان کی، ایرا کا خیال آیا تو شرمندگی سے نگاہیں جھک گئی

"ایراا۔۔۔ وہ کیسی ہے کیا بی جان کیساتھ ہے وہ ۔۔؟!!

اسکے لئے گاڑی کا فرںٹ سیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے وہ رکا سیاہ متورم آنکھوں میں  نمکین پانی جھلملا رہا تھا وہ آگے بڑھ کر  فکرمندی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے وہ  بھی۔۔۔"

مختصر نگاہ  سپید ہاتھ پر ڈال کر اسنے جواب کو بھی مختصر کردیا سیرت نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا   گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ ہچکچائی تھی عرش کی لاش کا خیال آتے ہی  اسکی نگاہوں نے فیکٹری کا رخ کیا جہاں ایک کان چھید دیںے والے دھماکے کیساتھ آگ کا ایک مرغولہ سا اٹھا تھا اور لمحے میں سب دھواں دھواں ہوچکا تھا سیاہ اوور کوٹ اتار کر بیک سیٹ پر اچھالتے ہوئے وہ  شرٹ کے کف کہنیوں تک موڑتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر آکر براجمان ہوا۔

"ایسا کیوں کیا تم نے۔۔۔"

سیٹ بیلٹ لگانے کے دوران وہ دھیمے لہجے میں لب کشا ہوئی۔

"کیا مطلب کیوں کیا۔۔۔۔ وہاں تمہاری موجودگی کے ثبوت  تھے۔۔۔  اسکی لاش کے پوسٹ مارٹم سے ثابت ہو سکتا تھا اسے تم نے مارا ہے"

سیاہ کیمارو نے یوٹرن لیا تھا سیرت نے لب سختی سے بھینچ کر اسے دیکھا۔

"تم نے کیسے ڈھونڈا ۔۔۔ مجھے"

سیرت نے گاڑی کے شیشے پر پڑتی بارش کی ہلکی پھنوار کو دیکھ کر پوچھا۔

"تمہاری بریسلٹ میں جی۔۔ پی۔۔ایس لگایا تھا میں نے"

گیئر شفٹ بدل کر اسنے گہرا سانس لیکر  اپنی غلطی تسلیم کی البتہ سیرت نے بھی اس سے وجہ دریافت نہیں کی تھی دونوں ہاتھوں کو باہم پیوست کئے وہ گاڑی کے شیشے سے بھیگتی سڑک کو دیکھتی جارہی تھی۔

"شاہنواز  اور اسکا وہ حرام ہڈ* بیٹا ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے۔۔۔"

سیرت  کے انکشاف پر بھوری آنکھوں میں تشویش ابھری البتہ اسکے الفاظ کے چناؤ پر ہلکی بیئرڈ میں عنابی لب ستائشی انداز میں پھیل گئے جبکہ سیرت نے بھونیں سکیڑ کراسے گھورنے پر اکتفاء کیا تھا..

"کہاں جارہے ہیں ہم۔۔۔"

کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد وہ  دوبارہ گویا ہوئی۔

"تمہارے نئے گھر۔۔۔"

"نئے گھر۔۔۔۔؟!!"

سیرت نے  تشویش سے اسکی جانب دیکھ کر مداخلت کی سڑک پر آمد و رفت کرتی گاڑیوں کی نگرانی کرتی بھوری آنکھوں نے یکلخت  سیرت کو اپنے حصار میں لیا سیرت نے  نگاہوں کے براہ راست تصادم پر جھینپ کر بھوری آنکھوں سے نگاہیں پھیری۔

" تمہارا گھر بدلنا ہوگا۔۔۔ جب تک میرے خدشات دور نہیں ہوجاتے"

سگار لبوں میں دباکر اسنے جلانے کیساتھ متانت سے کہا اس سے پہلے وہ ویڈیو سے متعلق کچھ کہتی  اسکی نگاہ سامنے پڑے آج کے اخبار پر پڑی تجسس بھری نگاہوں نے اخبار کی چند سرخیوں کو ٹٹولا 

سیاہ آنکھوں میں حیرت کا سمندر امنڈ آیا پورا اخبار اس ہیکر  کی کارستانیاں سے بھراپڑا تھا۔

چند ثانیے کیلیے وہ ساکت تصویر بن کر رہ گئی دھیرے دھیرے ادھوری پہیلی کے ٹکڑے اپنی جگہ پر گرنے لگے اور کچھ ہی لمحات میں مکمل تصویر اسکے سامنے آگئی حلق ترکرکے اسنے اخبار کو متعلقہ جگہ پر واپس رکھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"زاویان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔  آپ مزاق کررہے ہیں ناں میرے ساتھ؟!""

خوف کے عالم میں وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامے بمشکل لبوں پر مسکراہٹ دھکیل کر کہہ پائی البتہ مقابل نے اسکا ہاتھ جھٹک کراسکے وجود کو تضحیک آمیز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد دور دھکیلا تھا۔

"لمظ ہزار گنا بہتر ہے تم سے  چاہت۔۔۔ کوئی سلیقہ نہیں تمہیں"

کچن کے کاؤنٹر پر بےدلی سے انگلیوں کی مٹھی بناکر مارتے ہوئے وہ گرجدار لہجے میں بولا آئیذل سہم کر جھرجھری لینے کے بعد دونوں ہاتھوں سے چہرا ڈھانپ چکی تھی مگر مقابل پر رتی برابر اثر نہیں ہوا تھا۔

"ابھی اسی وقت میرے گھر سے چلی جاؤ ۔۔۔"

آئیذل کی کہنی کو سختی سے دبوچ کر زاویان کچن کے دروازے کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے درشت لہجے میں گویا ہوا تھا آج نیلی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں بھی اسکے دل کو پگھلا نہیں پائے تھے۔

"زاویان ۔۔۔ میں۔۔۔ کہاں جاؤں گی"

زاویان کے ہاتھ پر آئیذل نے ہاتھ رکھ کر حسرت سے  پوچھا تھا لہجے میں سموئی تکلیف کی شدت  مقابل آج محسوس نہیں کرپارہا تھا رنگِ طلائی آنکھوں میں  جنون تھا۔

"میری بلا سے کہیں بھی چلی جاؤ ۔۔۔ آئیذل لیکن اگر میں تمہارے ساتھ رہا تو میرا سکون برباد ہوجائے گا"

کچن سےباہر اسے اپنے ہمراہ گھسیٹتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں شکوہ کنا ہوا آئیذل نے بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا تھا  حویلی کے دروازے پر لاکر وہ دروازہ کھول کر آئیذل کو باہر دھکیل چکا تھا دروازے سے ملحقہ زینہ پر وہ منہ کے بل گری تھی آگے بڑھ کر وہ اسکے منہ پر دروازہ قفل بستہ کرچکا تھا

دروازے سے ملحقہ زینہ پر وہ منہ کے بل گری تھی آگے بڑھ کر وہ اسکے منہ پر دروازہ قفل بستہ کرچکا تھا دونوں ہتھیلیاں فرش پر ٹکائے وہ ساکت نگاہوں سے اسے دیکھتی رہ گئی تھی وہ کتنی جلدی بدل چکا تھا۔

دونوں ہاتھوں سے کانوں کو ڈھانپ کر وہ آنکھوں کو واکرکے چیخی جسکے بعد کمرے میں موت کا سا سناٹا چھاگیا گھڑی کی ٹک ٹک اسکے کانوں میں وائبریشن کرنے لگی قریب پڑے دوپٹے سے پسینے میں شرابور چہرا اسنے  عجلت پسندی سے صاف کیا دن کے وقت بھی کمرا رات کا منظر پیش کررہا تھا کمرے کی روشنیاں بجھی ہوئی، تمام کھڑکیاں بند ہونے کے باعث کمرہ تازی ہوا سے محروم ہوچکا تھا۔

دیوار پر لگے زاویان کے وال پیپر کی جانب دیکھ کر وہ جلدی سے پیروں میں  بیڈ روم سلیپرز ڈال کر کمرے کا  دروازہ کھول کر باہر نکلی  نیلی آنکھوں نے بےقراری سے پورے گھر میں اسے تلاش کیا تھا ناجانے کتنی دیر تک وہ اسے تلاش کرتی رہ گئی تھی  کچھ دنوں سے بھیانک خواب اسکا مقدر بن چکے تھے ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن میں وہ ہرگزرتے دن کیساتھ خود کو تباہ کن حالات میں دھکیلتی جارہی تھی..

"رکو شاذیہ ۔۔ زاویان کہاں ہیں اور باقی سب۔۔۔۔؟!"

ملازمہ نے پریشانی سے اسکے حلیے کا جائزہ لیا گندمی رنگت چہرے کے تیکھے نقوش مرجھائے ہوئے تھے نیلی آنکھوں میں سرخیاں کھنڈی ہوئی تھی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے  نیند کی کمی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

"بی-بی  صاحب یونیورسٹی گئے ہیں بڑے صاحب کیساتھ اور بڑی بیگم صاحبہ چاہت بی-بی کیساتھ کچھ دیر پہلے گروسری سٹور گئی ہیں۔۔۔ کیا میں آپکے لئے کھانا لگا دوں؟!!"

ملازمہ کی جانب سرنفی میں ہلاکر دیکھنے کے بعد وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی دیوار پر لگی گھڑی پر وقت کا تعین کرنے کے بعد وہ وارڈروب سے کپڑے لیکر واش روم کی جانب پیش قدمی کرگئی۔

"بابا ہمیں یونیورسٹی چھوڑ دیجیے ۔۔۔"

حویلی کے گیٹ کے قریب رک کر شانوں پر چادر درست کرتے ہوئے وہ عجلت سے بولی کلیم بابا نے اچھنبے سے اسکی جانب دیکھا تھا سفید رنگ کے  پشمینہ کے کڑھائی والے لباس میں وہ بیگ اٹھائے کھڑی انکو پرامید نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔

"لیکن بی-بی زاویان صاحب نے آپکو یونیورسٹی لے جانے سے منع کیا تھا"

کرسی دھکیل کر وہ پشیماں سے اٹھے تھے آئیذل نے  سرد آہ بھری تھی۔

"آپ چلیے ہمارے ساتھ۔۔۔ ہماری بات ہوئی ہے ان سے ۔۔۔"

وہ گاڑی کی جانب پیش رفت کرتی بیزار کن لہجے میں بولی  کلیم بابا چار و ناچار اسے یونیورسٹی چھوڑنے پر رضامند ہو چکے تھے کچھ منٹوں کے سفر کے بعد وہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔

گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے آئیذل کا رخ  اپنے بقیہ لیکچر لینے کی غرض سے لیکچر ہال کی جانب تھا جب  دھڑکنوں  نے سامنے کے ونگ سے باہر قدم رکھتے زاویان حیدر کو دیکھ کر  سینے میں ارتعاش برپا کیا۔

تیزی سے سر جھکاتی وہ  لیکچر ہال سے ملحقہ زینہ چڑھنے لگی سمارٹ فون کا سرسری جائزہ لیتی سنہری  آنکھوں میں  ہلکی مسحورکن مہک کا احساس ہوتے ہی شناسائی کی چمک ابھری  اسے فون سے نظریں اٹھاتے دیکھ کر زینہ چڑھتے قدموں میں مزید روانی آئی  تھی لبوں کو سختی سے باہم پیوست کئے وہ تیزی سے بلڈنگ میں گھس چکی تھی  پیچھے دیکھنے کے بعد پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرنے کے ساتھ اسنے  کمرہ ہال کا رخ کیا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

سیکنڈ لاسٹ پیریڈ پروفیسر شاہان کا تھا ٹیسٹ پیپر پر اسکی مخروطی گلابی انگلیاں عجلت سے سیاہ حروف چھاپ رہی تھی وقفے وقفے سے نیلی آنکھیں  ہال میں ٹک ٹک کرتی گھڑی کو پیچیدگی سے دیکھتی تھی پروفیسر شاہان طلباء کی صفوں کی گہری نگرانی میں ملوث تھے جب پیون نے اندر آکر انکو ضروری اطلاع سے آگاہ کیا پیون سے ضروری کاغذات لیکر وہ انکو بطور نگران چھوڑ کر ہال سے واک آؤٹ کرچکے تھے۔

"استغفر اللہ کتنا کوئی پیچیدہ قسم کا ٹیسٹ بنایا ہے پروفیسر نے"

آئیذل نے حورم کی بڑبڑاہٹ  سن کر اپنے ٹیسٹ پیپر سے نظریں اٹھائی تھی  قریبی نشست پر دو انگلیوں میں پین گھماتے ہوئے حورم آج معصومیت کے اعلیٰ ریکارڈ قائم کرتی نظر آرہی تھی آئیذل کی جانب  شریر نگاہوں سے دیکھ کر پیون پر نخوت بھری نگاہیں ڈالنے کے بعد وہ اپنے ٹیسٹ پیپر کی جانب متوجہ ہوگئی۔

آئیذل نے تشویش سے اسے دیکھا چھوٹی سی پیپر چِٹ پر اسنے کچھ لکھ کر آئیذل کی جانب پھینکا تھا آئیذل نے آنکھیں چھوٹی کرکے حورم کو گھورا جو لبوں کو دباتی اپنے پیپر پر نظریں جماگئی دو نشستیں چھوڑ کر قریب بیٹھی رباب نے ساری کاروائی دلچسپی سے ملاحظہ کی آئیذل نے نچلا ہونٹ دباکر چِٹ اٹھاتے ہوئے قدرے جھجھک محسوس کی اور چٹ کو کھول کر مختصر پڑھا جب نظریں لیکچر ہال کے دروازے سے اندر قدم رکھتے پروفیسر زاویان پر ٹھہر گئی  پروفیسر زاویان کو دیکھ کر آئیذل کو رباب کی جانب اشارہ کرتی حورم کو جیسے بچھو نے ڈنک مارا تھا۔

پروفیسر زاویان کی جانب دہشت زدہ نگاہوں سے دیکھ کر آئیذل نے حورم کی چِٹ کو مٹھی میں بھینچ لیا البتہ طلباء کی  پہلی صف میں  اسے موجود پاکر سنہری آنکھوں  نے شدید  تشویش کا مظاہرہ کیا جب ایک بار اسے یونیورسٹی آنے سے منع کیا گیا تھا تو وہ آخر کیوں آئی تھی ضبط سے اسنے سرد آہ بھری  پیون اسکے ہال میں داخل ہوتے ہی  واپس لوٹ گیا تھا کمرہ ہال میں اس وقت ہوکا عالم تھا چند منٹوں پہلے ہونے والی سرگوشیاں  اسکے ہال میں قدم رکھتے ہیں طلباء کے لبوں میں ہی قفل بستہ ہوکر رہ گئی تھی۔

"پروفیسر ۔۔۔ مس آئیذل  چیٹنگ کررہی ہیں۔۔"

رباب کے براہ راست انکشاف پر تمام طلباء نے  ٹیسٹ پیپر سے نظریں اٹھائی تھی سنہری آنکھوں نے تشویش سے پہلی صف میں اسے تلاش کیا تھا آئیذل  نے بھونیں سکیڑ کر رباب کی جانب دیکھا البتہ حورم کو عجیب بےچینی لاحق ہوئی کمرہ ہال میں اسوقت تمام طلباء کی نگاہوں کا مرکز پروفسیر زاویان تھے۔

"میں نے آئیذل کو ابھی ڈیسک کے قریب سے چِٹ اٹھاتے دیکھا ہے"

رباب نے پرمسرت لہجے میں کہا اسٹیج سے اترکر چلتے ہوئے وہ پہلی صف کی جانب بڑھ رہا تھا آئیذل کا حلق ہرگزرتے سیکنڈ کیساتھ خشک پڑتا چلا گیا حورم کو ڈھیروں شرمندگی نے آن گھیرا تھا آخر اسے کیا ضرورت تھی آئیذل کی جانب وہ چِٹ پھینکنے کی، بہرحال اب کیا ہوسکتا تھا آئیزل  نظریں جھکاکر اپنی نشست سے اٹھی۔

سیاہ پینٹ پر سفید بےشکن شرٹ میں سپید و سرخی مائل رنگت سحرانگیز نظارہ پیش کررہی تھی  گلاسز کے عقب میں  برہمی کا اظہار کرتی سنہری روشن آنکھیں اسوقت آئیزل کا پوسٹ مارٹم کرنے میں ملوث تھی اور طلباء سے کچھا کھچ بھرے کمرہ ہال میں وہ تمام  طلباء کی نگاہوں کے تنگ ہوتے حصار میں مسلسل ٹھنڈی پڑتی جارہی تھی۔

"اپنا ہاتھ دیکھائیں مس آئیذل۔۔۔۔"

گمبھیر بھاری آواز نے آئیزل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی آئیذل نے لب بھینچ کر نظریں اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا وجیہہ  چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی کے تاثرات ثبت تھے البتہ رباب کا چہرا فرطِ مسرت سے دمک رہا تھا حورم نے شرمندگی سے آئیذل سے نگاہیں چرائی  اپنی جانب بڑھائی گئی زاویان کی  خوبصورت سپید ہتھیلی کو دیکھ کر آئیذل نے جھینپ کر مٹھی کو مزید سختی سے بند کیا تھا۔

"ہم نے کوئی چیٹنگ نہیں کی پروفیسر۔۔"

دونوں ہاتھوں کو سرعت سے  باہم جوڑکر  آئیذل نے لب دبائے کہا سنجیدگی سے اسکے چہرے پر چھلکتے جھوٹ کے تاثرات کو واضح نظر انداز کرکے اسنے اسے دونوں ہاتھوں کو باہم پیوست کرتے دیکھا۔

"تو پھر آپکو اپنا ہاتھ دیکھانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔"

متانت سے سنہری آنکھوں نے اسکے ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا تھا آئیذل نے تشویش سے اسے دیکھا تھا یعنی اپنی چہیتی اسسٹنٹ کی بات پر اسے یقین تھا اور بیوی جھوٹ بول رہی تھی حورم کبھی آئیذل تو کبھی پروفیسر زاویان کی جانب دیکھتی تھی ۔

"اچھا توپھر ہاتھ دیکھاؤ اپنا۔۔۔۔ "

رباب اپنی نشست سے اٹھ کر آئیذل کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے  بدخواہی سے بولی اسکی بےوجہ مداخلت پر آئیذل  کی پیشانی پر چند لکیریں ابھری  رباب نے سختی سے اسکی مٹھی کھولنے کیلئے نوکیلے ناخن اسکے ہاتھ کی پشت میں پیوست کیے تھے آئیذل کی نیلی آنکھوں میں درد کی شدت سے  نمی پیدا ہوئی تھی شکن آلود چِٹ آئیذل کی مٹھی سے نکل کر فرش پر گری آئیذل نے ہاتھ جھٹک کر رباب کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ  کھینچا تھا تمام طلباء کو جیسے سانپ سونگھ چکا تھا زاویان کی نگاہیں آئیذل کے ہاتھ کی پشت پر سرخ خراشوں کو تشویش سے دیکھتے ہوئے نیچے گری چٹ پر مرکوز ہوئی۔

رباب نے جھک کر چِٹ اٹھاکر کھولی تھی جس میں حورم نے" رباب کے حلیے پر شاندار تبصرے کھینچے تھے"

 حورم کی جانب  دیکھ کر رباب کا ماتھا ٹھنکا پروفیسر زاویان نے سنجیدگی سے چٹ پر حورم کی رف رائٹنگ میں لکھے گئے تبصرات پر نظر ثانی کی البتہ آئیذل نے  بے اعتنائی سے سنہری آنکھوں سے تعلق  منقطع کیا وہاں بیٹھے طلباء کو  حیرت زدہ  چھوڑ کر آئیذل ڈیسک سے اپنا بیگ اٹھاکر ہوا کہ مانند لیکچر ہال سے واک آؤٹ کرگئی  رباب نے شرمندگی سے پروفیسر زاویان کی جانب دیکھا تھا اسکا وقت آن پہنچا تھا۔

"آئی۔۔۔ایم سوری پروفیسر ۔۔۔ مجھے لگا وہ چیٹنگ کررہی ہے"

رباب نے شرمندگی سے وضاحت پیش کرنی چاہی حورم نے  افسردگی سے آئیذل کے ادھورے پیپر کی جانب دیکھا تھا زاویان کے چہرے پر  بڑھتی متانت دیکھ کر رباب کی کیفیت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی تھی وہ سنجیدگی سے آئیذل کے ٹیسٹ پیپر پر نظر ثانی کررہا تھا جس میں اب تک  ایک بھی خامی تلاش نہیں کرپایا تھا رباب پچھلے پانچ منٹوں سے وضاحت پر وضاحت پیش کررہی تھی۔

"اگر اگلی بار آپ نےذاتی خدشات کی بنا پر کسی کو بھی پوائنٹ آؤٹ کرکے  کلاس کا وقت ضائع کیا تو آپکو ایکسپیلڈ کرنے میں مجھے دیر نہیں لگے گی ۔۔ مس آئیزل کیساتھ آپ کے پرسنل تنازعات ہیں ۔۔۔ اںکو ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کے بجائے اگر آپ اپنی پڑھائی پر فوکس کریں گی تو بہتر ہوگا..." 

کرخت لہجے میں کہہ کر وہ  آئیذل کا پیپر  اٹھاکر اسٹیج کی جانب پیش قدمی کرگیا تھا رباب سرخ بھبھوکا چہرا لئے اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے سب کی نگاہیں خود پر مرکوز پاکر آتش فشاں کی مانند سلگ پڑی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

گاڑی پارک کرنے کے بعد سبک روی سے قدم پر قدم اٹھاتی وہ کلیم بابا کو گیٹ سے آتے دیکھ کر ٹھہر گئی۔

"کیا ہے اس میں ۔۔۔؟!!"

انکے حق میں خاکی رنگ لفافہ دیکھ کر اسنے دلچسپی لی ۔

"بی۔بی یہ اسپتال سے آیا ہے ۔۔۔  چھوٹی بی۔بی کی رپورٹ ہے"

لفافے کو دلچسپی سے دیکھنے کے دوران نظریں اٹھاکر اسنے لمحے بھر کیلئے کلیم بابا کو دیکھا ایک پرتاثیر مسکراہٹ کیساتھ وہ سرہلاکر انکے ہاتھ سے لفافہ لےچکی تھی۔

"بی۔بی یہ زاویان صاحب کیلیے ہے۔۔۔ آپ نہیں دیکھ سکتی"

 کلیم بابا  کی پشیماں نظروں نے اسے لفافے سے  دلچسپی سے رپورٹ نکالتے ہوئے دیکھا مگر وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے سیاہ حرفوں کو سبک خیزی سے ٹٹولنے کے بعد چاہت کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔

"ہممم یہ رکھو ۔۔۔ زاویان کے یونیورسٹی سے آتے ہی اسے دے دینا"

کلیم بابا کو ششدر چھوڑ کر وہ نچلے لب کو دباکر مسکراہٹ مزید گہری ہونے سے قبل ہی حویلی میں داخل ہوئی

ہینڈ بیگ سے سمارٹ فون نکال کر مسکراتے ہوئے اسنے  ٹائپنگ کے دوران  اپنے کمرے کا رخ کیا تھا۔

"آپکا ٹرانزیکشن ہوگیا ہے ڈاکٹر ۔۔۔ بےحد شکریہ"

کال کنیکٹ ہوتے ہی وہ پرمسرت لہجے میں بولی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

لاسٹ پیریڈ کو سرے سے نظر انداز کرکے وہ یونیورسٹی کی کینٹین میں سب سے آخری ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی  نیلی آنکھیں بیزاریت سے لبریز تھی سمارٹ فون پر مسلسل سکرولنگ کے دوران اسنے ایک بار بھی نظر اٹھاکر کینٹین میں دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی داہنے  ہاتھ کی پشت پر سرخ خراشیں واضح تھی قریبی ٹیبلز پر اپنے کام میں مصروف طلباء پروفیسر زاویان کو کینٹین کے دروازے سے اندر آتے دیکھ کر چونکےتھے۔

استغنائیت سے فون کا پوسٹ مارٹم کرتی  نیلی آنکھوں نے خفگی سے اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھا دانت پیس کر فون ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں ڈال کر وہ  کتابیں بیگ میں عجلت سے اڑسانے لگی البتہ وہ  قریبی کرسی کھینچ کر آئیذل کے سامنے اس پر ٹک چکا تھا آئیذل نے آس پاس تشویش سے دیکھ کر آنکھیں پھیلائی تھی۔

"یہ۔۔۔ کیا کررہے ہیں آپ سب دیکھ رہے ہیں ہمیں"

 ٹیبل سے فون اٹھاتے ہوئے وہ  دبے لہجے میں شکوہ کناں ہوئی زاویان نے مہر آمیز نگاہوں سے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھا تو آئیذل کا دل پگھلنے لگا لب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کئے وہ اپنی کرسی پر ٹک چکی تھی اسکی یہاں موجودگی میں اب براہ راست اٹھ کر بھی نہیں جاسکتی تھی ایک لڑکی آئیذل کی  چائے اسکے قریب ٹیبل پر رکھ کرجا چکی تھی ۔

"پروفیسر کیا حرکت ہے یہ۔۔۔ سب دیکھ رہے ہیں"

اس سے پہلے آئیذل ہاتھ بڑھا کر اپنا کپ اٹھاتی زاویان نے ہاتھ بڑھاکر اسکی چائے کا کپ سنبھالا تھا آئیزل نے جھینپ کر اسے دیکھا تھا چائے کے کپ کو مخمور نگاہوں سے دیکھ کر اسنے کپ آئیذل کے سامنے رکھا۔

"کیوں کررہے ہیں آپ یہ سب۔۔ مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے"

فون پر نگاہیں مرکوز کئیے وہ رازداری سے دھیمے لہجے میں بڑبڑائی تھی۔

"ہمممم۔۔۔ میں  یہاں معذرت کرنے آیا  تھا مس لمظ"

آئیذل نے چائے کا سپ لیکر آنکھیں پیچیدگی سے پھیری۔

"آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔۔۔ اپنی اسسٹنٹ کو تو کچھ نہیں کہا ہوگا آپ نے"

استہزائیہ نگاہوں سے اسے دیکھ کر وہ کپ ٹیبل پر رکھ گئی کپ کی جانب دیکھ کر سنہری آنکھوں میں چمک ابھری آئیذل کے طعنہ کو بالائے طاق رکھ کر اسنے کپ اٹھاکر چائے کا سپ لیا آئیذل کا چہرا اردگرد طلباء کو  دیکھنے کے بعد سرخ بھبھوکا ہوا حیرت سے وہ اسے تکتی رہ گئی تھی وہ کبھی چائے نہیں پیتا تھا کافی بھی بغیر شوگر کی پینے کا پابند شخص اسکی میٹھی چائے ذوق سے پی رہا تھا۔

"اہممم۔۔۔۔ تو کیا کہہ رہا تھا میں بیگم صاحبہ"

متانت سے چائے کا کپ متعلقہ جگہ پر رکھ کر اسنے نظریں اٹھاکر نیلی آنکھوں میں جھانکا آئیذل کے اعصاب ڈھیلے پڑتے چلے گئے وہ شرم سے پانی پانی ہوچکی تھی۔

"اچھا تو کیا آپ ۔۔۔۔معاف نہیں کریں گی  مجھے لمظ؟!"

چہرے پر دنیا جہاں کے معصومانہ  تاثرات ثبت کئے وہ محبت سے گویا ہوا آئیذل نے حلق ترکرتے ہوئے نظریں سمارٹ فون پر مرکوز کرکے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی  تھی۔

"اگر آپ چاہیں تو میں سب کے سامنے آپ سے معززت کرسکتا ہوں"

زاویان کی جانب نظریں اٹھاکر آئیزل کے دل نے ایک بیٹ مس کی مگر جلد ہی وہ نگاہوں سے بیزاری کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی نظریں گھما کر وہ لب بھینچ گئی تھی۔

"اٹس اوکے پروفیسر۔۔۔ "

کلائی پر بندھی ریسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے وہ کرسی دھکیل کر اٹھی چھٹی کا وقت ہوچکا تھا سب دھیرے دھیرے کینٹین سے باہر جارہے تھے زاویان نے سنجیدگی سے اسکی کہنی کو نرمی سے تھام کر اسے جانے سے باز رکھا آئیذل نے سراٹھاکر سنہری درخشاں آنکھوں میں دیکھا۔

"معاف کردیا ہے ہم نے۔۔۔ بےفکر ہوجائیں"

نیلی آنکھیں نم آلود ہوئی اسنے سنجیدگی سے آگے بڑھ کر نیلی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں کو ہتھیلی پر لیا تھا۔ آئیذل نے نظریں جھکاکر اسکی ہتھیلی پر چمکتے آنسوں کو دیکھا تھا۔

"میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ مجھے نانو جان کی بہت یاد آرہی ہے"

نظریں جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی دل بےحد بھاری ہونے لگا زاویان نے  گہرا سانس ہوا کے سپرد کرکے اسکا چہرا ٹھوڑی سے اوپر اٹھایا نیلی آنکھوں میں آنسوں جھلملا رہے تھے۔

"چلیے ۔۔۔ ابھی چلتے ہیں۔۔۔"

زاویان نے نرم لہجے میں کہا آئیذل نے لب بھینچ کر اسکے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات جانچنے چاہے مگر وہ متحمل نگاہوں سے  اسے بےحد عقیدت سے دیکھ رہا تھا آئیزل نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ وہ  یونیورسٹی کے دروازے کی جانب اسکے ہمقدم ہوئی تھی۔

"امی۔۔ امی آئیذل آپی آئی ہیں۔۔"

مناہل گرمجوشی سے دروازے سے اندر آتی آئیذل کی جانب  دوڑتے ہوئے  جوشیلے انداز میں بولی چارپائی پر پرسکون بیٹھی عائزہ بیگم کا  آئیزل کو دیکھ کر  یکلخت ماتھا ٹھنکا تھا ریحم نے چارپائی سے اٹھ کر مسکراتے ہوئے محبت سے آئیزل کو سینے سے لگایا تھا عروسہ بیگم بھی کچن سے باہر صحن کی جانب پیش قدمی کرگئی ۔

"کیسی ہو بیٹا۔۔ طبعیت کیسی ہے تمہاری ۔۔"

عروسہ بیگم نے محبت سے آئیزل کی پیشانی کو چوما سر اثبات میں ہلاکر وہ مسکرا گئی ۔

"ممانی ۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے یہاں..."

دو لڑکوں کو عروسہ بیگم کے کمرے سے انکا فرنیچر نکال کر باہر برآمدے میں رکھتے دیکھ کر آئیزل نے تشویش سے عروسہ بیگم اور پھر عائزہ بیگم کی جانب دیکھا جو چائے کا گھونٹ بھرتی سرہلا گئی تھی۔

"کچھ نہیں۔۔ توصیف کی شادی ہے اگلے ہفتے۔۔۔ دلہن کیلیے کمرا خالی ہورہا ہے"

عائزہ بیگم نے بےدلی سے جواب دیا انکے انکشاف پر آئیذل نے  مایوس کن نگاہوں سے  برآمدے میں پڑے فرنیچر کو دیکھا تھا دل بےچین سا ہوا آصف صاحب کی ہمدردیاں اسکے کلیجے کو کاٹ گئی۔

"لیکن۔۔۔ ممانی کہاں رہیں گی آپ انکا کمرہ توصیف کو کیسے دے سکتی ہیں"

آئیذل نے پہلی بار عائزہ بیگم سے  بلا واسطہ سوال کیا عائزہ بیگم کی آنکھوں میں ڈھیروں ناگواریت سی ابھری چار نواز بیٹھی عائزہ بیگم چارپائی سے اٹھ چکی تھی عروسہ بیگم نے آئیزل کے ہاتھ کو نرمی سے دباکر اسے مزید  پیش قدمی سے قبل روکا مگر آج وہ بولنے کے حق میں نظر آرہی تھی ریحم سینے پر بازؤں سمیٹ کر آئیذل کے قریب ٹھہرتی عائزہ بیگم کو دیکھ کر سرد آہ بھرگئی شاید وہ بھی انکے رویہ سے تنگ آچکی تھی ۔

"گھر سے باہر تھوڑی نکال رہی ہوں۔۔۔ یہ باجو(کونے) والا کمرا  بھی تو خالی پڑا ہے"

عائزہ بیگم نے تنک کرکہا آئیذل نے بےتاثر نگاہوں سے قریبی کمرے کو دیکھا جس میں دوچارپائیاں بمشکل سمٹ کرآسکتی تھی نیلی آنکھوں میں آج پہلی بار کشیدگی واضح ہوئی تھی آصف صاحب کے آخری الفاظ اسکے ذہن میں گردش کررہے تھے لب بھینچ کر وہ بمشکل کچھ کہنے سے خود کو باز رکھ پائی۔

"ارے جلدی سے کرو۔۔۔ رنگ کرنے والے آتے ہی ہوں گے کتنے کام بکھرے پڑے ہیں میرے"

لڑکوں کو سست روی سے  صوفہ سیٹ باہر رکھتے دیکھ کر عائزہ بیگم پھنکار کر آگے بڑھی تھی۔

"ممانی آپ میرے ساتھ چلیے ۔۔ کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں رہنے کی"

آئیذل نے افسردگی سے عروسہ بیگم کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر نرم لہجے میں کہا وہ محض نظریں اٹھاکر اسے دیکھ کر سر دھیرے سے نفی میں ہلاگئی تھی غم نگار آنکھیں آئیذل کے تمام خدشات کی تصدیق کررہی تھی عروسہ بیگم کی بےتاثر خالی نگاہیں برآمدے کی گہری نگرانی میں ملوث تھی۔

"آپ ۔۔ اتنے چھوٹے سے کمرے میں کیسے رہیں گی توصیف کی شادی کے بعد ۔۔۔ اور اتنا سارا فرنیچر کہاں رکھیں گی۔۔۔ میری بات مانیے آپ میرے گھر میں شفٹ ہو جائیں ۔۔۔ قریب ہی توہے وہاں آپ تسلی سے  رہیں گی۔۔۔ کیا آپکی ضروریات کا سامان ایسے باہر پڑا رہے گا ...."

آئیذل نے سرد آہ بھرکر برآمدے میں بکھرے سامان کو دیکھا تھا۔

"نہیں میری جان۔۔ میں اکیلی عورت وہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔ لوگ کیا سوچیں گے اگر مجھے واپس جانا ہی ہوتا تو مائیکے جاکر رہ لیتی۔۔۔ اس گھر سے میری اور آصف صاحب کی بہت سی یادیں جڑی ہیں۔۔۔"

عروسہ بیگم نے دھیمے لہجے میں کہہ کر مختصر نگاہوں سے اپنے کمرے اور گھر کو دیکھا آئیذل کی حزن نگاہوں نے  بھاری ہوتے دل کیساتھ اس گھر کا جائزہ لیا تھا۔۔۔ سب کچھ وہی تھا بس کمی تھی تو اس گھر کے شفیق سربراہ کی جس نے ہر مشکل وقت میں اس لڑکی کی رہنمائی کی تھی نیلی آنکھیں کچھ ہی لمحات میں آنسوں سے لبریز ہوچکی تھی آنسوں کا زخیرہ حلق میں پھنس چکا تھا لبوں کو سختی سے بھینچ کر اسنے رخ بدلا تھا ورنہ اسے روتے دیکھ کر شاید عروسہ بیگم بھی اپنا ضبط کھو دیتی ناجانے وہ اب تک کتنا کچھ سہہ چکی تھی

کچھ ہی دیر میں وہ ایک فیصلہ کر چکی تھی ایک غیر مرئی نقطے کی چند ساعت نگرانی کے بعد وہ عائزہ بیگم کی جانب قدم بڑھاچکی تھی جو برآمدے میں کھڑی انسٹرکشنز دینے میں مصروف نظرآرہی تھی۔

"ممانی۔۔۔ آپ توصیف کو ہمارے گھر میں شفٹ کردیں..."

آئیذل کے الفاظ میٹھے شہد کی طرح عائزہ بیگم کے کانوں میں گھل چکے تھے وہ حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھ کر پیچھے پلٹی آنکھیں  ایک پراسرار چمک سے منور تھی آئیذل نے بیگ سے چابیاں نکال کر انکی جانب بڑھائی تھی جسے انہوں نے متعجب نگاہوں سے آئیذل کو گھورتے ہوئے لیا تھا۔

"اب ممانی کا سامان واپس انکے کمرے میں رکھوا دیں۔۔۔"

عروسہ بیگم کی نم آلود آنکھوں نے اس زمہ دار لڑکی کو چند ساعت دیکھا تھا جو انکی  قیمتی یادوں کیلیے اپنی بچپن کی یادوں کو قربان کرچکی تھی عائزہ بیگم نے آج پہلی بار مسکرا کر آئیذل کو دیکھا اور سرہلایا  آئیذل کا دل پسیج گیا تھا بمشکل اسنے آنکھوں کو جھپک کر آنکھوں کی حدود سے آنسوں کو ٹوٹنے سے روکا تھا۔

"اب شکل دیکھتے رہو گے یا سامان واپس اندر رکھو گے ۔۔ جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ اپنے"

عائزہ بیگم نے پھنکار کر لڑکوں کو تنبیہ کی جو ایک دوسرے کو تشویش سے دیکھ کر سامان کو اٹھاکر متعلقہ جگہ پر رکھنے میں مصروف ہوئے تھے ریحم نے آئیذل کو افسردگی سے دیکھا تھا واپس آکر وہ عروسہ بیگم کو دیکھ کر دھیمی سے مسکراگئی تھی۔

"ریحو۔۔۔ نکمی جا ہانڈی دیکھ ۔۔۔ جل ہی نہ گئی ہو۔۔۔ اور آئیذل کو بھی بٹھا دے کہیں"

عائزہ بیگم کی تیکھی آواز سن کر ریحم سرد آہ بھرکر کچن کی جانب تیزی سے پیش قدمی کرگئی تھی۔

"آؤ بیٹا بیٹھو ۔۔۔ زاویان کیسا ہے آیا نہیں وہ تمہارے ساتھ"

عروسہ بیگم نے محبت پاش نگاہوں سے اسے دیکھ کر قریب چارپائی پر اسکے ہمراہ بیٹھتے ہوئے کہا۔

"جی الحمداللہ سب ٹھیک ہیں۔۔۔ انکو آفس میں کچھ کچھ کام تھے کچھ دیر تک مجھے لینے آئیں گے"

آئیذل کی نظروں نے بےتاثر انداز میں عائزہ بیگم کو دیکھا جو اسے مسکرا کر دیکھنے کے بعد کچن میں گھس گئی۔

"آئیذل۔۔۔ میری بچی کیوں کیا تم نے ایسا۔۔۔ عائزہ ہمیشہ سے یہی چاہتی تھی۔۔۔ تم سے توصیف کی شادی  کروا کر وہ اس گھر پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔۔اماں اور آصف صاحب ۔۔۔"

عروسہ بیگم کچھ کہتے کہتے رہ گئی انکی آنکھوں میں تکلیف عود آئی۔

"جانتی ہوں ممانی۔۔۔لیکن میرے لئے رشتوں سے بڑھ کر کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتا  اگر ممانی وہ گھر چاہتی ہیں تو انکو مل جائے گا۔ میں نے اس گھر کیلیے شاید  بہت سے اپنوں کو کھودیا ہے اب ڈر لگتا ہے مجھے۔۔ میں تھک چکی ہوں ۔۔ ۔سب اپنے رب پر چھوڑ چکی ہوں وہ میرے حق میں بہتر کریں گے"

عروسہ بیگم کے ہاتھوں کو تھامے وہ محبت سے بولی عروسہ بیگم آج واقعی اس لڑکی کی قائل ہوچکی تھی۔

وہ کم عمری میں دولت پر رشتوں کو فوقیت دیتی تھی بےشک وہ اپنی ماں سے گہری مماثلت رکھتی تھی ۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"زاویان صاحب ۔۔۔ یہ رپورٹ اسپتال سے آئی ہیں"

پورچ سے ملحقہ زینہ عبور کرتے ہوئے وہ کلیم بابا کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے رکا خاکی رنگ کا لفافہ اسنے سرعت سے زاویان کی جانب بڑھایا جسے اسنے سنجیدگی سے تھاما اور اسپتال کا لاگو چیک کرتے ہوئے لاؤنج کی جانب پیش قدمی کرگیا یہ کچھ دن قبل کروائے گئے آئیذل کے ٹیسٹ کی رپورٹس تھی ۔

لفافے سے رپورٹ نکال کر دیکھتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی چاہت نے  خفیف مسکراہٹ لبوں پر سجائے اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھے تھے رخ بدل کر بھونیں اٹھاتی وہ شانوں کو ہلکا سے ہکاکر استہزاء کرگئی زاویان نے تیزی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا

"چچ۔۔۔ یاررر ۔۔۔ کاش آئیذل اسوقت گھر پر ہوتی"

گود میں رکھے کشن پر دونوں کہنیاں ٹکاتے ہوئے وہ لب دباتے بولی تھی۔

"انسسس۔۔"

چاہت اسے بلدار سیڑھیوں کا سلسلہ تیزی سے طے کرتے  دیکھ کر جلدی سے صوفے سے اٹھی تھی سپید چہرا اشتعال انگیز طورپر سرخی مائل تھا سنہری آنکھوں میں  آج درشتگی تھی انس اسکی تیز آواز سن کر  بوتل کے جن کی طرح اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔

"جاؤ آئیذل کو لیکر آؤ ۔۔۔ اپنے گھر گئی ہے وہ"

انس نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔

"لیکن بھائی میں کیوں آپ ۔۔۔ چلے"

سنہری آنکھوں میں سراٹھاتی وحشت کو دیکھ کر انس سر جلدی سے ہلاکر لاؤنج سے پورچ میں نکل گیا تھا چاہت نے تشویش سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی جانب قدم بڑھائے سنہری درخشاں آنکھیں فرش پر غیر مرئی نقطے کو حفظ کرنے میں محو تھی دونوں مٹھیوں کو بےحد سختی  سے بھینچا گیا تھا۔

"سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔ پریشان لگ رہے ہو"

چاہت نے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا سرخی مائل آنکھیں اسکی جانب اٹھی تو چاہت کو کرنٹ نے چھوا سیاہ سلکی بال خندہ پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے کہنیوں تک فولڈ کی گئی سفید شرٹ سے بازوؤں کی تنی ہوئی نیلی شریانیں واضح  تھی .

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

بیلفاسٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ؛

"سریوئرآئی ڈی ازناٹ ورکنگ۔۔۔ آپ یہ فلائٹ نہیں لے سکتے"

کاونٹر پر بیٹھے آفیسر کی بات سن کر شاہنواز خان اور شاہزیب خانزادہ نے بیک وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھا آج وہ ہر صورت بیلفاسٹ سے واپس پاکستان نکلنا چاہتے تھے۔

"کیا بکواس ہے میری آئی ڈی بالکل درست ہے۔۔۔"

بےساختہ شاہزیب خانزادہ کی پیشانی پر بل پڑے۔

"آپکی آئی ڈی درست نہیں ہے۔۔۔ ان فیکٹ ہمیں چند سیکیورٹی اسٹیپس لینے پڑیں گے ، براہ مہربانی آپ سیکیورٹی کیبین میں انتظار کیجیے ۔۔ایکسکیوزمی پلیزز۔۔۔"

 کاؤنٹر آفسیر مختصر کہہ کرانٹرکام کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔

"واٹ نان سینس  ڈیڈ۔۔۔ یہ کون کرسکتا ہے آخر"

شاہزیب خانزادہ دبے لہجے میں دانت پیس کر رہ گیا۔

"سوچنے کی بات ہےشاہزیب سوچو یہ سب سیرت کی وجہ سے ہورہا ہے اور آج کل سیرت کس کے ساتھ ہے؟؟. سونیا کے مطابق عسکری اور سیرت کے بےحد قریبی تعلقات ہیں وہ عسکری کے گھر آتی جاتی ہے"

شاہنواز خان نے کیبن کی جانب بڑھتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا شاہزیب گہری سوچ میں غرق ہوا۔

"لیکن  اگر عسکری سیرت سے انتقام لینا چاہتا ہے تو وہ سیرت کو آخر کیوں بچائے گا ۔۔؟!

شاہزیب نے پیچیدگی سے کہا شاہنواز خان کے دماغ میں سوالات تیزی سے گردش کررہے تھے۔

"آپکو کیا لگتا ہے جن لوگوں نے سیرت کو بچایا وہ عسکری کی جانب سے بھیجے گئے تھے ؟!!"

شاہزیب نے شاہنواز خان کو گہری سوچ میں غرق دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا۔

"مجھے تو کچھ اور ہی لگتا ہے شاہزیب ۔۔۔ کہانی بڑی دلچسپ ہونے والی ہے۔۔"

شاہنواز خان نے داڑھی کھجاتے ہوئے خفیف مسکراہٹ ظاہر کی تھی۔

"کیا لگتا ہے آپکو ۔۔۔ مجھے بھی بتائیے"

شاہزیب نے صوفے پر ٹک کر بھونیں اٹھائی۔

"فلحال ایک کام کرو اسٹیٹس کمشنر صاحب کو خبر کردو کہ عرش دو دنوں سے لاپتہ ہے۔۔۔ تفصیلات میں یہ ضرور بتانا کہ عرش برطانیہ سے یہاں عسکری کارپوریشن کی آفر پر  آیا تھا ۔۔۔"

شہادت کی انگلی کو انگوٹھے تلے دباتے ہوئے شاہنواز خان نے مسکرا کر کہا شاہزیب خانزادہ نے ناسمجھی سے انکی جانب دیکھ کر فون نکال کر کمشنر کا نمبر ڈائل کیا تھا۔

"لیکن ہماری فلائٹ کا کیا ہوگا ۔۔۔؟!!"

فون کان سے لگائے کال کنیکٹ ہوںے کا انتظار کرتے شاہزیب نے نظریں اٹھائی۔

"تم کچھ دنوں کے بعد پرائیویٹ فلائٹ سے پاکستان آ جانا۔۔۔ بہتر ہوگا اگر ہم الگ الگ سفر کریں"

صوفے سے اٹھتے ہوئے شاہنواز خان نے زیر لب کہا شاہزیب کے چہرے پر خوف کے سائے لہراگئے۔

"آپ مجھے یہاں اکیلا کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔ اس جنگلی درندے نے عرش کے گھر جاکر اسکی انگلی کاٹ دی۔۔ اگر اسنے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اکیلا کیا کروں گا میں۔۔۔"

کال منقطع کرکے شاہزیب خانزادہ نے اٹھتے ہوئے گرجدار لہجے میں شکوہ کیا۔

"ایک تمہاری خاطر میں اپنے پلان میں ردوبدل کرںے کے حق میں نہیں ہوں شاہزیب، انڈرکور رہو کچھ دن"

شاہنواز خان تیکھے لب و لہجہ میں کہہ کر اسکے ہاتھ سے فون لیکر کمشنر  صاحب کا نمبر پریس کرکے کیبن سے باہر نکل چکے تھے شاہزیب خانزادہ کی آنکھوں میں واضح خوف دیکھا جاسکتا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

بیلفاسٹ:۔

سفید سلک کے شب خوابی کے لباس میں، بالوں کو کیچر میں  مقید کرکے وہ موئسچرائزر لگاتے ہوئے ایرا کے قریب آکر بیٹھی تھی نیم وا آنکھوں سے وہ شیلنگ کو دیکھ رہی تھی۔

"کیا سوچ رہا ہے میرا چھوٹا پیکٹ۔۔۔"

سیرت نے جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھ کر محبت سے کہا ایرا نے پلکیں چھپک کر سیرت کو مسکراتی نگاہوں سے دیکھا اور کروٹ بدل کر سیرت کی جانب متوجہ ہوئی  ہری آنکھوں میں شرارت تھی۔

"میں سوچ رہی تھی اگر۔۔۔ تم میری مماں ہوتی تو کتنا مزہ آتا"

ایرا کو متبسم نگاہوں سے دیکھتی سیرت مسکرا گئی۔

"اچھا۔۔۔ تو اب میں تمہیں پسند آگئی ہوں۔۔"

سیرت نے بھونیں اٹھاکر دلچسپی سے پوچھا کچھ دنوں پہلے تو اسکی ماں کی رٹ ہی ختم نہیں ہورہی تھی لیکن اب دھیرے دھیرے وہ دونوں ایک دوسرے سے مانوس ہو چکی تھی۔

سیرت  کی جانب دیکھ کر ایرا نے معصومیت سے سر ہلایا۔

"لیکن تمہارا دوست تم سے زیادہ اچھا لگتا ہے مجھ کو"

ایرا  کے الفاظ سن کر سیرت نے ایرا کو گھور کر بھونیں سکیڑی تھی۔

"اچھا تو تمہیں وہ زیادہ پسند ہے۔۔۔ایسا کیا ہے اس میں بھلا؟!!"

آنکھیں گھما کر کشن درست کرتی سیرت بڑبڑائے بغیر نہ رہ سکی۔

"وہ  بہت ہینڈسم ہیں، انکی بیئرڈ بہت اچھی ہے اور آنکھیں بھی"

ایرا نے دونوں ہاتھوں سے لبوں کو ڈھانپ کر کہا سیرت  نے تیکھی نظروں سے ایرا کو گھوری سے نوازا تھا البتہ ایرا کے الفاظ سیرت کے لبوں پر ایک خفیہ مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

"اچھا بس بہت  تعریف ہوگئی اسکی۔۔۔ اب سو جاؤ صبح سکول جانا ہے رائٹ"

ایرا نے سکول کا نام سن کر برا سا منہ بناتے ہوئے آنکھیں میچی تھی۔

ڈرو بیل بجنے کی آواز سن کر ایرا کو سلانے کے دوران فون پر  زاویان کے  میسجز دیکھتی سیرت نے تشویش سے دیوار پر نصب گھڑی کی جانب دیکھا رات کے گیارہ بج رہے تھے اسوقت کون ہوسکتا تھا فون نائٹ اسٹینڈ پر رکھنے کے بعد  خود کو معقول حلیے میں لاکر وہ پیروں میں بیڈروم سلیپرز ڈالنے کے بعد  دروازے کی جانب پیش رفت کرگئی پیک ہول سے دیکھنے کے بعد اسنے متحمل چہرے کیساتھ دروازہ کھولا۔

 نیوی بلیزر اور نیوی چینوز کے نیچے لائٹ بلو شرٹ اور بلو پرنٹڈ پاکٹ اسکیئر کیساتھ سیاہ ڈریس شوز میں وہ وجاہت کا دیوتا اپنی تم تر رعنائیوں کیساتھ اسکے سامنے کھڑا تھا نفیس ہلکی بیئرڈ میں عنابی لب سختی سے ایک دوسرے میں باہم پیوست تھے، چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی کے تاثرات ثبت تھے سردی کی شدت سے سیرت  نے جھرجھری لیکر اسکے لئے  سہولت سے اندر آنے کا راستہ چھوڑ ا۔

"نہیں کچھ دیر میں میری ماسکو کی فلائٹ ہے ۔۔۔ یہ رکھو"

سیرت نے اپارٹمنٹ کے  کاغذات لیتے ہوئے جواباً تشویش سے اسے دیکھا تھا۔

"یہ بعد میں بھی دے سکتے تھے تم خیر۔۔اندر نہیں آؤ گے۔۔۔؟!!"

کاغذات تھام کر وہ چند ساعت رک کربولی  بھوری روشن آنکھوں نے شوق سے سیاہ آنکھوں میں جھانکا

ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کی  تھپتھپاہٹ پاکر سیرت نے  سختی سے لب کچلے دوسری بار اسے اندر بلانا اسکی انا کہ توہین تھی لہذا وہ چپ کھڑی رہی، باریک لباس میں  وہ دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی وہ پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکال کر  اسکے ہمراہ اندر داخل ہو گیا۔

"کچھ لو گے تم۔۔۔ میں اپنی چائے بنانے جارہی تھی"

سیرت نے بھونیں اٹھاکر پوچھا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر اسنے  دعوت قبول کی وہ سنجیدگی سے اسکے ہمقدم ہوا سیرت آج اسے ناجانے کیوں انکار نہیں کرپائی تھی  آج اسکی موجودگی میں وہ مختلف تھی۔

"اچانک  ماسکو کیوں جارہے  ہو۔۔۔ سب خیریت ہے۔۔؟!"

شیلف سے بلیک  کافی کا سامان نکالتے ہوئے وہ  اسکی جانب پلٹ کر بولی کاؤنٹر کے قریب ہاتھ ٹکاتے ہوئے  وہ  متانت سے اسکی جانب پلٹا بھوری درخشاں آنکھوں  نے ذوق سے  اسکے سراپے کا جائزہ لیا سفید سلک کے شب خوابی کے لباس میں وہ ساحرہ  گہری جاذبیت رکھتی تھی۔

" ماسکو میں دو دن بعد شیلٹرز کی  ڈونیشن کیلیے ایک اہم اجلاس ہے  ہرسال  میری شمولیت یقینی ہوتی ہے"

سیرت اسکی بھاری آواز پر سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر کافی  گرائینڈر کی جانب متوجہ ہوئی  کھڑکی سے اندر پھیلتی چاند کی ہ روشنی میں ہلکی ہوا کے دوش پر سلکی بالوں کی چند لِٹیں پھسل کر سیرت کے چہرے پر آئی تھی جن کو عجلت سے کان کے پیچھے اڑسانے کے بعد وہ پیچھے مڑی بھوری آنکھوں میں  بےانتہا شغف تھا۔

"یاخدا۔۔۔  یہ ایسے کیوں دیکھ رہا ہے مجھے۔۔۔"

سیرت نے جھینپ  کر نگاہوں کاتعلق منقطع کرتے ہوئے سوچا۔

"وہ بہت ہینڈسم ہیں، انکی بیئرڈ بہت اچھی ہے اور آنکھیں بھی"

ایرا کی بات یاد آتے ہی وہ گہری مسکرائی  اسکی لو دیتی نگاہوں کے تنگ ہوتے حصار میں وہ نچلا ہونٹ دبا کر بمشکل اپنی مسکراہٹ کا گلہ گھونٹنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

"توبہ۔۔ یہ کیا سوچ رہی ہوں میں۔۔۔"

مگ میں کافی انڈیلتے ہوئے وہ خجل ہوکر خود کو کوس کررہ گئی اپنے پیچھے قدموں کی بھاری آہٹ سن کر سیرت نے نگاہیں اٹھائی  ووڈی نوٹس کے حامل کلون کی مسحور کن نکہت نے سیرت کو حصار میں لیا۔

"سیرت..."

 اسکی جذبات سے لبریز بھاری آواز سیرت کی ریڑھ کی ہڈی کو سنسنا گئی سیرت نے پیچھے پلٹ کر اسے پس و پیش نگاہوں سے دیکھا بھوری تبحر آنکھوں نے سپید گردن پر چمکتے ہارٹ شیپ پینڈنٹ کے بیچ سخت گلٹی کو ابھر کر معدوم ہوتے دیکھا مناسب فاصلہ چند ہی قدموں میں سمٹ چکا تھا سیرت نے گھبرا کر اسکے سینے کے مقام پر ہاتھ رکھ کر اسے مزید قریب ہونے سے قبل روکا مگر اسکے شدت سے دھڑکتے دل کی تیز دھڑکنوں کو محسوس کرکے  سیرت نے براہ راست اسکی تابناک آنکھوں میں جھانکا اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسنے دوسرے ہاتھ سے اسے کہنی سے تھام کر بےحد قدیب کھینچا سیرت کی متحمل دھڑکنیں طول پکڑ چکی تھی۔

 اسکے سپید مومی ہاتھ کو لبوں کے قریب لاکر اسنے گہرا سانس لیا تھا یہ وہی مہک تھی جو اسے سب سے زیادہ پسند تھی سیرت نے سختی سے لبوں کو بھینچ کر اسے دیکھا تھا۔

"رضا۔۔۔ہاتھ۔۔۔ چھوڑو"

بھوری آنکھوں میں اترتے خمار کو دیکھ کر سیرت نے حلق تر کیا البتہ لہجے میں وہ سختی نہیں لاپائی تھی جسکی جدو جہد سیاہ آنکھوں نے کی تھی گرم دہکتی ہتھیلی کے نیچے سرد ہاتھ نے آزادی حاصل کرنی چاہی۔

"شروعات کس نے کی تھی سیرت۔۔۔"

 اسنے سیرت کے کان میں خمار آلود آواز میں بھاری سرگوشی کی جذبات کی آنچ سے لبریز بھاری بوجھل سرگوشی سن کرسیرت کا حلق خشک پڑا دوسرے ہاتھ سے اسنے متانت سے  سیرت کا چہرا ٹھوڑی سے اوپر اٹھایا سیاہ آنکھوں سے بھوری خمار آلود آنکھوں کا براہ راست ٹکراؤ ہوا۔

"ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ تم یہ سب نہیں کرسکتے"

 سیرت نے تابندہ بھوری آنکھوں میں چاند کا خوبصورت عکس دیکھ کرخفگی سےکہا۔

"ہمارے بیچ۔۔۔ ؟!! اتنے یقین سے تم میرے دل کی زمہ داری کیسے لے سکتی ہو  میرے دل میں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے تمہارے لئے  جب تک تم قریب سے جاننے کی کوشش نہیں کرو گی تمہیں اندازہ کیسے ہوگا؟!!"

 اسکے گہرے الفاظ کے سحر میں سیرت چند ثانیے کیلیے ساکت ہوگئی۔

"کیاہے تمہارے دل میں؟!! محبت کرتے ہو مجھ سے۔۔؟!!"

سیرت کے براہ راست سوال پر وہ ایک لمحے کیلیے ساکت ہوا،جواب تو بہرحال اسکے پاس بھی نہیں تھا ان سوالات کا جو اسکا دل اس سے ہر روز پوچھتا تھا۔

"کبھی کیا نہیں۔۔۔ اس احساس سے واقفیت نہیں ہے میری۔۔۔"

متانت سے برجستہ جواب دیا گیا۔

"تو پھر ٹائم پاس کررہے ہو ۔۔۔؟!!"

سیرت نے تشویش سے اسے دیکھا اسکےتجسس پر وہ مبہم سا مسکرایا۔

"تمہیں جو سمجھنا ہے تم سمجھ سکتی ہو چاندنی۔۔۔"

وہ خمار زدہ لہجے میں کہہ کر سیرت کے چہرے پر جھکا سیرت کے رخساروں پر سرخی پھیلی اسنے جھک کر نرمی سے سیرت کے رخسار کو لبوں سے چھوا تھا ہلکی بیئرڈ کی چبھن محسوس کرکے سیرت نے سختی سے آنکھیں میچ کراسکے کوٹ کو مٹھی میں بھینچا لمبی گھنی پلکوں کو اسنے بےحد قریب سے  حسرت بھری نگاہوں سے رقص کرتے دیکھا تھا۔

"اگر میں اس احساس کو محبت کہوں تو بہت کم ہوگا۔۔۔"

 اسنے سیرت کے کان کے بےحد قریب بھاری گمبھیر سرگوشی کی ۔

"تمہیں توڑنے نہیں دوں گی خود کو۔۔۔۔"

سیرت نے  آنکھیں میچے گہرا سانس لیا تھا۔

"تمہیں توڑ نے کا، جوڑںے کا، سنبھالنے کا،غرض ہرحق مجھے حاصل ہے"

اسکے خطرناک ارادوں کو سن کر سیرت کے قدموں نے پیچھے اٹھنا شروع کیا کاؤنٹر سے پشت لگائے وہ حراساں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی جگہ منجمد ہوئی فرار ہونے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے  کھڑکی سے تیز ہوا کا جھونکا سردی کی شدت کا احساس دلا گیا سیرت  نے اسے خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ کر دونوں بازوں خود سے لپیٹ کر جھرجھری لی اسے خود میں سمٹتا دیکھ کر بھوری آنکھوں میں دیوانگی کی گھٹائیں چھاگئی  دو قدموں کا فاصلہ لمحے میں سمیٹ کر اسنے سیرت کو کمر سے تھام کر کاؤنٹر پر نرمی سے بٹھایا تھا۔

 سیرت کی آمد و رفت کا فرض ادا کرتی سانسیں اسکے کلون کی مہک سے لبریز ہوکر بھاری ہونے لگی سرد انگلیوں کو سلکی بالوں میں الجھائے اسنے سیرت کا چہرا اوپر اٹھایا تھا  سیرت نے بےتاثر نگاہوں سے اسکی آنکھوں کو پڑھا جو اس ساحرہ کے  ہوش ربا حسن کے سامنے مغلوب تھی آج پہلی بار ۔۔۔ زندگی میں پہلی بار اس  اناپرست شخص پر جذبات غالب آئے تھے۔

"تم تباہ کردو گی مجھے ایک دن سیرت۔۔۔"

"کاش ایسا ہو جائے ۔۔۔"

سیرت نے تشویش سے کہا وہ بےساختہ مسکراگیا۔

"کردو تباہ۔۔۔۔۔۔۔ کرسکتی ہوتم"

وہ متانت سے کہہ کر کاؤنٹر کی دونوں اطراف ہاتھ رکھتے ہوئے جھکا۔

"کیسے کرنا ہے۔۔۔ بتاؤ..."

سیرت نے بےحد قریب سے اسکے وجیہ چہرے کا جائزہ لیا ۔

"تم بہتر جانتی ہو۔۔۔۔"

اسنے سنجیدگی سے سیاہ آنکھوں میں جھانکا۔

"مجھے اندازہ نہیں۔۔۔ تم بتاؤ؟!!"

سیرت نے تجسس سے بھونیں اٹھائی۔

"میں بتاؤں ۔۔۔۔۔؟!!"

وہ سرعت سے جھکا اسکے چہرے پر، سیرت نے تیز دھڑکتے دل کو بالائے طاق رکھ کر سر اثبات میں ہلایا 

 ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ چکے تھے  بھوری آنکھوں میں اسے پالینے کی بربریت تھی وہ بےلگام ہوچکا تھا 

 اسنے سنگدلی سے آگے بڑھ کر اسکے  ریشمی بالوں میں انگلیاں سختی سے الجھائی اور دوسرا ہاتھ سیرت کی کمر میں حائل کرکے اسکے لبوں کے  نگہبان سیاہ تِل پر  غلبہ حاصل کیا کھڑکی سے جھانکتا چاند بھی اسکی  گستاخی پر بادلوں کے غلاف میں چہرا چھپا چکا تھا آنکھیں میچے وہ  ایک دوسرے کی قربت میں بہکتے چلے گئے تھے۔

"رضا بس کرو۔۔۔ اٹھو میرے اوپر سے ڈیم اٹ*"

سیرت نے دانت پیس کر اسکی چوڑی پشت پر مٹھی بنا کر رسید کی  چار و ناچار وہ اسکے ریشمی بالوں سے چہرا نکال کر بدمزگی سے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرنے کیساتھ دونوں ہاتھ کاؤنٹر سے ہٹاکر ایک قدم پیچھے ہٹا سیرت پھاڑ کھانے والی نگاہوں سے اسے دور ہٹاکر کاؤنٹر سے اتر کر لباس درست کرتے ہوئے ادھوری کافی کی جانب متوجہ ہوئی البتہ سیرت کے سرخی مائل رخسار دیکھ کر بھوری آنکھیں جزباتوں سے لبریز ہوئی۔

 اسکا مختصر وقت حسیں لمحات میں  روانی سے ہاتھوں سے سرکتا جارہا تھا اور اسے طویل کرنے کی حسرت صرف بھوری آنکھوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھی۔

سیرت نے پلٹ کر اسکی جانب کافی کا مگ بڑھایا جسے لیکر کاؤنٹر پر رکھ کر حدید نےاسے شانوں سے سختی سے تھام لیا سیرت کی  دھیمی پڑتی دھڑکنیں بھوری خمار آلود آنکھوں سے ٹکرا کر یکدم تیزی پکڑنے لگی۔

"تمہاری یہ تیکھی زبان میرے لئے ایک اور سنگین مسئلہ ہے"

وہ متانت سے سیاہ آنکھوں میں جھانک کر بولا سیرت نے آنکھیں سکیڑ کر اسکے سینے پر مکا رسید کیا ایک قدم پیچھے لیکر وہ اسے حسرت سے بھرپور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مبہم سا مسکرایا تھا۔

"اپنی سوچوں کے گھوڑوں کو لگام ڈال کر رکھو تم۔۔۔ "

کافی کا سپ لیکر سیرت نے بھونیں اٹھاکر کہا وہ متبسم نگاہوں سے اسے دیکھ کر سر دھیرے سے اثبات میں ہلاگیا البتہ نگاہیں اب بھی اس حشر ساماں سراپے  کو پرحدت حصار میں لئے ہوئے تھی۔

"اب جاؤ بھی۔۔۔ فلائٹ مس ہو جائے گی ورنہ"

سیرت نے  کاؤنٹر سے پشت ٹکائے کہا وہ لڑکی اپنی ہر ادا کیساتھ اسے دیوانہ بنا رہی تھی  بھوری آنکھوں میں سر اٹھاتی حسرت کو دیکھ کر سیرت نے  کافی کا مگ کاؤنٹر پر رکھا اور اسکی جانب پیش قدمی کی۔

"خیال رکھنا اپنا چاندنی۔۔۔۔"

جھک کر اسنے متانت سے سیرت کے رخسار کو تپھتھپایا تھا سیرت نے ساکت نگاہوں سے اسے دیکھا اسے ایک لگاؤ سا ہوگیا تھا اس نام سے، وہ کھڑکی سے سیاہ کیمارو کو نگاہوں کے حصار سے باہر جاتے دیکھتی رہی

دل کو عجیب سی بےچینی لاحق ہوئی کیا وہ اسکے دور جانے سے بےچین ہورہی تھی سر میں دھیرے سے چپت لگاکر وہ اپنی سوچوں پر آہ بھرتی اپنے کمرے کی جانب پیش رفت کرگئی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"ارے کون ہے آرہی ہوں۔۔۔ صبر نہیں کرسکتے۔۔۔ کیا دروازہ توڑدوگے"

دروازے کی جانب پیش رفت کرتی ریحم نے تنک کرکہا کوئی لگاتار دروازہ پیٹ رہا تھا، دروازہ کھلنے پر سامنے کھڑے انس نے فوراً ریحم کو دیکھ کر منہ کا زاویہ بگاڑا  جواباََ ریحم کی پیشانی پر بل پڑے۔

"بھابھی کو بھیجو ۔۔۔ لینے آیا ہوں انکو"

ریحم کو ناگواریت سے دیکھ کر وہ برے سے منہ کیساتھ بولا آیا اسنے کڑوا بادام کھا لیا تھا جو نہ نکال سکتا تھا نہ بآسانی نگل سکتا تھا ریحم نے کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر آنکھیں پھیلائی تھی۔

"آئیذل کو آئے ہوئے ایک گھنٹہ مشکل سے ہوا ہے۔۔۔ کہیں نہیں جائے گی وہ"

ریحم نے بھی بھرپور کاروائی کیساتھ بھونیں سکیڑی ۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں جلدی میں ہوں بھیجو انکو"

زاویان کے تباہ کن مزاج کا سوچ کرانس کو سانپ نے ڈنک مارا تھا ریحم نے تںک کراسکے منہ پر دروازہ بند کرنا چاہا مگر انس نے بھی بضد ہوکر دروازہ بند ہونے سے قبل دروازے میں پیر دیا۔

"کتنی بددماغ قسم کی عورت ہو تم ۔۔۔ بھیجو انکو گھر ضروری کام ہے "

دروازے کے بیچ آکر ٹھہرتے انس نے سنجیدگی سے کہا ریحم نے آدھ کھلے منہ کیساتھ اسے دیکھا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا دروازہ اٹھاکر اس جاہل* کے سر پر دے مارے۔

"ریحووو۔۔ کون ہے دروازے پر۔۔۔"

عائزہ بیگم کی تیز آواز پر ایک دوسرےکو پھاڑ کھاتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دونوں بیک وقت  بوکھلا گئے۔

"اماں فقیر آیا ہے۔۔۔ آٹا چاہیے بیچارے کو۔۔۔"

ریحم نے آنکھیں سکیڑ کر اسہزائیہ کہا انس نے کاٹدار نگاہوں سے اسے دیکھا اور اسے دور ہٹاتے ہوئے گھر میں گھس گیا ریحم دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر کچھ بھی کا اشارہ کرتے ہوئے اسکے پیچھے چل دی تھی۔

انس کو دیکھ کر عائزہ بیگم کی آنکھوں میں چمک ابھری البتہ آئیزل نے پریشان کن نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"اسلام و علیکم ۔۔۔ بھابھی زاویان بھائی نے آپکو پک کرنے کیلیے کہا ہے انکو آفس میں ضروری کام تھا"

عروسہ بیگم کو سلام کرکے انس آئیزل کی جانب متوجہ ہوا آئیزل سرہلا کراٹھی تھی۔

"یہ کیا اتنی جلدی جارہی ہو تم۔۔۔ ابھی تو آئی تھی۔۔"

عائزہ بیگم نے شیریں نگاہوں سے آئیزل کو دیکھ کر مخاطب کیا عروسہ بیگم کو خدا حافظ کہتی آئیزل عائزہ بیگم کی جانب پلٹ کر محض ہلکی سی مسکراگئی تھی۔

"بیٹا بیٹھو چائے ناشتہ کرکے جانا..."

عائزہ بیگم نے شیریں نگاہوں سے انس کو دیکھا جو ریحم سے کچھ خاص ہضم نہیں ہوا سعادت مندی سے وہ انکار کرتا آئیذل کے پیچھے چل دیا تھا۔

"ریحم جادروازے تک چھوڑ کرآ۔۔۔ آئیزل کو۔۔"

عائزہ بیگم کی جانب تشویش سے دیکھ کر ریحم آئیزل کے ہمقدم ہوئی انس نے چلتے ہوئے تیکھی نظروں سے ریحم کو دیکھا تو وہ بھی منہ بسور کر رہ گئی آئیزل کی سوالیہ نظروں سے انس زیادہ دیر کترا نہیں پایا۔

"بھابھی بھیا شدید غصے میں ہیں۔۔۔   سب خیریت ہے ناں"

گاڑی کو شاہراہ پر ڈال کر انس نے فکرمندی سے دریافت کیا آئیزل نے پریشانی سے اسے دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ بالکل ٹھیک تھا اوراسے خود گھر چھوڑ کر گیا تھا وہ سوچوں کے گرداب میں پھنس کر  جواب سے معزور ہوگئی پریشانی اور گھبراہٹ کے ملے جلے احساسات اسکے دل و دماغ پر غالب آگئے تھے۔

سر میں درد کی اٹھتی ٹھیس کو یکسر فراموش کرکے وہ گہرا سانس بھرکر اوور تھنکنگ کرتے افسردہ ہوئی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

سبک روی سے اٹھتے قدم کمرے کا دروازہ کھلتے ہی تھم گئے سامنے ہی کاؤچ پر بیٹھی چاہت اسے دروازے میں دیکھ کر استہزائیہ نگاہوں سے اسکے چہرے پر غیرمعمولی پریشانی کے  آثار دیکھ کر اٹھی۔

آئیذل پیشانی پر بل ڈالے تیزی سے اسکی جانب قدم بڑھاکر اسکے ہاتھ سے زاویان کی شرٹ لے چکی تھی چاہت نے بےپرواہی سے سینے پر بازوں لپیٹے تھے۔

"ابھی اسی وقت نکلو ہمارے کمرے سے ۔۔۔"

آئیذل  دروازے کی جانب اشارہ کرکے ناگواری سے بولی چاہت سر دھیرے سے ہلاکر اسکے مقابل آکر کھڑی ہوئی نگاہوں میں طنز کا تاثر تھا  آئیذل کا خون کھولنے لگا۔

"اب اور زبان درازی نہیں آئیذل اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو مجھ سے"

چاہت نے آگے بڑھ کر اسکی کلائی میں انگلیاں پیوست کرکے دانت پیسے۔

"تمہاری رپورٹس آچکی ہیں۔۔۔ امی تمہیں یہاں ایک سیکنڈ برداشت نہیں کریں گی"

چاہت کی جانب ناسمجھی سے دیکھ کر آئیزل نے اسکا ہاتھ جھٹکا چاہت کے چہرے پر ۔۔ آنکھوں میں پراسرار چمک تھی جسکا اندازہ لگا کر آئیذل کا دل بےچین ہوتا جارہا تھا۔

"تم کبھی ماں نہیں بن سکتی آئیذل ۔۔"

چاہت نے جھک کر اسکے کان کے قریب راز داری سے کہا آئیذل کے اعصاب ڈھیلے پڑتے گئے شل قدم  برف کی کئی تہوں میں دھنس چکے تھے، چاہت اسکے چہرے کے تاثرات سے  محظوظ ہوکر مزید قدم آگے بڑھاگئی۔

" تمہاری ساسو ماں نے کہا ہے کہ وہ  کچھ ہی دنوں میں ان فیکٹ، جلد زاویان سے تمہیں طلاق دلوا کر اس گھر سے چلتا کریں گی، آخر تمہارا اب کیا کام یہاں۔۔ بےکار ہوتم۔۔۔ اور زاویان سے میری شادی ہوگی"

چاہت نے نیلی آنکھوں میں جھل مل کرتے آنسوں دیکھ کر دھیمے طنزیہ انداز میں کہا  چاہت کی جانب اشتعال سے دیکھ کرآئیذل نے تھرتھراتے ہاتھ کو فضا میں بلند کرکے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا چاہت کا چہرا سرخ بھبھوکا ہوچکا تھا۔

" لمظ۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی چاہت پر ہاتھ اٹھانے کی۔۔۔"

مہر النساء بیگم کی تیز آواز نے آئیذل کو ساکت چھوڑا وہ بےیقینی سے پیچھے مڑگئی دروازے میں کھڑی مہر النساء بیگم نے تیزی سے انکی جانب پیش قدمی کی تھی آئیذل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔

"امی۔۔۔ یہ ۔۔۔ زاویان۔۔۔"

نیلی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر سرخی مائل رخساروں پر پھسل گئے ۔

" زاویان کے آنے سے پہلےاپنا سامان لیکر چلی جاؤ لمظ۔۔"

مہر النساء بیگم کے الفاظ آئیذل کی دھڑکنوں کی رفتار کو مدھم کرگئے  چاہت آئیذل کے تھپڑ سے دہکتے سرخی مائل   گال سے ہاتھ ہٹاکر مسکرائی تھی۔

"چلی جاؤ آئیذل  زاویان کی محبت کا آخر کیا صلہ  دیا تم نے۔۔۔ چلی جاؤ میرے بیٹے کی زندگی سے۔۔۔ خدا کیلیے چلی جاؤ ہاتھ جوڑتی ہوں میں تمہارے سامنے۔۔۔"

مہر النساء بیگم نے دونوں ہاتھوں کو باہم جوڑ دیا آئیذل کا دل پسیج گیا۔

"اسے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے دو آئیذل۔۔ اگر وہ تمہارے ساتھ رہے گا تو اپنی زندگی تباہ کردے گا"

مہر النساء بیگم کا ہر ایک لفظ اسکے دل کو کریدتا جارہا تھا وہ اپنے قدموں پر زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی تھی کھڑے رہنے کی سکت دم توڑنے کے بےحد قریب تھی شل ہوتا ذہن مکمل ماؤف ہوچکا تھا۔

آئیذل نے بےتاثر نگاہوں سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا کاش وہ اسکی آنکھوں میں وہ آس دیکھ پاتی مگر  مہر النساء بیگم نے بے التفاتی سے رخ پھیر کر اسکی آس اور امیدیں توڑ دی۔

"دفع ہو جاؤ ۔۔۔ اس سے پہلے میں سیکیورٹی کو بلاکر تمہیں باہر پھینکوا دوں"

چاہت نے آگے بڑھ کر آئیذل کے ہاتھ سے زاویان کی شرٹ لیکر اسکے بازو کو بےدردی سے پکڑ کر کمرے سے باہر  دھکیلا سیڑھیوں سے  گرتے ہوئے آئیذل نے ریکنگ کو تھاما تھا پورچ میں قدم رکھتا انس  چاہت کی چیخ سن کر چونکا تھا البتہ مہر النساء بیگم کا چہرا ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔

"یہ کیا کررہی ہو تم۔۔۔ اگر بھائی کو پتا چلا تم نے بھابھی کیساتھ ایسا سلوک کیا تو تمہیں جان سے ماردیں گے۔۔۔ اور امی آپ خاموش  کیوں ہیں۔۔۔ سمجھائیں اس کند ذہن لڑکی کو"

انس کی پیشانی پرپڑے بل چاہت کو ازحد تک ناگوار گزرے تھے آئیذل  بےجان کھڑی مہر النساء بیگم کی جانب دیکھ رہی تھی اسے اب تک انکے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا۔

"اپنے کمرے میں جاؤ انس۔۔۔"

مہر النساء بیگم نے بےربط لہجے میں کہا انس ہونک بنا حیرت سے انکو تکتا چلا گیا چاہت نے آگے بڑھ کر آئیذل کے بازو سے پکڑ کر اسے ساتھ گھسیٹتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب پیش قدمی کی۔

"یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔کیا دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا"

انس نے تیزی سے آگے بڑھ کر چاہت کی کلائی دبوچی جسے اسنے سختی سے جھٹک ڈالا آئیذل کو ساتھ گھسیٹتے ہوئے وہ لاؤنج عبور کرگئی تھی انس کی نگاہوں کا مرکز مہر النساء بیگم اپنے کمرے میں جاچکی تھی انس  فون نکال کر زاویان کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔

"اب تک میں اگر چپ تھی تو صرف اس لئے کیونکہ تمہاری وجہ سے خود کو زاویان کی نگاہوں میں نہیں گرانا چاہتی تھی۔۔ لیکن غلطی تمہاری ہے تم کبھی زاویان کو وہ نہیں دے سکتی جو میں دے سکتی ہوں ۔۔۔"

چاہت نے پورچ سے ملحقہ سیڑھیوں سے اسے دھکیل کر زہر آلود لہجے میں کہا آسمان سے تیزی سے برستی بارش میں بھیگتی آئیذل نے سردی کی شدت سے تھرتھراتے ہوئے دوںوں بازؤں سے خود کو ڈھانپا تھا۔

اسے اگر کچھ تکلیف دے رہا تھا تو وہ مہر النساء بیگم کے الفاظ تھے کیا واقعی وہ یہ صلہ دے رہی تھی زاویان کی محبت کا۔۔۔  سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی وہ دروازے سے باہر چل دی نیلی آنکھوں سے آنسوں بارش کی بوندوں کیساتھ مسلسل برس رہے تھے سڑک پر  تیزی سے آمد و رفت کرتی گاڑیوں کو نیلی آنکھیں غیر وابستگی سے دیکھ رہی تھی  دونوں ہاتھوں سے خود کو ڈھانپے وہ نظریں جھکائے لڑکھڑاتی چل رہی تھی۔

"تم کبھی ماں نہیں بن سکتی آئیذل ۔۔ "

"چلی جاؤ آئیذل  زاویان کی محبت کا یہ صلہ دیا تم نے۔۔۔ چلی جاؤ میرے بیٹے کی زندگی سے۔۔۔ خدا کیلیے چلی جاؤ ہاتھ جوڑتی ہوں میں تمہارے سامنے۔۔۔  چلی جاؤ"

الفاظ تھے یا خنجر جو ہر گزرتے لمحے کیساتھ اسکے دل کو کاٹتے جارہے تھےلڑکھڑاتے قدم اچانک ہی اسکی سوچ کی تقلید میں رک چکے تھے نیلی آنکھوں نے  بے اعتنائی سے سڑک پر تیزی سے دوڑتی گاڑیوں کو دیکھا۔

"امی۔۔۔ "

سردی سے تھرتھراتے ہونٹوں نے آہستگی سے حرکت کی وہ اذیت ناک لمحہ اسکے اندر کی وہ چھوٹی لڑکی کیسے بھلا سکتی تھی جب اپنی آنکھوں کے سامنے اسنے اپنی ماں  کو آخری بار دیکھا تھا۔۔ بکھرے ۔۔ اجڑے حلیے میں۔۔ جب وہ  مختصر ڈگمگاتے قدموں کیساتھ سڑک  پر بےآسرا چل رہی تھی۔۔۔ جب اذیت ناک زندگی سے ہار کر اس نے  اپنے غموں سے سے نجات حاصل کرنی چاہی آئیزل  کے قدم بڑی شاہراہ پر تیزی سے حرکت کرتی گاڑیوں کی جانب اٹھ رہے تھے نیلی آنکھیں جھپکنے سے معزور ہوچکی تھی وہ ایک مصمم ارادے کیساتھ چلتی جارہی تھی۔

 آج اسے دنیا نے یہ احساس دلایا تھا کہ کتنی  ناتواں تھی وہ اسکے بغیر،،، وہ ساتھ ہوتا تو مشکل وقت بھی مشکل نہیں لگتا تھا۔۔ اسکا ساتھ تھا تو وہ پوری دنیا سے بے نیاز تھی۔۔ کیسے وہ اپنی لمظ کا ہر ناز نخرہ اٹھاتا تھا۔۔ کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دیتا تھا۔۔ اس سے دوری اختیار کرنا موت تھی۔

گھنی  تھرتھراتی پلکوں  نیلی آنکھوں کو ڈھانپ چکی تھی سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی وہ سینے میں اٹکی سانسوں کیساتھ مسلسل رو رہی تھی ہوا کے تند و تیز جھکڑ کانوں کو چھید دینے والے تھے انکے ساتھ تیزی سے آمد و رفت کرتی گاڑیوں کے شور کا امتزاج اسے سننے کی صلاحیت سے محروم کرچکا تھا۔

ہوا کے تیز جھونکوں کے بیچ اسے دور سے گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا بارش  شدت پکڑ چکی تھی وائپر بھی بارش کے کثیر مقدار میں برستے پانی کو شیشے سے ہٹانے کیلیے ناکافی  ثابت ہورہے تھے آنکھیں پیچیدگی سے  میچے اسنے دونوں ہاتھوں میں دوپٹے کو سختی سے بھینچ کر موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا تھا خوف سے اسکا پور پور کانپ رہا تھا گاڑی تیزی سے اسکی جانب بڑھ رہی تھی ایک جھٹکے کیساتھ کسی نے اسے درشتگی سے گاڑی کے پاتھ سے دور ہٹایا تھا تیز رفتار سیاہ کیمارو سڑک پر کھڑے بارش کے پانی کو چیرتی ہوئی آگے نکل گئی تھی سردی اور خوف سے  نیلی پڑتی آئیذل ہوش و خرد سے بیگانگی اختیار کرتی  قوی بازؤں میں جھول گئی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"آئیذل بیٹا ایک کپ چائے بنا دو۔۔۔"

زوہیب صاحب یونیورسٹی سے اب لوٹ رہے تھے اور روٹین کے مطابق اسے پکار کر بولے مگر آج انکا جواب  محض خاموشی نے دیا وہ مضطرب نگاہوں سے آئیذل کو گھر میں تلاش کرنے لگے۔

"آئیذل یہاں نہیں ہے ماموں ۔۔۔ چلی گئی ہے وہ..."

صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی چاہت فون کی اسکرین سے لمحے کیلیے نظریں ہٹاکر بولی اور دوبارہ  سکرولنگ میں مگن ہوگئی زوہیب صاحب کی پیشانی پر چند لکیریں کھینچ گئی۔

"مہر۔۔۔ آئیذل کہاں ہے۔۔۔"

مہر النساء بیگم کو کچن سے باہر آتے دیکھ کر انہوں نے انکی جانب پیش قدمی کی۔

"گھر سے نکال دیا ہے اسے مماں نے۔۔۔"

مہر النساء بیگم کے نظریں پھیرنے پر چاہت نے بے اعتنائی سے جواب دیا زوہیب صاحب نے بےیقینی اور کشیدگی سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا۔

"کیا کہہ رہی ہے یہ لڑکی مہر۔۔۔ تم نے میری بیٹی کو اسکے ہی گھر سے نکال دیا؟!!"

زوہیب صاحب کا لہجہ غیر متحمل تھا مہر النساء بیگم  پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی۔

"جواب دو مہر۔۔۔ کہاں ہے آئیذل۔۔"

زوہیب صاحب کی گرجدار آواز نے رضوی مینشن کی خاموش دیواریں دہلا دی چاہت نے صوفے سے اٹھ کر سرعت سے خاموش کھڑی مہر النساء بیگم کی جانب پیش رفت کی۔

"خبردار اگر میری بہن اور میری گفتگو میں دخل اندازی کی۔۔۔"

زوہیب صاحب نے کچھ کہنے کا ارادہ کرتی چاہت کے لبوں کو قفل بستہ کیا۔

"آج تم نے حد کردی ہے مہر۔۔ اپنے دماغ سے یہ نفرت کا پردا ہٹاکر دیکھو اس سے پہلے کے تمہارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر غلبہ حاصل کرلے، تم اپنی اولاد کیساتھ جو کچھ بھی کرتی آئی ، میرا کبھی دخل نہیں رہا لیکن میری بیٹی کیساتھ تمہیں  یہ سلوک نہیں کرنے دوں گا میں۔۔۔"

 مہر النساء بیگم نےزوہیب صاحب کی جانب مجروح نگاہوں سے دیکھا غرض یہ کہ انکے الفاظ ماضی کے ناسور زخموں پر نمک پاشی کرچکے تھے۔

"کونسا سلوک زوہیب ۔۔کیا کیا میں نے"

زوہیب صاحب نے ترس کھاتی نگاہوں نے مہر النساء بیگم کو مختصر دیکھا۔

"سیرت کو بیلفاسٹ گئے کتنا عرصہ ہوا ہے... خیر تمہیں یاد نہیں ہوگا یاد رکھ کر کیا کرو گی۔۔۔ ایک بار بھی تم نے اسے فون کرنے کی زحمت کی؟!!  اور وہ۔۔۔ ہر دوسرے دن مجھے فون کرکے تمہاری صحت دریافت کرتی تھی۔۔۔  اور زاویان ۔۔۔  کتنی کوشش کرتا رہا وہ تمہارے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی۔۔۔ مگر تم نے اپنی اولاد کو کبھی اپنی اولاد نہیں سمجھا۔۔ صرف عاطف کی اولاد نہیں ہے وہ۔۔۔  تمہاری بھی اولاد ہے وہ۔۔۔ کب تک اپنی ہی اولاد سے نفرت کرتی رہو گی تم"

مہر النساء بیگم کی نگاہیں عاطف صاحب کا زکر سن کر یکلخت اٹھی ۔

"کیا غلط کررہی ہوں میں۔۔۔  اس شخص کیساتھ اپنی زندگی تباہ کی میں نے۔۔۔"

کرب ناک لہجے میں کہہ کر وہ چیخ دی چاہت حیرت سے آنکھیں پھیلائے انکو دیکھ رہی تھی آج پہلی بار اس نے مہر النساء بیگم کو جذبات سے لبریز دیکھا تھا۔

"اس میں زاویان اور سیرت کا کیا قصور ہے۔۔۔ اگر عاطف نے دوسری شادی کی تھی تو اپنی مرضی سے کی تھی۔۔۔تم نے بھی اسکی موت کے بعد کرلی۔۔۔۔ اپنی اولاد کو تم نے کبھی اولاد کی طرح ٹریٹ نہیں کیا ۔۔ زندگی کے جس موڑ پر انہیں ماں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔ اس وقت کہاں تھی تم۔۔۔ اوراس لڑکی کیلیے تمہاری ساری ہمدردیاں جو تمہاری سگی بیٹی بھی نہیں اور اپنی اولاد سے اتنی نفرت..."

خاموش تماشائی بنی چاہت کی جانب اشارہ کرکے زوہیب صاحب گرج اٹھے۔

"صرف اس لئے کہ عاطف نے تم سے کبھی محبت نہیں کی،مجبوری میں تم سے رشتہ نبھاتا رہا مگر تم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسکے جانے کے بعد تم اپنی اولاد کیساتھ مجبوری میں گزارا کرکے اپنی اولاد کو ذلیل کررہی ہو۔۔ تمہیں ماں کہلانے کا حق  ہی نہیں ہے مہر۔۔۔ ایک ماں کا دل اتنا کٹھور نہیں ہوتا"

زوہیب صاحب مہر النساء بیگم کو ساکت چھوڑ کر تیزی سے لاؤنج عبور کرگئے تھے باہر موسم بےحد خراب تھاانکو آئیذل کی فکر کھائے جارہی تھی وہ جلد از جلد اسے ڈھونڈنا چاہتے تھے۔

چاہت نے تشویش سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا ایک غیر مرئی نقطے کو ذہن نشین کرنے کے دوران وہ زوہیب صاحب کے ایک ایک لفظ پر نظر ثانی کررہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

نیلی آنکھوں کے سامنے سے سیاہ غلاف دھیرے دھیرے سرکنے لگا خودکو  نرم و ملائم بستر پر پاکر وہ بوکھلا کر سفید بلینکٹ ہٹا کر دور پھینکنے کیساتھ بیڈ سے اتری تھی  خود کو انجان جگہ پر پاکر سردی کی لہریں اسکے تن بدن میں سرائیت کرگئی ڈارک تھیم پر مشتمل یہ ایک بےحد نفیس کمرہ تھا خود کو سفید شرٹ میں ملبوس پاکر وہ ٹھٹھکی گندمی رنگت چہرا غم و غصے سے سرخی مائل پڑگیا۔

واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر زمین کا ٹکڑا تقریباً اسکے پیروں کے نیچے سے  کھسک گیا وہ تیزی سے پیچھے مڑی سفید ٹاول سے چہرا تھپتھپاتے ہوئے وہ اسے دیکھ کر رکا سیاہ سلکی بالوں سے پانی قطرہ قطرہ ٹپک رہا تھا وہ سادہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا سنہری سرخ ڈوروں والی درخشاں آنکھوں سے نیلی متورم آنکھیں براہ راست ٹکراگئی  تمازت زدہ نگاہوں کے حصار میں وہ  اپنے غیر معقول حلیے کا جائزہ لیکر سرخ پڑی

"کیا کرنے جارہی تھی آپ لمظ۔۔۔"

چند فاصلہ  تیز قدموں نے سمیٹ ڈالا اسے شانوں سے سختی سے تھام کر وہ جبڑے بھینچے بولا آئیذل نے سہم کر اسکی نگاہوں سے نگاہیں ملانے سے مکمل پرہیز کیا۔

"آپ ۔۔۔ آپ مجھ سے بہتر کے مستحق ہیں"

نظریں جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی  سنہری آنکھوں میں اسکے الفاظ سن کر کشیدگی عود آئی ۔

"آپ ۔۔۔ مجھے طلاق دے دیں ۔۔۔"

"لمظ۔۔۔۔۔۔"

اسکا فضا میں بلند ہاتھ  آئیذل کے چہرے کے قریب ساکت رہ گیا گھنی پلکوں نے لرزکر نیلی آنکھوں کو ڈھانپنے پر اکتفاء کیا آنکھیں سختی سے میچے وہ اسکے حصار میں لرز گئی ناتواں کندھے پر اسکی پرحدت ہتھیلی کا دباؤ اسے خوف سے لرزتے دیکھ کر یکدم ڈھیلا پڑگیا آنسوں اسکی پلکوں کی حدوں سے ٹوٹ کر چہرے پر بکھرنے لگے گہرا سانس لیکر اسنے اسکے تھرتھراتے کندھوں کو تھام کر سینے سے لگایا اسکی گردن میں سرچھپائے وہ سسک سسک کر رودی۔

"مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے ۔۔بےبی گرل۔۔۔ میرا سب کچھ ہیں آپ..."

اسکے بکھرے لمبے بالوں کو سنوارتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا آئیذل نے اسکی سفید شرٹ کو مٹھی میں بھینچ کر سرنفی میں ہلایا تھا سرد آہ بھرکر اسکی کمر کو نرمی سے سہلاکر وہ اسے پرسکون کرںے لگا۔

"کیا آپ ۔۔۔ آپ نے  میری۔۔۔رپورٹ نہیں دیکھی؟!!"

وہ دھیمے لہجے میں خوفزدہ ہوکر بولی۔

"اہممم۔۔ دیکھی تھی میں نے۔۔۔  روحِ قلب"

وہ متانت سے اسکے بالوں پر لب رکھتے گویا ہوا ۔

"تو۔۔تو۔ پھر۔۔۔ آپ مجھے کیوں نہیں چھوڑ رہے۔۔۔"

آئیذل کا دل خوف سےبیٹھنے لگا۔۔

"میں آپکو نہیں چھوڑ سکتا  لمظ۔۔۔ میری جان بستی ہے آپ میں"

وہ  گمبھیر لہجے میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔

"لیکن۔۔ میں بہت  بری ہوں"

اسکی بات سن کر نیلی آنکھوں سے ایک آنسوں خطا ہوکر سفید شرٹ میں جزب ہوا۔

"ایسا کس نے کہا آپ سے۔۔۔ قلبی(میرا دل)۔۔۔ آپ میرا کل سرمایہ ہیں"

وہ محبت سے اسکا چہرا تھام کر ٹھوڑی سے اوپر اٹھائے گویا  ہوا البتہ نیلی آنکھوں میں جھلملاتے پانی کو اسنے تشویش سے دیکھا تھا آج وہ اسے کھو دینے کے کتںے قریب تھا  یہی سوچ کر وہ اسے سختی سے اپنے قوی بازؤں کے حصار میں لیکر سینے میں بھینچ گیا تھا آئیذل نے اسکی مخصوص مہک میں گہرا سانس لیا۔

"اگر۔۔۔ آج خدا نخواستہ آپکو کچھ ہوجاتا تو مرجاتے آپکے پروفیسر زاویان ۔۔۔"

"مجھے لگا رپورٹس دیکھنے کے بعد۔۔۔  آپ نفرت کریں گے مجھ سے۔۔۔"

آئیذل نے بےچینی سے اسکے سینے سے سراٹھاکر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"یہ تو میری موت کے بعد بھی ممکن نہیں ہوگا لمظ،، آپ نے بچپن سے مجھے اپنا اسیر بنارکھا ہے"

زاویان نے الفت سے  گھنی پلکوں پر لب رکھ کر گمبھیر سرگوشی کی آئیزل جو اسکے الفاظ پر بھرپور خفا ہوئی تھی آنکھوں پر  نرم و ملائم گرم لمس پاکر ساکت رہ گئی۔

"کیاآپ پوری زندگی گزار لیں گے مجھ جیسی ۔۔۔لڑکی کیساتھ؟!!"

مہر النساء بیگم کے الفاظ یاد کرکے وہ ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ بولی۔

"سوال یہ ہے کیا آپ لوگوں کی باتوں میں آکر خود کو برا بھلا کہنا بند کریں گی؟!!"

آئیذل نے لب بھینچ کر اسے دیکھا سنہری آنکھوں میں  اسکے لئےبےانتہا عقیدت تھی۔

"اور۔۔۔۔!!"

وہ کچھ کہتے کہتے  نظریں جھکا گئی۔

"اورررر؟!!"

زاویان نے سنجیدگی سے اسکے الفاظ دہرائے۔

"ا۔۔۔اور ۔۔۔ آپکو ۔۔۔ بےبی نہیں چاہیے ؟!!"

وہ سرخ اناری چہرے کیساتھ نہایت دھیمے لہجے میں نظریں جھکائے بولی ۔

وہ اسکے یوں  شرم و حیاء سے نگاہیں جھکانے پر مرمٹا تھا۔

"میری بےبی  گرل  ہے ناں ۔۔۔ مجھے کافی ہے"

اسنے جھک کر الفت سے اسکی پیشانی پر لب رکھے تھے آئیذل کے دل سے اسکے الفاظ سن کر ایک بوجھ دار پتھر سرک گیا تھا اسکے سینے پر سر رکھے وہ پرسکون سانس لے گئی تھی۔

"افوو یہ لڑکی جب سے گئی ہے میرا دل نہیں لگ رہا"

سرمئی کیپ سوئیٹر کے نیچے پیروں کو چھوتی سیاہ آئیوری مرمیڈ اسکرٹ میں بالوں کو کاندھوں پر کھلے چھوڑے دفتر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی وہ دھیمے لہجے میں خود سے ہم کلام ہوئی  ایرا آج واپس جاچکی تھی اور اب وہ خود سے الجھ کر وقتِ وداع گزار رہی تھی  کرسی کھینچ کر ٹیبل سے اپنی چائے کا کپ سنبھال کر اسنے لیپٹاپ کھولا تھا جب  ٹیبل پر پیپرز کے پلندے پر پڑا سمارٹ فون چنگھاڑ اٹھا۔

"اسلام و علیکم بھیا۔۔ آپ تو مجھے بھول ہی گئے ہیں"

فون کی اسکرین پر جگمگاتا نام اسکے اعصاب ڈھیلے کرگیا لبوں پر سرگرم متبسم پھیلا  کال منسلک کرکے لیپٹاپ کی جانب متوجہ ہوکر مہر آمیز لہجے میں بولی ۔

"وعلیکم السلام پرنسس ۔۔ خیر یہ ممکن نہیں ہے طبعیت کیسی ہے آپکی ؟؟!"

دوسری جانب فائلز کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتی سنہری آنکھیں سیرت کے گرم جوشی سے خیر مقدم کرںے پر فرطِ جذبات سے چمک اٹھی۔

"میں اچھی ہوں بھیا۔۔ لمظ بھابھی کیسی ہیں"

چائے کا سپ لیکر وہ سیکریٹری کو اندر آتے دیکھ کر رکی جو اسے فون پر مصروف دیکھ کر اسے اطلاع دینے سے قبل ہی ٹیبل کے قریب ٹھہرچکی تھی زاویان کی بات سنتے ہوئے سیرت نے استفہامیہ نگاہوں سے سیکریٹری کی جانب دیکھا تھا۔

"میم ۔۔ فاریہ مرزا آئی ہیں سر کا پوچھ رہی ہیں وہ  ابھی تک آئے نہیں ہیں شاید کوئی ضروری کام ہے کیا آپکے پاس بھیج دوں،، اگر سر ہوتے تو وہ پرسنلی اٹینڈ کرتے اس لئے میں نے واپس نہیں بھیجا انکو"

 سیرت نے سیکریٹری  کی جانب متذبذب نگاہوں سے دیکھا فاریہ مرزا نام کی کوئی بھی لڑکی  اسکے دوست احباب کی فہرست میں نہیں تھی ناں ہی وہ ایسے کسی نام سے واقف تھی بہرحال سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ مسکرا کر زاویان کی جانب متوجہ ہوئی۔

"بھیا کل  یہاں تمام بزنس آرگنائزیشنز  کیلیے ایک تقریب منعقد ہورہی ہے ،، اور کل میرا برٹھ ڈے بھی ہے اور مجھے آپکو کسی سے ملوانا ہے۔۔۔ آپ آرہے ہیں ناں پھر کل"

فائل ایک جانب رکھ کر وہ گہرا مسکرایا کیسے وہ بغیر کہے اسکے دل کا حال جان لیا کرتی تھی،، کل ہی تو وہ بیلفاسٹ آکر اسے جنم دن پر سرپرائز دینا چاہتا تھا۔

"اہممم آرہا ہوں میں پرنسس اور کس سے ملوانا ہے آپ نے ہممم۔۔۔"

وہ دلچسپی سے گویا ہوا سیرت نے گہرا سانس لیکر آج اسے سب بتانے کا فیصلہ کیا تھا مگر آفس کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوتی لڑکی ںے اسکے لبوں سے الفاظ چھینے تھے سیاہ آنکھوں میں تشویش کے سائے لہرا گئے البتہ آنے والی کے گداز لبوں پر سیرت کو دیکھ کر ایک  فتح مندانہ مسکراہٹ پھیلی۔

"بھیا۔۔۔ میں  تھوڑی دیر میں رابطہ کرتی ہوں"

بغیر جواب سنے سیرت کال منقطع کرتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھی سیاہ آنکھیں نمی سے چمک پڑی تیزی سے چلتی ہوئی وہ اسے سینے سے لگاگئی مقابل نے گہرا سانس لیکر اسکی پشت پر بازوں پھیلائے۔

"علیشہ۔۔۔ ڈیم اٹ کہاں چلی گئی تھی تم۔۔۔ میر۔۔۔ میرال نے کہا تم مسنگ ہو یاخدا۔۔۔ کتنی پریشان تھی میں تمہارے لئے میرا بچہ۔۔۔ تم یہاں کیسے۔۔ اور کہاں تھی تم"

سیرت نے تشویش سے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھام کر سوالات کا انبار لگا دیا وہ اسکے دونوں ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکال کر محض مسکرا گئی تھی سیرت کے دل کو بےچینی لاحق ہونے لگ ذہن ہزارویں حصے کی  رفتار پر دوڑنے لگا دماغ نے کچھ دیر قبل سیکریٹری کے الفاظ دوبارہ دہرائے تو سیرت کے سر میں درد کی ایک ٹھیس اٹھی۔

"میم ۔ فاریہ مرزا آئی ہیں۔۔ سر کے متعلق پوچھ رہی ہیں وہ ابھی تک نہیں آئے شاید کوئی ضروری کام ہے کیا آپکے پاس بھیج دوں۔ اگر سر ہوتے تو وہ پرسنلی اٹینڈ کرتے اس لئے میں نے واپس نہیں بھیجا انکو۔۔"

سیرت نے بےیقینی سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا نگاہوں نے فہم و فراست سے اسکے انتخاب کردہ قیمتی لباس کا جائزہ لیا وہ خاموش تماشائی بنی سیرت کے چہرے کر بدلتے تاثرات ملاحظہ کررہی تھی۔

سی فام رنگ کے گھٹنوں تک آتے ڈریس اور ہم رنگ پینسل ہیل میں اسے چونکا گئی جن تصاویر کے ویب سائٹ پر وائرل ہونے پر اسنے اس دن  غضب برپا کیا تھا آج وہ لباس ان تصاویر سے بھی غیر معیاری تھا

سیرت کے ہاتھ پیر پھول کر برف کی مانند ٹھنڈے پڑچکے تھے غم و غصے  کی شدت سے چہرا سرخی مائل تھا۔

"میم۔۔۔ سر آگئے ہیں۔۔ آپ ان سے مل سکتی ہیں"

سیرت سیکریٹری کے دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہونے پر سوچوں کے بھنور سے نکلی سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ مسکرا کر سیرت کو اسکے دفتر میں تنہا چھوڑ گئی تھی سیرت گہرا سانس لیکر پرس کو ٹٹولتے ہوئے اپنا انہیلر تلاش کرنے لگی جوآج وہ عجلت  میں  رکھنا بھول چکی تھی۔

ہاتھ کی پشت سے پیشانی پر  ابھرتے ٹھنڈے پسینے کو صاف کرنے کے بعد وہ تیزی سے اسکے دفتر کی جانب پیش رفت کرگئی ذہن ماضی کو دھیرے دھیرے ریل کی مانند دہرانے لگا تکلیف رسیدہ سیاہ   آنکھوں کے سامنے  اشتعال اور  ایذا  کے سبب سامنے سرخ کوندے لپکنے لگے۔

"سیرت اپنا لیپٹاپ لیکر آؤ"

"میں ڈیپ ویب پر جارہی ہوں، میں نے پڑھا تھا ڈیپ ویب پر ایسے ہیکرز موجود ہیں جو چند پیسوں کے عوض  کسی بھی ویب سائٹ کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں"

"کوشش کرنے میں کوئی برائی نہیں سیرت،، میرال سے کچھ نہیں ہوگا"

"تھینک ہو سیرت۔۔ تھینک یو سو مچ"

جب اسنے ہاتھ بڑھاکر دفتر کا دروازہ کھولنا چاہا تو اشتعال سیاہ آنکھوں میں پوری شدت سے سمٹ چکا تھا۔

"میم آپ اندر نہیں جاسکتی۔۔ فاریہ میم نے ڈسٹرب کرنے سے منع کیا ہے"

 سیکریٹری ملتجیانہ لہجے میں کہہ کر اسکی اور دروازے کی راہ میں حائل ہوئی سیرت نے گہرا سانس لیکر اسے راستے سے ہٹانا چاہا مگر وہ سر نفی میں ہلاکر دروازے کے سامنے آکر ٹھہر چکی تھی سیرت نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر  اشتعال سے تھرتھراتے ہاتھ کیساتھ ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا۔

سیکریٹری حراساں نگاہوں سے اسے دیکھ کر دروازے سے دور کھسک گئی تھی۔

تیزی سے دروازہ کھول کر وہ اندر پیش رفت کرگئی ٹیبل پر دونوں ہتھیلیاں ٹکائے کھڑی فاریہ مرزا اسکے اچانک اندر آنے پر چونک پڑی  ٹیبل کی دوسری جانب کھڑے شخص نے سنجیدگی سے سرخی مائل رنگت چہرے کا جائزہ لیا پورے بدن کا لہو جیسے آج اسکے چہرے پر سمٹ آیا تھا۔

"باہر نکلو۔۔۔"

سیرت نے براہ راست نگاہوں کے تصادم کے بعد متحمل لہجے میں کہا فاریہ کی آنکھوں میں سیرت کے الفاظ سن کر کشیدگی عود آئی متوازن چال چلتے ہوئے وہ  اسکے روبرو آکر ٹھہری۔

"باہر انتظار کرو۔۔۔"

اسکا بھاری تحکمانہ لہجے فاریہ کیلیے قابلِ  باز پرس تھا مگر وہ اسکے سامنے بولنے کی صلاحیت سے محروم تھی آنکھوں میں ڈھیروں کشیدگی لئے وہ دونوں مٹھیوں کو بےحد سختی سے بھینچے آفس سے واک آؤٹ کرگئی۔

سیرت نے  مزاحمتی نگاہوں سے اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا۔

سیاہ ڈریس شرٹ پر سیاہ بزنس سوٹ اور ہم رنگ لیتھر شوز میں وہ وجاہت کا دیوتا اس سے کچھ قدموں کے فاصلے پر متانت سے اسے نگاہوں کے حصار میں لئے ٹھہرچکا تھا سیاہ آنکھیں لاکھ جتن کے بعد بھی نمی چھپانے میں ناکام ہوگئی آگے بڑھ کر وہ اسکے کوٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ گئی سیاہ آنکھوں سے بھوری تبحر آنکھوں کا شدید تصادم ہوا۔

"کیا اور کوئی جھوٹ باقی ہے عسکری ۔۔۔"

اسکے سینے پر مٹھی بھینچ کر رسید کرتے ہوئے سیرت خشم آلود لہجے میں بولی  اسنے ہاتھ بڑھاکر اسکے سپید مومی ہاتھوں پر رکھا تو بھوری آنکھیں محو حیرت ہوئی برف کی مانند ٹھنڈے ہاتھوں کو سیرت نے سختی سے جھٹکا

"علیشہ۔۔ اوہ نہیں۔۔۔فاریہ مرزا تمہارا ایک اور مُہرہ تھی۔۔۔جسے میں نے بہن سے بڑھ کر محبت کی ،، تمہارے جیسے۔۔۔ بےلگام جانور کیلیے رشتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے رائٹ ؟!!"

سیرت نے اذیت سے اسکے کوٹ کو مٹھی میں بھینچ کر نفرت سے چھوڑا گھنی پلکوں کی چھاؤں میں ایک آنسوں بےلگام ہوکر سرخی مائل رخسار پر عاظمِ سفر ہوا تھا۔

"کتںے جھوٹ بولے ہیں تم نے مجھ سے،،،، آخر کب تک تم  میرے جزباتوں کیساتھ،،،میرے قریبی رشتوں کیساتھ کھیلتے رہو گے بولو کیا چاہتے ہو مجھ سے کھل کر بتاؤ آج"

بھوری تشویشناک نگاہوں سے نگاہیں ملائے وہ چٹان جیسے پختہ لہجے میں بولی۔

"جس لڑکی کو میں نے اپنے بھائی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی،، اسنے تمہاری خوشنودی کیلئے میری دوستی کا بھرم توڑ دیا عسکری،،، آج تم مجھے جواب دہ ہو۔۔۔  بولو"

سیرت نے سختی سے اسکے کوٹ کو پکڑا سیرت کی کہنی کو اسنے سختی سے پکڑ کر قریب کھینچا۔

" اپنی  بچپن کی دوست واپس چاہتا ہوں سیرت،،۔۔"

 وہ جبڑے بھینچے درشت  لہجے میں گویا ہوا سیاہ متورم آنکھیں اسکے وجیہ چہرے پر ساکت ہوگئی۔

"تم۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا مطلب ہے تمہارا.."

اکھڑتی سانسوں کے بیچ  وہ غیر متحمل سی ہوئی شاہنواز خان کے الفاظ اسکے کانوں میں زہر کی مانند گھل گئے

سر درد کی شدت سے پھٹنے لگا، وجود پر ہلکی کپکپی طاری ہوگئی تھرتھراتے ہاتھوں نے اسکے کوٹ کو چھوڑدیا۔

"تم۔۔۔ دعان ہو۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے"

سیرت صدمے سے نڈھال ہوکر قریبی ٹیبل کا کنارہ تھام کر ٹیبل سے پشت لگا گئی وہ متانت سے آگے بڑھ کر اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھاگیا سیرت نے نفرت سے اسکے ہاتھوں کو دور  جھٹکا۔

"تم نے۔۔۔۔بابا پر حملہ کروایا تھا۔۔۔۔"

وہ سراسیمگی کی کیفیت میں  اسکے ہاتھ میں نوکیلے ناخن پیوست کرتے ہوئے  زہریلے لہجے میں بولی  سپید ہاتھ کی پشت پر ابھری نیلی نسوں کے بیچ  سرخ خراشیں ابھری تھی سیرت کے انکشاف پر وہ حیران رہ گیا۔

"نہیں مارا میں نے انکو۔۔۔"

اسنے سنجیدگی سے آگے بڑھ کر سیرت کے شانوں کو نرمی سے تھاما دیوانگی کے عالم میں  سیرت نے جو اسکی جان لینے کے در پر تھی اسکے چھونے پر کرںٹ کھاکر اسکے دونوں ہاتھوں میں ناخن پیوست کئے۔ البتہ مقابل کی گرفت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا  سرخ خراشوں پر مزید سرخی کھنڈ گئی۔

"میں نے نہیں مارا انکو لٹل گرل۔۔۔ آئی سوئیر میں نے نہیں مارا انکو۔۔۔"

آنسوں سے تر سرخی مائل چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھرکر وہ   نرم سرگوشیانہ  لہجے میں  بولا سیاہ آنکھوں نے بےیقینی سے اسکے بےحد قریب چہرے کا جائزہ لیا۔

"جھوٹ۔۔ بول رہے ہو تم..... ہمارے درمیان کچھ بھی سچائی پر مبنی نہیں۔۔۔"

دل اسکے الفاظ پر یقین کرلینے کیلیے بےچین ہوا مگر ذہن نے سوچنے کی سکت پر غلبہ حاصل کرلیا اسنے متانت سے گہری آہ بھری  پرتپش  نکہت بیر  سانسوں سے سیرت کا سرخی مائل چہرا دہک گیا۔

"میں اپنی ماں کی قسم کھاکر کہتا ہوں سیرت۔۔۔ میں نے نہیں مارا انکو "

اسکا لہجہ دھیرے دھیرے نرم پڑتا جارہا تھا سیرت نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔

"انہیلر کہاں ہے تمہارا۔۔۔"

اسے گہرے  غیر متحمل سانس بھرتے دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے استفسار کیا سیرت نے سر جھکا کر  براہ راست نگاہوں کا تعلق منقطع کیا سرد آہ ہوا کے سپرد کرکے وہ ٹیبل کی دوسری جانب پیش قدمی کرگیا سیرت نے درزدیدہ نگاہوں نے اسے دراز کھول کر انہیلر اٹھا کر اپنی سمت پیش قدمی کرتے دیکھا،، اتنا خیال تو زاویان رکھتا تھا اسکا،، یہاں تک کہ ہمیشہ وہ اپنے ساتھ ایک اسپیئر انہیلر رکھنے کا پابند تھا سیرت اپنی جگہ ساکت کھڑی منجمد نگاہوں سے اسے دیکھتی رہ گئی تھی رعشہ زدہ ہاتھوں کیساتھ سیرت نے اسکے ہاتھ سے انہیلر لیکر گہرے سانس لئے وہ  تشویشناک نگاہوں سے اسے دیکھتا رہا  دھڑکنیں اور سانسیں دھیرے دھیرے  معتدل ہونے لگی۔ ٹیبل پر پڑے اسمارٹ فون کی رنگ ٹون نے دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی تو اسنے بغیر دیکھنے کی زحمت اٹھائے فون سوئچ آف کرکے ٹیبل پر اچھال دیا سیرت نے اسکی استفہامیہ بھوری آنکھوں سے تشویش سے نظریں ملائی۔

"ٹھیک ہوں میں۔۔۔"

اسکی  لو دیتی نگاہوں کے حصار میں وہ تمتماتے سرخی مائل چہرے کیساتھ الجھ کر بولی سر دھیرے سے ہلاکر اسنے ونڈو کی جانب پیش قدمی کی سیرت نے ٹیبل سے اتر کر بےتاثر نگاہوں سے اسے سگار سلگاتے دیکھا۔

" کیا کوئی سوال تمہیں پریشان کررہا ہے.....؟''

گاڑھے دھویں کا ایک مرغولہ اسکے لبوں سے ہوا میں تحلیل ہوا  جونہی اسنے گمبھیر لہجے میں  سیرت کو مخاطب کیا، سیرت نے چند ساعت اسے بے اعتنائی برتتے دیکھا مگر اسکی تابناک نگاہوں کا مرکز بڑی شاہراہ پر تیزی سے آمد و رفت کرتی گاڑیاں تھی۔

"کیا وہ لڑکی صرف مجھ پر نظر رکھنے کیلیے لائے تھے تم؟!!"

سیرت کے سوال پر  وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا  ۔

"اسکا مطلب تمہیں لیکر میرے خدشات غلط نہیں تھے ..... مقصد تھا تمہارا"

وہ چند ثانیے تک اسے زیرک نگاہوں سے دیکھتا رہا سیرت نے  مختصر تشویش بھری نگاہ اسکے ہاتھ میں سلگتی سگار کو دیکھا سنجیدگی سے ایک دوسرے میں پیوست لب سیرت کی پیشانی پر پڑتی لکیروں کو دیکھ کر ستائشی انداز میں پھیلے نظریں پھیر کر وہ بمشکل سگار سے  ناپسندیدگی کا اظہار کرنے سے باز رہ پائی۔

ٹیبل کی جانب بڑھ کر اسنے ایش ٹرے میں سگار کو مسل دیا۔

"بلاشبہ میرا مقصد تھا۔۔۔ جس سے میں تمہیں بہت پہلے آگاہ کرچکا ہوں،، اور اگر چاہو تو میں اسے دوبارہ دہراسکتا ہوں،،میں تمہیں حاصل کرنے کیلیے ہر حد تک جاسکتا ہوں "

سیرت نے اسکے معنی خیز لہجے پر  نگاہیں اٹھائی  وہ استحقاق لٹاتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی جانب پیش قدمی کررہا تھا سیرت نے خشک لبوں کو سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کیا اور ایک قدم پیچھے لیا

ٹیبل سے پشت ٹکائے  ساکت ہوگئی ٹیبل کی دونوں اطراف  ہتھیلیاں ٹکائے وہ  دل آویز نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے ایک انچ کے فاصلے پر ٹھہر گیا۔

"اور ثبوت کے طور پر میں ابھی اسی وقت تمہارا ہوسکتا لیکن سوال یہ ہے کیا تم تیار ہو۔۔۔"

بھاری معنی خیز سرگوشی کیساتھ سگار کا تیکھا جوز دار ذائقہ  سیرت کی سانسوں کو الجھا گیا، گہرا سانس خارج کرکے وہ لب وا کیے سرخی مائل چہرے کیساتھ اسے گھور کر رہ گئی۔

"اگر تمہیں استھما نہیں ہوتا تو یقیناً میں تمہیں بھی یہ بری۔۔۔ عادت ڈال دیتا"

انگشت شہادت سے اسنے سیرت کے سرخی مائل رخسار پر ریشمی بالوں کی لِٹ ہٹاکر بھاری سرگوشی کی۔

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔"

 سیرت نے کشیدگی سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر پیشانی پر شکنوں کا جال بچھایا۔

"کیا سوچا پھر تم نے۔۔۔ محبت کرو گی مجھ سے؟!!"

سیرت  کا حلق اسکے الفاظ سن کر یکلخت خشک ہوا  بھوری درخشاں آنکھیں بڑے اشتیاق سے اس  تیکھے نقوش چہرے کو حفظ کررہی تھی سیرت نے دونوں ہاتھوں سے اسکے سینے پر دباؤ ڈال کر اسے دور ہٹایا۔

"میں انتظار کروں گا ۔۔۔ تمہارا۔۔۔"

دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتی سیرت اسکی متبسم آواز سن کر اندر تک سلگ گئی۔

"میں نے ابھی تک معاف نہیں کیا تمہیں۔۔ گھٹیا پن کی بھی حد ہوتی ہے"

آخری سطر کو اسنے دھیمے لہجے میں بڑبڑا کر ادا کیا تھا مگر اسکی سماعت تک ضرور پہنچی تھی، ٹیبل سے پشت لگاکر وہ ٹانگوں کا کراس بناکر سیرت کے پلٹ کر دیکھنے پر بڑی دلکشی سے مسکرایا، دروازہ دھاڑ سے بند کرکے وہ باہر انتظار کرتی فاریہ مرزا کے سامنے سے بڑے طمطراق کیساتھ گزری تھی،، جھوٹ سے وہ سخت نفرت رکھتی تھی،، اور جب جھوٹ اپنوں کی جانب سے بولا جاتا تو وہ تعلق منقطع کرنے سے بھی کتراتی نہیں تھی،، وہ جسکے ساتھ بھی مخلص تھی،،وہ اسے ہرصورت مخلص چاہیے تھا۔۔۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"اففف یہ ڈیڈ میرا فون کیوں نہیں اٹھارہے حد کردی ہے آج"

چاہت سیڑھیوں کی ریکنگ تھامے شعلہ فشاں لہجے میں بڑبڑاتی مہر النساء بیگم کو لاؤنج میں دیکھ کر ٹھہری چادر درست کرتے ہوئے وہ انس کو پکار رہی تھی۔

"مماں آپ کہاں جارہی ہیں...؟!"

مہر النساء بیگم نے سپاٹ نگاہوں سے چاہت کو لمحہ بھر دیکھا۔

"میں آئیذل کو واپس لینے جارہی ہوں۔۔۔"

چاہت کا ماتھا آئیذل کے نام پر ہی ٹھنکا تھا۔

"لیکن کیوں۔۔۔ اسکی یہاں کوئی ضرورت نہیں"

اپنے کمرے سے باہر نکلتے انس نے سرد آہ بھرکر چاہت کی جانب دیکھا مگر مہر النساء بیگم کے بولنے پر وہ خاموشی اختیار کرگیا تھا ورنہ آج وہ اسے کھری کھری سنانے کے حق میں تھا۔

"زاویان ،، آئیذل کو نہیں چھوڑ سکتا چاہت،، اور اگر آئیذل یہاں نہیں رہے گی تو وہ بھی یہاں نہیں آئے گا،، کل سے وہ گھر نہیں آیا۔۔۔ آج صبح کی فلائٹ سے وہ بیلفاسٹ چلا گیا ہے،، مجھے بغیر بتائے جبکہ وہ ہر چھوٹے سے چھوٹا کام مجھے بتاکر کرتا تھا۔۔ میں اسے خود سے دور نہیں کرسکتی"

چاہت کی گرفت فون پر سخت پڑگئی انس نے سینے پر بازؤں لپیٹ کر چاہت کے تاثرات دیکھے۔

"آئیذل کہاں ہے اسوقت۔۔۔"

چاہت نے تشویش سے پوچھا۔

"بھابھی اپنے گھر میں ہیں،، انکے کزن کی شادی شروع ہورہی ہے آج مہندی ہے..."

انس نے سنجیدگی سے آگاہ کیا مہر النساء بیگم نے سرد آہ بھرکر اسے دیکھا یعنی اب انکی آئیزل کیساتھ تنہائی میں گفتگو کی امیدیں کم پڑچکی تھی  بہرحال وہ ہر صورت اپنے بیٹے کیساتھ اپنے تعلقات درست کرلینے کی  کوششوں میں پیش پیش رہنا چاہتی تھی جب سے انہوں نے زاویان کے بیلفاسٹ جانے کی خبر سنی تھی وہ بےچین سی ہوچکی تھی اور زوہیب صاحب نے انکے ساتھ بات چیت ختم کردی تھی۔

"چلو بیٹا ۔۔۔ کوشش کرنے میں کوئی برائی نہیں،، میں معافی مانگنا چاہتی ہوں آئیذل سے"

انس نے سنجیدگی سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا اور پورچ کی جانب پیش رفت کی چاہت آتش فشاں بنی مہر النساء بیگم کو گاڑی میں بیٹھ کر دیکھتی پھنکار کر رہ گئی۔

"بےوقوف بڑھیا،، مجھے اس گھر سے نکال کر ہی دم لے گی،، اگر لمظ نے زاویان کو بتا دیاکہ آئیزل کو اس بڑھیا نے نہیں میں نے گھر سے نکالا تھا تو۔۔۔شاذیہ کہاں مر گئی ہوں یہاں آؤ...."

حلق کے بل چیختی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب پیش رفت کرگئی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

بیلفاسٹ :

کلوڈن اسٹیٹ ہوٹل میں رات کے پہلے پہر سے ہی خلافِ معمول گہما گہمی محسوس کی جاسکتی تھی مگر رات کا دوسرا پہر شروع ہوتے ہی  ہوٹل کی فلک بوس عمارت  روشنیوں میں ڈوب چکی تھی ہوٹل کے سامنے وسیع  رقبے پر پھیلے نیلے شفاف پانی کے سوئمنگ پول میں  قوس قزح کے رنگوں میں ڈوبی عمارت کا عکس  قابلِ دید تھا ریڈ کارپٹ پر  نام ور،  شہرت یافتہ شخصیات کے آنے کا سلسلہ جاری تھا تیز روشنیوں میں نہایت نفیس اور عمدہ لباس زیب تن کیے حسینائیں دیکھنے والوں کو اپنا گرویدہ کر دینے کی حد تک حسیں لگ رہی تھی۔

مگر اسوقت سیکنڑوں ستائشی نگاہوں کا واحد مرکز  درمیانی گوشۂ میں کھڑا وہ   وہ ذی رعب سحر انگیز  کردار تھا چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی،، بھوری درخشاں آنکھوں میں ٹھہراؤ اور سردمہری سمیٹے سپید کلائی پر بندھی نفیس سیاہ بریگیٹ گھڑی پر وقت کا تعین کرتے ہوئے مخاطب کرنے والے برٹش شخص کی جانب متوجہ ہوا  سفید بےشکن شرٹ پر سیاہ ٹکسیڈو جیکٹ اور ہم رنگ پینٹس، بلیک بوٹائی ،اور سیاہ لیتھر  آکسفورڈ میں،  وہ فسوں ساز  ناجانے کتنی حسیناؤں کی واحد  آرزو رہ چکا تھا بھوری آنکھوں کی سنجیدگی میں مرکزی دروازے پر میڈیا کے ہجوم کے امنڈ آتے ہی  اضافہ ہوا سیکیورٹی اہلکار نے آگے بڑھ کر سیاہ لیمو کا دروازہ کھولا۔

  کیمروں کی چکا چوند فلیش لائٹس کی روشنی میں  لیمو سے سیاہ شفاف  پلیٹ فارم  شوز باہر آئے تھے پینٹ کی پاکٹ میں داہنے ہاتھ کو اڑسائے وہ اسکے سیاہ رنگ کے انتخاب پر مبہم سا مسکرایا سیاہ ریشمی ساڑھی میں وہ ہوش ربا حسن کی دیوی پہلی جھلک کیساتھ ہی اسکے حواس پر طاری ہوئی ساڑھی کا پلو درست کرکے وہ ریڈ کارپٹ پر خاص تمکنت و طمطراق کیساتھ چل رہی تھی راستے میں ملنے والی خاص شخصیات سے ملاقات کے بعد وہ اسکے سامنے آکر رکی تھی  بھوری درخشاں آنکھوں نے اشتیاق سے اسکا خیرمقدم کیا میڈیا اور کئی افراد کی نگاہیں خود پر مرکوز محسوس کرکے سیرت نے استہزائیہ نگاہوں سے اسے دیکھ کر پروفیشنل انداز میں اسکا ہاتھ ہلایا اور جنبشِ نگاہ سے اکساکر آگے بڑھ گئی۔

"ایکس کیوزمی۔۔۔"

سیرت سےگفتگو کرتی برطانوی خاتون عقب میں متبسم نگاہوں سے دیکھ کر ایک جانب پیش قدمی کرگئی جانی پہچانی مخصوص وڈی نوٹس کی نکہت سیرت کی دھڑکنیں تیز کرگئی  کچھ ہی لمحات کے گزرنے کے بعد اسکے خدشات حقیقت کا روپ دھار گئے  کلائی پر سرد انگلیوں کے نرم و ملائم احساس کوپاکر سیرت ساکت  ہوئی۔

"غزل نہیں ،، کسی شاعر کا پورا دیوان ہو تم،، اور دیوان بھی وہ جسے لکھنے کے بعد قلم تباہ کردیا جائے"

سیرت کے کان پر جھکتا وہ خمار زدہ لہجے میں بولا سیرت کے گداز لبوں پر گہری مسکراہٹ پھیلی۔

"لمٹس۔۔۔۔عسکری،، لوگ ہیں یہاں ۔۔۔۔"

متبسم نگاہوں سے آس پاس دیکھ کرسیرت نے اسکی تمازت زدہ سانسوں کو کان کے قریب محسوس کرکے تنبیہی انداز میں اسے باور کروایا مگر مقابل تو اسکے سحر میں پوری طرح مبتلا ہوچکا تھا۔

"چلو ان لوگوں سے دور ۔۔۔ تاکہ میں فرصت سے تمہیں سراہوں۔۔۔"

جذبات سے لبریز بھاری سرگوشی اسکے ٹوٹتے ضبط کی مظہر تھی۔

"شرم کرو۔۔۔،، بھائی آنے والے ہیں،،"

سیرت نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا بھوری خمار بارہ آنکھیں آرزو سے لبریز تھی۔

"تمہارے بھائی کے آنے سے پہلے میں مینیج کرنے کی کوشش کروں گا چلووو"

سیرت کی آنکھیں حیرت سے پھیلی اسے کہنی سے تھام کر وہ ایک جانب پیش قدمی کرگیا۔

"عسکری لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔ "

سیرت نے لوگوں کی نگاہوں کے تنگ ہوتے حصار میں کشیدگی سے کہا مگر مقابل پر زرا برابر اثر نہیں پڑا تھا ہال-وے میں پہنچ کر وہ سیرت کو دیوار سے لگائے سیرت کے چہرے پر جھکا  بےہنگم دھڑکنوں کو لگام ڈالنے کی کوشش کرتی سیرت اسکے بےحد قریب وجیہ چہرے کو دیکھ کر تھم گئی ہال وے میں قدموں کی آہٹ سیرت کیلیے حوصلہ شکن تھی اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہ اسے ضبط کھونے سے قبل روک گئی 

بھوری آنکھوں میں گہری تشویش ابھری دیوار سے ہتھیلی ہٹاکر وہ متانت سے پیچھے ہٹتا چلا گیا البتہ قدموں کی آہٹ دھیمی پڑچکی تھی  وہ سنجیدگی سے ہال وے سے واک آؤٹ کرگیا تھا،،سیرت نے سرد آہ بھری۔

چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی کے تاثرات ثبت کیے وہ ہال وے سے باہر آئی مگر کچھ قدموں کے فاصلے پر اہم شخصیات سے مختصر گفتگو کرتے زاویان کو دیکھ کر اسکا چہرا فرط مسرت سے چمک پڑا۔

فارمل بلو تھری پیس سوٹ میں ملبوس زاویان مہمانوں سے ایکسکیوز کرکے مسکراتے ہوئے گرم جوشی سے سیرت کو خود سے لگاگیا۔

"آئی مس یوو پرنسس ۔۔۔۔"

سیرت کی پیشانی کو جھک کر چوم کر وہ محبت سے بولا سیرت نے الفت سے اسکے ہاتھ کی پشت کو چوم کر اسکے کندھے سے سر ٹکایا تھا کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑے شخص نے خفگی سے تمام منظر ملاحظہ کیا۔

یعنی وہ اب وہ اپنے بھائی کیساتھ بھی محبت نہیں کرسکتی تھی۔

"اینڈ ہیپی برتھڈے ۔۔۔ مائی گرل،، کیا گفٹ چاہیے آپکو ہممم"

سیرت نے متبسم نگاہوں سے زاویان کو دیکھا۔

"ہممم میں آپکو کسی سے ملوانا چاہتی  ہوں۔۔۔ لیکن اس سے پہلے آپ میری بات سنیے آئیے"

سیرت نے بھونیں اٹھاکر دلچسپی سے پوچھا زاویان نے مسکرا کر سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا اور اسکے ہمقدم ہوا وہ سیرت کے چہرے پر آج ایک انوکھی چمک دیکھ رہا تھا جو اسے قلبی سکون فراہم کررہی تھی۔

"اچھا تو کس سے ملوانا چاہتی ہیں آپ مجھے پرنسس..."

زاویان نے کرسی کھینچ کر ٹیبل پر اسمارٹ فون رکھتے ہوئے الفت سے پوچھا۔

"بھائی۔۔۔  دراصل،،۔۔۔"

سیرت نے شرمندگی اور تاسف سے زاویان کی جانب دیکھا مگر آج وہ ہر صورت اسے بتا دیںا چاہتی تھی،، دل میں رکھتے رکھتے وہ خود کو کاٹ رہی تھی جو زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوسکتا تھا۔

"میں نے کسی کا انتخاب کیا ہے  بھیا۔۔۔"

سیرت کے انکشاف پر زاویان مسکرا گیا وہ اسے دنیا کی ہر خوشی دینے کے حق میں تھا،، مگر سیرت کا رجحان کبھی بھی شادی کی طرف نہیں تھا جسکے باعث وہ اکثر پریشان رہتا تھا۔

"دیٹس گڈ پرنسس۔۔۔ لیکن کون ہے وہ جسے میری پرنسس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے۔۔۔"

وہ حیرانی کیساتھ پریشانی میں بھی مبتلا تھا زاویان کے نرم لہجے پر سیرت نے نگاہیں اٹھائی وہ محبت سے اسے دیکھ رہا تھا سیرت کا دل ایک لمحے کو پسیج گیا کتنا کچھ وہ اس سے پوشیدہ رکھ رہی تھی مگر ماضی کی اصلیت اسکے سامنے رکھ کر وہ اسکی نگاہوں میں نہیں گرسکتی تھی اس لئے اسکے نظریے میں زاویان کی تھوڑی ناراضگی اور ذلت اٹھانے کا فیصلہ درست تھا۔

"میں لے آؤں اسے؟!!...."

سیرت نے ہچکچاکر زاویان کی جانب دیکھا مبہم سا مسکراکر وہ سر اثبات میں ہلاگیا تھا۔

 سیرت گہرا سانس لیکر کرسی سے اٹھی ناجانے آج کیا ہونے والا تھا۔

وہ کسی روسی موکل  سے سنجیدگی سے گفتگو کررہا تھا جب سیرت اسکے قریب آکر ٹھہری وہ کچھ دیر پہلے کا واقعہ  یاد کرکے سیرت کی موجودگی محسوس کرکے بھی  نظر انداز کرگیا سیرت نے ناگواری سے لب سکیڑے البتہ مقابل نے وہ بھی سرے سے نظر انداز کردیا آگے پیش قدمی کرکے سیرت نے اسکے بازو کو تھاما   لبوں پر بکھرتے تبسم کو اسنے سنجیدگی سے مزید گہرا ہونے سے روکا۔

" ایکس کیوزمی۔۔۔"

سیرت نے ناپسندیدگی سے موکل کی جانب دیکھ کر کہا اور اسے ساتھ کھینچ لے گئی اپنے بازو پر اسکے مومی ہاتھ کو دیکھ کر خفیف سی مسکراہٹ نے لمحے کیلیے اسکے لبوں کو چھوا، جلد ہی وہ سنجیدہ گیا۔

"یہ کیا حرکت ہے سیرت۔۔۔"

"بھائی ملنا چاہتے ہیں تم سے ۔۔۔"

سیرت نے خون آشام نگاہوں سے اسے دیکھ کر دبے لہجے میں تنبیہہ کی زاویان کا نام سن کر وجیہ چہرے پر غیرمعمولی کشیدگی در آئی جو زاویان کی جانب پیش قدمی کرتی سیرت کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ گئی۔

"اہممم۔۔تم چاہتی ہو میں تمہارے بھائی کے سامنے صاف لفظوں میں اعتراف جرم کروں"

وہ سنجیدگی سے بولا البتہ بھوری آنکھوں میں شریر پن تھا۔

" اگر تم  ایسا نہیں کرسکتے تو رہنے دو..."

سیرت نے رک کر سپاٹ نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"مجھے کوئی  اعتراض نہیں مون-لائٹ لیکن"

وہ متانت سے مزید کہنے سے قبل رکا۔

"لیکن کیا۔۔۔"

سیرت کو تجسس ہوا۔

"اگر تمہارے بھائی نے انکار کردیا تو میں تمہیں ہزار نگاہوں کے سامنے سے اغوا کرکے لے جاؤں گا"

  اسکی آنکھوں میں تنبیہی انداز میں دیکھ کرسنجیدگی سے بولا سیرت نے آنکھیں سکیڑکر اسے دیکھا اسکے بازو کو سختی سے دبا کر وہ دانت پیس کر رہ گئی تھی،، زاویان نے سمارٹ فون پر آئیذل کے میسج پڑھتے ہوئے سیرت کے لوٹ آنے پر نظریں اٹھائی جو آنے والے شخص پر ساکت رہ گئی وجیہ نقوش چہرے نے مسکراہٹ ک کر سختی کا لبادہ اوڑھ لیا زاویان کرسی سے اٹھ چکا تھا۔

البتہ مقابل کے وجاہت سے بھرپور چہرے پر اطمینان اور سکون کے تاثرات ثبت تھے سیرت خاموش نگاہوں سے زاویان کے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی کہنے سے خود کو باز رکھ گئی زاویان کے دماغ نے حدید رضا  عسکری کے الفاظ دہرائے جو اسنے میٹنگ کے دوران بڑی بےباکی سے کہے تھے تو وہ اندر تک سلگ گیا مگر سیرت کی موجودگی کا خیال آتے ہی اسنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ کر اسکی جانب مصافحے کا ہاتھ بڑھایا جسے اسنے گرمجوشی سے لبوں پر سرگرم مسکراہٹ لاکر ہلایا دونوں کے بیچ خاموشی سیرت کیلیے کسی طوفون کا پیش خیمہ تھی،، دو نامور بزنس رائیولز ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے سیرت کا دل  زاویان کے چہرے کے آثار دیکھ کر  بےچین ہونے لگا زاویان نے ایک لفظ نہیں کہا تھا اور وہ  متکبر شخص پہل کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں تھا۔

"بچے کین یو ویٹ دیئر ۔۔۔۔"

سیرت نے تشویش سے زاویان کی جانب دیکھا جو اسے وہاں سے بھیجنے کا حکم صادر کرچکا تھا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ بےچین سی ہوکر حدید کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھ کر وہاں سے واک آؤٹ کرگئی۔

"کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔اب کونسی گھٹیا چال چل رہے ہو"

زاویان نے شعلہ فشاں نگاہوں سے اسے دیکھا پینٹ کی پاکٹ میں داہنے  ہاتھ کو اڑسا کر وہ مبہم سا مسکرایا اسکے تحمل کے مظاہرے پر زاویان کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھ گیا۔

" ہممم۔۔۔ میں دشمنی کو رشتے داری میں بدلنا چاہتا ہوں ،، کیا کوئی برائی ہے اس میں"

زاویان اسکے الفاظ کے چناؤ اور سازشی لہجے پر اندر تک سلگ گیا۔

" تمہارےے والد صاحب سے اس موضوع پر  میری بہت پہلے  طویل گفتگو ہوئی ہے  انکو  اس رشتے سےکوئی اعتراض نہیں ہے،،ایسا کرو۔۔۔۔ اپنی تسلی کیلیے خود پوچھ لو"

اسنے متانت سے زاویان کے عقب میں دیکھا اشفاق صاحب کو وہاں دیکھ کر زاویان کا خون کھول اٹھا اشفاق صاحب نے سرگرم مسکراہٹ کیساتھ اس سے مصافحہ کیا۔

ضبط سے زاویان کا چہرا سرخی مائل تھا البتہ جب سیرت کی نظریں اشفاق صاحب پر پڑی تو وہ سن ہوگئی۔

"  سیرت کی زندگی کے فیصلے لینے کا آپکو کوئی حق نہیں۔۔۔"

زاویان نے سنجیدگی سے اشفاق صاحب کی جانب دیکھا زیرک نگاہوں سے وہ اشفاق صاحب اور زاویان کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے محظوظ ہونے لگا، لہذا زاویان نے بھی تحمل کا مظاہرہ کرنے پر اکتفاء کیا۔

"میں باپ ہوں اسکا اور مجھے پورا حق ہے  زاویان... میں  زبان دے چکا ہوں"

اشفاق صاحب  نے گمبھیر نظروں سے زاویان کو دیکھا۔

"آپکی دی ہوئی زبان میری نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی"

زاویان نے ضبط سے مٹھی بھینچی زاویان سے نظریں ملاتے ہی وہ خفیف سا مسکرایا۔

"شادی کی تیاریاں شروع کریں عسکری صاحب یہ شادی ہر صورت ہوگی"

اشفاق صاحب نے سنجیدگی سے کہا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ زاویان کو استہزائیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا اشفاق صاحب زاویان پر آخری کرخت نگاہ ڈال کر وہاں سے واک آؤٹ کرگئے، زاویان کی گردن اور پیشانی کی نیلی نسیں اشتعال سے واضح ہوچکی تھی، اشفاق صاحب جیسے لالچی انسان سے اور کیا امید کی جاسکتی تھی، اور  زاویان کے نظریے  میں  حدید رضا عسکری کیلیے دنیا ایک بساط تھی اور جیتے جاگتے انسان مہرے،  بڑی زیرکی سے وہ  دونوں جانب سے مہروں کو آگے بڑھاکر مخالف پر تسلط قائم کرتا تھا۔

"ایسا کبھی ہونے نہیں دوں گا میں ۔۔۔ تمہاری خُو سے میں اچھی طرح واقف ہوں"

زاویان کے اشتعال کے سبب سرخی مائل چہرے کو دیکھ کر وہ مختصر مسکرایا۔

"لیکن یہ ہوچکا ہے اور تمہارے والد صاحب کی موجودگی میں ہوا ہے،، تمہاری بہن سے نکاح کرچکا ہوں میں،، جسکے چشم دید گواہ تمہارے منہ بولے والد صاحب خود ہیں،اگر تمہیں اب بھی یقین نہیں تو نکاح نامے کی تصویر دیکھ کر تصدیق کرسکتے ہو تم۔۔۔ دیکھاؤں۔۔؟!!"

اسکے الفاظ کسی آسمانی بجلی کی مانند زاویان  کے سر پر گرے تھے ، چہرا یکلخت سرخی مائل سے زردی مائل پڑگیا تسکین سے بھرپور  بھوری آنکھیں اسوقت چمک سے لبریز تھی۔

"یقین کرو۔۔ بہت خوش رکھوں گا میں تمہاری بہن کو۔۔۔"

زاویان کے قریب ٹھہرتا وہ بھاری لہجے میں بولا زاویان نے سنجیدگی سے  اسے دیکھا۔

"اتنا خوش کہ تمہارے پاس کبھی واپس نہیں آئے گی۔۔۔"

وہ متانت سے کہتا جلا دینے کے انداز میں مسکرایا زاویان کی پیشانی پر بل پڑے تھے مگر سیرت کو دیکھ کر اسکے اعصاب ڈھیلے پڑگئے وہ بےچین نگاہوں سے کبھی زاویان تو کبھی حدید کو دیکھتے ہوئے انکی جانب پیش قدمی کررہی تھی، زاویان کیلیے آج ضبط ہر صورت ناممکن ہورہا تھا۔

زاویان کا ہاتھ پکڑ کر سیرت نے محبت سے اسے مخاطب کیا زاویان نے پر اشتعال نگاہوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر سیرت کے کندھے کو نرمی سے تھاما وہ  زاویان کی تابناک نگاہیں خود پر محسوس کرکے وہاں سے واک آؤٹ کرنے کے دوران مبہم سا مسکرایا تھا۔

"بابا۔۔ کیوں آئے تھے یہاں۔۔؟!!"

سیرت نے تشویش سے پوچھا زاویان کی خاموشی سیرت کے دل کو کاٹنے لگی۔

"آپ نکاح کر چکی ہیں ۔۔۔؟!"

زاویان نے سیرت کے سوال کا جواب ایک اور سوال سے دیا سیرت نے چند ساعت رک کر زاویان کو دیکھا وہ سیرت کے دل کی بات جان لینے کیلیے بےچین تھا آخر کیا سوچ کر اسنے اس شخص کا انتخاب کیا تھا

سیرت نے مختصر نگاہ سے ماضی کے جھروکوں سے اسوقت کا تفصیلاً جائزہ لیا جو وقت ان دونوں نے ساتھ گزارا تھا،، ہرموڑ پر وہ اسکے ساتھ تھا ایک واحد شخص جو اسے اسکے ماضی سے نہیں پرکھتا تھا،،اسکی ہر ضرورت کا احساس رکھتا تھا وہ جتنا سوچتی گئی اتنی ہی گہری کشمکش میں مبتلا ہوتی گئی۔

" آپ اب چھوٹی بچی نہیں ہیں سیرت۔۔۔صحیح غلط کا بہتر اندازہ ہے آپکو  اور میری نقطہ چینی اب معنی نہیں رکھتی جب نکاح ہوچکا ہے کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔۔؟!""

زاویان نے  استفہامیہ نظروں  سے سیرت کی آنکھوں میں دیکھا وہ گھبرا کر نظریں پھیرگئی زاویان نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا اور سیرت کا چہرا دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر اٹھایا سیاہ آنکھوں میں جھلملاتے آنسوں تیز روشنی میں چمک رہے تھے۔

"ٹھیک ہے اگر آپکی خوشی اس انسان میں ہے تو میں کچھ نہیں کروں گا،، میرے خیال سے میں کچھ زیادہ ہی اوور پروٹیکٹیو تھا آپکے لئے ،، آپکو جو مناسب لگا آپ نے کیا،، اینڈ ہیپی برتھ ڈے۔۔۔"

زاویان نے محبت سے سیرت کی پیشانی پر لب رکھے  مگر اسکا غیر شناس لہجہ تو سیرت کا دل چھید گیا  وہ ایک چھوٹی سی مہرون ویلویٹ کی ڈبی سیرت کو تھما کر وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا جو شاید سیرت کے جنم دن کا تحفہ تھا سیاہ آنسوں سے لباب آنکھوں سے ایک آنسوں ٹوٹ کر رخسار پر بہہ نکلا تھا۔

 البتہ زاویان کا ذہن ایک نقطے پر منجمد تھا اور وہ نقطہ اشفاق صاحب تھے،، آخر کیوں کر انہوں نے اس رشتے  پر رضا مندی ظاہر کی  تھی وہ سوچوں کے گرداب میں دھنس کر رہ گیا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"ارے نکمے توصی جا دروازے پر دیکھ کون ہے،، ہر کام یاد دلانا پڑتا ہے ان کم عقلوں کو۔۔۔"

مہندی کے ریسیپشن کیلیے اسٹیج تیار کرتی آئیذل اور ریحم کچن میں عائزہ بیگم کے چٹخنے پر ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد بے اختیار مسکرا گئی البتہ توصیف کا کوئی اتا پتا نہیں تھا.

" تم رکو۔۔۔میں دیکھتی ہوں۔۔۔"

آئیذل نے سر ہلایا ریحم اسٹیج سے اتر کر دروازے کی جانب پیش رفت کرگئی دروازہ کھلنے پر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ریحم کا ماتھا بری طرح ٹھنکا مگر مہر النساء بیگم کو دیکھ کر وہ چونک کر انکے لئے راستہ چھوڑ کر پیچھے ہٹی آئیذل نے نظریں اٹھاکر اندر آتے انس کے ہمراہ مہر النساء بیگم کو دیکھا۔

"اسلام وعلیکم ۔۔۔ "

"وعلیکم السلام ۔۔۔ "

عروسہ بیگم جن سے آئیذل کچھ نہیں چھپاتی تھی مہر النساء بیگم کے سلام کا مختصر جواب دیکر خاموشی اختیار کرگئی البتہ عائزہ بیگم کچن سے باہر نکلی تو مہر النساء بیگم کو دیکھ کر انکا چہرا کھل اٹھا۔

"ارے آئیے بیٹھیے۔۔۔ کیسے آنا ہوا آپکا ۔۔۔ ریحم جا چائے بنا"

ریحم نے عائزہ بیگم کی جانب دیکھ کر سرد آہ بھری آئیذل نے سست روی سے انکی جانب پیش قدمی کی تھی عروسہ بیگم کے قریب ٹھہر کر اسنء بےتاثر نگاہوں سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا۔

"میں آئیذل کو لینے آئی تھی باجی۔۔۔"

مہر النساء بیگم نے خاموش کھڑی آئیذل کی جانب دیکھا جو ان سے نگاہوں کا تعلق منقطع کرکے انس کی جانب متبسم نگاہوں سے دیکھ کر سلام کے جواب میں سرہلاگئی۔

"لیکن آئیذل کو آپ شادی سے پہلے نہیں لے جاسکتی۔۔۔ ہمارا بھی تو کوئی حق ہے"

 آئیذل نے تشکر بھری نگاہوں سے عروسہ بیگم کی جانب دیکھا ورنہ وہ صاف انکار کرںے سے کترا رہی تھی ، زاویان کی غیر موجودگی میں وہ اس گھر میں دوبارہ نہیں جانا چاہتی تھی۔

مہر النساء بیگم نے سرسری نظروں سے عروسہ بیگم اور عائزہ بیگم کا جائزہ لیا یعنی آئیذل نے گھر میں یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے کس قدر تزلیل کے بعد گھر سے باہر نکالا گیا ہے، مگر عروسہ بیگم تو سب جاںتی تھی اگر وہ خاموش تھی تو صرف زاویان کیلیے جو اس سادہ سی لڑکی پر بھی اپنی جان چھڑکتا تھا۔

"قہر خدا کا اندھی ہوگئی ہے۔۔۔"

ریحم نے جان بوجھ کر انس کو چائے دینے کے دوران اسکے کف پر چائے کا کپ انڈیل دیا تھا عائزہ بیگم تو آگ بگولہ ہوکر اس پر شعلہ اگل گئی مگر مہر النساء بیگم نے "کوئی بات نہیں" کہہ کر انکو ریڈلائن تک محدود کردیا

انس نے کاٹدار نگاہوں سے اس بدتمیز لڑکی کو دیکھا جو نچلا ہونٹ دباکر مسکراہٹ کا گلہ گھونٹ گئی تھی۔

"جا لیکر جا۔۔۔ اور یہ صاف کروا کے آنا"

عائزہ بیگم کے حکم پر منہ کے زاویے خراب کرتی ریحم اسے لیکر واش روم کی جانب پیش رفت کرگئی

"معافی مانگو مجھ سے۔۔۔ جان بوجھ کرکیا تم نے یہ سب"

انس گھر والوں کی نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد  اس پر برس پڑا ریحم نے ناپسندیدگی سے آنکھیں گھمائی تھی سکن پر جھک کر کف واش کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے قریب لگے شاور کو دیکھا جسکے نیچے ریحم کھڑی تھی۔

"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔۔۔ ذلیل انسان کیا کررہے ہو"

ریحم اسکے اپنی جانب قدم اٹھانے پر بوکھلا کر پیچھے ہٹی دیوار پر ہاتھ رکھ کر وہ کاٹدار نگاہوں سے اسے دیکھںے لگا ریحم کا دھک دھک کرتا دل کسی بھی پل اچھل کر حلق سے باہر آنے کو تھا.

"اگر میں بدلہ لینے پر آؤں تو ابھی اسی وقت لے سکتا ہوں لیکن میری تربیت بہت اچھی کی گئی ہے"

ریحم نے پھاڑ کھاتی نگاہوں سے اسے دیکھا وہ پیشانی پر بل ڈالے واپس سکن کی جانب بڑھا ریحم تلملاتی پیر پٹختی باہر نکل گئی تھی انس اسکے سلگ اٹھنے پر  سر ہلاکر مسکرا گیا تھا۔

"آئیزل مجھے معاف کردو بیٹا۔۔۔ گھر چلو"

آئیذل نے تاسف سے لب کچلے مہر النساء بیگم اسے علیحدہ کمرے میں گفتگو کیلیے لائی تھی۔

"میں نہیں جاسکتی آپکے ساتھ امی۔۔۔ زاویان کی غیر موجودگی میں آپ نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اسکے بعد میں کس منہ سے آپکے ساتھ وہاں جاؤں ۔۔۔"

مہر النساء بیگم نے آئیذل کے الفاظ سن کر سرد آہ بھری۔

"میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں بیٹا۔۔۔ گھر چلو واپس"

مہر النساء بیگم نے آئیذل کے ہاتھ کو تھام کر نرمی سے کہا آئیذل چند ساعت خاموش نگاہوں سے ایک غیر مرئی نقطے کی نگرانی کرتی رہی،،اگر وہ وہاں جاتی تو  زاویان  کے واپس آنے تک اسے وہاں اکیلے رہنا تھا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔"

مہر النساء بیگم آئیذل کا جواب سن کر پرسکون سانس لے گئی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

تقریب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکی تھی زاویان کچھ ایمپلائز کے شدید اصرار پر انکے ہمراہ  جاچکا تھا سیرت کلائی پر بندھی نفیس گھڑی پر وقت کا تعین کرکے زاویان کو مسیج پر گھر جانے کی اطلاع دیکر گھر کیلیے روانہ ہوئی  زاویان سے گفتگو کے بعد اسکا اور رضا کا سامنا نہیں ہوا تھا اور آج کی تقریب میں وہ مہمان خصوصی کیساتھ سربراہ کی حیثیت سے شریک تھا میڈیا کے ہجوم میں اسے مختصر دیکھ کر سیرت نے بھاری دل کیساتھ پارکنگ لاٹ کی جانب پیش  قدمی کی۔

سمارٹ فون پر کیب بک کرتے ہوئے ٹھنڈے ہوا کے نکہت آلود جھونکے نے اسے کسی کی موجودگی کا احساس دلایا سیرت نے تجسس بھری نظروں سے آس پاس دیکھا۔

"چلو۔۔۔ گھر چھوڑ دیتا ہوں"

اسنے نرمی سے سیرت کی کہنی کو تھاما۔

"ضرورت نہیں۔۔۔ میں چلی جاؤں گی"

سیرت نے سہولت  کیساتھ انکار کیا اپنی  بلیک مرسیڈیز کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے رکا سیرت نے اسکے چہرے کے تںے ہوئے اعصاب دیکھ کر مزید کچھ کہنے سے قبل لبوں کو قفل لگایا

"اسوقت کسی نامعلوم کیساتھ نہیں بھیج سکتا تمہیں،، چلو۔۔۔۔"

اعتقاد کیساتھ اسنے سیرت کے شانے پر  بازو پھیلا کر اسے خود سے لگایا تھا اسکے مخصوص کلون کی مسحور کن مہک کے حصار میں وہ خاموشی سے پارکنگ لاٹ کی جانب بڑھ گئی۔

"کیا کہا تم نے بھائی سے۔۔۔۔"

اسکے بلیک مرسیڈیز کو ان لاک کرنے کے دوران سیرت نے اسے بازو سے پکڑ کر  بےحس لہجے میں پوچھا اسنے متانت سے اسکے ہاتھ کو اپنے بازو سے دور ہٹایا اور گاڑی کا فرںٹ سیٹ گیٹ کھولا۔

"کچھ پوچھ رہی ہوں میں تم سے کیا کہا تم نے ان سے۔۔۔"

وہ بپھر کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔

"وہی جو تم چاہتی تھی۔۔۔ "

رضا نے اسکی کہنی کو بےحد سختی سے دبوچ کر اپنی جانب کھینچا چند انچ کے فاصلے پر وہ ساکت نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے رک چکی تھی سیرت نے  سرسری نگاہوں سے اسکے سرد سپاٹ چہرے کو دیکھا۔

"چلے گئے وہ۔۔۔ لینے آئے تھے مجھے ،، لیکن  واپس چلے گئے وہ،، "

سیاہ آنکھوں سے آنسوں ٹوٹتے چلے گئے وہ ازحد تک حیران و پریشاں ہوا جب سیرت نے اسکے سینے پر سر ٹکائے دھیمے لہجے میں کہا سیرت کے الفاظ سے زیادہ  اسکے عمل نے اسے پشیماں کیا۔

"میں سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں لیکن بھیا کو نہیں چھوڑ سکتی "

اسکے کوٹ کو مٹھی میں بھینچ کر سیرت نے سر اٹھاکر درشت  نگاہوں سے اسے دیکھا گاڑی کے گیٹ سے  اسنے اغیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ اٹھایا اور سیرت کے چہرے کو اٹھاکر اپنے چہرے کی سید پر رکھا۔

 وہ بھینی بھینی  یاسمیں کی  مہک اسکے حواسوں پر طاری ہونے لگی۔

"گھر چل کر بات کرتے ہیں ۔۔۔ یہاں مناسب نہیں"

 وہ دھیمے نرم لہجے میں بولا سیرت نے لب بھینچ کر سرنفی میں ہلایا۔ 

  وہ بوجھل سانس ہوا کے سپرد کرگیا وہ لڑکی اسکے ضبط کا ہربار کڑا امتحان لیتی تھی۔

"کیا تمہیں پسند ہے جب میں تمہاری موجودگی میں اپنے آپ قابو کھو دیتا ہوں"

ایک انچ کا فاصلہ سمیٹ کر اسنے گہرے عنابی ہونٹوں پر بھاری سرگوشی کی  ریشمی بالوں میں مخصوص تواتر سے چلتی اسکی سرد انگلیوں کے نرم لمس پر وہ اندر تک لرز گئی۔

"اگر کسی نے ہمیں اس حالت میں یہاں دیکھ لیا تو کل صبح کا اخبار میری بےشرمی کی سرخیوں سے بھرا ملے گا تمہیں۔۔۔ اس لئے پبلک پلیس پر مجھے اکسانے سے گریز کیا کرو "

عنابی لبوں پر چھوٹی سی گستاخی کے بعد وہ خمار زدہ لہجے میں بولا سیرت نے نوکیلے ناخن اپنی ہتھیلی میں سختی سے پیوست کرکے گہرا سانس لیا اسکی رفاقت میں اس پر ہلکی کپکپی طاری ہوئی تھی جو مقابل کی زیرک نگاہوں سے چھپ نہیں پائی سیاہ کوٹ اتار کر اسنے  احتیاط سے اسکے ناتواں کندھوں پر ڈالا تھا۔

 سیرت نے خاموشی سے  فرںٹ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد سیٹ بیلٹ لگایا تھا ۔

"یہ کہاں لیکر آئے ہو تم مجھے ۔۔۔"

سیرت پورا راستہ اپنے دل و دماغ کیساتھ الجھے رہنے کے باعث راستے کا تعین ہی نہیں کرپائی تھی مرسیڈیز ایک عالی شان محل نما سفید حویلی کے صدر گیٹ کے عبور کرکے کشادہ لان میں رکنے پر وہ ہوش کے ناخن لیکر بوکھلا کر بول اٹھی، آسمان پر شدت سے کڑکتی بجلی نے اسکی پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔

"عسکری کہاں لیکر آئے ہو تم مجھے ۔۔۔۔"

گاڑی سے اترتے ہی وہ اسکی شرٹ کی آستیں پکڑتی گھبرا کر بولی وہ سیرت کی معصومانہ حرکت پر چار و ناچار مسکرا دیا تھا سیرت نے پلٹ کر تشویش سے سیاہ وردی میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار کو گیٹ بند کرتے دیکھا۔

 بارش کی پہلی بوند سیرت کے رخسار پر گری ،، سیرت نے تیزی سے پورچ کی جانب پیش رفت کی۔

کچھ ہی منٹوں میں موسم نے مزاج بدل لئے تھے تیز آندھی کیساتھ شدید بارش سے سردی میں مزید اضافہ ہوچکا تھا لاونج میں لگے شیشے سے وہ لان کے پھولوں پر برستی بارش کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

"مادام کھانا لگ چکا ہے۔۔۔ سر ڈائننگ ہال میں آپکا انتظار کررہے ہیں"

ملازمہ اسے دوسری بار آگاہ کرچکی تھی مگر وہ سن کر بھی انجان بن کر کھڑی رہی زاویان کا خفا ہوکر جانا اسے بےحد تکلیف دے رہا تھا،، اسکے جواب کا انتظار کرتی ملازمہ اسکے بغیر ہی واپس لوٹ گئی تھی۔

"کھانا کھالو سیرت ۔۔۔"

"بھوک نہیں ہے مجھے۔۔۔"

برجستہ جواب سن کر وہ سنجیدگی سے صوفے کے قریب رک گیا تھا سیاہ آنکھیں بےربطی سے آسمان سے ٹوٹتی بارش ملاحظہ کررہی تھی شانوں کو چھوتی ریشمی زلفیں ہوا کے دوش پر اسکے چہرے کا بار بار طواف کررہی تھی ،، وہ چند ثانیے کھڑا متانت سے اسے دیکھتا رہا،، وہ خاموش تھی۔

" یہاں لیکر آنے کا مقصد محض تمہیں تھوڑا تنگ کرنے کا تھا آئیڈیا نہیں تھا موسم خراب ہوجائے گا "

اسے افسردہ کھڑے دیکھ کر اسنے سنجیدگی سے اعتراف کیا۔

"بات وہ نہیں ہے۔۔۔"

سینے پر بازؤں لپیٹ کر وہ سرد آہ بھرگئی ۔

"میں نے اب تک اپنی فیملی کی اٹینشن کے لئے بہت کچھ کیا ہے،، میرا بچپن ان لڑکیوں جیسا نہیں گزرا جن کے والدین انکے ناز نخرے اٹھاتے ہیں،،  میں ہمیشہ سے اپنی مماں کے دل میں اپنے لئے جگہ بناتی رہی،، ہر ممکن کوشش کی میں نے کہ وہ مجھے ویسے محبت کریں،، جیسے میں اپنی دستوں سے انکی ماؤں کے متعلق سنتی رہی،، لیکن میں ہمیشہ محروم رہی انکی محبت سے،، بابا کے جانے کے بعد زاویان بھائی نے مجھے اپنی بہن نہیں بیٹی کی طرح پالا میرا سب کچھ وہی ہیں ۔۔۔"

وہ گہرا سانس لیکر خاموش ہوگئی وہ سنجیدگی سے اسے سنتا رہا۔

"بابا کے چلے جانے کے بعد میں ڈیپریشن میں جاچکی تھی،، پڑھائی چھوڑ دی بہت وقت لیا میں نے ریکور ہونے میں لیکن بھیا کو یقین تھا میں کرسکتی ہوں،، میرے سیشنز،، پڑھائی،، استھما،، کے بیچ بھیا نے ہمیشہ مجھے سنبھال کر رکھا۔۔۔ میرے برے وقتوں میں وہ میرے ساتھ رہے، ہمیشہ کہا کرتے تھے مجھے اپنی پرنسس پر یقین ہے کبھی کوئی غلطی نہیں کرسکتی،، پرفیکٹ ہے ہر لحاظ سے.... لیکن میں نے غلطی کی"

گھنی پلکوں کی حد سے ایک آنسوں خطا ہوکر اسکے چہرے پر پھسلا ۔

"وقت انسان کو تجربہ کار بناتا ہے لیکن  کم عمری میں تجربہ کار بن کر میں نے اپنا بچپن برباد کردیا،، جسکے بعد میں باقی لڑکیوں جیسی حساس نہیں رہی ۔۔ تکلیف ہوتی ہے مجھے۔۔ میں غلطی کرنے والوں میں سے نہیں تھی،، لیکن محبت اور اٹینشن کیلیے جو میں کبھی اپنی ماں سے حاصل نہ کرسکی ،، اس اٹینشن اور محبت کیلیے میں  عرش جیسے گھٹیا شخص سے محبت کربیٹھی،، میں سوچتی تھی وہ میرا اچھے برے وقت کا ساتھی ہے ،، مجھے سنتا ہے،، مجھے سمجھتا ہے،، میری اچھائی برائی سے واقف ہے"

ایک زخمی مسکراہٹ اسکے لبوں پر ٹوٹے کانچ کی طرح بکھری۔

"بھیا نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،، مجھے سب کچھ دیا انہوں نے لیکن میں اس توجہ اور محبت سے محروم رہی جو ہر بیٹی کا حق ہوتا ہے،، بھیا کو اندازہ تھا مماں کے روکھے رویے سے میں اندر سے ٹوٹ رہی ہوں اس لئے انہوں نے مجھے بی جان کے پاس بیلفاسٹ میں رکھا،، میری زندگی بہت ادھوری ہے،،میں بدلحاض ہوں ،، منہ چڑھ کر بولتی ہوں،، مجھ میں باقی لڑکیوں جیسی حساسیت نہیں لیکن میں ان چیزوں کیلیے قصور وار نہیں ہوں۔۔۔ میں بھی ایک نارمل لڑکی بن کر زندگی گزارنا چاہتی تھی۔۔۔ لیکن وقت نے مجھے کچھ اور بنا دیا،، اور آج میں نے بھیا کو مایوس کردیا۔۔۔۔"

سرد آہ بھرکر وہ پیچھے مڑی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ اور سن رہا تھا ایک بار بھی اسنے مداخلت نہیں کی تھی، قریب سے گزرتی سیرت کی کلائی اسنے نرمی سے پکڑ کر اسے جانے سے باز رکھا۔

"تمہارا ماضی،، جسے تم ریت سمجھ رہی ہو وہ خاک ہے،، اور خاک سے کچھ بنایا نہیں جاسکتا"

"وہ بنانے کی کوشش کرو جس کا وعدہ تم نے خود سے کیا تھا،،  اس لڑکی کیساتھ صلح کرلو جسے تم بچپن سے مسلسل نظر انداز کررہی ہو۔۔۔کچھ تبدیلیاں تکلیف دہ لیکن ضروری ہوتی ہیں۔۔"

اسکے الفاظ سکون کی طرح سیرت کی روح میں اترتے گئے وہ نرمی سے اسکا ہاتھ چھوڑ گیا۔

"اپنی روح کوبھی اپنی محبت کے جادو کا مزہ چکھنے دو ۔۔۔.."

اسنے  ہاتھ کی پشت سے سیرت کے سرخی مائل رخسار کو چھوکر گمبھیر لہجے میں کہا سیرت نے اسکے  پرفسوں  لمس پر سختی سے آنکھیں میچ کر گہرا سانس لیا۔

بھوری آنکھوں میں خمار اترنے لگا بوجھل سانس لیکر اسنے ہاتھ کی پشت سے اسکے ہونٹوں کو بےحد نرمی سے چھوا سیرت نے سختی سے لب بھینچے بھوری خمار آلود آنکھیں اسکی اس افتاد پر خمار سے لبریز ہوگئی۔

"مجھے تباہی کے دہانے پرلاکر چھوڑا ہے تم نے سیرت،، آخر کب تک میرے صبر کو آزماؤ گی...."

 اسکی خمار سے بوجھل سرگوشی نے سیرت کے حواس ٹھکانے لگائے آنکھیں وا کرکے وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹی

"گڈ نائٹ لٹل گرل۔۔۔۔"

 وہ سنجیدگی سے  کہنے کے بعد اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا سیرت کی سینے میں پھنسی سانسیں  اسکے اچانک پیچھے ہٹنے پر بحال ہوئی"گڈ نائٹ" کہہ کر وہ متذبذب نگاہوں سے اسے دیکھنے کے بعد اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔

"جی ٹھیک ۔۔۔ہے"

"شادی ختم ہوتے ہی میں واپس آجاؤں گی امی ۔۔"

مہر النساء بیگم نے تشویش سے اسے دیکھا مطمئن کھڑی وہ نظریں جھکائے اب بھی انکے سامنے ادب کا مظاہرہ کررہی تھی ورنہ جو کچھ انہوں نے اسکے ساتھ کیا اسکے بعد اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید اب تک کافی کچھ سنا چکی ہوتی،، مگر وہ آئیذل تھی۔

"زاویان ہمیں خود لیکر آئیں گے ان شاءاللہ،، آپ فکر نہ کریں"

وہ تحمل سے کہتی مسکرا گئی مہر النساء بیگم کی پیشانی پر بل پڑے۔

"میں گھر سے تمہیں یہاں لینے کیلیے آئی ہوں اور تم آگے سے زبان درازی کررہی ہو۔۔"

وہ ناپسندیدگی سے صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں زبان درازی نہیں کررہی امی،، جو زاویان کہہ کر گئے ہیں اس سے آپکو آگاہ کررہی ہوں اگر آپکو میری کوئی بھی بات غیر مناسب لگی تو میں دل سے معزرت خواہ ہوں"

آئیذل کمرے سے باہر جاچکی تھی مہر النساء بیگم کو مجبوراً اسکے پیچھے باہر جانا پڑا۔

"باجی چائے ناشتہ کرکے جائیں شادی کا گھر ہے ایسے تھوڑی چلی جائیں گی"

عائزہ بیگم مہر النساء بیگم کو جاتے دیکھ کر عجلت سے بولی  انس نے تیکھی نظروں سے ریحم کو دیکھا جو اسے دیکھنے پر آنکھیں سکیڑ کر رخ بدلتی دانت پیس گئی تھی۔

"نہیں بہن رہنے دو ،،۔۔۔"

مہر النساء بیگم بےرخی سے کہتی انس کو لیکر دروازے کی جانب بڑھ گئی عائزہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے آئیذل کو دیکھا جو انکی استفہامیہ نگاہوں سے اچاٹ ہوکر ریحم کیساتھ اسٹیج کی جانب پیش قدمی کرگئی۔

"عروسہ انس اچھا لڑکا لگتا ہے ۔۔ کہو تو ریحم کی بات بڑھائی جائے"

عروسہ بیگم نے حیرت و تشویش سے عائزہ بیگم کی جانب دیکھا۔

"کچھ خدا کا خوف کریں امی وہ  جاہل مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا"

ریحم عائزہ بیگم کے پیچھے ٹھہرتی صدمے سے نڈھال ہونے کے قریب ہوئی البتہ آئیذل نے پرسوچ نظروں سے دونوں کی  پہلی گفتگو کو یاد کیا جو بارات والے دن  انکے درمیان ہوئی تھی تو لب دباتی مسکراہٹ ضبط کرگئی عائزہ بیگم نے بھونیں سکیڑی تو وہ کمر سے ہاتھ ہٹاتی آئیذل کے قریب آکر بیٹھ گئی۔

"استغفر اللہ اس لڑکی کہ زبان دیکھو کیسے قینچی کی طرح چلتی ہے،، میں اسے کسی بڑے گھر بیاہنے کا سوچ کر کونسا اپنا فائدہ کررہی ہوں،، آگے سے زبان چلاتی ہے کسی دن تیری یہ زبان کھینچ لوں گی میں"

عائزہ بیگم چارپائی سے اٹھ کر چٹخ پڑی عروسہ بیگم نے صدمے سے سرد آہ بھری جبکہ ریحم نے ناگواری سے آنکھیں پھیری انس کا نام سن کر ہی اسکے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی۔

"ارے او چودھری صاحب،، اب یہ کونسا گورکھ دھندا ہے"

عائزہ بیگم نے ممتاز صاحب کے ہمراہ محلے کے چند لڑکوں کو کاندھے پر بوریاں اٹھائے اندر داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا آئیذل اور ریحم جلدی سے اٹھ کر برآمدے میں جاچکی تھی عروسہ بیگم نے چہرے پر چادر دیکر سر جھکایا تھا ممتاز صاحب نے تیکھی نظروں سے عائزہ بیگم کو گھورا جو جوں کی توں کھڑی تھی۔

"جاکر اندر بیٹھو کم عقل عورت،،۔۔۔۔"

ممتاز صاحب نے انکے بازو کو سختی سے پکڑ کر کمرے کی جانب چلتا کیا منہ کے زاویے خراب کرتی وہ تجسس بھری نگاہوں سے تمام نظارے ملاحضہ کرتی عروسہ بیگم کے قریب جاکر بیٹھ چکی تھی۔

"آئیذل اماں حد کرتی ہیں،، کبھی کبھی تو دل کرتا ہے بھاگ جاؤں اس گھر سے۔۔۔"

ریحم نے گجرے بناتے ہوئے سرد آہ بھرکر اپنا خدشہ بیان کیا۔

"ہاں تو اچھا موقع مل رہاہے تمہیں،، وہ تمہاری شادی کروانا چاہتی ہیں تم اس گھر سے فرار ہونا چاہتی ہو،، انس ایک بہت اچھا لڑکا ہے راضی ہو جاؤ اور پھر ۔۔۔۔"

"توبہ کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔ تمہارا وہ دیور ایک نمبر کا لفنگا ہے"

ریحم نے ناپسندیدگی سے بات کاٹ کر ناک سکیڑا آئیذل نے بمشکل مسکراہٹ دبائی۔

"کوئی لفنگا نہیں ہے،، بہت اچھا لڑکا ہے ، تم ایک بار سوچو اگر تمہارا دل چاہے تو مجھے بتا دینا میں گھر بات کرلوں گی اسی بہانے تمہاری ممانی سے تو جان چھوٹ جائے گی۔۔۔ ورنہ دیکھ لو ۔۔"

آئیذل نے آنکھیں گھماکر اسے عائزہ بیگم کی جانب اشارہ کیا تھا۔

"ارے او منہوس شکل والے۔۔۔ ادھر راستے میں کدھر بوریوں کا ڈھیر لگا رہا ہے،،  شادی کا گھر ہے کسی کا پیر پڑگیا تو داںت باہر کو آجائیں گے،، چل اٹھا اسکو ادھر سے"

تنک کر کہنے کیساتھ وہ ایک عدد تھپڑ بھی لڑکے کے سر میں رسید کرچکی تھی وہ حیرت و استعجاب سے انکو دیکھ کر چودھری صاحب کی سرخ انگارہ آنکھیں دیکھتا فوراً بوری اٹھاچکا تھا ریحم نے شرمندگی سے سر جھٹکنے پر اکتفاء کیا تھا بھلا بیچاری اور کربھی کیا سکتی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"کہاں ہو تم اسوقت اور شاہزیب کہاں ہے،، فون نہیں اٹھارہا وہ میرا"

شاہنواز خان سونیا کے فون اٹھاتے ہی اس پر برس پڑے۔

"مجھے کیا پتا کہاں ہے ۔۔۔ کل سے میرا رابطہ نہیں ہوا،، آپ نے ہی تو اسے انڈر  کور رہنے کیلیے کہا تھا،، کہیں چھپا ہوگا۔۔ مجھے کیا معلوم"

سونیا جوس کا خالی گلاس ٹیبل پر رکھ کر پیشانی پر بل ڈالے بولی۔

"ابھی اسی وقت جاؤ اسکے اپارٹمنٹ اور دیکھو وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔"

شاہنواز خان کی گرجدار آواز پر سونیا نے فون کان سے دور کرکے آنکھیں گھمائی۔

"ٹھیک ہے کل شام تک پتا کرواتی ہوں،، فلحال مجھے سونا ہے اور صبح عسکری کیساتھ شاپنگ جانا ہے ،، اب فون رکھیں۔۔۔مجھے اسے کال کرکے انفارم کرنا ہے،، ورنہ کوئی میٹنگ رکھ لے گا وہ"

اسکا  زکر آتے ہی شاہنواز خان کا  ماتھا ٹھنکا۔

"میں نے کہا پہلے شاہزیب کا پتا کرو ،، بھائی ہے وہ تمہارا"

شاہنواز صاحب کی پیشانی  ڈھیر ساری شکنیں ایکساتھ ابھری۔

"چھوٹا کاکا ہے ناں جسکے لئے مجھے بےبی سٹر مقرر کیا گیا ہے،، پڑا ہوگا کسی بار میں"

سونیا کال منقطع کرکے بدمزگی سے کرسی دھکیل کر اٹھی شاہنواز خان نے حیرت و صدمے سے فون کی بلینک اسکرین کو دیکھا تھا انکا پارہ ایک لمحے میں آسمان کو چھونے لگا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"آئیذل بیٹا یہاں آئیے۔۔۔"

عروسہ بیگم کے پکارنے پر مہندی کی تھالی ریحم کے ہاتھ میں تھما کر وہ  عروسہ بیگم کی جانب پیش قدمی کرگئی، مہندی رنگ کے لہنگے کیساتھ لائٹ جیولری اور لائٹ میک اپ میں لمبے بالوں کو کھلا چھوڑے  گندمی رنگت میں بھی وہ اپنے تیکھے نقوش چہرے کیساتھ قیامت خیز حسن کی  مالک تھی۔

"بیٹا ان سے ملئے،، توصیف کی ساس اور یہ انکی چھوٹی بیٹی کرن ہے"

"اسلام و علیکم آنٹی ۔۔۔"

آئیذل نے  شائستگی سے  ان سے ملاقات کی انکے قریب ٹھہری چند خواتین اسکی جانب متوجہ ہوچکی تھی، اسکی کمر سے نیچے آبشار کی مانند پھیلے ریشمی بالوں کو انہوں نے ستائش کیساتھ دیکھا تھا۔

"ماشاءاللہ،، عروسہ یہ بچی شادی شدہ ہے...؟!"

کرن کی دادی اماں نے اسے پسندیدگی سے دیکھ کر پوچھا۔

"جی اماں۔۔ آئیذل کی شادی ہوچکی ہے۔۔"

عروسہ بیگم نے مسکرا کر آئیذل کی جانب دیکھا دادی اماں سے جھک کر دعائیں لیتے ہوئے وہ عروسہ بیگم کے دیکھنے پر دھیمی سی مسکرائی تھی۔

"بیٹا۔۔۔ کتنے بچے ہیں آپکے...."

توصیف کی ساس نے تجسس بھری نگاہوں سے اسے دیکھا آئیذل کی دھڑکنوں کی رفتار دھیمی سی پڑگئی۔

"باجی ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا شادی کو۔۔۔۔"

عروسہ بیگم مسکرا گئی خواتین نے مسکرا کر سر ہلادیا تھا آئیذل ہلکی مسکان کیساتھ وہاں سے سیڑھیوں کی جانب پیش قدمی کرگئی تھی عروسہ بیگم نے ہمدردی سے اسکی جانب دیکھا۔

آسمان پر چمکتے چاند کو اسنے افسردہ دلی سے دیکھا فون کی جگمگاتی اسکرین پر زاویان کا نام چمکتے دیکھ کر اسنے گہرا سانس لیکر"اسلام و علیکم" کیساتھ کال منسلک کی۔

"وعلیکم السلام..."

وہ اسکی باریک آواز میں نمی کا تاثر پاکر سنجیدہ ہوا۔

"کیا ہوا ہے روحِ قلب ۔۔۔۔"

اسکی محبت سے بھرپور بھاری آواز پر نیلی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ پڑے۔

"ہمیں آپکی بہت یاد آرہی ہے۔۔۔ آپ واپس آجائیں"

آسمان کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی وہ نم آلود لہجے میں بولی۔

"اہمم۔۔۔ یاد تو مجھے بھی بہت آرہی ہے آپکی..... اپنی دوائیاں وقت پر لے رہی ہیں آپ...؟!"

آئیذل اسکے محبت سے بھرپور لہجے پر نم آنکھوں سے مسکرا گئی۔

"جی ٹائم پر لےرہی ہوں لیکن اکزیمز  قریب ہیں ،، ٹینشن ہورہی ہے ...."

وہ دوبارہ سے اسکی اوور تھنکنگ پر سرد آہ بھرکر رہ گیا،، اتنا سمجھانے کے بعد بھی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن میں بٹھا کر انکو سنگین معمہ بنا لیتی تھی زاویان کی خاموشی آئیذل کو بےچین کرنے لگی۔

"آپکو بھروسہ ہے مجھ پر کیا میں کرلوں گی۔۔۔"

"آپ کرلیں گی ان  شاءاللہ۔۔۔۔"

آئیذل اسکے مہر آمیز لہجے پر روح تک سرشار  ہوگئی۔

"امی آئی تھی ۔۔۔ آج مجھے واپس لینے کیلیے۔۔۔ "

کیبورڈ پر سنجیدگی سے چلتی زاویان کی انگلیاں ساکت ہوئی۔

"اسوقت کہاں ہیں آپ ۔۔۔ لمظ...."

وہ بےحد سنجیدگی سے بولا تھا۔

"میں نہیں گئی انکے ساتھ پروفیسر ۔۔۔سوری"

عجلت سے بولتے ہوئے وہ غلطی پر یکلخت رکی۔

"پروفیسر ۔۔۔۔؟!! سیریسلی لمظ اب تو عادت ٹال لیں زاویان کہنے کی"

اسکے جواب پر اعصاب ڈھیلے چھوڑتا وہ تشویش سے سر ہلاتا بےساختہ مسکرا گیا۔

"سوری.... غلطی ہوگئی ۔۔۔ آئندہ خیال رکھوں گی"

نچلا ہونٹ دباتی وہ مسکراہٹ ضبط کرتی بولی کچھ دیر پہلے والی اداسی ناجانے اس سے بات کرکے کہاں کھوگئی تھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں  وہ مسکراتے ہوئے اس سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے تمام خدشات ،، دکھ درد بھلا چکی تھی،، وہ اسکے لئے قلبی سکون تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"آج کی میٹنگ گیارہ بجے ہے وقت سے پہنچ جانا،، مجھے آنے میں تھوڑا وقت لگے گا"

سیٹ بیلٹ ہٹاکر عجلت سے گیٹ کھولنے کے دوران اسنے یاد دہانی کروائی۔ 

"اہممم....ٹیم کیڈنس میں تمہاری خاص ضرورت نہیں،،..."

سیرت نے اسکا جواب سن کر کشیدگی سے اسے دیکھا سیاہ آنکھوں میں معنی خیزی سے دیکھ کر وہ خفیف سا مسکرایا سیرت نے بھنویں سکیڑ کر گیٹ بند کیا اور کراسنگ کی جانب پیش رفت کرگئی۔

گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے اسکی زیرک نگاہوں نے ایک طرف  غیر معمولی حرکت کا مشاہدہ کیا

 روف ٹاپ پر سیاہ وردی میں ملبوس  ایک پراسرار شخص  اسنائپر پر اسکوپ ایڈجسٹ کرنے کے بعد نشانہ سادھے اے۔ڈبلیو-ایم  کا رخ کراسنگ پر چلتی سیرت کی جانب موڑ چکا تھا،، فینس کا دروازہ کھول کر وہ لان میں کھلے چمبیلی کے پھولوں کو دیکھ کر ٹھہر چکی تھی، گاڑی کا گیٹ تیزی سے کھول کر وہ باہر نکلا تھا۔۔

"بھیا آپ یہاں۔۔۔"

پورچ سے ملحقہ سیڑھیاں اترتے زاویان کو دیکھ کر سیرت کا چہرا مسرت سے چمک اٹھا مسکراتے ہوئے وہ زاویان کی جانب بڑھی جو اسے لان میں دیکھ کر لان میں قدم رکھتے ہوئے رک چکا تھا۔

اسنائپر اسکوپ کو آنکھ کی سید پر درست کرکے ٹریگر پر انگلی دیئے سیرت کی پیشانی کا نشانہ کرچکا تھا۔

زاویان نے سنجیدگی سے سیرت کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا تھا سیرت بےتاب ہوکر چند قدموں کے فاصلے پر رک چکی تھی لاؤنج سے باہر آتی بی جان نے افسردگی سے دونوں کے درمیان کشیدگی کو محسوس کیا۔

سیرت کو ایک جگہ ساکت پاکر اسنائپر گولی چلا چکا تھا کانوں کو چھید دینے والی تیز آواز پر درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے پرسکون پرندوں میں خوف و ہراس پھیلا چھوٹی چھوٹی چڑیاں خوفزدہ ہوکر آسمان میں پر پھیلاگئی۔

برق رفتاری سے وہ سیرت کو کندھے سے پکڑتے ہوئے ایک جانب گرا تھا سیرت نے خوف نے آنکھیں میچے اسکے کوٹ کو مٹھیوں میں جکڑا تھا اسنائپر نشانہ خطا ہونے پر تیزی سے روف ٹاپ سے اوجھل ہوا

سیرت نے حراساں نگاہوں سے حدید کا ہاتھ تھاما اور زمین سے اٹھی  زاویان فق چہرے کیساتھ تیزی سے سیرت کی جانب بڑھا اسے شانوں سے پکڑ کر زاویان نے بےساختہ اسے سینے میں بھینچا۔

"ہائے میرے خدا،،  دیکھو خون نکل رہا ہے،، زاویان ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔۔"

بی جان صدمے سے نڈھال ہوکر تیزی سے اسکا کندھا پکڑکر چیخی   پسلی کے مقام پر ہاتھ رکھے وہ سنجیدگی سے بی جان کی جانب مڑا اسے کندھے سے تھامے وہ صدمے سے سفید پڑتی جارہی تھی،، جھریاں سے لبریز ہاتھ اسکے بازو پر بری طرح کانپ رہے تھے سفید کوٹ پر سرخ سیال کثرت سے پھیل رہا تھا۔

سیرت زاویان کے حصار سے تیزی سے نکلتے ہوئے اسے کندھے سے تھام گئی۔

"رضا۔۔۔ گا۔۔گاڑی میں بیٹھو،، اسپتال چلتے ہیں۔۔"

اسکے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں میں لیکر وہ  بھرائے لہجے میں بولی ، زاویان نے سنجیدگی سے اسکی جانب پیش قدمی کی،، وہ متانت سے سیرت کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر سر دھیرے سے نفی میں ہلاکر اپنی گاڑی کی جانب بڑھا زاویان نے سنجیدگی سے اسکے راستے میں حائل ہوا تھا۔

"اس حالت میں ڈرائیونگ نہیں کرسکتے تم پیچھے بیٹھو۔۔۔"

زاویان کی جانب سپاٹ نظروں سے دیکھ کر اسنے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا البتہ اسکی ہٹ دھرمی پر زاویان کی پیشانی پر چند لکیریں نمودار ہوئی بی جان دونوں ہاتھوں سے لبوں کو ڈھانپے آنکھوں میں نمی لئے اسے دیکھ رہی تھی سیرت نے تشویش سے اسکا ہاتھ گیٹ سے یٹایا۔

"سیریسلی تم اس موقع پر ضد کررہے ہو ۔۔۔"

سیاہ آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ گہرا سانس لیکر بیک سیٹ کا گیٹ کھول کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتا ڈھے گیا گاڑی سٹارٹ کرتے زاویان نے سنجیدگی سے سیرت کو بیک سیٹ پر بیٹھتے دیکھا، اس سے قبل وہ انکار کرتا بی جان فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی سرد آہ بھرکر اسنے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

"تمہارا بھائی میری وفات کیلیے دل میں دعاگو ہوگا ۔۔۔"

 وہ دھیمے استہزائیہ لہجے میں  گویا ہوا سیرت نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکھ کر بھنویں سکیڑی البتہ سیاہ آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں ناجانے اسے کیا باور کرواتے ہوئے ساکت کرگئے تھے۔

"کیا کہا بچ گئی وہ ۔۔۔"

شاہزیب خانزادہ طیش سے سرخی مائل چہرہ لئے صوفے سے اٹھا۔

"بےوقوف۔۔۔ تم بیلفاسٹ کے ماہر ٹارگٹ کلر ہو کیسے بچ گئی وہ"

آتش فشاں بنا وہ سامنے کھڑے آدمی پر شعلے اگلنے لگا۔

"گولی حدید رضا عسکری کو لگی ہے جو عین وقت پر اس لڑکی کے سامنے آگیا ورنہ ،، آج تک میں نے ایک شاٹ بھی مس نے کیا اگر وہ سامنے نہ آیا ہوتا تو وہ لڑکی اب تک دم توڑ چکی ہوتی۔۔۔"

شاہزیب خانزادہ نے حیرت و تشویش سے اس شخص کو گھورا۔

"کیا حدید کو گولی لگی ہے۔۔۔ حرامزادے*  اب وہ انویسٹیگیشن کروائے گا،،  چھپ جاؤ جاکر کہیں،، اور اگر کوئی آئے تو میرا نام ہرگز مت لینا،، بےوقوف  مفت کے لقمے نگلنے  کیلیے رکھا ہے میں نے تم جیسے کتوں کو یہاں،، اب میری شکل کیا دیکھ رہے ہو دفع ہو جاؤ اس سے پہلے کہ تمہیں شوٹ کردوں۔۔۔"

شاہزیب خانزادہ پیر پٹختے ہوئے تلملا اٹھا وہ شخص گردن جھکائے وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا۔

"اگر ڈیڈ کو بھڑک بھی لگی۔۔۔ تو جان سے مار دیں گے مجھے"

بالوں کو دونوں ہاتھوں میں لیکر کھینچتے ہوئے وہ صوفے لر بیٹھتا بڑبڑایا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"اماں اور کتنی دیل(دیر)یہ دھوندھت(گھونگھٹ)  دال کر بیٹھوں،، دم  دھت(گھٹ) جارہا ہے میرا،  (بھوت)بھوک سے جان نکلی جارہی ہے،، صبح  تال(چار)  پراٹھوں سے از حد کچھ کھایا ہی نہیں میں نے،، اب تو (ملولیں)مروڑیں اٹھ رہی ییں (بھوت) بھوک سے معدے میں"

 دلہن کو مہندی لگاتی آئیذل دلہن کے الفاظ سن کر بری طرح کھانسی  ریحم نے تشویش سے اسکا ہاتھ پکڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا سر نفی میں ہلاکر وہ دلہن کو بےیقینی سے دیکھ کر اسکی ماں کو اسکے قریب جھکتے  مختصر دیکھا جنہوں نے اس پر غور نہیں کیا تھا۔

"بدتمیز چپ کرکے بیٹھ،، ورنہ سب کو پتا لگ جائے گا کہ  توتلی ہے"

 دلہن کی ماں کے الفاظ سن کر آئیذل کا حلق خشک پڑگیا وہ نظریں جھکاتی دھیرے سے اٹھی۔

"استغفر اللہ ۔۔۔ کیا ممانی کو نہیں پتا کہ توصیف کی دلہن ٹھیک سے نہیں بول سکتی"

آس پاس کھوجتی نگاہوں سے عائزہ بیگم کو ڈھونڈھتی وہ خود سے بڑبڑائی۔

"مم۔۔۔۔ ممانی،، میری بات سنیے ناں۔۔۔"

وہ عائزہ بیگم کو مہمانوں کے بیچ سے الگ صحن میں کھینچ لائی عائزہ بیگم نے تجسس سے اسے دیکھا۔

"ممانی آپ توصیف کی دلہن سے ملی ہوئی ہیں۔۔۔ میرا مطلب آپ نے ٹھیک سے دیکھا تھا اسکو۔۔۔ نہیں میرا مطلب وہ لڑکی آپ نے ٹھیک سے دیکھی تھی کہ وہ کیسی ہے۔۔۔"

آئیذل الفاظ کے بیچ بری طرح الجھ کر بوکھلائے ہوئے بولی عائزہ بیگم نے تیوری چڑھائی۔

"کیوں اچھی نہیں لگی تجھے؟!! بڑی گوری چٹی ہے،، بولتی ہے تو پھول جھڑتے ہیں منہ سے،، بالکل کوئل کی طرح بولتی ہے اور اتنی شرمیلی ہے کہ پوچھو مت میرے سے ہاہاہا۔۔۔ توصیف کے جوڑ کی ہے۔۔"

وہ فخر سے کہہ کر آئیذل کے کندھے پر چپت لگاتے ہوئے ہنس پڑی آئیذل نے زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر گھسیٹ کر بےبسی سے انکی جانب دیکھا انکے تو داںت دانت سے ہنسی چھپنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

"نہیں میرا مطلب ممانی میں کہہ رہی تھی،، آپ ایک بار جاکر اس سے بات کر کے دیکھ لیں ۔۔"

آئیذل نے بوکھلا کر کہا وہ نہیں چاہتی تھی عائزہ بیگم اسکی بات کا برا منا لیں۔

"تجھ کو ملنا ہے اس سے آجا میری گڑ شکر میں ملواتی ہوں تجھے،، صاف لفظوں میں بولتی ناں..."

آئیذل کا بازو پکڑ کر وہ بغیر اسکی ایک سنے اسے کھینچ کر برآمدے میں لے جانے لگی۔

"نن۔۔نہیں ممانی رر۔۔۔ رہنے دیں ناں ۔۔ میں بعد میں مل لوں گی ابھی مہمان ہیں"

آئیذل نے تشویش سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا عائزہ بیگم شانے اچکاتی برآمدے کی جانب بڑھ گئی۔

"کیا سوچ رہی ہو یہاں کھڑی۔۔۔ جیجو کی یاد آرہی ہے؟!!"

ریحم نے بھنویں اٹھاکر زو معنی لہجے میں پوچھا آئیذل نے سرد آہ بھرکر ریحم کو دیکھا۔

"ریم۔۔۔ ایک بات تو بتاؤ تم دلہن سے ملی ہوکیا ۔۔۔۔"

آئیذل کو اب اپنا دماغی توازن خراب لگنے لگا۔

"ہاں میں ملی تھی کیوں پو چھ رہی ہو تم بھلا۔۔۔۔"

ریحم نے اچھنبے سے آئیذل کو دیکھا آئیزل نے سرد آہ بھرکر اسے بتانے کا فیصلہ کیا مگر دروازے سے قاضی صاحب کے ہمراہ چند مرد حضرات کو اندر آتے دیکھ کر وہ دم سادھ گئی۔

"سنو۔۔۔ کیا آج نکاح کروا رہے ہو تم لوگ"

 آئیزل نے حیرت سے پوچھا ریحم آئیزل کی بےچینی پر ہنس پڑی۔

"ہاں آج نکاح کروا رہے ہیں،، اصل میں بارات دو دنوں بعد رکھوائی ہے،، اماں کو تو جانتی ہو گاؤں کے قریبی رشتے دار ورنہ ادھر ہی پڑے رہتے  اس طرح تو آج مہندی گزار کر نکل لیں گے،، پھر دو دن بعد آئیں گے رخصتی نبٹا کر چلے جائیں گے۔۔۔ آجاؤ نکاح شروع ہورہا ہے۔۔۔"

 ششدر کھڑی آئیزل کو ریحم ساتھ کھینچ لے گئی آئیذل بےہوش ہونے کے قریب تھی۔

"اللہ پاک یہ کیا ہورہا ہے کیا میں نے کچھ غلط سنا لیکن ممانی اور ریحم تو مل چکی ہیں اس لڑکی سے"

آئیذل برآمدے کے پلر سے پشت ٹکاتی دھیمے لہجے میں خود سے ہم کلام ہوئی۔

مولوی صاحب دلہن سے اسکی رضامندی جاننے کی کوشش کررہے تھے اور وہ سرجھکائے خاموش بیٹھی تھی آئیذل نے افسردگی سے سفید شیروانی میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے توصیف کو دیکھا۔

"ہائے یہ کیا ہورہا ہے۔۔ اگر وہ سچ میں بیمار ہوئی تو۔۔۔۔"

آئیذل کے ہاتھ پیر سرد پڑگئے مگر مہمانوں کے بیچ اب تماشا بھی تو نہیں بناسکتی تھی۔

دلہن نے محض سر ہلایا تو آئیذل کو مزید تجسس ہوا مولوی صاحب نے سنجیدگی سے دلہن کی جانب دیکھا۔

"ابا جی میری  دھی زرا شرمیلی ہے۔۔۔ "

دلہن کی ماں نے مسکرا کر کہا تو مولوی صاحب سرد آہ بھرکر سرہلاگئے البتہ عائزہ بیگم تو دلہن کی معصومیت پر  ہزار بار صدقے واری گئی ریحم نے تشویش سے بھونیں اٹھائی آئیذل  ناخن چباتے ہوئے اب تک دلہن کو ہی گھور رہی تھی ریحم نے تشویش سے اسے ٹہوکا لگایا تو آئیذل اسکی جانب پلٹی۔

"ریممم مجھے لگتا ہے دلہن ۔۔۔"

"مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو"

آئیذل کچھ کہتے کہتے رک گئی عائزہ بیگم مہمانوں سے مبارکباد سمیٹتے ہوئے مسکرا رہی تھی ریم نے بھونیں اٹھائی آئیذل نے سر دھیرے سے نفی میں ہلاکر بات رد کردی، ریحم کچھ گڑبڑی کا احساس ہوتے ہی دلہن کے پاس آئی تھی آئیذل کا دل دیوار میں سر مارنے کا کررہا تھا اگر عائزہ بیگم کو بھڑک بھی لگ جاتی کہ سب جاننے کے بعد بھی اسنے یہ نکاح نہیں رکوایا تو وہ تو اسے اٹھاکر گاڑی کے آگے ہی پھینک آتی۔

"بھابھی کیسا لگ رہا ہے آپ کو۔۔۔"

ریحم نے مسکرا کر دلہن کو مخاطب کیا جو ریحم کے مخاطب کرنے پر تھوک نگلتے ہوئے سر اٹھاگئی تھی البتہ توصیف عقیدت سے چور نظروں سے اپنی بیوی کو گھورے جارہا تھا۔

"مبارک ہو دھی ۔۔۔ یہ لو زرا منہ میٹھا کرو"

عائزہ بیگم نے محبت سے پورا گلاب جامن دلہن کے منہ میں اڑس دیا بمشکل سرہلا کر اسنے ریحم کو جواب دیا آئیذل کی تو زبان ہی تالو سے چپکی ہوئی تھی بولتی بھی تو کیا بیچاری جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔۔

 "ناجانے کیا چاہتے ہیں  یہ لوگ میری بچی سے ۔۔۔"

کوریڈور میں بےچینی سے بدستور چلتے ہوئے تسبیح کا ورد مکمل کرکے بی جان نے گہری آہ بھری دیوار سے پشت ٹکائے کھڑا زاویان سنجیدگی سے ایک نقطے کو دیکھ رہا تھا سیرت کوریڈور کے قریب کھڑی آفس کے معملات کو تحمل سے نبٹانے کی کوشش کررہی تھی ناجانے آج اسکی کتنی میٹنگز برخاست ہوچکی تھی۔

"میری بچی کو نظر لگ گئی ہے یان۔۔ میری بچی کو کسی کی بری نظر لگ گئی ہے،، پہلے اسے اغوا کرلیا اب اسے جان سے مارنا چاہتے ہیں وہ دشت لوگ۔۔۔"

بی جان کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ پڑے۔

"کس نے اغوا کیا سیرت کو اور کب ۔۔۔۔ "

 زاویان نے حیرت سے بی جان کی جانب دیکھا۔

"میں کل خود ان سے ملاقات کروں گی،، آج ممکن نہیں"

 بی جان کے کچھ بتاںے سے قبل سیرت کال منقطع کرتے ہوئے کوریڈور میں واپس لوٹ آئی تھی ڈاکٹر کو کمرے سے باہر آتے دیکھ کر سیرت  نے سب سے پہلے ڈاکٹر کی جانب پیش قدمی کی ڈاکٹر کو گئے ہوئے پانچ منٹ بھی مشکل سے ہوئے تھے اور وہ واپس لوٹ آئی تھی۔

"کیا ہوا وہ ٹھیک ہے ناں۔۔۔"

سیرت نے بےچینی سے پوچھا فی میل ڈاکٹر نے سرد آہ بھری اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے ایک لیکر ایک جانب پیش قدمی کرگئی زاویان سنجیدگی سے بی جان کے قریب ویٹنگ چیئر پر بیٹھا تھا اور ان سے سیرت کے متعلق وضاحت سے سب استفسار کرنے لگا۔

"مس رضوی اسپتال میں اسوقت ایک سے بڑھ کر ایک  ڈاکٹر  موجود ہے لیکن اندر  وہ اپنی گولی خود نکال رہے ہیں،،، مجھے یقین نہیں آرہا۔۔۔  آئی مین ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں ۔۔"

ڈاکٹر نے تشویش سے سر جھٹکا سیرت نے بےیقینی سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا  آنکھوں میں ڈھیروں ناگواریت لئے دروازہ کھول کر اندر  پیش قدمی کرگئی سامنے کا منظر اسکی نسوں میں دوڑتے خون کو خشک کرچکا تھا قد آور آئینے کے سامنے وہ شرٹ لیس کھڑا ایکسٹریکٹر کو زخم میں پیوست کرتے ہوئے سیرت کو دیکھ کر رکا تھا  زخم  دیکھ کرسیرت کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

"عسکری ۔۔ چھوڑو یہ سب۔۔۔ ڈاکٹرز کو کام کرنے دو  انکا"

پیشانی پر شکنیں سجائے وہ  سٹپٹا کربولی۔

"اگر تم سے دیکھا نہیں جارہا تو باہر انتظار کرو  چاندنی"

وہ متحمل لہجے میں کہہ کر زخم میں ایکسٹریکٹر پیوست کرگیا سیرت کو پورے بدن ہر چیونٹیاں رینگتے ہوئے محسوس ہوئی البتہ اسکا وجیہ چہرا بالکل متحمل تھا صبیح پیشانی پر سلکی بالوں کی چند لٹیں پھیلی ہوئی تھی.

چوڑی پشت پر اسکارپیئن کا ٹیٹو گولی نگالتے ہوئے مسلز کے ہمراہ تن گیا تھا۔

"کیا۔۔درد۔۔۔ نہیں ہورہا۔۔۔ تمہیں "

اسکے قریب ٹھہرتی وہ دھیمے نرم لہجے میں بولی سرخ سیال کے ہمراہ اسنے گولی نکال کر جراحی کے سامان کے  قریب پڑے ڈبے میں بےاعتنائی سے پھینکی  سیرت کا دل پسیج کر رہ گیا کاٹن کو اینٹی سیپٹک سے بھگو کر زخم پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے سیرت کی جانب مڑا  تھا سیاہ کانچ سی آنکھیں اس پر مرکوز تھی۔

"اتنے بےحس کیسے ہو تم۔۔۔ کیا درد نہیں ہوتا تمہیں۔۔۔"

سیرت کی حزن نگاہوں نے کاٹن کو دیکھا جو کچھ ہی دیر میں سرخ سیال سے بھرچکا تھا۔

"  مجھے دو چھوڑو اسے۔۔۔ بیٹھو یہاں"

رندھی آواز میں کہہ کر وہ اسکے ہاتھ سے بینڈیج لیکر نم آلود آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی بیڈ پر بیٹھ کر وہ اسے گہری الفت سے بھرپور نگاہوں سے دیکھنے لگا نئے کاٹن پر اسنے اینٹی سیپٹک لگاکر زخم پر رکھنے سے قبل اسے افسردگی سے دیکھا بھوری تبحر آنکھیں اسکے چہرے پر جھولتی ریشمی لٹوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی

لب بھینچ کر سیرت نے اسکے زخم پر کاٹن رکھا اور احتیاط سے زخم کی بینڈیج کرنے لگی۔

"آرام کرو،،۔۔۔ آج کی ساری میٹنگز کینسل کردی ہیں میں نے،، اگر کچھ چاہیے ہو تو میں باہر ہوں"

 مکمل بینڈیج کرکے سیرت بیڈ کے کنارے سے اٹھی بینڈیج کا سامان سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سیرت نے مڑ کر افسردگی سے اسے دیکھا آگے بڑھ کر وہ اسکے ہاتھ سے اسکی شرٹ پکڑتے ہوئے نظریں جھکائے احتیاط سے اسے پہنانے لگی چہرے پر  حزن زدہ چہرے پر سختی کے آثار سجائے وہ شرٹ کا آخری بٹن بند کرکے پیچھے مڑی حدید نے سنجیدگی سے اسکی کہنی تھام کر اسے اپنے سامنے ٹھہرایا۔

سیرت نے نظریں اٹھاکر اسے سختی سے دیکھا البتہ اسکا دل تو موم کی طرح پگھلا ہوا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں ۔۔،، فکر کیوں کرتی ہو۔۔۔"

نرمی سے اسنے سیرت کے چہرے کو چھوا۔

"میں فکر نہیں کررہی تمہاری۔۔۔ صرف افسوس ہورہا ہے ہربار میری وجہ سے تم"

سیرت نے آہستگی سے اسکا ہاتھ ہٹایا۔

"تمہاری وجہ سے...؟!! کیا اپنی بیوی کی حفاظت نہیں کرسکتا میں..؟!"

وہ متانت سے سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا سیرت نے سرسری نظرسے اسکے بےحد قریب چہرے کا جائزہ لیا اور سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر نظروں کا رابطہ منقطع کردیا۔

"اگر تمہیں کسی بھی وقت ایسا لگے کہ میں تمہاری پریشانیوں میں اضافہ کررہی ہوں تو مجھے بتا دینا،، میری نظروں میں رشتوں کو گھسیٹنے سے بہتر ہے کہ وقت پر انکا خاتمہ کردیا جائے،، اس طرح دل میں رنجشیں نہیں پڑتی اور تعلقات کچھ حد تک خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں...."

سیرت نے نظریں اٹھاکر اسکے چہرے پر لہراتے سنجیدگی کے سائے دیکھے۔

"چاہے تعلقات جتنے بھی گہرے کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔"

وہ دھیمے تنبیہی لہجے میں کہہ کر نرمی سے اسکے ہاتھ کو کہنی سے ہٹاگئی بیڈ سے اٹھ کر اسنے سیرت کی کلائی کو سخت گرفت میں لیکر اپنی جانب کھینچا  وہ گرںے سے قبل اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی بھوری آنکھوں میں بےپایاں  آوارگی کا سمندر اسے اپنے آپ میں سمو لینا چاہتا تھا۔

" میں نے تمہارا انتخاب کیا ہے اور مستقبل میں بھی ۔۔۔ کرتا رہوں گا،،تم میری اول ترجیح ہو"

جذبات سے لبریز بھاری پراعتماد سرگوشی میں اسکی آنکھوں کا خمار اتر آیا سیرت بےساختہ مسکرائی دروازہ کھول کر اندر آتی ڈاکٹر نے مٹھی بنا کر لبوں پر رکھتے ہوئے ہنکارا بھر کر دونوں سے نظریں ہٹائی سیرت اسکے سینے سے ہاتھ ہٹاکر شرمندگی سے پیچھے ہٹی البتہ اسکی بےباک نگاہیں ڈاکٹر کی موجودگی میں بھی  کسی صورت سیرت سے ہٹنے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی۔

"سر کیا آپ واپس جارہے ہیں لیکن آپکا زخم ابھی بالکل نیا ہے..... آپکو آرام کرنا چاہیے"

ڈاکٹر نے اسے کوٹ اٹھاکر پہنتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے کہا سیرت نے تشویش سے اسکی جانب دیکھا فون پر ٹائپنگ کے دوران اسنے ڈاکٹر کو اسکی نصیحت سمیت سرے سے نظر انداز کردیا تھا۔

"کیا آپ میرے ساتھ باہر چل سکتی ہیں۔۔۔"

سیرت نے ڈاکٹر کی جانب دیکھ کر سر اثبات میں ہلایا اور  انکے ہمراہ باہر نکل آئی زاویان نے سنجیدگی سے سیرت کی جانب دیکھا اور ویٹنگ چیئر سے اٹھا بی جان کو اسے تمام سچائی بتا دینے کے بعد اب الگ  خدشات لاحق تھے ناجانے وہ کیسا رویہ اختیار کرنے والا تھا سیرت ڈاکٹر سے مشورہ کرکے پیچھے مڑی تو زاویان اسکا منتظر تھا سیرت نے ںدامت سے اسکی نگاہوں سے پرہیز کیا۔

"بہت کچھ چھپایا ہے آپ نے مجھ سے،، ہم تو اچھے دوست ہوا کرتے تھے"

زاویان نے سنجیدگی سے کچھ باور کروایا سیرت نے نظریں جھکاکر آنکھوں میں چھلکتی نمی کو پوشیدہ رکھا۔

"کیا آپ اپنی  وضاحت میں کچھ نہیں کہیں گی...؟!"

وہ سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہوتا گیا سیرت نے لب بھینچ لئے کوئی جواب نہیں تھا اسکے پاس،، ہاں بھروسہ توڑا تھا اسنے لیکن کن وجوہات پر اگر بتاتی بھی تو زوال اٹھاتی اسکی نظروں میں،، وہ طاقت تھا اسکی،، اور وہ اسکی سب سے بڑی کمزوری کیسے بن جاتی اسے حقیقت کا آئینہ دیکھا کر۔۔

"آپ کو جو بہتر لگا آپ نے کیا لہذا اب جو مجھے مناسب لگے گا وہ میں  کروں گا،، آپ ابھی اسی وقت اس آدمی سے طلاق لیکر میرے ساتھ واپس چلیں گی اور اگر آپ ایسا نہیں کرتی تو اپنے بھائی کو بھول جائیں"

سیرت نے بےیقینی سے نظریں اٹھاکر زاویان کی جانب دیکھا اسکا چہرا ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔

بی جان نے زاویان سے نگاہیں ملا کر سر دھیرے سے نفی میں ہلا کر اسکے فیصلے کی تردید کی۔

"آپ کیسے چھوڑ سکتے ہیں اپنی سیرت کو بھائی ،، میں،، میں کیسے رہوں گی آپکے بغیر آپ ،، میرا سب کچھ ہیں"

سیرت نے اسکے سرد ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں لیکر اذیت سے کہا۔

"تو پھر ضد چھوڑ دیں اور میرے ساتھ چلیں،، وہ شخص آپکے لئے مناسب نہیں"

زاویان نے سنجیدگی سے سیرت کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرکے کہا سیرت نے گہرا سانس لیکر اسے دیکھا،، کیا وہ ایک بار بھی اپنی بہن کیلیے اس شخص کو موقع نہیں دے سکتا تھا۔۔۔ ایک بار آزمانا نہیں چاہتا تھا،، کیا اسکے جزبات کوئی معنی نہیں رکھتے تھے سیاہ آنکھوں کا مقدر ہمیشہ کرب اور اذیت کیوں تھی،، ہمیشہ لبریز رہتی تھی وہ ان تاثرات سے،، آنسوں سے،، تکلیف سے،، کیا یہی سب اسکا مقدر تھا۔

" میں نے تمہارا انتخاب کیا ہے اور مستقبل میں بھی ۔۔۔ کرتا رہوں گا،،تم میری اول ترجیح ہو"

اسکے الفاظ سماعت سے جاٹکرائے تو سیاہ آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ پڑے سیرت کے گوشۂ دل کے کسی خانے میں ماضی کے حسیں واقعات جو اسنے اپنے بھائی کے ساتھ گزارے تھے ابھر کر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے سختی سے بھینچے لبوں کو اسنے وا کیا تو وہ اذیت سے تھرتھرا گئے، ماؤف ہوتے ذہن کیساتھ سیرت نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ باہر نکالا  زاویان نے سرد آہ بھر کر سیرت کو غیر شناس نگاہوں سے دیکھا آنسوں سے تر چہرے سے ہاتھ کی پشت رگڑتے ہوئے وہ پیچھے پلٹ گئی۔

 سیرت کے پلٹتے ہی زاویان کے اندر سب کچھ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر چکا تھا کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا تو بی جان نے ہمدردی سے اسے دیکھا البتہ زاویان کی موجودگی میں وہ اسکے پاس جانے کی ہمت نہیں کرپائی تھی زاویان کو مختصر نگاہوں سے دیکھ کر اسنے کوریڈور کی جانب دھیمے قدموں سے پیش قدمی کی زاویان کی نگاہوں کا مرکز وہ دونوں  تھے اسنے سنجیدگی سے سیرت کی کہنی تھام کر اسے مخاطب کیا وہ خشک لبوں کو تر کرکے سیاہ متورم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے سراٹھا چکی تھی  سرخی مائل آنکھوں کو حدید نے تشویش سے دیکھا  اور پھر زاویان کا خیال آتے ہی بھوری  درخشاں آنکھوں میں  بربریت کا تاثر لئےوہ  پیچھے پلٹا تھا۔

زاویان جو سیرت کے انتخاب پر شعلہ فشاں پہاڑ کی مانند سلگ رہا تھا اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے مٹھیاں بھینچ گیا بی جان نے دونوں کی آنکھوں میں بڑھتی  کشیدگی دیکھ کر دل ہی دل میں  دعا کی۔

سیرت نے اسکے بازو کو تھام کر اسے زاویان کی جانب پیش قدمی کرنے سے قبل روکا سیرت کے ہاتھ کے نیچے اسکے مسلز ٹائٹ ہوئے،، متحمل سانسوں میں تیزی آئی،، یقیناً اگر وہ اسے نہ روکتی تو آج بہت کچھ ہوسکتا تھا،، سیرت کی جانب اسنے سرد نگاہوں سے دیکھا اور گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا،، چوڑے شانے گہرے سانس کیساتھ ہی اشتعال زائل ہوتے ہوئے ڈھیلے پڑ گئے سیرت اسے لیکر کوریڈور سے باہر نکل گئی زاویان کی نگاہوں نے اسپتال کی آخری حد تک ان کو دیکھا سیرت دل کے کھچاؤ پر پیچھے مڑی تو زاویان نے بےدلی سے اس سے نگاہیں جدا کی، سیاہ آنکھوں سے چند آنسوں ٹوٹ کر اسکے رخساروں پر بکھرے۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

سنہرے میکسی گاؤن میں  ریشمی بالوں کا فرینچ ڈیزائن بنائے سینے پر بازؤں باندھے وہ پرسوچ نگاہوں سے ایک نقطے کی نگرانی کررہی تھی دو ہفتے میں فائنل ایکزیم تھے جسکی تیاری میں وہ دن رات ایک کرچکی تھی۔

ریحم نے بضد ہوکر آج اسے لائٹ میک سے برائیڈل میک اپ پر راضی کیا تھا نیلی آنکھیں سموکی میک اپ میں قیامت خیز تھی،، عنابی لب پیل ریڈ لپ اسٹک میں  قہر ڈھارہے تھے۔

"آئیذل یہاں آؤ ۔۔۔۔"

ریحم کی آواز سماعت سے ٹکراتے ہی وہ سوچوں کے بھنور سے آزاد ہوئی سر اثبات میں ہلاکر وہ میکسی سنبھالتے ہوئے جھنجھلا کر رہ گئی، داہنی جانب سے کسی نے جھک کر میکسی کو تھاما آئیذل نے مڑ کر دیکھا تو اسکا چہرا فرطِ مسرت سے چمک اٹھا بلیک تھری پیس سوٹ میں وہ سحر انگیز شخص جو ہمیشہ سے اسکا تھا،، اسے الفت سے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا ہال میں لوگوں کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی اسنے جذبات پر قابو پایا ورںہ وہ اسے سینے میں بھینچ لینے کی نیت سے آیا تھا۔

"ماشاءاللہ.... کیا یہ میری لمظ ہے..؟!"

اسکے ہمراہ چلتے ہوئے وہ مبہم مسکراہٹ کیساتھ بولا آئیذل نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔

"اور کیا یہ پروفیسر زاویان حیدر ہیں جو اپنی لمظ پر تبصرہ کررہے ہیں۔۔۔ "

وہ بھونیں اٹھاتی دھیمے لہجے میں بولی وہ بےساختہ مسکرایا ہال میں بیٹھے لوگوں نے ستائش سے اس جوڑے کو دیکھا ایک دوسرے کو عقیدت سے دیکھتے ہوئے وہ مسکرا رہے تھے زاویان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اسٹیج پر آنے میں مدد فراہم کی آئیذل نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھاما مہمانوں میں آنکھوں کی ایک جوڑی نے بےحد حیرت سے تمام منظر ملاحظہ کیا حیرت تب بڑھی جب زاویان نے اسکے بالوں میں الجھے ایئرنگ کو احتیاط سے نکالا حیرت سے آنکھیں پھیلائے وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر ریحم کے پاس آئی تھی۔

"یہ آئیذل ہے ناں۔۔۔ یہ اسکے ساتھ کون ہیں"

رباب نے تشویش سے زاویان کی جانب اشارہ کیا ۔

"وہ  زاویان بھائی ہیں۔۔۔ آئیذل کے ہزبینڈ۔۔۔"

ریحم نے مسکرا کر اسے دیکھا  رباب کا چہرا یکدم  فق ہوا حیرت و پریشانی سے وہ چند ساعت دونوں کو گھورتی رہ گئی تھی یعنی وہ جس شخص کیلیے آئیذل کیساتھ دل میں بیر رکھ رہی تھی وہ تو پہلے سے اسکا ہی تھا رباب سرخ بھبھوکا چہرا لئے واپس اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔

"کیا ہوا بیٹا۔۔۔"

رباب کی ماں نے مسکرا کر اسے مخاطب کیا جو منہ کے زاویے خراب ہونے سے خود کو باز رکھے بیٹھی تھی

"کچھ نہیں مماں،، وہ دیکھیے وہ لڑکی سانولی ہے اور اسکا شوہر دیکھیں،، کیا سوچ کر اسنے اس لڑکی کا انتخاب کیا ہوگا۔۔۔ آپکو کیا لگتا ہے۔۔۔ وہ ہینڈسم ہے اسے کوئی بھی مل سکتی تھی لیکن وہی کیوں۔۔۔"

حسد سے وہ چند زہریلے الفاظ اگل ہی گئی اسکی ماں نے سرسری نظرسے اسٹیج پر کھڑے جوڑے کا جائزہ لیا

"سب کچھ رنگت نہیں ہوتی بیٹا،، وہ لڑکی اپنی گندمی رنگت میں بھی بہت خوبصورت ہے نین نقش بہت خوبصورت ہیں اسکے،، اور رہی بات انتخاب کی تو محبت رنگ، روپ نہیں دیکھتی،، دیکھو اس مرد کو،، کتنی عقیدت سے دیکھ رہا ہے وہ اسے،، اسکی آنکھوں میں اپنی شریکِ حیات کیلیے کتنی عزت ہے۔۔۔"

رباب اپنی ماں کے الفاظ پر اندر تک جل بھن گئی سرد آہ بھرکر وہ اپنے فون پر سکرولنگ کرنے لگی مگر اندر کی آگ کسی صورت بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی  دلہن اور دلہے کی انٹری کے دوران جہاں تمام افراد کی نگاہوں کا مرکز زاویان اور آئیذل تھے وہاں آئیذل کی نگاہیں دلہن سے ہٹ نہیں رہی تھی۔

"استغفر اللہ،، جب ممانی کو پتا چلا وہ تو پورا محلہ سر پر اٹھا لیں گی"

آئیزل نے دلہن کی ماں کی جانب تشویش سے دیکھ کر سوچا۔

"لمظ،، دوائی کا وقت ہوگیا ہے،، کچھ کھاکر یاد سے لے لینا"

زاویان کی آواز آئیذل کو حقیقت میں واپس لے آئی بے پرواہی سے سر ہلاکر اسنے اسٹیج پر بیٹھتی دلہن کو درزدیدہ نظروں سے دیکھا  زاویان سنجیدگی سے اسے ایک جانب لے آیا تھا۔

"میری بات سن بھی رہی ہیں آپ...؟!"

آئیذل نے لب بھینچ کر زاویان کی جانب دیکھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا سر ہلاکر وہ اسے سرد آہ بھرنے پر مجبور کرگئی قریبی کرسی پر آئیذل کو بٹھاکر وہ سختی سے تنبیہ کرنے کے بعد ناجانے کہاں جاچکا تھا۔

"ناجانے کیا ہونے والا ہے.... کیا بتا دوں ممانی کو نہیں،، وہ تو مجھے قصور وار ٹھہرا دیں گی اگر مجھے پتا تھا تو بتایا کیوں نہیں ،، اور اب تو ںکاح بھی ہوچکا ہے.... یہ کیا کردیا تم نے آئیذل"

بےچینی سے آس پاس دیکھتی وہ دبے لہجے میں بڑبڑا رہی تھی جب رباب سالن کی پلیٹ اٹھائے اسے سوچوں میں غرق دیکھ کر بےساختہ مسکرائی،، نچلا لب دباکر وہ آئیذل کی جانب پیش رفت کرگئی آئیذل کی نظریں اسٹیج پر عائزہ بیگم کیساتھ مسکراتی دلہن پر مرکوز تھی جب رباب نے  اسکے پیروں  کے اوپر پلیٹ چھوڑ دی آئیذل ہوش میں آتی تیزی سے کرسی سے اٹھی زاویان نے وقت پر پلیٹ تھام کر قریبی ٹیبل پر رکھی،، رباب کا چہرا زاویان کو دیکھ کر شرمندگی سے سرخی مائل پڑا ۔

"آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"

آئیذل نے سر اثبات میں ہلاکر رباب کی جانب دیکھا۔

"سوری غلطی سے ہوگیا،، تم ٹھیک ہو ناں"

لبوں پر زبردستی کی مسکراہٹ دھکیل پر رباب نے فکرمندی سے پوچھا۔

"فیملی کہاں ہے آپکی مس رباب میرا خیال ہے آج آپکی ساری پراگریس مجھے انکے ساتھ شیئر کردینی چاہیے"

زاویان کی جانب حراساں نگاہوں سے دیکھتی رباب کا چہرا اسکی بات سن کر سفید پڑگیا، آئیذل نے زاویان کا بازو پکڑ کر اسے مزید پیش قدمی سے روکا رباب نے حاسد نگاہوں سے اسکے ہاتھ کو زاویان کے بازو پر دیکھا، حسد کی آگ اسے اندر سے جلا کر خاکستر کرچکی تھی۔

"بیٹھے آپکی دوائی کا وقت ہوگیا ہے۔۔۔"

زاویان نے محبت سے  آئیذل کو چیئر پر بٹھایا آئیذل نے استہزائیہ نگاہوں سے رباب کو دیکھا جو اب تک  دونوں لبوں کو سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کئے  وہیں کی وہیں کھڑی کھڑی تھی۔

"بسمہ اللہ ...."

آئیذل نے محبت سے زاویان کی جانب دیکھا اپنے ہاتھ سے اسنے چھوٹا سا نوالہ بناتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تھا رباب سرخ بھبھوکا چہرا لئے واپس لوٹ گئی تھی۔

"آپ بھی کھائیے میں کھلاؤں آپکو ؟!!۔۔۔"

آئیزل کی جانب محبت سے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا تھا۔

" اکزیمز کی تیاری کیسی چل رہی ہے۔۔۔"

آئیذل نے  محبت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"آپ آگئے ہیں ناں۔۔۔ سب ٹھیک سے ہوجائے گا،، میرا لکی چارم ہیں آپ..."

زاویان نظریں جھکاتا گہرا مسکرایا آئیذل نے مہر آمیز نگاہوں سے ہلکی بیئرڈ میں  ابھرتے ڈمپل کو دیکھا۔

"آپ مسکراتے رہا کریں،، مجھے بہت اچھا لگتا ہے"

زاویان کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے آئیذل نے شریر لہجے میں کہا وہ کھانے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دوبارہ مسکرایا،، آئیذل نے مسکرا کر پانی کا گلاس لبوں سے لگایا،، یہ وہ قسمت تھی جسکی دعا ہمیشہ انفال بی بی اپنی آئیذل کیلئے کیا کرتی تھی،  اللہ پاک نے اس  اداس،، غمگین لڑکی کیلیے ایک ایسے مرد کا انتخاب کیا تھا جو اسکی ہر پریشانی کی دوا تھا،، جو روشنی، اندھیرے میں ہمیشہ اسکا ساتھ دینے والا ہمسفر تھا،،  اس سادہ سی لڑکی کی ادھوری زندگی کو مکمل کرتا تھا،، آج وہی لوگ اس لڑکی کی قسمت پر رشک کررہے تھے جو کسی دور میں اس لڑکی پر تبصرے کھینچا کرتے تھے۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

رخصتی کا وقت آن پہنچا تھا توصیف اپنی بیوی کا ہاتھ محبت سے تھامے اسٹیج سے اترا عائزہ بیگم نے دونوں کی بلائیں لی اور میرج ہال سے واپس گھر کیلیے روانہ ہوگئے زاویان کو آئیزل کے رویے میں تبدیلی کا احساس تو ہوا تھا مگر اسنے اب تک پوچھا نہیں تھا اسوقت بھی وہ گاڑی کی ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی۔

"کیا ہوا ہے آپکو ۔۔۔ "

"جج۔۔جی..."

زاویان کی جانب دیکھتی آئیذل بوکھلا کر بولی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔

"وہ ممانی نے توصیف کیلیے جو لڑکی ڈھونڈی ہے وہ توتلی ہے،، اور ممانی کو پتا ہی نہیں"

زاویان جو بےحد سنجیدگی سے اسے سن رہا تھا  اچانک بےیقینی سے آئیذل کا چہرا دیکھتے ہوئے گاڑی روک گیا آئیذل کا دل اسکے ردعمل پر خوف سے بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد اسکا بھاری جاندار قہقہ گاڑی میں گونجا آئیذل کا چہرا شرمندگی سے سرخی مائل پڑگیا،، آنکھیں سکیڑے اسنے زاویان کے کندھے پر مکا رسید کیا تھا۔

"اچھا۔۔۔ سیریسلی تو پھر ہم پہلے آپکی ممانی کے پاس چلتے ہیں"

"آپکو شرم نہیں آرہی میں یہاں اتنی پریشان ہوں ۔۔۔"

آئیذل نے اسکے ردعمل پر حیرت سے آنکھیں پھیلائی  گاڑی  سٹارٹ کرتے ہوئے وہ ایک بار پھر کھل کر ہنسا تھا آئیذل کچھ دیر اسے دیکھتی رہی،، دونوں نے ایک دوسرے کو مختصر دیکھا اور گاڑی میں ایک بار پھر زاویان کی بھاری آواز گونج اٹھی آئیذل نے منہ پھلا کر سینے ہر بازو لپیٹ کر رخ بدلا۔

"آئیے لمظ،، آپکی اس ممانی کے انجام کا ناجانے میں کب سے انتظار کررہا تھا"

آئیذل نے حیرت سے اسے دیکھا سیٹ بیلٹ ہٹاکر وہ اسے گاڑی سے کھینچ لے گیا آئیذل کا دل حلق میں دھک دھک کرنے لگا گلی میں محلے کے سارے بچے جمع تھے اور عائزہ بیگم کی آوازیں آرہی تھی۔

"اری او منہوس ماری خدا تیرا بیڑا غرق کر ے، کیڑے پڑیں تجھے تیری میسنی ماں نے دھوکا دیا ہم سب کو"

عائزہ بیگم نے سر پیٹ کر کچھ قدموں کے فاصلے پر عروسی لباس میں کھڑی دلہن کو دھو ڈالا تھا توصیف صدمے سے نڈھال ہوکر چارپائی پر پھیلا ہوا تھا اور ریحم اسے پنکھے سے ہوا کررہی تھی۔

"امی ایتھے(ایسے) تو مت بولو،، تمھالی(تمہاری) باہو ہوں میں۔۔"

دلہن معصوم شکل بناتی دروازے سے اندر آتی آئیذل کو دیکھ کر روہانسی ہوئی تھی۔

"اوری خبردار جو تو نےخود کو میری بہو کہا تو،، تیرا منہ نوچ لوں گی میں۔۔ دیکھ ادھر دیکھ میرے پتر کو کتنی محبت سے لایا تھا تجھے ناگن،، تو نے ہم سب کو ریجھ لیا، اس سے اچھا تو تو گونگی بہری ہوتی،، اٹھ جا توصی اور ابھی گھر پھینک کر آ اس منہوسن کو،، ہائے تم لوگ کیا تماشا دیکھ رہے ہو ہمارا،، کیا کچھ باقی رہ گیا ہے،، اے ریحم جا دروازہ بند کر،، انکی بوا کا گھر ہے جو سارے جمع ہوئے کھڑے ہیں"

عائزہ بیگم ناگ کی طرح پھنکار پڑی محلے کے بچے ہنستے  مچلتے دروزے سے باہر دوڑ گئے تھے آئیذل نے خشک لبوں کو تر کیا اسے تو سمجھ نہیں آرہا تھا یہاں مسکین کون تھا۔

"امی انتو(انکو) بولئے ناں مالے(ہمارے) شاتھ (ساتھ) کمرے میں چلنے کو، جلولی(ضروری) بات کلنی"

"اری او لائبہ چپ کر ورنہ تجھے چوٹی سے پکڑ کر باہر پھینک دوں گی، کیوں تماشا بناتی ہے،، ریحم جا اس منہوس کو اندر چھوڑ کرآ جتنا بولے گی ،، دل  جلائے گی میرا۔  چودھری صاحب،، میں تو آج لٹ گئی"

کب سے خاموش کھڑے ممتاز صاحب کا پیمانہ ضبط اب جواب دے چکا تھا۔

"اب ایک لفظ مت بولنا،، اندھی ہوگئی تھی جب لڑکی دیکھنے گئی تھی،، جابچی کمرے میں لے جا بھابھی ک۔۔۔ اور کان کھول کرسن لو محلے میں تمہاری وجہ سے اگر میری بدنامی ہوئی تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا،، اب جو ہوگیا سو ہوگیا گھر میں فساد برپا کرکے خون مت جلاؤ میرا۔۔۔"

ممتاز صاحب گرجدار آواز میں عائزہ بیگم کو تنبیہ کرکے دروازے سے باہر نکل گئے آئیذل نے درزدیدہ نظروں سے زاویان کی جانب دیکھا جو دونوں ہونٹوں کو سختی سے باہم پیوست کئے ہاتھ کی مٹھی بنائے لبوں پر دیکر کھڑا تھا آئیذل سے نظریں ملنے پر اسنے دلچسپی سے بھونیں اٹھائی تو آئیذل کی پیشانی پر بل پڑے۔

"بیٹا آؤ باہر ٹھنڈ ہے کمرے میں چلو۔۔۔"

عروسہ بیگم نے محبت سے آئیذل اور زاویان کو مخاطب کیا۔

"نہیں ممانی میں دراصل اپنا فون یہاں بھول گئی تھی وہی لینے آئی تھی"

آئیذل نے شرمندگی سے نگاہیں چرائی عروسہ بیگم نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا اور زاویان کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے فون پر کچھ دیکھ رہا تھا،، آئیذل کمرے میں جاکر پرس سے فون نکال کر ہاتھ میں لیکر آنے کے بعد شرمندگی سے واپس لوٹ آئی تھی۔

"بیٹا رک جاؤ کافی رات ہوگئی ہے کل چلے جانا۔۔"

زاویان نے عروسہ بیگم کی بات پر آئیذل کی جانب دیکھا۔

"نہیں ممانی ۔۔۔ کافی رات ہوگئی ہے آپ سب آرام کریں"

زاویان کو بازو سے پکڑتی آئیذل شرمندگی سے بولی عروسہ بیگم سر ہلاکر عائزہ بیگم کی جانب پیش قدمی کرگئی جو اب تک دلہن اور اسکے گھر والوں کو القابات سے نواز رہی تھی۔

"خبردار جو اب آپ ہنسے میری ممانی ہیں وہ"

آئیذل نے اسے بازو سے پکڑ کر افسردگی سے کہا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر مسکراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ چکا تھا آئیذل نے سرد آہ بھرکر سیٹ بیلٹ لگایا تھا،، یہ تو سچ تھا وہ ہمیشہ اسے طعنے دیا کرتی تھی اور آج جو کچھ انکے خود کیساتھ ہوا تھا وہ صدیوں تک نہیں بھولنے والی تھی۔

 "وہاں کیا ہوا تھا  سیرت... "

شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے وہ بیڈ کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے بےحد سنجیدگی سے بولا  سیرت جو پچھلے کئی منٹوں سے  کھڑکی کے سامنے ٹھہری  پشیماں نگاہوں سے آسمان پر پھیلی گھنگھور گھٹاؤں کو دیکھ رہی تھی اسکی بھاری آواز سماعت سے ٹکراتے ہی پیچھے مڑی،، لیپٹاپ پر لاپرواہی سے جھکتے ہوئے وہ  پسلی پر ہاتھ رکھ کر زخم کا اندازہ ہوتے ہی سنجیدگی سے رکا۔

"پریشانی والی کوئی بات نہیں،، فکر مت کرو"

 ہیڈبورڈ کے قریب کشن درست کرکے رکھنے کے بعد اسے بٹھانے کے ساتھ ہی  سیرت نے بےاعتنائی سے کہا،اسنے  ایک بار پھر لیپٹاپ کی جانب مزاحمت کی۔

"کیا ضرورت ہے کام کرنے کی،، سیریسلی مجھے حیرت ہورہی ہے تمہیں دیکھ کر،، کیا واقعی تمہیں درد نہیں ہورہا ۔۔۔ یا پھر وہ گولی ربڑ کی تھی،، اور تم اسٹیل کے بنے ہوئے ہو"

اسکے سامنے لیپٹاپ رکھ کر سیرت نے خدشات سے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی۔

 وہ تشویش سے سیاہی مائل آنکھوں کو دیکھتے ہوئے بیڈ کے کنارے پر بیٹھا۔

"رائٹ صرف ایک گولی،، کچھ نہیں بگاڑ سکتی میرا"

وہ  بےفکری سے کہتا ہوا اسے بےحد برا لگا سیرت نے غیر یقینی سے اسکی آنکھوں  کو دیکھا جو لیپٹاپ کی اسکرین پر تصویروں پر  دانشمندی سے نگرانی میں ملوث تھی۔

"اب بتاؤ گی کیا ہوا  تھا وہاں........؟!"

لیپٹاپ سے نگاہیں ہٹاکر اسنے سیرت سے براہ راست  نظریں ملائی، سیرت زاویان کی بات یاد کرکے اندر سے ایک بار پھر ٹوٹ کر بکھرگئی وہ چند ساعت سنجیدگی سے اسے سوچوں کے بھنور میں الجھتے دیکھتا رہا۔

"بھیا نے کہا میں تمہیں چھوڑ دوں اور انکے ساتھ واپس چلوں"

سیرت نے آخر کار اسے بتاںے کا فیصلہ کیا۔

"اور تم نے کیا کہا پھر۔۔۔۔"

حدید نے  متانت سے لیپٹاپ کی اسکرین پر ابھرتی تصویر کا جائزہ لیا۔

"میں نے انکو چھوڑ دیا۔۔۔"

 لیپٹاپ پر چلتی قوی انگلیاں سیرت کا جواب سن کر یکلخت ساکت ہوگئی سیرت  بیڈ سے اپنا فون اٹھاتے ہوئے رکی  لیپٹاپ کی اسکرین پر ایک مشتبہ شخص کی تصاویر چمک رہی تھی۔

"یہ رائٹ ہینڈڈ ہے اور جس نے گولی چلائی تھی وہ لیفٹی تھا۔۔ جس روف ٹاپ سے اسنے نشانہ لگایا اگر وہ  رائٹ ہینڈڈ ہوتا تو گولی میرے کندھے میں لگتی،،اونہوں،، اور یہاں گنے چنے ہی لیفٹی ہیں..."

اس نے چند ساعت تصویر کی نگرانی کے بعد کسی کو ای میل بھیجتے ہوئے سنجیدگی سے کہا وہ چند ساعت لیپٹاپ کو گھورتی رہی یہاں تک کہ وہ بھول بیٹھی تھی کہ کچھ لمحات پہلے کتنا حساس موضوع زیرِ بحث تھا سیرت اسکے اچانک کہنی پکڑکر کھینچنے پر بوکھلا کر ایک ہتھیلی میٹرس پر ٹکاتی اسکے چہرے سے چند انچ کے فاصلے پر رکی۔

"کیا سوچ کر تم نے اپنے بھائی کو چھوڑا ۔۔"

سیرت نے اچانک سوال پر تشویش سے نچلا لب چبایا۔

"جانتی ہومجھے کیسا انسان ہوں،، کیا سوچ کر میرا انتخاب کیا تم نے"

حدید کی نگاہوں نے تمام صورتحال کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔

"جب تم میری برائیوں سمیت مجھے ترجیح دے سکتے ہو تو کیا میں نہیں دے سکتی"

سیرت نے  حدید کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر سنجیدگی سے کہا وہ  سیاہ آنکھوں پر سایہ فگن گھنی پلکوں کو دیکھتے ہوئے  وہ ستائشی انداز میں مسکرایا،، سیرت نے ہتھیلی ٹکاکر اٹھنا چاہا۔۔

"کچھ ۔۔۔ تو شرم کرو اپنی کنڈیشن دیکھو رضا"

اسکی سرد انگلیوں کے نرم لمس کو کلائی پر رینگتے محسوس کرکے سیرت نے تشویش سے اسے دیکھا.

"اہمم تمہیں لگتا ہے اس کنڈیشن کی وجہ سے میں تمہیں مایوس کردوں گا؟!!"

اسنے معنی خیزی سے سیرت کے سرخی مائل رخسار کو چھوکر خمار آلود لہجے میں کہا اسکے بےباک الفاظ کے چناؤ پر سیرت کا چہرا سرخ بھبھوکا ہوگیا  شرم و حجاب کی سرخیوں سے مزین تیکھے نقوش حدید  نے  آنکھوں میں بڑے اشتیاق سے اتارے۔

"توپھر آج رات تمہارے سارے خدشات دورکردیتا ہوں"

سیرت کی مزاحمت کرتی آنکھوں سے سرکش نگاہیں ملائے اسنے معنی خیزی سے کہا نازک مرمریں کمر کے زاویوں کی پیمائش کرتی قوی سرد انگلیوں نے مزاحمت کرتی مخروطی انگلیوں کو اپنے آپ میں سمو لیا۔

"تمہارا زخم گہرا ہے عسکری...."

سیرت نے افسردہ دلی سے اسکی خمار سے لبریز آنکھوں میں دیکھا۔

"واقعی بہت گہرا ہے میرا زخم۔۔۔"

اسکی قوی انگلیوں میں مزاحمت کرتی گلابی انگلیاں  ڈھیلی پڑگئی حدید نے متانت سے اسکی آنکھوں میں دیکھا

نگاہوں کا فسوں خیز  تصادم بےحد طویل ثابت ہوا جسے حدید نے خود پر گراتے ہوئے  توڑا سیرت نے  میٹرس سے ہتھیلی ہٹاکر اسکے سینے پر ٹکاتے ہوئے فاصلہ برقرار رکھا اسکے دامن میں غیر ارادی طور اسکا زخم دکھانے کے تصور پر وہ مزاحمت بھی نہیں کرپائی یاسمیں کی ہلکی فسوں خیز مہک اسکے حواسوں پر طاری ہوئی

سیرت کی سینے میں اٹکی سانسوں کو اسکے کلون کی مسحور کن مہک نے مزید بوجھل کردیا۔

"لیکن تمہاری اجازت کے بغیر کچھ بھی کرنے کے حق میں نہیں ہوں میں"

سرخی مائل رخساروں پر گھنی پلکوں کے لرزیدہ سائے اسنے متانت سے دیکھ کرکہا۔

"تم جو چاہو کرسکتے ہو۔۔۔۔"

آنکھیں میچے وہ دھیمے لہجے میں بولی، باریک لرزتی آواز نے اسکے احساسات کو مزید آنچ دی۔ 

-ADULT Content Ahead Be aware/🚫

گھنے ریشمی بالوں کا آبشار کیچر سے آزادی حاصل کرکے فرطِ مسرت سے لرزتے ناتواں کندھوں پر پھیل گیا.

سفید سلک کی شرٹ پر اسکی سرد انگلیاں  برقی لہریں پیدا کررہی تھی، لیمپ کی مدھم روشنی میں وہ  حسن کی دیوی اپنے ہوش ربا حسن کیساتھ اسکے دل پر قابض ہوچکی تھی،، اسکی قربت کے نشے سے بھاری پڑتی گھنی پلکیں اٹھائے وہ نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھ کر اپنے سحر میں اسے بری طرح قابض کرگئی۔

"تمہاری آنکھیں ۔۔۔"

وہ خمار سے لبریز لہجے میں کہتے ہوئے سیرت کے کان کی لو کو لبوں سے چھوتے ہوئے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرگیا اسکی شرٹ کو مٹھی میں بھینچ کر سیرت نے کسی اندیشے کے تحت  آنکھیں میچی۔

"تمہاری آنکھوں میں وہ سب ہے جو میری روح کی تشنگی کو مٹا سکتا ہے"

سیرت کے چہرے کو اپنے چہرے کی سید پر رکھتے ہوئے وہ بھاری سرگوشی میں بولا،، اسکی  نہایت بھاری سرگوشی پر سیرت کا دل سوکھے پتے کی ماند لرز گیا۔

"تم وہ مہلک زہر ہو جسے پینے کیلیے میں کئی مہینوں  سے مررہا ہوں"

وہ اسکے سحر میں آخری حد تک ڈوبے بےحد بھاری آواز میں سرگوشیاں کرکے اسکی جان ہلکان کررہا تھا سیرت نے آنکھیں وا کی تو اسکی خمار سے سرخی مائل پڑتی آنکھوں سے نگاہوں کا شدید تصادم ہوا۔

ریشمی بالوں میں انگلیاں پیوست کئے وہ  اسکی گردن پر  آہستگی سےلب رکھ گیا اسکی پشت پر دونوں ہاتھوں سے شرٹ کو مٹھی میں بھینچے سیرت طمانیت کے گہرے سمندر میں ڈوب  سی گئی۔

"جب میرے ہونٹ تمہارے ہوش ربا حسن کو بےباکی سے نہارتے ہیں "

اسکی بیوٹی بون پر سرخ مہریں ثبت کرتا وہ اسکی مخصوص مہک کو اپنی سانسوں میں سمیٹتا اسکے لبوں پر واپس آتے ہوئے نشے سے چور لہجے میں بولا۔

"یہ آزادی ہے۔۔۔ حقیقی آزادی ہے میرے لئے"

اسکی بےباکیوں سے سرخی مائل پڑتے رخساروں کو پرتپش سانسوں نے جھلسا دیا،، آنکھیں موندے وہ اسکی بھاری سحر انگیز آواز اور فسوں خیز مہک کے زیر اثر ساکت تھی۔

"میں اب تک ان تمام وجوہات کو شمار نہیں کرسکا جن کی وجہ سے میں دیوانگی کی حد تک تمہاری محبت میں گرفتار ہوا ہوں،، تمہارا لمس میری سانسیں روک دیتا ہے،، ایک بےلگام جانور کو تم نے اپنی محبت میں مبتلا کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے،،نتائج جانتی ہو اس محبت کے"

ریشمی بالوں کی جڑوں کو کھینچ کر اسنے سیرت کا چہرا اوپر اٹھایا، سیاہ آنکھیں اسکے اظہارِ محبت پر سرشاری سے چمک رہی تھی،، وہ  متکبرانہ انداز میں مسکراکر اسکے دل کو ایک بیٹ مس کرنے پر مجبور کرگئی،، وہ سرشاری کے عالم میں آج اس سے جانے انجانے میں اظہارِ محبت کربیٹھا تھا۔

بھوری آنکھوں نے عنابی لبوں کے کنارے پر مسکراہٹ میں ڈھلتے سیاہ نشان کو حسرت سے دیکھا۔

"تم نے مجھےجس مرض میں  مبتلا کیا ہے اس کا ذائقہ چکھنا تمہارے لئے بےحد ضروری ہے"

کندھوں سے  سرکتی سلک کی شرٹ کا احساس ہوتے ہی سیرت کی دھڑکنیں رک سی گئی،، اسے میٹرس پر دھکیلتے ہوئے وہ اسکے  تمتماتے سرخی مائل چہرے سے  چند انچ کے فاصلے پر رکا،، وہ اپنے نسوانی حسن اور تمام تر رعنائیوں کیساتھ میٹرس پر گرتی اسکے دل و دماغ پر قابض ہوگئی،،کف لنکس کھولتے ہوئے اسنے مختصر وقفہ لیکر اسے دیکھا آنکھیں میچے وہ بلینکٹ دونوں مٹھیوں میں جکڑے لیٹی دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی شاید ماضی کی کسی بھیانک یاد نے اسکے غیر مندمل زخموں کو کرید دیا تھاتیکھے نقوش چہرے پر پھیلی سرخی اسکی سانسیں بوجھل کرنے لگی

شرٹ اتار کر بیڈ کے کنارے پر ڈالتے ہوئے وہ اس کے تھرتھراتے سراپے پر سایہ فگن ہوا۔

"وعدہ کرو ،، تم کبھی چھوڑکرنہیں جاؤ گے مجھے۔۔۔ایک بار  ٹوٹ کر دوبارہ جڑنے کا حوصلہ نہیں مجھ میں"

اسکی آنکھوں میں حراساں نگاہوں سے دیکھ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی اسکے رخسار پر گری ریشمی لٹ کو اسنے ناک کی نوک سے دور دھکیل کر اسکی مہک کو ایک بار پھر اپنے اندر سمیٹا۔

"تم میری وہ عادت ہو جسے میں چاہ کر بھی نہیں چھوڑ سکتا،، لیکن اگر تم نے کسی دن مجھے چھوڑ کر جانے کا سوچا بھی تو تمہیں نیست و نابود کردوں گا اور اسکے بعد خود کو شوٹ کردوں گا"

گردن پر نرم لمس کے ہمراہ چبھن محسوس کرکے سیرت کسمسا کر آنکھیں میچے میٹرس میں سمٹنے لگی۔

"تم آبِ حیات ہو،،مگر  میری ساری تشنگی تم ایک رات میں نہیں مٹا پاؤ گی"

سیرت کے کندھے پر سرخ مہر ثبت کرتا وہ اسکی کمر کی جانب جھکا سیرت کی سانسیں تنگ ہونے لگی میٹرس مٹھی میں سختی سے بھینچے وہ آنکھیں میچ گئی،، سیاہ آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر سفید بلینکٹ میں جذب ہونے لگے  ماضی کے وہ سارے خدشات چند ہی لمحات میں اسکے ذہن پر بدروحوں کی مانند چھاگئے سانسیں روکے وہ حلق سے خطا ہوتی سسکیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتی تھی۔

اسکی کمر پر  موجود  زشت رو نشانات پر نرمی سےلب رکھے وہ اسکے لرزتے وجود کو خود میں سمیٹ گیا سیرت نے خوف و حیرت سے آنکھیں وا کی، وہ شاید ٹھکرائے جانے کے خدشات سے اب تک خود کو نکال نہیں پائی تھی۔

"تمہارے ہر زخم سے واقف تھا میں ،، اس وجود پرکب  کہاں کیوں معمولی کھروچ پڑی میرے علم میں ہے،، ان زخموں کو مندمل کرنے کیلیے میں صرف ایک موقع چاہتا تھا،، جو تم نے مجھے میسر کردیا"

سیرت کا حزن سے بھاری دل اسکی بات سنتے ہوئے  دھڑکنے سے عاری ہونے لگا۔

"کیا تم جانتی ہو میں تمہیں چاندنی کیوں کہتا ہوں کیونکہ تم  درجنوں ستاروں کے بیچ صرف ایک ہو،، منفرد ہو،، ٹھیک اسی طرح جیسے چاند صرف ایک ہے تمہارے جیسے کوئی نہیں"

وہ دھیمے نرم لہجے میں کہہ کر اسکی آنکھوں کی حدوں سے ٹوٹتے آنسوں کو لبوں سے چننے لگا۔

"اور یہ بھی کہو چاند کی طرح میں بھی داغ خوردہ ہوں، مجروح ہوں، جو داغ"

"تم جیسی بھی ہو میری ہو۔۔۔"

لرزتے  عنابی لبوں پر انگشت شہادت رکھ کر وہ  اسے مزید کچھ بھی کہنے سے قبل ٹوکتے ہوئے متانت سے بولا سیاہ آنکھوں میں اسکے لئے جزباتوں کی کئی لہریں پیدا ہوئی ہاتھ بڑھاکر اسنے کمرے میں جلتے لیمپ کو بجھا دیا چاند کی نگاہوں سے انکو محفوظ کرتے سفید ریشمی پردے ہوا کے دوش پر بیڈ کے چاروں اطراف پھیل گئےاسکی شدتوں پر وہ سرد رات میں گرم موم کی طرح پگھلتی جارہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"ابے سالے حرامخور* کچھ بکے گا یا تیری زبان کھینچ لوں میں"

یہ مناظر ایک ڈارک روم کے تھے جہاں سیاہ چرمی لباس میں ہوڈ سے چہرے ڈھکے چند افراد کے بیچ و بیچ ایک کرسی پر وہ اسنائپر باندھا گیا تھا جس نے آج صبح سیرت پر گولی چلائی تھی ای میل موصول ہوتے ہی  میک چند مشتبہ افراد کیساتھ اس اسنائپر کی کھوج میں لگ چکا تھا جو تین گھنٹے بعد انکی گرفت میں تھا۔

"چل ٹھیک ہے،، باس آکر تیری ایک ایک انگلی ادھیڑنے کے دوران تجھ سے تفصیل سے پوچھ لیں گے"

میک کے الفاظ سن کر کرسی پر بندھے آدمی کی خوف سے ہچکی بندھ چکی تھی۔

"کک،، کون ہے تمہارا باس،، کس کیلیے کام کرتے ہوتم"

میک اسکی بوکھلاہٹ کا مفاد اٹھاتے ہوئے مسکراتا ہوا اسکے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھا۔

"تو نہیں جانتا میرے باس کو..... ارے" ڈی" اور کون"

 اسکا نام سننے کی دیر تھی کرسی پر بندھے آدمی کی پیشانی  پسینے سے چمک پڑی۔

"اونہوں،،، دیکھا تم تو جانتے ہو ہمارے باس کو"

میک کی پراسرار مسکراہٹ نے مقابل کی دھڑکنیں تیز کردی۔

"مم،، میں سب بتاتا ہوں مجھے بس جانے دو،،میں کسی سے اس بیس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا،، مجھے شاہزیب خانزادہ نے اس لڑکی کو مارنے کا آرڈر دیا تھا،، میں سچ کہہ رہا ہوں"

میک فون کی آڈیو ریکارڈنگ حدید کو واٹس ایپ کرنے کے بعد ٹیبل سے پسٹل اٹھاکر مقابل کے سینے میں گولیاں اتارکر  ساتھیوں کو اشارہ کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تھا وہ شخص بےسدھ ہوتا کرسی سے نیچے گرا تھا سینے سے بہتا سرخ سیال اسکے چاروں اطراف پھیل چکا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

کھڑکی سے اندر پھیلتی سورج کی چمکدار کرنیں چہرے پر پڑتےہی  کروٹ بدل کر کشن میں چہرا چھپاتی وہ کسمائی قد آور آئینے کے سامنے زخم کا مشاہدہ کرتی بھوری آنکھیں سفید بلینکٹ سے جھانکتی سفید پنڈلی پر ساکت رہ گئی  ریشمی بال سفید کشن کے چاروں اطراف پھیلے ہوئے تھے وہ بےفکری سے بیڈ پر پھیل کر سورہی تھی بلینکٹ کا ایک کنارا قالین کو سلامی پیش کررہا تھا  گلابی رخساروں پر سایہ فگن لمببی گھنی پلکیں اشتیاق سے دیکھتے ہوئے وہ  سنجیدگی سے زخم کی جانب متوجہ ہوا کل رات ہی زخم کے  اسٹیچز مکمل کھل چکے تھے اسنے کچھ دیر قبل ہی نئی بینڈیج کی تھی۔

سیرت  نے نیند سے بوجھل آنکھیں فون کی کان چھید دینے والی رنگ ٹون بجنے پر واکی،،  اسکی نیند کا خیال آتے ہی کال سرعت سے منقطع کرکے حدید نے فون ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا مگر وہ  انگڑائی لیتے ہوئے اٹھ بیٹھی خود کو اسکی وائٹ شرٹ میں پاکر سیرت نے تشویش سے بلینکٹ کو واپس کھینچ کرخود پر ڈالا اسے آئینے کے سامنے کھڑا مسکراتے دیکھ کر سیرت نے ناپسندیدگی سے بھنویں سکیڑی۔

"مجھے ڈریس نکال کردو وارڈروب سے ۔۔۔۔"

تیوری چڑھائے وہ وارڈروب کی جانب روہانسی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"اونہوں۔۔۔ خود لے لو آکر۔۔۔"

کاؤچ سے سیاہ  شرٹ اٹھاتے ہوئے وہ   سنجیدگی سے بولا سیرت نے بلینکٹ مٹھی میں بھینچ کر اسے دیکھا

"یہ میں ٹھیک کر دیتا ہوں،، جاؤ تم چینج کرلو ہممم"

بلینکٹ کو کھینچتے ہوئے وہ بےحد متانت سے بولا سیرت نے دانت پیس کر کشن اٹھاکر اسکی جانب اچھالا جسے اسنے مہارت سے پکڑ کر مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بیڈ پر واپس رکھا۔

"بےشرم گھٹیا انسان،، تمہیں عزت راس کیوں نہیں آتی ۔۔۔"

شعلہ فشاں بنی وہ ساری بلینکٹ کھینچ کر خود سے لپیٹ کر غرائی۔

"کونسی عزت ،، اور کونسی شرم لٹل گرل۔۔"

ذو معنی نگاہوں سے اسے دیکھ کر وہ شرٹ کندھے پر کھینچ کر بٹن بند کرتے ہوئے نائٹ اسٹینڈ کی جانب بڑھا سیرت نے متبسم نگاہوں سے اسکی چوڑی پشت پر ٹیٹو کے قریب سرخ خراشیں ملاحظہ فرما کر نچلا لب دبایا

"مجھے اندازہ نہیں تھا تم ایک جنگلی بِلی ہو۔۔"

کلائی پر رولیکس واچ رکھتے ہوئے اسنے ہاتھ کی پشت پر سرخ خراشیں ملاحظہ کرکے کرخت نگاہوں  سے سیرت کی جانب دیکھا استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ بلینکٹ ہٹا کر نیچے اتری۔

آخر کب تک اسکے طعنے تشنے سنتی وہ بھی سیرت تھی  ،بالوں کو بل دینے کے بعد نائٹ اسٹینڈ سے کیچر اٹھاتے ہوئے وہ پیچھے مڑی اس ہوش ربا حسینہ کو اپنی سفید شرٹ میں دیکھ کر بھوری آنکھوں میں  سرور کی سرخی پھیل گئی وہ  کیف زدہ سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی جانب پیش رفت کرنے لگا سیرت کی دھڑکنیں اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر یکلخت تیز ہوئی۔

"اب کیا چاہتی ہو۔۔۔۔۔"

اسنے سیرت کی ٹھوڑی اوپر اٹھاکر سنجیدگی سے کہا۔

"تمہارا قتل کرنا چاہتی ہوں کیا راضی ہو تم۔۔۔"

سیرت نے کشیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"تمہارا ہوں،، جو چاہو کرسکتی ہو۔۔۔"

 ایک دلفریب متبسم نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا سیرت بھنویں سکیڑ کر اسے دور ہٹاتی وارڈروب کھولتے ہوئے ٹھٹھکی جو مردانہ طرز کے لباس سے سجی ہوئی تھی۔

سیرت کوساکت دیکھ کراس کے کندھے پر تھوڑی ٹکاتا وہ  مبہم سا مسکرایا۔

"کیا اب میں تمہارے کپڑے پہن کر گھومتی پھروں گی..."

بھونیں مزید سکیڑتی وہ تشویشناک حد تک سنجیدہ ہوئی۔

"پہن لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ ان فیکٹ"

  اسکے کان کے قریب لب رکھتا رازداری سے دھیمے لہجے میں بولا۔

سیرت نے نظریں پھیر کر اسے دیکھا۔

" جب تک یہاں ہو بےشک کچھ مت پہنو"

معنی خیز سرگوشی سیرت کے کان میں گھولتا وہ پیچھے ہٹا شرمندگی سےسیرت کے رخسار تمتما اٹھے کاؤچ سے پیپر بیگ اٹھاکر اسکے قریب ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ جنبشِ نگاہ سے اسے سلگا کر کمرے سے باہر نکلا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"زاویان یہ۔۔ یہ کیا کررہے ہو تم ہاتھ چھوڑو میرا،، کہاں لیکر جارہے ہو تم مجھے"

چاہت  اسکے سبک روی سے اٹھتے قدموں کیساتھ گرںے کے ڈر سےسیڑھیوں کی ریکنگ تھامے خوفزدہ ہوئی

لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے انس نے سارا منظر اشتیاق سے ملاحظہ کیا البتہ کچن سےباہر آتی مہر النساء بیگم کو حیرت سے کئی جھٹکے لگے تھے چاہت کا بازو پکڑے وہ اسے پورچ کی جانب دھکیل چکا تھا۔

"زاویان۔۔۔چاہت کہیں نہیں جائے گی"

وہ مہر النساء بیگم کی آواز پر پیشانی پر بل ڈالے پیچھے مڑا مہر النساء بیگم نے پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھا سرخی مائل چہرا،، گردن اور پیشانی پرابھری نیلی شریانیں،، عرق آلود پیشانی،، سنہری آنکھوں میں رقم وحشت سے آج انکا دل دہل اٹھا آئیذل سیڑھیوں کی ریکنگ تھامے پورچ کے دروازے پر کھڑی چاہت کو دیکھ کر رکی  تھی جو نہ وہاں سے جاسکتی تھی نہ زاویان کی موجودگی میں واپس اندر آسکتی تھی۔

"کیا واقعی؟!!۔۔۔ اور سوچ کر آپ نے لمظ کو اس گھر سے نکالا.... ڈیم اٹ"

وہ دھیمے لہجے میں کہتا ہوا اچانک غرایا مہر النساء بیگم نے بےیقینی سے اسے دیکھا انس کان سے ہینڈ فری نکالتے ہوئے موقع کی نزاکت کا اندازہ لگاکر صوفے سے اٹھ چکا تھا آج تک اس نے زاویان کو اتنے غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا زوہیب صاحب بھی اپنے کمرے سے باہر آچکے تھے۔

"کیا تم نہیں جانتے یہ لڑکی ماں نہیں بن سکتی،، آخر اسے اپنی زندگی سے نکال کر باہر کیوں نہیں پھینکتے تم"

زاویان چاہت کی دخل اندازی پر مٹھیاں بھینچے اشتعال انگیز نگاہوں سے اسکی جانب مڑا چاہت نے اسکی سنہری آنکھوں میں سمٹتی وحشت کو دیکھ کر برجستہ لبوں پر قفل لگائے تھے۔

"ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے وہ زاویان..... تمہاری خوشی کیلیے میں اسے واپس لینے گئی مگر اسنے منہ چڑھ کرصاف کہہ دیا کہ یہ میرے ساتھ واپس نہیں جائے گی،، اب کس منہ سے یہ واپس آئی ہے اس گھر میں"

زوہیب صاحب نے سنجیدگی سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھ کر انکو نگاہوں سے کچھ باور کرایا۔

"آج فیصلہ ہونے دو زاویان،، یہ لڑکی یا تمہاری ماں..."

 مہر النساء بیگم کے الفاظ سن کرآئیذل کے سر میں درد کی ٹھیس اٹھی،، زاویان نے استہزائیہ نظروں سے اپنی ماں کی جانب دیکھا اور سبک روی سے آئیذل کی جانب پیش قدمی کی آئیذل کا دل اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر لرز کر پسلیوں سے جاٹکرایا آئیذل کا ہاتھ تھامے وہ سیڑھیاں عبور کرتا ہوا مہر النساء بیگم کے سامنے آکر ٹھہرا چاہت نے تشویش سے تمام منظر ملاحظہ کیا تھا۔

"کاش کہ آپ نے کبھی ایک ماں ہونے کا فرض نبھایا ہوتا،، تو آج میں شاید آپکو ترجیح دینے کے بارے میں ایک بار بھی سوچتا،، رہیئے اس نرک میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست کیساتھ،، میں ابھی اسی وقت اپنی بیوی کیساتھ یہ گھر چھوڑ رہا ہوں،، آج سے میرا اس گھر سے کوئی واسطہ نہیں"

اشتعال سے اسکا چہرا سرخ پڑا مہر النساء بیگم نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا اسکے الفاظ اب تک انکے کانوں میں گونجتے سنائی دے رہے تھے۔

"ز۔۔زاویا۔۔۔ن"

بےحد دھیمی سرگوشی کیساتھ اسکے بازو پر دونوں ہاتھ رکھتی وہ اسے باہر پیش قدمی کرنے سے روک رہی تھی

نیلی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں اسکے مجروح دل پر کیمائی سیال کی طرح گررہے تھے۔

"سب بکھر جائے گا زاویان،،۔۔۔"

آئیذل نے  خشمگیں نگاہوں سے اسکی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا مہر النساء بیگم کی آنکھوں سے آنسوں مسلسل ٹوٹ رہے تھے مگر وہاں کھڑے ایک بھی فرد نے انکو سہارا نہیں دیا تھا اسوقت انکو اپنی سیرت شدت سے یاد آئی تھی جسے وہ ہمیشہ سے نظر انداز کرتی آئی تھی۔

"جہاں آپکو تکلیف پر تکلیف دی جائے ۔۔ وہاں رہ کر میں کیا کروں گا بےبی گرل"

سرد ہتھیلیوں میں اسکے گندمی مائل چہرے کو لیکر وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔

چاہت نے نخوت بھری نظروں سے مہر النساء بیگم کو دیکھا زاویان کی چوڑی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے وہ روتی چلی جارہی تھی اور وہ پتھر کا مجسمہ بنا آئیذل کا ہاتھ تھامے کھڑا انکو ان دیکھا کرگیا تھا۔

"مت جاؤ زاویان ،، اپنی ماں کو چھوڑ کر مت جاؤ۔۔ میں شرمندگی سے مرجائوں گی ورنہ"

آئیذل نے حزن نگاہوں سے مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا مگر زاویان آئیذل کا ہاتھ تھامے انکے ہاتھوں کو اپنے سینے سے ہٹاتا پورچ کی جانب پیش قدمی کرگیا تھا انس افسردگی سے آئیذل کے سامنے آکر ٹھہر گیا تھا۔

"بھیا رک جائیں میں آپکے اور بابھی کے بغیر نہیں رہ سکتا آپ مجھے بھی ساتھ لے جائیں اپنے"

مہر النساء بیگم کی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں میں انس کی بات سن کر روانی آئی زاویان نے سنجیدگی سے انس کو دیکھا سر جھکائے وہ  آنکھوں میں جھلملاتے آنسوں پر ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا تھا۔

زاویان نے  انس کے کندھے پر تھپکی دیکر اسے نرمی سے ایک جانب ہٹایا اور آئیزل کیساتھ پورچ عبور کرگیا

چاہت نے غیر یقینی نگاہوں سے اسے دیکھا اپنی بیوی کیلیے اپنا سب کچھ چھوڑنے پر آمادہ کیسے ہوسکتا تھا۔

زوہیب صاحب چند ساعت مہر النساء بیگم کی جانب دیکھنے کے بعد  کوفت سے سرکو جنبش دیکر پورچ سے باہر نکلے تھے مہر النساء بیگم نے نظریں اٹھاکر چاہت کی جانب دیکھا جو ان سے نگاہیں چراکر انس کو مختصر دیکھنے کے بعد اپنے کمرے کی جانب پیش رفت کرگئی یعنی اسے تمام صورتحال سے کوئی غرض نہیں تھا

نقصان تو وہ اپنا کر بیٹھی تھی،، وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے انکو چھوڑ کرن ناجانے کہاں جاچکا تھا۔

صدمے سے نڈھال ہوتی وہ صوفے کو تھامتے ہوئے نیچے گرتی چلی گئی تھی۔

یہ مناظر براسوف شہر کے تھے جو رومانیہ ریاستہائے کا ایک بڑا شہر تصور کیا جاتا ہے  یہ شہر ٹرانسلوینین الپس (جنوبی کارپیتھین) کی شمالی ڈھلوان پر ہے، اور تین اطراف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔

کشادہ وسیع رقبے میں پھیلے فرشِ زمرد کے بچھونے  پر لکڑی کے  نصف سے آرام دہ مکان کے سامنے فراخ رقبے پر پھیلا ایک لان تھا جس میں ہر طرز کے پھول لگائے گئے تھے ،، بلو بیل، فاکس گلوو،، گارڈنیا،، فلوکس کے پھولوں پر پڑتی بارش کی ہلکی  پھنوار وہ  کاٹیج کے سامنے لگی شیشے کی دیوار سے دیکھ رہی تھی۔

پھولوں کی بیلیں تیز ہوا کے دوش پر ہلکی بارش میں مسلسل جھوم رہی تھی عقب سے اٹھتے بھاری  قدموں کی چاپ نے اسے خیالی دنیا سے حقیقت کا راستہ دیکھایا۔

"آپ آگئے،،، سب کیسا رہا...."

اسکے بازو سے نیووی کوٹ اتار کر اپنے بازو پر رکھتی وہ تفکر سے بولی زاویان نے جھک کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور ٹائی ڈھیلی کرتا صوفے پر دراز ہوگیا لمظ کو اسکی خاموشی سے بےچینی لاحق ہوئی۔

"بتائیے کیا آپکو جاب نہیں ملی...؟!'

اسکے قریب بیٹھتی وہ اسکا بازو ہلاتی سرعت سے بولی زاویان اسکی تجسس پسندانہ فطرت پر مسکراتا سر دھیرے سے نفی میں ہلاکر اسے اپنے شانے سے لگاتا مسکرایا۔

"مل گئی ہے میری جان...."

لمظ  اسکے شانے پر سر رکھتی پرسکون سانس لیکر آنکھیں موند گئی دو دن قبل ہی وہ پاکستان چھوڑ کر رومانیہ آچکے تھے اس شہر سے زاویان کو گہرا انس تھا جس کا اندازہ لمظ کو اس دن ہوا تھا جب اسکی شیلف میں  رومانیہ کے مصنفین کی کتابوں کا مجموعہ  دیکھا تھا شیشے پر بارش کی جل تھل سنتے ہوئے لمظ نے آنکھیں واکی زاویان اسکے بال سہلاتے ہوئے باہر شدت پکڑتی بارش کو سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔

"آپ نے سیرت کو بھی نہیں بتایا.. جب وہ پاکستان واپس آئے گی تو سب سے پہلے آپکے بارے میں دریافت کرے گی آپ جانتے ہیں وہ اپنے بھیا کیلیے کتنی پازیسیو ہے پھربھی"

زاویان نے اسکے بالوں سے اپنا ہاتھ نرمی سے واپس لیا تو لمظ نے پشیمان نگاہیں اٹھائی۔

"میرا اس لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں لمظ،، اور دوبارہ آپ میرے سامنے اس لڑکی کا زکر کبھی نہیں کریں گی"

صوفے سے اٹھ کر وہ گمبھیر لہجے میں کہتا لمظ کو حیرت میں مبتلا کرگیا دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوچکا تھا خدشات میں گھری لمظ نے بےچینی سے کمرے میں اسکے قدموں کا تعاقب کیا۔

"آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں کیا قصور ہے آخراسکا...."

کلائی پر بندھی ریسٹ واچ اتارکر سائڈ ٹیبل پر رکھتے زاویان نے نگاہیں اٹھائی۔

"اسکا قصور یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسنے اس شخص کو مجھ پر ترجیح دی جو ہمیشہ سے اسکی فیملی کو نقصان پہنچانے کے لئے مجتہد رہا ہے،، میرے پیار اور شفقت کا یہ صلہ دیا ہے اسنے مجھے"

نائٹ اسٹینڈ پر پڑا لیمپ اسکے ہاتھ کے وار پر فرش بوس ہوچکا تھا لمظ  بےساختہ کپکپا گئی ہونٹ بھینچے وہ وارڈروب سے کپڑے نکال کر واش روم میں بند ہوچکا تھا لمظ نے افسردگی سے ایک نقطے کو دیکھا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"بیٹھے باجی کیسے آنا ہوا آپکا.... بچے کیسے ہیں"

عروسہ بیگم نے جھک کر لکڑی کی میز پر پلیٹ میں چائے کا کپ رکھا۔

"عروسہ کیا آئیذل یہاں آئی تھی....."

مہر النساء بیگم کی محجوب نگاہوں کا محور فرش تھا۔

"نہیں تو.... آئیذل تو واپس چلی گئی  باجی شادی کے فوراً بعد"

عروسہ بیگم نے حیرت سے نظریں اٹھائی عائزہ بیگم بھی قریبی کرسی پر ٹک چکی تھی۔

"نہیں عروسہ گھر میں کچھ تنازعات ہوئے اور زاویان نے گھر چھوڑ دیا،، میں یہاں اس امید سے آئی تھی کہ شاید آئیذل یہاں ہو اور میں اس سے معافی مانگ کر اپنے بچوں کو گھر لے جاؤں"

سرد آہ بھرکر کہتے ہی مہر النساء بیگم کرسی سے اٹھ گئی۔

"آپ نے پہلے بھی آئیزل کیساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا،، آپ نے کبھی میری بچی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی،، اگر آپ نے زاویان کی پسند کا مان رکھا ہوتا تو آج ایسا کچھ بھی نہ ہوتا"

عروسہ بیگم آج زندگی میں پہلی بار دو ٹوک لہجے میں بولی مہر النساء بیگم نے محض سرکو دھیرے سے اثبات میں جنبش دی ہرروز وہ اپنے آپ کو اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی۔

"اپنی ہی اولاد سے اتنی غفلت نہیں برتی جاتی بہن،، ورںہ رشتوں کو بکھرتے دیر نہیں لگتی،، زاویان ایک سلجھا ہوا بچہ ہے،، وہ جہاں بھی ہوگا میں مطمئن ہوں ہماری بچی کوہرصورت سکھی رکھے گا"

عائزہ بیگم کی چبھتی نظروں سے پیچ و تاب کھاکر عروسہ بیگم اٹھ کر کمرے سے چلی گئی۔

"مہر تم سے ایک بات کہوں،،.."

عائزہ بیگم نے تھوڑی ہچکچاہٹ کیساتھ کہا۔

"جی کہیے باجی...."

"میں اپنی ریحم کی زمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہوں،، تمہارا لڑکا بہت بھلا لگتا ہے،،..."

عائزہ بیگم نے وقفہ لیکر مہر النساء بیگم کی جانب دیکھا وہ انکی بات کا مطلب سمجھتی مسکرائی تھی۔

"مجھے خوشی ہوگی عائزہ،، تمہاری بچی آئیذل کی طرح بہت سلیقہ مند اور مذہب ہے"

مہر النساء نے انسیت سے کہا عائزہ بیگم کا چہرا مسرت سے چمک پڑا اپنی کرسی سے اٹھ کر وہ مہر النساء بیگم کو گلے لگائے رو پڑی،، شادی سے کچھ دن بعد ہی گھر کے گودام میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور تمام سامان سلف جل کر خاکستر ہوگیا تھا ایسے میں وہ پہلے بھی گھر فاقوں پر مجبور تھے  عائزہ بیگم جلد از جلد ریحم کا رشتہ کردینا چاہتی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"چیئرز......."

اشفاق احمد خان کے بیئر کے گلاس کیساتھ شاہنواز خان کا گلاس ٹکرایا 

جسکے فوراً بعد مردان خانے میں قہقہوں کا طوفان گونج اٹھا ۔

"ماننا پڑے گا فاقی تم نے اپنی ہی بیٹی کا سودا کردیا عسکری کیساتھ... کتنے میں کیا ہے..؟!

شاہنواز خان نے بیئر کا گھونٹ حلق سے نیچے دھکیل کر جوش سے پوچھا اپنے کمرے کی جانب پیش قدمی کرتی مہر النساء بیگم مردان خانے سے آتی تیز آواز پر ٹٹھکی۔

" حرامزادے* پورے پچاس کروڑ لئے ہیں میں نے اس سے سیرت کے بدلے میں"

" ہاہاہاہاہاہا سالے تو۔۔ تو ہم سے بھی بڑا دشت نکلا...."

اشفاق صاحب کے جواب کے بعد کندھے پر زور سے پڑتی تھپکی کی آواز کیساتھ شاہنواز خان کا قہقہ گونجا تو کوریڈور میں ساکت کھڑی مہر النساء بیگم کے ہاتھ بےساختہ لبوں کو آئے ۔

"ابے تو میرے گورکھ دھندوں سے واقف ہی کہاں ہے،، پہلے تو یہ سن زوہیب کی بیوی کیساتھ میں نے زیادتی کی ہاہاہا،، اسکے بعد اسے اسکے ہی شوہر سے ذلیل کروایا،، بیچاری تنگ آکر گاڑی کے نیچے آکر دنیا سے کوچ کرگئی،، اسکے بعد میں نے عاطف کی دولت پر کنٹرول حاصل کرنے کیلیے اسکی بیوی سے محبت کا ڈھونگ رچایا.... اسکے کند ذہن میں اپنی ہی اولاد کیلیے میں نے اتنا  خناس بھردیا کہ وہ اپنی سگی اولاد سے دستبردار ہوگئی"

اچانک ہی چہرے پر درشتگی لائے بیئر کے گلاس کو ٹیبل پر رکھتے  اشفاق صاحب صوفے سے اٹھے مہر النساء بیگم سوکھے پتے کی مانند لرزتے دل پر ہاتھ رکھ کر دیوار سے پشت لگائے گہرا سانس لےگئی اتنا بڑا دھوکا انکی آنکھوں سے اب تک کیسے پوشیدہ رہا تھا۔

"ہاہاہا اب میری سنو کیا تم جانتے ہو عاطف کو گولی میں نے ماری تھی...؟!"

شاہنواز خان کے الفاظ سن کر مہر النساء بیگم کا دل بھاری پڑا اشفاق صاحب حیرت سے شاہنواز خان کی جانب مڑے تھے موچھوں کو تاؤ دیکر وہ نخوت سے مسکرا اٹھے، آج شراب انکے سر چڑھ کر بول رہی تھی.

"یہ بات تب کی ہے جب رضوی انٹرپرائزز کا نام ٹاپ بزنس فہرست پر ابھرنا شروع ہوا تھا،،ان دنوں میں مارکیٹ میں عاطف کی کمپنی کے شیئرز کی بڑی مانگ تھی... میں  عاطف کیساتھ کام کرنے کا خواہشمند تھا مگر میرے بزنس کے ٹرمز اس سے قدرے مختلف تھے،، مجھے دولت کمانی تھی اسے عزت کمانی تھی،، ہماری گہری دوستی نے دونوں کو تنازعات کے بعد بھی ساتھ جوڑے رکھا تھا مگر ایک دن برطانوی انویسٹرز کے سامنے اسنے میری تزلیل کی میرے نظریے کو سب کے سامنے رد کردیا تب سے دوستی میں پھوٹ سی پڑگئی، ہمارے راستے دھیرے دھیرے جدا ہونے لگے وہ ترقی کرتا گیا اور میں چھے......."

مختصر دورانیے کیلیے وہاں خاموشی چھاگئی دروازے پر ساکت کھڑی مہر النساء بیگم نے سامنے بےسدھ سی کھڑی چاہت کو دیکھا تو انکا تیزی سے دھڑکتا دل پسلیاں توڑکر حلق کو آگیا۔

"میں نے عاطف کے ہر چھوٹے بڑے کام پر نظر رکھنا شروع کردی،، ایک بزنس آرگنائزیشن کی میٹنگ میں اسنے یسریٰ کو دیکھا اور پہلی نظر میں اس مصری حسینہ سے محبت کربیٹھا بیشک وہ قیامت تھی،، اسکے حسن میں وہ ایسا مبتلا ہوا کہ پھر سب کچھ چھوٹ گیا وہ ایک کامیاب بزنس وومن تھی مگر عاطف سے محبت کرکے وہ اپنے کاروبار سے دستبردار ہوگئی اور ایک ہاؤس وائف بن گئی ،، محبت نے دونوں کو اندھا کردیا،، یہ وہ پوائنٹ تھا جہاں میں نے مفاد اٹھایا،، مگر کم تو وہ بھی نہیں تھا حرامزادے کو کالج کے وقتوں سے جانتا ہوں،،  اسنے عسکری کارپوریشن کو بلندیوں تک پہنچانے میں سات آسمان ایک کردیئے،، مگر کہیں چھوٹ گیا.. یسریٰ کو کینسر تھا..  جب یسریٰ بستر مرگ پر پہنچی تو وہ رومانیہ میں تھا اسے جلد از جلد اپنی یسریٰ کے پاس پہنچنا تھا ایسے میں اسنے ایک غلطی کی اور وہ غلطی   وہ بغیر سیکیورٹی کے روانہ ہوگیا اور میں نے راستے میں ہی اسکا پتا صاف کردیا... انہی ہاتھوں سے گولی ماری تھی میں نے اسے ہاہاہاہا اسکی بیٹی کے سامنے....  بابا.. بابا کرتے ہوئے وہ بیچاری تو گاڑی میں ہی بےہوش ہوگئی تھی ..میں تو اسے بھی چلتا کرتا لیکن وقت نہیں تھا میرے پاس... اور وہاں بیچاری یسریٰ عین وقت پر ہاسپیٹل کا ٹرانزیکشن نہ ہونے پر سرجری سے محروم ہوکر اللہ کو پیاری ہوگئی..  ساری ذمہ داریاں جو عاطف کے پاس تھی... جب اسکا بیٹا روتا سسکتا ہوا مصر سے واپس آیا تو ماں کی تو تدفین تک رشتے داروں نے کردی تھی ماں کا مرا ہوا چہرا بھی نصیب نہیں ہوا بیچارے کو اور ساری کی ساری کرتی بیٹھی کس پہ عاطف پر جو لمبے چوڑے عرصے سے منظر سے ہی غائب تھا یسریٰ کی موت کے بعد بھی وہ اتنا بےفکر ہوکر بھلا کہاں چھپا پڑا تھا۔۔ حقیقت تو یہ ہے میں نے اسے سمندر میں پھینکوا دیا... پولیس بڑے دنوں تک ڈھونڈتی رہی آخر کار تھک ہار کر معاملہ ہی رفع دفع ہوگیا... اب دیکھو عسکری سیرت رضوی کیساتھ جو محبت کا ڈھونگ رچا چکا ہے اسکا کیا نتیجہ نکلتا ہے"

مہر النساء بیگم کے ہاتھ پیر پھول کر کانپنے لگے یہ وہ وقت تھا جب چاہت نے آگے بڑھ کر انکو گرںے سے قبل تھاما اندر سے قہقہوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھی۔

" اس لئے تو میں نے عسکری کو سیرت سونپ دی ،، میں چاہتا ہوں جو زاویان ںے میری بیٹی کیساتھ کیا وہی سیرت کیساتھ ہو،، حدید رضا ایک بےلگام اور سرکش جانور ہے ،، زاویان نے میری بیٹی کیساتھ محبت کا ڈھونگ رچا لیا.... اور چاہت کم ذہن لڑکی اسکی محبت کے جال میں پھنس گئی... اپنی پیاری ممانی کی روح کی تسکین جوکرنی تھی زاویان کو چھے..... اس لئے تو میں نے تم سے شمس کا رشتہ چاہت سے کرںے کی درخواست کی مگر وہ جاہل لڑکی میری ایک نہیں سنتی زاویان حیدر رضوی کا نشہ اب تک اسکے سرچڑھ کر بول رہے ہے.... ناجانے کیا کرگزرے گی مجھے جلدی ہی کچھ سوچنا ہوگا"

شاہنواز خان نے سانپ کی طرح پھنکارتے اشفاق صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انکو تسلی دی۔

مہر النساء بیگم کو کمرے میں لیجاتی چاہت نے سب کچھ سنتے رک کر مردان خانے کے خارجی دروازے کو  چند ساعت بےتاثر نگاہوں سے دیکھا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے تو رنگین کوندے لپکنے لگے تھے۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

زاویان دروازہ کھول کرکمرے میں قدم رکھتے ہوئے کھڑکی کی جانب نگاہیں اٹھاتا رکا سفید ریشمی شب خوابی کے لباس میں وہ بکھرے ریشمی بالوں کو کاندھوں پر پھیلائے  عیسل  پر مصروف سی جھکی ہوئی تھی۔

 اسکی مخروطی گندمی انگلیاں  شوق انگیزی سے  سفید کینوس پر قوس قزح کے  رنگ بکھیر رہی تھی۔

اسکی گندمی رنگت سفید لباس میں کھڑکی سے پھوٹتی سورج کی چمکدار کرنوں میں چمک رہی تھی وہ کسی فسوں کے تحت بےساختہ لمظ کی جانب قدم پر قدم رکھتا ہوا اسکے عقب میں آکر ٹھہرا کینوس سے جھانکتی سنہری جاندار آنکھوں کو دیکھ کر ایک دلفریب مسکراہٹ اسکے لبوں پر رینگ گئی  البتہ وہ اسکی موجودگی سے بےخبر ہونٹ بھینچے اپنے جنون میں مشغول سی نظر آتی تھی،،، بلاشبہ وہ یہاں آکر بہت بدل سی گئی تھی۔

زاویان نے اسکی کمر پر آبشار کی مانند ڈھلکتے ریشمی بالوں کو اشتیاق سے دیکھا لمظ کی داہنی جانب ہاتھ بڑھاکر رنگوں کی مکسنگ پلیٹ کو اٹھاکر بائیں جانب رکھا بےخود سی وہ جلدبازی میں اسکے سپید ہاتھ کی پشت پر برش پھیرتی چونک کر پیچھے مڑی وہ بےساختہ مسکراتا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاتا پیچھے ہٹاتھا۔

"زاویان یہ غلط بات ہے.... اگر ہماری پینٹنگ خراب ہوجاتی"

اسکے ہاتھ کی پشت پر پھیلے پینٹ کو ٹشو پیپر سے احتیاط سے صاف کرتی وہ دھیمے لہجے میں شکوہ کناں ہوئی۔

"اونہوں... آپ نے میری آنکھوں کی پینٹنگ بہت خوبصورتی سے بنائی ہے لیکن ایک چیز کی کمی ہے"

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا کسی فلاسفر کی طرح برش اٹھاتا بولا لمظ نے دلچسپی سے اسے کینوس پر جھکتے دیکھا۔

"یہاں ۔۔۔ یہ بس اب ہوگیا.... شاید"

لمظ نے اسکی چوڑی پشت سے گردن پھیر کر کینوس پر اسکی کاریگری ملاحظہ کی تو صدمے سے اسکے ہونٹ لٹک گئے سنہری آنکھوں میں اسنے سرخ لکیریں لگاکر انکو قدرے بھیانک شکل دی تھی۔

"آپ کی ہمت کیسے ہوئی رکیے۔۔۔ چھوڑیں گے نہیں ہم آپکو..."

مکسنگ پلیٹ اٹھاکر برش سمبھالتی وہ اسکے پیچھے دوڑگئی تھی،، زاویان کی بھاری پرکشش آواز میں گونجتے قہقہے نے خاموش کمرے میں جان سے پھونک دی تھی۔

"آپ نے بالکل بھی اچھا نہیں کیا کتنی محنت سے بنائی تھی ہم نے..."

آخرکار تھک ہار کر وہ عیسل کے سامنے پڑے چھوٹے سے اسٹول پر ٹکتی نیا کینوس لگاتی خفگی سے رخ موڑگئی  زاویان سنجیدگی سے چلتے ہوئے اسکے پیچھے رک کر کینوس کو دیکھنے لگا جس پر وہ نئے سرے سے ان سنہری مسحورکن آنکھوں کو اتارںے کی کوشش کرتی نظرآرہی تھی۔

" آپکو اتنا لگاؤ کب ہوا پینٹنگ سے قلبی(میرا دل)...."

زاویان نے کینوس پر دھیرے دھیرے رینگتے برش کو متانت سے دیکھا۔

"میرے لئے پینٹنگ جزبات کے انتشار سے ممکن کی ترتیب تک کا راستہ ہے"

مکسنگ پلیٹ سے برش پر رنگ اٹھاتی وہ مصروف سے لہجے میں بولی زاویان وہ لمحات ذہن نشین کرکے بےساختہ مسکرایا،، جب یونیورسٹی میں وہ اسکے چوری چھپے اسکیچ بنایا کرتی تھی  ایک نامعلوم تمنا کے دل میں سر اٹھانے کے تحت اسنے جھک کر ایک برش اٹھاتے ہوئے پلیٹ سے برش پر رنگ اٹھایا۔

لمظ تھوڑی چونکی جب وہ اسٹول پر اسے آگے کھسکا کر اسکے ساتھ اسٹول پر ٹکا کسرتی جسامت سے حرارت نے اسکے کمزور سراپے کی جانب سرائیت کی تو گندمی رخساروں پر سرخی سی پھیلنے لگی۔

"مجھے آپ پر پینٹنگ کرنی ہے روحِ قلب..."

بھاری گمبھیر سرگوشی لمظ کے سرخی مائل پڑتے کانوں میں خطرے کی  ترنگ بجاگئی۔

"یہ یہ کیا بات ہوئی ،، آپ کینوس پر کریں مجھ پر کیوں کرنی ہے"

بوکھلا کرکہتی لمظ نے قرطاس کی جانب دیکھ کر سرد آہ بھری مگر وہ اسکی مزاحمت نظر انداز کرکے سرخی مائل رخساروں پر برش پھیرتے ہوئے مبہم سا مسکرایا دہکتے گلابی عارض پر برش کے نرم لمس کیساتھ سرد پینٹ نے کمزور سراپے میں برقی لہر پیدا کی  وہ دھیرے سے لرزتی آنکھیں میچ گئی سورج کی روشنی میں چمکتی طلائی آنکھوں میں اسکے لبوں سے خطا ہوتی سسکی پر خمار اترا لمظ بےساختہ مزاحمت کرتی اٹھی مگر زاویان نے اسے کہنی سے تھام کر دوبارہ اسٹول پر ٹکایا اسکی قربت کے احساس پر وہ سہمی ہوئی  دھیرے دھیرے لرزنے لگی اسکی کمر پر ہاتھ رکھے وہ گاؤن کی سلیوز اوپر کرتا اسکے بازو پر برش پھیرتا مسکرایا سردی سے سکڑتے ہونٹوں نے برش کا نرم و ملائم احساس ہوتے ہی آہستگی سے حرکت کی وہ خمار زدہ آنکھوں سے اسکی گہری ہوتی سانسوں پر مزید  بےقابو ہونے  کیساتھ اسکی گردن کے نشیب و فراز پر رنگ بکھیرتا جارہا تھا وہ لبوں کو تشویش سے کاٹتی اسکے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کی ہرممکن کوشش کررہی تھی.

"ز۔۔۔۔زا...زاویان پلیززز......."

اسکے سینے سے پشت ٹکاتی وہ دھیمے مسرور کن لہجے میں التجاکررہی تھی اسکے لبوں سے اپنا خمار میں ڈوبا نام سن کر ضبط کھوکر وہ برش ایک جانب گراتا اسکی مخروطی انگلیوں کو رنگوں کی مکسنگ پلیٹ پر رکھ گیا۔

"کیا  بدلہ نہیں لیں گی آپ مجھ سے بےبی گرل...."

اسکی بھاری سرگوشی نے لمظ کے حواس سلب لئے پلیٹ سے رنگوں کو انگلیوں پر اٹھاکر وہ پیچھے جھکتی اسکی ہلکی بیئرڈ میں ابھرتے ڈمپل کو رنگین کرگئی وہ رکی نہیں تھی مخروطی انگلیوں نے بھرپور جوابی کارروائی کیساتھ اسکی وائٹ شرٹ پر قوس قزح کے سارے رنگ بکھیر دیئے تھے۔

"ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ اب مزہ آیا..."

سٹول سے سرکتی وہ توازن کھوکر اسکی شرٹ کو مٹھی میں پکڑے اسے بھی اپنے ساتھ فرش بوس کرنے کے بعد اسکے سینے پر دونوں ہتھیلیاں ٹکائے کھلاکھلا کراس پر طنز کرتی ہنسی  زاویان نے محبت سے اسکے رنگوں سے مزین چہرے کو دیکھا جو سرخ اور  سنہری رنگ کے دھبوں میں بھی اسکے دل کو موہ لے گیا۔

آئیذل اسکی عقیدت سے بھرپور نگاہیں ہنوز خود پر پاکر بوکھلاکر اسکے سینے سے اٹھنے لگی مگر اسے شانوں سے تھامے وہ احتیاط سے اسکے سرکے نیچے اپنا ہاتھ رکھے اسے  کسرتی بازوؤں کے قفس میں قید کرچکا تھا۔

"آپ ۔۔۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں..."

سنہری خمار بارہ آنکھوں میں رقم معنی خیزی نیلگوں آنکھوں سے چھپ نہ پائی۔

"آپکو جسم و جاں سے اپنا بنانا چاہتا ہوں،،..."

سرخی مائل ناک کی نوک سے اپنی تیکھی ناک کی نوک ملاتا وہ بھاری سرگوشی میں بولا لمظ  کی بوجھل پلکیں اسکی بھاری سحر زدہ آواز سن کر لرز گئی۔

"لیکن آپکی رضامندی کیساتھ...."

لبوں کے ہمراہ ہلکی بیئرڈ نے اسکے رخساروں کو نرمی سے چھوکر آگاہ کیا۔

"آپ میرے  محبوب ہیں ۔۔ آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں"

پلکوں کی باڑ گرائے وہ دھیمے لہجے میں بولی زاویان نے جھک کر الفت سے اسکی پیشانی کو چومنے کے بعد اسے کسرتی بازوؤں کے حصار میں قیمتی سرمائے کی طرح محفوظ کیا احتیاط سے اسے بیڈ پر لٹاکر وہ اسکے چہرے کی سید پر اپنا چہرا رکھتے ہوئے رکا بھرے بھرے رخسار اسکی قربت کے سرور سے سرخ اناری تھے.

"آپ جب جہاں،، چاہیں مجھے روک سکتی ہیں روحِ قلب....میں چاہتا ہوں آپ کمفرٹ ایبل رہیں"

اسکے بےحد نرم لہجے پر وہ بےخود سی نگاہیں اٹھاکر اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگی جو خمار سے لبریز تھی مگر چہرا متحمل تھا کیا وہ اسکے لئے اتنی  زیادہ خاص تھی،، اپنی قسمت پر رشک کرتی وہ آنکھیں میچتے ہوئے روئی تھی یہ آنسوں اسکے سارے غم دھوگئے تھے،، آخر وہ اتنے عام نقوش والی لڑکی سے  اس قدر محبت کیسے کرسکتا تھا زاویان نے اسکے رخساروں پر رم جھم کرتے آنسوں کو لبوں سے چنا تھا۔

"میں چاہتی ہوں سب ٹھیک ہوجائے،، زاویان....."

اسکی چوڑی پشت پر بازوں پھیلاتی وہ افسردہ دلی سے بولی۔

"سب ٹھیک ہے ....سکونِ قلب...."

اسکی گردن میں چہرا چھپاتا وہ گمبھیر سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔

"آپ میرے ساتھ پاکستان واپس چلیں اور سب ٹھیک کردیں..."

زاویان نے سنجیدگی سے اسکی نیلگوں آنکھوں میں دیکھا جن پر گھٹائیں ابھی تک برس رہی تھی۔

"وہ لوگ آپکے قابل نہیں ہے میری جان...."

اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ التجائیہ نگاہوں سے اسکی سنجیدہ نگاہوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کررہی تھی وہ سرد آہ بھر کر چند ساعت رکنے کے بعد بولا۔

"لیکن وہ ہماری فیملی ہے  اینجل.... اور میں آپکو دور نہیں رکھنا چاہتی سب سے"

اسکی تیکھی ناک پر لب رکھے وہ پرسکون لہجے میں بولی زاویان کے دل نے اسکے "اینجل" کہنے پر ایک بیٹ مس کی،، وہ اسے بچپن میں اکثر اسی نام سے مخاطب کیا کرتی تھی نائٹ اسٹینڈ پر پڑے اسمارٹ فون کی رنگ ٹون نے دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے سے منقطع کرائی زاویان فون سوئچ آف کرکے دوبارہ اس پر جھکا جو بےساختہ مسکراتی اسکے دل پر لگی تھی۔

"اور اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر آپ کیا کریں گی اینجل..."

ہلکے سے وا لبوں پر مختصر گستاخی کرکے وہ  لمظ کی انکھوں مین جھانکتا مسکرایا۔

"تو پھر ہم آپ سے خفا ہو جائیں گے اور شاید بیڈ سے صوفے پر شفٹ ہو جائیں"

بھنویں سکیڑ کر وہ بھرپور دھمکی آمیز لہجے میں بولی مگر مقابل کی بھاری کھلکھلاہٹ نے اسکا دل ریجھ لیا۔

"بہت شوق ہے آپکو صوفے پر شفٹ ہونے کا... ہمممم،، آپکا یہ شوق بھی آج میں پورا کر دوں گا"

لمظ کے رخسار شرم و حیا کی سرخی سے تمتمانے لگے ۔

"آپ ایسی گندی باتیں مت کیا کریں ...."

زاویان کی مسکراہٹ بےساختہ تھی کوئی اتنا صاف دل کیسے ہو سکتا تھا۔

"ایک تو آپ اتنی معصوم سی بیبی بچی ہیں کیا کروں گا میں آپکا..."

اسکی ٹھوڑی کو انگوٹھے سے دباتا وہ تشویش سے بولا۔

"آپ میرا کچھ مت کریں آپ اپنا کچھ کریں جم کے باوجود بہت بھاری ہوگئے ہیں آپ...."

بھونیں سکیڑے وہ بھرپور کاروائی کرگئی ہلکی بیئرڈ میں ابھرتے گڑھے نے اسکی مسکراہٹ کو تقویت بخشی

"ایک بات تو بتائیں...."  زاویان نے دلچسپی لی۔

"ہاں جی پوچھیں" وہ تجسس سے زرا اسکی جانب ہوئی۔

"آپکو شادی والے دن آپکی ممانی نے کوئی گائیڈنس نہیں دی تھی رات کیلیے ؟!!"

 لمظ نے سرخ بھبھوکا چہرا پھیر کر اس شریر شخص سے آنکھیں چرائی ۔

"اچھا یعنی دی تھی لیکن آپ اب تک عمل درآمد نہیں کرپائی..."

لمظ کے رخ پھیرنے پر وہ مسکراہٹ ضبط کرتا قدرے سنجیدگی سے بولا۔

"اب کرلیں عمل وقت ہے ورںہ میرے پریکٹیکل ورک سے تو آپ واقف ہیں"

وہ دھیمے لہجے میں کہتا ہوا اسکے چھکے چھڑا گیا تھا،، بد حواس ہوکروہ جلدی سے اسکی جانب رخ بدل گئی وہ مبہم سا مسکراتا اسکے گاؤن کی ڈوری ڈھیلی کرتے ہوئے اس کے لبوں پر پورے استحقاق سے جھکا تھا۔

"بہت مہلت دے چکا ہوں آپکو ۔۔۔ اب مجھے میرے حقوق وصول کرنے دیں "

لمظ کے مزاحمت کرتے ہاتھوں کو اپنے سینے سے چوڑی پشت پر منتقل کرتا وہ پرخمار لہجے میں کہتا ہوئے اسکی بیوٹی بون پر لب رکھ گیا لمظ نے آنکھیں سختی سے میچی۔

"اوپن یوئر آئیز۔۔۔۔"

خشک لبوں کو ترکرتے ہوئے لمظ نے آنکھیں واکی کسرتی جسامت سے سفید شرٹ جدا کرتے ہوئے وہ لرزتے  گندمی کندھوں سے گاؤن سرکاتے ہوئے اسکی دھڑکنوں کی جلترنگ سنتے ہوئے گہرا مسکرایا  وہ وجاہت کا بےنظیر مجسمہ تھا جو صرف اسکے لئے بنایا گیا تھا وہ اسکا محرم تھا وہ صرف اپنی لمظ کا تھا  گرویدہ نگاہیں اسکے رعنائیوں سے سرشار گندمی رنگت سراپے سے ہوتے ہوئے نیلگوں آنکھوں سے ٹکرائی جن پر گھنی پلکیں سایہ فگن تھی تو وہ بےخود سا ہوتا اس میں سما گیا تھرتھراتے عنابی ہونٹوں نے اسکی گردن پر بنے  شمس کو محبت سے چھوا تھا گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتا وہ  اپنے کئی سالوں کی شدتیں اس پر لٹانے لگا،، آج وہ پورے حق سے اپنی لمظ کا ہوچکا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"ڈیم اٹ زاویان پک اپ دی کال"

چاہت  اسپتال کے کوریڈور میں مارچ پاسٹ کرتی ناخن چبارہی تھی مہر النساء بیگم کی طبعیت خراب سے  خراب تر ہوتی جارہی تھی اس لئے انس اور وہ انکو اسپتال لائے تھے۔

"فون نہیں اٹھارہا ۔۔۔ تم نمبر ملاؤ اسکا"

چاہت بدحواسی سے ویٹنگ چیئر پر بیٹھے انس کی جانب مڑی سر اثبات میں ہلاتا ہوا وہ  زاویان کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے کوریڈور کے وسط کی جانب پیش رفت کرگیا تھا ڈاکٹر دروازہ کھول کر باہر آتے ہی چاہت سے مخاطب ہوئے تھے جو انکو باہر آتے دیکھ کر سراسیمگی کی کیفیت میں انکی جانب پیش قدمی کرگئی۔

"پیشنٹ کی حالت بہت نازک ہے انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے دماغ کی ایک نس بریک ڈاؤن کرگئی ہے،، جو کہ بےحد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،، آپ پلیز دعا کریں.. . ایکسکیوزمی"

ڈاکٹر افسردگی سے کہہ کر چاہت کو تنہا چھوڑ کر جاچکے تھے وہ آنکھوں میں نمکین پانی لئے دونوں ہاتھوں کو لبوں پر رکھتی ویٹنگ چیئر پر ڈھے گئی تھی۔

"ڈیڈ ... یہ سب آپکی وجہ سے ہورہا ہے آپکے گناہوں کی سزا ہے....شٹ"

پیشانی کو دونوں ہاتھوں میں گراتے ہوئے وہ روتی چلی گئی سفید رنگت مسلسل رونے کی وجہ سے سرخی مائل پڑچکی تھی وہ ہاتھ کی پشت سے چہرا صاف کرتے ہوئے کوریڈور سے اندر آتے اشفاق صاحب کو دیکھ کر تیزی سے اٹھی انکے ہاتھ میں چند کاغذات تھے جن پر نظر پڑتے ہی چاہت ٹھٹکی۔

"یہ پراپرٹی کے پیپرز ہیں جو کہ مہر کے نام ہیں.... جاؤ اور ان پر اسکا انگوٹھا لگا کر آؤ.."

چاہت کی آنکھیں انکی بات سن کر ویران ہوئی،، وہ جو کب سے زاویان کو قصور وار ٹھہراتی آرہی تھی آج اسے اپنے باپ سے بےحد گھن محسوس ہورہی تھی جو لالچ کے چکر میں اس حد تک گر بیٹھا تھا۔

"آپ نے سیرت کو بیچ دیا۔۔۔  ڈیڈ"

وہ دھیمے بےحس لہجے میں بولتی اشفاق صاحب کو چونکا گئی۔

"ہاؤ ڈیئر یو۔۔۔۔۔ ڈو دیٹ....میں سب بتا دوں گی زاویان کو"

وہ بدحواسی سے انکو دور دھکیلتی چیخی اشفاق صاحب نے آس پاس دیکھ کر ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا دہکتے چہرے پر ہاتھ رکھتی وہ ہکا بکا رہ گئی وہ ہاتھ اٹھا چکے تھے اس پر.

"ایک لفظ اور نہیں بےوقوف ،، اپنے باپ کو قبر میں اتار کر خوشی نصیب ہوگی تمہیں،،، کمزات چلو میرے ساتھ ابھی اسی وقت تمہارا شمس سے نکاح ہوگا اور اگر تم نے انکار کیا تو جان سے مار کر پھینک دوں گا میں تمہیں ،، کہیں کچرے میں، میری بد اندیش اولاد نے ہمیشہ اس زاویان رضوی کی طرف داری کی ہے ،، میرے سکھ کے دن تو آنے نہیں دو گے تم لوگ ..... گنوار عورت چلو میرے ساتھ"

چاہت کے بالوں میں انگلیاں پیوست کئے وہ اسے کھینچتے ہوئے کوریڈور کی جانب پیش رفت کرگئے۔

"ارے واہ!! صبح کاذب کس کا دیدار ہوا ہے زرا دیکھو تو..."

 عقب سے جانی پہچانی نسوانی آواز ابھری تو سیرت نے بے اعتنائی سے فائل کے مطالعے سے وقفہ لیکر سونیا کی جانب دیکھ کر سر جھٹکا اور دوبارہ محو مطالعہ ہوگئی سونیا  سیرت کی  قریبی کرسی کھینچ کر اس پر ٹک گئی،، مگر سیرت نے دوسری بار نگاہ اٹھا کر اسے دیکھنے سے مکمل اجتناب کیا۔

"حدید کے کیبن میں آخر تم کیا کررہی ہو ..."

 ٹیبل پر کہنی پھیلا کروہ مسلسل سیرت کو گھورے جارہی تھی گہرا سانس ہوا کے سپرد کرکے سیرت ریسٹ واچ پر وقت کا تعین کرکے کرسی دھکیل کراٹھی آدھے گھنٹے میں اسکی اہم میٹنگ تھی مگر سونیا کے اندر کی آگ پچھلے بیس دنوں سے  اسے حدید کے کیبن میں اسکی ہی کرسی پر بیٹھتے دیکھ کر لگی تھی کسی صورت تھمنے کے حق میں نہیں تھی۔

"تم سے بات کررہی ہوں سنائی نہیں دیتا تمہیں.."

سیرت نے چہرے پر کشیدگی کے تاثرات رقم کئے سونیا کے ہاتھ کو اپنی کہنی سے جھٹکا۔

"اگر وہ تمہارا اتنا ہی اچھا دوست ہے تو جاکر خود پوچھ لو اس سے..."

تحمل کا مظاہرہ کرتی وہ مختصر وقفہ لیکر کانفرنس ہال کی جانب پیش رفت کرگئی۔

"آج میں تمہاری ساری اکٹر نکالتی ہوں..."

دروازہ دھکیل کر سونیا نے سبک خیزی سے سیرت کے قدموں کا تعاقب کیا .

"سارہ میری کافی کیبن میں بھجوا دو"

"یس،، شیور میم۔۔"

سیکریٹری سر ہلاکر تیزی سے اسکی چائے لینے نکل گئی کھڑکی کے اندر آتی تازہ ہوا میں گہرا سانس لیکر وہ  رک گئی،، آج اسکا موڈ خاصہ ناگوار تھا اور سونے پر سہاگا سونیا آج آفس آدھمکی تھی سیکریٹری سے چائے لیکر مختصر سپ لیتے ہوئے وہ سونیا کو دیکھ کر تشویش سے کپ ونڈو میں رکھتے ہوئے اسکی جانب مڑگئی۔

"مہارانی.... بڑی ہواؤں میں اڑ رہی ہو آج کل،، مگر کیوووں؟!!"

سینے پر بازؤں پھیلاتی سونیا سیرت کے مقابل ٹھہرتی نخوت سے بولی ایک خفیف مسکراہٹ لبوں پر سجائے سیرت نے اسکے زخموں کی نمک پاشی کردی سونیا کی پیشانی پر بل پڑے آگے بڑھ کر وہ سیرت کو کہنی سے کھینچ گئی مگر وہ مزید مسکراتی اسے اندر تک خاکستر کرگئی تھی۔

"کیا ابھی تک حدید تم سے بور نہیں ہوا، حیرت ہے وہ ایک بار استعمال کی ہوئی چیز کو دوبارہ مڑکر بھی نہیں دیکھتا یہاں تک کہ  برینڈڈ کپڑے وہ دوسری بار نہیں پہنتا ،،  اور یہاں تم پچھلے کئی ہفتوں سے عسکری ایمپائر پر ڈیرے جما کر بیٹھی ہوئی ہو تمہارے باپ کی پراپرٹی ہے؟!!"

سونیا کے زہریلے الفاظ سن کر سیرت کی پیشانی کی  نسیں اشتعال سے پھٹنے کے مراحل میں داخل ہوئی، کوریڈور میں پیش قدمی کرتے ایمپلائز کی آمد و رفت میں سستی واقع ہونے لگی۔

"اپنی گندی زبان اور چھوٹی سوچ کا مظاہرہ مت کرو میرے سامنے۔۔۔"

سیاہ آنکھوں میں کشیدگی لئے وہ شہادت کی انگلی اٹھاکر تنبیہ لب و لہجے میں بولی سفید رنگت چہرے کو طیش سے سرخی مائل پڑتے دیکھ کر سونیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی۔ 

"اچھا،، تو اسنے اپنی جگہ تمہیں ایسے ہی دے دی،، ناجانے کتنی راتیں گزاری ہیں تم نے اسکے ساتھ اس مقام تک پہنچنے کیلیے،، اور اسنے بھی تمہارا بھرپور استعمال کیا ہوگا....دیکھنا بہت جلدہی وہ تمہیں چھوڑدےگا کیونکہ وہ بہت جلدی بور ہوجاتا ہے چیزوں سے"

سیرت نے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا دہکتے سرخی مائل گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے حاسد کی آگ میں جھلستی  وہ  غیر دماغ سے ہنس پڑی۔

"کس کس کا منہ بند کرو گی تم،، آخر کس رشتے سے تم دونوں ایک ساتھ ہو،، پورا عسکری ایمپائر جاننا چاہتا ہے،، کیوں منڈلاتی رہتی ہو اسکے آگے پیچھے،، کیا تم اسکی مستحق بھی ہو سیرت عاطف رضوی"

سونیا نے مٹھیاں بھینچے اشتعال انگیز نگاہوں سے خاموش کھڑی سیرت کو دیکھاجو متحمل چہرے کیساتھ اسے مزید ایک تھپڑ رسید کرنے کا پروگرام بناتی نظر آرہی تھی۔

"سیرت حدید رضا عسکری... کریکٹ یوئرسیلف..."

کوریڈور سے اٹھتی بھاری آواز پر سونیا نے ہونٹ بھینچے کوریڈور میں خاموش تماشائی کھڑے ایمپلائز نے  متعجب نگاہوں سے ایک دوسرے کو گھورا فارمل بلیک تھری پیس سوٹ میں وجیہ چہرے پر کشیدگی کے تاثرات ثبت کئے وہ انکی جانب پیش قدمی کررہا تھا۔

"تم،، تم نے شادی کرلی ۔۔۔؟!!"

سونیا کے اعصاب صدمے سے  ڈھیلے پڑتے گئے سیرت جو وہاں سے واک آؤٹ کرنے کیلیے قدم بڑھارہی تھی حدید کے ہاتھ تھامنے پر نظریں اٹھاتے ہوئے رکی سونیا نے بد اندیشی سے چند ساعت دونوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے دیکھا کوریڈور میں کھڑے ایمپلائز کی نگاہوں کا محور اسوقت سونیا خانزادہ تھی

"خیرر،، تم کس حق سے سیرت کے شوہر کے  آگے پیچھے منڈلاتی ہو.... کیا کبھی سیرت نے وجہ دریافت کیا تم سے"حدید پینٹ کی جیب میں ہاتھ اڑساکر استہزائیہ لہجے میں بولا سونیا اسکے سوال پر سینکڑوں امپائرز کے سامنے شرمندگی سے زمین میں گڑھ گئی بد اندیشی سے سیرت کو دیکھ کر  نگاہیں بچا کے آنکھوں سے بکھرتے تزلیل کرتے آنسوں کو ہتھیلی سے صاف کرتی کوریڈور سے  واک آؤٹ کرگئی جاتے ہوئے اسنے سیرت کو اہانت آمیز نگاہوں سے مختصر دیکھا تھا ایمپلائز اسکی آنکھوں میں گہرائی کا تاثر پاکر اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔

"کیا ضرورت تھی تمہیں دخل اندازی کرںے کی،، اتنی بےعزتی کردی تم نے اسکی"

 کیبن میں پہنچ کر شانوں پر پھیلا سیاہ کوٹ کرسی کی پشت پر ڈالتی سیرت سرد آہ بھرکر بولی اسکی نازک کمر کو دونوں ہاتھوں سے احتیاط سے تھام کر وہ اسے ٹیبل کے کنارے پر بٹھاکر سیاہ آنکھوں کو دیوانگی سے دیکھتا اس کے چہرے پر جھکا اسکے کلون کے مخصوص وڈی نوٹس سیرت کی سانسوں میں  گھلنے لگے۔

"تمہارا زخم کیسا ہے،، کیا ٹھیک ہوگئے تم۔۔۔"

اسکے وجیہ چہرے کو سرسری نگاہوں سے دیکھتی وہ سنجیدگی سے بولی۔

"اہمم،،، کافی حد تک....کیا دیکھنا چاہو گی...."

 وہ کوٹ کے لیپلز پر ہاتھ رکھتا  اسکی آنکھوں میں جھانکتا گمبھیر لہجے میں بولا سیرت نے تشویش سے آنکھیں پھیلاکر اسے تنبیہ کی  تو ایک دلفریب مسکراہٹ اسکے لبوں پر رقم ہوگئی۔

"سیرت۔۔۔"

"ہاں ....."

نگاہیں اٹھاتی وہ برجستگی سے بولی۔

"کس می۔۔۔"

اسکی خواہش کا اظہار سن کر سیرت نے بھنویں سکیڑی۔

" میں ایسا کبھی نہیں کروں گی ہٹو ادھر سے"

رخساروں پر پھیلتی سرخی کو چھپاتی وہ اسے تیکھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ٹیبل سے اترنے لگی مگر حدید نے آگے بڑھ کر ٹیبل پر دونوں جانب ہتھیلیاں ٹکائے اسکے فرار ہونے کے تمام راستے بند کردیے۔

"ابھی اسی وقت کرو ورنہ ۔۔۔۔"

"ورنہ کیا کروگے تم..."

سیرت نے بھنویں اٹھاکر اسکی خمار آلود آنکھوں کا سامنا کیا۔

"ورنہ ہمیں کیبن میں شدید اہانت کا سامنا کرنا پڑے گا"

سیرت نے سرخی مائل چہرے کیساتھ اسکے سینے پر مکا رسید کیا جسکے نتیجے میں کیبن میں اسکا پرجوش بھاری قہقہ گونجا سیرت  ٹیبل سے اترتی اسے خون آشام نگاہوں سے گھورتی لمحے بھر کیلیے رک گئی،، اچانک اسکی سانسیں سینے میں بری طرح الجھی اور آنکھوں کے سامنے سیاہ دھبے سے ابھرے۔

"سیرت۔۔۔۔..؟!"

اسے ساکت کھڑے دیکھ کر حدید نے سنجیدگی سے اسکی جانب پیش قدمی کی سیرت سرنفی میں ہلاکر تیزی سے واش روم کی جانب بھاگی  سکن پر جھکتے ہوئے ہائی ہیل ماربل پر سلپ ہوئی مگر عین وقت پر وہ اسے کمر سے تھام چکا تھا۔

"مجھے وومٹنگ ہورہی ہے  تم باہر جاؤ...."

اسے تشویش سے دیکھ کر کہتی وہ سکن پر جھکی مگر وہ باہر نہیں گیا تھا نہ اسکی حالت دیکھ کر اسے کراہت ہوئی جو کہ حیران کن تھا بھوری آنکھوں میں تشویش اور فکرمندی کے تاثرات رقم تھے چند ثانیے وہ سکن پر جھکی رہی سانسیں متوازن ہونے پر  چہرا واش کرتی پیچھے ہٹی۔

"ہیئر ... ٹیک مائی ہینڈ.... "

سرد بھاری پیروں پر لڑکھڑاتی ہوئی وہ اپنی جانب بڑھے  اسکے صبیح ہاتھ کو تھام گئی اسکی کمر میں بازوں حمائل کرتا وہ اسے آفس میں لایا کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھتی وہ برا سا منہ بنا کر رہ گئی،، حدید نے متانت سے اسے برے سے منہ بناتے ہوئے دیکھا تو بےساختہ مسکرایا۔

"تمہاری فرینڈ نے شاید سے بلڈ پریشر ہائی کردیا میرا....  "

سر کو دونوں ہاتھوں میں گرا کر وہ بھاری ہوتی سانسوں کیساتھ بمشکل بولی اسنے جھک کر تشویش سے اسکا ٹمپریچر چیک کیا باقی سب تو البتہ نارمل تھا مگر اسکے پیر برف کی مانند ٹھنڈے تھے یعنی واقعی اسکا بلڈ پریشر ہائی ہوچکا تھا گزشتہ کچھ دنوں سے سر توڑ کام میں اسنے خود پر بالکل بھی توجہ نہیں دی تھی۔

"تمہیں یقین ہے صرف بلڈ پریشر ہے،، اگر کچھ سیریس ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں"

سیرت نے متحمل نگاہوں سے سر نفی میں ہلاکر اسے مطمئن کیا۔

"امم۔۔۔۔سنو.."

انٹرکام کی جانب بڑھتے ہوئے وہ سیرت کے ٹوکنے پر تشویش سے پیچھے مڑا وہ ناجانے کب سے اسے خفت سے دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں سے آنکھیں پھیر کر وہ منمنائی۔

"مجھے چاکلیٹ لیکر دو۔۔۔"

وہ  برجستہ چونکا تھا سیرت نے بوکھلا کر مزید کہا.

"میرا بلڈ پریشر ٹھیک ہوجاتا ہے اس سے"

متانت سے سر اثبات میں ہلاکر وہ انٹرکام اٹھاگیا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

انس سرجھکائے بیٹھا انگلیوں کو مسلسل چٹخا رہا تھا جب قریب ہی کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی سراٹھاگیا کوریڈور میں تیزی سے اٹھتے قدموں والا وہ اور کوئی نہیں زاویان حیدر تھا انس بےچینی سے اٹھ کر سراسیمہ سا اسکے چوڑے سینے سے لگتا روپڑا  وہ پورے پندرہ دن بعد اسے دیکھ رہا تھا زاویان نے آہستگی سے اسکی پشت پر تھپکی دیکر اسے تسلی دی انس اس کے سینے سے جدا ہوتا تشکر بھری نگاہوں سے قریب کھڑی آئیذل کو دیکھنے لگا اسنے کل شام ہی آئیذل کو میل کیا تھا اور آج وہ اسکے بھائی کو لیکر رومانیہ سے یہاں موجود تھی۔

"امی کہاں ہے بیٹا..."

 زاویان کے نرم لہجے نے انس کی ڈھارس بندھائی آئی سی یو کی جانب سر ہلاتا وہ شرمندگی سے سرجھکاگیا زاویان کی خشمگیں نگاہوں نے  گلاس ونڈو سے مشینری میں جکڑے اس وجود کو دیکھا جو اسے بلاشبہ بہت عزیز تھا وہ اسکی ماں تھی آخر کب تک خفا رہ سکتا تھا۔

"بھیا ڈیڈ چاہت کو زبردستی لیکر گئے ہیں،، میرے پوچھنے پر بھی انہوں نے جواب نہیں دیا، وہ کل رات سے بہت ڈری ہوئی تھی جسکے بعد امی کی طبعیت اچانک بگڑگئی میں یونیورسٹی سے واپس آیا تو ڈاکٹر امی کو آئی سی یو میں ایڈمٹ کرنے کا کہہ رہے تھے..."

زاویان تشویش سے پیچھے مڑا  انس دھیمے لہجے میں بول کر سردونوں ہاتھوں میں گراگیا۔

"کچھ نہیں ہوگا وہ ٹھیک ہوجائیں گی ان شاءاللہ... آپ پریشان نہ ہوں"

آئیذل نے نرمی سے اسے سمجھایا سر اثبات میں ہلاکر وہ بےچینی سے اٹھا۔

"میں چاہت کو ڈھونڈنے جارہا ہوں.... ضرور کچھ ہوا ہے"

زاویان نے اسے کوریڈور کی جانب پیش قدمی کرنے سے قبل روک لیا۔

"کیا تمہاری سیرت سے بات ہوئی؟!!.."

آئیذل نے معاون نگاہوں کا مرکز زاویان تھا آخر کب تک وہ اپنی بہن سے خفا رہنے والا تھا مگر یہ سچ تھا کہ اسے اپنی جان سے زیادہ اس لڑکی کی اب بھی پرواہ تھی انس نے لب بھینچ کر سر نفی میں ہلایا زاویان سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر انس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاگیا۔

"اسے کال کرکے امی کی کنڈیشن بتادو...."

چند ساعت اپنے فون کی نمبروں کی فہرست میں "پرنسس" پر نظر ثانی کے بعد اسنے سرد لہجے میں کہہ کر فون دوبارہ پاکٹ میں رکھتے ہوئے کہا آئیذل نے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھا انس نے سر دھیرے سے ہلاکر سیرت کا نمبر پش کیا تھا۔

"آپ کب تک ان سے خفا رہیں گے ایک بار تحمل سے بات کرکے حل نکالا جاسکتا ہے.."

آئیذل نے زاویان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے مخاطب کیا سرد آہ بھرکر اسنے غیر مرئی نقطے کو چند ثانیے تک دیکھا دماغ کے پردے پر اس منظر کی نمائش ہوئی جب اسنے اس شخص کا انتخاب کیا تھا تو سنہری آنکھوں میں کشیدگی عود آئی آئیذل کا ہاتھ نرمی سے ہٹاکر وہ کوریڈور سے آتے ڈاکٹر کی جانب پیش قدمی کرگیا آئیذل نے افسردگی سے انس کو میسج ٹائپ کرتے دیکھا کیونکہ سیرت کال نہیں اٹھارہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

وہ بالکنی میں پڑی کرسی پر پشیماں سی بیٹھی ہوئی تھی،، کچھ دنوں سے دل میں عجیب سی بےچینی سراٹھائے ہوئے تھی حدید ریکور ہوچکا تھا مگر کاروباری معاملات ان دونوں کی سرپرستی میں وقوع پذیر ہورہے تھے،، جس انداز میں سیرت نے اسکی غیر موجودگی میں عسکری ایمپائر کی  زمہ داری سنبھالی تھی وہ قابلِ تعریف تھی  خشک لبوں کو تر کرکے اسنے ذہن میں گردش کرتے سونیاکے الفاظ سے جان چھڑانی چاہی جو کئی گھٹنوں سے اسے تشویش میں  مبتلا کررہے تھے، سر کو کوفت سے جھٹک کر وہ بری طرح جھنجھلاکر کرسی سے اٹھی ڈور بیل مسلسل بج رہی تھی آنے والا شدت کا جلدباز لگتا تھا دروزہ کھولتی سیرت بدحواسی سے اندر آتی چاہت کو دیکھ کر ٹھٹھکی آخر وہ بیلفاسٹ میں کیاکررہی تھی۔

"سس.....سیرت تم تم ٹھیک ہو ناں..."

  سیرت نے ناسمجھی سے  ہونک بنی چاہت کو دیکھا اسکے لمبے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے،، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے اور رخساروں پر زخموں کیساتھ نیل پڑچکے تھے وہ پرانی والی چاہت تو کہیں سے بھی نہیں لگتی تھی چاہت کے برفیلے ہاتھوں کو فکرمندی سے پکڑتی سیرت اسے صوفے پر بٹھاگئی وہ پسینے میں شرابور تھی،، ہاتھ پیر مسلسل کانپ رہے تھے سیرت نے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھایا جسے چاہت نے عجلت سے چند گھونٹ حلق سے اتارںے کے بعد ٹیبل کی نظرکردیا۔

"سیرت.... گھر میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے.... زاویان اور لمظ گھر چھوڑ کرچلے گئے ہیں،، مماں کی طبعیت بہت نازک ہے وہ آئی سی یو میں ہیں ،، ڈیڈ ساری پراپرٹی اپنے نام کرنا چاہتے ہیں،، تم میرے ساتھ گھر چلو سیرت تم یہاں محفوظ نہیں ہو..... تم تم بس میرے ساتھ چلو..."

بدحواسی کے عالم میں چاہت مسلسل بولتی چلی گئی سیرت کی پیشانی شکن زدہ ہوئی۔

ڈور بیل ایک بارپھر سے بج کر کسی کے آنے کی نوید سنانے لگی سیرت نے تشویش سے دروازے کی جانب دیکھا  دروازے کی جانب بڑھتی سیرت کے ہاتھوں کو چاہت نے  نافہمی کی کیفیت میں پکڑا۔

"ڈڈ....ڈیڈ کے آدمی مجھے ڈھونڈ رہے ہیں،، وہ زبردستی شاہنواز خان کے بیٹے سے میرا نکاح کروانا چاہتے ہیں .... کک.... کہیں یہ انکے آدمی تو نہیں یاخدا اب کیا ہوگا..... "

مسلسل بجتی ڈور بیل کو یکسر فراموش کرتی چاہت ہمہ وقت سراسیمگی کی کیفیت میں سب کچھ کہہ گئی سیرت نے لب بھینچ کر دروازے کی جانب دیکھا  اور پھر تیز قدموں سے اپنے کمرے کی جانب پیش قدمی کرگئی چاہت سیرت کو واپس آتے دیکھ کر ٹھٹکی کیونکہ اسکے  داہنے ہاتھ میں پسٹل تھی۔

سیرت نے جنبشِ ابرو سے اسے چھپنے کا اشارہ کیا اور پیک ہول سے دروازے پر کھڑے سیاہ لباس میں مشتبہ شخص کو دیکھا چاہت بوکھلاکر صوفے کے پیچھے چھپی سیرت نے پسٹل پشت سے لگاکر دوسرے ہاتھ سے آہستگی سے دروازہ کھولا چہرا بےحد متحمل تھا اس شخص کی متلاشی نگاہوں نے سبک روی سے سیرت کے عقب میں نظر آتے گھر کا مختصر جائزہ لیا۔

وہ یقین دہانی کرنا چاہتا تھا کہ اسوقت گھر میں کوئی دوسرا موجود تو نہیں۔

"کیا بدتمیزی ہے.... تم ایسے اندر نہیں آسکتے"

سیرت کے قریب سے گزرتا وہ بےتکلفی سے  گھر میں گھس چکا تھا چاہت نے صوفے پر ہاتھ رکھ کر درزدیدہ نظروں سے اسے دیکھا اس شخص کی نگاہیں پورے گھر میں کسی کو تلاش رہی تھی سیرت نے زیرکی سے دروازے کی جانب دیکھا وہ اکیلا تھا پاؤں کی  ٹھوکر سے دروازے کو بند کرتی وہ  متحرک ہوئی دروازہ بند ہونے کی آواز پہ وہ ٹھٹھک کر پیچھے مڑا جب سیرت برجستگی سے اسکی گردن کو بازؤں کے مثلث میں دباگئی چار سیکنڈ میں  وہ چت ہوکر فرش بوس ہوا تھا چاہت حیرت سے اسے دیکھتی صوفے کے پیچھے سے باہر نکلی تھی یہ تو اسکی توقع میں بھی نہیں تھا،، وہ پھٹی پھٹی نظروں سے سیرت کا متحمل چہرا دیکھ رہی تھی۔

"جلدی چلو وقت نہیں ہے.... اس سے پہلے تمہارے ڈیڈ تمہیں ڈھونڈیں ہمیں پاکستان پہنچنا ہے اور بھیا کو بھی وقت سے اطلاع کرنی ہے کیا انس کا نمبر تمہیں یاد ہے.... میرے پاس نمبر نہیں ہے اسکا،، جلدی چلو کھڑی کیوں ہو..."

ٹیبل سے فون کے ہمراہ گاڑی کی چابیاں اٹھاکر کسی کا نمبر پش کرتی  سیرت دروازہ کھول کر باہر نکلی چاہت بدحواسی سے سرہلاکر اسکے پیچھے باہر نکلی تھی اپارٹمنٹ کو لاک کرکے وہ عجلت سے سیٹ بیلٹ لگاکر گاڑی کو شاہراہ پر ڈال کر پاکستان کی ٹکٹ بک کرںےکے بعد ایئرپورٹ کی جانب روانہ تھی۔گیئر شفٹ کے قریب پڑے فون پر عسکری کالنگ دیکھ کر چاہت کا خون سفید پڑا سیرت کے کال منسلک کرنے سے قبل چاہت نے ہاتھ بڑھا کر سیرت کو ٹوکا جو ڈرائیونگ کرتے ہوئے حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"سیرت مجھے تمہیں کچھ اور بھی بتاناہے ڈیڈ نے حدید رضا سے تمہارا سودا کیا ہے پچاس کروڑ میں،، میں نے خود انکو شاہنواز انکل سے بات کرتے سناتھا اور مماں نے بھی سنا تھا.. وہ کچھ،، شاید تم سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہے،، خدارا کال مت اٹھانا اسکی..."

سیرت کی غیر یقینی نگاہیں اسوقت چاہت کے فق چہرے کا جائزہ لے رہی تھی فون مسلسل بج رہا تھا چاہت نے بوکھلا کر اسکا فوج سوئچ آف کیا تھا سیرت نے ہونٹ بھینچ کر اسے مختصر دیکھا کس پر بھروسہ کرنا تھا اور کس پر نہیں وہ دل و دماغ سے بری طرح الجھ رہی تھی مگر ماں کی صحت کی اسے سب سے زیادہ پرواہ تھی،، اپنے مشفق والد کے بعد وہ اپنی ماں کو نہیں کھوسکتی تھی بیلفاسٹ کی شاہراہوں پر وہ گاڑی تیزی سے دوڑا رہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

گاڑی کی چابیاں روز کے حوالے کرتی وہ تیزی سے ٹکٹ سمبھالتی کاؤنٹر کی جانب پیش رفت کرگئی سیاہ  سیکیورٹی کے لباس میں چند نامعلوم افراد نے جنبشِ نگاہ سے ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور سیرت کی جانب پیش قدمی کی موسم سرما کی تعطیلات ہوچکی تھی ایئرپورٹ پر مسافروں کا رش تھا سب اپنے وطن لوٹ رہے تھے سیرت نے سرسری نگاہوں سے چاہت کو تلاش کیا جو کچھ دیر قبل ویٹنگ چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔

 تیزی سے آمد و رفت کرتے مسافروں میں چند اہلکاروں کو اپنی جانب پیش قدمی کرتے دیکھ کر سفید پیشانی پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے ذرات چمکے تھے فون کو سوئچ آن کرتے ہوئے وہ تیزی سے فلائٹ کی روانگی کی اناونسمٹ سن کر چیکنگ ونگ کی جانب بڑھی دل پراسرار بےچینی کا شکار ہوکر دھیرے دھیرے سکڑنے لگا وہ تذبذب سے آس پاس دیکھ کر چاہت کو تلاش کررہی تھی جو ناجانے کہاں غائب ہوچکی تھی فلائٹ ٹیک آف کی یہ فائنل وارننگ تھی.

کوئی عقب سے اسکے ہونٹوں پر بھاری ہاتھ رکھ کر اسے ایک جانب کھینچ لے گیا کہنی کو مقابل کے سینے میں بےحسی سے مار کر وہ  دفاع کرتے ہوئے پیچھے پلٹی سیاہ لباس میں دبلا پتلا شخص سینے پر ہاتھ رکھے اسے خونخوار نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"سنبھال کر.... وہ لڑنا جانتی ہے.."

عقب سے آگے بڑھتے آدمیوں کو اسنے دھیمے لہجے میں تنبیہ کی سیرت کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا حلق خشک لکڑی کی مانند چٹخنے لگا، پشت سے پسٹل نکال کر اسنے مقابل کھڑے آدمی پر تانی

"ڈونٹ موو... ورنہ بھیجا اڑا دوں گی تمہارا ۔۔۔ "

وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتا قریب کھڑے آدمی کو دیکھ کر سرنفی میں ہلاگیا سیرت نے دھیمے قدموں کیساتھ پیچھے ہٹنا شروع کیا تینوں آدمیوں کے ہاتھ ہوا میں تھے دھیرے دھیرے چلتی ہوئی وہ سرمیں درد کی ٹھیس محسوس کرکے ساکت ہوئی آنکھوں کے سامنے سفید کوندے سے لپکے اور وہ  بےسدھ ہوکر زمین پر گری چاہت نے سٹیل کا راڈ ایک جانب کوفت سے پھینکا۔

"بےوقوف ایک کام ٹھیک سے نہیں کرسکتے تم....  اب منہ کیا دیکھ رہے ہو اٹھاؤ اسے"

سر اثبات میں ہلاکر وہ آدمی تیزی سے سیرت کی جانب بڑھے تھے۔

"سوو ... کیا خیال ہے تمہارا... مجھے مافیا میں ہونا چاہیے یا نہیں"

کیبن سے نکلتی تنگ سیاہ لباس میں سونیا کی جانب دیکھتی چاہت مسکرائی۔

"اہاں۔۔ ماننا پڑے گا .... کمال ایکٹنگ اور اسکے بعد یہ اینٹری"

بھونیں اٹھاتی وہ تضحیک آمیز نگاہوں سے سیرت کے ساکت وجود کو دیکھتی بولی۔

"ناک میں دم کرکے رکھا تھا اسنے،، کتنی کوشش کی میں نے حدید کو امپریس کرنے کی لیکن پھر بھی ملا سیرت رضوی کو ڈیم اٹ دل تو کرتا ہے گلہ گھونٹ دوں سیرت کا"

کندھے سے بال جھٹکتی وہ سیرت کی جانب دیکھ کر پھنکار گئی  جسے لیکر آدمی کیبن کی جانب بڑھ رہے تھے وہ بےسدھ سی آنکھیں میچے ہوئے تھی۔

"ہممم کبھی ملاؤ اپنے ہینڈسم ہنک سے میں بھی تو دیکھوں"

چاہت نے بھونیں اٹھاکر زومعنی نگاہوں سے سونیا کی جانب دیکھا  جو بھنویں سکیڑتی اسے گھور کررہ گئی تھی،، ہنستی ہوئی چاہت نے اشفاق احمد کا نمبر پش کرکے فون کان سے لگایا تھا۔

"آپکے نکمے آدمیوں نے سارا کام خراب کردیا تھا اگر میں ٹائم پر نہ آتی،، ہاں سیرت کولیکر آرہی ہوں لیکن اپنا وعدہ یاد رکھئے گا اگر آپ نے میرا اور زاویان کا نکاح نہیں کروایا"

کال منقطع ہوچکی تھی چاہت نے شکن زدہ پیشانی سے فون کو گھورا تھا۔

"ویسے تمہارا یہ زاویان کیسا دیکھتا ہے کبھی ملاؤ مجھے بھی"

سونیا نے دلچسپی سے بھنویں اٹھائی تو چاہت نے خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"خبردار وہ صرف میرا ہے اگر تم نے اس پر نظر ثانی کا سوچا بھی تو"

"ارے جاؤ ۔۔۔ ہوگا وہ ہینڈسم لیکن میرا عسکری تو"

چاہت نے آنکھیں گھماکر اسے دیکھا اور کیبن کا دروازہ دھکیل کر اندر چلی گئی سونیا نے ہونٹ بھینچ کر اسکی پشت کو گھورکر آنکھیں گھمائی تھی۔

"ہاہاہاہا.... کیوں کال نہیں اٹھارہی تمہاری پیاری بیوی، کہیں بھاگ تو نہیں گئی "

بھوری آنکھوں میں وحشت لئے اسنے اشتعال ضبط کرکے  فون سٹول پر رکھا۔

 اندھیرے کمرے بیچ و بیچ کرسی پر رسیوں میں جکڑے شاہزیب خانزادہ کا قہقہہ برجستہ تھا مگرحدید رضا کے دماغ کے پردوں پر تو اس لڑکی کے چہرے کا پردہ پڑچکا تھا اس لڑکی کی معمولی سے معمولی تر بات اسکی کٹھور طبعیت پر کتنا اثر انداز ہونے لگی تھی۔

"تمہیں کیا لگا تم مجھے یہاں مارو گے پیٹو گے اور میرے ڈیڈ تماشا دیکھیں گے..؟!!  تمہاری بیوی کیساتھ دیکھو اب ہوتا کیا ہے حدید رضا،، تمہاری بیوی کو ڈیڈ نے اٹھوایا ہوگا..... میرے بھائی کو مارا تھااس لڑکی نے.... اب تمہاری یہ آنکھیں دیکھیں گی اس لڑکی کے پرخچے اڑتے ہوئے"

وہ وحشت ناک انداز میں اسکی گردن میں قوی انگلیاں پیوست کئے شاہزیب خانزادہ کی آنکھوں میں سرخی مائل آنکھیں گاڑھتا جھکا صبیح پیشانی شکن زدہ تھی.

"پرخچے تو تمہارے اڑیں گے اور اسکا لائیو ٹیلیکاسٹ تمہارا حرامخور* باپ اور پوری دنیا ملاحظہ کرے گی تمہارے اتنے ٹکڑے کروں گا کہ دفنانے کے قابل نہیں رہوگے .... اگر میری بیوی کو مائنر ساکٹ بھی لگا تو یاد رکھنا۔۔۔تمارا باپ سمیت تمہاری سات غلیظ* نسلیں اسکا خمیازہ بھگتیں گی تمہاری پوری ہستی جڑسے مٹادوں گا" وہ جنونی مشتعل انداز میں کہتا انسان نہیں لگا تھا اسکی بربریت رقم کرتی وحشت ناک سرخ آنکھیں دیکھ کر شاہزیب خانزادہ کی ہتھیلیوں سے  ٹھنڈے پسینے کا اخراج بےساختہ تھا۔

"میک..... سیرت کی لوکیشن ٹریس کرو.... جے،.... ایرک اور میکس سے رابطہ کرو..... پانچ منٹ کے اندر اندر خانزادہ مینشن کے ہرایک فرد کی مجھے لوکیشن چاہیے..."

اسکا حکم ملتے ہی ڈارک روم میں پشت پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑے سیاہ ہوڈ میں افراد متحرک ہوئے سگار لبوں میں دباکر اسنے لائٹر کے قریب ہتھیلی رکھ کر بےاعتنائی سےسلگائی تھی۔

فون پر شاہنواز خان کا نمبر پش کرتے ہوئے وہ تنک صبری سے کال منسلک ہونے کا منتظر تھا۔

 کال منسلک ہوتے ہی جو پہلی آواز سنائی دی تھی وہ اشفاق احمد اور شاہنواز خان کا مکروہ قہقہ تھا صبیح پیشانی پر پسینے کے ذرات میں ابھرتی نیلی شریانوں یکلخت متحرک ہوئی۔

"کیوں عسکری صاحب،جس شخص سے ملاقات کیلیے پوری دنیا کو ایک ہفتہ پہلے اپوائنٹمنٹ مقرر کرنی پڑتی تھی آج وہ اتنی بےصبری کا مظاہرہ کیوں کررہا ہے آخر،بیوی کو ڈھونڈ رہے ہو"

اشفاق صاحب کی نخوت بھری آواز سن کر اسنے متانت سے گاڑھے دھویں کا ایک مرغولہ لبوں سے ہوا میں تحلیل کیا پشت پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑے میک نے نگاہوں سے اسکی گردن کی ابھرتی نیلی شریانیں کو تشویش سے دیکھا تھا مگر چہرے پر با کمال  ضبط تھا۔

"کہاں ہے سیرت...."

اسکا پتھریلا چٹان جیسا لہجہ سن کر شاہنواز خان نے اشفاق احمد کے ہاتھ سے فون تیزی سے کھینچ کرکان سے لگایا تھا انکی پیشانی اسکی درشت آواز سن کر پسینے سے لباب  ہوئی تھی۔

"میرے پاس ہے  تمہاری دکھتی رگ  ....."

"اگر سیرت کو ایک معمولی سی کھروچ بھی آئی تو آج خانزادہ حویلی دو نوجوان بیٹوں کی لاشوں پر ماتم کناں نظر آئے گی تمہاری بیٹی کیساتھ تو ناجانے میں کیا کچھ کروں گا...."

 شاہنواز خان کی بات میں بے اعتنائی سے مداخلت کر اسنے آخری سطر پر  دلچسپی سے دباؤ ڈالا

کرسی پر بدحواسی سے بیٹھے شاہزیب خانزادہ نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا۔

شاہنواز خان چلتے ہوئے ٹھنڈے فرش پرپڑے اس وجود کے پاس آئے جسکی گردن میں ڈاکٹر کچھ انجیکٹ کرکے پیچھے ہٹ چکی تھی یکلخت غیر متحرک وجود میں لرزش پیدا ہوئی۔

"آہہہہہ.... با۔۔۔بابا"

شاہنواز خان نے بےحسی سے اسکے بالوں کو نوچ کر چہرا اوپر اٹھایا تو عالم بےہوشی میں بھی وہ درد سے کراہ اٹھی فون پر اسکی اذیت سے بھرپور باریک آواز سن کر اسکی دھڑکنیں مدھم ہوئی کیا وہ  وہی حدید رضا عسکری تھا جسکی کوئی کمزوری نہیں تھی انتقام کی داستان لکھتے لکھتے وہ اس بدتہذیب سی لڑکی کی محبت میں شدت سے گرفتار ہوبیٹھا تھا۔

"ایک غلط قدم اور تمہاری بیوی.... "

ڈاکٹر کو کان پے جھکتے دیکھ کر شاہنواز خان نے وقفہ لیا سرگوشی سن کر انکے لبوں پر ایک فتح مندانہ مکروہ مسکراہٹ رینگی  نگاہوں نے فرش پر لرزتے وجود کو تمسخر سے دیکھا۔

"صرف بیوی نہیں۔۔۔عسکری صاحب آپ تو باپ بننے والے ہیں مبارک ہو..."

اسکے ہاتھ سے فون چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا تھا فون کی دوسری جانب  جان لیوا خاموشی سن کر شاہنواز خان کا قہقہ بھرپور تھا،، اس اعصاب کے پابند شخص نے وہ خبر سننے کے بعد ناجانے  دھیرج کا مظاہرہ کرنے میں کتنی دشواری کا سامنا کیا تھا۔

"اگر بچے اور بیوی کی جان  عزیز ہے تو میرے بیٹے کو آزاد کرو اور اگر تمہاری وجہ سے میرا ایک پائی کا بھی نقصان ہوا تو ذہن نشین کرلوحدید رضا تمہاری بیوی زندہ نہیں رہے گی ۔۔۔۔"

شاہنواز خان کے خباثت سے بھرپور قہقے کیساتھ کال منقطع ہوچکی تھی  اسنے سراسیمگی کی کیفیت میں ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے سامنے کرسی پر مسکراتے شاہزیب خانزادہ کو التہابی نگاہوں سے دیکھا  ایک مصمم ارادہ کے بعد اسنے کرسی کی جانب پیش قدمی کی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"اگر اس لڑکی کی وجہ سے میرے بیٹے کو کچھ بھی ہوا اشفاق احمد...."

فون کان سے ہٹاتے شاہنواز خان مٹھی بھینچ کر بقیہ الفاظ نگل گئے۔

"کچھ نہیں ہوگا،،،حدید رضا کو سیرت رضوی ہرصورت زندہ چاہیے،، وہ شاہزیب کو نقصان پہنچانے کی غلطی نہیں کریگا،، اور ہم اسی بات کا فایدہ اٹھائیں گے ایک تیر سے دو شکار"

اشفاق احمد نے برجستگی سے جواب دیکر شاہنواز خان کو ٹوکا جس پر وہ مطمئن سے ہوگئے۔

"ماننا پڑے گا اشفاق تم ںے اس سے پیسے بھی بٹورلئے اور لڑکی بھی اٹھوالی...محبت بھی بڑی خبیث چیز ہے بھائی... کیسے کیسے لوگوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتی ہے"

شاہنواز خان نے شراب کا آخری گھونٹ حلق میں انڈیل کر قہقہ لگایا قریبی صوفے پر چاہت کے قریب ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتی سونیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی تھی۔

"انتقام نواز.... اپنی ماں کا انتقام چاہتا ہے وہ پچاس کروڑ تو اسکے لئے تنکا تھا،،درحقیقت وہ اس لڑکی پر پورا تسلط جمانا چاہتا تھا،، اسکے جیسا موقع پرست کہاں اور محبت کہاں..."

فرش پر بےسدھ پڑی سیرت کی مخروطی انگلیوں نے حرکت کی۔

"انتقام تو اسکا پورا ہو چکا ہے یہ لڑکی اب اسکے کس کام کی بھلا کیا لگتا ہے وہ آئے گا..."

شاہنواز خان نے دلچسپی سے داڑھی کھجائی سیاہ آنکھیں آہستگی سے وا ہوئی تھی۔

"کیا پتا اپنے بچے پر ترس کھاکر آجائے ..."

چاہت نے بےفکری سے اپنی رائے دی، جس پر سونیا کا ماتھا ٹھنکا۔

"میں تو کہتی ہوں ابھی اسی وقت سیرت کو ٹھکانے لگادو....."

سونیا نے مٹھیاں بھینچ کر سیرت کی جانب دیکھا جو فرش پر پڑی نیم وا آنکھوں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی  ڈرگز کی وجہ سے وہ حرکت کرنے سے بھی محروم تھی۔

"  ہاہاہاہا ارے نہیں بیٹا صبر کرو ،،  اس لڑکی کو میں نے زاویان کےپیچ کسنے کیلیے اب تک زندہ رکھا ہے.... بس تھوڑا سا انتظار کرو شاہزیب کے واپس آنے تک کا،،  ڈی آئی جی صاحب بھی اپنے اسکواڈ کیساتھ شاہزیب کا سراغ لگارہے ہیں مل جائے گا وہ،، ایک بار زاویان ان کاغذات پر دستخط کرکے میرے مانگیں پوری کردے اسکے بعد اس لڑکی کا مقدر بھی موت ہی ہے ٹھیک ویسا جو عاطف رضوی کا مقدر تھا،، بہت آرزو تھی اسکی باپ سے ملنے کی..."

اشفاق صاحب برجستگی سے شراب کا گلاس پکڑتے ہنس پڑے، چاہت نے مسکرا کر سیرت کی جانب دیکھا جوشاید کبھی اسکی بہت اچھی دوست ہواکرتی تھی۔

"سنا تم نے سیرت،، اس دن ٹھیک کہا تھا میں نے وہ صرف تمہارا فایدہ اٹھارہا تھا جسے تم نے خوش فہمی میں محبت سمجھ لیا،،جانتی ہو وہ کتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے،، جو انتقام اسے ہم سے لینا چاہیے وہ انتقام اس نے تم سے لے لیا ہاہاہاہا ،، تم پریگنینٹ ہو یار مجھے تو افسوس ہورہا ہے تم پر،، ناجانے وہ اور کیا کرتا تمہارے ساتھ،، تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیے ہمارا"

سونیا چلتے ہوئے سیرت کے قریب ٹھہرتی سینے پر بازؤں لپیٹ کر طنز کررہی تھی۔

سیاہ حزن زدہ آنکھیں نمی سے جھلملا گئی تو کیا وہ واقعی اس سے انتقام لینے کیلیے اس حدتک گرچکا تھا کے اس رات اسکی مجروح آتما کو بھی محبت کا نام دیکر انتقام کی غرض سے اسنے نوچ ڈالا تھا وہ کرب سے مٹھی فرش پر مارتی آنکھیں میچ گئی آج وہ مظبوط لڑکی ٹوٹ کر بکھرگئ.

"سنا تم نے نہیں آئے گا وہ... سیرت تم یہیں سڑتی رہوگی اور تمہارے بچے کو تومیں"

سونیا سیرت کے قریب گھٹنا ٹکائے بیٹھتی تمسخر سے بولی جب سیرت نے یکلخت آنکھیں اٹھاکر اسے اشتعال انگیز نگاہوں سے دیکھا۔

"تمہاری زبان نوچ لوں گی اگر میرے بچے کے بارے میں ایک لفظ بھی بکا تم نے"

سیرت کے براہ راست جواب پر سونیا کی پیشانی پر بےساختہ لکیریں نمودار ہوئی۔

""اتنی فکر اسکے بچے کی ہاں،، کیا محبت کربیٹھی ہو اپنے  ستمگر سے۔۔ بےغیرت عورت"

سیرت کی ٹھوڑی کو پکڑے وہ زہریلے لہجے میں مخاطب تھی سیرت کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹا کتنی محبت سے کوئی اسکی ٹھوڑی کو اوپر اٹھاکر ان آنکھوں میں جھانکا کرتا تھا۔

" یہاں بےغیرت کون ہے سب جانتے ہیں،، کسی اور کے شوہر پر ڈورے ڈالنے والی گھٹیا کمزات نیچ قسم کی عورت ہوتم  سونیا،،،جس نے گندے غلیظ قسم کے باپ سے گندی پرورش پائی ہے،، تمہاری صحبت بھی تمہاری طرح  خبیث اور گندی ہے"

سیرت کے زخمی ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ پھیلی سونیا سرخی مائل چہرے کیساتھ پسٹل اٹھاکر ٹریگر پر انگلی رکھے گولی چلاگئی ۔

"بےوقوف کیا کررہی ہو تم.... اگر اسے کچھ ہوا تو زاویان  کو کنٹرول کیسے کریں گے۔۔۔"

چاہت نے برجستگی سے پسٹل کا رخ ہوا میں بلند کیا اور گولی خطاہوئی۔

"بکواس بند رکھو اپنی،، تم نے سنا اس نے کیا کہا ابھی"

سونیا نے حقارت سے چاہت کا ہاتھ جھٹکا تھا۔

"بیچاری،، اور کربھی کیا سکتی ہے،، کاش کوئی  مرد منہ لگاتا  تو آج سونیا خانزادہ کو دوسروں کے مردوں کو منہ لگانے کی نوبت نہ آتی..... کتنی نیچ ہوتم گھن آتی ہے تم جیسی لڑکیوں سے"

سونیا نے اہانت آمیز نگاہوں سے سیرت کو دیکھا جو ہتھیلی فرش پر ٹکائے صدمے کی زیادتی سے بےاختیار  ہنس رہی تھی چاہت نے لب سکیڑ کر اسکے الفاظ رد کئے ورنہ کسک تو اسکے دل پر بھی پڑی تھی،، دونوں کے کردار میں فرق ہی کتنا تھا۔

"دفع کرو اسے،، ڈرگز اسکے دماغ پر قابض ہوگئے ہیں... یہاں آؤ تم دونوں"

شاہنواز خان نے بےپرواہی سے اںکو ٹوکا سونیا کا تو دل جل چکا تھا۔

"اور چاہت اشفاق احمد ،، کے بھی وہی حالات ہیں دونوں ایک ہی  گندی تھالی کی چٹیاں بٹیاں،،  سونیاتم تواس دن مجھے کیریکٹر لیس بول رہی تھی تمہارا تو کیریکٹر بھی ننگا ہے تمہاری طرح.... ترس آتا ہے مجھے تم جیسی لڑکیوں پر،، کیسے آئینہ دیکھتی ہوتم دونوں ،، تمہارے  اوچھے باپوں کو تو نائٹ کلب میں لڑکیوں کیساتھ مجرے کرنے سے فرصت نہیں ہے،، اپنی بچیوں کی پرورش کا خیال ہی نہیں آیا  ....ہرباپ آخر میرے بابا جیسا نہیں ہوسکتا"

چاہت نے پیچھے پلٹ کر خفت سے اسے دیکھا سر فرش پر گرائے وہ  نشے کے زیر اثر شدید ہنس رہی تھی جبکے حزن کی زیادتی سے سیاہ آنکھوں سے نمکین مائع برس رہا تھا اشفاق صاحب صوفے سے لال پیلے ہوتے اٹھے ۔

"زبان سنبھال کر بک لڑکی ورنہ ٹکڑے کردوں گا تیرے"

شاہنواز خان کی غیرت اچانک جاگ اٹھی۔

"کیوں اب غیرت آگئی انکل کو،، مگر افسوس اتنی دیر سے آئی "

سیرت کہنی ٹکاکر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرائی،، وہ اسوقت اپنے آپ میں نہیں تھی،، ذہن پر دھیرے دھیرے سیاہ غلاف سا پھیل رہا تھا وہ ہوش و حواس کھورہی تھی اسکی جانب بڑھتے اشفاق احمد نے شاہنواز خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سر نفی میں ہلا کر انکو مزید پیش قدمی سے روکا تھا ۔

"تمہیں پتا ہے تمہارے باپ کو کس نے مارا تھا؟!! میں نے مارا تھا تمہارے باپ کو لڑکی،، اور تمہیں اغوا کروانے میں بھی شاہنواز کیساتھ میرا برابر ہاتھ تھا اس دن اگر تمہیں مارنا ہی ہوتا تو کمرے میں زہریلی گیس سے میں اسی دن مار چکا ہوتا،،  پتا ہے کیوں ۔۔ کیونکہ تم تو سونے کی چڑیا تھی،، مجھے اندازہ تھا وہ تمہیں بچانے ضرور آئے گا،، کیا تمہیں پتا ہے عسکری نے اس رشتے کولیکرمیری رضامندی کیلیے مجھے پچاس کروڑ دیئے ہیں،، اسنے خریدا ہے تمہیں ،، تمہارا پورا فائدہ اٹھاکر وہ تمہیں ٹھیک اسی طرح چھوڑنے والا تھا جیسے تمہارے باپ نے یسریٰ کو چھوڑا تھا،،،کوئی محبت نہیں کرتا وہ تم سے،، تم جیسی اسے لاکھوں دستیاب ہیں ،، اور اسوقت تم ہمارے رحم وکرم پرہو اپنے بچے کی سلامتی کیلیے اپنی زبان  بندرکھو لڑکی،، ورنہ سمجھی..."

سیاہ آنسوں سے جھلملاتی آنکھوں نے اپنے پیٹ پر پسٹل کو دیکھا جو اشفاق احمد نے رکھی تھی،، کہنے کو تو وہ اسکا باپ تھا مگر افسوس۔۔۔ اسوقت اسے اپنے والد صاحب یاد آئے تو آنکھیں شدت سے برس پڑی اشفاق احمد کے الفاظ نے اسکے ماؤف ذہن پر گہرا اثرکیا تھا۔

 وہ ہونٹ بھینچ کر خوفزدہ نگاہوں سے سرنفی میں ہلاگئی شاہنواز خان نے خبیث مسکراہٹ سے اسے سہم کر دیوار سے چپکتے دیکھا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️ 

"باس... اگر انہوں نے میم کیساتھ کچھ کردیا"

میک نظریں اٹھاتے بوکھلا کر بولا شاہزیب خانزادہ کے چہرے پر ہنوز نگاہیں گاڑھے اسنے داہنے ہاتھ کو پیچھے بڑھاکر میک سے یقیناً کچھ مانگا تھا جب وہ پیچھے مڑا تو بھوری آنکھوں میں  ہیبت ناک سرخی تھی میک نے بدحواسی سے اسکے ہاتھ میں کچھ تھمایا جسے دیکھ کر شاہزیب خانزادہ کو سرد پسینے چھوٹ پڑے  کانوں میں ڈرلنگ کی چھید دینے والی آواز نے کمرے کا سکوت توڑا۔

"یہ۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو ۔۔۔ تم۔۔۔ ڈڈڈ۔۔ڈیڈمار دیں گے سیرت کو" 

کرسی پر بندھے وجود میں جیسے برقی لہریں دوڑ گئی شاہزیب خانزادہ کا حلق خشک پڑنے لگا میک نے اسکے اشارے پر انٹرنیشنل سیٹیلائٹ کا سسٹم ہیک کردیا فون سے کمپیوٹر اٹیچ کرکے وہ لائیو براڈکاسٹنگ کررہا تھا چہرے پر سیاہ ہوڈ ڈالے اسنے شاہنواز خان کا نمبر پش کیا۔

لیونگ روم میں نسب ٹیلیویژن پر ڈارک روم کے بیچ و بیچ پڑی کرسی پر اپنے بیٹے کو تھرتھراتے دیکھ کر شاہنواز خان سے صوفہ چھوٹ گیا تھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہوں نے کال منسلک کرکے فون کان سے لگایا۔

"مجھے میری بیوی چاہیے شاہنواز خان۔۔۔۔"

سرد برفیلے لہجے نے شاہنواز خان کی نسوں میں دوڑتے لہو کو منجمد کردیا اشفاق احمد غیر یقینی سے کبھی دیوار میں نسب ٹیلیویژن تو کبھی شاہنواز خان کو دیکھتے جو تیزی سے فرش پر بکھرے وجود کی جانب دوڑے سیرت کا چہرا سختی سے اوپر اُٹھائے انہوں نے فون سیرت کے کان سے لگایا جو آنکھیں واکرتی ناسمجھی سے انکو دیکھنے لگی۔

"بول اپنے عاشق سے،،،  تو صحیح سلامت ہے،، بول اسے میرے بیٹے کو آزاد کردے  بتا تجھے کچھ نہیں ہوا کہہ اسے ابھی اسی وقت  تجھے لیکر جائے   لڑکی،، بول،، میں کہتا ہوں بول..."

  شاہنواز خان کو بدحواس ہوتے دیکھ کربےسدھ سی دیوار سے سر ٹکاکر بیٹھی سیرت کے زخمی لبوں پر مسکراہٹ رینگی  دوسری جانب بھوری آنکھوں کے سمندر میں اٹھتی طوفانی لہروں نے سیرت کی گہری سانسیں سن کر بےاختیار سکوت اختیار کیا تھا۔

"مجھے نفرت ہے اس بےحس جانور سے....میں مرجائوں گی لیکن اسکے پاس نہیں جاؤں گی"

فون کان سے دور کرتی وہ اذیت کی آخری حد پر چیخی شاہنواز خان نے ایک زوردار تمانچہ اسکے چہرے پر جڑدیا جسکی آواز  فون کی دوسری جانب کھڑے شخص نے بخوبی سنی تھی جسکے بعد اسنے برجستہ مٹھی بھینچی،، شاہزیب خانزادہ کے خوف سے لرزتے وجود کو تضحیک آمیز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد سختی سے باہم جڑتی قوی انگلیوں کو اسنے ڈھیلا چھوڑا جس پر پیشانی کی ابھری نیلی نسیں بھی ڈھیلی پڑگئی،، ناجانے وہ اس تھپڑ کا بدلہ شاہزیب خانزادہ سے کس حد تک اذیت دیکر لینے کا فیصلہ کرچکا تھا۔

"اگر میرے بیٹے کو کچھ بھی ہوا تو اس لڑکی کو جان سے مار دوں گا میں حدید رضا"

فون اٹھاتے شاہنواز خان نے کال اسپیکر پر ڈال کر گرج کر کہا۔

"ہاؤ ڈیئر یو ٹچ ہر ،،، دیکھو اب تمہارے چشم و چراغ کا وہ حال کروں گا کہ تمہاری سات پشتیں جب یاد کریں گی تو روح سمیت کانپ جائیں گی،،سیرت ٹھیک آدھے گھنٹے بعد میرے پاس ہوگی اینڈ آئی سوئیر ،، اس آدھے گھنٹے میں تمہارے بیٹے کی ایک ایک چیخ پوری دنیا سنے گی ...."

فون سے ابھرتی سرد آواز سیرت کے کلیجے کو کاٹ گئی سیاہ آنکھوں سے  فرطِ قلق سے پانی قطرہ قطرہ سرخ روکھے گالوں پر برسا تھا شاہنواز خان کے ہاتھ سے فون جھپٹتی وہ سراسیمگی کی حالت میں کان سے لگاگئی شاہنواز خان نے پشت پر دونوں ہاتھ باندھ کر تشویش سے اسے دیکھا جسکا چہرا آنسوں سے تر تھا۔

"سیرت،، لسٹن ٹومی،،۔۔ "

خشک ہونٹ کچھ کہنے کی غرض سے واہوئے تھے مگر سیرت کی اٹکی ہوئی سانسوں کی آواز سن کر وہ درشتگی سے گویا ہوا جسے سن کر  سیاہ آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں ساکت رہ گئے۔

"تم..., تم ایک دھوکے باز موقع پرست شخص ہو،، نہیں... ٹھیک کہتے تھے لوگ تم ایک جانور ہو جس کے سینے میں دل نہیں جو احساس سے عاری ہے،، تمہیں پوری زندگی خوشیاں نصیب نہیں ہونگی،، ترستے رہوگے تم محبت کو،، خدا تمہیں برباد کردیگا حدید رضا..."

وہ بدحواسی سے مسلسل چیختی جارہی تھی اور وہ ساکت کھڑا کبھی مٹھی بھینچ رہا تھا تو کبھی انگلیوں کو کھول کر دماغ میں ابھرتے آتش فشاں کو شاںت کررہا تھا۔

"ڈیم اٹ سیرت،، جو کہہ رہا ہوں کرو،، وقت نہیں ہے میرے پاس"

  کب سے ساکت کھڑا وہ بھاری درشت لہجے میں گرج پڑا سیرت نے ایک لمحے کیلیے جھرجھری لی مگر جلد ہی نفرت کے احساسات خوف پر غالب آگئے۔

"مرکیوں نہیں جاتے تم جیسے  جانور صفت* حدید رضا  ۔۔۔ "

حلق کے بل چیختی وہ کچھ کہتی اسکی بھاری آواز رد کرگئی شاہنواز خان نے پیشانی پر بل ڈال کر سیرت کے ہاتھ سے فون کھینچا تھا وہ چاہتے تھے سیرت اس سے التجا کرے مگر یہاں تو سب الٹا ہوگیا تھا بےحسی سے سیرت نے اپنے بازوں کو کھروچ دیا جہاں اسنے کچھ دن قبل آخری بار چھوا تھا گھٹنوں میں سر دیئے وہ دبی آواز میں تڑپنے لگی جسکے لئے اسنے سب کچھ چھوڑ دیا آج اسکی بےوفائی کا سن کر وہ بکھرہی توگئی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"ز..... زاو....یان.... سیر...ت"

زاویان نے مہر النساء بیگم کا ہاتھ تھامے تشویش سے انہیں دیکھا آنکھیں میچے وہ دھیمے کسل مند لہجے میں بول رہی تھی کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑی آئیذل نگاہیں جھکائے کھڑی تھی۔

"مجھے.... معاف کردو بیٹا.... ایک اچھی ماں نہیں بن سکی.... سیرت... اور تمہاری تو ... بہت بڑی گنہگار ہوں میں.... کیا اپنی اس گنہگار ماں کو.... معاف کرسکتے ہو"

زاویان نے سرد آہ بھرکر انکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر چوما تھا وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل معافی مانگ رہی تھی،پوری زندگی تو وہ ترستا رہا تھا انکی توجہ اور محبت کیلیے کیسے بچپن کاٹا تھا اسنے ممتا کے ٹھنڈے سائے کے بغیر۔

" زاویان.... آئیذ.....ل .... کہاں ہے بچے"

زاویان نے سنجیدگی سے پیچھے کھڑی آئیذل کو نگاہوں سے آگے آنے کا اشارہ کیا مہر النساء بیگم کے قریب ٹھہرکر انکی کنڈیشن کا سوچ کر آئیذل کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ رہے تھے۔

"مجھے.... معاف کردو بیٹی.... معاف کردو.... میری آخرت آسان کردو...."

دونوں ہاتھوں کو آہستگی سے جوڑ کر وہ دھیمے لہجے میں بولی آئیذل نے انکے ہاتھوں کو احتیاط سے تھام کر سرنفی میں ہلایا الفاظ تو اسکے حلق میں آنسوں کے پھندے کے بیچ پھنس چکے تھے.

"آپکو کچھ نہیں ہوگا امی.... اللہ عزوجل بہتر کریں گے..."

زاویان نے سنجیدگی سے انکی پیشانی پر بوسہ دیا تو انکی آنکھیں بھیگنے لگی۔

"میں نے ڈاکٹر سے سنا تھا زاویان.... میرا وقت آن پہنچا ہے بچے.... لیکن میری سیرت .... زاویان... میری سیرت ٹھیک نہیں.. میرا دل بہت بےچین ہے سیرت ٹھیک نہیں....."

زاویان نے متانت سے انکو دیکھا دھیرے سے آنکھیں وا کئے وہ دروازے کی جانب آس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جہاں انس سر جھکائے کھڑا تھا اسکی آنکھیں نم تھی۔

مہر النساء بیگم نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا تو وہ آگے بڑھ کر انکا ہاتھ محبت سے پکڑگیا۔

"میری سیرت کا.... خیال رکھنا زاویان....  وہ بہت مظبوط ہے لیکن،، اپنوں کے دیے گئے.... زخم نہیں سہہ سکتی.... اسے واپس لے آؤ زاویان.... اپنے پاس رکھنا اسے اپنے سا....تھ"

اشفاق احمد کا خیال آتے ہی انکے دل میں درد کی شدید ٹھیس سی ابھری۔

"زاویان.... اشفاق نے اسے ... چند پیسوں کے عوض....  کسی کے حوالے کردیا... میری بچی کو اپنے پاس لے آؤ .... میری سیرت کو کچھ مت... ہونے دینا زاویان"

زاویان کی آنکھوں میں کشیدگی عود آئی آئیذل نے ہمہ وقت اسکی جانب دیکھا تھا۔

"میں عسکری صاحب کو زبان دے چکا ہوں زاویان..."

اشفاق احمد کا چہرا زاویان کے دماغ کے شفاف پردوں پر لہرایا تو اسکا خون کھول اٹھا۔

مہر النساء بیگم آئیذل کا ہاتھ تھام کر زاویان کے ہاتھ میں نرمی سے تھمادیا تھا۔

"لمظ... میں نے تمہاری ممانی کو ایک۔زبان دی تھی.... میں چاہتی تھی ریحم اور میرے... انس کی شادی ہو تاکہ جو خاندان بکھرگیا تھا.... وہ شادی کے موقع پر یکجا ہوجائے.... یہ فرائض تم نے سرانجام دینے ہیں میری بیٹی.... اور میرے انس کا خیال......."

آئیذل کے ہاتھ سے مہر النساء بیگم کا ہاتھ پھسل کر بیڈ پر گرا تھا انس کی آنکھوں میں چمکتی نمی قریب نسب مشینری کی بیپس پر ساکت ہوگئی ،، مہر النساء بیگم آنکھیں میچ گئی تھی  آئیزل نے زاویان کے کندھے کو صدمے سے تھاما،، مہر النساء بیگم کے ہاتھ کو نرمی سے چھوڑتے زاویان نے تکلیف سے آنکھیں میچی  ایک اور قریبی رشتہ اس سے دور ہوچکا تھا بیڈ کے قریب ناجانے وہ کتنی دیر ساکت کھڑا رہا تھا پوری زندگی ماں کی ممتا کو ترستے اسے ماں کا پیار ملا بھی تو اتنا مختصر ،، سنہری آنکھوں میں واضح سرخ ڈورے سے ابھرے تھے۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

شاہزیب خانزادہ کی چیخ بےساختہ تھی اسنے بڑی بےحسی سے اسکی ہتھیلی سیدھی کرکے اس میں نوکیلا خنجر پیوست  کیا اشفاق احمد سمیت اس  فیکٹری میں موجود ہر دیکھنے والے کا دل دہل اٹھا تھا وہ کرسی پر بری طرح تڑپ رہا تھا اور سیاہ ہوڈ میں کھڑے شخص کی بےحس نگاہیں ٹیبل سے گرتے گاڑھے اسکے سرخ سیال کو تسکین آمیز نگاہوں سے دیکھ رہی تھی لیونگ روم میں دردناک چیخوں کی آواز سن کر سیرت نے گھٹنوں سے سر نکالا شاہنواز خان تڑپ کر بار بار اسکا نمبر ملاتے ہوئے لیونگ روم میں منڈلا رہے تھے ٹیلیویژن کے ہیبت ناک مناظر  دیکھ کر سیرت کی سہمی روح تڑپ اٹھی دونوں ہاتھوں کو لبوں سے لگائے خوف و ہراس سے سیرت کے کمزور وجود پر کپکپی طاری ہوئی وہ جیتے جاگتے انسان سے کسی جانور  سے بھی بدتر سلوک کررہا تھا۔

سیرت کے الفاظ اسکے دماغ پر حاوی تھے وہ پوری دنیا نیست و نابود کردینا چاہتا تھا،، وہ لڑکی اسکا جنون تھی ،، آج اسی لڑکی کے اظہارِ نفرت  نے اس کے سینے میں سراٹھاتی انسانیت کا خاتمہ کردیا تھا،، وہ اسکی عادت تھی کیسے دور جانے دے سکتا تھا اسے۔

 سیرت نے کپکپاتے ہاتھوں سے  وہ وحشت ناک مناظر دیکھتے ہوئے چہرا ڈھانپ لیا دبی دبی سسکیاں حلق سے خطا ہورہی تھی وہ کس حد تک سفاک ہوسکتا تھا آج سیرت نے اندازہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاآج اسکے لئے دل میں نفرت سے بڑھ کر خوف بھرگیا تھا۔

"تم ۔۔ تم ایک جانور ہو  ۔۔۔ نفرت کے قابل بھی نہیں ہوتم حدید رضا "

بکھرے  بالوں کو نوچتے ہوئے وہ  متحیر دھیمے لہجے میں بولی تھی جلد ہی ڈرگز اسکے ذہن کو ماؤف کرکے اسے نیند کی وادیوں میں لے گئے تھے۔

"آہہہہ،، عا،،عاطف رضوی نے،،، تمہاری ماں کو،، دھوکا،، نہیں دیا تھا،، وہ صحیح وقت پر۔۔۔ سس۔۔ساری پیمنٹ کیساتھ روانہ ہوا تھا لیکن اشفاق احمد اور۔۔۔۔ ڈیڈ ۔۔ ڈیڈ نے انکو راستے میں مروا دیا تھا،، وہ چھوڑکر نہیں گئے تھے،، تمہاری ماں کو ۔۔۔ کاروباری دشمنی کی وجہ سے ڈیڈ نے انکو پہلے  سازش کے تحت مصر سے دور بھیجا اور پھر مروادیا"

شاہزیب خانزادہ درد سے چیختا بلکتا آخرکار وہ راز اگل چکا تھا جو اسکے سینے میں دفن تھا،، اپنی جان بچانے کیلیے آج وہ ہرحد تک جاسکتا تھا،، بےدردی سے اسکے جبڑے دبوچتا ہاتھ یکلخت ساکت ہوا شاہزیب خانزادہ دھیمے لہجے میں کہہ کر کرسی کی پشت پر سر گراتا گہرے سانس لینے لگا میک نے اسکے ہاتھ کے اشارے پر براڈکاسٹنگ بند کی تھی ایک ہاتھ قریبی ٹیبل پر ٹکاتا وہ درشت نگاہیں شاہزیب خانزادہ کی آنکھوں میں گاڑھے اسکے چہرے پر جھکا تھا مسلسل خون بہہ جانے کی وجہ سے شاہزیب خانزادہ کا چہرا لٹھے کی مانند سفید تھا۔

"باس میم کی لوکیشن مل چکی ہے....... "

ایرک نے لوکیشن ٹریس ہوتے ہی سب سے پہلے اسے آگاہ کیا سرخی مائل آنکھوں میں پھیلتی سرخی اس لڑکی کا نام سنتے ہی  مدھم  پڑگئی تھی۔

"گاڑی نکالو...... "

"جی باس۔۔۔"

پسٹل کوٹ کی پاکٹ میں اڑسا کر وہ ہاتھوں پر سیاہ گلووز چڑھانے لگا جبکہ ایرک اور میکس نے تیزی سے باہر پیش قدمی کی شاہزیب خانزادہ نے نیم وا آنکھوں سے اسے قریبی ٹیبل سے گلاس میں وائن انڈیلنے کے بعد شراب کا گلاس پکڑتے دیکھا جو اسنے بےدلی سے شاہزیب خانزادہ کے منہ پر پھینک کر لبوں میں سگار دبانے کیساتھ لائٹر سے سلگالی شاہزیب خانزادہ کا وجود خوف سے شل پڑگیا۔

"تمہیں کیا لگاتم میری بیوی پر حملہ کرواؤ گے اور میں تمہیں زندہ سلامت چھوڑ دونگا...."

بھوری آنکھیں سگار کے گاڑھے دھویں میں پراسرار طور پر سرخ تھی شاہزیب خانزادہ نے حلق ترکرکے سر کو بدحواس سے نفی میں ہلایا حلق الفاظ اگلنے سے محروم جوتھا۔

"اگر وہ گولی سیرت کو لگی ہوتی تو جانتے ہو کیا ہوجاتا...."

گہرے سکوت کے بعد کمرے میں ابھرتی بھاری آواز نے سنسان دیواروں کو ہلاکر رکھ دیا،،  چہرے کے بےحد قریب جلتے لائٹر کو دیکھتے ہی شاہزیب خانزادہ کی آنکھیں برس پڑی ۔

"نن،،نہیں تم مجھے نہیں مار سکے،،،مجھے،، تت،تم"

شاہزیب خانزادہ کی ایڑھیوں نے فرش پر بھرپور احتجاج کیا سگار کا آخری کش لیکر اسنے سلگتے ہوئے سگار کو اسکے چہرے کی جانب اچھالا اندھیرے کمرے میں اچانک آگ کے شعلے سے بھڑکے تھے جنکے ہمراہ ہولناک چیخوں کی آواز نے باہر کھڑے افراد کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا تھا دھیمے لہجے میں "ناؤ روٹ ان ہیل"  ہم کلامی کرتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"بھیا،، سیرت آپی فون نہیں اٹھارہیں۔۔۔"

تدفین تھوڑی دیر پہلے کردی گئی تھی احباب و رفقاء میں  سفید سادہ سے شلوار قمیض میں سرجھکائے پشت پر دونوں ہاتھ باندھ کرکھڑے زاویان نے انس کی بات سن کر سنجیدگی سے سراٹھایا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر زاویان نے کوریڈور میں آکر سیرت کا نمبر پش کیا،، اسکی خیریت کی  چنتا اسکی الجھن میں اضافہ کررہی تھی وہ اتنی لاپرواہ تو نہیں تھی۔

اشفاق احمد نے شیشے کی میز پر چنگھاڑتے سیرت کے فون کو تشویش سے دیکھ کر اٹھایا  جبکہ شاہنواز خان کو اسوقت صرف بیٹے کی زندگی کی چنتا تھی فون کان سے لگائے وہ لیونگ روم میں مارچ پاسٹ میں ملوث نظرآرہے تھے،، بیک گراؤنڈ میں ابھرتے شور پر زاویان نے فون اسپیکر پر ڈالا اور اپنے کمرے کی جانب پیش رفت کرگیا۔

"کیسے ہو زاویان بیٹا...."

نخوت بھرا لہجہ تھا زاویان کی پیشانی  بے ساختہ شکن زدہ ہوئی آخر سیرت کا فون انکے پاس کیسے ہوسکتا تھا،، وہ  گہری شش وپنج میں مبتلا ہونے لگا فون کی دوسری جانب خاموشی پاکر  اشفاق احمد کا قہقہ برجستہ تھا پیشانی کی پھولتی  نسوں کو زاویان نے دو انگلیوں سے سہلایا۔

"تمہاری بہن ہمارے پاس صحیح سلامت ہے،، لیکن کب تک رہے گی کوئی اندازہ نہیں "

"میری سیرت کو اگرکچھ بھی...."

زاویان کی تندخو آواز میں اشفاق احمد نے فوراً مداخلت کی۔

"اسے کچھ نہیں ہوگا زاویان حیدر رضوی اگر تم میری دونوں شرائط پر پورا اترتے ہو اول تو کمپنی کے سارے شیئرز تمہارے نام ہیں مجھے ان پر تمہارے دستخط چاہیے اور دوسرے دستخط تم طلاق نامے پر کروگے اور اس لڑکی کو دفع کرکے میری بیٹی سے نکاح کروگے"

جواب  کی غرض سے ذہن کے ترازو میں  الفاظ کو پرکھتا  زاویان عقب سے  کانچ ٹوٹنے کی آواز پر بےساختہ پیچھے مڑا سفید ماربل فرش پر  پھیلی چائے کے بیچ سفید کپ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے دروازے کے ہینڈل کو تھامے کھڑی وہ لڑکی لمظ تھی جسکی آنکھوں میں حیرت کیساتھ نمی ہرگزرتے لمحے کیساتھ بڑھتی جارہی تھی۔

"زاویان زیادہ وقت نہیں ہے تمہارے پاس،، ٹھیک چالیس منٹ بعد تمہاری بہن اپنے بچے سمیت اس دنیا سے رخصت ہوجائے گی صرف ایک غلط فیصلہ،، دولت اور بیوی یا بہن،، ایڈریس بھیج رہا ہوں اگر تمہارا دل کرے تو آجانا،، ویسے بھی حدید رضا عسکری اسے دیوانوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہے اپنے انتقام کیلیے،، سب تمہارے ہاتھ میں ہے اب..."

کال منقطع ہوچکی تھی لمظ کا چہرد زردی مائل ہونے لگا زاویان نے اسے لڑکھڑاتے دیکھ کر سبک روی سے اسکی جانب پیش رفت کی سر میں درد کے کوندے سے لپکے اور اگلے ہی لمحے وہ  بےحس و حرکت ہوتی اسکے قوی بازؤں میں جھول گئی تھی۔

"بھیا،، کیا ہوا بھابھی کو.... اللہ خیر... "

دروازے سے گزرتا انس فرش پر بکھرے کانچ دیکھ کر رکا اگلے ہی لمحے لمظ پر نگاہیں پڑی تو اسکا دل دہل گیا گندمی رنگت چہرے پر زردیاں کھنڈی ہوئی تھی۔

"انس ڈاکٹر کو بلاؤ  نہیں رکو،،، ماموں  کو بلاؤ،، ہیلو ڈاکٹر ،، یوآر نیڈڈ ہیئر اٹس ارجینٹ"

ساکت کھڑے انس کے کندھے سے ہاتھ ہٹاتا وہ کال منسلک ہوتے ہی فون کان سے لگائے  سراسیمگی سے بولا، انس نے فکرمندی سے اسکا فکر کے تاثرات رقم کرتے چہرے کو دیکھا۔

"آئی سیڈ اٹس ارجنٹ ڈیم اٹ..."

سرخی مائل چہرے کیساتھ وہ سراسیمگی سے غرایا کال منقطع کرکے وہ انس کیساتھ سبک روی سے کمرے سے باہر نکلا لاؤنج میں کھڑے زوہیب صاحب نے تشویش سے دونوں کودیکھا۔

"ماموں کچھ دیر میں ڈاکٹر یہاں پہنچ جائیں گے،، لمظ کے پاس رہئے مجھے ابھی آفس جانا ہے"

زوہیب صاحب کے ہاتھوں کو تسلی بخش انداز میں ہلکا سا دباکر وہ پورچ سے ملحقہ زینہ اترگیا  زوہیب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے اس راستے کو دیکھا جہاں سے وہ تیزی سے گزرا تھا۔

"صرف چالیس منٹ،، سوو اسکے بعد زاویان صرف میرا ہوگا"

چوئنگم چباتی چاہت کی جانب سونیا نے ترچھی نظروں سے دیکھا جب سے وہ آئی تھی اس موصوفہ کی  شیخیاں ختم ہونے کا نام نہیں لےرہی تھی بھنویں سکیڑتی سونیا اٹھ کر لیونگ روم کے دوسرے حصے کی جانب بڑھی جہاں شاہنواز خان ماسکو کے کلائنٹس کیساتھ مجبوراً ڈیل کررہے تھے وہ تو اسوقت آئی جی صاحب کی اطلاع پر نکلنا چاہتے تھے بیٹے کے جھلس کر تڑپ تڑپ کر مرنے کی خبر انہو مل چکی تھی مگر وہ مافیاز تھے انکو انتظار کروانا خطرناک تھا۔

"مجھے اپنی بات دہرانے کا کوئی شوق نہیں شاہنواز خان،، مجھے وہی لڑکی چاہیے جسکا فوٹو دیکھاکر سودا کیا گیا تھا،، اگر تم پرووائیڈ نہیں کرسکتے تو نتائج کا سامنا کرنے کیلیے تیار ہوجاؤ...."

صوفے سے اٹھتے کلائنٹ نے ناگواری سے دو ٹوک کہا تھا۔

"میرے پاس وہ لڑکی نہیں ہے وارنر صاحب،، اگر آپکو ڈیل نہیں کرنی تو آپ جاسکتے ہیں"

آخر کار شاہنواز خان کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا جوان بیٹے کی موت کے بعد وہ یہاں بیٹھے کاروباری معاملات کیسے دیکھ سکتے ہے سوچ کر ہی انکی غیرت جاگ اٹھی سامنے کھڑے کاروباری اہم کارندے کی آنکھیں انکار سن کر انگار ہوئی۔

"جھوٹ بولا تم نے مجھ سے شاہنواز خان ،، اب دیکھو تمہارے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے.."

سوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے وہ شخص اپنے گارڈز کیساتھ جاتے ہوئے تنبیہ کرگیا تھا۔

شاہنواز خان نے سر کوفت سے جھٹک کر رومال سے پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔

"کیا انکو اب بھی سیرت چاہیے ،، حدہے ایسا کیا ہے اس لڑکی میں.."

سونیا سینے پر بازؤں لپیٹتے ہوئے اپنی ناپسندیدگی زیادہ دیر نہیں چھپا پائی تھی۔

"مار ڈالا اس نے شاہزیب کو،، میرے بیٹے کو زندہ جلا دیا اس  شیطان نے،،  میں سیرت کو  زندہ نہیں چھوڑوں گا جان جاتی ہے تو جائے وہ لڑکی زندہ نہیں ملنی چاہیے حدید رضا کو..."

غیر یقینی سے سونیا کا چہرا سفید پڑا شاہنواز خان طیش سرخ بھبھوکا چہرا لئے فیکٹری کی جانب پیش قدمی کرگئے  انکے سر پر موت کا شیطان سوار تھا فیکٹری کے لیونگ روم ایریا میں اسوقت مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی شاہنواز خان کی نگاہوں نے اشفاق احمد کو تلاش کرنا چاہا۔

"انکل چاہت کیساتھ باہر گئے ہیں اسے نکاح کیلیے کچھ چیزیں خریدنی تھی،، چاہت کا میسج ملا ہے مجھے وہ گاڑی پارک کرکے آرہے ہیں..."

سونیا نے بجھی سے لہجے میں بتانے پر طیش سے سرخ پڑتے شاہنواز خان کے لب پھیلے۔

ذہن میں اس معصوم سی جان جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئی تھی اور اسکی ماں کو جان سے مار دینے کا خناس تو بہت پہلے بھرچکا تھا مگر اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی آنچ شاہزیب خانزادہ کی موت نے انکو آج فراہم کردی ٹیبل سے پسٹل اٹھاکر انہوں ںے ری لوڈ کیا۔

"ڈڈ۔۔ڈیڈ یہ آپ کیا کررہے ہیں..."

سونیا نے بوکھلا کر چند قدم پیچھے لئے نگاہوں سے سونیا کوباہر ہٹنے کا اشارہ کرتے وہ  دروازہ پیر کی ٹھوکر سے کھول کر اس اندھیرے کمرے میں داخل ہوئے جہاں وہ فرش پر بےسدھ بیٹھی تھی کچھ ہی گھنٹوں میں وہ ضعف کی ماری لگنے لگی تھی فضا میں تیز دھماکے کی آواز نے فیکٹری کی سرد سنسان دیواروں کی بنیاد یں ہلادی تھی۔

"ڈڈ۔۔ڈیڈی،،، یہ آواز کیسی"

سونیا نے دوڑکر شاہنواز خان کے بازو کو پکڑا یکدم ماؤف ہوتی سماعت میں دھیرے دھیرے چنگاریوں کی چرچراہٹ سنائی دینے لگی فیکٹری میں آگ لگنے کے سائرن سے وہاں موجود  ہرفرد کا دل لرز اٹھا سنسان پڑی فیکٹری میں بھگدڑ مچ چکی تھی شاہنواز خان کے آدمیوں کی احمقوں کی مانند اپنی جان کی سلامتی کیلئے دوڑیں لگ چکی تھی  یہاں تک کہ شاہنواز خان اور سونیا نے بھی بدحواسی سے چودہویں منزل سے لفٹ کی جانب دوڑ لگادی۔

فرش پر پڑے بکھرے وجود نے اذیت سے آنکھیں واکی فیکٹری  گاڑھے سیاہ دھویں سے بھرنے لگی  آگ کس نے کیوں کب لگائی کسی کو پرواہ نہیں تھی سب اپنی جان بچانے کی خاطر فرسٹ فلور کی جانب دوڑ رہے تھے ڈرگز سے بھاری پڑنے سرکو لامتناہی کوششوں کے بعد وہ فرش سے اٹھانے میں کامیاب ہوئی دونوں ہاتھوں کو دیوار سے ٹکائے وہ بھاری بوجھل پیروں پر ایک ہاتھ سے چہرا ڈھانپتے ہوئے کھڑی ہوئی  پوری فیکٹری شدید آتشزدگی کی لپیٹ میں آچکی تھی ایک ہاتھ سے اندھیرے کمرے میں دیوار ٹٹولتے ہوئے وہ دروازے تک پہنچی  فیکٹری کا یہ حصہ بھی مکمل دھویں سے بھرچکا تھا اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔

دھویں میں کانکھتی ہوئی وہ  دیوار سے پشت ٹکاتی آنکھیں میچ گئی زہریلے دھویں سے سیاہ آنکھیں بےساختہ برس پڑی اسے اپنی جان کی کوئی پرواہ کہاں تھی،،  وہ اس ننھی جان سے ناجانے کتنی محبت کرنے لگی تھی  جو مختصر دورانیے میں اسکے وجود کا ایک اہم حصہ بن چکی تھی اس چھوٹی سی جان میں نہ صرف اسکی بلکہ حدید رضا عسکری کی بھی جان بستی تھی مگر افسوس اسنے ایک بار بھی اس شخص کیلیے سوچنے کی زحمت نہیں اٹھائی تھی ۔

 مصروف سڑکوں  پر سیاہ کیماروز تیزی سے اس فیکٹری کی جانب پیش رفت کررہی تھی۔

جب شدید دھوئیں میں سیرت کا سانس لینا محال ہوا تو وہ تیزی سے قدم گھسیٹتے ہوئے لیونگ روم سے باہر نکلی سر میں درد کا یکلخت احساس ہوا تو اسکا پیر دیوار سے بری طرح ٹکرایا۔

سیرت نے تڑپ کر دیوار کو تھاما کندھوں سے سیاہ شال فرش پر گر کے آگ کی لپیٹ میں آگئی  خوف سے چیختے ہوئے وہ دیوار سے پشت ٹکاتی لفٹ کے اچانک کھلنے پر منہ کے بل لفٹ میں آن گری ،، پسینے سے شرابور ہتھیلیوں نے بےساختہ ہی لفٹ کے بٹن پش کئے خوش قسمتی سے لفٹ چل پڑی تھی۔ دونوں ہاتھوں کو باہم جوڑے آنکھیں میچے وہ دھیمے لہجے میں اپنے رب سے فریاد کرنے لگی۔

"میرے مالک مجھے اس سفاک شخص کے  غلبے سے محفوظ رکھ،،  اگر میری قسمت میں اس سے ملنا لکھا ہے تو ابھی اسی وقت مجھے موت نصیب فرمادے،،، میرے مالک میری مدد فرما"

سیاہ آنکھوں سے گرم مائع مسلسل برس رہا تھا لفٹ کھلنے کی آواز پر وہ بدحواسی سے اٹھی۔

فرسٹ فلور چاروں طرف آگ کی لپیٹ میں تھا سوئی دھرنے کی جگہ نہیں تھی خوف سے اسکا چہرا زرد پڑگیا موت آنکھوں کے سامنے محو رقص تھی لفٹ سے پشت ٹکاتے ہوئے وہ سسک کر ہٹی،، لفٹ آگ کی طرح گرم پڑچکی تھی سیاہ آنکھوں میں آگ کا سرخ عکس چھپ چکا تھا۔

کچھ قدموں کے فاصلے پر دیوار پر لگے آتش کش کو اسنے بدحواسی سے اتارا اور فرش پر پھیلتی آگ پر سپرے کرنے لگی جہاں کاربن ڈائی آکسائڈ  فضا میں آکسیجن کا خاتمہ کرنے لگی وہاں اسکی سانسیں اکھڑنے لگی،، گہرے سانس بھرتے ہوئے وہ سیڑھیوں تک بمشکل پہنچی تھی جب فیکٹری کے باہر  کھلے میدان میں سیاہ جیکوار گاڑیوں کے رکنے کی تیز چرچراہٹ سنائی دی۔

دونوں ہاتھوں سے قریبی کھڑکی کو اسنے آکسیجن کی کمی محسوس کرکے کھولا عجلت کے وجہ سے اسکی انگلی کٹ گئی درد کی طویل لہر اسکے دماغ کو جھنجھنا گئی تھی آنکھوں میں ٹھہرے آنسوں درد کی شدت محسوس کرکے سرخی مائل رخساروں پر ڈھلک پڑے تھے۔

"شاہنواز خان نے مجھ سے جھوٹ بول کر دیکھو کتنا بڑا نقصان اٹھایا،، مجھ سے جھوٹ بولنے کا انجام دیکھ رہے ہو،، پوری فیکٹری جل گئی ہاہاہاہا،،، کتنا نقصان اٹھایا ہوگا آج شاہنواز نے"

سگریٹ نوشی کے دوران گارڈز کی ایک کثیر مقدار کی موجودگی میں وارنر صاحب گاڑی سے نکلے  تھے تمسخر بھری نگاہوں نے تباہ شدہ فیکٹری کو محاصرے میں لیا سیاہ دھواں دور دور تک پھیل رہا تھا سیرت سینے پر ہاتھ رکھ کر فرش بوس ہوئی زہریلا دھواں اسکے پھیپڑوں کو بری طرح متاثر کررہا تھا آکسیجن کی کمی کے باعث اسکا چہرا دھیرے دھیرے سرخی مائل سے سفیدی مائل ہونے لگا خوف کی زیادتی سے ٹانگیں مزید بوجھ اُٹھانے سے انکاری ہوگئی آگ دھیرے دھیرے چاروں اطراف پھیلتی جارہی تھی،، سیاہ متورم آنکھیں بےربطی سے سیڑھیوں کو دیکھ رہی تھی جو دھیرے دھیرے آگ کی لپیٹ میں آرہی تھی مگر وجود دماغ کا ساتھ دینے سے انکاری تھا گہرے سانس لینے کے دوران وہ فرش پر بکھرچکی تھی،، سینے پر دونوں ہاتھ رکھے وہ تڑپ رہی تھی شیلنگ کا جلتا ہوا ایک ٹکڑا ٹھیک سیرت کے پیروں پر گرا تھا آگ کے شعلوں نے باریک نسوانی چیخ کو زیادہ دور جانے کی مہلت نہیں دی تھی  درد اسکے پورے کمزور وجود پر غالب آچکا تھا،، بھاری ٹکڑے کو پیروں سے سرکاتے ہوئے اسکے گلابی ہاتھ بری طرح جل چکے تھے درد کی شدت سے سرخی مائل آنکھیں مسلسل برس رہی تھی۔

بھاری ٹکڑا دور سرکانے میں اسکی رہی سہی توانائی بھی صرف ہوچکی تھی آنکھوں کے سامنے  وقفے وقفے سے سیاہ پردے پڑرہے تھے تھکی ماندی  سیاہ آنکھیں آگ کے پتنگوں میں دھیرے دھیرے بند ہونے لگی،،  ماؤف ذہن کے پردوں پر اس شخص کا وجیہ چہرا  مختصر لمحے کیلیے ابھرا تھا جو بےوفا ہونے کے باوجود بھی اسکے دل کے ہر گوشے پر ڈیرے جمائے ہوئے تھا آگ نے  فرش پر بکھرے وجود کو  چاروں اطراف سے لپیٹ میں لے لیا تھا درد کی طویل لہریں اسکے بدن کو ناجانے کتنی دیر اذیت دیتی رہی ناجانے وہ کتنی دیر وہاں درد سے تڑپتی بلکتی رہی جب آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا وہ اس دنیا سے  بددل ہوکر آنکھیں بندکرچکی تھی،،  اسکا دل اس دنیا کے دیئے کرب سہتے سہتے غموں سے آج بند ہوچکا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

“Some people are going to leave, but that’s not the end of your story. That’s the end of their part in your story.”

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

جیکوار گاڑیوں کی قطار کے نکلنے کے کچھ لمحات بعد ہی  آگ لگنے کی اطلاع ملنے کے بعد وہاں ملٹری کے کئی اہلکار سمیت فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آن پہنچی تھی فیکٹری کی فلک بوس عمارت سے خارج ہوتا سیاہ دھواں اندر سب تباہ ہوجانے کی نوید سے کم نہ تھا سیاہ مرسیڈیز سے وہ سراسیمگی کی کیفیت میں نکلا تھا وہ بیلفاسٹ سے پرائیویٹ طیارے کے ذریعے یہاں پہنچا تھا بھوری آنکھوں میں جلتی فیکٹری کا ساکت منظر چھپ کر امر ہوچکا تھا.

"سس۔۔سیرت"

اسکی بھاری سرگوشی ہوا کا تیز جھونکا سماعت سے بہت دور لے جاچکا تھا۔

حواس باختگی کے عالم میں وہ بوجھل قدموں سے خود کو کشادہ میدان کی جانب گھسیٹ رہا تھا سیرت کو کھو دینے کا خوف آج اسکے اعصاب پر بجلیاں گرا رہا تھا ہاتھ پیر پھول کر برف بن چکے تھے کانوں میں گونجتی وائبریشن کے سبب وہ سننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا تھا۔

دماغ نے سارینا کلب کا مختصر منظر دہرایا تو سینے میں شدت سے دھڑکتا قفس کی دیواروں میں مچل گیا،، اس لڑکی کو تو استھما تھا  وہ  اتنی دیر کیسے زہریلے دھویں کو اپنے اندر سمو سکتی تھی۔

وہ بدحواس ہوکر کشادہ میدان سے جلتی فیکٹری کی جانب پیش رفت کرگیا تند و تیز ہوا کے جھکڑ چاروں اطراف پھیلتی آگ کیلیے تقویت بخش تھے اچانک  چلنے والی تیز ہوا سے سرخ آگ کے پتنگے کشادہ میدان میں  چاروں سمت بکھرے تھے ۔

"سر پلیز ،، ٹیک آ ہولڈ آف ہوئر سیلف اندر کچھ بھی نہیں بچ سکا..."

ملٹری اہلکاروں کے عملے نے  آتش زدگی میں خود کو جھونکنے سے قبل اسے خارجی دروازے پر روکا تھا فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔

ملٹری کے ایک پورے سکواڈ کیلیے اسے روکنا ناممکن ہوچکا تھا میک نے سرد آہ بھرکر وہاب صاحب کا نمبر پش کیا تھا وہ کسی کی بات کہاں سن رہا تھا اسکے دماغ پر دیوانگی سوار تھی ایریا کی نگرانی کرتے ملٹری اہلکار ذود پشیماں نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے آخر اندر ایسا کیا تھا جسکے لئے وہ اتنا جنونی تھی جو اسکے لئے اتنا خاص تھا کہ وہ خودکو نظرِ آتش کرنے پر بھی آمادہ تھا۔آگ پر قابو پاتے ہی فرسٹ فلور سے برآمد ہونے والی لاشوں کو شناخت کیلیے باہر نکالا جارہا تھا سفید کفن میں لپٹی لاشوں کو دیکھ کر وہ ساکت و جامد سا ہوا  بھوری متحرک آنکھوں میں چمک کی جگہ ویرانیاں پھیل گئی درحقیقت آگ فرسٹ فلور پر زیادہ ہونے کے باعث فیکٹری سے کوئی بھی نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا موت کی مہیب آندھی نے آج بےرحمی سے وہاں موجود پرفرد کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔کئی ایک جلی بھسم شدہ استخوانی لاشیں اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر چکی تھی  چہرا ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا مگر اسکا ذہن،،، دماغ میں تو آج طوفون برپا تھے،، اسکا ذہن بار بار اس لڑکی کے آخری الفاظ دہر کر اسے اذیت ناک  شرمساری میں دھکیل رہا تھا،، آج اسنے قلبی اذیت کو بےحد قریب سے محسوس کیا تھا۔

ایک لاش سے سفید  کپڑا تیز ہوا کے باعث اٹھا تو وہ مضبوط اعصاب شخص بھی لمحے کیلیے  غیر متحرک ہوا لاش کی حالت اس قدر ہیبت ناک تھی کہ شناخت کرنا ناممکن تھا اسنے کرب سے بھاری پڑتے دل کیساتھ ہاتھ بڑھاکر چہرے سے سفید چادر ہٹائی  دو قدموں کے فاصلے پر کھڑے میک نے بدحواسی سے لاش سے نظریں پھیریں ،، مگر اسکا دل کوئی اسکے دل سے اسکی کیفیت تو دریافت کرتا،، کتنی بار وہ اندر سے مرا تھا سرد انگلیوں نے اس جلے ہوئے پینڈنٹ کو عقیدت سے چھوا،، جسکا سفید نگینہ آگ سے سیاہی مائل پڑچکا تھا یہ وہی پینڈنٹ تھا جو ہمیشہ اسکی باریک  گردن میں ہوا کرتا تھا بھوری درخشاں آنکھوں میں آج پہلی بار نمی ابھری تھی،، ملٹری اہلکار گردنیں جھکائے پیچھے صف میں کھڑے تھے کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا وہ  شخص  تو اپنی ماں کی موت پر بھی نہیں رویا تھا ہوا کا تیز  جھونکاصبیح پیشانی پر سیاہ بالوں کو   بکھیر گیا۔

یہ اسکے ضبط کا کتنا بڑا امتحان تھا حلق پر سخت پڑتی اذیت کی گرفت اسے کچھ بھی کہنے سے پابندکئے ہوئے تھی ،، قوی انگلیوں کو اس جھلسے انمول چہرے سے کچھ انچ کے فاصلے پر روک دیا گیا سرخی مائل آنکھیں جو نمی چھلکا رہی تھی بےساختہ اوپر اٹھی سرخی مائل چہرے والا وہ شخص اور کوئی نہیں بدقسمتی کا مارا زاویان حیدر تھا جو اپنی جوان بہن کی لاش کے سامنے کھڑا اسے  نفرت سے دیکھ رہا تھا وہاب صاحب گاڑی سے نکلتے ہوئے چند قدموں کے فاصلے پر ٹھہرچکے تھے زاویان نے ایک زوردار تھپڑ حدید رضا عسکری کو مارا تھا دیکھنے والے اپنی جگہ پر منجمد ہوچکے تھے اسکے کوٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے زاویان نے اسے لاش سے دور ہٹایا اور وہ ہٹتا گیا نظریں ایک نقطے پر منجمد تھی لبوں کو سختی سے بھینچے وہ زندہ لاش کی مانند لگا۔

"ہاتھ مت لگانا میری بہن کو حدید رضا عسکری ،،، یہی چاہتے تھے ناں تم،، مار ڈالا تم نے میری بہن کو انتقام پورا ہوا تمہارا جاؤ جشن مناؤ جاکر ......"

گہرا الجھا سانس اسنے سینے سے جدا کیا زاویان درشت نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے لاش کی جانب پلٹا سنہری آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ پڑے تھے جو سفید کفن میں جزب ہوتے گئے۔

"زاویان ،، مجھے آخری بار سیر..."

"جسٹ شٹ اپ .... نام مت لینا میری بہن کا اپنی زبان سے،، برباد کردیا تم نے ہمیں آج یہی مقصد تھا  ناں تمہارا،،تمہیں کامیابی حاصل ہوئی آج،،، جانتے ہو تم نے آج اتنے بڑے صدمے سے دوچار کردیا ہے ہمیں کہ سالوں سال یہ سینے پر لگی چوٹ ہمیں اذیت سے کاٹتی رہے گی .... جینے نہیں دیگا اپنی بہن کو چھوڑنے کا پچھتاوا مجھے،،  سب برباد ہوگیا ہے آج"

 سنہری آنکھوں میں اشتعال کی سرخی ابھری پیچھے پلٹتے زاویان نے انگشت شہادت اٹھاکر اسے کچھ ا س انداز میں تنبیہ کی کہ وہاں کھڑے ہرشخص نے نگاہیں جھکائی،، سب حیران تھے اپنے کپڑوں پر ایک شکن تک برداشت نہ کرنے والا شخص اتنی تزلیل کے بعد اب تک وہاں کیوں کھڑا تھا وہاب صاحب نے آج اسکا ایک اور روپ دیکھا تھا۔

"تم میری بہن کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کروگے حدید رضا عسکری،، اگر تم نے رضوی مینشن میں قدم بھی رکھا تو  جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے،، قاتل ہو تم میری بہن کے"

زاویان کے الفاظ اسکے سینے میں خنجر کی مانند پیوست ہوئے وہاب صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اسنے سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر گاڑی کی جانب قدم بڑھائے کچھ تھا جسنے اسے آگے بڑھنے سے ایک بار پھر روکا وہ اذیت سے کرلاتے دل کیساتھ پیچھے پلٹا باقی لاشوں کو انکے لواحقین کے حوالے کرنے کی غرض سے ایمبولینس میں منتقل کیا جارہا تھا زاویان سیاہی مائل ہاتھوں کو تھامے ساکت کھڑا تھا اسے پلٹتے دیکھ کر وہ تیزی سے اسکی جانب آیا تھا۔

"قاتل ہو تم سیرت کے حدید رضا ،، جسکی سزا تم کورٹ میں بھگتو گے،، ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھوں گا میں،، بہن تھی وہ میری،، کوئی لاوارث نہیں تھی سمجھے تم،، پوری دنیا کے سامنے تمہیں ذلیل کروں گا میں ،، تمہیں تمہاری دولت بھی نہیں بچاسکے گی،،، یاد رکھنا تم"

وہاب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے زاویان کو لاش کی جانب پلٹتے دیکھ کر  بیٹے کو تسلی دینے کیلئے اسکا ہاتھ تھاما تو انکی جان لبوں کو آئی،، اسکا ٹمپریچر اتنا لو ہوچکا تھا کہ لگتا تھا سرد خانے سے ابھی ابھی لاش کو نکالا گیا ہو۔

"کچھ ،، نہیں ہوگا آپکو بیٹا،، میں ہرحد تک جاؤں گا،، کچھ نہیں ہوگا"

وہاب صاحب کی تسلی پر اسنے فگار نگاہوں سے اپنے والد کو دیکھا انکا چہرا فکرمندی سے زردی مائل پڑا ہوا تھا لگتا تھا انکے ہاتھوں کو اسنے نرمی سے اپنے سرد ہاتھوں میں تھاما وہاب صاحب نے نم آلود آنکھوں سے اسی جانب دیکھا اسکے چہرے سے جوانی میں بھی ضعیفی چھلک رہی تھی،، بکھرے بال،، سرخی مائل آنکھیں ،، شکن زدہ کپڑے کیا وہ حدید رضا عسکری تھا۔

"چلیے بابا ..."

وہاب صاحب کا دل اسکے لہجے پر پسیج گیا وہ ہمیشہ انکو ڈیڈ کہا کرتا تھا ایک انہونی نے اسے کتنا بدل ڈالا تھا فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے وہاب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے اسے دیکھا سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے اسکی قوی انگلیاں کانپ رہی تھی کتنا ضبط تھا آخر اس شخص میں۔۔

"بیٹا میں ڈرائیونگ کرتا ہوں،، آپ بیٹھیے...."

اسنے کوئی مزاحمت نہیں کی ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کرکے اسنے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرکے سینے پر بڑھتے بوجھ کو ہلکا کیا اسکے گاڑڈز کی گاڑیاں کچھ قدموں کے فاصلے پر اسکی گاڑی کا تعاقب کررہی تھی ڈرائیونگ کرتے وہاب صاحب نے حزن زدہ نگاہ بیٹے پر مرکوز کی تو انکی آنکھیں نمی سے بھرگئی سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے وہ آنکھیں میچے بیٹھا تھا۔

"زاویان صاحب آپکی وائف کو برین ٹیومر ہے..."

بیڈروم کی خاموش مقعر دیواروں میں ڈاکٹر کے الفاظ  گونجے تھے ،، زوہیب صاحب کا  زردی مائل چہرا بیڈ پر چت لیتی لمظ کی جانب مڑگیا تھا دونوں ہاتھ سینے پر رکھے وہ آنکھیں میچے پرسکون سورہی تھی زاویان کی نگاہوں کا مرکز بھی وہی سادہ نقوش گندمی رنگت والی لڑکی تھی،، ناجانے خدا کی جانب سے اسکے لئے اور کتنے کٹھن امتحان باقی تھے۔

"کیا،، کیا میری بیٹی ٹھیک ہوسکتی ہے...."

زوہیب صاحب نے بےچینی سے استفسار کیا۔

"ایک  دماغی رسولی کا نقطہ نظر ان چیزوں پر منحصر ہوتا ہے جیسے یہ دماغ میں کہاں ہے، اس کا سائز، اور اس کا درجہ کیا ہے۔ یہ بعض اوقات ٹھیک ہوسکتا ہے اگر جلدی  پتا لگ جائے، لیکن بہت سے کیسز میں  دماغی رسولی اکثر واپس آجاتی ہے اور بعض اوقات اسے دور کرنا ممکن نہیں ہوتا،، آپکی بیٹی کو یہ بچپن سے ہے دیکھ بھال نہ کئے جانے کی وجہ سے اسکا سائز کافی بڑھ چکا ہے میری درخواست ہے کہ آپ پیشنٹ کو ڈیپریشن اور پریشانی سے دور رکھیں ... اور انکو فوری سرجری کیلیے منائیں ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے،، میں سو فیصد شیور نہیں ہوں کہ سرجری سے ٹیومر  مستقل طور پر ختم ہو جائے گا کچھ عرصے کیلیے مکمل طور پر چلا جائے گا لیکن  ٹریٹمنٹ اور پراپر میڈیکل کیئر سے اسے ودبارہ ہونے سے روکا جاسکتا ہے ....."

ڈاکٹر کے الفاظ زاویان کے شل ذہن کو مزید ماؤف کررہے تھے ااس لڑکی کے سر میں درد ہمیشہ رہتا تھا،، وہ اکثر بولنے میں ہچکچاہٹ کا شکار بھی رہتی تھی اکثر وہ اسے بھول کر پروفیسر کہہ دیا کرتی تھی اسنے کیوں اتنی علامات کو نظر انداز کیا آج اسکا سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا معمولی سی غفلت نے آج اسے تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیا تھا.

"آپ سرجری کی تیاری کریں ڈاکٹر،، آئی ول کنوینس ہرر..."

زوہیب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے زاویان کی جانب دیکھا اسکا لہجہ بےحد سنجیدہ نوعیت اختیار کرچکا تھا شاید وہ غفلت برتنے پر اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرا رہا تھا زوہیب صاحب کے ہمراہ ڈاکٹر اپنا بیگ لیکر کمرے سے باہر واک آؤٹ کرگئے تھے۔

"لیکن اگر لمظ کو برین ٹیومر تھا تو رپورٹس میں ایسا کچھ بھی کیوں نہیں لکھا گیا"

گہری سوچ میں ملوث ہونے کے بعد زاویان نے دو انگلیوں سے پیشانی کو مسلا اور ملازمہ سے کہہ کر گارڈ کو بلایا جس نے اسے رپورٹس دی تھی۔

"صاحب،، چاہت بی-بی نے مجھ سے زبردستی رپورٹس لیکر کھول کر دیکھی تھی لیکن میں نے ان سے رپورٹس واپس لےلی تھی انہوں نے واپس لینے کی غرض سے کوئی مزاحمت نہیں کی"

گارڈ کے الفاظ اسکے ذہن میں گردش کررہے تھے ،، وہ اس لڑکی کو نیست و نابود کردینا چاہتا تھا  نائٹ اسٹینڈ کی دراز کھول کر اسنے ساری ادویات ایک  پیپر بیگ میں الٹ دی اور گارڈ کو  ڈاکٹر  دیکر انکی تصدیق کرنے کی ہدایت کرکے وہ دوبارہ گہری سوچ میں غرق ہوچکا تھا۔

وقت اسکے صبر کا کڑا امتحان لے رہا تھا ماں کو کھودینے کے بعد جوان بہن کی موت نے اسے اندر سے کھوکھلا کردیا تھا وہ اپنی محبت کو کھو دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا کبھی نہیں رکھتا تھا۔

آہستگی سے آنکھیں واکرتی لمظ کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیلی،، ناجانے وہ کب سے اسکے قریب بیٹھا اسکے ہوش میں آنے کا منتظر تھا لمظ نے ہمدردی سے اسے دیکھا سنہری آنکھوں میں پھیلی سرخیاں کسی انہونی کی کہانی بیان کررہی تھی۔

"آرام کریں،، تھوری دیر میں آتا ہوں ،، آپ کمرے سے باہر نہیں آئیں گی کلیئر...؟!"

 تنبیہ کرکے وہ بیڈ کے کنارے سے اٹھا ہونٹ بھینچ کر لمظ نے اسکا ہاتھ بےساختہ پکڑا۔

"کیا ہوا ہے زاویان......"

زاویان نے سنجیدگی سے سرنفی میں ہلاکر اسکے بالوں پر بوسہ دیا مگر وہ اسکا ہاتھ چھوڑنے کے حق میں نہیں تھی تب تک تو بالکل نہیں جب تک وہ اپنی پریشانی کا اظہار نہ کرتا۔

"لمظ میں آکر بتاتا ہوں،، آپ باہر نہیں آئیں گی آلرائٹ؟!!"

زاویان نے محبت سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا،،ڈاکٹر نے اسے ڈیپریشن اور پریشانی سے دور رکھنے کی ہدایت کی تھا توپھر کیسے وہ سیرت کی خبر اسے دے سکتا تھا۔

"نہیں آپ بتاکر جائیں میرا دل گھبرا رہا ہے بہت..."

زاویان نے دروازے کے قریب نمودار ہوتی زوہیب صاحب کی پرچھائی دیکھی تو لمظ کے ہاتھ سے نرمی سے ہاتھ چھڑاکر کمرے سے باہر نکل گیا لمظ دھیمے قدموں کے ہمراہ دروازے تک آئی تھی لاؤنج سے مردانہ آوازیں سنائی دے رہی تھی۔

"زاویان عسکری صاحب آئے ہیں،،  اپنے بیٹے کیساتھ..."

زوہیب صاحب نے بلدار سیڑھیوں کا سلسلہ عبور کرتے زاویان کو آگاہ کیا انکا زکر سن کر صبیح پیشانی شکن زدہ ہوئی  سیڑھیاں عبور کرتے قدموں میں تیزی آئی تھی،، آنکھوں میں  ابھری سرخیال مزید واضح ہونے لگی زوہیب صاحب نے اسکا سرخی مائل چہرا سنجیدگی سے دیکھ کر اسکے بازو کو نرمی سے پکڑکر اسے  لاؤنج کی جانب پیش قدمی کرنے سے روکا۔

"زاویان تمہارے والد صاحب اگر گھر میں دشمن بھی آجایا کرتے تھے تو مہمان نوازی کرتے تھے،، انکی خصلت میں نہیں تھا دہلیز پر آئے کسی بھی شخص کی تزلیل کرکے  باہر نکالنا،، وہ صابر اور غیور تھے ،،  اور تم انکے بیٹے ہو،، تم ایسا کچھ نہیں کروگے جس سے  ہمیں یا انکو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے،، باہر میڈیا ہے ،، وعدہ کرو کچھ غلط نہیں کروگے تم ......."

زوہیب صاحب کے ہاتھ سے اسنے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ جداکیا چہرے پر وہی کشیدگی تھی۔

"سیرت کی تدفین ہوچکی ہے،،  آپ نے یہاں آنے کی زحمت کیوں کی انکل..."

سیڑھیاں اترتے زاویان نے سنجیدگی سے وہاب صاحب کو مخاطب کیا البتہ انکی آنکھوں کا مرکز اسوقت دروازے سے اندر آتے اپنے بیٹے پر مرکوز تھی آج زندگی میں  پہلی بار اسنے سادہ سفید شلوار قمیض کا لباس زیب تن کیا تھا سرد آہ بھرکر وہ زاویان کے سامنے ٹھہرچکا تھا۔

"میں اپنا جرم قبول کرنے آیا ہوں،،  تم مجھے جو سزا دینا چاہتے ہو مجھے منظور ہے..."

زاویان نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکھا وہاب صاحب نے سرد آہ بھرکر سر کو خم دیا کتنی مزاحمت کے بعد بھی وہ بیٹے کو یہاں آنے سے باز نہیں رکھ پائے تھے۔

"کیا تم یہی اعتراف عدالت میں کرنے کا حوصلہ رکھتے ہو.."

زاویان نے سرد نگاہوں سے اسکی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا اسنے سنجیدگی سے سر اثبات میں ہلاکر زوہیب صاحب اور وہاب صاحب کو ہمہ وقت چونکنے پر مجبورکردیا تھا۔

"تمہارے اعتراف سے وہ لڑکی واپس نہیں آئے گی حدید...."

وہاب صاحب نے کرخت نگاہوں سے اسے دیکھا زوہیب صاحب کی نگاہیں اس وجیہ شخص کا محاصرہ کئے ہوئے تھی جسکا معیار ایسا تھا کہ دیکھنے والا  اسکے سحر میں مبتلا ہوجائے بغیر نہ رہ سکتا تھا اپنی زندگی میں انہوں نے اسے اس قدر سادہ لباس میں نہیں دیکھا تھا۔

"سیرت،، سیرت نام ہے اسکا،،،بابا سائیں"

اسنے متانت سے وہاب صاحب کی غلطی کی نشان دہی کی زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا آج اسکے لہجے میں ویرانی تھی،، آواز میں پراسرار سا بدلاؤ اور ٹھہراؤ تھا۔

"تم جس شخص پر الزامات عائد کررہے ہو وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے تمہاری بہن کی تلاش میں بیلفاسٹ میں ذلیل ہورہا تھا، پتا چلتے ہی  یہاں دوڑا چلا آیا،، زاویان حیدر رضوی...."

وہاب صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا آخر کب تک وہ اپنے بیٹے کے متعلق الٹی سیدھی باتیں برداشت کرسکتے تھے سگا بیٹا نہیں تھا مگر پال پوس کر تو انہوں نے بڑاکیا تھا۔

"مجھے اس شخص پر ایک فیصد بھی بھروسہ نہیں ،، آپکو جو وضاحتی بیان دینے ہیں کل  ہائی کورٹ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ جج صاحبان کے سامنے دے سکتے ہیں...."

زاویان نے سنجیدگی سے رخ بدلا سیڑھیوں پر کھڑی نیلگوں آنکھوں والی لڑکی نے ساکت نگاہوں سے وہاں کھڑے ایک ایک فرد کا جائزہ لیا تھا ریکنگ پر اسکا ہاتھ جم چکا تھا۔

زاویان کی کشیدہ نگاہوں میں اسے دیکھ کر نرمی عود آئی ہونٹ بھینچے وہ صوفے کے قریب کھڑے نئے چہروں کو غیر یقینی سے  ہنوز دیکھ رہی تھی۔

"کک،،کیا سس،، سیرت نہیں رہیں... لل... لیکن ابھی تو آپ نے امی کی تدفین کی تھی،، ایسا ،، کک کیسے ہوگیا،، اللہ میاں یہ کیا ہورہا ہے ،، زاویان کک۔۔ کیا یہ سچ ہے "

زاویان نے لمظ کو شانوں سے نرمی سے تھاما صدمے سے نڈھال ہوتی وہ اسکے سینے سے سر ٹکائے ہوئے تھی آنکھوں سے آنسوں مسلسل  ٹوٹ کر اسکی قمیض میں جزب ہورہے تھے۔

سرجھکائے کھڑے شخص نے حزن نگاہوں سے سامنے دیکھا تھا زاویان کی ماں کی موت کے بارے میں تو اسے کوئی اندازہ نہیں تھا ایک بار پھر اسکا دل ملال سے بھاری پڑا.

وہاب صاحب نے تیز قدموں کیساتھ اسکا تعاقب کیا پورچ سے ملحقہ زینہ اترتے ہوئے اسنے سراسیمگی سے  آسمان پر پھیلتی سیاہ گھٹاؤں کو دیکھا اسکی بےبسی دیکھ کر آسمان پر پھیلی سیاہ گھٹاؤں کی اندھی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ پڑے تھے گاڑی کے گیٹ سے سرٹکائے اسنے اذیت سے آنکھیں میچی گارڈ کو ہاتھ کے اشارے سے اسنے دور ہٹنے کی تنبیہ کی چھتری بند کرکے گارڈ اسے متعجب نگاہوں سے دیکھ کر پیچھے ہٹ چکا تھا بارش  اس  دیوانے پر ٹوٹ کر برس  رہی تھی مگر جسم میں لگی اذیت کی آگ بجھائے نہیں بجھ رہی تھی۔

"حدید گھر چلو......"

"آپ جائیے بابا،، مجھے تھوڑی دیر تنہا چھوڑ دیں....."

اسکا ویران بھاری لہجہ وہاب صاحب کے  بوڑھے دل پر شدت سے لگا۔

"میں کہتا ہوں چلو میرے ساتھ اپنے باپ کو مارنا چاہتے ہو تم رضا ،، ایک لڑکی کی خاطر دیکھو کیا حالت بنالی ہے تم نے اپنی،، اپنے بوڑھے باپ کا احساس کرو کچھ..."

بادلوں کی تیز گرج میں اس بےبس بوڑھے باپ کی گرج مدھم سی تھی۔

"وہ کوئی معمولی لڑکی نہیں تھی بابا سائیں...."

 مٹھی چہرے کے قریب گاڑی پر مارتے ہوئے  وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔

"وہ جو بھی تھی مرچکی ہے اسکے لئے خود کو برباد کیوں کررہے ہو،، یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی اس لڑکی کی موت کی وجہ تم نہیں تھے آخر خود کو اس گناہ کی سزا  کیوں دینا چاہتے ہو جو تم نے کیا ہی نہیں،، ایک کام کرو مجھے مار ڈالو ،، جوان بیٹے کو اس حال میں دیکھنے سے اچھا میں مر جاتا ہوں،، میرا دل چھلنی ہورہا ہے تمہیں اس حال میں دیکھ کر رضا..."

وہاب صاحب نے اسکے زور آور بازو کو کمزور گرفت میں لیا۔

"وہ لڑکی میرے حواسوں پر طاری  ہے،، ہرجگہ وہی نظر آرہی ہے اسکی آواز   چاروں اطراف سے سنائی دے رہی  ہے،، اسکی خوشبو مجھے اپنے اندر سے آرہی ہے آخر کیا کروں میں ..."

بےبسی کی انتہا پر وہ ہاتھ بےدردی سے گاڑی کے ہوڈ پر مارتے ہوئے  گمبھیر لہجے میں بولا وہاب صاحب  کی خشمگیں نگاہیں اسے چند ساعت دیکھتی رہی سرد آہ بھرکر انہوں نے اسے شانے سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا تھا کھڑکی سے جھانکتی نیلگوں آنکھوں نے تمام منظر خاموشی سے دیکھا تھا سیاہ مرسیڈیز اور کیماروز کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"مائی لارڈ حدید رضا صاحب نے میرے کلائنٹ زاویان حیدر  کی بہن سیرت رضوی سے نکاح انتقام کی نیت سے کی تھی،، دوسرا اہم پوائنٹ حدید صاحب نے سیرت رضوی کیساتھ اپنے نکاح کو میڈیا اور عوام سے پوشیدہ رکھا یہاں تک کہ سیرت رضوی نے اپنے گھرتک بھی نہیں بتایا،، پوائنٹ آؤٹ کرنے کا مقصد،، حدید صاحب نے سیرت رضوی پرنکاح کو پوشیدہ رکھنے کیلیے  دباؤ ڈالا،، جسکی تصدیق  کچھ دیر پہلے عسکری ایمپائر کے ملازمین نے خودکی کہ انکو اس رشتے کے متعلق شروعات سے کوئی علم نہیں تھا،، مائی لارڈ یقیناً حدید صاحب سیرت رضوی پر تشدد کرتے رہے ہونگے،، انتقام کی بنیاد پر بنے رشتے کے اور کیا نتائج ہوسکتے ہیں..."

زاویان کا وکیل اس پر الزامات پر الزامات عائد کررہا تھا وہاب صاحب نے مٹھی بھینچ کر  وٹنس باکس میں نظریں جھکائے کھڑے اس ڈیٹھ شخص کو دیکھا جو آج انکی عزت کو مٹی میں ملانے کی بھی پرواہ نہیں کررہا تھا  کیمروں کی فلیش لائٹس اس پر سرعت سے چمک رہی تھی دونوں ہاتھوں کو باکس کے کناروں پر جمائے وہ سنجیدگی سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھا رہا تھا زاویان اسکے متحمل چہرے کو کرخت نگاہوں سے دیکھ رہا تھا مگر وہ حیران بھی تھا آخر اسنے اپنی صفائی میں اب تک ایک بھی لفظ کیوں نہیں کہاتھا۔

"آبجیکشن مائی لارڈ،، میرے کلائنٹ حدید صاحب نے کبھی سیرت رضوی پر  ہاتھ نہیں اٹھایا"

مخالف سمت سے  انکشاف سامنے رکھنے والی وہ اور کوئی نہیں فاریہ مرزا تھی،، جو ایک کامیاب لائر تھی،، وہ آج تک کوئی کیس نہیں ہاری تھی  آج تو بات اسکے دل کی تھی۔

"آپکے دلائل صرف عدالت کا وقت برباد کررہے ہیں..."

"آپ بغیر کسی ثبوت کے میرے کلائنٹ پر الزامات عائد نہیں کرسکتے.."

عدالتی کمرے میں اسوقت سوالات اور جوابات کا  ایک طویل سلسلہ شروع ہوچکا تھا وہ متانت سے ایک نقطے کی نگرانی کرتے ہوئے کیس کا رخ اپنی جانب جھکتے دیکھ کر سر اٹھاگیا۔

وہ لڑکی جی جان سے اسے بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھی ہر الزام پر چوٹ کرکے مخالف پر دلائل کے وارکررہی تھی،، وہ کسی صورت اسے کھو نہیں سکتی تھی،، ہر دلائل رکھتے وقت  فاریہ مرزا کے دماغ کے پردوں پر بچپن کی وہ  یادیں ابھر کر آرہی تھی،، وہ بچپن سے اسکی دیوانی تھی،، اسکی دیوانگی دیکھ کر تو وہاب صاحب نے اسے آج حدید کے کیس کیلیے منتخب کیاتھا وہ جانتے تھے وہ لڑکی اپنے بچپن کے دوست کیلیے جی جان لگا سکتی تھی۔

" زاویان صاحب کی جانب سے عائد کئے گئے تمام دلائل درست ہیں  ..."

اسکی بھاری آواز نے وہاں کھڑے ہر نفوس کو چونکایا تھا یہاں تک کے جج صاحبان نے بھی حیرت سے اسکی جانب دیکھا تھا نیلگوں آنکھیں اسوقت گہرائی سے اس  رف حلیے والے سحر انگیز کردار کی نگرانی میں ملوث تھی اس  سنجیدہ چہرے کے پیچھے  بے انتہا کرب تھا فاریہ مرزا نے تشویش سے اسکی جانب دیکھ کر اسکے ہاتھ کو آہستگی سے چھوکر ہونٹ بھینچے مگر وہ بےدلی سے  اپنا ہاتھ پیچھے ہٹاکر رخ موڑ گیا وہاب صاحب نے محض سرد آہ بھرکر اسے دیکھا تھا۔

"عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیرت رضوی کے قتل کے جرم میں حدید رضا  عسکری کے اعترافِ گناہ ..."

جج صاحب کی آواز کو ایک باریک آواز نے رد کیا تھا۔

"سیرت کی موت ایک ایکسیڈنٹ تھا انکی موت سے حدید صاحب کا کوئی واسطہ نہیں"

کمرہ عدالت میں اچانک باریک نسوانی آواز ابھری دو چہرے یکلخت اوپر اٹھے تھے  ایک چہرا زاویان حیدر کا تھا جس پر اشتعال اور حیرت کے تاثرات رقم تھے آخر وہ اسکی بہن کے قاتل کے حق میں گواہی کیسے دے سکتی تھی جبکہ دوسرا چہرا حدید رضا کا تھا جس پر تشویش کے سوا کچھ نہیں تھا وہ تو اس نیلی آنکھوں والی لڑکی کو جانتا تک نہیں تھا نیلگوں آنکھوں میں جھلملاتے پانی کو دیکھ کر اسنے اپنا موقف پیش کرنے سے قبل خود کو باز رکھا تھا کیا وہ رو رہی تھی ...؟!!

" ہمارے پاس ثبوت ہے،، حدید صاحب نے کبھی سیرت پر ہاتھ نہیں اٹھایا وہ انکے ساتھ خوشحال زندگی بسر کررہی تھی،،.... ہمارے پاس ریکارڈنگ ہے"

زاویان جو اسے روکنے کی غرض سے نشت سے ہاتھ اٹھاچکا تھا اسکے الفاظ سن کر چونکا تھا فون پرس سے نکال کر  جج صاحبان کے اشارے پر وہ نشستوں کی صف  سے نکل گئی زاویان کو لگا جیسے وہ اس سے بہت دور جاچکی تھی مٹھیاں بھینچے اسنے سرجھکاکر  آنکھیں میچی تھی۔

" سیرت کیا آپ خوش ہیں انکے ساتھ.... زاویان بہت پریشان ہیں آپکو لیکر..."

یہ آواز لمظ کی تھی جسکے بعد کچھ دیر تک کمرہ ہال میں ویرانی ہوگئی۔

"میں نے بھیا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی بھابھی"

سیرت کی آواز نے کسی کے بےجان سے وجود میں جیسے جینے کی رمق بھردی تھی،، بھوری آنکھیں ایک نقطے سے بےساختہ اٹھی جیسے وہ اسکے سامنے آچکی تھی مگر  کانوں نے اس چاشنی جیسی آواز کو اپنے اندر سمو کر طلبگار نگاہوں کا بھرپور طنز اڑایا تھا۔

"بھابھی وہ میری پرواہ کرتا ہے،سمجھتا ہے مجھے،، وہ مجھے میری خامیوں کیساتھ محبت کرتا ہے،، وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے مجھ سے لیکن ہمیشہ میرے سامنے ہار مان لیتا ہے،،بھابھی اگر کوئی میرے لئے پوری کائنات کو بھی  رنگین پھولوں سے سجادے تو بھی میرے لئے سب سے خوبصورت احساس  حدید ہوگا،، میں جب جب اسے دیکھتی ہوں لگتا ہے اللہ پاک نے  دنیا کا سارا سکون اس شخص کی ذات میں رکھ دیا ہے،،اسکے دل میں میری محبت دھڑکتی ہے،، میں چاہتی ہوں بھیا اسے ایک موقع دیں،، ہمارے رشتے کو ایک موقع دیں... آپ پلیز بھیا کو کنوینس کریں،، رضا میری بات نہیں ٹال سکتے،، ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا"

وٹنس باکس کے کنارے پر اسکی سرد انگلیوں کی گرفت بےحد سخت ہوئی اس لڑکی کے الفاظ اسکے فگار سینے کو پھاڑرہے تھے وہ شروع سے ہی اس شخص پر اندھا بھروسہ کرتی تھی۔

زاویان کی بےتاثر نگاہوں کا مرکز وٹنس باکس میں کھڑا وہ شخص تھا جسکے چہرے پر اذیت کی داستان رقم تھی،، لمظ کی آنکھوں سے مسلسل پانی برس رہا تھا صدمے سے اسکا دل بھاری پڑرہا تھا آخر وہ اپنے محبوب شخص کے خلاف جاکر کسی دوسرے شخص کو بچارہی تھی اور دوسری بات اسنے ماضی میں اس لڑکی سے رابطہ رکھا تھا جس سے زاویان نے منع کیا تھا۔

سیرت  کی آواز کمرہ عدالت کی دیواروں میں جزب ہوکر اپنا  وجود کھوچکی تھی سب کی نگاہیں جج صاحب پر مرکوز تھی جو عمیق نگاہوں سے سامنے پڑے اوراق پر نظر ثانی کررہے تھے۔

"کیا آپ کچھ کہنا چاہیں گے حدید صاحب...."

وہ چند ساعت تک وہاب صاحب کی جانب دیکھتا رہا آخر وہ باپ تھے رگ رگ سے واقف تھے وہ جانتے تھے بیٹا کیا کہنے والا تھا اس لئے انہوں نے  غیرشناسائی سے پہلو بدلا اسنے نگاہیں اٹھائی تو آنکھوں کے سامنے  کل رات کا مختصر سا خواب لہراگیا اسنے اذیت سے آنکھیں میچی سکون کا وہ مختصر سا لمحہ بھی اسکے لئے اذیت سے بھرپور تھا نیند میں بھی اس لڑکی کی یادیں اسے اندر سے کھوکھلا کرتی جارہی تھی وہ  کسی دیوانے کی طرح سکون کی تلاش میں بھٹک رہا تھا

 نیلے  وسیع  آسمان کے سائے تلے یہ منظر ایک کشادہ  میدان کا تھا جس میں  یاسمیں کے پھولوں کی بہار تھی  سفید پھولوں کی بیلیں ہوا کے دوش پر ہلکی ہلکی جھوم رہی تھی،، وہ  کسی فسوں کے تحت ان پھولوں کی کیاریوں میں چلتا جارہا تھا بےتاب نگاہیں کسی کی شدت سے تلاش میں ملوث نظر آتی تھی ٹھنڈی ہوا اسکے چہرے کو وقفے وقفے سے تھپتھپا رہی تھی۔

ایک جگہ وہ بےساختہ رک گیا سفید پیروں کو چھوتے شفاف لباس میں کمر تک آتے سنہرے ریشمی بالوں والی ایک لڑکی سرجھکائے بیٹھی سوئی میں سفید پھولوں کو پرو رہی تھی کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ لڑکی سراٹھاکر اسے چونکا گئی سیاہ آنکھوں نے غیر شناسائی سے اس وجیہ چہرے والے مرد کو دیکھا تھا ہتھیلیوں ٹکاتے ہوئے وہ اٹھی تو دامن سے کئی سفید پھول جداہوکر زمین پربکھرگئے وہ دیوانگی سے اسے نگاہوں میں اتار رہا تھا۔

"سیرت..... واپس چلیں میرے ساتھ..."

اسنے سراسیمگی کی کیفیت میں سفید مومی کلائی کو پکڑنا چاہا مگر اسکی انگلیاں اس سراب کے آر پار ہوگئی  سیاہ آنکھوں کے غور سے دیکھنے پراسکے دل میں درد کی ایک ٹھیس ابھری تھی۔

"کون سیرت،،آپ ہماری دنیا میں نہیں آسکتے،، ابھی واپس چلے جائیں..."

سیاہ آنکھیں خفگی سے زرا چھوٹی ہوئی وہ اسکے خفا لہجے پر بےچین ہوا۔

"آپ ،، واپس چلیں میرے ساتھ سیرت،،..."

بھوری آنکھوں میں نمی ابھری اسکے چہرے کو چھوتے ہوئے اسکی قوی انگلیوں نے محض ہوا کو محسوس کیا کرب کی شدت سے اسکا دل پگھلنے لگا وہ اسکے سامنے ہوکر بھی اتنی دور تھی۔

"کیا تم میرے مستحق ہو... پوچھو اپنی ذات سے.."

"خالص رشتے محبت پر نہیں سچائی پر مبنی ہوتے ہیں عسکری صاحب"

"اگر سچائی جاننے کا اتنا ہی شوق ہے تو جاؤ اور آئینہ دیکھو اپنی خامیوں کا سامنا کرو"

وہ لڑکی  استہزائیہ لہجے میں کہہ کرہوا کے جھونکے میں تحلیل ہوکر اسے تنہائی کے دہانے پر چھوڑ کر اسکی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی تھی ۔

"حدید رضا صاحب،، کیا آپ اپنے حق میں کچھ کہنا چاہیں گے.."

جج صاحب کے دوبارہ دہرائے الفاظ  اسے حقیقت میں کھینچ لائے تھے۔

"سیرت نے یہ سب میرے کہنے پر کہا تھا،،میں نے انتقام کی غرض سے ان سے  نکاح کیا انکو دھوکے میں رکھا،، تکلیف دی،،، میں گنہگار ہوں انکا.... مجھے اپنے حق میں کچھ نہیں کہنا.... "

اسکے الفاظ وہاں موجود ہر نفوس کو ششدر چھوڑ گئے فاریہ مرزا نے مختصر نگاہوں سے اسے دیکھا اسکی آنکھوں کی ویرانیاں اسکے تباہ ہوجانے کی گواہ تھی وہ اندر سے بکھرا ہوا تھا لمظ کی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں راستوں پر ہی ساکت رہ چکے تھے آخر وہ کیوں جھوٹ بول رہا تھا۔

"عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیرت رضوی کے قتل کے جرم میں حدید رضا  عسکری کے اعترافِ گناہ پر  انکو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سناتی ہے"

جج صاحبان اپنی نشستوں سے اٹھ کر جاچکے تھے کمرہ عدالت میں عجیب سا سکوت چھایا تھا زاویان اسے تشویش سے دیکھنے کے بعد لمظ کی کہنی تھامے کمرہ عدالت سے نکل گیا تھا۔

پولیس اہلکار نے سرجھکاکر احترام کیساتھ اسے وٹنس باکس سے باہر آنے کا وقت دیا تھا.

"کیا اب خوش ہوتم اپنے بوڑھے باپ کو ذلیل کروا کر خوش ہوتم...."

وہاب صاحب نے اسکے کندھے کو سختی سے جھنجھوڑا   ایک زخمی ٹوٹے کانچ سی مسکراہٹ اسکے لبوںں پربکھری  تھی ،، اپنی بربادی پر خوش ہونے والا شاید وہ پہلا شخص تھا  بلیک پینٹ پر رف سی سفید شرٹ زیب تن کئے،، سلکی بالوں کو  پیشانی پر بکھیرے وہ  سرخی مائل اذیت سے بھری آنکھوں والا  سحر انگیز شخص کہیں سے بھی مجرم نہیں لگتا تھا پہلو میں ناکام کھڑی فاریہ مرزا نے آنسوں سے لباب آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔

"ویلڈن مرزا،، اچھی کوشش تھی،، زندگی میں پہلا کیس ہاری ہیں آپ میری وجہ سے،،معزرت بچے لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے گا "ہماری سب سے بڑی شان کبھی ناکام نہ ہونے میں نہیں ہے، بلکہ ناکام ہوجانے کے بعد سیکھ لیکر دوبارہ اٹھنے میں ہے.... بی سٹرونگ... اللہ نگہان.."

وہ متانت سے کہتے ہوئے آخر پر مسکرایا فاریہ اسکے سینے سے سر ٹکائے اذیت سے دبے دبے لہجے میں روئی تھی اسکی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں اسکی سفید شرٹ میں جزب ہوئے تھے وہاب صاحب کی نم آنکھوں میں معزرت طلب نگاہوں سے آخری بار دیکھ کر اسنے فاریہ کو آہستگی سے دور ہٹایا تھا وہ اب تک رورہی تھی چہرا سرخی مائل پڑچکا تھا وہاب صاحب کے دونوں ہاتھوں کو اسنے عقیدت سے آنکھوں سے لگاکر لبوں سے لگایا تو بیٹے کیلیے انکا دل لرز پڑا

اسے سینے میں بھینچے وہ صدمے سے نڈھال ہوتے رو پڑے تھے۔

"کبھی اچھا بیٹا نہیں بن پایا میں شاید،، آپکو وقت نہیں دیتا تھا،، ملک سے باہر رہتا تھا،، ہوسکے تو معاف کردیجیے گا بابا سائیں ،،آخرکار  آپکا ہی بیٹا ہوں...."

وہاب صاحب نے اسکے چہرے کو چوما انکی جانب جھکتا وہ مسکرایا باپ سے وہ قد میں بڑا جو تھا اسکی پیشانی کو چوم کر وہ پیچھے ہٹتے فاریہ کو کندھے سے تھام کر اسے تسلی دینے لگے۔

 ملٹری اہلکاروں کے عملے کیساتھ وہ کمرہ عدالت سے باہر نکل گیا تھا عدالت کے باہر نفوس کا ایک ہجوم تھا بھوری آنکھوں نے تشویش سے اس ہجوم کو دیکھا تھا جو غریب غرباء اور نچلے طبقے کے افراد پر مشتمل تھا جنکی امداد کیلیے وہ کئی سالوں سے  ڈونیشن مہیا کررہا تھا۔

"جناب چلیے۔۔۔ گاڑی انتظار کررہی ہے"

پولیس اہلکار نے احترام سے اسے مخاطب کیا۔

"ایک مجرم کو ایسے ٹریٹ کرتے ہو تم؟!!..."

اسنے سنجیدگی سے اس اہلکار  کو روکا پولیس اہلکار نے سر دھیرے سے نفی میں ہلاکر اسے چند ساعت دیکھا تھا وہ متانت سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔

" آپ مجرم نہیں ہیں ....یہ لوگ غریب ضرور ہیں نادان نہیں ہیں،، جناب۔۔۔ ہم سب جانتے ہیں آپ بےگناہ ہیں،،آپ کسی کی جان نہیں لے سکتے،، رہی بات لوگوں کی تو صرف یہاں نہیں،، پوری دنیا میں آپکے لئے مظاہرے متوقع ہیں،، عوام سڑکوں پر نکل آئے  گی،، آپ نے یتیم خانوں ،، اور شیلٹرز کو اتنا ڈونیٹ کیا ہے۔۔۔ کیا غریبوں کیلیے آپکی خدمات خالی چلی جائیں گی،، کبھی نہیں۔۔۔ لوگوں کیلیے آپ کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں...."

اسنے پولیس اہلکار کو سنجیدگی سے دیکھ کر نگاہیں جھکائی اور ملٹری اہلکاروں کی نگرانی میں  پولیس وین کی جانب پیش قدمی کرگیا مشتعل افراد کی اسکے حق میں گونجتی صدائیں اسکے کانوں میں بھی سنائی پڑی تھی۔

"کیا کرنے جارہی تھی آپ،،..."

دروازہ کھولتے ہی وہ آتش فشاں کی مانند سلگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا آئینے کے سامنے نظریں جھکائے چادر اتار کر دوپٹہ سرپر ڈالتی لمظ نے شرمندگی سے اسے دیکھا تھا اسے شانوں سے تھامےاپنے روبرو کرتا وہ نیلگوں سہمی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے استفسار کررہا تھا۔

"ذ۔۔ذاویان وہ بےگناہ تھے،، کچھ نہیں کیاتھا انہوں نے..."

طلائی آنکھوں میں دیکھتی لمظ نے سہم کر دھیمے لہجے میں کہا زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا وہ دھیرے دھیرے کانپ رہی تھی اسکے کندھوں پر زاویان کی گرفت بالکل ڈھیلی پڑگئی۔

"مم،، مجھے معاف ،، کردیں ...،، زاویان"

آئینے کے سامنے کھڑی وہ خوف سے تھرتھراتے ہوئے بولی نیلی آنکھیں برس پڑی۔

"رونا بند کریں لمظ،، پلیززز...."

دو انگلیوں سے پیشانی مسلتے ہوئے وہ نرم لہجے میں بولا مگر وہ تو مسلسل روئے جارہی تھی نیلی آنکھوں میں خوف تھا زاویان نے پلٹ کر تشویش سے اسے دیکھا سرخی مائل رخساروں پر آنسوں کے قطرے گیلی لکیریں کھینچ رہے تھے سرد آہ بھرکر وہ اسے شانوں سے نرمی سے  تھام کر سینے سے لگاگیا وہ پہلے تو اسے قریب آنے پر خوفزدہ ہوئی مگر اسکی پناہ میں محفوظ ہوکر دھیرے دھیرے پرسکون ہونے لگی  کمزور سراپا اب تک دھیرے دھیرے جھٹکے کھارہا تھا۔

"کیا آپ ناراض ہوگئے ہم سے......"

بھیگی آواز میں وہ دھیرے سے بولی زاویان نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔

"نہیں لیکن آپ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچتی نہیں ہیں..."

زاویان نے دوپٹے سے جھانکتے اسکے بکھرے بالوں کو سمیٹا۔

"ایک بات کہیں ہم،، ہم فیل ہوگئے اکزیم میں..."

اسکی شرٹ کو مٹھی میں پکڑے وہ خوفزدہ لہجے میں بولی زاویان نے ایک اور سرد آہ بھری اور کربھی کیا سکتا تھا اسکی کنڈیشن ایسی تھی کہ وہ اونچی آواز میں مخاطب کرنے سے بھی ڈررہا تھا.

"کوئی بات نہیں اگلی بار آپ ٹاپ کریں گی ان شاءاللہ...."

لمظ نے شرمندگی سے اسکی آنکھوں میں سوالیہ نظروں سے دیکھا وہ سر دھیرے سے اثبات میں ہلاگیا وہ اسکی پڑھائی کی  کنڈیشن سے بھی واقف تھا وہ سب بہت جلدی بھول جایا کرتی تھی اتنے مشکل اکزیم وہ کیسے دے سکتی تھی وہ سرد آہ بھرکر رہ گیا مگر غصہ نہ کرسکا۔

"وہ دراصل ،،ہم نے ٹاپ کیا ہے یونیورسٹی میں....."

وہ  نظریں جھکائے دھیمے لہجے میں بولی زاویان نے غیر یقینی سے اسے دیکھا فون پر رزلٹ کی لسٹ نکال کر اسنے زاویان کی جانب بڑھایا زاویان نے سنجیدگی سے فون تھاما اسنے یونیورسٹی کی طرف سے پورے شہر میں ٹاپ کیا تھا آنکھیں سکیڑے وہ کشیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔

"سوری،،..."

"یہاں آئیں ۔۔۔"

وہ بےحد سنجیدگی سے بولا۔

"جی۔۔۔۔؟!"

لمظ کادل شدت سے دھڑکا۔

"اگر مجھے ہارٹ اٹیک آجاتا،، پاگل لڑکی"

اسکے کان کو نرمی سے  مروڑتے ہوئے وہ متانت سے بولا وہ بےساختہ مسکرائی تھی مگر زاویان نے اب تک اسکا کان نہیں چھوڑا تھا باہر بادل زور سے گرجا تو خوف سے اچھل کر وہ زاویان کے سینے سے آ لگی اسکی کمر کو نرمی سے حصار میں لئے وہ کھڑکی کے پاس آیا تھا لان کے پھولوں پر بارش تیزی سے برس رہی تھی ہلکی ٹھنڈی پھنوار لمظ کے چہرے پر پڑی تو وہ پرسکون پوکر آنکھیں آہستگی سے میچ گئی زاویان کے سینے میں اسے پرسکون دیکھ کر سکون کی لہریں اترگئی۔

"میری ایک بات مانیں گی آپ لمظ...."

تیز ہوا میں لہلہاتی درختوں کی ٹہنیوں کو زاویان نے سنجیدگی سے دیکھا۔

"ہمممم..... بولیے.."

اسکے وجیہ ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتی لمظ نے برجستگی سے کہا۔

"ایک مائنر سی سرجری کروانی ہے آپکی ،، اسکے بعد آپکا سردرد ٹھیک ہو جائے گا..."

لمظ نے  سہم کر اسے دیکھا تھا۔

"کیا ہوا ہے ہمیں،، زاویان......"

وہ سرجری کا سن کر گھبرا چکی تھی۔

"کچھ سیریس نہیں  ایک مائنر سی سرجری ہے بس..."

لمظ کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو اسنے گرم ہتھیلیوں میں محفوظ کیا۔

"اگر سرجری کے وقت ہمیں کچھہ ہوگیا توپھر کیا ہوگا۔۔۔"

فطرتاً آج وہ پھر اوور تھنکنگ کررہی تھی۔

"کچھ نہیں ہوگا بھروسہ رکھیں اپنے زاویان پر،، کچھ نہیں ہونے دے سکتا آپکو ،، میرے جینے کی واحد وجہ اب آپ ہیں لمظ،، اس چھوٹی سی لڑکی میں جان بستی ہے میری"

لمظ کے ہاتھ کو سینے کے مقام پر رکھتے ہوئے وہ  پورے دن میں اب دھیما سا مسکرایا تھا۔

"ہمیں ڈر لگ رہا ہے آپ وہاں ہمارے ساتھ ہونگے ناں..."

طلائی درخشاں آنکھوں میں وہ تشویش سے جھانک گئی۔

"اہمم،،، آئی ول بی دیئر ان شاءاللہ...."

اسکے جواب پر وہ مطمئن ہوتی پرسکون سانس لے گئی۔

"مجھے آپ سے کچھ چاہیے..."

"کیا چاہیے قرارمن..."

"آپکی یہ رنگ چاہیے۔۔۔"

اسکی خوبصورت قوی انگلیوں کے بیچ سیاہ پلاٹینم رنگ کی جانب اشارہ کرتی وہ مسکراگئی۔

"لیکن یہ آپکو پوری نہیں آئے گی...."

وہ بےساختہ مسکرا گیا۔

"ہمیں یہی چاہیے... بہت پسند ہے ہمیں..."

وہ زرا خفا ہوئی زاویان نے اسے رخ بدل کر کھڑکی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا۔

"مجھ سے جڑی ہر چیز پر آپکا حق ہے لمظ،، پوچھا مت کریں لے لیا کریں..."

اسکی جانب ہاتھ بڑھاتے زاویان نے متانت سے کہا لمظ نے مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھ کر اسکی خوبصورت انگلی سے وہ انگوٹھی نکالی تھی گندمی چہرا مسرت سے چمک رہا تھا۔

"جب آپ یونیورسٹی میں ہمیں پڑھانے آیا کرتے تھے تب سے ہمیں یہ رنگ بہت پسند تھی"

دو انگلیوں کو ملاکر انگوٹھی پہنتے ہوئے وہ مسکرا گئی زاویان نے  عقیدت سے اسکی مخروطی انگلیوں کو دیکھا تھا وہ لڑکی بہت انمول تھی،،اسے قیمتی تحفے تحائف کی حسرت نہیں تھی،، وہ اپنے من پسند جڑے شخص کی چیزوں سے محبت رکھتی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

رہائش گاہ/ ایف ایس او:

"جناب مصر سے منسٹر صاحب کا فون ہے..."

انٹرکام رکھتے آئی جی صاحب نے کرخت نگاہوں سے سیکریٹری کی جانب دیکھا۔

"ڈیم اٹ،، اور تم منہ اٹھاکر آگئے میرے پاس..."

دبے لہجے میں سیکریٹری پر غراکر انہوں نے اندوہ گیں ہوکر فون تھاما اور پرستش کرتے ہوئے وسیع لاؤنج کی جانب بڑھے پیشانی پر پسینے کے ذرات ابھرے ہوئے تھے۔

" اس شخص کا سماجی مقام بھی جانتے ہو تم،، ایک منٹ میں وہ تم سب کو خرید سکتا ہے جسے تم نے حوالات میں بند کیا ہے... مجھے میرا بھانجا صحیح سلامت آج شام سے پہلے رہا چاہیے"

منسٹر صاحب کی درشت آواز نے انکے کان چھید دیے تھے۔

"جج،،جی جناب،،  پریزیڈنٹ صاحب سے بات ہوئی ہے کل وہ خود عسکری صاحب کی ضمانت کیلیے وہاں گئے  بھی تھے ،، لیکن انہوں نے اپنی ضمانت سے صاف انکار کردیا....."

پیشانی پر چمکتے پسینے کے ذرات رومال سے پونچھتے ہوئے ایف ایس او صاحب بوکھلاکر بولے تھے آج کی تاریخ میں یہ تقریباً بیسویں کال تھی غیر ممالک ریاستیں اسے آزاد کرنے کیلیے ان پر مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی دنیا بھر میں اسکے لئے احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے کال منقطع ہوچکی تھی جسکا مطلب تھا انکو انکار پسند نہیں آیا تھا فون صوفے پر اچھال کر وہ دیوار میں نسب ٹیلیویژن کو آن کرگئے جہاں سرخیوں میں  بھی اسی خبریں شائع ہورہی تھی۔

"جناب پریزیڈنٹ صاحب آئے ہیں... باہر گاڑی میں آپکا انتظار کررہے ہیں"

سیکریٹری دوڑتا ہوا لاؤنج میں قدم رکھتے عجلت سے بولا ایف ایس او صاحب صوفے اے بدحواسی سے اٹھے جب وہ شخص سلاخوں کے پیچھے گیا تھا ان سب کی تو دوڑیں لگ گئی تھی۔

"قہر خدا کا تم مجھے اب بتاتے ہو.... کسی دن فارغ کردونگا سب کو..."

سیکریٹری پر چبھتی نگال ڈال کر  تیزی سے کوٹ درست کرتے وہ باہر نکلے سفید گاڑیاں رہائش گاہ سے مرکزی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوچکی تھی۔

"خرم صاحب،،میں ٹھیک کہتا ہوں بیوی کی موت سے اسکے دماغ پر گہرا صدمہ پہنچا ہے"

فرنٹ سیٹ پر بیٹھے آئی جی صاحب نے سنجیدگی سے اپنے الفاظ دہرائے ٹھوڑی سے انگلیاں جمائے بیٹھے پریزیڈنٹ صاحب کی نگاہیں تشویش سے بھرگئی۔

"ہوش کے ناخن لو آئی جی،، ورنہ کسی دن تمہاری زبان میرے ہاتھ میں ہوگی،، عوام اسوقت ایج پرہے اسکے لئے الٹے سیدھے الفاظ کا استمعال کروگے تو باغی کہیں گے،، سمجھ نہیں آتا کونسا سحر پھونک دیا ہے اسنے لوگوں میں۔۔۔"

پریزیڈنٹ صاحب نے سنجیدگی سے دو انگلیوں سے داڑھی کھجائی۔

"جناب اسکے ماموں مصر کے منسٹر صاحب ہیں،، کچھ دیر قبل انہوں نے فون کیا تھا اور سختی سے تنبیہ کی ہے اسکی ضمانت منظور کروانے کی،، آپ نے آج کی نیوز دیکھی،، وہاب صاحب نے اسے اپنی سیاسی پارٹی کا چیئرمین مقرر کردیا ہے اور اعلان کیا ہے اس بار انکی جگہ حدید رضا صاحب الیکشن لڑیں گے،، اسکا مطلب انکی یقینی ضمانت ہرصورت  متوقع ہے...."

ایف ایس او صاحب کے الفاظ آئی جی صاحب اور پریزیڈنٹ صاحب کے سرپر بجلی بن کرگرے وہ جانتے تھے اسوقت عوام مکمل طورپر اسکی مٹھی میں تھی اگر وہ الیکشن میں اٹھتا تو ہرصورت وہ منتخب ہوسکتا تھا وہاب صاحب اس بار  زیرکی سے قدم اٹھاچکے تھے۔

"آئی جی میری بلا سے جوبھی کرو حدید رضا عسکری آج شام تک مجھے سلاخوں سے باہر چاہیے ،، باہری ملکوں سے مجھ پر پریشر ہے،، غیر ملکوں میں بھی لوگ اسکے  حق میں مظاہرے کررہے ہیں،، پچھلے ایک ہفتے سے ملک کی بڑی شاہراہوں پر اسکے سپورٹرز نے ناکہ بندی لگادی ہے جانتے ہو ٹریفک کی روانی کس حد تک متاثر ہورہی ہے،،الیکشن سرپر ہیں اور وہاب صاحب نے اسے سیاسی پارٹی کا چیئر مین منتخب کرکے ایک اور تلوار لٹکا دی ہے میری گردن پر...."

منسٹر صاحب پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے چپ ہوئے تھے آئی صاحب نے گاڑی سی باہر تشویش سے ایک نقطے کو گھورا تھا کیسے بتاتے کہ وہ خود سلاخوں سے باہر نہیں آنا چاہتا تھا۔

"جناب فرض کریں اگر وہ الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو عوام اسکے ساتھ ہے،، آج تک کسی سیاسی شخصیت کیلیے اتنے مظاہرے نہیں  ہوئے لوگ اسے لیڈر تسلیم کرنےمیں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونگے آپکے ہاتھ سے اقتدار چلا جائے گا میں تو کہتا ہوں وقت سے اسکا پتا صاف کردیتے ہیں،،، ابھی تو حدید رضا صاحب پولیس کی کسٹڈی میں ہیں آپ جو چاہیں کروا سکتے ہیں "

آئی جی صاحب کی بات پر منسٹر صاحب نے متفق نگاہوں سے انکو دیکھ سر اثبات میں ہلایا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

ایک گھنے جنگل میں  دو فلک بوس پہاڑوں سے بہتا نیلا پانی  فرشِ زمرد پر پھیلی شفاف پانی والی ندی میں  آگرتا تھا ایک بڑے سے پتھر کے قریب بیٹھی لمبے ریشمی بالوں والی لڑکی دونوں ہاتھوں میں شفاف پانی لیکر آسمان کی جانب اچھالتی تھی جو زرات کی صورت میں اسکے چہرے پر آگرتا تھا جسکے بعد پانی کی بوندیں موتیوں کی صورت میں دودھیا چہرے پر پھسلتی تھی۔

چوڑے درخت کے قریب کھڑے شخص کو اسنے تشویش سے دیکھا تھا یہ وہی شخص تھا جو دوسری بات اسے نظر آیا تھا اذیت کے جذبات رقم کرتی آنکھیں،، وجیہ چہرے پر ویرانی تھی.

سوکھے پتوں پر پڑتے قدموں کی آہٹ سن کر وہ لڑکی سہم کر ندی کے کنارے سے اٹھی۔

"سیرت آخر کب تک،، کیا اتنی سزا کافی نہیں میرے لئے...."

اسکے الفاظ ملال کے جزبے سے چور تھے مگر سامنے کھڑی لڑکی کا دل موم نہ کرسکے۔

"میں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں،، تم جب بھی آؤ گے صرف رسوائی ملے گی تمہیں"

ایک قدم پیچھے اٹھاتی وہ اسکے سینے میں دھڑکتے دل کی دھڑکنوں کی رفتار سست کرگئی۔

"اتنا تو کسی نے چاہا بھی نہیں ہوگا ،، جتنا ان دس دنوں میں سوچا ہے میں نے آپکو..."

اسکے انداز بہت خاموش ساتھا لہجے میں غضب کا ٹھہراؤ اور صبرتھا وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

"کیا فایدہ ،، تم اپنی زندگی میں آگے کیوں نہیں بڑھ جاتے،،  تم نہ تو مجھے چھوسکتے ہو ناں ہی میرا کوئی وجود ہے تم صرف میری روح سے محو گفتگو ہو،،،  میں خالی ہوا ہوں ..."

وہ لڑکی حیران تھی اسکی آنکھوں سے ٹوٹتی عقیدت پر۔

"آپکی وفائیں ہمیشہ مجھے صرف آپکا بنا کر رکھیں گی کسی اور کا تصور شرک ہوگا،، جتنی محبت میرے پاس تھی میں نے آپ سے کرلی،، وجود کا کیا ہے ،، احساس کی دنیا میں آپ میری سب سے خوبصورت ملکیت تھی،، ہیں اور ہمیشہ رہیں گی..."

سیاہ آنکھوں میں کچھ جھلملایا تھا وہ اپنی جگہ ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔

"میری زندگی بہت کٹھن تھی،، کچھ درد  تو ایسے ملے جنہوں نے جان بھی لےلی زندہ بھی چھوڑ دیا زمانے کی ٹھوکریں کھانے کیلیے،، میں کسی سے کیا شکوہ کرتی میرے  دکھوں سے تو میری ماں بھی آگاہ نہیں تھی،، سب کچھ یہاں،، یہاں سہتی رہی میں...."

سینے کے مقام پر انگشت شہادت رکھ کر وہ  سنجیدگی سے بول رہی تھی۔

"تم سے مخلص تھی،، جان لٹا دینا چاہتی تھی،، کیونکہ تم نے مجھے میری خامیوں سمیت قبول کیا تھا،، تم میری برائیوں سے کمزوریوں سے واقف تھے،، میں نے اپنی ذات کو تمہارے لئے ایک کتاب کی مانند کھول دیا تھا حدید رضا عسکری،، لیکن تم نے مجھے پڑھا بھی تو اپنے مفاد کیلیے،، اور مفاد کے بعد ناکارہ سمجھ کر پھینک دینا چاہتے تھے تاکہ میں  ان پرانی کتابوں کی مانند  اپنا وجود کھوکر نیست و نابود ہو جاؤں جو جب پرانی ہوتی ہیں تو لوگ دریا برد کردیتے ہیں..."

لمبے ریشمی بال اسکے کندھے سے جھٹکا کھاکر کمر پر پھیلے جونہی وہ پلٹی۔

"میری تو قبر کے حشرات الارض بھی بھوکے ہونگے کچھ اس انداز میں کھایا ہے تم نے مجھے"

اس لڑکی کے الفاظ نہیں پگھلا ہوا سیسہ تھا جو اسکے سینے میں پیوست ہوا تھا۔

پسینے سے شرابور چہرے کو اسنے ٹھنڈی ہتھیلی سے صاف کیا حوالدار سلاخوں کے قریب کھڑا اسے فکرمندی سے دیکھ تھا نرم ریشمی بستر پر سونے والا ٹھنڈے فرش پر کیسے سوسکتا تھا۔

"جناب،، کوئی لڑکا آپ سے ملنا چاہتا ہے...."

اسنے متانت سے سر جھٹک کر انکار کیا حلق اس لڑکی کے زہریلے الفاظ سن کر اندر تک خشک پڑچکا تھا  حوالدار نے آنے والے کو واپس بھیج دیا تھا ناجانے روز کتنی ہی نامور شخصیات اس سے ملاقات کی غرض سے آتی تھی مگر بےبس ہوکر واپس لوٹ جایا کرتی تھی۔

وہ ناجانے کتنی دیر تک بیٹھا اس لڑکی کے الفاظ پر نظر ثانی کرتا رہا تھا۔

"کیا جرم ہے نوجوان تمہارا...."

دیوار سے پشت لگائے سرد فرش پر بیٹھا وہ شخص کہیں سے بھی حدید رضا نہیں لگ رہا تھا کونے سے ابھرتی ضعیف آواز کو اسنے دوسری بار یکسر نظر انداز کردیاتھا مگر قید خانے کی خاموشی سے اسے وحشت ہونے لگی دل و دماغ میں اس لڑکی کی ہلکی کھلکھلاہٹ اسے اپنے ساتھ بد سے برترین سلوک کرنے پر اکسارہی تھی  اٹھ کر وہ ٹھنڈی سلاخوں کو جکڑگیا۔

"مجھے سگریٹ چاہیے....."

 حوالدار جو سگریٹ سلگا رہا تھا اسے حیرت سے دیکھ کر اٹھا اور لائٹر کیساتھ سگریٹ کی ڈبی اسکی جانب بڑھادی  اور واپس لوٹ گیا سگریٹ سلگا کر وہ دیوار سے پشت ٹکائے بیٹھ گیا۔

"اپنے پیاروں کا احساس نہیں تمہیں اچھے گھرانے کے لگتے ہو سگریٹ نوشی کیوں کررہے ہو"

کونے سے آواز دوبارہ ابھری تو سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے وہ ٹھہرگیا۔

"پتا نہیں،، میرا  ڈیپریشن کم ہوتا ہے اس سے"

وہ بے اعتنائی سے بڑے بھاری لہجے میں بولا۔

"یہ تمہیں ختم کردیگی اندر سے۔۔۔"

"یں پہلے ہی ختم ہوچکا ہوں ...."

اسنے متانت سے ہنس کر انکی ہدایت میں مداخلت کی۔

"ابھی زندگی میں اور بھی امتحان آئیں گے،، ابھی سے مایوس کیوں ہوگئے"

اسنے بے اعتنائی سے انکے الفاظ رد کردیئے اور کش پر کش لینے لگا۔

"کیا تمہارے بیوی بچوں کو پتا ہے کہ تم سگریٹ نوشی کرتے ہو تمہیں منع نہیں کرتے وہ؟!!"

بزرگ نے تشویش سے پوچھا لائٹر سے دوسری سگریٹ سلگاتا اسکا ہاتھ ساکت رہ گیا ذہن کے پردوں پر ایک سیاہ آنکھوں والی لڑکی کا چہرا لہراگیا جو ہمیشہ اسکے سگار  سلگا لینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کرتی تھی لائٹر بجھاکر اسنے کراہت سے سگریٹ کی ڈبی دوسرے کونے میں اچھالی۔

بزرگ  اندھیرے کونے سے اسکے قریب روشنی کے حلقے میں آکر بیٹھ گئے مگر اسکی نگاہوں کا مرکز اسوقت کوئی غیر مرئی سا نقطئہ تھا ذہن سوچوں کے بھنور میں الجھ رہا تھا۔

"بدل کیوں نہیں دیتے خود کو نوجوان...."

اب کی بار اسنے سرخی مائل آنکھوں سے بزرگ کی جانب دیکھا۔

"فایدہ نہیں اب،، بہت گناہ سرزد ہو چکے ہیں،،  ناجانے کتنے خون کئے ہونگے  ان ہاتھوں نے،،  خود سے گھن آتی ہے اب مجھے،، بدلنا تو بہت دور کی بات ہے"

بھوری آنکھیں ہنوز ایک نقطے پر تھی جب وہ بےربطی سے بولا۔

"وہ  پاک ذات معاف کر دیتی ہے،، جب تمہارا  ارتکازہوتا ہے اسکی طرف،، رہی بات گناہوں کی وہ تو سب سے سرزد ہوتے ہیں،، وہ الگ بات ہے کہ تمہیں پچھتاوا نہ ہو،، تم تو پچھتا رہے ہو نوجوان ،، معافی مانگ لو موقع مل رہا ہے اسکا تقرب حاصل کرلو..."

وہ چند ساعت ایک ہی نقطے کی نگرانی کرتا رہا ذہن  اس لڑکی کی یادوں سے ماؤف تھا۔

"میں مدتوں سے گناہگار ہوں،، اب دعا مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوگی "

وہ سنجیدگی سے کہہ کر دوبارہ  ایک جانب بے اعتنائی دیکھنے لگا۔

"عبادت کرکے غرور کرنے والے سے گنہگار توبہ کرنے والا افضل ہے"

بھوری آنکھوں سے مایوسی کا ایک حصہ انکی بات سن کر خارج ہوا تھا۔

"میں  اپنی ضمانت نہیں دے سکتا جو مدتوں سے گناہ کرتا آرہا ہو وہ آگے بھی کرسکتا ہے"

مایوسی کی سیاہ چادریں ایک بار پھر اسکے دماغ پر قابض آئی تھی وہ بزرگ بےساختہ مسکراگئے۔

"توبہ روح کا غسل ہے نوجوان،، جتنی بار کروگے روح میں اتنا نکھار آئے گا..."

ملال سے بھاری پڑتے کندھے پر انکا ہلکا ہاتھ پڑا تو اسکے دل میں سکون سا اترا۔

"انسان جتنا بھی گنہگار ہو اللہ اسکے لئے دعا کا راستہ اور رزق کا دروازہ بند نہیں کرتا،، تم نے ضرور نیک عمل کیے ہیں جو خدا نے تمہیں بےپناہ مردانہ وجاہت سے نوازا ہے،،  مایوسی کو خود سے جدا کرکے دور پھینک دو اور توبہ کرنے میں  مزید وقت ضائع نہ کرو.... معاف کردیگا وہ"

وہ خاموشی سے انکو سنتا رہا انکی آواز میں  ایک پراسرار سکون تھا۔

"دل کو توبہ کے پانی سے غسل دینا بےحد ضروری ہے دنیا و آخرت سنور جاتی ہے ان شاءاللہ تمہاری بھی سنور جائے گی جو کھوچکے ہو اگر اسے یاد کرتے رہوگے تو مایوسی مقدر بن جائے گی،، اور مایوسی کفرہے،،"

وہ سرجھکائے بیٹھا سنتا رہا الفاظ نہیں تھے اسکے پاس دنیا کو ایک جواب سے لاجواب کردینے والا آج خود قدرت کے قانون کے سامنے لاجواب سابیٹھا تھا۔

"سجدہ خوشی کا ہو یا غم کا توفیق ملنا بڑی بات ہے،، بہت جلد تم رہا کردیئے جاؤ گے سب سے پہلے تم گھرجاکر اس پاک ذات سے معافی طلب کرنا...صرف ایک بار نہیں،، تب تک کرتے رہو جب تک وہ معاف نہ کردے،، ایک دن اپنی رحمت سے نواز دیگا تمہیں"

ناجانے کتنی دیر وہ  بغیر مداخلت کئے سنتا رہا خاموشی چھاجانے پر وہ متانت سے سراٹھاتا انکی جانب دیکھ کر چونکا جہاں وہ بیٹھے تھے اب وہاں کوئی نہیں تھا سراسیمگی کی کیفیت میں اسنے سلاخوں کو تھاما حوالدار تشویش سے اسکے پاس آیا تھا۔

"یہاں ایک بزرگ تھے،، سفید لباس میں..."

حوالدار نے کونے میں تشویش سے دیکھا جہاں اسنے اشارہ کیا تھا۔

"جناب اندر تو کوئی بھی نہیں آیا آپکے آنے سے پہلے بھی یہ جگہ خالی تھی..."

وہ سلاخوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے پیچھے ہٹا پورے بدن میں برقی لہریں دوڑرہی تھی وہ ضرور کوئی بڑی  بزرگ باوقار ہستی تھی جو خود چل کراسکی مایوسی کو دور کرنے کی غرض سے اسکے پاس آئی تھی ،، اسکی مدھم دھڑکنیں تیزی پکڑنے کے بعد  بحال ہوچکی تھی،، چہرے پر سےمایوسی کے تاثرات دور ہوچکے تھے ،، بھوری آنکھوں کی چمک دھیرے دھیرے لوٹ رہی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"لیکن عسکری صاحب کورٹ کی جانب سے..."

آئی جی صاحب نے تیز قدموں سے اسٹیشن کا دروازہ عبور کرتے وہاب صاحب کا پیچھا کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنا چاہا مگر انکے پاس وقت نہیں تھا انہوں نے بے اعتنائی سے تقلید میں چلتے لائر کو اشارہ کیا جو سرہلاکر آئی جی صاحب کے راستے میں حائل ہوگئے۔

"میرے پاس کورٹ کی جانب سے ضمانتی وارنٹ موجود ہے...."

وہاب صاحب مختصر نگاہوں سے لائر کو آئی جی صاحب سے گفتگو کرتے دیکھ کر حوالدار کو حوالات کا دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا سر جھکائے حوالدار نے ٹھیک ویسا ہی کیا تھا۔

"بس کرو حدید،، تم ابھی اسی وقت میرے ساتھ چل رہے ہو،، اپوزیشن کی طرف سے خطرہ ہے تمہیں،، عدالت نے تمہاری عبوری ضمانت منظور کرلی ہے...."

دیوار کو بےتاثر نگاہوں سے دیکھتے ہوئے وہ  دروازہ چرچرانے کی آواز پر تحمل سے  پیچھے مڑا تھا وہاب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے  بیٹے کے سادہ بکھرے حلیے کا جائزہ لیا  سلکی بال اسکی پیشانی پر پھیلے ہوئے تھے،، سفید شکن زدہ لباس میں وہ کہیں سے بھی فیشن انفلیوئینسر  حدید رضا عسکری نہیں لگتا تھا،، نیند کی کمی کے باعث بھوری آنکھوں میں سرخی پھیلی ہوئی تھی۔

"اپوزیشن... سے مجھے کیسا خطرہ بابا سائیں..."

اسنے متانت سے وہاب صاحب کے سپاٹ چہرے کو دیکھا۔

"کیونکہ تم آر سی بی پارٹی کے نئے چیئرمین ہو....."

وہاب صاحب نے تحمل سے بتایا وہ چونکا تھا۔

"آپ جانتے ہیں مجھے سیاست  میں کوئی دلچسپی نہیں آخر آپ ایسا..."

وہ  سہولت سے انکار کرتے ہوئے ایک لمحے کیلیے ٹھہرگیا نگاہیں وہاب صاحب کے چہرے کا بخوبی جائزہ لے رہی تھی وہ دھیرے دھیرے سمجھ رہا تھا اسے چیئرمین منتخب کیوں کیا گیا تھا۔

"آپکے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا مجھے رہا کروانے کا اس لئے آپ نے مجھے چیئرمین مقرر کردیا تاکہ عبوری ضمانت سے آپکو مجھے مستقل رہاکروانے کا کچھ وقت مل جائے،،  اور میں الیکشن میں حصہ لیکر خود کو مصروف کرلوں،، بابا سائیں یہ کیا طریقہ ہے.... میں سب سمجھ رہا ہوں..."

 آخر پر اسنے سرد آہ بھری وہاب صاحب نے ستائشی مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔

"برخودار بہت ضدکرلی تم نے،، اب اپنے باپ داداؤں کی  گدی سمبھالو،، میں بوڑھا ہوچکا ہوں میری ہڈیوں میں اب وہ طاقت نہیں رہی،، تمہیں تو اس بوڑھے باپ کو سہارا دینا چاہیے اور یہاں توبالکل الٹ ہے تمہارا بڈھا باپ تمہیں رہائی دلوانے کیلئے پچھلے دس دنوں سے مارا مارا پھررہا ہے..... کسی کے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی ،، کب تک اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار رہوگے یہ سب تمہارا ہے تم نے ہی دیکھنا ہے،،  سیاست کی طرف لوٹ آؤ"

وہاب صاحب کے الفاظ نے اسے کچھ حد تک شرمندگی میں مبتلا کیا تھا۔

"آپکے خیال میں سیاست ایک نیوٹرل ٹاپک ہے..."

وہاب صاحب کے لب اسکے سوال پر ستائشی انداز میں پھیل گئے،، وہ دھیرے دھیرے اس ٹریجڈی سے ریکوور ہورہا تھا وہاب صاحب کے اندر تک سکون اترگیا۔

"یہ تمہارے اس خون خرابے سے بہت اچھا ہے لڑکے اور خبردار جو تم نے اپنے باپ داداؤں کے پیشے میں خامیاں نکالی اگر تمہیں بزنس کرنا ہے تو بیشک کرو لیکن آج ابھی اسی وقت سے تم اپنی سیاسی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہواور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو دو تھپڑ لگاؤں گا قد میں باپ سے ضرور بڑے ہوگئے ہو لیکن ابھی بھی میں باپ ہوں تمہارا...."

وہاب صاحب نے پیشانی پر بل ڈال کر مصنوعی اشتعال انگیز لہجے  میں کہا وہ چند ساعت کھڑا انکو دیکھتا رہا وہاب صاحب کی پیشانی ابھی تک شکن زدہ تھی ایک ہلکی مسکراہٹ اسکے لبوں پر پھسلی آخر باپ تھے  بیٹے کو ہمیشہ ایموشنل بلیک میل ہی تو کرتے آرہے تھے ۔

"رکو،، ایسے کپڑوں میں باہر مت نکلنا ناک کٹوا دوگے،، میڈیا ہے باہر"

اسے حوالات کے دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ کر وہاب صاحب نے عجلت سے اسکا مظبوط بازو پکڑکر تنبیہہ کی وہ پیچھے پلٹتا وہاب صاحب کو دیکھ کر مسکرایا۔

"بابا سائیں ،، آپکا بیٹا اسی حالت میں باہر  جائیگا،، غرور لباس کا نہیں ہوتا...."

اسنے گہرا سانس لیکر انکے شانے پر بازوں پھیلا کر انکو خود سے لگایا۔

"حدید پسینے کی شدید بو آرہی ہے تم سے دور ہٹو مجھ سے،، کیا بڈھے باپ کا رہا سہا سانس بند کروگے،، قہر خدا کا تم دس دنوں سے نہیں نہائے توبہ استغفار کیسے دن دیکھائے ہیں تم نے مجھے یا خدا،، دیکھو خود کو..... "

وہاب صاحب نے  اسکے چوڑے سینے سے ٹک کربےساختہ بھنویں سکیڑتی تھی وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا اسکی جاندار بھاری آواز نے پولیس اسٹیشن کی ویران دیواروں میں روح بھردی تھی۔

"گھر جاکر سب سے پہلے شاور لینا حدید..."

وہاب صاحب اسکے مسکرانے پر اندر تر سرشار ہوئے تھے مصنوعی مزاحمت سے باز نہ آئے۔

"جی ضرور سائیں....  لیکن اس سے پہلے میں آپکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤں گا..."

میڈیا کی فلیش لائٹس میں وہ دھیرے سے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے پولیس اسٹیشن سے ملحقہ زینہ اترتے ہوئے بولا وہاب صاحب نے کوفت کھاکر اسے گھورا تھا انکے گھورنے پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا کیمروں نے اسکی دلفریب مسکراہٹ کو بغیر تاخیر کے کیپچر کیاتھا۔

"نئی شروعات مبارک ہو قلبی..."

عقیدت سے گندمی پیشانی کو لبوں سے چھوکر وہ کمزور ناتواں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرتے ہوئے آسودگی سے مسکرایا دل فرطِ مسرت سے بےخود ہورہا تھا سنہری چمکدار آنکھوں سے بکھرتی  عہدو پیمان کی سنہری کرنوں نے گھبرائی نیلگوں آنکھوں کی مدھم لہروں میں رمق بھردی تھی اسکی چوڑی پشت پر دونوں ہاتھ باندھ کر چوڑے سینے میں چہرا چھپاکر وہ خوب روئی

"الحمداللہ ،، رونا نہیں بچے،، سرجری کامیاب رہی مولا نےکرم نوازی کی ہے ..."

 سرد ہتھیلیوں نے  گندمی  رخساروں پر ڈھلکتے  گوہروں کو اپنی پناہوں میں محفوظ کرلیا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ اسکی موجودگی میں روحانی سکون محسوس کرکے مسکرائی۔

"پریشان تو نہیں ہوئی تھی آپ..."

بیڈ کے کنارے پر بیٹھکر مومی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں سماکر وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا  لمظ کی بامہر نگاہوں نے زاویان کے خوبرو چہرے کو نگاہوں کے حصار میں لیا تو نگاہیں اسکے وجیہ خدوخال چہرے کی ستائش کرتے ہوئے وقت پرسے اختیار کھوبیٹھی۔

دروازے پر ہلکی سی دستک نے بےباک نگاہوں کی قرابت داری توڑدی۔

"اسلام و علیکم...  رکھ دو یہاں.."

زاویان کی سرد مزاحم  نگاہوں نے  اسے ناپسندیدگی سے دیکھا جبکہ لمظ نے خندہ پیشانی سے سلام کا جواب دیا سفید ڈیفوڈل پھولوں کا بوکے قدیبی اسٹینڈ پر رکھ کر گارڈ سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گیا زاویان چند ساعت اسے دیکھتا رہا اسکی سوچ کے خلاف وہ انتہا کا ڈیٹھ ثابت ہوا تھا۔

"تم یہاں نہیں آسکتے،، مت بھولو عبوری ضمانت پر باہر ہوتم... دوبارہ"

لمظ کی موجودگی میں اسنے زاویان کے زہرآلود لہجے کا جواب بھی  ہونٹوں پر ایک خوشگوار تبدیلی کیساتھ دیا تو زاویان نے بےبسی سے سرد آہ بھری۔

"بھابھی،، طبعیت کیسی ہے آپکی..."

لمظ نے خشک حلق ترکرکے صدمہ گیر نگاہوں سے اسے دیکھا جو زاویان کی موجودگی میں اسے بھابھی کا اعزاز دیکر پکار رہا تھا اسے دیکھ کرہی زاویان کے تن بدن میں آگ لگی تھی مگر بھابھی کہنے پر وہ برہمی سے سلگ پڑا 

"وہ ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو یہاں سے..."

دانت پیس کر زاویان غصہ چباتے ہوئے شکن زدہ پیشانی کیساتھ بولا البتہ حدید رضا نے زاویان کی بےصبری پر ہونٹوں کو مزید پھیلنے سے قبل روکا  زاویان کی اندیشہ ناک نگاہیں اسوقت اسکا سر سے پاؤں تک پوسٹ مارٹم کردینے چاہتی تھی۔

"کیا میں بھابھی کو مخاطب بھی نہیں کرسکتا زاویان صاحب؟!!..."

بڑی سادہ لوحی سے وہ  آگے قدم بڑھاتا زاویان کے بیچ میں آنے پر رکا لمظ نے شرمندگی سے حدید رضا عسکری کی جانب دیکھا جو ماقبل منصوبہ بندی کیساتھ زاویان کو جلانے آیا تھا۔

"میری بیوی سے دور رہو سمجھے تم،، ..."

زاویان کی آتش مزاج نگاہوں سے نگاہیں ملاکر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے شانے دھیرے سے اٹھاکر قدم پیچھے لے گیا البتہ لمظ اسکی چالبازی سمجھ کر بمشکل مسکراہٹ ضبط کرپائی۔

"جیسا آپ مناسب سمجھیں ویسے ان کو کوئی مسئلہ نہیں میرے مخاطب کرنے سے..."

اسنے ایک بار پھر بیڈ پر بیٹھی لمظ کو مخاطب کیا تو زاویان کے اندر کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔

"ایک لفظ مت کہنا،، ورنہ تمہیں اسی وقت شوٹ کردوں گا"

"شوق سے کریں،، زاویان صاحب...."

زاویان کا صبرکا پیمانہ لبریز ہوا دانت پیستے ہوئے وہ اسے بازو سے پکڑکر کمرے سے باہر نکل گیا

لمظ نے تشویش سے سر جھٹکا تھا لاکھ سمجھانے کے بعد بھی زاویان اسکے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حق میں نہیں تھا اسپتال کے کوریڈور کے قریب دونوں آمنے سامنے تھے۔

" میں چاہوں تو تمہیں ابھی اسی وقت شوٹ کرسکتا ہوں حدید رضا.... بہتری اسی میں ہے میرے خاندان سے اور میرے گھر سے بہت دور رہو"

زاویان کا اہانت آمیز لہجہ اور اٹھائی گئی شہادت کی انگلی شاید کوئی برداشت نہ کرتا مگر وہ  مسکراکر سر دھیرے سے اثبات میں ہلاگیا تھا۔

"یہ خاندان صرف آپکا نہیں ہے زاویان صاحب،، میری بیوی کا میکا بھی ہے"

پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے وہ نرمی سے بولا لہجے میں خوبصورت سا ٹھہراؤ تھا۔

"سیرت از نومورر حدید رضا ،، اب تمہارا اس گھر سے کوئی واسطہ نہیں... کیوں ہربار مجھ سے بےعزت ہوجانے کیلیے آجاتے ہو سیلف رسپیکٹ نہیں ہے تمہاری..؟!!"

سیرت کے زکر پر زاویان نے منہ زور ہوکر اسکے کوٹ کو گریبان سے پکڑا ۔

"سیرت اب بھی  ہیں زاویان صاحب... میرے دل میں ہیں یقیناً آپکے دل میں بھی ہونگی،، رنجشیں اور ناراضگیاں اپنی جگہ ،، رہی بات سیلف رسپیکٹ کی اور انا کی تو رشتوں میں انا  نہیں دیکھا کرتے آپ کب تک انسلٹ کریں گے میری،، ایک بار،، دس بار ،، سو بار،، ہزار بار،، مجھے اعتراض نہیں میری بیوی چاہتی تھی   ہمارے تعلقات بہتر ہوجائیں تو ان شاءاللہ ویسا ہی ہوگا آپ بےشک وقت لیں،، جتنا مرضی لیں،، میں بےعزت ہونے آجایا کرونگا"

تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسنے نرمی سے زاویان کے ہاتھ سے اپنا کوٹ آزاد کیا اور اسکے ساکت ہاتھ کو الوداعی مصافحے کی نیت سے اپنے ہاتھ سے ملانے کے بعد وہ کوریڈور سے اسپتال کے خارجی دروازے کی جانب پیش رفت کرگیا زاویان کی محزن نگاہوں نے اسکا دور تک پیچھا کیا تھا آج اسے اپنی بہن کے خواص اس شخص میں نظر آئے تھے وہ لڑکی بھی تو ایسی ہی تھی رشتوں کو جوڑکر رکھنے والی، ہمیشہ چپ چاپ سب سہہ لینے والی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

ایک ہفتہ بعد:

"میری بیٹی لاپتہ ہے زاویان حیدر،، یہاں کی سوکالڈ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس دن حادثے میں جھلس کرمر گئی،، مگر مجھے پتا ہے تم نے چاہت کو ذاتی مفاد کیلئے کہیں چھپاکر رکھا ہے"

زاویان نے فائل بند کرکے ایک جانب رکھتے ہوئے سامنے سیخ پا کھڑے اشفاق احمد کو دیکھا۔

"میرا آپکی بدکردار بیٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہے اشفاق صاحب"

اسکے تحمل سے بولنے پر اشفاق صاحب کا چہرا طیش کے اضافے سے سرخ پڑا۔

"باپ ہوں تمہارا ،،، مت بھولو "

"اوہ واقعی،، وہی باپ جس نے اپنی ہی بیٹی کو اغوا کروایا،، لعنت بھیجتا ہوں آپ جیسے شخص پر..."

زاویان نے سامنے پڑی میز پر مٹھی بھینچ کر مارتے ہوئے کرخت لہجے میں مداخلت کی۔

"کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ سیرت کو میں نے اغوا کیا تھا ...."

اشفاق صاحب پراسرار طور پر مسکرائے سیاہ کوٹ کے لیپلز درست کرتا زاویان انکے عین سامنے آکر ٹھہر گیا تھا طلائی تابندہ آنکھیں براہ راست تضحیک اڑارہی تھی ۔

"کیا آپکی گندی خصلت سے میں واقف نہیں؟!!! آپکی بیٹی مرچکی ہے جس کی تصدیق کانفرنس میں پولیس کے محکمے نے وضاحت سے کردی تھی،، کیا کروں گا میں اسے اغوا کرکے،،  رہی بات آپکے خلاف  ثبوت کی تو لعنت کوئی سیاہی نہیں جو انسان کے چہرے پر دیکھائی دے،، اشفاق صاحب لعنت تو یہ ہے کہ آپ ایک گناہ سے نکلنے نہ پاؤ اور دوسرے میں مبتلا ہو جاؤ جوکہ آپکی واحد روش ہے"

پینٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے زاویان نے سنجیدگی سے باور کروایا۔

"تم کبھی میرے جرائم دنیا کے سامنے نہیں لاسکتے زاویان حیدر،، جو چاہے کرلو..."

اشفاق احمد کی پیشانی سے چار لکیریں معدوم ہوگئی زاویان کی آنکھوں میں اشتعال اترا تھا۔

"شاہزیب خانزادہ اور شاہنواز خان میرے جرائم سے واقف تھے ہاہاہاہا قدرت کی کرنی دیکھو،، دونوں ہی جھلس کر مرگئے واللہ..... مجھے کون بےنقاب کریگا اب ؟!!...."

اشفاق احمد نے سراسیمگی کی کیفیت میں قہقہ لگایا زاویان نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔

کانفرنس روم کا دروازہ گارڈ نے سر جھکائے احترام سے کھولا سیاہ تھری پیس سوٹ میں وہ اور کوئی نہیں حدید رضا عسکری تھا زاویان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا گارڈ  دروازہ بند کرکے واپس لوٹ چکا تھا۔

"یہ ہے تمہاری بہن کا قاتل اسے حوالات میں ہونا چاہیے تھا زاویان حیدر جو تمہارے ہی دفتر میں آزاد مجرم کی طرح دندناتا پھرتا ہے،،،اسنے انتقام کی غرض سے سیرت کو مجھ سے خریدا تھا"

اشفاق احمد اسے دیکھ کر خوف سے اندر تک سرد پڑگئے۔

"جسٹ شٹ اپ...."

زاویان کی گرجدار آواز نے کانفرنس روم کا سرد سکوت توڑا اشفاق احمد نے چونک کر حدید رضا عسکری کو  زاویان حیدر رضوی کے قریب ٹھہرتے ہوئے دیکھا بھلا یہ کیسے ممکن تھا؟!!

"تم،، تم نے ایسے شخص کو معاف کیسے کردیا  زاویان یہ مارنا چاہتا تھا سیرت  کو..."

اشفاق احمد کا فق چہرا زاویان نے سپاٹ نگاہوں سے دیکھا اس سے پہلے وہ آگے بڑھتا حدید رضا نے اسے جنبشِ نگاہ سے روکا اور قریب پڑا لیپٹاپ اپنی جانب کھینچا اشفاق احمد نے نا سمجھی سے اسکی قوی انگلیوں کو لیپٹاپ میں فلیش ڈرائیو اٹیچ کرتے ہوئے دیکھا ایک ویڈیو نکال کر اسنے لیپٹاپ کا رخ  زاویان کی جانب کرتے ہوئے قدم پیچھے لئے اشفاق احمد کے چہرے نے ایک ہی منٹ میں کئی رنگ بدلے۔

"وہ،، وہ تم تھے ،، تم نے وہ لفافہ بھیجا تھا مجھے،، تم دھمکی آمیز خط بھیجتے تھے مجھے لیکن،،، لیکن تم....."

اشفاق احمد کے ہاتھ تھرتھرا رہے تھے زاویان نے ویوڈیو ملاحظہ کرکے فلیش ڈرائیو لیپٹاپ سے نکالی۔

"اٹس اپ ٹو یو زاویان ....  اس فلیش ڈرائیو کیساتھ جو کرنا چاہو کرو.... مگر یاد رہے یہ شخص اپنے انجام کو پہنچ جانا چاہیے ،، ورنہ یہ ہاتھ ایک اور خون کرتے ہوئے بالکل ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونگے...."

اشفاق احمد کی حراساں نگاہوں میں سرد مہری سے دیکھتے ہوئے وہ مخاطب ہوا بھوری آنکھوں کے سامنے سیاہ آنکھوں والی معصوم لڑکی کا چہرا لہرایا تو گردن کی نیلی نسیں بےساختہ ابھر آئی۔

"تم ایسا کچھ نہیں کروگے عسکری،، قانون اپنا کام کریگا  یہ شخص کچھ ہی دنوں میں دنیا کو پھانسی کے پھندے پر جھولتا ہوا نظر آئیگا.... اور میں اس عمل کو یقینی بناؤں گا...."

فلیش ڈرائیو کو مٹھی میں محفوظ کرتے زاویان نے سنجیدگی سے کہا سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر وہ آفس  سے جاتے ہوئے  پیچھے پلٹا تو زاویان کی تشکر بھری نگاہوں نے اسے تسکین بخشی تھی۔

"یہاں آکر بہت بڑی غلطی کی آپ نے اشفاق احمد صاحب ،،، مری ہوئی بیٹی جہنم میں آپکی منتظر ہے"

زاویان نے استہزائیہ نگاہوں نے برف کا ٹکڑا بنے اشفاق احمد کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

تین سال بعد:

"آئیے منسٹر صاحب،، بیٹھے ایک کھیل ہوجائے شطرنج کا؟!.."

سفید بےشکن شرٹ کیساتھ سیاہ وائسٹ کوٹ پر سیاہ وسعت کا حامل کوٹ اتار کر خدمت گار کے حوالے کرتے ہوئے وہ وہاب صاحب کے پرجوش لہجے پر پلٹ کر مخفی سا مسکرایا،، سیاسی ذمہ داریوں میں منسٹر کی حیثیت سے  وہ پیش پیش تھا جسکے باعث مصروفیات بڑھ چکی تھی وہاب صاحب اکثر اسکا انتظار کیا کرتے تھے۔

"لگائیے سائیں،، ایک عرصہ ہوگیا آپکے ساتھ  معرکہ نہیں ہوا"

 پلاٹینم کف لنکس کھول کر خادم کے حوالے کرکے کف کہنیوں تک پھیرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے ویلویٹ کے ٹو سیٹ صوفے پر براجمان ہوا وہاب صاحب نے مسکراتے ہوئے پہلا مہرہ آگے کھسکا دیا مٹھی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اسنے سنجیدگی سے اپنا مہرہ آگے بڑھایا۔

"سناؤ اپوزیشن جماعتوں کا رونا بند ہوا کہ نہیں....؟!! "

اسنے وہاب صاحب کو زیرک نگاہوں نے مختصر دورانیے تک دیکھا ٹھوڑی سے ہاتھ ہٹاکر اسنے وہاب صاحب کا ایک اہم مہرہ اکھاڑ دیا وہاب صاحب قدر دانی کیساتھ مسکراگئے۔

"انہوں ،،بابا سائیں توجہ سے کھیلیں ،، اپوزیشن کی بنیادیں ہلانے والا موجود ہے آپکے سامنے "

وہ زرا متکبر ہوا تو وہاب صاحب نے مسکراتے ہوئے  کھیل کو سنجیدگی سے کھیلنا شروع کیا۔

"باپ ہوں تمہارا لڑکے ،، پرانا کھلاڑی ہوں یہاں بساط بھی ہماری بازی بھی ہماری..."

وہاب صاحب نے استادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکا اہم مہرہ پچھاڑ دیا بھنویں سکیڑکر اسنے سرد آہ بھری وہاب صاحب اسکے ردعمل پر کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔

"کئی سالوں سے شطرنج کو چھوا تک نہیں میں نے،، آپ میری شرافت کا ناجائز فایدہ اٹھارہے ہیں بابا سائیں ،، آپکے سیاسی معملات دیکھتے دیکھتے لگتا ہے دماغ گھس گیا ہے میرا...."

بازی ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر وہ گہرا سانس فضا کے سپرد کرتا بیئرڈ پر ہاتھ جماتا بےدلی سے بولا۔

"ہاہاہاہاہاہا،، برخودار توجہ سے کھیلو،، تمہارے سامنے ایک ماہر کھلاڑی موجود ہے..."

وہاب صاحب نے اسکے الفاظ اسکے ہی سرمیں مارے تو وہ بےساختہ مبہم سا مسکرایا۔

"قہر خدا کا،، باپ کیساتھ بے ایمانی کرتے ہو توبہ..."

وہاب صاحب نے اسکے ہاتھ کو برجستگی سے دبوچا جو قریب پڑا مہرہ بساط پر ٹکاتا ہوا چوری پکڑی جانے پر پرجوش بھاری لہجے میں ہنسا تھا وہاب صاحب نے بیٹے کی ڈیٹھائی پر اسکے وجیہ ہاتھ کی پشت پر زوردار چپت رسید کی تھی،، آخرکار وہ ہار مان کر صوفے سے پشت ٹکاتا پیچھے کھسک گیا تھا لبوں پر ایک دھیما متبسم بکھرا ہوا تھا یعنی وہ انکی تسکین کیلئے جان بوجھ کرہارا تھا

"اچھا بتاؤ ،، کہاں غلطی کی تم نے،،..."

وہاب صاحب خادم سے چائے کا کپ سنبھال کر دلچسپی سے گویا ہوئے کافی کا سپ لیکر اسنے نچلے لب کو انگوٹھے سے دباتے ہوئے بساط کا غائر نگاہوں سے مطالعہ کرنا شروع کیا۔

"برخودار تم نے کھیل کا آغاز ہی غلط کیا تم نے ذاتی مفاد کیلئے ملکہ کیساتھ دغابازی کا تصورکیا جبکہ ملکہ شطرنج کے کھیل میں سب سے طاقتور ٹکڑا ہے،، یہ روک اور بشپ کی طاقتوں کو ملاکر عمودی،، افقی یاترچھی کسی بھی تعداد میں چوکوں کو منتقل کرسکتا ہے،، بلاشبہ ہر کھلاڑی کھیل کا آغاز ملکہ کیساتھ کرتا ہے،، جسے  بادشاہ کیساتھ پہلے درجے کے بیچ میں رکھا جاتا ہے تمہاری ہار کا سبب تمہاری ملکہ تھی جسے تم نے خود سے جدا کرکے کھیل میں مات کھائی...." 

وہاب صاحب کے الفاظ ذہن نشین کرتے ہوئے اسے کسی کی یاد نے شدت سے ستایا،، ذندگی کے کھیل میں بھی وہ ملکہ سے جدا ہوکر مات کھاچکا تھا وہاب صاحب نے اسکی خشمگیں نگاہوں کا تعاقب کیا تو اسکی نگاہوں کو ملکہ کے مہرے کی نگرانی میں ملوث پایا۔

"چلتا ہوں اجازت دیں،، تھکاوٹ ہے دن بھرکی،،شب بخیر..."

وہاب صاحب نے سنجیدگی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں کے دامن میں سنبھالا تو وہ رک گیا۔

"کچھ دینا چاہتا ہوں تمہیں،، یہ تمہارے والد صاحب کی ہے جو میرے پاس امانت کے طور پر محفوظ تھی،، تمہاری خاندانی انگوٹھی ہے،، یہ سیاہ نگینہ بےحد انمول ہے حدید..."

حدید رضا نے متانت سے انکو اپنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر اسکی چھوٹی انگلی کے حوالے کرتے ہوئے دیکھا سپید وجیہ ہاتھ میں آکر  سیاہ گوہر والی انگوٹھی امر ہوچکی تھی۔

"تمہارے والد صاحب کو فخرہوگا تم پر...."

وہاب صاحب کا ہاتھ اسکے کندھے پر پڑا اسنے سنجیدگی سے انکی آنکھوں کو بھیگتے دیکھا۔

"میرے والد صاحب کے درجے پر اسوقت آپ فائز ہیں بابا سائیں،، آپ نے پوری زندگی میری تعلیم و تربیت کی نزر کردی،، مجھے ترجیح دیکر آپ نے شادی تک نہیں کی،، ساری عمر گزرادی تنہائی میں،، میں آپکے لئے فخر کا باعث بن سکوں تو خوشی ہوگی مجھے..."

انکے ضعیف ہاتھوں کو لبوں سے لگاکر عقیدت سے کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا وہاب صاحب کی اندوہ گیں نگاہوں نے اسکی چوڑی پشت کو فخرسے دیکھا تو   مسکرادیئے اانکی شفیق نگاہیں خودپر محسوس کرکے بےساختہ وہ پیچھے پلٹ کر انکی جانب الفت سے دیکھ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوچکا تھا کمرے کی روشنیاں بجھاکر وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر تکلیف سے آنکھیں میچ گیا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

ریگستان کی تپتی ریت پر وہ ناجانے کتنے ہی وقت سے آڑھے ترچھے  پیروں کے نشانات کا پیچھا کررہا تھا آفتاب آگ برسا رہا تھا گرم ریت سے اٹھتی حبس کی کیفیت بھی اسے واپس لوٹ جانے پر عاجز نہیں کرپائی تھی سفید رنگت گرمی کی شدت سے سرخی مائل پڑچکی تھی۔

کچھ قدموں کے فاصلے پر گرم ریت پر وہ گھٹنوں میں سر دیکر روتی ہوئی نظرآئی تھی بےسکون دل آج اسے  سوگوار دیکھ کر بےچینی کے اندھے کنویں میں ڈوبنے لگا تھا وہ خاموشی سے اسکے قریب بیٹھ چکا تھا گرم ہوا کا جھونکا اسکے وجیہ چہرے کو جھلسا گیا سیاہ متورم آنکھوں نے اسے دلگیر نگاہوں سے دیکھا اور کہنی پر سر ٹکائے دور ریگستان میں ذندگی کی تلاش میں ملوث ہوگئی وہ خاموشی سے اسکی گہری سانسوں کیساتھ بندھی ہچکی تکلیف سے سنتا رہا وہ ناجانے کتنی ہی دیر تک دور کسی غیر مرئی نقطے کی نگرانی میں ملوث رہی۔

"میں تکلیف میں ہوں رضا،، مجھے سکون نہیں مل رہا"

تین سال کے لمبے عرصے کے بعد آج  کسی نے اسے اس نام سے پکارا تھا،، مدھم دھڑکنوں میں  باریک شہد گوں آواز نے ارتعاش سا برپا کیا وہ کرب سے اسکے بکھرے ریشمی بالوں کو دیکھنے لگا جو  زشت رو ہواؤں کی تمازت میں دھیرے دھیرے محو نرت تھے۔

"میں بےسکونی کی کیفیت میں بھٹک رہی ہوں.... میرا بدن تکلیف سے جل رہا ہے ،، میں  چاہتی ہوں مجھے تسکین مل جائے لیکن نہیں ملتی رضا... کیا کروں میں...."

نمی سی جھلمل کرتی سیاہ آنکھوں نے اذیت سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھا شاید وہ ان میں سکون تلاش کررہی تھی؟!! وہ بےسخن سا بیٹھا اسے دیکھتا رہا یہی تو اسکا مشغلہ تھا جب بھی نیند میں وہ اس سے ملاقات کیلیے آیا کرتی تھی بھوری ویران آنکھیں قناعت سے اسکا ایک ایک نقش حفظ کرلیا کرتی تھی۔

"یہ سب صرف اس لئے ہورہا ہے کیونکہ تم سکون میں نہیں ہو...."

سیاہ آنکھوں سے گرم مائع اظہار کیساتھ برس پڑا وہ سراسیمگی کی کیفیت میں اسکے دامن میں آگری تھی دونوں ہاتھوں کو اسنے اسے چھونے کی غرض سے اٹھایا اپنے سینے میں بھینچ لینے کی غرض سے اٹھایا مگر وہ جیسے فضا کی مانند کسرتی جسامت میں سما سی گئی تھی سیاہ آنکھوں نے تکلیف سے اسے دیکھا تھا بھوری آنکھوں میں اس لڑکی کی کرب زدہ آنکھوں کو دیکھ کر کچھ جھلملایا تھا وجیہ چہرے کے  جازب نظر خدوخال رنج و حزن کی تکلیف رقم کررہے تھے  دونوں چہروں میں چند انچ کا فاصلہ بھی بہت سنگین تھا۔

" میں نہیں دیکھ سکتی تمہیں اس حال میں،، تم،، تم آخرکب تک اندر سے تڑپتے رہوگے..."

آنسوں سے ترچہرے کیساتھ وہ اسکے سینے پر سر ٹکائے کرب زدہ لہجے میں استفسار کررہی تھی.

"میری روح جڑی ہے تم سے خود کو اذیت دیکر تم مجھے  اذیت پہنچاتے ہو رضا..."

وہ سراسیمگی سے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھرتے ہوئے ہاتھ کے آرپار ہونے پر تکلیف سے بید مجنوں کی مانند لرزگئی بھوری آنکھوں سے ٹوٹتے گوہر اسکے دامن کو بھگورہے تھے،، آج جذبات اسکے اعصاب پر غالب آچکے تھے  آج اس لڑکی نے  اسکے پرانے زخموں کو کرید ڈالا تھا۔

"میں یہاں،، بہت اکیلی ہوں رضا ،، کوئی بات نہیں کرتا مجھ سے تم،، تم  بہت دیر بعد آتے ہو میرے پاس،، مگر شکوہ جانتے ہو کیا ہے میرا دل بند ہوجائے گا  اس اذیت سے  جو تم خود کو دیتے ہو...."

سیاہ وادیوں میں اس لڑکی کی تصویر اور آواز دھیرے دھیرے ملفوف ہو گئی۔

 نیند سے بوجھل آنکھیں واکرتے ہی  اسنے نائٹ اسٹینڈ پر پڑے لیمپ کو روشن کیا کمرے کی تنہائی میں سرد سیاہ رات کے اضافے نے  فراقِ یار کی اذیت میں اضافہ کیا تھا عرق آلود چہرے کو صاف کرکے اسنے دیوار پر نصب گھڑی پر وقت کا تعین کیا ذہن میں عجیب وسوسے گردش کررہے تھے سینے میں پھنسی سانسیں بحال ہونے سے اب تک انکاری تھی  ذہن میں ایک خیال آیا کہ ابھی اسی وقت اپنی ہستی مٹاکر اس لڑکی کے پاس چلا جائے مگر اپنوں کا خیال آتے ہی اسنے دھیرے سے سر جھٹک کر گہرا سانس فضا کے سپرد کرکے جگ سے پانی کا گلاس بھرکر خشک لبوں سے لگایا سینے میں سلگتی  فراق کی آگ کو ٹھنڈا پانی بھی بجھا نہیں پایا تھا ہمہ وقت اس سیاہ آنکھوں والی لڑکی کی یاد میں سرمیں درد کی کئی طویل لہریں  اٹھی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

یہ مناظر مصر کے ایک خوبصورت فائیو اسٹار ہوٹل کے تھے جسے کچھ دنوں کیلیے انس رضوی کی شادی کی تقریب کیلیے پرسنلی بک کروایا گیا تھا رات کی مہین چادر میں روشنیوں بکھیرتی فلک بوس عمارت میں دن کا ساسماں تھا امیر کبیر شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری تھا تقریب زور و شور پرتھی۔

"اسلام و علیکم کیا آپکا تھوڑا سا وقت لے سکتا ہوں....؟!"

لمظ سے مسکراتے ہوئے بات کرتی  ریحم  پلٹ گئی گرے تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ اور کوئی نہیں انس رضوی تھا چہرے پر ہلکی تراشیدہ بیئرڈ اور مٹیالی چمکدار آنکھوں کیساتھ وہ ریحم کو بہت بھلا لگا گرے ہیوی میکسی گاؤن جس پر سفید نگینوں کا نفاست پسندی سے کام کیا گیا تھا زیب تن کئے،، بالوں کا فرینچ اوپن سٹائل بنائے،، لائٹ میک اپ میں وہ انس رضوی کے دل پر پچھلے چند لمحوں سے قابض تھی۔

سلام کا جواب دیکر ریحم نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا انس نے آہستگی سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اسٹیج سے اترنے میں مدد فراہم کی تھی لمظ نے محبت سے دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہوں سے بچاؤ کرتے دیکھا تو بےساختہ مسکرادی انس یقیناً ریحم سے اسکی رضامندی کے متعلق استفسار کرنا چاہتا تھا زبردستی کے رشتوں کا قائل تو وہ بھی نہیں تھا وہ بالکل اپنے بڑے بھائی پرگیا تھا۔

لمظ نے متبسم نگاہوں سے دامن میں مسکراتی  زاریہ کو دیکھا جو تین سال بعد  خدا تعالیٰ نے اسے عطاکردی تھی،، چاہت نے جعلی رپورٹس بنوا کر انکو گمراہ ضرور کیا تھا مگر زاویان کی محبت اور لمظ کا اپنے پروفیسر پر یقین کامل تھا جسے وہ توڑ نہیں پائی تھی وہ ایک کامیاب پینٹر بننے میں کامیاب ہوئی تھی یہ اسکا خواب تھا جسے پورا کرنے میں زاویان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا فضا میں جانی پہچانی مہک پھیلی تو لمظ نے سر اٹھاکر آنے والے باوقار شخص کو شناسائی کی نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا دی  سفید تھری پیس سوٹ میں وہ با اقتدار  جاذب نظر شخص اسے احترام سے سلام کرکے مخاطب کرچکا تھا،، تین سالوں میں اسنے  حسن اخلاق اور کردار کیساتھ رضوی مینشن اور اسکے مکینوں کے دلوں میں اپنا اعلی مقام حاصل کرلیا تھا،، کامل عشق نے اس شخص کی ذات کو کس حدتک بدل کر رکھ دیا تھا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

"اہممم،، کیا کہہ رہے تھے جناب آپ ..."

سیاہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس طلائی آنکھوں والے شخص نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر داہنے ابرو کو اٹھاکر تشویش اے پوچھا لمظ نے تشویش سے زاویان کو گھورا تھا جبکہ حدید رضا کے لب ہلکے سے پھیلے۔

"زاویان صاحب آپکا مخاطب کرنے کا اندازہ بےحد منفرد ہے..."

زاویان نے مسکرا کر  ہلکا پھلکا طنز ہلکے قہقے کیساتھ سمیٹ کر اس سے مصافحہ کیا مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کی غرض سے وہ مختصر گفتگو کے بعد اسٹیج سے اترکر مہمانوں کی جانب پیش قدمی کرگیا لمظ نے اسکی ویران نگاہوں کا تعاقب کیا سیاہ رات میں آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں سے اسکی بھوری آنکھیں گہری وابستگی ظاہر کررہی تھی جیسے وہ سیاہ آنکھوں والی لڑکی وہاں سے اسے دیکھ رہی ہو۔

"کیسے ہو بیٹا،، بڑے دنوں بعد نظر آئے ہو،،،"

عائزہ بیگم کی تیکھی آواز سنتے ہی لمظ نے سرد آہ بھرکر اسکی جانب دیکھا ہلکی مسکان کیساتھ اسنے سر دھیرے سے اثبات میں ہلاکر انکو جواب دیا،، کیا یہ وہی شخص تھا جو انتہا کا اناپرست تھا؟!! ۔

"کہاں ہوتے ہو آجکل،، ابھی کل میں عروسہ سے بات کر رہی تھی تمہارے بارے میں"

عروسہ بیگم نے عائزہ بیگم کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھ کر مزید کچھ بھی کہنے سے باز رکھنے کی کوشش کی اسکے معاشرتی مقام کے حساب سے نامور نفوس و حکمران گردن جھکاکر ادب سے اسے مخاطب کرتے تھے اور ایک وہ تھی جو تیکھی آواز میں بڑبڑ کئے جارہی تھی اور وہ مبہم مسکان کیساتھ انکو سن رہا تھا لمظ کا دل اسکی ویران ہلکی مسکراہٹ کو دیکھ کر آج پھر پسیج گیا،، لوگوں کی خوشی کیلیے وہ کرب کی شدت میں بھی مسکرادیا کرتا تھا یقیناً اس شخص کے صبر کو سلام تھا۔

" کہوتو تمہارے لئے کوئی اچھا سا رشتہ دیکھوں،، کب تک تنہائی میں گزاروگے؟!!"

عائزہ بیگم نے  مسکرا کر رازداری سے کچھ اس انداز میں کہا کے لمظ اور عروسہ بیگم نے سن کر ایک دوسرے کو تشویش سے دیکھ کر ہمہ وقت اسکے متحمل چہرے کو دیکھا بھوری آنکھوں میں ایک لمحے کیلیے  گہرے سائے لہرائے تھے مگر وہ بےساختہ مسکرا گیا عائزہ بیگم کی مسکراہٹ اسے دیکھ کر گہری ہوگئی۔

"نہیں ،، رہنے دیجئے.... اب تو عمر نکل گئی ہے  ،، مگر  آپ تو اب بھی بیس بائیس کی لگتی ہیں"

  گزرتے وقت کیساتھ اسکے لہجے کی سردمہری اور ٹھہراؤ میں اضافہ ہورہا تھا،، آواز معمول سے بہت زیادہ بھاری ہوچکی تھی،، بیئرڈ تھوڑی بڑھ گئی تھی.... مگر مایوسی کے سائے اسکے دل پر قابض نہیں آپائے تھے وہ ہر ایک کیساتھ مخلص تھا عائزہ بیگم کا تو چہرا چمک پڑا اسکے الفاظ سن کر۔

"ارے ایسی بات بھی نہیں اب،، تیس پینتیس کونسی زیادہ ہوتی ہے اتنے سوہنے اور ہینڈسم ہوتم پر تو مر مٹیں گی لڑکیاں،، ایک بار کہنے کی دیر ہے لائن لگ جائے گی..."

لمظ نے بےساختہ لبوں پر ہاتھ رکھا جب عائزہ بیگم نے ہنستے ہوئے اسکے مظبوط  بازو کو ٹہوکا لگایا عروسہ بیگم نے عائزہ بیگم کی حرکت پر تاسف سے سر جھٹکا مگر برا منانے کے بجائے اسکے ایک دوسرے میں پیوست لب آہستگی سے پھیلے۔

"کیا واقعی ،،، لیکن  آپ جیسی خوبصورت لڑکی تو مجھے ملنے سے رہی اب کیا فایدہ؟!"

اسنے سرد آہ بھرکر دھیمے نرم لہجے میں اپنا نقصان باور کروایا عائزہ بیگم کا چہرا سرخ پھول کی مانند کھلنے لگا۔

"ہائے اللہ کیسی باتیں کرت ہو تم بھی توبہ،، میں اور لڑکی..."

اپنی اس قدر تعریف سن کر وہ تو خوشی سے نہال تھی۔

"جی ہاں،، آپ تو اپنے دورکی انجمن ہیں .... "

وہ پینٹ کی پاکٹ میں داہنا ہاتھ رکھتے ہوئے ذو معنی لہجے میں بولا عروسہ بیگم نے بمشکل لبوں سے پھسلتی مسکراہٹ کو اندر دھکیلا جبکہ لمظ کی آنکھیں ہنسی ضبط کرتے ہوئے پانی سے بھر  گئی۔

"ہائے چوھدری صاحب نے کبھی میری اتنی تعریف نہیں کی،، سہاگ رات پربھی پانچ ہزار کا نوٹ تھما دیا تھا بس،،، میں بھی کیسے کالے منہ نیلے ہاتھ والے کے ہتھے چڑھ گئی،، دل تو کرتا ہے مریل بڈھے کی گردن پر لات دیکر دوسری شادی کرلوں،،اس  عمر میں بھی مجھ جیسے ہیرے کی دو کوڑی کی عزت نہیں کرتا ،، چارپائی پر پکی پکائی روٹی دیتی ہوں پھربھی آگے سے بڑبڑ  کرتا ہے،، مجھے تو اب بھی کوئی مل جائے گا ...."

 عائزہ بیگم  دوپٹہ  تمتماتے سرخ عارض پر چڑھائے بانکپن سے  شرماتے ہوئے وہاں سے کھسک گئی عروسہ بیگم نے توبہ استغفار کہہ کر کانوں کو چھوا جبکہ  لمظ کی بےساختہ ہنسی چھوٹی تھی قوی انگلیوں کی مٹھی بناکر لبوں پر رکھتے ہوئے مبہم مسکراہٹ کیساتھ عائزہ بیگم کے الفاظ سن کر اسنے سر کو دھیرے سے جھٹکا تھا اسکی دل آویز مسکراہٹ نے  تقریب میں شریک ناجانے کتنی حسیناؤں کے دل گھائل کئے تھے.

"کیا اب بھی یاد آتی ہیں آپکو سیرت؟!!..."

عروسہ بیگم کے جانے پر لمظ نے نرمی سے اسے مخاطب کیا۔

"کیا آپکو لگتا ہے  انکو بھلایا جاسکتا ہے؟!!..."

آسمان کی جانب چہرا اٹھاکر وہ عقیدت سے گویا ہوا لمظ نے اسکی نگاہوں کے تعاقب میں  شفاف آسمان پر چمکتے چاند کے قریب ستاروں کے ایک بڑے سے جھرمٹ کو دیکھا۔

"آپ موو آن کیوں نہیں کرلیتے  بھائی....  میں جانتی ہوں مشکل ہے لیکن آخر کب تک؟!!"

وہ متانت سے نظریں آسمان سے ہٹاگیا لمظ کو اپنے سوال پر تشویش ہوئی،، شاید اسے نہیں پوچھنا چاہیے تھا بہرحال اب کیا ہوسکتا تھا وہ کافی دیر تک بےسخن کھڑا رہا۔

"سیرت کے بعد کسی سے میری محبت اتنی شدید نہیں ہوسکتی،، کہ میں کسی پر اپنی انا قربان کردوں.."

بائیں ہاتھ کو پینٹ کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے اسنے گمبھیر لہجے میں کہا اسکے لہجے کی ویرانی لمظ کو کاٹنے لگی۔

"آخر کب تک آپ اپنے آپ کو تکلیف میں رکھیں گے بھائی ؟!!..."

"ایک بات پوچھوں آپ سے ؟!!  آپکی نظر میں زندگی کیا ہے بھابھی؟!!"

اسنے سوال کے جواب میں ایک اور سوال داغا لمظ نے پرسوچ نظروں سے ایک نقطے کو دیکھا۔

" میرا خیال ہے،، زندگی تصویر بھی ہے اور تقدیر بھی،،فرق صرف رنگوں کا ہے،، من چاہے رنگوں سے بنے تو تصویر اور انچاہے رنگوں سے بنے تو تقدیر...."

 لمظ کے جواب پروہ متفق سا مسکرایا بھوری آنکھوں میں چاند کا عکس ٹھہرا ہوا تھا۔

"اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو یقیناً میں دوسرے جہان میں اس لڑکی کی تلاش میں نکل پڑتا..."

لمظ کی محزن نگاہوں نے اسکے وجیہ کرب زدہ چہرے کا فرصت سے جائزہ لیا تھا۔

"کیا میں آپ سے کچھ پوچھوں بھائی...؟!"

 لمظ نے ہچکچاکر اسے دیکھا وہ متانت سے پیچھے پلٹا سر اثبات میں ہلا گیا۔

"آپ تجربہ کار ہیں،، آپ نے زمانہ دیکھا ہے آپکی نظروں میں عافیت کیا ہے ؟!"

اسنے پچھلے تین سالوں میں ایک بار بھی لمظ کی جانب نگاہیں اٹھاکر اسے مخاطب نہیں کیا تھا وہ اسکی قائل کیسے نہ ہوتی،، وہ  نفس کش شخص ہرکسی کو اپنا قائل کرسکتا تھا ،، برائیوں کے دہانے سے لوٹا تھا وہ جو ایک انسان کیلیے ناممکن امرتھا۔

"میرے تجربے کے حوالے سے عافیت کے دس حصے  تھے،، نو حصے خاموشی اور ایک حصہ لوگوں سے کنارہ کش رہنا مگر بعض اوقات تنہائی کا احساس غالب آجاتا ہے مجھ پر،، رات کی تنہائی تہجد سے دور ہوجاتی ہے اور دن میں،، میں اپنی ریاست کے لوگوں کے پرسکون چہرے دیکھ کر گزار دیتا ہوں،، ایک پراسرار سکون ملتا ہے،، جب کسی کو مسکراتے دیکھتا ہوں،، ایمان میں بلاشبہ بہت سکون ہے...."

لمظ نے دل میں اسکے لئے دعاکی تھی آخر کب تک وہ سہہ سکتا تھا؟!!. اسٹیج سے ریحم نے کیمرا دیکھا کر اسے قریب آنے کا اشارہ کیا تھا لمظ نے ہونٹ بھینچ کر دامن میں کھیلتی چھوٹی آئیزل کو دیکھا۔

"مجھے دے دیں بھابھی...."

لمظ نے دلگیر نگاہوں سے اسکے صبیح ہاتھوں کو دیکھا جو اسنے آگے بڑھائے تھے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مسکراتے ہوئے اپنی پری اسکے حوالے کردی  نیلی آنکھوں والی زاریہ نے آنکھیں جھپک کر نئے وجیہ چہرے کو غور سے دیکھا تھا وہ مسحور سا اسکی چھوٹی ناک کی نوک نرمی سے دباگیا چھوٹی چھوٹی باریک گلابی انگلیوں نے اپنی چھوٹی سی نوک والی ناک پر سے اسکی قوی انگلی کو مظبوطی سے پکڑا تو وہ بےساختہ مسکرایا تھا۔

"اممممم؟!!...."

نیلی آنکھیں اسکے مسکرانے ہر زرا پھیلی وہ زرا جھکا تو دونوں ہاتھوں نے اسکے وجیہ چہرے کو نرمی سے تھپکایا   اسٹیج پر کھڑی لمظ  کے کانوں میں زاریہ کی کھلکھلاہٹ پڑی تو وہ اچھنبے سے پیچھے مڑی اسکے وجیہ چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ اسکے  ساتھ پرجوش سی مسکرا رہی تھی لمظ بھیگتی آنکھوں سے مسکرائی تھی ۔

"اچھا تو یہاں ہیں آپ ،، کب سے ڈھونڈھتی پھررہی ہوں آپکو...."

عقب سے ابھرتی نسوانی آواز پر وہ مطمئن سا پیچھے مڑا سرخ میکسی گاؤن سنبھالتے ہوئے فاریہ نے بھنویں سکیڑے اسے دیکھا مگر اسکے ہاتھوں میں کھلکھلاتی زاریہ کو دیکھ کر وہ فوراً سے مسکرائی۔

"ماشاءاللہ اتنا کیوٹ سا بےبی کس کا ہے..."

وہ متانت سے زاریہ کو اسکے ہاتھوں میں تھما گیا جو اسنے بڑی آس سے اسکی جانب بڑھائے تھے،، کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑے وہاب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے فاریہ کی موجودگی میں بیٹے کی بےسکونی محسوس کی فاریہ  نے حدید رضا کو حسرت سے دیکھتے ہوئے ننھی پری کے اسی رخسار کو عقیدت سے چوما جہاں کچھ دیر قبل اسنے لب رکھے تھے  وہاب صاحب کی نظروں سے تمام منظر پوشیدہ نہیں رہ سکا تھا۔

 مگر انکی نگاہیں اسوقت بیٹے کے چہرے پر ابھرتی غیر معمولی سنجیدگی کا تفصیلی جائزہ لینے میں ملوث تھی عائزہ ممانی کچھ دیر بعد زاریہ کو لے جاچکی تھی فاریہ کی حسرت بھری نگاہیں اسکی ستائش میں اسقدر شدت سے ملوث تھی چند نامور نفوس سے گفتگو کرتے ہوئے اسکی زیرک نگاہیں فاریہ مرزا کی جانب اٹھی تو وہ بوکھلا کر بغیر سامنے دیکھے  آگے بڑھی جسکے نتیجے میں اسکی پیشانی پلر سے شدت سے ٹکرائی تھی درد کی ٹھیس ضرور اٹھی مگر درد سے زیادہ  اسکی نگاہوں کے حصار میں خفت کا سامنا تھا پیشانی سہلاتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے گارڈن سے بھاگ نکلی تھی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

انگیجمنٹ کی تقریب اختتام کو پہنچ چکی تھی مہمانوں کی روانگی کا سلسلہ جاری تھا چند رشتہ دار اور قریبی رشتے اسوقت اسٹیج پر نئےجوڑے کو مبارکباد دے رہے تھے زاویان سے الوداعی مصافحہ کرنے کے بعد وہ اجازت لیکر پارکنگ لاٹ کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے فاریہ مرزا کو اپنی گاڑی کے قریب پاکر رک گیا تھا اسکے گارڈز وہاں لڑکی کی موجودگی میں سر جھکائے زمین کو گھورنے میں ملوث تھے۔

" آپ یہاں کیا کررہی ہیں۔۔۔۔؟!!"

اسلحہ دوسرے ہاتھ میں سنبھال کر گارڈ نے اسکے لئے بیک سیٹ کا دروازہ کھولا مگر ہاتھ سے اشارہ کرکے وہ  فاریہ کے سامنے مناسب فاصلے پر ٹھہرکر سنجیدگی سے گویا ہوا فاریہ نے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے اسے دیکھا،، دل میں اسکی بھاری آواز نے ہمہ وقت کئی  طوفان برپا کئے تھے

"انکل کچھ دیر پہلے واپس چلے گئے تھے انہوں نے کہا آپکے ساتھ آجاؤں..."

دونوں ہاتھوں کو باہم پیوست کئے وہ مسکنیت کا لبادہ اوڑھے بولی وہ سرد آہ بھرکر رہ گیا گارڈ  اسکے گاڑی کی جانب پیش قدمی کرنے پر پیچھے ہٹا اسنے متانت سے بیک سیٹ کا دروازہ کھولا فاریہ کے دل میں تتلیاں اڑنے لگی جس شخص کیلئے گارڈز دروازہ کھولنےکے پابند تھے وہ اسکے لئے دروازہ کھولے کھڑا تھا۔

"بیٹھیے ..... دیر ہورہی ہے  مجھے..."

اسےہنوز خود کوگھورتے پاکر وہ کشیدگی سے گویا ہوا فاریہ سر ہلاتے ہوئے عجلت سے بیک سیٹ پربیٹھی گیٹ بند کرکے اسنے ڈرائیور کو دوسری گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا جو سر احترام سے جھکائے گارڈ ز کی گاڑیوں کی جانب بڑھ گیا  ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسنے متانت سے سیٹ بیلٹ لگایا نچلا ہونٹ شرارت سے دباکر وہ بیک سیٹ سے اٹھ کرفرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھی تو وہ گہرا سانس ہوا کے سپرد کرگیا آخر مرد تھا سب سمجھتا تھا مگر بچپن کی دوستی کا مان اوربھرم نہیں توڑنا چاہتا تھا اور وہ بار بار صبر آزما رہی تھی۔

"بہت بدل گئے ہیں آپ ،، کبھی کبھی لگتا ہے آپ میرے پرانے والے دوست ہیں ہی نہیں"

 روڈپر گاڑیوں کی نگرانی کرتی بھوری آنکھوں نے اسکے مخاطب کرنے پر بھی زاویہ نہ بدلا تو وہ مایوس ہوئی۔

"رضا گاڑی روکیں پلیزز پلیزز مجھے آئس کریم لینی ہے..."

سڑک کے کنارے میں رنگین روشنیاں بکھیرتے آئس کریم پارلر کو دیکھ کر وہ مچلتے ہوئے گیئر شفٹ پر اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولی گاڑی کو بریکس اسنے ہاتھ کی پشت پر انجان نرم لمس محسوس کرکے لگائے تھے بھوری آنکھوں میں تشویش ابھری جسے دیکھ کر فاریہ نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹایا۔

"آئندہ اس نام سے مخاطب نہیں کریں گی آپ مجھے......"

گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا فاریہ سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے گاڑی کے چل پڑنے پر چونکی تقلید میں چلتی گاڑڈز کی گاڑیاں بھی رکنے کے بعد دوبارہ چل پڑی تھی۔

"مجھے یہیں اتار دیں حدید رضا صاحب میں ٹیکسی سے گھر چلی جاؤنگی..."

سیٹ بیلٹ ہٹاکر وہ چلتی گاڑی سے اترنے کا منصوبہ بناتے ہوئے خفگی سے بولی سرد آہ بھرکر اسنے گاڑی واقعی بیچ راستے میں روک دی تھی فاریہ کا چہرا اہانت سے سرخی مائل پڑا تھا۔

"تم،، بیچ راستے میں چھوڑنے والے ہو مجھے حدیددد؟!!..."

شکن زدہ پیشانی کیساتھ وہ اسکی جانب پلٹتے ہوئے روہانسی ہوئی فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے وہ گاڑی سٹارٹ کرچکا تھا فرنٹ سیٹ کا گیٹ گارڈ نے سر جھکائے کھولا تھا۔

"آئیے میم ....."

"ہاؤ ڈیئر یو دفع ہو ادھر سے میں نہیں جاؤنگی تمہارے ساتھ"

سیٹ بیلٹ شرافت سے لگاتے ہوئے وہ پھنکار گئی گارڈ نے تاسف سے سر ہلایا اور واپس چلا گیا۔

"تسلی مل گئی ہوگی اب تو،، گارڈ کے سامنے مجھے ڈچ کرکے،، کیا کچھ باقی ہے چل کیوں نہیں رہے ...؟!"

سیٹ بیلٹ لگاکر وہ صدمے سے بولی جب گیٹ کے شیشے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

"میں نے کہا ناں مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ بلڈی سائیکو..."

 شیشے گرائے وہ سانپ کی طرح پھنکاری بقیہ الفاظ اسکی زبان پر ہی دم توڑ گئے گارڈ کے ہاتھ میں آئس کریم کا سیلڈ پیکٹ دیکھ کر،، آئس کریم لیکر دوبارہ گلاس چڑھاتے ہوئے وہ شرمندگی سے اسے دیکھنے لگی سپاٹ چہرا ،، لبوں کو سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کئے وہ ڈرائیونگ کررہا تھا۔

"سوری،، میں جلدبازی میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئی...."

آئس کریم  کا پیکٹ پرس میں رکھتے ہوئے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکی۔

"آپ کبھی سیرت نہیں بن سکتی مرزا،، نہ ہی میرے دل میں انکا مقام حاصل کرسکتی ہیں...."

اسکی بھاری گمبھیر آواز نے گاڑی میں سردی کی شدت میں اضافہ کردیا وہ کچھ نہیں بولی تھی شرمندگی سے اسکی گھنی پلکیں جھک چکی تھی لب بھینچے وہ رخ بدل ونڈو کا گلاس گرائے باہر دیکھنے لگی۔

"میں نے بچپن سے فقط ایک شخص کو چاہا ہے،، اپنے ہمسفر کی نگاہ سے دیکھا ہے،، کبھی دل میں کسی اور کو جگہ نہیں دی،،۔ ادھوری محبت کے انجام کو آپ سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے؟!"

وہ دھیمے لرزیدہ لہجے میں بولی بھوری آنکھوں میں تشویش ابھری تھی۔

"میں  تمہاری خاطر برطانیہ سے اپنی فیملی سے جداہوکر پاکستان گئی،، اس لڑکی کے پاس رہی اسکی دوست بن کر صرف تمہاری خوشنودی کیلئے ،، کیا کچھ نہیں بنی میں تمہارے لئے ،، اپنی پڑھائی پاکستان میں کی جبکہ میں ملک کے کسی بھی کونے میں کرسکتی تھی جو کہ میرا خواب تھا،، جانتے ہو کیوں؟!! کیونکہ تمہیں بھروسہ تھا مجھ پر،،، اور میں  تمہارے بھروسے کا بھرم رکھنا چاہتی تھی حدید رضا..."

اس لڑکی کی آنکھیں دھیرے دھیرے بھیگ رہی تھی دل کا سارا بوجھ آنسوں سے ٹوٹ رہا تھا۔

"میں آپکے احسان کا بدلہ شاید تاحیات نہیں چکا سکتا.... مگر میں سیرت کا حق آپکو کبھی نہیں دے سکتا"

اسٹیئرنگ ویل پر اسکی قوی انگلیوں کی گرفت ڈھیلی پڑی ہوئی تھی،، اس سیاہ آنکھوں والی لڑکی کا سحر ہی ایسا تھا جب بھی زکر سنتا تھا حواس کھو دینے کی حد تک متاثر ہوجاتا تھا۔

"کونسا احسان حدید  ؟!!... کیا میں نے کبھی جتایا کہ میرا احسان ہے تم پر... ہم ... ہم دوست ہیں"

وہ چونک کراسے دیکھنے لگی کتنا بدل چکا تھا وہ شخص جسکے ساتھ اسکا بچپن بیتا تھا۔

"یہ دوستی اب مزید نہیں چل سکتی کیونکہ اس خالص رشتے میں آپ دوسرے احساسات کا امتزاج کرچکی ہیں ،،،میں نے آپکو کبھی  ایسا تاثر نہیں دیا جسکی وجہ سے آپ میری ذات کے متعلق ایسا سوچنے پر مجبور ہوجاتی یہ آپکی قیاس آرائیاں ہیں ،، رہی بات میری تو جس شخص سے آپ محبت کا دعویٰ کررہی ہیں وہ خود اپنے آپ کوبھی میسر نہیں،، یہ ہماری آخری ملاقات ہے،، میرے سامنے آکر شرمندہ مت کرنا مجھے"

گاڑی نے تیزی سے ٹرن لیا اس لڑکی کا چہرا آنسوں سے بھیگ چکا تھا لبوں کو وا کئے وہ غیر یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی  آنسوں اسکے دامن کو بھگو تے جارہےتھے۔

"تم نے یہ صلہ دیا مجھے میری دوستی کا کتنے خودغرض ہوگئے تم...."

مرکزی شاہراہ پر ٹریفک جام کی وجہ سے گاڑہوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر وہ گاڑی کے رکنے پر ہاتھ کی پشت سے آنسوں سے تر چہرا رگڑتے ہوئے اتری تھی اسنے سرد آہ فضا کے سپرد کر کے آنکھیں میچی۔

گاڑیوں کے ہارن سن کر وہ سراسیمگی کی کیفیت میں گاڑی سی نکلا تھا وہ سڑک کے بیچ و بیچ دیوانوں کی طرح چل رہی تھی ریڈ سگنل نے زرد رنگ اختیار کیا تھا مگر وہ سر جھکائے چلتی جارہی تھی۔

گرین سگنل ملتے ہی گاڑیاں تیزی سے روڈ پر دوڑ گئی تھی سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ کر اسنے بےساختہ آنکھیں میچی  عین وقت پر اسنے اس بےوقوف عورت کو گاڑی کے راستے سے دور کھینچا تھا۔

"تمہارا دماغ تو درست ہے کیا جواب دیتا میں انکل کو؟!...."

 اشتعال سے  سرخی مائل پڑتے چہرے کیساتھ اسنے  ایک زوردار تھپڑ  فاریہ کے چہرے پر جڑدیا تھا اسکا ٹھنڈا رخسار تھپڑ سے دہک اٹھا مگر  تھپڑ کھاکر بھی وہ اس سے خفا نہیں ہوئی تھی۔

"ٹھیک ہے تم جو چاہو کرو لیکن ہماری دوستی ختم مت کرنا میں آئندہ ایسی کوئی بکواس نہیں کرونگی"

اسنے ہمدردی سے اسکا سرخی مائل رخسار دیکھا جس پر اسکی بھاری پانچ انگلیاں برابر چھپی ہوئی تھی وہ لڑکی انتہا کی ڈیٹھ ثابت ہوئی تھی،،شاید دوست کو کھونے کا خوف اسکی محبت پر غالب تھا۔

"خبردار جو آئندہ مجھے تھپڑ مارا تو حدید بدتمیز،، منہ توڑ دونگی تمہارا میں..."

 اسکے چہرے پر افسوس کے تاثرات ملاحظہ کرکے وہ اسکے سینے پہ دونوں ہاتھوں سے پنچ مارتے ہوئے  پھنکاری اسکے کمزور سے دھکے پر وہ بمشکل ایک قدم پیچھے ہٹتا ہوا تشویش سے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرگیا۔

"میرا تو منہ ہی بگاڑ دیا تم نے ..... اب گھر کیسے جاؤں گی"

فون کے کیمرے میں چہرے پر چھپی اسکی ساری  انگلیاں  دیکھتے ہوئے وہ روہانسی ہوئی تھی آج اس لڑکی نے اپنی محبت کی خوشی کیلیے اپنے جذبات و احساسات کی قربانی دی تھی کیونکہ اسے اپنا دوست محبت سے زیادہ عزیز تھا۔

"چلو اب میرا  منہ کیا دیکھ رہے ہو تمہاری ہی  کارستانی ہے اگر آج میری غلطی نہ ہوتی تو تمہارا سیخ کباب بنوا دیتی انکل سے ،،،، تم سے زیادہ پیار کرتے ہیں  انکل مجھ سے ،،،(ناقابل سماعت الفاظ) "

وہ متانت سے اسکے رخسار کو دیکھتے ہوئے اسکے لب و لہجے پر بےساختہ مسکرایا تھا فاریہ نے بےساختہ لبوں کو ڈھانپا تھا وہ کوٹ درست کرتے ہوئے اسکے ہمراہ گاڑی کی جانب چل دیا۔

"میں نے کوئی گالی نہیں دی تمہیں ٹھیک ہے .... تم اب بھی باوقار شخص ہو"

انگلیوں کو مروڑتے ہوئے وہ جھینپ کر بولی۔

"گالیوں کی تو موصوفہ بچپن سے ہی بہت تیکھی ہیں  اس لئے تو وکالت کا پیشہ اختیار کیا،، مائنڈ نہیں کیا میں نے اگلی بار خیال رکھنا ورنہ ایک اور اعزاز سے نوازتے ہوئے زرا شرم نہیں آئے گی مجھے...."

گاڑی کا گیٹ کھولتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا فاریہ نے آدھ کھلے منہ سے اسے گھورنے پر اکتفاء کیا تھا۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"زاویان،، کتنا مشکل ہوگا انکے لئے جب سوچتی ہوں تو بہت دل دکھتا ہے،،میرے لئے تو  محبت کے دور جانے کا محض تصور ہی قیامت خیز ہے،، ان پر تو بیتی ہے…  کیسے سہہ رہے ہونگے حدید صاحب"

زاویان کی نگاہیں لیپٹاپ سے اٹھی کان سے بھاری ایئرنگ نکال کر آئینے کے سامنے  رکھتے ہوئے وہ  دھیمے لہجے میں ہم کلام تھی اداس نظریں جھکی ہوئی تھی وہ کچھ سوچنے میں محولگتی تھی۔

"آپ نے حدید صاحب کو معاف کرکے بہت مناسب فیصلہ کیا..."

دوسرا ایئرنگ عجلت سے نکالتے ہوئے وہ  زاویان کے ٹھنڈے ہاتھ کو کان کی لو کے قریب پاکر اپنا ہاتھ واپس لیتے ہوئے بولی اسنے نرمی سے  اسکے کان سے ایئرنگ نکالا تھا۔

"میں نے اسکی آنکھوں میں محبت کا تاثر واضح دیکھا تھا لمظ،، اس دن جب سیرت کو بچاتے ہوئے اسے گولی لگی تھی،، ایک انتقام کا بھوکا شخص جذبات سے عاری ہوتا ہے،، مگر اسوقت میری انا اور  عداوت میرے دل و دماغ پرغالب تھی،، مجھے ڈر تھا اگر میں غلط ہوا،،،  ایک غلط تخمینے کی بنا پر میں اپنی بہن کی پوری زندگی برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا،، میرا خیال تھا وہ اسے چھوڑ دیگی،، مگر سیرت بچپن سے ضدی تھی میں بھول بیٹھا تھا،، وہ جس رشتے کو اپنے دل کے قریب کرلیتی تھی اسے  اختتام تک نبھاتی تھی...." 

زاویان کے سرد ہاتھ کو لمظ نے نرمی سے اپنے مومی ہاتھوں میں محفوظ کیا اسکی طلائی آنکھیں جزبات اور شرمندگی سے لبریز تھی،، چہرے پر محض اذیت کی داستان رقم تھی۔

"میرے پاس بابا کی آخری نشانی سیرت تھی لمظ،، جسکی حفاظت میں کوئی کمی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا،، مگر میں نہ ایک اچھا بیٹا بن سکا نہ ہی اچھا بھائی،، میرے پاس واحد ایک رشتہ باقی ہے،، میں اپنی آخری سانس تک تاحیات،، اس رشتے کو سینے سے لگاکر رکھوں گا،،  لمظ…… آپ میری دعاؤں کا ثمر ہیں..."

لمظ کے کندھے پکڑکر اسنے بےساختہ اس نازک سراپے کو اپنے سینے میں بھینچ لیا لمظ نے اسکے سینے پر سر ٹکاکر آنکھیں میچی زاویان کی تیز دھڑکن دھیرے دھیرے متوازن ہونے لگی۔

"یہ تو ہمیں کہنا چاہیے اللہ عزوجل نے ہمارے دل میں محبت پیدا بھی کی تو اس شخص کیلیے جو ہمارا محرم تھا،، جس کی ہمیں خواہش تھی،، کل جو ایک خواب لگتا تھا وہ اب حقیقت ہے،، اپنوں کی محبت کو ترستی لڑکی کی قسمت بدل دی اس پاک ذات نے،، جو شخص ہمیں چاہیے تھا،، وہی شخص ہماری قسمت میں لکھ دیا صرف ہمارا نصیب بناکر"

اسکے قوی ہاتھ کو وہ عقیدت سے چوم کر ہم کلام ہوئی  زاویان نے جھک کر اسکی پیشانی  پر الفت سے لب رکھے اور مزید جھک کر اسکی نیلگوں آنکھوں پر لب رلھے لمظ اسکے نرم عقیدت سے  بھرپور لمس پر اندر تک سرشار ہوئی زاویان نے اسکی کمرپر بازوں کا حصار بناکر اسے اسٹول پر بٹھایا تھا۔

"یہ کیا کررہے ہیں آپ زاویان..."

لمظ نے حیرت سے اسے آئینے کے سامنے سے سنہری برش اٹھاتے ہوئے دیکھا۔

"میں بچپن میں اکثر آپکے بال سلجھایا کرتا تھا،، مجھے کرنے دینگی آج آپ ؟!!.."

سنہری آنکھوں نے نیلگوں آنکھوں میں جھانک کر اجازت طلب کی مسکراتے ہوئے وہ سر دھیرے  سے ہلاگئی اسے انکار کرنا ناممکن تھا بیش بہا عقیدتیں وہ آئے دن اس سادہ نقوش چہرے والی لڑکی پر نچھاور کرکے اسے اپنا اسیر کرچکا تھا ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ بچپن سے اسکی محبت کا اسیر رہا تھا۔

"زاریہ کہاں ہے زاویان یاخدا آپ کے پاس تھی وہ.."

لمظ نے بوکھلاکر اسے دیکھا۔

"اپنے نانا جان کے پاس ہیں وہ قلبی  ریلیکس ……"

وہ متحمل چہرے کیساتھ مبہم سا مسکرایا لمظ نے پرسکون سانس ہوا کے سپرد کیا تھا۔

"زاویان کیا میں انکی کٹنگ کروا دوں مجھے بہت تنگ کرتے ہیں ..."

خشک لبوں کو تر کرکے وہ بجھے لہجے میں بولی نیلگوں آنکھوں نے اسکے چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی کا اندازہ لگا لیا تھا برش آئینے کے سامنے رکھتے ہوئے اسنے مختصر نگاہوں سے آئینے میں اس سراپا محبت کا عکس دیکھا سنہری ریشمی بال کمر سے بہت نیچے جاچکے تھے وہ بےساختہ مسکراگیا۔

"نہیں آپ ایسا کچھ نہیں کرینگی…… "

پینٹ کی پاکٹ میں داہنے ہاتھ کو رکھتے ہوئے اسنے مصنوعی سنجیدگی سے تنبیہ کی۔

"لیکن یہ بار بار الجھ جاتے ہیں میں کیسے...."

لمظ نے تاسف سے لب سکیڑے مگر اسکے عکس کو آئینے میں اپنی جامب بڑھتے دیکھ کر وہ سہم گئی۔

"توپھر آج سے انکو میں سلجھادیا کرونگا قرارِ دل……"

سنہرے بالوں پر ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے اسنے آئینے میں لمظ کے عکس کو مسکراتے ہوئے دیکھا وہ پرجوش سی ہوکر سر اوپر اٹھا گئی زاویان کی پیشانی بےساختہ اسکی پیشانی سے مل چکی تھی۔

"زاریہ کا نوز بالکل آپ پر گیا ہے لمظ،، اتنا چھوٹا سا،، سرخ نوک والا،، دیکھیے ایسا ہی ہے ناں"

زاویان نے ناک کی سرخ نوک کو انگلی سے دبایا تو لمظ نے خفگی سے ہونٹ بھینچے تھے۔

"آپ میرا  مزاق مت اڑائیے ٹھیک ہے… اچھا ہوا آپ پر نہیں گیا اتنا لمبا ہوتا ورنہ"

آنکھیں سکیڑتی وہ سینے پر بازو لپیٹ کر تشویشناک حد تک سنجیدہ ہوئی تھی۔

"کوئی بات نہیں بےبی گرل،، ان شاءاللہ دوسری لمظ اپنے بابا پر ہی جائے گی"

لمظ کے اعصاب ڈھیلے پڑے رخسار سرخی سے تمتماگئے جب اسنے جھک کر اسکے رخساروں کو نرم لبوں سے چھوا ہلکی بیئرڈ کی چبھن  کے احساس پر لمظ کے دل میں تتلیاں اڑنے لگی۔

"آپکو ایک اور بیٹی چاہیے ؟!! بیٹا نہیں چاہئے لیکن کیوں... ؟!!!"

نیلگوں آنکھوں نے طلائی آنکھوں میں  حیرت سے دیکھا۔

"اہممم مصورِ عالم کی بنائی گئی تمام تر تخلیقات میں  میرے دل نے صرف اس لڑکی کو محبت کیلیے چنا ہے اور میں ان نیلی آنکھوں کا دیوانہ ہوں،، اس خوبصورت چہرے کے ایک ایک نقش سے مجھے محبت ہے،، میری زاریہ کے چہرے کے نقوش اس چہرے سے بہت ملتے ہیں…"

 اسکے عشق کی انتہا کا اظہار سن کرنیلگوں آنکھوں میں نمی جھلملائی زاویان کے فون کی رنگ ٹون  نے  ماحول کا سحر توڑا تھا زاویان نے سنجیدگی سے فون اٹھاکر کال منسلک کی آنسوں سے لبریز آنکھوں کیساتھ وہ اسٹول سے اٹھ کر اسکی  مظبوط پشت کا حصہ بنتے ہوئے اسکا بولنا محال کرگئی۔

متزلزل سراپا،،  بگڑا تنفس،، کسرتی جسامت سے لپٹا لرزاں نرم سراپا فون کی دوسری جانب سے آتی آواز سن کر اسنے مٹھی بھینچ کر بمشکل صبر کے پیمانے کو ٹوٹنے سے روکا تھا۔

"زاویان صاحب،، کل کی میٹنگ کچھ وقت کیلیے برخاست کرسکتے ہیں؟!!"

اسنے سرد آہ بھری وہ اب تک اسکی پشت سے سر ٹکائے کھڑی تھی فون کان سے ہٹاکر اسنے اس نادان لڑکی کو کہنی سے کھینچ کر اپنے قریب کیا تھا فون کی دوسری جانب سے مسلسل منت سماجت جاری تھی نیلگوں آنکھیں طلائی آنکھوں میں اترتے خمار کو دیکھ کر  سہم چکی تھی زاویان نے متانت سے ایک قدم کا فاصلہ سمیٹ کر لرزتے عنابی لبوں پر  بدلحاضی سے بھرپور گستاخی کی تھی،، گرم ہتھیلیوں نے اپنی نرماہٹ سے لرزتی  کمر کے ہر زاویے کو سہلاتے ہوئے طمانیت بخشی لمظ کی دھڑکنیں یکلخت تیز ہوئی۔

"زاویان...."

"کوائیٹ..."

بھاری سرگوشی نے اسکی مزاحمت کو ردکردیا تھا زاویان کی  فیروزمندانہ نگاہوں نے عنابی لبوں سے رستے سرخ سیال کو  پسندیدگی سے دیکھا لمظ نے بےساختہ لبوں کو چھوا تو گندمی چہرا شرمندگی سے تمتما اٹھا۔

"زاویان صاحب.... کیا آپ سن رہے ہیں...."

فون کی جانب سے منت سماجت کا سلسلہ ناجانے کب ختم ہوا تھا لمظ کو معنی خیزی سے دیکھتے ہوئے اسنے فون کان سے لگایا تھا ہمہ وقت انگوٹھے سے اپنے نچلے ہونٹ پر لگے سرخ سیال کو نگاہوں کے ارتکاز میں لاکر لمظ کے سرخ اناری چہرے کو مبہم متبسم سے دیکھا جو بیک وقت نگاہوں کا تعلق منقطع کرگئی.

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

رات کے دھندلکے اپنی مخملی کرنوں کی دبیز تہہ میں آنگن کو ملفوف کررہے تھے  موسم سرما کیساتھ بادِ برشگال کے امتزاج نے سماں باندھنے کے علاؤہ ازیں رگوں میں متواتر بہتے لہو کو منجمد کردیا تھا سفید شاہی محل نما حویلی پر گہراسکوت تسلط جمائے بیٹھا تھا وسیع طرز کے ڈائننگ ہال کے بیچ و بیچ آویزاں گراں مایہ فانوس   فرق تنوع  کھانوں کی آرائش کرتے وسیع و عریض ٹیبل پر رنگین کرنیں بکھیررہا تھا سفید سنگ مرر کے برتنوں  کی تیز کھنک  اسے سوچوں کے گرداب سے رہائی دلوانے میں کارآمد ثابت ہوئی  خدمت گار نے ہسکار کر اسے دیکھا جس نے اسے  قیمتی  سنگ مرمر کی پلیٹ ٹوٹ جانے پر جھڑکنے کے بجائے سفید ماربل فرش پر بکھرے سفید کانچ کے ٹکڑوں کو محض اطمینان سے دیکھا وہاب صاحب نے سنجیدگی سے سرد آہ بھری۔

"آپ رہنے دیں .... خادم یہ صاف کروادو"

عمر رسیدہ بوڑھے  باورچی کا ہاتھ جو ٹکڑے سمیٹتے ہوئے اسکے قدموں سے مس ہونے کوتھا نرمی سے تھام کر اسنے پیچھے سرجھکائے کھڑے خادم کو مخاطب کیاجوسر اثبات میں ہلاکر ملازم کو اشارہ کرگیا جسنے لپک کر اسکے سپید پیروں کے قریب بکھرے سفید ٹکڑوں کو چننا شروع کیاتھا عمر رسیدہ بوڑھے نے چند ساعت اسے محض دیکھا،،  یقیناً اسکے  ردعمل کاتعین کرنا چاہتے تھے  اسے دیکھ کر بےساختہ مسکراگئے  اور جاتے وقت دھیمے نرم لہجے میں "مولا آپکی ہردلی مراد پوری کرے "کہاتو بھوری آنکھوں نے مختصر دورانیے کیلیے اس بزرگ کو دیکھا جو بغیر مڑے کچن کی جانب پیش قدمی کرگئے تھے پھر کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا۔

"حدید شاہنواز خان نے مرنے سے پہلے تمہارے خلاف کسی عرش جباری کی موت کی ایف آئی آر درج کروائی تھی،،  کیا تم اس بارے میں جانتے ہو؟!! آئی جی صاحب آئے تھے میرے پاس لیکن میں نے ٹال دیا انکو،، جسکے بعد انہوں نے کچھ دن انویسٹیگیشن کے بعد کیس کلوز کردیا...."

چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے وہاب صاحب کی جانب دیکھ کر اسنے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا۔

"سننے میں آیا تھا شاہنواز  اس دن فیکٹری میں آتشزدگی کے دوران جاں بحق ہوگیا،، کیا تم نے تحقیقات کروائی وہ کہیں چھپ کر نہ بیٹھا ہو ،، لاشوں کی شناخت مشکل تھی جسکا وہ فایدہ اٹھارہا ہو"

وہاب صاحب کے الفاظ سن کر اسنے گہری نظر ثانی کی مگر کسی اور نقطے پر۔

"نہیں،، اسکے بیٹے شمس خانزادہ سے میری ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی لاشوں کی شناخت اسنے خود کی تھی،، بھلا لڑکا ہے باپ کی خصلت سے بالکل الگ ہے،، آج کل خانزادہ انڈسٹری وہی دیکھ رہا ہے... شاہنواز اپنا بزنس  ایک نادان غیر تجربہ کار لڑکے کے حوالے کبھی نہیں کریگا وہ یقیناً مرچکا ہے..."

چائے کا مختصر سپ لیکر وہ گمبھیر لہجے میں بولا وہاب صاحب نے متفق ہوکر سر اثبات میں ہلایا۔

"سنا ہے   شاہنواز خان کی بیٹی بھی اس حادثے میں ہلاک ہوگئی تھی؟!"

 وہاب صاحب کی بات سن کراسنے غیر دلچسپی سے ایک نقطے کو دیکھا تھا خدمت گار ہاتھ میں چند کاغذات لیکر ادب سے  ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تھا سلام کرکے اسنے کاغذات ٹیبل پر اسکے قریب رکھے۔

"جناب یہ کاغذات کی کاپی تفتیشی ٹیم کی جانب سے آپکے حکم پر ارسال کی گئی ہے"

فورک اٹھاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے سر اثبات میں ہلایا تو خادم واپس لوٹ گیا۔

"بس بھی کرو حدید ،، ایسے  مناظر دیکھتے ہوئے تمہیں کراہت نہیں ہوتی"

اسکے ہاتھوں میں حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تصاویر دیکھ کر وہاب صاحب نے فورک پلیٹ میں پٹخ کر بےدلی سے کہا،، انکا کھانا دوبھر ہوچکا تھا۔

"معزرت .....  سائیں آپ شروع کریں،، میں آتا ہوں ..."

اسنے معزرت طلب نگاہوں نے چند ساعت باپ کے پژمردہ چہرے کی نگرانی کی جسکے بعد سنجیدگی سے ہم کلام ہوکر کرسی دھکیلنے کیساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوا وہاب صاحب نے تشویش سے ہاتھ کی مٹھی سے لبوں کو ڈھانپ کر اسے بلدار سیڑھیوں کا طویل سلسلہ عبور کرتے ہوئے دیکھا اور پھر تشویش سے اسکے کھانے کی پلیٹ کی جانب نگاہیں گھمائی وہ کھانے کی پلیٹ پر معقولیت سے دوسری پلیٹ رکھ کرگیاتھا اسکی سلیقہ مندی پر وہ مبہم سا مسکراکر سر دھیرے سے ہلاگئے تھے۔

"جناب.....  باہر "

وہاب صاحب نے کرخت نگاہوں سے خادم کو دیکھا جسکے چہرے کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔

"جناب باہر...."

"باہر کیا ہے خادم،،۔۔۔"

وہاب صاحب نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اٹھے خادم کی پشیماں نگاہوں نے  داخلی دروازے کی جانب دیکھا تب تک وہاب صاحب بھی اٹھ چکے تھے دروازے میں بی جان کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے انکی جانب پیش رفت کرگئے تھے۔

"اسلام و علیکم…… آپ نے اطلاع کیوں نہیں کی میں خود آجاتا آپکو لینے"

وہاب صاحب نے جھک کر ان کی شفقت سمیٹی بی جان کی بےچین نگاہوں نے پورے گھر میں کسی کو تلاش کیا تھا،، وہاب صاحب نے انکی بےقرار نگاہوں کا تاثر جان لیا تھا۔

"حدید اپنے کمرے میں ہے ،، خادم..."

خادم وہاب صاحب کے اشارہ کرنے پر  حواس باختگی کے عالم میں سرہلاکر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب پیش رفت کرگیا وہاب صاحب نے بی جان کو بیٹھنے کی پیشکش کی۔

"میں حدید کو اسکی امانت لوٹانے آئی ہوں آج ......"

وہاب صاحب نے ناسمجھی سے انکو دیکھا جب سیاہ سادہ لباس میں سرجھکائے اسنے دروازے سے اندر قدم اٹھائے تھے وہاب صاحب کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی اور تشویش درآئی تھی دونوں ہاتھوں کو باہم پیوست کئے وہ لڑکی سرجھکائے انکے سامنے شرمندہ کھڑی تھی مگر جب انکی نگاہیں قریب سیاہ گھٹنوں تک آتے فراک میں کھڑی سیاہ آنکھوں والی چھوٹی سی لڑکی پر ٹھہری تو انکی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی اس لڑکی کے چہرے کا ہر ایک نقش حدید رضا جیسا تھا بس سیاہ آنکھوں کا فرق تھا سہمی سیاہ آنکھیں جھجھکتے ہوئے جیسے ہی اٹھی سیڑھیوں پر ساکت رہ گئی۔

سیاہ  آنکھیں جو پچھلے کئی منٹوں سے گھرکی چار دیواری کو بھی دیکھنے سے گریزاں تھی سیڑھیوں کی جانب لاچاری سے اٹھی تین سال کا ایک طویل دورانیہ،، دلِ مضطر  کیساتھ آج اس دیو مـالائی سحر انگیز شخص کو دیکھنے کے بعد امید افزاہ دھڑکنیں تمام عہد توڑکر ایسی بغاوت پر اتری کہ سانسوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے   سرکشی اختیار کرگئی  سفید سادہ سفید شلوار قمیض میں وہ اور کوئی نہیں حدید رضا عسکری تھا

دل کے کسی گوشے میں اسکی قربت میں گزارے لمحات کا احساس ارتعاش برپا کررہا تھا سیاہ  آنکھیں بھیگ رہی تھی اسکے دامن کو بھگورہی تھی اور وہ بےیقینی سے زینہ اترتے ہوئے اپنی متاعِ جاں کو زندہ سلامت دیکھ کر ساکت ہوچکا تھا بھوری آنکھیں جزباتوں سے لبریز تھی ایک دوسرے میں پیوست لب نیم واتھے وہ سیاہ سادہ سے حلیے میں لب بھینچےسرجھکائے اسکے سامنےکھڑی تھی وہاب صاحب کے بھاری قدموں نے تشنہ نگاہوں کا تعلق منقطع کیا وہاب صاحب کا سپاٹ چہرا دیکھ کر قریب سیاہ فراک میں کھڑی لڑکی ماں کے دوپٹے کا پلو مٹھی میں پکڑتے ہوئے اپنی ماں کے وجود میں پناہ لینے کی کوشش کرنے لگی۔

حدید رضا کی نگاہیں بےساختہ اس چھوٹے وجود پر ٹھہری تو دھڑکنیں رک سی گئی  کتنی مشاہبت تھی اس چہرے میں،، فرق تھا تومحض آنکھوں کے رنگ کا جو ماں کی ویران سیاہ آنکھوں سے مشاہبت رکھتی تھی۔

اسنے سیڑھیوں کی ریکنگ کو گہرا سانس لیکر تھاما دل میں خوف سا اترا اگر وہ خواب دیکھ رہا ہو اور ایک لمحے میں اسکی تمام امنگیں اور حسرتیں اگر ہمیشہ کی طرح ٹوٹ کر بکھرجائیں ،، تو وہ ہارا ہوا شخص کہاں جائیگا ؟!!

"کہاں تھی تم اب تک ..... "

وہاب صاحب کا سوال برجستہ تھا وہ اندر تک دہل گئی حدید رضا نے بےتاثر نگاہوں سے سیاہ لباس میں ملبوس نازک سراپے کو لرزتے ہوئے دیکھا تھا،، خوف تھا آج اسکے دل میں نہیں وہ ٹھکرائی نہیں جاسکتی تھی کتنی ہمت یکجاکرکے وہ بی جان کے اصرار پر اپنے بکھرےدل کو سنبھال کر واپس لوٹی تھی۔

"میں..... میں بی جان کے پاس تھی ...."

خشک لب آہستگی سے وا ہوئے حلق ٹوٹے پھوٹے الفاظ اگل کر خشکی سے چٹخ پڑا سیاہ آنکھوں میں نمی کا ایک نیا سلسلہ جھلملا گیا وہاب صاحب کی آنکھوں کے پردے پر بیٹے کے اذیت سے بھرے ماضی کے مناظر ابھرے تھے اسنے  وہ دن کتنی تکلیف میں پل پل گھٹ کر کاٹے تھے  اب بھی اسکے صبر کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ بےحس و حرکت کھڑا اس لڑکی کو دیکھتا جارہا تھا  جو اسکی پرتپش نگاہوں میں ہرگزرتے لمحے کیساتھ شرمندگی کی دبیز تہوں میں دبتی چلی جارہی تھی۔

"تم جب زندہ سلامت تھی تو مرنے کا تماشا کیوں کیا،،اور اب واپس کیوں نہیں آئی ہو"

وہاب صاحب نے ایک تشویش ناک نگاہ بی جان پربھی ڈالی جو حدید رضا کو دیکھتی جارہی تھی جسکی نگاہوں کا واحد محور وہ لڑکی تھی وہ ناجانے کب تک اسے اپنی نگاہوں میں سمو لینے کا خواہاں تھا۔

"مم،، میں ڈرگئی تھی...... "

خشک لبوں کو ترکئے وہ سہم کربولی دل ہزارویں حصے کی رفتار سے دھڑک رہاتھا ابھی اسکے سوالات کے جوابات بھی اسے ہی دینے تھے جو چپی کا لبادہ اوڑھے بےحس و حرکت کھڑا تھا نگاہوں کا وہ مختصر تصادم  ماضی کی ساری حسیں یادوں کی کتاب کا ایک ایک پنا سیاہ آنکھوں کے سامنے کھول کر رکھ چکا تھا۔

"دیکھو اس مرد کی طرف کیا دیکھ سکتی ہوتم،،، اسکے چہرے  کی نقاہت محسوس کرسکتی ہو،، اس  دن صرف تم نہیں مری تھی میرا جوان بیٹا بھی مرگیا تھا اندر سے،، کیا حشر کیا ہے تم نے اسکا دیکھو"

سیرت کی آنکھوں سے ٹوٹتے آنسوں نے ایک لمحے میں چہرا بھگویا تھا وہاب صاحب نے اسے شانے سے پکڑ کر حدید رضا عسکری کے سامنے کھڑا کیا تھا سیرت کا دل اسکا پژمردہ چہرا دیکھ کر پسیج گیا کیا حشر کردیا تھا اسنے اپنی آنکھوں کا،، جونہی اسنے متانت سے نگاہیں اٹھاکر اسکی سیاہ پرنم آنکھوں سے آنکھیں ملائی بھوری آنکھیں جو ہمیشہ الوہی چمک سے منور رہتی تھی تباہ شدہ جنگل کی طرح ویران تھی،جو آگ کی زد میں آکر تباہ و برباد ہوگیا ہو، بڑھی ہوئی بیئرڈ،، نقاہت زدہ چہرا،، سردمہری کی سرخیاں اسکی آنکھوں سمیت چہرے پر رقم تھی سیرت نے برجستگی سے اسکی سرد نگاہوں کی تاب نہ لاکر نگاہوں کا ارتکاز توڑا تھا،، سیاہ آنکھوں سے گرم مائع مسلسل برس رہا تھا۔

"سیرت میرے پاس تھی وحب،،  اس وقت کی نوعیت دیکھو وہ اور کیا کرتی ڈرگئی تھی،، شاہنواز خان اور اشفاق احمد سے سچائی جاننے کے بعد وہ کیا کرتی،، میں نے خود کبھی سیرت کو منع کیا تھا حدید کے پاس رہنے سے،،، خاندانی دشمنی میں وہ پسپا نہیں ہوسکتی تھی.... حدید کو فیصلہ کرنے دو "

بی جان نے گہری خاموشی کے بعد آہستگی سے مداخلت کی۔

" بیشک حدید  بولے بڑی بی،، اسے بولنے دینا چاہئے اسے حق ہے بولنے کا،، مگر اس بےحس لڑکی کو یہ باور کروانا بہت ضروری تھا کہ اسکے جھوٹ نے میرے بیٹے کا کیا حشر کیا ہے،، اسکے قتل کے الزام میں حدید رضا عسکری جیسا باوقار شخص دس دن تک جیل میں پڑا رہا،،،،پوری دنیا میں اسکے حق میں مظاہرے ہوئے لوگ باہر نکلے مگر اس بےحس لڑکی کوپھربھی ترس نہ آیا،، اور آپ نے بھی اس لڑکی کا ساتھ دیا کوئی  حیرت نہیں  آپکی پوتی تھی تو آپ نے طرف داری کرنی تھی،، ٹھیک اسی طرح جیسے آپ نے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کے فیصلے پر طرف داری کی تھی،، پانچ سال تک  میرا بیٹا اس لڑکی کی خاطر خود کو صرف اس لئے جیل میں ذلیل کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اسکی حفاظت نہ کرسکا،، جسکا اس لڑکی نے بھاگ کر صلہ دیا،، اپنے شوہر کو چھوڑو اپنے خاندان تک کو دھوکے میں رکھا،، سب کو ذلیل کردیا"

وہاب صاحب کی درشت خو  لہجے سے زیادہ انکے الفاظ سیرت کو اذیت دے رہے تھے۔

"ان،،انکل....مم..... میری غلطی ہے،، میں ....."

اسنے وضاحت دینی چاہی مگر وہاب صاحب کے چہرے کو دیکھ کر سارے الفاظ ادا ہونے سے قبل بکھرگئے شرمندگی سے اسکی آنکھیں ایک بارپھر برس پڑی۔

"صرف غلطی...؟!! پوری زندگی یہ شخص تمہارے لئے خوار ہوا ہے لڑکی،،تیسرے لوگوں کی چار باتوں پر تم نے وہ سب نظرانداز کردیا جو اسنے تمہارے لئے کیا تھا.... .... کتنا کہا میں نے اسے دوسری شادی کا لیکن نہیں۔۔۔ میری توقع کے برعکس یہ میرے سامنے میرے خلاف ہوجایا کرتا تھا  صرف اس لئے کیونکہ میں تمہیں لڑکی کہتا تھا... مجھے۔۔۔۔ اپنے  باپ کو ٹوکتا تھا کہ  تمہیں لڑکی کہنے کے بجائے  سیرت بلاؤں اور تم.... چھی۔۔۔ میرا دل کر رہا ہے ایک تھپڑ  مارکر تمہارا دماغ ٹھکانےلگادوں۔۔۔۔"

سیرت نے وہاب صاحب کے اٹھتے ہاتھ کو دیکھ کر خوف سے آنکھیں میچی بی جان کی دھڑکن وہاب صاحب کے اٹھتے ہاتھ کو دیکھ کر مدھم پڑگئی مگر ناجانے کیوں انہوں نے کوئی مزاحمت نہ کی سیاہ نم آنکھیں کچھ دیر بعد حیرت سے اوپر اٹھی وہ سر جھکائے  عین وقت پر وہاب صاحب اور سیرت کے بیچ حائل ہوا باپ کے اٹھتے ہاتھ کو بیٹا  کیسے روک سکتا تھا،، وہاب صاحب کا مظبوط ہاتھ اسکے چہرے کے قریب چند انچ کے فاصلے پر کانپ کر رک گیا،، وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کبھی اپنی تابعدار اولاد پر انکا ہاتھ بھی اٹھ سکتا تھا بی جان نے شفقت سے  حدید کا متحمل چہرا دیکھا یقیناً سیرت کو یہاں لیکر آنے کا انکا فیصلہ غلط نہیں تھا۔

وہ اسکے دل کی اندرونی کیفیت سے  واقف ہوچکی تھی،، تین سالوں میں بھی وہ اس لڑکی سے اپنے دل کو بدگمان نہیں کرسکا تھا پوری دنیا جانتی تھی حدید رضا نے دوسری شادی کو ترجیح نہیں دی تھی یقیناً وہ اپنی سیرت کا اسیر تھا وہاب صاحب نے سرد آہ بھرکر ایک قدم پیچھے اٹھایا۔

"اتنا سب ہونے کے بعد بھی تم ،، اس لڑکی کے محافظ بن رہے ہو،، محبت کا رشتہ اعتبار پر قائم ہوتا ہے جو اس لڑکی نے کبھی نہیں کیا تم پر،، رشتے ایک طرف سے نہیں نبھائے جاتے تم نے ہمیشہ وفائیں کی مگر اسنے اعتبار تک نہ کیا اب،، اگر اسے اپناؤ گے تو دنیا کیا کہے گی،، سوچو اسکی خاطر کتنے ذلیل ہوئے ہوتم،، جیل گئے ہو اسکے قتل جیسے گھٹیا الزامات عائد ہوئے تم پر اور یہ پھربھی چھپ کر بیٹھی رہی...."

وہاب صاحب نے کراہت سے سیرت کو دیکھ کر رخ بدلا  بی جان کو صرف حدید رضا کے بولنے کا انتظار تھا،، جسکے چہرے پر سنجیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا وہ متانت سے پیچھے مڑا  سیاہ آنکھوں کیساتھ بھوری نگاہوں کا ارتکاز سنجیدہ نوعیت کاتھا اعصاب زدہ چہرے والی وہ لڑکی  اشکوں سے ڈبڈباتی آنکھوں سے اسکا باعثِ اشتعال  سرخی مائل چہرا دیکھ رہی تھی۔

وہ شخص اسے اجنبی سا لگ رہا تھا،، اسکی چال ڈھال،، دیکھنے کا انداز،، نگاہوں کی سردمہری،، چہرے کی غیرمعمولی سنجیدگی ،، یہاں تک کہ اسکے مسحور کن پرفیوم کی انجان مہک بھی  اس لڑکی کو کسی انجان شخص کے سامنے کھڑے ہونے کی یقین دہانی کروا رہی تھی،، یہ وہ شخص نہیں تھا جسے وہ چھوڑکرگئی تھی۔

گھنگھور گھٹائیں آسمان پر پرپھیلائے دروبستگی سے غالب ہوکر برس پڑی تھی اس محل نما حویلی میں کام کرنے والے حیران و پریشاں کھڑے اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے اور وہ انکی نگاہوں کے حصار میں گھٹتی جارہی تھی بھوری تابناک نگاہیں چند ثانیوں سے اسکے لرزتے سراپے کا قطعی جائزہ لیکر لاتعلق ہوچکی تھی۔

"خادم انکا* سامان کمرے میں رکھوا دو..."

اسکے بولنے کے انداز میں اجنبیت تھی،، اسکی نگاہوں کی نسبت پراسرار تھی سیرت اسکی بےحد بھاری مجتمع آواز سن کر بےساختہ لرز گئی تین سال کے دورانیے میں  اسکی آواز انتہا درجے کی سردمہری اپنے اندر سموچکی تھی وہاب صاحب نے پشیماں نگاہوں سے اسے  بی جان کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔

سیرت نے بےساختہ نگاہیں اسکی سمت اٹھائی حدید رضا نے  اسے کتنی اجنبیت سے پکارا تھا اس نادان لڑکی کا گمان تھا شاید ایک لمبے دورانیے میں دو دلوں کے بیچ کا فاصلہ بھی طویل تر ہوگیا تھا مگر وہ تو ہر رات اسکی یادوں میں تڑپ تڑپ کر مرتا رہا تھا اور ہر نئی صبح کا آغاز اسکی خوبصورت یادوں کے احساس سے کرتا تھا یہ تو محض مختصر سا فاصلہ تھا جس کو سمیٹنے میں اول سعی اسنے خود کرنی تھی۔

"وہ بدل گیا ہے سیرت،، بہت بدل گیا ہے ،،  شکستہ دل ہے مگر جب بھی جاتی ہوں مسکراکر ملتا ہے،،اسکی آنکھیں ویران ہیں میری بچی مگر یہ حقیقت نہیں جھٹلا سکتی ،،، اسنے تم سے سچائی چھپائی مگر اسنے کبھی آنچ بھی نہیں آنے دی تم پر سچے دل سے محبت کی اسنے،، تین سال بہت بڑا عرصہ ہوتا ہےاسے اور سزا مت دو،، آیت تم دونوں کی بیٹی ہے،، اسکا بھی تو حق ہے اپنی بیٹی پر اور دیر مت کرو آج ہی واپس چلو میرے ساتھ،، اپنے رشتے کی ایک نئے سرے سے شروعات کرو..... میں چلوں گی تمہارے ساتھ "

بی جان کے الفاظ اسکی سماعت میں پڑے تو اسنے صبر کا مظاہرہ کیا، جو کچھ اسنے بگاڑا تھا وہ اسے سنوارنے کیلیے ہی تو لوٹی تھی،، اسکی بےرخی کیا وہ تو سب کچھ سہہ لینا چاہتی تھی۔

"بیٹا رشتوں کی ڈوریاں بہت باریک ہوتی ہیں لیکن دلوں کو بہت مظبوطی سے جوڑے رکھتی ہیں،، غلطیاں ہوجاتی ہیں،، تم سے بھی ہوئی تھی سیرت سے بھی ہوئی ،، اب بیٹی ہے تمہاری،، جوبھی فیصلہ کرو اسکے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچنا،،  میں زاویان سے ملنے جارہی ہوں،،، خیال رکھنا.... رکھوگے بیٹا؟!"

بی جان نے اسکے وجیہ مظبوط ہاتھوں کو اپنے کمزور ہاتھوں میں تھامے شفقت سے پوچھا اسنے متانت سے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا تھا وہاب صاحب وہاں سے واک آؤٹ کرگئے دل ملال سے بھاری تھا آخر کیسے معاف کر دیتے اس لڑکی کو جسکے رنج میں اپنے بیٹے کو اذیت میں دن کاٹتے ہوئے صرف انہوں نے دیکھا تھا خادم سامان سمیت سیڑھیاں عبور کرگیا۔

"نام کیا ہے آپکا....."

 سیرت نے پلٹ کر اسے  ایزا  نگاہوں سے دیکھا جو ایک گھنٹہ ٹکاکر نیچے بیٹھتے ہوئے سیاہ آنکھوں والی چھوٹی لڑکی کی پیشانی پر لب رکھ کر اسے سینے پر بھینچے دھیمے لہجے میں کچھ پوچھ رہا تھا کتنا دردناک منظر تھا،، سیرت سمیت بی جان کی آنکھیں پانی سے لباب ہوگئی،، ایک باپ اپنی بیٹی سے اسکا نام پوچھ رہا تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا سیرت نے سرد آہ بھرکر نگاہیں جھکائی یقیناً اسنے ایک باپ کو اسکی بیٹی سے الگ رکھ کر دونوں کیساتھ بہت بڑی زیادتی کی تھی،،  سوچ کر  سیرت کے دل میں درد کی ٹھیس اٹھی   جواباً وہ چھوٹی لڑکی زرا ہچکچائی تھی گھٹنوں تک آتے سیاہ فراک میں لمبے سنہری بالوں والی لڑکی نے اسکی چوڑی پشت پر کمزور بازوں کا حصار بنایا تھا اپنی چوڑی پشت پر نرم چھوٹے ہاتھوں کا مخملی لمس پاکر حدید رضا کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی سرخ نوکدار ناک،، عنابی لب،، گداز گلابی گال،، گھنی خمدار پلکیں تو اسکی ہوبہو حدید  جیسی تھی  لمبے بالوں کی کٹنگ کچھ ایسی کہ پیشانی اور بھونیں سنہرے بالوں کی تہہ میں چھپی ہوئی تھی۔

"آیت....."

بالوں میں لگا گلابی ہیئر بینڈ درست کرتے ہوئے وہ اسکے مسکرا جانے پر دھیمی سی مسکرا کر بولی گہرا پرسکون سانس فضا کے سپرد کرکے وہ  اسکی چھوٹی سی ہتھیلی چومتے ہوئے اٹھا  وہ تو اپنی بیٹی کے منہ سے ایک لفظ سننے کیلیے بھی ترس گیا تھا سیرت کی محزن نگاہوں نے اسے آیت کا ہاتھ نرمی سے چھوڑکر خادم کیساتھ باہر جاتے ہوئے دیکھا سیاہ آنکھوں میں اسے دور جاتے دیکھ کر مخاطب کرنے کی حسرت  دم توڑگئی تھی بی جان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو سیرت نے لب بھینچ کرسر نفی میں ہلایا  آج اس کے دل پر گہری ٹھیس پہنچی تھی اسکی بےرخی سے،، جو پچھلے تین سالوں سے اس لڑکی کی بےرخی پر لمحہ لمحہ تڑپا تھا۔

"دادو،، مجھے بھیا سے ملنا ہے.... مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں"

سیرت کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر وہ مہر آمیز نگاہوں کیساتھ مسکرائی، انہوں نے اب تک اسے اسکی ماں کی موت کی خبر سے آگاہ نہیں کیا تھا شاید وہ بکھری ہوئی لڑکی ایک بار پھر ٹوٹ کر بکھرجاتی۔

"آج شام انس اور ریحم کی مہندی ہے بیٹا،، تقریب میں آرام سے مل لینا میں نے زاویان کو آنے کی اطلاع کردی تھی،، جاؤ اور جو سمجھایا تھا اس پر غور کرو میری جان.... اور اس شرارتی لڑکی کا خیال رکھنا"

آیت نے بھونیں سکیڑ کر بی جان کو دیکھا جو اسکے تیکھے نقوش چہرے پر ناراضگی کا بغور جائزہ لیکر مسکراگئی۔

" کیا آج آپ،،، آپ نے بھیا کو میرا بھی بتا دیا کہ میں ٹھیک ہوں اور آپکے ساتھ ہوں ؟!!!"

سیرت کے چہرے پر حیرت کیساتھ مسرت بھی تھی آج وہ اپنے رشتوں کی جانب جو واپس لوٹی تھی بی جان نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا اور سیرت کو دعائیں دیکر رخصت ہوگئی۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

ماضی:

"میرال،،  وہاں،، وہاں آگ لگی ہے سیرت،، میں نے کہا تھا تم سے کچھ برا ہوا ہے... فون نہیں اٹھارہی تھی وہ میرا،،، کچھ کرو ڈیم اٹ ،، سیرت اندر ہے میر ڈو سمتھنگ......"

گاڑی کا فرنٹ گیٹ کھول کر باہر نکلتی روز نے بدحواسی سے کہا میرال نے فون پر فائر بریگیڈ ٹیم کو سرعت سے اطلاع کرنے کے بعد تیزی سے بلڈنگ کی جانب پیش قدمی کی تھی وہ سائبر سکیورٹی میں کام کرتا تھا اور اسوقت ڈارک ویب مافیاز کا کیس ہینڈل کرنے کیلیے وہ بیلفاسٹ آیا تھا اسے سیرت سے چند اہم معلومات کی فراہمی یقینی بنانی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھارہی تھی اس لئے وہ اسے ٹریس کرکے یہاں تک پہنچا تھا۔

"روز پکڑو اسے،، اور کچھ بھی ہو جائے تم اندر نہیں آؤ گی"

روز نبدحواسی سے اسکے ہاتھوں سے فون اور والٹ کو تھامتے ہوئے ٹھٹھکی۔

"تتت،،،تم اندر نہیں جاؤ میں کیا کرونگی ،،، اندر آگ لگی ہے تمہارا دماغ تو درست ہے"

میرال نے سرد آہ بھرکر اسے دیکھا اور اسکے لرزتے ہاتھوں کو اپنے بازو سے آہستگی سے ہٹایا۔

"اگر سیرت اندر ہوئی تو میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا،، اگر میری کوئی بڑی بہن ہوتی تو یقیناً سیرت  ہوتی،،  میں اسکے احسان تلے دبا ہوا ہوں روز اکیلا نہیں چھوڑ سکتا میں اسے"

روز نے تاسف سے اسے جلتی ہوئی بلڈنگ میں جاتے دیکھا تھا یونیورسٹی کے مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے وہ خوبصورت دور کہاں چلا گیا تھا جب وہ لوگ کیفے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی خامیاں نکال نکال کر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچا کرتے تھے روز کی آنکھیں بھیگ رہی تھی۔

"اللہ پاک پلیز میر اور سیرت صحیح سلامت لوٹ آئیں،، بہت کم دوست رہ گئے ہیں میرے پاس"

دونوں ہاتھوں کو باہم جوڑے وہ اللہ پاک سے التجا کررہی تھی فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے الارم نے اسے چونکایا تھا وہ بدحواسی سے انکے انچارج کی جانب لپکی تھی۔

"پلیز۔۔۔ میرے دوست اندر ہیں .... جلدی کریں"

اسے تسلی دیکر وہ لوگ اس حصے کی آتشزدگی پر قابو پانے لگے جس طرف میرال کے جانے کی اطلاع روز نے انکو دی تھی  زہریلے دھویں سے کھانستے ہوئے وہ کسی کونے میں آگ کے شعلوں کو ایک ساکت وجود کی جانب لپکتے دیکھ کر تیزی سے اس سمت دوڑا تھا اپنی سیاہ جیکٹ سے اسنے اس وجود کو احتیاط سے ڈھانپا

"رر،،،رضا۔۔۔۔ تت.... تم آگئے..."

نیم غنودگی کے عالم میں  واقف کار ہلکی مہک اسکی الجھی سانسوں میں پڑی تو وہ دھیمے لہجے میں بولی میرال نے آس پاس  بغور جائزہ لیتے ہوئے اسے فرش سے اٹھایا تھا آگ کا ایک مرغولہ کھڑکی سے اندر آتے ہوا کے تیز جھکڑ کیساتھ اسکے ہاتھوں کو جلا چکا تھا گرمی کی شدت سے وہ اسکا چہرا سرخ تھا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا بلڈنگ کے خارجی دروازے پر پہنچ کر اسنے ایک پرسکون سانس لیا تھا اس حصے کی آگ بجھائی جاچکی تھی  تھکے ماندے  چہرے کیساتھ وہ باہر نکلا روز نے سراسیمگی کی کیفیت میں دونوں کو گلے لگایا تھا۔

فوری طبی امداد کیلئے بریگیڈ ٹیم کا سکواڈ انکے پاس آیا تھا وہ بری طرح کھانس رہا تھا مگر اسے بچاکر واپس لانے پر اتنا ہی خوش تھا وہ سانس لے رہی تھی وہ پرسکون ہوکر گاڑی کے ہوڈ سے پشت ٹکائے نیچے بیٹھا تھا۔

"دوست نہیں بڑی بہن ہوں میں تمہاری سمجھے تم اور تمہاری سینیئر بھی ہوں اس لئے جیسا کہتی ہوں ویسا کرو نکمے پن کا مظاہرہ مت کرو سیرت رضوی کے بھائی ہو تم جاؤ ان شاءاللہ پیپر اچھا ہوگا تمہارا...."

 یونیورسٹی کے دور کی ایک یاد اسکے دماغ کے پردے پر ابھری جب وہ مایوس ہوکر اکزیم ہال کے باہر بیٹھا تھا اور وہ اسکا حوصلہ بڑھارہی تھی تو اسکی آنکھیں نم ہوئی  قریب بیٹھی روز نے اسے سیرت کی جانب دیکھنے کے دوران آنسوں بہاتے دیکھا تواسکے کندھے کو نرمی سے ہلایا سر دھیرے سے نفی میں ہلاکر اسنے پرسکون سانس لیا تھا اور اٹھ کر فائر بریگیڈ کے انچارج کے پاس آیا تھا۔

"میں سی-ایس سکواڈ سے ہوں،، ایک کیس کی تحقیقات کیلیے یہاں آیا تھا یہ میری بہن ہے اس لئے اگر آپ یہاں آگ لگنے کی وجوہات پر انویسٹیگیشن کریں تو ہمارا تذکرہ نہں آنا چاہیے،، میں اپنی فیملی ریویل نہیں کرسکتا،،،مجھے انویسٹیگیشن میں  کوئی  رسک  نہیں چاہئے، نہ ہی اپنا نام یا اپنی بہن کا نام نیوز پیپر میں دیکھنا چاہتا ہوں.... اس لئے آپ اس  واقعے کا زکر اپنی انویسٹیگیشن میں نہیں کرینگے،، اگر آپکو کوئی خدشات ہیں تو میں پرسنلی آکر آپ سے ملاقات کرلوں گا،، لیکن سردبار نہیں..."

پینٹ کی پاکٹ سے اپنا کارڈ نکال کر اسنے انچارج کی جانب بڑھایا جس نے اسکے چہرے کا بغور مشاہدہ کرکے سرعت سے کارڈ تھاما اسنے یہ قدم سیرت کیلیے اٹھایا تھا وہ ہمیشہ تو ایک دوسرے کے ٹریکس کوور کرتے تھے اگر زاویان کو اس حادثے کی خبر ملتی تو یقیناً وہ سیرت کو گھر بٹھا دینے میں دیر نہ کرتا انچارج نے اسے کارڈ لوٹا کر اسکے ہاتھ کو احترام اور گرمجوشی سے تھام کر سر ہلایا تھا اسکے بعد  وہ سیرت کو روز کیساتھ اپنے گھر لے گیا تھا ۔

▪️         ▪️          ▪️          ▪️       ▪️         ▪️

"مادام سائیں گاڑی میں انتظار کررہے ہیں آپکا...."

خادم نے دروازے پر ہلکی سی دستک دیکر احترام سے کہا قدرآور آئینے میں اپنا بےدلی سے جائزہ لیتی سیاہ اداس آنکھیں بوکھلا گئی ہڑبڑی میں اسنے کاؤچ سے اپنا کلچ بیگ اٹھایا اور سنہری رنگ ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے آیت کا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر نکلی دونوں ماں  بیٹی نے ہم رنگ لباس زیب تن کیا تھا۔

"میمی....... بابا کے پاس..."

سیرت نے  آیت کو دیکھ کر سرد آہ بھری خادم نے بھی خلافِ توقع بلیک بی-ایم-ڈبلیو کا بیک سیٹ گیٹ کھولا تھا بھوری آنکھیں فون کی اسکرین میں جگمگا رہی تھی وائٹ بےشکن شرٹ پر سیاہ کوٹ اور ہم رنگ پینٹ اور بلیک چمکتے لافرز میں وہ  گاڑی کی جانب بڑھتی لڑکی کی رواں دھڑکنوں میں وقفے کا سبب بنا خادم کے جھکے سرپر ترس کھاکر وہ حلق میں پھنسے مزاحمتی جملے نگل کر بیک سیٹ پر اس سے مناسب فاصلے پر بیٹھی  کلائیو کرسچن کلون کی مہک سے معطر گاڑی میں بھینی بھینی یاسمیں کے پھولوں کے امتزاج نے سماں باندھ دیا حدید رضا کی متحمل سانسوں میں  گھلتی گداز بھینی مہک نے دل کو لبھالیا تھا اسنے فون سے نگاہیں بےساختہ اٹھائی سنہری ساڑھی میں  وہ سراپا حشر مدھم سنہری روشنی میں نہائی ہوئی حسینہ اسکی نگاہوں کے مختصر مشاہدے سے امر ہوگئی،، آیت نے دلچسپی سے اسکے ہاتھ سے گولڈن کیسنگ والا فون کھینچا تھا اور مسکراتے ہوئے گیم اوپن کی سیرت نے نظروں کا رخ بدل کر شرمندگی سے لب کاٹے وہ لڑکی بالکل اپنی ماں کی طرح ضدی تھی مگر اسکا ردعمل سیرت کی توقع کے برعکس تھا وہ آیت کی جانب دیکھ کر مبہم سا مسکرایا تھا جو اسکے قیمتی فون کا پوسٹ مارٹم بڑی دلچسپی سے کررہی تھی۔

سفر خاموشی میں کٹ رہا تھا باپ بیٹی نے مل کر سیرت کو سرے سے نظر انداز کیا تھا جس پر وہ اندر تک سلگی ہوئی تھی،، آیت یہاں آکر باپ کے ملتے ہی ماں کو کیسے بھلا سکتی تھی سوچ کر ہی وہ کلس اٹھی۔

" بڑے سائیں سامنے میڈیا ہے،،،کیونکہ آج آپکی شرکت متوقع تھی "

خادم نے تشویش سے سامنے صحافیوں اور  کیمرہ مین کے رش کو دیکھا تقلید میں چلتی سیکیورٹی اہلکار کی گاڑیاں بھی رک چکی تھی سیرت نے گھبراتے ہوئے ساڑھی کے پلو کو مٹھی میں دبایا وہ ان نتائج کا سامنا کبھی نہیں کرسکتی جو اسنے خود تخلیق دیئے تھے جن کا اس شخص نے تنہا تین سال سامنا کیا تھا سیکیورٹی اہلکار نے اسکے راستے میں حائل ہوتے میڈیا کے ہجوم کو ریڈ لائن تک محدود رکھا سیرت کا دل حلق میں دھڑک رہا تھا کیا وہ یہاں بھی اسے میڈیا کے سوالات کیلیے اکیلا چھوڑ کر چلا جائیگا سوچ کر ہی سیرت کے ہاتھ پیر پھولے وہ  باوقار طریقے سے گاڑی سے اترا سیرت کی آنکھوں میں نمی جھلملائی وہ ساڑھی کا پلو مٹھی میں پکڑے اب تک گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی،،، باہر نکلنے کی ہمت نہیں تھی کیمروں کی فلیش لائٹس اس وجاہت کے شہنشاہ پر   وقفے وقفے سے چمک رہی تھی سیرت کے دل نے ایک بیٹ مس کی جب اسنے گارڈ کو ہٹنے کا اشارہ کرکے ایک ہاتھ سے گاڑی کے گیٹ کو بند ہونے سے روکتے ہوئے دوسرا ہاتھ سیرت کی جانب بڑھایا۔

وہ اسکی وفاؤں پد شائد مرمٹ جاتی تو پھر بھی کم  تھا اسکی  مستحکم ہتھیلی نے لرزتی مخروطی انگلیوں کو محفوظ کرکے اسے گاڑی سے نکالا تھا دیکھنے والے حیران تھے وہ لڑکی زندہ سلامت تھی اور  حیرت کی بات وہ اب  بھی اسکے ساتھ تھی،،، انگشت شہادت تھام کر قریب  مسکراتی چھوٹی لڑکی اپنے بابا کو دیکھ کر مسکرائی تھی  سیرت کی چال میں واضح  تامل  تھا میڈیا کے سوالات سیرت کے کانوں میں بھی سنائی پڑرہے تھے مگر اسکی قوی انگلیوں نے ٹھنڈے کپکپاتے ہاتھ کو حرارت کیساتھ اعتقاد بھی بخشا تھا آج وہ ایک بار پھر اس پر دل ہار چکی تھی وہ ریڈ کارپٹ پر مخاطب کرتے نامور نفوس کو مختصر جنبشِ نگاہ سے التفات دیتے ہوئے جلد از جلد اس سہمی ہوئی لڑکی کو ان  جانچتی نگاہوں سے دور لیجانا چاہتا تھا۔

اسٹیج کی جانب بڑھتے ہوئے سیرت کو  اسکے ہاتھ کی ڈھیلی پڑتی گرفت کا احساس ہوا تو دل نے کرب سے چیخ کر اسے روکنے کا مطالبہ کیا سامنے سے مخاطب کرتے زاویان کو دیکھ کر اسنے سیرت کا ہاتھ چھوڑ دیا اور پیچھے قدم اٹھائے مگر سیرت نے بےبسی سے اسکے مظبوط بازو کو تھاما تھا سیاہ نمی سے جھلمل کرتی آنکھوں نے اسے چند ساعت اور ٹھہرنے کی التجاء کی اور وہ اسیرِ عشق وہاں بھی  اپنی ناراضگی بالائے طاق رکھ گیا۔

زاویان کی آنکھوں میں نمی تھی وہ کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑا بےیقینی اور محبت سے اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جو شرمندگی سے ہر ایک سے نظریں بچائے سر جھکائے  کھڑی تھی وہ  یقیناً زاویان کی ناراضگی سےخوفزدہ تھی زاویان سے اسنے گرمجوشی سے مصافحہ کیا تو سیرت نے حیرت و استعجاب سے دونوں کو دیکھا تھا۔

"زاویان،،بھیا....مم..مجھے معاف....کردیں"

زاویان نے اسے عقیدت سے سینے میں بھینچا تو سیاہ آنکھوں میں  سنگ راہ آنسوں سرخی مائل رخساروں پر ڈھلک پڑے زاویان نے اسکی پیشانی کو جھک کر محبت سے چھوا مگر وہ بھائی کے سینے سے لپٹی اب تک رورہی تھی لمظ کی آنکھوں میں نمی تھی مگروہ مسکرا رہی تھی سیرت اپنوں میں لوٹ آئی تھی سب اسے محبت سے مخاطب کررہے تھے اور وہ نم آنکھوں والی لڑکی سب سے مل رہی تھی۔

"اللہ پاک نے آپکو آپکے صبر کا ثمر دے دیا بھائی  اور آپکو  وہ رحمت بھی عطاکردی جسکا وعدہ  کیا تھا ....."

لمظ نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کیا قریب کھڑا موکل سر جھکائے لمظ کے مخاطب کرنے پر  وہاں سے ہٹ چکا تھا وہ سنجیدگی سے پیچھے پلٹ گیا زاریہ رضوی نے اپنے پسندیدہ شخص کی جانب الفت سے بازؤں پھیلائے تھے اسنے فون پاکٹ میں رکھ کر محبت سے اس نیلی آنکھوں والی چھوٹی لڑکی کو تھاما تھا۔

"پوچھنے کی  ضرورت تونہیں ہے مگر کیا آپ خوش ہیں ....."

لمظ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا اسنے سنجیدگی سے ایک نقطے کو دیکھا تھا لمظ نے اسکی بےسکونی کا اندازہ لگالیا تھا اسکا سپاٹ چہرا دیکھ کر لمظ کو نئے خدشات لاحق ہورہے تھے کیا وہ اسے قبول کرنے سے انکاری تھا یاپھر وہ تنہائی پسند شخص تنہائیوں کا زہر اپنے اندر انڈیلتے انڈیلتے کٹھور ہوگیا تھا۔

"میں تین سالوں سے اس گمان میں تھا کہ وہ کبھی لوٹ کرنہیں آئیں گی،،، بہت صبر کے بعد آخرکارتنہائی کا قائل ہوا تھا،،، سوچتا تھا انکو مجھ سے دور کیا گیا ہے مگر وہ خود دور ہوئی تھی مجھ سے ..."

اسکی بھاری آواز لمظ کو اسکے خدشات سے حقیقت میں پٹخ چکی تھی آج وہ گھبرا رہی تھی اسکا دل گھبرا رہا تھا اسکی باتیں سن کر وہ اس تکلیف کو محسوس کررہی تھی جو اس پر بیتی تھی۔

"آپ ایسا مت سوچیں بھائی،، انکو بدگمان کیا گیا تھا آپ ایسا مت سوچیں خدارا"

وہ  لمظ کی  وضاحت پربےساختہ  زخمی سا مسکرایا نگاہیں اب بھی ایک نقطے پر منجمد تھی۔

"ہمارے رشتے کی بنیاد جھوٹ تھا،،، اپنے جھوٹ کی وجہ سے میں انکا اعتماد حاصل نہ کرسکا،، اب جاکر اندازہ ہوا ایک جھوٹ کیلیے آپکو ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں،، جھوٹ سے قرب حاصل نہیں کیا جاسکتا،، رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوجاتا ہے،،،  ،،، میں نے جھوٹ بولا جس پر شرمندہ ہوں،،، مگر انکو انکے حق سے کبھی محروم نہیں رکھا اور انہوں نے بدلے میں میری بیٹی کو تین سال تک مجھ سے جدا رکھا،،  میں اسکا بچپن تک نہ دیکھ سکا،،اگرمیں نے جھوٹ بولا تھا تو اسکا خمیازہ بھگت چکا ہوں،،، "

اسنے مختصر وقفہ لیا مگر لمظ کا ذہن اسکے الفاظ سن کر ماؤف ہورہا تھا۔

" میں نے تب بھی ہرممکن کوشش کی تھی،،، رشتہ دونوں جانب سے نبھایا جاتا ہے،، کاش ایک  بار وہ مجھ پر اعتماد کرلیتی،،، مجھے سن لیتی تو آج اتنا سب  ہونےسے روکا جاسکتا تھا،، اگر میں نے جھوٹ بولا تھا تو انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،،، اب مختصر یہ کہ میں اس یک طرفہ رشتے کو نبھاتے ہوئے تھک چکا ہوں، ،،بکھرنے دیں جو بکھررہا ہے ایک حد ہوتی ہے سنبھالنے کی،،، میرے جزبات انکے جھوٹ  سن کر مرچکے ہیں شاید،،،" لمظ نے صدمے سے زاریہ کو تھامتے ہوئے اسے دیکھا تھا.

وسیع  جدید طرز کے کمرے میں اسوقت  جان لیوا خاموشی  تھی سفید  رنگ کا بیش قیمت فرنیچر کمرے کی دیواروں سمیت گھپ اندھیرے  کی دبیز تہہ میں لپٹا ہوا تھا کمرے کے بیچ میں لگے فانوس کو  روشنی کی شعائیں خارج کرنے سے ممانعت کی گئی تھی سفید کاؤچ  دھیرے دھیرے کانپتے ہوئے وجود کا پشت پناہ تھا وقفے وقفے سے کمرے میں گھٹی گھٹی سسکیوں کی آواز  ابھرتی  جو سناٹے کی ٹھوس گرفت میں دم توڑ جاتی،،، کھڑکی سے اندر آتے یخ بستہ ہوا کے جھکڑ بڑی سنگدلی سے اس غموں سے نڈھال نازک وجود پر  ضرب لگارہے تھے سیاہ آنکھوں سے برستا گرم رقیق  تیکھے نقوش چہرے کو کثرت سے بھگورہا تھا آنکھوں کے سامنے کچھ دیر قبل وقوع پذیر ہوتے لمحات نرت رہے تھے.

انس پچھلے بیس منٹوں سے سیرت کو اپنی شادی تک ساتھ رکنے کی پیشکش کررہا تھا مگر سیرت انکاری تھی لمظ اور زاویان صوفے کے قریب کھڑے مسکرا رہے تھے آج فیملی مکمل لگ رہی تھی مگر کچھ دیربعد ادھورے پن کا احساس ہوا تو سیرت کا دل بےچین سا ہوا سیاہ متلاشی نگاہوں نے لوگوں کے ہجوم میں اپنی ماں کو تلاش کرنا چاہا۔

"بھیا....... امی کہاں ہیں،،،....؟!!"

 سیرت زاویان کے روبرو ہوئی لمظ نے سردھیرے سے نفی میں ہلاکر زاویان کو حقیقت بتانے کا روکا تھا آخروہ کب تک چھپا سکتا تھا سوچ کر ہی وہ سرد آہ بھرگیا۔

"امی نہیں ہیں سیرت....."

"کیا مطلب بھیا....وہ کہاں ہیں۔۔وہ"

سیرت نے ناسمجھی سے زاویان کی جانب دیکھا۔

"میں بتاتا ہوں لیکن آپ میری بات تحمل سے سنیں گی...."

زاویان نے نرمی سے سیرت کی کہنی کو تھام کر پوچھا سیرت کی سیاہ آنکھوں نے براہ راست زاویان کو دیکھا تو ہمت یکجاکرتے ہوئے وہ لمحے کیلیے ٹھہرگیا۔

"بھیا،،، کہاں ہیں امی.... آپ بتا کیوں نہیں رہے..."

اب کی بار اسنے زاویان کے ہاتھ کو پکڑا آواز میں بےچینی اور خوف تھا۔

"سیرت انکو ہارٹ اٹیک ہوا تھا،،، وہ اب میرے رب کریم کے پاس ہیں"

زوہیب صاحب نے اسے شانوں سے تھام کر نرمی سے کہہ کر زاویان کی مشکل تو آسان کردی مگر اس قیامت کا کیا جو سیرت پر ٹوٹی تھی،،، صدمے کے سبب وہ حرکت نہ کرپائی۔

"ااامی،،،، یہ نہیں ہوسکتا ابھی،،، مزاق کررہے ہیں آپ  ماموں ،،، ابھی تو میں نے انکو گلے لگانا تھا،،،،"

وہ نڈھال ہوکر قریبی صوفے کو تھامے بولی سیاہ آنکھوں میں ساکت آنسوں روانی سے رخساروں پر پھسلے۔زاویان نے سیرت کے لرزتے کندھوں کو ہمدردی سے تھاما مگر سیرت نے سراسیمگی سے اسکے ہاتھ کو

 ہٹادیا انس اور ریحم کو ہمدردی سے دیکھ کر وہ اسٹیج سے تیزی سے اتری تھی،،، وہ یہاں دل کا غبار نکال کر

 انکے خاص دن پر انکویوں افسردہ تونہیں کرسکتی تھی ..... ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ  کوریڈور میں داخل ہوگئی تھی  اسکی آنکھوں سے برستا گرم مائع کسی عزیز کے سپید ہاتھ کی پشت پر گرا تھا۔

تیز بارش کیساتھ یخ بستہ ہواؤں نے سردی کی شدت میں اضافہ کردیا تھا کھڑکی تیز ہواؤں کی ضربوں پر بار بار دیوار سے ٹکرا کر مزاحمت کررہی تھی  تھوڑی مہلت کے بعد تند و تیز ہوا کھڑکی کے سامنے لگے سفید ریشمی پردوں پر بےرحم سے  وار کرتی جو بارش کی  ٹھنڈی پھنوار سے اس   ستم رسیدہ وجود کو  تحفظ فراہم کرنے میں  ناقص ثابت ہورہے تھے۔

"کیووووں .... اللہ پاک اس یتیم لڑکی سے آپ نے ماں بھی چھین لی،،، کیا باقی رہ گیا ہے میرے پاس،،، پوری زندگی  انکی محبت کو ترستی رہی،،، تھوڑی مہلت تو دی ہوتی مجھے،،،انکی گود میں سر رکھنے کی ایک بدقسمت لڑکی کی.... حسرت محض حسرت ہی رہ گئی،،، "

 ریشمی بال آنسوں سے تر چہرے سے چپک رہے تھے سیاہ آنکھوں میں لگا کاجل آنسوں کیساتھ اسکے رخساروں پر بہہ رہا تھا بلڈ پریشر ہائی ہوچکا تھا ہاتھ پیر برف کی مانند ٹھنڈے پڑچکے تھے مگر آنسوں تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے سیاہ آنکھوں میں سرخیاں پھیلنے لگی وہ مسلسل بےدردی سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے آنسوں کو روکنے کی کوشش کررہی تھی ہر گزرتا لمحہ اسکی اذیت میں محض اضافہ کررہا تھا بیڈ پر بلینکٹ میں  ملفوف  چھوٹے سے وجود نے سستی سے کسمسا کر کروٹ بدلی تھی گھٹنوں میں سر رکھتے ہوئے سیرت نے آنکھوں میں جلن محسوس کرکے الجھن سے آنکھیں میچی،،، مسلسل تین گھنٹے روکر بھی دل کا بوجھ ہلکا نہیں ہواتھا۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

رات گیارہ بجے وہ اہم سیاسی کانفرنس سے خطاب کرکے حویلی لوٹ آیا تھا سیکیورٹی اہلکار نے عجلت سے بی ایم ڈبلیو کے پچھلے گیٹ کو کھولا جبکہ دوسرے نے لپک کرچھاتا کھولا البتہ تیز ہوا کے باعث بارش کی  تیز پھنوار اسکے پورچ سے ملحقہ سیڑھیوں تک رسائی کرنے کے دوران اسے قیمتی لباس سمیت مرطوب کرچکی تھی مختصر تشویش بھری نگاہ سے اپنا بغور مشاہدہ کرکے وہ  دھیرج کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظبوط کلائی پر بندھی سیاہ رولیکس واچ پر ٹائم دیکھ کر ڈائننگ ہال کی ٹیبل پر خادم کو کھانا لگواتے دیکھ کر رک گیا۔

"سائیں کھانا لگ چکا۔۔۔۔۔۔"

خادم  نے توقیر سے اسے مخاطب کیا مگر اسکے عمدہ جیل سے بٹھائے بالوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتا بارش کا پانی دیکھ کر مجبوراً لب بھینچ کر دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر سر دھیرے سے ہلاکر ملازم کو ٹھہرنے کا اشارہ کرگیا۔

"میرے کمرے میں بھجوا دو۔۔۔"

دستور العمل لہجے میں حکم صادر کرکے اسنے سیڑھیوں کی جانب پیش قدمی کی۔

"سائیں،، خانم(بیگم) صاحبہ نے کھانا نہیں کھایا"

بلدار سیڑھیوں کی ریکنگ تھامتے ہوئے وہ رکا اور خادم کو کٹھن نگاہوں سے چند ساعت دیکھا اسکی تند خو نگاہوں سے بوکھلاکر خادم نے پشت پر دونوں ہاتھوں کو باہم جوڑے انگلیوں کو کچلنے میں غنیمت جانی۔

"کیوں نہیں کھایا..... ؟!!"

"سائیں خانم صاحبہ جب سے آئی ہیں خودکو کمرے میں بندکررکھا ہے کھانا کھانے سے بھی انکار کردیا"

خادم نے  جھجھکتے ہوئے آگاہ کیا دمکتی پیشانی پر کئی لکیروں میں خطِ جبین ابھری خادم کو سیرت کے کمرے میں کھانا بھجوانے کا حکم جاری کرکے کوٹ کی جیب میں چنگھاڑتے فون کو نکال کر کال منسلک کرکے وہ سنجیدگی سے سنتا ہوا اپنے کمرے کی جانب پیش رفت کرگیا خادم نے لاچاری سے ملازمہ کو سیرت کے دروازے پر دستک دینے کا اشارہ کیا کاؤچ کے سہارے اٹھتے ہوئے وہ بوجھل قدموں سے دروازے تک آئی

"مجھے بھوک نہیں ہے کتنی بار کہنا........"

پیشانی پر بنا شکنوں کا جال دفعتاً معدوم ہوچکا تھا ملازمہ سر جھکائے کھانے کی ٹرالی کیساتھ اندر آئی   کانسی چمکدار آنکھوں نے سیاہ متورم آنکھوں کو تشویش سے دیکھا سیرت نے خشک حلق ترکرتے ہوئے لب بھینچ کر رخ بدلتے ہی آنکھوں کو تعجیلاََ بےرحمانہ انداز میں مسل کر صاف کیا ملازمہ کے جانے کی نوید دروازے کے ٹھک سے بند ہوتے ہی کانوں تک پہنچی تو سیرت نے اسکی جانب رخ موڑا دل تیزی سے دھڑکنے لگا نیووی پینٹ پر سفید بےشکن شرٹ کے بازوؤں کے کفس کی کہنیوں تک تہہ چڑھاکر اسنے ہم رنگ کوٹ کو صوفے کے کنارے پر رکھا سیرت کی پیشانی اسکی موجودگی کے احساس سے عرق آلود ہونے لگی پیچیدہ سانسیں،، بدحواس دھڑکنیں لگتا تھا جیسے سامنے کھڑا باوقار شاہی منصب والا وہ قد آور دیوتا کوئی انجان شخص ہے جسے وہ سرے سے نہیں جانتی بھوری آنکھوں نے بہ شمول مخروطی گلابی انگلیوں کو  ایک دوسرے پر جبر کرتے ہوئے  واقفیت سے دیکھا وہ نظریں جھکائے الفاظ تلاش کرنے میں اب تک مشغول،، خاموشی کا لبادہ اوڑھے  کھڑی تھی۔

"سیرت کھانا کھا کر سونا۔۔۔۔۔"

وہ بےقرار ہوئی سہمی آنکھیں برجستگی سے اسکی جانب اٹھی نسوں میں سست روی سے حرکت کرتے لہو میں جیسے اسکی بھاری سحر انگیز آواز نے برقی لہر سی بھردی،،، اسنے سیرت کہا تھا وہ  اعصاب زدہ رہ گئی

"آپ،،،، تم،،، بھی کھالو مجھے پتا ہے نہیں کھایا تم نے بھی"

اسنے کہہ کر دروازے کی جانب پیش قدمی کی مگر وہ اسکے مظبوط بازو کو دونوں ہاتھوں میں تھامے جھجھک کر سرپٹ بولی وہ اس دھیمے نرم لہجے میں  نمایاں خوف اور گھبراہٹ محسوس کرسکتا تھا جواباً اسنے گہرا سانس فضا کے سپرد کرکے اپنے بازو سے سرد مومی ہاتھوں کو ماندگی سے ہٹایا سیرت کا دل پسیج گیا مگر وہ اسکی راہ میں حائل ہوگئی اسنے قطعیت سے سیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے صوفے سے کوٹ اٹھانا چاہا مگر وہ لپک کر کوٹ اٹھاتے ہوئے  واپس صوفے ہر رکھ کر اسکی آنکھوں میں ابھرتی سرخی کو دیکھ کر دھڑکتے دل کو تسلی دیتے ہوئے دماغ پر سخت پڑتی خوف کی جڑوں کو اکھاڑ کر دور پھینک گئی۔

"مجھے معاف نہیں کروگے....؟!!"

بھوری آنکھوں سے آنکھیں ملاکر وہ محزن لہجے میں بولی اسنے قائم مزاجی سے سیاہ آنکھوں کو دیکھا جو گھنٹوں برسنے کی داستان رقم کررہی تھی سیرت نے اسکے ہاتھ کو نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا،، اسکی متوازن سانسیں  گداز لمس میں شناسائی کا تاثر ہوتے ہی بھاری پڑنے لگی۔

"میری غلطی بہت بڑی ہے،،، مجھے اعتبار کرنا چاہیے تھا تم پر..."

ذہن کے ترازو میں حالیہ الفاظ کا موازنہ ماضی کے میخ لگے الفاظ کیساتھ کیا تو ذہن کی نسیں پھٹنے لگی سیرت کی دھڑکنوں کی رفتار ہاتھوں کے دامن میں قوی انگلیوں کو مٹھی کی صورت اختیار کرتے دیکھ پر تیز ہوئی۔

"رر،،،رضا،، آئی سوئیر میں،،، میں شرمندہ ہوں اپنے فیصلے پر،،، میرے لئے آسان نہیں تھا جیسے تمہارے لئے نہیں تھا،،، معافی بہت چھوٹا لفظ ہوگا جو میں نے کیا،،،لیکن محبت سے دور تو میں بھی رہی ہوں"

اظہار کیساتھ اچانک ابھرتی نمی نے سیاہ آنکھوں کو اور گہرائی بخشی تھی وہ کب سے بےسخن کھڑا اسے سن رہا تھا چہرے پر مفرد احساس تک نہیں تھا آنکھوں کی ویرانیاں اپنی کامل تباہی  کے عکس کو اپنے اندر سمیٹ کر ماتم کناں تھی کیا محض چند الفاظ یکجا ہوکر اسکے غم کا اعتراف کرسکتے تھے نہیں،،، وہ اس پر بیتی تھی لوگوں نے تو بس دیکھا تھا اسنے خود پر جھیل کرمحسوس کیا تھا۔

وہ سوچیں جنہوں نے اسکی روح میں  احساسِ ندامت پر خلقت پائی تھی اس دیو قامت مرد کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا وہ ایک ایک پل ندامت کی آگ میں جلا تھا ہر رات اس لڑکی نے اسکی نیندوں میں آکر اپنے زہریلے الفاظ کا روگ لگاکر اسے علیل کردیا تھا اسکے ہاتھوں کو قطعیت سے جھٹک کر وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا  ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے زہرآلود فضا نے بھوری آنکھوں میں سرخیاں بھردی تھی دروازے کا ہیندل گھماتے ہوئے اسکا ہاتھ ساکت رہ گیا وہ کبھی کسی کے سامنے نہ جھکنے والی لڑکی اسکے قدموں میں گرچکی تھی اسکے پیروں کو دونوں ہاتھوں سے تھامے وہ  رورہی تھی ایک جست میں اسنے لرزتے شانوں کو آہنی گرفت میں لیکر سیرت کی پشت کو دروازے سے لگایا تھا سیرت نے دہل کر اسکی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا تھا۔

"آج پہلی اور آخری بار یہ حرکت کی ہے سیرت ،،،، "

"جب تم کرسکتے ہوتو میں کیوں نہیں کرسکتی رضا....."

سیاہ نینوں میں جھلمل کرتا سیال سرخی مائل رخساروں پر عازم سفر ہوا تھا البتہ سیرت کے انکشاف پر دھیرے دھیرے کانپتے کندھوں پر اسکی قوی انگلیوں کی گرفت ڈھیلی پڑی تھی سیرت کی آنکھوں کے سامنے وہ مناظر توضیع و تفسیر کیساتھ ابھرے  توسیاہ آنکھیں ایک بار پھر شدت سے برس پڑی تھی۔

یہ تب کا واقع تھا جب سیرت نے اسکے برتھڈے کی تقریب میں  ڈرنک کی تھی اور پورا راستہ اسنے  اسکی الٹی سیدھی حرکتوں کو برداشت کیا تھا اور شکایت کا ایک لفظ نہیں کہا تھا۔

"جب تک معاف نہیں کروگے،،، میں نہیں ہٹوں گی"

دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ  نم آنکھوں سے اسکے سنجیدہ چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی البتہ اسکے نرم لمس کو کو ہاتھ کی پشت پر محسوس کرکے اسنے برجستہ ہاتھ پیچھے لیا دھڑکنیں ایک بار پھر بےترتیب ہوئیں  البتہ سیرت کی آنکھوں سے اب تک گوہر ٹوٹ رہے تھے۔

"اب تعلقات ویسے نہیں ہوسکتے جیسے پہلے ہوا کرتے تھے..... بہت مشقت لگے لگی،،،  شاید پھربھی کوئی فایدہ نہ ہو،،، بیٹر لیٹ اٹ گو.... فارگیٹ اٹ ......"

اسنے سنجیدگی سے دروازے کا ہیندل گھماتے ہوئے قطعیت سے کہا مگر وہ اسکا مظبوط بازو پکڑتے ہوئے اسکے سامنے آئی بھینی بھینی نکہت کیساتھ کلون کی مسحور کن مہک کا امتزاج فسوں خیز تھا۔

"دادی کہتی ہیں کچھ تعلقات روز کنواں کھود کر پانی بھرنے کے جیسے ہوتے ہیں،،، لیکن اگر پانی میٹھا ہوتو یہ مشقت بھی گوارا ہوجاتی ہے،،،کھانا کھالو،،، اگر میرے ساتھ نہیں کھانا چاہتے تو میں بھجوا دیتی ہوں"

وہ ٹوٹے دل کے ٹکڑوں کو ایک مسکراہٹ میں سمیٹ کر لبوں پر  بکھیرتے ہوئے بولی،، ماں کی موت کا صدمہ بہت بڑا تھا جسکی عکاسی سیاہ آنکھیں باریکی سے کررہی تھی مگر وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔

 اسکی خاموشی کو انکار سمجھ کر سیرت اسکے راستے سے ہٹ کر کھانے کی ٹرالی کے پاس آئی اور جھک کر اسکے لئے کھانا الگ کرنے لگی ہمہ وقت اسکے فون نے بدلحاضی سے مداخلت کرنے پر اکتفاء کیا سیرت نے سرد آہ بھری مگر کچھ اسکی توقع کے برعکس ہوا تھا فون سوئچ آف کرکے قریبی ٹیبل پر رکھ کر وہ بیڈ کی جانب بڑھا آیت کی پیشانی کو جھک کر  عقیدت سے چوما ہلکی بیئرڈ کی چبھن پر وہ ہاتھ سے رخسار کو ڈھانپتے ہوئے نیند میں مسکرائی تو قلبی سکون اندر تک اترگیا سیرت کے لبوں پربھی  ہلکا متبسم بکھرا تھا۔

"کہاں ہے حدید،،، کیا ابھی تک نہیں آیا...."

وہاب صاحب اسکے کمرے سے باہر آتے ہوئے خادم کو تشویش سے دیکھ کر استفسار کررہے تھے۔

"جی،،، منسٹر صاحب خانم صاحبہ کے کمرے میں ہیں...."

خادم نے بوکھلاکر بتایا وہاب صاحب نے اپنے سوال پر خجل ہوکر ہاتھ سے خادم کو پراں کیا تھا۔

"اٹس اوکے انکل،، کافی لیٹ ہوگیا ہے مجھے اجازت دیں  دونوں ساتھ ہی تو ہیں"

فاریہ نے مسکراتے ہوئے اجازت لی وہاب صاحب نے آج اسے ڈنر پر مدعو کیا تھا صبح سے اسکا انتظار کروانے کے بعد وہ اسے ایسے تو نہیں بھیج سکتے تھے وہاب صاحب نے سلگ کر دروازے پر دستک دی.

سیرت نے تشویش سے دروازے کو دیکھا نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھا سیرت اسے دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر رک گئی اسنے سنجیدگی سے دروازہ کھولا تھا۔

"تمہارے واپس لوٹنے کے چکر میں ہم نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا،،، فاریہ پچھلے چار گھنٹوں سے انتظار کررہی ہے اور تم یہاں اس موصوفہ کیساتھ کھانا کھارہے ہو،،، اطلاع تو کرسکتے تھے ہمیں"

باپ نے بیٹے کو تگڑی گھوری سے نوازا تھا البتہ سیرت نے خجالت سے وہاب صاحب سے نگاہیں چرائی۔

"بیوی کہیے  سائیں،،، سیرت بیوی ہے میری"

اسکا بے لچک لہجہ وہاب صاحب کو سلگا گیا البتہ فاریہ نے  نگاہوں سے اسے داد دی اور سیرت چونکی.

"جو بھی ہے اسکے آنے کے بعد اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش مت ہو جانا،،، اس گھر کے کچھ اصول ہیں،،، جن پر تمہاری بیوی سمیت سب کو عمل کرنا ہوگا،،، ڈائننگ ہال میں سب مل کر کھانا کھاتے ہیں اور ویسا ہی ہوگا،،، اور تم بھی سن لو لڑکی،،، تمہارا شوہر ضرور ہے لیکن پہلے میرا بیٹا ہے ...."

سیرت نے شرمندگی سے سر اٹھایا وہاب صاحب سنجیدگی سے کہتے ہوئے خفیہ طور پر مسکرائے تو سیرت کی آنکھیں زرا حیرت سے پھیلی،،، وہاب صاحب نے فاریہ کو آج رات جانے سے روک لیا تھا۔

اپنا کوٹ اٹھاکر وہ اپنے کمرے کی جانب پیش قدمی کرگیا سیرت وہاب صاحب کو دیکھ کر ٹھندی پڑگئی۔

"بہو ایک کپ چائے بنا دو تیکھی پتی والی....."

وہاب صاحب جاتے ہوئے پلٹ کر بولے سیرت کی آنکھوں میں نمی ابھری ہتھیلی سے رخسار پر پھسلتے آنسوں کو صاف کرکے سرعت سے سر کو اثبات میں ہلاکر وہ دوپٹہ درست کرکے باہر نکلی وہاب صاحب نے مسکرا کر اسے تیزی سے کچن میں گھستے دیکھا لاؤنج میں پڑے صوفے پر دراز ہوتے ہوئے وہ خادم سے محو گفتگو ہوچکے تھے کچن کے ماربل فرش پر  باریک ہیل کی آہٹ سن کر شیلف سے کپ اٹھاتی سیرت نے تشویش سے فاریہ مرزا کو دیکھا تھا مسکراتے ہوئے وہ کاؤنٹر پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ چکی تھی۔

"سیرت،،،  اپنی علیشہ کو معاف نہیں کروگی"

کاؤنٹر پر کپ رکھتے ہوئے سیرت کا ہاتھ ساکت رہ گیا سیرت نے نگاہیں اٹھائی وہ سر جھکائے بیٹھی مسکراتے ہوئے بول رہی تھی جواب نا ملنے پر فاریہ نے افسردگی سے اسے دیکھا۔

"اپنا نام بھول گئی ہو یا جان بوجھ کر تضحیک اڑا رہی ہو..."

لمبے گھنے بالوں کو تین سے چار بلوں میں لپیٹ کر کیچر لگاتے ہوئے  سیرت نے سرد آہ بھری۔

"نہیں تم علیشہ ہی بلانا مجھے،،، کہو تو میں اپنا نام بدل دیتی ہوں"

فاریہ مسرت پرور انداز میں مسکرائی کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے سیرت کا ہاتھ دھیرے سے کانپا آنکھیں جھپک کر اسنے نینوں کی حدود عبور کرتے آنسوں کو پیا تھا پچھلے تین سالوں میں کسی کی نگاہوں کی زد میں آنے کے خوف سے وہ قریبی دوستوں کی صحبت سے محروم رہی تھی۔

"سیرت معاف کردو،،، چھوٹی بہن سمجھ کر معاف کردو مجھے"

 علیشہ کاؤنٹر سے اٹھ کر اسے دونوں بازؤں سے تھام کر اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے منمنائی سیرت نے آنسوں ضبط کرتے ہوئے محض ہونٹ بھینچے فاریہ  سیرت کے ہاتھ کو چھوڑ کر بےبسی سے پیچھے ہٹی وہ خاموش نگران بنی ایک نقطے کو دیکھ رہی تھی فاریہ کو بازو سے پکڑکر اسنے ایک شدید تھپڑ اسے رسید کیا۔

نمی سے جھلملاتی آنکھوں نے سیرت کو معصومیت سے دیکھا۔

"پہلے اسنے تھپڑ مارا اب تم نے مار دیا سارے مجھے مارتے ہیں"

 تھرتھراتے لبوں سے منمنا کر وہ ہاتھ کی پشت سے رخساروں پر ڈھلکتے آنسوں صاف کرتے ہوئے  روہانسی ہوئی اب وہ واقعی علیشہ لگ رہی تھی جسے سیرت جانتی تھی آنسوں سے لباب آنکھیں بار بار جھپکتے ہوئے وہ سیرت کو کوئی چھوٹی بچی لگی سیرت نے آگے بڑھ کر اسے بازوں کے گھیرے میں لیا۔

"تھپڑ بھی مار لیا اب منا کیوں رہی ہو،،، آج تک بابا نے مجھے کبھی نہیں مارا پہلے  تمہارے خاوند نے اپنے ڈھائی من کے بھاری تھپڑ سے میرا  منہ بگاڑا اب تم نے بھی وہی کردیا یار میں کوئی پنچنگ بیگ ہوں...."

سیرت کے دوپٹے سے ناک پونچھتے ہوئے وہ منمنائی البتہ سیرت نے تشویش سے اسے سر میں چپت رسید کرکے اپنا دوپٹہ  کھینچتے ہوئے کوفت سے دیکھا جس سے اسنے آنسوں سمیت ناک پونچھاتھا۔

" کیا تم نے میرے دوپٹے سے ناک صاف کیا سچ بتانا ورنہ چھوڑو نگی نہیں ..."

فاریہ کا کان مروڑتے ہوئے سیرت نے درشتگی سے پوچھا فاریہ نے معصومیت سے سر اثبات میں ہلایا دوپٹے کا کونہ تاسف سے دیکھتے ہوئے سیرت نے سرد آہ بھرنے میں غنیمت جانی تھی وہاب صاحب کو لاؤنج میں چائے دیتے ہوئے سیرت انکے قریب  بیٹھنے کے اشارے پر انکا تھپڑ یاد آنے پر گھبرائی۔

"بیٹھو بیٹا،،،میں تمہارے ساتھ ہوں،،،  اپوزیشن میں وہ لڑکی ہے"

وہاب صاحب نے فاریہ کی جانب اشارہ کیا تو منہ بسور کر وہ قریبی صوفے پر آن بیٹھی۔

"میں بھی سیرت کیساتھ ہوں انکل،،، حدید صاحب آجکل کچھ زیادہ ہی سڑ یل بنے ہوئے ہیں"

سیرت نے بھنویں سکیڑ کر فاریہ کو گھورا البتہ چائے کا سپ لیکر وہاب صاحب پرجوش سے مسکرائے۔

"بیٹا آپ پیکنگ کرلیں،،،  انس کی شادی کی تقریب کے بعد آپ دونوں کاویکشن پلان ہے"

وہاب صاحب کے الفاظ کسی بجلی کی طرح سیرت کے سرپر گرے سامنے پڑی ٹکٹوں کو سیرت نے حیرت و شرمندگی سے دیکھا جو یقیناً ہنی مون ٹرپ تھا فاریہ نے سیرت کی کہنی میں آہستگی سے ٹہوکا لگایا تو وہ مزید خجل ہوئی۔

"انکل۔۔۔۔ اسکی ضرورت نہیں تھی..."

"اوونہوں انکل نہیں .... بابا بولو بیٹا،،، چائے بہت اچھی بنی ہے اب اس بڈھے کو اس خاص چائے کی عادت لگ گئی ہے میری چائے اب سے تم ہی بنانا خادم بڑی بد زائقہ چائے بناتا ہے"

وہاب صاحب کے انکشاف پر قریب سر جھکائے کھڑے خادم نے  ہنسی دبائی سیرت نے نگاہیں اٹھاکر وہاب صاحب کو محبت سے دیکھا ہلکی سفید بیئرڈ ،، منور آنکھیں ،،، اور انکا سیرت کو بیٹا کہنا- اسے پہلی ہی بار میں  عاطف صاحب کی جھلک نظر آئی وہ بھی تو اسے بیٹا کہہ کر پکارا کرتے تھے سیاہ آنکھوں میں ابھرتی نمی پر قابو پاتے ہوئے اسنے محض سر دھیرے سے ہلایا۔

"زبردست اب یہاں آؤ یہ میرے بیٹے کا انعام ہے اتنی اچھی چائےجو بنائی ہے...."

وہاب صاحب نے کوٹ سے والٹ نکال کر تمام نوٹ نکالے اور اسکی جانب بڑھائے سیرت  کی آنکھیں برس پڑی عاطف صاحب بھی تو اسے اسی طرح چھوٹی چھوٹی بات پر انعام دیا کرتے تھے۔

وہاب صاحب اسے روتے ہوئے دیکھ کر صوفے سے اٹھے اور اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔

"میں سمجھ سکتا ہوں ،،، بابا کی یاد آتی ہوگی...... لالا صاحب کی وفات کے بعد ،، جب بھابھی کی وفات ہوئی تو میرے پاس دو راستے تھے یا تو شادی کرکے اپنی نئی زندگی کی شروعات کر لیتا یا  پھر حدید کی پرورش کرتا،،، میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا،،، اپنے بھائی کی اکلوتی نشانی کو اس سفاک دنیا کے سہارے نہیں چھوڑ سکا،،، اگر شادی کر لیتا تو شاید اپنے بیوی بچوں کی زمہ داریوں میں مشغول ہوکر حدید کو اسے حقوق سے محروم کردیتا،،، یہ سب کچھ حدید کا ہے بیٹے،،، شاید آگے جاکر میری اولاد جائیداد کیلئے میرے بھائی کی آخری نشانی کیساتھ تنازعات اختیار کرلیتی،،، لیکن ایک بات کہوں گا مجھے ہمیشہ سے بیٹی چاہیے تھی،،، میری بیٹی بن جاؤ اس بوڑھے آدمی کی حسرت بھی پوری ہو جائے گی تمہیں باپ بھی مل جائے گا ...."

سیرت نے آنسوں سے لباب آنکھوں کیساتھ سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا تو وہاب صاحب نے شفقت سے اسکے ہاتھوں میں اسکی محنت کا صلہ تھمایا اور داہنے ہاتھ کو اسکے سر پر رکھا۔

"انکل آپ میرے بھی بابا بن جائیں،، مرزا صاحب تو مجھے پاکٹ منی ہی نہیں دیتے دھتکار کر کہتے ہیں کتنی بڑی ہوگئی ہو خود کماؤ ،،، بڑی بے عزتی کردیتے ہیں جب بچپنا کروں،،،"

فاریہ کے باپ کو مرزا صاحب کہنے پر وہاب صاحب کا قہقہ برجستہ تھا البتہ سیرت مبہم سی مسکرائی۔

"جاؤ بیٹا آرام کرو،،، کل بڑا دن ہے مصروفیات ہونگی،، مولا بہتر کرینگے سب ٹھیک ہو جائیگا"

سیرت  دھیرے سے سر اثبات میں ہلاکر اٹھی اور فاریہ سے ٹکٹ تھام کر مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھی آج  وہ مل گیا تھا جو اسکی زندگی کی سب سے بڑی حسرت تھی اسکے اندر کی چھوٹی لڑکی آج کھلکھلا کر مسرت سے جھوم رہی تھی۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

 سفید بھاری نگینوں سے مزین لہنگا سنبھالے سب مہمانوں کو مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہتی وہ لڑکی لمظ تھی ڈیکوریشن کی تیز روشنیوں میں دمکتی گندمی رنگت نے سفید رنگ کو ماند کردیا تھا میچنگ ڈائمنڈ ہیوی جیولری میں لمبے بالوں کے بن میں سفید پھول لگائے  وائٹ باربی فراک میں زاریہ کو تھامے دوسرے ہاتھ سے آنے والی خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے مسکرائی بلیک فارمل ٹکسیڈو کیساتھ چمچماتے  سیاہ لافرز میں سلکی بالوں کو سنوارے زاویان حیدر تھا جس نے چپکے سے اسے پیچھے سے مخاطب کیا اسکی مخصوص مہک کا احساس ہوتے ہی لمظ نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھ کر کسی بھی شرارت سے اسے باز رکھا تھا وہ لمظ کی تنبیہہ پر بےساختہ مسکرایا۔

مہرون بھاری گولڈن کام والا لہنگا سمبھالتی سیرت نے الجھ کر فاریہ کو گھوری سے نوازا جو پورے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے  آگے بڑھ کر لہنگے کو ایک جانب سے اٹھاتے ہوئے چلنے میں اسکی مدد کرنے لگی۔

"آج کے بعد تم کبھی میری شاپنگ نہیں کروگی لڑکی،،، سیریسلی اتنا بھاری لہنگا تو دلہن کا بھی نہیں ہوگا جتنا بھاری تم میرے لئے لائی ہو،،، اور یہ  جیولری کیا میری شادی ہے سب سے بری یہ نوز پن لگ رہی ہے جو چمک رہی ہے ،،، الجھن ہورہی ہے مجھے..... کاش میں تمہارا سر پھوڑ سکتی یہاں..."

سیرت  لمظ کے ہمراہ مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے دبے لہجے میں غرائی فاریہ نے محض معصومیت سے آنکھیں جھپکی البتہ زیرِلب "سیرت تم نے ابھی اصل شاپنگ تو دیکھی نہیں" کہہ کر نچلا ہونٹ دبایا۔

انس بلیک ٹکسیڈو میں ہم رنگ لافرز کیساتھ ہلکی تراشیدہ بیئرڈ کیساتھ ریحم کی دھڑکنیں تیز کرنے کا باعث بنا رہا تھا دونوں کی اینٹری کے وقت  ہال کی لائٹیں بجھا دی گئی گرینڈ ہوٹل کو ڈھانپتے آسمان پر شانداز آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا تھا فوٹو گرافر اسوقت مہارت سے مختلف زاویوں سے کپل کی اینٹری پر فوٹو لے رہا تھا ریحم پیل ریڈ کلر کے ہیوی لہنگے میں میچنگ جیولری کیساتھ برائیڈل میک اپ میں سراپا محبت لگ رہی تھی ہمیشہ سادگی کا انتخاب کرنے والی لڑکی کے چہرے پر آج حسن پوری آب و تاب کیساتھ سمٹ آیا تھا۔

فاریہ نے ریکارڈنگ کرتے ہوئے سیرت کو شرارت سے دیکھ کر قریب کھڑی موٹی عورت کو دھیرے سے دھکا دیا تھا جسکے بھاری کندھے سے ٹکرا کر سیرت اندر آتے قدر آور دیوتا کے چوڑے سینے سے جا ٹکرائی

اسنے احتیاط سے سیرت کے شانوں کو بڑی نرمی سے تھاما تھا  وائٹ بےشکن تھری پیس سوٹ میں وہ وجاہت کا بےنظیر دیوتا دیکھنے والی ہر ایک نظر کو لبھا گیا تھا۔

" میمی کو  دھکا .... یو بچ*"

فاریہ کا منہ آیت کی گالی پر بےساختہ کھلا دونوں ہاتھ کمر پر رکھے وہ بےبی پنک باربی فراک میں تنبیہی نگاہوں سے فاریہ کو گھور رہی تھی،، فاریہ نے مسکراتے ہوئے اس شیطان کو پکڑکر چومتے ہوئے اٹھایا تھا۔

"توبہ یہ گالی کہاں سے سنی تم نے لڑکی،،،، سیرت دیتی ہے کیا..."

آیت نے منہ مروڑ کر سینے پر بازوں لپیٹ کر فاریہ سے رخ بدلا جس پر  فاریہ حیرت کی تصویر بن کر رہ گئی۔

دونوں ماں بیٹی کے تیور ہی الگ تھے.

حدید رضا کی نگاہیں اس قیامت خیز حسن والی  اپسرا کے ایک ایک نقش کو نہارتے ہوئے ناک میں چمکتے چھوٹے ہیرے پر ٹھہری،،، سیرت کا دل اسکی منچلی نگاہوں کے ارتکاز پر شدت سے دھڑک اٹھا اسکے مخصوص کلون کی سحر انگیز مہک سانسوں میں انڈیل کر وہ خجل ہوکر اسکے قوی بازؤں کے حصار سے نکلی.

البتہ حدید رضا کے قدم بےبسی سے اسکے تیز قدموں کی تقلید میں اٹھے سیرت اسکی موجودگی کا احساس ہوتے ہی یکلخت رکی وہ عین وقت پر رکا ورنہ دونوں کا ایک شدید تصادم متوقع تھا  اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اسنے کلائی پر بندھی وائٹ رولیکس سے سیرت کی بھاری چنری کو نکالتے ہوئے سرد آہ بھری۔

"کیا میں کردوں،،،"

وہ دھیمے لہجے میں مسکرائی۔

"ضرورت نہیں...."

وہ سنجیدہ ہوا تھا۔

"لیکن آپ سے نہیں ہوگا..."

سیرت نے نچلا لب دبایا۔

"دین ڈو اٹ ناؤ....."

وہ متانت سے سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

 سیرت کے الفاظ حلق سے واپس دوڑ لگا گئے۔

"کھولیں اسے سیرت...."

"میں نہیں کھولوں گی...."

سیرت نے  سرخی سے تمتماتے چہرے کیساتھ شرارت سے کہا اسنے سنجیدگی سے کھینچ کر اسکی قیمتی چنری کا کونا ادھیڑ دیا سیرت نے تشویش سے چنری کا پھٹا ہوا کونا پکڑا  اور پھر اسے صدمے سے گھورا  تنبیہی نگاہوں سے سیرت کو دیکھ کر وہ واپس پلٹ گیا تھا فاریہ نے تمام منظر دیکھ کر صدمے سے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا البتہ آیت نے دونوں کو لڑتے دیکھ کر آنکھیں چھوٹی کی تھی۔

"سنو لڑکی تمہارے ہینڈسم بابا ایک نمبر کے سڑوو ہیں،،، کچھ رومینس وغیرہ سیکھاؤ انکو"

فاریہ صدمے سے قریبی نشست سنبھالتے ہوئے بولی ٹیبل پر ٹانگیں لٹکاکر بیٹھتی آیت نے پرسوچ نظروں سے سیرت کو اور پھر اپنے بابا محترم کو دیکھا تھا جنکے چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی رقم تھی۔

"میں تو کہتی ہوں دونوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا جائے،،، جب تک صلح صفائی نہ ہو ناں ہی کھانا دیا جائے ناں پینے کو پانی بیشک بھوک کر مارے دونوں ایک دوسرے کو کھا لیں"

فاریہ نے تنک کر شانے جھٹکے البتہ آیت کے معصوم سے دماغ نے اسکے الٹے مشورے پر بھرپور نظر ثانی کی۔

"ارے کون ہے صبح سویرے۔۔۔ کیا دروازہ توڑ دوگے"

 جھنجھلائے ہوئے چودہری صاحب نے سبک خیز قدموں سے دروازے  کی جانب پیش قدمی کی دروازہ کھلنے پر چند آدمی بدلحاضی سے گھر میں داخل ہوئے غیر مردوں کو یوں گھر میں گھستے دیکھ کر عائزہ بیگم برآمدے تک ہی محدود رہ چکی تھی چہرے پر واضح پریشانی دیکھی جاسکتی تھی۔

"کون ہو تم لوگ۔۔۔۔ اور میرے گھر میں گھسنے کی ہمت کیسے ہوئی  تمہاری"

"چوہدری صبر سے کام لو تمہارا گھر نیلام ہوچکا ہے خود تمہارے بیٹے نے کل گاؤں کی نیلامی میں فروخت کیا ہے میرے پاس کاغذات ہیں پٹواری صاحب ساتھ ہیں گھر خالی کرنے کیلیے آج صبح تک کا وقت دیا گیا تھا"

ایک آدمی نے سرعت سے مداخلت کی جبکہ وضاحت سن کر عائزہ بیگم کے ہاتھ لبوں کوگئے۔

"کیا بکواس کرتے ہو توصیف نے گھر نیلام کردیا کاغذات دیکھاؤ مجھے..."

پٹواری صاحب کے ہاتھ سے کاغذ جھپٹتے چودھری صاحب تلملا اٹھے عائزہ بیگم سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر کونے میں پڑی چارپائی پر ڈھے سی گئی عروسہ بیگم نے انکو شانوں سے تھام کر گرنے سے باز دکھا۔

"عروسہ مجھے توصی سے یہ امید نہ تھی اس  ناگن نے میرا گھر تباہ کردیا۔۔۔میرے بیٹے کو میرے خلاف کردیا اس منہوس کے آنے کے بعد  پہلے تو سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا مجھ سے ،،، ہائے گھر تک نیلام کرڈالا اپنا،،، کہاں جائیں گے ہم عروسہ۔۔۔۔ شرم نہ آئی اس حرامزادے کو۔۔۔ ماں باپ کو برباد کرگیا"

عائزہ بیگم نے سر پیٹ لیا چودھری صاحب کا چہرا غضب سے سرخی مائل تھا کاغذات پٹواری صاحب کے حوالے کرکے وہ برف کا مجسمہ بنے ایک نقطے کو دیکھتے رہ گئے تھے۔

"بھابھی ۔۔۔۔ لمظ کے گھرکا کیا ہوا اسنے چابی دی تھی آپکو"

عروسہ بیگم کے سوال پر عائزہ بیگم گریہ و زاری کرتے ہوئے خاموش ہوگئی دھیرے دھیرے دماغ کے پردے پر واضح تصویر ابھرنے لگی،،، شادی سے کچھ روز پہلے  توصیف نے  لمظ کا گھر بیچنے کی کوشش کی تھی مگر کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناکام رہا تھا،، وہ ویژہ لیکر سعودی عرب جاکر کاروبار کرنا چاہتا تھا،، گھر کی نیلامی کی  بات زاویان تک بھی گئی کیونکہ گھر اسکی نگرانی میں تھا اس لئے توصیف گھر نہیں بیچ پایا تھا،،،  گھر والوں کیساتھ تنازعات کے باعث اسنے بیوی سمیت بہن کی شادی میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

"قہر پڑے اس حرامزادے پر۔۔۔۔ اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر سعودی چلا گیا"

عائزہ بیگم صدمے سے نڈھال ہوکر چارپائی کا پایہ پکڑے نیچے بیٹھ گئی عروسہ بیگم نے سرد آہ بھرکر مناہل کی جانب دیکھا جو ناسمجھی سے کبھی چوہدری صاحب کو مردوں سے الجھتے دیکھتی توکبھی عائزہ بیگم کو۔

"چلو بیٹا ہم۔۔۔۔ آج سے ہم  نانو اماں کے گھر رہیں گے"

عروسہ بیگم کے الفاظ بجلی کی طرح عائزہ بیگم کے سرپر گرے۔

"عروسہ تم تو ماں کے گھر چلی جاؤ گی ہمارا کیا ہوگا اتنے تیز جاڑے میں کہاں جائینگے"

عروسہ بیگم مناہل کا ہاتھ پکڑ کر وہاں رکی نہیں تھی اپنے کمرے میں پیکنگ کرنے جاچکی تھی۔

"صرف ایک گھنٹہ ہے چودہری اسکے بعد میں کوئی لحاظ نہیں کرونگا میرے پاس کاغذات ہیں۔۔۔ باقی تم جانو تمہارا بیٹا جانے میں نے کل ہی گواہان کے سامنے اسے گھرکی ساری رقم ادا کردی تھی "

چوہدری صاحب کو قطعیت سے تنبیہ کرکے وہ افراد باہر نکل گئے چوہدری صاحب سلگتے ہوئے عائزہ بیگم کے پاس آئے تھے اور ایک زوردار تھپڑ انکے چہرے پر جڑدیا تھا۔

"یہ تربیت کی ہے تو نے اس خوار ذلیل بیٹے کی تھو۔۔۔ اولاد کہتے ہوئے گھن آرہی ہے آج۔۔۔  بہت کہتا تھا تجھے سدھار خود کو گھٹیا عورت۔۔۔۔ تیری اولاد بھی تیری طرح بھوکی لالچی ۔۔۔ بے غیرت نکلی"

چوہدری صاحب بغیر محلے داروں کا لحاظ کئے عائزہ بیگم پر برس رہے تھے جو سر جھکائے روتے جارہی تھی ۔

"میں ۔۔۔ میں لمظ سے کہونگی وہ ہمیں اپنے گھرمیں...."

" اپنی گندی زبان سے نام مت لے اس بچی کا۔۔۔ تونےاس گھر میں ہمیشہ اسے خوار کیا ۔۔۔ شرم آنی چاہیے تجھے۔۔۔ کس منہ سے مدد مانگے گی خود تونے اسے یہاں رہنے نہ دیا۔۔۔ میری بوڑھی اماں وہاں  اسکے ساتھ رہتی رہی مگر تجھ جیسی کند ذہن عورت کو پھربھی ترس نہ آیا ۔۔۔ لگادی آگ اپنے گھرکو۔۔ پڑگئی تیرے دل کو ٹھنڈک۔۔۔ ارے جو عورت اپنوں کی نہ ہوئی اسکی اولاد کیا خاک اسکی ہوتی"

چوہدری صاحب کے لہو رنگ آنکھوں سے دامن بچاتی وہ خود سے پلر کر قریب جاٹھہری آنکھوں سے آنسوں تو رک نہیں رہے تھے خوف سے لرز لرز کر بدحال ہوئے جارہی تھی۔

"جا سامان باندھ اپنا اور دفع ہو نظر مت آنا مجھے"

"چودھری جی میں بڑھاپے میں کہاں جاؤنگی....."

چوہدری صاحب کی دھمکی سن کر عائزہ بیگم کے پیروں سے زمین کا ٹکڑا کھس گیا۔

"بڑھاپے میں گھر کو تباہ کرتے شرم نہ آئی۔۔۔ یہ سب تیری کارستانیوں کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔۔۔ جو کچھ تو نے اس بچی کیساتھ کرنا چاہا وہ تیرے اپنے ساتھ ہوگیا اور تیرا ساتھ دینے میں ہم سارے بھی پسپا ہوگئے دل کرتا ہے تجھے....."

چودھری صاحب دروازے سے اندر آتے توصیف کو دیکھ کر چونکے پھٹے ہوئے کپڑے،،، بکھرے بال خستہ صورت عائزہ بیگم کی رہی سہی ہمت اسے اس حلیے میں دیکھ کر جواب دے گئی۔

"خبیث ۔۔۔ اب کیا خون لینے آیا ہے ہمارا۔۔۔ خدا تباہ کرے تجھے..."

چوہدری صاحب نے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر جڑدیا لڑکھڑاتے ہوئے وہ دیوار سے ٹکرایا عائزہ بیگم نے بمشکل خود کو توصیف تک گھسیٹا سر جھکائے وہ فرش پر بدحال بیٹھا تھا۔

"اماں بھاگ گئی وہ  عورت سارے پیسے لیکر اپنے  گھروالوں کیساتھ۔۔۔اماں وہ۔۔۔۔ کٹنی تھی "

عائزہ بیگم توصیف کے الفاظ برداشت نہ کرکے قریب ہی نیچے ڈھے گئی دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑے وہ چیخ چیخ کر بدحواسی سے رورہی تھی  بیشک مکافات عمل  دستک نہیں دیتا،،، نہ ہی کسی در کے کھلنے کا انتظار کرتا ہے جو آج تم کسی کیساتھ کروگے کل وہی تمہارے ساتھ ہوگا۔

─────────────────────

"پروفیسر زاویان۔۔۔۔ سب کتنا بدل گیا ہے یہاں...."

دونوں ہاتھوں کو باہم رگڑتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے اسکے ہمراہ چلتے ہوئے گویا ہوئی  آج بہت عرصے بعد وہ دونوں یونیورسٹی آئے تھے جہاں سے انکی داستان کی شروعات ہوئی تھی فری پیریڈ کے باعث طلباء کلاسز سے زیادہ بیرونی ونگ میں نظرآرہے تھے  اور دونوں کو ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے دونوں نے ہم رنگ بلیک اوور کوٹ زیب تن کئے تھے۔

" یقیناً ۔۔۔ آپ درست کہہ رہی ہیں۔۔۔۔بےبی گرل"

زاریہ کی نیلی آنکھوں کو الفت سے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا تھا نیلگوں آنکھیں یونیورسٹی کے ایک ایک حصے کو محبت سے دیکھ رہی تھی اس یونیورسٹی سے کتنی خوبصورت یادیں جڑی تھی،،، اسے یونیورسٹی کا پہلا دن آج بھی یاد تھا اپنی نادانی کو ذہن میں دہراتے ہوئے زاویان کی سرزنش یادکرکے وہ خفیف سی مسکرائی۔

"ہم تو ڈرہی گئے تھے،،، یونیورسٹی کے پہلے دن کا منظر بڑا غضب ناک تھا،،،"

زاویان کے لب آہستگی سے پھیلے سنہری آنکھوں میں شناسائی کی چمک ابھری۔

"اہممم۔۔۔ یونیورسٹی کے پہلے دن اپنے پروفیسر کو پروپوز کرنے کیلیے بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ ماشاءاللہ میری لمظ نے بھرپور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے...."

"زاویان ۔۔۔۔"

وہ شرمندگی سے پیر پٹخ کر رہ گئی اور وہ بے ساختہ ہنسا لمظ نے اسکے چوڑے شانے کو آہستگی سے ٹہوکا لگایا۔

" آپکو اندازہ بھی ہےکتنی شرمندگی محسوس کی تھی۔۔۔ خیررر آپ تو ڈانٹ کرچلے گئے تھے"

سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے وہ منہ پھلائے بولی تھی زاویان نے متبسم نگاہوں سے اسکے پھولے ہوئے رخساروں کو دیکھا تو لبوں پر سرگرم تبسم فروزاں ہوا۔

"کیا میں اپنی غلطی سدھار سکتا ہوں اسوقت....."

زاویان کی بات سن کر وہ چونکتے ہوئے ٹھہرگئی نیلگوں آنکھوں میں خوف کیساتھ تشویش تھی وہ کب کیا کرسکتا تھا وہ اچھے سے واقف تھی زاویان نے چوڑی پشت پے چھپائے سرخ گلاب کو مسکراتے ہوئے لمظ کی جانب بڑھایا تو آس پاس ٹہلتے طلباء نے دونوں کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔

"شکریہ۔۔۔۔ پروفیسر زاویان"

پھول کو محبت سے تھامتے ہوئے وہ مسکرائی گندمی چہرا جو اسکی روحانی محبت کے باعث ہمیشہ چمکتا رہتا تھا دھیرے دھیرے سرخی مائل پڑنے لگا تھا وہ ہمیشہ اپنی  محبت پر رشک کرتی تھی،، وہ صرف اسکا ہمسفر نہیں تھا ایک اچھا جیون ساتھی ہونے کیساتھ وہ ایک اچھا دوست تھا جس نے ہمیشہ اپنے تجربے اور دانستگی سے اسے ان راستوں سے محفوظ کرکے منزل تک پہنچایا تھا جن پر سفرکرتے ہوئے وہ گرسکتی تھی.

─────────────────────

"اشفاق احمد کی موت سے اسکے بیٹے کو خاصا صدمہ پہنچا ہوگا نہیں۔۔۔۔"

کھانے کی میز پر ملازمین شام کا کھانا پروس کر جاچکے تھے وہاب صاحب خاموشی سے کھانا کھاتے حدید سے مخاطب ہوئے  وہ سنجیدگی سے انکی جانب دیکھنے کے قریبی نشست پر بیٹھی سیرت کو دیکھنا نہیں بھولا تھا  جو اشفاق احمد کا تذکرہ سننے کے بعد کھانا کھا کم پلیٹ کو گھور زیادہ رہی تھی آج انہوں نے پیرس کیلیے نکلنا تھا مگر حدید رضا سے اپوزیشن کی جانب سے سیاسی بغاوتوں کا چرچہ سن کر وہاب صاحب نے دونوں کو ملک سے باہر بھیجنے کیلیے زبردستی نہیں کی تھی۔

"اے لڑکی اگر مفت کی روٹی توڑلی ہے تو میری چائے بناکردو...."

 دونوں کو ایک دوسرےسے نگاہیں بچاتے دیکھ کر وہاب صاحب اپنے جلالی جلاد سسر والے موڈ میں آچکے تھے،، سیرت نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا اور آیت کو جوس کا گلاس تھما کر کرسی پر بٹھانے کے بعد اپنی کرسی دھکیل کر اٹھی قریب سے گزرتی سیرت کا ہاتھ حدید رضا نے متانت سے پکڑا۔

"خادم چائے بناکر لاؤ ۔۔۔۔ آپ ڈنر کریں،،، یہ آپکا کام نہیں ہے"

وہاب صاحب کو سنجیدگی سے دیکھ کر اسنے تنبیہی لہجے میں سیرت سے کہا خادم کچن کی جانب بڑھتے ہوئے وہاب صاحب کے اشارے پر ٹھہرا جواباً وہ لب بھینچ کر وہاب صاحب کو دیکھنے لگی جو کڑے تیوروں کیساتھ دونوں کو دیکھ کر اگلی صلوات کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

"حدید۔۔۔ میری چائے یہی لڑکی بنائے گی،، ابھی اسی وقت"

ہاتھ کی مٹھی بناکر ٹیبل پر آہستگی سے مارکر وہاب صاحب تیکھے لب و لہجے میں بولے۔

حدید نے نگاہیں اٹھاکر سنجیدگی سے سیرت کے ہاتھ کو دیکھا گلابی مخروطی انگلیاں آج سوجن زدہ تھی۔

"میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ جاؤ چائے بناؤ میری"

سیرت نے اسکے ہاتھ سے آہستگی سے اپنا ہاتھ نکالا مگر وہ کرسی دھکیل کر اٹھا اور کیساتھ سیرت کی کہنی کو تھام کر اسے جانے سے باز رکھا خادم اسکی تنبیہی سرد نگاہوں پر جلدی سے کچن میں گھس چکا تھا۔

"اگر اتنی پرواہ ہے تمہیں اس لڑکی کی تو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں کیوں نہیں رکھتے اسے۔۔۔ "

وہاب صاحب بھی کرسی دھکیل کر اٹھتے ہوئے گرجدار لہجے میں بولے  حدید رضا نے تشویش سے آیت کو دیکھا دونوں کو خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ کر ہتھیلیاں ٹکائے کرسی سے اتر چکی تھی۔

"بابا سائیں بچی کے سامنے خیال کریں۔۔۔۔"

فاریہ اسکے اشارے پر آیت کو اپنے ساتھ لے گئی تھی البتہ آیت مبہوت کھڑی اسکے قوی ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جو اسکا مومی ہاتھ اپنی پناہوں میں  محفوظ کئے ہوئے تھا۔

"کیا خیال کروں حدید۔۔۔  اگر یہ تمہاری بیوی ہے تو اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھتے اسے"

وہاب صاحب نے متبسم نگاہوں سے سیرت کو دیکھا جو لب بھینچے انکی ایکٹنگ ملاحظہ کررہی تھی۔

"اگر یہ محض خدا ترسی کیلیے یہاں پڑی ہوئی ہے تو گھرکے کام بھی کر دیا کرے گی"

وہ اسے سلگانے کی غرض سے مزید بولے تو اسنے وہاب صاحب کو محض تاسف سے دیکھا۔

"اپنا سامان "ہمارے کمرے" میں شفٹ کردیں آج سے آپ وہیں رہیں گی"

وہاب صاحب کو متانت سے دیکھ کر وہ سیرت کو تنبیہ کرکے اپنا سمارٹ فون اٹھائے وہاں سے واک آؤٹ کرگیا اسکے جانے کے بعد وہاب صاحب ہنس پڑے سیرت نے سر  آہستگی سے جھٹک کر انکو دیکھا۔

─────────────────────

رات گیارہ بجے وہ اہم سیاسی کانفرنس میں شرکت کرکے گھر واپس لوٹ آیا حویلی میں خاموشیوں کا راج تھا احتیاط سے دروازہ کھول کر بند کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو بیڈ پر سردی میں سکڑے وجود پر نگاہ پڑی دونوں بازوؤں کو خود سے لپیٹے وہ کنارے پر سہمی سکڑی آنکھیں موندے پڑی تھی شاید اسکا انتظار کرتے کرتے وہ نیند کی آغوش میں جاچکی تھی وائٹ کوٹ اتار کر کاؤچ پر ڈال کر اسنے کلائی پر بندھی گھڑی اور کف لنکس کھول کر نائٹ اسٹینڈ پر رکھے وارڈروب سے سادہ لباس منتخب کرکے وہ واش روم کی جانب پیش رفت کرگیا تھا سفید سادہ لباس زیب تن کئے وہ باہر آیا تو نگاہیں ایک بارپھر اس وجود پر ٹھہری سیاہ سلک کے ڈھیلے شب خوابی لباس میں حسیں چہرے پر سیاہ گھنی زلفوں کی چند گھٹائیں پھیلی ہوئی تھی۔

اسکے قدم بے اختیاری طورپر بیڈ کے اس کنارے کی جانب بڑھے جہاں وہ  پورے بیڈ کو خالی چھوڑکر محض تھوڑی سی جگہ گھیرےسکڑ کر لیٹی تھی دودھیا رنگت چہرے پر نیلا پن دیکھ کر اسے تشویش ہوئی۔

ہاتھ کی پشت سے اسنے چند خدشات کے تحت اسکے چہرے کو چھوا جو برف کی مانند ٹھنڈا تھا گھنے سیاہ گیلے بالوں سے سیرت کے مخصوص شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو پھوٹ رہی تھی۔

"سیرت ۔۔۔۔۔۔"

حدید نے متانت سے اسے مخاطب کیا اسکی دھیمی سرگوشی بھی سن لینے والی وہ لڑکی آج اسکے اس قدر محبت سے پکارنے پربھی  ٹس سے مس نہ ہوئی تو اسے شدید بےچینی لاحق ہوئی۔

دوسری بار پکارنے پر لہجے کی بےچینی میں شدت پسند حدتک اضافہ تھا کوئی جواب نا پاکر اسنے آہستگی سے اسکے کندھوں کو ہلایا مگر بےسود وجیہ چہرے پر غیرمعمولی کشیدگی عود آئی بھوری آنکھیں اسکے ہاتھوں کی انگلیوں کی جانب جھکی تو اسے شدید دھچکا لگا گلابی نرم انگلیاں ٹھوس ہوکر سفید  پڑی ہوئی تھی لگتا تھا جیسے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو اس پر بلینکٹ اوڑھتے ہوئے اسکی ٹھنڈی گردن سے انگلیاں مس ہوئی تو اسکا متحمل دھڑکتا دل شدت اختیار کرگیا۔

"سیرت۔۔۔پلیز ویک اپ"

وہ سراسیمگی کی کیفیت میں اسکے خشک رخساروں کو تھپک کر اسے جھنجھوڑ گیا مگر اس قدر زورآور بازؤں کے جھٹکوں پر غیر متحرک وجود متعلقہ جگہ سے ہلنے کے بعد دوبارہ ساکت ہوگیا۔

قوی انگلیوں نے تیزی سے فون کی اسکرین پر حرکت کی تھی بھوری آنکھوں کے سامنے خوف کے سائے لہرا رہے تھے اتنی شدید ٹھنڈ میں کیا ضرورت تھی نہانے کی وہ ذہن میں ہی اس پر ڈانٹ ڈپٹ کررہا تھا  باہر طوفانی بارش اور ہواؤں نے موسم کی خوبصورتی کو بھیانک شکل دی تھی اسوقت طوفانی بارش میں نہ تو باہر جانا مناسب تھا اور نہ کوئی ڈاکٹر اپنا سکون برباد کرکے کسی مریض کے چیک اپ کیلیے اپنا گرم بستر چھوڑنے کو تیار تھا کئی ایک نمبر ڈائل کرنے کے بعد ڈاکٹر کائرہ جو انکی فیملی ڈاکٹر تھی کچھ دیر بعد آچکی اور سب سیرت کا معائنہ کررہی تھی اور وہ پشت پر دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا تشویش سے ایک نقطے کو دیکھ رہا تھا۔

"انکا جسمانی ٹمپریچر بہت گرچکا ہے جیسا کہ آپ نے بتایا سردی میں شاور لینے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔۔۔۔ ہماری باڈی میں فنگشن کرنے والی انزائمز کو ایک معقول ٹمپریچر کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ انکے ہاتھوں کا خون جم چکا ہے جوکہ خطرناک ہوسکتا ہے۔۔۔ ایسا دماغ کی نسوں کیساتھ بھی ہوسکتا ہے اگر جلد از جلد انکا ٹمپریچر نارمل نہ کیا گیا۔ حدید صاحب آپ انکو ہوش میں لانے کی کوشش کریں۔۔۔ آپ کرسکتے ہیں ٹمپریچر ٹھیک ہوتے ہی یہ دوائی دے دیجیے گا۔۔۔ مجھے امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہیں"

ڈاکٹر کائرہ نے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تواسنے گہرا سانس ہوا کے سپرد کرکے ڈاکٹر کی بات پر سر آہستگی سے اثبات میں ہلایا پیچھے کھڑی فاریہ کے لب اسکے متفق ہونے پر آہستگی سے پھیلے تھے خادم کو ڈاکٹر کو واپس چھوڑ کر آنے کا حکم صادر کرکے وہ فکرمندی سے سیرت کی پیشانی کو ہاتھ کی پشت سے چھوکر ٹمپریچر چیک کرنے لگا آیت بھی فکرمندی سے سیرت کے ہاتھ کو ہلارہی تھی۔

"امم۔۔۔میں آیت کو لے جاتی ہوں۔۔۔ گڈ نائٹ جی"

 اپنے مشورے پرآیت کو بھونیں سکیڑتے دیکھ کر فاریہ اسے اٹھائے باہر نکلتے ہوئے عجلت سے بولی اسنے پلٹ کر  تشویش سے بند دروازے کو دیکھا تھا جہاں سے وہ  اسکی بیٹی سمیت فرار ہوئی تھی۔

─────────────────────

رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب آسمان پر تیزی سے گرجتے بادل کی آواز سماعت میں پڑی تو سیاہ آنکھیں آہستگی سے وا ہوئی منظر سے سیاہ پردہ دھیرے دھیرے سرکنے لگا حواس بحال ہوتے ہی سب سے پہلا احساس افسوئی کلون کی دل ربا مہک کا تھا جسے مدہم سانسیں  کامل استحقاق کیساتھ اپنے اندر سمورہی تھی.

دوسرا احساس پرتپش بھاری سانسیں تھی جو وقفے وقفے سے اسکی گردن پر برس رہی تھی حواس کچھ مزید بحال ہوئے تو دوسرے احساس میں ہلکی چبھن کا اضافہ ہوگیا سیاہ آنکھیں مکمل وا ہوتے ہی سردی سے خشک پڑتے رخساروں پر قوس قزح کے سارے رنگ بکھرے سانسوں نے ہمہ وقت ادائیں بدلی تھی۔

وہ اسکے پاس تھا بہت پاس ۔۔۔۔   دل تو کشادہ آسمان میں آزاد پنچھی کی مانند پر پھیلائے پرواز کررہا تھا۔

وہ اس فسوں خیز خواب سے کبھی باہر آنے پر آمادہ نہیں تھی وہ اس خوبصورت یاد کو آخرتک جی لینا چاہتی تھی سیاہ مبہوت آنکھیں مہر سے بھوری آنکھوں پر گری ہوئی خمدار پلکوں کو دیکھ رہی تھی وجیہ چہرے پر منقش ہلکی بیئرڈ  اس وجاہت کے دیوتا کے سحر میں کثیر اضافہ کررہی تھی وہ اسکے وجیہ چہرے کو چھونے چاہتی تھی مخروطی انگلیوں نے قوی انگلیوں کے حصار میں خفیف سی مزاحمت کی تو عالم غنودگی میں اسنے گلابی انگلیوں کو اپنی انگلیوں میں سموکر اسکی گردن پر گہرا سانس بھرا خوفزدہ ہوکر سیرت تمام مزاحمتوں کو بالائے طاق رکھ کر دم سادھے سر دوبارہ کشن پر رکھ گئی۔

"اب کیسا محسوس کررہی ہیں ۔۔۔۔۔"

اسکی بھاری سحر انگیز سرگوشی پر سیرت کے لب آہستگی سے پھیلے آنکھیں موندے وہ آہستگی سے استفسار کررہا تھا اور وہ پاگل سوچ رہی تھی شاید وہ گہری نیند میں تھا۔

"میں ۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔ رضا"

باریک انگلیوں نے بلینکٹ میں اسکے ہاتھ کی پشت پر حصار باندھا۔

"ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔"

آنکھیں وا کئے وہ سیرت کے چہرے پر جھکا سیاہ نیم وا آنکھوں میں جھانک کر بولا سیرت نے آہستگی سے سر نفی میں ہلایا اور گردن موڑ کر اسکے مظبوط ہاتھ کو دیکھا جو اب تک اسکی نرم ہتھیلی کو سہلا رہا تھا۔

"آیت۔۔۔۔ کہاں ہے رضا"

"فاریہ لیکر گئیں ہیں۔۔۔۔ ایک منٹ آپکی دوائی یہاں ہے"

میٹرس پر ہتھیلی ٹکائے وہ اٹھتے ہوئے متانت سے بولا سیرت نے اسکے چوڑے کندھے پر ہاتھ سے دباؤ ڈال کر اسے اٹھنے سے قبل روکا تو بھوری آنکھوں نے مروت سے سرخی مائل رخساروں کو دیکھا۔

"کیا مجھے معاف کردیا تم نے۔۔۔۔۔"

اسکی بیئرڈ کو انگلیوں سے آہستگی سے چھوتے ہوئے وہ سرگوشی سے پوچھ رہی تھی۔

"آپ سے زیادہ دیر خفا نہیں رہا جاسکتا سیرت۔۔۔ "

گلابی انگلیوں کے نشیب و فراز پر لبوں سے عقیدت ثبت کرتے ہوئے وہ بھاری سرگوشی میں گویا ہوا تو سیرت کی سیاہ آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر سفید کشن میں جذب ہوئے۔

"بہت لاپرواہ ہوگئی ہیں آپ۔۔۔۔ کیا ضرورت تھی اسوقت شاور لینے کی"

سپید کندھے پر نرمی سے لب رکھے وہ زرا تلخی سے بولا سیاہ آنکھوں کو گھنی پلکوں گرم گداز احساس ہوتے ہی عجلت سے ڈھانپا تھا۔

"اسی بہانے تمہاری ناراضگی دور ہوگئی۔۔۔ مجھے پچھتاوا نہیں"

بھوری خمار آلود آنکھوں میں جھانک کر وہ ہولے سے مسکرائی گلابی انگلیوں کو اسنے متانت سے تھاما اس سے پہلے وہ اسکی بیئرڈ پر دوبارہ نرم لمس چھوڑتی سیرت اسکی پرہیزگاری پر گہری مسکرائی کیا یہ وہی اناپرست شخص تھا جو ہمیشہ اپنی منوایا کرتا تھا۔

"سوری۔۔۔ لیکن تمہاری یہ بیئرڈ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔۔ پہلے سے تھوڑی بڑھ گئی ہے"

بھوری آنکھوں میں اترے خمار میں سیرت کی سرگوشی نے اضافہ کیا۔

"رضا۔۔۔ میرے پاس رہو۔۔۔ دوائی کی ضرورت نہیں ہے مجھے"

عرق سے دمکتی پیشانی پر بکھرے سلکی بال سمیٹتے ہوئے وہ آہستگی سے بولی سیاہ خشمگیں آنکھوں میں نمی جھلملائی تھی اسنے جھک کر گلابی رخسار کو نرمی سے چھوا۔

"کیا میری اتنی سی بات نہیں مانوگے۔۔۔۔"

بھوری آنکھوں میں اسکی سرگوشیاں خمار کو بڑھاوا دے رہی تھی سیرت اسکی گہری سانسوں کا بھاری ہن محسوس کرسکتی تھی ۔

"اگر آپ چاہیں تو اپنی ۔۔۔ ریاست کو آپکے قدموں میں رکھ سکتا ہوں"

سپید گردن میں لیمپ کی مدھم روشنی میں چمکتی پینڈنٹ کی باریک چین کو لبوں میں چھوئے وہ خمار زدہ لہجے میں جذبات سے لبریز بھاری سانسوں نے ریشمی سراپے سے پھوٹتی بھینی یاسمیں کی مہک سمیٹ کر تنگ ہوئی تھی نرم لمس پر اسکی قوی انگلیوں میں باریک انگلیوں نے بھرپور مزاحمت کی جبکے دوسرے ہاتھ کو اسکی چوڑی پشت پر پھیلائے وہ اسے مزید خود میں سمیٹ گئی۔

" کوئی ریاست نہیں چاہیے ۔۔۔ مجھے صرف میرے حدید رضا چاہئے"

سلکی بالوں میں باریک انگلیاں چلاتے ہوئے وہ مانندِ شمع اسکی قربت میں جلتے ہوئے بولی۔

"اپنی چیزوں پر حق جتایا جاتا ہے سیرت۔۔۔ مانگا نہیں کرتے "

گہرا سانس لیکر وہ گھنی زلفوں کی مہک سانسوں میں بھرتا ہوا بولا  سیرت کے ہاتھ نے اسکی آہنی گرفت میں بھرپور مزاحمت کی اسنے سیرت کے داہنے ہاتھ کی بھرپور مزاحمت کو دریافت کرکے  آزادی بخش دی تھی۔

"اپنی طبعیت کا خیال رکھا کریں سیرت۔۔۔ یہ میری فائنل وارننگ ہے"

بھوری تنبیہی نگاہوں نے جہاں سختی برتی وہاں اسکے لبوں نے عرق آلود پیشانی پر نرماہٹ ثبت کی تھی۔

─────────────────────

ایک سال بعد:

"مادام منسٹر صاحب آئے ہیں۔۔۔۔"

کانفرنس ہال میں سیکریٹری نے آکر اسے اطلاع کی میٹنگ نبٹاکر وہ فائل سمیٹ کر عجلت سے اپنے پرائیویٹ کیبن کی جانب پیش قدمی کررہی تھی لبوں پر گہری مسکراہٹ تھی دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی تو اسے ڈیسک پر ہتھیلی ٹکائے کھڑا دیکھ کر سیاہ آنکھوں نے اسکی وجاہت کو سراہا فائل کا مطالعہ کرتی بھوری سحر انگیز آنکھیں دروازہ کھلنے کی آہٹ پر سیرت کی جانب اٹھی تو تراشیدہ بیئرڈ میں لب ستائش سے پھیلے۔

"مجھے لگا آپ لیان کو لیکر آئے ہونگے ۔۔۔ تنگ تو نہیں کررہا تھا"

دروازہ بندکرکے فائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے بولی حدید رضا کی نگاہوں نے فرصت سے اسے فارمل بلیک ڈریس میں سراہا وہ  ایک لڑکیوں کیلیے ایک پرفیکٹ رول ماڈل بزنس وومن تھی۔

اللہ پاک نےاب تو اسے رحمت کے بعد ایک بیٹے سے بھی نواز دیا تھا۔

"نہیں۔۔۔ بابا سائیں اونہوں ۔۔۔ آپکے بابا سائیں کے پاس ہے"

ڈیسک سے ہتھیلی ہٹاکر وہ چلتے ہوئے سیرت کے پیچھے ٹھہرتے مبہم متبسم کیساتھ بولا سیرت کی مسکان اسکے "آپکے بابا سائیں " پر زور دینے مزید گہری ہوئی۔

"رضا آپکی کانفرنس کیسی رہی۔۔۔۔ سویڈن کی فلائٹ کب ہے"

فون پر زاویان کے میسج پڑھتے ہوئے وہ مصروف سے لہجے میں پوچھ رہی تھی اور وہ مہر آمیز نگاہوں سے اسے دیکھتا جارہا تھا لمبے گھنے بالوں کا جوڑا بنائے وہ گہری دلچسپی سے فون کی اسکرین کو دیکھتے ہوئے اسکی نگاہوں کی تپش محسوس کرکے فون سے نگاہیں ہٹاکر سر اٹھاتے ہوئے اسکی جانب دیکھنے لگی۔

"اتنی گہرائی سے کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔۔"

بھوری آنکھوں میں محویت سے دیکھ کر وہ مسکرائی۔

"یہی  اگر شاہنواز خان اور اشفاق احمد اس دن حادثے میں ہلاک نہ ہوئے ہوتے تو میں انکے لئے کونسی اذیت ناک موت کا انتخاب کرتا۔۔۔ ایسی کونسی سزا تھی جو انکے لئے مناسب ہوسکتی تھی"

فون کی اسکرین پر موصول ہونے والی کال کو قطعیت سے منقطع کرکے وہ سیاہ آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

"تمہیں انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ اور میں خوش ہوں وہ نوبت نہیں آئی۔۔۔۔ وہ خود جہنم واصل ہوگئے ۔۔۔ میں نہیں چاہتی تم دوبارہ سے کوئی خون خرابا کرو"

اسکے وجیہ چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر وہ تشویش سے بولی سیاہ آنکھوں سے بھوری آنکھوں کا تصادم فسوں خیز تھا وہ کافی دیر متانت سے ان سیاہ آنکھوں کو دیکھتا رہ گیا تھا۔

"اہمم اہمم کیا ہم اندر آسکتے ہیں۔۔۔۔"

فاریہ نے ہنکارا بھرکر دروازے پر دستک دینے کے بجائے گرمجوشی سے دروازہ کھولا تھا سیرت خجالت سے پیچھے ہٹی البتہ حدید رضا نے کشیدگی سے فاریہ مرزا کو دیکھا جو اپنے ہمراہ آیت،،، عالیان اور تقریبآ سبھی کو لائی تھی سیرت نے مسکراتے ہوئے لمظ کو گلے لگایا تھا اور زاویان نے گرمجوشی سے حدید رضا سے مصافحہ کیا تھا انس اور ریحم بھی آج پہلی بار سیرت کے آفس آئے تھے۔

"تم سوچ رہی ہوگی اچانک سب یہاں کیسے تو میں بتا دیتی ہوں۔۔۔ آج تمہارا برتھڈے ہے  جو کہ تم مصروفیات کے باعث بھول چکی ہو اور ہم نہ صرف تمہیں یاد دہانی کروانے آئے ہیں بلکہ ہم پوری تیاری کیساتھ آئے ہیں۔۔۔ اینڈڈڈڈ ہیپی برتھڈے سیرت۔۔۔۔۔"

فاریہ جو تحمل سے بول رہی تھی  سنو سپرے نکالتے ہوئے جوش سے چلائی۔

"فاریہ نہیں میری میٹنگ ہے پلیزز ۔۔۔ مجھ پر سپرے مت کرنا"

زاویان کے پیچھے پناہ لیتی سیرت نے تشویش سے کہا فاریہ نے آیت کو جنبش نگاہ سے اشارہ کیا اور اگلے ہی لمحے دونوں نے سنو سپرے سے سیرت پر برفباری کردی تھی۔

"ارے بس کرو میری بچی کو تنگ مت کرو۔۔۔۔"

بی جان نے مسکراکر سیرت کے کورٹ سے سپرے جھاڑا تھا شام کو عسکری مینشن میں ایک بہت بڑی تقریب رکھی گئی تھی جس میں تمام دوست و احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔

"لمظ میں کیا کہہ رہا تھا زاریہ اب بڑی ہوگئی ہے ہمیں سوچنا چاہیے"

سیرت کو کیک کاٹتے ہوئے دیکھ کر مسکراتی لمظ نے زاویان کا مشورہ سن کر آنکھیں سکیڑی تھی زاویان کا پرجوش قہقہ سن کر وہ آہستگی سے مسکراتے ہوئے قریب کھڑی نیلی آنکھوں والی پری کو آغوش میں لے گئی تھی زاویان نے جھک کر پہلے اسکے اور پھر زاریہ کے رخسار پر محبت ثبت کی تھی۔

"میرا گفٹ کہاں ہے ۔۔۔۔ یا پھر آپ بھول گئے ہیں"

سیرت نے عالیان کو فاریہ سے لیتے ہوئے اسے مخاطب کیا تھا۔

"شام تک انتظار کریں ۔۔۔۔ آپکا گفٹ مل جائیگا آپکو فلحال کیلیے اتنا کافی ہے"

سیرت کی کنپٹی پر بوسہ دیکر وہ سرمئی آنکھوں والے عالیان کی طرف متوجہ ہوا جو اپنے مماں بابا کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اسکی آنکھوں کا رنگ بھوری اور سیاہ رنگ کا امتزاج تھا۔

انس اور ریحم کو بھی خدا تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا تھا فاریہ جو کونے میں کھڑی محبت سے اس مکمل فیملی کو دیکھ رہی تھی سیرت کے اشارہ کرنے پر مسکراتے ہوئے کیک کی جانب پیش قدمی کرگئی تھی۔

"ہمارے بغیر کیک کاٹا جارہا تھا وہاب دیکھو۔۔۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے"

زوہیب صاحب کی آواز نے سب کو دروازے کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا تھا زوہیب صاحب کیساتھ وہاب صاحب بھی اپنی میٹنگز برخاست کرکے بچوں کی خوشی میں  شریک ہونے کیلیے آئے تھے۔

فاریہ نے مسکراتے ہوئے اس خوبصورت یاد کو کیمرے میں محفوظ کیا تھا۔

"سیرت جب میں تمہارے ساتھ اور عاطف کیساتھ یسریٰ سے ملنے جاتی تھی ناں تو مجھے یہی احساس ہوتا تھا۔۔۔۔ کہ میرا خاندان مکمل ہے سب خوش ہیں۔۔۔ آج وہی احساس ہورہا ہے اس بوڑھی کو۔۔۔۔  میرے بچوں کو خوش دیکھ کر میرے دل کو سکون ملا ہے"

بی جان نے عالیان کی پیشانی کو چوم کر سیرت کی پیشانی کو چوما تھا سیرت نے مسکرا کر پرانے وقت کو ذہن میں دہرایا تھا کچھ دردناک یادیں ذہن میں ابھری تو سیاہ آنکھوں میں نمی ابھر آئی  کندھے پر مظبوط ہاتھ کا احساس ہوا تو سیرت حقیقت میں لوٹ آئی حدید رضا نے مسکرا کر اسکا سر اپنے شانے سے ٹکایا تھا۔

"تھینک یو ۔۔۔۔۔ میری طاقت ہوتم"

اسکے قوی ہاتھ کو نرمی سے پکڑتے ہوئے وہ لمظ اور زاویان کو ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر مسکرا گئی تھی آج سب مکمل لگ رہا تھا.

ختم شد۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shiddat E Ashique Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Shiddat E Ashique written by Zoya Shah .Shiddat E Ashique by Zoya Shah  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment