Pages

Thursday 26 September 2024

Aramish Khatir Season 1 by Fariha Islam Complete Romantic Novel

Aramish Khatir Season 1 By Fariha Islam New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Aramish Khatir  by Fariha Islam Complete Romantic Novel

Novel Name: Aramish Khatir

Writer Name:Fariha Islam

Category: Complete Novel

فضا میں مرغے کی آواز چاروں اور گونج رہی تھی نکلتے سورج نے گاؤں کے باسیوں کو خوش آمدید کہا تھا

وہ مست مگن سی اپنے بابا کے ساتھ گاؤں کی پگڈنڈیوں پر بھاگ رہی تھی

چرواہا اپنی مویشی کو لے کر اس کے سامنے سے گزرا تو وہ بھاگتی ہوئی ان تک پہنچی تھی

رحیم چاچا آپ کی بکری کے بچے بڑے کب ہونگے ؟؟؟

ان کے ہاتھ سے چھڑی لے کر وہ آگے بڑھی تھی

بٹیا ابھی تو دو دن کے ہیں ابھی کہا سے بڑے ہونگے۔۔

انہوں نے مسکرا کر جواب دیا اور پیچھے آتے اسکے بابا کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھ رہے تھے

سلام زارون بابا۔۔۔ ان کے قریب آنے پر رحیم بابا نے انہیں سلام کیا

وعلیکم السلام بابا کیا حال ہیں؟؟

الحمدللہ سائیں اللّٰہ کا کرم ہے سائیں انہوں نے مسکرا کر کہا

اللّٰہ بہتر ہی رکھے۔۔

فری بچے آجاؤ واپسی جانا ہے بیٹا۔۔ انہوں نے اپنی لاڈلی کو آواز دی جو اب بھیڑ بکریوں میں مگن سی کھیل رہی تھی۔۔

بابا جان ابھی نہیں نا آپ نے کہا تھا مارننگ میں ٹیوب ویل پر بھی جائیں گے یاد کریں۔۔۔

وہ انہوں یاد کراتے ہوئے بولی اور ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے بازوں میں بھرا تھا

افففف بابا جان نیچے اتاریں نا مجھے اب میں بڑی ہوگئی ہوں یہ دیکھیں اس نے ایک ہاتھ سے اپنی لمبائی دیکھائی تو وہ ہنس دئیے۔۔

آپ کیوں ہنس رہے بابا میں سچی میں بڑی ہوگئی ہوں پورے تھرٹین ائیرز کی۔۔۔ اس نے منہ بنایا

ہاں ہاں میری گڑیا آپ بہت بڑی ہوگئی ہو اپنے بابا کے جتنی۔۔۔ انہوں نے اس کی بات پر ہنسی دباتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی

آپ بہت شارپ ہیں بابا جان۔۔ آپ نے اپنی سمائل چھپائی ہے نا؟؟؟

ارے میری گڑیا آپ سے بھلا کچھ چھپ سکتا ہے؟ وہ اسے گود میں لئے چلنے لگے تو وہ چلائی تھی۔۔۔

بابا میں بڑی ہوگئی ہوں نا اتاریں نا نیچے۔۔۔

اچھا بابا۔۔۔ انہوں نے جلدی سے اسے نیچے اتارا کیونکہ ان کی شہزادی کا منہ کبھی بھی بن سکتا تھا

بابا تتلی۔۔ نیچے اترتے ہی اسکی نظر اڑتی تتلی پر گئی تو وہ بھاگ کر اسکے پیچھے گئی وہ خود بھی تو تتلیوں کی طرح تھی شوخ رنگوں سے بھری محبت سے گوندھی۔۔

زارون شاہ کی لاڈلی فریحہ زارون شاہ۔۔۔۔

رنگوں کی شوقین شہزادی

تتلیوں کے پیچھے بھاگے تو نیا کیا ہے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

لکڑی کا گیٹ عبور کرکے وہ اندر کی طرف بڑھا تھا دماغ کی رگیں تنی ہوئی تھیں غصے سے چہرہ لال ہورہا تھا

زور سے دروازہ بند کر کے وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر کمرے میں آیا تھا اور بستر پر سوئے وجود پر ایک قہر بار نظر ڈالی تھی

اندر واشروم سے جاکر پانی کی بالٹی بھری اور اسے لئے باہر آیا

اور بنا کچھ سوچے وہ بالٹی بستر پر سوئے وجود پر انڈیل دی۔۔۔

ااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ابے۔۔۔۔۔ کون ہےےے۔۔۔۔۔۔۔

وہ چیخا تھا۔۔

میں ہوں تیرا باپ۔۔۔ آواز سن کر اس کے ہوش واپس آئے تھے

یہ کیا حرکت تھی ؟؟؟؟؟

یہ وہی حرکت تھی جس کے تو قابل ہے گرمی اتاری ہے تیری۔۔ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا

سامنے والے کے دماغ نے خطرے کا الارم بجایا۔۔۔

اوئے شیر کیا ہوا ہے کیوں غصہ ہے؟؟

یہ بھی میں تجھے بتاؤ خانہ خراب وہ اس پر دھاڑا اور ایک جھٹکے سے اس کا گریبان ہاتھ میں لیا تھا

ہزار بار کہا ہے اپنی گندگی باہر تک محدود رکھ میرے گھر میں اگر کچھ کیا تو ٹانگیں توڑ دونگا مگر شاید تو نے مجھے ہلکا لے لیا تھا۔۔۔

ن۔۔نننہجن۔۔۔۔نہیں اوئے مں۔ممم۔۔میں۔۔نے کیا کیا؟؟ وہ ہکلایا۔۔

یہ تو تجھے ابھی پتا چل جانا ہے وہ اسے ایک ہی جھٹکے میں اٹھاتا بالکونی میں لایا اور اسے باہر کی طرف الٹا لٹکادیا۔۔

ااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔ لالہ نہیں اااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یارا اوپر کرو قسم سے میں نے۔۔۔۔۔ نیننن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں کیا کچھ۔۔۔

وہ زور زور سے چیخ رہا تھا نیچے لان میں اس خونخوار شیر کے کھلے کتے گھوم رہے تھے اور اوپر وہ خود۔۔۔

وہ اچھا پھنسا تھا اس بار آگے کنواں اور پیچھے بڑی والی کھائی۔۔۔

لالہ قسم خدا کی میں نے نہیں کیا یار اوپر کرو مجھے۔۔۔۔۔۔

اس بچارے کے تو اوسان خطا ہوئے تھے کہاں وہ خواب میں اپنی ملکہ کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے بھائی نے آکر اسے تارے دیکھا دئیے تھے

لالہ یار۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا اوپر کرلوں یار۔۔۔ اب کی بار وہ سچ میں رونے والا ہوگیا تھا

نہیں میری جان آج تمہیں اس زندگی کا اصل مقصد بتاؤ گا کہ جو غلط کرے گا اسکا انجام کیا ہوگا۔۔

وہ غصے کی انتہا پر تھا۔۔

میرا قصور تو بتادو بنا جرم بتائے سزا کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟

پرسوں رات کیا ہوا تھا یہاں؟؟؟

اسکے سوال پوچھنے کی دیر تھی ایک جھماکے سے اسے سب یاد آیا تھا

اسکے دوستوں نے محفل لگائی تھی کہ لالہ تو ہے نہیں ڈانسرز کو بلوایا گیا تھا وہ بیچارہ پر بھی نہیں مار سکا اپنے دوستوں کے آگے اب یہ تو پھر بھی بھائی تھا جو شیر سے بھی زیادہ خطرناک تھا

لالہ قسم خدا کی منع کیا تھا میں نے یارا سنی نہیں میری میں تو شامل بھی نہیں تھا ان میں۔۔۔

یارا شیر قسم کھا تو رہا ہوں آئندہ کبھی ایسا نہیں کرونگا غلط بات پر ساتھ بھی نہیں دونگا آئی پرامس۔۔

اس کے بولنے پر اس نے اپنے بھائی کو اوپر لیا تھا

زبان سے سمجھا سکتے تھے نا یارا یہ دل گردہ ایک کرنا ضروری تھی وہ دل پر ہاتھ رکھے وہی بیٹھ گیا

جو زبان کی بات نہیں سمجھتے ان کے لئے میرے پاس بس یہی ایک طریقہ ہے۔۔۔

ارے کوئی بتاؤ انہیں یہ ابھی پولیس والے نہیں بنے کیوں یہ مجھ پر اپنی ٹریننگ کر ریے

وہ چیخا تو اسنے رخ موڑ کر اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی

زیادہ اداکاری کرنے کی میرے سامنے تو بلکل بھی ضرورت نہیں ہے ابھی کالج لائف شروع ہی ہوئی ہے اور بندے کی حرکتیں تو دیکھوں اب ایسا کچھ بھی ہوا نا تو تمہارا بھیجا ہوگا اور میری بندوق

اس نے کمر پر لگی بندوق اسکے آگے کی تو اس نے خوف سے آنکھیں پھیلائیں

قسمے لالا اللّٰہ کسی کو تم جیسا بھائی نا دے تمہاری بیوی کا تو خدا ہی حافظ ہے۔۔

انسان کا بچہ بنو اوئے خانہ خراب۔۔۔

اسنے کھینچ کر مکا اپنے چھوٹے اور لاڈلے بھائی کو مارا تھا جو اب دانت نکال رہا تھا

لالہ تمہارا یہ ویک پوائنٹ قسم سے مزہ دیتا ہے۔۔

اپنی بول کر وہ چھپاک سے واشروم میں گھسا تھا ورنہ اپنے بھائی سے کچھ بعید نا تھی کہ واقعی میں منہ توڑ دیتا۔۔۔۔

اس کے بھاگنے پر اسنے دانت پیسے

خانہ خراب۔۔😐😐😐😐

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ فریش ہوکر سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تو شمشیر خان زری بی سے ان کے لئے ٹیبل تیار کروارہے تھے

زری بی نے ایک نظر اپنے مالک کے سب سے لاڈلے اور چہیتے بیٹے کو دیکھا

سرخ وسفید رنگت لمبا قد اس پر کھڑی مغرور ستواں ناک سلیقے سے سیٹ ہوئے بال۔۔

کائی رنگ آنکھوں پر سنجیدگی اور ہلکی شیو پر موجود تل جو اسکے ڈمپل پر تھا بلکل وہ شہزادوں کی آن بان والا پٹھان تھا

پٹھانوں کا سارا حسن ہی اسکے پاس آگیا تھا شاید۔۔

زری بی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی نظر اتاری تھی

وہ تیئس سال کا تھا خوبرو وجیہہ لیکن اس کا رعب سب پر تھا اپنے خاندان کا سب سے قابل اور غصے کا تیز۔۔

باپ دادا کی جان بستی تھی اس میں وہ تھا ہی ایسا۔۔

کبھی دھوپ تو کبھی چھاؤں جیسا۔۔

برستی بارش میں سائبان جیسا۔۔

حیدر علی خان۔۔۔۔۔

اسلام وعلیکم خان بابا۔۔۔ وہ آستینوں کے کف موڑتا  کرسی آگے کرکے بیٹھا تھا

وعلیکم السلام چھوٹے خان۔۔۔

اس کے بیٹھتے ہی زری بی نے اس کی پلیٹ میں ناشتہ ڈالا تھا

رہنے دیں بی اس سب کی عادت جلد ہی ختم ہونے والی ہے اب۔۔

سنجیدگی سے بولتا وہ کھانے میں مصروف ہوگیا

زری جاؤ عائش بابا کو دیکھو جاکر۔۔

جی۔۔ وہ سر ہلا کر سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔

شمشیر خان نے ایک نظر اسے دیکھا جو اب چہرہ بے تاثر کئے کھانے میں مصروف تھا۔۔۔

عائش پر نظر رکھا کریں بابا۔۔۔

جی چھوٹے خان اب سے دھیان کریں گے۔۔

دھیان نا بھی کریں بس اسکی کوئی حرکت مشکوک لگے  تو فوراً مجھے اطلاع دیں میں نہیں چاہتا ایک بار پھر وہی سب ہو۔۔۔۔

اس کی بات پر وہ سر ہلا کر رہ گئے

اور ایک بات عائش کے دوستوں کو گھر میں کوئی فضول کام نا کرنے دیں۔۔

بیٹا اس دن ہم گئے ہوئے تھے کہ سب ہمارے پیچھے ہوا تھا ہم بہت شرمندہ۔۔۔

ارے اس میں شرمندہ ہونے کی کیا بات۔۔۔ اس نے بیچ میں ہی ان کی بات کاٹی تھی

آپ ماضی جانتے ہیں نا میں ڈر گیا ہو اپنوں کو کھونے سے آپ سمجھ رہے ہیں نا۔۔۔

میں سمجھ سکتا ہوں چھوٹے خان آسان نہیں وہ سب بھلانا آپ نے فکر رہیں میں عائش بابا کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھوں گا 

یار بی مجھے روکھا سوکھا نہیں کھانا آپ پراٹھا بنائے میرے لئے۔۔۔ سیڑھیوں سے اترتے عائش کی آواز پر وہ دونوں خاموش ہوئے تھے 

جو زری بی سے فرمائش کر رہا تھا اور وہ مسکرا کر ہاں میں سر ہلا رہی تھیں

مگر کون جانتا تھا آگے کیا ہونے والا تھا

میرے بابا لائے موٹر کار،جس کے نیچے پہیے چار

چابی سے وہ چلتی ہے، 

 چھک چھک چھک چھک کرتی ہے 

وہ لہک لہک کر پوئم پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک کسی نے اس کے ہاتھ سے بک لی تھی 

اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ حرا تھی۔۔ اس کی تائی کی بیٹی جو اسے تو کم از کم ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی 

میری بک واپس کرو حرا آپی ۔۔۔۔

تیکھے چتونوں سے اسے دیکھتے اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کیا 

نہیں دونگی۔۔۔۔۔ بلکہ ابا کو بتاؤں گی کہ تم کتابیں پڑھتی ہو۔۔

وہ اسکی کتاب ہوا میں لہرا کر بولی 

تو۔۔۔۔ سب پڑھتے ہیں آپ بھلے کردو شکایت۔۔۔ بٹ میری بک واپس کر کے۔۔ وہ نروٹھے انداز میں بولی تھی 

سنہری رنگت میں سرخی سی گھلی تھی چھوٹی سی ناک غصے میں سکڑی تھی 

حرا نے اپنے سے پانچ سال چھوٹی کزن کو دیکھا جس کا حسن اس عمر میں بھی کافی نمایاں تھا کچھ گاؤں کی ہوا نے بھی نرالہ ہی رنگ دیکھایا تھا 

شہید رنگ آنکھیں کو چھپاتی سایہ افگن گھنیری پلکیں چھوٹی سی ستواں ناک جس پر اس وقت غصہ بیٹھا تھا 

گلاب جیسے ہونٹ اور ان پر موجود ننھا سا تل۔۔۔

بھرے بھرے گلابی گال 

حرا کے دل میں لمحے کو آیا کہ وہ اسکا یہ نوخیز حسن نوچ ڈالے

یہاں لڑکیاں پڑھنے نہیں گھر کے کام کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہیں جنھیں وقت آنے پر کسی کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے آئی سمجھ۔۔ 

اس نے اسکا بازو تھام کر تلخی سے کہا۔۔

اہہہ۔۔ مجھے درد ہورہا ہے۔۔۔ اس نے اپنا بازو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی تھی 

بات سنو فریحہ گل۔۔۔ تمہارا یہ حسن یہ تعلیم کسی کام کی نہیں ہے تمہیں بھی وقت آنے پر بے رحم موجوں کے حوالے کردیا جائے گا تو یہ ادائیں اور اس حسن کی چھب دکھلانا چھوڑ دو آئی سمجھ۔۔۔

غصے سے پھنکارتی وہ اس وقت فریحہ گل کو کوئی چڑیل لگی وہی چڑیل جس کی کہانی وہ اپنی ننا سے سنتی آئی تھی۔۔

جاؤ اب یہاں سے۔۔۔ 

اس دروازے کی اور دھکیل کر وہ کمرہ بند کرکے آگے بڑھ گئی 

یہ اچھی نہیں ہے بابا۔۔۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کرتی وہ بڑبڑائی تھی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

زارون شاہ۔۔۔ دلاور شاہ کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا۔۔

چاروں بچوں میں ایک وہ ہی تھا جس کی بات انہوں نے آج تک نہیں ٹالی تھی

بڑے بیٹے افراز شاہ ان کے ساتھ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں میں متحرک تھے جب کے ان کی بیوی سجیلہ ایک انتہائی جابر عورت تھی جسے سوائے دولت اور اقتدار کے نشے کے علاؤہ کچھ نہیں سوجھتا تھا 

دونوں نندیں اپنے اپنے سسرالیوں میں کیسی زندگی گزار رہی تھی اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا 

ان کا بس چلتا تو سب کو شاہ حویلی سے نکال کر خود سب پر قبضہ جما لیں۔۔۔

زارون شاہ کے باہر ملک پڑھنے کی خواہش کر سب سے زیادہ انہوں نے ہی واویلا مچایا تھا 

لیکن وہ بھی اپنی ضد کے پکے کسی کی بات پر ایک کان تک نا دھرا۔۔۔

انہوں نے بہت کوشش کی کہ جانے سے پہلے وہ ان کی بہن سے نکاح کرکے جائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں وہ دونوں بہنیں مل کر شاہ حویلی پر راج کرسکیں۔۔

مگر وہ کیا ہے نا اللّٰہ کی تدبیر کے آگے باقی ساری تدبیریں الٹی ہی پڑ جاتی ہیں 

زارون شاہ ایک رات چپکے سے حویلی سے نکل گئے بنا کسی سے ملے..

سجیلہ بیگم تو پھڑپھڑا کر رہ گئی بہتری کوشش کی انہوں نے بابا سائیں کے کان بھرنے کی لیکن وہ پھر سب کے باپ تھے

کسی کی بات پر کان نا دھرے شاید بیٹے کی اس حرکت سے پہلے ہی واقف تھے 

لیکن دھچکا انہیں تب لگا تھا جب اپنے ذرائع سے انہیں زارون شاہ کے نکاح کی خبر ملی تھی

ان کا پارہ آسمان کو چھوا تھا اتنی ایمرجنسی میں باہر جانا ان کے لئے ناممکن سی بات تھی الیکشن سر پر تھے الیکشن تو وہ چھوڑ بھی دیتے مگر اپنے حریفوں کو جیت تھالی میں رکھ کر پیش تو وہ ہرگز نہیں کرینگے

اس لئے وقتی خاموشی اختیار کی زارون سے ناراضگی بہت تھی اس لئے خود بھی اس سے رابطہ نہیں کیا۔۔۔

باپ کی ناراضگی کا زارون کو علم تھا اس لئے جلد ہی پاکستان آئے تھے مگر اکیلے۔۔

باپ کے قدموں میں پڑ کر معافی مانگی تھی جانتے تھے شفیق باپ نے کتنی مسافت طے کی تھی 

ماں کا پیار بھی انہی سے ملا تھا 

بیٹے کو یوں اتنے سالوں بعد دیکھ کر وہ لمحوں میں پگھلے تھے۔۔

ان کی واپسی پر ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا تھا انہوں نے۔۔

وہ ان کے کندھے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے تبھی زارون شاہ نے موبائل ان کے آگے کیا تھا جس میں ایک بے حد نازک بلکل پریوں کی شہزادی کی تصویر تھی ہوبہو زاروں شاہ جیسی ستواں ناک سرخیوں میں گھلی قندھاری رنگت 

وہ یک ٹک اسے دیکھتے رہے۔۔

بابا یہ پوتی ہے آپ کی۔۔ زارون کی سرگوشی ان کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ لمحے کو تھمے تھے اور ایک ناراض نظر اپنے جگر کے گوشے پر ڈالی 

یہ ٹھیک نہیں کیا تم نے جان دلاور۔۔۔ 

ہمارے دل کی تصویر اب دیکھا رہے ہو تمہیں تو چاہیے تھا لے کر آتے تاکہ دادا کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی۔۔۔ 

بہت جلد لاؤں گا بابا بس آپ راضی ہیں تو مجھے اب کسی کی فکر نہیں۔۔۔

ان کے کہنے پر وہ مسکرائے اور انہیں اپنے بازوؤں میں بھینچا 

واپسی کے وعدے کرتے وہ ایک بار پھر اپنی گڑیا کے پاس آئے تھے

وہ ننھی کلی انہیں دیکھتے ہی کھل اٹھی تھی

جھٹ بابا کے کندھے سے لگی زارون شاہ نے اپنی شہزادی کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا 

میری جان۔۔۔

پھر وہ اپنی شریکِ حیات کی طرف بڑھے جو مسکراتے ہوئے دونوں بات بیٹی کی محبت دیکھ رہی تھیں 

انہوں نے آگے بڑھ کر اپنی محبت کے ماتھے پر مہر ثبت کی تو وہ مسکرا دی 

کیسی ہو؟؟ 

آپ کے بغیر بہت اداس تھی اب تو بہت خوش۔۔۔ وہ ان کا ہاتھ تھام کر بولی تو زارون شاہ نے ان کے ہاتھ پر بوسہ لیا تو حیا کے بار سے ان کی پلکیں جھک گئیں

وہ آج بھی روز اول کی طرح زارون سے شرماتی تھیں 

ایک اتفاقی ملاقات میں وہ زارون شاہ کا دل چرا لے گئی تھیں مغرب میں رہ کر بھی وہ مشرقی زندگی گزار رہی تھیں 

وہ یہاں اپنے ماموں کے ساتھ رہتی تھیں زارون نے ان کے ماموں سے ہی رشتہ مانگا تھا وہ شش و پنج کا شکار تھے مگر آئمہ کی مامی طرح دار عورت تھیں آئمہ ان کے لئے ایک بوجھ ہی تھی 

اپنی تعلیم کے پہلے سال ہی زارون شاہ نے اپنی محبت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا تھا

سال بعد ان نے آنگن میں خوشیوں کی بہار آئی تھی ان کے دل اور گھر کی رونق

فریحہ زارون شاہ 

جس کے نام کا مطلب ہی خوشی تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

زارون آپ کیوں لے کر جارہے ہیں اسے میرا دل کیسے لگے گا؟؟ 

میری جان بس چند دنوں کی تو بات ہے بابا سائیں بہت یاد کر ریے ہیں ہمیں۔۔

پھر بھی زارون میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔

افف وہ اٹھ کر آئمہ کہ پاس آئے تھے اور ان کا ہاتھ تھاما 

ممتا سے بھرا وجود ان کے چہرے کو روشن کئے ہوئے تھے 

زارون نے نرمی سے ان کے ماتھے کو چھوا تھا 

جان زارون کیوں فکر کرتی ہو وہاں بھابھی ہیں بچیاں ہیں سب بہت خیال رکھیں گے نا اور میرے بس میں ہوتا تو آپ کو ساتھ لے چلتا مگر ڈاکٹر کی بات ماننا بھی تو ضروری ہے نا؟؟ 

آپ کچھ مہینے صبر نہیں کرسکتے زارون۔۔۔ 

ان کی بات پر وہ بے بس ہوئے تھے 

ادھر آؤ وہ انہیں تھامے صوفے تک لائے اور انہیں بیٹھایا

میرے بابا بیمار ہیں آئمہ وہ فریحہ سے ملنا چاہتے ہیں کیا میں انہیں منع کردوں؟؟ 

نہیں نہیں میں نے یہ تو نہیں بولا نا آپ جائیں بس جلدی آجائیے گا 

وہ منمنا کے بولی تو وہ مسکرا دیے

بس چند دن کی بات ہے پھر تو آپ کے ساتھ ہی ہونا ہے نا ہم نے۔۔۔ 

جی۔۔۔

بابا میں آؤں؟؟ وہ ابھی کچھ بولتے کہ دروازے کی اوٹ سے ان کی معصوم پری نے اپنی جھلک دکھلائی تو وہ پورے دل سے مسکرادئیے اور اپنے دونوں بازو اسکے لئے وا کئے

بابا وہ بھاگتی ان کی آغوش میں گم ہوئی تھی 

میری جان۔۔ زارون شاہ نے اسکا ماتھا چوما اس کے دونوں ہاتھوں کو باری باری آنکھوں سے لگایا 

یہ ان کا طریقہ تھا اپنی کل کائنات سے محبت کے اظہار کا 

گلابی فراک پہنیں وہ گلاب لگ رہی تھی بالوں کو دو پونی میں مقید کیا ہوا تھا

بابا ہم پاک جارہے ہیں نا؟؟ اس کے جواب پر وہ مسکرائے 

بلکل جارہے ہیں وہاں ہم دادا ابو سے ملیں گے وہ بہت ویٹ کر رہے ہیں آپ کا 

آئی نو بابا دا ابو نے بولا وہ گیم بھی کھیلے گے نا۔۔

جی میری جان۔۔

فری گل۔۔۔ بابا کو تنگ نہیں کرنا ہے آپ نے وہاں کسی کو بھی تنگ نہیں کرنا ٹھیک ہے نا؟؟؟ 

آپ کیوں نہیں جاری مما؟؟ 

کیونکہ مما کی طبعیت ٹھیک نہیں ہم بھی جلد ہی مما کے پاس واپس آجائیں گے آپ کی پیکنگ ہوگئی ؟؟ 

یپ بابا کب کی ہوگئی۔۔

گڈ اب آپ چلو بابا آپ کو سلاتے ہیں صبح جلدی جلدی جانا ہے نا ہم نے زارون شاہ نے اسے اپنی گود میں بھرا تو گل نے اچک کر آئمہ کے گال پر بوسہ دیا 

گڈ نائٹ مما ۔۔۔

یا اللّٰہ میری بچی کی حفاظت کرئیے گا پتا نہیں کیوں میرا دل بہت پریشان ہے بس ان میرے آشیانے کو اپنے حفظ و امان میں رکھ۔۔

ان کا دل ہول رہا تھا اس لئے بس اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کیا۔ ۔۔۔۔۔۔

صبح کا ستارہ افق پر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا تارے کہیں چھپ گئے تھے کہ کہیں اس روشن پہلو میں رہ کر جل نا جائیں 

تاحد نگاہ لہراتے ہرے بھرے کھیت اور ان پر لگی فصل کسانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔ 

کچی پکی پگڈنڈیوں پر بھاگتے بچے جو صبح خیزی کے عادی تھے

فضا میں پرندوں کی آواز میں مدھر گیت گونج رہے تھے

وہ سارا راستہ آتے جاتے مناظر میں کھوئی اب تھک کر اپنے بابا کی گود میں سوئی تھی وہ اسے وہی برتھ پر لیٹا کر سیدھے ہوئے تھے 

کتنا عرصہ گزر گیا تھا انہیں اپنے ملک آئے پہلے تعلیم کی مصروفیات اب نوکری کے بکھیڑے وہ الجھ گئے تھے اپنی زندگی میں کہ اپنی سر زمین کو بھی بھول گئے تھے سوھنی دھرتی کی خوشبو ان کی سانس میں رچی بسی تھی 

وہ بہت یاد کرتے تھے اپنے گاؤں کو وہاں گزارے لمحوں کو لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر وہ واپس آجاتے ہیں تو آئمہ کے لئے یہاں گزارا ناگزیر ہو جائے گا اس لئے بس چپ تھے

بابا جان کب پہنچی گے؟؟ اس نے کوئی چوتھی بار ایک ہی سوال پوچھا تھا

میرا بیٹا تھک گیا ہے؟؟ انہوں نے جھک کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا

نہیں بٹ میں بور ۔۔۔۔۔۔۔ 

ہمم تو یہ بات ہے میرا بچہ بور ہورہا ہے انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا 

ایک کام کرتے ہیں ابھی جب ٹرین رکے گی تو میں میرے بیٹے کے لئے اچھی سی اسٹوری بک لونگا ٹھیک ہے نا؟؟ 

نو نو بابا بک ہے میرے پاس آپ مجھے خود سے کوئی اسٹوری سنائیں وہ والی ایک بھیڑیا خطرناک ہوتا ہے جو جنگل میں گھومتا ہے اور سب جانوروں کو کھا جاتا ہے 

وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھ ان کے گال پر رکھے ان کی گود پر چڑھی تھی

وہ باتونی تھی اور جب بولتی تھی تو زارون شاہ کا دل موہ لیتی تھی

بابا جان یو نو مما نے بولا وہاں شرارت نہیں کرنا بٹ یو نو بیبیز تو کرتے نا شرارت اور میں بھی تو آپ کا بے بی ہوں نا تو میں کرسکتی نا شرارت۔۔ وہ آنکھیں میچے بولی تو اپنی گڑیا کی بات پر مسکرا دیے

وہ ان سے شرارت کی پرمیشن مانگ رہی تھی 

ہمم بے بی کرتے شرارت مگر فری زارون شاہ تو سمجھدار بے بی ہے نا وہ کیوں شرارت کرے گا 

اوووو بابا جان آپ بہت تیز ہیں نا آپ ایسے بول کر چاہتے میں تنگ نا کرو وہ ان کی گود سے اتر کے سامنے برتھ پر منہ بنا کر بیٹھ گئی تو وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑے

ارے بابا کی جان جم جم شرارت کرو مگر اماں(بڑی بھابھی)غصہ کرتی ہیں نا۔۔

آئی نو بابا لاسٹ ٹائم جب ہم آئے تھے وہ تب بول رہی تھی پتا نہیں کیا کیا۔۔۔ وہ منہ سڑا کر بولی

بابا جان اماں بہت غصہ کرتی ہیں وہ بلکل بھی اچھی نہیں ہیں۔۔۔

اونہوں فریحہ گل۔۔ ایسے نہیں بولتے بڑی ہیں نا وہ بری بات ہوتی ہے۔۔

وہ جب بھی اسے ٹوکتے تھے تو اسکا پورا نام ہی لیتے تھے

سوری بابا جانی۔۔۔

ہمم گڈ بڑوں کے لئے ایسے نہیں بولتے چندا۔۔

انہوں نے اسے ایک بار پھر گود میں بھر کر سمجھایا تو اسنے انکے سینے میں منہ دے دیا جہاں اپنے بابا کی آغوش میں وہ ایک بار پھر نیند کی وادی میں اتر گئی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سر سبز پہاڑوں سے گھری وہ جنت نظیر وادی دل میں اترتے دلکش نظاروں سے مزین۔۔

بادلوں کی اوٹ میں چھپا سورج شاید آج ٹھنڈے مزاج لئے ہوئے اپنا جلال نیچے موجود شہزادے میں منتقل کرچکا تھا اور اب چھپ کر اسکے جلال کےمظاہرے کا منتظر تھا 

اردگرد کھڑے شہتوت آخروٹ اور انجیل کے درخت قطار در قطار کھڑے گزرنے والوں پر سایہ افگن تھے راہ میں بکھرے پھول اپنے شہزادے کے منتظر تھے 

جیسے جیسے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز قریب آتی جارہی تھی چڑیوں اور دیگر پرندوں کا شور بڑھتا جارہا تھا 

سرپٹ گھوڑا دوڑائے وہ مغرور شہزادہ گھوڑے کی باگیں تھامیں ہواؤں سے باتیں کرتا اڑ رہا تھا۔۔

کالے شلوار قمیض پر بلیک شال پہنے ماتھے پر بکھرے بال۔۔

کائی رنگ آنکھوں میں گہرے سناٹے تھے 

جیسے ہی وہ ان درختوں کے درمیان سے گزرا کئی پتوں نے خود کو اس پر نچھاور کیا تھا۔۔۔

وہ آکر اصطبل پر رکا تھا گھوڑے کی باگیں ڈھیلی چھوڑ کر وہ خود اس پر سے اترا۔۔۔

حیدر لالا۔۔۔ حیدر لالا۔۔۔ 

وہ ابھی اپنے گھوڑے کو ملازم کے حوالے کر کے مڑا ہی تھا کہ شیر دل کی آواز نے اسکے قدم روکے۔۔۔ 

وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا تھا۔۔

لا۔۔۔۔لالا۔۔۔۔ پھولی سانسوں کے درمیان وہ بس اتنا ہی بولا تھا 

کیا ہوا شیر؟؟ سب خیریت؟؟ اس نے چلتے ہوئے دوسرے گھوڑے کے  سر پر ہاتھ پھیرا جو اپنے مالک کا لمس پاتے ہی خوشی سے ہنہنایا

آغا جان اور بڑے خان نے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔۔ اس نے معلوم ہوئی معلومات اس تک پہنچائی 

تو اس میں کیا نئی بات ہے شیر؟؟؟ وہ بیزاری سے بولا تھا جیسے حویلی اور وہاں کے مکینوں سے اسکا کوئی سروکار نا ہو

نئی بات یہ ہے کہ اس بار ان کے حریف دلاور شاہ ہیں۔۔۔ 

اس کی اس بات پر وہ چونکا تھا۔۔۔

ہمم۔۔۔ 

ہمم کیا لالا؟؟؟ شیر اس کے ٹھنڈے ردعمل پر بدمزہ ہوا 

کیا بولوں اس پر شیر؟؟ اس نے سوال کے بدلے سوال کیا تھا 

آپ منع کیوں نہیں کرتا آغا جان کو۔۔۔ …

میری زندگی میں اور بھی بکھیڑے ہیں شیر۔۔ 

اس کی آنکھوں میں ماضی کی تلخیاں تھیں 

ک

کیوں ہر بار یہ لوگ آگ سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں انکا تو کچھ نہیں جاتا البتہ نقصان ان کے اپنوں کا ہوتا ہے۔۔

اس کے آنچ لہجے پر شیر دل کو افسوس ہوا تھا

اچھا چھوڑیں لالا یہ بتائیں ڈیوٹی کب سے جوائن کر رہے؟؟؟ 

اگلے ہفتے۔۔ 

چلیں لالا ہمارا بھی کچھ فائدہ ہوگا آپ کے نام کا رعب ہم بھی جما کر فائدہ حاصل کرینگے 

وہ ایسے بولا جیسے کوئی فخریہ کام کرے گا 

اس کی بات پر وہ مسکرا دیا 

عائش اور داؤد پر نظر رکھ شیر ان کی طرف سے دل پریشان رہتا ہے 

آپ بے فکر رہیں بندے چھوڑیں ہیں ان کے پیچھے

میرے باپ دادا ایک بار پھر آگ میں ہاتھ ڈال رہے ہیں اور اس آگ کی بھٹی میں ڈالنے کے لئے اب ان کے پاس صرف میرے پیارے ہی بچیں ہیں ایک کو چھین چکے ہیں ان کو کہیں نہیں جانے دونگا میں۔۔ 

اس کے لہجے میں بس تلخی ہی تلخی تھی 

لالا۔۔۔ اللّٰہ سب بہتر کرے گا۔۔

ہمم۔۔ گاڑی نکالو شیر قبرستان جانا ہے۔۔ وہ بول کر آگے بڑھ گیا 

جبکہ اس نے بہت افسوس سے اپنے مالک اپنے بڑے بھائی دوست کو دیکھا جس کے دل میں ناجانے کتنا درد بھرا تھا۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

جیپ نواحی علاقے میں داخل ہوئی تھی چاروں طرف ہریالی تھی 

سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ آگے بیٹھا تھا جبکہ شیر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔

گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔۔۔ 

وہ شال ٹھیک کرتا نیچے اترا تھا سامنے ہی بڑی سی تختی پر جلی لفظوں میں لکھا تھا۔۔

'آخری آرام گاہ'۔۔۔

ضبط سے اس نے آنکھیں میچی تھیں دل کرلایا تھا۔۔۔ 

آہستہ روی سے چلتے وہ اس ایک قبر پر آکر رکا تھا 

برگد کے پیڑوں کی چھاؤں میں بنی وہ قبر۔۔ 

اس نے کتبے پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔ 

قبر کے اطراف پڑے پتوں کو سمیٹ کر وہ بیٹھا اور ساتھ لائے تازہ پھولوں کو اس کی قبر پر سجایا 

دماغ میں کہیں اسکی یاد جھماکے سے آئی تھی۔

آپ میرے لئے روز گلاب لایا کرے نا۔۔۔

کیوں؟؟ وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگا 

کیونکہ میں خود گلاب جیسی ہوں نا۔۔ وہ بول کر شرارت سے ہنس دی۔۔۔ 

اچھا اور میں کون ہوں؟؟ اس نے آئی برو آچکا کر سوالیہ انداز میں اسے گھورا۔۔۔

آپ کانٹا ہیں جو ہر وقت گلاب کے ساتھ ہوتا۔۔ وہ ایک جذب سے بولی مگر آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی

کانٹا۔۔۔ اسکا حیرت سے منہ کھولا تھا

ابھی بتاتا ہوں کانٹے کی بچی۔۔۔ وہ اسے گدگدانے لگا تو اس کی چیخیں بلند ہوئی 

ن۔۔۔نین۔۔۔۔

نہیں کرے نا مر جانا میں نے۔۔۔ 

نہیں مرتی تم چڑیل۔۔۔ وہ اب بھی باز نہیں آیا تھا۔۔۔

قسم سے مرجانا میں نے پھر آپ لانا میری قبر پر گلاب۔۔ وہ ہنس کر بولی لیکن اس کے ہاتھ وہیں رکے تھے

چہرے پر ایک دم سنجیدگی طاری ہوئی تھی اس نے بھی اس کی سنجیدگی نوٹ کی تو دانتوں تلے لب دبایا۔۔ 

معافی معافی معافی اس نے جلدی سے کان پر ہاتھ لگایا مگر وہ اٹھ کر آگیا 

کیا جانتا تھا کہ اس دشمن جان کو آخری بار دیکھ رہا ہے تو اس سے یوں ناراض ہوکر نا جاتا بلکہ دور کہیں چھپا لیتا۔۔۔

فاتحہ پڑھ کر وہ شکستہ قدموں سے اٹھا تھا 

کن سے بدلہ لوں تمہارا یہاں تو قاتل بھی تمہارے اپنے ہی ہیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گاؤں کی حدود میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف رنگ برنگی جھنڈیاں نظر آئیں کھیتوں میں لہراتے سر سبز جادوئی بہار لئے سرسوں کے پھول۔۔۔

ان کی گاڑی کچی پکی سڑکوں پر بل کھاتی چل رہی تھی

گاؤں کے سارے لوگ ان کی گاڑی کے آگے پیچھے ہورہے تھے 

ارے چھوٹے سائیں آئے ہیں۔۔۔ کسی آدمی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی تھی

ان کی بات سن کر وہ مسکرائے یہاں کے سادہ دل لوگ۔۔

گاڑی حویلی کے احاطے میں داخل ہوئی تو ان کی گاڑی پر پھولوں کی بوچھار ہوئی تھی

انہوں نے ایک نظر نیند میں جھومتی اپنی لاڈلی پر ڈالی جس کا سارا سفر کبھی سوتے تو کبھی جاگتے گزرا تھا

گل دیکھوں گھر آگیا ۔۔۔۔۔۔انہوں نے اسکا گال تھپتھپایا تھا اس نے مندی مندی نظروں سے اپنے بابا کو دیکھا۔۔اور پھر دونوں ہاتھ وا کردیے 

انہوں نے مسکرا کر اسے گود میں بھرا اور اسے لئے گاڑی سے باہر آئے پھولوں کی ایک بارش تھی جو ان پر ہوئی تھی 

واووووووو بابا۔۔۔۔ پھولوں کی بارش پر وہ خوشی سے چیخی تھی دونوں ہاتھ فضا میں پھیلائے وہ پھولوں کی دیوانی تھی

انہوں نے اپنی ننھی کلی کو زمین پر اتارا تو وہ گول گول گھوم کر ان پھولوں کو اپنی مٹھی میں قید کرنے لگی۔۔

سارے گاؤں والے اپنی ننھی سی شہزادی کو دیکھ رہے تھے جو جب بھی آئی ایک نئے روپ کے ساتھ ائی۔۔۔۔

ان کا حویلی میں شایانِ شان استقبال کیا گیا تھا دلاور شاہ خود دروازے پر موجود تھے اپنے لخت جگر کے استقبال کے لئے ۔۔۔۔

زارون شاہ جلدی سے جاکر اپنے باپ کے بازوں میں سما گئے اور سختی سے انہیں بھینچا 

بابا سائیں ان کے کندھوں کو احترام سے چوما پھر ان کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگائی 

آنکھیں فرط جذبات سے بھیگ گئی تھیں 

بابا آپ کیوں رو رہے ؟؟؟ اور دادو سائیں کو بھی رلا رہے؟؟ ویری بیڈ بابا ویری ویری بیڈ۔۔

اس نے پاس آکر انہیں یوں دیکھا تو انگلی کو دائیں بائیں گھما کر ٹوکا جس پر وہ دونوں ہنس دئیے 

دادا کا دل ادھر آؤ۔۔۔ انہیں نے ہاتھ بڑھا کر اسے پاس بلایا تو مسکراتی ہوئی ان کے پاس آئی اور ان کے دونوں ہاتھ آنکھوں سے لگا کر چومے

بابا ایسے ہی ملتے ہیں نا بڑوں سے۔۔ اس نے گردن موڑ کر تائید چاہی تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلایا جبکہ دلاور شاہ تو اپنی پوتی کی اس حرکت پر نثار ہوگئے تھے 

بڑھتی عمر کے ساتھ کئی پچھتاوے تھے جو بڑھ رہے تھے لیکن اب وہ اپنی ہر غلطی سدھارنا چاہتے تھے 

انہوں نے گل کو اپنی گود میں بیٹھایا تو اسنے اپنے ننھے ہاتھ ان کے گال پر رکھ کر انکے گال پر پیار کیا

بابا دادو سائیں کے چیکس بہت سوفٹ ہیں۔۔ دیکھیں آپ بھی۔۔

اور اس کی بات پر وہ قہقہ لگا گئے 

بوا گل کو لے جائیں تھک گئی ہوگی میری بچی۔۔ دلاور شاہ نے پاس کھڑی بوا کو کہا تو وہ گل کا ہاتھ تھامے اندر بڑھ گئی 

آجاؤ میرے بچے وہ زارون شاہ کا ہاتھ تھامے اندر بڑھے تھے جہاں زارون شاہ سب سے ملے تھے بڑے بھائی بھتیجا بھتیجی بھابھی بیگم 

زارون آئمہ کو بھی لے آتے ؟؟

بھابھی وہ آتی مگر اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ڈاکٹر نے سفر سے منع کیا ہے 

سجیلہ بیگم نے بولنے کو انہوں نے جواب دیا 

لو بھلا یہ تو کوئی بہانہ نا ہوا ایسے بہانے تو اب بہت پرانے ہوگئے ہیں 

افراز شاہ کے آنکھیں دکھانے پر بھی وہ باز نہیں آئی تھیں 

یہ کوئی طور طریقے تو نہیں ہوتے ہم نے بھی تو قبول کیا نا مانا کہ پڑھی لکھی ہے مگر خاندان کا ہی نہیں پتا تو فائدہ ایسی تعلیم کا۔۔۔ انہوں نے جل کر کہا 

سجیلا جاؤ زارون کے کھانے کا بندوبست کرو باتیں ہوتی رہیں گی 

افراز صاحب نے انہیں وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ منہ بنا کر وہاں سے اندر بڑھ گئی 

اور بتائیں چاچو وہاں سب سیٹ آپکی جاب کیسی ہے ؟؟ 

سب سے پہلے کاشف افراز نے انہیں مخاطب کیا تو وہ مسکرا کر اسے وہاں کا بتانے لگے 

چاچو یار ہمیں بھی کبھی بلائیں وہاں۔۔ کاشان کے بولنے پر مسکرائے 

بنواوں اپنے پیپرز اس میں کیا۔۔۔ 

کوئی ضرورت نہیں ہے دو ہی بچے ہیں میرے انہیں تو کبھی خود سے دور نا کروں۔۔۔

افراز صاحب جلدی سے بولے تو وہ دونوں منہ بنا گئے۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وسیع وعریض سنہری حویلی کے مکین اس وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے سنگ مرمر سے بنے فرش پر جگہ جگہ قدیم طرز کے نقوش و نگار بنے ہوئے تھے

بڑے سے لان میں موجود فوارہ جس کے چاروں طرف بڑے بڑے گول فانوس لگے ہوئے تھے

سنہری کاموں سے مزین چھت جس پر جگ مگ کرتی رنگ برنگی لائٹیں دیکھنے والے کی آنکھیں خیراں کرتی تھیں

جتنی وسیع یہ حویلی تھی اتنے ہی چھوٹے دل اس حویلی کے مکینوں کے تھے

اوپر بالائی منزل پر بنا کشادہ کمرہ جس پر لوبان کی لکڑی کا بے حد خوبصورت فرنیچر پڑا تھا

زمین پر بھورے رنگ کا دبیز قالین رہنے والے کے اعلیٰ ذوق کا ترجمان تھا

سائیڈ پر رکھی کرسی پر وہ بارعب شخصیت شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے تھے تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور اجازت ملنے پر انکا وفادار ملازم اندر آیا تھا 

کیوں رزاق کیسے آنا ہوا۔۔۔ آواز میں شہنشاہوں جیسا رعب تھا

آغا جان چھوٹے خان آئے تھے آج گاؤں۔۔۔ رزاق کے بولنے پر شطرنج کا پیادہ چلتے ان کے ہاتھ تھمے تھے 

قبرستان آئے تھے وہ اس کے بعد مزید رکے بغیر چلے گئے ان کے چپ رہنے پر اس نے مزید کہا۔۔

اور کچھ ؟؟؟ 

سول سروس جوائن کرلی ہے ٹریننگ مکمل ہوگئی ہے اب ڈیوٹی جوائن کریں گے۔۔

ہمم۔۔۔۔۔ انہوں نے ہنکار بھرا اور سگار کو لبوں میں دبایا

جاؤ تم اور کچھ بات ہو تو بتانا..

اس کے جاتے ہی انہوں نے سگار کا ایک گہرا کش لیا تھا

اپنے اصولوں سے انحراف تو ہم بھی نہیں کرینگے چھوٹے خان۔۔۔۔ انہوں نے بول کر ایک بار پھر شہ مات کا کھیل شروع کیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنہری حویلی کو ایک وسیع رقبے پر وزیر خاں نے تعمیر کروائی تھی جو مزدوروں کی محنت اور اس پر بہائے پیسے کا منہ بولتا ثبوت تھی 

غرور،دولت اور طاقت کا نشہ وہ ہر طرح سے مضبوط تھے اس پر تین بیٹے ان کا خون بڑھانے کو کافی تھے

سب سے بڑے ارحمان خان جن کی بیوی روحیلہ اللّٰہ نے انہیں تین بیٹوں سے نوازہ تھا 

صائم خان جس کی شادی اپنی چچا زاد زہرہ سے ہوئی تھی 

دوسری نمبر پر حیدر خان اور تیسرے پر عائش خان 

جبکہ چھوٹے بیٹے عبدالعزیز خان اور ان کی بیوی نور بانو کے دو ہی بچے تھے بڑی رومیسہ خان اور داؤد خان  

چھوٹے بیٹے خاور خان اور ان کی بیوی شمائلہ کے تین چھوٹے بچے تھے اذھان ارمان اور زائنہ۔۔۔

سیاست سے بہت گہرا تعلق تھا وزیر خان کا گاؤں میں انکے نام کا سکہ چلتا تھا اپنے علاقے کو چھوڑ وہ یہاں آکر عرصہ ہوا بس گئے تھے اپنے پوتوں میں ان کی جان بستی تھی خاص کر حیدر خان میں۔۔

سب سے ذہین پٹھانوں کی شان تھا وہ۔۔

ارحمان ذہین نہیں تھا مگر اسکی اپنی ایک شخصیت تھی عزیز تو وہ بھی بہت تھا انہیں مگر ناجانے کیوں حیدر کی بات ہی الگ تھی 

اور حیدر علی خان۔۔ اسکی جان اسکے بھائیوں میں بستی تھی 

ہر کام میں ماہر اور تاک حیدر خان جس کو دیکھ کر ناجانے کتنے دل دھڑکنا بھول جاتے تھے اسکا خود کا دل اسیر تھا رومیسہ خان کا جو اس کے ہم عمر تھی دونوں کی گاڑھی جھیپتی تھی۔۔

بچپن کا ساتھ کب محبت کے قندھاری رنگ میں بدلہ پتا نا چلا اور جب پتا چلا دونوں کے دلوں کی دھڑکنیں منتشر کرگیا

ملن کی امید پختہ تھی تو ذہن ہر فکر سے آزاد تھے انٹر کے فوراً بعد اس نے سول سروس میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اغا جان نے دامن بچایا 

قالین کے بہت بڑے تاجر گاؤں کی سیاست میں جنکا ڈنکا بجتا تھا نہیں چاہتے تھے کہ انکا ہونہار ہوتا لوگوں کی غلامی کرے 

مگر آگے بھی انکا شیر تھا انہیں مانتے ہی بنی۔۔

اور یوں وہ خوابوں کا شہزادہ اپنی اڑان بھرنے کو تیار تھا یہ جانے بغیر ابھی راستے میں کئی کانٹے آنے ہیں۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنہری دھوپ اسکے خوبصورت چہرے پر پڑھ کر روشن کر رہی تھی اس نے کسمسا کے آنکھ کھولی 

کھڑکی سے چھن کرکے آتی دھوپ اسکی آنکھوں سے ٹکرائی تو شہد رنگوں آنکھوں نے اپنا رنگ گہرا کیا تھا 

دو پونی میں مقید بال اس نے سلیپر پاؤں میں ڈالی اور ماں کو پکارنا چاہا مگر یاد آیا ماں تو دور دیس پار ہے دل میں ایک دم اداسی نے ڈیرہ ڈالا تھا 

تبھی دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا 

اٹھ گئی میری گڑیا بوا کو ناشتہ رکھنے کا اشارہ کرکے وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئے جو اداسی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی

کیا ہوا بابا کی جان کو؟؟ ۔

بابا مما چاییے وہ روہانسی ہوئی اسنے آنسو دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا

فریحہ زارون شاہ۔۔۔۔۔ انہیں اسکے آنسو دیکھ تکلیف ہوئی تبھی ناراضگی سے مخاطب کیا

بابا فریحہ آپ کی لاڈلی ہے مگر مما کی بھی پرنسس ہے آپ نہیں ڈانٹیں فریحہ کو۔۔

وہ منہ بنا کر بولی 

مما یاد آرہی ہیں تو کال کرسکتے نا ہم رونا ضروری یے؟؟

موبائل آپ کے پاس اور آپ بزی۔۔

بابا کتنا بھی بزی ہوں مگر اپنی گڑیا کی ایک پکار پر آجائیے گے 

اس کے منہ میں انہوں نے نوالہ ڈالا۔۔۔

برش نہیں کیا نا بابا۔۔۔ وہ منہ بسور کر بولی 

کوئی بات نہیں ایسے ہی بہت پیارا منہ ہے میری بچی کا اسکے بالوں پر لب رکھ وہ بولے تھے 

تبھی باہر سے آتی آوازوں پر وہ متوجہ ہوئے باہر آئے تو ایک عجیب منظر تھا جو انہیں نظر آیا 

سجیلہ بیگم کسی ملازمہ کو مار رہی تھیں وہ بھاگ کر گئے تھے اور اس ملازمہ کے سامنے ڈھال بنے 

سجیلہ بیگم کا ہاتھ لمحے کو تھما تھا

یہ کیا حرکت ہے بھابھی ۔۔۔۔ 

ہٹ جاؤ زارون یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے 

مسئلہ میرا ہو یا آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کیسے کسی پر ہاتھ اٹھا سکتی ہیں ملازم ہے آپکی لیکن ہے انسان آپ کو یہ حق قطعی نہیں پہنچتا کہ آپ اس پر ہاتھ اٹھائیں کیوں گنہگار ہورہی ہیں آپ 

وہ انہیں سمجھانے والے انداز میں بولے۔۔

مگر سمجھایا اسے جاتا ہے جو سمجھا چاہے 

انہوں نے معاملہ رفع دفع کر کے ملازمہ کو رخصت کیا تو وہ اظہار تشکر کر کے وہاں سے گئی تھی۔۔۔

ہونہہ پڑھ لکھ کیا گیا میرے آگے بولے گا دیکھ لونگی اسے بھی نخوت سے بولتی وہ بڑبڑاتی اوپر کی طرف بڑھ گئیں…

وقت پر لگا کر گزر رہا تھا وہ روز زارون شاہ کے ساتھ گاؤں کی سیر کو جاتی تھی 

ہر وقت بولتی وہ سجیلہ اور انکی لاڈلی کو زہر لگتی تھی مگر یہ زہر پینا ان کی مجبوری تھی

لیکن گاہے بگاہے وہ اپنا زہر اس معصوم پر انڈیلتی رہتی تھیں

انہیں اسکا حسن کھٹکتا تھا اوپر سے بلا کہ معصومیت…

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ زارون شاہ کے ہاتھ پر لیٹی تھی وہ آہستہ آہستہ اسنے سر کا مساج کر رہے تھے 

بابا ہم گھر کب جائیں گے؟؟؟؟؟

بہت جلدی جائیں گے بچے۔۔

انہیں یہاں آئے ایک مہینہ ہوچکا تھا وہ جب بھی جانے کا کرتے کوئی نا کوئی مسئلے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا الیکشن بھی سر پر تھے جن میں افراز شاہ حصہ لے رہے تھے

وہ آئمہ کی طبعیت کو کے کر بھی بہت پریشان تھے 

انکا بس چلتا تو اڑ کر ان کے پاس پہنچ جاتے مگر اس بار مسئلہ ان کا نہیں فریحہ کا ہوگیا تھا اس کے پاسپورٹ میں ایشو کی وجہ سے وہ ٹریول نہیں کرسکتی تھی کم از کم پچس دن لگنے تھے اس مسئلے کو ٹھیک ہونے میں 

دوسری طرف آئمہ کی طبعیت بگڑنے لگی تھی زارون شاہ کا دل جانے کو ھمک رہا تھا 

آج بھی وہ گل کو سینے سے لگائے لیٹے تھے آئمہ سے انکی محبت روز اول کی طرح تھی ان کی یاد اب تڑپانے لگی تھی 

اللّٰہ اللّٰہ کر کے الیکشن کا دن بھی آن پہنچا تھا 

پورے گاؤں کو آج برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا وہ بھی نئے کپڑے پہنے اپنے تایا کے ساتھ ساتھ تھی

افراز شاہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے پورے گاؤں میں جشن کا سماں تھا 

زارون شاہ بھی ان کے ساتھ تھے کہ اچانک ان کے فون کی بیل رنگ ہوئی

وہ فون سننے سائیڈ پر گئے مگر جو خبر انہوں نے سنی وہ ان کے ہاتھ پاؤں پھلانے کے لئے کافی تھے 

آئمہ کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی

وہ پریشان سے اندر آئے تو سامنے سے آتی سجیلہ کو ساری صورتحال بتائی 

زارون تم پہلی فرصت میں جاؤ اور بچی کی فکر مت کرنا چند دن کی بات ہے پھر واپس آکر لے جانا 

ان کے بولنے پر ہمت بڑھانے پر انہیں نے اتنا بڑا فیصلہ کیا کہ اسے چھوڑ کر دوسرے دیس سدھار گئے یہ جانے بغیر کہ انکا یہ فیصلہ ان کے لئے ساری زندگی کا پچھتاوا بن جانا تھا جانے سے پہلے ناجانے کتنی دیر وہ اسے سمجھاتے رہے تھے جو رو رو کر ساتھ جانے کے لئے مچل رہی تھی

سجیلہ کو سب کو بتانے کی تاکید کرتے وہ وہاں سے نکل گئے جب کے ان کے پیچھے روتی بلکتی وہ سجیلہ کہ قابو میں ہی نہیں آرہی تھی

تب انہوں نے کھینچ کر زور کا تھپڑ اسکے گال پر مارا تھا 

یہ فریحہ زارون شاہ کی زندگی کا پہلا تھپڑ تھا جو اس نے منہ پر نہیں دل پر لگا تھا۔۔۔۔۔

وہ اسے تقریباً گھسیٹتی ہوئی اندر لائی تھیں تبھی بدحواس سی حرا اندر آئی تھی 

اماں اماں۔۔۔ 

کیا ہوا حرا۔۔۔۔ 

انہوں نے اسے کمرے میں بند کیا اور خود حرا کو لئے سائیڈ ہوئی

اماں۔۔۔ وہ بھائی کے ہاتھوں خانوں کے بندے کا قتل ہوگیا ہے 

الفاظ تھے یا پہاڑ جو ان کے سر پر گرے تھے 

دماغ خراب ہے کیا بکواس کررہی ہے 

اماں کاشف بھائی اور اور ان کے دوستوں لڑائی ہوگئی تھی ان کے ہاتھ سے گولی چل گئی

یا اللّٰہ انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا 

کہاں ہیں میرا بچہ۔۔۔

کمرے میں ۔۔۔ حرا نے بولنے پر وہ بھاگتی ہوئی اوپر آئ تھیں 

کاشف میرے بچے۔۔۔ میرا بیٹا وہ اندر آکر اس سے لپٹی جانتی تھیں کیا کر آیا ہے وہ 

یہ کیا کیا تو نے کاشف کیا کیا۔۔۔۔۔۔ 

ایک بار بہن کا بھی نا سوچا۔۔۔ 

وہ بچارہ خود بدحواس تھا 

شکار سے آتے ہوئے بچوں کی لڑائی میں پھنسا تھا ناجانے کیسے اس کا ہاتھ ٹیگر پر پڑ گیا سنسناتی ہوئی گولی نے خانوں کے دس سالہ ارمان کا سینہ چھلنی کیا تھا۔۔

ایک بھگدڑ مچ گئی تھی وہ جلدی سے وہاں سے حویلی آیا تھا شکر تھا کسی کو پتا نہیں چلا تھا کہ گولی اس سے چلی ہے مگر اس گرتے بچے نے اپنے لبوں سے شاہ کا نام لیا تھا اور یہی آکر اسکے اوسان خطا ہو گئے تھے 

اماں میں نے جان کے نہیں کیا کچھ مجھے بچا لو اماں اس نے سجیلہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔

کچھ نہیں ہونے دونگی تجھے گھبرا مت بس بلکل بھی اقرار مت کرنا تیری ماں سب سنبھال لے گی۔۔۔

وہ پریشان سی وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آئی تھیں

دماغ کے گھوڑے دوڑائے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں 

اماں خون بہا ہوگا میں نہیں جاؤنگی اماں 

حرا کی بات پر انکا دماغ بھنا گیا تھا 

کچھ نہیں ہونے دونگی تم دونوں کو سمجھے آپ میرا دماغ خراب مت کرو 

باہر جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیلی تھی ہر کوئی ایک نئے طوفان کا منتظر تھا 

دلاور خان بیمار تھے اس لئے انہیں اس معاملے سے دور رکھا گیا تھا افراز شاہ کا جشن ماتم میں بدلنے لگا تھا اپنے بیٹے کے ہاتھوں ہوئی فاش غلطی نے انکا دماغ گھوما دیا تھا 

وہ جاہ وجلال کے ساتھ اندر آئے تھے 

کہاں ہے یہ ناہنجار۔۔۔۔ سجیلہ وہ دھاڑے تھے

پنچائیت تک بات پہنچ گئی تھی اب ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں تھا 

بات سنیں میری آپ سجیلہ انکا ہاتھ تھام کر بولی جن کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا۔۔

کیا سنوں سجیلہ بیگم کیا سنوں تمہاری اولاد کا کیا میری دو دو اولاد کی زندگی حرام کردے گا 

ایسا کچھ نہیں ہوگا شاہ صاحب میں سب سنبھال لونگی۔۔

بات سنیں میری۔۔

کیا کروگی تم ہاں ؟؟؟ ان کی بات پر وہ تھمے جانتے تھے ان کی بیوی کا دماغ کیسا ہے۔۔۔

بات سنیں شاہ صاحب وہ سرگوشی کے انداز میں ان کے کان اپنی بات کہنے لگی

لمحے کو وہ پریشان ہوئے تھے مگر یہ چیز ان کے لئے فائدہ مند تھی

بابا سائیں کو کیا کہیں گے ؟؟ 

جب تک بابا سائیں کو یہ بات پتا چلے گی بہت دیر ہوچکی ہوگئی شاہ سائیں 

ہممم انہوں نے ہنکار بھرا اپنی بیوی کی بات سے وہ سو فیصد متفق ہوئے تھے سوال ان کی اولاد اور ساخت کا تھا جس کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے تھے ۔۔

سب کو سمجھا دو کیا کرنا ہے جرگہ لگنے میں زیادہ وقت نہیں 

سجیلہ کو سمجھا کر وہ لمبے ڈاگ بھرتے باہر بڑھ گئے 

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنہری حویلی میں ماتم کا سماں تھا شمائلہ نے رو رو کر پوری حویلی  سر پر اٹھا لی تھی

خاور اور رازق اسے لے کر اسپتال گئے تھے جہاں سے اسکے مرنے کی خبر آئی تھی 

مجھے بدلہ چاہیے آغا جان میرے بیٹے کے بدلے ان کا خون بھی ان سے چھین لیں آپ آغا جان 

شمائلہ آغا جان کے قدموں میں گری تھی 

سنبھالو خود کو اپنے پوتے کا خون ہم رائگاہ نہیں جانے دینگے

سگار کا کش لگا کر انہوں نے مونچھوں کو تاؤ دیا تھا آنکھوں میں ایک عجیب سی ہی چمک تھی 

وہ بھرپور قدموں سے باہر کی طرف بڑھے تھے

جرگہ دونوں گاؤں کے درمیان بنی حدود پر بیٹھایا گیا تھا

وہ مضبوط قدموں سے مغرورانہ چال چلتے آکر بیٹھے تھے 

سامنے ہی افراز صاحب بیٹھے تھے جن کے انداز میں عجیب طرح کا غرور جھلک رہا تھا

ان کو ایسے مطمئن دیکھ کر وہ اچنبھے کا شکار ہوئے تھے مگر چہرے پر سنجیدگی طاری کئے بیٹھے رہے

جرگہ شروع ہوا تو سر پنچ نے سب سے کاشف افراز شاہ کو بلایا تھا 

جو مضبوط قدموں سے آگے آیا۔۔

کچھ کہنا چاہو گے اپنی صفائی میں ؟؟؟ 

سر پنچ صاحب میں نے یہ قتل نہیں کیا اور نہ ہی میرا اس سب میں کوئی ہاتھ ہے مجھے پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔۔

اس کے لہجے کا سکون وہاں موجود سب کو چونکا رہا تھا

تو پھر یہ سب کس نے کیا ہے ؟؟؟ دوسرا سوال آیا تو اس نے ایک نظر اپنے باپ کو دیکھا 

سب کی نظریں افراز صاحب کی طرف اٹھی تھیں 

جنہوں نے اثبات میں سر ہلا کر گویا اسے سچ بولنے کی اجازت دی تھی

یہ گولی میرے چاچو زارون شاہ سے چلی تھی جو غلطی سے اس بچے کو لگ گئی وہ اس سب سے گھبرا گئے تھے اس لئے مجھے پستول تھما کر غائب ہوگئے تبھی گاؤں کے بچے نے میرے ہاتھ میں بندوق دیکھی تھی 

اس کی بات پر جہاں وزیر خان کے حیرانی سے اسے دیکھا تھا تو دوسری طرف افراز شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی

کیا ثبوت کے اس بات کا کہ گولی زارون شاہ نے چلائی تھی؟؟؟  سب سے پہلے ارحمان صاحب بھڑکے۔۔۔

کیوں کے یہ گولی میرے بھائی کی بندوق سے چلی تھی اور وہ اس وقت یہاں سے جا چکا ہے 

اب کی بار جواب افراز صاحب کی جناب سے آیا تھا 

وزیر خان نے پہلو بدلہ تھا 

اور اس بات کو گواہ بھی موجود ہے افراز صاحب کے بولنے پر تین لوگوں نے آکر اس بات کی گواہی دی تھی 

زر پنچ صاحب کیونکہ میرا یا میری اولاد کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی اگر یہ خون بہا میں رقم چاہے تو میں انہیں دے سکتا ہوں 

معاملہ یوں ان کے حق میں جائے گا کسی نے نہیں سوچا تھا 

کیا کہتے ہیں خان صاحب؟؟؟ سر پنچ صاحب اب وزیر خان سے مخاطب تھے 

سر پنچ صاحب بھلے خون ان کی اولاد نے نہیں کیا لیکن انکا بھائی بھی تو ان کے ہی خاندان کا ہے اپنے پوتے کا خون میں یوں معاف نہیں کرونگا خون کے بدلے یا بھی لڑکی۔۔۔۔

وہ زہر خند لہجے میں بولے تھے 

لڑکی کے نام پر افراز صاحب کا چہرہ متغیر ہوا تھا 

جبکہ سجیلہ جو پیچھے اوطاق میں تھی بھڑکی تھیں 

خون تو وہ انسان بھی تمہارا ہی ہے نا جو قتل کر کے بھاگ گیا 

وہ مبہم سا مسکرائے افراز صاحب کی آنکھوں میں شعلہ لپکا تھا 

تو ٹھیک ہے ہم بیٹی دینے کو تیار ہیں 

اس سے پہلے افراز صاحب کچھ کہتے سجیلہ کی آواز نے انہیں کھڑے ہونے پر مجبور کیا تھا 

جسکے باپ نے یہ گناہ کیا ہے اسی کی بیٹی ہم خون بہا میں دینے کو تیار ہیں مگر اس وعدے کے ساتھ کہ آج کے بعد ہمارے گھر کے کسی فرد پر آپ کا بندہ گولی نہیں چلائے گا۔۔۔۔

پنچائیت کے فیصلے عورتیں نہیں کرتی لگتا ہے شاہوں میں یہ نیا رواج پیدا ہوا ہے 

بات تو اسنے سولہ آنے کھری ہی کی ہے خان صاحب لڑکی آپ کو مل جائے گی پھر آپ کی طرف سے ہمیں کوئی نقصان نا ہو 

سر پنچ صاحب ہم زارون شاہ کی بیٹی کو خون بہا میں دینے کے لئے راضی ہیں 

ٹھیک ہے پھر یہ پنچائیت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ زارون شاہ کی بیٹی نکاح کی صورت میں خون بہا میں جائے گی 

وزیر خان آپ جس سے بھی نکاح کروانا چاہتے ہیں اسے بلا لائیں 

سر پنچ کے بولنے پر انہوں نے سر کو خم دیا 

ہم شام کو خود بذات شاہ کی حویلی میں جائنگے نکاح کے لئے تیاری کر کے رکھیں 

وہ افراز شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولے تھے

انتظار رہے گا خان صاحب۔۔۔۔ 

اپنی اپنی دشمنی کی آگ میں وہ ایک معصوم کو جھونکنے چلے تھے جو اس سب سے انجان اپنے باپ کے لئے سسک رہی تھی۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

حیدر لالا۔۔۔۔۔ بہت بری خبر ہے حیدر لالا 

وہ جم میں موجود تھا جب شیر بدحواس سا اس کے پاس آیا تھا 

کیا ہوا ہے شیر سب خیریت تو ہے؟؟ تولیہ سے پسینہ موڑتا وہ مڑا 

غضب ہورہا ہے حیدر لالا 

اذھاد بابا کا نکاح ہورہا ہے شاہوں کی بیٹی سے 

اس کی بات پر اس کا منہ کھلا تھا

دماغ خراب تو نہیں ہوگیا آغا خان کا وہ غصے سے بولا تھا 

ہوا کیا شیر پوری بات بتاؤ مجھے 

اس کے بولنے پر شیر نے اسے پوری بات بتائی تو اسنے غصے سے مٹھیاں بھینچی 

ایک بار پھر وہی سب دھرایا جارہا تھا مگر اس بار مظلوم دوسرے طرف تھی 

یہ نکاح کسی بھی صورت روکنا ہوگا شیر گاڑی نکالو۔۔۔

شیر کو بولتا وہ خود اپنے کمرے میں آیا 

دل کیا سب تہس نہس کر ڈالے اس کے باپ دادا کی اناؤں کی تسکین سب پر بھاری تھی 

کتنی اذیت تھی اس پل ان کائی رنگ آنکھوں میں غصے سے تنی رگیں 

وہ گن لوڈ کر کے بیگ میں رکھ کر باہر آیا جہاں شیر گاڑی لئے کھڑا تھا 

میں اکیلا جاؤنگا شیر 

پر لالا۔۔۔۔ اسنے کچھ بولنا چاہا 

نہیں شیر اج ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کا وقت آگیا ہے 

شیر کے ہاتھ سے چابی لیتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور اندھی طوفان بنا وہاں سے نکلا 

یا اللّٰہ سب خیر کرنا شیر نے اسکے نکلتے کی دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تھے۔۔۔۔

وہ سندھی طوفان بنا وہاں سے نکلا تھا جتنی تیزی سے وہاں پہنچا تھا کئی راستوں میں موت کے منہ میں جانے سے بچا تھا 

آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھی جیسے ابھی خون چھلک پڑے گا

اسکی گاڑی دیکھ کر آس پاس میں کھلبلی مچی تھی 

آغا جان تک بھی اطلاع پہنچی تو وہ زیر لب مسکرائے 

جانتے تھے ان کی اس عمل سے انکا لاڈلا ضرور یہاں آئے گا اور ان کا اندازہ اتنا کچھ غلط بھی نہیں تھا

وہ تن فن کرتا گاڑی سے اترتا اندر آیا تھا راستے میں آئی کئی چیزیں اسکی ٹھوکر سے دور جا گری تھیں 

روحیلہ نے دو سال بعد اپنے لخت جگر کو دیکھا تھا آنسو خود ہی آنکھوں سے گرے تھے

کہاں ہیں آغا جان ؟؟؟ اس نے پاس کھڑے ملازم سے پوچھا 

یہاں ہوں میں آغا کی جان۔۔۔ اس نے سامنے دیکھا جہاں وہ مسکراتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے ہمیشہ کی طرح ہاتھ میں سگار چہرے پر جاہ و جلال کتنی اکڑ تھی ان کی چال میں۔۔۔

ان کے جان کہنے پر وہ تلخی سے مسکرایا 

جان تو بس آپ خود ہی ہیں باقی سب تو کٹھ پتلیاں ہیں آپ کہ لئے۔۔ انتہائی چبھتے لہجے میں اس نے کہا تھا 

وہ سر جھٹک کر مسکرائے 

تو لاڈلہ ہے میرا کہہ لے جو کہنا ہے اجازت ہے 

اکیلے میں بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔ 

ہمم۔ آجاؤ اوپر اسے اشارہ کر کے وہ اوپر بڑھ گئے

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا صبر ختم ہوا تھا

یہ کھیل کب تک چلے گا کب تک یوں ہی رسوا کریں گے سب کو آپ۔۔۔۔

کب تک تماشہ بنائیں گے ہماری ذات کو۔۔۔ کب تک آغا جان کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کھیل آج ختم ہو جائے گا حیدر خان آج سارے حساب برابر ہوجائیں گے تمہارا بدلہ پورا ہوجائے گا۔

کیسا بدلہ آغا جان کسی کی بیٹی کو یوں رسوا کر کے ؟؟؟؟

رسوا نہیں کر رہے ہیں نکاح کر کے لا رہے ہیں 

نکاح ؟؟؟؟؟وہ استہزایہ ہنسا 

اس 5 سال کے بچے کا نکاح۔۔۔۔؟؟؟؟۔ اسے نکاح کا مطلب بھی پتا ہے آغا جان ؟؟؟ 

کیوں اس کی زندگی برباد کر رہے ہیں آپ بچہ ہے وہ ابھی کیوں اپنی انا کی تسکین کے لئے ان سے کھیل رہے ہیں 

ہم تو اپنی پوتی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ہوتا ہم سے دور ہوگیا بد گمان ہوگیا 

پوتی کا بدلہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا 

اسکا قاتل کون ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی 

تو کیوں جوگ لئے بیٹھے ہو بھول جاؤ آجاؤ یہاں  واپس۔۔۔ 

یہ نکاح روک دیں آپ۔۔۔ اس نے ان کی بات نظر انداز کرکے اپنی بات کہی تھی 

یہ ناممکن ہے حیدر علی خان۔۔۔

حیدر خان کو نا ممکن کو ممکن بنانا آتا ہے۔۔ وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا 

کچھ بھی کرلو ہمارے برابر کبھی نہیں آسکتے۔۔۔

میں آپ کے برابر آنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔ میں اذھان کو یہاں سے لے جارہا ہوں 

اسنے واپسی کے لئے قدم موڑے تھے 

اس کو لے جانے کا فائدہ نہیں اس گھر میں ابھی اور لوگ باقی ہیں جو کبھی میری حکم عدولی نہیں کرینگے مگر۔۔۔۔۔

وہ لمحے کو رکے 

ہم چاہتے ہیں تم یہ نکاح کرو۔۔۔

ان کی بات پر اسے دھچکا لگا تھا۔۔۔ 

تم نہیں کروگے تب عائش ازمیر یا رزاق 

اس لڑکی کی زندگی اب تمہارے فیصلے پر انحصار کرتی ہے 

وہ اسے جھٹکے پر جھٹکے دئیے جارہے تھے آنکھوں میں ایک معصوم سا چہرہ لہرایا تھا

جس نے اس سے ایک وعدہ لیا تھا اب وعدہ وفا کرنے کا وقت آیا تو دل سکڑ گیا تھا 

اس لمحے ایک فیصلہ کیا تھا اس نے اپنے بھائیوں کے بچپن بچانے کا فیصلہ۔۔۔۔

,❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کیا فیصلہ ہوا اماں۔۔۔ وہ سب جرگے سے واپس آئے تو حرا لپک پر سجیلہ کی جانب آئی تھی,

ہمارے حق میں ہی ہوا ہے وہ مسکرا بولی آنکھوں میں جیت کی چمک تھی 

بی بی سائیں بی بی سائیں ۔۔ 

کیا ہوا ہے کیوں چیخ رہی ہے انہوں نے ملازمہ کو لتاڑا

وہ جی گل بی بی روئے جارہی ہیں چپ ہی نہیں ہورہی۔۔۔۔

ایک تو یہ جی کا جنجال۔۔ حرا جنھجلائی

جان چھوڑ دے گی کچھ گھنٹوں میں برداشت کرلے۔۔

حرا کو بول کر وہ اوپر اس کے کمرے میں آئیں پورا کمرہ کباڑ خانے میں تبدیل ہوگیا تھا انکا دل کیا اسکو مار مار کر ادھ مرا کردیں مگر خود پر ضبط کرتی اس تک آئیں 

گل یہ کیا حرکت کی ہے؟؟ اسے بازو سے تھام کر انہوں نے اپنے روبرو کیا 

مجھے بابا کے پاس جان ہے اماں بابا کو بلاؤ ہچکیوں سے روتے اس نے دونوں ہاتھوں میں اپنی آنکھیں نسلی

بھیج رہی ہوں تجھے تیرے بابا کے پاس چل اب رونا بند کر۔۔۔

ان کی بات پر اسنے خوشی سے انہیں دیکھا 

سچی نا اماں؟؟ 

ہاں مگر ادھر بات سن بابا فوراً نہیں آسکتے تو ان نے دوست نے ساتھ بھیج رہی ہوں ٹھیک ہے نا 

ہاں مگر بابا سے بات۔۔

شش انہوں نے اسکے منہ پر انگلی رکھی 

بات سن میری۔۔۔ بہت مشکل سے وہ مانا ہے وہ اگر اب تو ایسے کرے گی تو بابا کے پاس نہیں لے جائے گا وہ جانا ہے نا بابا کے پاس ان کے پوچھنے پر اسنے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا 

ٹھیک ہے پھر جیسا میں بولتی ہوں ویسے ہی کرنا ٹھیک ہے 

جی۔۔۔۔ ہچکیوں کے درمیان وہ بس جی ہی بول سکی

سجیلہ نے اسے سب سمجھایا تھا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شام سے پہلے ہی وہ لوگ پنچ محل آئے تھے وزیر خان تو شاہ کی حویلی میں ہی نکاح چاہتے تھے مگر آخر میں فیصلہ ڈیرے کے ساتھ منسلک اس قدیم عمارت کا ہوا جو پنچائیت کے سربراہ کے لئے مخصوص تھی

 وزیر خان پوری شان سے باہر نکلے تھے ان کے ساتھ ان کے خاص لوگ بھی شامل تھے

ارحمان خان ان کے پیچھے مؤدب انداز میں کھڑے تھے  

پنچ محل کے مردان خانے میں اس وقت ایک عجیب سی خاموشی تھی 

سارے لوگ آج دیکھنے آئے تھے کہ آج کس کی قسمت بدلنے والی ہے یا حقیقت میں خار دار راہوں پر گھسیٹنے والی ہے 

تبھی ہجوم کا چیرتا ایک وجود اندر آیا تھا سب کی آنکھیں اسے دیکھ کر ٹہر سی گئی تھیں 

وہ چلتا ہوا آگے آیا تو وزیر خان نے مسکرا کے اس کے لئے اپنے برابر میں جگہ بنائی تو وہ لب بھینچ گیا دل کیا سب تہس نہس کر ڈالے خود پر جمی سب کی نظریں وہ بخوبی محسوس کر رہا تھا مٹھیاں بھینچی ہوئی تھی کہ مبادہ کوئی ایسا کچھ نا کہہ دے کہ اس کے چھوٹے بھائیوں کے لئے مصیبت ہو جائے 

مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔۔ وزیر خان نے سرپنچ کے اشارے پر مولوی صاحب سے کہا تو وہ حیدر نے برابر آکر بیٹھے۔۔۔

جناب حیدر علی جان ولد ارحمان خان آپ کو فریحہ گل ولد زارون شاہ باعوض حق مہر ایک لاکھ سکہ وائن الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے؟؟ 

الفاظ تھے یا زہر میں ڈوبا کوڑا جو سیدھا اس کے دل پر لگا تھا دل کیا ابھی بھاگ جائے 

اپنے ہاتھ پر وزیر خان کے ہاتھ کے دباؤ پر اس نے ایک قہر بار نظر ان کی سمت ڈالی 

قبول ہے۔۔۔۔۔

بلآخر وہ ان کی بنائی رسم کا شکار ہو ہی گیا تھا 

مولوی صاحب نے تین بار اس نے قبول ہے کہلوایا تھا 

اندر سے رضامندی تو پہلے ہی معلوم کرلی گئی تھی

 وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے باہر نکلتا چلا گیا 

سارے حاضرین کو سانپ سونگھ گیا تھا 

لڑکی کو گاڑی میں بٹھاؤ۔۔۔ وزیر خان کی کڑک دار آواز ایک بار پھر گونجی تھی ۔۔۔

افراز شاہ نے ملازم کو اشارہ کیا تو تھوڑی دیر بعد ملزمہ اور سجیلہ کے ساتھ وہ ننھی پری اندر آئی تھی ارحمان خان کا دل ایک لمحے کو ڈوبا تھا 

لال فراک پر دو پونی باندھے سر پر اسکارف لئے وہ اندر آئی تو ساتھ آئی ملازمہ نے اسکا چہرہ ڈھانپا۔۔

وہ مچلی تھی مگر سجیلہ کی تنبہی پر وہ سکڑ گئی۔۔

آئی وہ اس گاؤں میں فریحہ زاون شاہ کی حیثیت سے تھی مگر چند لمحے لگے تھے اسے فریحہ حیدر خان بننے میں۔۔۔۔

تمام گاڑیاں وہاں سے نکل کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تھی خود کو یوں سب سے دور جاتے دیکھ وہ ایک بار پھر شدت سے روئی تھی کہ ساتھ بیٹھی عورت نے اسے ڈانٹ کر چپ کروایا تھا

گاڑیاں سنہری حویلی کے پور میں آکر رکی تھی حویلی کی تقریباً تمام ہی عورتیں اس وقت وہاں موجود تھیں جب ملازم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور اندر سے وہ باہر نکلی۔۔

وہاں

وجود سب ہی کو سانپ سونگھ گیا تھا وہ تو سمجھے بیٹھی تھیں کہ کوئی بڑی لڑکی ہوگئی مگر اپنے سامنے دس سال کی معصوم بچی کو دیکھ نور بانو ما کلیجہ چھلنی ہوا تھا آخر کو اپنی بیٹی کھوئی تھی کیسے دوسروں کی بیٹی کا غم نا سمجھتی۔۔

لے جاؤ اسے اور کو کرنا ہے کرو۔۔۔ وزیر خان کے حکم صادر کرتے ہی ملازمہ نے اسے ہاتھ سے کھینچ کر گھسیٹا اور اندر کی طرف بڑھی

اس پکڑ میں اتنی شدت تھی کہ اسے لگا اسکا بازو کٹ کر گر جائے گا اسکے رونے میں شدت آئی تھی۔۔

حویلی سے نکلتے حیدر خان نے کسی بچی کی چیخ اور رونے تڑپنے کی آواز سنی تھی مگر نظر انداز کرتا وہاں سے نکلتا چلے گیا وحشت ہورہی تھی اسے اس حویلی سے۔۔۔۔

اپنے پیچھے اس نازک جان کو بلکتا چھوڑ گیا تھا جو اس آس میں اسکے ساتھ تھی کہ باپ سے مل سکے گی مگر ابھی اس کے نصیب میں مزید امتحان باقی تھے۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ملازمہ نے اسے زمین پر پٹخا تو ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اور اس ملازمہ کے ہاتھ پر بہت بری طرح سے نوچا کہ وہ چلا اٹھی۔۔

اہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیوں مار رہی مجھے ہاں کچھ بولا میں نے ہاں بولو نا کچھ بولا۔۔۔۔۔۔

وہ کمر پر ہاتھ رکھے چیخی تھی ایک دن ہی برداشت کیا تھا اس نے

ورنہ اپنے بابا کے سکھائے گئے اصولوں میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ خود پر ظلم کبھی برداشت مت کرنا اور یہ عورت جب سے وہ یہاں آئی تھی اسے مارے اور کھینچے ہی جارہی تھی

اس سے پہلے وہ عورت دوبارہ اسے مارتی اور پھرتی سے سائیڈ ہوئی تھی

اور پاس رکھا واس اٹھایا۔۔

اب ہاتھ لگایا نا تو یہ مارو گئ۔۔۔ بھیگے لہجے میں کہتی وہ کتنے درد سے گزر رہی تھی یہ وہی جانتی تھی وہ جسے کسی نے پھولوں کی پنکھڑی سے بھی نا چھوا تھا آج لوگوں کے تھپڑ سہہ رہی تھی مگر وہ سہنے والوں میں سے ہرگز نہیں تھی۔۔

کیا ہورہا ہے یہاں؟؟؟ نور بانو کی آواز پر ملازمہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ نیچے کیا تو وہ بھاگ کر ان کے پیچھے چھپی

آنٹی۔۔۔یہ گندی مار رہی ہیں۔۔۔۔ لہجہ پھر بھاری ہوا تو وہ ہچکیوں سے رو دی نور بانو کو کینہ چھلنی ہوا 

اسکا چہرہ ہاتھوں میں لئے اوپر کیا تو بے اختیار چونکی 

وہی آنکھیں ہوبہو ویسی ہی ناک۔۔۔۔ کتنی مماثلت انہوں نے منہ کھولے اسے دیکھا 

میری رومی۔۔۔۔۔ وہ سسکی اور اسے گلے سے لگایا ممتا کو ٹھنڈک پہنچی تھی 

جاؤ یہاں سے اور خبردار جو اسے ہاتھ میں لگایا 

ملزمہ کو جھڑک کر وہ اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے لے آئیں 

مجھے بابا کے پاس جانا ان کو بولو نا کے کر جائیں۔۔۔۔۔

کس کو بولوں ؟؟؟؟ 

اماں نے کہا تھا کہ وہ انکل جو آگے آئے تھے لے کر جائیں گے بابا کے پاس بہت دور ائیرو پلین میں۔۔۔۔ 

ہاتھوں کی پشت سے چہرہ صاف کرتی اس نے بتایا اور انہوں افسوس ہوا اس چھوٹی پر وہ ان فضول روایت کی بھینٹ چڑھ چکی تھی اور اس کو اپنانے والا منہ موڑے جاچکا تھا۔۔

انہوں نے اسے کھانے کے لئے سامان دیا تو چپ چاپ کھانے لگی اسے دیکھ کر وہ باہر نکلی کیونکہ اس معصوم کی عزت اور جان اس حویلی میں تو قطعی محفوظ نہیں تھی۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ ناجانے کتنی دیر ادھر ادھر بھٹک کر اب گھر میں آیا تھا آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں شاید روتا آیا تھا کپڑوں پر لگی مٹی بکھرے بال وہ اس انسان سے معافی مانگ کر آیا تھا جسکا وہ شروع سے تھا 

وحشت سی تھی اس کے دل میں۔۔۔۔

وہ ہارے ہوئے جواری کا طرح بیڈ پر ڈھے سا گیا تھا بالوں کو مٹھیوں میں بھینچا دل درد سے پھٹ رہا تھا 

بس کیا سب چھوڑ چھاڑ کر لمبی نیند سوجائے اڈے فرار چاہیے تھی اس وقت ان سوچوں سے۔۔

ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل سے نیند کی گولیاں کھائیں اور واپس اسی پوزیشن میں چلے گیا۔۔۔۔

حیدر۔۔۔۔ حیدر خان۔۔۔۔ خان۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ تقریباً چیخی تھی 

کیا ہے چڑیل ایسے کون چیختا ہے وہ ایک دم جنجھلا کر اٹھا تھا 

اتنی مشکل سے سویا تھا اور اب یہ جان کھانے کو آگئی تھی 

بھوت میں آپ کو کب سے اٹھا رہی ہوں آپ نے وعدہ کیا تھا آج باہر سے بہت سارا سامان لائیں گے لیکن آپ تو یہاں اپنا اصطبل بیچ کر ہی سو رہے ہیں وہ کمر پر ہاتھ رکھے غصے سے بولی تو وہ سر کھجانے لگا 

بھول گئے نا آپ حیدر؟؟؟؟   آپ نے وعدہ کیا تھا اسکا غصہ سوا نیزے پر تھا 

ارے نہیں نہیں میری گڑیا کی فرمائش کبھی رد ہوئی کیا ابھی منگواتا ہوں اس نے بول کر جلدی سے شیر کو میسج کیا 

گڈ۔۔۔

اب آپ سوجائیں کیونکہ مجھے پتا ہے میرا دوست مجھ سے کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کرتا 

آج وعدہ توڑ دیا میں نے وہ بڑبڑاتا نیند کی وادی میں اتر گیا۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

صبح سنہری حویلی میں ناشتے کی ٹیبل پر سب براجمان تھے 

وہ لڑکی کہاں ہے جو کل آئی ہے؟؟؟ وزیر خان کے بولنے پر ملازمہ نے نور بانو کو دیکھا 

میرے پاس ہے آغا جان۔۔۔۔ 

تمہارے پاس کیوں ہے بہو بیگم کیا یہاں کی روایت بھول گئی ہو جاؤ بلاؤ اسے سب کو ناشتہ دے گی۔۔۔

وزیر خان نے ملازمہ کو حکم دیا تو وہ بھاگتی اندر گئی 

آغا جان وہ ابھی چھوٹی بچی ہے۔۔۔۔۔۔ نور بانو کے کہنے پر انہوں نے ہنکار بھرا 

وہ ہمارے پوتے کی قاتل کی بیٹی ہے اور کیا تم بھول گئی کہ تمہاری بیٹی بھی اسے ضد میں۔۔ انہوں نے دانستہ بات ادھوری چھوڑی۔۔۔

وہ پہلو بدل کر رہ گئیں تب ہی اپنے پیچھے انہیں ملازمہ کی آواز آئی 

کل کے فراک میں ہی وہ معصوم شہزادی سوگوار سے اندر آئی آنکھوں میں اب کوئی امید ہی نہیں تھی 

اے لڑکی۔۔۔اغا جان نے اسے مخاطب کیا 

سب کو ناشتہ پیش کرو۔۔ ان کی بات پر اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا 

دماغ گھوما تھا 

کیوں ان سب کے ہاتھ نہیں ہیں کیا جو میں دوں اور

نوکر ہوں آپ کی جو ناشتہ دوں میں نہیں دونگی غصے سے کہتی اس نے پیر پٹخے تو اغا جان کو حیرت ہوئی تھی جبکہ نور بانو مبہم سا مسکرائی 

زبان سنبھال کر تم ہماری حکم عدولی کر رہی ہو وہ ایک بار پھر بولے 

کیوں آپ کیا جج ہے جس کی بات ماننا ایمپورٹنٹ ہے۔۔۔ 

پوری رات اس نے ماں کو باپ کے سیکھائے سبق یاد کرے تھے اور کچھ اس کے اپنے تھے 

گل بچے یہ دنیا بہت بری ہے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاؤ کے اللّٰہ پاک ناراض ہوگا 

اپنے بابا کی کہی بات اس نے ذہن نشین کی تھی

اے لڑکی بہت زبان چل رہی ہے تیری مالک کے سامنے ملازمہ نے اسکا رخ اپنی طرف موڑ کر کہا جبکہ گرفت بہت تیز تھی۔۔

اس نے پوتے زور سے اس کے ہاتھ پر ناخن چبھوئے

اب نہیں مارنا مجھے فریحہ زارون شاہ ہوں ڈرتی نہیں ہوں کسی سے۔۔۔۔

وہ چیخی تبھی ازمیر نے اٹھ کر اس نے منہ پر تھپڑ مارا تھا 

ہمت کیسے ہوئی تیری زبان چلانے کی۔۔۔۔ بول 

ازمیر کی اس حرکت کو جہاں وزیر خان کو سینہ خوشی سے پھولا تھا وہی نور بانو نے منہ پر ہاتھ رکھا 

ہمت کیسے ہوئی۔۔۔ وہ روئی نہیں تھی ناجانے کہا سے آئی تھی اتنی ہمت یا شاید جانتی تھی کوئی مدد کے لئے نہیں آئے گا 

آگے بڑھ کر بڑا چمچہ اٹھایا اور کھینچ کر کرسی پر بیٹھتے ازمیر کو مارا وہ بلبلا اٹھا اس نے یہی پر بس نہیں کیا آگے بڑھ کر صوفے کے کشن اٹھا کر ٹیبل پر پھینک کر مارا۔۔۔

بھاگتی وہ ٹیبل تک آئی اور سارا سامان بکھر دیا 

سب اس چھوٹی آفت کو دیکھ رہے تھے جو کل تک بس روئے جارہی تھی اور آج۔۔

یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے وہ دھاڑے تھے

ملازمہ اس کے پیچھے بھاگی مگر وہ پھرتی سے آگے بھاگ کر کچن میں گھس گئی جہاں سے اب برتن گرنے کی آوازیں آرہی تھی 

روکو اسے۔۔۔اغا جان دھاڑے تو سب ہی ٹیبل سے اٹھ کر اندر بھاگے مگر وہ ان سب میں بہت ماہر تھی پوری سنہری حویلی کو اس نے ناکو چنے چبوائے تھے 

وہ ہاتھوں سے ایسے نکلتی جیسے بلی کا بچہ۔۔

آغا جان حیرت سے اس آفت کو دیکھ رہے تھے جس نے اس کی حویلی کا کئی قیمتی سامان زمین بوس کردیا تھا۔۔

اس سے پہلے وہ کسی کے ہاتھ آتی جلدی سے نور بانو کے کمرے میں گھس کر خود کو لاک کرچکی تھی کرسی آگے کر کے کنڈی لگائی۔۔۔

آجاؤ اب پکڑوں میں وہ ہنستی ہوئی چلائی تھی اس ایک گھنٹے میں اس نے حویلی والوں کو پاگل کردیا تھا۔۔

اور بیڈ پر ایسے خوش بیٹھی تھی جیسے پتا نہیں کونسا قلعہ فتح کیا ہو۔۔

اسے اس کمرے میں بند پورا دن ہی ہوگیا تھا تقریبآ اب تو پیٹ میں چوہے کود رہے تھے 

اللّٰہ جی یہ ابھی آنٹی کہاں رہ گئی پلیز انہیں بولیں نا کھانا لائیں

صبح بھی نور بانو نے اسے سب سے پہلے ناشتہ کروادیا تھا لیکن اب وہ آئی ہی نہیں تھیں۔۔

اوو ہیلو ریٹس کم بھاگو نا پلیز وہ بیڈ پر الٹی لیٹ گئی 

مما۔۔۔۔ بابا۔۔ ماں باپ کی یاد شدت سے آئی تھی بھلا کب ایسا وقت دیکھا تھا وقت سے پہلے ہی ہر چیز میسر ہوتی تھی وہ لوگ آگے پیچھے ہوتے تھے کہ وہ کھانا کھالے 

آنکھوں میں آئی نمی کو اس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔۔۔

نو نو روتے نہیں بابا کی بریو بیٹی ہوں میں۔۔ خود کو ہمت دیتی وہ کروٹ بدل گئی

تبھی دروازہ بجا تھا وہ جو نیندوں میں جارہی تھی ایک دم ہڑبڑا کر اٹھی

گل بچے دروازہ کھولا میں ہوں ۔۔۔ نور بانو کی شفیق سی  آواز پر جلدی سے چئیر پر چڑھ کر دروازہ کھول چکی تو وہ اندر آئیں

اس نے جلدی سے واپس چڑھ کر کنڈی لگائی تو وہ مسکرا اٹھیں 

اس کا ہر انداز رومی جیسا تھا۔۔

آجاؤ دیکھوں میں کھانا لائی ہوں۔۔ انہوں نے ٹیبل پر کھانا رکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں 

تھینک یو اچھی آنٹی اس نے آگے بڑھ کر ان کے گال پر پیار کیا اور ان کی ناک سے ناک ملائی 

ان کی آنکھیں بے اختیار نم ہوئی تھی آنکھوں سے آنسو چھلکا تو وہ چونکی 

اچھی آنٹی یہ لوگ آپ کو بھی مارے ہیں کیا جو آپ رو رہے؟ اس نے آگے بڑھ کر ان کے گال صاف کئے تو وہ نم آنکھوں سے مسکرادیں 

نہیں میری جان یہ لوگ مجھے نہیں مارتے۔۔ انہوں نے اپنے گال پر رکھے اس کے ہاتھ تھامے 

آجاؤ کھانا کھالو۔۔ انہوں نے ایک نوالہ توڑ کر اسکی طرف بڑھایا تو اسنے آگے بڑھ کر کھا لیا 

اچھی آنٹی وہ کب آئیں گے؟ اسکے پوچھنے کے انداز پر وہ چونکی

کون وہ گڑیا؟؟ 

وہی نا جو مجھے بابا کے پاس لے کر جائیں گے بتایا تو تھا آپ کو اس نے سر پر ہاتھ مارا جیسے ان کی کم عقلی پر ماتم کیا ہو 

وہ بہت جلد آئیں گے اسے تسلی دیتی وہ برتن سمیٹنے لگی اور پھر اسے سونے کا بول کر کمرے سے نکل گئیں۔  

لیٹتے ہی ایک خوف نے اسے لپیٹا تھا 

بابا مما۔۔۔۔۔ وہ انہیں پکار کر رو پڑی وہ نازک گڑیا جس نے اپنے بابا کے بغیر ایک دن نہیں گزارا تھا آج اسے پورے دو دن ہوگئے تھے ان کی شکل دیکھے۔۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری مکمل کر رہا تھا اسے ڈیوٹی جوائن کرنی تھی مگر پھر ایک نئے مشن کے تحت انہین اسپیشل ٹریننگ دی جارہی تھی 

مخصوص یونیفارم پہنے وہ وجہہ مرد اداس اداس سا لگ رہا تھا 

ضمیر پر ایک بوجھ سا آن پڑا تھا  بے دلی سے تیار ہوتا ہو نیچے آیا تھا 

وہ جب یونی میں تھا تو کراچی میں موجود گھر اس کے استمعال میں تھا جہاں عائش اور شمشیر خان ان کے ساتھ ہوتے تھے 

جبکہ یہاں وہ شیر کے ساتھ رہتا تھا اس کا دوست ہم راز اسکا سپورٹ۔۔۔

وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تو شیر دل سامنے ہی بیٹھا اسے دیکھ کر کھڑا ہوا 

سلام لالا کیسے ہو؟؟؟ 

وعلیکم السلام۔۔۔ کیسا ہوسکتا ہوں شیر وہ صوفے پر بیٹھ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا گیا۔۔۔

حویلی سے ایک بڑی خبر ہے لالا۔۔۔

شیر مجھے ابھی اس جگہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے سامنے رکھی بلیک کافی اس نے حلق میں اتاری تھی 

شام میں بات ہوتی ہے۔۔

لالا۔۔۔ وہ جو باہر کی جانب بڑھا تھا پلٹا 

کون سی بات پریشان کرہی ہے؟

اس کی بات کر وہ زخمی سا مسکرایا 

ایسا لگتا ہے گناہ ہوگیا ہے شیر دل مطمئن نہیں ہورہا وہ بولتا لمبے ڈاگ بھرتا باہر نکل گیا 

ٹھیک ہی کہتا ہے آپ کا دل لالا ایک معصوم کے ساتھ ناچاہتے ہوئے بھی غلط کربیٹھے کاش آپ کو پتا ہوتا وہ بس دس سال کی بچی ہے

شیر نے افسوس سے کہا کل ہی اسے نور بانو نے فون کر کے ساری صورتحال بتائی اور حیدر کو بلایا تھا مگر اس کی حالت دیکھ وہ چپ رہ گیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ ٹریننگ کے لئے گراؤنڈ میں تیار کھڑے تھے،چوڑا سینہ مضبوط بازو کسرتی جسم اس پر متضاد لال آنکھیں 

اس گراؤنڈ کے 50 راؤنڈ۔۔۔۔۔

ٹرینر کی سیٹی کر وہ اپنی پوری قوت لگا کر بھاگا تھا اپنا جنون وہ وہاں سرف کررہا تھا

آخری راؤنڈ پر سب حال سے بےحال تھے سوائے اس کے 

ٹرینر نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا جس کا جوش ابھی بھی ویسے کا ویسے ہی تھا۔۔۔

نیکسٹ پش اپ۔۔۔

ٹرینر کے بولتے ہی سب لائن سے پوزیشن سنبھال چکے تھے 

پورا دن وہ مختلف مشقوں میں مصروف رہے تھے شام میں جاکر وہ لوگ اندر ڈریسنگ روم میں آئے تھے 

اوئے خان کیا بات ہے آج تیرا جوش دیکھنے والا تھا 

اسکے ساتھ کھڑے ایک لڑکے سے اسے بولا لیکن وہ اسے دیکھ کر رہ گیا مسکراہٹ تو جیسے اب آنی ہی نہیں تھی

فریش ہوکر اسنے شرٹ پہنی

بلیک شرٹ پر بکھرے بال سرخ و سفید رنگت میں سرخی بسی ہوئی تھی 

وہ اپنا سامان سمیٹتا وہاں سے نکلا تھا۔۔۔ناجانے کتنی دیر وہ یونہی گھومتا رہا تھا کہ تبھی فون رنگ ہوا تھا

شیر کا نمبر دیکھ اسنے فون اٹھایا تھا 

لالا کہاں ہو کب سے انتظار کر رہا ہوں ؟؟؟؟ 

وہ اس وقت ایک ہوٹل کے پاس رکا تھا باہر  آکر گاڑی لاک کی اور اندر کی طرف بڑھا 

لالا خود کو کیوں سزا دے رہے ہو یہ بات سب جانتے ہیں کہ آپ کا اس سب میں کوئی قصور نہیں بلکہ آپ نے یہ سب ان لوگوں کے لئے کیا ہے۔۔۔

میں بہت تکلیف میں ہوں شیر۔۔ وہ بے بس ہوا تھا 

آخر کیا ہوا ہے آپ مجھے بتاؤ نا لالا۔۔۔

تا زمہ خبرارا بندے نا شے پیدالےشیر(تم میری بات نہیں سمجھ سکتے شیر)

پاس آتی خواتین کو دیکھ وہ پشتو میں بولا تھا 

خہ۔۔۔ 

ناراض نا ہو شیر ملتا ہوں جلد۔۔ رش بڑھتا جارہا تھا اس لئے وہ فون رکھتا آگے بڑھا تھا۔۔۔

یہاں کے کباب اس کے پسندیدہ تھے اور کسی اور کے بھی

وہ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا تھا بھانت بھانت کے لوگ وہاں بیٹھے تھے رات گئے وہ وہاں سے گھر آیا تھا گھر کا سناٹا بتا رہا تھا کہ شیر سو چکا ہے اس لئے وہ آہستہ سے چلتا اپنے کمرے میں آگیا۔۔۔

دوسرا موبائل دیکھا جہاں نور بانو کی لاتعداد کالز تھیں اس نے کال بیک کی مگر آگے سے جو سننا پڑا اسنے اسکے پیروں تلے سے زمین کھسکائی تھی۔۔

شیر۔۔۔۔۔۔ وہ دھاڑا شیر۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی نکالو۔۔۔۔ 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

وہ بےسد ہی سوئی ہوئی تھی نور بانو کمرے میں اس نے برابر میں ہی سورہی تھیں تبھی آہٹ پر ان کی آنکھ کھلی تھی

ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا باہر سے مسلسل آواز آرہی تھی وہ چپل پہنتی سر پر دوپٹہ سلیقے سے جمائے باہر آئی تھی تبھی ایک ملازمہ نے انہیں دبوچا

اہہ۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔ وہ چیخی اب تبھی رزاق اندر کمرے کی طرف بڑھا تھا 

وہ چیختی چلاتی شور مچا رہی تھیں مگر ملازمہ نے ان نے منہ پر ہاتھ رکھ کر انکا منہ بند کروادیا

,تبھی دو حیولے اندر کمرے میں بڑھے تھے انکا دل ڈوب کر ابھرا پوری طاقت لگا کر انہوں نے ملازمہ کو دھکا دیا تھا 

اور بھاگتی ہوئی اپنے موبائل کے پاس آئیں ایک آخری امید حیدر تھا انکی کیونکہ جتنا شور انہوں نے کیا تھا اس کے مطابق سب کو باہر آجانا چاہیے تھا مگر اتنا سناٹا ان نا دل ڈوبا تھا 

پانچویں بار بھی جب کال ریسیو نہیں ہوئی تو ان کا دل بیٹھا

اچانک اندر سے گل کی چیخ سنائی دی تھی 

گل بچی۔۔۔۔۔۔ گل میری بچی وہ بھاگ کر واپس اوپر آئیں

تبھی ان کا فون بجا تھا حیدر کا نام دیکھ انکو زندگی کی رمق ملی تھی

ہیلو ہیلو حیدر وہ رو رہی تھیں درد میں تھیں

فون بند کرکے اور پھر دروازہ پاگلوں کی طرح پیٹنے لگی انہیں سفید کفن میں لپٹا وجود یاد آیا تھا 

دروازہ کھولو۔۔۔۔ کھولو دروازہ وہ چیخ رہی تھیں چلا رہی تھیں 

اندر سے آتا شور ان کا دل دہلا رہا تھا وہ وہی دروازے کے پاس بیٹھتی چکی گئیں۔۔۔۔

یا اللّٰہ مدد فرما۔۔۔۔۔

وہ اندھی طوفان بنا حویلی آیا تھا 

چیخوں کی آواز اوپر سے آرہی تھی وہ بھاگتا ہوا اوپر پہنچا تھا 

سامنے دروازے کے ساتھ لگی بیٹھی نور بانو کو دیکھ اسکا کلیجہ چھلنی ہوا تھا 

بھاگ کر دروازے تک آیا 

چچی۔۔۔۔۔ 

اس کی آواز میں کتنی تڑپ تھی 

حیدر میرے بچے۔۔۔ اسے بچا لو بچے وہ بھاگ کر اسکے بازوں میں سمائی تھی

انہیں سائیڈ کرتا وہ دروازے تک آیا تھا دروازہ اندر سے لاک تھا اس کے دھکا لگایا اور اس طاقت ور مرد کے تیسرے دھکے سے ہی وہ دروازہ الگ ہوا تھا 

اندر کا منظر دیکھ وہ جہاں تھا وہی رہ گیا 

پورا کمرہ بکھرا پڑا تھا جبکہ دو آدمی ہاتھ میں رسی لئے کھڑے تھےماتھے سے خون نکل رہا تھا  اور سامنے دیکھ رہے تھے 

اس نے نظروں کا زاویہ تبدیل کیا تو سامنے الماری نے اوپر بیٹھے وجود پر نظر پڑی 

وہ کالی فراک میں بکھرے بال اور پھٹی آستین کے ساتھ ہاتھ میں چھری لئے بیٹھی تھی اس کا حال دیکھ اس نے آگے بڑھ کر ان دونوں آدمیوں کو دھنک کر رکھ دیا تھا

ہمت کیسے ہوئی تم دونوں کی اس حویلی اور کمرے میں قدم رکھنے کی 

وہ ان دونوں کو بہت اچھے سے پہچانتا تھا آغا وزیر خان کے پالتو کتے۔۔۔۔

انکو گریبان سے کھینچتا وہ نیچے لایا تھا اور بیچ لاونج میں پھینکا۔۔۔

باہر موجود سکیورٹی گارڈ اسکی ایک دھاڑ پر اندر تھے 

وہ بھوکا شہر بنا بیٹھا تھا پوری حویلی خالی تھی یعنی وہ دونوں اکیلی تھیں 

بہت گندا کھیل کھیل رہے ہیں آپ آغا جان۔۔۔غصے سے مٹھیاں بھینچے اسنے ٹیبل پر لات ماری تھی 

تبھی نور بانو نیچے آئی تھی جن کے پہلو میں وہ ننھی شہزادی دبکی پڑی تھی 

تگنی کا ناچ نچایا تھا اس نے ان دونوں کو وہ شیر باپ کی شیر اولاد تھی 

کون ہے چچی ہے؟ وہ آہستہ قدم اٹھاتا ان کے پاس آیا اور جو سوال اس نے کیا نور بانو ایک دم چونکی

تمہیں نہیں پتا حیدر خان کہ یہ کون ہے؟؟؟ ان نے لہجے میں ایک انچ سی تھی

اسکا سر نفی میں ہلا تو انہوں نے تاسف سے اسے دیکھا۔۔

تبھی باہر سے نور بانو کی خاص ملازمہ بھاگتی ہوئی اندر آئی تھی جسے انہوں نے کال کر کے بلایا تھا 

نوری اسے لے کر اندر جاؤ اور خیال رکھنا 

جی بی بی جی۔۔۔ اسنے گل کا ہاتھ تھاما تو اسنے نور بانو کو دیکھا 

وہ اسکی طرف مڑی اور اسکا چہرہ تھاما

فریحہ گل میری بہادر بچی میں ابھی آتی ہوں آپ جاؤ اور آرام کرو شاباش یہ آپکا خیال رکھے گی 

ان کے پیار سے پچکارنے پر وہ ملازمہ کا ہاتھ تھامے اوپر بڑھ گئی۔۔۔

آپ نے بتایا نہیں چچی جان یہ کون ہے؟؟؟

اسکے جاتے وہ ان سے پھر مخاطب ہوا تھا۔۔ 

حیدر ارحمان خان یہ وہی ہے جسے بیاہ کر لائے تھے خون بہا میں۔۔۔ 

انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا اس نے سر پر ساتوں آسمان گرے تھے

بھائیوں کی زندگیاں خراب نا ہوں اس لئے اس معصوم کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرگئے کیا فرق بچا تم میں اور باقی خانوں میں۔۔

وہ چٹخی تھیں 

کتنا عرصہ ہوا تھا انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا بیٹی کی جدائی سہنا آسان نہیں تھا مگر آج وہ پھر بول رہی تھیں ایک اور بیٹی کی زندگی بچانے کے لئے

وہ سن سا انہیں دیکھ رہا تو یہ تھی وہ غلطی۔۔جس کے لئے اسکا ضمیر اور دل مطمئن نہیں تھا

لے جاؤ حیدر خان اسے ورنہ یہ لوگ اس معصوم کو مسل دینگے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ہم گھر کب جائیں گے آغا جان ہمیں بہت نیند آرہی ہے۔۔

اذھاد کے بولنے پر وہ مسکرائے 

بس تھوڑی دیر میں آغا کی جان۔۔۔

وہ رات گئے اپنی طبیعت کا بہانہ کر کے انہیں ساتھ لائے ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ کے بعد اپنی خوشی کی خاطر وہ انہیں نئے فارم والے گھر لے آئے تھے جیسے ہی انہیں موبائل پر پیغام موصول ہوا ان کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ آئی تھی 

اور اب وہ واپسی کے لئے روانہ ہوئے تھے نہیں جانتے تھے کہ آگے ان کے لئے ایک بپھرا طوفان منتظر ہے۔۔

صبح کے اجالے افق پر پھیلے جارہے تھے ان لوگوں کی گاڑیاں حویلی میں داخل ہوئی تھیں 

گھر میں قدم رکھتے ہی انہیں دھچکا لگا تھا سامنے ہی وہ سرخ انگارا آنکھیں لئے بیٹھا اور ان کے پالتو کتے ادھ مری حالت میں سامنے پڑے تھے 

سب نے قدم وہی رکے تھے وہ زخمی سا مسکرایا

آئیے آئیے محترم آغا وزیر خان۔۔۔۔۔۔ 

اس نے کھڑے ہوکر انتہائی کٹیلے لہجے میں کہا 

یہ کس لہجے میں بات کررہے ہو تم آغا جان سے؟؟ ارحمان خان نے اگے آکر اسے ٹوکا۔۔

میں اسی لہجے میں بات کر رہا ہوں بابا جس لہجے میں بات کرنا یہ ڈیسور کرتے ہیں 

افسوس ہورہا ہے کہ میں اس خاندان میں پیدا ہوا شرم آتی ہے مجھے کہ میں آپ کا پوتا ہوں ایسے احساس سے عاری لوگوں میں پیدا ہونے سے بہتر تھا میں لاوارث ہوتا۔۔۔۔۔

حیدر۔۔۔۔۔۔ ارحمان خان پھر چیخے تھے 

بولنے دو ارحمان اسے بولنے دو آج ہم بھی سننا چاہتے ہیں کہ پوتا دادا کے لئے کتنی نفرت رکھتا ہے

وہ ہنکار بھر کر بولے

نفرت۔۔ وہ بے ہنسا تھا کیا نہیں تھا اس ہنسی میں درد تکلیف اذیت۔۔۔۔

کیوں کرتے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا آپ تو کہتے تھے میں آپکا لاڈلا ہوں تو ہر بار میرے دل پر کیوں وار کرتے ہیں ہاں کیا آپ بھول گئے اس معصوم کی میت؟؟ میں نہیں بھولا 

آج پھر ایک معصوم اور بے گناہ کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھاتے آپ کے ہاتھ نہیں کانپے یہ ہی سوچ لیتے کہ میرے نکاح میں ہے وہ بچی۔۔۔۔

اس نے کرب سے آنکھیں میچی کتنی اذیت ہوئی تھی یہ لفظ ادا کرتے ہوئے

زرا آپکا میرا خیال نہیں آیا اسکا تو خیر کیوں آتا اس بچی کی عزت کی نلامی کوئی ایسی بات ہی نہیں آپکے نزدیک۔۔

اس کی اس بات پر سب چونکے تھے

کیا بول رہے ہو حیدر؟؟ عبدالعزیز صاحب اس پورے عرصے میں پہلی بار بولے تھے

یہ بات آپ کو ان کے یہ پالتو کتے بتائیں گے

میرے نکاح میں آئی اس لڑکی کی عزت خراب کرنے بھیجا تھا انہوں نے اس حرامزادوں کو اس نے ایک لات ان وجودوں پر ماری تھی 

آغا جان؟؟ ان کے لہجے میں بے یقینی تھی وزیر خان نے پہلو بدلہ۔۔۔

میں بتاتا ہوں نا آپ کو آپ سب کو لے جاکر انہوں نے پیچھے ان لوگوں کو بھیجا تھا تاکہ اس کے ساتھ۔۔۔۔۔ 

مگر اب یہ ظلم مزید نہیں لے جارہا ہوں میں اسے اپنے ساتھ۔۔۔

تم ایسا نہیں کرسکتے تم اسے نہیں لے جاسکتے  اس کی اس بات پر آغا جان دھاڑے 

وہ ہماری غلام ہے ہم لائیں ہیں اسے اپنے پوتے کی جان کا بدلہ لینے۔۔۔

پوتے کی جان وہ استہزایہ ہنسا

وہ پوتا جس کی موت کا صدمہ اس حویلی میں کسی کو ایک دن بھی نہیں ہوا یا یوں کہوں کے اس زندہ پوتے کی لاش پر گیم کھیل گئے آپ 

پہلے پیسوں کے لئے مجھ سے سب چھینا اور اب اس بے فضول ضد کے لئے اتنا بڑا کھیل کھیلا مجھے بچہ مت سمجھئے گا میں چپ ہوں تو آپ کی بھلائی ہے میں نے بولنا شروع کیا تو طوفان آجائے گا اس حویلی میں۔۔۔۔۔

سیڑھیوں پر کھڑی نور بانوں نے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اتنا بڑا کھیل۔۔

چچی اسے لے کر آئیں ساتھ لے کر جانا ہے میں نے یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا حویلی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گل میری بچی…. وہ بستر پر اوندھے منہ پڑی سسک رہی تھی کتنی ہی باہمت بن جائے تھی تو بچی ہی۔۔۔

مجھے بابا پاس جانا ہے مما۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ننھی پری بلک بلک کر رو رہی تھی انکا کلیجہ منہ کو آیا تھا

گل میری جان ادھر دیکھو بات سنو ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا جو اب ان سے لپٹ کر رو رہی تھی 

میری جان ایسے نہیں کرتے۔۔۔ انہوں نے اسکی کمر سہلائی تھی 

مجھے جانا۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔

اچھا بچے ادھر دیکھوں میں بھیج رہی مگر میری بات سنو۔۔۔

انہوں نے اس چھوٹی پری کا چہرہ اوپر کیا۔۔

آپ مجھے بابا کے پاس بھیج رہی ہیں نا؟؟ 

ہاں لیکن ابھی نہیں دیکھو گڑیا ابھی میں تمہیں حیدر کے ساتھ بھیج رہی ہوں وہ تمہارا شوہر ہے سر کا سائیں ہیں وہ تمہارے بابا کو ڈھونڈے گا مگر تمہیں اس کی ہر بات ماننی ہوگی وہ جیسا کہے گا آپ کو ویسا کرنا ہوگا سمجھ رہی ہو نا بچے؟؟

وہ مجھے مارے گے تو نہیں نا؟؟ بھری آنکھوں سے اس نے اپنی تسلی کرنی چاہی 

نہیں میری جان وہ کچھ نہیں کہے گا بس تم اب اسکی بیوی ہو اسے تنگ کرنا بری بات ہوگی۔۔

بیوی مطلب جیسے مما بابا کی وائف ہیں ویسے ہی نا؟؟ اس نے جیسے کنفرم کرنا چاہا۔۔

جی میری جان بلکل ایسے ہی۔۔

تو کیا وہ مجھے کس بھی کرینگے یہاں اس نے اپنے ماتھے پر انگلی رکھی تو ایک لمحے کو نور بانو بھی بوکھلا گئی۔۔

اففففف یہ لڑکی۔۔

فری گل ادھر سنیں ایسی بات سب کے سامنے نہیں کرتے ٹھیک ہے بیٹا اب رونا نہیں نا حیدر  کو تنگ کرنا وہ بہت جلد تمہیں تمہارے بابا کے پاس لے جائے گا۔۔

واووو۔۔۔ان کی بات پر وہ خوشی سے جھوم اٹھی

انہوں نے جلدی سے اسکا سامان پیک کیا اور اچھے سے چادر سے اسکو کور کیا بغیر آغا جان کی گھوریو کی پرواہ کئے وہ اسے حیدر کے پاس لائی تھیں جو ناجانے ضبط کے کون سے مرحلے سے گزر رہا تھا۔۔۔

گاڑی میں بیٹھو۔۔ بنا اسکی طرف دیکھے اس نے کرخت لہجے میں کہا۔۔۔

وہ منہ بناتی اندر بیٹھ گئی 

حیدر وہ بچی ہے اسے اتنی سمجھ نہیں ہے دیکھو اس پر غصہ کے کرنا اس سب میں اسکا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔

نور بانو نے اسے سمجھانا چاہا۔۔

قصور تو پلوشہ کا بھی نہیں تھا نا چچی جان لیکن اسے سزا ملی اور خدا گواہ حیدر خان نے کو جس دن حقیقت کا ادراک ہوا وہ دن اس حویلی میں طوفان لائے گا جو سب کچھ تہس نہس کردے گا۔۔۔

اور میری دعا ہے کہ وہ دن کبھی نا آئے حیدر خان کبھی کبھی کچھ چیزوں کا چھپا ہونا ہے ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے۔۔

لیکن میں سب جاننا چاہتا ہوں اس وقت کا ایک ایک لمحہ جاننا چاہتا ہوں اس دل پر بڑا بوجھ ہے چچی۔۔

وہ تھک گیا تھا ناجانے دل پر ایسا کون سا بوجھ تھا جو حیدر خان کو جینے نہیں دے رہا تھا ایسا کون سا راز تھا جو اس حویلی کی سنہری دیواروں میں قید تھا یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا جو کہ فلحال اس راز کو عیاں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔

وہ ایک جھٹکے سے دروازہ بند کرتا فرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھا تھا جس پر برابر بیٹھے وجود نے ڈر کر دل پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

نور بانو تو اسے الوداع کہہ کر اندر چلی گئی تھی

سیٹ بیلٹ باندھو۔۔۔

اسکے کانوں میں ایک سخت سی آواز آئی تو اسنے سیٹ بیلٹ دیکھ کر منہ بنایا تھا۔۔

مجھے نہیں آتی باندھنا۔۔۔ اسکے ڈر سے وہ منمنائی تھی کیونکہ اس وقت برابر بیٹھے پٹھان کا چہرہ اور آنکھیں لال ہورہی تھیں۔۔

اللّٰہ جی ان کی آنکھیں تو مونسٹر جیسی ہیں۔۔۔

اس کے گھور کے دیکھنے پر ایک لمحے کو وہ سہم گئی تھی

اس نے غصے سے سیٹ بیلٹ کھینچ کر اسے باندھی۔۔

اور گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔

اور چپ چاپ اسے گاڑی ڈرائیو کرتے دیکھنے لگی۔۔۔۔

آپ کی گاڑی میں میوزک نہیں ہے کیا؟؟ وہ بیٹھے بیٹھے بور ہوگئی تھی اس لئے پوچھ بیٹھی مگر آگے سے جواب ندارد۔۔

انکل میں آپ سے پوچھ رہی۔۔۔۔ اور اس کے انکل کہنے پر وہ ایک دم اسے دیکھنے لگا حیرت سے۔۔۔

انکل کون میں؟؟؟؟

ہاں تو یہاں آپ کے علاؤہ اور کون ہے اب اس گاڑی کو تو میں انکل بولنے سے رہی نا۔۔۔

اس نے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی تیزی سے چلتی زبان دیکھی۔۔۔

میں یہ میوزک آن کرلوں میں بور ہورہی ہوں۔۔ پوچھنے کے ساتھ ہی اس نے میوزک پلیئر آن کیا تھا ہاں اجازت لینے کے بعد اس نے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔۔

گاڑی میں ایک دم سے پشتو گانا فل ولیوم میں گونجا تھا 

اففففف اس نے دونوں ہاتھوں کو کان پر رکھا 

کتنا گندہ میوزک سنتے ہیں آپ کیا آپ کے پاس اور سونگز نہیں ہیں چینل پر مسلسل آتے پشتو میوزک نے اسکا موڈ خراب کیا تھا اور حیدر نے ایک بار پھر اسے گھورا جو ابھی اتنی بڑی چیز سے گزر کر آئی تھی اور اب مزے سے اس سے میوزک کا پوچھ رہی تھی۔۔۔

سنیں انکل آپ بولتے نہیں ہیں یو نو میں بور ہورہی ہوں۔۔۔

ویسے بھی لاسٹ ٹائم میرے پاس بہت سارا کھانا تھا چپس چاکلیٹ پوئم بکس اینڈ اسٹوری بک اور اب دیکھیں یہ میں کچھ بھی نہیں لائی حرا آپی نے کچھ رکھا ہی نہیں چھپا دیا ہوگا نا سب اب آپ ہی مجھ سے کچھ باتیں کرلیں نا۔۔۔۔۔

اسے مسلسل بولتا دیکھ اسکا دماغ گھوما تھا۔۔

بس چپ ایک لفظ نہیں بلکل چپ کب سے پٹر پٹر زبان چل رہی ہے خبردار ایک لفظ مزید نہیں۔۔۔

اسکے غصے پر وہ سہم کر کار کے دروازے سے چپکی تھی 

جبکہ اب وہ اپنا سارا دھیان سامنے کئے ہوئے تھا ذہنی سکون چاہیے تھا اسے جو فلحال تو اسے میسر نہیں تھا۔۔

کافی دیر بعد جب اس کی نظر برابر میں پڑی تو وہ چادر میں لپٹی بے خبر سوئی ہوئی تھی

اس نے تاسف سے سر جھٹک کر اپنا دھیان ڈرائیونگ پر لگا دیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح کی روشنی افق پر پھیل رہی تھی مدھم مدھم سا اندھیرا آنے والے کرن کو خوش آمدید کہہ رہا تھا

چاروں طرف برف سے ڈھکے درخت اور پہاڑ ماحول میں بڑھتی خنکی۔۔

وہ لوگ مری میں داخل ہوگئے تھے پوری رات سے وہ ڈرائیو کر رہا تھا سر درد سے پھٹ رہا تھا 

برابر میں سویا وجود ابھی تک ایک بار بھی نہیں اٹھا تھا یقیناً اسکی نیند بہت پکی تھی۔۔۔

صاف ستھری سڑکیں رات ہونے والی بارش کا پتا دے رہے تھے 

دھیان سے گاڑی آگے بڑھاتا وہ ایک خوبصورت سے فارم ہاؤس کے اگے رکا تھا 

گارڑ نے پہچان پر فوراً سے گیٹ کھولا تھا۔۔

ہم کہاں آئے ہیں۔۔ مندی مندی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولتی وہ اطراف میں نظر دوڑانے لگی 

اترو گھر آگیا ہے۔۔۔ اسے بول کر وہ لمبے ڈاگ بھرتا اندر بڑھ گیا جبکہ وہ شال کو خود سے اچھے سے لپیٹ کر اندر بڑھی ٹھنڈ سے اسکے دانت بج رہے تھے 

اللّٰہ جی یہاں تو میری قلفی جم جائے گی۔۔چھوٹے چھوڑے قدم اٹھاتی اس عالیشان گھر کے اندر آئی جہاں نا بندہ تھا نا بندے کی ذات۔۔

اللّٰہ جی یہاں تو کوئی بھی نہیں اور وہ سڑو بھی پتا نہیں کہا چلے گئے۔۔

کیا کرو کہاں جاؤں اگر یہاں جن ہوا تو اللّٰہ نہیں اگر یہاں جن ہوا اور وہ مجھے لے گیا تو میں بابا کے پاس کیسے جاؤنگی اور اچھی آنٹی بھی پریشان ہو جائیں گی بھئی کہا جاؤ۔۔۔

مسلسل ٹرین کی رفتار سے چلتی زبان اسے سیڑھیوں سے اترتا دیکھ رکی تھی۔۔

یہاں کیوں کھڑی ہو ابھی تک ؟؟؟؟ کمرے میں جاؤ اپنے۔۔۔

کون سے کمرے میں جاؤں اگر آپ کے کسی روم میں چلی گئی تو آپ کو غصہ آجائے گا اور آپ کی یہ ہارور آئیز ریڈ ہو جائیں گی پھر مجھے ان سے ڈر لگے گا اس لئے آپ پلیز مجھے خود میرا روم بتا دیں۔۔۔

بریک لگاؤ اپنی زبان کو۔۔۔۔ اسکی چلتی زبان پر وہ بولے بنا نہیں رہ سکا 

میری زبان میں کوئی بریک نہیں ہیں بریک گاڑی میں ہوتے ہیں زبان میں نہیں آپ کو کسی اچھے اسکول سے پڑھنا چاہیے تھا۔۔۔۔

وہ بسور کر کہتی اس نے سینے پر ہاتھ باندھے پیر پٹخا۔۔۔

اور اس نے اس ننھی بلا کا نخرہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اسکے آگے زبان کھولے اور یہ۔۔۔۔

کریم۔۔۔۔ کریم۔۔۔۔ اس کی پکار پر کریک بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا تھا۔۔

اپنی بیوی کو بولو اس کو اوپر والا کمرہ دیکھائے۔۔۔

کریم کو ہدایت دیتا وہ باہر لان کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

دل پر عجیب سا بوجھ آگیا تھا دل میں وحشت کا راج تھا آتی جاتی سانسیں اسکے مضطرب ہونے کا پتا دے رہی تھیں اس نے اپنا ہاتھ دل پر رکھا تھا شاید درد کی شدت گراں گزری تھی 

ہوا کی ساعتیں اسکے اداس وجود کو چھو کر زندگی کی نوید دے رہی تھیں۔۔

ایک گہرا سانس کھینچ اس نے خود کو کمپوز کیا تھا 

موبائل کی بیل نے اسے اپنے خیالوں سے واپس نکالا تھا۔۔۔ہوا کے سپرد سانس کئے کانوں سے فون لگایا۔۔

لالا کہاں ہے رات سے نکلے ہیں؟؟ سب خیر تو ہے نا۔۔

میں ٹھیک ہوں شیر مری میں ہوں میری فکر مت کرنا پھر بات ہوتی ہے

اپنی کہہ کر وہ فون بند کرگیا مگر دوسری طرف اسکا یار تھا بھائی تھا کیسے اپنے لالہ کی تکلیف محسوس نا کرتا۔۔۔

اے اللّٰہ میرے لالا کی مشکلیں آسان کر انہیں صبر دے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اماں سائیں اماں سائیں۔۔۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی اوپر کمرے میں آئی تھی جہاں وہ ملازمہ سے اپنے پیر دبوا رہی تھیں 

خیریت تو ہے حرا بی بی کیوں ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو؟؟؟

بہت بری خبر لائی ہوں اماں سائیں۔۔۔ اس کی بات کر ایک دم اٹھ کر بیٹھی ملازمہ کو ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کا اشارہ کیا 

کیا ہوا ہے اب کبھی تو کوئی ابھی خبر لے آیا کرو حرا۔۔۔

حیدر خان گل کو اپنے ساتھ لے گیا ہے کہاں فلحال اسکا کچھ نہیں پتا چلا۔۔۔

کیا مطلب لے گیا؟؟؟

گھر والوں سے لڑ کر لے کر گیا ہے اس پر آنچ تک نہیں آنے دی۔۔۔

یہ منحوس ہمارے سینے پر یوں ہی مونگ دلتی رہے گی خدا کا قہر نازل ہو ان پر۔۔ 

وہ غصے سے بپھر گئی تھیں۔۔۔

کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے دفع ہوجا یہاں سے اپنی منحوس شکل اب دوبارہ مت دیکھانا مجھے۔۔۔

ان کے دھاڑنے پر فوراً کمرے سے غائب ہوئی تھی اور اسکے جاتے ہی انہوں نے پاس رکھا واس دیوار پر دے مارا۔۔۔۔۔

خدا کی لعنت پڑے تم پر فریحہ گل۔۔۔۔۔

مضطرب سی انہوں نے دراز سے دوا نکال کر منہ میں ڈالی سر درد حد سے سوا ہوا تھا 

اتنی آزادی سے تو میں بھی تمہیں نہیں رہنے دونگی یاد رکھنا۔۔۔

خود سے عہد کرتی وہ سر تھام گئیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کہاں گیا ہے حیدر کچھ پتا چلا؟؟؟!

وزیر خان نے اپنے وفادار سے پوچھا جو سر جھکائے ان کی خدمت میں پیش تھا ان کے سوال پر نفی میں سر ہلا گیا

وہ شہر والے گھر میں نہیں ہیں نا ہی کراچی والے فلیٹ میں۔۔

ہر جگہ معلوم کروایا ہے مگر کوئی اتا پتا نہیں۔۔۔۔

یہ سب اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے رزاق مجھے اسکی جان چاہیے چاہے کچھ بھی کرو مگر وہ مجھے میرے پوتے سے بہت دور چاہیے اغوا کرو یا قتل یہ میں تم پر چھوڑتا ہوں لیکن مجھے میرا پوتا واپس حویلی میں چاہیے اور ایک اور بات۔۔۔۔

حکم کریں مالک۔۔۔ رزاق نے انکے آگے سر جھکایا تو اس تعظیم پر وہ زمینی خدا بنے آدمی نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔۔۔

شاہ حویلی کے لوگوں پر نظر رکھو ان کی دم پر پاؤں رکھو تاکہ جب کریں تو انکا تڑپتا وجود میرے دل کو ٹھنڈ بخش سکے

ہو جائے گا مالک۔۔۔ چاہے اس کے لئے جان ہی کیوں نا جانی پڑے۔۔

ایک عزم سے کہتا وہ سر کو جھکا کر وہاں سے نکلا تھا

ہر چیز کا ازالہ ہو جائے گا بس ایک بار واپس آجاؤ چھوٹے خان تمہارا دادا سہہ نہیں سکتا تمہاری نفرت اب تمہیں واپس بلانے کے لئے جو ہم سے ہوا وہ ہم کریں گے صحیح یا غلط کیا فرق پڑتا ہے۔۔

سگار کا گہرا کش لگائے وہ خود سے مخاطب تھے

فضا میں بنتے مرغولے ان کی ذات کو بھی دھندلا رہے تھے

مگر وہاں تو بس اپنی جیت عزیز تھے جو ہر احساس پر حاوی تھی اپنی آنا کی تسکین کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے اور کر چکے تھے گزرے وقت کی تلخ حقیقت انہوں نے اپنے اندر دفن کی ہوئی تھی جس کے رسائی شاید اس زندگی میں تو وہ حیدر خان کو ہونے نہیں دے سکتے تھے۔۔۔

سنہری دھوپ اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی مگر اسے شاید اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یہاں اتنے بڑے گھر میں آئے ابھی کچھ گھنٹے ہی ہوئے تھے اور اسکا دل گھبرا گیا تھا ڈر الگ لگ رہا تھا مگر یہاں اس کے ماں باپ نہیں تھے جو اسے اپنے پروں میں چھپا لیتے 

بھوک سے اب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے 

یااللہ جی یہ کھڑوس کہاں رہ گئے ہیں کب سے بھوک لگ رہی ہے پلیز کھانا دے دیں مجھے۔۔۔ وہ روہانسی ہوئی تھی تبھی دروازہ کھولا کر کوئی اندر آیا تھا 

ملازمہ کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ اس کی آنکھیں چمکی تھیں مگر اس کے اندر موجود سامان دیکھ کر اسکا منہ بنا تھا۔۔

یہ کیا لائی ہیں آپ مجھے نہیں کھانا۔۔۔

لیکن بی بی جی کھانا تو یہی بنا ہے اور سب کو یہی کھانا ہے۔۔۔سلیم کی بیوی کی بات کر اسکے ماتھے پر شکنیں پڑی تھیں

ہاں تو جسے کھانا ہے اسے کھلائیں مجھے نہیں کھانا۔۔۔۔

غصے سے بولتی وہ منہ پھیر گئی ننھا سا دل ہمک ہمک کر مان کی آغوش مانگ رہا تھا

گالوں پر ہاتھ ٹکائے وہ سامنے لان میں دیکھنے لگی جہان لگے رنگ برنگے پھول اسکا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے

ہلکی ہلکی خنکی اسکے جسم میں سرایت کر رہی تھی اس لئے کھڑکی بند کئے وہ صوفے پر دبک کر گھٹنوں میں منہ دے دیا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا ہوا فاخرہ؟؟؟ فاخرہ کو کھانے کی ٹیبل واپس لاتے دیکھ وہ پوچھ بیٹھا۔۔

چھوٹے خان وہ بی بی بول رہی وہ یہ نہیں کھائیں گی انہوں نے کھانے سے صاف منع کردیا۔۔۔

کیوں کیا بنا ہے آج؟؟؟اس نے پوچھتے کے ساتھ ڈس کا ڈھکن ہٹایا جہاں لوبیا اور بکرے کا بھنا گوشت موجود تھا۔۔

ہمم ٹھیک جاؤ تم میں دیکھتا ہوں۔۔

پہلے ہی مسئلے ختم نہیں ہورہے اوپر سے کہ مصیبت خود سے بڑبڑاتا وہ فاخرہ کو بھیج کر وہ اوپر اسکے کمرے کے آیا تھا

دروازہ کھلا دیکھ وہ اندر آیا تو سامنے وہ صوفے پر چادر میں چھپی سکڑی بیٹھی تھی ایک لمحے کو اسکا دل افسوس کی گھیرائیوں میں اتر گیا۔۔۔

اے۔۔۔۔ لڑکی۔۔۔ سنو۔۔۔ سنو۔۔۔۔

اسنے وہی کھڑے کھڑے اسے آواز تھی لیکن شاید وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی یا جان کر ان سنا کر رہی تھی

اے لڑکی اٹھو بات سنو۔۔۔ اس نے اب کی بار اسکا کندھا ہلایا تو اس نے تڑپ کر اسکا ہاتھ جھٹکا تھا 

یہ کیا بد تمیزی ہے؟؟؟ 

میں نے کوئی بد تمیزی نہیں کی۔۔۔ وہ جو غصے میں مزید کچھ بولتا اسکی روہانسی آواز سماعت سے ٹکرائی حیدر نے لب بھینچے تھے۔۔۔

پھر کب سے آواز دے رہا ہوں سنائی نہیں دیتا؟؟؟ اور یہ منہ کیوں چھپایا ہوا ہے اوپر کرو۔۔

نہیں میں نے کرونگی۔۔۔ اسکے ضدی لہجے کر اس نے چادر میں چھولے وجود کو گھوری سے نوازا۔۔۔

مسئلہ کیا ہے آخر تمہارے ساتھ اور بھی کئی مسئلے ہیں مجھے۔۔۔

ہاں تو میں نے تو نہیں کہا تھا نا آپ لائیں مجھے تو اچھی آنٹی نے بھیجا کہ آپ ہسبینڈ ہیں جیسے میرے بابا میری مما کے تھے مگر آپ گندے ہو میرے بابا نہیں ڈانٹتے۔۔ ہچکیوں سے روتے وہ کانپ رہی تھی شہید رنگ آنکھوں میں موجود آنسو سرخ ہوئی ناک کپکپاتے ہونٹ اسے اپنے آپ پر افسوس ہوا

اچھا ادھر رونا تو بند کرو۔۔۔ بیٹھو ادھر۔۔۔۔۔

لڑکی بیٹھو۔۔۔ اسے بت بنے کھڑے دیکھ اس نے پھر سخت لہجہ استعمال کیا تھا 

لڑکی نام نہیں ہے فریحہ گل نام ہے میرا۔۔۔ لڑکی لڑکی بولے جارہے لڑکی بڑی ہوتی ہے آپ کو اتنا بھی نہیں پتا بس ڈانٹتے رہتے کر وقت سڑو کریلے کہیں کے نہیں بیٹھنا مجھے۔۔۔۔۔

تڑخ کر کہتی وہ کمرے سے ہی نکل گئی اور پیچھے وہ سر تھام کر رہ گیا۔

یا اللّٰہ۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 اللّٰہ جی مدد کریں نا میں کیا کروں یہ چوہے بھی نہیں سو رہے اور مجھے تو سردی بھی بہت لگ رہی ہے پلیز کوئی جادو کریں نا تاکہ میں بابا پاس جاؤ آئی پرامس اب کسی کو تنگ بھی نہیں کرونگی مما کی بات مانوں گی حرا آپی کی شکایت بھی نہیں کرونگی بس مجھے میرے بابا دے دیں پلیز ہچکیوں سے روتی وہ آسمان میں دیکھ اللّٰہ سے فریاد کر رہی تھی رو رہی تھی

آئی پرامس میں روؤں گی بھی نہیں بابا میں آپ کی بریو پرنسس ہوں بس آپ آجاؤ نا یہ انکل بلکل بھی اچھے نہیں ہیں میرا خیال بھی نہیں رکھتے مجھ سے پیار بھی نہیں کرتے جبکہ ابھی آنٹی نے کہا تھا یہ انکل مجھے آپ جیسا پیار کریں گے بٹ یہ تو بلکل میری مس جیسے ہیں اینگری برڈ🥺🥺🥺

وہ پیچھے کھڑا کب سے اپنے بارے میں اس کے خیالات سن رہا تھا اسے افسوس تھا کہ اپنی پریشانیوں میں وہ ایک معصوم کے ساتھ غلط کر بیٹھا ہے مگر اس دل کا کیا کرتا جو اس حویلی کے لوگوں کو دیکھ کر نفرت اوڑھ لیتا تھا

یہاں کیوں بیٹھی ہو اندر چلو اور جو کھانا ہے فاخرہ کو بول دو وہ بنا دے گی۔۔۔

نہیں آپ ڈانٹوں گے۔۔۔ 

نہیں ڈانٹ رہا آجاؤ اندر۔۔۔ اسے بول کر وہ اندر غائب ہوا تھا 

یہ تو کوئی جن ہے فوراً سے غائب ہو جاتے ہیں۔۔

چہرے پر بیزاری لئے وہ اندر آئی تو وہ فاخرہ کو ہدایت دینے میں مصروف تھا 

جی بی بی جی؟؟؟ کیا کھائیں گی آپ؟؟؟

آپ کو پیزا بنانا آتا ہے؟؟؟ 

نہیں۔۔۔۔

پھر پاستا؟؟ آتا تو ہے مگر سامان نہیں ہے۔۔۔ فاخرہ کے بولنے پر وہ آنکھیں گھوما کر پاوٹ بنا گئی۔۔۔

کچھ بھی بنا دیں نا بھوک لگی بہت۔۔۔ 

میگی ہیں؟؟

جی بی بی جی ہیں میں بنا دیتی ہوں۔۔

اووو شکر ویسے آپ کا نام کیا ہے آنٹی ؟؟؟ 

جی فاخرہ۔۔۔۔

واووو ویسے آپ کریلے انکل کی کیا لگتی ہیں ؟؟؟ معصومیت سے گال پر ہاتھ ٹکائے آنکھیں پٹپٹاتی فاخرہ کو وہ بہت پیاری لگی تھی 

وہ ہمارے مالک ہیں ہم کام کرتے ہیں یہاں اور آپ کون ہیں ان کی؟؟؟ 

میں؟؟؟؟ سینے پر انگلی رکھے اس نے تصدیق کی تھی 

جی آپ۔۔

میں تو وائف ہوں نا ان کی۔۔۔۔

اور اس کی بات پر فاخرہ کے ہاتھ سے چمچہ چھوڑ کر گرا تھا

وہ معصوم سی کلی اسکے مالک کی بیوی ہوگی یہ تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا 

اففف آپ نے اسپون کیوں گرا دیا۔۔۔ جھک کر اسنے اسپون واپس اسے تھمایا اور خود کرسی کی مدد سے شیلف کر چڑھ کر بیٹھ گئی۔۔۔

جی۔۔۔نہیں کچھ نہیں 

ویسے یہ گھر اتنا بڑا ہے لیکن یہاں تو کوئی رہتا ہی نہیں آپ بور نہیں ہوتیں؟؟؟ میرا تو بلکل بھی دل نہیں لگ رہا ڈر بھی لگ رہا ہے بابا بھی یاد آرہے ہیں آپ میرے ساتھ سوجائیں گی؟؟ 

بات کرتے کرتے وہ آخر میں روہانسی ہوئی تھی۔۔۔

فاخرہ کو اس معصوم پر ترس سا آیا تھا ناجانے ایسی کیا مجبوری تھی جو وہ آج اس جگہ تھی

ٹھیک ہے بی بی جی آپ کھانا کھائیں میں آتی ہوں تب تک۔۔۔

اس نے سامنے کھانے رکھے وہ باہر چلی گئی تو اس نے اطراف کا جائزہ لیا تھا نفاست سے سجا کچن۔۔۔

واووو یہ تو بہت پیارا ہے۔۔بٹ وہ انکل بہت گندے ہیں

منہ بناتے کہتی اس نے نوڈلز منہ میں ڈالے تھے۔۔۔

جتنے دیر میں اس نے نوڈلز ختم کئے تب تک فاخرہ بھی آگئی تھی جو سلیم سے اجازت سے لینے گئی تھی مگر سلیم نے اسے صاف منع کردیا تھا اور اب وہ بچاری اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ کیا کرے اسے فریحہ گل سے ہمدردی میں ہورہی تھی مگر سلیم کے ڈر کی وجہ سے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔۔

بی بی جی آپ جاؤ سوجاؤ ہم اپنے کواٹر میں ہی ہیں جب ضروت ہو آواز دے دینا۔۔۔۔

لیکن آپ تو ساتھ سو رہی تھیں نا۔۔۔ اکیلے سونے کے خوف سے اسکا دل ڈوبا تھا 

پلیز سوجائیں نا مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔

بی بی جی میں سو جاتی مگر مجھے بہت کام ہے آپ جاؤ سوجاؤ۔۔۔

اسے بول کر وہ جلدی سے اپنے کواٹر کی طرف چلی گئی۔۔۔

اور اس بچاری کی تو نیند ہی اڑ گئی تھی مرے قدموں سے وہ اوپر کمرے میں آئی تھی بستر پر لیٹتے ہی پھر ماں باپ کی یاد نے جی کرلایا تھا غلافی آنکھوں پر پڑی سایہ افگن پلکیں نم ہوئی تھیں آنسو تھے کہ ان نرم و ملائم رخسار کو چھو لینے کو بے تاب تھے۔۔۔۔

اس نے بے دردی سے رخسار پر آئے آنسوؤں کو چہرے پر سے ہٹایا تھا 

شہید رنگ آنکھیں نمکین پانی سے لبالب بھر گئی تھی 

اوندھے میں پیٹ کے بل لیٹی وہ اب رو رہی تھی اور کمرے میں اسکی ہچکیاں گونج رہی تھیں مگر اس کو چپ کروانے والے اس کے اپنے آج اس کے پاس نہیں تھے یوں ہی روتے روتے وہ حسین پری نیندوں جی وادی میں اتر گئی۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ایک عجیب سی بے چینی نے وجود کا احاطہ کیا ہوا تھا وہ کافی دیر سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھا لیکن دل و دماغ میں ایک نئی جنگ چھیڑ چکی تھی

کام چھوڑ کر وہ بالکونی میں آکر کھڑا ہوگیا یہ کھلی فضا بھی اس کے وجود کی گھٹن کو کم نہیں کر پارہا تھا۔۔۔

اس نے خود کو کمپوز کرنا چاہا مگر سب بے سود اب تک ناجانے کتنے کپ کافی وہ اپنے اندر انڈیل چکا تھا۔۔۔

کیوں گئی مجھے چھوڑ کر تم ایک بار مجھے آکر سچ بتا جاؤ خدا کے لئے ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔۔۔

اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے وہ بے بس ہوا تھا۔۔

درد جب حد سے سوا ہوا تھا گاڑی کی چابی اٹھائے وہ دروازہ دھاڑ سے بند کرے باہر نکلا تھا مگر۔۔۔۔

اوپر سے آتی چیخوں نے اس کے قدم رکے تھے۔۔

دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی چیخوں کا رخ سجھ کر وہ پھرتی سے اس طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

بابا بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ چیخوں کی آواز پر وہ بھاگتا اسکے کمرے میں آیا تھا جہاں وہ آنکھیں بند کئے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں دبوچے چیخ رہی تھی۔۔۔۔

بابا۔۔۔۔۔ بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آجا۔۔۔۔۔۔۔۔آجاو۔۔۔۔۔۔۔ بب۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔ سوتے میں بھی اسکی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔۔۔۔

وہ جلدی سے لائٹ آن کئے اسکے پاس بیڈ پر آیا جو مسلسل سر نفی میں ہلائے چیخ رہی تھی

اےےےےے۔۔۔۔۔ لڑکی۔۔۔۔۔۔ ۔۔اٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ببببب۔۔۔۔بابا۔۔۔ پ۔۔پپاس۔۔۔پاس جانا۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہہ۔۔۔یہ ۔مم۔۔۔۔مار۔۔۔ رہے ۔۔۔ ب۔۔۔بابا۔۔۔۔

اس کی حالت پر صحیح معنوں میں حیدر نے ہاتھ پاؤں پھولے تھے کیونکہ وہ کسی بھی طرح اٹھ کے نہیں دے رہی تھی۔۔۔

کچھ نہیں ہوا۔۔ اٹھو میں ہوں نا اسے کندھوں سے تھامے اس نے اسے بیٹھایا تھا جو مسلسل بند آنکھوں سے روئے جارہی تھی۔۔۔

شش سب ٹھیک ہے چپ۔۔۔۔ اس کے گال تھپتھاپائے وہ اس پر جھکا تھا جس نے اب مندی مندی آنکھیں کھول اسے دیکھا تھا شہید رنگ آنکھیں سرخی لئے ہوئے تھیں سفید رنگت میں سرخیاں سی گھول گئی تھیں کپکپاتے لب۔۔۔ 

وہ اسکے سینے سے لگے مسلسل کانپ رہی تھی۔

بس کچھ نہیں ہوا خواب تھا سب ٹھیک ہے۔۔۔ اسکے بال سہلاتے وہ اسے چپ کروا رہا تھا جو اس سے الگ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔

مجھے۔۔۔۔۔۔بابا۔۔پاس۔۔۔ جانا۔۔ ہچکیوں نے درمیان بولتے اس نے بے دردی سے اپنا گال ہاتھ کی پشت سے رگڑا تھا

دیکھو رونا بند کرو اور پانی پیو۔۔۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس لئے اس نے گلاس اسکے لبوں سے لگایا تھا جو وہ ایک سانس میں بھی پی گئی 

آرام سے پیتے ہیں بھاگ نہیں رہا تھا گلاس۔۔۔

گلاس سائیڈ پر رکھے اس نے اسکا سر واپس تکیے پر رکھا اور اس پر بلینکٹ صحیح کیا۔۔

سوجاؤ اب کچھ نہیں ہے خواب تھا بس۔۔۔

اسے بول کو وہ جانے کے لئے اٹھا تھا مگر جا نا سکا کیونکہ اسکا ہاتھ ایک نرم و ملائم گرفت میں تھا 

اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جو ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔

کیا ہوا ہے؟؟؟؟ 

مجھے۔۔ ڈر لگ رہا ہے آپ نن۔۔۔نی جاؤ نا ۔۔۔ اس کے لہجے کی کپکپاہٹ بہت واضح تھی۔۔۔

کیوں ڈر لگ رہا ہے؟؟؟ سو جاؤ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

وہ۔۔۔۔ شششش سوجاؤ کہا نا کچھ نہیں ہوتا 

اسکو بولنے کا موقع دیا بغیر ہی اپنی بول کر وہ کمرے سے باہر آگیا اندر کی آگ کہیں ختم سی ہوگئی تھی اس کے پاس آتی خوشبو وہ سمجھ نا سکا 

سر جھٹک کر اس نے سلیم کا نمبر ملایا اور فاخرہ کو گل کے پاس آنے کا بول کر واپس اپنے کمرے میں آگیا۔۔

بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے اس نے آنکھیں موندی تھیں 

مگر آنکھیں موندے ہی اس منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ٹہرا تھا۔۔۔۔

کیوں ڈانٹ رہی ہیں آپ اسے؟؟ نور بانو کو اسے ڈانٹتا دیکھ وہ فوراً وہاں آیا تھا جو اسے دیکھ فوراً پھیل کر اسکے پاس آگئی تھی 

تنگ آگئ ہوں اس لڑکی سے جتنی بڑی ہوتی جارہی اتنی ہی ضدی اور خود سر پوری رات ہنگامہ کر کے رکھتی ہے نا خود سوتی ہے نا مجھے سونے دیتی اتنی بڑی عمر میں بھی ماں چاہیے ۔۔۔

ہاں تو ماں کو نہیں بلاؤ تو کیا راحت بوا کو بلاؤ۔۔۔ اسنے نروٹھے انداز میں کہا تو وہ مسکرا دیا

چھوڑیں نا آپ بچی ہے اور چندا اپنی مورے کو تنگ کرنا چھوڑ دو ورنہ کسی دن وہ تمہیں جنگل میں چھوڑ آئیں گی اور اسکی بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔۔

اس کی یادوں کو مٹانا آسان نہیں تھا ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر ہلکی شیو میں گم ہوا تھا۔۔۔

کاش میں اس وقت وہاں ہوتا ایک احساس جرم میں مبتلا تھا اسے سمجھ نہیں آتا تھا جس کو قصوروار ٹھہرائے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی سے صوفے پر براجمان پایا ہاتھ میں ریموٹ لئے وہ ناجانے کیا دیکھنے میں مصروف تھی اسے دیکھ کر ایک دم چینل چینج کر کے ٹی وی بند کیا۔۔۔۔

وہ جو ابھی جاگنگ کر کے آیا تھا ماتھے پر بال بکھرے پڑے تھے 

خاموشی سے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر ریموٹ اٹھا لیا کچن سے آتی آوازوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ضرور فاخرہ کچن میں ہے۔۔

سوری۔۔۔۔ 

اسنے ٹی وی سے نظر ہٹائے اسے دیکھا جو منہ بسورے اسے دیکھ رہی تھی 

کس لئے؟؟ 

میں نے آپ کو تنگ کیا لیکن میرے بابا نہیں تھے میرے پاس اس لئے مجھے رونا آرہا تھا مجھے اکیلے میں ڈر بھی بہت لگتا ہے

ہممم۔۔ کوئی بات نہیں۔۔  فاخرہ کو آتے دیکھ وہ اتنا ہی بول کر جوس کا گلاس لبوں سے لگا گیا۔۔۔

فاخرہ آپ بھی تو جوس لیں نا آپ کھڑی کیوں ہیں ؟؟؟

فاخرہ کو یوں گلاس کے انتظار میں کھڑے دیکھ اس نے آگے بڑھ کر گلاس اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا 

فاخرہ بیچاری ایک بوکھلائی تھی کیونکہ جتنا وہ حیدر خان کو جانتی تھی اسکو کسی بھی بات پر غصہ آسکتا تھا اس لئے اس نے ایک نظر حیدر کو دیکھا جو اب موبائل میں مصروف ہوچکا تھا 

آپ انکل کو کیوں گھور رہی ہیں یہ لیں نا میرا ہینڈ درد کر رہا۔۔۔۔

اسے یوں حیدر کو تکتا پاکر اس نے فاخرہ کو پھر جوس دیا 

اور حیدر خود کو انکل کہنے پر اسے گھور رہا تھا 

یہ لو فاخرہ اور یہ گلاس لے کر جاؤ۔۔۔

پریشان کھڑی فاخرہ کو بول کر اسنے وہاں سے جانے کو کہا تو وہ جان کی امان پاتی وہاں سے فوری ردو چکر ہوئی تھی 

اے لڑکی۔۔۔۔۔ یہ کیا انکل انکل لگا رکھا ہے انکل دیکھتا ہوں میں تمہیں ؟؟؟اس نے غصے سے اسے دیکھ کر استفسار کیا تھا 

آپ نے کیا لڑکی لڑکی لگا رکھا میں آپ کو لڑکی دیکھتی میں فریحہ گل ہوں تو مجھے میرے نام سے بولا کریں ورنہ میں بھی آپ کو انکل انکل بولوں گی۔۔۔ اس نے بھی اسے ٹوکا تھا 

بچی ہو اس لئے زرا تمیز سے بات کرو تمیز نہیں سکھائی تمہیں کسی نے بڑوں سے کیسے بات کرتے ہیں ۔۔

میں کوئی بچی نہیں ہوں آئی ایم تھرٹیں ائیرز اولڈ۔۔۔۔۔

اینڈ آپ کو بھی تمیز نہیں ہے آپ جب دیکھو ڈانٹتے رہتے۔۔۔

زبان سنبھال کر بات کرو اس نے ایک دم ہی غصے سے اسکا بازو دبوچا تھا۔۔۔

اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ اس نے بمشکل خود کو کمپوز کیا اور اسے چھوڑ وہاں سے اٹھ ہی گیا جبکہ اسکے جاتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ ایک بار پھر ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

لالا یار واپسی کب تک ہے سنہری حویلی والے آپ کی کھوج میں ہیں۔۔

شیر کی بات پر اسکے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا تھا 

کیوں اب کیا چائیے انہیں مجھ سے سب کچھ تو چھین لیا ہے۔۔۔ حویلی والوں کا ذکر تک اس کا حلق کڑوا کردیتا تھا

ایک اور خبر ہے لالہ۔۔۔

وہ جانتا تھا کہ یہ ذکر اسے تکلیف سے دوچار کرتا ہے مگر اس تک باتیں پہنچانا ضروری ہوجاتا تھا

بولوں شیر سن رہا ہوں۔۔۔

شاہ حویلی سے کوئی ملا ہوا ہے کوئی گڑبڑ ہے لالہ کوئی ایسا سرا ہے جو اب تک ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔۔۔

اس کی بات پر وہ لمحے کو چپ ہوا تھا

کتنا ٹائم لگے گا سب معلوم کرنے میں؟؟؟

لالہ میرے کان اور آنکھیں کھلی ہیں بس آپ دعا کرنا اب رکھتا ہوں انشاء اللہ کل ملاقات ہوتی۔۔۔

اپنی بات کہہ کر اس نے فون رکھا تو وہ وہیں بیڈ پر ڈھے سا گیا تھا

ایسا کونسا پوائنٹ تھا جو وہ مس کر رہے تھے شطرنج کی اس بساط پر کھلاڑیوں کو چلانے والا وہ انسان اب تک آنکھوں سے اوجھل تھا..

وہ نیچے آیا تو لمحے کو اسکے قدم رکے تھے کیونکہ گل محترمہ ابھی تک صوفے پر بیٹھ کر رونے کا شغل فرما رہی تھیں

کیا مصیبت ہے کیا آنکھوں میں ٹنکی فٹ ہے جو اتنے آنسو ٹپک رہے پہلے ہی سر درد سے پھٹ رہا تھا اور اوپر سے یہ۔۔

وہ سخت جھنجھلایا۔۔۔

اب رونا تو بند کرو۔۔۔ اس کے کچھ نا بولنے پر وہ تھوڑا نرم ہوا مگر شاید اسکا چپ ہونے کا کوئی موڈ نہیں تھا اس لئے رونا بند ہونے کے بجائے اسکے آنسوؤں میں مزید روانی آئی تھی۔۔

اففف خدایا۔۔۔

خانہ خراب کر کے رکھ دیا ہے دماغ کا اگر اب تم چپ نہیں ہوئی تو اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔۔۔

مجھے میرے بابا کے پاس جانا ہے بس آپ مجھے ان کے پاس بھیج دیں آپ گندے ہیں نہیں رہنا مجھے آپ کے پاس۔۔۔

بہت جلد بھیج دونگا فلحال رونا بند کرو اور جاؤ کمرے میں۔۔۔

ہیں سچی۔۔۔۔۔۔ اسکی ساری باتیں بھولیں بس اسے یاد رہا تو اتنا کہ وہ اسے اس نے بابا کے پاس بھیج دے گا۔۔۔

ان شہید رنگ آنکھوں کی چمک دیکھ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

ہاں لیکن ابھی کچھ وقت لگے گا تب تک تمہیں یہی رہنا ہوگا ٹھیک ہے۔۔۔

اس نے نرم لہجے پر اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا تھا خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی 

تھینک یو سو مچ۔۔۔ اسے ہگ کئے وہ جلدی سے اوپر بھاگ گئی 

جبکہ اس کے اس طرح کرنے پر وہ سانس کھینچ کر رہ گیا 

یہ بات ہی عجیب لگتی تھی کہ وہ اتنی سی بچی اس کی بیوی ہے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

رخ ہواؤں کا بدلے کچھ اس ادا سے 

تیرے بچھڑنے کا غم ہم خوش رہ کر منائے گے۔۔۔

آج ایک بار پھر کسی کی یاد آئی تھی دل میں طوفان سا اٹھا تھا روح بے چین تھی پرانی یادیں زخم ہرا کر گئی تھیں۔۔۔

آنکھوں میں مرچیں سی بھری تھیں ہاتھ کی پشت سے آنکھیں مسلتا وہ شخص دنیا کی نظر میں جتنا مضبوط تھا اندر سے کتنا ٹوٹا ہوا تھا یہ کوئی اس سے پوچھتا۔۔۔

ایک ہمدرد کندھا تک جو نصیب نہیں تھا اندر ہی اندر وہ گھٹتا مر رہا تھا۔۔

موبائل کی بیل پر اپنے شکستہ وجود کو لئے وہ ٹیبل تک آیا تھا 

پرسوں سے اسے ڈیوٹی جوائن کرنے کے آڈر آیا تھا کل اسے پر حال میں یہاں سے نکلنا تھا مگر مسئلہ تھا فریحہ گل کا۔۔

ہو۔۔۔۔۔ گہرا سانس لئے خود جو کمپوز کرتا اس نے شیر کو کال ملائی تھی جو پہلی ہی بیل پر ریسو ہوئی تھی۔۔

سلام لالہ۔۔

وعلیکم السلام شیر۔۔۔

کیا ہوا لالہ طبعیت ٹھیک ہے آپ کی؟؟ اس نے یوں پوچھنے پر اسے بے اختیار شیر پر پیار آیا تھا 

ٹھیک ہوں یار بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے ڈیوٹی جوائن کرنی ہے مگر۔۔۔۔

کیا مگر۔۔۔؟؟؟ 

اسے کہا رکھوں گا۔؟؟؟ 

کسے لالہ؟؟ وہ اب بھی نہیں سمجھا تھا 

حیدر نے زچ ہوکر موبائل کو گھورا۔۔

اس بچی کو جس کو میرے نکاح میں باندھ دیا گیا ہے اسے کہاں رکھوں کل جانا ہے یہاں سے۔۔۔۔

اس کی بات سن پر شیر بھی لمحے کو چپ ہوا تھا

آپ انہیں اکیلا کسی کے بھروسے بھی نہیں چھوڑ سکتے لالہ میرے بھی نہیں آپ کو انہیں اپنے ساتھ رکھنا ہوگا اپنی حفاظت میں ۔۔۔۔۔

وہ کے علاؤہ کوئی ان کی حفاظت نہیں کر سکتا انہیں ضرورت پڑے گی آپ کی۔۔۔۔

شیر کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا تھا

فاخرہ۔۔۔وہ باہر آیا جہاں فاخرہ سلیم کے ساتھ کھڑی تھی 

جی چھوٹے خان۔۔۔۔۔

بی بی کا سامان پیک کرو جا کر ہر وقت دیواروں سے کان لگائے رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔۔

اس سخت گھوری سے نوازتا وہ باہر چلے گیا 

سب نے قسم کھائی تھی اسکا جینا حرام کرنے کی

باہر آکر اس کے موبائل پر نور بانو بیگم  کال آئی تھی جنہیں اپنا موبائل وہ دے کر آیا تھا۔۔۔

کیسے ہو حیدر بچے ؟؟؟

فون اٹھاتے ہی ان کی بے تاب آواز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی 

السلام وعلیکم کیسی ہیں ؟؟؟ 

میں ٹھیک ہوں چندا تم کیسے ہو گل گڑیا کیسی ہے؟؟

میں ٹھیک ہوں وہ بھی ٹھیک ہے آپ بتائیں وہاں کے حالات ٹھیک ہیں؟؟ 

کچھ ٹھیک نہیں ہے بیٹا فریحہ گل کو ڈھونڈنے کے لئے بندے لگائے ہیں آغا جان نے۔۔۔

کیوں سکون کا سانس نہیں لینے دیتے ہیں وہ ہمیں چاہتے کیا ہیں آخر ہم سے؟؟؟

پتا نہیں بس یہی بتانے کے لئے فون کیا تھا اپنے ساتھ ساتھ اسکی بھی بہت حفاظت کرنا میری جان۔۔۔

ٹھیک ہے آپ پریشان نا ہوں۔۔

چلو میں فون رکھتی ہوں بیٹا خیال رکھنا

جی ٹھیک ہے۔۔۔

فون رکھتے ہی اس نے کچھ مارکیٹ کا رخ کیا تھا مری کا موسم اس وقت بے انتہا خوبصورت تھا ہلکی ہلکی خنکی ہوا روحوں کو سکون بخشنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔

کچھ ضروری سامان کے ساتھ اس نے گل کے لئے بھی کچھ شاپنگ کی تھی

آنے وقت وقت کے لئے لائحہ عمل تیار کرتا وہ واپس آیا تو اسے لان میں فاخرہ کے بیٹے کے ساتھ کھیلتے اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔

کیا ہورہا ہے یہاں اور تم کس سے پوچھ کر باہر آئی ہو؟؟؟ وہ چاہ کر بھی اپنا اشتعال کنٹرول نا کر سکا۔۔

اندر جاؤ ابھی اور اسی وقت فوراً۔۔ اس کے ڈانٹنے پر وہ روتے ہوئے اندر بڑھی تھی جبکہ اس کے جانے کے بعد اس نے فاخرہ کی بھی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی تھی 

حویلی والوں سے کوئی بعید نہیں تھا کہ وہ کیا کر جاتے۔۔

اس لئے اسکا یہاں سے نکلنا اب ضروری ہوگیا تھا اس لئے خاموشی سے بنا بتائے اس نے ان دونوں کے بیگ تیار کئے تھے 

کھانا کھانا ہے  تو جلدی کھاؤ کیونکہ ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔۔۔

وہ کھانا کھا چکا تھا جب وہ غصے سے کھانے سے بھی ناراض تھی۔۔۔

مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ کہیں۔۔۔ 

اس نے ناراضگی سے منہ پھیرا تو وہ آنکھیں گھوما کر رہ گیا 

یہ وقت بھی آنا تھا کہ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی کی ناراضگی دیکھے۔۔

ٹھیک ہے رہو یہاں ہم سب جارہے ہیں جب آدھی رات کو اکیلے رہنا پڑے گا اور پھر جب شیر جنگل کی طرف سے آئے گا تو مجھ سے شکایت مت کرنا۔۔۔

اپنا سامان چیک کرتا وہ اسے دیکھ کر بولا جو ان کر ہی کانپ اٹھی تھی۔۔۔

ہاں تو میں ڈرتی تھوڑی ہوں جو آپ مجھے بتا رہے۔۔۔

اچھا مرضی ہے پھر۔۔۔ اس نے کندھے آچکا کر سامان اٹھایا 

ایک منٹ میرا سامان تو اٹھائیں۔۔۔۔ اسے صرف ایک بیگ لے جاتے دیکھ وہ فوراً اٹھی تھی۔

کیوں تم تو نہیں جارہی نا؟؟ اس نے آئی برو آچکا کر اسے بتایا 

ہاں لیکن اب یہاں بور تو نہیں ہوسکتی نا اس لئے چل لیتی آپ کے ساتھ اب آپ یہ نہیں سمجھنا کہ میں شیر والی بات سے ڈر گئی میں بہت بریو ہوں۔۔۔

اس نے جلدی سے پلیٹ میں رکھا سینڈوچ اٹھا کر منہ میں ڈالا 

اور وہ اس چھوٹی بلا کی چالاکی پر حیران رہ گیا ہلکی سی مسکراہٹ اسکی بات پر اسکے چہرے پر آکر گم ہوئی تھی ۔۔۔

جلدی کھاؤ اور نیچے آؤ میں لاؤنج میں ہوں اسے بول کر وہ سامان سمیٹتا دروازے کی طرف بڑھا تو وہ بھی بنا اسے انتظار کرائے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا مصیبت ہے کیوں بار بار کال کر رہے ہوں؟؟ فون اٹھاتے ہی ایک بھڑکیلی آواز اس آدمی کی سماعت سے ٹکرائی تھی جو کالی چادر اوڑھے اپنا وجود چھپائے کھڑا تھا

لڑکی کا پتا چلا تھا وہ مری والے گھر میں تھی مگر آج ہی وہ لوگ وہاں سے نکل گئے آگے کیا حکم ہے؟؟؟ 

اس کی بات سن دوسری طرف موجود وجود کی آنکھوں میں مرچیں بھری تھیں۔۔ 

کوئی کام ٹھیک سے ہوتا بھی تم لوگوں سے پیسے لینے آجاتے ہو مگر کام دھلے کا نہیں ہوتا اب جب تک اسکا پتا نا لگا لو مجھے کال کرنے کی ضرورت نہیں اور پیسے کو تو بھول ہی جاؤ۔۔۔ 

ایک غراہٹ اس آدمی کی سماعت کی نظر ہوئی اور کھٹ سے فون بند ہوا۔۔۔

ہونہہ اپنے کالے دھندوں میں ہمارا بھی نقصان کرتے ہیں پیسے تو اسکا باپ بھی دے گا 

دوسری جانب فون بند ہوتے ہی اس نے فون بیڈ پر دے مارا ماتھے کی رگیں تنی تھیں 

بہت جلد گرفت میں آئے گی وہ اور بہت بری موت مرے گی کہ کوئی اسے نہیں بچا پائے گا۔۔

کیا کچھ نہیں تھا اس لہجے میں نفرت،انتقام کی آگ اور اسکی تپش جو روح تک کو جھلسانے کا کام کرجائے

بجھے ہوئے وجود کو یہ انتقام کی آگ خاک کر ڈالتی ہے ریزہ ریزہ ہوئے وجود پھر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

یخ بستگی کاریڈور میں وہ مضطرب اور پریشان بیٹھا شخص لبوں پر دعاؤں کا ورد کرتے اپنے پروردگار سے دعا تھا 

اندر آپریشن تھیٹر میں موجود وہ وجود اس کی رگوں میں شامل تھا۔۔

تبھی دروازہ کھلا تھا اور ڈاکٹر نے آکر انہیں اس بات سے آگاہ کیا تھا جسے سن ان کے پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔

آپ کی مسزز کی حالت بہت کریٹیکل ہے ہم بے بی یا ان میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں آپ پلیز ان پیپرز پر سگنیچر کردیں کہ آپ کس کو بچانا چاہتے ماں یا بچوں کو؟ 

بچوں کو؟؟ ڈاکٹر کی آخری بات پر ان کے لبوں سے بے اختیار نکلا تھا اور انہوں نے حیرانی سے ڈاکٹر کو دیکھا 

یس آپ کی وائف ٹوئنز ایکسپیٹ کر رہی ہیں۔۔

تیرہ سال۔۔۔ تیرہ سال کے بعد ایک بار بھی یہ خوشی آنگن میں آئی تو کیا آزمائش لئے آئی تھی ان کی سماعتوں میں ان رنگین سرگوشیوں کی بازگشت سنائی دینے لگی جو ان دونوں نے مل کر کی تھی آنے والے کل کی خوشیوں بھری ساعتیں یاد کئے وہ مرد ہوکر کر بھی اپنی آنکھوں سے نکلا آنسو نا چھپا سکے۔۔۔

کون کہتا ہے مرد روتا نہیں ہے؟ مرد روتا ہے اپنوں کو کھونے پر ہاں وہ مضبوط ہوتا ہے اپنا درد دنیا کی نگاہوں سے روپوش کئے اپنے قلب کے پنہاں خانے میں چھپائے بیٹھ جاتا ہے کرلاتے دل کی صداؤں کا بوجھ اکیلے سہتا وہ ہر حال میں دنیا کی آزمائش پر کھرا اترتا ہے۔۔

اس کاغذ کے ٹکرے پر قلم چلاتے انہیں یوں محسوس ہوا جیسے دل کر آرے سے وار ہو رہا ہو۔۔

ڈاکٹر کے جاتے ہی وہ بے دم سے ہوئے بینچ پر بیٹھ گئے لمحے میں صدیوں کی تھکن جسم میں اتر آئی تھی 

اپنے دل کی دنیا ویران ہوتی محسوس ہوئی تو اٹھ کر باہر آگئے خدا کی راہ میں جانا اور اسکے گھر میں سجدہ کرنا ان کی مشکلات کا حل تھا۔۔

ناجانے کتنا وقت وہ اس رب کی بارگاہ میں دعا گو رہے اپنی متاع جان کی زندگی کی سلامتی کے لئے اپنی نسل کی سانسوں کے چلنے کی دعا ان کے کپکپاتے لبوں سے ادا ہوئی تھی۔۔۔

ڈھلتے پہروں میں وہ دل میں ایمان لئے واپس اسی جگہ آئے تھے جہاں ان کی زندگی اپنی موت و حیات کی جنگ لڑ رہی تھی۔۔۔

مگر شاید وہ وقت قبولیت تھا اور کن فرما دیا گیا تھا کہ اندر آتے ہی ڈاکٹر نے ماں اور بچے کی سلامتی کی خبر سنائی تو وہ یوں ہی الٹے پاؤں اپنے رب کا شکر ادا کرنے واپس آئے شکرانے کے نفل ادا کرتے وہ واپس آئے جہاں ان کے ننھے شہزادے اور شہزادی ان کے انتظار میں تھے

آگے بڑھ کر ان نرم وملائم وجودوں کو گود میں بھرے وہ بھری آنکھوں سنگ مسکرائے تھے 

بابا بھیا آئے گا تو میں اسکا نام رکھوں گی۔۔۔

کانوں میں اپنی معصوم کلی کی آواز گونجی تو بے اختیار اسکا خیال آیا جسے عجلت میں وہ بھابی بیگم کے سپرد کر آئے تھے 

اب بس آئمہ سے مل کر انہیں جلد از جلد یہاں سے نکلنا تھا مگر کیا جانتے تھے ابھی جدائی کی داستان طویل ہوگی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گاڑی خراماں خراماں آپ ے سفر پر روانہ تھی وہ جو گاڑی میں بیٹھتے ہی سوگئی تھی ابھی تک نیند کی وادی میں اپنے خوابوں میں مگن تھی 

جب کے پوری مستعدی سے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا وہاں اس کی رہائش کے لئے شیر نے انتظام کیا تھا کیونکہ وہاں فریحہ گل کے ساتھ رہنا اسکے لئے مسئلہ کر سکتا تھا۔۔

پوری رات ڈرائیو کرنے سے اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔۔

کانوں میں فجر کی اذان کی آوازیں سنائی دیں تھیں صبح کا اجالا چار سو رات کی سیاہی کو ختم کرتا بڑھ رہا تھا چرند پرند کے نغمے فضا میں میٹھے سر بکھیرتے آگے بڑھ رہے تھے 

ہلکی ہلکی سی خنکی محسوس کئے اس نے گاڑی کا ہیٹر آن کیا اور ایک نظر سوئے وجود کو دیکھا جس کی نیند اتنی پکی تھی کہ سارے سفر وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں اٹھی تھی 

اسے رشک سا آیا اس معصوم کی نیند پر یہاں تو ایسا لگتا تھا صدیوں سے دل میں گھٹن ہے وہ کھل کر سانس تک نہیں لے پاتا تھا نیند تو جیسے روٹھ سی گئی تھی وہ راتوں کو جاگنے کا عادی ہوگیا تھا ایسے میں اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ سلیپنگ پلز لینے لگا تھا مگر پھر جاب کی وجہ سے اسے وہ بھی ترک کرنی پڑی وہ یوں بے خبر ہوکر نہیں سو سکتا تھا۔۔۔

چھ بجے کے قریب اسکی گاڑی اس پھولوں سے مزین شہر میں داخل ہوئی تھی

داخلی دروازے سے گاڑی اندر لائے اسکا رخ اپنے اس گھر کی جانب تھا جس کا بندوبست شیر نے اس کے لئے کیا تھا

اسکی گاڑی آتے دیکھ چوکیدار نے جلدی سے مین گیٹ کھولا تو وہ اندر داخل ہوا 

آگے کا سفر اب اسکے لئے سخت ترین تھا مگر شاید اس سخت مشکلات میں اس کے لئے کوئی آسانی کی سبیل بھی ہو۔۔۔۔

گاڑی سے اتر کر اسنے سب سے پہلے اطراف کا جائزہ لیا تھا چھوٹے سے رقبے پر بنا یہ چھوٹا سا گھر اس کے لئے کافی تھی سائیڈ بنا چھوٹا سا کوارٹر۔۔

اس نے گھر کے اندر قدم رکھا تو وہ دو کمروں پر مشتمل گھر سینٹر میں ٹی وی لاؤنج سائیڈ میں اوپن کچن جبکہ بالائی منزل پر چھت تھی 

جیسا اسے چاہیے تھا بلکل ویسے ہی اسے یہ گھر ملا تھا اسے شیر پر رج کر پیار آیا تھا جو اس کی ضروریات کا پوری طریقے سے خیال رکھتا تھا۔۔۔

اس نے باہر آکر گاڑی سے سامان نکال کر ملازم کے حوالے کیا اور خود آگے کی طرح آیا اسنے آگے ہوکر اسکا کندھا ہلایا اور دوسری کی پکار کر اسنے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا 

اٹھ جاؤ۔۔۔

کیا ہم بابا کے پاس اگئے؟؟ متجسس ہی وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھی اور اس جلدی میں اسکا سر بری طرح دروازے سے لگا تھا 

اہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک درد کی لہر اسکے پورے سر میں سرایت کرگئی تو وہ سر تھام کر وہی رک گئی۔۔

ارے دھیان سے دکھاؤ کہاں لگی ایسی بھی جلدی تھی عجیب پاگل ہو اسکا ہاتھ ماتھے پر سے ہٹائے اس نے جھک کر اسکا ماتھا دیکھا 

جہاں پر ہلکی سرخی آگئی تھی 

مجھے درد ہو رہا بہت۔۔۔ آنسو لڑھک کر اسکے گال بھگو رہے تھے 

شش۔۔ اچھے بچے روتے نہیں ہیں چلو جلدی سے باہرآؤ چلو۔۔ اسکا ہاتھ تھامے اس نے اسے گاڑی سے نکالا جس کی آنکھوں میں نمی تھی 

اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے اندر لایا تھا صوفے پر بیٹھا کر اس نے کچن کا رخ کیا جہاں فریج سے اسے با آسانی برف مل گئی اس نے برف توڑ کر اسے کپڑے پر لپیٹا اور لئے اس کے پاس آیا 

مجھے نہیں نا لگوانا بہت پین ہوتا تھا۔۔

اس کے ہاتھ میں موجود برف دیکھ کر وہ مزید سمٹی تھی 

ارے کل تو کوئی کہہ رہا تھا وہ بہت بریو ہے چلو شاباش آنکھیں بند کرو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

اسکا ہاتھ تھامے اس نے برف سے اسکے ماتھے کی ٹکور کی۔۔

اور آنکھیں میچیں سختی سے اسکا ہاتھ ہاتھے سی سی کرنے میں مصروف سے تھی

حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا تو مسکرا دیا 

ہوگیا بس اب آنکھیں کھول لو۔۔

واپس کچن کا رخ کئے اسے بولتا اب وہ سامان کمرے میں رکھ رہا تھا 

ایک کمرہ بیڈ روم تھا اور اسی کمرے کا ایک دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا تھا جو جہاں چھوٹا سا بیڈ موجود تھا 

سامان رکھ کر وہ باہر آیا تو وہ محترمہ پھر سے نیندوں میں جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔۔۔

ایک تو اس کی نیند۔۔۔وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

زارون میری گل کہاں ہے؟؟ وہ جو اپنے ننھے بچوں کو اشتیاق سے دیکھنے میں مصروف تھے آئمہ کی بات پر ان کے پاس آئے۔۔

نا بتا کر وہ کوئی مسئلہ نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے سچ بولتے ہوئے اسکی پاکستان موجودگی کا بتایا تو نا جانے کتنے لمحے لگے انہیں سمجھنے میں 

زارون آپ پاگل تو نہیں ہوگئے ہیں یوں کیسے اسے آپ وہاں چھوڑ کر آسکتے ہیں

آئمہ میں خود نہیں چھوڑ کر آنا چاہتا تھا مگر میری جان مسئلہ ہی ایسا ہوگیا تھا بس اب میں واپس جاکر اسے لے آؤں گا 

مجھے نہیں پتا زارون آپ بات کروائیں میری میری بچی سے مجھے کچھ نہیں پتا۔۔۔۔

وہ ماں تھیں اسکی غیر موجودگی پر تڑپ سی گئی تھیں 

اور ان کے فون والی بات پر زارون کو چپ لگی تھی

وہ خود پریشان تھے پاکستان چاہ کر بھی ان کا رابطہ نہیں ہو پارہا تھا یہ جیسا عجیب سا اتفاق تھا کہ کوئی ان کا فون ریسیو نہیں کر رہا تھا گاؤں کے کسی بھی شخص کا ان کے پاس نمبر نہیں تھا۔۔

آئمہ کو ان کی ضرورت تھی مگر اب وہ واقعی پریشان ہوگئے تھے عجیب طرح کے وسوسے انہیں گھیرے ہوئے تھے 

آئمہ کو چھوٹی تسلی دے کر بڑی مشکل سے انہوں نے مطمئن کیا تھا مگر اب کیسے بھی کر کے انہیں پاکستان جانا تھا

مگر شاید قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا کہ  ائیرپورٹ جاتے ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ انہیں مزید وقت کے کئے پاکستان جانے سے روک گیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اماں سائیں دادا سائیں کی طبعیت بگڑ رہی ہے وہ بار بار چچا سائیں کو یاد کر رہے ہیں

ایک تو اس بڈھے نے جینا حرام کر رکھا ہے قبر میں پاؤں لٹک رہے ہیں مگر مجال ہے جو ہماری جان چھوٹے ہمارا خون چوس کر ہی مرے گا۔۔۔

آپ کو کیا ہوا ہے ؟؟ ان کے تنے اعصاب دیکھ حرا نے تعجب سے پوچھا

کچھ نہیں ہوا دفعان ہو یہاں سے ایسی ناہنجار اولاد سے تو میں بے اولاد ہی ٹھیک رہتی۔۔۔۔

اووو بیلا کہاں مر گئی کمبخت ماریاں سب میرے دل کو جلانے کے لئے ہی یہاں موجود ہیں

ارے اوعوو۔۔۔

ان کی تیز تند آواز پر ملازمہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی 

کہاں مر گئی تھی کیا اب تیرے کانوں میں بھی مشین لگانی پڑے گی جا تیل گرم کر کے لا اور مالش کر۔۔۔

جی بیگم سائیں 

اور سن راشد کہاں ہے.؟

جی وہ سے شہر گئے ہیں اور باقی چھوٹے سائیں بھی ان کے ساتھ گئے ہیں 

ہممم اب جا شکل کیا دیکھ رہی ہے دفع ہو یہاں سے۔۔۔۔

جی بیگم سائیں۔۔۔

انکا حکم ملتے ہی وہ فوراً سے بیشتر غائب ہوئی تھی 

کچھ نہیں ہوگا ان لوگوں سے اب جو کرنا ہوگا مجھے ہی کرنا ہوگا ہر حال میں۔۔۔۔

انہوں نے پریشانی سے اپنی ہتھیلیاں آپس میں رگڑی تھی 

اماں سائیں ہوا کیا ہے کچھ بتا بھی تو چلے۔۔۔

تیرے بھائی کہاں مرے ہوئے ہیں یہ بتا مجھے۔۔۔

مجھے کیا پتا ہونگے یہی کہیں۔۔۔

ہونگے یہی کہیں نہیں اپنی ماں کے سر میں خاک ڈال رہے ہیں کوٹھے پر موجود ہے تیرا بھائی۔۔۔

اور ان کی بات پر حرا کا ہاتھ بے ساختہ منہ پر گیا تھا۔۔۔۔

اچھا آپ پریشان تو نا ہوں آجائیں گے تو بات کرلینا آپ۔۔۔

ہممم جا اور بیلا کو بھیج اب نا جانے کہاں مر گئی۔۔۔

جی۔۔۔ بھیجتی ہو 

ان کے ماتھے پر پڑی لاتعداد شکنیں ان کی ٹینشن کا پتا دے رہی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس کی آنکھ کھلی تو جود کو اندھیرے کمرے میں پاکر اسکا دل کانپا تھا۔۔۔

دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ واپس کمفرٹر میں گھسی تھی اور اسے مٹھیوں میں ٹائٹ سے پکڑا میچیں آنکھیں پھولا سانس۔۔۔

ہر ایک آہٹ پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔۔۔

با۔۔۔۔با۔۔۔۔ اسکے لبوں سے سرگوشی کی صورت بابا نکلا تھا۔۔۔۔

ڈر کے مارے پورا جسم کپکپا رہا تھا 

خان۔۔۔۔۔۔

باہر سے آتی آہٹ پر اسکے کپکپاتے لبوں نے حیدر کو پکارا تھا۔۔۔

اللّٰہ جی مدد پلیز۔۔۔۔۔ لمحوں میں اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے خوف سے دل بند ہونے کو تھا تبھی اچانک سے دروازہ کھلا تھا 

اور دروازے کی آواز کے ساتھ ہی اسکی چیخ بلند ہوئی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے گل۔۔۔۔ وہ جو ابھی کمرے میں آیا تھا اسکی چیخ پر بھاگتا اسکے کمرے میں آیا تھا جو مٹھیاں بھینچے بند آنکھوں سے چیخے جارہی تھی۔۔۔

فریحہ ادھر کیا ہوا ہے بتاؤ۔۔۔۔ششش۔۔۔۔ چپ کیا ہوا ہے ادھر دیکھوں۔۔۔۔

اس کی آواز سنتے ہی وہ اٹھ کر اسکے سینے سے لگی تھی رونے میں شدت آگئی تھی 

یے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے چپ بس۔۔۔۔

وہ۔۔۔۔وہ بھوت۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے کچھ دیر پہلے وہ آیا تھا۔۔۔

کوئی بھوت نہیں ہے دیکھو میں ہوں آنکھیں کھولوں۔۔

اپنی شرٹ اسکی مٹھیوں سے آزاد کراتا اس نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔

فری گل آنکھیں کھولو شاباش دیکھو ادھر میں ہوں۔۔

اسکے ساتھ لگائے ایک ہاتھ سے چہرہ تھامے اس نے گل کو حوصلہ دیا تو اس نے مندی مندی آنکھیں کھولیں۔۔۔

کوئی نہیں ہے دیکھو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔۔۔؟؟؟ 

مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا آپ بھی نہیں تھے۔۔

ہاتھ کی پشت سے چہرہ صاف کرتی اس نے منہ بسورہ تو وہ مسکرا دیا۔۔۔

لو بھئی میں تو تمہیں بہت بریو سمجھتا تھا۔۔۔۔

میں بریو ہی ہوں۔۔۔ اسکا ہاتھ جھٹک وہ منہ بنا گئی

اوووو واقعی چلو اچھی بات ہے اب اٹھو اور کھانا کھاؤ پھر صبح مجھے جانا ہے۔۔۔

آپ کو کہاں جانا ہے؟؟؟ اس کی جانے کی بات پر اسکے کان کھڑے ہوئے تھے۔

کام سے۔۔ اٹھو چلو۔۔

نہیں۔۔۔

کیوں؟؟ اس نے حیرانگی سے اسے دیکھا 

مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔

یہ کیا بات ہوتی ہے اٹھو چلو کھانا کھاؤ۔۔

حیدر سے اسکو بازو سے تھام کر اٹھانا چاہا مگر وہ ضد کی پکی ایک انچ نا ہلی۔۔

اب تم مجبور کر رہی ہو کہ میں تمہیں ڈانٹوں۔۔۔۔

ماتھے پر شکنیں ڈالے اس نے فریحہ گل کو دیکھا تھا۔۔

آپ ہمیشہ ڈانٹتے ہیں آج بھی ڈانٹ لیں مار لیں مگر میں بھی آپ کے ساتھ جاؤنگی۔۔۔۔

ہٹ دھرمی سے کہتی وہ تکیے میں منہ دے گئی

اسکی اس حرکت پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا ڈانٹتا یا غصہ کرتا تو وہ اور روتی لیکن اسے اس وقت ذہنی سکون چاہیے تھا اس لئے خاموشی سے اٹھ کر باہر آگیا۔۔۔

کوئی جواب نا پا کر اسنے آنکھوں کی جبری سے اسے دیکھنا چاہا مگر خالی کمرے کو دیکھ وہ بدک کر اٹھی تھی

ہائے اللّٰہ جی یہ کتنے گندے ہیں بلکل میرے بابا جیسے نہیں ہیں۔۔۔۔

بابا آپ آجائیں نا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ایک بار پھر رونے کی تیاری پکڑتی دروازہ کھلنے کی آواز پر جلدی سے واپس بستر میں گم ہوئی۔۔

اٹھو گل کھانا کھاؤ۔۔۔ اس کے پاس ٹرے رکھے اس نے اسکا پاؤں ہلایا جو اسنے کھینچ کر اندر کر لیا۔۔

دیکھوں میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں ہے کہ تمہیں مناتا پھرو اٹھو جلدی جگہ بنا کر بیٹھتا اس نے کھانا پلیٹ میں نکالا۔۔۔

اللّٰہ جی کیا کروں بھوکو بھی لگی ہے بہت زوروں کی لیکن کھایا تو یہ اکیلے چھوڑ جائیں گے دانتوں کو لبوں میں دبائے وہ سوچنے لگی مگر ضد بھوک کر بھاری ہوئی تو اٹھ کر منہ بنا کر بیٹھ گئی۔۔

حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اس کے لئے پلیٹ میں پلاؤ نکالا۔۔۔

میں کھانا کھا رہی ہوں مگر میں ناراض ہوں میں بھی جاؤنگی آپ کے ساتھ۔۔۔

منہ بھلا کر کہتی وہ پلیٹ پر جھک گئی تو وہ بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔

صبح کا ملینگا اندھیرا ہر سو چھایا ہوا تھا اس نے اپنا سامان گاڑی میں رکھا اور ایک نظر گھڑی ہر ڈالی جہاں صبح کے چھ بج رہے تھے۔۔۔

جیکٹ پہن کر خود کو کور کئے وہ واپس اپنے کمرے میں آیا ہر چیز چیک کر کے وہ گاڑی تک آیا تو لمحے کو ٹھہر گیا۔۔۔

گل محترمہ نیندوں میں جھومتی اس کی گاڑی کے پاس ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔۔۔

تم یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔؟؟؟ اس کا بازو دبوچے وہ ایک جھٹکا دئے اسے اٹھا چکا تھا 

میں نے کہا تھا نا میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔۔۔

یہ کیا فضول کی ضد ہے فریحہ اندر جاؤ میں بھیجتا ہوں کسی کو۔۔۔

نہیں میں بھی آپ کے ساتھ جاؤ گی مجھے نہیں پتا۔۔ اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کرتی وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی 

مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو اترو اور اندر جاؤ۔۔۔

مارے غصے کے اسکا برا حال تھا مگر خود پر ضبط کئے کھڑا تھا 

میں نہیں آؤنگی آپ بھی آجائیں ورنہ پھر لیٹ ہو جائے گا۔۔۔

سیٹ پر مزے سے پھیلتی وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی 

حیدر کا دل کیا اسے گاڑی سے نکال کر پھینک دے مگر وہ ایسا نہیں کرسکا غصے میں کھولتا دوسری طرف آکر بیٹھتا اس نے دروازہ زور سے بند کیا تھا 

اللّٰہ۔۔۔۔۔۔ اتنی زور کی آواز پر وہ اچھل گئی۔۔۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ گاڑی خراب ہوجانی پھر آپ کو اور دیر ہو جائے گی پھر آپ مجھے بولو گے کہ تم نے کیا یہ وہ۔۔۔۔

چپ بلکل۔۔۔۔ اس کی بولتی زبان اسکی آواز پر رکی تھی 

اگر اب ایک لفظ اور کہا تو اس گاڑی سے باہر پھینکنے میں لمحہ نہیں لگاؤ گا اس لئے اپنا منہ بند کرو اور مجھے گاڑی چلانے دو۔ ۔۔

صحیح کڑوا کریلا بولتی ہوں میں ڈانٹتے رہتے جب دیکھو۔۔

تم نے کچھ کہا۔۔۔ اسکی گھوری پر وہ سٹپٹاتی آنکھیں موند گئی۔۔۔

کہاں پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شام ڈھلے ان کی گاڑی پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی تھی چاروں سو اندھیرا اور بارش کی خوشبو۔۔

اس مہک کو اس نے اپنی سانسوں میں اتار تھا ۔۔۔

ہم پہنچ گئے نا؟؟

پورے رستے اس نے حیدر کا دماغ کھایا تھا نئی جگہوں کو دیکھ کر وہ ایک دم پرجوش ہوجاتی مگر حیدر کی گھوری اسے باز رکھے ہوئے تھی۔۔۔

تبھی گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔۔۔

شٹ اب اسے کیا موت پڑ گئی خانہ خراب۔۔۔ بار بار اسٹارٹ پر بھی جب گاڑی نا چلی تو وہ سخت جھنجھلایا۔۔۔۔

اتر کر آگے پیچھے دیکھا۔۔

کیا ہوا آپ کی گاڑی کو بند ہوگئی۔۔۔ کھڑی سنگ چہرہ ٹکائے وہ معصومیت سے پوچھنے لگی 

مگر وہ جواب دینے کے بجائے آگے پیچھے مدد کے لئے دیکھنے لگا یہاں کے لوگوں کی زبان سے وہ نا واقف تھا

ابھی جب تھوڑی دیر پہلے وہ لوگ رکے تھے تو ایک آدمی سے اس نے ہوٹل کا پوچھا اور اس کی زبان پر جہاں وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا وہی اپنے پیچھے کھی کھی کی آواز پر اس نے گھور کر گل کو دیکھا جو اپنی ہنسی ضبط کرنے کے چکروں میں مصروف تھی

کبھی کبھی وہ اسے بچی نہیں  اماں لگتی تھی۔۔۔

آپ آگے جا کر دیکھیں نا۔۔۔

مزے سے چپس منہ میں ڈالے وہ اسے آرڈر دے رہی تھی

تم اپنا منہ بند رکھو گی کر لونگا میں کچھ۔۔

یوں ویران راستے میں کھڑے رہنا بھی اسے عجیب لگ رہا تھا 

اس لئے کچھ سوچتا واپس گاڑی کے پاس آیا اور اسے باہر نکلنے کا بول سامان نکال کر گاڑی لاک کی۔۔

ارے ہم کہاں جارہے گاڑی کو چھوڑ دیکھیں یہاں چور بھی ہو سکتا ہے نا اس کے ساتھ ساتھ چلتی وہ اس کے پیٹ تک آتی تھی ۔۔

جواب نا پاکر منہ بناتی وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چلتے چلتے وہ جنگل میں آگئے تھے راستوں سے انجان وہ بس چلے جارہے تھے۔۔۔

ہرا بھرا خوبصورت جنگل اس کی ساری طرف اپنی طرف کئے ہوئے تھا۔ ۔

خان آپ کو پتا ہے یہاں میں پہلے کبھی بھی نہیں آئی اتنا شوق تھا مجھے ایسی جگہ دیکھنے کا اماں بولتی تھیں اپنے شوہر کے ساتھ آنا لیکن میں شیور نہیں تھی کہ میرا ہسبینڈ مجھے یہاں لائے گا بھی کہ نہیں لیکن دیکھیں میں کتنی لکی ہوں آپ تو یہاں نا صرف لائے بلکہ یہ جگہ بھی مجھے دیکھائیں۔۔

وہ پرشوق سی اطراف میں لگے ان درختوں کو دیکھ رہی تھی سامنے ہی دریا بہہ رہا تھا

خان ایک بات بتائیں یہاں کے لوگ اردو کیوں نہیں بول سکتے حالانکہ اردو تو قومی زبان ہے نا؟ وہ معصومیت سے اسے پوچھ رہی تھی جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکی پٹر پٹر برداشت کر رہا تھا

خان یہ دیکھیں یہ کیسا عجیب سا پرندہ ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا آپ نے بھی نہیں دیکھا ہوگا ہے نا؟؟؟ اس پر ریسرچ تو بنتی ہے نا؟؟ وہ اب پھر اس سے مخاطب ہوئی جو موبائل میں سگنل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھا

وہ لوگ اس جنگل میں پھنس چکے تھے اور ان میڈم کو یہ سب سوجھ رہا تھا

خان کیوں نا ہم یہاں بون فائر والا گیم کھیلیں سچی میں مووی میں دیکھا تھا میں نے اینڈ یو نو۔۔۔

اسٹاپ۔۔۔۔۔ کتنا بولتی ہو کب سے بولے ہی جارہی ہو پٹر پٹر پٹر زبان نہیں دکھتی کیا ہاں کان پک گئے میرے بس خون نکلنے کی دیر ہے اب ایک لفظ منہ سے مت نکالنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھی۔۔۔انگلی رکھو منہ پر فوراً

اس کے بولنے پر اسنے جلدی سے منہ پر انگلی رکھی

اب یہ ہٹنی نہیں چاہیے

وہ اسے وارن کرتا سائیڈ ہوا ہاتھ اوپر کر کے موبائل کے سگنل ڈھونڈنے چاہے

شٹ کہاں پھنس گیا ہوں میں یہاں بھی سگنل نہیں آرہے

ہاں تو وہاں وہ۔۔۔۔ اس نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھی کہ اس کی گھوری پر دوبارہ انگلی منہ پر رکھی۔۔

کیا مصیبت ہے اب کیسے رابطہ کروں میں اسنے درخت پر ہاتھ مارا

ارے آرام سے کیوں اس معصوم کو مار رہے آپ تو اتنے اسٹرنگ ہو بھالو جیسے پر یہ ٹری تو ایسا نہیں ہے نا تو کیوں مار رہے ہیں آپ اسے

وہ کمر پر ہاتھ کر غصے سے بولی تو وہ اس چھوٹی بلا کو منہ کھولے دیکھنے لگا جو اسے مزے سے بھالو بول رہی تھی۔۔۔

تم اپنا منہ بند کرنے کا کیا لوگی فریحہ گل۔۔۔۔

میرا منہ تو کب سے بند ہی کروا رہے آپ میں تو آپ کو کمپاس دیکھا رہی تھی 

یہ کہاں سے آیا تمہارے پاس۔۔؟؟؟ اس نے ہاتھ سے کمپاس لئے وہ جلدی سے بولا 

یہ تو میں ساتھ لائی تھی نا یونو جب ہم کیمپنگ کے کئے گئے تھے تب بابا نے اسکا یوز سیکھایا تھا۔۔

تو تم یہ مجھے ابھی م دے رہی ہوں؟ ماتھے کر بل ڈالے بولا۔۔۔

آپ تو بلکل اینگری برڈ ہو خان غصے سے کہتی وہ پاس پڑے پتھر پر ٹک کر بیٹھ گئی جبکہ اب وہ سمتوں کا تعین کرتا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا 

چلو آجاؤ اس طرف۔۔۔

مجھے نہیں جانا اب آپ کے ساتھ۔۔۔ بھالو سا منہ بنائے وہ سخت خفا تھی۔۔۔

دیکھوں بعد میں ناراض ہوجانا ابھی چلو ورنہ شیر آکر تمہیں کے جائے گا۔۔۔

میں نہیں ڈرتی شیر سے۔۔۔ جائیں آپ۔۔ منہ پھیرتی وہ رخ بھی پھیر گئی 

ٹھیک ہے بس اب میں نہیں بولوں گا جب شیر آئے گا تو میرے پاس نے آنا۔۔۔

کندھے آچکاتا وہ وہاں سے اٹھ گیا 

ہونٹوں پر مدہم سا تبسم تھا

تبھی جانور کی آواز پر وہ اچھل کر اسکے پاس آئی تھی 

خان۔۔۔ خان مجھے بھی لے چلیں نا۔۔۔۔۔۔

پھولی سانسوں کے ساتھ وہ اس کے ہمقدم ہوئی تو وہ رخ پھیر کر مسکرا دیا اور اسکے مسکراتے ہی دائیں گال کے ڈیمپل نے اپنی بھرپور نمائش کی تھی 

اگر حویلی کا کوئی فرد اسے مسکراتے دیکھ لیتا تو یقیناً غش کھا جاتا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کام کا کیا بنا رزاق۔۔۔۔ سگار کا گہرا کش لگائے انہوں نے سامنے مؤدب انداز میں کھڑے رزاق جو مخاطب کیا۔۔۔

کام ہوگیا ہے۔۔۔۔

کام ایسا کیا ہے نا رازق کہ جس کا کوئی توڑ نہیں ہو۔۔

بے فکر رہیں آپ رزاق آپ پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا سب سنبھال لیا ہے اس نے۔۔۔۔

فخر ہے ہمیں تم پر کاش تمہارے جیسی ہماری اولاد ہوتی تو آج ہمیں یہ سب نہیں کرنا پڑتا۔۔

آپ کچھ غلط نہیں کررہے ہیں آپ یہ سب ان لوگوں کے بھلے کے لئے ہی کر رہے ہیں ۔۔۔

عائش کی کیا خبر ہے؟؟؟ 

جی وہ شہر والے گھر میں ہی ہیں کوئی اتنی خاص بات ان کی طرف سے پتا نہیں چلی۔۔

اور حیدر؟؟؟

ڈیوٹی جوائن کرنے جارہے ہیں مگر بے فکر رہیں کر نہیں پائینگے۔۔

رزاق کی بات پر ان کے چہرے کر بھرپور مسکراہٹ کھلی تھی۔۔

اور وہ دلاور شاہ؟؟؟

بستر مرگ پر ہے کبھی بھی خبر آسکتی۔۔۔۔

دل خوش کر دیتے ہو رزاق قسم سے اس بڈھے کے مرتے ہی افراز شاہ کو نیچا دکھانا اور اسے زمین پر گرانا بہت آسان ہوگا۔۔۔

اس کی اپ فکر مت کریں اسے نیچے دیکھانے کے لئے میرے پاس کئی چیزیں موجود ہیں ..

شاباش میرے شیر۔۔۔۔

ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔

وہ زمینی خدا بنے بھول گئے تھے ان سے اوپر بھی ایک خدا ہے جس کے ایک کن پر کشتیاں الٹ جاتی ہیں تو آئے طوفان تھم جاتے ہیں

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا آج رسی ڈھیلی تھی تو اترا رہے تھے مگر جب یہ رسی کسی گئی تو سب سے پہلے ان کے دم گھٹے گیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شام کے سایے گہرے ہورہے تھے تب کہیں جاکر انہیں آبادی نظر آئی۔ تو اس نے شکر کا سانس لیا۔۔

گل کا ہاتھ تھامے وہ جلد سے جلد آبادی کی سائیڈ کر آیا تھا جہاں گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔۔۔

سنگل آتے ہی اس نے سب سے پہلے شیر کو کلا کر کے گاڑی کا کہا تھا 

پھر وہ اپنی منزل پر پہنچے تھے آج پورا دن ان کا سفر  میں گزرا تھا تھکن سے برا تھا حال تھا اس نے ایک نظر ساتھ چلتی اس چھوٹی بلا کو دیکھا جو اب مرے قدموں سے اس کے ساتھ چل رہی تھی۔۔

سامنے نظر آتے سرائے کو دیکھ اس نے وہاں رکنے کا فیصلہ کیا تھا جانتا تھا مشکل ہے مگر فلحال کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا 

اپنے کارڈ کی وجہ سے اسے کمرہ ملنے میں تو کوئی دقت نہیں ہوئی اور ویسے بھی یہاں کوئی ایسی پابندیاں تھی بھی نہیں۔۔

تھکے ہارے وجود کے ساتھ وہ دونوں کمرے میں آئے تو ساتھ کھڑی گل بستر دیکھتے ہی بھاگ پر بیڈ پر گری تھی 

اور اس کی پھرتی پر وہ منہ کھولے رہ گیا۔۔۔

یہ کیا اسی حلیے میں لیٹ گئی ہو اٹھو اور فریش ہو چلو۔۔۔

اسے ٹانگوں سے ہلائے اس نے واشروم کا رخ کیا تھا جتنی دیر میں وہ فریش ہوکر آیا سمانے بیڈ کر اسے سوتے پایا تو ماتھے پر لاتعداد شکنیں ابھری

مجال ہے جو یہ ایک بار میں بات سن لے۔۔ میں بھالو لگتا ہوں اور خود کیسی ہے چالاک لومڑی۔۔خرگوشنی…

اےےےے اٹھو جلدی کھانا منگوایا کے میں نے۔۔۔

نہیں نا میں نے نہیں نا اٹھنا۔۔۔ منہ بسورے وہ واپس تکیے میں منہ دے گئی۔۔۔

سنا نہیں اٹھو ورنہ پھر بھوکی رہنا 

ہاں رہ لونگی نا۔۔۔

لومڑی کہیں کی۔۔۔ غصے سے بڑبڑاتا وہ کھانے کی طرف بڑھا جو کچھ دیر پہلے ہی سرائے کا ملازم دے کر گیا تھا 

کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھ چھٹ سے کھلی تھی پیٹ میں چوہوں کی میراتھن ریس شروع ہوگئی تھی اس لئے فوراً سے اٹھ کر اس کے پاس آئی جو نہایت رغبت سے کھانے میں مصروف تھا۔۔۔

کیا ہوا؟؟؟ اسے یوں کھڑا دیکھ اس نے آئی برو اچکائی

مجھے بھی کھانا ہے۔۔۔

تمہیں تو ابھی بھوک نہیں تھی شاید۔۔

اب لگ گئی ہے نا۔۔۔ اس کی بات کر منمنائی۔۔۔

جتنا آج اسنے اسے تنگ کیا تھا کیا پتا کھانا ہی نا دے۔۔

ویسے تو بڑی زبان چلتی ہے اب کیوں آواز نہیں نکل رہی۔۔

اسکے لئے پلیٹ میں سالن ڈالتا اس نے اسکے آگے پلیٹ سرکائی۔۔

کمرے میں خاموشی تھی وہ دونوں ہی کھانے میں مصروف تھے آنے والے وقت سے انجان۔۔۔۔

یہاں کا موسم اپنے جوبن تھا رات پھر برف باری ہوئی تھی جس کی وجہ سے سردی اپنے زوروں پر بھی کمرے میں لگے آتشدان نے ان کے جسموں کو راحت پہنچائی ہوئی تھی۔۔۔

حیدر نے ایک نظر سوئی ہوئی گل ہر ڈالی جو کمبل میں اس طرح دبکی پڑی تھی کہ سر اور چہرے میں فرق کرنا مشکل تھا 

موسم کے تیور کافی سے زیادہ خطرناک تھے باہر جانے کا تو سوال ہی نہیں بنتا تھا اس لئے واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا 

موبائل پر شیر کی کالز دیکھ کر اسنے سب سے پہلے اسے ہی کال کی تھی۔۔

ہاں شیر سب ٹھیک ہے؟؟گاڑی لے آئے تھے

جی لالہ سب ٹھیک ہے جی گاڑی لے آیا تھا وہی آپ کے پرانے گھر پر کھڑی کر دی ہے اور نئی گاڑی بھجوا دی ہے تھوڑی دیر تک مل جائے گی آپ کو۔۔۔

آپ بتائیں کہاں ہے؟؟ 

لوکیشن بھیج رہا ہوں جلد از جلد آؤ یار۔۔ وہ کچھ پریشان سا تھا رات سے ہی دل عجیب ہورہا تھا

لالہ کوئی پریشانی ہے ؟؟؟ 

شیر کی بات پر اسنے خود کو کمپوز کیا۔۔۔

ہاں یار کیا ہونا ہے مجھے ٹھیک ہوں تم سناؤ وہاں سب سیٹ ہے نا؟؟؟

اور اس کی بات پر شیر نے تھوک نگلا تھا

رک شیر سر کی کال آرہی ہے بعد میں بات کرتا۔۔۔

جہاں اسنے کال کا بتایا وہیں شیر کا دل ڈوبا تھا 

جی سر۔۔۔

یس۔۔

 فون اٹھاتے ہی اسے جو کچھ سننے کو ملا تھا اس نے اسنے حواس سلب کئے تھے دماغ کی رگیں ابھری تھیں۔۔۔

فون بند کرتا وہ برق رفتاری سے الماری سے باہر نکلا تھا بڑھتی ہوئی سردی اور اس کر متضاد برف باری رگوں میں خون منجمد کر رہی تھی 

ناجانے کتنی دیر وہ یونہی برف بھری زمین پر چلتا رہا۔۔

اسکی ہر خوشی ہر خواہش کو یوں ہی روند دیا جاتا تھا۔۔

اسے ڈیوٹی جوائن کرنے سے پہلے ہی نکال دیا گیا تھا وجہ اسے بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی لیکن وہ وجہ جانتا تھا 

ناجانے کتنی دیر بعد اسے ہوش آیا تو واپسی کے لئے قدم بڑھے تھے یہاں سے نکلنا تھا اب شاید زندگی بھر اسے یہ ایک اور اذیت میں مبتلا رہنا تھا۔۔۔۔

سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔

گاڑی گھر کے باہر دیکھ اور وہ اندر آیا اور اس سوئے ہوئے وجود کو بانہوں میں سمیٹے گاڑی تک لایا تھا

پورے راستے وہ بس چپ تھا اور یہ خاموشی کسی طوفان کے آنے کی پیشنگوئی کرنے کو تھی 

پورے وجود میں بیٹیاں سی رینگ رہی تھیں کتنا کچھ سہا تھا اس مقام تک آنے کے لئے آسمان پر پہنچا کر اسے زمین پر اس طرح پھینکا گیا تھا کہ اسکا انگ انگ درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔

گل کی آنکھ کھلی تو حیران و پریشاں سی اسنے اطراف میں دیکھا مگر جب ساتھ والے وجود کی خاموشی دیکھی تو اسے خوف سا آیا تھا

آج شاید اس ایک ماہ میں اسے پہلی بار خوف سا آیا تھا وہ چھوٹی ضرور تھی مگر وہ باہر ملک میں رہی تھی وہ ذہین تھی اسے اپنا بچاؤ کرنا جانتی تھی بہادر تھی مگر آج اسکا یوں خاموش رہنا اسے ڈرا رہا تھا 

رات گئے وہ گھر آئے تو وہ بنا اسکی طرف دیکھے اندر اپنے کمرے میں بند ہوا تو اسے عجیب سی پریشانی نے گھیرے میں لیا تھا۔۔۔

اللّٰہ جی یہ اینگری برڈ تو بلکل عجیب سے لگ رہے کیا کروں۔۔۔ دانتوں میں انگلی دبائے وہ سوچنے لگی۔۔

اکیلے رہ بھی نہیں سکتی تھی اس لئے خاموشی سے اس کے کمرے میں آئی جہاں وہ بے سد سا بستر پر آڑھا ترچھا پڑا تھا۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اس کے پاس جو آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا۔۔۔

خان۔۔ اس نے ہلکا سا اسکا بازو ہلایا جو شدید تپ رہا تھا جیسے ابھی وہ آگ کو چھو کر آیا ہو۔۔۔

اللّٰہ جی یہ تو اتنے گرم ہو رہے کیا کروں۔۔۔۔پریشانی سے اسنے سر پر ہاتھ مارا تھا تبھی اسے یاد آیا جب وہ یوں گرم ہوتی تھی تو اسکی مما ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھتی تھی ایسا اسنے بہت بار دیکھا تھا۔۔

اس لئے فوراً سے بھاگتی وہ کچن میں آئی تھی سارا سامان اس کے ننھے سے ہاتھوں میں پورا بھی نہیں آرہا تھا اس لئے بھاگ بھاگ کر اس نے دو چکروں میں سامان پہنچایا۔۔

پانی کا گلاس اس کے لئے لیا اور پھر اس کے پاس بیڈ پر چڑھ کر بیٹھی اسکو دیکھ رہی تھی۔۔

خان۔۔۔۔ آپ ٹھیک ہو ۔۔

اسنے زرا سا اسکا ہاتھ پرے کیا تھا ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ ڈانٹے نا۔۔

مجھے اکیلا چھوڑ دو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ وہ غصہ کرنا چاہتا تھا چیخنا چاہتا تھا مگر جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔۔۔

میں نہیں جاؤنگی چاہے آپ مجھے ڈانٹے یا مارے۔۔۔

ہٹ دھرمی سے کہتی اس نے اسکا ہاتھ ماتھے پر سے ہٹایا اور وہاں ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھی۔۔

یہ چاہیے یہ ہٹاؤ۔۔۔ اس نے ایک جھٹکے میں وہ پٹی دور پھینکی۔۔

ہونہہ ایک تو بیمار ہیں اوپر سے نکھرے کر رہے۔۔۔ لیکن گل تو بھی کرتی تھی نا۔۔۔۔ 

خود کو بولتی وہ واپس کپڑا اٹھا کر اس نے ماتھے پر رکھ چکی تھی اور اب اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں کی نازک سی گرفت میں لئے بیٹھی تھی۔۔

میں بہت برا پیش آؤ گا گل ہٹاؤ اسے اور جاؤ۔۔۔اس سے بولا تک نہیں جارہا تھا مگر پھر بھی آنکھوں میں تلخی لئے اسے منظر سے ہٹانا چاہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس پر احسان کرے مگر دوسری طرف کوئی نہیں بلکہ فریحہ گل تھی جو ضد میں اس سے چار ہاتھ آگے تھی

ڈھیٹ بنی اس نے کافی دیر تک اپنا عمل جاری رکھا اور پھر اٹھ کر کچن میں آئی 

بیماروں کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں یہ اس نے اپنی مما سے دیکھ کر سیکھا تھا کہ وہ کیسے اسے اور بابا کو کھلاتی تھی سنبھالتی تھیں

اسنے فریج سے دودھ نکالا اور پن میں رکھا اسٹول پر بیٹھ کر اسنے اسٹوو آن کیا تھا 

ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں گر نا جائے مگر ہار ماننا اسکی فطرت میں شامل نہیں تھا 

کئی بار ہاتھ جلا تکلیف سے دھری ہوگئی مگر جلدی سے دودھ نکال کر وہ واپس کمرے میں آئی تھی ہاتھ میں جلن شدت اختیار کرگئی تو ایک سسکی لبوں سے نکلی تھی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھیں لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔۔

خان اٹھیں یہ پئے نا آپ۔۔۔اس نے حیدر کو تقریباً جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔

وہ نقاہت محسوس کرتا ہلکا سا اٹھا تو اس نے دودھ کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔۔۔

اور اٹھ کر سامنے دراز سے فرسٹ ایڈ باکس لاکر اسکے سامنے رکھا 

مجھے نا یہ نہیں پتا کہ کون سی دوا دیتے آپ نکال کر دو نا مجھے۔۔۔

باکس اسکے آگے رکھے وہ منہ بنا گئی تو اس نے دو میڈیسن ہاتھ پر رکھی اور دودھ کے ساتھ نگل لی۔۔

شاید اپنی بگڑتی حالت سے وہ بھی تھک گیا تھا۔۔۔۔

وہ واشروم سے آئی تو وہ یونہی چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا تبھی وہ اس نے پاس آکر لیٹی اور اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔۔

اسنے چونک کر اسے دیکھا۔۔

آپ پریشان نہیں ہوں آپ ٹھیک ہو جائیں گے میں بھی نہیں روتی نا دیکھیں۔۔۔

اور پھر اس نے جو کیا وہ حیدر کو شاکڈ کرگیا تھا 

زرا سا اٹھ کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیتی وہ اسکے سینے پر سر رکھ گئی۔۔

اب آپ بلکل ٹھیک ہو جائیں گے دیکھئے گا میں بھی ٹھیک ہوجاتی ہوں جب مما یوں کرتی ہیں۔۔۔

اس کی بات پر حیدر نے اس پر اپنا حصار مضبوط کیا تھا شاید یہی ایک آخری چیز تھی جو وہ کبھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر اب ہمت نہیں تھی وہ ایسے سکون میں آگیا تھا مسیحائی ملی تھی اسے ایک نازک سے لمس سے۔۔

اسکے سر سے تھوڑی ٹکائے ناجانے کب وہ نیند کی آغوش میں کھو گیا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ پورے کمرے میں پھیلتی اس کے چہرے تک آئی تھیں جو اسکی نیند میں خلل پیدا کرگئی 

آنکھیں کھولتے ہی اس نے حیرت سے گھڑی دیکھی جہاں دن کے دو بج رہے تھے اسے نہیں یاد پڑتا تھا کہ ان چند سالوں میں وہ کبھی وہ یوں سویا ہو اس پر تو نیند کی گولی بھی اثر نہیں کرتی تھی تبھی اس نے نظر اپنے سینے پر سر رکھے سوئی گل پر گئی تو جیسے پلٹنا بھول گئی 

کوئی اتنا معصوم و پیارا کیسے ہوسکتا ہے چہرے پر موجود وہ ایک تل اسکی ساری ساری توجہ اپنی جانب لے گیا تھا

اسکے دل کو عجیب سا سکون میسر آیا تھا

اپنا حصار وہ اس پر مزید تنگ کرگیا اور انکھیں موند گیا۔۔

دل خود ہی موم ہوا تھا خدا نے اسکے دل میں احساس جگا دیا تھا جو ناجانے کب سے سویا ہوا تھا سختی کا خول چٹخنا شروع کر چکا تھا۔۔۔

اسے آہستہ سے خود سے الگ کئے وہ اٹھا تھا باہر سے فاخرہ کی آواز پر وہ باہر آیا اور اسے کھانے کا بول واشروم میں غائب ہوگیا

باہر آیا تو وہ محترمہ غائب تھیں شرٹ پہن کر وہ ٹیبل پر آیا تو وہ بنا منہ دھوئے کی ٹیبل پر براجمان تھی۔۔۔

گل اٹھو منہ دھو کر آؤ۔۔

میں ایسے ہی ٹھیک ہوں نا بھئی لاڈ سے بولتی اس نے اسنے ہاتھ پر سر ٹکایا تو ناچاہتے ہوئے بھی اس نے لبوں کو ایک چھوٹی سے مسکراہٹ نے چھوا تھا۔

اٹھ جاؤ شاباش کہنا سنتے ہیں نا۔۔

اور اسکے یوں پیار سے پچکارنے پر وہ اسے ہگ کرتی اندر بھاگی تھی۔۔۔

کھانا خاموشی سے کھا وہ لاؤنج میں بیٹھ گیا۔۔

واووو چاکلیٹ۔۔۔ اسنے برابر میں گھس کر بیٹھتی وہ سامنے رکھی چاکلیٹ اٹھا کر منہ میں ڈال گئی مگر میں ڈالتے ہی اسکا حلق تک کڑوا ہوا تھا

اففف یہ کتنی کڑوی ہے اب سمجھ میں آیا میرے۔۔اسنے پہلا آپ بائٹ لیتے ہی منہ بنایا تھا۔

کیا سمجھ میں آیا؟

یہی کہ آپ اتنا کڑوا کڑوا کیسے بول لیتے ہیں بھئی میٹھا کھایا کریں اسے بول کر اس نے مزے سے  کولڈ ڈرنک کا گلاس منہ سے لگایا

یہ کیا بد تمیزی ہے کولڈ ڈرنک واپس رکھو اسنے چھیننے کے انداز میں اس سے گلاس لیا تھا۔۔۔

بہت ہی گندے ہیں آپ۔۔وہ غصے میں بولی تھی چھوٹی سی ناک لال ٹماٹر ہوگئی تھی

ہاں ہوں تمہیں کوئی مسئلہ ہے ،؟؟

بیوی ہوں آپ کی ٹھیک کرنا آتا ہے مجھے آپ کو اس نے صوفے پر چڑھ کر کہا تو اسنے حیرت سے اپنے سامنے کھڑی تیرہ سالہ بلا کو دیکھا جو صرف نام کی ہی بچی تھی ورنہ تو پوری ہی پکی تھی

اچھا۔۔۔۔ تو کیا کرو گی اس نے اچھا کو کافی لمبا کھینچا تھا

میں کیا کروں گی اسنے پرسوچ انداز میں گال پر انگلی ٹکائی

میں نے خان لالا کی بیوی کی طرح بیلن سے آپ کی ٹھکائی کروں گی پھر مزہ آئے گا آپ کو۔۔

اچھا میری ٹھکائی کروگی ابھی بتاتا ہوں۔

اس نے پاس پڑا کشن اٹھایا ہی تھا کہ سامنے سے ایک کشن اس کے منہ پر پڑا تھا اور فریحہ محترمہ کی ہنسی گونجی تھی 

گل کی بچی۔۔۔۔ کشن سنبھالتا وہ اسنے پیچھے ہوا تھا جو ہرن جیسی بھرتی لئے بھاگ رہی تھی پورے گھر میں اس کی کھلکھلاتی آواز گونج رہی تھی جس میں اب حیدر کی ہنسی بھی شامل تھی

ابھی آپ میری باتوں پر ہنسے ہیں تو ہماری دوستی پکی نا۔۔۔۔؟؟؟ معصومیت سے بولتی اسنے اپنا سیدھا ہاتھ اس کے آگے کیا تھا۔۔

اور اسنے لمحے توقف کیا اور پھر وہ ہاتھ تھام لیا۔۔۔

یےیےیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھینک یو اب آپ مجھ سے اپنے سارے سیکریٹس شیئر کریے گا ٹھیک ہے نا اور میں بھی آپ کو سب سیکھاؤ گی۔۔۔

اچھا جی۔۔

ہاں جی اب آپ مجھے بتائیں آپ کیوں اپ سیٹ تھے کل؟؟؟

اور اس کے سوال پر کل کا دن پوری جزائیت کے ساتھ اسکی آنکھوں میں آیا تھا 

کچھ نہیں جاؤ اب ریسٹ کرلو۔۔۔اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچتے وہ لہجہ بدل گیا 

آپ ایسے نہیں نا کریں نا پلیز اپنے پرامس کیا تھا میں بہت اچھے سے سنوں گی نا اور آپ کو اپریشیٹ بھی کرونگی نا۔۔۔ اسکا چہرہ اپنے ننھے ہاتھوں نے تھامے وہ بولی تو اس کی یہ ادا اسکے دل میں اتر گئی اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹائے وہ اپنی مضبوط گرفت میں دبا گیا 

پوری رات اس نے جس طرح دیکھ بھال کی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا 

یہ کیا ہوا ہے؟گی اسکے ہاتھ پر نشان دیکھ وہ چونکا تھا وہی وہ چور ہی ہوگئی اور فوراً ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنا چاہا۔۔

اےے۔۔۔ڈونٹ سو دس بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟؟؟ 

کچھ بھی نہیں ہوا نا۔۔ منہ بسور کر کہتی وہ ہاتھ چھڑانے کے کئے بے حال ہوئی تھی

یہ ہاتھ کیسے جلا گل؟؟؟ اس کے لہجے میں ناجانے کیوں سختی سے آگئی تھی 

اور اس غصے کو محسوس کرتی وہ لب بھینچ گئی 

بتاؤ۔۔۔

وہ کل آپ کے لئے دودھ لیا تو جل گیا۔۔۔ ڈر کر کہتی وہ مسر جھکا گئی 

وہ لمحے امر ہوئے تھے کہ اس نے جھک کر اچانک اسکی چوٹ پر اپنے ہونٹ رکھے تھے

آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا ہے گھر میں ملازم ہیں انہیں کہنا ٹھیک ہے؟؟ اسکا گال نرمی سے سہلاتا وہ اسے خوش کر گیا ورنہ وہ تو سمجھی تھی کہ ڈانٹ پکی۔۔

جی۔۔۔۔

گڈ۔۔

خان ایک بات پوچھوں؟؟؟؟ وہ جو اٹھنے لگا تھا اسکی بات پر واپس بیٹھ گیا 

ہاں بولو۔۔۔

یہ رومی کون ہیں آپ رات میں بار بار ان کا نام لے رہے تھے کیا وہ آپکی دوست تھی آپ کیوں یاد کر رہے تھے انہیں جیسے میں بابا کو یاد کرتی ہوں۔۔

سوال اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ چپ رہ گیا وجود میں درد کی لہر سی اٹھی تھی 

کوئی نہیں ہے۔۔۔۔

بات سنیں نا میری وہ ایک دم اسکے سامنے آئی تھی 

مجھے پتا ہے وہ آپ کی گرینڈ تھی اور اب وہ نہیں ہے کیا وہ آپ سے ناراض ہوکر گئیں ہے ؟؟

تمہیں کس نے بتایا ؟؟ وہ حیران ہوا تھا 

وہاں آپ کے گھر میں کوئی آنٹی تھیں انہوں نے بتایا تھا کہ آپ کی ایک دوست تھیں اور آپ پیار کرتے ان سے اور۔۔

بس گل کیا فضول بول رہی ہو جاؤ اندر فوراً۔۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا تھا

اور وہ سر جھکا کر اندر بھاگ گئی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ ہوش وحواس سے بیگانہ خواں خرگوش کے مزے لینے میں مصروف تھی دونوں ہاتھ گال پر ٹکائے تبھی ایک سایہ اسکے کمرے کی کھڑکی سے اندر آیا تھا  ہاتھ میں موجود تیز دھار خنجر جی پرچھائی دیوار پر پڑی تھی دھیمے قدموں سے وہ اسکے سر کر پہنچا تھا

اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا۔۔۔ 

فریحہ کی چیخ نے اسے ایک دم سنبھلنے کر مجبور کیا تھا 

جو کھلی آنکھوں سے خود پر کھلے آدمی کو دیکھ رہی تھی 

بابا۔۔۔ بابا وہ چیخ رہی تھی قدموں کی آواز پر وہ انسان کھڑی کے راستے سے باہر کودا تھا وہی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آتا حیدر اس کے پاس آیا جو خوف سے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی حیدر  کھڑکی دیکھ کر بری طرح چونکا تھا وہ بھاگ کر کھڑکی تک آیا تھا جہاں سے مین ڈور سے ایک ہیولہ بھاگتا نظر آیا تھا 

گارڈز۔۔۔۔۔ چیک کریں فوراً سب۔۔۔۔

وہ وہی سے دھاڑا تھا اور واپس اس تک آیا تھا جو اب ہچکیاں لیتی رو رہی تھی۔۔۔

اوئے گل شش چپ میں کو نا کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے۔۔

اسے ساتھ لگائے اسکا چہرہ ایک ہاتھ سے تھامے وہ اس پر جھکا تھا جو روئے پر روئے جارہی تھی 

وہ انکل۔۔چھری ہچکیوں کے درمیان ٹوٹے پھوٹے لفظوں نے حیدر کو پریشانی میں غرق کیا تھا

کچھ نہیں ہے برا خواب تھا بس چپ اسکی کمرے سہلاتے اسنے پانی کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا تھا

آپ نہیں جانا یہاں سے۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامے اسنے اسکے سینے میں منہ چھپایا تھا 

نہیں جاتا چھوڑ کر بس اب رونا نہیں ہے گندے بچے روتے اور آپ کو بہت بریو ہو نا بس اب چپ بلکل اسکا سر اپنے سینے پر رکھے وہ وہی پاؤں پھیلا کر لیٹا تھا دماغ میں سوچوں کا جال بنا تھا ماتھے پر پڑی شکنیں اسے گل کی حفاظت کے لئے یہاں سے جانا تھا یہ وہ سوچ چکا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا خبر لائے کو رزاق ؟؟ 

جیسا کہا تھا ہوگیا ہے بہت جلد وہ کراچی والے گھر جانے والے ہیں۔۔

کیسے بھی کر کے اس سے وہ لڑکی چھینو اور یہاں لاؤ 

جو حکم سرکار آپ کا۔۔ رزاق فرمانبرداری سے کہتا وہاں سے نکلا مگر حویلی کے سامنے شیر دل کی گاڑی کھڑی دیکھ وہ ٹھٹکا تھا 

تو یہاں کیا کر رہا ہے؟؟

تجھ جیسے پالتو کتے کو دیکھنے آیا ہوں جو بھونک بھونک کر شاید تھک گیا ہے جبھی اب اپنے ہی مالک کو کاٹنے کی تیاری میں ہے۔۔۔۔

ہاہاہاہا لگتا ہے اندر تک آگ لگی ہوئی ہے چل اچھا ہی ہے۔۔۔

رزاق کے مذاق اڑانے والے انداز کر اسنے مٹھیاں بھینچی تھیں

بچ کر رہنا رزاق یہ نا ہو لالہ تیری زندگی کو ہی کم کردیں۔۔

تیرے لالہ کی ڈور بڑی کچی ہے بچے مغرور لہجے میں کہتے وہ سائیڈ سے نکلتا چلا گیا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس واقع کے بعد وہ اس کا بہت خیال رکھنے لگا تھا  اسکے ساتھ رہنے لگا تھا وہ جو دنیا سے نفرت کرنے لگا تھا ناجانے کیسے زندگی کو خود میں محسوس کرنے لگا تھا اس ایک رات نے اسکے دل سے ساری پریشانی ختم کی تھی آنے والے دنوں میں ان دونوں کی دوستی بڑھتی ہی گئی تھی اس نازک سی جان نے اسے ہنسنا سیکھایا تھا جب کبھی وہ اداس ہوتا اسکی ننھی سی گود میں سر رکھے دنیا کی فکروں سے آزاد ہوجاتا تھا کہ قدرتی کشش اور سکون تھا جو اسے میسر تھا اس معصوم کے ساتھ نا وہ کبھی غلط کر سکتا تھا نا ہونے دے سکتا تھا وہ اسے خود میں گم رکھتا تھا تاکہ اسے گھر کی یاد نا آئے اور ایسے کرتے کرتے وہ اپنی تکلیف بھی بھول جاتا تھا  وہ دونوں ایک دوسرے کے کئے لازم ہوگئے تھے اور اس وقت بھی وہ اپنے نازک ہاتھوں سے اسکے سر کی مالش کر رہی تھی اور سڑے سڑے منہ بھی بناتی جارہی تھی 

کیا ہے بھئی مجھ سے نہیں ہورہا اتنے گندے بال آپکے۔۔۔

ناک منہ چڑھائے وہ ہاتھ پرے کر گئی تو اسنے واپس اس کے ہاتھ اپنے بالوں میں الجھائے۔۔

کل سے تو دماغ کھا رہی کہ آپ کے بال بنانے اب بناؤ نا۔۔۔۔

نہیں نا اب آپکی باری اپنے لمبے بالوں کی ہونی کھولے وہ اب اسکے آگے آکر بیٹھی تو وہ آنکھیں گھوما گیا۔۔

میں نہیں بناتا تمہارے بال قسم خدا کی ا

عجیب جنجال پورا ہے خانہ خراب۔۔۔ اس کے بال دیکھ کو وہ سخت چڑا تھا

ہاں تو میں بھی تو آپ کے بال بناتی نا آپ بھی بنائے۔۔۔

میرے بہت چھوٹے بال ہیں گل۔۔۔وک جتا کر بولا

ہاں تو میں بھی کٹ کروالیتی نا اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی

کوئی ضرورت نہیں ہے کٹوانے کی

تو آپ ہی برا بول رہے نا میرے بالوں کو۔۔ وہ ننھی منی منی بنا گئی وہ ہنس دیا

اچھے لگتے ہیں نا آپ ہنستے ہوئے اور آپکا یہ ڈمپل۔۔۔وہ اس کے ڈمپل پر دل و جان سے فدا تھی تبھیآ آگےہوکر اسنے اپنےنرم وملائم گال اسکے گال سے ٹچ کئے اور منہ بنایا۔۔

اپنا ڈمپل نہیں دونگا میں تمہیں۔۔۔ شرارت سے کہتے وہ اسکے بالوں کو سنوارنے لگا

یہ چبھتے ہیں مجھے۔۔🥺 اشارہ اسکی بڑھتی شیو کی طرف تھا۔۔

خبردار اسے کچھ کہا اتنی پیاری ہے۔۔

ہاں بڑی پیاری سڑے منہ کے ساتھ وہ اپنے ہاتھ اسکی ٹانگ پر رکھتی سہارا بنائے بیٹھ گئی 

گل مجھے سو کام ہے اب میں یہ کرتا رہوں۔۔ 

اسے بالوں میں ہاتھ پھنسائے وہ آجز آیا تھا۔۔

میں نے بھی تو آپ کے اتنے کام کئے جب کے میں تو خود اتو سی ہوں۔۔

ہاں اتو سی ہو مگر زبان اتنی بڑی ہے۔۔اس نے اتنی جو لمبا کھینچا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔

ہم وہاں کب جائینگے؟؟

کہاں؟؟؟ 

پانی میں آپ نے بتایا تھا نا وہاں دور بہت سارا پانی ہے مطلب سی ہے۔۔۔

اس کی بات پر وہ مسکرا دیا۔۔

چلیں گے بہت جلد چلیں گے۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنہری حویلی اس وقت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی چادر میں لپٹا وہ وجود بہت آہستگی سے حویلی میں داخل ہوا تھا اور اب اسکا رخ اوپری منزل کی طرف تھا 

محتاط انداز میں قدم بڑھائے اور ایک کمرے میں اوجھل ہوا تھا جہان موجود شخص اسے دیکھ کر ایک دم گھبرایا تھا 

تت۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔

دیکھوں ہم کو یہاں آنے کا کوئی شوق نہیں پیسے دو اور قصہ ختم کرو۔۔۔

کس چیز کے پیسے ہاں اس چیز کے پیسے کو کام تم سے ہوا ہی نہیں کبھی؟؟کیا مار دیا تم نے اس لڑکی کو جب تک اس لڑکی کی لاش نہیں لاتے تب تک پیسوں کو بھول جاؤ۔۔

ایسے کیسے بھول جاؤ ہاں اس بچے کر حملہ میں نے تمہارے کہنے پر کیا تھا اوطاق میں حملہ تمہارے حکم پر کیا اس سب کا پیسہ دو مجھے ورنہ اپنے حال کی خود زمہ دار ہونگی۔۔۔

تو تم جیسے کمی کمین مجھے دھمکی دینے لگے۔۔۔ نیچے آواز میں غراہٹ نمایاں تھی

دفاع ہوجاؤں یہاں سے کیونکہ پکڑے گئے تو جان تمہاری جانی ہے۔۔

یہ پیسے پکڑو اور اب جاؤ۔۔

اس چادر میں چھپے وجود کے ہاتھ میں پیسے رکھے اس نے اپنی جان چھڑائی تھی 

اور وہ آدمی جیسے آیا تھا ویسے ہی غائب ہوا تھا یہ جانے بغیر کے اس گفتگو کو کسی تیسرے وجود نے بھی دیکھا اور سنا ہے۔۔۔۔

یہاں کا موسم آج پھر ابر آلود تھا گاڑی میں سامان رکھتے اس نے رخ موڑ کر فریحہ کو دیکھا جو فاخرہ کے گلے لگے سو سو کرنے میں مصروف تھی

جتنا اسپیڈ میں تم روتی ہو نا لگتا ہیں یہاں ایک چھوٹا موٹا دریا تو بن ہی جائے گا۔

اس کی بات پر وہ روتے روتے ہنس دی اور حیدر کا دل لمحے کو دھڑکا تھا 

بھیگی مڑی پلکوں پر نمی سرخ ہونٹ چہرے پر آنسوؤں کے نشان۔۔۔

چلو گل۔۔۔ اسے بولتا اس نے اسکے لئے درازہ کھولا تو سب کو ہاتھ ہلا کر بائے کرتی پیچھے بیٹھ گئی۔۔

اس نے ساتھ بیٹھی وہ بلکل اسکے بازو سے جڑی ہوئی تھی

اسے دیکھ کر دل کہیں ماضی میں اٹک جاتا تھا وہ ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتا تھا اسکا دل جڑا تھا وہ فریحہ کو دیکھ کر اکثر پریشان ہوجاتا تھا جب اسے حقیقت کا علم ہوگا تو کیا ہوگا ابھی وہ چھوٹی تھی۔۔۔

وہ چاہ کر بھی رمیسہ کو دل سے نہیں نکال سکتا تھا۔۔۔

خان دیکھیں یہ کتنے بڑے بڑے ہیں نا سامنے موجود پہاڑوں کو دیکھ وہ ایک دم ایکسائیٹڈ ہوئی تو وہ مسکرا دیا۔۔

رومیسہ کی بھی پسند تھے یہ پہاڑ یہ وادیاں ان دونوں کو ایک ہی چیز سے عشق تھا کیسا عجیب اتفاق تھا۔۔

وہ بس سوچ کر رہ گیا

آنکھیں موندے وہ کہیں ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو سا گیا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ماضی۔۔۔

حیدر لالہ یار آپ نے مجھے کیوں نہیں گنتی سیکھائی اب سب مجھے تنگ کرینگے۔۔۔

وہ سرخ و سفید روئی کے گالوں جیسی رومیسہ تھی اس کی چچازاد۔۔۔

عمروں میں زیادہ فرق نا ہونے کے باوجود وہ اسے لالہ کہتی تھی کیونکہ وہ چڑتا تھا اسکے یوں لالہ کہنے سے۔۔

اسکی ضد ہی تو تھی جو اتنے سخت ماحول کے باوجود وہ اسے پڑھاتا تھا اسکا سایہ بن کر گھومتا تھا 

بچپن کی دوستی کب اسکے دل میں جذبات پیدا کرگئی پتا ہی نہیں چلا اور جب پتا چلا تو اسنے اس کا خیال کسی نازک موم کی گڑیا سمجھ کر کیا جو ایک ٹھیس سے ٹوٹ جاتی۔۔۔

ان ہی دنوں ناجانے رومیسہ نے کہا سے ایک آفیسر کو دیکھ لیا اٹھتے بیٹھتے اسی کا ذکر اسی کی بات اور وہ جل بھن کر خاک ہوجاتا 

خانہ خراب جب دیکھو اسی کا ذکر تھکتی نہیں تم۔۔۔۔وہ چڑ کر کہتا تو وہ جواب میں کھلکھلا کر ہنس پڑتی

آپ بھی ایسے بن جاؤ پھر میں بھی آپ کی تعریف کیا کروں گی دن رات صبح شام۔۔۔ وہ اتنے پیار سے بولتی کہ اس کے دل میں گدگدی شروع ہوجاتی۔۔

اور بس اسکی اس خواہش کے لئے اسنے اپنا شوق چھوڑ اسکا شوق اپنایا تھا اس فیلڈ میں جانے کا۔۔

آغا جان کا لاڈلہ تھا اس کی مخالفت کے باوجود وہ انہین رضا مند کر گیا تھا۔۔

سب کی دعائیں اور اس کی محبت دل میں بسائے وہ ایک نئے سفر کر روانہ ہوا تھا۔۔۔

مگر کیا جانتا تھا واپسی پر اسکی محبت اسکی منتظر نہیں ہوگی۔۔

دلاور خان کے بیٹے اعظم رومیسہ کے بابا کے ہاتھوں ان کی موت ہوگئی سیاسی مخالفت میں سیاہ اور سفید کا فرق بچا ہی نہیں تھا ان کے مطابق یہ ایک حادثہ تھا مگر خون بہا کے لئے رومیسہ کو پیش کیا گیا تھا۔۔

وہ روتی رہی تڑپتی رہی اور بلآخر اپنی جان دے بیٹھی حویلی میں کہرام مچ اٹھا تھا جوان جہاں موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی 

وہ تو جیسے لٹا پٹا حویلی پہنچا تھا سامنے اپنی محبت کی لاش پر وہ ایسا مرد تھا کہ رو بھی نا سکا صدمے سے اسکے حواس سلب ہوگئے تھے اور حقیقت جاننے کے بعد اسے اپنے گھر والوں سے نفرت ہوئی تھی اپنے آغا جان سے منہ موڑے وہ ہمیشہ کے لئے حویلی چھوڑ گیا تعلق رکھا تو بس اس سے جو منوں مٹی تلے جا سوئی تھی۔۔

اسکی ہر خواہش پوری کی تھی اس نے اور اب اور کرنی تھی اپنا نام بنانا تھا مگر آہ۔۔۔۔

یہ ظالم دنیا اس نے رومیسہ کا آخری خواب بھی نوچ ڈالا تھا اسے فیلڈ سے نکال کر۔۔۔

وہ اب اپنے خاندان والوں کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ ظلم میں سب ایک ساتھ شریک تھے کوئی کم یا زیادہ قصور وار نہیں تھا ان کی نظروں میں دولت زمین رتبہ اہم تھا کسی کی جان سے۔۔

مگر اس سب کے باوجود کہی کچھ مسینگ تھا اسے پورا سچ نہیں پتا تھا وہ جاننے کی جستجو میں تھا لیکن ابھی صحیح وقت نہیں آیا تھا

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اپنے چہرے پر نرم ہاتھوں کے لمس نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تھا۔۔

آپ کیوں رو رہے ہیں خان۔۔۔ آنکھیں کھلنے کر اسکا پریشان سا چہرہ اسکی نظروں میں آیا تو مسکرا کر نفی میں سر ہلا گیا 

آپ کیوں رو رہے ہیں؟؟؟ اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کرتی وہ بے حد پریشان لگی تھی حیدر کو۔۔

کچھ نہیں ہوا گل۔۔۔ اس نے نامحسوس طریقے سے اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹایا

نہیں کچھ تو ہوا ہے نا آپ رو رہے ایسے تو کوئی نہیں روتا نا بتائیں آپ کو آپ کی دوست یاد آرہی ہیں نا کہاں ہے وہ کیا وہ آپ سے ناراض ہیں؟؟؟

ایک ہی سانس میں کئے گئے سوالوں پر وہ پریشان ہوا تھا 

شش اتنا نہیں بولتے گل سوجاؤ لمبا سفر ہے۔۔۔

نہیں نا میں نہیں سوؤں گی آپ بتائیں میرے بابا بولتے ہیں شئیر کرنے سے سب ٹھیک ہوجاتا ہے 

جب بھی میں آپ سیٹ ہوتی تھی مما اور بابا سے شئیر کرتی تھی پھر اس کے بعد میں ہیپی ہوجاتی تھی آپ بھی بتائیں مجھے کیوں اپ سیٹ ہیں میں آپ کو ہیپی کرونگی۔۔

پوری طرح سیٹ پر چڑھ کر بیٹھتی وہ اب اس کے روبرو تھی

اس نے ایک نظر ڈرائیور کو دیکھا اور اس نے حیدر کے نظروں کے تعاقب میں۔۔

ڈرائیور انکل آپ کان بند کرلیں دوسرے کی باتیں سننا بری بات ہوتی ہے۔۔۔

فریحہ گل۔۔۔ حیدر نے اسے تنبہہ کی تو وہ ہنس دی

آپ بتائیں نا کہا ہے آپ کی دوست؟؟؟ وہ اب بھی بضد تھی۔۔

مر گئی ہے اللّٰہ کے پاس چلی گئی ہے۔۔

یہ کہتے ہوئے اسکے دل پر چھریاں چلی تھیں جبکہ فریحہ چپ رہ گئی۔۔

ہونٹوں پر ہاتھوں کی مٹھی رکھے وہ باہر کے نظارے دیکھنا لگا تبھی وہ ایک دم اسکے سینے سے لگی تھی کہ وہ ایک دم بوکھلا گیا ۔۔

ائم سوری خان میں نے ہرٹ کیا نا آپ کو ائم سو سوری۔۔۔

بٹ سچی مچی نہیں نا پتا تھا مجھے دیکھئے گا آپ کی دوست بہت اچھی جگہ پر ہونگی جب میری فرینڈ کی نانو کی ڈیتھ ہوئی تھی تب بابا نے سمجھایا تھا کہ یہاں سب اللّٰہ کا ہے اور ہم سب پیارے اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے وہ وہاں بہت ہیپی ہونگی آپ دیکھنا۔۔۔ 

آپ ان کے کئے پرئیر کیا کریں میں بھی کرونگی سب آپ ایسے سیڈ نہیں ہوا کریں نا گل کو اچھا نہیں لگتا کہ اسکا دوست ایسے سیڈ سیڈ فیس بنا کر رہے ہم مل کر ان کے لئے دعا کریں گے سب آپ ہمیشہ ہیپی ہیپی رہنا۔۔۔

وہ جو بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئی اور ایک سکون سا حیدر کو تھما گئی 

اسکے الفاظ اسکا احساس کتنا قیمتی تھا آج اسے واقعی احساس ہوا تھا کہ دوست واقعی بہت ضروری ہوتے ہیں شیر سے لاکھ بےتکلفی سہی مگر وہ اپنا دل اس کے آگے کبھی کھول کر نا رکھ سکا اور اس ننھی شہزادی نے بس اپنے چند لفظوں سے اسکے زخمی دل پر مرہم رکھا تھا

اب میں آپکو بیک ٹائٹ سے ہگ کرونگی تو دیکھنا آپ کو کتنا اچھا لگے گا بولنے کے ساتھ اسنے اسے سائیڈ ہگ کیا تو اس نے اس کو اپنے حصار میں کئے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

رات ہوتے ہی وہ کراچی میں موجود تھے شمشیر بابا نے انکا پرجوش استقبال کیا تھا جبکہ زری بی فریحہ کو لے کر اندر بڑھ گئیں۔۔

عائش کہاں ہے بابا؟؟ 

چھوٹے خان عائش بابا ہاسٹل شفٹ ہوگئے ہیں دادو خان آئے تھے تو انہیں ساتھ لے گئے۔۔

ہممم ٹھیک کیا۔۔۔

میں کھانا لگواتا ہوں آپ فریش ہو جائیں۔۔ شمشیر خان کے بولنے پر سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا 

تھوڑی دیر میں وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے فریحہ نے زبردستی کر کے زری بی جو بھی اپنے پاس بیٹھا لیا جبکہ شمشیر خان کام کا بول وہاں سے چلے گئے تھے۔۔

بی آپ خان کو یہ دیں نا دیکھیں یہ ٹھیک سے نہیں کھا رہے۔۔۔

حیدر کو یونہی پلیٹ میں چمچہ ہلاتے دیکھ اس نے بی کے کان میں سرگوشی کی تو مسکرا کر حیدر کو دوسری ڈش سرو کرنے لگی 

وہ چھوٹی تھی لیکن کبھی کبھی اسکی باتیں اسے بڑا ظاہر کرتی تھیں جیسے کہ اب وہ خود سے زیادہ حیدر کی پرواہ کر رہی تھی۔۔

خان آپ کیوں نہیں کھا رہے دیکھیں آپ نہیں کھائیں گے تو میں بھی نہیں کھاؤ گی زری بی جے اٹھتے ہی اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر پلیٹ پرے سرکائی۔

حیدر نے تعجب سے اسے دیکھا جو آنکھیں چھوٹی کئے اسے گھورنے میں مصروف تھی

میں کھا رہا ہوں فریحہ تم کھاؤ۔۔

نہیں آپ نہیں نا کھا رہے میں آپ کو کب سے دیکھ رہی اب آپ میرے ہاتھوں سے کھائیں گے۔۔

اس نے چئیر اسکی طرف کھسکائی اور بلکل اسکے قریب بیٹھ کر چھوٹا سا نوالہ بنا کر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔

کھائیں نا ایسے دیکھنے سے کھانا پیٹ میں نہیں جائے گا اسکے یوں غصے سے بولنے پر وہ مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھام کر نوالہ میں ڈالا

تبھی اسنے دوسرا نوالہ اس کی طرف بڑھایا۔۔

میں بچہ نہیں کو گل میں خود کھا سکتا ہوں۔۔

اسکے چوتھی بات یوں کرنے پر وہ اسے منع کرگیا۔۔۔

بلکل نہیں ابھی آپ نہیں کھا رہے تھے اس لئے میں کھلاؤں گی اور اب آپ چپ کریں اور کھائیں ورنہ گل بہت برا ڈانٹتی ہے۔۔

اور اس کے اس انداز پر وہ ہاں میں سر ہلاتا کھانا کھانے لگا۔۔۔

دروازے سے اندر آتی زری بی یہ منظر دیکھ کر مسکرا دی

اے اللّٰہ ان دونوں کو ہمیشہ ایسے ہی رکھنا۔۔۔۔

خان آپ پینٹ شرٹ کیوں نہیں پہنتے بہت کیوٹ لگے گیں آپ۔۔ وہ جو اسکے موبائل میں گیم کھیلنے میں مصروف تھی اسے بلیک شلوار قمیض پر شال اوڑھے دیکھ بول اٹھی۔۔۔

اچھا لیکن کیا میں ایسے اچھا نہیں لگتا؟؟ اس نے منہ بنا کر کہا تو جلدی سے نفی میں سر ہلاتی اس کے پاس آئی 

نہیں نہیں آپ تو بہت ہیں بہت زیادہ میں تو بس ایسے ہی بول رہی تھی نا آپ تو بلکل پرنس کے جیسے ہیں 

اور وہ جو اپنی مسکراہٹ دبا رہا تھا کھل کر ہنس دیا۔۔۔

تھینک یو پرنسس اب زرا مجھے میرا موبائل دو تاکہ میں باہر جا سکوں۔۔ 

اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنا موبائل مانگا تو وہ فوراً سے ہاتھ پیچھے کر گئی 

نہیں نہیں موبائل تو نہیں دونگی میں بور ہوتی ہوں نا خان پلیز۔

مجھے جانا ہے نا فریحہ۔۔۔ پلیز وہ بھی اسی کے انداز میں بولا تو ہو کھلکھلا اٹھی 

کاپی کیٹ 🐈

اچھا نا مجھے بھی موبائل دلا دیں نا۔۔۔

پہلے بڑی ہوجاو پھر۔۔ اس کے ہاتھ سے موبائل لئے وہ اسکے گال کھینچ کر بولا 

تبھی اسکے موبائل رنگ ہوا

شیر کی کال دیکھ کر وہ کمرے سے نکل کر باہر لان میں آیا تھا 

باہر کا موسم عجیب سا ہورہا تھا کیسے طوفان آنے کو ہو۔۔

سلام لالہ۔۔۔

وعلیکم السلام کیسے ہو شیر۔۔

میں ٹھیک نہیں ہوں لالہ مجھے ملنا ہے آپ سے۔۔۔

اس کے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ وہ پریشان ہوا تھا 

کیا بات ہے شیر بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟؟؟

مجھے ملنا ہے آپ سے لالہ۔۔

ٹھیک ہے میں کراچی ہوں شیر وہی آجاؤ۔۔

نہیں لالہ وہاں نہیں آپ کلب آجاؤ۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔۔

فون بند کرکے اسنے گاڑی نکالی دل میں عجیب وسوسے آرہے تھے شیر کو اسنے کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا ضرور کچھ ایسا تھا جو بہت اہم تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا ہوا ہے شیر سب خیریت تو ہے نا بتاؤ مجھے کیا پتا چلا ہے۔۔۔

وہ بے چین سا اس وقت اس کے سامنے بیٹھا تھا 

لالہ بہت ہمت اور سکون سے سننا میں جانتا ہوں آپ کو تکلیف۔۔۔

اووو پلیز شیر صاف صاف کہو پہلیاں نا بجھاؤں۔۔وہ شیر کی بات کاٹتا ہوا بولا تو اس نے گہری سانس لی۔۔۔

مجھے حقیقت معلوم ہوگئی ہے لالہ اور۔۔۔

کیا ہوگیا ہے شیر اس طرح ٹکڑوں میں بات کیوں کر رہے ہو؟؟؟

رومیسہ بی بی نےخودکشی نہیں کی تھی لالہ بلکہ۔۔۔۔۔

شیر نے اس کے سر پر دھماکہ کیا تھا اس نے شاکڈ سے اسے دیکھا تھا

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔

گھٹنوں تک آتی فراک پہنے وہ سر پر دوپٹہ ٹکائے وہ نور بانو کے کمرے میں موجود تھی 

کتنی بات کہا ہے رومیسہ اپنی زبان کو لگام دیا کرو حیدر کو ناراض کیوں کیا تم نے؟؟؟ وہ غصے سے اس سے استفسار کر رہی تھی 

تھوڑی دیر پہلے ہی حیدر ہوسٹل کے لئے نکلا تھا اور وہ اسے ناراض کر چکی تھی۔۔۔

پلیز مورے میں تھک چکی ہو یہ ناٹک کرتے کرتے آپ جانتی ہیں میں حیدر سے محبت نہیں کرتی ہوں پھر کیوں آپ۔۔۔

شششش۔۔۔۔ چپ کرو بلکل دماغ جگہ پر ہے تمہارا۔۔۔۔

شادی کا خواہشمند ہے وہ تم سے۔۔۔

ہاں مگر میں نہیں کرنا چاہتی آپ کیوں میری زندگی سے کھیل رہی ہیں۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آئے آنسو بھی ان کا دل نا پگھلا سکے تھے۔۔

یہ سب میں تمہاری بھلائی کے لئے کی کر رہی ہوں آئی سمجھ 

روحیلہ کر بہت گھمنڈ ہے نا خود پر بیٹا تم اسے یہ ثابت کر کے دکھاؤ کہ اسکا بیٹا تمہارا ہے۔

بس کردیں آپ دونوں کی اس جنگ میں قربانی کا بکرا میں ہی کیوں بنوں۔۔۔وہ بھی آج ضد میں تھی۔۔

تم۔۔۔۔

ابھی وہ کچھ کہتی کہ ایک دم دروازہ کھلا تھا 

کیا ہورہا ہے یہاں؟؟ عزیز خان کی آواز پر انہوں نے تھوک نگلا تھا 

کچھ نہیں جی وہ سب۔۔

کیا وہ بس۔۔؟؟؟ اور تم یہاں کیوں کھڑی ہو جاؤ بھابھی کے ساتھ کام کرواؤں۔۔

نور بانو کو بول اب وہ رومیسہ کی طرف اپنی توپ کا رخ کرگئے 

جی بابا۔۔۔۔ آنسوؤں کو پیچھے دھکیل وہ کمرے سے باہر نکل آئی لیکن روحیلہ کے پاس جانے کے بجائے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آکر سیدھا بیڈ پر گری تھی

نہیں رہنا مجھے یہاں پلیز لے جاؤ مجھے پلیز دم گھٹ جائے گا میرا پلیز۔۔۔۔

روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئی تھیں تبھی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا تھا 

کس کا سوگ منا رہی ہے یہاں ہاں تجھے بھیجا نہیں تھا تیرے باپ نے نیچے جو تو یہاں آگئی۔۔۔۔

نور بانو نے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے اٹھایا تھا

ساس ہے وہ تیری ہونے والی۔۔۔

مجھے نہیں کرنی حیدر سے شادی آپ بھی سن لیں۔۔۔

وہ ہٹ دھرمی سے کہتی واپس بیڈ پر منہ کے بل لیٹ گئی

اگر تمہارے بابا کو پتا چلا تو وہ جان سے مار دینگے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتا تمہیں؟؟؟؟ 

اسکے یوں ضدی لہجے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔۔

اپ بذدل ہیں مورے اور مجھے بھی بنا رہی ہیں مجھے حیدر خان سے محبت نہیں ہے۔۔۔

وہ ان کے قدموں میں بیٹھی تھی 

تو کس سے محبت ہے تمہیں رومیسہ خان؟؟؟

ان کے پوچھنے پر وہ نظر چرا گئی 

جلتی آگ میں کودنے کی کوشش مت کرو رومیسہ۔۔۔۔ 

تمہارا ایک انتہائی قدم اس حویلی میں طوفان لے آئے گا اور یاد رکھنا اس طوفان کی وجہ کو میں خود اپنے ہاتھوں سے ختم کروں گی۔

ہونہہ ظاہر ہے اولاد سے زیادہ آپ کو اپنی ذات عزیز ہے لیکن میں بھی آپ کی ہی بیٹی ہوں اس سفر میں بہت اگے تک جانا ہے مجھے۔۔۔

بہت پچھتاؤ گی تم۔۔۔

جاتے جاتے وہ پلٹ کر اسے اتنا ہی بول سکیں۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آخر کب تک ہم یوں چھپ چھپ کر ملیں گے شاہ آپ بات کیوں نہیں کرتے اپنے گھر میں۔۔۔

یہ اتنا آسان نہیں ہے رومیسہ جتنا لگ رہا ہے۔۔۔

تو اپ پیچھے ہٹ رہے ہیں شاہ مجھے ایسی جگہ لاکر مار رہے ہیں جہاں واقعی جینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔۔۔ نم آنکھوں کو پونچھتی وہ رخ پھیر گئی اور اسکا یوں رخ پھیرنا اعظم شاہ کو تڑپا گیا۔۔۔

رومی ایسا نہیں رو خدا کے لئے۔۔۔

پلیز اعظم میں چھوٹی ضرور ہوں مگر بے وقوف نہیں آپ کا یوں مجھ سے محبت دیکھانا اور اب یہ بے بسی سب سمجھ آتی ہے مجھے۔۔۔۔

وہ ایک دم کھڑی ہوئی تھی مگر اعظم شاہ نے ایک جھٹکے سے اسکی کلائی تھام کر رخ اپنی طرف کیا تھا۔۔

تم جو چاہے کہو مگر میری محبت کو فریب میں کبھی مت تولنا تم سے محبت سوچ سمجھ کر نہیں کی یہ دل یہ روح سب تمہارے قدموں میں ڈھیر ہے۔۔

فرط جذبات سے انہوں نے اسکا کومل چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا تو وہ سسک اٹھی 

تو لے جائیں نا مجھے کہیں بہت دور جہاں کوئی ہم تک نا پہنچ سکے پلیز اعظم میں مر جاؤ گی آپ کے بغیر یہ روح کھینچنے لگتی ہے جب آپ کے علاؤہ کسی اور کا نام اپنے نام کے ساتھ سوچتی ہوں۔۔

تو میری جان میں ہوں نا تمہارے پاس۔۔۔۔

ہمم۔۔۔ اب مجھے جانا ہوگا آپ اپنا بہت سارا خیال رکھئے گا پلیز۔۔۔

جاتے جاتے بھی وہ ان سے جدائی کے خیال سے مرجھا سی گئی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سب کی نظروں سے بچتی بچاتی وہ سنہری حویلی کے پچھلے راستے سے ہوتی کھڑکی کے زریعے اپنے کمرے میں آئی تھی 

چہرے پر اداسی سی رقم تھی۔۔

بستر پر بیٹھ کر وہ اندر سے ڈھے سی گئی تھی اسی آج بھی وہ دن جزائیت سے یاد تھا 

جب شہر سے واپسی پر ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور ڈرائیور پانی لانے کا بول ناجانے کہا چلے گیا تھا 

وہ انتظار کی سولی پہ لٹکی بیزاری چہرے پر سجائے بیٹھی تھی 

چادر سر پر جمائے وہ ہمت کر کے باہر نکلی تبھی سامنے سے آنے والی گاڑی وہ دیکھ نا سکی اور جب نظر پڑی تو ایک چیخ مار کر وہ آنکھیں بند کر گئی۔۔

گاڑی کے ٹائر پرزور چرچراہٹ کے ساتھ اس کے قریب رکے تو اسکا سانس اٹکا تھا۔۔۔

آپ۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔ وہ گھبرائے سے گاڑی سے نکلتے اس کی جانب بڑھے تھے جو آنکھیں میچیں سر جھکائے بیٹھی تھی 

آپ ٹھیک ہیں؟؟ انہوں نے اسکا کاندھا ہلایا تھا اور اس نے سر اٹھایا کر انہیں دیکھا۔۔

وقت جیسے تھم سا گیا تھا دو دل ایک لے پر دھڑکے تھے سانس ساکن ہوئی تھی ناجانے وہ کیسا لمحہ تھا کہ ان کے دلوں کو محبت جیسے حسین احساس میں جکڑ گیا تھا۔۔۔۔

ایک دوسرے میں کھوئے وہ یکسر یہ فراموش کرگئے تھے کہ وہ اس وقت کہاں ہوش تو تب آیا جب قریب سے گزرتی گاڑی کا ہارن سنائی دیا وہ ایک جھٹکے میں ہوش میں آکر اس سے دور ہوئے تھے جو دم سادھے انہیں دیکھنے میں مصروف تھی ان کے یوں دور ہونے پر ہوش کی دنیا میں واپس آئی 

کہآپ کے کہیں لگی تو نہیں؟؟ اسے یونہی پیر پکڑے دیکھ وہ پریشان سے ہوئے تھے 

میں ٹھیک ہوں۔۔ اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی دل معمول سے زیادہ دھڑک رہا تھا 

آپ اس وقت اکیلی سڑک پر اس کھڑا ہوتا دیکھ وہ پوچھ بیٹھے۔۔

گاڑی خراب ہوگئی تھی خان بابا پانی لینے گئے ہیں۔۔

ہمم اس طرح سے آپ کا روڈ پر اکیلے نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے آپ کو دھیان رکھنا چاہیے تھا۔۔

اس کے حسین چہرے سے وہ بمشکل ہی نظر چرائے بولے تھے۔۔

جب وہ تو نظر جھکائے اپنی دل کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں پر نالاں تھی بس ایک نظر اٹھا کر اس نے دوبارہ انہیں دیکھا تھا 

براؤن شلوار سوٹ پہنے سلیقے سے بال بنائے کھڑی ستواں مغرور ناک سرخ و سفید رنگت پر سلیقے سے تراشی گئی داڑھی ان کی شخصیت میں ایک الگ ہی رعب طاری کر رہی تھی۔

جب کے وہ تو اس معصوم سی پری کے یوں دیکھنے پر ہی ٹہر سے گئے تھے بڑی بڑی آنکھیں نرم و ملائم جلد سرخ و سفید رنگت پر گلابی ہونٹ۔۔

وہ چاہ کر بھی اس سے نظر نہیں ہٹا پا رہے تھے مگر یوں بےخودی دیکھانا۔۔

آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں پلیز اسکے لئے دروازہ کھولتے وہ پیچھے ہٹے تو وہ ان کے سحر سے آزاد ہوتی محض سر ہلا کر واپس گاڑی میں بیٹھ گئی تو وہ دروازہ بند کرتے واپس مڑ گئے۔۔

اور گاڑی آگے بڑھا لی جبکہ وہ دم سادھے یونہی بیٹھی رہی ڈرائیور نے آکر گاڑی ٹھیک کی اور اسٹارٹ کرکے اپنی منزل کی طرف بڑھائی تب بھی اسکے وجود میں کوئی جنبش نا ہوسکی

اور دور اپنی گاڑی روکے اعظم شاہ نے اسے جاتے ایکھ اپنی گاڑی آگے بڑھائی مگر۔۔۔۔۔۔

واپسی پر انہیں لگا کہ کچھ خالی سا ہے ان کے وجود میں ۔۔

شاید دل۔۔۔ جو وہ آج رومیسہ خان کے قدموں میں ہار آئے تھے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

مجھے نہیں پتا فضل بس مجھے ساری ڈیٹیل شام تک چاہئے۔۔۔۔ وہ فون پر مضطرب سے ہدایت دیتے فون بند گئے 

آج تین دن ہوگئے تھے مگر انکا دل کسی طور سکون میں نہیں تھا آنکھیں بند کرتے ہی ایک وجود چھم سے ان کی نظروں میں آ جاتا تھا اپنی دلی کیفیت سے پریشان آج انہوں نے اپنے بندے کو اس کا معلوم کرنے کے بولا تھا 

کاش۔۔۔۔ کاش۔۔ تمہارا نام ہی معلوم ہوتا تو اس نےچین دل کو قرار آجائے۔۔

دل بے قرار ہوا تو وہ خود باہر کی طرف۔ تھے تھے مگر ملازم کی آواز پر وہ رکے

اعظم بابا آپ کو بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔۔

ٹھیک ہے آتا ہوں۔۔

ملازم کو بول کر وہ اوپر ان کے کمرے میں آئے تھے 

اسلام و علیکم بابا سائیں۔۔

وعلیکم اسلام برخودار کہاں غائب ہو تین دن سے باپ کو شکل بھی نہیں دیکھائی۔۔

کچھ نہیں بابا سائیں بس یونہی۔۔ 

کب ختم ہورہی ہے تمہاری پڑھائی؟؟

کیوں پوچھ رہے ہیں آپ بابا سائیں؟؟

بھئی جلدی جلدی اپنی پڑھائی کرو تاکہ اس حویلی میں شہنائیاں بجے تمہاری دولہن آئے

اور ان کی اس فرمائش پر وہ انکا چہرہ دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔

یوں اچانک میری شادی کا خیال کیسے آگیا آپ کو۔۔۔

زارون کی شادی تو ہم نہیں دیکھ سکے لیکن تمہاری شادی ہم پوری دھوم دھام سے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔

ان کی آنکھوں کے سامنے ایک معصوم سا چہرہ لہرایا تھا

بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا اور جب کرنی ہوگی تو خود آپ کو بتاؤں گا

ہمم تم دونوں نے مجھے بہت تنگ کیا۔۔

وہ اس انداز سے بولے کے اعظم شاہ ہنس کر ان کے گلے گئے۔۔

چلو آرام کرو اب ان کے کندھے کو محبت سے تھپتھپا کر وہ کمرے سے باہر نکل گئے وہ وہی بیڈ پر ڈھے گئے

بار بار فون کو دیکھتے وہ بے چین ہوئے تھے تبھی انکا موبائل رنگ ہوا تھا جو بنا کسی انتظار کے انہوں نے اٹھا کر کان سے لگایا 

شاہ سائیں بری خبر ہے۔۔۔۔

کیا مطلب تمہارا۔۔۔ انکا دل ایک دم دھڑکا تھا 

وہ عبد العزیز خان کی اکلوتی بیٹی رومیسہ تھی ان کی گاڑی اس دن آپ کے بتائے روڈ پر خراب ہوئی تھی وہ ابھی سولہ سال کی ہیں اور اپنے کزن سے منسوب ہیں 

اس اطلاع پر لمحے کو چپ کے چپ رہ گئے 

ٹھیک ہے۔۔۔ بے دلی سے فون بند کرتے وہ بستر پر ڈھے سے گئے 

پہلی بار زندگی میں انہوں نے کسی کو چاہا تھا مگر وہ ان کا نصیب ہی نہیں تھی 

اففففف۔۔۔۔ انہوں نے بال مٹھیوں میں جکڑے۔۔

واہ اعظم شاہ واہ محبت بھی ہوئی تو دشمنوں کی بیٹی سے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ جب سے واپس آئی تھی ایک عجیب سی بے کلی سی تھی کبھی ہاتھ مسلتی تو کبھی بار بار پانی پیتی وہ آنکھیں اسے بھلائے نہیں بھولتی تھیں

نور بانو نے اسے یوں مضطرب دیکھ کئی بار وجہ پوچھی مگر وہ ٹال گئی۔۔

ایسے میں اسے اپنی رازدار دوست ہاجرہ کا بے چینی سے انتظار تھا جو کہنے کو تو اسکی ملازمہ تھی مگر اس کی خاص بندی تھی اسکے ہر کام میں ساتھ ساتھ۔۔

اسکی منگنی ہورہی تھی اس لئے وہ اپنے گاؤں گئی ہوئی تھی جبکہ اسکا اصرار تھا کہ وہ بھی آئے مگر اب اپنی طبعیت کے پیش نظر اسکا کوئی ارادہ تو نہیں تھا جانے کا مگر ہاجرہ کا دل دکھانا بھی نہیں چاہتی تھی 

بڑی مشکلوں سے تو اسے اجازت ملی تھی اس لئے برے دل کے ساتھ پیکنگ کرتی وہ جانے کے لئے تیار ہوئی تھی رات کا فنکشن تھا تو انہیں اب رک کر ہی آنا تھا 

ماں سے الوادع لئے وہ گاڑی میں آکر بیٹھی تھی 

سوچوں کا رخ ایک بار پھر اس اجنبی کی طرف چلا گیا تو بس ایک لمحے میں اسے اپنا اسیر کرگیا تھا 

اور یوں رومیسہ خان کو سولہ سال کی عمر میں اعظم خان سے محبت ہوگئی تھی۔۔۔۔

وہ شام چھ بجے کے قریب وہاں پہنچی تھی ہاجرہ کی اماں نے اسکا کھلے دل سے استقبال کیا تھا وہ بھی مسکراتی ہوئی ان کے گلے لگی تھی۔۔۔

ہاجرہ تو اسے دیکھ کھل سی اٹھی تھی چٹاچٹ اسے چوم ڈالا تو وہ جھینپ گئی۔۔

آجائیں رومی اسے لئے وہ چھت پر بنے کمرے میں آگئی وہ رومیسہ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔۔

آپ آرام کریں پھر تیار یوجائیے گا آج ہاجرہ کی پکی سہیلی کو بہت پیارا دیکھنا ہے ۔۔

ہاجرہ کے انداز کر وہ ہنس پڑی۔۔

پاگل ہو بلکل۔۔

ہاں جی بلکل ہوں اب آپ آرام کریں کھانے کو بھجواتی ہوں میں کچھ۔۔

ہاجرہ اسے بول کر خود چلے گئی جبکہ وہ کمرے میں موجود کھڑکی کے پاس آگئی کتنا سکون تھا یہاں حویلی میں اسکا دم گھٹتا تھا وہ وہاں آزاد ہوکر بھی قید میں تھی 

سوچوں کا رخ ایک بار پھر اس اجنبی کی طرف جاتے دیکھ وہ گھبرا سی گئی تھی 

کیا وہ بھی مجھے یوں ہی سوچتے ہونگے مگر نہیں وہ تو بہت پیارے تھے میں کہاں یاد ہونگی انہیں۔۔ وہ ایک دم یاسیت سے سوچنے لگی یہ جانے بغیر کے وہ شخص تو اس کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا ہے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج وہ دل کھول کر تیار ہوئی تھی کیونکہ آج کسی قسم کی پابندی نہیں تھی 

پیچ رنگ کی کامدار فراک پہنے گولڈن ائیر رنگ اور گلے میں سونے کی چین ہاتھوں میں چوڑیاں لائٹ سا میک اپ اور ہاتھوں میں ہاجرہ کے دئے گجرے۔۔

وہ پور پور مہک اٹھی تھی محبت نے جیسے اس نے حسن کو جلا بخشی تھی پلکوں کے چلمن گرائے وہ عجیب سے احساس میں گھری تھی تبھی شور ہونے پر وہ ہاجرہ کو اس کی کزنوں کے ساتھ مل کر نیچے لائی تھی۔۔۔

سب نے وہاں اس کی خوب تعریف کی تھی وہ اس نے کھلے دل کے ساتھ وصول کی تھیں کتنا اچھا لگ رہا تھا یوں آزادی سے رہنا گھل مل کر سب کرنا ورنہ حویلی میں رہنے والے ایسی زندگی جی ہی نہیں سکتے تھے

رسم شروع ہوئی تو وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی سب کے ساتھ رسم کرنے لگی۔

بی بی جی آپ کے ایک کان میں جھمکا نہیں ہے۔۔

پاس کھڑی ہاجرہ کی کزن کی آواز پر اسکا ہاتھ اپنے کان پر گیا تھا جہاں اسکی ماں کی دیا ہوا سونے کا جھمکا غائب تھا اس نے پریشانی نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر بے سدھ۔۔

وہ مہمانوں کو چھوڑ باہر کی طرف آئی تاکہ اپنا جھمکا ڈھونڈ سکے ورنہ تو نور بانو سے اسکی شامت پکی تھی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شاہ سائیں آپ آئے مجھے بہت اچھا لگا۔۔

تم تو پاگلوں والی بات کرتے ہو بلکل۔۔

ہاجرہ میری بھی بہنوں کی طرح ہے اعظم شاہ نے اپنے خاص آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ مسکرا دیا

ایک خوشی کی خبر بھی ہے آپ کے لئے سائیں۔۔

رمضان کے بولنے پر وہ چونکے تھے

کیسی خبر؟؟؟؟ 

رومیسہ بی بی آئی ہوئی ہیں یہاں۔۔۔

سانس  ہوئی تھی وہ ٹہر سا گیا تھا بے یقینی سے اس نے رمضان کو دیکھا 

دعا یوں بھی قبول ہوگی اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔۔

شکریہ رمضان۔۔۔ فرطِ مسرت سے ان کا چہرہ جگمگا اٹھا تھا 

تبھی سامنے نظر پڑی تو جیسے ہٹنا بھول گئی بلاشبہ یہ وہی تھی اور آج پھر ان کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی وہ اپنی اور اس کی عمر کا فرق بھی بھول گئے یاد رہی تو صرف محبت جو انہیں اس سے ہوگئی تھی وہ کوئی دل پھینک نہیں تھے وہ تو ہمیشہ سے لڑکیوں سے دور رہے تھے لیکن ناجانے کیسے وہ اس خان زادی کے اسیر ہوگئے جو اس وقت کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی 

نگاہوں کی تپش شاید اسے بھی محسوس ہوئی تھی تبھی اس نے چونک کر سامنے دیکھا تو پتھرا سی گئی اسکا خواب مجسم صورت سامنے کھڑا تھا 

اس سے دوسرا سانس نہیں لیا گیا 

اعظم شاہ نے چونک کر اسکا یوں انہیں دیکھنا محسوس کیا تھا نظروں کا تصادم ہوا تو دل خود ہی دھڑک اٹھے تھے اس نے بے ساختہ دل پر ہاتھ رکھ کر رخ پھیرا اور فوراً وہاں سے غائب ہوئی تھی جبکہ اسکے جاتے کی اعظم شاہ کو ایسا لگا کہ روشنی ختم ہوگئی ہے رہ گیا ہے تو محض اندھیرا۔۔۔

آہستہ قدم اٹھاتے اس جگہ آئے جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑی تھی 

ان کی نظر اچانک سے زمین پر چمکتی چیز پر پڑی وہ اس جانب بڑھے 

وہ جھمکا تھا اور وہ اسے ہی ڈھونڈ رہی تھی 

تم نے سہی یہ صحیح بہت خوش قسمت ہو یار تم میری محبت تمہیں یوں بے قراری سے ڈھونڈ رہی تھی 

اور پھر اپنی بات پر وہ خود ہنس دئے 

واہ اعظم شاہ چوبیس سال کی عمر میں تم اپنے سے چھوٹی لڑکی سے عشق کر بیٹھے۔۔

مسکراہٹ تھی کے ہونٹوں سے جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ خوش تھے آج بہت زیادہ خوش۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سب کو بھولے وہ اوپر آکر کمرے میں بند ہوئی تھی دل تھا کہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کا تیار تھا 

اللہ وہ باہر آئے ہیں کہیں کہ میری نظر کا دھوکہ۔۔

نہیں نہیں میں نے خود انہیں دیکھا وہ بھی تو دیکھ رہے تھے مجھے کیا کروں۔۔۔

وہ پریشان سی ہوتی تو کبھی خوش اپنی کیفیت اسے بھی سمجھ نہیں آرہی تھی

تبھی دروازے پر جھٹکے کی آواز پر وہ ہوش میں آئی تھی خود کو سنبھالتی وہ جلدی سے باہر آئی۔۔

لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا اسے حیرت نے گھیرا ۔

اففف میں تو بلکل ہی پاگل ہوگئی ہوں کان بھی بجنے لگے ہیں نیچے ہی جاتی ہوں ورنہ کہیں سچی میں پاگل نا ہوجاؤں۔۔۔

ہنستے کھلکھلاتی وہ نیچے اتری تھی مگر اس سے پہلے اس کی چیخ نکلتی کوئی اس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچ چکا تھا اور اب اس نے منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا جبکہ وہ تو ڈر سے آنکھیں ہی میچ گئ تھی 

آنکھیں کھولو رومی میں ہوں۔۔۔ وہی آواز وہی خوشبو اس کی آنکھیں پٹ سے کھلیں تھی اور انہیں اپنے پاس دیکھ سینے میں سانس سی اٹکی تھی 

چیخنا نہیں ہاتھ ہٹانے لگا ہو۔۔ان کے بولنے پر وہ سر ہلا گئی تو انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر سے ہٹایا

اعظم شاہ نام کے میرا۔۔۔اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انہوں نے اپنا تعارف کروایا 

رومیسہ خان کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہوں جانتا ہوں بہت کٹھن ہے اور یہ بھی جانتا ہو کہ شاید تم مجھے نہیں چاہتی یا پسند نہیں کرتی جو بھی مگر اپنے دل کا حال تم تک پہنچا کر میں اب سکون میں ہوں جواب کا منتظر رہوں گا صرف تمہارا شاہ۔۔

اس کے کان میں بولتے وہ اس کی ہتھیلی میں جھمکا دباتے فوراً وہاں سے غائب ہوئے تھے 

جبکہ وہ تو دل پر ہاتھ رکھتی وہی بیٹھتی چلی گئی یہ کیا ہوا تھا اس نے ساتھ لمحوں کا کھیل تھا

کیا حقیقت کیا فسانہ وہ سمجھ ہی نہیں سکی۔۔

بہت ہمت جمع کرکے وہ ہاجرہ نے پاس آئی جو اس کی اڑی رنگت دیکھ ایک دم پریشان ہوئی تھی 

آپ ٹھیک ہیں نا رومی۔۔۔

اسکی پریشانی کے خیال سے اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا اور مسکرا دی۔۔

دل کی تو آج لے ہی بدل گئی تھی انجام سے بے فکر وہ بس خوش رہنا چاہتی تھی

اس نے ہاجرہ کے آگے دل کھول کر رکھا تو وہ کتنی دیر تک تو چپ ہی رہ گئی مگر بعد میں اس نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا تھا 

واپس جاتے ہوئے اس نے ایک نظر اعظم شاہ کو دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھے ان کے یوں دیکھنے پر وہ کھل کر مسکرائی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے 

وہ راضی تھی

اس سے بڑھ کر خوشی انہیں کہاں مل سکتی تھی ۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

دن معمول کے مطابق گزر رہے تھے پھر ایک ہاجرہ کی واپسی نے اسکی زندگی میں ہلچل مچائی اعظم اس سے بات کرنا چاہتے تھے اور وہ سب فون لگائے کمرے میں بیٹھی تھی جبکہ ہاجرہ دروازے کے پاس کھڑی پہرہ دے رہی تھی 

کیسی ہو؟؟

ٹھیک ہوں۔۔ ان کی آواز کا سحر تھا کہ اس سے بولنا محال ہوگیا تھا 

جواب لینے کے لئے فون کیا ہے اب بتاؤ کیا جواب ہے میرا۔۔۔

میں نے جواب دیا تو تھا۔۔

مجھے تمہاری زبان سے سننا ہے تمہیں مجھ سے محبت ہے یا نہیں۔۔

کوئی زبردستی نہیں ہے رومی۔۔

میں نے جواب دیا تو تھا وہ منمنائی تھی 

ہاں یا نہیں رومی۔۔۔وہ باضد تھے وہ روہانسی سی ہوگئی تھی 

رومی۔۔۔آواز میں اتنی میٹھاس تھی کہ وہ سانس روک گئی 

محبت ہے مجھ سے؟؟؟ 

ہاں۔۔۔ اور وہ ہاں بولتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اس کے یوں رونے پر وہ حواس باختہ ہوئے تھے 

رومیسہ اےے۔۔شش کیا ہوا ہے یار رو کیوں رہی ہو پلیز چپ ہو جاؤ۔۔

ان نے یوں دلاسے پر اس نے رونے میں شدت آئی تھی 

رومیسہ میں تڑپ رہا ہوں مت رو یار پلیز وہ بے بس ہوئے تھے کیوں رو رہی ہو یار پلیز چپ ہو جاؤ

ہمیں محبت نہیں کرنی چاہیے شاہ یہ لوگ ہمیں مار دینگے دور کردینگے۔۔

وہ اپنے خدشے ان نے سامنے بیاں کرگئی تو وہ گہرا سانس بھر گئے 

پہلے ہی قدم پر ہمت ہار گئی یہ تو طویل مسافت ہے

میں نہیں ہاری وہ ہلکا سا منمنائی تو وہ کھل کر مسکرا دئے 

گڈ میری جان اور اب رونا نہیں ہے کیونکہ اب تم اعظم شاہ کی ہو یہ آنکھیں بھی میری ہیں اور یقیناً اب تم انہیں یوں رو کر ضائع نہیں کروگی۔

ان کے یوں سمجھانے پر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

رکھتا ہوں فون خیال رکھنا۔۔

اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا تھا ہاجرہ رات اس کے پاس ہوتی اور وہ اعظم کی میٹھی میٹھی سرگوشیاں سنتی اس کی سترہویں سالگرہ پر وہ پہلی بار چھپ کر ان سے ملی تھی اور پھر ناجانے کتنے دن اپنے ہاتھ پر انکا لمس محسوس کرتی رہی 

وہ بدل رہی تھی یا بدل گئی تھی مگر اتنا ضرور ہوا کہ وہ پر اعتماد ہوگئی تھی اعظم کی محبت نے اسے سر تا پاؤں بدل کر رکھ دیا تھا وہ خوش رہنے لگی تھی اسکا دن اعظم کو سوچتے گزرتا تھا اور رات ان کی سرگوشیوں کے ساتھ۔۔

اسکا دل نہیں کرتا تھا حیدر سے بات کرنے کا مگر اپنی ماں کی وجہ سے مجبور تھی دوسرا اسے خود پر شک بھی نہیں ہونے دینا تھا 

اس کی اٹھارویں سالگرہ پر اسے اعظم کا لمبا چوڑا میسج موصول ہوا تھا جسے اس نے ناجانے کتنی بار پڑھا تھا 

ان نے پیپر تھے وہ مل نہیں سکتے تھے وہ اکثر چڑ کر کہتی تھی کہ بڑھاپے میں کونسے پیپر 

سپلی بھی کسی بلا کا نام ہے وہ ہنس کر کہتے تو وہ انہیں نکما کہتی۔۔۔

جواباً وہ اسے ایسا کچھ کہتے کہ وہ شرم سے لال ہو جاتی اور ملنے پر ان پر مکوں کی بارش کردیتی وہ خوش تھے ساتھ بہت زیادہ۔۔

مگر کسے خبر تھی ایک کڑی آزمائش ابھی ان کی منتظر ہے۔

روز کی طرح آج کا دن بھی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوا تھا مگر کچھ تھا جو رومیسہ کی زندگی کا بدترین دن تھا ناجانے کیسے مگر نور بانو کو اس کے اور اعظم شاہ کے تعلق کے بارے میں پتا چل گیا وہ تو جیسے پاگل ہی ہوگئی تھی اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا مگر وہ آف تک نہیں بولی پٹتی رہی سہتی رہی محبت کی تھی سزا تو ملتی تھی۔۔

وہ بیڈ پر منہ کے بل لیٹی سسک رہی تھی تبھی ہانپتی کانپتی ہاجرہ اس کے پاس آئی تھی جو اپنے گھر والوں سے ملنے گئی ہوئی تھی 

رومی اعظم شاہ ٹھیک نہیں ہیں بانو بی بی نے ان کے پیچھے گنڈے بھیجے تھے وہ اسپتال میں ہیں 

اور ہاجرہ کی دی خبر اس پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی 

مجھے دیکھنا ہے ان کو ہاجرہ مجھے ملنا ہے ان سے کچھ کرو خدا کے لئے میرا دم گھٹ جائے گا میں مر جاؤں گی وہ ہاجرہ نے سامنے ہاتھ جوڑ گئی 

ہاجرہ نے افسوس سے اسے دیکھا جو چند دن میں مرجھا سی گئی تھی

میں کیسے۔۔؟ وہ ہچکچائی۔

میرے بندھے ہاتھ دیکھ لو خدا کے لئے ہاجرہ وہ تڑپ رہی تھی ہاجرہ کو اسکی حالت پر رحم آیا اسے دلاسہ دے کر وہ خود گہری سوچ میں ڈوب گئی۔۔

اور پھر بلاآخر اس نے نور بانو کو منایا رومیسہ کو ساتھ لے جانے کے لئے بہانہ شاپنگ کا تھا رومیسہ کی شادی بھی وہ حیدر کے آنے پر کرنے کا سوچ چکی تھیں دوسرا اعظم کا جو حال انہوں نے کروایا تھا اس نے بعد انہیں امید تھی وہ اسپتال میں پڑا ہوگا اس لئے انہوں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔۔

یہ جانے بغیر کے کچھ فیصلے انسان نہیں اللہ کرتا ہے۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ان کی گاڑی ایک چھوٹے مگر بے حد خوبصورت گھر کے آگے رکی تھی رومیسہ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا ہاجرہ اس سے بے خبر نہیں تھی مگر اسنے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔

سامنے کھڑے رمضان سے اعظم شاہ کا پوچھ کر وہ ان نے کمرے کی طرف بڑھی تھی کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے گہرا سانس لیا اور دروازہ آہستگی سے کھولا سامنے ہی وہ بستر پر آنکھیں موندے لیٹے تھے رومیسہ کا دل کیا سب تہس نہس کر ڈالے۔۔

شاہ۔۔اس نے لہجے میں برسوں کی تھکن تھی اعظم شاہ نے اس کی آواز پر جھٹ سے آنکھیں کھولیں تھی 

رومی میری جان۔۔۔اسے دیکھ وہ تڑپے تھے وہ بھاگ کر ان کے پاس ان کے سینے سے لگی تھی 

بہت بری ہوں میں دیکھیں کتنی چوٹ لگی ہے آپ کو میری وجہ سے بہت بری ہوں کاش میں آپ کو سب سے چھپا لیتی ان کے زخموں کو دیکھ وہ تڑپ گئی تھی اور اس کی اس تڑپ نے اعظم شاہ کے دل کو سکون بخشا تھا 

کیوں آئی ہو میری جان جانتی ہو نا حالات سازگار نہیں تو کیوں اپنی جاں مصیبت میں ڈال رہی ہو۔۔اور یہ زخم اس نے چہرے پر پڑے نیل نے انکا کلیجہ چھلنی کیا تھا

جان جانے کا اب ڈر نہیں بس آپ کا ساتھ چاہیے۔۔۔

میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں میری جان۔۔

تو وعدہ کریں جو مانگوں گی وہ دینگے۔۔اس نے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ وہ چونکے تھے

کیا چاہیے رومیسہ؟؟

آپ کا نام۔۔ پتا نہیں کتنی زندگی ہے مگر میں مرنے کے بعد آپ نے نام سے پکارے جانا چاہتی ہوں اتنا کرینگے میرے لئے نکاح کرینگے مجھ سے؟؟ 

وہ آج طوفان بنی ہوئی تھی اعظم شاہ نے لمحہ بھی نہیں لیا تھا سوچنے کے لئے۔۔

ان کے ایک حکم پر نکاح کا انتظام ہوا تھا اور پھر کچھ دیر بعد گواہوں کی موجودگی میں دو دلوں نے اقرار کیا تھا اپنا آپ ایک دوسرے کے نام کیا تھا۔۔

سب کو الوادع کہتے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آئے تھے 

جہاں سامنے ہی وہ دشمن جاں سارے حقوق اپنے نام کرواکے استحقاق سے بیٹھی تھی انہیں کھڑے دیکھ ان نے پاس آکر انکا ہاتھ تھاما اور بیڈ تک لائی سائیڈ رکھی دوائیاں اسے کھلا کر دوا ان کے زخم پر لگائی 

دونوں ہی چپ تھے۔۔

اعظم نے ایک نظر اس کے مطمئن چہرے کو دیکھا اور وہ مجبور رہ گئے کوئی اتنا حسین کیسے ہو سکتا ہے اور اب جو یہ حسین من موہنی صورت ہے وہ بس ان کی ہے

رومی کچھ بولو چپ کیوں ہو؟؟مسلسل خاموشی پر وہ زچ ہوئے تھے مگر وہ بنا کچھ کہے ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی۔۔

وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اس کے دماغ میں چل کیا رہا ہے

کافی دیر تک وہ باہر نا آئی وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئے

دفعتاً کھٹکے کی آواز پر انہوں نے سامنے دیکھے تو جیسے نظریں پلٹنے سے انکاری ہوگئی 

لال سرخ جوڑا پہنے ہاتھوں پر مہندی سجائے وہ دولہن بنی غضب ڈھا رہی تھی 

رومی یہ سب اسے اپنے قدموں میں بیٹھتے دیکھ وہ ہوش میں آئے تھے 

شاہ۔۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں بس ایک شخص کو چاہا ہے اس کے خواب دیکھیں ہیں اور وہ آپ ہیں مجھے نہیں پتا آگے کیا ہوگا مگر میں آج ان لمحوں کو محسوس کرنا چاہتی ہوں میں نے مہندی لگائی ہے آپ کے لئے میں سجی ہوں صرف آپ کے لئے دیکھیں اس نے شوق سے اپنے ہاتھ ان نے سامنے کئے۔۔

مہندی تھوڑی دیر ہی لگائی تھی مگر دیکھیں رنگ کتنا اچھا آیا ہے۔۔

جب میں مرونگی نا تو یہ غم نہیں ہوگا کہ میں پیا من چاہی نہیں ہو بلکہ میں تو سکون سے مرونگی کہ میں اپنے پیا کی چاہت ہوں اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی ہنس دی 

اعظم نے ایک اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تھا وہ جانتے تھے سمجھتے تھے اسکا ڈر مگر وہ کیا کرتے وہ کوئی قدم کیسے اٹھاتے جب اچانک ہی دونوں خاندانوں میں سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے وہ کئی بار رومیسہ کے حوالے سے بات کرنے گئے مگر دلاور صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے۔۔۔

مہندی دیکھیں نا۔۔ وہ ان سے الگ ہوتی چڑ کر بولی تو وہ مسکرا دئیے اور اس کی دونوں ہتھیلیاں لبوں سے لگائی۔۔

اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے میں وہ اس کے ماتھے پر لب رکھ گئے اور آہستہ سے انہوں نے بہت نرمی سے اسکا ایک ایک نقش چھوا تھا

ان نے لمس پر وہ سمٹ کر ان کے سینے سے لگی تھی مگر انہوں نے اسکا چہرہ اونچا کیا اور اس پر جھکتے چلے گئے۔۔

 رات اپنے جوبن پر تھی چاند شرما کر بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا 

ستاروں نے آپس میں اس خوبصورت ملن پر کئی سرگوشیاں کی تھیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنہری کرنوں کی نوک جھوک ان کی نیند میں خلل ڈال گئی تو انہوں نے ہلکے سے آنکھیں کھولیں کھڑکی پر پڑے پردے ہوا سے آگے پیچھے ہوتے تو کرنیں ان کے چہرے پر پڑتی۔

رات کے واقعات یاد کرتے وہ ایک دم کھل کر مسکرائے تھے اور مڑ کر اپنے سینے پر سر رکھے سوئی اپنی محبت کو دیکھا اور اس پر حصار مزید تنگ کیا 

جس پر وہ مسکراتی مزے سے مزید ان کے گرد گرفت تنگ کرگئی 

گھڑی کی سوئیاں صبح کے ساتھ بجا رہی تھیں

رومی جان اٹھو صبح ہوگئی ہے۔۔ انہوں نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے اس کے چہرے پر بکھرے بال ہٹائے 

سونے دیں نا شاہ مجھے نہیں ہونا آپ سے دور۔۔۔اس نے زرا کی زرا آنکھیں کھول ان نے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرا وہ کھل کر ہنس دئیے 

کیوں بہکا رہی ہو جان بندہ بشر پہلے ہی زخموں سے چور ہے۔

ان کے اس طرح کہنے پر وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھی تھی 

میں نے چوٹ پر مار دیا کیا شاہ؟ وہ پریشان ہوئی تو وہ نفی میں سر ہلا گئے 

میری جان نے مجھے مرہم لگایا تھا نا اب میں ٹھیک ہو سب اٹھو اور فریش ہو جاؤ۔۔

اسے واشروم بھیج وہ واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گئے وہ دور تھی تو جدائی پر صبر آجاتا تھا مگر اب یوں اتنے پاس آکر وہ دور ہورہی تھی تو مانوں دل اسے بھیجنے سے انکاری ہوا تھا 

وہ دن دونوں نے ایک ساتھ گزارا تھا محبت سے بھرپور دن کہ اعظم شاہ نے ایک لمحے کے لئے بھی اسے خود سے الگ نہیں کیا تھا وہ ان کے یوں محبت برسانے پر خود کو معتبر سمجھ رہی تھی 

شام ان کی واپسی پر دونوں کے دلوں میں غم تھا مگر ملن کی خوشی سے چہرے چمک رہے تھے۔۔

وہ واپس آگئی تھی مگر نور بانو نے اسکے اندر آئی تبدیلی محسوس کی تو اسکے اور حیدر کے نکاح کا اعلان کردیا جسے سن کر وہ بپھری تھی اور اپنے نکاح کا ان کو بتا گئی یہ جانے بغیر کے دروازے کے پار کھڑے اس کے باپ نے ایک ایک حرف سنا ہے وہ دھاڑ سے کمرے میں آئے تھے اور اسکا حشر بگاڑ دیا تھا 

مار دیں مجھے بابا مار دیں مگر میرے شاہ کو کچھ مت کرئیے گا خدا کا واسطہ ہے بابا انہیں کچھ ہوا تو میں مر جاؤ گئی میری زندگی ویران ہوجائے گی بابا 

ان نے قدموں سے لپٹی وہ اعظم شاہ کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی مگر وہ

غصے میں بھرے  پستول تھامے نکلے تھے اور پھر اعظم شاہ کی موت کی خبر نے ہر طرف کہرام مچادیا وزیر خان کا غصے سے برا حال تھا رومیسہ ادھ مری حالت میں کمرے میں بند تھی اس خبر پر مزید ڈھے گئی 

اس سب کا اس نے خود کو زمہ دار ٹہرایا تھا اسکی حالت بگڑ رہی تھی 

پنچائیت نے اس کو خون بہا میں دینے کا فیصلہ کیا جو تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا تھا 

اس کی بگڑتی حالت پر اسے اسپتال پہنچایا گیا تھا۔۔۔

مگر۔۔۔

جب وہ لوگ اسپتال پہنچے تو ایک طوفان انکا منتظر تھا رومیسہ لا پتا تھی جتنی زخموں سے وہ چور تھی اسکا خود جانا ممکن نہیں تھا اعظم شاہ تو کب کا منوں مٹی تلے سویا ہوا تھا 

مگر یہ معمہ بھی حل ہوا جب ایک جلی ہوئی گاڑی میں سے اسکی لاش نکلی 

جوان جہاں موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی 

ایک اور محبت کی داستان ادھوری رہ گئی تھی ایک باب بنا کھلے ہی بند ہوا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حال۔۔۔۔

لالہ۔۔۔ اپنی بات ختم کرتے شیر نے ایک نظر اڈے دیکھا جو بت بنا بیٹھا تھا

وہ کتنی تکلیف میں تھی شیر۔۔۔ وہ اونچا لمبا مرد ایک دم رو پڑا اور اس کے یوں رونے پر وہ اس کے پاس آیا تھا 

لالہ سنبھالے خود کو۔۔

مجھے گھر جانا ہے شیر مجھے گھر چھوڑ دو۔۔

اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی وہ بے حد مضطرب تھا 

شیر نے اسے سہارا دے کر کھڑا کیا اور گاڑی میں بیٹھا کر خود جلدی سے بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی۔

وہ بس خاموش ہوگیا تھا شیر کو اسکی خاموشی سے خوف سا آیا تھا 

میں آؤں لالہ۔۔اسے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا دیکھ شیر نے اسکو سہارا دینا چاہا مگر وہ ہاتھ جھٹک گیا 

چلے جاؤ شیر مجھے اکیلے رہنے دو۔۔

وہ شاید پاگل ہوگیا تھا اپنے کمرے میں آکر اس نے دھاڑ کے ساتھ دروازہ بند کیا تھا اور بیڈ پر گرا 

دروازے کی دھاڑ پر کارٹون دیکھتی فریحہ نے چونک کر کمرے کو دیکھا تو بھاگتی اوپر اس کے پاس آئی تھی 

وہ اوندھے منہ ہچکیاں لے رہا تھا 

کتنا مشکل تھا ضبط کرنا جسے وہ اتنے سالوں سے چاہتا رہا وہ تو اسے چاہتی ہی نہیں تھی وہ ٹوٹ کر بکھر رہا تھا

خان کیا ہوا ہے آپ کو کیوں رو رہے ہیں پریشان ہیں۔۔اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ پریشان ہوئی تھی 

چلی جاؤ فریحہ گل چلی جاؤ یہاں سے۔۔

میں نہیں جاؤں گی نا آپ کو چھوڑ کر وہ کیوں رہ رہے ہیں مجھے بتائیں نا کسی نے ڈانٹا ہے مارا ہے نام بتائیں میں چھوڑوں گی نہیں اس کو جس نے میرے خان کو تکلیف دی بتائیں نا خان۔۔۔ اس نے گال پر ہاتھ رکھے وہ جھکی پوچھ رہی تھی

میرے اپنوں نے مارا ہے مجھے بتاؤ میں کس کرو وہ ایک دم پلٹ کر دھاڑا تھا وہ لمحے کو سہمی تھی مگر پھر آگے بڑھ کر اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما

بس اس لئے رو رہے ہیں؟ میں تو آپ کو بہت بریو سمجھتی تھی مجھے بھی میرے اپنوں نے مارا ہے حرا آپی نے اماں نے لیکن میں تو نہیں روئی نا ڈری کیونکہ میں تو اچھی تھی نا اور اللہ تعالیٰ اپنے اچھے بندوں کے ساتھ برا نہیں کرے۔۔

میں ٹوٹ گیا ہوں گل۔۔۔ اور اس نے ننھے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے سسک اٹھا۔۔

نہیں خان آپ نہیں ٹوٹے آپ بس اپ سیٹ ہیں مجھے آج زری بی نے بتایا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ اپنے بندوں نے لئے اچھا کرتے ہیں اللہ کیسے اپنے بندے کو ٹوٹنے دے سکتا ہے وہ تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے مجھے دیکھیں مجھے بھی تو بابا سے ماماسے دور کیا میں تو آپ سیٹ نہیں کیونکہ آپ میرے پاس ہیں دیکھاتے نہیں ہے مگر آپ میرے بابا جیسے پیار کرتے مجھ سے۔۔۔

لیکن مجھ سے تو کوئی پیار نہیں کرتا نا وہ بھی نہیں کرتی تھی جھوٹ بولتی تھی۔۔

لیکن میں تو آپ سے پیار کرتی ہوں نا بہت سارا سچا والا اور جھوٹ بھی نہیں بولتی اس نے ماتھے پر بوسہ دئے اب وہ اپنے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کر رہی تھی سائیڈ سے گلاس اٹھائے اس نے اس کے لبوں سے لگایا اور کمرے سے نکل گئی پانچ منٹ بعد وہ زری بی کے ساتھ واپس آئی تھی جو ٹرے رکھ کر بغیر کچھ کہے چلے گئی۔۔۔

جبکہ وہ اسے دیکھنے لگا جو اب چھوٹے چھوٹے نوالے بنائے اس کے منہ میں ڈال رہی تھی اور وہ بنا کچھ کہے کھا رہا تھا کھانا کھلا کر اسنے رومال سے اسکا چہرہ صاف کیا تو وہ مسکرا دیا 

یہ ہوئی نا بات میرے دوست والی جو آپ کو پیار نہیں کرتا آپ اسے یاد نہیں رکھو میں پیار کرتی ہوں نا بہت بس مجھے یاد رکھو اور ابھی دیکھنا میں آپ کو اسٹوری سنا کر سلاؤں گی 

اس کے ماتھے پر اسکی انگلیاں رینگ رہی تھی اور وہ خود ناجانے کون سی کہانیاں سنا رہی تھی 

اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے خود میں چھپایا تو وہ اس پر اپنی گرفت تنگ کرگئی 

سیڈ نہیں ہوا کریں گل کو آپ سیڈ اچھے نہیں لگتے نیندوں میں جاتے اس نے یہ آخری جملہ تھا جو سنا تھا۔۔۔۔

صبح اسکی آنکھ کھلی تو دل عجیب سا ہوا تھا گھڑی پر نظر پڑی تو وہ چونک گیا جو اس وقت دن کے دو بجا رہی تھی 

میں اتنی دیر کیسے سو گیا وہ بھی اتنی بے چینی میں۔۔۔

وہ کبھی اتنا لیٹ نہیں سویا تھا اور بنا گولی کہ تو وہ سو ہی نہیں پارہا تھا پھر اتنی تکلیف میں وہ اتنا سو گیا

اسے فریحہ پر رج کر پیار آیا تھا جو خود ابھی بچی تھی مگر اسکی ماں بن کر اسکا خیال کیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسے یوں لمحوں میں سکون ملے گا اسے تو لگا تھا وہ مر جائے گا

اٹھ کر وہ فریش ہوکر باہر آیا تو محترمہ لاونج میں بیٹھی کارٹون دیکھنے میں مصروف تھیں اسے دیکھ کر زور سے ہاتھ ہلایا تو وہ مسکراتا اسکے پاس آکر بیٹھ گیا 

طبعیت ٹھیک ہوگئی نا آپ کی؟؟

ہمم ہوگئی۔۔۔

زری بی اسے دیکھ ناشتہ وہی لے آئیں تو وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا 

خان مجھے کراچی گھومنا ہے۔۔

اس کی فرمائش پر وہ سر ہلا گیا 

اور اگلے کئی دن اسنے اسے پورا کراچی گھمایا تھا وہ پاگلوں کی طرح خوش ہوتی تھی وہ دیوانی تھی وہ خاص تھی پھر کیسے وہ اسے عام سمجھ رہا تھا

شیر تو اسے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کیسے وہ ٹھیک ہوا اسے حیدر کی قسمت کر فخر ہوا تھا 

وہ خوش تھا وہ زندگی جینا سیکھ رہا تھا پھر سے اور گل وہ تو اسے اتنا تنگ کرتی تھی اور وہ مزے سے ہوتا بھی تھا وہ دوست تھے انہیں چار مہینے ہوگئے تھے ایک ساتھ۔۔

وہ یونہی ہمیشہ ساتھ رہنے کے وعدے کر رہے تھے مگر یہ جانے بغیر کے ابھی تو مزید امتحانات ہونے باقی ہیں۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ صبح بہت عجیب سی تھی ویران سی حیدر کا دل انجانے خوف نے جکڑ لیا تھا اس وقت بھی وہ لان میں اسکے ساتھ بیٹھا اسکی باتیں سن رہا تھا مگر دماغ کے کسی حصے میں کچھ برا ہونے کا الارم بج رہا تھا

وہ اسکی حفاظت پوری طرح سے کر رہا تھا مگر آج ناجانے کیوں انجانے خوف میں مبتلا ہوکر وہ گھر میں ہی تھا 

تبھی بیل بجنے پر وہ چونکا تھا گارڈز کے دروازہ کھولنے اور پھر وہ اسکے پاس آیا تھا 

اور وہ کو گل کی بات پر مسکرا رہا تھا گارڈ کی بات پر اسکی مسکراہٹ سمٹی تھی 

آنے دو انہیں اندر۔۔

گل میری بات سنو کوئی آیا ہے تم سے ملنے۔۔ 

کون خان؟؟ اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تبھی اپنے عقب میں اسنے مانوس سی آواز سنی تھی 

گل میری بچی۔۔۔۔۔۔

آواز کی سمت وہ تڑپ کر مڑی تھی 

بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بابا۔۔

گل میری جان وہ ایک دم آگے بڑھے تھے کہ گل بھاگتی ان کے بازؤں میں سمائی تھی 

بابا۔۔۔بابا آپ کہاں گئے تھے میں نے بہت مس کیا آپ کو۔۔۔

وہ ان کے گلے لگ کر سسکی تھی 

میں آگیا ہوں نا میری جان میں لینے آیا ہوں ہم چلیں گے آپ کی مما اور بھائی بہن آپ کا ویٹ کر رہے وہ دیوانہ وار اسے چوم رہے تھے 

گل۔۔۔ حیدر کی آواز پر اسنے پلٹ کر اسے دیکھا تھا 

بابا یہ خان ہیں میرے بیسٹ فرینڈ۔۔ وہ ایک دم ان کے بازؤں سے نکل کر حیدر کے پاس آکر رکی تھی 

تو کیا ان کی بیٹی نے ان کے علاؤہ بھی اپنا بیسٹ فرینڈ بنا لیا

بابا خان نے مجھے پورا کراچی گھمایا وہ اشتیاق سے انہیں بتانے لگی جو حیدر کو گھورنے میں مصروف تھے 

گل سامان لے کر آؤ ہمیں نکلنا ہے۔۔۔

یہ کہیں نہیں جائے گی۔۔۔ حیدر کی سپاٹ آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی 

تم ہوتے کون ہو اسے روکنے والے ہاں۔۔۔

وہ غرائے

بیوی ہے میری۔۔وہی ٹھنڈا لہجہ۔۔

بیوی۔۔۔اسکی بات پر وہ استہزایہ ہنسے تھے 

بیوی نہیں ہے اور جو تعلق زبردستی بنا ہے وہ چٹکیوں میں ٹوٹ جائے گا 

یہ فیصلہ آپ نہیں گل کرے گی۔۔

گل کیا تم مجھے چھوڑ کر جاؤ گی۔اب کی بات وہ ڈائریکٹ اس سے مخاطب تھا جو حیران و پریشاں سی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی حیدر کی بات پر بوکھلا کر جلدی سے سر نفی میں ہلایا 

نہیں نا خان میں نہیں جاؤنگی نا آپ کو چھوڑ کر۔۔

اور گل کی بات نے اس کے سینے پر پھوار سی برسائی تھی 

گل آپ کو اپنے بابا کے ساتھ چلنا ہے سامان لائیں اپنا بیٹا 

بابا پلیز آپ رک جائیں نا یا خان کو لے کر چلتے ہیں

انہوں نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو ایک غیر کے لئے رو رہی تھی 

دیکھو حیدر تم سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے مگر میں اپنی بیٹی کو یہاں محفوظ نہیں سمجھتا اس لئے مجھے اسے یہاں سے لے کر جانے دو۔۔

میں نہیں جاؤنگی بابا آپ یہاں رک جائیں میں خان کو نہیں چھوڑ سکتی۔۔

حیدر نے بس ایک نظر اسے دیکھا وہ ابھی چھوٹی تھی سمجھ نہیں تھی 

جاؤ گل اپنے بابا کے ساتھ ۔۔

حیدر کی بات پر وہ تڑپ کر مڑی تھی آپ میرے دوست ہیں نا میں نہیں جاؤنگی نا آپ کو چھوڑ کر ہم بابا کو بھی روک لیتے ہیں نا پلیز۔۔۔زری بوا گل کا سامان تیار کریں 

تمہیں جانا ہوگا ابھی گل میں بعد میں آؤنگا تمہیں لینے۔۔۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا مگر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی 

نفی میں سر ہلاتی وہ بس روئے جارہی تھی

جاؤ گل مجھے نہیں رکھنا تمہیں اپنے ساتھ۔۔۔

آپ گندے ہیں بہت گندے گل کبھی بات نہیں کرے گی آپ سے اس کے اوپر مکے برساتی وہ بےقابو ہوئی تھی

گل بات سنو چندا ابھی جاؤ اسکے ری ایکشن پر وہ نرم پڑا تھا

آپ چلیں نا خان۔۔۔

گل آپ جاؤ بابا کے ساتھ میں بعد میں خود آؤنگا لینے۔۔

وہ اسے سمجھا رہا تھا جو سمجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی

میں پرامس کر رہا ہوں نا میں آؤنگا ابھی آپ جاؤ

نہیں ہے مجھے یقین آپ جھوٹ بول رہے ہیں  وہ چیخی تھی

اسے لے جائیں زارون صاحب انہیں بولتا وہ ضبط کرتا گھر سے ہی باہر نکل گیا اپنے پیچھے اسے اسکی چیخ و پکار پر کان بند کرتا خود پر ضبط کرتا وہ بنا رکے بس وہاں سے جانا چاہتا تھا۔۔

اندر موجود زارون شاہ نے اسے بہت مشکلوں سے سنبھالا تھا اسے باہوں میں بھرے وہ اسے قابو کر رہے تھے وہ حیران تھے اپنی بیٹی کا یہ روپ دیکھتے مگر وہ اسے یہاں نہیں چھوڑ سکتے تھے 

پورے راستے وہ روتی رہی تڑپتی رہی حیدر کو پکارتی رہی مگر وہ تو جیسے بے حس ہوگیا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

بابا وہ دوست میرے بابا انہیں بلاؤ نا۔۔۔ 

وہ ان کے سینے سے لگی سسک رہی تھی 

فریحہ زارون شاہ بس بہت ہوگیا چپ بلکل۔۔۔

وہ ناچاہتے بھی سختی کرگئے تھے 

اور ان کی ڈانٹ پر وہ ان کے ہی سینے سے لگی ہچکیاں بھرنے لگی 

گاڑی ائیر پورٹ کے سامنے رکی تو وہ اسے گود میں لئے باہر نکلے گل اترو چندا مما کے پاس جانا ہے نا اسے پچکارتے وہ زمین کر اتار کر سائیڈ کی طرف بڑھے تھے۔۔۔۔

گل چلو بیٹا۔۔۔

بابا پانی۔۔۔ آنسو پونچھتی وہ انکا ہاتھ تھامے بولی تھی 

ارے میں ابھی آیا پاس کی شاپ دیکھ کر وہ اسے کھڑا کئے اس کی طرف بڑھے تھے

تبھی اچانک ان کی نظر سامنے کھڑے شوٹر پر پڑی تھی جس کا نشانہ ان کی معصوم جان تھی 

گل۔۔۔۔۔۔۔ وہ پوری قوت سے چیخ کر بھاگے تھے

گل۔۔۔۔۔۔۔۔

انجانی سمت سے آتی گولی پوری رفتار کے ساتھ ان کے سینے میں لگی تھی وہ اپنی بیٹی کی ڈھال بنے تھے۔۔۔۔

زارون سائیں ڈرائیور بھاگ کر ان تک آیا تھا جو خون میں لے پت وجود لئے زمین بوس ہوچکے تھے آس پاس افراتفری مچ گئی تھی۔۔

انہیں اسی وقت اسپتال لے جایا گیا تھا۔۔۔۔

گاؤں سے سبھی لوگ آگے پیچھے پہنچے تھے آئمہ کی حالت سب سے خراب تھی 

رو رو کر انہون نے اپنی طبعیت خراب کرلی تھی

یہ سب اسی انسان نے کیا ہے سن نے اے گل حیدر شاہ نے مارا ہے تیرے باپ کو۔۔

نہیں نہی۔۔۔نہیں وہ نہیں۔۔بات سن گل اب اپنے ماں باپ کے سامنے اسکا نام نا لینا وہ ہے اس سب کے پیچھے 

ایسی صورتحال میں بھی سجیلہ زہر اگلنے سے باز نہیں آئی تھیں

وہ جو بھی کوئی تھا گل کو مارنے آیا تھا مگر اسکی گولی زارون شاہ اپنے سینے میں کھا گئے تھے

اور پھر پورے اسپتال میں کہرام مچ گیا زارون شاہ زندگی کی ڈور توڑ گئے تھے

زارون۔۔

آئمہ تو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئی تھیں جبکہ وہ۔۔

اسے بس چپ لگ گئی تھی حرا اور سجیلہ نے سارا الزام حیدر کے سر رکھ دیا تھا اور وہ ناجانے کہاں تھا 

نور بانو ملنے آئیں تو اس نے انہیں پوچھا تو ان کے مثبت جواب نے اسکا نازک دل توڑ کر رکھ دیا 

وہ ناچاہتے ہوئے بھی ان کی بات پر یقین کرگئی بنا اس سے پوچھے مگر دل کا کیا کرتی جو اسے مورد الزام ٹھہرا ہی نہیں رہا تھا

دلاور شاہ یہ صدمہ برداشت ہی نہیں کرسکے اور چند دنوں بعد ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے

شاہ حویلی میں موت کا سا سناٹہ تھا ہر وقت آئمہ کی سسکیاں گونجتی رہتی تھی

حیدر نے ایک بار بھی پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا مگر وہ اس سے ملنے چاہتی تھی ایک بات خود سے پوچھنا چاہتی تھی مگر بے سود آئمہ نے عدت ختم کرتے ہی جانے کی بات کردی تھی مگر افراز صاحب نے بیت مشکل سے انہیں روکا تھا ان کا ایک غلط فیصلہ ان کے بھائی کی جان لے گیا تھا دو بھائی کھو چکے تھے اور اب باپ کو بھی کھو دیا تھا اب  احساس ہوا تھا سود و زیاں کا۔۔سجیلہ بیگم کو بھی وہ کافی سخت سست سنا گئے تھے 

اماں سائیں کب تک یہ سب چلے گا۔۔کاشف سخت جھنجھلایا ہوا تھا 

چپ کر جا کاشف تجھے اپنی عیاشی کی پڑی ہے جہاں تمہارے بابا کو ناجانے کیا ہوگیا ہے میری تو کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے ارے مجھے کیا پتا تھا کہ ایسا کچھ ہوجائے گا تجھے بچانے کے لئے اسکی بلی دی تو اور دیکھ کیا ہوگیا اور تمہارے بابا سارا الزام میرے سر کر رہے

واہ اور آپ میرے سر کر رہیں میں نے بولا تھا یہ سب کرنے کو۔۔

سب کردیں آپ دونوں بابا نے سنا نا تو اور شامت آئے گی 

ان دونوں کو یوں بحث میں الجھا دیکھ حرا ٹوک گئی تھی 

اللہ جانے اب کیا ہوگا وہ پریشان سی سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

رات خاموشی سے سرک رہی تھی چاند آسمان پر اپنی روشنی بکھیرے کھڑا تھا اس کی روشنی حویلی کی چھت کو روشن کر رہی تھی جہاں جھولے پر بیٹھی وہ کلی مرجھا سی گئی تھی اسکا تو غم بھی بڑا تھا 

اپنے باپ کو کھویا محبت کرنے والے دادا سے الگ ہوئی اور سب سے بڑھ کر اپنے دوست کو کھو دیا کتنی مشکل سے تو دوستی ہوئی تھی حیدر کو یاد کر کے اسنے سسکی لی تھی۔۔

سب بول رہے تھے کہ اسکے بابا کو حیدر نے مارا ہے مگر اسے تو یقین نہیں تھا 

نہیں خان نہیں وہ بہت اچھے ہیں اس نے جیسے خود کو باور کروایا تھا 

میرے پاس آجائیں نا خان میں بہت اپ سیٹ ہوں۔

اپنے گال ہاتھ کی پشت سے رگڑتی وہ بے بسی سے رو پڑی 

کبھی بات نہیں کرونگی میں ۔۔۔۔

آپ بہت گندے ہیں بہت برے ہیں خود سے بولتی وہ روئے جارہی تھی

اور پھر اسے چپ لگ گئی اور سب چھوڑ کر اس شہر اس ملک سے دور چلے گئی بہت دور۔۔۔۔

سات سال بعد۔۔۔۔۔

گھر میں پینٹ کوکیز کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی کچن سے آتی آواز سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس گھر کے مکینوں کی صبح ہوگئی ہے اس وقت گھری صبح کے ساتھ بجا رہی تھی 

گڈ مارننگ مما۔۔۔ سات سالہ عالیان کچن میں داخل ہوتے ہی ان کے گلے لگا تو وہ مسکرا دی اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا 

فرح کہاں ہے عالی؟؟؟ اس کے پیچھے چھوڑی بیٹی کی غیر موجودگی پر انہوں نے اسے گھورا تو وہ سٹپٹا گیا 

آئی سوئیر مما میں نے فر کو واشروم میں بند نہیں کیا۔۔۔ اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلاتے کہا تو وہ دھل گئی 

عالی آپ نے فرح کو واشروم میں بند کیا؟؟ یا میرے خدایا۔۔۔ ساس پین چھوڑ کر وہ ایسے کی کمرے کی طرف بھاگی تھیں جہاں واشروم میں فرح بند تھی اور اسے شاید احساس بھی نہیں تھا 

عالی وہ غصے میں اس کے پاس واپس آئی جو مزے سے کوکیز کھانے میں مصروف تھا 

کوئی ضرورت نہیں یہ کھانے کی کیوں بند کیا بہن کو ہاں بری بات ہے نا..وہ آئے روز کی اسکی شرارتوں سے زچ آچکی تھیں

فرح بیٹا۔۔ وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی تھی جہاں واشروم کا دروازہ باہر سے بند تھا شاید فرح کو تو شاید پتا ہی نہیں تھا ڈور ان لاک کر کے وہ واپس کچن میں آئیں جہاں اب وہ مزے سے کوکیز کھانے میں مصروف تھا 

رکھو اسے عالی خبردار جو اسے ہاتھ لگایا دن با دن شرارتیں بڑھتی جارہی ہیں وہ بمشکل اپنے غصے کو دبائے بیٹھی تھیں 

اوو مما اب میں نے ایسا بھی تو کچھ نہیں کہا لوزی(فرح) نے کل میرا پینٹ کیک کھا لیا تھا تو اب میں اسے تھوڑی دیر کے لئے وہاں بند کر دیا مگر آپ نے تو سب اسپوئل کردیا۔۔۔

بس چپ یہ حرکت اب کی نا آپ نے عالی میں بورڈنگ اسکول بھیجنے میں لمحہ نہیں لگاؤں گی۔۔۔

جائیں اب وین آنے والی تیار ہو جاکر۔۔۔

اوکے فائن آپ مجھے کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔

اوکے ٹھیک اب فوراً جاؤ اور اپنی گل کو دیکھو اٹھی یا نہیں 

اوکے مما آئی سی ہر۔۔ بڑے پن سے کہتا وہ ایک کوکی اٹھائے جلدی سے وہاں سے غائب ہوا۔۔

اور اسکی اس حرکت پر وہ مسکرا دیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کھڑکی سے آتی روشنی صبح ہونے کا اعلان کر رہی تھی وہ کسلمندی سے اوندھے منہ بستر پر پڑی تھی شہد رنگوں آنکھوں نیند کی بدولت ہلکی سرخی مائل تھیں اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا 

وہی رنگ روپ، وہی آنکھیں وہی ہونٹ اور اس پر وہ ننھا تل۔۔

وہ وقت کے ساتھ مزید حسین ہوگئی تھی

اووو شٹ ناٹ اگین آج لیٹ ہوئی تو بڑا برا ہوجانا۔۔

اس نے ہڑبڑا کر بستر چھوڑا اور باتھ روم میں بھاگی تھی فریش ہوکر اس نے جلدی سے بالوں کو ڈرائیر کی مدد سے سکھایا اور کمر تک آتے بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیا 

گھٹنوں پر آتی لیمن فراک اور جینس اسٹولر کو مفلر کی طرح ڈالتے اس نے جلدی سے پنک گلوس لگایا اور بیگ اور نوٹس سنبھالتی نیچے بھاگی تھی

جہاں ڈائننگ روم میں آئمہ بیگم فرح اور عالی کو ناشتہ کروانے میں مصروف تھیں۔۔۔

اس نے نیچے آکر آئمہ بیگم سے پیار لیا اور باری باری ان دونوں کے گال چومے 

ہے للی یو آر اگین لیٹ🤨🤨

عالی نے ہاتھ سینے پر باندھ کر ایک آئی برق آچکا کر اسے دیکھا اور اس کے اس طرح کرنے پر وہ آنکھیں گھوما کر رہ گئی 

دیکھ رہی ہیں آپ کیسے دادا ابا کی طرح یہ مجھ سے بات کر رہا چھوٹے پیکٹ چھوٹے بن کر رہو اپنی بات کہتے اس نے مزے سے اس کے بال بگاڑے تھے۔۔

للی۔۔۔۔اتنی مشکل سے بنے بالوں کو یوں بگاڑتے دیکھ وہ چیخا تھا 

ہاہاہاہا سو سوئٹ للی یو آر گریٹ اینڈ ورلڈ بیسٹ سسٹر۔۔

فرح تو اسکے بال دیکھ کر ہی خوش ہوگئی تھی۔۔۔

اب بس کرو چلو جلدی سے فنش کرو انہوں نے گل کے سامنے آملیٹ رکھتے ہوئے ان دونوں کو کہا جو ایک دوسرے کو کینہ توز نظروں سے گھور رہے تھے

عجیب دماغ کے تھے دونوں کہنے کو ٹوئنز تھے مگر دونوں مشرق مغرب تھے

چلو دونوں اب۔۔ وین کی آواز سنتے ہی وہ ان دونوں کو لے کر باہر نکلی تھی مگر جاتے جاتے آئمہ بیگم کو پیار کرنا ہر گز نہیں بھولی تھی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ان تینوں کے جاتے ہی وہ سامان سمیٹ کر کمرے میں آگئی اور الماری سے البم نکال کر بیڈ پر بیٹھ گئی 

سامنے ان کی اور زارون کی شادی کی تصویر تھی کتنا خوبصورت تھا وہ وقت زندگی کتنی حسین تھی شادی کے ایک سال بعد فریحہ کی پیدائش پر وہ کتنے خوش تھے زندگی کتنی مکمل تھی مگر کچھ سال بعد مزید اولاد کی خبر نا ملنے پر وہ مایوس ہوئیں تو زارون نے انہیں سنبھالا تھا ان کے مطابق فریحہ ہی کافی تھی ان کے لئے اس میں ان دونوں کی جان بستی تھی 

انہوں نے اسے ہر سہولت میسر کی اسے ہر وہ چیز سیکھائی جو باحیثیت ایک لڑکی کو آنی چاہیے وہ چاہتے تھے ان کی بیٹی کمزور نا بنے بلکہ مقابلہ کرنے والی بنے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے تھے 

والدین یہ غلط کرتے ہیں کہ بیٹیوں کو وہ چیزیں نہیں سیکھاتے کو ان کا حق ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ کام لڑکوں کے کرنے کے ہیں انہوں نے چار سال کی عمر سے اس کی تربیت شروع کی تھی 

شادی کے تیرہ سال بعد انہیں دوبارہ خوش خبری ملی تھی زارون تو بے تحاشہ خوش تھے 

مگر وہ اندیشوں کا شکار تھیں مگر وقت شاید انکا نہیں تھا زارون کی موت نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا اگر بچوں کی فکر نا ہوتی تو شاید وہ آج زندہ نا ہوتیں۔۔

سب سے زیادہ فکر انہیں گل کی تھی جو اپنا دوست کھو کر آئی تھی مگر وہ تب حیران رہ گئیں جب اسے خود سے بڑی حرکتیں کرتے دیکھا وہ ان  کا جس طرح خیال رکھ رہی تھی اپنے بھائی بہنوں کو سنبھال رہی تھی وہ ششدر رہ گئی تھیں 

شاید وقت اور حالات آپ کو سب سیکھا دیتے حالات نے بھی اسے وقت سے پہلے سمجھدار کردیا تھا اور انہیں اسے دیکھ کر ہمت کرنی پڑی سنبھالنا پڑا خود کو۔۔

وہ مانچسٹر آگئی انہیں لے کر پرانی جاب پھر سے شروع کی افراز شاہ ہر قدم پر ان کا ساتھ دیتے ہر مہینے اچھی خاصی رقم ان کے اکاوئنٹ میں جمع کرواتے بچوں سے ملنے بھی آتے رہتے تھے انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ لوگ پاکستان شفٹ ہو جائیں مگر اتنی بری یادیں وابستہ تھی وہاں سے کہ ان کا دل ہی نہیں اٹھا وہاں جانے کا۔۔

زارون کی یاد آتی تو انہیں پڑھ کر بخش دیتی وہ حیرت زدہ تھیں تو گل کو لے کر جو بلکل ایسی ہوگئی تھی کہ ماضی کا کوئی حصہ اسے یاد نہیں تھا وہ ذکر تک نہیں کرتی تھی

ان کی بیٹی بہت بدل گئی تھی مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

 یونیورسٹی حسب معمول اسٹوڈنٹس سے بھری ہوئی تھی نئے سمسٹر اسٹارٹ ہوگئے تھے نئے اسٹوڈنٹس کی آمد جاری تھی جگہ جگہ سینئر اسٹوڈنٹ یوز می کا کارڈ لئے کھڑے تھے

وہ سب کو دیکھتی جلدی جلدی قدم بڑھا کر کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی سانس نے تحاشہ پھولا ہوا تھا تیز قدموں سے چلتی تو کبھی بھاگتی وہ بمشکل اپنے ڈپارٹمنٹ پہنچی تھی جہاں اس کے دوست کلاس کے باہر کھڑے تھے۔

لو آگئی محترمہ۔۔۔ سب سے پہلے جینی نے اسے دیکھا تھا 

اور اس کے کہنے پر باقی سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے 

اوو گاڈ۔۔ اسکا تنفس اچھا خاصا بگڑا ہوا تھا 

تم لوگ کلاس نہیں لگ رہے؟؟؟

پھولی سانسوں کو معمول پر لانے کے لئے وہ وہیں منڈیر پر ٹک گئی 

تم شاید بھول رہی ہو گل؟ نیو سیمسٹر اسٹارٹ ہے تو موسٹلی اسٹوڈنٹس وہاں بزی ہیں تو کلاس کینسل۔۔۔۔ اس بات جواب روزی کی جانب سے آیا تو وہ سر پیٹ کر رہ گئی 

اففف فضول میں پھر میں نے اتنی سپیڈ دیکھائی قسم سے پیٹ کے سائیڈ میں درد ہو رہا ہے۔۔

ہاں تو محترمہ آپ نے کبھی کوئی کام ڈھنگ سے کیا ہے چلو اب کینٹین چلتے ہیں 

اسکا تھرڈ سیمسٹر تھا اور یہاں اسکی دوستی بس جینی اور روزی سے تھی جینی دبئی سے یہاں پڑھنے آئی تھی جبکہ روزینہ انڈین مسلم تھی

اوکے بیگ واپس سے پہن کر وہ ان کے پیچھے چلی 

کینٹن میں بیٹھی وہ آتے جاتے ہنسی مذاق کرتے لوگوں کو دیکھنے میں مصروف تھی 

اے فریحہ واٹ ہیپنڈ؟؟ 

اہہ۔۔۔ نتھنگ جینی کے بلانے پر وہ جیسے ہوش میں آئی تھی

اینی پروبلم فریحہ؟؟ روزینہ کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گئی 

پھر پورا دن ان کا یونہی گیا تھا ان کے کچھ کلاس فیلو یوز میں کا بورڈ لئے کھڑے تھے تو وہ بھی ان میں شامل ہوگئی 

ویلکم پارٹی میں جانے کا ارادہ ہے؟؟ ساتھ چلتے وہ یونی سے باہر آرہے تھے جینی کے پوچھنے پر اس نے نفی میں گردن ہلا دی 

تمہیں پتا تو ہے مجھے نہیں پسند پارٹیز۔۔۔

اوو کم آن یار اتنی بورنگ روٹین میں کچھ مزے کا ہورہا ہے اور تم یوں منع کر رہی پلیز پلیز پلیز آجانا نا۔۔۔ روزی اسکی منت کرنے پر اتر آئی تھی

یار مجھے سچی میں نہیں پسند نا اور دوسرا مما کبھی یوں پرمیشن نہیں دینگی۔۔

بس اتنی سی بات آنٹی سے ہم بات کرلیں گے بس تم ہاں تو کرو۔جینی پرجوش ہوئی 

وہ ان کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی لیکن اپنے دل کا کیا کرتی 

اچھا کل بات کرتے نا اس پر بس آگئی ہے ۔۔

بس دیکھ وہ جلدی سے بولی تو دونوں اسے بائے بول گئی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

میں اکثر سوچتی ہوں زارون کے اللّٰہ کو ناجانے ہماری کون سی ایسی بات اچھی لگی کہ اس نے ہماری بیٹی کی حفاظت کی ہمارے بیٹی کے نصیب میں زلت نہیں آئے ان والدین کے اوپر کیا گزرتی ہوگی جن کی بیٹیوں کو گائیں بکریوں کی طرح بیچ دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے کونسا روپ ہے کہ انسان کا کہ انسان کی کھال میں بھیڑیے چھپے بیٹھے ہیں وہ کسی کو بھی تو نہیں چھوڑ رہے بچے کیا بچیاں کیا عورتیں اور ان سب سے زیادہ جانوروں کو بھی ایسے میں وہ خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی تھیں کہ ان کی بیٹی پر اللّٰہ نے کرم کیا تھا ورنہ تو معصوم کلیاں مرجھا جاتی ہیں انہیں مسل دیا جاتا ہے اور یہ انسان فرعون بن اپنی بربریت کا نشانہ ان معصوموں کو بناتے ہیں اور ان کے خلاف بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی سب پیسوں کے غلام اور طاقت کے نشے میں ہیں اور یہ لوگ جب ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں تو کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کے آگے دم بھی مار سکے اور بعد میں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے لفظوں سے لہو لہان کر دیتے ہیں اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ ہم پر عذاب کیوں آیا۔۔۔

اپنی سوچوں سے باہر فون کی آواز پر آئیں تھی چہرے کو صاف کئے انہوں نے فون دیکھا جہاں ان کے بھتیجے کی کال آرہی تھی انہوں نے مسکرا کر کال ریسیو کی تھی 

ہیلو ڈئیر کیسی ہیں آپ؟؟ دوسری طرف سے قاسم کی آواز پر مسکرا دیں 

میں بلکل ٹھیک آپ سنائیں آج پھپھو کی یاد کیسے آگئی؟؟ 

اوو کم آن پوپس میں آپ کو بھولتا کب ہو بس کچھ مصروفیات ہی ایسی ہیں آپ بتائیں پاکستان کب جارہی ہیں؟؟؟

تم فری کو جانتے تو ہو کتنی ضدی ہے میں ایک بات بھی بات کرونگی اس سے  تم لوگوں کا کیا ارادہ ہے؟

ارادہ تو آپ کو پاپا ہی بتا سکتے چلیں اپنا بہت سارا خیال رکھئے گا پھر بات ہوتی۔۔

قاسم ان کے کزن کا بیٹا تھا جو انہیں گل جتنا ہی عزیز تھا 

مسکرا کر انہوں نے فون رکھا اب اگلا لائحہ عمل ان کا گل کو پاکستان جانے کے لئے راضی کرنا تھا۔۔۔

مما مما آپ لوزی کو دیکھیں میرا بسکٹ نہیں دے رہی۔۔ 

یا اللہ ان لوگوں نے کبھی سکون کا سانس نہیں لینے دینا۔۔۔۔ 

فرح کیا کر رہی ہو بیٹا وہ جلدی سے باہر آئیں وہ دونوں ابھی اسکول سے آئے تھے اور اندر آئے بغیر ہی ان کی تکرار شروع ہوچکی تھی 

مما یہ جھوٹ بول رہا ہے میں نے نہیں لیا۔۔۔

بچاری فرح منمنائی تھی 

آئمہ بیگم نے تاسف سے ان دونوں کو دیکھا جن کی شرارتیں دن با دن بڑھتی جارہی تھیں اکیلے وہ نہیں سنبھال پا رہی تھیں ایسے میں زارون کی یاد بہت شدت سے ان پر حملہ آور ہوتی تھی

افراز صاحب تو چاہتے تھے وہ پاکستان آجائیں اور اب انہیں احساس ہورہا تھا کہ اکیلے وہ نہیں رہ سکتیں مگر یہاں فریحہ اپنی ضد پر تھی کہ وہ پاکستان نہیں جائے گی اس لئے حتی الامکان کوشش کرتی تھی کہ انہیں کوئی مسئلہ نا ہو

اہ۔۔ مما۔۔ فرح کی چیخ پر وہ واپس ان کی طرف متوجہ ہوئیں جہاں عالیان صاحب اس کے بال پکڑے کھڑے تھے 

کیا ہورہا ہے یہ عالی چھوڑو بال بہن کے یا میرے اللّٰہ۔۔۔۔

عالی چھوڑو وہ چیخی تھی اور عالیان کے ہاتھوں سے فرح کے بال چھوڑانا چاہے مگر وہ ضد کا پکا گرفت مزید سخت کر گیا 

نہیں چھوڑوں گا اسے بولیں میرے بسکٹ دے

عالی میں دوسرے دلا دوں گی چھوڑو بالوں کو۔۔۔

عالیان یہ کیا حرکت ہے چھوڑوں بال۔۔اپنے پیچھے گل کی آواز پر اسکی گرفت کمزور پڑی تھی جبکہ سسکتی فرح اس کے سینے سے لگی تھی 

یہ کیا حرکت تھی عالیان شاہ؟؟ یہ سیکھایا ہے میں نے تمہیں بولو؟؟؟؟ 

فرح کو ہٹائے وہ اب اسکا بازو دبوچے غصے سے غرا رہی تھی 

سوری گل۔۔

شٹ اپ۔۔۔ نہیں ہوں تمہاری گل میں نہیں ہوں تمہاری بہن کو مار لو اسے بھی تم بھی قاتل بن جاؤ 

گل بیٹا۔۔۔ آئمہ نے اسے آگے بڑھ کر سنبھالنا چاہا مگر وہ ہاتھ جھٹک گئی 

بتادیں انہیں کیسے ہمارے بابا کو مارا تھا ورنہ یہ بھی یہ درندہ بن جائے گا 

اپنا سامان وہی پٹختی وہ کمرے میں بند ہوئی تھی جب کہ آئمہ بیگم تو جیسے پتھرا گئی تھیں کیا سوچ رہی تھی وہ کس ذہنی اذیت میں تھی 

اپنی گل کو یوں پہلی بار دیکھ وہ دونوں بھی سہم گئے تھے۔۔

مما؟؟ 

جاؤ تم دونوں فوراً اپنے کمروں میں۔۔ ان کے لہجے میں عجیب سی سختی در آئی تھی

مجھے بات کرنی ہوگی اس مسئلے پر ایسے اگنور نہیں کرسکتی میں۔۔

کچھ سوچ کر وہ مطمئن ہوتی فون ملانے لگی تھیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شاہ حویلی پوری شان سے کھڑی تھی گزرے وقت نے بھلے ہی ظاہری طور پر اس حویلی پر اثر نہیں کیا تھا مگر اندر سے یہاں کے لوگ خستہ حال ہوگئے تھے

حرا طلاق لے کر گھر آگئی تھی تو کاشف شراب کی لت میں پڑ گیا تھا آئے دن اپنی بیوی سے جھگڑا اور کاشان وہ بچارہ تو اپنی بیوی کے ہاتھوں خوار تھا 

اپنی اولاد حالت پر سجیلہ بیگم کو اپنے کئے ظلم یاد آئے تھے 

مگر اب پچھتائے کیا ہوت کہ مصداق وہ بھی بس صبر کئے بیٹھی تھیں کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کی تو سکھی اپنی بیٹی بھی نہیں رہی تھی کجا کہ انہوں نے سب سے معافی مانگی تھی

آئمہ نے کھلے دل سے معاف تو کردیا تھا مگر اپنے گھر کی بربادی انہیں بھولتی ہی نہیں تھی سب کچھ تو انکا ہی کیا دھرا تھا نا وہ زارون پر چھوٹا الزام لگا کر فریحہ کو خون بہا میں دیتیں اور نا یہ سب ہوتا 

آخر کب تک ہمارا معاشرہ ان رسموں سے چھٹکارا پائے گا کب آخر کب حوا کی بیٹی کہ عزت و عظمت محفوظ ہوگئی لکھنا بولنا بہت آسان ہوتا ہے مگر عمل بہت مشکل۔۔

آئے دن کے واقعات ہر روز بنت حوا کی عزت لوٹی جاتی ہے ہر روز اسے پامال کیا جاتا ہے لوگوں کو یہ فسانہ لگتا ہے فحاشی لگتی ہے مگر اب بھی کم سن بچیوں کو ازدواجی حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں چاہے اس کے بعد وہ مرے یا جئیں یہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی قربانیاں ہوتی ہیں دلوں کا روحوں کا خون ہوتا ہے 

لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ایک ناسمجھ بچی کو نکاح میں دے کر کتنا غلط کر رہے بس دے دیتے مگر اگر اتفاق سے سامنے والا اس سے ہمدردی کرے تو بھی غلط اور اگر اسے روند دے تو بھی غلط۔۔۔۔

وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عزت محفوظ ہے لیکن ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ نکاح کا مفہوم بھول گئے ہیں پیدا ہوتے ہی لڑکیوں کے قدموں میں رشتوں کی زنجیر باندھ دیتے اور آگر وہ انکاری ہوتی ہے تو اسے زمین میں گاڑ دیتے ہیں آخر کب تک ہم ان فرسودہ نظام سے باہر نکلے گے کب ہم سمجھیں گے کہ یہ کیا غضب کر رہے ہیں 

یہ لوگ خدا کو بھول خود خدا بننے کی کوشش میں فرعون بن گئے ہیں کیسے ایک حوا کی بیٹی کی عزت روند ڈالتے ہیں ایسے جانوروں کے لئے ہر سزا ناکافی ہے مگر اب وقت تھا حالات کے بدلنے کا مگر اس کے لئے بھی مزید کوشش درکار تھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ماضی دردناک تھا بے حد دردناک سب نے اپنوں کو کھویا تھا مگر اس کی شروعات کہاں سے ہوئی اور کیوں ان روایات کو ہم توڑ نہیں سکتے۔

وہ گل کے زبردستی کے نکاح کو نہیں مانتی تھیں مگر سجیلہ کے مطابق اسے نکاح کے بارے میں بتا دیا گیا تھا وہ چھوٹی ضرور تھی مگر وہ ذہین تھی ہر چیز کو سمجھنے والی اور دوسرا ولیوں کی موجودگی میں نکاح ہوا تھا اس کی رضا شامل تھی مگر وہ مطمئن ہی نہیں تھیں پھر بھی وہ اس نام نہاد رشتے کو جڑ سے ہی ختم کرنا چاہتی تھیں تاکہ آگے چل کر گل کے لئے کوئی مسئلہ نا ہو ہر چیز وہ سوچ چکی تھیں بس عمل کرنے کے لئے صحیح وقت کی منتظر تھیں

گل باہر آؤ کھانا کھاؤ چندا۔۔

وہ دوسری بار اسے بلانے آئی تھیں مگر وہ تھی کہ دروازہ ہی کھول کے نہیں دے رہی تھی 

آپ وی آر سوری اب ہم نہیں لڑیں گے میں لوزی کو مارونگا بھی نہیں پلیز اوپن دا ڈور۔۔ عالیان نے کہتے ہوئے ماں کو دیکھا 

جو اسکے دیکھنے پر رخ پھیر  گئیں 

آئی سوئیر آپی میں اس کا بسکٹ بھی نہیں لونگی پلیز آپ آجاؤں نا باہر 

دیکھا آپی اس نے بسکٹ کھایا تھا عالیان نے کینہ توز نظروں سے فرح کو دیکھا جو بچاری سچ بول کر پھنس گئی تھیں 

آئمہ بیگم نے تنگ آکر سر کر ہاتھ مارا مطلب ابھی بھی اسے بسکٹ والی بات کی پڑی تھی 

مناؤ اکیلے تم دونوں کیونکہ ناراض بھی تم دونوں نے کیا ہے وہ صاف صاف بولتی وہاں سے ہٹ گئیں

مما۔۔۔۔ عالیان پریشان ہوا تھا 

آپی پلیز سوری نا پلیز سوری۔۔

اب نہیں کرینگے نا پلیز سوری۔۔وہ دونوں مسلسل دروازہ بجا کر اسے منا رہے تھے مگر اس نے تو جیسے آج نا ماننے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کمرے میں اندھیرا کئے وہ اوندھے منہ بستر پر پڑی تھی تھی پورا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا 

بات اتنی بڑی نہیں تھی مگر اسے لگی وہ چاہتی تھی کہ اسکا بھائی فرح کے لئے گھنیرا سایہ ہو جیسے اس کے لئے بابا تھے مگر وہ جس طرح لڑ رہے تھے اسے بہت دکھ ہوا وہ سات سال کے بچوں سے سمجھداری کی امید لگا بیٹھی تھی 

اپنا وقت وہ چاہ کر بھی بھول نہیں پائی تھی وہ کچھ نہیں بھول سکی تھی اسے یاد تھا جب کچھ آدمیوں نے اس پر حملہ کیا تھا کیا ہوتا اگر وہ مقابلہ نا کرتی اسکی عزت بھی داغدار ہوچکی ہوتی وہ اپنے بہن بھائیوں کو مضبوط بنانا چاہتی تھی جیسے وہ تھی مگر آج انہیں یوں لڑتے دیکھ ناجانے کیوں ماضی ایک بار پھر پوری جزائیت کے ساتھ آنکھوں کے پردے پر آگیا تھا

بہتے آنسوؤں میں کیا کچھ نہیں تھا جتنا وقت لگتا ہے سنبھلنے میں یہ کوئی اس سے پوچھتا،لوگ تو فیصلے کرلیتے ہیں مگر جس پر گزرتی ہے وہی جان سکتا ہے کہ تکلیف سہنا کسے کہتے ہیں لوگوں کے الفاظ آپ کو دلاسہ دے سکتے ہیں زخم نہیں بھر سکتے۔۔

باہر سے آتی آوازوں پر وہ آنسوؤں پونچھتی خود کو مضبوط کرتی اٹھ کر واشروم میں بند ہوگئی تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو خود کو بے حد مضبوط کئے ہوئے تھی دروازہ کھولا تو وہ دونوں اسی کے منتظر تھے اسے دیکھتے فوراً اس سے لپٹے تھے 

اب کیوں پیار دیکھا رہے لڑو نا اب۔۔۔۔

منہ بنا کر کہتی وہ ان دونوں کو ہٹا کر نیچے اتر گئی

یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے عالی۔۔

کیوں میں نے تمہارا بسکٹ کھایا تھا ؟؟ماتھے کر بل ڈالے اس نے فرح کو گھورا

ہاں تو میں بھی تو اتنا کچھ کھلاتی ہوں ایک بسکٹ پر تم نے بھی تو مجھے مارا۔۔

اپنی مار یاد آتے ہی وہ بچاری روہانسی ہوئی تھی

اچھا سوری دیکھو کان پکڑ کر سوری 

اٹس اوکے کے سوری ٹو۔۔۔

وہ دونوں اب کھڑے ایک دوسرے سے معافی تلافی کر رہے تھے کیونکہ ان کی جان سے پیاری بہن ان سے ناراض تھی اور وہ تبھی مانتی جب وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست بنتے ..

اس لئے اچھے دوستوں کی طرح دونوں ہاتھوں میں ہاتھ تھامے نیچے آئے تاکہ اسے منع سکیں جو نیچے کچن میں نا جانے کیا کرنے میں مصروف تھی انہیں آتا دیکھ منہ پھیر گئی 

للی سوری نا پلیز اب تو ہم فرینڈ بن گئے نا اب تو سوری بھی کرلی نا۔۔۔

فرح کے یوں آنکھیں پٹپٹانے پر وہ رخ پھیر کر مسکرا دی 

للی آئی لو یو نا پلیز سوری۔۔۔

اوکے ایک شرط پر معاف کرونگی۔۔

کونسی۔۔ وہ دونوں بے تابی سے بولے تھے 

اب اگر فائیٹ کی تو میں ساری زندگی بات نہیں کرونگی کرو پرامس نہیں لڑو گے۔۔

اوکے ڈن ڈن خوشی سے کہتے ہی وہ اس نے گلے لگے تھے تو اس نے بھی ان دونوں کو خود میں بھینچ لیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀چاروں طرف سے ہونے والی فائرنگ شدت اختیار کرگئی پولیس فورس الرٹ ہوکر اپنے ہدف کو نشانہ بنا رہی تھی 

اندرون سندھ ڈاکوؤں کے اڈے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور بالآخر دو گھنٹے کے محاصرے کے بعد وہ لوگ کامیاب ہوئے تھے

اللّٰہ اکبر کی صدا لگاتے سارے اہلکار اپنے لیڈر سمیت واپسی کے لئے آگے بڑھے تھے جہاں سول سوٹ میں وہ کھڑا تھا بلیک پینٹ شرٹ اس پر پہنی ہڈی اور چہرے پر رومال جس سے اسکا چہرہ چھپ گیا تھا البتہ کائی رنگ آنکھیں واضح تھیں جن میں سے چھلکتی وحشت سامنے والے کو خوفزدہ کردے

مبارک ہو سر آپ کا پلین سکسیس فل رہا۔۔۔ سامنے موجود لیڈر نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے یوں اگنور کیا جیسے دیکھا ہی نا ہو 

اگلی بار تھوڑا دماغ کا استمعال بھی کرنا ورنہ جان کے لالے پڑ سکتے ہیں انسپکٹر۔۔۔

سوری سر بس کچھ۔۔۔

ہماری فیلڈ میں میں سوری کی گنجائش نہیں ایک لمحہ میں گولی اسے چیر کر رکھ دیتی ہے اس نے انگلی سے اس کے دل پر کراس کا نشان لگایا

آئیندہ ایسی غلطی پر وہ نہیں تو میں ضرور یہ کام انجام دے دونگا کرخت لہجے میں کہتا وہ پلٹ کر اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا 

جب کے اس کے جاتے ہی انسپکٹر نے سب کو غصے سے جانے کا حکم دیا تھا 

سمجھتا کیا ہیں یہ خود کو۔۔۔وہ بس بڑبڑا کر رہ گیا رونہ اسکا کیا بھروسہ کہیں سے بھی نمودار ہوسکتا تھا۔۔۔

کیا وہاں مراقبے میں چلے گئے تھے؟؟ انسپکٹر کو سب سے آخر میں آتا دیکھ وہ طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا 

آپ گئے نہیں سر؟؟؟ 

جب آپ جیسے سمجھدار لوگوں میرے انڈر کام کرینگے میں کیسے پرواہ ہوسکتا ہوں جانتے ہیں نا چیزیں کبھی بھی بگڑ سکتی ہیں تو برائے مہربانی اپنی عقل کا استعمال شروع کردیں ورنہ رکھے رکھے زنگ لگ جائے گا۔۔۔

اور آپ سب۔۔ وہ اپنے باقی ساتھیوں سے مخاطب تھا جو ایک دم الرٹ ہوئے تھےہنسنے کے لئے اچھی سی کامیڈی فلم دیکھ لینا۔۔ اس کی بات پر وہ سب سٹپٹا گئے تھے کیونکہ اپنے سینئر کا چہرہ دیکھ ان کے دانت ہی اندر نہیں جارہے تھے۔۔

خانہ خراب بڑبڑا کر کہتا وہ ان سے آگے نکل گیا۔۔۔۔

شام کے سائے گھیرے ہو چلے تھے راستے میں ہی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تھیں جسکا مطلب تھا آج کراچی کے لوگوں کو دل کھول کر بارش انجوائے کرنے کا موقع ملے گا 

گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا جو اس وقت رات کے آٹھ بجا رہی تھی اور ابھی بھی اسے پہنچنے میں گھنٹا لگ جانا تھا موسم کے تیور دیکھتے اس نے اپنی اسپیڈ تیز کی تھی کائی رنگ آنکھوں میں گھری سنجیدگی تھی ہونٹ آپس میں پیوست تھے بڑھی ہوئی شیو جس میں تل تو کہیں چھپ سا گیا تھا ماتھے پر پڑے بے تحاشہ بل۔۔

وہ اس سنجیدگی کے ساتھ میں اس بے حد خوابناک رات کا ہی حصہ لگ رہا تھا۔۔۔

اپارٹمنٹ کے باہر گاڑی روکتے اس نے واچ مین کو جیپ کی چابی تھمائی اور خود اندر کی طرف بڑھا پورا اپارٹمنٹ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مگر کچھ تھا جو اسے کھٹک رہا تھا مخصوص مہک اور آہٹ وہ بس سر ہلا کر رہ گیا 

باہر آجاؤ شیر یہ کیا بچپنا ہے۔۔۔

اس کی آواز پورے اپارٹمنٹ میں گونجی تھی تبھی ایک دم کوئی پیچھے سے اس سے لپٹا تھا 

ہیپی برتھ ڈے لالہ۔۔۔۔

شکریہ میری جان۔۔۔ حیدر نے اسکا ہاتھ تھپک کر اسے آگے کیا تو وہ واپس اس سے لپٹ گیا 

بہت یاد کیا آپ کو ٹھیک نہیں کیا آپ نے مجھے وہاں چھوڑ کر میں نہیں رہ سکتا آپ کے بغیر۔۔۔

اچھا بس بہت ہوگیا یہ ڈرامہ چھوڑو اب مجھے۔۔

اسے خود سے الگ کر کے حیدر نے آگے بڑھ کر لائٹس آن کی تو احساس ہوا پورا کمرہ غباروں سے سجا تھا 

نا چاہتے ہوئے وہ شیر کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا گال میں پڑنے والا گڑھا ہلکا سا نمودار ہوا تھا اور چھلک دکھلا کر ایسے غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔۔۔

آج کا آپ کا مشن کیسے رہا؟؟ 

بہترین۔۔۔

پھر بھی آپ نے اس بچارے انسپکٹر کہ چھترول کردی ویری بیڈ۔۔۔

اچھا اچھا آپ فریش ہوکر آئیں کھانا لگاتا میں۔۔۔حیدر کی گھوری پر وہ فوراً لائن پر آیا تھا 

وہ فریش ہوکر باہر آیا تو پورے اپارٹمنٹ میں اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی 

ڈائننگ ٹیبل پر اسکی پسند کی ساری چیزیں موجود تھی ایسے میں اسے شیر پر دل کھول کر پیار آتا تھا

کھانے کے دوران وہ دونوں چھوٹی موٹی باتیں کرتے رہے تھے 

اسے باہر کا بول شیر خود کافی بنانے کچن میں گھس گیا 

باہر آیا تو وہ باہر کی جانب موجود بالکونی میں پڑی کرسی پر بیٹھا آسمان کو دیکھ رہا تھا جہاں سے برستے ننھے بارش کے قطرے اس کے حسین چہرے کو بھگو رہے تھے

لالہ کافی۔۔۔

شکریہ۔۔۔

کافی دیر خاموشی کے بعد شیر نے ہی بات کا آغاز کیا تھا 

آپ زارون شاہ کے کیس کو دوبارہ کھول رہے ہیں لالہ؟؟؟

ہاں۔۔۔ایک لفظی جواب

شیر کی بات پر وہ چونکا نہیں تھا جانتا تھا وہ اس پر نظر رکھتا ہے اس سے غافل نہیں ہے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کچھ تو ہے جو شیر اس سے چھپائے بیٹھا ہے مگر اس نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جانتا تھا وقت آنے پر وہ خود اسے سب بتادے گا۔۔

کیوں لالہ آخر گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ؟؟ 

مجھے سچ جاننے کا حق ہے یہ بات ہم دونوں جانتے ہیں زارون شاہ کی موت کے پیچھے آغا جان کا ہاتھ نہیں تھا اور دلاور شاہ انہیں تو سرے سے کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا کوئی اور ہے شیر جو اس کھیل میں شامل ہے ابھی ایک گتھی ہے کو سلجھنی باقی ہے 

کیا کریں گے سلجھا کر جو گزر گیا اسے بس بھول کر آگے بڑھیں 

آگے بڑھوں ہونہہ۔۔۔ آگے بڑھنے کے لئے میرے پاس اب کوئی وجہ نہیں۔۔

وجہ ہے تو گ۔۔۔

اسکا نام بھی مت لینا میں سب بھول گیا ہوں 

تو آزاد کردیں انہیں تاکہ وہ کھول کر سانس لے سکیں 

چھوڑ دونگا جب بنا کسی کے دباؤ میں آئے خود مجھ سے آزادی چاہے گی حیدر خان لمحہ نہیں لگائے گا اسے آزاد کرنے میں۔۔۔

کیا کچھ نہیں تھا حیدر خان کے لہجے میں مگر وہ پتھر بن گیا تھا وہ خول کو کسی نے اپنی دوستی اور احساس سے توڑا تھا وہ واپس سے جڑ کر بہت مضبوط ہوگیا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آنٹی پلیز اسے ہمارے ساتھ ویلکم پارٹی میں آنے دیں پلیز۔۔

جینی اور روزی اس وقت آئمہ سے مخاطب تھیں جبکہ وہ ان دونوں کو دیکھ کر پیج و تاب کھا رہی تھی اپنے تئیں اس نے منع کردیا تھا مگر یہ دونوں ڈھیٹ ۔۔۔

چلی جاؤ گل بیٹا اتنا فورس کر رہی ہیں یہ تو۔۔

یے بس آپ کی پرمیشن مل گئی اب تو یہ لازمی جائے گی تھینک یو آنٹی وہ دونوں ایک دم ہی ان پر جھپٹی تھیں 

بس کردو مارو گی کیا مما کو ان کو یوں گلے لگے دیکھ اس نے ان کو الگ کیا تھا

تمہیں کیا ہوا میڈم؟؟ جینی کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گئی 

بیٹھو تم دونوں میں تم لوگوں کی بھوک مٹانے کے لئے لاتی کچھ 

جیو پیاری دوست۔۔۔

اپنے پیچھے ان کی ہانک سنائی دی تو مسکرا دی

اور پھر اسکا پورا سنڈے ان دونوں کی نظر ہوا تھا رات تک وہ اتنا تھک چکی تھی کہ گھر آتے ہی بستر پر ڈھے سی گئی آنکھیں موندے وہ لیٹی تھی کہ اسے اپنے سر میں کچھ چلتا سا محسوس ہوا

کسی کی یاد اچانک آئی تھی کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھی تو سرہانے پر عالی کو بیٹھا پایا جو اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے سر میں مالش کر رہا تھا

عالی میری جان آپ سوئے کیوں نہیں ؟؟ اسے گود میں بھرتی وہ اسکے گال پر پیار کرنے لگی 

بابا کی یاد آرہی ہے للی پتا نہیں وہ کہاں ہونگے مجھے دیکھ بھی رہے ہونگے یا نہیں۔۔

عالی کے لہجے پر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا 

کیسے ظالموں نے ان کا باپ ان سے چھین لیا تھا زرا معصوموں پر رحم نہیں کھاتے یہ درندے ان کو بس اپنی جیت کی پڑی ہوتی ہے اسے تو پھر بھی اتنا عرصہ باپ کی شفقت و محبت ملی تھی مگر عالی اور فرح وہ تو خالی ہاتھ تھے وہ ان کے لئے انکا باپ بننے کی پوری کوشش کرتی تھی مگر کسی کمزور لمحے میں وہ بھی اداس ہو جاتے ہے جب اسکول میں سب کے بابا آتے تھے مگر ان کے نہیں ۔۔۔۔

عالی میری جان بابا ہم سے بہت پیار کرتے تھے مگر ان کو اللّٰہ کے پاس جانا تھا مگر وہ سب دیکھ رہے ہیں وہ آپ کو ایسے اداس دیکھیں گے تو ان کو برا لگے گا نا میرا بیٹا آپ میری جان رونا نہیں پلیز اس نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے ماتھے پر پیار کیا تو وہ مسکراتا اسکے سینے پر سر رکھ گیا تو اسنے اس پر اپنی گرفت تنگ کردی

حویلی والوں سے نفرت میں پھر اضافہ ہوا تھا۔۔

للی پلیز اسٹوری سنائیں نا۔۔۔

مجھے بھی آپ مجھے تو پیار ہی نہیں کرتی نا۔۔۔دروازے پر کھڑی فرح کی آواز پر اس نے مسکرا کر بازو وا کیا تو وہ فوراً آکر اسکے بازؤں میں سمائی

جان ہو دونوں میری بس مما کو تنگ نہیں کیا کرو۔۔۔اس نے پیار سے انکو سمجھایا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ویلکم پارٹی کے لئے اس نے ویسٹرن لک ہی رکھا تھا مگر ہر طرح سے ڈریسنگ کا خیال رکھا تھا ویلکم پارٹی پارٹی کے بعد ان کی ٹف روٹین اسٹارٹ ہوئی تھی اسائمنٹ ٹیسٹ وہ کرائم ڈپارٹمنٹ میں تھی اسکا مقصد کرائم رپورٹر بننا تھا جس کے لئے اسکا جنون کی الگ تھا 

جینی اور روزی تو اسکا پاگل پن دیکھ کر ہنستی تھیں جو ہر ٹاسک مستعدی سے کرتی تھی اور آج بھی وہ لوگ پاس پولیس اسٹیشن آئے تھے جہاں سے کچھ کو اپنے اسائمنٹ کے لئے کچھ پوائنٹس چاہیے تھے

بیٹا اتنی محنت نا کرو کرنی تم نے شادی ہی ہے اور شادی کے بعد کھانا پکانا۔۔۔

جینی کی بات پر نوٹ بک پر اسکے چلتے ہاتھ رکے تھے

فضول بولنا کب بند کروگی ایسا کبھی نہیں ہوگا ویسے بھی سیمسٹر کا اینڈ ہے اس کے بعد ہم اپنی منزل کے بلکل قریب آجائیں گے سو بی ریڈی

ان کو بولتی وہ لائبریری میں چلے گئی ارادے بلند ہو تو منزلیں خودبخود آسان ہوجاتی ہیں اور وہ بھی پوری لگن سے اپنے بابا کا خواب پورا کرنے میں مصروف تھی اب اسے کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا کوئی کیا سوچتا ہے اور کیا نہیں اب وہ اپنا مقصد پورا کر کے سے پاکستان جانا چاہتی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اپنے کیبن میں بیٹھے فائل چیک کرنے میں مصروف تھا تبھی موبائل پر بنتی بیل نے اسے متوجہ کیا تھا 

پرائیوٹ نمبر سے کال تھی اس نے بس لمحے کو سوچا اور  کال ریسیو کی

خیریت آج مجھے کیسے کال کی؟؟؟

کیوں نہیں کر سکتا؟؟ 

بلکل کرسکتے ہو مگر یہ پرائیوٹ نمبر کی کیا کہانی ہے عائش؟؟

ہاہاہاہا ویسے میں آپ کو کتنے بھی نمبر بدل کر کال کرلوں آپ سے نہیں جیت سکتا۔۔

بلکل وہ اس لئے کیونکہ تم ابھی بھی مجھ سے چھوٹے ہو

بولو کیوں کال کی ہے؟

کچھ بتانے کے لئے کال کی ہے آپ کے مطلب کی بات ہے۔۔

اب یہاں میرے مطلب کا صرف میرا کام ہے عائش۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا

جانتا ہوں مگر وہ یہاں مانچسٹر میں ہے میری یونی میں۔۔

نوٹ پیڈ پر اس کے ہاتھ ایک دم رکے تھے 

تم اس سے دور رہنا عائش۔۔۔

یعنی آپ کو پتا تھا پہلے سے وہ کہاں ہے رائٹ؟؟؟ 

کیا فرق پڑتا ہے اس سے عائش؟؟؟

وہ اپنے بابا کے قاتل کو سزا دینے کے لئے…

چھوڑ دو عائش میں دیکھ لونگا سب۔۔ اس نے عائش کی بات کاٹی تو وہ چپ رہ گیا۔۔۔

ٹھیک ہے لالہ پھر میں رکھتا ہوں فون اپنا بہت خیال رکھئے گا 

فون بند کر نے اسنے اپنا سر ڈیسک پر ٹکا دیا 

کیا زندگی ہوگئی تھی سنہری حویلی والوں میں سے خاور شہر شفٹ ہوگئے تھے اس کے اپنے ماں باپ اور رومیسہ کے ماں باپ بس حویلی میں باقی تھے عائش اور داؤد باہر ملک ہوتے تھے جبکہ ازمیر اسلام آباد اپنے کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ تھا آغا جان کا رویہ ان کی آنا انکا غرور مگر اسے پرواہ تھی بھی نہیں وہ بہت عرصہ ہوا ان سے قطع تعلق کر کا تھا اسے اب ان سے کوئی غرض نہیں تھی 

غرض تھی تو اپنے کام سے اور اب اسے معلوم کروانا تھا کہ زارون شاہ کو اس کے ٹھکانے کا کیسے علم ہوا ایک سرا ابھی بھی الجھا ہوا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀میں بہت پریشان ہوں روہاب میں اسے زندگی میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہوں مگر میں جانتی ہوں ابھی بھی کہیں ماضی میں پھنسی ہوئی ہے۔

وہ آج روہاب صاحب کے سامنے اپنی تکلیف بیان کر رہی تھیں

آئمہ اس سب کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے گل کی شادی اور تم میری خواہش سے بھی لاعلم نہیں ہو۔۔

مگر وہ نہیں مانے گی۔۔

اسے ماننا پڑے گا تم ماں ہو اس سے کچھ بھی منوا سکتی ہو۔۔

مگر اسکا نکاح۔۔

اوو گاڈ آئمہ کا دنیا میں رہ رہی ہو ایسے نکاح کی کوئی اہمیت نہیں سب تم ہمیں تاریخ دو ہم اپنی بیٹی کو قاسم کے نام کردیں گے 

اور وہ نا مانے تو تم اسکی ماں ہو حق رکھتی ہو اسکی زندگی کا فیصلہ کرنے کا تو پریشان مت ہو صاف صاف بات کرو میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہو۔۔

تھینک یو روہاب میں آج ہی اس سے بات کرکے تمہیں بتاتی ہوں ویسے تو اسکی پڑھائی بھی ختم ہونے والی ہے تو ہمیں مزید دیر نہیں کرنی چاہئے۔۔

ان کے لہجے میں عزم تھا کہ اب وہ نہیں رکے گی یہ جانے بغیر کہ ان کا یہ فیصلہ ان کی بیٹی کو ان سے دور کر سکتا ہے۔۔۔

آج سنڈے کا دن بہت مصروفیات لئے ہوئے تھا عالیان اور فرح کو قاسم اپنے ساتھ لے گیا تھا

وہ بھی اپنے بک شیلف ٹھیک کر رہی تھی تبھی آئمہ اس کے پاس آئیں 

کیا کر رہی ہو گل؟؟

کچھ نہیں مما بس یہ شیلف بہت بے ترتیب ہوگیا تھا تو اسے ہی ٹھیک کر رہی تھی آپ آئیں نا۔۔

ہمم وہ اندر آکر بیڈ پر بیٹھ گئی اور ایک نظر اسے دیکھا

کالی گھٹنوں تک آتی فراک،کمر تک آتے بالوں کو جوڑے میں قید کیا ہوا تھا گھنیری مڑی پلکیں شہد رنگ آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے تھیں وہ بے حد خوبصورت تھی 

انہوں نے نظروں نظروں میں اس کی بلائیں لی تھیں 

کیا ہوا مما ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں؟؟ انہیں یوں خود کو تکتا پاکر وہ کنفیوژ سی ہوئی تھی

کچھ نہیں بس دیکھ رہی ہوں میری بچی کتنی بڑی ہوگئی ہے۔۔

لیں وہ تو سب ہی بڑے ہوتے ہیں ہمیشہ چھوٹے تھوڑی رہتے ہیں

اس نے مسکرا کر کہا تو انہوں نے سر ہلایا 

بلکل ہمیشہ پرانے جیسے نہیں رہتے نئی چیزوں کو ایکسیپٹ کرنا پڑتا ہے 

کیا مطلب میں سمجھی نہیں مما؟؟ ان کی بات پر وہ اچنھبے کا شکار ہوئی تھی

بیٹا زندگی بہت قیمتی بار بار نہیں ملتی کیوں اسے یوں ضائع کر رہی ہو؟

آپ سے کس نے کہا مما میں زندگی کو ضائع کررہی مما میں بابا کا ڈریم پورا کر رہی ہوں 

ہاں مگر اپنے ساتھ تو غلط کر رہی ہو نا بھول جاؤ ماضی میں جو کچھ ہوا اپنے حال اور مستقبل کا سوچوں میری جان زندگی یوں ہی نہیں گزاری جاتی۔۔

مما آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔۔وہ جان کر بھی انجان بنی تھی

اپنے لئے فیصلہ لو اب وقت آگیا ہے آگے بڑھنے کا۔۔۔

مطلب؟؟؟؟

روہاب نے قاسم کا رشتہ دیا ہے تمہارے لئے تم سوچ لو ابھی طرح پھر اچھے سے سوچ کر مجھے جواب دے دینا۔۔۔۔

کیا آپ جانتی نہیں ہے سب جو یہ فضول بات کررہی ہیں۔۔۔

وہ ناچاہتے ہوئے بھی چٹخی تھی۔۔

تو کب تک اس نام نہاد رشتے کو نبھاؤ گی گل ختم کرو یا اپناؤ۔۔۔۔

آپ چاہتی ہیں میں اپنے باپ کے قاتل کو اپنا شوہر تسلیم کرلوں؟؟؟؟؟ اسے قاتل بولتے ہوئے اسکا دل ہزار بار مرا تھا آنکھوں میں مرچیں سی بھر گئی تھیں

آپ چاہتی ہیں میں آپ کے شوہر کے قاتل کو اپناؤں؟؟ اس کے لہجے میں عجیب سی چبھن تھی آئمہ بیگم نے نظریں پھیری تھیں 

تو الگ ہو جاؤ اس سے۔۔۔۔

ایسے کیسے الگ ہوجاؤں مما۔۔۔۔ یہ سب اتنا آسان ہے؟؟

تو کیا کروگی چھوڑنا پڑے گا تمہیں اسے

میں نہیں چھوڑ سکتی جیسے میں اپنے باپ کے لئے پل پل تڑپ رہی ہوں اسے بھی میرے لئے تڑپنا ہوگا۔۔۔

کیا گارنٹی ہے کہ وہ بھی تڑپتا ہوگا؟؟؟ اس کے روبرو آئے اس کے حسین مگر غمزدہ چہرے کو دیکھ انہوں نے استفسار کیا تھا۔۔۔

اتنا تو یقین ہے اور محبت جب سامنے نا ہو تو انسان مر جاتا ہے میں بھی جیتے جی اسے مارنا چاہتی ہوں

تو اسکا آسان حل یہ ہے اس سے علیحدگی اختیار کرو جب تمہارے نام کے ساتھ کسی اور کا نام جڑے کا تو وہ خود ہی تڑپے گا.. 

ان کے مشورے پر اس کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔۔۔

میں آپ کو سوچ کر بتاؤ گی۔۔ انہیں بولتے ہوئے اسکا لہجہ ہر طرح کے احساس سے عاری تھا 

ٹھیک ہے ٹائم لو مگر جلدی اپنا فیصلہ بتانا میری جان۔۔

آپ فکر نہیں کریں زیادہ ٹائم نہیں لونگی اس نے انہیں تسلی دی 

ان کے کمرے سے جاتے ہی وہ کھل کر مسکرائی تھی اس کے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا تھا یہ تو وہی جانتی تھی مگر چہرے پر آئی مسکراہٹ کچھ الگ ہی رنگ لئے ہوئے تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آپ کو کیا لگتا ہے انسپکٹر سجاد کے میں پاگل ہوں یا آنکھیں نہیں ہیں میری؟؟؟؟ 

بولیئے گدھا سمجھتے ہیں مجھے۔۔ اس نے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا تھا

نو سر میں ایسا نہیں سمجھتا

تو پھر کیا سوچ کر آپ نے اس آدمی سے مفت میں سامان لیا؟؟

جی۔۔ اب کے پریشان ہونے کی باتیں سجاد کی تھی 

صرف آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہمارا محکمہ بدنام ہے کو اچھے ہیں وہ بھی آپ جیسوں کی وجہ سے برے سمجھے جاتے ہیں کس حق سے آپ نے اس غریب گوشت والے سے مفت میں گوشت لیا آپ کی ہمت کیسے ہوئی اپنی وردی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی جواب دیں مجھے۔۔ وہ ان پر چلایا تھا 

آئم سو سوری سر۔۔۔۔

سوری کیا کہا تھا میں نے میرے لئے سوری کی کوئی اہمیت نہیں آپ ابھی اس آدمی کو پیسیے دینگے وہ بھی ڈبل۔۔زبیر۔۔

اب وہ کانسٹیبل کو آواز دے رہا تھا جو جن کی طرح حاضر ہوا تھا 

یس سر۔۔۔

سجاد صاحب کو لے کر جاؤ اور پیسے اس آدمی کو اپنی نظروں کے سامنے دلواؤں۔۔

اوکے سر۔۔ اس نے فرمانبرداری سے کہا اور سلوٹ کرتا سجاد صاحب کے ساتھ باہر نکل گیا 

خانہ خراب….

ان لوگوں نے ہی سب برباد کیا ہے اور بنتے ایسے ہیں جیسے معصوم۔۔۔۔اس کا غصہ کم ہی نہیں ہورہا تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

میں قاسم سے شادی کے لئے تیار ہو۔۔۔

وہ اس وقت ان کے کمرے میں کھڑی اپنا فیصلہ سنا رہی تھی انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا 

سچ میں گل۔۔۔؟؟؟ انہیں جیسے یقین نہیں آیا تھا

جی مگر میری ایک شرط ہے۔۔ 

کیا مطلب کیسی شرط؟؟ خوشی پریشانی میں بدلی تھی 

میں پاکستان جاکر سب سے پہلے خلع لونگی پھر۔۔

اور ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں کہاں تو وہ پاکستان جانے کے نام سے چڑتی تھی اور کہاں اب خود جانا۔۔

پر فریحہ۔۔۔

مما اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں قاسم سے رشتہ جوڑوں تو مجھے وہاں جاکر ماضی میں جڑے سارے رشتے ختم کرنے دیں اور وہاں جاکر سب سے پہلے میرے اور قاسم نے رشتے کی بات وہاں کرینگی آپ۔۔۔

کیا چاہتی ہو گل تم آخر کیا کرنا چاہتی ہو؟؟ وہ اس کے اس رویے سے ڈر گئی تھیں

وقت آنے دیں مما ویسے بھی مجھے اپنی پریکٹس کے لئے کرائم رپورٹنگ کرنی ہے تو شروعات وہاں سے ہی کرتے ہیں 

باقی میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا شرط منظور ہو تو بتا دیجئے گا ورنہ اس طرح رہنے میں زیادہ سکون ہے

اور ویسے آپ بھی تو مجھے پاکستان لے کر جانا تھا تو اب میں راضی ہوں

اپنی بات کہہ کر وہ رکی نہیں تھی 

جبکہ انہوں نے پریشانی سے روہاب کو فون کر کے ساری بات بتائی تھی

ٹھیک ہے مگر کوئی مسئلہ ہوا تو؟؟؟ 

کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور ویسے بھی ایک نا ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا تو اب سہی روہاب کی تسلی پر وہ رضامند ہوئی تھی اگلی صبح انہوں نے اسکی شرط مانے کی منظوری دے دی تھی 

اب بس انہیں اپنے ویزے کا انتظار تھا افراز صاحب کو ان لوگوں نے اپنے آنے کا بتایا تھا مگر ان لوگوں نے کراچی میں رہنے کو ہی ترجیح دی تھی جس پر انہوں نے اعتراض کیا تھا مگر وہ اپنی ضد پر اڑی رہیں وہ کسی قسم کا رسک لینے کو تیار ہی نہیں تھیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اور پھر ہوا یوں کے ٹھیک سات سال بعد وہ واپس آئی تھی نئے رنگ و روپ کے ساتھ۔۔

ائیرپورٹ سے باہر آتے ہی کتنی تلخ یادوں نے اسکو گھیرا تھا مگر گہرا سانس بھرتی وہ سوہنی دھرتی کی خوشبو کو خود میں جذب کر گئی عجیب سا سکون ملا تھا اسے۔۔

ڈرائیور کے گاڑی میں سامان رکھنے پر وہ گاڑی میں بیٹھی تھی عالیان اور فرح تو اتنا تھک گئے تھے کہ اب گہری نیند میں جانے کی تیاریوں میں تھے

اس نے مسکرا کر انہیں دیکھا اور باہر نے نظاروں میں گم ہوگئی سات سال کا طویل عرصہ بھی اس شہر کی گہما گہمی پر اثر انداز نے ہوا تھا 

سات بجے کے قریب وہ چھوٹی حویلی پہنچے تھے۔۔

نجمہ خاتون نے انکا استقبال کیا تھا وہ یہاں کی کئیر ٹیکر تھی جو یہی انکیسی میں رہتی تھیں 

آپ لوگ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں 

ان کے کہنے پر وہ لوگ فریش ہوکر ڈائننگ روم میں آگئے پھر نجمہ خاتون سے تھوڑی دیر گپ شپ کے بات وہ سیدھا آئمہ بیگم کے روم میں آئی تھی 

آپ نے روہاب انکل سے بات کی؟؟؟

اتنی جلدی کیا ہے گل ابھی تو ہم آئے ہیں تھوڑا ریسٹ تو کرلو 

اتنے ٹائم سے وہی کر رہی تھی مما بٹ ناؤ اٹس ٹائم ٹو ڈو سمتھنگ۔۔

پر۔۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ بیچ میں ہی انہیں روک گئی 

کوئی پر ور نہیں کوشش کریں کہ کل تک آپ ان سے بات کرلیں ورنہ میں خود کرلونگی انہوں نے پرامس کیا تھا مجھ سے۔۔

ٹھیک ہے تم آرام کرو میں بات کرتی ہوں اس سے 

ان نے تسلی دینے پر وہ اپنے کمرے میں آئی تھی جس کی بالکونی سے کھڑے ہوکر اس نے سامنے دیکھا جہاں تاحد نگاہ روشنیاں بکھری ہوئی تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا دل کو سکوں بخش رہی تھی۔ 

اس نے مسکرا کر موبائل پر ایک ٹیکسٹ کیا اور پھر سامنے متوجہ ہوگئی۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج ایک الگ ہی سوز ہے فضا میں،

ہوائیں خوشی کے گیت گاتی آئی ہیں 

خوشبو بتا رہی ہے صاحب،۔۔

آپ کی زندگی لوٹ آئی ہے۔۔۔۔

بیڈ پر چت لیٹے وہ موبائل کو دیکھ رہا تھا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے شیر کا میسج آیا تھا اور جو خبر اسنے دی تھی وہ اسے ساکت کرگئی تھی 

پورے سات سال بعد ہو واپس آگئی تھی مگر وہ جانتا تھا وہ اس سے نفرت کرتی ہوگی اور یہ وجہ بھی اس نے ہی تو اسے دی تھی

اچھا ہی ہوا تم آگئیں اب یہ کہانی بھی پار لگے آؤ اور آزادی مانگو دے دونگا۔۔۔

وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے عجیب کشمکش میں گھیرا وہ شخص ٹوٹا بکھرا پڑا کسی مسیحا کا منتظر تھا مگر شاید یہ بھی جانتا تھا کہ مسیحائی اب ممکن نہیں ہے ہے۔۔۔

فریحہ حیدر شاہ۔۔۔۔اسکا نام لیتے وہ ناجانے کیوں ہنس پڑا تھا 

سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھائے وہ تقریباً آدھا جگ اپنے اندر انڈیل گیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

انھیں پاکستان آئے ایک ہفتہ ہونے والا تھا اس عرصے میں افراز صاحب ان سے ملنے آئے اور چلے بھی گئے مگر اس کے لئے آسانی کر کے۔

ان کے دوست کا اپنا چینل تھا اور وہ پریس کلب نے بھی مالک تھے انہوں نے ان سے فریحہ کے لئے بات کی تھی اور اب اسے منڈے سے جاب اسٹارٹ کرنی تھی جس کے لئے بھی بےحد خوش اور پرجوش تھی

اسکا بس چلتا تو فوراً سے پہلے وہاں پہنچ جاتی۔۔

الارم کے بجنے سے پہلے ہی وہ اٹھ چکی تھی مہندئی کلر فراک بلیک جینس اور بلیک ہی اسکارف بالوں کو پونی میں قید کئے چمکتی رنگت پر لائٹ براؤن گلوس لگائے وہ جانے کے لئے بلکل تیار تھی 

آئمہ بیگم سے ڈھیروں دعائیں سمیٹتی وہ باہر آئی تھی جہاں ڈرائیور پہلے سے ہی اسکا ویٹ کر رہا تھا

آفس پہنچتے ہی سب سے پہلی ملاقات وہاں کے باس سے ہوئی تھی جنہوں نے اسے سمیرا کے حوالے کیا تھا جو خود بھی تین ماہ سے یہاں جاب کر رہی تھی۔۔۔

اسے اس کام میں بے حد مزہ آرہا تھا آج انہیں رپورٹنگ کے لئے جانا تھا جس کے لئے وہ صبح جلدی ہی گھر سے نکل گئی تھی لائٹ بلو فراک اور جینس کے ساتھ میچنگ اسکارف بالوں کو پونی میں قید کئے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی جائے وقوعہ پر پہنچی تھی جہاں پہلے سے ہی بہت بھیڑ تھی 

جی تو ناظرین یہاں تھوڑی دیر پہلے ایک ٹریفک حادثہ ہوا ہے آخر زمہ دار کون؟؟؟ سڑکوں پر دندناتے یہ امیر زادے جو کسی کو بھی کچل کر آگے بڑھ جاتے یا یہ لوگ جن کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں اور یوں چلنا ان کی مجبوری ہے۔۔۔

ابھی وہ مزید ریکارڑ کرتی کہ گاڑیوں کی آواز نے اسکی توجہ کھینچی تھی کیمرہ مین نے بھی اپنا رخ گاڑیوں کی طرف کیا تھا 

اور گاڑی سے نکلنے والی ہستی نے اسے ساکت کیا تھا ہاتھ میں موجود مائک زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔

یونیفارم میں موجود اونچا قد چوڑا سینہ سرخ وسفید رنگت پر موجود بیرڈ کائی رنگ آنکھیں جن میں چھلکتی ہلکی سی سرخی وہ بلا شبہ پہلے سے کئی گنا پیارا ہوگیا تھا 

اس نے بنا پلک جھپکے اسکا جائزہ لیا تھا وہ اس پر ایک نگاہ ڈالے بغیر آگے بڑھ کر آدمیوں سے مخاطب تھا

اسکا تو جیسے دل جل کر خاک ہوا تھا اس نے ایک شعلہ بار نظر اس کی طرف دیکھا جو سب اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا ناجانے اسکے دل میں کیا سمائی ایک دم وہ چیخی تھی

جو خود قاتل ہوں ان پر یوں محافظ بن کر چلنا جچتا نہیں ہے فریبی دنیا جھوٹے لوگ۔۔۔

گل کیا ہوا ہے؟؟ اسے یوں چیختے دیکھ سمیرا نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا مگر وہ جھٹک گئی تم کرو یہ سڑی ہوئی رپورٹنگ مجھے نہیں کرنی۔۔

وہ اس وقت غصے سے آگ بگولہ ہورہی تھی 

اسے کیا ہوا؟؟ کیمرہ مین بیچارہ سوالیہ نظروں سے سمیرا کو دیکھنے لگا 

وڈیو خراب ہوگئی نا بس تم چھوڑو میں کرتی ہوں تم کیمرہ آن کرو۔۔۔

اس کی بات پر وہ سر ہلا کر اپنا کام کرنے لگا 

وہ گاڑی میں بیٹھی مسلسل خود کو کنٹرول کرنے میں لگی ہوئی تھی مگر اشتعال تھا کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا تھا بنا کچھ سوچے اس نے آئمہ بیگم کو کال کی تھی 

مما آپ آج ہی سب کو میرے اور قاسم کے رشتے کا بتا دیں۔۔

نہیں میں کچھ نہیں جانتی آج نہیں تو کبھی بھی نہیں۔۔ناجانے دوسری طرف سے کیا کہا گیا تھا کہ وہ دو ٹوک انداز اپنا گئی تھی 

تھینکس پلیز جلدی کیجئے۔۔۔ فون رکھ کر اب وہ پرسکون ہوئی تھی جیسے اب کوئی بوجھ اترا ہو۔۔

ہونہہ اب آئے گا مزہ۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀 پورا دن اسنے خود پر ضبط کیا تھا مگر گھر آتے ہی وہ جیسے بکھر گیا تھا کتنی بدل گئی تھی وہ نازک موم کی گڑیا وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا بات کرنا چاہتا تھا مگر اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ ایسا کچھ نہیں کر سکا مگر اس کے الفاظ اس کے دل پر چابک کی طرح لگے تھے وہ کیسے یوں سرراہ اس طرح کرسکتی۔۔۔

سر درد سے پھٹ رہا تھا مگر اسے پرواہ کب تھی پوری رات وہ سو نہیں سکا تھا بخار میں تپتا وجود لئے وہ بے حس و حرکت بستر پر پڑا تھا وہ بہت مضبوط تھا مگر اس کے معاملے میں اتنا ہی کمزور۔۔۔

آفس سے لیو لئے وہ خود کو کمرے تک محدود کئے ہوئے تھا

دروازہ کافی دیر سے بج رہا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی 

تبھی کھٹاک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا 

اس نے بس ایک نظر آنے والے کو دیکھا اور واپس منہ تکیے میں دے دیا۔

لالہ؟؟

کیوں آئے ہو شیر جاؤ یہاں سے۔۔۔۔

کب تک سوگ منائیں گے لالا وہ خوش ہیں آزاد ہیں کیوں اپنی جان ہلکان کر رہے ہیں۔۔۔

وہ کل رات سے اسموکنگ کررہا تھا کائی رنگ آنکھیں رت جگے کی وجہ سے لال ہورہی تھیں جیسے کسی کا سوگ منا رہی ہوں۔۔۔

آپ کو جب اتنی محبت ہے تو سچ کیوں نہیں بتا دیتے انہیں ؟؟؟؟ اس کی حالت قابل رحم تھی سامنے والے کو اس پر ترس سا آیا تھا 

کیا اسے میرا یقین نہیں کرنا چاہیے تھا وہ تو بن کہے میری ہر بات سمجھ لیتی تھی؟؟؟ 

اس نے لہجے میں زمانے کی تھکن تھی۔۔۔

وہ چھوٹی ہیں۔۔۔۔

چھوٹی۔۔۔۔۔۔ اس نے ہنکار بھرا تھا سفید رنگت میں سرخی سی گھلی تھی۔۔۔

وہ چھوٹی اب بہت بڑی ہوگئی ہے طنز کرنا سیکھ گئی ہے اس کے لہجے میں زمانوں کی تھکن تھی۔

کیا فرق پڑتا ہے آپ ویسے بھی انہیں آزاد کرنے والے ہیں 

شیر کی بات پر اس نے چونک کر اسے دیکھا 

کیا مطلب؟؟ دل کسی انہونی کے خیال سے دھڑکا تھا

وہ اپنے رشتے کے لئے ہاں کر رہی ہیں۔۔۔۔ شیر کی بات نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی صبر کا دامن چھوٹا تھا

گاڑی نکالو شیر وقت آگیا ہے ملکیت کا احساس جگانے کا۔۔۔

وہ دھاڑا تھا

ماتھے پر کئی بل لئے سیگریٹ کو پیروں میں روندے وہ تن فن کرتا باہر نکلا تھا

مگر لالہ آپ کا نے کہا تھا یہ فیصلہ وہ کرنگی۔۔

اس کی حالت کو دیکھتے اسنے حیدر کو روکنا چاہا تھا

وہ بیوی ہے میری…ایک ایک لفظ چبا کر کہتا وہ بے پناہ غصے میں کہتا وہ گاڑی میں بیٹھا تو مجبوراً شیر کو بھی بیٹھنا پڑا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ سکون سے فریش ہوکر اب کھانا کھانے میں مصروف تھی اس کے چہرے کی چمک آئمہ بیگم کو ہولا رہی تھی ناجانے اب کیا سوچ کر بیٹھی تھی۔۔

میں نے تمہارے تایا تو بتادیا ہے مگر وہ اعتراض کر رہے تھے۔۔

کیسا اعتراض؟؟ ان کی بات پر اس نے حیرانی نے انہیں دیکھا 

تم نکاح میں ہو ابھی اس کے۔۔۔

ویٹ ویٹ مما۔۔۔ وہ ایک دم جگہ سے اٹھی تھی 

شروع سے آپ بولتی ہو یہ نکاح جھوٹا ہے وہ قاتل ہے اب اگر میں موو آن کر رہی ہوں تو اب یہ نکاح کہاں سے آگیا اس نکاح کی تو کوئی اصلیت ہی نہیں ہے نا؟؟ 

اس کی بات پر وہ نظریں چرا گئی تھیں جس بات کا ڈر تھا وہی ہوتا جارہا تھا مگر وہ بے بس تھیں ان کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں تھا

ہاں مگر تمہارے تایا۔۔

مما پلیز وہ میرے بابا نہیں ہیں اور نا میں ان کی بیٹی۔۔

میں آپ کی بیٹی ہوں آپ نے جو کہا میں نے مانا اب میری خوشی میں وہ کیوں اعتراض کر رہے ہیں 

آپ سمجھا دیں کچھ غلط نہیں ہے۔ حد ہے بھئی اب یہاں کوئی خوش بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔

بڑبڑا کر کہتی وہ کمرے میں جاکر بند ہوگئی تو انہوں نے پریشانی سے ماتھا مسلا

اس نے کمرے سے اب تیز میوزک کی آواز آرہی تھی

 آج کیا ہوا ہے اسکو کیوں ایسا بی ہیو کررہی ہے وہ پریشان ہوئی تھیں مگر ابھی اسے چھیڑنا مناسب نہیں تھا اس لئے عالیان اور فرح کے کمرے میں آگئی جو یہاں آکر بہت بور ہورہے تھے اس لئے انہوں نے پاس میں ہی اکیڈمی میں ان کا ایڈمیشن کروادیا تھا

اگلا دن اسکا بے حد مصروف گزرا تھا رات بھی وہ کھانا کھاتے ہی سونے چلی گئی تھی جاب کی وجہ سے روٹین ایک دم ٹف ہوگئی تھی

شاور کے کر چینج کر کے اس نے تھوڑا سکوں محسوس کیا تھا

بستر پر لیٹتے ہی وہ لمحوں میں نیند کی آغوش میں ڈوبی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اس خوبصورت سے کمرے میں اس وقت ملگجا سا اندھیرا تھا نائٹ بلب کی مدہم سی روشنی ماحول کو فسو خیز بنا رہی تھی۔۔۔۔

دونوں ہاتھ گال پر ٹکائے وہ شہزادی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی تبھی کھلی کھڑکی سے وہ اندر آیا تھا

سامنے سوئے وجود پر نظر پڑتے ہی مانو زمانے کی تھکن اتری تھی۔۔۔

ایک آسودہ ہی مسکان نے چہرے کا احاطہ کیا تو وہ اس کے پاس آکر بیٹھا۔۔۔

کتنی پیاری ہوگئی تھی وہ۔۔۔۔ نظروں سے دل میں اتر کر سکون کے ساتھ حشر برپا کر گئی تھی۔۔

اسکی نظروں کی تپش سے وہ ہلکا سا کسمسائی تھی جس پر وہ گہرا سا مسکرا دیا ۔۔۔

جھک کر اسکے نازک گالوں پر اپنے لب رکھے تھے۔۔۔۔

لمس کی شدت تھی یا کوئی اور احساس اسکی نیند بھک سے اڑی تھی اور سامنے موجود شخص کو دیکھ کر اسکی جان ہوا ہوئی تو جو اب کینہ توز نظروں سے اسے گھور رہا تھا تھوڑی دیر والی نرمی کہیں دور جا سوئی تھی۔۔

وہ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی وہ اسکی بولتی بند کرگیا۔۔۔

میری ہو صرف میری،اپنی چیزیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتا آج کے بعد یہ بات یاد رکھنا ورنہ اس سے بڑی سزا ملے گی اس کے گال ہاتھ کی پشت سے سہلائے اس کے ماتھے پر مہر ثبت کئے وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔۔۔

جبکہ وہ تو جی جان سے تڑپی تھی ہوش میں آتے ہی اس نے لائٹ آن کی اور بھاگ کر کھڑکی تک آئی مگر وہاں کوئی نہیں تھا

کیا میں خواب دیکھا تھا؟؟ پھولتی سانسیں اور کمرے میں موجود خوشبو

وہ شاکڈ سی واپس آکر بیٹھی تھی وہ اتنے پاس آیا اور چلے بھی گیا

آنکھیں نمکین پانی سے بھری تھی تکیے میں منہ دئے وہ بے آواز روتی چلے گئی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چلو شیر۔۔۔گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہی اس نے میوزک پلیئر آن کیا تھا

اسکا موڈ دیکھتے شیر نے شکر ادا کیا تھا

سیگریٹ چھوڑ دے لالہ۔۔

چھوڑ دی آج سے۔۔

پکا؟؟ وہ بے یقین ہوا تھا 

بلکل وہ سکون کے لئے پیتا تھا اب سکون مل گیا ہے 

مسکرا کر کہتا وہ شیر کو دنیا میں سب سے پیارا لگا تھا

شیر آپ سے بہت محبت کرتا ہے لالہ۔۔

اور شیر اپنے لالہ کی جان ہے اس نے پیار سے اس کا ہاتھ تھپتھپایا تھا

خدا قسم دل کر رہا آپ نے سینے سے لگ جاؤ مگر ہائے یہ ڈرائیونگ۔۔۔

اور اس کی بات پر اسکا جاندار قہقہ گونجا تو گال پر پڑے گڈھے پوری آب و تاب سے چمکے تھے 

ایک ملاقات میں اسکے چہرے کی رونق لوٹ آئی تھی شیر نے اسکی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی۔۔۔۔

چلو اب کام پر لگو شیر۔۔۔۔

کونسا کام لالہ؟؟ وہ ایک دم الرٹ ہوا تھا

انجان مت بنو اس دن کی ساری تفصیل پرسو تک میری ٹیبل پر ہو ورنہ مجبوراً مجھے تمہیں بھی شامل تفتیش کرنا پڑے گا 

گاڑی اپارٹمنٹ کے باہر روکتے اس نے شیر کو وارن کیا اور خود اندر کی طرف بڑھ گیا 

یا اللہ لالہ مت کریں یہ پلیز۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

پوری رات وہ سو نہیں سکی تھی دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں 

اسکا بدلہ دینا ہوگا آپ کو چھوڑوں گی نہیں گال بے دردی سے رگڑتی وہ بڑبرائی تھی

پوری رات ناسونے کی وجہ سے سر درد سے پھٹ رہا تھا

کیا ہوا ہے گل طبعیت ٹھیک ہے؟؟ اسے یوں بے دلی سے پلیٹ پر جھکے دیکھ وہ پریشان ہوئی تھیں 

یس افکورس آئمہ اوکے مما بس رات نیند ٹھیک سے نہیں آئی اس نے مسکرا کر کہا تھا 

تو آج کا آف کرلو فضول کے بکھیڑے میں پڑی ہو

جسے آپ بکھیڑا کہہ رہی ہیں وہ میرا شوق ہے تو پلیز رات میں ملتی اب اللّٰہ حافظ 

انہیں پیار دے کر وہ جلدی سے باہر آئی تھی آج اسکا پکا ارادہ تھا باس سے بات کرنے کا۔۔

اس لئے وہ آج وقت سے پہلے ہی آفس آئی تھی 

خیریت مس فریحہ۔۔

سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔

جی کریں۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر اسے بیٹھنے کا کہا 

افراز صاحب کی وجہ سے وہ اکثر اسے فیور دے دیتے تھے

اور اس نے جو کہا اس پر وہ سوچ میں پڑ گئے تھے 

پلیز سر۔۔۔اور بڑے بابا سے آپ ڈسکس مت کرئیے گا ورنہ وہ کبھی راضی نہیں ہونگے

دیکھو بیٹا یہ اتنا ایزی نہیں ہے۔۔وہ تذبذب کا شکار تھے 

کیوں کیا میں اتنی نکمی ہوں؟؟

بات نکمی کی نہیں ہے بات ایکسپیرینس کی ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔۔

سر کام کرونگی تو تجربہ ہوگا نا پلیز میں یہ کرنا چاہتی ہوں پلیز۔۔۔۔

اسکی التجا پر وہ سوچ میں پڑ گئے تھے 

ٹھیک ہے آپ ابھی جائیں میں بعد میں بتاتا۔۔

اوکے تھینکس۔۔

وہ ان کے کیبن سے باہر آئی تو موڈ آف ہوچکا تھا مگر ہمت ہارنا اسکی عادت میں شامل ہیں نہیں تھا۔۔۔

اتنی جلدی ہار نہیں مانوگی میں بھی۔۔کچھ سوچتے اسنے لیپ ٹاپ آن کیا تھا۔۔

اور آفس آف ہونے تک نجم صاحب نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تو اس کے چہرے اور آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی تھی۔۔۔۔

وہ صوفے پر بیٹھا اس وقت لیپ ٹاپ پر مصروف تھا کہ موبائل کی بیل نے اسکی توجہ کھینچی تھی سامنے اس کے پی اے کی کال تھی 

ہاں بولو احمد۔۔۔

سر ہمدانی صاحب کا فون آیا تھا وہ آپ کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی اب تک کی کامیابی پر ایک ڈاکیومنٹری بنانا چاہتے ہیں۔۔

انہیں منع کردو احمد مجھے یہ سب پسند نہیں۔۔

سر میں نے منع کیا تھا مگر ان کے ساتھ جو لڑکی تھی وہ بضد تھی کہ آپ کو کیسے بھی کر کے راضی کروں۔۔

لڑکی۔۔۔لڑکی کے نام پر وہ چونک کر سیدھا ہوا تھا

جی سر اس کا کہنا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے مگر اس نے یہ بات آپکو بتانے سے منع کیا تھا۔۔

نام کیا تھا اس لڑکی کا۔۔؟؟ 

جی سر وہ فریحہ زارون شاہ۔۔۔

احمد کے نام بتانے پر اسکا سر نفی میں ہلا تھا 

منع کردو احمد۔۔

سر میں منع کرچکا ہوں مگر وہ مجھے مسلسل کال کر رہی ہیں میں نمبر بلاک کرچکا تو دوسرے نمبر سے کال کر رہی۔۔

اور تم ایک چھٹانک بھر کی لڑکی سے نہیں نمٹ سکتے۔۔۔

سر میں وہ۔۔

صاف منع کردو احمد 

اوکے سر بٹ آپ اسے یہ مت بتائیے گا کہ میں نے اسکا نام آپ کو بتادیا ہے 

بے فکر رہو اللہ حافظ۔۔

کیا چاہتی ہو گل تم کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں۔۔

لیپ ٹاپ سائیڈ رکھتے اس نے سیگریٹ سلگائی تھی 

ماتھے پر پڑے بل اور آنکھوں میں فکر وہ خود اسکے اس طرح کرنے پر حیران و پریشان تھا کیونکہ وہ کبھی سیدھے دماغ والوں کی طرح نہیں سوچتی تھی اب ایسا کیا چل رہا تھا اس کے دماغ میں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اتنی تیاری خیریت تو ہے؟؟ وہ کبھی بھی اتنا تیار ہوکر آفس نہیں گئی اس لئے انہوں نے حیرت سے پوچھا تھا 

جی ایک انٹرویو کے لئے جانا ہے مما دعا کریں کام ہو جائے ساری زندگی کا سوال ہے میری 

اللّٰہ تمہیں تمہارے مقصد میں کامیاب کرے انہوں نے اسے دعا دی اگر وہ اسکا مقصد جان جاتیں تو شاید کبھی دعا ہی نا کرتیں

ان سے پیار لے کر وہ باہر نکلی تھی گاڑی ڈرائیور کو اس نے اب گاڑی کا رخ چینج کرنے کو بولا تھا۔۔

میسج ٹون سنتے ہی اسنے جلدی سے موبائل نکالا تھا اور میسج پر فاتحانہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر کھلی تھی 

اب آئے گا اصل مزہ جینا حرام نا کیا تو میرا نا بھی فریحہ حیدر خان نہیں۔۔۔

آج کتنے سال بعد اس نے پورے استحقاق سے اسکا نام اپنے نام کے ساتھ لگایا تھا

دل میں عجیب سا کچھ ہوا تھا۔۔

گاڑی اپنی منزل پر آکر رکی تو اسنے گلاسز آنکھوں پر لگائے اپنی لپ اسٹک مزید ڈارک کی تھی 

بی ریڈی طوفان آنے کو ہے۔۔۔

خود سے بولتی وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی تھی اور اب اسکا رخ اندر کی جانب تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ صبح سے ہی فائلوں میں گھن چکر بنا ہوا تھا موڈ سخت آف تھا صبح ہی اسے کمشنر صاحب کی کال آئی تھی کہ اسکے لئے ایک اسسٹنٹ ہائیر کی ہے جو کہ پورا وقت اسکے ساتھ رہے گی کیونکہ اسے اپنی فیلڈ میں اس ایکسپیرینس کی نیڈ تھی وہ منع کرتا رہ گیا مگر وہ دوٹوک انداز میں اسے باور کروا گئے 

حیدر خان یہ ہمارا آرڑر ہے اور اسے ماننا آپ کا فرض۔۔۔

یہ کوئی طریقہ نہیں ہے سر۔۔۔

تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور ایک بات اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے وہ اپنا کام کریگی تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔۔

اور اب وہ صبح سے کھول رہا تھا آخر یہ دنیا سکون سے رہنے کیوں نہیں دیتی وہ سخت بیزار ہوا تھا۔۔۔

تبھی دروازہ ناک ہونے کر اس نے یس بول کر اپنا دھیان واپس کام پر لگایا مگر ہیل کی ٹک ٹک پر اسے سر اٹھانا پڑا مگر۔۔۔

وقت جیسے ٹہر گیا سانسیں تھم گئی نظریں پلٹنے سے انکاری ہوگئی 

بلو جینس پر بلو فراک اور اس پر گلے میں مفکر اسٹال اسکارف ڈالے بالوں کو جوڑے میں قید کیا تھا آنکھوں میں بھر کر کاجل اور لبوں پر سرخ لپ اسٹک۔۔

گڈ مارننگ سر۔۔۔ایک ادا سے کہتی وہ اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی تو وہ جیسے ہوش میں آیا تھا 

کہیں سی بھی وہ چھوٹی معصوم سی گل نہیں لگ رہی تھی یہ تو کوئی اپسرا لگی تھی 

لگتا ہے کمشنر سر نے آپکو میرا بتایا نہیں چلیں میں بتا دیتی ہوں ائم فریحہ زارون شاہ۔۔

پراعتماد سی وہ اپنا تعارف دے کر مسکرائی تھی

ہمم بتایا تھا سر نے آپ کا مگر،وہ لمحے کو رکا

مجھے کسی اسسٹنٹ کی نیڈ نہیں ہے آپ جاسکتی ہیں

اور اسکا بات پر قہقہ لگا کر ہنس پڑی تھی فضا میں جلترنگ سے بج اٹھے تھے 

حیدر نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے یوں ہنستے ہوئے دیکھا جو پور پور گھائل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی

اور آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ کے حکم کی غلام ہوں؟؟؟

یہاں میں اپنی مرضی سے آئی ہوں اور اپنی مرضی سے ہی جاؤنگی مسٹر حیدر خان۔۔۔

اس نے بھی ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا ۔۔

کام کرنے آئی ہیں نا آپ یہاں۔حیدر کے اچانک پوچھنے پر اس نے سر ہلایا تھا 

اسے لگا حیدر نے مسکراہٹ چھپائی ہو مگر سب وہاں سنجیدگی دیکھ وہ کنفیوز ہوئی تھی 

تو جائیں میرے لئے کافی بنائیں۔۔۔

ویٹ کافی؟؟ وہ ایک دم اچھلی تھی مطلب اب وہ اس سے کافی بنوائے گا

بلکل میرے اندر کام کرنا ہے تو جو بولوں وہ کرنا پڑے گا ورنہ سر کو آپ منع کرسکتی ہیں۔۔۔

اووو آئی سی۔۔۔اس نے ہونٹوں کو گول کیا تھا

ابھی بناتی ہوں نا سر۔۔۔

وہ مسکرا کر اٹھی باہر آئی وہاں کے کیپر سے جگہ پوچھ کر اب وہ اس کے لئے کافی بنا رہی تھی 

وقت بدل گیا حالات بدل گئے مگر یہ کڑوا انسان نہیں بدلا مگر میں بھی گل ہو اس کڑوے کو سیدھا کرکے رہونگی ہونہہ آئے بڑے 

خود سے بڑبڑاتی اس نے تین چمچے بھر کر کافی میں ڈالے تھے اور پھر کھل کر مسکرائی تھی 

اسکے سامنے کافی رکھتے اب وہ اسے دیکھنے میں مصروف تھی یہ ایک ہی کام تھا جو وہ فرصت سے اور دل سے کر رہی تھی 

حیدر نے کپ لبوں سے لگایا اور لمحے کو اسے دیکھا وہ جو مزے سے اسے دیکھنے میں مصروف تھی ایک دم گڑبڑائی تھی 

بہت میٹھی ہے دوسری بنا کر لائیں۔۔

شیور سر۔۔بنا کچھ ظاہر کئے وہ مسکراتی باہر بڑھ گئی

وقت بدل گیا مگر یہ لومڑی نہیں بدلی وہ بڑبڑا کر رہ گیا

اوراب جو وہ کافی لائی وہ پہلے سے زیادہ میٹھی تھی 

وہ اسے اپنی نظروں سے زچ کر رہی تھی تیسری بار کافی ناقابل برداشت ہوئی تو وہ کپ ایسے ہی پٹخ کر اسے گھورنے لگا جو اب بھی مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا گل کے موبائل نے اسے چپ کروایا تھا 

سوری سر میرے منگیتر کی کال ہے جب تک بات نا کروں انہیں سکون نہیں ملتا نا مسکرا کر کہتی وہ کال ریسیو کرتی کمرے سے نکلنے ہی لگی تھی کہ اسکا بازو حیدر کی سخت گرفت میں آیا تھا۔۔۔

ایک جھٹکے سے اسکا موبائل چھین اس نے سوئچ آف کیا اور اپنے پاکٹ میں ڈالا تھا۔

یہ کیا حرکت ہے موبائل واپس کریں میرا۔۔۔

 اہاں۔۔۔ میرے ساتھ کام کرنے کے کچھ رولز ہیں کام کے وقت سیل نسٹ الاؤڈ۔۔۔

مسکرا کر کہتا وہ واپس سیٹ پر بیٹھا تو وہ بل کھا کر رہ گئی

اور ہاں۔۔اپنے منگیتر کو کہیں آکسیجن سلینڈر ساتھ رکھیں کیونکہ آفس ٹائم میں بات نہیں ہوگی یہ نا ہو آپ سے بات کئے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کر جائیں۔۔۔

اس کی بات پر وہ بس کھول کر رہ گئی 

سب یہاں سیٹ پر بیٹھ کر فائل ریڈ کریں 

ایک اور آرڑد وہ پیر پٹختی اس کے سامنے آکر بیٹھی اور زور سے فائل کو کھولا۔۔

مگر یہ سوچ پھر سکون دے گئی کہ وہ جلا تھا اثر ہوا تھا اسے بھی۔۔۔

جبکہ دوسری طرف لفظ منگیتر پر وہ جل کر راکھ ہوا تھا کیسے دھڑلے سے وہ اسے اپنا منگیتر کہہ رہی تھی 

لگتا ہے اس دن اثر نہیں ہوا تھا اب اچھے سمجھانا پڑے گا۔۔۔۔

اسے گھورتے وہ اپنے کام میں مصروف ہوا تھا۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ گھر میں داخل ہوئی تو پورا جسم دکھ رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ پٹھان دماغ اتنا کام کروائے گا

اوپر نیچے کے کئی چکر اور اس پر اسکی ہیل،اسکی جان نکل رہی تھی مگر حیدر خان کو چھوڑنے والی وہ پھر بھی نہیں تھا جلدی سے کھانا کھا کر وہ کمرے میں آئی تھی جلدی سے نیم گرم پانی کا شاور لئے د

ڈھیلے ڈھالے شرٹ ٹراؤزر میں وہ سکون سے بیڈ پر نیم دراز ہوئی تھی

نیند میں جاتے جاتے اسے کچھ محسوس سا ہوا تھا مگر نیند سے بوجھل آنکھیں کھولنے سے انکاری تھیں

اور تھوڑی دیر میں ہی وہ نیند کی آغوش میں گم تھی۔۔۔

وہ دبے قدموں اس کے پاس آکر بیٹھا تھا میک اپ سے پاک چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت سجائے وہ بے خبر سوئی پڑی تھی

آج بھی اسے اسکی نیند کو رشک آیا تھا 

کاش اتنی معصوم تم جاگتے میں بھی ہوتی لومڑی۔۔۔اسکے ماتھے پر لب رکھے وہ بے اختیار مسکرایا تھا 

کچھ نہیں بدلا تم آج بھی ویسی ہو میری شیرنی۔۔

مجھ سے پنگا لینے آئی ہو تو چلو اب ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں

اسکے چہرے پر پھوک مارے وہ ہلکا سا ہنسا تھا

چاند تاروں نے کھڑکی سے جھانک حیرت سے اسکی ہنسی کو دیکھا تھا جو انہیں ترسا گیا تھا سب نے مل کر اسکی مسکراہٹ کی نظر اتاری تھی۔۔

وہ اپنا کام مکمل کرتا جیسے آیا تھا ویسے ہی دبے قدموں واپس پلٹا تھا مگر ایک نظر اسے دیکھنا نہیں بھولا تھا اسکا ردعمل سوچ کر ہی اسے مزہ آگیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اسکی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی تھی 

ادھر ادھر ہاتھ مارتی اسنے بمشکل آنکھیں کھول کر الارم آف کیا تھا 

یا اللہ یہ الارم کس نے لگا دیا۔۔۔بڑبڑاتی وہ واپس نیند میں ڈوبی ہی تھی کہ ایک بارپھر الارم پوری جان سے بجا تھا

دوسرا الارم بن کیا تو تیسرا۔۔۔ وہ جھنجھلا کر اٹھی تھی اور کمرے پر نظر پڑتے ہی اسکا دماغ گھوما تھا 

جگہ جگہ الارم رکھے گئے تھے۔۔۔یا میرے خدایا وہ بھاگ کر ان تک آئی تھی اور ایک ایک کر کے سارے الارم بند کئے تھے 

یہ کس کی حرکت ہے وہ غصے سے پیج و تاب کھاتی باہر آئی تھی 

بوا مما کدھر ہیں۔؟؟ اور عالی اور لوزی۔۔۔

بی بی وہ لوگ تو واک کے لئے نکلے ہیں آج عالی بابا اور فرح بی بی کے اسکول میں کوئی فنکشن ہے تو بڑی بی بی نے کہا ہے وہ لیٹ ہو جائیں گی 

واپس آجاؤ تم دونوں جن پھر میں بتاتی گھڑی صبح کے ساڑھے ساتھ بجا رہی تھی آفس جانے میں ابھی بھی ڈیڑھ دو گھنٹے باقی تھے وہ جلد دل کے ساتھ واپس اوپر آئی تھی تبھی نظر دروازے پر لگی چٹ پر پڑی۔۔

یہ کیا ہے؟؟ اسنے چٹ نکال کر پڑھی تو غصے سے برا حال ہوا تھا 

کل صبح شارپ آٹھ بجے آفس میں میٹنگ ہے وقت پر نظر آو۔۔۔

یا اللّٰہ یہ انسان  سیدھے طریقے سے نہیں بتا سکتا تھا 

جلدی سے واڈروب کی طرف بڑھی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں

میرے آفس میں تمیز کی ڈریسنگ کے ساتھ نظر آؤ۔۔

ایک اور چٹ۔۔

اور اندر اسکی ساری جینز غائب تھیں بلکہ ان کی جگہ کئی اور چیزیں وہاں موجود تھیں 

دیکھ لو گی آپ میں۔۔ دانت پیستی وہ جلدی سے ڈریس لے کر واشروم میں گھسی تھی

جلدی جلدی ریڈی ہوکر وہ سینڈل نکالنے لگی مگر وہاں سے بھی ہیلز غائب تھیں 

اللّٰہ پوچھے خان آپ کو۔۔۔۔

جلتی بھنتی کلستی وہ جلدی سے آفس پہنچی تھی مگر یہ کیا۔۔

وہ بس پانچ منٹ لیٹ ہوئی تھی اور اسے گارڈ نے اندر نہیں آنے دیا تھا 

چھوڑوں گی نہیں اگر نانی نا یاد دلائی تو میرا نام بھی گل نہیں۔۔۔ خود سے عہد کرتی اس نے گھور کر بند دروازے کو دیکھا تھا۔۔۔

تین گھنٹے کی میٹنگ وہ باہر جلتی رہی تھی مگر اپنا کام وہ کرچکی تھی اس لئے اب مزے سے بینچ پر بیٹھے جوس پینے میں مصروف تھی 

حیدر باہر آیا تو اس نے حیرت سے اسے دیکھا اسے تو لگا تھا وہ شعلہ جوالہ بنی بیٹھی ہوگئی مگر یہ کیا۔۔۔

اسے دیکھ کر بڑی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی 

اتنے دانت کیوں نکال رہی ہو یہ ٹائم ہے آفس آنے کا؟؟ ایسے ہی چلتا رہا تو نکال باہر کرونگا۔۔

آئم سوری سر۔۔۔

آپ جائیں میں کافی بنا کر لاتی۔۔۔ ایک دل جلاتی مسکراہٹ اسکی جانب اچھال کر وہ غائب ہوئی تھی 

کیا چل رہا ہے گل کی بچی تمہارے دماغ میں۔۔۔

اس نے اپنے آفس میں قدم رکھا ہی تھا کہ ایک دم رکا تھا 

پورے کمرے میں اسکے پیپرز بکھرے پڑے تھے اور سامنے ہی بلی پورے کمرے میں ادھر ادھر منہ مار رہی تھی۔۔۔

احمد۔۔۔۔۔ سہیل روم کی حالت دیکھ وہ دھاڑا تو وہ لوگ جلدی سے اندر آئے تھے مگر اندر کی حالت دیکھ ان کی حالت پتلی ہوئی تھی وہ خود بہت صفائی پسند تھا یہ وہ سب جانتے تھے

یہ کہاں سے آئی جہاں بھگاؤ اسے وہ غرایا تھا ان دونوں نے جلدی سے اس بلی کو بھگایا تھا تبھی ہاتھ میں کافی کا مگ لئے وہ اندر داخل ہوئی تھی 

اووو چچ یہ کمرے کا حال کیسے ہوا سر؟؟؟ آنکھیں پٹپٹاتے وہ معصوم سی بن گئی۔۔

یہ سب تم نے کیا ہے نا؟؟ وہ دبی آواز میں غرایا تھا 

میں بھلا کیسے کرسکتی ہوں میں تو باہر تھی نا۔۔۔ وہ آج معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑنے کے درپہ تھی

اگر اس کے پیچھے تم ہوئی نا گل میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔۔

چھوڑ تو بہت پہلے ہی چکے ہیں آپ مجھے۔۔۔ ناجانے کیسے اسکی زبان پھسلی تھی اپنے اندر کی کڑواہٹ کو اسنے اندر ہی دبایا تھا 

باہر مجھے چھوڑ کر میٹنگ اٹینڈ تو کرہی چکے ہیں اور کیا کرینگے۔۔۔ خود کو کمپوز کرتی وہ مسکرائی اور کمرے سے نکل گئی 

پھر پورا دن وہ آفس سے باہر ہی رہا تھا آج ایک جگہ انہیں ریڈ ڈالنی تھی

جبکہ وہ بھی آج اپنے آفس چلی گئی تھی ورنہ جب تک وہ سامنے ہوتی وہ سکون سے کام نہیں کرسکتا تھا وہ پچھلے بیس دن سے اسکے آفس میں رہ کر اسکا دماغ کھا رہی تھی اسکی شرارتیں ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھیں 

اوپر سے ان نان نمبر سے آیا میسج کو ماضی میں ہوئی زارون شاہ کی موت کے حوالے سے حقائق جانتا تھا۔۔۔ 

اب اسے کیسے بھی کر کے اس انسان تک پہنچنا تھا مگر گل اسے سکون لینے دے تب نا۔۔۔

وہ بس اسی الجھائے رکھتی تھی ان دونوں کی بھی عجیب سی جنگ تھی وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ وہ ناراض ہے نفرت کرتی ہے کیا ہے اسکے دل میں۔۔۔

بس ہر وقت اسے تنگ کرنے کے لئے کچھ نا کچھ کرنا ہوتا تھا اسے وہ کیوں اس کے آفس میں آرہی تھی پرمیشن لینے پر وہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا مگر دل میں کہیں کمینی سی خوشی تھی کہ وہ سامنے ہے چاہے کیسے بھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ کامیاب ریڈ کے بعد اپارٹمنٹ پہنچا تھا ڈور لاک کرتے وہ اندر داخل ہوا تو عجیب سی خوشبو  ناک سے ٹکرائی تھی مخصوص خوشبو وہ کھل کر مسکرایا تھا 

تو محترمہ آپ یہاں بھی پہنچ گئیں

اسنے محسوس کیا تھا کہ جب وہ پاس کھڑی تھی اسنے جیب سے کچھ نکالا تھا مگر وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے اس لئے لائک آن کرکے کمرے میں آیا تو کمرہ ویسے کا ویسے ہی تھا وہ چلتا واڈروب تک آیا اور اپنے کپڑے دیکھ اسکا قہقہ گونجا تھا

کافی واڈروب رنگ برنگے کپڑوں اور جوتوں سے بھری تھی جبکہ اسکے کپڑے سرے سے ہی غائب تھے

جوتوں کا بھی کچھ یہی حال تھا 

وہ تاسف سے سر ہلا کر کچن میں آیا تاکہ کافی بنا کر پی سکے مگر وہاں اسکا کافی جار غائب تھا 

گل گل گل۔۔ وہ سر پیٹ کر رہ گیا 

رات اتنی ہوگئی تھی کہ اس وقت وہ جاکر کچھ لا بھی نہیں سکتا تھا

اس لئے صبر کرتا وہ سونے لیٹ گیا مگر اس کی حرکتیں یاد کرکے وہ مسکرا اٹھا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آج وہ بے حد سکون سے بیٹھی تھی کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی اور آرام سے کھڑکی اچھے سے بند کر کے سوگئی اب کوئی خطرہ نہیں تھا 

اسے پورا ایک مہینہ ہوگیا تھا وہ اسکے کر قدم پر نظر رکھ رہی تھی وہی جانتی تھی کتنی مشکل سے اس کے رسائی ملی تھی وہ چاہ کر بھی اس میں کوئی برائی دیکھ ہی نا سکی دل جو اسے قاتل مانا ہی نہیں تھا آج پکی مہر لگا گیا تھا 

اگر آپ نے میرے چھوٹے ہونے پر خود سے دور کیا تو کوئی بات نہیں مگر کوئی اور وجہ ہوئی تو میں آپ کو معاف نہیں کرونگی۔۔۔

صبح اسکی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی کافی دیر وہ یونہی چت پڑی چھت کو گھور رہی تھی 

تبھی دروازہ کھول کر وہ دونوں اندر آئے اور بیڈ پر چڑھ کر اچانک ہی اس پر دھاوا بولا تھا 

ارے۔۔ وہ ایک دم ہڑبڑائی 

آرام سے بھئی مارو گے کیا؟؟ 

ہاں ہم آپ کو مارینگے آپ بہت بدل گئ ہیں ہم سے بات نہیں کرتیں کھیلتی بھی نہیں ہیں۔۔

ان کے معصوم سے شکوے پر وہ منہ بنا گئی 

سوری نا جانو بس کام بہت زیادہ ہوگیا ہے نا 

پھر بھی آپ اب گندی۔۔۔ فرح نے منہ بنایا تو اسنے اسکا معصوم چہرہ اپنی گرفت میں لے کر چوم ڈالا 

جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی

کچھ دیر بعد اس کے کمرے سے ان تینوں کی ہنسی کی آواز آرہی تھی۔۔۔

نیچے لاونج میں بیٹھی آئمہ خاتون نے مسجد کر اوپر دیکھا اور موبائل کان سے لگایا 

ہاں روہاب۔۔۔ 

بس تم لوگ واپس آؤ تو ہم رسم ادا کریں 

ہاں ہاں وکیل سے بات ہوگئی آج یا کل میں پیپرز اس تک پہنچ جائیں گے یا ہوسکتا ہے پہنچ چکے ہوں

دوسری جانب سے ناجانے کیا کہا گیا تھا 

ایڈریس کا کوئی مسئلہ نہیں میرا وکیل جانتا تھا اسے۔۔

بس ٹھیک ہے پھر ہم لوگ کل صبح ہی نکلتے ہیں تم بھی ہمیں وہی جوائن کرلینا

فون رکھ کر وہ کمرے میں آئیں تھی الماری سے بیگ نکال کر انہوں نے کئی قیمتی کپڑے بیگ میں ڈالے تھے ان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا کہ صرف وہ جانتی تھیں اب کیا طوفان آنے والا تھا یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀وہ پوری رات کا تھکا اب گھر میں گھسا تھا تھکن سے جسم ٹوٹ رہا تھا بازو میں بندھی پٹی سے اب ٹیسیں اٹھ رہی تھیں وہ تو شکر تھا کہ گولی صرف چھو کر گزری تھی

صاحب جی آپ کے لئے یہ لفافہ آیا تھا 

وہ ابھی کمرے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ گارڈ نے آواز دی

جی۔۔اس نے اسکے ہاتھ سے وہ اینولپ  لیا تھا 

فریش ہوکر کھانا کھا کر وہ بالکونی میں آیا تو دھیان اسکا اس اینولپ پر گیا 

اس نے اٹھ کر وہ اٹھا کر کھولا مگر اندر رکھے پیپر نے اسکے پیروں سے زمین کھسکائی تھی 

پیپر کے اوپر لکھا خلع نامہ اس کے دل پر چابک کی طرح لگا تھا

اسکی برداشت آسمان کو چھو رہی تھی خود پر ضبط کرتے کرتے اسکی آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی

تبھی موبائل ٹون پر اس نے موبائل اٹھایا 

ہیلو لالہ شاہ حویلی کو سجایا جارہا ہے سننے میں آیا ہے کل گل بی بی کی منگنی کی رسم ہے

شیر نے ایک ہی سانس میں بات مکمل کی تھی وہ بے حد پریشان ہوگیا تھا۔۔۔

کرنے دو اسے جو کرنا ہے بس کل تک کا ہی وقت ہے اسکے پاس۔۔۔

اسکے لہجے کی سختی پر شیر کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑی تھی۔۔۔

لالہ۔۔

بعد میں بات کرتا ہوں شیر اسکی سنے بغیر اس نے فون دیوار پر دے مارا تھا 

اہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گل گل گل۔۔۔۔۔۔

معاف نہیں کرونگا اس کے لئے تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگا اب۔۔۔ وہ دھاڑا تھا 

کمرے کی ہر چیز اس نے تہس نہس کردی تھی

بہت غلط کیا تم نے بہت غلط۔۔ایک بار کہہ کر تو دیکھتی مگر یہ دھوکہ۔۔۔

اسکی سزا تو تمہیں مل کر رہے گی ہر حال میں۔۔۔

اسکا دل جل رہا وہ تڑپ رہا تھا آج پھر وہی سب ہوا تھا ایک بات پھر وہ ٹوٹ کر بکھرا تھا مگر نہیں اب وہ اسے بتائے گا کہ حیدر خان۔۔۔۔۔

شاور کے نیچے کھڑے ہوتے اس نے تلخی سے سوچا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آپ کہیں جارہی ہیں مما؟؟ وہ کسی کام سے ان کے پاس آئی تھی مگر انہیں عالیان اور فرح کی پیکنگ کرتے دیکھ وہ پوچھ بیٹھی 

میں نہیں ہم سب۔۔۔

مگر کہاں جارہے ہیں؟؟

گاؤں افراز بھائی کی کال آئی تھی روہاب لوگ وہاں آرہے ہیں انہوں نے ہمیں بھی بلایا ہے ارجنٹ تم اپنے کپڑے وغیرہ پیک کرلو بھائی صاحب گاڑی بھیج رہے ہیں 

مگر مما میری جاب۔۔۔

کچھ دن کا آف لے لو گل اینڈ نو مور آرگیو۔۔دو ٹوک انداز میں کہتی وہ واپس سے اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھیں 

تو وہ ان کا موڈ دیکھتی خاموشی سے روم میں آکر پیکنگ کرنے لگی دل عجیب سا ہورہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہوں 

پریشان سی وہ سامان چھوڑتی بیگ پر ٹک گئی 

دل کیا ایک بار اس دوشمن جان کی آواز سنے اسے بتائے وہ پریشان ہے آج آجائے وہ اس کے پاس 

بستر پر لیٹنے سے پہلے اس نے کھڑکی کھول دی تھی ایک امید تھی شاید وہ آجائے 

انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جارہی تھیں مگر نا اسے آنا تھا اور نا ہی وہ آیا اسے سوچتے سوچتے کب وہ نیند میں وادی میں اتری اسے احساس  تک نا ہوا۔۔

صبح بھی وہ فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھ گئی تھی  وحشت سی محسوس ہورہی تھی اس نے اٹھ کر تہجد ادا کی اور اللہ سے رو رو اس نے دعا کی تھی وہ پہلا انسان تھا زارون کے بعد جسے اسنے اپنا دوست بنایا اپنا سب کچھ سمجھا وہ عمر کی جس دہلیز پر تھی اس کے باوجود اس نے اپنے باپ کے اصولوں پر عمل کیا اس نے بنا سوچے سمجھے کسی کو قصوروار نہیں ٹہرایا تو حیدر کے کے معاملے میں تو اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ قاتل نہیں ہوسکتا وہ کبھی اس کر یقین نہیں کرسکی مگر اپنی ماں کی وجہ سے اسے یہ سب کرنا تھا 

وہ اس سے دور رہ کر اسکی محبت میں گرفتار ہوئی تھی وہ چاہ کر بھی اسے نہیں بھول سکی تھی مگر سب کے مطابق وہ برا تھا مگر اسکا دل نہیں مانتا تھا 

وہ اسے چھوڑ گیا تھا وہ ناراض تھی مگر وہ پاکستان صرف یہ جاننے آئی تھی کہ کیا وہ بھی اسکی محبت میں گرفتار ہے اور اب جب اسے احساس ہوگیا تھا تو وہ دیر نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اسے اپنے احساسات بتانا چاہتی تھی وہ اسے کہنا چاہتی تھی کہ ہاں اسے اپنے حیدر پر یقین ہے وہ اپنے حیدر سے محبت کرتی ہے اور اب جب آج وہ اسے سب بتانے والی تھی تو یوں اچانک گاؤں جانا۔۔۔

میں گاؤں جارہی ہوں مگر وہاں سے آنے کے بعد آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے میرا انتظار کرئیے گا۔۔۔

حیدر کو میسج کر وہ نیچے آگئی جہاں آئمہ بیگم فرح اور عالیان کو ناشتہ کروانے میں مصروف تھیں گاڑی آگئی تھی اس نے بے دلی سے زہر مار چند لقمے میں لئے تھے۔۔۔۔

کراچی کی حدود سے نکلتے اسکا دل گھبرانے لگا تھا مگر وہ اپنی ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔

وہ لوگ دوپہر تک گاؤں کی حدود میں داخل ہوئے تھے کچھ نہیں بدلا سب ویسے کا ویسے ہی تھا بچپن کی کتنی یادیں تھی اس نے پاس۔۔

کچی پکی پگڈنڈیوں کو دیکھتے اسے زارون شاہ شدت سے یاد آئے تھے 

آہ۔۔۔کاش بابا آج آپ ہمارے ساتھ ہوتے۔۔۔ایک آنسو خاموشی سے اس کی آنکھ سے نکلا تو اس نے جلدی اسے صاف کیا مبادہ آئمہ بیگم دیکھ لیتیں۔۔۔

گاڑی حویلی کی حدود میں داخل ہوئی تو ان کے استقبال کے لئے سب ہی باہر موجود تھے 

آئمہ بیگم افراز صاحب کو سلام کرتی حرا کی طرف بڑھیں جو ان کے گلے لگ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔

سجیلہ بیگم نے ایک بار پھر اس سے معافی مانگی تو وہ فوراً ان کے ہاتھ تھام گئی

آجاؤ بچو اندر آجاؤ۔۔۔

افراز صاحب کے کہنے پر وہ لوگ اندر آئے تھے فرح اور عالیان تو جیسے پاگل ہوگئے تھے کبھی ادھر بھاگتے تو کبھی ادھر 

بچوں بیٹھ جاؤ۔۔آئمہ بیگم نے انہیں ڈانٹا تھا مگر افراز صاحب نے انہیں منع کردیا 

اب تم لوگ آرام کرو پھر رات میں فنکشن بھی ہے۔۔

سجیلہ کی بات پر وہ سر ہلا کر ملازمہ کے ساتھ کمرے میں آگئیں 

گل بچے آرام کرلو پھر مہندی والی آئے گی تو مہندی لگوالینا۔۔۔

سجیلہ بیگم کی بات پر اس نے انہیں ناسمجھی سے دیکھا 

مہندی کیوں اماں؟؟ 

کیونکہ آج حویلی میں دعوت ہے نا چلو اب آرام کرو۔۔

جی۔۔۔ ان کی بات پر وہ بیڈ پر لیٹ گئی اسکے بابا کا کمرہ کتنی ہی دیر وہ اپنے پاس ان کی خوشبو محسوس کرتی رہی تھی 

ایک گھنٹے بعد مہندی والی نے آکر ان سب کے مہندی لگائی تھی پہلی بار اس نے مہندی لگائی تھی 

اس کے ہاتھ پاؤں مہندی سے سج رہے تھے

وہ اٹھ کر بالکونی میں آگئی کتنی یادیں جڑی تھی یہاں سے یہاں آنا نکاح ہونا حیدر سے ملنا۔۔۔

حیدر کا سوچتے ہی وہ مسکرائی تھی۔۔۔

آپی آپی۔۔۔۔ آپی قاسم بھائی اگئے۔۔۔

وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی کہ فرح پھولی سانسوں کے درمیان اس کے پاس آئی تھی 

اچھا کہاں ہے؟ 

بڑے بابا کے پاس۔۔

اوو یعنی ابھی نہیں مل سکتی میں چلو بعد میں مل لونگی مہندی دیکھا اپنی لوزی وہ بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھام کر مہندی دیکھنے لگی پیاری ہے نا؟؟ 

اسکے یوں پوچھنے پر وہ سر ہلا گئی 

بہت پیاری ہے میری جان۔۔۔۔۔۔۔

چلو اب ریسٹ کرو پھر شام میں خوب مستی کرنا۔۔۔

اس نے فرح کے بال بگاڑے تو وہ ہنستی ہوئی باہر بھاگ گئی۔۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آئمہ بیگم اسے فنکشن کے لئے بلانے آئی تھیں مگر جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا اسے دیکھ کر ٹھٹھکی تھیں 

گل اناری رنگ کی گھٹنوں تک آتی راجھستانی فراک گرارہ بالوں کو اسٹائل سے باندھے بیچ میں راجھستانی ٹیکا اور جیولری۔۔

خوبصورت نقوش کو آج میک اپ سے سجایا گیا تھا 

ماشاءاللہ۔۔۔ انہوں نے آکر اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تو وہ جھینپ گئی

بہت پیاری ماشاءاللہ اللّٰہ۔۔۔دیکھنا قاسم تو دیکھتا رہ جائے گا 

اسے بیڈ پر بیٹھا کر انہوں نے لال چنری اس کے سر پر اوڑھائی تھی 

مما یہ کیا کر رہی ہیں؟؟ وہ پریشان سی انہیں دیکھنے لگی 

قاسم دیکھے کا اور اب یہ اسکے کا کینوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجی تھیں

مما مجھے نہیں پہننا یہ پلیز اسے دور رکھیں۔۔

وہ ایک دم بدکی تھی۔

کیا ہوا ہے گل ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی بیٹا نیچے سب مہمان انتظار کر رہے رسم ادا کرنی ہے۔۔

کی۔۔کیس۔کیسی ر۔۔رسم۔۔۔ بولتے ہوئے اسکی زبان لڑکھڑائی تھی 

تمہاری اور قاسم کی۔۔۔ اب باتیں چھوڑو اور اٹھو۔۔ انہوں نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اٹھایا تھا 

ویٹ مما یہ کیوں مما میں ابھی بھی حیدر کے نکاح میں ہو۔۔ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑاتی وہ ان سے دور ہوئی تھی

تو؟؟ اس کی بات پر آئمہ بیگم کی پیشانی پر بل آئے تھے 

تو جب تک میں ان سے الگ نہیں ہوجاتی یہ رسم نہیں کرسکتی۔۔

دماغ خراب تو نہیں ہوگیا ہے تمہارا تم خود راضی تھیں تمہاری مرضی سے کیا ہے یہ سب اب تماشہ کرنا بند کرو اور چلو۔۔۔

ن۔ننہ۔۔۔نہیں۔۔۔وہ دو قدم پیچھے ہوئی تھی

میرا نکاح ختم نہیں ہوا ہے مما۔۔۔

ہو جائے گا بس ایک دو دن میں۔۔انہوں نے جیسے اسکے سر پر دھماکہ کیا تھا

کیا مطلب۔۔؟؟؟؟؟

خلع کے پیپرز اسے بھیجوا دئیے ہیں اور تمہارا کیس تو اتنا کمزور ہے کہ روہاب نے کہا ہے ایک دو دن میں ہی جان چھوٹ جائے گی پھر ہم تمہارا قاسم سے نکاح کرکے ہی واپس جائیں گے۔۔

وہ ناجانے کیا کیا پلین کرکے بیٹھی تھیں یہ جانے بغیر کے کیسے پہاڑ اس پر گرا رہی ہیں

بس کردیں مما مجھے نہیں کروانی کوئی رسم کوئی نکاح کیوں تماشہ بنا رہی ہیں میرا۔۔۔

دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟؟؟؟ ساری تیاریاں ہوگئی ہیں مہمان آگئے ہیں 

تو مجھے کوئی پرواہ نہیں مما یہ سب آپ نے دھوکے سے کیا ہے آپ ایک بار مجھے بتاتی تو کہ کس مقصد کے لئے یہاں لائی ہیں تو میں کبھی نا آتی۔۔۔۔

آپ جائیں اور منع کردیں مجھے کوئی فضول رسم نہیں کرنی۔۔۔

تو ٹھیک ہے یاد رکھنا اگر آج تم نے یہ رسم نہیں کی تو میں آج ہی اپنی اور اپنے دونوں بچوں کی جان لے لوں گی اور قصوار ہونگی صرف تم۔۔۔

مما۔۔۔۔ صدمے سے اسکی آواز حلق میں پھنس گئی تھی 

نہیں ہوں تمہاری مما میں گل نہیں ہوں۔۔۔

مما میں نہیں کرسکتی یہ پلیز وہ ان کے قدموں میں بیٹھ کر بے بس ہوئی تھی

تو سمجھ لو مر گئی تمہاری مما۔۔انہوں نے جھٹکے سے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے ٹوکری میں سے چھری اٹھائی تھی۔۔

مما۔۔۔۔۔۔

اب بتاؤ ماں یا تمہاری ضد۔۔۔

نہیں کریں نا مما پلیز 

فیصلہ ابھی کرو سب سے پہلے ان دونوں کے گلے کانٹوں گی پھر اپنا۔۔۔۔

وہ بے بسی سے انہیں دیکھنے لگی اور پھر ایک ماں کی جیت ہوئی تھی وہ ہار گئی تھی باپ کو کھو چکی تھی ماں کو نہیں کھونا چاہتی تھی

جیسا آپ کہیں گی ویسا ہی ہوگا پلیز اسے رکھ دیں۔۔۔

دوپٹہ اوڑھو۔۔۔

ان کے کہنے پر اس نے بے بسی سے دوپٹہ لیا تو چھری پھینک کر اسکے پاس آئی اور اسکا ہاتھ تھام کر کمرے سے نکلیں

آج پھر وہی وقت آج پھر وہی سب،پہلے تائی نے اسکی زندگی کا فیصلہ کیا اور ایک انسان کو اسکی زندگی میں شامل کیا اور پھر جب وہ اسکی عادی ہوگئی تو اس سے دور کردیا اسکی خوشی نا پوچھی نا جانی پھر ایک بار اسکی چاہت کو بھول اپنی ضد اپنی خواہش کو محترم رکھ اسکی زندگی میں ان ان چاہے انسان کو شامل کیا جارہا تھا 

تھی کیا وہ کوئی پتھر کی مورتی جو بے حس ہوتی ہے کوئی جذبات نہیں رکھتی آنسوؤں کو اندر دھکیلتی وہ مرے قدموں سے نیچے آئی تھی جہاں اب سب کی نظریں اس پر تھی جو گھنگھٹ میں چہرہ چھپائے اپنی موت مر رہی تھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سارے انتظامات مکمل ہے شیر؟؟؟ 

جی لالہ مگر۔۔۔

کیا مگر؟؟ وہ ایک دم غصے سے پلٹا تھا آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھی 

لالہ یہ سب ٹھیک نہیں ہیں آپ نے کہا تھا وہ مانگے تو دے دینگے۔۔

اس نے مانگی نہیں ہے طلاق دھوکہ دیا ہے میرے نکاح میں ہونے کے باوجود کسی اور سے رشتہ جوڑ رہی ہے مجھ سے نفرت میں وہ اتنا گر جائے گی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اب میں اسے بتاؤں گا نفرت کے اصل معنی ہوتے کیا ہیں میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اس نے اور اس کے لئے کبھی معافی نہیں ملے گی اب تو مجھ سے آزادی اسے میرے مرنے کے بعد ہی ملے گی

لالہ آپ ابھی غصہ ہیں پلیز تھوڑا صبر۔۔۔

صبر صبر کیا صبر کرو شیر کیا صبر ہاں وہ دھاڑا تھا

میں نے جتنا صبر کیا کوئی کر کے دیکھائے سات سال دئیے اسے بچی تھی وہ مگر اب وہ بچی نہیں ہے کیا اپنے اور میرے رشتے کی نوعیت کو نہیں سمجھتی ؟؟؟ کیسے میرے نکاح میں ہوتے ہوئے وہ کسی اور کے نام کی انگوٹھی پہن سکتی ہے ہاں ابھی تک اس نے حیدر خان کی نرمی دیکھی تھی مگر اب نہیں گاڑی نکالو شیر آج حیدر خان اپنی منکوحہ کو رخصت کروا کر لا رہا ہے۔۔

اور اگر ایک لفظ بولے تو یاد سمجھ لینا مر گیا تمہارا لالہ۔۔

اسے منہ کھولتا دیکھ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا 

شیر نے دانتوں میں زبان دبائی تھی اس بپھرے شیر کو سنبھالنا اس کے لئے ناممکن تھا۔۔۔

اور ہاں نکاح خواہ کو لے کر وہاں پہنچو آج ساری وجوہات کو ختم کر کے اسے لاؤں گا ۔۔۔

شیر کو آرڈر دیتا وہ باہر نکلا تھا اور اب اسکا رخ شاہ حویلی کی طرف تھا 

آج طوفان بنا وہ سب تباہ کرنے کے درپے تھا

شیر کو اس سے خوف آیا تھا 

خدا خیر کرے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

آئمہ بیگم کے سنگ نیچے اترتے اس کے قدم کئی بار لڑکھڑائے تھے کپکپاتے وجود کے ساتھ وہ نیچے آئی تھی دل پسلیاں توڑ کر نکلنے کو تیار تھا سجیلہ بیگم نے آگے بڑھ کر جلدی سے اسکی نظر اتاری تھی

افراز صاحب اور روہاب دونوں نے اسے پیار دیا تھا مگر وہ بے حس وحرکت کھڑی رہی

آؤ بیٹا بیٹھو۔۔ افراز صاحب نے اسے قاسم کی طرف بلایا مگر وہ ایک انچ نا ہلی۔۔

فریحہ آجاؤ بیٹا۔۔۔ انہوں نے اسے دوبارہ پکارا تھا 

گل چلو۔۔ تبھی اپنے ہاتھ پر دباؤ محسوس کر وہ ہوش میں آئی تھی 

مرے قدموں سے وہ روہاب صاحب کے پاس آئی تو انہوں نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے قاسم کے پہلو میں کھڑا کیا ہی تھا کہ کسی نے اسکا ہاتھ کھینچ کو اسے اپنی طرف کیا تھا 

آہہ۔۔۔۔۔۔۔۔ پکڑ اتنی سخت تھی کہ وہ درد سے کراہی تھی۔۔

سامنے نظر پڑتے ہی اسکے وجود میں سنسنی دوڑی تھی سانس حلق میں اٹکی تھی 

بڑھی شیو لال سرخ آنکھیں بکھرے بال۔۔۔ اسے حیدر سے ڈر لگا تھا 

تم۔۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ہاں ۔۔۔

اسے دیکھ آئمہ بیگم غرائی تھیں

ہمت کی تو مجھ سے بات کرنا بھی نہیں آپ کیونکہ میری ہمت ابھی آپ نے دیکھی کہاں ہے امی جان۔۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔ اسکے امی جان کہنے پر وہ چٹخی تھیں 

یہ کیا طریقہ ہے حیدر ؟؟ افراز صاحب آگے آئے تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک جیب سے پستول نکالی تھی 

اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ سبھی ڈر کر ایک قدم پیچھے ہوئے تھے اور ان کی اس حرکت پر وہ کھل کر مسکرایا جبکہ ساتھ آئے اسکے کے محافظ اب ہال میں چاروں طرف اسلحہ سمیت کھڑے تھے

گڈ سمجھدار ہیں آپ سب۔۔۔۔

میری بیٹی کو چھوڑو حیدر۔۔۔۔۔۔

آپکی بیٹی۔۔۔؟؟ یہ میری بیوی ہے۔۔۔۔اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا 

بابا یہ سب۔۔قاسم نے اپنے باپ کو دیکھا یہ ہو کیا رہا ہے آپ نے کہا تھا نا بابا۔۔۔

قاسم ریلیکس۔۔۔۔روہاب صاحب نے اسکا ہاتھ دبا کر خاموش کروایا اس سر پھرے سے وہ کوئی اچھی امید نہیں رکھتے تھے۔۔۔

کیوں آئے ہو تم؟؟؟ سجیلہ بیگم نے آگے آکر اس سے سوال کیا تو وہ ہنس دیا گل نے اسے ڈر کر دیکھا تھا وہ ہر روپ سمجھتی تھی اسکا۔۔۔۔

جو ساڑھے سات سال پہلے کرنے آیا تھا تب نکاح کیا تھا اور آج رخصتی۔۔۔۔

اس نے کہتے کندھے اچکائے تھے 

بھول ہے تمہاری۔۔میرے ہوتے ہوئے تم میری بیٹی کو کہیں نہیں لے جاسکتے۔۔۔میں مر کر بھی ایسا نہیں ہونے دونگی۔۔۔

تو ٹھیک ہے پہلے آپ کو مارتے ہیں اس نے اچانک پستول کا رخ ان کی طرف کیا تھا وہ ایک گھبرائی تھیں 

دیکھوں حیدر اس نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ہے گل بہت چھوٹی تھی اس وقت۔۔۔

روہاب صاحب نے اسے سمجھانا چاہا تھا 

گریٹ تب چھوٹی ہونا یاد نہیں آیا تھا جب اسے میرے نکاح میں دیا تھا؟

یہ نکاح نہیں ہے گناہ کی زندگی نہیں گزارنے دونگی میں اپنی بیٹی کو آئی سمجھ۔۔۔۔

بلکل میں بھی نہیں چاہتا یہ اس لئے تو سارا بندوبست کرکے آیا ہو۔۔۔وہ پیارا سا مسکرایا تھا

اور موبائل نکال کر شیر کو اندر آنے کو کہا 

آج سارے مسئلے ختم کر کے ہی کے کر جاؤنگا فکر کے کریں۔۔

اندر آتے شیر اور مولوی کو دیکھ آئمہ بیگم نے صوفے کی پشت کو تھاما تھا

مت کریں خان پلیز۔۔۔اسے اپنے کانوں میں گل کی لزرتی آواز سنائی دی تو رگیں تن گئیں 

تمہیں میں کبھی معاف نہیں کرونگا یاد رکھنا۔۔۔اس کو گھور کر دیکھ اسنے کہا تو وہ سر جھکا گئی کتنا مشکل تھا اسکا یہ روپ دیکھنا۔۔

نکاح شروع کریں مولوی صاحب۔۔۔ ان کو حکم دیتے اس نے گل کو اپنے پہلو میں بیٹھایا تھا 

نہیں پلیز۔۔۔۔ اس نے بے بسی کہا تھا 

شیر۔۔۔ اس نے شیر کو ایک نظر دیکھا

اور اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا چاروں طرف گن مین الرٹ تھے 

تم زبردستی نہیں کرسکتے ۔۔۔

میں زبردستی کر بھی نہیں رہا گل ابھی بولے آپ جاؤ میں چلا جاؤنگا۔۔۔

بولو گل اسے یہ چلا جائے۔۔۔۔ آئمہ بیگم نے اسے پکارا تھا 

فیصلہ اس کے ہاتھ میں تھا ایک ان چاہے رشتے میں بندھ کر نکاح جیسے مقدس بندھن کو توڑ کر اپنی ماں کا نام رکھ لے

یا اپنے اس رشتے کو ایک موقع دے۔۔ اس نے سوچ سمجھ  کر فیصلہ کیا تھا وہ زارون شاہ کی بیٹی تھی ان کی سیکھائی چیزوں کو کبھی نا بھولنے والی۔۔

میں یہ نکاح کرنا چاہتی ہوں مما ایک بار پھر سے میں اللّٰہ کے نظر میں ناپسندیدہ نہیں بن سکتی آئم سوری۔۔۔

اس کی بات پر حیدر نے اسے غور سے دیکھا 

لومڑی۔۔۔۔۔ایک ہی لفظ دل سے نکلا تھا 

اور پھر آئمہ بیگم کے لاکھ منع کرنے کے باوجود نکاح ہوا تھا اس کی رضا سے ہوا تھا ولی کی موجودگی میں ہوا تھا وہ بالغ تھی سمجھدار تھی

اور یوں وہ ایک بار پھر اپنے خان کے نکاح میں بندھ گئی تھی۔۔۔۔

ٹھیک نہیں کیا تم نے گل میں تمہیں اس کے لئے کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔ آئمہ بیگم نے اسے اپنی طرف آتا دیکھ رخ پھیرا تھا 

چلو فریحہ حیدر شاہ رخصتی کا وقت ہوگیا ہے۔۔

مما۔۔۔اس نے ایک بار پھر پکارا تھا مگر بے آدھ

افراز صاحب نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا 

مجھے پورا یقین ہے زارون ہوتا تو وہ بھی یہی فیصلہ کرتا مجھے خوشی ہے کہ میرے گھر کی بیٹی کو صحیح غلط کا پتا ہے اللّٰہ بہت خوش رکھے

سجیلہ نے آگے بڑھ کر اس نے سر پر ہاتھ رکھا

تبھی حیدر نے اسکا ہاتھ تھاما تھا اور حویلی سے نکلتا چلا گیا

دیکھا میں نے کہا تھا نا یہ لڑکا میری بچی کی زندگی برباد کردے گا جیسے زارون کو چھینا ویسے ہی میری گل کو چھین لے گا مگر آپ کو یقین ہی کب تھا میرا۔۔

اس کے یہاں سے جانے کے بعد جیسے وہ آپے سے باہر ہوگئی تھی۔ 

اور آپ افراز بھائی آپ نے آج بھی وہی کیا جو پہلے کیا تھا میری بچی کا ہاتھ اس ظالم کے ہاتھ میں دے دیا اپنے بھائی کے قاتل کے ہاتھ میں دے دیا۔۔۔۔

بس کردو آئمہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ حیدر نے قتل نہیں کیا تھا اور تم سے بہتر یہ بات کون جان سکتا ہے ہاں۔۔۔۔

میں مانتی ہوں وہ وہاں سے نکل کر مجھ سے بات کرنے آیا تھا اس نے ہر بات کے لئے معافی مانگی تھی مگر ۔۔۔

مگر کیا ہاں وہ چاہتا تھا تو کتنا کچھ کرسکتا تھا مگر اس نے گل کی حفاظت زارون کی طرح کی ارے خون بہا میں بھیجی گئی لڑکیاں یا تو مر جاتی ہیں یا پاگل ہوجاتی ساری زندگی غلام بن کر گزار دیتی ہیں مگر ان کو کوئی مقام نہیں ملتا 

ہماری گل تو خوش قسمت تھی کہ وہ جیسے گئی تھی بلکل ویسے ہی واپس آئی یہ تو اس انسان کی اچھائی تھی جو ہم سمجھ نہیں سکے اور اب تم بھی یہی کر رہی ہو۔۔۔

ہاں میں نہیں سمجھ رہی نا مجھے سمجھنا ہے آپ سب کی وجہ سے ہوا یہ سب۔۔۔

غصے میں کہتی وہ جاکر اپنے کمرے میں بند ہوئی تھیں۔۔

سمجھاؤ اسے روہاب وہ ایسے بیوقوفی نہیں کرے ہم نے جو کیا اس کی بہت بھیانک سزا کاٹی ہے ہم نہیں چاہتے پرانی باتیں پھر دھرائی جائے

میں کیا بول سکتا ہوں افراز بھائی مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میرے بیٹے کا دل ٹوٹا ہے میں کیا کسی کو سمجھاؤں۔۔۔

اللّٰہ سب بہتر کرے گا بس اس پر توکل کرو۔۔ا انہوں نے روہاب صاحب کا کندھا تھپتھپایا۔۔

میں قاسم کو دیکھتا ہوں۔۔

ٹھیک ہے۔۔روہاب کے جاتے ہی وہ وہیں بیٹھ گئے تھے آج جو بھی ہوا اس نے اس سب کو ہی ڈسٹرب کیا تھا مگر افراز صاحب ٹھوکر کھائے ہوئے تھے جبھی اللّٰہ کی رضا میں راضی تھے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اسے گاڑی میں ڈال کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا تھا 

گل نے غور سے اسے دیکھا بہت کچھ یاد آیا تھا پہلی ملاقات اسکا یوں غصہ۔۔ایسی حالت میں بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی 

زبان میں کھجلی ہوئی تھی مگر اسکا غصہ دیکھ وہ زبان دانتوں میں دبا گئی 

دھیان آئمہ بیگم پر گیا تو ساری ہنسی ہوا ہوئی تھی وہ انہیں دکھ دے کر آئی تھی مگر وہ کیا کرتی وہ کسی کے نکاح میں ہوکر کیسے ایک نامحرم کے نام کی انگوٹھی پہنتی اس نے اللّٰہ کے بھروسے یہ فیصلہ کیا تھا وہ اپنی ماں کی دھمکی ان کی زندگی کی خاطر وہ مان گئی تھی مگر جب حیدر آیا اور شیر نے پستول رکھی تو اسنے اپنی ماں کی آنکھوں میں موت کا خوف دیکھا تھا وہ کبھی اپنی زندگی ختم نہیں کرینگے کیونکہ ان کے پاس فرح اور عالیان تھے 

وہ جانتی تھی کوئی انہیں انتہائی قدم نہیں اٹھانے دے گا اس لئے اس نے یہ فیصلہ کیا تھا وہ اب خوش رہنا چاہتی تھی مگر اس کھڑوس کے چہرے کو دیکھ اس کو اپنی خوشی خاک میں ملتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔

مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔ گھونگھٹ کے اندر سے آتی اس کی آواز نے حیدر کو اسے دیکھنے پر مجبور کیا تھا 

نظریں اتنی خونخوار تھی کہ وہ ہونٹ چبا گئی۔۔

اففف اللّٰہ مما یہ کیا کیا آپ کا ایک قدم انہیں مجھ سے بدگمان کرگیا ہے۔۔۔

مگر میں بھی گل ہو ان کو سیدھا کردونگی۔۔۔

دل ہی دل میں بولتی وہ اب پر سکون ہوگئی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گاڑی روکتے ہی وہ سائیڈ سے اتر کر اسکی طرف آیا تھا اور پوری طاقت سے اسکا بازو دبوچ کر اسے باہر نکالا تھا 

آہ۔۔۔۔۔۔

تقریباً گھسیٹنے کے انداز میں وہ اسے لئے اندر آیا تھا اور اندر لا کر اس نے اسے صوفے پر پٹخا تھا 

درد کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑی تھی

تبھی اس نے کھینچ کر اسکا گھونگھٹ ہٹایا تو اس نے تڑپ کر اسے دیکھا 

نظریں ملی تھی حیدر کا ہاتھ وہی ساکت ہوا تھا 

شہد رنگ آنکھوں میں سرخی سی گھلی تھی بھیگی پلکیں مٹا مٹا میک اپ۔۔۔

دماغ خراب ہے آپ کا۔۔؟؟؟ اسے یوں خود کو تکتا پاکر اسکا دماغ گھوما تھا 

اور اس کے چیخنے پر وہ ہوش میں آیا تھا 

آہاں بہت اچھے سے خراب ہے میرا دماغ اور اب تمہارا دماغ ٹھکانے لگانا ہے وہ واپس سے اپنے خول میں بند ہوکر اس پر جھپٹا اور اسکا منہ دبوچ کر اسے کھڑا کیا تھا 

کیا کر رہی تھیں ہاں ہمت کیسے ہوئی تمہاری کسی اور کے نام کی انگلی پہننے کی ہاں خلع لوگی علیحدگی چاہتی تو یاد رکھنا اب مجھ سے فرار موت کے بعد ہی ممکن ہے۔۔۔

اس نے پھر اسے دھکا دیا اور واپسی کے لئے مڑا اگر مزید یہاں رکتا تو ضرور کچھ کر بیٹھتا 

ابھی وہ کمرے کی دہلیز تک ہی پہنچا تھا کہ دھڑام سے زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔

اففففف۔۔۔۔

وہ بلکل انجان تھا اس لئے ایک دھکے میں ہی گرا تھا 

اس نے ایک دم گردن گھما کر پیچھے دیکھا جہاں وہ خونخوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی 

ہمت کیسے ہوئی مجھے یعنی گل کو دھکے مارنے کی ہاں سمجھا کیا ہے مجھے۔۔۔

کمر پر ہاتھ رکھے وہ غصے کی شدت سے لال ہورہی تھی ۔

اب ہاتھ لگایا نا تو بھول جاؤ گی آپ مجھ سے بہت بڑے ہو بڈھے کھوسٹ دماغ کھسک گیا ہے وقت کے ساتھ جا کر علاج کروائیں 

اسے کھری کھری سنا کر اس نے دروازہ کھٹاک سے بند کیا تھا 

اور وہ زمین پر پڑا یہ سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔

اسے تو لگا تھا اسکی سختی پر وہ روئے گی چلائے گی مگر آہ وہ بھول گیا تھا وہ کوئی عام تھوڑی تھی وہ تو فریحہ گل تھی 

کپڑے سیٹ کرتا وہ اٹھا تھا 

دیکھ لونگا تمہیں میں زرا باہر نکل کر آؤ۔۔ دروازے پر زور سے ہاتھ مار کر وہ چلایا تھا 

ارے جائیں بہت دیکھے آپ جیسے۔۔دوسری طرف سے بھی دوبدو جواب آیا تھا۔۔۔

لومڑی۔۔ غصے سے بڑبڑاتا وہ اپنے کمرے میں آیا تھا آج کو کچھ اس نے کیا ایسا وہ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر خلع کے کاغذات اسکی منگنی اور اس کے میسج نے مل کر اسکا دماغ گھومایا 

مزید سوچنا ترک کر کے وہ تکیے میں منہ دے گیا کیونکہ دل و دماغ سکون میں تھے کیونکہ اس کی گل اس کے پاس تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اسکی آنکھ پیٹ میں گودے چوہوں کی بدولت کھلی تھی 

اللّٰہ جی اتنی بھوک لگ رہی ہے اب کیا کروں وہ مگر مچھ کی آئیز والے بھی غصے میں بلکل بھینس بن گئے ہیں

بڑبڑاتی وہ بیڈ سے اٹھی تھی وہ ابھی تک کل والے ڈریس میں ہی تھی

کیا کروں ایک تو بلکل ہی جن ہوگئے ہیں اب بندہ دوسرے کی بات بھی تو سنے نہیں اپنی اپنی کرنی مگر کوئی بات نہیں اب کچھ کیا تو بدلہ پورا لونگی۔۔۔

خوفٹ سے بڑبڑاتی وہ باہر آئی تو پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا اس نے ایک زور سے انگڑائی لی اور ہاتھ سے بالوں کو سیٹ کرتی گھر کا جائزہ لیا کچن نظر آنے کر وہ اندر آئی مگر خالی کچن اسکا منہ چڑا رہا تھا 

اففف اتنے بڑے آفیسر بن گئے مگر کچن میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے اب جاؤ گی تو مجھے ہی کچا نا کھا جائیں کیا کروں۔۔اس ۔ء پریشانی سے ماتھا مسلا…

چل گل پتر شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈال ۔۔۔

وہ اس تین کمروں کے گھر میں اسے دیکھتی اس کے کمرے کے آگے رکی تھی ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو دروازہ کھلتا چلے گیا اور سیگریٹ کی بدبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تھی 

اففف نشئی۔۔۔۔

وہ اس کے پاس آکر گھڑی ہوئی جو بیڈ پر اوندھے منہ پڑا تھا 

پرانا وقت یاد آتے اس نے ناک سکیڑی۔۔۔

اے۔۔۔ خان سنیں۔۔۔۔

اس نے تھوڑا جھک کر اسے آواز لگائی تھی پتا میں کون بولتا ہے ان کو نیند نہیں آتی 

خان اٹھیں مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔ اب کی بار اس نے زرا زور سے آواز لگائی تھی۔۔۔ مگر بےسدھ

اوئے خان اٹھیں نا۔۔۔ اب کی اس نے ہوتی قوت سے کشن کھینچ کر اسے مارا تھا وہ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھا 

اور اسے سامنے دیکھ ماتھے پر لاتعداد شکنیں نمودار ہوئی تھیں

کیا مصیبت ہے کیوں آئی ہو یہاں؟؟ 

کیا مطلب کیوں آئی ہوں کیا نشہ کیا تھا رات کو کیا کچھ پیا تھا ہاں خود گن پوائنٹ پر رخصتی کرواکے لائے تھے حد ہے بھئی یہاں تو یہ حال ہے مطلب کل کو بولیں گے کون بیوی میری تو شادی ہی نہیں ہوئی واہ بھئی واہ پتا نہیں کہاں سے قابل آفیسر مجھے تو لگتا مجرم کو پکڑ کر بھول جاتے ہونگے اور بھاگ جاتا ہ۔۔۔

چپ۔۔۔۔۔ بلکل چپ کتنا بولتی ہو زبان نہیں تھکتی؟؟؟ اس نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کروایا تھا

آپ تو ایسے بول رہے جیسے میں پہلی بار بول رہی خیر ابھی مجھے بھوک لگ رہی تو کچھ کھانے کو دیں۔۔۔منہ سڑا کر اس نے ناک سکیڑی اور وہی حیدر خان کا دل دھڑکا تھا مگر اتنی آسانی سے معافی تو دے گا نہیں اور وہ بھی کونسا معافی مانگ رہی تھی بینڈ ہی بجا رہی تھی

کچن میں جاؤ وہاں ہوتا ہے کھانا یہاں کیوں آئی ہو؟؟ 

اچھا سچی اوووو مائی۔۔۔۔ گاڈ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا ارے آپ کا کچن تو کھانے سے بھرا ہوا مجھے ہی شوق ہوا تھا صبح صبح اس گندے سے غصے بھرے دماغ کو کھانے کا۔۔۔۔ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ اسے اتنی پیاری لگی کہ دل کیا کہ یہ گال ہی نوچ لے مگر ہائے وہ تو ناراض تھا نا۔۔۔

خود پر جبر کئے اسے گھورتا رہا۔۔

اب گھورنے کے بہانے تاڑے مت کچھ کھانے کو دیں کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔

اس کے دیکھنے پر چوٹ کرتی وہ منہ بسور گئی تو وہ ایک دم شرمندہ ہوا تھا غصے میں واقعی وہ کھانے کا تو بھول ہی چکا تھا 

تم جاؤ فریش ہو چینج کرو کرتا ہوں کچھ ناشتے کا۔۔

بستر سے اٹھتے اس نے اسے کمرے سے بھیجنا چاہا کیونکہ وہ مسلسل اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی

میں تو جہیز میں کپڑوں کا ٹرک بھر کر لائی ہوں نا جو جا کر چینج کروں اٹھا کر لائیں ہیں تو کپڑے بھی لائیں۔۔۔تنک کر کہتی وہ وہی بیڈ پر منہ بنا کر بیٹھ گئی 

اففف بڑے ہونے کے ساتھ لگتا ہے زبان کا سائز بھی بڑا ہوگیا اسکا دل کیا اسکی زبان نکال کر چیک کرے مگر ایسا کچھ کرتا تو نیا محاذ کھل جاتا اس لئے خاموشی سے اپنے بیگ سے اسے اپنا سوٹ نکال کر اس کی گود میں ڈالا 

یہ لو یہ پہنو۔۔۔۔

اور اس نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں سیرسیلی میں یہ پہنوں۔۔

اب میں تمہاری طرح فراک تو پہننے سے رہا یہی ہے ابھی میرے پاس بعد میں دلا دوں گا ابھی اس سے کام چلاؤ اور میرے کمرے سے چلتی نظر آؤ انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کرتا وہ اسے ٹھیک ٹھاک سلگا گیا تھا۔ ۔

اتنی بڑی بڑی حرکتیں نا کریں خان کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔۔

غصے سے کہتی وہ تن فن کرتی اس کے کمرے سے نکلی اور وہ ہنس دیا 

پاگل لومڑی۔۔۔۔

شیر کو ناشتے کا بول کر وہ خود فریش ہونے چلے گیا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

شیر کے میسج پر وہ باہر آیا تھا ناشتے کا سامان لئے وہ کچن میں آیا اور ٹیبل سیٹ کرنے لگا پتا تھا محترمہ ایک نمبر کی کام چور ہیں 

یہ کیا دیا آپ چاہتے ہیں میں مر جاؤ مگر اتنی جلدی نہیں کرونگی۔۔۔

اس کی پک پک اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر اسکا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھا 

کیونکہ اس کے دئے گئے شلوار سوٹ میں وہ چھوٹی سی بطخ لگ رہی ہے 

کیوں ہنس رہے ہیں ہنسنے کو بولا ہے۔۔۔۔۔

اس نے یوں ہنسنے پر وہ چڑی تھی

کیوں یہ اتنے بڑے بڑے دانت نکال رہے ہیں 😡

کیونکہ تم اس وقت بلکل بطخ لگ رہی ہو۔۔۔ اسکے چڑنے پر وہ بھی چڑانے سے باز نہیں آیا تھا

بطخ۔۔۔۔۔اسکی صدمے سے آنکھیں پھٹی تھیں 

کیا کہا آپ نے مجھے خان۔۔۔وہ ایک دم آستینیں چڑھا کر اسکی طرف بڑھی تھی 

بطخ بطخ بطخ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی مزے سے بولتا سائیڈ ہوا تھا اس کا کیا بھروسہ کچھ کھینچ کر مار دے۔۔۔

چھوڑوں گی نہیں میں آپ کو مگر ابھی پکڑنے کے لئے ہمت چاہیے اس لئے ناشتہ کرنے دیں۔۔مزے سے بولتی وہ جلدی سے چئیر کھینچ کر بیٹھ گئی۔۔

بونی بطخ۔۔۔۔ وہ اسے یوں کھانے پر جھکے دیکھ۔ بڑبڑاتا اپنی جگہ پر بیٹھ گیا جانتا تھا اب یہ کچھ بڑا کرے گی اور وہ کیا ہے اسے سوچ کر اسنے سر مسلا

تیار ہوجاؤ ہمیں کراچی کے لئے نکلنا ہے۔۔

وہ بیڈ پر بیٹھی ٹانگیں ہلانے میں مصروف تھی جب وہ کمرے میں آیا تھا 

آپ کو لگتا ہے میں اس حلیے میں آپ کے ساتھ کراچی جاؤنگی؟؟ آئی برو آچکا کر اس نے دانت پیسے

اسکے شلوار قمیض میں وہ کارٹون لگ رہی تھی

تو کیا برائی ہے اچھا خاصا سوٹ ہے میرا۔۔۔اب تم بونی ہو تو میرا کیا قصور۔۔وہ اب بھی باز نہیں تھا۔۔

اس کی بات پر وہ پراسرار سا مسکرائی تھی

ویسے انسان کو اتنا ہی بولنا چاہیے جتنا وہ برداشت کر سکے ہیں نا۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اس کے سامنے آکر رکی تھی

لیکن تم نے سب میری برداشت سے زیادہ کردیا ہے گل بہت زیادہ ۔۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں تلخی آئی تھی 

گل کی نظریں جھک سی گئی تھیں 

ڈریس منگوایا ہے وہ پہن کر باہر آؤ۔۔

اسے بول کر وہ رکا نہیں تھا بلکہ سیدھا باہر نکل گیا 

آئمہ سوری خان آئم رئیلی سوری بٹ آئی پرامس میں سب ٹھیک کر دوں گی۔۔۔اس دل بہت اداس ہوا تھا 

خاموشی سے باہر آکر اس نے ڈریس والا بیگ لیا اور ریڈی ہوکر باہر آئی تو وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا اسے دیکھتے گاڑی میں بیٹھا تو وہ بھی مرے قدموں سے اس کے برابر آکر بیٹھی۔۔

انہیں بیٹھتے دیکھ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی تو وہ ونڈو پر چہرہ ٹکا گی

حیدر کو افسوس ہوا تھا اسے یوں خاموش دیکھ مگر جو تکلیف اس نے سہی وہ اسکا کیا کرتا کیسے وہ اسکی ہوتے ہوئے کسی اور کے نام کی انگوٹھی پہننے جارہی تھی اس سے خلع لینے جارہی تھی۔۔۔راستے میں انہوں نے کھانا کھایا تھا مگر گل سے وہ بھی ٹھیک سے نہیں کھایا گیا تھا 

ٹھیک سے کھاؤ فریحہ۔۔

مجھے بھوک نہیں ۔۔۔ کھانے سے ہاتھ روک کر وہ اٹھ کر واپس گاڑی میں اکر بیٹھ گئی

تھوڑی دیر بعد وہ آیا تو ہاتھ میں شاپر تھا جو اس نے گل کی طرف بڑھایا مگر اس نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا 

حیدر نے تاسف سے اسے دیکھا اور اس شاپر کو بیچ میں رکھتا اپنی جگہ پر بیٹھ گیا سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ سفید لباس میں پر سکون سے بیٹھے تھے جب کے وہ ان کے پاس بیٹھی بے تحاشہ رو رہی تھیں

کیوں رو رہی ہو آئمہ؟؟ 

زارون میں اپنی بچی کی حفاظت نہیں کرسکی وہ کے گیا اسے۔۔۔

کیا وہ وہاں غیر محفوظ ہوگی۔۔ نہیں وہ اپنے شوہر کے پاس ہے تم کیوں گناہ گار بن رہی ہوں تم جانتی ہوں نا اللّٰہ کے یہاں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے…

جی۔۔۔وہ بے بس ہوئی تھیں 

اللّٰہ پر بھروسہ رکھو وہ کچھ بھی بے مقصد نہیں کرتا اس پر توکل کرو گی تو پر سکون رہو گی تمہیں تو چاہیے تھا اسے خوشی خوشی رخصت کرتی مگر تم نے میرا دل دکھایا ہے آئمہ لیکن میں پھر بھی ناراض نہیں ہوں بس یہ چاہتا ہوں تم میری بیٹی کو سمجھو وہ اپنے بابا کی سیکھائی ہوئی باتوں پر عمل کر رہی اس پر بھروسہ کرو وہ بڑی ہوگئی ہے اسے اعتماد کی ڈوری تھماؤ۔۔

مجھے معاف کردیں زارون۔۔

کوئی بات نہیں چلتا ہوں اب خیال رکھنا۔۔

آہستہ آہستہ وہ ان سے دور ہو رہے تھے۔۔

زارون۔۔۔۔۔ وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھی تھیں پورا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا 

زارون۔۔۔۔۔ وہ خواب تھا 

زارون۔۔۔۔۔ انہوں نے پکارا تھا مگر وہ پاس نہیں تھے۔

زارون۔۔۔انہیں آس پاس نا پاکر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں

مجھے معاف کردیں زارون بس پلیز مجھ سے ناراض مت ہوں پلیز۔۔۔۔

بیڈ شیٹ مٹھیوں میں بھینچے وہ ہچکیوں سے رو رہی تھیں کتنا بے سکون ہوگیا تھا دل۔۔

مجھے معاف کردیں زارون ۔۔۔اللہ پاک آپ بھی مجھے معاف کردیں پلیز۔۔۔

رونے سے دل تھوڑا ہلکا ہوا تو انہوں نے اٹھ کر وضو کیا کیونکہ ایک آخری سہارا وہی تو ہے جو دل کی ہر بات سنتا ہے جانتا ہے۔۔۔

میں کیا کرو اللّٰہ پاک کہاں سے لاؤں اتنا ظرف آپ جانتے ہیں نا کتنی مشکل سے میں نے سب کچھ بھولایا ہے میری زندگی کیسی ہوگئی تھی میں ڈر گئی ہوں اللّٰہ پاک کہیں میری بچی کا نصیب میرے جیسا نا ہو 

اللّٰہ پاک مجھے معاف کردیں میری گل کو آپ دنیا کی ساری خوشیاں دیجئے گا میں ایک اچھی ماں نا نہیں ہوں مگر میری بچی وہ بہت اچھی ہے وہ رشتوں کو نبھانا جانتی ہے پلیز پلیز اسے بہت ساری خوشیاں دیجئے گا اسکی حفاطت کیجئے گا

سجدے میں جھکی وہ اپنے رب سے مانگ رہی تھیں اور بے شک وہ سب کی سننے والا ہے۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

رات کافی دیر سے وہ کراچی پہنچے تھے گاڑی اپارٹمنٹ کے باہر رکتے ہی حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا جو بے خبر سونے میں مصروف تھی کھانے کی شاپر کو اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا 

پہلے سے زیادہ ضدی ہوگئی تھی وہ۔۔۔

گل اٹھو گھر آگیا ہے گل۔۔۔ ڈرائیور نے باہر جاتے ہی اس نے اسکا کندھا ہلایا تھا مگر گل محترمہ تو سارے گدھے گھوڑے بیچے سو رہی تھیں نا اٹھنا۔۔۔۔

ڈرائیور کو سامان اندر رکھنے کا بول وہ آگے کو جھکا اور اسکا ہاتھ گلے میں ڈالے اسے اٹھایا تھا۔۔۔

اندر پیر کی ٹھوکر سے دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا تھا 

سیدھا لا کر اسے بیڈ پر لٹایا اور اس پر اچھے سے کمفرٹر سیٹ کر اٹھا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ اس کی نرم گرفت میں آیا تھا 

وہ

اسکا ہاتھ تھامے پھر سے نیند میں گم ہوئی تھی اس نے مسکرا کر اسکے ہاتھ پر بوسہ دیا اور اپنا ہاتھ نکالنا چاہا مگر اسکے اس طرح کرنے پر وہ ہلکا سا کسمسائی تھی۔۔۔

آئم سوری میں نے غصہ کیا مگر جو تم کرنے جارہی تھی وہ برداشت کیسے کروں کیسے بھولوں اسکے پاس بیٹھتے اس نے اسکے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹے تھے پھر جھک کر اسکے ماتھے پر مہر محبت ثبت کی تھی 

وہ اسکی دوست بنی تھی ایسی دوست جس نے صرف اسے دیا تھا محبت دوستی جیسا خوبصورت رشتہ،اعتماد محبت تو ایک فطری جذبہ ہے وہ اس کے لئے لازم ہوگئی تھی وہ جب جب سوچتا تھا کہ ایک چھوٹی بچی کی زندگی اس کی وجہ سے خراب ہوئی وہ شرمندگی کی انتہا گہرائیوں میں گر جاتا مگر پھر گل کا اسکا خیال رکھنا اسے پھر سے زندگی جینا سیکھا گیا تھا یہاں ہر کوئی اپنے لئے جیتا ہے مگر دوسروں کے لئے کرنا بنا کسی کی غرض کے کر ایک کے بس کی بات ۔نہیں تھی

وہ چھوٹی بچی اسے سب سیکھا گئی تھی تو پھر وہ کیوں نا اس سے محبت کرتا اب وہ بچی نہیں تھی کہ وہ شرمندہ ہوتا اسکی بیوی تھی اسکا حق تھا اس پر وہ انتیس سال کا تھا اس نے سات سال صبر کیا تھا اور اب وہ اس کی دسترس میں تھی۔۔

مگر ناراضگی دیکھانا تو اسکا فرض تھا جو وہ بہت اچھے سے نبھائے گا اپنی سوچ کر خود ہی مسکراتا وہ اس کے گرد اپنی گرفت تنگ کرتا اسکا سر اپنے سینے پر رکھ گیا 

میری چڑیل۔۔۔اسکے بالوں پر بوسہ دیتا وہ آنکھیں موند گیا۔۔۔

دل مطمئن تھا پاس محبت تھی تو نیند کیوں نا مہربان ہوتی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ واپس آگئی اور تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو ختم کیوں نہیں کیا اسے۔۔۔

فون پر دوسری طرف آتی آواز پر اسنے فون کان سے ہٹا کر گھورا۔۔

آپ کیوں اس کے پیچھے ہیں باپ کو مروا تو دیا اب تک سکون نہیں ملا آپ کو؟؟؟ 

نہیں جب تک میرا بدلہ پورا نہیں ہوتا مجھے سکون نہیں آئے گا۔۔۔۔

آپ کسی اور کو یہ کام دیں میں اب مزید کوئی کام نہیں کر رہا حیدر خان جان سے مار دے گا مجھے۔۔۔

تم جیسے ڈرپوک اس قابل نہیں تھے کہ تمہیں کوئی کام دیا جاتا۔۔ دفع ہوجاؤ۔۔دوسری طرف سے غرا کر فون بند کیا گیا تھا 

عجیب میں کیوں پھنسوں اتنے سالوں بعد پھر بدلہ لینا یاد آگیا۔۔

جب کے دوسری طرف موجود وجود ایک بات پھر اپنی ہی لگائی آگ میں جل رہا تھا 

بہت جی لیا فریحہ زارون شاہ تمہیں تو  خود اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا ہے مجھے۔۔۔۔

موبائل بیڈ پر پٹخ کر اس نے اپنے اس خونی منصوبے کو سوچنے تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اسکی آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا جبکہ دور مسجدوں سے فجر کی آذان سنائی دے رہی تھی اس نے گہرا سانس کے کر اپنے پہلو میں سوئی اس چڑیل کو دیکھا جو سوتے ہوئے چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی مگر جاگتے ہوئے تو حیدر کی ناک میں دم کر کے رکھ دیتی تھی

اسکا سر اپنے سینے سے ہٹا کر بیڈ پر رکھتے اس نے تکیہ سیٹ کر کے لگایا اور اس پر اچھے سے کمفرٹر ڈال کر باہر آگیا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔

وضو کر کے وہ مسجد چلا گیا واپسی پر وہ گھر آیا ہی تھا کہ اس کے موبائل پر میسج موصول ہوا تھا جسے پڑھ کر اسے اعصاب تنے تھے 

اسے کئی دنوں سے اس نمبر سے میسج موصول ہورہے تھے اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تو دوسری طرف نیند میں ڈوبی آواز گونجی تھی 

نیند لینے سے پہلے اگر میرا کام کردیتے تو شاید تمہارے لئے آسانی رہتی۔۔

س۔سر۔۔سویا دماغ ایک دم الرٹ ہوا تھا 

سوری سر وہ نمبر نہیں دیکھا 

زرا سی لاپرواہی ہم پولیس والوں کے لئے موت ثابت ہوسکتی ہے 

جی سر۔۔وہ جی بھر کر شرمندہ ہوا تھا 

ایک نمبر دیا تھا اسکا کیا ہوا؟؟

سر نمبر میں نے دے دیا ہے شام تک ڈیٹیلز آپ کے پاس ہونگی۔۔

ٹھیک ہے اس سے زیادہ دیر مت کرنا۔۔۔

اوکے سر۔۔۔

فون رکھ کر وہ کچن میں آیا تھا جب سے وہ یہاں آیا تھا اپنا کھانا خود ہی بناتا تھا اور آج کا ناشتہ تو اسپیشل تھا آج اسکی لومڑی اس کے ساتھ تھی

ناشتہ بناتے اسے ایک گھنٹہ لگ گیا تھا پرانے وقت یاد کرتے وہ مسلسل ہلکا ہلکا مسکرا رہا تھا

تبھی اندر کمرے میں کھٹکے کی آواز آنے پر وہ چونک کر مڑا تھا 

اس نے باہر آکر دیکھا تو گل محترمہ روم لاک کر کے اندر بند ہوگئی تھیں۔۔۔

گل۔۔۔۔وہ بس تپ کر رہ گیا

غلطی بھی خود کی اور منہ بھی محترمہ کا خود ہی بنا ہوا ہے۔۔

ناشتہ ریڈی کر کے سب سے پہلے اس نے ڈپلیکیٹ کی نکالی تھی 

 وہ اندر آیا تو محترمہ تکیے میں منہ دئیے پڑی تھی لاک کھولنے کی آواز پر منہ اور تکیے میں کیا تھا 

دھیان سے کہیں منہ اندر ہی نا پھنس جائے اسکی اس حرکت پر ہنسی دباتا وہ بولا تھا مگر دوسری طرف سے ہنوز اسے اگنور کیا گیا تھا

واہ کیا زمانہ آگیا ہے سارے کام خود کرو شادی شدہ ہوکر منگنی کرو خلع کے لئے کاغذات بھیجو اور غصہ بھی خود ہو ناچاہتے ہوئے وہ جلے دل کے پھپھولے پھوڑ چکا تھا

اور اسکی بات پر وہ تڑخ کر اٹھی تھی 

کیا کہا ہاں کیا کہا میں نے خلع کے پیپرز بھیجے میں نے منگنی کی ارے ویسے تو بڑے ہیرو بنے پھرتے کہ سب پتا یہ نہیں پتا کہ یہ سب مما نے مجھے بتائے بغیر کیا اور آپ بڑے معصوم بن رہے اتنے معصوم ہیں نہیں جب بابا مجھے لینے آئے تھے کتنا روئی تھی میں کہ نہیں جانا آپ کے ساتھ رہنا تب خود مجھے دور بھیجا اور اب جب مما نے ایسا کیا تو آپ کو برا لگ رہا اور مجھے ہوں لے کر آگئے اور تب سے ڈانٹے جارہے ڈانٹے جارہے میں بول رہی چلو چھوڑو غصہ ہیں مگر نہیں کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھ رہے سب نے بولا آپ نے بابا کو۔۔۔ 

مگر میں نے کبھی یقین نہیں کیا کیونکہ جو شخص میری معمولی تکلیف پر تڑپ سکتا ہے کیسے وہ کسی کو مار سکتا لیکن نہیں آپ کی سائیڈ میں رہی کبھی دل میں آپ کے لئے میل نہیں آیا مگر آپ۔۔۔

آپ اس قابل ہی نہیں آپ سے ہمدردی کی جائے وہ ہی سہی تھا نا میں بھی منہ بنا کر رکھتی نفرت کرتی مگر کیا کروں میں۔۔۔۔

روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ گئ تھیں 

ایک دم حیدر نے آگے بڑھ کر اسکو اپنی طرف کھینچا تھا وہ جو ٹرین کی اسپیڈ سے بول رہی ایک دم چپ ہوئی تھی۔۔

حیدر۔۔۔۔

ششش۔۔۔۔ بلکل چپ کب سے بولے جارہی ہو یہ زبان تھکتی نہیں ہے 

چھوڑیں مجھے۔۔ وہ پوری طاقت لگا رہی تھی مگر اس کے آگے تو وہ چھوٹی سی بطخ تھی

اے بطخ۔۔۔۔ اس نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تھی گل کی جان ہتھیلی میں آئی تھی 

جانتا ہوں بہت برا ہوں بلکل بھی اچھا نہیں ڈانٹتا ہوں،غصہ کرتا ہوں اور ۔۔

اور چھوڑ بھی دیتے ہیں۔۔ وہ سڑ سڑ کرتے بولی تو وہ مسکرا دیا

ہاں مگر خیال بھی تو رکھتا ہوں نا۔۔

جھوٹے۔۔۔

اس کی بات پر اس نے اس پر اپنی گرفت مزید تنگ کی تھی اس کی اتنی سی قربت پر اس کی نازک جان مشکل میں آئی تھی 

آپ چھوڑیں مجھے بس مجھے نہیں سننا کچھ۔۔

لیکن مجھے تو سنانا ہے نا۔۔۔

ہاں تو جاکر ہاںر کسی کو بھی سنائیں مجھے نہیں۔۔

اسکے سینے پر سر رکھے وہ چھوئی موئی بنی ہوئی تھی

وہ اس سے کم از کم بھی آٹھ نو سال چھوٹی تھی مگر اس وقت اسے یوں قریب کئے وہ بے حد پر سکون تھا اسکا بچپن محفوظ تھا کوئی آنچ اس پر نہیں آئی تھی 

بھوک لگی ہے؟؟

یونہی اس کے سینے سے لگے اس نے سر ہلایا تو اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے باہر لایا تھا۔۔

وہ خوش تھا وہ بےفضول کی ضد اور انا میں نہیں پڑا تھا اس نے ناراضگی ایک حد تک ظاہر کی تھی وہ اسے خود سے بدگمان نہیں کرسکتا تھا وہ جانتا اسکا دل سونے جیسا ہے کسی بھی ملاوٹ سے پاک۔۔

اس نے اللّٰہ پاک کا شکریہ ادا کیا تھا  کہ اللّٰہ نے اس کو بہترین سے نوازہ۔۔۔

اسے ناشتہ کروا کے وہ آفس کے لئے تیار ہورہا تھا تبھی وہ اس کے کمرے میں آئی تھی ۔۔۔

خان۔۔۔۔۔

ہمم۔۔۔

مما سے بات کرنی ہے مجھے پلیز۔۔۔۔انگلیاں چٹخاتی وہ اسے پہلی بار کنفیوز لگی 

وہ ہئیر برش رکھتا  اس کی طرف مڑا تھا 

اس میں پلیز کیوں کہا؟؟ 

جی؟؟ اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

میری بطخ حکم دیتی ہی اچھی لگتی ہے ایسے پلیز پلیز کرتے نہیں اس کی ناک دبا کر کہتا وہ واپس مڑا

یہ آپ کچھ زیادہ ہی فری نہیں ہورہے ہیں خود کو دیکھا ہے کبھی؟؟ 

روز دیکھتا ہوں۔۔

ارے جائیں جائیں روز دیکھتا ہوں بطخ ہونگے آپ خود۔۔۔

یہ دیکھوں شوہر سے ایسے بات کرتے ہیں کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔۔

کیا سوچے گا یہی سوچے گا کہ بچی سے شادی کرلی تو اب یہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔۔

اپنی بات بول کر وہ ہنسی تھی۔۔

آہاں بچی۔۔۔ بچی سن کر اسے صدمہ ہوا تھا بچی نہیں ہو پوری عورت ہو اور ویسے برا مت ماننا بچپن میں بھی تم بچی کم پکی زیادہ تھیں۔۔۔

خان۔۔۔ پکی لفظ پر اسکی آنکھیں باہر آئی تھیں جبکہ اس کے ہاتھ کشن دیکھ وہ جلدی سے باہر کی طرف بھاگا تھا

چھوڑوں گی نہیں زندہ کل اخبار میں خبر بھی آئے گی 

گل انسان بن جاؤ بطخ ہونے کا ثبوت نا دو۔۔۔

اسے یوں اچھل اچھل کر بھاگتے دیکھ وہ پھر باز نہیں آیا تھا 

اخروٹ دماغ۔۔۔۔

اوئے بتاؤ ابھی۔۔۔خانہ خراب😡

آپ کیا بتائیں گے آپ جیسے کڑوے بادام کو میٹھا کریلہ بنا سکتی ہے گل پنگا لینے سے پہلے سوچا کریں۔۔۔

چلاک عورت۔۔۔۔ وہ تو مچھلی بن گئی تھی ہاتھ سے نکلے ہی جارہی تھی بلاآخر وہ ہار مانتا بیٹھ گیا تو وہ گردن اکڑاتی بیٹھ گئی

جارہا ہوں میں آفس خیال رکھنا،اور دروازہ لاک کر کے رکھنا شیر شام تک تمہارا سامان لے آئے گا تو گھر کال کرلینا۔۔اسے محبت سے سمجھاتا اسکا ماتھا چومتا نکل گیا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا خبر ہے ؟؟ وہ آفس آیا تو سامنے اسکا بندہ موجود تھا 

سر یہ نمبر باہر کا ہے ۔۔۔

یہ تو میں بھی جانتا ہوں کچھ نیا بتاؤ مجھے۔۔۔

وہ بیزار ہوا تھا۔۔۔۔

سر یہ نمبر۔۔۔وہ لمحے کو رکا تھا

کس کا نمبر ہے یہ ؟ اسے ہچکچاتے دیکھ وہ ایک دم آگے ہوکر بیٹھا تھا 

جبکہ اس کی تمام حساسیت بیدار ہوئی تھیں

سر یہ۔۔

واٹ نان سینس بتاؤ مجھے ۔۔۔اس کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوئی تھی۔۔۔۔

اور جو نام اس نے سنا وہ اس کے سر پر پہاڑ توڑ گیا تھا

دماغ ٹھیک ہے تمہارا ؟؟؟؟ 

سر جو معلوم ہوا ہے میں نے وہی آپ کو بتایا ہے۔۔۔

ہمم جاؤ۔۔وہ کسی کے سامنے اپنا کمزور پہلو نہیں دیکھانا چاہتا تھا 

یا اللّٰہ اب کونسی آزمائش منتظر ہے میری مدد کر..

سر ٹیم تیار ہے چلیں۔۔۔

وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ آفیسر کی آواز پر چونکا سر ہلا گیا آج اس کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا

چلو ۔۔۔ خود کا سنبھالتا وہ ان نے ہمراہ ہوا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

ملازم اسے سامان دے گیا تھا اور اب وہ ہاتھ میں موبائل لئے کنفیوز سی بیٹھی تھی بہت ہمت کر کے اسنے آئمہ بیگم کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر پھر فوراً ہی کٹ کردیا یہ عمل اس نے کوئی تیسری بار دھرایا تھا

اففففف پلیز اللّٰہ پاک مجھے ہمت دیں۔۔

دعا کرتی اس نے پھر نمبر ڈائل کیا تھا اور اب اسنے اسے کاٹنے کی زحمت نہیں کی تھی دوسری طرف بیل جارہی تھی تبھی فون ریسیو ہوا تھا اسکا دل دھڑکا تھا 

مما۔۔۔۔۔۔۔۔

سرگوشی میں اس نے انہیں پکارا تھا 

گل میری بچی۔۔۔۔۔ ان کی آواز پر تڑپ تھی میری جان میری گڑیا۔۔۔

مما۔۔۔ ان کی آواز سنتے ہی وہ بے اختیار رو دی تھی 

نہیں بچے روتے نہیں میری گل تو بہت بہادر ہے نا نہیں روتے میری جان چپ کرجاؤ۔۔

مما میں آپ کو بہت مس کر رہی ہوں آئم سوری مما میں نے آپ کی بات نہیں مانی۔۔۔

تم نے جو کیا میری گڑیا بلکل ٹھیک کیا مجھے فخر ہے میری جان پر۔۔میں شرمندہ ہو میری جان میں نے تمہیں غلط راستہ دیکھایا میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تمہارے بابا کے قتل سے حیدر کا کوئی لینا دینا نہیں مگر میں خود غرض ہوگئی تھی مجھے معاف کردو تمہارے بابا مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں۔۔۔

نہیں مما بابا آپ سے ناراض نہیں ہیں وہ بس آپ کو سمجھانے کے لئے غصہ ہوئے ہونگے میں بھی جب پریشان ہوتی ہوں وہ یونہی آکر سنبھالتے ہیں۔۔۔

بیٹا بس مجھے معاف کردو میں خود حیدر سے بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں اپنی ہر زیادتی کی۔۔۔

نہیں مما خان کو یہ اچھا نہیں لگے گا۔۔

گل ایک بات پوچھوں۔۔۔ 

جی۔۔

حیدر نے کچھ کہا تو نہیں نا مطلب وہ ۔ انہیں سمجھ نہیں آیا کیسے کہیں 

نہیں مما وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں وہ مجھے ہرٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے مما اور آپ کیا اپنی گل کو جانتی نہیں کچھ کہیں گے تو جان سے جائینگے۔۔

اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی ہنس پڑی تو ان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کھلی تھی۔۔

اور پھر وہ دونوں کافی دیر یونہی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی رہی تھیں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا اسے یقین تھا مگر اب اسکا مقصد اپنے بابا کے قاتل تک پہنچنا تھا جس کے لئے وہ اب حیدر سے بات کرنے والی تھی۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں اس سناٹے کو چیر کر رکھ دیتی تھیں 

دونوں اطراف سے ٹکر کا مقابلہ تھا درخت کی اوٹ میں ہوئے وہ اپنی پوزیشن سنبھال چکا تھا۔۔

مخالف سائیڈ سے آتی گولی دیکھ وہ ایک دم جھکا تھا 

اسکا سارا دھیان اپنے ٹارگٹ کر تھا مگر تبھی اس کی نظر سامنے کھڑے وجود پر پڑی جو اسے دیکھتے ہی ایک دم بھاگا تھا 

شٹ۔۔ کچھ سمجھتے وہ اپنی پوزیشن سے ہلا تھا تبھی ایک سنسناتی ہوئی گولی اس کے بازو کے پاس سے گزرتی نکلی تھی وہ ہاتھ پکڑ کر ایک دم بیٹھا تھا شرٹ خون سے گیلی ہونے لگی تھی مگر اس نے واپس سے اٹھ کر اپنی پوزیشن سنبھالی تھی اور ناجانے کتنے ہی ان ملک دشمن درندوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا

وہ اپنی پوری جان سے ان کا مقابلہ کر رہا تھا اور بالآخر کامیابی ان کی ہوئی تھی۔۔

اس کی ٹیم اس کے پاس آئی تھی ۔

سر آر یو اوکے۔؟؟؟ سجاد نے اسکی خون میں لے لت پت دیکھ وہ پریشان ہوا تھا 

ٹھیک ہوں میں سجاد الرٹ رہو اور ان سب کو لے کر تھانے پہنچو کوئی ایک بھی نہیں رہنا چاہیے۔۔

انہیں آرڈر دے کر اس نے ضبط کئے گئے مال کا جائزہ لیا تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں بولٹس،کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ موجود تھا۔۔

ان سب کو محفوظ مقام پہنچا کر اس نے اپنا ٹریٹمنٹ کروایا تھا گولی بس چھو کر گزری تھی مگر خون بہنے کی وجہ سے اب اسے ہلکی سی کمزوری محسوس ہوئی تھی۔۔

سر یہ ہم دیکھ لینگے آپ جاکر ریسٹ کریں ۔۔۔

آفیسر کے کہنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا یہ سب سیٹ کر کے بھیجو پھر سب چلتے ہیں۔۔

اس کے دوٹوک انداز پر وہ سر ہلا کر کام کرنے لگا

اس وقت حیدر کے دماغ وہ بھاگتا ہوا وجود تھا جسے وہ ہزاروں میں بھی پہچان سکتا تھا مگر اس کی یہاں موجودگی۔۔

شاید وہ اپنی منزل کے قریب تھا بے حد قریب۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سوئیاں رات کے بارہ بجا رہی تھیں مگر حیدر اب تک نہیں تھا تھا اسے عجیب سی بے چینی نے گھیرا ہوا تھا 

حیدر کی ہدایت کے مطابق دن میں بھی کھانا آگیا تھا اور اب بھی مگر اس کے حلق سے اترا ہی نہیں تھا اس لئے یونہی سامان رکھے وہ بالکونی میں آگئی 

دور دور تک روشنی نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا تھا

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے اس کے بال اس کے بے داغ حسین چہرے پر بکھر کر اسے اور حسین بنا رہے تھے 

آج پورا دن اس نے اپنے اور حیدر نے بارے میں ہی سوچا تھا اپنے باپ کے بعد وہ پہلا شخص تھا جو اس کے دماغ پر نقش ہوا تھا جسے چاہ کر بھی وہ مٹا نہیں سکی تھی جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو اکثر چیزوں سے محبت ہمارے لئے بیت خاص ہوتی ہے جب وہ ٹوٹ بھی جاتے ہیں تب بھی ہم انہیں متاعِ حیات کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں حیدر بھی اس کے لئے وہی خاص انسان بن گیا تھا کہ وہ کبھی اسے مٹا ہی نہیں پائی حیدر کو دیکھ کر اسے زارون شاہ کی یاد آتی تھی وہ ان کے جیسا ہی تو تھا نرم دل اس سے محبت کرنے والا غلط کو غلط بولنے والا ۔۔۔

وہ محبت کے اس مقام پر تھی جہاں اسے سہی غلط کی پرواہ نہیں تھی مگر وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی وہ فریحہ تھی خوشیوں کی امین اس نے اپنے دکھوں میں ہنسنے کے لئے وجہ تلاشی تھیں وہ سراپا محبت تھی 

گاڑی کے ہارن کی آواز پر اس نے چونک کر نیچے دیکھا تھا جہاں سے حیدر کی گاڑی اب اندر آرہی تھی اسے اترتا دیکھ وہ اندر بڑھ گئی گھڑی اس وقت رات کا ایک بجا رہی تھی 

دروازہ کھولنے کی آواز پر وہ اٹھ کر باہر آئی تھی حیدر کو اس کی نیند کے خیال سے دبے قدموں اندر کی طرف بڑھ رہا تھا اسے یوں دروازہ پر استادہ دیکھ رکا تھا جب کے بے اختیاری میں اس نے اپنا بازو تھوڑا آڑ میں کیا تھا 

کہاں تھے آپ خان یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا کب سے ویٹ کر رہی ہوں میں آپ کا مگر نہیں آپ نے تو ایک کال کرنا ضروری نہیں سمجھا نا۔۔۔

غصے سے منہ بنائے وہ اسے سنا رہی تھی جب کہ اس کے یوں اس طرح ڈانٹنے کر اسے اپنی سوہنی پر رج کر پیار آیا تھا تبھی اسے بازو سے پکڑتے اپنی اور کھینچا تھا 

وہ جو انتہائی سیریس موڈ میں اس سے استفسار کرنے میں مصروف تھی اس اچانک افتاد پر بوکھلا سی گئی تھی۔۔۔

کیا ہوا سناؤ نا چپ کیوں ہوگئی؟؟ اسے یوں چپ ہوتے دیکھ وہ مسکرا کر بولا تھا اور اس کے مسکراتے ہی اسکے گال پر پڑتا ڈمپل پوری شان سے چمکا تھا اور گل کا دل دھڑکا گیا تھا اسکا ہاتھ بے اختیار ہی اسکے گال پر پڑا تھا جب کے اس کے یوں مبہوت انداز پر وہ اور گہری مسکان اپنے وجہہ چہرے پر سجا گیا۔۔

اسکا ہاتھ گال سے ہٹا کر اس نے لبوں سے لگایا تھا یہ سب اتنا بے اختیار تھا کہ اس نے ایک دم اسے دیکھا تھا۔۔۔

اس نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھ اسے محسوس کرنا چاہا تبھی حیدر کی سی نے ماحول کے سحر کو توڑا تھا وہ جیسے ہوش میں آئے تھے اس نے پریشانی سے حیدر کے بازو کو دیکھا تھا اور پھر ماتھے پر لاتعداد شکنیں ڈالیں پیچھے ہوا ہاتھ آگے گیا تھا 

خان۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھ پر بندھی دیکھ اس کی آنکھوں میں خوف سمٹ آیا تھا یہ پٹی اس پر لگا خون،،وہ ہراساں ہوئی تھی آنکھیں نمکین پانی سے بھری تھیں 

خان۔۔۔۔۔یہ کیا؟؟؟

وہ رونے کو تیار ہوئی تھی تبھی حیدر نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا

کچھ نہیں ہوا میری جان میں ٹھیک ہوں ایسے نہیں کرتے نا۔۔گال پر لڑھک کر آتا وہ ایک موتی حیدر نے اپنی پور چنا تھا وہ کیا تھی اسکے لئے وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا تھا وہ اسکی زندگی کا وہ جگنو تھا جس نے اندھیرے میں اس نے لئے روشنی کی تھی اسے زندگی کے کئی رنگ تھمائے تھے

یہ خو۔۔۔خون۔۔۔ 

میں نے کہاں نا کچھ نہیں بس معمولی سی چوٹ ہے۔۔

اس نے مسکرا کر اسکے گرد اپنے بازو پھیلائے اور اسے اپنے ساتھ کمرے میں لایا۔۔

پر۔۔۔

پر کیا یار میں تو ایویں ڈر رہا تھا کہ میری بطخ مجھے لیٹ آنے پر سنائے گی کھانا نہیں دے گی جبکہ میں تو جب سے بھوکا ہوں مگر یہاں تو میری بطخ نے رونا دھونا ڈالا ہوا شوہر کا تو کچھ خیال ہی نہیں ہے۔۔ وہ منٹوں میں ننھا کاکا بنا منہ بسور گیا تو پریشانی سے مڑی 

آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا آپ بولتے تو یہ تو کوئی بات نہیں ہوتی نا یو کام میں گم ہوکر بھوکا رہا جائے میں ابھی لاتی ہوں کھانا آپ فریش ہوں اور پھر دوائی ٹھیک ہے نا 

جی جان جو اپنا حکم۔۔سر تسلیم خم کرتا وہ ہلکا سا جھکا تو وہ آنکھیں گھما کر رہ گئی بڑھاپے میں شوخیاں آرہی ہیں۔۔

کیا کہا؟؟ اسکی بڑبراہٹ پر لب دباتا وہ مصنوعی خفگی سے بولا تو سر نفی میں ہلاتی کمرے سے ہی نکل گئی۔۔۔

کھانے کے بعد اسے میڈیسن دئیے وہ دودھ کا گلاس اسے تھما کر مڑی مگر اس نے ہاتھ تھام کر اسے وہی اپنے سامنے بیٹھایا تھا۔۔

جلدی سے فنش کریں اور سوئے ورنہ دوا اثر نہیں کرے گی۔۔

ویسے میڈم دودھ پہلے دینا تھا 

ہاں تو مجھے پتا نہیں تھا نا۔۔چہرہ کا پاوٹ بناتی وہ معصوم سی بن گئی تو وہ آنکھیں گھما گیا

حیدر میں نے مما کو کال کی تھی۔۔

اچھا پھر کیا کہا مما نے؟؟؟ اسکا ہاتھ تھامے اس نے اسے اپنے قریب کیا تھا اس کی قربت میں اسے سکون میسر آیا تھا خدا کا تحفہ تھا وہ۔۔

وہ بہت رو رہی تھیں وہ آپ سے بھی سوری ہیں انہوں نے کل ہمیں گھر بلایا ہے کیا ہم جائیں گے؟؟ اس کے لہجے میں خوف تھا کہ کہیں وہ منع نا کردے۔۔

بلکل جائیں گے میری جان جہاں کہے گی وہاں جائیں گے اس نے محبت سے کہتے اس نے بال بگاڑے تھے

خان۔۔۔ اس نے یوں کرنے پر وہ منمائی تو وہ ہنس دیا اس ہنسی میں صرف سکون تھا خوشی تھی۔۔۔۔

اسکو یوں ہنستے دیکھ وہ بھی ہنستی اسکے سینے پر سر رکھ گئی۔۔۔۔۔

اگلی دن بے حد خوبصورت تھا کچن سی آتی برتنوں کی آواز پر وہ بچارگی سے وہاں دیکھا جہاں گل محترمہ اس کے لئے ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں اور وقفے وقفے سے دھماکے کر رہی تھیں

گل کچھ ہیلپ کرو یار۔

بلکل بھی نہیں خان آپ کے چوٹ لگی ہے آج سب میں کرونگی اور آپ بس آرام۔۔

تمہارے ہاتھ کا بنا کھا کر یہ نا ہو ساری زندگی کا آرام مل جائے ۔وہ بلند آواز میں بڑبڑایا تھا

کیا کہاں؟؟ وہ ایک دم سامنے آئی تھی 

کچھ نہیں کہا یار مجھے بھوک لگ رہی تھی پلیز مجھے بنانے دو ابھی مجھے جانا بھی ہے وہ بیچاری سی شکل بنا گیا تھا مگر گل محترمہ کو کہاں اس پر ترس آنا تھا اسے گھوری سے نوازتی وہ واپس کچن میں گھسی تھی۔۔

اور تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو اس کے ہاتھ میں بڑی ٹرے تھی جسے اس نے حیدر نے سامنے ٹیبل پر رکھا تو اسے دیکھ حیدر کی آنکھیں پھیلی تھیں۔

چیز آملیٹ،فرنچ ٹوسٹ۔اورنج جوس بوائل ایگ۔۔۔

اتنا کچھ؟؟ وہ حیران ہوا تھا 

جی بلکل سب آپ کے لئے اب کھائیں ویسےتو کب سے بھوک بھوک کر رہے تھے

چئیر گھسیٹ کر اسکے سامنے بیٹھتی وہ اسکے لئے ناشتہ نکالنے لگی 

جب کے وہ تو آج اپنے پیٹ کے انتقال کا سوچ کر پریشان ہوا تھا

مگر پہلا نوالہ لیتے ہی اس کی آنکھیں بڑی ہوئی تھیں

گل  بڑے اشتیاق سے اسے دیکھنے میں مصروف تھی اسکے یوں دیکھنے کر آئی برو اچکائی جیسے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیسا ہے۔۔۔؟

اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے زبردست کا اشارہ دیا تھا

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گل اتنا اچھا ناشتہ بنا سکتی ہے اس نے پوری رغبت سے پورا ناشتہ ختم کیا تھا 

آپ آج کہیں نہیں جائنگے۔۔۔

اسے اٹھتے دیکھ اسنے اسکا ہاتھ تھام واپس بیٹھایا تھا 

گل جانا ضروری ہے یار سمجھا کرو نا پلیز اس نے پیار سے اسے سمجھایا تو وہ منہ بنا گئی 

بہت تیز نہیں ہوگئی ہے میری بطخ۔۔

میں پہلے سے ہی تیز ہوں ۔۔۔

منہ بنا کر خفگی سے کہتی وہ اسی کوئی گڑیا سی لگی 

یعنی مانتی ہوں تم بطخ ہو؟ وہ شرارت سے لب دباتے بولا تھا

بلکل جیسے میں یہ بھی مانتی ہوں کہ آپ ایک بڈھے ہیں۔۔۔

اس کے بھی حساب برابر کیا تھا۔۔

لومڑی۔۔۔۔۔

بوڈھا کہنے پر اس نے دانت پیس کر کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی

اچھا سنیں نا مما بہت اپ سیٹ ہیں ہم دونوں سے ملنا چاہتی ہیں۔۔

تو تم چلی جاؤ۔۔کلائی پر گھڑی باندھتا وہ مصروف سے انداز میں بولا تھا 

میں نے دونوں کہا ہے نا۔۔

ہاں تو چلیں گے لیکن آج نہیں تھوڑا مصروف ہوں۔۔

کل چلیں۔۔۔اس کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتی وہ کوئی بچی لگی اسے۔۔۔

بلکل کل چلیں گے اب چلو اچھے سے اپنے خان کو بائے کرو۔۔

اس کے کہنے پر اس نے جلدی سے اس کے ماتھے پر پیار کیا تھا اور چھوئی موئی بنتی فوراً وہاں سے رفو چکر ہوئی تھی۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

وہ صبح سے ہی تیاریوں میں مصروف تھیں آج حیدر اور گل نے ان کی طرف آنا تھا

حویلی کا چپا چپا انہوں نے چمکایا تھا بس اب ان کے آنے کا انتظار تھا 

شام میں گاڑی کی آواز پر وہ باہر آئی تھی تاکہ انہیں ریسیو کرسکیں 

گل۔۔۔ اسے سامنے دیکھ وہ آبدیدہ ہوئی تھیں آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تھا

پھر انہوں نے حیدر کے سر پر ہاتھ رکھا تھا انہیں لئے وہ اندر آئی تھیں

جہاں فرح اور عالیان تو اسے دیکھ حملہ آور ہوئے تھے اس کے پیچھے۔۔

جبکہ اپنی گل کی درگت بنتے دیکھ وہ خود کو ہنسنے سے روک نا سکا تو گل نے اس کی طوطا چشمی پر منہ پھلایا تھا

کھانے کے بعد وہ لوگ لاونج میں آگئے تھے تبھی آئمہ بیگم نے بات کا آغاز کیا تھا

حیدر میں جانتی ہوں جو کچھ ہوا اسمیں کہیں نا کہیں میں نے غصہ دکھایا تو جذباتی تم بھی ہوگئے تھے مگر میری غلطی یہ ہے کہ میں نے تم پر الزام لگایا مجھے معاف کردو پلیز۔۔

پلیز اس طرح مت کریں آپ میری ماں کی جگہ ہیں۔

یہ تمہارا ظرف ہے اس دن جو ہوا وہ غلط تھا

آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا وہ یہی کرتا غلطی میری بھی ہے 

بس میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں حیدر پلیز میرے زارون کے قاتل کو چھوڑنا نہیں تم۔۔۔

آپ بے فکر رہیں ان کے قاتل بیت جلد گرفت میں ہونگے اس نے انہیں یقین دلایا تھا 

مجھے تم پر یقین ہے اسلئے آج میں پورے دل کی رضا سے اپنی بیٹی تمہارے ساتھ رخصت کرنا چاہتی ہوں ۔

ان کی بات پر وہ حیران ہوا تھا جبکہ وہ گل کا ہاتھ تھامے اسے اندر لے گئی تھیں 

اور تھوڑی دیر بعد وہ گھبرائی سی ان کے سامنے کھڑی تھی

مما یہ کیوں نا۔۔۔ وہ چھوئی موئی ہوئی شرماتے ھوئے انہیں اتنی پیاری لگی کہ آگے بڑھ کر انہوں نے اسکا ماتھا چوما تھا

چلو اب حیدر انتظار کررہا ہوگا۔۔

اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے باہر لائی تھیں

وہ جو اپنے موبائل میں مصروف تھا اسے دیکھتے اسکا موبائل پر چلتا ہاتھ ساکت ہوا تھا

مہرون کلر کی ٹخنوں تک آتی کامدار فراک پر ہلکی سی جیولری اور میک اپ۔۔

آج میں دل سے تم دونوں کے اس رشتے کو قبول کر رہی ہوں تو رخصتی بھی میں ہی اچھے سے کرونگی

انہوں نے رسم کے مطابق اسے رخصت کیا تھا حیدر کی تو نظریں ہی اس سے نہیں ہٹ رہی تھی۔

خان نہیں کریں نا۔۔۔ اس نے یوں مسلسل دیکھنے سے وہ خائف ہوئی تو وہ اس کے اس نئے انداز پر واری صدقے ہوا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

گھر آتے ہی وہ بنا ادھر ادھر دیکھے جلدی سے کمرے میں آئی تھی 

توبہ ہے مما بھی نا۔۔۔

اپنی سانس بحال کرتی وہ بیڈ پر بیٹھی تھی دل جیسے باہر آنے کو تھا۔۔

وہ کمرے میں آتا تو اسے یوں بیٹھا دیکھ ہونٹ لبوں میں دباتا دروازہ لاک کرتا اندر آیا تھا 

لاک کی آواز پر اسنے بےساختہ اسے دیکھا تھا 

اس نے پاس آکر اس کے آگے ہاتھ پھیلایا تو اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھے تھے

شہد رنگ آنکھیں کائی رنگ آنکھوں سے ٹکرائی تھی وقت تھم سا گیا تھا ساز کی گھڑیوں نے محبت کا راج لاپا تھا آنکھوں کے رستے دل تک رسائی ہوئی تو وہ اسکے پرحدت لمس پر موم ہوئی تھی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں 

اسے تھامے وہ اسے محبت کی پناہ میں لایا تھا دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے محبت کی اس وادی میں قدم رکھا تھا جہاں صرف اسکی محبت تھی ہوائیں رقص پر آمادہ ہوتی لہرا لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کررہی تھیں ستاروں نے آج دو دلوں کے اس خوبصورت بندھن پر جشن منایا تھا تو وہیں چاند شرما کر اوٹ میں چھپا تھا

چاروں سو محبت کے ساز چھڑے تھے ایک پاکیزہ رشتے کی ابتداء ہوئی تھی سب نے مل کر آنے والے کل کے لئے ان کی خوشیوں کی دعا کی تھی 

اس نے آہستہ سے اسے خود میں بھینچا تھا اس نے اپنی کپکپاتے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھے تو اس نے ان ہاتھوں پر پیار کیا تھا وہ کیا تھی اس کے لئے آج وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا سارے راز کھول رہا تھا اپنے دل کا حال اسے بتا رہا تھا وہ چھوئی موئی ننھی سی جان اسکی بےتابیاں سنتی سمٹے جارہی تھی 

اس نے آسودگی سے آنکھیں موندتے اس کے کاندھے کر سر رکھا تھا

رات آہستہ آہستہ پگھلتی جارہی تھی اس کے دل کی طرح ۔۔۔

یقیناً آنے والی صبح بہت روشن ہونے والی تھی۔۔۔۔♥️

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اسکی آنکھ موبائل کی آواز نے کھولی تھی اس نے موبائل نمبر دیکھا اور پھر اس نے ایک نظر برابر سوئی گل کو۔۔۔

چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ نے اسکے چہرے کا احاطہ کیا تھا 

اسکے چہرے کر سے بکھرے بال ہٹاتا وہ اسکا ماتھا چومتا بیٹھا تھا 

بیڈ سے اٹھتا وہ باہر سیدھا بالکونی میں آیا موبائل ایک بار پھر سے بجنا شروع ہوچکا تھا 

ہاں ہیلو۔۔۔

سر ایڈریس معلوم ہوگیا ہے

کہاں؟؟؟

دوسری طرف سے جواب پاتے ہی اس نے ایک حکم جاری کیا تھا

اچھا ٹھیک ہے مجھے ایڈریس سینڈ کرو اور میری چھٹی کی اپلیکیشن دو۔۔

ہاں ٹھیک ہے سہی۔۔

سر کو میں انفارم کردو گا تم بے فکر رہو کوئی اور خبر ہو تو مجھے انفارم کرنا اور ہاں میری ٹیکٹس بک کرواؤ۔۔۔

ٹھیک فون رکھتے ہی اس نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی تھی..

آپ کہیں جارہے ہیں خان۔۔۔؟؟ اس کی آواز پر وہ چونک کر مڑا تھا 

سامنے ہی اسکے شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس وہ ننھی سی بطخ بکھرے بال اور سوئی سوئی آنکھوں کے ساتھ اسکے دل میں اتری تھی اس نے آہستگی سے اسے اپنے قریب کیا اور اسکے بال سنوارے۔۔

ہاں ایک کام کے سلسلے مجھے باہر جانا ہے نا۔۔۔

کیوں نہیں نا میں نہیں نا جانے دونگی آپ کو اسکے گرد اپنی نازک سی گرفت لئے اس نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکرایا تھا 

کام ہے نا میری جان بس دو چار دن میں واپس آجاؤ گا تب تک تم اپنی مما کو ٹائم دینا اور فرح اور عالیان بھی تو ناراض ہیں نا انہیں بھی ٹائم دینا پھر جب میں واپس آجاؤ گا تو خود سے دور نہیں جانے دونگا۔۔۔۔اس کی ناک سے ناک ملاتا وہ شوخ ہوا تو وہ ہاتھوں میں منہ چھپا گئی۔۔

چلو اب بریک فاسٹ ریڈی کرو اور پھر میری پیکنگ۔۔۔

کیا مطلب میں کام کرو گی؟؟ اس نے اپنی آنکھیں بڑی کئے حیرت سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گیا

بلکل کیوں؟؟ 

خان میں تو۔۔۔

کیا میں تو؟ وہ ابھی بھی شرارت سے باز نہیں تھا آیا تھا 

میں آپ کی ماسی تھوڑی ہوں آپ بنائیں میرے لئے اور میں آپ کی پیکنگ کرتی ہسبنڈ وائف کو مل کر کام کرنا چاہیے۔۔

اس کی بات کر وہ تائید میں سر ہلاتا کچن میں کی طرف بڑھا تھا۔۔

کون کہتا ہے مرد گھر کے کام نہیں کرسکتے اگر کوئی مرد گھر کے کام کرے تو وہ زن مرید نہیں ہوتا یہ تو کہیں ہے ہی نہیں۔۔

میاں بیوی جب گاڑی کے دو پہیے ہیں تو دونوں کو ساتھ ہی مل کر سب کرنا ہے وہ ان دونوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے ہیں 

وہ خود کو خود قسمت تصور کررہی تھی کہ اسے بہترین شریک حیات ملا تھا

ناشتے کے دوران بھی وہ اسے بری طرح زچ کئے جارہا تھا 

خان پلیز۔۔وہ منمنائی تھی 

کیا میری بطخ۔۔۔

وہ ابھی بھی باز نہیں آیا تھا۔۔

قسم سے آپ کو دیکھ ایسا لگ رہا جیسے گنجے کو ناخن مل گئے بڑھاپے میں اتنی شوخیاں اچھی نہیں لگتیں۔۔ اس نے نام سکیڑ کر کہا 

ہاں بڑی ننھی تم بونی عورت۔۔۔۔

آہ۔۔۔۔۔ عورت۔۔۔ عورت کہنے پر اسکا منہ کھلا تھا

حیدر نے ٹوسٹ اسکے کھلے میں ڈالا تو اس نے کھینچ کر ایک مکا اسے دے مارا جس پر وہ قہقہ لگائے ہنس پڑا تھا

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اسے آئمہ بیگم کے پاس چھوڑ کر وہ واپس گاڑی میں بیٹھا تو چہرے پر موجود مسکراہٹ سختی میں بدلی تھی

گاڑی کا رخ اب ائیرپورٹ کی طرف تھا ماضی کی گتھی کا باریک سرا وہ کھولنے وہ جارہا تھا اور اسے یقین تھا وہ سرا کھلا تو باقی سب خود ہی واضح ہو جائے گا

ڈرائیور نے آگے بڑھ کر اس کے لئے دروازہ کھولا تھا 

اس نے قدم اندر کی طرف بڑھنے لگے تھے اب سب بہت جلد کھلنے والا تھا شیر کو سامنے کھڑے دیکھ اس کے ماتھے پر بل آئے تھے 

لالہ۔۔وہ ایک دم حیدر نے پاس آیا تھا مگر وہ رخ موڑے ناراضگی ظاہر کر گیا 

مجھے معاف کردیں لالہ۔۔۔۔

جاؤ شیر یہاں سے۔۔اسکے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی

میں بس آپ کی تکلیف۔۔۔

اب مجھے زیادہ تکلیف ہوئی ہے شیر کے سب کچھ جاننے کے باوجود تم نے سب چھپایا۔۔

لالہ میں بس آپ کو مزید تکلیف دے بچانا چاہتا تھا 

ٹھیک ہے شیر تم نے مجھے بچا لیا اب تم جاؤ۔۔

نہیں میں آپ کے ساتھ جاؤنگا۔۔۔

فلائٹ کا ٹائم ہوگیا ہے فضول بحث میں مت پڑو گل کی حفاظت تمہارے زمے کر کے جارہا ہوں 

لالہ۔۔

تم پر زمہ داری ڈال رہا ہوں اسکا خیال رکھنا۔۔

شیر کا کندھا تھپتھپا کر وہ آگے بڑھا تھا منزل اب بہت قریب تھی وقت آگیا تھا ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کا۔۔۔۔

فلائٹ لینڈ ہوئی تھی اس جگہ جہاں اس کے سوالوں کے جواب موجود تھے

رینٹ پر کی گئی کار کے زریعے وہ ہوٹل پہنچا تھا 

یہاں کا موسم بے حد سرد تھا رات چار سو اپنے پر پھیلا چکی تھی اسکا ارادہ کل اپنی منزل کی طرف جانے کا تھا 

فریش ہوکر اس نے گل کو کال ملائی تھی اور وڈیو پر اسکا من موہنا چہرہ دیکھ ساری تکلیف و پریشانی زائل ہوئی تھی۔۔۔۔

خان۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہی وہ چہکی تھی 

بولو میری جان۔۔

اففف بھئی یہ کھڑکی بات نہیں کیا کریں۔۔ 

اس نے منہ بسورا تھا 

ہیں اس میں کیا ٹھرکی۔۔۔ یہ غلط ہے بطخ۔۔ اپنی ملکہ کے آگے اس نے احتجاج کیا تھا 

اس عمر میں ایسی باتیں اچھی نہیں نا لگتی۔۔وہ اب بھی باز نہیں آئی تھی 

ایک بار واپس آجاؤ پھر بتاتا ہوں تمہیں میں بونی بطخ۔۔۔۔وہ بھی تڑخ کر بولا تھا

جب نے وہ کھلکھلائی تھی

تمہیں تو میں واپس آکر بتاتا ہوں چڑیل پھر بچ کر دیکھانا۔۔۔

خان۔۔۔ اسکے لہجے پر اسکے چہرے کر حیا کی سرخی چھائی تھی 

اوہو گل میڈم شرما رہی ہیں۔۔

خان نہیں کریں نا۔۔۔۔وہ منمنائی 

اچھا بابا نہیں کرتا بتاؤ کھانا کھایا؟؟ 

جی آپ نے کھایا؟ جب واپس آئینگے آئی رئیلی مس یو۔۔۔

آئی مس یو ٹو مائے لو۔۔

آپ پھر شروع ہوگئے نا۔۔۔

وہ اس سے شرمانے لگی تھی بہت انوکھی سی فیلنگ تھی یہ۔۔

ناجانے کتنی دیر وہ یونہی ایک دوسرے میں کھوئے باتیں کرتے رہے تھے۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

صبح اسکی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی عجیب سی بےزاری لئے وہ یونہی چھت کو گھورتا رہا تھا۔۔

کافی دیر یونہی وقت گزارنے کے بعد اس نے آٹھ کر موبائل چیک کیا تھا جہاں ایڈریس پہلے سے موجود تھا 

تو آج فائنلی ہم ملنے والے ہیں۔۔ تلخی سے ہنستے وہ فریش ہونے گیا تھا۔

پانچ بجے کے قریب وہ ہوٹل سے نکلا تھا۔۔۔

گھڑی میں ٹائم سیٹ کرتا وہ کیب بک کر چکا تھا۔۔

موسم ابر آلود تھا بارش کبھی بھی ہوسکتی تھی لیکن اسے پرواہ نہیں تھی کیب کے آتے ہی وہ بنا وقت ضائع کئے اس میں بیٹھا تھا 

وقت جیسے اپنی رفتار کم کئے اسکا امتحان لینے پر تلا تھا 

صاف ستھری کشادہ سڑکوں پر اب برستے پانی کی بوندیں جگہ بنانے کو بےتاب تھیں۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد وہ اپنے مطلوبہ علاقے میں داخل ہوئے تھے 

لکڑی سے بنے گھر اور ایک طرف خوبصورت باغات اس جگہ کی دلکشی کو چار چاند لگا رہے تھے

گاڑی ایک بے حد خوبصورت مگر چھوٹے سے گھر کے آگے رکی تھی۔۔

آنکھوں پر لگے گلاسز اتار کر اس نے سامنے موجود اس گھر کا جائزہ لیا تھا 

پھولوں سے گھرا گیٹ چھوٹا سا لان۔۔۔

وہ مضبوط قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھا تھا 

ڈور کے پاس آکر اس نے چلتے قدم تھمے تھے

دل زور سے دھڑکا تھا وقت قریب آگیا تھا اب کتنا انتظار کیا تھا اس نے۔۔

بیل پر انگلی رکھے وہ ہٹانا بھولا تھا اس کے کانوں میں قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی کوئی دروازے کے پاس آرہا تھا یقیناً اس کے لئے یہ بہت بڑا جھٹکا ثابت ہونے والا تھا۔ 

دروازہ کھولا گیا تھا اور پھر۔۔۔۔۔

سب ساکت ہوگیا تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ایک کی آنکھوں میں حیرت،پریشانی اور شاکڈ تھا تو دوسرے کی آنکھوں میں وحشت۔۔۔

بلاآخر وہ مل گئے تھے اور یقیناً اسکے سوالوں کے جواب بھی اسے مل جانے تھے۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کمرے میں اندھیرا کئے وہ وجود کھڑکی کے پار دیکھنے میں مگن تھا بظاہر دیکھنے والے کو یہی لگتا مگر۔۔۔

اسکا دل و دماغ ایک سازش بن رہا تھا حیدر کی غیر موجودگی میں اسکی متاع حیات کو اس سے چھیننے کی سازش۔۔۔

بہت جلد تم اس دنیا سے چلی جاؤ گی اور میرا بدلہ پورا ہوجائے گا کتنا انتظار کیا تھا اس وقت کا اب تو تمہیں بچانے کے لئے تمہارا حیدر بھی تمہارے پاس نہیں یے۔۔اس وجود نے ایک مکروہ قہقہ لگایا تھا

آنکھوں میں عجیب سے وحشت تھی صرف تمہارے باپ کی وجہ سے سب برباد ہوا تھا اور پھر تمہارا چاچا۔۔۔

مگر ان سب کے کئے کا تمہیں بھگتنا پڑے گا سزا ملے گی تمہیں سزا مل کر رہے گی

تم بھی ویسے ہی تڑپوگی جیسے سب تڑپے تھے وقت آگیا ہے اب تمہاری اس دنیا سے رخصتی کا۔

افسوس کے تمہارا باپ تمہارا غم دیکھنے سے پہلے ہی مر گیا مگر کوئی بات نہیں تم وہاں اس سے مل لینا۔۔۔۔

تمہارے خاندان کو نست ونابود ہونا ہوگا۔۔

ہاہاہاہا جیت ہوگی میری بس میری۔۔۔۔۔۔

اچانک فون کے آنے پر اس نے فون کان سے لگایا تھا 

کام وقت پر ہونا چاہیے مجھے اس کے خاندان کی موت کی خبر جلدی دو اب مزید انتظار نہیں ہوتا مجھ سے ۔۔

مجھے معاف کردو حیدر مگر اپنے دوشمنوں کو رعایت دینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

اندر آنے کا نہیں کہیں گے مجھے اعظم شاہ؟؟ چہرے پر تلخی لئے وہ مسکرایا تھا 

جبکہ سامنے کھڑے اعظم شاہ نے گہرا سانس خارج کرتے اس کے لئے راستہ بنایا تھا۔۔

آجاؤ حیدر خان۔۔۔۔

اسے ساتھ لئے وہ لاونج میں آئے تھے۔۔

کون ہے شاہ؟؟ تبھی سیڑھیاں اترتی اسے وہ دیکھائی دی تھی جس سے کبھی اس نے محبت کی تھی مگر اب اس کی محبت پر صرف ایک کا حق تھا اور وہ تھی اس کی گل۔۔۔۔۔

بالوں کو کیچر میں قید کئے وہ اپنی لگن میں نیچے آئی تھی مگر سامنے اتنے عرصے بعد اسے دیکھ اس کے قدم جمے تھے

حی۔۔۔۔حید۔۔ر۔۔۔حیدر ۔ اسکے لبوں سے سرگوشی میں ٹوٹا پھوٹا سا اسکا نام ادا ہوا تھا 

جی بلکل حیدر۔۔۔ رومیسہ اعظم شاہ۔۔۔اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا تھا۔۔۔

رومیسہ نے بے چینی سے اعظم کو دیکھا تھا جنہوں نے نظروں ہی نظروں میں انہیں ریلیکس ہونے کا اشارہ کیا تھا 

گھبراؤ مت تمہارے لئے نہیں آیا میں۔۔ اس کی پریشان دیکھ اس نے اپنی بات شروع کی تھی۔۔

آؤ حیدر بیٹھ کر بات کرتے ہیں اعظم شاہ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ صوفے کر پورے کروفر سے براجمان ہوا تھا

جاؤ رومی حیدر کے لئے کافی لاؤ۔۔

آہاں کافی نہیں جوس،میری بیوی میرے کافی پینے سے چڑتی ہے۔۔۔ گل کو یاد کر وہ منع کرگیا 

رومیسہ نے چونک کر اسے دیکھا 

پوچھو گی نہیں کون ہے وہ جس سے شادی کی میں نے وہ اسکی نظروں میں دیکھتے مسکرایا تھا 

ک۔کون؟؟؟ 

فریحہ زارون شاہ۔۔۔۔

فریحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رومیسہ نے اعظم کو دیکھا مگر انکو سب پتا تھا

جی فریحہ۔۔۔ان کی بھیجی تیرہ سال کی عمر میں میرے نکاح میں آئی تھی جانتے ہیں کیوں؟؟ 

کیونکہ آپ دونوں نے جو کیا اس کی سزا دی گئی اسے۔۔۔۔۔

حیدر دیکھوں ہمارا مقصد۔۔۔اس نے اعظم شاہ کو بولنے سے روکا تھا 

مجھے آپ کے مقصد سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔مجھے بس سچ جاننا ہے اعظم شاہ وہ سچ جو صرف آپ جانتے ہیں

میں اتنی دور بس سچ کی تلاش میں آیا ہوں 

آپ کے بھائی کے قاتل کا پتا کروانے آیا ہوں امید ہے آپ مجھے سب کچھ سچ سچ بتائیں گے۔۔۔

گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ حیدر۔۔۔

میری گل کی جان خطرے میں ہے اعظم شاہ آپ کو اس سے محبت ہوں یا نہیں مگر میں زندگی اس کے بغیر کچھ نہیں مجھے اس انسان تک پہنچنا ہے جو اس سب کے پیچھے ملوز ہے اور میں جانتا ہوں آپ اسے جانتے ہیں

آپ مسلسل پاکستان رابطے میں کس سے یہ بھی میں جانتا ہوں مگر اس انسان کو گرفت میں لینا مطلب اس قاتل کو ہوشیار کرنا اور یقیناً آپ اس سے زیادہ جانتے ہیں اس قاتل کے بارے میں ۔۔۔

اعظم شاہ نے ایک نظر رومیسہ کو دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا

شاید سچ جان کر تمہیں جھٹکا لگے مگر بھائی کھو چکا ہوں مگر اب اسے مزید زندگیاں برباد نہیں کرونے دونگا۔۔۔.

بتائیں مجھے آپ سب۔۔۔۔

جس دن رومیسہ اور میرے نکاح کا انہیں علم ہوا۔۔۔

انہوں نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سائیں سائیں۔۔۔

انکا خاص ملازم ان کے پاس آیا تھا وہ جو اپنی کام میں مصروف تھے اسکی بدحواسی پر پریشان ہوئے تھے۔۔۔

سائیں رومی بی بی کے گھر میں نکاح کا علم ہوگیا ہے وہ لوگ آپ کو مارنے آنے والے ہیں سائیں آپ کہیں چھپ جائیں۔ ۔

بخش ادھر بات سنو میری فکر چھوڑوں بس رومی پر نظر رکھو اس کی حفاظت کرو اپنی حفاظت کرنا میں جانتا ہوں بہت اچھے سے۔۔

بخش کو بھیج انہوں نے دلاور شاہ کو فون کرکے ساری صورتحال بتائی تھی 

وہ غصہ ہوئے مگر اس وقت غصے کا وقت نہیں تھا انہوں نے ان کے لئے فوراً باہر جانے کے انتظامات کرنے کا کہا تھا 

بابا میں رومیسہ کو لے کر جانا چاہتا ہوں 

پاگل مت بنو اعظم۔۔۔ طوفاں کھڑا ہوجائے گا 

بابا وہ میری عزت ہے بیوی ہے آپ کی بہو ہے بات سمجھیں بابا میں اسکے ڈاکیومنٹس آپ کو بھیجوا رہا بابا۔۔۔

ٹھیک ہے بس اپنی حفاظت کرنا۔۔۔۔

وہ سب سیٹ کرتے وہاں سے نکلے تھے مگر سامنے آتے خان کے بندوں نے ان پر حملہ کیا تھا بروقت اگر وہ گاڑی نا موڑ لیتے تو ان کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے گاڑی ان کی موڑ کاٹتے ہی کھائی کی جانب بڑھی تھی انہوں نے اپنی زندگی بچانے کے لئے چھلانگ لگائی تھی 

وہ تو بچ گئے تھے مگر گاڑی بری طرح تباہ ہوئی تھی

وہاں سب کو یہی لگا کہ وہ مر گئے ہیں مگر وہ زندہ تھے مگر زخمی تھے انہیں رومیسہ تک پہنچنا تھا وہاں سے نکل کر وہ بخش کے گھر چھپے تھے دلاور شاہ کو سب سمجھاتے انہوں نے سب تیاریاں کرلی تھیں 

سب رومیسہ کو وہاں سے نکالنا تھا اور وہ موقع انہیں جلد ملا تھا رومیسہ کو ہاسپٹل سے نکال کر وہ ساتھ لائے تھے اور گاڑی کا بلاسٹ کروائی تھی یہ سب دلاور شاہ کے اثرورسوخ کی بدولت ممکن ہوا تھا۔۔۔۔

وہ لوگ باہر جانے کے لئے تیار تھے رومیسہ اپنی ماں کے لئے پریشان تھی مگر۔۔۔

پھر ایک دن انہیں پتا چلا اعظم کی گاڑی کے بریک فیل کروائے گئے تھے شاید ان کی قسمت تھی کہ وہ بچ گئے تھے

اور بریک فیل کروانے والے انسان کا نام سن کر رومیسہ کے قدموں سے زمین نکلی تھی شاکڈ تو وہ بھی تھے مگر رومیسہ کو سنبھالنا زیادہ ضروری تھا 

یہاں آکر بھی وہ حویلی کے حالات سے بے خبر نہیں تھے۔۔ایک ایک بات سے آگاہ تھے مگر مجبور تھے کچھ نہیں کرسکتے تھے گل کے قتل کے منصوبے کا جان انہیں نے اپنے آدمیوں کو الرٹ کیا تھا مگر افسوس زارون شاہ اس گولی کا شکار ہوگئے اور وہ وہاں روئے بہت روئے۔۔

رومیسہ کو خود سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔۔۔

مجھے معاف کریں شاہ پلیز میری۔۔۔۔

شش ایک لفظ نہیں تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔۔ اسے خود میں بھینچے وہ ٹوٹے بکھرے تھے

آپ انہیں سزا دیں بتائیں سب کو وہ بے حس اور ظالم ہیں۔۔ 

انکا بدلہ پورا ہوا ہے رومی اب وہ کچھ نہیں۔۔

وہ کرسکتے ہیں سب کرسکتے ہیں آپ سمجھیں مجھے۔۔

رومیسہ کی حالات کے پیش نظر وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے مگر اتنا ضرور کیا کہ ان کی ہر حرکت کی خبر ان کو ملنے لگی وہ سب جانتے تھے انہیں کی کوششوں کی وجہ سے گل محفوظ تھی۔۔۔

اور اس انسان کا نام جان کر حیدر کو لگا آج وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اسے ہمیشہ اپنوں نے توڑا تھا اور آج وہ بے بس ہوگیا تھا۔۔۔۔

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

حیدر خود کو سنبھالو تمہیں وہاں جانا ہے اسکی حفاظت کرنی ہے 

اعظم شاہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے آنکھیں میچی تھی

اور اس بار میں بھی چلوں گا ساتھ بہت ہوگیا ہے چھپنا اب ہم کھل کر اس سے مقابلہ کریں گے 

اور میں آپ کے ساتھ مجھے معاف کریں حیدر پلیز۔۔

روتی ہوئی وہ اسکے قدموں میں بیٹھی تھی 

مجھے تم سے کوئی شکوہ شکایت نہیں بلکہ جو ہوا میرے حق میں اچھا ہوا مجھے وہ مل گئی جو میری زندگی کو راحت بخشتی ہے رنگیں ہے میری زندگی اس سے اور اس پر اٹھی ایک بری نظر۔۔

اس انسان کی آنکھیں نوچ لونگا اب مزید یہ کھیل نہیں چلے گا سب کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا۔۔

اس کے چپ ہوتے ہی ماحول میں عجیب سی خاموشی چھائی تھی جسے ایک معصوم آواز نے توڑا تھا

مما۔۔۔ بابا۔۔

وہ معصوم سا شہزادہ سامنے ہی کھڑا تھا اور اب حیرت سے اس اجنبی کو دیکھ رہا تھا 

آجاؤ سعدی میری جان اعظم شاہ نے بازو پھیلائے تو وہ بھاگ کر ان کی میں سمایا تھا حیدر نے محبت سے جھک کر اسکا گال چوما تھا 

جبکہ ننھی رجا کر اس نے اپنی گود میں بیٹھایا تھا 

آپ لوگ تیاری کرلیں کل کی فلائٹ سے ہمیں واپس جانا ہے کل اس انسان کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔۔۔

آپ کو اپنے مل جائیں گے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

انشاء اللہ۔۔۔

ان سب نے ایک ساتھ کہا تھا۔۔۔

حیدر گل کی حفاظت کے لئے وہاں کال کرو تاکہ اسے محفوظ مقام پر لے جائیں۔۔

جی ٹھیک۔۔

یہ کہتے ہی اس نے موبائل کان سے لگایا تھا 

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aramish Khatir Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Aramish Khatir written by Fariha Islam. Aramish Khatir by Fariha Islam is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment